مقالات شبلیؒ جلد ششم مرتبہ مولوی مسعود علی ندوی بسم اللہ الرحمن الرحیم تراجم مسلمانوں کو آج کل غیر قوموں سے جو اجتناب ہے اور جس کی وجہ سے وہ دنیا کے تمام مفید علوم و فنون سے محروم ہیں، اس کے لحاظ سے حقیقت میں مشکل سے قیاس کیا جا سکتا ہے کہ انہوں نے کسی زمانہ میں غیر زبانوں سے کچھ فائدہ اٹھایا ہو گا لیکن واقعہ یہ ہے اور اس سے کوئی شخص انکار نہیں کر سکتا کہ عہد وسطیٰ میں مسلمانوں نے دنیا کی تمام قوموں کا علمی سرمایہ اپنی زبان میں منتقل کر لیا تھا اور اگر دنیا میں مسلمانوں کا قدم نہ آتا تو یونان، مصر، ہند، فارس کے تمام علمی ذخیرے آج برباد ہو چکے ہوتے۔ چونکہ اس واقعہ سے یورپ کو بھی انکار نہیں ہو سکتا تھا اس لیے عیسائی مورخوں نے اس امر کی نسبت بہت بحثیں کی ہیں کہ مسلمانوں نے کسی زمانہ میں غیر زبانوں پر اس قدر کیوں توجہ کی تھی؟ اور اورینٹل کانفرنس میں ایک فرنچ مضمون نگار نے اس بحث پر ایک آرٹیکل پیش کیا تھا، نوفل آفندی نے جو بیروت کا ایک عیسائی مورخ ہے اور جس نے مسلمانوں کی تہذیب و تمدن پر صناجۃ الطرب نام ایک مستقل کتاب لکھی ہے، مسلمانوں کی علمی ترقی کے ذکر میں لکھتا ہے کہ: ’’ یہ امر نہایت تعجب انگیز ہے کہ اہل عرب جو ہر قدم پر تہذیب و تمدن کو برباد کرتے جاتے ہیں، جنہوں نے حضرت عمرؓ کے اشارے سے اسکندریہ کے کتب خانہ کو برباد کیا، جنہوں نے حضرت عثمانؓ کے حکم سے فارس کے علوم و فنون تباہ کر دئیے جن کے علم فتح کے نصب ہوتے ہی انطاکیہ و بیروت کے مدرسے فنا ہو گئے، جنہوں نے 101ھ میں دمشق کا کالج برباد کر دیا۔ جنہوں نے مصر کی مشہور یادگاروں اہرام اور ابو الہول کو مٹا دینا چاہا، ان کو غیر قوموں کے علوم و فنون پر کیونکر توجہ ہوئی؟ مصنف مذکور اس عقیدہ کو اس طرح حل کرتا ہے کہ اہل عرب زمانہ جاہلیت سے نجوم اور پیشین گوئیوں کے معتقد تھے، خلفاء کے دربار میں جو عیسائی اور یہودی طبیب ملازم تھے انہوں نے خلفاء کو یہ یقین دلایا کہ اگر یونان وغیرہ کی کتابیں ترجمہ ہو جائیں تو علم نجوم کے ذریعہ سے بہت سی باتیں جو پردہ غیب میں ہیں معلوم ہو جائیں گی، یہ شوق تھا جس نے اہل عرب کو غیر زبانوں کے ترجمہ پر مائل کیا۔‘‘ اس موقع پر ہم مورخ مذکور کی ان پیہم افزاؤں سے بحث نہیں کرتے جس کا اس نے اس موقع پر مینہ برسا دیا ہے، البتہ اصل مسئلہ غور کے قابل ہے، اور ہم اس کے متعلق کسی قدر تفصیل سے لکھنا چاہتے ہیں حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں کے موجودہ تعصب اور تنگ حوصلگی سے اس قسم کے قیاسات پید اکرنے بعید نہیں، لیکن واقعہ یہ ہے کہ مسلمان جب مسلمان تھے تو انہوں نے کبھی غیر قوموں اور غیر زبانوں سے کسی قسم کا تعصب نہیں ظاہر کیا اوروں کا تو کیا ذکر ہے خود شارع علیہ السلام نے غیر قوموں کی بہت سی باتیں پسند فرمائیں، اور اختیار کیں۔ جنگ احزاب میں حضرت سلمان فارسیؓ نے جب ایران کے طریقہ کے موافق خندق کھودنے اور طائف کے محاصرہ میں منجنیق کے استعمال کرنے کا مشورہ دیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بے تکلف منظور فرمایا اور اس پر عمل کیا۔ ملکی انتظامات میں بھی آپ نے غیر قوموں کے اصول و آئین پسند فرمائے اور اختیار کئے۔ شاہ ولی اللہ صاحب جن سے بڑھ کر محدث اور اسرار شریعت کا نکتہ شناس کون ہو گا۔ تحریر فرماتے ہیں کہ وکان تبادو ابنہ نوشیروان وضعا علیہم الخراج والعشر فجاء الشرء بنجومن1؎ذلک یعنی قباد اور اس کے بیٹے نوشیرواں نے لوگوں پر خراج اور عشر لگایا تھا تو شریعت اسلامی نے بھی اس کے قریب قریب حکم دیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے چونکہ یہودیوں سے اکثر خط و کتابت رہتی تھی اس لیے آپ ؐ نے زید بن ثابت ؓ کو حکم دیا 1؎حجۃ للہ البالغہ11 اور انہوں نے عبرانی زبان سیکھ لی 1؎ حضرت زیدؓ نے اسی قسم کی ضرورتوں سے سریانی زبان بھی سیکھ لی تھی حضرت عمرؓ کے زمانے میں جب فتوحات کو بہت ترقی ہوئی تو ولید بن ہشام نے کہا کہ میں نے شام کے سلاطین کو دیکھا ہے کہ ان کے ہاں فوج اور خزانہ کا جداگانہ دفتر مرتب رہتا ہے، چنانچہ حضرت عمرؓ نے اسی اصول کے موافق فوج اور خزانہ کا دفتر قائم کیا، یہاں تک کہ نام بھی وہی عجمی یعنی دیوان رکھا جو بعینہ فارسی لفظ ہے صحابہ ؓ میں سے بہتوں نے فارسی زبان سیکھ لی تھی، چنانچہ ہر مزان جو عجم کا ایک رئیس تھا جب حضرت عمرؓ کے دربار میں آیا تو مغیرہؓ نے فارسی میں اس سے سوال و جواب کئے 2؎ غرض یہ امر محتاج شہادت نہیں کہ قرن اول کے مسلمانوں نے جب موقع اور ضرورت ہوئی تو معاشرت اور تمدن کے متعلق بے تکلف غیر قوموں کے اصول اور آئین اختیار کئے، البتہ تاریخی طور سے یہ امر بحث طلب ہے کہ مسلمانوں نے غیر قوموں کے علوم و فنون پر کس زمانہ میں توجہ کی اور کن اسباب سے کی۔ اصل یہ ہے کہ ابتداء ہی میں مسلمانوں کو فتوحات کی وسعت کی وجہ سے مختلف قوموں سے ملنے جلنے کا اتفاق ہوا اور جس قدر یہ روابط بڑھتے گئے اسی قدر ان کو دوسری قوموں کے علوم و فنون اور خیالات سے زیادہ واقفیت ہوتی گئی۔ حضرت عمرؓ کے زمانے میں جب مصرفتح ہوا تو وہاں وہ یونانی مشہور فلاسفر موجود تھا جس کو انگریزی میں جان اور عربی میں یحییٰ تحوی کہتے ہیں3؎ وہ (حضرت) عمرو بن العاصؓ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عمر بن العاصؓ نے اس کی نہایت قدر و عزت کی چنانچہ وہ اکثر ان سے ملتا رہتا تھا، اور یہ اس کی علمی تقریریں سن کر محظوظ ہوتے تھے 4؎ امیر معاویہ ؓ نے اپنے عہد حکومت میں غیر قوموں کو زیادہ دخل دیا۔ ان سے پہلے کسی خلیفہ نے دفتر خراج کے سوا عیسائیوں اور یہودیوں کو کوئی ملکی خدمت نہیں دی تھی، انہوں نے ایک عیسائی کو دربار کا میر منشی مقرر کیا اور ابن آثال ایک عیسائی کو ضلع حمص کی کلکٹری کی خدمت دی۔ ابن آثال طبیب بھی تھا، اس نے امیر معاویہ ؓ کے لیے طب کی بعض کتابیں یونانی زبان سے ترجمہ کیں، اور گویا یہ ترجمہ کے رواج کا پہلا دیباچہ تھا۔ 1؎ فتوح البلدان ، 479، 480 2؎ایضاً 454 3؎ اس کا مفصل حال اور اس کی تصنیفات کا ذکر آگے آئے گا 4؎ کتاب الفہرست 254 و طبقات الاطبا ذکر یحییٰ نحوی اگرچہ یہ وہ زمانہ تھا کہ اسلامی علوم و فنون یعنی تفسیر، حدیث، فقہ، امساب، اس حد تک پہنچ گئے تھے کہ سینکڑوں آدمی ان کے پڑھنے پڑھانے میں مصروف تھے اور بجز اس کے کہ تصنیف و تالیف کا رواج نہیں ہوا تھا، تعلیم و تعلم میں اور کسی بات کی کمی نہ تھی۔ لیکن اب تک اہل عرب نے غیر قوموں کے علوم و فنون حاصل کرنے کی طرف خاص توجہ نہیں کی تھی امیر معاویہ ؓ کا پوتا خالد جو اسلامی علوم و فنون میں یکتا تھا، اس نے فن طب اور کیمیا میں کمال پیدا کرنا چاہا اور چونکہ اس وقت علمی طور سے اس نے غیر قوموں کے اور علوم سے بھی واقفیت حاصل کی ایک یونانی رہبان سے جس کا نام مریانس تھا اس نے علم کیمیا سیکھا اور خود اس فن میں تین مختصر کتابیں لکھیں، ایک کتاب میں اس نے مریانس سے تعلیم پانے کا ذکر تفصیل کے ساتھ لکھا ہے۔ خالد کا بڑا کارنامہ یہ ہے کہ اس نے بڑے حوصلہ کے ساتھ غیر زبانوں کے ترجمہ پر توجہ کی اس زمانہ میں فلسفہ وغیرہ کی تعلیم یونان سے منتقل ہو کر مصر میں آ گئی تھی اور یونانی نسل کے بڑے بڑے حکماء اور اہل فن یہیں کے مدرسوں میں پڑھتے پڑھاتے تھے اور چونکہ مصر جس دن سے اسلام کے قبضہ میں آیا تھا اسی وقت سے وہاں عربی زبان رواج پانے لگی تھی، یہاں تک کہ تھوڑے دن کے بعد کل مصر کی زبان قبطی کے بجائے عربی ہو گئی۔ اسی لیے ان حکماء میں بہت سے ایسے بھی تھے جو عربی زبان لکھ پڑھ سکتے تھے۔ خالد نے ان لوگوں کو بلا کر یونانی اور قبطی زبان کی کتابوں کے ترجمہ پر مامور کیا1؎ علامہ ابن الندیم نے کتاب الفہرست میں لکھا ہے کہ اسلام میں یہ پہلا موقع ہے کہ ایک زبان سے 1؎ فہرست ابن الندیم 242 و ابن خلکان تذکرہ خالد بن یزید دوسری زبان میں ترجمہ کیا گیا۔ خالد کے عہد کا مشہور مترجم اصطفن تھا، معلوم ہوتا ہے کہ خالد کی اس کوشش کا اور لوگوں پر بھی اثر ہوا اور خود سلطنت کو اس کام کی طرف توجہ ہوئی، چنانچہ مروان بن الحکم جو سلطنت بنی امیہ کا پہلا تاجدار ہے اس کے دربار کے ایک مشہور یہودی طبیب نے جس کا نام ماسر جبیس تھا بشپ اہرن کی قرابا دین کا سریانی زبان سے عربی ترجمہ کیا، اور یہ ترجمہ شاہی کتب خانہ میں داخل کیا گیا۔ علامہ جمال الدین قفطی نے لکھا ہے کہ قدیم زمانہ کے جس قدر قرابا دین ہیں یہ سب سے بڑھ کر ہے شاید یہی وجہ ہے کہ حضرت عمر بن عبدالعزیزؓ نے اپنے عہد خلافت میں اس کو خزانہ شاہی سے نکلوا کر بہت سی نقلیں کرائیں اور عام طور پر شائع کیں۔ حضرت عمر بن عبدالعزیزؓ کو ایک بڑی وجہ یونانی معلومات کی طرف رغبت کی یہ تھی کہ جب وہ سلیمان بن عبدالملک کے زمانے میں مصر کے گورنر تھے تو اسکندریہ کی یونانی تعلیم کا پروفیسر اور افسر کل ابن ابجر نام ایک حکیم تھا، معلوم نہیں کن اسباب سے وہ حضرت عمر بن عبدالعزیزؓ کے ہاتھ پر اسلام لایا، جب یہ خلیفہ ہوئے تو انہوں نے اس کو اپنے دربار میں بلا لیا اور طبی صیغہ کی افسری اس کو دی 1؎ مورخوں نے لکھا ہے کہ عمر بن عبدالعزیزؓ کی تخت نشینی کے سال یونانی تعلیم اسکندریہ سے انطاکیہ و حران کو منتقل ہو گئی۔ غالباً اس کی وجہ یہی ہو گی کہ اسکندریہ میں جس کے دم سے یہ تعلیم قائم تھی، (یعنی ابن ابجر) وہ عمر بن عبدالعزیزؓ کے پاس چلا آیا۔ بعض ملکی ضرورتوں نے بھی ترجمہ کے رواج میں مدد دی۔ اس وقت تک مالگذاری اور خراچ کے جس قدر دفتر تھے سب غیر زبانوں میں تھے، چنانچہ عراق کا دفتر فارسی میں، شام کا لاطینی میں، مصر کا قبطی میں تھا اور اسی وجہ سے دفتر خراج کے جس قدر عہدہ دار تھے سب مجوسی یا عیسائی تھے حجاج بن یوسف کے زمانہ میں دربار کا میر منشی ایک مجوسی تھا جس کا نام فرخ تھا۔ 1؎ طبقات الاطبا جلد اول ص116 اس نے ایک موقع پر یہ دعویٰ کیا کہ میرے بغیر دفتر خراج کا کام انجام نہیں پا سکتا۔ وہ تو ایک ہنگامہ میں اتفاق سے مارا گیا لیکن اس مغرورانہ دعویٰ کی خبر حجاج کو پہنچی اتفاق یہ کہ حجاج کے دربار میں صالح بن عبدالرحمن ایک شخص موجود تھا جو عربی و فارسی دونوں زبانوں میں کمال رکھتا تھا۔ حجاج نے اس کو حکم دیا کہ خراج کا جس قدر دفتر ہے فارسی زبان سے عربی میں ترجمہ کر دیا جائے دربار میں جو پارسی موجود تھے ان کو نہایت اضطراب پیدا ہوا کہ اتنا بڑا محکمہ ہمارے ہاتھ سے نکلا جاتا ہے، چنانچہ انہوں نے صالح کے پاس رشوت کے ایک لاکھ درہم پیش کئے کہ تم حجاج سے کہہ دو کہ عربی زبان میں ترجمہ نہیں ہو سکتا۔ لیکن صالح نے نہ مانا اور 87ھ میں عراق کا تمام دفتر عربی میں ترجمہ ہو گیا۔ اس کے بعد ولید بن عبدالملک کے زمانہ میں 87ھ میں عبداللہ بن عبدالملک کی کوشش سے مصر کا دفتر عربی زبان میں منتقل ہوا۔ پھر ہشام بن عبدالملک نے شام کا دفتر عربی میں ترجمہ کرایا۔ ان واقعات سے علوم ہوتا ہے کہ پہلی صدی ہجری کے اخیر تک مسلمانوں میں بہت سے آدمی پیدا ہو گئے تھے جو فارسی لاٹین، قبطی وغیرہ زبانوں سے واقفیت رکھتے تھے۔ ہشام بن عبدالملک جو 105ھ میں تخت نشین ہوا حکومت بنی امیہ کا گل سرسید تھا۔ اس کے عہد میں ملکی انتظامات کے نظم و نسق کے ساتھ علوم و فنون کو بہت ترقی ہوئی اور غیر قوموں کے معلومات و خیالات سے واقفیت کے نئے سامان پیدا ہو گئے۔ سب سے بڑی بات یہ ہوئی کہ ہشام نے خالد بن عبداللہ فسری کو عراق کا گورنر مقرر کیا، جو بے تعصبی اور علمی فیاضی میں یگانہ روزگار تھا۔ فرقہ مانویہ جس کے پیشوا مانی کو شہنشاہ ایران نے قتل کروا دیا تھا، اور حکم دیا تھا کہ اس فرقہ کا ایک شخص بھی دنیا میں زندہ نہ رہنے پائے عجم کے اخیر سلطنت تک مارا مارا پھرتا تھا اسلام کی حکومت میں ان کو امن حاصل ہوا اور خالد نے ان کے ساتھ اس قدر مراعات کی کہ در حقیقت ان کا مربی بن گیا1؎ ہشام کا میر منشی جس کا نام سالم تھا مشہور صاحب قلم اور فصیح و بلیغ تھا۔ 1؎ کتاب الفہرست ص337 اس کے ساتھ غیر زبانوں میں نہایت مہارت رکھتا تھا اس نے ارسطو کے رسالوں کا جو سکندر کے نام تھے عربی زبان میں ترجمہ کیا1؎ اس کا بیٹا جبلہ فارسی زبان میں کمال رکھتا تھا چنانچہ اس نے فارسی زبان کی بہت سی کتابیں عربی میں ترجمہ کیں2؎ جن سے جنگ رستم و اسفند یار و داستان بہرام چومین کا ذکر علامہ ابن الندیم نے کتاب الفہرست میں کیا ہے۔ سالم کی ترغیب اور فیاضی سے اور لوگوں نے بھی بہت سی کتابیں ترجمہ کیں۔ ہشام کو خود اس کام کے ساتھ نہایت شوق و شغف تھا، شاہان عجم کے علمی ذخیرے جو ہاتھ آئے تھے ان میں ایک نہایت مبسوط تاریخ تھی، جس میں تمام شاہان عجم کی سوانح عمریاں قواعد سلطنت تعمیرات، علوم و فنون، تفصیل سے درج تھے۔ اور ایک خاص بات یہ تھی کہ جس بادشاہ کا حال تھا اس کی تصویر بھی تھی تصویروں میں حلیہ اور لباس و وضع کو اصل طور سے دکھایا تھا ہشام نے اس کتاب کے ترجمہ کا حکم دیا اور113ھ میں بہ ترجمہ تیار ہو کر مرتب ہوا مورخ مسعودی نے لکھا ہے 3؎ کہ میں نے 303ھ میں بمقام اصطخر بہ کتاب مع تصاویر دیکھی سلطنت فارس کے متعلق جس قدر کتابیں قدیم فارسی میں موجود ہیں کوئی اس قدر مفصل اور بلسوط نہیں ہے ہشام بن عبدالملک نے 125ھ میں وفات پائی اور اس کی وفات کے ساتھ گویا حکومت بنی امیہ ک ابھی خاتمہ ہو گیا۔ دولت عباسیہ کا پہلا تخت نشین سفاح تھا جس نے صرف دو ڈھائی برس حکومت کی پھر منصور مسند آرا ہوا اور دولت عباسیہ کا آغاز بھی اسی وقت سے خیال کیا جاتا ہے منصور خود بہت بڑا عالم اور صاحب فضل و کمال تھا۔ا س کی حوصلہ افزائی نے علوم و فنون کا دریا بہا دیا۔ اس کا مبارک عہد تھا کہ اسلامی علوم کی تدوین شروع ہوئی، یعنی امام ابو حنفیہؓ نے فقہ کو مدون کیا۔ ابن اسحاق نے غزوات نبوی لکھے، امام مالکؒ، اوزاعیؒ، سفیانؒ، ثوری وغیرہ 1؎ کتاب الفہرست ص1172؎ ایضاً ص244 3؎ کتاب القنبیہہ والاشراف اللمسعودی ص13 نے حدیثیں جمع کیں منصور کا مذاق اتفاق سے عجمی واقع ہوا تھا وہ ہر ہر بات میں اہل عجم کی تقلید کرتا تھا، یہاں تک کہ دربار کا لباس بھی عجمی رکھا۔ منصور ہی پہلا شخص تھا جس نے عرب کے زور گھٹانے کے لیے عجمیوں کا رسوخ بڑھایا اور تمام بڑے بڑے عہدے ان کے ہاتھ میں دے دئیے۔ اگرچہ منصور کی یہ کارروائی پولیٹکل حیثیت سے نہایت خراب تھی لیکن اس غلطی سے اتنا فائدہ ہوا کہ عرب میں فلسفہ کی بنیاد قائم ہوئی اور آج مسلمانوں میں عقلی علوم کا جو کچھ رواج ہے وہ اسی غلطی کی بدولت ہے منصور نے جن عجمیوں کو دربار میں رسوخ دیا وہ عموماً صاحب فضل و کمال تھے اور اس وجہ سے انہوں نے طب و فلسفہ کی نادر کتابیں منصور کے لیے بہم پہنچائیں اور ان کے ترجمہ کئے ان میں ایک عبداللہ بن المقفع تھا، جس کی نسبت ہمارے علمائے عربیت نے تسلیم کیا ہے کہ شروع اسلام سے آج تک عربی زبان میں ایسا فصیح و بلیغ مقرر اور صاحب قلم نہیں گزرا۔ چنانچہ اس کی کتاب تیمیہ کو ملحدوں نے (نعوذ باللہ) قرآن مجید کے مقابلہ میں پیش کیا ہے وہ مجوسی تھا، اور اس کی مادری زبان فارسی تھی اسلام قبول کر کے اس نے عربی زبان میں کمال پیدا کیا اور منصور نے اسے دربار کا میر منشی مقرر کر دیا چوں کہ وہ مختلف زبانوں کا ماہر اور اس کے ساتھ نہایت فصیح و بلیغ تھا اس کے ترجمے نہایت اعلیٰ درجہ کے خیال کئے جاتے ہیں ان میں سے کلیلہ و منہ کا ترجمہ اب بھی یادگار ہے اور چھپ کر شائع ہو چکا ہے، اس نے یونانی زبان کی کتابیں بھی ترجمہ کیں مثلاً قاطیغوریاس، بارمیناس، انا لوطیقا وغیرہ، فر فوریوس مصری کی کتاب ایسا غوجی کا ترجمہ بھی 1؎ اسی نے کیا فارسی زبان اس کی مادری زبان تھی اس لیے اس زبان کی کتابیں کثرت سے ترجمہ کیں ان میں سے خدائی نامہ، آئین نامہ، یزوک نامہ، نوشیرواں نامہ، جو تاریخ کی نادر کتابیں ہیں زیادہ مشہور ہوئیں پارسیوں کی علم الاخلاق کی دو بڑی کتابیں جو اس نے ترجمہ کیں وہ الادب الکبیر اور الادب الصغیر کے نام سے مشہور ہیں، چنانچہ ان کتابوںکا ذکر علامہ ابن الندیم نے کتاب الفہرست میں کیا ہے۔ 1عبداللہ بن المقظع کے لیے دیکھو کتاب الفہرست ص118 طبقات الاطباچ اول ص308 اہل عجم میں سے ایک اور بڑا صاحب اثر شخص جو منصور کے دربار میں تھا، نو بخت نام ایک آتش پرست تھا وہ منصور کے ہاتھ پر اسلام لایا تھا اور دربار میں اس کو وہ جاہ و اقتدار حاصل تھا کہ اکابر دولت میں گنا جاتا تھا۔ اس کا خاندان ایک مدت تک علم و فضل کا سر پرست رہا، اور ان کی وجہ سے فارسی زبان کے بہت سے ذخیرے عربی میں آئے۔ ابو سہل اور حسن بن موسیٰ جو بڑے پایہ کے متکلم تھے اور جن کے ہاں مترجمین کا جمگٹھا رہتا تھا اسی نو بخت کے خاندان سے تھے1؎ انہی عجمیوں میں سے جارج بن جبریل بھی تھا جو مشہور مترجم گذرا ہے۔ یہ جندی سابود میں افسر الاطباء کے منصب پر ممتاز تھا 148ھ میں منصور نے اس کو علاج کے لیے طلب کے ااور پھر اس کا تمام خاندان دربار میں داخل ہو گیا منصور نے اس کی یہ قدر دانی کی کہ باوجود اس کے کہ اس نے اپنے مذہب کو نہیں بدلا تھا دربار کا طبیب مقرر کیا اور جب مرض الموت کی بیماری میں اس نے وطن کو واپس جانا چاہا تو سفر خرچ کے لیے پچاس ہزار روپے عنایت کئے جارج پہلا شخص ہے جس نے دولت عباسیہ میں طب کی تصنیفات عربی زبان میں ترجمہ کیں2؎ اس کی کوشش سے طب کا بڑا ذخیرہ عربی زبان میں فراہم ہوا۔ اس نے خود بھی ایک نہایت مفصل اور عمدہ تجربیات کی کتاب سر یانی زبان میں لکھی جس کا ترجمہ حنین بن اسحاق نے عربی میں کیامنصور کے عہد سے لے کر 450ھ تک یہ خاندان قائم رہا اور دولت عباسیہ کے اخیر عہد ترقی تک یہ خاندان برابر علوم طبیہ کا سرپرست، علم و فضل کا حامی اور دربار کا زیب و زینت رہا۔ طب کی کتابوں کا ایک اور مشہور مترجم جو منصور کے دربار میں تھا بطریق نام ایک عیسائی 1؎ کتاب الفہرست ص2440,1770,176 و مروج الذہب ذکر خلافت فاہر باللہ 2؎ جار کے لیے دیکھو طبقات ص123-203 تھا۔ اس نے منصور کے حکم سے یونان کی بہت سی کتابیں ترجمہ کیں بقراط او ر جالینوس کی تصنیفات کے جو ترجمہ اس نے کئے ساتویں صدی ہجری تک متد اول رہے 1؎ منصور کے ذوق علمی کا یہ حال تھا کہ یونان کے علوم و فنون کا جو سرمایہ خود اس کے ملک میں بہم پہنچ سکتا تھا اس پر اکتفا نہ کر کے قیصر روم کو خط لکھا، چنانچہ اس کی درخواست کے موافق قیصر نے فلسفہ وغیرہ کی بہت سی کتابیں منصور کے پاس روانہ کیں۔ منصور کے ذوق کا یہاں تک چرچا پھیلا کہ دور دراز ملکوں سے ہر قوم و ملت کے اہل کمال نے اس کے دربار کا رخ کیا156 ھ میں ہندوستان کا ایک بڑا ریاضی داں عالم بغداد میں آیا اور سنسکرت کی مشہور زیچ جس کا نام سدھانتا ہے اور جس کے متعلق آگے چل کر ہم کسی قدر تفصیل کے ساتھ لکھیں گے، منصور کی خدمت میں پیش کی محمد بن ابراہیم فزازی نے منصور کے حکم سے اس کا ترجمہ کیا مامون الرشید کے زمانہ تک اعمال کواکب میں اسی زیچ پر اعتماد کیا جاتا تھا2؎ مذاہب کی تحقیقات کیلئے منصور نے اجازت دی کہ تمام مختلف فرقوں کی مذہبی کتابیں ترجمہ کی جائیں اس وقت ایران میں جس مذہب کا بہت چرچا تھا وہ مانی کا مذہب تھا مانی نے نبوت کا دعویٰ کیا تھا اور چند کتابیں پیش کی تھیں کہ خدا کی طرف سے اس پر نازل ہوئی ہیں بادشاہ وقت نے اس کو قتل کرا دیا، اور حکم دیا کہ اس کے پیرووں میں سے ایک متنفس بھی زندہ نہ رہنے پائے چنانچہ عجم کی اخیر سلطنت تک اس فرقے والے ادھر ادھر مارے مارے پھرے، لیکن جب اسلام کا زمانہ آیا تو اس نے تمام مذاہب کو آزادی دی اس وقت یہ فرقہ بھی عراق کو واپس آیا اور چونکہ خالد بن عبداللہ تسری گورنر عراق نے ان پر خاص توجہ کی 3؎ وہ امن و اطمینان کے ساتھ اپنے مذہب کی ترویج میں مصروف ہوئے عباسیہ کا عہد آیا تو مانی کی تمام تصنیفات ملک میں پھیلی ہوئی تھیں 1بطریق کے لیے دیکھو طبقات ص205 2؎ جامع الفصص النہیدر مطبوعہ فرانس3؎ کتاب الفہرست ص 337 عبداللہ بن المقفع اور اور مترجموں نے ان کا عربی زبان میں ترجمہ کیا۔ مانی کے سوا مجوسیوں کے اور بانیان مذاہب مثلاً دیسان مرقون کی کتابوں کے ترجمے ہوئے اور یہ پہلا موقع تھا کہ مسلمانوں کو دوسری قوموں کے مذہب اور مذہبی معلومات سے واقفیت حاصل ہوئی۔ اگرچہ اول اول اس کا یہ اثر ہوا کہ لوگوں میں اعتدال سے زیادہ مذہبی آزادی آ گئی اور بعض لوگ الحاد کی طرف مائل ہو گئے، یہاں تک کہ ابن ابی العرجاء حماد عجر و یحییٰ بن زیاد مطیع بن ایاس نے مانی وغیرہ کی تائید میں کتابیں لکھیں1؎ تاہم منصور نے آزادی کے لحاظ سے کچھ روک نہیں کی اور سچ پوچھو تو اس سے بڑا نفع یہ ہوا کہ مسلمانوں میں ایک نیا علم جو علم کلام کہلاتا ہے پیدا ہوا جس کی وجہ سے ہمیشہ کے لیے الحادو زندفہ کا راستہ رک گیا۔ اس کی ابتداء یوں ہوئی کہ مانی وغیرہ کی کتابوں کے پھیلنے سے جب الحاد کی ہوا چلی تو منصور کے فرزند خلیفہ مہدی نے اپنے عہد حکومت میں اس آگ کو آب تیغ سے بجھانا چاہا۔ چنانچہ سینکڑوں ہزاروں آدمی قتل کرا دئیے لیکن خیالات کی آزادی جبر و تعدی سے رک نہیں سکتی تھی آخر اس نے علمائے اسلام کو حکم دیا کہ ملحدوں کے رو میں کتابیں لکھیں اس طرح علم کلام کی بنیاد پڑی ایک بڑا فائدہ اس سے یہ ہوا کہ مخالفوں کے مذہب اور خیالات کے رد کرنے کے لیے ان کی مذہبی تصنیفات سے زیادہ واقفیت حاصل کرنے کی ضرورت پیش آئی اور اس وجہ سے خواہ مخواہ غیر زبانوں کے سیکھنے اور ترجمہ کرنے کی ضرورت کا زیادہ تر رواج ہوا۔ مہدی کے بعد جب ہارون الرشید تخت خلافت پر بیٹھا تو اس وقت تک یونانی، فارسی، سریانی، ہندی تصنیفات کا ایک بڑا ذخیرہ جمع ہو چکا تھا۔ ہارون الرشید نے ان کو منتظم صورت میں رکھنے کے لیے ایک عظیم الشان محکمہ قائم کیا جس کا نام بیت الحکمۃ رکھا اور ان میں ہر زبان اور ہر مذہب کے ماہرین فن ترجمہ کے کام پر مامور کیے ان میں فضل بن نو بختمجوسی بھی تھا 1؎ مروج الذہب ذکر خلافت قاہر باللہ اور وہ خاص فارسی کتابوں کے ترجمہ پر مامور تھا رشید کے دور میں فلسفہ کا بڑا سرمایہ ایک خاص وجہ سے ہاتھ آیا، شاہان روم کا معمول تھا کہ خلافت عباسیہ کو سالانہ نذرانہ بھیجا کرتے تھے، نایس فورس جو رشید کے عہد میں روم کے تخت سلطنت پر بیٹھا،ا س نے نذرانہ بھیجنے سے انکار کر دیا اور رشید کو گستاخانہ خط لکھا،ا س کے انتقام میں رشید نے ایشیائے کوچک پر جو اس وقت رومیوں کا پایہ تخت تھا پے در پے حملے کئے اور دار السلطنت ہر قلہ کو برباد کر دیا۔ یونان کے بعد یونانی فلسفہ کی تعلیم و تعلم انہی ممالک میں منتقل ہو کر آ گئی تھی، چنانچہ رشید نے انگوریہ اور اموریہ وغیرہ کو فتح کیا تو بے شمار یونانی کتابیں ہاتھ آئیں رشید نے ان کو نہایت احتیاط سے محفوظ رکھا اور اس زمانے کے مشہور مترجم کو جس کا نام یوحنا بن ماسویہ تھا۔ ان کے ترجمہ پر مامور کیا1؎ یہ تمام کتابیں خزانہ الحکمۃ میں داخل کی گئیں اور یوحنا خزانہ الحکمۃ کا افسر مقرر کیا گیا۔ سنسکرت کی علمی تصنیفات اگرچہ منصور کے عہد میں بغداد پہنچ چکی تھیں، لیکن اس زمانہ میں اور نئے سامان پیدا ہو گئے۔ ہارون الرشید ایک دفعہ سخت بیمار پڑا اور گو بغداد طبیبوں سے معمور تھا تاہم اس کو کسی کے علاج سے شفا نہیں ہوئی اس وقت ہندوستان کا ایک طبیب جو فلاسفر بھی تھا شہرت عام رکھتا تھا اور چونکہ دربار خلافت اور فرماندروا یان ہندوستان سے دوستانہ مراسم قائم تھے اور باہم خط کتابت رکھتے تھے، سب نے اس کے بلانے کی رائے دی غرض وہ طبیب طلب کیا گیا اور بغداد میں برامکہ کا جو ہسپتال تھا اس کا مہتمم اور افسر مقرر کیا گیا۔ سنسکرت کی لمی کتابیں اکثر اس سے ترجمہ کرائیں چنانچہ ششرت کی کتاب جو دس بابوں میں ہے، اور سامیکا جس میں زہروں کے علاج کا بیان ہے اس نے ترجمہ کی 2؎ رشید کے دربار میں اور بھی ہندو طبیب تھے ، جن کی وجہ سے ویدک کی معلوماتعربی میں منتقل ہوئی، ان میں سے صالح (اصلی نام سالی ہو گا) کا حال علامہ ابی اصیعبہ نے تفصیل کے ساتھ لکھا ہے۔ 1؎ طبقات ص175 2؎ طبقات ج 2ص33و کتاب الفہرست ص303,245 ہارون کے بعد مامون کا دور آیا اور اس کی بدولت عربی زبان تمام دنیا کے علوم و فنون سے مالا مال ہو گئی۔ مامون کی شہزادگی اور ابتدائی خلافت کا زیادہ زمانہ مرو میں گذرا مامون ماں کی طرف سے عجمی نژاد تھا اور عجم کی صحبت میں رہ کر خود بھی عجمی بن گیا تھا۔ ہر ہر بات میں وہ شاہان عجم کی تقلید کرتا تھا اور ارد شیر کا آئین سلطنت اس کا دستور العمل تھا1؎ دربار میں جس قدر وزرا اور امراء تھے مجوسی النسل تھے جن میں سے اکثر اس کے ہاتھ پر مسلمان ہو گئے تھے ان باتوں کے ساتھ چونکہ وہ علوم قدیمہ کا نہایت شائق تھا اس لیے فارسی لٹریچر اور علوم و فنون کا بے انتہا سرمایہ اس کے خزانہ میں جمع ہو گیا204ھ میں وہ خراسان سے بغداد میں آیا، یہاں یونانی فلسفہ کا زور تھا اس نے اس میں بھی کمال بہم پہنچایا اور خزانہ الحکمۃ کو زیادہ وسعت دی فلسفہ کے ساتھ اس کی شیفتگی اس حد تک پہنچی کہ ایک دن خواب میں دیکھا کہ ایک شخص جس کا یہ حلیہ ہے، سفید رنگ، کشادہ پیشانی، پیوستہ ابرو، آنکھوں میں سیاہی کے ساتھ نیلا پن، تخت پر بیٹھا ہے مامون نے ہیئت زدہ ہو کر نام پوچھا، اس نے کہا، ارسطو مامون خوشی سے پھڑک اٹھا، اور اس سے سوال و جواب کئے اس خواب نے مامون کو فلسفہ کا اور دلدادہ بنا دیاچنانچہ 210ھ میں2؎ قیصر روم کو خط لکھا کہ ارسطو وغیرہ کی جس قدر کتابیں بہم پہنچ سکیں پہنچائی جائیں۔ یہ وہ زمانہ تھا جب خلفائے عباسیہ کے خطوط قیصر روم پر فرمان کا اثر رکھتے تھے قیصر تعمیل ارشاد پر آمادہ ہوا اور کتابوں کے بہم پہنچانے کی کوشش کی ایک عیسائی خانقاہ نشین نے پتہ دیا کہ یونان میں ایک مکان ہے جو قسطنطین کے زمانے سے مقفل چلا آتا ہے، قسطنطین نے اس میں فلسفہ کی کتابیں اس خیال سے بند کرا دی تھیں کہ فلسفہ سے مذہب عیسوی کو ضرر پہنچتا ہے 1؎ مسعودی ذکر خلافت قاہر باللہ 2؎ مقریزی جلد دوم ص357 و کتاب الفہرست ص243 قیصر کے حکم سے یہ مکان کھولا گیا تو بہت سی کتابیں نکلیں، قیصر کو حسد ہوا کہ یہ گنجینہ بے بہا مسلمانوں کے ہاتھ میں جاتا ہے، لیکن درباریوں نے تسکین کر دی کہ یہ بلا (فلسفہ) جہاں جائے گی آفت لائے گی۔ غرض پانچ اونٹ پر لد کر یہ کتابین دار الخلافہ کو روانہ کی گئیں1؎ مامون نے اپنے قاصدوں کے ساتھ ان بڑے بڑے مترجموں کو بھی بھیجا تھا جو خزانہ الحکمۃ کے مہتمم اور یونانی و سریانی زبان میں کمال رکھتے تھے۔ چنانچہ ان میں سلما، حجاج بن مطر ابن البطریق بھی تھے، مامون کے دربار میں اگرچہ مترجموں کا ایک گروہ کثیر موجود تھا، لیکن چونکہ اس وقت تک ترجمہ میں اکثر لفظی رعایت کا رواج تھا یعنی مترجمین لفظ کے مقابلہ میں لفظ رکھ دیتے تھے، مامون کو ایسے مترجم کی تلاش تھی، جو خود ان فنون میں اجتہاد کا درجہ رکھتا ہو تاکہ ترجمہ کے ساتھ کتاب کے اصلی مشکلات کو بھی حل کر دیتا، ایسے شخص اس زمانہ میں صرف دو تھے حنین1؎ و یعقوب2؎ کندی۔ حنین کی لائف جہاں تک اس موقع سے تعلق رکھتی ہے یہ ہے کہ وہ ایک صراف بچہ عیسائی تھا اور حیرۃ میں جو عراق کا ایک مشہور شہر ہے سکونت رکھتا تھا۔ چونکہ اس وقت عیسائیوں کی بدولت در و دیوار سے تعلیم کی صدا آتی تھی، اس نے ہوش سنبھال کر طب کے سیکھنے کی طرف توجہ کی اس زمانہ میں یونانی فلسفہ کا بڑا ماہر یوحنا بن ماسویہ تھا، جو ہارون الرشید کے خزانہ الحکمۃ اور دفتر ترجمہ کا افسر تھا۔ حنین اس کے حلقہ درس میں پہنچا، لیکن چند روز کے بعد استاد شاگرد میں رقیبانہ شکر رنجی ہو گئی۔ یوحنا نے کہا کہ تم جا کر صرانی کی دکان کھولو تم کو علم نہیں آ سکتا۔ حنین غمزدہ ہو کر روتا اٹھا اور دل میں ٹھان لی کہ یونانی زبان میں کمال پیداکروں گا 1؎ یہ تفصیل ناسخ التواریخ حالات ارسطو کے بیان میں مذکور ہے۔ کہ تمام ملک میں کسی کو ہمسری کا دعویٰ نہ ہو۔ ممالک اسلامیہ میں اس وقت یونانی زبان کا مرکز اسکندیہ تھا، وہاں یونانی علم و ادب اور فلسفہ کی تعلیم کی بہت سی درسگاہیں تھیں اس کے علاوہ یونانی نہایت کثرت سے وہاں آباد تھے۔ اس لیے اس نے اسکندریہ کا رخ کیا اور وہاں رہ کر یونانی زبان حاصل کی۔ چنانچہ یونان کے مشہور شاعر ہومر کا کلام حفظ یاد کیا کرتا تھا اس کے بعد عربیت کی تکمیل کے لیے بصرہ میں آیا، یہاں خلیل بصری، جو عربی علم نحو کا موجد تھا، نجو کا درس دیتا تھا اور سیبویہ وغیرہ اس کے حلقہ درس میں بیٹھتے تھے، حنین نے عربی پڑھنی شروع کی اور اس میں بھی نہایت کمال پیدا کیا۔ فارسی اس کی ملکی زبان تھی۔ غرض حنین کا ابھی آغاز شباب تھا کہ اس کی شہرت دور دور پھیل گئی۔ چنانچہ مامون کو جب ترجمہ کے لیے تلاش ہوئی تو لوگوں نے اس کا نام لیا۔ مامون نے اس کو بلا کر بیش بہا انعامات دئیے اور ترجمہ کی خدمت متعلق کی۔ مشہور ہے کہ انعامات وغیرہ کے علاوہ مامون ہر کتاب کے ترجمہ کے صلہ میں کتاب کے برابر تول کو سونا دیتا تھا، اور شاید یہی وجہ تھی کہ حنین ان ترجموں کو نہایت گندہ کاغذ پر لکھواتا تھا اور خط نہایت جلی اور صفحہ میں صرف چند سطریں ہوتی تھیں۔ حنین کو یونانی کتابوں کے مہیا کرنے اور ترجمہ کرنے کا عشق تھا۔ کتابوں کی تلاش میں اس نے ایشیائے کوچک کا ایک ایک شہر چھان مارا، یہاں تک کہ انتہائے آبادی تک پہنچا خود اس کا بیان ہے کہ جالینوس کی کتاب البرہان کی تلاش میں میں نے یہ کوشش کی کہ جزیرہ اور شام کے ایک ایک شہر میں دورہ کیا، فلسطین و مصر میں جستجو کی، اسکندریہ گیا، ان تمام کوششوں پر صرف آدھی کتاب ہاتھ آئی، اور وہ بھی نامرتب اور پریشان، ترجمہ کے شوق کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ جب اس کی عمر48 برس کو پہنچی تو وہ جالینوس کی 121کتابوں اور رسالوں کا ترجمہ کر چکا تھا1؎ حنین 194ھ میں پیدا ہوا اور ستر برس کی عمر پا کر264ھ میں وفات پائی۔ 1؎ حنین کے متعلق یہ پوری تفصیل میں نے طبقات الاطباء تذکرہ حنین اور تذکرہ جالینوس سے لکھی ہے۔ مامون کے دربار کا دوسرا مشہور مترجم یعقوب کندی تھا۔ یعقوب کندی وہ شخص تھا کہ علمائے اسلام نے اسی کو فیلسوف (فلاسفر) کا لقب دیا۔ بو علی سینا اور ابن رشد اس لقب کے مستحق نہیں سمجھے گئے ابن الندیم نے (کتاب الفہرست صفحہ 294) اس کا مفصل تذکرہ لکھا ہے، یعقوب کندی کے بدولت عرب پر سے یہ اعتراض اٹھ گیا کہ اب تک نسل عرب سے کوئی شخص غیر زبانوں کا ماہر یہ حکیم و فلاسفر نہیں پیدا ہوا۔ مامون الرشید کے زمانہ سے چوتھی صدی کے آغاز تک تمام مسلمانوں میں اس کی تصنیفات رائج تھیں اور ارسطو کی تصنیفات کے ہم پلہ خیال کی جاتی تھیں وہ یونانی زبان کا بہت بڑا ماہر تھا۔ اور یونانی، فارسی، سنسکرت کے علوم و فنون میں کمال رکھتا تھا۔ اس نے فلسفہ کی بہت سی کتابیں ترجمہ کیں اور بڑا کام یہ کیا کہ اصل کتاب میں جو مشکلات اور پیچیدگیاں تھیں ان کے عقدے حل کر دئیے1؎ مامون نے اس کو خاص ارسطو کی کتابوں کے ترجمہ پر مامور کیا کیونکہ ارسطو کے فلسفہ کا سمجھنے والا اس سے بڑھ کر کون ہو سکتا تھا۔ علامہ ابن الندیم اور ابن ابی صیعبہ نے اس کی تصنیفات کا ذکر نہایت تفصیل سے کیا ہے جس سے اس کے حکیم اور فلاسفر ہونے کی تصدیق ہو سکتی ہے، لیکن یہ اس کے لکھنے کا محل نہیں۔ اسی زمانہ میں قسطا بن لوقا ایک عیسائی فاضل نے فلسفہ وغیرہ میں بہت کمال حاصل کیا۔ وہ یونانی نسل سے تھا اور یونانی زبان میں نہایت فصاحت سے تقریر کرتا تھا۔ اس کے ساتھ چونکہ بچپن سے شام میں پرورش پائی تھی، عربی زبان میں بھی اس کو کمال حاصل تھا۔ وہ یونانی فلسفہ کا نہایت دلدادہ تھا، چنانچہ خاص اس غرض کے لیے اس نے ایشیائے کوچک کا سفر کیا۔ اور یونانی علم کی بہت سی کتابیں بہم پہنچائیں۔ مامون نے اس کا حال سن کر بلا بھیجا اور بیت الحکمۃ میں ترجمہ کے کام پر مامور کیا۔ 1؎ یعقوب کندی کے لیے دیکھو طبقات الاطباء جلد اول ص207 کتاب الفہرست ص255 اور مونک صاحب فرانسیسی کی کتاب علامہ ابن ابی صیعبہ نے لکھا ہے کہ اس نے یونان کی بہت سی کتابیں عربی میں ترجمہ کیں اور پچھلے ترجموں کی اصلاح کی1؎ یہ تمام سامان تو یونانی کتابوں کے ترجمہ کے تھے۔ فارسی اور پہلوی ترجمہ کے لیے مامون نے مجوسی خاندان کے اہل کمال فراہم کئے سہل بن ہارون ایک مجوسی تھا، جو مجوسیوں کے علوم و فنون کا بہت بڑا ماہر تھا۔ اس کے ساتھ عربی زبان کا ایسا انشا پرداز تھا کہ اس زمانہ کے نہایت فصیح و بلیغ لوگوں میں شمار کیا جاتا تھا۔ یہاں تک کہ جاحظ اس کی استادی کا اعتراف کرتا تھا۔ چنانچہ علامہ ابن الندیم نے اس کا نام انشا پردازوں ہی کے ذیل میں لکھا ہے اس نے کلیلہ و منہ کے طرز پر ایک کتاب لکھی جس کا نام ثعلہ و عضراء رکھا۔ مامون نے اس کو خزانہ الحکمۃ میں مقرر کیا اور فارسی کتابوں کے ترجمہ کی خدمت دی سہل کا بھائی سعید بھی نہایت فصیح و بلیغ تھا مامون نے اس کو بھی خزانہ الحکمۃ میں ترجمہ کے کام پر مامور کیا2؎ شاکر کا خاندان بھی خزانہ الحکمۃ میں کام کرتا تھا لیکن ان لوگوں نے ترجمہ کے کام کو اس قدر وسعت دی کہ ہم آگے چل کر ان کا جداگانہ تذکرہ کریں گے۔ ان کے سوا سلماء اور ابن البطریق و علان شعوبی وغیرہ خزانہ الحکمۃ میں ملازم تھے۔ ایک ایسا محکمہ جس میں یعقوب کندی، حنین، قسطا بن لوقا، سہل بن ہارون، سلما، ابن البطریق، حجاج بن مطر، علان شعوبی جیسے ارباب کمال ملازم اور کار پروازوں سے اس کی وسعت اور خوبی کا کیا اندازہ ہو سکتا ہے۔ مامون کے عہد میں علوم عقلیہ اور دوسری زبانوں سے واقفیت کا ایک اور خاص سبب تھا، بریکون کی بدولت مناظرہ کی مجلسوں کا جو طریقہ تمام ملک میں جاری تھا، ہارون الرشید نے اپنے آخیر زمان ہمیں فقہا کے کہنے پر بند کرا دیا تھا، جس کا یہ نتیجہ ہوا کہ فلسفہ وغیرہ کی طرف سے لوگوں کا میلان کم ہو چلا۔ مامون کے زمانہ سے پہلے یہ بات مشہور ہو چکی تھی کہ دنیا میں اسلام بزور شمشیر پھیلا، 1؎ دیکھو طبقات الاطباء ص244جلد اول و مختصر الدول حالات یعقوب کندی و کتاب الفہرست ص290 2؎ ان دونوں کا حال فہرست ابن الندیم ص120میں مذکور ہے۔ کیونکہ اگر اسلام خود اپنی خوبیوں کی وجہ سے پھیل سکتا، تو لوگوں کو مناظرہ اور مباحثہ سے کیوں روکا جاتا۔ مامون نے یہ شہرہ سن کر بغداد میں ایک بہت بڑا مجمع کیا، اور تمام ملک میں جس قدر پیشوایان مذہب اور مختلف فرقوں کے لوگ تھے سب طلب کئے گئے۔ فرقہ مانویہ کا سردار جس کا نام یزدان بخت تھارے سے بلایا گیا اور مامون نے اس کو خاص ایوان شاہی کے قریب اتارا اس جلسہ میں علمائے کلام نے تمام مخالفین اسلام پر فتح حاصل کی 1؎ اور لوگوں پر علانیہ ثابت ہو گیا کہ اسلام کی اشاعت تلوار سے نہیں بلکہ زبان سے قلم سے ہوئی، اور ہو سکتی ہے اس کے بعد مامون نے نہایت فراخ حوصلگی سے حکم دیا کہ تمام ملک میں مناظرہ اور بحث کے عام جلسے قائم کئے جائیں اور ہر فرقہ اور ہر مذہب کے لوگوں کو عام اجازت دی جائے کہ اپنے مذہب کا اثبات اور دوسرے مذاہب پر نکتہ چینی کریں۔ ان مجلسوں کی وجہ سے تمام مسلمانوں کو فلسفہ اور علوم عقلیہ کی طرف میلان ہوا، کیونکہ دوسرے مذاہب کے رد کرنے کے لیے فقہ اور حدیث وغیرہ کام نہیں آ سکتے تھے، اس کے ساتھ چونکہ دوسری قوموں کے مذہبی مسائل معلوم کئے بغیر ان کے مذہب کا رد نہیں ہو سکتا تھا، اس لیے خواہ مخواہ دوسری قوموں کی زبان سیکھنی پڑی۔ مامون کے بعد مقصم تخت حکومت پر بیٹھا وہ جاہل محض اور سپاہیانہ مذاق کا آدمی تھا۔ اگرچہ اس کے عہد میں سلطنت کی شان و شوکت کو نہایت ترقی ہوئی، رومیوں پر اس نے آٹھ متواتر حملے کئے اور عموریہ کے معرکہ میں تو گویا رومیوں کی سلطنت کی جڑ ہلا دی۔ لیکن علمی فتوحات کو کچھ ترقی نہ دے سکا۔ البتہ عقلی علوم میں کچھ مزاحمت بھی نہیں کی، اس لیے جو لوگ اپنے شوق سے ان کاموں میں مصروف تھے بد ستور مصروف رہے۔ لیکن جب معتصم کے بعد227ھ میں خلیفہ واثق باللہ مسذ آرا ہوا تو ترجمہ کے کام کو نئے سرے سے رونق حاصل ہوئی وہ تقلید کا سخت مخالف تھا۔ 1؎ ان حالات کے لیے دیکھو کتاب الملل و الحل لبیھی المرتضی اور مروج الذہب مسعودی ذکر خلافت قاہر باللہ و کتاب الفہرست ص338 اور ہر فرقہ و ہر مذہب کو آزادی سے اظہار خیالات کا مجاز کیا تھا۔ تمام بڑے بڑے مشہور مترجم اور فلاسفر اس کے دربار میں حاضر رہتے تھے اور ان سے فلسفیانہ بحثیں کرتا تھا، چنانچہ ایک صحبت کا حال جس میں ابن بختیشوع، ابن ماسویہ، میخائل، حنین بن اسحاق، سلمویہ وغیرہ بھی موجود تھے علامہ مسعودی نے نہایت تفصیل سے لکھا ہے۔ حنین بن اسحاق سے وقتاً فوقتاً اس نے جو علمی مسائل دریافت کئے ان کو حنین نے ایک مستقل کتاب میں لکھا ہے، جس کا نام کتاب المسائل الطبیعۃ ہے۔ یوحنا بن ماسویہ مشہور مترجم جس کو ہارون الرشید نے خزانہ الحکمۃ کا افسر مقرر کیا تھا، واثق نے اس کو اپنا ندیم خاص قرار دیا، اور دولت و مال سے مالا مال کر دیا۔ چنانچہ ایک موقع پر تین لاکھ درہم عطا کئے 1؎ واثق کے بعد متوکل باللہ خلیفہ ہوا وہ اگرچہ محض ملایا نہ طبیعت کا آدمی تھا چنانچہ مناظرہ کے جلسے بالکل بند کرا دئیے، لیکن ترجمہ کے کام پر اس کو بھی توجہ رہی۔ حنین بن اسحاق کو ترجمہ کے محکمہ کا افسر مقرر کیا، اور بہت سے زبان دان مترجم جن میں اصطفن بن سبیل اور موسیٰ بن خالد بھی داخل تھے اس کی ماتحتی میں دئیے۔ یہ لوگ ترجمہ کرتے تھے اور حنین ان کو اصلاح کی نظر سے دیکھتا تھا اور درست کرتا تھا2؎ متوکل نے حنین کی قدر دانی بھی بے انتہا کی، اس کے رہنے کے لیے خاص شاہی ایوانات میں سے تین بڑے بڑے محل عنایت کئے اور اس خیال سے کہ آئندہ کوئی اس کے قبضہ سے نکالنے نہ پائے شرعی گواہی کرا دی۔ یہ بھی حکم دیا کہ وہ ہر قسم کے اسباب و سامان سے سجا دئیے جائیں اور کتب خانہ بھی وہیں مہیا کر دیا جائے۔ اس کے ساتھ پندرہ ہزار ماہوار تنخواہ مقرر کر دی۔ متوکل کے بعد عباسیوں کی سلطنت برائے نام رہ گئی لیکن اس سلسلہ سے الگ جو اسلامی حکومتیں قائم ہوتی گئیں، ان کو ہمیشہ اس کام کی طرف توجہ رہی۔ سیف الدولہ کے دربار میں عیسیٰ رتی اس خدمت پر مامور تھا، اور سریانی سے عربی 1؎ مروج الذہب مسعودی ذکر خلاقہ واثق باللہ و طبقات الطبا تذکرہ یوحنا بن ماسویہ 1؎ طبقات الطباء جلد اول 189، میں ترجمہ کرتا رہتا تھا1؎ اندلس میں عبدالرحمن ناصر ترجمہ کا بڑا شائق تھا۔ چنانچہ اس کے عہد کے بعض کارنامے آگے آئیں گے۔سامانی خاندان نے پہلوی زبان سے تاریخ کا بہت کچھ سرمایہ مہیا کیا تھا اور در حقیقت یہی سرمایہ تھا جس سے فردوسی نے شاہنامہ کی نقش آرائی کی۔ ہندوستان میں سلطان فیروز شاہ جب 776ھ جوالا مکھی پہاڑ کی سیر کو گیا تو معلوم ہوا کہ یہاں کے کتب خانہ میں13سو سنسکرت کی قدیم تصنیفات موجود ہیں۔ فیروز شاہ نے وہ کتابیں حضور میں طلب کیں اور ان کے ترجمہ کا اہتمام کیا نجوم کی ایک کتاب کا ترجمہ عزا الدین نے نظم کیا، اور دلائل فیروزی نام رکھا، یہ کتابیں اکثر موسیقی اور کشتی کے فن میں تھیں۔ عبدالقادر بدایونی نے منتخب التواریخ میں لکھا ہے کہ 1000ھ میں جب میں لاہور پہنچا تو یہ ترجمہ شدہ کتابیں میری نظر سے گزریں۔ اکبر شاہ کو سنسکرت کی کتابوں کا جو اہتمام تھا وہ عام طور سے مشہور ہے خلفا اور سلاطین کے علاوہ اکثر ارباب دولت نے بھی اس صیغہ کو بہت وسعت دی اور ان میں سے بعضوں کا تذکرہ اس مقام پر ضرور ہے اس فخر کا طرہ جس کے سر پر ہے وہ برا مکہ کا خاندان ہے اور انصاف یہ ہے کہ دولت عباسیہ میں جو کچھ کام ہوا اس کا بڑا حصہ برامکہ ہی کی بدولت تھا۔ اس خاندان کا مورث اعلیٰ برمک بلخ کے مشہور آتشکدہ کا جس کو مجوسی کعبہ کا جواب سمجھتے تھے، مہتمم اور افسر تھا اس کا بیٹا خالد اسلام لایا، اور دولت عباسیہ کے آغاز میں وزیر رہ کر منصور کے زمانہ میں قضا کی خالد کا بیٹا یحییٰ بن خالد ہارون الرشید کے عہد تک وزارت پر ممتاز رہا۔ چونکہ یہ خاندان اصل میں مجوسی تھا، اور آتشکدہ کے تعلق سے مجوس کی کل قوم سے ان کو واسطہ رہا تھا، اس لیے فارسی کا سرمایہ علمی جس قدر وہ مہیا کر سکتے تھے، کوئی شخص نہیں کر سکتا تھا۔ ایک بڑا سبب ان کے زمانہ میں ترجموں کی ترویج کا یہ ہوا کہ اسلام میں سب سے پہلے اسی خاندان نے علمی عام جلسوں کی بنیاد ڈالی۔ یحییٰ بن خالد خود اپنے ہاں مناظرہ کی مجلس منعقد 1؎ طبقات الاطباء جلد دوم ص140 کراتا تھا، جس میں ہر فرقہ اور ہر قوم کے آدمی شامل ہوتے تھے اور جو نہایت ترتیب اور حسن انتظام سے انجام پاتی تھی۔ یحییٰ کے دربار میں ہشام بن حکم مشہور متکلم تھا، جس کو مجلس کا سیکرٹری مقرر کیا گیا تھا1؎ یحییٰ پہلا شخص ہے جس نے ہندوستان کے پنڈتوں، فلاسفروں اور طبیبوں کو طلب کیا2؎ اور ان سے سنسکرت کی کتابوں کے ترجمے کرائے۔ کلبلہ و منہ کا دوسرا ترجمہ جو عبداللہ بن ہلال اہوازی نے 125ھ میں کیا، یحییٰ کے حکم سے کیا۔ محبطی کا سب سے اول ترجمہ اسی کے حکم سے کیا گیا، معلوم ہوتا ہے کہ یحییٰ خود ان فنون میں کمال رکھتا تھا، ابن الندیم نے لکھا ہے کہ جب محسبطی کے متعدد ترجمے اس کے سامنے پیش ہوئے، تو اس نے سب کو نا پسند کیا اور ابو حسان و سلما کو حکم دیا کہ دوبارہ ان کی اصلاح کریں۔ چنانچہ ان دونوں نے بہت سے اعلیٰ درجہ کے مترجم جمع کئے اور ان کے ترجموں کا باہم موازنہ اور مقابلہ کر کے ایک نہایت عمدہ نسخہ مرتب کیا۔ برامکہ کے خاص مترجم سلام ابرس عبداللہ بن ہلال، مانک ہندو، ابن دہن ہندو وغیرہ تھے، عمر بن فرحان جس کو رئیس المترجمین کا لقب حاصل ہے، اسی دربار کا مترجم تھا۔ دوسرا خاندان جس نے ترجمہ کے کام میں مدد دی موسیٰ ابن شاکر کا خاندان ہے۔ موسیٰ اصل میں ایک رہزن تھا اور اسی پیشہ پر اس کی بسر اوقات تھی اخیر میں اس نے توجہ کی اور غالباً بہادری کے جوہر کی وجہ سے مامون کے دربار میں ملازم ہو گیا، چند روز کے بعد تین اولاد چھوڑ کر مر گیا مامون کا ایک یہ بھی اصول تھا کہ وہ ہونہار نسلوں کی پرواخت اور تربیت بڑے اہتمام سے کرتا تھا۔ چنانچہ عجم کے بہت سے خاندان مثلاً سامانی خاندان، آل طولون وغیرہ اسی کی تربیت کی وجہ سے بڑے بڑے مناصب پر پہنچے اور ان کے ہاتھ سے بڑے بڑے کام انجام پائے مامون نے موسیٰ کی اولاد کی تربیت بڑے اہتمام کے ساتھ کی، یہاں تک کہ جب وہ ایشیائے کوچک کی لڑائیوں میں مصروف تھا تو اس وقت بھی وہاں سے ان کی خبر گیری کے متعلق اس کے احکام آتے رہتے تھے۔ 1؎ کتاب الفہرست ص175 2؎ ایضاً ص245 غرض یہ تینوں بھائی جن کے نام محمد، حسن، احمد تھے بڑے صاحب کمال ہوئے محمد تمام علوم قدیمہ کا ماہر تھا احمد نے خاص مکانک کے علم میں وہ بات پیدا کی اور وہ مسائل ایجاد کئے کہ یونانیوں کے خیال میں نہیں آئے تھے اس کی کتاب اسحیل اس بات کی پوری دلیل ہے، حسن کو ہندسہ میں کمال تھا اور بہت سے مسائل ایجاد کئے تھے جن میں سے ایک زاویہ کا تین مساوی حصوں میں تقسیم کرنا ہے۔ اس فضل و کمال کے ساتھ ان کو یونانی علوم و فنون کے ترجمہ کی طرف توجہ ہوئی، اور اس میں اس قدر انہماک ہوا کہ اپنی تمام طاقت اس پر صرف کر دی، خوش قسمتی سے دولت اور مال نے بھی ان کا ساتھ دیا تھا چنانچہ صرف بڑے بھائی کی سالانہ آمدنی چار لاکھ اشرفیاں تھیں، ان لوگوں نے ایشیائے کوچک کے تمام شہروں میں کارندھے بھیجے اور بے شمار کتابیں بہم پہنچائیں۔ نہایت دور دراز مقامات سے جہاں کسی مترجم کا پتہ لگا بلوا کر ترجمہ پر مامور کیا1؎ ثابت بن قرہ جو اپنے زمانہ میں راس المترجمین تھا، اسی خاندان کا تربیت یافتہ تھا ثابت نے علاوہ ترجمہ کے بہت سے قدیم ترجموں کی اصلاح کی اور آج اکثر اس کی اصلاح کردہ کتابیں موجود ہیں ثابت صرف مترجم نہیں بلکہ خود حکیم اور صاحب تصنیف تھا۔ اس کی تصنیفات سریانی زبان میں بھی موجود ہیں۔ ثابت کا ایک شاگرد عیسیٰ ابن اسید جو عیسائی مذہب رکھتا تھا، سریانی میں نہایت کمال رکھتا تھا، چنانچہ اس نے سریانی زبان کی بہت سی کتابیں ترجمہ کیں۔ ان لوگوں کے سوا جن قدر دانوں نے ترجمہ کے صیغہ کو وسعت دی، ان کے نام اور مختصر حالات ذیل کے نقشہ سے معلوم ہوں گے2؎ 1؎ اس کی تمام تفصیل کے لیے دیکھو کتاب الفہرست ص243,271و تاریخ الحکماء جمال الدین القفظی 2؎اس فہرست کے لیے دیکھو طبقات اطباء ج 203 نام کیفیت محمد بن عبدالملک الزیات یہ خلیفہ معتصم باللہ کا وزیر تھا، بہت سی یونانی کتابوں کے ترجمے اس کے اہتمام سے ہوئے بڑے بڑے مشہور مترجم مثلاً یوحنا، جبریل، بختیشوع، داؤد بن سرابیوں، سلمویہ، البیع، اسرائیل بن ذکریا، جیش بن الحسن وغیرہ نے اس کے لیے کتابیں ترجمہ کیں اس کام میں اس کے دس ہزار ماہوار صرف ہوتے تھے۔ شیر شوع بن قطرب جندی سابور کا رہنے والا تھا مترجمون پر نہایت فیاضی کرتا تھا، اس نے زیادہ تر سریانی زبان سے ترجمے کرائے۔ علی بن یحییٰ معروف ابن المنجم مامون کا منشی اور ندیم تھا۔ اس کو خاص طب کی کتابوں کی طرف میلان تھا۔ ثادری یہ بغداد کا بشپ تھا۔ کتابوں کے جمع کرنے اور ترجمہ کرانے کا نہایت شائق تھا محمد بن موسیٰ بن عبدالملک یہ خود بڑا فاضل تھا۔ او رکتابوں کی خوبی اور برائی کی نہایت صحیح جانچ کرتا تھا۔ عیسیٰ بن یونس کاتب عراق کا رہنے والا تھا یونانی کتابوں کا زیادہ تر شائق تھا۔ احمد بن محمد المعروف بہ ابن الدبر مترجموں کو بیش بہا انعامات اور صلے دیتا تھا علی المعروف بہ قیوم ایضاً ابراہیم بن علی بن موسیٰ الکاتب خاص کر یونانی زبان کا زیادہ شائق تھا۔ عبداللہ بن اسحق ترجمہ کے ساتھ اس کو بے انتہا شغف تھا۔ بختشیوع بن جبریل بغداد کے تمام اطباء میں کوئی شخص دولت و مال کے لحاظ سے اس کا ہمسر نہ تھا۔ دس پندرہ لاکھ سال کی آمدنی تھی، جالینوس کی اکثر کتابیں اس کے لیے ترجمہ کی گئیں۔ رفتہ رفتہ اس مذاق کو اس قدر ترقی ہوئی کہ سلاطین اور امرا کی طرف سے کسی قسم کی ترغیب اور تحریص کی ضرورت نہیں رہی۔ اکثر ارباب کمال خود اپنے شوق سے غیر زبانیں سیکھتے تھے۔ اور کتب علمیہ کے ترجمے کرتے تھے۔ ان میں سے سعید بن یعقوب جو 302ھ میں بغداد اور مکہ و مدینہ کے ہسپتالوں کا انسپکٹر جنرل تھا اور متی بن یونان المتونی 328ھ جس نے سریانی زبان سے بہت سی کتابیں ترجمہ کیں، اور یحییٰ بن عدی جو حکیم فارابی کا شاگرد تھا سریانی زبان کا بہت بڑا ماہر تھا، اور ابو علی بن زرعہ جو بہت بڑا منطقی اور مترجم تھا زیادہ مشہور ہیں۔ چنانچہ علامہ ابن ابی اصیعبہ نے ان کے حالات کسی قدر تفصیل سے لکھے ہیں۔ اخیر زمانہ میں مختلف اسباب کی وجہ سے سنسکرت کے علمی خزانوں پر زیادہ دسترس ہوا۔ سلطان علی مرد کے زمانہ میں ایک پنڈت جس کا نام بھوجر تھا، مسلمانوں سے مباحثہ کرنے کے لیے بنارس سے روانہ ہوا، اور شہر اکفوت پہنچ کر قاضی رکن الدین سمرقندی سے ملاقات کی۔ مباحثہ کا ارادہ چھوڑ کر قاضی صاحب سے عربی پڑھنی شروع کی، اور ایک کتاب جس کا نام انبرت کنڈ تھا۔ ان کی خدمت میں نذر گزاری۔ قاضی صاحب نے اس کے مطالب سنے تو ایسے گرویدہ ہوئے کہ بھوجر سے سنسکرت پڑھنی شروع کی سنسکرت میں کمال حاصل کر کے اس کتاب کا ترجمہ کیا لیکن بعض مقامات نا حل شدہ رہ گئے اتفاق سے بھوجر کا ایک شاگرد جس کا نام انبوانا ناتھ تھا ہندوستان سے چل کر اس طرف آ نکلا ایک سنسکرت دان عالم نے اس سے یہ کتاب پڑھی اور عربی زبان میں اس کا دوبارہ ترجمہ کیا اور مراۃ المعانی لادراک العالم الانسانی اس کا نام رکھا1؎ میں نے خود اس ترجمہ کا ایک قدیم نسخہ دیکھا ہے۔ محمد بن اسمعیل تنوخی ایک عالم نے ہیئت و نجوم سیکھنے کے لے خود ہندوستان کا سفر کیا، اور برسوں وہاں رہ کر ان علوم کی تحصیل کی۔ اس قسم کی اور بھی مثالیں ہیں، لیکن اس سلسلہ میں ابو ریحان بیرونی کا قدم سب سے آگے ہے۔ پروفیسر زخاؤ، جرمنی کا نہایت مشہور عالم ہے، اس نے بیرونی کی کتاب الہند کے دیباچہ میں لکھا ہے کہ سکندر کے ساتھ جو یونانی مصنف موجود تھے انہوں نے ہندوستان کے متعلق کچھ لکھا ہے چینی مسافروں نے بھی خود اپنی ذاتی واقفیت سے اس ملک کے حالات قلمبند کئے لیکن ابو ریحان بیرونی نے جب ہندوستان کا سفر کر کے وہاں کے علوم و فنون اور رسم و عادات پر کتاب لکھی، تو تمام پچھلی تصنیفیں بازیچہ اطفال بن گئیں۔ ابو ریحان بڑا ریاضی دان عالم تھا اور شیخ بو علی سینا کا معاصر اور بہت سے علم میں اس کا حریف مقابل تھا۔ اس نے ہندوؤں کے علوم حاصل کرنے کے لئے جو محنتیں اٹھائیں وہ حقیقت میں تعجب انگیز ہیں خود اس کا بیان ہے اس زبان کے سیکھنے میں مجھ کو نہایت مصیبتیں پیش آئیں، ہندوؤں کا تعصب اس قدر بڑھا ہوا ہے، جس کی کچھ انتہا نہیں، وہ ہم مسلمانوں کو ملچھ کہتے ہیں، ہم سے جو چیز چھو جائے ان کے نزدیک ناپاک ہو جاتی ہے، وہ اپنے بچوں کو ہمارے نام سے ڈراتے ہیں اور ہم کو شیطان کہتے ہیں، ان سب باتوں کے ساتھ وہ تمام دنیا کو جاہل اور وحشی سمجھتے ہیں ایک بڑی مشکل یہ تھی کہ ہندو اس کو کتابیں دینے میں نہایت بخل کرتے تھے، حالانکہ وہ کتابوں کے خریدنے میں بے دریغ روپیہ خرچ کرتا تھا غرض ان تمام مشکلات کے ساتھ جس طرح ہو سکا اس نے سنسکرت زبان حاصل کی اور نہایت کمال درجہ پر حاصل کی بہت سی مفید کتابوں کے ترجمے کئے بعض کے خلاصے لکھے، چنانچہ ان کا بیان آگے چل کر ہم تفصیل سے لکھیں گے۔ 1؎ جامع القصص الہندیہ مترجموں کا بے شمار گروہ جو رات دن ترجمہ کے کام میں مصروف تھا، اگرچہ ہم ان کے نام اور حالات استقصاء کے ساتھ نہیں بتا سکتے، تاہم ماہ یدرک کلہ لا تیرک کلہ کی بناء پر ہم ان کی ایک اجمالی فہرست حروف تہجی کی ترتیب سے لکھتے ہیں۔ مترجمین زبان فارس نام کیفیت عبداللہ بن المقفع اس کا ذکر اوپر گزر چکا ہے فضل بن نو بخت (فہرست274) ابو سہل اسمعیل بن علی بن نو بخت بہت بڑا عالم تھا، اس کے وہاں متکلمین کی مجلس ہوا کرتی تھی، بہت سی کتابیں اس کی تصنیف ہیں (فہرست 176) حسن بن موسیٰ بن اخت ابی سہل اس کے ہاں اکثر مترجمین مثلاً ابو عثمان و مشقی، اسحاق ثابت وغیرہ کا مجمع رہتا تھا (فہرست177) حسن بن سہل مشہور منجم تھا(فہرست275,255) موسیٰ بن خالد داؤد بن عبداللہ حمید بن قجطۃ کے ہاں ترجمہ کے کام پر مامور تھا (فہرست244) یوسف بن خالد ایضاً ابو الحسن علی بن زیاد المیتمی شہر یار کی زیسچ کا اس نے ترجمہ کیا تھا، (فہرست244) احمد بن یحییٰ البلا ذری مشہور مورخ ہے، فتوح البلدان جس کے اکثر حوالے میر تصنیف میں ہیں، اسی کی تصنیف ہے (فہرست244) جبلہ بن سالم اوپر گزر چکا اسحاق بن زیدے سیرۃ الفرس اسی نے ترجمہ کی تھی (فہرست245) محمد بن جہم البرمکی مشہور مصنف ہے (فہرست ایضاً) ہشام بن القاسم موسیٰ بن عیسیٰ الکروی زادویہ بن شاہویہ الاصفہانی ایران کی تاریخیں جو اس نے ترجمہ کیں اکثر اس کے حوالے کتابوں میں مذکور ہیں (فہرست ایضاً) محمد بن بہرام بن مطیار الاصفہانی بہرام بن مردان شاہ نیشا پور کا موبد موبدان تھا (فہرست) عمر بن فرحان الطبری گذر چکا عبداللہ بن علی فہرست302 سہل بن ہارون اوپر گذر چکا سعید بن ہارون اسحاق بن علی (فہرست315) عبداللہ بن ہلال اہوازی مترجم کلیلہ و منہ اللبرامکۃ مترجمین زبان سریانی1؎ نام کیفیت ماسر جیس یہودی 1؎ دیکھو کتاب الفہرست صفحہ344 و طبقات الاطباج 203,204 نام کیفیت عیسیٰ بن ماسر جیس اوپر گزر چکا ہشدی کرخی ابن شہدی کرخی بقراط کی کتاب الاجنہ کا اس نے ترجمہ کیا تھا ابوب الرہادی نہایت عمدہ ترجمہ کرتا تھا یوحنا بن بختیشوع منصور بن باناس سریانی زبان عمدہ جانتا تھا مرلاجی علامہ ابن الندیم کا معاصر تھا دار یشوع اسحاق بن سلیمان کے مترجموں میں تھا ایوب بن قاسم الرقی ایسا غوجی کا ترجمہ اسی نے کیا تھا متی بن یونان اوپر گذرا مترجمین زبان سنسکرت نام کیفیت معکہ اوپر گذرا ابن دھن اس کے باپ کا نام دھن تھا، اور اس کی طرف منسوب ہو کر یہ ابن دھن کہلاتا تھا، بغداد کے ہسپتال کا جس کو برامکہ نے قائم کیا تھا افسر تھا (فہرست صفحہ245) اسمعیل تنوخی ابو ریحان بیرونی اوپر گذر چکا فیضی اکبر کے دربار کا مشہور شاعر ہے مترجمین زبان یونانی و لاطینی و نیر بیریانی نام کیفیت اصطفن اوپر گذرا بطریق منصور کے دربار کا مشہور مترجم تھا یحییٰ بن بطریق مذکور الصدر کا فرزند، حسن بن سہل(وزیر مامون الرشید) کے دربار میں تھا حجاج بن مطر مشہور مترجم، محبطی اور اقلیدس کا ترجمہ اسی نے کیا تھا عبدالمسیح بن ناعمۃ الحمصی سلام ابرس برامکہ کا مشہور مترجم حبیب بن بہریز موصل کا بشپ تھا، مامون الرشید کے لیے ترجمے کئے زرد یابن ماتحوہ الحمصی عمدہ ترجمہ کرتا تھا ہلال بن ابی ہلال الحمصی فصیح و بلیغ نہ تھا، لیکن ترجمہ صحیح کرتا تھا۔ فیشون اس کے ترجمہ میں غلطیاں پائی جاتی ہیں، عربی نہیں جانتا تھا تذاری ابو نصر بن ادی بن ایوب بسیل بہت سی کتابیں ترجمہ کیں، عمدہ ترجمہ کرتا تھا ابو نوح بن الصلت اسطاث متوسط درجہ کا مترجم تھا جبرون بن رابطہ اصطفن بن بسیل حنین کے قریب قریب ترجمہ کرتا تھا ابن رابطہ موسیٰ خالد جالینوس کے اکثر کتابیں ترجمہ کیں تیوفیلی شملی عیسیٰ بن نوح ابراہیم قویری بہت بڑا منطقی تھا، متی بن یونان اسی کا شاگرد تھا نذرس فلسفہ کی کتابیں ترجمہ کیں داریع راہب ہیابیشون صلیبا ایوب رہادی ثابت بن قمع ایوب یہ دونوں محمد بن خالد بن یحییٰ برمکی کے ہاں ملازم تھے۔ سمعان باسیل طاہر ذوالمینین کے ہاں ملازم تھا۔ ابو عمرو یوحنا بن یوسف افلاطون کی کتاب آداب الصبیان کا ترجمہ اسی نے کیا تھا۔ قسطا بن لوقا لعببکی مشہور مترجم حنین بن اسحق مشہور مترجم اسحاق بن حنین ثابت بن قرۃ جیش الاعم مشہور مترجم حنین بن اسحق کا بھانجا تھا عیسیٰ بن یحییٰ بن ابراہیم حنین بن اسحق کا شاگرد تھا ابراہیم بن الصلت متوسط درجہ کا ترجمہ کرتا تھا، ابراہیم بن عبداللہ یحییٰ بن عدی مشہور مترجم تفلسی سرجس راس العین کا رہنے والا تھا، حنین نے اس کے ترجموں کی اصلاح کی ہے۔ یوسف بن عیسیٰ التطلبب خوزستان کا رہنے والا تھا ثابت الناقل جالینوس کی کتاب الکیموس اسی نے ترجمہ کی قیضا الرہادی حنین کا مددگار تھا عبد یسوع بن بہریز ابو سعید سعید بن یعقوب مشہور مترجم ابراہیم بن بکس مشہور طبیب اور مترجم تھا ابو الحسن علی بن ابراہیم باپ کا ہمسر تھا۔ ترجمہ کا طریقہ اور اس کی صحت ترجمہ کا اول اول یہ طریقہ تھا کہ اصل میں جو لفظ ہوتا تھا، اس کے ہم معنی الفاظ ڈھونڈھ کر لفظی ترجمہ کرتے جاتے تھے۔ چنانچہ یوحنا بن بطریق اور بن ناعمۃ حمصی کا یہی طرز تھا، لیکن اس میں دو دقتیں تھیں۔ اولاً نو ہر لفظ کے مقابل میں ایسا لفظ ملنا جو تمام خصوصیتوں کے لحاظ سے اس کا ہم معنی ہو۔ نا ممکن یا قریب نا ممکن کے ہے، دوسرے لفظی ترجمہ سے مطلب اچھی طرح سمجھ میں نہیں آتا تھا۔ ان خرابیوں کو دیکھ کر دوسرا طریقہ اختیار کیا گیا، یعنی یہ کہ پوری عبارت کا مطلب عبادت میں ادا کرتے تھے۔ غالباً یہ طریقہ حنین سے شروع ہوا۔ اور پھر اور لوگوں نے بھی تقلید کی، لیکن چونکہ اکثر ترجمے پہلی قسم کے بھی موجود تھے۔ اس لیے اصلاح کا طریقہ ایجاد ہوا، یعنی ان ترجموں میں جہاں جہاں ابہام اور پیچیدگیاں تھیں رفع کر دی گئیں۔ چنانچہ پچھلے بڑے بڑے نامور مترجم مثلاً ثابت بن قرۃ، یحییٰ بن عدی وغیرہ نے ترجمہ سے زیادہ پچھلے ترجموں کی اصلاحیں کیں اور در حقیقت ان اصلاحوں سے بڑا فائدہ ہوا1؎ آج کل یورپ کے ناسپاس مصنف طعنہ دیتے ہیں کہ مسلمانوں نے علمی دنیا پر جو احسان کیا، وہ صرف اس قدر کہ یونانی کتابوں کو بعینہ عربی میں ترجمہ کر دیا، جس سے یونانی کتابیں محفوظ رہ گئیں۔ لیکن وہ اس بات کو نظر انداز کرتے ہیں کہ مسلمانوں نے صرف اسی قدر نہیں کیا بلکہ دنیا کو ان کتابوں کے مطالب سمجھا دئیے، جو خود یونان کے شارحوں نے نہیں سمجھے تھے۔ ارسطو افلاطون کی تحریر کا یہ طرز تھا کہ دانستہ مضمون کو پیچیدہ طور پر ادا کرتے تھے۔ 1؎ ترجمے کے ان دونوں طریقوں کا ذکر بہاؤ الدین عاملی نے اپنی کشکول میں بحوالہ صلاح الدین صفدی کیا ہے۔ یہاں تک کہ خود ارسطو نے جب کسی قدر اپنی تحریرات میں توضیح سے کام لیا تو افلاطون نے نہایت زجر کے ساتھ اس کو خط لکھا کہ تم علم کو متبذل اور پامال کرتے ہو۔ ارسطو نے جواب میں لکھا کہ ’’ میں نے پھر بھی ایسی پیچیدگیاں رکھی ہیں کہ اکثرلوگ اصل مطلب کی تہ کو نہیں پہنچ سکتے۔‘‘ یہی وجہ تھی کہ خود یونانی مصنفوں نے ان دونوں حکیموں کے مطلب سمجھنے میں غلطیاں کیں اور رفتہ رفتہ دو جدا فرقے پیدا ہو گئے۔ حکیم ابو نصر فارابی نے ایک کتاب لکھی ہے جس کا نام الجمع بین الرائین ہے، یہ کتاب یورپ میں چھپ گئی ہے، اس میں حکیم مذکور نے دکھایا ہے کہ افلاطون و ارسطو کا طرز تحریر کیا تھا، اور اس کی وجہ سے زمانہ بعد میں یونان وغیرہ کے مصنفین نے کیسی غلطیاں کیں۔ فارابی نے پھر ان غلطیوں کو درست کیا ہے، اور ارسطو و افلاطون کی عبارتوں کا حل کر کے بتایا ہے کہ ان دونوں حکیموں میں کچھ اختلاف نہیں۔ ترجمون کی درستی اور صحت میں جو اہتمام بلیغ کیا جاتا تھا۔ اس کا اندازہ کرنے کے لیے اس مقام پر ایک واقعہ نقل کرنا کافی ہو گا۔ مفرد دواؤں کے بیان میں یونان کی سب سے عمدہ تصنیف ولیسو قود درس کی کتاب ہے، یہ کتاب المتوکل باللہ کے زمانہ میں اصطفن بن بسیل نے ترجمہ کی اور حنین نے اس پر نظر ثانی کر کے درست کیا۔ لیکن جن دواؤں کے نام عربی میں نہ تھے ان کے نام یونانی رہنے دئیے۔ یہی ترجمہ اسپین پہنچا، لیکن یونانی الفاظ کی وجہ سے عام طور پر لوگ منتفع نہیں ہو سکتے تھے 337ھ میں جو عبدالرحمن ناصر کی حکومت کا زمانہ تھا، قیصر روم نے (جس کا نام مارنیس تھا) اصل کتاب جس میں دواؤں اور بوٹیوں کی تصویریں بھی بنی ہوئی تھیں، عبدالرحمن کو تحفہ میں بھیجی۔ عبدالرحمن کے دربار میں اگرچہ لاطینی زبان جاننے والے موجود تھے، لیکن قدیم یونانی زبان بالکل متروک ہو گئی تھی۔ اس کی وجہ سے اطبا اور حکماء جو اس کتاب کے حل کرنے کے شائق تھے، یونانی الفاظ میں مجبور ہو جاتے تھے عبدالرحمن نے خط لکھ کر قیصر روم کے ہاں سے ایک عیسائی عالم کو بلوایا، جو یونانی اور لاطینی دونوں زبانوں کا ماہر تھا 340ھ میں وہ دربار میں پہنچا، اور اطبائے اسلام مثل محمد شجار، ابن جلجل، بسباسی ابو عثمان خزاز، محمد ابن سعید، عبدالرحمن بن اسحق، ابو عبداللہ الصبقلی نے نہایت شوق اور توجہ سے یہ کتاب اس سے پڑھنی شروع کی۔ اس مجمع نے نہایت غور و تحقیق و تجربہ سے خود قرطبہ (کارڈوا) میں ان تمام مجہول دواؤں کے پتے لگائے، اور ان کے ناموں کی تصحیح کی۔ ابن جلجل جو ان تمام طبیبوں میں نہایت نامور تھا، اس نے ایک مفصل شرح اس کتاب پر لکھی، اور ان کے تمام مقامات حل کیے ابن جلجل نے ایک اور کتاب لکھی جس میں صرف ان دواؤں ی تفصیل کی جو اس کتاب میں مذکور نہ تھیں1؎ ترجمہ کی صحت اور غلطی پر یورپ کے علماء نے بہت بحثیں کی ہیں، اور چونکہ بد قسمتی سے ہم مسلمان یونانی وغیرہ سے بے بہرہ ہیں، اس لیے ہم کو اس باب میں یورپ ہی کا دست نگر ہونا پڑتا ہے۔ گبن صاحب لکھتے ہیں کہ ’’ ان ترجموں کی خوبی ناؤٹ نے خوب بحث کی ہے اور کلری نے دیانتداری سے اس کی حمایت کی ہے‘‘ لوئیس صاحب نے ہسٹری آف فلاسفی میں لکھا ہے کہ مونک کہتا ہے کہ بعض ترجمے نہایت خوبی سے کئے گئے فرانس کے نہایت نامور مصنف پروفیسر مونک جس نے مسلمانوں اور یہودیوں کے فلسفہ اور اس کے باہمی ربط پر ایک مستقل کتاب لکھی ہے، اور جو مدت تک میرے مطالعہ میں رہی ہے، وہ لکھتا ہے کہ جن مصنفوں نے مسلمانوں کے ترجموں پر بیر حمانہ اعتراضات کئے ہیں، اس کی یہ وجہ ہے کہ انہوں نے اصل عربی ترجمے نہیں دیکھے، بلکہ ان ترجموں کے ترجمے جو عربی سے لیٹن زبان میں کیے گئے دیکھے ہیں۔2؎ ترجموں کی صحت و غلطی کا تو ہم مجتہدانہ فیصلہ نہیں کر سکتے، اور اسی وجہ سے ہم نے اس بحث میں صرف یورپ کی تقلید کی، لیکن یہ امر ہر شخص کو صاف نظر آتا ہے کہ مسلمانوں نے ترجمہ 1؎ دیکھو طبقات الاطباء تذکرہ ابن جلجل الاندلسی، 2؎ کتاب مذکور صفحہ314 کو اصل زبان سے کس قدر آزاد کر دیا۔ آج انگریزی زبان کس قدر وسیع ہو گئی ہے، لیکن علمی اصطلاحات میں وہی تمام یونانی الفاظ قائم ہیں۔ اگرچہ اس کی یہ وجہ بیان کی جاتی ہے کہ تمام یورپ میں مشترکہ اصطلاحوں کا قائم رہنا ضرور ہے، اور وہ بغیر اس کے نہیں ہو سکتا کہ یونانی الفاظ بعینہ قائم رکھے جائیں بہر حال عربی ترجمے اس غلامی سے بالکل بری ہیں منطق، فلسفہ، ہیئت، ہندسہ، طب میں سینکڑوں ہزاروں اصطلاحی الفاظ تھے۔ لیکن ان سب کے مقابل میں عربی کے ایسے مناسب الفاظ انتخاب کئے گئے کہ گویا علوم اسی زبان میں پیدا ہوئے تھے۔ یونانی الفاظ سے تو ملک بالکل نا آشنا ہے، لیکن فارسی میں جو اصطلاحیں اسلام سے پہلے موجود تھیں اور جودسا1؎ تیر میں مذکور ہیں، اور ان کے مقابل عربی اصطلاحا ت کو ہم اس موقع پر نمونہ کے لیے لکھتے ہیں2؎ جس سے ظاہر ہو گا کہ اصطلاحی الفاظ کا کس خوبی سے ترجمہ کیا گیا تھا۔ اصطلاحات فلسفہ و طب وغیرہ پہلوی عربی پہلوی عربی کسی تشخص زنجیر تسلسل 1؎ان صحیفوں کے مجموعہ کا نام ہے جو آتش پرستوں کے اعتقاد میں زر دشت وغیرہ پر اترے۔ 2؎ لیکن یہ خیال رکھنا چاہیے کہ یورپ کے محقق جنہوں نے ژند اور پہلوی زبان میں کمال پیدا کیا ہے ان کی رائے یہ ہے کہ دساتیر ایک جعلی کتاب ہے، اور اسلام کے بہت بعد تصنیف ہوئی ہے، اگر یہ صحیح ہے، تو میرے مضمون کا یہ حصہ بے کار گیا۔ پہلوی عربی پہلوی عربی نوشدہ حادث آمیغ حقیقت فروزہ صفت جداشناس فصل پرتوی اشراقی رہبر دلیل رہبری مشائی ہمادی کلی برین فرہنگ الہیات پاز تازی جزوی مایہ ہیولی اوچیز ہویت پیکر صورت چار آمیزہ اخلاط اربعہ بایستہ ہستی واجب الوجود جینش شمپوری حرکت قسری شایستہ ہستی ممکن الوجود بازگیر اعتراض نخستں انداز خرد بالبداہۃ کنور علۃ ناباے محال اشکیوہ مرکب چرخہ دور کاموس بسیط یونانی و لاطینی الفاظ عربی ترجموں میں خال خال اب بھی موجود ہیں، مثلاً اصطلاحات طبی میں کیموس، کیلوس، مالیخولیا، تریاق، نقرس، قولنج وغیرہ لیکن یہ صرف گویا اس بات کے یادگار ہیں کہ ان علوم کا ماخذ یونان ہے۔ غیر قوموں کے علوم و فنون جو ترجمہ کے ذریعہ سے عربی زبان میں آئے مذکورہ بالا تفصیل کے بعد اب ہم ایک ایک زبان کے متعلق تفصیلی گفتگو کریں گے، اور چونکہ مسلمانوں نے سب سے زیادہ یونان کے علمی ذخیرہ کے ساتھ اعتنا کیا، اس لیے اول اسی سے شروع کرتے ہیں، پھر فارسی، سریانی، قبطی، سنسکرت وغیرہ کے متعلق لکھیں گے۔ یونان فلسفہ یونانی فلسفہ کی ابتداء تہیلز (Thales) سے ہوئی، جس کو اہل عرب طالیس کہتے ہیں۔ یہ حکیم حضرت عیسیٰ ؑ سے 620 برس قبل پیدا ہوا اس نے مصر میں تعلیم پائی تھی، اور وہیں یہ اصول سیکھا تھا کہ تمام اشیاء پانی سے پیدا ہوئیں۔ اس کے فلسفہ کو آیونک فلاسفی کہتے ہیں۔ اس کے بعد فلسفہ کی اور بہت سی شاخیں نکلیں، اور بڑے بڑے حکماء پیدا ہوئے۔ فلسفہ یونانی کا یہ سلسلہ 522ء تک جاری رہا۔ یعنی جب کہ ایتہنز کا اسکول اسی سنہ میں قیصر روم جسٹینین کے حکم سے بند کر دیا گیا۔ اس ممند دور کو دو حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں، قدیم، جدید دور قدیم کی انتہا افلاطون پر ہوتی ہے، اور ارسطو سے دور جدید شروع ہوتا ہے۔ قدماء میں سات بڑے حکیم جو حکمت و فلسفہ کے ستون کہلاتے ہیں یہ تھے (Thales) طالیس (Anoxagoras) انکساغورس (Anaximenes) انکسیمانس اپندقس (Pyhagoras) فیشا غورث (Socrates) سقراط (Plato) افلاطون۔ فیشا غورث کے زمانہ تک تصنیف کا چنداں رواج نہ تھا، اور یہی وجہ ہے کہ انگریزی میں ہسٹری آف فلاسفی کے عنوان سے جو کتابیں لکھی گئیں، ان میں ان حکما کی تصنیفات کے بہت کم نام ملتے ہیں۔ تاہم ان کے فلسفیانہ اصول اور مسائل محفوظ تھے، اور مسلمانوں نے ان سے پوری واقفیت حاصل کی۔ علامہ شہر ستانی نے طالیس، انکسا غورس، انکسیمانس، اپندقلس کے اصول پر مفصل گفتگو کی ہے، اور غالباً یورپین تصنیفات میں اصول و مسائل کے متعلق اس سے زیادہ تفصیل نہیں مل سکتی۔ اپندقلس کا فلسفہ مسلمانوں میں زیادہ مقبول ہوا۔ اس کی تصنیفات عربی میں ترجمہ کی گئیں محمد بن عبداللہ کا جو قرطبہ کا رہنے والا تھا، اپند قلس کی تصنیفات کا اتنا شوق تھا کہ ہمیشہ اپنے مطالعہ میں رکھت اتھا۔ ابو الہذیل علاف جو مسلمانوں میں علم کلام کا بہت بڑا فاضل اور خلیفہ مامون الرشید کا استاد تھا صفات باری کے متعلق اسی حکیم کے خیالات کا پیرو تھا1؎ اپند قلس ہی پہلا شخص تھا جو اربعہ عناصر کا قائل ہوا اور وہی خیال اب تک مسلمانوں میں چلا آتا ہے۔ فیشا غورث المتولد 580قبل مسیح نے فلسفہ کو نہایت ترقی دی، یہاں تک کہ اس علم کا یہ نام اسی کے عہد میں ایجاد ہوا۔ اس کی تصنیفات جس قدر بہم مل سکیں بہم پہنچائی گئیں، اور ترجمہ کی گئیں۔ چنانچہ ان میں سے جو علامہ ابن الندیم کے زمانہ یعنی چوتھی صدی کے وسط تک موجود تھیں حسب ذیل ہیں۔ رسالہ فی السیاسۃ العقیلۃ، رسالۃ الی متمرو صقلیۃ، رسالۃ ابی سیفانس فی استخراج2؎ المعانی ابن ابی اصیعبہ نے ان کتابوں کے علاوہ مفصلہ ذیل کتابوں کا بھی نام لیا ہے: کتاب ارثما طیقی، کتاب الالواح، کتاب فی النوم والیقظہ، کتاب فی کیفیۃ النفس والمسجد، الرسالۃ الذہیتہ، املخیس نے ان کتابوں کی جو شرحیں لکھی تھیں ان کا بھی عربی میں ترجمہ کیا گیا۔ سقراط المتوفی 400 قبل مسیح، فلسفہ کا باپ تسلیم کیا جاتا ہے اس نے اگرچہ مستقل کتابیں نہیں تصنیف کیں کیونکہ وہ تحریر و تصنیف کا مخالف تھا، تاہم تعلم و تعلیم کے وقت اس کے فلسفہ کے مسائل پر جو تقریریں کیں اس کے شاگردوں نے اکثر محفوظ رکھیں، اور وہ رسالوں کی شکل میں مرتب ہو کر اس کی طرف منسوب ہیں۔ چنانچہ ازخانس کو فلسفہ کے متعلق پہیلیوں 1طبقات الاطبائ،37 ج ا 2 فہرست ابن الندیم ص245 کے طور پر جو اسرار لکھے اس کو شہر ستانی نے اپنی کتاب میں گویا بعبارتہ نقل کیا ہے۔ اس کے سوا اس نے اپنے عزیزوں کو جو تحریر لکھی اور پالیٹکس پر اس کی جو رائے تھی اس کی تصنیفات میں محسوب ہیں، اور عربی میں ان کا ترجمہ موجود ہے۔ فلاطون المتوفی 347قبل مسیح نے فلسفہ کا بالکل ایک نیا اسکول قائم کیا۔ اس نے پانچ برس تک سقراط سے تعلیم حاصل کی۔ سقراط کے مرنے پر مصر گیا، اور فیثا غورث کے شاگردوں سے استفادہ کیا پھر ایتھنر میں آ کر ایک دار العلوم قائم کیا، اور فلسفہ پر لیکچر دینے شروع کئے اس نے بہت سی کتابیں تصنیف کیں۔ تصنیفات میں اس کا خاص طرز یہ ہے کہ فرضی اشخاص کی زبان سے مسائل بیان کرتا تھا، اور کتاب کا نام بھی انہی لوگوں کے نام پر رکھتا تھا۔ فلاطون کی تصنیفات جو عربی میں ترجمہ کی گئیں۔ ان کی تفصیل نقشہ ذیل معلوم ہو گی۔ نام کتاب مضمون مترجم یا مفسر کتاب السیاسہ پالیٹکس حینن بن اسحاق کتاب النوامیس قانون حنین و یحییٰ بن عدی کتاب بنام سو فطس اسحاق کتاب بنام طیادس مابعد الطبیعۃ یحییٰ بن البطریق و حنین بن اسحاق اصول الہندسہ جاسیڑی کے اصول قسطا بن لوقا ان کتابوں کے سوا ابن ابی اصیبعہ نے اور بہت سی کتابوں کے نام منگوائے ہیں، جن کا مجموعہ 36تک پہنچتا ہے۔ اس موقع پر یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ افلاطون مطالب کو دانستہ نہایت پیچیدہ طریقہ سے بیان کرتا تھا، اس لیے خود یونانی حکما نے اس کے مطلب سمجھنے میں اکثر غلطیاں کیں۔ لیکن حکمائے اسلام خصوصاً فارابی نے نہایت صحت و خوبی سے ان کی تشریح کی۔ ان سات حکما کے سوا اس دور میں اور اس کے بعد اور بھی اہل کمال گذرے جن کو فلسفیت کی حیثیت حاصل تھی، مثلاً ارستیب المتولد 235قبل مسیح جو سقراط کا شاگرد تھا، اور جس کا فلسفہ صرف لذت و عیش پر مبنی تھا، اور ہر قلس Heraclitus المتولد 500 قبل مسیح جو پہاڑوں میں زندگی بسر کرتا تھا، اور یمقبراطیس Democritus جو اجزائے لائیجریٰ کا قائل تھا، اور کسنو فانس Cristophenes المتولد 617 قبل مسیح لیکن ان حکما کی مستقل تصنیفات نہ تھیں، البتہ ان کے اصول اور مسائل جو ان کے ہمعصروں یا شاگردوں نے محفوظ رکھے تھے، موجود تھے، اور عربی زبان میں ترجمہ کئے گئے۔ چنانچہ ان تمام حکماء کے فلسفہ وک شہر ستانی اور جمال الدین قفطی اور صاعد اندلسی نے تفصیل سے لکھا ہے، اور میرا خیال ہے کہ یورپ کی تصنیفات میں بھی اس سے زیادہ نہیں مل سکتا۔ حکما سے متاخرین کا دورارسطو المتولد 384 ق م سے شروع ہوتا ہے۔ وہ امام الفلسفہ کے لقب سے مشہور ہے، اور در حقیقت وہ اس لقب کا مستحق تھا۔ یورپ نے اکثر طعنہ دیا ہے کہ مسلمانوں نے صرف ارسطو کے فلسفہ سے واقفیت حاصل کی، اور ہمیشہ اسی کا کلمہ پڑھتے رہے، یونان کے اور نامور حکما سے وہ بہت کم واقف ہیں۔ اگرچہ یہ اعتراض در حقیقت یورپ کی کوتاہ نظری کا نتیجہ ہے، مسلمانوں نے ارسطو کے سوا تمام اور حکما کے فلسفیانہ مسائل کا ذخیرہ جو بہم پہنچایا، آج یورپ اس سے زیادہ سرمایہ مہیا نہیں کر سکتا، لیکن اس میں شبہ نہیں کہ اور حکما کی بہ نسبت مسلمانوں نے ارسطو کے فلسفہ کے ساتھ زیادہ اعتنا کی، جس کے مختلف اسباب تھے۔ اول تو ارسطو سے پہلے تصنیف و تالیف کا منتظم طریقہ نہیں قائم ہوا تھا، اس واسطے حکمائے قدیم کے خیالات اور مسائل اچھی طرح منضبط نہیں تھے۔ فلاطون نے تصنیف کو زیادہ ترقی دی، لیکن وہ مضامین کو نہایت پیچیدہ طور سے ادا کرتا تھا، اور اس کو فرض منصبی خیال کرتا تھا۔ چنانچہ جب اس کی زندگی میں ارسطو کی بعض مفصل تصنیفات شائع ہوئیں تو اس نے ارسطو کو نہایت ناراضی کا خط لکھا کہ اسرار فاش کئے دیتے ہو1؎ شاید یہی وجہ بھی تھی کہ اپیکورس Diogenes ڈیایجنیز Epicurus ویمترا طیس وغیرہ کے بعض مسائل اسلام کے بر خلاف تھے، لیکن ارسطو کا فلسفہ اسلام سے ملتا جلتا تھا۔ ارسطو وحدانیت، صفات باری، ثواب، عقاب، حشر و نشر کا قائل تھا۔ بہر حال یہ عیب ہو یا ہنر، لیکن اس سے انکار نہیں ہو سکتا کہ مسلمانوں نے نہایت جدوجہد سے ارسطو کی ایک ایک تصنیف بہم پہنچائی، اور ان سب کے ترجمے کئے، چنانچہ ہم اس موقع پر اس کی تصنیفات کی ایک مفصل فہرست لکھتے ہیں۔ نام کتاب مضمون مترجم کیفیت قاطیغوریاس (Catogor) مقولات عشر، یعنی کم کیف وغیرہ حنین بن اسحاق فارابی، متی، ابن مقفع، ابن بہریز کندی، اسحق، احمد بن طیب، رازی نے اس کے خلاصے اور شرحیں لکھیں۔ باری ارمینالیس اس میں مقولات مرکبہ کا بیان ہے حنین و اسحاق حنین نے سریانی میں اور اسحاق نے عربی میں ترجمہ کیا، متی فارابی نے شرحیں لکھیں۔ اسحاق، ابن مقفع، کندی ابن بہریز، رازی، احمد بن طیب نے خلاصے لکھے۔ 1؎ افلاطون اور ارسطو کی اس خط و کتابت کو فارابی نے اپنی کتاب الجمع بین الرائین میں نقل کیا ہے، دیکھو رسائل فارابی مطبوعہ یورپ 7ص نام کتاب مضمون مترجم کیفیت انا لوطیقا اول (Analytic) تحلیل قیاسات تیوڈورس حنین نے سریانی میں اور اسحاق نے عربی میں اس کے بعض اجزا کا ترجمہ کیا، کندی و متی نے شرح لکھی انو لوطیقا ثانی برہان اسحاق وغیرہ حنین نے بعض اجزاء کا سریانی میں ترجمہ کیا متی نے اس سریانی کی عربی کی، متی، کندی، فارابی نے شرحیں لکھیں طوبیقا (Topic) بحث و جدل یحییٰ بن عدی اسحاق نے سریانی میں، اور یحییٰ بن عدی نے اس سریانی کا عربی میں ترجمہ کیا۔ سات مقالے و مشقی نے ترجمہ کئے، اور ابراہیم ابن عبداللہ نے آٹھ مقالے یحییٰ بن عدی نے ہزار ورق میں شرح لکھی، فارابی ہتی نے بھی شرحیں لکھیں۔ سوفسطیقا (Sophistiq) مغالطہ ابن ناعم متی وابن ناعمہ نے سریانی میں ترجمہ کیا، اور یحییٰ و قویری و ابراہیم نے عربی میں یطیوریقا (Rhetoric) مضاحت و بلاغت و خطابیات اسحق و ابراہیم بن عبداللہ فارانی نے شرح لکھی پوطینا (Poetic) شاعری متی و یحییٰ بن عدی متی نے سریانی سے عربی میں ترجمہ کیا۔ یہ آٹھواں کتابیں منطق میں ہیں کیونکہ ارسطو نے منطق کے آٹھ حصے قرار دئیے تھے۔ ان میں سے قاطینو ریاس یورپ میں چھپ گئی ہے اور باری ارمیناس وانا لوطیقا اول و ثانی مع شرح ابن رشد کا قلمی نسخہ اس وقت میرے مطالعہ میں ہے۔ ارسطو کی اور تصنیفات حسب ذیل ہیں۔ نام کتاب مضمون مترجم کیفیت سمع الکیان طبیعات میں ہے اور ہیولیٰ، صورت، مکان حرکت، زمانہ کا بیان ہے حنین و قسطابن لوقا وغیرہ یہ کتاب آٹھ مقالوں میں ہے کتاب السماء والعام اس میں عناصر اربعہ میں فلک کا بیان ہے ابن البطریق و متی ابو زید بلخی، اور جعفر خازن نے اس کی شرح لکھی، ابو ہاشم نے اصل کتاب پر ردو قدح کیا۔ کتاب الکون والفساد انقلابات عناصر کا بیان ہے حنین و اسحق حنین نے سریانی اور اسحق و دمشقی نے عربی میں ترجمہ کیا، مقالہ اول کا ترجمہ قسطا نے کیا۔ الاثار العلویہ عنصریات ابن رشد نے اس کے ترجمہ کی جو اصلاح کی وہ میری نظر سے گذرا ہے کتاب النفس نفس کی حقیقت کا بیان ہے حنین وغیرہ حنین نے سریانی میں ترجمہ کیا اسحاق نے دو ترجمے ناقص و کامل کئے کتاب الحس والمحسوس حس کے اسباب و علل سے بحث کی ہے اس کتاب کی تلخیص جو ابن رشد نے کی ہے وہ میری نظر سے گذری ہے کتاب الحیوان حیوانات کا بیان ہے ابن البطریق 9مقالے ہیں، سریانی میں بھی اس کا ترجمہ ہوا۔ کتاب النبات نباتات کا بیان ہے اسحق بن حنین ثابت بن قرہ نے ترجمہ کی اصلاح کی میں نے اس کتاب کو دیکھا ہے۔ اثو بوجیا الہیات کندی فرفوریوس مصری نے اس کتاب کی جو تفسیر کی وہ یورپ میں چھپ گئی ہے کتاب الحروف یونانی حروف تہجی کی ترتیب پر ہے یحییٰ بن عدی حروف الف سے میم وواؤ تک اس کا نسخہ ملا جس کا ترجمہ یحییٰ بن عدی نے کیا کتاب الاخلاق اسحق بن حنین فرفورس نے اس کے بارہوں مقالہ کی تفسیر لکھی، جس کا ترجمہ اسحاق بن حنین نے کیا۔ کتاب المراۃ حجاج بن مطر ان کتابوں کے سوا ارسطو کی اور بہت سی تصنیفات ہیں اور ان سب کا عربی میں ترجمہ کیا گیا چنانچہ ان میں سے جو کتابیں ساتویں صدی تک موجود تھیں اور علامہ ابن ابی اصیعبہ کی نگاہ سے گذریں، حسب ذیل ہیں۔ کتاب الفرست،1؎ کتاب السیاسۃ المدینہ،2؎ کتاب 3؎ السیاسۃ العلمیہ ، مسائل فی الشراب 4؎ کتاب5؎ فی التوحید۔ کتاب الشباب6؎ والہرام، کتاب7؎ الصحۃ واسقم، کتاب 8؎ فی الاعدائ، کتاب 9؎ فی ابساہ، رسائلہ 10؎ الی انبسۃ، وصیۃ11؎ الی نیقاتر، کتاب12؎ الحرکۃ، کتاب 13؎ فضل النفس، کتاب 14؎ فی العظم الذی لا تیجری کتاب النقل 15؎ ۔ الرسالۃ 16؎ الذہبیۃ، رسالۃ الی 17؎ الاسکندر فی تدبیر الملک، کتاب 18الکنایات، کتاب 19؎ فی علل النجوم، کتاب20؎ الانوار، رسالۃ 21؎ فی التیفطہ، کتاب 22ا لاحجار، السبب 23؎ فی خلق الاجرام السمادیہ، کتاب 24؎ فی الروحانیات، رسالۃ فی طبائع 25؎ العالم، کتاب 26؎ الاصطماخیس، کتاب 27؎ الخیل، کتاب 28؎ ما بعد الطبیعۃ، کتاب 29 ؎ نعت الحیوانات الغیر الناطقہ، کتاب 30؎ ایضاح الخیر المحض، کتاب 31؎ الملاطیس، کتاب 32؎ فی نفث الدم، کتاب 33؎ المعاون کتاب34؎ اسرار النجوم، کتاب 35؎ الغالب والمغلوب۔ ارسطو کے بعد تصنیف و تالیف کا عام رواج ہو گیا، اور اس زمانہ میں جس قدر حکما پیدا ہوئے اکثر صاحب تصنیف تھے۔ ارسطو کا فلسفہ اگرچہ در حقیقت افلاطونی فلسفہ سے مختلف نہ تھا، لیکن دونوں حکیموں کی طرز تحریر و ادائے مطالب میں اس قدر اختلاف تھا کہ لوگوں نے ان کو باہم مخالف سمجھا، اور اس بنا پر فلسفہ کے دو الگ الگ اسکول قائم ہو گئے۔ ارسطو کے فلسفہ نے زیادہ وسعت حاصل کی، اور اس کے پیروؤں میں بڑے بڑے مشہور حکیم پیدا ہوئے ان میں ثاؤفر سطس Theophrastus اور اسکندر فردوسی Alexander Aphrodisius زیادہ مشہور ہیں۔ ثاوفر سطس310 ق م ارسطو کا خاص شاگرد تھا، اور ارسطو نے اپنے مدرسہ کا اس کو جانشین مقرر کیا تھا یونان کے بڑے بڑے حکماء اس کے حلقہ درس میں بیٹھتے تھے وہ قائل تھا کہ خدا کی ذات و صفات میں کسی قسم کا تغیر نہیں ہو سکتا۔ وہ ستاروں کو روحانی اجسام مانتا تھا، اور ان کے مدبر عالم ہونے کا قائل تھا۔ فلسفہ میں اس کی متعدد تصنیفات ہیں، جن کے نام حسب ذیل ہیں۔ کتاب1؎ النفس ، کتاب 2؎ الاثار العلویۃ، کتاب 3؎ الادب، کتاب الحسن4؎ والمحسوس ، کتاب5؎ ما بعد الطبیعہ، کتاب 6؎ النبات یہ تمام کتابیں عربی زبان میں ترجمہ کی گئیں، پچھلی تین کتابوں کا ترجمہ ابراہیم بن بکس اور یحییٰ بن عدی نے کیا۔1؎ اسکندر فردوسی و مشقی 129ء میں پیدا ہوا اس نے ارسطو کی تصنیفات پر نہایت کثرت سے شرحیں لکھیں وہ ارسطو کے فلسفہ کا ایک بڑا رکن خیال کیا جاتا ہے۔ اس نے بعض 1؎ دیکھو شہر ستانی مطبوعہ یورپ صد 478و فہرست ابن الندیم ذکر ثاؤفر سطس اصول خود بھی ایجاد کئے، چنانچہ خدا کے عالم کلیات و جزئیات ہونے پر اول اسی نے دلیل قائم کی۔ اسی نے ارسطو کے بر خلاف یہ مسئلہ بیان کیا کہ نفس کو مفارقت بدن کے بعد کسی قسم کا ادراک و احساس نہیں ہو سکتا۔ اس کی شرحیں اور مستقل تصنیفات دونوں عربی میں ترجمہ کی گئیں، چنانچہ نقشہ ذیل سے تفصیل معلوم ہو گی۔ ترجمہ شروح نام کتاب مترجم کیفیت شرح قاطیغوریاس ابوزکریا یہ شرح600صفحوں میں ہے شرح انالوطیقا مصنف نے اس کی دو شرحیں لکھیں، ایک زیادہ مفصل اور کامل ہے شرح طوبیقا آٹھ مقالوں میں سے صرف پانچ مقالوں کی شرح ہے شر سماع طبعی ابو روح الصابی و حنین و قسطا ود مشقی ان مترجموں نے کتاب کے مختلف حصوں کے ترجمے کئے شرح کتاب السماع والعالم صرف پہلے مقالہ کی شرح ہے شرح اکتاب الکون والفساد متی و قسطا شرح الآثار العلویۃ اس شرح کا ترجمہ پہلے عربی میں کیا گیا پھر یحییٰ بن عدی نے اس ترجمہ کا ترجمہ سریانی زبان میں کیا شرح کتاب الحروف اسکندر فردوسی کی جو تصنیفات عربی میں ترجمہ کی گئیں، حسب ذیل ہیں: 1کتاب النفس،2کتاب الرد علی جالینوس فی التمکس، 3کتاب الرد علی جالینوس فی الزمان، 4 کتاب الابصار، 5 کتاب اصول العامہ، 6 کتاب عکس المقدمات، 7 کتاب مبادی الکل، 8 کتاب فی ان الموجود لیس بجنس للمنفولات العشر، 9 کتاب العنایۃ، 10کتاب الفرق بین الہیولی وابجنس، 11کتاب الرد علی من قال انہ لا یکون شئی الا من شئی،12 کتاب فی ان الابصار لا یکون الا بشعاعات تبث من العین، 13 کتاب اللون، 14 کتاب الفص، 15 کتاب المالیخولیا۔1؎ فلسفہ ارسطو کے اور بہت سے شارح و مفسر گذرے، جن کی تصنیفات کا ترجمہ عربی زبان میں کیا گیا، مثلاً نیقو لاؤس، امیقد روس نیقولاؤس (Niqolaus) نے علاوہ شرحوں کے مستقل تصنیفات بھی کیں چنانچہ ان میں سے کتاب فی فلسفہ ارسطو فی النفس و کتاب النبات و کتاب الرد علی جاعل الفعل و المقعولات شیئاً واحداً، و کتاب اختصار فلسفہ، ارسطو کا ترجمہ عربی زبان میں ہوا۔ ارسطو کا فلسفہ اگرچہ تمام ملک پر قبضہ کر چکا تھا، اور پچھلے حکماء کے پیرو بہت کم رہ گئے تھے تاہم معدوم نہیں ہوئے تھے۔ 80ء میں پلوٹارک (Plutarch) جو 80ء میں موجود تھا، اس نے سقراط کے فلسفہ کو رونق دی، اور فلسفہ اخلاقی کی بنیاد ڈالی۔ اس کی تصنیفات نہایت مقبول ہوئیں، اور وہ مجدد فلسفہ قرار پایا۔ انگریزی مورخوں نے لکھا ہے کہ شیکسپیئر نے اپنی پلیز میں قوم کی اخلاقی حالت کی جہاں جہاں تصویر کھینچی ہے اکثر پلوٹارک کے بیان سے مدد لی ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ حصے نہایت موثر اور مفید ہیں بہر حال مسلمانوں نے باوجود اس کے کہ وہ فلسفہ ارسطو کے زیادہ دلدادہ تھے، پلوٹارک کے فلسفہ کو بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھا، اور ا س کی اکثر تصنیفات کے ترجمے کئے۔ اس نے ایک کتاب میں طبیعات 1؎ اسکندر فردوسی اور اس کی تصنیفات کے لئے دیکھو فہرست ابن الندیم ص252 و طبقات الاطباء ج ص69 کے متعلق تمام حکما کی رائیں نقل کی تھیں، قسطا بن لوقا نے اس کا ترجمہ کیا اس کے سوا اس کی اور کتابیں مثلاً کتاب الی موریا لیا، کتاب الغضب، کتاب الریاضہ، کتاب النفس، عربی و سریانی میں ترجمہ کی گئیں۔ یہ تقسیم زمانہ کے اعتبار سے تھی، لیکن اصول فلسفہ، طرز تعلیم، اخلاق و عادات کے لحاظ سے فلسفہ کے ساتھ اسکول قرار دئیے گئے ہیں۔ 1فیثا غورثیہ اس کا حال اوپر گذر چکا 2قورنیتیہ اس فرقہ کا بانی ارسیقورس تھا، اور چونکہ وہ قورنیا کا رہنے والا تھا، اس لیے یہ فرقہ اسی کی طرف منسوب ہو کر مشہور ہوا۔ 3رواقیہ (اسٹیویک) Stoic اس فرقہ کا بانی زینون Zeno المتولد 340 ق م تھا۔ اور چونکہ وہ چھت کے نیچے بیٹھ کر تعلیم دیتا تھا ردافیہ کے نام سے مشہور ہوا۔ 4 کلابیہ Dogmatic اس فرقہ کا بانی انسیتن تھا، یہ حکیم تمام آدمیوں کو حقیر سمجھتا تھا،ا ور خاص کرامرا اور دولت مندوں کو گویا کاٹ کھانا چاہتا تھا، اس مناسبت سے لوگ اس کو کتا کہتے ہیں، اور اسی مناسبت سے اس فرقہ کا نام کلابیہ مشہور ہو گیا، اس فرقہ کا سب سے نامور شخص دیوجا نس کلبی (Diogenes) تھا، جس کے حالات اور اقوال و افعال عربی کتابوں میں اکثر مذکور ہیں، وہ 413 ق م پیدا ہوا۔ 5 مانعہ اس کا بانی فورن تھا، اور چونکہ وہ لوگوں کو تعلیم سے منع کرتا تھا اس لیے اس نام سے مشہور ہو۔ 6 لذئیہ اس کا بانی اپیکوریس المتولد336 ق م تھا، جس کا فلسفہ یہ تھا کہ آئندہ حشر و نشر کچھ نہیں، اس لیے جس قدر ہو چکے یہاں عیش کر لینا چاہیے۔ 7مشائیں اس کے بانی افلاطون اور ارسطو تھے اور چونکہ یہ لوگ پڑھانے کے وقت ٹہلتے جاتے تھے اور پڑھاتے جاتے تھے اس لیے اس نام سے مشہور ہوئے۔ ان میں سے بعضوں نے تصنیف و تالیف نہیں کی بلکہ زبانی مسائل کی تعلیم کرتے تھے، چنانچہ ان کے اصول اور اقوال دوسروں کی تصنیفات میں حوالہ کے طور پر ملتے ہیں غرض ان میں سے جن حکماء کی تصنیفات موجود تھیں عربی میں ترجمہ کی گئیں، اور جن کے صرف اقوال اور مسائل محفوظ تھے، اسی حیثیت سے محفوظ رہے۔ چنانچہ علامہ شہر ستانی نے دیو جانس، اپیکورس، زینون کے اقوال اور مسائل کو اپنی کتاب میں نہایت خوبی سے بیان کیا ہے، اگرچہ ان میں سے بعضوں کا اصول چونکہ مذہب اسلام کے مخالف تھا، اس لیے ان کی پیروی نہیں کی گئی۔ لیکن بعض بعض حکمائے اسلام کے خیالات میں ان کا پرتو پایا جاتا ہے، مثلاً عمر خیام کی رعبائیاں اپیکورس کے خیالات سے لبریز ہیں۔ لیکن چونکہ وہ خیالات شاعری کے پردہ میں ادا کئے گئے ہیں اس لیے الحاد و زندقہ کے طعنہ سے کسی قدر وہ محفوظ رہا۔ زینون وحدت جود کا قائل تھا، اور یہ خیال تو اس وسعت سے مسلمانوں میں پھیلا کہ ایک بڑے مذہبی گروہ کا دارو مدار اسی پر ہے۔ یونان کے فلسفہ نے وہ قبول حاصل کیا کہ مصر کی درسگاہوں میں جہاں کسی زمانہ میں خود حکمائے یونانی نے تعلیم پائی تھی، اس کا رواج ہو گیا۔ اسکندریہ کے تمام مدارس میں یونانی ہی فلسفہ پڑھایا جاتا تھا۔ کچھ دنوں تک نو مقلدانہ تعلیم رہی، پھر وہاں خود ایسے اہل کمال پیدا ہو گئے کہ فلسفہ کے خاص خاص اسکول کے بانی قرار پائے چنانچہ امونیسAmmonus نے جو 260ء میں تھا ایک نئے طریقہ کی بنیاد ڈالی، جس کا نام نیوپلا ٹونیزم یعنی جدید فلسفہ افلاطونی ہے اس حکیم نے افلاطون کے فلسفہ میں چند خاص اصول اضافہ کئے، اور بہت سے لوگ اس کے پیرو ہو گئے۔ امونیس نے ارسطو کی بہت سی کتابوں پر شرحیں بھی لکھیں، مثلاً شرح قاطیغوریاس، شرح طوبیقا وغیرہ، چنانچہ ان کتابوں کا عربی میں ترجمہ ہوا۔ اموینوس نے مستقل تصنیفیں بھی لکھیں، جو عربی میں ترجمہ کی گئیں، مثلاً شرح مذہب ارسطالیس فی الصانع، کتاب فی اغراص ارسطالیس، کتاب حجہ ارسطالیس فی التوحید۔ نیو پلاٹونیزم یعنی جدید فلسفہ افلاطونیہ جو اسکندریہ میں قائم ہوا اس کے اصول اولین چار تھے۔ 1خدا میں تین اقنوم ہیں، وحدت، فہم، قوت 2نفس وحدت حاصل کر سکتا ہے اور اس حیثیت سے خدا کی برابری حاصل کر سکتا ہے۔ 3موجودہ زندگی کے تصورات سب وہم و خیال ہیں 4مادہ نہایت حقارت کے قابل ہے1؎ اس فلسفہ کے مشاہیر حکما یہ تھے فرفوریوس Porpyrius 333ھ میں پیدا ہوا۔ فن بلاغت کی تحصیل ایتھنز میں کی، یہ مذہب عیسوی کا مخالف تھا اور عیسائیت کے رو میں بہت سی کتابیں تصنیف کیں۔ فلسفہ میں ارسطو کی اکثر کتابوں کی شرح لکھی اور کلیات خمس کی ترتیب اسی نے دی۔ مسلمانوں نے اس کی تصنیفات کو بڑی جدوجہد سے مہیا کیا اور ان کے ترجمے کئے، جن کی تفصیل ذیل میں ہے: 1میزان الحق مطبوعہ بیروت ص304 نام کتاب مضمون مترجم ایسا غوجی یعنی کلیات خمس مدخل الی القیاسات ابو عثمان و مشقی کتاب العقل والمعقول انا بو کے نام دو کتابیں انا بو، فرفوریوس کا شاگرد تھا کتاب الرد علی سجیوس عقل و معقول کے بیان میں ہے الاسطقسات عناصر کا بین ہے شرح کتاب باری ارمیناس لارسطو شرح کتاب سماع طبعی لارسطو بسیل شرح کتاب اخلاق لارسطو اسحق بن حنین، یہ کتاب بارہ مقالوں میں ہے۔ فرفوریوس نے حکما کے حال میں ایک نہایت مفصل اور مفید کتاب لکھی تھی، اس کا بھی عربی میں ترجمہ کیا گیا۔ چنانچہ طبقات الاطباء کا ابتدائی حصہ بہت کچھ اسی سے ماخوذ ہے اور مسلمان مصنفوں نے حکمائے یونان کے حالات میں جو کتابیں لکھی ہیں، اکثر اس سے ماخوذ ہیں۔ اس فلسفہ کا دوسرا مشہور حکیم براقلس تھا۔ یہ 412ء میں پیدا ہوا، فلسفہ و ریاضی میں استاد وقت تھا یہ بھی مذہب عیسوی کا سخت مخالف تھا، اس کی اکثر تصنیفات عربی میں ترجمہ کی گئیں، جن کی تفصیل آگے درج ہے: نام کتاب مضمون کتاب حدود اوائل الطبیعات ثمان عشرۃ مسائل اٹھارہ مسئلوں کا بیان ہے شرح قول افلاطون فی النفس تین مقالوں میں ہے اثولوجیا یعنی الہیات تفسیر و صایائے فیثا غورث فیثا غورث کی وصیتیں جو آب زر سے لکھی گئی تھیں ان کی شرح ہے 2001صفحوں میں ہے۔ الجواہر العالیۃ دیاد و خش یونانی نام ہے، اس میں دس مسئلوں پر بحث ہے۔ الخیر الاول المسائل العشر المعضلات دس نہایت مشکل مسئلوں پر بحث ہے۔ الجزء الذی لا تیجزی جزء لا تیجزی کی بحث میں ہے۔ اس طبقہ کا ایک اور مشہور حکیم ثامسطیوس Themisteas تھا، جو 355 ء میں تھا یہ بھی عیسائیت کا منکر تھا اور شاید یہی وجہ تھی کہ بادشاہ روم لیولبانس نے جو مذہب عیسوی کا سخت دشمن تھا، اس کو اپنا سیکرٹری مقرر کیا تھا۔ اس نے ارسطو کی تصنیفات کی شرحیں لکھیں، جن میں سے شرحکتاب قاطیغوریاس، شرح انا لوطیقا، شرح انا لو طبقا ثانی، تفسیر کتاب طوبیقا، تفسیر سماع طبعی، تفسیر کتاب السماء والعالم، تفسیر کتاب الکون والفساد، تفسیر کتاب النفس، تفسیر کتاب الحروف کا ترجمہ عربی میں موجود ہے۔ علامہ ابن الندیم نے ان کتابوں کی اور ان کے مترجموں کی بھی تفصیل لکھی ہے۔ ثامسطیوس کی ذاتی تصنیفات بھی ہیں اور ان کا بھی عربی میں ترجمہ کیا گیا ان میں سے ایک کتاب نفس کی بحث میں ہے اور باقی دو رسالے ہیں جو اس نے لیو لیانس کو لکھے تھے۔ حکمائے اسکندریہ کا خاتم یحییٰ نحوی John The Grammarian تھا جو اسلام کے زمانے تک موجود رہا، اور حضرت عمرو بن العاصؓ نے اس کی بہت قدر و منزلت کی وہ بہ یک واسطہ بر قس کا شاگرد تھا اور اس کی صحبت سے مشرف ہوا تھا۔ بخیلی کا اصل فن طب تھا چنانچہ اس کی طبی تصنیفات کا ذکر آگے آتا ہے، لیکن اس نے فلسفہ پر بھی کتابیں لکھیں، چنانچہ ارسطو کی کتاب قاطیغوریاس دانا لوطیقا اول و دوم و طوبیقا و سماع الطبعی والکون والفساد، ان سب کتابوں کی شرحیں لکھیں ان کے سوا اس کی مستقل تصنیفات بھی ہیں، ایک کتاب برقس کے رو میں ہے، اور اٹھارہ مقالوں میں ہے ارسطو کی رو میں بھی اس نے ایک کتاب چھ مقالوں میں لکھی، ان کے سوا اور تصنیفین ہیں، چنانچہ ان سب کی تفصیل علامہ ابن الندیم و ابن ابی اصیعبہ نے کی ہے یہ تمام کتابیں عربی زبان میں ترجمہ کی گئیں، اور ان میں سے بعض آج تک موجود ہیں۔ ہیئت اس فن کا موجد تہیلس (ثالیس ملطی) کہا جا سکتا ہے، جو حضرت عیسیٰ سے 660 برس پہلے تھا اس نے زمین کو مرکز کائنات مانا، اور وہ پہلا شخص ہے جس نے زیچ بنائی، اور خسوف کی پشین گوئی کی اس کے بعد فیثا غورث و افلاطون نے اس فن کو نہایت ترقی دی فیثا غورث نے جو 536 ق م تھا بجائے زمین کے آفتاب کو مرکز مانا ان حکماء کی تحقیقات اور مسائل اگرچہ عربی کتابوں میں تفصیل سے مذکور یں، لیکن اس فن کے متعلق ان کی کسی مستقل تصنیف کا ہم کو پتہ نہیں ملتا۔ جو عربی زبان میں ترجمہ کی گئی ہو البتہ اس دور کے بعد جن حکماء نے اس فن کو ترقی دی، ان کی کتابوں کے ترجمے عربی میں موجود ہیں۔ ان میں سب سے مقدم اور نامور ارستر خوس تھا، جو ارشمیدس کا ہمسر تھا۔ ارستر خوس یونانی الاصل اور حضرت عیسی ؑ سے 270 برس پہلے تھا یہ اس بات کا قائل تھا کہ زمین آفتاب کے گرد حرکت کرتی ہے اس کی تصنیفات میں سے جس کتاب کا ترجمہ موجود ہے، اس کا نام جرم الشمس والقمر ہے۔ اس میں آفتاب و ماہتاب کی جسامت اور مقدار اور فاصلہ کا بیان ہے۔ یہ عجیب بات ہے کہ یورپ کو بھی باوجود انتہائے تلاش کے ہی ایک کتاب مل سکی، چنانچہ اصل کتاب 1688ء اور اس کا فرنچ ترجمہ 1810ء میں چھاپا گیا۔1؎ اسی دور کا دوسرا مشہور فاضل ابرخس Hipparchus ہے، جو حضرت عیسیٰ سے 140برس قبل تھا۔ ابرخس نے اس فن میں بہت کچھ اضافہ کیا، علم ہیئت میں جبر و مقابلہ سے اول اسی نے کام لیا۔ اس مصنف کی تصنیفات عربی زبان میں ترجمہ کی گئیں، لیکن یہ تعجب ہے کہ علامہ ابن الندیم نے جن کتابوں کا نام لکھا ہے، وہ جبر و مقابلہ کے متعلق ہیں۔ ہیئت کی کسی کتاب کا نام نہیں لکھا۔ بطلیموس یہ پہلا شخص ہے جس نے اصطرلاب بنایا، اور آلات نجوم تیار کئے اس کے زمانہ میں بہت بڑے سامان سے رصد خانہ بنا، اور اجرام فلکی کے حالات تحقیق کئے گئے۔ مسلمانوں نے اس کی ہیئت کے ساتھ زیادہ اعتنا کیا، چنانچہ اس کی کتاب محبطی کا ترجمہ بڑے اہتمام اور جدوجہد سے ہوا۔ سب سے پہلے یحییٰ بن خالد برمکی نے اس کے ترجمہ کی طرف توجہ کی، چنانچہ بہت سے مترجمین نے اس کی فرمائش سے ترجمے کئے، اور تفسیریں لکھیں، لیکن وہ سب مبہم اور غیر مفہوم تھیں، اس لئے اس نے بیت الحکمۃ کے افسروں یعنی سلما اور ابو حسان کو اس کام پر مامور کیا، ان لوگوں نے نہایت مشہور اور نامور مترجموں کو جمع کر کے۔ 1؎ دائرہ المعارف مرتبہ زمانہ حال و فہرست ابن الندیم ص370 ترجمہ پر مامور کیا، اور نہایت محنت کے ساتھ ترجمہ کیا گیا۔ اس کتاب کے کل ترجمے جو مقبول ہوئے تین ہیں، ایک حجاج بن مطر کا، دوسرا اسحق کا جس کو ثابت نے صحیح کیا تیسرا خود ثابت کا۔ چونکہ مامون الرشید کو اس کتاب کے ساتھ نہایت شغف تھا، اس کے حکم سے حنین بن اسحاق نے بھی ترجمہ کیا۔ حجاج بن یوسف و ثابت بن قرہ نے زوائد سے پاک کر کے خلاصہ لکھا، ابو ریحان بیرونی نے اس کا اختصار کیا، اور عمرو بن فرخان، ابراہیم بن الصلت، فضل بن حاتم، شمس الدین سمرقندی، نظظام الدین نیشا پوری وغیرہ نے سرحیں لکھیں۔1؎ بطلیموس کا نظام تمام یورپ میں مدتوں یعنی کرپونیکس کے زمانہ تک متد اول رہا۔ یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ بطلیموس کی یہ کتاب (مجسطی) اول عرب ہی کی بدولت یورپ میں پہنچی، چنانچہ عربی زبان سے لاٹین میں اس کا ترجمہ کیا گیا، پھر یونانی نسخہ بھی ملا، اور فرنچ میں اس کا ترجمہ کیا گیا، جو پیرس میں1816ء میں چھاپا گیا2؎ بطلیموس نے آلات رصدیہ میں ذات الحلق اور ذات الصفائح پر دو مستقل کتابیں لکھیں، اور ایک نہایت مفصل کتاب علم نجوم میں لکھی جس کا نام قانون ہے۔ یہ کتابیں بھی عربی میں ترجمہ کی گئیں، چنانچہ مورخ یعقوبی نے ان کتابوں کے ابواب اور فصلوں کے مضامین کو تفصیل سے لکھا ہے بطلیموس کی اور تصنیفات جو ترجمہ کی گئیں حسب ذیل ہیں: 1کتاب الموالید،2کتاب استخراج السہام، 3کتاب تحویل سنی العالم، 4 کتاب تحویل سنی الموالید، 5 کتاب المرض و شراب الدوا، 6 کتاب فی سیر السبعہ، 7 کتاب فی الاسرا والمحبین، 8 کتاب فی اثر الصود، 9کتاب الحفصمین ایہما یفلح، 10 کتاب ذوات الذوایب،11 کتاب السابع، 12کتاب القرعہ، 13 کتاب اقتصاص، احوال الکواکت، 14 کتاب المثمرۃ، 15 کتاب الاربعۃ، یہ کتاب ایک شاگرد کے نام سے لکھی تھی۔ ابراہیم بن الصدت نے اس کا ترجمہ کیا، حنین نے اصلاح کی، ثابت و 1؎ کتاب الفہرست و کشف، نطنون و دائرۃ المعارف2؎ دائرۃ المعارف عمر بن الفرخان وغیرہ نے شرحیں لکھیں۔ یہ تینوں حکیم فن ہیئت کے بانی اور موجد خیال کئے جاتے ہیں لیکن مسلمانوں نے ان کے علاوہ اور اہل کمال کی بھی کتابیں بہم پہنچائیں اور ترجمہ کیں، چنانچہ تفصیل حسب ذیل ہے۔ اوطولوقس(Aupoloycus) یہ ارسطو کا معاصر اور دیو جانس کا استاد تھا۔ اس کی دو کتابیں اس فن میں ہیں اور دونوں کا ترجمہ کیا گیا، کتاب الکرۃ المتحرکۃ، کتاب الطلوع والغروب۔ البسقلاؤس (Hypsicles) 160ء میں تھا، اور اسکندریہ میں رہتا تھا۔ اس کی تصنیفات میں کتاب الاجرام والابعاد، کتاب الطلوع والغروب کا ترجمہ ہوا۔ اس نے اقلیدس کے چوتھے اور پانچویں مقالہ کی اصلاح بھی کی تھی، اور اس کا بھی عربی میں ترجمہ ہوا۔ ثاؤن (Theon) اسکندریہ کا رہنے والا تھا۔ اس نے آلات رصدیہ میں سے ذات الحلق اور اسطرلاب کے متعلق دو مستقل کتابیں لکھیں، بطلیموس کی ریچ پر بھی ایک کتاب لکھی، مجسطی پر بھی اس کی ایک کتاب ہے، چنانچہ ان سب کتابوں کا ترجمہ کیا گیا۔ فالیس رومی: اس کی تصنیفات جن کا ترجمہ ہوا حسب ذیل ہیں: 1 مدخل الی صناعہ النجوم، 2کتاب الموالید، 3 کتاب المسائل، 4 کتاب الزائجہ، 5 کتاب المسائل الکبیر، 6 کتاب السلطان، 7 کتاب الامطار، 8 کتاب تحویل سنی العالم، 9 کتاب الملوک۔ تیو دورس(Theodorus) اس کی تصنیفات جو ترجمہ ہوئیں، حسب ذیل ہیں 1کتاب الاکر، 2کتاب المساکن، 3کتاب اللیل والنہار ببس(Pappus) ثاون اسکندرانی کا معاصر تھا۔ اس نے بطلیموس کی کتاب پر جو کرہ کی تسطیح کے متعلق ہے شرح لکھی، اس کتاب کا ترجمہ ثابت نے کیا۔ ایران (Heron) 250ق م تھا اس نے اسطرلاب پر ایک کتاب لکھی اور اس کا ترجمہ کیا گیا، اقلیدس کے شکوک پر بھی ایک کتاب لکھی اور اس کا بھی ترجمہ ہوا۔ ابیون (Apion) اخیر حکما میں سے ہے۔ اس کی تصنیفات میں سے اصطرلاب پر ایک کتاب ہے، اور وہ عربی میں ترجمہ کی گئی۔ جبر و مقابلہ و حساب جبر و مقابلہ کا فن اگرچہ مسلمانوں نے گویا خود ایجاد کیا، کیونکہ مسلمانوں سے پہلے اس کی ابتدائی حالت ایسی تھی کہ فن کا لفظ اس پر صادق نہیں آ سکتا تھا۔ اور اس بات کا تمام یورپ اعتراف کرتا ہے۔ تاہم اس سے انکار نہیں ہو سکتا کہ یونانیوں نے بھی اس فن میں کچھ کتابیں لکھی تھیں، چنانچہ وہ عربی میں ترجمہ کی گئیں۔ سب سے اول جس نے یونان میں اس کے متعلق کچھ لکھا وہ ابرخس تھا، جو 140 ق م نہایت مشہور ریاضی داں گذرا ہے۔ سیارات کی حرکت، چھ سو برس ما بعد تک خسوف کی تاریخیں، ستاروں کے فاصلہ، اجرام فلکی کی فہرست، ان مضامین پر اس نے بہت سے رسالے لکھے۔ جبر و مقابلہ پر اس کی جو کتاب ہے اس کا ترجمہ اور اصلاح ابو الوفا محمد بن محمد حاسب نے کی۔ ابو الوفا نے اس کتاب کی شرح بھی لکھی، اور دعوؤں کو براہین ہندسہ سے ثابت کیا۔ برخس کی ایک اور کتاب کا عربی میں ترجمہ ہوا۔ جس کا نام قسمۃ الاعداد1؎ ہے۔ ابرخس کے بعد دیو فنطس نے اس فن کو ترقی دی۔ 1؎ کتاب الفہرست 229 و دائرۃ المعارف دیو فنطس (Diphantus) یونانی تھا، اور اسکندریہ میں سکونت رکھتا تھا۔ جبر و مقابلہ پر اس نے 13رسالے لکھے جو ایک مجموعہ میں مرتب تھے۔ ان رسالوں میں مربعات و مکعبات وغیرہ کے بہت سے مسائل موجود ہیں عربی میں اس کتاب کا ترجمہ کیا گیا۔ یورپ کو مدت تک دیو فنطس کا نام تک معلوم نہ تھا، سب سے پہلے آٹھویں صدی عیسوی میں یوحنا شامی نے اس کا حوالہ دیا، 670ء میں اس کی کتاب اصل یونانی میں مع لاٹین ترجمہ کے چھاپی گئی اور 1625ء میں اس کا ترجمہ کیا گیا1؎ حساب کے متعلق عام طور پر مسلم ہے کہ مسلمانوں نے ہندوؤں سے لیا اور یہی وجہ ہے کہ وہ رقوم اعداد کو ہندی طریقہ سے لکھتے ہیں۔ تاہم یونان کی تصنیفات بھی مسلمانوں نے بہم پہنچائیں۔ سب سے قدیم تصنیف فیثا غورس کی تھی جس کا نام ارثما طیقی یعنی ارتھمیٹک تھا۔ یہ کتاب عربی زبان میں ترجمہ کی گئی 2؎ اس کے علاوہ اور مصنفوں کی کتابیں بھی ترجمہ کی گئیں، جن کی تفصیل حسب ذیل ہے۔ نیقو ماخس (Nicomachus)ارسطو کا باپ، اور بہت بڑا موسیقی دان تھا۔ اس نے اس فن میں ایک کتاب لکھی جس کا نام ارثما طیقی ہے۔ یہ کتاب دو مقالوں میں ہے اور اصل یونانی میں 1538ء میں بمقام پیرس میں چھاپی گئی ہے، یہ کتاب عربی زبان میں ترجمہ کی گئی ۔3؎ مکانات یا علم آلالات4؎ یہ فن اگرچہ در حقیقت موجودہ زمانہ کے ساتھ خصوصیت رکھتا ہے، لیکن یونان میں 1؎ دائرۃ المعارف جلد8صفحہ446، 2؎ طیقات الاطباء جلد اول صفحہ43 3؎ کتاب الفہرست صفحہ229 و دائرۃ المعارف، لفظ حساب4؎ مکانک کے لیے دیکھو دائرۃ المعارف ذکر آلات و فہرست ابن الندیم صفحہ 166و 229 و 270و285 ویعقوبی صفحہ235 اس کی ابتدا ہو چکی تھی۔ سب سے پہلے جس نے جرثقیل اور حرکت کے اصول دریافت کئے وہ ارشمیدس (Archimedes) ہے، جو250ق م تھا۔ اس نے پانی کی گھڑی ایجاد کی جس میں گھنٹوں کے گذرنے پر خود بخود گھنٹوں کی تعداد کے موافق گولیاں گرتی تھیں۔ اسی زمانہ میں ایران نے اس فن میں بہت سی باتیں اضافہ کیں۔ پانی کے بلند کرنے کا آلہ اول اسی نے ایجاد کیا۔ اس نے آلات کی 5تقسیمیں کیں۔ لیکن آج کل چھ قرار دی جاتی ہیں، یعنی سطح مائل بھی ایک قسم قرار دی جاتی ہے، حالانکہ ایران نے اس کو چھوڑ دیا تھا۔ ایران نے جرثقیل پر ایک مستقل کتاب لکھی۔ ایک اور حکیم جو اس فن کا استاد گذرا ہے، مارطس تھا۔ مارطس (Plyrtus) یونانی الاصل تھا۔ اس نے ارگن باجھ پر ایک کتاب لکھی اور ایک آلہ دریافت کیا جس کی آواز 60میل تک جا سکتی تھی۔ غرض اس فن کے متعلق جو کتابیں عربی زبان میں ترجمہ کی گئیں حسب ذیل ہیں: نام کتاب مضمون کیفیت آلہ ساعات الماء پانی کی گھڑی ارشمیدس کتاب شیل الاثقال جرثقیل کے بیان میں ایرن الاشیاء المتحرکۃ من ذاتہا چیزوں کا خود بخود حرکت کرنا ایرن آلات المصوتہ ارگن باجہ جو آپ سے آپ بجتا ہے مارطس کتاب الدوالیب گھڑی وغیرہ میں جو چکر ہوتے ہیں مارطس ٭٭٭٭٭٭ موسیقی موسیقی کا فن اگرچہ عرب میں مدت سے موجود تھا، لیکن علمی حیثیت سے نہ تھا۔ یونان میں اول جس شخص نے علمی حیثیت سے اس فن کو مرتب کیا، وہ غالباً فیثا غورث تھا۔ القیدس نے بھی اس کو ترقی دی، اور اس فن میں اس کی تصنیفات بھی ہیں۔ اگرچہ یہ امر یقینی ہے کہ ان قدما کی تصنیفات عربی زبان میں ترجمہ کی گئیں، چنانچہ علامہ ابو ائفرج اصہفانی نے اسحاق موصلی کے حال میں تصریح کی ہے کہ موسیقی کی تمام کتابیں محمد بن حسن بن مصعب کے حکم سے ترجمہ کی گئیں۔ لیکن ہم کو کسی کتاب اور اس کے مترجم کا نام بہ تعین نہیں معلوم ہو سکا۔ جہاں تک ہم کو معلوم ہے، سب سے پہلی تصنیف جو مسلمانوں کے ہاتھ آئی وہ نیقوما خس کی کتاب ہے جو ارسطو کا باپ تھا یہ کتاب اب اصلی زبان میں بمقام لیڈن1616ء میں چھاپی گئی ہے۔ دوسری تصنیف اس فن میں ارسطکاس کی تھی۔ ارسطکاس (Aristoxenus) ارسطو کا شاگرد اور فن موسیقی کے ارکان میں تسلیم کیا گیا ہے۔ فیثا غورث نے اس فن کی صرف ذوق پر محمول رکھا تھا۔ ارسطکاس پہلا شخص ہے جس نے راگ کے ایقاعات کو ریاضی کے اصول سے ثابت کیا، اور فیثا غورث سے جداگانہ طریقہ پر ایک درس گاہ کی بنیاد ڈالی۔ اس کی کتاب جو خاص ایقاع کے متعلق ہے، اس کا ترجمہ کیا گیا، یہ کتاب تین جلدوں میں ہے، اور اس کا اصلی نسخہ آج یورپ میں موجود ہے۔ ارسطکاس کی اور بھی بہت سی تصنیفات تھیں، لیکن غالباً مسلمانوں کو نہیں ملیں، اور آج یورپ کو بھی اعتراف ہے کہ کتاب الایقاع کے سوا اس کی اور کوئی تصنیف نہیں ملتی۔ ٭٭٭٭٭٭ جغرافیہ یونانی اسکول میں اس فن کی ابتداء ابر ٹسشین سے ہوئی، جو حضرت عیسیٰ سے قریباً سر برس پہلے اسکندریہ میں تھا، اس کے بعد ابرخس نے بہت کچھ اس پر اضافہ کیا، ابرخس کے بعد استرابون ہوا جو یونانی تھا، اس نے کود دور دراز مقامات کے سفر کئے، اور جغرافیہ پر ایک عمدہ کتاب لکھی۔ اسی دور کے قریب مارنیوس تھا، جس کے جغرافیہ میں زمین کا رنگین نقشہ موجود ہے۔ سب سے اخیر لیکن سب سے زیادہ نامور بطلیموس ہوا، وہ دوسری صدی عیسوی میں تھا، اس نے تمام دنیا میں اپنی طرف سے سیاح بھیجے جنہوں نے نہایت جدوجہد سے مملکتوں اور آبادیوں اور دریا و نہر وغیرہ کے حالات بہم پہنچائے 1؎۔ اور ان کی مدد سے ایک نہایت مفصل جغرافیہ لکھا جو آج بھی موجود ہے اس جغرافیہ میں اکثر شہروں کا عرض بلد و طول بلد بھی درج ہے۔ مسلمانوں نے اگرچہ ان تمام تصنیفات سے واقفیت پیدا کی، چنانچہ مورخ مسعودی کتاب التنبیہ والا شراف میں جا بجا ان کی طرف اشارہ کرتا ہے، لیکن جن کتابوں کا ترجمہ ہوا وہ مارنیوس اور بطلیموس کا جغرافیہ ہے۔ مارنیوس کے جغرافیہ میں تمام اقالیم کے جدا جدا رنگ تھے۔ مورخ مسعودی نے لکھا ہے کہ تمام قدیم جغرافیوں میں یہ سب سے اچھا ہے2؎ بطلیموس (Ptolemy) کا جغرافیہ آٹھ بابوں میں ہے اور نہایت مفصل ہے اول یعقوب کندی کے حکم سے اس کا ترجمہ ہوا، لیکن وہ اچھا نہ تھا، اس لیے دوبارہ ثابت نے ترجمہ کیا اور نہایت عمدگی سے کیا۔ سریانی زبان میں بھی اس کتاب کا ترجمہ کیا گیا۔ 1؎ کتاب التنبیہ والا شراف ص30 2؎ کتاب مذکور ص33 طب طب کی ابتداء یونان میں اسقلیبس سے ہوئی۔ یونانیوں نے اس کو ابو الطب کا لقب دیا تھا، اور ان کا خیال تھا کہ اس پر خدا کی طرف سے یہ فن الہام ہوا تھا۔ اسقلیبس نے اپنی اولاد کو زبانی اس فن کی تعلیم دی، اور وصیت کی کہ یہ فن خاندان سے باہر نہ جانے پائے۔ اس کے خاندان میں بڑے بڑے نامور حکماء اور طبیب گذرے، اقلیدس، افلاطون، سولن وغیرہ اس کے خاندان سے تھے سولہویں نسل میں تقریباً حضرت عیسیٰ سے پانچ سو برس پہلے بقراط پیدا ہوا، اور یونانیوں میں وہ پہلا شخص ہے جس نے اس فن کو مرتب کیا،اور کتابیں لکھیں، طب کی تعلیم کو عام بھی اسی نے کیا، ورنہ اس سے پہلے بجز اس خاندان کے کوئی شخص اس فن کو حاصل نہیں کر سکتا تھا۔ بقراط کے بعد جالینوس پر اس فن کا خاتمہ ہو گیا۔ یونانیوں کے نزدیک فن طب کے آٹھ ارکان ہیں اول اسقلیبس (Axlepr) اور اخیر جالینوس، ان کے بیچ میں غورس، مینس، برمانیدس، افلاطن، اسقلیبس دوم اور بقراط تھے۔ ان لوگوں کے سوا اور بھی بہت سے صاحب تصنیف اطبا گذرے لیکن وہ ارکان فن نہیں کہے جا سکتے، مسلمانوں نے طب کے اس تمام سرمایہ کو عربی زبان میں منتقل کیا، اور چونکہ بقراط و جالینوس نے اس فن کو در حقیقت نہایت کمال کے رتبہ پر پہنچایا، اس لیے ان کی تصنیفات پر زیادہ توجہ کی بقراط کی طرف اگرچہ بہت سی کتابیں منسوب ہیں، لیکن ان میں سے 30 کتابیں قطعی طور سے اس کی تصنیف کہی جا سکتی ہیں چنانچہ یہ سب ترجمہ کی گئیں، اور ان میں سے 116اس قدر مقبول و متداول ہوئیں کہ درس میں داخل ہو گئیں، ابن ابی اصیبعۃ نے ان کتابوں کے علاوہ بقراط کی اور بہت سی کتابیں گنوائی ہیں، جن کا شمار 49تک پہنچتا ہے۔ لیکن مصنف مذکور کا بیان ہے کہ ان میں بعض مشتبہ ہیں۔ بقراط کی ترجمہ شدہ تصنیفات میں سے جن کے مترجموں کا نام ہم تفصیل سے معلوم کر سکتے ہیں، ان کی تفصیل حسب ذیل ہے: نام کتاب مضمون مترجم کیفیت عہد بقراط اس میں بقراط نے وہ شرائط بتائے ہیں جن کے بغیر کسی کو فن طب نہیں پڑھنا چاہئے حنین، حبیش، عیسیٰ بن یحییٰ اول الذکر نے سریانی میں اور حبیش و عیسیٰ نے عربی میں ترجمہ کیا فصول تمام مسائل طبیہ کا خلاصہ ہے حنین محمد بن موسیٰ شاکر کیلئے ترجمہ کی گئی سات مقالوں میں ہے تقدمۃ المعرفہ علامات مرض کا بیان ہے حنین و عیسیٰ تین مقالے ہیں الامراض اسحادہ غذا، فصد، مسہل وغیرہ کا بیان ہے عیسیٰ بن یحییٰ اس کتاب کے پانچ مقالوں میں سے صرف تین کا ترجمہ ہوا کتاب الکسر والبجر ہڈیوں کے ٹوٹنے اور جوڑنے کا بیان ہے حنین چار مقالے ابیدیمیا عیسیٰ بن یحییٰ اخلاط اس کتاب کا ترجمہ احمد بن موسیٰ شاکر کے حکم سے ہوا قاطیطریوں اعمال ید کا بیان حنین محمد بن موسیٰ شاکر کے حکم سے کتاب الما والہواء مختلف ملکوں کی آب و ہوا کی تاثیر حنین، حبیش طبیعۃ1؎ الانسان بدن کی ترکیب کا بیان حنین، حیبش جالینوس59ء میں پیدا ہوا، اور ہندسہ و حساب پڑھنے کے بعد سترہ برس کی عمر میں طب کی تحصیل شروع کی اور اس تکمیل کے لیے ایتھنز، سایپرس، اٹلی، اسکندریہ وغیرہ کا سفر کیا2؎ اس نے فن طب کے متعلق بہت سے مسائل دریافت کئے اور اس فن کو اس حد تک پہنچایا کہ اسلام کے دور تک اس پر کچھ اضافہ نہ ہو سکا۔ مسلمانوں نے اس کی تصنیفات کے بہم پہنچانے اور ترجمہ کرنے میں بے انتہا کوشش کی۔ ایک کتاب البرہان کی تلاش میں جزیرہ، شام، فلسطین، مصر کے ایک ایک شہر کی خاک چھانی گئی، تصنیفات کے پتے لگانے میں بڑی آسانی یہ ہوئی کہ جالینوس نے اپنی تصنیفات کی خود ایک فہرست لکھی تھی۔ اور اس کا ترجمہ کر لیا گیا تھا۔ مترجمین میں سے حنین بن اسحق نے اپنی تمام زندگی اسی کی تصنیفات کے ترجمہ میں صرف کر دی۔ چنانچہ اس نے اپنی ایک تصنیف میں جالینوس کی 21کتابوں اور رسالوں کا نام مع تصریح مضامین لکھا ہے، اور بیان کیا ہے کہ تمام کتابیں عربی زبان میں ترجمہ کر لی گئیں۔ علامہ ابن ابی اصیبعہ نے حنین کا یہ قول نقل کر کے لکھا ہے کہ اس وقت حنین کی عمر 48برس کی تھی اور اس وقت اس قدر کتابیں اس کو بہم پہنچ سکیں اور چونکہ حنین نے 70 برس کی عمر پائی تھی اس لیے یہ یقینی ہے کہ اس نے جالینوس کی اور تصنیفات بھی حاصل کی ہوں گی اس کے بعد علامہ ابن ابی اصیبعہ نے لکھا ہے کہ میں نے خود جالینوس کی بہت سی کتابیں عربی زبان میں دیکھیں جن کا ذکر حنین نے اپنی فہرست میں نہیں کیا ہے۔ چنانچہ علامہ موصوف نے ان کتابوں کے نام تفصیل سے لکھے ہیں جن کی تعداد 32 ہے جالینوس نے بقراط کی اکثر کتابوں کی شرح لکھی ہے، ان کا ترجمہ بھی عربی میں کیا گیا۔ چنانچہ بقراط کی جس قدر کتابوں کا نام اوپر مذکور ہوا جالینوس کی سب پر شرحیں ہیں۔ اور 1؎ بقراط کی ان تصنیفات اور ان کے علاوہ اور تصنیفات کے مضامین کو مورخ یعقوبی اور ابن ابی صیبعۃ نے نہایت تفصیل سے لکھا ہے 2؎ جالینوس نے اپنے حالات آپ نہایت تفصیل سے لکھے ہیں، چنانچہ ابن ابی اصیبعہ نے اس کے حوالہ سے نہایت دلچسپ واقعات اپنی تاریخ میں جمع کئے ہیں۔ سب کا ترجمہ عربی زبان میں موجود ہے بہر حال اس میں شہبہ نہیں کہ جالینوس کی تصنیفات جس قدر اس وقت دنیا میں موجود ہیں ایک ایک کر کے ترجمہ کی گئیں۔ جن کی کتابوں کے متعلق ہم زیادہ تفصیل معلوم کر سکے ان کا ایک مختصر نقشہ ذیل میں درج کیا جاتا ہے۔ نام کتاب مضمون مترجم کیفیت کتاب الفرق حنین الصناعۃ کتاب النبض شفاء الامراض مقالات خمس تشریح میں ہے اسطقسات اربع عناصر کتاب المزاج القویٰ الطبیعیۃ العل والاعراض تعرف علل الاعضا الباطنیۃ حبیش کتاب النبض الکبیر سولہ مقالے ہیں کتاب الجمایات حنین البحران تین مقالے ہیں ایام البحران تدبیر الاصحاء حبیش چھ مقالے ہیں حیلۃ البرء 14مقالے ہیں پہلے مقالہ کو حنین سے درست کیا یہ تمام کتابیں قدیم زمانہ میں اسلامی درسگاہوں کے نصاب تعلیم میں داخل تھیں ان کے سوا جالینوس کی اور تصنیفات حسب ذیل ہیں۔ نام کتاب مضمون مترجم کیفیت کتاب التشریح الکبیر تشریح کا بیان ہے حبیش 15مقالوں میں ہے اختلاف التشریح 2مقالے ہیں تشریح الحیوان المیت مردہ جانور کی تشریح 1مقالہ ہے تشریح الحیوان الحی زندہ جانوں کی تشریح 2مقالے علم البقراط با تشریح 5مقالے علم ارسطو فی التشریح 3مقالے تشریح الرحم 1مقالہ حرکات الصدر والوئیہ اصطفن بن بسیل 2مقالے، حنین نے ترجمہ کی اصلاح کی علل النفس 2مقالے کتاب الصوت حنین یہ کتاب محمد بن عبدالملک الزیات کے لئے ترجمہ کی گئی،4مقالے حرکۃ العفل حنین اصطفن حنین نے اصلاح کی،1مقالہ کتاب الحاجۃ الی النبض حبیش 1مقالہ کتاب الحاحۃ الی النفس اصطفن کتاب العادات حبیش 1مقالہ آراء بقراط و فلاطن 10مقالے کتاب الحرکات المجہولۃ حنین 1مقالہ کتاب الامتلاء صطفن منافع الاعضاء حبیش 17مقالے کتاب افضل الہیات حنین سریانی و عربی دونوں میں ترجمہ ہوئی 1مقالہ خصب البدن حبیش 1مقالہ کتاب سو المزاج المختلف حنین الادویۃ المفردہ 11مقالے کتاب الاورام ابراہیم بن الصلت 1مقالہ کتاب المنی حبیش 2مقالے المولود لسعۃ اشہر حنین 1مقالہ کتاب المرۃ السوداء اصطفن کتاب رواہ النفس حنین 3مقالے تقدمۃ المعرفہ عیسیٰ بن یحییٰ 1 مقالہ کتاب الفصد کتاب الذبول حنین صفات الصبی یصرع ابن الصلت قوی الاغذیہ حنین 3مقالے التدابیر اللطف 1مقالہ کتاب الکیموس ثابت و شملی و جیش 1مقالہ کتاب ارسطرارس حنین تدبیر بقراط للامراض الحادہ ترکیب الادویہ حبیش الاعسم 17مقالے الادویۃ المقابلہ ملا دواء عیسیٰ بن یحییٰ 2مقالے کتاب التریاق یحییٰ بن البطریق 1مقالہ کتاب الیٰ ترا سابولس حنین الریاضۃ یالکرۃ الصغیرۃ جیش 1مقالہ الریاضۃ بالکرۃ الکبیرۃ فی ان الطبیب الفاضل فیلسوف حنین کتب بقراط الصحیحۃ الحث علی تعلیم الطب حبیش مخنتہ الطبیب حنین کتاب البرہان یہی کتاب ہے جس کی تلاش میں حنین نے تمام ملکوں کا سفر کیا تھا۔ تعریف المرعیوب نفسہ توما کتاب الاخلاق جیش 4مقالے انتقاع الاخیار با عدائہم 1مقالہ ما ذکرہ اذلاطن فی طیماوس حنین و اسحاق 2مقالے فی ان1؎ قوی النفس تابعۃ المزاج البلدان جیش ان مشہور اطبا کے سوا اور یونانی اطباء کی تصنیفات کے بھی ترجمے کئے گئے، مثلاً ارشیجانس جو جالینوس سے پہلے تھا۔ اس کی تین کتابیں عربی میں ترجمہ کی گئیں کتاب اسقام الارحام، طبیعۃ الانسان، کتاب فی النقرس2؎ جالینوس سے پہلے ایک اور بڑا نامی طبیب گذرا ہے، جس کا نام روفس (Rufus) تھا۔ اس کی 43 کتابوں کے نام علامہ ابن الندیم نے اپنی کتاب میں بہ تفصیل نقل کئے ہیں اور چونکہ علامہ موصوف کی کتاب کا موضوع انہی کتابوں کا نام لکھنا ہے، جو عربی زبان میں ترجمہ ہوئیں، اس لیے یہ یقینی ہے کہ ان کتابوں کا ترجمہ کیا گیا تھا۔ ان کے سوا جن حکماء کی تصنیفات کے ترجمے ہوئے ان کے اور ان کی تصنیفات کی نام حسب ذیل ہیں۔ نام مصنف تصنیفات ترجمہ کردہ شدہ فیلغر یوس (Philagrius) کتاب من لاسیفرہ طبیب، وجع النقرس، کتاب اسحصاۃ ، کتاب الماء الاصفر، کتاب وجع الکبد، کتاب قولنج، کتاب الیرقان، کتاب خناق الرحم، کتاب عرق النسائ، کتاب السرطان، کتاب صنعۃ تریاق الملع، کتاب عفۃ الکلب، کتاب علامات الاسقام 1؎ یہ پوری فہرست ابن الندیم کی کتاب سے مرتب کی گئی ہے دیکھو کتاب الفہرست ص290 2؎ ابن ابی اصیبعۃ صفحہ34، نام مصنف تصنیفات ترجمہ کردہ شدہ اوریباسیوس (Oribasius) کتاب فی القوبائ، کتاب فیما یعرض للثہ والاسنان، کتاب الی ابیہ، کتاب الی انبہ، رسالہ فی التشریح، کتاب الادویہ، کتاب اسبیعن، اول دو کتابوں کا ترجمہ حنین نے او رکتاب الادویہ کا ترجمہ اصطفن نے کیا۔ اوارس کتاب العلل المہلکۃ افلاطن طبیب کتاب الملکی مغنس الحمصی (بقراط کا شاگرد) کتاب البول فولیس الاجا نیطی کتاب الکناش، علل النساء مترجمہ حنین اقریطون کتاب الزنیہ، یہ طبیب جالینوس سے پہلے اور بقراط کے بعد تھا، اسکندروس علل العین وعلا جہاء کتاب البرسام، کتاب الحیات والدیدان التی تنولد فی البطن، مترجمہ ابن البطریق، مورنوس کتاب الحفن، مترجمہ اصطاث اس سلسلہ میں ولیقوریدس کا نام خاص حیثیت رکھتا ہے۔ یہ وہ حکیم ہے جس نے دواؤں اور ہر قسم کی بوٹیوں پر اپنے ذاتی تجربہ کی بنا پر ایک بہت بڑی مفصل کتاب لکھی۔ وہ ہمیشہ جنگلوں اور صحراؤں، جزیروں اور دور دراز مقامات میں سفر کیا کرتا تھا اور جو دوا نئی ہاتھ آتی اس کی تاثیر قلمبند کرتا تھا، اس کے ساتھ اس کی تصویر بھی کھینچتا تھا، جالینوس کا بیان ہے کہ ادویہ مفردہ کے متعلق میں نے 14کتابیں مختلف مصنفوں کی دیکھیں لیکن ولیقوریدس کی کتاب کو کوئی نہیں پہنچتی۔ اس کتاب کا ترجمہ اور اس کی تصحیح جس اہتمام سے کی گئی، اس کو ہم کسی قدر تفصیل کے ساتھ اوپر لکھ آئے ہیں۔ ویسقوریدس کی یہ کتاب خود ہماری نظر سے بھی گذری ہے۔ تعجب ہے کہ ویسقوریدس کی اس کتاب پر اطبائے ما بعد نے کچھ اضافہ نہیں کیا۔ مسلمانوں میں ابن جلجل اندلسی صرف ایک شخص گذرا ہے، جس نے اپنے تجربہ سے کچھ دوائیں اس پر اضافہ کیں اور ان کو ایک مستقل کتاب میں قلمبند کیا۔ یونانی تعلیم نے چونکہ عام عالمگیری حاصل کی تھی، تمام ممالک میں اس کی شاخیں قائم ہو گئیں تھیں اس سلسلہ میں اسکندریہ سب سے زیادہ ممتاز ہے۔ یہاں سات بڑے بڑے نامور طبیب پیدا ہوئے، جنہوں نے طب یونانی کو بہت ترقی اور وسعت دی ان لوگوں نے جالینوس کی 16کتابوں کو خاص کر لیا تھا۔ اور ان کے خلاصے اور شرحیں لکھی تھیں۔ قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ ان تمام حکماء کی تصنیفات عربی میں ترجمہ کی گئیں، علامہ ابن ابی اصیبو نے طبقات الاطباء میں لکھا ہے کہ ’’ ان تمام شرحوں میں میں نے جس کو سب سے بڑھ کر پایا، وہ جالینوس کی شرح ہے، اس شرح سے ان کا نہایت فضل و کمال ثابت ہوتا ہے۔‘‘ ان سب میں اخیر یحییٰ نحوی تھا، جس کا مختصر ذکر فلسفہ کے بیان میں ہو چکا ہے۔ وہ فلسفہ اور طب میں نہایت کمال رکھتا تھا اور اسکندریہ میں بشپ کے عہدہ پر ممتاز تھا، قیصر روم نے اس کو قسطنطنیہ میں بلایا تھا اور چونکہ فن طب میں کوئی شخص اس کا ہمسر نہ تھا دربار میں نہایت قبول حاصل ہوا اور مدت تک وہ قسطنطنیہ میں رہا۔ اس نے جالینوس کی 19کتابوں پر شرحیں لکھیں، جو سب عربی میں ترجمہ کی گئیں، ابن ابی اصیبعہ نے ان سب کے نام تفصیل سے لکھے ہیں، لیکن میں بہ لحاظ اختصار قلم انداز کرتا ہوں۔ اطبائے اسکندریہ کے معاصر، شام و روم میں بھی بہت سے نامی اطباء تھے، مثلاً شمعون، اہرن، یوحنا، انطلیس، برطلاؤس، سندہشار، گہلمان، اوراس، بونیوس، بیروتی، سیورخنا، فلاعنوسوس، عیسیٰ، سرجیں، اطنوس، غریفوریوس، وغیرہ وغیرہ۔ ابن ابی اصیبعہ نے مذکورہ بالا طبیبوں اور ان کی تصنیفات کے نام لکھ کر لکھا ہے کہ ان حکیموں کی اکثر تصنیفات اس وقت موجود ہیں، اور ابو بکر رازی نے اپنی کتاب میں جس کا نام حاوی ہے، اکثر ان کتابوں سے نقل کیا ہے۔ ہندسہ1؎ یا جیامیٹری اس فن کا موجود اول جس نے اس کے ابتدائی اور جذری مسائل کو فن کی صورت میں مرتب کیا، تہیلز ہے جو حضرت عیسیٰ سے 620برس پہلے تھا، دائرہ اسی ک ایجاد ہے۔ اس کے بعد انکز یگور س نے کچھ مسائل اضافہ کئے، جن میں سے دائرہ کی ترسیع بھی تھی۔ لیکن ان حکماء کی تصنیفات مسلمانوں کو نہیں مل سکیں، کیونکہ وہ اسلام سے پہلے نا پید ہو چکی تھیں۔ اس سلسلہ میں سب سے مقدم زمانہ کی جو تصنیف مسلمانوں کو مل سکی وہ اقلیدس کی تصنیف تھی۔ یہ مشہور فاضل حضرت عیسیٰ سے 272برس پہلے تھا وہ اگرچہ یونان کا باشندہ نہ تھا، لیکن چونکہ تعلیم یونان میں پائی تھی اور اس کی تصنیفات بھی یونانی ہی زبان میں تھیں، اس لیے وہ یونانی ہی کہلاتا ہے۔ مسلمانوں نے اس کی تصنیفات نہایت جدوجہد سے بہم پہنچائیں، اور عربی زبان میں ان کے ترجمے کئے گئے۔ 1؎ اس عنوان کی تفصیل میں جن حکماء اور اہل فن کے نام آئے ہیں ان کی تصحیح انگریزی حرفوں میں اوپر گذر چکی ہے۔ ہندرسہ میں اس کی مشہور کتاب جو اب اس کے نام سے مشہور ہے، اس کا ترجمہ اول حجاج ابن یوسف بن مطر نے ہراون الرشید کے لیے کیا، پھر اسی نے دوسرا ترجمہ مامون الرشید کیلئے کیا، اور یہ ترجمہ زیادہ صحیح اور صاف ہے۔ اسحق بن حنین نے بھی اس کا ترجمہ کیا اور ثابت بن قرۃ نے اس کی اصلاح کی، حجاج کے نسخہ میں کل شکلیں 468 ہیں ثابت کے نسخہ میں10 شکلیں زائد ہیں۔ کچھ مقالے ابو عثمان دمشقی نے بھی ترجمہ کئے۔ علمائے اسلام نے نہایت کثرت سے اس کتاب کی شرحیں لکھیں، جن میں سے یزیدی، جوہری ماہانی، ابو حفص الحرت خراسانی، ابو الو فاء الجوزجانی، ابو القاسم الانطاکی، احمد بن محمد امکراسیسی، ابو یوسف الرازی، قاضی عبدالباقی بغدادی، ابو علی الحسن بن الہثیم المصری، ابو جعفر خازن اہوازی، ابو داؤد، سلیمان بن عقبہ کا نام خصوصیت سے لیا گیا ہے۔ قاضی عبدالباقی کی شرح نہایت بسیط ہے۔ اس نے اشکال کی مثالیں اعداد سے دی ہیں ابن ہثیم نے مصاورات کی شرح لکھی ہے اور ایک کتاب میں اس کے مسائل پر اعتراضات لکھے ہیں اور پھر جواب دئیے ہیں ثابت بن قرہ نے ان حلل کی تشریح کی جن پر اقلیدس نے شکلوں کی ترتیب رکھی ہے۔ یہ بات بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ یورپ کو یہ کتاب عرب ہی کی بدولت اور عربی ہی زبان میں ملی، چنانچہ اول اس کا ترجمہ عربی زبان سے اڈیلر ڈدو باث نے کیا1؎ ہندسہ میں اقلیدس کی اور بھی تصنیفات ہیں اور وہ عربی میں ترجمہ کی گئیں اقلیدس کے بعد دو بہت بڑے نامور فاضل گذرے جنہوں نے فن ریاضی کو اوج کمال تک پہنچا دیا ارشمیدس1؎ وابلونیوس2؎ 1دائرہ المعارف مطبوعہ بیروت ذکر اقلیدس ارشمیدس سرقوسہ میں287 برس قبل مسیح پیدا ہوا، اور اسکندریہ کے مدرسہ میں علوم کی تکمیل کی۔ وہ پہلا شخص ہے جس نے ہندرسہ کو عملی طور پر برتا اور اس کے ذریعے سے بہت سے مفید آلات ایجاد کئے۔ پانی کی گھڑی بھی غالباً اسی کی ایجاد ہے۔ اس حکیم کی جو تصنیفات عربی زبان میں ترجمہ کی گئیں حسب ذیل ہیں۔ نام کتاب کیفیت نام کتاب کیفیت کتاب امکرۃ والا سطوانہ دو مقالے ہیں تربیع الدائرہ ایک مقالہ ہے تسبیع الدائرہ دائرہ کے سات کرنیکا طریقہ الدوائر المماسۃ المثلثات الخطوط المتوازیہ المفروضات الماخوذات فی اصول الہندسہ ساعات الماء یعنی پانی کی گھڑیاں خواص المثلثات القائمۃ الزاویہ ارشمیدس کی کتابیں آج کل اصل یونانی میں چھاپی گئی ہیں اور موسیو پیرار نے فرنچ زبان میں ان کا ترجمہ بھی کیا ہے1؎ ارشمیدس کی تصنیفات میں سے چونکہ کرہ اور اسطوانۃ کی کتاب زیادہ مہتمم بالشان تھی، مسلمانوں نے اسی کے ساتھ زیادہ اعتنا کیا۔ ثابت بن قرہ نے ترجمہ کی اصلاح کی، اوطوقیوس نے اس کی مشکلات کی جو شرح لکھی تھی اس کا بھی عربی زبان میں ترجمہ کیا گیا، محقق طوسی نے اس کی تحریر لکھی۔ اس کتاب میں48 شکلیں ہیں اسی طرح کتاب الماخوذات کی طرف بھی بہت توجہ کی گئی۔ ابو الحسن علی نے اس کی تفسیر لکھی، طوسیٰ نے اصلاح کی، ابو سہل نے بھی اس کو ترتیب دیا۔ 1؎ ارشمیدس اور اس کی تصنیفات کے لیے دیکھو کتاب الفہرست و دائرۃ المعارف ذکر ارشمیدس و کشف انطنون ابلونیوس نے اس فن کو اور بہت زیادہ ترقی دی، اور اسکندریہ کے مدرسہ کی فہرست اس کی وجہ سے حد کمال کو پہنچ گئی۔ اس کی تصنیفات کے بہم پہنچانے میں بہت زیادہ جدوجہد کی گئی، کیونکر پوری کتاب کا نسخہ کہیں موجود نہ تھا۔ مامون الرشید نے روم سے جو کتابیں منگوائی تھیں ان میں یہ بھی آئی تھی یہ کتاب اصل میں آٹھ مقالوں میں تھی، لیکن مسلمانوں کو صرف7 مقالے ملے، اور آٹھویں مقالے کی صرف 4 شکلیں، چار پہلے مقالوں کا ترجمہ ہلال حمصی نے اور 3مقالوں کا ثابت بن قرہ نے ترجمہ کیا۔ ابلونیوس کی اور کتابیں جو عربی میں ترجمہ کی گئیں، حسب ذیل ہیں: کتاب قطع الخطوط علی نسبتہ کتاب فی النسبۃ المحدودۃ ثابت بن قرہ نے اس کے پہلے مقالہ کی اصلاح کی کتاب قطع السطوح علی نسبتہ کتاب الددائر المماسہ ان دو ہندوسوں کے بعد منالاؤس اور اوطیوقیوس کا نام زیادہ مشہور ہوا اور انہوں نے در حقیقت اس فن کو ترقی دی منا لاؤس(Menelus) اسکندریہ کا رہنے والا تھا اور 100ء میں تھا بطلیموس نے اپنی کتاب محبطی میں اس کا حوالہ دیا ہے۔ اس کی تصنیفات حسب ذیل ہیں، جن کا ترجمہ عربی زبان میں ہوا۔ الاشکال الکریہ کتاب معرفۃ الکیمہ چند اجسام جو مخلوط کر دئیے جائیں ان کی ملکیت دریافت کرنے کا طریقہ اصول الہندسہ تین مقالوں میں ہے، ثابت بنق رہ نے ترجمہ کیا کتاب المثلثات صرف چند اجزاء کا عربی میں ترجمہ ہوا۔ انسائیکلو پیڈیا یر برٹانیکا میں لکھا ہے کہ اس مصنف کی جو تصنیفات یورپ کو ملیں وہ عربی زبان کے ذریعہ سے ملیں ورنہ ان کی اصل مفقود ہے۔ ان مشہور اہل فن کے سوا جن مصنفوں کی کتابیں ترجمہ ہوئیں، ان میں سے ارسطو وغیرہ کی کتابوں کا ذکر اوپر گذر چکا، باقی کی تفصیل حسب ذیل ہے: اوطوقیوس 507میں تھا، اور شام کا رہنے والا تھا۔ اس نے ارشمیدس کی مشہور کتاب الکرۃ والا سطوانتہ کے پہلے مقالے کی شرح لکھی۔ ہندسہ میں اس کی ایک اور کتاب دو خطوں کے بیان میں ہے۔ اس میں اس نے تمام حکمائے مہندسین کا مذہب اور ان کے اقوال اور دلائل نقل کئے ہیں ان دونوں کا ترجمہ عربی زبان میں ہوا، پچھلی کتاب کا ترجمہ ثابت نے کیا، اور نہایت خوبی سے کیا1؎ سنبلیقوس (Senuplyous) یہ یحییٰ نحوی کا معاصر تھا، اس نے اقلیدس کی شرح لکھی، چنانچہ اس کا ترجمہ عربی زبان میں موجود ہے۔ دیگر علوم و فنون علوم مذکورہ بالا کے علاوہ اور بہت سے علوم فنون تھے، جن پر یونانی زبان میں سینکڑوں تصنیفات موجود تھیں اور جہاں تک مل سکیں عربی زبان میں ترجمہ کی گئیں، لیکن ان کی تفصیل لکھی جائے تو بہت بڑا دفتر بن جائے اور ناظرین گھبرا جائیں، اس لیے اجمالی طور پر اشارہ کرنا کافی ہو گا۔ بہت بڑا سرمایہ یونانی زبان میں ادب اور تاریخ کا تھا۔ یونان کو فصاحت و بلاغت 1؎ فہرست ابن الندیم ص267 پر اس قدر ناز تھا کہ وہ تمام دنیا کو الکن سمجھتے تھے۔ فصاحت وبلاغت کے اصول اول یونانیوں نے منضبط کئے، ارسطو نے اس فن کو منطق میں داخل کیا۔ اور اس کو ایک جداگانہ باب میں لکھا، جس کا نام ریطوریقا ہے۔ یہ کتاب بعینہ عربی زبان میں ترجمہ کی گئی، ارسطو کے سوا اور لوگوں نے بھی اس فن میں کتابیں لکھیں اور قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ ان میں سے معتدبہ کتابیں عربی میں ترجمہ کی گئی۔ یونانی لٹریچر کی جان اور روح ہومر کا کلام ہے، جس کی نسبت یورپ کا دعویٰ ہے کہ کل دنیا میں اس سے بڑھ کر کوئی شاعر نہیں ہوا۔ ہومر کا ترجمہ خلیفہ مہدی کے عہد میں اس کے مشہور منجم ثادفیلوس نے سریانی زبان میں کیا1؎ یونان کے اور بہت سے افسانے جو افشاکی حیثیت رکھتے تھے، ترجمہ کئے گئے علامہ ابن الندیم نے ان کے نام بھی گنائے ہیں، مثلاً کتاب سمسہ دومن، موردیانوس، انطوس سیاح، دیون دراجیل وغیرہ وغیرہ۔ لیکن عربی لہجہ کے تصرفات میں ان کتابوں کے نام اس قدر بدل گئے ہیں کہ ہم ان کے اصلی یونانی نام نہیں معلوم کر سکے۔ تاریخ اور اس کے متعلق اس کثرت سے کتابیں عربی زبان میں ترجمہ کی گئیں کہ یونان دروم کے حالات عربی زبان میں جس وسعت اور استقصاء سے ملتے ہیں خود اسلامی ممالک کے حالات میں اس قسم کی اکثر جزئیات نہیں ملتیں چنانچہ مورخ مسعودی کی تصنیفات کے دیکھنے سے اس بات کا اندازہ ہو سکتا ہے مسعودی کے زمانہ سے پہلے اور خود اس کے زمانہ میں بہت سے مصنفوں نے مفید تاریخیں عربی زبان میں لکھیں، جو یونانی تصنیفات سے ماخوذ تھیں، اور اس لحاظ سے ان کو بھی ایک قسم کا ترجمہ کہنا چاہئے، مثلاً فرقہ مارونیہ میں سے قیس مارونی نے ایک کتاب بادشاہان روم مختلف ممالک کے حالات میں لکھی فرقہ ملکیۃ میں سے ابن قسطنطن کی کتاب 1؎ دائرۃ المعارف جلد4صفحہ263 نہایت عمدہ خیال کی جاتی ہے اسی طرح سعید بن البطریق جو اسکندریہ کا لارڈ بشپ تھا، اس کی کتاب جو عربی زبان میں ہے، نہایت مستند خیال کی جاتی ہے اور ہماری نظر سے بھی گذر چکی ہے۔ اثنا یوس راہب نے آدم سے لے کر قسطنطن تک کے واقعات لکھے۔ یعقوب بن زکریا کسکری کی تاریخ کو اکثر تصنیفات تاریخی پر ترجیح دی جاتی ہے۔ ابو ذکریا نصرانی جو فلسفہ دان اور مسعودی کا معاصرہ تھا، اس نے اپنی کتاب میں بادشاہان یونان و روم کے واقعات کے علاوہ حکماء اور ارباب فن کے حالات اور ان کے اخلاق و عادات لکھے1؎ فلاسفہ اور حکما کے متعلق یونان زبان سے نہایت مفید ذخیرہ ہاتھ آیا اور عربی میں منتقل ہوا اسی کا اثر ہے کہ یونانی حکماء مثلاً افلاطون، بقراط، ارسطو وغیرہ کا نام آج بچہ بچہ کی زبان پر ہے، اور ان کے مقولے اور کہاوتیں نقل محفل ہیں۔ فرفوریوس جو تیسری صدی عیسوی میں تھا اور جس کا ذکر فلسفہ کے بیان میں گزر چکا ہے، اس نے حکما و فلاسفہ کے حالات میں جو کتاب لکھی تھی، اس کا بجنسہ ترجمہ کیا گیا۔ چنانچہ اس کے حوالوں سے علامہ ابن اصیبعہ کی کتاب مالا مال ہے۔ جالینوس نے اپنی تصنیفات کی ایک فہرست لکھیت ھی اور اس میں اپنے علمی حالات بھی اکثر لکھے تھے وہ بھی ترجمہ کی گئی 2؎ جالینوس عام طبی تصنیفات میں بھی اکثر اپنے واقعات لکھ جاتا ہے، اس سے بھی اس کے بہت سے حالات بہم پہنچے۔ بطلیموس نے ارسطو کے حال میں ایک مستقل کتاب لکھی تھی ، اس کا بھی ترجمہ کیا گیا۔ غرض اس طرح یونانی حکما و اہل فن کے متعلق جو کچھ یونانی زبان میں موجود تھا، عربی زبان میں آ گیا اور ان کو ترتیب دے کر نہایت عمدہ تالیفات تیار ہوئیں۔ حنین بن اسحاق کی کتاب نو اور الفلاسفۃ والحکماء اور مبشر بن فاتک کی کتاب مختار الحکم و محاسن الکلم اور ابن جلجل اندیسی کی کتاب اور جمال الدین قفطی اور شہر زوری کی تاریخ الحکماء اور ابن ابی اصیعبہ کی 1؎ ان تمام کتابوں کا ذکر کتاب البتینہ والا شراف ص54,55 میں ہے 2؎ طبقات الاطبا صفحہ174 جلد اول، طبقات الاطبائ، یہ تمام کتابیں جن میں یونانی اور مصری حکما کے حالات دفتر کے ملتے ہیں دراصل یونانی ہی تصنیفات ہیں جنہوں نے اپنا قالب بدل لیا ہے۔ فن حرب میں یونان میں دو بڑے مصنف گذرے ، الیانوس، پولوپیس، ان مصنفوں نے لڑائی کے تمام اصول قلمبند کئے، جس میں فوجوں کی تقسیم، صفوں کی ترتیب، فوجی مشقیں، قواعد وغیرہ نہایت تفصیل سے مندرج ہیں۔ چنانچہ ان کتابوں کا عربی میں ترجمہ ہوا۔ اصل ترجمہ تو مجھ کو نہیں مل سکا لیکن ان کتابوں سے اخذ کر کے عربی میں جو کتاب لکھی گئی وہ یورپ میں چھپ گئی ہے اور میرے مطالعہ میں ہے۔ مسلمانوں نے یونانی لٹریچر کے عمدہ اور ضروری حصہ پر اکتفا نہیں کیا، بلکہ کچھ زبان میں موجود تھا سب کو لیا، یہاں تک کہ شعبدے اور نیر مگجات، قیافہ وفال، اکسیر و کیمیا، طلسمات و حاضرات، ان لغویات سے بھی بے پروائی نہ کی۔ ارسطو کا ایک شاگرد قاتش تانس (Callisthenes) نامی تھا، اور اکثر سکندر کے ساتھ رہتا تھا۔ یونان میں غالباً اول اسی نے نیر نگجات اور شعبدے ایجاد کئے اور ان پر کتابیں لکھیں۔ چنانچہ اس کی کتاب عربی زبان میں ترجمہ کی گئی، جس کا نام الجامع فی النیر نجات والخواص ہے 1؎ اس فن میں ایک اور نہایت مشہور فاضل گزرا ہے جس کا نام بلنیاس (Apollonius) تھا۔ یہ پہلی صدی عیسوی میں تھا اور حضرت عیسیٰ کی نبوت کا منکر تھا۔ لوگوں سے کہتا تھا کہ حضرت عیسیٰ نے جو معجزے دکھائے میں بھی دکھا سکتا ہوں، چنانچہ اس کے ثبوت میں شعبدوں کے کرشمے دکھاتا تھا۔ اس کی کتاب جس میں ان طلسمات کا بیان ہے جو خود اس نے جا بجا قائم کئے تھے، عربی زبان میں ترجمہ کئے گئے 2؎ 1؎ فہرست صفحہ312، 2؎ فہرست ص302 قیافہ اور فال کے متعلق جو کتابیں ترجمہ ہوئیں حسب ذیل ہیں۔ کتاب الفراست، کتاب زخر الروم، کتاب الخیلان مصنفہ مسینس رومی، کتاب فیثا غورس فی القرعہ، کتاب قرعۃ ذی القرنین، کتاب القرعۃ المنسوبۃ الی الاسکندر بالسہام خواب کی تعبیر کے متعلق حسب ذیل کتابیں ترجمہ کی گئیں کتاب ارطامیددرس، کتاب النوم والتیفطہ لفر فوریوس کیمیا کی بہت سی کتابیں ترجمہ ہوئیں، اور افسوس یہ ہے کہ اس نے ہزاروں لاکھوں آدمیوں کو مدتوں تک بو الہوسی کے دام میں پھنسائے رکھا اور آج بھی ہزاروں پڑھے لکھے اس مرض میں مبتلا ہیں۔ بہر حال اس فن کی جو کتابیں عربی زبان میں آئیں، حسب ذیل ہیں۔ کتاب دیقرس فی الصعۃ، کتاب الاسکندر فی الحجر، کتاب دیقرس نی جواب بدلیوس، کتاب قلو بطرۃ، کتاب سقناس، کتاب دو سمیوس، کتاب کرمانوس۔ علامہ ابن الندیم نے اور بہت سی کتابوں کے نام لکھے ہیں اور یہ ممکن تھا کہ میں تلاش اور کوشش سے ان کتابوں اور ان کے مصنفین کے صحیح نام دریافت کرنا، لیکن اس بیہودہ شغل میں اگلوں نے وقت ضائع کیا تو کیا، میں کیوں اپنی اوقات خراب کروں۔ فارس مسلمانوں کو فارس کے علمی ذخیرے سے جس قدر واقفیت ہونے کے ذریعے تھے اور کسی زبان سے نہ تھے۔ فارسی نسلیں نہایت کثرت سے اسلام لائیں، عباسیوں کے دربار میں عموماً مجوسی بھرے ہوئے تھے، جن میں بہت سے مذہباً بھی مجوسی تھے اور ان سے ترجمہ او رتالیف کی خدمت متعلق تھی۔ سلاطین اسلام اکثر فارسی خاندان تھے، تاہم تعجب اور سخت تعجب یہ ہے 1؎ فہرست 314 کہ فارسی زبان کا جو سرمایہ عربی زبان میں آیا، اس میں منطق، فلسفہ، ہیئت، ہندسہ کا پتہ نہیں ملتا۔ یہاں تک کہ نہایت کدو کاوش سے کسی فارسی حکیم کا نام بھی نہیں معلوم ہوتا، حالانکہ یونانی حکماء مثلاً ارسطو، افلاطون، بقراط، جالینوس کا نام بچہ بچہ کی زبان پر ہے۔ اس کی وجہ اس کے سوا اور نہیں ہو سکتی کہ مسلمانوں کے زمانہ سے پہلے فارس کا ذخیرہ اکثر برباد ہو چکا تھا اور بالخصوص فلسفہ اور اس کے متعلقات بالکل نا پید ہو چکے تھے۔ اس کی تفصیل میں کسی قدر اپنے مضمون کتب خانہائے اسلام میں لکھ چکا ہوں، یہاں مزید اطمینان کے لیے حمزہ اصفہانی جو بہت بڑا نامور مورخ گذارا ہے، اس کی عبارت نقل کرتا ہوں۔ زاما تواریخ من کان قبل السا سانیتھ فلم شغل بھاللا نات المعترصۃ فیہا وذلک انہ سکندر لما استولی علی ارض بابل و تھر اہلھا حسد ہم علی ما کان اجتمع لہم من العلوم التی لم تجمع قط لامۃ من الامم مثلہا فاحرق من کتبھم ما نا لۃ یدہ ثم قصدالی قتل الموابدۃ والہزیدہ را علماء الحکماء و من کان یحفظ علیہم فی اثناء علومہم و تواریخ حتی اتی علی عامتہم 1؎ غرض مسلمانوں نے جب ترجمہ کے کام پر توجہ کی تو فارسی زبان میں جو ذخیرہ موجود تھا، وہ تاریخ، طب، ادب، فن خرب وغیرہ کا ذخیرہ تھا اور وہ بھی اخیر زمانہ یعنی ارد شیر اور اس کے 1؎تاریخ سنی ملوک کمرۃ الاصفہانی مطبوعہ یورپ صفحہ22 اس عبارت کا ماحصل یہ ہے کہ سا ساتیوں سے پہلے زمانہ کی تاریخ پر میں نے توجہ نہیں کی کیونکہ اس پر بہت آفتیں آئیں وہ یہ کہ جب سکندر نے بابل پر قبضہ پایا اور وہاں کے لوگوں کو دبا لیا گیا تو ان کے علوم و فنون پر اس کو رشک ہوا، چنانچہ اس نے ان کی جس قدر کتابیں پائیں سب جلا دیں اور موبدوں اور علماء و حکماء کو قتل کرا دیا۔ بعد کی تصنیفات تھیں مسلمانوں کو سب سے زیادہ دلچسپی فن تاریخ سے تھی اور اسی لیے تاریخ کا جس قدر سرمایہ مل سکا عربی زبان میں منتقل کیا گیا۔ فارسی کی تاریخیں دو قسم کی تھیں۔ عام جس میں تمام سلاطین کے حالات و واقعات تھے اور خاص جس میں کسی کسی خاص بادشاہ خاص ملک اور شہر کا حال تھا۔ چنانچہ دونوں قسم کی تاریخیں کثرت سے عربی میں ترجمہ کی گئیں۔ عام تاریخوں میں سے جن کتابوں کے نام ہم معلوم کر سکے وہ حسب ذیل ہیں۔ خدائی نامہ: یہ نہایت مفصل کتاب تھی، جس میں ابتدائے سلطنت عجم سے لے کر اخیر زمانہ تک مفصل حالات درج تھے، عبداللہ بن المقفع نے اس کا ترجمہ کیا اور اس کا نام تاریخ ملوک الفرس رکھا۔ یہ اصل کتاب اس قدر مقبول اور متداول تھی کہ بہرام بن مروان شاہ جو دولت عباسیہ کے عہد کا مترجم ہے اس نے لکھا ہے کہ میں نے بیس سے زیادہ مختلف نسخے اس کتاب کے فراہم کئے تھے 2؎ آئین نامہ: یہ نہایت مفصل تاریخ تھی اور اس کا ترجمہ بھی عبداللہ بن المقفع نے کیا2؎ علامہ مسعودی نے لکھا ہے کہ یہ بہت بڑی کتاب ہے اور کئی ہزار صفحوں میں اس کا مکمل نسخہ بجز پارسی موبدوں کے اور کسی کے پاس پایا نہیں جاتا2؎ کہن نامہ: یہ آئین نامہ کا ایک ٹکڑا ہے، اس میں عہدہ داروں و متوسلان سلطنت کے مراتب مذکور ہیں چنانچہ اس میں چھ سو عہدوں اور ان کے مراتب اور درجات کا ذکر ہے4؎ سیر ملوک الفرس: عبداللہ بن المقفع نے اس کا ترجمہ کیا، لیکن یہ نام اصل کتاب کا نہیں بلکہ ترجمہ ہے۔ 1؎ خدائی نامہ کے لیے دیکھو حمزہ اصفہانی کی کتاب صفحہ242,418 و کتاب الفہرست صفحہ 118 2؎ کتاب الفہرست صفحہ118 3؎ دیکھو کتاب التنبیہ والا شراف للمسعودی یورپ صفحہ104، 4؎ کتاب التنبیہ صفحہ104 سیر ملوک الفرس: مترجمہ محمد بن جہم البرمکی سیر ملوک الفرس: مترجمہ زادویہ بن شاہویہ الاصفہانی سیر ملوک الفرس: مترجمہ محمد بن بہرام بن مطیار الاصفہانی سکیسران: یہ بھی نہایت مفصل تاریخ ہے، مسعودی نے مروج الذہب میں لکھا ہے کہ اہل عجم اس کتاب کی نہایت عزت کرتے تھے۔ عبداللہ بن المقفع نے اس کا ترجمہ کیا۔ پہلوی زبان میں تھی۔ یہ تمام کتابیں شاہان فارس کے حالات و واقعات میں ہیں، لیکن ان کے اصلی نام معلوم نہیں ہو سکے۔ خاص خاص عہدہ یا خاص خاص اشخاص کی جو تاریخیں عربی زبان میں ترجمہ کی گئیں حسب ذیل ہیں: تاریخ دولت ساسانی: خاندان ساسان کی یہ نہایت مفصل تاریخ تھی۔ اس میں عام حالات کے علاوہ ساسانیوں کے قوانین سلطنت اور طریق انتظام نہایت تفصیل سے درج تھے چنانچہ اس کا ذکر ہم تفصیل کے ساتھ ابتدا میں لکھ آئے ہیں مورخ مسعودی نے اس کتاب کا نسخہ 303ء میں بمقام اصطخر دیکھا تھا۔ ایضاً، مترجم ہشام بن قاسم الاصفہانی 1؎ اصلاح دادہ، بہرام بن مروان شاہ جو شہر نیشاپور کا موبد تھا۔ رستم و اسفند یار نامہ: اس میں رستم و اسفند یار کے معرکوں کی تفصیل ہے، حیلہ ابن سالم نے اس کا ترجمہ کیا۔ بہرام نامہ: مترجمہ جبلۃ بن سالم 1؎ ان چاروں کتابوں کا ذکر تاریخ حمزہ اصفہانی صفحہ8میں ہے 2؎ ان دو اخیر کتابوں کا ذکر تاریخ حمزہ اصفہانی صفحہ 9میں ہے۔ کارنامہ: نوشیروان کے حالات و واقعات ہیں شہر زاو با پرویز کارنامہ: اردو شیر بن بابک، جو بہت بڑا مدبر بادشاہ گزرا ہے، اس نے خود اپنے واقعات و حالات اس کتاب میں قلمبند کئے تھے1؎ کتاب التاج بہرام و نرسی نامہ کارنامہ: نوشیروان کے حالات ہیں مزدک نامہ نوشیروان نامہ2؎ سیرت نامہ: ہداہو دبن فرخ زاد کی تصنیف ہے۔ عام تاریخوں اور سوانحعمریوں کے علاوہ اس قسم کی تمام تحریروں اور دستاویزوں کا بھی ترجمہ کیا گیا، جن سے واقعات تاریخی کا پتہ لگتا تھا، مثلاً نوشیروان نے اپنے بیٹے ہر مزکو جو وصیت نامہ لکھا اور خاندان کے لیے جو وصیت لکھی، ارو شیر یابکان کا عہد نامہ شاپور کے نام، کسری و مر زبان کا سوال و جواب، نوشیروان کا خط سرواران فوج کے نام، نوشیروان اور جو اسپ کی باہمی خط و کتابت، یہ اور اسی قسم کی بہت سی تحریریں عربی میں ترجمہ کی گئیں۔ باوجود اس کے مسلمانوں نے فارس کی تاریخ کے ساتھ اس قدر اعتنا کیا تاہم یورپ نے ان کی کوششوں کی جو داد دی وہ یہ ہے کہ ملکم صاحب نے جتھوں نے ایران کی تاریخ نہایت تحقیق و تدقیق سے لکھی تحریر فرماتے ہیں کہ: 1؎ مروج الذہب مطبوعہ یورپ صفحہ126جلد اول 2؎ ان سات آخیر کتابوں کا ذکر کتاب الفہرست صفحہ305میں ہے۔ ’’ تمام مورخوں نے جو صدر اسلام کے ہم عصر تھے لکھا ہے کہ پیغمبر کے اصحاب نے ایرانیوں کی پامردی اور دلیری سے طیش میں آ کر فتح کے بعد جس قدر ان کی مذہبی چیزیں پائیں برباد کر دیں شہر کے شہر جلا دئیے، آتش کدون میں آگ لگا دی، موبدوں اور دستوروں کو قتل کر دیا اور جس قدر کتابیں تھیں مذہبی یا تاریخی تمام برباد کر دیں۔ قریباً چار سو برس تک کسی نے ایران کی قدیم تاریخ کے مرتب کرنے کی طرف توجہ نہیں کی۔ سب سے پہلی کوشش اس باب میں جو ہوئی وہ سلاطین سامانیہ کی طرف سے ہوئی اور وہ بھی اس وجہ سے کہ یہ خاندان بہرام چوبین کی نسل سے تھا اور ان کو اپنے باپ دادا کا نام زندہ کرنا مقصود تھا۔‘‘ ملکم صاحب نے یہ خیال بھی ظاہر کیا ہے کہ اول جو کتاب ساہان عجم کی تاریخ میں لکھی گئی وہ شاہنامہ تھی۔ ملکم صاحب نے صحابہ اور قرن اول پر جو متواتر اتہام لگائے ہیں، ان سے قطع نظر کر کے ان کا یہ بیان کس قدر صحیح ہے کہ مسلمانوں نے چار سو برس تک ایران کی تاریخ پر توجہ نہیں کی، ذالک مبلغھم من العلم غریب ملکم کو معلوم نہیں کہ ساسانیوں کے دور سے پہلے ایسے بہت سے مسلمان مورخ گذرے ہیں جنہوں نے اپنی تمام عمر صرف ایران کی تاریخ کی تدوین و ترتیب میں صرف کر دی۔ ان میں سے ایک عمر کسرویٰ تھا، جس کا لقب اسی وجہ سے کسرویٰ پڑھ گیا تھا خدائے نامہ جس کا ذکر ہم اوپر لکھ آئے ہیں اس کی نسبت موسیٰ کسرویٰ کا بیان ہے کہ میں نے اس کتاب کو بار بار پڑھا اور اس کی تصحیح و تحقیق میں بہت کوشش کی، لیکن اس کے جس قدر نسخے مختلف اور متناقص تھے۔ بالآخر میں حسن ابن علی الہمدانی سے مقام مراغہ میں ملا اور چونکہ وہ اس فن بہت بڑا ماہر تھا اس سے اس کتاب کی تصحیح کرنی چاہی 1؎ اس کے بعد کسرویٰ نے نہایت غور رسی سے جس طرح سنین اور تاریخ کی تحقیق کی ہے اس کو مفصل لکھا ہے مورخ مسعودی نے باوجود اس کے کہ عرب کی نسل سے ہے ایک کتاب خاص بہادران ایران کے معرکوں پر لکھی اور خود کتاب التنبیہ والا 1؎ تاریخ حمزہ اصفہانی ص16,17 شراف میں تصریح کی کہ میں نے یہ کتاب ابو عبیدہ کے جواب میں لکھی، جس نے بہادران عرب کے معرکے لکھے تھے۔ غریب ملکم کو یہ بھی نہیں معلوم کہ علامہ طبری، مسعودی، ابو حنیفہ دنیوری، ابن واضح کاتب عباسی، حمزہ اصفہانی وغیرہ جنہوں نے ایران کی تاریخیں نہایت تحقیق و تدفیق سے لکھیں سب کے سب ساسانی دور سے پہلے تھے۔ شاہنامہ، عام تاریخ کی حیثیت سے تو درکنار، منظوم تاریخ ہونے کی حیثیت سے بھی نئی تصنیف نہیں۔ سب سے پہلے جس نے شاہنامہ نظم میں لکھا، وہ ابو علی محمد بن احمد لبلخی شاعر تھا لیکن اس نے صرف شاعرانہ حیثیت سے یہ کتاب نہیں لکھی، بلکہ ایران کی نہایت قدیم اور نایاب تاریخیں فراہم کی ہیں چنانچہ اس نے خود تصریح کی ہے کہ اس کتاب کے واقعات اس نے سیر الملوک عبداللہ بن المقفع و سیر الملوک محمد بن جہم البرمکی، و سیر الملوک ہشام بن القاسم و سیر الملوک بہرام بن مروان شاہ سیر الملوک بہرام بن مہران اصفہانی سے لیے ہیں اور بہرام مجوسی کی تصنیفات سے اس کا مقابلہ کیا ہے 1؎ ملکم صاحب کی کوتاہ بینی تو بالکل تعصب پر مبنی ہے، لیکن چونکہ ایران کی تاریخوں میں جو مسلمانوں نے لکھیں دور از کار قصے مثلاً سیمرغ، دیو سفید، مارضحاک، ہفتخوان وغیرہ اکثر پائے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ یونانی مورخوں کی تحریروں سے اکثر جگہ مطابق نہیں۔ اس لئے ظاہر میں یہ قیاس ہوتا ہے کہ مسلمانوں کو ایران کا قدیم تاریخی سرمایہ ہاتھ نہیں آیا۔ در حقیقت یہ قیاس صحیح نہیں، مسلمان ہمیشہ سے اس بات کے عادی ہیں کہ جو روایت ان کے ہاتھ آئے اور اس کو بغیر کسی تصرف اور کاٹ چھانٹ کے بیان کر دیں۔ ایران کی قدیم تاریخوں میں یہ تمام دوراز کار قصے موجود تھے، اسلامی مورخوں نے اس کو اسی طرح نقل کر دیا، نہ اس لیے کہ وہ بھی وہم پرست اور اس قسم کی مزخرفات پر یقین رکھنے والے تھے، بلکہ اس لئے کہ نقل و روایت میں دیانت داری۔ 1؎ دیکھو کتاب آلاثار الباقیہ البیرونی مطبوعہ یورپ ص99 کا یہی مقتضا ہے کہ اپنی طرف سے کچھ تصرف نہ کیا جائے۔ مورخ یعقوبی نے اپنی تاریخ میں مارضحاک و سلاطین کی درازی عمر وغیرہ کی نسبت صاف تصریح کر دی ہے کہ ’’ یہ ایرانیوں کی لغویات ہیں‘‘ بیرونی نے آثار الباقیہ میں لکھا ہے کہ ولھم فی التواریخ القسم الاول واعصار الملوک وانا عیلھم المشہورۃ عتہم مایستنفرعن استماعہ القلوب و تمجہ آلازان ولا تقبلہ العقول 1؎ یونانی مورخوں سے اختلاف کی یہ کیفیت ہے کہ مسلمانوں نے جب ایران کی تاریخ لکھنے پر توجہ کی تو ان کے سامنے دو مختلف ماخذ موجود تھے، خود ایرانی تصنیفات اور یونانی مورخوں کی جستہ جستہ تحریریں، لیکن مسلمانوں نے صاحب البیت اوری بما نیہا کے بموجب ایرانی ہی تصنیفات پر اعتبار کیا۔ مورخ مسعودی نے کتاب التنبیہ والا اسراف میں صاف لکھا ہے2؎ ولمنذکر من ذلک الا ماذکر تہ الفرس دون غیرہم من الامم کالا سرائیلین والیونا ئین والردم از کان مایذھبون الیہ فی ذلک خلاف ماحکتہ الفرس و کانت الفرس احق ان یتوخذعنہ یعنی میں اس نے اس باب میں صرف وہ بیان کیا ہے جو ایرانیوں نے لکھا ہے، نہ وہ جو اور قوموں مثلاً یہودیوں، یونانیوں اور رومیوں نے لکھا ہے، کیونکہ ان قوموں کا بیان ایرانیوں سے مختلف ہے اور ایرانی ہی اس بات کے مستحق ہیں کہ ان کی روایت اختیار کی جائے۔ تاریخ کے علاوہ مذہبی کتابوں کا ایک بڑا سلسلہ تھا اور وہ جہاں تک مل سکا عربی زبان میں ترجمہ کیا گیا۔ ایران میں سب سے پہلا بانی مذہب جس کا نام و نشان معلوم ہے، زر دشت تھا، اس پر جو کتاب (بخیال اس کے) آسمان سے اتری اس کا نام اوستا تھا۔ یہ کتاب قدیم پہلوی زبان 2؎ ایضاً ص100، 2 دیکھو کتاب مذکور صفحہ105 میں تھی، زردشت نے خود اس کا ترجمہ کیا، اور اس کا نام پاژند رکھا۔ پھر موبدون نے اس شرح کی شرح لکھی، جس کا نام پاردہ تھا۔ مجوسی اس تمام سلسلے کو آسمانی اور وحی الٰہی خیال کرتے تھے۔ شرح الشرح تو سکندر کے ہاتھوں بالکل برباد ہو گئی، لیکن آدستا اور ژندد پاژند کا سلسلہ باوجود سکندر کی غارت گری کے جا بجا بچارہ گیا اور وہی مسلمانوں کے ہاتھ آیا ادستا میں کل اکیس21سورتیں تھیں اور ہر سورہ تقریباً چار چار سو صفحوں میں لکھی جاتی تھی۔ ان سورتوں میں سے ایک سورۃ کا نام جستر شت تھا، جس میں دنیا کے آغاز اور انجام کا حال بیان کیا گیا ہے۔ ایک سورۃ کا نام ہاد دخت تھا، جس میں نصائح اور پند تھی۔ غرض یہ تمام سلسلہ مسلمانوں نے بہم پہنچایا اور نہایت احتیاط سے اس کو محفوظ رکھا۔ چنانچہ مورخ مسعودی نے تصریح کی ہے کہ چوتھی صدی کے آغاز تک یہ کامل نسخہ موجود تھا، اور سیستان میں ایک شخص کو یہ کتاب تمام و کمال حفظ یاد تھی۔ اگرچہ قرائن سے قیاس کیا جا سکتا ہے کہ یہ تمام کتابیں عربی زبان میں ترجمہ ہوئیں، لیکن اس قدر تو مصرح شہادتوں سے ثابت ہے کہ آدستا کا ترجمہ عربی زبان میں ہوا اور مدتوں تک اس کے نسخے پائے جاتے تھے حمزہ اصفہانی چوتھی صدی عیسوی میں تھا اس نے اپنی کتاب تاریخ سنی الملوک میں جا بجا اوستا کے عربی ترجمہ کے حوالے دئیے ہیں اور یہ ترجمہ خود اس کی نظر سے گذرا تھا حمزہ اصفہانی نے جو تاریخ کبیر لکھی اس میں بھی تصریح کی ہے کہ میں نے اس کتاب کے واقعات کو ادستا سے مقابلہ کر کے صحیح کیا ہے 1؎ زردشت کے علاوہ اور بہت سے جو مدعیان نبوت یا بائیبان مذہب پیدا ہوئے، ان میں مرقیون ابن دیصان، مزوک اور مانی زیادہ مشہور ہیں۔ مرقیون ٹیٹس کے زمانہ میں تھا، جو قیصران روم کے سلسلہ میں بارہواں قیصر گذرا ہے۔ ابن دیصان، مقریون سے 30 برس بعد 1؎ ادستا اور ژندو پاژند کے متعلق دیکھو کتاب التنبہ والا شراف ص91,92 مسعودی مطبوعہ، پورٹ جلد دوم ص126 و تاریخ حمزہ اصفہانی ص64 والاثار الباقیہ البیرونی ص105 پیدا ہوا، مانی، شاریوربن اردو شیر کے زمانہ میں تھا، مزدک قباد کا ہمعصر تھا۔ مرقیون اس بات کا قائل تھا کہ تمام کائنات نور و ظلمت سے پیدا ہوئی ہے خدا نے خود کائنات کو نہیں پیدا کیا، کیونکہ کائنات برائی سے خالی نہیں اور خدا برائی کا خالق نہیں ہو سکتا۔ مرقیون نے عقائد وغیرہ کے متعلق ایک کتاب لکھی جس کا نام انجیل رکھا، یہ کتاب بعینہ عربی زبان میں ترجمہ کی گئی۔ ابن دیصان کا مذہب مرقیون کے قریب قریب ہے، بلکہ گویا مرقیون کے مذہب کی ایک شاخ ہے اس لیے جو کتابیں تصنیف کی تھیں، ان میں سے کتب ذیل کا عربی زبان میں ترجمہ ہوا۔ کتاب النور والظلمت، کتاب روحانیۃ الحق، کتاب المتحرک والجماد۔ مانی نبوت کا مدعی تھا اور اپنے تئیں فار قلیط کا مصداق سمجھتا تھا۔ اس نے ایک انجیل تصنیف کی تھی، جو موجودہ انجیل سے بالکل الگ تھی ا سکے اصول عقائد یہ تھے کہ نور و ظلمت قدیم ہیں، احکام فقہی میں جانور کا ذبح کرنا، آگ، پانی، نباتات کو نقصان پہنچانا حرام ہے اس کی تصنیفات بکثرت ہیں، جن میں سات بطور اصل کے ہیں، ان میں ایک فارسی زبان اور چھ سریانی زبان میں ہیں، یعنی سفر الاسرار، سفر الجبابرۃ، فرائض السماعین، شاپور گان، سفر الاحیاء فرقماطیہ شاپور گان، مذہبی کتاب ہونے کے ساتھ تاریخی حیثیت بھی رکھتی تھی، علامہ ابو ریحان بیرونی نے اپنی کتاب آلاثار الباقیۃ میں جا بجا اس کے حوالے دئیے ہیں، اور لکھا ہے کہ تاریخی واقعات کے متعلق اردو شیر کے زمانہ کے بعد ایرانی تصنیفات میں سب سے زیادہ قابل اعتماد ہے 1؎ مانی کی تصنیفات ایک مدت تک موجود رہیں۔ علامہ ابور یحان بیرونی نے ایک رسالہ میں 1؎الآثار الباقیۃ ص118 جو آلاثار الباقیۃ کے ساتھ چھپا ہے، لکھا ہے کہ مجھ کو مانی کی تصنیفات کی بہت تلاش تھی، چنانچہ ایک دوست کے ذریعہ سے کتب ذیل میسر آئیں۔ فرقماطیا، سفر الجبابرۃ، کتر الاحیائ، فسح الیقین، انجیل، شاپورگان، سفر آلاسرار، ان کتابوں کے علاوہ مانی نے بہت سے چھوٹے چھوٹے رسالے لکھے تھے اور ان تمام رسالوں کا عربی زبان میں ترجمہ کیا گیا، ابن الندیم نے ان تمام رسالوں کے نام بہ تفصیل لکھے ہیں1؎ مانی کی تصنیفات و تالیفات اس کثرت سے عربی میں متد اول ہوئیں کہ مسلمانوں میں اس کے معتقدات و خیالات عام طور پر پھیل گئے، یہاں تک کہ بہت سے لوگوں کی نسبت گمان کیا گیا کہ وہ مانی کے پیرو ہو گئے۔ مسعودی کے حوالے سے ہم اوپر لکھ آئے ہیں کہ ابن ابی العرجائ، حماد عجرو، یحییٰ بن زیادہ، مطع بن ایاس نے مانی کی تائید میں کتابیں لکھیں۔ ابن الندیم نے اور بہت سے مسلمان علماء کے نام لکھے ہیں جو مانی کی پیروی میں بدنام تھے۔ لیکن میرا خیال ہے کہ یہ نری تہمت ہے، مسلمانوں میں ہمیشہ آزاد خیالی اور تعصب دونوں ساتھ ساتھ رہے ہیں، جو لوگ آزاد خیال تھے وہ ہر فرقہ اور ہر مذہب کے مسائل کی تحقیقات اور اس کا تذکرہ کرتے رہتے تھے متعصبوں کے نزدیک غیر مذہب والوں کا نام لینا بھی کفر تھا، اس لیے جو آزاد خیالی علما غیر مذہب کے مسائل کو کسی حیثیت سے بیان کرتے تھے، متعصبوں کے نزدیک وہ انہی مذاہب کے پیرو کہلاتے تھے۔ ایران میں سب سے اخیر جو شخص مذہبی فرقہ کا بانی ہوا وہ مزوک تھا،یہ نوشیروان کے باپ قباد کے زمانہ میں تھا، اور قباد اس کا مقلد ہو گیا تھا۔ مزدک کا اصل مذہب قریب قریب وہی تھا جو آج کل یورپ میں رڈیکل اور سوشلسٹ وغیرہ کا ہے، یعنی ہر آدمی دوسرے آدمی کے مال 1؎ مانی و مرقیون وابن دیصان اور ان کی تصنیفات و مسائل کا ذکر فہرست ابن الندیم و کتاب التنبیہ والا شراف والاثار الباقیۃ میں مفصلاً و مجملاً ہے۔ اور ناموس پر اختیار رکھتا ہے۔ اسی بنا پر مزوک کے مذہب میں زنا کچھ گناہ نہ تھا۔ یہ معلوم نہیں ہو سکتا کہ مزوک نے کوئی مستقل تصنیف کی تھی یا نہیں، لیکن یہ ثابت ہے کہ اس کے مسلمات و معتقدات و احکام و مسائل جس قدر تھے عربی زبان میں آ گئے تھے چنانچہ علامہ بلخی نے اس پر ایک مستقل کتاب لکھی ہے، جس کا نام عیوان المسائل والجوابات1؎ ہے مزدک کے حالات فارسی زبان میں السام سے پہلے قلمبند کئے گئے تھے، عبداللہ بن لمقفع نے اس کا ترجمہ عربی زبان میں کیا2؎ تاریخی اور مذہبی تصنیفات کے بعد جو چیز مسلمانوں کو سب سے زیادہ مرغوب تھی، وہ فن ادب تھا، چنانچہ فارسی کے لٹریچر کا جس قدر سرمایہ ہاتھ آیا عربی میں ترجمہ کیا گیا، اس سلسلہ میں زیادہ دلچسپ اور لطیف کتاب ہزار افسانہ تھی، جو عربی میں ترجمہ ہو کر الف لیلہ کے نام سے مشہور ہوئی۔ یہ کتاب اصل میں شاہان عجم کے مشغلہ اور شب بیداری کے لیے تصنیف ہوئی تھی، اس میں ہزار راتیں اور دو وسوسے کم قصے تھے، چنانچہ اس کا بعینہ ترجمہ کیا گیا۔ لیکن موجودہ الف لیلہ فارسی کا ترجمہ نہیں ہے، بلکہ غالباً اس نسخہ سے مرتب کیا گیا ہے، جو محمد بن عبدوس جہشیاری نے بہت سے فسانہ گویوں کو جمع کر کے خود ایک جدید کتاب تیار کی تھی، جس میں 480 راتیں تھیں3؎ الف لیلہ کے سوا فارسی کے اور بہت سے ناول اور افسانے عربی زبان میں ترجمہ کئے گئے، لیکن افسوس ہے کہ ان کے نام عربی میں آ کر کچھ ایسے بدل گئے ہیں کہ لفظ کی صحت نہیں ہو سکتی۔ ان میں سے ابن الندیم نے جن کتابوں کا ذکر کیا ہے، حسب ذیل ہیں: کتاب بو سفاس، حجد خسروا، مرمن، خرافۃ و نزہۃ، خرس و خرگوش، روز بہ ، سگ زمانہ، شاہ زنان، نمرود نامہ 1؎ اس سلسلے کے علاوہ فن آنشاء کی اور بہت سی کتابیں ترجمہ ہوئیں، ان میں سب سے زیادہ اور عجیب کتاب تیمیہ تھی۔ اس کتاب کی خوبی اور عمدگی اس قدر مسلم تھی کہ ملاحدہ اس کو قرآن مجید کے مقابلہ میں پیش کرتے تھے (نعوذ باللہ) چنانچہ علامہ باقلانی کو اپنی کتاب اعجاز القرآن میں اس کا جواب دینا پڑا یتیمیہ کے مقابلہ کی دوسری کتاب ارد شیر کا عہد نامہ تھی، چنانچہ اس کا ترجمہ بھی عربی میں موجود ہے۔ ابن الندیم نے لکھا ہے کہ جن کتابوں کی خوبی پر تمام زمانہ کا اتفاق ہے وہ حسب ذیل ہیں، عہد آرد شیر، کلیلہ و منہ رسالہ عمارۃ بن حمزہ،ماہانیہ، تیمیہ، رسالہ حسن الاحمد، بن یوسف الکاتب 2؎ آداب و اخلاق کی کتابیں بھی کثرت سے ترجمہ کی گئیں، ان میں سے چند کے نام ذیل میں ہیں: نامہ فرح زاد، بیٹے کی نصیحت کے لئے لکھی تھی۔ نامہ مہر ادو حسیس، یہ دونوں موبد تھے، اور بزر چمر وزیر نوشیروان کے لیے یہ کتاب لکھی تھی۔ بفردس موبد موبدان کی کتاب، محاضرات اور اخلاق میں ہے کتاب ارد شیر فی التدبیر، یہ کتاب ارد شیر کے حکم سے تمام حکما کی کتابوں سے التقاط کر کے لکھی گئی تھی۔ کتاب2؎ بن مرد بود: ہر مز بن کسریٰ کے لیے تصنیف کی گئی تھی۔ توقیعات کسریٰ: نوشیروان کے فرامین اور احکام 1؎ کتاب الفہرست صفحہ305 2؎ فہرست صفحہ126 3؎ ان کتابوں کا ذکر فہرست ابن الندیم صفحہ315,316 میں ہے۔ آداب کبیر و آداب صغیر: یہ دونوں کتابیں آداب و اخلاق میں ہیں اور عبداللہ بن المقفع نے ان کا ترجمہ کیا، فن حرب اور تدابیر جنگ کے متعلق نہایت مفید کتابوں کا ترجمہ کیا گیا چنانچہ بعض کتابوں کے نام ذیل میں درج ہیں۔ کتاب آداب الحروب: اس میں نہایت تفصیل سے شکر آرائی، قلعوں اور شہروں کا محاصرہ، گشت کی فوج، سرحد کی مضبوطی، اس قسم کے امور کے متعلق ہر قسم کے قاعدے اور تدبیریں درج تھیں، یہ کتاب ارد شیر کے لیے تیار کی گئی تھی۔ کتاب تعبیۃ الحروب و آداب الاساورہ: اس میں خاص لشکر آرائی اور سواروں کی قواعد کے طریقے درج تھے۔ کتاب الرمی: تیر اندازی کے فن میں تھی، اور بہرام گور کی تالیف تھی۔ چوگان وگوی1؎: اس کا مضمون نام سے ظاہر ہے۔ ان فنون کے سوا اور بہت سے مضامین کی کتابیں ترجمہ کی گئیں، مثلاً بیطاری، شکار بازی، قیافہ و شگون، وغیرہ وغیرہ، چنانچہ ان مترجم کتابوں کے نام جا بجا فہرست ابن الندیم میں ملتے ہیں۔ کلدانی، نبطی، سریانی تمام مورخوں کا بیان ہے کہ دنیا میں سب سے اول تہذیب و تمدن کی ابتداء بابل و نینوا سے ہوئی اور یہ مقامات کسی زمانہ میں جاہ و دولت اور حرف و صنعت کے مرکز تھے۔ خسوف و کسوف کے دریافت کے قاعدے اول یہیں کے علما نے معلوم کئے، دھوپ گھڑی اول یہیں ایجاد ہوئی، یہاں کی زبان نے مختلف دوروں میں مختلف نام پائے، یعنی آرامی پھر کلدانی 1؎ ان کتابوں کے لیے دیکھو ابن الندیم صفحہ314 پھر سریانی، آرامی و کلدانی پیکانی خط میں لکھی جاتی تھی۔ مسلمانوں نے قدامت کے لحاظ سے ان زبانوں کی طرف نہایت توجہ کی اور علوم و فنون موجود تھے۔ لیکن مسلمانوں کے دور تک اصلی علوم اکثر مٹ چکے تھے اور اخیر اخیر صرف نجوم سحر، خواب کی تعبیر، اور اس قسم کی باتوں پر مدار رہ گیا تھا، غرض جو کچھ ذخیرہ مل سکا مہیا کیا گیا، اور عربی زبان میں منتقل ہوا۔ بابل میں ستاروں کے نام پر سات بڑے عظیم الشان ہیکل تعمیر کئے گئے تھے، جن میں سے بعض کے کھنڈر اب بھی موجود ہیں۔ یہ ہیکل بڑے بڑے علما کے اہتمام میں تھے، اور وہ ان ہیکلوں سے رصد خانہ کا کام لیتے تھے۔ چنانچہ عطادر کا ہیکل ہرمز کے اہتمام میں، مشتری کا پتنکلوس کے اہتمام میں، مریخ کا طینقروس کے اہتمام میں تھا، ہرقل اور قبطوار بھی ان ہی علما میں تھے۔ پتنکلوس:ـ ایک مشہور عالم یہاں کا تھا، جس کی نسبت علامہ ابن الندیم نے لکھا ہے کہ ضحاک کے وقت میں تھا1؎ افسوس ہے کہ انگریزی کتابوں کی رو سے ان ناموں کی تصحیح نہیں ہو سکتی ۔ نوفل آفندی نے اپنی کتاب سیاحۃ المعارف میں جو یورپین تصنیفات سے ماخوذ ہے، لکھا ہے کہ بابل کے علما میں سے بیلوس ایک بڑا ہیئت دان تھا، جو حضرت عیسیٰ سے 213 برس پہلے تھا۔ ممکن ہے کہ یہ پتنکلوس ہو جس کو ابن الندیم نے ضحاک کا معاصر لکھا ہے۔ بہر حال عرب کے مورخوں کی تحریر کے مطابق ان سات علما میں سے اکثروں کی تصنیفات بہم پہنچیں اور ان کا ترجمہ کیا گیا۔ پتنکلوس کی کتاب عربی میں ترجمہ ہو کر کتاب الوجودہ والحدود کے نام سے موسوم ہوئی۔ قیطوار کی کتاب کا نام صناعۃ النجوم رکھا گیا۔ ہرمز کی بہت سی کتابوں کا ترجمہ کیا گیا، جن 1؎ فہرست ابن الندیم صفحہ238 کے نام ابن الندیم نے تفصیل سے لکھے ہیں1؎ لیکن چونکہ وہ صرف جادو اور شعبدہ و کیمیا کے متعلق ہیں میں ان کے نام قلم انداز کرتا ہوں۔ بابل کی تاریخیں جو یہیں کی زبان میں لکھی گئی تھیں ان میں سے اکثر کا ترجمہ ہوا۔ چنانچہ ابن الندیم نے ان کے عربی نام حسب ذیل لکھے ہیں، کتاب ملک بابل، کتاب نمرود، کتاب الملک الراکب، کتاب الشیخ والفتی، کتاب ارد شیر، کتاب لاہج، کتاب الحکیم الناسک۔ مانی کی سات مشہور تصنیفات میں سے چھ سریانی زبان میں تھیں اور ان سب کا ترجمہ ہوا، چنانچہ اس کا ذکر زبان فارسی کے ذیل میں اوپر گذر چکا۔ کلدانی زبان کا سب سے بڑا مشہور مترجم احمد بن علی تھا، جو ابن و حشیہ کے نام سے مشہور ہے اور جو نسل کے لحاظ سے بھی کلدانی تھا۔ علم فلاحۃ کے متعلق اس نے بابل کی تصنیفات کا جو مجموعہ مرتب کیا وہ در حقیقت نہایت مفید تصنیف ہے اور آج بھی مصر کے کتب خانہ خدیویہ میں موجود ہے۔ طب، دینیات، سحر، نجوم وغیرہ کے متعلق اس نے کلدانی زبان کا بہت بڑا ذخیرہ عربی زبان میں منتقل کیا، ان میں سے ابن الندیم نے جن کتابوں کے نام لکھے ہیں، وہ حسب ذیل ہیں: کتاب طروا الشیاطین، کتاب السحرا لکبیر، کتاب الصغیر، کتاب الدوار، علی مذہب النبط، کتاب مذاہب الکلدانیین فی الاصنام، کتاب الاشارہ فی السحر، کتاب اسرار الکواکب، کتاب حیاطوثی الکلدانی، کتاب الحیواۃ والمماۃ فی علاج الامراض لراہطا ابن سموطان الکلدانی، کتاب الاصنام، کتاب القرابین، کتاب الطبیعۃ، کتاب الاسما2؎ عبرانی یہ زبان سمٹک زبان کی شاخ اور کلدانی کی بہن ہے۔ اس زبان میں اگرچہ فلسفہ 1؎ کتاب الفہرست ص312-353 2؎ کتاب الفہرست صفحہ 345-312 و سائنس کا ذخیرہ نہیں تھا، لیکن توریت و زبور و انجیل کی اصلی زبان عبرانی ہے، اور بہت سے صحف انبیاء بھی اسی زبان میں ہیں، اس لحاظ سے اس زبان کے ساتھ بھی نہایت اعتنا کیا گیا۔ غالباً سب سے اول جس نے عبرانی کتابوں کا ترجمہ کیا وہ احمد بن عبداللہ بن سلام ہارون الرشید کے دربار کا ملازم تھا۔ اس فاضل نے عہد عتیق اور عہد جدید کی تمام کتابوں کا ترجمہ کیا اور یہ التزام رکھا کہ جہاں تک ممکن ہو ہر لفظ کا ترجمہ کیا جائے۔ چنانچہ دیباچہ میں لکھا ہے کہ میں نے صحف انبیاء توراۃ، انجیل اور کتب انبیاء کا ترجمہ عبرانی اور یونانی و عیسائی زبان سے کیا اور ترجمہ میں عبارت کی خوبی اور آرائش سے بالکل قطع نظر کی تاکہ معنی میں کسی قسم کا فرق نہ آنے پائے 1؎ توریت کا دوسرا ترجمہ حنین بن اسحاق نے کیا، یہ ترجمہ اس یونانی نسخہ سے کیا گیا تھا، جو مصر میں بطلیموس اسکندر کے زمانہ میں72 بڑے بڑے نامور پادریوں نے عبرانی زبان سے یونانی زبان میں کیا تھا، اور یہ نسخہ تمام نسخوں سے صحیح تر سمجھا جاتا تھا2؎ عہد عتیق اور جدید کے مجموعہ کا جس میں24 کتابیں شامل ہیں اور لوگوں نے بھی عربی زبان میں ترجمہ کیا، جن میں سے اکثر یہود تھے، چنانچہ ان میں سے مفصلہ ذیل علماء کا نام مسعودی نے کتاب التنبیہ والا شراف میں لکھا ہے۔ ابو کثیر یحییٰ بن ذکریا الکاتب الطبرانی، 320ھ میں وفات پائی سعید بن یعقوب الفیومی اشمعثی بہت بڑا فاضل تھا، بغداد کے وزراء اور قضاۃ کے دربار میں اکثر حاضر ہوتا تھا، اور اسرائیلیوں کے مباحثات میں اس کے فیصلے ہمیشہ تسلیم کئے جاتے تھے، 331ھ کے بعد 1؎ یہ تمام تفصیل کتاب الفہرست صفحہ23-22 میں ہے، 2؎ کتاب التنبیہ والا شراف اللمسعودی صفحہ112 وفات پائی داؤد قوسی بیت المقدس میں رہا کرتا تھا334ھ میں وفات پائی ابراہیم بغدادی1؎ یہ بھی چوتھی صدی میں تھا قبطی قبطی زبان سے مصر کی قدیم زبان مراد ہے۔ مصر میں اگرچہ آج کل عموماً عربی زبان شائع ہے، لیکن اصل قبطی زبان معدوم نہیں ہوئی اور قبطیوں کی مذہبی کتابیں اب بھی اسی زبان میں لکھی جاتی ہیں2؎ البتہ خطوط میں بہت انقلاب ہوئے، نہایت ابتدائی زمانہ میں ہیرو غلونی خط جاری تھا، جواہرام وغیرہ پر کندہ ہے، اس خط میں حروف نہ تھے، صرف نقوس اور تصویریں تھیں، جو بالذات یا بالعرض مطالب پر دلالت کرتی تھیں،220 ق م الجدی حروف ایجاد ہوئے، مذہب عیسوی کا قدم آیا تو یونانی خط جاری ہوا، اور تمام تالیفات و تصنیفات اسی زبان میں ہونے لگیں۔ قدیم زمانہ کی تصنیفات تو اسلام سے پہلے معدوم ہو چکی تھیں، لیکن زمانہ ما بعد کا بہت بڑا ذخیرہ موجود تھا، جو زیادہ تر بلکہ قریباً کل یونانی زبان میں تھا، کیونکہ اسکندریہ میں حضرت عیسیٰ سے 288 برس پہلے فلسفہ کا جو مدرسہ قائم ہوا تھا وہ گویا یونان کی شاخ تھا اور اسکندریہ کے بڑے بڑے حکما مثلاً ایشترخس پرنس، اپلونیوس، فرفوریوس وغیرہ جن کا ذکر اوپر گذر چکا، سب دراصل یونانی تھے۔ 1؎ ان چاروں کے لیے دیکھو کتاب التنبیہہ دالا شراف صفحہ113، 2؎ سیاحۃ المعارف صفحہ61 اس عہد کی اکثر تصنیفات عربی زبان میں ترجمہ ہوئیں، لیکن ان کا ذکر یونان کے تذکرہ میں گذر چکا، یہاں صرف قبطی زبان کے سرمایہ سے بحث ہے، اگرچہ ہم تفصیل سے یہ نہیں بتا سکتے کہ اس زبان کی کیا کیا کتابیں ترجمہ ہوئیں، لیکن اس میں شبہ نہیں کہ اس زبان کے ہر قسم کے سرمائے بہم پہنچانے میں نہایت کوششیں کی گئیں، لوگوں کو تعجب ہو گا لیکن مورخ مسعودی نے بڑے وثوق کے ساتھ بیک واسطہ روایت کی ہے کہ حضرت ذوالنون مصری کو مصر کی قدیم عمارتوں کے کتبوں کے دریافت کرنے کا نہایت شوق تھا اور انہوں نے ہیرو غلونی خط کے نقوش اور تصویروں کو بڑی کوشش سے پڑھا تھا۔ مسعودی کے خاص الفاظ جیسا کہ علامہ مقریزی نے نقل کئے ہیں یہ ہیں1؎ واخبرنی غیر واحد من بلاد اخمیم من صعید مصر عن ابی الفیض ذی النون بن ابراہیم المصری الاخمیم الزاہد و کان حکیما وکانت لہ طریقۃ یایتہا و نحلۃ یعضدھا وکان ممن یقر علی اخبار ہذعا بیرانی 2؎ وامتحن کیرامما صور فیہا ورسم علیہا من الکتابۃ والصور، قال رایت فی بعض البیرانی کتاباتہ برتہ فازا ہو۔ ورایت فی یعقہا کتابامۃ بوتہ فازا فیہ بقدر المقد رواتضاء یضحک ابو زید بلخی نے کہا ہے کہ اہرام پر جو تحریریں ہیں ان میں سے ایک عبارت کا عربی میں ترجمہ کیا گیا، تو اس کا یہ مطلب تھا3؎ انح مورخ مقریزی نے اپنی کتاب (جلد اول صفحہ116) میں ایک اور واقعہ نہایت تفصیل سے لکھا ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ نہایت قدیم قبطی خط کے پڑھنے والے اسلام کے زمانہ میں موجود تھے۔ اگر یہ روائتیں صحیح ہیں تو ہیرو غلونی خط کے پڑھنے 1؎ دیکھو مقریزی جلد اول صفحہ39، 2؎ برابی بربا کی جمع ہے، بربا مصر کے قدیم مقبروں اور اس قسم کی عمارتوں کو کہتے ہیں،3؎ مقریزی جلد اول صفحہ115 کا فخر یورپ سے چھن کر مسلمانوں کو ملنا چاہئے ہیرو غلونی خط کے متعلق کچھ شبہہ ہو تو ہو، لیکن زمانہ ما بعد کی قبطی تصنیفات کا ترجمہ کیا جانا بالکل یقینی ہے۔ فرعون کے زمانہ کی مال گزاری اور اس کے مصارف کی تعداد اور تفصیل جو مسلمان مورخوں نے لکھی ہے، وہ در حقیقت ایک قبطی کتاب کا ترجمہ ہے، چنانچہ مورخ مقریزی نے اس کتاب کے ترجمہ کئے جانے کی تصریح کی ہے1؎ سنسکرت اوپر ہم لکھ آئے ہیں کہ سنسکرت کے ترجموں کی ابتداء خلیفہ منصور کے عہد سے ہوئی، یعنی ہندوستان کا ایک نامور پنڈت منصور کے دربار میں آیا، اور کتاب سدھانتا نذر گذرانی جس کا ترجمہ دربار کے ایک عالم محمد بن ابراہیم فزاری نے کیا۔ اسی زمانہ میں یحییٰ برمکی نے ایک شخص کو ہندوستان بھیجا کہ وہاں جو دوائیں پیدا ہوتی ہیں، ان کو تلاش کر کے لائے اور نیز ہندوستان والوں کے عقائد اور مذہب وغیرہ کی تفصیل لکھ کر لائے۔ چنانچہ اس رپورٹ کا ایک نسخہ علامہ ابن الندیم نے یعقوب کندی کے ہاتھ کا لکھا ہوا دیکھا تھا، جس کی تاریخ کتابت 249ھ تھی 2؎ علامہ مذکور نے لکھا ہے کہ خاندان برامکہ نے ہندوستان سے بہت سے پنڈت اور ویدک کے علماء طلب کئے افسوس کہ ان کے نام کی تفصیل صحت کے ساتھ نہیں ملتی، جاخط اپنی کتاب البیان والتبین میں ایک جگہ ایک ضمنی تذکرہ میں لکھ گیا ہے 3؎ کہ ’’ معمر کا بیان ہے کہ جس زمانہ میں یحییٰ بن خالد نے ہندوستان کے حکیموں یعنی مسنکہ، مارمکر فلوحل، سند بار وغیرہ وغیرہ کو طلب کیا تھا میں نے بہلہ ہندی سے پوچھا کہ بلاغت کس کو کہتے ہیں انح‘‘ اس عبارت سے پتہ لگتا ہے کہ بہت سے ہندو پنڈت اور طبیب بغداد میں آئے تھے، لیکن افسوس ہے کہ 1؎ مقریزی جلد اول ص75، 2؎ کتاب الفہرست صفحہ345،3؎ کتاب مذکور صفحہ 40 مطبوعہ مصر ان کی تفصیل نہیں ملتی۔ برامکہ کے سوا، ہارون الرشید اور مامون الرشید کی قدر دانی نے ہندوستان کے اہل کمال کو بغداد کی طرف متوجہ کیا۔ ہارون الرشید ایک مرتبہ سخت بیمار ہوا اور پایہ تخت کے اطبا علاج سے عاجز آ گئے۔ اس زمانہ میں ہندوستان کے ایک پنڈت کی شہرت دور دور پھیلی ہوئی تھی۔ ابو عمر و عجی کی تحریک سے ہارون الرشید نے اس کو طلب کیا اور اس کے علاج سے خدا نے شفا دی۔ اس فاضل کا نام منکا تھا اور وہ طبابت کے علاوہ علوم عقلیہ کا بڑا ماہر تھا۔ بغداد میں کراس نے فارسی زبان سیکھ لی اور سنسکرت کتابوں کے ترجمے کرائے 1؎ ہارون الرشید کے دربار کا ایک نامور پنڈت سالی تھا، جس کو عرب کے مصنف صالح لکھتے ہیں اسی عہد میں ایک اور مشہور فاضل ہندو تھا، جس نے سنسکرت کتابوں کے ترجمے کئے اس کے باپ کا نام دھن تھا اور اہل عرب اس کو اس کے اصلی نام کے بجائے ہمیشہ ابن دھن یعنی دھن کا بیٹا لکھتے ہیں، برمکیوں نے بغداد میں جو ہسپتال بنایا تھا، یہ اس کا افسر تھا2؎ معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں میں سنسکرت اور بھاشا کی تعلیم اس حد تک وسیع ہو گئی تھی کہ مدت تک ایک گروہ اس قسم کا موجودہ رہا جو ان زبانوں سے واقفیت رکھتا تھا ہارون الرشید نے ہندوستان میں جو علما مناظرہ کے لیے بھیجے تھے، ضرور ہے کہ سنسکرت دان ہوں گے۔ مورخ مسعودی 303ھ میں کھنبات آیا تھا اور وہاں کے حالات سے واقفیت پیدا کی تھی۔ وہ لکھتا ہے کہ ’’ یہاں کا راجہ مذہبی مناظروں کا بہت شائق ہے اور مسلمان اور دوسرے مذہب کے لوگ جو اس شہر میں آتے ہیں ان سے بحث اور گفتگو کرتا رہتا3؎ یہ ظاہر ہے کہ مناظرہ بھاشا زبان میں ہوتا ہو گا اور سنسکرت تصنیفات سے واقفیت کے بغیر مناظرہ کی بنیاد قائم نہیں ہو سکتی۔‘‘ 1؎ منکا کا مفصل تذکرہ طبقات اطباء جلد دوم ص33میں ہے، 2؎ کتاب الفہرست صفحہ245، 3؎ مسعودی مطبوعہ یورپ جلد اول صفحہ254 اس گروہ میں سب سے بڑا ماہر ابو ریحان بیرونی تھا جس کا مختصر حال ہم اوپر لکھ آئے ہیں اس کی سنسکرت وانی اس مرتبہ کی تھی کہ اس نے بعض عربی تصنیفات کو ہندوؤں کے لیے سنسکرت میں ترجمہ کیا۔ سنسکرت علوم و فنون کے متعلق جو کتاب اس نے لکھی ہے اور جس کو جرمنی کے مشہور پروفیسر زخاؤ نے اپنی تصحیح سے چھپوایا ہے، ہمارے سامنے ہے۔ یہ کتاب در حقیقت سنسکرت علوم و فنون کا نہایت عمدہ خلاصہ ہے۔ مصنف نے سنسکرت کی بہت سی مستند اور قدیم تصنیفات سے ذخیرہ معلومات مہیا کیا ہے۔ ایک عجیب بات یہ ہے کہ چونکہ ہندو اپنی کتابوں کے دینے میں بخل کرتے تھے، اس لیے مصنف نے بہت سی کتابوں کو زبانی پڑھا اور یاد کیا۔ اس نے خود لکھا ہے 1؎ کہ مختلف پرانوں میں سے جو پران میں نے زبانی سیکھے وہ حسب ذیل ہیں۔ اوپران، مچھ پران، کورم پران، براہ پران، نر سنگھ پران، بایو پران، ابامن پران، نند پران، اسکند پران، ادت پران، سوم پران، سانب پران، برہماند پران، مارکندیو پران، تارکش پران، بشن پران، برہم پران، ہیش پران۔ بیرونی کی کتاب کی جامعیت و وسعت معلومات کا اندازہ ان ابواب کے عنوان سے ہو سکتا ہے جو مصنف نے اختیار کئے ہیں یہ کل اسی عنوان ہیں، اور ہر عنوان پر تفصیلی بحث کی ہے اور جو کچھ لکھا ہے سنسکرت کی مستند کتابوں سے لکھا ہے۔ ان میں سے بعض عنوان ہم نمونہ کے طور پر نقل کرتے ہیں۔ 1 ہندوؤں کا اعتقاد خدا کی نسبت 2موجودات عقلیہ اور حیہ کی نسبت اعتقاد، 3 تناسخ کا مسئلہ 4بید اور پران اور دیگر مذہبی کتابیں 5 نحو اور عروض کی تصنیفات 6 ہیئت اور نجوم، اس کے متعلق بہت سے عنوان قائم کئے ہیں، اور ہر ایک پر مفصل بحث کی ہے۔ 7 حرام و حلال 8 قانون وراثت اس نامور مصنف نے علاوہ اس کتاب کے سنسکرت کی متعدد کتابیں عربی میں ترجمہ کیں یا سنسکرت کی کتابوں سے اخذ کر کے لکھیں، جن کی تفصیل حسب ذیل ہیں۔ 1 سامیکا 2پاتنجلی 3پلس سدھانتا 4براہم سدھانتا 5 برہ تسامیتا 6 لاجو مصنفہ براہمر 7 سدھانتا پر ایک کتاب جس کا نام جوامع الموجود نحواطر الہنود ہے، یہ کتاب 500 صفحہ میں ہے۔ 8 کھنڈ کھنڈ کا، اس کتاب کا ترجمہ پہلے عربی میں ہوا تھا، جس کو عربی کتابوں میں ارکنڈ لکھتے ہیں۔ 9 کسوف پر ایک رسالہ 10 ایک رسالہ حساب پر، جس میں بتایا ہے کہ سندھ اور ہندوستان عنصروں کے شمار کا قاعدہ کیا ہے۔ 11ایک رسالہ جس میں بیان کیا ہے کہ اعداد کے مدارج عربی میں با عتبار ہندی کے زیادہ صحیح طریقہ پر مقرر کئے گئے ہیں15 صفحوں میں ہے۔ 12 راسیکا، یعنی اربعہ متناسبہ پر ایک مضمون 15صفحوں میں ہے 13 اعداد کی ترتیب کے متعلق ایک رسالہ 14 برھما سدھانتا، میں حساب کا جو طریقہ ہے اس کا ترجمہ 401صفحوں میں ہے 15 موجودہ زمانہ کا تعین با عتبار ہندی تاریخ و سنہ کے 100صفحوں میں ہے 16 ایک رسالہ جس میں یہ تعین بتایا ہے کہ کون کون ثوابت صرف منازل قمر کے متعلق ہیں 17 ان سوالات کے جوابات جو ہندو ہیئت دانوں نے اس سے پوچھے تھے، 120 صفحوں میں ہے۔ 18 ان سوالوں کے جواب جو کشمیر سے اس کے پاس آئے 19طول عمر کے شمار کا ہندی طریقہ 20 لاکھو جیتا کم، مصنفہ دراہ مہر کا ترجمہ جو ایک چھوٹی سی کتاب ولادت کے متعلق ہے 21 بامیان کی دوبتوں کی کہانی 22 نیلوخر کا قصہ جس میں دلبتی اور بربہا کا بیان ہے 23 کلپہ یارہ، کا ترجمہ جو ایک رسالہ ہے متعلق عوارض مکروہ کے 24 واسودیو کے دوبارہ ظہورپر ایک مضمون 25 ایک کتاب کا ترجمہ جو تمام محسوسات اور مدرکات مشتمل ہے 26 مساوات کی تنصیف1؎ کی وجہ کے متعلق ایک رسالہ، موافق رائے برہمہ سدھانتا، اخیر اخیر میں اخبر شاہ کی بدولت سنسکرت کی تصنیفات نے زیادہ تر مسلمانوں میں رواج پایا۔ اکبر کو ہندوؤں کی طرف جو میلان تھا وہ عام طور سے مشہور ہے، اس نے اپنے دربار میں بڑے بڑے قابل اور نامور پنڈتوں کو جمع کیا تھا، ابو الفضل نے آئین اکبری میں جہان دانش اندوزن دولت کی فہرست دی ہے، ہندو علما میں سے حسب ذیل نام شمار کئے ہیں۔ مہا دیو بھیم ناتھ، بابا بلاس، نراین، سبوجی، مادھو، رام بھدر، سری بھٹ، مادھو سرستے، جد روپ، بشن ناتھ، مدسودن، رام کشن، نارائن اسرم، بلبھدر مصر، ہرجی سور، باسدیو مصر، دامودر بھٹ، باہن بھٹ، رام تیرتھ، بدھ نواس، نر سنگھ، گوری ناتھ، برم اندر، گوپی ناتھ، بجے سین سور، کشن پنڈت، نہال چند، بھٹا چارج، کاشی ناتھ۔ اکبر نے اپنے اہتمام سے بہت سی کتابوں کے ترجمے کرائے۔ دیوی برہمن اور عبدالقادر بدایونی و شیخ سلطنا تھا نیسری و نقبب خان کی شرکت سے مہا بھارت کا فارسی میں ترجمہ ہوا۔ اکبر نے اس ترجمہ کا نام رزم نامہ رکھا، اور تمام معرکوں کی تصویریں بنوا کر اس میں شامل کیں مذکورہ بالا فضلا نے رامائن کا بھی ترجمہ کیا اور اس میں بھی تصویریں بنوائی گئیں۔ اتھرون ویدجو چوتھا وید ہے اس کا ترجمہ حاجی ابراہیم سرہندی نے کیا اور اس ترجمہ کا قلمی نسخہ ہمارے کالج کے کتب خانہ میں موجود ہے لیلا وتی جو فن حساب کی مشہور کتاب ہے، اس کا ترجمہ فیضی نے کیا تاجک جو علم نجوم میں ایک معتبر تصنیف ہے، مکمل خان گجراتی نے اس کو فارسی قالب پہنایا۔ کنہیا جی کے حالات میں ہر بنس ایک کتاب ہے، مولانا شیری نے اس کا ترجمہ کیا، نل اور دمن 1؎ بیرونی کی کتاب آلاثار، لباقیہ جو یورپ میں چھاپی گئی ہے، اس کے اخیر میں خود بیرونی کی لکھی ہوئی ایک فہرست شامل ہے جس میں اس نے اپنی تمام تصنیفات کی تفصیل لکھی ہے، کتاب الہند میں بھی جا بجا اپنی تصنیفات اور ترجموں کا ذکر کیا ہے، میں نے اس مقام پر جن ترجموں کی فہرست دی ہے، انہی دونوں کتابوں سے ماخو ذہے۔ کا قصہ جو ایک پر درد ناول ہے، فیضی نے اس کو مثنوی کا لباس پہنایا1؎ اکبر نے سنسکرت کے سرمایہ میں بھی اضافہ کیا، یعنی عربی و فارسی کی کتابیں سنسکرت میں ترجمہ کرائیں، چنانچہ زیچ میرزائی کا ترجمہ سنسکرت میں کیا گیا، جس کے ترجمہ میں فتح اللہ شیرازی، ابو الفضل کشن جوتشی، گنگا دھر، مہیش، مہانند، یہ سب فضلا شریک تھے۔ ہر قسم کے علوم و فنون کے متعلق سنسکرت کی تصنیفات جو فارسی اور عربی میں ترجمہ ہوئیں، ان کا اگر اسقتصا کیا جائے، تو ایک مستقل رسالہ لکھنا پڑے گا۔ اور شاید میں اس محنت کو گوارا کرتا، لیکن بڑی دقت یہ ہے کہ عربی لب و لہجہ نے ناموں میں اس قدر تغیر پیدا کر دیا ہے کہ اکثر کتابوں اور مصنفوں کے صحیح نام دریافت نہیں ہو سکتے۔ علامہ ابن ابی اصیعبہ نے طبقات الاطباء میں لکھا ہے کہ کلکتہ ہندوستان کا سب سے نامور طبیب و حکیم تھا اور اس کی حسب ذیل تصنیفات ہیں (یعنی جو عربی میں ترجمہ کی گئیں) کتاب النمودار فی الاعمار، اسرار الموالید، القرانات الکبیر، القرانات الصغیر، کناش، کتاب فی التوہم، کتاب فی احداث العالم دالدور فی القران، کنکۃ کی جن کتابوں کا نام ابن ابی اصیعبہ نے لکھا ہے، بے شبہہ عربی میں موجود ہیں، لیکن ہم کو خود کنکۃ کا پتہ نہیں چلتا کہ اس کا اصلی نام سنسکرت تلفظ میں کیا ہے۔ علامہ مذکور نے ہندوستان کے اور حکماء کے نام لکھے ہیں، یعنی باکھر، راجہ، سکھ، داہر، رنگل، جہیر، اندی جاری اور لکھا ہے کہ ان حکماء کی اکثر تصنیفات عربی میں ترجمہ کی گئیں، لیکن ہم ان ناموں کی صحت نہیں کر سکتے۔ طبی تصنیفات میں صحیح تلفظ کے ساتھ ہم کو صرف دو تصنیفوں کا پتہ لگتا ہے، ایک چرکا کی کتاب جو آج سے پانچ ہزار برس پہلے نہایت مشہور طبیب تھا اور جس کو ہندو بہت بڑا رشی 1؎ ابو الفضل نے ان تمام واقعات کو آئین اکبری میں آئین تصویر خانہ کے ذیل لکھا ہے۔ مانتے تھے۔ یہ کتاب پہلے فارسی میں ترجمہ کی گئی، پھر عبداللہ بن علی نے فارسی سے عربی میں ترجمہ کیا۔ دوسری ششرت کی کتاب جو دس بابوں میں ہے، اس کتاب کا ترجمہ یحییٰ بن خالد کے حکم سے کیا گیا۔ ناموں کی صحت سے مایوس ہو کر ہم ایک اجمالی نقشہ مورخین عرب کی تصریحات کے موافق اس موقع پر درج کرتے ہیں، جس سے معلوم ہو گا کہ ہر علم و فن کے متعلق سنسکرت کی کون کون سی تصنیفات عربی میں ترجمہ کی گئیں1؎ ان میں بیرونی وغیرہ کے وہ ترجمے داخل نہیں جن کا ذکر اوپر گزر چکا: نام کتاب کیفیت بدان اس میں چار سو چار بیماریوں کا بیان ہے شندہشان ابن دھن نے اس کا ترجمہ کیا فیا اختلف فیہ الہند والروم یونانی اور ہندوستانی طب میں جو اختلافات ہیں اس کا بیان ہے تفسیر اسماء العقا قیر دواؤں کا نام، اس کا ترجمہ ہنکہ نے اسحق بن سلیمان کے لیے کیا تھا، رامی کی کتاب سانپوں کے اقسام اور ان کے زہر کا بیان استانکر کی کتاب ابن دھن نے اس کا ترجمہ کیا حاملہ عورتوں کا علاج توقشتل کی کتاب اس میں سو بیماریوں اور سو علاجوں کا بیان ہے 1؎ یہ فہرست یا نقشہ ذیل سے ماخوذ ہے طبقات الاطباء جلد دوم صفحہ22,23 و کتاب الفہرست صفحہ303,305 و 271 و تاریخ یعقوبی جلد اول صفحہ105 نام کتاب کیفیت روسا کی کتاب عورتوں کے علاج میں کتاب السکر کتاب التوہم والا مراض تاکشتل کی تصنیف ہے کتاب السموم شاناق کی تصنیف ہے اور زہروں کا بیان ہے، اس کتاب کا ترجمہ اول فارسی میں ابو حاتم بلخی نے منکہ کی مدد سے کیا، پھر مامون کے حکم سے عباس بن سعید نے کیا، کتاب البیطرۃ جانوروں کا علاج کتاب فی النجوم شاناق ہندی کی تصنیف ہے کتاب الوالید جو در کی تصنیف ہے توفا منطق میں ہے ماتفاوت فیہ فلاسفۃ یونانی اور ہندوستانی فلسفہ کے اختلافات الہند دالروم سند باد سند باد کا قصہ جو الف لیلہ میں شامل ہے دراصل سنسکرت سے ماخوذ ہے بوداست و بلوہر ان کتابوں کے علاوہ ابن الندیم نے اور بہت سی کتابوں کے نام لکھے ہیں، مثلاً کتاب البلد، کتاب ادب الہند والصین، کتاب دیک الہندی، کتاب سادیرم، کتاب ملک الہند، کتاب الاشریۃ، کتاب بیدپا وغیرہ وغیرہ، لیکن مبہم اور غیر صحیح التلفظ نام لکھتے لکھتے میں عاجز آ گیا ہوں۔ (از رسائل شبلی) مطبوعہ 1898ء کتب خانہ اسکندریہ منجملہ ان افسوسناک غلطیوں کے جو یورپ میں اسلامی تاریخ کے متعلق کسی زمانہ میں پیدا ہو گئی تھیں اور اب تک قائم ہیں، ایک یہ واقعہ بھی ہے۔ اگرچہ ایک زمانے دراز سے یورپ کو مسلمانوں کے حالات سے واقف ہونے کے ذریعہ حاصل ہیں، لیکن موجودہ علم تاریخ کی ابتدا جس دور سے شروع ہوتی ہے وہ کروسیڈ یعنی صلیبی لڑائیاں ہیں ۔ اس زمانہ میں یورپ نے مسلمانوں کو جس حیثیت سے جانا اور پہچانا وہ صرف یہ حیثیت تھی کہ مسلمان جنگجو ہیں، غارت گر ہیں، وحشی ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ مقدس صلیب اور عیسائیوں کے قبلہ (بیت المقدس) کے دشمن ہیں۔ یہی زمانہ یورپ کے عہد ظلمت سے نکلنے کا بھی ہے، کیونکہ جیسا کہ اکثر مورخوں نے تصریح کی ہے، یورپ کی علمی اور تمدنی ترقی کی ابتداء اسی زمانہ سے ہوئی۔ اس زمانہ میں یورپ میں مسلمانوں کے متعلق عجیب عجیب روایتیں پیدا ہو گئیں اور واقعات وجودہ کے لحاظ سے ایسا ہونا ضرور تھا۔ اس زمانہ میں مسلمانوں کے مذہب، قومیت، معاشرت، تمدن کے متعلق یورپ میں جو غلط اور بے سروپا روائتیں پیدا ہوئیں، وہ رفتہ رفتہ اس قدر شہرت پکڑ گئیں کہ ضرب المثل کے طور پر عام و خاص کی زبانوں پر جاری ہو گئیں، اور جب تصنیف و تالیف کا زمانہ شروع ہوا تو تاریخوں، حکایتوں، ناولوں بلکہ فلسفہ کی کتابوں میں بھی کثرت سے ان کا استعمال ہونے لگا۔ لیکن جو یورپ میں فلسفہ حال کا بانی خیال کیا جاتا ہے، اس نے مضامین کا ایک مجموعہ لکھا ہے جس کا نام Bacons Essays ہے۔ وہ ایک مضمون میں جرأت اور دلیری کی مثال میں لکھتا ہے کہ: ’’ محمدؐ ایک دن لوگوں کو اپنی نبوت کا یقین دلا رہے تھے، چنانچہ حاضرین سے کہا کہ اس پہاڑ کے پاس جاؤ اور اس سے کہو کہ تجھ کو محمد ؐ نے طلب کیا ہے لوگ گئے اور یہ پیغام سنایا، پہاڑ اپنی جگہ سے کیونکر حرکت کر سکتا تھا، محمدؐ نے یہ دیکھ کر بجائے اس کے کہ شرمندہ ہوتے نہایت اطمینان اور جرأت سے کہا کہ کچھ پرواہ نہیں، اگر پہاڑ محمد ؐ کے پاس نہیں آتا تو محمد ؐ خود پہاڑ کے پاس جا سکتا ہے۔‘‘ بیکن کوئی مورخ نہ تھا اور نہ اپنے خیال میں یہ واقعہ اس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تحقیر کی غرض سے لکھا ہے، بلکہ جرأت اور حوصلہ مندی کی تعریف کرتے کرتے یہ مثال پیش کی ہے، لیکن چونکہ اس زمانہ میں اس قسم کی روائتیں یورپ کی آب و ہوا میں سرایت کر گئی تھیں، اس لیے عام و خاص سب بے تکلف اصول موضوع کے طور پر اس کو استعمال کرتے تھے، اور صحیح سمجھتے تھے۔ سو ڈیڑھ سو برس سے یورپ زیادہ تحقیقات پر مائل ہوا ہے اور اس قسم کی روائتوں کی غلطی روز بروز کھلتی جاتی ہے، یہاں تک کہ یورپ کے نامور مورخ ان روایتوں کی نسبت تسلیم کرتے جاتے ہیں کہ وہ یورپ کے لیے شرم کی باعث ہیں، مسٹر کار لائل اپنی کتاب لکچران دی ہیروز میں لکھتے ہیں کہ ’’ جو جھوٹ باتیں دور اندیش اور مذہبی سر گرمی رکھنے والے آدمیوں نے اس انسان (یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم) کی نسبت قائم کی تھیں، اب وہ الزام قطعاً ہماری روسیاہی کے باعث ہیں‘‘ کارلائل صاحب نے یہ لکچر چونکہ خاص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسبت لکھا ہے، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تخصیص کی، ورنہ یورپ میں اس قسم کی جھوٹ باتیں عام طور پر اسلام اور تاریخ اسلام کے متعلق شائع تھیں موجودہ تحقیقات نے اگرچہ ان غلطیوں کو کم کر دیا ہے، لیکن مٹا نہیں دیا ہے، کیونکہ جو واقعات اس وسعت سے تمام قوم میں پھیل گئے تھے۔ ان کی تحقیق پر مائل ہونا صرف ان لوگوں کا کام ہے جن کے دلوں کو عام اجماع اور جمہوریت کا بوجھ دبا نہیں سکتا، وقلیل ماھم اس کے علاوہ ایک خاص سبب یہ ہے کہ ہر قوم میں محققین کا دائرہ جمہور سے الگ ہوتا ہے اور اگرچہ اعتبار کے قابل صرف وہ واقعات ہوتے ہیں جن کو محققین نے غور و تحقیق کے بعد تسلیم کیا ہو، لیکن ان کی تحقیقات ایک خاص دائرہ تک محدود رہتی ہے۔ عام لوگوں میں اور عام تصنیفات میں ان کو رواج نہیں ہوتا۔ یورپ میں جو نامور محقق ہیں اکثر ان بیہودہ روایتوں کو غلط تسلیم کرتے جاتے ہیں جو اسلامی واقعات کے متعلق وہاں پیدا ہو گئی تھیں۔ چنانچہ گبن، کارلائل، گاڈ فری، ہگنز، باسورتھ، رینان، سید یو وغیرہ نے عموماً ان واقعات سے صاف انکار کیا ہے، لیکن عام تصنیفات اور عام روایتوں میں ان غلطیوں کا زور اب بھی کم نہیں ہوا۔ اس قسم کے واقعات میں اسکندریہ کے کتب خانہ کے جلائے جانے کا واقعہ بھی ہے۔ اس واقعہ کو یورپ نے جس بلند آہنگی سے مشہور کیا ہے، حقیقت میں وہ نہایت تعجب انگیز ہے تاریخیں، ناولیں، حکائتیں، مثلیں، افسانے، قصہ طلب حوالے، روز مرہ کے محاورے ایک چیز بھی اس صدا سے خالی نہیں۔ ادب اور لٹریچر کا تو ذکر کیا ہے، منطق و فلسفہ بھی اس کے اثر سے محروم نہ رہے۔ ایک سال 1؎ کلکتہ یونیورسٹی کے سوالات امتحان (ایف اے پرچہ علم منطق) میں یہ سوال تھا کہ ذیل کے مغالطہ کو حل کو، یعنی ’’ کتابیں اگر قرآن کے موافق ہیں تو ان کی کوئی ضرورت نہیں، اور مخالف ہیں تو ان کو برباد کر دینا چاہیے۔‘‘ یہ امر بھی قابل لحاظ ہے کہ یورپ کو کتب خانہ اسکندریہ کے ساتھ اس قدر ہمدردی کیوں ہے؟ یہ مسلم ہے کہ جس کتب خانہ کی نسبت بحث ہے عیسائیوں سے اس کو کچھ واسطہ نہیں، 1؎ یعنی 1882ء اس کو بادشاہان مصر نے قائم کیا تھا، جو بت پرست تھے اور حضرت عیسی ؑ سے بہت پہلے تھے شاید یہ کہا جائے کہ یورپ کی عام قدر دانی اور ہمدردی کا اثر ہے، لیکن اس حالت میں اسکندریہ کی تخصیص کی کیا وجہ ہے؟ انہی ممالک میں اور بھی بہت بڑے بڑے کتب خانے برباد ہوئے، ان پر یورپ میں یہ شور و غل کہاں ہوا؟ اسکندر نے ایران کے کتب خانے جو برباد کئے، ان کی تشہیر کس نے کی؟ اسپین میں خود عیسائیوں نے مسلمانوں کی تمام علمی یادگاروں کو مٹا دیا اور کئی لاکھ کتابیں برباد کر دیں، کس نے اس کا ماتم کیا؟ پھر کتب خانہ اسکندریہ کے ساتھ یہ خاص ہمدردی کیوں ہے؟ حقیقت یہ ہے (جیسا کہ ہم آگے چل کر ثابت کریں گے) کہ اس کتب خانہ کو خود عیسائیوں نے برباد کر دیا تھا اور بڑے بڑے پیشوایان مذہب اس کی بربادی میں شریک تھے۔ اس وقت تو یہ امر فخر کا باعث تھا، لیکن جب کسی قدر تہذیب و شائستگی کا زمانہ آیا تو یورپ نے دیکھا کہ اس کے دامن پر یہ بہت بڑا بد نما داغ ہے، اس کے مٹانے کی اس کے سوائے اورکوئی تدبیر نہ تھی کہ یہ الزام کسی دوسری قوم کے سر منڈھا جائے۔ مسلمانوں نے جب مصر و اسکندریہ فتح کیا تو کتب خانہ مذکور کا وہاں نام و نان نہ تھا۔ متعصب عیسائیوں نے اس گمشدگی کو فاتحان اسلام کی طرف منسوب کر دیا، اور چونکہ اس زمانہ میں تمام یورپ تعصب سے لبریز تھا اور کسی قسم کی علمی ترقی کا اثر نہ تھا، اس لیے کسی نے غور و تحقیق کی پروا نہ کی اور نہایت تیزی سے یہ روایت تمام یورپ میں پھیل گئی۔ یورپ نے اس ہمدردی سے اس واقعہ کا ماتم کیا کہ گویا وہ انہی کا خاص کتب خانہ تھا، چنانچہ عوام کا آج تک یہی خیال ہے، اس عام شہرت نے یہ بڑا فائدہ دیا کہ عیسائیوں کی طرف اس الزام کے منسوب کرنے کا کسی کو خیال بھی نہ آیا کیوں کہ ظاہراً یہ ایک بدیہی بات ہے کہ کوئی قوم اپنا سرمایہ آپ نہیں برباد کر سکتی۔ اب اس فرضی واقعہ کو جس کی صدا سے کسی زمانہ میں تمام یورپ گونج رہا تھا، تحقیق کرو کہ اس کی اصل کیا ہے۔ افسوس کچھ بھی نہیں!!! لیکن یہاں ایک سوال خود بخود پیدا ہوتا ہے، کہ ایک فرضی واقعہ کا اتنی مدت تک تمام ممالک یورپ میں اس طرح مشہور و مسلم رہنا کیونکر ممکن ہے؟ یہ سوال بظاہرمشکل ہے لیکن اس کا جواب بہت آسان ہے، یورپ کے عہد ظلمت تک تو اس شہرت پر کچھ تعجب نہیں، اس وقت ایسی اور بھی سینکڑوں بیہودہ روائتیں شائع تھیں اور عموماً تسلیم کی جاتی تھیں، جیسا کہ ہم اس مضمون کے شروع میں لکھ آئے ہیں۔ تہذیب و ترقی کے زمانہ سے اس پر بحثیں شروع ہوئیں، اور بڑے بڑے نامور مصنفین نے اس کی صحت سے انکار کیا، البتہ یہ تعجب ہے کہ اب بھی کچھ لوگ اس کی صحت کے قائل ہیں، حالانکہ اس کے بطلان کا قطعی فیصلہ ہو جانا چاہئے تھا۔ لیکن اس دور کی دو جہتیں ہیں، اول تو یہ کہ تہذیب و ترقی کے زمانہ میں بھی جاہلیت کے آثار بالکل فنا نہیں ہو جاتے اور نہ ایسا ہونا ممکن ہے دوسری بڑی وجہ یہ ہے کہ تاریخی واقعات کے متعلق یورپ کا جو طرز بحث ہے وہ (اکثر) کسی پہلو کا قطعہ فیصلہ نہیں ہونے دیتا۔ اصل روایت کو چھوڑ کر درایت و قیاسات پر بحثیں شروع ہو جاتی ہیں اور بہت سی فروعی باتیں بحث طلب قرار پا جاتی ہیں۔ رفتہ رفتہ ایک بڑا سلسلہ تیار ہو جاتا ہے اور اصل بحث غیر مفصل رہ جاتی ہے اس مسئلہ میں بھی ایسا ہی ہوا چنانچہ اس کی تفصیل آگے آتی ہے۔ یورپ میں ایک مدت سے یہ مسئلہ زیر بحث ہے اور اکثر مصنفوں نے اس کے متعلق مستقل مضامین لکھے۔ مسلمانوں کے متعلق جو عام تاریخیں لکھی گئی ہیں ان میں بھی اکثر اس کا ذکر آ جاتا ہے اور مصنفین اس روایت کے نقل کرنے کے بعد اپنی خاص رائے (موافق یا مخالفت) بیان کرتے ہیں، اس قسم کی جس قدر تحریریں ہماری نظر سے گذریں، اجمالاً ان کا ذکر کرنا مناسب ہو گا، کیونکہ ہمارے مضمون میں اکثر جا بجا ان کے حوالے آئیں گے، اسی لحاظ سے ہم ان کتابوں کے مقامات بقید صفحات و اڈیشن لکھتے ہیں۔ سب سے پہلے مسٹر گبن نے جو 1794ء میں فوت ہوا اس واقعہ سے انکار کیا اور اپنی تاریخ رومن امپائر حصہ مسلمانان فتح اسکندریہ کے بیان میں اس کے متعلق مختصر مگر محققانہ ریمارک کیا، پروفیسر وائٹ نے اس کے ثبوت میں ایک مستقل آرٹیکل لکھا (دیکھو) Aegyptiuca of Observation on Certain Antiquities Of Egypt By J White D.D. Professor of Arabic In the University Of Oxford 1801. وہائٹ Sucessors Of Mohammad By Washington Irving, P. 113 Printed by bell and sons, London. واشنگٹن اورنگ The Sarcens. Second Edition, P254 آرتھر گلمین ایم اے Story Of Nations Series, Edited by Arther Gleman M.A. 1889 مسٹر کرچٹن History Of Arabia, Ancient and Modern By Andrew Crichton, Vol, I P 393 History Of the Conflict Between Religion and scienc by Draper LL.D, Professor New York College, America, 20Th Edition, P 1048 London 1887. ڈریپر اسپکٹیٹر جو لندن کا مشہور اخبار ہے، اس میں متعدد مباحثے اس کے متعلق شائع ہوئے، جن میں بعض موافق تھے اور بعض مخالف (دیکھو اسکپٹیٹر پر چہائے 2جون 1888ء اور 23جون 1888ء برٹش انسائیکلو پیڈیا ذکر اسکندریہ، سبو سیدیو نے جو فرانس کا مشہور عالم ہے، اور جس نے اسلام کی نہایت جامع اور مفید تاریخ لکھی ہے، اس پر امور خانہ نکتہ چینی کی (دیکھو) Historie Generale Des Arabes Par L.A. Sediual Paris 1877, P155 پروفیسر ڈیسایسی فرانس کے مشہور عربی دان نے اس واقعہ کے متعلق مفصل بحث لکھی، دیکھو پروفیسر ڈیایسی (Desacy) کا ترجمہ و نوٹ کتاب عبداللطیف بغدادی مطبوعہ پیرس1810ء صفحہ240 سب سے زیادہ جامع اور مفصل وہ آرٹیکل ہے، جو مسٹر کریل جرمنی نے اورینٹل کانفرنس میں پیش کیا، یورپ میں دس پندرہ برس سے ایک کانگریس قائم ہے، جس کا مقصد یہ ہے کہ ایشیاء کی تاریخ کے متعلق نادر اور مفید تحقیقات بہم پہنچائے۔ اس کانگریس کا چوتھا اجلاس ستمبر1868ء میں بمقام فلارنس منعقد ہوا تھا۔ اس کے ایک اجلاس میں مسٹر کریل نے جو جرمنی کے مشہور عربی داں عالم ہیں اس بحث پر جرمن زبان میں ایک رسالہ پیش کیا، جو کانگریس کی رپورٹ کے ساتھ شائع ہوا ہے، چنانچہ اس رسالہ کا ترجمہ بعینہ اس مضمون کے اخیر میں ضمیمہ کے طور پر شامل ہے۔ اس مقام پر مجھ کو یہ بھی ظاہر کر دینا ضرور ہے کہ مسٹر کریل کے مضمون کا ترجمہ میری درخواست کے موافق میرے معزز دوست نہیں بلکہ میرے مخدوم شمس العلماء مولانا سید علی بلگرامی جیا جولسٹ بی اے، بی ایل انسپکٹر جنرل معدنیات حیدر آباد دکن نے کیا ہے، جو واقفیت السنہ مختلفہ کے لحاظ سے ہمارے زمانہ کے فارابی و کندی ہیں۔ فرنچ تصنیفات کے متعلق مجھ کو مجبوراً کہنا پڑتا ہے کہ میں نے ٹوٹی پھوٹی فرنچ سیکھ لی ہے اور اس لیے ان سے متمتع ہونا میرے لیے چنداں دشوار نہ تھا۔ اس روایت کے متعلق سب سے مقدم اور ضروری بحث یہ ہے کہ اس کا اصلی مخرج یورپین تاریخیں ہیں، یا عربی تاریخیں؟ یہ سوال اگرچہ نہایت ضروری سوال ہے، لیکن بحث طلب نہیں، کیونکہ مخالف و موافق دونوں نے اس سوال کا یکساں جواب دیا ہے۔ یورپ کے عام مورخین موافق ہوں یا مخالف، اس سے انکار نہیں کر سکتے کہ ان کے پاس اس روایت کا کوئی مخرج نہیں ہے اور وہ اس مرحلہ میں صرف عربی تاریخوں کے دست نگر ہیں لیکن اس بات کے ثابت کرنے سے پہلے ہم بتانا چاہتے ہیں کہ یورپ میں یہ قصہ کیونکر مشہور ہوا اور کس ذریعہ سے۔ سب سے پہلے جس نے یورپ میں اس واقعہ کو مشہور کیا وہ ابو الفرج ہے اس کی مختصر سی لائف یہ ہے کہ وہ ایک یہودی طبیب ہارون نامی کا بیٹا تھا اور شہر میلٹن میں1226ء میں پیدا ہوا۔ چونکہ اس کا باپ ترک مذہب کر کے عیسائی ہو چکا تھا، اس لئے ابو الفرج نے شروع ہی سے عیسائی مذہب کی تعلیم پائی اس نے اپنے مذہبی علوم کے علاوہ عربی و سریانی زبان میں نہایت کمال پیدا کیا اور اپنی لیاقت کی وجہ سے اکیس ہی سال کی عمر میں گویا کا بشپ مقرر ہوا اور رفتہ رفتہ ما فریان کے درجہ تک ترقی کی، جس کے بعد صرف بطریق یعنی پٹریارک کا رتبہ باقی رہ جاتا ہے۔ ابو الفرج نے سریانی زبان میں ایک نہایت بسیط تاریخ لکھی، جس کا ماخذ سریانی، عربی، فارسی اور یونانی کتابیں تھیں اس کتاب کا اس نے عربی زبان میں ایک خلاصہ لکھا، جس کا نام مختصر الدول ہے اور جس کو ڈاکٹر پوکاک پروفیسر آکسفورڈ کالج نے 1662ء میں لاٹن ترجمہ کے ساتھ چھاپا اس خلاصہ کے مختلف نسخے ہیں، اور سب نا مکمل ہیں، اور بعض واقعات اصل سریانی کتاب سے زائد ہیں یہ امر مشتبہ ہے کہ یہ زائد واقعات خود ابو الفراج نے پڑھائے یا کسی اور نے الحاق کئے۔ یہی خلاصہ ہے جس میں سب سے پہلے اسکندریہ کے کتب خانہ جلائے جانے کے واقعہ کا ذکر کیا گیا ہے اور اسی کے لاٹن ترجمہ کے ذریعہ سے تمام یورپ میں یہ روایت پہنچی۔ مسٹر گبن اپنی تاریخ میں لکھتے ہیں کہ جب سے ابو الفرج کی تاریخ لاٹن میں ترجمہ ہو کر دنیا میں شائع ہوئی یہ قصہ بار بار منقول ہوا ہے واشنگٹن اورنگ و آرتھر گلمین ایم اے و مسٹر کرچٹن اور بہت سے یورپین مصنفین نے صاف تصریح کی ہے کہ یورپ میں یہ روایت ابو الفرج کے ذریعہ سے پہنچی۔ یہ زمانہ یورپ کے نہایت تعصب اور جہالت کا زمانہ تھا اور اسی لیے وہاں مسلمانوں کے متعلق تمام اس قسم کی روائتیں صحیح ہوں یا غلط فوراً قبول کر لی جاتی تھیں، جن سے مسلمانوں کی نسبت نفرت انگیز خیالات پیدا ہوں ۔ غرض یورپ کے ہر حصہ میں یہ واقعہ مشہور ہو گیا اور نہایت تیزی سے وہ یورپین لٹریچر کا عنصر بن گیا اس واقعہ کو جس عبارت میں ابو الفراج 1؎ نے لکھا ہے اس کا لفظی ترجمہ یہ ہے: ’’ اور اس زمانہ میں عربوں میں یحییٰ نجوی جو ہماری زبان میں عرما طبقوس کے لقب سے ملقب ہے، مشہور ہوا، وہ اسکندریہ کا رہنے والا تھا، اور یعقوبی عیسائیوں کا عقیدہ رکھتا تھا، اور سادری کے عقیدہ کی تائید کرتا تھا، پھر عیسائیوں کے عقیدہ تثلیث سے منکر ہوا، اس پر مصر میں تمام پادری جمع ہوئے اور اس سے درخواست کی کہ اس عقیدہ سے باز آئے۔ اس نے نہ مانا، اس پر پادریوں نے اس کا رتبہ گھٹا دیا۔ وہ بہت دنوں تک زندہ رہا، یہاں تک کہ عمروؓ بن العاص نے اسکندریہ کو فتح کیا، وہ (حضرت) عمروؓ کے پاس حاضر ہوا، (حضرت) عمروؓ اس کی لیاقت سے واقف ہو چکا تھا، اس لیے اس نے اس کی بہت عزت کی اور اس سے وہ فلسفیانہ بحثیں سنیں جس سے اہل عرب کبھی آشنا نہ تھے۔ (حضرت ) عمروؓ کے دل پر ان بحثوں نے بہت اثر کیا، اور وہ اس پر فریفتہ ہو گیا (حضرت) عمروؓ عاقل، خوش فہم، صحیح الفکر شخص تھا، اسی لیے اس نے یحییٰ کی صحبت کو لازم پکڑ لیا اور اس کو اپنے پاس سے جدا نہ کرتا تھا۔‘‘ ایک دن یحییٰ نے (حضرت) عمروؓ سے کہا کہ اسکندریہ کی تمام قسم کی چیزوں پر آپ قابض ہیں، جو جو چیزیں کہ آپ کے کام کی ہیں ان سے تعرض کرنا نہیں چاہتا، لیکن جو چیزیں آپ کے کام کی نہیں اس کے تو ہمیں لوگ زیادہ مستحق ہیں (حضرت) عمروؓ نے کہا تم کو کیا درکار ہے؟ یحییٰ نے کہا فلسفہ کی وہ کتابیں جو شاہی کتب خانوں میں (حضرت) عمروؓ نے کہا اس امر کی نسبت میں 1؎ دیکھو تاریخ مختصر الدول مصنفہ ابو الفرج مطبوعہ لنون1663ء ص180-181 امیر المومنین (حضرت )عمرؓ بن الخطاب کی اجازت کے بغیر کوئی حکم نہیں دے سکتا۔ (حضرت) عمروؓ نے یحییٰ کی درخواست کی اطلاع (حضرت) عمرؓ بن الخطاب کو دی۔ وہاں سے جواب آیا کہ جن کتابوں کا تم نے ذکر کیا ہے اگر وہ خدا کی کتاب کے موافق ہیں، تو خدا کی کتاب کے ہوتے ان کی کوئی ضرورت نہیں اور ان کے مضامین خدا کی کتاب کے مخالف ہیں تو تم ان کو برباد کرنا شروع کرو (حضرت) عمرو بن العاصؓ نے ان کتابوں کو اسکندریہ کے حماموں میں تقسیم کرنا اور ان کو جلوانا شروع کیا، پس وہ چھ مہینے کی مدت میں جل کر تمام ہوئیں، سو جو کچھ ہوا اس کو سنو اور تعجب کرو۔ یہ واقعہ اسی طرح برابر تسلیم ہوتا آتا تھا اور کسی کو اس کی نسبت تحقیق و تفتیش کا خیال تک نہ آیا۔ سب سے پہلے مشہور مورخ گبن نے جو تاریخ کی طرز خاص کا بانی ہے اس واقعہ کو تحقیق کی نگاہ سے دیکھا اور لکھا کہ ’’ میں اس واقعہ کی اصلیت اور اس کے نتائج دونوں کے انکار کی طرف مائل ہوں (گبن نے اپنے انکار کی مختلف وجہیں قائم کیں، جن میں سے ایک یہ ہے کہ ابو الفرج واقعہ مبحوث فیہ کے پانچ سو برس بعد پیدا ہوا، اور اس کے سوا اور کسی مورخ حتیٰ کہ خود عیسائی مورخوں نے اس واقعہ کا کہیں ذکر نہیں کیا، اس لیے ابو الفرج کی شہادت کیونکر معتبر ہو سکتی ہے؟ گبن کے اس انکار کے بعد یورپ خواب غفلت سے چونکا اور متعدد علماء اس کی تحقیق میں مصروف ہوئے) اگرچہ گبن کے بعد اس واقعہ کے متعلق دو فریق موافق و مخالف قائم ہو گئے، لیکن چونکہ اس قدر عموماً مسلم تھا کہ پہلی صدی ہجری میں اسلام کے متعلق یورپ میں کوئی تصنیف نہیں لکھی گئی اور یہی وجہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین کے حالات میں آج تک یورپ میں جس قدر تاریخیں لکھی گئی یا لکھی جا رہی ہیں عموماً اسلامی تصنیفات سے ماخوذ ہیں، اس لیے خود اس فریق کو بھی جو اس واقعہ کو صحیح ثابت کرنا چاہتا ہے، عربی ہی تاریخوں کی طرف رجوع کرنا پڑا۔‘‘ مسٹر کرچٹن جنہوں نے گبن کے انکار پر بہت غصہ ظاہر کیا، اپنی کتاب تاریخ اسلام میں لکھتے ہیں اگر یہ واقعہ صرف اس اجنبی شخص (ابو الفرج) کے بیان پر جس نے چھ سو برس کے بعد اس واقعہ کو تحریر کیا مبنی ہوتا تو ہم کو آرمینا کے مورخ (ابو الفرج) کے بیان کے تسلیم کرنے میں تامل ہوتا، لیکن یہ واقعہ صرف اس کی سند پر مبنی نہیں ہے، بلکہ بر خلاف اس کے مقریزی اور عبداللطیف نے جنہوں نے مصر کی تاریخ قدیم پر تصنیفات لکھی ہیں، اس واقعہ کو بیان کیا ہے مسٹر کریل نے نہایت انصاف کے ساتھ علانیہ اس کا عتراف کیا ہے وہ لکھتے ہیں کہ ’’ جہاں تک مجھے یاد ہے، یہ واقعہ پہلے پہل عبداللطیف کی تاریخ میں جو اس واقعہ کے پانچ سو برس بعد پیدا ہوا مذکور ہے۔‘‘ اس امر کے طے ہو جانے کے بعد کہ اس واقعہ کا ماخذ جو کچھ ہے صرف عربی تاریخیں ہیں، ہم کو اس بحث کا فیصلہ کرنا نہایت آسان ہے، کیونکہ عرب کی تصنیفات سے واقف ہو جانے کا استحقاق یورپ کی بہ نسبت ہم کو زیادہ ہے، وصاحب البیت ادری بما فیہا ’’ گھر کا حال گھر کا آدمی خوب جانتا ہے‘‘ یورپین مصنفین جنہوں نے اس واقعہ کو ثابت کرنا چاہا ہے، سند میں عبداللطیف بغدادی مقریزی، حاجی خلیفہ کا نام لیا ہے، اور کہا ہے کہ ’’ یہ مورخین نہایت معتبر ہیں، اور ان کی شہادت سے انکار نہیں کیا جا سکتا‘‘ میں نے جہاں تک دیکھا اور پڑھا یورپ نے ہمیشہ انہی مورخین کا نام لیا ہے۔ ایک نا واقف انگریز نے ابن خلدون کا بھی حوالہ دیا ہے، اور جھوٹ سے شرم نہ کر کے لکھا ہے کہ ’’ ابن خلدون نے حضرت عمرؓ کے حالات میں یہ روایت بیان کی ہے‘‘ لیکن ابن خلدون کی تاریخ ایک عام اور مشہور کتاب حضرت عمرؓ کی تمام تاریخ میں اس واقعہ کے متعلق ایک حرف بھی مذکور نہیں۔ غرض ابن خلدون کے علیحدہ کرنے کے بعد صرف تین مذکورہ بالا مصنفین پر اس روایت کا مدار رہ جاتا ہے، اب ہم مور خانہ اصول سے اس روایت کی تحقیق پر متوجہ ہوتے ہیں، جس کے ذیل میں ہم یہ بھی دکھائیں گے کہ یورپین مورخین نے ان مصنفوں سے استناد کرنے میں کس قدر تدلیس اور فریب سے کام لیا ہے۔ واقعات تاریخی کے ثابت کرنے کے دو طریقے ہیں روایت، درایت روایت سے یہ مطلب ہے کہ جو واقعہ بیان کیا جاتا ہے، اس کی سند اس شخص تک پہنچائی جائے، جو خود اس واقعہ میں موجود رہا ہو۔ عرب کی تمام مستند تاریخیں اسی اصول پر لکھی گئی ہیں، اور یہی وجہ ہے کہ ان میں ابر نا وحدثنا کے ذریعہ سے سنا کا تمام سلسلہ مذکور کیا جاتا ہے اور ان تمام راویوں کا نام لیا جاتا ہے جن کے ذریعہ سے واقعہ کی سند اس شخص تک پہنچی ہے جو خود اس واقعہ میں شریک تھا چوتھی صدی تک اسلامی تاریخوں کا یہی طرز رہا۔ اور گو زمانہ ما بعد میں اس کا رواج کم ہو چلا، لیکن گذشتہ تین صدیوں کے واقعات میں اب تک اس کا لحاظ ہے، یعنی اس زمانہ کے انہی واقعات کا اعتبار کیا جاتاہے جو سلسلہ سند کے ساتھ ثابت ہوں۔ درایت سے یہ غرض ہے کہ جو واقعہ بیان کیا جاتا ہے، اس پر اس لحاظ سے غور کیا جائے کہ وہ طبیعت انسانی کے اقتضائ، زمانہ کی خصوصیتوں، منسوب الیہ کے حالات، اور اس قسم کے اورقرائن کے ساتھ مطابقت رکھتا ہے یا نہیں اگر وہ واقعہ اس معیار پر پورا نہیں اترتا تو اس کی صحت مشتبہ ہو گی، یعنی احتمال ہو گا کہ روایت کے تغیرات نے واقعہ کی صورت بدل دی ہے۔ اس واقعہ کی تحقیق میں بھی ہم کو انہی دو اصول سے کام لینا چاہئے۔ چونکہ اس بحث میں مقدمہ کے دو فریقوں میں سے ایک ناتی اور دوسرا مثبت ہے اور چونکہ اس قسم کے مقدمات میں بار ثبوت ہمیشہ اس فریق پر ہوتا ہے جو ثبوت کا مدعی ہے، اس لیے اول ہم کو ان شہادتوں پر غور کرنا چاہئے جو واقعہ کے اثبات میں پیش کی جاتی ہیں ہم کو جہاں تک معلوم ہے (اور ہم دعویٰ کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ کوئی شخص اس بحث میں اس سے زیادہ ثابت نہیں کر سکتا یورپ کے تمام مصنفین جو اس دعویٰ کو ثابت کرنا چاہتے ہیں، ان کی دلیل روایت کی حیثیت سے صرف اس قدر ہے کہ ’’ اس واقعہ کو عبداللطیف بغدادی، مقریزی حاجی خلیفہ نے بیان کیا ہے‘‘ اب امور تنقیح طلب یہ ہیں کہ ان مصنفوں نے اس واقعہ کے متعلق ایسا کوئی بیان کیا ہے جو شہادت میں پیش ہو سکتا ہے؟ا ور کیا اس واقعہ کے متعلق ان کی شہادت کافی ہے؟ یورپ کے مورخین نے جو اس واقعہ کے مدعی ہیں فریب آمیز طور پر بار بار عبداللطیف، مقریزی حاجی خلیفہ کا نام لیا ہے اور جن کو انکار ہے وہ ان مصنفوں کی شہادت کو قابل اعتبار نہیں سمجھتے، اور اس طریق بحث نے ان یورپین مورخوں کی فریب آمیزی پر پردہ ڈال رکھا ہے۔ کیونکہ بحث اس پر محدود ہو گئی کہ عبداللطیف وغیرہ قابل سند ہیں یا نہیں، حالانکہ پہلے یہ تحقیق ضروری تھی کہ عبداللطیف وغیرہ نے کوئی شہادت بھی دی ہے یا نہیں۔ پہلی ضروری بحث یہ ہے کہ کیا ان تینوں مصنفوں کا بیان (جن کا بار بار نام لیا جاتا ہے) تین جداگانہ شہادتیں ہیں؟ مقریزی کی تاریخ مطبوعہ مصر ہمارے پیش نظر ہے، اس نے جلد اول صفحہ151 میں عمود السواری کے بیان میں جو اسکندریہ کا ایک مشہور منارہ ہے عمود السواری کے لفظ سے عنوان قائم کیا ہے اور حرف بہ حرف وہ عبارت نقل کر دی ہے جو اس مینار کے ذکر میں عبداللطیف نے لکھی تھی عبداللطیف کی تحریر میں محض ضمنی طور پر اسکندریہ کے کتب خانہ کا ذکر آ گیا تھا، چونکہ مقریزی نے حرف بہ حرف عبداللطیف کی عبارت نقل کی ہے، اس لیے کتب خانہ کے متعلق جو عبارت ہے وہ بھی اسی طرح منقول ہو گئی ہے، اسی بنا پر موسیولانگل نے جو فرانس کا مشہور عالم ہے مجبورانہ تسلیم کیا ہے کہ مقریزی کا بیان کوئی مستقل شہادت نہیں بلکہ صرف عبداللطیف کے فقرے کی نقل ہے1؎ موسیولانگل کتب خانہ اسکندریہ کی بحث میں ہمارے مخالف ہیں، لیکن ان کو مجبوراً تسلیم کرنا پڑا ہے۔ جن یورپین مورخوں نے مقریزی کی اصل کتاب نہیں دیکھی وہ ایمان بالغیب کے طور پر بار بار مقریزی کا نام لیتے ہیں 1؎ دیکھو پروفیسر ڈساسی کا نوٹ ترجمہ تاریخ عبداللطیف بغدادی صفحہ240 مطبوعہ پیرس 1810ء لیکن موسیولانگل ایسا نہیں کر سکتا تھا، کیونکہ اس نے مقریزی کی کتاب کو خود پڑھا تھا۔ مقریزی نے اسی کتاب میں اسکندریہ کی فتح کا حال نہایت تفصیل سے لکھا ہے، لیکن کتب خانہ کے متعلق ایک حرف بھی نہیں لکھا، جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ واقعہ مذکورہ کو تاریخی واقعات کی فہرست میں شمار نہیں کرتا۔ مقریزی کے خارج ہونے کے بعد دو نام رہ جاتے ہیں، عبداللطیف اور حاجی خلیفہ، حاجی خلیفہ کا ذگر اگرچہ اکثر یورپین مورخوں نے کیا ہے، لیکن اس کی خاص عبارت کا حوالہ نہیں دیا، کیونکہ اگر وہ ایسا کرتے تو ان کا دعویٰ غالباً کمزور ہو جاتا۔ ہم پروفیسر ڈسیاسی کے (جو ایک مشہور فرنچ مصنف ہیں، اور بڑے زور شور سے اس واقعہ کو ثابت کرنا چاہتے ہیں) ممنون ہیں جنہوں نے اس راز کو ظاہر کر دیا ہے اور حاجی خلیفہ کی عبارت نقل کر دی ہے جس کے اصلی الفاظ یہ ہیں: نکانت العرب فی صدر الاسلام لا تعتنی بشی من العلوم الا بلغتھا معرفقھہ حکام شریعتہا و صناعۃ الطب فانہا کانت موجودۃ عند افراد منہم لحاجۃ الناس طراً الیہا وذالک منہم صوما لقواعد الاسلام وعقائد اہلہ عن تطرق الخلل من علوم الاوائل قبل الرسوخ والا حکام حتی یروی الہما ہی قواما وجدوا من الکتب فی فتوحات البلاد اہل عرب شروع اسلام میں تمام علوم میں سے بجز لعنت و احکام شریعت و طب کے کسی علم کی طرف توجہ نہیں کرتے تھے صرف یہ علوم بوجہ عام حاجت کے بعض لوگوں کے پاس موجود تھے، اور اس کا یہ سبب تھا کہ چونکہ اسلام کے قواعد اور لوگوں کے عقائد مضبوط اور راسخ نہیں ہو چکے تھے اس لیے ڈر تھا کہ قدما کے علوم سے ان میں خلل نہ پیدا ہو، یہاں تک کہ بیان کیا جاتا ہے کہ ان لوگوں نے شہروں کی فتوحات میں جو کتابیں پائیں وہ جلا دیں، اس عبارت میں اسکندریہ کا تو ذکر نہیں عام طور پر کتابوں کے۔۔۔۔۔۔۔ جلانے کا ذکر کیا ہے، اور وہ بھی یروی کے لفظ سے جو ظاہر کرتا ہے کہ وہ ایک عامیانہ روایت ہے اس عبارت کے طرز اور نظام سے ہر گز نہیں پایا جاتا کہ مصنف اس واقعہ کو واقعہ مسلمہ قرار دیتا ہے۔حاجی خلیفہ شروع زمانہ اسلام کی عدم اعتنا کا ذکر بیان کرتا ہے اور اس کے ذیل میں ایک عامیانہ روایت کو اسی عامیانہ حیثیت سے ذکر کر جاتا ہے اس کی بالکل ایسی مثال ہے کہ جس طرح کوئی کہے کہ نپولین نے مصر میں اسلامی افسری کا دعویٰ کرنا چاہا، اور اس کے لیے بڑے بڑے جال پھیلائے یہاں تک کہ کہتے ہیں کہ ’’ اس نے جامعہ ازہر میں کلمہ توحید پڑھا اور جماعت کے ساتھ نماز پڑھی‘‘ یہ طرز بیان کا ایک عام طریقہ ہے کہ ایسے موقعوں پر ایک مقرر یا مضمون نگار ضعیف سے ضعیف روایت کا بھی ذکر کر جاتا ہے غرض خاص کتب خانہ اسکندریہ کے جلائے جانے کا دعویٰ حاجی خلیفہ کی طرف منسوب کرنا ایسی تعجب انگیز جرأت ہے جو یورپین مورخوں کے سوا اور کسی سے نہیں ہو سکتی۔ اب صرف عبداللطیف بغدادی کی شہادت باقی رہ گئی، اور در حقیقت یورپین مورخوں کا اخیر سہارا یہی عبداللطیف ہے اس کی حقیقت یہ ہے کہ عبداللطیف نے مصر کی ایک تاریخ لکھی ہے جس کا نام کتاب الافادۃ والاعتبار فی المشاہدۃ والحوادث المعائنۃ بارض مصر ہے، یہ کتاب اس نے 10شعبان603ھ میں تمام کی، اور اس کا موضوع صرف وہ حالات و واقعات ہیں جو عبداللطیف نے خود مصر میں مشاہدہ کئے اس میں ایک موقع پر عمود السواری کے لفظ سے ایک عنوان قائم کیا ہے، اس کے تمام حالات بیان کئے ہیں، اور لکھا ہے کہ اس ستون کے گرد چار سو اور چھوٹے چھوٹے ستون تھے، یہ حالات لکھتے لکھتے اخیر میں ضمناً یہ عبارت لکھی ہے، ریذ1؎ کی ان ہذا العمور من جملۃ عمدۃ کانت تحمل رواق ارسطاطا لیس الذی کان یدرس بہ الحکمۃ دان کان دار علم و قیہ خزانۃ کتب حرفہا عمرو بن العاصؓ باشارۃ عمرؓ بن الخطاب اور کہا جاتا ہے کہ یہ ستون منجملہ ان ستونوں کے ہے جس پر وہ چھت قائم تھی جو ارسطو کا رواق تھا، اور جہاں ارسطو حکمت کا درس دیا کرتا تھا، اور یہ کہ وہ دار العلم تھا اور اس میں وہ کتب خانہ تھا جس کو عمرو بن العاصؓ نے عمر بن الخطاب کے شارے سے جلا دیا۔ اس عبارت سے ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ عبداللطیف نے اس واقعہ کو کس حیثیت سے ذکر کیا ہے۔ عبداللطیف کا یہ تمام قول یذکر کے تحت میں ہے، جس سے کسی طرح یہ ظاہر نہیں ہو سکتا کہ وہ اس موقع کو مورخانہ حیثیت سے لکھتا ہے، یا اس کو تسلیم کرتا ہے۔ مسٹر کریل جومن اپنے مضمون میں عبداللطیف کا قول نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں ’’ یہ بیان محض علی سبیل التذکرہ معلوم ہوتا ہے اور اس سے خاص کوئی غرض نہیں معلوم ہوتی یہ کسی خاص اصل واقعہ کو یاد دلانا نہیں ہے، بلکہ محض ایک مشہور بات کا اعادہ کر دینا ہے، جس کو اس زمانہ کے سیاحوں نے بار بار کہا ہے، اور یہ من قبیل اسی قسم کی غیر معتبر اور خلاف عقل بیانات کے ہے جو زمانہ وسطیٰ کے سیاحوں میں بیت المقدس کے مقام کے بارے میں مشہور تھے۔‘‘ ایک مزے کی بات یہ ہے کہ عبداللطیف نے چونکہ بازاری گپون کا ذکر کیا، اس لیے اس جملہ میں جتنے واقعات بیان کئے اتفاق سے سب غلط تھے نہ یہ مقام ارسطو کا رواق تھا، نہ ارسطو نے کبھی وہاں درس دیا۔ ایک مضمون نگار نے جس نے اسپکٹیٹر مورخہ13 جون میں اس مضمون پر ایک بحث لکھی ہے، عبداللطیف کے بیان کی غلطی پر عجیب لطف سے استدلال کیا ہے، وہ کہتا ہے کہ کتب خانہ کا جلایا جانا تو ایک طرف عبداللطیف نے اس کے ساتھ اور جو واقعات بیان کئے وہ کون سے سچ ہیں!!!! 1؎ ایک نسخہ میں جو مصر میں چھپا ہے اور نہایت غلط چھپا ہے یذکر کے ارہی کا لفظ ہے، اگر یہی نسخہ مان لیا جائے تو بھی یہ عبداللطیف کی ذاتی رائے ہو گی۔ یہ ہے حقیقت ان سندوں اور روایتوں کی جن پر یورپین مورخوں نے چھاؤنی چھا رکھی ہے ان مصنفوں نے اس بحث میں جس قسم کی تدلیس سے کام لیا ہے، حقیقت میں وہ نہایت تعجب انگیز ہے عبداللطیف وغیرہ کی جو اصل عبارتیں ہم نے نقل کی ہیں، ان سے ناظرین کو معلوم ہو سکتا ہے کہ مقریزی نے خود اس واقعہ کو نہیں بیان کیا، بلکہ عمود السواری کے ذکر میں عبداللطیف کی عبارت نقل کر دی ہے، جس میں ضمناً کتب خانہ کا بھی ذکر تھا، حاجی خلیفہ نے اسکندریہ کا نام تک نہیں لیا، البتہ عام طور پر کتب خانوں کا ذکر کیا ہے اور وہ بھی یذکر کے تحت میں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ کوئی مصدقہ روایت نہیں۔ لیکن یورپین مورخوں نے عبداللطیف وغیرہ کا نام ہمیشہ اس حیثیت سے لیا ہے کہ گویا انہوں نے اس واقعہ کی صحت کا دعویٰ کیا ہے اور اس پر کوئی مستقل مضمون لکھا ہے۔ پروفیسر ڈیایسی نے اپنے نوٹ میں لکھا ہے کہ جو اعتراضات ابو الفرج کے بیان پر کئے جاتے ہیں، ان میں یہ نہایت قوی اعتراض خیال کیا جاتا ہے کہ عرب کے مورخ ایک ایسے عظیم واقعہ کے متعلق خاموش ہیں اس کے بعد پروفیسر ڈیایسی اس اعتراض کا جواب دیتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ ’’ لیکن اس اعتراض کا زور یقیناعبداللطیف اور مقریزی کی شہادت کے بعد گھٹ جاتا ہے‘‘ لطف یہ ہے کہ اسی عبارت کے بعد پروفیسر موصوف لکھتے ہیں کہ اگرچہ لوگوں کو یہ کہنے کا موقع حاصل ہے کہ مقریزی کا قول صرف عبداللطیف کے فقرہ کی نقل ہے۔ مسٹر کرچٹن لکھتے ہیں کہ ’’ یہ واقعہ صرف سند مذکورہ بالا (یعنی ابو الفراج کا بیان) پر مبنی نہیں ہے بلکہ بر خلاف اس کے مقریزی اور عبداللطیف نے جنہوں نے قدیم تاریخ مصر پر تصنیفات لکھیں اس واقعہ کا بیان کیا ہے۔‘‘ پروفیسر وائٹ نہایت بلند آہنگی سے فرماتے ہیں کہ ’’ ہم گبن کی منفیانہ دلیل کے مقابلہ میں دو عربی مورخوں کی اثباتی شہادت پیش کرنے کی جرأت کریں گے، جو ایسے مستند مصنف ہیں کہ ان کے مستند ہونے کی نسبت کوئی اعتراض نہیں کیا جا سکتا، اور دونوں مذہب اسلام کے نہایت متعصب پیرو ہیں، اس سے عبداللطیف و مقریزی کو مراد لیتا ہوں، جو اس واقعہ یعنی کتب خانہ کے جلانے کے ذکر ہی میں ہمزبان نہیں بلکہ ٹھیک اس مقام کا نشان دیتے ہیں جہاں کتب خانہ مذکور قائم تھا۔‘‘ پروفیسر وائٹ نے اس موقع پر کس چالاکی سے کام لیا ہے، عبداللطیف نے ایک ستون کے ذکر میں ضمناً افواہی طور پر اس واقعہ کا ذکر کیا ہے، پروفیسر وائٹ اس کو اس قالب میں ڈھالتے ہیں جس سے ایک نا واقف شخص کو یہ گمان ہو گا کہ عبداللطیف نے مستقل طور پر اس واقعہ کو ثابت کرنا چاہا ہے اور صرف اصل واقعہ کو ثابت نہیں کیا بلکہ واقعہ کا موقع و محل بھی متعین کر دیا۔ اگرچہ یورپ کے اکثر مورخوں نے جو اس واقعہ کو ثابت کرنا چاہتے ہیں صرف انہی تینوں یعنی عبداللطیف، مقریزی، حاجی خلیفہ پر استناء کا مدار رکھتا ہے، اور ہم نے اس موقع پر ان ہی مصنفوں سے بحث کی ہے، بعض یورپین مصنفوں نے تدلیسی (مخفی فریب) کے میدان میں اوروں سے بڑھ کر قدم رکھا ہے، اور فریب آمیز طور پر ظاہر کیا ہے کہ اس واقعہ کی تائید کے لیے اور بھی متعدد شہادتیں موجود ہیں مسٹر کرچٹن صاحب اپنی کتاب کے حاشیہ میں فرماتے ہیں کہ ’’ بیرن ڈساسی نے اپنے ایک لمبے نوٹ میں جو اس نے عبداللطیف کے ترجمہ پر لکھا ہے (مصر کا بیان صفحہ240) عربی مصنفوں کی کتابوں سے مختلف شہادتیں جمع کی ہیں، جو پیرس کے شاہی کتب خانہ میں موجود ہیں، اور ان شہادتوں سے ابو الفرج کا بیان قابل اعتبار ثابت ہوتا ہے، لیکن مغرور گبن نے ان تصنیفات کو نہیں دیکھا تھا۔‘‘ اس عبارت سے ایک نا واقف اور خصوصاً وہ جس کو یورپین مصنفوں کے ساتھ عام خوش اعتقادی ہو، بالکل دھوکے میں آ جائے گا، اور یقین کرے گا کہ پیرس کے عظیم الشان کتب خانہ میں ضرور اس واقعہ کے متعلق بہت کچھ مادہ موجود ہو گا ورنہ تمام یورپ میں ایسا غلط واقعہ کیونکر مشہور ہو سکتا تھا۔ لیکن ہمارے ناظرین کو پیرس کے پر شوکت نام سے مرعوب نہ ہونا چاہیے، اور ڈیایسی کا نوٹ اور وہ کتابیں جن کا انہوں نے حوالہ دیا ہے، ہمارے سامنے ہیں، بے شبہہ ڈیایسی نے اس واقعہ کو بڑے زور شور سے ثابت کرنا چاہا ہے، لیکن افسوس ہے کہ جو زور ان کی طبیعت میں ہے وہ دلائل میں نہیں ہم اس موقعہ پر ان کی پوری تحریر کا لفظی ترجمہ نقل کرتے ہیں۔ ’’ ابو الفرج نے اپنی تاریخ خاندان عرب میں عمرؓ کے حکم سے کتب خانہ اسکندریہ کی بربادی کی نسبت جو واقعہ بیان کیا ہے، اس میں متعدد مشہور مصنفوں نے شک کیا ہے، جو کچھ اس واقعہ پر لکھا گیا ہے اس کے بیان کرنے اور اس کی حیثیت کے اندازہ کرنے میں ایک بڑی بحث ضرور ہونی چاہیے۔‘‘ وہ دلیلیں جن کی بنا پر یہ شکوک کئے گئے ہیں اس جرمن مباحثہ میں مل سکتی ہیں، جس کو MCK. Rinhard نے 1893ء میں بمقام Gottingue دکھایا تھا، اور ان ریمارکوں میں جو اسکندریہ کے قدیم کتب خانوں کے متعلق ہیں جن کو کہ M.De Saint Croix نے میگزین انسائیکلو پیڈیا، سال پنجم ص433 میں درج کیا ہے، موسیولا نگل (M. Langles) اور وایٹ (Whtie) عام خیال کی حمایت کرتے ہیں، لیکن ابو الفرج کے مبالغہ آمیز بیان کو قبول نہیں کرتے۔ ابو الفرج کے بیان پر جو اعتراضات کئے گئے ہیں، ان میں یہ اعتراض قوی خیال کیا گیا ہے کہ عرب مورخ ایک ایسے عظیم واقعہ کے متعلق خاموش ہیں، لیکن اس اعتراض کا زور یقینا عبداللطیف اور مقر یزی کی شہادت کے بعد گھٹ جاتا ہے، اگرچہ لوگ یہ کہہ سکتے ہیں کہ ظاہراً مقریزی کا وہ فقرہ جیسا کہ موسیولانگل نے نشان دیا ہے، صرف عبداللطیف کے فقرہ کی نقل ہے۔ میں نہیں چاہتا کہ ان ریمارکوں سے جن کو کہ میں بیان کروں گا، ایک ایسے عالم مصنف (موسیولانگل مراد ہے) کے ساتھ میدان مبارزت میں آؤں، جس کی میں تہ دل سے نہایت عزت اور محبت رکھتا ہوں، لیکن میں نے چند اور نئی سندیں پیدا کی ہیں، او رمیں یقین کرتا ہوں کہ یہ واقعہ جس طرح کہ ابو الفرج نے بیان کیا ہے گو اس میں ایسی تفصیلیں ہیں جو نکتہ چینی کی برداشت نہیں کر سکتیں۔ تاہم یہ سچ ہے کہ وہ ایک تاریخی سچائی پر مبنی ہے، اور یہ کہ عربوں نے جب یہ شہر فتح کر لیا تھا، تو عمرو بن العاصؓ نے حضرت عمرؓ کے فرمان کے مطابق یہ حکم دیا تھا کہ ایک مجموعہ جس میں بہت سی کتابیں تھیں، اور جو اسکندریہ میں تھا، آگ پر رکھ دیا جائے۔ اس کے بعد پروفیسر ڈساسی نے حاجی خلیفہ اور مقدمہ ابن خلدون کی عبارت نقل کی ہے اور اس سے کتب خانہ اسکندریہ کے واقعہ پر استدلال کیا ہے۔ پروفیسر ڈساسی نے جو نئی خاص سندیں پید اکیں، ان کے دیکھنے کا ہم کو نہایت شوق تھا، مگر افسوس کہ وہ کچھ نہ نکلیں۔ پروفیسر موصوف نے پیرس کے اتنے بڑے عظیم الشان کتب خانہ کو چھان کر صرف دو سندیں مہیا کیں۔ ایک تو وہی حاجی خلیفہ کی عبارت جس کو ہم اوپر نقل کر چکے ہیں، دوسری مقدمہ ابن خلدون کا ایک فقرہ جس میں ایک موقع پر ضمناً اور اجمالاً ایران کے کتب خانہ کا ذکر آ گیا ہے یہ بھی عجیب منطق ہے کہ اسکندریہ کے کتب خانہ کے جلائے جانے کا دعویٰ کیا جائے، اور دلیل میں ایران کا نام لیا جائے اگرچہ ابن خلدون کا یہ قول بالکل غلط اور تمام صحیح اور مستند تاریخوں کے خلاف ہے، لیکن ہم اس مقام پر اس سے بحث نہیں کرتے کیونکہ ہمار امضمون اسکندریہ کے کتب خانہ پر ہے، نہ ایران پر۔ شاید یہ کہا جائے کہ پروفیسر ڈساسی نے ابن خلدون کے قول کو تائیدی شہادت میں پیش کیا ہے لیکن اس سے یہ مقصد بھی حاصل نہیں ہوتا، کیونکہ اس سے آگے کوئی نتیجہ نکلتا ہے، تو یہ نکلتا ہے کہ اسکندریہ کا واقعہ بالکل بے اصل ہے، ورنہ جس طرح ایران کا واقعہ ابن خلدون نے بیان کیا تھا، کوئی نہ کوئی عربی مورخ اسکندریہ کے واقعہ کا بھی اسی حیثیت سے ذکر کرتا، حالانکہ عربی کی سینکڑوں ہزاروں تاریخوں میں سے ایک میں بھی اس کا پتہ نہیں چلتا۔ عبداللطیف و مقریزی کی اصل عبارت جو ہم نے نقل کی وہ تو کسی طرح شہادت میں پیش نہیں کی جا سکتی لطف یہ ہے کہ خود ابو الفرج جو اس بحث میں ہمارا مدعا علیہ ہے اس نے بھی اس واقعہ کو ا حیثیت سے نہیں لکھا، جس سے ثابت ہو کہ وہ یقینا اس کو تسلیم کرتا تھا، اور صحیح سمجھتا تھا۔ ابو الفرج کی اصلی تاریخ جو سریانی زبان میں ہے اور جس میں فتح اسکندریہ کا حال تفصیلاً مذکور ہے، اس میں اس واقعہ کا ذکر تک نہیں البتہ اس تاریخ کا خلاصہ جو عربی زبان میں ہے اس میں یہ واقعہ جیسا کہ ہم اوپر نقل کر آئے مذکور ہے لیکن اس خلاصہ کی نسبت کافی اطمینان نہیں ہے کہ جو بیانات اس میں اصل سریانی تاریخ پر اضافہ کئے گئے ہیں، وہ در حقیقت ابو الفرج ہی کے ہیں، یا کسی اور نے الحاق کر دیا ہے۔ مسٹر کریل جرمن اس خلاصہ کی نسبت لکھتے ہیں کہ اس میں بہت سی ایسی چیزیں ہیں جو اصل سریانی میں نہیں، اور یہ امر کہ آیا یہ مقامات زمانہ ما بعد کے الحاق ہیں یا خود ابو الفرج نے ان کو بڑھایا ہے، بخوبی معلوم نہیں ہوتا، کیونکہ اس خلاصہ کے کل نسخے ناکامل ہیں، یہ واقعہ کتب خانہ اسکندریہ کے جلائے جانے کا جو عربی میں موجود ہے اصل سریانی میں نہیں پایا جاتا۔ اس عبارت کے الحاقی ہونے کا گمان اس سے زیادہ قوی ہو جاتا ہے کہ اس عربی خلاصہ کو پروفیسر پوکاک نے اپنے اہتمام و تصحیح سے چھپوایا ہے اور ان کو مسلمانوں کے خلاف واقعات گڑھ لینے میں نہایت کمال حاصل تھا۔ یہ تمام بحث تو اس لحاظ سے تھی کہ عبداللطیف و حاجی خلیفہ نے اس واقعہ کے متعلق کوئی شہادت دی بھی ہے، یا نہیں، لیکن بطریق تنزل اگر ہم یہ مان بھی لیں کہ در حقیقت ان مصنفوں نے اس کو صحیح تسلیم کیا ہے، تو دوسری بحث یہ پیدا ہوتی ہے کہ اس امر کے متعلق ان مصنفوں کی شہادت قابل اعتبار ہے یا نہیں عبداللطیف بغدادی 557 ھ میں پیدا ہوا، اور حاجی خلیفہ کو تو دو سو برس سے زیادہ نہیں گذرے۔ کون شخص کہہ سکتا ہے کہ ایک ایسے واقعہ کے متعلق جو پہلی صدی ہجری کے شروع میں واقع ہوا ہو، وہ شہادت معتبر ہو سکتی ہے جس کو ان لوگوں نے بیان کیا ہو، جو اصل واقعہ کے پانچ سو برس کے بعد پیدا ہوئے اور جس کی ان لوگوں نے نہ کوئی سند بیان کی ہو، نہ کوئی حوالہ دیا ہو۔ ہم کو ان مصنفوں کی نسبت یہ بھی دیکھنا ہے کہ فن تاریخ میں ان کو کیا رتبہ حاصل ہے کیوں کہ یورپین مورخوں نے اس موقع پر بھی تدلیس سے کام لیا ہے۔ وہ بڑے بڑے شاندار لفظوں میں حاجی خلیفہ اور عبداللطیف کی تعریف کرتے ہیں، اور لکھتے ہیں کہ ان کی عظمت و شان کے لحاظ سے ان کا قول ضرور تسلیم کے قابل ہے یورپین مصنفوں کے اس فریب کی پردہ داری کے لیے صرف ایک مختصر سا سوال کافی ہے ہم بھی تسلیم کرتے ہیں کہ عبداللطیف اور حاجی خلیفہ بڑے پایہ کے مصنف ہیں، مگر سوال یہ ہے کہ کس فن میں؟ عبداللطیف بے شبہہ بہت بڑا طبیب تھا طب میں اس کی متعدد تصنیفات موجود ہیں، ابن ابی اصیعبہ نے طبقات الاطباء میں اس کا مفصل تذکرہ لکھا ہے، جس سے اس کی طبی معلومات اور عظمت و شان کا اندازہ معلوم ہو سکتا ہے، لیکن کیا اوس کو کسی نے مورخ کہا ہے؟ کیا اس نے اپنی لائف میں کہیں فن تاریخ کا تذکرہ کیا ہے؟ اگر یہ نہیں ہے تو تاریخی واقعات میں اس کی عظمت و شان کس کام آئے گی؟ فارابی، بو علی سینا کے حوالہ سے اگر کوئی تاریخی واقعہ لکھا جائے، تو کس حد تک اعتبار کے قابل ہو گا؟ حاجی خلیفہ نے بے شبہہ کشف الظنون نہایت مفید لکھی ہے، لیکن وہ کوئی تاریخ کی کتاب نہیں ہے، بلکہ اسلامی تصنیفات کی فہرست ہے، اس کے سوا حاجی خلیفہ کا کوئی کارنامہ ہم کو معلوم نہیں تاریخ میں نہ اس کی کوئی کتاب ہے، نہ کسی نے اس کو مورخوں میں شمار کیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے مخالفوں کے لیے یہ نہایت شرم کی جگہ ہے کہہ ان کو ایک ایسے عظیم الشان واقعہ کے لیے جو نجیال ان کے چھ مہینے تک قائم رہا، اسلام کی سینکڑوں ہزاروں تصنیفات میں سے کہیں کوئی سہارا ہاتھ نہ آئے اور بمجبوری ان کو ایک طبیب اور فہرست نگار کے سایہ میں پناہ لینی پڑے۔ یہاں تک ہم نے جو بحث کی، وہ اس حیثیت سے تھی کہ ہم نے مخالفین کو مدعی قرار دیا تھا کیونکہ اصول مناظرہ کی رو سے در حقیقت وہی مدعی ہیں، لیکن اس سے بڑھ کر ہم خود مدعی بنتے ہیں، اور دعویٰ کرتے ہیں کہ حضرت عمرؓ کے حکم سے یہ کتب خانہ برباد نہیں ہوا، اور نہ کبھی مسلمانوں نے اوس کو برباد کیا۔ لیکن پہلے یہ سمجھ لینا چاہیے کہ جو دعویٰ نفی کی صورت میں کیا جاتا ہے، اس کے لیے روایۃً و درایۃً استدلال کا کیا طریقہ ہے، مثلاً اگر یہ دعویٰ کیا جائے کہ فلاں واقعہ عہد میں نہیں ہوا، اس کی دلیل روایت کے لحاظ سے صرف یہ ہو گی، کہ اس عہد کے متعلق علم و واقفیت کے جس قدر ذریعے ہیں، ان سے اس واقعہ کا کہیں پتہ نہیں چلتا، اور درایت کے لحاظ سے یہ کہ تمام قرائن اور شہادتیں اس واقعہ کے ثبوت کے خلاف ہیں ان ہی وجوہ استدلال کے لحاظ سے ہم دعویٰ کرتے ہیں کہ کتب خانہ اسکندریہ مسلمانوں کے ہاتھ سے ہر گز برباد نہیں ہوا۔ اسلام میں تصنیف و تالیف کی ابتداء 140ھ سے ہوئی اور اسی زمانہ میں تاریخ کی سب سے پہلی کتاب محمد بن اسحق نے لکھی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات میں ہے اس کے بعد اور مصنفین نے عام تاریخیں لکھیں، جن میں خلفائے راشدین کی فتوحات و واقعات تفصیل سے مذکور ہیں۔ اس دور کی تصنیفات میں آج جو موجود ہیں یا جن کا نام و نشان معلوم ہے یہ ہیں: فتوح البلدان بلا ذری، بلا ذری خلیفہ متوکل باللہ کے عہد میں تھا، اس تاریخ میں اس نے تمام واقعات سند متصل کے ساتھ بیان کئے ہیں۔ تاریخ یعقوبی یعنی تاریخ احمد ابن ابی یعقوب بن جعفر بن وہب بن واضح کاتب العباسی یہ مصنف نہایت قدیم مصنف ہے، اور مامون الرشید کے درباریوں کا ہمعصر ہے اس نے یہ تاریخ 259 ھ تک لکھی ہے اور غالباً اسی سنہ میں وہ موجود تھا، یہ کتاب دو جلدوں میں ہے، اور 1883 میں بمقام لیڈن چھاپی گئی۔ تاریخ ابو حنیفہ دنیوری لیڈن میں چھاپی گئی۔ تاریخ کبیر ابو جعفر جریر طبری، یہ تاریخ اگرچہ مذکورہ بالا تاریخوں سے کسی قدر زمانہ ما بعد کی ہے، کیونکہ اس کے مصنف نے 310ھ مطابق922ء میں وفات پائی، لیکن اس نے تمام واقعات سند متصل کے ساتھ لکھے ہیں اور ہر روایت میں تمام زاویوں کے نام بیان کر دئیے ہیں یہ کتاب تمام ان روایتوں کا مخزن ہے، جو تاریخ اسلام کے متعلق آج موجود ہیں، یاکبھی موجود تھیں اور اس لحاظ سے یہ کہنا صحیح ہے کہ تین سو صدیوں کے متعلق جو معتدبہ واقعہ اس کتاب میں نہیں ہے وہ داخل تاریخ نہیں یہ ایک نہایت ضخیم کتاب ہے، ار اس کی 12جلدیں ہالینڈ میں چھپ چکی ہیں، اور متعدد جلدیں اور باقی ہیں۔ اب لاثبر وابن خلدون جن کی تاریخیں نہایت معتبر خیال کی جاتی ہیں، وہ تاریخ طبریٰ ہی کا خلاصہ ہیں، اور خود ان مورخوں نے اس کا اعتراف کیا ہے۔ ان تاریخوں کے سوا تاریخ اسلام کے متعلق اور بھی بہت سی کتابیں لکھی گئیں، لیکن قدیم واقعات کی نسبت ان سب کا ماخذ یہی چند کتابیں ہیں، جن کا ذکر اوپر ہو چکا، اور یہ صریح طور پر خود ان کتابوں کے دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے۔ ان کتابوں کے سوا مصر و اسکندریہ کے خاص حالات میں بہت سی کتبایں لکھی گئیں ان میں سے جس قدر ہم دریافت کر سکے یہ ہیں: خطط مصر لابی عمر الکندی المتوفی 246ھ، کشف المماک لابن شہاین 385ھ، تاریخ مصر الرحمن لعبد الرحمن الصوفی المتوفی 347ھ، تاریخ مصر لمحمد بن برکات الخوی المتوفی 560ھ تعاظ المتامل الی 730ھ، تاریخ مصر محمد بن عبداللہ المتوفی 460ھ، تاریخ مصر للقفطی المتوفی 646ھ، تاریخ مصر لقطب الدین اکلبی المتوفی 735ھ، تاریخ مصر لیحی الحلبی المتوفی 640ھ، الانتقار لابن و قماق المتوفی 809ھ، عقود الجواہر، نزہۃ الناظرین، الدرۃ المضیۃ، اشرف الطرف، نزہۃ، تفریج، الکریۃ، فرائد السلوک، بدائع الظہور، تحفۃ الکرام بہ اخبار الاحرام، اعلام یمن ولی مصر فی الاسلام، تاریخ مصر لا ابراہیم بن وصیف، جواہر الجور، مختار للقضائی، النقط المعجم، الروضہ البیتہ، المواعظ والاعتبار للمقریزی، جواہر الالفاظ، اتعاذ الخنفا، نجوم الزاہرۃ، تاریخ مصر لا بن عبدالحکم اگرچہ یہ تمام کتابیں آج نہیں ملتیں لیکن زمانہ ما بعد کی متعدد تصنیفات ایسی موجود ہیں جن میں تمام قدیم کتابوں کی روائتیں جمع کر دی گئی ہیں، مثلاً حسن المحاضرۃ سبوطی جس کے دیباچہ میں خود سیوطی نے لکھا ہے کہ میں نے اٹھائیس تاریخیں دیکھیں، اور ان سے یہ کتاب تیار کی سب سے مفصل اور بسیط مواعظ والا اعتبار بذکر الخطط والآثار ہے، جو مقریزی کی تصنیف ہے، اور جس میں مصر و اسکندریہ کے متعلق ایک ایک جزئی واقعہ کا استقصاء کیا گیا ہے۔ یہ تمام معتبر کتابیں جن کا ذکر اوپر ہوا، اور جن کے سوا اس زمانہ کے حالات دریافت کرنے کا کوئی ذریعہ نہیں ہے، ان میں سے کسی کتاب میں واقعہ مبحوت فیہ کا مطلق پتہ نہیں چلتا۔ ان کتابوں میں اور خصوصاً طبریٰ و فتوح البلدان بلا ذری، وحسن المحاضرہ و خطط والآثار للمقریزی میں اسکندریہ کی فتح کے نہایت تفصیلی حالات مذکور ہیں، لیکن کتب خانہ کا ذکر تک نہیں۔ یہ کتابیں تو وہ ہیں جن میں اس واقعہ کو (اگر وہ واقع ہوتا) مستقل طور پر مذکور ہونا چاہئے تھا، لیکن جن تصنیفات میں ضمنی اور اتفاقی طور پر اس کا تذکرہ آ سکتا تھا، ان میں بھی واقعہ مفروضہ کا کہیں پتہ نہیں چلتا، مثلاً حکماء اور طبیبوں کے حالات میں جو کتابیں لکھی گئی ہیں اور جن میں یحییٰ نجوی کے تذکرہ میں گڑھا، اور یوں بیان کیا کہ یحییٰ نے عمرو بن العاصؓ سے کتب خانہ کے لئے درخواست کی تھی جس کے جواب میں عمروؓ نے حضرت عمرؓ کے حکم سے کتب خانہ کے جلا دینے کا حکم دیا یحییٰ طبیب اور فلاسفر تھا اور عربی زبان میں اس کی تمام کتابیں ترجمہ کی گئیں، اس لئے عربی تاریخیں جو حکماء اور اطباء کے حالات میں ہیں، ان میں یحییٰ کا مفصل تذکرہ کیا گیا ہے۔ ابن ابی صیعبہ نے طبقات الاطباء اور ابن الندیم نے کتاب الفہرست میں یحییٰ کے تمام حالات و واقعات اور اس کی تصنیفات کے نام لکھے ہیں، اور یہ بھی لکھا ہے کہ وہ عمرو بن العاصؓ کے پاس حاضر ہوا، اور عمروؓ نے اس کی بہت کچھ عزت کی، ابن الندیم کے خاص الفاظ یہ ہیں: ولما فتحت مصر علی یدی عمرو ابن العاص دخل الیہ واکرمہ لہ موضعاً یعنی جب مصرو عمر بن العاصؓ کے ہاتھ سے فتح ہوا تو یحییٰ بن عمرو کی خدمت میں حاضر ہوا، عمرو نے اس کی عزت و تکریم کی، ان تمام تصریحات کے ساتھ کتب خانہ کا کہیں ذکر نہیں جس سے علانیہ اس واقعہ کا بالکل ہے اصل ہونا پایا جاتا ہے۔ ان تصنیفات کے علاوہ اور قسم کی تصنیفات مثلاً جغرافیوں، سفر ناموں، بیوگرفیوں میں اس واقعہ کا ذکر ضمناً آ سکتا تھا لیکن ان کتابوں میں اس کا نام و نشان تک نہیں، سچ یہ ہے کہ اگر یہ دعویٰ کیا جائے، تو بالکل سچ ہے کہ عبداللطیف کی عبارت کے سوا جس کی حقیقت ہم اوپر بیان کر چکے ہیں، کل اسلام کا لٹریچر اس واقعہ کے ذکر سے خالی ہے، اس سے زیادہ اس واقعہ کے بے اصل ہونے کی کیا دلیل ہو گی؟ اس سے بڑھ کر یہ کہ خود عیسائی قدیم تاریخوں میں اس کا پتہ نہیں۔ یورٹیکس المتوفی 940ء جو دسویں صدی عیسوی میں اسکندریہ کا بطریق تھا، اس نے اسکندریہ کی فتح کا حال تفصیل سے لکھا ہے، اسی طرح الکین جو واقعہ مفروضہ کے تین سو برس بعد تھا، یعنی ابو الفرج سے دو سو برس پہلے اس نے تاریخ مصر خود مصرین رہ کر لکھی، اور اسکندریہ کی فتح کے حالات نہایت تفصیل سے لکھے لیکن ان دونوں کتابوں میں واقعہ مفروضہ کے متعلق ایک حرف بھی مذکور نہیں، یہ دونوں مصنف متعصب عیسائی تھے، جن کی نسبت مسلمانوں کے ساتھ کسی قسم کی بیجا طرف داری کا گمان نہیں ہو سکتا، اس کے ساتھ محقق اور علم دوست تھے، اور ان کی نگاہ میں اتنے بڑے علمی سرمایہ کا ضائع ہونا کوئی معمولی بات نہیں ہو سکتی تھی مصر کے قیام اور ذاتی شوق کی وجہ سے مصر کے حالات کے متعلق ان کے وسائل معلومات نہایت وسیع تھے، ان باتوں کے ساتھ ان دونوں مورخوں کا واقعہ مبحوث کے متعلق ایک حرف نہ لکھنا، صریح اس بات کی دلیل ہے کہ اس کی کچھ اصل نہیں چنانچہ انصاف پسند یورپین مصنفوں، مثلاً گبن، کریل نے اس واقعہ کے بے اصل ہونے کے لیے عموماً اس سے استدلال کیا ہے۔ اس واقعہ کے بے اصل ہونے کی ایک نہایت قوی دلیل یہ ہے کہ جس کتب خانہ کا جلایا جانا بیان کیا جاتا ہے، وہ اسلام کے دور سے پہلے ہی برباد ہو چکا تھا۔ اس کی حقیقت یہ ہے کہ یہ کتب خانہ شاہان مصر نے جو بت پرست اور بہت سے خداؤں کے ماننے والے تھے، قائم کیا تھا۔ جب مصر میں عیسائیت کا دورہ ہوا، تو عیسائی بادشاہوں نے تعصب مذہبی کی وجہ سے ان کتابوں کی بربادی شروع کی، اور ان کے پاس ارادہ کو پادریوں نے اور بھی اشتعال دیا۔ چنانچہ یورپ کے بڑے بڑے نامور مصنفوں اور مورخوں کو تسلیم کرنا پڑا، کہ یہ کتب خانہ اسلام سے پہلے برباد ہو چکا تھا۔ موسیورینان جو فرانس کا ایک مشہور عالم ہے، اس نے ایک دفعہ یونیورسٹی میں اس عنوان پر لیکچر دیا تھا ’’ اسلام اور علم‘‘ یہ لیکچر ایک رسالہ کی صورت میں بمقام پیرس 1883 ء میں چھپا ہے، اگرچہ یہ لیکچر مسلمانوں کے بر خلاف نہایت تعصب آمیز تھا یعنی اس میں نہایت شد و مد سے یہ ثابت کیا تھا کہ اسلام اور علم کبھی جمع نہیں ہو سکتے تاہم اس متعصب شخص نے کتب خانہ اسکندریہ کے متعلق یہ الفاظ کہے۔ ’’ اگرچہ یہ بار بار کہا گیا ہے کہ عمرو نے کتب خانہ اسکندریہ کو برباد کرا دیا، لیکن یہ صحیح نہیں، کتب خانہ مذکور اس زمانہ سے پہلے ہی برباد ہو چکا تھا۔‘‘ اس شاہی کتب خانہ کی تفصیلی کیفیت مسٹر کریل نے اپنے مضمون میں لکھی ہے، اور اس کے عہد بعہد کی بربادی کا ذکر نہایت تفصیل سے کیا ہے۔ لیکن چونکہ مسٹر کریل کا مضمون ہمارے رسالہ کے اخیر میں بطور ضمیمہ شامل ہے، اس لیے ہم اس کو یہاں نقل نہیں کرتے۔ اس کتب خانہ کا برباد ہونا ایسا یقینی امر ہے جس سے وہ یورپین مورخین بھی انکار نہیں کر سکے جو اس واقعہ کے اثبات کے در پے ہیں۔ مسٹر ڈریپر اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ جولیس سیزر نے نصف سے زیادہ کتابیں جلا دی تھیں اور اسکندریہ کے بطریقوں نے نہ صرف قریباً کل باقی کتابوں کے منتشر ہونے کی اجازت دی، بلکہ اپنی نگرانی میں ان کو منتشر کرا دیا اور دسیس صاف بیان کرتا ہے کہ ’’ بیس سال بعد اس وقعہ کے تہیو فلس نے شہنشاہ تہیو ڈوسس سے تحریری اجازت کتب خانہ مذکور کی بربادی کی حاصل کی تھی، میں نے اس کی الماریاں اور خانے خالی دیکھے۔‘‘ چونکہ اس کتب خانہ کی بربادی یقینی امر تھا، اس لئے مخالفوں نے ایک اور فریب سے کام لیا، یعنی یہ دعویٰ کیا کہ عمروؓ نے جو کتب خانہ تباہ کیا، وہ شاہی کتب خانہ نہ تھا، بلکہ سراپیم کا کتب خانہ تھا۔ چنانچہ اسپیکٹیٹر کے مضمون نگار نے ابو الفرج کی حمایت میں سراپیم ہی کے کتب خانہ کا حوالہ دیا ہے، لیکن یہ توجیہ القول بما لا یرضیٰ بہ قائلہ ہے، کیونکہ ابو الفرج نے اپنی تاریخ میں جہاں یہ لکھا ہے کہ یحییٰ نحوی نے عمرو بن العاصؓ سے کتابوں کے لیے درخواست کی، وہاں صاف یہ الفاظ لکھے ہیں کتب الحکمۃ اللتی فی خزائن الملوکیۃ یعنی فلسفہ کی یہ کتابیں جو شاہی خزانوں (کتب خانوں) میں ہیں، لیکن اگر یہ تسلیم بھی کر لیں کہ یہ حکایت سراپیم کے کتب خانہ کی نسبت ہے، تاہم ہمارے مخالفوں کو یہ ثابت کرنا مشکل ہو گا کہ سراپیم کا کتب خانہ فتح اسکندریہ کے وقت موجود تھا، بلکہ بر خلاف اس کے یہ ثابت ہو گا کہ کتب خانہ مذکور کل یا کل کے قریب پہلے ہی برباد ہو چکا تھا۔ مسٹر کریل لکھتے ہیں کہ سراپیم اور اس کتب خانہ کا حال اس وقت تک تاریکی میں پڑا ہوا ہے۔ یہ تو معلوم ہے کہ سراپیم کا معبد جس سے یہ کتب خانہ متعلق تھا، تہوڈوسیس کے عہد میں389ء میں گرجا بنا دیا گیا تھا، لیکن یہ امر کہ آیا اس تبدیلی کے وقت وہ کتب خانہ وہاں موجود تھا، یا ضائع ہو گیا تھا، یا کتابیں قسطنطنیہ کو منتقل ہو گئی تھیں، مطلق ثابت نہیں ہوتا یہ اخیر خیال یعنی کتابوں کا قسطنطنیہ کو جانا زیادہ قرین قیاس ہے کیونکہ تہیوڈوسیس ثانی نے جو کتب خانہ پانچویں صدی میں بمقام قسطنطنیہ قائم کیا، وہ زیادہ تر مصر و ایشیائے کوچک کی کتابوں سے تیار ہوا تھا۔ موسیو سد ہیو فرانسیسی نے یہ تسلیم کر کے کہ کتب خانہ مبحوث فیہ سراپیم میں تھا، لکھا ہے کہ کسی ہمعصر مورخ نے اس واقعہ (یعنی عمرو بن العاصؓ کا کتب خانہ کو برباد کرنا ) کو بیان نہیں کیا لیکن اگر وہ صحیح بھی ہو۔ وہ صرف معدودے چند کتابوں سے متعلق ہو گا، کیونکہ اس کتب خانہ کے حصے 390 ء میں سیزر کے عہد اور تہیوڈو سیس کے عہد میں برباد ہو چکے تھے۔ اب ہم اصول درایت کے معیار سے اس واقعہ کی صحت و عدم صحت کا اندازہ کرنا چاہتے ہیں واقعہ مذکورہ کو ابو الفرج (جو اس فرضی قصہ کا موجد اول ہے) نے جن خصوصیتوں کے ساتھ بیان کیا ہے وہ تو اس قدر لغو ہیں کہ عموماً تمام یورپین مورخین موافق ہوں یا مخالف اس کو افسانہ باطل سمجھتے ہیں۔ پروفیسر ڈسیاسی جنہوں نے بڑے زور شور سے اس واقعہ کو ثابت کرنا چاہا ہے، تسلیم کیا ہے کہ ابو الفرج کے بیان میں جو تفصیلیں ہیں، صحیح نہیں، برٹش انسائیکلو پیڈیا کے لکھنے والوں نے بھی اس کی ہنسی اڑائی ہے اور در حقیقت ایک کتب خانہ کا حمامون میں (جن کی تعداد چار ہزار تھی) تقسیم کیا جانا اور چھ مہینے تک کتابوں کا جلتے رہنا، اور ایندھن کے کام آنا، افسانہ کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے؟ ابو الفرج نے اگرچہ مصر کے تمام حاموں کی تعداد نہیں بتائی لیکن یہ صحیح طور پر یہ معلوم ہے کہ وہ چار ہزار تھے۔ اس لئے حمامہائے مصر اور چار ہزار کی تعداد کو لازم و ملزوم سمجھنا چاہیے۔ جیسا کہ اکثر یورپین مورخوں نے سمجھا ہے، اب اگر دیکھا جائے کہ اربعہ متناسبہ کی رو سے فی حمام ہر روز کیا تعداد پڑتی ہے، تو معلوم ہوتا ہے کہ ہر روز فی حمام ایک کتاب کا بھی پرتا نہیں پڑتا، بلکہ نصف کتاب سے متجازو نہیں ہوتا، یا تو حمام ایسے مختصر تھے کہ ایک دن کے لیے ایک کتاب بلکہ نصف کتاب کافی ہوتی تھی، یا کتابیں اس قدر ضخیم تھیں کہ ایک کتاب کا آدھا حصہ حمام کے لیے سارے دن ایندھن کا کام دے سکتا تھا۔ یہ بھی مسلم ہے کہ اس زمانہ میں کتابیں چمڑے کے کاغذ پر لکھی جاتی تھیں، جو ایندھن کا کام نہیں دے سکتا تھا، اس لیے کتابوں کا اس کام کے لیے استعمال کرنا اور بھی بے ہودہ معلوم ہوتا ہے۔ ڈرپیر صاحب لکھتے ہیں کہ ہم کو یقین ہے کہ اسکندریہ کے حمام والے جب تک کوئی اور شے جلائے جانے کے لیے پا سکتے تھے، انہوں نے چمڑے کا کاغذ (جس پر کتابیں لکھی تھیں) نہیں جلایا ہو گا، اور ان کتابوں کا بہت بڑا حصہ چمڑے ہی کے کاغذ کا بنا ہوا تھا۔ اس قصے کے گڑھنے والوں نے یہ قصہ مسلمانوں کے بدنام کرنے کے لیے گڑھا، لیکن ان کو یہ خیال نہ آیا کہ اس کی وجہ سے مسلمانوں سے زیادہ عیسائی موجب الزام ٹھہرتے ہیں۔عمرو بن العاصؓ نے بفرض محال اس قدر کیا کہ کتابیں حماموں میں بھجوا دیں، لیکن حمام والے جس قدر تھے عیسائی تھے، وہ کتابوں کو بچا سکتے تھے، اور بجائے اس کے ایندھن سے کام لے سکتے تھے۔ عمرو بن العاصؓ نے اس کے بعد اسکندریہ میں چھ مہینے تک قیام بھی نہیں کیا تھا کہ ان کی باز پرس کا ڈر ہوتا۔ اگرچہ یہ سرسری اور عام فہم قیاسات واقعہ مفروضہ کے ابطال کے لیے کافی ہیں، لیکن زیادہ تدفیقات سے اور بھی اس کی رہی سہی قلعی کھل جاتی ہے۔ اس واقعہ کو اگر ہم درایت کی نگاہ سے دیکھنا چاہیں، تو ہم کو ان امور پر لحاظ کرنا ہو گا، اسکندریہ پر کس طرح اور کن شرائط کے ساتھ قبضہ کیا گیا؟ اس حیثیت سے اور ممالک جو فتح ہوئے وہاں کیا برتاؤ ہوا؟ اس قسم کے موقعوں میں حضرت عمرؓ کا عموماً طرز عمل کیا تھا؟ عمرو بن العاصؓ کا ذاتی میلان اور مذاق طبیعت کیا تھا؟ اسکندریہ کے علمی خزانے کے آثار اسلام میں ملتے ہیں یا نہیں؟ ان میں سے ہر سوال کا جواب اس بحث کا کم و بیش فیصلہ کر سکتا ہے۔ یہ امر تمام صحیح تاریخوں سے ثابت ہے کہ اسکندریہ فتح ہونے کے بعد ذنیانہ عہد میں داخل ہو گیا، یعنی وہاں کی تمام رعایا ذمی قرار دی گئی، فتوح البلدان بلا ذری میں جو نہایت قدیم تصنیف ہے، اور جس کا مصنف تمام واقعات اپنی سند و روایت سے بیان کرتا ہے لکھتا ہے: ثم ان عمرو افتخنہا بالسیف و غنم ما فیہا والقبی اہلہا ولم تقتل ولم یسب وجعلہم زمۃ یعنی عمرو نے اسکندریہ کو تلوار سے فتح کیا اور غنیمت لوٹی اور وہاں کے لوگوں کو باقی رکھا اور قتل و قید نہیں کیا اور لولو نگو ذمی قرار دیا، یہی الفاظ ابن الاثیر و ابن خلدون وغیرہ میں بھی ہیں۔ زمیوں کے جو حقوق قرار دئیے گئے تھے، ان میں سب سے مقدم یہ تھا کہ ان کی جان، مال، نقد، اسباب، مویشی، مکانات وغیرہ سے کسی قسم کا تعرض نہیں کیا جائے گا، فارس و شام کی فتوحات میں جو تحریری معاہدے ذمیوں سے ہوئے۔ وہ تمام تاریخوں میں منقول ہیں، اور سب میں اس حق کا خاص لحاظ رکھا گیا ہے، خود مصر کے معاہدے کے یہ الفاظ ہیں۔ ہذا ما اعطی عمرو بن العاص اہل مصر من الامان علی انفسہم ومہم وامرا لھو وصاعہم و مدہم و عددہم یعنی عمرو بن العاصؓ نے اہل مصر کو ان کی جان، خون، مال،صاع، کو امان عطا کی۔ معجم البلدان میں ایک اور صحیح روایت سے نقل کیا ہے کہ معاہدے میں یہ الفاظ یا مضمون داخل تھا۔ وان الہم ارضہم وامولہم لا یتعرضون فی شئی منہا یعنی ان کی زمین اور مال انہی کا رہے گا اور ان میں سے کسی چیز میں تعرض نہ کیا جائے گا۔ اہل ذمہ کے ساتھ حضرت عمرؓ کا جو طرز عمل تھا، اس کی پوری تفصیل کا تو یہ موقع نہیں ہے لیکن اجمالاً اس قدر کہنا ضروری ہے کہ انہوں نے ذمیوں کی جان و مال کو ہمیشہ مسلمانوں کی جان و مال کے برابر سمجھا، شہر حیرۃ میں ایک مسلمان نے ذمی کو قتل کر ڈالا تھا، اس کے بدلے مسلمان کے قتل کا حکم دیا، اور اس حکم کی اعلانیہ تعمیل کرائی، مفلس ذمیوں کے لیے بیت المال سے روزینے مقرر کئے، فارس و شام کی تمام فتوحات میں گرجے اور معبد محفوظ رکھے۔ اس سے زیادہ کیا ہو گا کہ مرنے کے وقت جو تین وصیتیںکیں ان میں ایک یہ تھی: اوصی الخلیفۃ من بعدی بذمۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان یوفی لہم بعہدہم وان یقاتل من ورالھم ولا یکلفوا فوق طاقتہم میرے بعد جو خلیفہ مقرر ہو گا اس کے لیے میں رسول ؐ اللہ کے ذمہ وصیت کرتا ہوں، کہ ذمیوں کے معاہدوں کو بجا لائے اور ان کی حفاظت کے لیے ان کے دشمنوں سے لڑے، اور ان کو طاقت سے زیادہ تکلیف نہ دی جائے۔ یورپ کے متعصب مصنفین اگرچہ حضرت عمرؓ کی شدت اور جبروت کے شاکی ہیں، لیکن اس سے انکار نہیں کر سکتے کہ جس وقت جو کچھ ان کی زبان و قلم سے نکلا، وہ اسی طرح برتا گیا۔ متعصب سے متعصب مورخین عیسائی ان کی تمام زندگی کا ایک واقعہ بھی نہ بتا سکے، جس میں ان کا عمل قول کے مخالف تھا۔ جب یہ مسلم ہے کہ اسکندریہ والے ذمی قرار دئیے گئے، اور ذمیوں کیساتھ جو کچھ حضرت عمرؓ کا طرز عمل تھا، وہ تفصیلاً معلوم ہے، تو کیونکر ممکن ہے کہ اسکندریہ والوں کی ایک بڑی یادگار (کتب خانہ) کو اس بے رحمی سے برباد کیا جاتا؟ کیا یہ کتب خانہ مسلمانوں کو گرجاؤں اور آتشکدوں سے زیادہ ناگوار ہو سکتا تھا؟ تمام ممالک مفتوحہ میں جب سینکڑوں ہزاروں گرجے اور آتشکدے قائم رکھے گئے، اور ان کی حفاظت کے لیے تمام فرامین میں یہ خاص الفاظ لکھے گئے۔ لایہدم لہم بیعۃ ولا کنسیۃ داخل المدینۃ، ولا خارجہا یعنی کوئی گرجا اور عبادت گاہ ڈھایانہ جائے گا نہ شہر کے اندر اور نہ باہر، تو کتب خانہ کی نسبت ایسا ظالمانہ برتاؤ کیونکر قیاس میں آ سکتا ہے۔ سچ یہ ہے کہ ابو الفرج کو (جو اس فرضی قصہ کا موجد ہے) جھوٹ بولنا بھی نہیں آتا تھا، وہ اگر اس واقعہ کو عین محاصرہ اور فتح کی حالت میں بیان کرتا، تو قیاس میں آ سکتا تھا کیونکہ حملہ اور مقابلہ کا جوش کسی چیز کی پروا نہیں کرتا، لیکن یہ تسلیم کر کے کہ شہر کو امن دیدیا گیا، اہل شہر ذمی قرار دے دئیے گئے، حملہ آور معرکہ آرائی کا جوش تھم چکا تو اس وقت ایسا ظالمانہ عمل صرف ابو الفرج ہی کے قیاس میں جائز ہو سکتا ہے۔ پروفیسر سیدیو نے اسی بنا پر ابو الفرج کے بیان کو نا قابل اعتبار سمجھا ہے، وہ لکھتے ہیں کہ جب یہ تسلیم کیا جاتاہے کہ فتح کے پہلے دہلہ میں شہر غارت نہیں کیا گیا، تو یہ یقین کرنا مشکل ہے کہ ایسے وحشیانہ کام کا اس وقت حکم دیا گیا ہو جب کہ فاتحین کا خون سرد ہو چکا تھا، (حضرت) عمرو بن العاصؓ کی قابلیت اور مذاق کا خود ابو الفرج نے اعتراف کیا ہے، چنانچہ وہ یحییٰ نحوی کے تذکرہ میں لکھتا ہے۔ دخل علی عمرو و قد عرف موضعہ من العلوم ناکرمہ عمر و سمع من الفاظہ الفلسفیۃ التی لم تکن للعرب بہا اکسہ ماہالہ وکان عمرو عاقلا حسن الامتماع صحیح الفکر فلا ذمہ و کان لا یفارقہ یعنی وہ (یحییٰ نحوی) عمرو کے پاس حاضر ہوا عمرو نے اس کے علمی مرتبے سے واقف ہو کر اس کی عزت کی، عمرو نے اس کے وہ فلسفیانہ الفاظ سنے جس سے عرب کبھی مانوس نہ تھے، ا سلئے وہ اس پر مفتون ہو گیا اور عمرو عاقل، خوش فہم صحیح الفکر شخص تھا اس لئے اس نے یحییٰ نحوی کی صحبت کو لازم پکڑ لیا، اور اس کو کبھی جدا نہیں کرتا تھا۔ اب خیال کرو کہ ایسا قابل اور علم دوست شخص جس نے باوجود مذہبی جوش کے ایک عیسائی عالم کو اپنا رفیق و ہمدم بنا لیا ہو اس کے ساتھ اس کو علمی مباحث بلکہ فلسفہ کا چسکا پڑ چکا ہو، وہ اس بے رحمی سے مدت تک کتب خانہ کو برباد کراتا، جو ایک جاہل سے جاہل شخص بھی نہیں کر سکتا تھا۔ مانا کہ وہ خود مختار نہ تھے، لیکن حضرت عمرؓ کو جو خط لکھا تھا، اس میں کتب خانہ کے لیے سفارش تو کر سکتے تھے۔ عمروؓ نے بہت سے کاموں میں اکثر زور ڈال کر حضرت عمرؓ سے اجازت حاصل کی تھی، مصر و اسکندریہ پر لشکر کشی کے لیے حضرت عمرؓ کسی طرح راضی نہ ہوتے تھے، عمرو نے ان کو مجبور کیا، اور ذمہ داری لی کہ اس کا فتح کرنا کچھ مشکل نہیں، اس وقت حضرت عمرؓ نے اجازت دی، بلکہ علامہ بلا ذری (جو نہایت مشہور اور مستند مورخ ہے) کی روایت کے مطابق عمرو بن العاصؓ نے حضرت عمرؓ کی اجازت کا بھی انتظار نہ کیا، اور مصر کو روانہ ہو گئے، اور یہ تو عموماً مسلم ہے کہ مصر و اسکندریہ کی فتح جس شرط پر ہوئی اور معاہدہ میں جو شرطیں قلم بند ہوئیں، وہ بالکل عمروؓ نے اپنی رائے سے لکھیں، حضرت عمرؓ کو ان کی اطلاع البتہ دی، اور انہوں نے اس کو منظور کر لیا، کیا کتب خانہ کی نسبت عمرو بن العاصؓ ایسا نہیں کر سکتے تھے؟ اس سے زیادہ تعجب یہ ہے کہ عمرو بن العاصؓ نے اسکندریہ کی فتح کے بعد دربار خلافت میں جو خط بھیجا، اس میں ایک ایک چیز کی تفصیل کی ہے، چنانچہ فتح کے ذکر کے بعد لکھا ہے کہ اس شہر میں چار ہزار حمام، چار ہزار قصر، چالیس ہزار خراج گذار یہودی، چار سو شاہی سیرگاہیں بارہ ہزار باغ جن کی ترکاری بکتی ہے، موجود ہیں لیکن ان تفصیلوں میں ہم کو اپنے دوست ابو الفرج کے فرضی کتب خانہ کا کہیں پتہ نہیں چلتا۔ تمام واقعات تاریخی پر غور کرنے سے حقیقت واقعہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ اسکندریہ میں جس قدر قدیم کتب خانے تھے، اسلام کے زمانے سے پہلے ہی برباد ہو گئے تھے، جس کے اسباب و اتفاقات مورخوں نے بہ تفصیل لکھے ہیں، لیکن ان آفتوں پر بھی علمی آثار بالکل معدوم نہیں ہو گئے تے، اور ایک ایسے شہر میں جو سینکڑوں برس تک دار العلوم رہ چکا تھا، علمی یادگاروں کا یک لخت معدوم ہو جانا ممکن بھی نہ تھا۔ چنانچہ زمانہ اسلام سے کسی قدر پہلے اسکندریہ میں سات نہایت مشہور طبیب اور فلاسفر موجود تھے جن کے نام یہ ہیں1اسطفن، 2جاسیوس،3ثادودسیوس، 4 اکیلاؤس، 5 انفیلاؤس، 6 فلادیوس، 7 یحییٰ نحوی، ان سب میں یحییٰ نحوی نے زیادہ عمر پائی، اور عمرو بن العاصؓ کے زمانہ تک زندہ رہا اسکندریہ کے کتب خانے تو بہت پہلے برباد ہو چکے تھے، لیکن اخیر زمانہ میں جو علمی سرمایہ مہیا ہوا تھا، وہ اسلام کی فتح کے وقت موجود تھا، اور زمانہ ما بعد تک بھی باقی رہا۔ چنانچہ دولت عباسیہ کے زمانہ میں جب علمی یادگاروں کی تلاش ہوئی، تو اسکندریہ سے معتدبہ ذخیرہ ہاتھ آیا، ہارون رشید و مامون الرشید و متوکل باللہ کے عمال جو شام و فلسطین، ایشیائے کوچک، سائپرس میں فلسطینی اور طبی تصنیفات ڈھونڈتے پھرتے تھے۔ اسی غرض سے اسکندریہ بھی گئے تھے، اور بہت سی کتابیں حاصل کیں، حنین بن اسحاق نے لکھا ہے کہ ’’ جالینوس کی کتاب البرہان کی تلاش میں میں جزیرہ، شام، فلسطین، مصر کے تمام شہروں میں پھرا‘‘ یہاں تک کہ اسکندریہ پہنچا، لیکن کتاب مذکور کا کہیں پتہ نہ چلا، صرف دمشق میں اس کے چند حصے وہ بھی بے ترتیب ملے۔ حنین کو اگرچہ اس کتاب کے ملنے میں اس وجہ سے ناکامی ہوئی کہ قدیم کتب خانے اسلام سے پہلے ہی برباد ہو چکے تھے، لیکن زمانہ ما بعد کی تصنیفات جو شروع اسلام تک محفوظ تھیں، قریباً کل ہاتھ آئیں، جن سات حکیموں کا اوپر ذکر ہوا ان کی تمام تصنیفات محفوظ ملیں، اور عربی زبان میں ان کے ترجمے کئے گئے، یحییٰ نحوی کی کتابوں کے ساتھ زیادہ اعتنا کیا گیا۔ چنانچہ اس کی جس قدر کتابیں عربی زبان میں ترجمہ کی گئیں ان میں سے چند یہ ہیں: 1تفسیر کتاب فاطیغوریاس لارسطو، 2 تفسیر کتاب انا لوطیقاے الاولیٰ لارسطو، 3 تفسیر کتاب انا لوطیقاے الثانی لارسطو، 4 تفسیر کتاب طوبیقا لارسطو، 5 تفسیر کتاب السماع الطبیعی لارسطو، 6 تفسیر کتاب الکون والفساد لارسطو، 7 تفسیر کتاب مابال لارسطو، 8 تفسیر کتاب الفرق لجالینوس، 9 تفسیر کتاب الصناعۃ لجالینوس،10 تفسیر کتاب النبض الصغیر بجالینوس، 11 تفسیر کتاب اغلوفن لجالینوس، 12 تفسیر کتبا الاسطقسات لجالینوس، 13تفسیر کتاب القوی الطبیعۃ لجالینوس، 14 تفسیر التشریح الصغیر لجالینوس، 15 تفسیر کتاب العلل والا عراض لجالینوس، 16 تفسیر کتاب تعرف علل الاعضاء الباطنیۃ لجالینوس، 17 تفسیر کتاب النبض الکبیر لجالینوس، 18 تفسیر کتاب الحمیات لجالینوس، 19 تفسیر کتاب الجران لجالینوس، 20 تفسیر کتاب ایام البحران لجالینوس ،21 تفسیر کتاب منافع الاعضاء لجالینوس، 22 تفسیر کتاب تدبیر الاسحار لجالینوس، 23 تفسیر کتاب المزاج لجالینوس، 24 جوامع کتاب التریاق لجالینوس، 25 جوامع کتاب الفصد لجالینوس، 26 کتاب الرد علی برقس، 27 کتاب فی ان کل جم متناء فقوتہ تناہیۃ، 28 کتاب الرد علی ارسطو، 29 کتاب الرد علیٰ تطورس، شرح کتاب ایسا غوجی لفر فوریوس، ان کے سوا اور بھی کتابیں ہیں جن کی تفصیل طبقات الاطباء و کتاب الفہرست لابن الندیم میں ملتی ہے اگر اسکندریہ کا کتب خانہ عمرو بن العاصؓ کے زمانہ میں برباد ہوا ہوتا تو سب سے پہلے یحییٰ نحوی کی تصنیفات برباد ہونی چاہیے تھیں، جو عمرو بن العاصؓ کا ہمعصر اور بقول ابو الفرج کے کتب خانہ مذکور کا مہتمم تھا۔ غرض مصر و اسکندریہ وغیرہ میں اسلام کے زمانہ تک جو سرمایہ محفوظ رہ گیا تھا، وہ ہر گز ضائع نہیں ہونے پاتا، البتہ جو کچھ اسلام سے پہلے تلف ہو چکا تھا، اس کو وہ دوبارہ پیدا نہیں کر سکتا تھا، ہم کو تاریخوں سے اس بات کا بھی پتہ لگتا ہے کہ نہایت قدیم زمانہ کی بھی کوئی چیز اگر زمانہ اسلام تک کسی وجہ سے محفوظ رہ گئی، تو وہ ہر گز برباد نہیں ہونے پائی بلکہ زمانہ ما بعد میں نہایت قدر دانی کے ساتھ یادگار کے طور پر اس کو محفوظ رکھا گیا۔ ابن البندی نے جو مصر کا رہنے والا اور علم اصطرلاب کا بڑا ماہر تھا، لکھا ہے کہ: ’’ وزیر ابو القاسم علی بن احمد الجرجانی نے 435ہجری میں قاہرہ کے کتب خانہ کا جائزہ لیا، اور قاضی ابو عبداللہ القضاعی وابن خلق وراق کو حکم دیا کہ کتابوں کی فہرست تیار کریں، اور جلدیں جو خراب ہو گئی ہیں، ان کی مرمت کریں، میں بھی ان دونوں بزرگوں کے ساتھ اس غرض سے وہاں گیا کہ اپنے مذاق کی کتابوں کی سیر کروں چنانچہ صرف نجوم و ہندسہ و فلسفہ کے متعلق جو اجزاء تھے، ان کی تعداد چھ ہزار پانچ سو تھی۔ یہیں میں نے ایک تانبے کا کرہ دیکھا، جو بطلیموس کے ہاتھ کا بنا ہوا تھا، میں نے اس کی قدامت کا اندازہ کرنا چاہا، تو حساب سے ثابت ہوا کہ دو ہزار دو سو پچاس برس کی مدت کا ہے۔ یہیں مجھ کو ایک اور کرہ ملا جو چاندی کا تھا، اور جس کو ابو الحسن صوفی نے عضد الدولہ کے لیے بنایا تھا، اس کا وزن تین ہزار درم تھا، اور تین ہزار دینار (پندرہ ہزار روپے کو خریدا گیا تھا)۔‘‘ اگرچہ ہم نے اس بحث کو مجتہدانہ اصول کے ساتھ طے کر دیا ہے، اور اس وجہ سے ہم کو اس کی کچھ پروا نہیں کہ یورپ کے مورخین ہمزبان ہیں یا نہیں، تاہم تقلید پسندوں اور بالخصوص ان لوگوں کی تسلی کیلئے جن کو یورپ کے ساتھ نہایت حسن عقیدت ہے، یہ کہہ دینا ضرور ہے کہ واقعہ مفروضہ گو ایک زمانہ میں تمام یورپ میں تسلیم کیا جاتا تھا، لیکن جس قدر تاریخی تحقیقات کو ترقی ہوتی گئی، اسی نسبت سے اس کی تصدیق کا زور گھٹتا گیا، یہاں تک کہ حال کے مصنفین میں زیادہ تر ان ہی لوگوں کی تعداد ہے، جو اس کو غلط اور مشکوک واقعہ قرار دیتے ہیں آج تک اس قدر ہوا ہے، اور امید ہے کہ وہ دن بھی آئے، جب زیادہ غور اور تحقیق کے بعد تمام یورپ متفق ہو کر اعلانیہ کہہ دے کہ : ہم الزام ان کو دیتے تھے قصور اپنا نکل آیا (رسائل شبلی) ٭٭٭٭٭٭ اسلامی کتب خانے اسلامی قدیم کتب خانوں کی یہ ایک نہایت اجمالی تاریخ ہے، اگرچہ اس امر سے کسی شخص کو انکار نہیں ہو سکتا کہ تصنیف و تالیف اور علمی ذخیروں کا مرتب و محفوظ رکھنا مسلمانوں کا قومی شعار تھا، اور یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کے عہد میں جس کثرت سے جا بجا کتب خانے اور دار العلم پائے جاتے تھے۔ شاید دنیا کی تاریخ میں اس کی نظیر نہیں مل سکتی، تاہم یہ سخت تعجب ہے کہ کتب خانوں کے حالات میں آج تک کوئی کتاب بلکہ مضمون تک نہیں لکھا گیا، جغرافیہ کی کتابوں میں کسی شہر کا حال لکھتے ہیں، تو ہر قسم کی عمارتوں کا ذکر کرتے ہیں، لیکن کتب خانوں کا نام تک نہیں آتا۔ یہی خیال ہے جس نے مجھ کو اس مضمون کے لکھنے پر آمادہ کیا، اگرچہ میں تسلیم کرتا ہوں کہ عنوان کے لحاظ سے مضمون کو نہایت مفصل اور وسیع ہونا چاہیے تھا، لیکن جن واقعات کو قدماء نے نظر انداز کر دیا ہو، ان کے متعلق مشکل سے کچھ اجمالی حالات مل سکتے ہیں، اور مفصل تو بالکل نہیں ملتے، اس لئے مجبوراً ہمارے ناظرین کو اسی پر قناعت کرنی چاہیے۔ یہ مضمون اگرچہ بظاہر عنوان کی حیثیت کے ساتھ خصوصیت رکھتا ہے، لیکن اس سے دو اور مہتمم بالشان مسئلوں کا فیصلہ ہو سکتا ہے، جو تعلیم یافتہ ملکوں میں مدت سے زیر بحث ہیں، اور جن کی نسبت بڑے بڑے مشہور مصنفوں نے تعصب آمیز غلطیاں کی ہیں، وہ مسئلے یہ ہیں: 1مسلمانوں نے غیر قوموں کی یادگاروں کے ساتھ کیا سلوک کیا؟ 2مسلمانوں نے غیر قوموں کے متعلق جو تاریخی حالات لکھے، کہاں تک قابل اعتبار ہیں؟ اسلام میں کتابوں کے جمع کرنے اور کتب خانہ کی صورت میں ترتیب دینے کا زمانہ اگرچہ دولت بنی امیہ کے عہد سے شروع ہوتا ہے، لیکن اس امر کی تحقیق کے لیے کہ جو خزانہ دولت بنی امیہ کے عہد میں جمع ہوا، اس کا سرمایہ کہاں سے آیا ہو گا، ہم کو اس سے پیشتر زمانہ کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔ عرب میں شعر و شاعری اور انساب کا چرچا اگرچہ نہایت قدیم زمانہ سے تھا، مگر تحریر کا مطلق رواج نہ تھا سب سے پہلے جس نے اس فنڈ کی بنیاد ڈالی، وہ قبیلہ طے کے تین شخص تھے، یعنی مر امر، اسلم، عامر، ان لوگوں نے یک جا ہو کر حرفوں کی شکل اور وضع قرار دی، اور حروف ہجا اس ترتیب سے مقرر کئے، جیسے سریانی زبان میں تھے۔ ان لوگوں سے حیرہ والوں نے سیکھا، حیرہ والوں کا ایک شاگرد جس کا نام بشر بن الولید تھا، اور دومۃ الجندل کا رئیس تھا، کسی کام سے مکہ معظمہ گیا، وہاں ابو سفیان (امیر معاویہؓ کے باپ) سے ملاقات ہوئی، ابو سفیان نے اس سے اس فن کے سیکھنے کی درخواست کی، چنانچہ ابو سفیان اور ابو قیس بن عبد مناف دو شخص اس کے شاگرد ہوئے، اور چونکہ یہ دونوں تجارت کے ذریعہ سے طائف آیا جایا کرتے تھے، طائف میں بھی تحریر کا رواج ہو گیا۔ بشر نے مصر اور شام میں بھی بہت سے۔۔۔۔ لوگوں کو شاگرد کیا، اور رفتہ رفتہ اکثر قبائل میں تحریر کا رواج ہو گیا، یہاں تک کہ جب اسلام کا ظہور ہوا، تو صرف ایک قبیلہ قریش میں17 شخص صاحب قلم موجود تھے، جن میں یہ حضرات بھی تھے عمر بن الخطابؓ، علی بن ابی طالبؓ، عثمان بن عفانؓ، ابو عبیدہ ابن الجراحؓ عورتوں میں بھی اس فن کا رواج ہو چلا تھا، چنانچہ حضرت عمرؓ کے گھرانے میں شفاء بنت عبداللہؓ اور حضرت حفصہؓ لکھنا پڑھنا جانتی تھیں۔ مدینہ منورہ میں بھی اسلام سے پہلے تحریر کا رواج تھا جس کے موجد یہود1؎ تھے۔ 1؎ یہ تمام تفصیل فتوح البلدان بلاؤزی کے خاتمہ میں مذکور ہے۔ اس سے بہت بڑا فائدہ یہ ہوا کہ اشعار و قصائد جو عرب کے تمدن و معاشرت کی اصلی تصویر ہیں، اور جو اب تک زبانی روایت ہوتے آتے تھے، قلم بند ہونے لگے، اور ان کی حفاظت کا بڑا ذریعہ نکل آیا۔ چنانچہ سات مشہور قصیدے جو متعلقات کے نام سے مشہور ہیں، آب زر سے لکھے گئی اور کعبہ پر آویزاں کئے گئے۔ اسلام کے آغاز یعنی جناب رسالت پناہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد وفات تک جو تحریری سرمایہ وجود میں آیا، وہ قرآن مجید کی متفرق سورتیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نامہائے مبارک، صلح حدیبیہ وغیرہ کے معاہدے شعراء کے قصائد تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اگرچہ تحریر و کتابت کو زیادہ وسعت ہوئی، لیکن امیر معاویہ ؓ کے زمانہ تک جو کچھ سرمایہ وجود میں آیا، وہ زبان یا مذہب کے متعلق تھا۔ امیر معاویہؓ نے جب دمشق میں تخت سلطنت پر اجلاس کیا، تو ایک عیسائی طبیب جس کا نام ابن آثال تھا، دربار میں حاضر ہوا، اور امیر معاویہؓ نے اس کی بہت قدر کی، اس نے ان کے استعمال کے لیے طب کی بعض کتابیں عربی زبان میں ترجمہ کیں، اور یہ پہلا اضافہ تھا جو عربی زبان کے سرمایہ میں ہوا۔ اگرچہ اس کے بعد عرب کا تحریری سرمایہ برابر ترقی کرتا گیا، لیکن یہ پتہ لگانا مشکل ہے کہ ان تحریروں کو ایک منتظم کتب خانہ کی صورت میں کس نے جمع کیا، اور اس اولیت کا فخر کس کو حاصل ہے۔ ہمارے مورخین تو ان باتوں کو مہتمم بالشان نہیں سمجھتے کہ ان کے لیے جداگانہ عنوان بنائیں، البتہ کہیں کسی ضمنی تذکرہ میں کچھ ذکر آ جاتا ہے تو اس سے کچھ کچھ پتہ چلتا ہے۔ علامہ ابن ابی اصیعبہ نے طبقات الاطباء میں حکیم ماسر جویہ کے حال میں لکھا ہے کہ حضرت عمر بن عبدالعزیزؓ نے ماسر جویہ کی ایک کتاب جو اس نے سریانی زبان سے عربی زبان میں ترجمہ کی تھی، خزانہ الکتب، کتب خانہ میں پائی، اور کتب خانہ سے نکلوا کر اس کے نسخے شائع کرائے۔ اس تصریح اور نیز اور قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ کتب خانہ کا طریقہ اس عہد سے پہلے قائم ہو چکا تھا۔ غالباً اول جس شخص نے اس طریقہ کی بنا ڈالی، وہ خالد بن یزید بن معاویہ تھا۔ مورخ ابن خلدون کو تو تعجب اور انکار ہے کہ اسلام کے ابتدائی زمانہ میں ایسا مذاق علمی کہاں پیدا ہو سکتا تھا، اور اس لئے ان کے نزدیک خالد کے واقعات افسانہ سے زیادہ رتبہ نہیں رکھتے، لیکن علامہ ابن الندیم نے اس کی نسبت لکھا ہے کہ خالد بن یزید حکیم کے لقب سے پکارا جاتا تھا، وہ خود قابل تھا، اور بلند ہمتی کے ساتھ علوم کی محبت رکھتا تھا۔ اس کو صنعت کا خیال آیا، تو اس نے ان یونانی فلاسفروں کو جمع کیا، جو مصر میں رہا کرتے تھے، اور فصیح بولی بولتے تھے، ان لوگوں کو اس نے حکم دیا کہ صنعت میں جو جو کتابیں یونانی اور قبطی زبانوں میں ہیں، ان کے ترجمے عربی زبان میں کریں۔ یہی مورخ ایک دوسرے موقع پر لکھتا ہے کہ خالد کے لیے طب نجوم کیمیا کی تصنیفات عربی زبان میں ترجمہ کی گئیں خالد خود بھی مصنف تھا، اور اس کی تصنیفات میں سے جو کتابیں مورخ ابن الندیم کے زمانہ تک موجود تھیں، اور خود اس مورخ کی نظر سے گذریں، ان کے یہ نام ہیں، کتاب الحرارۃ، کتاب الصحیفۃ الکبیر، کتاب الصخیفہ الصغیر ان دو باتوں کے ثابت ہونے کے بعد یعنی یہ کہ دولت امویہ میں حضرت عمر بن عبدالعزیزؓ کے زمانہ سے پہلے شاہی کتب خانہ قائم ہو چکا تھا، اور یہ کہ خاندان امیہ میں اول جس شخص نے قدیم تصنیفات کی جستجو اور تلاش کی وہ خالد بن یزید تھا، یہ قیاس یقین کے قریب پہنچ جاتا ہے کہ کتب خانہ کی اول جس نے بنیاد ڈالی، وہ یہی خالد تھا۔ خالد کے بعد تالیفات اور تصنیفات کو بے انتہا ترقی ہوئی، اشعار عرب، لغت، انساب، ایام العرب، غزوات، سیر تفسیر، حدیث، فقہ، کلام وغیرہ کے متعلق ایک بڑا سرمایہ پیدا ہو گیا۔ خلیفہ منصور نے غیر زبانوں کی سینکڑوں کتابیں عربی میں ترجمہ کرائیں یہاں تک کہ خلیفہ ہارون الرشید نے اس عجیب و غریب عظیم الشان دار العلم کی بنیاد ڈالی، جس کا نام بیت الحکمۃ تھا۔ یہ بیت الحکمت دو حصوں میں تقسیم تھا، ایک کتب خانہ کے لیے خاص تھا، اور دوسرا غیر زبانوں کے ترجمہ کے لیے ایک عظیم الشان کتب خانہ میں عربی زبان کے علاوہ ہندی، فارسی، یونانی، قبطی، کالڈی زبانوں کی بے شمار کتابیں مہیا کی گئی تھیں۔ یحییٰ بن خالد برمکی نے جو ہارون الرشید کا وزیراعظم اور خلافت عباسیہ کا چشم و چراغ تھا، ہندوستان میں قاصد بھیجے، اور بڑے بڑے نامی پنڈت اور حکیموں کے دربار میں بلوایا، یہی پنڈت تھے، جن کی وجہ سے ہندوستان کا بہت بڑا علمی سرمایہ بغداد میں پہنچا فارسی تصنیفات زیادہ کثرت سے فراہم ہوئیں، کیونکہ خاندان برامکہ فارسی الاصل تھا، اور ان کو اپنی زبان اور علوم کے ساتھ نہایت محبت اور شفتگی تھی، اسی کا اثر تھا کہ کتب خانہ کے افسر فارس کے خاندان سے تھے۔ ہارون الرشید نے کتابوں کی فراہمی اور تدوین کے ذوق میں نہایت بے تعصبی سے کام لیا، جس کا ثبوت اس سے زیادہ کیا ہو گا کہ علان شعوبی کو بیت الحکمۃ میں ترجمہ و کتابت کی خدمت پر مقرر کیا، حالانکہ یہ شخص ہمیشہ عرب کی ہجو گوئی میں مصروف رہتا تھا، اور قبائل عرب میں سے ہر قبیلہ کے عیوب میں الگ الگ کتاب لکھی تھی۔ مامون الرشید نے اپنے عہد میں اس کتاب خانہ کو نہایت ترقی دی اور بہت سے ایرانی علماء اس کے مہتمم اور افسر مقرر کئے جن میں اکثر مثلاً سہل بن ہارون، سعد بن ہارون وغیرہ شعوبی1؎ تھے، جو عرب کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتے تھے، اور ان کے عیوب کی پردہ داری کرتے رہتے تھے اس سے یہ نہیں خیال کرنا چاہئے کہ مامون کو قومی حمیت کا پاس نہ تھا لیکن شکل یہ تھی کہ فارس کی تصنیفات کے زیادہ تر واقف کار یہی شعوبی تھے، اور اس لیے ان کے انتخاب سے چارہ نہ تھا۔ اس کے سوا مامون الرشید کو فارس کے ساتھ ایک خاص تعلق بھی تھا، وہ ماں کی طرف سے فارسی الاصل تھا۔ فضل بن سہل جو اس کا وزیراعظم اور خلافت کا بانی تھا، فارسی تھا، اس کے اکثر درباری بھی فارسی نسل سے تھے۔ ابتدائے خلافت میں جب وہ مرو میں رہا کرتا تھا۔ 1؎ شعوبی ایک عجمی فرقہ تھا، جو عرب کی تحقیر و مذمت کرتا تھا، اور ان کے عیوب کی پردہ دری کرنا اپنا فرض جانتا تھا۔ فارسی اثر اس پر اس قدر غالب آ گیا تھا کہ فارسی ہی تصنیفا ت پیش نظر رکھتا تھا، اور وضع، لباس، طریق انتظام بلکہ خیالات میں بھی فارسیوں ہی کی تقلید کرتا تھا، یہاں تک کہ ارد شیر کے ترک کو دستور العمل قرار دیا تھا۔ اس لحاظ سے یہ تعجب کی بات نہیں کہ اس نے فارسی تصنیفات کی طرف زیادہ توجہ کی لیکن وہ ان زبانوں کی تالیفات کے بہم پہنچانے میں بھی بڑے شوق سے مصروف رہا۔ یونانی کتابوں کے جمع کرنے اور ان کے ترجمے کرانے میں اس نے جو تعجب انگیز کوششیں کیں، ان کو ہم گذشتہ تعلیم اور المامون میں مفصل لکھ چکے ہیں۔ مامون نے اس عظیم الشان کتاب خانہ میں عرب جاہلیت کے زمانہ کا بہت کچھ سرمایہ جمع کیا تھا۔ جاہلوں کے قصائد اور اشعار کے علاوہ اس زمانہ کے خطوط، دستاویزات، معاہدے، جہاں تک مل سکے، نہایت کوشش سے فراہم کئے تھے۔ اس کتب خانہ میں عبدالمطلب بن ہاشم کا ہاتھ کا لکھا ہوا قرضہ کا ایک رقعہ موجود تھا، جو چمڑے پر لکھا ہوا تھا، اور اس کے یہ الفاظ تھے۔ حق عبدالمطلب بن ہامشعا من اہل سکۃ فلان بن فلان الحمیری من اہل وزل منعا علیہ الف ورہم نفلۃ کیلابا لحدیدۃ و متی رعاہ لہا اجابر شہد اللہ والملکان1؎ ابن ابی الحریش جو ایک مشہور جلد ساز تھا، کتب خانہ میں جلد سازی کے کام پر مامور تھا مامونی کتب خانہ کی وسعت اور کتابوں کی کثرت کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ باوجود اس کے بغداد پر اکثر تباہیاں آئیں اور انقراص زمانہ سے اس کے علمی خزانے ہمیشہ برباد ہوتے رہے، تاہم اس کتب خانہ کی بچی کھچی بہت سی کتابیں ساتویں صدی ہجری تک موجود تھیں، جو خوش قسمتی سے علامہ ابن ابی اصیعبہ کو ہاتھ آئیں علامہ موصوف نے ان کتابوں کا ذکر حنین بن اسحاق کے ترجمہ 1؎ کتاب الفہرست الا بن الندیم ص5 میں کیا ہے، اور لکھا ہے کہ ان پر حنین کے ہاتھ کی تحریریں تھیں، اور مامون کاطغرا بنا ہوا تھا۔ مامون کے عہد سے کتابوں کے جمع کرنے کا شوق تمام بغداد میں پھیل گیا، اکثر وزراء و امراء بلکہ عام علماء بڑے بڑے کتب خانے رکھتے تھے اور کتابوں کے مہیا کرنے میں بے دریغ روپیہ صرف کرتے تھے۔ فتح بن خاقان، متوکل باللہ کے وزیر نے جو عظیم الشان کتب خانہ جمع کیا تھا، اور جس کا مہتمم علی بن یحییٰ منجم تھا، اس زمانہ میں عموماً بے نظیر خیال کیا جاتا تھا۔ محمد بن عبدالملک زیارت جو خلیفہ واثق باللہ کا وزیر تھا، کتابوں کی نقل و کتابت و ترجمہ پر ماہوار دس ہزار روپیہ صرف کرتا تھا۔ ابن الندیم نے کتاب الفہرست میں لکھا ہے کہ ’’ علامہ واقدی نے جب وفات کی تو چھ قمطر کتابیں چھوڑیں اور ہر قمطر دو آدمیوں کا بوجھ تھا، حالانکہ مرنے سے پہلے وہ اپنے کتب خانہ کا ایک حصہ دو ہزار اشرفیوں کو بیچ چکے تھے۔‘‘ یہ شوق برابر ترقی کرتا گیا یہاں تک کہ چوتھی صدی میں تمام ممالک اسلام میں جا بجا کثرت سے کتب خانے تیار ہو گئے، چنانچہ اس صدی کے بعض مشہور اور نادر کتب خانوں کا ذکر ہم کسی قدر تفصیل کے ساتھ کرتے ہیں۔ اس زمانہ میں غالباً سب سے بڑا کتب خانہ جو تیار ہوا وہ اسپین کا کتب خانہ تھا جس کو حکم مستنصر نے قائم کیا تھا۔ مورخ ابن خلدون و صاحب نفح الطیب نے اس کتب خانہ کی جو کیفیت لکھی ہے، وہ در حقیقت تعجب انگیز ہے۔ حکم خاندان بنی امیہ کا (جو اسپین میں حکومت کرتے تھے) ایک مشہور خلیفہ تھا، اس کی سلطنت نہایت وسیع اور منتظم تھی، وہ بہت بڑا وسیع النظر عالم تھا، او رکتابوں کے جمع کرنے کا اس قدر شائق تھا کہ ملک کا خراج اس کے مصارف کے لیے کافی نہیں ہوتا تھا۔ اسپین، شام، مصر، بغداد، فارس، خراسان کے اضلاع میں اس کے سینکڑوں گماشتے اور سوداگر اس کام پر مامور تھے کہ نادر اور عمدہ قدیم و جدید کتابیں بہم پہنچائیں۔ علامہ ابو الفرج اصفہانی نے جب کتاب الاغانی ختم کی تو حکم نے خاص قاصد بھیجا کہ ’’ قبل اس کے کہ یہ کتاب ان ممالک میں شائع ہوا ہمارے کتب خانہ میں آ جائے‘‘ چنانچہ چار ہزار روپیہ پر یہ کتاب خریدی گئی اور سب سے پہلے حکم کے کتب خانہ میں داخل ہوئی قاضی ابو بکر ابہری کی تصنیف بھی اسی طرح بہم پہنچائی گئی۔ بیان کیا جاتا ہے کہ یہ کتب خانہ چار لاکھ کتابوں پر مشتمل تھا، مورخ ابن جلدون وابن آلابار نے تصریح کی ہے کہ صرف اشعار و قصائد کے مجموعون کی جو فہرست مرتب کی گئی تھی، وہ آٹھ سو اسی صفحوں میں تھی۔ حکم کو نایاب کتابوں کے بہم پہنچانے کے ساتھ ان کی درستی، اور زیب و زینت کا بھی شوق تھا۔ اس غرض سے اس نے نہایت نامور اور با کمال خوش نویس، مصحیح، جلد ساز جمع کئے تھے، اور اون کو بیش قرار تنخواہیں دیتا تھا۔ اگرچہ یہ کتب خانہ خود حیرت انگیز تھا، لیکن بانی کتب خانہ کی وسعت نظر اس سے زیادہ تعجب انگیز ہے، مورخون نے بیان کیا ہے کہ ان میں سے اکثر کتابیں اس کی نظر سے گزری تھیں، اور ان پر اس نے مفید حاشیے چڑھائے تھے۔ ہر کتاب کے شروع میں وہ مصنف کا نام و نسب مولد و وفات لکھتا تھا، اور ایسے عجیب و غریب نکتے، اور فوائد درج کرتا تھا، جن کاپتہ اس کی تحریر کے سوا، اور کہیں نہیں مل سکتا تھا۔ حکم نے 336 میں وفات پائی۔ اسلامی دنیا کا دوسرا حصہ جو عباسیوں کے زیر نگین تھا، اس میں دولت عباسیہ کے صغف کی وجہ سے طوائف الملوکی ہو گئی تھی، اور ہر جگہ الگ الگ تاج و تخت کے دعویدار پیدا ہو گئے تھے۔ بخارا میں سامانی خاندان کی حکومت تھی، جرجان میں قابوس بن شمگیر فرمان روا تھا، شام کے اصلاع بنو حمدان کے ہاتھ میں تھے، شیراز آل بویہ کا پایہ تخت تھا، مصر میں فاطمیین فرما نروا تھے لیکن یہ عجیب اتفاق تھا کہ یہ سب صاحب علم تھے اور ال علم کے نہایت قدر دان تھے ان میں سے ایک نے بڑے بڑے کتب خانے قائم کئے تھے، اور بے شمار کتابیں جمع کی تھیں۔ نوح بن منصور نے (بخارا کا بادشاہ اور بڑی سطوت و جبروت کا بادشاہ تھا) جو کتب خانہ قائم کیا تھا، وہ اس زمانہ میں بہت سی حیثیتوں کے لحاظ سے بے نظیر خیال کیا جاتا تھا۔ علامہ ابن خلکان نے لکھا ہے کہ اس عدیم المثل کتب خانہ میں ہر علم و فن کی کتابیں تھیں، اور ان میں بہت سی ایسی تھیں، جن کا پتہ اس کتب خانہ کے سوا اور کہیں نہیں مل سکتا تھا۔ شیخ بو علی سینا نے اپنے حال میں بیان کیا ہے کہ ’’ فلسفہ وغیرہ کی کتابیں جو میں نے یہاں دیکھیں کہیں نہیں دیکھی تھیں۔ اور نہ اوروں نے ان کو دیکھا ہو گا‘‘ بو علی سینا نے اس کتب خانہ کی صورت یہ بیان کی ہے کہ ایک بہت بڑا مکان ہے، جس میں بہت سے کمرے ہیں، ہر کمرے میں متعدد صندوق ہیں جن میں کتابیں اوپر تلے رکھی ہوئی ہیں، ہر فن کے لیے جدا جدا کمرہ ہے 1؎ عضد الدولہ کی سلطنت نہایت وسیع تھی، اور اس زمانہ میں سب سے زیادہ ممالک اسی کے قبضہ اختیار میں تھے، فارس سے لے کر موصل و جزیرہ تک اس کا عمل تھا، اورخود بغداد میں اس کا نام کا خطبہ پڑھا جاتا تھا وہ قابلیت حکومت کے ساتھ بہت بڑا شاعر تھا، اور علوم و فنون میں کامل دستگاہ رکھتا تھا۔ اس نے شیراز میں ایک عالیشان کتب خانہ قائم کیا، جس میں اس بات کا التزام کیا تھا کہ جس قدر کتابیں شروع اسلام سے اس کے عہد تک تصنیف ہو چکی تھیں، سب مہیا کی جائیں۔ افسوس ہے کہ باستثنائے علامہ بشاری کے کسی مورخ نے اس کتب خانہ کا حال نہیں لکھا۔ علامہ مذکور کی یہ عنایت بھی اس وجہ سے ہے کہ کتب خانہ مذکور اس عجیب و غریب عمارت کا ایک حصہ تھا جس کی نسبت علامہ بشاری کا بیان ہے کہ میں نے تمام ممالک اسلامیہ میں ایسی عمارت نہیں دیکھی اور میں قیاس کرتا ہوں کہ وہ بہشت کے نمونہ کے موافق بنائی گئی ہے ’’ علامہ بشاری نے شیراز میں عضد الدولہ کے شاہی محل کا جہاں ذکر کیا ہے، لکھا ہے کہ اسی عمارت میں یہ عظیم الشان کتب خانہ بھی تھا، جس کی صورت یہ ہے کہ ایک نہایت لمبا مکان ہے اور اس میں ہر طرف متعدد کمرے ہیں، جن میں بہت سی الماریاں دیوار سے لگی کھڑی ہیں، یہ الماریاں تین تین گز چوڑی اور قد آدم اونچی ہیں۔ لکڑی عموماً منقش اور مذہب ہے، ہر فن کے لیے جدا کمرہ ہے اور اس کی جداگانہ فہرست ہے کتب خانہ کے اہتمام و نگرانی کے لیے وکیل اور خزانچی و محاسب مقرر ہیں اور بجز معزز آدمیوں کے کسی شخص کا وہاں گذر نہیں ہو سکتا۔‘‘ سیف الدولہ تیغ و قلم دونوں کا مالک تھا، اور اس قدر علم دوست تھا کہ بقول امام ثعبلی کے اس کے دربار میںجس قدر شعراء اور اہل کمال جمع ہوئے، خلفائے عباسیہ کے سوا کبھی کسی کے دربار میں نہیں جمع ہوئے۔ حکیم ابو نصر فارابی اسی کے دربار کا وظیفہ خوار تھا۔ سیف الدولہ کو فن ادب کی طرف زیادہ میلان تھا، اس لیے اس نے اپنے کتب خانہ میں زیادہ تر اسی فن کی کتابیں جمع کیں، چنانچہ فن ادب کا ذخیرہ جس قدر اس کتب خانہ میں مہیا ہوا، اور کہیں نہیں ہوا ہو گا۔ محمد بن ہاشم اور اس کا بھائی کہ دونوں فن شاعری میں ممتاز تھے، اس کتب خانہ کے مہتمم اور افسر تھے۔ اگرچہ یہ تمام کتب خانے بجائے خود بڑے بڑے دار العلوم تھے، لیکن ان سب کا سرتاج اور اسپین کے نامور کتب خانہ کا حریف مقابل فاطمیین مصر کا کتب خانہ تھا، جس کے حالات علامہ مقریزی نے کتاب انحطط وآلاثار میں کسی قدر تفصیل سے لکھے ہیں۔ یہ کتب خانہ شاہی محل کا ایک حصہ تھا، اور چالیس جدا جدا کتب خانوں پر مشتمل تھا جن میں سے ایک کتب خانہ میں صر ف علوم قدیمہ یعنی فلسفہ وغیرہ کی اٹھارہ ہزار کتابیں تھیں بعض مورخوں نے دعویٰ کیا ہے کہ کل اسلامی دنیا میں اس کے برابر کوئی کتب خانہ نہ تھا۔ اس امر میں کہ اس کی کتابوں کی مجموعی تعداد کیا تھی، مورخوں کے مختلف اقوال ہیں۔ ابن الطویر نے دو لاکھ، ابن ابی واصل نے ایک لاکھ تیس ہزار، اور ابن ابی طے نے چھ لاکھ ایک ہزار بیان کی ہے، غالباً یہ اختلاف اس وجہ سے ہو گا کہ ابن ابی طے وغیرہ نے ایک ہی کتاب کے مختلف نسخوں کو الگ کتاب شمار کیا کیونکہ اس کتب خانہ کی یہ بھی ایک خصوصیت تھی کہ ایک ایک کتاب کے مختلف نسخے موجود تھے، اور ہر نسخہ کسی خصوصیت کے ساتھ ممتاز تھا۔ چنانچہ ایک دفعہ خلیفہ عزیز باللہ کے دربار میں کتاب العین کا ذکر آیا، تو اس کے حکم سے داروغہ کتب خانہ نے کتاب مذکور کے تیس نسخے نکال کر پیش کئے جن میں سے ایک خود مصنف یعنی خلیل بن احمد بصری (موجد نحو) کے ہاتھ کا لکھا ہوا تھا۔ اکثر کتابیں مطلاو مذہب اور جلدیں عموماً زرین تھیں۔ قدیم یادگاروں کا یہ اہتمام کیا گیا تھا کہ مشہور خوشنویس مثلاً ابن مقلہ و ابن البواب کے قلم کے تراشے جمع کئے گئے تھے اور ان کو صندوقوں میں بھر کر نہایت احتیاط سے رکھا تھا۔ بطلیموس کے ہاتھ کا بنایا ہوا کرہ جس پر 2250 برس گذرے تھے، اس کتب خانہ میں موجود1؎ تھا ایک اور کرہ تھا جس کو ابو الحسن صوفی نے عضد الدولہ کے لیے بنایا تھا، اور جو پندرہ ہزار روپے کو خریدا گیا تھا۔ کتب خانوں کے قائم کرنے کا شوق سلاطین اور والیان ملک پر محدود نہ تھا بلکہ اس زمانہ کے اکثر علماء اور عہدہ داران ملکی کتب خانوں کو لازمہ عزت سمجھتے تھے۔ ابو نصر سہل بن مرزبان نے جو نیشا پور کا ایک نام آور امیر تھا، اپنی تمام دولت کتابوں کے جعم کرنے میں صرف کر دی، اور صرف کتابوں کی تلاش و جستجو میں اکثر بغداد کا سفر کیا، اور نادر کتابیں بہم پہنچائیں2؎ صاحب بن عباس کو جب نوح بن منصور نے وزارت کے لیے بخار میں طلب کیا، تو ادس نے عذر لکھ بھیجا کہ مجھ کو ضروری ساز و سامان کے ساتھ لانے میں بڑی زحمت ہو گی اور صرف کتابوں کے لادنے کے لیے چار سو اونٹ درکار ہوں گے3؎ اسی زمانہ میں محمد بن حسین بغدادی نے جو کتب خانہ قائم کیا، وہ نادر اور نایاب کتابوں 1؎ اسپین کے شاہی محل میں مسلمانوں کے زمانہ کی کچھ بچی کھچی کتابیں اس وقت موجود ہیں، سو برس سے زیادہ ہوئے کہ پروفیسر کا سیری نے ان کی ایک فہرست لائیں زبان میں لکھی، یہ فہرست دو ضخیم جلدوں میں ہے اور اس میں کہیں کہیں کتابوں کے نام کے ساتھ کتاب کی اصلی عبارتیں بھی ہیں، بطلیموس کے کرہ کا ذکر میں نے اسی فہرست کے ایک عربی حوالہ سے لکھا ہے 2؎ تیمیہ الدہر، تذکرہ سہل بن مرزبان 3؎ تیمیۃ الدہر، تذکرہ صاحب بن عباد، کے اعتبار سے عموماً بے نظیر تسلیم کیا جاتا تھا۔ علامہ ابن الندیم بغدادی نے باوجود اس وسعت نظر کے اعتراف کیا ہے کہ ’’ میں نے ایسا کتب خانہ کہیں دیکھا‘‘ اس علمی خزانہ کے حالات بہت کم معلوم ہیں، جن کی وجہ مورخین کی بے پروائی کے سوا، یہ بھی ہے کہ خود محمد بن حسین بانی کتب خانہ نے اس کو گمنامی کے پردہ میں رکھنا چاہا تھا، وہ کسی سے اس کا ذکر تک نہیں کرتا تھا، اور در حقیقت جو نایاب علمی یادگاریں اوس کے کتب خانہ میں موجود تھیں، اس کے لحاظ سے یہ احتیاط اور بخل بے جا بھی نہ تھا۔علامہ ابن الندیم نے لکھا ہے کہ میں نے بڑی مشکلوں سے محمد بن حسین تک رسائی حاصل کی، اور جب اوس کو میری طرف سے اطمینان حاصل ہو گیا، تو ایک دن اوس نے ایک بڑا تھیلا نکالا، جس میں قدیم عرب کے اشعار و قصائد اور بہت سے پرانے دستاویزات اور تحریریں تھیں۔ یہ قصائد اور تحریریں چمڑوں پر اور خراسانی، مصری، چینی، تہامی کاغذ پر تھیں میں نے ان کو خواب الٹ پلٹ کر دیکھا، کہنگی کی وجہ سے ان کی ہیئت بدل گئی تھی، اور جا بجا سے خوف اڑ گئے تھے، ان میں جو مجموعے اور اجزاء تھے، ان پر اکثر علماء کے دستخط اور سندیں تھیں ان میں ایک قرآن مجید خالد بن ابی اسہیاج کے ہاتھ کا لکھا ہوا تھا، جو حضرت علیؓ کی صحبت میں رہا کرتے تھے، حضرت علی ؓ امام حسنؓ و حسینؓ کے ہاتھ کی متعدد تحریریں تھیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو خطوط سلاطین و سرداران قبائل کے نام لکھوائے تھے، بجنسہ محفوظ تھے۔ نحود نعت میں اصمعی، ابن الاعرابی، سیبویہ، قرار کسانی، وغیرہ کے ہاتھ کی لکھی ہوئی کتابیں اور رسالے تھے اسی طرح حدیث میں سفیان بن عینیہ، توری، اوزاعی وغیرہ کے ہاتھ کی تحریریں تھیں1؎ علامہ ابن الندیم کا بیان ہے کہ اسی کتب خانہ کی بدولت مجھ کو اس بات کا علم ہوا کہ فن نحوابوالا سودو دلی کی ایجاد ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ میں نے چار ورق کا ایک رسالہ دیکھا جو چینی کاغذ پر لکھا ہوا تھا، اور جس کے شروع میں یہ الفاظ تھے۔ فیہا کلام فی الفاعل والیفعول من ابی 1؎ کتاب الفہرست ص41 الاسو رالد ولی بخط یحییٰ بن یعمر اس تحریر کے نیچے چند قدیم علمائے نحو کے دستخط تھے۔ ’’ ابو جعفر احمد بن عباس نے جو کتب خانہ قائم کیا، اور اس میں چار لاکھ مجلد کتابیں تھیں1؎‘‘ قدیم کتابوں کی تلاش و جستجو میں جو مسلمانوں کو شغف اور اہتمام تھا، وہ درحقیقت حیرت انگیز ہے۔ اس زمانہ میں قدیم سے یہ روایت چلی آتی تھی کہ اسلام سے پہلے ایرانیوں میں جب علوم و فنون کی ترقی تھی، تو ان کو یعنی ایرانیوں کو یہ خیال آیا کہ کتابوں کو ایسی حفاظت سے رکھنا چاہیے کہ زمانہ رواز تک فنا نہ ہونے پائیں۔ اس غرض سے وہ تمام علمی کتابیں ایک درخت کی چھال پر جس کو فارسی میں خدنگ اور غربی میں توز کہتے ہیں، اور جو نہایت مضبوط ہوتی تھی، لکھوایا کرتے تھے۔ جب اس قسم کا بڑا سرمایہ جمع ہو گیا تو انہوں نے اصفہان کے اضلاع میں سے کہندژ میں ایک بڑا کتب خانہ بنوایا، اور یہ تمام کتابیں وہاں رکھوا دیں، کیونکہ تمام ایران میں آب و ہوا کے اعتدال کے لحاظ سے اس سے بہتر کوئی مقام نہ تھا۔ اسلام کے دور تک اگرچہ انقراض زمانہ کی وجہ سے اس کتب خانہ کا نام و نشان نہیں رہا تھا، لیکن چونکہ یہ روایت عموماً مشہور تھی، اس لیے اکثر شائقین بالخصوص اصفہان کے عہدہ داران ملکی ہمیشہ اس کی تلاش و جستجو میں رہتے تھے چنانچہ مختلف وقتوں میں کچھ کچھ سرمایہ ہاتھ آیا، ابو معشر فلکی نے لکھا ہے کہ ’’ ہمارے زمانہ سے بہت پہلے کا واقعہ ہے کہ اس عمارات کا ایک حصہ دھ گیا، اور اس میں نہایت قدیم زمانہ کی بہت سی کتابیں نکلیں، جو قدیم فارسی زبان میں تھیں، چنانچہ جو لوگ اس زبان کو جانتے تھے انہوں نے اس کو پڑھا۔ ابن الندیم نے بیان کیاہے کہ 350ھ میں اس عمارت کے ایک اور حصہ سے کتابیں نکلیں، لیکن کسی سے پڑھی نہیں گئیں‘‘ ابن الندیم نے اس روایت کے بعد 1؎ نفح الطیب، مطبوعہ مصر جلد دوم ص308 لکھا ہے کہ جو کچھ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا، وہ یہ ہے کہ ابن العمید نے 340ھ میں بہت سی کتابیں بغداد میں بھیجیں، جو اصفہان کی شہر پناہ سے صندوقوں میں رکھی ہوئی ملی تھیں یہ کتابیں یونانی زبان میں تھیں، اور چونکہ چمڑے پر لکھی ہوئی تھیں، نہایت متعفن ہو گئی تھیں،مدت تک ان کو دھوپ دی گئی، تب جا کر درست ہوئیں، یوحنا وغیرہ نے جو یونانی زبان جانتے تھے، ان کتابوں کو پڑھا، اور ان کے مضامین پر اطلاع حاصل کی1؎ فارس، عراق، شام میں جس اہتمام اور شوق سے ہزاروں کتب خانے قائم ہوئے اسپین نے اس سے زیادہ فیاضیاں دکھائیں قرطبہ (کارڈوا) میں یہ عام دستور ہو گیا تھا کہ ہر امیر ایک جدا کتب خانہ قائم کرتا تھا، اور اس بات کی سخت کوشش کرتا تھا کہ اوس کے کتب خانہ میں ایسی نایاب کتابیں ضرور ہوں جو کہیں نہ پائی جائیں۔ یہ طریقہ لازمہ امارت خیال کیا جاتا تھا، اور امراء آپس میں کتب خانوں کے قائم کرنے پر مفاخرت اور حوصلہ آزمائیاں کرتے تھے۔ یہ طریقہ اس قدر عام ہو گیا تھا کہ جو امراء تعلیم یافتہ نہیں ہوتے تھے۔ ان کو بھی فخر و نمود کے لحاظ سے ایسا کرنا پڑتا تھا۔ مورخ مقری نے اسپین کی تاریخ میں جہاں اس واقعہ کا ذکر کیا ہے، ایک حکایت نقل کی ہے کہ: ’’ اس زمانہ میں حضری ایک عالم تھے، جن کو مدت سے ایک کتاب کی تلاش تھی، اتفاق سے ایک دن وہی کتاب نیلام ہو رہی تھی۔ انہوں نے خریدنا چاہا، لیکن ایک اور شخص اس کے دام بڑھاتا جاتا تھا، یہاں تک کہ قیمت کتاب کی حیثیت سے بہت بڑھ گئی۔ انہوں نے تعجب سے پوچھا کہ شاید آپ اس کتاب کے بڑے نکتہ شناس اور قدر دان ہیں؟ اس نے کہا میں تو جاہل شخص ہوں لیکن چونکہ یہ کتاب میرے کتب خانہ میں نہ تھی، اس لیے جس قیمت پر ملے گی میں اس کو ضرور خریدوں گا۔‘‘ 1؎ کتاب الفہرست ص241 اس زمانہ میں کتابوں کی قدر دانی کی یہ نوبت پہنچی تھی کہ ابو علی قالی (المتوفی 379ھ) کے پاس حجرۃ العرب کا ایک نسخہ خود مصنف کے ہاتھ کا لکھا ہوا تھا، جس کی قیمت تین سو مثقال سونا ملتا تھا، لیکن انہوں نے کتاب کو الگ کرنا گوارا نہ کیا۔ اگرچہ تمام ممالک اسلامیہ میں نہایت کثرت سے جا بجا کتب خانے قائم ہو گئے تھے، لیکن تیسری صدی، بلکہ چوتھی صدی کے آغاز تک کسی پبلک کتب خانہ کا پتہ نہیں ملتا۔ جن کتب خانوں کا اوپر ذکر ہوا وہ لوگوں کے ذاتی کتب خانے تھے۔ غالباً سب سے پہلے جس نے اس عمدہ طریقہ کی بنیاد ڈالی، وہ سایوربن ارد شیر ایک امیر تھا جس نے 382ھ میں بغداد میں ایک دار العلم بنوایا، اور بہت سی کتابیں عام لوگوں کے مطالعہ کے لیے وقف کیں۔ اس کے بعد395ھ میں حاکم بامر اللہ نے جو فاطمی خاندان سے مصر کا فرمانروا تھا، ایک بڑا عظیم الشان عام کتب خانہ تعمیر کیا۔ یہ کتب خانہ جس کو مورخین نے ہمیشہ دار العلم کے نام سے یاد کیا ہے، بڑی شان و شوکت سے کھولا گیا، اور بہت سے قرار منجمین، اطباء رسم افتتاح میں حاضر ہوئے، اور کتابوں کی سیر کی۔مکان بڑے ساز و سامان سے آراستہ کیا گیا تھا، اور تمام دروازوں اور گذر گاہوں پر پر تکلف پردے لٹکائے گئے تھے۔ کتابوں کے مطالعہ اور نقل اور کتابت کی عام اجازت تھی، اور اس غرض سے کاغذ، دوات قلم وغیرہ خود کتب خانہ کی طرف سے ہمیشہ مہیا رہتا تھا۔ بہت سے فقہاء اطبائ، منقطین، ریاضی دانوں کی تنخواہیں مقرر کی گئیں کہ ہمیشہ کتب خانہ میں حاضر رہیں اور اپنی معلومات کو ترقی دیں۔ چنانچہ ایک بار403ھ میں حاکم بامر اللہ نے ان بزرگوں کو مناظرہ کے لیے طلب کیا، اور دیر تک صحبت کے بعد ہر ایک کو خلعت اور انعام عطا کئے، 400ھ میں اس کے دائمی مصارف کے لیے بہت سے مکانات اور دکانیں وقف کیں۔ اس زمانہ سے پبلک کتب خانوں کا طریقہ عام ہو گیا، اور تمام ممالک اسلامیہ میں سینکڑوں ہزاروں کتب خانے قائم ہو گئے، کتب خانوں کی کثرت کا ایک سبب یہ بھی ہوا کہ اسی زمانہ کے قریب مدرسوں اور یونیورسٹیوں کی بنیاد پڑی، اور ہر مدرسہ کے ساتھ کتب خانہ کا ہونا ایک لازمی بات قرار پائی۔ نظام الملک جس نے نظامیہ بغداد کی بنیاد ڈالی، اس نے عام حکم دے دیا تھا کہ تمام اسلامی ممالک میں جہاں جس جگہ کوئی ممتاز عالم ہو، اس کے لیے ایک مدرسہ اور مدرسہ کے ساتھ ایک کتب خانہ تعمیر کیا جائے 1؎چنانچہ اوس کے زمانہ میں سینکڑوں ہزاروں مدرسے اور کتب خانے قائم ہو گئے۔ اور یہ طریقہ عموماً رواج پذیر ہو گیا، مدرسوں کے سوا مسجدیں بھی اس غرض کے لیے استعمال کی جانے لگیں، اور اسی کی بقیہ اثر ہے کہ آج قسطنطنیہ وغیرہ میں جس قدر مشہور مسجدیں ہیں ہر ایک کے ساتھ ایک بڑا کتب خانہ بھی ضرور ہے۔ کتب خانہ کی اس اجمالی تاریخ بیان کرنے کے بعد ہم کو ان سوالات کی طرف متوجہ ہونا چاہیے، جن کو ہم آغاز مضمون میں لکھ آئے ہیں۔ ان میں سب سے اہم سوال یہ ہے کہ مسلمانوں نے دوسری قوموں کی علمی یادگاروں کے ساتھ کیا برتاؤ کیا؟ پروفیسر زخاؤ جو زمانہ حال کا جرمن عالم ہے، اور جس نے ابو ریحان بیرونی کی کتاب الہند پر نہایت محققانہ دیباچہ لکھا ہے، کتاب الہند کے دیباچہ میں لکھتا ہے کہ مسلمانوں نے کبھی قدیم باتوں کی کچھ پروا نہ کی، اور اس وجہ سے قدیم قوموں کی نسبت جو کچھ وہ کہتے ہیں، وہ افسانہ کے قریب قریب ہوتا ہے۔ پروفیسر مذکور عربی زبان میں کامل مہارت رکھتا ہے اور مسلمانوں کے متعلق اس کی معلومات کچھ کم نہیں۔ اس لیے یہ قیاس نہیں کیا جا سکتا کہ وہ مسلمانوں کے اس اہتمام و توجہ کا منکر ہو گا، جو انہوں نے یونان کے علوم و تصنیفات کی طرف مبذول کی، اس لحاظ سے غالباً اس کا یہ اعتراض ہندوستان، فارس، بابل کی نسبت ہو گا۔ 1؎ زبدۃ النفرۃ تاریخ آل سلجوق مطبوعہ یورپ ص57 اس سوال کے حل کرنے کے لیے ہم کو نہایت اختصار کے ساتھ فارس کی علمی تاریخ میں کرنی چاہیے۔ موجودہ وسائل علمی سے جہاں تک معلوم ہو سکا ہے، فارس میں علوم و فنون، اور اسباب تمدن کا ظہور جمشید کے زمانہ میں ہوا، اور اسی زمانہ میں ہیئت و ہندسہ و جغرافیہ کی کتابیں لکھی گئیں۔ ضحاک نے گو جمشید کی سلطنت کو برباد کر دیا، لیکن علمی سرمایہ کو کچھ نقصان نہیں پہنچایا، بلکہ مشتری کے نام پر ایک نیا شہر آباد کر کے بر جون کے تعداد کے موافق12محل بنوائے، اور ان محلوں میں علمی کتابیں جمع کیں اس زمانہ سے اسکندریہ کے زمانہ تک گو بڑے بڑے انقلابات ہوئے، جن میں ان خزانوں کا برباد ہونا بھی ایک ضروری امر تھا، لیکن چونکہ تمدن و تہذیب کو ترقی تھی، اس لیے جو سرمایہ فنا ہو تا تھا، بجائے اس کے دوسرا پیدا ہو جاتا تھا یہاں تک کہ اسکندر یونانی کا زمانہ آیا، اس نامور شہنشاہ کے عجیب و غریب کارناموں نے اگرچہ اس کے عیوب کو بالکل چھپا دیا ہے، تاہم مورخوں کی نگاہ سے یہ امر پوشیدہ نہیں رہ سکتا کہ اس نے فارس کے تمام علمی خزانوں کو برباد کر دیا، کتابیں جلا دیں، پتھر کی چٹانیں اور سلیں جن پر کتبے اور تاریخی واقعات کندہ تھے، توڑ پھوڑ کر برابر کر دیتے۔ البتہ اتنا کیا کہ کتابوں کو جلانے سے پہلے جہاں تک ممکن ہوا یونانی زبان میں ان کے ترجمے کرائے، اور ان کو اسکندریہ بھیج دیا۔ سکندر کے بعد ایک مدت تک فارس میں طوائف الملوکی رہی، اور علوم و فنون کے ساتھ کچھ اعتنا نہیں کیا گیا۔ یہاں تک کہ ساسانیوں کا دور شروع ہوا، اور ارد شیر پابک نے طوائف الملوکی کو مٹا کر ایک وسیع سلطنت قائم کی۔ ارد شیر نے علوم و فنون کو دوبارہ زندہ کیا، اور ہندوستان، روم اور چین سے علمی ذخیرے جمع کئے۔ ارد شیر کے بعد اس کابیٹا سابور اور سابور کے بعد نوشیروان عادل نے علوم و فنون کو اور بھی زیادہ ترقی دی۔ ان واقعات سے ظاہر ہو گا کہ اسلام کا قدم جب فارس میں پہنچا، تو جو کچھ علمی ذخیرہ وہاں وہاں موجود تھا، ساسانیوں کے زمانہ کا تھا، اور ہم دعویٰ کرتے ہیں کہ مسلمانوں نے جہاں تک ان کے امکان میں تھا، اس ذخیرے کو بڑے اہتمام اور بڑی جدوجہد سے محفوظ رکھا۔ ابتدائے فتح اور انقلاب سلطنت کے ہنگامہ میں اگر کوئی سرمایہ خود بخود برباد ہوا ہو او رایسا ہونا قدرتی بات ہے، تو اس کے ہم ذمہ دار نہیں ہیں اس کے ساتھ اس بات کا بھی لحاظ رکھنا چاہیے کہ اس زمانہ (یعنی ابتدائے خلافت عباسیہ) کے مسلمانوں کو اپنے ہی علوم و فنون کی تدوین و ترتیب کا خیال نہ تھا۔ اس کی نسبت یہ توقع رکھنی عبث ہے کہ وہ دوسروں کی زبان اور علوم پر توجہ کرتے۔ اسلام میں باقاعدہ اور منتظم طور پر علمی کارناموں کی ابتداء خلیفہ منصور کے عہد میں ہوئی، اور یہی زمانہ ہے جب حدیث، فقہ، تفسیر پر اول اول کتابیں لکھی گئیں۔ مسلمانوں کی علمی فیاضیوں کا اس سے بڑھ کر کیا ثبوت ہو سکتا ہے کہ عین اس وقت جب کہ ان کو اپنے مذہبی علوم کی حفاظت و ترتیب کا اہم کام پیش تھا، اسی وقت وہ غیر قوموں کی علمی یادگاروں کے بہم پہنچانے میں بھی مصروف تھے۔ خلیفہ منصور نے ایک طرف تو امام مالکؒ کو بلا کر حدثیوں کے جمع کرنے اور ایک کتاب مستقل لکھنے کی ہدایت کی، دوسری طرف ایرانیوں کی سب سے قدیم اور مفصل تاریخ کا جس کا نام سکیکین تھا، اور جو فارسیوں کے نزدیک ایسی ہی عزت رکھتی تھی جیسی کہ ہندوؤں کے نزدیک مہا بھارت ترجمہ کرایا۔ مسلمانوں میں ایک گردہ کثیر گذرا ہے جو صرف فارسی تصنیفات کے ترجمہ میں مصروف تھا، جن میں سے چند نامور شخصوں کا ذکر علامہ ابن الندیم نے کتاب الفہرست میں کیا ہے، اور وہ یہ ہیں، فضل بن نو بخت، عبداللہ بن المقفع، موسیٰ بن خالد، یوسف بن خالد، علی بن زیاد، حسن بن سہل، احمد بن یحییٰ البلاذری، حیلہ بن سالم، اسحق بن یزید، محمد بن الجم برمکی ہشام بن القاسم، موسیٰ بن عیسیٰ الکروی، زادویہ اصفہانی، محمد بن بہرام، بہرام بن مروان شاہ عمر بن الفرخان۔ فارس کے علوم و فنون میں سے شاید ہی کوئی ایسا فن رہا ہو، جس کی تصنیفات نہیں مہیا کی گئیں اور اسی پر اکتفا نہیں کیا گیا بلکہ ان کے ترجمے بھی شائع کئے گئے۔ چنانچہ فن تاریخ میں رستم و اسفندر یار نامہ، بہرام نامہ، شہر زاد با پرویز، کارنامہ نوشیروان، تاج نامہ، وار دبت زرین، خدائے نامہ، بہرام و نرسی نامہ نوشیروان سبکتگین۔ فن اخلاق میں زادد فروخ موبدان کی کتاب، الحکم والآداب، مجموعہ ارد شیر، نامہ بداہو دین فرخ زاد۔ فن سپہگری میں چوگان وگومے، بہرام گور کی کتاب فن تیر اندازی میں، اور سب سے بڑی مفصل کتاب جس میں قلعوں کی فتح کی تدبیریں، قوائد جنگ، جاسوسی و دیدبانی و حملہ آوری کے آئین منضبط تھے، اور ارد شیر کے عہد میں اس کے استعمال کے لیے تصنیف ہوئی تھی۔ اسی طرح فن طب، بیطاری، فلسفہ، منطق وغیرہ میں بہت سی کتابیں ترجمہ کی گئیں۔ کتابوں کے علاوہ شاہان فارس کے خطوط، فرامین، توقیعات، بڑی تلاش سے بہم پہنچائے گئے، اور ان کے ترجمے کرائے گئے۔ چنانچہ نوشیروان، ہرمز بن نوشیروان، ارد شیر موبد موبدان، بزر چمر کے خطوط و فرامین کا ذکر کتاب الفہرست میں کسی قدر تفصیل کے ساتھ مذکور ہے۔ ناول اور قصے گو مسلمانوں کو چندان مرغوب نہ تھے، تاہم ان کی طرف سے بھی بے پروائی نہیں کی گئی، ان میں سے جن کتابوں کا عربی زبان میں ترجمہ کیا گیا، وہ یہ ہیں، ہزار داستان، یوسفاس، چند خسروا، مرمین، افسانہ روز بہ، شفال و خرس، سگ زمانہ، شاہ زنان، نمرود نامہ۔ الف لیلہ جس سے زیادہ آج تک دنیا میں کوئی ناول مقبول نہیں ہوا، اور جو یورپ کی تمام زبانوں میں ترجمہ ہو گیا ہے، فارسی ہی ناول کا ترجمہ تھا، جس کا نام ہزار افسانہ تھا، اور جو بہمن کی بیٹی ہما کے لیے تصنیف کیا گیا تھا1؎ مسلمانوں کی یہ نہایت دیانت داری ہے کہ انہوں نے کتاب کا نام بھی نہیں بدلا، اور اسی قدیم نام کا لفظی ترجمہ الف لیلہ کر دیا، لیکن چونکہ انہوں نے بعض قصے اضافہ کئے، اور بالخصوص طرز بیان کو رونق دی، اس لئے لیلۃ کا لفظ اس پر اضافہ کیا، اور الف لیلۃ و لیلۃ نام رکھا۔ فارس کے بانیان مذہب کی تمام کتابیں اسلامی کتب خانوں میں موجود تھیں، اور اگرچہ ان میں سے اکثر اسلامی عقائد کے خلاف تھیں، تاہم مزید تحقیقات کے لحاظ سے ان کے ترجمے کرائے گئے۔ مالی جس نے سابوربن ارد شیر کے زمانہ میں پیغمبری کا دعویٰ کیا تھا، اس کی ساتوں کتابیں عربی میں ترجمہ شدہ موجود ہیں۔ ان کے علاوہ اس کے اور اس کے پیروؤں کے 76 رسالے عربی زبان میں ترجمہ کئے گئے۔ ہندوستان کے عوم و فنون کے ساتھ بھی کچھ کم اعتنا نہیں کیا گیا، خلیفہ منصور ہی کے زمانہ سے ہندو علماء بغداد کے دربار میں جمع ہونے شروع ہوئے، یہاں تک کہ خاندان برامکہ نے ایک ہندو طبیب کو اپنے مشہور ہسپتال کا مہتمم اور افسر مقرر کیا۔ ان علماء کی بدولت اور نیز ان مسلمانوں کی وجہ سے جنہوں نے تحقیقات علمی کے لیے ہندوستان کا سفر کیا۔ سنسکرت کی اکثر عمدہ تصنیفات بغداد کے کتب خانوں میں جمع ہوئیں، اور ان میں سے پاکہر، رابہ، سکہہ، داہر، امکر، رنکل حمیر، امدی، جاری، مانک، سالی، نوکسل، روسا، رای، کپل، براہمر، کی تصنیفات کا ترجمہ عربی زبان میں ہوا۔ سنسکرت کی جو کتابیں مہیا کی گئیں وہ نجوم، طب، بیطاری، سپہگری، اخلاق، فلسفہ مذہب ناول اور ڈراما کے متعلق تھیں۔ ہم ان کتابوں کے نام اور پتے بتا سکتے ہیں، لیکن اس مختصر آرٹیکل کے لیے یہ تفصیل شاید موزوں نہ ہو۔ ان واقعات کے معلوم ہونے کے بعد بعض یورپین مورخوں کا یہ قول کہ مسلمانوں نے 1؎ الف لیلہ کے لیے دیکھو کتاب الفہرست صفحہ304 و مروج الذہب مسعودی ذکر ہیاکل قدیمہ، غیر قوموں کی تاریخ و واقعات کی طرف توجہ نہیں کی غالباً اعتبار کے قابل نہ خیال کیا جائے گا البتہ ایک معترض یہ کہہ سکتا ہے کہ اگر یہ واقعات صحیح ہیں، تو آج ان کتابوں کا پتہ کیوں نہیں چلتا؟ اس سوال کا جواب ایک پر درد داستان ہے۔ کتب خانوں کی تباہی اور بربادی کا بہت بڑا سبب اسلامی حکومت کا بہت سے حصوں میں تقسیم ہو جانا اور نئی نئی حکومتوں کا پیدا ہونا اور مٹ جانا تھا۔ دولت عباسیہ کے ضعف کے ساتھ جو سلطنتیں قائم ہو گئیں، انہوں نے بے شمار علمی ذخیرے پیدا کئے، لیکن جب فنا ہوئیں تو قریباً اپنی تمام یادگاروں کو اپنے ساتھ لیتی گئیں۔ مصر کا مشہور و بے نظیر کتب خانہ دولت فاطمیہ کی تباہی کے ساتھ برباد ہوا اور تعجب و افسوس یہ ہے کہ صلاح الدین فاتح بیت المقدس جو فاطمیوں کو مٹا کر مصر کا بادشاہ ہوا، اس نے خود اس کتب خانہ کو برباد ہونے دیا۔ بہت سی کتابیں بے احتیاطی سے پہلے ضائع ہو گئیں، اور جو بچیں ایک دلال کی معرفت جس کا نام ابن صورہ تھا، برسوں تک نہایت بے قدری کے ساتھ بکتی رہیں۔ صلاح الدین کے وزیر قاضی عبدالرحیم نے البتہ جہاں تک ہو سکا، کتابوں کی حفاظت کی، چنانچہ قاہرہ میں جو مدرسہ تعمیر کرایا، اس میں قریباً ایک لاکھ کتابیں وقف کیں، جن میں اکثر بلکہ قریباً کل اسی برباد شدہ کتب خانہ کی تھیں۔ ان تباہیوں پر بھی بہت کچھ علمی سرمایہ باقی رہ گیا تھا، لیکن تاتار کے فتنہ نے اس کو قریباً بالکل نیست و نابود کر دیا۔ بغداد کے بعض مورخوں نے تو یہاں تک مبالغہ کیا ہے کہ تاتاریوں نے بغداد کے کتب خانے جب برباد کئے اور تمام کتابیں دریا میں ڈال دیں، تو دجلہ کا پانی کالا ہو گیا۔ لیکن اس میں کچھ شبہہ نہیں کہ اس فتنہ میں بے شمار کتابوں کا نام و نشان جاتا رہا۔ تاتار کا سیلاب بغداد پر محدود نہ تھا، بلکہ ترکستان، ماوراء النہر، خراسان، بلا وجبل، فارس، عراق، جزیرہ، شام، ان تمام مقامات سے گذرا اور جہاں گذرا تمام علمی یادگاروں کو مٹاتا گیا۔ مورخ کتبی نے محقق طوسی کے حال میں لکھا ہے کہ ’’ ہلاکو خان نے محقق موصوف کے اشارہ سے جو رصد خانہ مراغہ میں بنوایا، اس میں ایک عظیم الشان کتب خانہ بھی تھا، جس میں بغداد، شام، جزیرہ کی لٹی ہوئی کتابیں رکھی گئیں، اور ان کی تعداد چار لاکھ سے زائد تھی‘‘ اگر بچی کھچی کتابوں کی یہ تعداد تھی، تو معلوم نہیں کہ غارت شدہ کا شمار کیا ہو گا۔ ان ممالک کا تو یہ حال ہوا، اسپین میں باوجود انقلاب سلطنت کے بہت کچھ ذخیرہ موجود تھا لیکن وہ سب عیسائیوں کے نذر ہوا، جنہوں نے کتابوں کے برباد و تباہ کرنے میں وہ ناموری حاصل کی جو کبھی کسی قوم کو نہ ہوئی ہو گی۔ خود یورپ کے مورخین علانیہ اس کا اعتراف کرتے ہیں، اور ان کے بیان سے ثابت ہے کہ کئی لاکھ کتابیں اس انقلاب میں برباد ہوئیں بلکہ قصداً برباد کی گئیں۔ اگرچہ ان انقلابات پر بھی اسلامی ممالک خصوصاً قسطنطنیہ اور مصر میں بڑے بڑے کتب خانے موجود ہیں، اور میں انشاء اللہ اپنے سفر نامہ میں ان کے حالات تفصیل کے ساتھ لکھوں گا۔ لیکن افسوس اور سخت افسوس یہ ہے کہ قدماء کی تصنیفات جن سے اصول فن کی تحقیق ہو سکتی تھی، اکثر نا پید ہیں جو کچھ موجود ہے زیادہ تر اخیر زمانہ کی پیداوار ہے، یا قدیم زمانہ کی وہ تصنیفات ہیں، جو زیادہ تر عام قسم کی کتابیں کہی جا سکتی ہیں۔ یہ عام قاعدہ ہے کہ جو کتابیں عام مذاق کے موافق ہوتی ہیں انہی کو زیادہ رواج ہوتا ہے اور تمام ممالک میں پھیل جاتی ہیں اس قسم کی کتابوں پر کسی خاص شہر یا سلطنت کے فنا ہونے سے چنداں اثر نہیں پڑتا، کیونکہ ان کے بے شمار نسخے ہر جگہ موجود ہوتے ہیں، اور وہ سب فنا نہیں ہو سکتے۔ مسلمانوں نے فلسفہ اور علوم قدیمہ میں اگرچہ بہت کمال حال کیا، لیکن ان علوم کی تعلیم عام نہ تھی، بلکہ وہ ایک خاص دائرہ تک محدود تھے یہاں تک کہ اسپین میں عین اس زمانہ میں جب فلسفہ اوج کمال پر تھا، عوام کے سامنے فلسفہ کا نام نہیں لیا جا سکتا تھا۔ اس سبب سے فلسفیانہ تصنیفات کے نسخے کثرت سے متد اول نہ تھے جس کا یہ لازمی نتیجہ تھا کہ جب کسی بڑے دار العلم پر زوال آیا تو اس قسم کا ذخیرہ بالکل نا پید ہو گیا غیر قوموں کی ترجمہ شدہ کتابیں بھی اسی وجہ سے اکثر ضائع ہو گئیں فلسفہ و علوم قدیمہ پر موقوف نہیں، اسلامی علوم کی وہ کتابیں بھی جو مذاق عام کے موافق نہ تھیں، اور جن کو وقت مضامین کی وجہ سے قبول عام حاصل نہ تھا، اکثر برباد گئیں، حالانکہ یہی کتابیں تھیں جو علم و فن کی جان تھیں میں نے کود قسطنطنیہ اور مصر میں متعدد کتابیں دیکھیں جو مسلمانوں کے لیے مایہ ناز ہیں، اور جن کے نسخے تمام دنیا میں ایک دو سے زیادہ موجود ہیں اگر خدانخواستہ یہ نسخے معدوم ہو جائیں تو ان کتابوں کا نام و نشان دنیا میں جاتا رہے۔ میں نے قسطنطنیہ میں اکثر لوگوں سے پوچھا ’’ کہ ‘‘ ان کتابوں کو چھپوا کر شائع کیوں نہیں کیا جاتا جواب ملا کہ بازار میں ان کتابوں کی مانگ نہیں۔ ہندوستان میں بھی نادر اور عمدہ کتابوں کا یہی حال ہے، کاش خدا قوم کو توفیق دیتا کہ یورپ کی طرح ایک انجمن قائم ہوئی، اور ان کتابوں کے چھاپے جانے اور شائع کئے جانے کا انتظام ہوتا، کہ جو کچھ بچا بچا یارہ گیا ہے، وہ تو برباد نہ ہونے پائے۔ (رسائل شبلی) ٭٭٭٭٭٭٭٭ اسلامی حکومتیں اور شفاخانے ایشیائی قوموں میں کسی سلطنت کی عظمت و شان یا پستی و تنزل کا اندازہ ہمیشہ فتوحات ملکی اور فوجی طاقت سے کیا جاتا تھا اور غالباً یورپ کا بھی آج سے دو برس پہلے یہی حال تھا اس کا یہ اثر تھا کہ اس عہد کی تاریخی تصنیفات میں کسی سلطنت اور حکومت کے متعلق جو واقعات لکھے جاتے تھے، وہ زیادہ تر فتوحات او رخانہ جنگیوں کے واقعات ہوتے تھے اسلامی تاریخیں بھی اس الزام سی بری نہیں، اور یہی وجہ ہے کہ آج کل یورپ نے اسلامی تاریخوں کا نام ’’ قصاب کی دکان‘‘ رکھا ہے۔ یورپ کے طعنہ دینے کی بہ نسبت ہم کو زیادہ افسوس یہ ہے کہ اس طرز تحریر نے مسلمانوں کے بہت سے عجیب و غریب کارنامے گمنامی کی خاک میں دفن کر دئیے ہم نہایت قوی دلیلوں سے اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ مسلمانوں کی حکومت کا زمانہ، مۃذب حکومت کا زمانہ تھا، انتظام کے جدا جدا صیغے قائم تھے، اور ہر صیغہ کا وزیر یا سیکرٹری الگ تھا، ہمیشہ تیسویں برس تمام اراضی کی پیمائش ہوتی تھی، اور زمین کی افزائش اور لیاقت کے لحاظ سے دفتر خراج کی اصلاح و ترمیم ہوتی تھی، پبلک ورکس یعنی منافع عامہ کا وسیع محکمہ تھا، جو سڑکوں کی درستی، پلوں کی مرمت، شہر کی صفائی، حفظان صحت اور اس قسم کے تمام امور کا متکفل تھا۔ غرض ایک مہذب سلطنت کے جو لوازمات ہیں سب تھے لیکن آج ہم ان کی تفصیل بنانے سے بالکل عاجز ہیں، اور یہی عجز ہے جو ہم کو اپنی قدیم تاریخوں کی شکایت پر مجبور کرتا ہے۔ بہر حال یہ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اسلامی حکومت کی تہذیب و تمدن کے متعلق جدا جدا عنوان قائم کئے جائیں، اور جہاں تک ممکن ہو ان کے متعلق تفصیلی مضامین لکھے جائیں۔ اگر اس طریقہ میں ہم کو کامیابی ہوئی، تو ان مضامین کا مجموعہ جو وقتاً فوقتاً ہمارے میگزین میں شائع ہوتے رہیں گے مسلمانوں کی تہذیب و تمدن کی مکمل تاریخ بن جائے گی اور اس وقت ہم اس کو ایک مستقل کتاب کی صورت میں شائع کر سکیں گے۔ یہ آرٹیکل پبلک ورکس کی ایک خاص شاخ یعنی شفاخانوں کے متعلق ہے۔ اس قسم کی خد ر وطبابت جو لازمہ زندگی ہے، ہر قوم میں ہمیشہ پائی جاتی ہے، اور عرب میں بھی ہمیشہ سے موجود تھی، لیکن علمی طبابت جو کسب و تعلم کی محتاج ہے اس کا پتہ بھی عرب میں مدت سے چلتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت سے پہلے حارث بن کلدہ نے جو طائف کا رہنے والا تھا، فارس میں جا کر طب کی تحصیل کی، اور وہاں سے واپس آ کر قوم کی زبان سے طبیب العرب کا خطاب حاصل کاے۔ طبابت کے تعلق سے اس نے نوشیروان کے دربار میں بھی رسائی حاصل کی تھی۔ اس کا بیٹا نضر بن حارث اس سے زیادہ نامور ہوا، اور اس کی بدولت علم طب کو عرب میں زیادہ ترقی ہوئی، یہاں تک کہ حضرت عمرؓ نے جب فارس پر لشکر کشی کی تو فوج کے ساتھ بہت سے طبیب و جراح بھی بھیجے۔ امر معاویہؓ نے عرب کو چھوڑ کر دمشق کو پایہ تخت بنایا، اور سلطنت اور دربار کے ٹھاٹھ جمائے، چنانچہ ایک عیسائی طبیب جس کا نام ابن آثال تھا، خاص دربار کا طبیب مقرر ہوا۔ اس کے سوا اور بہت سے طبیب دربار سے تعلق رکھتے تھے۔ تمدن کی وسعت کے ساتھ اس صیغہ کو بھی برابر ترقی ہوتی گئی اور ملک میں بہت سے جراح و طبیب پیدا ہو گئے جو بطور خود و اپنے گھروں پر علاج کرتے تھے، کیونکہ اس وقت تک شفاخانوں کا طریقہ نہیں قائم ہوا تھا۔ سب سے پہلے جس نے اس کی بنیاد ڈالی وہ حکومت بنی امہ کا تیسرا تاجدار ولید بن عبدالملک تھا۔ ولید کو رفاہ عام کے کاموں سے طبعی لگاؤ تھا، اور اس صیغہ میں بہت سے کام ہیں، جو اول اسی کے ہاتھوں سے عمل میں آئے، اول اسی نے مہمان خانہ عام قائم کیا، ملک میں جس قدر اندھے اور مفلوج تھے، سب کی فہرست مرتب کرا کے ان کے وظیفے مقرر کر دئیے، اور حکم دیا کہ گھر سے نہ نکلنے پائیں اسی سلسلہ میں شفاخانہ کی بنیاد ڈالی، جو88ھ میں بن کر تیار ہوا، اور بہت سے طبیب و جراح علاج کے لیے متعین ہوئے1؎ محکمہ طبابت کے قائم ہونے سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ یہودی و عیسائی علماء کثرت سے دربار میں باریاب ہوئے، اور یونانی علوم و فنون سے واقف ہونے کا راستہ کھلا، کیونکہ طب کی عمدہ تصنیفات یونانی ہی زبان میں تھیں اور ان کے ترجمہ کے بغیر علاج اور دوا سازی وغیرہ میں ترقی نہیں ہو سکتی تھی۔ چنانچہ اسی زمانہ میں ماسر جو یہ یہودی نے اہرن فس کی کتاب کا سریانی زبان سے ترجمہ کیا، اور یہ کتاب شاہی کتب خانہ میں داخل کی گئی حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ نے اپنے عہد حکومت میں اس ترجمہ کو کتب خانہ سے نکلوا کر نقلیں کرائیں اور بہت سے نسخے تمام لوگوں کے استعمال کیلئے شائع اور مشتہر کئے 2؎ رفتہ رفتہ تمام ملک میں کثرت سے شفاخانے قائم ہو گئے دولت عباسیہ کے آغاز میں جذیسا پور کے شفاخانہ نے جس کا مہتمم اور معالج جار جس تھا، نہایت شہرت پائی۔ جارجس یونانی زبان کا بہت بڑا ماہر تھا، اور فن طب میں اجتہاد کا منصب رکھتا تھا اس نے شفا خانوں کے استعمال کے لیے سریانی زبان میں ایک نہایت عمدہ قرا بادین تیارائی جس کا ترجمہ زمانہ ما بعد میں حنین بن اسحاق نے عربی میں کیا 148ھ میں خلیفہ منصور عباسی بیمار ہو کر زندگی سے مایوس ہو گیا تو جارجس کے نام طلبی کا فرمان بھیجا، جارجس نے شفاخانہ کا اہتمام بیٹے کے سپرد کیا، اور دربار خلافت میں حاضر ہوا، اس کے علاج سے منصور کو شفا ہو گئی۔ منصور کی فرمائس سے اس نے یونانی زبان کی بہت سی کتابیں عربی زبان میں ترجمہ کیں اس مشہور شفاخانہ کا دوسرا ڈاکٹر سابور ابن سہل تھا، جو متوکل کے زمانہ میں تھا اور255ھ میں وفات پائی اس نے ایک نہایت مفصل قرابا دین تیار کی، جس میں سترہ باب تھے، کئی سو برس تک تمام شفاخانوں میں اسی قرابا دین پر عمل درآمد رہا۔ ماسویہ جو ایک نامی طبیب گذرا ہے اور جس کے حالات علامہ ابن ابی اصیبعہ نے کسی قدر تفصیل سے لکھے ہیں، اسی ہسپتال میں تیس برس تک دوا سازی اور مرہم پٹی کا کام کرتا رہا۔ عباسیوں کے ابتدائی زمانہ تک تمام شفاخانوں میں یونانی و فارسی طبابت کے اصول کے موافق علاج ہوتا تھا، لیکن رفتہ رفتہ برامکہ کے طفیل سے ویدک بھی شامل ہو گئی۔ یحییٰ بن خالد برمکی نے جو ہارون الرشید کا وزیر اعظم اور دولست عباسیہ کا دست و بازو تھا، ایک شخص کو ہندوستان بھیجا کہ وہاں جو دوائیں اور نباتات علاج میں برتی جاتی ہیں ان کو بہم پہنچا کر ساتھ لائے 1؎ یحییٰ نے ہندوستان کے نامی طبیبوں اور ویدکوں کو بھی دربار میں طلب کیا، چنانچہ منکہ، سالے اور ابن دہن بغداد میں آئے۔ منکہ نے بہت سی سنسکرت کتابوں کا جو طب کے متعلق تھیں، عربی زبان میں ترجمہ کرایا ، ابن دہن اس شفاخانہ کا افسر مقرر ہوا، جو خاندان برامکہ نے بغداد میں تعمیر کرایا تھا، بغداد میں اس وقت اگرچہ بہت سے شفاخانے موجود تھے مگر یہ جدت برامکہ ہی کے ہسپتال کو حاصل تھی کہ اس کا افسر اور ڈاکٹر ایک ہندو حکیم تھا اس واقعہ سے ہم مسلمانوں کی بے تعصبی اور علمی قدر دانی کا بھی اندازہ کر سکتے ہیں ششرت جو ہندوستان کا ایک مشہور حکیم گذرا ہے، فن طب میں اس کی ایک نہایت عمدہ تصنیف دس مقالوں میں تھی، یحییٰ نے منکہ کو اس کے ترجمے 1؎ فہرست ابن الندیم ص345 پر مامور کیا1؎ اور جب ترجمہ ہو گیا تو حکم دیا کہ شفاخانوں میں قرابا دین کے طور پر کام میں لایا جائے۔ ہارون الرشید نے ایک خاص ہسپتال اور تعمیر کیا اور ماسویہ کو جس کا ذکر اوپر گذر چکا ہے، اس کا مہتمم اور ڈاکٹر مقرر کیا رشید کے زمانہ میں طبابت کا مستقل اور وسیع سر رشتہ قائم ہو گیا، متعدد شفاخانے ایک ایک ڈاکٹر کی نگرانی میں تھے، اور ایک شخص تمام شفاخانوں کا انسپکٹر جنرل ہوتا تھا، جو رئیس الاطباء کے لقب سے پکارا جاتا تھا یہ عہدہ اول بختیشوع کو171ھ میں اور اس کے بعد اس کے بیٹے جبریل کو 175ہجری میں ملا، جبریل کی تنخواہ دس ہزار درہم ماہوار تھی اور پانچ ہزار ماہوار بھتہ2؎ تھا۔ یہ تو خاص عہدہ کی تنخواہ تھی، دربار خلافت، زبیدہ خاتون اور برامکہ وغیرہ کے ہاں سے جو سالانہ مقرر تھا، اس کی تعداد کئی لاکھ تھی، جس کی تفصیل خو دجبریل کے کاغذات حساب سے علامہ ابن ابی اصیعبہ نے نقل کی ہے بختیشوع اور جبریل دونوں باپ بیٹے عیسائی تھے، اور باوجود اس کے ہارون اور مامون کے دربار میں ان کو یہ عزت حاصل تھی کہ وزراء اور امراء ان کے دست نگر رہتے تھے، یہاں تک کہ جبریل کا بیٹا بختیشوع ۔ لباس ، ساوری، ساز و سامان، حشمت و شوکت میں خود خلیفہ وقت کا مقابلہ کرتا تھا۔ یہ تعجب ہے کہ باوجود اس کے کہ تمام ممالک اسلامی میں ہر جگہ شفاخانوں کا رواج ہو گیا تھا، مصر میں ایک مدت تک اس مقصد کے لیے کوئی خاص عمارت نہیں تعمیر ہوئی۔ علامہ مقریزی نے مغافر کے ایک شفاخانہ کا ذکر کیا ہے، جو فتح بن خاقان وزیر خلیفہ المتوکل باللہ کے حکم سے تعمیر ہوا تھا، لیکن اس کی بنا کی تاریخ یا اور کسی قسم کی تفصیل نہیں لکھی اس سے زیادہ یہ کہ ابن طولون کے ہسپتال کے ذکر میں لکھا ہے کہ اس سے پہلے مصر میں کوئی شفاخانہ 1؎ فہرست ص303،2؎ طبقات ص132,137 موجود نہ تھا، ہماری دانست میں اس کی یہ وجہ ہے کہ اسلام سے پہلے مصرفن طب کا مشہور درس گاہ تھا، اور ملت بڑے بڑے حکیم و طبیب موجود تھے، جو یونانی حکماء کے ہم پلہ سمجھے جاتے تھے۔ان حکماء کی وجہ سے مطب اور علاج کو نہایت ترقی تھی، ہر حکیم کا گھر گویا ایک مستقل شفاخانہ تھا، اور ممکن بلکہ غالب احتمال یہ ہے کہ باقاعدہ شفاخانے بھی موجود رہے ہوں۔ اسلام کے بعد ولید کے زمانہ سے شفاخانوں کی بنیاد پڑی اور رفتہ رفتہ اس کا وسیع سر رشتہ قائم ہو گیا، لیکن اس صیغہ کا تمام اہتمام مدت تک عیسائیوں کے ہاتھ میں رہا، اور وہی انسپکٹر جنرل اور ڈاکٹر وغیرہ مقرر ہوتے تھے۔ اس حالت میں چنداں ضرورت نہ تھی کہ جو مطب گاہیں یا شفاخانے نہایت عمدگی کے ساتھ پہلے سے قائم تھے، ان کو بے رونق کر دیا جائے، اور نئی عمارتیں قائم کی جائیں، بہر حال وجہ جو کچھ ہو، احمد بن طولون کے زمانہ تک مصر میں کوئی اسلامی شفاخانہ موجود نہ تھا۔ احمد بن طولون دولت عباسیہ کی طرف سے مصر و مغرب و شام کا گورنر تھا، اور چونکہ سلطنت عباسیہ کو روز بروز ضعف ہوتا جاتا تھا، اس کی حالت مستقل سلطنت تک پہنچ گئی تھی، 261ھ میں اس نے ایک نہایت عظیم الشان شفاخانہ کی بنیاد ڈالی، اور تیاری کے بعد بہت سی جائیداد اس کے مصارف کے لیے وقف کی صرف کا تخمینہ ساٹھ ہزار دینار ہوا، جس کے کم از کم تین لاکھ روپے ہوتے ہیں۔ اس میں علاج کا دستور یہ تھا کہ جب بیمار علاج کے لیے آتا تھا، تو اس کے کپڑے اور جو کچھ اس کے پاس نقدی ہوتی تھی، لے لی جاتی تھی، اور شفاخانہ کے خزانچی کے پاس امانت رہتی تھی۔ شفاخانہ کی طرف سے اس کو نیا کپڑا اور بچھانے کے لیے بستر ملتا تھا، صبح اور شام دونوں وقت جراح اور ڈاکٹر اس کے دیکھنے اور دوا و خوراک وغیرہ میں کمی بیشی کرنے کی غرض سے آتے تھے۔ جب صحیح ہو کر اتنی طاقت آ جاتی تھی کہ روٹی اور مرغ کا شوربا کھانے لگتا تھا، تب اس کو اس کی امانت واپس کر دی جاتی تھی، اور ہسپتال سے چلے جانے کی اجازت ملتی تھی۔ احمد بن طولون ہمیشہ ہر جمعہ کو خود ملاحظہ کے لیے آتا تھا، اور دواخانہ وغیرہ کی جانچ کرتا تھا1؎ پاگلوں کے علاج کے لیے الگ کمرے تھے، اور نہایت خبر گیری سے ان کا علاج ہوتا تھا۔ احمد بن طولون نے اس صیغہ میں ایک اور جدت کی جو اور کہیں نہ تھی 263 ہجری میں اس نے جو بہت بڑی عظیم الشان جامع مسجد ایک لاکھ دینار کے صرف سے بنوائی۔ اس میں ایک طرف ایک وسیع مکان بنوایا، جس میں ہر وقت ہر قسم کی دوائیں، اور شربت موجود رہتے تھے۔ ایک طبیب مقرر تھا، جو ہمیشہ جمعہ کے دن وہاں نماز کے اول وقت سے اخیر تک بیٹھا رہتا تھا، مسجد میں اتفاقیہ کوئی شخص کسی عارضہ میں مبتلا ہو جاتا تھا، تو طبیب کے پاس لایا جاتا تھا، اور اس کا علاج ہوتا تھا۔ خلیفہ مقتدر باللہ کے زمانہ میں اس صیغہ کو نہایت ترقی ہوئی، اور بہت سی نئی باتیں ایجاد ہوئیں علی بن عیسیٰ وزارت کا منصب رکھتا تھا، اور اس کو رفاہ عام کے کاموں پر نہایت توجہ تھی، اتفاق یہ کہ اس زمانہ میں کثرت سے وبائی امراض پھیلے، نسان بن ثابت بن قرہ جو بہت بڑا مشہور طبیب اور صابی المذہب تھا، شفاخانوں کا انسپکٹر جنرل تھا، علی نے اوس کو متعدد فرمان اس بارہ میں لکھے، اور شفاخانوں کے متعلق نئے نئے کارخانے قائم کئے۔ سب سے پہلے یہ کیا کہ چونکہ اس وقت تک جیل خانوں کے لیے علیحدہ ڈاکٹر نہیں ہوتا تھا، اس نے سنان کو حکم دیا کہ چند طبیب خاص جیل خانوں میں علاج کرنے کے لیے مقرر کئے جائیں، ٹمپریری ڈسپنسری یعنی عارضی ہسپتالوں کا صیغہ قائم کیا، بہت سے طبیب مقرر ہوئے کہ چھوٹے چھوٹے قصبات ہیں جہاں طبیب اور شفاخانے نہیں ہیں، دورہ کریں، اور ہر جگہ دو دو چار چار دن ضرورت کے موافق قیام کر کے 1؎ یہ تمام تفصیل علامہ مقریزی نے کتاب انحطط وآلاثار میں لکھی ہے دیکھو کتاب مذکور ص405 جلد دوم بیماروں کا علاج کریں۔ ان طبیبوں کے ساتھ ایک مختصر دواخانہ ہوتا تھا، اور قصبات اور دیہات میں علاج کرتے پھرتے تھے۔ ایک نئی بات یہ ہوئی کہ امتحان کا طریقہ قائم ہوا، جو اس سے پہلے بالکل مروج نہ تھا۔ اس کی ابتداء یوں ہوئی کہ 319ھ میں ایک نیم حکیم نے ایک بیمار کا غلط علاج کیا، اور وہ مر گیا، خلیفہ کو اس کی اطلاع ہوئی، تو یہ حکم صادر ہوا کہ کوئی شخص باقاعدہ جب تک امتحان نہ دے مطب اور علاج نہ کرنے پائے۔ سنان بن ثابت ممتحن مقرر ہوا، اور ہزاروں طبیبوں نے امتحان دیا۔ بغداد کی وسعت اور تمدن کا اس سے اندازہ کرنا چاہئے کہ آٹھ سو ساٹھ آدمی امتحان میں پورے اترے، اور ان کو سند عطا کی گئی۔ حالانکہ امتحان میں وہ لوگ شامل نہ تھے، جن کا کمال پہلے مسلم تھا، یا جو لوگ دربار سے تعلق رکھتے تھے۔ سند میں تصریح ہوتی تھی کہ کس درجہ کا امتحان دیا ہے اور کس علاج کی اس کو اجازت دی گئی ہے۔ مقتدر نے ان انتظامات کے علاوہ متعدد بڑے بڑے شفاخانے قائم کئے۔ ایک شفاخانہ اپنی ماں کے نام سے قائم کیا، جس کا سالانہ خرچ سات ہزار دینار تھا، جس کے اقل مرتبہ پنتیس ہزار روپے ہوئے، یہ شفاخانہ آب و ہوا اور منظر کی خوبی کے لحاظ سے دجلہ کے کنارے تعمیر کیا گیا، محرم 306 ھ میں افتتاح کی رسم عمل میں آئی، اور بہت سے طبیب و جراج معقول مشاہرہ پر متعین ہوئے۔ اسی سنہ میں ایک اور شفاخانہ اپنے نام سے قائم کیا جس کا ماہانہ خرچ دو سو دینار یعنی ہزار روپیہ ماہانہ تھا1؎ علی بن عیسیٰ وزیر سلطنت نے اپنے صرف سے محلہ حربیہ میں 306ھ میں ایک شفاخانہ قائم کیا اور مشہور طبیب ابو سعید بن یعقوب اس کا ڈاکٹر مقرر ہوا۔ اس زمانے کے قریب یعنی 313ھ میں محلہ ورب المفضل ابن الفرات نے ایک ہسپتال قائم کیا۔ اور ثابت بن صنان 1؎ یہ تمام تفصیل طبقات الاطباء ص121,122 المشقی فی اخبارام القری ص12میں ہے۔ کو اس کے اہتمام کی خدمت دی 1؎ یہ وہ شفاخانے ہیں، جو خاص بغداد میں تعمیر ہوئے، اور جن کے حالات ہم کسی قدر تفصیل کے ساتھ معلوم کر سکے، لیکن اسلامی فیاضیوں نے تمام ممالک میں جس کثرت سے اس قسم کی مفید یادگاریں قائم کی ہوں گی، ان کا شمار کون کر سکتا ہے؟ بغداد اگرچہ شفاخانوں سے معمور تھا، تاہم آبادی کی کثرت کے لحاظ سے ابھی اور ضرورت تھی۔ اسی ضرورت کے لحاظ سے عضد الدولہ نے ایک اور شفاخانہ قائم کیا، جس کی وسعت، خوبی، عمارت، کثرت آلات، ترتیب اور درستی کے لحاظ سے مورخین نے تسلیم کیا ہے کہ تمام دنیا میں کوئی شفاخانہ اس کے مثل تعمیر نہیں ہوا۔ علامہ ابن خلکان کے خاص الفاظ یہ ہیں الیس فی الدنیا مثل ترتیبہ، واعدلہ من الآیات ما یقصر الشرح عن وصفہ عضد الدولہ دنیا کے مشہور بادشاہوں میں سے ہی اسلام کی تاریخ میں وہ سب سے پہلا فرماں روا ہے، جو بادشاہ کے نام سے پکارا گیا۔ بغداد میں خلفائے عباسیہ کے سوا خطبہ میں کسی کا نام نہیں پڑھا گیا تھا، یہ فخر سب سے پہلے عضد الدولہ ہی کو حاصل ہوا۔ اس کی سلطنت نہایت وسیع اور منتظم تھی، وہ خود نہایت علم دوست اور خاص کر رفاہ عام کے کاموں کا نہایت دلدادہ تھا۔ اس نے اپنے عہد میں حفظان صحت کے صیغے کو نہایت ترقی دی، تمام اضلاع اور قصبات میں نئے شفاخانے قائم کئے، اور پرانوں کی اصلاح و مرمت کرائی۔ جس عظیم الشان شفاخانہ کا ہم نے اوپر ذکر کیا، اوس کی عمارت 368 ہجری میں انجام کو پہنچی، یہ شفاخانہ در حقیقت ایک میڈیکل یونیورسٹی تھا۔ نہایت کثرت سے ہر قسم کے آلات مہیا کئے گئے تھے، اور بہت سے مشہور طبیب لیکچر دینے کے لئے مقرر تھے۔ علاج کے لئے دور دور سے مشہور طبیب بلوا کر متعین کئے گئے تھے۔ ان سب کی تعداد اول 50 تھی انتخاب کے بعد گھٹ کر 24رہ گئے، جن میں این بکس، ابو یعقوب، ابن کشکرایا، ابو عیسیٰ، بنو حسنو جیسے نامور اطبا داخل تھے۔ جراحوں میں سے ابو الخیر، ابو الحسن نفاح زیادہ نامور تھے۔ پٹی باندھنے والوں کا افسرابو تصلت تھا، جو اس فن میں اپنا جواب نہیں رکھتا تھا۔ بہت سے کحال تھے، جن میں زیادہ مشہور ابو النصر بن الرحلی تھا،فزیکل سائنس کے بہت سے اساتذہ تھے، غرض فن طب کی جس قدر شاخیں ہیں، سب کے مشہور ماہر اور استاد اس میں لیکچر دینے اور علاج کرنے کے لیے مقرر تھے، اور ہر صیغہ میں متعدد لیکچرار اور پروفیسر تھے، آگے چل کر ایک مناسب موقع پر ہم بعض کے حالات بھی لکھیں گے۔ چوتھی صدی میں سلطنت اسلام کی وسعت نے بہت سے صاحب تاج و تخت پیدا کر دئیے، یہاں تک کہ رفتہ رفتہ سامانیہ، سلجونیہ، سلجوقیہ، غرنویہ، فاطمیہ، نوریہ، ایوبیہ، اتابکیہ وغیرہ بڑی بڑی پر زور اور وسیع سلطنتیں قائم ہو گئیں۔ اگرچہ اس تفرق اجزاء سے مجموعی قوت کو صدمہ پہنچا، لیکن رفاہ عام کے صیغہ کو بہت ترقی ہوئی، جس کی وجہ یہ تھی کہ جو نئی حکومت قائم ہوئی تھی، اوس کو قبول عام حاصل کرنے کے لیے اس سے بڑا کوئی آلہ نہ تھا۔ اس سلسلہ نے طبابت کو بھی بہت فروغ دیا، اور ہر جگہ نہایت کثرت سے شفاخانے قائم ہوئے۔ چھٹی صدی میں جب علامہ ابن جبیر نے حج کی تقریب سے عراق و شام کا سفر کیا، تو بغداد، موصل، حران، حلب، حماۃ، دمشق میں اس کثرت سے شفاخانے دیکھے کہ حیران رہ گیا۔ چنانچہ اس نے اپنے سفر نامے میں ان شہروں کے شفاخانوں کا ذکر تفصیل اور اجمال کے ساتھ کیا ہے۔ اس عہد میں سلطان نور الدین اور صلاح الدین نے تمام ممالک میں کثرت سے جو شفاخانے قائم کئے۔ ان میں سے بعض مشہور شفاخانوں کا ذکر ہم اس مقام پر کرتے ہیں۔ نوریہ، یہ شفاخانہ نور الدین زنگی نے دمشق میں تعمیر کرایا تھا، کروسیڈ (یعنی جنگ صلیبی) کے معرکوں میں یورپ کا ایک فرماں روا نور الدین کی قید میںآ گیا تھا، اس نے ایک بیش قرار رقم اپنی رہائی کے لیے پیش کی، اور نور الدین نے اس کو رہا کر دیا۔ شفاخانہ مذکور اسی قسم سے تیار ہوا، اور اس سے اس کی لاگت کی مقدار کا اندازہ ہو سکتا ہے، اس کے خوبصورت اور بلند دروازے موید الدین نے تیار کئے تھے، جو بخاری میں نہایت کمال رکھتا تھا، اور جس نے محض فن بخاری کی تکمیل کے لیے اقلیدس اور مجسطی کی تکمیل کی تھی 1؎ شفاخانوں کا اب تک یہ دستور تھا کہ امراء اور دولت مندوں کو اس میں علاج کرانے کی اجازت نہیں ہوتی تھی، لیکن نور الدین نے جو وقف نامہ لکھا اس میں یہ اجازت دی کہ جو نایاب دوائیں یہاں کے سوا اور کہیں نہیں مل سکتیں، ان کے استعمال میں غریب اور امیر سب یکساں ہیں، علامہ ابن جبیر نے دوران سیاحت میں اس کو دیکھا تھا، وہ لکھتے ہیں کہ اس میں بہت سے محرر، منشی، طبیب، خدام نوکر ہیں، بیماروں کا رجسٹر منشیوں کے پاس رہتا ہے، اور اس میں بیماروں کے نام و نشان کے علاوہ ان کے مصارف اور ضروریات کی تفصیل لکھی جاتی ہے۔ اطباصج کے وقت ہمیشہ ہر روز بیماروں کو دیکھتے ہیں، اور ان کی دوا اور غذا کی خبر گیری کرتے ہیں، روزانہ خرچ کم و بیش سو روپیہ ہے علامہ مذکور نے لکھا ہے کہ دمشق میں اسی قسم کا ایک اور شفاخانہ ہے، لیکن یہ نیا ہے، اور زیادہ پرشان و شوکت ہے۔ سلطان صلاح الدین نے جب فاطمیین کی سلطنت کو برباد کیا، تو شاہی ایوانوں میں سے ایک نہایت شاندار ایوان تھا، جس کی دیواروں پر پوا قرآن مجید لکھا ہوا تھا، سلطان نے اس کو دیکھ کر کہا کہ یہ مکان شفاخانے کے لیے موزوں ہے۔ چنانچہ577ھ میں اوس کو تھوڑے سے تغیر اور اصلاح کے بعد شفاخانہ بنایا، اور بہت سے طبیب و جراح، علمائے طبعیات، مشرف، عامل، خدام مقرر کئے2؎ 1؎ طبقات الاطباء ص190 ، 2؎ مقریزی ص407 جلد دوم علامہ ابن جبیر نے اس کی نسبت یہ الفاظ لکھے ہیں ’’ قاہرہ کا یہ شفاخانہ، صلاح الدین کے مفاخر میں سے ہے۔ وہ ایک نہایت خوبصورت اور شان دار ایوان ہے، بہت سے کمرے ہیں، ہر کمرہ میں پلنگ بچھے ہیں، جن پر سلیقہ سے بچھونے اور تکیے لگے ہیں، دواؤں کے لیے الگ کمرہ ہے، اور اس کے لیے دوا ساز اور منشی وغیرہ مقرر ہیں، عورتوں کے علاج کے لیے اسی سلسلہ میں ایک جداگانہ قطعہ ہے، اور ان کی خدمت، خیر گیری اور علاج کے لیے عورتیں مامور ہیں۔ پاگلوں کے علاج کے لیے الگ مکانات ہیں جن کا احاطہ نہایت وسیع ہے، اور دریچوں میں لوہے کی جالیاں ہیں۔ شفاخانہ کا اہتمام ایک طبیب سیکرٹری کے متعلق ہے، اس کے ماتحت بہت سے نوکر ہیں، جو صبح شام دونوں وقت بیماروں کا ملاحظہ کرتے ہیں اور ان کی غذا اور دوا میں تبدیلی اور اصلاح کرتے رہتے ہیں۔ سلطان ہمیشہ خود شفاخانہ کے ملاحظہ کے لیے آتا ہے، اور بیماروں کے معالجہ اور خبر گیری کی سخت تاکید رکھتا ہے ‘‘ علامہ مذکور نے لکھا ہے کہ قاہرہ میں بعینہ اسی درجہ کا ایک اور شفاخانہ ہے۔ سلطان مذکور نے اسکندریہ میں جو شفاخانہ قائم کیا، وہ بھی نہایت اعلیٰ درجہ کا تھا، اور ایک خاص بات میں تمام اور شفاخانوں سے ممتاز تھا یعنی جو لوگ شفاخانہ کے علاج کو خلاف شان سمجھتے تھے، ان کے علاج کے لیے الگ طبیب و جراح مقرر تھے، جو ان کے گھروں پر جا کر علاج کر آتے تھے، البتہ یہ تخصیص تھی کہ یہ فیاضی صرف ان لوگوں کے لیے مخصوص تھی، جو مسافر اور اجنبی ہوتے تھے۔ نور الدین اور صلاح الدین کی تقلید نے شفاخانوں کے رواج کو اور ترقی دی 673 ہجری میں ملک منصور قلاؤن جو اس زمانہ تک فوجی افسر تھا، ایک سفر میں دمشق پہنچ کر قولنج کے عارضہ میں مبتلا ہوا، چونکہ مرض نہایت شدید تھا، اور اطباء نے جو کمیاب دوائیں تجویز کیں، وہ اور کہیں نہیں مل سکتی تھیں، اس لیے نور الدین کے شفاخانہ سے دوائیں منگوائی گئیں، قلاؤن کو جب شفا ہو گئی، تو شفاخانہ کے ملاحظہ کے لیے گیا، اور دیکھ کر متعجب رہ گیا۔ دل میں نیت کی کہ سلطنت حاصل ہو گی، تو اس سے بڑھ کر شفاخانہ بنواؤں گا، 678 ھ میں جب تخت نشین ہوا تو شفاخانہ کی تعمیر شروع کی، جہاں تک ہم کو معلوم ہے شفاخانہ عضدیہ کے سوا تمام ممالک اسلامی میں اس عظمت کا کوئی شفاخانہ کبھی تعمیر نہیں ہوا، اور بعض خصوصیتوں کے لحاظ سے تو اس کو عضد یہ پر بھی ترجیح حاصل تھی۔ فاطیمین کے شاہی مکانات میں سے ایک بڑا وسیع محل تھا، جس کو خلیفۃ العزیز باللہ کے بیٹے نے تعمیر کرایا تھا، ان کی حکومت کی بربادی کے بعد سلطان صلاح الدین کے قبضہ میں آیا، اور اسی کے خاندان میں وراثۃً چلا آتا تھا۔ قلاؤن نے شفاخانہ بنانے کا ارادہ کیا تو اس سے زیادہ موزوں کوئی عمارت نہیں مل سکتی، چنانچہ مالک مکان سے اس کو خریدا، اور 683 ھ میں شفاخانہ کی بنیاد ڈالی اس مکان کی قدیم صورت یہ تھی کہ چار بڑے بڑے ایوان تھے، اور مکان کا کل احاطہ 10600 گز تھا، احاطہ ہی میں ایک نہر تھی، جس کے ذریعہ سے ایوانوں میں پانی آتا تھا۔ قلاؤن نے ایوانات بد ستور رہنے دئیے، اور بہت سی نئی عمارتیں اضافہ کیں، تین سو قیدی اور بہت سے مزدور روزانہ کام کرتے تھے، مصر و قاہرہ میں جس قدر راج اور معمار تھے، عام حکم تھا کہ شفاخانہ کے سوا اور کہیں کام نہ کرنے پائیں، ستون جس قدر تھے عموماً سنگ مر مر یا سنگ رخام کے تھے۔ قلاؤن خود روزانہ عمارت کے ملاحظہ کے لیے جاتا تھا۔ غرض اس اہتمام اور سرو سامان سے پورے گیارہ مہینے میں عمارت بن کر تیار ہوئی۔ علامہ سخاوی نے لکھا ہے کہ یہ شفاخانہ قاہرہ کی نامی اور عظیم الشان عمارتوں میں سے شمار کیا جاتا ہے، قلاون نے اس کے مصارف کے لیے بہت سی جائدادیں وقف کیں، جن کی سالانہ آمدنی دس لاکھ درہم تھی۔ وقف نامہ میں لکھا کہ یہ شفاخانہ امیر، غریب، غلام، آقا، بادشاہ، رعیت سب کے لیے عام ہے، بلکہ جو لوگ شفاخانہ میں نہ آئیں، وہ بھی اس کی دوائیں استعمال کر سکتے ہیں۔ ایک خاص التزام یہ تھا کہ ہر مرض کے علاج کے لیے جدا جدا کمرے تھے، چنانچہ بخار والوں کے لئے قدیم کے چاروں ایوان تھے، آشوب چشم، لزرہ، اسہال وغیرہ بیماریوں کے لیے الگ الگ مکانات تھے، مردوں اور عورتوں کی تفریق الگ تھی، یعنی دونوں کے لیے جدا جدا قطعے تھے۔ ان کے علاوہ اور بہت سے کمرے تھے، جو کھانا پکانے، دوا بنانے، بیماریوں کے رجسٹر رکھنے، طب کے درس دینے اور اسی قسم کے کاموں کے لیے مخصوص تھے۔ لطف یہ کہ ان تمام کمروں میں نہر کے ذریعے سے پانی آتا تھا، اور ہر وقت پانی کی جدولیں جاری رہتی تھیں۔ شفاخانہ کے ساتھ ایک مدرسہ بھی تھا، جس میں چاروں مذہب کے فقیہ تعلیم دیتے تھے۔ انتظام کی درستی اور ترتیب کے لیے شفاخانہ کو متعدد صیغون میں تقسیم کیا تھا، اور ہر صیغہ کا سیکرٹری الگ تھا۔ جس کثرت سے لوگ اس میں علاج کو آئے تھے، ان کا اندازہ اس سے ہوا سکتا ہے کہ معمولی شربت چھوڑ کر شربت انار وغیرہ کے روزانہ پانچ سو رطل صرف ہوتے تھے۔ مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ میں بھی بہت سے شفاخانے قائم کئے 628 ہجری میں خلیفہ مستنصر نے مکہ معظمہ میں جو عالیشان شفاخانہ بنوایا تھا، شریف مکہ حسن بن عجلان نے 216ھ میں چالیس ہزار کے صرف سے اس کی مرمت کی سلطان ظاہر بیرس المتوفی 626ھ نے مدینہ منورہ کے قدیم شفاخانہ کی مرمت کی اور مصر سے ایک طبیب اور ہر قسم کی معجون اور دوائیں بھجوائیں ہندوستان میں بھی کثرت سے شفاخانے موجود تھے اور اگر ہم مقریزی کی روایت کا اعتبار کریں تو صرف ایک شہر دہلی میں محمد تغلق کے زمانہ میں ستر شفاخانے جاری تھے۔ جہانگیر نے 1014 ہجری میں تخت نشین ہونے کے ساتھ جو بارہ احکام صادر کئے ان میں ایک یہ تھا، اور شہر ہائے کلاں دار الشفاہا ساختہ اطبا بجہت معالجہ بیماران تعین نمایند وانچہ صرف و خروچ می شدہ باشد از سرکار خالصہ شریفہ می دادہ باشند۔ شفاخانوں کی تاریخ میں چند امور لحاظ کے قابل ہیں: 1شفاخانوں کی کثرت کی بڑی وجہ یہ تھی کہ جو شفاخانے کسی بادشاہ کے دور حکومت میں قائم ہوتے تھے وہ اس وجہ سے آئندہ برباد نہیں ہونے پاتے تھے کہ شفاخانہ اور اس کے متعلق جو جائداد ہوتی تھی، وقف میں داخل تھی، اور وقف میں شرعاً کسی کو تصرف کا اختیار نہیں ہے، نیا حکمران جو حکومت کے تخت پر بیٹھتا تھا۔ وہ قدیم یادگاروں پر خواہ مخواہ کچھ اضافہ کرنا چاہتا تھا۔ 2شفاخانہ کی کوئی قسم اور کوئی نوع ایسی نہ تھی، جو موجود نہ تھی۔ سفری شفاخانے اور جمعہ مسجد کے شفاخانہ کا ذکر اوپر گذر چکا ہے، فوجی شفاخانہ کا بھی نہایت معقول انتظام تھا، طبیبوں اور دواؤں کا انتظام تو خود صحابہؓ کے زمانہ میں موجود تھا، لیکن فوجی شفاخانہ کی باقاعدہ بنیاد سب سے اول سلطان محمود نے ڈالی، سلجوقیوں کا فوجی شفاخانہ دو سو اونٹوں پر چلتا تھا1؎ 3ایک خاص امر قابل لحاظ ہے کہ وقتاً فوقتاً جو اطبا، شفاخانوں کے افسر یا انسپکٹر جنرل مقرر ہوتے تھے، وہ عموماً مجتہدا الفن اور استاد الفن ہوتے تھے۔ ابو بکر رازی جو فن طب کا ایک رکن ہے، اور جس کی تصنیفات (جو سو سے متجاوز ہیں) سے ابن سینا نے فائدہ اٹھایا ہے، رے کے شفاخانہ کا ڈاکٹر تھا۔ سعید بن یعقوب و مشقی جو306 ہجری میں بغداد، مکہ و مدینہ کے شفاخانوں کا افسر مقرر ہوا، مشہور حکیم گذرا ہے، اس نے عربی زبان میں یونانی وغیرہ سے بہت سی کتابیں ترجمہ کیں۔ سنان بن ثابت جو مقتدر باللہ کے زمانہ میں شفاخانوں کا انسپکٹر جنرل تھا۔ فن طب کے ارکان میں شمار کیا جاتا ہے، طبقات الاطباء میں اس کے حالات پڑھنے سے اس کی وقت کا اندازہ ہو سکتا ہے۔ 1؎ تاریخ سلجوق عضدیہ شفاخانہ میں24 طبیب کام کرتے تھے، اور ہر ایک اپنے فن کا استاد ہوتا تھا۔ ان میں سے بعض کا حال ہم نہایت اختصار کے ساتھ لکھتے ہیں۔ ابو الحسن کشکرایا، یہ مشہور حکیم تھا، اور پہلے سیف الدولہ کے دربار میں نوکر تھا، سنان بن ثابت کے تمام شاگردوں میں نہایت ممتاز تھا۔ نطیف القس عیسائی تھا، اور بہت سی زبانیں جانتا تھا، یونانی سے بہت سی کتابیں عربی زبان میں ترجمہ کیں۔ ابو الفرج۔ یہ حکیم اور فلاسفر تھا، اور عیسائی مذہب رکھتا تھا، اس نے ارسطو اور بقراط و جالینوس کی کتابوں پر بہت سی مفید شرحیں اور حاشیے لکھے۔ ابن سینا نے اپنی تصنیفات میں اس کا ذکر کیا ہے، اور اس کے کمال کا اعتراف کیا ہے۔ وہ شفاخانہ میں علاج کے علاوہ طب پر لیکچر تھا دیتا تھا، اس کی تصنیفات کی مطول فہرست طبقات الاطباء میں مذکور ہے۔ ابراہیم بن بکس مختلف زبانیں جانتا تھا، عربی زبان میں یونانی وغیرہ کی بہت سی کتابیں ترجمہ کیں، یہ طب پر لیکچر دیا کرتا تھا، سعید بن ہتبہاللہ، خلیفہ مستظر باللہ کا طبیب تھا اس کی تصنیفات میں سے مغنی، کتاب الاقناع وغیرہ ہیں۔ امین الدولہ بن قلمیذ، مشہور عیسائی حکیم تھا۔ سریانی، فارسی، عربی زبانیں جانتا تھا خلیفہ وقت نے اس کو بغداد کے محکمہ طبابت کا افسر مقرر کیا تھا، اور تمام اطباء اس کی خدمت میں حاضر ہوتے تھے۔ عضدیہ شفاخانہ بھی اس کی ماتحتی میں تھا، اس کی بہت سی مفید تصنیفات یادگار ہیں۔ 3 شفاخانوں کے ساتھ دواؤں کے عمدہ بہم پہنچنے کا بھی نہایت اہتمام تھا، عطار جو دوائیں بیچتے تھے، ان کی جانچ اور امتحان کے لیے ایک خاص محکمہ تھا، جس کے افسر کا لقب رئیس الشابین ہوتا تھا۔ اس عہدہ پر ہمیشہ وہ اطبا مقرر ہوتے تھے، جو نباتات کے فن میں کمال رکھتے تھے۔ چنانچہ ساتویں صدی میں اس عہدہ پر ضیاء بن بیطار المتوفی 646 ہجری کا تقرر ہوا۔ جو اس فن میں اس درجہ کا کمال رکھتا تھا کہ مسلمانوں میں کوئی شخص اس کا ہمسر پیدا نہیں ہوا۔ نباتات اور ادویہ پر یونان میں جو کتابیں لکھی گئیں، اور ان پر مسلمانوں نے جو کچھ اضافہ کیا تھا، اس کو حفظ یاد تھیں۔ لیکن اس نے اسی پر اکتفا نہیں کی، بلکہ خود دور دراز ملکوں کا سفر کیا، یونان، اٹلی، جزائر، بحر روم میں نباتات کی تحقیقات کی، مصورین سے جو ہمیشہ اس کے ساتھ رہتے تھے گھاسوں اور بوٹیوں کی تصویریں کھچواتا تھا، اور ان کی مختلف حالتوں کی تاثیرین جداگانہ قلم بند کرتا تھا۔ اوس نے یونانیوں کی بہت سی غلطیاں ظاہر کیں، اور بہت سی نئی نباتات اور بوٹیاں دریافت کیں، جو یونانیوں کو معلوم نہ تھیں۔ 4 شفاخانوں میں جو لوگ اعمال ید مثلاً جراحی، کحالی، فصادی وغیرہ کاموں پر مامور ہوتے تھے، وہ فن طب کے پورے ماہر ہوتے تھے آج کل کے ہندوستانی اطباء کا سا حال نہ تھا کہ جراحی و فصاوی کو ہاتھ نہیں لگاتے۔ قاہرہ میں سلطان صلاح الدین نے جو شفاخانہ قائم کیا تھا۔ اس میں کحال کی خدمت قاضی نفیس الدین المتوفی 236 ھ کے سپرد تھی، جو تمام مملکت مصر کے افسر الاطباء تھے۔ شفاخانہ عضدیہ میں ابو الخیر اور ابو الحسن بن تقاح جراحی کا کام کرتے تھے، ہڈیوں کے جوڑنے اور مرہم پٹی کرنے پر حکیم ابو القلت مقرر تھا۔ اسلامی شفاخانوں کی یہ نہایت مختصر تاریخ ہے۔ اسلام میں اس صیغہ کو اس قدر وسعت ہوئی تھی، کہ شفاخانوں کے حالات اور شفاخانوں کے تجربوں پر بہت سے اطباء مثل ابو بکر رازی، امین الدولہ بن تلمیذ، ابو سعید زاہد العلماء نے مستقل کتابیں لکھیں، مگر افسوس ہے کہ وہ کتابیں آج دنیا سے ناپید ہیں، اس لیے ناظرین کو مجبوراً ہماری محدود اور ناکافی معلومات پر قناعت کرنی چاہیے۔ (رسائل شبلی مطبوعہ) ٭٭٭٭٭٭٭ ہندوستان میں اسلامی حکومت کے تمدن کا اثر کسی غیر قوم کا کسی غیر ملک پر قبضہ کرنا کوئی جرم نہیں، ورنہ دنیا کے سب سے بڑے فاتح سب سے بڑے مجرم ہوں گے، لیکن یہ دیکھنا چاہیے کہ فاتح قوم نے ملک کی تہذیب و تمدن پر کیا اثر پیدا کیا۔ چنگیز خان فتوحات کے لحاظ سے دنیا کا فاتح اعظم ہے، لیکن اس کی داستان کا ایک ایک حرف خون سے رنگین ہے۔ مرہٹے ایک زمانہ میں تمام ہندوستان پر چھا گئے لیکن اس طرح کہ آندھی کی طرح اٹھے، لوٹا مارا، چوتھ وصول کی، اور نکل گئے۔ بخلاف اس کے متمدن قوم جب کسی ملک پر قبضہ کرتی ہے، تو وہاں کی تہذیب و تمدن دفعۃً بدل جاتی ہے۔ سفر کے وسائل رہنے سہنے کا طور، کھانے پینے کے طریقے، وضع و لباس کا انداز، مکانوں کی سجاوٹ، گھروں کی صفائی، تجارت کے سامان، صنعت و حرفت کی حالت، ہر چیز پر ایک نیا عالم نظر آتا ہے، اور گو مفتوح قوم ضد سے احسان نہ مانے، لیکن در و دیوار سے شکر گذاری کی صدائیں آتی ہیں۔ اسی معیار سے ہم دیکھنا چاہتے ہیں کہ مسلمان جو ہندوستان میں آئے، کس شان سے آئے، اور ملک پر ان کا کیا اثر ہوا۔ لیکن اس مسئلہ پر گفتگو کرنے سے پہلے ہم کو بتانا چاہیے کہ ہندوستان کی قدیم تہذیب و تمدن کی حالت کیا تھی۔ چونکہ ہم اس مضمون میں صرف تیموری حکومت کے دور سے بحث کرنی چاہتے ہیں، اس لیے اسی زمانہ سے پہلے کی حالت کا دکھانا کافی ہو گا۔ اگرچہ یہ ظاہر ہے کہ اس سے قبل کی اسلامی حکومتوں نے بھی ہندوستان کی تہذیب و تمدن کو کچھ نہ کچھ ضرور ترقی دی تھی، تاہم بابر نے ترکستان سے آ کر ہندوستان کو جس حالت میں دیکھا اس کی تصویر اسی کے لفظوں میں یہ ہے۔1؎ اسپ خوب نے، گوشت خوب نے ہندوستان میں اچھے گھوڑے نہیں اچھا انگور و خونپرہ و میوہ ہائے خوب نے گوشت نہیں، انگور نہیں، خرپزہ نہیں، برف یخ و آب سرد نے حمام و مدرسہ نے نہیں، آب سرد نہیں، حمام نہیں، مدرسہ شمع و مشعل نے، شمع دان نے نہیں شمع نہیں، مشعل نہیں، شمع دان نہیں بجائے شمع، مشعل و جمع کثیر چوکینے می شمع کے بجائے دیوٹ ہوتا ہے، یہ تین باشد، دیوٹی می گویند، در دست چپ پایہ کا ہوتا ہے، ایک پایہ میں چراغدان خود سہ پایہ خوردی راگزفتہ اند کے منہ کی شکل کا ایک لوہا لکڑی کہ این سہ پایہ درکنار یک پایہ مثل میں وصل کر کے لگا دیتے ہیں، ایک سر شمع دان یک آہنے رابہ چوب بہ دھیمی بتی دوسرے پایہ میں لگی ہمیں سہ پایہ مضبوط کردہ اند ہوتی ہے، داہنے ہاتھ میں کدو یک فتیلہ سستی را کہ برابر نر انگشت کی ایک تو بتی ہوتی ہے، جس کا بودہ باشد، بہ چوب آہن دار پایہ سوراخ تنگ ہوتا ہے، اسی کا دیگر بستہ اند، در دست رات راہ سے تیل کی پتلی سی دھار ایشان یک کدوے ست کہ سوراخ آنرا گرتی ہے، راجوں، اور مہراجوں کو رات تنگ گذاشتہ مذکہ روغن ازان جا باریک کے وقت روشنی کا جب کچھ کام پڑتا ہے 1؎ بابر نے اپنے حالات ترکی زبان میں لکھے تھے، جو تزک بابری کے نام سے موسوم ہے، عبدالرحیم خان خانان نے اس کا فارسی میں ترجمہ کیا، جو بمبئی میں چھپ گیا ہے، یہ عبارت فارسی ترجمہ کی ہے۔ شدہ میریز دو بادشاہان وا امر اسے ایشان ہے، تو نوکر چاکر، یہی کثیف و یوٹ شہا اگر کاری کہ احتیاج بہ شمع داشتہ باشذ لے کر ان کے پاس کھڑے ہوتے ہیں ہمیں ویوٹ ہائے چرکین این چراغ آوردہ نزدیک گرفتنہ می ایسنسد، در باغ و عمارت ہا آب ہاے رواں باغوں اور عمارتوں میں آب رواں نہیں نے، در عمارات او صفاو ہوا و اندام عمارتوں میں نہ صفائی ہے، نہ موزونی وسیاق نے، رعیت و مردم ریزہ نہ ہوا، نہ تناسب، عام آدمی ننگے پاؤں تمام پائے برہنہ می گروند لنگوتہ ایک لنگوٹی لگائے پھرتے ہیں، عورتیں گفتہ یک چیز می بند ند زنان آنہا لنگی باندھتی ہیں، جس کا آدھا حصہ کمر خود یک لنگے بستہ اند، نصف آنرا سے لپیٹ لیتی ہیں، اور آدھا سر پر خود کمر بستہ اند، و نصف دیگر را بر سر ڈال لیتی ہیں خود انداختہ (تزک بابری ص204) بابر کو قریباً چار سو برس ہوئے، لیکن آج بھی ہندوستان اس کے بیان کی عینی شہادت دینے کو موجود ہے۔ اب دیکھو تیموریوں نے ہندوستان میں آ کر تہذیب و تمدن کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا، تہذیب و تمدن کی سینکڑوں جزئیات ہیں، ان میں سے مختصراً ہم بعض بعض کی تفصیل لکھتے ہیں: زمین کی پیداوار ہندوستان اگرچہ زرعی ملک ہے، اس لیے نباتات اور ثمرات کی قسم سے تمام چیزیں یہاں پیدا ہونی چاہیے تھیں، لیکن ہندو چونکہ ملک سے کبھی نکلتے نہ تھے، اس لیے ان کو دنیا کے ثمرات اور مزروعات کی خبر نہ تھی۔ اس کے سوا، ان کی قناعت پسند طبیعت کے لیے ٹریل، کہٹل، اور پھوٹ کیا کم تھی۔ تیموریوں نے یہاں آنے کے ساتھ اس طرف توجہ کی، اور ایران و خراسان کے لطیف پھول اور پھل لاکر تمام ہندوستان میں پھیلا دئیے، قلم اور پیوند لگانے سے ہندو مطلقاً واقف نہ تھے۔ سب سے پہلے اکبر کے زمانے میں محمد قلی افشار نے جو کشمیر میں داروغہ باغات تھا، کابل سے شاہ آلو منگوا کر پیوند لگایا اور پھر عام رواج ہو گیا، تاہم اکبر کے زمانہ تک آم کی قلم نہیں لگ سکتی تھی، خانی خان واقعات1039ہجری (ص303 میں لکھتا ہے: ’’ پیونڈ وادن اشجار میوہ دار در کشمیر و تمام ہندوستان نہ بود، محمد قلی افشار داروغہ باغات کشمیر در عہد عرش آشیانی اول نہال شاہ آلواز کابل طلبیدہ پیوند نمودہ، بہ آب و ہوائے آن جا موافق آمد، ازان آیام رواج یافت دساں بہ سال در ہمہ بلاد ہندوستان ازین پیوند میوہ ہائے شاداب و شیریں بالیدہ گردیدند، الادرخت انبہ را پیوند نتو انستند نمود۔‘‘ اسی زمانہ میں اور بہت سے میوے، ولایت سے آئے۔ انناس بھی اسی زمانے میں یورپ سے آیا، جہانگیر تزک میں لکھتا ہے (ص3) ’’ در آیام دولت حضرت عرش آشیانی (یعنی اکبر) اکثر میوہ ہائے ولایت کہ در ہند نبود، بہم رسیدہ اقسام انگور ہا از صاحبے و حبشے و کششے در شہر ہائے مقرر شائع گشت از جملہ میوہ ہا میوہ ایست کہ آن را انناس می نامندودر نبادر فرنگ میشود در غایت خوشبوئی دراست مزگی ست در باغ گل افشان آگرہ ہر سال چندیں ہزار برمی آید درختان سرد و صنوبر، چنار، و سفیدار دبید ہولہ کہ ہر گز در ہندوستان خیال نہ کردہ بودند، بہم رسیدہ دلبسیار سیدہ و درخت صندل کہ خاصہ جزائر بود در باغ نشوونما یافتہ‘‘ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اس زمانے میں صندل کے درخت عموماً باغوں میں ہوتے تھے، حالانکہ آج اس ترقی کے زمانہ میں بھی یہاں صندل کا نام و نشان نہیں۔ پستہ بھی آج کل ہندوستان میں پیدا نہیں ہوتا ہے، لیکن اکبر کے زمانہ میں پستہ کا درخت لگایا گیا، اور بار آور ہوا، آئین اکبری میں ہے: ’’ہمچنان تر بزد شفتالو، و بادام و پستہ و انار و جزان پیداے گرفت‘‘ پھول، ہندوستان میںیوں بھی کثرت سے تھے، یہاں تک کہ جہانگیر جب کشمیر گیا تو استاد منصور کو جو شاہی مصور تھا، حکم دیا کہ خاص کشمیر کے پھولوں کی تصویر کھینچے۔ چنانچہ سو سے زیادہ پھولوں کی تصویریں لی گئیں۔ تزک میں جہانگیر خود لکھتا ہے: ’’ انچہ نا وا لعصری استاد منصور نقاش شبیہ کشدہ از یک صد گل متجا در است‘‘ لیکن تیموریوں کی خوش مذاقی نے اس پر قناعت نہ کی، بلکہ ایران اور توران کے پھول منگوا کر ہندوستان کو ایران کا چمن زار بنا دیا۔ آئین اکبری میں ہے: ’’ وگلہائے ایرانی و تورانی از گل سرخ و نرگس و بنفشہ و یاسمین، کبو دو سو سن دریحان، درعنا و زیبا، و شقائق و تاج خروس و قلعہ و نافرمان و خطمی و جزآن بسیار شود‘‘ ہندوستان کے گنوار مالی، باغ میں یوں ہی بے ترتیب درخت لگاتے تھے، چمن بندی خیابان، جدول، تختہ بندی کا نام بھی کسی نے نہیں سنا تھا۔ نہ باغوں میں کسی قسم کی عمارت اور آبشار ہوتے تھے، بابر نے ہندوستان میں آ کر ان چیزوں کو رواج دیا۔ ابو الفضل لکھتا ہے: ’’ پیشتر در بستان ہا درہم می کشتند، ازان باز کہ قد دم فردوس مکانے (بابر) ہندوستان را فروغ افزود، خیابان بندی دہے ترتیب طرح آرائی پدید آمد، و عمارتہائے دلکشا و آبشار ہائے سا معہ افروز دیدہ، در آن آفاق را شگفتہ آدرد‘‘ صنعت اور مصنوعات تیموریوں نے سینکڑوں قسم کی صنعتیں جاری کیں، جن سے یہاں کے اصلی باشندے نا واقف تھے، ان سب کی تفصیل کے لیے ایک مستقل کتاب کی ضرورت ہے ہم صرف بعض نام اور مختصر کیفیت لکھتے ہیں۔ پارچہ جات ہندو ہمیشہ سے نہایت سادہ لباس پہنتے تھے، اور غالباً ان کو گزی گاڑھے کے سوا اور کچھ بننا نہ آتا ہو گا۔ اکبر نے دلی، لاہور، آگرہ، فتح پور، احمد آباد، گجرات میں پارچہ بافی کے بڑے بڑے کارخانے جاری کئے، اور ایران اور چین سے کاریگر بلوا کر ہر قسم کے قیمتی کپڑے تیار کرائے ابو الفضل لکھتا ہے: ’’ از توجہ گیتی خداوند گوناگون قماش چہرہ برا فروخت و ایرانی و فرنگی، و خطائی فرادان شد امتادان کار پرداز ہنر مندان نادرہ آئین آمدہ ہنگامہ آموزش گرم ساختند، در پیش گاہ حضور و شہر لاہور، و فتح پور، احمد آباد، و گجرات تعلیم کارنامہا تعلیم پدید آمد، بہ گوناگوں تصویر تقش و گرہ شگرف طرح ہارروائی گرفت و عالم نوردان کالا شناس بہ شگفت افتادند از قدر دانی نادرہ رواج کاران زود یاب این مزیز آموختند‘‘ ابو الفضل نے ان میں سے جن کپڑوں کے نام اور ان کی قیمتیں لکھی ہیں، ان میں سے بعض کی تفصیل حسب ذیل ہے: 1 مخمل زر بفت،2فرنگی، 3 گجراتی، 4 کاشی، 5 ہردی، 6 طاس گجراتی، 7 وارای ، 8 ہقیش، 9شروانی، 10 مشجر فرنگی، 11دیبائے فرنگی، 12دیبائے یزدی، 14 خارا، 15 اطلس خطائی، 16 نواز خطائی، 17 خز، 18 مخمل فرنگی، 19 خانی، 20 سہ رنگ، 21 قطنی،22 کتان، 23 فرنگی، 24 تافتہ، 25 ابزی، 26 مطبق یہ سب ریشمی کپڑوں کے نام ہیں، سوتی کپڑوں کی تفصیل حسب ذیل ہے:ـ 1چوتار، 2طمل،3نین سکھ،4 سری صاف، 5 گنگا جل، 6 بھیڑوں، 7 سالود، 8 بہادر شاہی، 9 گریہ سوتی ، 10 شیلہ دکنی،11 مہر کل، 12 سہن، 13 جیونہ، 14 اساولی، 15 محمودی، 16 پنجنولیہ، 17 جیولہ، 18 چھینٹ وغیرہ وغیرہ شال جو کشمیر میں بنتی تھی اکبر نے اس کو بھی بہت ترقی دی پہلے صرف تین چار رنگ کی شالیں ہوتی تھیں، اکبر نے طرح طرح کے نئے رنگ ایجاد کیے مثلاً نارنجی، برنجی، قرمزی، کاہی، ارغوانی، عنابی، عسلی، سوسنی، جگری، زمردی وغیرہ وغیرہ پوری تفصیل آئین اکبری میں ہے اس کے علاوہ پہلے سادی شال بنتی تھی، اکبر نے اور بہت سی قسمیں ایجاد کیں، ابو الفضل لکھتا ہے: ونیز زر ذوری، وکلا بتون، و کشیدہ، و قلغہ و باندھنون و چھنیٹ والچہ، دپر زروار از فروغ خاطر دالاست پہلے شال کا خارخانہ صرف کشمیر میں تھا، اکبر کے زمانہ میں خاص لاہور میں ہزار سے زیادہ کارخانے جاری ہو گئے۔ بندوبست اراضی اور پیمائش: ہندوؤں کے زمانہ میں تشخیص مالگذاری کا صرف یہ طریقہ تھا کہ ہل پیچھے کچھ رقم مقرر کر دیتے تھے، زمین کی پیمائش اور مختلف لیاقتوں کے لحاظ سے جمع کی تشخیص نہیں جانتے تھے۔ خانی خان لکھتا ہے: ’’ مخفی نماند کہ ولایت پر وسعت شش صوبہ دکن از قدیم ملک بود، زرخیز سیر حاصل کہ دستور تشخیص جمع مال بر سر بیگہ و شمار چیودن زمین بہ جرپ و تقسیم غلہ نمودہ گرفتن درمیان نہ بود، چنان مقرر بود کہ ہر یکے از دہا قین و مزار عان کہ بیک قلبہ دیک جفت گاؤ انچہ می توانست، کشت کاری نمود دہر جنسے از جوبات و بقولات کہ می خواست می کاشت، بر سر قلبہ، قیلے بہ اختلاف بلا دو پر گنات، در سرکار می داو، باز پرس، مکیت بہم رسیدن غلہ وغیرہ درمیان نمی آید1؎‘‘ 1؎ خانی خان صفحہ 732 خانی خان نے دکن کے ذکر کی خصوصیت کی وجہ سے دکن کا نام لیا، ورنہ کل ہندوستان کا یہی حال تھا۔ سب سے پہلے اکبر کے عہد 27ء جلوس شاہی میں راجہ ٹوڈرمل نے زمین کی پیمائش کرائی، اس کے مختلف درجے قائم کئے، اور اختلاف درجات کے لحاظ سے مختلف شرحیں مقرر کیں، لیکن دکن میں اب تک وہی قدیم طریقہ جاری تھا۔ شاہجہان کے عہد میں مرشد قلی خان نے جو دکن کا صوبہ دار تھا، حسب ذیل انتظامات کئے1؎ 1زمین کی پیمائش کرائی 2قابل زراعت اور نا قابل زراعت کی تفریق کی 3تقاوی دینے کا فائدہ جاری کیا 4 تشخیص جمع کے متعدد طریقے مقرر کئے جن کی تفصیل حسب ذیل ہے 1بٹائی: اس زمین کی تین قسمیں ہیں بارانی: اس میں نصف بٹائی مقرر کی، یعنی جس قدر غلہ پیدا ہوا اس میں آدھا سرکاری حق ہے۔ چاہی: یعنی وہ زمین جو آب پاشی کے ذریعہ سے کام میں لائی جائے، اس میں صرف ایک تہائی سرکار کا حق تھا ایکھ، انگور، کیلا، پوست، زیرہ، اسپغول، ان چیزوں میں نویں حصہ سے لے کر چہارم تک سرکاری مالگذاری میں داخل ہوتا تھا۔ نہری: یعنی وہ زمین جس میں نہروں سے آب پاشی کی جاتی تھی 2جکریب: اس طریقہ میں فی بیگہ، چوتھائی پیداوار لی جاتی تھی شاید ایک نکتہ چیں بول اٹھے کہ زمین کا بندوبست وغیرہ جو کچھ کیا تھا، توڈرمل نے کیا 1خانی خان صفحہ732,733 میں یہ تفصیل ہے، میں نے اسی کا ترجمہ کر دیا ہے تھا، جو ہندو تھا، لیکن یہ کوئی اعتراض کی بات نہیں، ہر سلطنت میں دوسری قوموں سے بھی کام لیا جاتا ہے، لیکن وہ سلطنت ہی کے کارناموں میں محسوب ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ بات بھی لحاظ رکھنے کے قابل ہے کہ ٹوڈرمل کے اکثر کارناموں میں امیر فتح اللہ شیرازی کی شرکت تھی، جس کے فضل و کمال کا تمام ہندوستان اور ایران میں جواب نہ تھا۔ ابو الفضل اس کی نسبت کہا کرتا تھا کہ ’’ اگر کہن نامہ ہائے دانش مفقود شواند او اساس نوبر نہد‘‘ 30 جلوس اکبری میں وہ امین الملک مقرر ہوا، اور حکم ہوا کہ ٹوڈرمل اس کے مشورہ سے ملکی اور مالی کاموں کو انجام دے چنانچہ مآثر الامرار میں ہے: ’’ حکم شد کہ راجہ ٹوڈرمل مہمات ملکی و مالی یہ صواب دیدا میر رو براہ کند و کہن معاملہ کہ از زمان مظفر خان تشخیص نیافتہ بہ انجام رساندا میر فصلی چند کہ منضمن کفایت سرکار درفاہ رعایا بو و بر گذار و پذیر فنہ شد (ص101جلد اول)‘‘ افزایش و ترقی حیوانات کسی ملک کے تمدن کی ترقی کا ایک بڑا کارنامہ یہ ہے کہ غیر ملک کے حیوانات کی نسلیں اضافہ کی جائیں، ملکی جانوروں کی نسلوں کی ترقی و تربیت اور وسعت کا انتظام کیا جائے، تیموریوں نے اس صیغہ کو بے انتہا ترقی دی۔ اونٹ اس ملک میں بالکل نہیں ہوتے تھے، ضرورت کے لیے باہر سے منگوائے جاتے تھے، اور اس وجہ سے ہر شخص کو میسر نہیں آ سکتے تھے۔ اکبر نے اس کے لیے ایک خاص محکمہ قائم کیا ار چند روز میں نہایت عمدہ نسلیں تیار ہو گئیں ابو الفضل آئے اکبری میں لکھتا ہے: ’’ دبہ شاہی خواہش راچنان نتاج بر گر فتنہ کہ از عراقی بختیاں بر گذاشت‘‘ (ص2جلد سوئم مطبوعہ نو لکشور) اجمیر، جودھ پور، ناگپور، بیکانیر، جیسلمیر، بھنڈا میں کثرت سے نسلیں پھیلیں۔ ابو الفضل نے لکھا ہے کہ ایک ایک شخص کے پاس دس دس ہزار اونٹ تک ہوتے تھے۔ ہندوستان کے اصلی گھوڑے پست قد ہوتے تھے، جن کو اس زمانہ میں گوٹ یا ٹانگن کہتے تھے۔ اکبر کے زمانہ میں سوداگر عراق، عرب، روم، ترکستان، بدخشان، تبت وغیرہ سے گھوڑے لاتے تھے۔ لیکن اکبر نے نئی نسلوں کے پیدا کرنے کا انتظام کیا، اور نہایت اعلیٰ درجے کے گھوڑوں کی نسلیں تیار ہوئیں جہانگیر تزک میں لکھتا ہے: ’’ پیش از عہد دولت حضرت عرس آشیانی (یعنی اکبر) مدار سواری مردم اینجا بر گونٹ بود، اسپ کلمان نمی واشتند، مگر از خارج اسپ عراقی و ترکی رسم تحفہ جہت حکام آوروندی، گونٹ عبارت از یابوئی ست چہار شانہ بہ زمین نزدیک در سایہ کوہستان ہند فراوان می باشد بعد ازاں کہ این گلشن خدا آفرین بہ تائید دولت و یمن تربیت خاقان سکندر آئین، رونق جاوید یافت، بسیارے از ایماقات رادر بن صوبہ جاگیر مرحمت فرمودہ گہلائے اسپ عراقی و ترقی حوالہ شد کہ کرہ (بچھیرے) بگیرند درا مذک فرصت اسپان بہم رسیدہ (ص1,3)‘‘ ابو الفضل آئین اکبری میں لکھتا ہے: ’’ کار شناسان دیدہ در در نتائج این ہوش پذیر آدمی خود دل بستند موراندک فرصتے ہندوستان باجستان عرب آمد، و بسیارے از عربی و عراقی جدا نتوانند کرد۔‘‘ (جلد اول ص94) اس کے بعد گھوڑوں کی خرید و فروخت اور ترقی اور نمائش کے لیے اکبر نے جو انتظامات کئے تھے، اس کو ابو الفضل نے بہ تفصیل لکھا ہے۔ خچر صرف پگھلی کے علاقہ میں ہوتے تھے، لیکن سواری کے قابل نہیں ہوتے تھے، اور لوگ اس کی سواری کو گدھے کی طرح ننگ سمجھتے تھے۔ اکبر نے اس نسل کو اس قدر ترقی دی کہ ہزار روپیہ تک اس کی قیمت پہنچی اور لوگوں کو اس کی سے عار نہ رہا1؎ 1؎ آئین اکبری جلد اول ص4 اکثر جانور ایسے ہیں جو جنگل کے سوا بچے نہیں جنتے، مثلاً ہاتھی، شیر، چیتے، چکور، سارس وغیرہ لیکن تربیت کے ذریعے سے اس قدر ان کے اخلاق اور عادات میں تغیر پیدا کیا گیا کہ گھروں میں بھی ان سے بچے اور انڈے پیدا ہوئے۔ اکبر نے ایک زمانے میں ہزار چیتوں کو یک جا کیا، اور چاہا کہ نر مادہ سے جفت ہو، لیکن ناکامی ہوئی۔ جہانگیر کے عہد میں اس قدر تغیر ہوا کہ ہاتھی اور چیتے، مادہ سے جفت ہوئے اور بچے جنے جہانگیر تزک میں لکھتا ہے: ’’ یوز مقرر ست کہ در غیر جاہائے کہ می باشد بہ مادہ خود جفت نمی شود، چنانچہ والد بزرگوارم یک مدتے، تا ہزار ریوز جمع کردہ بودند بسیار خواہان آن بودند کہ آنہا بایک و گر جفت شوند اصلانمی شدو بارہا یوز ہائے نر و مادہ در باغات تلاوہ بر آورد سردارند ور آنجاہم نہ شد، درین ایام یوزنر سے قلاوہ خود راگسیختہ بر سر مادہ یوزے می رود و جفت می شود بعد از دو نیم ماہ سہ بچہ زائیدہ و کلان شدہ‘‘ جہانگیر نے فخریہ لکھا ہے کہ میرے زمانہ میں صحرائی جانور اس قدر رام ہو گئے ہیں کہ شیر اور چیتے قطار در قطار بے قید و زنجیر شہر میں چھوٹے پھرتے ہیں، اور کسی کو نہیں ستاتے ہتنی، شیرنی، چکور کے بچے جننے، اور انڈے دینے کا حال جہانگیر نے تزک میں لکھا ہے۔ جہانگیر نے ایک عظیم الشان جانور خانہ تیار کرایا تھا، اس کو حیوانات کا اس قدر شوق تھا کہ اپنے ایجنٹوں کو دور دراز مقامات پر نئے نئے جانوروں کے مہیا کرنے کے لیے بھیجتا تھا ایک دفعہ مقرب خان کو گودا میں بھیجا کہ وہاں سے یورپ وغیرہ کے نادر جانور خرید کر کے لائے مقرب خان بے شمار روپیہ خرچ کر کے بہت سے عجیب و غریب جانور لایا، ان ہی میں پیرو بھی تھا، جس کو انگریزی مرغی کہتے ہیں، چنانچہ اس واقعہ کو جہانگیر نے نہایت تفصیل سے لکھا ہے اس کا اقتباس یہ ہے: ’’ حسب الحکم بہ استعداد تمام بہ گودار فت و تد تے دران جابودہ نفالیسے کہ دران بندر بدست افتادہ اصلا روے زر نہ دند، بر ہر قیمتے کہ فرنگیاں خواستند زر دادہ گرفت از ہر جنس چیز ہاد تحفہا داشت ازان جملہ جانورے چند آوردہ بود، بسیار عجیب و غریب، چنانچہ تا حال مذیدہ بودم، بلکہ نام اور اکسے نمی دانست‘‘ جہانگیر نے ان تمام جانوروں کی تصویریں بھی کھچوائیں چنانچہ تفصیل اس کی آگے آئے گی ان میں سے ایک جانور کا حال ان لفظوں میں لکھا ہے: ’’ میمونے آوردہ بود بہ ہیئات غریب دست و پادگوش و سراد بعینہ میمون است دروے اوبر دے روباہ می ماند، رنگ چشمہائے اوبرنگ چشم باز لیکن چشم اداز چشم باز کلان ترست، از سراوتاسر دم تک ورع معمول بودہ است، از میمون پست ترواز روباہ بلند تراست، پشم او بطریق پشم گو سفند و رنگ آن خاکستری ست ازبنا گوش تازنسخ سرخ ست، می گون و گاہے آوازے از و ظاہر می شود بطریق آزاد آہو برہ مجملاً خیلے غرائب وارد‘‘ جانوروں کی پرورش، پرداخت، تربیت، علاج وغیرہ کے متعلق اس قدر سامان فراہم کئے گئے تھے کہ ان کی تفصیل اس مضمون میں نہیں آ سکتی، آئین اکبری اور تزک جہانگیری دیکھنی چاہیے۔ 1023ھ میں ولایت زیر باد سے ایک عجیب و غریب پر ند چڑیا خانہ میں داخل ہو،ا جس کی کیفیت جہانگیر نے الفاظ میں لکھی ہے: ’’ یکے از خصوصیات این جانور آن ست کہ تمام شب پائے خود را بر سر شاخ درختے یا چوبی کہ اور ابران نشایندہ باشند بند کردہ خود راسر شیب (الٹا) می ساز دو باخود زمزمہ می کند آب مطلق نمی خورد در طبیعت اوکار زہر می کند، بآن کہ بقائے حیوانات بر آب ست1؎‘‘ 1؎ تزک جہانگیری ص133 رفاہ عام کے کام عمارات اور سڑک وغیرہ اس محکمہ کو تیموریوں نے بے انتہا ترقی دی، لیکن انصاف یہ ہے کہ اس کا سنگ بنیاد شیر شاہ نے رکھا تھا، تیموری اس کے مقلد تھے۔ شیر شاہ نے بنگالہ سے آگرہ، ماند اور سونپت تک راستہ میں مسجدیں، پختہ کنویں اور سرائیں بنوائیں، اور حکم دیا کہ ہندو اور مسلمان سب کے لیے سراؤں میں کھانا مہیا رہے۔ سڑکوں کے دونوں طرف سایہ دار درخت لگائے۔ چنانچہ خافی خان اس واقعہ کو ان الفاظ میں لکھتا ہے: مابین راہ بنگالہ تا اکبر آباد و ماند و دسنپت کہ مسافت بعید است برائے مسافران سجد و چاہ پختہ ساختہ، دور مساجد موذن و جار دب کش، بمد وظیفہ مقرر تمود، دود سراہا طعام پختہ و خام برائے مسافرین و متردوین مسلمین و ہنو و قرار دادہ جہت پختں آن غلامان و نوکراں نگاہ داشتہ بوذ گو یندآش پزان سراہائے ہند کہ یہ بھٹیارہ و بھٹیاری زبان زو مردم ہند گرویدہ اندازا اولاد ہمان ہاماندہ اند، و مقرنمودن اسپان سرکار در سراہا برائے زد درسیدن اخبار مختلفہ روزگار بہ دربار بہ طریق ڈاک از اختراع اوست و مابین راہ ہا اشجار میوہ دار و درختاں سایہ دار برائے آرام مسافران نشاندہ1؎ جہانگیر نے اپنی تخت نشینی کے پہلے ہی سال اس محکمہ کی طرف توجہ کی۔ چنانچہ احکام دوا زدہ گانہ میں سے دوسرا حکم یہ تھا کہ راستوں میں مسجدیں، کنوئیں اور سرائیں تیار کی جائیں، اس کے ساتھ یہ حکم دیا کہ جو شخص لاوارث مرے اس کے متروکہ سے مسجدیں اور سرائیں، کنوئیں اور تالاب تعمیر کیے جائیں، اور پلوں کی مرمت کرائی جائے۔ انہی احکام دوازدہ گانہ میں یہ بھی تھا کہ تمام بڑے بڑے شہروں میں ہسپتال بنائے جائیں، جن میں سرکاری طبیب علاج کے لیے مقرر ہوں، اور دوا وغیرہ کا صرف سرکار سے دیا جائے 2؎ 1؎ خانی خان جلد اول صفحہ102 واقعات952 ،2؎ تزک جہانگیری ص3 سال اول جلوس میں جہانگیر نے حکم دیا کہ تمام شہروں میں غلہ خانے قائم کئے جائیں جہاں راہ گیروں اور مسافروں کو کھانا تقسیم کیا جائے، چنانچہ تزک میں لکھتا ہے: ’’ در تمام ملک محروسہ خواہ در محال خالصہ و خواہ جاگیر دار حکم فرمودم کو غلور خانہ ہا ترتیب دادہ بجہت فقراء فراخور گنجائش آن محل، طعام درویشانہ طنچ می نمودہ باشند تا مجاوران و مسافران بہ فیض سن1؎‘‘ 1020 ہجری میں اس صیغہ کو اور وسعت دی یعنی عام طور پر فقراء کے لیے لنگر خانے بنوائے، چنانچہ تزک میں لکھتا ہے: ’’ ہفدہم ذی قعدہ حکم کردم کہ در شہر ہائے کلان ممالک و محروسہ مثل احمد آباد و الہ آباد، و لاہور و آگرہ و دہلی وغیرہ غلور خانہ بجہت فقراء ترتیب و ہند‘‘ 1028 ہجری میں اس پر اور اضافہ کیا، چنانچہ اس کی تفصیل خافی خان ان الفاظ میں لکھتا ہے: ’’ در ہمین سال کہ مراداز سنہ ہزار و بست دہشت باشد حکم فرمودند کہ مابین راہ از لاہور تا تعلقہ سرحد مالوا، بہ فاصلہ یک کردہ جر یبے یک میل و مابین دو میل یک چاہ بسازند، و ہمہ جادو رستہ درختان سایہ دار نشانند و بہ زمینداران و حکام، احکام ترتیب اشجار صادر فرمودند ہر حا محال خالصہ (یعنی شاہی جاگیر) برائے ساختن سراحکم نودند و بہ امرا حکم فرمودند کہ در تعلقہ محال جاگیر خود ہر مکا نے کے قابل سرا ساختن باشد برائے نزول مسافرین و متردوین سرائے پختہ و مسجد و چاہ بسارند و اکثر جاگیر داران بموجب اشارہ بادشاہ وہم چشمے یک دگر بنائے خیر حداث سرمابین ہر چہار پنج کردہ گذاشتند‘‘ 1؎ تزک جہانگیری ص35 غور کرو ایک ایک کوس پر میل، دو دو میل کے بیچ میں ایک ایک کنواں، چار چار میل کے بیچ میں سرائیں بنوانا کس قدر مصارف کثیر کا کام ہے، اور جس ملک میں یہ انتظام ہو، وہاں سفر کرنا کس قدر آسان ہو گا۔ جہانگیر نے سڑک پر جو میل بنوائے تھے، وہ بڑے بڑے چوڑے مینار کی شکل کے تھے، اور آج بھی پنجاب کی راہ میں موجود ہیں، اور ریل پر سے نظر آتے ہیں۔ راستے کے امن و امان اور سفر کی آسانی کا نتیجہ یہ تھا کہ ایران اور بغداد اور شام کی چیزیں ہندوستان کے بازاروں میں اس کثرت سے ملتی تھیں کہ خود ان ملکوں میں نہیں مل سکتی تھیں، دیر پا چیزیں ایک طرف پھل اور میوے تین تین مہینہ کے راستے سے تازہ بتازہ پہنچتے تھے۔ جہانگیر نے ایک موقع پر خود اس انتظام پر استعجاب کے ساتھ خدا کا شکر کیا ہے 11جلوس میں جب اس کے دستر خوان پر مختلف ملکوں کے تازہ میوے ایک ساتھ چنے گئے، تو اس کو بھی حیرت ہوئی، اور بول اٹھا کہ اس نعمت کا شکریہ کس زبان سے ادا کیا جائے۔ چنانچہ لکھتا ہے: ’’ دریک خوان چندین قسم میوہ حاضر آوردند خرنپرہ، کاریزو، خرپزہ، بد خشان وکابل، و انگور سمر قند و بد خشان، و سیب سمر قند و کشمیر و جلال آباد، و انناس کہ از میوہ ہائے بنادر فرنگ است، و کولہ کہ در شکل داندام خورد از نارنج ست دور صوبہ بنگالہ خوب می شود، شکراین نعمت بکدام زبان اوا تواند نمود (ص173)‘‘ یہ نہیں خیال کرنا چاہئے کہ یہ انتظام بادشاہوں کے لئے مخصوص تھا، بلکہ ہر کس و ناکس کو یہ چیزیں بازار میں میسر آ سکتی تھیں۔ آئین اکبری میں تفصیل سے لکھا ہے کہ کہاں کہاں سے میوہ جات آتے تھے، اور تمام بازاروں میں بکتے تھے1؎ 1؎ آئین اکبری جلد اول ص43 آج اس وسعت اس انتظام، اس ترقی کے زمانہ میں ہم کو بلوچستان اور کابل سے ادھر کے میوے نصیب نہیں ہو سکے راستوں کے انتظام اور ڈاک کے بیان میں یہ بات لکھنے کے قابل ہے کہ معمولی طریقے کے علاوہ نامہ بر کبوتر بھی تیار کئے گئے، اور ان سے کام لیا گیا۔ چنانچہ جہانگیر تزک میں لکھتا ہے: ’’ یہ کبوتر بازاں فرمودم کہ این ہار آموختہ کنند، دابن کبوتر بازاں چند جفتے را چنان آموختہ کرد ند کہ در اول روز کہ ازماند و پرداز ان ہامی نمودیم اگر کثرت باران بسیار می شد، منہاتیش تا دو نیم پہر بلکہ تایک و نیم پہر بہ برہان پورمی رسید نددا اگر ہو لغایت صاف می بود اکثرے دریک پہر می رسید ند (ص191)‘‘ ایجادات و اختراعات تمدن کی ترقی کا ایک ضروری نتیجہ ایجادات اور اختراعات ہیں، تیموریوں کے زمانے میں ہر شاخ میں طرح طرح کی چیزیں ایجاد ہوئیں، ان میں سے جو علمی ایجادات تھے، ان میں سے بعض کا حال ہم لکھتے ہیں۔ ایک عجیب و غریب حوض: یہ حوض فن عمارت کی ایسی بو العجبی، جس کی نظیر آج بھی مشکل سے ملے گی۔ اس کا موجد حکیم علی تھا جو اکبر کے دربار کا مشہور حکیم اور موجد تھا، یہ حوض حکیم موصوف نے 29 جلوس اکبری میں بتایا تھا جس کی یہ کیفیت تھی کہ حوض کے اندر ایک مختصر سا کمرہ تھا، جس میں دس بارہ آدمی بیٹھ سکتے تھے، کمرہ میں ہر طرف سے روشنی آتی تھی، لیکن ہوا کا رخ اس طرح قائم کیا تھا کہ پانی نہیں آ سکتا تھا۔ کمرہ فرش فروش سے آراستہ ہوتا تھا، کھانا بھی تیار ملتا تھا مآثر الامراء میں اس کا حال اور اکبر کے سیر کرنے کی کیفیت حسب ذیل لکھی ہے: ’’ در کنج حوض سرے بہ آب فرد بردہ دوسہ زنیہ پائین رفتہ بدان خانہ درآمد لیار بہ تکلف آراستہ و غایت روشنی، جائے وہ دوازدہ کس است، فرش خواب درخت پوشش مہیاد حاضری طعام موجودہ چند جلد کتاب در طا قہا گذاشتہ ہوانمی گذاشت کہ یک قطرہ آب اندرون در آید و چون بادشاہ نحتے درنگ فرمودہ غریب حالتے بر مردم بیرورن رو آورد۔‘‘ 1؎ 1018ہجری میں جہانگیر نے اس کی سیر کی، چنانچہ تزک میں اس کا حال لکھتا ہے: ’’ حوض مذکور شش گز در شش گذشت درد پہلوئے حوض خانہ ساختہ شدہ در غایت روشنی کہ راہ بہ آن خانہ ہم ازدروں آب ست و آب ازان راہ درون در نمی آیددہ دواز دہ کس دران خانہ صحبت می داشتند2؎‘‘ کل کی چکی یہ چکی امیر فتح اللہ شیرازی نے ایجاد کی تھی جو991ھ میں اکبر کے حسب الحکم فتح پور میں آیا، اور امین الملک کے عہدہ پر ممتاز ہوا تھا، یہ چکی پانی اور ہوا وغیرہ کے زور سے نہیں، بلکہ خود بخود چلتی تھی، مآثر الامراء میں لکھا ہے: ’’ آسیائے ساختہ کہ خود حرکت می کرد، و آردمی ساخت3؎‘‘ آج تو یہ ایجاد ایک معمولی بات ہے، لیکن اس زمانے میں یورپ میں بھی عجیب سمجھی جاتی ہو گی۔ توپ کی مختلف قسمیں اکبر کے صناعوں نے مختلف طرح کی توپیں ایجاد کیں، ان میں سے ایک سترہ نال کی تھی، اور ایک ہی دفعہ سب نالیں سر ہوتی تھیں۔ ایک ایسی تھی کہ چوڑیوں کے حلقے کی طرح الگ الگ ہو جاتی تھی۔ اور ضرورت کے وقت حلقے ملا دیتے، تو ایک توپ بن جاتی تھی، چنانچہ ابو الفضل آئین اکبری میں لکھتا ہے: 1 مآثر الامراء جلد اول ص570،2؎ تزک جہانگیری ص73،3؎ تاثر الامراء جلد اول ص103 ’’ گوٹاگون اختراع فرمود و جہانے بشگفت زار افتادہ یکے بروئے کار آورد در یورشہا ازہم جدا کردہ بہ آسانی برند و نیز ہقدہ راچنان یکتائی داد کہ یک فتیلہ ہمہ را کشا د وہد، و نیز چنان بر ساخت کہ یک فیل بہ آسانی کشد دآن را گنج نال نا مند ‘‘ گولے آتشین اکبر کبھی کبھی راتوں کو گنید کھیلتا تھا، اس لیے اس قسم کے گنید ایجاد کئے کہ رات کو شعلہ کی طرح روشن نظر آئیں۔ اس قسم کی بہت سی ایجادیں ہوئی، جن کی تفصیل ایک مضمون میں سما نہیں سکتی۔ نفاست پسندی ضرورت کی وسعت آسائش کے سامان تمدن کا سب سے مقدم اثر یہ ہوتا ہے کہ ضروریات معاشرت بڑھتے جاتے ہیں، مثلاً سادہ زندگی یہ ہے کہ زمین پر بیٹھے، اور کیلے کے پتہ پر کھانا رکھ کر کھا لیا۔ تمدن آتا ہے تو یہ سامان ساتھ لاتا ہے کہ چاندنی کا فرش ہے، اس پر زیر انداز، زیر انداز پر طشت یا سیلابچی، آدمی نے آفتابہ ہاتھ میں لے کر ہاتھ دھلوائے، پھر دسترخوان بچھایا گیا، رنگ برنگ کے مختلف برتنوں میں کھانے آئے، کھانوں کی مناسبت سے ہر ہر برتن کا رنگ اور صورت شکل مختلف ہے، کھانا کھا چکے، تو طشت، سیلابچی، آفتابہ وغیرہ آیا۔ اب کی ہاتھ دھونے کے لیے بیسن بھی ہے، ہاتھ دھو کر رومال سے صاف کیا، یہ تو قدیم تہذیب تھی۔ نئے فیشن نے اس پر اور بھی نئے نئے حاشیے چڑھائے۔ ہندوستان میں مسلمان آئے، تو وہ حالت تھی جس کی تصویر بابر نے کھینچی ہے کہ لنگوٹی لگائے پھرتے تھے، یا مسلمانوں نے ایک ایک چیز میں تہذیب و تمدن کی ہزاروں شاخیں پیدا کر دیں، مثلاً پہلے گھوڑوں پر ننگی پیٹھ سوار ہوتے تھے، یا کمبل وغیرہ ڈال لیتے تھے، تیموریوں کے عہد میں گھوڑے کے لیے جو سامان پیدا ہوئے، اس کی یہ تفصیل ہے: زین ارتک یال پوش پشمین رو پاک جل تختہ بند پشت تنگ مگس ران نکتہ قیزہ دست مال خرخرہ رکاب آئین اکبری میں ان سب کی تصویریں بھی وہی ہیں۔ گھوڑوں کی تربیت، خدمت اور نگہداشت کے لیے جن نوکروں کی ضرورت ہوتی تھی ان کی تفصیل ہے: 1داروغہ، 2مشرف، 3 دیدہ در،4 چابک سوار،5 ہاڈا، 6 بیطار، 7 نقیب، 8 سائنس، 9 جلودار، 10 نعل بند،11زین دار، 12آب کش،13 فراش، 14 سپند سوز، 15 خاکروب آئین اکبری میں ان سب کے کام اور ان کے مشاہرے بہ تفصیل لکھے ہیں لنگوٹہ اور دھوتی کے بجائے کپڑوں کے یہ اقسام پیدا ہوئے: ’’ دوتاہی، پیشواز، شاہ آجیدہ، شوزنی، قلمی، قبا، فزجی، فرغل، چکن،شلوار، جامہ، کلاہ، صدری، قمیض، عبا، نیم تنہ، شلوکہ، کمربند‘‘ ان میں آج بہت سے متروک ہیں زنانہ لباس اور زیور اور آرائش کے متعلق نور جہان بیگم نے جو جو اختراعات کئے تہذیب و تمدن قیامت تک اس کے احسان سے سبکدوش نہیں ہو سکتے۔ ہندوؤں کا کیا ذکر ہے، مسلمانوں میں بھی نور جہان سے پہلے زیورات بھدے اور ناموزوں ہوتے تھے، جیسے آج کل ہندوؤں کے ہوتے ہیں۔ لباس اور وضع قطع میں بھی نازک ادائیاں نہ تھیں آج دلی اور لکھنو کی بیگمات کے لباس اور وضع کی تمام تراش خراش سب نور جہاں کے عہد کی یادگاریں ہیں جن میں خفیف تغیرات ہوتے گئے، خود جہانگیر کہا کرتا تھا کہ جب تک نور جہان میرے گھر میں نہیں آئی، میں گھر کی زیب و زینت سے واقف نہ ہوا ماثر الامرائ، میں ہے: ’’ اکثر زیور و لباس و اسباب تزئین و تقطع کہ معمول ہندوست، اختراعی و ابداعی، اوست، مثل و دامنی، جہت پشواز، پنج تولیہ، جہت اوڑھنی، باولہ و کناری، و عطر و گلاب و فرش چاندنی ہمہ وضع اوست۔1؎‘‘ خانی خان کہتا ہے: ’’ اقسام زیور و لباس زنان ہند کہ در محل بادشاہی و امرائے مغلیہ تا حال رواج و ارد، ہمہ وضع کردہ اوست، و زیور پیرایہ سابق ربسیار کلفٹ و بد نما بود منسوخ ساخت، چاندنی کہ نفس الامر عجیب فرش عیب پوش خانہ نامراد و گرد پوش دولت مندان است، و در شب ہائے مہتاب نمود خاص دارو، وضع کردہ جان ست، و اقسام جنس باولہ کہ قسم سنگین آرا بنام بادشاہ و کارخانہ موسوم ساخت و جنس سبک کہ ازان تمام خلعت عروس و داماد ‘‘ 1؎ تزک جہانگیری جلد اول صفحہ13 مردم نامراد بہ پانزدہ و بست روپیہ تمام شودا و دیگر قصرف ہائے بجائے او کہ برہائے اودبہ برائے شاہ و گدابہ کار آید زیادہ ازان ست کہ بہ تفصیل آن توان پرداخت (ص229) آسائش اور آرام اور راحت کے جو ہزاروں سامان پیدا ہوئے، ان کا شمار نہیں کیا جاسکتا۔ ہندوستان میں قدرتی تمام اشیاء پیدا ہوتی تھیں، لیکن لوگوںکو ان سے کام لینا نہیں آتا تھا۔ مسلمانوں کی خوش مذاقی اور جدت طلبی سے ہزاروں چیزیں کام میں آئیں اور ایک نئی دنیا پیدا ہو گئی۔ شورہ خاص یہاں کی پیداوار ہے، لیکن کسی کو ہزاروں برس تک یہ خیال نہ آیا کہ اس سے پانی ٹھنڈا کیا جا سکتا ہے۔ حالانکہ ٹھنڈے پانی کی ضرورت جس قدر ایسے گرم ملک میں ہو سکتی تھی، محتاج بیان نہیں۔ برف بھی پہاڑوں سے آ سکتی تھی، لیکن یہاں کے لوگوں کو اپنی وحشیانہ زندگی میں آب سرد کی ضرورت کیا تھی، لیکن مسلمان عجم سے آئے ، تو وہ ایسی زندگی کیوں کر بسر کر سکتے تھے۔ اکبر نے شورہ سے پانی سرد کرنے کو رواج دیا، پہاڑوں سے برف آ کر بازاروں میں بکنے لگی، خس کی ٹٹی بھی اکبری کی ایجاد ہے۔ ابو الفضل آئین اکبری میں لکھتا ہے: ’’ یہ شورہ سر کردن رواے گرفت، واز شمالی کوہ برف و یخ آوردن کر دمہ دانست، بیخے است بویادبس خنک آن راخس گویند، بہ فرمائش گیتی غدبو اذان نے بست خانہاسا ختن، رواج یافت (ص6جلد3)‘‘ عمارت فن عمارت میں جو نفاستیں اور ایجادیں پیدا ہوئیں، ان کابیان تاج گنج اور جامع مسجد دہلی کی زبان سے ہر شخص سن سکتا ہے ہندوؤں کے مکانات کی جو اصلی وضع تھی۔ اس کی زندہ مثالیں بنارس میں آج ہزاروں موجود ہیں یہ مکانات کروڑ پتیوں کے ہیں، جن پر لاکھوں روپے خرچ ہوئے ہیں، لیکن دروازے اتنے اونچے ہیں کہ سرکش سے سرکش آدمی کو ان کے آگے سر جھکانا پڑتا ہے۔ ہوا کو تو کبھی کبھی ان میں آنے کی اجازت مل جاتی ہے، لیکن روشنی کو مشکل سے بار مل سکتا ہے بلند دروازے، وسیع دامان، شاندار شہ نشین،مسلمانوں کی بدولت ملک میں رواج پائے۔ فنون لطیفہ یا فائن آرٹس یعنی موسیقی، مصوری وغیرہ، ان پر مستقل علیحدہ مضمون لکھوں گا۔ (مقالات شبلی مطبوعہ لکھنو) ٭٭٭٭٭٭ مسلمانوں کی علمی بے تعصبی اور ہمارے ہندو بھائیوں کی نا سپاسی چند روز ہوئے اردو سے معلی میں ملا مسیحی کی رامائن پر ایک ہندو مضمون نگار کا ایک مضمون شائع ہوا تھا، مضمون کا مقصد بظاہر کتاب پر تقریظ لکھنا تھا، لیکن مضمون نگار نے تقریظ کے پردہ میں جن فیاضیانہ خیالات کا اظہار کیا، اس کے اقتباسات حسب ذیل ہیں: ’’ صدیوں سے ایک ایسی کتاب گمنامی کے ظلمات میں پڑی ہوئی تھی، وجہ شاید یہ ہو کہ مسلمانوں نے اسے پسند نہ کیا ہو‘‘ مسلمانوں نے صدیوں اس ملک پر مسلسل حکومت کی اور اس کا خاتمہ بھی ہو گیا، مگر اس ملک کے علم و ادب کی طرف انہوں نے بہت کم توجہ کی۔۔۔۔ ہندو جب ان کی رعایا تھے تب بھی وہ ہندوؤں کے علم و ادب سے بے خبر تھے، ۔۔۔۔ امیر خسرو نے یہاں کی زبان کی طرف توجہ کی تھی، مگر محض تفریح کے طور پر وہ ہندی زبان میں کچھ کہہ لیا کرتے تھے، ہندوؤں کی کتابوں کے مطالعہ کی طرف کبھی ان کا خیال نہیں ہوا، نہ وہ کچھ ان کی خبر رکھتے تھے۔ ’’ مگر عہد اکبری میں جو کچھ ہوا، وہ بہت محدود تھا‘‘ ’’ دار اشکوہ نے البتہ ہندوؤں کی اونچے درجہ کی کتابوں کی طرف بھی توجہ کی۔۔۔ اس کوشش کی بدولت جو آپ نے ہندوؤں کی کتابوں کا مطلب جاننے کے لیے کی تھی، آپ کو کفر کا فتویٰ ملا، اور جان دینا پڑی‘‘ ’’ ملا مسیح کے نام تک کا پتہ نہیں چلتا، صرف اتنا معلوم ہوا کہ وہ پانی پت کے رہنے والے تھے،‘‘ ’’ اس زمانہ میں کوئی ہندوانہ قصہ لکھنا مسلمانوں کے لیے آفت سے کم نہ تھا، ہندوؤں کی کوئی بات اپنے قلم سے لکھنے میں مسلمان مصنف کو کافر بننے کا خوف اتنا تنگ کرتا تھا کہ وہ ایک دم گھبرا جاتا تھا۔ مسیح نے رامائن تو لکھی ہے، مگر غریب کو بہت کچھ ثبوت دینا پڑا کہ میں پکا دیندار مسلمان ہوں، کافر نہیں ہو گیا ہوں، شاید ان کو لوگوں نے رامائن لکھنے پر آمادہ دیکھ کر کافر کہا ہو گا۔‘‘ ’’ آپ کے عذر گناہ سے یہ بات بخوبی ظاہر ہوتی ہے کہ جہانگیر کے وقت تک بھی ہندوؤں کی باتوں کی طرف متوجہ ہونے سے مسلمان لوگ کافر سمجھے جاتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کو ہندوؤں کے لٹریچر سے سدا محرومی حاصل رہی، اور اس کا سلسلہ آج تک ویسا ہی چلا آتا ہے۔‘‘ یہ مضمون اس شخص کے قلم سے نکلا ہے جو کلکتہ کے مشہور اخبار بھارت متر کا ایڈیٹر ہے۔ اردوے معلی نے اس کو بغیر کسی قسم کے ریمارک کے شائع کیا ہے، اور ہندوؤں کے مشہور اردو رسالوں میں بڑی قدر دانی کے ساتھ گردش کرتا رہا ہے۔ سب سے پہلے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جو لوگ ہندو مسلمانوں کے اتحاد کی خواہش ظاہر کرتے ہیں، یا جو لوگ ان دونوں فرقوں میں سے کسی فرقہ کے ممتاز اور مسلم لیڈر ہیں، کیا ان کے قلم سے اسی قسم کے خیالات ظاہر ہونے چاہئیں؟ لیکن اس سے قطع نظر کر کے کیا دراصل یہ واقعات صحیح ہیں؟ کیا مسلمان ہندوؤں کے ادب و تاریخ جاننے کو کفر سمجھتے تھے؟ کیا دار اشکوہ اسی جرم کا شہید ہے؟ کیا امیر خسرو کو ہندوؤں کی کتابوں کی مطلق خبر نہ تھی؟ کیا مسیح کی رامائن مسلمانوں کے تعصب کی وجہ سے گوشہ گمنامی میں پڑی رہی؟ کیا تاریخ کے صفحوں میں مسیح کا پتہ نہیں چلتا؟ اخیر سوال اگرچہ تمام سوالوں کی بہ نسبت ، کم درجہ کا سوال ہے، لیکن ہم کو سب سے پہلے اسی کا جواب دینا چاہئے، کیونکہ اس سے اس بات کا اندازہ کرنے کا موقع ملے گا کہ ہمارے مضمون نگار دوست کو مسلمانوں کے لٹریچر اور تاریخ سے کس حد تک واقفیت ہے۔ مسیح کی نسبت وہ تحریر فرماتے ہیں: ’’ ملا مسیح کے نام تک کا پتہ نہیں چلتا‘‘ لیکن فارسی شعراء کا کوئی تذکرہ ایسا نہیں، جس میں مسیح کا نام اور اس کے حالات نہ ہوں۔ امرائے جہانگیری میں مقرب خان ایک مشہور امیر تھا، جو اصل میں پانی پت کا رہنے والا تھا، لیکن کرانہ 1؎ میں سکونت اختیار کر لی تھی، مسیح اسی کا پروردہ تھا، وہ دراصل کرانہ کار ہنے والا تھا۔ لیکن چونکہ مقرب خان کے دامن تربیت میں پلا تھا، آقا کی طرح وہ بھی پانی پت کے اتتساب سے مشہور ہو گیا۔ تذکروں میں اس کی رامائن کا عموماً ذکر ہے۔ ماثر الامراء میں رامائن کے چند منتخب اشعار بھی نقل کیے ہیں2؎ مسلمانوں نے ہندوؤں کے علوم و فنون کو جس ذوق و شوق سے سیکھا، اور ان میں جو مہارت حاصل کی، اس کو ہم نے اپنیکتاب تراجم (مندرجہ رسائل شبلی) میں تفصیل سے لکھا ہے افسوس ہمارے ہندو دوست نے اس داستان کا ایک حرف بھی نہیں سنا ہے ابو معشر فلکی نے دس برس ہندوستاں میں رہ کر جس طرح سنسکرت کے علوم و فنون حاصل کئے، ابو ریحان بیرونی نے سولہ برس کی مدت میں جس طرح سنسکرت میں کمال پیدا کیا، اور ہندوؤں کے علوم و فنون پر ملسبوط کتاب لکھی (یہ کتاب مع ترجمہ انگریزی لندن میں چھپ گئی ہے) 1؎ تزک جہانگیری میں لکھا ہے کہ اس کا اصلی وطن کرانہ تھا،2؎ مآثر الامراء حالات مقرب خان فیروز شاہ نے جن کتابوں کا ترجمہ کرایا، اکبر کے دربار نے سنسکرت کتابوں کے ترجمہ کرانے میں جو شاہانہ فیاضیاں دکھائیں، شہزادہ دانیال کو ہندی زبان کے ساتھ جو شغف تھا، آزاد بلگرامی نے ہندی ضائع و بدائع پر جو مضامین لکھے، قاہم فرشتہ نے اختیارات قاسمی لکھ کر ہندوؤں کے علم طب کو جس طرح فارسی زبان میں منتقل کیا، یہ واقعات اگرچہ ہمارے ہندو دوستوں کے کانوںتک نہیں پہنچے، لیکن مسلمانوں کی علمی انجمن کے پارینہ افسانہ ہیں، اور اس لیے ہم ان کو دہرانا نہیں چاہئے۔ لیکن ایک عام غلطی کا رفع کر دینا ضروری ہے، عام خیال یہ ہے کہ بادشاہان ہندوستان میں سب سے پہلے جس نے ہندو پنڈتوں کو دربار میں داخلہ دیا، اور سنسکرت کی کتابوں کے ترجمے کرائے، وہ شہنشاہ اعظم اکبر تھا۔ لیکن یہ ایک سخت تاریخی غلطی ہے، اکبر سے سینکڑوں برس پہلے سلطان زین العابدین فرمانروائے کشمیر نے اس علمی صیغہ کی بنیاد ڈالی تھی۔ ہندوؤں سے جزیہ لینا بھی اول اسی نے موقوف کر دیا تھا، اور گاؤ کشی بھی اس نے بند کرا دی تھی۔ تاریخ فرشتہ میں سلطان زین العابدین کے حالات میں ہے: ’’ در معاہدہ مقررہ ہنود اوقاف تعین نمود، جزیہ را مانع گشت و گاؤ کشی بر طرف ساخت و شاہ بر جمیع زمانہا فارسی، ہندی، تبتی وغیر آن بروجہ کمال مہارت درست داشت وبہیمہ آشا حروف می د، و فردو، تا اکثرے از کتب عربی و فارسی بہ زبان ہندی ترجمہ کرو زین العابدین دستور کتاب ہندوی بفارسی ترجمہ کردند و کتاب مہا بھارت کہ از کتب مشورہ ہنداست، نیز فرمود تا ترجمہ کردند، و کتاب راج ترنگی کہ عبارت از تاریخ بادشاہان کشمیر است، در عہد او تصنیف شدہ، در زمان اکبر شاہ ترجمہ مہا بھارت راکہ بد عبارت بود ، بادیگر بہ عبارت فصیح آوردند و تاریخ کشمیر را نیز بہ فارسی ترجمہ کردند‘‘ ہندوؤں کو کاروبار سلطنت میں دخل دینا بھی، اکبر کی ایجاد نہیں ابراہیم عادل شاہ جو دکن کا مشہور بادشاہ گذرا ہے اور اکبر سے بیس بائیس برس پہلے یعنی 942ہجری میں تخت نشین ہوا۔ اس نے تمام کاروبار سلطنت ہندوؤں کے ہاتھ میں دے دیا تھا۔ یہاں تک کہ دفتر کی زبان بھی دل دی تھی، یعنی فارسی کے بجائے ہندی کر دی تھی تاریخ فرشتہ میں ان کے حالات میں لکھا ہے۔ ’’ دفتر فارسی بر طرف ساختہ، بہامنہ (یعنی برہمن) را صاحب داخل گردانید‘‘ اس موقع پر یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ ابراہیم عادل، اکبر کی طرح ضعیف المذہب نہ تھا، بلکہ سخت مذہبی آدمی تھا۔ اس کا خاندان ایک مدت سے شیعی مذہب تھا لیکن اس نے مذہب حنفی اختیار کیا،ا ور تمام ملک میں اس کو رواج دیا۔ اس قسم کے اور بھی بہت سے واقعات ہیں، لیکن ہم اس وقت ان جزئیات سے بحث کرنا نہیں چاہتے۔ اکبر، ابراہیم عادل، فیروز شاہ، ابو معشر فلکی، ابو ریحان بیرونی، فیضی، غلام علی آزاد نے جو کچھ کیا، گو بہت کیا لیکن اس سے اصل بحث کا فیصلہ نہیں ہوتا۔ اکبر وغیرہ فرمانروا تھے، اس لیے انہوں نے جو کچھ کیا، ممکن ہے کہ ملکی مصلحتوں کے لحاظ سے ایسا کرنے پر مجبور تھے۔ اب ریحان بیرونی وغیرہ کے کارنامے بھی علمی مذاق کے جوش کی طرف منسوب ہو سکتے ہیں اس سے اس بات کے ثبوت نہیں ہوتا کہ وہ ہندوؤں کے علوم و فنون کے مداح و معترف بھی تھے۔ آج یورپ والے ادنی قوموں کی زبان اور ان کے علوم و فنون سیکھتے ہیں، لیکن مدح و تحسین کے لیے نہیں، بلکہ محض واقفیت کے لیے بلکہ کبھی کبھی صرف ہنسی اڑانے کے لیے۔ اصل سوال یہ ہے کہ مسلمان ہندوؤں کے علوم و فنون کو عزت کی نگاہ سے دیکھتے تھے؟ کیا ان کو ہندوؤں کی سر زمین سے، مذہب سے، زبان سے کسی قسم کا مذہبی تعصب نہیں تھا؟ ہمارے ہندو مضمون نگار نے اس سوال کا جواب صاف لفظوں میں یہ دیا ہے کہ ہندو کے علوم اور زبان کی طرف متوجہ ہونے کو مسلمان کفر خیال کرتے تھے۔ ہمارے ہندو دوست کی تاریخ دانی سے اسی جواب کی توقع ہو سکتی تھی، لیکن حقیقت حال یہ ہے کہ مسلمانوں نے نہ صرف ہندوؤں کے علوم و فنون کو بلکہ ہندوستان کی سر زمین کو بھی اس وقعت کی نگاہ سے دیکھ اکہ کسی اجنبی قوم سے کبھی توقع نہیں کی جا سکتی۔ اس سے زیادہ کیا ہو سکتا ہے کہ ہندوستان کی فضیلت نے مذہبی حیثیت پیدا کی، او رحدیث و تفسیر کی مقدس کتابوں میں اس قسم کی روائتیں درج کی گئیں۔ مولوی غلام علی آزاد بلگرامی نے اپنی کتاب ’’ غزلان الہند‘‘ کے دیباچہ میں اپنی کتاب کی تصنیف کی غرض یہ بیان کی ہے: ’’ اول این کہ ذکر ہندوستان بہشت نشان از کتب تفسیر و حدیث رقم باید ساخت‘‘ علامہ جلال الدین سیوطی نے تفسیر در منثور میں ابن جریر، حاکم، بہیقی اور ابن عساکر سے حضرت علیؓ کا یہ قول نقل کیا ہے: اطیب ریحاً ارض الہند سب سے زیادہ خوش ہوا ہندوستان کی سر زمین ہے اسی کتاب میں متعدد روائتیں اس مضمون کی نقل کی ہیں کہ حضرت آدم ؑ بہشت سے نکل کر ہندوستان میں آئے، اور اپنے ساتھ وہاں کی خوشبودار ریا حین بھی لیتے آئے۔ ایک شاعر نے اس مضمون کو اس پیرایہ میں ادا کیا ہے: ہنداست کہ نعم البدل فردوس است آدم ز بہشت بین کہ افتادبہ ہند اگرچہ یہ حدیثیں اور روائتیں قطعاً موضوع اور جعلی ہیں، لیکن اس سے اس قدر ضرور ثابت ہوتا ہے کہ ہندوستان کی خوبی اور لطافت کے متعلق مسلمانوں کا کیا خیال تھا۔ ہندوستان کے علوم و فنون کو مسلمانوں نے جس نگاہ سے دیکھا اس کی کیفیت یہ ہے کہ آزاد بلگرامی نے اپنی کتاب غزلان الہند میں شیخ علی رومی کی کتاب محاضرۃ الاوائل و مسامرۃ الاواخر سے یہ فقرہ نقل کیا ہے اول موضع و صفت فیہ الکتب والعجرت منہ نیا بیع الحکمۃ کان الہند سب سے پہلے جس سر زمین میں کتابیں تصنیف کی گئیں، اور جہاں سے حکمت کا چشمہ نکلا، وہ ہندوستان ہے ملا محب اللہ بہادری نے مسلم الثبوت میں لکھا ہے: بعض بزرگوں نے مجھ سے یہ بیان کیا کہ ہندوستان کے شمالی پہاڑوں میں میں نے ایک برہمن کو دیکھا جس کو ایسے کلیات معلوم تھے، جن کے ذریعہ سے وہ ہر زبان کو سمجھ لیتا تھا۔ آزاد بلگرامی غزلان الہند میں لکھتے ہیں: ’’ جمہور اتفاق دار مذکہ حکمائے یونان در علوم ریاضی قصب السبق ا دانابان جہان ربودہ اندالا حسباب و موسیقی کہ درین دوفن ہندیان میں پیش قدم اند، داین دو فن رابجائے رساندہ اند کہ فوق آن متصور نیست، و علمائے ولایت دیگر، اکثر قواعد علم حساب را از ہندویان بر گر فتنہ انداما تواعد علم موسیقی را احدے از دانایان ولایت دیگر تا این زمان از نغمہ سرایان ہند اخذ نہ کردہ، واختصاص این فن تا حال بہ اہل ہند مسلم‘‘ اسی کتاب میں ایک موقع پر لکھتے ہیں: ’’ آمدم برین کہ دانان ہند ور اختراع فن بدیع بسر خوداند، نہ از خرمن عرب خوشہ چیدہ اند، نہ از مساغر فرش قطرہ چشیدہ، چہ زمانہ علم و علمائے ایشان قدمے وارد کہ در جانب ازل حد آن معلوم است‘‘ علامہ آزاد نے غزلان الہند کے دیباچہ میں تالیف کتاب کے جو اسباب لکھے ہیں، ان میں دو سبب یہ ہیں ’’ سوم این کہ بعضے ضائع علم ہندی را تعریب باید نمود‘‘ چہارم این کہ فن نائیکا بھیدرا کہ ماہتیش بجائے خود بیان شود، از ہندی یہ عربی باید برد، واین ارمغان شگرف را کہ مخصوص ہندیان ست، بہ خدمت عرب عربا با ید سپرد سلطان فیروز شاہ جو سلطان محمد تغلق شا ہ کا برادر غم زاد، اور755 ھ میں تخت نشین ہوا تا، جب کانگڑہ کی تسخیر کے لیے گیا اور جوالا مکھی کی سیر کی، تو وہاں کے کتب خانہ کو بھی دیکھا، تاریخ سیر المتاخرین میں جہاں اس واقعہ کا ذکر کیا ہے لکھا ہے: ’’ ونیز دران مکان کتب بسیارے از براہمہ سلف یا قتند، سلطان علمائے آن طائفہ رابحضور خویش طلب داشتہ مضامین آن راشنیدہ محظوظ گردید، و فرمود بعضے اذان کتب1؎ رابہ فارسی ترجمہ کنند، تا مطلب آن درست دبہ آسانی فہمیدہ آید، مولانا اعزاز الدین حسب الامر کتابے در حکمت طبیعی از آن کتب چیدہ مطالب آن راورسلک نظم کشید، و بکتاب فیروز شاہی موسوم گردایند سلطان بغایت پسندید، بہ صلہ آن نقود بسارے از طلا و نقرہ بہ اضافہ و جاگیر مرحمت کرد، و مضمون آن کتاب اکثر اوقات مذکور محفل سلطانی می شد۔‘‘ ہمارے ہندو دوست فرماتے ہیں کہ ہندوؤں کے علوم و فنون کی طرف توجہ کرنے سے مسلمان معرض خطر میں پڑ جاتا تھا، اور کافر خیال کیا جاتا تھا، لیکن عبارت مذکورہ بالا سے معلوم ہوا کہ خطرے کے بجائے ہندی تصنیفات کے ترجمہ کرنے سے انعام اور منصب و جاگیریں ملتی تھیںع: بہ بین تفاوت رہ از کجاست تا بکجا یہ بھی ملحوظ رہے کہ فیروز شاہ اکبر کی طرح دنیا ساز اور ظاہر دار نہیں تھا، بلکہ ٹھیٹ مسلمان 1؎ تاریخ فرشتہ میں لکھا ہے کہ 13 کتابیں تھیں جن میں سے بعض کتابوں کا ترجمہ بھی ہوا، اور سخت پابند مذہب، اور ان باتوں کے ساتھ نہایت عادل اور انصاف پرست تھا۔ حضرت امیر خسرو دہلوی نے ایک مثنوی نو بحروں میں نہ سپر نام لکھی ہے، اس میں ایک مستقل باب ہندوستان کے فضائل کا قائم کیا ہے، اور فضیلت کے مختلف وجوہ قرار دئیے ہیں۔ ان وجوہ میں سے ایک وجہ فضیلت علمی قرار دی ہے، اور اس پر دس دلیلیں قائم کی ہیں جن میں سے بعض حسب ذیل ہیں: 1یہاں تمام دنیا کی بہ نسبت علم نے زیادہ وسعت حاصل کی 2ہندوستان کے آدمی دنیا کی تمام زبانیں حاصل کر سکتے ہیں، لیکن اور کسی کا آدمی ہندی زبان نہیں بول سکتا، 3ہندوستان میں دنیا کے ہر حصہ کے لوگ علم کی تحصیل کے لیے آئے لیکن کوئی ہندی تحصیل علم کے لیے ہندوستان سے باہر نہیں گیا، 4 علم حساب میں صفر، ہندوستان کی ایجاد ہے، 5 کلیہ و منہ جو تمام دنیا کی زبانوں میں ترجمہ ہوئی، ہندوستان کی تصنیف ہے، 6 شطرنج ہندوستان کی ایجاد ہے 7 موسیقی کو جو ترقی ہندوستان میں ہوئی کہیں نہیں ہوئی، ناظرین کی دلچسپی اور مزید اطمینان کے لیے ہم کتاب مذکور کے اصل اشعار حاشیہ میں نقل کر دیتے ہیں1؎ 1؎ تانہ بود و رسخن بندہ شکے حجت این گفت دہ آرم نہ یکے اولش1؎ آن شد کہ درین ملک برون علم ہمہ جاست ز اندازہ فرون ہست2؎ دوم آن کہ زہند آدمیان جملہ بگویند زبان ہابہ بیان صرف امیر خسرو نے صرف ہندوؤں کی علمی فضیلت ہی ثابت کرنے پر اکتفا نہیں کیا، بلکہ ان کے مذہب کا بھی اسلام کے علاوہ اور تمام مذاہب سے مقابلہ کیا ہے، اور ترجیح دی ہے، چنانچہ فرماتے ہیں: (بقیہ حاشیہ ص217) لیک از اقصائے دگر ہر کسے گفت نیاز و سخن ہند بسے ہست خطاؤ مغل و ترک و عرب در سخن ہندوی ماروختہ لب حجت3؎ سوم نگر از من بہ خرد کان زرہ عقل، قبول است نہ رو کین طرف از ہر طرفے اہل ہنر در طلب علم و ہنر کرد گندر لیک بہ تحصیل حکم بہر شرف برہمن از ہندنہ شرہیچ طرف نیست نہان آن کہ سوئے ہند مگر کرو ابو معشر وانندہ گذر آمدہ دو سال در آموخت سخن در حد با فارسی آن شہر کہن پس فن تخجیم در آموخت چنان کز حکما بر درین شیلوہ عنان ہست یقین آن کہ درین علم کیس نیست چواد، تجربہ کر دم بسے اور قسم خود کہ نمودست ہمہ آن زسیاہی ہنو دست ہمہ حجت4؎ چارم رقم ہندسہ بین کاہل جہان وضع ندید ند چنین ہم بہ یکے صفر کہ نقشے است تہی بین چہ رموز است چو خطیش وہی واضع ابن تختہ آسا نام یکے بود برہمن کہ درین نیست شکے ہنداسا شد چوازو نام عدد ہندسہ تخفیف شد از اہل خرد وضع دی از برہمن نادرہ بین حکمت یونان شدہ محتاج برین حجت5؎ پنجم بہ بیان شرح کنم مدعیان رابہ خرد جرح کنم برہمن از ہستی اور اندہ نفس از ثنوی کش بہ دوی رفتہ و بس عیسویاں، زوج دو لدبستہ برو ہندو ازین جنس نہ پیوستہ برد قوم مجسم رقم جسم زدہ برہمنان نے دم ازین قسم زدہ اختریاں ہفت خدا بردہ گمان گفتہ یکے ہندو و ثابت ہسہان قوم مشبہ سوئے تشبیہ شدہ ہندو ازین ہاش بہ تنزیہ شدہ خلق و گر نور و ظلم خو ماندہ بدل ہندو این ہاہمہ پیوند گسل ان اشعار میں ہندو مذہب کی ترجیح کے وجوہ یہ بیان کئے ہیں کہ ثنوی فرقہ خدا (بقیہ حاشیہ ص218) دمنہ کلیہ زد ود دام سخن آن کہ ہم از ہند مثالے است کہن گشت جو بودست بہ معنی ہنرے پارسی و ترکی و تازی درے حکمت ازین بہ چہ بود، کزہمہ سو سوے دے آرند حکیمان ہمہ رو حجت6؎ شش، بازی شطرنج شنو انچہ کہ از سینہ بر درنج، شنو ہست ہم از ہند یکے وضع گران این فن طرفہ کہ درو نیست کران زوحد و اندازہ بجتند بسے غایت و پایانش ندانست کسے چون ہمہ گشتند بہ اجماع زبون کین چنین از صورت امکان ست برون برتری از ہند بجتند ہمہ معترف بجز نشستند ہمہ حجت8؎ ہشت آن کہ سرد و خوش ما کوست بسوز و دل و جان آتش ما ہر ہمہ دانستہ کہ در جملہ جہان نیست برین گو نہ واین نیست نہاں اسی باب میں اس سے پہلے ہندوؤں کے علوم و فنون کی عام طور پر تعریف کی ہے، چنانچہ کہتے ہیں: کو دو مانتا ہے، بخلاف اس کے ہندو ایک مانتے ہیں، عیسائی حضرت عیسیٰ کو خدا کا بیٹا مانتے ہیں، لیکن ہندو اس قسم کے عقائد کے قائل نہیں فرقہ مجسمہ خدا کو صاحب جسم مانتا ہے، لیکن ہندو ایسا اعتقاد نہیں رکھتے۔ ستارہ پرست سات خدا مانتے ہیں، لیکن ہندو اس قسم کے عقائد کے قائل نہیں فرقہ مشبہہ خدا کو ممکنات سے تشبیہہ دیتے ہیں، ہندو اس کے خلاف ہیں، پارسی نور و ظلمت، دو خدا مانتے ہیں، لیکن ہندو اس خیال سے بری ہیں۔ اسی کتاب میں حضرت امیر خسرو نے سنسکرت سیکھنے کا بھی ذکر کیا ہے، چنانچہ فرماتے ہیں: من قدرے بر سر این کا رشدم در دل شان محرم اسرار شدم ہرچہ با اندازہ خود رم خرد جستم ازان قوم و نہ بودانہ در درہ1؎ ہمارے ہندو دوست تحریر فرماتے ہیں کہ: 1؎ امیر خسرو کے ان اشعار کے پڑھنے کے بعد مضمون نگار صاحب کی اس رائے پر نظر ڈالو کہ ’’ امیر خسرو نے یہاں کی زبان پر توجہ کی تھی، مگر محض تفریح کے طور پر، ہندوؤں کی کتابوں کے مطالعہ کی طرف کبھی ان کا خیال نہیں ہوا، نہ وہ ان کی خبر رکھتے تھے، یہ ہے ہمارے نا مہربان بھائیوں کی تحقیقات، ‘‘ بقیہ حاشیہ صفحہ219 منطق و تنجیم و کلام است درد ہرچہ کہ جزفقہ، تمام ست درد برہمنے ہست کہ در علم و خسرو دفتر قانون ارسطو بدرد، علم دگر ہرچہ ز معقول سخن بیش ترے ہست بر آئین کہن داپنجہ طبیعی و ریاضی ست ہمہ ہیئات مستقیل و ماضی است ہمہ رومی ازان گونہ کہ افگند برون ہندوگان راست ازان پایہ فزون ’’ جہانگیر کے وقت تک بھی ہندوؤں کی باتوں کی طرف متوجہ ہونے سے مسلمان لوگ کافر سمجھے جاتے تھے۔‘‘ لیکن خود جہانگیر کا یہ حال تھا کہ اس زمانے میں جو بڑے بڑے پنڈت اور سنیاسی موجود تھے، اور جنگلوں یا کھوؤں میں زندگی بسر کرتے تھے، دشوار گذار راستہ طے کر کے ان کے پاس جاتا تھا، اور نہایت خوش اعتقادی کے ساتھ ان سے ہندو مذہب کے حقائق و معارف سیکھتا تھا۔ جہانگیر کے زمانہ میں سب سے زیادہ مشہور سنیاسی اور ویدانت کا عالم جد روپ تھا، جہانگیر جس شوق سے اس سے ملنے گیا ہے، اور جس خلوص و اعتقاد سے اس کی باتیں سنی ہیں، اس کا حال خود تزک جہانگیری میں لکھتا ہے: ’’ مکر رشنیدہ بودم کہ سنیاسی مرتاضی جد روپ نام کہ چندیں سال است کہ نزدیک بہ معمورہ اجین در گوشہ صحرا از آبادانی دور متوجہ و مشغول پرستش معبود حقیقی ست، خواہش صحبت او بسیار داشتم، وقت یکہ در دار الخلافت آگرہ بودم می خواستم کہ اور اطلبیدہ بہ بینم، غایۃً ملاحظہ، تصدیع اد کردہ نہ طلبیدم چون بحوالی شہر او کور رسیدم، از کشتی برآمدہ نیم پاؤ کردہ پیادہ بہ دیدن او متوجہ گشم‘‘ ’’ علم بیدانت را کہ علم تصوف باشد، خوب و رزیدہ، تاشش گھڑی بہ او صحبت داشتم سخنان خوب مذکور ساخت، چنانچہ خیلے در من اثر کرد1؎‘‘ اسی کتاب میں ایک دوسرے موقع پر لکھتا ہے: ’’ باز خاحر رابہ ملاقات گشائین جد روپ رغبت افزود، بے تکلفانہ بہ کلبہ او 1؎ تزک جہانگیری ص176,175 شتافۃ صحبت داشتہ شد، سخنان بلند درمیان آمد، حق جلی و علیٰ غریب توفیقے کرامت فرمودہ، فہم عالی و فطرت بلند و مدرکہ تند ر ابادانش خدا داد جمع، و دل از تعلقات آزاد ساختہ، پشت پا بر عالم و فا فیہا زدہ، در گوشہ تجرید مستغنی و بے نیاز نشستہ، روزیک شنبہ چہار دہم باز بہ ملاقات گشائین رفتہ از دواغ شدم، بے تکلف، جدائی از صحبت او بر خاطر حقیقت گزین گرانی نمود1؎‘‘ ان الفاظ کو پڑھو، اور انصاف کرو کہ کیا کسی شخص کے ساتھ اس سے زیادہ خوش اعتقادی، اخلاص اور گرویدگی کا اظہار کیا جا سکتا ہے، ایک ایسے با عظمت شہنشاہ کا ایک ہندو فقیر بے نوا کے پاس پاؤ کوس زمین پا پیادہ چل کر جانا، چھ چھ گھڑی تک اس کی خدمت میں حاضر رہنا، اس کی باتوں سے کمال درجہ متاثر ہونا، اس کے فضائل و کمالات، اور قطع تعلقات دنیاوی پر حیرت ظاہر کرنا، چلتے وقت اس کی جدائی کا سخت افسوس ہونا، کیا اسی کا نام تعصب ہے؟ کیا ایک ہندو بھی کسی اپنے ہم مذہب پیشوا کے ساتھ اس سے زیادہ خلوص اور عقیدت ظاہر کر سکت اہے؟ جہانگیر کی یہ حالت جد روپ کے ساتھ مخصوص نہ تھی، وہ عموماً ہندو علماء و فضلاء کی صحبت پسند کرتا تھا تزک میں اس قسم کے بہت سے واقعات درج کیے ہیں، ایک موقع پر لکھتا ہے: ’’ در ہمیں منزل شب شیورات واقع شد، جوگی بسیار جمع آندہ بودند و لوازم این شب بہ فعل آمدہ دباد انایان این طائفہ صبحہتا واشتہ شد۔‘‘ جہانگیر کے زمانہ میں ایک اور سنیاسی صاحب کمال تھا، جہانگیر اس کی خدمت میں بھی حاضر ہوا، چنانچہ خود تزک جہانگیری میں لکھتا ہے۔ 1؎ تزک جہانگیری ص279,280 ’’ در کنار تال کا کرایہ، سنیائی کہ از مرتاض طائفہ ہنو داند، کلبہ درویشانہ ساختہ منزدی بود، چون خاطر ہموارہ بہ صحبت درویشان راغب است بے تکلفانہ بہ ملاقات اوشتافتم و زمانے متہد صحبت اور اوریا فتم، خالیا ز آگہی و معقولیت نیست، دبہ آئین دین خود از مقدمات صوفیہ وقوف تمام دارو1؎‘‘ یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ یہ وہی جہانگیر ہے، جس کی نسبت ہمارے ہندو دوست نے اسی مضمون میں لکھا ہے: ’’ جہانگیر کی توجہ اس طرف (یعنی ہندوؤں کی باتوں کی طرف) نہ تھی، اپنی رام رنگی سے (شراب کا نام ہے) حضرت کو فرصت ہی کہاں تھی، جو اور طرف متوجہ ہوتے۔‘‘ اس امر کا بھی لحاظ رکھنا چاہیے کہ جہانگیر اپنے باپ کی طرح ضعیف المذہبا ور سست عقیدہ نہ تھا، بلکہ مذہبی باتوں میں نہایت تعصب رکھتا تھا۔ وہ اکبر کی طرح ہندوؤں کے عقائد کا معترف نہ تھا، بلکہ ان سے مذہبی مباحثہ کیا کرتا تھا۔ ایک مناظرہ کا ذکر خود اپنی تزک میں کیا ہے، اور فخر کے لہجہ میں لکھا ہے کہ ہندو آخر ساکت ہو گئے۔ صوبہ بہار کا راجہ جس کا نام روز افزون تھا، اسی کی فیض صحبت سے اسلام لایا چنانچہ تزک میں لکھتا ہے: ’’ روز افزون کہ از راجہ زاد ہائے معتبر صوبہ بہار بود، داز خود خوردی باز بخدمت حضور قیام می نمود، اور ابشرف اسلام مشرف ساختہ، الخ‘‘ بااین ہمہ اس کی بے تعصبی کا یہ حال تھا کہ جب کسی شخص کو مرید کرتا تھا (سلاطین 1؎ صفحہ237 مطبوعہ علی گڈہ تیموریہ لوگوں کو مرید بھی کیا کرتے تھے، اور ان سے بیعت بھی لیتے تھے) تو اس سے یہ اقرار لیتا تھا کہ کسی مذہب سے عداوت نہ رکھے گا چنانچہ خود لکھتا ہے: ’’ در وقت ارادت آور دن مریدان، چند کلمہ بطور نصیحت مذکور می گردو، باید کہ وقت خود رابہ دشمنی ملتے، از ملت ہاتیرہ دمکدر نسازند، با جمیع ارباب طلل طریق صلح کل مرعی دارند1؎‘‘ ملا مسیح اور اس کی رامائن کے متعلق جو خیالات ہمارے ہندو دوست نے ظاہر کیے اس کی یہ کیفیت ہے کہ بے شبہہ رامائن کو قبول عام نہیں حاصل ہوا، لیکن اس کی وجہ تعصب نہیں ہے، مسیح ایک معمولی درجہ کا شاعر تھا، اس کے کلام میں فارسیت کا مزہ بالکل نہیں، اساتذہ فن میں وہ کبھی شمار نہیں کیا گیا، وہ رامائن کے بجائے اگر صحابہ کے حالات بھی لکھتا، تب بھی کوئی نہ پوچھتا، رامائن کو اس قدر مقبولیت بھی ہوئی تو صرف اس وجہ سے کہ ایک نیا مضمون تھا۔ فردوسی نے شاہنامہ میں گبرون کے قصے لکھے، صولت ترکستانی نے صولت فاروقی میں حضرت ابو بکرؓ و حضرت عمرؓ کے فتوحات نظم کئے،اور فردوسی کو گالیاں دیں کہ اس نے کافروں کے نام کو کیوں زندہ کیا، چنانچہ فرماتے ہیں: از بن پیش شاید سخن گوئی طوس بہ دوغ سخن آبش از جوی طوس مغ مغ نسب گبر آتش پرست بہ بیعت، بہر ہوبدے دادہ دست دلش گبر و جان گبر وگبری زبان زگبر آن بگیری زبان قصہ خوان لیکن نتیجہ کیا ہوا؟ فردوسی کا شاہنامہ بچے بچے کی زبان پر ہے، اور صولت فاروقی کا کوئی نام بھی نہیں جانتا، اگر مسلمانوں میں تعصب ہوتا، تو نتیجہ اس کے برعکس ہونا چاہیے تھا ملا مسیح صاحب اگر خود بانی اسلام کے حالات لکھتے، تب بھی 1؎ تزک جہانگیری ص2 مقبول نہ ہوتے۔ ملا مسیح کے جو اشعار ہمارے ہندو دوست نے نقل کئے ہیں، بے شبہہ و تعصب سے لبریز ہیں، لیکن مسلمانوں کے تعصب کا اندازہ حضرت امیر خسرو ابو معشر فلکی، ابو ریحان بیرونی، عبدالجلیل بلگرامی، فیضی، ملک محمد جالسی، آزاد بلگرامی، سلطان فیروز شاہ، ابراہیم عادل شاہ، اکبر، جہانگیر، دانیال، عبدالرحیم خانخانان سے کرنا چاہئے؟ یا بیچارے مسیح پانی پتی، اور صولت ترکستانی سے جن کو کوئی جانتا بھی نہیں۔ (مقالات شبلی مطبوعہ لکھنو) ٭٭٭٭٭٭٭ مکنیکس اور مسلمان مکنیکس یونانی لفظ ہے، انگریزی میں یہی لفظ مشین بن گیا ہے، جس کو ہماری زبان میں کل سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ یہ فن آج کل اگرچہ بے انتہا ترقی کر گیا ہے، لیکن اس کا وجود بہت قدیم زمانے سے ہے۔ یونان میں وہ علمی حیثیت سے حاصل کیا جاتا تھا، اور مسلمانوں نے جب یونان کے علوم و فنون سیکھے، تو صرف علم پر قناعت نہیں کی، بلکہ اس فن سے عملی کام بھی لیے، عربی زبان میں اس کا نام علم الحرکات اور علم الحیل ہے، لیکن یونان کا اصلی لفظ بھی صورت بدل کر مستعمل ہے۔ لفظ منجیلق جو عربی و فارسی میں کثرت سے مستعمل ہے، اور جس کے اشتقاق کے بیان میں ہمارے علمائے لغت نے سخت غلطیاں کی ہیں، دراصل اسی یونانی لفظ مکانک کا معرب ہے، البتہ اس قدر فرق ہے کہ منجنیق کا استعمال اب عام حیثیت سے نہیں رہا۔ بلکہ ایک خاص آلہ کا نام رکھ دیا گیا ہے۔ مسلمانوں میں اس فن کی ابتداء اس وقت سے ہوئی، جب دولت عباسیہ میںیونانی تصنیفات ترجمہ ہونی شروع ہوئیں۔ چنانچہ اور علوم و فنون کے ساتھ اس فن کی بھی تمام کتابوں کا ترجمہ ہو گیا، ان میں سے ہم کو جن کتابوں کے نام معلوم ہو سکے، ان کی تفصیل ذیل میں ہے۔ کتاب عمل آلالۃ التی تطرح النبادق تصنیف ارشمیدس کتاب الدوائر والد والیب تصنیف ہر قل بخار کتاب فی الاسیا المحترکۃ من ذاتہا تصنیف ایرن کتاب آلۃ الزمراء لبوقی، کتاب آلۃ الزمراء یرسحی، کتاب الدوالیب تضیف مارطس کتاب الارغنون1؎ کتاب ایرن فی البحر الثقیل ان کتابوں میں سے پہلی اور آخری کتاب آج بھی لندن کے کتب خانہ برٹش میوزیم میں موجود ہے۔ پہلی کتاب میں تصویریں بھی بنی ہوئی ہیں2؎ یونانی تصنیفات سے مطلع ہو کر مسمانوں نے خود اس فن میں نئی نئی باتیں اختراع کیں، اور مستقل اور جدید کتابیں لکھیں۔ بنو موسیٰ نے جو مامون کے دربار کے مشہور فلاسفر تھے، اس فن میں جو کتاب لکھی، اور جس کا نام غلطی سے کتاب ایحیل مشہور ہو گیا، نہایت محققانہ اور ایجادانہ کتاب ہے۔ مورخ ابن الندیم نے لکھا ہے کہ اس کتاب میں کئی طرح کے مکانیکل عمل کا بیان ہے۔ مورخ ابن خلکان نے جو ساتویں صدی ہجری میں موجود تھا، لکھا ہے کہ میں نے اس کتاب کو پڑھا ہے۔ اس میں عجیب عجیب نادر باتیں ہیں، اور اس فن کی تمام کتابوں سے افضل ہے۔ پروفیسر سیدیو (Sediut) جو فرانس کا مشہور مصنف ہے اپنی کتاب Histoirie Generale Desarabes صفحہ 249 جلد دوم میں لکھتا ہے کہ ہم کو اس بات کے بیان کرنے کی ضرورت نہیں کہ مسلمانوں کے عہد میں مکنیکس کا فن 1؎ دیکھو کتاب الفہرست مطبوعہ یورپ ص285 ۔ 2؎ دیکھو فہرست کتب عربی موجودہ کتب خانہ برٹش میوزیم بزبان لاتین ص219،3؎ کتاب الفہرست ص285 کمال کی کس حد تک پہونچ گیا تھا۔ پروفیسر لیبان فرانسیسی (Levon) اپنی کتاب Hafirilisation Desirous میں لکھتا ہے کہ عربوں کو مکینکس کی اور خصوصاً عملی مکینکس کی بہت واقفیت حاصل تھی۔ وہ آلات جو ان کے بنائے ہوئے آج بھی ہم کو مل سکتے ہیں، اور وہ واقعات جو ان کے متعلق قدیم مورخوں نے لکھے ہیں، ان سے عربوں کی لیاقت کا ایک بلند خیال پیدا ہوتا ہے یہ امر یقینی ہے کہ عرب کے پاس پنڈلم (لنگر) والی گھڑیاں تھیں جو پانی کی گھڑیوں سے بالکل مختلف تھیں۔ یہ بات ان بیانات سے جو چند مصنفوں نے لکھے ہیں ثابت ہوتی ہے، خصوصاً طالیہ Indeta پنجمن صاحب کے بیان سے جو بارہویں صدی عیسوی میں فلسطین گیا تھا، اور جس نے دمشق کی مسجد کی گھڑی کا حال لکھا ہے1؎ سب سے پہلی ایجاد اس فن کے متعلق جو بیان کی جاتی ہے۔ وہ وہ گھڑی ہے جو ہارون الرشید نے شارلمین شہنشاہ فرانس کو بھیجی تھی۔ یورپ کے اکثر مورخوں نے اس کا ذکر کیا ہے اور پروفیسر سید یو نے مکانیکس کی ترقی کے ثبوت میں اس گھڑی کا نام لیا ہے۔ ان مورخوں کا بیان ہے کہ اس گھڑی میں چھوٹے چھوٹے بارہ دروازے تھے، ہر گھنٹہ کے گذرنے پر گھنٹوں کی تعداد کے موافق دروازے کھلتے تھے، اور اسی تعداد کے موافق تانبے کی گولیاں ایک آہنی توے پر گر کر آواز دیتی تھیں، یہ دروازے برابر کھلتے رہتے تھے، یہاں تک کہ جب دورہ پورا ہو جاتا تھا تو بارہ سوار دروازوں سے نکل کر گھڑی کی بالائی سطح پر چکر لگاتے تھے۔ مسٹر پامر نے اس گھڑی کے وجود سے اس بنا پر انکار کیا ہے کہ عرب کے مورخ اس واقعہ کا ذکر نہیں کرتے، لیکن مسٹر پامر کو معلوم نہیں کہ مورخین عرب نے سینکڑوں ہزاروں واقعات 1؎ دمشق کی مسجد کی گھڑی کا حال آگے کسی قدر تفصیل کے ساتھ آتا ہے۔ قلم انداز کر دئیے ہیں، جن کا ثبوت اور طریقہ اسے قطعاً معلوم ہے مورحین عرب نے تو سرے سے شارلمین کی سفارت ہی کا ذکر نہیں کیا ہے، کیا مسٹر پامر کو اس سے بھی انکار ہو گا؟ یورپ کے مورخوں نے جو اس واقعہ کا ذکر کیا ہے، نہایت قوی حوالوں کے ساتھ کیا ہے، مثلاً پروفیسر سیدیو نے ماریجنی (Marigny) اور ایجی نارٹ (Eginhart) کی تصنیفات کی شہادت پیش کی ہے، اور آخر الذکر شخص خود شہنشاہ شارلین کے زمانہ میں موجود تھا۔ البتہ یہ تعجب ہے کہ ہارون الرشید نے شارلمین کو جو تحفے بھیجے تھے، وہ اب تک فرانس کے معبد پانتیوں میں موجود ہیں، لیکن گھڑی کا پتہ نہیں۔ احمد ذکی مصری جس نے 1892ء میں یورپ کا سفر کیا، وہ اس عمارت کے ذکر میں لکھتا ہے کہ ’’ یہاں ایک مشرقی سیاح کے لئے جو چیز زیادہ دلچسپی کا سبب ہو سکتی ہے، وہ ، وہ کمرہ ہے جس کی دیواروں پر شارلمین کی تصویر اس ہیئت سے بنائی ہے، کہ وہ ہارون الرشید کی سفارت کا استقبال کر رہا ہے، اور سفارت کے ہاتھ میں بیت المقدس کی کنجیاں ہیں، جو ہارون الرشید کو شارلمین نے تحفہ میں بھیجی ہیں۔ یہاں دو ریشمی پردے بھی ہیں، جن کی قیمت64ہزار روپے ہیں۔‘‘ بہر حال اس گھڑی کا وجود ثابت ہو یا نہ ہو، لیکن اس سے انکار نہیں ہو سکتا کہ مسلمانوں کے عہد میں او ربہت سی گھڑیاں اور میکانیکل آلات تیار ہوئے، جن میں سے بعض کا ذکر ہم اس موقع پر لکھتے ہیں: علامہ ابن جبیر نے 578ء میں شام و حجاز کا سفر کیا تھا، اپنے سفر نامہ میں دمشق کی جامع مسجد کے ذکر میں ایک گھڑی کا حال ان الفاظ میں لکھتا ہے کہ ’’ باب جیرون کی دیوار میں طاق کی شکل کا ایک دریچہ ہے اور اس میں بارہ چھوٹے پیتل کے طاقچے ہیں، ان طاقچوں میں بارہ بارہ چھوٹے چھوٹے دروازے ہیں، پہلے اور طاقچے کے نیچے دوبار بنے ہوئے ہیں، جو پیتل کی تھالیوں پر کھڑے ہیں، جب ایک گھنٹہ گذرتا ہے تو دونوں باز اپنی گردنیں بڑھاتے ہیں، اور اپنی چونچ سے ان تھالیوں میں اس انداز سے پیتل کی گولیاں گراتے ہیں کہ جادو معلوم ہوتا ہے۔ گولیوں کے گرنے سے گونج پیدا ہوتی ہے، اور طاقچہ کا دروازہ جو اس گھنٹہ کے لیے بنا ہے خود بخود بند ہو جاتا ہے۔ اسی طرح جب ایک دورہ پورا ہو جاتا ہے تو تمام دروازے بند ہو جاتے ہیں۔‘‘ دنیا میں اول اول جب گھڑی کی ایجاد ہوئی تو اس سے صرف گھنٹہ کا حال معلوم ہو سکتا تھا، لیکن جتنے گھنٹے گزر چکتے تھے، ان کی تعداد معلوم نہیں ہوسکتی تھی، مسلمانوں میں بھی اول اول اسی قسم کی گھڑیاں رائج ہوئیں دمشق کی اس گھڑی میں دونوں باتیں دو مختلف ذریعوں سے معلوم ہوتی تھیں، یعنی گھنٹے کے گذرنے کی اطلاع گولیوں سے ہوتی تھی، جو مصنوعی بازوں کے منہ سے گرتی تھیں، اور گھنٹوں کی تعداد دروازوں سے معلوم ہوتی تھی، کیونکہ جتنے گھنٹے گذرتے تھے، اسی تعداد کے موافق دروازے خود بخود بند ہو جاتے تھے۔ اس گھڑی میں رات کے لیے اور تدبیر تھی، اور وہ یہ کہ جو دائرہ ان طاقچوں کے گرد تھا اس میں تانبے کے 12حلقے بنے ہوئے تھے، ہر حلقہ میں دیوار کی طرف شیشہ لگا ہوا تھا، شیشوں کے پیچھے شمع تھی، جو پانی کے ذریعے سے حرکت کرتی تھی، شمع گھنٹوں کی ترتیب کے موافق ان حلقوں کے سامنے آتی جاتی تھی، اور جس حلقہ کے سامنے آتی تھی وہ سرخ دکھائی دینے لگتا تھا، یہاں تک کہ صبح ہوتے ہوتے تمام حلقے سرخ ہو جاتے تھے1؎ خلیفہ المستنصر باللہ عباسی المتوفی 640ھ نے بغداد میں جو مشہور مدرسہ قائم کیا تھا، اور جس کا نام مستنصریہ تھا اس کے لیے ایک نہایت عجیب و غریب گھڑی تیار کرائی تھی۔ اس گھڑی کی صورت یہ تھی کہ لاجورد کا ایک حلقہ آسمان کی شکل کا بنایا تھا، اور اس میں ایک آفتاب تھا جو برابر حرکت کرتا رہتا تھا، علامہ ابن جوزی نے اس گھڑی کی تعریف میں 1؎ سفر نامہ ابن جبیر مطبوعہ یورپ ص271,272،2؎ یہ تمام تفصیل آثار البلاد فزدینی میں ہے دیکھو کتاب مذکور مطبوعہ جرمن 219 یہ چند اشعار لکھے ہیں: تھری الی الطاعات ساعات الناس وبالنجم ہم یھتدون صورفیہ فلک دائر واشمس تجری مالہا من سکون دائرۃ من لا زور و حلت نقطہ تبرفیہ سر مصون گھڑیوں کے سوا اس قسم کے اور آلات کا بھی پتہ لگتا ہے سلطان عبدالمومن جو مراکش کا مشہور بادشاہ گزرا ہے، اس کو حضرت عثمانؓ کے ان قرآن میں سے ایک قرآن مجید ہاتھ آ گیا تھا جو انہوں نے اپنے اہتمام سے لکھوا کر مصر و شام و بصرہ و کوفہ میں بھجوائے تھے۔ عبدالمومن نے اس قرآن کی نہایت قدر کی اور اس کے لئے ایک کل کا صندوق تیار کرایا، جس کی کیفیت علامہ مقری نے اس طرح لکھی ہے، یہ صندوق عجیب حکمت سے بنایا گیا تھا، جب اس میں کنجی ڈال کر پھراتے تھے تو اس کے پٹ کھل جاتے تھے، اور اندر سے ایک خانہ نکلتا تھا، جس میں ایک رحل ایک کرسی پر رکھی ہوئی تھی، رحل بغیر کسی کے ہاتھ لگائے خود کھلتی تھی، جب رحل اور چوکی بالکل باہر آ جاتی تھی، تو خانہ از خود بند ہو جاتا تھا، کنجی کو جب الٹی طرف پھیرتے تھے تو خانہ پھر کھل جاتا تھا، اور چوکی درحل خود صندوق میں جا کر بند ہو جاتی تھیں1؎ البتہ یہ افسوس ہے کہ اس فن سے کوئی بڑا کام نہیں کیا گیا، نہ عام پبلک کاموں میں اس سے کچھ مدد لی گئی علم جرثقیل پر مسلمانوں کی مستقل تصنیفات موجود ہیں، لیکن ہم کو معلوم نہیں کہ مسلمانوں نے دنیا کے ہر حصہ میں جو بڑی بڑی عمارتیں بنوائیں، ان میں کبھی جرثقیل سے کام لیا گیا۔ خلیفہ المتوکل باللہ عباسی کے عہد میں کچھ خفیف سا پتہ چلتا ہے، لیکن وہ اس قدر غیر معین اور مشتبہ ہے کہ ہم اس موقع پر اس کا ذکر نہیں کر سکتے۔ (رسائل شبلی مطبوعہ) 1؎ نفع الطیب مطبوعہ یورپ جلد اول ص405 ختم شد۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔The End