کلیات شبلی اردو مولانا شبلی مرحوم کی اردو مثنوی ،قصائد ،مسدس اخلاقی ،مذہبی اور سیاسی نظموں کا مکمل مجموعہ :: مرتبہ:: سید سلیمان ندوی دیباچہ طبع اول بسم اللہ الرحمن الرحیم حامد ا و مصلیا مولانائے مرحوم کے علمی کمالات میںاگرچہ فارسی اور اردو کی شاعری بھی داخل ہے تاہم انہوں نے بذات خود کبھی اس کو اپنا قابل فخر کارنامہ قرارنہیں دیا۔ اور اس حیثیت سے کبھی اپنے ہم عصروں کی صف میں حریفانہ حیثیت سے کھڑے نہیں ہوئے بلکہ یہ ان کا صرف ایک تفریحی مشغلہ تھا اورزیادہ تر اس کی تحریک خاص کاص موثرات و محرکات کی وجہ سے تھی۔ چنانچہ جب وہ علی گڑھ کالج میں پروفیسر مقرر ہوئے اور وہاں ان کو قومی زندگی کے مختلف مظاہر نظر آئے تو انہوںنے قصیدہ اور مسدس کی شکل میں بعض نظمیں لکھیں جو وہاں مختل عظیم الشان جلسوں میں پڑھی گئیں۔ ان کے علاوہ علی گڑھ کی جدید تحریک کے متعلق انہوں نے ایک مستقل مثنوی’’صبح امید‘‘ کے نام سے لکھی جو نہایت مقبول ہوئی ۔ اس کے بعد ایک مدت تک انہوں نے اردو شاعری کو ہاتھ نہیں لگایا اور جو کہتے رہے فارسی زبان میں کہتے رہے۔ لیکن ان کی اخیر زندگی میں اندرونی و بیرونی موثرات و محرکات نے ان کو دوبارہ اس طرف متوجہ کیا اورتصنیف سیرت منسوخی تقسیم بنگال‘ ہنگامہ جنگ بلقان‘ قیام مسلم یونیورسٹی و مسلم لیگ اور نزاعات و مناقشات ندوہ کے پیہم و متصل اثرات نے ان کے زود اشتعال جذبات میں ایک آگ سی لگا دی اور انہوں نے اس سے متاثر ہو کر اردو میں بکثرت مذہبی‘ اخلاقی اورسیاسی نظمیں جو ملک میں نہایت مقبول ہوئیں۔ اوراس حسن قول کی بنا پر دہلی ‘ لاہور اور علی گڑھ سے ان نظموں کے متعدد مجموعے شائع ہوئے جن میںسب کے سب ناقص اورغیر مکمل تھے ۔ بلکہ سچ تویہ ہے کہ ان کی عام مقبولیت کو دیکھ کر ان سے وقتی طور پر صرف تاجرانہ فائدہ اٹھانا مقصود تھا ان سب سے بعد حاجی ظفر الملک علوی نے سنہ ۱۹۱۰ء میں ان نظموں کا ایک مجموعہ مجموعہ کلام شبلی کے نام سے شائع کیا جو ان سب میں سب سے زیادہ مکمل تھا لیکن ان نظموں کے علاوہ مولانا کی اور بھی متعدد نظمیں اردو میں تھیں جن کو دارالمصنفین اس اسے بھی زیادہ مکمل مجموعہ شائع کرنے کے لیے نہایت خاموشی کے ساتھ جمع کر رہا تھا ۔ اور ان تمام کوششوں کے سلسلہ میں کلیات شبلی اسی اخیر کوشش کا نتیجہ ہے جس کو کلام شبلی پر چند نظموںکے اضافہ کے علاوہ یہ مزیت بھی حاصل ہے کہ یہ مجموعہ کلام شبلی میں تمام نظمیں اور باہم مخطوط تھیں اور ان میں کسی قسم کی تبویب و ترتیب کا خاص لحاظ نہیں رکھا گیا تھا لیکن اس مجموعہ میں مذہبی‘ اخلاقی اورسیاسی نظموں کے الگ الگ عنوان قائم کیے گئے ہیں اور ان کے تحت صرف وہی نظمیں درج کی گئی ہیں جو ان عنوانوں سے خاص تعلق رکھتی تھیں۔ اس کے ساتھ متعدد نظموں کی ابتدا میں مختلف نوٹ بھی لکھے گئے ہیں جن سے ان کی مزید تشریح ہوتی ہے ۔ وما توفیقی الا باللہ سید سلیمان ندوی سنہ ۱۹۲۵ء مولانا شبلی اردوشاعر کے لباس میں بسم اللہ الرحمن الرحیم مولانا شبلی نعمانی شاعر نہ تھے مولانا شبلی شاعر تھے۔ دونوں باتیں اپنی اپنی جگہ درست ہیں۔ وہ شاعر نہ تھے کیونکہ ان کا نام شاعروں کی فہرست میں نہیں اورپبلک میں شاعر کی حیثیت سے ان کی شہریت نہیں۔ لیکن وہ شاعر تھے کیونکہ ان کا اردو اور فارسی کا دیوان موجود ہے۔ علی گڑھ کالج ‘ علی گڑھ ایجوکیشنل کانفرنس اور ندوۃ العلماء لکھنو کے جلسوں میں وہ بڑی دھوم دھام سے اپنی نظمیں پڑھتے اور اپنے قصیدے سناتے تھے۔ سننے والے سر دھنتے ‘ آنسو بہاتے‘ اورقدر جاننے والے انکی زبان کی فصاحت معنی کی بلاغت اورطرز ادا کی خوبی کو مانتے تھے۔ مولوی نذیر احمد صاحب دہلوی صاحب ہماری زبان کے مشہور مقرر تھے۔ ان کی عادت تھی کہ اپنے لیکچر سے پہلے اپنی سیدھی سادی نظم بھی سناکرتے تھے ۔ اپنی اسی قسم کی نظم میں وہ اپنے شعروں کی بے اثر کیفیت کو دیکھ کر کہتے ہیں۔ تم اپنی نثر کو لو نظم کو چھوڑو نذیر احمد کہ اس کے واسطے موزوں ہیں حالی اور نعمانی مولانا حالی کی شاعری تو مشہور ہے مگر مولانا شبلی نعمانی کی شاعری ان کے علمی کمالات کے ڈھیر میں ایسی چھپ گئی ہے کہ وہ بہت کم لوگوں کو نظر آئی۔ مولانا شبلی مرحوم بچپن سے شاعر تھے۔ ان کے بچپن کے ایک استاد کہتے تھے کہ جب مولانا شبلی بچہ تھے اور چھوٹی چھوٹی کتابیں پڑھتے تھے تو ان کے اوڑھنے کی ایک چادر کی ضرورت ہوئی۔ ان کے باپ اعظم گڑھ کے نامور وکیل تھے تو بیٹے نے باپ سے زبانی کہنے کے بجائے یہ شعر کاغذ پر لکھ کر دیا۔ پدر جس کا یوں صاحب تاج ہو پس اس کا چادر کو محتاج ہو باپ بہت خوش ہوئے اور بیٹے کو چادر انعام دی۔ مولانا شبلی جب اوپر کی کتابیں پڑھنے لگے تو اردو اور فارسی میں شعر کہنے لگے۔ فارسی شاعری کا ذوق توبہت اچھا تھا مگر اردو شاعری ایسی تھی کہ جیسے اکثر نوجوان علم کے زور یا جوانی کے جوش میں شعر کہنے لگتے ہیں۔ حاضر جوابی یہ تھی کہ فوراً شعر کہتے تھے۔ ان کے عربی اور فارسی کے استاد مولانا فاروق صاحب چڑیا کوٹی تھے۔ شاگرد ایک دفعہ ننگے سربیٹھتا تھا۔ استاد نے آ کر پیچھے سے سر پر ایک ہلکی سی چپت لگائی اور خوش طبعی سے فرمایا: ہے گا چپت گاہ خلائق یہ سر شاگرد نے فوراً جواب دیا: جتنے ہیں سر ان پہ ہے فائق یہ سر اعظم گڑھ میں ایک کتب فروش تھے جو اردو کے دیوان بھی بیچتے تھے۔ مولانا کو اپنے بچپن میں شعر و سخن کا شوق اتنا تھا کہ چھٹیوں کے اوقات میںان کی دکان پہنچ جاتے تھے اور وہیں بیٹھ کر دیوان پڑھا اور دیکھا کرتے تھے چونکہ طبیععت کو مناسبت تھی اس لیے بیسیوں شعر ان کو یاد ہو جاتے تھے۔ اورلوگوں کو ان کے اس حافظہ پر تعجب ہوتا تھا۔ مولانا کی جوانی کے زمانہ میں شعر وسخن کا عام چرچا تھا۔ ہر پڑھا لکھا آدمی کچھ نہ کچھ اس سے دلچسپی لیتا تھا۔ شہروں میںمشاعروں کی مجلسیں ہوتی تھیں۔ نوجوان اور بوڑھے شوق سے شریک ہوتے تھے اور داد سخن دیتے تھے۔ مولانا بھی اپنے وطن اعظم گڑھ میں اس قسم کی مجلسیںکرتے تھے۔ غزلیں پڑھی جاتی تھیں۔ واہ وا ہو تی تھی سبحان اللہ اور جزا ک اللہ کے نعرے بلند ہوتے تھے۔ اس زمانہ میںمولانا کا تخلص تسنیم تھا ۔ خیال ہوتا ہے کہ اس زمانہ میں منشی امیر اللہ صاحب تسنیم لکھنوی کی شہرت تھی اسی لیے تسلیم کے وزن پر تسنیم کا تخلق پسند کیا گیا۔ لیکن اس کے بعد انہوںنے خود اپنے نام شبلی کو تخلص قرار دیا۔ مولانا شبلی نے کچھ دن سنہ ۱۸۷۴ء کے قریب غازی پور کے مدرسہ چشمہ رحمت میں گزار ے تھے۔ وہاں اردو کے مشہور شاعر شمشاد ۱ لکھنوی مدرس تھے۔ وہ اچھے شاعر تھے ان کے دیوان چھپ چکے ہیں اور مولانا سے بھی ان کو تعلق تھا۔ مولانا کی فارسی شاعری کے اصل استاد مولوی فاروق صاحب چڑیا کوٹی تھے جو فارسی کے بہت اچھے شاعر تھے۔ اسی کے ساتھ اردو میں بھی نظمیںکہا کرتے تھے۔ ان میں سے دو مسد س ان کے چھپے ہوئے تھے مسدس فاروقی اور مسدس عوالی ۔ پہلے میں موضلع اعظم گڑھ کے سنہ ۱۸۹۳ء کے بلوہ کی روداد ہے اور دوسرے میں مولانا حالی کے مشہور مسدس کا جواب لکھاہے۔ مولانا شبلی کی اردو شاعری بالکل خودرو پوداہے۔ نہ انہوںنے اس میں کسی سے اصلاح لی نہ جم کر کبھی اردو کی شاعری کی اور نہ کبھی اردو کی شاعری کو عزت اور شہرت کا ذریعہ سمجھا ۔ یہاں تک کہ ۱۸۸۳ء میں علی گڑھ جانے سے پہلے وہ اردو میں خط و کتابت کرنا بھی پسند نہیںکرتے تھے۔ اس زمانہ کے اہل علم کی طرح وہ فارسی ہی میں خط لکھتے تھے اورغالب کی طرح محنت سے لکھتے تھے سیرۃ النعمان جو ۱۸۸۷ء عیسویںمیں لکھی ہے اس تک میںیہ لکھا ہے : ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱۔ مولانا عبدالاحد فرنگی محلی المتخلص بہ شمشاد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حرف بہ اردو زون آئین نہ بود یعنی اردو میں لکھنا میرا دستور نہ تھا۔ مگر کیا عجیب بات ہے کہ جس زبان میں لکھنا پڑھا ان کے لیے عار تھا وہی ان کی شہرت اور ان کی غیر فانی زندگی کا باعث بن گئی۔ مولانا کی اردو شاعری کے چار دور ہیں: پہلا: شروع سے ۱۸۸۳ء تک جب وہ علی گڑھ کالج گئے ہیں۔ دوسرا: علی گڑھ کے قیام کا زمانہ (۱۸۹۸ ء تک) تیسرا: حیدر آباد کا زمانہ اور کچھ لکھنو کا یعنی سنہ ۱۹۰۱ء سے سنہ ۱۹۰۸ء تک۔ چوتھا: ۱۹۰۸ء سے سنہ ۱۹۱۴ء تک جس میںانہوںنے وفات پائی۔ پہلا دور پہلے دور کی یادگار ان کی چند غزلیں ایک قصیدہ اور ایک لمبی نظم ہے غزل کا نمونہ یہ ہے : ضعف میں بھی یہ مرے تیر فغاں میں زور ہے روک لے اس کو کہاں یہ آسماں میں زور ہے نیست تھی اس کی کمر‘ پر تو نے ثابت کر دیا واہ وا تسنیم کیا تیرے بیاں میں زور ہے اس زمانہ کا قصیدہ سلطان عبدالحمید خان کی تعریف میں ہے۔ زمین وہ ہے جو انشاء کے اس مشہور قصیدہ کی ہے۔ بھگیاں پھولوں کی تیار کرائے بوئے سمن کہ ہوا کھانے کو نکلیں گے جوانان چمن مولانا فرماتے ہیں اورکس قدر پرجوش فرماتے ہیں تشبیہیں اور استعارے کیسے نازک ہیں: پھر بہار آئی ہے شاداب میں پھر دشت و چمن بن گیا رشک گلستان ارم پھر گلشن شعلہ زن پھر چمنستان میں ہوئی آتش گل پھر صبا چلتی ہے گلشن میں بچا کر دامن آگ پانی میں لگا دی ہے کسی نے شاید حوض میں عکس گل و لالہ ہے یا جلوہ فگن باغ میں باد بہاری کی جو آمد ہ دھوم بہر تسلیم ہر اک شاخ کی خم ہے گردن مسند آرائے تجمل جو ہوا شاہد گل مرغ گلشن میں صدا دیتے ہیں الملک لمن شاخیں انگڑائیاں لیتی رہیں صبا ہے بدمست وجد میں تال لگاتاہے ہر اک برگ سمن سر نکالے ہیں حبابوں نے تہ آب سے کیوں نظر آتی نہ تھی پانی میں مگر سیر چمن چونکتے ہیں جو کبھی خواب سے اطفال بہار تھپکیاں دیتی ہے سونے کے لیے باد چمن اسی زمانہ کی یادگار ان کی ایک لمبی نظم ہے۔ کسی انگریز شاعرنے انگریزی میںقندھار اورکابل کی لڑائی کا حال نظم کیا تھا۔ جس میں اس فوج کے انگریز افسر کی تعریفیں ہیں ان میں سے کوئی انگریز بدل کر اعظم گڑ ھ آیاتھا۔ اس کی فرمائش سے اس کی انگریزی نظم کا اردو میںترجمہ فرمایا۔ لو سنو تغ و سناں کی داستاں رایت و طبل و نشاں کی داستاں پہلوانان جہاں کی داستاں شاہ کے اعزاز و شاں کی داستاں حکمران بحرو بر کی فتح ہے قیصر ہندوستاں کی فتح ہے یہ ویسی ہی نظم ہے جیسی ایک فرمائشی نظم ہونی چاہیے مولانا کے پہلے دور کی اردو شاعری کی کل کائنات یہی ہے۔ دوسرادور دوسرے دور میں ان کی چند غزلیں ہیں جو اس طرح محفوظ رہ گئیں ہیں کہ انہوںنے اسی زمانہ میں علی گڑھ سے آپ اپنے بعض عزیزوں کے خطوں مٰں لکھ کر ان کو بھیجا اور چونکہ وہ خط ان کے خطوں کے مجموعہ میں جس کا نام مکاتیب شبلی ہے چھپ گئے ہیں اس لیے وہ غزلیںعام نگاہوں کے سامنے آ گئی ہیں مولانا علی گڑھ جنوری ۱۸۸۳ ء میںگئے اور ایک ایسے محلہ میں مکان لے کر رہے جو خواجہ محمد یوسف صاحب وکیل (خواجہ عبدالمجید بیرسٹر کے والد) کے پڑوس میں تھا۔ ان کے ہاں ایک شاعر جو قیس تخلص کرتے تھے ۔ رہتے تھے مولانا کی آمد و رفت ان کے ہاں رہتی تھی ۔ اور شعر و شاعری کا شغل رہتا تھا ۔ ایک اور صاحب عبدالحمید صاحب تھے جو گو شاعر تھے مگر دیوانوںکے دیوانہ تھے ان سے بھی ملتے تھے پھر اس وقت میر اکبر حسین صاحب جو اکبر الہ آبادی کے نام سے مشہور ہیں علی گڑھ میں منصف تھے۔ اتحاد مذاق نے دونوں کو ملا دیا تھا۔ کالج میں جو مختلف قومی تقریبیں ہوتی تھیں ان میں مولانا عام طور سے اپنے فارسی قصیدے پڑھا کرتے تھے ۔لیکن اسی زمانہ میں مولانا حالی بھی آ کر اکثر علی گڑھ میں رہا کرتے تھے اوران کا مسدس جو سنہ ۱۹۲۹ء میں چھپ کر مقبول ہو چکا تھا۔ اس سے اردو نظموں اور قصیدوںکا شوق ان کے دل میں پیدا ہوا۔ اس لیے کبھی کبھی اردو نظمیں اور قصیدے بھی انہوںنے کہے۔ غزل اس دور میں انہوںنے جو اردو غزلیںکہیں ان کی کائنات تین چار سے زیادہ نہیں اوریہ مشغلہ صرف دو برس رہا یعنی سنہ ۱۸۸۳ء اور سنہ ۱۸۸۴ء میں۔ ان غزلوں میں سوائے غزل ہونے کے کوئی خاص خوبی نہیں۔ اس دور کی پہلی غزل کا مطلع ہے: تیر قاتل کا یہ احساں رہ گیا جائے دل سینہ میں پیکاں رہ گیا کی ذرا دست جنوں نے کوتہی چاک آکر تا بداماں رہ گیا حسن چمکا یا رکا‘ اب آفتاب اک چراغ زیر داماں رہ گیا بزم میں ہر سارہ رو تیرے حضور صورت آئینہ حیراں رہ گیا مقطع ہے: یاد رکھنا دوستو اس بزم میں آ کے شبلی بھی غزل خواں رہ گیا جنوری سنہ ۱۸۸۴ء میں ان کی دوسری غزل ہے: ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭ اب جو تشریف صبا لائی ہے نکہت زلف‘ غبار رہ دوست آخر اس کوچہ سے کیا لائی ہے مجھ کو لے جا کے مری آنکھ وہاں اک تماشا سا دکھا لائی ہے ۲۶ جنوری سنہ ۱۸۸۴ء کو دو غزلیں بھیجیں پہلی یہ ہے : پوچھتے کیا ہو جو حال شب تنہائی تھا رخصت صبر تھی یا ترک شکیبائی تھا شب فرقت میں دل غمزدہ بھی پاس نہ تھا وہ بھی کیا رات تھی کیا عالم تنہائی تھا انگلیاں اٹھتی تھیں مژگاں کی اسی رخ پیہم جس طرف بزم میں وہ کافر ترسائی تھا دوسری غزل : تیس دن کے لیے ترک مے و ساقی کر لوں واعظ سادہ کر روزوں میں تو راضی کر لوں اور پھر کس کو پسند آئے گا ویرانہ دل غم سے مانا بھی کہ اس گھر کو میں خالی کر لوں ۸ فروری سنہ ۱۸۸۴ء کو ایک غزل لکھی: یار کو رغبت اغیار نہ ہونے پائے گل تر کو ہوس خار نہ ہونے پائے چپکے وہ آتے ہیں گلگشت کو اے باد صبا سبزہ بھی باغ میں بیدار نہ ہونے پائے ان غزلوں میں گو کوئی خاص ندرت نہیں پھر بھی یہ معلوم ہوتا ہے کہ فارسی ترکیبوں سے وہ اپنے کلام کو زینت دینا چاہتے تھے اوراس کا ان کو خاص سلیقہ تھا۔ مثنوی اس دور میں مولانا نے ایک مثنوی ایک مسد س اور دو قصیدے لکھے۔ میرا خیال ہے کہ ان کی یہ مثنوی جس کو انہوں نے اپنی تصنیفات سے باہر کر دیا تھا خاص چیز ہے اس وقت تک مثنوی جس کا انہوں نے اپنی تصنیفات سے باہر کر دیا تھا خاص چیز ہے۔ اس وقت تک مثنوی صرف قصوں کہانیوں کے لیے تھی ۔ ابھی تک اس کو قومی مقصد کے لیے کام میں نہیں لایا گیا تھا بلکہ اب وہ اس فیض سے گویا محرو م ہی ہے۔ مولانا نے اس راہ میں پہل کی اور وہ چیز جو اب تک میر حسن مرزا شوق اور پنڈت دیا شنکر نسیم کی سحر بیانوںسے صرف حسن و عشق اور سحر و طلسم کا تماشا گاہ تھی‘ قومی ترقی وتنزل کا عبرت انگیز منظر بن گئی لفظ فصیح ‘ معنی بلند ترکیبیں دل پذیر‘ تشبیہ اور استعارے نازک حشو زوائد سے پاک اوربیان پر اثر اور یہی چیزیں مثنوی کی جان ہوتی ہیں۔ مثنوی ان شعروں سے شروع ہوتی ہے: کیا یاد نہیں ہمیں وہ ایام جب قوم تھی مبتلائے آلام وہ قوم کہ جان تھی جہاں کی وہ تاج تھی فرق آسمان کی گل کر دیے تھے چراغ جس نے قیصر کو دیے تھے داغ جس نے وہ نیزہ خوں فشاں کہ چل کر ٹھہرا تھا فرانس کے جگر پر روما کے دھوئیں اڑا دیے تھے اٹلی کو کنوئیں جھکا دیے تھے تنزل کا نقشہ اس طرح دکھایا ہے: جس چشمہ سے اک جہاں تھا سیراب وہ سوکھ کے ہو رہا تھا بے آب پستی نے دبا لیا فلک کو خورشید ترس گیا چمک کو اب خضر کو گمرہی کا ڈر ہے عیسیٰ کو تلاش چارہ گر ہے جو ابر ابھی برس گیا ہے اک بوند کو اب ترس گیا ہے کس نیند میں سو گئی تھی آنکھیں بے کار سی ہو گئی تھیں آنکھیں بے کار تھا بے نظام تھا دل پہلو میں برائے نام تھا دل تنزل کا پور ا نقشہ دکھا کے سرسید کی تحریک کا ذکر کیا ہے: ماتم تھا یہی کہ آئی ناگاہ اک سمت سے اس صدائے جاں کاہ اس شان سے تھی وہ آہ دلگیر پہلو میں اثر ‘ بغل میں تاثیر ڈوبی ہمہ تن جو تھی اثر میں نشتر سی اتر گئی جگر میں سرسید کی تصویر: صورت سے عیاں جلال شاہی چہرہ پہ فروغ صبح آگاہی درویش دراز کی سپیدی چھٹکی ہوئی چاندنی سحر کی پیری سے کمر میں اس ذرا خم توقیر کی صورت مجسم خاتمہ کے شعر یہ ہیں: اسلاف کے وہ اثر ہیں اب بھی اس راکھ میں کچھ شرر ہیں اب بھی س حال میں بھی روش وہی ہے دن ڈھل بھی گیا طپش وہی ہے اس جام میں ہے شراب باقی اب تک ہے گہر میں آب باقی گو خوار ہیں طرز و خو وہی ہے مرجھا گئے پھول بو وہی ہے ان شعروں سے آپ نے اندازہ کر لیا ہو گا کہ شاعرانہ خوبیوں کے لحاظ سے یہ مثنوی مصنف کے رتبہ سے کم نہیں ہے۔ مسدس سنہ ۱۸۹۴ء میں سرسید نے علی گڑھ کی سالانہ نمائش کے موقع پر تماشائے عبرت کے نام سے عبرت کا تماشا دکھایا تھا جس میں سرسید اور ان کی تحریک کے دوسرے ناموروںنے لباس اور حلیہ بدل کر تقریریں کیں اور نظمیں پڑھی تھیں۔ اس موقع پر مولانا شبلی نعمانی نے اردو میں ایک مسدس پڑھا تھا۔ یہ کہنا رہ گیا کہ مولانا شبلی کے پڑھنے کا ایک خاص اور موثر انداز تھا اور وہ اپنی نظمیں اسی دھن میں پڑھتے تھے جس کو سن کر سننے والے اثر میں ڈوب جاتے تھے اور سر دھننے لگتے تھے ۔ ان کی یہ لے اتنی پھیلی کہ علی گڑھ کالج کے لڑکیوں اور قومی جلسوں سے نکل کر اب مشاعرہ کی محفلوں تک پہنچ گئی تھی مگر اس وقت یہ بالکل نئی تھی مولانا نے اس تماشا گاہ میں جب اپنے مسدس کے یہ بند پڑھے ہیں تو ایک سماں بندھ گیا تھا: ہم نے مانا بھی کہ دل سے یہ بھلا دیں قصے یہ سمجھ لیں کہ ہم ایسے ہی تھے اب ہیں جیسے یہ بھی منظور ہے ہم کو کہ ہمارے بچے دیکھنے پائیں نہ تاریخ عرب کے صفحے کبھی بھولے بھی سلف کو نہ کریں یاد اگر یادگاروں کو زمانہ سے مٹا دیں کیوں کر مر شیراز و صفاہاں کے وہ زیب منظر بیت حمراء ک وہ ایوان وہ دیوار و در مصر و غرناطہ و بغداد کا اک اک پتھر اور وہ دلی مرحوم کے بوسیدہ کھنڈر ان کے ذروں میںچمکتے ہیں وہ جوہر اب تک داستانیں انہیں سب یاد ہیں ازبر اب تک اس مسدس کے چودہ بند ہیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ شاعرانہ استادی کے لحاظ سے یہ مولانا حالی کے مسدس سے کم ہے۔ قصیدے اس دور میں مولانا نے اردو کے تین قصیدے کہے ہیں۔ ایک وہ ترکیب بند ہے جس کو سنہ ۱۸۹۳ء کی محمدی ایجوکیشنل کانفرنس میں پڑھا تھا۔ بجا ہے آج اگر اس برم میں یہ زیب و ساماں ہیں یہ ان کی بزم ہے جو یادگاہ نسل عدنان ہیں خلیل اللہ سے مہمان نوازی جن کو پہنچی ہے ہزاروں کوس کو اس سے آ آ کے وہ اس گھر میں مہماں ہیں یہ قصیدہ تین بندوں میںتمام ہوا ہے۔ تاریخی واقعات سے مسلمانوں کو عبرت دلائی اورترقی کی روح پھونکی گئی ہے۔ تیسرا قصیدہ بھی مولانا نے کسی جلسہ ہی میں پڑھا تھا۔ اسی کو تماشا گاہ عبرت میں سنہ ۱۸۹۴ء میں ایک طالب علم نے پڑھ کر سنایا تھا مطلع یہ تھا: بزم احباب ہے پر جوش ہے جلسا کیسا جم گیا پھر طرب و عیش کا نقشا کیسا اس قصیدہ میں بعض تشبیہیں اچھوتی ہیں: صفحہ عیش کی سطریں ہیں برابر دیکھو حسن و خوبی سے یہ مجمع ہے صف آراء کیسا نوجواں جمع ہیں یا جوش کی تصویریں ہیں میں نے اس بزم کا کھینچا ہے سراپا کیسا اب بھی اس راکھ میں تھوڑے سے شرارے ہیں نہاں اب بھی اک فتنہ ہے یہ شاہد زیبا کیسا مقطع ہے: اے حریفو! تمہیں خالق کی قسم سچ کہنا شبلی خستہ نے لکھا یہ قصیدہ کیسا چوتھا قصیدہ آنریبل جسٹس سید محمود کی شادی کی مبارک باد میں ہے۔ موقع بھ یہ خوشی کا تھا اس لیے مولانا کا یہ قصیدہ بھی باغ و بہار ہے۔فرماتے ہیں: پھر ہوا بادبہادری کا جو عالم میں عمل چھا لیا سبزہ نوخیز نے سب دشت و جبل ناز سے سوئے چمن جاتی ہے پھر باد بہار کہ صبا گود میںلیتی ہے تو جاتے ہیں مچل نوعر و سان چمن ے ہیں انداز نرالے کہ صبا گود میں لیتی ہے تو جاتے ہیں مچل سمت قبلہ سے جو اٹھتی ہیں گھٹائیں ہر بار کہتی ہیں توبہ زاہد سے کہ اب کے تو سنبھل کچھ عجب شان سے تنتے ہیں جوانان چمن صحن گلزار ہے یا عیش و طرب کا دنگل جھومتی چلتی ہے بے خود روشوں پر جو نسیم غنچے کہتے ہیں چٹک کر کہ سنبھل دیکھ سنبھل اے صبا باغ میں آنا تو دبے پائوں ذرا نیند میں سبزہ خوابیدہ کے آئے نہ خلل بوئے خوش سے یہ نسیم سحری کہتی ہے حجرہ غنچہ میں کیا کرتی ہے آسیر کو چل اوج اقبال تو دیکھو کہ سلیماں کی طرح سیر کرتے ہوئے پھرتے ہیں ہوا پر بادل مژدہ اے بادہ کشواب تمہیں کس کا ڈر ہے ابر کا عالم بالا پہ بھی ہے اب تو یہ عمل اس کے بعد سید محمود کی تعریفیں ہیں اور آخر میںمقطع ہے: میں بھی ہوں عنصری وقت جو محمود ہے تو میں بھی ہوں ناز سلف تو ہے اگر فخر اول مولانا کا یہ اردو قیدہ بہت پرزور اور پرشکوہ ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے ہ ا س کے کہتے وقت شاعر کی نگاہ میں دو قصیدے تھے ایک انشا کا وہ قصیدہ: کہ ہوا کھانے کو نکلیں گے جوانان چمن اور دوسرا محسن کا کوروی کا یہ قصیدہ: سمت کاشی سے چلا جانب بطحا بادل مقطع کا فخریہ بھی لاجواب ہے: تیسرا دور مولانا کی اردو شاعری کا تیسرا دور حیدر آباد کے قیام کا ہے جو صرف چار برس رہا سنہ ۱۹۰۱ء سے سنہ ۱۹۰۴ء تک۔ اس زمانہ میں حیدر آباد کے شعر و شاعری کی زمین میں حضرت داغ کے وجود سے بڑی رنگین تھی۔ داغ سے وہ ملتے بھی تھے اور ان کی شاعری کے وہ برے مداح بھی تھے۔ ان کے بہت سے اچھے شعر مولانا کو یاد تھے۔ اسی لیے حیدر آباد میں ایک فارسی قصیدہ شروع کیا تھا۔ اس میں کہا ہے: ہاں تو دعویٰ کن و مانیز مسلم داریم شبلی سحر فن و داغ غزل خواں از تست حیدر آباد میں مشاعرے ہوتے تھے مجلسیں جمتی تھیں‘ غزلیں پڑھی جاتی تھیں مگر افسوس ہے کہ سوائے ایک غزل کے اس زمانہ کی کوئی چیز ہاتھ نہیں آئی: اثر کے پیچھے دل حزیں نے سراغ چھوڑا نہیں کہیںکا گئے ہیں نالے جو سوئے گردوں تو اشک نے رخ کیا زمیں کا وہی لڑکپن کی شوخیاں ہیں وہی اگلی ہی سی شرارتیں ہیں سیانے ہوں گے تو ہاں بھی ہو گی ابھی تو سن ہے نہیں نہیں کا یہ نظم آئین یہ طرز بندش سخنوری کیا فسوں گری ہے کہ ریختہ میں بھی تیرے شبلی مزہ ہے طرز علی حزیں کا چوتھا دور یہ دور سنہ ۱۹۰۴ء سے شروع ہو کر سنہ ۱۹۱۴ء تک یعنی ان کی وفات تک قائم رہا اورحقیقت یہ ہے کہ ان کی اردو شاعری کا یہی دور ان کی اردو شاعری کا امتیازی دور ہے ۔ یہ وہ زمانہ تھا جب اسلامی دنیا میں انقلاب برپا تھا۔ مسلم لیگ کا ہنگامہ‘ مسلم یونیورسٹی کا قیام اور اس کے بعض حقوق کے لیے گورنمنٹ اور مسلمانوںکے درمیان شدید اختلاف‘ کان پور کی مسجد کا خونی منظر ‘ بنگال کی تنسیخ‘ طرابلس کی لڑائی‘ بلقان کی جنگ‘ ندوہ کے طلبا کی وہ سٹرائک جس نے پورے ہندوستان میں شورش پھیلا دی تھی اور آخر میں دنیا کی بڑی لڑائی۔ ا سوقت مسلمانوں میں یورپ کی طرف سے عموماً اور برطانیہ کی طرف سے خاص طور سے مسلمانوں کے دل جلے ہوئے تھے سرسید کی پرانی پالیسی کا عہد توڑ کر مسلمان علانیہ بغاوت کا اظہار کر رہے تھے بنگال کی تقسیم جو طے شدہ امر کہا جا رہا تھا۔ اس کی تنسیخ نے قیامت سی قیامت برپا کر رکھی تھی۔ اور اس کا مجموعی اثر یہ تھا کہ اس زمانہ میںمسلمانوں کی طبیعتوں میںسخت اشتعال تھا۔ اس پر آشوب زمانہ کا شاعر اگر کوئی ہے تو وہ مولانا شبلی تھے۔ ہر ہفتہ جو واقعہ پیش آتا تھا اس پر وہ اس طرح اشعار میں اظہار خیال فرماتے تھے کہ زمانہ کے بچہ بچہ کی زبان پر وہ اشعار آ جاتے تھے۔ ان نظموں میں جوش بیان قوت نظم اور موثر طنز کا ایک ایسا تیزنشتر چھپا تھا کہ وہ جس پر پڑتا تھا تلملا جاتا تھا۔ مولانا کی اسی شاعری کے نمونے ہیں جن کو اردو شاعری میںایک نئی چیز کہنا چاہیے۔ اس زمانہ میں لاہور میں زمیندار دلی میں ہمدر لکھنو میں اردو گزٹ اور کلکتہ میں الہلال نکل رہا تھا۔ زبان حال تھے انہی میں مولانا کی نظمیں چھپتی تھیں اور خاص طور سے الہلال کلکتہ میں جو مولانا ابولکلام کا ہفتہ وار اخبار تھا مولانا ابوالکلام اور مولانا شبلی میں اس زمانہ میں بے حد عملی و عملی تعلقات اور سیاسی اتحاد خیال تھا۔ اور اسی لے الہلال ان نظموں کی اشاعت کا خاص ذریعہ بن گیا تھا۔ یہ نظمیںمولانا شبلی کے نام کے بجائے پہلے کشاف کے نام سے چھپیں۔ ایک ہی نظمیں چھپی تھیں کہ لوگوں کی نظریں اٹھ گئیں اور شاعر کی تلاش شروع ہو گئی۔ اور آخر بعض بعض پر اس کی شخصیت کا بھید کھل گیا تو کشاف نے وصاف کا بھیس بدلا مگر اس بھیس میں بھی شخصیت پر پردہ نہ پڑ سکا اوریہ راز سب پر کھل گیا ۔ تب مولانا نے اپنے نام سے نظمیں لکھنی شروع کیں۔ مسلمانوں کی سیاسی نظموں میں سب سے پہلے قابل ذکر وہ نظر ہے جو شہر آشوب اسلام کے نام سے جنگ بلقان کے زمانہ میںلکھی گئی۔ یہ نظم رفاہ عام لکھنو کے جلسہ میں پڑھی گئی تھی اور جب پڑھی گئی تھی تو اس کا یہ اثر تھا کہ صدر سے لے کر پامیں تک ماتم برپا ہو گیا تھا۔ حکومت پر زوال آیا تو پھر نام و نشاں کب تک چراغ کشتہ محفل سے اٹھے گا دھواں کب تک قبائے سلطنت کے گر فلک نے کر دیے پرزے فضائے آسمانی میں اڑیں گی دھجیاں کب تک مراکش جا چکا فارس گیا اب دیکھنا یہ ہے کہ جیتا ہے یہ ٹرکی کا مریض خستہ جاں کب تک خواجہ کمال الدین صاحب لاہورنے ایک خط مولانا کو لکھا تھا کہ اس نظم نے مجھ کو لندن میں تڑپا دیا اوراسلامک ریویو کے نکالنے کے محرکات میں سے ایک یہ نظم بھی تھی۔ اس نظم کا اتنا چرچا ہوا کہ کئی صاحبوں نے اس زمین میںطبع آزمائی۔ اس کے آخر کے چند شعر بالکل الہامی ہیں: زوال دولت عثمان زوال شرع و ملت ہے عزیز و فکر فرزند و عیال و خانماں کب تک پرستاران خاک کعبہ دنیا سے اگر اٹھے تو پھر یہ احترام سجدہ گاہ قدسیاں کب تک جو گونج اٹھے گا عالم شور ناقوس کلیسا سے تو پھر یہ نغمہ توحید و گلبانگ اذاں کب تک کہیں اڑ کر نہ دامان حرم کو بھی چھو آئے غبار کفر کی یہ بے محابا شوخیاں کب تک حرم کی سمت بھی صید افگنوں کی جب نگاہیں ہیں تو پھر سمجھو کہ مرغان حرم کے آشیاں کب تک جو ہجرت کر کے بھی جائیں تو شبلی اب کہاں جائیں کہ اب امن و اماں شام و نجد و قیرواں کب تک بلقان کی لڑائی میں ڈاکٹر انصاری کا طبی وفد ہندوستان سے گیا تھا۔ وہ جب واپس آیا تو مولانا بمبئی میں تھے۔ وہیں خیر مقدم لکھا اوروہیں جلسہ پڑھا گیا۔ اس نظم میںدو بند ہیں۔ دوسرا بند قیامت کا ہے۔ ناممکن ہے کہ آج بھی وہ پڑھا جائے اور سننے والے کا دل اثر سے بھر نہ جائے۔ مسلمانوں کے تم نے طالع واژ دن بھی دیکھے ہیں نئے سب انقلاب گردش گردوں بھی دیکھے ہیں تمہارا درد دل سمجھیں گے کیا ہندوستاں والے کہ تم نے وہ مظالم ہائے روز افزوں بھی دیکھے ہیں یتیموں کے سنے ہیں نالہ ہائے جاں گزا تم نے زنان بے نوا کے چہرہ محزون بھی دیکھے ہیں گھروں کو لوٹنے کے بعد زندوں کو جلا دینا بلاد مغربی کے یہ نئے قانون بھی دیکھے ہیں مسلمانوں کو قتل عام اور ترکوں کی بربادی نتائج ہائے امید گلیڈ اسٹوں بھی دیکھے ہیں تم نے غازیوں کے زخم پر ٹانکے لگائے ہیں شہیدان وطن کے جامہ پرخوں بھی دیکھے ہیں لہو کی چادریں دیکھی ہیں رخسار شہیداں پر زمین پر پار ہائے سینہ پرخوں بھی دیکھے ہیں نگار آرائیاں دیکھی ہیں چشم گوہر افشاں کی شہیدان وفا کے عارض گلگوں بھی دیکھے ہیں تمہیں سے کچھ پتہ ملتا ہے شیدایان ملت کا کہ تم نے شاہد اسلام کے مفتوں بھی دیکھے ہیں جنون جوش اسلامی کوئی سمجھا تو تم سمجھے کہ تم نے لیلیٰ اسلام کے مجنوں بھی دیکھے ہیں اخیر کے تین ایسے شعر ہیں کہ جن کو پیشن گوئیوں میں شمار کیا جا سکتا ہے: سہارا ہے اگر امید کا اب بھی کوئی باقی تو تم نے وہ رموز قوت مکنوں بھی دیکھے ہیں عجب کیا ہے یہ بیڑہ غرق ہو کر پھر ابھر آئے کہ ہم نے انقلاب چرخ گردوں یوں بھی دیکھے ہیں مچھلی بازار کان پور کی مسجد کے انہدام پر سارے ہندوستان میں کہرام مچ گیا تھا ا س سانحہ پر مولانا نے خوب خوب نظمیں لکھیں جو مدت تک سب کی زبانوں پر تھیںمولانا اس وقت بمبئی میں تھے ان کی پہلی نظم یہ نکلی: پہنائی جا رہی ہیں عالمان دیں کو زنجیریں یہ زیور سید سجاد عالی کی وراثت ہے یہی دس بیس اگر ہیں کشتگان خنجر اندازی تو مجھ کو سستی بازوئے قاتل کی شکایت ہے عجب کیا ہے جو نوخیزوں نے سب سے پہلے جانیں دیں کہ بچے ہیں سویرے ان کو سو جانے کی عادت ہے شہیدان وفا کی خاک سے آتی ہیں آوازیں کہ شبلی بمبئی میں رہ کے محروم سعادت ہے کان پور کے سلسلہ کی سب سے موثر نظم کے چند شعر یہ ہیں۔ آ پ کو یہ معلوم ہو گا کہ ہر شعر کس طرح تاثیر میںڈوبا ہوا ہے: کل مجھ کو چند لاشہ بے جاں نظر پڑے دیکھا قریب جا کے تو زخموں سے چور ہیں کچھ طفل خورد سال کہ جو چپ ہیں خود مگر بچپن یہ کر رہا ہے کہ ہم بے قصور ہیں آئے تھے اس لیے کہ بنائیں خدا کا گھر نیند آ گئی ہے منتظر نفخ صور ہیں کچھ نوجواں ہیں بے خبر نشہ شباب ظاہر میں گرچہ صاحب عقل و شعور ہیں اٹھتا ہوا شباب یہ کہتا ہے بے دریغ مجرم کوئی نہیں ہے مگر ہم ضرور ہیں سینہ پہ ہم نے روک لیے برچھیوں کے وار ازبسکہ مست بادہ ناز و غرور ہیں کچھ پیر کہنہ سال ہیں دلدادہ فنا جو خاک و خون میں بھی ہم ہتن غرق نور ہیں پوچھا جو میں نے کون ہو تم؟ آئی یہ صدا ہم کشتگان معرکہ کان پور ہیں بلقان و طرابلس کے خونین معرکوں کی تصویریں بھی اسی خوبی سے مولاناکے شاعرانہ مرقع میںموجود ہیں مسلم لیگ جس نے سنہ ۱۹۱۲ء میں سو ٹ ایبل گورنمنٹ کا نقاب اپنے چہرہ پر ڈال لیا تھا مولانا نے اس کی خوب خوب دھجیاں اڑائی ہیں مگر افسوس ہے کہ اس وقت ان کی شاعری کے اس حصہ سے پردہ اٹھانے کا موقع نہیں ورنہ ستیا گوہ کادڑ ہے صر ف ایک نظم پر اکتفا کی جاتی ہے جس میں اس بات کا بیان ہے کہ سرسید کی وفادارانہ پالیسی ان کی طبیعت کی اصلی آمد نہ تھی بلکہ کالج اسٹاف کے انگریز ممبروں کی سکھائی ہوئی تھی فرماتے ہیں: کوئی پوچھے تو کہہ دوں گا ہزاروں میں یہ بات روش سید مرحوم خوشامد تو نہ تھی ہاں مگر یہ ہے کہ تحریک سیاسی کے خلاف ان کی جو بات تھی آورد تھی آمد تو نہ تھی مسلم یونیورسٹی فونڈیشن کمیٹی نے مسلمانوں کے عالم مطالبہ کے برخلاف جس میں علی گڑھ یونیورسٹی کے بجائے مسلم یونیورسٹی نام رکھے جانے‘ تمام ہندوستان کے اسلامی اسکولاں اور کالجوں کے الحاق کے حق میں اور وائسرائے کے اختیارات کم کیے جانے کے مطابے بہت سخت تھے جو کچھ کیا مولانا نے اس پر نہاتی پرزور نظمیں لکھیں ہیں جن کے ایک ایک دو دو شعر بھی سنائے جائیں تو ہمارے ققریب کے احباب ہم کو اجازت نہیں دے سکتے۔ ان سیاسی نظموں میں سب سے بڑی خوبی نظم کی متانت الفاظ کا درد بست ترکیبوںکی چستی اور ان کا طنزیہ طرز بیان ہے۔ ہر شعر مخالف پر تیر و نشتر کا اثر رکھتا ہے اور پھر گرفت کوئی چیز نہیں۔ کامیابی میں بس ایک آدھ برس باقی ہے لیگ سے سلسلہ کانگرس باقی ہے اب بھی آ جاتی ہے کالج سے خوشامد کی صدا جاچکا قافلہ اب بانگ جرس باقی ہے اس دور میں سیاسی نظموں کے علاوہ مولانا نے تاریخی اور اخلاقی نظموں کے دو الگ سلسلے شروع کیے ہیں جن میں سے ہر ایک اپنی خوبی اوربلندی کے لحاظ سے اردو کے بڑے بڑے ضخیم دیوانوں کے مقابلہ میں بھاری ہے بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ اردو ادب میں ان کی کوئی مثال نہیں اور نہ اب تک ان کی تقلید کی جا سکتی ہے ۔ ان نظموں نے ایک طرف اسلامی تاریخ کے انمول موتیوں کو ایک دھاگے میںپرو کر قومی اخلاق کے حسن کو دوبالا کیا۔ دوسری طرف ہماری زبان کی شاعری میں صحیح واقعات کو نظم کرنے کے بہترین نمونے پیش کیے۔ اکثر کہا گیا ہے کہ بہترین شاعری وہ ہے جس میں جھوٹ یعنی مبالغہ اور خیال آرائی کا حصہ زیادہ ہو۔ مگر مولانا کی ان نظموں نے یہ دکھا دیا ہے کہ واقعیت کی سطح پر بھی وہ شاعری کا کمال دکھایا جا سکتا ہے ۔ عموماً ان نظموں میںروایت کے الفاظ کا ٹھیٹ ترجمہ کر دیا گیا تھا۔ پھر بھی یہ کمال ہے کہ خوبی ادا اور تعبیر میںشاعری کا پورا زور ہے: افلاس سے تھا سیدہ پاک کا یہ حال گھر میں کوئی کنیز نہ کوئی غلام تھا گھس گھس گئی تھیں ہاتھ کی دونوں ہتھیلیاں چکی کے پیسنے کا جو دن رات کام تھا سینہ پر مشت بھر کے جولاتی تھیں بار بار گونور سے بھرا تھا مگر نیل فام تھا اٹ جاتا تھا لباس مبارک غبار سے جھاڑو کا مشغلہ بھی جوہر صبح و شام تھا آخر گئیں جناب رسول خدا کے پاس یہ بھی کچھ اتفاق کہ واں اذن عام تھا محرم نہ تھے جو لوگ تو کچھ کر سکیں نہ عرض واپس گئیں کہ پاس حیا کا مقام تھا پھر جب گئیں دوبارہ تو پوچھا حضور نے کل کس لیے تم آئی تھیں کیا خاص کام تھا غیرت یہ تھی کہ اب بھی نہ کچھ منہ سے کہ سکیں حیدرؓ نے ان کے منہ سے کہا جو پیام تھا ارشاد یہ ہوا کہ غریبان بے وطن جن کا کہ صفہ نبویؐ میں قیام تھا میں ان کے بندوبست سے فارغ نہیں ہنوز ہر چند اس میں خاص مجھے اہتمام تھا جو جو مصیبتیں کہ اب ان پر گزرتی ہیں میںان کا ذمہ دار ہوں میرا یہ کام تھا کچھ تم سے بھی زیادہ مقدم ہے ان کا حق جن کو کہ بھوک پیاس سے سونا حرام تھا خاموش ہو کے سیدہ پاک رہ گئیں جرات نہ کر سکیں کہ ادب کا مقام تھا یوں کی ہے اہل بیت مطہر نے زندگی یہ ماجرائے دختر خیر الانام تھا ان نظموں میں اسلامی روایتوں کے ایسے پر تاثیر واقعے موزوں کیے گئے ہیں جو اسلامی تاریخ کے پرفخر کارنامے ہیں۔ سنہ ۱۹۱۲ء میں ندوۃ العلماء اوران کے دارالعلوم کا جو اصلاحی ہنگامہ سارے ملک میں برپا ہوا تھا گو لوگ اس کو بھول چکے تھے مگر مولانا کی وہ چند نظمیں جب تک باقی ہیں جن میں ادھر اشارہ کیا گیا ہے وہ بھلایا نہیں جا سکتا۔ مولانا کی طبیعت بہت حساس تھی۔ اس لیے وہ قومی واقعت سے بہت جلد متاثر ہتے تھے۔ اور یہی تاثیر ان کی شاعری کی روح تھی۔ یہی سبب ہے کہ مولانا نے اپنے زمانہ کے اکثر ناموروں کی وفات پر مرثیے لکھے اور برے پردرد لکھے۔ مگر یہ سب مرثیے فارسی میں لکھے گئے ہیں۔ اپنی زندگی کے سب سے آخر سانحہ یعنی اپنے بھائی مولوی محمد اسحق‘ وکیل ہائی کورٹ الہ آباد کی وفات پر جو دل دوز نوحہ لکھا ہے وہ اردو ہی میں لکھا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ وہ ایک اردو مرثیہ ہماری زبان کے بہترین مرثیوںکے لیے ایک عمدہ نمونہ ہے ۔ مرثیہ کیا ہے درد کی پوری تصویر ہے: وہ برادر کہ مرا یوسف کنعانی تھا وہ کہ مجموعہ ہر خوبی انسانی تھا وہ کہ گھر بھر کے لیے رحمت یزدانی تھا قوت دست و دل شبلی نعمانی تھا جوش اسی کا تھا جو میرے سر پر شور میںتھا بل اسی کا یہ مرے خامہ پر زور میں تھا اسی طرح اس مسدس کا ہر بند نالہ اور فریاد ہے: فوی واقعات پر ان کے دو دو تین تین شعر کے قطعے اردو ادب مین پہلی چیز ہیں جیسے: عجم کی مدح اور عباسیوں کی داستان لکھی مجھے چندے مقیم آستان غیر ہونا تھا مگر اب لکھ رہا ہوں سیرت پیغمبر خاتمؐ خدا کا شکر ہے یوں خاتمہ بالخیر ہونا تھا پیغمبر خاتم صلی اللہ علیہ وسلم اور خاتمہ بالخیر کی مناسبت چھپی نہیں۔ مگر اس میں جو بات چھپی ہے وہ یہ کہ ان کی یہ شاعری کتنی الہامی تھی کہ شاعرانہ پیشن گوئی تاریخ کا واقعہ ہو کر رہی ۔۱ سید سلیمان ندوی دارالمصنفین اعظم گڑھ ۶ اپریل سنہ ۱۹۴۰ء ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱۔ اس مضمون کا خلاصہ لکھنو ریڈیو اسٹیشن سے نشر کیا گیا تھا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ صبح امید ادراک حال مازنگہ می تواں نمود حرفے زحال خویش بہ سیمانوشتہ ایم کیا یاد نہیں ہمیں وہ ایام جب قوم تھی مبتلائے آلام وہ قوم کہ جان تھی جہاں کی جو توج تھی فرق آسماں کی تھے جس پہ نثار فتح و اقبال کسریٰ کو جو کر چکی تھی پامال گل کر دیے تھے چراغ جس نے قیصر کو دیے تھے داغ جس نے وہ نیزہ خوں فشاں کہ چل کر ٹھہرا تھا فرانس کے جگر پر روما کے دھوئیں اڑا دیے تھے اٹلی کو کنوئیں جھکا دیے تھے باایں ہمہ جاہ و شوکت و فر اقلیم ہنر بھی تھے مسخر ہئیت میں بلند پایہ اس کو تھا فلسفہ زیر سایہ اس کا منطق میں ہوا جو گرم جولان قائم تھے رکاب مصر و یونان میدان سخن جو روبرو تھا فارس کی زبان پر طرقوا تھا جو فلسفیان ہندو چین تھے خرمن سے اسی کے خوشہ چیں تھے یہ قوم کہ تاج آسماں تھی اب کوئی گھڑی کی میہماں تھی تھے جان کے پڑ گئے جو لالے ہر سانس پہ لیتی تھی سنبھالے جس چشمے سے اک جہاں تھا سیراب وہ سوکھ کے ہو رہا تھا بے آب پامال ہوا تھا بوستاں کیا آئی تھی بہار پر خزاں کیا وہ ابر کہ چھا رہا تھا یک سر دو دن ہوئے گھل گیا برس کر پستی نے دبا لیا فلک کو خورشید ترس گیا چمک کو اب خضر کو گمرہی کا ڈر ہے عیسیٰ کو تلاش چارہ گر ہے جو ابر بھی برس گیا ہے اک بوند کو اب ترس گیا ہے اسلام کی جان پر بنی ہے دم توڑ رہا ہے جان کنی ہے ہر چند یہ ہو چکی تھی حالت ہم تھے وہی مست خواب راحت غفلت نے ڈبو دیا تھا ہم کو تقلید نے کھو دیا تھا ہم کو مٹنے پہ جو تھا نشاں ہمارا خواب آور ہوا گراں ہمارا غفلت کے یہ چل رہے تھے جھونکے گو صبح ہوئی اور ہم چونکے کس نیند میں سو گئی تھیں آنکھیں بیکار سی ہو گئی تھیں آنکھیں ادراک و خرد سے برطرف تھا دل یا کوئی پارہ خزف تھا بے کار تھا بے نظام تھا دل پہلو میں برائے نام تھا دل تھے ہوش و حواس سب معطل سیدھی تھی غرض نہ ایک بھی کل تھی روز بروز حالت ابتر بن بن کے بگڑ چلا مقدر پیچھے ہٹنے لگی تھی بڑھ کر دریا یہ اتر چلا تھا چڑھ کر عزت نہ رہی نہ جاہ و ثروت افلاس کی بج چکی تھی نوبت دولت سے جو ہاتھ دھو چکے تھے ہم علم و ہنر بھی کھو چکے تھے وہ فلسفہ کہن ہمارا گنجینہ علم و فن ہمارا وہ اوج کمال نکتہ دانی یعنی وہ مسائل معانی منقول کی انتہائے تکمل آئین و اصول جرح و تعدیل ترتیب گزارش دلائل اس طرح کے اور بھی مسائل اندوختہ سلف تھا جو کچھ وہ لعل تھا یا خذف تھا جو کچھ تھے ذرہ خاک یا ستارے اب کچھ نہیں ہاتھ میں ہمارے معقول کو فقہ کو ادب کو ہم ہاتھ سے کھو چکے ہیں سب کو بیہودہ فسانہائے پارین زل و خط و خال کے مضامیں وہ نوک مژہ کی نیزہ بازی وہ ترک نگہ کی فتنہ سازی یہ طرز خیال تھا ہمارا یہ فن ‘ یہ کمال تھا ہمارا جغرافیہ وجود سارا ہر چند کہ ہم نے چھان مارا کی سری بھی گرچہ بحر و بر کی لیکن نہ خبر ملی کمر کی نالوں کو دکھائے جب تماشے گردوں کے اڑا دیے پرخچے دریا ٹھہرا یا چشم تر کو خوں نابہ فشاں کہا جگر کو چھیڑا رگ دل کو نشتر سے نالوں کو لڑا دیا اثر سے اس کوچہ تنگ و تار سے ہم اس بیچ سے اسس حصار سے ہم کھایا کیے گو ہزار چکر تازیست نکل سکے نہ باہر چرچا یا ذکر تھا تو یہ تھا جولانگہ فکر تھا تو یہ تھا اپنی تو ہمیں نہ کچھ خبر تھی اوروں کے عیوب پر نظر تھی لڑ پڑتے تھے بات بات میں ہم ڈوبے تھے تعصبات میں ہم دکھلائی کمال دیں داری مومن کو بنا دیا جو ناری تکفیر ہمارا ہی چلن تھا زندیق تو تکیہ سخن تھا دشمن کو نہ کر سکے موافق مومن کو بنا دیا منافق گمراہ تو سینکڑوں بنائے رستے پہ نہ ایک کو بھی لائے خلق نبوی کی تھی یہ تصویر آپس میں ہر ایک گرم تکفیر تصنیف میںگالیوں کی بھرمار تحریر‘ کہ لعنتوں کا انبار برپا تھے وہ مسجدوں میں فتنے دیکھے نہ سنے کبھی کسی نے آپس میں نفاق کا یہ عالم یہ اس سے خفا وہ اس سے برہم اللہ رہے یہ وفور غفلت سمجھے تھے رواج کو شریعت باطل پر فدا تو حق سے بیزار تقلید پہ کس بلا کا اصرار دین دار برائے نام تھے ہم وابستہ رسم عام تھے ہم تھے رسم و رواج پر فدا سب تحقیق سے کچھ غرض نہ مطلب سمجھے نہ ذرا کہ وقت کیا ہے کس سمت پہ زمانہ چل رہا ہے نیرنگیوں پر نہ کچھ نظر کی یعنی کہ ہوا ہے اب کدھر کی کیا پیش ہے؟ کیسی صورتیں ہیں؟ کیا وقت ہے ‘ کیا ضرورتیں ہیں رنگ و روش سپہر کیا ہے اب طرز خرام دہر کیا ہے ہیں چرخ کی اب نئی ادائیں چلنے لگی اور ہی ہوائیں چھیڑے جو گئے نئے افسانے نغمہ وہ رہا نہ وہ ترانے پھونکا ہے فلک نے اور فسوں اب رنگ زمانہ ہے دگرگوں سیارے ہیں اب نئی چمک کے وہ ٹھاٹھ بلد گئے فلک کے اب صورت ملک و دیں نئی ہے افلاک نئے زمیں نئی ہے سب بھول گئے ہیں ماسبق کو گردوں نے الٹ دیا ہے ورق کو تیور جو بدل گئے قضاکے ڈھنگ ارو ہیں چرخ فتنہ زا کے مے خانہ اولیں ہمارا وہ جام وہ ساتگیں ہمارا وہ لطف کے تذکرے وہ فرصت وہ گرمی انجمن وہ صحبت وہ سحر و فسوں گرمی زباں کی وہ طرز وہ شوخیاں بیاں کی وہ درج در سخن ہمارا گنجینہ علم و فن ہمارا جو زینت و ساز تھے ہمارے وہ مایہ ناز تھے ہمارے جس باغ کے برگ و ساز تھے ہم یعنی کہ چمن طراز تھے ہم جو دشت تھا سبزہ زار ہم سے جس باغ پہ تھی بہار ہم سے جس بزم کے مے گسار تھے ہم جس ملک کے تاج دار تھ ہم جھونکے جو چلے نئی ہوا کے آغوش میں آ گیا فنا کے اور بزم رہی نہ جام و ساغر ایک بار الٹ گیا و دفتر دیکھی روش تو پھر خردمند ہوتے گئے طرز نو کے پابند گرنے بھی نہ پائے تھے کہ سنبھلے بدلا جو زمانہ‘ وہ بھی بدلے طرز و روش زمانہ حال جس ڈھنگ پہ ہے چلے وہی چال یاں اور جو قافلے رواں ہیں سب باد صبا سے ہم عناں ہیں لیکن نقش زمیں رہے ہم بیٹھتے تھے جہاں وہیں رہے ہم گر کر نہ کبھی ابھر سکے ہم بگڑے تو نہ پھر سنور سکے ہم گو غیر اب اہل انجمن ہیں ہر گرم فسانہ کہن ہیں اب تک ہیں بغفلت آرمیدہ محو چمن خزاں رسیدہ ہرچند وہ بزم ہے نہ احباب ہم دیکھ رہے ہیں پروہی خواب گولطمہ خور زمانہ ہیں ہم مخمور مے شبانہ ہیں ہم اس گنج گہر پہ ہم ہیں نازاں جس کا کوئی جوہری نہیں یاں قائم جو وہ انجمن نہیں ہے اس نقد کا اب چلن نہیں ہے اب عیب ہیں سب ہنر ہمارے ہیں پوتھ سے گم گہر ہمارے ازبسکہ ذلیل و خوار ہیں ہم افسانہ روزگار ہیں ہم ہے اوج پہ بخت بد ہمارا دیکھے کوئی جزر و مد ہمارا کیا کوئی سنے فغاں ہماری دل دوز ہے داستاں ہماری ہم مایہ عبرت جہاں ہیں ہم ننگ زمین و آسماں ہیں ناچار ہیں خستہ حال ہیں ہم عبرت کدہ زوال ہیں ہم مٹنے پہ ہے اب نشاں ہمارا گم گشتہ ہے کارواں ہمارا کس ندانست کہ منزل گہ مقصود کجاست ایں قدر ہست کہ بانگ جر سے می آید ماتم تھی یہی کہ آئی ناگاہ اک سمت سے اک صدائے جاں کاہ اس شان سے تھی وہ آہ دل گیر پہلو میں اثر بغل میں تاثیر دل ہاتھ میں لینے میں بلا تھی جادو تھی فسوں تھی نہ جانے کیا تھی ڈوبی ہمہ تن جو تھی اثر میں نشتر سی اتر گئی جگر میں جس سمت سے آئی تھی وہ آواز وہ جلوہ نمائے سحر و اعجاز جنبش جو ہوئی رگ اثر کو دل تھام کے سب بڑھے ادھر کو دیکھا تو وہاں بجاہ و تمکین آیا نظر اک پیر دیرین صورت سے عیاں جلال شاہی چہرے پہ فروغ صبح آگاہی وہ ریش دراز کی سپیدی چھٹکی ہوئی چاندنی سحر کی پیری سے کمر میں اک ذرا خم توقیر کی صورت مجسم وہ ملک پہ جان دینے والا وہ قوم کی نائو کھینے والا اٹھتے ہوئے جوش سے برقت ہے مرثیہ خوان قوم و ملت نالاں ہے کہ اب سے بھی تو جاگو اے خواب گراں کے سونے والا آخر کب تک یہ خواب غفلت الٹو تو ذرا نقاب غفلت تاچند رہو گے مست و سرشار اٹھو! کہ سحر ہوئی نمودار سوچو تو ذرا! کہ کیا حال ہے کس خواب میں ہو کیا خیال ہے غفلت میں جو شب بسر ہوئی ہے لو اب تو اٹھو! سحر ہوئی ہے کچھ تم کو خبر ہے یا نہیں ہے کچھ دل پہ اثر ہے یا نہیں ہے اغیار کے طنز کو بھی سن کر لگتے نہیں کیا جگر پہ نشتر دیکھو تو ذرا یہ حالت زار کیوں قید بلا میں ہو کر گرفتار ہو گرد رہ صف پسین کیوں اس بزم میں خوار ہو تم کیوں کیوں تیر ستم کے ہو نشانہ بگڑا ہے تمیں سے کیوں زمانہ کس نے تمہیں اوج سے اتارا اقبال نے کیوں کیا کنارا کیوں بار ہو تم دل زمیں پر کیوں برق بلا گری تمہیں پر کس پیچ میںرہ گئے ہو پھنس کے کیا ہے کہ اجڑ گئے ہو بس کر افلاس میں جو تم ہو گرفتار بیٹھے ہو جو نقش پا سے بے کار شکوے ہیں جو بے زری کے تم کو لالے ہیں جو نوکری کے تم کو حرفت کو جو کر چکے ہو غارت برباد جو ہو چکی تجارت ہر علم و ہنر سے بے خبر ہو صنعت میں تم شکستہ پر ہو مدخل جو نہیںکمال میں کچھ وسعت جو نہیں خیال میں کچھ افعال جو سخت متبذل ہیں تدبیر کے دست و پا جو شل ہیں رونا ہے تمہیں اب آج جن کا خود کردہ ہیں کیا علاج ان کا غفلت میںجو خوب سو چکے ہو ہونا جو تھا تم وہ ہو چکے ہو دنیا کے نہ کام کے نہ دین کے افسوس رہے نہ تم کہیں کے نکبت کی گھٹا ہے سر پہ چھائی افلاس کی ہر طرف دہائی اب عیش نصیب ہے نہ آرام گھر گھر میں مچا ہوا ہے کہرام برباد پڑے ہیں کارخانے نکبت نے مٹا دیے گھرانے رونق کا اثر نہ عیش کی بو اک خاک سی اڑ رہی ہے ہر سو امید کے دن کی ہو چکی شام خورشید اب آگیا لب بام اب وقت اخیر ہے خبر لو جو کچھ کرنا ہے اب بھی کر لو تادیر وہ قوم کا فدائی وہ خضر طریق رہنمائی اٹھتے ہوئے جوش دل سے پیہم عبرت کا دکھا رہا تھا عالم افسانہ غم سنا کے گھہرا سوتوں کو جگا جگاکے ٹھہرا جادو کی بھری ہوئی وہ تقریر ہونٹوں سے ٹپک رہ تھی تاثیر ترغیب کے ساتھ ساتھ تہدید کچھ یاس تو کچھ نوید امید کچھ لطف بھی تھا عتاب کے ساتھ تھا زہر پہ قند ناب کے ساتھ باتوں میں اثر تھا کس بلا کا اک بار جو رخ پھرا ہوا کا امید کہ بڑھ گئی تک و تاز اونچی ہوئی حوصلوں کی پرواز خواہش کے بدل گئے ارادے ہمت نے قدم بڑھائے آگے وہ دوڑ چلے پابہ گل تھے آندھی ہوئے جو فسردہ دل تھے جو تھا وہ عجیب جوش میں تھا مخمور بھی اب تو ہوش میں تھا اب ملک کے ڈھنگ تھے نرالے اخبار کہیں کہیں رسالے تعلیم کے جا بجا وہ جلسے گھر گھر میں ترقیوں کے چرچے بیتاب ہر ایک جز و کل تھا ہر بار بڑھے چلو کا غل تھا نومیدی از وصال تو طاقت گداز بود صد جاگرہ زدیم امید بریدہ را اسلام کی حالت زبوں کا آنکھوں میںجو پھر گیا تھا نقشا تھا صبر و شکیب کا نہ یارا غیرت نے دلوں کو پھر ابھارا تدبیر مرض کی جستجو تھی ہر بزم میں اب یہ گفتگو تھی یعنے روش علاج کیا ہو بیمار کو کس طرح شفا ہو کیا ہوا کہ ابھر چلیں ذرا ہم اس قید بلا سے ہوں رہا ہم یہ پھانس چبھی ہویء نکل جائے بیمار اجل ذرا سنبھل جائے وابستہ غم کی جاں بری ہو سوکھی ہوئی شاخ پھر ہری بھری ہو یہ قوم کی بے کسی تو جائے یعنی یہ مریض جی تو جائے تھی بسکہ ہر ایک کو یہی فکر برسوں یہی بحث تھی یہی ذکر ہر بزم میں تذکرہ یہی تھا ہر شخص کا مشغلہ یہی تھا دانش طلبان نکتہ داں نے عیسیٰ نفان خوش بیاںنے ترتیب دیے بکاوش و کد بتیس رسالہائے مفرد لکھے بدلائل و براہین اس بحث پہ مختلف مضامین وہ نکتہ در حقیقت آگاہ یعنی مہدی علی ذی جاہ سید اشرف علی ممتاز مشتاق حسین۲۔ نکتہ پرداز ان کے قلم گہر نشاں نے آئین گزارش بیاں نے آسان کر دی ہر ایک مشکل ناطے شدہ رہ گی نہ منزل جو بحث تھی دلنشین کیتھی ہر بات کی چھان بین کی تھی اسلام کا وہ عروج شاہی وہ اوج وہ شان کج کلاہی ایوان علوم کی وہ تزئین تحصیل کمال کے وہ آئین تکمیل فنون میں تو غل اک بار پھر ان کا وہ تنزل اس طرح غرض کہ جزرومد کا کھینچا تھا وہ ٹھیک ٹھیک نقشا تصویر سی پھر گئی نظر میں جاں آ گئی قابل اثر میں اسباب و علل سے بحث کی پھر یعنی کہ یہ انقلاب نادر کس بات سے ہے‘ سبب ہوا کیا وہ باعث اوج اب ہوا کیا پھر اصل سخن پہ کی جو تقریر یعنی روش علاج و تدبیر تحقیق کے طے کیے مراحل وا کر دیے عقد ہائے مشکل تدبیر کی صورتیں بتائیں جو جو تھیں ضرورتیں بتائیں القصہ یہ بات کی تھی تسلیم یعنی کہ علوم نو کی تعلیم تدبیر شفا ہے تو یہ ہے اس دکھ کی دو جو ہے تو یہ ہے سہتے ہیں جو یوں غم و تعب ہم تدبیر یہی ہے بس کہ اب ہم تقویم کہن سے ہاتھ اٹھائیں تہذیب کے دائرے میں آئیں سیکھیں وہ مطالب نو آئین یورپ میں جو ہو رہے ہیں تلقین ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱۔ نواب محسن الملک ۲۔ نواب وقار الملک مولوی مشتاق حسین صاحب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تہذیب کے وہ اصول نایاب وہ طرز معاشرت کے آداب وہ گنج گران دانش و فن وہ فلسفہ جدید لیکن کپلر کی وہ نکتہ آفرینی نیوٹن کے مسائل یقینی اس فیض سے ہم بھی بہرہ ور ہوں ہم بھی اسی کان کے گہر ہوں جوہر جو کمال کے دکھائیں اس بزم میں بھی ہم بار پائیں ہمت کے کھلیں جو بال پرواز اس اوج میں ہم بھی ہوں عناں تاز گو صعب نہیں ہیں یہ مراحل ہم کو ہے مگر یہ تازہ مشکل قائم ہیں جو آج در گاہیں جن پر ہیں اٹھی ہوئی نگاہیں سرکار سے ہے قیام جن کو حاصل ہے قبول عام جن کو اوروں کی اگرچہ رہنما ہیں ان کے لیے نسخہ شفا ہیں جس غم سے مگر تباہ ہیں ہم اس زخم کے یہ نہیں ہیں مرحم اس درد کی یہ دوا نہیں ہیں ناخن پہ گرہ کشا نہیں ہیں پیاسے نہیں اس ابرویم کے درماں نہیں ہمارے غم کے اپنے تو یہ چارہ گر نہیںہیں ہر چند کہ ہیں مگر نہیں ہیں تعلیم ہی صرف ہو جو مقصود کافی ہے یہ جس قدر ہے موجود ادبار کے ہیں مگر جو آثار ہم ایک ہیں اور ہزاروں آزار ذلت سے بھری ہر ایک خو ہے افلاس میں سفلہ پن کی بو ہے آئین مباشرت میں بھی ہیں محتاج ہیں تربیت کے اس دم تہذیب خیال بھی ہے درکار تحصیل کمال بھی ہے درکار مقصود ہے دولت یقین بھی تعلیم اصول شرع و دیں بھی تکمیل طریق پاک بازی ترویج شریعت حجازی درس لغت عرب کم و بیش اتنی جسے مشکلیں ہوں درپیش پھر غیر سے کیا ہو چارہ جوئی کس کس کا کرے علاج کوئی تدبیر یہ ہے کہ اب سنبھل کر ہم آپ کھڑے ہوں اپنے بل پر وابستہ غیر تھے اگر ہم اب آپ ہوں اپنے چارہ گر ہم اس دشت کو طے کریں سراسر ہم آپ دلیل راہ بن کر قائم ہو بالتفاق باہم اک مدرستہ العلوم اعظم جو قوم کا مامن و مقر ہو درماں ہو‘ طبیب چارہ گر ہو وہ کعبہ آرزو ہمارا ہر غم میں ہو چارہ جو ہمارا آئین و اصول فن بتائے آداب معاشرت سکھائے وہ درس گہ خجستہ انجام ہو پشت و پناہ قوم اسلام ہر عقدہ آرزو کرے وا مرکز ہو ہماری حاجتوں کا ساماں راوئیے غرض ہو یعنی کہ دوائے ہر مرض ہو درماں ہو مریض خستہ جاں کا مرہم ہو جراحت نہاں کا مشاطہ رابگو کہ برا سباب حسن یار چیزے فزوں کند کہ تماشا بمار سید والا گہران قوم نے اب اک مجلس تازہ کی مرتب دیباچہ نامہ سعادت یعنی وہ خزینۃ البضاعت رائیں ہوئیں متفق جو سب کی اب قوم کی یاوری طلب کی وہ کشتہ قوم وہ فدائی اٹھا لیے کاسہ گدائی اک اک سے عرض حال کرتا در در وہ پھرا سوال کرتا ہر بزم ‘ ہر انجمن میں پہنچا ہر باغ میں ہر چمن میں پہنچا کاوش سے غرض تھی کچھ نہ کدسے ملتا تھا ہر ایک نیک و بد سے مردان خدا پرست سے بھی رندان سیاہ مست سے بھی ہر زاہد و بادہ خوار سے بھی ملتا تھا وہ گل سے خار سے بھی ٹھہرا جو گرم سیر ہو کر کعبے بھی گیا وہ دیر ہو کر مطلب تھا جو خوب و زشت سے بھی گزرا حرم و کنشت سے بھی پستی سے ملا فلک کی صورت ذروں میں رہا چمک کی صورت صوفی عالم‘ رشید و گمراہ والا گہران صاحب جاہ دانش طلبان مکتہ اندوز کم حوصلگان حیلہ آموز مطلب کا ہر اک سے تھا طلب گار ہر خوان سے تھا وہ زلہ بردار گزرا وہ ہر ایک رہ گزر پر دی اس نے صدا ہر ایک در پر کس بزم میں یہ فغاں نہ پہنچی آہ اس کی کہاں کہاں نہ پہنچی ہر اک کو یہ ماجرا سنایا ہر بزم میں اپنا راگ گایا نالے کیے داغ دل دکھا کر رویا کبھی حال غم سنا کر کیا کیا نہ مصیبتیں اٹھائیں ہر طرح کی ذلتیں اٹھائیں ناکام رہا صدائیں دے کر دشنام سنی دعائیں دے کر حنظل پائے شکر کے بدلے سنگ اس کو ملے گہر کے بدلے لعل اس نے دیے شرار پائے گل نذر کیے تو خار پائے کیا تلخ ملے جواب اس کو کیا کیا نہ دیے خطاب اس کو برگستہ کہا کسی نے دیں سے لعنت کا صلہ ملا کہیں سے خود قوم کو ہو گئی تھی یہ کد زندیق کہا کسی نے مرتد چرچے تھے یہی زغرب تا شرق وہ اپنی ہی دھن میں تھا مگر غرق گو ناوک ظلم کا ہدف تھا وہ شیفتہ پھر بھی سربکف تھا منظور جو قوم کا تھا اعزاز ذلت پہ بھی اپنی تھا اسے ناز دشنام کو وہ دعا ہی سمجھا وہ درد کو بھی دوا ہی سمجھا جور اس نے سہے کرم کے بدلے لطف اس نے کیے ستم کے بدلے ہرچند یہ مشکلیں تھیں درپیش گر غیر تھے سب یگانہ و خویش دل کو نہ رہا تھا آسرا بھی یاروں میں وفا نہ تھی ذرا بھی بیگانہ عزیز و خویش ٹھہرا سمجھا جسے نوش نیش ٹھہرا یہ زحمتیں گو تھیں ساتھ اس کے پرزور تھے پر جو ہاتھ اس کے آگے وہ بڑھا ہٹا کے سب کو طے کر کے رہا رہ طلب کو آئے تھے جو سنگ راہ بن کر سب اڑ گئے برگ کاہ بن کر ناکام رہے وہ جن کو تھی لاگ خاشاک سے دب نہ سکی نہ یہ آگ کس خس کے اگرچہ لاکھ تدبیر صرصر کا نہ ہو سکا عناں گیر آتش پہ ٹھہر سکا نہ سیماب خاشاک سے رک سکا نہ سیلاب باطل کو جو حق نے کر دیا پست اب نیست نے پائی صورت ہست آہوں نے دکھائی اس کو تاثیر کام آئے وہ نالہائے شب گیر پردرد جو اس کی داستاں تھی لبریز اثر جو وہ فغاں تھی ٹھنڈے ہوئے تھے جو گرم خو بھی دل تھام کے رہ گئے عدو بھی ہمت تھی جو شمع راہ اس کی خالی نہ گئی وہ آہ اس کی ہونی تھی کہ قوم کے پھریں دن نالے نہ رہے اثر کیے بن آمادہ ہوئے برائے امداد عالی منشان صاحب داد وہ اوج فزائے شوکت و جاہ سرکار نظام خلد اللہ وہ مستند عدالت و داد یعنی وہ رئیس مصطفے آباد وہ صاحب سیرت رضیہ دستور کبیر آصفیہ تھے ملک میں اور بھی جو ذی جاہ اسلام کے یاور و ہوا خواہ فیاضیوں کے دکھائے آثار یا ابر کرم ہوا گہر بار امید نے بھی بزعم دشمن بھر بھر لیے اپنے جیب و دامن واں بحر کرم کو آ گیا جوش یاں مطلب و آرزو تھی ہم دوش پیدا جو ہوا خیال غیرت یہ تھا اثر کمال غیرت اس جوش میں بھر گئے بدونیک تھا چور اسی نشے میں ہر ایک نادار تھا یا کہ اہل زر تھا ہر ایک کا یہ مطمح نظر تھا روشنہو یہ شمع راہ حاجت تعمیر ہو قبلہ گاہ حاجت آخر ہزار جاہ و اجلال طالع ہوا آفتاب اقبال روشن ہوئی بزم گاہ امید نکلا افق شرف سے خورشید قائم ہوا یادگار ایام وہ مدرستہ العلوم اسلام بنیاد کی تھی جو دل ربا رسم کس شان سے یہ ادا ہوئی رسم مجمع تھا جو اہل علم و فن کا کچھ ڈھنگ نیا تھا انجمن کا کس شوق سے تھے شریک صحبت عالی منشان قوم و ملت جن کو یہ دھن لگی تھی جی سے پھولے نہ سماتے تھے خوشی سے تھا لارڈ ملٹن جو صدر محفل فرزانہ ہوش مند و عاقل بنیاد کے سنگ اولیں کو رکھا تو کہا کہ اے عزیزو گو سرور انجمن ہے یورپ سرچشمہ علم و فن ہے یورپ باایں ہمہ جاہ و شوکت و فر ہے اہل عرب کا سایہ پرور سیکھے ہیں اصول و فن انہی سے لی ہے روش سخن انہی سے ہوں آج جو میں شریک محضر رکھتا ہوں جو اس بنا کا پتھر مقصود یہ ہے یہ چاہتا ہوں اس حق میں کسی قدر ادا ہوں خالق سے دعا ہے اب کہ جاوید روشن رہے یہ چراغ امید ذرہ ہے تو مہر آسماں ہو قطرہ ہے تو بحر بیکراں ہو ز شرح قصہ ما رفتہ خواب از چشم خاصاں را شب آخر گشتہ و افسانہ از افساہ می خیزد یہ حاسل نالہائے شب گیر یہ قوم کی آرزو کی تصویر یہ اوج دہ خیال امید یہ قوم کا نونہال امید صد شکر کہ آج بارو رہے جو شاخ ہے اس کی پر ثمر ہے لایا ہے وہ برگ و بارکیسا اعدا کو ہے خار خار کیسا بخت اس کا جو آج اوج پر ہے ہر لحظہ برونق دگر ہے یہ اس کی ترقیوں کا ہے طور کل اوتھا آج ہو گیا اور پہلے سے یہ آب و تاب ہے آج کل شمع تھا آفتاب ہے آج اس چشمہ فیض سے ہے سیراب بنگال سے تاحدود پنجاب دانش طلبان قوم اکثر ہیں جمع ہر اک جگہ سے آ کر کس نخل کے یہاں ثمر نہیں ہیں کس کان کے یہاں گہر نہیں ہیں اس باغ میں کوئی آ کے دیکھے اسلام کے ہونہار پودے ہر چند یہ اوج ہے یہ شان ہے وہ بات مگر ابھی کہاں ہے سامان جو اتنے کچھ بہم ہیں ہر چند بہت ہیں پھر بھی کم ہیں جس دشت میں فکر ہے عناں تاز جس اوج پہ ہے ہوس کی پرواز جو پیش نہاد آرزو ہے جس سمت عنان جستجو ہے جس کے لیے ناصبور ہیں ہم اس حد سے ہنوز دور ہیں ہم ناطے شدہ منزل طلب ہے امید ہنوز تشنہ لب ہے باقی ہیں بہت سے کام اب تک امید ہنوز تشنہ لب ہے آتا ہے یہاں جو کوئی ممتاز سنتا ہے یہ بام و در سے آواز اے قوم! کہاں ہے تو کدھر ہے کیوں حال سے میرے بے خبر ہے تو اور مری خبر نہ لے ! قوم کس نیند میں سو گئی ہے اے قوم جو لوگ دکھا چکے ہیں ہمت ان سے تو نہیں ہے کچھ شکایت افسوس تو ان پر ہے کہ اب بھی ہیں گم شدہ رہ ترقی جلو جو دکھا رہا ہے اربار اوہام غلط میں ہیں گرفتار اب تک بھیجو برسر کجی ہیں گو اپنے ہیں پھر بھی اجنبی ہیں سچ یہ ہے کہ جب ضد آپڑی ہے پھر قوم کی ان کو کیا پڑی ہے گو قوم شکستہ حال ہو جائے برباد ہو پائمال ہو جائے افلاس میںٹھوکریں بھی کھائے اغیار کے ناز بھی اٹھائے پوچھے کوئی بد نہ نیک اس کو ٹھکرا کے چلے ہر ایک اس کو سہنے ہیں پڑے اسے شب و روز اغیار کے طعنہ ہائے دل دوز یاور نہ کوئی ‘ نہ چار گر ہو ہے خوار تو اور خوار تر ہو ہر ایک کے دل پہ بار ہو کر مٹ جائے ذلیل و خوار ہو کر یہ سب ہو پر ان کی ضد نہ جائے حق بات کبھی نہ دل میں آئے گو قوم پہ لاکھ آفتیں آئیں ممکن ہے کہ یہ ذرا بدل جائیں جاتے نہیں وہم باطل ان کے پتھر سے بنائے یہں دل ان کے اتنے جو نہ کج خیال ہوتے کیوں آج شکستہ حال ہوتے سید سے اگر ہے بغض للہ وہ خادم قوم اگر ہے گمراہ کچھ آپ ہی انتظار کرتے اسلام کو نیک نام کرتے باتیں نہ فقط بنا کے رہتے جو منہ سے کہا دکھا کے رہتے اسلام کی دوستی تو یہ تھی الفت کی دلیل تھی تو یہ تھی یہ وقت جو آ پڑا ہے مشکل ہے پردہ کشائے حق و باطل اک عرضہ گہ قبول ورد ہے معیار تمیز نیک و بد ہے یاں حال کھلے گا ایں و آں کا دنگل ہے وفا کے امتحاں کا اے مدعیان حب اسلام حجروں میں تو اب کرو نہ آرام دعوے ہیں تو کچھ ہنر دکھائو ہمت کے قدم ذرا بڑھائو دیکھو! رہ جستجو یہی ہے میداں یہی ہے گو یہی ہے انداز عرب اگر ہے خو میں باقی ہے وہ جوش اگر لہو میں موقع ہے یہی ہنر دکھائو جو کہتے تھے آج کر دکھائو کر دو جو گزشتہ کی تلافی ثابت ہو زمانے پر کہ ابھی بھی گو دور فلک ہوا دگرگوں پھر تو رگوں میں ہے وہی خوں اسلاف کے وہ اثر ہیں اب بھی اس راکھ میں کچھ شرر ہیں اب بھی اس حال میں بھی روش وہی ہے دن ڈھل گیا طپش وہی ہے اس جام میں ہے شراب باقی اب تک ہے گہر میں آب باقی گو خوار ہیں طرز و خو وہی ہے مرجھا گئے پھول بو وہی ہے ہذا ولقد بلغت اقصاہ فاسعو! وتوکلو علی اللہ راقم سرگذشت عہد گل راہم ز شبلی۱ می شنو عندلیب آشفتہ تر گفت ست ایں افسانہ را ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱۔ اصل میںیہ شعر نظیری کا ہے ۱۲ منہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تماشائے عبرت یعنی وہ قومی مسدس جس کو جناب علامہ شبلی نے سرسید کے قومی تھیٹر علی گڑھ میں اپنے پر درد و پر سوز لہجہ میں پڑھا تھا آج کی رات یہ کیوں جمع ہیں احباب بہم بھیڑ کیا ہے نظر آتا ہے یہ کیسا عالم نوجوانان ہنر پرور و ارباب ہمم جوق در جوق چلے آتے ہیں کیسے پیہم کچھ سمجھ میں نہیں آتا جو یہ سب سمجھتے ہیں شاید اس بزم کو یہ بزم طرب سمجھتے ہیں ہے گماں ان کو کہ آیا ہے تھیٹر کوئی یا کہ اس سے بھی تماشا ہے بڑھ کر کوئی اس سبھا میں بھی نظر آئے گا اندر کوئی مسخرا بن کے بھی آئے گا مقرر کوئی نقل وہ ہو گی کہ دیکھی نہ سنی ہو گی کبھی سیر وہ آج کریں گے کہ نہ کی ہو گی کبھی کوئی کہتا ہے کہ تھیٹر تو نہیں ہے لیکن سازونغمہ بھی نہ ہو ساتھ نہیں ہے ممکن راتیں کاٹی ہیں اسی شوق میں تارے گن گن کر دیکھیںکیا سیر دکھائیں یہ بزرگان مسن کچھ نہ کچھ تازہ کرامات تو ہو گی آخر بوڑھے غمزوں میں کوئی بات تو ہو گی آخر دوستو کیا تمہیں سچ مچ تھا تھیٹر کا یقین کیا یہ سمجھے تھے کہ پردہ کوئی ہو گا رنگین نظر آئے گی جو سوتی ہوئی اک زہرہ جبین آئے گا پھول کے لینے کو ارم کا گل چیں قوم کی بزم کو یوں کھیل تماشا سمجھے ہائے گر آپ یہ سمجھے تو بھی بے جا سمجھے ہائے افسوس کہ ہو قوم تو یوں خستہ وزار مرض الموت میں جس طرح سے کوئی بیمار نہ معالج ہو کوئی پاس نہ سر پر غم خوار نظر آتے ہوں دم نزع کے سارے آثار واں تو یہ حال کہ مرنے میں بھی کچھ دیر نہیں آپ ادھر تماشے سے ابھی سیر نہیں نوحہ غم ہے یہاں نغمہ عشرت کیسا ہے یہ عبرت کا سماں جوش مسرت کیسا ہے جنوں خیز یہ ہنگامہ عبرت کیسا قوم کا حال ہے غفلت کی بدولت کیسا ہے عجب سیرا گر دیدہ بینا دیکھے دیکھنا ہو جسے عبرت کا تماشا دیکھے ہائے کیا سین ہے یہ بھی کہ گروہ شرفا صاحب افسر و رنگ تھے جن کے آبا قوم کے عقدہ مشکل کے ہیں جو عقدہ کشا ایکٹر بن کے وہ اسٹیج پہ ہیں جلوہ نما قوم کے خواب پریشاں کی یہ تعبیریں ہیں ایکٹر یہ نہیں عبرت کی تصویریں ہیں بانی مدرسہ وہ سید والا گوہر وہ مینجنگ کمیٹی کے معزز ممبر شبلی غمزدہ وہ شاعر اعجاز اثر اور یہ نوبادہ اقبال کے سب برگ و ثمر نہ تکلف کے کچھ انداز نہ کچھ جاہ کی شان بزم میں آئے ہیں اس حال سے اللہ کی شان اپنے رتبوں کا نہ کچھ دھیان نہ کچھ وضع کا پاس دوستوں سے نہ جھجک اور نہ دشمن سے ہراس گرچہ سب کہتے ہیں حاصل نہیں کچھ بھی جزیاس ہائے کیا دھن ہے کہ پھر بھی تو نہیں ٹوٹتی آس عرض مطلب ہے تصویر سراپا ان کا ہاتھ خود کاسہ دریوزہ ہے گویا ان کا ان کا ہر لفظ ہے اک مرثیہ جاں فرسا قوم کی شان دکھا دیتی ہے ایک ایک ادا دیکھ اے قوم جو اب تک ہو نہ تو نے دیکھا اپنے بگڑے ہوئے انداز کا پورا خاکا گرچہ تدبیر بھی ہم سے نہیں کچھ کی جاتی ہائے حالت بھی تو تیری نہیں دیکھی جاتی یوں بھلانے کو تو ہم دل سے بھلاتے ہیں مگر یاد آ جاتے ہیں پھر بھی ترے اگلے جوہر وہ بھی اک دن تھا کہ جس سمت سے ہوتا تھا گزر ساتھ چلتے تھے جلو میں تری اقبال و ظفر تو کبھی روم میں قیصر کو مٹا کر آئی کبھی یورپ میں نئے فتنے اٹھا کر آئی تھے نقیبوں میں تری دولت و اقبال و حشم تیرے حملوں سے دہل جاتا تھا سارا عالم ایشیا کا تو نے مرقع برہم جا کے یورپ کے افق پر بھی اڑایا پرچم کر دیا دفتر تاتار کو ابتر تو نے نیزہ گاڑا تھا جگہ گاہ تنز پر تو نے کون تھا جس نے کیا فارس و یونان تاراج کس کی آمد میں فدا کر دیا جے پال نے راج کس کو کسریٰ نے دیا تخت و زرو افسر و تاج کس کے دربار میں تاتار سے آتا تھا خراج تجھ پہ اے قوم اثر کرتا ہے افسوں جن کا یہ وہی تھے کہ رگوں میں تری خون جن کا ہم نے مانا بھی کہ دل سے بھلا دیں قصے یہ سمجھ لیں کہ ہم ایسے ہی تھے اب ہیں جیسے یہ بھی منظور ہے ہم کو کہ ہمارے بچے دیکھنے پائیں نہ تاریخ عرب کے صفحے کبھی بھولے بھی سلف کو نہ کریں یاد اگر یادگاروں کو زمانہ سے مٹا دیں کیونکر مردوشیراز و صفاہان کے وہ زیب منظر بیت حمراء کے وہ ایوان وہ دیوار وہ در مصر و غرناطہ و بغداد کا ایک ایک پتھر اور وہ دہلی مرحوم کے بوسیدہ کھنڈر ان کے ذروں میں چمکتے ہیں وہ جو اب تک داستانیں انہیں سب یاد ہیں ازبر اب تک ان سے سن لے کوئی فسانہ یاران وطن یہ دکھا دیتے ہیں آنکھوں کو وہی خواب کہن تیرے ہی نام کا اے قوم یہ گاتے ہیں بھجن تیرے ہی نغمہ پر درد کے ہیں یہ ارگن پوچھتا ہے جو کوئی ان سے نشانی تیری یہ سنا دیتے ہیں سب رام کہانی تیری قصیدہ اردو محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس سنہ ۱۸۹۳ء میں پڑھا گیا بجا ہے آج اگر اس بزم میں یہ زیب و ساماں ہیں یہ ان کی بزم ہے جو یادگار نسل عدناں ہیں خلیل اللہ سے مہمان نوازی جن کو پہنچی ہے ہزاروں کوس سے آ آ کے وہ گھر گھر میں مہماں ہیں فقط اک جذبہ قومی انہیں واں کھینچ لایاہے جہاں زور حکومت ہے نہ حاجب ہیں نہ درباں ہیں ہماری خدمتوں کا وہ اٹھاتے آئے ہیں احساں کہ اسلامی جماعت پر ہزاروں جن کے احساں ہیں ہنر میں ‘ علم میں‘ اخلاق میں ‘ مجدد شرافت میں یہی وہ صورتیں ہیں جن پہ ہم تم آج نازاں ہیں خدا نے ان کو بخشی ہے حکومت اور سطوت بھی کہ جسم سلطنت کے یہ جوارح اور ارکاں ہیں مگر ان کو کسی عزت پہ نازش ہے تو اس پر ہے کہ یہ اسلام کے ہیں نام لیوا اورمسلماں ہیں نہ عہدوں کا تفاوت ہے نہ کچھ فرق مراتب ہیہ یہاں جس سادگی سے یہ شریک بزم خواں ہیں معمر بھی ہیں ان میں نوجواں بھی اور کم سن بھی مگر شان اخوت میں مدارج کے سب کے یکساں ہیں یہ وہ ہیں جن میں ہے اسلاف کا اب تک اثر باقی یہ وہ ہیں جن میں جو ہر نسل عدنانی کے پنہاں ہیں انہی کے بازوئوں میں زور تھا کشور ستانی کا انہی کی یادگاریں جا بجا اب تک نمایاں ہیں ی وہ ہیں جان و دل سے جو فدائے قوم و ملت ہیں یہ وہ ہیں نام پر اسلام کے جو دل سے قرباں ہیں نہ ہو گا ایک بھ درد قومی سے جو خالی ہو بظاہر گرچہ سب مسرور ہیں خرم ہیں شاداں ہیں انہیں احساس ہے آئیں و ملت کی تباہی کا یہ واقف ہیں کہ بیڑے قوم کے اب غرق طوفاں ہیں انہیں معلوم ہے جس تاک میں ہے گردش گردوں انہیں محسوس ہے جس گھات میں ایام دوراں ہیں خبر ہے ان کو جس آزاد میں چھوٹا بڑا ہے اب یہ واقف ہیں کہ پہلے قوم کیا تھی اور کیا ہے اب علاج اپنا ہم اب تک تو سمجھتے تھے کہ آساں ہے مگر وہ درد نکلا جس کو ہم سمجھے تھے کہ درماں ہے دواہر بار جب اپنا اثر الٹا ہی دکھلائے تو بس سمجھو کہ اب بیمار کوئی دم کا مہماں ہے جو سچ پوچھو تو ہے اسلامیوں کی اک یہی حالت مرض دونا بڑھا دیتی ہے خودوہ شے جو درماں ہے سلف کا تذکرہ جو ہمت و غیرت کا ہے افوں ہمارے حق میں وہ سرمایہ خواب پریشاں ہے یہ افسانے بڑھاتے ہیں ہماری نیند کی شدت یہ افسوس حق میں اپنے اور مدہوشی کا ساماں ہے ہمیں احساس تک ہوتا نہیں اپنی تباہی کا کہ سب پیش نظر اسلاف کی وہ شوکت و شان ہے ہماری کلفتیں سب دور ہو جاتی ہیں یہ سن کر کہ دنیا آج تک اسلام کی ممنون احسان ہے مزے لیتے ہیں پہروں تک کسی سے جب یہ سنتے ہیں کہ یورپ دولت عباس کا اب تک ثنا خواں ہے نہیں رہنے کو یاں گھر تک مگر چرچے یہ رہتے ہیں کہ اب تک قصر حمرا قبلہ گاہ رہ نورداں ہے ہیں خود ان پڑھ مگر اس زعم میں اترائے پھرتے ہیں کہ دنیا میں ہمیں سے زندہ ہے اب تک نام یونان ہے نظر آتے ہیں ہم کو عیب اپنے خوبیاں بن کر ہم اپنے جہل کو بھی سمجھتے ہیں کہ عرفاں ہے بسر ہوتی ہے گر اوقات فیاضی پہ غیروں کی تو سمجھے ہیں کہ بس زہد اور توکل کی یہی شان ہے حمیت اور خودداری نہیں ہے گر طبیعت میں تو اچھا ہے کہ مسکینی تو اول شرط ایماں ہے طبیعت میں اگر ہیں فتنہ پردازی کے کچھ جوہر تو دعویٰ ہے کہ تدبیر اور سیاست فرض انساں ہے وہ قوم اور ہو جماعت جس میں یہ اخلاق محکم ہیں بلائیں اس پہ جو آئیں وہ کم ہیں اور بہت کم ہیں یہ جو کچھ سن چکے ہو قوم کی تم حالت ابتر یہ سمجھو کہ یہ اس داستاں کا خاتمہ اس پر ہماری سب سے بڑھ کر بدنصیبی جو ہے وہ یہ ہے کہ بے پروا ہیں وہ بھی قوم کے جو آج ہیں لیڈر گیا وہ وقت جب ہم کو ناصحوں کی جب ضرورت تھی فلک نے کر دیا اک اک کو آپ اپنا نصیحت گر گیا وہ وقت جب تھا بس اسی کا نام ہمدردی کہ دو آنسو بہا لیں قوم کی درماندہ حالت پر گئے وہ دن کہ محتاج تھے عبرت دلانے کے ہمارا حال خود عبرت فزا ہے آج سر تا سر ضرورت اب ہے گر ہم کو تو بس ہے ان بزرگوں کی کہ جن میں خیر سے کچھ دکھانے کے بھی ہوں جوہر فقط باتیں نہوں کچھ کام بھی بن آئے ہاتھو ں سے نہیں جو کچھ وہ من سے کہ دکھائیں اس سے بڑھ کر نہیں گریہ تو بس اک گرمی صحبت کے ساماں ہیں یہ قومی مرثیے یہ وعظ ی اسپیچ یہ لکچر طلب و سعی سے کچھ کام بن آئے تو بن آئے فصاحت اور بلاغت کا ب اب چلتا نہیں منتر تمیں جو کام ہیں درپیش گو مشکل سے مشکل ہیں مگر کر نے پہ آ جائو تو آساں سے ہیں آساں تر ابھی تک تم میں ہے اسلاف کا کچھ کچھ اثر باقی شرر گو بجھ چکے پر گرم ہے اب تک وہ خاکستر ابھی کچھ کچھ مہک باقی ہے ان مرجھائے پھولوں میں ابھی کچھ کاٹ ہے اس تیغ میں گو مٹ چکے گوہر کمی جس بات کی یا نقص جو تم میں ہے وہ یہ ہے کہ ان تم قوتوں کو صرف بے جا کرتے ہو اکثر وہی فیاضیاں تم میں ہیں جو تھیں معن و حاتم میں مگر بیہودہ رسموں کے لیے وہ وقف ہیں یک سر کچھ اس سے کم ہوا تھا صرف تجہیز اسامہ میں لٹا دیتے ہو تقریبوں میں جتنا تو زروزیور فقط آپس کے جھگڑوں میں تم اس سے کام لیتے ہو وہ جودت اور ذہانت جس میں اب تم ہو نام آور سنبھلنا اب بھی اگر چاہو تو ہے وقت اور ضرورت بھی وگرنہ پھر نہیں رہنے کی جو کچھ ہے یہ حالت ہے درتہنیت شادی کدخدائی آنریبل جسٹس سید محمود (مرحوم) پھر ہوا باد بہاری کا جو عالم میں عمل چھا لیا سبزہ نوخیز نے سب دشت و جبل ناز سے سوئے چمن جات ہے پھر باد بہار جھومتے آتے ہیں پھر صحن چمن میں بادل سمت قبلہ سے جو اٹھتی ہیں گھٹائں ہر بار کہتی ہیں توبہ زاہد سے کہ اب کے تو سنبھل نو عروسان چمن کے ہیں نرالے انداز کہ صبا گود میں لیتی ہے تو جاتے ہیں مچل کچھ عجب شان سے سنتے ہیں جوانان چمن صحن گلزار ہے یا عیش و طرب کا دنگل جھومتی چلتی ہے بے خود روشوں پر جو نسیم غنچے کہتے ہیں چٹک کر کہ سنبھل دیکھ سنبھل اے صبا باغ میں آنا تو دبے پائوں ذرا نیند میں سبزہ خوابیدہ کے آئے نہ خلل بوئے خوش سے ی نسیم سحری کہتی ہے حجرہ غنچہ میں کیا کرتی ہے آ سیر کو چل اوج اقبال تو دیکھو کہ سلیماں کی طرح سیر کرتے ہوئے پھرتے ہیں ہوا پر بادل مژرہ اے بادہ کشو اب تمہیں ڈر کس کا ہے ابر کا عال بالا پہ بھی ہے اب تو عمل ہاں وہاں بزم بیا رائے دبہ پیمائے قدم ہاں وہاں زمزمہ می سنج و بفرمائے غزل بادہ بر فر خی شادی محمودہ بہ لوش آں کہ در انجمن فضل بود صدر اجل آنکہ پیداز رکش معنی سر لابیہ آں کہ مضمر بہ دلش سیرت اسلاف اول چوں بہ غیبت نتواں شرح تمنا گفتن منحن اکنون بہ خطاب تو توان کر دبدل قوم کو ناز ہے اے سید والا تجھ پر جمع اسلام کو ہے آج تیری ذات پہ بل تیرے اسلاف کے موجود ہیں جوہر تجھ میں وہی ہمت‘ وہی اخلاق‘ وہی طرز عمل ہیں تیری نکتہ شناسی کے سراپا شاہد فیصلے صدر میں تو نے جو لکھے قل و دل اک جہاں مان گیا زور قلم کو تیرے شرع کے معنی پیچیدہ کیے حل تو نے آج ہم سب کی امیدوں کا جو مرکز ہے تو تو بھی اس راہ میں اسلاف کی رفتار پہ چل باپ کی طرح سے تو قوم کی بن پشت و پناہ جانشینی کے لیے کون ہے تجھ سے افضل ایک عالم کو مسلم ہے تیرا فضل و کمال پھر نہ مانے کوئی حاسد تو جنوں کا ہے خلل قوم کی چاری نوازی بھی ہے تجھ پر لازم تجھ کو خالق نے بنایا ہے جو مسعود ازل مدح مقصود و نہیں جوش محبت ہے یہ میں نہیں وہ کہ لکھوں مدحت ارباب دول مجھ کو خود حسن طبیعت پہ ہے اپنی وہ غرور کہ لکھوں مدح تو اپنا ہی لکھوں علم و عمل میں بھی ہوں عنصری وقت جو محمود ہے تو میں بھی ناز سلف تو ہے اگر فخر اول ٭٭٭ قصیدہ جو سنہ ۱۸۹۴ء میں پڑھا گیا بزم احباب ہے پر جوش ہے جلسا کیسا جم گیا پھر طرب و عیش کا نقشا کیسا صفحہ عیش کی سطریں ہیںبرابر دیکھو حسن و خوبی سے یہ مجمع ہے صف آرا کیسا نوجواں جمع ہیں یا جوش کی تصویریں ہیں میں نے اس بزم کا کھینچا ہے سراپا کیسا جوش سے آتی ہیں ہر سو سے صدائیں کیسی گونج اٹھا زمزمہ عیش سے کمرا کیسا اپنے ہی ہاتھ میں ہے عقدہ کشائی اپنی کیا زمانہ کا گلہ چرخ کا شکوہ کیسا دیکھنا آپ کھڑے ہوں گے ہم اپنے بل پر غیر سے چارہ نوازی کا تقاضا کیسا قوم کی رگ میں ۃے اب تک وہی اسلاف کا خون ہو کے پژمردہ بھی ہے یہ گل رعنا کیسا اب بھی اس راکھ میں تھوڑے سے شرر ہیں پنہاں اب بھی اک فتنہ ہے یہ شاہد زیبا کیسا دیکھا ذرہ کا چمکے گا ستارہ اک دن دیکھنا قطرہ یہ بن جاتا ہے دریا کیسا تم بھی سن لو گے حریفو کبھی انشاء اللہ قافلہ قوم کا منزل پہ وہ پہنچا کیسا کیا نہیں جانتے تم کون ہیں کیا چیز ہیں ہم ہم سے واقف ہے زمانہ کا زمانہ کیسا ہم بھی وہ سیل بلا تھے کہ عرب سے جو بڑھے۔ آ گیا رو میں ی ہسب عرصہ دنیا کیسا ہم الٹ دیتے تھے دنیا کا مرقع دم میں ہم سے پر شور تھا یہ گنبد مینا کیسا ڈال دی کشور ایران میں ہم نے جو ہلچل گر پڑا خاک پہ تاج سر کسریٰ کیسا سب کو یاد ہے کہ تاتار سے لے کر تاروم ہم نے پامال کیا عرصہ بجیسا کیسا سب کو یاد ہے کہ اٹلی کے افق پر ہم نے فتح و نصرت کا اڑایا تھا پھیررا کیسا دیکھنا تجھ کو یورپ میں ہمارا ہو جلال پوچھ اسپین سے تھا قلعہ حمرا کیسا ذکر آتا ہے ترقی کا تو آنکھوں میں صاف پھر جاتا ہے بغداد کا نقشہ کیسا کچھ فقط تیغ و سناں ہی میں نہ تھے ہم مشہور ہم نے ہر فن میں دکھایا ید بیضا کیسا روشنی علم کی پھیلائی تھی پہلے ہم نے ورنہ چھایا تھا زمانے میں اندھیرا کیسا اب بھی اسلاف کے موجود ہیں جو مرہ میں دیکھنا جوش میں آتاہے یہ دریا کیسا اب بھی لندن میں غزالی کی ہے شہرت کیسی اب بھی جرمن میں ہے بوبصر کا چرچا کیسا روم و اٹلی کے مدرسے میں کئی صدیوں تک تھا سند فلسفہ بو علی سینا کیا ہاں کمر بستہ ہو اے قوم ترقی کے لیے آج کے کام میں اندیشہ فردا کیسا نوجوانو! یہ زمانہ کو دکھا دینا ہے اپنی قوت کو کیا قوم نے یک جا کیسا قوم کے تازہ نہالان چمن ہو تم لوگ دیکھیں پھل لاتا ہے یہ نخل تمنا کیسا اے حریفو! تمہیں خالق کی قسم سچ کہنا شبلی خستہ نے لکھا یہ قصیدہ کیسا ٭٭٭ تمہید قصیدہ مدح سلطان عبدالحمید خان سنہ ۱۸۸۹ء پھر بہار آئی ہے شاداب ہیں سب دشت و چمن بن گیا رشک گلستان ارم پھر گلشن شعلہ زن پھر چمنستان میں ہوئی آتش گل پھر صبا چلتی ہے گلشن میں بچا کر دامن آگ پانی میں لگا دی ہے کسی نے شاید حوض میں عکس گل و لالہ ہے یا جلوہ فگن باغ میں باد بہاری کی جو آمد کی ہے دھوم بہر تسلیم ہر ایک شاخ کی خم ہے گردن مسند آرائے تجمل جو ہوا شامد گل مرغ گلشن پہ صدا دیتے ہیں الملک لمن مستیاں کرتی ہوئی پھرتی ہے گلشن میں نسیم جھومتے آتے ہیں بادل طرف صحن چمن کوندتی برق ہے گھنگھور گھٹا چھائی ہے بوندیاں پڑتی ہیں چلتی ہیں ہوائیں سن سن شاخیں انگڑائیاں لیتی ہیں فضا ہے بدمست وجد میں تال لگاتا ہے ہر اک برگ سمن ہلکے ہلکے وہ نسیم سحری کے جھونکے نوعروسان چمن کا وہ نرالا جوبن نرگس مست کی ہیں محو تماشا آنکھیں وا کیا غنچہ گل نے بھی تبسم سے دھن سر نکالے ہیں حبابوں نے تہ آب سے کیوں نظر آتی نہ تھی پانی میں مگر سیر چمن بس کہ ہر ذرہ ہے احسان طلب باد بہار گرد بھی ہاتھ میں تھامے ہے صبا کا دامن بادہ عیش سے مخمور ہے از بسکہ ہر ایک باغ از بسکہ ہے آسائش و راحت کا وطن چونکتے ہیں جو کبھی خواب سے اطفال بہار تھپکیاں دیتی ہے سونے کے لیے باد چمن ٭٭٭ جدید نظمیں (مذہبی و اخلاقی) ہجرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم جب کہ آمادہ خوں ہو گئے کفار قریش لا جرم سرور عالمؐ نے کیا عزم سفر کوئی نوکر تھا نہ خادم نہ برادر نہ عزیز گھر سے نکلے بھی تو اس شان سے نکلے سرورؐ اک فقط حضرت ابوبکرؓ تھے ہمراہ رکاب ان کی اخلاص شعاری تھی جو منظور نظر رات بھر چلتے تھے دن کو کہیں چھپ رہتے تھے کہ کہیں دیکھ نہ پائے کوئی آمادہ شر چونکہ سو اونٹ کا انعام تھا قاتل کے لیے آپ کے قتل کو نکلے تھے بہت طالب زر انہی لوگوں میں سراقہ خلف جعثم تھے جن کو فاروقؓ نے کسریٰ کے پہنائے تھے گہر تین دن رات رہے ثور کے غاروں میں نہاں تھا جہاں عقرب و افعی کی حکومت کا اثر بیم جاں‘ خوف عدو‘ ترک غزا‘ سختی راہ ان مصائب میں ہوئی اب شب ہجرت سے سحر یاں مدینہ میں ہوا غل کہ رسول آتے ہیں راہ میں انکھیں بچھانے لگے ارباب نظر لڑکیاں گانے لگیں ذوق میں آ کر اشعار نغمہ ہائے طلع ابتدا سے گونج اٹھے گھر ان کی آغوش میں بچے بھی مچل جانے لگے نازنینان حرم بھی نکل آئیں باہر آل چلے چہر سے ہو کر تیار زرہ و جوشن و چار آئینہ و تیغ و سپر دفعتہ کوکبہ شاہ رسلؐ آ پہنچا غل ہوا صل علیٰ خیر اناس و بشر جلوہ طلعت اقدس جو ہوا عکس فگن دفعتہ تار شعاعی تھا ہر اک تار بصر طور پر حضرت موسیؑ کی صدا آتی تھی آج اک اور جھلک سی مجھے آتی ہے نظر سب کو تھی فکر کہ دیکھیں یہ شرف کس کو ملے میہماں ہوتے ہیں کس اوج نشیں کے سرور سینے کہتے تھے کہ خلوت گر دل حاضر ہے آنکھیں کہتی تھیں کہ دراور بھی تیار ہیں گھر ہاں مبارک ہو کہ اے خاک حریم نبویؐ آج سے تو بھی ہوئی خاک حرم کی ہمسر صل یا رب علی خیر نبیؐ و رسل صل یا رب علی افضل جن و بشر تعمیر مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کے بعد آپؐ نے پہلا جو کیا کام تعمیر سجدہ گاہ خدائے انام تھا اک قطعہ زمیں تھا کہ اس کام کے لیے واقع میں ہر لحاظ سے موزوں مقام تھا وہ قطعہ زمیں تھا یتیموں کی ملک خاص ہر چند قبر گاہ و گزرگاہ عام تھا چاہا حضورؐ نے کہ بہ قیمت خرید لیں ان کے مربیوں سے کہا جو پیام تھا ایتام نے حضور میں آ کر یہ عرض کی یہ چیز ہی ہے کیا جو یہ اہتمام تھا یہ ہدیہ حقیر پذیرا کریں حضورؐ اللہ اسی زمین کا یہ احترام تھا لیکن حضور نے نہ گورار کیا اسے منت کشی سے آپ کو پرہیز عام تھا احسان ارو بھی یتیمان زار کا بالکل خلاف طبع رسول انام تھا بارہ ہزار سکہ رائج عطا کیے یہ تھا وہ خلق جس سے مخالف بھی رام تھا ساماں جو ضرور ہیں تعمیر کے لیے اب ان کی فکر مشغلہ صبح و شام تھا مزدور کی تلاش بھی تھی سنگ و گل کی بھی ازبس کہ جلد بننے کا خاص اہتمام تھا انصار پاک ار ہاجر تھے جس قدر مزدور بن گئے خدا کا یہ کام تھا اک اور نفس پاک بھی ان سب کا تھا شریک جو آب و گل کے شغل میں بھی شاد کام تھا کندھوں پہ اپنے لاد کے لاتا تھا سنگ و خشت سینہ غبار خاک سے سب گرد فام تھا سمجھے کچھ آپ کون تھا ان کا شریک حال یہ خود وجود پاک رسول انامؐ تھا جو وجہ آفرینش افلاک و عرش ہے جس کا کہ جبرئیلؑ بھی ادنیٰ غلام تھا صلو علی النبی و اصحابہ الکرام اس نظم مختصر کا یہ مسک الختام تھا صلی اللہ علیہ وسلم ایک خاتون کی آزادانہ گستاخی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حلم اور عفو ہند تھی پردہ نشین حرم بوسفیان لقب ہند جگر خوار سے جو ہے مشہور بارگاہ نبوی میں وہ ہوئی حاضڑ اس ارادے سے کہ ہو داخل اربار حضورؐ عرض کی خدمت اقدس میں کے اے ختم رسل دین اسلام ہے مجھ کو بہ دل و جان منظور آپ ہم پردہ نشینوں سے جو بیعت لیں گے کون سے کام ہیں جن کا کہ برتنا ضرورہے آپ نے لطف و عنایت سے یہ ارشاد کیا پہلی یہ بات کہ ہو شائبہ شرک سے دور دوسری یہ کہ نبوت کا ہے لازم اقرار بولی ان باتوں سے انکار نہیں مجھ کو حضور پھر یہ ارشاد ہوا منع ہے اولاد کا قتل اس شقاوت سے ہر اک شخص کو بچنا ہے ضرور عرض کی کہ اے شمع شبستان رسل یہ وہ موقع ہے کہ عاجز ہے یہاں فہم و شعور میں نے اولاد کو پالا تھا بڑی محنت سے میں انہیں آنکھ میں رکھتی تھی کہ تھے آنکھ کا نور بدر میں قتل انہیں حضرت والا نے کیا ہم سے کیا عہد اب اس بات کا لیتے ہیں حضور گرچہ یہ سوء ادب تھا غلطی پر مبنی گرچہ یہ بات تھی خود شیوہ انصاف سے دور اس کی اولاد نے خود جنگ میں کی تھی سبقت لڑکے مارا کوئی جائے تو یہ کس کا ہے قصور لیکن آزادی افکار تھی ازبسکہ پسند آپؐ نے فرط کرم سے اسے رکھا معذور ٭٭٭ اہل بیت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی (علامہ شبلی مرحوم کی آخری نظم) افلاس سے تھا سیدہ پاک کا یہ حال گھر میں کوئی کنیز نہ کوئی غلام گھس گھس گئی تھیں ہاتھ کی دونوں ہتھیلیاں چکی پیسنے کا جو دن رات کام تھا سینہ پر مشک بھر کے جو لاتی تھیں بار بار گونرو سے بھرا تھا مگر نیل فام تھا اٹ جاتا تھا لباس مبارک غبار سے جھاڑو کا مشغلہ بھی جو ہر صبح و شام تھا آخر گئیں جناب رسول خدا کے پاس یہ بھی کچھ اتفاق کہ وہاں اذن عام تھا محرم نہ تھے جو لوگ تو کچھ کر سکیں نہ عرض واپس گئیں کہ پاس حیا کا مقام تھا پھر جب گئیں دوبارہ تو پوچھا حضورؐ نے کل کس لیے تم آئی تھیں کیا خاص کام تھا غیرت یہ تھی کہ اب بھی نہ کچھ منہ سے کہہ سکیں حیدرؓ نے ان کے منہ سے کہا جو پیام تھا ارشاد یہ ہوا کہ غریبان بے وطن جن کا کہ صفہ نبوی میں قیام تھا میں ان کے بندوبست سے فارغ نہیں ہنوز ہرچند اس میں خاص مجھے اہتمام تھا جو جو مصیبتیں کہ اب ان پر گزرتی ہیں میں ان کا ذہم دار ہوں یہ میرا کام تھا کچھ تم سے بھی زیادہ مقدم ہے ان کا حق جن کو کہ بھوک پیاس سے سونا حرام تھا خاموش ہو کے سیدہ پاک رہ گئیں جرات نہ کر سکیں کہ ادب کا مقام تھا یوں کی ہے اہل بیت مطہر نے زندگی یہ ماجرائے دختر خیرا الانامؐ تھا ٭٭٭ ایثار کی اعلیٰ ترین نظیر کافروں نے یہ کیا جنگ احد میںمشہور کہ پیمبرؐ بھی ہوئے کشتہ شمشیر دودم ہو کے مشہور مدینہ جو پہنچی یہ خبر ہر گلی کوچہ تھا ماتم کدہ حسرت و غم ہو کے بیتاب گھروں سے نکل آئے باہر کودک و پیرو جووان و خدم و خیل و حشم وہ بھی نکلیں کہ جو تھیں پردہ نشینان عفاف جن میں تھیںسیدہ پاک بھی بادیدہ نم ایک خاتون کہ انصار ان کو نام سے تھیں سخت مضطر تھیں نہ تھے ہوش و حواس ان کے بہم موقع جنگ پر پہنچیں تو لوگوں نے کہا کیا کہیں تجھ سے کہتے ہوئے شرماتے ہیں ہم تیرے بھائی نے لڑائی میں شہادت پائی تیرے والد بھی ہوئے کشتہ شمشیر ستم سب سے بڑھ کر یہ کہ شوہر بھی ہوا تیرا شہید گھر کا گھر صاف ہوا ٹوٹ پڑا کوہ الم اس عفیفہ نے یہ سب سن کے کہا تو یہ کہا ی تو بتلائو کہ کیسے ہیں شہنشاہ امم سب نے دی اس کو بشارت کہ سلامت ہیں حضورؐ گرچہ زخمی ہیں سرو سینہ و پہلو و شکم بڑھ کے اسنے رخ اقدس کو جو دیکھا تو کہا تو سلامت ہے تو پھر ہیچ ہے سب رنج و الم میں بھی اور باپ بھی شوہر بھی برادر بھی فدا اے شہ دین ترے ہوتے ہوئے کیا چیز ہیں ہم ٭٭٭ مساوات اسلام سب سے پہلے وہی میدان میں بڑھا تیغ بکف ساتھ اک بھائی تھا اور بھائی کے پہلو میں پسر اس طرح اس نے مبارز طلبی کی پہلے مرد میداں کوئی تم میں ہو تو نکلے باہر سن کے یہ لشکر اسلام سے نکلے پیہم تین جاں باز کہ ایک ایک تھا اس کا ہم سر سامنے آئے جو یہ لوگ تو عتبہ نے کہا کس قبیلہ سے ہو کیا ہے نسب جد و پدر بولے ہم وہ ہیں کہ ہے نام ہمارا انصار ہ ہیں شیدائی اسلام ہے ہر فرد بشر جاں نثاران رسول عربیؐ ہیں ہم لوگ اک اشارہ ہو تو ہم کاٹ کے رکھ دیتے ہیں سر ولا عتبہ بجا کہتے ہوجو کہتے ہو مگر افسوس کہ مغرور ہے اولاد مضر تم سے لڑنا توہمارے لیے ہے مایہ عار کہ نہیں تیغ قریشی کے سزاوار یہ سر کہ کے اس نے کیا سرور عالم سے خطاب اے محمد یہ نہیں شیوہ ارباب ہنر جنگ ناجنس سے معذور ہیں ہم آل قریش بھیج ان کو جو ہوں رتبہ میں ہمارے ہم سر آپ کے حکم سے انصار پھر آئے صف میں حمزہ و حیدر کرار نے لی تیغ و سپر ان سے عتبہ نے جو پوچھا نسب و نام نشاں بولے یہ لوگ کہ ہاشم کے ہیں ہم لخت جگر بولا عتبہ کہ نہیں جنگ سے اب ہم کو گریز آو اب تیغ قریشی کے دکھائیں جوہر یا یہ حالت تھی کہ تلوار بھی تھی طالب کفو یا مساوات کا اسلام کے پھیلا یہ اثر بارگاہ نبویؐ کے جو موذن تھے بلالؓ کر چکے تھے جو غلامی میں کئی سال بسر جب یہ چاہا کہ کریں عقد مدینہ میں کہیں جا کے انصار و مہاجر سے کہا یہ کھل کر میں غلام حبشی اور حبشی زادہ بھی ہوں یہ بھی سن لو کہ مرے پاس نہیں دولت و زر ان فضائل پر مجھے خواہش تزویج بھی ہے ہے کوئی جس کو نہ ہو میری قرابت سے حذر گردنیں جھک کے یہ کہتی تھیں کہ دل سے منظور جس طرف اس حبشی زادہ کی اٹھتی تھی نظر عہد فاروقی میں جس دن کہ ہوئی ان کی وفات یہ کہا حضرت فاروقؓ نے بادیدہ تر اٹھ گیا آج زمانے سے ہمارا آقا اٹھ گیا آج نقیب حشم پیغمبر ٭٭٭ خلافت فاروقی کا ایک واقعہ عام الرمادہ کہتے ہیں جس کو عرب میں لوگ عہد خلافت عمرؓ ہی کا وہ سال تھا اس سال قحط تھا ایسا کہ ملک میں لوگوں کو بھوک پیاس سے جینا محال تھا پانی کی ایک بوند نہ ٹپکی تھی ابر سے ہر خاص و عام سخت پراگندہ حال تھا اعراب کی بسر حشرات زمیں پر تھی سب اٹھ گیا جو فرق حرام و حلال تھا تشویش سب سے بڑھ کر جناب عمرؓ کو تھی ہر دم اسی کی فکر کا خیال تھا تدبیر لاکھ کی تھی مگر رک سکا نہ قحط گو انتظام ملک میں ان کو کمال تھا معمول تھا جناب عمرؓ کا متصل کرتے تھے گشت رات کو سونا محال تھا اک دن کا واقعہ ہے کہ پہنچے جو دشت میں کوسوں تلک زمین پر خیموں کا جال تھا بچے کئی تھے ایک ضعیفہ کی گود میں جن میں کوئی بڑا تھا کوئی خرد سال تھا دیکھا جو اس کو یہ پکاتی ہے کوئی چیز جاتا رہا جو طبع حزیں میں ملال تھا سمجھے کہ اب وہ ملک کی حالت نہیں رہی کم ہو چکا ہے قحط کا جو اشتعال تھا پوچھا خود اس سے جا کر تو رونے لگی کہ وہ کیا آپ کو غذا کا بھی یاں احتمال تھا بچے یہ تین دن سے تڑپتے ہیں خاک پر میں کیا کہوں زبان سے جو ان کا حال تھا مجبور ہو کے ان کے بہلنے کے واسطے پانی چڑھا دیا ہے یہ اس کا ابال تھا ان سے یہ کہہ دیا ہے کہ اب مطمئن رہو کھانا یہ پک رہا ہے اسی کا خیال تھا بے اختیار رونے لگے حضرت عمرؓ بولے کہ یہ مرے ہی کیے کا وبال تھا جو کچھ کہ ہے یہ سب ہے مری شامت عمل ازبس گناہ گار مرا بال بال تھا بازار جا کے لائے سب اسباب آب و نان جو زخم قحط کا سبب اندمال تھا چولہے کے پاس بیٹھ کے خود پھونکتے تھے آگ چہرہ تمام آگ کی گرمی سے لال تھا بچوں نے پیٹ بھر کے جو کھایا تو کھل اٹھے ایک ایک اب تو فرط خوشی سے نہال تھا تھی وہ زن ضعیف سراپا شکر یاں حضرت عمرؓ کو وہی انفعال تھا عہدہ عمرؓ کو یہ جو ملا تجھ سے چھین کر جو کچھ گزر رہا ہے یہ اس کا وبال تھا ٭٭٭ عدل فاروقی کا ایک نمونہ ایک دن حضرت فاروقؓ نے منبر پہ کہا تہٰں حکم جو کچھ دوں تو کرو گے منظور ایک نے اٹھ کر کہا یہ کہ نہ مانیں گے کبھی کہ ترے عدل میں ہم کو نظر آتاہے فتور چادریں مال غنیمت میں اب کے جو آئیں صحن مسجد میں وہ تقسیم ہوئی ں سب کے حضور ان میں سے ہر ایک کے حصہ میں فقط اک آئی تھا تمہارا بھی وہی حق کہ یہی ہے دستور اب جو یہ جسم پہ تیرے نظر آتا ہے لباس یہ اسی لوٹ کی چادر سے بنا ہو گا ضرور مختصر تھی وہ رداء اور ترا قد ہے دراز ایک چادر میں ترا جسم نہ ہو گا مستور اپنے حصہ سے زیادہ جو لیا تو نے تو اب تو خلافت کے نا قابل ہے نہ ہم ہیں مامور گرچہ وہ حد مناسب سے بڑھا جاتاتھا سب کے سب مہر بہ لب تھے چہ اناث و چہ ذکور روک دے کوئی کسی کو یہ نہ رکھتا تھا مجال نشہ عدل و مساوات سے سب تھے مخمور اپنے فرزند سے فاروق معظم نے کہا تم کو ہے حالت اصلی کی حقیقت پہ عبور تمہیں دے سکتے ہو اس کا مری جانب سے جواب کہ نہ پکڑے مجھے محشر میں مرا رب غفور بولے یہ ابن عمرؓ سب سے مخاطب ہو کر اس میں کچھ والد ماجد کا نہیں جرم و قصور ایک چادر میں جو نہ پورا ہوا ان کا لباس کر سکی اس کو گوارا نہ مری طبع غیور اپنے حصہ کی بھی میں نے انہیں چادر دے گی واقعہ کی یہ حقیقت ہے کہ جو تھی مستور نکتہ چیں نے یہ کہا کہ اٹھ کے کہ ہاں اے فاروقؓ حکم دے ہم کو کہ اب ہم اسے مانیں گے ضرور ٭٭٭ اظہار و قبول حق وارث عدل پیمبر عمرؓ ابن الخطاب ہیچ تھی جن کے لیے منزلت تاج و سریر مجمع عام میں لوگوں سے انہوں نے کہا مہر باندھو نہ زیادہ کہ ہے یہ بھی تبذیر جس قدر تم کو ہو مقدور وہیں تک باندھو حکم یہ عام ہے سب کو امرا ہوں کہ فقیر ایک بڑھیا نے وہیں ٹوک کے فوراً یہ کہا تجھ کو کیا حق ہے جو تو کرتا ہے ایسی تقرری صاف قرآن میں قنطارکا لفظ آیا ہے تجھ کو کیا حق ہے کہ اس لفظ کی کر دے تفسیر لاکھ تک بھی ہو تر کہہ سکتے ہیں اس کو قنطار تھا یہ اک وزن کہ اس وزن کی یہ ہے تعبیر سرنگوں ہو کے کہا حضرت فاروقؓ نے آہ میں نہ تھا اس سے جو واقف تو یہ میری تقصیر ٭٭٭ جرات صداقت مدتوں حضرت (عباس) بھی تھے شامل کفر کم سے کم یہ کہ رسالت پہ نہ تھا ان کو یقین (بدر) میں آ کے لڑے اور گرفتار ہوئے بسکہ تقدیر میں تھی خانہ زنداں کی زمین قیدیوں کے لیے جو گھر کہ ہوا تھا تیار اتفاقات سے تھا خانہ مسجد کے قریں رات کو حضرت عباسؓ کراہے اکثر قید کرتے ہوئے لوگوں نے جو مشکیںتھیں کسیں دیر تک سرور عالم کو رہی بے خوابی کروٹیں لیتے تھے اور نیند نہ آتی تھی قریب وجہ پوچھی جو صحابہ نے تو یہ فرمایا آتی ہے کان میں عباسؓ کی آواز حزیں جب سنا یہ تو وہیں کھول دیے ہاتھ ان کے چین سے حضرت عباس نے راتیں کاٹیں تھا انہی حضرت عباسؓ کا پوتا (منصور) جو کہ ایوان خلافت میں ہوا تخت نشین ایک دن حکم دیا اس نے کہ اولاد رسولؐ ایک جا جمع کیے جائیں جو مل جائیں کہیں پھر دیا حکم کہ ان سب کو پہنا کر زنجیر کہدو ان سے بنیں خانہ زنداں کے مکیں ایک دن سیر کو اس شان سے نکلا منصور پابہ زنجیر تھے سادات یسار اور یمیں ساتھ ساتھ آتے تھے پیدل جگر و جان رسولؐ اور منصور تھا زیب حرم خانہ ذین ایک نے مجمع ادات سے بڑھ کر یہ کہا گرچہ اس لطف کے مشکور ہیں ہم خاک نشیں غزوہ بدر میں لیکن جو کیا ہم نے سلوک وہ تو کچھ اور تھاہے یاد بھی تم کو کہ نہیں ٭٭٭ نظام حکومت اسلام جب ولی عہد ہوا تخت حکومت کا یزید عامل یثرب و بطحا کو یہ پہنچے احکام کہ ولی عہد کا بھی اب سے پڑھیے نام ضرور خطبہ پڑھتا ہے حریم نبوی میںجو امام وقت آیا تو چڑھایا پایہ ممبر پہ خطیب اورکہا یہ کہ یزید اب ہے امیر اسلام یہ نئی بات نہیں کہ ابوبکر و عمرؓ جانشیں کر گئے جب موت کا پہنچا پیغام اٹھ کے فرزند ابوبکرؓ نے فوراً یہ کہا سربسر کذب ہے یہ اے خلف نسل لئام جھوٹ ہے یہ کہ ہے یہ سنت بوبکرؓ و عمرؓ ہاں مگر قیصر و کسریٰ کی ہے یہ سنت عام اپنے بیٹے کو بنایا تھا خلیفہ کس نے ایسی بدعت کا نہیں مذہب اسلام میں نام یہ طریقہ متوارث ہے تو کفار میں ہے ورنہ اسلام ہے اک مجلس شوریٰ کا نظام شان اسلام ہے شخصیت ذاتی سے بعید شرع میں سلطنت خاص ہے ممنوع و حرام اس سے بھی قطع نظر نسل عرب میں ہم لوگ وہ کوئی اور ہیں جو ہوتے ہیں جو شاہوں کے غلام ٭٭٭ ہمارا طرز حکومت کبھی ہم نے بھی کی تھی حکم رانی ان ممالک پر مگر وہ حکم رانی جس کا سکہ جان و دل پر تھا قرابت راجگان ہند سے اکبر نے جب چاہی کہ یہ رشتہ عروس کشور آرائی کا زیور تھا تو خود فرماندہ جے پور نے نسبت کی خواہش کی اگرچہ آپ بھی وہ صاحب و دیہمم و افسسر تھا ولی عہد حکومت اور خود شاہنشہ اکبر گئے انبیر تک جو تخت جو تخت گاہ ملک و کشور تھا ادھر راجہ کی نور دیدہ گھر میں حجلہ آراء تھی ادھر شہزادے پر چتر عروسی سایہ گستر تھا دلہن کو گھر سے منزل آگاہ تک اس شان سے لائے کہ کوسوں تک زمین پر فرش دیبائے مشجر تھا دلہن کی پالکی خود اپنے کندھوں پر جو لائے تھے وہ شاہنشاہ اکبر اور جہانگیر ابن اکبر تھا یہی ہیں وہ شمیم انگیزیاں عطر محبت کی کہ جن سے بوستان ہند برسوں تک معطر تھا تمہیں لے دے کے ساری داستاں میں یاد ہے اتنا کہ عالمگیر ہندوکش تھا‘ ظالم تھا‘ ستمگر تھا ٭٭٭ عدل جہانگیری قصر شاہی میں کہ ممکن نہیں غیروں کا گزر ایک دن نور جہاں بام پہ تھی جلوہ فگن کوئی شامت زدہ رہ گیر ادھر آ نکلا گرچہ تھی قصر میں ہر چار طرف سے قدغن غیرت حسن سے بیگم نے طمانچہ مارا خاک پر ڈھیر تھا اک کشتہ بے گوروکفن ساتھ ہی شاہ جہانگیر کو پہنچی جو خبر غیظ سے آ گئی ابرائے عدالت پہ شکن حکم بھیجا کہ کنیزان شبستان شہی جا کے پوچھ آئیں کہ سچ یا کہ غلط ہے یہ سخن نخوت حسن سے بیگم نے بصد ناز کہا میری جانب سے کرو عرض بہ آئین حسن ہاں مجھے واقعہ قتل سے انکار نہیں مجھ سے ناموس حیا نے یہ کہا تھا کہ بزن اس کی گستاخ نگاہی نے کیا اس کو ہلاک کشور حسن میں جارہی ہے یہی شرع کہن مفتی دیں سے جہانگیر نے فتویٰ پوچھا کہ شریعت میں کسی کو نہیں کچھ جائے سخن مفتی دین نے بے خوف و خطرصاف کہا شرع کہتی ہے کہ قاتل کی گردن اڑا دو لوگ دربار میں اس حکم سے تھرا اٹھے پر جہاں گیر کے ابرو پہ نہ بل تھا نہ شکن ترکنوں کو یہ دیا حکم کہ اندر جا کر پہلے بیگم کو کریں بستہ زنجیر و رسن پھر اسی طرح اسے باہر کھینچ لائیں اور جلاد کو دیں حکم کہ ہاں تیغ بزن یہ وہی نور جہاں ہے کہ حقیقت میں یہی تھی جہاں گیر کے پردہ میں شہنشاہ من اس کی پیشانی نازک پہ جو پڑتی تھیگرہ جا کے بن جاتی تھی اوراق حکومت پہ شکن اب نہ وہ نور جہاں ہے نہ وہ انداز غرور نہ وہ غمزے ہیں نہ وہ عربدہ صبر شکن اب وہی پائوں ہر اک گام پہ تھراتے ہیں جن کی رفتار سے پامال تھے مرغان چمن ایک مجرم ہے کہ جس کا کوئی حامی نہ شفیع ایک بیکس ہے کہ جس کا نہ کوئی گھر نہ وطن خدمت شاہ میں بیگم نے یہ بھیجا پیغام خوں بہا بھی تو شریعت میں اک امر احسن مفتی شرع سے پھر شاہ نے فتویٰ پوچھا بولے جائز ہے رضامند ہوں گر بچہ و زن وارثوں کو جو دیے لاکھ درم بیگم نے سب نے دربار میں عرض کی کہ اے شاہ من ہم کو مقتول کا لینا نہیں منظور قصاس قتل کا حکم جو رک جائے تو ہے مستحسن ہو چکا جب کہ شہنشاہ کو پورا یہ یقین کہ نہیں اس میں کوئی شائبہ حیلہ و فن اٹھ کے دربار سے آہستہ چلا سوئے حرم تھی جہاں نور جہاں معتکف بیت حزن دفعتہ پائوں پہ بیگم کے گرا اور یہ کہا تو اگر کشتہ شدی آہ می کر دم من ٭٭٭ اسلام کے تنزل کا اصلی سبب لوگ کہتے ہیں کہ یہ بات ہے اب امر صریح کہ زمانہ میں کہیں عزت اسلام نہیں آپ جائیں گے جہاں قوم کو پائیں گے ذلیل اس میں تخصیص عراق و عرب و شام نہیں یہ بھی ظاہر ہے کہ ہیں مختلف الحال یہ لوگ کوئی چیز ان میں جو ہو مشترک عام نہیں ایشیائی ہے اگر یہ تو وہ ہے افریقی اور کوئی رابطہ نامہ و پیغام نہیں لالہ رخ یہ ہے تو زنگی و سیہ فام ہے وہ یہ سمن بر ہے وہ موزوں و خوش اندام نہیں اس نے گہوارہ راحت میں بسر کی ہے عمر وہ کبھی خوگر آسائش و آرام نہیں وہ ازل سے ہے کمند افگن و شمشیر نواز اس کو جز عیش کسی چیز سے کچھ کام نہیں خوان و الوان سے بھی سیری نہیں ہوتی اس کو اسس کو گر نان جویں بھی ہو تو ابرام نہیں اس نے یورپ کے مدارس میں جو سیکھے ہیں علوم وہ بھی ابجد تعلیم سے بھی رام نہیں اس قدر فرق و تفاوت پہ بھی ہے عام یہ بات قوم کا دفتر عزت میں کہیں نام نہیں پس اگر غور سے دیکھو تو بجز مذہب و دین ہم مسلمانوں میں کوئی صفت عام نہیں ان اصولوں کی بنا پر یہ نتیجہ ہے صریح سبب پستی اسلام کا جز اسلام نہیں ان مسائل میں ہے کچھ ژرف نگاہی درکار یہ حقائق ہیں تماشائے لب بام نہیں غور کرنے کے لیے فکر و تعمق ہے ضرور منزل خاص ہے یہ رہگزر عام نہیں بحث مافیہ میں پہلی غلطی یہ ہے کہ آپ جس کو اسلام سمجھتے ہیں وہ اسلام نہیں آپ کھانے کو بنا دیتے ہیں پہلے مسموم پھر یہ کہتے ہیں کہ غذا موجب اسقام نہیں اعتقادات میں ہے سب سے مقدم توحید آپ اس وصف کو ڈھونڈیں تو کہیں نام نہیں کون ہے شائبہ شرک سے خالی اس وقت وکن ہے جس پہ فریب ہوس خام نہیں آستانوں کی زیارت کے لیے شدر حال اس میں کیا شان پرستاری اصنام نہیں کیجیے مسئلہ شرک نبوت پہ جو غور کفر میں بھی یہ جہانگیری اوہام نہیں اب عمل پر جو نظر کیجیے آئے گا نظر کہ کسی ملک میں پابندی احکام نہیں اغنیاء کی ہے یہ حالت کہ نہیں ہے وہ رئیس جس کے چہرے پہ فروغ مے گلفام نہیں فص قرآں سے مسلماں ہیں بھائی بھائی اس اخوت میں خصوصیت اعمام نہیں یاںیہ حالت ہے کہ بھائی کا ہے بھائی دشمن کون سا گھر ہے جہاں یہ روش عام نہیں نہ کہیں صدق و دیانت ہے نہ پابندی عہد دل ہیں ناصاف زبانوں پہ جو دشنام نہیں آیت فاعتبروا پڑھتے ہیں ہر روز مگر علما کو خبر گردشن ایام نہیں الغرض عام ہے وہ چیز جو بے دینی ہے صاف یہ بات ہے دھوکا نہیں ابہام نہیں ان حقائق کی بنا پر سب پستی قوم ترک پابندی اسلام ہے اسلام نہیں ٭٭٭ خلیفہ عمر بن عبدالعزیز کا انصاف پسر عبد عزیز اموی عدل میں ثانی ابن الخطاب جب ملا تخت خلافت ان کو ہو گیا گلشن گیتی شاداب ایک شب گھر سے چلے بہر نماز پڑ گیا جب رخ عالم پہ نقاب کوئی آوارہ وطن تند مزاج صحن مسجد میں تھا آلودہ خواب پائوں کا ان کے ٹھوکا جو لگا جاگ اٹھا اور کیا ان سے خطاب خیر ہے کیا کوئی مجنوں ہے تو یا کہ ہے کچھ تری آنکھوں پہ حجاب ہنس کے فرمایا کہ مجنوں نہیں کچھ نہیں مجھ کو جنوں کے اسباب ہاں مگر ہو گئی مجھ سے تقصیر آپ سے عفو کا طالب ہوں جناب چوبداروں نے کیا اس کو اسیر چاہتے یہ تھے کہ دیں اس کو جواب آپ نے روک دیا ان کو وہیں پھر کیا ان سے یہ آہستہ خطاب اس نے اک بات فقط پوچھی تھی جو مناسب تھا میں نے دیا جواب بات قطعی تو نہیں اس نے کہی پوچھنا کچھ نہیں شایان عتاب اتنی سی بات پہ یہ جوش و غضب اتنی سی بات پہ یہ خشم و عتاب بیکسوں کو میں ستائوں کیونکر مجھ کو دینا ہے قیامت میں جواب ٭٭٭ شغل تکفیر ایک مولوی صاحب سے کہا میں نے کہ کیا آپ کچھ حالت یورپ سے خبردار نہیں ہیں آمادہ اسلام ہیں لندن میں ہزاروں ہر چند ابھی مائل اظہار نہیں ہیں تقلید کے پھندوں سے ہوئے جاتے ہیں آزاد وہ لوگ بھی جو داخل احرار نہیں ہیں جو نام سے اسلام کے ہو جاتے تھے برہم ان میں بھی تعصب کے وہ آثار نہیں ہیں افسوس مگر یہ ہے کہ واعظ نہیں پیدا یا ہیں تو بقول آپ کے دین دار نہیں ہیں کیا آب کے زمرہ میں کسی کو نہیں یہ درد کیا آپ بھی اس کے لیے تیار نہیں ہیں جھلا کے کہا یہ کہ یہ کیا سوء ادب ہے کہتے ہو وہ باتیں جو سزاوار نہیں ہیں کرتے ہیں شب و روز مسلمانوں کی تکفیر بیٹھے ہوئے کچھ ہم بھی تو بے کار نہیں ہیں ٭٭٭ مذہب یا سیاست تم کسی قوم کی تاریخ اٹھا کر دیکھو دوہی باتیں ہیں جن پر ہے ترقی کا مدار یا کوئی جذبہ دینی تھا کہ جس نے دم میں کر دیا ذرہ افسردہ کو ہم رنگ شرار ہے کوئی قوت پر زور کہ جس کی ٹکر سنگ خارا کو بنا دیتی ہے اک مشت غبار اس کی زدکھا کے لرز جاتی ہے بنیاد زمیں اس سے ٹکرا کے بکھر جاتے ہیں اوراق دیار یہ اسی کا تھا کرشمہ کہ عرب کے بچے کھیلنے جاتے تھے ایوان گہ کسریٰ میں شکار وہ الٹ دیتے تھے دنیا کا مرقع دم میں جن کے ہاتھوں میں رہا کرتی تھی اونٹوں کی مہار اس کی برکت تھی کہ صحرائے حجازی کی سموم بن گئی دہر میںجا کر چمن آرائے بہار یہ اسی کا تھا کرشمہ کہ عرب کے رہزن فاش کرنے لگے جبرییل امیں کے اسرار یا کوئی جاذبہ ملک و وطن تھا جس نے کر دیے دم میں قوئاے عملی سب بیدار ہے اسی مے سے یہ سرمستی احرار وطن ہے اسی نشے سے یہ گرمی ہنگامہ کار آپ دونوں سے کیے دیتے ہیں ہم کو محروم نہ سیاست ہے نہ ناموس شریعت کا وقار مدتوں بحث سیاست کی اجازت ہی نہ تھی کہ وفاداری مسلم کا تھا یہ خاص شعار اب اجازت ہے مگر دائرہ بحث ہے یہ کہ گورنمنٹ سے اس بات کے ہوں عرض گزار ہم کو پامال کیے دیتے ہیں ابنائے وطن ڈر ہے پس جائے نہ یہ فرقہ اخلاص شعار یہ بھی اک گونہ شکایت ہے غلاموں کو ضرور کہ مناسب میں ہے کم حلقہ بگوشوں کا شکار اب رہا جذبہ دینی تو وہ اس طرح مٹا کہ ہمیں آپ ہی آتاہے اب اس نام سے عار وضع میں‘ طرز میں‘ اخلاق میں‘ سیرت میں کہیں نظر آتے نہیں کچھ حرمت دیں کے آثار آپ نے ہم کو سکھائے ہیں جو یورپ کے علوم اس ضرورت سے نہیں قوم کو ہرگز انکار بحث یہ ہے کہ وہ اس طرز سے بھی ممکن تھا کہ نہ گھٹتا کبھی ناموس شریعت کا وقار ہم نے پہلے بھی تو اغیار کے سیکھے تھے علوم ہم نے پہلے بھی تو اس نشہ کا دیکھا ہے خمار نام لیتے تھے ارسطو کا ادب سے ہر چند تھے فلاطون الٰہی کے بھی گو شکر گزار جانتے تھے مگر اس بات کو بھی اہلہ نظر کہ حریفوں کو نہیں انجمن خاص میں بار یعنی یہ بادہ عرفاں کے نہیں ذوق شناس بزم اسرار کے یہ لوگ نہیں بادہ گسار آج ہر بات میں ہے شان تفریح پیدا آج ہر رنگ میں یورپ کے نمایاں ہیں شعار ہیں شریعت کے مسائل بھی وہیں تک محدود کہ جہاں تک انہیں معقول بتائیں اغیار خواتین عرب کا ثبات و استقلال (۱) مسند آرائے خلافت جو ہوئے ابن زبیر سب نے بیعت کے لیے ہاتھ بڑھائے یک بار ابن مروان نے حجاج کو بھیجا پے جنگ جس کی تقدیر میں مرغان حرم کا تھا شکار حرم کعبہ میں محصور ہوئے ابن زبیر فوج بے دین نے کیا کعبہ ملت کا حصار دامن عرش ہوا جاتا تھا آلودہ گرد بارش سنگ سے اٹھتا تھا جو رہ رہ کے غبار تھا جو سامان رسد چار طرف سے مسدود ہر گلی کوچہ بنا جاتا تھا اک کنج مزار جب یہ دیکھا کہ کوئی ناصر و یاور نہ رہا ماں کی خدمت میں گئے ابن زبیر آخر کار جا کے عرض کی اے اخت حریم نبوی نظر آتے نہیں اب حرمت دیںکے آثار آپ فرمائیے اب آپ کا ارشاد کیا ہے کہ میں ہوں آپ کا اک بندہ فرماں بردار صلح کر لوں کہ چلا جائوں حرم سے باہر یا یہیں رہ کے اسی خاک پہ ہو جائوں نثار بولی وہ پردہ نشین حرم سر عفاف حق پہ گر تو ہے تو پھر صلح ہے مستوجب عار یہ زمیں ہے وہی قربان گہ اسمعیل فدیہ نفس ہے خود دین خلیلی کا شعار ماں سے رخصت ہوئے یہ کہ کے بآداب و نیاز آپ کے دودھ سے شرمندہ نہ ہوں گا زنہار پہلے ہی حملہ میں دشمن کی الٹ دیں فوجیں جس طرف جاتے تھے یہ ٹوٹتی جاتی تھی قطار منجنیقوں سے برستے تھے جو پتھر پیہم ایک پتھر نے کیا آ کے سر و رخ کو فگار خون ٹپکا جو قدم پر تو کہا ازرہ فخر یہ ادا وہ ہے کہ ہم ہاشمیوں کا ہے شعار اس گھرانے نے کبھی پشت پہ کھایا نہیں زخم خون ٹپکے گا تو ٹپکے گا قدم پر ہر بار زخم کھا کھا کے لڑے جاتے تھے لیکن کب تک آخر الامر گرے خاک پہ مجروح و نزار لاش منگوا کے جو حجاج نے دیکھی تو کہا اس کو سولی پہ چڑھائو کہ یہ تھا قابل دار لاش لٹکی رہی سولی پہ کئی دن لیکن ان کی ماں نے نہ کیا رنج و الم کا اظہار اتفاقات سے اک دن جو ادھر جا نکلیں دیکھ کے لاش کو بے ساختہ بولیںیک بار ہو چکی دیر کہ منبر پہ کھڑا ہے یہ خطیب اپنے مرکب سے اترتا نہیں اب بھی یہ سوار (۲) حضرت ابن زبیر بن عوامؓ جب ہوا ان پہ خلافت کا مدار کی مخالف نے چڑھائی ان پر گرم تھا موتکا ہر سو بازار ہو گئے لڑکے پھر آخر کو شہید لاش کو ان کی چڑھایا سردار ان کی ماں نے جو سنی ان کی خبر دل ہوا ان کی محبت سے فگار لیکن از بسکہ طبیعت تھی غیور نہ کیا رنج و الم کا اظہار اتفاقا جو ادھر جا نکلیں کہ وہ موقع تھا سر راہ گزار لاش بیٹے کی جو لٹکی دیکھی منہ سے بے ساختہ نکلا ایک بار اب بھی منبر سے نہ اترا یہ خطیب اب بھی گھوڑے سے نہ اتر یہ سوار ٭٭٭ سیاسی نظمیں شہر آشوب اسلام ہنگامہ طرابلس و بلقان حکومت پر زوال آیا تو پھر نام و نشاں کب تک چراغ کشتہ محفل سے اٹھے گا دھواں کب تک قبائے سلطنت کے گر فلک نے کر دیے پرزے فضائے آسمانی میں اڑیں گی دھجیاں کب تک مراکش جا چکا‘ فارس گیا اب دیکھنا یہ ہے کہ جیتا ہے یہ ٹرکی کا مریض سخت جاں کب تک یہ سیلاب بلا بلقان سے جو بڑھتا آتا ہے اسے روکے گا مظلوموں کی آہوں کا دھواں کب تک یہ سب ہیں رقص بسمل کا تماشہ دیکھنے والے یہ سیر ان کو دکھائے گا شہید نیم جاں کب تک یہ وہ ہیں نالہ مظلوم کی لے جن کو بھاتی ہے یہ راگ ان کو سنائے گا یتیم ناتواں کب تک کوئی پوچھے کہ اسے تہذیب انسانی کے استادو یہ ظلم آرائیاں تا کے بہ حشر انگیزیاں کب تک یہ جوش انگریز مے طوفان بیداد و بلاتا کے یہ لطف اندوزہ مے ہنگامہ آہ و فغاں کب تک یہ مانا تم کو تلواروں کی تیزی آزمانی ہے ہماری گردنوں پر ہو گا اسکا امتحاں کب تک نگارستان خون کی سیر گر تم نے نہیں دیکھی تو ہم دکھلائیں تم کو زخمہائے خون چکاں کب تک یہ مانا گرمی محفل کے سامان چاہئیں تم کو دکھائیں ہم تمہیں ہنگامہ آہ و فغاں کب تک یہ مانا قصہ غم سے تمہارا جی بہلتا ہے سنائیں تم کو اپنے درد دل کی داستاں کب تک یہ مانا تم کو شکوہ ہے فلک سے خشک سالی کا ہم اپنے خون سے سینچیں تمہاری کھیتیاں کب تک عروس بخت کی خاطر تمہیں درکار ہے افشاں ہمارے ذرہ ہائے خاک ہوں گے زرفشاں کب تک کہاں تک لو گے ہم سے انتقام فتح ایوبی دکھائو گے ہمیں جنگ صلیبی کا سماں کب کب سمجھ کر یہ کہ دھندلے سے نشان رفتگاں ہیں ہم مٹائو گے ہمارا اس طرح نام و نشاں کب تک زوال دولت عثماں زوال شرع و ملت ہے عزیزو! فکر فرزند و عیال و خان و مال کب تک خدارا تم یہ سمجھے بھی کہ یہ طیاریاں کیا ہیں نہ سمجھے اب تو پھر سمجھو گے تم یہ چیستاں کب تک پرستاران خاک کعبہ دنیا سے اگر اٹھے تو پھر یہ احترام سجدہ گاہ قدسیاں کب تک جو گونج اٹھے گا عالم شور ناقوس کلیسا سے تو پھر یہ نغمہ توحید گلبانگ اذاں کب تک بکھرتے جاتے ہیں شیرازہ اوراق اسلامی چلیں گی تند باد کفر کی آندھیاں کب تک کہیں اڑ کر نہ دامان حرم کو بھی یہ چھو آئے غبار کفر کی یہ بے محاطا شوخیاں کب تک حرم کی سمت بھی صید افگنوں کی جب نگاہیں ہیں تو پھر سمجھو کہ مرغاں سحر کے آشیاں کب تک جو ہجرت کر کے بھی جائیں تو شبلی اب کہاں جائیں کہ اب امن و امان شام و نجد و قیروان کب تک خیر مقدم ڈاکٹر انصاری ہندوستانی طبی وفد جو جنگ بلقان میں ٹرکی بھیجا گیا تھا اس کی واپسی کے وقت یمیئی میں یہ نظم پڑھی گئی ادا کرتے ہیں ہم شکر جناب حضرت باری کہ آئے خیریت سے ممبران وفد انصاری ہزاروں کوس جا کر بھائیوں کی تم نے خدمت کی یہی تھا درد اسلامی یہی تھی رسم غمخواری فرق ملک و ترک خانماں و دوری منزل خدا کے فضل سے تم نے یہ کڑیاں جھیل لیں ساری تمہارے روکنے کے واسطے ہنگامہ آراء تھے صدائے نالہائے درد و جوش گریہ و زاری نگاہ حسرت آلو عزیزاں کی سناں بازی فغان سینہ ریشان محبت کی شرر باری مگر اک جذبہ اسلام نے سب کو شکستیں دیں کہ سب کو چھوڑ کر پہنچے وہاں باایں گران باری جو سچ پوچھو توتم انصار بھی ہو اور مہاجر بھی کہ سب اہل وطن کو چھوڑ کر پہنچے پئے یاری کیس کو خواب میں بھی یہ سعادت مل نہیں سکتی مریضوں کے لیے وہ آپ کی شب ہائے بیداری جو سچ پوچھو تو زیبا ہے تمہیں دعوائے آقائی کہ تم نے کی ہے ترکان مجاہد کی پرستاری تمہاری ناز اٹھائیں اہل ملت جس قدر کم ہے کہ تم نے غازیان دیں کی کی ہے ناز برداری تمہارے سامنے موتی کی لڑیاں پوت سے کم ہیں کہ دیکھ آئے ہو تم ترکی یتیموں کی گہر باری تمہیں کچھ جاں نوازی ہائے اسلامی کو سمجھو گے کہ تم دیکھ آئے ہو نصرانیوں کا طرز خونخواری نہیں ہے سوز اسلامی کا گو نام و نشاں باقی تمہارے دل میں ہیں کچھ درد کی چنگاریاں باقی مسلمانوں ک تم نے طالع واژوں بھی دیکھے ہیں نئے سب انقلاب گردش گردوں بھی دیکھے ہیں تمہارا اوردل سمجھیں گے کیا ہندوستان والے کہ تم نے وہ مظالم ہائے روز افزوں بھی دیکھے ہیں یتیموں کے سنے ہیں نالہ ہائے جاں گزا تم نے زنان بے نوا کے چہرہ مخروں بی دیکھے ہیں گھروں کو لوٹنے کے بعد زندوں کو جلا دینا بلاد مغربی کے یہ نئے قانون بھی دیکھے ہیں مسلمانوں کا قتل عام اور ترکوں کی بردباری نتائج ہائے امید گلیڈ اسٹوں بھی دیکھے ہیں تم نے غازیوں کے زخم پر ٹانکے لگائے ہیں شہیدان وطن کے جامہ پر خوں بھی دیکھے ہیں تمہاری چشم عبرت گیر خود ہم سے یہ کہتی ہے کہ ہم نے وہ مصائب ہائے گوناگوں بھی دیکھے ہیں نگار آرائیاں دیکھی ہیں چم گوہر افشاں کی شہیدان وطن کے عارض گلگوں بھی دیکھے ہیں جنوں جوش اسلافی کو کوئی سمجھا تو تم سمجھے کہ تم نے لیلی اسلام کے مجنوں بھی دیکھے ہیں سہارا ہے اگر امید کا اب بھی کوئی باقی تو تم نے وہ رموز قوت مکنوں بھی دیکھے ہیں عجب کیا ہے یہ بیڑہ غرق ہو کر پھر اچھل آئے کہ ہم نے انقلاب چرخ گردوں یوں بھی دیکھے ہیں دعائے کہنہ سالاں ہے اگر مقبول یزدانی تو اب دست دعا ہے اور یہ شبلی نعمانی سرآغا خان کا خطاب ترکوں سے (۱) جنگ بلقان کے زمانہ میں سرا ٓغا خان نے ایک مضمون لکھا تھا جس میں ترکوں کو یہ صلاح دی تھی کہ ان کے لیے بہتر ہے کہ وہ سرزمین یورپ چھوڑ کر ایشیا چلے آئیں تاکہ وہ دول یورپ کے حملوں سے محفوظ رہیں۔اس مضمون سے مسلمانوں میں بہت غصہ پیدا ہوا تھا اوران کے وقار کو بہت صدمہ پہنچا تھا۔ذیل میں اس مضمون کا طنزیہ جواب ہے۔ گفت با ترک حضرت آغا انچہ گویم بگوس در گیرید بگذار ید خاک یورپ را دل ازیں مرز بوم بر گیرید ایشیا مسکن قدیم شما است باز آں خاک را مقر گیرید دل بصید رمیدہ نتواں بست یک شکار شکستہ پر گیرید اسپ گر زیر ران نمی آید بگزارید و مادہ خر گیرید کار پییشینہ شما کشت است مرغزارے دگائو تر گیرد بانگ توپ و تفنگ درد سرا ست ناوک و خنجر و سپر گیرید نوبت ریل و تلغراف گزشت قاصد و پیک و نامہ بر گیرید کار دنیا کسے تمام نہ کرد ہرچہ گیرید مختصر گیرید ترک سے حضرت آگا نے یہ ارشاد کیا کیوں ہو بے فائدہ یورپ میں گرفتار الم ایشیا میں آ جائو تو پھر تا بہ ابد پائوں پھیلا کے پڑے چین سے سوئو گے چہ غم نظر آ جائے گی بے کاری آلات جدید جب کہ دادی تاتار میں رکھو گے قدم ریل یا تار کی پھر ہو گی نہ حاجت تم کو ڈاک پہنچانے کو آ جائیں گے مرغان حرم خود ہی کہہ دو گے کہ بیکار ہیں سب تیر و تفنگ نظر آئے گا جو تیرا فگنیوں کا عالم سلک بحری کی ادا دل دے دھل جائے گی دیکھ لو گے جو کمندوں کا وہ پیچ اور وہ خم فائدہ کیا ہے م ریل کا احسان اٹھائو آپ کا اسپ سبک سیر ہے کس بات میں کم آپ صحرا میں چلائیں گے جو خشکی کا جہاز پھر نہ کچھ بھاپ کی حاجت ہے نہ طوفان کا غم لطف جو بانگ جرس مٰں ہے وہ سیٹی میں نہیں زین کو کہہ نہیں سکتا کوئی ہم پائی بم لمپ کی شعلہ فشانی میں کہاں وہ انداز شمع کی بزم طرازی کا جو کچھ ہے عالم فیصلہ بیٹھ کے چوپال میں کر دے گا جو پنچ ہو گا یورپ کے قوانین سے بڑھ کر محکم اور مانا بھی کہ فردوس بریں ہے یورپ حضرت خواجہ شیراز یہ کرتے ہیں رقم پدرم روضہ رضواں بدو گندم بفروخت ناخلف باشم اگر من بہ جوئے نفروشم ترکوں سے خطاب جنگ بلقان میں فتھ اڈریاتوبل پر مبارک باد ‘ دسمبر ۱۹۱۲ء اے ترک! اے مجسمہ کبریائے حق اے وہ کہ جس پہ عالم ہستی کو ناز ہے پشت و پناہ ملت ختم الامم ہے تو تو آج زور بازوئے شاہ حجاز ہے رنگین ہے تیری تیغ سے ہر صفحہ وجود مغرب ترا ہی عرصہ گہ ترک تاز ہے تو نے دکھا دیا کہ تری تیغ جانستاں اب بھی فنائے ہستی دشمن کا راز ہے رنگین جو ہے مرقع عالم کا ہر ورق شمشیر تیری خامہ رنگین طراز ہے ہستی مسلم کی رہائی جنگ بلقان میں وزرائے برطانیہ کے دعوائے اسلام دوستی کی تردید وہ کہتے ہیں کہ ہم کو پاس ہے احساس مسلم کا مگر اس کا اثر جو کچھ ہے بس ہندوستان تک ہے مگر ہم کیا کریں اس کو کہ عالم گیری ملت عراق و فارس و نجد و حجاز و قیرواں تک ہے منافق ہے جو کہتا ہے کہ میں ٹرکی سے یک سو ہوں یہ وہ الفاظ ہیں جن کی جہاں گیری زباں تک ہے ہمارا جوش اسلامی انہیں باور نہیں کرتا یہ انداز تغافل جلوہ گاہ امتحان تک ہے پڑا سوتا ہے کوئی گنبد خضرائے یثرب میں کہ جس کا بندہ فرماں زمیں سے آسماں تک ہے کوئی جا کر یہ کہدے ہم گنہگاروں کی جانب سے کہ اب مسلم کی ہستی تیرے الطاف نہاں تک ہے بمبئی کی وفادار انجمن جنگ بلقان کے زمانہ میں جب تمام ہدوستان میں وزرائے برطانیہ کی طرز سیاست کے خلاف جوش اور غصہ کی لہر دوڑ رہی تھی تو بمبئی میںیاک گمنام وفادار اسلامی انجن بمبئی کے نام سے اخبارات میں مسلمانوں کے عام خیالات کی مخالفت میں اس کی تجویزیں شائع ہوتی تھیں۔ مولانا نے اس نظم میں اس کی پردہ دری کی ہے۔ ایک دن تھا کہ وفاداری مسلم کی متاع ہر جگہ عام تھی اورنرخ میں ارزانی تھی دفعتہ ہو ئی ہنگامہ بلقان میں گم قوم کو سخت مصیبت تھی پریشانی بھی ہاتھ آنے کا تو کیا ذکر پتہ تک بھی نہ تھا ڈھونڈنے والوں نے گو کاک بہت چھانی تھی ہو مبارک تجھے اے بمبئی اے ناز دکن کہ ترے تاج میں ہے طرہ سلطانی بھی یہ الگ بات ہے اندھوں کو وہ آئے نہ نظر گو اسی زمرہ میں ہے یوسف ثوبانی بھی مسلم لیگ مسلم لیگ جب قائم ہوئی تھی تو اس کا مقصد گورنمنٹ کے بجائے ہم وطنوں سے لڑنا اور حکومت وقت سے اظہار وفاداری کرنا تھا۔ اسی لیے اس وقت اس کے ممتاز ارکان اور عہدہ داروں میں زیادہ تر وہ لوگ تھے جو خطاب یافتہ امراء اور ارباب جاہ تھے۔ لیکن دفعتہ جنگ طرابلس اور بلقان اور معرکہ مسجد کانپور کے زمانہ میں حکومت برطانیہ کے طرز سیاست کو دیکھ کر مسلمانوں میںیکے بعد دیگرے مخالفانہ جذبات اور ہیجانات پیدا ہوتے گئے۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ پرجوش مسلمان جو احرار شمار کیے گئے لیگ سے نفرت کرنے لگے اورکانگرس کی طرف مائل ہونے لگے۔یہ دیکھ کر عام رجحانات کے ساتھ لیگ نے بھی اپنی روش میں تغیر مناسب سمجھا اور اپنے مقصد میں ہندوستان کے حالات کے مناسب خود مختار حکومت کا مطالبہ شامل کیا۔ مگر اسی کے ساتھ لفظ سوٹ ایبل یعنی ہندوستان کے حالات کے مناسب خود مختار حکومت کا لفظ اضافہ کیا۔ یہ لفظ ایسا ذو معنی تھا جس سے بلند تر اورپست تر دونوں مقصدوں کو وقت پر مراد لیا جا سکتا تھا۔احرار نے اس کی سخت مخالفت کی تھی لیکن ان کی مخالفت کامیاب نہ ہوئی بالآکر نتیجہ یہ آپ کے سامنے ہے کہ لیگ مر گئی اور احرار مسلمان تمام تر کانگریس میں داخل ہو گئے۔ لیگ کے خلا ف اس تحریک کے ابھارنے میں اور احرار کی جماعت کی رہنمائی میں مرحوم مصنف کا بڑا حصہ ہے اور ان کی یہ نظمیں اس تحریک و انقلاب کا بڑا ذریعہ ہیں۔ لیگ کی عظمت و جبروت سے انکار نہیں ملک میں غلغلہ ہے شور ہے کہرام بھی ہے ہے گورنمنٹ کی بھی اس پہ عنایت کی نگاہ نظر لطف رئیان خوش انجام بھی ہے کوئی ہے جو نہیں اس حلقہ قومی کا اسیر اس میں زہاد بھی ہیں رند مے شام بھی ہے فیض اس کا ہے باندازہ طالب یعنی بادہ صاف بھی ہے درد تہ جام بھی ہے کعبہ قوم جو کہتے ہیں بجا کہتے ہیں مرجع خاص ہے یہ قبلہ گہ عام بھی ہے پختہ کاروں کے لیے آلہ تسخیر ہے یہ نوجوانوں کو صلائے طمع خام بھی ہے رہنمایان نو آموز کا ہے مکتب درس زینہ فخر و نمائش گری عام بھی ہے جن مہمات میں درکات ہے ایثار نفوس ان میں طرز عمل بوسہ و پیغام بھی ہے صدمہ مشہد و تبریز سے آنکھیں ہیں پر آب دل میں غم خواری ترکان نکو کام بھی ہے مختصر اسکے فضائل کوئی پوچھے تو یہ ہیں محسن قوم بھی ہے خادم حکام بھی ہے ربط ہے اس کو گورنمنٹ سے بھی ملک سے بھی جس طرح صرف میں ایک قاعدہ ادغام بھی ہے اس کے آفس میں بھی ہر طرح کا سامان ہے درست ورق سادہ بھی ہے کلک خوش اندام بھی ہے ہیں قرینے سے سجائی ہوئی میزیں ہر سو جابجا دفتر پارینہ احکام بھی ہے چند بے ای ہیں سند یافتہ علم و عمل کچھ اسسٹنٹ ہیں کچھ حلقہ خدام بھی ہے جو جو تعطیل میں تفریح و سیاحت مقصود سفر درجہ اول کے لیے دام بھی ہے یہ تو سب کچھ ہے مگر ایک گزارش ہے حضور گرچہ یہ سوء ادب بھی ہے اورابرام بھی ہے مجھ سے آہستہ مرے کان میں ارشاد ہو یہ سال بھر حضرت والا کو کوئی کام بھی ہے مسلم لیگ جناب لیگ سے میں نے کہا کہ اے حضرت کبھی توجا کے ہمارا بھی ماجرا کہیے کلیم طور پہ کرتے تھے عرض قوم کا حال تو آپ شملہ پہ کچھ حال قوم کا کہیے معاملات حکومت میں دیجیے کچھ دخل یہ کیا قصہ پارینہ وفا کہیے خدانخواستہ ترک وفا نہیں مقصود ہر ایک بات بانداز آشنا کہیے عدالتوں کی پریشانیاں بیان کیجیے فسانہ ستم و جور ناروا کہیے دراز دستی پولیس کا کیجیے اظہار مقدمات کے حالات فتنہ زا کہیے گزر رہی ہے یہ جو کچھ کہ کاشتکاروں پر یہ داستان الم ناک و غم فز کہیے شیوع علم کی قیدیں جو بڑھتی جاتی ہیں یہ کون شیوہ دانش ہے اس کو کیا کہیے سنائیے انہیں کچھ بحر قہر و جبر کا حال پھر اس کے بعد ستمہائے ناخدا کہیے برادران وطن کہ رہے ہیں کیا کیا کچھ کبھی تو آپ بھی افسانہ جفا کہیے نہ ہو سکے تو اشاروں میں کیجیے اظہار وگرنہ لطف تو یہ ہے کہ برملا کہیے جناب لیگ نے سب کچھ یہ سن کر فرمایا مجھے تو خود ہے کہ جو کچھ کہو بجا کہیے لیگ کی دائم المرضی کی علت حضرت لیگ نے اب کے سر منبر یہ کہا کہ بس اب سلف گورنمنٹ کی طیاری ہے وہ گئے ند کہ نہ تھی حق طلبی پیش نطر اب تو میری رگ و پے میں بھی یہی ساری ہے وہ گئے دن کہ تملق تھا مرا طرز عمل اب تو جو بات ہے وہ شیوہ خودداری ہے اگلی اسکیم سے جو کچھ کہ رہا ہے باقی وہ فقط شیوہ تعلیم وفاداری ہے میں نے یہ سوٹ ابل کی جو لگائی ہے قید یہ عجب نکتہ آئین جہان داری ہے فن انشاء و فلاغت کا بی رکھا ہے لحاظ کوئی کیا جانے کہ کیا اس میں فسوں کاری ہے میں نے اس لفظ میں رکھے ہیں ہزاروں پہلو ایک جملہ ہے مگر لاکھ پہ بھی بھاری ہے آپ جتنا اسے کھینچیں گے لچک جائے گا۔ سادگی میں بھی وہی شیوہ عیاری ہے یاں تلک کانگریس کا بھی نہ پہنچا تھا خیال نہ سمجھیے گا کہ یہ بھی کوئی فخاری ہے ہوتی جاتی ہیں جو یہ لیگ کی شاخیں قائم چشمہ فیض ہے جو چار طرف جاری ہے الغرض جلسہ سالانہ کے ہوتے ہوتے آپ دیکھیں گے کہ کیا لیگ کی طیاری ہے لیگ مع سوٹ ایبل لیگ کو ’’سلف گورنمنٹ‘‘ ہے اب پیش نظر للہ الحمد کہ حل ہو گئی ساری مشکل اب یہ بے جا ہے شکایت کہ وہ آزاد نہیں اب یہ کہنا غلطی ہے کہ وہ ہے پاور گل ملک کے جملہ مسائل کی یہی ہے بنیاد اور جو کچھ ہے اسی چیز میں ہے سب شامل لیگ نے حق طلبی میں جو یہ جرات کی ہے واقعہ یہ ہے کہ ہے مدح و ثنا کے قابل کچھ تو ہ لیگ میںجس نے یہ کشش کی پیدا آپ سے آپ جو کھینچتا ہے ادھر دامن دل لیگ والوں نے جو اسٹیج پہ کیں تقریریں کر دیے اس نے خیالات غلط سب باطل اس دلیری سے ہر اک حرف ادا ہوتا ہے بعض کہتے تھے کہ ہے سوء ادب میں داخل الغرض لیگ کے اور مجلس ملکی کے حدود یوں ملے آ کے بہم بحر سے جیسے ساحل ہاں تو اب عرض یہ ہے خدمت عای میں جناب کیجیے سلف گورنمنٹ کا مقصد حاصل امتحانات سول کے لیے لندن کی یہ قید ہے یہ رفتار ترقی کے سخت مخل یہ جو پیمائش ارضی کا ہے سی الہ رواج ملک کے حق میں ہے یہ زہر سے بڑھ کر قاتل جو مناصب کہ ولایت کے لیے ہیں مخصوص آج ابنائے وطن بھی تو ہیں اس کے قابل صیغہ فوج میں تخفیف مصارف ہے ضرور سینہ ملک پہ افسوس کہ بھاری ہے یہ سل لیگ نے سن کے یہ سب مجھ سے بآہستہ کہا آپ سمجھتے بھی کہ اس لفظ کا کیا تھا محمل ہم نے گو سلف گورنمنٹ کی خواہش کی تھی شرط یہ بھی تو لگا دی تھی کہ ہوا سوٹ ایبل آپ جو کہتے ہیں وہ ہے حد ادراک سے دور ہم کو اس خواب پریشاں میں نہ کیجیے شامل یہ وہ باتیں ہیں جو مخصوص ہیں یورپ کے لیے آپ طے پہلے غلامی کی تو کر لیں منزل سوٹ ایبل سلف گورنمنٹ دیکھا جو لیگ نے کہ ہوا خاتہ تمام ازبسکہ دست حق طلبی اب دراز ہے کہنے لگے سب کہ سیاست کا یہ نظام مقبول خاص و عام نہیں خانہ ساز ہے تقسیم مشرقی نے عیاں کر دیا ہے سب جو شاہ راہ حق میں نشیب و فراز ہے جاری ہے ہر زباں پہ مساوات کا سبق ہر خاص و عام پر وہ در امتیاز ہے مجبور ہو کے لیگ نے الٹا ہے وہ ورق جو سربسر مرقع نیرنگ ساز ہیہ چہرہ پہ ہے جو سلف گورنمنٹ کا نقاب ہر دیدہ در اسیر طلسم مجاز ہے سمجھے نہ یہ کہ سوٹ ابل کی جو شرط ہے تمہید سجدہ ہائے جبین نیاز ہے سمجھے نہ لوگ یہ کہ یہی لفظ پرفریب اس ملک میں طلسم غلامی کا راز ہے سب یہ سمجھ رہے ہیں کہ اب لیگ کانگریس دونوں کا ایک عرصہ گہ ترکتاز ہے جب تک کہ لوگ حلقہ بگوش نیاز ہیں جب تک زبان قوم خوشامد طراز ہے جب تک ہیں لوگ عالم بالا سے مستفیض جب تک بہم یہ دور قدح ہائے راز ہے احرار سے کہو کہ نہیںکچھ امید صلح ٹلتا نہیں جو تفرقہ و امتیاز ہے آزادی خیال پہ تم کو ہے گر غرور تو لیگ کو بھی شان غلامی پہ ناز ہے مسلم لیگ لوگ کہتے ہیں کہ آمادہ اصلاح ہے لیگ یہ اگر سچ ہے تو ہم کو بھی کوئی جنگ نہیں صیغہ راز سے کچھ کچھ یہ بھنک آتی ہے کہ ہم آہنگی احباب سے اب ننگ نہیں فرق اتنا تو بظاہر نظر آتا ہے ضرور اب خوشامد کا ہر اک بات میں وہ رنگ نہیں عرض مطلب میں زباں کچھ تو ہے کھلتی جاتی گرچہ اب تک بھی حریفوں سے ہم آہنگ نہیں وہ بھی اب نقد حکومت کو پرکھتے ہیں ضرور جن کو اب تک بھی تمیز گہر و سنگ نہیں قوم میں پھونکتے رہتے ہیں جو افسون وفا ان کی افسانہ طرازی کا بھی وہ ڈھنگ نہیں وہ بھی کہتے ہیں کہ اس جنس وفا کی قیمت جس قدر ملتی ہے ذرہ کے بھی ہم سنگ نہیں آگے تھے حلقہ تقلید میں جو لوگ اسیر سست رفتار تو اب بھی ہیں مگر لنگ نہیں آپ لبرل جو نہیں ہیں تو بلا سے نہ سہی یاں کسی کو طلب افسرو اورنگ نہیں کام کرنے کے بہت سے ہیں جو کرنا چاہیں اب بھی یہ دائرہ سعی و عمل تنگ نہیں سال میں یہ جو تماشا سا ہوا کرتا ہے کام کرنے کا یہ انداز نہیں ڈھنگ نہیں کچھ تو نظم و نسق ملک میں بھی کیجیے دخل شیوہ حق طلبی ہے یہ کوئی جنگ نہیں کچھ نہ کچھ نظم حکومت میں ہے اصلاح ضرور ہم نہ مانیں گے کہ اس آئینہ میں زنگ نہیں کم سے کم حاکم اضلاع تو ہوں اہل وطن کیا ہزاروں میں کوئی صاحب فرہنگ نہیں خطاب بہ رائٹ آنریبل سید امیرعلی سنہ ۱۹۱۳ء میں مسلم لیگ نے اپنے اہم اجلاس کے لیے جس میں احرار کی دراندازی کا خوف تھا۔ آنریبل سید امیر علیکو صدارت کے لیے نامزد کیا تھا۔ انہوں نے منظور کیا مگر عین وقت پر اس لیے انکار کیا کہ لیگ سفر خرچ کی رقم مہیا نہ کر سکی۔ اغماض چلتے وقت مروت سے دور تھا اس وقت پاس آپ کا ہونا ضرور تھا ہرچند لیگ کا نفس واپسیں ہے اب اس ہستی دو روزہ پہ جس کو غرور تھا وہ دن گئے کہ بت کدہ کو کہتے تھے حرم وہ دن گئے کہ خاک کو دعوائے نور تھا وہ دن گئے کہ شان غلامی کے ساتھ بھی ہر بوالہوس خمار سیاست میں چور تھا وہ دن گئے کہ شارع اول کا حرف حرف ہم پایہ کلام سخن گوئے طور تھا وہ دن گئے کہ فتنہ آخر زماں کے بعد گویا کہ اب امام زماں کا ظہور تھا اب معترف ہیں دیدہ وران قدیم بھی اس نقش سیمیا میں نظر کا قصور تھا نہ اس وسعت مرتعش میں تھی قوت عمل اک کاسیہ تہی یہ سر پر غرور تھا یہ لمعہ سراب نہ تھا چشمہ بقا یہ تیرگی تھی جس کو سمجھتے تھے نور تھا آئین بندگی میں تملق کی شان تھی اخلاص و صدق‘ شائبہ مکروزور تھا ان کی دکان کی وہ ہوا اب بگڑ چلی جن کے گھروں میں جنس وفا کا وفور تھا اب یہ کھلا کہ واقف سر تھا اسی قدر جو جس قدر مقام تقرب سے دور تھا ہر دم برادران وطن کی برائیاں ظاہر ہوا کہ فتنہ ارباب زور تھا سب مٹ گیا سیاست سی سالہ کا طلسم اک ٹھیس سی لگی تھی کہ یہ شیشہ چور تھا لے دے کے رہ گیا تھا سہارا بس آپ کا یہ جسم مردہ منتظر نفخ صور تھا امید تھی کہ اب کے بدل جائیں گے اصول مٹ جائیں گے نظام میں جو کچھ فتور تھا ہو گی کچھ اب نظام حکومت پہ گفتگو جس دن کا منتظر کہ ہر اک باشعور تھا دیں گے برادران وطن کو پیام صلح آویزش عبث سے ہر اک دل نفور تھا یہ کیا ہوا کہ آپ نے بھی بے رخی سی کی کیا آپ کو بھی راز نہاں پر عبور تھا یا یہ سبب ہوا کہ پراگندہ تھا مزاج ازبسکہ آستانہ میں شور نشور تھا ممکن ہے اور بھی ہوں کچھ اسباب ناگزیر یہ سب سہی پہ آپ کا آنا ضرور تھا مسلم لیگ لیگ کو جب نظر آیا کہ چلی ہاتھ سے قوم ایک نیا روپ بھرا اس نے بہ انداز دگر منظر عام پہ لوگوں سے کیا اس نے خطاب کہ نہیں سلف گورنمنٹ سے اب ہم کو مفر اک ذرا سی مگر اس لفظ میں تخصیص بھی ہے جس سے ہیں متفق اللفظ سب ارباب نظر یعنی وہ سلف گورنمنٹ کہ ہو سوٹ ایبل یا کہ موزوں و مناسب ہو بالفاظ دگر یہ مسلم کہ ہر اک ملک کی حالت ہے جدا جس کا آئین حکومت پہ بھی پڑتا ہے اثر جو حکومت کہ کناڈا کے لیے ہے موزوں ہے وہی مملکت ہند میں سرمایہ شر ملک میں ہم بھی ہیں ہندو بھی عیسائی بھی جو کہ ہیں نخل حکومت کے لیے برگ و ثمر واقعی قید مناسب ہے بجا اورموزوں آپ اس قید کو کس کام میں لائیں گے مگر پہلے بھی آپ تو اس حصن میں لیتے تھے پناہ پہلے بھی آپ اسی دشت میں تھے راہ سپر جب کبھی کوئی بھی تحریک سیاسی ہو گی آپ اس قید مناسب کو بنائیں گے سپر اب بھی ہیں جادہ مقصد کے وہی نقش قدم اب بھی اوراق سیاست کا وہی ہے مسطر یہ وہی لفظ ہے مجموعہ صد گونہ فریب یہ وہی لفظ ہے سرمایہ صد گونہ ضرر آپ ہر بار جو بڑھ بڑھ کے پلٹ آتے ہیں ہے اسی شیوہ تعلیم غلامی کا اثر آپ کے فلسفہ نو کے یہ الفاظ جدید گو بظاہر ہیں فریبندہ ارباب بصر ہے حقیقت میں اسی متن غلامی کی یہ شرح ہے حقیقت میں اسی نخل سیاست کا ثمر چند جملے جو زبانوں پہ چلے آتے ہیں آپ دہراتے ہیں ہر بازار بانداز دگر ایک ان میں سے ہے یہ بھی کہ ابھی وقت نہیں ہے اسی لفظ کی تشریح بہ الفاظ دگر آج یہ لفظ مناسب جو ابھی وضع ہوا آپ اسی لفظ کو ہر بار بنائیں گے سپر آپ کے دائرہ بحث کا مرکز تھا یہی آپ کی گردش پیہم کا یہی تھا محور آپ اس دام سے برسوں بھی نہ چھوٹیں گے کبھی آپ اس کوچہ پرخم سے نہ ہوں گے سرپر آپ اس بھول بھلیون سے نہ نکلیں گے کبھی دل سے جائے گا نہ تعلیم غلامی کا اثر جب کہیں بھی کوئی پہلوئے غلامی ہو گا ہر طرف پھر کے اسی نقطہ پر ٹھہرے گی نظر اس قدر سرد مزاج اورپھر اس پر تبرید خوف یہ ہے کہ پہنچ جائے نہ فالج کا اثر آپ کچھ گرم دوائیں جو گوارا فرمائیں ہم دعا گو یہ سمجھتے ہیں کہ ہو گا بہتر خطاب بہ احرار ایک مرکز کی ضرورت یہ جو لیڈر شکنی ااپ نے کی خوب کیا قوم اب طوق غلامی سے ہے بالکل آزاد لوگ اب حلقہ تقلید میں ہوں گے نہ اسیر ٹوٹ جائے گا طلسم اثر استبداد ہاں مگر اک گزارش بھی ہے یہ قابل غور یہ تو فرمائیے اس باب میں کیا ہے ارشاد بت کدے آپ نے ڈھائے بہت لیکن اچھا شرط یہ ہے کہ حرم کی بھی تو رکھیے بنیاد آبلہ قابل نشتر تھا یہ مانا لیکن دیکھیے یہ کہ کہیں زخم میں ائے نہ فساد آپ کہتے ہیں کہ وہ مجمع ناجائز تھا خیر جو کچھ تھا مگر جمع تو تھے کچھ آزاد اب کوئی مرکز قومی ہے نہ توحید خیال نہ کوئی جادہ مقصد ہے نہ کچھ گوشہ زاد خوف یہ ہے کہ بکھر جائے نہ شیرازہ قوم خوف یہ ہے کہ یہ ویرانہ نہ ہو پھر آباد ذرے جس طرح سے ہو جاتے ہیں اڑ اڑ کے فنا یونہی ہو جائے گی پھر قوم بھی آخر برباد نکتہ چینی سے فقط کام نہیں چل سکتا یہ بھی لازم ہے کہ کچھ کام بھی ہو پیش نہاد بھاپ پر زور ہے لیکن کوئی انجن بھی تو ہو کام کیا آئے گا نشتر جو نہ ہو گا فصاد جزر و مد الہلال کا لب و لہجہ دیکھ کر حریت فکر کا یہ دور جدید سوچتا ہوں کہ یہ آئین خرد ہے کہ نہیں رہنمائوں کی یہ تحقیر یہ انداز کلام اس میں کچھ شائبہ رشک و حسد ہے کہ نہیں اعتراضات کا انبار جو آتا ہے نظر اس میں کچھ قابل تسلیم و سند ہے کہ نہیں نکتہ چینی کا یہ انداز یہ آئین سخن بزم تہذیب میں مستوجب رد ہے کہ نہیں جس نئی راہ میں ہیں بادیہ پیما یہ لوگ کوئی اس جادہ مشک کا بلد ہے کہ نہیں شاطروں نے جو نئی آج بچھائی ہے بساط اس میں ان پر بھی کہیں کوئی زد ہے کہ نہیں پہلے گر شان غلامی تھی تو اب خیرہ سری اس دوراہے میں کوئی بیچ کی حد ہے کہ نہیں فیصلہ کرنے سے پہلے میں ذرا دیکھ تو لوں جزر جیسا تھا اسی زور کا ہے کہ نہیں احرام قوم اور طفل سیاست یہ اعتراج آپ کا بے شک صحیح ہے احرار قوم میں ہیں بہت خامیاں ابھی چلتے ہیں تھوڑی دور ہر ایک راہرو کے ساتھ گم گشتہ طریق ہے یہ کارواں ابھی زود اعتقادیاں ہیں تلون ہے وہم ہے ہو جاتے ہیں ہر ایک سے یہ بدگماں ابھی دل میں نہ عزم ہے نہ ارادوں میں ہے ثبات جھیلے نہیں ہیں معرکہ امتحاں ابھی بے اعتدالیاں ہیں ادائے کلام میں باہر ہے اختیار سے ان کی زباں ابھی ہر دم ہیں گو مسائل ملکی زبان پر ان میں سے ایک بھی تو نہیں نکتہ داں ابھی یہ سب بجا درست مگر سچ جو پوچھیے جو کچھ کہ ہے یہ ہے اثر رفت گاں ابھی یہ ہے اسی سیاست پارینہ کا اثر گو شمع بجھ چکی ہے مگر ہے دھواں ابھی موزوں نہیں ہے جنبش اعضا تو کیا عجب شب کے خمار کی ہیں یہ انگڑائیاں ابھی چلنے میں لڑکھڑاتے ہیں اک اک قدم پہ پائوں چھوٹے ہیں قید سخت سے یہ خستہ جاں ابھی بے کار کر دیے تھے جو خود بازوئے عمل گو کھینچتے ہیں پر نہیں کھینچتی کماں ابھی آئے کہاں سے قوت رفتار پائوں میں کچھ بیڑیاں ہیں پائوں کی بند گراں ابھی غوں غاں ہے کچھ مباحث ملکی نہیں ہیں یہ اک طفل ہے سیاست ہندوستاں ابھی کفران نعمت منکر مے بودن و ہم رنگ مستاں زیستن معترض ہیں مجھ پہ میرے مہربانان قدیم جرم یہ ہے کہ میںنے کیوں چھوڑا وہ آئین کہن میں نے کیوں لکھے مضامیں سیاست پے بہ پے کیوں کہ کی تقلید طرز رہنمایان زمن کانگرس سے مجھ کو اظہار برات کیوں نہیں کیوں حقوق ملک میں ہوں ہندوئوں کا ہم سخن خیر میں تو شامت اعمال سے جو ہوں سو ہوں آپ تو فرمائیے کیوں آپ نے بدلا چلن آپ نے شملہ میں جا کر کی تھی جو کچھ گفتگو ماحصل اس کا فقط یہ تھا پس از تمہید فن سعی بازو سے ملیں جب ہندوئوں کو کچھ حقوق اس میں کچھ حصہ ملے ہم کو بھی بہر پنجتن یعنی جا کر شیر جب جنگل سے کر لائے شکار لومڑی پہنچے کہ کچھ مجھ کو بھی اے سرکار من لیکن اب تو آپ کی بھی کھلتی جاتی ہے زبان آپ بھی تو اب اڑاتے ہیں وہی طرز سخن اب تو مسلم لیگ کو بھی خواب آتے ہیں نظر اب تو ہے کچھ اور طرز نغمہ مرغ چمن ملک پر اپنی حکومت چاہتے ہیں آپ بھی تھا یہی تو منتہائے فکر یاران وطن آپ نے بھی اب تو نصب العین رکھا ہے وہی کانگریس کا ابتدا سے ہے جو موضوع سخن آپ بھی تو جادہ سید سے اب ہیں منحرف اب تو اوراق وفا پر آپ کے بھی ہے شکن جب یہ حالت ہے تو پھر ہم پر ہے کیوں چشم عتاب منکر مے بودن ہم رنگ مستان زیستن ہنگامہ مسجد کان پور سنہ ۱۹۱۲ء مسلمانان ہندوستان کے مذہبی و قومی جوش و خروش کے طوفان کا یہ سب سے بڑا خونیں منظر ہے جو عین اس وقت رونما ہوا جب جنگ بلقان کی آگ ایک طرف ہندوستان سے ہزاروں میل دور تھی اور مسلمانوں کے دل برطانوی وزارت خارجہ کی روش سیاسی سے سخت مشتعل تھے اوردلوں کا بخار نکلنے نہیں پایا تھا کہ صوبہ متحدہ کے گورنر سر جیمس مسٹن اوران کے ماتحت حکام کان پور کی غلط کاریوں نے خود ہندوستان میں ان کو ایک موقع بہم پہہنچا دیا۔ کان پور کے محلہ مچھلی بازار میںایک مسجد برسر راہ تھی۔وہاں سے ایک نئی سڑک نکالی گئی جس میں مسجد کا ایک حصہ جو وضو خانہ تھا بیچ میں آ گیا اور مسلمانوں کی مرضی کے خلاف زبردستہ اس کو منہدم کر دیا گیا۔ اس واقعہ نے تمام مسلمانوںمیں آ گ لگا دی ۔ ۳ مئی کو مسلمانان کان پور نے ایک عظیم الشان جلسہ منعقد کیا۔ جلسہ میں کافی جوش و خروش پیدا ہوا ۔ جلسہ کے بعد پر جوش مسلمانوں نے جن میں بچے بھی تھے مسجد کا رخ کیا۔ اور مسجد کی منہدم دیوار پر اینٹیں چن چن کر رکھنے لگے ۔ حکام نے یہ دیکھ ر نہایت بے رحمی سے اس غیر مسلح فوج پر حملہ کرنے حکم دیا اور باقاعدہ فوجی پولیس کے سپاہیوں اور سواروں نے ان پر گولیاں برسائیں۔ زخمیوں میںننھے ننھے بچے شامل تھے شہدا کی تعداد کا صحیح اندازہ معلوم نہ ہوا۔ اس خونیںسانحے میں تمام ہندوستان کو خونی بنا دیا۔ مقرروںکی زبانوں ‘ محررین کے قلم اور شعرا کے رجز اورنالوں نے تمام ہندوستان کو دفعتہ بیدار کر دیا۔ یہ واقعہ مسلمانان ہند کی سیاسی جدوجہد اور آزادی پرستی کے نتائج تاریخ کی ایک اہم کڑی ہے۔مولانا مرحوم پراس واقعے نے بے حد اثر کیا اور یہ اثرات نالہائے موزوں بن کر ان کی زبان و قلم سے ادا ہوئے ۔ انہو ں نے ملک کے انقلاب میں مسلم طور سے بہت بڑا حصہ لیا۔ اس واقعہ کے کئی برس کے بعد تک یہ نظمیںہندوستان کے بچہ بچہ کی زبان پر تھیں اوراب بھی ہیں ۔ بعض مسلمان اکابر کی ثالثی سے خود وائسرائے نے کان پور جا کر حکام کان پور او ر عام مسلمانوں کے درمیان ایک صلح نامہ مرتب کیا جس کی رو سے نیچے سڑک اور اوپر مسجد کی چھت قائم رکھی گئی۔ ٭٭٭ ہم کشتگان معرکہ کانپور ہیں کل مجھ کو چند لاشہ بے جاں نظر پڑے دیکھا قریب جا کے تو زخموں سے چور ہیں کچھ طفل خورد سال ہیں جو چپ ہیں خود مگر بچپن یہ کہ رہاہے کہ ہم بے قصور ہیں آئے تھے اس لیے کہ بنائیں خدا کا گھر نیند آ گء منتظر نفخ صور ہیں کچھ نوجواں ہیں بے خبر نشہ شباب ظاہر میں گرچہ صاحب عقل و شعور ہیں اٹھتا ہوا شباب یہ کہتا ہے بے دریغ مجرم کوئی نہیں ہے مگر ہم ضرور ہیں سینہ پہ ہم نے روک لیے برچھیوں کے وار ازبسکہ مست بادہ ناز و غرور ہیں ہم آپ اپنا کاٹ کے رکھ دیتے ہیں جو سر لذت شناس ذوق دل ناصبور ہیں کچھ پیر کہنہ سال ہیں دلدادہ فنا جو خاک و خوں میں بھی ہمہ تن غرق نور ہیں پوچھا جو میں نے کون ہو تم آئی یہ صدا ہم کشتگان معرکہ کان پور ہیں علمائے زندانی مساجد کی حفاظت کے لیے پولیس کی حاجت ہے خدا کو آپ نے مشکور فرمایا عنایت ہے عجب کیا ہے کہ اب ہر شاہراہ سے آئے یہ صدا مجھے بھی کم سے کم اک غسل خانہ کی ضرورت ہے پہنائی جا رہی ہیں عالمان دین کو زنجیریں یہ زیور سید سجاد عالی کی وراثت ہے یہی دس بیس اگر ہیں کشتگان خنجر اندازی تو مجھ کو سستی بازوئے قاتل کی شکایت ہے شہیدان وفا کے قطرہ خوں کام آئیں گے عروس مسجد زیبا کو افشاں کی ضرورت ہے عجب کیا ہے نوخیزوں نے سب سے پہلے جانیںدیں کہ یہ بچے ہیں ان کی جلد سو جانے کی عادت ہے شہیدان وفا کی خاک سے آئی ہیں آوازیں کہ شبلی بمبئی میں رہ کے محروم سعادت ہے آپ ظالم نہیں زنہار پہ ہم ہیں مظلوم ہم غریبوں کو پہلے تھا نہ اب ہے انکار کہ ہر اک شہر میںہے آپ کے انصاف کی دھوم یہ بھی تسلیم ہے ہم کو کہ یہ جو کچھ کہ ہوا اس میں ملحوظ رہے عدل کے آداب و رسوم آپ قانون کی حد سے نہ بڑھے یک سرمو فیر کا حکم دیا آپ نے جب بہر ہجوم یہ حقیقت بھی مگر قابل انکار نہیں کہ بیک چشم زدن موت کو تھا اذن عموم گولیاں کھا ک جو گرتے تھے جوانان حسیں سب یہ کہتے تھے قیامت ہے کہ جھڑتے ہیں نجوم گولیوں کے تھے نشاں منبر و محراب پہ بھی بسکہ درکار ہیں مسجد کے لیے نقش و رسوم جابجا خون سے مسجد ہے نگاریں اب تک یہ وہ صنعت ہے کہ تا حشر نہ ہو گی معدوم پابہ زنجیر تھے مجرم بھی تماشائی بھی اور پولیس کو یہ تھا عذر کہ ہم ہیں محکوم واقعہ یہ ہے غرض کوئی نہ مانے نہ سہی آپ ظالم نہیں زنہار پہ ہم ہیں مظلوم کان پور میونسپیلٹی کا خطاب مسجد مچھلی بازار کان پور سے اے مسجد شکستہ کنوں دلگراں مدار کا مادہ گشت چارہ درد نہان تو تادور چرخ و قاعدہ آسمان بجاست پایندہ باد نام تو وہم نشان تو ہرگز بجان تو کہ گوارا نہ کردہ ام اندیشہ کہ سود من است و زیان تو اکنوں برادرانہ بیا قسمتے کنیم تابانگ مرحبا شنوم از زبان تو ہیچم دریغ نیست کہ برجائے اولیں برپا کنند بام و در و سایہ بان تو اما بشرط آنکہ گزازند بہر من ازخاک تا بلندی سقف مکان تو ار صحن خانہ تا بلب بام اذان تو وزبام خانہ تابہ ثریا اذان تو شرائط صلح لوگ کہتے ہیں کہ حکام ہیں آمادہ صلح یہ اگر سچ ہے تو جز خونی تقدیر نہیں لیکن انعام گراں قدر وظائف کی طمع یہ حقیقت میں صلح کی کوئی تدبیر نہیں مایہ بحث اگر ہے تو فقط مسجد ہے دیت قتل شہیدان جواں میر نہیں داد خواہ حق مسجد ہیں اسیران جفا ورنہ ان کو گلہ سختی تقدیر نہیں ہم سے خود ذوق اسیری نے یہ کانوں میںکہا کہ خم طرہ محبوب ہے زنجیر نہیں جزو مسجد کو اگر آپ سمجھتے ہیں حقیر آپ کے ذہن میں اسلام کی تصویر نہیں آپ کہتے ہیں وضو خانہ تھا مسجد تو نہ تھی یہ بجا مسئلہ فقہ کی تعبیر نہیں آپ اس بحث کی تکلیف نہ فرمائیںکہ آپ حامل فقہ نہیں واقف تفسیر نہیں بند کرتے ہیں جو یہ آپ جرائد کی زباں یہ بھی کچھ مانع آزادی تحریر نہیں اور بھی برہمی طبع کا ساماں ہے یہ فتنہ عام کے دنبے کی یہ تدبیر نہیں فتح اس طرح کیا کرتے ہیں اقلیم قلوب تریر ترکش میں نہیں ہاتھ میں شمشیر نہیں اور ہی کچھ ہے گرفتاری دل کی تدبیر سختی طوق گراں باری زنجیر نہیں جبر سے برہمی عام کا رکنا ہے محال یعنی اب خواب پریشاں کی یہ تعبیر نہیں داد خواہوں سے ہز آنر نے جو ارشاد کیا کہ یہ حکم ازلی قابل تفسیر نہیں حسن ظن کے جو گرفتار تھے یہ بول اٹھے اس مرقع میں بھی انصاف کی تصویر نہیں ہم اسیران محبت سے یہی ہے جو سلوک پھر نہ کہیے گا کہ فتراک میں نخچیر نہیں خون کے چند قطرے اگرچہ آنکھ میں نم بھی نہیں ہے اب باقی اگرچہ صدمہ بلقان سے جگر شق ہے بچا رکھے ہیں مگر میں نے چند قطرہ خون کہ کان پور کے بعد زخمیوں کا کچھ حق ہے دنیا میں مسلمانوں کی تعداد کیوں نہیں بڑھتی کیا پوچھتے ہو یہ کہ رسول عرب کی قوم کیوں گھٹ رہی ہے آج عدد میں ظہور میں سن لو وہ گنجہائے گراں مایہ و فن ہیں کچھ بیلقاں کی خاک میں کچھ کان پور میں تقسیم عمل ہر یکے از ما چوکار خویشتن انجام کار تاچرا ایں یک شکایت می کنداز دیگرے آں بود بٹلر۱۱؎ کہ فرماں داد بہر قتل ما ایں منم کا ندرمیان خاک و خوں بینی سرے ۱۔ کلکٹر کان پور پابہ زنجیران کان پور ہم قدم آپ کا ہونا تو بہت ہے دشوار ان کا کیا ذکر جو اس درد میں شامل ہی نہیں پائوں کٹنے۲؎ کا مجھے آج ہوا ہے صدمہ یعنی افسوس میں زنجیر کے قابل ہی نہیں ۲ مولانا کا ایک پائوں بندوق کے صدمہ سے کٹ گیا تھا۔ وضو خانہ گفتنی۳؎ کہ وضو خانہ بہ تعظیم نہ یرزو زاں روئے کہ آں خانہ نہ مسجد نہ کنشت است مابندہ فرمان تو ہستیم و لیکن معشوق من آنست کہ نزدیک تو زست است ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۳۔ حکام کا استدلال تھا کہ یہ منہدم حصہ مسجد میں داخل ہی نہ تھا۔ یہ تو وضو خانہ تھا اس لیے اس کے منہدم کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تفریق و تجزی ہمیں جس چیز نے کھویا وہ تفریق و تجزی تھی یہ وہ شے ہے کہ جو بربادی مسلم کے درپے ہے مگر اب تو درودیوار تک اس کا اثر پہنچا وضو خانہ الگ ایک چیز ہے مسجد الگ شے ہے وحد ت و کثرت وحدت جسے کہتے ہیں وہ کثرت سے الگ ہے یہ تفرقہ شبہ ہے مجھ کو نظر آتا اس وہم کے دھوکے میں مگر آپ نہ آئیں احول ہوں مجھے ایک میں دو نظر آتا نہیں ہے مسجد کان پور کا وفد اور سر جیمس مسٹن کا جواب کردم دشد حضرت لاٹ بفرمود کہ فرماں فرمائے نیست ممکن کہ دگر بگذرو از گفتہ خود۱؎ صدر اعظم بسوئے قسمت بنگالہ شرق۲؎ گہے کردو بہ فرمود کہ من کردم وشد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱۔ سر جیمس مسٹن نے گورنر صوبہ متحدہ نے مسجد کا جو فیصلہ کیا تھا مسلمان اس میں بھی ترمیم کرانا چاہتے تھ ۔ گورنر صاحب نے جواب دیا کہ جو فیصلہ ہو چکا ہے اس میں ترمیم ممکن نہیں ۲۔ اس لفظ میں ایک لطیف تلمیح ہے۔ لارڈ کزرن نے جب بنگال کی تقسیم کی تھی مشرقی اور مغربی بنگال تو بنگالیوں نے سخت ہنگامہ برپا کیا۔ اس کے جواب میں وزیر اعظم نے فرمایا تھا کہ ہماری حکومت کے احکام میں تغیر و تبدل نہیں۔ یہ مختتم معاملہ ہے اوراس میں تنسیخ قطعاً غیر ممکن۔ مگر اس تیقن اور تاکید کا منظر یہ نظر آیا کہ شہنشاہ برطانیہ نے دلی آ کر تاج پوشی کے موقع پر اس ناقابل تنسیخ حکم کو منسوخ کر دیا۔ اسی طرح مسجد کا معاملہ بھی ہو گا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شمشیر برطانیہ اور گربہ حریت جناب لاٹ از فرمودہ خود برغی گردد کہ تمکین حکومت را سیاست بیش ترباید ولے در قسمت بنگالہ ایں اندیشہ می بایست کہ گربہ کشتن اول روزمی باید اگر باید خطاب بحضور ویسرائے لارڈ ریڈنگ ویسرائے خود کان پور آ کر مسجد کان پور کا فیصلہ کرتے ہیں اورتمام قیدی آزاد ہو جاتے ہیں۔ شاعر کا اس پراظہار شکریہ اے ہمایوں گہر و افسو اورنگ شہی وہ کیا تو نے جو آئین جہاں بانی ہے تو نے ظاہر میں رعایا سے جو کھائی ہے شکست یہ حقیقت میں ظفر مندی سلطانی ہے تو نے سمجھا کہ رعایا کا وہ انبوہ وہ جوش گرچہ زائد نہ سہی ‘ فطرت انسانی ہے تیرے لطف و کرم عام نے دے دی یہ ندا کوئی مجرم ہے نہ قیدی ہے نہ زندانی ہے تو نے اک آن میں گرتا ہوا گھر تھام لیا بازوئوں میںترے زور جہاں بانی ہے بات رکھ لی تری تقدیر نے حکام کی بھی گرچہ لازم انہیں اظہار پشیمانی تھا گرچہ مدح امراء میں نے نہیں کی ہے کبھی شکر احسان مگر فطرت انسانی ہے تیرے دربار میں پہنچیں گے جو اوراق سپاس ان میں یہ پیشکش شبلی نعمانی ہے مسلم یونیورسٹی مسلمانوں کے خواب کی تعبیر مسلمانوںکے اس عین بحران جوش کے زمانہ میں شاید مسلمانوں کی عنان توجہ کو سیاسیات سے تعلیمات کی طرف متوجہ کرنے کے لیے مسلم یونیورسٹی جو سرسید کے عہد سے مسلمانوں کی سب سے خوشگوار تمنا اور ان کی سی سالہ قومی جدوجہد کا محور تھی‘ اس کی تحریک سر آغا خان کی برداری میں شروع کی گئی اوراسکے لیے قوم سے تیس لاکھ کا چندہ مانگا گیا۔جو بہت جلد جمع ہو گیا ۔ مولانا مرحوم یونیورسٹی وفد کے ساتھ پنجاب گئے اورلاہور کے ایک جلسہ میں انہوں نے یہ نظم پڑھی۔ ہمیں یک حرف از یونیورسٹی مدعا باشد کہ ایں سر رشتہ تعیلم ما در دست ما باشد علوم تازہ رابا شرع و حکمت باہم آمیزیم الٰہی با ریاضی و طبیعی آشنا باشد بساطے تازہ چینم و طرحے نوادر اندازیم کہ در بزم نوی پشینیاں راسر حا باشد کنوں وہ سال شدکیں خواب نوشیں در نظر داریم کہ خواب چنیں خود جاں نواز و جانفزا باشد ولے پیدا نہ شد ایں خواب راچوں صبح تعمیری گماں بودیم کیں اندیشہ ازروئے خطا باشد گہے باخویش می گفتیم کا ساں گرددایں مشکل ولے بالیتہ صد محنت و رنج و عنا باشد بو آساں کہ چوں طفلاں دوسہ نقشے کشی دانگہ بکوئی کیں و در وبام است و ایں قصر و سرا باشد ولے آساں نباشد درسگاہے رابنا کردن کہ خود ہرگونہ گوں رنجوری مارا شفا باشد دریں بودیم ماکز بردہ گاہے خیب سربزرزد ہمایوں طلقے کیں عقدہ را مشکل کشا باشد سرآغا خاں کہ خود خواب است ایں تعبیر شیں را چہ خوش باشد کہ خواب از ما و تعبیر از خدا باشد بکیش شیعہ و سنی سرآغا خاںفدانبود ولیکن کشتی اسلامیاں رانا خدا باشد کنوں بینی کہ زدو آن گلشن رنگیں بپا گردد کہ شبلی ہم درد یک بلبل رنگین نوا باشد یونیورسٹی کے سلسلہ میں سب سے اہم مسئلہ مسلمانوں کے اور گورنمنٹ کے درمیان بعض شرائط کا تصفیہ تھا۔ ان میں تن باتیں سخت متنازعہ تھیں۔ ۱۔ مسلمان چاہتے تھے کہ یونیورسٹی کا نام ’’مسلم یونیورسٹی‘‘ ہو اور گورنمنٹ علی گڑھ یونیورسٹی تھی۔ ۲۔ مسلمان چاہتے تھے کہ یونیورسٹی کو ہندوستان میں مسلمانوں کے جس قدر کالج اور سکول ہیں ان کے الحاق کا اختیار ہو۔گورنمنٹ اس کو تسلیم نہیں کرتی تھی۔ اور اب تک تسلیم نہیں کیا۔ ۳۔ گورنمنٹ نے یونیورسٹی کے متعلقہ امور کاآخری فیصلہ (ویٹو اپنے حکام اعلیٰ کو دینے پر مضر تھی اور ہے۔مسلمان اس کے ماننے کے لیے تیار نہ تھے۔ اربا ب علی گڑھ چراغ پا تھے کہ اہم مسائل میں عام مسلمانوں کو دخل اندازی کی حاجت نہیں۔ بہرحال اس بحث کو طے کرنے کے لیے لکھنو کے قیصر باغ میں یونیورسٹی کا اساسی جلسہ (فائونڈیشن کمیٹی) ۲۸ دسمبر ۱۹۱۲ء کو ہوا تھا جس میں ملک کے تمام اکابر اور رہنما یان ملت شریک تھے اس میں ارباب علی گڑھ راجہ محمود آباد کی سرکردگی میں ایک طرف تھے اور احرار کی جماعت مسٹر محمد علی (اب مولانا) اورمولانا ابوالکلام کی سیاست میں دوسری طرف تھی۔ پہلے روز کے اجلاس میں محمد علی صاحب نے جلسہ میں نہایت جوش پیدا کیا اور احرار ک سربراہی میں لیکن دوسرے دن دفعتہ معاملہ بدل گیا اور واقعات شبینہ کیا تھے کم لوگوں کو معلوم ہے۔ بہرحال جلسہ میں یہ نظر آتا تھا کہ محمد علی صاحب ارباب علی گڑھ کی حمایت میں ہیں اورتنہا مولانا ابوالکلام ادھر ہیں۔ کہتے ہیں کہ جابجا کالج کے طلبہ جن کو ووٹ دینے کا حق نہ تھا وہ نہایت اہتما م سے جلسہ کے اطراف میں باقاعدہ بٹھائے گئے اورانہوں نے اس قدر جلسہ پر استیلا حاصل کر لیا کہ موافقین کا چیزر سے دل بڑھایا اور مخالفی کو حشی حشی کی آوازسے مبہوت کر دیا۔ مخالفین ن ہر چند بولنے کی کوشش کی مگر ناکامی ہوئی۔یہ واقعات ا س زمانہ میں نہایت اہم تھے۔ مولانا کی اکثر نظمیں اس مسئلہ کے متعلق طنزیہ ہیں اور ان کو سمجھ کر پڑھنا چاہیے۔ یونیورسٹی فائونڈیشن کمیٹی کا اجلاس لکھنو ۲۸ دسمبر سنہ ۱۹۱۲ء یہ فیض ہے جماعت احرار کا ضرور اب قوم کو جو شخص پرستی سے عار ہے آزادی خیال کا جو کچھ کہ ہے اثر یہ سب انہی کے فیض کا منت گزار ہے لیکن یہ دیکھنا ہے کہ یہ عزم یہ ترنگ ہے دیرپا کہ جوش جنون بہار ہے اب کے جو لکھنو میں دکھایا گیا سماں سچ پوچھیے تو مضحکہ روز گار ہے دیکھا یہ پہلے دن کہ ہر اک گوشہ بٹا میدان رزم و عرصہ گہ گیرودار ہے غل ہے کہ وہ مقدمۃ۱؎ الجیش آگیا اب انتظار فوج یمین و یسار ہے احرار کی صفوں کی صفیں ہیں جمی ہوئی مجلس تمام عرصہ گہ کارزار ہے اسٹیج پر ہر ایک بپھرتا ہے اس طرح گویا حریف رستم و اسفند یار ہے ہاتھ اٹھا رہے ہیں یا علم فتح ہے بلند چلتی ہوئی زبان ہے یا ذوالفقار ہے ہر نوجواں ہے نشہ آزادی میں مست جو ہے وہ حریت کا سر پر خمار ہے احرار کہ رہے ہیں نہ مانیں گے ہم کبھی ویٹو کا ویسرائے کو کیا اختیار ہے الحاق اگر نہیں ہے تو ہر سعی ہے عبث ’’مسلم‘‘ کا لفظ خاص ہمارا شعار ہے جو والیاں ملک کہ تھے زیب انجمن سب دم بخود تھے کہ یہ کیا خلفشار ہے یا صبح دم جو دیکھیے آ کر تو بزم میں نے وہ خروش و جوش نہ وہ گیر د دار ہے ٹوٹی ہوئی صفیں ہیں علم سرنگوں ہیں سب بازوئے تیغ گیر جو تھا رعشہ دار ہے سازش کا ایک جال بچھایا ہے ہر طرف ہر شخص اس کی فکر میں مصروف کار ہے سرمستیاں ہیں دور قدح ہائے راز کی ہر شخص حکمت عملی کا شکار ہے جو بات کل تلک سبب ننگ و عار تھی وہ آج مایہ شرف و افتخارہ جس بات پہ کہ نعرہ نقریں بلند تھے اب وہ قبول خاطر ہر ذی وقار ہے کل کہہ چکے ہیں کیا یہ نہیں اب کسی کو یاد اب نکتہ ہائے زیر لبی پر مدار ہے خود آپ اپنے ہاتھ سے کھائی ہے گو شکست کہتے ہیں پھر یہ فتح مبیں یادگار ہے حیران تھے عوام کہ کیا ماجرا ہے یہ یہ کیا دورنگی چمن روزگار ہے احرار کا طریق عمل ہے اگر یہی پھر کامیابیوں کا عبث انتظار ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱۔ محمد علی صاحب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عرض نیازبہ جناب مالک الملک گر خامشی سے فائدہ اخفائے حال ہے خوش ہوں کہ میری بات سمجھنی محال ہے الحاق کی جو شرط نہ مانی جناب نے کیا جانے کیا حضور کے دل میں خیال ہے مسلم کے لفظ میں تو کوئی بات ہی نہ تھی کیا اس میں بھی حضور کو کچھ احتمال ہے اسباب سو ظن کے نئے کچھ عیاں ہوئے یا پہلے ہی سے شیشہ خاطر میں بال ہے ہم تو ازل سے حلقہ بگوش نیاز ہیں یہ سر ہمیشہ زیر قدم پائے مال ہے ہم نے تو وہ ثنا و صفت کی حضور کی جو خاص شیوہ صفت ذوالجلال ہے آیا کبھی نہ حرف تمنا زبان پر یاں تک تو ہم کو پاس ادب کا خیال ہے اردو کے باب میں جو ذرا کھل گئی زبان اب تک جبین پر عرق انفعال ہے دامن غبار حق طلبی سے رہا ہے پاک یہ فیض خاص رہبر دیرینہ سال ہے آیا جو حریت کا کبھی دل میں وہم بھی سمجھا دیا کہ جوش جنوں کا ابال ہے اب تک اسی طریق پہ ہیں بندگان خاص گو صحبت عوام میں کچھ قیل قال ہے گردن جھکی ہوئی ہے زبان گوہے شکوہ سنج باطن ہے انقیاد جو ظاہر ملال ہے الحاق سے کچھ ار نہ تھا مدعائے خاص بس اک عموم درس وفا کا خیال ہے یعنی کہ پھیل کر یہ زمانے کو گھیر لے اب تک جو مختصر یہ علی گڑھ کا جال ہے یہ پالیسی ہے شاہ رہ عام قوم کی اس سے کوئی الگ ہے تو وہ خال خال ہے پھر بھی حضور کی گئیں سرگرانیاں پھر بھی گناہ گار مرا بال بال ہے اتنی سی آرزو بھی پیذیرا نہ ہو سکی اب کیا کہیں کہ اور بھی کچھ عرض حال ہے سنتے رہے وہ غور سے یہ داستان غم جب ختم ہو گئی تو یہ لب پر مقال ہے حد سے اگر بڑھے تو ہو جائے گا سیہ وہ درسگاہ روئے وفا کا جو خال ہے تقسیم عمل مقدسین علی گڑھ کا قو م پر عتاب مایوس گو ترقی قومی سے میں نہیں لیکن ابھی تلک تو یہ سودائے خام ہے رائیں تمام کج ہیں خیالات سب غلط گم کردہ نجات ہر اک خاص و عام ہے یہ تیس لاکھ قوم نے جو کر دیے عطا بے شبہ عزم و ہمت عالی کا کام ہے لیکن یہ گفتگو جو نئی چھڑ گئی ہے اب یہ باعث تباہی ناموس و نام ہے الحاق کی جو شرط نہ منظور ہو سکی ایک غلغلہ ہے شور ہے غوغائے عام ہے لبریز ہے تصور باطل سے ہر دماغ ہر سینہ عرصہ گاہ ہوس ہائے خام ہے اب اس طرح سے چلتی ہے ہر اک ایک کی زبان گویا کہ ذوالفقارعلی بے نیام ہے دو کوڑیاں بھی جس نے نہ دیں آج تک کبھی اس کی بھی نیند جوش جنوں میں حرام ہے اک غلغلہ بپا ہے کہ الحاق جب نہیں پھر کس بنا پر جامعہ قوم نام ہے اسلام کے جو نام سے بھی متسم نہیں پھر کس بنا پہ جامعہ قوم ناہم ہے مسلم نہیں تو جامعہ قوم بھی نہیں پھر کیوں یہ شور و غلغلہ و اہتمام ہے چندے لیے گئے تھے اسی شرط پر تمام یہ نقض عہد ہے کہ جو شرعاً حرام ہے یہ درس گاہ کاص نہ تھامدعائے عام یہ وہ متاع ہی نہیں جس کا یہ دام ہے ان ابلہان قوم کو سمجھائے یہ کوئی عالم کے کاروبار کا اک انتظام ہے جس کی تمنا تمام ہے تقسیم کار پر یعنی ہر ایک شخص کا اک خاص مقام ہے عالم میں ہیں ہر ایک کے فرائض جدا جدا یہ مسئلہ مسلمہ خاص و عام ہے ہے مقتدی کا فرض فقط امتثال امر ارشاد و حکم منصب خاص امام ہے تھا قو کا جو فرض وہ تھا بس عطائے زر آگے مقدسین علی گڑھ کا کام ہے یہ بارگاہ خاص نہیں مجلس عوام سمعاً و طاعۃً یہ ادب کا مقام ہے مخصوص ہیں مناصب خاصاں بارگاہ تم کون ہو جو تم کو یہ سودائے خام ہے مسئلہ الحاق مجھ کو حیرت تھی کہ تعلیم غلامی کے لیے وہ نیا کون سا پہلو ہے جو باقی ہے پہلے جو بزم گہ کاص تھی اس فن کے لیے آج جو کچھ ہے اسی درس کی مشاقی ہے اس کے ہوتے ہوئے پھر لیگ کی حاجت کیا ہے جب وہی بادہ گلگوں ہے وہی ساقی ہے فیض ہے عالم بالا کا بھی تک جاری استفادہ وہی شیوہ اشراقی ہے غلطی سے جو نئی چیز سمجھتے ہیں اسے یہ فقط وہم غلط کار کی خلاقی ہے شیخ صاحب نے کا مجھ سے بانداز لطیف اس میں اک راز ہے اک نقطہ اشراقی ہے یوں تو ہیں جامعہ درس غلامی دونوں فرق یہ ہے کہ وہ محدود یہ الحاقی ہے یونیورسٹی اور الحاق شرط الحاقی پہ اصرار اور ایسا اصرار شیوہ عقل نہیں بلکہ یہ ہے کج نگہی درسگاہیں ہیں کہاں کیجیے جن کا الحاق اور اگر ہیں بھی تو بے کار ہیں یا طبل تہی لوگ جس چیز کو کہتے ہیں علی گڑھ کالج چشم بینا ہو تو ہے جامعہ قوم یہی یہ وہی قبلہ حاجات ہے سوچیں تو ذرا یہ وہی کعبہ مقصود ہے دیکھیں تو سہی آج جو لوگ ہیں جمیعت قومی کے امام جن کا ارشاد ہے ہم پایہ طغرائے اشہی سب کے سب متفق اللفظ یہی کہتے ہیں ان ھذا الھوا الحق و امنت بہ قوم کا دیکھی بچپن کہ یہ سب سن کے کہا جو کھلونا مجھے دکھلایا تھا یوں لوں گی تو وہی یونیورسٹی ڈیپوٹیشن واقعہ یہ ہے کہ اس جلسہ میں جب تحریک یہ کی گئی تھی کہ معاملات کے تصفیہ کے لیے ویسرائے کی خدمت میں حسب ذیل ارکان کا ایک وفد بھیجا جائے تو خواجہ غلام الثقلین صاحب مرحوم نے اس کی سخت مخالفت کی۔ ۔مگر جب ان کا نام بھی داخل وفد کر لیا گیا تو وہ فوراً سرد پڑ گئے۔ تھی سفارت کی جو تجویز بظاہر موزوں اہل مجلس بھی بظاہر نظر آتے تھے خموش دفعتہ دائرہ صدر سے اٹھا اک شخص جس کی آزادی تقریر تھی غارت گرموش اس نے اس زور سے تجویز پہ کی ردو قدح چونک اٹھے وہ بھی جو بیٹھے ہوئے تھے پنبہ بگوش اہل مجلس نے جو بدلا ہوا دیکھا انداز ڈر ہوا کہ کہیں اورنہ بڑھ جائے خروش صدر محفل نے بلاکر اسے آہستہ سے کہا کہ تو ہم شامل وفد حسی داین مایہ مجوش بادہ جام سفارت مئے مر افگن تھا ایک ہی جرعہ میں وہ شیر جری تھا خاموش اب نہ وہ طرز سخن تھا نہ وہ آزادی رائے نہ وہ ہنگامہ طرازی تھی نہ وہ جوش و خروش جس کی تقریر سے گونج رہا تھا اجلاس کا ہال اب وہ اک پیکر تصویر تھا بالکل خاموش سخت حیرت تھی کہ اک ذرہ خاکستر تھا وہ شرارہ جو ابھی برق سے تھا دوش بدوش دیکھتے ہیں تو حرارت کا کہیں نام نہیں ہو گیا شعلہ سو زندہ بھڑک کر خس پوش اہل ثروت سے یہ کہدو کہ مبارک ہو تمہیں للا الحمد ابھی ملک میں ہیں رائے فروش یونیورسٹی ڈیپوٹیشن آپ نے بحث سفارت پہ جو کی تھی تقریر تھا حقیقت میں وہی شیوہ آزاد وشی دفعتہ طبع مبارک نے جو بدلا انداز سب کو حیرت تھی کہ ہکیوں آپ ن کی کج روشی یا تو اس زور سے تھے آپ سفارت کے خلاف یا کہ خود آپ ہی شامل تھے اسی میں بخوشی بادہ جام سفارت طرب انگیز سہی آپ کی شان کو زیبا نہ تھی یہ بادہ کشی کھینچ کر اک نفس سرد یہ ارشاد ہوا ذوق ایں بادہ نہ دانی بخداتا زچشی مسلم یونیورسٹی کا نصاب تعلیم ہمارے لیڈروں کے مشغلے اب بڑھتے جاتے ہیں کہ اب سازش کی بھی باقاعدہ تعلیم ہوتی ہے ہماری مجل قومی کے جب اجلاس ہوتے ہیں تو اخلاقی قواعد میں بھی کچھ ترمیم ہوتی ہے بٹھائے جاتے ہیں کالج کے لڑکے صدرو پائیں میں سکھائی جاتی ہے جو کچھ نئی اسکیم ہوتی ہے ادھر سٹیج پر سرگوشیاں ہوتی ہیں آپس میں اشاروں میں ادھر فرد عمل تقسیم ہوتی ہے طلشم چشم و ابر کے جو اسرار نہانی ہیں نو آموزوں کو ان کی دم بدم تعلیم ہوتی ہے کسی پر تالیان بجتی ہیں تحقیر و اعانت کی کسی کی ہر ادا پر عزت و تکریم ہوتی ہے کسی آزاد گو کے کان میں کچھ پھونک دیتے ہیں کہ جس سے کچھ امید شیوہ تسلیم ہوتی ہے شکایت ہوتی ہے جب تشنہ کامان تفاخر کو تو پھر جام سفارت میں بھی کچھ تعمیم ہوتی ہے یہاں تک تو خدا کے فضل سے ہم نے ترقی کی اب آگے دیکھیے اس فن میں کیا تزمیم ہوتی ہے ٭٭٭ ندوۃ العلماء کا فتنہ سنہ ۱۹۱۴ء مولانا مرحوم دارالعلوم ندوہ کے معتمد کی حیثیت سے مدرسہ میںجو اصلاحات لانا چاہتے تھے‘ بعض ارکان نے ان کی مخالفت کی اور خود مولانا پر الزامات لگائے‘ بالآکر مولانا نے استعفا دے دیا۔ طلبہ کو اس واقعہ سے سخت صدمہ پہنچا اور انہوں نے اس کے خلاف تین ماہ تک ایسی عظیم الشان اسٹرائک جاری رکھی کہ تمام ملک ان کی صدائے فریاد سے گونج اٹھا اور دو تین مہینوں تک تمام اردو اخبارات ان واقعات کے ذکر سے لبریز رہتے تھے۔ علی گڑھ کے ارباب حل و عقد جو کبھی معاملات ندوہ سے دلچسپی نہیں لیتے تھے انہوں نے مخالفین کا پورا پورا ساتھ دیا۔ لیکن حزب الاحرار کی قیادت میں پورا ملک طلبہ سے ہمدردی رکھتا تھا۔ریاستوں نے عطیے بند کر دیے۔ علی گڑھ کانفرنس نے بعض ریاستوں کی تحریک سے اپنے چند عہدہ داروں کو اس غرض سے ندوہ بھیجا کہ وہ دفتر اور مدرسہ کا معائنہ کر کے روداد تیار کریں۔ اور دفتر نظامت نے یہ لنگ گوارا کیا کہ ان چند محرروں کو اپنے مدرسہ اعظم کا تحقیقی معائنہ کرا کر ان سے سند توثیق حاصل کرے۔ ان واقعات سے متاثر ہو کر شاعر نے یہ نظمیں کہی ہیں۔ جنگ زر گری ’’حب علیؓ‘ یا ’’بغض معاویہؓ‘‘ کیا لطف ہے کہ حامی ندوہ ہیں اب وہ لوگ جن کو کہ اس کے نام سے بھی اجتناب تھا وہ لوگ جن کی رائے میں یہ ندوہ غریب اک بے ہودہ خیال تھا یا آنکہ خواب تھا وہ لوگ جن کی رائے میں تعلیم کا یہ طرز اعلان جنگ سید عالی جناب تھا وہ لوگ جن کی رائے میں یہ ندوہ حقیر تعلیم مغربی کے لیے سدباب تھا وہ لوگ جن کی رائے میں یہ ندوہ کا یہ طلسم سرتا قدم فریب دہ شیخ شباب تھا ندوہ کا نام سن کے جو کھاتے تھے پیچ و تاب جن کے لیے وہ موجب رنج و عذاب تھا حیرت یہ ہے کہ مجمع۱؎ دہلی میں یہ گروہ ندوہ کے حل و عقد کا نائب مناب تھا ندوہ پہ حرف گیر جو ہوتا تھا کوئی شخص وہ اس گروہ پاک کا وقف عتاب تھا ندوہ میں کوئی نقص بتاتا تھا اگر کوئی ان کی طرف سے ایک کا سو سو جواب تھا سیارگان چرخ علی گڑھ تھے پیش پیش جن میں کوئی قمر تھا کوئی آفتاب تھا حیرت میں تھے تمام تماشائیان بزم یعنی یہ کیا طلسم تھا کیا انقلاب تھا ندوہ کہاں کہاں وہ علی گڑھ کی انجمن اس بزم قدس میں وہ کہاں باریاب تھا کس دن کی دوستی ہے یہ کب کا ہے ارتباط یوں کب وہ مورد کرم بے حجاب تھا شایان آفرین ہے وہی ندوہ غریب جو مدتوں سے مورد خشم و عتاب تھا سرشار ہے حمایت ندوہ میں وہ گروہ جس کو کہ اس کے ذکر سے بھی اجتناب تھا بغض معاویہؓ ہے یہ حب علیؓ نہیں اک ایک کی زباں پہ یہ فصل الخطاب تھا یہ قصہ لطیف ابھی ناتمام ہے جو کچھ بیان ہوا ہے یہ آغاز یاب تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱۔ جلسہ ۱۷ مئی سنہ ۱۹۱۴ء متعلق اسٹرائک ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ندوۃ العلماء اور ننگ معائنہ اغیار آتا ہے اب معائنہ ندوہ کا مشن جو اختراع مجمع حکمت شعار ہے جن میں سے کچھ شریک نزاع قدیم ہیں کچھ ابتدا سے بانی آغاز کار ہے جن میں سے کوئی محکمہ راز کا شریک مضمون آفتاب کا مضمون نگار ہے خود کوزہ گر ہے خود گل کوزہ بھی ہے وہی جو صلح ہے وہی روش کارزار ہے کیا شان ایزدی ہے کہ وہ ندوہ علوم جو مدعی رہبری روزگار ہے جو مایہ امید ہے نسل جدید کا جو کاروان رفتہ کی اک یادگار ہے جس پر یہ حسن ظن ہے کہ ہے مجمع کرام جس کا کہ مصر و شام میں اب تک وقار ہے آیا تھا جس کے شوق میں وہ فاضل عرب۱ جس کا مرقع ادبی المنار ہے چلتے ہیں جس کے نقش قدم پر حریف بھی گو اعتراف حق سے بھی ان کو عار ہے جس نے خطابت عربی کو دیا رواج جو فن جرح و نقد کا آموزگار ہے جس نے بدل دیا روش و شیوہ قدیم یہ انقلاب گردش لیل و نہار ہے آتے ہیں اس کی جانچ کو نا آشنائے فن جو رہبر طریقہ اصلاح کار ہے تعلیم مشرقی سے نہیں جن کو کچھ غرض ندوہ اب ان کا ناز کش اقتدارہے ارباب ریش و جبہ اقدس کا وہ گروہ اب چند منشیوں کا اطاعت گزار ہے یہ داستان درد یہ افسانہ الم ندوہ کا نوحہ نفس احتضار ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱۔ سید رشید رضا ایڈیٹر المنارا مصر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ٭٭٭ وفد بحضور ویسرائے (مارچ سنہ ۱۹۱۴ئ) طرابلس ‘ بلقان ‘ کان پور‘ یونیورسٹی ‘ ندوہ وغیرہ کے ہنگاموں کے فرو ہونے کے بعد بعض رہنمایان قوم نے ضروری سمجھا کہ پھر حکومت اور مسلمانوں میں باہم ملاپ کر ا دیں۔ اس لیے ۲۵ اپریل سنہ ۱۹۱۴ء کو حزب الاحرار کے بعض سرگر م ارکان کی سرکردگی میں ویسرائے کی خدمت میں ایک وفد حاضر ہوا اور صلح کان پور کے شکریہ اور مسلمانوں کی وفاداری کا ایک ایڈریس پیش کیا۔فرقہ احرار کی دوسری جماعت کے ارکان نے اس میں شرکت نہیں کی اور اس طریقہ کار سے اختلاف کیا۔ تفرقہ حق و باطل احرار اور مدعیان وفا ہیں اور دونوں کا ہے طریقہ سوز و زیاں اور اس پر بھی صاف صاف نہ تھا امتیاز حق کھلتا نہ تھا کہ کون الگ ہے کہاں الگ دہلی کی انجمن نے وہ پردہ اٹھا دیا قائم ہوا جو معرکہ امتحاں الگ اب صاف ہو گیا حق و باطل میں امتیاز اب فصل نو بہار الگ ہے خزاں الگ اب آفتاب صدق گہن سے نکل گیا اب شمع دل فروز الگ ے دھواں الگ وہ اختلاط درد دمئی صاف اب نہیں گم گشتگان راہ سے ہے کارواں الگ جو لوگ ہیں متاع خوشامد کے مایہ دار کھولیں گے اب وہ ملک میں اپنی دکاں الگ یہ مختصر فسانہ بزم شبینہ ہے سنئے گا الہلال میں یہ داستاں الگ مسلم کی وفاداری وفد کا ایڈریس سچ تو ی ہ کہ وفا کیش ازل ہیں ہم لوگ ہم کو شکوہ نہیں آئین جہاں بانی کا ہم نے یہ لکھ کے جو دی آپ کو تحریر وفا یہ مثنیٰ ہے ہماری خط پیشانی کا مشق ہے جادہ طاقت پہ ہمیں چلنے کی ہم سے اس راہ میں اغیار کبھی بڑھ نہ سکے ہم نے تحریر وفا پڑھ کے سنائی ان کو کہ ذرا خط جو خفی تھا تو وہ خود پڑھ نہ سکے جنگ یورپ اور ہندوستانی اگست سنہ ۱۹۱۴ء مٰں بڑی لڑائی کے موقع پر کہی گئی۔ مولانا نے جنگ یورپ پر فقط یہی ایک نظم لکھی تھی کہ نومبر سنہ ۱۹۱۴ ء میں وفات ہی پائی۔ اک جرمنی نے مجھ سے کہا ازرہ غرور آساں نہیں ہے فتح تو دشوار بھی نہیں برطانیہ کی فوج ہے دس لاکھ سے بھی کم اور اس پر لطف یہ ہے کہ تیار بھی نہیں باقی رہا فرانس تو وہ رندلیم یزل آئیں شناس شیوہ پیکار بھی نہیں میں نے کہا غلط ہے ترا دعوئے غرور دیوانہ تو نہیں ہے تو ہشیار بھی نہیں ہے ہم لوگ اہل ہند ہیں جرمن سے دس گنے تجھ کو تمیز اندک و بسیار بھی نہیں سنتا رہا وہ غور سے میرا کلام اور پھر وہ کہا جو لائق اظہار بھی نہیں اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا لڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں ٭٭٭ شذرات نظم متعلق سیاسیات آئندہ مسلم لیگ کی صدارت سنہ ۱۹۱۳ء لیگ نے سلف گورنمنٹ کی جو کی خواہش وہ سمجھتی تھی کہ یہ طرز بدیع اچھا ہے لیکن اب اس نے یہ سمجھا کہ غلط تھا وہ خیال کہ ملازم وہی اچھا جو مطیع اچھا ہے اب کی ہو جائے گا اس جرات بے جا کا علاج لیگ مجرم ہے تو ہونے دو شفیع۱ اچھا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱۔ مسلمانوں کے اس ہنگامہ جوش میں ارباب مسلم لیگ نے مسٹر محمد شفیع بیرسٹر لاہور کو (حال سر محمد شفیع ممبر اگزکٹیو کونسل) جو مسلمانوں کے ان ہنگاموں سے الگ تھے اور اس لیے حکومت کی نظر میں محبوب تھے مسلم لیگ کا در بنانا تجویز کیا۔ شاعر نے اس کی یہ وجہ تلاش کی ہے کہ ارکان مسلم لیگ کو حکومت کے پیش گاہ میں ایک شفیع کی ضرورت تھی تاکہ مسلم لیگ سے حریت و آزادی کے جو چند جرائم ہو گئے ہیں وہ معاف ہو سکیں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ در س پیشوائی کی ابجد گورنمنٹ کی نگاہ میں عزت حاصل کرنے کا ذریعہ میں نے یہ حضرت والا سے کئی بار کہا یہ تو انداز خوشامد ہے اسے کیا کیجیے مسکرا کے یہ کہا مجھ سے کہ ہاں سچ ہے مگر کامیابی کی یہ ابجد ہے اسے کیا کیجیے افسون حریت معتدلین سے خطاب لاکھ آزادی افکار کو روکا لیکن یہ وہ افسوں ہے کہ ہر شخص پہ چل جاتا ہے غیر کم بخت تو گستاخ تھے مدت سے مگر اب تو کچھ آپ کے منہ سے بھی نکل جاتا ہے حرکت اضطراری کامیابی میں بس اک آدھ برس باقی ہے لیگ سے سلسلہ۱؎ کانگرس باقی ہے اب بھی آ جاتی ہے کالج۲؎ سے خوشامد کی صدا جا چکا قافلہ‘ اب بانگ جرس باقی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱؎۔ یہ سیاسی پیشن گوئی کتنی صحیح ثابت ہوئی ۲؎۔ علی گڑھ کالج جواب علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رسی کا بل بیڑیاں اور تو کٹ جائیں گی کٹتے کٹتے کوئی اس مرحلہ سعی میں ناکام نہیں سوٹ ایبل کا مگر سلسلہ بے معنی ہے وہ آغاز کہ۱؎ جس کا کہیں انجام نہیں ۱؎۔ اس لیے کہ یہ آزادی اور غلامی دونوں معنوں کے لیے حد سے زیادہ وسیع ہے۔ اور جب کبھی آزادی پسند اس لفظ کو بدلنا چاہیں گے کہ اس سے غلامی کی بھی تائید ہوتی ہے ‘ غلامی پسند اس کی وسعت آزادی کا ظاہری نقشہ کھینچ کر مخالف کریں گے ۔ سوٹ ایبل سلف گورنمنٹ کل کہہ رہی تھی لیگ یہ احرار قوم سے جو جو بلائیں۲؎ مجھ پہ پڑی تھیں وہ ہٹ گئیں اب قید سوٹ ایبل سے ہو کب دیکھیے نجات وہ بیڑیاں تو خیر کسی طرح کٹ گئیں ۲؎۔ یعنی آزادی کی راہ میں۔ سرسید کی سیاسی بلاغت کی آمدو آورد کوئی پوچھے تو میں کہ دوں گا ہزاروں میں یہ بات روش سید مرحوم خوشامد تو نہ تھی ہاں مگر یہ ہے کہ تحریک سیاسی کے خلاف ان کی جو بات۱؎ تھی آورد تھی آمد تو نہ تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱۔ سرسید مرحوم کے یہ خیالات ذاتی نہ تھے مگر انگریز ان کے منہ سے زبردستی کہلواتے تھے اور سرسید کالج کی محبت میں یہ سب کچھ گوارا کرتے تھے جیسا کہ مولانا نے اپنے مشہور سلسلہ مضامین مسلمانوں کی پولیٹکل کروٹ میں بدلائل ثابت کیا ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رد عمل ’’متین اللہ‘‘ اور ۲؎ ’’جوش محمد‘‘ اعتدال۳؎ آنے نہ پایا ہے نہ آئے گا کبھی آپ کی طرح مجھ کوبھی یہی کھٹکا تھا یہ تو ہوتا ہے کہ اچھلے گی اسی زور سے اب آپ نے قوم کو جس زور سے دے پٹکا تھا ۲۔ سنہ ۱۹۱۲ء میںجب مسلمانوں میں حکومت کے خلاف انتہائی جوش تھا اورطرابلس ‘ بلقان‘ کان پور اور یونیورسٹی کے معاملات یکے بعددیگرے پیش آ رہے تھے اورمسلمانوں کے آزاد اخبارات اور احرار مقررین مسلمانوں کو پورے جوش سے حریت و آزادی کی تعلیم دے رہے تھے اس وقت صاحبزادہ آفتاب احمد خان صاحب (سابق سیکرٹری ایجوکیشنل کانفرنس و حال ممبر انڈیا کونسل) نے ایک رسالہ متین اللہ اور جوش محمد شائع کیا جو مکالمہ کی صورت میں تھا ۔ متین اللہ سے مقصود وفادار اور معتدل فرقہ علی گڑھ اور جوش محمد سے مراد پر جوش فرقہ احرار تھا۔ اس میں یہ دکھایا گیا تھا کہ مطالبات میں متانت و نرمی سے کامیابی ہوگی جوش اور گرمی سے نہیں۔ ۳۔ احرار کے فرقہ جدید۔ ناصحان مشفق کو دیوانگان حریت کا جواب آشنائی میں تو اک عمر بسر کی میں نے اب تو سب سے مجھے بیگانہ ہی رہنے دیجے مدتوں آپ نے عاقل تو مجھے دیکھا ہے اب تو کچھ دن مجھے دیوانہ ہی رہنے دیجے ’’قال‘‘ کے بجائے ’’حال‘‘ درکار ہے لیگ والوں سے کہا میں نے کہ باتیں کب تک یہ تو کہیے کہ عمل کی بھی بنا ڈالی ہے ایک صاحب نے کہا آپ نہ گھبرائیں ابھی ’’حال‘‘ بھی آئے گا اب تک تو یہ قوالی ہے مرثیہ بربادی خانمان شبلی یہ نوحہ مولانا شبلی مرحوم نے اپنے بھائی مولوی محمد اسحاق صاحب مرحوم بی اے ال ال بی وکیل ہائی کورٹ الہ آباد کی وفات پر لکھا تھا۔ ا س مرثیہ کو پڑھ کر ہر شخص مصنف کے درد و غم کا اندازہ کر سکتا ہے۔ یہی غم ان کے لیے پیام موت ثابت ہوا اوراس کے چند ہی مہینوں کے بعد خود انہوں نے بھی وفات پائی۔ وہ برادر کہ مرا یوسف کنعانی تھا وہ کہ مجموعہ ہر خوبی انسانی تھا وہ کہ گھر بھر کے لیے رحمت یزدانی تھا قوت دست و دل شبلی نعمانی تھا جوش اسی کا تھا جو میرے سر پرشور میں تھا بل اسی کا یہ مرے خاہ پرزور میں تھا ہم سے ناکاروں کی اک قوت عامل تھا وہی مایہ عزت اجداد کا حامل تھا وہی مسند والد مرحوم کے قابل تھا وہی یوں تو سب اور بھی اعضا ہیں مگر دل تھا وہی اب وہ مجموعہ اخلاق کہاں سے لائوں ہائے افسوس میں اسحاق کہاں سے لائوں جب کیا وال مرحوم نے دنیا سے سفر گھر کا گھر تھا ہدف ناوک صد گونہ خطر بن گیا آپ اکیلا وہ ہر آفت میں سپر تیر جو آئے‘ گیا آپ وہ ان کی زد پر خود گرفتار رہا تا کہ میں آزاد رہوں اس نے غم اس لیے کھائے تھے کہ میں شاد رہوں اس کا صدقہ تھا کہ ہر طرح سے تھا میں بے غم گھر کے جھگڑوں سے نہ کچھ فکر نہ کچھ رنج و الم امن و راحت کے جو سامان تھے ہر طرح بہم میں تھا اور مشغلہ نامہ و قرطاس و قلم اس کے صدقہ سے تھی میری سخن آرائی بھی اس کا ممنون تھا مرا گوشہ تنہائی بھی تازہ تھا دل پہ مرے مہدی مرحوم کا داغ کہ مرا قوت بازو تھا مرا چشم و چراغ اس کو جنت میں جو خالق نے دیا گنج فراغ میں یہ کہتا تھا کہ اب بھی تروتازہ ہے دماغ یعنی وہ آئینہ خوبی اخلاق تو ہے اٹھ گیا مہدی مرحوم تو اسحاق تو ہے آج افسوس کہ وہ نیر تاباں بھی گیا میری جمیعت خاطر کا وہ ساماں بھی گیا اب وہ شیرازہ اوراق پریشاں بھی گیا عتبہ والد مرحوم کا درباں بھی گیا گلہ خوبی تقدیر رہا جاتا ہے نوجواں جاتے ہیں اور پیر رہا جاتا ہے تجھ کو اے خاک لحد آج اجل نے سونپی وہ امانت جو مرے والد مرحوم کی تھی بسکہ فطرت میں ودیعت تھی نفاست طلبی ناز پروردہ نعمت تھا بہ ایں سادہ رشی دیکھنا اڑ کے غبار آئے نہ دامن پہ کہیں گرد پڑ جائے نہ اس عارض روشن پر کہیں اس کے اخلاق کھٹک جاتے ہیں دل میں ہر بار وہ شکرریز تبسم وہ متانت وہ وقار وہ وفا کیشی احباب وہ مردانہ شعار وہ دل آویزی خو وہ نگہ الفت یار صحبت رنج بھی اک لطف سے کٹ جاتی تھی اس کی ابرو پہ شکن آکے پلٹ جاتی تھی حق نے کی تھی کرم و لطف سے اس کی تخمیر خوبی خلق و تواضع میں نہ تھا اس کا نظیر بات جو کہتا تھا ہوتی تھی وہ پتھر کی لکیر اسک ی اک ذات تھی مجموعہ اوصاف کثیر بسکہ خوش طبع تھا وہ صاحب تدبیر بھی تھا سچ تو یہ ہے کہ وہ نوخیز بھی تھا پیر بھی تھا اس کو شہرت طلبی سے کبھی کچھ کام نہ تھا وہ گرفتار کمند ہوس خام نہ تھا اس کی ہر بات میں اک لطف تھا ابرام نہ تھا وہ کبھی مدعی رہبری عام نہ تھا اس کو مطلوب کبھی گرمی بازار نہ تھی اس کی جو بات تھی کردار تھی گفتار نہ تھی اس کو معلوم جو تھا وسعت تعلیم کا راز اس نے دیکھے تھے جو منزل کے نشیب و فراز اس نے یہ کام نئی طرح کیا تھا آغاز مگر افسوس کہ تھا راہ میں خش رگ و تاز کوششوں کے جو نتیجے تھے اسے مل نہ سکے ہائے وہ پھول کے پھولے تھے مگر کھل نہ سکے آہ بھائی ترے مرنے کے تھے یہ بھی کوئی دن وہ ترا اوج شباب اور وہ بچے کمسن مسند حلقہ احباب ہے سونی تجھ بن تو ہی تھا اب خلف صدر نشیناں حسن دن جب آئے تھے رہبر جمہور کہوں چرخ اب مجھ سے یہ کہتا ہے کہ مغفور کہوں یہ بھی اے جان برادر کوئی جانے کا ہے طور اپنے بچوں کی نہ کچھ فکر نہ تدبیر نہ غور ابھی آنے بھی نہ پایا تھا ترے اوج کا دور کیا ہوا تجھ کو کہ و ہو گیا کچھ اور سے اور چھوڑ کے بچوں کو بے صبر و سکوں جاتا ہے کوئی جاتا ہے جو دنیا سے تو یوں جاتا ہے آپ اے مرگ کسی شیکی نہیں تجھ کو تمیز تیری نظروں میں برابر ہے گہر اورپشنیر میں نے مانا ترے نزدیک نہ تھا وہ کوئی چیز رحم کرنا تھا کہ چھوڑے ہیں کئی اس نے عزیز لاڈلے ہیں کہ کسی اور کے بس کے بھی نہیں اس کے بچے ابھی سات آٹھ برس کے بھی نہیں اے خدا شبلی دل خستہ بایں موئے سفید لے کے آیا ہے تری درگہ عالی میں امید مرنے والوں کو نجات ابدی کی ہو نوید خوش و خرم رہے چھوٹا یہ مرا بھائی جنید کیا لکھوں قصہ غم تاب رقم بھی تو نہیں اب مرے خامہ پر زور میں دم بھی تو نہیں ٭٭٭ متفرقات سیرۃ نبویؐ عجم کی مدح۱؎ کی عباسیوں۲؎ کی داستاں لکھی مجھے چندے مقیم آستاں غیر ہونا تھا مگر اب لکھ رہا ہوں سیرۃ پیغمبر خاتمؐ خدا کا شکر ہے یوں خاتمہ بالخیر ہونا تھا فرشتوں میں یہ چرچا ہے کہ حال سرور عالمؐ دبیر خرچ لکھتا یا کہ خود روح الامین لکھتے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۳؎۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فرشتے میرے ہاتھوں سے مثنیٰ لیتے جاتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱۔ شعر العجم کی پانچ جلدیں لکھیں۔ ۲۔ المامون عباسی کی سوانح عمری۔ ۳۔ افسوس ہے کہ یہ قطعہ نہیں ملا۔ سنہ ۱۹۱۳ء میں زمیندار یا ہمدرد میں چھپا تھا۔ جامع اوراق کو صرف آخری مصرع یاد ہے۔ ناظرین میں سے جن صاحب کو یہ قطعہ مل جائے اس کے بقیہ مصرع لکھ لیں اورمجھے بھی اطلاع دیں تو عین نوازش ہو گی۔ ’’س‘‘۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سیرۃ نبویؐ اور ہز ہائنس سرکار بھوپال مصارف کی طرف سے مطمئن ہوں میں بہر صورت کہ ابر فیض سلطان جہاں بیگم زر افشاں ہے رہی تالیف و تنقید روایت ہائے تاریخی تو اس کے واسطے حاضر مرا دل ہے مری جاں ہے غرض دو ہاتھ ہیں اس کام کے انجام میں شامل کہ جن میں اک فقیر بے نوا ہے ایک سلطاں ہے سانحہ گزندپا ہلنا بھی جگہ سے گرچہ اب ہے دشوار اس پر بھی خدا کا شکر ہے احساں ہے یعنی کہ پہنچ چکا ہوں جس منزل تک یاں سے سفر عدم بس اب آساں ہے ہر چند کہ زخم سخت جاں فرسا تھے آثار املاک سربسر پیدا تھے ممنون ہوں ضبط کا کہ اس حال میں بھی گو پائوں کٹے مگر قدم برجا تھے مقبول نہیں ہے بے نوائی میری آلودۂ نخوت ہے گدائی میری تقدیر نے پائوں کاٹنے پر بس کی ناقص ہے ابھی بے سروپائی میری طلبائے ندوہ سے خطاب کئے تھے ہم نے بھی کچھ کام جو کچھ ہم سے بن آئے یہ قصہ جب کا ہے باقی تھا جب عہد شباب اپنا اور اب تو سچ یہ ہے کہ جو کچھ امیدیں ہیں وہ تم سے ہیں جواں ہو تم لب بام آ چکا ہے آفتاب اپنا ناتمام نظمیں نالہ شبلی غالباً اپنے مرحوم بھائی کا مرثیہ اس طرز پر کہنا چاہا تھا وہ دن بھی تھا ایک دن کہ یہ وحشت سرائے دل ایک محشر نشاط و وفود سرور تھا رنگینی خیال سے لبریز تھا دماغ جو شعر تھا چراغ شبستاں طور تھا سینہ میں تھا چمن کدہ صد امید نو آنکھوں میں کیف بادۂ ناز و غرور تھا اک ایک برگ تھا ورق نو بہار حسن ذروں کے رخ پہ صبح سعادت کا نور تھا دیگر معلوم نہیں ان اشعار میں کن واقعات کی طرف اشارہ ہے اک شہر میں پایہ تخت قدیم ہے پچھلے پہر سے آج عجب شوروشین ہے پرچم ہے ‘ بیرقیں ہیں ‘ نشان ہیں غل ہے کہ آج عیش ہے راحت ہے چین ہے مسند نشیں ہے تخت حکومت پہ جلوہ گر دربار ہے کہ جلوہ گہ زیب و زین ہے ہیں بے نقاب پردگیان حریم قدس جن کی زباں پہ شور ہے نوحہ ہے بین ہے تاکید ان پہ ہے کہ ادب سے کھڑی رہیں یعنی کہ احترام شہی فرض عین ہے دیگر۔۔ترکوں کی فتوحات یہ نظم غالباً جنگ روم و روس یا جنگ روم و یونان کے زمانہ میں یعنی ۱۸۷۸ ء میں لکھنی چاہی ہو گی۔ یہ علی گڑھ جانے سے پہلے کا کلام ہے۔ مولانا کے بعض اعزہ کے پرانے کاغذات سے ہاتھ آئی ہے۔ گزری دل سپہر سے نوک شان ترک اور حلقہ نجوم سے تیر کمان ترک گرد ان نامدار ہیں گردن کشان ترک شیران کارزار ہیں زور آوران ترک لرزے ہیں ان کے رعب سے دشت مصاف ہے خوں‘ ان کی تیغ کیں سے دل کوہ قاف ہے مطائبات حضرت اکبرالہ آبادی کے رقعہ دعوت کا جواب بعد از حادثہ گزندپا آج دعوت میں نہ آنے کا مجھے بھی ہے ملال لیکن اسباب کچھ ایسے ہیں کہ مجبور ہوں میں آپ کے لطف و کرم کا مجھے انکار نہیں حلقہ درگوش ہوں ممنون ہوں مشکو ہوں میں لیکن اب وہ میں نہیں ہوں کہ پڑا پھرتا تھا اب تو اللہ کے افضال سے تیمور۱ ہوں میں دل کے بہلانے کی باتیں ہیں وگرنہ شبلی جیتے جی مردہ ہوں مرحوم ہوں مغفور ہوں میں عطیہ بیگم (بمبئی) کی شادی بمبئی کی مشہور مسلمان خاتون عطیہ بیگم کی شادی ایک نومسلم یہودی نقاش و مصور سے ہوئی۔ اس پر شاعر نے نئے نئے مضامین پیدا کر کے عطیہ بیگم کو تحفہ بھیجا۔ بہ زبان عطیہ بیگم کھینچ سکتا جو نہ تھا مجھ کو کوئی اپنی طرف اس لیے ننگ قرابت سے مجھے دوری تھی آپ ’’نقاش‘‘ ہیں اور حسن کی تصویر ہوں میں آپ نے مجھ کو جو ’’کھینچا‘‘ تو یہ مجبوری تھی بتان ہند کافر کر لیا کرتے تھے مسلم کو عطیہ کی بدولت آج اک کافر مسلماں ہے ۱۔ یعنی لنگ۔ اختتام۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔The End