اردو کا کلاسیکی ادب مقالات سر سید تقریری مقالات حصہ دواز دہم مرتبہ مولانا محمد اسماعیل ، پانی پتی مقالات سرسید سرسید کے ادبی کارناموں میں سب سے بڑی اور سب سے زیادہ نمایاں حیثیت ان کی مضمون نگاری اور مقالہ نویسی کو حاصل ہے۔ یہ واقعہ ہے کہ وہ اپنے دور کے سب سے بڑے اور سب سے اعلیٰ مضمون نگار تھے۔ انہوں نے اپنی زندگی میں سینکڑوں مضامین اور طویل مقالے بڑی تحقیق و تدقیق، محنت و کاوش اور لیاقت و قابلیت سے لکھے اور اپنے پیچھے نادر مضامین اور بلند پایہ مقالات کا ایک عظیم الشان ذخیرہ چھوڑ گئے۔ ان کے بیش بہا مضامین جہاں ادبی لحاظ سے وقیع ہیں، وہاں وہ پر از معلومات بھی ہیں۔ ان کے مطالعے سے دل و دماغ میں وسعت پیدا ہوتی ہے اور مذہبی مسائل اور تاریخ عقدے حل ہوتے ہیں اخلاق و عادات کی اصلاح کے لیے بھی وہ بے نظیر ہیں اور سیاسی و معاشرتی لحاظ سے بھی نہایت فائدہ مند ہیں۔ نیز بہت سے مشکل سوالوں کے تسلی بخش جوابات بھی ان میں موجود ہیں سرسید کے ان ذاتی عقائد اور مذہبی خیالات کے متعلق بھی ان سے کافی روشنی ملتی ہے جو اپنے زمانے میں زبردست اعتراضات کا ہدف رہے ہیں ان مضامین میں علمی حقائق بھی ہیں اور ادبی لطائف بھی، سیاست بھی ہے اور معاشرت بھی، اخلاق بھی ہے اور موعظت بھی، مزاح بھی ہے اور طنز بھی، درد بھی ہے اور سوز بھی، دلچسپی بھی ہے اور دلکشی بھی، نصیحت بھی ہے اور سرزنش بھی غرض سرسید کے یہ مضامین و مقالات ایک سدا بہار گلدستہ ہیں جن میں ہر رنگ اور ہر قسم کے خوشبودار پھول موجود ہیں۔ یہ مضامین سرسید نے جن اخباروں اور رسالوں میں وقتاً فوقتاً لکھے، وہ مدت ہوئی عام نظروں سے اوجھل ہو چکے تھے اور کہیں ان کا سراغ نہیں ملتا تھا۔ پرانے اخبارات و رسائل کے فائل کون سنبھال کر رکھتا ہے۔ سرسید کی زندگی میں کسی کو اس کا خیال بھی نہ آیا کہ ان تمام بیش قیمت جواہرات کو جمع کر کے فائدہ عام کے لیے شائع کر دے۔ صرف دو ایک نہایت ہی مختصر مجموعے شائع ہوئے مگر وہ بھی بے حد تشنہ اور نا مکمل، جو نہ ہونے کے برابر تھے۔ سرسید کے انتقال کے بعد نصف صدی کا طویل زمانہ گزر گیا مگر کسی کے دل میں ان مضامین کے جمع کرنے کا خیال پیدا نہ ہوا اور کوئی اس طرف متوجہ نہ ہوا آخر کار مجلس ترقی ادب لاہور کو ان بکھرے ہوئے بیش بہا جواہرات کو جمع کرنے کا خیال آیا مجلس نے ان جواہرات کو ڈھونڈنے اور ان کو ایک سلک میں پرونے کے لیے مولانا محمد اسماعیل پانی پتی کا انتخاب کیا جنہوں نے پرانے اخبارات اور قدیم رسالوں کے فائلوں کی تلاش میں دور و نزدیک کے سفر کیے فراہمی مواد کے لیے ان کے بوسیدہ اور دریدہ اوراق کو غور و احتیاط سے پڑھنے کے بعد ان میں سے مطلوبہ مواد فراہم کرنا بڑے بکھیڑے کا کام تھا، مگر چونکہ ان کی طبیعت شروع ہی سے دقت طلب اور مشکل پسند واقع ہوئی تھی، اس لیے انہوں نے یہ ذمہ داری باحسن طریق پوری کی چنانچہ عرصہ دراز کی اس محنت و کاوش کے ثمرات ناظرین کرام کی خدمت میں’’ مقالات سرسید‘‘ کی مختلف جلدوں کی شکل میں فخر و اطمینان کے جذبات کے ساتھ پیش کیے جا رہے ہیں۔ پیش لفظ سرسید کے متعدد مبسوط مقالات اور مضامین ایسے بھی ہیں جو انہوںنے مختلف اوقات میں مختلف مقامات پر اور مختلف موضوعات پر لکھ کر یا ززبانی پڑھے اور وہ اس وقت کے اخبارات میں چھپ کر بعد میں لوگوںکی نظروں سے چھپ گئے اور پھر دنیا ان سے مستفید نہ ہو سکی۔ اس قسم کے تقریری مقالات میں بھی وہی زور‘ جوش اور اثر پایا جاتاہے‘ جو سرسید کے تحریری مضامین میں موجود ہے۔ اور ان میں بھی سرسید نے بہت سے مفید اور کارآمد اور نصیحت آمیز موضوعات پر اپنے زریں خیالات کا اظہار فرمایا ہے۔ اور وہ قوم کے لیے اتنے ہی قابل عمل اور لائق تقلید ہیں جیسے سرسید کے وہ قابل قدر مضامین جن کو آپ مقالات کے پہلے حصو ں میں پڑھ چکے ہیں ۔ سرسید کے یہ تقریری مقالات اوربہت سے لیکچر اورخطبات مولوی امام الدین صاحب گجراتی نے ۱۹۰۰ء میں فراہم کیے تھے۔ یہ ضخیم مجموعہ سرسید کے ۱۸۶۳ء سے لے کر ۱۸۹۸ء یعنی سرسید کی وفات تک کے تقرری مقالات پر مشتمل تھا اورمنشی فضل الدین تاجر کتب لاہور نے اسے شائع کیا تھا۔ یہ مجموعہ مولانا امام الدین صاحب مرحوم نے اخبار سائنٹفک سوسائٹی علی گڑھ‘ علیگڑہ انسٹیٹیوٹ گزٹ اور سفر نامہ پنجاب مرتبہ سید اقبا ل علی صاحب سے اخذ و انتخاب کر کے مرتب فرمایا تھا۔ مگر اب نایاب اور ناپید ہے ۔ خوش قسمتی سے اس کا ایک قدیم نسخہ پنجاب پبلک لائبریری لاہور میں موجود ہے جس کا نمبر ۱۲‘ ۸۵۵ ہے ۔ میں نہایت ہی ممنون ہوں اپنے محترم دوست سردار مسیح صاحب ایم اے انچارج شعبہ مشرقیا ت پنجاب پبلک لائبریری کا کہ انہوں نے نہایت مہربانی سے مجھے اس نایاب نسخہ سے مستفید ہونے کا موقع دیا۔ میں نے ۵۷۴ صفحات کے اس ضخیم مجموعہ میں سے صرف وہ چند مقالات انتخاب کیے ہیں جن میں سرسید نے مستقل عنوانات اور مفید موضوعات پر اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے باقی خطبات اور مقالات وقتی نوعیت کے تھے اور چنداں مفید بھی نہ تھے اس لیے میں نے انہیں چھوڑ دیا ۔ امید ہے کہ ناظرین کرام پیش نظر مجموعہ کو نہایت دل چسپ پائیں گے۔ (محمد اسماعیل پانی پتی) ٭٭٭ ہمارے رؤسا اور قومی بھلائی (اخبار سائنٹفک سوسائٹی علی گڑھ ‘ ۱۳ جولائی ۱۸۶۶ئ) ہم کو خیال کرنا چاہیے کہ انواع و اقسام کے وہ رعب و داب کیا ہیں جو دولت مند اور ذی رتبہ اور باوجاہت اور باوقار ہندوستانیوں کی ذات میں ان لوگوں کی بھلائی کے لیے جن پر وہ لوگ خدا کے نزدیک اوردنیا کی آنکھوں میں سردار ہیں کام میں آ سکتے ہیں۔ اوروہ کیا تدبیریں ہیں جن سے اچھی طرح ان کا اثر ہو سکتا ہے۔ اور پہلے سے بھی کسی ایسے رعب و داب نے ایسااثر کیا ہے اور اگر کیا ہے تو وہ کس طرح کا رعب و داب ہے؟ ہم نے کئی کروڑ آدمیوں کے باہمی ارتباط اور میل جول اور علم و ہنر اور مال و دولت کے نہایت عمدہ فوائد کو ترقی دینے اور ان کو عمدہ عمدہ طریقوں کی رہنمائی کرنے کا بوجھ اپنے سر پر اٹھایا ہے ۔ پس ہم کو اپنے حال کی دیکھ بھال کرنی چاہیے کہ ہماری نیت اور ہمارا اراد ہ پاکو صاف ہے؟ اور ہمار ا مقصود اور ہمارا منشا نیک اور درست ہے ؟ اور ہماری کارروائی کے طریقے ایسے ہیں یا نہیں جو ازروئے عقل اور تجربے کے ہونے چاہئیں اورپھر ہم کو غور کرنا چاہیے اورسمجھنا چاہیے کہ جو کچھ ترقی ہم نے اپنے کاروبار میں کی ہے وہ کیا کی ہے اور کہاں تک کی ہے تاکہ ہم کو اپنا حال معلوم ہو کہ ہم کہاں ہیں اور کیا کر رہے ہیں اور آئند ہ کو کیا کریں گے۔ یہ ایک عام قاعدہ ہے کہ ہر تربیت یافتہ ملک میں ایسے ایسے سردار اور دولت مند اور ذی رتبہ اور باوجاہت اور صاحب وقار ارو نہایت نامی اور مشہور تجار ہوئے ہیں جو اپنے زمانہ کے لوگوں میں آپس کے ارتباط اور آپس کے میل جول کے طریق کی بنیاد ڈالتے ہیں۔ اوران کے مال و دولت کی ترقی کی بلکہ ان کے اطوار اور چال چلن کی بناء قائم کرتے ہیں ۔ ہندوستان میں یہ بات سب ملکوں سے زیادہ تر صادق آتی ہے۔ کیوںکہ ہندوستان میں ذی رتبہ اور باوجاہت اور باوقار آدمیوں کی نہایت تعظیم اور بہت کچھ عزت کی جاتی ہے ۔ حد سے زیادہ ان کا اعتبار اور اعتماد ہوتا ہے۔ خصوصاً ایسے لوگوں کا جو مذہبی کاموں میں مقتدا اور پیشو ا گنے جاتے ہیں ۔ مثلاً برہمن یا مولوی یا کوئی پیر فقیر کہ تما م ہندو مسلمان ہر ایک کی باعتبار اپنے مذہب میں بہت ہی کچھ تعظیم اور توقیر کرتے ہیں ۔ اور دن رات ان کی رضامندی ڈھونڈتے ہیں ۔ اور ان کے پندونصائح پر کان دھرتے ہیں اور حد سے زیادہ ان کی اطاعت کرتے ہیں۔ ہر سردار بڑے بڑے خاندانوں کا گروہ اور مرکز ہوتاہے۔ وہ بہت سے اپنے رفیقوں اور اپنے معلق کاشت کاروں کی بستی کی بستی پر بھلائی برائی کے معاملوں میں ہر طرح کا رعب اور اختیار رکھتا ہے۔ کسی اور ملک میں کوئی بڑا آدمی یا دولت مند یا عالم و فاضل اور دانا بلکہ نہایت نیک خصلت آدمی بھی بے شمار آدمیوں پر ایسا قوی دبدبہ نہیں رکھتا جیسا کہ یہاں رکھتا ہے۔ بلکہ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اورکسی ملک میں بے شمار آدمیوں کی طبیعتیں ایسی جلد کسی کی طرف راغب نہیں ہوتیں اور اس کے قابو میں نہیں آ جاتی ہیں۔ جیسے کہ ہندوستان میں۔ اورنہ کسی ملک میں ایسے بے شمار آدمی ایسی جلد تربیت اور ہدایت قبول کرتے ہیں۔ جیسے کہ اس ملک میں ۔ پس اس ملک میں تمام بڑے بڑے ایسے لازمہ اور ذریعے جو ہمیشہ باقی رہنے والے اور نیک کاموں اور بڑی بڑی تدبیروں اورانتظام کے واسطے ضروری ہیں موجود ہیں۔ اب صرف اتنی بات کی حاجت ہے کہ عالی ہمت اور عالی حوصلہ اور جانفشانی اور جانکاہی کرنے والے لوگ جن کو خدا تعالیٰ نے ہر ملک میں پیدا کیا ہے اور کرتا جاتا ہے ان قوتوں اور ذریعوں کو جو موجود ہیں حرکت یدویں اور صحیح سالم پہلوئوں پر پھر آویں۔ ہم کو غالب توقع کرنی چاہیے کہ وہ لوگ اپنی تمام کوششوں میں شریک اور متفق رہیں گے اور اپنی دلی رغبت اورنیک نیتی اور مستعدی سے کام انجام دیں گے اورکامیابی اور اقبال مندی ان کے قدموں میں رہے گی۔ عام اور خاص اور ظاہری اور باطنی اطوار اورطریقوں میں کچھ اورترقی ہونے کی کوئی وجہ نہیں معلوم ہوتی کیوں کہ ایک متوسط بطقہ کا ہندوستانی بھی خوش اخلاقی اور تواضع و تکریم اور اچھی تربیت کی باتوں میں ایسے اورملکوں کے اعلیٰ درجہ کے آدمی جن پر خدانے عنایت کی ہے اور وہاں کے باشندوں کو بہت سی تریبت اور تعلیم بخشی ہے۔ زیادہ رتبہ رکھتا ہے حاصل یہ کہ ہماری خواہش یہ نہیں ہے کہ ہمار ا چال چلن ذرا بھی بدل جاوے بلکہ بڑی آرزو یہ ہے کہ وہ بدستور قائم رہے کہتے ہیں کہ اچھے اطوار اور اچھی تربیت ہر جگہ یکساں ہوتی ہے چنانچہ اسی وجہ سے اچھی تربیت اور تعیم یافتہ لوگوں میں بلاشبہ وہ ارتباط اورربط ضبط پایا جاتا ہے جو ایک قوم یا ایک مذہب یا زبان کا شریف آدمی دوسری قوم یا مذہب کے آدمی سے فوراً پیدا کر لیتا ہے۔ جن لوگوں سے ہمارے ملک کے اطوار اور طریقوں کو خوب دیکھا بھالا اور سوچا سمجھا ہے بلکہ غیر مذہب اور غیر زبان کے ناآشنا لوگوں نے بھی ان طور طریقوں کو جیسا کہ چاہیے کمال خوبی سے بیان یا ہے۔ جب ہم یہ غور کرتے ہیں کہ گلشن اقوام کی روح کے پھولوں کی خوشبو اس قوم کے اطوار ہوتے ہیں اورانہیں سے لوگوں کے اخلاق کا ظہور ہوتا ہے۔ تو ہمارے لیے بڑی فرحت اور فرض کی یہ بات ہے کہ ہم یقین کریں کہ وہ سامان جس کا ہونا ضرور چاہیے بہت کچھ ہماری طبیعتوں میں موجود ہے اور پھر ہم لوگوں میں سے ہر ایسے شخص کو جو کچھ بھی سربرآوردہ ہے لازم ہے کہ ہمارے اچھے اطواروں کے قائم رکھنے میں کوشش کرے۔ اور ہماری ان خواہشوں کو جن سے ہمارے اطوار ایک فتح مند قوم کے بہت سے ناآشنا لوگوں کے موجود ہونے سے جو صرف دبدبہ ہی رکھتے ہوں خراب ہو جواتے ہیں روکے۔ کیوں کہ اس مفتوحہ قوم کے ارادے کیسے ہی نیک اور دیانت کے ساتھ کیوں نہ ہوں مگر وہ فتح مند قوم اس کے متقاضائے طبیعت اورنیت کو نہیں سمجھ سکتی ہے۔ اس لیے مفتوحہ قوم کے اطوار ضرور خراب ہو جاتے ہیں ۔ یہ بات یعنی خراب ہو جانا اطوار کا ان شکایتوں سے ثابت ہے جو خود اہل یورپ اپنے نوکروں اور ان لوگوں کی بد اطواری کی کرتے ہیں جن سے ان کو اکثر کا م پڑتا ہے اورملنا جلنا رہتا ہے۔ اچھے چال چلن کے برخلاف بعضی رسمیں ایسی ہوتی ہیں جو غرور یا اعتقاد باطل پر مبنی ہونے کی وجہ سے ناجائز اورمضر ہیں ان رسموں کے گھٹانے اور مٹانے میں دولت مند اور ذی وقار ہندوستانی شریف بہت کچھ کر سکتے ہیں۔ ایسی بری رسموں کو جواز روئے اخلاق کے ناجائز اروعام فائدہ و فلاح کے مخالف ہوویں ہرگز گوارا کرنا مناسب نہیں۔ گو وہ کسی اعتقاد کے بموجب جائز گردانی گئی ہوں یا کسی مذہب کی رو سے قائم کی گئی ہوں۔ ان بری رسموںمیں سے نہایت مشہور بری رسم بیوہ کے ستی ہونے اوربیمار کو دم واپسیں دریا کے کنارے لے جا کر زبردستی اس کی جان نکالنے کی رسم اور دختر کشی اور شادیوں میں اسراف ہونا اب بھی موجود ہے۔ ان میں سے دختر کشی کی رسم ایک ایسی بد اور خراب رسم ہے کہ انسان کے دل میں جو اچھے اخلاق کا اثر قبول کرنے کی قابلیت ہے وہ رسم صرف اسی کو مغلوب نہیںکرتی اور فنا اور بداخلاقی ہی پیدا نہیں کرتی بلکہ مخلوق کی تعقی کی بھی مانع ہے جس کے سبب سے قو م کی شان و شوکت اور دولت بڑھ نہیں سکتی۔ حال میں یہ ثابت ہوا ہے کہ اس طرح جانیں تلف کرنے کا نہایت سخت اور مہیب جرم بڑے تربیت یافتہ ملک یعنی انگلستان میں بھی موجود ہے مگر جن سببوں سے یہ جرم وقوع میں آتے ہیں وہ دونوں ملکوں میں مختلف ہیں۔ انگلستان میں تو یہ گناہ جس سبب سے ظہور میں آتا ہے ۔ اس کا ذکر کرنا ہم کو ضرور نہیں مگر ہندوستان میں یہ سبب ہے کہ عالی خاندان مفلس راجپوت شادی کے سامان مہیا نہ کر سکنے کے اندیشہ سے اپنی معصوم بچی کو مار ڈالتے ہیں۔ پس ہندوستان میں جو دختر کشی ہوتی ہے وہ شادیوں میں اسراف بیجا کی رسم کے ساتھ لازم و ملزوم ہے ۔ دولت مند اور شریف ذی وقار ہندو خصوصاً عالی خاندان راجپوت اس جاہلانہ رسم بد کو مٹانے میں اپنی کوششوں کے بہت نتیجے حاصل کر سکتے ہیں۔ اس بات کا ہندو امیروں اور گورنمنٹ عالیہ کو بھی یقین ہے۔ چنانچہ اودھ کے تعلقہ داروں اور راجپوتانہ کے راجائوں نے اس کے رفع کرنے میں بہت کوشش کی اورکامیاب ہوئے لیکن ابھی تک اس برائی کی بالکل بیخ کنی نہیں ہوئی اور بہت سی دقتیں اس کے جڑھ سے کھو دڈالنے کے لیے اٹھانی باقی رہ گئی ہیں۔ ایک بری رسم جس کو ہم مختصر بیان کریں گے بے تعداد جورویں رکھتا ہے ۔ جس کا بعض بعض مقاموںمیں رواج ہے ممکن ہے کہ اس امر میں پندو نصیحت اور کوشش اس قدر کام نہ کرے گی۔ جس قدر کہ اس کے امتناع کا ایک قانون اثر کرے گا۔ اور اس سے پہلے ہی گورنمنٹ کے حضور میں عرض گزرانی گئی ہے۔ آخر ان رسموں کے معاملہ میں ہم نہایت بری رسم پر جس سے فاحشہ عورتوں (یعنی رنڈیوں) کاسلسلہ قائم اور زیادہ ہوتا ہے اورجس سے میلوں اور تماشوں اور تہواروں اوربازاروں میں کوڑا کرکٹ میل کچیل پھیلتاہے توجیہہ کرتے ہیں ان سب خرابیوں کا اس طرح علانیہ ہونے دینا گویا قوانین اخلاق کی تعمیل میں سستی اورکاہلی کرنا ہے جس سے قوم کی معاشرت اور اخلاق و عقل اور مال و متاع اور ملک کا کاروبار میں ضرر پہنچتا ہے۔ اب ہم ان بیسوں پر کچھ تھوڑی سی نظر ڈالتے ہٰں جو کہ غیر مادی اور غیر محسوس توہین لیکن نہایت عمدہ اور شاندار ہیں جن میں ہندوستان کے دولت مند اور ذی وقار شریف آدمی بھلائی پہنچانے میں اپنے رعب و داب کو کچھ کام میں لا سکتے ہیں ایسے ذریعوں کا ذکر کرتے ہیں جو انسان کے کاروبار مں بہت سی قدر و منزلت اورماہیت رکھتے ہیں۔ ان میں سب سے اول جس بات پر ہم کو توجہ کرنی چاہیے وہ یہ ہے کہ ہم زمین کی مالیت بڑھانے کی کوشش کریں۔ امیروں میںسے بہت سے آدمی زمیندار ہیں۔ جن میں سے بعضے تو ایسے وسیع اوراچھی جائدادیں رکھتے ہیںجن کے سبب سے ان کو شہزادون کی سی شان و شوکت حاصل ہے اور بہت سے بڑے بڑے زمیندار بے شک ایسی شاہانہ حالت میں ہیں کہ وہ اپنی جائدادوں پر ان کا کچھ محاصل بڑھانے کی نظر سے کچھ بھی توجہ نہیں کرتے۔ اور بعضے ایسے کاروبار میں پھنسے رہتے ہیں کہ جن کے سبب سے وہ اپنی زمین پر کافی توجہ نہیں کر سکتے۔ اس موقع پر ہم یہ لکھ سکتے ہیں کہ اپنی ریاستوں میں نہریں اور سڑکیں بنوانے سے بڑی ترقی ہوتی ہے۔ مشہور ہے کہ بابو پرستو گمار ٹاگو ررئیس کلکتہ نے بہت سا روپیہ خرچ کر کے اپنے علاقوںمیں نہر کھدوائی ہے اور جس کے سبب سے ان کی سالانہ آمدنی بہت زیادہ ہو گئی اور صرف نہر ہی کے تیار ہونے سے ان علاقوں کی قیمت جو پہلے سے بھی قیمتی تھی دو چند ہو گئی۔ جس طرح کہ دریا اور سڑک ہائے اعظم ایک قوم کی مال و متاع کے قائم رہنے کا باعث ہیں اسی طرح سے چھوٹے چھوٹے راستے اور نہریں ایک بڑے تعلقہ کے واسطے نفع اور بہبودی کا ذریعہ متصور ہیں اور اگر اس کام میں (جیسا کہ بعض وقت ہوتا ہے) اس قدر صرف کثیر ہوتا ہو کہ ایک میندار اس کا متحمل نہ ہو سکے تو چاہے کہ چند زمیندار ایک دوسرے کے فائدے کے واسطے باہم شریک ہو کر اس کو پورا کریں۔ سوائے اس کے اور بہت سی باتیں جائداد راراضی کی ترقی سے متعلق ہیں ممالک مغربی و شمالی میں آب پاشی کے اور بھی بہت ہو طریقے سکتے ہیں اور عمدہ عمدہ کلوں کے ذریعہ سے قسم قسم کے طریقے کھیتی کرنے کے جاری ہو سکتے ہیں جہاں کہیں ضرورت ہو وہاں زمین خشک بھی ہو سکتی ہے۔ اور زمین افتادہ کے تروتازہ کرنے کی تدبیریں بھی ہو سکتی ہیں۔ اودھ کے تعلقہ داروں اور راجپوتانہ کے راجائوں نے بڑے بڑے خرچ اور لاگت کے کاموں یعنی اودھ اور راجپوتانہ میں ایسی سڑکوں کے بننے میں شرکت کی ہے ۔ ان علاقوں کی ترقی کے سی باتیں جائداد اراضی کی ترقی سے متعلق ہیں ممالک مغربی و شمالی میں آب پاشی کے اور بھی بہت طریقے ہو سکتے ہیں ۔ اورعمدہ عمدہ ملکوں کے ذریعہ سے قسم قسم کے طریقے کھیتی کرنے کے جاری ہو سکتے ہیں جہاں کہیں ضرورت ہو وہاںزمین خشک بھی ہو سکتی ہے اور زمین افتادہ کے تروتازہ کرنے کی تدبیریں بھی ہو سکتی ہیں ۔ اودھ کے تعلقہ داروں اور راجپوتانہ کے راجائوں نے بڑے بڑے خرچ اور لاگت کے کاموں یعنی اودھ اور راجپوتتانہ میں آہنی سڑکوں کے بننے میں شرکت کی ہے ان علاقوں کی ترقی کے طریقوں کا ذکر ہوا ہے بہت سے بنگالی زمین داروں نے بہت سی کوشش کی ہے خصوصاً بابو کشن مکر جی نے جنہوںنے حال میں گورنمنٹ بنگال کو ایک نہایت معقول مشورہ دیا ہے کہ ایک مدرسہ کشت کاری کا مقرر ہو اور اس میں کشت کار ی کا فن تجربہ کے ساتھ ہندوستانیوں کو سکھایا جاوے مگر افسوس کہ لفٹننٹ گورنر نے اس معقول اور مفید صلاح کو منظور نہ فرمایا اور اس میں کچھ شک نہیں کہ ایسے مدرسہ کا قائم ہونا شروع سے بڑی کامیابی کا باعث ہوتاہے اور پنجاب اور بنگالہ کے زمین دار اس کی مدد اور تعلیم سے نہایت خوشی کے ساتھ فائدہ اٹھاتے۔ ہندوستان کے تمام حصوں میںسے طالب علم اس مدرسہ میں آتے اور تھوڑے ہی برسوں مین ہم دیکھ لیتے کہ کشت کاری کے کاموں میں بڑی ترقی ہو گئی۔ جس قدر زمین اور روپیہ اس کام میں صرف ہوتا اس کی تعداد بالفعل بعید از قیاص اور فضول معلوم ہوتی ہے۔ اس موقع پر ہم زمین داروں کے دلوں پر اس بات کو بخوبی نقش کرنا چاہتے ہیں کہ وہ ہر کام میں گورنمنٹ کی امداد کی آرزو نہ کریں یہ سچ ہے کہ اس ملک میں گورنمنٹ کو زمین کی مالیت کی ترقی سے ظاہرا فائدہ ہے کیوں کہ وہ خود بھی بہت بڑی زمین دار ہے ۔ اور اس کے کل محاصل کے ایک ثلث سے بہت زیادہ زمین سے حاصل ہوتا ہے ۔ اس لیے گورنمنٹ کا فرض ہے کہ وہ کشت کاری کی ترقی میں جس طرح سے ممکن ہو مدد دیوے مگر پھر بھی جہاں تک ہو سکے اس دلیل کا خیال اور استعمال نہ کرنا چاہیے۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ جب کچھ آدمی بذات خود ایک کام کرنے پر مستعد ہوتے ہیں تواور لوگ بھی ان کی مدد کرنے لگتے ہیں۔ مگر جب تک کہ وہ خود آمادہ نہ ہوں گے۔ کوئی ساتھ نہ دے گا۔یہ ممکن ہے کہ گورنمنٹ اپنا ایک پیسہ بھی زیادہ صرف نہ کرے کیوں کہ ایک ہندوستانی زمین دار بالکل ایسا ہی مال دار ہے جیسا کہ اس کا ہم جنس متمول انگلستان میں ہے ۔ انگلستان میں ایک امیر آدمی اپنے ذاتی فائدوں کا آپ ہی خیال رکھتا ہے اور آپ ہی اپنے خاص انجینئر اورعلم جمادات کے عالم ارو کان کھودنے والے مقررکر لیتا ہے۔ اور جو وہ یہ سمجھتا ہے کہ کشت کاری کے مدرسے سے اس کی جائداد کو فائدہ ہو گا تو وہ خود ہی بلا استعانت پارلیمنٹ یا ہم قوموں کے اس کو قائم کر لیتا ہے یہ سبب ہے کہ وہ سب کچھ کر سکتا ہے اور ا س کی مختصر سی ملکیت بس ہزار ایکڑ کی ایسے غیر ملک کی ایک لاکھ ایکڑ کی ملکیت کے برابر ہے ۔ جہاں کے باشندہ ہر ایک ترقی کے واسطے گورنمنٹ پر ہی حصر کرتے ہیں اس طریقہ میں ہندوستان کے سوداگر زیادہ عقل مندی سے کام لیتے ہیں یعنی وہ گورنمنٹ سے کسی نئی جنس کے پہلے پہل تجارت کرنے کی استدعا نہیں کرتے بلکہ اگر کوئی صورت فائدے کی ہو تو وہ خود ہی اختیار کر لیتے ہیں۔ امریکہ کی ملکی لڑائی سے پہلے کیا گورنمنٹ سے کئی برس کے واسطے روئی کی تجارت کی درخواست ہوئی تھی؟ اگر ایسا ہوتا اور روئی کی تجارت گورنمنٹ کی خاص تجارت ہوتی تو اس وقت میںہماری گورنمنٹ تمام دنیا میں نہایت متمول ہوتی ایک مدرسہ کشت کاری کا بھی اس ملک میں ہوتا اورفن کاشت کاری کا ایک معلم بھی مقرر ہو جاتا جب اس ملک کے لوگ ہندوستان کو ایسا سمجھتے جیسا کہ فرانس والے اور ہالینڈ والے اپنے ملک کو سمجھتے ہیں مگر محنت اور ایجاد و اختراع اور استقلال اورطبیعت کی آزادی کمہو جاتی اورکم ہو جانا ان چیزوں کا ملک کی کامیابی اور زمین کی زرخیزی کے حق میں مضر ہے۔ ان تمام کوششوںمیں سے جو زمین کی ترقی کے واسطے ہونی چاہئیں۔ ان تدبیروں کا ذکر کرنا بھی مناسب ہے جن سے بھیڑ بکری اور مویشی اور تمام قسموں کے پرندوں کی نسل جو کھیت سے تعلق رکھتی ہے درست ہووے۔ آسٹریلیا میں نو آباد باشندے دور دور کے ملکوں سے پشمینہ کی بھیڑیں اور اونٹ اور جانوروں ک منگانے میں بہت خرچ کرتے ہیں یہاں بھی نہایت متمول آدمی مثل مہاراجہ بردوان اور راجہ پٹیالہ کے البتہ ایسا خرچ کر سکتے ہیں عوام میں سے کسی میں یہ سکت نہیں ہے کہ ایسا بڑا خرچ بے دھڑک اٹھا سکے۔ ہاں اگر کچھ لوگ جمع ہو کر بالاتفاق ایسا کام کرنا چاہیں تو ممکن ہے ۔ کیوں کہ مفید جانورو ں کی نسل درست کرنے کے لیے کھچ دنیا کے اس سر ے سے اس سرے تک جانے کی ضرورت نہیں۔ بھیڑوں کی نسل اس طرح درست ہو سکتی ہے کہ کشمیر اور تبت اور کابل سے منگائی جاویں اوربنگالہ کی گایوں کی نسل اس طرح پر درست ہو سکتی ہے کہ وہاں ممالک مغربی و شمالی اور دکھن سے منگائی جاویں اور علی ہذا القیاس۔ چناں چہ مسٹر ٹیلر صاحب نے پٹنہ میں اسی طریق پر عمل کیا کہتے ہیں کہ ان کی کھیتی میں بڑی پیداوار ہوتی ہے۔ ان دونوں معا ملوں یعنی کاشت کاری اور پرورش مویشی کے فن میں بہت سی نمائشوں میں جو تمام ملک میں قائم ہوئی ہیں۔ بلاشبہ گورنمنٹ پیش قدمی کرنے لگی ہے اورہندوستانی زمین داروں اور امیرون نے بھی بے تکلف بہت سی مدد دی ہے اور ہمیشہ کثرت سے شریک ہوتے ہیں۔ ہم کو یقین ہے کہ اس کام سے بہت سا اصلی فائدہ ہو گا۔ یہ ممکن ہے کہ اول ہی میں جو نمائش کی جاوے اس میں تکلف اوربناوٹ ہونے کے سبب سے فائدہ اس کا ضائع ہو جائے لیکن اس میں کچھ شبہ نہیں ہو سکتا کہ رفتہ رفتہ بناوٹ اور تکلف پر فائدہ غالب رہے گا اورفائدہ ہی ان نمائشوں کا خاص مقصود ٹھہرے گا۔ جو دولت مند ہندوستانی تجارت کے کاموں میں مصروف ہیں ان کو یہ بات بتلانی کچھ ضرور ی نہیں ہے کہ کس شے میں ا کا فائدہ ہے اور کس کس طرح سے ان کو اپنی قابلیت اور رعب داب کو اپنے نفع کی ترقی دینے اور اپنے ملک کی تجارت بڑھانے میں کام میں لانا چاہیے۔ کچھ تھوڑا سا کہنا کافی ہو گا کہ وہ اپنے تمام معاملات میں نہایت صداقت اور دیانت برتیں اور ملک میں ایسے ایسے فنون اور کارخانے جاری کریں جن سے اقبال اور کامیابی حاصل ہو ۔ اس موقع پر ہم بابو ہیرا لال سیل صاحب کی مثال دے سکتے ہیں کہ وہ انہی دنوں میں گنگا کے جنوبی کنارہ پر مقام پتھر گھاٹا میں جو منگہر سے بہت دور نہیں ہے جہاں چینی بنانے کی مٹی کی کان نکلی ہے ۔ چینی کے برتنوں کا کارخانہ قائم کر کے اپنی دولت کو بڑھا رہے ہیں۔ اس بات کے بیان کرنے سے ہماری طبیعت خواہ مخواہ اس پچھلے مضمون یعنی کانوں کی طرف مائل ہوتی ہے چاہیے یہ کہ بہت سے کان کھودنے والوں اور زمین کی پہنچاننے والوں کو بھی ہم پہونچا کر ایک سرے سے دوسرے سرے تک ملک کا امتحان کرایا جاوے ہم وک اس بات کے یقین کرنے کی بہت سی وجوہات ہیں کہ ہندوستان میں مفید معدنیات اور فلزات سے ازبس معمور ہے۔ چناںچہ پہاڑوں میں کثرت سے لوہا موجود ہے او ر کوئلہ جا بجا نکلتا ہے۔ غالباً ملک برہما میں ٹین مل سکتا ہے۔ اور یہ بات مدت سے معلوم ہیکہ سرمہ تبت کوچک میں موجود ہے۔ جہاں ہمارے دولت مند آدمی کار براری کر سکتے ہیں۔ سنا ہے کہ راجہ منڈی کے علاقہ اور ملک پنجاب میں نمک بہت ہوتا ہے۔ اگر ایک عمدہ کان نمک کی مل جاوے تو زمین کے قطعہ کی قیمت ہزار گنے سے زیادہ ہو جاتی ہے اور قرب و جوار کے لوگوں کو اس سے فائدہ بہت ہوتاہے۔ ہم ایسے مضمونوں کو ذکر کرنے سے پہلے جو بہودی اور کامیابی سے متعلق ہوں یہ کہتے ہیں کہ وہ دولت مندی اور ذی رتبہ ہندوستانی جو قصبوں اور شہروں میں جائداد کے مالک ہوتے ہیں اپنی رعایا کی جسمانی حالت کو بہت ترقی دے سکتے ہیں اس طرح پر کہ کوچے فراخ اور صاف ار مکان ہوا دار بنائے جاویں اور راستوں میں درختو ں کی قطاریں لگائی جاویں تو ہوا کی غلاظت کا اثر جو بسبب انبوہ آدمیوں اور تنگی کوچوں کے ہوتا ہے‘ دور ہو جاوے اور ان کی تندرستی کو ضرر نہ پہنچاوے اور تالاب بھی عمدہ پانی کے کھدوائے جاویں۔ اب ہم سب سے اخیر میں اور بڑے معاملہ کا ذکر کرتے ہیں جن میں اوروں کی بہ نسبت نیکی پھیلانے کے واسطے رعب و داب زیادہ موثرہے۔ ان میں اول معاملات عقلی اور بعد ہ مذہبی اور روحانی کا ذکر کریں گے۔ اس مقام پر ہم کو بلاشبہ اول درجہ پر تعلیم کو قرار دینا چاہیے۔ مشرقی دنیا میں بہت سے علوم اور عالم ہوئے ہیں‘ لیکن اب تک اصلی یا دقیق علوم کا حاصل کرنا اور روزمرہ کے کاروبار اور ہنر و فن میں موافق علم کے عمل کرنا باقی ہے۔ علم کے بموجب عمل کرنا ایسی چیز ہے کہ اسی کے باعث سے یورپ کو اس قدر سربلندی حاصل ہوئی ہے جو طبیعت یا رائے کی آزادی کے باعث سے نہایت بہتر ہو گیا ہیل ۔ یہ یورپ کی آزادی طبیعت بسبب تہذیب مذہب کے پیداہوئی ہے اور اس تہذیب مذہب کے باعث سے جو لوگ کہ جسم اور روح کی جبری رتعدی میں مبتلا تھے اس سے آزاد ہو گئے ہیں ہماری رائے میں اسی باعث سے یورپ اس بڑے درجہ کو پہنچا ہے جو اس کو اس وقت میں حاصل ہے ۔ اور شاید بسبب تہذیب مذہب کے ہندوستان بھی اس عای رتبہ کو پہنچ جاوے گا جو اس کو اپنے حق کی وجہ سے دنیا کے اور ملکوں کی توقع سچی اور عمدہ علم کے پھیلنے پر کرنی چاہیے۔ حقیقت یہ ہے کہ جب تک عموماً علم نہ پھیلے گا اس وقت تک انسانوں کے خیر خواہ جو کچھ جاں فشانی اورکوشش اپنے ملک کی بھلائی کے واسطے کریں گے وہ ان کو بے فائدہ معلوم ہو گی اور جو رعب و داب وہ بھلائی کے واسطے عمل میں لاویں گے اس کو کچھ استقلال اورثبات نہ ہو گا۔ اس کی ایسی مثال ہے جیسے کہ چاروں طرف اندھیر ا اور تاریکی ہو اور اس میں خفیف سی روشنی چمکتی ہو ان لوگوںکی تمام عمر ایسی کوشش میں صرف ہو گی کہ گویا ریت کی بنیاد پر ایک سنگ مرمر کا محل بنایا تھا۔ اس معاملہ میں اور ایک صورت میں نہایت استحکام کے ساتھ ہم یہ کہتے ہیں کہ بہت سے لوگوں کا متفق ہونا بڑے کام کی چیز ہے ۔ نہایت قوی آدمی اگر تنہا ہو تو بہت سے آدمیوں کے مقابلہ میں اپنے آپ کو کمزور پاتا ہے اورنہایت عمدہ ان نتیجوں کی قدرو منزلت جو بہت سی قوتوں کے شامل ہونے سے حاصل ہوتی ہے اس طرح سے بڑھنے کی نسبت جس طرح علم حساب میں جمع کے عدد بڑھتے ہیں ایسی بڑھتی ہے کہ جیسے ضرب کے قاعدے سے عدد بڑھتے چلے جاتے ہیں پس یہ بات بخوبی ظاہر ہے کہ جن کو خدا تعالیٰ نے عز ت و وقر اور اختیار عنایت کیاہے وہ صرف اپنے ہی فائدوں کی رعایت اور حفاظت میں متفق اور مجتمع نہ ہوں بلکہ تعلیم اورنیک باتوں اور اخلاق کے ایسے معقول اور مضبوط اصولوں کو شائع کرنے میں بھی اتفاق کریں جن کے سبب سے ایک ملک قوموں میں امتیاز حاصل ہے تعلیم مختلف قسموں میں تقسیم ہو سکتی ہے یعنی دیسی زبان اور انگریزی زبان اور ایسی تربیت جس سے جسم تندرست رہے۔ اور آدمی توانا اور تناور ہوں اور علم انشا وغیرہ اور مردوں اور عورتوں کی تعلیم اور تعلیم عام اور تعلیم خاص۔ عام تعلیم سے ہماری مراد یہ ہے کہ بہت سے دہقانوں کے گروہوں کو جو دیہات وغیرہ میں رہتے ہیں دیسی زبانوں میں بدرجہ اعتدال تعلیم کی جاوے اور صرف لکھنا پڑھنا اور حساب سکھایا جاوے۔ اگر ان لوگوں کی عورتوں کو اب سے پچیس برس گزرنے سے پہلے پڑھایا لکھایا جاوے گا تو ہماری رائے میں وہ بے موقع اور بے اثر ہو گا یہ لوگ جو بہت محنت اور مشقت اور سختی کے ساتھ زندگی بسر کرتے ہیں اس یلے ان کی جسمی تربیت کے واسطے یہ طریق زندگی ہی کافی دافی ہے اورکچھ سکھانے اور سمجھانے کی حاجب نہیں اور قصبون اورشہروں کے واسطے ایسے سکول او رکالج جن میں انگریزی اور دیسی دونوں زبانوں میں تعلیم کی جاوے قائم ہونے چاہئیں ۔ یہ خاص تعلیم بڑے درجہ کی تعلیم ہو گی اور ان اسکولوں اور کالجوں میںبڑے دقیق علم کو بڑی منزلت دینی چاہیے۔ اور ان کی بڑی جماعتوں کے طالب علموں کی جسمانی تربیت کے واسطے کسی عام مقام میں ایک اکھاڑا کافی ہو گا اور لڑکیوں کے واسطے علیحدہ مدرسے ہونے ضرور ہیں۔ علاوہ اس کے امیروں اور بڑ ے آدمیوں کو چاہیے کہ عالم و فاضل لوگوں کو چاہے کہ اپنے ایسوسی ایشن اورسوسائٹی اس غرض سے بناویں کہ مفید علم بارزانی شائع کریں اور عمدہ عمدہ علوم اور فنون کو ترقی اورعظمت بخشیں اور فیاضی کے کام کریں۔ ایسے مفید علم کو جو عوام کے فہم سے مناسبت رکھتا ہو چھوٹی چھوٹی اور سستی اصول کی کتابیںمشتہر کریں اور جا بجا ایسے آدمی مقرر کریں جو ان کو گلی کوچوں میں بیچتے پھر ا کریں اورصبح و شام ان مقاموں میں جہاں لوگ جمع ہوتے ہیں کوئی سستا اخبار سنانے سے بہت فائدہ ہو گا لیکن اس طرح سے جو غذ ا اس اخبار کے ذریعہ سے مہیا کی جاوے وہ ایسی ہو کہ اس میں گرمی اور جوش نہ پایا جاوے ملائم اورٹھنڈی ہووے یعنی ایسی نہ ہو کہ جس سے گمراہی حاصل ہو اورطبیعت بے فائدہ بھڑکے ۔ اس عام اخبار کا ایڈیٹر جو تما م ہندوستان کے واسطے عام ہو گا۔ ایسا نہایت عمدہ تعلیم یافتہ شخص ہونا چاہیے جس کی طبیعت نہایت سلیم و حلیم اور بے شرر ہو اور عمدہ عمدہ دقیق علوم اور فنون کے رواج کے واسطے ایک علمی روزنامچہ کا مقرر کرنا اور علمی لیاقت یا خوبی صنعت کے واسطے انعام دینا ایسے عمدہ اورصاف طریقے ہیں کہ تھوڑے خرچ سے بہت سا کچھ مطلب ان سے حاصل ہو سکتا ہے۔ سوائے ان کے لکچروں کا دینا بھی فائدے سے خالی نہیں۔ یہ بات بیان کر نے سے ہم کو خوشی ہے کہ ا ن سب باتوں میں بہت سی ترقی ہو گئی ہے چناں چہ دیہات میں دیسی زبانوں کی تعلیم بہت زور شور سے کی جاتی ہے اور تمام ملک میں جسم کی درستی کے واسطے کے اکھارے موجود ہیں اور بہت سے ایسے مدرسہ اور کالج جن کو صرف ہندوستانی قائم کرتے ہیں برے بڑے شہروں مثلاً کلکتہ اورلاہور اور آگرہ۔ غازی پور کے جا بجا قائم ہوتے جاتے ہیں اور عورتوں کی تعلیم خواہ پردہ میں خواہ مدرسہ میں ہونا اب ایسا سوال نہیںرہا جس پر کچھ حجت اور شک و شبہ باقی رہا ہو۔ اور دقیق علم انشاء کی جماعتیں بنتی جاتی ہیں اوربہت سے اخبار جاری ہیں جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ہر قسم اور ہر استعداد کے لکھنے پڑھنے والے موجود ہیں۔ اور باوجود بے شمار اور بڑے بڑے ہرجوں اور دقتوں کے وہ اخبار ترقی پذیر ہیں۔ اب ہم ختم کلام پر یہ کہتے ہیں ک بڑے درجہ کی روحانی اور مذہبی تعلیم کے واسطے مختلف مذہبوں کی حقیقت پر مباحثہ کرنے کے لیے ایسوسی ایشن یعنی جماعتیں مقرر کی جاویں جیسے کہ نہایت دانا اور نہایت اچھے ایشا کے بادشاہ ہمیشہ کرتے رہے ہیں اورایمان کا زر خالص جن خراب باتوں سے پھیکا اور بد روپ ہو رہا ہے ان برائیوں کو خاص خاص کمیٹیاں لوگوں کو جتایا کریں اور مقدس اور معززکتابوں پر غور اور تمیز سے بحث کی جایا کرے اور غریبوں کے واسطے ہسپتالیں اور خیرات خانے اور رفاہ عامہ کے واسطے سرائیں بنائی جائیں اس بڑے معاملہ میں کچھ ہو بھی چکا ہے لیکن اس کی مثالیں دینا کچھ ضرور نہیں۔ شاید کسی کو ناگوار گزریں اس لیے اس موقع پر سب مذہب کے لوگوں کی نسبت عموماً ذکر کرنا بہت اچھا طریقہ ہے ۔ اب ہم اپنی گفتگو کو انگلستان کے ایک بڑے شاعر کے چند لفظوں پر ختم کرتے ہیں۔ وہ یہ ہے کہ ’’تمام انسانوں کی غرض ثواب سے ہے گو وہ کسی ڈھب اورکسی طریقہ سے حاصل کیا جاوے‘‘۔ ٭٭٭ اہل ملک اور ترقی تربیت (۲۰ ستمبر ۱۸۶۷ئ) وہ کون سی تدبیریںہین جن سے اہل ہند کی تربیت کوترقی ہو اور وہ بھی مثل اور ملک کے رہنے والوں کے ملکی فخر اور امتیاز حاصل کریں۔ اس مضمون میں غالباً ملکی فخر اور وہ فخر اور عزت مراد ہے جو کسی ملک کے رہنے والوں کو عام تربیت اورشائستگی کے پھیلنے سے بلالحاظ مذہب او ر قوم کے حاصل ہوتی ہے ۔ ہم لوگ اہل یورپ کیو ایک شائستہ اور تربیت یافتہ قوم کہتے ہیں۔ اور ان کی نسبت ہر طرح کا ملکی فخر اور امتیا منسوب کرتے ہیں۔ وہ لو گ نہ ایک قوم ہیں اورنہ ایک مذہب رکھتے ہیں۔ مگر انہوںنے اپنے ملک میں بلا لحاظ قوم و مذہب کے عام تربیت اور شائستگی پھیلانے سے ملکی فخر اور امتیاز کا خطاب حاصل کیا ہے۔ ہندوستان باستثناء روس اور بالٹک کے شمالی حصہ کے یورپ کے برابر ہے اور جس طرح کہ یورپ میں متعدد قومیں آباد ہیں اسی طرح ہندوستان میں بھی متعدد قومیں بستی ہیں۔ اور جس طرح یورپ کی قومین باہم مشابہت رکھتی ہیں۔ اسی طرح ہندوستان کی قومیںبھی باہم مشابہ ہیں۔ اگر کوئی پردیسی یورپ جاوے تو اٹلی والوں اور انگلستان والوں میں کچھ تمیز نہ کر سکے گا۔ اس طرح اگر کوئی پردیسی ہندوستان آوے تو ہندوستان کے بھی مشابہ قوموںمیں یکایک کچھ امتیاز نہ کر سکے گا۔ کہا جاتا ہے کہ ہندوستان میں کئی سو برس سے کم میں جس کا شروع زمانہ بارہ سو برس کے قریب محمد بن قاسم سپہ سالار کے عہد سے قرار دیتا ہوں ایک اجنبی قوم ہندوستان میں آ کر آباد ہوئی جو مزاج اور سیرت اور طبیعت اورخصلت میںہندوستان کی قوموں سے بالکل مختلف تھی مگر غور کرنے کی بات ہے کہ نیچر نے قوموں کی خصلتوں اور طبیعتوں کا اختلاف زیادہ تر ملک کی خاصیت پر رکھا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ سرد ملک کے اون دار جانور جب کئی نسل تک گرم ملک میں رکھے جاتے ہیں تو وہ اون جو نیچر نے ان کو سردی سے محفوظ رکھنے کے لیے بنائی تھی باقی نہیں رہتی۔ پس کوئی قوم جو کسی ملک میں آ کر بسے ایک زمانہ کے بعد ملک کی خاصیت سے اس قوم کا بھی قریب قریب وہی رنگ ڈھنگ ہو جاتا ہے جو اس ملک کی قوموں کا ہوتا ہے اور وہ قوم بھی اس ملک کی مشابہ قوموں میںداخل ہو جاتی ہے۔ ملیبار کے کالے یہودیوں پر خیال کیا جاتا ہے جو بخت نصر کے عہد میں ویران ہو کر وہاں آباد ہوئے۔ حالانکہ ان کی اصلیت ملیباروں سے بالکل مختلف ہے۔ مگر مذہب کے اختلاف کے سوا کوئی شخص ان کو ایک ملیباری قوموں کی مشابہ قوم کے سوا اور کچھ نہیں بتلا سکتا۔ پس مسلمان قوموں کی اصلیت کچھ ہی ہو مگر ایک ہی مدت دراز کی سکونت اور توطن اختیار کرنے کے سبب نیچر نے ان کے خون کو ان کی اصلیت کو بدل دیا ہے اور جس طرح اور قومیں ہندوستان میں آ کر آباد ہو ئیں اور ہندوستان کی مشابہ قوموں میں داخل ہو گئیں۔ اسی طرح مسلمانوں کا خون اور گوشت پوست ہندوستان کی ہی پیداوار ہے۔ اور ہندوستان ہی کی آب و ہوا سے بن گیا ہے۔ اس لیے وہ بھی ہندوستان کی ایک مشابہ قوموں میں داخل ہیں۔ مضمون میں جو ملکی فخر کا لفظ استعمال کیا گیا ہے اس سے غالباً وہی فخر مراد ہے جو ہندوستان کی تمام موجودہ قوموں کی مجموعی تربیت اور شائستگی سے بلا لحاظ ان کے مذہب اور ان کی اصلیت کے ملک کو حاصل ہو۔ کیوں کہ اگر اس لفظ کا یہ مطلب نہ سمجھا جاوے تو ملکی فخر کے لفظ کا استعمال صحیح نہ ہو گا۔ اور نہ ملکی فخر باقی رہے گا۔ بلکہ خاص قوموں کا فخر کہلائے گا۔ جس کا حاصل ہونا نیچر کی رو سے بغیر ایک دوسرے کی ہمدرردی اور مدد گاری کے غیر ممکن ہے اور اس کا نتیجہ بہ جز ملکی ذلت کے اور کچھ نہیں۔ شاید ہمارے بعضے دوست ایسے ہوں کہ اہل ہند کی تربیت کو ترقی دینے کا مضمون سن کر متعجب ہوئے ہوں اور خیال کرتے ہیں کہ اہل ہند کی تربیت میں خیا کمی ہے جس کی ترقی دینے کی تدبیروں پر گفت گو کی جاتی ہے۔ اہل ہند نے علم و ہنر و شائستگی میںتمام دنیا کی قوموں سے پہلے (مگر میں کہوں گا کہ مصریوں کے بعد) ملکی فخر و امتیاز حاصل کیا تھا۔ ہندوئو ں کا علم الہیات اس زمانے کی تمام قوموں کے علم الہیات سے عمدہ تھا۔ ان کا علم انشاء تما دنیا کے علم انشاء پر فائق تھا۔ مہا بھارت اور رامائن کی رزمیہ نظم تمام دنیا کی رزمیہ نظموں پر سبقت لے گئی تھی۔ کیا مگھاکی رزمیہ نظم جس میں ایک روح نے بادل کے ہاتھ اپنے دوست کو پیغام بھیجا ہے اور جس میں برکھا کا ماں باندھا ہے ہر ایک ملک کی کیفیت جس میں وہ ایلچی بادل گزرے گا دکھائی ہے اور پھر اس روح کا رنج و غم وطن کی فراق میں جتایا ہے ایسی عمدہ تھی کہ اس نے تمام دنیا کی بزمیہ نظم کو اشک حسرت سے ساون کے بادل کی طرح رلایا تھا۔ ہندوئو ں کے علم ہندسہ میں علم مثلث کے ایجاد میں اور بالخصوص اس ثبوت کے ایجاد میں جس میںمثلث کے تینوں ضلعوں سے اس کی سطح دریافت ہوتی ہے۔ کسی کچھ نام آوری پائی تھی۔ علم حساب میںکسور اعشاریہ کے ایجاد میںکیسا کچھ ان کو افتخار حاصل ہوا تھا۔ اہل عرب اگرچہ جبر و مقابلہ کی ایجاد کا دعویٰ کرتے ہیں مگر ہندوستان نے اس میں ایسے قدیم زمانے میں بھی ایسا کمال حاصل کر لیا تھا کہ بعض عالموں نے انہیں کو اس کے موجد ہونے کا فخر و امتیاز دیا ہے۔ علم ہئیت میںہندوئوں نے کیسی سربلندی حاصل کی تھی۔ زمین کی روزانہ حرکت کا جس کی خوشہ چینی فیثا غورث یونانی حکیم نے کی اور پھر جس کو پرنکس نے رواج دیا۔ ہندوئوں ہی نے سب سے پہلے خیال کیا تھا۔ چودہ سسو برس پیش تر حضرت مسیح کے ہندوئوں نے ہی طریق الشمس کو ستائیس نچھتروں پر تقسیم کیاتھا۔ پارس رائے نے اسی زمانہ میں علم ہئیت کے نشان کو دو ہندوئوں کے نام سے سربلند کیاتھا ہندوئوں کا علم جغرافیہ بہت کم تر درجہ گنا جاتا ہے مگر انہوں نے ساتویں آٹھویں صدی پیش تر جیسا کہ سریمتی سدھانتا سے ثابت ہے روم اور اٹلی کا حال جان لیا تھا۔ چین کے ملک سے وہ بہ خوبی واقف ہو گئے تھے۔ مگد کے راجا نے دوسری صدی مسیحی میں اس کے پاس ایلچی بھیجے تھے۔ ان کا علم سیاست مدن اور فصل خصومات کا جیسا کہ منوسمرتی سے ثابت ہے کہ نہایت اعلیٰ درجہ تر ترقی پایا ہوا تھا۔ ان کے ہنر کسی ملک کے ہنروں سے کم نہ تھے۔ فن عمارت ان کو بہ خوبی معلوم تھا۔ زراعت کے فن میں سب سے اعلیٰ رتبہ رکھتے تھے۔ سنگ تراشی کے فن میں لاثانی تھے۔ ریشمی اور سوتی کپڑے بننے میں آج تک کسی ملک نے ان کی ہم سری نہیں کی ہے۔ مسلمان بھی جو ایک اجنبی قوم گنی جاتی ہے اور جن کو میں نے ابھی ثابت کیا ہے کہ وہ بھی ہندوستنا میں مدت سے متوطن ہو جانے کے سبب مثل اور قوموں کے ہندوستان ہی کی ایک مشابہ قوم ہو گئے ہیں۔ علم و ہنر اور شائستگی میں کچھ کم درجہ نہ رکھتے تھے۔ فصاحت و بلاغت ان کا روز مرہ تھا۔ شاعری ان کے ماں کے پیٹ سے ان کے ساتھ پیدا ہوئی تھی۔ حریری ویمنی متنبی کی کتابیں بھی اب تک دنیا میں موجود ہیں پونے تیرہ سو برس کی عورتوں کا کلام اب تک ہمارے پاس موجود ہے۔ جس کے ایک ایک فقرہ پر ہزاروں در شاہوار کی لاکھوں لڑیاں نثا ر ہوتی ہیں۔ انہو ںنے یونانیوں سے جتنا لیا اس کو بہت بڑھایا اور پھر کیا کچھ کر دکھایا۔ طب کو کیسی کچھ ترقی دی علم کیمیا کے اصولوں کے ایجاد کا فخر مسلمانوں ہی کو نصیب ہوا یہاں تک کہ انگریزی زبان میں اب تک بہت سے لفظ عربی زبان کے اس علم کی اسطلاحوں میں مستعمل ہیں۔ علم حیوانات میں ابو عثمان اور علم نباتات میں عبدالرحمانی برونی کیسے نام آورہوئے۔ وزن ہوا اورعلم مائیتات اور جذب مرکزی اور تجاذب اجزا کی انہوںنے راہ نکالی ۔ اس بات کا فخر بلاشبہ مسلمانوںہی کو ہے کہ ان ہی کے بزرگوںمیں سے ابو علی الحسن تھا جس نے یونانیوں اور تمام دنیا کے لوگوں کو اس غلطی کو صحیح کیا۔ کہ آنکھ سے شعاع بصر نہیں نکلتی بلکہ تمام چیزوں کی شبیہ آنکھ میں بنتی ہے اسی تحقیات کا یہ نتیجہ ہے کہ جو تم آج کل فوٹو گراف کی ایسی ایسی عمدہ تصویریں دیکھتے ہو۔ خلیفہ مامون کے عہد میں جو زمین کے دائرہ عظیمہ کی نمائش سنجار اور کوفہ کے میدانوںمیں ہوئی۔ وہ آج تک ہمارے فخر کا باعث ہے۔ مسلمانوں کا عہد کثرت مدارس سے نہایت اعلیٰ درجہ کی عزت رکھتا ہے بغداد ‘ کوفہ ‘ نیشاپور‘ قرطبہ ‘غرناطہ کے مدرسے تمام دنیا کے لوگوں کے لیے بہت بڑی یونی ورسٹی کے سے مدرسہ تھے۔ اسپین یعنی اندلس کے کتب خانہ شاہی میں ایک لاکھ کتاب مجلد طلائی جلد سے آراستہ تھی اور خلفائے بنی اندلسی کے وقفی کتب خانہ میں چار لاکھ کتب مجلد تھی جس کی فہرست چوالیس جلد میں تھی۔ اس کے سوا سستر اور کتب خانہ وقفی تھے۔ شماسیہ ‘ بغداد‘کوتاسیہ‘ دمشق ‘ اندلس‘ سمرقند ‘ مراغہ ‘ اب تک ہمارے رصد خانوںکے ٹوٹے پھوٹے کھنڈروں سے معزز و ممتاز ہیں۔ خلیفہ ہارون رشید عباسی نے شارل میں بادشاہ فرانس کو ایک گھری بہ طور تحفہ بھیجی تھی جس کا ذکر ایچیسن ہارڈ صاحب نے کیا ہے۔ مسلمانوں کی ترقی تربیت کے لیے ایک نہایت عمدہ ثبوت ہے۔ سب سے بڑی عزت جو کسی قوم کو نصیب ہو سکتی تھی وہ مسلمانوں کو نصیب ہوئی کہ تمام فرنگستان میں ان ہی کی بدولت علم و ہنر اور شائستگی کے زیور سے آراستہ ہوا۔ ڈاکٹر ڈراپر صاحب فرماتے ہیں کہ علم سیکھنے میں اہل فرہنگ ابو علی الحسن اور ابو موسیٰ اور ابو الوفاء او رعطاء عرب کے زیادہ تر رہین منت ہیں۔ ہماری روشنی جو دارالخلافہ قرطبہ سے اٹھی اورجس نے تما م فرنگستان کو روشن کر دیاکبھی بجھنے والی نہیں۔ پھر جب کہ ہندوستان کی ان دونوں قوموںکایہ حال ہیکہ تو اب کیا چیز باقی ہے جس میں ہماری تربیت و شائستگی کی ترقی دینے میں گفت گو کی جاتی ہے۔ یہ باتیں جو کچھ مذکور ہوئیں سب سچ ہیں۔ اور حقیقت میںہندوستان کی دونوں قوموں کے بڑے فخر کی باعث ہیں۔ سچ یہ ہے کہ دونوں قومیں کیسی ہی مٹ کیوں نہ جاویں ان کایہ آبائی فخر مٹنے والا نہیں۔ مگر اتنی بات ہے کہ بڑوں کے نام پر غرہ کرنا اور آپ کچھ نہ ہونا عقل کی بات نہیں۔ مثل مشہور ہے کہ دو چیز در دو چیز باور نیاید ۔ ذکر توانگری در فقیری و ذکر جوانی در پیری: آدمی را بچشم حال نگر از خیال پیری و دے بگذر ہمارے بزرگ کیسے ہی کیوں نہ ہوں۔ ہم میں تو وہ باتیں نہیں۔ وہ بلاشبہ علوم دقیق کے موجد تھے مگر ہم تو اس کے سمجھنے کے بھی قابل نہیں۔ پس ہم کو اپنے حا ل پر رونا چاہیے نہ کہ بزرگوں کے نام پر مغرور ہونا ۔ جب کہ سلسلہ کلام یہاں تک پہنچتا ہے تو خود بخود ہماری طبیعت اس طرف مائل ہوتی ہے کہ ہرگاہ ہمارے بزرگ ایسے تھے کہ اور وہ نہایت عمدہ علوم کے عالم بلکہ موجد تھے۔ اور اور ہنروں میں بھی باکمال تھے۔ تو ہماری ترقی‘ تربیت اور کاملیت کے درجہ پر پہنچنے کے لیے یہی بات کافی ہو گی کہ ہم انہیں علوم و فنون آبائی کے زندہ کرنے پر متوجہ ہوں۔ مگر اس خیال میں بڑا دھوکا اور اس رائے میں بڑی غلطی ہے۔ ہمارے ان بزرگوں کے بھی جن کا میں نے ذکر کیا ہے کوئی بزرگ تھے۔ مگر ان بزرگوں نے اپنی کوشش کے ذریعہ سے بہ نسبت اپنے بزرگوںکے زیادہ علم و ہنر کے خزانوں پر رسائی حاصل کی تھی۔ بہت سے بیش قیمت علم کے جواہر خود تلاش کیے تھے اورعلم کے بہت جواہرات کو جلاکاری اور تراش خراش سے جگمگا کر خوب صورت بنایا تھا۔ اگر وہ لوگ اب تک زندہ رہتے یا ہم لوگ جو ان کے جان نشین ہیں اپنے بزرگوں کی طرح علم وہنر کی ترقی دینے پر مصروف رہتے تو اپنے بزرگوں کے علم و ہنر و شائستگی کو بہت زیادہ اعلیٰ درجہ کے ترقی پر پہنچاتے۔ اور ا س دریائے ناپید کنارے سے اور بہت عمدہ عمدہ موتی و جواہر ڈھونڈ کر نکال لیتے مگر ہم نے کچھ نہیں کیا۔ بلکہ اپنے بزرگوں کی کمائی بھی کھو بیٹھے۔ پھر اگر ہم کو ہوش آوے اورپھر اپنی تربیت کی ترقی پر متوجہ ہوں تو ہم کو اول یہ دیکھنا چاہیے کہ ہماری غفلت اورنیند کے زمانہ میں اورلوگوںنے کیا کیا ہے اور علم و ہنر و شائستگی کو کہاں تک ترقی پر پہنچایا ہے۔ اور جس وم کو ہم دیکھیں کہ اس زمانہ میں علم و ہنر و شائستگی کی بدولت سے مالامال ہے اس کے سامنے ہم بھی اپنا ہاتھ پھیلاویں۔ شائستگی سے میری مراد ان رسموں اور عادتوں سے نہیں جو بہ سبب ملکی حالات اور آب و ہوا کی تاثیر سے مختلف ملکوں کی قومیں مختلف طور پر برتائو میں لاتی ہیں۔ اور ایک قوم دوسری قوم کی رسم کو حقارت سے دیکھتی ہے۔ ایک ہندوستانی ٹوپی اتار کر ننگے سر ہونے کی رسم کو حقیر سمجھتا ہو گا۔ ایک یورپین جوتا اتار کر ننگے پائوں ہونے کی رسم کو حقارت سے دیکھتا ہوگا۔ کوئی ہاتھ سے نہ کھانا کھانے والوں کو جنگلی جانوروں کی مانند جانتا ہوگا۔ کوئی کسی کو تیلیوں اور چمچوں سے کھاتے دیکھ کر متعجب ہوگا۔ مگر اس قسم کی رسموں پر خیال کرنا ار ایک کو دوسرے کی حقارت کرنا ۔ یا اس کے درپے ہون شائستہ پن نہیں ہے۔ شائستگی سے میری مراد وہ خلقی اور عملی عمدہ باتیں ہیں جو نیچر کے قواعد پر خیال کر کر فی نفسہ عمدہ ہیںنہ کسی ملک یا کسی مذہب کی مرعات سے۔ پس جب کہ ہم شائستگی کی ترقی کے درپے ہوں یا کوئی قوم اپنی فیاضی سے ہم کو شائستہ اور تربیت یافتہ کرنے کے درپے ہو تو ہم دونوں کو واجب ہے کہ ہم اس قسم کے تعصبات کو دل سے دور کر کر اور دلی نیکی سے بلا کسی حقاترت کے یا کسی اپنے غرور پندار کے ایک دوسرے کی نیکی اور ہمدردی میں شریک ہوں۔ اور اپنے فرض بھائی بندوں کی بھلائی چاہنے میںادا کریں۔ اب ہم زمانہ حال کی قوموں پر نظر ڈالتے ہیں کہ کون قوم اس زمانہ میں تربیت کی دولت سے مالا مال ہے ترک و عرب فارس آج کل اسی نتیجہ کو پہنچے ہوئے ہیں جس نتیجہ کی ذلت خواری ہم اٹھا رہے ہیں ۔ افریقہ نے کبھی تربیت و شائستگی میں نام نہیں پایا تھا۔ البتہ مصر اگلے زمانہ میں بلکہ تمام دنیا میں سب سے پہلے نام آور تھا اور اب بھی وہ کچھ کر رہا ہے۔ مگر ہماری رسائی کے قابل نہیں ۔ ہماری سرحد کی قومیں برہما والی‘ بھوٹان والی‘ شمالی پہاڑوں کی قومیںافغانستان اور اس کے قریب کی قومیں حبشی ‘ وحشی اور جاہل ہیں۔تم انکو خوب جانتے ہو پس اب مدار عم و ہنر اورقومی شائستگی کی ترقی کا یورپ اور امریکہ پر ہے۔ امریکہ اوریورپ کے بہت سے ملک ہماری دسترس سے باہر ہیں۔ البتہ انگلستان کے علم کے خزانوں پر ہماری دسترس ممکن ہے۔ خدا نے ایک اجنبی قو کو ہم سے ملایا ہے جس سے صاف اس کی مرضی یہی معلوم ہوتی ہیک کہ ہم اسی قوم کے ذریعے سے پھر اپنے آپ کو ایک اعلیٰ درجے کی تربیت اور شائستگی پر پہنچاویں۔ وہ ٹکڑا یورپ کا جو ہندوستان تک پہنچا میں یہ نہیں کہتا کہ وہ بالکل بے عیب ہے اور اس کے خیالات میں بالکل آزادی ہے اور کسی قسم کی رکاوٹ کیا آبائی کیا رسمی اورکیا ملکی اس میں نہیں مگر ہاں یہ کہتا ہوں کہ اور تمام قوموں سے عمدہ عمدہ وصفوں میں زیادہ تر موصوف ہے۔ مجموعی صفت اس قوم کی انسان کی بھلائی چاہنا اور سب کی ہم دردی کرنا ہے جو عین مرضی نیچر کی تھی جس نے ایک خون سے تمام انسانوں کو پیدا کیا۔ ان تمام بیانوں سے مضمون جو بحث میں ہے از خود حاصل ہو جاتا ہے کہ ملکی فخر و امتیاز حاصل کرنے اور اپنی شائستگی و تربیت کی ترقی دینے کو ہم کو بھی وہی کرنا چاہیے جو یورپ کی قوم یا ہمارے مہمان بھائی انگلستان کی قوم نے کیا۔ اس نے کیا کیا بجز علم کے تعقی کے اور کچھ نہیں کیا ارو اسی کی بدولت سب کچھ لیا۔ اور نہایت اعلیٰ رتبہ کا نام پایا علم کی ترقی کی بدولت یہ نام ہوا۔ ڈیوک ‘ لارد ‘ ارل یا اور رئیوسوں اور شریفوں کے علم کی بدولت۔ نہیں نہیں۔ عام ملک کے علم کی ترقی کی بدولت عام قوموں کی ترقی علم کی بدولت یورپ کے ایک بہت بڑے عالم نے قومی تعلیم پر ایک بہت بڑا مضمون لکھ کر اس کے آخر میں یہ چند فقرے لکھے ہیں چناں چہ اپنا یہ کلام ہے کہ یہ مضمون جس پر ہم گفت گو کر رہے ہیں ہر ملک کے لیے نہایت ہی مفید ہے۔ روئے زمین پر کوئی ایسا حصہ نہیں جس پر ایسی قومون کے نشان نہیں ہیں جو ایک نہ ایک دفعہ ترقی اور بہبودی کی حالت میں تھیں۔ اور جو اب بالکل یا اس کے قریب قریب شائستہ قوموں کے شمار میں نہیں آتیں۔ ہر ملک کی حالت اس کے رہنے والوں کی طبیعت پر قائم رہتی ہے جہاں کے رہنے والوں کی طبیعت مستقل اور ان کا دل روشن اور ان کے اخلاق اچھے ہوتے ہیں۔ ملک کی حالت بھی اچھی ہوتی ہے بلکہ زیادہ عروج اور ترقی کی حالت پر پہنچتی ہے اور جہاں عوام الناس کے دلوں پر جہالت کی تاریکی اور رذیل خصلتوں کی بدقسمتی چھا جاتی ہے تو تنزل شروع ہوتا ہے اور رفتہ رفتہ زوال آ جاتا ہے (افسوس کرنا چاہیے جب کہ کسی ملک کے خواص لوگوں کے دلوں پر اور ان کی اولاد پر یہ کیفیتیں چھا گئیں تو اس ملک پر کیا کچھ نہ زوال آیا ہو گا)۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ ہر ایک قوم کی حالت جو اب موجود ہے اس قوم پر عوام کو روشن ضمیر کرنا فرض ہے ۔ پھر ہم لوگ اپنے تئیں انسان دوست خیال کریں یا ملک دوست کہیں۔ ہم پر اپنے ملک کی قومی تعلیم پر یکساں تعلق رکھنا واجب ہے کیوں کہ اس سے ہم کو ہر ایک بات کی مدد ملتی ہے۔ یہ قوم اس بڑے عالم کا ہماری ملکی ترقی تربیت و شائستگی کے لیے ننہایت عمدہ دستور العمل ہے۔ پس ہم کو اپنے تئیں ملکی فخر و امتیاز نصیب ہونے کے لیے یہی چاہیے کہ ہم عام علم اور عام تربیت پھیلانے پر ایک دل ہو کر کوشش کریں مگ نہ کسی جھوتے یا اوپر کے دل سے اور نہ اپنی شان اور اپنا فخر دکھانے کی نظر سے بلکہ نہایت عاجزی اور غریبی اور خاک ساری سے اور نیک دلی اور روحانی ہمدردی سے تاکہ ہماری فانی دولت ہماری قلب نما عزت ہمارا جھوٹا ظاہر فخر اس کا اثر لوگوں کے دلوں میںبیٹھ جانے سے روک نہ دے۔ اب یہ بات غور طلب ہے کہ جو قومیں زمانہ حال میں یہ فخر و امتیاز رکھتی ہیں اورجو قومیں اگلے زمانہ میں رکھتی تھیں۔ انہوں نے کس طرح اپنے ملک میں عام علم اور عام تربیت کو پھیلایا۔ سب کے سب نے بالاتفاق اپنی اپنی زبانوںمیں علم کے پھیلانے سے وہ بڑائی اور بزرگی حاصل کی۔ ہندو فرض کر لو کہ تمام علمو ں کے موجد تھے اور انہیں نے کسی اور قوم سے نہیں لیا تھا اوریہ بھی مان لو کہ جس طرح کہ درحقیقت وہ یونانیوں کے احسان مند نہیں ہیں اسی طرح وہ مصریوں کے بھی احسان مند نہیں ہیں۔ تاہم یہ بات ماننی پڑے گی کہ انہوںنے زیادہ تر تحقیقات اور زیادہ تر واقف کاری کے لے اجنبی قوموں کے علوم کا اپنی زبان میںترجمہ کیا۔ پانچویں صدی میں ہندو یونانیوں سے بخوبی واقف ہو گئے تھے۔ ان کے کلام کو ادب سے لحاظ کرتے تھے۔ روما کا سدھانتا سے ثابت ہے کہ انہوں نے رومیوںکے علم ہئیت پر توجہ کی تھی غیر قوم کی کتابوںسے ثابت ہے کہ ہندوئوں نے غیر قوم کے علوم و مسائل اپنی زبان میں ترجمہ کیے تھے۔ چناں چہ شت دساتیر کی شرع مٰیںجو آتش پرستوں کی کتاب آسمانی ہے ساسان پنجم نے شنکر اچارج کا نام بہ لفظ چکر نگاجہ اور اس کے وہاںجانے اروان کے علم الہیات کا اپنی زبان میں ترجمہ کر کر لے جانے کا ذکر کیاہے۔ یونانیوں نے بڑا حصہ علوم و فنون کو تربیت کا مصریوں سے پایا تھا۔ اور اس بڑی دولت کو اپنی زبان میں ترجمہ کر کے رواج دینے سے ملکی فخر و امتیاز حاصل کیا تھا۔ مسلمانوںنے جو یہ فخر و امتیاز حاصل کیا۔ انہوںنے بھی عام علوم کو یونانی زبان میں سے ترجمہ کر کر رواج دینے سے حاصل کیا۔ خلیفہ منصور نے یونانی زبان سے عربی زبان میںعلوم کے مترجموں کو بہت بڑے بڑے انعام دیے خلیفہ مامون نے روم ‘ شام ‘ جرمنی‘ مصر سے یونانی کتابیں منگوا کر اپنی زبان میں ترجمہ کیں۔ حنین عبادی جو ایک عالم عیسائی مذہب نسطوری فرقہ تھا۔ علم طب کا مترجم تھا۔تاریخ سے ثابت ہے کہ سنسکرت زبان کی کتابیں بھی اس نے اپنی زبان میں ترجمہ کرائیں۔ اسپین یعنی اندلس میں عبدالرحمان بن الحکم خلیفہ بنی امیہ نے یونانی زبان سے اپنی زبان میں کتب کے ترجمہ پر کمر باندھی بڑی نامی مترجم یونانی زبان سے عربی زبان میں ابوالوالد تھا جس کا نام عرب اور یور میں مشہور ہے۔ بطلیموس کی مجسطی کا عربی میں ترجمہ ہونا کیسا بڑ ا ثبوت ہے اس مدعا کا۔ اہل فرنگ جن کی نسبت تمام بڑائیاں میں نے اس زمانہ کی منسوب کی ہیں جب شائستگی اور ملکی فخر حاصل کرنے پر متوجہ ہوئے تو انہوںنے بھی یہی کیا جو اوروںنے کیا تھا۔ گیارھیوں صدی میں گروہ کے گروہ فرنگستان کے طالب علموں کے اسپین میں گئے اور عربی زبان سیکھ کر ارسطو اور یونانی حکمیوں کی کتابیں جو عربی زبان میں ترجمہ ہو چکی تھیں اپنی زبان میں ترجمہ کیں ۔ سب سے اول جس نے یہ کام کیا پادری کانسٹنٹن تھا۔ اسی طرح ڈانیل مورلی اور رابرٹ ایٹن اور ہنری اول کے عہد کے پادری ایڈری لارڑ اور لوگ عربی زبان سے اپنی زبان میں ترجمہ کرنے پر مستعد ہوئے۔ اور اسی طرح آج تک برابر مستعد چلے جاتے ہیں۔ روس میں جب لوگ ترقی تربیت پر متوجہ ہوئے تو سب سے اول بادشاہ پیٹر دی گریت نے جس طرف توجہ دی وہ یہ بات تھی کہ اجنبی مصنفوں کی عمدہ تصنیفات کے ترجمے اپنی زبان مٰیں کر کر چھپوانے ۔ اس بادشا ہ کو علم کی اشاعت میں جو دقتیں پیش آئیں نہایت استقلال سے ان پر ظفریاب ہوا۔ اس بلند اور مستقل ارادے کے پورا کرنے میں کہ وہ صرف اپنے ہی نہیں بلکہ غیروں کے علوم بھی اپنی زبان میں منتقل کرے۔ اس کو قدم قدم پر دشواریاں پیش آئیں۔ مگر اس کا مستقل ارادہ ان سب پر غالب آیا۔ اور اسی بات سے پیٹر اعظم کے لقب پانے کا سزاوار ہوا۔ اورت ا س کی محنت کے وہ نتیجے جو اپنی زبان میں علم پھیلانے کے تھے اب تک موجود ہیں۔ اور ہمیشہ موجود رہیں گے اگر پیٹر اعظم کا ان بہت سے بادشاہوں سیجن کے بڑے برے کاموں کا روئے زمین پر غلغلہ ہے مقابلہ کیاجاوے تو معلوم ہو گا کہ ان سب سے اس کا نام بلند ہے۔ سکندر کے ہاتھ جوں ہی عصائے شاہی گرا اس کی ایسی عظیم الشان سلطنت ٹکڑے ٹکڑے ہوگئی۔ شارلی اور بونا پارٹ کا بھی یہی حال ہوا ان سب نے بہت سی چیزوں کا ملایا مگر کچھ قائم نہ کیا۔ شہر اسکندریہ مقدونیہ کے بادشاہ کو اور مجموعہ قوانین فرانس کے فتح مند نپولین کو یاد دلانا ہے۔ جو درخت روسی فتح مند پیٹر اعظم نے بویا وہ اب تک قائم ہے اور ہمیشہ روز بروز تروتازہ ہوتا رہے گا وہ درخت عل کا درخت تھا جس کو اس نے اپنی ملکی زبان کی آبیاری سے سرسبز و شاداب کیا تھا۔ بہت سے بادشاہوں نے اپنی سلطنت کا تکیہ تلوار پر کیا مگر پیٹر اعظم نے اپنی سلطنت کی بنیاد عوامی شائستگی پر قائم کی۔ اس نے اپنی ملکی زبان کی تہجی کو درست کیا حرفوں کی شکلوں کو سنوارا دارالخلافت روس میں چھاپے خانے مقرر کیے ۔ انواع و اقسام علوم کی کتابوں کو اجنبی قوموں کی زبان سے اپنی زبان میں ترجمہ کر کر چھاپا ۔ رفتہ رفتہ یہ نوبت پہنچی کہ ۱۸۱۳ء تک تیرہ ہزار دو سو پچاس کتابیں رو س کی ملکی زبان میں شمار کی گئیں۔ یہ مضمون جس پر ہم گفت گو کر رہے ہیں ایک ایسا مضمون ہے کہ اس پر بہت کچھ کہا جا سکتا ہے۔ اور ترقی تربیت اور ملکی فخر و امتیاز کو بہت سے اقسام علمی و عملی پر منقسم کر کر ہر ایک شاخ پر بہت لمبی لمبی بحث کی جا سکتی ہے۔ مگر ان سب کی انتہا یا ان سب کا شروع اسی ایک بات یعنی عام ترقی علم پر ہوتاہے۔ پس حقیقت میں یہی ایک بات ہے جس پر ترقی تربیت اہل ہند اور ملکی فخر و عزت حاصل ہونے کا مدار ہے۔ ان تمام حالات سے جو میںنے بیان کیے ہیں بہ خوبی ثابت ہوتا ہے کہ جو قوم تربیت و شائستگی میں ترقی پائی ہوئی تھی اس قوم کے تمام علوم کو اپنی زبان میں کر لیا۔ پس صاف اور مستحکم تدبیر ہندوستان میں ترقی تربیت و شائستگی کی جو ہزاروں برس کے اوربہت سے ملکوں کے تجربے کے بعد ہاتھ آئی ہے یہی ہے کہ وہ بھی تمام علوم و فنون کو جو اجنبی قوموں کے پاس ہیں اپنی زبان میں جمع کر نے کی ہمت کریں اور بہت لوگ سب سے اول اسی تدبیر کے درپے ہوکر محنت اورروپیہ سے اورہر قسم کی مدد سے اس امر اہم کے انجام پہنچانے کی کوشش کریں۔ کلب اور سوسائٹیاں اور انسٹیٹیوٹ یورپ کے دیکھا دیکھی جس قدر ہندوستان میںقائم ہوتی جاتی ہیں اگرچہ مفید ہیں اور کچھ نہ کچھ فائدے سے خالی نہیں۔ مگر سب کی جڑ یہی ہے کہ سب سے پہلے علم کے خزانوں کو اپنے قابو میں کرو۔ اورپھر اس کا لطف اٹھائو اگر وہ چیز تمہایر پاس نہ ہو گی جس سے تم کسی مجلس میں کھڑے ہو کر گفت گو کرنے کی قابلیت حاصل کر سکو تو صرف مجمع ہونے سے اور کسی کی کوئی ٹوٹی پھوتی بات سننے سے کوئی کافی معتدبہ نتیجہ نہیں حاصل ہو سکتا۔ علوم کا اہل ہند کے قابو میں نہ ہونے کا ایک بڑا ظاہری نتیجہ یہ ہے کہ مجھ سے جاہل آدمی کو یہ جرات ہوئی ہے کہ کچھ کہوں۔ اگر تمام علوم ہماری زبان میںہوتے تو ہبت زیادہ لائق اور قابل آدمی کو بھی اہل ہند کے سامنے ایسے کام پر کھڑا ہونے کی جرات نہ ہوتی کہ بغیر اس کے کہ علم اپنی زبان میں ہو عام تربیت اور عام شائستگی کسی ملک کی ہونی ممکن نہیں۔ میں اپنے مضمون کو بغیر ایک بات کیے ختم نہ کروں گا کہ میںنے جو ہر مقام پر اپنی زبان کے لفظ کا استعمال کیا ہے تو اپنی زبان سے میری کیا مراد ہے میں اپنی زبان سے وہ مراد لیتا ہوں جو کسی ملک میں اس طرح مستعمل ہو کہ ہر شخص اس کو سمجھتا ہو اور وہ اس میں بات چیت کرتا ہو خواہ وہ اس ملک کی اصلی زبان ہو یا نہ ہو۔ اور اسی زبان پر میں ورنیکلر کے لفط کا استعمال کرتا ہوں۔ اس مضمون سے جو میں نے آپ صاحبوں کے سامنے بیان کیا ہے میرا ارادہ بجز اس کے اور کچھ نہیں کہ جو میرے خیالات نسبت ترقی تربیت اہل ہند کے ہیں وہ آپ صاحبوں کے روبرو ظاہر کروں تاکہ جو غلطیاں اس میںہوں اصلاح پاویں اور جو بات ترقی اہل ہند کے لیے مفید ہو وہ سب کی غور اور اصلاح میں آ وے اور جو عمدہ قرار پاوے ہم سب اس کی پیروی کریں اور خدا ہمارے ساتھ ہو ۔ آمین۔ ٭٭٭ ہومیا پیتھی طریقہ علاج اور اس کے فوائد (۱۷ دسمبر ۱۸۶۷ئ) ہماری اس زندگی میں کوئی چیز ہم کو بیماریوں کے علاج کی طرف متوجہ ہونے سے زیادہ مفید نہیں معلوم ہوتی اگلے وقتوں کے بڑے بڑے عالم اس بات کے تصفیہ کرنے میں ہمیشہ متردد رہے ہیں کہ ’’علم الادیان‘‘ اور ’’علم الابدان‘‘ ان دونوں میں کون سا مقدم و مرجع ہے۔ خیر ان میں سے کوئی مرجع ہو مگر کوئی شخص ا س سے انکار نہیں کر سکتا کہ بیماریوں کا علاج ایک ایسی چیز ہے کہ ہر ایک چھوٹے بڑے امیر غریب کو الکہ ہر یاک جان دار کو اس کی ضرورت ہے۔ علم الابدان یعنی انسان کے بدن کی بیماریوں کا علم کچھ کھیل یا ہنسی کی بات نہیںہے کہ ہم نہایت بے توجہی سے اس کو کام میںلاویں‘ کیوں کہ کوئی علم ہماری اس زندگی میں اس سے زیادہ توجہ کا مستحق نہیں ہے۔ ہم دنیا کی تمام چیزوں میںدیکھتے ہیں کہ روز بروز ترقی پائی جاتی ہے۔ جن چیزوں کی ہمارے بزرگوں کو بھی خبر نہ تھی وہ یکایک ہمارے ہاتھ آ گئیں اور ہمارے لیے مفید ثابت ہوئیں ۔ بعض چیزوں کا شروع ہمارے بزرگوںنے کیا یا ان سے تھوڑی واقفیت حاصل کی اورہم نے اس کو روز بروز ترقی دینے سے ایسا عمدہ اور خوب صورت بنا لیا کہ لوگ غلطی سے اس کو ایک نئی چیز سمجھنے لگے حالانکہ اس کی اصل نئی نہیں ہے۔ ہومیا پیتھی بھی اسی قسم کی چیز ہے جس کو لوگ غلطی سے نیا علاج خیال کرتے ہیں حالانکہ اس کی جڑ بہت پرانے وقتوں سے چلی آتی ہے۔ ہنمین نے صرف اس کو پانی دے کر تروتاز ہ کیاہے۔ اگر ہم فرض کریں کہ ہومیا پیتھی ایک نیا علاج کا ہے تو کیا ہم اس بات سے انکار کر سکتے ہیں ہ دنیا میں بہت سی ایسی چیزیں نئی نکلی ہیں جو ہمارے لیے نہایت مفید ہیں اور ان نئی چیزوں سے پرانی چیزوں کی غلطی ثابت ہوتی ہے یا وہ نئی چیزیں بہ نسبت پرانی چیزوں کے نہایت آسان اور بہت زیادہ مفیدمعلوم ہوتی ہیں۔ اکثر آدمی اس قسم کے ہوتے ہیں کہ اپنے پرانے طریقوں پر مضبوطی سے قائم رہتے ہیں مگر ان کو غور کرنا چاہیے ہکہ یہ معاملہ ایسا نہیں ہے کہ ہم ملہم پیغمبروںیا دیوتائوں نے دیا ہو۔ انسان کی رائیں اگرچہ اس وجہ سے کہ ہمارے بزرگ تھے‘ معزز ہوں مگر درحقیقت ریت کی بنیاد ہے اورہمیشہ زیادہ تر تحقیقات اور توجہ کے لائق ہے تاکہ نیچر یعنی فوائد قدرت سے اس کی بخوبی آزمائش کی جاوے۔ اگرچہ ہومیا پیتھی اب ایسی حالت میں نہیں رہی کہ اس کی مخالفت سے کوئی شخص اس کے مفید ہونے کو منا سکے۔ بڑے بڑے عالموں اور ڈاکٹروں نے اس کی سچائی اور عمدگی کا اقرار کیا ہے۔ اس کی ترقی روز بروز امریکہ ‘ انگلینڈ ‘ ائر لینڈ‘ فرانس آسٹریا میں ایسی ہوتی جاتی ہے جیسے کہ سورج کے ابھرنے کے وقت دن کو۔ مگر اے میرے ہم وطن بھائیو! میں خاص تم کو مخاطب کر کر کہتا ہوں کہ یہ مقولہ نہایت سچا ہے کہ دوائوں کی آزمائش کرو ا س میں انسان کی بھلائی مقصود ہے۔ پس اگر تم کو اس میں شک ہے تو آزمائش کرو۔ اگر مقصد حاصل ہواتو ایک بہت بڑی نعمت ہے۔ جو لوگ کہ پرانی چیزوں کے ایسے پابند ہیں کہ نئی چیز کو دیکھنا نہیں چاہتے وہ اپنی غلطی سے سمجھتے ہیں کہ جو چیز ہم نے دریافت کر لی ہے۔ پس وہی انتہا ہے اور ا س کے بعد اور کچھ نہیں۔ اس سمجھ کی غلطی ایسی علانیہ ہے جس کے بیان کی حاجت نہیں اورخود زمانہ جس میں روز بروز نئی نئی اور عمدہ عمدہ معلوماتیںہر ایک شاخ علم میں ہوتی جاتی ہیں اس سمجھ کی غلطی کو ثابت کرتا جاتا ہے۔ اے میرے دوستو! ہر ایک چیز کو بے تعصبی سے دیکھو اور جس کو عمدہ پائو اختیار کرو۔ خواہ وہ ایلو پیتھی ہو خواہ ہومیا پیتھی خواہ اورکچھ نیچر ینی قاعدہ قدرت اسی بات کی ہم کو ہدایت کرتا ہے۔ اس با ت کے بنانے سے پہلے کہ ہومیا پیتھی کے اصول کب سے تسلیم ہوتے چلے آئے ہیں۔ اگلے زمانے کے یونانی حکیموں نے جن کی حکمت یورپ اور ایشاء میں پہلی بیماریوں کے علاج کا قاعدہ مرض کے مخالف دوا دینے سے تجویز کیا ہے جس کو وہ علاج بالضد کہتے تھے۔ یہی ٹھیک معنی الیو پیتھی کے ہیں جو دو یونانی لفظوں سے مرکب ہے۔ جس کے معنی علاج بالمثل یا علاج بالشبہ کے ہیں۔ مگر تمام ایلو پیتھی اپنے اس اصول ر قائم نہیں ہے ۔ یعنی انہوںنے بہت سی ایسی دوائوں کو پایا جو برخلاف اس کے اس اصول کے بہت مرضوں کو مفید تھیں۔مسلمان حکیموں نے جو یونانی قاعدہ کے پابند تھے اس پر محض خیالی اور منطقی تقریریںکرنی شروع کیں مگر طب ایک عملی چیز ہے کہ منطقی تقریریں اس کی مددگار ہو سکیں۔ یہ تو ایک نیچر یعنی قدرت کی بات ہے‘ اس کا ثبوت بھی نیچر یعنی قاعدہ قدرت ہونا چاہیے۔ یورپ کے ڈاکٹروں نے کہ وہ بھی الو پیتھی اور اسی یونانی قاعدہ کے پیرو تھے اس کے تمام بکھیڑے کو کہ مرض کا علاج برخلاف دوا سے کیاجاوے یا نہیں‘ چھوڑ دیا اور انہوںنے صرف تجربہ کو اختیار کیا اور جس مرض کے لیے جو دوا مفید پائی اس کو اختیار کیا۔ اگر تمام الوپیتھی ڈاکٹروں سے پوچھا جاوے کہ فلاں دوا مرض کو کیوں مفید ہے یا مثلاً کونین بخار کو اور خصوصی صفراوی بخار کو کیوں مفید ہے تو وہ بجز اس کے اور کچھ جواب نہیں دے سکیں گے کہ فلاںسنہ میںفلاں نامی ڈاکٹروں نے اس کا تجربہ کیا ارو اب تک تجربہ کرتے آئے ہیں۔ اور مفید پاتے ہیں اس سے کچھ غرض نہیں کہ مرض کے مثل ہے یا ضد ہیاسی طرح ایشیا کی یونانی طب کے طبیبوں سے اگر پوچھو کہ فلاں دوا کا فلاں مرض کے لیے با وجودے کہ تمہارے قاعدہ کلیہ علاج بالضد کے برخلاف ہے کیوں استعما ل کرتے ہو تو اس کا جواب دیتے ہیں کہ وہ دوا اس مرض کو بالخاصیت یعنی نیچر کے قاعدہ پر منحصر رہا۔ اگر ہم بہت سی دوائیں ایسی تلاش کریں جو بالخاصیت یعنی بموجب نیچر قاعدہ کے امراج کو مفید ہوں تو بلاشبہ ہم نے نہایت عمدہ اور بہت بڑا مقصد اس زندگی کا حاصل کیا ہے۔ اس بیان سے ثابت ہوتاہے کہ جس زمانے میں ایلو پیتھی کو وجود ہوا اسی زمانہ میں ہومیا پیتھی کے اصولوں کا بھی وجو د تھا۔ نہیں نہیں۔ میں نے غلط کہا۔ جب کہ ہومیا پیتھی کے اصول نیچر یعنی قواعد قدرت پر مبنی ہیں تو جب سے نیچر تھا جب سے ہومیا پیتھی کے بھی اصول تھے۔پھر مجھ کو یوں کہنا چاہیے کہ جب سے الوپیتھی کا وجود تھا۔ اسی وقت سے ہومیا پیتھی کے اصول بھی لوگوں کے معلوم تھے اور متعدد بیماریوں کے علاج میںمروج تھے ۔ ہومیا پیتھی کئی نئی بات نہیں سنسکرت کے ایک قصیدہ میں جو سنگار تلک کہلاتا ہے اور جس کا مصنف کالی داس ہے جو راجہ بکرما جیت والی اوجین کے مصاحبوں میں سے تھا اور جو راجہ چھپن برس پیشتر سنہ عیسوی کے مسدن نشین ہوا تھا اس قصیدہ کے ایک شعر میں اس کا مصنف ہومیا پیتھی کے اصول تمثیلاً اس مقولہ میں بیان کرتا ہے کہ ’’پرانے زمانہ کی بات اس دنیا میں یوں سنی گئی ہے کہ زہر خود زہر ک لیے علاج ہے۔ اس سے یہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ پرانے زمانے میں بھی ہومیا پیتھی کے اصول لوگوں کو معلوم تھے۔ مسلمانوں کی تو بعض مذہبی روائتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر زہر میں اس کا علاج ہے۔ ہپوکرئس کہتا ہے کہ جس قسم کی چیزوں سے بیماری پیدا ہوتی ہے۔ جب اسی قسم کی چیزیں بیمار کو دی جاتی ہی تو وہی چیزیں ان بیماریوں کا علاج ہو جاتی ہیں۔ یہ بات ہر کوئی جانت اہے کہ بعض دفعہ ادویہ سہلہ قبض کر دیتی ہیں اور بعض دفعہ قابض دفعہ ادویہ کر دیتی ہیں عربی زبان کی کتب طبیہ میں شاھد ہیں کہ بہت زمانہ گزر ا کہ جب یونانی یعنی الوپیتھی طبیبوں پر اعتراض ہوتا تھا ک ان کا یہ قاعدہ کلیہ کے مرض کا علاج بالضد ہوتا ہے صحیح نہیں۔ کیوںکہ تام مرضوں کا علاج بالضد نہیں ہوتا بلکہ بعد مرضوں کا علاج بالمثل ہوتا ہے ۔ کچھ شبہ نہیں کہ یونانی الوپیتھی حکیم ہومیا پیتھی کے اصول کو صحیح او ر سچا جانتے تھے۔ اس لیے کہ وہ لوگ اقسام ادویہ کے بیان میں ایک قسم کی دوائوں کا ذکر کرتے ہیں جن کے نام وہ لوگ دوائے ذوالخاصیت رکھتے ہیں ور بیان کرتے ہیں کہ وہ دوا ایسی ہوتی ہے کہ وہ انسان کے بدن میں ایک ایسی طرح پر اثر کرتی ہے کہ اس کا اثر اس طر کرنا اثر کرنے کے ظاہری اور وہمی طریقوں سے دوسری طرح پر ہوتا ہے بلکہ ان کی تاثیر ایک نہایت لطیف اور دقیق اور مخفی مناسبت کے سبب سے ہوتی ہے جس طرح کہ مقناطیس اورکہربا کی مناسب لوہے اور گھاس کے جذب کرنے میں ہے۔ یہی اصول ٹھیک ٹھیک ہومیا پیتھی کے ہیں کیوںکہ جن دوائوں کا جن مرضوں کے لیے وہ لوگ استعمال کرتے ہیں وہ اسی لطیف اوردقیق مخفی مناسبت سے جو نیچر نے اس دوا اور مرض میں رکھی ہے اپنا اثر کرتی ہے۔ ڈاکٹر ہنیمن نے ان اصولوں کو ایجاد نہیں کیا بلکہ دریافت کیا ہے ۔ اول اول یہ اصول یورپ کے ایک طبی اخبار ۱۷۸۶ء میں مشتہر ہوئے اور ان کو ہزاروں عالموں اور معالجوں نے اختیار کیا جن مں سے بعض یونیورسٹی میں پروفیسر تھے۔ اور جب سے روز بروز اس کی ترقی ہوتی جاتی ہے البتہ لوگوں نے ہومیاپیتھی کے اصول کے سمجھنے میں جس کے معنی علاج بالمثل یا علاج بالشبہ کے ہیں غلطی کی ہے۔ بعضے لوگ اپنی غلطی سے اس کا اصول اس طرح بیان کرتے ہیں کہ ’’جس چیز سے جو بیماری پیدا ہوتی ہے وہی چیز اس کا علاج ہے‘‘ بعضے لوگ اور زیادہ غلطی میںپڑتے ہیںکہ اور اس کا اصول اس طرح پر بیا ن کرتے ہیں کہ ’’ایک دوا یا زہر جو بیماری پیدا کرے گا وہی اس کو اچھا کرے گا‘‘ مگر یہ غلطی ہے۔ ہومیا پیتھی کے یہ اصول نہیں ہیں۔ بلکہ اس کا اصول یہ ہے کہ جس چیز سے یہ بیماری پید اہوتی ہے مثل اس کے یا مشابہ اس کے جو چیز ہے وہ ا س کو اچھا کرتی ہے جو چیز کہ کسی چیز کے مثل یا مشابہ ہے اس کو وہی چیز نہیں کہہ سکتے۔ مگر لفظ مثل یا مشابہ کے معنی بھی بموجب اصول ہومیوپیتھی کے سمجھنے لازم ہیں۔ گرم بیماری کے مشابہ گرم دوا یا سرد بیماری کے مشابہ سرد دوا نہیں ہے۔ جیسا کہ بیدک کے علاج کرنے والوںنے سمجھا تھا۔ بلکہ اصول ہومیا پیتھی کے بموجب مشابہ دوا وہ ہے کہ اگر حالت صحت میں وہ دوا دی جائے تو انسان کے بدن میں اسی قسم کے آثار پیدا ہوں جیسے کہ اس بیماری کے ہیں۔ اور اگر شبہ نہیں ہے کہ جب وہ دوا اس قسم کی بیماری میں دی جاوے گی۔ نیچر یعنی قواعد قدرت کی رو سے اس بیماری کو فی الفور اچھا کر دے گی۔ گویا نیچر یعنی حکمت حکیم مطلق نے ہم کو یہ نشان بتا رکھا ہے کہ جو دوا حالت صحت میں جس بیماری کے آثار پیدا کرنے والی ہے وہی دوا حالت مرض میں اس کاعلاج ہے پس ہومیا پیتھی کسی آدمی کا بنایا ہوا علاج نہیں ہے بلکہ نیچر یعنی قدرت کا بنایا ہوا ہے۔ اس بات کو اور زیادہ روشن لفظوںمیں بیان کروں۔ فرض کرو۔ کہ حالت صحت یعنی جب کہ حبس البول نہیں ہے کوئی ایسی چیز کھائی جاوے جس سے یہ عارضہ پیدا ہو جاوے تو یہی چیز اگر اس وقت استعمال کی جاوے جب کہ حبس البول کی بیماری سے کوئی بیمار پڑے تو اسی دوا کے استعمال سے وہ بیمار ی اچھی ہو جاوے گی۔ ہر کوئی جانتا ہے کہ اسپینی (ہ ایک قسم کی مکھی ہے) مکھی کی یہ تاثیر ہے کہ اگر اس کا لیپ کیا جاوے تو مثانہ کو بہت نقصان پہنچاتا ہے اور حبس البول اور تکلیف دہ بیماریاں جو مثانہ سے علاقہ رکھتی ہیں میں پیدا کرتا ہے۔ مگر جب حبس البول کی بیماری کسی اور طرح پر پیدا ہو گئی ہو تو اس کو کھو دیتی ہے‘ بلا ڈونا جب حالت صحت میںکھایا جاوے تو نفث الدم اور قروح المری اور بخار اور در د سر پیدا کرتاہے اوریہ سب علامتیں حیٰ دموی کو دور کرتی ہے۔ مگر یاد رکھنا چاہیے کہ بلا ڈونا حمیٰ دموی کو پیدا نہیں کرتا اورنہ اسکے کھانے سے اسی قسم کے آثار پیدا کرتا ہے جو حمیٰ دموی میں ہوتے ہیں جس دوا کو ہر کوئی جانتا ہے ہو کونین ہے۔ اگر حالت صحت میں اس کا استعمال کیاجاوے وہ بخار پیدا کرتی ہے اور اگر بیماری کی حالت میں استعمال کیاجاوے تو بخار بالکل کھو دیتی ہے اسی طرح پر اور بہت سی مثالیں ہیں۔ اکہ اگر ان و بیان کیا جاوے تو بہت طول ہے اور آپ لوگوں کو تکلیف ہو گی۔ غرض کہ تمام علاج ہومیا پیتھی کے اسی اصول قدرت پر منبی ہیں۔ البتہ یہ بات کرنی کہ جو دوا حالت صحت میں استعمال کرنے سے جس قسم کی بیماری یا آثار پیدا کر تی ہے۔ اسی قسم کی بیماری کی حالت میں جو دوسرے سبب سے ہوئی ہو اس کا استعمال کرنے سے وہ بیماری کیوں اچھی ہو جاتی ہے نہایت مشکل ہے۔ اس سوال کا جواب الو پیتھی ڈاکٹر بھی بغیر تجربہ کے اور کچھ نہیں دے سکتے کہ مسلمان یونانی حکتم کے پیرو حکم بھی جب کہ وہ کسی دوا کو ذوالخاصیۃ تسلیم کرتے ہیں کچھ بھی جواب نہیں دے سکتے مگراس کا سبب نہ معلوم ہونے سے ہومیا پیتھی کے اصول میں کچھ نقصان لازم نہیںآتا۔ کوئی بتا سکتا ہے کہ بجلی کی ایسی قوی اور تیز تاثیر ایک ادنیٰ سے تغیر و تبدل میں کیوں ظاہر ہو جاتی ہے کوئی اس کی وجہ بتا سکتا ہے۔ کہ جن چیزوں سے بجلی پیدا ہوتی ہے۔ وہی چیزیںکیوں بجلی کو روک لیتی ہیں۔ مقناطیس لوہے کو کھینچتا ہے اور کس قطب نما کی سوئی قطب کی طرف رہتی ہے۔ چیچک کے لیے اس چیچک کا ٹیکا لگانے کے بعد کیوں چیچک نہیں نکلتی ہے۔ غرض کہ ہم جس چیز کو ہم اپنی آنکھ سے دیکھتے ہیں اور اس کا تجربہ کرتے ہیں ۔ اس کی وجہ سے نہ معلوم ہونے سے وہ چیز تحت نفسی میں داخل نہیں ہو کتی۔ پس تجربہ اور فائدہ اور بیماریوں کا اس طریقہ سے علاج سے اچھا ہونا یہی اس کی سچائی کا ثبوت اورتمام لوگوں کا جو اس کے برخلاف غل مچاتے ہیں خاموش کرنے والاہے یا باایں ہمہ کسی قدر بہ قدر طاقت انسانی اس کی وجہ بھی بیان ہو سکتی ہے۔ چنانچہ میں ابھی اس کی وجہ بیان کروں گا جب کہ ہومیا پیتھی کی دوائوں کی مقدار یعنی قدر شربت کا ذکر کروں گا۔ ہومیا پیتھی کے اصول میں دوا کا مقدار شربت داخل نہیں ہے۔ اس کا اصول صرف مشابہ کا مشابہ سے علاج ہے۔ اس مسئلے میں کچھ مقدار شربت کا ذکر نہیں ہے خاصیت اور اثر اس قسم ک اقل قلیل مقداروں کا ایک ایک جداگانہ بات ہے مقدار شربت کا قرار دینا ان لوگوں کی دانائی پر منحصر ہے جو ان دوائوں کا استعمال کرتے ہیں ان کو معلوم ہوتا ہے کہ وہ مقداریں کسی وجہ سے کامل اور بخوبی کافی ہیں لیکن کوئی آدمی اس کا پابند نہیں کہ جب تک ازروئے تجربہ کے یہ اطمینان نہ ہو جائے کہ یہ مقداریں بالکل بے خطرہ اورنہایت عمدہ صورت دو ا دینے کی ہے ان کا استعمال کرے مگر اقل قلیل دوا دی جاتی ہے اور اس سے بہ خوبی کامیابی ہوتی ہے پھر کیا ضرورت ہے کہ زیادہ مقدار کی دوا دی جاوے۔ ہومیاپیتھی تو اقل قلیل دوا دینے کی بجز تجربہ کے اور کوئی وجہ نہیں بیان کرتے اور مقدار دوا ایک علیحدہ بات اصول ہومیا پیتھی سے قرار دیتے ہیں اور اس بات کو علیحدہ قرار دینا بالکل درست ہے مگر جوخاصیتیں دوائوں کی یونانی الوپیتھی حکیموں نے بیان کی ہیں اور جن کو مسلمان طبیبوںنے اپنی کتابوںمیں نقل کیا ہے اس سے بھی بعضی قسم کی اقل قلیل دوائوں کا موثر ہونا ثابت ہے اس لیے کہ انہوںنے اقسام ادویہ میں دو قسم کی دوائوںکا زکر کیا ہے جن میں سے ایک کا نام دوائے مطلق اوردوسری کانام دوائے غذائی رکھا ہے۔ دوائے مطلق اس کو کہتے ہیں کہ جو بغیر اس کے جزو بدن بنے صرف اپنی کیفیت سے اثر کرے۔ اور دوائے غذا وہ ہے جو جزو بدن بن کر اپنی کفیت سے اثر ظاہر کرے ۔ چنانچہ زہر مطلق اور فاد زہر کو اسی قسم کی ادویہ میں شمار کیا جاتا ہے۔ جو صرف اپنی کیفیت سے اثر کرتی ہیں اور اس کی نسبت لکھا ہے کہ بہت تھوڑا ہونے کے از قسم دوائے مطلق ہیں۔ اور اسی سبب سے وہ اپنی کیفیت سے اثر کرتی ہیں اوراقل قلیل اس کا بھی نہایت کام یابی سے موثر ہوتا ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ ہومیا پیتھی کے قاعدے پر علاج کرنے والے یہ کہتے ہیں کہ جس مرض کے لیے جو دو ا دی گئی ہے اگر اس کو فائدہ نہ کرے گا تو نقصان بھی نہ کرے گی اور ااس با ت سے لوگ متعجب ہوتے ہیں ۔ مگر یہ بات متعجب ہونے کی نہیںہے اگرچہ اس بات کی وجہ مشابہ دوا سے مرض کیوں جاتا رہتا ہے بجز اس بات کے کہ نیچر نے ان میں ایسی ہی مخفی مناسبت رکھی ہے اور کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ چنانچہ تمام الوپیتھی بھی بہت سی دوائوں کی نسبت ایسا ہی کہتے ہیں۔ چنانچہ اس کا اوپر بیان ہوچکا مگر مشابہ کا مشابہ سے علاج کرنے اور اقل قلیل دوا کے موثر ہونے کی وجہ یہی معلوم ہوتی ہے ہ مرض جو اپنی تیزی سے بدن میں پھیلا ہوا ہوتا ہے جب کہ اسی کے اثر کے مشابہ دوا پہنچتی ہے تو یہ بہ سبب اس قدرتی مناسبت کے جو دونو ں میں ہے فی الفور مرض اس دوا میں الٹا پھر آتا ہے اوردوا اس کو روک لیتی ہے۔ اور آثار بیماری کے فی الفور زائل ہو جاتے ہیں۔ اس بات کی حقیقت وہ لوگ بہ خوبی سمجھ سکتے ہیں جو فن کیمیا کے بہ خوبی واقف ہوں۔ مگر میںایک مثال دیتا ہوں شاید اس سے کسی قدر یہ نکتہ حل ہو۔ فن کیمیا سے دریافت کیا گیا ہے کہ ہوا دو قسم کی ہوائوں سے مرکب ہے: ایک آکسیجن دوسری ہائیڈروجن مگر ہمیشہ ایک حصہ آکسیجن میں آٹھ حصے ہائیڈروجن ملی رہتی ہے ہم ان دونوں ہوائوں کو الگ الگ بنا سکتے ہیں۔ مگر جب آکسیجن کو ہم شیشہ یا نلی میں سے باہر نکال دیں تو فی الفور آٹھ حصہ ہائیڈروجن کو اپنے ساتھ ملا لے گی۔ پس ان دونوںمیں کسی قدر قدرتی مناسبت ہے کہ اپنے دوست کو فی الفور اپنے پاس کھینچ لیتی ہے پس اسی قسم کی مناسبت مشابہ کا مشابہ سے علاج میں ہے کہ فی الفور مشابہ کو اپنے میں کھینچ لیتا ہے۔ اب فرض کرو کہ مرض کی تشخیص میں غلطی ہوئی اور جو دوا دی گئی تھی۔ وہ مرض کے مشابہ تھی تو وہ مرض کو تو فائدہ نہیں کرنے کی الا کچھ نقصان بھی نہیں کرنے کی۔ اس لیے وہ ایسی اقل قلیل تھی کہ وہ اپنے مشابہ پر تو بہ سبب اصول نیچر کے اثر کر سکتی تھی الا دوسرے پر بہ سبب نہایت اور بے حد قلیل ہونے کی کچھ بھی موثر نہ ہو گی۔ یہی سبب ہے کہ ہومیا پیتھی کی دوا اگر فائدہ نہ کرے گی تو وہ نقصان بھی نہ کرے گا ۔ میں نے بعض لوگوں کی زبان سنا جو یہ کہتے ہیں کہ ہومیا پیتھی عمدہ صحیح مگر یہ طریقہ نیا نکلا ہے اس کا تجربہ ہوتے ہوتے مدت چاہیے۔ پھر کیا ہم اپنی جان کو تجربہ کے لیے تختہ مشق بنا دیں گے مگر ہومیا پیتھی کی ناواقفیت کے سبب ان کو دھوکا پڑا ہے۔ ہومیا پیتھی میںبیماریوں کا ان دوائوں سے علاج ہوتا ہے جو حالت صحت میں استعمال کرنے سے اسی قسم کی بیماری یا آثا ر پیدا کرتی ہے پس اس کی دوائوں کا تجربہ بیماروں پر نہیںہوتا بلکہ صحیح تندرستوں پر ہوتا ہے۔ البتہ الوپیتھی کی دوا کا تجربہ بیمار پر کیا جاتا ہے۔ جس میں اس کی جان خطرے میں پڑتی ہے ڈاکٹر ہنیمن نے اور اس کے شاگردوں نے اپنے پر دوائوں کا تجربہ کیا اور انکی خاصیت دریافت کی تب اپنے مریضوں کا علاج کیا۔ اب کسی بیمار سے پوچھو کہ طبیب کا اپنے پر دوا کا تجربہ کر لینا بہتر ہے یابیمار پر۔ اب بتائو کہ بیماراس کا کیا جواب دے گا۔ اور کون سی بات کو پسند کرے گا۔ بنارس میں ہومیوپیتھک علاج سے دوتین برس سے جاری ہے اور میں دیکھتا ہوں کہ اکثر لوگ اس کے مفید ہونے کے قائل ہیں مگر بعض کہتے ہیں کہ امراض تیز اور سخت اور دیرپا ہیں بکار آمد نہ ہو گا مگر یہ خیال ان کا بالکل غلط ہے۔ ڈاکٹر ہنیمن نے جب اول اس کو دریافت کرکر ظاہر کیا تو وہ صرف دیر پا بیماریوں کا ہی اس سے علاج کرتا رہا۔ ارو اب بھی یہ خیال بہت عام ہو رہا ہے کہ یہ علاج دیرپا بیماریوں پر ہی موچر ہو سکتا ہے۔ مگر تیز بیماریوں میں سے جن میں سے فوراً نقصان کا احتمال ہے کیا کرنا چاہیے۔ ان میںہومیا پیتھی پر کیوں کر بھروسہ ہو سکتا ہے اس کاجواب بہت تجربے سے اور ہیضہ اوراور تیز بیماریوں کے حالات کے نقشوں سے حاصل ہوتا ہے جب کہ یورپ میں ایشیائی یا ہندوستانی وبائی ہیضہ نمودار ہوا تو بہت سے الوپیتھی طبی مدرسے حیران و پریشان تھے کہ اس اجنبی بیماری کا کیا علاج کریں۔ اور ان کے انواع و اقسام کے علاج علانیہ کے اثر اور بے فائدہ ثابت ہونے لگے مگر ہومیا پیتھی کے معالجوں کو صحیح اور اصلی مفرد دوائیں معلوم ہوئیں اور ان کی کامیابی سے سب کو حیرت ہوئی ۔ ڈاکٹر سید نہم صاحب نے جو الوپیتھی کے ڈاکٹر تھے نہایت صداقت اور راست بازی سے فرمایا کہ مجھ کو معلوم ہوتا ہے کہ وبائی امراض کے آپس میں ایسا فرق ہے کہ جیسے اتر دکھن میں۔ جو دوا کہ شاید کسی مریض کو شروع سال میں مفید ہو گیا عجب کہ آخر سال میں اس کی ہلاکت کا باعث ہو۔ پھر جب کبھی خوش قسمتی سے کسی کے بخار کا صحیح علاج مجھ کو معلوم ہو جاتاہے تو میں اکثر اسی علاج کے ذریعے کامیاب ہوتا ہوں اوریہ صورت اس وقت تک قائم رہتی ہے جب تک اس قسم کی وبائی بیماری موقو ف ہوتی ہے اور جب دوسری شروع ہو جاتی ہے تو پھر مجھ کو دقت پیش آتی ہے کہ اب اس کا علاج کیوں کر کیا جاوے بالآخر میں ایک دومریضوں کی زندگی جو پہلے میرے پاس آنے میں خطرے میں ڈالے بغیر نہیں رہ سکتا۔ مگر یہ دقت ہومیا پیتھی میں واقع نہیںہوتی۔ غرض کہ ہومیا پیتھی کا سخت اور تیز اور دیرپا سب قسم کی بیماریوں میں بہ خوبی تجربہ اور امتحان ہو چکا ہے۔ اگرچہ اس وقت میں آپ صاحبوں کے وقت کو بہت مصروف کیا مگر ہومیوپیتھک علاج کے نتیجے میں جو اب تک معلوم ہوئے ہیں سنائے بغیر نہیں رہ سکتا۔ ۱۸۳۶ء میں ایشیائی یا ہندوستان ہیضہ شہر وائنامیں گیا وہاں الو پیتھی متعدد شفاخانے تھے اور ایک ہومیوپیتھی کا شفاخانہ تھا نتیجہ یہ ہوا کہ الو پیتھی شفاخانوں میں فی صدی چوبیس آدمی اچھے ہوء اور چھیاسٹھ مرے اور ہومیا پیتھی کے شفاخانہ میں فیصدی سڑسٹھ آدمی اچھے ہوئے اور تینتیس مرے۔ ۱۸۴۹ء میں بھی بیماری ایڈن برگ میںہوئی۔ الوپیتھی شفاخانے میں آٹھ سوسترہ آدمی گئے جس میںسے پانسو چھیالیس مر گئے اور دو سو اکہتر نے صحت پائی اورہومیاپیتھی شفاخانے میں دو سو چھتیس آدمی گئے جن میںسے ایک سو اناسی نے شفا پائی کل ستاون مرے۔ ۱۸۶۶ء میں جب یورپ میں ہیضہ پھیلا اورلندن میں اوریورپ کے ایلوپیتھی شفاخانوں ممین جن سے مریضوںکا علاج ہوا ان میں سے حسب بیان لانسٹ صاحب کی فی صدی ساٹھ آدمیوں سے زیادہ مر گئے مگر نیپلز میںڈاکٹر روپنی صاحب نے ہومیوپیتھک علاج سے اور صرف کافور کے استعمال سے پانسو سے زیادہ مریضوں کا علاج کیا ان میں سے ایک بھی نہیں مرا اورلندن میں اور اور مقاموںپر بھی یہی نتیجہ حاصل ہوا۔ ڈاکٹر روتھ صاحب نے جو ایک نقشہ بیماریوں کا الوپیتھی اور ہومیوپیتھی شفاخانوں کا بنایا ہے میں آپ صاحبوں کے ملاحظہ سے گزارتا ہوں جس سے دونوں کا نتیجہ ظاہر ہو گا۔ نام بیماریوں کا فی صدی موت ہومیاپیتھی کے علاج سے فی صدی موت الوپیتھی کے علاج سے امراض اثریہ ۵ ۲۴ امراض احشاء البطن ۳ ۱۳ امراض الامعار ۴ ۱۳ پیچش ۳ ۲۲ دیگر ہر قسم کے امراض ۴ ۱۰ گزشتہ ڈاک میں ایک پمفلٹ لندن سے آیا ہے جو میری نظر سے بھی گزرا اس میں بھی شہر وائنا کے دونوں قسم کے علاجوں کے شفاخانوں کے نتیجوں کا ایک نقشہ مندرج ہے وہ بھی آپ کے ملاحظہ سے گزرانتا ہوں۔ نام امراض تعداد بیماریوں کی جن کا علاج ہوا تعداد ان کی جو مر گئے اوسط فی صدی اشخاص وفات یافتہ کی امراض اثریہ الوپیتھی ۱۱۳۴ ۲۶۰ ۳ ہومیاپیتھی ۵۳۸ ۲۸ ۵ ذات الجنب الوپیتھی ۱۰۱۷ ۱۳۴ ۱۳ ہومیاپیتھی ۳۸۶ ۱۲ ۳ امراض الامعاد الوپیتھی ۶۲۸ ۸۴ ۱۳ ہومیاپیتھی ۱۸۴ ۸ ۔ پیچش الوپیتھی ۱۶۲ ۳۷ ۲۲ ہومیا پیتھی ۱۷۵ ۶ ۳ بخار الوپیتھی ۹۶۹۷ ۹۳۱ ۹ ہومیاپیتھی ۳۰۶۲ ۸۴ ۲ بخار مہلک الوپیتھی ۳۷۱ ۱۵۰۹ ۱۶ ہومیاپیتھی ۱۴۲۳ ۲۱۹ ۱۴ پس یہ سب چیزیں ہومیاپیتھی کے مفید ہونے کا بہت بڑا ثبوت ہے۔ چند کلمے اور کہنے چاہتا ہوں ہومیاپیتھک علاج سے ایسی قوتیں جن سے حیات قائم رہتی ہے انتظام پاتی ہیں اور محفوظ رہتی ہیں ۔ یہ علاج مثل قصد اور سہل اور ایسے علاجوں کے جن سے منہ آ جاتا ہے یا پسینا بہتا ہے اورمریض کی رہی سہی طاقت پر جو بیماری کے صدمے سے خود کم ہو جاتی ہے صدمہ عظیم پہنچتا ہی نہیں ہے ہومیاپیتھک علاج صرف بذاتہ مفید ہوتا ہے۔ اس علاج کی دوا اہی اعضاء پر اثر کرتی ہے جن میں بیماری ہوتی ہے ۔ اگر بیماری دماغ میںہو تو اس علاج سے معدے میںفتور نہیں آ سکتا۔ جیسے کہ تیز مہل سے ہوتا ہے اور اگرپھیپھڑے میں حرارت پہنچے تو اس علاج سے بدن میں حرارت پیدا نہیں ہوتی۔ اس علاج کے فائدہ بخش نتائج اسی بات میں ظاہر ہوتے ہیںکہ مریض جلد اپنی اصلی تندرستی پر آ جاتاہے اور اپنے کاروبار میں مصروف ہو جاتا ہے ۔ جب خاص عارضہ جاتارہے جو بہت تھوڑے زمانے میں جاتا رہتاہے ۔ مریض بالکل تندرست ہو جاتاہے ۔ اور اس کو مدت دراز تک افاقہ کا انتظار کرنا اور مقوی چیزوںکے کھانے کی نوبت نہیں پہنچتی۔ ہومیا پیتھی کا علاج نہایت نرم اور خوش گوار علاج ہوتا ہے ۔ اگریہ نیا طریقہ ایسا ہی مفید ہو جیسے کہ پرانا طریقہ تو بھی اس وجہ سے کہ نرم و خوش گوار علاج ہے اس پر ترجیح دینے کے قابل ہے اور جب کہ پرانے طریقے سے زیادہ مفید ہو تو کس قدر صحیح ہونے کے قابل ہے ‘ حق یہ ہے کہ اب دوائوں کااثر ایسا ثابت ہوا ہے کہ اب ضرورت سخت معالجوں اور ناگوار دوائوں کے کھانے کی جو اب تک کھائی جاتی تھیں باقی نہیں رہی۔ ہومیاپیتھی کے طریقے میں مفرد دوا دی جاتی ہے یہ بھی نہایت عمدہ بات ہے جب کہ بیمار کو چند دوائیں ملا کر دی جاتی ہیں تو ایک دوا کی تاثیر اور قوت کا علم قابل اطمینان کے کیوں کر حاصل ہو سکتا ہے۔ سیڈنہم کے زمانے میں جو طب انگریزی کا موجد تھا عمدہ نسخوں میں ساٹھ ساٹھ بلکہ اسی اسی دوائیں ملائی جاتی تھیں مگر اس زمانے میں اب بہت کم دوائیں ملائی جاتی ہیں تاہم بھی مرکبات میں اگر دو دوائیں بھی مخلوط کی جائیں تو بالیقین ایک کا اثر بھی دریافت نہیں ہو سکتا۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ کچھ مختصر حال ڈاکٹر ہنیمن کا جس نے زمانہ حال میںہومیاپیتھی علاج کے اصول کو جاری کیا بیا ن کروں کیوں کہ میں خیال کرتا ہوں کہ اکثر میرے ہم وطن اس کے حال سے ناواقف ہیں۔ ڈاکٹر ہنیمن جرمنی کا رہنے والا تھا اوروہ الو پیتھی ڈاکٹری علاج کا بہت بڑا ڈاکٹر تھا۔ بہت سے لوگ اس کا علاج کیا کرتے تھے ۔ اور اسی پرانے طریقہ علاج اطباء سابقین کو ا س نے بھی پسند کیا تھا اور جس طرھ اور ڈاکٹروں سے علاج کرنے والوں کا حال تھا اسی طرح اس کے علاج کرنے والوں کا بھی حال تھا۔ کچھ اچھے ہو جاتے تھے اور کچھ مر بھی جاتے تھے بلاشبہ ڈاکٹر ہنیمن اپنے کا میں نہیایت لئیق تھا مگر اس کے دل کو ا س بات سے کہ لوگ کیوں اچھے ہو جاتے ہٰں اور کیوں مر جاتے ہیں اطمینان نہ تھا وہ جانتا تھا کہ جس سے ایک مرض کو ایک دفعہ صحت ہو تی ہے اسی سے اسی مرض کو دوسری دفعہ صحت نہیں ہوتی اس کے پاس ایسا کوئی قاعدہ موجود نہ تھا جس کو وہ اپنا رہنما بناوے بلاشبہ لوگوں کے تجربوں کا نتیجہ اسے معلوم ہو سکتا تھا۔ مگر وہ خوب جانتا تھا کہ ان کا نتیجہ صر ف آزمائش اورامتحان پر مبنی ہے انہوں نے اپنے تجربے سے دوا اور مرض کی مناسب کو کچھ بھی ثابت نہیں کیا ہے پس اس کو اس کام سے نفرت ہوئی اور اس نے اپنی بہت بڑی طبابت سے اور علاج کرنے سے ہاتھ کھینچ لیا۔ جس کے سبب سے وہ محتاج بھی ہو گیا مگر علم طب کا اسے ہمیشہ شوق رہا اور وہ ہر وقت اس بات کا متلاشی رہا کہ کوئی قانون قدرت کا اس کے ہاتھ آوے جس کو وہ اپنا کر اور رہنما بناوے۔ قانون قدرت کا ایک ایسی چیز ہے کہ جس کے وجود میں کسی کو کچھ بھی شک نہیں ہو سکتا جو کہ کونین اس وقت بھی عام استعمال میں تھی ارو بخارا ور تپ و لرزہ کے لیے اس دور کے حکمی ہونے میں کچھ شبہ نہین ہے اس نے اسی بات کے دریافت کرنے کی فکر کی کہ یہ دوا تپ و لرزہ کے لیے کسی وجہ سے ایک حکمی دوا ہے۔ چناں چہ ہنہایت صحت اورتندرستی کی حالت میں اس نے ایک روز تھوڑی سی کونین کھائی اور دوسرے دن پھر اس نے کھائی فوراً اس کو بخار کی سی علامتیں معلوم ہونے لگیں رہ رہ کر اس کو سردی لگنے لگی اور گرمی محسوس ہونے لگی اور اس کو یہ واقعہ نہایت عجیب معلوم ہوا پھر اس نے اس کو نہ کھایا۔ چند ہفتہ بعد جب کہ وہ بالکل تندرست تھا پھر اس نے اس کی آزمائش کی اورپھر وہی علامتیں بخار کی اس کو معلوم ہوئیں تب اس کا خیال صرف اس طرف گیا کہ اس نے ایک ایسا قانون معالجہ کا پایا ہے جو علم طب کے لیے نہایت مفید ہے۔ بعد اس کے ا سنے اپنے پر اور اپنے دوستوں پر اور جانوروں پر جو سب صحیح اور تندرست تھے ان دوائوں کی تاثیر کی آزمائش کی اور اس امتحان سے ان لوگوں میں دوائوں کی تاثیر کی کچھ کچھ علامتیں پیدا ہوئیں۔ پھر اس نے ان دوائوں کو ان مرضوں میں استعمال کیا جو ان دوائوں کی تاثیر کے مشابہ تھے تو اسس کو معلوم ہوا کہ وہ دوائیں ان امراض کے علاج کو مخصوص تھیں اور بالخاصیت اثر کرتی تھیں اس کو معلو م ہوا کہ دوائے مفرد بہ شرطیکہ وہ دوا ٹھیک اسی مرض کی ہو تو دوائے مفرد ہی سے علاج کرنا بہتر ہے پھر اس نے اس طریقہ علاج کو تحصیل کرنا اور زیادہ تر ا س قسم کی دوائوں کو دریافت کرنا شروع کیا اور اسی طریق پر علاج کرنا شروع کیا رفتہ رفتہ اسے معلوم ہوا کہ اس قاعدہ پر علاج کرنے وہ کچھ غلطی میں نہیں پڑا بلکہ ایک نہایت عمدہ قاعدہ اس کو رہنمائی کے لیے ہاتھ آیا ہے اور اس واقعہ کو چالیس برس گزرے کہ وہ تن تنہا تھا اور تمام ڈاکٹروں سے اپنے اصول علاج کی نسبت سے جھگڑتا تھا اورمباحثے کرتا تھا گو گروہ کے گروہ مریض اس کے پاس آتے تھے اور شفا پاتے تھے مگر لوگ اس سے حد سے زیادہ مزاحم ہوتیتھے اور ڈاکتر لوگ اوردوا بنانے والے اس کو بے انتہا تکلیف دیتے تھے یہاں تک کہ وہ لاچار ہو کر شہر سے نکل گیا اور آوارہ پڑا پھر مگر رفتہ رفتہ کیفیت اس کے معالجہ کے اصولوں کی لوگوں کو معلوم ہوئی اور وہ ایسے طریق سے مریضوں کو اچھا کرتا تھا کہ ارو اس ملائمت سے ان کا علاج کرتا تھا کہ آخرش اپنے بڑھاپے میں وہ پھر کام شروع کرنے کے لائق ہوا۔ بلکہ اس نے اپنے حین و حیات میں یہ بھی دیکھا کہ ہومیا پیتھی کی تاثیر اس کے ہم وطنوں نے تسلیم کی اور اس کے معالجہ کا اصول ہر ملک میں پھیل گیا۔ اس کے پیروئوں نے شفاخانے اور دواخانے قائم کیے اور ہر سال اس کی کام یابی ترقی پر ہے۔ ابتداً ہنیمن تھوڑی تھوڑی دوا نہیں دیتا تھا ۔ لیکن اس کا یہ قاعدہ تھا کہ ایک مرض کے لیے ایک ہی دوا دیتا تھا صرف اس نے تجربہ اور مشاقی سے دوا کی مقدار قلیل کر کے یہ تجویز کی کہ اگر تھوڑی سی دوا سے مطلب حاصل ہو جاوے تو زیادہ دوا لینے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اکثر حالتوں مین اس کو معلوم ہوا کہ مناسب دوا کے زیادہ مقدار دینے سے مرض اور زیادہ ہو جاتا ہے پس وہ تھوڑی سی اور قلیل دوائیں دیتا تھا۔ چنانچہ اسی وجہ سے ہومیا پیتھی کے معالج قلیل دوا دیتے ہیں اس کے سوا اورکوئی وجہ قلیل دوا دینے کی نہیں ہے اس قلیل مقدار دوا دینے کے سبب ہومیا پیتک علاج کی ہستی ہوتی ہے۔ حالانکہ اس اصل میں اقل قلیل دوا دینے سے ہومیا پیتھی کو کچھ سروکار نہیں ہے۔ دوائیوں کی معتاد یا قدر شربت کا مقرر کرنا صرف حکیم کے تجربے کا نتیجہ ہے۔ کوئی ضروری نہیں ہے۔اکثر زیادہ دوا دینا ضرور نہیںمعلوم ہوتا۔ اور جو دوائیں ہومیاپیتھی کی دوائیوں کی مانند تیار کی جاتی ہیں وہ موثر ہوتی ہیں تو اب اس سے زیادہ اور کیا چاہیے۔ الوپیتھی اورہومیا پیتھی ان دونوں اصولوں کے معالج ایک ہی دوائیں استعمال کرتے ہیں۔ لیکن ہومیا پیتھی والے صرف ایک وقت میں ایک ہی دوا دیتے ہیں اس کی ایک وجہ معقول بیان کر سکتے ہیں۔ ہومیاپیتھی کے معالجہ کے لیے جہاں کہیںمریض جاوے گا اس کے معالجہ میں اس کے باہم اختلاف عظیم واقع نہیں ہو گا۔ برخلاف اس کے الوپیتھی والے اکثر بہت سی دوائیں ملا کر مریض کو دے دیتے ہیں اور شاذ و ناذر کبھی مفرد دو ا دیتے ہیں اور اس کی کوئی وجہ ایسی قابل فہم نہیں بیان کر سکتے ہیں جس سے کہ کسی شخص کی سمجھ میں یہ بات آوے کہ کس واسطے وہ تین چار دوائیں مرکب بنا کر دیتے ہیں حالانکہ ہر دوا کا اثر مختلف ہوتا ہے اور اگر مریض اچھا ہو جاوے تو وہ یہ بیان نہیں کر سکتے ہیں کہ ان دوائیوں مں سے کس کس دوا کا اثر زیادہ ہوا۔ یہ امریقینی ہے کہ سب دوائیاں صحت دینے میں مددگار نہیں ہوئی ہوں گی۔ بلکہ غالباً انہوںنے واقعی دوسری علامات کے پیدا کرنے سے نقصان پہنچایا ہو گا۔ پس اسی وجہ سے ہومیا پیتھی اور الوپیتھی مختلف علوم نہیں ہیں بلکہ کوئی شخص الوپیتھی کو نہیں سمجھ سکتا ہے برخلاف ا سکے ہومیاپیتھی کے اصول کو ہر شکص عقیل اور فہیم سمجھ سکتا ہے۔ فرض کرو کہ کوئی شکص علم طب کے سیکھنے کی خواہش کرے اور اپنی قوت مدرکہ کو کا م میں لاوے اور الوپیتھی شروع کرے تو بتائو کہ وہ کس طرح پر آغاز کرے گا اورکس بنیاد پر چلے گا۔ ہم لوگ دوسرے علوم میں بالکل دوسروں کے تجربہ پر چلتے ہیں لیکن ان سب کے لیے ایک بنیاد مضبوط ہے مگر الوپیتھی کے واسطے کوئی بھی بنیاد نہیں ہے۔ کوئی شائع الوپیتھی کو نہیں سیکھ سکتا ہے لیکن اس سے یہ اخذ نہیں ہو سکتا ہے کہ ان کے لیے کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس سے کہ وہ سبق شروع کریں۔ برخلاف اس کے ہومیاپیتھی کا یہ حال ہے کہ اس میں شائقین کے آغاز کے واسطے بنیاد بہت چوڑی ہے اور اسی بیخ و بنیاد سے اس علم میں بڑی بڑی شاخیں نکل سکتی ہیں اور جس قدر زیادہ لائق اور ہوشیار طبیب ہووے گا اس کے مریض اسی قدر زیادہ تر اس کے معتقد ہو جاویں گے اور اگر ان کو یہ معلوم ہو جاوے کہ وہ کسی اصول کا پابند ہے۔ اب میں ااپ کو اس سے زیادہ تکلیف دینا نہیں چاہتا اور بالآخر آپ کو اس شفاخانے کے قائم ہونے کی مبارکباد دیتا ہوں مگر ہر ایک صاحب سے یہ درخواست کرتا ہوں کہ کبھی کبھی اپنی فرصت کے وقت میں یہاں تشریف لا کر بیماروں اور بیماریوں کا حال اور یہ بات کہ کیسی بیماریاں کس طرح پر سہل ہیں اور خوشگوار علاج سے آرام پاتی ہیں ملاحظہ فرمایا کریں تاکہ جو کچھ میں نے کہا ہے اس کو آنکھ سے دیکھ کر خود آپ کو یقین اور تجربہ حاصل ہووے۔ ٭٭٭ جواب مضمون سویلزیشن یعنی شائستگی اور تہذیب پر سویلزیشن انگریزی لفظ ہے جو مشتق ہے۔ سوس یا سوئٹیس سے جس کے معنی ہیں شہری یا شہر کے اور اصل میں یہ لفظ مشتق ہوا تھا کوٹس سے جس کے معنی ہیں مجمع یا اتفاق کے اور وجہ اس اشتقاق کی یہ ہے کہ شہروں کی بنیاد ابتدا اس طرح پر قائم ہوئی تھی کہ بہت سے آدمیوں نے ایک مقام پر ایسے عہد و پیمان کے ساتھ مل جل کر رہنا اختیار کیا جو ان کے باہم خود بخود اس نظر سے قائم ہو گئے ہیں کہ ان باشندوں کے وہ قدرتی اور باہمی حقوق محفوظ رہیں جو ان کی جان و مال کی حفاظت اور ذاتی آزادی کے متعلق تھے۔ سویلزیشن یعنی شائستگی کے لفظ کو عام اصطلاح میں ایسا لفظ سمجھنا چاہیے کہ جس سے اعلیٰ ترقی یافتہ اور شائستہ قوموں کی حالت ان قوموں کے مقابلہ میں جن کو وحشی یا نصف وحشی سمجھا جاتاہے سمجھ میں آ سکے۔ پس اس معنی کے اعتبار سے ہم یورپ کی اعلیٰ قوموں کو شائستہ اورتربیت یافتہ کہتے ہیں اور چینیوں و تاتاریوں کو اس سے کم شائستہ خیا ل کرتے ہیں۔ اور شمالی امریکہ کے اصلی باشندوں اور آسٹریلیا والوں اور کافروں یعنی جنوبی افریقہ والوں اور قطبی حصہ کے رہنے والوں اور جنوبی امریہ کے مختلف جنگلی قوموں کو نہایت کم شائستہ جانتے ہیں۔ سویلزیشن یعنی شائستگی کے لفظ کی اس قدر تمید کے بعد اب ہم کو اول اس امر پر بحث کرنا چاہیے کہ وہ قدرتی اور ملکی اور مذہبی اسباب کون سے ہیں جو انسان کی شائستگی کی ترقی کے موافق یا مخالف ہیں۔ لیکن اس امر پر گفتگو کرنے سے پہلے یہ مناسب ہو گا کہ شائستگی کی کچھ کچھ عام کیفیت اس مضمون کے پڑھنے والوں کے ذہن نشین کر دی جائے ۔ چنانچہ اسی غرض سے ہم یورپ کی موجودہ حالت کو ایک سرسری طور سے بیان کرتے ہیں اور یہ حالات اس زمانہ سے متعلق ہیں جو ہمارے زمانے کے قریب تک ختم ہوتا ہے اورجس میں وہ زمانہ شامل ہے جس کا آغاز دنیا کی قدیم دارالسلطنت یعنی روم کے زوال سے شروع ہوا اور انتہا اس کی اس وقت شمار ہوتی ہے جب کہ ۱۴۵۲ء میں چھاپہ کا فن ایجاد ہوا۔ رو م کی سلطنت جس وقت تہ و بالا ہونے کو تھی اسی وقت عیسائی مذہب کو نشوونما حاصل ہوا۔ پس جو بیہودہ عیاشی کی باتیں کفار کے مذہب میں رائج تھیں اور ان کی جو اصلاح عیسائی مذہب کے ذریعہ سے ہوئی اور جو نئی کیفیت اس مذہب کی بدولت اس وقت کے لوگوں کے عادات و اطوار میں پیدا ہوئی اور علاوہ اس کے یونانیوں اور رومیوں کے علم و فضل اور شائستگی و تربیت کے اثر سے جو تبدیلیا دنیا کے عام حالات میں واقع ہوئیں اور علی ہذا القیاس اور اسی قسم کے امور پر ان لوگوں کو اپنی توجہ مصروف کرنی چاہیے جو شائستگی کی تحقیق کے درپے ہیں۔ ایسے چار سو برس کے انقلابوں کے بعد جن کے تدارک میں روم کی سلطنت کی تمام عقل اوردانائی صرف ہو گئی آخر کار وہ سلطنت بالکل تباہ ہو گئی ارو یورپ پر چاروں طرف سے وحشی قوموں نے حملہ کیا یعنی ہنر کی قوم اور داندلس اور وزی گاتھس اور لمبارڈس کی قوموں نے یورش کی اور ان کے آپس میں بھی برابر جنگ و جدل رہی کبھی کوئی قوم غالب آئی اور کبھی مغلوب ہوئی۔ انجام ان کا دو سو برس کی خون ریز اور سخت جنگ کا یہ ہا کہ مذکورہ بالا نصف وحشی فتح مندوں میں ملک تقسیم ہو گیا ارو اس وقت رومیوں کے قوانین اور طور و طریق اور رسم ورواج کی جگہ یورپ کے ان نئے فتح مندوں کے رسم و رواج قائم ہو گئے۔ خاص عیسائی مذہب بھی وحشیوں کے رسم و رواج کے مقابلہ میں مغلوب ہو گیا اور لوگوں مٰں سے جس قدر رومیوں کی شائستگی اٹھتی گئی اسی قدر بیہودہ خیالات جہالت سے مستحکم اور شائع ہوتے گئے اور جب شمالی قومیں اور گوشہ شمال و مشرق کی قومی رومی سلطنت کے قدیم صوبوں میں آ کر آباد ہوئیں اس ے چار سو برس آئندہ میں ہمیشہ شائستگی کو زوال ہوتا گیا یہاں تک کہ رفتہ رفتہ وہ بالکل مٹ گئی۔ جو زمانہ چھٹی صدی کے آخر میں شروع ہو کر چودھویں صدی کے آغاز تک ختم ہو گیا ہے اس سے جو تاریک زمانہ کا خطاب منسوب کیا گیا ہے وہ اس زمانہ کے حال کے بالکل مناسب ہے۔ اس دراز اور بے رونق زمانہ میں انگلستان کے بادشاہ الفریڈ اعظم اور فرانس کے شہنشاہ شارلی مین نے اپنی اپنی قلم رو میں علم اور ہنر کو دوبارہ شگفتہ ار قائم کرنے میں کوشش کی لیکن وہ دونوں ا س میں بہت کم کامیاب ہوئے بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ بالکل نہیں ہوئے۔ اہل عرب کی قوت اور شان و شوکت کی بنیاد ان کے پیغمبر محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کی بے نظیر فہم و فراست اور عجیب و غریب عقل و دانائی سے بہت خوبی کے ساتھ قائم ہوئی اور اس علم و ہنر کے حق میں جس کی قدر یورپ سے اٹھ گئی تھی البتہ اہل عرب بڑے مربی بنے۔ ا س کے بعد یورپ کے عیسائی مجاہدین نے مشرق میں جانے سے بہت سی نئی باتیں حاصل کیں چنانچہ مقام قسطنطنیہ جو ان علوم و فنون اور شائستگی کا خزانہ مشہور تھا جو رومیوں کے زوال سلطنت کے بعد باقی رہی تھی وہ ا ن مجاہدین کے حق میں ایک بڑی زرخیز کان ہو گیا لیکن بایں ہمہ جو کچھ علم اور معلومات وہ ولگ یور پ میں اپنے ہمراہ لائے تھے اس کے سبب سے لوگوں کے طور و طریق میں بہت تھوڑی تبدیلی واقع ہوئی لیکن بعد میں اس کے سبب سے خصوصاً اس تبدیلی میں زیادہ ترقی ہوئی کہ ہر سلطنت میں جو بڑے بڑے امیر اور جاگیر دار اس شرط سے اپنی جاگیروں پر قابض ہوتے تھے کہ بادشاہ کی اطاعت اور فرماں برداری کرتے ہیں۔ وہ دستور بالکل جاتا رہا تھا۔ ا سی طرح وہ ہزارہا چھوٹے چھوٹے جاگیردار بھی گویا غلامی سے آزاد ہو گئے تھے جو برے بڑے جاگیرداروں کے تحت میں اسی شرط سے سے بسر کرتے تھے۔ مجلسیں جو سلطنت کی کارروائی کے واسطے مقرر ہوئیں ان کے ممبر منتخب کرنے کا استحقان شہروں اور ضلع کے لوگو ں کو عطا ہوا۔ تجارت کوبھی رونق ہوئی اور آبادی بھی بہت بڑھ گئی اور جابجا شہر بکثرت آباد ہوگئے۔ داد رسائی کے طریقوں میں بھی بہت سی اصلاح واقع ہوئی اور علی ہذ القیاس ان خوبیوں کی ترقی سے جو معاشرت سے علاقہ رکھتی ہیں ۔ علوم و فنون کو بی ترقی ہوئی چنانچہ ۱۳۰۲ء بحری قطب نما ایجاد ہوا۔ جس کے سبب سے جہاز رانی کا شوق ا س نظر سے لوگوں میں پیدا ہو گیا کہ دنیا کے ملکوں کی چھان بین کریں اور شوق کے سبب سے وہ دلاوری اور محبت بھی لوگوں میں ظاہر ہوئی جو مذکورہ بالا سفر کے واسطے درکار تھی اوراس کانتیجہ یہ ہوا کہ تجارت کو نہایت وسعت حاصل ہوئی اور دنیا کی قوموں میں باہم آمدورفت کا سلسلہ قائم ہو گیا۔ چھاپہ کے فن کے ایجاد ہونے سے خیالات کا اطہار سہل اور عمدہ طریقہ پیدا ہو گیا۔ اور ا س کی بدولت علم بہت خوبی کے ساتھ شائع ہوا اور درحقیقت اس پہلی فتح سے جو انسان کی جودت طبع نے حاصل کی یعنی چھاپہ خانہ کا فن ایجاد کیا شائستگی کی واقعی ترقی کی تاریخ کو قائم کر سکتے ہیں اور اگرچہ اس کے بعد بھی ہزارہا قسم کے مواقع شائستگی کی ترقی میں پیش آئے لیکن وہ سلسلہ ہرگزر درہم برہم نہ ہوا اور اب تک ہمیشہ اس کا میلان اسی جانب کو ہے جس پر آخر کار انسان کی ترقی انتہا مرتبے تک پہنچے گی۔ ان ذریعوں کا بیان جن سے شائستگی کو ترقی ہوتی ہے پہلے ہم نے یہ بات بیان کی تھی کہ عمل شائستگی کا یہ حال ہے مگر ہم ان ذریعوں کو لکھتے ہیں جن سے شائستگی کو ترقی حاصل ہوتی ہے چناں چنہ ان ذریعوں میں سے پہلا ذریعہ آدمی کی ذات ہے اس لیے کہ اس کے اعضاء اور قویٰ بہ نسبت اور ذی روح مخلوقات کے افضل اور عمدہ ہیں۔ اور اس کو صرف یہی فضیلت نہیں ہے بلکہ جو کام وہ اپنی عقل کی معاونت سے کر سکتا ہے اور اپنے ایسے ہاتھوں میں لے سکتاہے جو اس کے بڑے مطیع کار پردازہیں ان کی وجہ سے اس کو بہت بڑی فضیلت حاصل ہے اور ان دونوں ذریعوں کی بدولت وہ اور مخلوقات میں سے اپنے آپ کو نہایت راحت و آڑام کی زندگی میں رکھ سکتا ہے اور گویا اپنی ذات کو ایک مصنوعی وجود بنا سکتا ہے اور جو مربہ اس کی قدرتی حیات کا ہے اس کی نسبت وہ اس کو بہت زیادہ آسائش دے سکتا ہے اور وہی اس بات کے لائق ہے کہ اپنی جسمانی اور روحانی قوتوں کو شگفتہ کرے اور ترقی دے۔ آدمی کی ایک بہت بڑی صفت ی ہے کہ اس کو اپنے ہم جنسوں کی صحبت کی طرف میلان طبع ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ گوہر متنفس اپنی حیات اور قوت کے لحاظ سے ایک جداگانہ اور معین لحاظ سے باہر نہیں نکل سکتا۔ مگر وہ تمام اوصاف جو نو ع انسانی کے ساتھ مخصوص ہیں ہمیشہ انسانوں کی ایک جماعت ہی میں متحقق ہوتے ہیں۔ ایک متنفس ان سب اوصاف کا مظہر نہیں ہوتا۔ پس آدمی کو اپنی ترقی اور کامل شائستگی کے واسطے بہت سے مستحکم ذریعے حاصل ہیں اور ان کی اولاد اپنے آباء و اجداد کی محنتوں اور تجربوں سے بہت کچھ مستفید ہوتی ہے نظر بریں یہ بات بری کسی تامل کے تسلیم کی جاتی ہے کہ شائستگی اور انسان کی عقل کی وسعت کے لیے کوئی حد مقرر نہیں ہے۔ مگر باوصف اس فضیلت کے مطلقاً جو انسان کو بہ نسبت اور مخلوقات کے حاصل ہے جب یہ دیکھا جاتا ہے کہ تما م دنیا کی تمام قومیں اور ولایتیں ترقی اور شائستگی کے مراتب میں مختلف الاحوال ہیں تو خواہ مخواہ اس اختلاف کی وجہ دریافت کرنی ضروری معلوم ہوتی ہے اورخیال آتا ہے کہ بعض قومیں اب تک نصف وحشت دلدل اور دقت میںکیوں پھنسی ہوئی ہیں اور بعض قومیں باوجود ہمت شکن اسباب کے کیوں ایسے عمدہ کام کر رہی ہیں اور کس طرح ایسی قوی مزاحمتوں کی مدافعت پر قادر ہو گئیں۔ اب علاوہ آدمی کے اعضا اور قویٰ کے جس خطہ میں وہ بستا ہے وہ خطہ بھی اس کے لی ایک ایسا ذریعہ ہوتا ہے جس کے سبب سے یا اس کی عقل کے مدارج کو ترقی حاصل ہوتی ہے یا اس کی مزاحمت کے اسباب پیدا ہوتے ہیں مگر اس بڑے ذریعہ کی تحقیق کامل طورپر اس صورت سے ہو سکتی ہے کہ اس کو مندرجہ ذیل پانچ قسموں پر تقسیم کیا جاوے: اول: وہ قدرتی اسباب جو شائستگی کے لیے نہایت مناسب ہیں۔ دوم: اس بات کی ضرورت کہ قوموں کے باہم آمدو رفت ہونی چاہیے۔ سوم: مذہبی امور کا شائستگی کی نسبت اثر۔ چہارم: وہ تعلقات جو حکومتوں کو اسباب شائستگی کے ساتھ ہیں۔ پنجم : صلاحیت مختلف قوموں کی شائستگی قبول کرنے کے واسطے۔ اول: ان متعدد قدرتی اسبابوں کا ذکر جو شائستگی کے حق میں مفید ہیں اول: ان میں سے ملکوں کی تقسیم اور حالت کی کیفیت بیا ن کی جاتی ہے ۔ بادی النظر میں بلاشبہ ایسا معلوم ہوتاہے کہ جن زرخیز خطون میں کھانے پینے کی بہت سی چیزیں خود رو میسر آتی ہیں وہاں بہت لوگ آباد ہو جاتے ہیں اور ان کو اعلیٰ درجے کی شائستگی حاصل کرنے کے واسطے بہت سی آسانیاں ہوتی ہیں مگر حقیقت میں عموماً ایسا نہیں ہے۔ دیکھو جنوبی ایشیا اور وہ جزیرے کیسے زرخیر ہیں جن میں آفتاب کی حدت حد سے زیادہ ہوتی ہے مگر باوصف ایسی قدرتی بخششوں کے کاہلی اور جہالت اور جوروستم وہاں حد سے بڑھ کر ہے چناں چہ افریقہ اور جنوبی امریکہ میں اس امر کی تصدیق کے واسطے بہت سی نظیریں موجود ہی ایسے ملکوں کے آدمیوں کا یہ حال ہوتا ہے کہ جب وہ اپنے پاس ضروریات زندگی کثرت سے مہیا دیکھتے ہیں تو وہ اپنی اوقات ایسی بسر کرتے ہیں جیسے کہ دنیا میں ارو خود رو نباتات ہے جیسے وہ جنگلی درخت ہے جو خود پیدا ہوتے ہیں اور خشک ہو جاتے ہیں البتہ دریائے نیل کی مٹی باوجود کہ زرخیز ہے مگر اس نے مصریوں کے دربار کی شان و شوکت اور جاہ و حشمت بھی خوب دیکھی ہے ۔ ایسی ہی میسوپوٹیمیا یعنی شام کے میدانوں کی کیفیت ہے کہ ان میں دریائے فرات اور دجلہ سے آب پاشی ہوتی ہے لیکن کسی زمانے میں وہ بری بڑی سلطنتوں کے موقع تھے اور انہیں میں شہر بابل اور نینوا اورپالمیرا واقع تھے اورہم کو یہ بھی بات یاد آتی ہے کہ قدیم ایران کی سلطنت بھی کیسی کچھ قوی تھی اور علی ہذ القیاس دریائے گنگ کے زرخیز میدانوںمیں ہندوستان کی کیسی کیسی عجیب و غریب پیداوار ہے اور علاوہ ان کے چین اپنی خوش خلقی اور اپنے علم و ہنر کے سبب سے کیسی مشہور ہے پھر ان مثالوں سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ کسی ملک کی زرخیزی اور خوبی اگر اس کی شائستگی کے واسطے کوئی لازمی سبب نہیں ہے تو اس کی شائستگی کے مزاحم بھی نہیں ہے۔ حقیقت میں اگر کسی زمین کی قسم اور خاصیت اس کی ترقی اور شائستگی کی مانع نہ ہوجیسے کہ تاتار اور افریقہ اور عرب کے ریگستانی بیابان ہیں یا کسی ملک میں ایسے جانور کم یاب نہ ہوں (جیسا کہ کولمبس کے دریافت کرنے سے پہلے نئی دنیا کا حال تھا) جن کے ذریعے سے تجارت وغیر ہ ہوتی ہے تو وہاں کے آدمی یقینا اپنی حالت کو ترقی دے سکتے ہیں اوران کی تعداد بڑھ سکتی ہے چناں چہ اسی طرح سے شمالی یورپ کو مثل شمالی امریکہ کے جنگلوں سے پاک و صاف کیا۔ اور پھر اس میں سے زراعت کی گئی۔ یورپ کی سرد ولایتیں باوجودے کہ ان میں نہایت سخت سردی ہے ایسی ہیں کہ ہر قسم کی تحقیقات اور طرح طرح کے فنون اور صدہا صنعتیں بہ نسبت جنوبی ملکوںکے ان میں زیادہ ظہور میں آئیں اور عقل و ہمت اور استقلال بہ خوبی اس سے ثابت ہے اور معلوم ہوتاہے کہ ان کے مقابلے میں جنوبی ملکوں کو یہ باتیں حاصل نہ تھیں۔ گرم ولایتوں کی یہ خاصیت ہے کہ ان کے باشندے اوصاف مذکورہ بالا میں دلی جوش و خروش نہیں رکھتے ۔ اور ان کو حد سے زیادہ شوق کسی چیز کا پیدا نہیں ہوتا۔ دوم: مختلف قوموں کے باہم آمدو رفت کی ضرورت جو قومیں درمیان میںبڑے بڑے قطعات کے حائل ہونے سے باہم مل نہیں سکتیں یا کسی بڑے قطعے کے وسط میں آباد ہیں اوران کو باہم آمدورفت کرنے کا کوئی ذریعہ بجز اسکے میسر نہیں کہ قافلوں سے مل کر سفر کریں اور ایسی قومیں ایشیا کے بالائی حصے میں اور افریقہ کے وسط میں اکثر رہتی ہیں چنانچہ وہ ایک دوسرے سے آپس کے ان خیالات کو ظاہر نہیں کر سکتیں جن کو ان دونوں کے معاملات میں دخل ہے اور اس عقلی روشنی کے حاصل کرنے سے محروم ہیں۔ جو دونوں کے باہم مقابل ہونے سے حاصل ہو سکتی ہے اورجس کے بغیر کوئی قوم شائستگی کی حالت پر نہیں پہنچ سکتی پس ایسی قومیں یقینا ایک حالت معینہ پر پہنچ کررہ جاتی ہیں اور ان کی حالت کو شائستگی نہیں ہو سکتی مثلاً جیسے وہ لوگ ہیں جن کی گزران صرف مویشیوں کے دودھ پر ہے اور جو چرواہوں کی طرح اپنی اوقات بسر کرتے ہیں جب تک وہ اپنی اس حالت کو ترک نہ کریں ہرگز ممکن نہیں ہے کہ ان کی عقل و دانش کو ترقی نصیب ہو۔ جیسے ہتھیا والے اور تاتاری تھے اور جیسے کہ بدو اور افریقہ کے وہ مسلمان جو حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں یا جیسے جالوتی ہیں جو ہمیشہ نصف وحشی معلوم ہوتے ہیں یا جو لوگ تبت اور بھوٹان میں اور کوہ کاف اور کوہ اماس اوکوہ اٹلاس میں ہمیشہ بہ منزلہ مجوسیوں کے رہ کر ایک وحشیانہ حالت میں رہتے ہیں اور جو لوگ افریقہ کے وسط میں اور دونوں امریکہ کی وسیع ولایتوںمیں رہتے ہیں ان کا حال تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ شاید وہ اپنی اس وحشیانہ حالت سے کبھی نجات نہ پاویں گے معلوم ایسا ہوتا ہے کہ ہر ایک قوم کی شائستگی کے واسطے دوسری قوم کے باہم اس کی آمدورفت نہایت ضرور ہے چنانچہ بحر قلزم کے کناروں اور جزائر متعلقہ یونان اور قسطنطنیہ میں جو آمدو رفت ہے یا یورپ و ایشیا و افریقہ اور جزائر فرنگستان کے باہم جو آمدو رفت ہے اس کے سبب سے ان جملہ مقامت میں نہایت درجے کی شائستگی پھیلی ہوئی ہے اور دریائے راہن اور مین اورشلیت اور دریائے ایلب کے ذریعے سے جو چیزیں انسان اپنی محنت سے پیدا کرتا ہے وہ سب ایک ملک سے دوسرے ملک میںجاتی ہیں بلکہ ان کے ساتھ ہر قوم کے خیالات او روضع و اطوار اور نئی نئی باتوں کا اثر بھی ایک ملک سے دوسرے ملک میں پہنچتا ہے اوران سبب سے نئے نئے شوق اور نئی نئی خواہشیں اور ضرورتیں قائم ہوتی ہیں اسی طرح جنوبی ہندوستان کے کناروں پر شائستگی رونق پذیر ہے مگر شمالی حصے اس کے اب تک اپنی قدیمی حالت میں پڑے ہوئے ہیں اور وہاں کے لوگوں کی طبیعتیں ہنوز جنگ جوئی اور خون خواری کی جانب مائل ہیں۔ جیسے مونگولیا نسل کی قومیں تھیں جو کسی زمانے میں ہندوستان میں مل جل کر مہذب بن گئیں جن پر ان کو فتح نصیب ہوئی تھی پس گو کسی ملک کی شائستگی کسی وحشی قوم کے حملوں سے معدوم ہو جاوے جیسے کہ متوسط زمانوں میں یورپ کا حال ہوا تھا۔ مگر انجام کار اس ملک کی خاک سے وہی اثر پیدا ہوتا ہے چنانچہ فی زماناً اگر اہل یورپ کسی غیر مہذب قوم میں بھی جا بسیں تو ان کے واسطے وہی نعمتیں موجو د ہو جاتی ہیں جو ان کو یورپ میں حاصل ہیں۔ جو قومیں جہاز ران ہیں ہم یقین کرتے ہیں کہ ان میں شائستگی قبول کرنے یا دوسری قوم کو شائستہ بنانے کی صلاحیت بہ نسبت اوروں کے زیادہ ہے چناں چہ جزائر ٹائر اور فنیشیا اور کارتھیج اوریونان کے قدیم باشندوں سے لے کر ونیشیا اورجنیوا کی وہ قومیں جو متوسط زبانوں میں گزری ہیں اور زمانہ حال کے انگریز اور ہالینڈ کے باشندے اور فرانس اور امریکہ کے انگریز ارو ہالینڈ کے بااشندے اور فرانس اور امریکہ کے انگریز سب شائستگی پھیلانے کے واسطے نہایت عمدہ عمدہ ذریعہ ہوئے ہیں۔ سوم: شائستگی پر مذہب کا اثر قوموں کی تاریخ کے شروع زمانے سے دیوتائوں کی پرستش کا مذہب قائم تھا جن کے اعتقادات کی اصلیت ابتداء میں نیشا اور مصر کے کاہنوں سے قائم ہوئی اور انہیں لوگو ں نے اس کو یونانیون میں پہنچایا اور اس زمانہ سے پہلے جس میں یہ اعتقاد یونانیوں سے آدمیوں کو پہنچا تھا۔ یونانیوں نے اس کو بڑی رونق دی تھی پھر رومیوںنے نہایت کثر ت سے اپنے دیوتا قرار دیے چنانچہ جس قدر ان میں برائیاں زیادہ ہوئیں اسی قدر ان کے دیوتائون کی تعداد زیاد ہ ہوئی۔ دیوتوں کی پرستش کا مذہب ایک طول و طعیل قصہ ہے۔ جو شاعری اور ولولوں سے بھرا ہواہے۔ اور وہ ایک ایسی چیز ہے جس سے جو انسان کے دلی خیالات اور ارادوں اور ان عجائب چیزوں سے مرکب ہے ۔ جو خدا کی شان سے متعلق ہیں۔ اسی مذہب کی بدولت ان شاعروں کی طبیعت میں خیا ل بندی کا ولولہ پیدا ہوا اور ایسی قوت حاصل ہوئی جس کے سبب سے انہوں نے ایک خیالی دنیا ائم کی اور اسی قوت کے ذریعہ سے وہ عمدہ عمدہ فنون ایجاد کے گئے جن کے سبب سے مصر او ر کالڈیا اور یونان اور اٹلی کو نہایت زیب و زینت حاصل ہوئی اورانہیں فنون سے وہ شائستگی ثابت ہوتی ہے جو کسی زمانہ میں ان ملکوں کے اندر ہو گی۔ بدھ لوگوں کے مذہب سے یانوا نامی حکیم کے مذہب کی بدولت تمام مشرقی ایشیامیں دریائے گنگ کے پار ہے۔ اور چین میں صرف وہی مذہب پایا جاتاہے جس میں مادیات کو قدیم مانا ہے اور در پردہ انہون نے خدا کے وجود سے انکار کیا ہے اور گو اس مذہب کے لوگ کسی قسم کے فہم و فراست رکھتے ہوں مگر اصل یہ ہے کہ ان کے ملکوں میں شائستگی ترقی پذیر نہ ہوئی۔ اس بات کا بیان کرنا اس موقع پر فضول ہوگا کہ عیسائی مذہب کا اثر لوگوں پر کس قدر ہوا مگر اس قدر کہنا مناسب ہے کہ گو اس کے اصول میں سادگی اور انکسار ہے مگر اس کے ظہور کے بعد لوگوں کے دلوں میں اس مذہب کے سبب سے شان و شوکت کا بڑا شوق پیدا ہوا یہاں تک کہ اس کی پرستش کے ارکان میں بھی اسنمود کا رواج ہو گیا۔ چنانچہ اس شوق کو پورا کرنے میں بہت کچھ صرف ہوتا تھا مگر یہ بات ضرور تھی کہ اس زمانہ کی خرابیوں کی اصلاح کے لیے وہ شوق نہایت عمدہ ذریعہ تھا۔ مذہب اسلام کی نسبت اگرچہ بہت لوگ شائستگی کی مخالفت کا دھبہ لگاتے ہیں مگر ہمارے نزدیک یہ بات غلط ہے ۔ دراصل یہ مذہب کسی طرح شائستگی کے منافی نہیں ہے۔ البتہ اس کی نسبت صرف یہ کہا جا سکتاہے کہ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف مذہبی مصلحت سے عمدہ عمدہ فنون کے جاری کرنے کی کچھ تائید نہیں کی اورگو یہ بات بھی کہ وہ ان فنون کی قدرومنزلت کو خوب جانتے تھے مگر ان کو یہ خیال تھا کہ اگراہل عرب کی طبیعتیں ا س طرف مائل ہو ئیں تو بہ سبب اس کے کہ وہ اپنے ذاتی جوش و خروش سے مجبور ہیں یقینا بت پرستی اختیارکر لیں گے۔ چنانچہ اسی وجہ سے عمدہ عمدہ فنون کی اشاعت مشرق کے اس بڑے مصلح نے روا نہ رکھی۔ لیکن اپنے ان احکا م کی بدولت جن سے شراب نوشی بلکہ جملہ مسکرات اور قمار بازی کی ممانعت ہے جس قدر فائدہ انہوں نے شائستگی کو پہنچایا اس نے ان نقصانوں کی بہ کچھ تلافی کر دی جو عمدہ فنون کی ایسی تائید کے نہ ہونے سے ہوئی تھی۔ جیسے کہ میکونس نے کی تھی۔ اگر عیسائی مذہب کے اصول کے بموجب ویسی ہے ممانعت ان برائیوں کی کی جاتی تو اس بات سے ہرگز انکار نہیں ہو سکتا تھا کہ عیسائی مذہب کے لوگوں کی اور ان میں بھی خصوصاً کم تر درجہ کے لوگوں کی طبیعت اس سے بہت کچھ مخالف ہو تی جیسے کہ ان کی بدقسمتی سے اب ہے۔ چہارم: ان تعلقات کا بیان جو حکومتوں کو شائستگی سے ہیں یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ حاکم کوجو رعایا پر ایک کامل اور غیر محدود اختیار حاصل ہوتا ہے اور جو چیزیں رعایا کی ذات سے متعلق ہیں۔ ان سب پر اس کو تصرف کامل حاصل ہوتا ہے۔ اس وجہ سے وہ اپنی رعایا کے ساتھ ایسا برتائو کرتا ہے جیسا کہ کوئی اپنے باب دادے کے ترکہ پرپس اس صورت میں کوئی شخص گو اس پر ہمیشہ یکساں ظلم نہ رہے اپنی زندگی کو اس طرح پر بسر نہیں کر سکتا جس سے وہ مرتبہ کمال کو پہنچ سکے۔ اس لیے کہ ہمیشہ اس کے دل میں اپنے حاکم کی طر ف سے ایک ایس اخطرہ لگا رہتا ہے جو اس کی آزادی کا مانع ہوتا ہے ۔ او ر وہ جانتاہے کہ آخر کار میں اس حاکم کا شکار اور غلام بنوں گا اور ایسی سلطنتوں میں جہاں بادشاہ بالکل خود مختار ہوتا ہے یہ دستور ہے ‘ کہ جو کاری گر کوئی عمدہ صنعت یا کوئی ہنر ایجاد کرے بادشاہ وقت اپنی ذات سے منسوب کرتا ہے چناں چہ ایسی سلطنت شاعر کا بھی اپنی خیال بندی میں اسی کا تابع ہوتاہے‘ اور بے چارہ کاری گر بھی اپنی تمام محنت و مشقت کو اسی کے فائدہ کے واسطے کرتا ہے۔ غرض کہ جب حاکم کو ایسے عمل درآمد سے لطف آتا ہے تو وہ ہمیشہ اپنے اختیار کو اسی طرح سے صرف کرتاہے۔ پس ایسی صورت میں ذہین اور دانش مند لوگوں کی آزادی اور جان کی حفاظت بالکل جاتی رہتی ہے جب کہ حاکم کو ان کی نام آوری اور شہرت سے حسد ہونے لگتی ہے چنانچہ جب رومیوںمیںشہنشاہی قائم ہوئی تو غلام بنانے کے دستور اور آزادی کے جاتے رہنے سے ان کی شائستگی بالکل معدوم ہو گئی اور جس قدر ملکی انقلاب نئے خیالات اوردلی ولولوں سے پیدا ہوتے ہیں ان کے اندیشہ سے ظالمانہ حکومتوںکا یہ ایک دستور ہو گیا کہ وہ لوگوں کی عقلی ترقی کی مزاحم بن جاتی ہیں۔ اور ان کو ایک متوسط حالت میں رکھنا پسند کرتی ہیں جیسا کہ خاص چین میں ان آبائی اجدادی رسوم کا چھوڑنا ایک بڑی خطرنا ک بات ٹھہری ہوئی ہے جو قدیم وہاں سے چلی آتی ہیں۔ باوجود ے کہ ان لوگوں کی دانش مندی اور صناعی تمام دنیا میں مسلم ہے اور ایجاد ی طرف ا کے طباع کا میلان ایک شہرہ آفاق بات ہے ایسے ہی مصری لوگ اپنے بتوں پر رنگ لگانے اور تصویرات کے بنانے میں انہیں قدیمی طریقوں کے پیرو ہیں اورصرف یہی ایک مزاحمت نہ تھی بلکہ پیشہ بھی وہاں کے خاص خاص خاندانوں میں اسی طرح سے چلے آتے ہیں۔ جیسے کسی کی موروثی جائداد میں جس کی کاشت کاروں اور سپاہیوں کا کوئی فرقہ بھی قائم نہ رہتا تھا بلکہ ہر قسم کے کاری گروں اور محنتیوں کے گروہ قائم ہو گئے تھے اور وہ لوگ اپنی تمام زیست کو اسی تاریک حالت میں بسر کرتے تھے۔ جو ان کے واسطے مقرر کی گئی تھی یہاں تک کہ اسی میں پیدا ہوتے تھے اور اسی میں مرتے تھے پس اس بے بخوبی ثابت ہوتا ہے کہ انسان کا مختلف قوموں میں تقسیم ہونا بھی اس کی شائستگی کا بڑا مانع ہے۔ اور ہر زمانہ میں جہالت اور کم ہمتی ہی اس بات کا باعث ہوتی ہے کہ انسان دوسرے انسان کا غلام ہے۔ یا اس کا ہر طرح سے مطیع رہے حالاں کہ شائستگی اس وقت تک ہرگز حاصل نہیں ہوتی جب تک کہ انسان کو اپنے خیالات ظاہر کرنے اور ان کے موافق عمل درآمد ہونے میں آزادی حاصل نہ ہو۔ اور اگر یہ بات مسلم ہے کہ قدیم یونان اور روم میں علم و فن کی ترقی اس وقت ہوئی جب کہ وہ نہایت ترقی پر تھی اور اہل اسلام اپنی ان فتوحات کے زمانے میں نام آور ہوئے جو خاندان بنی فاطمہ اور عباسیہ کے عہدمیں ان کو حاصل ہوئی تھیں۔ اور ملک اٹلی میں نیا زمانہ علم و فن کا اس وقت سے قائم ہوا جب کہ متوسط زبانوں میں گوالف اور گبیسلن کے خاندان کے باہم لڑائی جھگڑا ہو گیا تھ اور سولھویں صدی میں مذہب اور اخلاق کی وہ مشہور اصلاح ہوئی جس میں مذہبی آزادی کو اس ظلم پر غلبہ حاصل ہوا تھا جو پوپ جنامی ایک شخص کے سبب سے پھیل رہا تھا‘ تو اب شائستگی کے یوما فیوماً ترقی پذیر ہونے سے اس بات کا تسلیم کرنا چاہیے کہ آزادی اور خود مختاری کو بھی ایک روز ضرور فتح حاصل ہو گی۔ انگلستان ‘ فرانس‘ جرمنی اور اٹلی کی چھوٹی چھوٹی جمہوریہ سلطنتوں ریاست ہائے متحدہ میں تجارت اورفنون کی اشاعت سے بخوبی ثابت ہوتاہے کہ ان سلطنتوں میں عقلی امور کی نہایت درجہ ترقی ظاہر ہوئی ہے اورعمدہ عمدہ کاموں کی اشاعت میں بڑی بڑی کوششیں لوگوں کی طرف سے ظاہر ہوئیں اور کمال تحقیق ان کی بدولت عمل میں آئی۔ پس ان سب امور سے معلوم ہوتا ہے کہ شائستگی کی ترقی اسی آزادی کے تناسب سے ہوا کرتی ہے جو گورنمنٹوں کی طرف سے اس کی رعایا کو عطا ہو خواہ اس میں امریکہ کی حالت پر لحاظ کیا جاوے۔ خواہ قدیمی یورپ کی سلطنتوں پر اور بلاشبہ جو سلطنتیں علم و دانش کی ہیں وہ جمہوری ظالموں کو دیکھ نہیںسکتیں چناں چہ آج کل کے نہایت خود مختار بادشاہوں کو بھی اس بات کی جرات نہیں رہی کہ وہ انسان کی عقل اور ذہانت کو اپنی بے جا قید اور … سے آزادی نہ حاصل کرنے دیں۔ پنجم: انسان کی جملہ نسلوں میں شائستگی قبول کرنے کی صلاحیت اکثر ذہین مورخوں نے اس بات کو ثابت کرنے میں کوششیں کی ہیں کہ حبشیوں کی نسل میں بھی شائستگی قبول کرنے کی ایسی ہی صلاحیت ہے جیسی کہ انسان کی اور نسلوںمیں ہے اور وہ بھی اور نسلوں کی ہم سری کر سکتے ہیں مگر ہماری دانست میں ان کی کوششیں مفید نہیں ہوئیں اور اصل یہ ہے کہ یہ مورخ اس بات کے تو بڑے موئد ہیں کہ کالے رنگ والے ہر طرح پر گورے رنگ والوں کی ہم سری کر سکتے ہیں۔ مگر جب ان سے یہ بات دریافت کی جاتی ہے۔ کہ کالے رنگ والے عقل و دانائی میں کس وجہ سے بہ نسبت ان کے کم ہیں تو وہ کچھ نہیں بیان کر سکتے یعنی یہ مورخ اس بات کو نہیںبیان کر سکتے کہ ان جاہل اور تاریک دروں قوموں کی دوامی وحشت کا کیا سبب ہے۔ جو تمام افریقہ میں آباد ہیں اور جو افریقہ کی ان باقی ماندہ قوموں کے مقابلہ میں مثل مسلمانوں اور ایتھوپیہ والوں کے ہیں جن کی اصل سفید رنگ کی قوموں سے ہے اور جن کو اب شائستگی میں تھوڑی بہت امتیاز حاصل ہے۔ افریقہ میں بعض ایسے مقامات ہیں جو ثمر دار درختوں سے نہایت آباد ہیں اوراس وجہ سے وہاں گرمی کی برداشت ہو سکتی ہے اور ان مقامات میں متعدد دریا اور بہت سی جھیلیں ہیں۔ جن میں سے ایک جھیل کا نام جھیل اشاد ہے اور وہ اس قابل ہیں کہ ان کے ذریعہ سے ملک میں آمدورفت ہو سکتی ہے اور ایک ملک کے مختلف باشندے باہم اپنے اپنے مقامات کی پیداوار کا ایک دوسرے سے مبادلہ کر سکتے ہیں۔ اور تجارت کو ترقی ہو سکتی ہے علاوہ اس کے حبشی قوموں کو ایک مدت سے خود مختاری اور فرصت بھی حاصل ہے۔ مگر باوجود ان سب باتوں کے اس آزاد منش قوم نے اپنی وحشیانہ حالت کو نہیں چھوڑا اورکبھی اپنے ملک میں علم کے درخت کا پھل نہیں چکھا غرض کہ ان کی حالت دیکھ کر کہا جا سکتا ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام نے جو شام کو بددعا دی تھی اس کا اثر اب تک ان کی نسل میں چلا جاتا ہے۔ گو یہ بات صحیح ہے کہ کالے رنگ کی قوم تعلیم و تربیت کی صلاحیت رکھتی تھی مگر اب تک یہ بات وقوع میں نہ آئی کہ اس قوم میں سے کسی نے کبھی کسی قسم کی تحقیق کی ہو یا اس سے کوئی بات دانش مندی اور ذہانت کی وجود میں آئی ہو۔ بخلاف زرد قوم یونی مونگولیا نسل کی قوموں کے جو فخریہ خوشی کے ساتھ یہ بات کہہ سکتے ہیں کہ چین اور جاپان اور ولایتوں میں جوہندوستان کی مشرقی طر ف میں واقع ہیں جس قدر شائستگی پھیلی ہوئی ہے وہ سب ہماری دانش مندی اور ذہانت کا ثمرہ ہے۔ بلکہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ نسل امریکہ تک پھیلی ہوئی ہے ۔ اور وہ نسل اس بات کا دعویٰ کر سکتی ہے کہ میکسیکو اور پیرو کی ولایتوں کو بھی ہم نے ہی شائستہ بنایا ہے ۔ مگر اب شائستگی کی اس حد کو دریافت کرنا چاہیے جہاں تک پہنچ کر اس نسل نے اپنے آپ کو چین میں نام کیا پس بسبب ظاہر اکثر نہایت عمدہ عمدہ تحقیقاتیں جیسے کہ باروت اور توپوں کاایجاد اور چھاپہ کی صنعت او رسوزن مقناطیسی اور علاوہ اس کے جو فن آلات سے متعلق ہیں وہ سب چینیوں سے منسوب ہیں لیکن اگر یہ بات درحقیقت تسلیم بھی کر لی جاوے تو پھر یہ سوال دریافت کرنے کے لائق ہو گا کہ ان چیزوں سے انہوںنے فائدہ کیا حاصل کیا اس واسطے ان کا توپ خانہ کچھ انگریزی توپ خانہ سے بہتر نہیں ہے۔ بلکہ انگریزی توپ خانہ سے کیا ان قوموں کے توپ خانہ سے بھی بہت نہیں ہے۔ جو ان کے قریب آباد ہیں اور بہر طور ان کی نسبت فہم و فراست میں کم ہیں۔ البتہ چینی کتابیں چھاپتے ہیں۔ مگر چوں کہ ان کی زبان کی ترکیب ایسی واقع ہے کہ اس کے بہت سے ٹکڑے نہیں ہو سکتے۔ اور ان کی تحریر جو صرف علامتوں پر مبنی ہے اور اس میں حروف ابجد نہیں ہیں۔ بلکہ جن تختیوں پر وہ بہت سی عبارت کندہ کر کے چھاپتے ہیں۔ کہ ان کے سبب سے چینیوں کی حالت ہنوز علم طفولیت میں شمار کی جاتی ہے اور جب یہ کہا جاوے کہ اس کے علاوہ قدیم رسم و رواج کی چیزوں کی بھی چینی لوگ نہایت تعظیم و تکریم کرتے ہیں یہاں تک کہ ان کی تعظیم تعصب کے مرتبہ کو پہنچ جاتی ہے یعنی اگر ان رسم و رواج کی تبدیلی کی نسبت کسی طرح کوشش کی جاوے تو چینی لوگ ہرگز اس کو گوارا نہیں کرتے اور وہ اپنے کمالات کے بھی معنی جانتے ہیں۔ کہ اپنے آباو اجداد کی سادگی کی تقلید کریں تو یہ بات بہت جلد سمجھ میں آتی ہے کہ ان کی حالت کا ترقی پذیر نہ ہونا خاص اس وجہ سے ہے ۔ مگر چوں کہ اب ان کے تعصبات اس قدر کم ہوئے ہیں کہ وہ ملک یورپ میں آنے جانے لگے ہیں ۔ اس نظر سے امید ہو سکتی ہے کہ شاید ان کی شائستگی کو آئندہ کچھ ترقی ہو جاوے اور اس سبب سے ان کو اور ان کے سوائے اوروں کو بھی فائدہ حاصل ہو پس گویا باقی تمام روئے زمین کے باشندوں کی ترقی کا ذریعہ صرف سفید رنگ کی نسل کے آدمی ہیں جو ابتداء ہندوستان اور کوہ قاف کے رہنے والے تھے۔ اور غالباً ایسا معلوم ہوتا ہے کہ خاص ان مغربی قوموں کو جیسے کہ ایران اور شام اور کالڈیا اور مصر اور فنشیا کی قومیں ہیں اور ان سے یونان اور اٹلی کی قوموں کو علوم و فنون کی وہ شعاعیں جن کے ذریعہ سے عام جہالت کی تاریکی دور ہوئی ہے خاص وسط ہندوستان سے ہی پہنچی ہے ۔ یہ جو کچھ بیان کیا گیا اس سے بخوبی ظاہر ہے کہ انسان کا شائستہ ہونا صرف ان عادات کے ترک کرنے پر موقوف ہے جو خون خوار وحشیوں کے خواص میںسے ہیں اورجو خاص ایسے زمانہ میں پید اہوتی ہیں جس میںکسی طرح تہذیب و تربیت نہ ہو اور اس قسم کی صفات میں جیسے کہ جنگ جوئی ‘ شکار بازی ‘ غارت گری جا بجا نقل مکان کرنا بلا امتیاز مباشرت کرنا اور مثل ان کے ایسی حرکتیںکرنا جو کسی قانون یا ضابطہ کے بموجب نہ ہوں حالانکہ یہ سب عادات ایسی ہیں کہ جب کوئی وحشی بھی ان فائدوں سے آگا ہ ہو جاتا ہے جو ان کے ترک کرنے میں متصور ہیں تووہ بھی نہایت خوشی کے ساتھ ان کو چھوڑ دیتا ہے مثلاً بجائے ان کے امان و امان اور زراعت اور جان و مال کا حفظ اور سکونت کے مکانوں کا شہروں یا دیہات میں قرار پانا اور نکاح کے احکام و قوانین مستقلہ کا ہدایت کے واسطے مقرر ہونا اور ذاتی اختیارات کا انسان پر حاصل ہونا سب ایسے امور ہیں کہ ان کے قاعدوں سے آگاہ ہونے کے بعد خود بخود انسان ان کی طرف مائل ہوتا ہے ۔ اورجو حقوق انسان کو قدرتی حاصل ہیں ان کو باہمی معاشرت کے معاہدے سے مستحکم کرنا ہے غرض یہ کہ اسی حالت کا نام شائستگی ہے اور ان سب کے سبب سے طبیعت کی تمام قوتیںظاہر اورشگفتہ ہو جاتی ہیں اور اسی کی بدولت علم کے خزانے کھل جاتے ہیں اورپھر ان کا ایک دریائے فیض دور دور تک بہنے لگتا ہے اورپھر معقول اور پند آمیز گفتگو اور انسانیت کی اور بہت سی باتوں کی تحقیق اورتکمیل سے انسان کو شہری ہونے کا رتبہ حاصل ہوتا ہے جو وحشیوں کے درجہ سے بمرتبہا بلند ہے۔ ٭٭٭ رسم و رواج کا فلسفہ اور اس میں اصلاح کی ضرورت (۳ نومبر ۱۸۷۳ئ) رسم جس کو انگریزی میں منبر اور کسٹم کہتے ہیں رسم اس کا نام ہے جو ہمساہ پرکھوں سے ہوتا چلا آیا ہے ۔ گو کہ ہم کو یہ بھی نہ معلوم رہا ہو کہ وہ کیوں ہوتا تھا اوراس سے کیا فائدہ ہے۔ رواج اس کا نام ہے جس کو سب لوگ کرتے ہوں یا کرنے لگیں اور اس کے کرنے کو لوگ کچھ عیب نہ سمجھیں ۔ پس ہو سکتا ہے کہ ایک زمانے میں کوئی کام عیب گنا جاتا ۔ مگر جب وہ رواج پاوے تو لوگوں کی آنکھ میں کچھ نہ رہے۔ انگریزی مصنفوں نے کسٹم یعنی رسم کی تعریف زیادہ وضاحت سے بیان کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ایک کام کا ہمیشہ بار بار کرتے رہنا یا کسسی کام پر مدتوں سے بہ طور قانون کے عمل درآمد چلا آنا رسم کہلاتاہ۔ رسم ہمیشہ ایک بن لکھاقانون ہوتا ہے جس پر سب لوگ مدت سے اتفاق کرتے چلے آتے ہیں ۔ اور اس لیے وہ رسم بہ طور ایک قانون کے سند ہو جاتی ہے۔ سر والٹر ریلی نے نہایت عمدہ بات کہی ہے کہ رسم و رواج میں وہ فرق ہے جو سبب اورنتیجہ میں ہے کیوں کہ جب کسی کام کا رواج مدت تک رہتا ہے تو وہ بہ طور ایک قانون کے لوگوں میں پھیل جاتا ہے اور آخر کو یہ نتیجہ ہوتا ہے کہ وہ ایک رسم ہو جاتی ہے۔ عادت میں اور رسم میں ایک نہایت باریک تفاوت ہے اور جو بالطبع اور بے تکلف ہم کو کسی کام کے بار بار کرنے کو کہتا ہے۔ رسم ایک اصول ہے جو باہر یس ہم میں آیا ہے۔ جس کے سبب سے ہم کسی کو بار بار کرتے ہیں۔ مگر اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ایک دوسرے سے مدد ملتی ہے۔ مثلاً دان ‘ پن ‘ خیرات اور زکوۃ دینے کی رسم سے فیاضی کی عادت پیدا ہوتی ہے اورپوجا کرنے اور نماز پڑھنے کی رسم سے مندروں میں اور گرجائوں میں اورمسجدوں میں جانے کی عادت ہو جاتی ہے۔ لفظ کسٹم یعنی روم کا علم قانون میں بھی آیا ہے اور مفنن اس کے یہ معی بتاتے ہیں کہ ’’رسم‘‘ ایک ایسا قانون ہے جو کبھی تحریر میں نہیں آتا مگر مدتوں سے اور عام لوگوں کی رضا مندی سے جاری ہے۔ ’’رسم و رواج ایک بڑا حصہ ملکی قانون کا ہے اس کا وجود ہر ایک ملک اور ہر ایک عمل داری میں پایا جاتا ہے۔ انگلستان میں جو قوانین کہ کامن لا کہلاتے ہیں وہ حقیقت میں وہی بن لکھے قوانین ملکی رسم و رواج کے ہیں۔ بڑے بڑے قانون دانوں نے کامن لا کے یہی معنی بیان کیے ہیں۔ کہ انگلستان کا قدیمی رواجی قانون پس ہمارے ہندوستان میں جو رسم و رواج ہے وہ ہمارے ملک کا کامن لاء ہے۔ انگلستان میں تین قسم کے قانون جاری ہیں ایک کامن لا یعنی رسم و رواج کا بن لکھا قانون‘ دوسرا اسٹیٹیوٹ لا یعنی قوانین تحریری جن کو واضح قوانین نے بنایا اور گورنمنٹ نے ان کو جاری کیا۔ تیسر ا ایکیوٹی یعنی قدرتی انصاف کا قانون ۔ مگر ان تینوں قسموں کے قانونوں میں تھوڑا سا فرق ہے۔ تحریری قانون سے رواجی قانون یعنی کامن لا منسوخ ہو جاتا ہے۔ اگر ان دونوں میں مخالفت ہو لیکن اگر ایکیوٹی یعنی انصافی قانون کے قاعدے اس کے برخلاف ہوں تو کامن لا یعنی رواجی قانون بحال رہتاہے اگرچہ میری رائے میں ایسا ہونا انسان کے لیے نہایت افسوس کی بات ہے کیوں کہ ایسی حالات میں رواج کے نتیجے میں قدرتی انصاف دب جاتا ہے مگر تمام مقننوں کی رائے ہے کہ کامن لا یعنی رواجی قانون ایسا ہو جو تحریر میں نہ آیا ہو۔ اور اس کے قاعدے زبانی روایتوں پر چلے آتے ہوں۔ مگر رسم و رواج کو قانونی رتبہ حاصل ہونے کے لیے اتنا پرانا ہونا ضرور ہے کہ اس کے برخلاف ہونا لوگوں ی یاد سے باہر ہو۔ یہ سمجھنا چاہیے کہ کامن لا کے لیے کچھ تحریری کتابیں نہیں ہوتیں۔ بلکہ کامن لا پر نہایت بڑی بری کتابیں بہت بڑے لائق اور قابل اور واقف کار عالموں نے لکھی ہیں۔ فرق یہ ہے کہ کامن لا پہلے جاری ہوتا ہے اور پھیل جاتاہے اور اس کے بعد ضبط تحریر میں آتا ہے یا اس پر کتابیں لکھی جاتی ہیں اورتحریری قانون اول تحریرمیں آتا ہے اوراس کے بعد جاری ہوتاہے اورپھیل جاتاہے۔ نازک بحث اس مقام پر یہ ہے کہ مذہبی قانون کس میں داخل ہے تحریر ی قانون میں یا رواجی قانون میں۔ میں اس بات میں کسی مصنف کی رائے سے واقف نہیں ہوں مگر میں مذہبی قوانین کو پچھلی قسم میں سمجھتا ہوں کوئی مذہبی قانون یہاں کہ موسیٰ کے دس حکم بھ ایسے نہیں ہیں جن کا رواج قبل ان کے لکھے جانے کے نہ ہو چکا ہو۔ بانی مذہب گو کہ و ہ خدا کی طرف سے آیا ہو وعظ و نصیحت سے ایک بات کا رواج دینا چاہتا ہے یہاں تک کہ رفتہ رفتہ اس کے گروہ معتقدین میں رواج پا جاتی ہے اور جبکہ اس پر ایک عرصہ گزر جاتا ہے تو وہ بہ منزلہ قانون مذہبی کے یعنی ایسی رسم کے جو ایک مذہب کی بنا پر جاری ہوئی مستند ہو جاتی ہے پرانے مذہب کے لوگوں میں بہت مذہبی رسمیں انسان یاد سے پہلے جاری ہیں۔ وہ نہیں جانتے کہ وہ کیوں جاری ہوئیں تھیں اوران سے یا فائدہ ہے ارو اب ہم کیوں ان کو کرتے ہیں۔ پس وہ تامام باتیں بجز اس رسم ور واج میں داخل ہوں اورکسی میں داخل نہیں ہو سکتیں۔ میری رائے ہے کہ مذہب بھی رسم و رواج پیدا ہونے کا ایک سبب ہوتا ہے مگر جب تک کہ اس کے مسائل بہ طور رسم کے جاری نہ ہو جاویں۔ رسم و رواج سے زیادہ قوت نہیں رکھتا۔ اکثر قوموں میں بلکہ دنای کی کل قوموں میں بھی بہت سی ایسی رسمیں پائی جاویں گی جو درحقیقت انکے مذہب کے برخلاف ہیں مگر ان رسموں نے ان کے دلوںمیں ایسی مضبوط جڑ پکڑ لی ہے کہ مذہب کی نہایت زبردست اور طاقت ور کل بھی اس کے اکھاڑنے سے عاجز ہو گئی ہے ۔ رسم و رواج کی حکومت انسانوں کے دلوں میں نہایت قوی اور سب سے زیادہ مستحکم ہوتی ہے۔ ہر شخص غلام سے زیاد ہ اس کی تابعداری کرتا ہے۔ آقا کو اپنے غلا م پر کبھی کبھی نافرمانی کرنے کا اندیشہ ہوتا ہے مگر رسم و رواج کو اپنے غلاموں کی نسبت نافرمانی کا کبھی اندیشہ نہیں ہوتا۔ تعجب یہ ہے کہ جاہل اور عالم ‘ نادان اور عقل مند سب برابر اس کی غلامی کرتے ہیں۔ اچھا قابل اورلائق آدمی جو فلاسفی اور حکمت کے باریک باریک مسئلے حل کرتاہے جب ان باتوں تک پہنچتا ہے جن کا رسم و رواج مدت سے چلا آتا ہے تو تمام اپنی قابلیت اور عقل و تمیز کو بھول جاتاہے اور محض ہم کو تعجب آتا ہے کہ جب کہ ہم یہ دیکھتے ہیں کہ سقراط سا شخص جس نے اپنی قوم کے رفارم کرنے میںاپنی جان دی جب کہ زہر کا پیالہ اپنی جان پر اثر پاتاہے اور اپنی زندگی کو چند لمحے سے زیادہ نہیں سمجھتا کس وقت اپنے پیارے دوست کرمئیر کو وصیت کرتا ہے کہ وہ اس کی منت کو جو ا س کو لیپی اس دیوتا پر مرغی چڑھانے کی تھی پوری کرے۔ اس واقعہ سے ہم سمجھ سکتے ہیں کہ رسم ور واج کا انسان کے دلوں پر اور سقراط کے سے دل پر جس کے دل کو گویا خدا نے اپنے ہاتھ سے بنا لیا تھا کیسا کچھ قوی اثر ہوتا ہے۔ ہاں یہ بات بلاشبہ تسلیم کرنے کے لائق ہے کہ جو رسم مذہبی سند یا مذہبی خیال پر قائم ہوتی ہے اسکا اثر انسانوں کے دلوں پر بہ نسبت ان رسموںکے جو اور طرح پر قائم ہوئی ہون بہت زیادہ سخت اور نہایت قوی ہوتاہے۔ اس میرے بیان سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ رسم و رواج کا تعلق مذہب اور حکومت اور معاشرت سب سے برابر ہے مگر میں اپنے اس لیکچر میں اس بات سے کچھ بحث کرنے کا نہیں کہ جو رسمیں دنیا کی قوموں میں جاری ہیں ان میں سے کون سی اچھی ہیں اور کون سی بری ہیں بلکہ میں اس بات پر بحث کروں گا کہ رسومات متعینہ میں وہ مذہب سے علاقہ رکھتی ہوں یا حکومت و معاشرت سے اصلاح و ترقی کی ضرورت ہے یا نہیں اور اگر ہے تو وہ کیوں ہو سکتی ہے۔ جو لوگ مذہبی رسومات کے پابند ہیں وہ یہ سمجھتے ہیں کہ یہی رسمیں سچائی اور انسا ن کی بھلائی کے لیے نہایت اعلیٰ درجہ کمال پر ہیں اور ان سے زیادہ ترقی کرنا ممکن نہیں یہاں تک کہ اگر کوئی ان میں ترقی یا اصلاح کرنی چاہے گو کہ وہ اسی مذہب کی سند پر کرتا ہوجس مذہب کی وہ رسمیں ہیں۔ تو اس کو کافر اور مذہب سے خارج کر دیں گے۔ اس کا ٹھکانا بجز جہنم اور کہیں نہیں بتلاویں گے مگر ہماری تسلی تو صرف یہی بات کافی نہیں ہے کیوں کہ اب تک ایک نہایت ضروری بات پر خیال نہیں کیا گیا ہے اور وہ یہ ہے کہ ان رسومات مذہبی کا اثر ہمارے دل پر درحقیقت ان کی سچائی کا سبب ہے یا ہماری عادت کا جس کی ہم کو اپنی بچپن سے عادت پڑ گئی ہے۔ رسم جو حکومت سے اس پر پابندرہنے کے لیے بڑے بڑے مشہور مقنن ارو عالم طرف دار ہیں۔ ٹینسی نس مورخ کا قول ہے کہ جس سلطنت میں زیادہ قانون ہوتے ہیں ا س میں اتنی ہی زیادہ برائی ہوتی ہے‘‘۔ میں سمجھتا ہوں کہ غالباً میرے ملک کے لوگوں کی بھی یہی رائے ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ہمارا ہندوستان قانون کے بوجھ تلے دبا چلا جاتا ہے اور اسی سبب سے اس میں روز بروز پیچیدہ حالا ت پیدا ہوتے جاتے ہیں۔ اودھ کے رہنے والوں نے جو اودھ کے شمال مغربی اضلاع میں شامل ہونے سے اپنی زیادہ نفرت ظاہرکی غالباً اس کا سبب غالب یہی تھا کہ بہ نسبت حال کے ان کا ملک قانون کے بوجھ میں زیادہ دب جاوے گا۔ غالباً ہندوستان کی راجا وائی اور ہندوستانی عمل داریوں کو اس لیے زیادہ عمدہ سمجھتے ہوں گے کہ وہاں کی حکومتیں مرجاد یعنی قدیم رسوم پر چلتی ہیں۔ اورتمام جھگڑوں کا فیصلہ رسم و رواج کی پابندی سے ایک عامل کی رائے پر ہو جاتا ہے۔ رسم و رواج کے طرف داروں کے لیے رومیوں کی حکومت ایک بہت بڑی مثال گنی جاتی ہے جن کی حکومت میں تمام خوہ وہ عام لوگوں سے معلق ہوتے تھے خواہ لوگوںکے ذاتی کاموںسے خواہ عدالت کے فیصلوں سے‘‘ باپ دادا کی رسم پر مبنی ہوتے تھے یہاں تک کہ مجرموں کو سزا دیتے وقت جس طرح کہ ہم پینل کوڈ کی دفعہ کا حوالہ دے کر سزا دیتے ہیں وہ اپن باپ دادا کی رسم کا حولہ دے کر سزا دیتے تھے۔ سیاھت رومی مورخ لکھتا ہے کہ تارکوپین کو جلاوطن کرنے کے حکم میں یہ لکھا گیا تھا کہ ایک رسم کے تبدیل کے سبب جلا وطن کیا گیا ویرحل مصنف بھی رسم و رواج کا طرف دار ہے اور کرے سٹم کا قول ہے کہ وہ قوم غلامی کی حالت میں ہے جس پر قانون حکومت کرتا ہے اور آزاد قوم وہ ہے جس پر رسم و رواج کی حکومت ہوتی ہے ۔ گولڈ سمتھ لکھتے ہیں کہ رسم و رواج درحققیقت اپنے باپ دادا کے حکموں کو ورثہ ک طور پر لینا ہے جس پر خود بھی لوگ چلتے ہیں اورنہایت خوشی اور رضامندی سے اس کو مانتے ہیں اس لیے ملکی رسم و رواج کا جاری رہنا قومی آزادی کا نشان ہے اور جو کہ یہ رسمیں اس ملک کے معزز و قابل ادب بزرگوں سے چلی آتی ہیں اس لیے ان سے آئندہ قومی آزادی کے محفوظ رہنے کو بڑی مدد ملتی ہے مگر مفتوحہ ملک کا حال اس کے برخلاف ہوتا ہے۔ کیوں کہ وہاں کی رعایا جو بہ سبب مفتوح ہونے کے غلاموں کی مانند ہوتی ہے ا سکو ایسے رتبوں کا دعویٰ نہیں پہنچتا اس لیے کہ مغلوب ہونے کی ذلت نے ان کے بہادر اورنامور باپ دادا کے کاموں کے محفوظ رکھنے کا حق بالکل کھو دیا ہے اور اس حق کو فتح مند قوم نے اپنی قوت و جرات سے لے لیاہے ۔ فتح مندی کو ہمیشہ قوانین کے جاری کرنے اور وہاں کی رعایا کو بغرض قدیمی رسم کے قانون کے پابند رہنے سے مضبوط کرنا چاہیے تاکہ وہ قانون ہر گھڑی ان کو یاد دلاتے رہیں کہ وہ فتح کرنے والوں کے غلام ہیں۔ گولڈ سمتھ صاحب کی یہ رائے ہے کہ ایسی مضبوط رعایا پر جن کے ہاں ان کے معزز باپ دادا کی پرانی رسمیں جاری ہوں جو ہر دم ان کو مفتوحہ ہونے کی ذلت سے اٹھانا چاہتے ہیں اور آزادی اور بغاوت کی ترغیب دیتے ہیں۔ کسی طرح وفاداری و خیر خواہی کا اعتماد نہیں ہو سکتا۔ وہ لکھتے ہیں کہ شاید یہی سبب تھا جو رومن ریپبلکن رسم ورواج کی نہایت عزت کرتے تھے ۔ اورنئے قوانین جاری کرنے میں نہایت تامل کرتے تھے اور اسی سبب سے ان کی سلطنت بہت دنوں تک رہی اور تمام دنیا میں بے انتہا نیکیوں کا نمونہ ہوئی وہ یہ بھی لکھتے ہیں کہ قوانین کا فائدہ ان کے ماننے اور ان کے عمل کر نے پر منحصرہے پس رسم ور واج کے قانون ان کے بانیوں کی عزت کے سبب ازخود معزز ہوتے ہیں اورتمام لوگ ان بانیون کی نیکی اور انتظام کی نقل کرنے میں ہمیشہ مشغول رہتے ہیں۔ اسی سبب سے رومن لوگ اپنے باپ دادا کی یادگاری مذہبی طور پر کیا کرتے تھے اور مدتوں تک اسی طرح عمل درآمد کرنے سے ان کے ہاں کی معزز و قابل ادب رسموں کی گردن پر نئے نئے قوانین کی موٹی موٹی اوربھاری بھاری جلدیں سوار نہ ہوئیں تھیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ میرے ہندوستانی بھائی گولڈ سمتھ کے اس فقرے کو سن کر بہت خوش ہوئے ہوں گے اور ان کے دل میں اس بات کا خیال گزرا ہو گا کہ ہندوستان کی حکومت بھی اسی رومی اصول پر ہونی چاہیے مگرمیں سمجھتا ہوں کہ وہ ابھی تھوڑا سا صبر کریں کہ مجھے کچھ اور کہنا ہے۔ گولڈ سمتھ رسم و رواج کی طر ف داری کرتے ہیں اور لکھتے ہیں کہ قومی رسموں نے بہ سبب اپنے پرانی اور سیدھی سادھی اور مختصر ہونے کے ایک نہایت بزرگ اور ہمیشہ قائم رہنے والی صورت پیدا کر لی ہے جس کی دل میں بڑی عزت بیٹھ گئی مگر نئے قانون جو بڑی بڑی جلدوں میں لکھتے جاتے ہیں وہ لوگوں کو گھبرا دیتے ہیں اور ہمیشہ ادل بدل ہوتے رہتے ہیں جس کا نتیجہ ہوتا ہے کہ آدمی ان کو بھول جاتے ہیں اور ان کو حقیر سمجھتے ہیں وہ خیال ہیں کہ جو انسان کرتا ہے اس میں ضرو ر بڑی بڑی غلطیاں ہوتی ہیں اور اس لیے ضرور ہے کہ ان قانون میں بھی کچھ غلطیاں اورنقصان ہوں اور پھر وہ غلطیاں اور نقصان جلد معلوم بھی ہو جاتے ہیں اور ایک جزمیں نقصان ثابت ہونے سے تمام قوانین حقارت کے قابل ہو جاتے ہیں۔ رسومات جو قدیم سے چلی آ تی ہیں شاید ان میں بھی کچھ نقصان ہو۔ مگر لوگ ان نقصانوں پر کچھ لحاظ نہیں کرتے بلکہ ان کی حمایت میں ایک دوستانہ تعصب برتتے ہیں۔ فرض کرو کہ ایک قانون نہایت انصاف سے بھرا ہوا ہے اور ضروری بھی ہے اور اس کے خلاف کوئی دلیل بھی نہیں ہے تو بھی لوگ اس قانون کی عزت نہیں کرتے مگر رسم و رواج کے برتنے میں وہ بالکل اندھے ہو جاتے ہیں اور اس کی غلطیوں کو خود دیکھتے ہیں اور سمجھتے ہیں اورکچھ نہیں کہتے بلکہ یہ یقین رکھتے ہیں کہ ہمارے عقل مند اور دو ر اندیش باپ دادوں نے جو کچھ کیا ہے وہ سمجھ کر کیا ہے اورکوئی نہ کوئی اس کا سبب ہو گا اگرچہ اب ہم اس کا سبب نہیں جانتے مگر جو فائدے کہ اس رسم کے مقرر کرنے سے تھے اس رسم کے کرتے رہنے سے برابر ہم کو ملتے رہتے ہیں۔ گو کہ ہم نہیں جانتے کہ وہ کیا فائدے تھے اور کیوں کر ہم کو ملتے ہیں۔ ایک اور رومی قانون دان سب سے بڑھ کر ایک بات کہتاہے اس کا قول ہے کہ جو رسمیں ہمارے باپ دادا نے مقرر کی ہیں ان کا سبب ہم نہیں بتا سکتے مگر ہم کو اتنا سبب تلاش کرنا نہیں چاہے ورنہ جس بات کی خوبی پر ہم کو کامل یقین ہے اس میں شک پڑ جاوے گا۔ یہ وہ دلیلیں ہیں جو رسم ور واج کے طرف داروں نے نہایت مضبوط سمجھ کر بیا ن کی ہیں مگر یہ نہ سمجھنا کہ اس کی مخالفت کسی نے نہیں کی ہے ۔ مانیثرک مشہور رومی مصنف اس رائے کے بالکل خلاف ہے ۔ اس کا قول ہے کہ ’’جس قوم میں جس قدر زیادہ تحریر ی قوانین ہوتے ہیں وہ اتنی ہی زیادہ آزاد ہوتی ہے‘‘ اس نے پرشیا کے بادشاہ کو نہایت حقارت سے دیکھا ہے جس نے اپنے ملک کے تحریری قوانین بہت گھٹا دیے تھے۔ بعضوں کا قول یہ ہے کہ ’’ اس سے زیادہ کون ملک نفرت اور حقارت کے قابل ہے جہاں کی حکومت صرف وہاں کے رسم و رواج کے مطابق ہوتی ہے اور کوئی تحریری عمدہ قانون جاری نہیں ہے اور گورنمنٹ اور اس کی رعایا کے حقوق کی کوئی حد نہیں ہے‘‘ میں رسم و رواج کی پابندی کا طرف دار نہیں ہوں۔ کچھ تھوڑی دیر کے بعد میں آ پ صاحبوں کو بتائوں گا کہ ان رایوں میں کس قدر غلطی ہے اور مانیژک کا قول کیسا ادب کے لائق ہے۔ رسم و رواج کا تعلق جہاں تک کہ مذہب اور حکومت سے تھا اس کا بیان ہو چکا اورمعاشرت سے جو اس کا تعلق ہے اس کا بیان باقی ہے مگر میں زیادہ اس کی تشریح کی ضرورت نہیں سمجھتا کیوںکہ کوئی قوم بلکہ کوئی خاندان ایسا نہیں ہے جس میں در باب معاشرت ہزار ہا اور عجیب عجیب رسمیں جاری نہ ہوں یہاں تک کہ سوئلسٹنرملک میں بھی ہزاروں لغو رسمیں جاری ہیں جب کہ انسانوں کے مزاج میں وحشت کم ہوئی اور جانوروں کی طرح جنگل میں رہنے اور خانہ بدوش پڑے پھرنے اور جانوروں کے شکار سے پیٹ بھر لینے اوران ہی کی کھال پہن لینے کے بدلے انہوں نے تمدن اختیار کیا اور آپس میں گھل مل کر رہنے لگے اورمعاشرت کی حالت پیدا ہونے لگی اسی کے ساتھ رسم و رواج نے بھی ظہور پایا۔ گویا تمدن و معاشرت رسم و رواج پیدا ہونے کا سبب ہے اورپچھلا پہلے کا نتیجہ ہے مگر ان کے قائم ہونے کے اور بھی سبب ہوتے ہیں۔ ملک کی خاصیت ملکوں کے لوگوں کی مختلف ضرورت قوموں کی طبیعتوں کا اختلاف ان کے مزوں کا تفاوت جس کو انگریزی میں ٹیسٹ کہتے ہیں ان کے اعضاء کی دماغ کی بناوٹ جس سے اعلیٰ یا ادنیٰ درجے کے طبعی خیالات پیدا ہوتے ہیں اوراخیر کو علم و ہنر کی ترقی۔ رسم و رواج کا تبدیل کرنا اور ان کو ترقی دینا انسانی سوسائٹی کے لیے ایسا ہی ضرور ہے جیسے کہ ہر ایک انسان کو زندگی کے لیے سانس لینا اور متغیر ہوا کا نکالنا اورتازہ حیات بخش ہوا کو اندر کھینچنا اگرچہ ہر ایک شخص سمجھتا ہے کہ ہماری رسم و رواج میں تبدیل کی ضرورت نہیں ہے لیکن جب کہ ان سببوں پر خیال کیا جاوے تو رسم و رواج قائم ہونے کے سبب ہیں اور جن کو میں نے ابھی بیان کیا ہے تو معلوم ہو گا وہ سبب ہی شاید سوائے بعض کے ایسے ہیں جن میں ہمیشہ تغیر تبدل ہوتی رہتی ہے اور اثر یہ ہے کہ وہ سب زمانے کے گزرنے پر ترقی پا جاتے ہیں پس ضرور ہے کہ ان کے نتیجوں یعنی رسموں میںبھی تبدیلی اور ترقی ہو۔ یہ دعویٰ منطقی شکل پر اس طرح قائم ہوتا ہے کہ ’’رسمیں نتیجہ میں زمانہ کی حالت کا اور زمانہ کی حالت ہمیشہ قابل تغیر ہے۔ پس رسمیں بھی قابل تغیر ہیں‘‘۔ یہ خیال کہ ہماری رسموں میں تبدیلی کی ضرورت نہیں ہے۔ ’’گو وہ کیسے ہی مضبوط یقین دل سے بیٹھا ہو) بھروسے اور اعتماد کے لائق نہیں ہے کیوں کہ ممکن ہے کہ صرف عادت نے یہ خیال ہمارے دل میں جمایا ہو اس بات کا اندازہ کرنا کہ انسان جن عادتوں میں ابتدا سے پرورش پاتا ہے اور پلتا ہے اور بڑھتا ہے وہ کہاں تک ا س میں اثر کر جاتی ہیں اور دوسری طبیعت سے ہو جاتی ہیں حقیقت میں انسان کی طاقت سے بھی بہت زیادہ اور بلند درجہ پر ہے چنانچہ مختلف قوموں کی مختلف رسموں پر لحاظ کرنے سے اس بات کی بہ خوبی تصدیق ہو جاتی ہے۔ رسومات میں اصلاح کرنے کی ضرورت خود انسان کی حالت پر غور کرنے سے ثابت ہوتی ہے جب کہ ہم انسانوں کی سوسائٹیوں پر نظر ڈالتے ہیں تو ان کی تمام رسمیں کیا مذہب کی اور کیا حکومت کی اورکیا معاشرے کی مختلف پاتے ہیں۔ مختلف کا لفظ شاید میں نے غلط کہا کیوں کہ مجھ کو یوں کہنا چاہیے کہ ایک کی رسم کو دوسرے کی رسم کے برعکس یعنی نقیض پاتے ہیں اور جو کہ دو نقیض کبھی سچ نہیں ہو سکتیں اس لیے دونوں کی دونوں رسمیں بھی اچھی نہیں ہو سکتیں ۔ پس رسومات متناقضہ کا موجود ہونا ہی کافی ہے ثبوت اس بات کا ہے کہ رسومات کا توڑنا اور تبدیل کرنا اور ترقی دینا نہایت ضروری ہے ۔ اس بات کے ثبوت کے لیے کہ مختلف قوموں میںتینوں قسم کی متناقض رسومات موجود ہیں ان قوموں کی رسومات پر جو مذہب حکومت اور معاشرت سے متعلق ہیںغور کرنی کافی ہے۔ دیکھو اگلے زمانے کے یونانیوں اور مصریوں اورہندوستان کے ہندوئوں کو جو مذہبی رسومات میںیسیوں دیوتائوں کو ماننا اور ان کی پرستش بجا لانا اپنی نجات کا ذریعہ سمجھتے ہیں مگر یہودی ار مسلمان ٹھیک اس کے برخلاف ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ سوائے ایک خدا کے کسی دوسرے خدا کی پرستش کرنا ٹھیک جہنم میں جاتا ہے۔ یہودی اور مسلمان اورہندو جنگ کے وقت اپنی نجات کے لیے بڑی قربانیاں کرتے ہیں۔ مگر ایک بدھ مذہب کا ہندو اس کو بہت ہتھا اور سخت عذاب کا کام سمجھتا ہے۔ ہندو اور رومن کیتھولک اپنے پیشوائوں کی مورتوں کے سامنے خوشیوں کے حاصل کرنے کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ مگر یہودی اور پروٹسٹنٹ اور مسلمان اس کو روحانی موت کا ذریعہ خیال کرتے ہیں۔ ایک نہایت نیک دل ہندو نہایت سچائی اور دلی اعتقاد سے اور بیکنٹھ میں جانے کے یقین سے ایک دیوتا کی موت پر اپنی جان کو آپ قربانی کرتا ہے۔ مگر عرب کے ریگستان کا قانون بنانے والا ایسے فعل کو خود کشی قرار دیتا ہے اور اس کے کرنے والے کو نرک میں ڈالتا ہے۔ ایک ہندو اپنے پیارے کی لاش کو کس محبت اور عزت اورنیکی اور ابدی نجات کے یقین سے نہایت خوفناک اورتیز بھڑکتی آگ میں جلاتا ہے اورپھر اس کی جلی ہوئی مٹی سیاس کی ہڈیوں کو چنتا ہے ۔ اور ان کا نام پھول رکھا جاتا ہے اورپھر گنگا میں بہاتا ہے۔ مگر ایک یہودی یا عیسائی یا مسلمان اس کو نہایت بے رحمی اور سنگ دلی کا کام سمجھتا ہے۔ کسی مجرم کی لاش کو بھی آگ میںڈالنا گناہ سمجھتے ہیں۔ ان کے خیال میں بھی نہیں آتا کہ یہ کیوں کر ہو سکتا ہے کہ اپنے عزیز کی لاش کو خو د اپنے ہاتھوں سے جلتی آگ میں ڈال دیا جاوے پس یہ بات غور کے قابل ہے کہ مذہبی رسومات بھی ایک قومکی دوسری قوم سے کیسی مخالفت ہے۔ رسومات جو حکومت کے متعلق ہیں وہ بھی باہمی اختلاف رسومات کے اندازے سے مختلف ہیں ایک ٹکڑا امریکہ کا غلاموں کو آزاد کرنا گورنمنٹ کا ایسا ہی فرض سمجھتا ہے کہ جیسے کہ دوسرا ٹکڑا مالکوں کا حق غلاموں پر قائم رکھنا واجب جانتا ہے۔ زنجبار کا بادشاہ غلاموں کی سوداگری کو ایک عمدہ اور نہایت پاک محاصل بادشاہی خزانے کا سمجھتا ہے مگر انگلینڈ کی ملکہ اس کے معدوم کرنے کو جنگی جہاز روانہ کرنے پر آمادہ ہوتی ہے۔ اسی ہندوستان کی پہلی حکومت میں دختر کشی ایک رسم ناقابل مزاحمت اور نئی ایک رسم قابل ادب اور تعظیم کے تصور کی جاتی تھی مگر فورٹ ولیم کا قانون بنانے والا اس کو قتل انسان قلزم سزا کا جرم قرار دیتا ہے۔ معاشرت اور تمدن کی رسومات کے اختلاف کی تو کچھ ایسی انتہا ہی نہیں ہے۔ ایک قوم کو دیکھتے ہیں کہ وہ سر ننگا کرنا اور پائوں میں جوتی پہنے رہنا نہایت تعظیم و آداب کرنا سمجھتی ہے مگر میں سنتا ہوں کہ ہندوئوں میں سر ڈھانکنے رہنا اور جوتی اتار کر ننگے پائوں ہو جانا غایب ادب و تعظیم کاکام سمجھا جاتا ہے (میں نے ہندوئوں کی تخصیص اس مقام پر اس لیے کی کہ مسلمانوں میںجوتی اتار ننگے پائوں ہونا داخل ادب نہیں ہے) سب سے بڑا معاملہ معاشرت اورتمدن کا شادی و بیاہ کے متعلق ہے ۔ ایک قوم کی خوب صورت نیک لڑکی نہایت پاک مگر محبت کے بھرے ہوئے دل سے اپنے لیے آپ شوہر پسند کرتی ہے مگر ہندوستان کی قوم کی لڑکی بیاہ کے بعد بھی کبھی اپنے شوہر سے بات تک نہیں کرتی۔ دیکھو کثرت ازدواج یعنی ایک سے زیادہ شادی کرنی ایک قوم میں کس قدر معیوب اور کیسی قابل نفرت قرار پائی ہے۔ مگر ہندوستان کی ایک قوم کولین میں یہ رسم کیسی عمدہ اور مبارک سمجھی جاتی ہے۔ ستر برس کے بڈھے سے سات برس کی لڑکی کی جو اکہترویں جورو اس بڈھے کی ہوتی ہے شادی کی جاتیہے اور شادی کرنے والے اس شادی کو بڑا پن اور نہایت ہی عمدہ کام سمجھتے ہیں اورقوم کے ہندو بھی کثرت ازدواج کو معیوب نہیں سمجھتے اورمسلمان بھی چار تک اور ان کا ایک فرقہ کولین کے فرقے سے بھی بڑھ کر لاانتہا تک کثرت ازدواج کو معیوب نہیں سمجھتا مگر یورپ کی سوسائٹی میںکثرت ازدواج پر مثل ایک سنگین جرم سے سز ا دی جاتی ہے۔ آپ زیادہ تر تعجب کریں گے کہ جب آپ اس قوم کی رسم پر غور کریں گے جو کوہستان سراج کے علاقہ کرنگڑہ میں آباد ہے اورجو کنیت کہلاتی ہے اورجن میں یہ رسم ہے کہ چار پانچ بھائیوں میں صرف ایک ہی عورت ہوتی ہے یعنی وہ سب ایک سے شادی کرتے ہیں اوروہ سب کی جورو ہوتی ہے جو شوہر خلوت میں اس کے پاس جاتا ہے اپنی لاٹھی ‘ جوتی باہر چھوڑ جاتا ہے تاکہ دوسرا شوہر ان نشانیوں کو دیکھ کر الٹا پھر جاوے۔ اس پہاڑی ملک کو ایک وحشی ملک سمجھ کر حقیر مت سمجھو۔ اسپارٹا کے ملک میںبھی ایک زمانے مین ایسی ہی رسم تھی ۔ وہاں کے مرد بغیر خاص وجہ کے ایک سے زیادہ زادی نہ کر سکتے تھے۔ وہاں کی عورتیں ایک سے زیادہ خصم کرنے کی بلا قید مجاز تھیں اور کئی کئی خصم ساتھ رکھتی تھیں۔ جس طرح کہ ہم لوگ ایک عورت کے کئی خصم ہونا معیوب سمجھتے ہیں اسی طرح وہ لوگ ایک مرد کی کئی جورو ہونا سخت عیب اور نہایت ہی عیب خیا ل کرتے ہیں۔ ایک چینی جن میں دانتوں کا سیاہ کرنا نہایت پیاری رسم ہے جب یورپ میں جاتاہے تو تمام لیڈیوں کے سفید اور موتی کے سے آب دار دانت دیکھ کر نہایت ہی متعجب ہوتا ہے اور جب ان کو چلتا پھرتا دیکھتا ہے تو اور بھی متعجب ہوتا ہے کیوں کہ چینیوں میں عورتوں کے پائوں لوہے کے شکنجے چڑھا کر ایسے چھوٹے کر دیتے ہیں کہ وہ چلنے پھرنے کے قابل نہیں رہتیں۔ اگر کوئی اشراف مسلمان خاندان کی عورت عربی گھوڑے پر سوار ہو کر شہر مٰں نکلے تو کون سا عیب ہے جو اس پر نہ لگایا جاوے۔ مگر تم اسی ہندوستان میں ایک تربیت یافتہ اورفتح مند قو م کو دیکھتے ہو کہ انکی تمام لیڈیاں مثل مردوںکے باہر پھرتی ہیں اورعجائبات قدرت الٰہی کو دیکھتی ہیں اور قدرتی چیزوں کے دیکھنے میں اورملکوں کی سیر کرنے اور دریائوں اور جنگلوں سے تماشے دیکھنے سے مردوں کی مانند عقل و علم وتربیت حاصل کرتی ہیں۔ شاید تمہاری نگاہ میں یہ ہنر عیب ہو مگر جس کو تم ہنر سمجھتے ہو وہ اس کو نہایت سخت عیب سمجھتے ہیں۔ کیا آپ لوگ اس رسم کو عجیب اور نہایت ہی عجیب نہ سمجھیںگے کہ میسور کی ایک قوم میں یہ رسم ہے کہ جب کسی عورت کے ہاں اول مرتبہ لڑکا پیدا ہوتا ہے یا بانع عورت لڑکے کو منبنیٰ کرتی ہے تو اپنے ہاتھ کی دو انگلیوں کی ایک ایک پور کٹوا دیتی ہے او اس کو نہایت ہی مبارک سمجھتی ہے۔ یہ چند مثالیں بہ طور نمونہ کے میں نے آپ کے سامنے بیان کیں ورنہ بہت سی ایسی رسمیں نکلیں گی کہ جن کو ایک قوم نہایت اچھا اور دوسری نہایت ہی برا سمجھتی ہو گی۔ اور جو کہ وہ دونوں رسمیں آپس میں برخلاف ہیں اس لیے وہ دونوں رسمیں اچھی نہیں ہو سکتیں یا وہ دونوں بری ہوں گی۔ یا ان میںسے ایک اچھی ہو گی اور ایک بری ہو گی۔ پس اگر رسموں کی پابندی کی جاوے تو ضرو ر کوئی نہ کوئی قوم ایسی رسموں میں جو درحقیقت بری ہیں اور خراب ہیں مبتلا رہے گی۔ جو لوگ رسموں کی پابندی کے طرف دار ہیں ان سے یہ سوال ہوتا ہے کہ جن رسموں کی تم پابندی چاہتے ہو وہ رسمیںبھی بعد اصلاح و ترمیم و تبدیل کے تمہارے بزرگوں نے قائم کی تھیں کیوں کہ تمہارے بزرگوں کے بزرگ اس سے بھی زیادہ وحشیانہ رسموں میں مبتلا تھے پس جب کہ ہمارے بزرگوںنے اپنے بزرگوں کی رسموں کو اصلاح کیا ہے تو ہم اپنے بزرگوں کی رسموں کو جو اصلاح کے قابل ہوں کیوں نہ اصلاح کریں۔ اگر رسموں کا اصلاح کرنا ابتدا سے انسان کی نسلوں میں جاری نہ ہوتا اورابتدا سے تمام انسان رسموں کی پابندی کے ایسے ہی طرف دار ہوتے جیسا کہ ٹیسی ئس ورجل کرے سسٹم اور مسٹر گولڈ سمتھ تھے جن کے قول میں نے اوپر بیان کیے ہیں تو آپ جانتے ہیں کہ ہماری تمہاری کیا حالت ہوتی ۔ ہم میں سے کسی کے اگر پیچھے کسی درخٹ کے دو پتے بندھے ہوتے اور کسی کے کسی جانور کے بالوں دار کچی کھال لپٹی ہوتی اورعدن کے درختوں کی آڑ میں بیٹھے ہوئے خدا کے گیت گایا کرتے۔ پس جو لوگ رسموں کی اصلاح و ترقی کے برخلاف ہیں وہ خود اس میں مبتلا ہیں جس سے لوگوں کو منع کرتے ہیں کیوں کہ وہ ایک ترقی یافتہ زمانہ کی رسموں کو پکڑتے ہیں اور دوسرے ترقی یافتہ زمانے کی رسموں کے پکڑنے سے انکار کرتے ہیں۔ تمام کام جو رسم کے برخلاف کیے جاتے ہیں ابتدا سب کو برے معلوم ہوتے ہیں۔ اس کا بڑا سبب بے علمی یا ناقص تعلیم ‘ ان کی تعلیم کو اس قدر قوت نہیں بخشتی کہ وہ رسومات کے اس تعصب اور جہالت اور ہٹ پر جو عادتاً ان کے دل میں بیٹھی ہوئی ہے غالب آوے اورنہایت انصاف دے دیکھے کہ رسومات معینہ میں درحقیقت کیا نقص ہیں اوران کی ترقی اور اصلاح کی ضرورت ہے یا نہیں۔ ایک عادل اور منصف گورنمنٹ کو جو اپنی رعایا کی حالت کی ترقی بھی چاہتی ہو قانون بنانے اور ان کو جاری کرنے کی نہایت ضروری ہیں۔ جب کہ رعایا کی حالت ان کی عادت اور ان کے خیالات اوران کے معاملات اوران کی معاشرت تبدیل ہوتی جاتی ہے یا نئی قسم کے حقوق اور نئے طور کی ملکیت پیدا ہوتی ہے یا خود گورنمنٹ کو اپنے استحکام اور استقلال کے لیے نئے انتظاموں کی ضرورت پیش آتی ہے تو پرانی رسومات کے موافق چلنے سے کام نہیں چلتا اوربلاشبہ قوانین کے جدید بنانے کی ضرورت پڑتی ہے اوریہی سبب ہے کہ تم ہندوستان میں اور نیز تمام تربیت یافتہ گورنمنٹوںمیں نئے نئے قانون جاری ہوتے ہوئے دیکھتے ہو۔ ہاں یہ بات میں دل سے تسلیم کرتا ہوں کہ ایسے قوانین کا جاری ہونا بصلاح اور مشہور رعایا کے نائبوں کے ہونا چاہیے اور مجھے نہایت افسوس ہے کہ ہندوستان میں ایسا نہیں ہوتا اور ایسا نہ ہونے میں کچھ تو گورنمنٹ کی غلطی ہے اور زیادہ تر ہم رعایا کی نالائقی‘ مگر امید ہے کہ چند روز بعد کافی تعلیم سے یہ دونوں باتیں رفع ہو جاویں گی۔ رسومات کی اصلاح و ترقی جس طرح کہ انسان کے ظاہری طریقہ زندگی کو فائدہ دیتی ہے اسی طرح اس کی عقل کو بھی ترقی دیتی ہے۔ ایک بات کے پیچھے لگے رہنے اور اس لکیر پر چلنے سے انسان کی عقل سو جاتی ہے اور قوت ایجاد جو خدا نے انسان میں رکھی ہے وہ معطل بلکہ قریب معدوم ہو نے کے ہو جاتی ہے اور اس سبب سے قومی تنزل شروع ہو جاتا ہے کیوں کہ قوت ایجاد کے معطل ہونے سے تمام علو م و فنون میں فتور آ جاتا ہے اورکسی چیز مں ترقی نہیں ہو سکتی۔ یہاں تک کہ جولاہے اور بڑھئی اور لوہار بھی اپنے اپنے پیشے میں نہ کچھ ترقی کر سکتے ہیں اورنہ کچھ ایجاد کر تے ہیں۔ اور ٹھیک ٹھیک یہی حال ہندوستان کا رسومات کی پابندی سے ہو گیا ہے۔ رسومات کی اصلاح و ترقی کے وقت بلاشبہ یہ نازک مسئلہ بحث میں آتا ہے کہ کون سی رسم اچھی اور کون سی بری ہے۔ اور اس کا جانچنا اورتصفیہ کرنا بھی کچھ آسان کام نہیں ہے۔ اورنہ اس پر بحث کرنا میرے اس مضمون میں مقصود ہے۔ مگر زمانہ ارو تعلیم و تربیت خود اچھی اور بری رسموں کو جدا جدا کرتا اوربتلاتا جاتا ہے۔ اس وقت بھی اس مضمون کے پڑھنے والوںمیں سے چند ایسے بھی ہوں گے جو ان رسموں سے جن کو وہ کرتے ہیں بہت سی رسموں کو برا سمجھتے ہوں گے اوران کی اصلاح و ترقی کی بھی نہایت خواہش رکھتے ہوں گے۔ مگر اس بات میں متحیر ہوں گے کہ کیوں کر ان کو چھوڑیں اور کس طرح ان کی اصلاح و ترقی کریں۔ بعضوں کا خیال یہ ہے کہ اگر گورنمنٹ دست اندازی کرے یا صاحب کلکٹر توجہ فرماویں تو ہم کو ان بد رسموں کا اپنی قوم سے چھڑانے کا اورسب کو دھمکا کر راہ پر لانے کا موقع ملے۔ان کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ہم بدنامی سے محفوظ رہیں اور گورنمنٹ کو لوگ بدنام کریں اور گورنمنٹ سے ناراجی کا بیج لوگوں کے دلوںمیں بوئیں اور جو لوگ اس سے زیادہ سنجیدہ اور متعین اورمعقول ہیں وہ ہمیشہ یہ کہتے ہیں کہ اگر برادری کا اتفاق ہو اور بزرگ بزرگ لوگ اس کو کرنے لگیں تو یہ کام چل جاوے مگر نہ کبھی کسی رسم کے چھوڑنے یا بدلنے پر اتفاق ہوتا ہے اور نہ کسی رسم میں اصلاح و ترقی ہوتی ہے بلکہ اسی تاریکی کی حالت میں زمانہ گزر جاتا ہے۔ اکثروں کا یہی خیال ہے کہ آپس میں اتفاق ہو تو رسموں میں اصلاح و ترقی ہو گویا و ہ اصلاح و ترقی کو اتفاق پر منحصر رکھتے ہیں۔ جس شخص کے دل میں اصلاح و ترقی کا خیال ہو اس کو چاہیے کہ خود نہایت استقلال اور مضبوطی اوربہادری سے تمام قوم سے اختلاف کرے اوراس رسم کو توڑ دے یا اس میں اصلاح و ترقی کرے اس میں کچھ شک نہیں کہ تمام قوم اس کو برا کہے گی اور نکو بنائے گی۔ مگر پھر رفتہ رفتہ لوگ اس کی پیروی کرنے لگیں گے اور جس طرح کہ اولا وہ ہدف تیر ملامت ہوا تھا ۔ انجام کو وہی سب کا ہادی اور پیشوا اور مصلح قوم شمار کیا جاوے گا۔ جب تک کوئی شخص تمام قوم سے اختلاف کر کر رسم کو نہ توڑے وہ رسم موقوف ہی نہیں ہو سکتی۔ پس یہی ایک طریقہ اختلاف ہے جس سے قوم کی اصلاح و ترقی ہو سکتی ہے اور ایسا کرنے والا ہی سچا خیر خواہ اپنی قوم کا متصور ہے۔ پس میں اپنے عزیز ہم وطنوں سے کہتا ہوں کہ چپکے چپک اپنے فرقے کے لوگوں میں بیٹھ کر رسموں کو بر کہنا اور ان ی اصلاح و درستی کے لیے ساتھیوں کو ڈھونڈنا اورقید سے نکلنے کے لیے قافلے کی راہ دیکھنا محض بے فائدہ اور سراپا غلطی ہے ۔ جو شخص بہادر ہے اور اپنی قوم کا سچا خیر خواہ ہے ا س کو خود اس بھاری بیٹری کو توڑ کر میدان میں آنا چاہیے تاکہ لوگوں کو بھی اس قید سے نکلنے کی جرات او ر ہمت ہو۔ اگلے اورحال کے زمانے میںجن لوگوں نے اپنی قوم کی بھلائی چاہی انہوںنے اسی طریقے پر عمل کیا اور آج تک دنیا میں کوئی مثال ایسی نہیں ہے کہ بغیر اس طریقے کے کسی دوسرے طریقے سے قومی ترقی اور بد رسومات کی اصلاح ہو۔ میرا یہ دعویٰ چند عمدہ اور قابل ادب قدیم زمانے کی مثالوں سے اور نیز جو واقعات کہ اس زمانے میں گزرے ہیں ان پر بہ طور تمثیل غور کرنے سے بخوبی ثابت ہو سکتا ہے۔ دیکھو اس زمانے سے ساڑے اڑتیس سو برس پہلے اور کلدانیاں میں ایک جوان تھا جسس کو ابراہیم کہتے تھے اس نے اپنی قوم کو بت پرستی میں پڑا اوربہت سی بدرسموں میںپھنسا ہوا دیکھا ا س کا دل اپنی قوم کی خراب حالت پر جلا۔ خدا نے اس کی مددکی کہ وہ اپنی قوم کے برخلاف اٹھ کھڑا ہوا اور پکار کر یہ بول اٹھا: انی وجھت وجھی للذی فطرالسموات والارض حنیفا وما انا من المشرکین تمام قوم نے اس کو لعنت ملامت کی قتل کرنا چاہا‘ آگ میں ڈالنا چاہا مگر خدا نے اس کو بچا لیا اورپھر انجام یہ ہوا کہ وہی ابراہیم تمام دنیا کی قوموں کے لیے رحمت ٹھہرا۔ صلواۃ اللہ علیہ وعلی آلہ۔ پھر خدانے اس قربانی کی بھیڑ کو دیکھو جس کا اسی قوم نے اپنی دانست میں نہایت بے رحمی اور سنگ دلی سے کالوری پہاڑی کے نیچے بیت المقدس کے پاس خون بہایا۔ اس بے گناہ کا یہ گناہ تھا کہ اپنی قو م کی رسومات کی برائی کرتا تھا اور اس کو بدذاتی اور ریا کاری سے منع کرتا تھا۔ اس کا یہ گناہ تھا کہ اس نے فرسیوں سے کہا کہ تم پیالے اور باسن کو باہر سے صاف کرتے ہو پر تمہارا اندر ظلم اور برائی سے بھرا ہوا ہے اے فرسیو! تم پر افسوس کہ ترکاریوں کا دسواں حصہ دیتے ہو پر انصا ف اور خدا کی محبت سے گزرتے ہو۔ اے فقیہو! تم پر بھی افسوس کہ جن بوجھوں کا اٹھانا تم کو مشکل ہے اس کو لوگوں پر ڈالتے ہو اور کود انگلی تک نہیں لگاتے۔ یہ سچ ہے کہ راست بازی نے اس کو نہایت مصیبت میں ڈالا ہے اور خود اسی کی قوم کے ہاتھ سے اس پر جو کچھ گزرنا تھا گزرا مگر اس کا انجام یہ ہوا کہ تینتیس کروڑ پچاس لاکھ آدمیوں نے اس کو خدا کا ایکلوتا بیٹا اور سولہ کروڑ آدمیوں نے اس کو روح اللہ اور کلمت اللہ جانا۔ دیکھو ریگستان عرب کے ہادی کو جس نے اپنی قوم کو لات و منات و عزیٰ کی پرستش سے چھڑایا اور اولاد کی قتل سے بچایا گو کہ اسی کی قوم نے اس کو ستایا اور وطن سے نکالا مگر انجام کو خدا کا آخری پیمبرؐ مانا اوراسی کی بدولت سب نے خدائے واحد کو پہچانا۔ صلی اللہ علیہ وسلم سقراط کا واقعہ بھی کچھ کم حیرت انگیز نہیں ہے ۔ ا س نے نہایت نیکی اورنیکدلی دے اپی قوم کی بھلائی پر کمر باندھی اور ان کی بد رسموں کی اصلاح چاہی مگر اسی کی قوم نے اس پر دیوتا کے برا کہنے اورایتھنز کے نوجوان لڑکوں ک بہکانے کا الزام لگایا یہاں تک کہ زہر کے پیالے سے اس کو مارا۔ مگر چند روز بھی نہیں گزرے تھے کہ تمام ایتھنز کے رہنے والوں نے اس کا ماتم کیا اور تمام دیوتائوں سے اس کو بڑا دیوتا مانا۔ لوتھر مقدس کا ذکر بھی اس موقع کے مناسب ہے جس نے عیسائی چرچ کی تمام بد رسموں کا مقابلہ کیا اور اپنی سچائی پر نہایت استقلال سے قائم رہا۔ پلاطرس کی سیڑھی پر نجات کی امید میں گھٹنوں کے بل چڑھتے وقت یہ غیبی آواز اس کے کان میں آئی کہ ’’سچے ایمان سے نجات پاوے گا‘‘ اسی پر وہ مستقل رہا اوراسی کا وعظ اپنی قوم سے کیا۔ گوتم برگ کے چوک میں جو آگ جلائی گئی اس سے کچھ خوف نہیں کیا اورپوپ کی برخلاف اتوار کے دن گرجے میں چلا کر بولا کہ ’’خدا تعالیٰ برخلاف اپنے عدالت اور صداقت کے گناہوں کے بدلے دام نہیں لیتا‘‘۔ اسی نے اپنی جان کا خوف نہ کر کے کاردنبل کی اس گفت گو کے وقت کہ پوپ کو سب باتوں اورسب چیزوں پر اختیار ہے کہا ’’ہاں مگر پاک کتاب پر نہیں‘‘ اسی کی قوم نے اس بھلائی کے عوض اس کو خوب ستایا اور اس نے نہایت افسوس سے لکھا کہ ’’یہ کیسا زمانہ ہے کہ سچائی کا طالب ہونا ایک بڑی تقصیر معلوم ہوتی ہے‘‘ مگر آج وہی لوتھر ہے جس کا نام کروڑوں عیسائی کے دل میں نہایت مقدس ہے۔ امام حجۃ الاسلام غزالیؒ کا نام لیے بغیر میں اس فہرست کو ختم نہیں کر سکتا جس نے اسرار مسائل اسلام کے بیان کرنے میںنابمقدر اپنے سعی و کوشش کی۔ اگرچہ بڑے بڑے متعصب مولویوںنے اس کے کفر کے فتوے دیے اور اس کی کتاب احیاء علوم الدین کے جلانے کا حکم دیا اور اس کے قتل کے احکام جاری ہوئے مگر انجام کار وہی غزالی امام اور حجۃ الالسلام کے لقب سے پکارا گیا۔ اس زمانے میں جو واقعات گزرتے ہیں اور جن کو اس عہد کے اکثر لوگوں نے اپنی آنکھ سے دیکھا ہو گا وہ بھی یہی ہیں کہ جس شخص نے رسومات کی اصلاح و ترقی چاہی فی الفور ا س نے اپن تمام قوم سے مخالفت کی اور رفتہ رفتہ لوگ اس کے ساتھی ہوتے گئے۔ دیکھو راجا موھن رائے نے کس طرح اپنی قوم سے مخالفت کر کر ہر قسم کی رسومات میں اصلاح کی اور کتنی کچھ نیکی اپنی قوم میںپھیلائی۔ ببو کیشب چندر سین کا حال آپ سب جانتے ہیں کہ آفتاب کی مانند جو مشرق سے طلو ع کرے۔ اس کی ذات سے اس کی قوم میںروشنی پھیلتی جاتیہے۔ جڑ اس کی یہی ہے کہ اس نے رسومات کی پابندی کو توڑا اور اپنی قو م کی مخالفت سے کچھ نہیں ڈرا۔ بنگالہ میں ایشر چندر ودیا ساگر کے نام کو اور بمبئی میں وشنو پرس رام شاستری مہاراست برہمن کے نام کو برکت ہو جنہوں نے ہندو بیوہ عورتوں کی شادی کے رواج میںنہایت کوشش کی اور اپنی ذات اوراپنی قوم کی رسم کو توڑا۔ سریش چندر بھٹا چارجی بھی کچھ کم ادب کے لائق نہیں ہے جس نے صرف زبانی بات چیت پر اکتفا نہیں کیا بلکہ سب سے اول خود ایک بیوہ سے شادی کی اور پرانی رسم کا جو سانپ کی طرح چمٹ رہی تھی سر کچلا رام تنو لاہیٹری کا نام بھی نہیں بھولا جا سکتا جس نے اپنی قوم کے مجمع میں سوت کے بٹے ہوئے جینو کو توڑ پھینکا اور سچائی کا سچا جینو اپنے لیے جانا۔ کیاہمارے سب سے پہلے ہندوستانی سویلین ست ایندر ناتھ ٹاگرو کا نام بھولنے کے لائق ہے جو ذات کی نہایت بھاری بیڑی سے آزاد ہوا۔ سمندر کے پار جانے کے گناہ کو ہزاروں نیکیوں سے بھر دیا۔ آپ جانتے ہیں کہ کس خاندان کا یہ شخص ہے۔ یہ ان عالم برہمنوں میں سے ایک کی اولاد ہے جن کو گوڑ کے راجہ نے قنوج سے بلایا تھا جس کا نام بھٹ نارائن تھا۔ اور جس کی تصنیف کی ہوئی دینی سمہار کتاب موجود ہے۔ اس کے بزرگوں میں سے ایک شکص کو بنگالہ کے کسی نواب نے دوستانہ طور پر دعوت میں بلایا وہ گیا۔ مگر کھایا نہیں اس پر اس کی قوم کے لوگوں نے کہا کہ کھانے کی خوش بو سونگھنا آدھے کھانے کے برابر ہے اور سی سبب سے ذات سے اسے خارج کر دیا۔ مگر دیکھو زمانے کی تبدیلی سے اب کتنا فرق ہے۔ ہمارے ہندو آج ہمارے ساتھ نہیں کھاتے مگر کھانے کے وقت ملتے ہیں ۔ میز کے پاس بیٹھتے ہیں ۔ دوستانہ بات چیت کرتے ہیں اور کوئی کچھ عیب سمجھتا۔ اب اخیر کو سوامی دیانند سرستی کا نام لیتا ہوں جس کو مرزاپور کے لوگ بہ خوبی جانتے ہیں اس کے خیالا ت کیسے ہی کیوں نہ ہوں اور وید دھرم شاستر کے مطابق ہون یا نہیں۔ کیوں کہ میں اس پر ٹھیک رائے دینے کے قابل نہیں ہوں۔ مگر میں اس کی تعریف کرتا ہون کہ اس کا ارادہ نہایت نیک ہے جو اس کے دل میں ہے۔ وہ علانیہ کہتا ہے گو اس میںکچھ مجھ کو چک ہے کہ وہی کرتا بھی ہے یا نہیں۔ اے میرے دوستو! یہ زمانہ ایسا ہے کہ ہر ایک کے دل میں تہذیب و شائستگی کی امنگ ہے بہت سے لوگوں کو تم دیکھو گے کہ ہزاروں رسموں کو فضول اور لغو سمجھتے ہیں اور کچھ بھی اس میں یقین نہیں رکھتے پر کرتے ہیں۔ اوربہت سی ایسی باتیں ہیں جن کے بے نقص ہونے پر یقین کرتے ہیں پر کرتے نہیں۔ ایسی باتوںسے کچھ قو م کی بھلائی نہیں ہو سکتی۔ بلکہ میری سمجھ میں یہ بھی ایک قسم کی دغا بازی ہے ۔ میری نصیحت تم سب کو یہ ہے کہ کرو اس کو جس پر تم کو دلی یقین ہے اورمت کرو ا سکو جس پر تم کو دلی یقین نہیں۔ یہی اصل سچائی ہے۔ اوریہی ایک بات ہے جس پر دونوں جہان کی نیکی منحصر ہے۔ خدا تمہارے نیک کاموں میں تمہاری مدد کرے ٭٭٭ ملکہ وکٹوریا کی سوانح اور شہر لندن کے حالات (۲۹ مئی ۱۸۷۴ئ) حضور ملکہ وکٹوریا کے پدر بزرگورا ر کا نام ایڈورڈ آف کینٹ ہے اور آپ ۲۴ مئی ۱۸۱۹ء کو بمقام کنرنکٹن پباس میں پیدا ہوئیں۔ اگلے ہی سال میں ھضور ممدوحہ کے شفیق باپ نے قضا کی اورہماری ملکہ معظمہ یتیم ہو گئیں۔ اس وقت یہ بات کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں آ سکتی تھی کہ یہ بن با پ کی لڑکی ایک روز ایسی عظمت اور شان کو پہنچے گی کہ یورپ اور افریقہ اور یشیا اور امریکہ ہر ا حصہ ملک میں اس کی حکومت اور طاقت کا لوگ اقرار کریں گے لیکن اب میں آپ صاحبوں کو بتلاتا ہوں کہ وہ کیا چیز ہے جس کے سبب ہماری ملکہ معظمہ نے ایسی بڑی ناموری حاصل کرنے کی قابلیت پیدا کی۔ یہ حضور ممدوحہ کی مادر مشفقہ کی تعلیم کا نتیجہ تھا حضور ممدوحہ کی والدہ ماجدہ کا نا ڈچس آف کینٹ ہے جو بادشاہ بلجیم کی بہن تھیں۔ انہوںنے بعد انتقال اپنے شوہر کے بڑے استقلال اور قابلیت کے ساتھ اپنی یتیم لڑکی کی تعلیم و تریبت کا اہتمام خود اپنے ذمہ لیا سب سے پہلے انہوںنے جناب ملکہ معظمہ کو ورزش سکھلائی یعنی وہ کام جن سے بدن چست اور طبیعت خوش رہے۔ ہمارے ملک کے آدمی بھی اس اہم معاملے سے بخوبی آگاہ ہیں اور اپنی اولاد کی صحت جسمانی کا زیادہ لحاظ نہیں کرتے حالانکہ یہ ابتدائی احتیاط ہے ہر ایک قسم کی تعلیم کی جڑ ہے۔ اگر بچوں کی صحت و عافیت میں ابتدا سے کچھ خلل آوے تو پھر ان کی ہر ایک قسم کی استعداد پژمردہ ہو جاتی ہے اوروہ تعلیم کے اعلیٰ درجہ کو نہیں پہنچ سکتے۔ ورزش کے بعد جس چیز کی تعلیم دی گئی وہ اعتدال یعنی ہر ایک کام میں سلامت روی اختیار کرنا۔ اس کے علاوہ گھوڑے کی سواری اور جہازی سفر وغیرہ امور کی تعلیم بھی دی گئی تھی تاکہ جب کبھی سفر پیش آ جاوے یا فوجوں کے ساتھ رہنے کی ضرورت پڑے تو حضور ممدوحہ ہر ایک موقعہ پر مستعد رہیں۔ ان سب باتوں کے علاوہ ایک اور بری عمدہ چیز سکھائی گئی یعنی کفایت شعاری جو بادشاہوں کے لیے نہایت ضرور ہے مگر اس ملک کے لوگ شاید اس کو بہت کم سمجھیں گے اس لیے کہ یہاں ہمیشہ ایسے بادشاہوں نے فرماں روائی کی جن کو کفایت شعاری سے کچھ غرض نہ تھی جس وقت جس کام میں ان کا جی چاہا خزانہ صرف کر دیا۔ کوئی ان سے پوچھنے والا نہ تھا ۔ برخلاف اس کے ہماری ملکہ معظمہ کی طبیعت میں ابتدا ہی سے ایسا اعتدال اورکفایت شعاری داخل کی گئی کہ کسی وقت اس سے باہر قدم نہیں رکھا۔ وائی کونٹ مل برن صاحب نے حضور ممدوحہ کو ان تمام اصول انتظام سلطنت کی تعلیم دی جن کے بموجب اس وقت انگلستان کی سلطنت میں کارروائی ہوتی تھی۔ آخر اس تمام عمدہ تعلیم کا نتیجہ یہ ہوا کہ جب بادشاہ ولیم چہارم ‘ نے انتقال کیا اورصحیح النسب وارث سلطنت نہ رہا تو بموجب قانون انگلستان کے ۲۰جون ۱۸۳۷ء کو ہماری ملکہ معظمہ خلد اللہ ملکہا و سلطنتہا تخت نشین ہوئیں جو ا سوقت ہر طر ح سے ایسے بڑے عہد کے لائق تھیں۔ ۱۰ فروری ۱۸۴۰ء کو حضور ممدوحہ کی شادی ہوئی اور ۱۸۴۱ء میں پرنس آف ویلز ولی عہد سلطنت پیدا ہوئے۔ اور اب حضور ممدوحہ کا سن پچپن سال کو پہنچا جناب ملکہ معظمہ کے عہد کی نسبت جس قدر تعریف اور توصیف کی جاوے وہ سب بجا اور درست ہو گی۔ میں اس وقت ایک بڑے لائق مصنف لارڈ بروہم کا قول بیان کرتا ہوں کہ جس بہت ہی مختصر اور سیدھے اورسچے لفظوں میں ہماری ملکہ معظمہ کی نسبت رائے دی ہے لیکن قبل اس قول کے بیان کرنے کے میں آپ صاحبوں پر یہ ظاہر کرنا مناسب سمجھتا ہوں کہ یورپ کے مصنفوں کے بیان کو ایشیائی مصنفوںکے بیان پر قیاس نہ کریں جن کی یہ عادت ہے کہ وہ اپنے بادشاہ کی تعریف میں وہ باتیں بیان کرتے ہیں کجن کی کچھ اصل نہیں ہوتی اور محض جھوٹ ہوتی ہیں اور جن سے ہرگز کسی بادشاہ کے اصلی حالات معلوم نہیں ہوسکتے۔ یورپ کے مصنفوں کا طرز ا س کے بالکل خلاف ہے۔ یہ مصنف کبھی کسی کی ایسی تعریف نہیں کر تے جس کا وہ مستحق نہ ہو۔ لارڈ براہم کا قول جو میں اب بیان کرتا ہوں اس کی نسبت کسی طرح بدگمان نہیں ہو سکتا۔ کہ اس نے اس بیان میں کچھ بھی مبالغہ کیا ہوگا۔ اس عالی رتبہ مصنف کا قول ہے کہ ’’کسی ملک میں ایسی ملکہ آج تک نہیں ہوئی جو پبلک پرائیویٹ باتوں میںملکہ وکٹوریا سے بڑھ کر قابل تعریب ارو رعایا کی شکر گزاری کی مستحق ہو‘‘۔ اب اس مصنف کے اس فقرہ کے ہر لفظ پر غور کرنا چاہیے کہ اس میں کس قدر سادگی اور سچائی بھری ہوئی ہے۔ خصوصاً یہ آخر کا جملہ کہ رعایا کی شکر گزاری کی مستحق ہو ۔ کتنی سچی اور کس قدر بڑی تعریف کی بات ہے اور جو سچ اور بالکل سچ ہے کسی ملک کی رعایا کو اس قدر آزادی اور اس قدر حقوق حاصل نہٰ ہیں جیسے انگلستان کی رعایا کو حاصل ہیں اوروہاں اگرچہ ایک بادشاہ مانا جاتا ہے لیکن اس کے اختیارات کی وہ کیفیت نہیں ہے جیسے آپ صاحبوںکے خیال میں سمائی ہوئی ہوگی اور جیسے ایشیا کے بادشاہوں کی کیفیت تھی جن کو یہ اختیار تھی کہ جس شخص کی نسبت جو حکم چاہیں دے دیں جس کام میں جس قدر چاہیں خزانہ صرف کردیں۔ انگلستان کے بادشاہ کی حلات بالکل اس کے برعکس ہے یہاں کے بادشاہ کے اختیارا ت محدود ہیں اور تمام قوانین جس پر سلطنت کی کل کاررائی منحصر ہوتی ہے رعایا کی منظور کے بعد جاری ہوتے ہے۔ بادشاہ کو ہرگز یہ اختیار حاصل نہیں ہے کہ سلطنت کے خزانہ کو اپنی مرضی کے مطابق جہاں چاہے صرف کر دے ۔ میں جس عرصہ میںلندن میں مقیم تھا۔ تو پارلیمنت میں یہ تجویز پیش کی گئی کہ آئر لینڈ میں جناب پرنس آف ویلز ولی عہد کے واسطے ایک قطعہ اراضی جو بہت عمدہ موقع پر واقع ہو سلطنت خزانہ سے خرید لیا جاوے اولارڈ اسچکر صاحب نے ایسی خوبصورتی سے اس معاملہ کو پارلیمنٹ میں پیش کیا کہ اس کو پرائیویٹ مقاصد سے نکال کر بالکل ایک پولیٹیکل معاملہ بنا دیا۔ اور بیان کیا کہ جو مخالف آئرلینڈ کی رعایا کو لند ن شاہی خاندان سے ہے اس کے لحاظ سے یہ بات بہت ہی ضرو ر ہے کہ خاندان شاہی کے واسطے اس ملک میں اس قسم کی جائداد پیدا کی جاوے اور اس کا ملک میں اکثر قیام ہوتا تکہ اس ذریعہ سے ایک خاص قسم کا ارتباط خاندان شاہی کو اس ملک کی رعایا سے پیدا ہو جاوے۔ مگر پارلیمنٹ کے ممبروں نے ان تمام وجوہات سے انکار کیا اورہرگز اس بات پر راضی نہ ہوئے کہ پرنس آف ویلز ولی عہد سلطنت کے واسطے شاہی خزانہ سے اس قسم کا خرچ ادا کیا جاوے۔ پس جب رعایا کی آزادی اوران کی مداخلت انتظام مملکت میں ان کے حقوق اس درجہ بڑھے ہوئے ہیں تو لارڈ بروہم کا قول نہایت تھیک ہے۔ ہمارے اس ملک ہندوستان کی نسبت لوگ البتہ یہ بات کہہ سکتے ہیں کہ ہم کو ایسے حقوق حاسل نہیں ہو جیسے رعایائے انگلستان کو حاصل ہیں۔ قانون بنانے میں اور امور ہیں جو ملک کی حالت پر موثر ہیں۔ یہا ں کے لوگوںکی رائے کو کچھ وقعت نہیں ہے۔ میں بھی اس بیان سے انکار نہیں کر سکتا اور اس نقصان کو افسوس کے ساتھ تسلیم کرتا ہوں لیکن اس کے ساتھ ہی انصافا میں یہ کہنے پر مجبور ہوں ک یہ تمام خرابی صرف اس لیے ہے کہ ہم لوگوں نے ابھی ایسی لیاقت حاصل نہیں کی ہے جو انگلستان کی رعایا کے سے حقوق ہم کو حاصل ہوں اورمیری قطعی یہ رائے ہے کہ اگر ہمارے ملک کے آدمی ویسی ہی لیاقت حاصل کرلیں جیسی انگلستان والوں نے حاصل کی ہے اور ان لیاقتوں کو ویسی ہی نیک نیتی اور خیر خواہی سے استعمال کریں جسی نیک نیتی اورخیر کواہی اہل انگلستان کو اپنی گورنمنٹ کی نسبت ہے تو بلاشبہ وہ تمام حقوق اس ملک کی رعایا کو بھی حاصل ہو جاویں گے۔ ایک بڑے مصنف کا قوم یہ ہے کہ گو آزادی رعایا کا اصلی حق ہے لیکن اس قسم کے حقوق اسی وقت حاصل ہو سکتے ہیں جب کہ رعایا میں ان حقوق کو واجبی طور سے اور نیک نیتی سے برتنے کے لیے لیاقت موجود ہو۔ پس ہمارے ملک والوں کو اگر انگلستان کی رعایاسے حقوق کی آرزو ہے تو ان کو بھی ویسی ہی لیاقت حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ شہر لندن کے حالات اب میں لندن کے شہر کی بھی مختصر کیفیت بیان کرتا ہوں جس کی مجھ سے خواہش کی گئی ہے۔ مگر پھر اس بات کا عذر کرتاہوں کہ وقت کی تنگی کی وجہ سے کچھ زیادہ بیان نہیں کر سکتا۔ لندن کا شہر ایک قدیمی شہر ہے اور قبل حضرت مسیح علیہ السلام کے جب لییر شیرز نے لشکر کشی کی تو اس وقت یہ شہر آباد تھا اور اب یہ شہر تمام دنیا میں سب سے بڑا شہر ہے۔ اور اگر میری یاد نے غلطی نہیں کی ہو تو قریب ہے بیس میل لمبا اوردس بارہ میل چوڑا ہے اور تیس لاکھ آدمی کے قریب اس میںآباد ہیں۔ اگرچہ یہ شہر اپنی خوبصورتی میں پیرس سے اور عمدگی میںقسطنطنیہ سے بہتر ہے لیکن آبادی اور مال و دولت کی کثرت کے لحاظ سے اب دنیا میں کوئی شہر اس کی ہمسری نہیں کر سکتا۔ ۱۲۵۵ء میں اول ہی اول چیپ سیڈ کے پانی ک نل اس شہر میں لگ گئے تھے جس کو آج وہ ترقی ہے کہ دیکھنے سے علاقہ رکھتی ہے۔ کوئی گھر اور موقعہ باقی نہیں رہا جہاں ان نلوں کے ذریعہ پانی نہ پہنچتا ہو۔ کل ایک مقام پر گھما دینے سے اس تمام علاقہ کے گھروں کے حوض پہلی منزل سے لے کر اونچی سے اونچی عمارتوں تک سب بھر جاتے ہیں اورجب کوئی حوض بھر جاتا ہے تو پھر اس میں پانی جانا بند ہو جاتا ہے‘ اور جب سب حوض بھر جاتے ہیں تو وہ کل از خود بند ہو جاتے ہیں۔ روشنی کا اہتما م بھی اس شہر میں بہت مد ت سے ہے۔ ۱۳۱۶۔ میں لالٹینوں کی روشنی سڑکوں پر شروع ہو گئی تھی جس نے اب وہ ترقی پائی ہے کہ ا س سے پہلے خیال بھی نہیں آ سکتی تھی ہر ایک گھر گیاس کی نہایت صاف روشنی سے منور ہے جو ایک نہایت لطیف ہوا ہے۔ طرز عمارت میںبھی پہلے کی نسبت بہت زیادہ ترقی ہو گئی ہے۔ شہر میں ایک موقع پر پرانی عمارت کے کچھ مکان اتفاق سے اب تک پہلی حالت پر باقی ہیں۔ ان کے دیکھنے سے اس وقت کی طرز عمارت کا حال معلوم ہوتا ہے۔ پچھلا طرز عمارت اس شہر کا یہ تھا کہ نیچے کا درجہ اپاٹ کر اس کے آگے چھجا نکالتے تھے اور دوسرا درجہ چھجے کے اوپر پر بناتے تھے ۔ اسی طرح درجہ بدرجہ مکاناوپر پھیلتا جاتا تھا ۔ یہاںتک کہ کبھی مقابل کے دو مکان اونچے اور چوڑے ہو جاتے تھے آپس میں مل جانے کے قریب ہو جاتے تھے۔ اور غالباً یہ طرز اس لیے اختیار کیا گیا تھا کہ ان مکانات کے اطراف میں جو لوگ راستہ چلیں ان کو بارش اور برف سے امن ملے۔ ۱۶۶۵ء میں اس شہرمیںایک بہت بڑی وبا پھیلی جس میں بہت کثر ت سے انسانوں کی جانیںتباہ ہوئیں اور۱۶۶۶ء میں ایک سخت آ گ لگی ۔ اس عظیم آتش زدگی میںتیرہ ہزار گھر جل کر سیاہ ہو گئے ۔ اوربہت ہی نقصان ہوا۔ جب متواتر دو برسوں مٰںیہ دو سخت آفتیں شہر پر نازل ہوئیں تو وہاں ایک بڑی کمیٹی مقرر کی گئی اور بعد تحقیقات ے بعد یہ نتیجہ نکلا کہ یہ دونوں آفتیںشہر کی طرز عمارت کی وجہ سے پیش آئیں۔ پس اسی وقت سے عمارت کا طرز بدلا گیا جس سے اس قسم کی مصیب رک گئیں اور اب وہ شہر ایسی عمدہ رونق پر پہنچ گیا ہے ۔ ۱۶۶۶ء کی آتش زدگی کی یادگار میں ایک بہت بڑا مینار تیار کیا گیاہے جو اب تک موجود ہے اوردو سو فٹ بلند ہے اور جس کو دیکھ کر لوگ اس بڑی مصیبت سے واقف ہوتے ہیں اور طرزعمارت کی تبدیلی کی قدر کرتے ہیں۔ لندن کے مشہور مکانات میں سے ٹور آف لنڈن بھی ایک مکان عبرت سے ذکر کرنے کے لائق ہے۔ یہ لنڈن کا ایک قدیم قلعہ ہے۔ ۱۰۷۸ء میں بادشاہ ولیم اول نے اس میں ایک محل ویٹ ٹور کے نام سے تعمیر کیا بلکہ الزبتھ اور کنگ جیمس کے زمانہ میں وہ محل بادشاہوں کے رہنے کا مکان رہا اور اس کے بعد سے قید خانہ ہو گیا۔ بڑے بڑے نامی سردار اس میں قید ہوئے اور بہت سی جانیں بے رحمی کے ساتھ اس میںضائع ہوئیں۔ بہت سے خون اس میں بہائے گئے۔ وہ لوہے کا تبر جس نے بڑے بڑے بادشاہوں اور سرداروں کی گردنیں کاٹی ہیں اور کاٹ کا کندہ جس پر وہ گردنیں کٹی ہیں ٹور کے سلح خانہ میں اب تک موجود ہے۔ اسی مکان میں ایک اور برج ہے جس کی سیر سے انسان کے دل پر ایک عجیب حیر ت اور عبرت طاری ہوتی ہے۔ یہ برج نہایت ہی مستحکم عمارت ہے۔ اور اس میں صرف ایک دروازہ ہے جس کے مضبوط کواڑوں کے بند ہو جانے کے بعد وہ برج پوری مایوسی کا عالم ہو جاتا ہے بڑے بڑے نامی سردار جو اس برج میں قید ہوئے ہیں ان میں اکثروں نے اپنے ان بد اقبالی وقتوں میں کوئی فقرہ در و دیوار کے اوپر کسی ذریعہ سے کندہ کر دیا ہے۔ یہ سب فقرے اب تک جوں کے توں موجود ہیں اوراس قدر پر اثر ہیں کہ ممکن نہیں ہے ک کوئی انسان ان کو دیکھے اور اس کا دل بھر نہ آوے۔ اور بہت سے مکانات نہایت عجیب غریب اورنادرنادر چیزیں اس شہر میںہیں جن کے بیان کے لیے ایک زمانہ درکار ہے۔ اس لیے میںپھر غدر کرتا ہوں اور زیادہ کیفیت وہاںکی چیزوں کی میں بیان نہیں کر سکتا۔ لیکن کچھ مختصر سا ذکر اس سچائی کا بھی کروں گا۔ جو وہاں عموماً برتی جاتی ہیںل۔ ایک ادنیٰ بات یہ ہے کہ جب کوئی بازار میں جاتا ہے تو جس سوداگر کی دوکان میںگزر ہوتا ہے وہ سوداگر اس کے ساتھ نہایت اخلاق و انسانیت سے پیش آتا ہے ۔ جس چیز کی ضرورت ہوتی ہے اس کو پسند کر لیا اور مالک دوکان کو اس کی تفصیل اور مکان کا پتہ لکھ دیا۔ نہ قیمت کی کچھ تکرار ہے نہ سودا ٹھہرانے کا ناحق کی بک بک ہے اگر کسی نہ کسی چیز کی قیمت دریافت کی تو بہت ملائمت سے اس کا جواب مل گیا۔ تھوڑی دیر کے بعد اس سوداگر کا نوکر گاڑی پر سوار ان سب چیزوں کو لیے ہوئے دروازے پر آ موجود ہوتا ہے اور وہ سب چیزیں سپرد کر جاتا ہے اور اگر قیمت پہلے سے ادا نہیں کر دی گئی ہے تو مالک کی طرف سے اس کا بل اپنے ساتھ لاتا ہے اور روپیہ لے کر چلاجاتا ہے۔ اب ہم لوگوں کو غور کرنا چاہیے کہ وہاں ادنیٰ ادنیٰ موقعہ پر بھی کس درجہ کی سچائی برتی جاتی ہے اور اس سے کس قدر آرام ملتاہے۔ اس میں بھی شک نہیں کہ لنڈن میں بدمعاش بھی پورے ہوتے ہیں۔ جو کام وہاں کے بدمعاش کر گزرتے ہیں وہ اور کسی جگہ کے بدمعاشوں سے ممکن نہیں ہے۔ لیکن لحاظ کے قابل یہ امر ہے کہ اس بدمعاش کے ساتھ وہاں نیکی اور راست بازی کس قدر شائع ہے۔ روزمرہ اخباروں میں اشتہار دیکھے جاتے ہیں کہ کسی شخص کی سونے کی گھڑی فلاں جگہ سے پڑی ہوئی ملی ہے اور اب وہ فلاں جگہ رکھی ہوئی ہے۔ جس کی ہو آ کر لیوے۔ بعض سرشتوں کے ملازم اپنے کسی افسر کی نالائقی ثابت کرنے کے واسطے کوئی غلط حساب اس کے سامنے پیش کر کے تصدیق کرا لیتے ہیں اور زیادہ روپیہ اس کے ذریعہ وصول کر لیتے ہیں اورپھر اس کے بعد اور اس زر زائد کا نوٹ وزیر کے پاس لفافہ میں چلا آتا ہے اور اس کے ساتھ ایک چٹھی اس افسر کی شکایت میںہوتی ہے کہ دیکھیے فلاں افسر اس قدر نالائق ہے کہ اس نے غلط حساب کو تصدیق کر دیا۔ پس جہاں چند بدمعاش ہوتے ہیں وہاں ایسے ایسے نیک دل انسان بھی کثر ت سے موجود ہوتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ اس شہر کی خوبی اورنیک نامی اورتجارت دن بدن بڑھتی جا رہی ہے اوریہ سب باتیں عمدہ تعلیم کی بدولت ہیں۔ جس زمانہ میں ہماری قوم کی تعلیم بھی عمدہ تھی ہم میںبھی یہ سب خوبیاں موجود تھیں اور جب سے ہماری تعلیم ناقص ہو گئی تو وہ سب خوبیاں ہم میں سے جاتی رہیں۔ ہماری قوم نے ایک وقت میں علوم و فنون میں ایسی ترقی کی تھی کہ اور ایسی فیاضی سے اپنے علو م کو یورپ کی قوموں کو نفع پہنچایاتھا کہ برے برے مصنفوںنے اس بات کا اقرار کر لیا ہے کہ اگر مسلمان ان علوم میں ایسی ترقی نہ کرتے تو آج دنیا میںان علوم وفنون کا نام بھی نہ ہوتا۔ قرطبہ کی یونیورسٹی نے اور ہماری بغداد کی یونیورسٹی نے اپنے علوم و فنون کی ترقی کی وجہ سے تمام دنیا میںعلم کا آفتاب روشن کر دیا ہے اوریہ انگریزوں کی قوم جو آج ایسی اعلیٰ درجہ کی شائسگتی ہمارے اوپر حکومت کر رہی ہے انہیں یونیورسٹیوں اور مدرسوں سے اس کو علو م و فنون کی روشنی پہنچی آج اتفاق سے ہم اور وہ قوم جس نے ایک زمانہ میں ہم سے علم حاصل کیا اور اب ہم سے بہت اعلیٰ درجہ پر پہنچ گئی ہے اتفاق سے اس ملک ہندوستان میں جمع ہو گئے ہیں۔ پس ہمارا ان سے یہ دعویٰ ہے کہ جو قرض ان لوگوں نے ہم سے لیا تھا وہ اب ہم ان سے وصول کریں گے۔ اور میں نہایت سچے دل سے شکر کرتا ہوں کہ وہ قوم اس قرض کو مع سود دینے کے لیے بڑی فیاضی سے حاضر ہے یعنی جو بہت سے علو م و فنون خود ا س نے اپنی محنت سے تلاش کیے ہیں وہ ہم کو سود میں دینے کے لیے حاضر ہے مگر ہم اپنے تعصب اور جہالت اور نالائقی کی وجہ سے ان سے محروم ہیں ۔ پس میری خواہش ہے کہ ہماری قوم اپنے خستہ حال کو دیکھے اور جو عمدہ موقع اس کو اتفا ق سے ہاتھ آیا ہے اس سے فائدہ اٹھانے میں کوتاہی نہ کرے۔ اور سب ایک ہو کر اس میںکوشش کریںاور آپس کی ضد اور بغض اور حسد سے موقع کو برباد نہ کریں۔ ٭٭٭ مدرستہ العلوم کی ضرورت (۲۷ جنوری ۱۸۸۳ئ) آج میںآپ کے سامنے کسی دقیق یا خیالی مضمون پر اظہار خیال نہیںکر رہا بلکہ ایسی باتیں بیان کرنا چاہتا ہوں جو روز مرہ ہم سب کے برتائو میں ہیں۔ ایک حکیم کا قول ہے کہ انسان اپنے آپ کے لیے سب سے بڑا استاد ہے۔ دنیا کے تمام واقعات اس پر گزرتے ہیں اور ان کے اثروں سے جیسا وہ واقف ہوتاہے کوئی واقف نہیں ہوتا۔ اور ان سے اس کو عبرت پکڑنے کا سب سے زیادہ موقع ہوتاہے۔ یہ ایک غلطی ہو گی کہ اگر کوئی سمجھے کہ انسان کا اطلاق صرف شخص واحد پر ہی ہوتا ہے ۔ یہ ایک اصطلاح ہے اور جس طرح شکص واحد پر صادق آتی ہے اسی طرح مجموعہ افراد پر بھی صادق آتی ہے۔ پس جو لوگ کہ اپنے ملک میںتمام باشندگان ایک حصہ دنیا کی بھلائی پر نظر رکھتے ہیں ۔ وہ اس ملک کے کل باشندگان پر انسان کا لفظ اطلاق کر سکتے ہیں اور مجاز ا س ملک پر اور جو کسی قوم کی بھلائی چاہتے ہیں وہ کل قوم پر اور جو کسی خاندان کی بھلائی چاہتے ہیں وہ کل خاندانوں کے لوگوں پر ۔ نتیجہ اس بات کا یہ ہے کہ ملک کی بھلائی کے لیے خود ہمارا ملک اور قوم کی بھلائی کے لیے خود ہماری قوم اور خاندان کی بھلائی کے لیے خود ہمارا خاندان ہمارے لیے استاد ہے جو حالتیں اس پر گزری ہیں یا گزر رہی ہیں انہیں پر غور کرنا ہماری نصیحت اور عبرت کے لیے کافی ہے میرا ارادہ آج کے مضمون سے صرف یہی ہے کہ ہم ان تینوں بھائیوں کی موجودہ حالت پر نظر ڈالیں اور اس سے آئندہ کے لیے نصیحت حاصل کریں۔ ملک پر جب ہم انسان کا لفظ اطلاق کریں تو ہم کو معلوم ہو گا ہ جس طرح انسان میں مختلف قواء اور مختلف اعضاء ہیں جن پر انسان کا مدار ہے اسی طرح ملک میں بھی مختلف قومیں اور مختلف اشخاص ہیں جن پر ملک کی سرسبزی اور ترقی اور بھلائی کا بلکہ مختصر طور پر کہوں کہ ملک کی زندگی کا مدار ہ پس جو لوگ کہ ملک کی بھلائی چاہتے ہیں ان کا پہلا فرض یہ ہے کہ بلا لحاظ قوم و مذہب کے کل باشندگان ملک کی بھلائی پر کوشش کریں۔ کیوں کہ جس طرح ایک انسان کی اس کے تمام قواء اور اعضاء کے صحیح و سالم رہنے کے بغیر زندگی یا پوری تندرستی محال ہے اسی طرح ملک کے تمام باشندوں کی خوش حالی اور بہبودی بغیر ملک کی زندگی یا پوری ترقی ناممکن ہے۔ تمہارے ملک ہندوستان میں دو مشہور قومیں آباد ہیں جو ہندو اور مسلمان کے نام سے مشہور ہیں جس طرح کہ انسان میں بعض اعضائے رئیسہ ہیں اسی طرح ہندوستان ے لیے یہ دونوں قومیں بمنزلہ اعضائے رئیسہ ہیں ہندو ہونا یا مسلمان ہونا انسان کا اندرونی خیال یا عقیدہ ہے جس کو بیرونی معاملات اور آپس کے برتائو سے کچھ تعلق نہیں ہے۔ کیا خوب کہا ہے جس نے کہا ہے کہ انسان کے دو حصے ہیں اس کے دل کا خیال یا عقیدہ خدا کا حصہ ہے اور اس کا اخلاق اورمیل جول اور دوسرے ہم دردی اس کے بنائے جسم کا حصہ ہے۔ پس خدا کے حصہ کو خدا پر چھوڑ دو اور جو تمہارا حصہ ہے اس سے مطلب رکھو۔ جس طرح ہندوئوں کی شریف قومیں اس ملک میںآئیں اسی طرح ہم بھی اس ملک میں آئے۔ ہندو اپنا ملک بھول گئے اپنے دیس سے پردیس ہونے کا زمانہ ان کو یاد نہیں رہا اور ہندوستان ہی کو انہوں نے اپنا وطن سمجھا اور یہ جانا کہ ہمالیہ اوربندھا چل کے درمیان ہمارا ہی وطن ہے ہم کو بھی اپنا مک چھوڑے سینکڑوں برس ہو گئے ہیں نہ وہاں کی آب وہوا یاد ہے نہ اس ملک کی فضا کی خوبصورتی۔ نہ وہاں کے پھلوں کی تروتازگی اورنہ میویوں کی لذت اور نہ اپنے مقدس ریتلے اور کنکریلے ملک کی برکت ہمنے بھی ہندوستان کو اپنا وطن سمجھا اور اپنے سے پیش قدموںکی طرح ہم بھی اس ملک میں رہ پڑے۔ پس اب ہندوستان ہم دونوں کا وطن ہ ۔ ہندوستان ہی کی ہوا سے ہم دونوںجیتے ہیں اور مقدس گنگا جمنا کا پانی ہم دونوں پیتے ہیں ہندوستان ہی کی زمین کی پیداوار ہم دونوں کھاتے ہیں۔ مرنے میں جینے میں دونوں کا ساتھ ہے۔ ہندوستان میں رہتے رہتے دونوں کا خون بدل گیا۔ دونوں کی رنگتیںایک سی ہو گئیں۔ دونوں کی صورتیں بل کر ایک دوسرے کے مشابہ ہو گئیں۔ مسلمانوںنے ہندوئوں کی سینکڑوں رسمیں اختیار کر لیں۔ ہندوئوں نے مسلمانوں کی سینکڑوں رسمیں لے لیں۔ یہاں تک ہم دونوں آپس میںملے کہ ہم دونوںنے مل کر ایک نئی زبان اردو پیدا کر لی جو نہ ہماری زبان تھی اور نہ ان کی پس اگر اس حصہ سے ہم دونوں میں خدا کا حصہ ہے قطع نظر کریں تو درحقیقت ہندوستان میں ہم دونوں باعتبار اہل وطن ہونے کے ایک قوم ہیں اور ہم دونوںکے اتفاق اور باہمی ہم دردی اور آپس کی محبت سے ملک کی اورہم دونوں کی ترقی و بہبودی ممکن ہے اور آپس کے نفاق ارو ضد و عداوت ایک دوسرے کی بد خواہی سے ہم دونوں برباد ہونے والے ہیں۔ افسوس ہے ان لوگوں پر جو اس نکتہ کو نہیں سمجھتے او ر آپس میں دونوں قوموں کے تفرقہ ڈالنے کے خیالات پیدا کرتے ہیں ارویہ نہیں سمجھتے کہ اس مضرت اور نقصان میں وہ خود بھی شامل ہیں اور آپ اپنے پائوں پر کلہاڑی مارتے ہیں۔ اے میر ے دوستو! میں نے بارہا کہاہے ار پھر کہتا ہوں کہ ہندوستان ایک دلہن کی مانند ہے جس کی خوب صورت اوررسیلی آنکھیں ہندومسلمان ہیں اگر وہ دونوں آپس میں نفاق رکھیں گے تو وہ پیاری دلہن بھنگی ہو جاوے گی۔ اور اگر ایک دوسر ے کو برباد کریں گے تو کانڑی بن جاوے گی پس اے ہندوستان کے رہنے والے مسلمانو! اب تم کو اختیار ہے کہ چاہو اس دلہن کو بھینگا بنائو چاہو کانڑا۔ بے شک انسانوں میںباہم کبھی کبھی رنج ہو جانا ایک قدرتی بات ہے۔ ہندو اور مسلمانوں پر موقوف نہیں ہے۔ آپس میں ہندو ہندوئوں میں‘ مسلمان مسلمانوں میں بھائی بھائیوں میں باپ بیٹوںمیں‘ ماں بیٹیوں میں رنج ہو جاتاہے مگر اس رنج میں قائم رکھنا اور پکائے جانا اور بڑھائے جانا انسان کی ملک کی‘ قوم کی ‘خاندان کی پوری بدبختی ہے۔ کیا مبارک ہیں وہ لوگ جو معافی چاہتے ہیں اور اس گرہ کے کھونے میں جو محبت میں اتفاق سے پڑ گئی ہے پیش قدمی کرتے ہیں اوراپنے بھائی باہم وطن یا ہم قوموں کے بے قصور ہونے پر بھی معافی چاہتے ہیں اورمحبت کو ٹوٹنے نہیں دیتے۔ اومقلب القلوب تو ہندوستان کے لوگوں کو اسی طرف پھیر دے۔ اب میں دوسرے برادر عزیز کی حالت پر یعنی قوم کی حالت پر نظر ڈالوں گا بہتر ہو گا کہ اس کام کے لیے میںاپنی قوم کو منتخب کروں تاکہ جو کچھ میں اس کی نسبت کہوں اچھا یا برا میں خود بھی اس سے خارج نہ رہوں۔ اے مسلمانوں میں اپنی قوم کی اس بات سے خوش ہوں کہ ان کے باپ دادا کیا خدا پرستی کے مقدس اور قابل ادب طریقہ میںاور کیا علم و فضل کے میدان میں اور کیا جاہ و حشمت کے عروج میں اورکیا بہدری اور جرات اور سپاہ گری کے فن میںایسے گزر ے ہیں جن پر ان کو فخر کرنا زیبا ہے۔ اسی کے ساتھ میری خوشی اور زیادہ ہو جاتی ہے جب میں دیکھتا ہوں کہ ہماری قوم اپنے باپ دادا کی باتوںپر فخر بھی کرتی ہے اور ان کو یاد بھی رکھتی ہے۔ کیو ں کہ جس قوم کے باپ دادا ایسے گزرے ہوں جیسے تمہارے تھے اور وہ ان کے افتخار کو بھی یاد رکھے تو اس قوم سے پھر ترقی کرنے کی امید ہو سکتی ہے اور جس قوم میں باپ دادا کے افتخار نسیاً منیسا ہو جاتے ہیں یا بہ طور دیو پری کی کہانیوں کے باقی رہ جاتے ہیں اس قوم کی ترقی کی امید باقی نہیںرہتی۔ الحمد اللہ کہ ہماری قوم کی حالت ابھی ایسی نہیں ہوئی‘ سسکتی ہ پر کچھ جان باقی ہے۔ اگر خدا مدد کرے تو شاید صحت پا جاوے۔ اس بات سے مایوسی ہوتی ہے کہ ہماری قوم اپنے باپ دادا کے گیت تو گاتی ہے پر خود کچھ نہیں کرتی۔ کوئی بے عزتی اور بے غیرتی اس سے زیادہ نہیںہو سکتی کہ ہم اپنے سلف کے ایسے خلف ہوں جن سے ہمارے اسلاف کی نام آوری کو بھی بٹہ لگے۔ دیکھو تمام ہندوستان میں تمہاری قوم کا کیا حال ہے۔ سب قوموںسے زیادہ جاہل ہے۔ سب قوموں سے زیادہ ذلیل سب قوموں سے زیادہ نظروں سے گری ہوئی۔ سب قوموں سے زیادہ مفلس ہاں جو چیز کہ سب قوموں سے زیادہ اس کے پاس ہے وہ کیا ہے؟ خود اپنی قوم سے بغض و عداوت۔ کینہ و حسد‘ خود اپنی قوم کی بدخواہی‘ اور بد اندیشی‘ قومی عزت‘ قومی ہمدردی‘ قومی افتخار کا ہم میں نام بھی نہیں۔ ہماری قوم میں اگر کوئی شخص ترقی یا عزت کے کسی درجہ پرپہنچتا ہے توقوم کو اس بات کا فخر نہیں ہوتا کہ ہم میںبھی کوئی نامور ہے بلکہ یہ حسد پیدا ہوتا ہے کہ یہ کیوں ایسا ہوا۔ آپس کا میل جول آپس کی دوستی‘ باہمی محبت‘ صرف ظاہر کے دکھائو کی رہ گئی ہے ۔ دل میں اس کا ذرا بھی اثر نہیں پایا جاتا۔ بہت لوگ ہیں جو ذاتی عزت کے پیچھے دوڑتے ہیں۔ لاکھوں روپے خرچ کر دیتے ہیں اور اپنی دانست میں اس کا حاصل بھی کرتے ہیں مگر وہ بھول جاتے ہیں ک وہ اسی قوم کے افراد میں سے ایک ہیں جو سب کی نظروں میں ذلیل ہے اور وہ ظاہری عزت جو انہوں نے پائی ہے پیتل کے برتن پر صرف ملمع کی سی چملک ہے جس کی خود ملمع کرنے والا عزت دینے والا کچھ قدر نہیںکرتا۔ قوم میں سے کسی ایک شخص کو حقیقی افتخار اسی وقت ہوتا ہے جب کہ وہ اس قوم میں سے جو عزت کے لائق ہے۔ نتیجہ اس کا یہ ہے کہ جو شخص اپنی عزت کا خواہاں ہو اس کا پہلا فرض یہ ہے کہ قوم کے معزز کرنے میں سب سے زیادہ کوشش کرے ۔ مگر افسوس یہ ہے کہ ہماری قوم کو اپنی اپنی قوم کی بھلائی و بہتی کا مطلق خیال نہیں۔ ذرہ برابر بھی توجہ نہیں۔ جن لوگوں نے کچھ کیا ہے وہ کرنا ذاتی غرض سے خالی نہیں عام بھلائی کے کام میں ذاتی غرض اس کی برکت کے اس ثمرے دونوں کو مٹا دیتی ہے۔ میں اپنی قوم کی بہت بری بڑی فیاضیوں سے جو انہو ںنے کی ہیں اورجو اب بھی کرتے ہیں اور امور خیر میں جو زیادہ تر مذہب سے علاقہ رکھتے ہیں نہایت فیاضی سے روپیہ خرچ کرتے ہیں ناواقف نہیں ہوں۔ ہمارے ہی ضلع کے ایک رئیس اعظم نے ایک مسجد کی مرمت کے لیے اسی ہزار روپے تک خرچ کرنے کا ارادہ کیا ہے مگر اے صاحبو مذہبی امورمیں خرچ کرنا خاص اپنے ذاتی فائدے سے علاقہ رکھتاہے جس کا عقبیٰ میںکافی فائدہ اپی ذات خاص سے توقع ہے اور اس لیے وہ قومی بھلائی اور قومی ہمدردی میں شمار نہیں ہو سکتا وہ تو بمنزلہ تجارت کے ہے۔ دنیاوی تجارت میں اور اس میں سرف اس قدر فرق ہے ہ دنیاوی تجارت میں اس دنیا میں نفع حاصل کرنے کی توقع ہے اورمذہبی کام میں دوسری زندگی میں نفع اٹھانے کی توقع ہے ۔ قومی ہمدردی اورقومی رفاہ عام کا کام وہ ہے جو نہ اپنے لیے کیا جاوے نہ خدا کے لیے بلکہ خاص قوم کے لیے جس چیز کی قوم کو حاجت ہے اس کو پورا کرے اور میری رائے میں یہی اصلی ثواب کا کام ہے۔ ہماری قوم میں قومی ہمدردی کے نہ ہونے کے خیال کا ثبوت اس سے ظاہر ہے کہ ہمارے ملک میں بہت سی عالی شان مسجدیں‘ بہت سے امام باڑے‘ بہت سی خانقاہیں‘ بہت سی درس گاہیں‘موجود ہیں جن کی تعمیر میں لکھو کھائے روپیہ صرف ہوا۔ سینکڑوں ہزاروں سالانہ آمدنی کے اوقاف مسجدوں ‘ درگاہوں اور امام باڑوں اور خانقاہوں کے لیے یا شاذ و نادر خاص مذہبی تعلیم کے لیے موجود ہیں مگر کوئی ایک چیز بھی قوم کی بھلائی اور قومی ضرورت کے لیے موجود نہیں ہے۔ میں نے آج تک سوائے ہمارے دوست اور آپ کے شہر کے رئیس سید رضا حسین صاحب کے وقف نامہ کے جنہوں نے اپنی حیثیت سے بڑھ کر کام کیا ہے۔ کوئی وقف نامہ ایسا نہیں دیکھا جو خالص بھلائی کے لیے کیا گیا ہو۔ یہی بڑا نقص ہمار ی قوم میںہے ۔ اوریہی اصلی وجہ ہے کہ ہماری قوم نے ترقی نہیں کی اورروز بروز تنزل کرتی جاتی ہے۔ قومی ترقی صرف تعلیم پر منحصر ہے۔ مذہبی تعلیم عقبیٰ کی تعلیم کے لیے ہے۔ دنیوی تعلیم دنیوی ترقی کے لیے مگر مشکل یہ ہے کہ تعلیم بغیر روپے کے نہیں ہوتی اورروپیہ بغیر تعلیم کے حاصل نہیں ہوتا گو کہ بہت سی صورتوں میں جاہلون کے پاس بھی آ جاتا ہے مگر حاصل کرنے اور آنے میںبڑا فرق ہے۔ آ جانے سے قومی عزت نہیں ہوتی بلکہ حاصل کرنے سے قومی عزت ہوتی ہے۔ میںمذہبی تعلیم کا اس وقت تک کچھ ذکر نہ کروں گا بلکہ دنیوی تعلیم سے جو دنیاوی ترقی اور قوم کو لائق اور ذی عزت بنانے کا ذریعہ ہے غرض رکھوں گا۔ میںآپ صاحبوں سے کسی ایسے شخص کا نام سننا چاہوں گا جس نے نہ تو اپنی ذاتنی نام وری کے خیال سے اورنہ حاکم کی خوش نودی کی غرض سے بلکہ خاص اپنی قوم کی دنیاوی عزت کی نیت سے قوم کی تعلیم میںکچھ کیا ہو۔ بلاشبہ چند بزرگ ایسے پائے جاویںگے جنہو ںنے مدرسۃ العلوم واقع علی گڑھ میں مدد کی ہے مگر وہ کتنے ہیں معدودے چند ہیں اور بے چارے غریب آدمی ہیں جنہوں نے اپنا بھوکا رہنا پسند کر کے ایک ایک مہینہ اور دو دو مہینے بلکہ بعض نے اس سے بھی زیادہ اپنا اذوقہ مدرسہ کو دے دیا ہے مگر جو امیر ہیں انہوں نے کچھ بھی توجہ نہیں کی ہے۔ کریماں را بدست اندر درم نیست خداوندان نعمت را کرم نیست یہ ایک بڑی غلطی ہے کہ دنیاوی عزت کو دینی عزت سے علیحدہ سمجھاہے۔ فقیری ہویا بادشاہی اس میں خد ا کو بھول جانا اور جو مقتضی بندہ ہونے کا ہے اس کو یاد نہ رکھنا ہر حالت میںبر اہے اور اگر میں غلطی میں نہ ہوں تو ایسی ہی دنیا کی بزرگوں نے مذمت کی ہے اوراگر یہ نہ ہو تو دنیا و دین کا ایک جزو ہو جاتی ہے۔ یہودیوں کو خداکے احکا م کی نافرمانی کی تھی ا س کے فرائض کو ادا نہیں کیا تھا۔ عقبیٰ کے عذاب کے سوا خدا نے ان تمام دنیا میںبھی ذلت کا عذاب دیا۔ ضربت علیہم الذلۃ والمسکنۃ وبائو بغضب من اللہ پس صاف ثابت ہے کہ دنیاوی عزت بھی ایک حصہ دینی عزت کا ہے ۔ اسلام کوئی مسم خوب صور ت پتلی بنی ہوئی نہیں ہے بلکہ وہ ہمارے تمہارے ذریعہ سے دکھائی دیتا ہے۔ پس اگر وہ قوم جو اس دنیا میں مسلمان کے نام سے مشہور ہے ذلیل و بے عزت و مفلس و بے قدر ہو جاوے تو از خود اسلام بھی ذلیل ہو جائے گا۔ پس ہماری کوشش دنیاوی ترقی اور دنیاوی عزت میں اسلام کی شن و شوکت کی نیت سے ہونی چاہیے۔ جس کو میں اصلی محبت اسلام و اصلی ثواب کے کام سے تعبیر کرتاہوں۔ دنیا کے لیے دنیامیں عزت حاصل کرنے کی کوشش ایک بے وقوفی کا کام ہے جس کا قیام ہر لمحہ مشتبہ اور ناپائیدار ہے اسی خیال سے چند قوم کے ہم دردوں نے علی گڑ ھ میں مدرسۃ العلوم قائم کیا ہے اور تمام لوگ یار و اغیار غالباً قبول کرتے ہیں کہ باتخصیص قوم کی بھلائی اور قو م کی بہبودی کے لیے قائم کیا گیا ہے اورہر دوست و دشمن بھی قبول کرتا ہے کہ تمام حصہ ہندوستان میں فرد ہے جس کا نظیر موجود نہیں ہے۔ اب ہماری قوم کو خیال کرو اور اس کی تعداد اور اس کی قدرت کو بھی دیکھو اگر قوم قومی ہمدردی پر متوجہ ہو تو ایسے سو مدرسے بھی قائم کر سکتی ہے۔ مگر آٹھ دس برس کا عرصہ کوشش کرتے گزر گیا۔ قوم کی عدم توجہی کے سبب سے وہ بھی اب تک پورا نہین ہوا۔ اس کی کھدی ہوئی بنیادیں قوم کا منہ تکتی ہیں کہ کب ہمارا پیٹ بھر ا جاوے۔ اس کی نا تمام عمارتیں خدا سے دعا کرتی ہیں کہ ہم کو پورا کرنے کی قوم کو توفیق دے گا۔ اس کے طالب علم چھپر میں درخت کے سایہ تلے نماز پڑھتے ہیں اورپوچھتے ہیں کہ ہماری قوم دنیا میں زندہ ہے یا خدا کے ہاں چل بسی۔ وضو کے حوض کے منہ میں خاک بھری ہوئی ہے۔ قوم کا کوی شخص اس کو پانی چوانے والا نہیں ۔ اے عزیزو!شاید یہ نتیجہ میری شامت اعمال کا ہو مگر اس کام میں مجھ کو ایک قلی کا سا درجہ ہے۔ میں ملحد سہی۔ کافر سہی مگر کیا تمہارے لیے مسجد و خانقاہ و امام باڑہ بنانے میں چمار و چوھڑے چھیترتی نہیں ڈھونڈتے اور اس مقدس عمارت کو تعمیر نہیں کرتے۔ تم مجھ کو بھی ایسا ہی سمجھو اور اپنی قومی بھلائی کے کام میں مدد دو۔ میں کچھہی ہوں اور میرا طریقہ کچھ ہی ہو مگر دیکھو کس طرح وہاں پنج گانہ نماز ہوتی ہے۔ کس طرح سنی و شیعہ طالب علم آپس میں محبت و الفت رکھتے ہیں۔ کس طرح دونوں فریق کی دنیاوی تعلیم ہوتی ہے ۔ کس طرح دونوں فریق کو انہیں کے مذہب کے مولویوں اور مجتہدوں سے مذہبی تعلیم دی جاتی ہے ۔ کس طرح سنی و شیعہ طالب علموں کو مذہبی امتحان کے نتیجہ پر انعام اورسکالر شپیں ملتی ہیں ۔ پس تم مجھ سے غرض مت رکھو قومی کام سے غرض رکھو۔ اگر اس میں کچھ نقص دیکھو تو بے شک مجھ پر لعنت کرو۔ من از شما نجات خود را طلب گا ر نیستم ۔ مارا با خدائے ما بگذارید ۔ بجہت نجات من خدائے من وجد من کافی است ۔ غیرت قومی و حمیت اسلامی را بجوش آید و کاریکہ بجہت فلاح و صلاح قوم شما اسا س یافتہ بہر تکمیل آں اعانت و امداد فرمائید و اجرکم علی اللہ۔ میں نے آپ کا بہت سا وقت ضائع کیا ہے اب میں تیسرے برادر عزیز یعنی خاندانوں کی حالت بہت مختصر طورپر بیان کروں گا۔ یہ امر نہایت روشن ہے کہ ہمارے قدیم خاندان بالکل برباد ہو گئے ہیں اور جو موجود ہیں ان کی بربادی کی بھی علامتیں ظاہر ہیں ایک بڑے سیاح کا قول ہے کہ قوم کی خوش حالی یا بربادی کا ثبوت اس قوم کی عمارتوں سے ظاہر ہوتا ہے۔ پس اب تم تمام ہندوستان میں پھرو اور قدیم شہروں اور قدیم قصبوں مٰں جائو اور دیکھو کہ جو معبد کہ ویران و شکستہ حال پائو گے۔ وہ مسلمانوں کی مسجدیں ہوں گی جو کسی زمانہ میں نہایت عالی شان اور بے نظیر تھیں ۔جو چھت بوسیدہ اور خم در خم رسیدہ دیکھو گے وہ سقف خانہ مسلم ہو گی۔ جو دیوار بوسیدہ اور از سر تا پا افتادہ پائو گے وہ دیوار کسی مسلمان کے مغل سرائے کی ہو گی۔ اے رئیسان پٹنہ میں خدا کا شکر ادا کرتا ہوں کہ تم کو مبارک باد دیتا ہوں کہ تمہارے پاس بہت عالی شان محل ہیں اوردعا دیتا ہوں کہ خدا ان کو قائم رکھے مگر تم ان کے سبب اپنی قوم کے حال سے غافل نہ رہو اور دیکھو کہ تمہاری قوم کے قدیم خاندان جن کا ادب اور وقار ا ب تک تمہارے دل سے نہیں گیا کس حال میں ہیں خاندانوںکی ترقی زمانہ کی چال کی منساسبت سے ہوتی ہے۔ جس طریقہ سے تمہارے بزرگوں کے خاندان بنے تھے اورنام آور ہوئے تھے ترقی پائی تھی۔ اب وہ زمانہ نہیں رہا افسوس ہے کہ زمانہ نے اپنی چال بدلی مگر تم اس چال پر قائم رہو۔ اس زمانہ میں منزل رساں نہیںہے۔ اس زمانہ میں فتح یابی اس کو ہے جو تعلیم و تربیت میں حسب مقتضائے اس زمانہ کے فتح یابی حاصل کرے۔ مگر جب ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے خاندان کے بچے ہمارے خاندان کے نوجوان لڑکے تعلیم و تربیت سے عاری ہیں۔ ان کے بزرگوں کو ان کے مربیوں کو ان کی تعلیم سے عار ہے ۔ پھر کیا ہم کو موجودہ خاندانوں کے قائم رہنے یا نئے خاندانوں کے قائم ہونے کی توقع ہو سکتی ہے۔ ہم لوگوں میں ایک جوہر شرافت کا شمار کیا جاتا ہے جس طرح وہ سب پر بولا جاتا ہے اسی طرح عادت و اخلاق پر بھی اطلاق ہوتا ہے ہمارے بزرگ بلاشبہ ایک خاص قسم کی متانت ایک کاص قسم کی وقار ایک خاص قسم کے ادب سے مالا مال تھے۔ ان کی سچائی ان کی صاف دلی ان کی آپس میں سچی محبت ‘ ان کی آپس میں نہایت مستحکم دوستی ایسی تھی کہ جس کا ہم کو ہمیشہ فخر رہے گا ان کی عادتوں اور خصلتں کو ان کی اولاد‘ ان کے ہمسائے ان کی قوم کے بچے دیکھتے تھے۔وہی سیکھتے تھے اور ویسا ہی بننا چاہتے تھے۔ وہ سب مر گئے اور اپنی خوبیاں اور اپنی خصلتیں ساتھ لے گئے۔ اب ہمارے خاندانوں کے بچوں کو نہ کوئی نمونہ ہے جس کو دیکھ کر وہ کچھ سیکھیں اورنہ کوئی نیک محبت ہے جس کا اثر ان کے دل پر ہو ۔ زمانہ حال کی تہذیب و شائستگی و ادب نے دوسری رنگت پکڑی ہے مگر اس کو بھی تعلیم و تربیت و صحبت چاہیے کہ یہ بھی ہمارے خاندان کے لڑکوں کو نصیب نہیں۔ پس ان کا حال اس مثل کے مطابق ہو گیا ہے کہ ازاں سوراندہ را ازیں سو درماندہ۔ نہ ادھرکے ہوئے نہ ادھر کے ہوئے و امیر ہیں ان کے لڑکے مامائو ں اور آقائوں کے لڑکوں خدمت گاروںکے لڑکوں کی صحبت پاتے ہیں جب اور کچھ بڑے ہو ئے ہیں اور ان کا دل کسی قسم کے ولولوں کے پیدا کرنے کے لائق ہوتا ہے تو اور قسم کے بد رویہ اور بد اطوار لوگ ان کے گرد ہوتے ہ یں وہی ان کے مصاحب وہی ان کے دلی دوست شمار کیے جاتے ہیں۔ رفتہ رفتہ وہ نوبت پہنچ جاتی ہے کہ جب کو ااپ صاحب بخوبی جانتے ہیں جن کو اس قدر مقدور نہیں ہے ان کے بچے بازاروں اور گلیوں میں خاک چھانتے پھرتے ہیں اور کوئی شہدپن کی ایسی بات نہیں جو وہ نہ سیکھتے ہوں قوم کے چند بدنصیب خیر خواہوں نے جنکی قسمت میں آپ لوگوں سے بلکہ اپنی تمام قوم سے دشنام دہی و سخت کلامی سننی تھی قوم کی زبان سے کافر و ملحد بننا تھا۔ ان مصیبتوں کے دور کرنے کی فکر کی اور چاہا کہ ایک ایسا گھر بنایا جاوے جس میںہماری قوم کے بچے باامن و امان رہیں اور ان بلائوں اور آسیبوں سے جن کا میںنے ابھی ذکر کیا ہے۔ بچے رہیں مگر جب قوم کی بدنصیبی ہو تو کوئی کل کیوں کر سیدھی پکڑے ۔ یہ ایک قوی کام تھا اور بغیر قومی مدد کے پورا نہیں ہو سکتا۔ یہ کام دو چار آدمیوں کے کرنے کا نہیں ہے بلکہ قوم کے کرنے کا ہے ۔ خدا ہماری قوم کو توفیق دے کہ اس بات کو سمجھیں اور اس گھر کے پر کرنے پر آمادہ ہوں۔ تم خود یاد رکھو کہ جب تک تم اپنی اولاد کو صغیر السنی میں اپنے گھروں سے علیحدہ نہ کرو گے تاکہ صحبت بد سے الگ رہیں اور ان کی زندگی تعیم یافتہ زندگی ہو جاوے۔ ا س وقت تک خاندانوں کا سنبھلنا اورقوم کی عزت کا پانا محال ہے۔ ایسے بورڈنگ ہائوس میں جو گورنمنٹ کالجوں میں چند امیروں کے لڑکوں کے لیے مقرر ہیں میرے رائے میں تربیت نہیں ہو سکتی ہماری قوم کے یے ایسے بورڈنگ ہائو س درکار ہیں جن کا اہتمام اورنگرانی خود ہمارے ہاتھ میں ہو۔ ہماری قوم کے معزز اورباوجاہت لوگ اس کا انتظام کرتے ہوں وہ لوگ بورڈوں کو مثل اپنے بچوں کے سمجھتے ہوں ارو بورڈر ان کو اپنے بزرگ باپ کی مانند جانتے ہوں اگر اس نمونہ کو دیکھنا ہو تو آئو ہمارے ساتھ علی گڑھ چلو اورہمارے کالج کے ان پیارے عزیز بچوں کو دیکھو جو بہ طور بورڈ کے وہاںرہتے ہیں جن کی صورت دیکھ کر ہمارے دل میں پیار آتا ہے جن کے خیال سے ہماری روح خوش ہوتی ہے۔ ان کو جو محبت ہمارے ساتھ ہے اس کا تماشہ دیکھول باپ سے زیادہ ہم سے محبت رکھتے ہیں ۔ ہماری خفگی سے کوئی چیز ان کو زیادہ رنج دینے والی نہیں ہوتی۔ ہماری جھڑکی‘ ہمارا طمانچہ‘ ہمارے ہاتھ کی سنٹی سے ان کو غیرت اور نصیحت ہوتی ہے۔ مگر وہ اس کو ایسی ہی عزت سے قبول کرتے ہیں جیسے بیٹا اپنے باپ کی تائید و تنبیہہ کو چلو ہمارے عزیز مگر ہمارے باعث افتخار مولوی سمیع اللہ خاں کا حال دیکھو کہ بورڈروں کے پیچھے کس طرح اپنی جان لگائے ہوئے ہے۔ کسی بورڈ کی بیماری میں ان کی بے قراری کو دیکھو اور اندازہ کرو کہ آیا باپ کو اس سے زیادہ ہو سکتی ہے۔ خود اپنی آنکھ سے چل کر دیکھو کہ جو محبت اور سرپرستی مولوی سمیع اللہ خاں بورڈروں کی کرتے ہیں آیا کوئی باپ اپنے بیٹے کی بھی کرتا ہے ۔ یادش تجیر مولوی مشتاق حسین کا جو حال بورڈروں سے تھا وہ تو عجائبات دنیا سے کچھکم نہ تھا گو ان کو دنیاوی ترقی اور دنیاوی عزت سے کچھ ہے خدا اور زیادہ کرے۔ مگر میری آنکھ میں جو عزت دین و دنیا میںان کو بورڈروں کی خدمت سے نصیب ہوئی ھتی اس کے مقابلہ میں حیدر آباد کی عزت کچھ بھی حقیقت نہیں رکھتی۔ چلو اور مولوی محمد کریم صاحب اور مولوی خواجہ محمد یوسف صاحب اور مولوی محمد اکبر صاحب کا حال دیکھو کہ وہ بورڈروںکے ساتھ کس طرح پیش آتے ہیں ایسا بورڈنگ ہائوس البتہ ہماری قوم کے بچوں کو تربیت دینے کے قابل ہو سکتا ہے۔ مگر افسوس ہے اے ہماری قوم کے بزرگو کہ تم کو ان کی قدر نہیں۔ خدا تم کو ایسا دل دے کہ اس کی قدر کرو اور ایسی بصیرت دے کہ تم اس کو پہچانو۔ وما علینا الا البلاغ۔ ٭٭٭ قومی تعلیم‘ قومی ہمدردی اور باہمی اتفاق ( ۲۳ جنوری ۱۸۸۴ئ) قوم کا لفظ ایک ایسا لفظ ہے جس کے معنوں پر کسی قدر غور کرنی لازم ہے۔ زمانہ دراز سے جس کی ابتدا تاریخی زمانہ سے بھی بالاتر ہے۔ قوموں کا شمار کسی بزرگ کی نسل میں ہونے یا کسی ملک کے باشندہ ہونے سے ہوتا تھا۔ محمد رسول اللہ صلعم نے (بابی انت و امی یا رسول اللہ) اس تفرقہ قومی کو جو صرف دنیاوی اعتبار سے مٹا دیا اور ایک روحانی رشتہ قومی قائم کیا جو ایک حبل المتین لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ سے مضبوط ہے ۔ تمام قومی سلسلے ‘ تمام قوم رشتے سب کے سب اس روحانی رشتہ کے سامنے نیست و نابود ہو گئے۔ اورنیا روحانی بلکہ خدائی قومی رشتہ قائم ہو گیا۔ اسلام کسی سے نہیں پوچھتا کہ وہ ترک ہے یا تاجبک‘ وہ افریقہ کا رہنے والا ہے یا عرب کا‘ وہ چین کا باشندہ ہے یا ماچین کا وہ پنجا ب میں پیدا ہوا ہے وہ کالے رنگ کا ہے یا گورے رنگ کا اور بلکہ جس نے اس عروۃ الوثقنی کلمہ توحید کو بڑا مستحکم پکڑا وہ ایک قوم ہو گیا بلکہ ایک روحانی باپ کا بیٹا کیوں کہ خدا نے فرمایا ہے۔ انما المومنون اخوۃ فاصلحو بین اخویکم واتقو اللہ لعلکم ترحمون کون شخص ہے جو دو بھائیوں کو ایک باپ کا بیٹا نہیں جانتا۔ پھر جب کہ خود خدا نے تما م مسلمانوں کو ایک دوسرے کا بھائی فرمایا ہے تو ہم سب کا ایک روحانی باپ کی اولا دہونے میں کیا شک رہا ہے۔ مگر مجھے اس بات کے دیکھنے سے افسوس ہ کہ ہم سب آپس میں بھائی تو ہیں مگر مثل برادران یوسف علیہ السلام کے ہیں۔ آپس میں دوستی و محبت یک دلی و یک جہتی میں بہت ہی کم ہے۔ حسد و بغض و عداوت کا ہر جگہ بد اثر پایا جاتاہے۔ جس کا نتیجہ آپس کی نااتفاقی ہے ۔ شیطان نے جس نے خدا سے وعدہ کیا کہ لاتعدت لہم صراطک المستقیم ایک مقدس اوربہ ظاہر نہایت نورانی حیلہ سے آپس میں بھائیوں کے جن کو خدا نے بھایء بنایا ہے۔ نفاق ڈالنے میں کامیاب ہوتا ہے اور جس طرح کہ ہمارے باپ آدم اس کے دھوکہ میں خالص دوستی سمجھ کر دھوکہ میں آ گئے اور سی طرح ہم بھی اس کے دھوکہ میں آتے ہیں اورا س نفاق کو جو ہر حالت میں مردود ہے۔ ایک مقدس لباس پہناتے ہیں۔ یعنی مذہبی مقدس لباس کا خلعت اسے عنایت کرتے ہیں۔ کون شخص ہے جو اس بات کو نہیں جانتا کہ من قال لا الہ الا اللہ فہو مسلم بن استقبل قبلتنا فہو مسلم ومن ہو مسلم فہواع امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ کا مذہب مشہور ہے ۔ لا تکفراہل القبلۃ باایں ہمہ فروغ مسائل میں اختلاف ہونے کے سبب کس طرح ہماری قوم نے اس جبل المتین کی بندش کو توڑا ہے اور اس رشتہ اخوت کوجسے خدا نے قائم کیا تھا چھوڑا ہے۔ جس قصہ و شہر میں جائو جس مسجد و امام باڑہ میں گزرو باہم مسلمانوںکے شیعہ و سنی وہابی و بدعی لامذہب و مقلد ہونے کی بنا پر آپس میں نفاق و عداوت پائو گے۔ ان نااتفاقیوں نے ہماری قوم کو ضعیف اور ٹکڑے ٹکڑے کر دیاہے۔ جمعیت کی برکت ہماری قوم سے جاری رہی ہے۔ قومی ہم دردی اور قومی ترقی اور قومی امور کے انجام میں اس نالائقی نا تفاقی نے بہت کچھ بد اثر پہنچایاہے۔ ہندوستان میں مسلمانوں کی تعداد کچھ زیاد ہ نہیں ہے۔ وہ تعدا د میں کم ہیں دولت میں کم ہیں‘ تجارت میں کم ہیں‘ اور اس باہمی نفاق و عداوت سے ٹکڑے ٹکڑے ہو کر اصغر التصغیر کا صیغہ یعنی کم از کم ہو گئے ہیں۔ پس ہماری قوم کی ترقی کا سب سے اول مرحلہ یہ ہے کہ ہم آپس کی محبت سے اس عداوت و نفاق کو یکتائی اور یک جہتی سے مبدل کریں۔ یک تائی اور یک جہتی سے میرا مقصد یہ نہیں ہے کہ سب لوگ اپنے اپنے عقائد کو چھوڑ کر ایک عقیدہ پر ہو جائیں یہ امر تو قانون قدرت کے برخلاف ہے جو ہو نہیں سکتا۔ نہ پہلے کبھی ہوا اورنہ آئندہ کبھی ہو گا۔ مگر اتفاق کے قائم رکھنے کی جس کی ہم کو ضرورت ہے ایک اورعقلی و نقلی راہ ہے جس کی پیروی قومی اتحاد کا ذریعہ ہو سکتی ہے ۔ انسان جب اپنی ہستی پر نظر کرے گا تو اپنے حصہ میں دو حصے پاوے گا۔ ایک حصہ خداکا اور ایک حصہ اپنے ابنائے جنس کا۔ انسان کا دل اور ا س کا اعتقاد یا مختصر طور سے یوں کہو کہ اس کا مذہب خدا کا حصہ ہے جس میں کوئی دوسرا شریک نہیں ۔ اس کے عقائد کی جو کچھ بھلائی یا برائی ہو اس کا معاملہ اس کے خدا کے ساتھ ہے نہ بھائی اس میں شریک ہے نہ بیٹا نہ دوست نہ آشنانہ قوم ۔ پس ہم کو اس بات سے جس کا اثر ہر ایک کی ذات تک محدود ہے اور ہم سے کچھ تعلق نہیں ہے کچھ تعلق رکھنا نہیں چاہیے ہم کو کسی شخص سے اس خیال پر کہ وہ شیعہ ہے یا سنی وہابی یا بدعتی لا مذہب ہے یا مقلد یا نیچری یا اس سے بھی کسی بدتر لقب کے ساتھ ملقب ہے‘ جب کہ وہ خداو خدا کے رسول کو برحق جانتاہے کسی قسم کی عداوت و مخالفت نہ رکھنی چاہیے بلکہ اس کو بھائی اورکلمہ کا شریک سمجھنا چاہیے اوراس اخوت کو جس کو خدا نے قائم کیا ہے قائم رکھنا چاہیے ۔ نہایت افسوس اورنادانی کی بات ہے کہ ہم کسی سے ایسے امر میں عداوت رکھیں جس کا اثر خود اسی حد تک محدود ہے اور ہم کو اس سے کچھ ضرر و نقصان نہیں ۔ جو حصہ کہ انسان میں اس کے ابنائے جنس کا ہے اس سے ہم کو غرض رکھنی چاہیے اور وہ حصہ آپس کی محبت باہمی دوستی ایک دوسرے کی اعانت ایک دوسرے کی ہم دردی ہے جس کے مجموع کا نام قومی ہمدردی ہے یہی ایک طریقہ ہے جس سے خدا کے حکم کی بھی اطاعت اور آپس میں برادرانہ برتائو قومی اتفاق قومی ہم دردی قائم ہو سکتی ہے۔ جو قومی ترقی کے لیے پہلی منزل ہے۔ مگر ہم کو یہ بات بھی نہیں بھولنی چاہیے کہ ان روحانی بھائیوں کے سوا اوربھی ہمارے وطنی بھائی ہیں ۔ گو وہ ہمارے ساتھ اس کلمہ میں جس نے ہم مختلف فرقوں کو ایک قوم اور آپس میں روحانی بھائی بنایا ہے۔ شریک نہیں ہیں مگر بہت سے تمدنی امور میں جن میں ہم اور وہ مثل بھائیوں کے شریک ہیں اسی زمین پر ہندوستان ی ہو یا پنجاب کی۔ دکن کی ہو یا ہمالیہ کی ہم دونوں رہتے ہیں۔ اسی ملک کی ہوا سے اسی ملک کے پانی سے اسی ملک کی پیداوار سے دونوں کی زندگی ہے۔ ہزاروں امور تمدن ایسے ہیں کہ بغیر ہمارے ان کو اوربغیر ان کے ہم کو چارہ نہیں۔ ہمسایہ کا ادب ہمارے مذہب کا ایک جزو ہے۔ اوریہی ہمسائگی وسعت پاتے پاتے ہم ملکی وہم وطنی کی وسعت تک پہنچ گئی ہے۔ ان ہم وطن بھائیوں میں بھی دو حصے ہیں۔ ایک خدا کا اور ایک ابنائے جنس کا خدا کا حصہ خدا کے لیے چھوڑو اور جو حصہ ان میں ابنائے جنس کا ہے اس سے غرض رکھو تما م امور انسانیت میں جو تمدن و معاشرت سے تعلق رکھتے ہیں ایک دوسرے کے مددگار ہو آپس میں سچی محبت سچی دوستی دوستانہ بردباری رکھو کہ دونوں قوموں کو ترقی کرنے کا یہی راستہ ہے۔ اتفاق کی جو خوبیاں لوگں نے بہت کچھ بیان کی ہیں اور وہ ایسی ظاہر ہیں کہ کوئی شخص اتفاق سے بھی ان کو نہیں بھول سکتا بہت بڑے بڑے واقعات جو دنیا میںگزرے ہیں اور جن کو پرانی تاریخیں یاد دلاتی ہیں اور جن کی یاد سے ایک عجیب اثر ہمارے دلوں میں ہوتا ہے وہ سب باہمی اتفاق کا نتیجہ ہے۔ ایک نا چیز ریشہ گیاہ جو تنہا نہایت کمزور ہوتاہے باہمی اتفاق سے ایسا قوی اور زبردست ہو جاتاہے کہ بڑی قوت کا مقابلہ کرتا ہے ۔ اس وقت تعلیم یافتہ دنیا میں جو کچھ ترقی ہے‘ یا نامہذہب ملکوں میں جو کچھ طاقت ہے۔ وہ سب اتفاق کی بدولت ہے۔ بعض قابل ادب بزرگوں کا قول ہے کہ جس طرح اصلی دوستی دنیا میں ناپید ہے اسی طرح آپس کا اتفاق بھی ناممکن ہے ۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ تمام انسانوں کی طبائع اور ان کے اغراض مختلف ہیں اورجب کہ اغراض مختلف ہیں تو ضرور ہے کہ وہ ایک دوسرے کے مخالف ہوں۔ جس میںباہم حسد ‘نفاق‘ عداوت ‘ اور باہمی حقارت نہ پائی جاتی ہو۔ ہاں یہ سچ ہے کہ مگر جس اتفاق پر ہم بحث کرتے ہیں وہ شخصی اتفاق ہے بلکہ قومی اتفا ق ہے۔ آپس میںہمارے بمقتضائے بشریت کیسا ہی نفاق ہو جو خدا کے نزدیک ایک سخت گناہ ہے مگر وہ قومی اتحاد اور قومی اتفاق کا مانع نہیں ہے ۔ اس دعویٰ کومیں ایک تاریخی واقعہ سے ثابت کروں گا جس زمانہ میں میں کہ حضرت علی ٰ المرتضیٰ اور معاویہ ابن ابی سفیان میں محاربات ہو رہے تھے اور روم کبیر کا شاہنشاہ ہمارے اس باہمی جنگ و جدال کو نہایت غور سے تک رہا تھا روم کے شہنشاہ نے اس وقت کو غنیمت سمجھا اور مسلمانوں کے مفتوحہ ملکوں پر فوج کشی کا ارادہ کیا حضرت معاویہ نے باوجود اس شکر رنجی کے جو حضرت علی ؓ سے تھی قیصر روم کو خط لکھا کہ اگر تو نے مسلمانوں کے ملک کے کسی حصہ پر فوج کشی کی تو میں یقین جانتا ہوں کہ علی مرتضٰی کی طرف سے پہلا شخص فوج لے کر تیرے مقابلہ کو آوے گا وہ میں ہوں۔ یہ خط اب تاریخ کی کتابوں میں بجنسہ موجود ہ دیکھو باہمی نزاع نے قومی اتفاق میں کچھ خلل نہیں ڈالاتھا۔ اسی زمانہ کی تازہ نظر پر خیال کرو کہ جن لوگوں نے البرٹ بل کی مخالفت کی وہ سب نہ آپس میں دوست تھے اورنہ سب کے اغراض متحد تھے۔ بلکہ صرف قومی اتفاق تھا جس پر سب متفق تھے۔ قومی بھلائی یا قومی برائی کا اثر تمام قوم کے لوگوں کو پہنچتا ہے۔ اور اسی لیے جلب منفعت یا دفع مضرت میںسب لوگ متفق ہوتے ہیں۔ اور شخصی تنازعات کو اس وقت میں کچھ اثر باقی نہیں رہتا۔ اس زمانہ میں جو سب سے بڑا سبب ہماری قوم کے تنزل کا ہے ۔ وہ یہی ہے کہ ا س میںقومی اتفاق کا خیال نسیا منسیا ہو گیا ہے۔ کسی کو بجز اپنی ذاتی منفعت کے قومی بھلائی اور قوی منفعت کا کبھی خیال بھی نہیں آتا۔ اگر کوئی کچھ کرتا بھی ہے تو اس کو پہلے اپنی غرض مدنظر ہوتی ہے اور قومی بھلائی کے پردہ سے اس کی پردہ پوشی کرنی چاہتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے کاموںمیں برکت نہیں ہوتی۔ میںیہ نہیںکہتا کہ ہماری قوم میں نیکی کا خیال نہیں ہے نہیں ان میںبہت کچھ نیکی ہے اور بہت سے نیک کام ان سے ہوتے ہیں کیسی کیسی عالیشان مسجدیں۔ کیسے کیسے عالی شان امام باڑے ۔ کیسی کیسی خانقاہیں ان کی نیکی یا یادگاریں موجود ہیں۔ اب بھی ہر شہر و قصبہ میںدیکھو گے کہ لو گ کس قدر خیر و خیرات کرتے ہیں بھوکوں کو کھلاتے ہٰں حج و زیارت میں روپیہ خرچ کرتے ہیں مسجدیں بنواتے ہیں کوئی ایسا کام جس میں ان کی دانست میں مذہبی نیکی ہو دل و جان سے اس میںمصروف ہوتے ہیں ۔ مگر اے دوستو! میں تمام لوگوں سے جو اس مجمع میں موجود ہیں نہایت ادب و عاجزی سے سوال کرتاہوں کہ ہر ایک شخص اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر سچے دل سے سوچے کہ وہ یہ سب نیکی کے کا م کس لیے کرتا ہے۔ سب لوگ قبول کریں گے کہ اس نیت سے یہ کام کیے جاتے ہیں قیامت میں ان کو اس کا بدلہ ملے گا۔ اور روزحشر مٰں ان کو ثواب حاصل ہو گا۔ اگر یہ میر ا خیال صحیح ہے تو اے بھائیو! درحقیقت یہ سب کام خود غرضی اور ذاتی منفعت کے ہیں نہ ابنائے جنس کی بھلائی اور قومی ہمدردی کے جب تک ہمارے دل میں یہ جوش نہ پیدا ہو کہ جو کام کریں وہ قوم کے لیے کریں نہ اپنے ثواب آخرت کے لیے۔ اس وقت قومی ہم دردی کا جوش پیدا نہیں ہو سکتا اگر ابھی ایک مسجد بنوانے یا قرآن مجید کی تلاوت کے لیے ایک مکتب قائم کیا جاوے تو ہر شخص کی خواہش ہو گی کہ بہ قدر اپنی استطاعت کے اس میں اعانت کرے۔ ایک غریب آدمی جس سے کچھ نہیں ہو سکتاہو وہ بھی کسی نہ کسی دن اس مکتب کے کسی طالب علم کو دو روٹی اور دال کے پیالہ دینے پر ہمت کرے گا ایسا کرنے سے اس کے دل کا اصلی خیال یہ ہے کہ اس کو ثواب ہو گا جو عین خود غرضی اور ذاتی منفعت کا نشان ہے۔ برخلاف اسس کے کہ اگر کوئی ایسا کام کیا جاوے تو قوم کے لیے نہایت ضروری ہو اور کیسی ہی کچھ قوم کو اس کے نہ ہونے سے کتنا ہی کچھ قوم کا نقصان ہوتا ہو اور کیسی ہی کچھ وہ تذلیل ہوتی جاتی ہو مگر لوگوں کے خیال میں اس سے ثواب آخرت کی کچھ توقع نہ ہو تو بہت کم لوگ ایسے ہوں گے جو ان کی طرف متوجہ ہوں گے۔ برادران من اس تقریر سے میرا مطلب یہ نہیں ہے کہ میں ان ثواب کے کاموں کو برا جانتا ہوں یا ان کی کچھ حقارت کرتا ہوں بلکہ میرا مقصد اس تقریر سے اور ان مثالوں سے یہ ہے کہ میں اصل میں قومی ہمدردی کو آپ صاحبوں کے ذہن نشین کرنے میں کوشش کروں اورقومی ہمدردی کے کاموں میں دوسرے کاموںسے جو امتیاز ہے اس کو تمثیلوں سے بتلائوں۔ کوئی قوم اور کوئی ملک اس سے خالی نہیں ہے کہ جو اپنے ذاتی ثواب حاصل کرنے کی نیت سے متعدد قسم کے کاموں میں نہایت سرگرمی سے کوشش نہ کرتی ہو اوربے انتہا روپیہ اس میں نہ صرف کرتا ہو بلکہ اس زمانہ میں جو ملک مہذب و تربیت یافتہ کہلاتے ہیں وہ ان کاموں میں سب سے بڑھے ہوئے ہیں مگر اسی کے ساتھ وہ لوگ خالص قومی ہمدردی اور خالص قومی بھلائی کے کاموں میںبھی پیچھے نہیں رہے ہیں۔ اگر وہ دائیں ہاتھ سے آخرت کے کاموں میںکوشش کرتے ہیں تو بائیں ہاتھ سے خالص قومی بھلائی کے کاموںمیںبھی بلا خیال ثواب آخرت کوشش کرتے ہیں۔ ہماری قوم میں یہ بات نہیں ہے اگر وہ بھی اپنا دایاں ہاتھ خدا کے کاموں میں اور بایاں ہاتھ خالص قومی ہم دردی کے کاموں میں لگاوے تو جو ادبار ہماری قوم پر ہے بہت جلد دور ہو جاوے اور خدا ہماری قوم کے دونوں ہاتھوں میں قوت دے ۔ آمین۔ اگرچہ میں نے اپنی پریشان تقریر سے آپ کا وقت ضائع کیا مگر مجھ کو اجازت دیجیے کہ قومی ترقی کی نسبت جو میرے خیالات ہیں ان کو بھی کسی قدر بیان کروں ۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ ہماری قوم میں اب تک اپنے باپ دادا کا فخر باقی ہے۔ اگلے بزرگوں کی عظمت کو یاد رکھنا قوم کی آئندہ ترقی کی یک گونہ بشارت ہے۔ ایک مدت دراز سے ہماری قوم کی ترقی مثل ایسی بند جھیل کے ہو گئی تھی جس کا نہ پانی بہتا ہو نہ اس میں کچھ حرکت ہو اور نہ اس میں کسی اور طرف سے پانی آتا ہو۔ تند ہوا کے جھونکوں اورآفتاب کی گرمی سے اس کا پانی روز بروز کشک ہوتا جاتا ہے۔ مگر میں دیکھتا ہوں کہ چند سال سے اس بند پانی میں کچھ حرکت آئی ہے۔ تمام ملک میں بنگالہ‘ کیا ہندوستان‘ کیا پنجاب اور کیا دکن سب کی زبان پر سب کے قلم پر یہ بات جاری ہے کہ مسلمانوں کی حالت خرا ب ہے۔ وہ رو برو ز تنزل کرتے جاتے ہیں ان کو کچھ کرنا چاہیے۔ وہ لوگ صرف کہنے پر ہی اکتفا نہیں کرتے بلکہ کچھ کچھ کرتے بھی جاتے ہیں۔ جابجا انجمنیں قائم ہوتی ہیں۔ اخباروں میںآرٹیکل کے آرٹیکل لکھے جاتے ہیں ۔ مدرسے اور سکول بناتے ہیں یہ نہایت عمدہ نشانیاں ہیں۔ جس قوم کو یہ خیال ہو ا کہ ہم تنزل کی حالت میں ہیں اور اس کے ساتھ اس میں کچھ تحریک بھی پیدا ہوئی تو یہی پہلی سیڑھی ترقی کی ہے۔ ایسی حالت میں یہ امر بھی لازمی ہے کہ ترقی کرنے والوں کے خیالات مختلف ہوتے ہیں کوئی کچھ کرنے لگتا ہے کوئی کچھ۔ اپنی قوموں کو بعوض اس کے ایک جگہ جمع کریں پریشان کر دیتے ہیں۔ جو کام اصلی ہے اس کو چھوڑتے ہیں۔ اور جو اس کی فرع ہے اس کو اختیار کرتے ہیں جس کے سبب سے کسی میں بھی کام یابی نہیں ہوتی۔ اس زمانہ میں یہی حال ہماری قوم کا ہے ۔ مگر پانی کا خاصہ ہے کہ جب وہ بہتا ہے تو چاروں طرف پھیلتا ہے پھر رفتہ رفتہ جو رستہ ٹھیک ہے ا س کو اختیار کر لیتا ہے اس لیے ہم کو اپنی قوم سے امید ہے کہ رفتہ رفتہ وہ بھی ٹھیک رستہ قومی ترقی کا پا لے گی اورتمام خیالات ایک اصلی مرکز کی طرف جمع ہو جاویں گے۔ تعلیم کا اور خصوصاً قومی تعلیم کا معاملہ جیسا نازک ہے ویسا ہی مشکل بھی ہے۔ ہماری قوم نے نہ کبھی اس پر غور کی ہے اور نہ ان ملکوں کو جہاں قومی تعلیم کو ترقی سے دیکھا ہے اور اگر دیکھا ہے تو اس کی ترقی کے اسباب پر بہت کم غور کی ہے۔ میرے بال اسی فکر میں سفید ہو گئے ہیں۔ قومی تعلیم پر غور کرتے کرتے پچیس برس سے زیادہ کا زمانہ گزر گیا ہے۔ وہ زمانہ اب نہیں رہا کہ ہم لوگوں کو مسجدوں اور خانقاہوں میں بٹھا کر اور ان کو خیرات کی روٹی دے کر چھوٹے موٹے اسکول و مکتب قائم کر کے فوری تعلیم کو ترقی دے لیں گے۔ یہ کام اس وقت مفید معلو م ہوتے ہں جب کہ قوم نے اعلیٰ سے اعلیٰ سامان قومی تعلیم کا مہیا کر لیا ہو مگر ہم نے اس اعلیٰ سے اعلیٰ سامان کا جو درحقیقت قومی ترقی اور قومی افتخار کا باعث ہے کچھ سامان نہیں کیا تو اس پانی کی پھوار سے کھیتی سرسبز نہیں ہوتی ۔ ہماوری وہی مثل ہے کہ مرجھائے ہوئے درخت کی جڑھ میں پانی دینے کے عوض اس کے پتوں پر پانی چھڑکتے ہیں اورسوکھے ہوئے چشموں میں سے نہریں کھود کر پانے لانے کی توقع کرتے ہیں۔ مجھ کو امید ہے کہ ہماری قوم اس باریک مگر نہایت روشن نکتہ پر کبھی کبھی غور کرے گی اور اسی وقت میری ان باتوں کی جو اس وقت قابل مضحکہ ہیں یا شیخ چلی کے خیالات معلوم ہوتے ہیں قدر کرے گی۔ مگر مجھ کو یہ ڈرہیکہ وقت جاتا نہ رہے۔ اور ایسے وقت پر ہم کرنا چاہیں جب کچھ کرنے کے قابل نہ رہیں۔ اسے خدا ایسا وقت ہماری قوم پر نہ آنے دے اور اس سے پہلے کہ ہم کچھ کرنے کے قابل نہ رہیں ہم کو سنبھال لے۔ آمین۔ انہی تمام خیالات کا باعث ہے کہ جو میں نے علی گڑھ میں ایک قومی مدرسہ قائم کرنے کی کوشش کی ہے اور میرے دوستوں نے جو درحقیقت بانی مدرسہ کے لقب پانے کے وہی مستحق ہیں اس میں مدد دی ہے۔ آپ کو معلو م ہے کہ علی گڑھ میرا وطن نہیں ہے نہ میری وہاں کوئی جاگیر ہے نہ زمینداری۔ صرف قومی تعلیم کے لیے مناسب مقام خیال کر کے اس جگہ مدرسہ کی بنیاد ڈالی ہے۔ قومی بھلائی کے خیال پر اپنا وطن چھوڑ کر رہاں کی سکونت اختیار کی ہے ۔ میں سمجھتا ہوں کہ وہ مدرسۃ العلوم ایسے طور پر قائم ہوا ہے جو ایسی تعلیم و تربیت کے لیے جو اس زمانہ میں قومی ترقی کے لیے درکار ہے مناسب و مفید ہے۔ جب تک کہ کوئی خود جا کر اس کو نہ دیکھے طالب علموں کی طرز معاشرت ان کی پابندی صوم و صلوۃ کو ملاحطہ نہ کرے۔ اس کے بورڈنگ ہائوس کو اور ان میں طالب علموں کے رہنے کی کیفیت کو ان کی دینیات کی تعلیم کو ان کی دنیوی تعلیم کو بچشم خود نہ دیکھے اس ی حالت بخوبی بیان نہیں ہو سکتی۔ میں نہایت خوش ہوں کہ اس مجمع میں بعض بزرگ لوگ ایسے موجود ہیں جنھو ںنے بچشم خود ان سب باتوں کا معائنہ کیاہے۔ وہ مدرسہ ہماری قوم کے بچوں کے لیے ان کی تعلیم کا گھر ہے۔ کہ تمام ہندوستان میں اس کے سوا دوسرا گھر نہیں ہے۔ اس نے بہت کچھ ترقی کی ہے جو امید سے بہت زیادہ ہے۔ بی اے کلاس تک اس میں پڑھائی ہوتی ہے اور طالب علم کلکتہ یونیورسٹی کے امتحانوں میںکامیاب ہوتے ہیں ۔ اس قدر کثرت سے مسلمان طالب علم اس میں ہیں کہ میں بظن غالب بلکہ بطور یقین کے کہہ سکتا ہوں کہ اس قدر مسلمان کسی کالج و سکول میں نہیں ہیں۔ حال میں وہ کالج انٹرنس و ایف اے امتحانوں کے لیے سنٹر ہو گیا ہے۔ پس قومی گھر یا قومی تعلیم گاہ ایسے درجہ تک پہنچ گئی ہے کہ اگر قوم دلی کوشش اور بے نظیر فیاضی سے مدد کر کے اس کو تکمیل تک نہ پہنچاوے تو نہایت افسوس کا مقام ہو گا۔ میں نہایت صداقت سے تم کو یقن دلاتا ہوں کہ اگر یہ تدبیر قومی بھلائی کی قومی مدد سے پوری نہ ہوئی تو آئندہ کوئی تدبیر قومی ترقی کی کبھی کامیا ب نہ ہو گی۔ اور مجھ کو اور قوم کے تمام خیر خواہوں اور ترقی میں کوشش کرنے والوں کو یقین ہو جاوے گا کہ ہماری قوم کی جان کندنی ایسی حالت پر پہنچ گئی ہے جس سے جان بری ممکن نہیں ہے۔ او خدا! تو ایسا مت ہونے دے! آمین۔ ہماری گورنمنٹ نے اپنی مہربانی سے اپنی رعایا کی تعلیم میں بہت کچھ کیا ہے۔ تمام رعایائے ملکہ معظمہ قیصر ہند کو شکر گزار ہونا واجب ہے ‘ مگر میں تم سے سچی بات کہتا ہوں کہ قومی تعیم اورقومی عزت ہم کو اس وقت تک حاصل نہیں ہونے کی جب تک کہ ہم تعلیم کا کام خود اپنے ہاتھوں میںنہ لے لیں گے۔ گورنمنٹ کی قدرت سے خارج ہے کہ وہ ہمارے تمام مقاصد کی تکمیل کر سکے۔ قومی کاموں میں صرف گورنمنٹ پر بوجھ ڈالنا اور اسی کے ہاتھ کو تکتے رہنا بزدلی اور بے عزتی کا کام ہے۔ ہمارا فرض ہونا چاہیے کہ ہم اپنے قومی کام کو خود اپنی مستعدی سے انجام دیں اور گورنمنٹ سے صرف اس کی امدا د کے متوقع رہیں۔ اگر یہ ہو گا تو قوم اور گورنمنٹ دونوں اپنا فرض ادا کریں گی۔ ہماری قوم کا جو حا ل ہے وہ غیر قوموں کی نظروں میںنہایت حقارت سے دیکھا جاتا ہے۔ میں ایک واقعہ بیان کروں گا۔ اگر مسلمانوں میں کچھ غیرت ہے تو اس کو بجز مر جانے کے اور کوئی علاج نہیں۔ کیمبرج یونی ورسٹی لندن کے ایک کالج میں بہت سا روپیہ توخیر میں جمع ہو گیا تھجا۔ اور اس کے خرچ کرنے کو جگہ نہ تھی۔ وہاںکے منتظموں نے تجویز کی کہ اس کالج میں جو گرجا ہے وہ بہت عمدہ نہیں ہے اس کو توڑ کے عمدہ گرجا بنایا جاوے۔ اور دس لاکھ روپیہ اس میں خرچ کرنا تجویز ہوا۔ اتفاقاً ایک مسلمان بھی وہاں موجود تھا اس نے کہا کہ اگر یہ روپیہ ہم کو مل جاتا تو ہماری قوم کے لیے ایک عمدہ کالج جس کی ضرورت ہے بن جاتا اور گرجا کی تعمیر سے بھی زیادہ مفید و ضروری کام میں کام آتا۔ یہ سن کر ایک شخص نے جو اس کالج سے تعلق رکھتا تھا جواب دیا کہ اگر تمہاری قوم ایسی ہے کہ وہ اپنی تعلیم کا انتظام بھی نہیں کر سکتی تو اس کے جیتے رہنے سے مر جانا بہتر ہے۔ وہ اس لائق نہیں کہ اس کی کچھ بھی مدد کی جاوے ۔ ہماری قوم کا اب یہ حال ہو گیا ہے کہ وہ قومی کام کی طرف کچھ بھی توجہ نہیںکرتی ۔ بڑے افسوس کی بات ہے کہ لودھیانہ سے شہر میں جو ایک بڑ ا شہر ہے۔ اور جہاں بہت سے مسلمان آباد ہیں۔ مشنری سکول بہت کثرت سے ہیں اور مسلمانوں کو یہ شرم نہیں آتی کہ مشنری تعلیم گاہوں میں وہ اپنے لڑکوں کو بھیجتے ہیں ان کو کچھ جوش پیدا نہیں ہوتا ان کو کچھ غیرت نہیں آتی کہ وہ اپنے لڑکوں کا خود بندوبست کریں وہ کتے کی طرح اپنے لڑکوں کو خیراتی روٹی پر جلاتے ہیں اورایسے خیراتی سکول میں اپنی اولاد کو تعلیم کے واسطے بھیجتے ہیں اور خود کوئی بندوبست اپنے بچوں کی تعلیم کا نہیں کرتے مگر اے بھائیو! اس بات کو سمجھو کہ خو د تعلیم دینے کا خیال کر کے ایک چھوٹا مدرسہ قائم کرنا اور ایک ہندوستانی سو ڈیڑھ سو روپیہ ماہواری کا ہیڈ ماسٹر مقرر کر کے ایک قومی تعلیم کا بندوبست کرنا بالکل ناممکن ہے۔ تعلیم اس وقت تک نہیں ہو سکتی جب تک تعلیم کا پورا سامان اور عمدہ تعلیم گاہ موجود نہ ہو۔ اے بھائیو! اپنے بچوں کی عمدہ تعلیم کا خیال کرو اور ان کی زندگی کو خراب مت کرو اس مجمع میں ا میر اور غریب سب لوگ جمع ہیں خیال کرو کہ ان سب کے لڑکے کس قسم کی صحبت میں رہتے ہیں۔ اور کن لوگوں کے ساتھ اپنی ابتدائی عمر کا زمانہ بسر کرتے ہیں ۔ اور اسی سبب سے وہ کیسے خراب ہوتے ہیں ۔ بہت سے لڑکے اپنے مربیوں کے طریقے دیکھ دیکھ کر جو جو باتیں سیکھتے ہیں اور ا ن کی تعلیم و تربیت پر جو کچھ خراب اثر ڈالتے ہیں اس کوآپ لوگ خوب سمجھ سکتے ہیں۔ قومی تعلیم ایک بند مکان میںہونی چاہیے۔ جہاں پر کہیں سے بیرونی صحبت کا اثر نہ پہنچتا ہو۔ قوم کے لڑکے ایک محفوظ بورڈنگ ہائوس میں مل کر رہیں۔ آپس میں بورڈر ہونے ہم کالج ہونے کی وجہ سے آپس میں محبت رکھیں ۔ آپ لوگ ہمارے محمڈن کالج کو دیکھیں کہ آپس میں طالب علم کیسا دوستانہ اور برادرانہ برتائو رکھتے ہیں۔ ایک دوسرے کی بیماری میں کیسی مدد کرتے ہیں۔ ایک دوسرے کے رنج و راحت میں کیسے شریک ہوتے ہیں۔ اسی ساتھ کی وجہ سے ان کے اخلاق باہمی درست ہوتے ہیں۔ آپ اس بات کو خوب یاد رکھیے کہ قومی تعلیم کبھی علیحدہ علیحدہ نہیں ہو سکتی۔ اپنے اپنے طور پر تعلیم حاصل کرنا بچوں کو سوائے غارت کرنے کے اور کچھ نتیجہ نہیں دیتا۔ اے میری قوم کے لوگو! اپنے عزیز اورپیارے بچوں کو غارت نہ کرو۔ ان کی پرورش کرو۔ ان کی آئندہ زندگی اچھی طرح بسرہونے کا سامان پیدا کرو۔ مجھ کو تم کچھ ہی کہو۔ میری بات سنو یا نہ سنو مگر یاد رکھو کہ اگر تم ایک قومی تعلیم کے طور پر ان کو تعلیم نہ دو گے تو وہ آوارہ اور خراب ہوں گے۔ تم ان کی ابتر حالت کو دیکھو گے اور بے چین ہو گے۔ رئوئوگے اورکچھ نہ کر سکو گے۔ تم اگر مر جائو گے تو اپنی اولاد کی خراب زندگی دیکھ کر تمہاری روحیں قبروں میں تڑپیں گی۔ اور تم سے کچھ نہ ہو سکے گا۔ ابھی وقت ہے اور تم سب کچھ کر سکتے ہو۔ مگر یاد رکھو کہ میں یہ پیشین گوئی کرتا ہوں کہ اگر اور چند روز تم اسی طرح غافل رہے تو ایک زمانہ ایسا آوے گا کہ تم چاہو گے کہ اپنے بچوں کو تعلیم دو۔ ان کی تربیت کرو مگر تم سے کچھ نہ ہو سکے گا۔مجھ کو کچھ کہو۔ کافر ‘ ملحد‘ نیچری‘ میں تم سے خدا کے سامنے کچھ سفارش نہیں چاہتا۔ میں جو کہتا ہوں۔ تمہارے بچوں کی بہتری کے لیے کہتا ہوںتم انہیں پر رحم کرو۔ اور ایسا کچھ کرو کہ آئندہ کو پچھتانا نہ پڑے۔ وما توفیقی الا باللہ العلی العظیم ٭٭٭ اسلام کی گزشتہ‘ موجودہ اور آئندہ حالت (۲۴ جنوری ۱۸۸۴ئ) اکثر بزرگوں کو اسلام کی گزشتہ اور موجودہ حالت اور ترقی آئندہ کی سبیل کی تفتیش رہتی ہے۔ اسلام کا لفظ اور اس کی گزشتہ اور موجودہ اور ترقی آئندہ کی سبیل کی تفتیش سن کر تعجب ہوتا ہے۔ اسلام ایک لازوال نور ہے جو ہمیشہ سے روشن ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ اسلام خود خدا کا نور ہے جو مثل اس کی ذات کے ازلی و ابدی ہے ۔ یہی نور اسلام آدمؑ کے سینے میں تھا۔ اسی نور اسلام نے نوحؑ‘ شعیبؑ‘ اور یعقوب و ابراہیم ؑ ‘ موسیٰ و یحیٰؑ تمام انبیاء علیہ السلام کے دلوں کو منور کیا تھا۔ یہی نور اسلام ہے جو فاران کے پہاڑ پر چمکا اور اسماعیل کے دل میں اترا اور اس کنکریلی ریتلی زمین کو منور کیا جس کو ہم عرب یا حجاز کہتے ہیں وہیں اس نے اپنا گھر بنایا اور ابراہیم نے کہا جب کہ وہ اور اسماعیل اس گھر کی دیواروں کو اٹھا رہے تھے ۔ ربنا تقبل منا انک انت السمیع العلیم خدا نے اس کو قبول کیا اور پ وہ مقبول ہے اور ہمیشہ مقبول رہے گا۔ اسی نور نے آخر کار سینہ مبارک محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ظہور کیا اور وہ نور نہ کسی خاص قوم کے لیے مخصوص تھا اورنہ کسی خاص ملک کے لیے وہ تمام دنیا کے لیے روشنی تھا اورروشنی ہے اور روشنی رہے گا۔ ہر ایک مسلمان کے سینے میںوہی نور ہے۔اس میں نہ کبھی تغیر ہوا ہے نہ ہو گا۔ اختلاف فرق سے جو مذہب اسلام میں دکھائی دیتا ہے اس نور میں کچھ نقصان نہیں آتا۔ تھوڑی دیر کے لیے اسلا م کے تمام مختلف فرقوں کا تصور کرو اور تمام مختلف باتوں یا مسئلوں کو ہذف کرتے جائو ہذف کرتے کرتے بہت کچھ رہ جائے گا ۔ جس پر سب فرقے متحد ہوں گے۔ پس وہی نور اسلام ہے جو باوصف اختلافات کے ب میں بلاشبہ نقصان کے منور ہے۔ مختلف فرقوں کے باہمی مباحثے اور ایک کو دوسرے کی تکفیر اس پاک نور میں کچھ نقان نہیں ڈالتی بلکہ اس کو اور زیادہ منور کرتی ہے۔ ایک مسلمان فلاسفر یا یوں کہو کہ ایک بدبخت نیچری یہ سمجھتا ہے کہ اسلام کو اگر دلائل عقلی اور مسائل علمی سے تطبیق دے کر استحکام نہ دیا جاوے تو ان کے دلوں میں جو عملی تحقیقاتوں پر وثوق رکھتے ہیں زیادہ موثر ہو گا ایک مقدس عابد و زاہد خدا پرست سیدھا سادھا مولوی اس کی تکفیر کرتا ہے۔ اورکہتا ہے کہ خدائی باتوں تک انسان کی ناقص عقل نہیں پہنچتی۔ مذہبی باتوں کو بغیر عقل کی مداخلت کے ماننا چاہیے۔ کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ جن کو پہلے شخص کی باتوں سے تسکین ہوتی ہے کچھ ایسے ہوتے ہیں کہ جو دوسرے مقدس بزرگوں کی باتوں پر ایمان رکھتے ہیں ۔ مگر باوجود اس اختلاف کے نور اسلام کو برابر ترقی ہوتی رہتی ہے۔ لو گ سمجھتے ہیں کہ ان دونوں کے دو مختلف رستے ہیں۔ مگر درحقیقت یہ ایک غلطی ہے وہ دونوں اسی ایک نور کے حامی ہیں اور ان دونوں کی کوشش ایک ہی مقصد اور ایک ہی منزل کو پہنچتی ہے ۔ ابو ذر غفاری رحمۃ اللہ علیہ کا حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سامنے پکڑا آنا اور حضرت ابوذر کا کہنا لا واللہ صاحب المال اور حضرت عمر ؓ کا فرمانا لولا رجعت من ہذا لا جلد نک ثمر قول ابی ذر افعل ماشئت انی سمعت عن حبیبی محمد رسول اللہ صاحب المال کافر و انا علیہ ما دمت حیانا خرجہ عمر رضی اللہ عنہ عن بلد حبیب صلع فھذہ کلھا فی الظاہر متناقضۃ لکن من کلیھا بضی نور الاسلام اعلی من ضیاء الشمس فی نصف النھار (پس اے بھائیو ! تم اسلا م کی گزشتہ اور موجودہ حالت کیا پوچھتے ہو اور اس کی آئندہ ترقی کی سبیل کیا سوچتے ہو۔ وہ خدا کا نور ہے وہ جیسا ہے ویسا ہی تھا۔ اور ویسا ہی رہے گا۔ وہ پورا ہے اور پورا ہو گا۔) واللہ ممتم نورہ ولو کرہ الکافرون۔ ہاں اگر تمہاری مراد اسلام سے اہل اسلام ہے تو بلاشبہ ان کی گزشتہ اور موجودہ اور آئندہ حالت نہایت دل خراش ہے۔ اسلام مٹی کی یا چینی کی کوئی مورت نہیں ہے۔ جو سب کو دکھائی دے اسلام کی حالت مسلمانوں کی حالت سے دکھائی دیتی ہے۔ اگر ان کی حالت اچھی ہے تو اسلام کی حالت بھی اچھی ہے۔ اگر ان کی حالت بری ہے تو اسلام کی حالت بھی بری ہے۔ انسان کی اچھی اور بری حالت کا ہونا دو امر سے متعلق ہے : ایک اخلاقی‘ دوسرے تمدنی یا دنیاوی۔ اخلاقی حالت کے بھی دو حصے ہیں: ایک وہ ہے جس پر نجات عقبیٰ منحصر ہے دوسرا وہ ہے جو دنیا میں لوگوں پر نیک اثر ڈالنے والا اور نیکی کا نمونہ بن کر لوگوں کو نیکی کی راہ بتلانے والا ہے اورعقبیٰ میں اعلیٰ درجات پر پہنچانے والا۔ میں یقین کرتا ہوں کہ پہلا حصہ تمام مسلمانوں کو جو لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ پر یقین رکھتے ہیں حاصل ہے اس باب میں تمام اہل اسلام جو سابق میں گزرے ہیں اور جو اب موجود ہیں اور جو آئندہ ہوں گے سب برابر ہیںدوسرے حصہ میں البتہ تفاوت درجات ہیں۔ اگلے زمانہ میں نہایت بزرگ اور مقدس یا خدا ولی اللہ گزرے ہیں جن کے انفاس کی برکت سے لوگوں نے بہت کچھ ہدایت پائی ہے ان کی برکت سے ہزاروں انسانوں نے دلوںمیں نور خدا کی روشنی پیدا ہوئی ہے انہوں نے اپنے تئیں مجسم نیکی بنا کر اسلام کو اور اس کی خوبیوں کو مجسم کر دکھلایا ہے وہ ہمارے سرتاج تھے ان سے ہمیشہ ہم کو اور ہماری قوم کو افتخار کا باعث ہو گا۔ افسوس ہے کہ بہ ظاہر ایسے بزرگوں سے ہمارا زمانہ خالی ہے یا شاید ہماری آنکھیں اس قابل نہیں ہیں کہ ہم ایسے بزرگوں کو دیکھیں ۔ اسباب میں آئندہ کے لیے پیشن گوئی نہیں کر سکتا کہ ہماری قوم میں ایسے مقدس و بزرگ لوگ پیدا ہوں گے یا نہیں مگر میں خدا کی رحمت سے ناامید بھی نہیں ہوں۔ اے دوستو! جب کہ ہم کو یقین کامل ہے کہ ہم نجاب پاویں گے پھر ہم کو اور کیا چاہیے۔ فرض کرو کہ ہم کو اعلیٰ درجات عقبیٰ کے نہ ملیں گے لیکن ایک ذرا سا بھی کونہ بہشت کا مل جاوے تو وہ کیا کچھ کم ہو گا۔ مجھ سے تو اقرار نامہ لکھوا لو کہ مجھے تو بہشت میں پھونس کی ایک چھونپڑیا کافی ہو گی۔ عقبیٰ سے تو ہم کو بالکل طمانیت اور دلی تسلی ہے۔ جو کچھ فکر و تردد ہے وہ تمدنی حالت کاہے۔ اگر ہماری دنیاوی حالت ذلیل ہو گی تو ا س کے ساتھ اسلام کی بھی ذلت ہم کو اپنی دنیاوی حالت کے درست کرنے میں کوشش کرنی چاہیے نہ دنیا کے لیے بلکہ دین کے لیے نہ اپنے للیے بلکہ خدا کے لیے۔ ہمارے بزرگوں نے اس دنیا میں کیا علم میں اورکیا عمل میں کیا دولت میں اور کیا حکومت میں۔ کیا شان میں اور کیا شوکت میں۔ کیا رزم میں اور کیا بزم میں کیسا کچھ اعلیٰ درجہ حاصل کیا تھا جس کے سبب تمام قوموں میںمعزز تھے۔ اور اسلام کی شان ان سے دکھائی دیتی تھی اب ایک ہم ہیں کہ اپنے اسلاف کو بٹہ لگاتے ہیں۔ نہ ہمارے پاس دولت ہے نہ حکومت نہ علم ہے نہ فضیلت نہ زر ہے نہ زور ہے۔ سب سے ذلیل اور تمام قوموں سے برتر ہیں۔ ہر ایک ہم کو ٹھکراتا ہے۔ ہمارا سر ہر ایک کے پائوں تلے اورہر ایک کا پائوں ہمارے سسر پر ہے۔ اے دوستو! تم یقین جان لو کہ جو شخص خدا کی خوشنودی چاہتا ہے۔ جو شخص ثواب آخرت کا طالب ہے ۔ جو شخص بہشت میں اپنے لیے ایک موتی کا محل بنانا چاہتا ہے۔ جو شخص قوم کے ساتھ ہمدرردی چاہتا ہے اس کا فرض ہے کہ اپنی قوم کو اس ذلیل حالت سے نکالنے میں کوشش کرے ۔ تم مسجدیں بناتے ہو بغیر اس کوشش کے کہ اس میں نماز پڑھنے والے بھی قائم رہیں تم خانقاہیں بناتے ہو اور ان کی عبادت کرنے والوں اور اعتکاف کرنے والوں کی سلامتی کی فکر نہیں کرتے تم خدا کا گھر اینٹ مٹی سے بنانے پر رغبت رکھتے ہو اور زندہ خانہ خدا کی زندگی کی کچھ پروا نہیں کرتے ۔ ہوشیار ہو خبردار ہو جان لو کوئی عبادت‘ کوئی خیرات‘ کوئی خیر جاری قومی ہمدردی سے بہتر نہیں ہے۔ قوم کی موجودہ حالت تو تمہارے سامنے ہے۔ اس کی آئندہ حالت تمہارے ہاتھ میں ہے۔ اگر تم فیاضی کرو گے تو قوم کے ساتھ ہمدردی کرو گے ۔ اس کی آئندہ حالت درست ہو جاوے گی۔ اگر بے پرواہی کرو گے نفسا نفسی میں پڑو گے قوم کی حالت روز برو ز ذلیل و خوار اور ابتر ہوتی جاوے گی۔ مگر اے دوستو! میری بات کو سن لو میں سچ کہتا ہوں۔ سچی بات کڑوی لگی ہے۔ میںنہایت دل سوزی سے تم کو سخت لفظوںمیں سمجھاتا ہوں کہ اگر تم قوم کی بھلائی میں کوشش نہ کرو گے تو تمہاری آئندہ نسلیں اپنے اسلاف کو کوسیں گی۔ اور خود تمہاری روحیں اپنی اولاد کو ذلت کی حالت میں دیکھ کر قبروںمیں تڑپیںگی پھر وہ عذاب ان کو دوزخ کے عذاب سے بھی زیادہ سخت معلوم ہو گا۔ برائے خدا سمجھو اپنی جان پر اپنی اولاد کی جان پر اپنی ارواح پر رحم کرو اور قوم کی بھلائی پر متوجہ ہو۔ قوم کی بھلائی اور ترقی اسی وقت ہو سکتی ہے جب کہ زمانہ کے مناسب ان کی ترقی سے اسباب جمع کیے جاویں ۔ اس زمانے میں قومی ترقی صرف زمانہ کی حاجتوں کے موافق تعلیم پر منحصر ہے۔ ہم کو دینیات کی تعلیم اپنے عقائد اپنا مذہب درست رکھنے کے لیے کافی ہے۔ وہ کہتی ہے تم میری بات نہ سنو اس کی سنو جس کی بات سننی سب پر فرض ہے۔ رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس اعرابی سے فرمایا جس نے کہا یا نبی اللہ ولنی علی عمل اذا عملۃ وخلت الجنۃ قال تعبداللہ ولا تشرک شئیا تفہیم الصلوۃ المکتوبۃ و نودی الزکوۃ المفروضہ و تصوم رمضان قال والذی نفسی بیدہ لا ازید علیٰ ہذا سیئا ولا انقص فلما ولی قال الذی صلعم من سرہ ان بنظر الی رجل من اہل الجنۃ فلینظر الیٰ ہذا۔ دینیات کی تعلیم تو تمام ہوئی ا ب آگے اس پر جتنی چاہو بحثیں بڑھائو ۔ اور جس قدر چاہو حاشیے لگائو۔ دنیاوی ترقی کے لیے جو تعلیم درکار ہے وہ بلاشبہ پیچ در پیچ ہے۔ مگر میں کہے دیتا ہوں کہ جو تم چاہو سو کرو مگر جب تک تم اعلیٰ سے اعلیٰ تعلیم کا سامان مہیا نہ کر لو گے اور اپنی اولاد کی تعلیم کے لیے ایک عالی شان گھر نہ بنائو گے جس میں بھیج کر تم اپنے بچوں کی تعلیم ان کی صحت کی حفاظت اوران کے اخلاق اور عادات کی درستی اور ان ے چال چلن کی نگہبانی سے بے فکر ہو جائو ا سوقت تک یہ مطلب حاصل نہ ہو گا بھائیو! میں نے ان ہی خیالات سے توکلا علی اللہ علی گرھ میں ایک ایسا ہی عالی شان گھر تمہارے بچوں کے لیے بنانے کی بنیاد ڈالی ہے ۔ بہت کچھ اس میں ہو چکا ہے۔ اور بہت کچھ ہونا باقی ہے ۔ قومی گھر قوم کی امداد کے بغیر ہیں ہو سکتا۔ میں اپنی قوم کے ان بزرگوں کا جنھوں نے اس میں مدد کی اوراپنی قوم کے وطنی بھائیوں کا جنھو ں نے فیاضی کی اور درماندہ قوم کو خیرات دی اور حق انسانی ادا کیا دل سے شکر گزار ہوں لیکن اگر وہ اپنی پوری مراد تک نہ پہنچے تو کیا کرایا سب اکارت ہے۔ اے بھائیو! اگر تم کو خدا نے پلائو کی رکابی دی ہے تو ایک جھوٹی ہڈی اپنی قوم کے آگے بھی ڈالو اگر خدا نے تم کو سوکھی روٹی دی ہے تو ایک ٹکڑا اس کا اپنی قوم کے بھوکے بچوں کو بھی دو۔ سب لوگ مل کر مدد کرو اور اس قومی گھر کو پورا کر اور ڈرو اس دن سے جب خدا تم سے کہے گا کہ میں بھوکا تھا تم نے مجھے کھانا نہ دیا۔ میں پیاسا تھا تم نے مجھ کو پانی نہ دیا۔ میں حاجت مندتھا تم نے میری حاجت روائی نہیں کی۔ خدا ان سب باتوںسے پاک ہے مگر وہ اس پیرائی میں تم کو سکھاتا ہے کہ قوم کی خبر لو‘ قوم کی مدد کرو‘ قوم کی حاجت روائی کرو۔ تم ان باتوں کو بہ خوبی سمجھتے ہو ۔ اور اگر نہیں سمجھتے تو اب سمجھ لو آگے تم کو اختیار ہے۔ چاہو کرو۔ چاہو نہ کرو۔ وما توفیقی الااللہ العلی العظیم وصلی اللہ تعالیٰ علیٰ خیر خلقہ محمد وآلہ و اصحابہ اجمعین برحمتک یا ارحم الرحمین تعلیم اور اتفاق (۲۷ جنوری ۱۸۸۴ئ) ہمارے ملک ہندوستان میں جو کہ غالباً صدیوں سے ان دو قوموں سے جو ہندو اور مسلمان کے لفظ میں تقسیم کی گئی ہیں آباد ہیں ۔ ان کے بزرگوںکی عظمت اور فضیلت اورنام وری ایسسی نہ تھی جو بھولی جاوے۔ ہندوئوں کے بزرگ جس قدر کہ انہوں نے تمام علوم ریاضیات‘ ہندسہ‘حساب ‘ لاجک‘ فلاسفی‘ مارل سینس میں ترقی کی آج تک ان کی یادگار نشانیاں ہیں جس سے ان کی اولاد کو فخر ہے۔ مسلمان بعد کو اس ملک میں آ کر آباد ہوئے وہ بھی اپنے بزرگوں کی عمدہ تحریرات ‘ عمدہ تالیفات اور تصنیفات پر فخر کرتے ہیں انہوںنے علم کی ہر شاخ میں ترقی دی گو یہ علم یونانیوںسے حاصل ہوئے مگر انہوںنے اس کو ایسے درجہ ترقی پر پہنچایا کہ یونان اور انگلستان دونوں کو ان کی شاگردی سے فخر حاصل ہوا۔ یہ باتیں یقینا بہت سے لڑکے اور جوان یاد کر کے فخر کرتے ہوں گے مگر اے دوستو! بزرگوں کی بات یاد کر کے فخر کرنا اورخود کچھ نہ کرنا حمیت کے خلاف ہے بلکہ اپنی ہی جہالت اورکم علمی سے ان بزرگوں کے نام کو اور بھی بٹہ لگانا ہے نہایت افسوس ہے کہ ان دونوں قوموں پر جن کے بزرگ ایسے گزرے ہیں اوریہ جہالت میں پڑ کر بزرگوں کو بھی بدنام کریں اس زمانہ قوموں پر جن پر جن کے بزرگ ایسے گزرے اور یہ جہالت میں پڑ کر بزرگوں کو بھی بدنام کریں اس زمانہ میں علم کا بہت چرچا ہو رہا ہے لیکن ہم کو تعلیم کے مقابلے میں اول غور کرنا چاہیے کہ کیا چیز ہے جس کو ہم سیکھیں اور کیا چیز ہے جس کا سیکھنا ہم کو مفید نہ ہوگا۔ میں اس بزرگ زبان کو جو سنسکرت ہے جو کو ہمارے ملک کے باشندوں کا ایک حصہ عزیز رکھتا ہے او ر واقعی وہ اپنا ثانی نہیں رکھتی ہے یا اس مقدس زبان کو جو عربی کہلاتی ہے جس کو میں دل سے مقدس سمجھتا ہوں اورجو اس قابل بھی ہے کہ تمام علوم اور سینس اس میں لائے جا سکتے ہیں دل سے پسند کرتا ہوں۔ مگر باوجود ان سب خوبیوںکے جو اس زبانوں میں ہے سوا ل یہ ہے کہ ہم کو کیا کرنا چاہیے اگر ہم بغور اور خیال ضرورت کے تعصب یا نیچرل خواہش سے اپنی دونوں زبانوں کو تعلیم کا ذریعہ قرار دیں تو میں یقین کرنا چاہیے کہ جس چیز کے حاصل کرنے کی ہم کو ضرورت ہے اس کو چھوڑ بیٹھیں گے میرا مطلب یہ نہیں ہے کہ ان مقدس اور پرانی زبانوں کو بالکل چھوڑ بیٹھیں۔ سمجھنے کی بات یہ ہے کہ بالفعل ہم کو ضرورت کس چیز کی ہے اورکون زبان ہم کو علوم کے اعلیٰ مطالب کی طرف لے جا سکتی ہے اس کے جواب میں یہ کہوں گا کہ انگلش لینگوئج۔ ایک زمانہ تھا کہ ہمارے ہاں کی کتابیں علوم اور فنون سے بھری ہوئی تھیں مگر اب دیکھنا چاہیے کہ علوم اور فنون نے کہاں ترقی کی ہے ۔ میں سمجھتا ہوں کہ جن علو م کے بیج ہمارے بزرگوں نے بوئے تھے وہ اب ابرومند اور تناور درخت ہو گئے ہیں۔ اور ان میں ایسے پھل پھول لگے ہیں اور ایسی خوش نما شاخیں نکلی ہیں اور ایسے لذیز میوے لگے ہیں کہ وہ ایک نئے درخت معلوم ہوتے ہیں ۔ علوم جدیدہ جو بالکل نئے ہوں اور جن کا وجود مطلقاً ہمارے بزرگوں کے زمانہ میں نہ پایا جاتا ہواور واقعی تھوڑے ہیں اور زیادہ وہی ہیں جو اگلے بزرگوں کے پاس تھے مگر اب حقیقت مٰں اس وقت وہ بیج تھے اور اب وہ پھل دار درخت ہو گئے ہیں۔ پس اب ہمارا ان بیجوں پر ہی فخر کرنا اوران بارآور درختوں کے سائے سے فائدہ نہ اٹھانا اور ان لذیز میووں کے ذائقہ سے محروم رہنا ہم کو نہ کچھ فائدہ دینے والا ہے نہ ان کچھ عزت بخشنے والا ہے۔ اگر ہم ہی علوم میں ترقی کرتے جاویں تو ان بیجوں کا جو ہمارے باپ دادا نے بوئے تھے ہ کو فائدہ حاصل ہو گا۔ نہیں تو ہم ان پرانے کہنہ گلے ہوئے بیجوں کو جن میں یہ سب کہنگی کے نمو کی بھی طاقت نہیں رہی ہے ہاتھ میں لیے بیٹھے رہیں گے۔ ہم کو اب ہری ہری شاخین اور میوے دار ٹہنیاں لینی چاہئیں جو میووں ک گچھے اس میں لٹک رہے ہیں ان سے تمتع حاصل کرنا چاہیے پس اب یہ بات قابل دیکھنے کے ہے کہ وہ علوم کن کن زبانوں میں ہیں اور ان میں سے ہم کو کس زبان کو اختیار کرنا چاہیے۔ تمام یورپ میں فرنچ زبان سب سے اعلیٰ اور سب سے زیادہ شیریں اور سب سے زیادہ پولیٹ ہے۔ علوم جدید بھی فرنچ زبان میں بہت زیادہ ہیں۔ اور قریب زمانہ آنے والا ہے جب کہ جرمن زبان بھی اس سے زیادہ علو کے لیے محزن ہوجاوے گی مگر وہ دونوں زبانیں ہمارے اختیار سے باہر ہیں۔ یہ علوم انگلش لینگوئج میں بھی ہیں اور ہم جو کچھ ترقی کر سکتے ہیں اپنی زبان کے ذریعہ سے کر سکتے ہیں ۔ ہم انگلش گورنمنٹ کے زیر سایہ بستے ہیںجس میں ہم کو ہر طرح کا امن و امان حاصل ہے۔ ہم کو اپنی گورنمنٹ کا بہت شکر گزار ہونا چاہیے کہ اس نے ہم کو امن و امان کے سوا تعلیم میںبھی مدد دی ہے کہ کوئی سلطنت کوئی بادشاہت ایسی ہم کو نظر نہیں آتی جس نے اپنی رعایا کی تعلیم میں ایسی مدد کی ہو اور عمدہ سامان تعلیم کا مہیا کر دیا ہو۔ ہندو اور مسلمان دونوں مجھ کو معاف کریںگے۔ اگر میں یہ کہوں کہ بنارس کے گھاٹوں کی سیڑھیوںپر دریوزہ گری کر کے یا مسجد یا خانقاہوں میں بھیک کے ٹکڑے کھا کر پڑھنے اور ان عمدہ تعلیم گاہوں میں تعلم پانے میں کس قد رفرق ہے۔ گورداس پور کوئی بڑا مقام نہیں ہے۔ مگر دیکھیے کہ گورنمنٹ کی طرف سے تعلیم گاہ موجود ہے پس کوئی وجہ نہیں ہے کہ ہم شکر گزاری کے ساتھ تعلیم کا فائدہ نہ اٹھائیں مگر اے دوستو! میری رائے اور میرا خیال یہ ہے کہ کوئی گورنمنٹ جو ہر ایک قوم کی تعلیم کا ذمہ اپنے اوپر نہیں لے سکتی ہے بلکہ اس میں مضبوطی سے اس رائے پر ہوں کہ ممکن نہیں کہ گورنمنٹ اپنی تمام رعایا کی تعلیم کر سکے۔ اس سے بھی میری سخت رائے یہ ہے کہ کوئی قوم جس کو اپنے بچوں اور قوم کی تعلیم کی خواہش ہو جب تک وہ تعلیم کو اپنے ہاتھ میں نہ لیوے اس کی خواہش کا پورا ہونا غیر ممکن ہے جو کچھ افسوس ہے یہی ہے کہ ہماری قوم کو ہر جگہ یہی خواہش ہے کہ گورنمنٹ اسکول قائم ہو مگر یہ خواہش کسی طرح پوری نہیں ہو سکے گی کیوں کہ گونمنٹ کی آمدنی بہ لحاظ اس کے اور مصارف کے کسی قوم کی تعلیم کے واسسطے کافی نہیں ہو سکتی۔ ہندوستانیوں کو ترقی اس وقت ہو گی جب وہ اپنے باہمی چندہ‘ اپنے انتظام‘ اپنی قوت سے بلامداخلت گورنمنٹ اور اس کے افسروں کے اپنی خود سری اور اپنی مرضی کے موافق اپنے بچوں کی تعلیم کریں ۔ اے دوستو! تم اس بات کو خیال کرو کہ گورنمنٹ جو ایسی وسیع مملکت ہندوستان میں حکومت کرتی ہے جس میں مختلف قومیں مختلف اغراض کے لوگ بستے ہیں۔ وہ کسی ایک قوم کی طرف داری یا بہتری کی کوشش نہیں کر سکتی اس کو لازم ہے کہ اس کے قواعد تعلیم ایسے ہوں جو یکساں سب سے متعلق ہو سکتے ہیں۔ اور جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے کہ قوم کی ضرورتیں مختلف ہیں پس گورنمنت اپنی دور اندیشی کے قاعدے سے کسی خاص فرقے کی خاص ضرورتوں کو پور ا نہیں کر سکتی اورہرگز نہیں کر سکتی۔ ایک بات اور خیال کرنے کی ہے کہ انگریزی گورنمنٹ کی کچھ ہی تعریف کی جاتی ہو کچھ ہی عمدگی ا س میں ہو مگر سب سے زیادہ عمدتی جو اس میں ہے وہ یہی ہے کہ وہ تعلی مذہبی سے بالکل علیحدہ ہے۔ اگر گورنمنٹ کسی مذہبی تعلیم میں دخل دے تو کہ وہ نیک نیتی اورنیک دلی ہی سے کیوں نہ ہو ہم کو شبہ میں ڈال دے گا۔ اور بہت بڑا خیال ہمارے دل میں پیدا ہو گا۔ اس سبب سے بچوں کی تعلیم مذہبی گورنمنٹ کی مصلحت اس کی پالیی اور اس کے انتظام حکومت کے بالکل خلاف ہے۔ پس اگر گورنمنٹ کے سکول ہماری دنیوی تعلیم کے واسطے کافی ہوں تب بھی ایک ضروری جزو مذہبی تعلیم کا رہا جاتا ہے۔ پس ہمارے وطن اور ہم قوم لوگوں کو گورنمنٹ پر بوجھ تعلیم کا نہ ڈالنا چاہیے اورتعلیم کو اپنے ہاتھ میں لے لینا چاہیے۔ گورنمنٹ کا فرض ہے کہ وہ ہم کو مدد دے اس سے زیادہ گورنمنٹ ہر سکول میں مدد دینے کو تیار ہے۔ ہم کیوں کہیں کہ فلاں قسم کی تعلیم ہم کو چاہیے اور فلاں قسم کے مدرسے یا کالج ہماری تعلیم کے لیے ضرور ہیں۔ کیوں نہیں تعلیم کو ہم لوگ اپنے ہاتھ مٰں لیں اور جس طرح کی تعلیم کی ضرورت سمجھیں اس طرح کی تعلیم دیں۔ کیمبرج یونیورسٹی میں ابھی ایک لیدی نے ایک نیا کالج قائم کیا ہے۔ اس فیاض لیڈی نے ا س کالج کے لیے اپنے پاس سے اٹھارہ لاکھ روپے دیے ہیں جو یہاں کے حساب سے بیس لاکھ روپے ہوتے ہیں۔ میرے خیال میں ہمارے ملک کے ہر ضلع اورہر قصبہ کے لوگ مدرسے قائم کر سکتے ہیں ۔ یہاں کی مردم شماری کچھ ہی ہو مگر دو دو روپیہ اوسط فی کس دینے سے یہاں کے لوگ لاہور کالج سے زیادہ عمدہ ایک کالج گورداس پور میں تیار کر سکتے ہیں لیکن ہمت اور ارادہ کی کمی ہے۔ تعلیم کے متعلق میں اس وقت یہ بحث کرنا نہیں چاہتا کہ کون کون علوم اور فنون عمدہ ہیں۔ اور کون کون تعلیم میں شامل ہونے چاہئیں۔ یہ بہت بڑا وسیع میدان ہے اور بہت لوگوں نے اس پر رائے دی ہے اس وقت میں اس تعلیم کا ذکر کروں گا۔ جس کو میں ادنیٰ درجے کی تعلیم کہتا ہوں۔ ارو جس کی عموماً ملک کے لوگوں کو ضرورت ہے ۔ وہ یہ ہے کہ انگریزی زبان عمدہ طور پر جاننا‘ عمدہ گفتگو کرنا‘ انگریزی اخباروں کا بخوبی پڑھنا۔ قانون انگریزی کو خوب سمجھنا‘ اپنے خیالات کو انگریزی تحریر میں اچھی طرح ظاہر کرنا ‘ اسی تعلیم کی اشد ضرورت ہے۔ مگر اسی کے ساتھ یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ تعلیم تربی جدا نہیں ہو سکتی ہے۔ اگر ہمارے ملک کے لڑکے اس قدر تعلیم پا جائیںاور ایسی تحریر کر سکیں جس سے وہ لارڈ میکالی کا خطاب پا سکیں اورتربیت ان میں نہ ہو تو وہ کسی کام کے نہیں۔ لارڈ میکالی میرے خیال میں وہ شخص ہے جس نے ہندوستان کی بھلائی کے درخت کا یا یوں کہوں کہ علم کے درخت کا بیج بویا۔ کوئی گورنر جنرل اور کوئی وائسرائے ہندوستان میں ایسا نہیں گزرا جس نے لارڈ میکالی سے زیادہ ہندوستان کو بھلائی پہنچائی ہو مگر یقینا اس نے جو کچھ کیا اپنی گورنمنٹ کی خیر خواہی اور بھلائی کے لیے کیا مگر اسی کے ساتھ اصلی خیر خواہی اور بھلائی کی اصلی جان اسی نے ہمارے ملک میں بھی ڈال دی۔ اے دوستو! تربیت وتعلیم د و چیزیں ہیںَ صرف تعلیم سے آدمی نہیں بنتا بلکہ تربیت س بنیا ہے ۔ بولنے میں تو یوں آتا ہے کہ تعلیم اور تربیت ۔ مگر تربیت میری سمجھ میں تعلیم پر مقدم ہے۔ ہماری قوم کے لوگوں کو اس پرخیال کرنا چاہیے کہ اگر لوگوں کی تعلیم کا گورنمنٹ کے سکولوں پر بھروسہ کرتے ہیں تو کیا وہ سمجھتے ہیں کہ وہ تربیت بھی پاسکتے ہیں۔ ہرگز نہیں تعلیم کا اصلی مقصد مارل کی درستی ہے۔ بہت تعلیم یافتہ ہیں جن کا طرز اخلاق ایسا خراب ہے کہ جس کو دیکھ کر افسوس ہوتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ کاش وہ بے تعلیم ہی رہتے تو اچھا تھا۔ میں تمام ہندوستان مٰں جہاں تک خیال کر سکتا ہوں اورجن بڑے بڑے شہروں میں پھرا ہوں اور وہاں کے حالات سے واقف ہوا ہوں نہایت زور سے کہہ سکتا ہوں کہ کسی کو اولاد کی تربیت کا خیال نہیں ہے۔ اے عزیزو! اگر لڑکے کسی گورنمنٹ سکول میں پانچ گھنٹے تعلیم پا کر آتے ہیں تو ان کی باقی حصہ زندگی کا جو بالکل سادہ ہے اور مثل ایک پودا کی نرم شاخ کے ہوتا ہے کہ جس طرح پر چاہو ٹیڑھی یا سیدھی کر سکو کس طرح بسر ہوتا ہے۔ گھر کے نوکروں کی صحبت گلیوں میںبازاری لونڈوںکے ساتھ کھیلنا اوران کی صحبت میں بد اخلاقی کی باتیں سیکھنا اور فحش اور بد اخلاقی کے الفاظ جو لونڈے بولتے ہیں اور بکتے ہیں ان کو سننا۔ اسی قسم کے ایک غارت کن رزائل میں ان کی زندگی کا پاک حصہ بسر ہوتا ہے اور بجائے اس کے وہ فرشتہ سیرت ہوتے شیطان سے بدتر ان کے اخلاق ہوتے جاتے ہیں۔ جب کہ لڑکوں کا چہارم حصہ ماسٹر کے پاس اور اس سے زیادہ حصہ خراب حالت میں گزر جاتا ہے۔ تو کیا اس سے ان کے تربیت اخلاق کی توقع ہوسکتی ہے۔ ہرگز نہیں۔ جو لوگ یہ چاہتے ہیں کہ ہماری قوم اور ہمارے بچے تربیت یافتہ اور مہذب ہوں۔ دوسری نیشن میں عزت پاویں تو ان کا پہلا فرض یہ ہے کہ تربیت کی فکر میں پڑیں۔ میں نہیں کہتا کہ وہ سب کچھ میرے ہی خیال کے موافق کریں۔ تم مجھ کو جانے دو۔ میرے خیال کی پروی نہ کرو ۔ تم خود سوچ کر کوئی تدبیر نکالو ۔ دیکھو یہ یورپین بچہ (ایک کم عمر لڑکا جو اب اس وقت موجود تھا اس کی طرف اشارہ کیا) جو اس وقت موجود ہ کیا تم کوئی ایسا بچہ اپنی قوم میں سے نکال سکتے ہو۔ گو یہ بچہ اب تک سوسائٹی میں نہیں ملا۔ مگر یہ اپنے ماں باپ کی تربیت سے کیسا نیک عادتوں کا نمونہ ہوا۔ اگلے زمانے میں ہماری اولاد بھی اپنے باپ اور اس کے دوستوں کی صحبت سے فائدہ اٹھاتی تھی۔ ان کے اخلاق حسنہ سیکھتی تھی واقعی وہ بہت اچھا طریقہ تھا۔ مگر وہ تیلیا ںجو ڈور سے بندھی تھیں ٹوٹ گئیں۔ اب یہ دوسرا ڈورا ان کے باندھنے کو ہونا چاہیے۔ اب جو نسلیں موجود ہیں وہ اس لائق نہیں کہ بچے ان سے تربیت پا سکیں پس مناسب ہے کہ اولاد کی تربیت کی فکر اور تدبیر کی جاوے۔ گورنمنٹ پر بوجھ نہ ڈالیے اس سے صرف مد د لیجیے جو اس کا فرض ہے اور جس کے ادا کرنے پر وہ موجود ہے۔ اس وقت ہندوستان میں خدا ک فضل سے دو قومیں آباد ہیں اور اس طرح سے ہیں کہ ایک کا گھر دوسرے سے ملا ہے ایک کی دیوار کا سایہ دوسرے کے گھر میں پڑتا ہے۔ ایک آب و ہوا کے شریک ہیں۔ ایک دریا یا کنوئیں کا پانی پیتے ہیں۔ مرنے جینے میں ایک دوسرے کے رنج و راحت میں شریک ہوتا ہے۔ ایک کو دوسرے کے بغیر ملے چارہ نہیں۔ پس کسی چیز کو جو معاشرت سے علاقہ رکھتی ہے ان دونوں کا علیحدہ علیحدہ رکھنا دونوں کو برباد کر دیتی ہے۔ ہم کو ایک دل ہو کر مجموعی حالت میںکوشش کرنی چاہیے اگر ایسا ہو گا تو سنبھل جائیں گے نہیں تو ایک دوسرے کے اثر سے دونوں قومیں تباہاوربگڑ جاویں گی پرانی تاریخوںمیں پرانی کتابوں میں دیکھا اور سنا ہو گا۔ اور اب بھی دیکھتے ہیں کہ قوم کا اطلاق ایک ملک کے رہنے والوں پر ہوتا ہے۔ افغانستان میں مختلف لوگ ایک قوم کہے جاتے ہیں۔ ایران کے لوگ مختلف ایرانی کہلاتے ہیں۔ یورپین مختلف خیالات اور مختلف مذہب کے ہیں۔ مگر سب ایک قوم شمار ہوتے ہیں گو ان میں دوسرے ملک کے لوگ بھی آ کر بس جات ہیں مگر وہ آپس میں مل جل کر ایک ہی قوم کہلاتے ہیں ۔ غرض یہ کہ قدیم سے قوم کا لفظ ملک کے باشندوں پر بولا جاتا ہے گو ان میں بعض بعض خصوصیتیں بھی ہوتی ہیں۔ اے ہندو اور مسلمانو! کیا تم ہندوستان کے سوا اور ملک کے رہنے والے ہو؟ کیا کسی زمین پر تم دونوں نہیں بست؟ کیا اسی زمین میں تم دفن نہیںہوتے؟ یا اسی زمین کے گھاٹ پر جلائے نہیں جاتے؟ اسی پر مرتے ہوتے اور اسی پر جیتے ہو تو یاد رکھو کہ ہندو اور مسلمان ایک مذہبی لفظ ہے ورنہ ہندو ‘ مسلمان اور عیسائی بھی جو اسی ملک میں ایک قوم کہے جاتے ہیں تو ان سب کو ملکی فائدے میں جو ان سب کا ملک ہوتا ہے ایک ہونا چاہیے اتفاق کی خوبیاں مجھ کو زیادہ بیان کرنے کی کچھ ضرورت نہیں ہے۔ جو شخص اتفاق نہیں رکھتا وہ بھی سمجھتا ہے کہ وہ برا کرتا ہے جو لوگ کہ باہم برخلاف اور ایک دوسرے کے دشمن ہیں وہ بھی جب دل میں سوچتے ہیں تو یہ سمجھتے ہیں کہ یہ بات بری بات ہے جو چیز نہایت عمدہ اورخوب ہے وہ اتفاق ہی اتفاق کر کے جو کچھ کیا جائے وہی عمدہ ہو گا۔ پس اس امر میں یہ خیال کر کے باہم اتفاق کرنا چاہیے۔ اور اس اتفاق کے ذریعے سے قومی تعلیم اور تربیت حاصل کرنا چاہیے۔ ٭٭٭ اتحاد باہمی اور تعلیم (۲۹ جنوری ۱۸۸۴ئ) یہ ملک ہندوستان ایسا ملک نہیں ہے جس میں لوگ تعلیم اور علم کو نہ جانتے ہوں۔ یہ نہایت قدیم اور پرانا مقدس ملک ہے جس میں ایک قوم جو اس میں رہتی تھی اس میں بہت بڑے عالم بہت ذی رتبہ لوگ گزر ے تھے۔ جن کی زبان سنسکرت تھی جس کی خوبی اور عمدگی فوائد علوم کے لیے بالتخصیص مشہور ہے سب کومعلوم ہے کہ اس میں نہایت عمدہ اور نفیس کتابیں فلسفہ اور لاجک کی موجود ہیں جو ایسی نہیں ہینکہ جن پر ملک کو کچھ کم فخر نہ ہو۔ اس کے بعد ایک زمانہ آیا جب ہم لوگ یہاں آئے۔ ہمارے باپ داد ا علم میں کچھ کم مشہور نہ تھے۔ شاید ہندوستان میں انہوں نے بہت کچھ نہ کیا ہو مگر ہمارے اسلا ف وہ لوگ تھے جنھوں نے علم کو بہت ترقی دی۔ بغداد ‘ قرطبہ‘ غرناطہ‘ کے دارلعلوم کسی کو نہ بھولے ہوں گے۔ ہمارے اسلاف ہی تھے جنہوں نے پرانے یونانی علوم کو ایسی ترقی دی کہ اگر مقابلہ کیا جائے تو انہوں نے ان پرانے علوم کو گویا ذرہ سے آفتاب بنا دیا تھا۔ یورپ اگرچہ اس زمانے میں علوم اور فنون میں مشہور ہے مگر پرانی تاریخ سے معلوم ہو گا کہ اسپین کے دارالعلوم نے اس کو یہ نعمت بخشی ہے اور یورپ ہی پر کیا ہے دنیا بھر ک وانہیں سے یہ فیض پہنچا ہے کہ اگر ہمارے اسلاف یونانی علوم کو زندہ نہ رکھتے تو آج تما م دنیا میں کوی بھی فلسفہ اور یونانی لاجک کا ایک حرف نہ جانتا ہوتا۔ ایسے ملک میں جہاں دونوں قوم کے اسلاف ایسے مشہور ہوں اور جن کے سبب دنیا میں اب تک علوم قدیم قائم رہے ہوں۔ علم کے فوائد یا تعلیم کے متعلق کچھ بیان کرنا فضول ہے ۔ مگر دونوں قوموں کے فضائل تسلیم کر کے یہ دیکھان چاہتا ہوں کہ اب ہماری حالت کیا ہے اور یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اس زمانہ میں جس میں ہم ہیں ہماری اولاد کو کیاکرنا چاہیے۔ اے صاحبو! کسی انسان کی یہ خوبی نہیں ہے کہ بزرگوں کے نام پر فخر کریں اور خود کچھ نہ ہوں۔ ہمارے ملک اور ہماری دونوں قوموں کی یہ حالت ہے کہ اسلاف کے نام پر شیخی کرتے ہیں اور خود کچھ نہیں کرتے۔ ان لوگوں کو یہ غلط خیال کہ ہمارے اسلاف سب کچھ کر گئے اب ہم کو کچھ کرنا نہیں ہے دل یس نکال ڈالنا چاہی۔ زمانہ روز بروز ترقی کرتا جاتا ہے اگر زمانہ کسی حد تک منتہی ہو جاتا تو یہ خیال صحیح تھا کہ علوم منتہی ہو گئے مگر ہر کوئی جانتا ہے کہ بزرگوں نے حاصل کیے ہوئے علوم کافی ہیں بالکل غلط ہے۔ گو یورپ ہمارے علوم دے روشن ہوا مگر دیکھو انہو ں نے کیا کیا علم کو جانچا اور پڑھا ذرہ برابر علم کوایسی ترقی دی جیسے ایک بیج سے عالی شان درخت پیدا ہو جاتا ہے۔ جو علوم پہلے ایجاد ہوئے تھے اس وقت ان کے ایجاد کرنے والوں کو زیادہ تحقیقات کا موقع نہ ملا۔ جو علوم اس وقت نکالے گئے تھے اور ان میں جو غلطیاں رہ گئی تھیں ان سے وہ لوگ بہ خوبی آگاہ نہیں ہونے پائے تھے یورپ نے یہ احسان ان پر تما م دنیا پر کیا کہ غلطیوں کو نکالا اور صحیح مسائل اور صحیح علوم لوگوں کو بتائے اور جو علوم نہ تکمیل کو پہنچے تھے نہ کارآمد تھے ان کو کارآمد کیا اور تکمیل پر پہنچایا ۔ ایک احسان اور کیا کہ جدید علوم ایجاد کیے جو روز مرہ زندگی کے واسطے کارآمد ہیں۔ اب یہ حال ہے کہ اگر کسی ملک میں یا کسی حصہ پنجاب میں تار برقی یا ریل نہ ہو تو لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ اندھیرے میں بے زبان اور دست و پاشکستہ پڑے ہیں دیکھیے یہ تمام چیزیں یورپ کی ایجاد کی ہوئیں علوم کی برکت سے ہم کو ملی ہیں۔ جب زمانہ ایسی ترقی کر گیا ہے اور علوم نے یہ ترقی پائی ہے تو کیا ہمار ا یہ کام ہے کہ ہم ان علوم پر نظر نہ ڈالیں یا جس قدر ہمارے الاف نے کیا ہے اسی قدر ہم بھی کریں۔ اگر ہم اسی پرانے علم کو رٹتے جائیں اور ہم اتنا ہی کریں جتناکہ ہمارے باپ داد ا نے کیا تھا تو ہم مثل ایک جانور کے ہوں گے جو وہی کام کرتا ہے جو اس کا دادا پردادا کرتا تھا۔ ہمارا کام دنیا میں یہ ہے کہ جن لوگوں نے ہم سے علم لیے ہں ان کو ترقی دی ہے اب ہم ان سے وہی علو لیں اور ان کے سیکھنے کی کوشش کریں۔ ہماری آئندہ نسلوں کو اور ہمارے واسطے بھی باعث فخر ہو سکتا ہے اور ایسا ہی کرنا ہم پر لازم ہے کہ تاکہ ہم جدید علوم سیکھیں جس میں کہ روز بروا زترقیاں اورکارآمد چیزیں موجود ہیں ۔یہ علوم جب تلاش کیے جاتے ہیں تو مختلف زبانوں میں یورپ کے ہم کو ملتے ہیں مگر یورپ کی بہت سی زبانیں ہماری دسترس سے باہر ہیں ارو اگر ہم کسی طرح سے ان کو حاصل بھی کریں تو ضرور ہم اس میں ادھورے رہیں گے ہم کو دیکھنا چاہیے کہ خدا کی مرضی کیا ہے۔ خدا کا کوئی حکم تحریری نہیں آتا مگر زمانے کے حالات سے پایا جاتا ہے ۔ اس زمانے میں ہم کو خدا کی مرضی معلوم ہوتی ہے کہ انگلش نیشن ہندوستان میں حکومت کرے اورہم ان کے زیر سایہ بسیں اور جو کچھ فائد ہ ممکن ہو ان سے حاصل کریں خدا کی مرضی سے اس پر ہم کو دسترس بھی ہے اس زمانے میں جو کچھ ہم کر سکتے ہیں وہ یہ ہے کہ ہم انگریزی زبان سیکھیں اور جو علوم اور فنون اس میں ہوں ان کو حاصل کریں۔ میرا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہندو سنسکرت کو یا مسلمان عربی زبان کو چھوڑ دیں۔ ہندوئوں کو چاہیے کہ اس کو اعتدال کے ساتھ نہ افراط و تفریط کے ساتھ سیکھیں۔ مسلمانوں کو یہ بھی لازم ہے کہ عربی زبان کی تحصیل نہ چھوڑیں ہمارے باپ دادا کی مقدس زبان اور ہماری قدیم ملک کی زبان ہے جو فصاحت و بلاغت میں سمنک زبانوں میں لاثانی ہے مگر افراط و تفریط میں نہ ہو۔ اس زبان میں ہمارے مذہب کی ہدایتین ہیں لیکن جب کہ ہمار ی معاش‘ ہماری بہتری‘ ہماری زندگی بآرام بسر ہونے کے ذریعہ بلکہ زمانے کے موافق انسان بنانے کے وسائل انگریزی زبان میں سیکھنے میں ہیں تو ہم کو اس طرف بہت توجہ کرنی چاہیے ۔ یہ اغراض دنیوی ہم ہندو اور مسلمان سب کے ساتھ لگے ہوئے ہیں اور وہ کسی طرح چھوٹ نہیں سکتے جو شخص ہماری انگریزی گورنمنٹ کے انصاف پر نظر ڈالے گا وہ خوش ہو گا اور شکر کرے گا کہ اس گورنمنٹ نے تعلیم کے متعلق بہت کوشش کی ہے‘ کوئی سلطنت خاص کر ہندوستان کی جس پر ہم کو بہت فخر ہے ایسی نہیں گزری جس نے تعلیم مین اس قدر کوشش کی ہو۔ مذہبی فلینگ کو دخل نہ دینا چاہیے۔ میں کہتا ہوں کہ مشنریوں نے بھی اپنے خیال کے موافق نیک دلی سے تعلیم کا بڑا فائدہ پہنچایا ہے گورنمنٹ کا شکریہ تو ہم ادا ہی نہیں ہو سکتا جو کچھ اس نے کیا بے مثل اور بے نظیر ہے۔ لیکن ایک سوال ہے کہ جو حل نہیںہوتا۔ بلکہ ایک نہیں دو سوال ہیں۔ پہلا سوال یہ ہے کہ کیا گورنمنٹ ایک ملک کو جس میںچوبیس پچیس کروڑ آدمی بستے ہوں تعلیم دے سکتی ہے۔ دوسرا یہ کیا کیا گورنمنٹ ایسی پوری تعلیم کر سکتی ہے کہ جس سے ہمارے پورے اغراض حاصل ہو سکیں۔ ان سوالوں کا جواب بجز نفی کے اورکچھ میری سمجھ میں نہیں آتا ۔ اب مجھے معاف رکھیے گا اگر کوئی نامناسب لفظ میری زبان سے نکل جاوے۔ کیا ہندوئوں اور مسلمانوں کو کچھ بھی غیرت ہے کہ جب اپنی تعلیم کا بوجھ گورنمنٹ پر ڈال کر اسی پر بھروسہ کریں کوئی بے غیرتی اس سے زیادہ نہیں ہے کہ اپنے بچوںکی تعلیم کے واسطے دوسرے کے سامنے ہاتھ پھیلائیں گورنمنٹ کی حکومت مختلف فرقے اور مختف مذاہب ک لوگوں پر ہے۔ اور کوئی اس سے بھی انکار نہیں کر سکتا کہ ان لوگوں کے اغراض بھی مختلف ہیں ۔ پس ایسی حالت میں گورنمنٹ ہر خالص فرقے کے واسطے کچھ بندوبست نہیں کر سکتی۔ اس کا اصول تو یہی ہو گا کہ کل کے ساتھ برابر برتائو ہو۔ اس کا نتیجہ ضروری یہ ہے کہ ان مختلف فرقوں کے کچھ اغرا ض پورے ہوں اورکچھ نہ ہوں۔ یہ حال ہندوستان میں عام ہے کہ ہندوستان میں جس فرقہ کے اغراض زیادہ پورے ہو سکتے ہیں انہوں نے تعلیمن کا زیادہ فائدہ اٹھایا جن کا نام میں بتائوں گا یعنی ہندو ۔ مسلمان کو گورنمنٹ کے سررشتہ تعلیم سے کم فائدہ پہنچا کیوں کہ ان کے اغراض ہوتے کم تھے یہ بات ہندوستان کے ہر حصہ کے سر رشتہ تعلیم پر نظر ڈالنے سے بہ خوبی معلوم ہوتی ہے جہاں سو برس عمل داری کو گزرے وہاں بھی کالج اورمدرسوں میں مسلمان کم ہیں۔ اور مسلمانوں کی تعلیم کم ہوئی ہے۔ یہ گورنمنٹ کا قصور نہیں ہے کہ یہ ہمارا قصور ہے اگر ہم تعلیم کو اپنے ہاتھ میں لیتے تو سب کچھ اچھی طرح سے کر سکتے تھے ۔ مجھ کو شبہ ہے کہ ہندوئوں میں کون لوگ ایسے تھے جن کو مذہبی اغراض مدنظر تھے۔ مگر کوئی مسلمان باپ ایسا نہیں تھا کہ اپنے بچے کو مذہبی علیم نہ دینا چاہتا ہو۔ میںکہتا ہوں کہ جب تک تم جان رکھتے ہو جب تک تمہارے جسم میںجان ہے جب تک تمہاری آنکھ کھلی ہے تم مذہب کو ہرگز نہ چھوڑو مگر دونوں پہلوئوں کو دیکھ کر چلنا چاہیے۔ گورنمنٹ کی تو یہ نہایت عمدہ پالیسی ہے کہ وہ مذہبی تعلیم سے علیحدہ رہے۔ پس جب تک تم خود اپنی تعلیم اپنے بچوں کی تعلی اپنے ہاتھ میں نہ لو تو دونوں قسم کی تعلیم ان کو نہیں دے سکتے۔ گورنمنٹ نہایت خوشی سے ہماری قوم کے لیے جو تعلیم گاہ ہماری کوشش سے قائم ہو اس میں مدد دینے کو موجود ہے اور ہماری غرض بغیر متوجہ ہوئے پوری نہیں ہو سکتی۔ تو اگر ہم ایسا بندوبست نہ کریں تو کیسے افسوس کی بات ہے اور بچوں کے لیے کیسے سخت افسوس کا معاملہ ہے کہ تعلیم کے باب میں چھوٹے چھوٹے سکولوں سے خواہ وہ گورنمنٹ کے ہوں یا پرائیویٹ ہوں کچھ نہیں ہو سکتا۔ ادنیٰ درجہ کی تعلیم کی نسبت میں صاف کہتا ہوں کہ آپ نے پرانی مثل سنی ہو گی نیم ملا خطرہ ایمان نیم حکیم خطرہ جان۔ یہی حال ادھوری تعلیم کا ہے۔ آدمی بنانے کے واسطے جب تک ہماری قوم میں ہائی ایجوکیشن نہ پھیلے گی ہماوری قوم آدمی نہیں بن سکتی۔ ابھی چند روز کا زمانہ گزر ا ہے جب ایجوکیشن کمیشن کا اجلاس کلکتہ میں ہو رہا تھا اور میں بھی وہاں پر موجود تھا۔ سب یہی کہتے تھے کہ ہائی ایجوکیشن اٹھنے نہ پاوے۔ مگر یہ بات بہت کم کسی مونھ سے سنن میں آئی تھی کہ اگر گورنمنٹ اپنا ہ اتھ ہائی ایجوکیشن سے اٹھا لے گی تو ہم خود اس کو کر لیں گے۔ اس کا مجھے بہت افسوس ہے اس میں شک نہیں کہ اس تعلیم کے واسطے زر خطیر چاہیے جس کو گورنمنٹ برداشت نہیں کر سکتی۔ لیکن تم آپس میںمل کر وہ سب کچھ کرسکتے ہو جو گورنمنٹ نہیں کر سکتی۔ گورنمنٹ جب تعلم کی طرف توجہ کرتی ہے تو سب سے پہلے ہمارے فنانشل ممبر یہ دیکھتے ہیں کہ بجٹ میں ہے یا نہیں تم لوگ اگر تھوڑا تھوڑا کر کے بھی روپیہ جمع کرو تو تمہارا بجٹ کبھی خال نہ ہوگا۔ تم چاہو تو امرت سر میں لاہور سے بڑا کالج قائم کر دو۔ گورنمنٹ کے اخراجات بہت ہیں فوج کا خرچ ملک کے انتظام کے اخراجات پھر اگر گورنمنٹ کچھ کرے گی تو وہ اسی روپے میں سے کرے گی جو ہم نے لیا جائے گا۔ اگر تم اس بات کو سوچ کر خودہی تعلیم کا انتظام کر و تو گورنمنٹ کو دکھا سکتے ہو اور فخر کر سکتے ہو کہ جو کام گونمنٹ سے نہ ہو سکا وہ ہم نے خود کر دکھایا۔ اکثر لوگ ہیں جن کے خیال میں یہ گزرتا ہے کہ اورمیں نے بہتوں کو کہتے سنا ہے کہ تعلیم یا ہائی کمیشن سے کیا نتیجہ ہو گا۔ نوکری تو بہت کم ہے۔ اگر بہت لوگ بی اے اورایم اے ہو جائیں گے تو دس روپے کی نوکری بھ ان کو نہ ملے گی۔ مگر آپ غور کریں اور جن لوگوں کا ایسا خیال ہو وہ مجھ کو معاف کریں کہ یہ خیال غلطی سے بھرا ہوا ہے۔ بے شک ہم ہندوستانی جو برٹش گورنمنٹ کی رعایا ہیں ان کا حق ہے اور ان کا دعویٰ ہے کہ جس طرح اور لوگ اور قومیں اعلیٰ عہدہ پانے کی مستحق ہیں ہم بھی ا س کو حاصل کریں اوروہ عہدہ لیں۔ میرا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم اپنا حق چھوڑ دیں اور گورنمنٹ سے اپنے حقوق نہ مانگیں۔ مگر سچ یہ ہے کہ گورنمنٹ سب کو اعلیٰ عہدے نہیں دے سکتی بلکہ کل تعلیم یافتہ کو ادنیٰ عہدے بھی نہیں دے سکتی مگر تم یہ دیکھو کہ کوئی اور نتیجہ بھی تعلیم کا ہے یا نہیں۔ آپ خیال کیجیے کہ ہندوستان جس میں ہزاروں قسم کی چیزیں تجارت کے فائدے کے واسطے موجود ہیں اور پیدا ہوتی ہیں ہمارا ملک ہے اوروہ چیزیں ہمارے ہاتھ میں ہیں مگر اس کے نفع کیا حصہ ہمارے ہاتھ میں ہے؟ ہندوستان میں تجارت کی بہت کچھ ترقی ہوئی مگر آپ خیال کیجیے کہ ہندوستان جس میں ہزاروں قسم کی چیزیں تجارت کے فائدے کے واسطے موجود ہیں اورپیدا ہوتی ہیں ہمارا ملک ہے اور وہ چیزیں ہمارے ہاتھ میں ہیں مگر اس کے نفع کا کیا حصہ ہمارے ہاتھ میں ہے۔ ہندوستان میں تجاررت کی بہت کچھ ترقی ہوئی ہے مگر آپ خیال کیجیے کہ اس ملک کی تجارت اور دولت مندی کا اصول کیا ہے۔ وہ ملک دولت مند نہیں ہوتا جس میں دوسرے ملک کی تجارت ہوتی ہے بلکہ وہ ملک دولت مند ہوتا ہے جس کی چیزوں کی تجارت کو دوسرے ملکوں کی ترقی ہوتی ہے۔ آج کل وہی ملک دولت مند ہو رہا ہے جس کی چیزوں کی تجارت دوسرے ملکوں میں ہوتی ہے۔ ہندوستان کی چیزیں اگرچہ دوسرے ملکوں میں جاتی ہیں مگر محنت کی قیمت بڑھا کر پھر اسی ہندوستا ن میںآ جاتی ہیں ۔ ہمارے ملک کی چیزوں کی نسبت بھی ہم لوگوں کی تجارت ایک بندرگاہ سے دوسری بندرگاہ تک یا ایک شہر سے دوسرے شہر تک محدود ہے۔ ایک بھائی دوسرے بھائی کی گرہ کاٹتاہے۔ ہم لوگ اپنی چیز دوسرے ملک میں نہیں لے جاتے۔ نہ دوسرے ملک کی چیز اپنے ملک میں لاتے ہیں۔ ہم دریا کے کنارے پر بلکہ اپنے زمانے میں اپنی دکان سے چند قدم کے فاصلے پر ریل کے اسٹیشن پر چار آنے کی چیز کے سوا چار آنے کی بیچج ڈالتے ہیں یا وہین سے اس طرح سے خرید کر اپنے ملک میں بیچتے ہیں۔ ممندر اندر ہمارا حصہ نہیں ہے۔ غیر ملکوں سے ہمارا کچھ رشتہ نہیں ہے ہم کو چاہیے کہ دوسرے ملک میں آڑتھ اورکمپنیاں قائم کریں جس سے اعلیٰ درجہ کے تاجر ہوں ملک کی پیداوار قدرتی چیزیں جو زمین میں گڑی پڑی ہیں ۔ ان سے فائدہ اٹھاویں ۔ اس طریقہ سے کہ اپنے ملک میں اپنے ہی ایک بھائی کا روپیہ لے کر فائدہ اٹھاویں ۔ ملک میں ترقی نہیں ہو سکتی۔ روپیہ کو کبھی اس تھیلی میں اور کبھی اس تھیلی میں ڈانے سے روپیہ بڑھ نہیں جاتا۔ جب تک کہ باہر سے لا کر اس میں روپیہ نہ ڈالا جاوے۔ جب تم ایسا کرو گے اس وقت بے شک جس طرح ہمارے مل کا روپیہ دوسرے ملک میں جاتاہے ہم بھی دوسرے ملک کا روپیہ اپنے ملک میں کھینچ لاویں گے۔ یہ سب باتیں ہم کو صرف ہائی ایجوکیشن کے نہ ہونے سے حاصل نہیں ہوتیں۔ امرت سر جو تجارتی مشہور شہروں میں سے ہے اس میں ایک وقت کیسی دھوم کی تجارت تھی مگر ا ب ہم بڑے بڑے رتاجروں کو بھی ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھتے دیکھتے ہیں۔ کیا ہماری قسمت میں صرف پشمینے ہی کی تجارت لکھی ہوئی ہے۔ اور اسی کے زوا ل پر ہمار ا زوال مقدر میں لکھا تھا۔ اگر علم ہوتا تو ہم زوال رسیدہ تجارت کے عوض دوسری تجارت اختیار کرتے اورہم لوگ امریکہ ‘ لندن‘ جرمن‘ فرانس میں چلے جاتے ۔ اوروہاں اپنی نئی تجارت کی دکانیں کھولتے اورہم اپنے ملک کی چیزوں سے پورا فائدہ اٹھاتے جو دوسری قومیںہمارے ہاں کی چیزوں سے اٹھاتی ہیں۔ اگر علم ہو جاوے تو یہ سب کچھ ہو اورملک دولت سے مالا مال ہو جاوے ۔ ایک بات اور کہوں گا کہ انسان کو خدا نے تمام مخلوقات سے بدتر بنایا ہے مگر ظاہر میں کوئی بات برتری کی اس میں نہیں ہے۔کھانا پینا‘ سونا اور بہت سے کام انسان جانوروں سے اچھا نہیں کرتا۔ شہد کی مکھی جیسا اپنا چھتا بناتی ہے وہ ایک زرد جانور جس کو لوگ بیا کہتے ہیں جیسا گھونسلا بناتا ہے بڑی صنعت کا کام ہے۔ یہ سب باتٰں اس میں قدرتی رکھی گئی ہیں جو انسان میں نہیںہیں۔ انسان کی خوبی و برتری یہی ہے ک وہ جہاںتک چاہے ترقی کر سکتا ہے حیوان حد معین سے زیادہ ترقی نہیں کر سکتا۔ مگر انسان میں وجوہر ترقی کرنے کا موجو د ہے خواہ اس کو اس کے دل کی بناوٹ کہو یا دماغ کی ساخت یا روح یا جو چاہو اس کا نام رکھو۔ بہرحال اس میں ایک ترقی کرنے والا مادہ ہے پھر انسان اگر اس کو ترقی نہ دے تو حیوان کے سکھانے‘ اخلاق درست کرنے‘ زندگی کی راہ بتانے ابنائے جنس کے ساتھ بسر کرنے اپنے اور دوسرے کے حق پہچاننے میں کارآمد ہے۔ یہ تما م باتیں انسانیت کی ہیں اور مگر بغیر علم کے نہیں آتیں بحیثیت انسان ہونے کے ہمارا فض ہے کہ اپنے تئیں انسان بنائیں نہ کہ مثل حیوان اپنی زندگی بسر کریں۔ اے صاحبو! ایک اور بات بھی تعلیم کے متعلق کہنا چاہتا ہوں ۔ کوئی شخص کوئی متنفس اس سے انکار نہ کر سکے گا کہ رعایا پر چاہے وہ کسی حاکم کی رعایا کی وفادار اور خیر خواہ ہو بہ حیثیت مسلمان ہونے کے میں یہ کہوں گا کہ یہ فرض صرف عقلی ارو انسانیت کا ہی نہیں ہے بلکہ ہمارامذہب ہمارے خدا کا حکم ہے۔ رسول کا حکم ہے۔ حاکم کی اطاعت کرو گو وہ غلام حبشی ہی کیوں نہ ہو۔ میں یقین دلاتاہوں کہ جو اصول ہماری برٹش گورنمنت کے حکومت کرنے کے ہیں ان کے سمجھنے میںغلطی کرنا تعلیم نہ ہونے کا نتیجہ ہے۔ میری رائے ہے کہ ہائی سکول مڈل سکول نہیں ہائی ایجوکیشن جس قدر زیادہ ہو گی اسی قدر ہم اپنی گورنمنٹ کے اصول حکمت کو سمجھیں گے اور اس کی قدر کریں گے۔ اگر گورنمنٹ نے ہمارے کچھ حقوق اب تک ہم کو نہیں دیے ہیں جن کی ہم کو شکایت ہے تو بھی ہائی ایجوکیشن وہ چیز ہے کہ خواہ مخواہ طاعا و کرھاً ہم کو دلا دے گی۔ غرج کہ تعلیم ایک ایسی چیز ہے کہ اس کے ذریعہ سے ہم اپنی قوم کو ایسا بنا سکتے ہیں جو قابل عزت ہو۔ ہاں ایک مشکل اور بھی تعلی کے متعلق پیش آتی ہے کہ اور وہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں دو قسم کے لوگ موجود ہیں اور اولڈ فیشن یا کہو زیادہ عمر کے جن کے کان میں بچپن سے ایک بات پڑتے پڑتے دل پر نقش ہو گئی ہے اور وہ دل سے نہیں نکل سکتی۔اور وہ اسی پر جمے ہیں۔ ایسے لوگوں کو خاص کر زمانے کے نوجوان کو اولڈ فیشن کے لوگ کہتے ہیں۔ ایک وہ ہیں جو کسی قدر تعلیم کے رستہ میں پڑ گئے ہیں یا ایسے ہیں کہ پوری تعلیم تو نہیں پاء مگر باتیں سننے سے ایسے ہوگئے ہیں یا ایسے ہیں کہ زمانہ کے حالات کو دیکھتے ہیں۔ ایسے لوگو ںکو میں روشن ضمیر کہوںگا جن کو اور لوگ نئی روشنی والا کہتے ہیں یا نئے فیشن والا۔ اب دونوں گروہوں میں اختلاف پڑ گیا ہے ۔ پرانے فیشن کے لوگ کہتے ہیں کہ یہ نئے فیشن والے بغیر کسی دھکے کے دینے کے سیدھے جہنم میں جائیں گے اوردنیامیں بھی ان سے زیادہ کوئی بدچلن نہیں ہے۔ میں اس با ت کو قبول کرتا ہوں کہ ان نوجوانوں کا فرض ہے کہ بزرگوں اور اولڈ فیشن والوں کا ادب اور لحاظ کریں اورترقی کے ساتھ اپنے اخلاق اورعادات کا بھی خیال رکھیں مگر بزرگوں کو بھی یاد رکھنا چاہیے کہ وہ ٹوٹا یکہ جس میں سینکڑوں ہچکولے لگتے ہیں ۔ اور جس میں وہ سفر کرتے تھے اب بے کار ہو گیا ہے ریل جاری ہو گئی ہے۔ اب ریل کو چھور کر یکہ پر لوگ سفر نہیں کریں گے کوئی برائی اورکوئی دشمنی ان نوجوانوں کے ساتھ اس سے زیادہ نہیں ہے کہ ان کے ھارج ہوں اورنئے علوم سیکھنے میں ان کی مزاحمت کی جاوے۔ بزرگوں کوچاہیے کہ ان کو نہ روکیں اور ان کے حالات پر صبر کریں اور اگر ان کو صبر نہ آوے گا تو بھی ان کے صبر نہ کرنے سے کچھ نہ ہو سکے گا۔ زمانہ چل نکلا ہے۔ ریل چھوٹ گئی ہے اب وہ نہیں رک سکتی۔ صرف اس قدر دیکھنا چاہیے کہ نوجوان جو ترقی کی ٹرین پر سوار ہیں ان میں وہ نقص بھی ہیں یا نہیں جن کو اس زمانہ کے لحاظ سے نقص کہنا چاہیے اگر وہ نقص ہے تو اس کی اصلاح کی فکر کرنی چاہیے لیکن اور مراسم کی نئی باتیں۔ معاشرت کے طرز کی تبدیلی۔ لباس کا تبادلہ ایسا نہیں ہے جس پر سختی کی مخالفت کی جاوے ۔ کیا پانچ پشت کے اس طرف تمام یہی مراسم اور یہی طریقے تھے جو اب ہم میں رائج ہیں ہرگز نہیں۔ ہم نے خود اپنے باپ دادا کی رسموں کو توڑا ہے تو اگر ہماری اولاد ہماری رسموں کو توڑے تو ہم کیوں ناراض ہوں۔ میں مذہبی لوگوں اور مذہب میں ڈوبے ہوئے مقدس لوگوں کی بڑی قدر کرتا ہوں مگر کیا جو طریقے عرب میں مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ میں رائج ہیں اور عرب جو وہاں سے آتے ہیں ان کے حالات سے ظاہر ہوتے ہیں وہ وہی طریقے ہیں جو رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ تابعین‘ تبع تابعین یا ان کے بعد کے مقدس لوگوں کے ھتے۔ ایمان سے تو ہر شخص یہی کہے گا کہ نہیں پس جس طرح زمانہ ترقی کرتا جاتا ہیاسی طرح عادات اور اخلاق اور طرز معاشرت میںتبدیلی ہوتی جاتی ہے۔ ہندوستان میں ترقی کا زمانہ آ گیا ہے خدا کرے کہ ایسا ہی ہو اور ہمارے نوجوان ترقی کریں اور ٹرین زیادہ تیز چلے اور جدید علوم ان میں خوب پھیل جائیں۔ تعلیم علوم جدیدہ پر ہمارے پرانے بزرگ ایک اوربھی شبہ ڈالتے ہٰں اور اس شبہ میں ہمارے اکثر ہندوستانی دوست شریک ہیں۔ وہ شبہ یہ ہے کہ انگریزی تعلیم اور علوم جدیدہ کے سیکھنے سے مذہب جاتا رہتا ہے ابھی دس روز سے زیادہ کا عرصہ نہیں گزرا کہ میں ایک قابل اور عالم کے لیکچر میں موجود تھا۔ وہ مشہور عالم اور عمدہ جنٹل مین ہیں۔ انہوںنے عام طورپر مسلماونں کو خاص طور پرمخاطب کر کے یہ بیان کیا تھا کہ انگریزی فلسفہ اور لاجک نہ پڑھو کہ مسلمانی مذہب میں خلل ڈالتا ہے اوربد عقید ہ کر دیتا ہے کہ یہ کچھ نئی بات نہیں ہے۔ کتابوں سے پایا جاتاہے۔ کہ جب ہماری حکومت آفتاب نیم روز سے بھی زیاہد روشن تھی اور تمام دنیا اس کی شہرت تھی تو بنی امی اور بنی عباس کے وقت میں جب یونانی فلسفہ رائج ہوا تو اس وقت بھی بعض غیر دور اندیش عالموں کی ایسی ہی رائے تھی مگر انجام میں ان ہی علماء نے وہی اختیار کیا جس کو وہ منع کرتے تھے کہ فلسفہ ‘ لاجک‘ علم طبعی وہ علوم تھے کہ جن عالموں کو سب سے بڑا عالم جاتنے ہو انہوں نے بھی اس کو پڑھا اور اسی سے ان کو فخر ہوا اور انہیں لوگوں کی اولاد نے اس کو منع کرتے تھے مقد س علم جانا اور اس کو پڑھا اور پڑھایا۔ اس وقت ملک میں شیعہ اور سنی دونوں موجود ہیں کوئی بتا دے کہ کون مشہور عالم ان کے ہاں ایسا تھا جو فلسفہ اور لاجک کو خوب نہ جانتا تھا ۔ اب وہی پرانا مسئلہ پیش کیا جاتا ہے مگر سچی بات ہمیشہ غالب آجاتی ہے وہ روکنے سے کبھ نہیں رکتی۔ اگر کوئی اپنی آنکھیں بند کر لے اور آفتاب کی روشنی نہ دیکھے تو آفتاب پر کچھ اثر نہ ہو گا اور شاید ایسے کرنے والے بھی دو ایک سے زیادہ نہ ملیں گے اس کے سوا میں پکے اعتقاد اور سچے دل سے کہتا ہوں کہ کوئی علم ہو لاجک ‘ فلسفہ‘ نیچرل فلاسفی یا کسی علم کا نام لو مذہب کے خلاف نہیں۔ میں اس حیثیت سے کہ میں خود مسلمان ہوں اپنے بھائیوں سے کہتا ہوں کہ میری دانست میں اسلام ایسا مذہب نہیں ہے کہ کسی طرح وہ جانچا جاوے اور جھوٹا نکلے۔ اس کو لاجک کے سامنے نیچرل فلاسفی کے آگے ڈال دو وہ سچا نکلے گا۔ اگر کسی کے دل میں یہ خیال ہو کہ ان علوم کے پڑھنے سے مذہب جاتا رہتاہے تو ایسے مذہب اور ایسے خیالات کرنے والوں پر افسوس ہے۔ اگر واقعی مذہب اسلام ایسا ہی ہو کہ علوم جدیدہ کی صداقت کے سامنے زائل ہوتا ہے تو ایسے مذہب کو اختیار کرنے سے کچھ فائدہ نہیں ۔ مگر جن لوگوں کا یقین ایسا ہے اور جو ایسا خیال کرتے ہیں میں سمجھتا ہوں کہ ان کو مذہب اسلام پر یقین نہیں وہ زبان سے تو کہتے ہیں مگر دل میں اس صداقت نہیں۔ ہمارا فرض ہے کہ خدا اور ایک اور رسول کو برحق جانیں ۔ قرآن مجید برحق کی خوبیوں پریقین رکھیں ۔ اسی کے ساتھ نئے علوم کوسیکھیں اس سے دین بنتا ہے اور اس سے دنیا۔ دائیں ہاتھ سے ہم دین کو پکڑیں اور بائیں ہاتھ سے دنیا کو۔ اور ایک جوان مرد کی طرح دنیا کے میدان میں آئیں نہ ایسے ڈرپوک ہوں کہ پٹاخے کی آواز سن کر گھر میں گھس رہیں اے صاحبو! جو کچھ میں نے بیا ن کیا علم اور تعلیم کی نسبت کیا ہے لیکن درحقیقت میںنے اس کے بیان سے قومی ترقی کی ایک نصف صورت دکھائی ہے بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ نصف سے بھی کم ۔ اکیلی تعلیم آدمی کو انسان نہیں بناتی ہے دوسرا حصہ اس کا تربیت بھی ہے۔ اور اگر وہ نہیں ہے تو تعلیم بھی اکارت ہے۔ مجھ کو افسوس ہے کہ تعلیم خواہ عربی ‘ سنسکرت‘ انگریزی کی ہو مگر میں ان تعلیم دینے والوں سے پوچھتا ہوں کہ اس وقت ہندوستان میں خواہ گورنمنٹ کالج یا سکول یا مشنریوں کی تعلیم گاہیں یا پرائیویٹ انسٹیٹیوشن ان سب میں اولاد کی تربیت کا کیا بندوبست ہ۔ ایک لڑکا جو چند گھنٹے ماسٹر کے سامنے پڑھ کر آتا ہے تمام دن اپنا کس صحبت میںبسر کرتا وہی خراب صحبت بازاری لونڈوں اور خدامت گاروں کے لوگوں کی اس کو نصیب رہتی ہے۔ وہی خراب اور بد الفاظ جو ان بازاری لڑکوں کی زبان پر جاری ہوتے ہیں وہی نکمی عادتیں جو ان لڑکوں میں ہوتی ہیں یہ بھی سیکھتا ہے اسی سبب سے جب تک تعلیم کے ساتھ تربیت کا خیال نہ ہو امکان نہیں کہ لڑکا انسان بن سکے۔ آپ دیکھتے ہوںگے کہ انگریزوں کے چھوٹے چھوٹے بچے باوجودیکہ ہمارے بچوں سے علم کی میزان میں کم ہیں مگر جو تربیت اور شائستگی ان میںہوتی ہے وہ ہماورے بچوں میں نہ پائو گے۔ آپ لوگون نے ہندوستان کے انگریزوں کے لڑکوں کو دیکھا ہے جو صرف ماں باپ سے تربیت پاتے ہیں مگر جن لوگوں نے ولایت کے لڑکوں اور نوجوانوں کو آسکفورڈ اور کیمبرج میں دیکھا ہے وہ سمجھ سکتے ہیں کہ کیسی تربیت وہاں دی جاتی ہے۔ تربیت تعلیم پر بھی مقدم ہے بلکہ انسان کا یہی زیور ہے جب تک یہ دونوں شامل نہ ہوں اولاد میں انسانیت نہ آ سکے گی۔ ا ے صاحبو! ہماری زندگی قریب اختتام ہے چند سال ہماری تمہاری عمر میں اور باقی ہیں یہ سفید سفید ڈاڑھیاں پوپلے پوپلے منہ زمین میں گڑ کر یا مرگھٹ پر جل کر خاک ہو جائیں گے مگر یاد رکھو کہ یہ بچے جن کو تم جوان چھوڑ جائو گے ان کا یہ حال ہو گا کہ روز بروز مفلس اور ذلیل و خوار ہوں گے۔ جیل خانے ان سے بھرا کریں گے۔ اے ہندوئو اور مسلمانو اگر مرنے کے بعد روح قائم رہتی ہے تو مرنے کے بعد یہ حالت دیکھ کر تمہاری پاک روحیںگھاٹوں اور قبروں پرتڑپیں گی تربیت کے ساتھ ادب کا ذکر بھی بے جا نہ ہو گا۔ میں مسلمان ہوں کل مسلمانوںکا یہی خیال ہو گا جو میں ابھی بیان کروں گا۔ ہندو صاحبوں سے بھی مجھ سے دوستی ہے ۔ ان کے بہت سے عمدہ خاندانوں کو مین جانتا ہوں یہ سب ادب کو بڑی چیز سمجھتے ہیں۔ کوئی شخص اس سے اختلاف نہیں کر سکتا۔ کہ ادب عزت کا باعث ہے۔ ایک پرانے شاعر کا قول ہے : ادب تا چیست از لطف الٰہی بنہ برسو برو ہر جا کہ خواہی لیکن میں تفتیش کرنا چاہتا ہوں اور بقدر اپنے خیال کے اس کو بیان کروں گا کہ ادب کیا چیز ہے۔ ہمارے یہاں ادب کے معنی یہ ہیں کہ لڑکا اپنے بزرگوںکے ڈر کے مارے سچی بات زبان سے نہ نکالے۔ جھک جھک کے بلاضرورت سلام پر سلام کرے ۔ یہ ویا اد ب ہے جیسا کہ ایک بندر والا بندر کو سکھاتا ہے ۔ کہ ٹانگ اٹھا کر کھڑ ارہے۔ ہات جوڑ کر گردن نیچی جا کر سامنے آوے۔ اشارہ کے ساتھ ڈگڈگی پر چڑ بیٹھے ہمارے ملک میں جن بزرگوں کے ہاں لڑکے گھٹنے جوڑ کر بیٹھتے ہیں اورنہایت جھک کے سلام کرتے ہیں اور اشاروں پر کام دیتے ہیں ان کی نسبت کہا جاتا ہے کہ بہت ادب سکھایا گیا ہے مگر میں سچ کہتا ہوں کہ یہ ادب نہیں ہے ایسے ادب دینے والوں کو اس بات کا خیال نہیں آت اکہ اولاد ایسے ادب سکھانے سے دلی دل جوش مر جاتا ہے ان کی عادت ذلیل ہونے کی ہو جاتی ہے۔ ان کی جرات ‘ دلیری اور شرافت کھو دیتی ہے۔ تربیت بری باتوں سے بچنے کی ہونی چاہیے اندرونی قواء کے مارنے کی ضرورت نہیں۔ اگر لڑکے اپنے باپوں کے سامنے اپنے جوشوں کو کام میں لاویں گے تو وہ آئندہ کو باعث فخر ہوں گے ہمارے ہاں بعوض اس کے کہ ان کو صداقت اورآزادی رائے کی تعلیم ہو ان کو جھوٹ بولنے کی عادت پڑتی ہے۔ زبان کے کھلنے کے ساتھ ہی جب کہ ان کی زبانیں کنت کرتی ہیں گالیاں سکھائی جاتی ہیں۔ ان کی توتلی زبانوں سیگالیاں پیاری لگتی ہیں جب بڑے ہو جاتے ہیں تو دل کی سچائی ظاہر سے روکے جاتے ہیں۔ کیا کوئی انصاف سے یہ بات کہے گا کہ یہ سچی تعلیم و تربیت ہے ۔صداقت آزادی سے سچی بات کہنے کی عادت اس سے پیدا ہو سکتی ہے۔ ہرگز نہیں۔ البتہ آزادی اور بے ادبی میں تمیز کرنا چاہیے کہ یہ دونوں چیزیں ہیں اصلی ادب کے ساتھ آزادی کا کام میں لانا باعث فخر ہے۔ آپ لوگ یاد رکھیں کہ جو خیالات چھوٹی عمر سے دل میں بیٹھتے ہیں ان کا نکلنا بہت مشکل ہے ۔ بلکہ نہیں نکلتے اور اسی سبب سے ہمار ے ہاں کے لو گ جوان ہو کر بھی اکثر باتیں اپنے دلی خیال کے خلاف کہتے ہیں۔ یہ اسی خراب تربیت کا نتیجہ ہے کہ میں یہاں میونسپل کمیتی کی ذی رتبہ اور عالی درجہ ممبروں کا حال نہیں جانتا مگر اکثر جگہ یہی لکھا ہے کہ بجز حضور کہنے اورہاں میں ہاں ملانے کے ہم اور کچھ بھی نہیں کہتے ۔ اور باہر جا کر یہ کہتے ہیں کہ یہ تجویز بہت خراب تھی مگر کیا کرتے کلکٹر صاحب کی بھی مرضی یہی تھی۔ یہ اسی بری تربیت کا اثر ہے اگر سچی آزادی کی تعلیم ہوتی تو کلکٹر کیا وائسرائے کے سامنے بھی یہ بت کہتے۔ مائی لارڈ آئی ایم ویری ساری آئی کانٹ ایگری ود یو ر اکسلینسز پروپوزل۔ آزادی روکنے سے لوگ اولادکے قویٰ کو مضمحل کر دیتے ہیں ۔ خیر جو کچھ گزر گیا گزر گیا ۔ اب آئندہ نسلوں کا خیال کرنا چاہیے۔ شاید سچی باتیں بری لگتی ہوں ۔ مگر دل میں سوچیے کہ یہ باتیں آپ کی بھلائی اور آپ کی اولاد کی بھلائی کیلیے کہی جاتی ہیں یا اور کسی غرض سے۔ یہاں تک کہ جو کچھ میں نے بیان کیا وہ حقیقت میں تعلیم اور تربیت ہی کے متعلق تھا مگر مجھ کو ایک امر میں اور بھی کہنا ہے۔ آپ خیال کریں گے کہ دنیا میں جو امور ہوتے ہیں وہ ایسے پیش در پیچ ہیں کہ بٹے ہوئے رسوں کے پیچ کی طرح آپس میں لپٹے ہیں اگران کو کھولو گے تو تمام لڑیں ٹوٹ جائیں گی۔ ہم کچھ نہیں کر سکتے اور اس کی ہندوستان مٰں سب سے زیادہ ضرورت باہمی اتحاد ہے۔ عقل مند شخص جو خدا پر یقین رکھتا ہے اس کی یہی خواہش ہو گی کہ اسی طریقہ پر چلیں جو کدا کی مرضی ہے اور اب ہندوستا ن میں دیکھنا چاہیے کہ خدا کی مرضی باہم کس طرح بسر کرنے کی ہے۔ صدیاں گزر گئیں کہ ہندو اور مسلمان یہاںااباد تھے۔ چند سال سے خدا کی مرضی یہ ہوی کہ ایک تیسری قوم بھی یہاں آباد ہو گئی۔ یہ تینوں قومیں اب یہاں آباد ہیں اور اب انہیں تینوں کا یہ ملک ہے ان سب کو آپس میں اتفاق اور دوستی پیدا کرنا چاہیے۔ مذہبی خیالات کا جداگانہ ہونا خدا کی مرضی کے خلاف نہیں ہو سکتا۔ یہ کسی کا کا م نہیں ہے کہ ب کو ایک مذہب پر لے آوے۔ یہ تو وہ لوگ بھی نہیں کر سکے جو انبیاء علیہ السلام کے نام سے گزرے ہیں۔ مختلف مذاہب کے لوگ ہونے سے یہ خیال نہ کران چاہیے کہ باہمی اتفاق نہیں ہو سکتا۔ ایک باریک بات غور کرنے سے معلوم ہوتی ہے اوروہ یہ ہے کہ ہر انسان کی خلقت میں دو حصے ہیں۔ ایک عقید ہ جو دل سے متعلق ہے اس میں دوسر ے کی شرکت نہیں ہے۔ باپ کا عقیدہ بیٹے کے لیے اور بیٹے کا عقیدہ باپ کے لیے مفید کا مضر نہیں ہے۔ دوسرا حصہ انسانیت کا جو تمدنی حالتوں سے متعلق ہے جس کے سبب سے آپس میں ملنے۔ ہم جنس سے دوستی کرنے۔ باہم یگانگت اور اخلاص کا برتائو کرنے کی ضرورت ہے ان دو حصوںمیںخدا کا حصہ خدا کے لیے مخصوص ہے اس کے حصہ کو اسی کے واسطے سے ایک کا دوسرے کے ساتھ دوستی اور اخلاص کرنا ضروری ہے۔ ایک کو دوسرے سے مانگنا چاہیے اگر تم اس باریک مسئلہ کو نہ سمجھو یا سمجھ سے زیادہ سمجھو تو میں تم کو ایک موٹی سی بات سے اس کو سمجھائوں جو لوگ اس وقت میں ایک مجلس میں جمع ہیں وہ سب مل کر اسکام کو کریں تو اچھی طرح سے ہو گا یا علیحدہ علیحدہ کرنے سے۔ تعلیم کا بھی یہی حال ہے اور تجارت کا بھی یہی حال ہے۔ میں اپنے تمام ہندو اور مسلمان بھائیوں سے یہ کہتا ہوں کہ اس میں شک نہیں ۔ یہ امر ناممکن ہے کہ رایوں کا اختلاف کر دیا جاوے۔ آپس میںایک دوسرے سے رشک و حسد نہ رکھے۔ باہم رنج و آزردگی نہ ہو یہ بھی خدا کا قانون ہے اس کو کو ئی نہیں توڑ سکتا۔ مگر جس چیز میں کہ سب کے اغراض متحد ہیں ان میں سب کا ایک دل ہو جانا یہ کوئی انوکھی بات نہیں۔ اس کی مثالیں اورملکوں میں موجود ہیں اس ملک میں بھی کل باشندوں کو ملک کی بہتری کے لیے ایک جان ہو کر کوشش کرنا چاہیے۔ اگر یہ نہ کرو گے تو ہندو بھی ڈوبین گے اور مسلمان بھی۔ ان دونوں کی حکومت کے وقت گزر گئے جو کچھ ان وقتوں میں ہوا ہے۔ پنجاب میں ابھی تک سکھوں کی عمل داری تھی۔ وہ بڑے بہادر اور دلیر تھے۔ تمام انسان ان کی تعریف کریں گے مگر کیا اس حکومت میں ایسا عمل تھا جیسا انگریزی عمل دار ی میں ہے۔یہ ملکہ معظمہ کوئین وکٹوریہ ایمپریس آف انڈیا کا زمانہ ہے جہاں اس میں متفق ہو کر جس طرح چاہو ترقی کر سکتے ہو۔ جہاں تک ہم چاہیں اپنے تئیں پہنچا سکتے ہیں۔ اگر ایسے زمانے میں بھی ہم کوشش نہ کریں تو بڑے افسوس کی بات ہے۔ میں کئی جگہ بیان کر چکا ہوں کہ ہندوستان کے لیے ناممکن ہے کہ ہندو یا مسلمانوں میں سے کوئی بھی حاکم ہو اور امن قائم رکھ سکے۔ پھر بھی یہی ہونا ہے کہ کوئی دوسری قوم ہم پر حکم ران ہو۔ جو قومیںاس وقت دنیا پر حکومت کر رہی ہیں ان میں یورپ کی سلطنتیں بہت قوی اور اعلی درجہ کی سمجھی جاتی ہیں۔ ایشیا کی سلطنت کا حال مسلمان خوب جانتے ہٰں کہ اس عمل داری میں مسلمانوں کو کس قدر آزادی مل سکے گی ۔ جرمن اور فرانس جو اس سے اعلیٰ گنی جاتی ہیں کیا وہ حکومتیں ہم کو اس سے زیادہ امن اور آزادی دے سکتی ہیں۔ ہرگز نہیں ہرگز نہیں۔ کیا ہندوستان کے لوگ رشیا سے کچھ بھلائی کی توقع رکھ سکتے ہیں؟ ہرگز نہیں۔ پس ہم لوگوں کو چاہیے کہ ایسے امن کے وقت کو ہاتھ سے نہ جانے دیں اور جو کچھ کرنا ہے کریں۔ جب یہ امکان میں نہیں ہے کہ ان دو قوموں میں سے کسی کی حکومت ہو اورکوئی ایسی حکومت ایسی نظر نہیں آتی جس میں امن اور آزادی سے زیادہ ہم کو مل سکے تو ہم کو اس زمانہ کو ہاتھ سے نہ دینا چاہیے اور پیچھے نہ رہنا چاہیے۔ مدرسۃ العلوم علی گڑھ کے تاریخی حالات (دسمبر ۱۸۸۹ئ) اس میں کوئی شک نہیں کہ مدرسۃ العلوم علی گڑھ ایک بہت بڑا انسٹیٹیوشن ہے ۔ جو قوم کی تعلیم کے لیے قائم ہوا ہے پس نہایت مناسب ہے کہ میں اس انسٹیٹیوشن کے تاریخانہ حالات اور جدید واقعات سے اپنی قوم کے بزرگوں کو اطلاع دوں۔ مگر ایک عبرت انگیز واقع کو جس نے ایک شخص کے دل کو دین و دنیا دونوں سے مستغنی کر کے قوم کی محبت وہ م دردی میں محو کر دیا اور درحقیقت وہی واقعہ اس کالج کے فونڈیشن کا پہلا پتھرہے میں اپنے دل سے بھلا نہیں سکتا ۔ گو مٰں اس کو بھی ظاہر کرنا نہیں چاہتا تھا۔ کم بخت زمانہ غدر ۱۸۵۷ء کا ابھی لوگوں کی یاد سے بھولا نہیں ہے۔ اس زمانے میں میں بجنور میں تھا جو مصیبت کہ وہاں کے موجودہ انگریزی حکا اور عیسائیوں کے زن اور مرد اور بچوں پر پڑی صرف اس خیال سے کہ انسانیت سے بعید ہے کہ ہم مصیبت کے وقت ان کا ساتھ نہ دیں میں نے ان کا ساتھ دیا۔ غدر میں جو حال انگریزوں اور ان کے بچوں اور عورتوں پر گزرا اور جو حال ہماری قوم کا ہوا اورنامی نامی خاندان برباد و تباہ ہو گئے ان دونوں واقعات کا ذکر بھی دل کو شق کر دینے والا ہے۔ غدر کے بعد مجھ کو نہ اپنا گھر لٹنے کا رنج تھا نہ مال و اسباب کے تلف ہونے کا ۔ جو کچھ رنج تھا اپنی قوم کی برباد ی کا اور ہندوستان کے ہاتھ میں جو کچھ انگریزوں پر گزرا ا سکا رنج تھا۔ جب ہمارے دوست مرحوم مسٹر شیکسپئر نے جن کی مصیبتو ں میں ہم اورہماری مصیبتوں میں وہ شریک تھے۔ بعوض اس وفاداری کے تعلقہ جہاں آباد میں جو سادات کے ایک نہایت نامی خاندان کی ملکیت تھا۔ اور لاکھ روپیہ سے زیادہ کی ملکیت کا تھا مجھ کو دینا چاہا تو میرے دل کو نہایت صدمہ پہنچا ۔ میںنے اپنے دل میں کہا کہ مجھ سے زیادہ کوئی نالائق دنیا میں نہ ہو گا کہ قوم پر تو یہ برباد ی ہو اور میں ان کی جائیداد لے کر تعلقہ دار بنوں۔ میںنے اس کے لینے سے انکار کر دیا اورکہا کہ میرا ارادہ ہندوستا میں رہنے کا نہیں ہے اور درحقیقت یہ بالل سچ بات تھی۔ میں اس وقت ہرگز نہیں سمجھتا تھا کہ قوم پھر پنپے گی اورکچھ عزت پاوے گی۔ اور جو حال اس وقت قوم کا تھا وہ مجھ سے دیکھا نہیں جاتا تھا۔ چند روز میں اسی خیال اور اسی غم میں رہا آپ یقین کیجیے کہ اس غم نے مجھے بڈھا کر دیا اور میرے بال سفید کر دیے۔ جب میں مراد آباد میںآیا جو ایک بڑا غم کدہ بربادی ہماری قوم کے رئیسوں کا تھا تو اس غم کو کسی قدر ترقی ہوئی مگر اس وقت یہ خیال پیدا ہوا کہ نہایت نامردی اور بیمروتی کی بات ہے کہ اپنی قوم کو اس تباہی کی حالت میں چھوڑ کر خود کسی گوشہ عافیت میں جا بیٹھوں ۔ تمہیں اس کے ساتھ مصیبت میں رہنا چاہیے ۔ اور جو مصیبت پڑی ہے اس کے دور کرنے میں ہمت باندھنی قومی فرض ہے۔ میں نے ارادہ ہجرت موقوف اور قومی ہمدردی کو پسند کیا۔ میں نے پسند نہیں کیا کہ مگرمیںنہیں جانتا تھا کہ کس نے پسند کیا اور کس نے آمادہ کیا۔ ہنوز سیاست ہائے ایام غدر جاری تھیں کہ میںنے ایک رسالہ قوم کی بے گناہی کا لکھا جو کازز آف انڈین روولٹ کے نام سے موسوم ہے۔ میں بیان کرنا نہیں چاہتا کہ وہ کیا وقت تھا اور میرے دوست کیا یقین کرتے تھے کہ اس جوش قومی ہمدردی سے جس کو میں خود دیوانہ پن کہہ سکتا ہوں مجھ پر کیا گزرنے والا تھا۔ یہ میرا پہلا سبق قومی ہمدردی کا تھا میرے غم خوار مجھ کو اس سے مانع آتے تھے۔ اور میرا حال ان سے یہ کہتا تھا: حریف کاوش مژگان خوں ریزم نہ ناصح بدست آور رگ جانی و نشتر را تماشا کن اسی زمانے میں میںنے چند رسالے لکھے اور مشتہر کیے جو لائل محمد نز آ ف انڈیا کے نام سے مشہور ہیں۔ مگر میںنے غور کیا کہ یہ سب فروعی باتیں ہیں۔ اصلی سبب سوچنا چاہیے کہ قوم پر یہ مصیبت کیوں پڑ۔ی اور کیوں کر دور ہو سکتی ہے؟ اس کا یہ جواب ملا کہ قوم میں تعلیم و تربیت نہیں تھی اورانگریزوں سے جن کو خدا نے ہم پر مسلط کیا ہے میل جو ل اور اتحادتھا اور باہم ان دونوں میں مذہبی اور رسمی منافرت بلکہ مثل آب زیرکاہ عداوت کا ہونا تھا۔ میںنے یقین کیا کہ اگر یہ دونوں باتیںنہ ہوتیںتو یا تو غدر واقع نہ ہوتا اگر ہوتا تو جو سخت مصیبت گورنمنٹ پر ملک پر‘ ہماری قوم پر واقع ہوئی اس قدر نہ ہوتی۔ پھر میںنے اپنے دل سے پوچھا کہ قوم کو اس زمانہ کی ضرورت کے موافق تعلیم دینا اور یورپ کے علوم کا ان میں جاری کرنا آیا درحقیقت اسلام کے برخلاف ہے؟ مجھے جواب ملا کہ نہیں پھر میںنے سوچا کہ انگریزوں سے جو ہمارے حاکم ہیں اور عموماً عیسائویوں سے سچی دوستی اور بے ریا اتحاد اور دل کھول کر دوستانہ میل جول اور دوستانہ معاشرت اور آپس میں ایک دوسرے کی ہمدردی کیا اسلا م کے برخلاف ہے؟ جواب ملا کہ نہیں۔ پس انہیں دونوں اصولوں کو میں نے اختیار کیا اور انہیں اصولوں پر جن کو میں کبھی نہیں چھوڑنے کا قوی بھلائی پر کمر باندھی ۔ جبکہ میں نے قومی بہتری کے وہ دواصول مستحکم طور پر قائم کر لیے ایک تعلیم دوسرا انگریزوں سے اصلی اتحاد و دوستی تو اول ۱۸۵۸ء میں میں کسی قسم کے سکول مراد ٓباد میں قائم کیا جہاں اس زمانے میں کسی قسم کے سکول کا وجود نہ تھا۔ مگر سرجان اسٹریچی کی مہربانی سے وہاں ایک ارد و انگریزی اسکول قائم ہوا اور دونوں کو ملا دیا گیا۔ پھر میں غازی پور گیا جہاںمیںنے ایک اسکول قائم کرنے کی بنیاد ڈالی جس میں اردو ‘ انگریزی عربی ‘ فارسی‘ پڑھائی جاوے۔ اس کا فونڈیشن سٹون میرے دوست راجا سر دیو نارائن سنگھ بہادر اور جناب مولانا محمد فصیح رحمۃ اللہ علیہ کے ہات سے رکھوایا گیا۔ وہ اسکوم نہایت کامیابی سے چلتا ہے۔ اور وکٹوریہ اسکول کے نام سے موسو م ہے۔ اس زمانے میں میرے خیالات یہ تھے کہ بذریعہ ترجموں کے جو اردو زبان میںہوں اپنی قوم کو اعلیٰ درجہ کے یورپین علو م و فنون سے بہرہ یاب کروں چناں چہ اس پر کوشش کی اور ۱۸۶۴ء میں سائنٹفک سوسائٹی قائم کی جس کی عالی شان عمارت اسی علی گڑھ میں آپ دیکھتے ہیں بہت سی کتابوں کا اردو میں ترجمہ ہوا۔ اور اس کا ایک اخبار اب تک میرے اہتمام سے جاری ہے ۔ میں اس بات سے انکار نہیں کرتا کہ اردو زبان میں کتابوں کا ترجمہ ہونا بے شک ملک کے لیے مفیدہے۔ مگر مجھے یقین ہے کہ اعلیٰ درجہ کی تعلیم و تربیت جس کی ضرورت قوم کو ہے اور سوشل حالت کی ترقی اور حاکم و محکوم کا میل جول جو میرے اصولوں کا منشا ہے بغیر انگریزی پڑھنے اور یورپین سینئیرز لٹریچر میں اعلیٰ درجہ تک ترقی کیسے ناممکن ہے ۔ میں ہر ایک بات سوچتا تھا اور نہیں سمجھتا تھا کہ کیا کروں۔ اسی زمانے میں گورنمنٹ نے اضلاع شمال و مغرب کے طالب علموں میں سے سید محمود کو لنڈن میں جا کر تعلیم پانے کو منتخب کیا جس کے لیے سب سے اول سرجان اسٹریچی کا وار اس کے بعد سر ولیم میور اور لارڈ لارنس مرحوم کا ممنون ہوں۔ مجھے موقع ملا کہ میں بھی لنڈن جائوں اور تعلیم و تربیت کے ان طریقوں سے واقف ہوں جن طریقوں سے انگلش قوم نے ایسی اعلیٰ درجہ کی ترقی کی ہے چناں چہ میں وہاں گیا اور وہاں رہا اور جو دیکھا سو دیکھا اور جو سوچا وہ سوچا۔ مگر اپنی قوم کو دین و دنیا دونوں کے اعتبار سے ایسے پست و تاریک گڑھے میں گرا ہوا پایا جس سے نکلنا محال معلوم ہوتا تھا۔ مگرمیں نے ہمت نہیں ہاری اور جب تک زندہ ہوں نہ ہاروں گا۔ لنڈن ہی میں میں نے اس مدرسہ کے قائم کرنے اور تعلیم کی تمام تجویزوں کو پورا کیا۔ یہاں تک کہ جس نقشہ پر آپ اس کالج کی عمارتو ں کو بنتا ہوا دیکھتے ہیں یہ بھی لنڈن ہی میں قرار پا چکا تھا میں بدنصیبی سے انگریزی سے ناواقف تھا میں سید محمود کا نہایت شکر گزار ہوں کہ تمام واقفیت اور اطلاعیں جو مجھ کو حاصل ہوئیں ا س میں سید محمود نے میری بہت بڑی مدد کی۔ مجھ کو اس بات کا اقرار کر کے نہایت خوشی ہے کہ اگر ان کی مدد نہ ہوتی تو جس مقصد سے میںلنڈن گیا تھا میرا جانا فضول تھا۔ مدرسے کے بورڈنگ ہائوس کی اور تعلیم کے طریقے کی جس پر اس وقت مدرسہ چل رہا ہے اور جس پر آئندہ چلے گا ان کی نسبت یہ کہنا کہ میں ان کا تجویز کرنے والااور قرار دینے والا ہوں ایک ناانصافی ہو گی بلکہ صاف صاف کہنا چاہیے کہ اس کا بہت بڑا حصہ سید محمود کا تجویز کیا ہوا تھا جو انہوںنے اپنے نہایت لائق دوستوں سے صلاح و گفتگو کرنے کے بعد قرار دیا تھا۔۔ سید محمود کا خیال تھا کہ کالج ایسا اعلیٰ درجہ کا قائم ہو جس میں تمام یورپین علو م و فنون مع ان ایشیائی علو کے جو ہمارے بزرگوں کے لیے مایہ فخر تھے اعلیٰ درجہ پر تعلیم ہو سکے۔ اوروہ کالج محمڈن یونی ورسٹی کے نام سے موسوم ہو۔ ان کا خیال ہے کہ عربی و فارسی لٹریچر مسلمانوں کا قومی تمغا ہے۔ ا س کوہرگز چھوڑنا نہیں چاہیے۔ اورینٹل ڈیپارٹمنٹ جو صر ف انہی کی تجویز سے مدرسہ میں قائم ہوا تھا اس کے ٹوٹ جانے کا ان کو نہایت افسوس ہ۔ ہمیشہ وہ اس کا الزام مجھ پر دیتے ہیں کہ میںنے ان کی سرپرستی نہیں کی مگر ان کا یہ خیا ل غلط ہے۔ ملک کی حالت ایسی ہے کہ وہ چل نہیں سکا ان کا مصمم ارادہ ہے کہ وہ خود کسی وقت اس کو قائم کریں خدا کرے کہ اس میں ان کو کامیابی ہو۔ غرض یہ کہ ان چیزوں کو مکمل کر کے میں نے لنڈن ہی میں اس کام کے جو نہایت اہم تھا شروع کرنے کے تین طریقے قرار دیے۔ اول: ایک ایسی تدبیر اختیار کی جاوے جس سے عموماً خیالات تعصب جو مسلمانوں کے دلوں مٰں بیٹھے ہوئے ہیں اور یورپین سینئرز لٹریچر کا پڑھنا کفر اور مذہب اسلام کے برخلاف سمجھتے ہیں دور ہوں۔ دوم: خود مسلمانوں سے پوچھا جاوے کہ وہ یورپین سینئرز لٹریچر کو کیوں نہیں پڑھتے۔ اور اس میں ان کو کیا اندیشہ ہے۔ سوم: کالج کے لیے چندہ شروع کیا جاوے۔ اور جس وقت موقع ہو علی گڑھ میں کالج قائم کیا جاوے۔ لنڈن ہی میں علی گڑھ کا مقا م قرار پا چکا تھا۔ ہندوستان میں پہنچ کر تجویز اول کے مطابق میں نے تہذیب الاخلاق جاری کیا۔ آپ کو معلوم ہے کہ اس کے سرے پر جو اس کا نام اور اس کے گرد جو خوبصورت بیل چھپتی تھی وہ ٹیپ لنڈن ہی میں بنوایا تھا اور اپنے ساتھ لایا تھا۔ گو تہذیب الاخلاق کی بہت مخالفت ہوئی۔ خاص اخبار اور پرچے اس کی مخالفت پر جاری ہوئے لیکن اس کو بڑی کامیابی ہوئی ۔ اگر لوگوں کا یہ خیال صحیح ہے کہ تہذیب الاخلاق نے تمام ہندوستان کو ہلا دیا اورلوگوں کو قومی ہم دردی پر مائل کر دیا تو شاید میری نجات کے لیے بھی کافی ہو گا۔ دوسری تجویز کے مطابق ایک کمیٹی قائم ہوئی اور کمیٹی خواست گار ترقی تعلیم مسلمانان اس کا نام رکھا۔ اور بذریعہ جواب مضمونوں کے عموماً مسلمانوں سے ا س کی نسبت استفسار کیا۔ آپ اس بات کے سننے سے کچھ متعجب نہ ہوں گے کہ اس کا اشتہار لنڈن ہی میں چھپوا لیا تھا اور وہ مضمون جس کا جواب پوچھا گیا تھا سب سید محمود کے لکھے ہوئے تھے اور تجویز کیے ہوئے تھے اس کمیٹی کو نہایت کام یابی ہوئی اور بہت بری کامیابی کے ساتھ اس کا کام ختم ہوا اور کام ختم ہونے پر اس کالج کو قائم ہونا قرار پایا۔ کالج کا قیا م ہونا ہی مقصود تھا۔ جو تجویز سوم میں قرار پایا تھا ۱۸۷۲ء میں چندہ جمع کرنے کے لیے بمقام بنارس ایک کمیٹی قائم ہوئی ج کا نام محمدن اینگلو اورینٹل کالج فنڈ کمیٹی رکھا گیا ۔ اور کام یابی سے اس کا چلنا شروع ہوا۔ اس کمیٹی نے ۳۰ جون ۱۸۷۲ء کے اجلاس میں مختلف مقامات میں سب کمیٹیاں واسطے وصول چندہ کے مقرر کیں منجملہ ان سب کمیٹیوں کے ایک سب کمیٹی علی گڑھ میں مقرر ہوئی اور مولوی محمد سمیع اللہ خاں صاحب‘ راجا سید باقر علی خاں صاحب‘ محمد عنایت اللہ خاں مرحوم‘ کنور محمد لطف علی خاں صاحب‘ منشی محمد مشتاق حسین صاحب کو سب کمیٹی کا ممبر مقرر کیا۔ اسی سال بنارس کی کمیٹی میں تجویز پیش ہوئی کہ مدرسہ کہاں بنایا جاوے اور بعد تحقیقات اور طلب آرا کے ۸ نومبر ۱۸۷۲ء کے اجلاس میں یہ فیصلہ ہوا کہ مدرسہ بمقام علی گڑھ بنایا جاوے۔ دسویں فروری ۱۸۷۳ء کے اجلاس میں سید محمود نے ایک نہایت کامل تجویز تعلیم علوم کی جو انہوں نے لنڈن ہی میں ایک بہ صلاح وہاں کے لائق پروفیسروں اور عالموں کے مرتب کی تھی پیش کی۔ اگر ا س درجہ تعلیم تک مدرسہ پہنچ جاوے تو قوم کے نصیب کھل جاویں گے مگر ابھی اس درجہ تک پہنچنے میں بہت دیر ہے۔ چودھویں اپریل ۱۸۷۳ء کے اجلاس میں چھوٹے چھوٹے مدرسوں کے مختلف قامات پر قائم ہونے پر بحث ہوئی جو آخر کار مدرسۃ العلوم کے ماتحت اور اس کی ایک شاخ قرار پاویں۔ اس مضمون پر ممبروں سے رائے طلب کرنے اور مباحثہ ہونے کے بعد ۳ مئی ۱۸۷۳ء کے اجلاس میں مدرسہ ہائے ماتحت کے لیے جو سوائے علی گرھ کے دوسرے مقاموں میں قائم ہوں متعدد قواعد اور شرائط قرار دی گئیں۔ علی گڑھ کے مدرسہ کے لیے مولوی محمد سمیع اللہ خان بہادر سی ایم جی سے التماس کیا گیا کہ ابتدائی مدرسہ کھولنے کی تدبیر کریں اور وہاں کے رئیسوں سے اس کے لیے چندہ جمع کرنے کی کوشش فرماویں۔ چناں چہ انہوں نے کوشش کی جس کے لیے ہم سب کو ان کا شکر گزار ہونا چاہیے۔ دسویں جنوری ۱۸۷۴ء کے اجلاس میں کمیٹی نے متعدد تجویزیں منظور کیں (۱) علی گڑھ میں جو زمین پرانی چھائونی فوج کی بے کار پڑی ہے تعمیر مدرسہ کے لیے گورنمنٹ سے لی جاوے (۲) سیکرٹری کو اجازت دی گئی کہ اگر زمین مل جاوے تو اس میں تعمیر مدرسہ کا کام شروع کرے مگر تعمیر میں روپیہ اور سرمایہ مدرسہ کا خرچ نہ ہو بلکہ اس کی آمدنی یا چندہ خاص تعمیر میں صرف کیا جاوے۔ ۱۹ مارچ ۱۸۷۴ ء کے اجلاس میں سیکرٹری نے اطلاع دی کہ گورنمنٹ نے اس زمین کے دینے کا وعدہ کر لیا ہے جہاں مدرسۃ العلوم کا تعمیر ہونا تجویز کیا گیا ہے۔ اس زمین سے متصل جس کا گورنمنٹ نے دینا قبول کیا تھا چار بنگلے لوگوں کی ملکیت تھے جن کا خریدنا لازمی تھا۔ ان میں سے تین بنگلوں کو خریدنے کا معاملہ مولوی محمد سمیع اللہ خاں صاحب نے بعوض پندرہ ہزار روپے کے قرار دیا اوریہ درخواست کی کہ اگر آٹھ ہزار روپیہ کمیٹی دے تو سات ہزار کا میں اس میں چندہ جو میں نے کھولا ہے بندوبست کر لوں گا اور یہ بھی چاہا کہ راجا سید باقر علی خاں نے جو صدر کمیٹی بنارس مٰں دو ہزار روپیہ چندہ لکھا ہے اس کو بھی وہ اسی چندہ میں جو انہوں نے علی گڑھ میں کھولا تھا شامل کر لیں چناں چہ صدر کمیٹی نے اپنی فہرست میں سے راجا صاحب کا نام خارج کر دیا۔ چوتھی اکتوبر ۱۸۷۴ء کو وہ تینوں بنگلے خرید لیے گئے ۔ مگر مولوی محمد سمیع اللہ خاں صاحب نے دو ہزار روپیہ منجملہ قیمت بنگلہ ہا اور طلب کیے وہ بنارس سے بھیجے گئے اور ۱۷ اکتوبر ۱۸۷۴ء کے اجلاس میں مذکورہ بالا دو ہزار روپیہ جو دیا گیا تھا کمیٹی سے ا س کی منظور ی ہو گئی۔ چوتھا بنگلہ جس میں اب یونین کلب ہے خود کمیٹی نے اس کے مالک سے جو لکھنو میں تھا خرید کیا۔ ۲۵ فروری ۱۸۷۵ء کے اجلاس میں بنارس کی کمیٹی نے علی گڑھ میں ابتدائی تعلیم کے لیے مدرسہ کھولنا تجویز کیا اور مندرجہ ذیل ریزولیوشن پاس ہوا۔ ریزولیوشن نمبر ۳: سوائے سیکرٹری کے باقی ممبروں نے اتفاق کی اکہ تعلیم ابتدائی یعنی تعلیم صیغہ مدرسہ جاری کی جاوے اور مولوی سمیع اللہ خاں صاحب نے درخواست کی جاوے ہ وہ اس بات کی تجویز پیش کریں کہ اس تعلیم کے لیے کس قدر مدرس اور کس کس علم و زبان کے درکار ہوں گے اور کیا کیا تنخواہیں ان کی مقرر کرنی ضرور ہوں گی اور بہتر ہے کہ وہ اس باب میں اپنی سب کمیٹی سے اور نیز اپنے دوستوں سے صلاح و مشورہ کر کے اس رپورٹ کمیٹی میں ارسال فرماویں۔ اخراجات میں کرایہ مکانات بھی جس میں مدرسہ جاری ہو گا شامل کیا جاوے ۔ میں اس تجویز کا بالکل موید تھا اور ممبروں سے اپنے نام کا علیحدہ رکھنا بوجہ اختلاف نہ تھا۔ کیوں کہ ہر شخص یقین کر سکتا ہے کہ اگر میری رائے و مرضی ابتدائی تعلیم جاری کرنے کی نہ ہوتی تو ایک ممبر بھی کمیٹی کا اس کی رائے نہ دیتا۔ مولوی محمد سمیع اللہ خاں صاحب نے رپورٹ بھیجی اور ۸۵۷ روپیہ ماہواری خرچ کا تنخواہ مدرسان اور ۱۳۲ روپیہ ماہواری واسطے تقر ر اسکالر شپوں کے کل ۸۸۹ روپیہ ماہواری کا اور زیادہ سے زیادہ ۹۸۹ روپیہ ماہواری خرچ تجویز کیا۔ کمیٹی بنارس نے ۱۸ اپریل ۱۸۷۵ء کے اجلاس مٰں یہ خرچ دینا منظور کیا اور مولوی محمد سمیع اللہ خاں صاحب کو لکھا کہ یکم جون ۱۸۷۵ء سے مدرسہ جاری کریں اور اس کا اشتہار اخباروںمیں دے دیں۔ بعد اس کے ۲۰ مئی ۱۸۷۵ء کے اجلا س میں اس کمیٹی نے جو بنارس میںتھی تاریخ افتتاح مدرسہ تبدیل کی اور بعوض اس کے ۲۴ مئی ۱۸۷۵ء روز سالگرہ ملکہ معظمہ تاریخ افتتاح مدرسہ قرار دی اور مولوی محمد سمیع اللہ خاں ساحب کو یہ لکھا کہ رسمیات افتتاح تاریخ مذکور کو عمل میں آویں۔ چناں چہ خود اور بعض ممبر اس تاریخ پر علی گڑھ میں آئے اور مدرسہ کھولا گیا۔ جس وقت علی گرھ میں مدرسہ کھولنے کا ارادہ ہوا اسی وقت میں نے پنشن لینے کا قصد کیا اور بذریعہ صاحب جج ہائی کورٹ کو اطلاع دی کہ میرا پنشن لینے کا ہے اور اکائونٹنٹ جنرل سے نقشہ طلب کیا اور درخواست دی کہ میری مدت ملازمت اور استحقاق پنشن کی تصدیق فرما دیں۔ جس قدر زمانہ اس کی تکمیل میں لگا اور اوسط ۱۸۷۶ء میں علی گڑ ھ میں آ گیا جو کہ سید محمود کا بھی ارادہ ہے کہ وہ کالج کی سرپرستی کے لیے علی گڑھ میں سکونت اختیار کریں گے جس کا زمانہ کچھ بہت دور نہیں ہے۔ انہوں نے مجھ کو صلاح دی کہ آپ اپنی کوٹھی کو جو علی گڑھ میں ہے اور بہ سبب اخراجات سفر لنڈن رہن ہو گئی وہ چھوٹی ہے اس کو فروخت کر کے زر رہن ادا کر دیجیے اور ایک دوسری کوٹھی میں جس میں میرے اور آپ کے دونوں کے رہنے کی گنجائش ہو میں خرید لیتا ہوں۔ چناں چہ سید محمود نے یہ کوٹھی جس میں میں ا رہتا ہوں خرید لی ۔ میں نے اپنی کوٹھی مولوی محمد سمیع اللہ خاںصاحب کے ہاتھ فروخت کر دی جس میں خدا کرے وہ آ کر رہیں۔ اور ترقی اور تکمیل میں کوشش کریں۔ بعد اس کے مدرسہ ابتدائی کھولا گیا۔ تمام اخراجات مدرسہ جزو کل کے کالج فنڈ کمیٹی ادا کرتی رہی ۱۸۷۵ء کے چند مہینوں کی بابت ۹۔۷۔۵۸۸۶ اس کیٹی نے بنارس بھیجے اور اس طرح اس وقت تک کہ ہیڈ کوارٹر کالج فنڈ کمیٹی کا علی گڑھ آیا اور تمام اخراجات مولوی محمد سمیع اللہ خاں صاحب بہادر کے پاس بھیجتے رہے۔ اس وقت طالب علموں کی تعداد قلیل تھی۔ اور کوئی بورڈنگ ہائو س نہ تھا۔ طالب علم جس قدر تھے چھوتے چھوٹے کمروںمیںبھر دیے جاتے تھے مگر رفتہ رگتہ ہر ایک چیز میں ترقی ہوتی گئی تعمیر کا کام جو میں نے شروع کر دیا تھا اس میں بھی ترقی ہوتی گئی اور ارادہ ہوا کہ وائسرائے ارل نارتھ بروک کے ہاتھ سے رسم فونڈیشن ادا ہو مگر ان کے دفعتہ تشریف لے جانے سے وہ ارادہ پورا نہ ہوا اورلارڈ لٹن کے زمانے میں بعد دربار قیصری فونڈیشن کی رسم کا ان کے ہاتھ سے عمل میں آنا قرار پایا آٹھویں جنوری ۱۸۷۷ء کو حضور ممدوح علی گڑھ میں تشریف لائے اورایک نہایت پرتکلف جلسہ میں رسم فونڈیشن ادا ہوئی۔ ہمارے ملک کے رئیس اعظم والی ملک حاجی حرمین الشریفین نواب محمد کلب علی خاں بہادر خلد آشیاں والی رام پور نے جو مربی مدرسہ تھے فرمایا کہ اخراجات رسم فونڈیشن اور دعورت لارڈ لٹن سب ان کی طرف سے کی جاوے۔ مگر ہمارے ضلع کے فیاض رئیس کنور محمد لطف علی خاں صاحب نے جو پریذیڈنٹ کمیٹی تھے چاہا کہ ان کی طرف سے اور ان کے نام سے وہ رسم و دعوت ادا ہو ااور ہمارے عالی ہمت راجا سید باقر لی خاں صاحب وائس پریذیڈنٹ نے چاہا کہ ان کی طرف سے اور ان کے نام سے ہو ۔ مولوی محمد سمیع اللہ خاں صاحب نے یہ مصلحت سمجھی کہ دونوں رئیسوں کی طرف سے ہو ۔ چنانچہ میں نے ہز ایکسیلنسی اورل لٹن سے بذریعہ پرائیویٹ سیکرٹری خط و کتاب کی اور سر جان اسٹریچی کی سعی و سفارض سے ہر ایکسیلنسی ارل لٹن نے اس کو منظور کیا۔ میں نے ہر ہائنس نواب صاحب رام پور کا اس فیاضی سے شکریہ ادا کیا اور ان دنوں فیاض رئیوسوں کی طرف سے رسم فونڈیشن ادا ہوئی جس کا شکر ادا کرتے ہیں اور ان کے احسانوں کے ہم ممنون ہیں۔ جب ہز ایکسیلنسی لارڈ لٹن بعد ادائے رسم فونڈیشن کلکتہ ہو کر شملہ میں پہنچے تو حضور نے ممدوح نے پریذیڈینٹ کمیٹی کنور محمد لطف علی خاں صاحب کو تمغہ قیصری عطا فرمایا۔ ہم نے بھی ان کے اس احسان کو نقش کالحجر کیا اور کالج کے دو کمروں میں ان کے آنر میں نہایت خوش خط حرفو ں اور خوبصورت پتھروں میں دو کتبے کھو دکر لگا دیے اورایک کمرے میں جناب مولوی محمد سمیع اللہ خاںصاحب کے آنر میں ایک کتبہ لگایا۔ اسکول جو ۱۸۷۵ء میں انٹرنس تک پڑھائی کے لیے کھولا گیا تھا ۔ ۱۸۷۸ء میں ایف اے‘ کی پرھائی تک اور ۱۸۸۱ء کو بی اے کی پڑھائی تک اور ایم اے کی پڑھائی تک ترقی کر گیا ۔ اور ہر نواح کے بزرگوں اور قومی بھلائی کے چاہنے والوں بلکہ انسان کے ساتھ نیکی کرنے والوں اور علی الخصوص پنجاب کے زندہ دل بزرگوں اور والیان اور وہاں کے دیگر امراء و رئیسان نے اور بالتخصیص اسلامی سلطنت حیدر آباد نے نہایت فیاضی سے امداد کی ان بزرگوں کا خاص کر مجھ کو اپنی ذات سے بے انتہا شکرادا کرنا لازم ہے کہ انہو ں نے مجھ ناچیز پر ا س قدر بھروسہ کیا کہ لاکھوں روپیہ کا چندہ مجھ کو دے گیا نہ کسی کمیٹی کو پوچھا نہ کسی ممبر کو اور نہ یہ جانا کہ روپیہ جو دیتے ہیں کہاں جاتاہے اور کیا ہوتا ہے۔ میں اپنی تمام زندگی میں کسی امر پر اس قدر فخر نہیں کر سکتا جس قدر کہ اس اعتماد اور طمانیت پر فخر کرتا ہوں جو میری قوم اور غیر قوم کے بزرگوں نے مجھ پر اعتماد کیا۔ ابتدا میں جب کالج فنڈ کمیٹی قائم ہوئی جو دراصل کالج قائم کرنے والی ہے تو اس نے ایک نہایت مختصر بائے لا جو اس وقت کی ضرورتوں کے مناسب تھا بنایا۔ پھر بہ لحاظ ان ضرورتوں کے جو ترقی کالج کے پیش آئیں اس میں بائے لا کو ترمیم و تبدیل کیا۔ اور ۱۸۸۳ء میں جدید بائے لا مرتب کیا جو اس وقت کے مناسب تھا۔ کالج کے انتظام کے لیے اور تعلیم کی درستی کے لیے کالج فنڈ کمیٹی نے اپنے ماتحت اور تعلیم کی درستی کے لیے کالج فنڈ کمیٹی نے اپنے ماتحت اوراپنے اختیار اور تجویز سے چار کمیٹیاں اور قائم کیں جن میں اکثر کالج فنڈ کمیٹی کے ممبر شریک تھے۔ ایک کمیٹی مدیران تعلیم السنہ مختلفہ و علوم دنیویہ اس کمیٹی میں یورپین دوستوں کو بھی جن سے تعلیمی امور میں مشورہ و صلاح لینی ضرور تھی شامل کیا۔ ایک کمیٹی مدبران تعلیم مذہب اہل سنت و الجماعت اور اسی طرح ایک کمیٹی مدبران تعلیم مذہب شیعہ اثنا ء عشریۃ‘ ایک کمیٹی منتطم مدرسہ و بورڈنگ ہائوس ۔ ان کمیٹیوں نے مختلف اوقات میں اور حسب ضرورت ان امور کے لیے متعدد قواعد اور دستور العمل بنائے تھے جن پر کارروائی ہوتی تھی۔ مگر کالج اور اس کی جائیداد کی ایسی ترقی ہو گئی تھی اور لوگوں کا اعتبار ایسا بڑھ گیا تھا کہ ہزاروں روپیہ لوگوںنے بعوض تعلیم اپنے اطفال کے کمیٹی میں امانت کر دیا تھا جو اب تک امانت ہے اور علاوہ اس کے بہت سی وجوہات ایسی درپیش ہوئیں کہ کالج کا ایک عام طور پر معمولی کمیٹی کے سپرد رہنا مناسب نہ رہا تھا اورضرور ہوا کہ اس کے لیے سرکاری قانون مروجہ وقت کے مطابق ٹرسٹی مقرر ہوں ۔ اور ا س کی کارروائی کے لیے ایسے لا اورریگولیشن بنائے جاویں جو تمام ضروریات و جزئیات کالج کے لیے حاوی ہوں۔ اور جو عمل درآمد اب ہو رہا ہے اس کو بھی ریگولیشن میں شامل کر دیا جاوے تاکہ کوئی کارروائی لا اورریگولیشن سے خارج نہ رہے اور جہاں تک ممکن ہو کالج کی آئندہ بقا اوراستحکام اوراسی اسکیل و مقاصد پر قائم رہنے کا جس پر میں نے قائم کیا ہے انتظام کیا جاوے۔ ہمارے یورپین دوست جو دل سے ہمارے کالج کی ترقی و بھلائی کا خیال رکھتے تھے اور خصوصاً مسٹر ویٹ ڈائرکٹر آف پبلک انسٹرکشن ہم کو دوستانہ نصیحت کرتے تھے اور صلاح دیتے تھے کہ اب کالج کی حالت ایسی ہو گئی ہے کہ اس کے لیے باضابطہ ٹرسٹی مقر ر کرنا اورتمام کارروائی کے لیے ایک مکمل کوڈ بنانا نہایت ضرور ہے ۔ ان تمام حالات کے لحاظ سے میں نے ممبروں کے اجلاس منعقدہ گیارہ مارچ ۱۸۸۸ء میں اس امر کو پیش کیا اور ٹرسٹیوں کے مقرر کرنے اور ان کے لیے ایک کوڈ لا اور ریگولیشن بنانے کی اجازت لی اورپھر یہ بھی اجازت لی کہ مسٹر اسٹریچی برسٹر ایٹ لا اس کے مرتب کرنے کو مقرر ہوں۔ یہ تحریک کمیٹی نے منظور کی اورمیں نے وہ مجموعہ لا اور ریگولیشن کا جو زیر بحث ہے بشرکت سید محمود و مسٹر اسٹریچی تیا ر کیا۔ اور جو کہ اس میں بہت سے احکام نسبت یورپین اسٹاف کے داخل کرنے تھے ا س لیے اس حصہ کی ترتیب میں پرنسپل صاحب کو بھی شامل کیا تاکہ بعد اس کے یورپین اسٹاف کو کسی قسم کے عذر کی گنجائش نہ رہے۔ اگرچہ ہماری کالج فنڈ کمیٹی میں بیاسی ممبر تھے مگر موجود ہ قواعد کی رو سے کسی ممبر سے کسی معاملہ میں رائے پوچھنی یا ان کو تجویزوں اور انتظامون سے اطلاع دینی ضرور نہیں تھی۔ صرف پانچ آدمی مل کر جو چاہتے تھے کر ڈالتے تھے۔ درحقیقت یہ بڑا نقص اورنامناسب طریقہ تھا میں خیال کرتا ہوں کہ تمام بزرگوں نے ا وجہ سے کہ ان کو مجھ پر پورا بھروسہ تھا اس نامناسب کارروائی پر کچھ التفات نہیں کیا لیکن اس جدید قانون ٹرسٹیاں میں یہ نقص رفع کیا گیا۔ اس کی دفعہ ۲۲ و ۲۳ میں ایک قاعدہ بنایا گیا ہے کہ ہر ایک جلسہ کی تاریخ مقررہ سے تیس دن پہلے اس کی اطلاع بذریعہ تحریررجسٹری ہر ایک ٹرسٹی کو دی جاوے اورجو امر اس جلسہ میں پیش ہونے والا ہو اس کی کیفیت بھی ہر ایک ٹرسٹی کے پاس مرسل ہو۔ پھر دفعہ ۳۰ میں یہ قاعدہ بنایا گیا ہے کہ جو ٹرسٹی خود نہ آ سکیں وہ اپنا ووٹ بذریعہ تحریر سیکرٹری کے پاس بھیج دیں اس ذریعہ سے آئندہ کارروائی میں کل ٹرسٹی شریک رہیں گے۔ اور ان کو کالج کی جملہ کارروائی سے دل چسپی اور واقفیت زیادہ ہو گی ار اب نہ سیکرٹری کو اور نہ کسی ممبر کو اختیار رہے گا کہ پانچ آدمی مل کر جو چاہیں سو کر ڈالیں۔ ٹرسٹیوں کے انتخاب کا ایسا قاعدہ بنایا گیا ہے ہ جس سے ہر صوبہ کے بزرگ ٹرسٹیوںمیں شامل ہو سکتے ہیں ٹرسٹیوں کی تعداد کو ہر صوبہ پر تقسیم کیا ہے۔ مثلاً پنجاب سے اس قدر اور اودھ شمال مغرب سے اس قدر۔ ہندوستانی ریاستوں سے اس قدر۔ حیدر آباد سے اس قدر وغیرہ وغیرہ۔ اور اس تقسیم میںاضافہ کرنے یا تغیر و تبدل کرنے کا ٹرسٹیوں کو اختیار دیا ہے۔ اس تدبیر سے ہر صوبہ کے لوگ کالج کے کاروبار میں رائے دے سکیں گے۔ اور دل چسپی رکھیں گے۔ کارروائی شروع ہونے کے لیے ایک گروہ اشخاص کا جیسا کہ یونی ورسٹیوں کے قانون کا دستور ہے اسی قانون میں ٹرسٹی نامزد کرنا ضرور تھا۔ میں نے کالج فنڈ کمیٹی کے ممبروں میں سے ہر ایک صوبہ کے چندبزرگوں کو منتخب کر کے ٹرسٹیوں میں نامزد کیا اور جن ممبروں کو بہ طور ٹرسٹی منتخب نہیں کیا تھا ان کی فہرست بھی شامل کی تاکہ ان میں سے جس کو چاہیں ٹرسٹیان نامزد شدہ منتخب کر سکیں۔ ضلع علی گڑھ اور بلند شہر کے معزز خاندانوں میں سے بلالحاظ اس کے وہ مخالف ہیں یا موافق ایک ایک رئیس خاندان کو ٹرسٹیوں میں منتخب کیا۔ میں سمجھتا ہوں کہ میںنے یہ کارروائی نہایت صاف دلی اور نیک نیتی سے کی ہے۔مگر بدبختی سے میری یہ کارروائی بدنیتی پر محمول ہوئی اور ان لوگوں کو جو ٹرسٹیوں میں نامزد نہیں ہوئے تھے مخالفت پر بر انگیختہ کرنے کی اشتعالک دی گئی اور اس میں ان کو کسی قدر کامیابی بھی ہوئی۔ یہاں تک کہ ایک بزرگ نے جو ٹرسٹیوں میں منتخب نہیں ہوئے تھے لکھا کہ اگر جملہ بیاسی ممبران ٹرسٹی مقرر کیے جاتے تو اختلافات کا دریا طوفان پیدا نہ کرتا۔ اور اعتراضات کی آندھی نہ چلتی۔ علاوہ اس کے یہ بھی اعتراض ہوا ہے کہ باقی ماندہ ممبروں کو ٹرسٹیوں کے ساتھ ووٹ دینے کا حق نہیں دیا۔ مسودہ قانون ٹرسٹیاں میں کل تعداد ٹرسٹیوں کی ستر افراد ی گئی ہے ان میں سے صرف اننچاس نامزد کیے ہیں اس وقت مجھ کو ضرور نہ تھا کہ پوری تعداد ٹرسٹیوں کی نامزدکرتا بلکہ ایسی گنجائش رکھنی ضرور تھی کہ اگر ٹرسٹیاں نامزد شدہ کسی کومنتخب کرنا چاہیں تو منتخب کر سکیں۔ یہ بیان کہ کالج فنڈ کمیٹی کے تمام ممبر لیف ممبر تھے اور ان سب کا بلا استثناہ ٹرسٹیوں میں داخل ہونے کا حق تھا صحیح نہیں ہے۔ ٹرسٹیاں مقر ر ہونے سے کالج فنڈ کمیٹی ابالش یعنی برخاست ہو جاتی ہے اس کے ممبروں جب تک کہ وہ کمیٹی تھی اپنی زندگانی تک اس میں ممبر رہنے کا حق تھا اور جب وہ کمیٹی آبالش ہو گئی تو نہ کوئی ممبر رہا نہ آئندہ اس کا کوئی ممبر ہو گا۔ یہ کون سی منطق ہے کہ ان ممبروں کی زندگی تک وہ کمیٹی کبھی برخاست نہ ہونے پاوے اور نہ کوئی جدید انتظام عمل میں آوے۔ میں نے جہاں تک ممکن ہوا ہے مسودہ قانون میں ان کا ادب قائم رکھا ہے مگر ٹرسٹیوں کے ساتھ ووٹ دینے میں وہ کیوں کر شریک ہو سکتے تھے ۔ موجود ہ قواعد کی رو سے کالج فنڈ کمیٹی کے ممبروں ک وصرف اخراجات کی منظوری یا نا منظوری کے ووٹ کا اختیار تھا یہ اختیا ر بھی ہر ایک ممبر کے لیے لازمی نہ تھا۔ اب ٹرسٹیوں کو وسیع اختیارات او ر تمام امورات کے متعلق کالج کااخیر فیصلہ سپرد ہوا ہے۔ پس ان کا کوئی حق نہیں ہے کہ ان تمام امور میں ٹرسٹیوں کے ساتھ ووٹ دیں۔ موجود ہ قواعد کی رو سے ممبروں کا اجلاس ہونا صر ف سیکرٹری کی رائے و خواہش پر منحصر تھا ۔ ممبروں کو مطلق اختیار نہیں تھا کہ کسی قاعدے کی بنا پر کسی امر کے لیے اجلاس منعقد ہونے کی تاکید کریں۔ حال کے مسودہ قانون میں چار طریقے اجلاسوں کے قرار پائے ہیں۔ ایک جب کہ سیکرٹری کیس کام کے انجام کے لیے اجلاس ہونا ضروری سمجھتے ہیں۔ دوسرے جب کہ ایک ثلث ٹرسٹی اجلاس کا منعقد ہونا ضرور سمجھیں۔ تیسرا سالانہ اجلاس ہر سال تقویمی کے اختتام پر جس میں قواعد و قوانین مروجہ کی اصلاح اور دیگر انتظامات و ضروریات کالج پر بحث و غور ہو۔ چوتھا سال حسابی ختم ہونے پر جس میں عام حسابات کے متعلق کالج پر غور ہو اور آمدنی اور اخراجات پر لحاظ کر کے آئندہ سال کے لیے بجٹ منظور کیا جاوے۔ یہ طریقہ کارروائی نہایت عمدہ اور مستحکم اور تمام ٹرسٹیوں کو غالباً طمانیت بخش ہے مگر اس میں ایک بڑی مشکل یہ پیش آئی کہ اگر تمام جزئیات کو اسی کارروائی پر منحصر کر دیا جاوے خصوصاً ان امور کو جن کا فی الفور انجام دینا یا انتظام کرنا بہ نظر کالج کی بہتری کے جلد تر ضرور ہے تو اجرائے کار اور انتظام کالج اور بہت سی صورتوں میںتعلیم و آسائش طلباء میں دقت پیش آوے گی اور اس لیے ا س مشکل کے رفع کرنے کو چند قواعد مسودہ قانون میں داخل کیے گئے۔ منجملہ ان کے ایک امر متعلق بجٹ کے ہے کالج کی آمدنی و خرچ کاجو بجٹ بنایا جاتا ہے اس میں بمد آمدنی د و قسم کی آمدنیاںمندرج ہوتی ہیں۔ ایک وہ جو گورنمنٹ یا میونسپل گرانٹ یا جاگیرتات و روزینہ ہائے معینہ والیان ملک و منافع سرمایہ و کرایہ مکانات وفیس تعلیم وغیرہ سے ہوتی ہے۔ یہ آمدنیاں خرچ ہوتی ہیں۔ کالج کے افسروں اور ملازموں کی تنخواہوں اور دیگر تمام اخراجات کالج متعلق تعلیم میں اور انہیں آمدنیوں میں سے ایک رقم جس قدر کہ ممکن ہو طالب علموں کی اسکالر شپوں یا وظیفوں کے لیے نامزد کر دی جاتی ہے۔ دوسری آمدنی کی وہ ہے جو خیر خواہان قوم ہر سال طالب علموں کی اسکالر شپوں یا وظیفوں کیلیے دیتے ہیں یا اور کسی طرح پر اس کام کے لیے روپیہ حاصل کیا جاتا ہے اس قسم کی آمدنیاں بہ جز اسکالر شپوں یا وظیفوں کے خرچ نہیں ہوتیں۔ فرض کرو کہ اگر اس قسم کی آمدنیوں میں سے کسی سال بعد خڑچ کچھ روپیہ بچا تو وہ کسی کام میںخرچ نہیں کیا جاتا بلکہ اس کام کے لیے آئندہ سال کے لیے خرچ کو محفوظ رکھا جاتا ہے۔ بجٹ کے مرتب ہونے کا یہ حال ہے کہ اس میں آمدنیاں و خرچ سب بہ طور تخمینہ کے لکھی جاتی ہیں جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ کسی سال آمدنی تخمینہ کے برابر ہوئی۔ کسی سال کم کسی سال زیادہ‘ یہی حال اخراجات کا ہے کہ بہ طور تخمینہ کے لکھے جاتے ہیں۔ کسی سال اسی قدر خرچ ہوتا ہے کسی سال کم اور کسی سال زیادہ اور کسی سال ایسا ضروری خرچ آپڑتا ہے کہ اس تخمین سے یا جس کے لیے روپیہ تخمینہ کیا گیا ہے۔ اس مد میں خرچ زیادہ بڑھ جاتا ہے۔ یہ روپیہ کالج ہی کے اخراجات کے لیے ہے پس اگر کسی مد میں توقیر ہوئی اور دوسری میں ضرورت پیش آئی اور توقیر کا روپیہ دوسری مد میں خرچ ہونا ٹرسٹیوںکی اس قسم کی کارروائی پر منحصر رکھا جاوے جس کا اوپر بیان ہوا ہے تو اس کی تکمیل میں اس قدر تاخیر ہو کہ کام نہ چل سکے اور تمام مقاصد فوت ہو جاویں اسی لیے سیکرٹری کو اجازت دی گئی ہے کہ بہ حالت ضرورت ایک مد کی توفیر کا روپیہ دوسری مد میں خرچ کرے اور درحقیقت وہ دو مد کا روپیہ ہے ہی نہیں کیوں کہ کل روپیہ کالج کے اخراجات کے لیے ہے اور یہ بھی اجازت دی کہ بہ حالت ضرورت سال بھر میں پانسو (صمار) روپیہ تک اخراجات مندرجہ بجٹ سے زیادہ صرف نہ کر سکے۔ مگر دفعہ ۱۳۱ میں نہایت تاکید گئی ہے ہ جب سیکرٹری نے اس اختیار پر عمل کر لیا ہو تو اس کو لازم ہے کہ اس کی کیفیت واسطے منظور ی کے ٹرسٹیوں کی اجلاس میں پیش کرے۔ ہماری یہ محنت صرف قوم کی بھلائی کے لیے ہے یہ بات اب تمام ہندوستان میں تسلیم ہو چکی ہے کہ مسلمانوں کی ایسی حالت ہے کہ جو لوگ درحقیقت پڑھنے واے ہیں اور ان سے قومی عزت قائم ہونے کی توقع ہے وہ بغیر امداد کے اپنی تعلیم اعلیٰ درجہ تک جاری نہیں رکھ سکتے۔ کبھی بلکہ اکثر ایسا اتفاق ہوتا ہے کہ بجٹ میںجس قدر روپیہ اسکالر شپوں یا وظیفوں کے لیے تخمینہ ہوا تھا اس مقدا ر کے وظیفے اور اسکالر شپس دے دی گئیں مگر دو ایک طالب علم اشراف خاندان کے لائق اور زہین قابل تربیت ایسے آئے جو بغیر امداد کے اپنی تعلیم جاری نہیں رکھ سکتے میرے نزدیک فی الفور ان کی امدا د کرنا اگر ہو سکے ۔ ہمارے کالج کا فرض عین ہوناچاہیے ۔ اس لیے دفعہ ۱۳۰ میں سیکرٹری کو اجازت دی گئی ہے کہ اگر گنجائش ہو تو علاوہ ترقی مندرجہ ذیل بجٹ کے بھی جو اسکالر شپ کے لیے معین ہوئی ہے اسکالر شپ دے سکے۔ کبھی ایسا اتفاق پیش آتا ہے کہ ایک جماعت میں لڑکے زیادہ ہو گئے اس کی دو جماعتیں بنانی پڑتی ہیں کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ایک جماعت کے کم استعداد لڑکے علیحدہ اور اچھی استعداد کے لڑکے علیحدہ دو ڈویژن بنانی پڑتی ہیں اورکم استعداد لڑکوں کی استعداد بڑھانے کے لیے جداگانہ انتظام کرنا پڑتا ہے اور اسی قسم کے اور اسباب بھی پیش آ تے ہیں اوریہ انتظام ایسے ہیں جن کو فی الفور کرنا چاہیے اس لیے سیکرٹری کو اجازت دی گئی ہے کہ اگر کسی اڈیشنل ٹیچر کی ضرورت پیش آوے تو بہ صلاح پرنسپل صاحب کے اڈیشنل ٹیچر بڑھا دے۔ یہ سب کچھ امور نئے نہیں ہیں پندرہ برس سے میں اس پر عمل کرتا چلا آیا ہوں ۔ اب جو مسودہ قانون میں بتایا گیا اس میں اسی عمل درآمد کو قانون کی وضاحت میں منتظم کر دیا ہے ۔ لیکن اب سیکرٹری کے ان اختیارات سے اختلافات کیا جاتا ہے اور رائے دی جاتی ہے کہ سیکرٹی کو یہ اختیار نہ دے جاویں میں خوش ہوں کہ نہ دیے جاویں۔ مگر بتائو کہ کام کیوں کر چلے۔ اسی طرح ایک معاملہ تعمیر عمارت کا ہے۔ میں نے آپ کے سامنے بیان کیا ہے کہ کالج فنڈ کمیٹی نے اپنے اجلاس منعقدہ ۱۹ مارچ ۱۸۷۴ء میں بلا کسی شرط و قید کے مجھ کو تعمیر عمارت کی اجازت دی۔ اس وقت سے آج تک میں نے اپنی رائے اور اپنے مجوزہ نقشہ جات کے مطابق تعمیر کا کام کرتا ہوں۔ پرانے مکان جو کالج کے احاطہ میں آ گئے اور جن کا قئام رکھنا نامناسب تھا یا جو ہارج تعمیر کیے گئے تھے ان کو منہدم کیا جو قابل ترمیم تھے ان کو تعمیم کیا نہ کبھی کمیتی نے اس میں دخل دیا نہ کسی ممبر نے۔ اور نہ ممبروں میں کوئی ایسا ہے جو تعمیر کے فن سے واقف ہو۔ اورنہ تعمیر کا کام ایسا ہے جو مختلف رایوں اور فن تعمیر سے ناواقف لوگوں کی رایوں کا زیر مشق کیا جاوے اب کہ ایک مکمل مسودہ قانون تیار کیا گیا تو میںنے اس عمل درآمد کو قانون کی ایک دفعہ میں منظم کیا تو اب اس پر اعتراض کیے جاتے ہیں کہ سیکرٹری کو ایسا بڑ ااختیار کیوں دیا جاتا ہے۔ حالاں کہ یہ اختیار صرف میری ذات پر موقو ف ہے اور اس سیکرٹری کو جو میرے بعد ہو گا یہ اختیار نہ ہو گا۔ اسی کے ساتھ یہ الزام مجھ پر لگایا جاتا ہے کہ میں ایک فنڈ کا روپیہ دوسرے فنڈ میں یا ایک خاص عمارت کا روپیہ دوسری عمارت میں لگا دیتا ہوں ۔ بس ضرو ر ہے کہ میںآپ کے سامنے کالج میں جو فنڈ ہیں ان کا بیان کروں کالج میں تین فنڈ جداگانہ قرار دیے گئے ہیں۔ ایک کیپیٹل فنڈ ‘ یعنی سرمایہ دوامی کالج۔ اس فنڈ کا سرمایہ کسی طرح خرچ نہیں ہو سکتا۔ صرف اس کی آمدنی خرچ ہو سکتی ہے۔ دوسرا کالج اکیسپینسز فنڈ ‘ یعنی فنڈ اخراجات کالج۔ اس فنڈ کا روپیہ اخراجات ماہواری کالج میں اور اسکالر شپوں یا وظیفوںمیں اور اگر گنجائش ہو تو تعمیر کالج میں بھی خرچ ہو سکتا ہے اور یہ بھی ہو کتا ہے کہ اگر اس فنڈ میں روپیہ کی ضرروت ہو تو اس فنڈ سے جس قدر روپیہ تعمیر میں خرچ ہوا ہے تعمیر کے فنڈ سے واپس لے لیا جاوے مگر جو روپیہ کہ خاص اسکالرشپوں کیلیے ہے وہ بہ جز اسکالر شپوں یا وظیفوں کے اور کسی کام میں خرچ نہیں ہو سکتا۔ سوم بلڈنگ فنڈ‘ یعنی فنڈ تعمیر عمارت۔ اس فنڈ کا روپیہ بہ جزتعمیر عمارت کے اور کسی کام میں صرف نہیں ہو سکتا اورجس قدر روپیہ کسی وجہ سے اور کسی نام سے تعمیر عمارت کے لیے آوے وہ بلڈنگ فنڈ میں شامل ہے۔ یہ کہنا کہ ایک خاص عمارت کا جو روپیہ آتا ہے وہ دوسری عمارت میں لگا دیا جاتا ہے تعمیر کے کام سے ناواقف ہونے کا سبب یہ ہے ۔ تعمیر عمارت کا سامان متفرق طور پر ہر ایک کمرہ یا دیوار کے لیے جدا جدا مہیا نہیں کیا جاتا لاکھوں اینٹیں تعمیر کے لے ایک ساتھ مہیا کی جاتی ہیں۔ یا خریدی جاتی ہیں۔ ہزاروں من کنکر چونہ کے واسطے ایک دم سے خرید لیا جاتا ہے۔ سینکڑوںمن لکڑی و کوئلہ چونہ پھونکنے کو یک مشت خریدا جاتا ہے۔ لوہے کے شہتیر ہر ایک کمرہ کے لیے ولایت سے جدا جدا طلب نہیں ہو سکتے بلکہ پچاس پچاس سو سو ایک شامل منگائے جاتے ہیں ٹیک کی لکڑی کلکتہ سے پتھر روپ باس یا دھولپور کی کان سے اکٹھا منگایا جاتاہے اور اس کا روپیہ بلڈنگ فنڈ سے جس میں ہر ایک عمارت کا روپیہ شامل ہے دیا جاتا ہے اور یہ بالکل واجب و درست ہے۔ کیوں کہ بہ سامان تمام عمارتوں کے لیے خواہ وہ خاص ہوں یا عام جمع ہوتا ہے اور سبمیں خرچ ہو گا۔ اس طرح پر سامان جمع کر کے رفتہ رفتہ مکان تعمیر ہوتے جاتے ہیں جن مکانوں کا تعمیر کرنا پہلے ضرور معلوم ہو تاہے وہ پہلے تیار ہو جاتے ہیں جن مکانوںکا بعد بنانا مناسب معلوم ہوتا ہے وہ بعد کو تیار ہوتے ہیں۔ اس وقت تک جس قدر تعمیر ہو چکی ہے کوئی مکان جس کی خاص تعمیر کے لیے چندہ شروع ہو ا ہو اور اس کا چندہ بھی پورا ہو گیا ہو ایسا نہیں ہے جس کی پوری تعمیر نہ ہو چکی ہو بہ جز محمد عنایت اللہ خاں صاحب مرحوم کی بورڈنگ ہائوس کے کہ انہوں نے اس کی تعمیر کے لیے خاص جگہ مقرر کر دی ہے۔ اور جب تک تعمیر عمارت کا سلسلہ وہاں تک پہنچنے نہ دے اس کی تعمیر غیر ممکن ہے اگر اس طرح پر تعمیر کا کام نہ ہو تو ایک اینٹ بھی دوسری اینٹ پر نہیں رکھی جا سکتی۔ مجھے اس بات کے کہنے سے شرم آتی ہے کہ یہ میری محنت اور جانفشانی اور تدبیر تھی جو آپ آج کالج اور بورڈنگ ہائوس کی اس قدر علی شان عمارتیں بنی ہوئی دیکھتے ہیں جن کو دیکھ کر نہ صرف ہندوستان کے لوگ بلکہ یورپ اور امریکہ کے سیاح بھی حیران رہ جاتے ہیں جو محنت و مشقت میںنے کیہے اور جاڑے کی گرمی برسات میں محنت اٹھائی ہے ۔ قلی کا کام میں نے کیا اور سئیر کا کام میں نے کیا ہے انجینرکا کام میں نے کیا ہے اپنازاتی روپیہ خرچ کرنے میں بھی دریغ نہیں کیا اس کا صلہ ہمارے دوستوںنے اس پمفلٹ میں جو خاص علی گڑھ میں چھاپ کر مشتہر کر دیا ہے کہ تعمیر کا کام سیکرٹری نے اس لیے اپنے اختیار میں رکھتے ہیں کہ ان کو بھی نفع کثیر ہوا کرے۔ جزاہ اللہ ثم جزاہ اللہ۔ مگ اے دوستو! میں ان باتوں سے رنجیدہ نہیں ہوتا میری قوم نے مجھ کو اس سے بھی زیادہ سخت و سست کہا ہے۔ اگر قوم کی حالت ایسی بدتر نہ ہوتی تو ہم سب کو قومی بھلائی کی اس قدر فکر کیوں ہوتی۔ کبھی کبھی میں یہ کہہ اٹھتا ہوں کہ ان اجری الا علی اللہ مگر درحقیقت میںنے اپنی قوم کے لیے جو کچھ کیا ہے اگر فی الواقع کیا ہو تو نہ بہ توقع صلہ قوم کیا ہے اور نہ بہ اُمید اجر من اللہ فاش میگویم و از گفتہ خود دل شادم بندہ عشقم و از ھر دو جہاں آزادم آپ اس بات کو ضرور تسلیم کریں گے کہ ہر ایک کام جو کیا جاتاہے اس کی دو حالتیںہوتی ہیں: ایک حالت یہ ہے کہ وہ کام مکمل اور پورا ہو گیا ہے۔ تمام سامان مہیہا ہے ور کوئی چیز جو اس کے لیے ضرور ہے باقی نہیں۔ دوسری حالت اس کی یہ ہے کہ وہ تکمیل کو نہیں پہنچا اور اس کی ہر ایک چیز تکمیل کو پہنچنی باقی ہے اور سب سے بری محتاجی جو اس کو ایک ایسے شخص یا اشخاص کے وجود کی ہے جو اس کو تکمیل تک پہنچائے ان دونوں حالتوں میںطریقہ کارروائی بالکل مختلف ہے پہلی حالت میں تم کو اختیار ہے ک جو قواعد و قوانین چاہو بنائو۔ جس کے اختیارات چاہو سلب کرو اور جس کو چاہو عطا کرو۔ تم کو کچھ بنانا نہیں ہے بلکہ اپنی بنی بنائی چیز تمہارے ہاتھ میں ہے بجز اس کے کہ تم اس کو حفاظت سے رکھو اورکچھ تمہارا کام نہیں ہے۔ مگر دوسری حالت اس سے بالکل مختلف ہے پہلے ا س چیز کا پیدا کرنا ہے اورپھر اس کے بعد اس کی حفاظت کی فکر کرنی ہے۔ ہمارے کالج کی حالت ابتدائی حالت سے کچھ آگے بڑھی ہے ابھی اس کے لیے بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ پس اگر تم ایسی باتیں کرنی چاہو جو اس کے مکمل ہوجانے کے بعد کرنی زیبا ہیں تو اس کے ساتھ سلوک نہیں کرتے بلکہ دشمنی کرتے ہو۔ لوگوں کو یہ غلط خیال پیدا ہوا ہے کہ کالج نے بہت سا روپیہ جمع کر لیا ہے اور اس کے پاس بہت کچھ سرمایہ ہے جس سے کالج بغیر کسی تکلیف اٹھائے چل سکتا ہے۔ اس وقت تک کالج کی آمدنیاں بجز معدود کے ایسی ہی بے بھروسہ ہیں جیسی کہ ان سکولوں کی آمدنیاں ہیں جن پر ہم طعنہ کرتے ہیں اوروہ آمدنیاں بھی اخراجات کے لیے کافی نہیں۔ ہر مہینے کی پہلی تاریخ ایک آفت کی گھڑی ہوتی ہے اورگھنٹوں تک اس رنج و فکر میں پڑا رہنا پڑتا ہے کہ لوگوں کی تنخواہیں کس طرح اورکہاں سے تقسیم کی جاویں۔ اس سال بجٹ میں دو ہزار روپیہ کا خرچ آمدنی متوقع ہے۔ زیادہ تخمینہ ہوا ہے اس پریہ آفت مزید پیش آئی ہے کہ اس سال آمدنی متوقع سے جو یقینی قابل وصول تھی چار ہزار روپیہ کم وصول ہو گا ہم تو ان فکروں میں پڑے ہیں کہ کیا ہو گا اور کیوں کر کام چلے گا وہاں دائوں خدا پر بھروسہ کرتے ہیں اور ہمارے دوست بے فکر بیٹھے رائے دے رہے ہیں کہ یورپین اسٹاف سے یہ معاہدے کرنے چاہئیں اور اس طرح ایک کمیٹی لنڈن میں قائم کر کے اس کی معرفت یورپین سٹاف کو نوکر رکھنا چاہیے۔ کس بوتے پر یہ رائیں بتائی جاتی ہیں۔ ہمارے پاس کیا ہے جو ہم ایسا کر سکیں ہم ایسی رایوں سے گو وہ عمدہ ہی کیوں نہ ہوںباز آئے ہم کو تو وہ طریقہ بتائو جس سے موجود ہ حالت میں کام چلے۔ اسی برسات میں ہمارے دوست ڈاکٹر موریائی سول سرجن نے جن کی سپردگی میں بورڈروں کا علاج ہے حکم دیا کہ بورڈرو کی صحت کے لیے پانی کا نکال بورڈنگ ہائوس اور اس کے اطراف سے فی الفور بنایا جاوے۔ ایک آرڈر واسطے مہیا کرنے دوائوں کے جو ولایت سے منگائی تھیں بھیجا تاکہ بورڈنگ ہائوس میں دوائیں موجود رہیں۔ نہ کمیٹی میں روپیہ موجود ہے کہ ہزار بارہ سو روپیہ خرچ کر کے پانی کا نکاس بنائے نہ شفاخانہ کے فنڈ میں گنجائش ہے کہ دوائوں کی قیمت ادا کرے پس یا تو ان سب کاموں کو جس طرح جانو انجام دو یا بورڈروں کو جن کے ماں باپ نے اپنے پیارے لخت جگروں کو ہمارے بھروسہ پر اپنی آغوش محبت سے جدا کر کے اس قدر دو و دراز فاصلہ پر بھیج دیا ہے معرض ہلاکت میں ڈالو۔ ہمارے دوست بیٹھے ہوئے نکتہ چینیاں کرتے ہیں کہ کم بخت سیکرٹری کو یہ اختیار کیوں دیا جاتاہے ۔ کیوں بلا اجازت کمیٹی وہ کام کر بیٹھتا ہے۔ ارے صاحب جو حالت موجودہ کالج کی ہے بغیر اس کے کا م چل بھی نہیں سکتا۔ تم کالج کو پہلے مستقل اور مستغنی ہونے دو پھر جو تمہارا دل چاہے اس کے لیے قواعد بنائو۔ کالج کی تعمیر کے فنڈ میں ایک پیسہ موجود نہیں ہے اور بعض مکانوں کا تعمیر کرنا اور ہر سال مرمت طلب مکانات کا مرمت کرنا ایسا ضرور ہے کہ جس کے انجام کے بغیر چارہ ہی نہیں کم بخت سیکرٹری بھیک مانگ مانگ کر روپیہ جمع کرتا ہے اپنا ذاتی روپیہ خرچ کرتا ہے اور اپنی ذاتی ذمہ داری پردستاویز لکھ کر روپیہ خرچ لیتا ہے ار ان ضروری کاموں کو پورا کرتا ہے کالج کے خزانہ میں ایک پیسہ تعمیر کے فنڈ کا تو موجود نہیں ہے اورہمارے دوست قواعد تجویز کرتے ہیں کہ تعمیر میں خرچ کرنے کا سیکرٹری کو اختیار نہ ہو۔ ارے صاحب تم پہلے خزانہ میں روپیہ تو جمع کر لو پھر قواعد بھی بتانا سیکرٹری کو نکال دینا اورجو چاہو سو کرنا۔ سب سے بڑی ضرورت اس وقت قوم کی بھلائی کے لیے طالب علموں کو اخراجات تعلیم میں وظیفوں یا اسکالرشپوں سے امداد کرنا ہے امیروں کے لڑکوں سے بہت کم توقع ہے کہ وہ باعتبار علم و فضل کے قوم کے فخر کے باعث ہوں گے۔ اگر کچھ توقع ہے تو اشراف خاندانوں کے لڑکوں سے ہے مگر افسوس سے یہ بات تسلیم کرنی پڑتی ہے کہ بغیر امدا د کے وہ اپنی تعلیم پوری نہیں کر سکتے۔ کالج کے پاس بجز قلیل بلکہ نہایت قلیل سرمایہ کے کوئی فنڈ اسکالر شپوں یا وظیفوں کے لیے نہیں ہے۔ ہر سال سیکرٹری کو بھیک مانگنی پڑتی ہے دوستوں سے سوال کرنا پڑتا ہے کہ دوست بھی ہر روز کے سوال سے تنگ ہو جاتے ہیں ۔ کتابیں بیچ کر کتابوں کے بیچنے کی دوکان کر کے۔ تھیٹر میں ناچ گا کر سوانگ بھر کر کچھ روپیہ اسکالر شپوں کے لیے جمع کرنا پڑتا ہے اورپھر آئندہ سال کے لیے فکر لگی رہتی ہے۔ یہا ں ہمارے دوست کہتے ہیں کہ کہیں دنیا میں ایسا بھی ہوا ہے ۔ کہ سیکرٹری اس سے زیادہ جس کی اجازت کمیٹی نے دی ہے۔ کوئی اسکالر شپ یا وظیفہ کیسی ہی ضرورت ہو دے سکے۔ ارے صاحب تم پہلے اپنے خزانہ میں اسکالر شپوں اور وظیفوں کے لیے روپیہ تو جمع کر لو پھر کسی کو خرچ کرنے مت دو۔ ہمارے دوست بعوض اس کے کہ ان مشکلات کو حل کرنے اور اس کا سامان مہیا کرنے پر کوشش کریں ان سب مشکلات کا الزام بھی مجھ کو دیتے ہیں۔ کوئی تو کہتا ہے کہ کالج میں یورپین سٹاف کا خرچ بہت بڑھا دیا ہے۔ تعلیم یافتہ بنگالی تھوڑی تنخوا ہ پر آ سکتے ہیں اور بخوبی پڑھا سکتے ہیں اور طالب علموں کو یونی ورسٹی کی ڈگریاں پاس کرا دیں گے اروکیاچاہیے دیکھو فلاں کالج میں صرف بنگالی ہیں اور ایک انگریز نہیں ہے اور کس قدر طالب عل ہر سال ایف اے اور بی اے میں پاس ہوتے ہیں۔ بعض دوست کہتے ہیں کہ نہیںیورپین سٹاف کا ہونا ضرور ہے ہم اس کے مخالف نہیں مگر نالائق سیکرٹری نے یورپین سٹاف کی تنخواہیںزیادہ کر دی ہیں اس سے کم تنخواہ پر یورپین پروفیسر آسانی سے مل جاتے ہیں۔ کیا تم اس پر یقین کر سکتے ہو کہ کیا بغیر ایسے یورپین سٹاف کے جو پورا جنٹلمین ہو آپ اپنی قو م کی کچھ بھلائی اور بہتری کر سکتے ہیں۔ میں کہتا ہوں کہ جس اسکیل پر اور جس نتیجہ کی امید پر ہم نے کالج قائم کیا ہے اگر اس نتیجہ کے حاصل ہونے کی ہم کو امید نہ ہو یا اس نتیجہ کے مخالف آثار قائم ہوں تو کالج کا قائم رکھنا اورہم کو اس قدر محنت و جانکاہی کا برداشت کرنا محض فضول ہے۔ ممکن نہیں ہے کہ بغیر عمدہ اور معزز جنٹلمین اسٹاف کے ہم اپنی قو م کو جنٹلمین بنا سکیں۔ ایک اور امر ہے جس کا حل کرنا کچھ آسان نہیں ہے اور وہ کالج میں اسٹاف کا مقرر کرنا ہے۔ تعلیم کی ذمہ داری بتمامہ پرنسپل پر ہے ۔ فرض کرو کہ ایک ٹیچر یا ماسٹر کو ٹرسٹیوں نے کالج یا اسکول میں مقرر کیا مگر پرنسپل اس کو لائق نہیں سمجھتا اوراس کے کام کوپسند نہیں کرتا۔ یہ بھی فرض کر لو پرنسپل کی رائے غلط ہے اور وہ شخص نہایت لائق ہے مگر جب پرنسپل کو اس پر طمانیت نہیں ہے تو یا توا س ماسٹر یا ٹیچر کی جگہ دوسرے شخص کو مقرر کرو اور اگر دوسرے کی نسبت بھی یہی امرپیش آوے تو تیسرے شخص کو مقرر کرو علی ہذا القیاس یا پرنسپل پر جو تعلیم کی ذمہ داری ہے اس ذمہ داری سے اس کو بری کرو۔ یہ امور کچھ ہمارے ہی کالج میں پیش نہیں آتے بلکہ گورنمنٹ کالجوں میں بھی بعض اوقات پیش آتے ہیں مگر گورنمنٹ کے پاس بہت بڑا کارخانہ تعلیم کا ہے۔ وہ بآسانی ایک کی جگہ خواہ وہ یورپین ہو یا ہندوستانی دوسرے کو تبدیل کر دیتی ہے ایسی حالت میں ہم کیا کریں ہمارے پاس تو وہی ڈھاک کے تین بات ہیں۔ اس مشکل کے رفع کرنے کو ایک قاعدہ بنایا گیا ہے کہ اگر کسی ہندوستانی پروفیسر یا ٹیچر کی ضرورت پیش آوے تو سیکرٹری اورپرنسپل دونوں متفق ہو کر کسی شخص کو نامزد کریں اور ٹرسٹیوں کے اجلاس میں اس کی منظور ی ہو اور اگر یورپین پروفیسر کی ضرورت ہوتو پرنسپل اور سید محمود جن کے ذریعہ اور تجویز سے تمام یورپین پروفیسر بلائے جاتے ہیں۔ اور موجودہ سیکرٹری تین شخص متفق ہو کر اس کو نامزد کریں اور ٹرسٹیوںکی منظور سے وہ مقرر ہو۔ مگر یورپین پروفیسروں کی نسبت جب وہ ولایت سسے بلائے جاتے ہیں ایک یہ مشکل پیش آتی ہے کہ کالج میں تو ضرورت ہے کہ وہ پروفیسر جو منتخب کیا گیا ہے تار برقی بھیج کر بلایا جائوے تاکہ نہایت جلد کالج میں پہنچے اور وہ پورا اطمینان چاہتا ہے کہ وہ بلا کیس شبہ و شک کے اس عہدہ پر مقرر ہو گیا ہو پس اس کا بلانا اوراس کو اس عہدہ پر مقررہونے سے مطمئن کرنا ٹرسٹیوں کے اجلاس اور ان کی منظوری پر منحصر کیا جاوے تو یہاں تعلیم کا کام ابتر ہوا جاتا ہے اور طالب علم بغیر موجود ہونے پروفیسر کے مارے مارے پڑے پھرتے ہیں اور ان کا پڑھنا بند ہے اور یونی ورسٹی کے امتحانوں کے لیے تیار نہیں ہو سکتے۔ اور ہم اس وقت تک کہ ٹرسٹیوں کا باضابطہ اجلاس ہو اور ایک مہینہ بیشتر تاریخ اجلاس سے اور جو امر اجلاس میںپیش ہو گا اس سے ٹرسٹیوں کو اطلاع دیں کچھ نہیں کر سکتے۔ اس مشکل کے رفع کرنے کو ایک قاعدہ بنایا گیا ہے اگر کوئی یورپین جو ولایت میں ہو اور اس کاجلد تر بلانا کالج کی اغراض کے لیے ضرور ہو تو ان تین شخصوں یعنی پرنسپل اور سید محمود اور موجودہ سیکرٹری کا انتخاب بھی ایسا ہی قصور ہو گا کہ گویا ٹرسٹیوں نے اس کا تقرر منظور کر لیا ہے آج تک اسی طرح پر برابر ہوتا رہاہے اب میں نے اسی عمل درآمد کو مسودہ قانون میں داخل کیا ہے۔ اس پر اعترا ض ہوتا ہے کہ اورکہا جاتا ہے کہ یہ سب اختیار ٹرسٹیوں کو ہونے چاہئیں ۔ اچھا صاحب ٹرسٹیوں ہی کو ہونے چاہئیں۔ مگر بتائو تو سہی کہ ٹرسٹی کس طرح ٹیچر وں اور ماسٹروں اور پروفیسروں کو منتخب کریں گے اور یہ تمام مشکلات جو تعلیم میں پڑتی ہیں کیوں کر رفع ہوں گی اورکالج میں کام کس طرح چلے گا۔ سب سے زیادہ مشکل کام جو بالفعل کالج میں ہے وہ یورپین اسٹاف کا ولایت سے بلانا اورکالج میں رکھنا ہے اب ان مشکلات پر غور کرنا چاہیے جو ہم کو ولایت سے معزز و قابل یورپین پروفیسروں کے میسر آنے میں پڑتی ہیں۔ کالج ان کو اس قدر تنخواہ دے سکتا جس قدر کہ اسی حیثیت کے یورپین افسروں کو گورنمنٹ سے یا موجودہ ایڈڈ کالجوں سے اسی حیثیت کے پرنسپل یا پروفیسر کو ملتی ہے۔ ہمارے کالج کی ملازمت میں نہ ان کو ترقی کی امید ہے نہ پنشن کی۔ ہمارا کالج ایک ہندوستانیوں کی کمیٹی کے ماتحت ہے جو ایک ڈسپاٹک اختیار تمام ملازموں پر رکھتی ہے ۔ اور اگرچہ یہ کہنا ایک افسوس کی بات ہے کہ مگر جب کہ واقعی ہے تو کہنے میں کچھ شرم نہیں ہے کہ ایک یورپین جنٹلمین ایک ہندوستانی کمیٹی پر کس قدر اعتماد و طمانیت رکھ سکتا ہے۔ ہمارے کالج کو اس قدر مقدور نہیں ہے کہ ہم یورپین افسروں سے کسی مدت کے لیے کوئی معاہدہ کریں۔معاہدی میںاس کے ایفاء کے لیے کسی بنک کی ضمانت درکار ہو گی اورکوئی بنک ضمانت نہیں کر سکتی جب تک کہ اس قدر روپیہ جو تخلف معاہدی کی صورت میں لینا پڑے نقد اس کے پاس امانت نہ رکھ دیا جائے یا اس قدر مالیت کے پرامیسری نوٹ اس کے نام انڈراس منٹ ہو کر اس کے سپرد نہ کر دیے جاویں۔ ہمارے کالج کو اس قدر استطاعت نہیں ہے کہ اس طرح پر کوئی معاہدہ کر کے ضمانت دے سکے۔ معہذا۔ ہمارے کالج کے لیے ایسے پروفیسروں کا ہونا جو اس قسم کا معاہدہ کر کے آویں محض بے سود ہے۔ ہمارے کالج میں تو ایسے یورپین جنٹلمین افسروں کی ضرورتہے جو تعلیم سے خود شوق رکھتے ہوں اوران کے دل میں اس بات کا خود شوق ہو کہ ایک درماندہ قوم کو جو کسی زمانہ میں علم و فضل میںبھی بلند نام تھی ۔ پستی کی حالت سے نکال کر علم کی ترقی کے درجے تک پہنچائے ۔ بلاشبہ ایسے لوگ ملنے نہایت مشکل ہیں ۔ مگر میں نہایت خوشی اور فخر سے کہتا ہوں کہ کل موجودہ یورپین سٹاف یہی فیلنگ رکھتا ہے بشرطیکہ ہم اس کے ساتھ ایسی ہی دوستانہ فیلنگ برتیں جیسی کہ وہ ہمارے ساتھ برتتے ہیں اوراس سے زیادہ ان کا اعزاز و ادب کریں جتنا کہ وہ ہم سے چاہیں۔ ایسے کام کے لیے جیسا کہ ہمارا کام ہے اگریمنٹ سے بدتر کوئی چیز نہیںہو سکتی کویں کہ وہ اپنا فرض صرف اس قدر سمجھے گا کہ شرائط معاہدہ کو پورا کرے۔ ہم ہر وقت اس تاک میں رہیں کہ شرائط معاہدہ پوری ہوئیں یا نہیں اس طرح کی تاک جھانک سے تعلیم نہیں ہو سکتی ہم کو تو ایسا دل چاہیے جو ہماری قوم کو تعلیم دے ایسا دل ہاتھ آتا ہے محبت اور دوستی سے نہ کسی اگریمنٹ اور معاہدہ سے۔ جب سکول جاری ہوا ہم کو یورپین مگر ایک جمٹلمین ہیڈ ماسٹر کا ملنا مشکل تھا حالاں کہ یورپ سے بلانا نہ تھا بلکہ ہندوستان ہی سے تلاش کرنا تھا۔ مگر ہرگز کامیاب نہ ہوئے اگر ہمارے اورہمارے کالج کے دوست مسٹر کے ڈئین توجہ نہ کرتے ۔انہو نے مسٹر سڈنس کو ااور اس کے بعد مسٹر نسبٹ کو جو اتفاقیہ ہندوستان میںموجود تھے ۔ ان لوگوں کو مسٹر ڈئین پر بھروسہ تھا جو ہمارے کالج کی کمیٹیوں کے سلسلے میں پریسیڈنٹ کمیٹی دریکٹر آف سکولرلرننگ اینڈ سیریس لینگویجز تھے۔ اور مسٹر ڈئین کو جو میرے بہت پرانے دوست ہیں میری ذات پر طمانیت اور پورا بھرسہ تھا۔ مسٹر ہوسٹ ہماری خوش قسمتی سے اور بعض تقدیری واقعات سے ہمارے ہاتھ آ گئے تھے ورنہ ان کا ہمارے کالج میں آنا ناممکن تھا۔ اس کے بعد کالج کو ایسی ترقی دی گئی تھی کہ اس کے لیے پرنسپل یا پروفیسر کا ہندوستان میں تلاش کرنا عبث تھا اور بغیر اس کے کہ ولایت سے اور ولایت کی یونی ورسٹیوں کے گریجویٹ کو بلائیں کام ہی نہیں چل سکتا تھا۔ ہمارا مقصد پورا ہونے کو صرف گریجویٹ ہی ہونا کافی نہ تھا بلکہ ایک معزز خاندان کا اور ایک ایسے جنٹلمین مزاج کا ہونا ضرور تھا جو ہم سے دوستانہ یا برادرانہ برتائو اورہماری قوم کے بچوں پر پدرانہ شفقت رکھنے کے لائق ہو۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ اگر سید محمود اس کام کو اپنے ذمہ نہ لیتے اورا س کا انتظام نہ کرتے ایک شخص بھی ہم کو ولایت سے میسر نہ آتا۔ جو لوگ ولایت سے آئے صرف سید محمود کی دوستی پر طمانیت کر کے اور سید محمود کے سبب سے مجھ پر طمانیت کر کے اور اس یقین پر کہ ان کو صرف انہیں دو شخصوں سے سروکار ہے بلا کسی اگریمنٹ کے ہمارے کالج میں آئے۔ ایک یورپین جنٹلمیننے جس نے ہمارے کالج میں آنے کا اردہ کیا تھا ولایت میں سر جان اسٹریچی سے پوچھا کہ مجھ کو کن شرطوں پر جانا مناسب ہو گا۔ سر جان نے جواب دیا کہ کالج سید احمد کے ہاتھ میں ہے اس پر پوری طمانیت رکھنا سب سے عمدہ شرط ہے۔ ہر شخص ہر ایک کام کے انجام دینے کا دعوی ٰ کرتا ہے مگر مجھ کو بھی کالج سے کچھ تعلق ہے او کالج کے ساتھ تھوڑی یا بہت ہمدردی ہے ۔ مجھ کو بھی تو سمجھنا چاہیے کہ جس کام کے انجام کرنے کا وہ دعویٰ کرتا ہیکیوں کر وہ ا س کو انجام دے سکتا ہے۔ میرا یہ دلی یقینہے کہ اگر آئندہ ہم کو کسی یورپین پروفیسر کا ولایت سے بلانا ہو اورسید محمود واسطہ نہ ہوں اورنیز موجودہ یورپین افسر ایک شخص ہمارے برتائو سے جو ہم کالج کے یورپین افسروں کے ساتھ رکھتے ہیں مطمئن نہ کریں تو محالات میں سے ہے کہ کوئی شخص بھی ولایت سے آئے اور ہر شخص کو اختیار ہیکہ کہہ دے کہ میرے یہ خیالات غلط ہیں اور توہمات ہیں سینکڑوں گریجویٹ ولایت کی یونی ورسٹیوں کے مارے مارے پھرتے ہیں اور ایک تار برقی پر آ سکتے ہیں مگر میں اس پر یقین نہیں کر سکتا اورنہ میں اپنی تمام ایمان داری سے کالج کو ایسی ھالت میں چھوڑ سکتا ہوں جس سے مجھ کو یقین اس کی آئندہ خرابی اور ابتری کا ہو۔ یورپین افسر جب ہمارے کالج میں آئے تو انہوں نے دیکھا کہ ایک کمیٹی کالج پر حکومت کرتی ہے جس میں مختلف مزاج ‘ مختلف طبیعت اور مختلف سویلزیشن کے لوگ شامل ہیں اور پانچ آدمی جو نہ انگریزی جانتے ہیں اور نہ انگریزی کی ضروریات و حالات سے واقف ہیں ہر ایک امر کا فیصلہ کر دیتے ہیں بلاشبہ ان کو تردد ہوا کہ موجودہ سیکرٹری کے بعد کون سیکرٹریہو گا اور اس کے ساتھ ہم مل کر کالج کا کام بہ طمانیت کر سکیں گے یا نہیں۔ اگر انصاف سے دیکھا جائے تو ان کا یہ خیال کچھ ناواجب نہ تھا۔ اسی کے ساتھ بدبختی سے ایسے امور پیش آئے جس سے ان کو عدم طمانیت کا خیال زیادہ پختہ ہو گیا بلکہ درجہ یقین کو پہنچ گیا۔ کسی کے یہ کہ دینے سے کہ ان کے یہ خیالات صرف توہمات ہیں ان کے دل کو طمانیت نہیںہو سکتی ۔ انکی یہ خواہش نہ تھی کہ وہ اس میں مداخلت کرنا چاہتے تھے کہ موجودہ سیکرٹریکے بعد کون سیکرٹری ہو۔ مگر بلاشبہ ان کی خواہش یہ تھی کہ یہ بات معلوم ہو جائے اور ابھی اس کا تصفیہ ہو جائے کہ موجودہ سیکرٹری کے بعد کون سیکرٹیری ہو گا اس کے بعد وہ اپنے حال کا خود تصفیہ کریں گے اگر وہ سمجھیں گے کہ اس کے ساتھ مل کر وہ کالج کا کام بہ طمانیت کر سکتے ہیں کریںگے ورنہ خدا حافظ کہہ کر اپنے لیے کوئی رستہ اور اختیار کریں گے بے شک ان کا یہ خیال ہے کہ سید محمو دآئند ہ سیکرٹری ہوں تو وہ یہ طمانیت جب تک خدا چاہے کالج کا کام کر سکیں گے۔ انہوں نے اپنے اس خیال کو پوشید ہ نہیں رکھا اس ضلع کے یورپین دوستوں اور ان یورپین دوستوں سے جو ہمارے کالج کے بے انتہا دوست اور ہمار ے کالج کے ہر گونہ ترقی کے خواہاں ہیں سب پر ظاہر کیا۔ میرے کل یورپین دوستوںنے صلاح دی کہ کالج کی بہتری کے لیے نہایت ضروری ہے کہ یورپین سٹاف کو کافی طمانیت سے رکھا جاوے اور تم کو بہ نظر بہتری کالج کے ضرور ہے کہ بہت جلد اس بات کا تصفیہ کر دو کہ تمہارے بعد سید محمود کالج کے لائف سیکرٹری ہوں گے۔ اس خاص معاملہ میں یورپین دوستوں کی رائے و مصلحت کو بہ نسبت کسی خاص ہندوستانی کے زیادہ وقعت کی سمجھتا ہوں اور بے شک ان کی مصلحت کو کالج کی آئندہ حالت کے لیے زیادہ مفید سمجھتا تھا لیکن اس کا سبب سے کہ سید محمود میرے فرزند ہیں ا س میںمجھ کو تامل ہو جاتا تھا۔ علاوہ اس کے میرا بھی یہ فرض تھا کہ میں اس بات کی بھی فکر کروں کہ میرے بعد کالج کا کیا حال ہو گا یہ کہہ دینا کہ خدا پر چھوڑ دو بڑے بڑے دینداروں کا کام ہے میں تو دنیا کا ایک آدمی ہوں اور دنیا کے انتظام کی پابندی سے آئندہ کے انتظام کا خیال ایک قدرتی امر ہے جو ہر شخص کے دل میں پیدا ہوتا ہے۔ کالج اب ایک سکول نہیں رہا ہے جس کا کا م ہماں شماں چلا لیں اب خداکے فضل سے وہ اعلی ٰ درجہ تک ترقی کر گیا ہے۔ ایم سے کلاس تک اس میں پڑہائی ہوتی ہے یونی ورسٹی الہ آباد نے اس کو اعلیٰ درجہ کا کالج تسلیم کر کے اس کے پرنسپل کو جو کوئی ہو بذریعہ عہدہ پرنسپلی سنڈیکیٹ کا ممبر تسلیم کیا ہے ۔ ایسے کالج کا کام چلانے کے لیے ایک ایسے شخص کا سیکرٹری ہونا لازم ہے جو خود انگریزی علوم اور یورپین و لٹریچر سے کماحقہ واقف ہو اور انگریزی تعلیم کو سمجھتا ہو تعلیم کے معاملہ میںپرنسپل کے ساتھ صلاح و مشورہ میں شریک ہو سکتا ہو خود اس بات کو جان سکے کہ کالج میں تعلیم کی کیا حالت ہے۔ اگر کچھ نقص ہوں تو ان کے سمجھنے اور اصلاح کرنے پر قدرت رکھتا ہو ۔ پرنسپل کا جو ہمارے کالج کی طرف سے یونیورسٹی میں بطور کالج کے ریپریزینٹیٹیو کے قراردیا گیا ہے۔ یونی ورسٹی میں تجویزیں پیش کرنے میں جو مسلمانوں کی تعلیم سے بالخصوص علاقہ رکھتی ہوں مشیر ہونے کی لیاقت رکھتا ہو۔ کالج کے معاملات میںتمام خط و کتابت جو ڈریکٹر پبلک انسٹرکشن سے ‘ گورنمنٹ سے‘ گورنمنٹ انڈیا سے‘ تعلیم کی نسبت اور بالتخصیص مسلمانوں کی تعلیم کی نسبت ہوتی ہیں ان کو انجام دے سکے۔ میں خود اقرار کرتا ہوں کہ مجھ میں ان تمام کاموں کے انجام دینے کی لیاقت نہیں ہے صرف سید محمود کی امداد سے وہ انجام پاتے ہیں امداد کا لفظ بھی صحیح نہیں ہے بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ انسب کو سید محمود انجام دیتے ہیں پرنسپل صاحب کالج کے تعلیمی معاملات میںسید محمود سے مشورہ کرتے ہیں ۔ یونی ورسٹی کے معاملات میں سید محمود سے مشورہ کرتے ہیں۔ ہمارے دفتر کو دیکھو تو معلوم ہو گا کہ تمام امپارٹنٹ چھٹیاں متعلق کالج ان کی لکھی یا لکھوائی ہوئی موجود ہیں۔ ایک اورامر ہے جس کو میںبڑا عظیم الشان سمجھتا ہوں گو اور لوگ ا س کو حقیر سمجھیں کہ یہ کالج جس مقصد اورجس پالیسی سے میں نے قائم کیاہے اورجس نتیجہ قومی ترقی پر میںنے اس پر محنت کی ہے۔ میرے بعد بھی اسی طرح اور اسی نتیجہ پر یہ کام چلے ۔ سید محمود ابتدا سے آج تک ان تمام اصلاحوں میںشریک غالب رہے ہیں اور مجھ کو اس بات کا یقین کامل ہے کہ سوائے سید محمود کے اور کوئی شخص کالج کو اس طریقہ پر نہیں چلا سکتا۔ کہہ دو کہ یہ تمہارا خیال غلط ہے مگر میں اسی بات کے کرنے پر مجبور ہوں جس پرمجھ کو یقین ہے۔ مگر ہاںایک مدت بعد جب بخوبی مستحکم ہو جاوے گا تو ہر کوئی چلا سکے گا۔ ان تمام واقعات واقعی اورامورات حالی اور حالات وجدانی نے مجھ کو آمادہ کیا کہ میں مسودہ مجوزہ میں سید محمود کو اپنی زندگی تک جائنٹ سیکرٹیری جس کا حقیقت ابتدا سے وہ کام کرتے ہیں اوراپنے بعد لائف آنریری سیکرٹری مقرر کروں ۔ میں سمجھتا تھا کہ ایسا کرنے میں لوگ مجھ کر ہر طرح کے طعنے دیں گے اور کوئی بدگمانی اور کوئی اتہام ایسا نہ ہو گا جو مجھ پر نہ کریںگے‘ میںنیکہا کہ اگر میںقوم کی اورکالج کی بہتری اس میں سمجھتا ہوں اور اس پر یقین کرتا ہوں اور صرف اپنی طعنہ زنی کے خوف سے اس کو نہ کروں تو مجھ سے زیادہ کو ئی بددیانت اور دغا باز او ر قوم کا دشمن نہ ہو گا۔ پس میں نے کیا جو میں نے کیا اورلومۃ لائم کا خود نہیں کیا ۔میری نیت کا فیصلہ کرنے والے میرے دوست نہیں ہیں۔ جو بے ہودہ باتیں بناتے ہیں بلکہ اس کافیصلہ کرنے والا ایک دوسر ا حاکم ہے جو میری نیت یا بدنیتی اور ان کے طعن یا بدظنی کا فیصلہ کرے گا۔ وھو احکم الحاکمین۔ اسی زمانہ میںہمارے دوست مسٹر ڈئن نے جو ہماری کالج کمیٹی ڈائریکٹران کے ممبر ہیں جب وہ ہندوستان میں تھے تو پریذیڈنٹ تھے اسی معاملہ میں ولایت سے مجھ کو ایک چٹھی لکھی ہے ج سکا انتخاب میں آپ کو سناتا ہوں اور وہ چٹھی یہ ہے: مائی ڈئر سید احمد میں افسوس سے مگر تعجب سے نہیں سنتا ہوں کہ مولوی سمیع اللہ خاں آپ کی کوششیں جو کالج کو مضبوط کانسٹیٹیوشن بنانے کے لیے درکار ہیں روکنا چاہتے ہیں اور میں بآسانی سمجھ سکتا ہوں کہ آپ کی خواہش محمود کو اپنا جانشین مقرر کرنے کے لیے اچھی ہے۔ اور آپ اس پر زور دینے سے اس لیے ڈرتے ہیںکہ خود غرضی نہ پائی جاوے ۔ لیکن تمام لوگ جن کے دل میں کالج کی بہتری کا خیال ہے اور حالت کے سمجھنے کے قابل ہیں اس اہم کام میں اتفاق کریں گے کہ آپ کا جانشین محمود کو کیا جاوے گو میں جانتا ہوں کہ اس بات کو کئی سال چاہئیں جب کہ وہ اپنے فرائض کا چارج لیں۔ اور میں خیال کرتا ہوں کہ آپ مجھے معاف کریں گے اگر میںیہ کہوں کہ آپ کا فرض ہے کہ کل تعلقات رشتہ داری کو جو مابین آپ کے اور سید محمود کے ہیں‘ ایک طرف کر کے نہایت مستعدی سے اس بات پر زور دیں… یہ وقت کالج کے لیے نہایت خطرناک ہے اور اس کی آئندہ حالت ٓاپ کی کارروائی پر منحصر ہے … میںآپ کو تاکید سے کہتا ہوں کہ آپ مضبوط ہو کر کانسٹیٹیوشن کے جاری ہونے پورا زور دیں… اور مجھ کو نہایت رنج ہو گا کہ اگرآپ اس طریقے سے جو آ پ نے شروع کیا ہے باز رہیں گے۔ مقام ڈیپٹ فورڈ لنثن۔ میں ہوں آپ کا قدیم سچا دوست ۸ اگست ۱۸۸۹ء کے ڈئین جس طرف سے اس تجویز کی مخالفت کی ہو ا چلی مجھ کو ہرگز یقین نہ تھا کہ اس طرف سے یہ ہوا چلے گی۔ تمام لوگ جو کالج کے محنتوں میں میرے سکریٹری ہونے کی حالت میں شریک تھے۔ وہ اس وقت بھی شریک رہ سکتے تھے اور مدد کر سکتے تھے جب کہ سید محمود سکریٹری ہوتے مگر افسوس ہے کہ مخالفت ہوئی اور ایسی بری کی طرح پر جس نے نہ اشخاص کو بلکہ قوم کو بدنام کیا۔ مخالفت رائے سے نہ رہی بلکہ عداوت اور ذاتیات تک نوبت پہنچ گئی۔ رسالے چھپے‘ اخباروں میں آرٹیکل چھپے‘ انگریزی میں پمفلٹ چھاپ چھاپ کر ہندوستان میں تقسیم ہوئے ۔ اورکوئی درجہ مخالفت کا باقی نہیں چھوڑا اوربقول پایونیئر کے ثابت ہو گیا کہ مسلمانوں میںیہ قابلیت نہیں ہے کہ کوئی بڑا کام اتفاق سے کر سکیں۔ انہیں تحریرات پر قناعت نہیں کی بلکہ ایک گروہ مخالفین کا قائم کیا اورمیٹنگ کی اورجائز و ناجائز طریقے سے اس میں لوگوں کو شریک کیا۔ اس ناجائز کمیٹی کی روئدادیں چھاپ کر مشتھر کیں ۔ اور چند رزولیوشن پاس کیے جس میں لکھا ہے کہ بالاتفاق پاس ہوئے ہیں۔ آپ کواس بات کے سننے سے تعجب ہو گا کہ ان لوگوں میں جن کی اتفاق رائے سے ان رزولیوشنوں کا پاس ہونا لکھا ہے محمد عبداشکور خاں صاحب رئیس بھیکم پور بھی ہیں جو شریک تھے۔محمد عبدالشکور خاںصاحب نہایت متین اور قابل ادب بزرگ ہیں ان کی زات سے اس ضلع کے شیروانی افغانوں کو فخر ہے۔ انہوںنے مجھ کو لکھا ہے ’’کہ غرض انعقاد اس جلسہ کی صرف غور اور مشورہ کرنا قواعد مسودہ ٹرسٹیاں پر تھا نہ کسی قواعد مسودہ مذکور کا پاس پانا منظور کرنا۔ مگر اس روئدااد میں متعدد رزولیوشنیوںکا پا س ہونا لکھا ہے۔ جن میںسے بہت سی دفعات کو نامنظور کیاہے۔ نسبت سید محمود کے جائنٹ سکریٹری اور بعد کو لائف سکریٹیر مقرر ہونے کے وہ لکھتے ہیں کہ میںنے یہ رائے ظاہر کی تھی کہ جن دفعات میںاس کاذکرہے وہ اس طرحپر ترمیم ہوںکہ حسب خواہش سکریٹری ایک اسسٹنٹ یا جائنٹ سکریٹری منجملہ ٹرسٹیاں کالج بلا معاوضہ مقرر ہونا مناسب ہے جس کو آنریری سیکرٹری بضرورت اپنی معاونت کے اپنا اسسٹنٹ یا جائننت منجملہ ٹرسٹیان مقررکرنا چاہیں تو اس سے انکار کیا جاوے۔ اور معتبر ذرائع سے مجھ کو معلوم ہوا ہے کہ چند سال سے تمام تحریرات انگریزی خط و کتابت یا ضابطہ اور رپورٹ وغیرہ متعلق مدرسۃ العلوم آنریبل جسٹس سید محمود کی رائے سے اورقلم سے تحریر ہوتی ہیں۔ ونیز انتخاب و تقرر یورپین اسٹاف کا آنریبل سید محمود کی تجویز و اہتمام سے ہوتا ہے۔ لہٰذا اول جائنٹ سیکرٹری آنریبل سید محمود کا حسب خواہش آنریری سیکرٹری ہونا چاہیے۔ لیکن لائف جائنٹ سیکرٹری ہونے کا استحقاق و ضرورت نہیں ہے۔ اور بعد خالی ہونے عہدہ آنریری سیکرٹری کا بوجہ اپنے استحقاق کارگزاری و اعتماد قربن انصاف ہے۔ واسطے اس معیاد کے جو ہر ایک سیکرٹری کے لیے ہ سالہ مندرج قانون ہے ۔ لیکن لائف آنریری سیکرٹری نہ ہونا چاہیے نہ لائف سیکرٹری ہونے کا کوئی حق ظاہر کیا گیاہے۔ پس بہ حالت آنریبل سید محمود کے اول مرتبہ عہدہ جائنٹ سیکرٹری اور آنریری سیکرٹری پر واسطے معیا د معین کے جو نکتہ چینیاں نسبت لیاقت انتظامی آنریبل موصوف کے کی گئی ہیں یا جو اعلیٰ درجہ ہر قسم کی لیاقتوں کا ثبوت ان کے واسطے کر کے مستحق لائف آنریری سیکرٹری کا قرار دیا ہ۔ ان دونوں رایوںکا فیصلہ عملی طور پر اس معیاد میںہو جائے گا اور کیا عجب ہے کہ آنریبل مسٹر سید محمود وقت دوسرے انتخاب عہدہ آنریری سیکرٹری کے لائق لائف آنریری سیکرٹیری ہونے کے مستحق ثابت ہوویں اور جو حضرات اس وقت اس رائے کے مخالف ہیں بہ نظر انصاف اس سے اتفاق کریں اس صورت میںیہ بھی ضررو ہے کہ بغرض اطمینان آئندہ یورپین اسٹاف کے شرائط خاص مابی اسٹاف مذکور اورکمیٹی ٹرسٹیان مقر ر کی جاویں تاکہ کسی وقت میںشبہ ابتر ی کالج بجہ بددلی یورپین سٹاف باقی نہ رہے اوریہ طریقہ اطمینان یا ضابطہ کا بہ نسبت اطمینان ذات شخص واحد کے مستحکم بنا پر قائم ہو گا۔ بپابندی دفعہ ۴۶ سیکرٹری کو اختیار تقرر رجسٹرار کا ہونا چاہیے۔ لیکن منجملہ ٹرسٹیان واسطے معیاد معین کے جو زاید تین ماہ سے نہ ہو ا س سے اگر معیاد معین کے جو زاید تین ماہ سے نہ ہو۔ اس سے اگر معیاد زاید کی ضرورت ہو یا کسی غیر شخص کا ٹرسٹیان سے رجسٹرار کا مقرر کرنا ضروری مقصود ہو تو اول منظوری ٹرسٹیان حاصل کی جاوے۔ نسبت دفعہ ۵ و ۱۱ متعلق تعداد ٹرسٹیان جلسہ منعقدہ ۲۷ مارچ ۱۸۸۹ء میں اپنی رائے یہ ظاہر کی تھی کہ کل ممبران ٹرسٹی کا مقرر ہونا ضروری نہیںہے۔ اس وجہ سے کہ وقت قائم ہونے کالج کے بہ لحاظ کثر ت مخالفت اوقلت بہم رسی معاونین کالج اس امر کا محتاج تھا کہ جس طرح ممکن ہو ممبران کی ترقی کی جاوے اور زیادہ تر خوض ممبروں کی لیاقت و حیثیت پر نہ کیا جاوے۔ اب کہ کالج حالت موجودہ تک مرتبہ ترقی کو پہنچ گیا اور تمام مخالفین جو نسبت تعلیم انگریزی و قائم ہونے کے کالج کے تھیں کالعدم ہو گئی تو اب ضرور ہیکہ انتخاب ٹرسٹیان میںاحتیاط کی جاوے اور جہاں تک ممکن ہو معتمد و ذی وجاہت ٹرسٹی انتخاب کیے جاویں مگر وقت تحریر اس رائے کے جو میںنے فہرست موجودہ ممبران پر نظر ڈالی تو معلوم ہوا کہ حقیقتاً بعض لائق اور نہایت معتمد ممبر ٹرسٹیوں میں منتخب ہونے باقی رہ گئے ہیں۔ مثلا ً مولوی محمد اسماعیل صاحب رئیس شہر کول‘ سید اکبر حسین صاحب رئیس الہ آباد سابق مصنف حوالی شہر کول وغیرہ وغیرہ ۔ انتہی۔ مگر افسوس ہے کہ ان کی رائے کا مطلق تذکرہ روئیداد میں نہیں ہے اور جن رزولیوشنوں کو اس میں بالاتفاق پاس ہونا لکھا ہے محمد عبدالشکور خاں صاحب کی رائے ان میں سے اکثر رزولیوشن کے برخلاف ہے مگر خد اکے نزدیک اس مخالفت ہونے ہی میں کچھ بہتری ہوگی۔ عسیٰ ان تگر ہوا شئیا و ہو خیرلم و عسیٰ ان تحبوا شئیا وھو شرلم اب صرف ایک رات بیچ میں ہے اور کل سب کو معلوم ہو جاوے گا کہ ممبروں کی مجورٹی کیا فیصلہ کرتی ہے۔ اس امر کی نسبت کہ یورپین اسٹاف کے متعلق جو معاملات کمیٹی میں پیش ہوں ان کا تصفیہ کس طرح پر عمل میںآوے گا۔ کمیٹی کے اجلاس منعقدہ ۱۲ مارچ ۱۸۸۵ء میں ہو چکا ہے اور اس کے قواعد قرار پا چکے ہیں۔ وہی قواعد بعینہ مسودہ قانون ٹرسٹیان میں مندرج کیے گئے ہیں۔ مگر یورپین اسٹاف کی رخصت کے بابت کوئی قاعدہ مقرر نہ تھا۔ اس کی نسبت جدید بنانے پڑے ہیں جو ا س مسودہ میں مندرج ہیں۔ ہمارے کالج کی ایک خاص حالت ہے۔ گورنمنٹ میں جو قواعد رخصت ملازمانسرشتہ تعلیم کے لیے معین ہیں وہ ہمارے کالج میں بکار آمدنہیں ہیں۔ گورنمنٹ جس افسر کو رخصت دیتی ہے اس کے زمانہ رخصت میں فی الفور دوسرے کو اس کا قئام مقام کر کے بھیج دیتی ہے۔ اور تعلیم کا کچھ ہرج نہیں ہوتا۔ ہمارے کالج میں جب کسی یورپین افسر کو رخصت دی جاتی ہے تو زمانہ میں رخصت میں ہم کو اس کا قائم مقام پیدا کرنا محالات سے ہوتاہے۔ اس لیے قواعد رخصت ایسے انداز پر بنائے گئے ہیں جس میں تعلیم میں ہرج نہ پڑے۔ ان قواعد کا بنانا اگر ان کو یورپین سٹاف اپنی ضروریات کے مناسب نہ سمجھے تو محض بے فائدہ تھا اس لیے پرنسپل کالج کو اس کے بنانے میں شریک کرنا اور دریافت کرنا کہ کس قاعدہ میں کیا ہرج پڑے گا اور کس طرح پر آسانی ہو گی ضرور تھا اس پر نکتہ چینی کرنا بہت آسان کام ہے مگر میں سمجھتا ہوں کہ وہ قواعد نہایت عمدہ طور پر بنائے گئے ہ یں۔ جن سے نہ تعلیم میں حرج ہوتا ہے نہ ہم کو زمانہ رخصت میں کسی قائم مقام کے تلاش کی ضرورت پڑتی ہے اوریورپین سٹاف بھی ان سے راضی ہے۔ یہ کہہ دینا کہ یورپین سٹاف کی رضامندی کی کچھ ضرورت نہیں ہے کمیٹی جو چاہے قاعدے بنائے ہمارے کالج میں تو یہ بات چل نہیں سکتی۔ ان تمام ضرورتوں پر کامل غور کرنے کے بعد میں نے مسودہ قانون بنایا بلاشبہ سید محمود جو کالج فنڈ کمیٹی کے ممبر بھی ہیں اور خود کمیٹی کے لیے قواعد بنانے اور کل ممبروں کے سامنے پیش کرنے کا حق رکھتے ہیں۔ مسودہ بنانے میں شریک غالب تھے۔ اور مسڑ اسٹریچی بہ طور لیگل ایڈوائزر کے شامل تھے۔ جب یہ مسودہ تیار ہو گیا تو ہر ایک ممبر کے پا س بہ طلب رائے بھیجا گیا۔ اب میری نسبت یہ کہا جاتا ہے کہ میں نے ترتیب و تقسیم مسودہ قانون ٹرسٹیان میں بے ضابطگی کی ہے۔ مگر میں سمجھتا ہوں کہ میں نے ضرورت سے زیادہ احتیاط کی ہے ۔ دفعہ ۴۵ قواعد موجودہ میں کالج فنڈ کمیٹی کو اختیار ترمیم موجودہ قواعد کا دیا گیا ہے مگر اس میں یہ حکم نہیں ہے کہ کوئی ممبر جو کسی قاعدہ کی ترمیم و تبدیل چاہے وہ اول کمیٹی سے اجازت لے اورپھر اس کو کمیٹی میں پیش کرے اورجب کمیٹی اجازت دے تو وہ تقسیم ہو۔ بلکہ ہر وقت کالج فنڈ کمیٹی کے ہر ایک ممبر کو اختیار تھا کہ بلا اطلاع اور بلا منظور ی کے اور اجازت کمیٹی جس قاعدہ کو ترمیم یا تبدیل کرنا چاہے اس کی یادداشت پیش کرے۔ اس یادداشت کا کل ممبران کو تقسیم ہونا اور رائے طلب کرنا واجب تھا۔ اور کثرت رائے ممبران کمیٹی سے اس کا منظور یا نامنظور ہونا منحصر تھا۔ اس دفعہ میں جو لفظ کمیٹی کا ہے اس سے کالج فنڈ کمیٹی کے وہ تین چار ممبر جو عام کارروائی کے لیے جلسہ کرتے ہیں مراد نہیں ہیں۔ بلکہ کل ممبران کمیٹی مراد ہیں۔ پس بموجب اختیار کے مجھ کو بہ حیثیت ایک ممبر ہونے کے بلا اجازت کمیٹی کے مسودہ قانون تجویز کرنے کا اوربہ حیثیت سکریٹری اس کو بہ طلب رائے تقسی کرنے کا اختیار کلی حاصل تھا۔ ہاں بلا شبہ وہ مسودہ کثرت رائے سے منظور یا نا منظور ہو سکتاہے ۔ مگر میں نے احتیاط کی اور ایک جلسہ کمیٹی میں جس میں گیارہ ممبر شریک تھے کالج کی حالت اور اس کے لیے ٹرسٹیز مقرر ہونے کی ضرورت کو بیان کیا اورسب نے ٹرسٹیوں کو مقرر ہونا اور اس کیلیے قانون بنانے کی ضرورت کو تسلیم کرنا۔ اس جلسہ میں امر مذکورہ کے پیش کرنے کی ضرورت یہ تھی کہ میری رائے میں مسودہ قانون بنانے میں ایک لیگل ایڈوائزر یعنی مشیر قانونی کی ضرورت تھی جس کو اس کی خدمات کا معاوضہ دیا جاوے بلا منظوری ممبران کالج فنڈ کمیٹی کے کورم کے نہیں ہو سکتا ۔ اور ا س کی منظوری لینی ضرور تھی۔ ورنہ مجھ کو بحیثیت ممبری ایک قانون بنانے اور بہ حیثیت سیکرٹری رائے طلب کرنے کے لیے تقسیم کرنے میں کسی کی اجازت حاصل کرنے کی ضرورت نہ تھی۔ میں یا کوئی ممبر جو کسی تجویز نسبت ترمیم قواعد پیش کرے اس پر کسی سلیکٹ کمیٹی کے مقر ر ہونے کا ا س دفعہ میں حکم نہیں ہے اورنہ اس پر کوئی سلیکت کمیٹی مقرر ہو سکتی ہے اس لیے اگر سلیکٹ کمیٹی مقرر ہو تو اس میں معدودے چند ممبران مقرر ہوں گے اوران معدود ممبروں کو اس تحریر یا مسودہ مرتبہ میںمطلق اختیار تغیر و تبدل یا اس کی منظوری و نامنظوری کل ممبران کالج کمیٹی کی رائے کی مجورٹی پر منحصرہے۔ نہ معدودے چند ممبروں پر۔ مع ہذا کمیٹی کے معزز ممبروں نے قانون پر غور کرنے کے لیے بہ طور خود ایک بہت بڑا جلسہ کیا ۔ جس میں پندرہ ممبر شامل تھے ۔ اور سب نے مل کر مسودہ پر بحث و غور کی اور متفقہ رائے سے جو تجویز کی وہ صرف چند دفعات کے تغیر و تبدل سے زیادہ نہیں ہے۔ پس اگر سلیکٹ کمیٹی مقرر نہ کرنے کا میرا گناہ ہو تو اس کا کفارہ بہ خوبی ہو چکا ہے۔ اس کام کے لیے لیگل ایڈوائزر مسٹر اسٹریچی بیرسٹر ایٹ لا سے بہتر کوئی ہو نہیں سکتا تھا۔ مسٹر اسٹریچی میرے اور سید محمود کے نہایت دلی اور بے تکلف دوست ہیں۔ ہمارے کالج کے جو درحقیقت ان کے نامور باپ سر جان اسٹریچی کی مہربانی سیقائم ہوا ہے نہایت دوست و خیر خواہ ہیں ہمارے کالج کے یورپین سٹاف میںسے مسٹر بک پرنسپل کی جو کل اسٹاف کی جانب سے ریپریزینٹیٹو ہیں نہایت دوست ہیں۔ ان کی قانونی لیاقت کسی اعلیٰ درجہ پر مشہور ہے کہ میرے بیان کی محتاج نہیں ہے۔ مسودہ قانون جو بنایا منظور تھا اس میں بہت سے قواعد متعلق یورپین اسٹاف کے مثل ان کی موقوفی معطلی وضع تنخواہ رخصت وغیرہ حقوق کے مندرج کرنے لازم تھے اوربڑی مشکل یہ تھی کہ جو حقوق گورنمنٹ کے یورپین ملازمان ایجوکیشنل ڈیپارٹمنٹ کو حاصل ہیں نہ وہ حقوق ہم اپنے کالج کے اسٹاف کو دے سکتے تھے کیوں کہ کمیٹی کو اس قدرت قدرت نہیں ہے اور نہ وہ حقوق و قواعد ہمارے کالج کے مناسب ہیں۔ پس نہایت مناسب تھا کہ لیگل ایڈوائزر دونوں فریق کا نہایت دوست ہو ادھر وہ کالج کی حالت کا خیال رکھے اورادھر یورپین سٹاف کے حقوق و ضرورتوں کو سمجھے اورنیز دونوں کو ایک معتدل امر پر متفق کرنے میں بلکہ دوستانہ طور سے زور دے کر راضی کرنے پر قارد ہو۔ پس اگر میں نے آپ کے نزدیک بھی اس کام کے لیے مسٹر اسٹریچی کے منتخب کرنے میں اپنی شامت اعمال سے جو میری نسبت منسوب کی جاتی ہے خطا کی ہے تو مجھ کو اپنی خطا سے اقرار کرنے اورمعانی چاہنے میں کچھ عذر نہیں۔ مگر میںاس بات کے بیان کرنے سے نہایت خوش ہوں کہ اس تدبیر سیہم کو بڑی کامیابی ہوئی ہے باوجودیکہ مجوزہ مسودہ میں یورپین اسٹاف کے حقوق بہ نسبت ان حقوق کے جو ایجوکیشنل ڈیپارٹمنٹ کے یورپین سٹاف کو حاصل ہیں۔ اکثر حالات میں سوائے بعض کے جہاں ہم نے بوجوہ قوی کسی قدر زیادہ حق دیا ہے بہت کم کر دیے ہیں۔ لیکن یورپین اسٹاف کو بالکل طمانیت ہے اوریورپین اسٹاف یقین کرتا ہے کہ گو ہمارے حقوق میںنہ کمی ہوئی مگر کمیٹی کو اپنی موجودہ حالت پر امکان نہ تھا کہ اس سے زیادہ کر سکتی ۔ ہم نے ان کی ضرورتوں پر خیال کیا ۔ انہوں نے کمیٹی کی حالت اورمجبوری پر خیال کیا۔ مسٹر اسٹریچی پر دونوں کو طمانیت تھی نہایت رضامندی اور طمانیت سے ایسی ایسی مشکلات حل ہوئیں کہ اگر کوئی دوسرا طریقہ اختیار کیا جاتا تو ان کا حل ہونا غیر ممکن تھا۔ میں ا س گناہ کا بھی گنہگار بنایا جاتا ہوں کہ میںنے بلا منظوری کمیٹی مسودہ کی نسبت رایوں کے آنے کی تاریخ اپنی تجویز سے مقرر کی مگر آپ کو معلوم ہو کہ جب سے یہ کمیٹی قائم ہوئی اس وقت سے ہر اجلاس کے اورہر کام کے لیے تاریخوں کا معین کرنا سکریٹری کا خاص کام رہا ہے ۔ اس کمیٹی پر موقوف نہیں ہے۔ تمام دنیا میں جو انسٹیٹیوشن اور یونی ورسٹیاں اس وقت موجود ہیں ان میں اجلاسوں کے اور ہر ایک کام کے لیے تاریخ معین کرنا سیکرٹری کا کام ہے۔ اگر سیکرٹری کسی کام کے انجام کے واسطے تاریخ معین کرنے کے لیے اگر کمیٹی جمع کرنے کی ضرورت ہو تو ا سسکے لیے ممبروں کے جمع ہونے کے لیے کون تاریخ مقر ر کرے۔ بہرحال میں نے بہ حیثیت سیکرٹری اسی قاعدہ مستمرہ کے موافق ایک تاریخ مقرر کی جن ممبروں نے جواب نہیں بھیجا تھا اور زیادہ مہلت چاہی تھی ۔ مجھے بہ حیثیت سکرٹری مہلت کو منظور کرنے اور دوسری تاریخ معین کرنے کا خود اختیار حاصل تھا۔ مگر میں نے احتیاط کی اور کمیٹی میں پیش کیا اور کمیٹی سے ایک مہلت طویل بلکہ اطول دی گیئ۔ پس بایں جا اگر میں گنہگار ہوں تو بجز اس کے اور کچھ نہیں کہہ سکتا مصرع: کانچنیں رفت است در روز ازل تقدیر ما تعجب اس الزام پر ہے کہ سیکرٹری نے کوئی یادداشت مراتب ترمیم طلب نہیں بھیجی حالاں کہ وہ مسودہ قانون ہے جس سے تغیر و تبدل قواعد سابق میں ہوتی ہے یادداشت مراتب ترمیم طلب ہے۔ میں نہیں سمجھتا کہ اور دوسری کون سی یادداشت مطلوب تھی ۔ مع ہذا مین نے اس کے ساتھ ایک خط بھی بھیجا جس میں ٹرسٹیوں کے قانون بنانے کی ضرور ت پر بقدر حاجت بیان کی ہے۔ او سب ممبروں سے مدد چاہی ہے۔ کہ کالج کے آئندہ استحکام میں اور جو کام اس میں باقی ہیں اس میں تائید فرماویں۔ علاوہ اس کے جن ممبروں نے زیادہ حالات دریافت کیے ان کو ان کے حالات سے اطلاع دی جن ممبروں نے دیگر کاغذات یا پرانے قواعد طلب کیے ان کے پاس بھیجے گئے رائے دینے کی اس قدر مہلت طویل دی گئی تھی کہ کسی ممبر کو اس بات کی شکایت نہیں ہو سکتی کہ ہم کو کافی حالات دریافت کرنے کا موقع نہیں ملا۔ ایک امر متعلق بورڈنگ ہائوس کے بھی زیادہ غور کے لائق ہے ۔ مسودہ قانون میں بورڈنگ ہائوس کے لیے ایک کمیٹی بنام مینیجنگ کمیتی قائم رکھی گئی ہے جو کہ ہندو بھی بورڈر ہیں۔ اس لیے اس کمیٹی میں ہندو بھی بہ طور ممبر شامل ہٰں اس مسودہ میں منجملہ ممبران کے پرنسپل اوسول سرجن ضلع کو جس کے ذمہ بورڈروں کا معالجہ و بورڈنگ ہائوس کو بہ لحاظ صفائی صحت بخش حالت میں رکھنے کا تعلق ہے فہرست ممبران میں داخل کیا گیا ہے۔ جب کہ متعدد ممبر بورڈنگ ہائو س میںمداخلت کرتے ہیں تو بے انتہا ابتری بورڈنگ ہائوس میں واقع ہوتی ہے۔ ایک ممبر حکم دے جاتا ہے کہ فلاں کام اس طرح پر ہو۔ دوسرا ممبر آ کر حکم دیتا ہے کہ نہیں اس طرح پر ہو اگر ایک ممبر کسی طالب علم کو بہ لحاظ اس قصورات کے کوئی سزا دیتا ہے یا بورڈنگ ہائوس سے خارج کرتا ہے تو دوسرا ممبر آ کر اس کا قصورمعاف کر دیتا ہے ۔ اور بورڈنگ ہائوس میں داخل کر لیتا ہے طالب علم اس کارروائی سے نہایت خیرہ و سرکش ہو جاتے ہیں اورکسی کا ڈر یا ادب ان میں باقی نہیں رہتا وہ سمجھتے ہیں کہ گو فلاں ممبر نے ہم کو بورڈنگ ہائوس سے خارج کیا ہے مگر ہم لاں ممبر سے کہہ کر بورڈنگ ہائوس میں پھر داخل ہو جاویں گے اور متعدد بار ایسا ہوا ہے اور جو بغاوت فروری ۱۸۸۷ء میں بورڈنگ ہائوس میں ہوئی اس کی اصلی وجہ یہی تھی۔ ان ابتریوں کے رفع کرنے کو یہ تجویز کی گئی ہے کہ ٹرسٹیوں کو اختیار ہو گا کہ منجملہ ممبران مینیجنگ کمیٹی کے کسی ایک ممبر کو عام نگرانی بورڈنگ ہائوس کا اختیار دیں اور اگر ایسا اختیار نہ دیا گیاہو تو عام نگرانی سیکرٹری کے سپرد رہے۔ سکریٹری سے مولوی سمیع اللہ خاں صاحب جو لائف آنریری سیکرٹری مینجنگ کمیٹی کے ہیں یا سید احمد جو لائف آنریری سیکرٹری کالج کا ہے مراد ہے۔ مینجنگ کمیٹی کے ممبروں کو اختیار دیا گیا ہے کہ اگر عام حالت بورڈنگ ہائوس میںکچھ نقصان دیکھیں تو اس کی نسبت ممبروں کا اجلاس کریں اور جو اصلاح مناسب سمجھیں اس کی اطلاع ٹرسٹیوں کو دیں۔ پرنسپل کو بہ حیثیت پرنسپلی بورڈنگ ہائوس میں ڈسپلن قائم رکھنے اور قصورات کی نسبت جو سزائیں مقرر ہوں ان کے دینے کا اختیار دیا گیا ہے ۔ جن لوگوں نے ہر ایک امر میں اختلاف کرنے کا ارادہ کر لیا ہے وہ ان صاف صاف باتوں سے بھی اختلاف کرتے ہیں اور رائے دیتے ہیں کہ بورڈنگ ہائوس کی نگرانی بجز مسلمان ممبر کے اور کسی کو نہ دی جاوے۔ اس زمانے میں جو عام نگرانی بورڈنگ ہائوس کی پرنسپل صاحب نے براہ مہربانی اپنے ذمہ لی ہے جس کے لیے میں ان کا نہایت شکر گزار ہوں اس کوناپسند کرتے ہیں۔ پرنسپل کا بورڈنگ ہائوس کی نگرانی لینا اس کے لیے لازمی نہیں ہے۔ انہوں نے صرف اپنی مہربانی سے یہ تکلیف گوارا کی۔ مولوی سمیع اللہ خاں صاحب لکھتے ہیں کہ پرنسپل کو بورڈنگ ہائوس میں کیس قسم کی مداخلت نہ ہونی چاہیے۔ میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ یورپ میں ایشیاء میں ہندوستان میںامریکہ میں اور کہیں کوئی کالج ایسا ہے کہ اس کے ساتھ بورڈنگ ہائوس ہو اور پرنسپل کی بورڈروں پر ویسی ہی حکومت نہ ہو جیسی کہ کالج میں ہو۔ کالج اور بورڈنگ ہائوس کو جدا سمجھنا ایسا ہے جیسا کہ انسان کو اور اس کی روح کو جدا سمجھنا۔ علاوہ اس کے بورڈنگ ہائوس کے ساتھ ایک یونین کلب ہے جس میں طالب علموں کو اسپیچیں کرنی اور مباحثہ کرنا سکھایا جاتا ہے ان کو انگریزی لیکچر میں مختلف طریقہ سے تعلیم دی جاتی ہے ۔ اور لٹریچر کی ترقی میں کوشش کرنی ہوتی ہے۔ اگر پرنسپل اس کی نگرانی نہ کرے توکون کرے۔ کرکٹ کلب بورڈنگ ہائوس میں ہے۔ طالب علم کرکت کی مشق کرتے ہیں۔ یورپین افسر کالج کے ان کے ساتھ ہوتے ہیں۔ وہ یورپین پارٹی سویلین و ملیٹری سے میچ کھیلتے ہیں اور جب کسی دوسرے شہر میں یورپین پارٹی سے میچ کھیلنے جاتے ہیں تو ایسے موقع پر یورپین افسر کالج کا ان کے ساتھ جاتا ہے اگر ان کو بورڈنگ میں مداخلت نہ ہو تو یہ کام کیوں کر انجام پاویں۔ بورڈنگ ہائوس میں طالب علموں کو امپوزیشن یعنی معیاد معین تک ایک جگہ بیٹھ کر پڑھنے یا لکھنے کی سزا دی جاتی ہے۔ اس لیے اور نیز مارننگ سکول کے لیے بورڈنگ ہائوس میں ایک جگہ بنائی گئی ہے جس کی نگرانی پرنسپل کے ذمہ ہے پس اگر اس کو بورڈنگ ہائوس میں مداخلت نہ ہو ت یہ کام کون کرے اور اگر پرنسپل کو بورڈنگ ہائوس میں ڈسپلن قائم رکھنے اور قصورات کی سزا دینے کا اختیار نہ ہو تو انتظا م کیوں کر رہے اور کام کیوں کر چلے۔ جس قدر بورڈر بورڈنگ ہائوس میں ہیں ان کے چا ل چلن کی جو بورڈنگ ہائوس میں ہو صاحبان کلکٹر صاحب پرنسپل سے کیفیت طلب کرتے ہیں اور ضابطہ کے موافق بھی پرنسپل ہی کو ا سکی کیفیت دیکھنی چاہیے ۔ اگر پرنسپل کو بورڈنگ ہائوس میں مداخلت نہ ہو تو ان کیفیات مطلوبہ کو کون دیکھے۔ مدت سے میرا ارادہ ہے کہ بورڈروں سے قواعد سکھانے میںمحنت لی جاوے کہ ان کی صحت اور ان کی طاقت کو نہایت مید ہو گی سستی و کاہلی دور ہوگی اور بہ طور ایک مستعد آدمی کے ان میں خصلت پیدا ہو گی ۔ ہمارے پرنسپل صاحب نے کسی قدر اس کاآغاز کیا ہے۔ اور بہت سی وجوہات سے مناسب ہے کہ اس کا اہتمام یورپین افسروں کے ہاتھ میں رہے اوروہ خود اس میں شریک رہیں۔ علاوہ ا س کے میرا سب سے بڑا مقصد کالج کے قائم کرنے سے یہ ہے کہ مسلمانوں میںارو انگریزوںمیںدوستانہ راہ و رسم پیدا ہو اور آپس کا تعصب و نفرت دور ہو۔ اور میں سمجھتا ہوں کہ اس میں بہت بڑی کامیابی ہوئی ہے ۔ اور اس کامیابی کا اصلی سبب ہمارے کالج کے یورپین افسر ہیں جو بورڈوں سے پدرانہ شفقت اور دوستانہ محبت رکھتے ہیں کسی دوسرے ضلع کا کوئی افسر جب علی گڑھ میں جاتا ہے تو اوروہ دیکھتا ہے کہ ہمارے ضلع کی تمام لیڈیاں اور یورپین حکا م ہمارے کالج کے طالب علموں کے ساتھ ہمارے کالج کے طالب علم ان کے ساتھ کیسا سچا اور دوستانہ برتائو رکھتے ہیں۔ کھیلوں میں شریک ہوتے ہیں‘ ڈنروں میں شریک ہوتے ہیں‘ بورڈنگ ہائوس کے ڈنروں میں آتے ہیں‘ میچ کے دنو ں میں ہمارے ضلع کی لیڈیاں طالب علموں کو لنچ دیتی ہیں اور سب لیڈیاں اور یورپین جنٹل مین اور ہمارے طالب علم ا یک میز پر بیٹھ کر کھاتے ہیں۔ اور بے تکلف دوستانہ مگر باادب میل جو ل رکھتے ہیں تو وہ حیران ہوتے ہیں اورعلی گڑھ کو ایک نئی دنیا سمجھتے ہیں۔ کچھ عرصہ دور کا نہیں گزرا کہ سر جان ایچ چیف جسٹس الہ آباد علی گڑھ آئے اور بورڈروں کے ساتھ بورڈنگ ہائوس میں بیٹھ کر ڈنر کھایا۔ تھوڑا ہی عرصہ ہوا کہ ارل ڈفرن وائسرائے گورنر جنرل ہندوستان ہمارے کالج میں آئے اور اسی باورڈنگ ہائوس مے کھانے کے کمرے میں بورڈروں کے ساتھ بیٹھے اور چاء وغیرہ نوش فرمائی۔ ہمارے کالج میں یہ رول ہے کہ شراب میز پر نہ ہو گی تمام لیڈیوں اور یورپین جینٹل مینوں نے کس خوشی سے اس رول کو پسند کیا اورہر موقع پر خواہ ڈنر ہو یا لنچ کس خوشی سے باطاعت اس رول کے شریک ہوتے ہیں۔ یہ نتیجہ اس کاہے کہ ہمارے کالج کے یورپین افسر اور بورڈر آپس میں دوستانہ ملتے ہیں اورصرف ان یورپین افسران کالج کے سبب سے یہ خوبی ہمارے طالب علموں میں ہے اور یہ عزت ہمارے بورڈنگ ہائوس کو ہوئی ہے اور میرا وہ مقصد جس پر مین نے کالج کی بنیاد ڈالی ہے کسی قدر حاصل ہوا ہے۔ پس اس باب میں جو مخالفین مخالفت کرتے ہیں اس کی ذرہ براب بھی وقعت نہیں کر سکتا۔ اور نہ میں بورڈنگ ہائوس کو اس حالت میں رکھنا چاہتا ہوں جو وہ پسند کرتے ہیں اگر میرا یہ مقصد اس کالج سے حاصل نہ ہوا تو کالج کوآج غارت کر دینا اس کے قائم رکھنے سے ہزار درجہ بہتر ہے۔ ہم اس کالج ارو بورڈنگ ہائوس کے ذریعے سے آپس میں مسلمانوں اور انگریزون کی دوست اور محبت پیدا کرنی چاہتے ہیں نہ کہ نفرت اور عداوت۔ پس میری رائے یہ ہے کہ ہمار ے کالج کے یورپین افسر خواہ وہ پرنسپل ہوں یا پروفیسر یا ہیڈ ماسٹر اپنی مہربانی سے جس قدر بورڈنگ ہائوس میں مداخلت کرنی چاہیں اور جس قدر بورڈنگ ہائوس کی نگرانی اور انتظام اپنے ذمہ اٹھاتے جاویں ہم نہایت احسان مندی اور شکر گزاری سے ان کے ہاتھ میں چھوڑتے ہیں ۔ میر اپورا ارادہ ہے کہ کالج میں اس قدر طاقت ہوئی تو ایک یورپین افسر کو مستقل بورڈنگ ہائوس کا گورنر مقرر کروں گا۔ اس وقت سمجھوں گا کہ اب پورا انتظام بورڈنگ ہائوس کا ہوا۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ جب سے میرے دوست بلکہ مسلمانوں کی قوم کے دوست مسٹر بک پرنسپل نے اپنی مہربان سے بورڈنگ ہائوس کی نگرانی اپنے ذمہ لی ہے۔ بورڈنگ ہائوس کا ایسا عمدہ انتظام ہے کہ کسی وقت میں نہ تھا۔ ہر ایک کا م میں ڈسپلن قائم ہو گیا ہے اور اس کے سبب سے طالب علموںمیں نماز کی پابندی بہت ہو گئی ہے جو کسی زمانہ میں نہ تھی ۔ پس تما م کوششیں پرنسپل صاحب کی جو بورڈنگ ہائوس کی نسبت ہیں وہ نہایت شکر گزاری کے لائق ہیں۔ میں اس موقع پر مسٹر بک کو مبارک باد دیتا ہوں کہ گو بعض ممبروںنے بورڈنگ ہائوس کے اختیارات پرنسپل کے نسبت اختلاف کیا ہے لیکن بعض بڑے دیندار ممبروںنے ان کی خدمات کی نہایت قدر کی ہے۔ نواب اختصار جنگ مولوی مشتاق حسین صاحب لکھتے ہیں کہ مسٹر تھیوڈرر بک ہمارے کالج کے پرنسپل ہیں مجھ کو بورڈنگ ہائوس کے ان کے سپرد ہونے پر ایسا اطمینا ن ہے جیسا کہ اسی قابلیت اور اسی تہذیب اور اسی فیلنگ کے کسی مسلمان افسر کے ہاتھوں میں رہنے سے ہوتا ۔ علاوہ دوسرے نہایت قابل قدر خدمات کے وہ جس دل سوزی سے مسلمان بورڈروں کی نماز روزہ اور قرآن شریف کی تلاوت کی نگرانی کرتے ہیں اوربہ لحاظ اپنی اعلیٰ درجہ تہذیب کے جو ادب وہ ہماری ان چیزوں کا کرتے ہیں اورجو محبت ان کو اپنے طالب علموں سے ہے اس کے لحاظ سے اس ا جد قدر شکریہ ادا کیا جاوے کم ہے۔ اور اگر وہ صرف اپنے شوق سے بورڈنگ ہائو س کے اہتمام کی تکلیف بھی اپنے اوپر خوشی سے گوارا کرتے ہیں تو ان کا مسلمانوں پر یہ بھی ایک احسان ہے۔ یہی وہ لوگ ہیں جو اپنی یادگار دوسری قوموں کی تاریخ پر سنہری حرفوں میں چھوڑ جاتے ہیں اور جن کو قومیں اور ملک مدتوں تک یاد رہتی ہیں۔ یہ خیال صرف نواب اختصار جنگ کا نہیں ہے بلکہ ہمارے مخدوم خان بہادر منشی قادر خان صاحب نے نہایت دلی جوش سے ہمارے کالج کے پرنسپل مسٹر بک کے ہاتھ میں بورڈنگ ہائوس کا ہونا پسند کیا ہے۔ مولوی محمد یوسف صاحب‘ سید ظہور حسین صاحب امروہوی بھی ان کو پسند کرتے ہیں۔ سب سے زیادہ اس بات کی خوشی ہے کہ ہماری زندہ دل پنجاب کی تمام انجمن ہائے اسلمایہ نے یعنی انجمن اسلامیہ لاہور]انجمن اسلامیہ گورداس پور‘ انجمن اسلامیہ جالندھر‘ انجمن اسلامیہ ملتان‘ انجمن اسلامیہ وزیر آباد‘ انجمن اسلامیہ امرت سر و دیگر بزرگان و ترقی خواہان قوم نے اپنے بچوں کا اور بورڈنگ ہائوس کا زیر نگرانی مسٹر بک کے رہنا پسند کیا ہے ۔ پس ہمارے کالج کو اس سے زیادہ کیا فخر ہو سکتا ہے کہ اس کے پرنسپل مسٹر بک پر اس قدر گروہ کثیر مسلمانوں کا پوری طمانیت رکھتا ہے۔ اب مجھ کو صر ف ایک بات کہنی اور باقی رہ گئی ہے کہ آپ کی قدر گزشتہ زمانے کی تاریخ پر توجہ فرماویں اور ملاحظہ کریں کہ بہت سے فیاض بزرگ ایسے ہیں جنہوں نے قومی یا مذہبی کاموںمیں بہت کچھ فیاضی کی ہے۔ روپیہ چھوڑا ہے‘ یا مذہبی کاموں میں کچھ فیاضی کی ہے ۔ مکانات و دکانیں‘ دیہات و جاگریں‘ مسجدیں اور خانقاہیں چھوڑی ہیں مگر اب وہ ایسی خراب حالت میں ہیں کہ اس کی جائدادیں اس طرح پر تلف ہوئی ہیں کہ ان خیرات کرنے والوں کی روحیں بھی افسوس کرتی ہوں گی ہم لوگوں میں ابھی اس قدر قوت پیدا نہیں ہوئی ہے کہ ہم بغیر گورنمنٹ کی سرپرستی کے کوئی بڑا کام انجام دے لیں یا اس کام کو اسلوبی سے قائم رکھ سکیں خصوصاً تعلیمی انسٹیٹیوشن اوروہ بھی یورپین سینز اور لٹریچر کا جس میں ہم کو کیا مالی وجہ سے اورکیا دیگر امور کے لحاظ سے ہر وقت گورنمنٹ کی امدا د کی ضرورت ہے اس لیے میں نے مناسب سمجھا کہ اس مسودہ قانون میں کالج کی عام نگرانی اورجب کچھ ابتری واقع ہو تو گورنمنٹ کو اس کی درستی کا اختیار دیا جاوے۔ اس نظر سے میں نے مندرجہ ذیل امور اس مسودہ میں داخل کیے : اول : ڈائریکٹرز پبلک انسٹرکشن موجودہ وقت کا وزیٹر ہونا تجویز کیا اور اس کو کالج کے تعلیمی حالات دریافت کرنے کا اورجب وہ چاہے تمام حسابات مداخل و مخارج کے جانچنے کا اختیار دیا تاکہ جو کچھ اس کی رائے ہو وہ گورنمنٹ میں رپورٹ کرے اور گورنمنٹ اس معاملہ میں ٹرسٹیوں سے خط و کتابت کرے۔ دوم: گونمنٹ کو اختیار یہ کہ جس وقت اور جس طرح وہ چاہے کالج کے حساب و کتاب کو جانچے۔ سوم: گورنمنٹ کو اختیار دیا کہ اگر اس کو معلوم ہو کہ ٹرٹی اپنا کام درستی سے نہیں کرتے تو ٹرسٹیوں کو درستی سے کام کرنے پر مجبور کرے۔ چہارم: یہ با ت چاہیے کہ اگر ٹرسٹی گورنمنٹ پرامیسری نوٹوں کا جو کالج کے سرمایہ سے علاقہ رکھتے ہیں گورنمنٹ کے کسی محکمہ میں امانت رکھنا چاہیں تو گورنمنٹ ان کا امانت رکھنا منظور کرے۔ پنجم: کالج ڈسپنسری کا چارج سول سرجن ضلع کے سپرد رہے جس کا معاوضہ کالج کو دے گا۔ ان پانچوں امور کو جو مسودہ قانون میںمندرج ہیں گورنمنٹ نے منظور کر لیا جس سے ہمارے کالج کو بڑی تقویت متصور ہے۔ علاوہ اس کے تین امر اور تھے جن میں گورنمنٹ کی مداخلت میں نے مناسب بلکہ ضرو ر سمجھی تھی۔ اول: یہ کہ دفعہ ۱۸ مسودہ قانون میں یہ تجویز کی تھی کہ اگر کسی خاص وجہ سے ٹرسٹیوں میں سے کسی ٹرسٹی کا عہد ہ سے علیحدہ کرنا ضرور ہو تو دو شرطیں اس کے لیے ہیں۔ ایک یہ کہ ثلث ٹرسٹی اس کو عہدہ ٹرسٹی سے علیحدہ کرنا منظور کر لے۔ گورنمنٹ نے اس امر میںدست انداز ہونا مناسب نہیں جانا۔ دوم: یہ کہ دفعہ ۱۱۷ میں تجویز کی تھی کہ ٹرسٹی جب قواعد کو تغیر و تبدل کرنا چاہیں تو گورنمنٹ سے منظوری حاصل کریں گورنمنٹ نے اس امر میں بھی مداخلت مناسب نہیں سمجھی درحقیقت اس دفعہ میں بھی دو شرطیں ہونی لازم تھیں جیسے کہ دفعہ ۱۸ میں ہے یعنی دو ثلث ٹرسٹی اس ترمیم پر متفق ہوں۔ دوسری یہ کہ گورنمنٹ اس کو منظور کرے۔ دو ثلث ٹرسٹیوں کا لفظ میرے اصلی مسودہ میں ہے مگر اتفاق سے چھپنے سے رہ گیا۔ یہ غلطی ایسی ہے کہ جس کی اصلاح اس وقت نہیں ہو سکتی۔ اگر مسودہ مرتبہ اور نیز یہ دفعہ بھی مجورٹی سے پاس ہو جاوے تو ٹرسٹیوں کے کسی اجلاس سے اور بعد طلب رائے کے جملہ ٹرسٹیان کے اس دفعہ کی صحت ہو جاوے گی اور اس میں بڑھا دیا جاوے گا کہ جب ثلث ٹرسٹی متفق ہوں تو قواعد کی ترمیم و تنسیخ عمل میں آ جاوے۔ لیکن اس وقت میں آپ کے سامنے جو مربی قوم ہیں اورقوم کی صلاح و فلاح پر دل دے متوجہ ہیں اس کے بیان کرنے سے غرض یہ ہے کہ اگر دفعات مذکورہ بالا مجورٹی سے جس کا حال کل معلوم ہو گا پاس ہو گئے ہوں تو گورنمنٹ نے اس میںدست اندازی کرنے سے انکار کر دیا ہو مگر اب سب حامیان قوم ان شرطوں کو بدستور قائم رکھیں گے اور کوشش فرماویں گے کہ گورنمنٹ ان شرطوں کو منظور کرے کیوں کہ جو شرط منظوری گورنمنٹ کی بہ سبب تبدیل و تنسیخ قواعد کے دفعہ ۱۱۷ میں قائم ہوئی ہے وہی شرط کالج کے قیام اور آئندہ بہ خوبی قائم رہنے کی جان ہے۔ اگر وہ خارج ہو جاوے تو کالج کا اسلوبی سے قائم رہنا نہایت معرض خطر میں پڑ جاوے گا۔ ہز آنر لیفٹیننٹ گورنر نے ان دفعات کو بے جا اور ناواجب نہیں خیال کیا بلکہ یہ لکھاہے کہ یہ امورنہایت ذمہ داری کے ہیں جب تک وہ لیفٹیننٹ گورنر ہیں اس میں مدد دیں گے لیکن اس قدر ذمہ داری کا کام وہ اپنے جانشین پر جو آئندہ ہو ڈال نہیں سکتے۔ پسس ہماری کوشش یہ ہونی چاہیے کہ ایک اسپیشل قانون کی جو خاص ہمارے کالج سے تعلق رکھتا ہو ۔ گورنمنٹ کی کونسل سے پاس ہونے کی کوشش کریں تاکہ ہر ایک لیفٹیننٹ گورنر کو اس کے مطابق کارروائی کا منصب حاصل ہو۔ اور کالج کے قیام و دوام اور ہرگونہ استقلال پر کلی طمانیت ہو۔ جب کہ ٹرسٹی اس غلطی کو رفع کر دیں گے جو دفعہ ۱۱۷ میں ہو گئی ہے یعنی دو ثلث ٹرسٹیوں کے اتفاق سے ترمیم و تنسیخ قواعد کا اختیار ٹرسٹیوں کے ہاتھ میں دیں گے تو کارروائی میں کچھ ہرج واقع نہ ہو گا کیوں کہ شرائط منظوری گورنمنٹ اس بات پر مشروط ہیں کہ گورنمنٹ ان کو منظور کرے پس جب تک کہ وہ گورنمنٹ سے منظور نہ ہوں کالعدم متصور رہیں گے اور ٹرسٹیوں کوبلا پابندی ان شرائط کے کارروائی کا اختیار حاصل رہے گا۔ اور مجھے ہر طرح سے امید ہے کہ خیر خواہان قوم جو کالج کے قیام اوراستقلال کے خواہان ہیں ہر طرح کی مجھ کو اس باب میں مدد دیں گے کہ کالج کے لیے کونسل قانونی سے خاص قانون متعلق کالج پاس ہونے میں کام یابی ہو۔ تیسرا امر جو متعلق تصفیہ حساب یورپین اسٹاف کے ٹریولنگ الائونس وغیرہ سے متعلق تھا اورجن میں سے ٹریولنگ الائونس کا تصفیہ اکائونٹینٹ جنرل نے منظور کیا ہے اورباقی کے تصفیہ سے اپنی معذوری ظاہر کی ہے وہ کوئی ایسا بڑا امر نہیں ہے جس کی تشریح سے آپ کو زیادہ تکلیف دوں۔ ان پوست کندہ حالات کے بیان کرنے سے آپ کو معلوم ہوا ہو گا کہ یہ کالج بھی آ پ صاحبوں کی دلی امدا د کا بہت کچھ محتاج ہے۔ مگر اس میں بھی شبہ نہیں ہے کہ آج تک کوئی نظیر نہیں ہے کہ ایک ایسا بڑاانسٹیٹیوشن قوم کی اعانت سے قوم کی بھلائی کے لیے قائم ہوا ہو۔ اس لیے امید ہے کہ تمام قو اور تمام ملک اس کی تکمیل پر دل سے متوجہ ہو گا اگر خدانخواستہ یہ کوشش کامیاب نہ ہوئی تو آپ یقین کر لیں کہ آئندہ ہمتیں قومی بھلائی کی کوشش کرنے میں نہایت پست ہو جاویں گی اورسینکڑوں برس تک بھی کسی ایسی کوشش کرنے کی توقع نہ رہے گی۔ ایسے وقت میں جو کالج کی تکمیل کے لیے ہر ایک فرد کو متفق ہو کر کوشش کرنی تھی صرف ایک امر کے سبب سے فرض کرو کہ وہ میرا ہی قصور اور میری ہی بددیانتی اور میری ہی خود غرضی ہو اس قدر اختلاف کرنا اور اس کو اس قدر طول دینا نہایت افسوس کے کابل ہے مگر اس میں خدا کی ایک حکمت بھی ہے قوم نے مجھ پر بھروسہ کیا تھا اورلاکھوں روپیہ اس قومی کام کے لیے مجھ کو دیا اور پھر نہ پوچھا کہ وہ روپیہ کیا ہوا۔ مجھ کو خیال تھا کہ معلوم نہیں میں کس قدر قومی گناہوں کا گنہگار ہوں۔ پس میں نہایت خوش ہوں کہ دوستوں نے جو اپنے تئیں ہر امر کا بھیدی کہتے ہیں اور درحقیقت وہ ہیں بھی ایسی مخالفت کی۔ اور میرے تمام گناہوں کو تلاش کر کے ظاہر کر دیا اورپبلک کے سامنے رکھ دیا اگرچہ مجھ کو تعجب ہے کہ وہ بہت تھوڑے نکلے مگر جو ان دوتسوں سے نکل سکے وہ یہ ہیں جو پبلک کے سامنے ہیں پس اب قوم کو اختیار ہے کہ چاہے ان کو معاف کر ے چاہے نہ کرے۔ کالج سے کوئی میری ذاتی غرض بجز اس کے کہ میں نے قومی بھلائی ‘ قومی بہتری‘ قومی ترقی کے لیے کیا ہے متعلق نہیں ہے۔ اگر فرض کرو کہ اس میں کام یابی نہ ہو تو کیا۔ ہزاروں انبیاء اوررفارمرزمین کے تلے دبے پڑے ہیں جن کی بے انتہا کوششیں اپنی قوم کے لیے برباد ہو گئی ہیں پھر میری ادنیٰ کوشش اگر برباد ہو جاوے کیا حقیقت ہے۔ نوحؑ نے نو س برس کوشش کی گو وہ غصہ میں کہہ اٹھے ۔ رب لا تذر علی الارض من الکافرین دیارا مگر اس کشتی میں جو طوفان کی موجوں میںہمالیہ پہاڑ سے بھی اونچی لہرا رہی تھی وم کو ڈوبتے ہوئے دیکھتا تھا اور کہتا تھا خدا تیری مرضی۔ سقراط قومی خدمات کے بدلے زہر کا پیالہ پی رہا تھا اورقوم کو نصیحت کرتا جاتا تھا پس اگر یہ واقعات میری کوششوں پر بھی گزریں تو کوئی نئی بات نہیں ہے۔ مگرسمجھ لو کہ وہ قومی بھلائی چاہنے والے تو مر جاتے ہیں اور ان کی کوششیں ضائع ہو جاتی ہیں مگر خدا کی لعنت قوم پر باقی رہ جاتی ہے۔ اے خدا! او خدا تو میری قوم کے ساتھ ایسا مت کیجیو۔ مجھ کو معاف کرو۔ انہ کان شقشقۃ کشقشقۃ البعیر اورثنی جدی علیؓ ابن ابی طالب مجھے امید ہے کہ جس امر میں اختلاف ہوا ہے جب وہ یک سو ہو جاوے گا تو پھر سب آپس میں متفق ہو جاویں گے۔ اور سب مل کر کالج کی بہتری کی کوشش کریں گے۔ اور ایک دوسرے سے کہیں گے لا تثریب علیکم الیوم یغفراللہ لنا ولکم وھو ارحم الرحمین ٭٭٭ موجودہ تعلیم (۲۷ دسمبر ۱۸۹۴ئ) قوم کی تعلیمی ترقی کے متعلق اب تک مختلف جلسوں میں بہت سے ریزولیوشن پاس ہوئے اور بہت سے لیکچر دیے گئے جو ہنسانے والے بھی تھے اور رولانے والے بھی تھے‘ فصاحت و بلاغت میں بھی بے نظیر تھے اور اپنے مضامین کے لحاظ سے بھی بے مثل تھے وہ لیکچر ہمارے دل پر مختلف قسم کے اثرات پیدا کرتیتھے۔ جب ان لیکچروں یا نظموں میںہمارے بزرگوں کی شان و شوکت ‘ ان کی اولوالعزمی ‘ ان کی جاہ و حشم‘ ان کی قابل قدر سویلزیشن ان کی علمی لیاقیتں اور مختلف علوم و فنون میں ان کا کمال بیان ہوتا تھا تو ہمارا دل پھولتا تھا اورہ اپنے جاموں میں پھولے نہیں سماتے تھے اور ایک قسم کا غرور اور فخر ہم میں پیدا ہو جاتا تھا کہ ہم ایسے آدمیوں کی اولاد ہیں مگر جب ہمارے موجودہ دل کا بیان ہوتا تھا تو ہمارے دل پژمردہ اور غمگی ہو جاتے تھے۔ اور افسوس کرتے تھے کہ ہم ایسے اسلاف کے ایسے ناخلف فرزندہیں مگر افسوس ہے کہ یہ پچھلا اثر بہت ہی تھوڑی دیر ہم میں رہتا تھاہاں ہمارے آنسو بھی نکلتے تھے‘ مگر وہ اپنے ساتھ ہمارے اس رنج کو بہا لے جاتے تھے ۔ مجھ میں نہ ایسی فصاحت ہے اورنہ طاقت کہ میں اپنے ان مخدوم لکچرارو ںکی پیروی کروں۔ میرا تو اس رنگریز کا سا حال ہے جس کو صرف اموا رنگ آتا تھا اور وہ سب رنگوانے والوں سے گو کہ وہ کوئی رنگ رنگوانا چاہیں یہی کہتا تھا کہ تم پر تو اموا رنگ ی کھلتا ہے۔ پس میں اپنی قوم کے موجودہ حال پر نظر کروں گا اور آپ سے پوچھوں گاکہ اس کی ترقی اور فلاح دارین کیوںکر ہو سکتی ہے۔ گزشتہ زمانے میں ہمارے بزرگوں کی حالت نہایت عمدہ اور بے نظیر تھی۔ گزشتہ زمانے کی سویلزیشن جسے یاد کر کے ہم کو رونا چاہیے ہمارے بزرگوں کونصیب تھی۔ اخلاق‘ محبت ‘ مروت ‘ دوستی‘ دوستی کا برتائو‘ دوستی کا پاس‘ دلی نیکی‘ فیاضی‘ متانت‘ چھوٹوں کے ساتھ الفت‘ ‘ بڑوں کا ادب‘ غریبوں کے ساتھ ہمدردی‘ قومی یگانگت سب ان میںجمع تھی۔ قومی تعلیم دینی یا دنیوی کا ایسا مستحکم اور قابل ادب سلسلہ تھا۔ جس کی نظیر تمام دنیا کی کسی قوم میں پائی نہیں جاتی۔ ایک بزرگ مقدس عالم دن رات بلا خیال دنیوی فائدہ کے خدا کی رضامندی اور اپنی قوم اور اپنے مذہب کے لوگوں کی تعلیم کے یے ایک مسجد کے کونے یا خانقاہ کے حجرہ یا اپنے مکان کی کوٹھڑی میں بیٹھا پڑھاتا تھا پھر غریب سے غریب آدمی پڑھنے کوا ٓوے یا بادشاہ شہنشاہ کا بیٹا سب کی تعلیم میں مساوی برتائو کرتا تھا۔ اخیر زمانہ میں ھبی مگر اس زمانہ سے پہلے کثرت سے ایسے بزرگ ہر قصبہ و شہر میں پائے جاتے تھے جس نے اس کو دیکھا ہے آدمی نہیں ان کو فرشتہ پایا ہے۔ اس کی صحبت کی برکت سے طالب علموں کے اخلاق درست ہوتے تھے ۔ نیکی ان کے دل میں پیدا ہوتی تھی۔ شاید اب بھی دو ایک بزرگ ایسے ہوں مگر وہ ایسے شاذ و ناذر ہیں جو تمام قوم کو فائدہ پہنچانے کے لیے ناکافی ہیں۔ سب سے بڑا مقصد تعلیم و تربیت سے انسان میں نیکی اوراخلاق اورانسانیت اورآدمیت پیدا کرنا ہے وہ ہم کو اپنے بزرگوں کی صحبت سے حاصل ہوتا تھا ۔ پشت در پشت بطور ورثہ کے ہمارے بزرگوں کو پہنچتا تھا اور ان سے ہم کو‘ ہمارا ملک جو خاص ہندوستان یا متوسط ہندوستان کہلاتا ہے۔ ہر ایک امر میں کیا علم کیا معاشرت و تہذیب میں کیا زبان میں دوسرے ملک کے نظیر تھا۔ انقلابات زمانہ سے وہ نہ اب زمانہ ہے نہ اب وہ لوگ ہیں جن کی صحبت سے ہم تربیت پاتے تھے۔ غدر ۱۸۵۷ء نے جس کا الزام بدقسمتی سے مسلمانوں پر لگایا گیا رہا سہا جو چھ تھا سب برباد کر دیا۔ ہمارا ملک ہی برباد نہیں ہوا بلکہ جیسا اس کا اثر تمام ہندوستان پر پہنچتا تھا اسی طرح اس کی بربادی کا اثر بھی تمام ہندوستان میںپہنچا۔ اس وقت تم ملک کے مختلف حصوں اور متعدد خاندانوں اور متعدد قبیلوں کے یہاں تشریف فرما ہو۔ آپ مجھ کو معاف کریںگے اگر میں یہ کہوں کہ ہم سب سوچیں اور اپنے اپنے کنبہ اورخاندان میں خیال کریں اور دیکھیں کہ اب ایسے بزرگ کس مقام اور کس خاندان میں باقی ہیں جن کی نیک صحبت کے اثر سے ہمارے نوجوان اور بچے تعلیم و تربیت پاویں۔ ہماری مثال ان تیلیوں کی ہے جو بہ تربیت ایک بندش میں بندھی ہو اور وہ بندش ٹوٹ جاوے اور تمام تیلیاں متفرق و پریشان ہوجاویں۔ اور ان کا کچھ انتظام نہ رہے اگر ہم پھر اپنی قوم کو قوم بنانا چاہتے ہیں تو پھر ان متفرق تیلیوں کوجمع کر کے ایک بندش سے باندھنا ہم کو ضرور ہے۔ افسوس کہ پرانا ڈورا جس سے وہ بندھی ہوئی تھیں وہ ٹوٹ گیا اور ایسا پرانا اور بودا ہو گیا کہ جس سے وہ اب متفرق تیلیاں بندھ نہیں سکتیں اور اس لیے ہم کو ضرورت ایک نیا ڈورا پیدا کرنے کی ہے اور ان متفرق تیلیوں کو جمع کرنے کی اوریہ ترتیب دوبارہ باندھنے کی ہے اے دوستو! اگر ہم ایسا نہ کریں گے تو نہ قوم کو قوم بنا سکیں گے اورنہ ان میں انسانیت ‘ آدمیت اور قومیت پیدا کر سکیں گے۔ یہ حال ہماری قوم کا ہے اوریہ کچھ ہ کو ان کے لیے کرنا ہے ۔ اب جو نہایت نازک اور قابل غور سوال پیدا ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ یہ کیوں کر ہو۔ اور بھی ایک مسئلہ ہے جو قوم کو اس پر غور کرنی لازم ہے اور اسے دوستو آپ جو دور و دراز فاصلوں سے اس مقام پر جمع ہوئے ہو اس سے مقصد اس مسئلہ پر غور کرنا اور اس کے لیے کسی تدبیر کا سوچنا ہے انسان کے قواء جب ضعیف ہو جاتے ہٰں اور اعتدال مزاج درہم برہم ہو جاتا ہے تو وہ متعدد بیماریوں میں مبتلا ہو جاتا ہے یہی حال قوم کا ہوتا ہے جب اس کو تنزل ہوتا ہے تو کسی ایک چیز میں تنزل نہیں ہوتا بلکہ مذہب‘ اخلاق تعلیم‘ راست بازی‘ دیانت داری‘ سویلزیشن ‘ دولت‘ تمکنت ‘ متانت سب چیز میں تنز ل ہوتا ہے اور جو لوگ اس کی اصلاح کے درپے ہوتے ہیں وہ حیران ہو جاتے ہیں کہ کس کس چیز کا علاج کریں ۔ ع دل ہمہ داغ داغ شد پنبہ کجا کجا نہم مگر جب غور کی جاتی ہے تو بجز تعلیم و تربیت کے اور کوئی اس کا علاج نظر نہیں آتا۔ تعلیم میں جو مشکلات ہیں وہ آپ پر پوشیدہ نہیں ہیں۔ ہم کو بہ حیثیت مسلمان ہونے کو قو بنانے کے لحاظ سے مذہبی تعلیم کی ضرورت ہے۔ کیوں کہ مسلمانوں میں مذہب کی رو سے قوم کا اصل لفظ نسل کے متحد ہونے پر نہیں بولا جاتا بلکہ جس نے کلمہ پڑھا اور اسلام لایا گو کہ وہ باعتبار نسل کے کوئی ہو وہ سب ہمارے بھائی اورہماری قوم میں داخل ہیں اسلام کی رو سے اخوت او ر اتحاد قومی صرف اسلام پر منحصر ہے۔ قا ل اللہ تعالیٰ انما المومنون اخوۃ فاصلحوابین اخویکم واتقو اللہ لعلکم ترحمون پس جب کہ مدار قومیت اسلام پر ہے تو ہم کو اپنی قوم کو مذہبی تعلیم دینا اقل درجہ جہاں تک کہ عقائد و فرائض سے متعلق ہے ضرور ہے۔ دنیوی علوم سے ہم اپنی قوم کو محروم نہیں رکھ سکتے کیوں کہ اگر ا س سے محروم رکھیں گے تو وہ دنیا میں رہنے کے قابل نہیں ہوتی۔ ہم قبول کرتے ہیں کہ دنیا و مافیہا فانی ہے اور زندگی چند روزہ ہے مگر کم بخت وہ چند روز ہی ایسے کٹھن ہیں جن میںجب تک کہ ہم ان میں رہنے کے قابل نہ ہوں رہ نہیں سکتے۔ یاں فکر معیشت ہے وہاں دغدغہ حشر آسودگی حرفیست یہاں ہے نہ وہاں ہے یہ کہنا تو بہت خوش آئند معلوم ہوتا ہے کہ علوم ایشیاء میں سے یورپ گئے ہیں اورہمارے ہی بزرگوں نے یورپ کو علوم میں تعلیم دی ہے مگر جب ہم غور کرتے ہیں تو تمام علوم کو کیا منطق و فلسفہ‘ کیا ہئیت و ہندسسہ‘ کیا طب و حکمت‘ کیا سیاست و انتظام مدن‘ کیا ریاضی علمی و نظری ان سب کو ایسے اعلیٰ درجہ پر ترقی یافتہ پاتے ہیں کہ پہچان نہیں سکتے کہ یہ وہی علوم ہیں جو ایشیا سے یورپ میں گئے تھے جس طرح کہ ایک دانہ زمین پر پڑا ہوا ایک عالی شان درخت ہو جاتاہے اسی طرح ان علوم نے ترقی کی ہے جو ان پر مزید ہوا ہے وہ اس کے علاوہ ہے۔ ہمارے دنیوی علوم عقلی و نظری علمی و عملی کی کتابیں تقویم پارینہ کی مانند ہو گئی ہیں جو کسی کام آنے کے لائق نہیں ہیں اوراس کے لیے ہم کو بمجبوری ان علو م کو جو موجودہ یورپ کی کتابوں سے حاصل کرنا پڑاہے جن کو ہم بوعلی و فارابی‘ ان رشد رازی و ارسطو اور ساہ زی سیوس اورمالا نائوس اوردیگر علماء یونانی کی تصنیفات سے جو عربی میں ترجمہ ہو گئی ہیں حاصل کرتے تھے۔ لٹریچر ایک ایسا علم ہے جو ہر ایک زبان کے ساتھ مخصوص ہے مگر اس زمانہ میں اس میں بھی طریق بیان اور طرز ادائے مضمون نے ایسی ترقی کی ہے کہ ہم اپنی قدیم طرز تحریر اور طریق ادائے مضمون چھوڑنے اور اس جدید طرز کے اختیار کرنے پر مجبور ہوئے ہیں لفاظی اور ہجر و وصل کی شاعری مبالغہ اور ان نیچرل مدح سرائی صنائع و بدائع جو ایک زمانہ میں حسن تحریر سمجھے جاتے تھے اب حد سے زیادہ معیوب ہیں۔ تجارت جس میں جاہل عرب ایک زمانہ میں مشہور تھے اور خدا نے ہم کو بھی اس میں مصروف رہنے کی ہدایت کی ہے جہاں فرمایا ہے: یا ایھا الذین آمنوا اذانودی للصلوۃ من یوم الجمعۃ فاسعوا الی ذکر اللہ وذر البیع ذالکم خیر لکم ان کنتم تعلمون فاذا قضیت الصلوۃ فانتشروا فی الارض وابتغو من فضل اللہ واذکر وا اللہ کثیراً لعلکم تفلحون وہ ہماری قوم سے بالک چھوٹ گئی ہے مگر مسجھو کہ کیوں چھوٹ گئی ہے اس لیے چھوٹ گئی ہے کہ ہم اس کے لائق یا وہ ہمارے لائق نہیں رہی ہے۔ اس زمانہ میں تجارت جاہل بدوئون کا کام نہیں رہا وہ ایک نہایت عمدہ اعلیٰ درجہ کا فن ہو گیا ہے جس میں تعلیم و تربیت ‘ عمل و علم دونوں کی ضرورت ہے غیر ملک کے لوگوں سے واقفیت اور ان ملکوں کے حالات سے آگاہی بحر و بر کے سفر کی عادت‘ دلیری اور جرات اس کے لیے درکار ہے مگر ہماری قوم سے یہ سب چیزیں معدوم ہو گئی ہیں ان کا تو اس مقولہ پر عمل ہے کہ ع ’’حب وطن از ملک سلیمان خوشتر‘‘ اس کے علاوہ اس زمانہ میں شخصی تجارت کا کام نہیں رہا ہے متفقہ تجارت کی جس کو کمپنی سے تعبیر کیا جاتاہے گرم بازاری اور سرسبزی ہے جس کی بناء اتفاق پر ایک دوسرے کی معاونت پر اور سب سے زیادہ راست معاملگی اور اس سے بھی زیادہ دیانت اور انسٹی پر منبی ہے‘ مگر ہماری قوم میں یہ مقولہ مشہور ہے کہ اور اس پر عمل درآمد بھی ہے کہ ساجھے کی ہنڈیا چوراہے میں۔ مجھ کو کوئی نظیر ایسی معلوم نہیں ہے کہ ہماری قوم کے دو چار آدمیوںنے مل کر کوئی تجارت کا کام کیا ہو اور اس میں خیالنت اور آپس میں بدگمانی اور آکر کو باہمی تنازع و تکرار نہ ہو ئی ہو۔ ان رزائل کا قوم سے دور کرنا اور فضائل کا ان میں پیدا کرنا نہایت اعلیٰ درجے کی تعلیم اور تعلیم سے زیادہ تربیت پر منحصرہے نہ کوئی ٹوٹی پھوٹی انگریزی جاننے سے اور یونی ورسٹی کی ڈگریاں حاصل کرنے سے مدراس میں ہزاروں آدمی انگریزی جانتے ہیں میں نے خود ایک مدراسی بے اے کو دیکھا ہے جو ایک انگریزکے ساتھ تھا اور بیرا کا کام کرتا تھا۔ یہ اس امر کا نتیجہ تھا کہ تعلیم تھی مگر تربیت نہ تھی۔ سب سے بڑا ہر انسان میں ایک بہادر سپاہی کی سی جرات اوردلیری اور دل چلا پن ہے اور مستعدی اور اپنے کام کو ایمان دار ی سے کرنا اس کا لازمہ ہے یہی چیز ہے جس کے سبب انسان سے ایسے کام ہوتے ہیں جن کو دیکھ کر دنیا تعجب کرتی ہے ہماری قوم کے نوجوانوں میں ان سب چیزوں کی بہت کمی ہو گئی ہے اورہوتی جاتی ہے‘ سپاہیانہ جرات اوردلیری ان میں نہیں رہی۔ اگر کسی میں کچھ ہے تو نامہذب اکھڑ پنا ہے۔ سلف رسپکٹ کا بہت کم خیال ہے ضعیف و ناتواں ہو گئے ہیں اور ہوتے جاتے ہیں۔ بہت سے ضعف بصر کے شاکی ہیں۔ دوڑ دپاڑ کی ان میں طاقت نہیں ہوتی۔ خراماں خراماں چند قدم چلنا ان کی معراج ہوتاہے۔ پس ان کی عادتوں کو بدلنا‘ ان میںسپاہیانہ دلیری‘ مہذہب بہادری‘ شائستہ جرات پیدا کرنا‘ محنت و مشقت کا عادی کرنا‘ ریاضت جسمانی میں ان کو ڈالنا۔ ان کی صحت کو درست کرنا۔ یہ سب وہ کام ہیں جو ایک باعز ت قوم کے لیے ہونے چاہیئں جیس اکہ ہم اپنی قوم کو بنانا ضرور سمجھتے ہیں۔ اگر ہماری یہ خواہش ہو کہ ہم تعلیم سے اسی قدر مطلب سمجھیں کہ چارپائے برکتائے چند صاف کہیے کہہ میں نے غلط کہا۔ بردو پائے بود کتابے چند۔ تو ہم نے اپنی قوم کے ساتھ کچھ سلوک نہ کیا ہو گا۔ مسلمان تمام ہندوستان میں پھیلے ہوئے ہیں اگرچہ گورنمنٹ نے اپنی مہربانی سے اور مشنریوں نے اپنے خیال مذہبی سیجابجا مدرسے قائم کیے ہیں اور ان میںکچھ مسلمان پڑھتے ہیں۔ مگر ان مدارس میں مسلمانوں کی تعداد بہت قلیل ہے اور دیگر اقوامکی زیادہ کثرت ہے۔ دیگر اقوام کی کثرت سے مسلمانوں کی قومی فیلنگ دبی رہتی ہے۔ ان میں مل کر تعلیم پانے س کبھی ان میں قومی فیلنگ پیدا ہو نہیں سکتی۔ تعلیم میں بھی ایک کو دوسرے سے اعانت نہیں پہنچتی۔ ایں ازاں دورو آں ازیںنفور۔ طرز معاشرت باہم مختلف۔ ایک کی ضروریات دوسرے کی ضروریات سے مبائن اور اس سبب سے مسلمانوں کو ان کالجوں میں کوئی ذریعہ اپنی تعلیم کو ترقی دینے کا اور اپنی قومی فیلنگ کو بڑھانے کا بلکہ اس کو قائم رکھنے کا نہیں ہے۔ پس ان مدارس میں تعلیم پانے سے کبھی توقع نہیں ہو سکتی۔ کہ ہماری قوم قوم بن سکے گی۔ دیکھو ان طالب علموں کی فیلنگ کو جو اور قوموں کے ساتھ بڑھتے ہیں اوران طالب علموں کو فیلنگ کی جو اپنی قوم کے طالب علموں کے ساتھ ملے ہوئے پڑھتے ہیں اور اپنی قوم کے نوجوانوںکے ساتھ مل کر رہتے ہیں۔ یہ سچ ہے کہ ہم تمام ہندوستان کے مسلمانوں کو ایک جگہ یا ایک کالج میں جمع نہیں کر سکتے اور یہ بھی کہا جاتا ہے (جس کو میں صحیح نہیں سمجھتا) کہ ہم یہ بھی نہیں کر سکتے کہ مختلف صوبوں میں ایسے اعلیٰ درجہ کے کالج بنا سکیں جو مسلمانوں کی ضروریات او ر ان میں قومی فیلنگ پیدا کرنے کے لیے مناسب ہوں مگر ان خیالات کے سبب ہاتھ پر ہاتھ دھر کے بیٹھ رہنا قوم کے قوم بنانے کی تدبیر کو چھوڑ دینا بزدلی اور جوش قومی نہ ہونے کی دلیل ہے۔ اگر ہم ایک کالج بھی ایسا بنا لیں جس میںہم اپنی قوم کے بچوں کو اس طرح پر تعلیم و تربیت دے سکیں جیسی دینی چاہیے تو بلاشبہ اس میں ایک محدود تعداد ہو گی مگر اس محدود تعداد کا اس قسم کی تربیت پانا قومی ففلاح کی نشانی اور قومی ترقی کے ستارہ اقبال کے طلوع ہونے کی علامت ہو گی۔ یہی محدود تعداد جب اس قسم کی تعلیم پا کر نکلیںگے اورملک کے مختلف حصو ں میں پھیلیں گے تو وہ قومی ترقی کے لیے بہ منزلہ خمیر کے ہوںگے اور قومی باغ کے لیے بہ منزلہ تخم کے اور امید ہے کہ ان سے ایسے سرسبز و بار آور درخت پیداہوں گے جس کی نسبت مجھ کو قرآن مجید کے چند الفاظ تلاوت کر دینے کافی ہیں: کزرع اخرج شطاہ فازرہ فاستغلظ فاستویٰ علیٰ سوقہ یعجب الزراع (یا اللہ ارجومنک ان یکون ہکذا) اس موقع پر میں دو لفظ اپنے کالج کے لڑکوں کو مخاطب کر کے کہنا چاہتا ہوں ۔ اے طالب علمو! جو تم ا س ھال میں جمع ہو سن لو اور سمجھ لو کہ مجھ کو تم سے کیا توقع ہے۔ اگر تم نے میری توقعوں کو پورا نہ کیا تو افسوس تم پر اور افسوس مجھ پر اور افسوس قوم پر۔ لوگ شکایت کرتے ہ یں کہ انگریزی تعلیم سے طالب علموں کی عادات اور اخلاق خراب ہو جاتے ہیں اور آزادی ان میں سما جاتی ہے۔ بڑوں کاادب‘ ماں باپ کا ادب‘ ان کی عزت‘ ان کی فرماں برداری‘ ان میں سے جاتی رہتی ہے۔ اگرچہ مجھ کو ایسے لوگوں سے واسطہ نہیں پڑا کیوں کہ میں اپنے کالج کے طالب علموں کو ایسا نہیں پاتا۔ وہ نہایت مہذب اور بزرگوں اور استادوں کا ادب کرنے والے ہیں۔ لیکن بالفرض اگر یہ شکایت صحیحہے تو ی اس حالت کہ چار مسلمان بچے لاہور میں اور چار کلکتہ ممیں اور چار بمبئی میں اور چار مدراس میں اور کچھ مشنری کالجوں میں پڑھتے ہوں۔ اوریہ بھی فرض کرو کہ وہ استاد ان کے تربیت پر بھی خیال رکھتے ہوں تو ایک دو گھنٹہ ان کو استاد کے سامنے شیکسپئیر یا ناول یا ہسٹری یا فسلفہ پڑھ لینا اور اس کے بعد شہر کے بازاروں اور گلیوں میں پھرنا جن میں سامان بدتہذیبی بہ نسبت زمانہ سابق کے کثرت سے موجود ہے اور بہ نسبت سابق کے سہل الوصول اور ارزاں ہے۔ اور کسی مہذب سوسائٹی کا ان کو میسر نہ آنا۔ اس نقصان کو جس کی شکایت کی جاتی ہے رفع نہیں کر سکتا۔ پس اے دوستو! اگر یہ شکایت حقیقی ہے تو آپ کو جو فلاح قومی اور اپنے بچوں کے مہذب ہونے کے خواہاں ہو غور کرنا لازم ہے کہ یہ شکایت کیوں کر رفع ہو سکتی ہے۔ اس سے بھی زیادہ خطرناک اور ناسمجھی بلکہ نادانی کی آزادی ہے جو میںیقین کرتاہوں کہ ہمارے کالج کے طالب علموں نے نہیں بلکہ دوسرے کالج کے طالب علموں نے خواہ وہ گورنمنٹ کالجوں کے ہوں یا مشنری کالجوں کے اختیار کی ہے۔ اس سے میر ی مراد وہ پولیٹیکل ایجیٹیشن ہیں جو انگریزی خواں طالب علموں نے گورنمنٹ کے مقابلہ میں جس کے سایہ عاطفت میں ہم بآرام زندگی بسر کرتے ہیں اور جس سے پر امن زمانہ میں ہم اپنی قوم کو ہر طرح کی ترقی دے سکتے ہیں اختیار کیے۔ یہ نوجوان انگریزی خواں ایک ہلدی کی گرہ پا کر پنساری ہونے کے مدعی ہیں نہ پالیٹکس کے اصو ل سے واقف ہیں نہ اس پر غور کی ہے نہ دوسرے ملکوں کے حالات سے واقف ہیں نہ ان کو کبھی دیکھا ہے اور بے سود باتوں اور گورنمنٹ کی پالیسی کی مخالفت میںسرگر م ہو گئے ہیں اور میں کامل یقین سے کہتا ہوں کہ ایسے ایجیٹیشن ملک کے لیے اور مسلمانوں کی قوم کے لیے نہایت مضر بلکہ قوم کو برباد کرنے والے ہیں ہمارے نوجوان مسلمانوں کے لیے نہ کوئی ایسی سوسائٹی ہے جو ان کو اس غلطی سے آگاہ کرے نہ ان کو کوئی نصیحت کرنے والا اورسمجھانے والا ہے ۔ پس آپ نے کیا تدبیر سوچی ہے اور کیا طریقہ اختیار کیاہے اور کیا طریقہ اختیار کر سکتے ہیں جس سے ہماری قوم کے بچے اس وبا سے محفوظ رہیں۔ کیا قوم کو متفرق رکھنے اور متفرق جگہ تعلیم دینے سے ایسا ہو سکتا ہے۔ہاشا و کلا۔ اس سے بھی زیادہ ایک اور خطرناک امر ہے جو مسلمان انگریزی خواں طالب علموں کی نسبت کہا جاتاہے کہ وہ انگریزی پڑھ کر عقائد مذہبی سے برگشتہ یا ان میں مذبذب اورفرائض مذہبی ادا کرنے میں سست ہو جاتے ہیں۔ پچھلی بات اگرچہ افسوس کے قابل ہے مگر میں اس کی خصوصیت انگریزی خواں مسلمانوں کے ساتھ نہیں کر سکتا۔ کیوں کہ میں یہ دیکھتا ہوں کہ جو نوجوان مسلمان انگریزی خواں نہیں ہیں وہ بھی فرائض مذہبی اداکرنے میں کچھ چست نہیں ہیں۔ خیر اس کا کچھ ہی سبب ہو مگر زیادہ خطرہ کی بات پہلا امر ہے یعنی عقائد مذہبی سے برگشتہ ہونا یا ان میںمذبذب ہو جانا۔ اس کا اصلی سبب علوم جدیدہ کا شائع ہونا ہے اور جو کہ انگریزی خواں طالب علموں کو ان علوم جدیدہ سے زیادہ واقفیت کا موقع ہے اس لیے یہ کہنا کہ انگریزی پڑھنے سے عقائد میں فرق آ جاتا ہے کچھ بیجا نہیں ہے مگر اتنی بات میں ضرور کہوں گاکہ بہ نسبت دیگر امداردس کے ہمارے مدرسۃ العلوم میں یہ بیماری بہت کم ہے۔ لیکن اے دوستو! اس معاملہ میں کمی و بیشی پر خیال کرنا بیجا ہے بلکہ ہماری قوم کو اس کے جڑ سے اکھاڑنے کی تدبیر کرنی واجب بلکہ فرض ہے۔ یہ آفت کچھ نئی نہیں ہے بلکہ جب فلسفہ یونانی مسلمانوں میںپھیلا تھا اس وقت بھی یہ مشکل پیش آئی تھی کہ جس کے سبب اس زمانہ کے علماء نے علم کلام ایجاد کیا تھا۔ پس ہم جو اس کا الزام اپنے نوجوان انگریزی خواں طالب علموں کو دیتے ہیں وہ ٹھک نہیں ہے۔ بلکہ دراصل وہ الزام اس زمانہ کے علماء پر ہے جو فلسفہ جدید کے مقابلہ میں کوئی علم کلام پیدا نہیں کرتے۔ حال ہی میں اس ربیع الاول گزشتہ کے مہینے میں بہ موقع مجلس میلاد شریف کے ایک بڑے علم مصری محمد روحی آفندی نے ان مسلمان طالب علموں کے سامنے جو یورپ میں اور خصوصاً فرانس میں تعلیم پاتے ہیں ایک اسپیچ دی ہے جس کے چند فقرے آپ کے سامنے پڑھتا ہوں۔ انہوںنے بیان کیا ہے کہ ’’جس امر ضروری کی طرف میںنے اشارہ کیا ہے اور جس کے لیے یہ سب کچھ بہ طور مقدمہ اور تمہید کے تھا وہ یہ ہے: اول تو یہ کہ بلاد اسلامیہ کے رہنے والوں نے جن کو اس انیسویںصدی کے حالات اور سویلزیشن کی حقیقت پر اطلاع نہیں ہے ان طلباء کا ممالک یورپ کو جانا پسند نہیں کیا۔ اور ان ملکو ں میںجو اسلامی نہیں ہیں ان کا تحصیل علم کرنا ان کو ناگوار ہوا۔ اور ان کو حقارت اور ذلت کی نگاہ سے دیکھنے لگے۔ حتیٰ کہ بعض نے تومعاذ اللہ ان پر کفر کے فتوے لگائے ۔ یہ لوگ مسلمانوں کی ترقی اروموجودہ تحریک کے در راہ ہو گئے اور انہوں نے ذرا بھی نہ سوچا کہ اس حدیث کا کیا مطلب ہے جو آنحضرتؐ سے منقول ہے جس کا ماحصل یہ ہے کہ علم کی تلاش کرو اگرچہ وہ چین میں ہو۔ ملک چین تو اس وقت اہل کتاب کا بھی ملک نہ تھا۔ بلکہ محض بت پرستوں اور مشرکوں کا ملک تھا۔ اوریہ ایک حدیث مضمون یہ ہے کہ حکمت مومن کی گم شدہ چیز ہے جہاں اس کو پائو حاصل کرو۔ اور اسی طرح بہت سی احادیث نبوی و آثار شرعی مرعی و منقول ہیں جو میرے دعویٰ کے ثبوت میں گواہ ہیں۔ دوم یہ کہ بعض طلباء دین اسلام کے حقائق سے آگاہ نہیں ہیں نہ ان حکمتوں اور باریک معانی کو سمجھتے ہیں جو مذہبی الفاظ کی تہ میں پوشیدہ ہیں ۔ نہ ان علماء سے دریافت کرتے ہیں جو ان کے ذہنی شبہات کو رد کرنے اور ان کی غلطیوں اور کم زور خیالات کو دور کنے پر قادر ہیں۔ بلکہ انہوں نے صرف ایسے چند قصوں اور کہانیوں پر قناعت کی ہے۔ جو ان لوگوں سے سنی سنائی ہیں جن کو چوڑی آستینوں اور برے بڑے عماموں کے لحاظ سے تو البتہ علماء سے مشابہت ہے مگر حقیقت میں وہ تعصب اور جہالت میں گرفتار ہیں۔ انہیں لوگوںنے اسلام کے دائرہ کو تنگ کیا ہے اور اس چند در چند مشکلات پیدا کر دی ہیں۔ اور کتب دین کے مطالعہ کرنے اور علماء دین کی پندو نصیحت سننے سے ان کو نافر اور بے توجہ کر دیا ہے جس سے معاذ اللہ یہ گمان فاسد پیدا ہوا ہے کہ اسلام حقائق ادلہ کے برخلاف ہے اور ترقی تمدن کا مخالف ہے۔ اور عالم مسلمان محض مقلد ہے جو نقل پر کفایت کرتا ہے اور عقل سے ذرا بھی کام نہیں لیتا‘‘۔ پھر انہوں نے کہا کہ’’ میں ان طلباء کو جن کا میں نے ذکرکیا معذور سمجھتا ہوں کیوں کہ وہ ایسے اشخاص سے تعلیم پاتے ہیں جن کو مذہبی حقائق کی ذرا بھی خبر نہیں ہے علوم عالیہ سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد ان کو ہرگز ایسے شخص سے ملنا نصیب نہی ں ہوتا جو اس مذہب مقدس کی حکمتیں ان کو سمجھائے اور ان کے عقلی و فلسفی شبہات کو رفع کرے نہ ان کو ایسی کتابوں کیمطالعہ کی قدرت ہے جو خاص اس مضمون پر لکھی گئی ہیں۔ کیوں کہ ان کتابوں کا مضمون مشکل اور پیچیدہ ہے ۔ ان کے سمجھنے کے لیے برسوں کی محنت درکار ہے اور سب سے ادنی ٰ بات تو یہ ہے کہ ان کو عربی زبان اور علمی اصطلاحات سے بھی آگاہی نہیں ہے (انتہی) میں نے ابتدا سے یعنی جب سے کہ زبان انگریزی و علوم جدیدہ کے مسلمانوں میں رائج ہونے کی کوشش کی اس بات کی خواہش کی تھی کہ ہمارے زمانے کے علما ء اس امر مشکل پر متوجہ ہوں اور علوم جدیدہ کے مقابلے میںعلم کلام پیداکریں مگر افسوس ہے کہ کسی نے اس پر توجہ نہیں کی ہے۔ تھوڑے دن ہوئے کہ ایک بڑا مجمع علمائے دین کا کانپور میں جمع ہوا تھا جو ندوۃ العلماء کے نام سے مشہور ہے میں نے اس مجلس متبرکہ کے سیکرٹری کو ایک خط لکھا اس کے فقرے آپ کے سامنے پڑھتا ہوں ۔ اس میں میںنے لکھا ہے کہ ایک اور امر جو سب سے ضروری ہے اور مقدم ہے۔ میںآپ کی خدمت میں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ایک زمانہ مسلمانوں پر ایسا گزرا ہے کہ جس میں بجز تحصیل علوم دین کے اور کسی علم سے سروکار نہ تھا۔ جس کے سبب دین کی ہزاروں کتابیں‘ حدیث ‘ تفسیر ‘ فقہ‘ اسماء رجال‘ اصول حدیث‘ اصول فقہ وغیرہ‘ موجود ہو گئیں۔ اس کے بعد ایک زمانہ آیا۔ جس میں حکمت و فلسفہ یونان کا مسلمانوں میں رواج ہوا اوراس کے سبب سے عقائد مذہبی میں بہت کچھ خلل واقع ہوا یا واقع ہونے کا اندیشہ ہوا۔ اس وقت علماء نے مذہب اسلام کی تائید پر کمر باندھی اورعلم کلام ایجاد کیا۔ اور اسلام کی نصرت کی۔مگر اب وہ زمانہ بھی گیا اور جدید فلسفہ اور جدید حکمت اور جدید علوم حکمیہ پیدا ہو گئے اور اس کے مسائل اور جو جو تحقیقات علوم طبعی کی اس میں ہوئی ہے وہ بہت زیادہ مختلف مسائل موجودہ اسلام کی ہے اور ان جدید علوم کا روز بروز زیادہ شیوع ہوتا جاتا ہے اور کسی کے بند کرنے سے بند نہیں ہو سکتا۔ اگلے زمانے میں عالموں نے بھی حکمت اور فلسفہ یونان بلکہ منطق پڑھنے کو بھی حرام قرار دیاتھا۔ مگر اس سے کچھ نتیجہ نہیں ہوا۔ ہزاروں لاکھوں آدمیوں نے اس کو پڑھا اور لاچار خود علماء نے اس کی تحصیل کی اور علم کلام ایجاد کیا۔ جو مسائل حکمت و فلسفہ و طبیعیات کے علوم جدیدہ کے ذریعہ پیدا ہوئے ہیں ان کے لیے وہ علم کلام جو یونانی فلسفہ و حکمت کے مقابل بنایا گیا تھا کافی نہیںہے۔ او ر تفاسیر قرآن مجید اور تفاسیر حدیث شریف اور دیگر کتب مصنفہ اہل اسلام میں اس کے متعلق کچھ پایا نہیں جاتا اور اس سبب سے الحاد و زندقہ مسلمانوں میںپھیلتا جاتا ہے جو نہایت سخت وبا ہے جس کی روز بروز ترقی ہو نے کی امید قوی ہے پس اس کا کیا علاج ہے۔ امید ہے کہ آپ میرے اس عریضہ کو ندوۃ العلماء کے سامنے پیش فرماویں گے اور جو ہدایت علماء کی اس باب میں ہو اس کو مشتہر فرماویں گے تاکہ مسلمان اس آفت سے جس کی پناہ کسی جگہ معلوم نہیںہوتی محفوظ رہیں۔ والسلام مگر میں یہ سمجھتا ہوں کہ کسی مصلحت سے یہ خط علماء کرام کے سامنے پیش نہیں ہوا۔ ان امور کے بیان کرنے سے میرا مقصد بجزاس کے اور کچھ نہیں ہے کہ جو حالات قوم کے ہیں وہ آپ کے سامنے بیان کروں اوریہ ظاہر کروں کہ اس باب میںآپ یا ہم یا ہماری قوم جب تک کہ زمانے کے علماء بھی اس پر متوجہ نہ ہوں کچھ نہیں کر سکتے مگر بایہنمہ ہم کو سوچنا چاہیے کہ جو ہم کر سکتے ہیں وہ کیا ہے بجز اس کے اور کچھ ہمارے اختیار میں نہیں ہے کہ ہم ان طالب علموں پر نمازپڑھنے کی ‘ روزہ رکھنے کی‘ تاکید کریں۔ ان کے نماز روزہ رکھنے کے لیے جو ضروریات ہیں ان کو مہیا کریں اور اس سے بڑھ کر یہ کر سکتے ہیں کہ ہم کسی لائق عالم کو ان کی نصیحت اور ان کے امور دینی کی حفاظت کے لیے مقرر کریں تاکہ وہ اپنے وعظ و نصیحت سے ان کے عقائد اور ان کے خیالات فاسد کو اگر وہ اپنے وعظ و نصیحت سے ان کی قواعد اور ا کے خیالا ت فاسد کو اگر وہ درست کر سکتا ہے درست کرے۔ مذہبی تعلیم کو جس قدر ہو سکے ان کے کورس تعلیم میں داخل کر دیں اور ان تمام امور کے اہتمام کو ایک جزو تعلیم کا قرار دیں جیسے کہ آپ دیکھتے ہیں کہ مدرسۃ العلوم میں ان تمام امور کا اہتمام جیسا کہ ممکن ہے ہوتا ہے۔ قوم کو اگر قومی ترقی اسی طرح کی منظور ہو تو یہ بھی ہو گا کہ جو مسلمان نوجوان کالج میں رکھے جاویں وہ عمدہ ہوں اگر عمدہ نہ ہوں تو متوسط حالت کے رکھے جاویں۔ ان کے رہنے کے مکانات صاف اور درست ہوں ۔ ان کو پاکیزہ اور صاف لباس پہننے کی عادت ڈال جاوے۔ سلیقہ سے رہنا۔ اپنے رہنے کے مکان کو درست رکھنا ان پرلازم کیا جاوے۔ سب کا اگر ممکن ہو ایک سی حالت میں رہنے کی تدبیر کی جاوے۔ کھانے کا انتظام ایسی طرح پر ہو کہ ان کو کھانے کا آپس میں دوستانہ اور برادرانہ طریقہ سے مل کر کھانا آ جاوے۔ جو ایک بڑی تدبیر قومی موانست قومی یگانگت کی ہے۔ مگر بعض لوگوں کی رائے اس کے برخلاف ہے وہ کہتے ہیں کہ ایسی مہذب عادتیں طالب علموں میں نہ ڈالی جاویں۔ کیوں کہ جب وہ کالج سے نکلیں گے تو ان کی قسمت میں ایک قلی کے طور پر رہنا ہے اور وہ ایسی اچھی طرح پر کیوں کر رہ سکیں گے۔ وہ لوگ ان تمام تدبیروں سے جو ان نوجوان مسلمانوں کو مہذبانہ طریق سے رہنے کی سکھائیجاویں اس بات کو زیادہ پسند کرتے ہیں کہ غریب مفلس آدمیوں کو جس طرح کہ مسجدوں یا خیرات خانوں میں یا خیراتی سکولوںمیںرہتے ہیں یا جس طرح مدرسہ عالیہ جامع ازھر مصر میں طالب علموں کو ایک گلی مٰں کھڑا کر کے ان کے ہاتھو ں میں دو دو یا تین تین خمیری روٹیاں رکھ دی جاتی ہیں اسی طرح یا اس کی مثل سستا آسان طریقہ اخراجات تعلیم کا اختیار کیا جاوے تاکہ کثرت سے غریب آدمی بھی تعلیم پا جاویں۔ اگر ا س طریقہ سے قوم قوم بن سکتی ہے۔ اگر اس طریقہ سے مسلمان بچوں میں آدمیت ‘سلف رسپیکٹ پیدا ہو سکتی ہے اگر تم اس بات کو پسند کرتے ہو کہ تمہارے بچے اس طرح پر تعلیم پاویں اور تعلیم کے ساتھ ذلت کی زندگی وہ کمالے جاویں تو بہتر مگر میری رائے میں تو اس طریق سے کوئی قو م معزز نہیں بن سکتی جو لو گ اس طرح پر تعلیم دینا چاہتے ہیں ان کو مناسب ہے کہ خیراتی سکول و کالج کھولیں مگر یہ نہیں ہو سکتا کہ جو بچے قوم کے بننے کے لائق ہیں ان کو بھی ان کے ساتھ ملا کر جن سے کچھ توقع نہیں ہے برباد کر دیا جاوے۔ اخراجات تعلیم کی شکایت کرنے کی لوگوں کو جب قومی جتلانے کی غرض سے عادت پڑ گئی ہے۔ طالب علموں کے مربیوں کو اپنی اولاد پرتعلیم پر روپیہ خرچ کرنے کی عادت نہیں ہے۔ ورنہ وہ ایسے مفلس نہیں ہیں کہ اولاد کی تعلیم پر روپیہ خرچ نہ کر سکیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ وہی جن پر اولاد کی تعلیم پر روپیہ خرچ کرنا گراںگزرتا ہے دیگر رسمیات اور فضول باتوں میں کس قدر روپیہ خرچ کرتے ہیں ۔ فضول اخراجات اوربے ہودہ رسوم میں روپیہ قرض لیتے ہیں۔ جائدادیںگروی کرتے ہیں مگر اولاد کی تعلیم پر خرچ کرنا نہیں جانتے۔ اے دوستو! وہ زمانہ گیا جب طالب علم مسجدوں کے حجرں میں رہ کر اور فاتحہ درود کی ہیا کسی لنگر خانہ کی روٹیاں کھا کر عالم ہوتے تھے اب تو جب تک ان کے مربی اپنے فضول اور لغو اخراجات بند نہ کریں اور اپنی اولاد کی تعلیم وتربیت پر خرچ نہ کریں۔ اس وقت تک ان کی اولا د کو نہ تعلیم ہو سکتی ہے نہ تربیت۔ میں نے آپ کے سامنے قوم کا واقعی اورمفصل حال بیان کیا ہے۔ میں یقین کرتا ہں کہ آپ کو اپنی قوم کی ترقی تعلیم اورعمدہ تربیت کی خواہش ہے۔ میں آپ سے یہ نہیں چاہتا کہ آپ اس وقت کوئی تدبیر بناویں بلکہ یہ چاہتا ہوں کہ آپ ان حالات پر غور کریں اور اپنی فرست کے گھنٹوںمیں سوچیں کہ قوم کو ایک معزز قوم بنانے اور ان کی تعلیم و تربیت کرنے کی کیا تدبیر ہے۔ اورجو بہتر سمجھیں ویسا کریں وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین والصلوۃ والسلام علی جدی محمد رسول اللہ الذین ہدانا الی الایمان و اخرجنا من الظلمات الی النور و رفعنا من قعر الذلۃ الیٰ اعلیٰ الدرجۃ فی الدین والدنیا والآخرۃ وعلی آلہ واصحابہ اجمعین ٭٭٭ ترقی کے اصول اورتنزل کے وجوہ (دسمبر ۱۸۹۶ئ) اگرچہ بعض قابل ادب بزرگوں کا مقولہ ہے کہ وہ قوم نہایت بدنصیب ہے جس کی گزشتہ زمانے کی تاریخ قابل یاد رکھنے کی ہو اور اس کو یاد نہ ہو۔ اورہو قوم نہایت خوش نصیب ہے ج سکی گزشتہ زمانے کی تاریک یاد رکھنے کے قابل ہو اور قوم نے اس کو بھی یاد رکھا ہو۔اس میں کچھ شبہ نہیں کہ ہماری قوم کی گزشتہ زمانے کی تاریخ یاد رہنے کے قابل ہے مگر دو وجہ سے میں اس کا ذکر کرنا نہیں چاہتا۔ اول: اس لیے کہ ہماری قوم کے تنزل کو ابھی کچھ بہت عرصہ نہیں گزرا اور قوم کی تاریخ کی شان و شوکت کے نشان ہندوستان میں ‘عرب میں‘ افریقہ میں‘ یورپ میںسب جگہ موجود ہیں اور ابھی تک مٹے نہیں۔ دوسرے: یہ کہ جب ہم خود نالائق و ناخلف ہیں تو ہم کو اپنے بزرگوں کی شان و شوکت پر فخر کرنے اور استخوان جد فروش ہونے سے کیا فائدہ ہے مثل مشہور ہے کہ ذکر جوانی در پیری و ذکر تونگری در فقیری راست نیابد۔ اگر یہ خیال ہو کہ ہم کو اپنے بزرگوں کی تاریخ یاد کرنے سے کچھ عبرت اور اپنی حالت درست کرنے پر کچھ رغبت ہو گی تو اس کی بھی کچھ توقع نہیں ہے ۔ آج دس برس ہوئے کہ محمڈن ایجوکیشنل کافرنس بھی برابر یہی مضمون نظم و نثر میں گایا جا رہا ہے مگر کچھ فائدہ نہیں ہوا۔ بلکہ ہمارے خواب غفلت کے لیے وہ قصے بہ طور لوری کے ہو گئے ہیںَ پس مناسب ہے کہ ہم ان خیالات کو چھوڑ دیں اورموجودہ زمانے کے حالات پر غور کریں اور موجودہ زمانے کے حالات کے موافق اگر کچھ ہو سکے تو اپنی قوم کی بھلائی میں کوشش کریں۔ یہی بہتر اور شاید مفید ہو ۔ اگر چہ اس کے بھی مفید ہونے کی بہت کم توقع ہے ۔ ہمارے ایک معزز دوست کا قول ہے کہ اچھلا ہوا پتھر جب تک زمین پر نہیںگر لیتا بیچ میں نہیں ٹھہرتا یہی حال ہماری قوم کے تنزل کا ہے۔ جب تک کہ نہایت خوار و ذلیل نہ ہو جاوے گی اور بدترین درجے تک نہ پہنچ جاوے گی اور خاک مذلت سے نہ ٹکرا جاوے گی۔ بیچ میںدم نہیں لینے کی۔ہم تو اس انتظام پر بھی راضی ہیں کہ ٹکرا کر کچھ اچھلے۔ مگر افسوس اور صد افسوس کہ ہم کو ٹکرا کر اچھلنے کی بھی توقع نہیں ہے۔ اس لیے ہمارا یہ انتطار بھی گووہ ایسا ہی مشکل اور بے سود ہے کیوں کہ وہ وقت اچھلنے کااورسنبھلنے کا اگر وہ چاہے بھی تو باقی نہیں رہے گا اور غالب کا یہ شعر صادق آئے گا : ملنا ترا اگر نہیں آساں تو سہل ہے دشوار تو یہی ہے کہ دشوار بھی نہیں پس موجودہ زمانے پر غور کرو اور جو اس کا مقتضی ہو اسکے مطابق کام کرو شاید کچھ بہتری ہو۔ سب سے اول ہم کو اس حکومت پر غور کرنا ہے جس کے سایہ عاطفت میں ہم تم رہتے ہیں۔ جو امن و امان اور جانی اور مالی اور مذہبی آزادی انگریزی حکومت میں ہم کو اورتم کو حاصل ہے ۔ اس سے بہتر اور عمدہ کسی عہد کے کسی زمانے میں نہیں دیکھتے۔ زمانہ سابق کے سے مظالم۔ زبردست کی زیر دست پر دست درازی کا اب وجود نہیں ہے ہر ایک شخص اور ہر ایک قوم اپنی مالی و دماغی ہر قسم کی ترقی جہاں تک وہ چاہے کر سکتی ہے ۔ علمی ترقی کو تجارت کو اس کی ترقی کو کوئی امر مانع نہیں ہے بلکہ تجارت کے راستے کھلے ہیں دور دراز ملکوں کا سفر ایسا آسان ہو گیا ہے جو کسی کے خیال میں بھی نہیں تھا۔ تجارت کی ترقی کے لیے ہر ایک ملک کی خبر آنی ایسی سہل ہو گئیہے کہ اس وقت تم اپنی جگہ سے اٹھنے بھی نہ پائو گے کہ اورجس ملک کی خبر چاہو منگا لو پس جو امر اگلے زمانے میں بادشاہوں کو بھی نصیب نہ تھا وہ ادنیٰ سے ادنیٰ آدمی کو میسر ہے۔ اس پر امن وقت کی ہم کو اس لیے قدر نہیں ہے کہ ہم نے وہ شہر آشوب زمانہ نہیں دیکھا جس میں خانہ جنگیاں ہوتی تھیںمسافر رستے میں لوٹے جاتے تھے۔ جب کوئی سفر کرتا تھا تو اس کے عزیز و اقارت بہ چشم پرنم اس خیال سے رخست کرتے تھے کہ دیکھیے پھر اس کو صحیح و سالم واپس آنا بھی نصیب ہوتا ہے یا نہیں۔ قافلہ اور ہتھیار بند سپاہیوں کے بغیر ایک جگہ سے دوسری جگہ جانا دشوار تھا۔ اس ماحول میں آنکھ کھول کر انگریزی حکومت کے سوا دوسری حکومت نہیںدیکھی اس لیے کچھ عجیب نہیں ہے کہ وہ اس نعمت کی کچھ قدر نہ کرتے ہوں مگر اب تک اگلی حکومتوں کی کہاوتیں اور قصے ہزاروں آدمیوں کو یاد ہیں اور تاریخ کی کتابوںمیںبھی ان کا پتہ لگتا ہے پس میری نصیحت ہے کہ اس وقت کو غنیمت سمجھو اور اپنی قوم کی بھلائی میں ترقی میںکوشش کرو۔ جب سلطنت ہمارے ہاتھ میں تھی اس وقت کی ترقی کی دوسری صورت تھی مگر زمانہ موجود ہ میں ترقی کی دوسری صورتہے۔ سر آکلینڈ کالون لیفٹیننٹ گورنر سابق کا نہایت عمدہ مقولہ ہے ہ اگر خاندان تیمور کی تلوار علیحدہ رکھ دی گئی ہے تو وہ قوت اور استقلال‘ شجاعت اور ہمت باقی رہنا چاہیے جنہو نے اس تلوار کو اس قدر تیز کر دیا تھا۔ آج کل کے مسلمانوں کو اپنے آبا و اجداد کی تیز اور جوش والی طبیعت کی ضرورت نہٰں ہے بلکہ ان اوصاف حمیدہ کی ضرورتہے جس نے اس تیز اور جوش والی طبیعت کو ان کے زمانے کے لوگوں پر غلبہ دیا تھا۔ اب ان اوصاف حمیدہ کا رخ حصول کامیابی کے لیے دوسری طرف پھیر دینا چاہیے۔ بہرحال جہاں تک میرا خیال ہے میں اس بات میں سب کو متفق پاتا ہون کہ مسلمان نہایت رنزل کی حالت میں ہیں ان کو ترقی کرنی چاہیے مگر ترقی کی کیا صورتہے۔ اس باب میں البتہ مختلف رائے ہیں۔ بزرگان دین سمجھتے ہیں کہ مذہبی تعلیم کو بہت تنزل ہو گیا ہے اور مذہبی پابندی کم ہو گئی ہے۔ اسی کی ترقی سے قوم کو ترقی ہو گی۔ اگر اس ترقی سے روحانی ترقی مراد ہے تو میں اس ک تسلیم کرتا ہوں مگر اس وقت جو ہم کو بحث ہے وہ دنیاوی ترقی سے ہے۔ اے دوستو! یہ مت سمجھو کہ دنیوی کہنے سے میں نے اسلامی ترقی سے قطر نظر کی ہے۔ حاشا وکلا۔ میںسمجھتا ہوں کہ دنیوی حالت مٰں بھی اگر مسلمانوں کی ذلیل حالت ہو جاوے گی تو خود اسلام کی بھی رونق جاتی رہے گی۔ پس دنیوی ترقی کے ساتھ جب کہ وہ نیکی اورایمان داری سے کی جاوے اسلامی ترقی بھی لازم و ملزوم ہے مجھ کو خوف ہے کہ خدانخواست مسلما ن بھی ضربت علیم الذلۃ والمسکنۃ کے مصداق نہ ہو جاویں ہر ایک مسلمان پر فرض ہے کہ وہ اپنے مذہبی عقائد اور ضروری مسائل نماز روزہ ‘ حج زکوۃ سے واقف ہو ۔ جو لوگ قوم کی بھلائی کے درپے ہیں اور دنیای علوم کو اپنی قوم میںترقی دینا چاہتے ہیںان کا فرض ہے کہ مسلمانوںکو مسلمانی عقائد اور ضروری احکام نماز و روزہ ‘ حج و زکوۃ کی تعلیم دیں ۔ یہی نعمت ان کو دوسری دنیا میں جنات دلانے والی ہے او عذاب علیم سے آڑے آنے والی ہے مسلم اور بخاری میں ایک حدیث ہے کہ ایک شخص رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میںحاضر ہوا اور عرض کیا کہ مجھ کو ایسا عمل بتا دیجیے جس کے کرنے سے میں جنت میں داخل ہوں۔ آنحضر ت نے فمرمایا کہ خدا کی عبادت کرنا ارو اسکے ساتھ کسی کو عبادت میں شریک نہ کرنا نماز پڑھا‘ زکوۃ دینا رمضان شریف کے روزے رکھنا‘ اس شخص نے کہا مجھے اس خدا کی قسم ہے جس کے ہات میں میری جان ہے میں اس پر نہ کچھ بڑھائوں گا اورنہ کم کروں گا۔ جب وہ چلا گیا تو رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص جنتی آدمی کو دیکھ کر خوش ہونا چاہے وہ اس شخص کو دیکھ لے۔ پس آخرت کا رستہ ہمارے لیے بہت سیدھا اورصاف ہے اورجدی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا کہ علیٰ رغم انف ابی ذر۔ ہمارے دل کو تسلی دینے والا ہے۔ جو کچھ مشکل ہے ہم کو اس دنیا میں ہے گو وہ چند روزہ ہے مگر اس کم بخت روزہ دن ہی کو بسر کرنا ٹھیک ہو گیا ہے۔ اب وہ زمانہ نہیں رہا ہے کہ جس میں ایک خیالی اور فرضی غیر واقعی مضمون کو چکنے چپڑے لفظوں میں نظم کرنے سے بہت بڑا صلہ مل جاتا تھا۔ یا بغیر استحقاق کے جاگیریں حاصل ہوتی تھیں یا کسی حیے سے مدد معاش مل جاتی تھی یا بغیر لیاقت کے بڑے برے عہدے ملنے کی توقع تھی یا زیردستوں کی محنت اپنے جاہ و حشم کے لیے چھین لی جاتی تھی اب وہ زمانہ ہے کہ جب تک جوہر لیاقت اپنی ذات میں پیدا نہ کرے دنیا میں فلاح کی صورت نہیں دیکھسکتا۔ اے دوستو! بڑی مشکل تو یہ ہے کہ اگر قوم میں سے دو چار دس پانچ شخصوں نے اپنی ذات مٰںجوہر لیاقت پیداکر لیا ہے تو اس سے بھی کچھ فائدہ نہیں اور قوم وحشی و نالائق ہونے کے خطاب سے بری نہیں ہو سکتی اور وہ دس پانچ شخص قوم کے لیے کچھ کر بھی نہیں سکتے۔ ایک سورما چنا پہاڑ نہیں پھوڑ سکتا۔ پس جب تک تمام قوم تعلیم یافتہ اور ترقی یافتہ نہ ہو قوم کی آسودگی اور خوش حالی نہیں ہو سکتی اواس کی بدنامی نہیں مٹ سکتی۔ آپ کے دل میں میرا یہ کہنا کھٹکا ہو گا کہ تمام قوم کا تعلیم یافتہ ہونا محالات میں سے ہے۔ اور نہ آج تک کسی ملک میںتمام قوم تعلیم یافتہ ہوئی ہے۔ یورپ میں بھی اور خاص لنڈن میں بھی ہزاروں آدمی ناتعلیم یافتہ ہیں جاہل موجود ہیں۔ پھر کیوں کر ہندوستان میں ایسا ہونے کا خیال ہو سکتا ہے۔ یہ بلاشبہ درست ہے مگر قوم کے تعلیم یافتہ ہونے سے یہ مراد نہیں ہے کہ قوم شفا اوراشارات کے مسائل حل کرتی ہو۔ اور سقراب اور بقراط بن گئی ہو۔ کیوں کہ ایسے لوگ تو قوم میں بہت ہی قلیل ہوتے ہیں ۔ مگر قوم کے تعلیم یافتہ ہونے سے یہ مراد ہے کہ کل قوم میں ایک علمی خیال اور اکثروں میں ایک علمی ذوق پیدا ہو گیا ہو۔ گو کہ انہوں نے معمولی تعلیم سے کچھ زیادہ تعلیم نہ پائیہو اور کل قوم کو ادنیٰ ہو یا اعلیٰ قوم کی ترقی اور اس کی بھلائی کا دل میں جوش پیدا ہو گیا ہو۔ ہر ایک ادنیٰ اواعلیٰ بہ قدر اپنی استطاعت کے قوم کی ترقی کے کاموں میں مدد دیتاہو۔ قوم کو اپنے حق میںلائق آدمیوں کے ہونے سے فخر اور عزت ہو۔ کیا مسٹر گلیڈ اسٹون کی پارٹی کو بلکہ تمام انگریزوں کو اپنے میں مسٹر گلیڈ اسٹون سا شخص ہونے پر فخر نہیں ہے؟ کیا لارڈ سالسبری کی پارٹی کو بلکہ تمام انگریزوں کو اپنے میں لارڈ سالسبری سا شخص ہونے پر فخر نہیں ہے؟ کیا ہم کو جب کہ ہمار ا زمانہ ہمارے موافق تھا ہم کو اس قسم کے عالی رتبہ شخصوں کے ہونے سے فخر نہ تھا؟ مگر اب یہ زمانہ ہے کہ نہ ایسے لوگ قوم میں ہیں اورنہ قوم کو علمی خیال ہے اور نہ علمی مذاق‘ اورقومی ترقی کا خیال‘ اور اسکے لیے وحشی جاہل اورناتربیت یافتہ ہونے کے لقب کی مستحق ہو گئی ہے۔ سلطان محمود نے فردوسی کو شاہ نامہ لکھنے پر فی شعر ایک اشرفی دینے کا اقرار کیا تھا جو دے نہ سکا۔ اس زمانے میں اس طر ُرانعام نہیں ملتا۔ مگر کاپی رائٹ یعنی تصنیف کا قانون لائق آدمیوں کو اس سے بہت زیادہ انعام دیتا ہے۔ جس کے سبب سے لائق مصنفوں نے فی شعر یا فی سطر دس دس اشرفی سے بھی زیادہ انعام پایا ہے ۔ یہ انعام کس نے دیا ۔؟ قوم نے کیوں ۔۔ اس لیے کہ تمام قوم تعلیم یافتہ تھی قوم میں علمی مذاق تھا۔ یہی قانون ہندوستان میں بھی جاری ہے پھر کوئی ایسی نظیر ہندوستان میں مل سکتی ہے؟ اس زمانے میںہندوستان میں اخبارات کی نہایت کثرت ہے۔خیر وہ جیسے ہیں ویسے ہیں مگر ہم نے تو ان کی نسبت بجز تین باتوں کے اور کچن نہیں سنا۔ یا تو یہ سنا کہ خریدار نہیں ہیںیا یہ سنا کہ جن کا نام فہرست خریداران میں داخل ہے‘ وہ قیمت ادا نہیں کرتے۔ یا لوگوںکو یہ کہتے سناکہ ہم نے خریداری کی درخواست نہیں کی۔ ہمارے پاس اخبار کیوں بھیجا جاتا ہے۔ ان تمام واقعات کا سبب یہ ہے کہ ملک اورقوم تعلیم یافتہ نہیںہے۔ نہ اس میں علمی مذاقہے اوراسی سبب سے اخبارات جیسے ہیں ویسے ہیں۔ نتیجہ ان تمام حالات کا یہ ہے کہ قوم میںتعلیم کی نہایت کمی ہے اورجب تک قوم میں تعلیم نہیں پھیلتی اور ان کی دماغی اور ذہنی قوتوں کو ترقی نہیں دی جاتی اس وقت تک کسی قسم کی ترقی قوم کو نہیں ہو سکتی۔ خواہ وہ ترقی کے لیے ایسے لوگوں کی نہایت ضرورت ہے جو تعلیم یافتہ ہوں‘ دل چلے ہوں‘ محنتی ہوں ‘ اپنے فرائض کو نہایت مستعدی اور ایمان داری سے انجام دیتے ہوں دیانت اس کے لیے سب سے بڑا جزو ہے اوریہ باتیں بغیر اعلیٰ درجے کی تعلیم و تربیت و تہذیب کے پیدا نہیں ہو سکتیں۔ غرض کہ قومی ترقی پر جس پلو سے نظر کرو اس کے لیے اعلیٰ درجے کی تعلیم و تربیت بھی ضروری ہے جس کے بغیر ترقی ممکن نہیں ہے۔ اے صاحبو! پھر آپ کے دل میںکھٹکا پیدا ہوا ہو گا کہ قوم کی قوم کو اعلیٰ درجے کی تعلیم و تربیت کیوں کر ہو سکتی ہے؟ پھر میں کہتا ہوں کہ یہ سچ ہے ۔ مگر جب قوم میں اعلیٰ تعلیم اور تربیت یافتہ لوگ پیدا ہو جاتے ہیں تو ان کا اثر قو م کے ان لوگوں پر بھی پھیل جاتاہے جو اعلیٰ تعلیم یافتہ نہیں۔ کیا آپ اس ملک کے عوام الناس اور یورپ کے عوام الناس میں بہ لحاظ علمی مذاق او ر قومی ہم دردی کے کچھ فرق نہیں دیکھتے؟ اگر دیکھتے ہیں اور قومی سبب بجز اسکے کچھ نہیں ہے کہ ان ملکو ں میں کثرت سے تعلم و تربیت یافتہ اشخاص موجود ہیں جن کا اثر ا ن لوگوں میں بہ خوبی پہنچ گیا ہے جو عوام الناس کہلاتے ہیں ۔ اب ہمارے سامنے قوم کے اعلیٰ درجے کی تعلیم و تربیت کا اور ان میں علمی مذاق پیداہونے کا اور ان کے اثر سے عوام الناس کے موثر ہونے کا مسئلہ درپیش ہے۔ مذہبی امور کو تو میں نے اس کے مقدس ہونے کے سبب سے اس بحث سے خارج رکھا ہے جیسا کہ پہلے کہہ چکا ہوں پس اس وقت ہم کو دنیاوی علوم کی ترقی سے بحث ہے ایک گروہ کا یہ خیال ہے کہ ہمارے پاس سب کچھ ہے اور ہمارے بزرگ سب کچھ کر چکے ہیں۔ ہم کو انہیں علوم کو حاصل کرنا چاہیے جو ہمارے بزرگوں کے پاس تھے۔ مشہور مقولہ ہے کہ : ’’میراث پدر خواہی علم پدر آموز‘‘ ہم کو ان علوم کے سوا اور کسی علم کی حاجت نہیں ہے۔ کیا یہ بات سچ ہے؟ کیا آپ کے نزدیک ان علو م نے جو ہمارے بزرگوں کے پاس تھے ترقی نہیں کی؟ کیا آپ کے نزدیک علم طب‘ علم جراحی‘ علم دوا سازی‘ نے کچھ ترقی نہیںکی؟ کیا آپ کے نزدیک فلسفہ او ر علم طبیعیات نے کچھ ترقی نہیں کی؟ کیا ٓپ کے نزدیک علم ہئیت‘ علم ہندسہ‘ علم حساب ‘ علم جبر و مقابلہ‘ علم آلات نے کچھ ترقی نہیں کی؟ کیا آپ کے نزدیک اور جدید علوم بھی جو ہمارے بزرگوں کے پاس نہ تھے ایجاد نہیں ہوئے کیا لٹریچر کے طرز بیان اور طریق ادائے مطابل میں ترقی نہیں ہوئی؟ اے صاحبو! تم یقین کرو کہ جو علوم ہمارے بزرگوں کے پاس تھے وہ مثل ایک بیج کے تھے ۔ وہ اب ایسے کھلے اور پھولے ہیں کہ مثل ایک تناور درخت کے ہو گئے ہیں اورپہچانے نہیں جا سکتے۔ کہ یہ وہی علوم ہیں جو ہمارے بزرگوں کے پاس تھے اورجو نئے ایجاد ہوئے ہٰں وہ تو نئے ہی ہیں۔ ان کا بیج بھی ہمارے بزرگوں کے پاس نہ تھا۔ اورجو غلطیاں ہمارے بزرگوں کے علوم میں نہیں بلکہ یونانیوں کے علوم میں بہ سبب ابتدائی زمانے کے تھیں اوراب ظاہر ہوئی ہیں وہ اس ک علاوہ ہیں۔ ہمارے بزرگو ںکو صرف اس پر ناز تھا کہ انہوں نے یونانی فسلفہ اوریونانی علم طب اوریونانی علم ہئیت غرض کہ تمام وہ علوم جو یونانیو ں کے پاس تھے ا ن کو حاصل کیا ہے۔ مگر جب ان میں صریح غلطیاںظاہر ہوئیں ہیں اور ترقی یافتہ علوم ہمارے دسترس میں موجود ہیں تو ہماری کیا شامت ہے کہ ہم انہیںیونانیوں کی غلامی میںاپنی تمام عمر خراب کیا کریں۔ پس اب غور کرنا ہے کہ ہماری قوم کے لیے اس زمانے میں کیا مفید ہے۔ ان ترقی یافتہ علوم کے حاصل کرنے میں کوششیں کرنا یا یونانیوں کے اس پرانی دھڑے پر چلنا اور اسی جھولے میں جھولتے رہنا جو نہایت بوسیدہ اور کمزور ہو گیا ہے۔ اوراس قابل بھی نہیں رہا ہ کہ ایک طفل مکتب کا بھی بوجھ اٹھا سکے۔ اگر میری یہ رائے صحیح ہو تو ہم کو کچھ چارہ نہیں ہے بجز اس کے کہ اپنی قوم کو ان علوم کے حاصل کرنے پر متوجہ کریں جو ترقی یافتہ اور درحقیقت مفید ہیں۔ یہ علوم بالاستعیاب تین زبانوں میں پائے جاتے ہیں فرنچ جرمن اور انگریزی ۔ پہلی دو زبانیں ہمارے دسترس سے خارج ہیں۔ انگریزی قطع نظر اس کے کہ وہ ہمارے حاکموں کی بھی زبان ہے اور علاوہ علوم حاصل کرنے کے اور بہت سی وجوہ سے ہمارے بکار آمد ہے ہمارے دسترس میں ہے۔ اور اس لیے لازم ہو گیا ہے کہ ہم اسی زبان میں ان علوم کو حاصل کریں۔ ایک گروہ کا یہ خیال ہے کہ جب تک وہ ہماری مادری زبان میں مترجم ہو کر قوم میں نہ پھیلائے جاویں قوم کو غیر زبان کے عولم ہونے سے ترقی نہیں ہو سکتی۔ بلاشبہ جس قدر کتابیں غیر زبان کی ہماری مادری زبان میں ترجمہ ہو جاویں میں اس کو نہایت پسند کرتا ہوں مگر یہ مقولہ کیساہی صحیح ہو عمل میں آنے کے قابل نہیں۔ ہارون الرشید اور مامون الرشید کے زمانے میں معدودے چند کتابیں یونانی زبان کی تھیں جو ترجمہ ہو گئیں۔ اس زمانے میں یہ کتابیں اس قدر کثرت سے ہیں کہ اگر ہارو ن الرشید اور مامون الرشید کی سی دس سلطنیتن بھی ان کے ترجمے پرجمع ہو جاویں تو مترجمہ نہیں ہو سکتیں۔ مع ہذا آج تک دنیا میں اس بات کی نظیر موجودہ نہیں ہے کہ جو زبان ملک میں حاکم کی ہے اسس ملک میں اس زبان کے سوا دوسری زبان میں علوم وفنون کی ترقی ہوئی ہو۔ پس لازمی طور پر ہم کو ضرور ہے کہ ہم انگریزی زبان کے ذریعے سے علوم کو حاصل کریں۔ ہندوستان میںبھی ابھی تک علوم و فنون حاصل کرنے کا کوئی ذریعہ موجود نہیں ہے چند یونی ورسٹیاں ہیں جنہوں نے ہماری تعلیم کو اپنے قبضہ میں کر لیا ہے۔ اور افسوس ہے کہ ہماری نالائقی سے ہماری تعلیم ان کے قبضے میں چلی گئی ہے جو قومی اغراض کے لیے کافی نہیں ہے اور نہ گورنمنٹ سے قومی اغراض پورے ہو سکتے ہیں۔ خصوصاً ایسی گورنمنٹ سے جو غیر قوم اور مختلف اقوام پر حکومت کرتی ہو ۔ اورنہ کوئی گورنمنٹ کسی ملک کی ایسی ہے جس نے قومی تعلیم کی ضروریات کو پورا کیا ہو۔ یہ کام خود قوم کا ہے اور جب تک قوم ہی اس کو پورا نہ کرے پورا نہیں ہو سکتا۔ افسوس یہ ہے کہ ہماری قوم میں ایسی لیاقت نہیں ہے کہ اس قومی ضرورت کو پورا کرے پس بالفعل جو تعلیم ہوتی ہے اسی پر ہم کو بہ مجبوری صبر کرنا اور یونی ورسٹیوں کی غلامی میں پڑا رہنا چاہے موجودہ تعلیم سے بلاشبہ ایک قسم کی دماغی تعلیم ہوتی ہے۔ خیالات کی درستی ہوتی ہے لوگوں کے دلوں میں یہ بات پیدا ہوتی ہے کہ قوم تنزل کی حالت میں ہے جب اس قسم کے لوگ کثر ت سے ملک میں پیدا ہو جاویں گے اور انکے وہ خیالات جن کا میں نے ذکر کیا ہے زیادہ تر مستحکم اور پختہ ہو جاویںگے تو قوم کی ترقی کی پہلی منزل ہو گی۔ مگر موجودہ تعلیم کے ساتھ اگر تربیت شامل نہ ہو تو موجودہ تعلیم سے ہم کو کسی باثرم درخت کے پیدا ہونے کی توقع نہیں کرنی چاہیے۔ بلکہ ایک پرخار اورمردم خوار درخت کے پیدا ہونے کا یقین کرنا چاہیے۔ پس اے دوستو! تمہارا فرض ہے کہ تم اپنے بچوں کی تربیت کا تعلیم سے بھی زیادہ خیال رکھو۔ تربیت سے میری مراد وہ تربیت نہیں ہے جو ہماری قوم کے پرانے دقیانوسی بزرگوں کے خیال میں ہے اور جو ایک بوزینہ کی دل چسپ حرکات سے زیادہ وقعت نہیں رکھتی بلکہ تربیت سے میری مراد وہ تربیت ہے جس سے سچائی‘ ایمان داری‘ سچے اخلاق‘ سچی محب‘ سچی ہمدردی‘ سلف ریسپیکٹ ‘ قومی محبت ‘ قو م کا خیال اپنے کاموں میںدیانت داری ‘ ایمان داری ‘ فرائض منصبی کا ایمان داری سے ادا کرنے کی خصلت پیدا ہوتی ہے۔ اس کی تربیت کئی دفعتاً ہو جانے کی توقع نہیں ہے۔ لیکن اگر اس راہ پر ہمارے نوجوان بچے ڈالے جاویں تو شاید ایک زمانے کے بعد ایسے لوگ قوم میں پیدا ہو جاویں۔ افسوس یہ ہے کہ اس ناقص تعلیم کا بھی جو ابتدائی زمانے میں لازمی ہے اور قومی ترقی کے لیے پہلی منزل ہے ۔ ہماری قوم کو خیال نہیں ہے ۔ مگریہ کہنا کہ ہماری قوت غریب اور مفلس ہے اس سبب سے ہم اس قم کی تعلیم کا بھی اپنی قوم کے لیے بندوبست نہیں کر سکتی۔ محض غلط اور مجھ کو معاف کیجیے اگر میں کہوں کہ سراسر جھوٹ ہے اصل یہ ہے کہ قوم کو قومی تعلیم‘ قومی ترقی‘ قومی فلاح کا خیال نہیں ہے اور اس قسم کے امور میں بلکہ اپنی اولاد کی تعلیم میں بھی روپیہ خرچ کرنے کی عادت نہیں ہے۔ اگر کسی میں کچھ جوش اٹھا بھی اور روپیہ بھی خرچ کیا تو قوم کے لیے نہیں بلکہ اپنے خیالات خاص کے مطابق اپنی عاقبت میں سرمایا جمع کرنے کے لیے یہ فیاضی اگر فیاضی کہی جاوے تو قوم کے لیے نہیں ہے بلکہ اپنے خیال کے مطابق اپنے لیے ہے حالانکہ اگر اصول مذہب اسلام پر خیال کیاجاوے تو نیکی اور ثواب بھی اسی فیاضی میں ہے جس سے قوم کو جو ضرورت ہو وہ رفع ہو ۔ میں تو اس قسم کی فیاضی کو جو ہماری قوم کرتی ہے اس پیر زال بڑھیا کی فیاضی سے جو گنگا میں کمر کمرپانی میںکھڑی ہوکر اپنی قیمتی نتھ چپکے سے گنگا میں بہا دیتی ہے اورکہتی ہے لے گنگا مائی۔ زیادہ وقعت نہیں سمجھتا۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ اخراجات تعلیم مثل دیگر اخراجات کے روز بروز برھتے جاتے ہیں اور بغیر روپیہ کے تعلیم نہیں دی جا سکتی اور تعلیم کا سامان جمع نہیں ہو سکتا۔ پس جو لوگ آسودہ ہیں وہ کیوں نہیں اپنی قوم کی تعلیم میں اور اس کا سامان جمع ہونے میں مدد کرتے۔ اگر ایک پیسہ یعنی تین پائی فی روپیہ اپنی آمدنی کا قوم کی تعلیم میں دیں تو لاکھوں کروڑوں روپیہ قوم کی تعلیم کے لیے جمع ہو سکتا ہے۔ کیسی شرم کی بات ہے ہ کبھی ہم کو اپنی قوم کی صلاح و فلاح کا یہ خیال تک نہآوے اور ایک پیسہ تک اس میں خرچ کرنا دشوار معلوم ہو۔ لیکن اگر ہماری قوم کو اور خصوصاً ان کو جو رئیس کہلات ہیں یہ بات معلوم ہو کہ فلاں امر مٰںروپیہ خرچ کرنا خوش نودی حکام کا باعث ہو گا۔ خواہ وہ کام مسجد ہی کے بنانے کا ہو یا مدرسہ یا شفاخانہ یا مدرسہ نسواں کے قائم کرنے کا یا اورکوئی تو اس وقت کس قدر فیاضی برتی جاتی ہے ۔ اور بے دریغ چندہ دیاجاتا ہے اور پھر اس سے ثواب آخرت کی توقع رکھی جاتی ہے۔ العجب ثم العجب: ترسم نرسی بکعبہ اے حضرت من کیں رہ کہ تو میروی بتر کستانیست اگلے زمانے میں تعلیم کی دوسری صورت تھی اور تعلیم کے اخراجات بہت قلیل تھے۔ طالب علم مسجدوں یا خانقاہوں میں حجروںمیں بیٹھے رہتے تھے۔ ان کے ایک وقت کی روٹی کسی گھر سے اور دوسرے وقت کا کھانا کسی گھر سے ملتا تھا۔ مردوں کے فاتحہ کی روٹی ‘ سویم اور چہلم کے کھانے پر ان کی گزران تھی۔ کہیں لنگر جاری تھا اور وہی ذریعہ ان کی گزران کا تھا۔ جن لوگوں کی عمر میرے برابر یا مجھ سے زیادہ ہے اور جن لوگوں نے مصر کی سیر کی ہے اورجامع ازہر کے مدرسے اورطالب علموں کا حال دیکھا ہے انہو ں نے یہ سب باتیں اپنی آنکھ سے دیکھی ہوں گی ہندوستان میں اب بھی اسلامی مدرسوں میں اس کا نشان پایا جاتاہے۔ اس زمانے کے طالب علموں کو پہننے کے لیے ایک کرتا اورایک پاجامہ اور زیادہ سے زیادہ تکلف ہوا تا ایک لنگی کافی تھی۔ میرا مطلب اس بیان سے ان کی تحقیر کرنا نہیں ہے کیوں کہ انہیں طالب علموں میں ایسے لوگ بھی پیدا ہوتے ہیں جو نہایت مقدس اور قابل ادب ہیں بلکہ میرا مقصد اس بیان سے ایک امر واقعی کا بیان کرناہے اوریہ بتانا ہے کہ اب زمانہ بدل گیا ہے اس زمانے میں وہ سادہ اورکم خرچ طریق علوم تحصیل کرنے کا اب نہیں چل سکتا ۔ خصوصاً علوم انگریزی اس طرح پر حاصل نہیں ہو سکتے اورنہ وہ اوصاف طالب علموں میں پیدا ہو سکتے ہیں جن کا پیدا ہونا بمتقاضائے زمانہ ہم ان میں چاہتے ہیں ۔ اور نہ اس طریقہ تعلیم و تربیت سے ان میںہمت اور جرات ۔ سلف رسپیکٹ پیدا ہو سکتی ہے ۔ نہ غیرت اور محبت باقی رہتی ہے نہ ان میں قومی ہمدردی کا جوش پیدا ہوتا ہے نہ قوم کو ان سے قومی بہبودی کی توقع ہو سکتی ہے ۔ اس زمانے میںجو کچھ جلوہ تھا وہ صرف اسی سلطنت کا تھا جو انہیں کے ہم خیال تھی جو ان مسجدوںمیں تعلیم دیتے تھے یا تعلیم پاتے تھے۔ مگر اس زمانے میں سلطنت کا‘ قوموں کا‘ قوموں کی ترقی و بہبود کا اور قوم کے غریبوں کی مدد کرنے کا سب کا رنگ بدل گیا ہے۔ اور جب تک ہم بھی نہ بدل جاویں اور زمانے کے ساتھ نہ چلیں کسی طرح کامیابی نہیں حاصل کر سکتے۔ اس زمانے میں بھی مسلمان طالب علم اور شریف خاندانوں کے بچے بہت زیادہ امدا د کے محتاج ہیں۔ قو م کے سرداروں اور قوم کے مال داروں اور قوم کے ترقی خواہوں کو ان کی امداد کرنی ضرور ہے مگر نہ اس پہلے طریقے سے جس کا میں نے ابھی ذکر کا بلکہ دوسرے طریقے سے جس سے ان طالب علموں کی حمیت‘ غیرت‘ سلف ریسپیکٹ میں بھی کچھ خلل نہ آوے اور ان کو تعلیم میں بھی مدد ہے۔ وہ شریفانہ طریقے پر رکھے جاویں تاکہ ان کی حمیت اور غیرت اور اپنے پر بھروسہ کرنے کی خصلت کو روز بروز ترقی جاوے تو آئندہ کو قومی ترقی اور بہبودی کا ذریعہ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس زمانے میں قوم کو جس قدر قومی ترقی پر توجہ ہے پہلے کسی زمانے میں نہ تھی۔ ہندوستان میں جا بجا اسکول مکتب قوم کی سعی سے جاری ہوتے تھے۔ یتیم خانے بنائے جا تے ہیں جن کا پہلے کبھی وجود نہ تھا۔ انجمن ہائے اسلامیہ قائم ہوئی جاتی ہیں جن کی کثرت برسات کے مینڈکوں سے کچھ کم نہیں ہے۔ گو کہ چند روز بعد وہ معدوم ہو جاتی ہیں۔ مگر افسو س یہ ہے کہ وہی نکبت ان سب پر برستی ہے جس کا دور کرنا ہم چاہتے ہیں۔ کیا ایسی باتوں سے قوم کو کچھ ترقی ہو سکتی ہے۔ اور اس کی نکبت دور ہو سکتی ہے ۔ حاشا وکلا۔ بلکہ ایک اور نشانی قومی نکبت کی پیدا ہوتی ہے۔ ایک بہت بڑے سیاح کا مقولہ ہے کہ اگر تم اپنے سفر میں کسی قوم کے آسودہ حال یا ذلیل و خوار ہونے کا اندازہ کرنا چاہتے ہو تو تم ان کے قبرستان اور معبدوں کا دیکھ لینا کافی ہے۔ اگر ان کے قبرستان درست اور معبد بارونق ہیں تو تم یقین کر لو کہ وہ قوم بھی آسودہ ہے۔ مگر میرے نزدیک ہندوستان میں ایک تیسری چیز بھی اس کے اندازہ کرنے کو پیدا ہو گئی ہے یعنی اسلامی مدرسے‘ اسلامی انجمنیں‘ یتیم خانے‘ کیوں کہ ان سب میں قومی نکبت کے نشان پائے جاتے ہیں۔ اے قوم کے بزرگو! اگر تم سب مل کر اتفاق سے کام کرو تو تم میں اب بھی وہ قوت اور طاقت ہے جو نہ ہارون الرشید کو میسر ہوئی تھی نہ مامون الرشید کو اور نہ اکبر کو نصیب ہوئی تھی ‘ اورنہ شاہ جہاں کو۔ اورنہ زمانے میں باوصف اس جاہ و جلال کے انگریزی گورنمنٹ کو نصیب ہے۔ بہ شرطیکہ تم ایک پیسہ فی روپیہ یعنی تین پائی اپنی آمدنی میں سے قوم کے لیے دو اور مختلف اور متعدد کاموں کے بدلے کسی ایک کام کو متفق ہو کر تمام کر لو۔ پھر تم دیکھو گے کہ کیسے کیسے عالی شان کام کر سکتے ہو جو یورپ کے کاموں سے بھی فوق لے جا تے ہیں۔ مگر افسوس ہے کہ ہم میں استقلال نہیں اگر استقلال ہے تو اتفاق نہیں اس لیے تمام کام خراب اور ابتر ہیں اور ہر ایک کام بلکہ ہر بات میں قومی نکبت کے نشان موجود ہیں۔ امنا باللہ وبکلامہ حیث قال جل جلالہ تعز من تشاء و تزل من تشاء بیدک الخیر انک علی کل شئی قدیر اوہام مذہبی اور تعصبات بے جا بھی ہماری قومی ترقی کے مانع ہیں ہم کو اپنی قوم کے علماء سے امید کرنی چاہیے خواہ وہ پوری ہو یا نہ ہو کہ قوم میں سے اوہام مذہبی اور بے جا تعصبا ت کو دور کریں جس سے ملک میں امن و آسائش اور قوم کو ترقی اور بہبودی ہو۔ مجھے یاد ہے کہ جب اول اول ریل جاری ہوئی اس وقت یہ مسئلہ ہوا کہ چلتی ریل میں نماز درست ہے یا نہیں۔ فیصلہ یہ ہوا کہ نہیں۔ پر یہ امر پیش ہوا کہ ریل کا ٹھہر لینا ہمارے اختیار میں نہیں ہے ممکن ہے کہ نماز کے وقت ریل نہ ٹھہرے اور نماز کا وقت جاتا رہے اس پر یہ فیصلہ ہوا کہ ریل پر سوار ہونا ہی جائز نہیں۔ مگر چوں کہ اس فیصلے کی مضرت میں مولوی اورنمازی سب شامل تھے اس لیے علمائے کرام نے اس بحث کو خاموش کر دیا اورکہا چپ چپ الضروریات تبیحالمحذورات مگر میںنے بعض مقدس لوگوں کو دیکھا ہے کہ ٹھہری ہوئی ریل سے اتر کر اسٹیشن کے پلیٹ فارم پر نماز پڑھتے ہیں اور ایسی جلدی کہ کراما کاتبین کو بھی اس کے لکھنے کا وقت نہیں ملتا۔ اور ایسا بھی ہو ہے کہ ادھر نیت باندھی ادھر ریل چلی ۔ نماز کے بعد حیرون بیٹھے ہیں کہ کیا کریں۔ساتھ کا اسباب بھی ریل کے ساتھ چلا گیا۔ جب بہت لوگوں نے پوچھاتو غصے میں آ کر کہا کہ میاں کیا پوچھتے ہو ۔ الدنیا سجن المومنین و جنت الکافرین جو کچھ مصیبتیں اس دنیا میں پڑیں ان کو برداشت کرنا چاہیے۔ ایک بزرگ مولوی تھے جو ہر بات میں من تشبہ بقوم فھو منھم سے بہت سے لوگوں کو کافر بناتے تھے وہ ایک شخص کے پاس جو ان کے اس فتوے کے مخالف تھا بحث کرنے کو تشریف لائے۔ گرمی کا موسم تھا اور دن بھی اخیر ہونے کوتھا وہ شخص ایک دالان میں بیٹھا ہوا تھا جب انہوںنے اس مسئلے پر گفتگو چاہی اس شخص نے کہا بہتر ہے کہ ہم سب باہر صحن میں چل کر بیٹھیں۔ صحن میںایک تخت اورچند کرسیاں بچھی ہوئی تھیں۔ یہ شخص تو تخت پر بیٹھا اور مولوی صاحب کی تعظیم و توقیر کے سبب سے ان سے کہا کہ آپ کرسی پر تشریف رکھیں۔ جب مولوی صاحب کرسی پر بیٹھ گئے تو یہ شخص اٹھا اور آداب بجا لایا اور کہا کہ من تشبہ بقوم فھو منھم جب اس قدر توہمات اور بے جا تعصبات قوم میں پھیلے ہوئے ہیں اور ہمار ے علماء بہ عوض اس کے کہ ایسے اوھام کو دور کریں قوم کے لوگوں میں زیادہ استحکام دیتے ہیں تو کیا توقع ہے کہ قوم کی ترقی ہو۔ خدا ہی ہمارے گناہوں کو معاف کرے اورہم کو ثابت قدم رکھے اور ہماری مدد کرے تو کچھ ہو سکے۔ ربنا اغفرلنا ذنوبنا و اسرافنا فی امرنا و ثبت اقدامنا و انصرنا اس سے زیادہ میں پوری آیت پڑھنا نہیں چاہتا۔ آپ یقین کریں کہ جب تک ہم اپنی قوم کے لیے اعلیٰ درجے کی انسٹیٹیوشن خواہ تعلیم کے ہوں یا یتیموں کی پرورش کے قائم نہ کریں گے اور عمدہ سے عمدہ سامان تعلیم کا جمع نہ کریں گے جو مثل یا قریب قریب یورپ کے انسٹیٹیوشنوں ک ہو اور اپنے نوجوان بچوں کو ویسے ہی اعلیٰ درجے کے اصول پر جیسے کہ یورپ میں ہیں تعلیم و تربیت نہ دیںگے اس وقت تک ہماری ترقی ہونی ممکن نہیں ہے۔ بلاشبہ اس کے لیے زرکثیر کی ضرورت ہے۔ اگر قوم مستعد ہو جائے اورعملی کارروائی بھی کرے تو ہم کو روپیہ کی کچھ کمی نہ رہے۔ ہماری قوم اب ھبی اس سے زائد روپیہ اپنی قوم سے جمع کر سکتی ہے جس کی ان کاموں کے لیے ضرورت ہے بہ شرطیکہ بہ قول سر آکلنڈن کالون کیہم اپنے معنوی بتوں کو توڑ دیں اور قوم کی ترقی اور بہبودی پر متوجہ ہوں۔ سرآکلنڈ کالون کا قو ل ہے کہ آج کل دنیا میں اسی قدر بت دکھائی دیتے ہیں جتنے کہ ساتویں صدی عیسویں میں عرب میں دکھائی دیتے تھے۔ ایک بت یہ ہے کہ لوگ گزشتہ تعلیم پر اور اس زمانے کے دلائل اور بحث کے طریقے پر از خود رفتہ ہیں۔ ایک بت یہ ہے کہ ان تمام چیزوں سے جو مذہب اور اسلامی مملکت سے اجنبی ہیں معتصبانہ نفرت رکھتے ہیں۔ ایک بت قومیت کے مغرورانہ افتخار کا ہے۔ ایک بت جو ب سے بڑا اور نہایت خوف ناک ہے وہ کاہلی اور لاپرواہی اور غفلت کا ہے۔ یہ سارے بت گونگے اور تاریک ہیں جن کی شکل سے وحشت ٹپکتی ہے۔ وارجو اپنے دعویٰ میں محض بے ہودہ ہیں اور اپنی کمزوری او ر بے اثری کے باعث قابل نفرت ہیں۔ ہمارے سب سے پہلے پیشوا حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بت خانہ کے اورہمارے ہادی بابی و امی جدی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کعبہ کے بتوں کوتوڑا اور کعبہ سے نکالا۔ پس ہم بھی ان کی تقلید کریں اور اپنے دلوں کے ان معنوی بتوں کو توڑیں جن کے توڑے بغیر کبھی فلاح نہیں پانے کے: چندے بغلط بت کدہ کردیم حرم را وقتے است کہ از کعبہ بر آریم صنم را ٭٭٭ ترغیب تعلیم انگریزی ۶اکتوبر ۱۸۶۳ء کو مجلس مذاکرہ علمیہ کلکتہ کے ایک اجلاس میں برمکان آنریبل مولوی عبدالطیف خاں صاحب‘ سرسید نے یہ مقالہ لکھ کر پڑھا۔ جو فارسی میں تھا اور جس میں اس امر کی ترغیب دی گئی تھی کہ مسلمانوں کو اپنے اسلامی اور قومی اور دینی علوم کی تحصیل کے ساتھ انگریزی زبان اور اس کے علوم بھی حاصل کرنے چاہئیں۔ تاکہ ہم حکمران قو م کے افکار و خیالات سے بخوبی واقف ہو سکیں ۔ (محمد اسماعیل پانی پتی) پیش ازاں کہ آہنگ حرف مدعا سرائی ساز کنم ایزد بے ہمتا رانیائش می نمائم کہ بختم را یاوری و طالعم را بختیاری داد تا دریں مملکت بنگالہ گزر کردم و دریں دار الامارۃ کلکتہ کہ آں را دارالسلطنت ہند توانم گفت و ا رسیدم ۔ نازش من نہ براں است کہ شہر آباداں و وسیع الفضائے کلکتہ را دیدم و از عمارت منیف و اشیاء لطیف آں مسرتے اندوختم بل ناز ش من بران است کہ بخدمت ارباب فضل و کمال و بزرگان والا تبار و فضلائے بے مثل و مثال و وعظائے صاحب وار ایں جا مشرف گشتہ ام و سعادت ملازمت شما بزرگان کہ باعث افتخار بنی نوع انسان ہستید حاصل ساختہ ام۔ حضرات من! آنچہ مسافر نوازی و غریب پروری از طر شما بزرگان و سیما از جانب گل سرسید ایں گلستان بل باعث افتخار ماہم کیشان (یعنی آنریبل مولوی محمد عبدالطیف خاں بہادر) بحال ایں ہیچ میرز غریب الوطن کہ لیاقت کفش برادری ہمچو بزرگان والا منش ہم ندارد مرعی گشتہ است ادرائے شکر آں ا ز من ناتواں نیاید اگر ہمہ تن زبان شوم نے نے اگر ہر سر موئے من زبان گردد و از ہر یکے داستان ہا سرایم از عہدہ آں برآمدن نتوانم ایں حال کہ اینک موجود است و ایں دم آں را بہ چشم مے بینم نمونہ ایست از اخلاق عمیم شما و ا نموذ جیست از مسافر انمجن خود کہ مہیط قدوسیاں انجمن قدس تواند بود بار دادہ ایدوھم اجازت فرمودہ اید کہ اہ سر دے بکشم و دانہ اشکے بریزم و درد دلے باز گویم حضرات من شما نیکو میدانید کہ من کم مایہ و بے بضاعت لیاقت آں ندارم کہ رو بروئے ہم چو بزرگان عالی مقام زبان بہ تکلم کشایم زبانے کہ بہ جسارت رو بروئے شما کشادہ گردد بستہ باد و دلے کہ بمخالفت شما برانگیختہ شود شکستہ باد۔ زبان کشادن بہ بیان درد دل خویش بہ حضور حضرت شما نیست بجز آنکہ کرم ہائے شما مارا دلیر ساختہ کہ اینک بخدمت شما بہ پا ایستادہ ام و درد دل خود را گفتن می خواہم و خود گلہ از خود سرودن آرزو دارم۔چیست گلہ و چیست درد۔ حب وطن است و حب وطن است دیس۔ حضرات من! اگر بہ غور نگریستہ آید تواں یافت کہ ہرچہ از ممکن خفا بہ جلوہ گاہ عیاں ظہور ساختہ آں ہمہ حقیقت واحدہ است کہ بصورت ہائے رنگا رنگ و نقش ہائے بو قلموں بصفحہ خیال ہا صورت بستہ و درحقیقت نقش من و تو درمیان نیست۔ میاں عاشق و معشوق ہیچ حائل نیست تو خود حجاب خودی حافظ از میاں بر خیز اگرچہ تغایر اعتباری پردہ خفا بریںراز آشکارا می اندازد۔ مگر کسے کہ چشم بصیرتش و ا کشادہ اند۔ ایں تغایر اعتباری را اعتبارے نمی نہد۔ وازیں حجاب تنگ بے تار و پود پردہ ظلمانی بریں حقیقت نورانی نمی افگند۔ حاشاثم حاشا رہ روے طریق حقیقت موج را از لجہ جدا نداند و شعاع را از نور متغایر نہ انگارد۔ از ایں رہبر آشکار است کہ تاہمہ ہر چہ بوجوہ آمدہ ایم شخص واحدیم و تغایر اعتباری بیش از سرابے نیست ۔ پس اگر چشم برآں اعتبار ہا اندازیم احول ایم کہ حقیقت واحدہ را دومے بینمیم۔ اینک غور کردنی است ۔ چوں ما دریں کاخ فیروزہ رنگ آمدہ ایم و خود صورت خود را دریں کاخ آئینہ بند بہر رنگے مے بینیم چگونہ با آں ہمہ تمثال ہا بسازیم و چساں بآں ہمہ تشخصات اعتباری بسر بریم۔نیست راہے دیگر بجز آنکہ تغایر اعتباری را از میاں بر اندازیم و آنچہ با خود کردن میخواہیم با ہمہ آں بکنیم ۔ برخیزد آئنہ بدست خویش گیر و صورت خود رابہ بین و بنگر کہ آنچہ با خود مے کن ہماں بآں تمثال خیالی مے کنی و آنچہ بآں تمثال میکنی درنفس الامر باخودمے کنی۔ چوں ایں مقدمہ مسلم گشت بما لازم شد کہ چنانکہ مادر رفاہ و فلاح خویشتن سعی مے کنیم۔ہمیں ساں ما را درسود و بہبود و جمیع موجودات عالم سعی کر د نیست چہ آں ہمہ درحقیقت نسبت بہ حقیقت واحدہ است کہ من ہم ازاں۔ نے نے عین آں حقیقت ایم و اگر چنیں نکنیم مثال ما ہمیں خواہد بود کہ یک چشم را نگاہ مے درایم و دیگرے را بہ میل کشیدن مے دھیم و دست دربغل می نہیم۔ وہ پارہ بہ بریدن مے سپریم وائے صد وائے ہر کسیکہ چنیں بکند اگر از ہوا خواہی وفلاح جوئی تمام موجودات عالم حرفے برزنم سخن بہ درازی مے مشد و ازاں دائرہ کہ ماوانیم پا بیرون مے افتد پس ازاں در گزشتہ حرفے چند از فلاح جوء یبنی نوع خود مے سرایم۔ ہوید است کہ فلاح جوئی کسے از مقتضیات محبت اوست چہ از کسے کہ محبت ندارم سر رفاہ و فلاح او ہم ندارم پس اصل اصول فلاح جوئی کسے محبت اوست ازیں روح ناگزیر است کہ مختصرے از اقسام محبت پر شمارم و برآں اسا ہوا خوہی ہم کیشاں خود برنہم محبت را درجات بے شمار است۔ اعلیٰ و افضل آں ست کہ تمام موجودات عالم را عین حقیقت خود دانیم اگر بینیم کہ کسے برگ کاہے بجفا شکستہ است دل ہمیں حال بدرد درآید کہ گویا ناخنے از ناخن ہائے دست و پائے من بر شکستہ ایں مرتبہ حاصل نمیشود مگر کسے را کہ خداوند عالم در رحمت براکشادہ باشد ۔ دوئمیں درجہ محبت آنست کہ جمیع ذی روح را کہ مشارکت بسیار و مشابہت بے شمار با ما دارند دوست دارم و ہر کہ جگر تر دادر باونیکی کنم۔ ایں درجہ اگرچہ اول فراواں پایہ فروتر افتادہ است الا بجائے خود آں قدر بلند پایہ است کہ دست کوتاہ ما بشاخ پربار آں نمی تواند رسید ۔ سویمیں درجہ محبت آں کہ با بنی نوع خود بکار بریم چنانکہ سعدی علیہ الرحمۃ مے فرمائید: بنی آدم اعضائے یک دیگراند کہ از آفرینش زیک جوہراند جو عضوے بدرد آورد روزگار دگر عضو ہا را نماند قرار اگرچہ ایں مرتبہ کم ترین درجہ محبت اسب الا بہ نظر ایں کہ انسان را ضعیف البنیان آفریدہ اند ہمیں درجہ را نسبت بآں درجہ اعلیٰ قرار دادہ اندر۔ ازیں مرتبہ ہم در مرتبہ م دیگر درجہ محبت است کہ آں را مجازاً حب قومی نام نہنگ و سرورؐ ماوسرورؐ عالم علیہ الصلوۃ والسلام کہ دل و جانم فرش راہ سرم خاک پائے آں عرش بارگاہ باد۔ تاکیدے بداں فرمادہ حیث قال علیہ الصلوۃ والسلام والنصح لکل مسلما علما محققین ما رضوان اللہ علیہم اجمعین از لفظ نصح ہر گونہہ رفاہ و فلاح برادران دینی مراد گرفتہ اند پس مادر سعی رفاہ و فلاح برادران دینی مامور ایم و بہ ترک آں بہ معصیتے گرفتار شویم۔ اگر ایں مدعا را برہبر عقلی جوئم گوئم کہ ایں درجہ محبت را کہ ما آں را بر حب قومی نامیدہ ام در حیوانات ہم مے یا بم نمی بینی کہ اگر زاغے را بدرد آریم دیگر ہم جنسان او بدرد مے آیند و باہ و نالہ ما رامے گویند کہ اگر ہم کیشاں و ہم کشوران خود را بہ دردے مبتلا مے بنیم و بدر دنیا بیم و چارہ کار نینیشم از زاغ ہم بدتریم۔ ازیں جملہ رہبر ہا آشکار است کہ مارابجہت صلاح و فلاح ہم کیشان و ہم کشوران خود کمر سعی چست بستن و درپے دود و بہبود آناں افتادن واجب و لازم است ظاہر است کہ برادران دینی ما ہنوز درگراں خواب غفلت اند و ہرچہ گویم و ہرچہ بکنم ازاں گراں خواب بیدار نمی شوند لیکن مارا بداں سبب کمر ہمت سست کردن نشاید: کس بشنود یا نشنود من گفگتوئے مے کنم حقوق شاں کہ بذمہ است آں را ادا کردن شاید: شاید کہ ہمیں بیضہ بر آرد پر و بال گفتہ اثرے دارد گرچہ عجب کہ رفتہ رفتہ ہوشیار شوند و خود را دریا بند۔ حضرات من معافم فرمائید۔ نغمہ بے آہنگ سرودم و سخن بے محل گفتم۔ حضرات را مے بینم کہ ہمہ تن در صلاح و فلاح ہم کیشان و ہم کشوران خود سرگرم ہستتند ۔ پس ایں ژاژخائی و ہرزہ داری من روبروئے ہم چو بزرگان سراسر بیجا و سرتاپا بے محل بود۔ مگر چہ کنم شوق و ولولہ محبت کہ باہم کشوراں خود دارم محل و بے محل ما را از سرادن ایں چنیں نغمہ ہا باز نمی دارد اے بزرگان کلکتہ نیکو میدانید کہ ہمہ خانوادہ ہائے قدیم ہم کیشاں ما برہم خوردہ اند و شہر ہائے قدیم کشور ما کہ علم و ادب و دانش و گرہنگ را بآں نازش بو د از پا برافتادہ اند در دارالسلطنت ہائے پاستانی ہیچ چیزے باقی نیست۔ مگر استخوان ہائے چند بوسیدہ و چند خشت ہائے کہنہ دیوار ہائے غلطیدہ۔ پس در تمام مملکت ہند از خلیج بنگالہ تا رود سندھ صرف ہمیں شما بزرگانید کہ دار الامارۃ عہد ما را بذات تودہ صفات شما نازش است و بس آرے اگر شما ہم در صلاح و فلاح ہم کیشان وہم کشوران خود سعی نہ نمائیید باز کدام کس پرسان حال ما بخت برگشتگان خواہد بود خداوند عالم شما را سرسبزو شاداب دارد و توفیق حب وطنی روز افزوں نصیب کناد۔ مگر عرضدیگر قابل گزارونی است و آں ایں کہ در جزو زبان ہم کیشان و ہم کشوران ما و شما از حلیہ تربیت عاری شدہ اند و روز بروز عاری مے شوند ۔ پس دریں زمانہ مدار صلاح و فلاح ہم کشوران مادرانست کہ بہر طورے کہ تواند شد در ترقی تعلیم و تربیت شان سعی ہا نمایم و آنچہ موانع و عوائق در تربیت ہ کیشان بودہ انددر برداشتن آں ہمہ سعی و کوشش ہا کنیم۔ مردماں ایں زمانہ کہ تربیت ہم کیشاں ما را کہ بہ نظر حقارت مے بینیند ۔ باعث اصلی او ایں است کہ اکثر برادران ما بآں کہ در علوم پاستانی ید طولیٰ دارند در علوم و فنون جدیدہ کہ مایہ نازش نوجوانان ایں زمانہ است عاری اند پس نگریستی است کہ باعث ایں چنیں ناواقفیت از علوم و فنون جدیدہ مفیدہ چیست ۔ گویم کہ آں ہمہ علوم بزبان انگریزی اندوہم کشوران ما را تاحال برتحصیل آں توجہے کما ینبغی نیست۔ دیگر بارہ پرسم کہ چرانیست آیا تعصب مذہبی را دراں مداخلت است گویم حاشا و کلا۔ کسانکیہ ما را بچشم غرض بیں مے نگردند یا از حقیقت حال واقف نیند ایں گونہ سخن ہائے بے اصل سرایندہ اند و در آموختن زبان ہر قومے کہ باشد تعصب مذہبی راچہ مداخلت است۔ مامسلمانان زبان فارسی رامے خوانیم و آں زبان ما نیست و گاہے تعصب مذہبی را بآں نسبت نکردہ ایم پس در آموختن زبان انگریزی چرا تعصب مذہبی را گنجائش خواہد بود۔ اگر گویند کہ مسائل علوم جدیدہ سیما ریاضیات ظاہرہ بآنچہ در قرآن مجید ازاں بیان شدہ مخالفت دارند ایں باعث مسلمانان از خواندن او مستکرہ اند۔ گویم ایں ہمہ غلط است۔ مائل حکمت یونان کہ بظاہر حال بآنچہ در قرآن مجید ازاں ذکرے رفتہ مناسبت دارند و ہمہ مسلمانان بہ ہزاراں ہزار شوق در تحصیل آں سرگرمی مے دارند و گاہے تعصب مذہبی را کارنفرمودہ اند پس در خواند و تحصیل نمودن ھیات جدیدہ فیثا غورسیا چرا تعصب مذہبی را بکار بردہ باشند۔ اصلی کار وحقیقت حال کم توجہی برادران ما درخواندن زبان انگریزی و تحصیل علوم و فنون جدیدہ آں زبان ایں است کہ کتب مذہبی ما مسلمانان کہ آموختن آنہا در حقیقت برما فرض است ہمہ درزبان مقدس عربی است و عادت ما مسلمانان از طریقہ شرفاء ایں است کہ اولاً میخواہند کہ اولاد ما زبان عربی رابیاموزند و بمسائل دینیہ خود واقف شوند۔ بعد آں چیزے شود یا نشود ۔ حضرات من نیکو دانید و ہشیار باشید کہ ایں طریقہ بسیار محمود بغایت نیک و نہایت پسندیدہ است و گاہے تاآنکہ جان درقالب شماست ایں طریقہ را مگزارید زبان عربی افضل تریں زبان ہاست خداوند عالم بہ ہیچ زبان متکلم نشد و الا بزبان عربی فضائل ایں زبان چہ از اختصار الفاظ و کثرت معانی و چہ در علو درجہ فصاحت و بلاغت از ہمہ زبان ہا فائق تر وشیریں تر است۔ پس ایںچنیں زبان را گزاشتن کہ درآں عمدگی و علو درجہ در دنیا و نجات ابدی درعقبی است کار خرد منداں نیست۔الا تدبیرے باید اندیشید کہ نوجوانان اقوام ما کہ در خاندن زبان عربی مصروف اند بجہت حصول علوم و فنون جدیدہ ہم موقعے و قابوے یابند۔ و آں بخوبی حاسل تواند شد۔ اگر ہم کشوران ما جمع شدہ انجمنے بیا رایند و کتب علوم و فنون جدیدہ از زبان انگریزی بفارسی تا عربی ترجمہ نماید و آں را مشق نونہالان اقوم ما بدھد تا بذریعہ ہماں زبانے کہ بہ تحصل آں مصروف انداز علوم و فنون جدیدہ ہم کما ینبغی واقفیت سازند ۔ علم و تربیت نام صور ت زبان و کام نیست بہر زبان کہ آں را بیا موزیم بہ مدعا مے رسیم۔ ازانچہ گفتم چناں ندایند کہ من روادار تسابل و تغافل درخواندن و آموختن زبان انگریزی بودہ ام نے نے ۔ من آموختم زبان انگریزی را از قبیل ستہ ضروریہ مے دانم۔ بہ بیند حکام ما زبان انگریزی دارند۔ اصل حکام و قوانین انتظام مملکت بزبان انگریزی است کہ واقفیت ازاں ما رعایا مطیع و منقاد را از ضروریات است۔ اگر بخدمت کدام حاکم وقت میروم بہ سبب تخالف لسان نیاز مندی ہائے خود راچنانکہ دردل ہست ادا کردن نمی توانم لطف و اخلاقے کہ از جانب حاکم برحال ما مے شود آں را فہمیدن و دل را بآں خود کردن نمے تونم ما را آنقدر حاجت بانگریزی دانستن افتادہ است کہ بدون آں سرانجام امور تمدن ہم خیلے مشکل است گردوں و خانے کہ بہ تخت سلیماں مانا ست۔ عمدہ وسیلہ تسہیل سفر بجہت ما مہیا است الا بعدم واقفیت از زبان انگریزی چہا مصائب است کہ درآں نمی بردرایم اگر پیام ضروری بذریعہ قوت کہربائی فرستادن مے خواہیم۔ بدون واقفیت از زبان انگریزی دراں عاجزیم۔ از بدترین پیشہ ہا کہ نوکری اسست تا بہ اعلیٰ ترین پیشہ ہا کہ تجارت است ما بہ انگریزی دانی محتاجیم۔ من بہ حسد نمی گویم و نہ از ہمچومنے ہ ہوا خواہ بنی نوع انسانم۔ حسد آمد۔ بلکہ بطور تمثیل غبط مے گویم کہ دیگر ہم کشوران ما صرف بذریعہ انگریزی از ما سبقت ہا بردہ اندوروز بروز مسابقت می نماید۔ پس ہم کیشان ما را نیز واجب و ضرور است کہ سعی موفورہ در آموختن زبان انگریزی نمایند۔ و چنانکہ پیش تر بودند دریں معرکہ ہم گوئے سبقت از دیگر ہم کشوران خود ربایند مگر ایں نمی خواہم کہ عربی رایک سر فروگزارنہ و از علوم دینیۃ و مسائل حقیہ مذہب خود جاہل و نابلد محض مانند۔ ترجمہ کتب علوم و فنون جدیدہ را بایں وجہ خواہانم کہ اگر ترجمہ نشوند تحصیل علوم و فنون جدیدہ مختصر زبان انگریزی خواہد بود و ب ۔ و آزاں ہماں چند کساں را کہ در آں زبان لیاقت کلی بہم رسانیدہ اند فائدہ حاسل خواہد شد و بس۔ تمام ولایت مارا کہ من درپے آں ہستم حصول فوائد ممکن نیست آیا شما خیال می کنید کہ ہرچند سعی کردہ آید برزبان انگریزی در ولایت وسیع ہندوستان مثل زبان ملکی رائج شدن مے تواند۔ تاچند سال بلکہ بسیار زائد ازاں کسے ایں چنیں خیال کردن نمے تواند۔ پس ابنائے جنس خود را درہمیں جہالت و کوری و ذلت و خواری خواہم گزاشت۔ اے سر خیلاں قوم ما چندانکہ دراہتمام این امور تاخیرے شود روز بروز مشکل دیگر برروئے کار مے آید و آں کار از دست مے رود وقت را از دست مدھید۔ و در فراہمی سامان تربیت اہل ہند آمادہ شوید کہ وقت رفتہ و تیر از کمان جستہ باز نمی آید۔ سخن دیگر ہم بہ غور شنیدنی است کہ در تربیت علوم و فنون جدیدہ و بنو جواناں ہم قوماں من خواہ بذریعہ زبان انگریزی باشد و کواہ بذریعہ تراجم احتمال سستی در عقائد حقہ دینیہ و ایں احتمال نیست بلکہ بہ تجربہ و اسقراہم ہ چنیں یافتہ ایم مگر غور فرمایند کہ در حقیقت باعث آں توغل در زبان انگریزی یا آموختن علوم و فنون جدیدہ نیست البتہ از توغل بفلسفیات و غفلت تحقیق و تدفین از اعتقادیات وو ایں چنیں مغالطہا در پیش مے آیند چنانچہ در بلاد جرمنی و فرانس آتش ایں فتنہ سر بفلک کشیدہ بود۔ وصدھا و ہزارھا مردم نقلیات را اوہن از تار عنکبوت خیال کردہ بوند و زمانے پیش تر ازیں در دارالسلطنت لندن ہم ایں بلا افتادہ بود و در زمانے کہ حکمت حکمائے یونان درمیان ما مسلماناں شیوع یافت ہمیں آفت درمایان ہم رسیدہ بود۔ مگر علمائے ہر قوم و ملت بدفع آں کوشیدند و ہمہ آں را برشکستہ حقیقت اعتقادیات نقلیہ را بصحت رسانیدند۔ علمائے مذہب ما علم کلام را ایجاد کردند باثبات رسانیدند کہ آنچہ فلاسفہ بہ تحقیق آں پرداختہ انداز و ہمیات بیس نیست و نور حقیقت ہماں است کہ زبان وحی بآں ناطق شدہ آرے۔ پائے استدلالیاں چوبیں بود پائے چوبیں سخت بے تمکین بود پس من کہ خواہان ترویج زبان انگریزی و تعلیم علوم و فنون جدیدہ بشمول عربی و باشتمال تحقیقات و تدقیقات عقائد نقلیہ بودم ام ازیں قسم تربیت ایں احتمال بفرسنت ہا دور است البتہ در تکمیل امر دیگر ما را افتادن خواہد شد و آں ایں کہ قوائد حکمت یونان از شیوع حکمت جدیدہ ہمہ از پا برافتادہ اند۔ درزمان پیشین علمائے دین ما را بہ تردید یا بہ مطابقت اصول حکمت یونانی یا علم و حکمت حقیقۃ الہامی حاجت بود۔ و پس چنانچہ بتائید روح القدس درآں کامیاب شدند الحال کہ اصول حکمت را بروش دیگر بنا نہادہ اند ہر چہ ازاں بظاہر مخالف الہامیات مے نماید۔ در تطبیق یا تردید آں توجہ کردن خواہد افتاد و ایں امر گو بظاہر دشوار مے نماید لیکن بتائید روح القدس دشوار نیست۔ فیض روح القدس ارباز مدد فرماید دیگراں ہم بکنند آنچہ مسیحا مے کرد بہ بیند صرف از مذہب ما بظاہر مخالف مے نماید۔ بلکہ از مذہب تمام اہل کتاب کہ عبارت از یہود و نصاریٰ است مخالف مے نماید۔ علمائے مسیحی چہا کوشش دریں بارہ کردہ اند درسالہ ہا برنگاشتہ و علاج بد اعتقادی ہم ملتان خود کما ینبغی فرمودہ اند ۔ پس علماے مذہب ما چرا بداں طرف توجہ نخواند فرمود۔ اگر بدیں گونہ تربیت ہم کیشان شیوع گیرد یقین و اثق است کہ فلاح بے شمار بحال آنہا عاید شود۔ و ترقی روز افزوں و تہذیب مہذب نصیب ایشاں گردد و از تہذیب نامہذب کہ در بعضے از ہم کشوران ماشیوع یافتہ بہ کلی ایمنی دست دہد ۔ من خیر خواہم کشوران خود روز و شب در ہمیں خیالات بسر مے کنم و عمر گراں مایہ خود را و نیز درہم دینار را ہر چہ در کسیہ ام مے آید درہمیں امور صرف مے کنم۔ لیکن من یک جز و ناتوانم و مثل پیر زالے بہ خریداری یوسفؑ برآمدہ ام تنہا از من چہ شود تاوقتیکہ ہمت قومی دراں متوجہ نشود و ہریکے از دل دوست و زبان و درہم و دینار تائیدے نہ نماید انجام آں از محالت مے نماید۔ چنانچہ بنظر انجام بعضے ازیں امور گفتہ ام تدبیرے اندیشیدہ ام در رسالہ در آں باب چاپ نمودہ پیش کش حضرت صدر ایں انجمن نمودہ ام۔ بدیں امید کہ اگر مناسب نماید بخدمت جمیع بزربان کہ در محفل خلد مشاکل فراہم آمدہ اند نذر نمایند شاید خداوند کریم وسیلہ برانگیزد ۔ کہ تصورات من رتبہ تصدیق یا بد وما توفیقی الا باللہ العلی العظیم ہو نعم المولی و نعم النصیر و آخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین ۔ اختتام۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ The End