مقالات شبلیؒ جلدہشتم مرتبہ مولوی مسعود علی ندوی بسم اللہ الرحمن الرحیم دیباچہ مولانا شبلی مرحوم کے مضامین کا یہ مجموعہ ان کے متفرق اخباری مضامین، مختلف مفید تجاویز اور منصوبوں پر مشتمل ہے، اس مجموعہ پر سرسری نظر ڈالنے سے مصنف کی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر ایک ساتھ نظر پڑ جاتی ہے، اشاعت اسلام، وقف اولاد، اوقاف اسلامی، تعطیل نماز جمعہ مجلس علم کلام، اشاعت کتب قدیمہ، ترجمہ، انگریزی قرآن مجید، تالیف سیرۃ نبوی ؐ وغیرہ مختلف قومی اور مذہبی تجویزیں، انہوں نے قوم کے سامنے پیش کیں، ان میں سے کچھ کو اپنی کوششوں سے پورا کر دیا۔ کچھ ایسی تھیں جو مناسب فضا نہ ہونے سے بار آور نہیں ہوئیں۔ اشاعت اسلام کا کام انہوں نے باقاعدہ شروع کر دیا تھا اور مجھے میری قومی خدمت کی تعلیم کی غرض سے مددگار ناظم بنایا تھا، یاد ہو گا کہ 1908ء میں ارتداد کا جو عظیم الشان طوفان اٹھا تھا، اس کے مقابلہ کے لیے جو لوگ اٹھے تھے ان میں ایک سر بر آوردہ نام مولانا مرحوم کا بھی ہے۔ وہ شاہجہان پور وغیرہ خود دور کو نکلے، راجپوتانہ کے اطراف میں معتمد آدمی بھیجے، ندوہ میں سنسکرت پڑھانے کا انتظام کیا۔ کئی طالب علموں کو اس درجہ میں داخل کر کے ان کو اس حد تک تیار کیا کہ اسی درجہ کے ایک مسلمان طالب علم نے شاید 1910ء کے ندوہ کے اجلاس دہلی میں جب ٹھیٹ ہندی میں تقریر کی تو حاضرین کو اس کے پیدائشی پنڈت ہونے کا گمان ہو گیا اور وہ اس وقت دور ہوا جب لوگوں نے اس سے قرآن سنانے کی فرمائش کی۔ اتفاق دیکھئے کہ اس کے قرآن سنانے کا لحن بھی نہایت دلآویز تھا، اس وقت اس نے سورہ رحمن کی قرأت اس خوبی سے کی کہ سارا مجمع آئینہ حیرت تھا۔ دل سینوں میں تڑپ رہے تھے اور چاروں طرف سے تعریف و تحسین اور انعامات کی بارش ہو رہی تھی۔ وقف اولاد کا مسئلہ جس میں سرسید ناکام رہ چکے تھے۔ مولانا کی کوششوں سے ایسا کامیاب ہوا کہ حکومت وقت کو اس کے آگے سر جھکانا پڑا اور مسٹر محمد علی جناح کی تحریک سے اسمبلی نے اس کو قانون بنایا منظور کیا۔ نماز جمعہ کی تعطیل کے مسئلہ کو اٹھایا اور اس حد تک اس کو گورنمنٹ سے منوالیا کہ جو مسلمان نماز جمعہ میں جانا چاہیں وہ ایک مقررہ وقت کے لیے جا سکتے ہیں اسی سلسلہ میں مولانا کی ایک گفتگو یاد آئی، جن دنوں وہ اس تحریک کو چلا رہے تھے فرمایا بھائی اگر تعطیل منظور ہو گئی اور مسلمان عام طور سے نماز نہ پڑھنے جائیں تو اسلام کی کیسی بدنامی ہو گی، جہاں تک عام مسلمان ملازمین کا تعلق ہے، ان کا یہ خوف غلط نہ تھا۔ ان کی سیرت نبوی کی تجویز ایسی سرسبز ہوئی کہ آج ہماری زبان اس مقدس لٹریچر کی فراوانی، بلندی اور افادیت پر بجا فخر کر سکتی ہے۔ عام اوقاف اسلامی کا کام انہوں نے اخیر زندگی میں شروع کیا تھا اور نا تمام رہا تھا، مگر اکثر صوبوں میں ان کی ناتمام کوششوں کی آواز باز گشت گونجی اور سالہا سال کے بعد صوبوں کی حکومتوں نے اس کے متعلق اب کچھ نہ کچھ کیا ہے۔ مولانا عملاً سیاسی نہ تھے، مگر وہ اپنے خیالات میں نہایت سخت سیاسی تھے، اتحاد عالم اسلامی کے وہ پہلے سفیر تھے، علماء اور رہنما یان قوم میں سب سے پہلے ان ہی نے اسلامی ممالک کا سفر کیا اور سلطان ٹرکی سے اعزاز کا تمغہ پایا، جب وہ واپس آئے تو انگریزی حکومت نے ان پر کڑی نگرانی رکھی، کئی سال تک وہ جاسوسوں کے نرغہ میں رہے۔ اور یہ سمجھا جاتا تھا کہ وہ عثمانی خلافت اور اتحاد اسلامی (پین اسلام نرم) کے جس سے اس زمانہ میں بہت کچھ ڈرا جاتا تھا، ہندوستان میں مبلغ ہیں، مسئلہ آمینیا پر ان کا مضمون (جو 1896ء میں لکھا گیا) اسی اثر کا نتیجہ ہے۔ ٹرکی جانے بلکہ علی گڈہ جانے سے بھی پہلے روم و روس کی لڑائی میں ترکوں کے لیے چندہ جمع کر کے بھیجا تھا، پھر طرابلس اور بلقان کی لڑائی کے زمانہ میں ان کا جو حال تھا اسے اس وقت تک جب تک کہ ان کی نظم ’’ شہر آشوب اسلام‘‘ جس کی ردیف’’ کتبک‘‘ ہے موجود ہے، بھلا یا نہیں جا سکتا، لکھنو کے جس جلسہ میں انہوں نے یہ نظم پڑھی تھی یہ کہنا چاہیے کہ وہ طرابلس و بلقان کی ہمدردی کا جلسہ نہ تھا۔ مجلس ماتم تھی۔ اس زمانہ میں ان پر اتنا گہرا اثر تھا کہ وہ ذرا ذرا سی بات پر رو دیتے تھے اور کبھی کبھی جب کوئی خوشی کی خبر آتی تو وہ بہت خوش بھی ہو جاتے تھے۔ اس زمانہ کا ایک واقعہ یاد آیا ایک رات کو کوئی دس بجے کے قریب مجھے اور ندوہ کے بعض اور طالب علموں کو یاد فرمایا، اس نا وقت کی طلب سے ہم لوگ گھبرا گئے، پہنچے تو دیکھا کہ سامنے مصر کے عربی اخبارات پڑے ہوئے ہیں اور مولانا بہت خوش ہیں، فرمایا کہ بھئی! ابھی مصر کے نئے اخبارات پڑھ رہا تھا۔ یہ خبر پڑھ کر بہت خوشی ہوئی کہ ترکوں نے طرابلس کو خود مختار بنایا اور انور بے نے ترکوں کی فوجی ملازمت سے استعفاء دے کر طرابلس کی خود مختار حکومت کی سربراہی قبول کر لی، اکیلے خوشی مناتے نہیں بنتا تھا اس لیے تم لوگوں کو بلایا، اس کے بعد اسی وقت بازار سے مٹھائی منگوائی اور ہم لوگوں کو کھلائی۔ مولانا کالج میں گو سرسید کے ساتھ رہتے تھے، مگر مذہبی اختلاف کے ساتھ ساتھ موصوف کو سرسید کے آخری سیاسی خیالات سے حد درجہ اختلاف تھا اور اس کو وہ ہندوستانیوں اور مسلمانوں کے حق میں سخت مضر سمجھتے تھے بلکہ علانیہ وہ کانگریس کی حمایت کرتے تھے اور اس وقت کی کانگریس کے خیالات سے پوری طرح متفق تھے، دونوں بزرگوں کا یہ سیاسی اختلاف بہت حد تک ان کے تعلقات کو کشیدہ کرنے میں معین ثابت ہوا۔ مولانا فرماتے تھے کہ ایک دفعہ یونین میں جمہوریت اور شخصی بادشاہی کے عنوان پر طالبعلموں کا مناظرانہ مکالمہ تھا، سرسید، مولانا اور دوسرے استاد بھی شریک تھے۔ مولانا نے جمہوریت کی تمہید میں زبردست تقریر فرمائی، جلسہ ختم ہو گیا اور لوگ اپنے اپنے ٹھکانے پر گئے صبح کو جب مولانا سرسید سے ملے تو سرسید نے کہا آپ نے مجھے رات بہت تکلیف پہنچائی رات مجھ کو اس وقت تک نیند نہیں آئی جب تک کہ میں نے آپ کی تقریر کے جواب میں ایک مضمون لکھ کر آپ کے دلائل کی تردید نہ کر لی۔ 1912ء میں تقسیم بنگالہ کی تنسیخ اور طرابلس و بلقان اور مسجد کانپور کے ہنگاموں کے بدولت مسلمانوں کے ہیجان کے زمانہ میں سب سے پہلا مضمون جس نے مسلمانوں کے سیاسی خیالات کا رخ بدل دیا۔ مولانا کے قلم سے نکلا تھا جس کی سرخی ’’ مسلمانوں کی پولیٹکل کروٹ‘‘ ہے، اسی کے ساتھ یا اسی کے قریب قریب زمانہ میں دوسرا انقلاب انگیز مضمون نواب وقار الملک مرحوم کا تھا جس میں تقسیم بنگال کی تنسیخ پر غم و غصہ کا اظہار تھا۔ مولانا نے اس مضمون کا ذکر کیا تھا اور اس کو بہادرانہ مضمون فرمایا تھا۔ اس زمانہ میں مسٹر محمد علی جناح کی سرکردگی میں مسلم لیگ نے ’’ سوٹ ایبل گورنمنٹ‘‘ کی تجویز منظور کی تھی، مولانا اس قید کے سخت مخالف تھے، اس وقت مسلم لیگ پر ان کی جو نظمیں چھپیں اور جو ان کے اردو کلیات میں موجود ہیں، وہ ان کے خیالات کی آئینہ دار ہیں۔ ان نظموں کو یہ مقبولیت حاصل تھی کہ جس ہفتہ اخبارات میں ان کی کوئی نظم شائع ہوتی تھی تو وہ بچہ بچہ کی زبان پر آ جاتیتھی۔ مسجد کانپور کے ہنگامہ میں ان کی نظموں نے مسلمانوں کے جذبات میں آگ لگا دی تھی۔ ہم کشتگان معرکہ کان پور ہیں والی نظم تو ہندوستان کے اس سرے سے اس سرے تک ایک ایک مسلمان بچہ کی زبان پر تھی، 1912ء میں جو بڑا انقلاب انگیز سال تھا، مسلمانوں کی آزاد اخبار نویسی کا سال آغاز ہے، جب لاہور سے زمیندار نے رنگ پلٹا اور کلکتہ میں الہلال نمودار ہوا تو وسط ہند کیسے خالی رہتا، چنانچہ لکھنو میں سید میر جان کی کوشش اور مولانا کے زیر مشورہ مسلم گزٹ نکلا۔ مولانا اس میں کبھی نام سے اور کبھی بے نام مضمون لکھتے تھے۔ مولوی وحید الدین صاحب سلیم مرحوم کو اس کی اڈیٹری کے لیے مولانا ہی نے بلوایا تھا۔ انگریزی ترجمہ قرآن کی تجویز قریب قریب پوری ہو چکی تھی۔ نواب عماد الملک بلگرامی نے جو اپنے زمانہ کے بینظیر انگریزی انشاء پرداز تھے۔ مولانا کی تحریک سے پندرہ پاروں تک ترجمہ کر چکے تھے جو مطبوعہ مسودہ کی صورت میں اب بھی موجود ہے، پھر مولانا حمید الدین صاحب مرحوم جب دار العلوم حیدر آباد میں پرنسپل ہو کر گئے تو نواب صاحب نے ان کے مشورہ و استصواب سے اپنے ترجمہ کے کئی پاروں پر نظر ثانی کی مگر نواب صاحب کی وفات کے بعد جب میں نے یہ مسودہ نواب صاحب مرحوم کے خلف الرشید نواب مہدی یار جنگ بہادر وزیر سیاسیات و تعلیمات سرکار نظام سے منگوا بھیجا تو اس نظر ثانی شدہ مسودہ کا پتہ نہ چلا جس کا بہت افسوس ہے۔ صفحہ2پر ایک اہم تجویز کے نام سے 11فروری 1914ء میں دار المصنفین کا تخیل پیش کیا تھا، وہ اس کی فکر میں تھے کہ اسی سال نومبر1914ء میں انہوں نے وفات پائی۔ اس کے بعد اس تجویز کو عملی صورت میں جس طرح لایا گیا وہ آپ کے سامنے ہے۔ ندوہ کی تعمیرات کی تجویزوں کے سلسلہ میں انہوں بڑی کامیابی ہوئی، ان کی تجویز کو پڑھ کر والی بہاولپور کی جدہ محترمہ مرحومہ نے پچاس ہزار روپے یکشمت دے دئیے دار الاقامہ کی تحریک کا یہ اثر ہوا کہ خود انہوں نے اور ان کے متعدد دوستوں نے اپنے اپنے نام کے کمروں کے لیے ایک ایک ہزار دئیے جن سے ندوہ کے موجودہ بورڈنگ کے کچھ کمرے بنے ہوں گے۔ ندوہ کے فارغ شدہ طلبہ کی دستار بندی کا جلسہ جس کی تحریک ص94پر درج ہے نہایت کامیابی سے ہوا یہی جلسہ میری علمی کامیابیوں کا دیباچہ ہے، استاد نے خوش ہو کر اپنے سر سے پگڑی اتاری اور بھرے جلسہ میں شاگرد کے سر پر باندھی، واقعہ کی تفصیلات دار العلوم کی اس سال کی روداد میں درج ہیں۔ قدیم عربی کتابوں کی اشاعت کی جو تجویز انہوں نے 1892ء میں پیش کی تھی گو وہ اس وقت پوری نہیں ہوئی لیکن عجیب بات ہے کہ جن قلمی کتابوں کی اشاعت کا نام انہوں نے لیا تھا، ان میں سے ایک (مناقب شافعی للرازی) کے سوا سب کتابیں ان کی زندگی میں چھپ گئیں اور وہ دائرۃ المعارف جس کے کام سے ان کو مایوسی تھی ان کے ’’ حبیب صمیم ‘‘ اور بانی کار کے خلف الرشید اور ان کی درسگاہ کے چند تعلیم یافتوں کے ہاتھوں اس کی ایسی کایا پلٹ ہوئی کہ اس باب میں مولانا مرحوم کے اکثر ارادے پورے ہو گئے۔ علم کلام کی مجلس خط و کتابت سے آگے نہیں بڑھی اس میں ایک مضمون المامون کی کسی تنقید کے جواب میں ہے، مولانا مرحوم کی عادت یہ تھی کہ ان کی کتابوں پر جو تنقیدیں لکھی جاتی تھیں وہ ان کا جواب نہیں دیتے تھے، اخیر زمانہ میں جب طالب علم کے نام سے ہمارے فلسفی دوست مولانا عبدالماجد کی نہایت سخت تنقید الناظر میں مولانا کی تصنیف الکلام پر شائع ہوتی تو مجھے سخت غصہ آیا اور اسی حالت میں میں مولانا کے پاس آیا اور یہ سمجھا کہ جب میرا یہ حال ہے تو مولانا کا کیا حال ہو گا مگر دیکھا کہ دریا کی سطح بالکل ساکن ہے، میں نے بڑے جوش سے جواب لکھنے کی تجویز کی تو میری ساری گرم گفتگو کا جواب اس مختصر سے ٹھنڈے فقرہ میں دیا، جو وقت اس میں خرچ کیا جائے اس میں کوئی اور نیا کام کیوں نہ کر لیا جائے۔ اس کلیہ میں صرف ایک استثنا ہے اور وہ المامون پر ایک تنقید کا جواب ہے۔ یہ تنقید اس نوجوان کے قلم سے نکلی تھی، جو اب نواب صدر یار جنگ بہادر کے خطاب سے مخاطب ہیں، مولانا کا جواب 22فروری 1889 ء کے اخبار آزاد لکھنو میں شائع ہوا تھا جس کے ایڈیٹر شوق قدوائی مرحوم تھے۔ جواب کا لہجہ گو تلخ ہے، مگر یہ تلخی کیسی خوشگوار تھی کہ اسی تعلق سے ایک نے دوسرے کو پہچانا اور اس کے بعد مولانا کی تصنیفات پر تقریظ و تنقید فاضل شروانی کے بدیع الاسلوب قلم کا دلچسپ کارنامہ بن گئی۔ یہ مضامین جو متفرق اخباروں اور رسالوں سے بمشکل جمع کئے گئے ہیں۔ حق یہ ہے کہ اس مشکل کام کی انجام دہی کا سہرا مولانا کے ایک معتقد ندوی مولوی معین الدین صاحب قدوائی (بارہ بنگی) کے سر ہے، اب اتنے دنوں میں وہ کچھ سے کچھ ہو گئے اور زمینداری کے کاروبار نے اس مذاق سے ان کو دور کر دیا ہے، مگر ان کا یہ کام یادگار رہے گا۔ سید سلیمان ندوی 2رمضان المبارک1358ھ 31اکتوبر1938ء بسم اللہ الرحمن الرحیم مذہبی صیغہ اشاعت اسلام اشاعت اسلام کی اہمیت کا احساس تمام ہندوستان کے مسلمانوں کو ہو گیا ہے، لیکن چونکہ اس کی وجوہ ضرورت اور تدابیر کا پورا خاکہ مرتب نہیں کیا گیا، اس لیے اس کے متعلق جو کوششیں ہو رہی ہیں صاف نظر آتا ہے کہ نا تمام اور نا کافی ہیں، ہم کو اس مسئلہ کے طے کرنے کے لیے امور ذیل کو پیش نظر رکھنا چاہیے۔ 1اشاعت اسلام کی ضرورت 2کامیابی کی تدبیریں اشاعت اسلام کے لفظ سے اگرچہ غیر مذہب والوں کا اسلام میں لانا متبادر ہوتا ہے، لیکن اس وقت ہماری مراد اس سے حفاظت اسلام ہے، یعنی مسلمانوں کا اسلام ا ور احکام اسلام پر قائم رکھنا، یہ ظاہر ہے کہ ہزاروں لاکھوں مسلمان جو وہات میں رہتے ہیں۔ احکام اسلام سے نا واقف رہتے ہیں۔ اس لیے آریہ وغیرہ ان کے مرتد کرنے کی کوشش کرتے ہیں، نئی نسلیں جو بچپن ہی سے انگریزی تعلیم میں مصروف ہو جاتی ہیں، وہ بھی اکثر اسلام سے نا واقف ہوتی ہیں۔ اس لیے انگریزی تعلیم ان کے عقائد کو متزلزل کر دیتی ہے، انہی دونوں گروہوں کے اسلام کی حفاظت کرنا اشاعت اسلام کا اصلی کام ہے۔ اس کی تدبیریں حسب ذیل ہیں۔ 1ہر ضلع میں ایک یا دو مولوی مقرر کیے جائیںجو دیہات میں جا کر اور دس دس پانچ پانچ (جیسی کہ ضرورت ہو) روز قیام کر کے اسلام کے عقائد اور احکام سکھائیں اور ممکن ہو تو مکتب قائم کرائیں۔ 2ہر شہر میں ایک عالم مقرر کیا جائے جو انگریزی خواں طلبہ کو ہفتہ میں ایک دن دینیات پڑھائے، جس کا یا تو یہ طریقہ ہے کہ سرکاری اسکولوں میں اس کا انتظام کرایا جائے یا خود اس عالم کے مکان پر طلبہ جمع ہوں اور طلبہ کے مربیوں سے اس انتظام میں مدد لی جائے۔ اس انتظام کے لیے ضرور ہو گا کہ ان طلبہ کی حالت کے موافق، دینیات کا نصاب تعلیم تیار کیا جائے۔ 3ایک جماعت آریوں سے مناظرہ اور مباحثہ کرنے کے لیے تیار کی جائے جو بھاشا اور سنسکرت سے واقف ہو۔ 4آریوں کے مہمات عقائد کے رو میں چھوٹے چھوٹے رسالے شائع کئے جائیں جو بخلاف موجودہ رسالوں کے نہایت تہذیب اور متانت کے ساتھ لکھے گئے ہوں 5اشاعت اسلام کی شاخیں ہر ضلع میں قائم کی جائیں، نہایت کثرت سے لوگ ممبر بنائے جائیں، چندہ ممبری کی تعداد سالانہ ہو اور بذریعہ ویلو پی ایبل کے وصول کیا جائے۔ 6 اشاعت اسلام کا سیکرٹری اور اس کے سفرا اور واعظین اور مقامی شاخوں کے عہدہ دار سب کے لیے لازمی ہو گا کہ وہ نذر و نیاز لینے کا طریقہ نہ رکھتے ہوں ورنہ ان کے ذریعہ سے فراہمی چندہ وغیرہ میں یکسو کارروائی نہ ہو سکے گی۔ 7 اس مختصر طریقہ کارروائی کو مع تمہید کے ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں شائع کیا جائے اور کارروائی شروع کر دی جائے۔ (قلمی) جولائی 1910ء ٭٭٭٭٭٭ نو مسلم راجپوت اورحفاظت اسلام آریوں کی مذہبی دست درازیوں نے جس قدر ضرر پہنچایا اس سے زیادہ فائدہ حاصل ہوا بے شبہ ان کے اغوا اور فریب کاری سے چند لچ لچے نو مسلم، مرتد ہو کر اسلام کے دائرہ سے نکل گئے لیکن اس واقعہ نے ہندوستان میں اس سرے سے اس سرے تک ایک آگ سی لگا دی اور ہر طبقہ اور ہر درجہ کے مسلمان دفعۃً چونک پڑے مسلمانوں کا وہ گروہ جو دنیوی تعلیم کی مصروفیت کی وجہ سے مذہبی تعلیم سے بالکل غافل ہو گیا تھا، یہاں تک کہ بعض بعض اعلانیہ مذہب کی توہین کرنے لگے تھے وہ بھی گھبرا اٹھے اور بد حواس ہیں کہ مذہب ایک طرف مسلمانوں کی مردم شماری جس پر ملکی حقوق کی بنیاد ہے، گھٹتی جاتی ہے اس کا کیا علاج ہو گا۔ بے شبہ قوم کا یہ مذہبی احساس ہماری خوش نصیبی کی فال ہے لیکن اس واقعہ کی تہہ میں جو نہایت اہم نتائج پوشیدہ ہیں، ہم کو ان پر نظر ڈالنی چاہیے۔ سب سے پہلے ہم کو اس پر غور کرنا چاہیے کہ ان نو مسلموں کے مرتد ہو جانے کا سبب کیا ہوا، اس کا جواب صرف ایک ہے وہ یہ کہ یہ لوگ اسلامی عقائد، اسلامی احکام، اسلامی تاریخ سے بالکل نا واقف تھے، ان کا اسلام صرف نام کا اسلام تھا اس لیے ذرا سی فریب کاری اور دھوکہ سے یہ عارضی رنگ اڑ گیا۔ یہ جواب بے شبہہ صحیح اور سرتاپا صحیح ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ہماری موجودہ دنیوی تعلیم سے کیا اس پشین گوئی کی مخفی آواز نہیں آ رہی ہے؟ کیا ہماری دنیوی تعلیم (انگریزی تعلیم) میں عقائد اسلام کے استحفاظ کا کوئی بندوبست ہے؟ کیا اس میں تاریخ اسلام کا کوئی معتد بہ حصہ شامل ہے؟ کیا وہ مذہبی زندگی کی ذمہ دار ہے؟ بے شبہ ابھی تک موجودہ نسلوں میں اسلام کے آثارات نظر آتے ہیں، لیکن یہ پچھلے اور موجودہ سوسائٹی کی بقیہ یادگاریں ہیں۔ کچھ زیادہ دن نہیں گزرے کہ اخباروں میں یہ مضامین مسلمان لیڈروں کی طرف سے شائع ہوتے تھے کہ اسلام کا قانون وراثت بدلنے کے قابل ہے ایک مسلمان صاحب نے علانیہ لکھا تھا کہ قرآن کی وہ سورتیں جو مدنیہ میں اتریں بادشاہانہ حیثیت رکھتی ہیں، ان کو مذہب سے کچھ تعلق نہیں۔ بے شبہ ابھی اس قسم کی مثالیں کم ہیں، لیکن ابھی دنیوی تعلیم کو پھیلے ہوئے کے دن ہوئے ہیں؟ نو مسلم راجپوت، دو برس کے بعد اس حالت کو پہنچے ہیں، جدید تعلیم کی جو رفتار ہے، دو سو برس کے بعد اس سے کس قسم کے نتیجہ کی توقع ہو سکتی ہے؟ اس تقریر سے ہمارا یہ مطلب نہیں کہ دنیوی تعلیم کو روکا جائے، ہمارے نزدیک دنیوی تعلیم کو اس قدر پھیلانا چاہیے کہ بچہ بچہ تعلیم یافتہ ہو جائے، لیکن ساتھ ہی ہم کو مذہب کی حفاظت پر بھی اپنی تمام قوت صرف کر دینی چاہیے اس کی تدبیر اس کے سوا اور کیا ہو سکتی ہے کہ مذہبی تعلیم کی ایک وسیع الشان درسگاہ موجود ہو جس میں تمام مذہبی علوم نہایت تکمیل اور اہتمام کے ساتھ پڑھائے جائیں، طلبہ کو عمدہ تربیت دی جائے وہ دریوزہ گرمی کے طریقہ سے بچائے جائیں، ان کو ایثار نفس اور سچی قناعت و خود داری کی تعلیم دلائی جائے۔ یہی صدا ہے جو ندوۃ العلماء نے بار بار بلند کی۔ اور جس کو سبک مغزوں نے اس شور و غل کے ہنگامہ سے دبا دینا چاہا کہ ہم کو آج عربی تعلیم کی کوئی ضرورت نہیں!! دوسرا امر قابل غور یہ ہے کہ آریوں کی دست درازی کے روکنے کا جو طریقہ اختیار کیا گیا ہے وہ کہاں تک ٹھیک ہے موجودہ حالت یہ ہے کہ ہر انجمن نے اپنے اپنے واعظ اور مولوی مقرر کر کے مختلف مقامات پر بھیج دئیے ہیں۔ اگرچہ یہ مذہبی بے چینی اور مذہبی جوش کا ثبوت ہے لیکن اس موقع پر قوتوں کا متفرق کرنا بالکل نا مناسب ہے ایک عام انجمن حفاظت یا اشاعت اسلام کے نام سے قائم ہونی چاہیے اور تمام لوگوں کو اسی کا معاون اور شریک ہونا چاہیے، ندوۃ العلماء نے آغاز میں اشاعت اسلام کا ایک صیغہ قائم کیا تھا۔ لیکن چونکہ مختلف کام ایک وقت میں انجام نہیں پا سکتے تھے اس نے اپنی توجہ تمام تر مذہبی تعلیم کی طرف مصروف کی اور اشاعت اسلام کے صیغہ کو ملتوی کر دیا۔ مولوی عبدالحق صاحب حقانی دہلوی نے ایک انجمن اہمیت الاسلام کے نام سے قائم کی، آگرہ میں جو مشہور جلسہ آریوں کے مقابلہ میں ہوا اور جس نے نو مسلموں کو برگشتگی سے روک لیا۔ اس میں بڑا حصہ اسی انجمن کا تھا، ندوۃ العلماء نے بھی اپنا ایک عالم سفیر اس جلسہ میں بھیجا تھا۔ بہر حال مناسب یہ ہے کہ تمام لوگوں کو متفقہ انجمن ہدایت الاسلام کو وسعت دینی چاہیے اور اسی کو اس کام کو اصلی مرکز قرار دینا چاہیے، الگ الگ اور علیحدہ علیحدہ کام کرنے سے قوتیں پراگندہ ہوں گی اور اس بدگمانی کا موقع ہو گا کہ لوگوں کو اخلاق مقصود نہیں بلکہ اس موقع سے فائدہ اٹھانا اور قوم کی کشش کو اپنی طرف مائل کرنا مقصود ہے۔ ندوہ نہایت خوشی سے منظور کرے گا کہ اس انجمن کو ہر قسم کی مالی اور قلمی اعانت دے۔ یہ بالکل ممکن تھا کہ ندوہ بھی خود اس کام کو چھیڑ دے لیکن چونکہ ایک ہی وقت میں مختلف کوششیں شروع ہو گئی ہیں اس لیے ندوہ یہ چاہتا ہے کہ تمام قوم مل کر ایک متحد مرکز قرار دے، وہ ہدایت الاسلام ہو یا اشاعت اسلام یا اور کوئی، یہ ہماہمی اور خود پرستی اور نمود و نام کا موقع نہیں ہے جو کام ہونا چاہیے، بے لاگ، خلوص اور سچائی کے ساتھ ہونا چاہیے۔ (ندوہ لکھنو،13اپریل1908ئ) (قلمی) ٭٭٭٭٭٭٭ حفاظت و اشاعت اسلام حفاظت و اشاعت اسلام کے متعلق جو سادہ اور مختصر خاکہ چھپوا کر بزرگان قوم کی خدمت میں ارسال کیا گیا اکثر صاحبوں نے اس سے اتفاق ظاہر کیا اور ہر قسم کی شرکت کی آمادگی ظاہر فرمائی۔ ان میں سے بزرگان ذیل کا نام خصوصیت کے ساتھ قابل ذکر ہے۔ جناب حکیم اجمل خان صاحب، جناب ڈاکٹر اقبال صاحب، جناب نواب صدر الدین خان صاحب رئیس بڑودہ جناب مولوی حبیب الرحمن خان صاحب شروانی، جناب مولوی محمد دین صاحب ڈائریکٹر تعلیمات ریاست بہاولپور، جناب نواب احمد سعید خان صاحب، رئیس دہلی، جناب بابو نظام الدین صاحب رئیس امرتسر۔ لیکن وہ مسودہ نہایت مختصر اور مجمل تھا، اس لیے ضرور ہے کہ جو کچھ نصب العین ہے اس کا پورا خاکہ ایک دفعہ پیش نظر کر دیا جائے، یہ صاف نظر آ رہا ہے کہ اسلام پر نہایت سخت خطرات محیط ہوتے جاتے ہیں، ایک طرف آریوں کی پر زور تدبیریں، تمام نو مسلم گاؤں میں آریہ واغطوں کی مستقل سلسلہ جنبانیاں، گروکل کی حیرت انگیز تیاریاں مشنریوں کی وسعت عمل ملاحدہ یورپ کے حملے، مغربی خیالات کا اثر۔ ان کے مقابلہ میں مسلمانوں کی سرد مہری، مذہبی تعلیم کی کمی، قوتوں کی پراگندگی طرز عمل کی بے قاعدگی، سرمایہ کی بے استقلالی، دونوں حالتوں کو سامنے رکھ کر دیکھئے کن نتائج کی توقع ہو سکتی ہے۔ مذہبی ضرورت کا انتظام مذہبی ضروریات بہت سی وہ ہیں جو پہلے سے موجود ہیں اور جن کے متعلق ملک میں پہلے سے ہر قسم کی تدبیریں جاری ہیں، مثلاً عربی مدارس، مساجد، واعظین وغیرہ وغیرہ۔ ان چیزوں میں بہ شکل موجود ہات ڈالنے کی ضرورت نہیں، ہمارا دائرہ عمل وہ ضروریات مذہبی ہیں جو زمانہ حال نے پیدا کر دی ہیں اور جن کا انتظام اور بندوبست اس قدر ضروری ہے کہ اگر جلد تراس کا صحیح اور مضبوط اور منظم طریقہ نہ اختیار کیا جائے گا تو اسلام کو سخت صدمہ پہنچے گا اور پھر اس کی کچھ تلافی نہ ہو سکے گی، یہ ضروریات حسب ذیل عنوانوں میں تقسیم کی جا سکتی ہیں۔ 1وہ ضرورتیں جن کا تعلق گورنمنٹ سے ہے 2وہ ضرورتیں جن کا تعلق مخالفین اسلا اسد عیسائی یا آریہ وغیرہ بنانا چاہتے ہیں اور جو ہماری غفلت کی وجہ سے کامیاب ہوتے جاتے ہیں۔ 3وہ ضرورتیں جن کا تعلق خود مسلمانوں سے ہے۔ جو ضرورتیں گورنمنٹ سے متعلق ہیں انگریزی گورنمنٹ کو تمام گورنمنٹوں پر اس بارے میں فوقیت حاصل ہے کہ اس نے رعایا کو تمام مذہبی امور میں آزادی دی ہے اور کسی مذہب کے اصول اور مسائل میں دست اندازی نہیں کرتی۔ لیکن بعض موقع ایسے پیش آتے ہیں کہ گورنمنٹ کو کسی فرقہ کے مذہبی مسئلہ کا صحیح علم نہیں ہوتا، اس صورت میں جب وہ فرقہ گورنمنٹ کو مطلع کرتا ہے تو گورنمنٹ اس کے مطابق اصلاح کر دیتی ہے۔ مثلاً وقف اولاد کے متعلق حکام پر یوی کونسل نے متعدد فیصلے نافذ دئیے تھے۔ کہ قانون اسلام کی رو سے محض اولاد پر وقت کرنا صحیح نہیں، پریوی کونسل کے فیصلے گویا ناقابل منسوخی ہوتے ہیں، لیکن جب تمام مسلمانان ہندوستان نے مل کر یہ آواز بلند کی کہ یہ ان کے مذہب کی غلط تعبیر ہے، اور گورنمنٹ کو یقین ہو گیا کہ یہ تمام مسلمانوں کی متفقہ آواز ہے تو وہ اس کی اصلاح پر آمادہ ہو گئی اور کونسل میں اس کا جو مسودہ پیش ہوا۔ سیکرٹری آف سٹیٹ نے اس کو اصولاً تسلیم کر لیا۔ اس قسم کے اور بہت سے امور ہیں مثلاً ہندوستان میں مذہبی اوقاف کی تعداد کروڑوں روپیہ تک پہنچتی ہے لیکن ان میں سے اکثر بے مصرف صرف ہو رہے ہیں اور ہر سال لاکھوں روپیہ برباد جاتا ہے اگر ان اوقاف کا باقاعدہ انتظام ہو جائے تو ہر قسم کی مذہبی ضروریات بغیر کسی نئی کوشش اور چندہ کے انجام پا جائیں۔ مسلم لیگ وغیرہ نے گورنمنٹ کو اس طرف متوجہ کیا، لیکن گورنمنٹ نے جواب دیا کہ یہ ثابت ہونا چاہیے کہ یہ تمام مسلمانوں کی خواہش ہے، اسی طرح ہائی کورٹوں میں پہلے یہ طریقہ تھا کہ ایک مفتی بھی مقرر ہوتا تھا اور مقدمات میں اس کا فتویٰ لے کر حکام فیصلہ کرتے تھے۔ اب یہ قاعدہ نہیں رہا اور اس لیے بہت سے مقدمات میں فقہ کی غلط تعبیر ہو جاتی ہے بیرسٹر اور وکلاء فقہ سے اکثر نا واقف ہوتے ہیں اور اس لیے اس قسم کی غلطیوں کی تلافی نہیں ہو سکتی۔ غرض اس قسم کی بہت سی مذہبی ضرورتیں ہیں جن کو معقول طریقہ سے گورنمنٹ میں پیش کرنے کی ضرورت پیش آتی رہتی ہے، لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ گورنمنٹ کو یہ یقین ہو کہ یہ تمام مسلمانوں کو متفقہ آواز ہے اور یہ ایسی صورت میں ہو سکتا ہے کہ ایک عام انجمن قائم کی جائے جس میں مسلمانوں کے تمام فرقوں کے لوگ شامل ہوں۔ مخالفین اسلام کے مقابلہ میں مذہبی ضرورت اب یہ کوئی مخفی راز نہیں رہا کہ آریوں اور عیسائیوں نے ہمارے مذہب پر اعلانیہ حملہ شروع کر دیا ہے اور ان کی باقاعدہ اور مسلسل اور متواتر کوششیں ہر روز کامیاب ہوتی جاتی ہیں، ممالک متحدہ کی اس سال کی مردم شماری سے واضح ہوتا ہے کہ 1881ء میں عیسائیوں کی تعداد بہ مقابلہ آبادی کے 3فی ہزار تھی، لیکن اب 29 فی ہزار ہے۔ آریوں کی تعداد 1891ء میں فی دس ہزار پانچ تھی، لیکن اب فی دس ہزار28ہے۔ اس تعداد میں خود ہندوؤں سے بھی اضافہ ہوتا ہے لیکن یہ قطعی اور چشم دید واقعہ ہے کہ ہزاروں مسلمان عیسائیت اور آریہ کا شکار ہو چکے ہیں اور ہوتے جاتے ہیں۔ مسلمانوں نے جو کوششیں اب تک آریوں اور عیسائیوں کے مقابلہ میں کی ہیں آپ دیکھ رہے ہیں کہ وہ پراگندہ، غیر منتظم اور ناکافی ہیں، اس لیے مخالفین کی کوششوں کے سیلاب کو روک نہیں سکتیں۔ ان حملوں کے مقابلہ میں ہمیں دو قسم کی کوششوں کی ضرورت ہے۔ مدافعت یعنی جاہل اور نا واقف مسلمانوں کو مخالفین کی دستبرد سے محفوظ رکھنا اور اس غرض سے ان میں ابتدائی مذہبی تعلیم پھیلانا۔ اشاعت ہمارے لیے صرف یہی کافی نہیں کہ ہم بیکس بن کر صرف دوسروں کے حملہ سے اپنے آپ کو بچائیں، اسلام اس لیے آیا تھا کہ تمام دنیا پر اپنے آپ کو پیش کرے اس لیے ضرور ہے کہ ہم دوسری قوموں میں اپنے واعظ اور داعی بھیجیں جو اسلام کی تبلیغ کریں۔ یہ قطعی ہے کہ اگر صحیح طور سے مذہب اسلام دنیا کی قوتوں کے سامنے پیش کیا جائے تو ہزاروں لاکھوں اشخاص نہ صرف ایشیاء بلکہ یورپ میں بھی اسلام کو بے تکلف قبول کر سکتے ہیں۔ مدافعت کا انتظام پہلی ضرورت یعنی مدافعت کے لیے ہم کو ایک مختصر نصاب جس کی مدت تحصیل 2برس سے زیادہ نہ ہو مرتب کرنا چاہیے تاکہ چھوٹی چھوٹی تنخواہوں کے مدرس اس غرض سے ہاتھ آ سکیں کہ نو مسلموں اور جاہل مسلمانوں کی آبادیوں میں جا کر ان کو ابتدائی مذہبی اور عام تعلیم دے سکیں۔ علماء دیہات میں معمولی تنخواہوں پر قیام نہیں کر سکتے اور معمولی خواندہ لوگ مذہبی تعلیم نہیں دے سکتے۔ اشاعت کا انتظام جب تک ایسے علماء تیار نہ ہوں جو انگریزی زبان اور علوم سے بھی واقف ہوں جس کی بنیاد ندوۃ العلماء نے ڈال دی ہے، اس وقت تک بغیر اس کے کوئی چارہ نہیں کہ قابل انگریزی دانوں کو بیش قرار وظائف دے کر دو برس تک مذہبی تعلیم دی جائے اور پھر ان سے یہ کام لیا جائے کہ وہ ملکی زبان کے علاوہ انگریزی زبان میں بھی اسلام کی صداقت اور حقیقت پر تقریریں کر سکیں اور لوگوں کو اسلام کا پیغام پہنچائیں۔ اندرونی ضروریات مذہبی کا انتظام مسلمانوں کے ہزاروں لاکھوں بچے انگریزی تعلیم میں مصروف ہیں اور یہ تعداد روز بروز بڑھتی جائے گی۔ یہ لڑکے اکثر ان مدارس میں تعلیم پاتے ہیں جہاں مذہبی تعلیم کا انتظام نہیں ہے۔ مذہبی تعلیم کے لیے گورنمنٹ سرکاری مدارس میں ایک آدھ گھنٹہ دے سکتی ہے لیکن اس کا ہر قسم کا انتظام مسلمانوں کو خود کرنا ہو گا۔ اس کام میں جو سب سے زیادہ دقت پیش ہے وہ یہ ہے کہ اردو زبان میں دینیات کی تعلیم کا کوئی مختصر، دلچسپ اور جامع نصاب موجود نہیں ہے اس لیے سب سے مقدم یہ ہے کہ خود نصاب کے عنوان اور ترتیب کا خاکہ قائم کر کے اشتہار دیا جائے۔ اور معقول انعامات مقرر کیے جائیں اور ایک کمیٹی انتخاب کے لیے قائم کی جائے، اس طریقہ سے امید ہے کہ ایک عمدہ اور دلچسپ نصاب تیار ہو جائے یہ نصاب نہ صرف انگریزی مدارس کے لیے بلکہ دیہات کے ابتدائی مدرسوں کے لیے بھی کام آئے گا۔ ایک عام انجمن اور اس کی شاخوں کی ضرورت لیکن یہ تمام جن میں سے ہر ایک نہایت اہم ہے، کسی خاص مقامی اور خصوصی انجمن سے انجام نہیں پا سکتے، ضروری ہے کہ تمام ہندوستان کی ایک مشترکہ انجمن قائم کی جائے جس میں ہر طبقہ اور ہر درجہ کے لوگ شریک ہوں۔ اور جس کی شاخیں تمام ہندوستان میں قائم کی جائیں۔ انجمن کا انتظام اس طرح قائم کیا جائے کہ ایک کونسل ہو جس کے 25ممبر ہوں اور ہر صوبہ سے پانچ پانچ ممبر لیے جائیں، چار پانچ مستقل سیکرٹری ہوں یعنی ہر صیغہ کا الگ سیکرٹری ہو، سو انتظامی ممبر ہوں اور وہ بھی ہر صوبہ کی مناسبت سے لیے جائیں، کونسل اور انتظامی ممبروں کا انتخاب پبلک اور انتخابی اصول پر ہو ان کے علاوہ عام ممبر ہوں جن کی تعداد محدود نہ ہو اور جن کے لیے صرف اس قدر ضروری وہ کہ سالانہ چندہ ادا کر سکیں اور یہ تعداد اس قدر وسیع ہو کہ ابتدائی زمانہ میں کم از کم ایک لاکھ ممبر بہم پہنچ جائیں۔ کونسل کے قواعد کونسل کا ذکر نہایت مختصر طور پر کیا گیا ہے اس کے لیے ایک مرتب دستور العمل بنانے کی ضرورت ہے اور اہل الرائے حضرات سے خاص طور پر درخواست ہے کہ وہ اس کا مسودہ مرتب کرنے کی تکلیف گوارا فرمائیں۔ نیز اس سے بھی مطلع فرمائیں کہ آپ کے نزدیک کونسل اور مجلس انتظامی کی ممبری کے لیے کون حضرات سب سے زیادہ موزوں ہو سکتے ہیں۔ پالیٹکس سے علیحدگی اس انجمن کو کسی حالت میں پالیٹکس سے سروکار نہ ہو گا۔ (مطبوعہ) ٭٭٭٭٭٭ نو مسلمانوں کو دوبارہ ہندو ہو جانے سے بچانے کیلئے تمام برادران اسلام کی خدمت میں فریاد اے برادران اسلام! کبھی کبھی آپ کے کانوں میں بھک پڑتی ہے کہ فلاں گاؤں میں مخالفوں نے نو مسلموں کو آریہ بنا لیا۔ آپ اس کو اتفاقی اور شاذ واقعہ سمجھتے ہیں، لیکن واقعی حالت یہ ہے کہ خاموشی کے ساتھ اس قسم کی کوشش کا ایک مسلسل، باضابطہ اور عالمگیر سلسلہ جاری ہے جس کے نتائج اسلام کے حق میں نہایت خطرناک نظر آتے ہیں۔ اس کوشش کی کامیابی اس وجہ سے زیادہ آسان معلوم ہوتی ہے کہ ہزاروں دیہات اور مواضع اس قسم کے ہیں جہاں کے نو مسلم اسلام سے اس قدر بے خبر ہیں کہ ان کے نام لچھمن سنگھ اور دیال سنگھ ہوتے ہیں۔ انہوں نے عمر بھر کبھی کلمہ کا لفظ نہیں سنا۔ ان کے گاؤں میں اگر کوئی مسجد ہے تو اس میں کبھی نماز نہیں ہوتی، البتہ گوبر سے کبھی کبھی اس کی لپائی کر دی جاتی ہے، اس قسم کے دیہات راجپوتانہ، بیکانیر، الور، بھرتپور، حصار اور سلطان پور وغیرہ میں کثرت سے پائے جاتے ہیں۔ میں اس امر کی تحقیق کے لیے اخباروں میں اشتہار دیا تو نہایت کثرت سے ان مقامات کے رہنے والوں کے خطوط آئے اور انہوں نے تفصیل کے ساتھ واقعات لکھے۔ یہ نو مسلم اکثر راجپوت ہیں وہ مسلمانوں کے ہاتھ کا کھانا نہیں کھاتے، ان کی تمام رسمیں طور اور طریقے ہندوؤں کے ہیں، وہ صرف اس علامت سے مسلمان خیال کئے جاتے ہیں کہ مردوں کو دفن کرتے ہیں، آگ میں نہیں جلاتے۔ اور جب ان سے پوچھا جاتا ہے تو اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں۔ آریوں کے واعظ اور سفیر، ان دیہاتوں میں جاتے ہیں اور ان سے کہتے ہیں’’ تمہارے باپ، داد ا کو مسلمان بادشاہوں نے جبراً مسلمان بنا لیا تھا، اب تم یہ ننگ کیوں گوارا کرتے ہو‘‘ یہ جادو ان پر آسانی سے چل جاتا ہے اور وہ ہندو ہو جاتے ہیں۔ اس حالت کا قوم کو احساس ہوا۔ اور جا بجا انجمنیں قائم ہوئیں لیکن انہوں نے جو واعظ مقرر کیے وہ صرف شہروں میں دورہ کرتے ہیں، وعظ کہتے ہیں، آریوں سے مناظرہ کا اعلان کر دیتے ہیں دیہات میں وہ اس لیے نہیں جا سکتے کہ دیہات میں جانے اور رہنے کی سختیاں وہ برداشت کرنے کے عادی نہیں، اگرچہ مناظرہ بھی خالی از فائدہ نہیں۔ لیکن یہ ظاہر ہے کہ یہ تدبیر مرض کا اصلی علاج نہیں یہ کام اس قدر دقت طلب ہے کہ ایک یا دو اشخاص کی رائے اس عقدہ کے حل کرنے کے لیے کافی نہیں، اس لیے ضروری ہے کہ اکثر مقامات سے صاحب تجربہ اور اہل الرائے اور واقف کار حضرات ایک مقام پر جمع ہوں اور آپس میں مشورہ اور غور اور مبادلہ خیالات کے بعد ایک مفصل خاکہ تیار کریں جس کے موافق باقاعدہ اور وسیع کارروائی شروع کی جائے، اس کے لیے یہ مناسب موقع ہے کہ 6اپریل 1912ء سے 18اپریل 1912تک تک ندوۃ العلماء کا اجلاس بہ مقام لکھنو منعقد ہو گا، جن حضرات کے دل میں اسلام کا درد ہے وہ اس موقع پر تشریف لائیں۔ جو تدبیریں اس وقت خیال میں آتی ہیں وہ اس غرض سے پیش کی جاتی ہیں کہ تمام حضرات کو ان پر غور اور فکر کا موقع ملے، وہ تدبیریں حسب ذیل ہیں۔ 1 اس قسم کے واعظ مقرر کیے جائیں جو دو دو چار چار مہینے ایک ایک گاؤں میں رہ کر لوگوں کو اسلام کے احکام سکھائیں۔ اس قسم کے واعظوں کے تیار کرنے کا خاص انتظام ہونا چاہیے۔ 2 دو دو چار چار گاؤں کے بیچ میں ابتدائی مدرسے قائم کیے جائیں جن میں قرآن شریف اور اردو کی تعلیم دی جائے۔ 3صوفی وضع لوگ بھیجے جائیں، جن کا اثر عوام پر خود بخود پڑتا ہے۔ 4 مسلمانوں کے دیہات میں جو سرکاری ابتدائی مدرسے ہیں کوشش کی جائے کہ ان کے مدرسین مسلمان مقرر ہوں۔ اب تک اکثر ہندو مدرس مقرر ہوتے ہیں اور اس لیے بچوں کو اسلام کی طرف رغبت نہیں ہو سکتی۔ غرض یہ ایک نہایت اہم مذہبی اور قومی مسئلہ ہے اس کو نہایت غور، فکر اور جدوجہد سے حل کرنا چاہیے اگر مسلمان ایسے خطرہ کی پرواہ نہیں کرتے تو ان کو اسلام کا نام نہیں لینا چاہیے۔ مسلم گزٹ لکھنو 11مارچ1912 ٭٭٭٭٭٭٭ کارروائی انجمن وقف علی الاولاد (زیر حمایت ندوۃ العلمائ) مسلمانوں کی فقہ کا یہ ایک مسلم مسئلہ ہے کہ اگر کوئی شخص اپنی جائیداد کو اپنی اولاد پر وقف کر دے جس کی غرض یہ ہو کہ اصل جائیداد ہمیشہ محفوظ رہے اور اس کے منافع سے اولاد ہمیشہ متمع ہوتی رہے تو یہ وقف شرعاً جائز اور صحیح ہو گا ، یعنی اس جائیداد کو کبھی کوئی شخص فروخت اور منتقل اور ضائع نہیں کر سکے گا۔ اور اس کے منافع سے اس شخص کی اولاد کا سلسلہ جب تک دنیا میں قائم رہے متمع ہوتا رہے گا۔ یہ طریقہ اسلام میں ہمیشہ جاری رہا اور تمام بلاد اسلامیہ میں اب تک جاری ہے اور ہندوستان میں بھی ایک مدت تک جاری رہا۔ لیکن بعض خاندانوں میں نزاع پیدا ہونے پر اس کے متعلق سرکاری عدالتوں میں مقدمات دائر ہوئے اور پریوی کونسل سے یہ فیصلہ ہو گیا کہ ایسا وقف ناجائز ہے۔ یہ پریوی کونسل کا استدلال یہ ہے کہ وقف خیرات کرنے کا نام ہے اور اپنی اولاد کو دنیا خیرات میں داخل نہیں ہو سکتا (حالانکہ شریعت اسلام میں سب سے بہتر خیرات یہی ہے کہ اپنے عزیز و اقارب کو دیا جائے) اس فیصلے کے بعد سرکاری طور سے اس قسم کے تمام اوقاف باطل ہو گئے اور یہ نقصان عالمگیر ہوتا جاتا ہے۔ چونکہ گورنمنٹ انگریزی کا پہلا اصول ہے کہ کسی کے مذہبی احکام میں مداخلت نہ کرے۔ اس لیے یہ قطعی اور یقینی ہے کہ اگر گورنمنٹ کو یہ یقین ہو جائے کہ یہ مسلمانوں کا مسلمہ مذہبی مسئلہ ہے تو گورنمنٹ ضرور اس فیصلہ کی اصلاح پر مائل ہو گی۔ لیکن جو کارروائیاں اس کے متعلق بعض بعض قوم کے بزرگوں نے کیں، اس نے گورنمنٹ کو اس پر یقین نہیں دلایا۔ مولوی امیر علی صاحب نے ایک مقدمہ وقف (میر محمد اسمعیل خان بنام منشی چرن گھوش) میں اس مسئلہ کے جواز کے تمام دلائل لکھے تھے، لیکن حکام پریوی کونسل نے بہ مقدمہ ابو الفتح بنام راس مایا دھر چودھری مندرجہ جلد22ترجمہ انڈین لار پورٹ مطبوعہ جولائی 1895ء ان دلائل کو ناکافی خیال کیا۔ اس کے بعد مولوی محمد یوسف صاحب وکیل کلکتہ نے ایک نہایت مفصل رسالہ اس کے متعلق لکھا اور بہ حیثیت پریسیڈنٹ محمڈن ایسوسی ایشن بنگال، جناب گورنر جنرل بہادر کی خدمت میں بھیجا، لیکن جناب موصوف نے مارچ1908ء میں ان کو یہ جواب لکھا کہ پریوی کونسل کے فیصلہ میں کوئی مداخلت نہیں ہو سکتی۔ اب چند امر قابل غور پیدا ہوئے۔ 1آیا یہ مسئلہ حقیقت میں مسلمانوں کا مذہبی مسلمہ مسئلہ ہے یا نہیں؟ 2اگر ہے تو گورنمنٹ کو کیونکر اس کا یقین دلایا جا سکتا ہے؟ 3گورنمنٹ پریوی کونسل کے فیصلہ میں مداخلت کر سکتی ہے یا نہیں؟ چونکہ دفعہ اول میں کچھ شبہ نہ تھا اس لیے دفعہ دوم اور سوئم کے متعلق میں نے قوم کے ان اکابر سے جو امور قانونی اور ملکی معاملات میں سب سے بہتر رائے دے سکتے ہیں خط و کتابت کی، متفقا سب نے کامیابی کی امید ظاہر کی اور خواہش کی کہ صحیح طریقہ سے اس تحریک کو جاری کیا جائے۔ چنانچہ ان میں سے بعض خطوط کا اقتباس حسب ذیل ہے۔ سید علی امام صاحب بیرسٹر ایٹ لاء پریسیڈنٹ مسلم لیگ ضرور اس امر وقف میں ہم مسلمانوں کو پوری اور کامل کوشش کرنی چاہیے کہ فیصلہ پریوی کونسل خلاف قانون اسلام قرار دیا جائے، میں مشورہ اور کسی قدر چندہ سے بھی خدمت کر سکتا ہوں، فروری 1908ء ہم مسلمانوں کو چاہیے کہ تمام ہند میں مجالس کریں، عرضداشت تیار کریں اور حضور میں وائسرائے کے اور ان کی کونسل کے حاضر ہوں اور نیز سیکرٹری آف اسٹیٹ تک سلسلہ جنبانی کریں تاکہ قانون بدلا جائے۔ 22فروری 1908ء مولوی محمد شفیع صاحب بیرسٹر ایٹ لاء لاہور میری قطعی رائے ہے کہ فیصلہ پوری کونسل شرع محمدی کے اصولوں اور احکام کے خلاف ہے اور اس امر کے متعلق جناب نے رسالہ میں جو تجویز فرمائی ہے مجھے اس سے کلی اتفاق ہے 14جون 1908ء نواب سید امیر حسن خان صاحب کلکتہ صحیفہ معہ کاغذات وقف علی الاولاد ورود ہوا مجھے تمام تر آپ کی تحریکوں سے اتفاق ہے 4فروری 1908ء جناب مولوی حامد علی خان صاحب بیرسٹر ایٹ لاء لکھنو عنایت نامہ و تجویز متعلقہ مسئلہ وقف وصول ہوئے، نہایت عمدہ تجویز ہے، میرا خیال اس طرف عرصہ سے ہے بلکہ ایک مسودہ نہایت مدلل و مفصل لکھ کر ایک صاحب کو دیا تھا۔ 4فروری 1908ء جناب نواب انتصار جنگ بہادر سیکرٹری علی گڑھ کالج وقف اولاد کا مسئلہ آل انڈیا مسلم لیگ کی کارروائی کا بہت خوش گوار جز ہے، لیکن یہ ظاہر ہے کہ مختلف اجزاء کے لحاظ سے مختلف قابلیتوں کے لوگ ان کے سر انجام دینے کو درکار ہوا کرتے ہیں اگر آپ اس کام کو بدستور اپنے ہاتھ میں رکھیں اور جو مدد آپ کو لیگ سے درکار ہو وہ لیگ سے لیتے رہیں اور آخر کار اس مسئلہ کو لیگ گورنمنٹ میں پیش کرے تو میرے نزدیک نہ صرف مناسب نہ ہو گا بلکہ کامیابی کے لیے بہت مفید 27جنوری 1908 سید ظہور احمد صاحب مقیم لندن جسٹس امیر علی صاحب سے اس کے متعلق پوری باتیں ہوتیں، ان کی رائے ہے کہ گورنر جنرل ہند سے درخواست کی جائے کہ وہ محمڈن لاء کے منشاء کے مطابق علماء کی رائے سے ایک قانون اوقاف کے موافق پاس کر دیں، پریوی کونسل کو اس میں کچھ اعتراض نہ ہو گا۔ ہم مسلمانان موجودہ لندن جن کا تعلق قانون سے ہے آپ کا یقین دلانا چاہتے ہیں کہ ہم ہر قسم کی خدمت جو ہم سے آپ اس کی بابت یہاں پر لینا چاہیں، بجا لانے کو تیار ہیں۔ 13مارچ1908ء از لندن مولوی محمد شریف آنریری سیکرٹری وقف کمیٹی مقیم لندن وقف علی الاولاد کے مسئلہ کی ترمیم کے لیے یہاں وقف کمیٹی قائم ہوئی ہے، چونکہ کوئی کام اس کے متعلق بلا آپ لوگوں کی رائے کے کرنا مناسب نہیں ہے اس لیے اس کی اطلاع دیتا ہوں۔ غالباً سیکرٹری آف سٹیٹ کے پاس یا تو ڈپوٹیشن یا میموریل مع دیگر کاغذات کے انشاء اللہ جلد بھیجیں گے اس کی اطلاع آپ کو دیں گے۔ آپ جو کام اس کے متعلق کرنا چاہیں اس کی اطلاع دیجئے گا۔ 4دسمبر1908ء مولوی محمد یوسف صاحب وکیل ہائی کورٹ کلکتہ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ تمام ہندوستان سے درخواست گورنمنٹ میں دی جائے کہ وقف کا قاعدہ شرح کی رو سے ہے اس کو آئین میں مندرج کر دیا جائے تاکہ پریوی کونسل کے فیصلہ کا اثر نہ رہے۔ 19مارچ1909ء مولوی مشیر حسین صاحب قدوائی بیرسٹر ایٹ لاء لکھنو میں تینوں طرح سے مدد دینے کو تیار ہوں میں ترتیب و ترجمہ انگریزی کو اپنے ذمہ دلوں گا نواب نصیر حسین صاحب خیال کلکتہ گزشتہ مئی مسٹر جسٹس امیر علی نے لندن سے ایک خط میں فقیر کو تحریر فرمایا تھا کہ وہ اس امر میں کوشش کرنا چاہتے ہیں اور مسلمانان ہند متفق ہوں تو وہ اور زیادہ آمادہ ہوں، فقیر ہر طرح کی مدد کے لیے حاضر اور کلکتہ بلکہ صوبہ بہار اور بنگال کے متعلق جو خدمت ہمارے سپرد کی جائے گی۔ اس کی انجام دہی اپنا فرض سمجھے گا۔ اس قسم کے اور بہت سے خطوط اور تحریریں، تمام اطراف ملک سے آئیں، یہاں تک کہ بعض بزرگوں نے بلا طلب اس کام کے لیے چندے بھی بھیج دئیے، چونکہ تمام اہل الرائے اس پر متفق تھے کہ اس معاملہ میں کامیابی کی امید ہے اور چونکہ سب لوگوں کے نزدیک یہ ضروری تھا کہ اس مسئلہ کے متعلق گورنمنٹ کو یقین دلایا جائے کہ مسلمانوں کا مسلمہ مذہبی مسئلہ ہے۔ اس لیے یہ مناسب سمجھا گیا کہ پہلے یہ مسئلہ ندوۃ العلماء کے سامنے پیش کیا جائے، جو تمام ہندوستان میں سب سے بڑی مقتدر مذہبی جماعت ہے۔ چنانچہ اکتوبر1908ء جلسہ سالانہ ندوہ میں یہ مسئلہ ایک رزولیوشن کی حیثیت سے پیش کیا گیا اور یہ منظور ہوا کہ اس کے متعلق تمام ہندوستان کے علماء سے فتویٰ لیا جائے اور جب فتوے آ جائیں تو مزید کارروائی کی جائے۔ اس تجویز کے مطابق علماء سے اسفتصار کیا گیا اور عموماً دونوں مذہب کے علماء نے فتویٰ لکھا کہ یہ مسئلہ شریعت اسلام کا مسلم مسئلہ ہے۔ جب اکثر جگہ سے فتوے آ چکے تو ندوۃ العلماء کے جلسہ انتظامیہ مورخہ 2مئی 1909ء میں حسب ذیل رزولیوشن منظور ہوئے۔ 1 رسالہ وقف علی الاولاد جو اس مسئلہ پر لکھا گیا ہے اس کا انگریزی میں ترجمہ کرایا جائے مع ان فتوؤں کے جو علماء نے لکھے ہیں نیز علمائے حرمین سے بھی فتوی حاصل کیا جائے اور مصر میں اس کے متعلق جو فیصلے عدالتوں میں ہو چکے ہوں بہم پہنچائے جائیں۔ 2 ایک مجلس وقف زیر حمایت ندوہ قائم کی جائے اور ہندوستان کی تمام مقتدر مجالس سے اس میں مدد لی جائے۔ 3ایک عرضداشت اس کے متعلق تیار ہو جس میں گورنمنٹ سے خواہش کی جائے کہ وہ شریعت اسلام کے موافق قانون تیار کر دے ۔ 4اس عرضداشت پر تمام ہندوستان کے مسلمانوں دے دستخط کرائے جائیں اور دستخط کے بعد وہ ایک معزز اور مقتدر ڈپوٹیشن کے ذریعہ سے جناب حضور وائسرائے کی خدمت میں پیش کیا جائے۔ چنانچہ ان رزولیوشنوں کے مطابق کارروائی شروع کر دی گئی۔ بڑا اطمینان اس امر کے متعلق یہ بھی ہے کہ جناب نواب عماد الملک مولوی سید حسین صاحب بلگرامی ممبر انڈیا کونسل نے اس مسئلہ کے متعلق لندن میں تحریک شروع کی ہے اور ایک مفصل خط میں مجھ کو تمام وہ طریقے تحریر فرمائے ہیں، جن سے کامیابی حاصل ہونے کی قوی امید ہے ان حالات کے گزارش کرنے کے بعد بزرگان قوم سے امور ذیل کی استدعا ہے۔ 1جو مجلس وقف زیر حمایت ندوہ قائم کی گئی ہے اس کی ممبری منظور فرمائیں 2عرضداشت پر دستخط کرنے کے لیے جو فارم تیار کیے گئے ہیں ان پر دستخط فرمائیں اور نہایت کثرت سے ہر طبقہ اور ہر فرقہ کے لوگوں سے دستخط کرائیں۔ 3 چونکہ تمام کاغذات اور فتوے کے انگریزی ترجمہ اور دیگر کارروائیوں کے لیے ایک معتدبہ رقم درکار ہو گی اس لیے چندہ سے اعانت فرمائیں چندہ کی تمام رقمیں بنک بنگال لکھنو میں جمع ہوں گی اور اس کے خزانچی جناب مولوی احتشام علی صاحب رئیس لکھنو اور نواب علی حسن خان صاحب لکھنو ہوں گے، چندہ دینے والے صاحبوں کو اختیار ہے کہ چندہ کی رقم براہ راست بنک بنگال لکھنو میں بھیج کر، دونوں صاحبوں کے پاس بینک کی رسید بھیج دیں، یا خود ان صاحبوں کے پاس ارسال فرمائیں۔ (الندوہ جلد 2نمبر4) 26مئی 1909ء مطابق ربیع الثانی 1927ھ ٭٭٭٭٭٭ وقف اولاد کی کارروائی کہاں تک پہنچی خدا کا شکر ہے کہ اس تحریک کی طرف قوم نے امید سے زیادہ توجہ کی، اس قدر لوگوں کو معلوم ہو گا کہ اس وقت تک اس تحریک کے متعلق کاغذات ذیل شائع ہو چکے اور ہو رہے ہیں۔ 1فتوے علمائے ہندوستان متعلق صحت مسئلہ وقف اولاد (اس مسئلہ میں سنی و شیعہ دونوں فریق کے علماء نے اتفاق کیا ہے) 2 رسالہ وقف اولاد جس میں پریوی کونسل کی غلط فہمی کے وجود ظاہر کئے گئے ہیں اور اصل مسئلہ قرآن مجید اور حدیث اور فقہ سے ثابت کیا گیا ہے (یہ رسالہ 8قیمت پر ملتا ہے) 3 مختصر کارروائی جس میں ملک کے قابل اور لائق قانون دانوں اور مدبروں کی رائیں اس تحریک کی کامیابی کے متعلق درج کی گئی ہیں۔ 4فارم جس پر تمام ہندوستان کے مسلمانوں سے دستخط کرانے ہیں ان کاغذات کے شائع کرنے پر تمام اطراف سے ہمدردی اور اظہار اعانت کے خطوط آئے نہایت کثرت سے لوگوں نے فارم طلب کیے اور ان پر دستخط کرا کر بھیجتے جاتے ہیں۔ اکثر بزرگان قوم نے انجمن وقف کی ممبری قبول کی جن میں سے بزرگان ذیل کا نام خصوصیت کے ساتھ لیا جا سکتا ہے۔ جناب نواب امیر حسن خان صاحب رئیس کلکتہ جناب سید علی امام صاحب بیرسٹر ایٹ لاء بانکی پور جناب خان بہادر محمد شفیع صاحب بیرسٹر ایٹ لاء لاہور جناب فضل حسین صاحب بیرسٹر ایٹ لاء لاہور جناب مولوی مشیر حسین صاحب قدوائی بیرسٹر ایٹ لا و تعلقہ دار لکھنو جناب مولوی محمد یوسف صاحب وکیل ہائی کورٹ کلکتہ جناب سید ظہور احمد صاحب لندن جناب خان بہادر شیخ غلام صادق صاحب امرتسر جناب مولوی حبیب الرحمن خان صاحب شروانی رئیس علی گڑھ جناب حاذق الملک حکیم محمد اجمل خان صاحب دہلی جناب نواب احمد سعید خان صاحب طالب دہلی جناب سید نواب علی حسن خان صاحب بہادر لکھنو جناب آنریبل خان بہادر سید نواب علی صاحب ڈھاکہ جناب نواب مزمل اللہ خاں صاحب رئیس علی گڑھ جناب راجہ علی محمد خاں صاحب کے سی ایس آئی رئیس محمود آباد نے اس مسئلہ کی طرف توجہ کی، جناب مولوی سید فخری صاحب نے مدراس سے اطلاع دی کہ وہاں ایک جلسہ اس کی تائید میں عنقریب منعقد ہو گا، جس کے صدر انجمن پرنس آف ارکاٹ ہوں گے۔ بنگال میں جناب مولوی عبدالحق صاحب ہاشمی نے تمام بنگال کی انجمنوں اور عہدہ داروں کی فہرست مرتب کراتی ہے اور ہر جگہ فارموں پر دستخط کرانے کے لیے کارروائی شروع کر دی ہے۔ اب حسب ذیل کارروائیوں کی ضرورت ہے 1 تمام بڑے بڑے شہروں میں انجمن وقف کی شاخیں قائم ہو جائیں 2 فارموں پر کم از کم ایک لاکھ دستخط حاصل کئے جائیں۔ 3نہایت ضروری اور مقدم امر یہ ہے کہ علماء کے فتوے اور رسالہ وقف کا انگریزی میں ترجمہ کیا جائے۔ ابھی تک اس کا معقول انتظام انہیں ہوا کیونکہ ایسے لوگ جو عمدہ انگریزی لکھ سکتے ہوں اور فقہی اصطلاحات سے واقف ہوں کم ہیں اور جو ہیں ان کو اپنے اشغال سے فرصت نہیں ناظرین سے ہم درخواست کرتے ہیں کہ ایسے لائق اشخاص کے نام سے ہمیں مطلع کریں کہ ان کی خدمت میں درخواست کی جائے، ترجمہ کا معقول معاوضہ دیا جائے گا (اگر وہ معاوضہ لینا منظور کریں گے) 4 تمام کارروائی کے انجام دینے کے لیے کم از کم چار ہزار روپے کی ضرورت ہو گی اس لیے اس قدر سرمایہ بہم پہنچانے کی کوشش کی جائے اس وقت تک جن صاحبوں نے چندہ عطا فرمایا ہے اس کی تفصیل حسب ذیل ہے انجمن اسلامیہ امرتسر جناب مولوی حبیب الرحمن خان صاحب شروانی رئیس بھیکم پور جناب شیخ غلام صادق صاحب رئیس امرتسر جناب نواب مزمل اللہ خان صاحب رئیس بھیکم پور جناب مرزا سعید الدین احمد صاحب عرف احمد سعید خان صاحب طالب صدر بازار میرٹھ جناب عبدالماجد صاحب موضع ٹھرپا فتح گنج غربی، ضلع بریلی جناب مولوی محمد عالم صاحب وکیل قنوج جناب سید محمد غلام جبار صاحب وکیل ہائی کورٹ حیدر آباد دکن جناب سعادت اللہ صاحب رئیس موضع سنگھیا، ضلع پورینہ جناب سید غلام حسن خان صاحب وکیل منصفی کیرانہ ضلع مظفر نگر (الندوہ جلد2نمبر8) شعبان 1327ھ مطابق ماہ ستمبر1909ئ) ٭٭٭٭٭٭ اوقاف اسلامی آپ اس بات سے واقف ہیں کہ مسلمانوں کی مذہبی اور تمدنی ضروریات روز بروز بڑھتی جاتی ہیں جس کے لیے مصارف کثیر درکار ہوتے ہیں اور ا س وجہ سے ہر روز ایک نیا چندہ کھولنا پڑتا ہے لیکن اس غریب قوم کی یہ حالت نہیں کہ ان تمام چندوں کی متحمل ہو سکے، اس لیے اکثر کام نا تمام رہ جاتے ہیں اور قومی ضرورتوں کو سخت نقصان پہنچتا ہے۔ اس کی سب سے بہتر اور آسان تدبیر یہ تھی کہ ملک میں کروڑوں روپے کے جو اسلامی اوقاف ہیں ان کا ایسا معقول انتظام ہوتا کہ وہ بیجا مصارف میں نہ صرف ہوتے اور صحیح ضروریات کے کام میں آتے، اسی ضرورت سے مسلم لیگ اور دیگر اسلامی انجمنوں نے بار ہا یہ رزولیوشن پاس کیا کہ گورنمنٹ ان اوقاف کی نگرانی پر متوجہ ہو لیکن گورنمنٹ سے یہ جواب ملا کہ دو باتیں ثابت کرنی چاہئیں ایک یہ کہ یہ خواہش تمام قوم کی طرف سے ہے، دوسرے یہ کہ وہ اوقاف صحیح مصرف میں نہیں صرف کیے جا رہے ہیں اس کے بعد مسلم لیگ یا اور کسی انجمن نے کچھ کارروائی نہیں کی، حقیقت یہ ہے کہ یہ کہہ دینا نہایت آسان ہے کہ اوقاف کا انتظام کیا جائے لیکن یہ بتانا مشکل ہے کہ کون کرے اور کس طرح کیا جائے، گورنمنٹ تو اس لیے دست اندازی نہیں کر سکتی کہ وقف عموماً ایک مذہبی چیز ہے اور گورنمنٹ کسی مذہبی چیز میں ہاتھ ڈالنے سے ہمیشہ محترض رہتی ہے اور اس کو محترض رہنا چاہیے قوم میں کوئی شخص یا چند اشخاص متوجہ ہوں تو وہ کیا کر سکتے ہیں، متولیان اوقاف پر کوئی اختیار حاصل نہیں، عدالت میں اگر مقدمات دائر کیے جائیں تو اس طول عمل اور دوسری اور سب سے بڑھ کر مصارف کا کون متکفل ہو سکتا ہے اس بناء پر میں چاہتا ہوں کہ ایک مختصر سی کمیٹی قائم ہو جو اس کی تدبیروں پر غور کرے اور کوئی صحیح اور متعین اور قابل عمل طریقہ تجویز کر کے ایک اسکیم (خاکہ) بنائے جو قوم کے سامنے پیش کی جائے اور فیصلہ کے بعد اس پر عمل کیا جائے اس بناء پر میں آپ سے خواہش کرتا ہوں کہ آپ اس کی ممبری قبول فرمائیں۔ چند سرسری باتیں میں یہ بہ دفعات ذیل پیش کرتا ہوں 1ایک مموریل تیار کیا جائے جس میں انتظام اوقاف کی خواہش گورنمنٹ سے کی جائے اور اس مموریل پر اس کثرت سے مسلمانوں کے ہر طبقہ سے دستخط کرائے جائیں کہ یہ مموریل تمام قوم کی طرف سے سمجھا جائے۔ 2گورنمنٹ سے جس قسم کی نگرانی کی خواہش کی جائے، اس طریقے کی ہو کہ مذہبی دست اندازی کا کسی طرح احتمال پیدا نہ ہونے پائے، مثلاً اس کا یہ طریقہ ہو کہ ایک کمیٹی قائم کی جائے جس کے ارکان تمام صوبوں سے نیا تبانہ طریقے پر انتخاب کئے جائیں اور انتخاب کی تمام تر کارروائی صرف اسلامی جماعت کی طرف سے انجام پائے پھر گورنمنٹ سے درخواست کی جائے کہ اس کمیٹی کو باقاعدہ تسلیم کرے اور اس کو باضابطہ اختیارات تحقیقات وغیرہ کے دئیے جائیں پھر اس کی مرتب کردہ رپورٹ ملک میں شائع کی جائے اور گورنمنٹ سے درخواست کی جائے کہ اس کے مطابق عمل کیا جائے۔ 3تیموری سلطنت میں تمام ا وقاف کی انتظام کا ایک خاص عہدہ تھا جس کو صدر الصدور کہتے تھے کیا گورنمنٹ سے یہ درخواست نہیں کی جا سکتی کہ یہ عہدہ دوبارہ پھر قائم کیا جائے۔ لیکن صدر الصدور کا تقرر اسی نیا بتانہ اصول پر اسلامی جماعت کی طرف سے ہوتا کہ گورنمنٹ کے متعلق کسی قسم کی دست اندازی کا احتمال نہ پید اہو سکے۔ ان کے علاوہ اور جو تجویزیں آپ کے خیال میں آئیں آپ تجویز فرمائیں۔ (تاریخ26جنوری1914ئ) (مطبوعہ) ٭٭٭٭٭٭ وقف اولاد کے مسئلہ کے متعلق ایک نہایت ضروری تحریک جناب من! یہ ایک بدیہی اور مسلم الثبوت واقعہ ہے کہ انگریزی گورنمنٹ نے عموماً یہ اصول ملحوظ رکھا ہے اور ابتدائے حکومت سے اب تک اس پر نہایت مضبوط سے قائم ہے کہ کسی مذہب کے مذہبی احکام اور مسائل سے بلا کسی سخت مجبوری حالت کے تعرض نہ کیا جائے اور یہ وہ خصوصیت ہے کہ انگریزی گورنمنٹ کے سوا تمام دنیا میں اس کی بہت کم مثال مل سکتی ہے۔ باایں ہمہ وقف اولاد کے مسئلہ میں قیصر ہند نے بمشورہ پریوی کونسل جو فیصلہ صادر کیا ہے وہ فقہ اسلام کے خلاف ہے۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ بعض عدالتوں نے غلطی سے یہ سمجھا کہ اسلامی فقہ سے اولاد کے حق میں وقف کرنا ثابت نہیں ہوتا اور عام ادمی گمان بھی یہی کر سکتا ہے کہ وقف خیرات کا نام ہے اور اولاد پر خیرات کرنے کے کیا معنی ہو سکتے ہیں، جسٹس مسٹر امیر علی صاحب سابق جج ہائی کورٹ کلکتہ نے اپنے شریک ججوں سے مشورہ کر کے اس مسئلہ کو طے کیا تھا۔ لیکن اپنے فیصلہ میں فقہ کی کتابوں کے حوالے نہیں دئیے تھے۔ اس لیے پریوی کونسل نے اس کے ساتھ اعتنا نہیں کیا اور وقف اولاد کو ناجائز قرار دیا۔ لیکن چونکہ یہ مسئلہ فقہ اسلامی کا ایک مسلم مسئلہ ہے اور پریوی کونسل نے جو فیصلہ کیا ہے وہ صرف غلط فہمی کی بنا پر ہے۔ اسی لیے یہ یقین ہے کہ اگر گورنمنٹ انگریزی اور پریوی کونسل کو یقین دلایا جائے کہ یہ ایک مذہبی مسئلہ ہے اور اس میں مداخلت کرنا مذہبی احکام میں مداخلت کرنا ہے۔ تو یہ قطعی ہے کہ پریوی کونسل اپنے فیصلہ کو مسترد کر لے گی۔ اس بناء پر تمام مسلمانوں کو اس امر کے متعلق ایک متفقہ کوشش کرنی چاہیے جس کا طریقہ حسب ذیل ہے۔ 1ایک رسالہ اردو زبان میں نہایت تفصیل اور تحقیق کے ساتھ فقہ کی مستند کتابوں سے تیار کیا جائے جس میں ثابت کیا جائے کہ وقف اولاد فقہ اسلامی کا ایک مسلم اور قطعی مسئلہ ہے۔ 2اس رسالہ پر تمام علمائے ہندوستان سے دستخط کرائے جائیں 3اس رسالہ کا انگریزی زبان میں ترجمہ کرایا جائے 4ہندوستان کے ہائیکورٹوں اور پریوی کونسل نے جس بنا پر وقف اولاد کو ناجائز قرار دیا ہے ان دلائل سے تعرض کیا جائے اور ان کی غلطی دکھائی جائے۔ 5ایک مضر اس مضمون کا تیار کیا جائے کہ چونکہ وقف اولاد کا مسئلہ مسلمانوں کا ایک مذہبی مسئلہ ہے، اس لیے پریوی کونسل نے اس کے متعلق جو غلط فہمی پیدا کی ہے اس کی اصلاح قانون کے ذریعہ سے کر دی جائے۔ 6 اس محضر پر تمام اسلامی انجمنوں اور عام مسلمانوں کے دستخط کرا کے گورنمنٹ کے پاس بھیجا جائے۔ ان تمام امور کے انجام دینے کے لیے ایک رقم کی ضرورت ہے جس کی تعداد تخمیناً دو تین ہزار ہو گی، جس سے رسالہ کی تیاری، انگریزی ترجمہ اور خط و کتابت کے مصارف اداہو سکیں۔ اس بنا پر ہم تمام مسلمانان ہندوستان سے التجا کرتے ہیں کہ اگر وہ اس تدبیر کو ضروری سمجھتے ہیں تو خاکسار کو مطلع فرمائیں اور یہ بھی ظاہر کریں کہ وہ وجوہ مفصلہ ذیل میں سے کس قسم کی شرکت کر سکتے ہیں۔ 1مشورہ اور رائے میں شرکت 2چندہ میں شرکت 3رسالہ کی ترتیب اور تیاری، اور قانونی مشورہ اور انگریزی ترجمہ کرنے میں شرکت 24دسمبر1908ء (الندوہ ج 4نمبر12ذوالحجہ 1325ھ مطابق ماہ جنوری 1909ئ) ٭٭٭٭٭٭٭ مموریل متعلق نماز جمعہ ہم تمام مسلمانان ہندوستان جن میں سنی، شیعہ، اہل حدیث اور تمام اسلامی فرقے داخل ہیں۔ حضور کی توجہ ایک نہایت اہم اور عظیم الشان مسئلہ کی طرف مبذول کرانا چاہتے ہیں جس کا اثر ان تعلقات پر پڑتا ہے جو مسلمانوں کو گورنمنٹ برطانیہ کی رعایا ہونے کی حیثیت سے حاصل ہیں۔ اس مسئلہ کی تفصیل حسب ذیل ہے۔ 1انگلش گورنمنٹ کی سب سے بڑی خصوصیت جو اس کو تمام دنیا کی سلطنتوں سے ممتاز کرتی ہے یہ ہے کہ اس نے رعایا کے تمام مختلف مذاہب کو آزادی دی ہے اور ان کے تمام معتقدات اور ارکان مذہبی کا اس طرح احترام کرتی ہے کہ کوئی شخص اپنے فرائض مذہبی کے بچانے سے قاصر نہیں رہ سکتا۔ گورنمنٹ نے ابتدائے حکومت ہی میں اس اصول کا اظہار کر دیا تھا اور آج تک گورنمنٹ نے اس اصول کو نہایت پابندی اور احتیاط کے ساتھ ملحوظ اور معمول بہ رکھا ہے۔ 2مسلمانوں کے جو اعمال مذہبی ہیں ان میں بعض اعمال وہ ہیں جن کو مذہبی اصطلاح میں فرض کہتے ہیں یہ اعمال صرف5ہیں اور ان کا یہ درجہ ہے کہ جو مسلمان ان میں سے کسی فرض کو ترک کر دے وہ مذہب سخت جرم کا مرتکب ہو گا جس کی سزا آتش دوزخ ہے۔ 3 ان فرائض میں ایک فرض جمعہ کی نماز ہے جو کہ جمعہ کے دن دوپہر کے بعد ادا کی جاتی ہے اور جس کے لیے شرط ہے کہ مسجد میں اور جماعت کے ساتھ ادا کی جائے۔ 4قرآن مجید میں جو کہ مسلمانوں کی کتاب الٰہی ہے اس نماز کے متعلق یہ صریحی حکم ہے یایہا الذین امنو اذ نودی للصلوۃ من یوم الجمعۃ فاسعو الی ذکر اللہ و ذر والبیع ذلکم خیر لکم ان کنتم تعلمون (جمعہ) ’’ مسلمانوں جب جمعہ کی اذان ہو تو خدا کی یاد(نماز) کے لیے دوڑو، اور خرید و فروخت چھوڑ دو، یہ تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم سمجھو‘‘ اس نماز کی اہمیت کا یہ نتیجہ ہے کہ دنیا میں جس قدر اسلامی سلطنتیں اور ریاستیں ہیں ان میں جمعہ کے پورے دن کی تعطیل دی جاتی ہے تاکہ لوگ اطمینان کے ساتھ مسجد میں یہ فرض مذہبی ادا کر سکیں۔ مصر اگرچہ انگلش حکومت کے زیر اثر ہے اور تمام بڑے بڑے محکموں اور ہائی کورٹ میں انگلش افسر ہیں، تاہم وہاں جمعہ کے دن تعطیل ہوتی ہے۔ 5 ہندوستان کی اکثر ہندوریاستوں میں باوجود ہندو ریاست ہونے کے اور باوجود اس کے کہ وہاں مسلمان ملازموں کی تعداد ہندوؤں سے بہت کم ہوتی ہے، جمعہ کی تعطیل دی جاتی ہے۔ 6 انگریزی حکومت کے آغاز میں رعایا کا یہ خیال رہا کہ انگلش حکومت ایک فارن حکومت ہے اور اسی لیے ہم کو اس سے یہ درخواست کرنے کا حق نہیں کہ وہ اپنے انتظامات حکومت میں ہمارے مذہبی اعمال کا ہر موقع پر خیال رکھے، اس بناء پر نماز جمعہ کے متعلق کوئی صدا مسلمانوں کی طرف سے بلند نہیں ہوئی، لیکن جس قدر مسلمانوں کا تعلق گورنمنٹ سے بڑھتا جاتا ہے اور جس قدر مسلمانوں کی عام پبلک انگلش حکومت کے اصول انصاف و طریق حکومت سے زیادہ آشنا ہوتی جاتی ہے اسی قدر ان کا احساس بڑھتا جاتا ہے کہ اس فرض کے ادا کرنے سے ان کو محروم نہ کیا جانا چاہیے۔ 7مسلمانوں میں انگریزی تعلیم روز بروز بڑھتی جاتی ہے، اس وجہ سے سرکاری ملازمتوں میں بھی ان کی تعداد بڑھتی جاتی ہے اور بڑھتی جائے گی۔ اس لیے ایک تعداد کثیر کا یہ محسوس کرنا ان کو ملازمت سرکاری کی وجہ سے اپنے ایک فرض مذہبی سے باز رہنا پڑتا ہے، ایک سنگین مسئلہ بن جاتا ہے۔ (قلمی ) ٭٭٭٭٭٭٭ علمی و تاریخ ایک عظیم الشان تحریک یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مفصل اور مستند سوانح عمری مرتب کرنے کی تجویز کیا عجیب بات ہے! ہندوستان میں چھ کروڑ مسلمان ہیں مشرقی علوم و فنون ابھی تک زندہ ہیں نہایت لائق اور قابل انشاء پرداز موجود ہیں، ملکی زبان نے ایسی قابل قدر تصنیفات پیش کیں کہ روم و مصر میں مضمون کے لحاظ سے ان کا جواب نہیں، قومی روایات کا مذاق بچہ بچہ کی رگ میں ہے۔ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ قدیم اور جدید دونوں گروہ کو یہ عقدیت و نیاز ہے کہ آپ ؐ کے نام پر جان و مال قربان کر دینا کوئی بات نہیں۔ یہ سب ہے لیکن اتنی بڑی وسیع قوم اور اتنی عالمگیر زبان (اردو) میں جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی سوانح عمری نہیں یا ہے تو ایسی ہے کہ اس کو سیرت نبوی ؐ کہنا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی روح مبارک کو آزردہ کرنا ہے سیرت نبوی ؐ کی ضرورت اس لحاظ سے اور بڑھ جاتی ہے کہ قوم میں جدید تعلیم وسعت سے پھیلتی جاتی ہے اور یہی جدید تعلیم یافتہ گروہ ایک دن قوم کی قسمت کا مالک ہو گا۔ یہ گروہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات زندگی اگر جاننا چاہتا ہے تو اردو میں کوئی مستند کتاب نہیں ملتی۔ اس لیے اس کو چار ناچار انگریزی تصنیفات کی طرف رجوع کرنا پڑتا ہے جن میں یا تعصب کی رنگ آمیزیاں ہیں یا نا واقفیت کی وجہ سے ہر موقع پر غلطیاں ہیں۔ ایک خاص بات یہ ہے کہ سیرت نبوی ؐ کی ضرورت پہلے صرف تاریخی حیثیت سے تھی لیکن اب عقائد کی حیثیت سے بھی ہے یورپ جو اسلام پر نکتہ چینی کرتا ہے زیادہ تر اس بنا پر کرتا ہے کہ بانی اسلام ؐ کے اخلاق و عادات و تاریخ زندگی ایسی نہیں کہ ان کو خدا کا بھیجا ہوا معصوم پیغمبر کہا جا سکے۔ یہی وجہ ہے کہ سر ولیم میور صاحب نے آنحضرت صلعم کے حالات زندگی پر جو کتاب لکھی اس کو پادریوں نے اپنا خاص کام سمجھا اور خود صاحب موصوف نے تصریح کی ہے کہ انہوں نے یہ خدمت زیادہ تر پادری فنڈر صاحب کی رفع ضرورت کے لیے انجام دی ہے۔ میں ایک مدت سے ان باتوں کا احساس کر رہا تھا، لیکن اس بناء پر قلم اٹھانے کی جرأت نہیں ہوتی تھی کہ آنحضرت صلعم کے واقعات میں ایک حرف بھی صحت کے اعلیٰ معیار سے ذرا اتر جائے تو سخت جرم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عربی زبان میں سینکڑوں ہزاروں کتابیں لکھی گئیں لیکن جو گروہ زیادہ محتاط اور ادب شناس تھا اس نے بہت کم جرأت کی، کبار محدثین مثلاً امام بخاری، مسلم، ترمذی، ابو داؤد، ابن ماجہ، امام مالک نے سیرت نبوی ؐ میں کوئی کتاب نہیں لکھی۔ لیکن اس احتیاط سے بہت سے عظیم الشان مقاصد فوت ہوئے جاتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ مورخین اسلام مثلاً طبری، ابن قتیبہ، بلا ذری محمد بن اسحق وغیرہ نے جو علم حدیث میں بھی کمال رکھتے تھے باوجود تدین اور احتیاط کے آنحضرت صلعم کے حالات زندگی میں مبسوط کتابیں لکھیں جس ضرورت نے مورخین کو اس پر آمادہ کیا وہی آج بھی ہے بلکہ آج یہ ضرورت اور بھی زیادہ بڑھ گئی ہے۔ قوم کی طرف سے ایک مدت سے تقاضا ہے کہ میں سب کام چھوڑ کر سیرت نبوی ؐ کی تالیف میں مصروف ہو جاؤں، خود میں بھی اپنی پہلی رائے سے رجوع کر چکا ہوں اور اس شدید ضرورت کو تسلیم کرتا ہوں لیکن یہ کام انجام دینا آسان کام نہیں ہیں۔ ان مشکلات کو کسی قدر توضیح سے لکھتا ہوں تاکہ قوم اپنی اور میری ذمہ داریوں کو اچھی طرح سمجھ لے۔ عربی میں آنحضرت صلعم کو جس قدر سوانح عمریاں لکھی گئیں، اگرچہ بے شمار ہیں لیکن جو اصل ماخذ ہیں حسب ذیل ہیں مغازی موسیٰ بن عقبہ: یہ سب سے قدیم تصنیف ہے مصنف نے 145ھ میں وفات پائی مغازی ابن اسحق: یہ آغاز دولت عباسیہ کی تصنیف ہے سیرت ابن ہشام: مصر میں چھپ گئی ہے طبقات ابن سعد: اس کی دو جلد خاص سیرت نبویؐ میں ہے تاریخ ابن واضح کاتب عباسی: یورپ میں چھپی ہے پہلی جلد میں مختصراً سیرت نبوی ؐ بھی ہے طبریٰ ملتوفی 310ھ ہجری: مشہور کتاب اور ابن الاثیر اور ابن خلدون کا ماخذ یہی کتاب ہے۔ یہی کتابیں تمام تاریخی کتابوں کا ماخذ ہیں لیکن ان میں سے ایک کتاب بھی ایسی نہیں جس میں صرف صحیح واقعات درج کیے گئے ہوں، اس لئے ضرورت ہے کہ ان کی تحقیق و تنقید کو بجائے، ان کتابوں میں اکثر راویوں کے نام مذکور ہیں۔ اس لیے اگر ان کے حالات معلوم ہو جائیں تو آسانی سے روایت کے صحیح یا غیر صحیح ہونے کا حال معلوم ہو سکتا ہے لیکن مشکل یہ ہے کہ اسمائے رجان کی جو مشہور کتابیں ہیں مثلاً تہذیب التہدیب، تہذیب الکمال، تہذیب الاسماء وغیرہ ان میں ان راویوں میں سے اکثر کے حالات نہیں ملتے، اس بناء پر سینکڑوں کتابوں کا مطالعہ کرنا اور ان راویوں کا پتہ لگانا پڑے گا۔ اس کے ساتھ تاریخی سلسلہ سے الگ بہت سی احادیث اور آثار کی نایاب اور مستند کتابوں کو مہیا کرنا پڑے گا جن سے سیرت نبوی ؐ کے متعلق صحیح واقعات معلوم ہوں۔ حدیث کی کتابوں میں آنحضرت صلعم کے بہت سے واقعات مختلف واقعات کے ضمن میں آ جاتے ہیں اس غرض سے حدیث کی تمام کتابیں چھاننی پڑیں گی، کہ ریزہ چینیوں سے ذخیرہ مہیا کیا جائے۔ یہ ایک طرف کی مشکلات ہیں، دوسری طرف یہ دقت ہے کہ آج کل جو شخص سیرت نبوی ؐ کو مرتب کرنا چاہے اس کا بڑا فرض یہ ہے کہ یورپ نے آنحضرت صلعم کے حالات میں جو بے شمار کتابیں لکھی ہیں، ان پر نظر رکھتا ہو۔ اگرچہ اس میں شک نہیں کہ یورپ کا ماخذ صرف عربی ہی تصنیفات ہو سکتی ہیں لیکن یورپین مصنف عموماً ان ہی واقعات کو اس طرح ترتیب دیتے ہیں کہ نتیجہ ان کے موافق نکلتا ہے اس کے ساتھ وہ بہت سے ایسے روایوں سے استناد کرتے ہیں جو مسلمانوں میں عام طور پر مشہور و معروف ہیں لیکن دراصل ان کا کچھ اعتبار نہیں مثلاً میور صاحب نے اپنی کتاب کا مدار زیادہ تر واقدی اور ابن ہشام پر رکھا ہے، حالانکہ یہ دونوں محدثین کے نزدیک چنداں قابل اعتبار نہیں۔ غرض یہ نہایت ضروری ہے کہ کم از کم انگریزی زبان میں جو کتابیں سیرت نبوی ؐ کے متعلق لکھی گئی ہیں ان سے واقفیت حاصل کی جائے۔ واقعات مذکورہ بالا سے ثابت ہو گا کہ ایک مکمل سیرت کی تصنیف کے لیے امور ذیل کی ضرورت ہے۔ 1ایک وسیع کتب خانہ جس میں وہ تمام عربی اور انگریزی کتابیں ہوں جن کا اشارہ اوپر ہو چکا۔ 2علماء کی ایک جماعت جن سے مشورہ اور مدد مل سکے، ندوہ میں قابل ارباب علم موجود ہیں۔ 3ایک اسٹاف جس میں حسب ذیل اشخاص ہوں معاون 2جو روایتوں کے نقل و انتخاب میں مدد دیں کاتب2مسودہ کے صاف کرنے کے لیے مترجم انگریزی 2جو انگریزی کتابوں کا ترجمہ کریں چپڑاسی1 ان مصارف میں سے کتابوں کے خریدنے کے لیے یکمشت رقم درکار ہے ۔ باقی ماہوار مصارف ہیں جس کی تعداد دو سو پچاس روپیہ ماہوار سے کسی طرح کم نہیں ہو سکتی اور چونکہ محض اردو ایڈیشن بے کار ہے جب تک انگریزی اور عربی میں شائع نہ ہو، سیرت نبوی ؐ کی اشاعت کی ضرورت سب سے زیادہ یورپ میں ہے کہ یورپ کے خیالات کی اصلاح ہو۔ اس لیے کتاب کی تصنیف کے ساتھ اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ اس کا انگریزی میں بھی ترجمہ کیا جائے۔ اس بناء پر مصارف کی تعداد میں اور بھی اضافہ ہو جائے گا۔ ان اسباب کی بناء پر ایک مجلس قائم کی جاتی ہے جس کا نام مجلس تالیف سیرت نبوی ؐ ہو گا ان کے ارکان حسب ذیل ہوں گے۔ مربی جو حضرات کم از کم یکمشت ہزار روپیہ یا دس روپیہ ماہوار عنایت فرمائیں ارکان: جو حضرات ایک روپیہ ماہوار عنایت فرمائیں معین: جو حضرات نایاب قلمی تصنیفات ملکیتہً یا مستعار عنایت فرمائیں یا کسی اور مفید طریقہ سے مدد دیں ماہانہ چندہ ویلو رسید کے ذریعے سے وصول کیا جائے گا۔ جو حضرات اس تجویز کے متعلق خط و کتابت کرنا چاہیں وہ مجھ کو لکھنو کے پتہ سے مخاطب فرمائیں۔ الندہ ج 9نمبر1جنوری 1912ء مطابق محرم الحرام 1330ھ ٭٭٭٭٭٭٭ ایک اور آفتاب علم غروب ہو گیا ہندوستان میں قدیم تعلیم کی یادگاریں اس قدر کم رہ گئی ہیں کہ گویا کچھ نہیں رہیں۔ تاہم اس وقت تک ہندوستان کے علمی افق میں جو روشنی ہے، اسی تعلیم کی ہے فقہ، اصول، حدیث، تفسیر، ادب، کلام کا کوئی مشکل مسئلہ آج دریافت کرنا ہو تو نئی نسلیں بالکل بیکار ثابت ہوں گی اس بناء پر جب اس قدیم عمارت کا کوئی ستون گرتا ہے تو دل کانپ جاتا ہے کہ اب کیا ہو گا۔ اساتذہ قدیم میں سے صرف دو شخص باقی رہ گئے تھے، مولانا لطف اللہ صاحب اور مولانا محمد فاروق صاحب چریا گوٹی اور افسوس کہ ان دو میں سے بھی ایک نے اپنی جگہ خالی کر دی یعنی مولانا محمد فاروق صاحب نے 28اکتوبر1909ء کو انتقال کیا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون مولانا موصوف چریا کوٹ کے رہنے والے تھے جو اعظم گڑھ کے ضلع میں ایک مردم خیز قصبہ ہے۔ انہوں نے اپنے بڑے بھائی مولوی عنایت رسول صاحب اور مولانا محمد یوسف صاحب فرنگی محلی اور مولوی نعمت اللہ صاحب فرنگی محلی سے تمام علوم کی تکمیل کی تھی، علم ادب اگرچہ بطور خود حاصل کیا تھا، تاہم بہت بڑے ادیب اور ناظم و ناشر تھے۔ مزاج میں سخت وارستگی، بے پروائی او ربے تکلفی تھی، اس لیے ایک جگہ قیام نہیں کر سکتے تھے نہ کوئی کام باقاعدہ انجام دے سکتے تھے۔ اسی وجہ سے کوئی بڑی خدمت یا عہدہ نہ حاصل کر سکے نہ اس کی ان کو پرواہ تھی علمی ذوق اس قدر غالب تھا کہ سخت سے سخت دنیاوی کشمکشوں میں بھی تعلم و تعلیم کا سلسلہ منقطع نہیں ہوتا، بے قاعدگی کی وجہ سے کوئی مستقل تصنیف نہیں کی چھوٹے چھوٹے دو چار رسالے لکھے اور وہ بھی نا تمام رہ گئے، تمام مسائل علمیہ میں مجتہدانہ رائے رکھتے تھے اور جب کوئی کتاب پڑھاتے تھے تو عموماً مصنف کی غلطیوں اور فرو گزاشتوں سے تعرض کرتے تھے۔ میں نے معقولات کی تمام کتابیں مثلاً میر زاہد، ملا جلال مع میر زاہد، حمد اللہ، شرح مطالع صدرا شمس بازغہ ان ہی سے پڑھیں اور میری تمام تر کائنات ان ہی کے افادات ہیں، فارسی کا مذاق بھی ان ہی کا فیض ہے، اکثر اساتذہ کے اشعار پڑھتے اور ان کے ضمن میں شاعری کے نکتے بتاتے۔ چونکہ ان کی کوئی علمی تصنیف شائع نہیں ہوئی اس لیے ہم چند اشعار درج کرتے ہیں کہ مشتے نمونہ از خرادارے رسیدی و ربودی دین و دل در جنبش چشمے بہ یک گردش چو جام بادہ کارم ساختی رفتی بہ گلشن آمدی و غنچہ را ور خوں جگر کر دی نیم آسا سمند نا زبر گل تاختی رفتی ٭٭٭٭٭ نہ وارد دل و گرتاب طپیدن نگاہ خویش را رحم آشنا کن نہ وارد چشم من تاب جمالت بیچاوں مرد مک دردیدہ جاکن ٭٭٭٭٭ زمانہ گزر خط حسکم تو بہ پیچد سر دو رشتہ شب و روز خس بہ تن شود زنار الندوہ جلد6نمبر9 ماہ اکتوبر1909ء مطابق رمضان 1327ھ ٭٭٭٭٭٭٭ ابن رشد جناب اڈیٹر صاحب میں نے اخبار آزاد مطبوعہ 12نومبر1888ء میں وہ ریویو پڑھا جو آپ ’’ المامون‘‘ پر نہایت قابلیت سے لکھ رہے ہیں اس ریویو میں آپ نے مثالاً ایک واقعہ کا ذکر کیا ہے جو آپ کے نزدیک مسلم اور بدیہی الثبوت مسئلہ بن گیا ہے یعنی یہ کہ امام ابو الدلیدا بن رشہ جو مسلمانوں میں آرسطو کا ہم پلہ تھا اسلامی تاریخ میں ایک گم شدہ شخص ہے 12اکتوبر1888ء کے پرچہ میں بھی آپ نے اس کو مثالاً پیش کیا ہے اور جہاں تک مجھے یاد ہے ایک اور پرچہ میں بھی آپ نے اس واقعہ کو عبرت انگیز صورت میں دکھایا ہے۔ مسٹر سید حسن بلگرامی المخاطب بہ عماد الملک کا وہ مضمون جو ’’ ابن رشد اور اس کے معاصرین ‘‘ پر ہے، جب اول اول اخبار اردو گائیڈ میں چھپا تو اس وقت مجھ کو گمان ہوا کہ اس خاص امر کی نسبت وہ بہت سے لوگوں کے لیے غلطی میں پڑنے کا باعث ہو گا۔ آپ مجھے معاف فرمائیے گا، اگر میں یہ کہوں کہ اس دام میں پہلے پھنسنے والے آپ تھے، مسٹر عماد الملک کے یہ الفاظ ہیں: ’’ افسوس ہے کہ ایسے بڑے حکیم کا نام تک ہمارے یہاں کسی کو معلوم نہیں ہے، نہ حاجی خلیفہ نے کشف انطنون میں، نہ ابن خلکان نے دفیات الاعیان میں اس حکیم کا ذکر کیا ہے، غرضیکہ ابن رشد کا اگرچہ ہماری مشرقی کتابوں میں کسی نے نام تک بمشکل لکھا ہے، ابن رشد کی تصنیفات بکثرت ہیں اگرچہ کوئی ایک بھی ان میں سے ہمارے ہاتھ میں موجود نہیں ہے، ابن رشد کی اصل کتابیں ہی منقود ہیں۔ عربی سے عبری اور عربی سے لاطینی میں حبقدر ترجمہ ہوئی تھیں، یورپ کے کتب خانوں میں دستیاب ہوتی ہیں۔‘‘ ان مکرر اور واضح تصریحات سے اگر آپ نے خیال فرمایا کہ مسلمانوں کی علمی دنیا میں ابن رشد ایک گمنام شخص ہے تو چنداں تعجب نہیں، لیکن میں آپ سے التجا کرتا ہوں کہ آپ عماد الملک بہادر کی پیروی کر کے اسلام کی تاریخی وسعت کی نسبت بدظن نہ ہو جائے۔ علامہ مقرنیری تاریخ نفح الطیب میں ابن رشد کو فلسفہ کا امام بتاتے ہیں (دیکھو نفح الطیب مطبوعہ فرانس 1861ء جلد ثانی صفحہ125) معجب فی تلخیص المعرب میں ابن رشد کا مفصل تذکرہ کیا ہے اور لکھا ہے کہ بادشاہ کے ایماء سے اس نے تمام تصنیفات ارسطو کا ایک جامع خلاصہ لکھا ہے جو ایک سو پچاس جزء میں تھا۔ خلیفہ ناصر الدین اللہ عباسی کے زمانہ میں جن مشہور علماء نے انتقال کیا ان کی فہرست میں حافظ جلال الدین سیوطی ابن رشد کا نام ان لفظوں سے لکھتے ہیں ’’ صاحب العلوم الفلسفیہ‘‘ صاحب کشف انطنون نے اس کے متعدد تصنیفات کا ذکر کیا ہے (دیکھو تہافت الفلاسفہ و کتاب الکون والفساد کے تحت میں) کیا اس پر بھی آپ عماد الملک کے اس حصر کو تسلیم کریں گے؟ یافعی نے فقط اس قدر لکھا ہے کہ 595ء میں اس نے وفات پائی۔ عماد الملک تو ابن رشد کے تمام تصنیفات کو ناپید بتاتے ہیں، لیکن اس کی تین معتمد تصنیفیں تو خود ہمارے استعمال میں ہیں۔ یعنی تہافت الفلاسفہ امام غزالی کا رد (مطبوعہ مطبع اعلامیہ مصر 1302ھ) اور فصل المقال و کتاب الکشف عن مناہج الاولہ مطبوعہ جرمنی مقام سوچین 1859ء آپ کی طرح میں بھی عماد الملک بہادر کی علمی قابلیت کا بہت ادب کرتا ہوں، لیکن اس گستاخی پر جس چیز نے مجبور کیا وہ یہ ہے، کہ ان کی تحریر مسلمانوں کی تاریخی واقفیت پر ایک بے جا حملہ ہے۔ (آزاد، لکھنو،7دسمبر1888ئ) ٭٭٭٭٭٭٭ المامون جناب من! آپ کے متواتر خطوط پہنچے کہ میں ان تحریرات کی طرف متوجہ ہوں جو المامون کے متعلق اخبار آزاد میں شائع ہوئیں بے شک آپ کا مقصود صرف یہ ہے کہ امر حق فیصل ہو جائے لیکن افسوس ہے کہ نہ مجھے فرصت اور نہ اس قدر عام رائیں لحاظ کی مستحق ہیں، آج کل جس کے ہاتھ میں قلم ہے وہ نچلا نہیں بیٹھ سکتا۔ میں کس کس کی طرف توجہ کروں گا، آپ کو بہت بڑا شبہ یہ پیدا ہوا ہے کہ دولت عباسیہ میں رشید انتخاب کے قابل تھا نہ مامون، ریویو لکھنے والوں نے بھی اس بات کو زیادہ طول دیا ہے۔ اس امر اور تمام دوسرے اعتراضات کا تصفیہ وہ شخص کر سکتا ہے، جس نے نہایت وسعت کے ساتھ تاریخی معلومات فراہم کیے ہیں اور ساتھ ہی باریک بین اور تاریخی اصول کا نکتہ شناس بھی ہو۔ رشید کے تمام کارنامے کس کی نظر میں ہیں؟’’ المامون‘‘ اور چند معمولی کتابوں سے جو واقفیت حاصل کی گئی ہے وہ رشید پر رائے دینے کے لیے کافی نہیں ہے نہ کہ مواز نہ جو بڑی تحقیق ذندقیق کا نتیجہ ہے ’’ المامون‘‘ میں رشید کا تذکرہ ضمناً آ گیا ہے اور جس قدر لکھ دیا گیا ہے، وہی مناسب موقع تھا۔ رشید کی برائیاں لوگوں نے صرف برامکہ پر محدود خیال کیں اور اس بنا پر مامون سے موازنہ نہ کرنے کو تیار ہو گئے مامون کی جس قدر غلطیاں اور برائیاں لوگوں نے گنوائی ہیں اس کے مقابل میں رشید کے اور تمام کارنامے موجود ہیں۔ برامکہ کا واقعہ رشید کے الزامات کے پلہ کو بھاری کر دیتا ہے، اگرچہ مجھے زیبا نہیں کہ میں مرحوم ہارون الرشید کی فرد قرار داد جرم تیار کروں۔ لیکن اگر ہمارے دوستوں کے خزانہ معلومات میں المامون اور تاریخ الخلفاء کے سوا اور بھی کچھ ہے تو خیال کریں کہ وہ کون تھا جس نے سرحدی شہروں کے تمام گرجے بعض بے جا تعصب سے منہدم کرا دئیے؟ کون2؎ تھا جس نے اپنے قید خانہ کو بعض شبہ کی بناء پر حضرت موسیٰ کاظم سے آباد کیا تھا؟ کون3؎ تھا جس کے دربار اس کی بد مزاجی سے اس قدر خائف رہتے تھے کہ اکثر اوس کے پاس کفن پہن کر جاتے تھے؟ کون4؎ تھا جس نے حضرت یحیٰی بن عبداللہ کو معاہدہ صلح لکھ دیا جس پر تمام علماء اور بنو ہاشم کے دستخط تھے۔ پھر بے وجہ ان کو قید کر دیا؟ اور گو امام محمد صاحب نے کہا بھی کہ یہ بالکل اسلام کے خلاف کارروائی ہے۔ مگر باز نہ آیا۔ کون5؎ تھا جس کے عہد میں عمال اور عہدہ داران ملی علانیہ ظلم کرتے تھے اور سال بھر ایک بار بھی مظلوموں کی فریاد سننے کو دربار نہیں کرتا تھا؟ کون6؎ تھا جس کو قاضی ابو یوسف نے نہایت حسرت اور تمنا سے کتاب انحراج میں یوں مخاطب کیا؟ ’’ فلو تقربت الی اللہ غووجل یا امیر المومنین بالجلوس لمظالم (عتیک فی الشھرا والشہرین مجلساً واحد تسمع فیہ من المظلوم و تنکر علی الظالم رجوت ان لا تکون ممن احتجب عن حوائج رعتیہ لعلک لا تجلس الا مجلس او مجلسین حتی یسیر ذلک فی الاء مصا والمدن فیخاف الظالم وقوفک علی ظلما مع اندمتی علم العمال والو لاۃ انک تجلس للنظر فی امور الناس یوماً فی السنۃ لیس یوما فی الشھر تنا ھوا باذن اللہ عن الظلم ‘‘ ’’ یعنی اگر اے امیر المومنین تو خدا کا تقرب اس طرح حاصل کرتا کہ رعایا کی فریاد سننے کے لیے مہینے میں بلکہ دو مہینہ میں ایک اجلاس بھی کرتا جس میں تو مظلوم کی فریاد سنتا اور ظالم سے باز پرس کرتا تو مجھ کو امید تھی کہ تیرا شمار ان لوگوں میں نہ ہوتا جو رعایا کی حاجتیں نہیں سنتے اور غالباً تو دو ایک ہی اجلاس کرے گا کہ ملک میں یہ چرچا پھیل جائیگا، پس ظالم کو ڈر پیدا ہو گا کہ اس کے ظلم کی تج کو خبر نہ ہو جائے اس کے ساتھ یہ بھی ہے کہ جب عاملوں اور عہدہ داروں کو یہ معلوم ہو جائے گا۔ کہ تو برس دن میں ایک بار بھی لوگوں کی حاجت روائی کے لیے اجلاس کرتا ہے تو وہ لوگ انشاء اللہ ظلم سے باز رہیں گے۔‘‘ کون 7؎ تھا کہ جس کے عہد میں اکثر واقعہ نویس عمالوں سے سازشیں رکھتے تھے اور بالکل جھوٹ اور فساد انگیز خبریں ہارون الرشید کو لکھتے تھے جس کی وجہ سے قاضی ابو یوسف نے مجبور ہو کر کتاب الخراج میں اس کا ذکر کیا؟ کون 8؎ تھا جس کے عہد میں ملک کی تباہی کا یہ حال تھا کہ سواد کے علاقہ میں حضرت عمر ؓ نے جو خفیف جمع مقرر کی تھی رعایا اس کو بھی برداشت نہیں کر سکتی تھی اور آخر قاضی ابو یوسف صاحب کو وہ مقدار جمع گھٹا کر اس کی توجیہہ کرنی پڑی؟ کون 9؎ تھا جس کا خزانہ اس طرح معمور کیا جاتا تھا کہ جب کسی پر کچھ شبہ ہوا تو اس کا کل مال و متاع ضبط ہو کر خزانہ شاہی میں داخل کر دیا گیا۔ علی بن عسییٰ سے دس کروڑ درہم چھین کر جو خزانہ میں داخل کئے گئے کیا جائز حق سے لیے گئے؟ کون10؎ تھا جس نے اسلام میں یہ نئی بدعت ایجاد کی کہ خلافت کے چند ٹکڑے کیے اوراپنے بیٹوں میں اس کو موروثی جائیداد کی طرح تقسیم کیا؟ کیا ان باتوں کے ہم پلہ باتیں مامون کی تاریخ میں بھی مل سکتی ہیں؟ افسوس ہے کہ نہ لوگوں کو تمام حالات سے اطلاع نہ واقعات کے موازنہ کرنے کی قابلیت ہے یہ امور جو میں نے لکھے شاید لوگوں کو چستیاں معلوم ہوں اور تاریخی دفتروں میں اس کے حوالے بھی نہ ڈھونڈ سکیں۔ فتوحات کے لحاظ سے رشید کو کیا ترجیح ہے؟ مختصر یہ سمجھ لینا چاہیے کہ رشید نے کوئی نیا ملک فتح نہیں کیا، لیکن مامون کے عہد میں صقلیہ اور کریٹ کی جو فتحیں ہوئیں وہ خاص لحاظ کے قابل ہیں۔ علم و قابلیت کے لحاظ سے سب جانتے ہیں کہ رشید صرف، ادب، فقہ، و حدیث میں کمال رکھتا تھا، لیکن مامون ان علوم کے علاوہ فنون حکمت کے مختلف صیغوں میں ایک حکیم تسلیم کیا جاتا تھا۔ پھر میں کہتا ہوں کہ رشید کی برائیاں میں نے کم گنوائیں، رنج ہوتا ہے کہ سینکڑوں برس کے دبے فتنے آج ابھارے جائیں، خیر رشید جو کچھ تھا خوب تھا، ان طرف داروں سے اس کا حق مجھ پر زیادہ ہے میں نے کچھ سمجھ کے اس کو نہیں لیا’’ المامون‘‘ پر جو نکتہ چینیاں کی گئی ہیں وہ اسی طرح تفصیل طلب ہیں جس طرح رشید و مامون کا موازنہ، کیا آپ یہ چاہتے ہیں کہ میں اپنے اوقات کو ان فضول باتوں میں صرف کروں، آپ یقین فرمائیں کہ مجھے کبھی عام لوگوں کی تحسین سے نہ خوشی ہوئی۔ نہ ان کے اعتراض سے رنج میں چاہتا ہوں کہ لوگ اعتراض کریں آپ کا جی چاہے تو ان کے جواب کی طرف متوجہ ہوں مجھے چھوڑ دیجئے کہ ’’ رائل ہیروز‘‘ کے باقی حصے پورے کروں۔ رسی آنگہ بدرد من کہ چومن خامہ گیری و حرف بنگاری (آزاد لکھنو22فروری1889ئ) ٭٭٭٭٭ اشاعت کتب قدیمہ یہ امر مسلم ہے کہ مسلمانوں نے کسی زمانہ میں تمام علوم و فنون کو نہایت ترقی دی تھی اور ہر فن میں اپنے خاص اجتہاد اور تحقیقات کے نتائج قلمبند کئے تھے۔ لیکن رفتہ رفتہ علمی مذاق کو اس قدر تنزل ہوتا گیا کہ آج جو تالیفات و تصنیفات عام طور سے رائج ہیں اکثر وہ ہیں جن میں ایجاد اور جدت کی جھلک تک نہیں پائی جاتی۔ قدماء کی تصنیفات جن میں ہر جگہ اجتہاد اور ذاتی تحقیقات سے کام لیا گیا ہے عموماً متروک ہیں، خال خال کوئی قلمی نسخہ کسی بڑے کتب خانہ میں پایا بھی جاتا ہے تو ہر شخص کو وہاں تک دسترس نہیں او اس وجہ سے گویا ان کا وجود و عدم دونوں برابر ہے۔ کس قدر تعجب کی بات ہے کہ مثلاً فقہ حنفی کا تمام تر دارو مدار امام محمد کی روایات و تصنیفات پر ہے۔ جن کو اصطلاح فقہ میں ظاہر الراویہ کہتے ہیں لیکن آج ان میں سے بجز جامع صیغر کے جو نہایت مختصر اور سب سے چھوٹی ہے، ایک کتاب بھی موجود نہیں، یہاں تک کہ قسطنطنیہ اور مصر کے عظیم الشان کتب خانے بھی ان سے خالی ہیں۔ اسی طرح فلسفہ اور منطق میں مسلمانوں کو جن ناموروں پر ناز ہو سکتا ہے وہ یعقوب کندی، فارابی، ابن رشد ہیں۔ لیکن ان کے تصنیفات اس قدر نایاب ہیں کہ نہ ہونے کے برابر ہیں قرآن مجید کے اعجاز و فصاحت و بلاغت پر جو کتابیں لکھی گئی ہیں ان میں سے تمام ہندوستان میں ایک کتاب بھی موجود نہیں۔ تاریخ کی قدیم اور نادر تصنیفات تو گویا ہمارے ملک میں سرے سے آئیں ہی نہیں، بعض قدیم کتابیں جو یورپ میں چھپی ہیں لیکن قطع نظر ان کے گراں قیمت ہونے کے ہر شخص کو بہم نہیں پہنچ سکتیں۔ ان واقعات کی بناء پر مجھے یہ خیال آیا کہ ایک مجلس قائم کی جائے، جو اس مفید اور اہم کام کو انجام دے اگرچہ حیدر آباد کی مجلس دائرۃ المعارف کا بھی یہی موضوع ہے لیکن جو تجربہ اس کے ابتدائے قیام سے اس وقت تک ہوا ہے۔ اس کے لحاظ سے یہ کہنا ناموزوں نہیں کہ وہ اس درد کی پوری دوا نہیں۔ ملک میں عربی زبان کی جوک و بازاری ہے اس کے لحاظ سے اگرچہ یہ تجویز فی الجملہ بے محل معلوم ہوتی ہے لیکن 5کروڑ مسلمانوں میں سے دو چار سو ایسے شائق ضرور نکل آئیں گے جو معمولی قیمت پر کتاب کو خرید لیں اور اگر اتنا بھی ہوا تو ہم اس کام کے شروع کرنے پر آمادہ ہیں۔ بالفعل یہ تجویز ہے کہ اس مجلس میں تین قسم کے ممبر کرار دئیے جائیں۔ 1وہ لوگ جو سالانہ چندہ دینا منظور فرمائیں اور یہی لوگ اراکین مجلس قرار دئیے جائیں گے اور ان کو امور انتظامی مجلس میں رائے دینے کا حق حاصل ہو گا اور نیز جو کتاب یا کتابیں چھاپی جائیں گی گو کہ ان کی قیمت ان کے چندہ ممبری سے زائد ہو ان کو دی جائیں گی۔ 2وہ اہل علم جو اس کام میں اپنی رائے اور اپنی واقفیت و تلاش سے امداد دیں اور اس قسم کی کتابوں کو بہم پہنچائیں ان کو یہ حق حاصل ہو گا کہ مجلس ان کو تمام تجویزات اور حالات سے وقتاً فوقتاً مطلع کرتی رہے گی اور ایک یا دو نسخہ کتاب مطبوعہ کا ان کو نذر کرے گی۔ 3وہ لوگ جو یہ منظور کریں کہ کتاب کے چھپنے پر ایک نسخہ قیمت معینہ پر خرید لیں گے ان بزرگوں کا نام ایک رجسٹر میں درج کر لیا جائے گا اور جو کتاب چھپے گی اس کا ایک نسکۃ ان کی خدمت میں ویلوپے ایبل بھیج دیا جائے گا۔ یہ بتا دینا بھی ضرور ہے کہ سر دست جن کتابوں کا شائع کرنا پیش نظر ہے وہ پانچ روپیہ قیمت سے زیادہ کی نہیں۔ اس غرض کے لیے جو کتابیں اس وقت تک ہم بہم پہنچا چکے ہیں یا جو نہایت جلد بہم پہنچ سکتی ہیں حسب ذیل ہیں اعجاز القرآن للامام بافلانی، طبقات الشعراء لابن قیتبہ، مناقب الشافعی للامام الرازی مجموعہ رسائل فارابی جس میں15رسالے شامل ہیں، تلخیص المثال ابن رشد مطبوعہ یورپ عمدہ لابن رشیق القیروانی، تاریخ صغیر امام بخاری۔ ہمیں ملک کے تمام بزرگوں سے امید ہے کہ وہ اس تجویز کے بابت ہم سے خط و کتابت فرمائیں گے اور ہمیں مطلع فرمائیں گے کہ ان کو تین قسم کے ممبروں میں سے کس قسم کا ممبر ہونا منظور ہے اور یہ کہ ان کے نزدیک کتب مذکورہ بالا میں سے اول کس کتاب کا شائع کرنا زیادہ مناسب ہے۔ نیز ہمیں ملک کے نامور اخبارات خصوصاً آزاد، وکیل، امرتسر، الوقت، پیسہ اخبار، دار السلطنت سے امید ہے کہ اس تجویز کو اپنے اخبار میں چھاپ کر ہمیں ممنون فرمائیں گے۔ از آزاد لکھنو 4اپریل1896ء انگریزی قرآن مجید کا ترجمہ اور ندوۃ العلماء مسلمانوں کی جس قدر مذہبی یا دنیاوی انجمنیں قائم ہیں ان کے سالانہ اجلاسوں میں اگر ہمیشہ یہ کارروائی اختیار کی جائے کہ سب سے پہلے اس بات کا محاسبہ کیا جائے کہ پچھلے سال جو تجویزیں پیش ہوئیں ان پر کس حد تک عمل ہوا؟ اور کس قدر باقی ہے؟ تو تمام انجمنوں کی حالت سنبھل جائے لیکن اگر کارکنان انجمن کسی حد تک الزام کے قابل ہیں تو پبلک (جماعت) ان سے زیادہ مستحق ہے کہ کبھی اس کی طرف سے باز پرس نہیں ہوتی۔ ریزولیوشنوں اور تجویزوں کو دیکھا جائے تو دفتر کا دفتر تیار ہو گیا ہے لیکن عمل کا نام لیا جائے تو انگلیوں پر گننے کی نوبت آئے گی۔ ’’ ندوۃ العلمائ‘‘ کے متعلق بھی اس قسم کے محاسبہ کی ضرورت ہے لیکن چونکہ عام معمول کی طرح اس کی نسبت بھی پبلک کی طرف سے کوئی باز پرس نہیں کی گئی، اس لیے ہم خود اس فرض کو ادا کرنا چاہتے ہیں ہوا خواہان ندوہ کو اس سے متردد نہیں ہونا چاہیے، رکان ندوہ نے اگر کچھ کیا ہے تو ان کو داد ملے گی اور نہیں کیا ہے تو آئندہ ان کو کرنا پڑے گا اور یہ سرا سر ندوہ ہی کے فائدہ کی بات ہے۔ ’’ ندوۃ العلمائ‘‘ کا سالانہ جلسہ بہت سروسامان سے اپریل کی ابتدائی تاریخوں میں بمقام لکھنو ہونے والا ہے۔ اس لیے ہم سب سے پہلے اس بات کی طرف متوجہ ہوتے ہیں کہ پچھلے جلسہ میں کیا کیا تجویزیں منظور ہوئی تھیں اور ان کے متعلق کیا کیا گیا۔ پچھلے ریزولیوشن حسب ذیل ہیں: 1قرآن مجید کا عمدہ اور مستند ترجمہ انگریزی میں 2کتب تاریخی مروجہ مدارس کی غلطیوں کی اصلاح 3وقف علی الاولاد کی تحریک 4اشاعت اسلام کی تحریک 5 تمام اسلامی تحریکوں کا ایک مرکز قرار دینا ان تجاویز کے متعلق مفصل رپورٹ تو عین سالانہ جلسہ میں پیش ہو گی اور اس سے ظاہر ہو گا کہ کس حد تک کام ہوا ہے؟ اور کس حد تک نہیں لیکن مختصراً میں ان کے متعلق اس غرض سے بیان کرتا ہوں کہ لوگ ’’ ندوہ‘‘ کے سالانہ جلسہ میں ان کارروائیوں کے متعلق ہر قسم کے مشورہ اور نکتہ چینی کے لیے تیار ہو کر آئیں ورنہ عین وقت پر جو خیالات اور آرائیں ظاہر کی جاتی ہیں وہ سرسری اور دفع الوقتی ہوتی ہیں۔ (پہلا رزولیوشن) قرآن مجید کا انگریزی ترجمہ در حقیقت ایک نہایت ضروری کام ہے، یورپ کی زبانوں میں قرآن مجید کے کثرت سے ترجمے موجود ہیں اور جدید تعلیم یافتہ ان کو ہی پڑھتے ہیں۔ان ترجموں میں سخت غلطیاں ہیں اس کے علاوہ مترجموں نے اکثر جگہ حاشیہ میں اپنی طرف سے جو کچھ لکھا ہے اس میں اعلانیہ قرآن مجید پر نکتہ چینیاں ہیں، مثلاً جہاں قرآن مجید میں یہ ذکر ہے کہ یہودی حضرت عزیز ؑ کو خدا کہتے تھے، اس جگہ حاشیہ میں لکھا ہے کہ یہودیوں پر ایک افسوس ناک تہمت ہے۔ ان اسباب سے ضرور تھا کہ انگریزی زبان میں ایک صحیح اور مکمل ترجمہ کیا جاتا’’ ندوہ‘‘ کے سالانہ جلسہ میں یہ تحریک پیش ہو کر منظور ہوئی اور خوش قسمتی سے سردار اسمعیل خان سفیر کامل نے اس غرض کے لیے پانچ ہزار روپے دینے کا وعدہ کیا ترجمہ کے لیے سب سے ضروری امر یہ تھا کہ اس شخص کا انتخاب کیا جائے جو اعلیٰ درجہ کی انگریزی لکھ سکتا ہو اور عربی زبان سے بھی اچھی طرح واقف ہو۔ مسلمانوں میں انگریزی کا انشاء پرداز آج نواب عماد الملک سید حسین صاحب بلگرامی سے بڑھ کر کوئی نہیں ہے۔ اس کے ساتھ وہ عربی بھی اس قدر جانتے ہیں کہ تفسیروں سے کافی مدد لے سکتے ہیں اس لیے ان سے درخواست کی گئی انہوں نے ’’ سورہ بقرہ‘‘ کا ترجمہ کئی برس قبل کیا تھا۔ اس درخواست سے ان کو مزید تحریک ہوئی اور انہوں نے لکھا کہ میں دو برس میں پورے قرآن مجید کا ترجمہ کر دوں گا۔ ان کے الفاظ یہ ہیں: ’’ انشاء اللہ زندگی باقی ہے تو دو سال کے اندر ختم ہو جائے گا‘‘ سورہ بقرہ تمام اور ’’ ال عمران‘‘ کا معتدبہ حصہ ختم ہو چکا ہے (مورخہ18اپریل 1910ئ) نواب صاحب جس احتیاط اور پابندی کے ساتھ ترجمہ کر رہے ہیں اور جو خصوصیتیں انہوں نے پیش نظر رکھی ہیں ان کا اندازہ ان کے ایک خط کے اقتباس سے ہو گا۔ جس کو میں ذیل میں نقل کرتا ہوں۔ ’’ راڈول کا ترجمہ سب سے بہتر ہے مگر پھر بھی ایک نصرانی پادری کا ترجمہ ہے، میں نے اپنے ترجمے میں چند خصوصیتوں کا التزام کیا ہے، ایک یہ کہ عبادت میں روانی ایسی ہو کہ پڑھنے میں لطف آئے دوسرے یہ کہ تفسیر کی بو بھی نہ پائی جائے۔ ترجمہ لفظ بلفظ ہو۔ تیسرے یہ کہ رشاقت الفاظ و ہمواری اصوات کا لحاظ رہے۔ گو کہ یہ مداول سے متعلق ہے ترجمہ کی حالت یہ ہے کہ جب تک تین، چار، پانچ مرتبہ نظر ثانی نہیں ہوتی، تشفی نہیں ہوتی۔ یہ ایک مشہور بات ہے اور ہر شخص کے نزدیک مسلم ہے کہ تورات اور انجیل کے قدیم انگریزی ترجمے کے برابر کوئی کتاب بحیثیت ادب و انشاء انگریزی زبان میں نہیں ہے۔ جہاں تک ممکن ہے اس کی تقلید کی جاتی ہے۔‘‘ لیکن چونکہ مقصود یہ تھا کہ یہ ترجمہ کسی ایک شخص کی ذاتی قابلیت تک محدود نہ ہو۔ اس لیے اور لائق اور قابل لوگوں کی تلاش ہوئی جو انگریزی اور عربی دونوں جانتے ہیں، سخت افسوس ہے کہ علماء کے گروہ میں تو ایک شخص بھی نہ ملا، جو انگریزی جانتا ہو اس لئے دائرہ تلاش وسیع کرنا پڑا۔ اس قسم کا جامع شخص ہندوستان میں کوئی شخص مولوی حمیدالدین صاحب پروفیسر عربی میور کالج سے بڑھ کر نہیں ہو سکتا۔ انہوں نے قدیم طریقہ پر عربی کی تعلیم پائی ہے اور مولانا فیض الحسن سہارنپوری کے شاگرد ہیں انگریزی میں بی اے پاس ہیں چنانچہ ان کو لکھا گیا اور انہوں نے نہایت خلوص سے اس کام میں شرکت منظور کی۔ نواب عماد الملک کا ترجمہ ’’ سورہ بقرہ‘‘ ان کے پاس جب بھیجا گیا تو انہوں نے نمونہ کے طور پر صرف ’’ سورہ الحمد‘‘ کے ترجمہ پر ایک مفصل مدققانہ یادداشت لکھی۔ نواب عماد الملک، مولوی حمید الدین کی قابلیت سے پہلے ہی واقف تھے انہوں نے ایک خط میں مجھے لکھا: ’’ مولوی حمید الدین صاحب کی تحریر کو میں بہت عزت کی نظرسے دیکھوں گا اور جہاں تک ممکن ہو گا اس کی نظر سے اصلاح کر دوں گا‘‘ اس تحریر سے نواب صاحب کی بے نفسی اور انصاف پسندی کا بھی اندازہ ہوتا ہے، بہر حال مولوی صاحب موصوف کی یادداشت نواب عماد الملک کے پاس بھیجی گئی، انہوں نے جواب میں لکھا: ’’ مولوی حمید الدین صاحب کا نوٹ بھی ’’ سورہ الحمد‘‘ پر ملا میں ان کے نکات کی جہاں تک ممکن ہو گا پابندی کروں گا‘‘ مورخہ 3نومبر 1911ء نواب صاحب کی احتیاط اور ذمہ داری کا یہ حال ہے کہ میں نے ان کو ایک خط میں لکھا کہ ترجمہ کے علاوہ آپ کو ایک دیباچہ بھی لکھنا چاہیے جس میں تفسیر کے اصول اور قرآن مجید کے مہمات مضامین سے بحث ہو۔ اس کے جواب میں انہوں نے مجھے لکھا۔ ’’ ایک الگ کتاب بطور مقدمہ کے لکھی جائے تو نہایت مناسب ہو گا لیکن لکھے گا کون؟ میں کبھی اس قسم کی جرأت نہیں کر سکتا۔‘‘ غرض نہایت احتیاط کے ساتھ نواب صاحب موصوف ترجمہ کر رہے تھے ان کے ولایت چلے جانے کی وجہ سے چھ مہینہ کام ملتوی رہا۔ تاہم اس دفعہ دربار دہلی کے موقع پر انہوں نے مجھ سے بیان کیا کہ چھ سورتوں یعنی تقریباً نو پاروں کا ترجمہ ہو گیا ہے۔ ان میں سے پانچ پاروں کا ترجمہ چھپ بھی گیا ہے اور میرے پاس آ گیا ہے۔ نواب صاحب تنہا کام کر رہے ہیں ان کے پاس کوئی مددگار، بلکہ محرر تک نہیں ہے۔ اس لیے کام دیر میں ہو رہا ہے میں نے ان سے درخواست کی کہ کوئی مددگار ان کے پاس بھیجا جائے۔ اور اس کی تنخواہ یہاں سے دی جائے۔ نواب صاحب نے اپنے علوے ہمت کی وجہ سے منظور نہیں کیا لیکن ایسا کرنا ضروری ہے ورنہ کام میں سخت ہرج ہو گا اور نواب صاحب کو مجبور کرنا چاہیے کہ وہ اس کو قبول کریں۔ مسلم گزٹ لکھنو 5فروری1912ء ٭٭٭٭٭٭ مجلس علم کلام مسلمانوں کے گزشتہ اور موجودہ زمانہ میں عجب قسم کا توارد و تشابہ ہے، عباسیوں کے زمانہ میں جب فلسفہ اور علوم عقلیہ کا رواج ہوا تو سینکڑوں ہزاروں اشخاص کے مذہبی عقائد متزلزل ہو گئے۔ آج بھی جبکہ یورپ کی تحقیقات اور خیالات قوم میں پھیل رہے ہیں مذہبی عقائد میں ایک بھونچال سا آ گیا ہے۔ گزشتہ زمانہ میں جب یہ حالت پیدا ہوئی تو فقہا اور محدثین نے یہ فتوے دیا کہ فلسفہ کا پڑھنا پڑھانا حرام ہے، آج بھی مذہبی علماء یورپ کے فلسفہ و سائنس کا سیکھنا برا سمجھتے ہیں اور علماء کے کثیر التعداد گروہ میں سے ایک شخص نے بھی یورپ کی کوئی زبان نہیں سیکھی جس کے ذریعہ سے وہ فلسفہ حال سے واقف وہ سکے۔ لیکن فقہا اور محدثین کا فتویٰ نہ چل سکا، ہزاروں آدمیوں نے یونانی فلسفہ پڑھا اور پڑھایا، یہاں تک کہ فلسفہ کی تعلیم عام ہو گئی آج بھی باوجود علماء کی روک ٹوک کے انگریزی تعلیم عام ہو رہی ہے اور یہ سیلاب کسی کے روکے سے رک نہیں سکتا۔ قدیم زمانہ میں فقہا و محدثین نے گو فلسفہ کا پڑھنا اور علم کلام کا مرتب کرنا ناجائز قرار دیا لیکن ایک گروہ پیدا ہوا جس نے علم کلام پر توجہ کی اور اس فن میں کتابیں لکھیں یہ لوگ خود فلسفہ دان نہ تھے، لوگوں سے فلسفہ کے خیالات سن لیے تھے اور انہی پر تصنیف کا دارومدار رکھا تھا۔ امام اشعری ما تریدی، امام الحرمین، باقلانی جو علم کلام کے بانی سمجھے جاتے ہیں ان میں ایک بھی فلسفہ دان نہ تھا۔ آج بھی یہی حال ہے، مصر و ہندوستان میں نہایت قابل اور لائق بزرگوں نے جدید خیالات اور مسائل کی رو میں کتابیں لکھیں اور ان کی تصنیفات جدید علم کلام کی حیثیت سے ملک میں پھیلی ہوئی ہیں لیکن ان میں ایک بھی یورپ کی کوئی زبان نہیں جانتا اور لطف یہ ہے کہ جو یورپ کی زبان جانتے ہیں وہ بھی ان ہی بزرگوں کی تصنیفات کے پیرو ہیں۔ یہاں تک تو قدیم وجدید واقعات میں تشابہ اور اشتراک ہے۔ لیکن ان دونوں کی حدیں جدا ہوتی ہیں قدیم زمانہ میں امام غزالی کے بعد علماء نے نہایت جدوجہد سے فلسفہ کی تحصیل شروع کی چنانچہ امام رازی، محقق طوسی، شیخ الاشراق وغیرہ فلسفہ میں اس رتبہ پر پہنچے کہ خود فلسفہ دانوں کو یہ مرتبہ حاصل نہ تھا۔ لیکن آج علماء میں سے ایک شخص بھی ایسا موجود نہیں جس نے یورپ کا فلسفہ اور سائنس حاصل کیا ہو۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ جدید علم کلام بالکل نا مکمل اور ناقص ہے اور اگرچہ اس کا پورا علاج تو اس وقت ہو سکتا ہے جب ہمارے علماء خود یورپ کے علوم و فنون میں کمال پیدا کر لیں، لیکن چونکہ اس میں ابھی دیر نظر آتی ہے اس لیے اس وقت جو تدبیر اختیار کی جا سکتی ہے وہ یہ ہے کہ ایک کمیٹی قائم کی جائے جس کا نام ’’ مجلس علم کلام‘‘ ہو۔ اس کمیٹی میں قدیم علماء اور جدید تعلیم یافتہ دونوں گروہ کے لوگ ممبر ہوں، قدیم علماء اس بات کا فیصلہ کریں گے کہ جو عقائد اور مسائل فلسفہ کے خلاف بیان کیے جاتے ہیں، ان میں سے کون سے مسائل در حقیقت اسلام کی اصل عقائد ہیں اور کون سے نہیں جدید تعلیم یافتہ گروہ اس بات کا فیصلہ کر سکے گا کہ جن چیزوں کو فلسفہ کے مخالف کہا جاتا ہے وہ در حقیقت فلسفہ کے مخالف ہیں بھی یا نہیں اور اگر ہیں تو فلسفہ کی تحقیقات کہاں تک یقینی اور قطعی ہے اس کمیٹی کے لیے بزرگان ذیل انتخاب ہو سکتے ہیں: علماء 1 مولوی مفتی محمد عبداللہ صاحب ٹونکی2مولانا مولوی شیر علی صاحب حیدر آباد سابق مہتمم دار العلوم ندوہ 3 سید محمد رشید رضا صاحب مصری ایڈیٹر ’’ المنار‘‘ (جدید تعلیم یافتہ)1ڈاکٹر محمد اقبال صاحب بیرسٹر2مولوی حمید الدین صاحب عربی پروفیسر یونیورسٹی الہ آباد3 مولوی عبدالقادر صاحب بی اے، بھاگلپوری ہم کو خوشی ہے کہ ڈاکٹر محمد اقبال صاحب نے اس مجلس کی ممبری منظور کر لی ہے اور صاحبوں نے ابھی خط کا جواب نہیں دیا۔ لیکن امید ہے کہ کسی کو اس عمدہ کام کی شرکت سے انکار نہ ہو گا۔ ہم چاہتے ہیں کہ ملک کے اور حضرات جن کو اس تجویز سے دلچسپی ہو ہم سے خط و کتابت کریں جلسہ سالانہ ندوۃ العلماء میں یہ تجویز پیش کی جائے گی اور جو فیصلہ ہو گا اس کے مطابق عمل کیا جائے گا۔ مسلم گزٹ لکھنو 4مارچ1912ء ٭٭٭٭٭٭٭ ایک اہم تجویز خدا کا شکر ہے کہ ملک میں تصنیف و تالیف کا مذاق پھیلتا جاتا ہے اور قابل قدر ارباب کرم پیدا ہوتے جاتے ہیں، لیکن با ایں ہمہ اس گروہ میں زیادہ تعداد ان لوگوں کی ہے جن کو مصنف کے بجائے مضمون نگار یا انشاء پرداز کہنا زیادہ موزوں ہو گا، کیونکہ ان کی مستقل تصنیفیں نہیں ہیں بلکہ معمولی رسالے یا مضامین ہیں۔ اس کی وجہ یہ نہیں کہ ان کو اعلیٰ درجہ کی تصنیف کی قابلیت نہیں بلکہ اصل وجہ یہ ہے کہ اعلیٰ درجہ کی تصنیف کے لیے جو سامان درکار ہے وہ مہیا نہیں ہے۔ ان میں سے اکثر کے پاس کتابوں کا ذخیرہ نہیں جو انتخاب اور استنباط اور اقتباس کے کام آئے اتفاق سے اگر کوئی مقامی کتب خانہ موجود ہے تو دلجمعی کے اسباب نہیں کہ اطمینان سے چند روز وہاں رہ کر کتابوں کا مطالعہ اور اس سے استفادہ اور نقل و انتخاب کر سکیں، ان باتوں کے ساتھ کوئی علمی مجمع بھی نہیں کہ ایک دوسرے سے مشورہ اور مبادلہ خیالات ہو سکے۔ ان مشکلات کے حل اور تصنیف و تالیف کی ترقی کے لیے ضرور ہے کہ ایک وسیع ’’ دار التصنیف‘‘ امور ذیل کے موافق قائم کیا جائے۔ 1ایک عمدہ عمارت ’’ دار التصنیف‘‘ کے نام سے قائم کی جائے جس میں ایک وسیع ہال کتاب خانہ کے لیے ہو اور جس کے حوالی میں ان لوگوں کے قیام کے لیے کمرے ہوں جو یہاں رہ کر کتب خانہ سے فائدہ اٹھانا اور تصنیف و تالیف میں مشغول رہنا چاہتے ہوں۔ 2یہ کمرے خوبصورت اور خوش وضع ہوں اور ان مشہور مصنفین کے نام سے موسوم ہوں۔ جو تصنیف کی کسی خاص شاخ کے موجد اور بانی فن ہوں۔ 3 ایک عمدہ کتب خانہ فراہم کیا جائے جس میں کثرت تعداد ہی پر نظر نہ ہو بلکہ یہ امر بھی ملحوظ رہے کہ جس فن کی کتاب ہو، نادر اور کمیاب ہو۔ 4تصنیفی وظائف قائم کئے جائیں اور وظیفہ عطا کنندہ کے نام سے موسوم کیا جائے یہ وظائف یا ماہوار ہوں گے یا کسی تصنیف و تالیف کے صلہ کے طور پر دئیے جائیں گے۔ 5 جو لوگ کم از کم پانچسو روپیہ یکمشت عطا فرمائیں گے ان کے نام اس عمارت پر کندہ کیے جائیں گے میں یہ تجویز بالکل ایک سرسری صورت میں پیش کرتا ہوں اور چاہتا ہوں کہ سر دست محض ایک خاکہ کے طور پر اس کی بنیاد قائم ہو جائے جو رفتہ رفتہ خود بخود وسعت حاصل کرتی جائے گی اس بات کا مجھے اطمینان ہے کہ ریاستہائے اسلامی سے اس کے لیے ماہوار مقرر ہو سکیں گی، سر دست ہمیں صرف دس ہزار روپیہ درکار ہے۔ جس سے ایک مختصر تعمیر کی بنیاد ڈال دی جائے۔ اصل فنڈ کے لیے پچاس ہزار روپیہ کا تخمینہ کیا گیا ہے۔ 6 دس ہزار کی رقم میں سر دست ایک ہزار اپنا پیش کرتا ہوں اور میں اس بات کا بھی متدعی ہوں کہ جن بزرگوں کو میری تجویز سے دلچسپی ہو، مجھ سے خط و کتابت فرمائیں اور مناسب مشورہ سے میری ہمت افزائی کریں نیز ایڈیٹر ان ہمدرد، وطن، پیسہ اخبار، مشرق، البشیر، وکیل وغیرہ سے درخواست ہے کہ اس تجویز کو اپنی اپنی اخبار میں شائع فرمائیں فقط (الہلال 11فروری1914ئ) ٭٭٭٭٭٭ اثبات واجب الوجود مصنفہ مولوی مفتی انوار الحق صاحب سیکرٹری صیغہ تعلیمات ریاست بھوپال اردو زبان میں تصنیفات کے انبار کی کیا کمی ہے جس کثرت سے دواؤں کے اشتہارات ضائع ہوتے ہیں، اسی کے قریب قریب تالیفات اور تصنیفات کا شمار بھی پہنچ جاتا ہے لیکن ان میں سے ہاتھ سے چھونے کے قابل کتنی ہیں؟ اس کا جواب ایک صحیح مذاق سے مانگنا چاہیے۔ جس میں اخلاقی دلیری بھی ہو اس عالم میں سالوں کے بعد کچھ اوراق پڑھنے کے قابل ہاتھ آ جاتے ہیں تو آپ خود سمجھ سکتے ہیں کہ کس قدر خوشی ہوتی ہے۔ ان ہی اتفاقیہ اور شاذ مثالوں کی مختصر فہرست میں یہ رسالہ بھی ہے، جو اس مضمون کا عنوان ہے۔ نئے بگڑے ہووں کا تو یورپ کے تمام ذخیرہ تحقیقات میں الحاد ہی الحاد نظر آتا ہے الجنس الی الجنس یمیل لیکن حق یہ ہے کہ ایک نقاد طالب حق کے لیے خدا پرستی کا سامان بھی جس قدر یورپ میں مل سکتا ہے موجودہ ایشیاء میں نہیں مل سکتا یہ ظاہر ہے کہ یورپ میں اب بھی بہت سے علماء اور محققین خدا کے وجود کے قائل ہیں لیکن چونکہ یورپ میں ہر چیز پر جدت کا رنگ ہے اس لیے خدا کے ثبوت او روجود کے جو دلائل وہ بیان کرتے ہیں ان سے مختلف الصورت ہیں جو ایک مدت سے ہم سنتے آتے ہیں اس لیے اگر ان کو اردو زبان میں روشناس کیا جاتا تو قوم کے نئے مذاق کے لیے نہایت مفید اور کارگر ہوتے لیکن اتنی توفیق کس کو ہے؟ ہم مولوی انوار الحق صاحب کو مبارکباد دیتے ہیں کہ انہوں نے نہایت ضروری خدمت انجام دی، ہم ان کی قابلیت کے بھی بے انتہا معترف ہیں کہ انہوں نے دقیق اور پیچیدہ باتوں کو اس خوبی سے ادا کیا ہے کہ کتاب کتاب نہیں بلکہ دلچسپ افسانہ بن گئی۔ مولوی صاحب موصوف مولانا عبداللہ ٹونکی پروفیسر یونیورسٹی لاہور کے صاحبزادے ہیں۔ وہ زمانہ یاد آ گیا جب ہم اور مولانا ممدوح ایک ساتھ حضرت مولانا احمد علی محدث سہارنپور کے خرمن فیض سے خوشہ چینی کرتے تھے مولانا موصوف نے اپنی علمی شان کی پاسداری میں اردو زبان کی کوئی خدمت نہیں کی تھی لیکن کچھ مضائقہ نہیں، اگر پدرنتو اند پسر تمام کند مولوی انوار الحق صاحب عربی اور انگریزی دونوں کے جامع ہیں اور یہی جامعیت ہے جس نے ان سے ایسا مفید کام انجام دلایا۔ اس کتاب کی قیمت ایک روپیہ ہے اور خود مصنف سے مل سکتی ہے۔ الندہ، جلد7نمبر9 ستمبر1910ء مطابق رمضان1328ھ ٭٭٭٭٭٭٭ ندوۃ العلماء کا گیارہواں سالانہ اجلاس بنارس میں اور علمی نمائش ہندوستان آج کل جن افکار اور خیالات میں محیط ہو رہا ہے ان کو دیکھتے ہوئے اس امر کی توقع رکھنی کہ قوم کے قدیم علمی زد و جواہر کسی دن خود بخود چمک اٹھیں گے بالکل ایسی بات ہے جیسے قرون وسطیٰ میں ضو غیر مرتی کے انکشاف کی توقع قوم کا قدیم علمی سرمایہ بہت کچھ برباد ہو چکا ہے اور جس قدر باقی ہے وہ بھی عنقریب قوم کی بد مذاقی پر قربان ہونے والا ہے اگر کسی قومی قوت کے مضبوط ہاتھوں نے ان کو اپنی حفاظت کا سہارا نہیں دیا۔ ندوۃ العلماء اپنے دل و دماغ میں جن مقاصد کو مدت سے چھپائے ہوئے ہے اور جد بد قسمتی سے اس وقت تک علی پیرا یہ محروم رہے ان میں ایک اہم مقصد قدیم علمی سرمایہ کی حفاظت بھی ہے یہ سچ ہے کہ آج ہر طرف عربی اور فارسی لٹریچر کی کساد بازاری نظر آتی ہے اور قدیم لٹریری مذاق مغربی تہذیب میں جذب ہو رہا ہے مگر پھر بھی ہندوستان میں ایک چھوٹی سی جماعت موجود ہے جو قدیم سوسائٹی کے اثرات کا نتیجہ ہے اور اس لیے قدیم علمی مذاق سے نا آشنا نہیں ہے اگر ندوۃ العلماء کا یہ اہم مقصد علمی دائرے میں قدم رکھے تو یقینا یہ جماعت خیر مقدم کے لیے تیار ہو جائے گی۔ ندوۃ العلماء ابھی خود ابتدائی حالت میں ہے موجودہ حالت کو ایک خواب سمجھنا چاہیے جس کی تعبیر گو خوش آئند ہے مگر قوم کی توجہ کی محتاج اور قوم کی امداد پر مشروط ہے اس لیے در حقیقت ندوۃ العلماء اپنے تمام مقاصد کو ذہنی دنیا میں محدود رکھنے پر ایک حد تک معذور بھی ہے مگر پھر بھی اس کی اصلی کوشش یہ ہے کہ حتی الامکان اپنے تمام ارادوں کا ایک مجمل نمونہ قوم کے سامنے پیش کر دے اور زبان حال سے بتا دے کہ میری طاقت میں یہاں تک عملی کام کی کوشش ممکن تھی مقاصد کی عمدگی دکھلا دی، ان کا عملی نمونہ بھی پیش کر دیا۔ نمونہ کی خوبیاں بھی ظاہر ہیں اب قوم کا فرض ہے کہ یا تو کام کی عمدگی کا عملی اقرار کرے یا قوم کی علمی ترقی کا دلفریب خواب ہمیشہ کے لیے دل سے بھلا دے۔ بنارس کا آئندہ اجلاس در حقیقت اسی خیال کا نتیجہ ہے ندوۃ العلماء اس جلسہ میں اپنے اور مقاصد کے ساتھ اس اہم مقصد کے متعلق بھی ایک عملی نمونہ پیش کرنا چاہتا ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ قوم کے قدیم علمی سرمایہ کی حفاظت کی جائے۔ اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ اجلاس کے ساتھ ایک علمی نمائش کا انتظام کیا گیا ہے جو اپنی نوعیت اور طریق نمائش کے لحاظ سے ہندوستان میں بالکل ایک نئی قسم کی نمائش ہے۔ اس نمائش کا مقصد یہ نہیں ہے کہ قوم کو ہندوستانی تجارت کا ایک منظر دکھلا دیا جائے یا ہندوستانی صنعت و حرفت کا ایک مینار بازار لگا دیا جائے۔ یہ کام ضروری ہیں اور اس کو قوم کے اور دانشمند افراد انجام دے رہے ہیں ندوۃ العلماء کا کام قوم کے علمی اور مذہبی سرمایہ کی حفاظت، اشاعت اور ترقی ہے اس لیے وہ ایک محض علمی نمائش کا انتظام کرنا چاہتا ہے۔ سالانہ اجلاس کی کشش دور دراز مقامات سے جن لوگوں کو کشاں کشاں کھینچ لائے گی ان کی ضیافت کے لیے ندوۃ العلماء نے ایک عملی دعوت کا اہتمام کیا ہے امید ہے کہ یہ خشک مگر نتیجہ خیز دعوت قوم کے علم دوست افراد کو محظوظ اور مسرور کرے گی۔ نمائش کے مقاصد: اس نمائش کے اصلی مقاصد یہ ہیں 1 عربی اور فارسی، کی جو نادر الوجود قلمی کتابیں خاص خاص خاندانوں، کتب فروشوں، پرائیویٹ کتب خانوں میں محفوظ ہیں اور جن میں قوم کے قدیم علمی کارنامے مدفون ہیں ان کا اجتماعی منظر قوم کے پیش نظر کر دیا جائے۔ 2قدیم شاہی فرامین جو مسلمانوں کی قدیم تہذیب اور انشاء پردازی کی یادگار ہیں اور نہایت بے دردی سے شخصی حفاظت میں برباد ہو رہے ہیں ان کو ایک خاص ترتیب سے جمع کیا جائے اور ان سے کار آمد نتائج پیدا کئے جائیں 3 اہم ترین مقصد یہ ہے کہ عربی اور فارسی لٹریچر کی خاص خاص شاخوں کی تاریخ مرتب کی جائیں اور اس مقصد کے لحاظ سے ان شاخوں کی تمام موجود کتابیں جمع کی جائیں اور ان کو اس ترتیب سے یکے بعد دیگرے رکھا جائے کہ بیک نظر عہد بعہد کی تبدیلیاں اور ترقیاں معلوم ہو جائیں اور بغیر کسی غیر معمولی کوشش کے معلوم ہو جائے کہ ابتداء میں اس فن کی کیا حالت تھی، پھر اس کے بعد کس قسم کی تبدیلی ہوئی، کیا کیا اضافے ہوئے اور موجودہ حالت میں اور اصلی حالت میں کیا فرق ہے اس مقصد کی تفصیل آگے آئے گی۔ عملی کام: آئندہ اجلاس میں ان مقاصد کے لحاظ سے اشیائے ذیل کی نمائش کا انتظام کیا گیا ہے۔ 1عربی اور فارسی کی وہ قلمی کتابیں جمع کی جائیں گی جن میں ذیل کی خصوصیات میں سے کوئی خصوصیت موجود ہو۔ الف: عنوان یا مضمون کے لحا ظ سے جو کتابیں قابل قدر ہیں ار اس وقت تک حلیہ طبع سے محروم رہیں۔ ب: قدامت کے لحاظ سے جو کتابیں تاریخی اہمیت رکھتی ہیں جن کو تصنیف کیے ہوئے یا لکھے ہوئے ایک بڑا زمانہ گزر گیا ہے اور اس بناء پر کسی گزشتہ زمانے کی طرز تحریر یا طریق کتابت کا نمونہ ہیں۔ ج: خود مصنف یا مصنف کے شاگرد یا مصنف سے قریب تر زمانہ کی لکھی ہوئی ہیں اور اس بناء پر صحت اور استناد کے لحاظ سے قابل نمائش ہیں۔ د: حسن خط کے لحاظ سے جو کتابیں قدیم مصوری اور زر نگاری کا نمونہ ہیں یا خط کی عمدگی اور حسن کے لحاظ سے بے نظیر ہیں۔ ہ: کسی مشہور خوشنویس اور استاد کتابت کے قلم سے نکلی ہوئی کتابیں یا مصاحف بے بہا جیسے یاقوت مستعصم کا لکھا ہوا قرآن شریف 2شاہان تیموریہ کے وہ فرامین جمع کیے جائیں جو روز بروز صفحہ روزگار سے مٹ رہے ہیں اور جن کے دیکھنے سے قدیم شاہی کارناموں کی تصویر آنکھوں کے سامنے آ جاتی ہے۔ 3 استادان فن کتابت اور خوش نویسان قدیم کے لکھے ہوئے یادگار قطعے، طغرے اور وصلیاں جمع کی جائیں گی جو قدیم فن خطاطی کا بہترین نمونہ ہونے کے ساتھ فن خطاطی پر نتیجہ خیز روشنی ڈالتی ہیں۔ 4 مطلاً اور مذہب مرقعے فراہم کئے جائیں گے جو قدیم فن مصوری کی زندہ یادگاریں ہیں۔ فن بلاغت اور فارسی شاعری کی تاریخ مسلمانوں کے قدیم علمی اور ترقیات کی نمائش یہ تمام سامان مقصد نمبر1اور 2سے تعلق رکھتا ہے مگر اس علمی نمائش کا اہم اور قابل دید حصہ وہ ہو گا جو مقصد نمبر3کا عملی مگر ابتدائی نمونہ ہو گا در حقیقت نمائش کا یہ حصہ مسلمانوں کی علمی ترقیات کا ایک ایسا صاف، ظاہر اور روشن نمونہ پیش نظر کر دے گا، جس کی اہمیت اور نوعیت کو دیکھتے ہوئے اس حصہ کو علمی نمائش سے موسوم کرنا بالکل صحیح او ربیان واقعہ ہے، مقصد نمبر3کا مقصد یہ ہے کہ مسلمانوں کے گزشتہ علمی کارنامے اور ترقبوں کے بغیر کسی تفصیل، استدلال، استخراج نتائج اور تحریر کے محض کتابوں کی منتظم اور مرتب صورت سے ایک مکمل تاریخ پیش کر دے۔ آئندہ نمائش میں صرف فن بلاغت اور فارسی شاعری کو اس غرض سے انتخاب کیا ہے جن کے متعلق اس قدر ذخیرہ موجود ہے کہ ایک مکمل تاریخ پیش کر دیا جائے۔ فارسی شاعری کی تاریخ اور اس کی نمائش چنانچہ فارسی شاعری کی ابتدا سے لے کر موجودہ دور تک کی مکمل تاریخ محض کتابوں کی ترتیب سے دکھلائی جائے گی فارسی شاعری نے سات سو برس میں سینکڑوں رنگ بدلے ہیں اور ہر زمانے میں ایک خاص لباس میں جلوہ گر ہوئی ہے ابتدائے عہد کے جو نمونے موجود ہیں اگر ان کو موجودہ زمانہ کی شاعری سے ملایاجائے تو عظیم الشان اختلاف محسوس ہوتا ہے لیکن تمام آنکھیں اس اختلاف کو محسوس نہیں کر سکتیں۔فکر صائب اور مذاق صحیح کی ضرورت ہے مگر آئندہ نمائش ہر عہدہ کی شاعری کے نمونے ایک خاص ترتیب سے رکھ کر دیکھنے والوں کو بتا دے گی کہ فارسی شاعری کی ابتداء میں کیا حالت تھی؟ پھر کس صورت میں جلوہ گر ہوئی؟ کیا کیا تبدیلیاں ہوئیں؟ کیا کیا اضافے ہوئے؟ اور اب کس لباس میں جلوہ افروز ہے؟ نمائس کے اس حصے کے متعلق ایک ملبوط لیکچر اس تاریخ کی تمام باریکیاں آئینہ کر دے گا اور شرکائے جلسہ جب اپنے اپنے مقاموں پر واپس جائیں گے تو ان کا پیمانہ دماغ فارسی شاعری کی محققانہ تاریخ اور فلسفہ شاعری کے دقیق رموز سے لبریز ہو گا۔ اس طرح فن بلاغت کی وہ تمام کتابیں تاریخی ترتیب سے رکھی جائیں گی جن سے اس کا کوئی نیا دور شروع ہوتا ہے۔ آخر میں ہم ان حضرات کو اس نمائش پر توجہ دلاتے ہیں جن کے پاس قلمی کتابوں، قطوں، وصلیوں اور فرامین کا ذخیرہ موجود ہے اور وہ علم دوست اور فیاض طبع اشخاص کے ہاتھوں ان کو فروخت کرنا چاہتے ہیں کہ اس قسم کی قیمتی اشیاء کی فروخت کا اس نمائش سے بہتر اور کوئی ذریعہ نہیں ہو سکتا جبکہ ہندوستان کے دور دراز مقامات کے علم دوست اور روسا شرکت جلسہ کی غرض سے اس موقع پر جمع ہوں گے وہ تمام چیزیں جو نمائش میں پیش کرنے کی غرض سے دفتر ندوۃ العلماء میں پہنچیں گی۔ ان کی حفاظت اور احتیاط کا ندوۃ ذمہ دار ہے۔ علمی نمائش کا اگرچہ معقول ذخیرہ موجود ہے مگر ہم چاہتے ہیں کہ حتی الامکان نمائش کے دائرے کو اور زیادہ وسیع کیا جائے۔ اس لیے جن حضرات کے پرائیویٹ کتب خانوں میں اس قسم کی قابل نمائش کتابیں یا فرامین وغیرہ موجود ہیں ارکان ندوہ ممنون ہوں گے، اگر وہ چند دنوں کے لیے عاریۃً عنایت فرمائیں جو نمائش کے بعد بحفاظت ان کی خدمت میں واپس کر دی جائیں گی، حفاظت اور احتیاط ہمارا فرض ہے اور خدا نہ کرے کہ ہم اپنے فرض کو بھول جائیں۔ الندوہ جلد نمبر3نمبر1 ماہ محرم الحرام1324ھ بمطابق ماہ مارچ1906ء ٭٭٭٭٭٭ تعلیمی ندوۃ العلماء کیا کر رہا ہے؟ ندوۃ العلماء کا غلغلہ جس زور شور سے اٹھا۔ اور پھر جس افسردگی سے پست ہو گیا دونوں باتیں بظاہر تعجب انگیز تھیں، لیکن حقیقت میں ایک بھی تعجب خیز نہیں، ابتدائی زور شور کے ضروری اسباب تھے، قوم ایک مدت سے دیکھ رہی تھی کہ قومی خیالات و حالات میں اصلاح کی سخت ضرورت ہے لیکن جن لوگوں نے یہ کام اپنے ہاتھ میں لیا چونکہ وہ رہنما یان مذہبی کے دائرہ سے نہ تھے، اس لیے ان کے اثر کا دائرہ بھی محدود رہا۔ چنانچہ تمام ہائے پکار، شور و غل کے بعد بھی قوم کے جو افراد تعلیم حبید کی طرف متوجہ ہوئے وہ صرف نوکری پیشہ لوگ تھے، جن کی معاش کا تعلیم انگریزی کے سوا اور کوئی ذریعہ نہ تھا، ان کا اس طرف متوجہ ہونا روشن خیالی یا مذاق علمی کی وجہ سے نہ تھا۔ بلکہ اس لیے تھا کہ وہ یہ نہ کرتے تو کیا کرتے اس حالت میں پھر علماء کے حلقہ سے جب اصلاح کی آواز بلند ہوئی تو دفعۃً تمام ملک سے جو پہلے سے ہمہ تن انتظار تھا لبیک کی صدائیں بلند ہوئیں علماء کا حلقہ اگرچہ ابتدا میں مختصر تھا لیکن تمام ملک نے جس خلوص اور جوش سے ان کی صدا پر خیر مقدم کہا، اسی نے اس دائرہ کو بہت وسیع کر دیا۔ سینکڑوں مولوی اور عالم جو ندوہ کی حقیقت کو ذرہ برابر بھی نہ سمجھتے تھے یہ دیکھ کر کہ مسجد نشینوں کی ریاست قائم ہوئی جاتی ہے ہر طرف سے ٹوٹ پڑے۔ اور دو ہی تین سال کے اندر اندر اس سرے سے اس سرے تک ہر طرف ندوہ ہی ندوہ کی صدا بلند تھی، ندوہ کے سالانہ جلسوں میں مولویوں کی جس قدر تعداد جمع ہوئی حکومت اسلام کے زمانہ میں بھی کسی مجمع میں دستار فضیلت کے اس قدر شملے یک جا نظر نہ آئے ہوں گے۔ ایشیائی قوموں کا جوش اور افسردگی دونوں فوری اور نا قابل اعتبار ہوتی ہیںجن لوگوں نے ندوہ سے بڑی بڑی امیدوں کی لو لگائی تھی، دو چار برس کے بعد یہ دیکھ کر بیٹھ رہے کہ ندوہ سے نہ کوئی مذہبی سفارت چین و جاپان گئی، نہ قوم میں امام غزالی اور رازی پیدا ہوئے نہ کسی عالم نے یورپ کے علوم و فنون کے طلسم کی پردہ دری کی، قوم کے جوش اور اشتیاق میں کمی ہوئی، تو مولوی خود بخود اس طرح افسردہ ہونے گئے، جس طرح مرثیہ خواں، آہ و بکا کے غل نہ ہونے سے ہمت ہار جاتا ہے وہ گروہ جو تقلید پرستی یا خود غرضی کی وجہ سے پہلے ہی سے مخالف تھا اس کو او ربھی شماتت کا موقع ہاتھ آیا۔ اب اقل قلیل صرف چند اشخاص رہ گئے جو ندوہ کے اصلی عناصر تھے۔ نکتہ سنج پہلے ہی دن سے سمجھتے تھے کہ ندوہ کے جو کام ہیں وہ پچھلی نسل سے جو قدیم زمانہ کی تربیت یافتہ ہے، ہر گز انجام پذیر نہیں ہو سکتے ندوہ کے کیا کیا کام تھے۔ 1علماء میں ایثار نفس کا پیدا کرنا2 انگریزی داں علماء پیدا کرنا3 مذاق حال کے موافق علماء کے گروہ میں مقرریں اور ارباب قلم کا پید اکرنا 4ایسے علماء کا پیدا کرنا جو غیر ممالک میں اسلام کی اشاعت کر سکیں۔ اب غور کرو کہ ہندوستان کی تمام درسگاہوں میں تربیت کا جو طریقہ ہے یعنی دونوں وقت کسی کے دروازہ پر جا کر فقیروں کی طرح کھانا مانگ لانا، یا بڑی معراج ہوئی تو نان بائی کی دکان پر جا کر کھا آنا اس سے کسی قسم کی ہمت، غیرت یا ایثار نفس پیدا ہو سکتا ہے؟ اس طریقہ کے تربیت یافتہ، صدقہ، نذر اور خیرات کے سوا اور کسی طریقہ پر زندگی بسر کرتے ہیں۔ کیا ان لوگوں سے کسی قسم کی بلند خیالی کی توقع ہو سکتی ہے تربیت سے قطع نظر کر کے تعلیم کو لو، تعلیم میں جب تک یورپ کی کسی زبان کی تعلیم لازمی نہ قرار دی جائے اور زمانہ موجودہ کے علون و فنون نہ پڑھائے جائیں اس وقت تک مذاق حال کے موافق، کیونکر ارباب قلم پیدا ہو سکتے ہیں؟ اس بناء پر ندوہ کے اصلی بانیوں نے ہر طرف سے توجہ ہٹا کر صرف دار العلوم (یعنی مدرسہ مجوزہ ندوہ، پر اپنی امیدوں کا مدار رکھا۔ دار العلوم میں بھی سخت دشواریاں تھیں، علماء نصاب قدیم میں کسی قسم کی اصلاح منظور نہیں کرتے تھے۔ انگریزی زبان کے جاری کرنے پر بعض معزز ارکان ندوہ نے اس زور کی مخالفت کی کہ کئی برس تک یہ مسئلہ مردہ ہو کر پڑا رہا۔ سب سے بڑی مشکل یہ تھی اور وہ اب بھی بہت کچھ باقی ہے کہ مدرسین جو ندوہ کو مل سکتے تھے، اسی قدیم لکیر کے فقیر تھے ۔ اس لیے نئے راستہ پر ان سے قدم نہیں رکھا جاتا اور زور لگا کر چلائے جاتے ہیں تو پاؤں الٹی طرف پڑتا ہے۔ غیر ممالک میں اشاعت اسلام کا کام، لوگوں نے اس قدر آسان سمجھا تھا کہ بہت سے لوگ صرف اس وجہ سے ندوہ سے الگ ہو گئے کہ اس نے اب تک کام کو کیوں انجام نہیں دیا۔ اس الزام سے فائدہ اٹھا کر بعض کم مایہ لوگوں نے خود اس کام کا بیڑا اٹھایا اور تبلیغ اسلام و اشاعت اسلام کے نام سے فنڈ کھولے، قومی دنیا بہت وسیع ہے، ایسے احمق بھی بہت نکل آتے ہیں جو بغیر سمجھے بوجھے ساتھ ہو لیتے ہیں، غرض چندہ جمع ہونا شروع ہوا اور وہ تیاریاں ہونے لگیں کہ جاپان و امریکہ کا مسلمان ہونا صبح شام کی بات رہ گئی سو اتفاق سے اسی اثنا میں جاپان کی مذہبی کانفرنس کا غل اٹھا اور خود شاہ جاپان کی طرف سے تمام ممالک اسلامیہ میں اس مضمون کے اعلانات شائع ہوئے کہ علمائے اسلام اس کانفرنس میں قدم رنجہ فرمائیں اور اسلام کی حقیت سمجھائیں اس صدا کے ساتھ تمام ہندوستان میں سناٹا تھا۔ ہندوستان کو تو اپنی طرف سے پہلے بھی مایوسی تھی لیکن مصر و شام و ایران دور کی ڈھول تھے اسی لیے سب کی نگاہیں اس طرف اٹھیں، مصر کے عربی اخبارات میں متعدد علماء کے نام چھپے جو معقول و منقول کے جامع تھے اور جن کی نسبت مشتہر کیا گیا کہ وہ جاپان جا چکے یا عنقریب جانے والے ہیں لطف یہ کہ ان علماء میں ہندوستان کے بھی متعدد علماء کا نام تھا جن کو اگرچہ ہم نہیں جانتے، لیکن خوشی کی بات ہے کہ مصر و شام و روم جانتا ہے، ان میں ایک انگریزی خواں صاحب دہلی کے بھی تھے جس کو مصری اخبارات فیلسوف اور حکیم بتاتے ہیں، ٹرکی اور مصر سے جن لوگوں کا انتخاب ہوا ہم ان سے اچھی طرح واقف ہے ان میں ایک شخص بھی تفسیر و حدیث سے با خبر نہیں کیونکہ وہاں بھی یہی مصیبت ہے کہ جدید تعلیم یافتہ علوم دینیہ سے نا واقف ہیں اور قدیم تعلیم یافتہ مذاق حال سے آشنا نہیں تاہم چونکہ ان کی زبان مادری عربی ہے اس لیے قرآن اور حدیث کا صحیح تلفظ کر سکتے ہیں اور چونکہ زمانہ حال کے خیالات سے واقف ہیں اس لیے اس خدمت کو علماء کی بہ نسبت زیادہ خوبی سے انجام دے سکتے ہیں افسوس! کامل اس فرقہ زہاد سے اٹھا نہ کوئی کچھ ہوئے تو یہی رندان قدح خوار ہوئے بہر حال مجبوری کے لیے چاہے جو کچھ کیا جائے لیکن حقیقت یہ ہے کہ جاپان کی فتح کرنے کے لیے سپہ سالار ایک طرف ہمارے ہاں سپاہی بھی تیار نہیں، بھولے بھالے مسلمان جو یورپ میں تبلیغ کے نام کا غل مچاتے ہیں ان کی بعینہ یہ حالت ہے کہ لڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں جاپان سے ایک شخص نے جو ایک جاپانی اخبار کا مالک اور بہ قیاس غالب مسلمان ہے اخبار ترجمان کے ایڈیٹر کے نام ایک خط لکھا ہے جس کا ترجمہ اخبار حبل المتین مورخہ 10اگست1906 ء میں چھپا ہے ہم اس کے اقتباسات مع ترجمہ کے نقل کرتے ہیں جس سے ظاہر ہو گا کہ مسلمانوں کی اس علمی ناداری کا عام ماتم ہے۔ چنیں عاملے و فاضلے را کہ بتواں از ایسا فاضل جو اس عظیم الشان مہم سے عہدہ ایں تکلیف بزرگ و وظیفہ مہمہ عہدہ برآ ہو سکے ہم کہاں سے ڈھونڈ کر برآید، ما از کجا بدست آریم و پیدا نمایم لائیں اگر اس کی تمام اسلامی آبادی می وانم کہ گر چندیں صد مشعل براشتہ اور ویرانہ میں سینکڑوں مشعل لیکر ڈھونڈھا و تمامی ساکن مسلمانان روسیہ و کنج خرابات جائے تو اس پایہ کا ایک عالم بھی نظر راتجسس نمائیم چنیں عالمے را پیدا نہ کردہ نہ آئے گا اور ہم کو نا امید ہونا پڑے گا و مایوس خواہیم گشت آخر برائے ہمیں روز ہا بود کہ بعضی اسی دن کے لیے بعض عاقبت اندیش نویسندگان و مرد مان دانشمند و با بصیرت مسلمان داد فریاد کرتے تھے کہ ومآں اندیش ما استدعا می کروندو دا د ہمارے علماء کو، علوم جدیدہ سے میز و ند کہ علمائے علام اسلام از علوم جدیدہ واقف رہنا چاہیے، کاش ان کی و فنون متنوعہ خبردارد بادشندہ آہ اگر ایں باتوں پر کسی نے کان لگایا ہوتا اور سخنان رواقعے گزاشتہ و گوش میدادند اس کی وقعت کی ہوتی حالادر عالم اسلام یک ہمچو عالمی کیا تمام اسلامی دنیا میں ایک ایسا پیدامی شود کہ دارائے علم و ہنر و ہمت عالم بھی مل سکتا ہے جو علم و ہنر کے ساتھ ہمت وجہد باشد تابقوۃ نطق و تاثیر تبلیغات اور کوشش بھی رکھتا ہوت اکہ اپنے زور تقریر سے خود دولت معظمہ زاپوں راد عوت نماید جاپان کی عظیم الشان سلطنت کو اسلام کی دعوت دے آیا قدر و قیمت چنیں بزرگواز سلمانؓ سکے، کیا ایسے عالم کی عزت سلمانؓ و و ابوذرؓ، و مقداو و سایر مہاجرینؓ و ابوذرؓ و مقدادؓ اور دیگر مہاجرین و انصار، کمترمی باشد، زاپون واسلام انصار سے کم ہو سکتی ہے، جاپان می دایند چہ چیز ست قالب بے روح کا اسلام لانا کیا چیز ہے؟ اسلام کے مردہ دین مبین اسلام را حیات مجدد و میدن قالب میں نئی روح پھونکنا اور رسول اللہؐ وخانہ ساختہ پیغمبر اکرم رادوبارا آباد صلعم کی تعمیر کردہ عمارت کو دوبارہ آباد کردن ست کرنا ہے۔ زاپونیاں رابا احادیث و اخبار نمی جاپان کے لوگوں کو احادیث و روایات تواں ہدایت کر وزیر اکہ شخص باید اول کے ذریعہ سے ہدایت نہیں کی جا سکتی قبول اسلام نماید و بعد صحت و اعتبار کیونکہ پہلے آدمی اسلام آئے تب احادیث و روایات رابا در کند، و معتقد روایاں بشود روایات کا قائل ہو سکتا ہے۔ زاپونی رانمی تواں گفت کہ ترکیب جاپانیوں کو یہ بتانا فضول ہے کہ فلاں وقامت فلاں ملک چنین ست و فرشتہ کا یہ ڈیل ڈول ہے، وجال کا درازی خرد جال چناں دیا غسل جنابت گدھا اس قدر طویل القامت ہے غسل ایں طور است و تمیم ایں طور وبا ایں جنابت اس طرح کیا جاتا ہے تیممکا یہ طریقہ ہے سخنان دعوت اسلام نمی شود، ان باتوں سے تبلیغ اسلام نہیں ہو سکتی زاپونیاں را فقط بہ بیان حکمت و اسرار جاپانی صرف قرآن مجید کے حقائق و قرآن مجید دعوت تواں نمود، تابہ ثبوت اسرار کے بیان کرنے سے اسلام کی طرف برسد کہ دین مبین محمدیؐ چگونہ باعقل بلائے جا سکتے ہیں جس سے یہ ثابت ہو و حکمت موافق و با علوم و فنون مناسب جائے کہ مذہب اسلام کس طرح عقل اور حکمت می باشد، شخصے کہ مدعی دعوت و ہدایت کے موافق اور علوم و فنون کے مناسب شد لازم است کہ کافہ علوم و فنون ہے جو شخص تبلیغ اسلام کا مدعی ہو اس کے وحکمت و دانشے را کہ فعلاً درمیان لیے ضروری ہے کہ ان تمام علوم و فنون سے ژاپونیاں متدادل ست بطور اکمل واقفیت رکھتا ہو جو عملاً جاپان میں جاری و ولائق بداند ساری ہیں۔ لیکن میہات اور مجلس اعلیٰ حضرت لیکن افسوس! میکاڈو کی مجلس میں میکاڈو غیر ازہا دیان اسلام داعیان مسلمانوں کے علاوہ اور مذہبوں کے مسیحی و یہودی و غیرہ نیز خواہند بود واعظ بھی ہوں گے، جنہوں نے بڑی اتمام ایں و عات از مکاتب عالیہ بڑی یونیورسٹیوں میں علمی ڈگریاں حاصل دار الفنون ہائے بزرگ فراغت جتہ کی ہیں اور جو دوسری قوموں کے اندکہ، غیر ازدین و آئین ملی خود درادیان مذہب اور علوم و فنون جدیدہ اجنبیہ و علوم و فنون جدیدہ و حکمت میں کمال رکھتے ہیں طبیعہ کاملاً مہارت دارند۔ روحانیان مسیحی دربارہ دیانت اسلام عیسائیوں نے اور بدھا نے مذہب و طریقت بوداہزاراں تفتیشات عمیقہ کے متعلق نہایت مدققانہ تحقیقاتیں کی ہیں بکار بروہ و کتابہا جمع و تالیف کردہ اور ان مضامین پر تصنیفیں لکھی ہیں اسلام اندالسنہ اسلامیہ و ژاپوتی را تحصیل نمودہ اور جاپان کی زبانیں سیکھی ہیں کیا علمائے اند، ولے از علمائے مسلمین کو آں عالمی اسلام میں بھی کوئی ایسا شخص ہے جس نے کہ در حق دین مسیح و آئین بودہ یک ورق حضرت عیسیٰ یو بودھا کے متعلق ایک نوشتہ باشد صفحہ لکھا ہو وقتیکہ دولت و ملت روس بت پرست جس زمانہ میں روسی قوم بت پرست بودند ولا دیمرا لیسو باندی مثل ہمیں میقاد تھی شہنشاہ روس ولا ڈیمیر نے اسی طرح وی ژاپون برائے اخذ مذہب جدید ایک جلسہ منعقد کیا تھا اور علمائے اسلام مجلسے ترتیب داد، از علمائے مسلمین نیز کو بھی بلایا تھا جو صاحب اس غرض کے دعوت کرو، عالم مسلمانے کہ از شہر قزان لیے قازان سے تشریف لائے انہوں نے آمدہ بو داز مطالب حقہ و مزا یالے اسلامیہ اسلام کے تمام عقائد اور فلسفہ میں سے وحکمت ہائے الہیہ فقط ہمیں حرف را صرف یہ مسئلہ منتخب کر کے پیش کیا کہ سور منتخب کردہ و گفت کہ خوردن گوشت خوک حرام ست کا گوشت کھانا حرام ہے از قرار نگارش مورخین روس ولادیمر مورخین روس لکھتے ہیں کہ شہنشاہ روس باطنا مائل بہ اسلام بودو میخواست کہ خودو اسلام کی طرف مائل تھا اور چاہتا تھا کہ ملت روس تماماً قبول دین اسلام تمام قوم روس کے لیے مذہب اسلام نمایند لیکن واعی قازانی از تمام شریعت کو انتخاب کرے لیکن قازانی عالم نے مطہرہ فقط حرمت لحم خنزیر را گفتہ و طورے شریعت اسلام کے تمام احکام میں سے اصرار نمود کہ جالب غیظ ولادیمر گروید صرف اس مسئلہ کو پیش کر کے اس پر تاینکہ مشارو الیہ را از مجلس خود طر و اس قدر زور دیا کہ شہنشاہ نے غصہ میں نمود و دین مسیح را قبول کرد کہ نو ومیوں آ کر ان کو نکلوا دیا اور عیسائی مذہب نفوس ملت روس داخل مذہب آر تودو قس قبول کر لیا جس کا یہ نتیجہ ہوا کہ نو کروڑ شدند آدمی دفعۃً عیسائی ہو گئے حالا اے مسلمانان! انصاف گنیہ و فرض مسلمانو! ذرا انصاف کرو، اگر یہ قازانی نمائید، ہر کاہ ایں اخوند قازانی عالم ملا علوم دینی اور دنیوی سے واقف علوم ادیان و ابدان و با فضل و دانش ہوتا، اس کو عقل اور سمجھ ہوتی، شریعت وبیان آراستہ می بو دواز حکمت و اسرار کے اسرار سے مطلع ہوتا اور ابتدا ہی میں شرع شریعت اطلاعات صحیحہ میداشت لحم خنزیر کے مسئلہ کو نہ چھیڑتا اور و بددً اور مسئلہ حرمت لحم ختریر متوقف قرآن مجید کے وہ حقائق اور اسرار نگشتہ از جملات حکمیہ و محیر العقول قرآن مجید بیان کرتا جو عقل کو حیران کر دیتے و احکام حکمت فرجام محمدی صلی اللہ علیہ ہیں اور جن کے فوائد العانیہ محسوس وآلہ وسلم کہ منافع آں بطور حسی و موافق ہوتے ہیں اور وہ علوم موجودہ کے علوم و فنون حاضر می باشدمی گفت موافق ہیں تو کیا نتیجہ ہوتا، یہ ہوتا واثبات می رسانید چہ می شد یک صدر کہ آج جو روس میں13کروڑ عیسائی سی ملیون نفوس حالیہ روس تماماً مسلمان ہیں یہ سب مسلمان ہوتے اور دنیا وکافہ امورات جہان لوضعی دیگر می کی تاریخ بدل جاتی گروید اس مضمون سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ ہر جگہ یہ عام شکایت ہے اور کس قدر افسوس ہے کہ مصر، شام، قسطنطنیہ، ایران، عرب ایک جگہ بھی اس قسم کی تعلیم کا بندوبست نہیں کیا جاتا۔ اب سوال یہ ہے کہ ندوہ نے کیا کیا، اس کا جواب جس قدر عملاً موجود ہے وہ یہ ہے کہ ندوہ نے علماء کے گروہ میں کچھ خوش خیال اشخاص پیدا کیے، جو اس ضرورت کا احساس رکھتے ہیں ورنہ اور ہر طرف تو اس گروہ میں سے اس قسم کی بھنک بھی سنائی نہیں دیتی۔ ندوہ کے شور و غل کا ایک بدیہی اور اعلانیہ نتیجہ یہ ہوا کہ مدارس میں باقیات اور صالحات کے نام سے جو مشہور مدرسہ قدیم زمانہ سے چلا آتا تھا۔ اس میں اس سال ایک بہت بڑا جلسہ کانفرنس کی صورت میں کیا گیا اور تمام علماء نے بہ اتفاق یہ تجویز منظور کی کہ عربی زبان کے ساتھ انگریزی زبان کی تعلیم بھی لازمی قرار دی جائے۔ اس قدر دور دراز فاصلہ پر ندوہ کا اثر ہونا اور خود ندوہ کے اطراف میں لوگوں کا مخالف ہونا تعجب انگیز ہے لیکن یہ ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے۔ زخاک مکہ ابوجہل ایں چہ بوا العجبی ست ندوہ نے نہایت دلیری اور استقلال سے اپنے مدرسہ میں انگریزی زبان لازمی قرار دی۔ اور زمانہ حال کی تحقیقات و مسائل سے طلبہ کو آشنا کیا اس کے ابتدائی نتائج طلبائے ندوہ کے وہ خیالات ہیں جو الندوہ کے صفحوں پر کبھی کبھی نظر آتے ہیں۔ عدوہ ایک انگریزی خواں تعلیم یافتہ کو جو پنجاب کی طرف کا رہنے والا ہے صرف اس غرض سے عربی علوم و فنون کی تعلیم دے رہا ہے کہ اس سے اشاعت اسلام کا کام لیا جا سکے۔ اس سلسلہ میں ندوہ نے ایک بڑی کامیابی یہ حاصل کی کہ ایک انگریز نو مسلم کو جو افریقہ کا رہنے والا ہے اور افریقہ کی تمام زبانوں میں ماہر ہے، بمبئی سے بلا کر عربی کی تعلیم دلانی شروع کی ہے اس انگریز کا اسلامی نام شیخ محمد ہے اور ممباسہ سے آیا ہے وہ نہایت خلوص سے اسلام لایا ہے اور نہایت قانع اور بے غرض ہے اور وہ عربی تعلیم صرف اس غرض سے حاصل کر رہا ہے کہ افریقہ میں جا کر وہاں کی زبان میں اسلام کا وعظ کہہ سکے ندوہ نے نصاب تعلیم میں ضروری اصلاح کی، قدیم نصاب بہت کچھ بدل گیا منطق و فلسفہ کی بیکار کتابیں نکل گئیں تفسیر اور علم ادب کا حصہ زیادہ کر دیا گیا انگریزی زبان کی تعلیم لازمی ہو گئی۔ یہ تبدیلیاں کئی برس کے بحث و مباحثہ اور دو کد کے بعد حال میں عمل میں آئیں اور بھی دس بارہ برس میں ان کے نتائج کی توقع کی جا سکتی ہے بے شبہ ندوہ کو جو کچھ کرنا چاہیے اس میں سے اس نے ابھی من میں چھٹانک بھر بھی نہیں کیا، لیکن جب یہ خیال کیا جائے کہ خود اسلامی سلطنتوں میں جہاں اسلام کی شہنشاہی قائم ہے اس قسم کی کوشش کا شائبہ تک نظر نہیں آتا تو جو کچھ اب تک ندوہ نے کیا ہے اس کو کسی طرح نگاہ حقارت سے نہیں دیکھا جا سکتا۔ ابھی ہم کو یہ نہیں دیکھنا چاہیے کہ منزل تک ہم پہنچ گئے یا نہیں بلکہ یہ دیکھنا چاہیے کہ ہم جس راستہ پر چل رہے ہیں، وہ منزل تک جاتا ہے ے انہیں اور یہ کہ ہم نے اس راستہ کو کچھ طے بھی کیا ہے یا نہیں ہر وان راخستگی راہ نیست عشق ہم راہ ست و ہم خود منزل ست (الندوہ ج 3نمبر8۔۔۔۔۔۔ ماہ ستمبر1906ء مطابق شعبان1324ھ) ٭٭٭٭٭٭٭ ندوہ کی نئی زندگی کا آغاز وہ جس سروسامان سے اٹھا تھا ملک کو وہ منظر آج تک بھولا نہ ہو گا لیکن پھر جس طرح وہ رفتہ رفتہ ڈوبتا گیا وہ بھی محتاج بیان نہیں یہاں تک کہ یا تو اس کے متعلق کہیں سے صدا نہیں اٹھتی تھی، یا اٹھتی تھی تو مخالفوں کے خندہ تحقیر کی آواز تھی۔ ایسا عجیب و غریب انقلاب کیوں ہوا! کیا ندوہ در حقیقت کوئی جھوٹا طلسم تھا؟ کیا وہ خام خیالی کے دریا کا کوئی حباب تھا؟ کیا وہ طفلانہ حوصلہ مندیوں کی کوئی لہر تھی؟ نہیں یہ کچھ نہ تھا، ندوہ ایک اصلی سچائی تھی، ایک حقیقی زندگی تھی ایک قومی روح تھی لیکن جس طرح آفتاب بہ ایں ضیا گستری و عالمگیری کبھی کبھی گہنا جاتا ہے، ندوہ پر بھی یہ روز بد گزرا جس پر دشمنوں نے مسرت اور دوستوں نے افسوس کیا، لیکن خدا کا شکر ہے کہ وہ آفتاب عالمتاب اب گہن سے نکلتا آتا ہے اور دنیا چند روز میں دیکھ لے گی کہ قوم کا مذہبی افق نور سے معمور ہو گیا ہے اور اگر یہ نور کسی کسی کو نظر نہ آئے تو۔ چشمہ آفتاب راچہ گناہ ندوہ کی اس نئی زندگی میں جن جن کاموں کا آغاز ہوا، یعنی نصاب تعلیم کا تغیر، طریقہ تعلیم کی اصلاح، بورڈروں کی تربیت، طلبہ کی قابلیت علمی کا ظہور، مالی حالت کی ترقی، سرمایہ تعمیر کی بنیاد، گو یہ سب چیزیں ندوہ کے عہدہ مظاہر زندگی ہیں۔ لیکن سب سے بڑی اور سب سے مقدم کامیابی جو حاصل ہوئی وہ ندوہ کے سلسلہ عمارت کے لیے زمین کا ملنا ہے۔ لکھنو میں جو ندوہ کا صدر مقام ہے، ایک ایسے وسیع اور خوش منظر قطعہ زمین کا ہاتھ آنا جیسا کہ ندوہ کی وسیع کارروائیوں کے لیے درکار تھا قریباً نا ممکن تھا، اس زمین کے لیے جو خصوصیتیں درکار تھیں حسب ذیل تھیں: 1کم از کم اس کا رقبہ 30-40 بیگھہ پختہ ہو اور ایسے موقع پر ہو کہ آئندہ اضافہ کی گنجائش ہو 2نہایت خوش منظر اور خوش فضا ہو 3شہر سے نہ دور ہو نہ قریب یعنی باہمہ اور بے ہمہ ہو 4سب سے بڑھ کر یہ کہ مفت ہاتھ آئے (یہ شرط تم سمجھ سکتے ہو کہ سب سے بڑھ کر مشکل تھی) دس برس ہو چکے کہ اس قسم کی زمین تلاش میں ہر قسم کی کوششیں صرف ہوئیں لیکن یہ ظاہر ہے کہ ہم کیمیا ڈھونڈھتے تھے جو پہلے زمانہ میں تو ملتی تھی لیکن اب تو یورپ والوں نے اس کو دنیا سے گم کر دیا ہے، مشکل اور سخت مشکل یہ تھی کہ اس کیمیا کے بغیر کسی قسم کا کوئی کام انجام نہیں پا سکتا تھا، ندوہ کے قدر دان اور خاص خاص احباب اپنی فیاضیوں کے امتحان دینے کے لیے مستعد تھے لیکن ہمارے پاس ان کی زرافشانیوں کے سمیٹنے کے لیے دامن نہ تھا۔ دور دور سے طلبہ آنے کے لیے درخواست کرتے تھے لیکن ہم ان مہمانوں کو کہاں ٹھہراتے کتب خانہ روز بروز وسیع ہوتا جاتا تھا لیکن ان علمی ممبروںکو بیٹھنے کی جگہ نہیں ملتی تھی۔ تعلیم کی متعدد ضروری شاخیں اس لیے نہیں کھولی جا سکتی تھیں کہ عمارت کا لبریز پیالہ ایک قطرہ پڑنے سے بھی چھلک جاتا تھا۔ خدا کا شکر اور ہزار شکر ہے کہ ان تمام مشکلات کو گورنمنٹ کی ایک نظر عنایت نے دفعۃً حل کر دیا گورنمنٹ نے (محض برائے نام لگان پر)32بیگھہ کا ایک وسیع قطعہ زمین عنایت کیا جو لکھنو میں سب سے بڑھ کر خوش منظر اور خوش فضا مقام ہے۔ سامنے دریا، چاروں طرف کھلا ہوا میدان، عقب میں کیننگ کالج کا خوش نما بورڈنگ چاروں طرف کی زمین سے زیادہ بلند اور ہموار اور مسطق، غرض ایک ایسا قطعہ ہے کہ اگر ہم اپنی آرزوؤں اور خواہشوں کے موافق کوئی زمین تصنیف بھی کرتے تو یہی ہوتی۔ ارکان ندوہ پر خصوصاً اور عام مسلمانوں پر عموماً فرض ہے کہ گورنمنٹ کے شکریہ کے لیے جا بجا جلسے کریں اور گورنمنٹ کو جتائیں کہ وہ گورنمنٹ کے اس عطیہ کے کس قدر شکر گزار ہیں۔ اے ارکان ندوہ! اے بہی خواہان ندوہ! اے عام ارباب اسلام! گورنمنٹ نے باوجود اجنبیت مذہب آپ کے خاص مذہبی کام کے لیے اس قدر بڑی فیاضی کی، جس سے اس کو صریح مالی نقصان اٹھانا پڑا اب آپ کا کیا فرض ہے، مجھ سے بہتر آپ خود بتاسکتے ہیں۔ بتانے کی یہ صورت ہے کہ آپ اسی کے ذیل میں خواتین کے نام کی ایک اپیل پڑھیں اور سادہ جگہ کو کچھ اعداد سے پر کریں۔ (الندوہ جلد5نمبر7) (اگست 1908ء مطابق رجب المرجب 1326ھ) خواتین قوم کی عزت اور یادگار اسلام نے عورتوں کو جو عزت اور عظمت دی اس پراگرچہ مسلمانوں نے اپنے طرز عمل سے پردہ ڈال دیا لیکن مذہبی روایات اور تاریخی واقعات کو کوئی شخص مٹا نہیں سکتا، سب سے پہلے جیسا کہ صحیح بخاری میں ہے جب آنحضرت صلعم پر وحی آئی اور ناموس الٰہی نے آپ کو آغوش میں لے کر فشاد دیا تو مقتضائے بشریت سے آپ کو خوف پیدا ہوا اور آپ نے فرمایا ’’ خشیت علی نفسی‘‘ اس وقت حضرت خدیجہ الکبریؓ نے آپ کو تسلی دی اور کہا مایخزیک اللہ ابداً مذہبی شعائر اور مذہبی اصطلاحات میں عورتوں کا خاص حصہ ہے جو مردوں کو نصیب نہیں حج کا ایک بڑا رکن صفا اور مروہ میں دوڑنا حضرت ہاجرہؓ کی تقلید ہے، مکہ اسلام کی جڑ ہے اس کو خدا نے قرآن مجید میں ام القری کہا ہے۔ اسی طرح قرآن مجید میں جو آیات محکمات ہیں ان کو خدا نے ام الکتاب فرمایا ہے کعبہ کو حرم کہتے ہیں اور خواتین کا بھی یہی لقب قرار پایا ہے۔ قرآن مجید میں ایک مستقل سورۃ النساء عورتوں کے احکام میں اور ان کے نام سے اتری، مردوں کے نام پر کوئی سورت نہیں ہے۔ کیا ان امور سے صاف یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ مذہب اور شعار مذہب میں عورتوں کو ایک مخصوص اور ممتاز درجہ حاصل ہے اسی کا اثر ہے کہ مذہبی احساس، مذہبی خلوص، مذہبی شیفتگی جس قدر عورتوں میں پائی جاتی ہے، مردوں میں اس کا عشر عشیر بھی نہیں اور یہ کہنا بالکل سچ ہے کہ گو آج ہم میں شبلی اور جنید نہیں لیکن رابعہ اور مریم اب بھی موجود ہیں۔ ان وجوہ کی بناء پر یہ نہایت مناسب بلکہ نہایت ضروری ہے کہ آج ہندوستان میں جہاں بہت سے بڑے بڑے قومی اور ملکی کام چھڑے ہوئے ہیں ایک خالص مذہبی کام صرف خواتین کے ہاتھوں سے انجام پائے، اس کا ایک اتفاقی موقع خود بخود غیب سے پیدا ہو گیا ہے جس میں تھوڑی ہی سی کوشش کی اور ضرورت رہ گئی ہے ندوۃ العلماء کا دار العلوم جس کا مقصد قرآن مجید، حدیث اور اسلامی علوم کو زندہ رکھنا ہے، بالکل خاص مذہبی کام ہے اس کے وجود اور بقائیں بڑا حصہ مستورات کا ہے۔ سب سے پہلے اس کے مصارف کے لیے جو جائیدادیں وقف کی گئیں وہ معزز خواتین قوم نے کیں۔ پھر حضور سرکار عالیہ ریاست بھوپال خلدہ اللہ تعالیٰ نے چھ سو روپیہ سالانہ کی رقم مقرر فرمائی لیکن دار العلوم کی عمارت کا اب تک کوئی سامان نہ تھا اور موجودہ عمارت بالکل ناکافی اور ناموزوں تھی، محض تائید غیبی تھی کہ حضور ہزہائنس جناب نواب صاحب ریاست بہاول پور کی جدہ ماجدہ خلد ہا اللہ تعالیٰ نے خاص عمارت دار العلوم کے لیے پچاس ہزار روپیہ کی رقم عنایت فرمائی۔ درس گاہ کے علاوہ باقی عمارت یعنی دار الاقامہ اور کتب خانہ وغیرہ کے لیے ایک لاکھ اور درکار ہے۔ ہماری خواہش ہے کہ عمارت کا یہ حصہ بھی تمام تر صرف خواتین کے زر عطیہ سے انجام پائے تاکہ تمام دنیا میں بلکہ تمام تاریخ اسلام میں یہ نئی نظیر ہو کہ ایک مذہبی کام اور مذہبی تعمیر سر تا سر صرف خواتین کی فیاضی سے انجام پائی۔ اگرچہ یہ تجویز وقوع میں آئی تو خواتین کی ابدی عزت، ابدی عظمت، ابدی شہرت کی یہ وہ یادگار ہو گی۔ جس کی نظیر سے تمام دنیا کی تاریخ خالی ہے۔ اے خواتین اسلام، اے معزز ماؤں، اے محترم بہنو! اے عزیز لڑکیو، کیا اس خفیف رقم کے بدلہ میں تم خدا کی خوشی،ر سول عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی رضا مندی قیامت کی نجات اور قوم کی دعائیں نہیں خریدنا چاہتی ہو (حاشا تمہاری نسبت کون یہ بد گمانی کر سکتا ہے) یا رب ایں آرزوے من چہ خوش ست تو بدیں آرزو مرا برساں (الندوہ جلد5نمبر7) (اگست1908ء مطابق رجب المرجب 1326ھ) ٭٭٭٭٭٭٭ زندہ زبیدہ خاتون مسلمانوں کے اوصاف کے بیان میں میں مجبوراً ہمیشہ پچھلے زمانہ کی طرف رجوع کرنا پڑا ہے بلند ہمتی، دریا دلی، علم پرستی، بہادری، ایک ایک چیز کے لیے ہارون الرشید، مامون، زبیدہ خاتون، برامکہ اور تیموریہ کا نام لیتے لیتے ہم تھک چکے، کیا موجودہ زمانے میں ہم کو کوئی شخص اس پرانے آموختہ سے بے نیاز نہیں کر سکتا؟ اس پر حسرت سوال کے جواب میں ریاست بہاولپور کے افق سے ایک صدا بلند ہوتی ہے۔ جناب معلی القاب رکن الدولہ نصرت جنگ حافظ الملک مخلص الدولہ ہز ہائنس نواب حاجی صادق محمد خان صاحب جانشین خامس دام اقبالہ کی جدہ مکرمہ فلک احتجاب عصمت مآب خلدھا اللہ تعالی نے اپنی جیب سے مبلغ پچاس ہزار روپے دار العلوم ندوۃ العلماء کی عمارت کی تعمیر کے لیے عطا فرمائیے۔ ہندوستان میں ہر طرف اور بھی بہت سے علمی اور قومی کام ہیں، لیکن ان کے ارکان صاحب اثر، صاحب اقتدار، صاحب وجاہت ہیں۔ اور اس وجہ سے ان کی کامیابی محل تعجب نہے، لیکن یہ عطیہ ایک ایسا عطیہ ہے، جس کے وجود میں خالص اسلامی ہمدردی، خالص فیاضی، خالص دریا دلی کے سوا کوئی چیز شریک نہیں، ندوہ کی جماعت گوشہ نشینیوں اور پا شکستہ لوگوں کی جماعت ہے، اس کا دست طلب کسی دامن پر بے باکانہ اور مدعیانہ نہیں پڑ سکتا۔ اس حالت میں جو دریا دل اس کی طرف متوجہ ہو محض اس کی بے لاگ فیاضی اور خدا پرستی ہے۔ دار العلوم ندوہ کی تعلیمی حالت جس طرح ترقی کر رہی ہے اس کے لحاظ سے دار العلوم کی موجودہ عمارت نہ صرف ناکافی تھی بلکہ اس کی تمام آئندہ ترقیوں کی سد راہ تھی۔ نہ طلبہ کے رہنے کے لیے موزوں مکانات تھے نہ درس کے لیے کافی کمرے تھے۔ نہ کتب خانہ کی گنجائش کے لیے عمارت تھی نہ علوم جدیدہ کی تعلیم کا سامان تھا۔ کوئی شخص جو ندوہ کا مشہور اور بلند نام سن کر آتا تھا عمارت کودیکھ کر دفعۃً اس کے تمام خیالات پست ہو جاتے تھے جناب خاتون محترمہ موصوفہ نے جو فیاضی فرمائی ہے اس نے دار العلوم ندوہ کی نہ صرف بنیاد مستحکم کر دی ہے، بلکہ اس کی تمام آئندہ ترقیوں کے لیے راستہ صاف کر دیا ہے اور گو آئندہ ندوہ کسی حد تک بڑھے اور کتنی ہی ترقی کر جائے لیکن انصاف یہ ہے کہ جو کچھ ہو گا اسی فیاضی کا پرتو، اسی تخم کا ثمر، اسی آفتاب کی شعاعیں ہوں گی۔ اے صوبہ الہ آباد! اے اودھ! نہایت وسیع، نہایت ممتاز، نہایت معزز ملک ہے لیکن سچ یہ ہے اور اب اس سے تو خود تجھ کو انکار نہیں کرنا چاہیے کہ پنجاب نہیں بلکہ اس کی ایک ریاست نہیں بلکہ اس کی ایک خاتون محترم کے آگے تیری گردن ہمیشہ کے لیے جھک گئی تو نے کبھی برہان الملک اور آصف الدولہ پیدا کیے ہوں گے لیکن تو کسی زبیدہ خاتون کا نام نہیں لے سکتا۔ ایں سعادت بزور بازونیست تانہ بخشد خدائے بخشندہ ہمیں ان بزرگوں یعنی جناب مولوی رحیم بخش صاحب پریسیڈنٹ کونسل و تمام ممبر صاحبان کونسل اور جناب مولوی محمد الدین صاحب ڈائریکٹر تعلیمات اور جناب ڈاکٹر مولوی محمد الدین صاحب کا بھی دل سے شکریہ ادا کرنا چاہیے جن کی وجہ سے ہماری درخواست، جنابہ خاتون صاحبہ محترمہ کے سمع مبارک میں پہنچ سکی ہم کو مولوی غلام محمد صاحب شملوی کا بھی دل سے شکریہ ادا کرنا چاہیے، جنہوں نے ندوہ کی آواز وہاں تک پہنچائی ہے۔ (الندوہ) ٭٭٭٭٭٭ ایک مذہبی یونیورسٹی یعنی دار العلوم ندوۃ العلماء کے سنگ بنیاد کا جلسہ اور جلسہ سالانہ ندوۃ العلماء ندوۃ العلماء کے ہوا خواہ خصوصاً اور بہی خواہان اسلام عموماً ایک مدت سے جس چیز کا انتظار کر رہے تھے خدا کا شکر ہے کہ اب اس کے سامان مہیا ہونے کے دن آئے۔ ندوۃ العلماء کے مقاصد اور اغراض کے انجام دینے کے لیے ان علماء کی ضرورت ہے جو موجودہ زمانہ کی ضرورتوں اور خیالات سے آشنا ہوں، جو یورپ کی کسی زبان سے واقف ہوں جو غنی النفس ہوں جن میں ایثار نفس کا مادہ ہو یہ اوصاف اس وقت پیدا ہو سکتے ہیں جب طلبہ کو ایک خاص طریقہ پر تعلیم اور تعلیم کے ساتھ خاص طرح کی تربیت دی جائے۔ ندوہ کے دار العلوم نے اس کام کو شروع کیا، لیکن عمارت کے ناکافی اور ناموزوں ہونے سے نہ طلبہ کے قیام کا انتظام ہو سکتا تھا نہ تعلیم و تربیت کی دقتیں حل ہوتی تھیں۔ اس بناء پر اس سال ایک نہایت خوش منظر قطعہ زمین انتخاب کیا گیا جس کو گورنمنٹ نے نہایت فیاضی سے (برائے نام لگان پر) اس غرض کے لیے عنایت کیا 28نومبر1908ء کو سنگ بنیاد رکھے جانے کی رسم قرار پائی اور نہایت خوشی اور مسرت کا مقام ہے جناب لیفٹیننٹ گورنر بہادر صوبہ الہ آباد نے اپنے ہاتھ سے سنگ بنیاد کا رکھنا منظور کیا، یہ بھی قرار پایا کہ ان ہی تاریخوں میں (یعنی 29اور30نومبر19108ئ) ندوہ کا سالانہ جلسہ بھی کیا جائے۔ یہ بات خاص طرح پر ظاہر کرنے کے قابل ہے کہ مدت سے ندوہ کے اور دیگر وسیع اہم مقاصد میں سے صرف تعلیم پر توجہ محدود کر دی گئی تھی، اب جب کہ تعلیم کے انتظام سے کسی قدر اطمینان ہوا تو ندوہ کے اور بڑے بڑے مقاصد پر توجہ کرنے کا وقت آیا، اس لیے ہم تمام بہی خواہان اسلام سے درخواست کرتے ہیں کہ اس موقع پر جب کہ ایک درس گاہ عظیم کی بنیاد رکھی جائے گی آپ کا تشریف لانا نہ صرف اس لیے ضروری ہے کہ ایک ایسے رسم کا شان و شوکت سے ادا ہونا قوم کی اور اسلام کی عزت ہے بلکہ اس لیے بھی کہ ان جلسوں میں ندوہ کے اور بڑے مقاصد اور اغراض پر مشورہ اور مباحثہ ہو گا اور ان کے متعلق تجویزیں اور رزولیوشن پیش ہوں گے مشہور اور نامور علماء خطبہ اور وعظ بیان کریں گے دار العلوم ندوہ کے طلبہ کی تعلیم اور لیاقت کا امتحان ہو گا۔ اس بناء پر آپ ضرور تکلیف فرمائیں اور غور کریں کہ ہمیں مذہب اسلام اور علوم اسلام کی بقاء اور حفاظت اور اشاعت کے لیے کیا کیا تدبیریں کرنی چاہئیں۔ وقف اولاد کا مسئلہ جو چھڑ کر چند روز کے لیے ملتوی ہو گیا تھا اس کی کارروائی کے مستحکم طریقہ سے جاری کرنے کا اس سے عمدہ موقع نہیں مل سکتا۔ (الندوہ جلد5نمبر9) رمضان1326ھ مطابق15اکتوبر1908ء ٭٭٭٭٭٭ دار العلوم ندوۃ العلماء کے سنگ بنیاد کا عظیم الشان جلدہ بگذ رازیں حرف و مکرر مپرس خواب خوشی دیدم و دیگر مپرس تندمے بود خرابم ہنوز دیدہ من بازو بخوابم ہنوز ہماری آنکھوں نے حیرت فزا تماشا گاہوں کی دلفریبیاں بار ہا دیکھی ہیں، جاہ و جلال کا منظر بھی اکثر نظر سے گزرا ہے، کانفرنسوں اور نجمنوں کا جوش و خروش بھی ہم دیکھ چکے ہیں۔ وعظ و پند کے پر اثر جلسے بھی ہمیں متاثر کر چکے ہیں لیکن اس موقع پر جو کچھ آنکھوں نے دیکھا وہ ان سب سے بالاتر، ان سب سے عجیب تر، ان سب سے حیرت انگیز تھا۔ یہ پہلا ہی موقع تھا کہ ترکی ٹوپیاں اور عمامے دوش بدوش نظر آتے تھے۔ یہ پہلا ہی موقع تھا کہ مقدس علماء عیسائی فرماں روا کے سامنے دلی شکر گزاری کے ساتھ ادب سے خم تھے یہ پہلا ہی موقع تھا کہ شیعہ و سنی ایک مذہبی تعلیم گاہ کی رسم ادا کرنے میں برابر کے شریک تھے۔ یہ پہلا ہی موقع تھا کہ ایک مذہبی درس گاہ کا سنگ بنیاد ایک غیر مذہب کے ہاتھ سے رکھا جا رہا تھا (مسجد نبوی ؐ کا منبر بھی ایک نصرانی نے بنایا تھا) غرض یہ پہلا ہی موقع تھا کہ ایک مذہبی سقف کے نیچے نصرانی، مسلمان، شیعہ، سنی، حنفی، وہابی، رند، زاہد، صوفی، واعظ، خرقہ پوش اور کج کلاہ سب جمع تھے۔ آباد ایک گھر ہے جہان خراب میں ہز آنر لیفٹیننٹ گورنر بہادر ممالک متحدہ نے منظور فرمایا تھا کہ وہ دار العلوم ندوۃ العلماء کا سنگ بنیاد اپنے ہاتھ سے رکھیں گے۔ یہ تقریب 28نومبر1908ء کو عمل میں آتی۔ چونکہ ندوہ کا سالانہ جلسہ بھی ان ہی تاریخوں میں ہونے والا تھا اس لیے دو طرفہ کشش کی وجہ سے گویا تمام ہندوستان امنڈ آیا۔ افسوس یہ ہے کہ یہ کوئی تعطیل کا زمانہ نہ تھا، ورنہ شاید منتظمین جلسہ انتظام مہمانداری میں ہمت ہار جاتے، معزز شرکائے جلسہ میں علماء سے مولوی، مولانا عبدالباری صاحب فرنگی محلی، مولوی شاہ ابو الخیر صاحب غازیپوری، مولانا ذاکر حسین صاحب، مولوی ابن حسن صاحب مجتہدا العصر، مولوی شاہ سلیمان صاحب پھلوار دی، مولوی نظام الدین صاحب جھجری، مولوی مسیح الزماں خان صاحب استاذ حضور نظام، اور ارباب وجاہت میں سے جناب آنریبل راجہ صاحب محمود آباد، جناب سر راجہ صاحب جہانگیر آباد، نواب وقار الملک، کرنل عبدالمجید خان فارن منسٹر پٹیالہ، صاحبزادہ آفتاب احمد خان، شیخ عبدالقادر بیرسٹر، حاجی محمد موسیٰ خان صاحب، رئیس علی گڑھ خان بہادر سید جعفر حسین صاحب، مولوی محمد حسین صاحب مقبہ رئیس بمبئی، بابو نظام الدین رئیس امرتسر، حاجی شمس الدین صاحب سیکرٹری حمایت اسلام لاہور، مرزا ظفر اللہ خان صاحب سب جج جالندھر، شیخ سلطان احمد رئیس ہوشیار پور، خان بہادر شیخ غلام صادق صاحب رئیس امرتسر، راجہ نوشاد علی خان صاحب، صفی الدولہ، نواب علی حسن خان لکھنو، حافظ نذر الحمن صاحب رئیس عظیم آباد جلسہ میں شریک تھے۔ تین بجے سے ذرا پہلے تمام لوگ بہ اسلوب بیٹھ گئے اور ارکان انتظامیہ ندوہ ہر آنر کے استقبال کے لے لب فرش دو رویہ صف باندھ کر کھڑے ہوئے کمشنر صاحب لکھنو نے سیکرٹری دار العلوم (شبلی نعمانی) کو لیفٹیننٹ گورنر صاحب بہادر سے ملایا اور پھر سیکرٹری موصوف نے تمام ارکان انتظامیہ کا ایک ایک کر کے لیفٹیننٹ گورنر سے تعارف کرایا۔ ہر آنر سرخ نابات کے خیمہ میں لیڈی صاحبہ کے ساتھ چاندی کی کرسی پر رونق افروز ہوئے اول دار العلوم کے قاری نے قرآن مجید کی چند آیتیں تلاوت کیں۔ شاہ سلیمان صاحب پھلوار دی نے ہز آنر سے اڈریس پڑھنے کی اجازت طلب کی، مولوی مشیر حسین صاحب قدوائی نے اڈریس پڑھا ہز آنر نے نہایت خوش لہجگی اور صفائی سے اڈریس کا جواب دیا۔ مولوی خلیل الرحمن صاحب نے عربی اڈریس جو ساٹن پر چھپا ہوا تھا، زریں کار چوبی خریطہ میں رکھ کر پیش کیا، ہز آنر نے خود اپنے ہاتھ میں لے کر اڈیکانگ کے حوالہ کیا پھر سنگ بنیاد نصب کرنے کے لیے تشریف لے گئے۔ اور مولوی شاہ ابو الخیر صاحب، کرنل عبدالمجید خاں صاحب آنریبل راجہ صاحب محمود آباد، نواب وقار الملک، حافظ عبدالحلیم صاحب رئیس کان پور، نواب علی حسن خان صاحب رئیس بھوپال، منشی احتشام علی صاحب رئیس کاکوری، منشی اظہر علی صاحب بی اے وکیل لکھنو، حکیم عبدالعزیز صاحب، حکیم عبدالوالی صاحب ،مولوی محمد نسیم صاحب وکیل ان کے ساتھ گئے تھے، سنگ بنیاد کے نصب کرنے کے وقت دوبارہ قاری صاحب نے قرآن مجید کی تلاوت کی۔ واپسی کے وقت ارکان انتظامیہ نے موٹر کار تک مشایعت کی اور یہ دلفریب تماشا ختم ہو گیا۔ (الندوہ جلد5نمبر11) ذیعقد1326ھ، مطابق دسمبر1908ء ایک مذہبی مدرسہ اعظم کی عمارت کے لیے تمام ہندوستان کے مسلمانوں سے درخواست تمام ہندوستان میں ایک بھی ایسا خالص دینی اور مذہبی مدرسہ نہیں ، جو بلحاظ جامعیت و سعت و عظمت کے مدرسۃ اعظم کہلانے کا مستحق ہو، یعنی جس میں تمام علوم دینیہ یعنی تفسیر، حدیث، فقہ، اصول کی تعلیم ایسے کمال کے درجہ تک دی جاتی ہو کہ تحقیق کا مرتبہ حاصل ہو سکے۔ جس میں اسلامی علوم کی تمام قدیم اور نادر اور کم یاب کتابیں فراہم کی گئی ہوں۔ جس میں طالب علموں کو تصنیف و تالیف کی تعلیم دی جاتی ہو۔ جس میں ایسے لوگ تیار کیے جاتے ہوں جو مخالفین مذہب کے اعتراضات کا جواب آج کل کے مذاق کے موافق دے سکیں۔ جس میں حکومت موجودہ کی زبان بھی بقدر ضرورت پڑھائی جاتی ہو۔ جس کی عمارت وسیع پر فضا اور عظیم الشان ہو ہندوستان میں 6کروڑ مسلمان ہیں ان کی سینکڑوں دینوی تعلیم گاہیں ہیں سینکڑوں چھوٹے چھوٹے مدرسے ہیں لیکن ایک بھی مذہبی مدرسہ اعظم نہیں ہے یہ کس قدر افسوس اور شرم کی بات ہے۔ اس غرض کے پورا کرنے کیلئے لکھنو میں ندوہ کا دار العلوم قائم کیا گیا اور اگرچہ ابھی اس کا محض خاکہ تیار ہوا ہے لیکن جو ضرورتیں اوپر بیان کی گئیں ان سب کی داغ بیل ڈال دی گئی ہے تمام مذہبی اور عربی علوم کی تعلیم ہوتی ہے، عربی کی زبان دانی اس درجہ تک سکھائی جاتی ہے کہ طلبہ برجستہ بڑے بڑے جلسوں میں عربی زبان میں لیکچر دے سکتے ہیں، تصنیف و تالیف کی مشق کرائی جاتی ہے جس کا اندازہ طلبہ کے لکھے ہوئے مضامین سے ہو سکتا ہے جو الندوہ میں شائع ہوتے رہتے ہیں۔ علوم جدیدہ اور حکومت موجودہ کی زبان بھی بقدر ضرورت سکھائی جاتی ہے۔ یہ تمام امور ابھی ابتدائی پیمانے پر ہیں اور کوشش ہے کہ اعلیٰ درجہ کی حد تک پہنچ جائیں۔ لیکن نہایت افسوس ہے کہ عمارت نہایت پست حالت میں ہے رفعت اور عظمت ایک طرف طالب علموں کے رہنے کی بھی گنجائش نہیں۔ عمارت کا جو نقشہ تجویز کیا گیا ہے، اس کی یہ قطع ہے کہ چاروں طرف طالب علموں کے رہنے کے مکانات، بیچ میں مدرسہ کی عمارت اور ایک طرف عظیم الشان مسجد ہو گی۔ تمام علوم کے درس کے لیے الگ الگ کمرے ہوں گے یعنی تفسیر کے لیے جدا، حدیث کے لیے جدا، فقہ کیلئے جدا، ادب کے لئے جدا اور علیٰ ہذا القیاس یہ کمرے ان ہی علوم کے نام سے موسوم ہوں گے مثلاً دار التفسیر، دار الحدیث، دار الفقہ وغیرہ وغیرہ۔ جورئیس یا امیر جس کمرے کی تعمیر اپنے صرف سے کرائیں گے اس کمرے کی پیشانی پر ان کا نام کندہ ہو گا اور اس طرح ابدالا بد تک یہ خیر جاری ان کے نام سے قائم رہے گا۔ جو کمرہ عام چندہ سے تیار ہو گا، ان پر ان اشخاص کے نام کندہ کئے جائیں گے جو کم از کم سو روپیہ عطیہ دیں گے۔ چونکہ یہ عمارت ایک عظیم الشان عمارت ہو گی جس کا تخمینہ (مسجد کے علاوہ) پچاس ہزار سے کم نہیں ہو سکتا اس لیے ندوہ کی طرف سے ہم چند ارکان نے ارادہ کیا ہے کہ مشہور مقامات میں دورہ کر کے اس رقم کو فراہم کریں امید ہے کہ بزرگان قوم ہماری اور اپنی شرم رکھیں گے۔ اور ایک خالص مذہبی کام کے انجام دینے میں ہم کو مایوس نہ کریں گے۔ (الندوہ) ٭٭٭٭٭٭ جلسہ دستار بندی ندوۃ العلماء 15,16محرم1324ھ اس سے کسی کو انکار نہیں ہو سکتا کہ ندوہ کے مقاصد اور اغراض نہایت اہم اور ضروری ہیں اور اسی بنا پر شروع شروع میں تمام ملک میں ندوہ کی طرف وہ جوش التفات ظاہر کیا گیا جو حیرت انگیز تھا، لیکن جو نتائج لوگوں کے خیال میں تھے چونکہ اس کا ظہور نہیں ہوا اس لیے لوگ افسردہ ہوتے گئے۔ ارکان ندوہ اس حالت سے بے خبر نہ تھے، لیکن وہ ہتھیلی پر سرسوں کیونکر جما سکتے تھے اور جو امور سالہا سال میں انجام پانے کے قابل ہیں وہ دو چار سال میں کیونکر لوگوں کو دکھا سکتے تھے۔ ندوہ کے مقاصد میں سے ایک بڑا مقصد ایک وسیع دار العلوم کھولنا اور طلبہ کو جدید ضرورتوں کے موافق تعلیم و تربیت دینا تھا، چنانچہ نمونے کے طور پر ایک دار العلوم کھولا گیا اور اس میں دو نصاب مقرر کئے گئے ایک فراغ تحصیل کا اور دوسرا تکمیل کا خدا کا شکر ہے کہ پہلے نصاب کے موافق طلبہ کی ایک جماعت فارغ التحصیل ہو گئی اور اس تقریب سے ان کی عطائے سند اور تقسیم انعام کا جلسہ 1,2 مارچ1907 ء کو لکھنو میں قرار دیا گیا۔ ان جلسوں کی کارروائی حسب ذیل ہو گی۔ 1مشہور علماء و واعظین تقریر کریں گے اور وعظ فرمائیں گے 2طلبائے فارغ التحصیل مختلف علمی عنوانوں پر تقریر کریں گے، جس سے ان کی قابلیت اور لیاقت و خیالات اور قوت تقریر کا اندازہ ہو گا۔ 3 طلباء سے عربی زبان میں مضامین لکھوائے جائیں گے۔ 4 طلبائے فارغ التحصیل کو سند دی جائے گی اور انعام تقسیم ہو گا۔ 5 تجاویز ترقی و استحکام دار العلوم پیش ہوں گی 6 ناظم ندوہ اور صدر ندوہ اور ارکان ندوہ کا جدید انتخاب ہو گا۔ تمام بہی خواہان اسلام سے عموماً اور علما و واعظین و مہتممان انجمن ہائے اسلامیہ و مدارس اسلامیہ سے خصوصاً امید ہے کہ تاریخ معینہ پر ضرور تشریف لائیں۔ مہمانوں کے ٹھہرنے کا انتظام دار العلوم ندوہ واقع گولا گنج میں کیا جائے گا۔ خوردو نوش اور قیام کا انتظام ندوہ کی طرف سے صرف ان لوگوں کیلئے کیا جائے گا جو ندوہ کے ممبر ہوں۔ ممبری کی فیس دو روپیہ ہے۔ الندوہ جلد 3نمبر12 ذلحجہ 1324ھ مطابق جنوری 1907ء ٭٭٭٭٭ ہزہائنس سر آغا خاں (ندوۃ العلماء میں) نہایت خوشی کی بات ہے کہ اب ندوۃ العلماء کی طرف، قوم کے سر بر آوردہ اصحاب کی توجہ مبذول ہوتی جاتی ہے۔ مسلم لیگ کے جلسہ میں جب سیکرٹری دار العلوم نے جناب ہزہائنس سر آغا خان سے ملاقات کی تو جناب ممدوح نے ندوہ کے متعلق کچھ مشورے کیے۔ اس تقریر میں سیکرٹری دار العلوم نے ہزہائنس سے خواہش ظاہر کی کہ وہ کلکتہ جاتے ہوئے لکھنو میں ندوہ کو ملاحظہ فرمائیں۔ جناب ممدوح نے نہایت خوشی سے قبول فرمایا چنانچہ 31جنوری 1910ء کو ہزہائنس دہلی سے لکھنو میں رونق افروز ہوئے اور 3فروری 1910ء کو جدید عمارت دار العلوم کے زیر تعمیر ہال میں ایک نہایت شاندار جلسہ ہوا، ہال نہایت خوبی سے سجایا گیا تھا۔ تقریباً پانچ سو چیدہ اصحاب کا مجمع تھا جن میں آنریبل راجہ علی محمد خاں بہادر، آنریبل سر راجہ تصدق رسول خاں بہادر، راجہ شعبان علی خان، مولانا عبدالباری صاحب فرنگی محلی کا نام خاص طور پر قابل ذکر ہے۔ ہزہائنس ٹھیک 12بجے تشریف لائے طلبہ نے جن کی دو رویہ قطار سڑک کے دونوں طرف کھڑی تھی، اہلاً و سہلاً و مرحبا کا زور سے غلغلہ بلند کیا۔ سیکرٹری دار العلوم اور مولانا سید عبدالحئی صاحب اور دیگر ارکان ندوہ نے ہز ہائنس کا استقبال کیا۔ ہزہائنس ہال میں تشریف لائے اور نقرئی کرسی پر جلوس فرمایا دار العلوم کے ایک طالب علم نے قرآن مجید کی چند آیتیں تلاوت کیں۔ اس وقت ہزہائنس اور تمام شرکائے جلسہ کھڑے ہو گئے اس کے بعد سیکرٹری دار العلوم ندوہ نے فارسی زبان میں اڈریس پڑھا۔ چونکہ ہزہائنس کا اصلی مقصد، طلبائے دار العلوم کے خیالات و معلومات کا اندازہ کرنا تھا اس لیے جناب ممدوح نے طلبہ کو بلا کر ان کو تقریر کا موقع دیا اور بعض طلبہ کے لیے خود تقریر کا موضوع متعین کر دیا۔ طلبہ نے نہایت شستہ اور فصیح عربی میں تقریریں کیں۔ بالآخر ہزہائنس نے کھڑے ہو کر نہایت فصیح فارسی میں برجستہ تقریر کی جس میں دار العلوم کے مقاصد اور تعلیم کی نہایت تعریف کی اور فرمایا کہ ندوہ کی تعلیم کے سلسلے تمام ہندوستان میں پھیلنے چاہئیں تاکہ تمام مذہبی گروہ میں یہ روشن خیالی پیدا ہو جائے، یہ بھی فرمایا کہ طلبہ کو تعلیم کی تکمیل کے لیے یورپ کی یونیورسٹیوں میں بھیجنا چاہیے اور جس طرح یہودی اور عیسائی پیشوایان مذہب علوم جدیدہ کو مذہب کی حمایت کے لیے سیکھتے ہیں، علمائے اسلام کو بھی اسی طرح سیکھنا چاہیے تاکہ جدید تعلیم یافتہ گروہ پر اپنا مذہبی اثر ڈال سکیں اور ان کی رہبری کر سکیں، اخیر میں فرمایا کہ میں ہمیشہ ندوہ کا معین اور موید رہوں گا۔ ہزہائنس کے بیٹھ جانے کے بعد مولوی عبدالباری صاحب فرنگی محلی نے ہزہائنس کی تشریف آوری کا شکریہ ادا کیا اور فرمایا کہ ہم کو ہزہائنس جیسے لوگ درکار ہیں جو مسلمانوں کی ٹوٹی ہوئی کڑیوں کو ملا سکیں۔ جلسہ کے ختم ہونے کے بعد معززین جلسہ نے ہال کے دروازہ تک ہزہائنس کی مشایعت کی اور ہزہائنس موٹر پر فرودگاہ کو روانہ ہو گئے ہم اس موقع پر اڈریس کو درج کرتے ہیں۔ ٭٭٭٭٭٭ بہ پیش گاہ خدام عالی مقام جناب مستطاب حضور ہزہائنس سر آغا خان بہادر دام غرہ و مجدوہ ما جملہ ارکان دار العلوم ندوہ بکمال خلوص و نہایت صمیم قلب التفات و توجہ سامی راسپاس گذار ستیم زحمتی کہ بندگان عالی بہ تشریف آورون دریں درس گاہ بر خودر وا داشتند ما جملہ ارکان دار العلوم و اسلامیان ایں شہر بکمال خلوص و نہایت امتنان بہ سپاس گذاری و منت پذیری آں تر زباں مستیم ولا جاہا ! ما اجازت طلب ہستیم کہ چیزے از اسباب تاسیس ایں مدرسہ در پیش گاہ سامی باختصار تمام عرصہ داریم والا جاہا! ایں خود حاجت باظہار ندارد کہ ملت اسلام، با قلیم یا نژاد، یا خانوادہ اختصاصے ندارد بلکہ ہر کس از ہر کشورد و ہر نژاد کہ باشد محض ایں کہ کلمہ اسلام رابر زبان آورد مسلم می شودود در جملہ حقوق ملت دین با مسلمانان قدیم برابری تواند کرد۔ بناء علی ذالک از آغاز اسلام جماعہ محصوصہ بایں کارلودہ است کہ علوم دینیہ و تاریخ ملت و زبان عرب رانگہداری بکند و متکفل ایں امور باشد، ہمیں جماعت است کہ بخطاب علما موصوف است، دور عہد اسلام ہمہ آنا نکہ واری فلسفہ و تاریخ و ادب و بلاغت بودہ اندازیں جماعت بودہ اند، یکے از واجبات و مزایامی ایں جماعت آنست کہ مقتضیات احوال را در نظر داشتہ باشد یعنی در ہر عہدے بہر طوری کہ در خور آں وقت دآں عہد باشد، تحفظ اسلام و حالت اسلامیان تو اند کرد، دریں عہد در جملہ امور از تمدن و معاشرت و اخلاق و تعلیم، انقلاب بزرگ پیدا گشتہ است، اما در فعیت کہ علمائے عہد ما از مقتضیات روزگار بکلی غافل بودہ اندازیں ممر گامی دراہ ترقی نزدہ ہماں بر حالت پیشنیہ قناعت داشتند، یکے از عواقب و خیمہ ایں حالت آں بود کہ علماء اور نظر مردم کہ تربیت یافتہ دانشہائے تازہ ہستند و متی و جاہی نماند و علما از کار ہدایت و ارشاد بالکیہ معطل گشتند، و نظر بریں اسباب جماعہ از علما انجمن موسوم بہ ندوۃ العلماء بر پا کروند کہ اہم المطالب او دوکار بودہ است، یکے اصلاح نصاب و طریقہ تعلیم و دیگر رفع مخاصمت و نزاع کہ درمیانہ طوائف مختلفہ اسلام حادث گشتہ است، اماچوں عامہ علماء ہیچگونہ بر اصلاح نصاب راضی ہودہ اند ندوۃ العلماء را تا سیس مدرسہ نا گزیز افتاد کہ نصاب تعلمیس با اندازہ مقتضیات ایں عہد باشد وایں ہمہ دار العلوم ست کہ در عمارت جدیدہ او فراہم گشتہ ایم از جملہ اصلاحاتی کہ در نصاب تعلیم بر روئے کار آمد یکے ازاں تعلیم فلسفہ جدید و زبان انگریزی ست، زبان انگریزی اگرچہ چند سال ست کہ داخل نصاب بودہ است، اما چوں عامہ مردم و خاصتہً علمائے قدیم، در مخالفت او شدت واشتند سالے چندا جراے او معطل ماند، تا آنکہ دو سال ست کہ تعلیم ایں زبان را بر جملہ اولاد مدرسہ لازم کر دیم، یکے از مختصات ایں مدرسہ تکمیل فن ادب و بلاغت ست کہ دو کس ازاہل زبان را بکار تدریس ایں فن مقرر داشتہ ایم و چوں کار آموزان دانش را براے وسعت نظر و توسیع معلومات از کتب خانہ عمومیہ گزیر نہ بود، ہم در محوطہ دار العلوم کتب خانہ بزرگی بنیاد نہادیم کہ وار اے ہفت ہزار کتب نادرہ خطیہ و مطبوعہ است و می تواں گفت کہ یکے از اعظم کتب خانہائے ہندست، مزیت تعلیم ایں مدرسہ تابہ ایں درجہ رسیدہ کہ گویا از مسلمات عامہ است ڈاکٹر ہارویز کہ یکے از فاضل مستشرقین ست و نواب محسن الملک استعداد تلامذہ ایں مدرسہ رابر محک اعتبار زدہ بہ نوعے خاص اعتراف نمودہ اند، چنانکہ از تحریرات ایشاں کہ ور کتاب معاینہ درج ست اندازہ تواں کرد طلاب ایں مدرسہ می تو انند کہ ار تجالاً بہ زبان عربی نطق بد ہند دایں طور در اقلیم ہند تا حال معمول و مشاہد نبودہ است و از جملہ مزایامی تربیت ایں مدرسہ آنست کہ اولاد اواز تعصب و عناد کہ گویا خاصہ جماعت علماء شدہ است مطلقاً بر کراں بود اندو مقالات ایشاں کہ در مجلہ الندوہ ہر ماہی اشاعت می پزیر و بریں دعویٰ آتیے روشن و دلیلے واضح ست وچوں نتائج تعلیم و تربیت ایں مدرسہ ہر روز واضح ترمی گشت اہل ملت رابر و التفات خاص پدید آمد، حضور فرمانروائے ریاست عالیہ حیدر آباد از آغاز کارباعانت و ہمت مبذول واشتند، جناب ہزہائنس بیگم صاحبۃ بھوپال چند ماہ است کہ بہ عطیہ دو نیم صد ماہوار بر ما منت گزاشتہ اند، جناب بیگم صاحب ریاست بھالپور پنجاہ ہزار روپیہ برائے تاسیس عمارت دار العلوم نوازش فرمودند، وبالا ترازہمہ آنکہ گورنمنٹ انگریزی بعطائے پنجصد ماہوار صیغہ تعلیم دینوی را قوت و استحکام وادہ است و ما جملہ مسلمانان ہند سپاس گذار ایں منت بے اندازہ ہستیم، در باب توسیع تعلیم آنچہ ما پیس نظر داریم بسیار بالا تراران ست کہ تا حال بروی کار آمدہ است، مامی خواہیم کہ طلاب ایں درسگاہ پس از تکمیل اینجا بفر نگشاں بروند داز مستشرقین آنجا علوم ادبیہ رافر گیرند، و در اکتشافات و تحقیقات تازہ علمائے آں دیار را دد ستیاری تو انند کرد، ہمنچیں می خواہیم کہ طلاب ایں مدرسہ در علوم و فنون جدیدہ مہارت کلی داشتہ باشند۔ والا جاہا! ترقیہ ملت وامت را آنچہ از ہمہ مقدم تراست این ست کہ درمیانہ ایشاں طائفہ موجود باشد کہ در محاسن اخلاق و علوے نفس و پاکیزگی سرشت و نیکی طبع و ایثار نفس مردم را نموداری و مثالی باشد تا مردم از ہمہ جنس با و اقتدا آرند واہگیرامی نیر دے روحانی، عالمے را تو اند مسخر کرد اگر خدا ناکردہ ایں چنیں گروہے از میان بر خیز و بنای اخلاق و عمل یکبارہ از پامی افتد و شیرازہ مزای انسانی از ہم می گسلد، دریں حالت ملت دامت پیکرے خواہد بودبے جان و تنے بے سرد گلے بیرنگ و آئینہ بے صفائ۔ آنچہ از دار العلوم ندوہ نصب العین ما بودہ است، احداث ہمنچیں طائفہ ایست واگر تبائید الہی کمتر عددی ہم ازیں گونہ توانیم کرد، انتہائے آرزو ما خواہد بود۔ بار دیگر ماہ جملہ ارکان دار العلوم ندوہ سپاس تشریف آوری بندگان سامی بجامی آریم و دعامی کنسیم کہ ایزد توانا ذات ستودہ صفات راز جملہ مکارہ آفات محفوظ و مصنون باد۔ (الندوہ جلد7نمبر3مارچ1910ئ) ٭٭٭٭٭٭٭ دار الاقامہ کے کمروں کی تیاری دار العلوم کی عمارت بننی شروع ہو گئی۔ اس کے آس پاس جو تعلیمی عمارتیں گورنمنٹ اور تعلقہ داران اودھ کی طرف سے بن رہی ہیں یعنی صنعتی کالج اور کیننگ کالج کا بورڈنگ، ان عمارتوں نے دار العلوم کے منظر کو اور خوبصورت بنا دیا، حسن اتفاق سے چونکہ دار العلوم کی زمین بلند اور نمایاں واقع ہوئی ہے اسی لیے اس کے پہلو کی عمارتیں جو اب کی عمارتیں معلوم ہوتی ہیں ہندوستان میں یہ پہلا موقع ہے کہ جدید علوم اور قدیم علوم کی درسگاہیں پہلو بہ پہلو بن رہی ہیں اور ندوہ کا مقصد بھی یہی ہے۔ ڈانڈا ملا دیا ہے ارم سے تتار کا لیکن دار العلوم کی عمارت اس وقت تک معطل پڑی رہے گی جب تک اس کے ساتھ کا بورڈنگ (دار الاقامہ) بھی نہ بن جائے سید جعفر حسین صاحب نے دار الاقامہ کے کمروں کا خاکہ اور صحیح تخمینہ موقع زمین دیکھ کر قائم کیا ہے، فی کمرہ سات سو روپے لاگت آئے گی اور ہر کمرے میں تین طالب علم رہ سکیں گے، ان کمروں کی تیاری کے لیے مختلف تجویزیں قرار دی گئی ہیں۔ 1چونکہ دار العلوم کی عمارت کی لاگت ایک معزز خاتون نے عنایت کی ہے اس لیے دار الاقامہ بھی خواتین کی طرف سے تیار کرایا جائے۔ ایک ایک کمرہ ایک ایک خاتون کے نام سے بنے اور عمارت کی پیشانی پر ان کا نام کندہ کرایا جائے جو بزرگ اپنی مستورات کی یادگار میں ایسے کمرے تعمیر کرانا چاہیں وہ بھی اس چندے میں شریک ہو سکیں گے دار الاقامہ کے اس سلسلے کا کوئی موزوں نام آئندہ تجویز کیا جائے گا۔ 2معزز اشخاص کی طرف سے کمرے تیار کرائے جائیں 3ہر شہر کے مسلمانوں کے مجموعے چندے سے ایک ایک کمرہ تیار کرایا جائے۔ تینوں قسم کے چندہ دینے والوں کے نام اس وقت تک جو ہمارے پاس آ گئے ہیں، ہم ذیل میں درج کرتے ہیں لیکن ابھی تک رقوم وصول نہیں ہوئی ہیں کیونکہ ابھی تک ان بزرگوں سے رقوم طلب نہیں کی گئی تھیں لیکن اب اس فنڈ کا علیحدہ حساب بنگال بینک میں کھول دیا گیا ہے اس لیے درخواست ہے کہ لوگ اپنا اپنا چندہ ارسال فرمائیں: جناب ہزہائنس نواب بیگم صاحب ریاست جنجیرہ علاقہ بمبئی ایک ہزار روپیہ، یہ رقم وصول ہو چکی۔ جناب بیگم صاحبہ نواب علی حسن خاں صاحب بھوپال جناب مولوی حبیب الرحمن خان صاحب رئیس بھیکن پور علی گڑھ بہ یاد گار اہلیہ مرحوم خود تین کمرے جناب حافظ عبدالحلیم صاحب رئیس کان پور جناب مسٹر محمد اسحق صاحب وکیل ہائی کورٹ الہ آباد، بیادگار اہلیہ مرحومہ خود جناب شیخ جان محمد صاحب رئیس ہوشیار پور پنجاب، پانچ سو روپے وصول ہو چکے ہیں جناب فضل حق صاحب کا کا خیل جاگیر دار سرحد ضلع پشاور، تخمیناً ایک ہزار روپے قیمت کے زیورات بھیجے ہیں جناب حاجی شیخ نذیر حسین صاحب تعلقہ دار گدیہ ضلع بارہ بنکی مسلمانان پشاور معرفت جناب مولوی جمیل احمد صاحب چیف کمشنر صوبہ سرحد سے چھ سو سے زائد رقم وصول ہو چکی ہے جناب مولوی سید احمد صاحب امام جامع مسجد دہلی از جانب مسلمانان دہلی مسلمانان کوہاٹ مسلمانان مدراس معرفت جناب مولانا عبدالسبحان صاحب تاجر اعظم مدراس، ایک ہزار نو سو سے زائد رقم وصول ہو چکی ہے۔ جناب راجہ نوشاد علی خان صاحب لکھنو جناب فتح محمد صاحب اسٹور کیپر جالندھر، پانچ سو روپے وصول ہو چکے ہیں جناب مولوی حکیم محمد ولی صاحب کسمنڈری سپرنٹنڈنٹ سنٹرل جیل گلبرگہ دکن، تین سو روپیہ (الندوہ جلد 6نمبر5) ماہ جون 1909ء مطابق جمادی الاول 1327ھ ٭٭٭٭٭٭ مصر کی یونیورسٹی ہمارے ناظرین کو معلوم ہو گا کہ مصر کی قومی یونیورسٹی جس کا نام جامع مصریہ ہے اس کو قائم ہوئے صر ف ایک سال کی مدت ہوئی اتنے تھوڑے سے زمانہ میں اس نے نہایت ترقی کی اور اس کی ترقی کی رفتار روز بروز بڑھتی جاتی ہے۔ یورپ کی سلطنتوں نے اس کی تائید و اعانت پر آمادگی ظاہر کی ہے۔ چنانچہ اٹلی نے اطلاع دی ہے کہ کیمسٹری کا جو کارخانہ یونیورسٹی میں قائم کیا جائے گا اس کے تمام آلات اور سامان اٹلی کی سلطنت ہدیۃ ارسال کرے گی۔ حال میں احمد توفیق راغب نے ساڑھے سات ہزار روپے یونیورسٹی فنڈ میں عنایت کیے ہیں۔ یونیورسٹی کا ایک بڑا مقصد یہ بھی ہے کہ اپنے یہاں کے طلبہ کو خاص خاص علوم و فنون کی تکمیل کے لیے یورپ کی یونیورسٹیوں میں بھیجتے ہیں۔ اس سے پہلے ایک جماعت جا چکی ہے اور اب دوسری جماعت عنقریب روانہ ہو گی۔ قاعدہ یہ ہے کہ جو طلبہ اس غرض کے لیے تیار ہوتے ہیں ان کا مختلف علوم و فنون میں ایک خاص امتحان لیا جاتا ہے، چنانچہ علم ادب کے چند سوالات ہم اس غرض سے الموید سے نقل کرتے ہیں کہ ہمارے یہاں کے علماء اندازہ کر سکیں کہ اب علم ادب پر کن حیثیتوں سے نگاہ ڈالی جاتی ہے اور فن ادب کے کمال کے لیے کس قسم کے معلومات ضروری ہیں۔ 1سبعہ معلقہ کے ہر قصیدہ میں جو شعر سب سے اچھا ہے اس کو لکھو اور اس کی ترجیح کے وجوہ بتاؤ ہر قصیدہ کا موضوع کیا ہے اور اس سے اہل عرب کے کن اخلاق اور عادات کا ثبوت ہوتا ہے۔ 2 بتاؤ کہ ایران اور رومہ کی انشاء پردازی کا اثر عرب کی زبان پر کیا پڑا۔ یہ اثر کن لوگوں نے پیدا کیا، مثالوں اور سندوں سے اس کا ثبوت دو۔ 3 بصرہ اور کوفہ کی حالت اس حیثیت سے لکھو کہ وہ علوم عربیت کے تربیت گاہ تھے۔ 4 عرب میں فن موسیقی کی تاریخ لکھو، اور بتاؤ کہ عرب کے تمدن اور فن ادب پر اس کا کیا اثر ہوا۔ 5 کیا دولت عباسیہ اور امویہ میں ایسے شعراء بھی پائے جاتے ہیں جو عرب نہ تھے لیکن علم ادب میں امام فن سمجھے جاتے تھے ان میں سے بعضوں کے نام اور ان کے حالات لکھو۔ (الندوہ جلد6نمبر5) جمادی الاولیٰ 1327ھ مطابق جون1909ء ٭٭٭٭٭٭ بھوپال میں ندوۃ العلماء کا وفد اور حضور سرکار عالیہ خلدھا اللہ تعالیٰ کی فیاضی یہ طے پا چکا تھا کہ اوائل سرما میں ندوۃ العلماء کا وفد ڈیپوٹیشن مستقل سرمایہ کے جمع کرنے کیلئے اطراف ملک میں روانہ ہو گا۔ چنانچہ 19اکتوبر1905ء کو پہلا وفد لکھنو سے روانہ ہو ااور سب سے پہلے اس نے بھوپال کی اسلامی ریاست کی طرف رخ کیا وفد کا جس طرح استقبال ہوا جو کارروائیاں ہوئیں جن کامیابیوں کی امید ہے یہ امور ہم آئندہ لکھ سکیں گے لیکن اس وقت ہم اس کیفیت اور اثر کو ظاہر کرنا چاہتے ہیں جو ہمارے دل پر حضور سرکار عالیہ کی باریابی اور ان کی ہم کلامی کا شرف حاصل ہونے سے ہوا۔ مجھ کو حکمرانان اسلام میں سے متعدد روسا اور والیان ملک کی خدمت میں حاضر ہونے کا اتفاق ہوا ہے ان سب گفتگو اور ہم کلامی کی بھی نوبت آتی ہے لیکن میں بغیر کسی قسم کی رواداری اور تملق کے اس کہنے پر مجبور ہوں کہ میں نے اس وقت تک کسی رئیس یا والی ملک کو اس قدر وسیع المعلومات، خوش تقریر، فصیح اللسان، نکتہ سنج اور دقیقہ رس نہیں دیکھا۔ وہ تقریر فرما رہی تھیں اور میں محو حیرت تھا کہ کیا دہلی اور لکھنو کی سر زمین کے سوا اور کسی ملک کا آدمی بھی ایسی شستہ اور فصیح اردو کے بولنے پر قادر ہو سکتا ہے؟ وہ مختلف علمی اور انتظامی امور پر گفتگو کرتی تھیں اور میں سوچتا تھا کہ کیا مخدرات اور جملہ نشین بھی اس قدر معلومات حاصل کر سکتی ہیں؟ وہ لطف و عنایت سے تواضع کے لہجہ میں مجھ سے دریافت فرماتی تھیں کہ آپ کو یہاں کسی قسم کی تکلیف تو نہیں اور میں ہمہ تن استعجاب تھا کہ کیا مجھ جیسے ہیچ میرز کو ایک حکمران ذوی الاقتدار اس طرح مخاطب بنا سکتا ہے۔ سب سے پہلے جناب ممدوحہ نے (میزبانہ اخلاق کے بعد) مجھ سے سوال کیا کہ آپ نے یہاں کے مدارس دیکھے چونکہ دیوالی کی تعطیل کی وجہ سے مدارس بند تھے میں نے عرض کیا کہ نہیں، اس پر افسوس ظاہر کیا اور فرمایا کہ کاش آپ ایسے زمانہ میں آتے کہ مدارس کو دیکھ کر رپورٹ کر سکتے ہیں۔ میں نے وعدہ کیا کہ پھر حاضر ہوں گا، اس پر نہایت مسرت ظاہر کی اور کہا یہ میرے فائدہ کی بات ہے۔ عربی علوم و فنون کے تنزل پر نہایت افسوس ظاہر کیا اور فرمایا کہ میں نے خود جس پایہ کے علما و فضلا دیکھے تھے، آج ایک بھی اس درجہ کا نظر نہیں آتا، میں نے کہا کہ اسباب ہی ایسے پیدا ہو گئے ہیں انگریزی گورنمنٹ میں عربی دانی کسی قسم کی معاش کا ذریعہ نہیں بن سکتی اور دنیا کا کوئی کام بغیر انتظام معاش کے انجام نہیں پا سکتا، اسلامی ریاستیں البتہ عربی کو سنبھال سکتی تھیں۔ لیکن وہ بھی تمام نوکریوں اور ملازمتوں میں انگریزی دانی کی شرط لگاتی جاتی ہے۔ میری اس تقریر کے جواب میں کچھ جناب ممدوحہ نے فرمایا اس نے نہ صرف مجھ کو ساکت کر دیا بلکہ میں ندامت اور الفعال سے عرق عرق ہو گیا فرمایا کہ۔ ’’ آپ لوگ جس طرح عربی کی تعلیم دیتے ہیں، اس سے کوئی شخص اس قابل نہیں ہو سکتا کہ کسی ملکی خدمت کو انجام دے سکے؟ عربی خواں طلبہ کا یہاں یہ حال ہے کہ پندرہ پندرہ بیس بیس برس سے عربی پڑھ رہے ہیں اور فارغ التحصیل بھی نہیں ہوتے اور صرف اس وجہ سے کہ اگر فراغ کا نام ہو گا تو ان کا وظیفہ بند ہو جائے گا، چونکہ عربی داں کسی ملکی خدمت کے انجام دینے کے قابل نہیں ہوتے اس لیے مجبوراً ان کو کوئی خدمت نہیں دی جا سکتی۔‘‘ جناب ممدوحہ کی یہ رائے بالکل صحیح ہے اور اس کا جواب کیا ہو سکتا تھا البتہ میں نے اس قدر کہا کہ ندوۃ العلماء نے اسی غرض سے طرز تعلیم اور نصاب تعلیم میں تبدیلی کی ہے۔ اس کے بعد دیر تک اس پر گفتگو کرتی رہیں کہ ’’ اہل ملک کی طرف متوجہ نہیں ہوتے اس وجہ سے تعلیم پر جو کچھ صرف ہو رہا ہے، اس سے خود ملک کو کوئی فائدہ نہیں پہنچتا میں نے عرض کیا کہ تعلیم جبری کیوں نہ کر دی جائے، جیسا کہ بعض ریاستوں نے اس پر عمل کیا ہے۔ فرمایا کہ جبری تو نہیں کر سکتی، لیکن یہ کیا کم ہے کہ تمام بڑے بڑے عہدے باہر والوں کو ملتے ہیں۔ اہل ملک میں سے ایک بھی کسی بڑے عہدہ پر مامور نہیں، اگر غیرت ہو تو یہ امر جبر سے کیا کم ہے۔ اہل ملک وظائف اور مناصب کے خوگر ہو گئے ہیں ان کو نوکری اور ملازمت سے غرض ہی نہیں وہ ہر وقت صرف وظائف اور مناصب کے متقاضی رہتے ہیں۔‘‘ پھر فرمایا کہ ’’ اردو میں علوم جدیدہ کی کتابیں کیوں نہیں ترجمہ کی جائیں‘‘ میں نے کہا کہ ترجمہ کون کرے انگریزی خواں مصطلحات علمی کا اردو میں ترجمہ نہیں کر سکتے اور عربی خواں انگریزی نہیں جانتے۔ میں نے انجمن اردو کی طرف سے اشتہار دیا اور کیمسٹری کے مصطلحات چھاپ کر شائع کئے لیکن کہیں سے کوئی صدا نہیں آتی، فرمایا کہ کیوں نہ ایک محکمہ قائم کیا جائے جس میں عربی و انگریزی دونوں زبانوں کے زباں داں ملازم رکھے جائیں ریاست آصفیہ جو سب سے بڑی مقتدر ریاست ہے آسانی سے اس کام کو انجام دے سکتی ہے۔ غرض اس قسم کے مضامین پر کامل ڈیڑھ گھنٹہ تک گفتگو کی اور اس فصاحت کے ساتھ کہ میں ہمہ تن محو حیرت رہا۔ تقریر میں بعض بعض جملے ایسے ہوتے تھے جو انشاء پردازی کی شان ظاہر کرتے تھے مثلاً’’ جب سے عنان حکومت میں نے اپنے ہاتھ میں لی‘‘ ’’ ملک کی تعلیمی حالت پر میرا دل رو رہا ہے‘‘ یہاں کے لوگ لیاقت حاصل نہیں کرتے بلکہ استحقاق آبائی پیش کرتے ہیں۔ لیکن یہ جملے ان کی زبان سے اس سلاست اور صفائی کے ساتھ ادا ہوتے تھے کہ مطلقاً تصنع اور آورد نہیں معلوم ہوتی تھی۔ جناب ممدوحہ کی مصروفیت ملکی کا یہ حال ہے کہ روزانہ بلا ناغہ 11بجے سے 4 بجے تک متصل دفتر میں پس پردہ بیٹھ کر، تمام کاغذات کو سنتی اور ان پر احکام مناسب لکھواتی ہیں جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ پردہ میں بیٹھ کر عورتیں قابل نہیں ہو سکتیں، ان کے جواب کے لیے صرف جناب ممدوحہ کا نمونہ کافی ہے۔ (الندوہ جلد2نمبر8) شعبان1330ھ مطابق اکتوبر1905ء ندوۃ العلماء کا نیا دو اور اس کا جلسہ سالانہ (بنارس میں) ندوۃ العلماء پر اس تھوڑی سی مدت میں تین دور گزرے ہیں ایک اس کا آغاز، جو اس زور شور کا تھا، جس کے غلغلہ سے دفعۃً تمام ہندوستان گونج اٹھا اور دوسرا مڈل ایجز (عہد ظلمت) یہ دور اس وقت سے شروع ہوتا ہے جب مولوی محمد علی صاحب (سیکرٹری ندوۃ العلمائ) اپنے صنعف و توانائی کی وجہ سے ندوہ کے خدمات سے علیحدہ ہونے لگے اور یہاں تک نوبت پہنچی کہ باوجود عام اصرار کے اپنے عہدہ سے مستعفی ہو گئے۔ تیسرا دور1905ء سے شروع ہوتا ہے جب کہ ارکان کو یہ حالت دیکھ کر سخت بے چینی پیدا ہوئی۔ معتمد دار العلوم نے ترک تعلقات کر کے خود ندوہ میں سکونت اختیارکی دفتر شاہجہانپور سے اٹھ آیا، مصارف جو آمدنی سے بہت زیادہ تھے، گھٹا کر مداخل کے قریب قریب کر لئے گئے نصاب مجوازہ جس پر اب تک عمل نہیں کیا گیا تھا، جاری کر دیا گیا۔ انگریزی زبان بطور سیکنڈ لنگویج کے لازم کر دی گئی۔ مقامی ارکان میں مولوی محمد نسیم صاحب وکیل اور مولوی ظہور احمد صاحب وکیل کا اضافہ ہوا۔ شملہ اور امرت سر کو ڈیپوٹیشن گیا اور کامیاب آیا، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ جناب معلی القاب سرکار عالیہ ریاست بھوپال نے سرپرستی فرما کر چھ سو روپیہ سالانہ کی مستقل رقم مقرر کر دی۔ ان حالات سے وہ عام افسردگی جو تمام ملک میں پیدا ہو گئی تھی کسی قدر کم ہونی شروع ہوئی اس پاس کے مقامات کو ندوہ کی دوبارہ زندگی کا کچھ احساس ہونے لگا اور اس کی طرف امید کی نگاہیں اٹھنے لگیں یہاں تک کہ گور کھپور اور بنارس میں جلسہ سالانہ کی تحریک شروع ہوئی اور بالآخر قرعہ فال بنارس کے نام پر نکلا، جو ایک مشہور تاریخی مقام ہے بنارس کی مقامی کمیٹی کے صدر انجمن مولوی محمد عمر صاحب وکیل اور سیکرٹری مولوی مقبول عالم صاحب قرار پائے ہیں اول الذکر صاحب ندوہ کے ارکان انتظامی میں ہیں اور مولوی مقبول عالم صاحب ایک نہایت نیک طنیت اور دیندار آدمی ہیں اور جس سرگرمی اور ذوق سے وہ جلسہ کی تیاریاں کر رہے ہیں اس سے بڑی بڑی امیدیں پائی جاتی ہیں۔ اس جلسہ میں جو خاص بات اور تمام جلسوں سے مزید ہو گی وہ یہ ہے کہ ندوہ کی تعلیم و تربیت کا نمونہ پیش کیا جائے گا ندوہ کی تعلیم کے جو انتہائی مقاصد ہیں ان کے ظہور کا تو وقت ابھی نہیں آیا اس کے لیے کم از کم ابھی آٹھ سال درکار ہیں لیکن اس جلسہ میں اس بات کا تجربہ ہو سکے گا کہ ندوہ کی تعلیم کو اور تمام مدارس پر کیا ترجیح ہے، ندوہ کے طلبہ عام مجالس میں علمی اور اخلاقی مضاین پر عمدگی سے تقریر کر سکتے ہیں فلسفہ جدید سے ان کو کسی حد تک واقفیت حاصل ہے علوم قدیمہ وجدیدہ کا وہ کچھ نہ کچھ موازنہ کر سکتے ہیں ان میں عموماً وسعت نظر اور روشن خیالی پائی جاتی ہے عربی زبان میں وہ مسعتدانہ طور پر مضمون نگاری کر سکتے ہیں۔ ہم کو تمام بہی خواہان قوم سے اور خصوصاً ان لوگوں سے جن کے دل میں ذرا بھی مذہب کا درد ہے امید ہے کہ ضرور اس جلسہ میں شریک ہوں گے کیونکہ تمام ہندوستان میں یہی ایک مذہبی تعلیم گاہ ہے جو اپنے اصول کے لحاظ سے بالکل ایک جدید چیز ہے۔ اور اگر اس کو وسعت اور ترقی دی جائے تو وہ مسلمانوں کے ہر درد کی دوا ہو سکتا ہے۔ (الندوہ جلد3نمبر1) محرم 1324ھ مطابق مارچ1906ء ٭٭٭٭٭٭ البشیر اور ندوۃ العلماء جناب مولوی بشیر الدین صاحب کو ندوہ کے حال پر جو قدیم نوازش ہے، وقتاً فوقتاً اس کا ظہور ہوتا رہتاہے لیکن چونکہ ندوۃ العلماء کا سالانہ جلسہ قریب ہے اور مولوی صاحب موصوف کو خطرہ پیدا ہوا کہ کہیں جلسہ کی بدولت ندوہ میں کچھ جان نہ آ جائے اس لیے دفعۃً ان کی مہربانیاں زیادہ ترقی کر گئی ہیں، ایک پرچہ میں ارشاد ہوتا ہے کہ ندوہ اور دیوبند کا ایک مقصد ہے باوجود اس کے دونوں نے اپنے جلسہ کی ایک ہی تاریخیں رکھی ہیں، دونوں آپس میں لڑتے ہیں اور جب یہ خود باہم لڑتے ہیں تو ہماری اصلاح کیا کر سکتے ہیں؟ اولاً تو ندوہ اور دیوبند کے مقاصد جداگانہ ہیں اور اس کا بار بار اظہار کیا گیا ہے ندوہ نے انگریزی تعلیم کو لازم قرار دیا ہے حالانکہ علمائے دیو بند کسی طرح اپنے مدرسہ میں انگریز تعلیم پر راضی نہیں ہوتے، مقاصد متحد بھی ہوتے، تب بھی ایک زمانہ میں دو درس گاہوں کا جلسہ ہونا اختلاف کی کوئی دلیل نہیں، مولوی صاحب موصوف فرماتے ہیں کہ ’’ دونوں آپس میں لڑتے ہیں تو ہماری اصلاح کیا کر سکتے ہیں‘‘ لیکن ہم ان کو یقین دلاتے ہیں کہ اگر دونوں مل بھی جائیں تب بھی ان کی اصلاح نہیں کر سکتے۔ انگریزی ترجمہ قرآن کے ذکر میں مولوی صاحب موصوف نے ’’ ندوہ‘‘ کے متعلق زیادہ نوازش سے کام لیا ہے چنانچہ فرماتے ہیں ’’ اسی وجہ سے مجدد اعظم سرسید رحمۃ اللہ علیہ کی یہ رائے ہے کہ انگریزی علوم و فنون کی تعلیم کو مسلمانوں کی تعلیم دینی و دنیاوی ترقی کا وسیلہ سمجھتے تھے۔ لیکن افسوس ہے کہ سرسیدؒ کی رائے کی مخالفت کی گئی اور ڈیڑھ اینٹ کی بہت سی مسجدیں الگ بنائی گئیں۔ کیا یہ امید ہو سکتی ہے کہ ندوہ میں جو شد بد انگریزی تعلیم کا انتظام کیا گیا ہے اس سے اسلامی علوم کا اعلیٰ درجے کی انگریزی میں ترجمہ کرنے کا مقصد پورا ہو سکتا ہے؟‘‘ سب سے مقدم سوال یہ ہے کہ علی گڑھ کالج کی خیر خواہی، قوم کی رہبری، مسلمانوں کی اصلاح حالت، ان تمام باتوں کا استحقاق کیا مولوی بشیر الدین صاحب کو مجدد اعظم اور ان کے جانشینوں سے زیادہ حاصل ہے؟ ندوہ جب قائم ہوا تو سرسید مرحوم نے اس کی تائید میں متعدد مضامین لکھے، علی گڑھ میں ایک کانفرنس کے اجلاس میں جس میں خود سرسید مرحوم شریک تھے۔ نواب محسن الملک نے ایک خاص ریزولیوشن ندوہ کے مقاصد کی تائید میں پیش کیا۔ اور نہایت مفصل تقریر کی، سید محمود نے اس ریزولیوشن کی پر زور طریقے سے تائید کی جس میں یہ بیان کیا کہ ’’ ہمارے دو کام ہیں‘‘ ’’ دین و دنیا‘‘ ہم نے دنیا کی ترقی کا کام اپنے ذمہ لیا ہے ندوہ دین کا کام انجام دے رہا ہے اس لیے ہم کو اس کے مقصد سے پورا اتفاق ہے یہ دونوں تقریریں مفصل ہیں اور کانفرنس کی طرف سے شائع ہو چکی ہیں سرسید مرحوم کے بعد بھی یہ پالیسی برابر قائم رہی، ڈھاکہ کانفرنس میں ندوہ کی تائید کا ریزولیوشن دوبارہ پیش ہوا اور نواب وقار الملک نے نہایت پر زور انداز میں اس کی تائید کی۔ کیا یہ واقعات غلط ہیں؟ کیا کانفرنس کی رودادوں میں یہ تحریریں موجود نہیں ہیں اگر ہیں تو کیا مولوی بشیر الدین صاحب ہم سے اس بات کے خواہاں ہیں کہ ہم سرسید، سید محمود، نواب محسن الملک ، نواب وقار الملک سے بغاوت کر کے مولوی بشیر الدین صاحب کے علم کے نیچے آ جائیں؟ لیکن اس سے زیادہ ہمارے لیے یہ مشکل ہے کہ ندوہ کی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد جب تعمیر ہو رہی تھی تو خود ہمارے مولوی بشیر الدین صاحب نہایت سرگرمی اور نیاز مندی سے اینٹ اور گارا دے رہے تھے، مولوی صاحب موصوف کو غالباً وہ موقع یاد ہو گا۔ جب کہ کانپور میں ندوہ کے راست کے اجلاس میں مولوی صاحب موصوف شریک تھے اور ان کی دوستی کے جرم میں مولوی ہدایت رسول کی زبان سے مجھ کو گالیاں سننی پڑی تھیں، پہلے اجلاس کے بعد بھی مولوی صاحب موصوف ایک زمانہ تک ندوہ کے طرفدار اور مداح رہے۔ ندوہ اگر اپنی اصلی حالت پر نہیں رہا اور اس وجہ سے مولوی صاحب موصوف نے اس سے کنارہ کیا تو یہ جداگانہ بات ہے لیکن ڈیڑھ اینٹ کی بنیاد رکھنے کے جرم میں تو وہ ہم گناہ گاروں میں برابر کے شریک ہیں۔ علی گڑھ یا سرسید کی ہوا خواہی کا یہ کوئی معقول طریقہ نہیں ہے کہ کسی گروہ پر اعتراض کرنے کے وقت ان کو بیچ میں لایا جائے اور اس گروہ کو خواہ مخواہ اس بات پر مجبور کیا جائے کہ وہ سرسید کے متعلق کوئی بات زبان سے نکالے۔ ہمیں معلوم ہے کہ یہ طریقہ اس لیے برتا جاتا ہے کہ ندوہ کی مخالفت کا جوش بڑھا دیا جائے کیونکہ جب یہ کہا جاتا ہے کہ علی گڑھ کالج کے ہوتے ندوہ یا دیوبند کی مطلق ضرورت نہیں ہے، بلکہ ندوہ اور دیوبند قوم کے لیے ضرر رساں ہیں تو خواہ مخواہ ہوا خواہان ندوہ و دیوبند کو یہ کہنا پڑتا ہے کہ علی گڑھ کالج ہماری مذہبی ضرورتوں کو رفع نہیں کر سکتا اس سے علی گڑھ کی عالمگیری میں فرق آتا ہے اور طرفداران علی گڑھ نہایت آسانی سے ندوہ اور دیوبند کے دشمن ہوجاتے ہیں۔ ندوہ پر جو کچھ اعتراض کرنا ہو بالذات اور مستقل طور سے کرنا چاہئے علی گڑھ اور سرسید کو بیچ میں لانا کوئی دیانت دارانہ طریقہ نہیں ہے۔ اب ہم مولوی صاحب موصوف کی اصل منطق کی طرف متوجہ ہوتے ہیں، مولوی صاحب موصوف فرماتے ہیں: ’’ مجدد اعظم (سرسید) کی یہ رائے ہے کہ وہ انگریزی علوم و فنون کی تعلیم کو مسلمانوں کی تمام دینی اور دنیاوی ترقی کا وسیلہ سمجھتے تھے۔‘‘ کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ صرف انگریزی علوم و فنون میں کمال حاصل کرنا اور عربی زبان اور مذہبی علوم سے بے بہرہ ہونا تمام دینی و دنیوی کا وسیلہ ہے۔ اگر یہ مطلب ہے تو یہ محض تہمت ہے کہ سرسید مرحوم کا یہ خیال اور یہ رائے تھی، سرسید کی زبان دان اب بھی موجود ہیں اور مجھ کو ہر گز توقع نہیں کہ نواب وقار الملک اور ارکان کالج اس رائے کو سرسید کی طرف منسوب کرنے پر راضی ہوں گے۔ لیکن اگر اس فقرہ کا یہ مطلب ہے کہ انگریزی تعلیم کے ساتھ عربی اور مذہبی تعلیم میں کامل ہونا، تمام دنیوی اور دینی ترقی کا وسیلہ ہے تو بالکل اور سرتاپا سچ ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا کالج کا یہ دعویٰ ہے کہ اس نے مذہبی علوم کی تکمیل کا سامان مہیا کیا ہے کالج تقریباً چھتیس برس سے قائم ہے اس کا مذہبی نصاب چھپا ہوا موجود ہے۔ آگے چل کر جو کچھ ہو گا اس سے بحث نہیں لیکن اس وقت تک تو جو کچھ اس میں مذہبی تعلیم ہے اسی شد بد کے برابر ہے جس قدر ندوہ میں انگریزی تعلیم ہے۔ جس طرح مولوی ذکاء اللہ صاحب مرحوم سے ایک انگریزی نے پوچھا کہ آپ کو انگریزی زبان آتی ہے؟ مولوی صاحب مرحوم نے فرمایا ہاں! جس قدر آپ کو اردو آتی ہے۔ سرسید مرحوم نے کبھی یہ دعویٰ نہیں کیا کہ وہ کالج میں فقہ، حدیث، تفسیر، اصول کی کامل تعلیم دیتے ہیں36برس کی وسیع مدت میں کالج نے کوئی مذہبی عالم پیدا نہیں کیا اور یہ کالج کی کوئی تحقیر نہیں، کالج تقسیم عمل کے اصول پر کام کر رہا ہے جیسا کہ سید محمود مرحوم نے اپنی تقریر میں کہا تھا اور یہ کام کرنے کا سب سے بہترین طریقہ ہے۔ فرض کرو اگر یہ سوال کیا جائے کہ کالج مردہ شو، کفن دوز، غسال، گورکن پیدا کرتا ہے یا نہیں؟ تو کالج کی دو دیوار بول اٹھے گی کہ نہیں۔ لیکن اگر یہ سوال کیا جائے کہ مسلمانوں کے لیے جنازہ خوانوں اور موذنوں کی ضرورت ہے یا نہیں؟ تو مولوی بشیر الدین صاحب کے سوا اور کسی کو اختلاف نہ ہو گا۔ اب اگر یہ فرض کر لیا جائے کہ ندوہ اور دیو بند موذن اور جنازہ خواں پیدا کرتے ہیں تو کیا علی گڑھ کالج اس حق کو ان سے چھین لینا پسند کرے گا؟ یا یہ کہے گا کہ نہیں یہ بالکل غیر ضروری کام ہیں اگر یہ دونوں باتیں نہیں ہیں تو ندوہ اور دیو بند سے اس قدر کیوں عناد ہے؟ یہ بیچارے غریب اپنے جھونپڑوں میں بسر کرتے ہیں تخت و تاج والوں کو غریبوں کو سستانے سے کیا فائدہ؟ ابھی تک مسلمانوں کا احساس باقی ہے وہ ابھی ندوہ اور دیوبند کو ضروری سمجھتے ہیں مولوی بشیر الدین صاحب کو ذرا انتظار کرنا چاہیے جب مذہبی احساس بالکل فنا ہو جائیگا۔ جب انگریزی تعلیم مذہبی تعلیم کو بالکل دبا لے گی جب ہر ہاتھ میں قرآن کے بجائے ڈارون اور ہیکسلے کی تصنیفات ہوں گی۔ جب ایسے لوگ کثرت سے پیدا ہو جائیں گے جو یہ کہتے ہوں گے (اور ایسے لوگ موجود ہیں) کہ اگر کعبہ اور مدینہ پر کسی یورپین سلطنت کا قبضہ ہو جائے تو زیادہ بہتر ہو تو مولوی صاحب موصوف کی آرزو پوری ہو جائے گی اور ندوہ و دیو بند وغیرہ کے کانٹے اسلامی چمن زار سے خود نکل جائیں گے۔ ’’ ندوہ‘‘ جو کام کر رہا ہے جس قسم کے قابل طلبہ پیدا کر رہا ہے جس درجہ کے ماہر عربیت طالب علم اس نے پیدا کر دئیے ہیں ابشر کی نگاہیں اس کے اندازہ کرنے کے قابل نہیں کم از کم اس کے لیے ڈاکٹر ہارویز (جرمنی) پروفیسر علی گڑھ کالج کا علم اور انصاف پسندی درکار ہے جنہوں نے ابھی حال میں ندوہ کے پرچہ تکمیل کا اورل (تقریری) امتحان لیا ہے اور جس کے متعلق انہوں نے طالب علم کی لیاقت پر ایک گونہ تعجب ظاہر کیا ہے اور ہم کو ایک خاص خط لکھا ہے۔ ہم نے اکثر البشیر کے حملوں کے جواب میں خاموشی اختیار کی تھی کیونکہ ہمیں معلوم ہے کہ کیا ذاتی کاوشیں ہیں جن کی وجہ سے البشیر کا طرز عمل ہمارے ساتھ حیدر آباد کے زمانہ قیام کے بعد بدل گیا ہے لیکن پبلک اس قدر ضعیف الاعتقاد ہے کہ اس کو ہر بات پر یقین آ جاتا ہے، اس لیے البشیر جس قدر غلط فہمیاں پھیلانا چاہتا ہے، پھیلا سکتا ہے۔ اس بناء پر نہایت سخت مجبوری سے ہم کو کبھی کبھی البشیر کے مقابلہ میں لکھنا پڑتا ہے۔ اور خدائے پاک کی قسم ہے کہ میرے لیے اس سے زیادہ کوئی چیز ناگوار نہیں۔ البشیر میری قدر دانی کرتا ہے اور کہتا ہے کہ ایسا شخص جو صدیوں میں پیدا ہو سکتا ہے ’’ ندوۃ‘‘ میں رہنے سے بیکار ہو گیا۔ لیکن میں اپنی قدر آپ خود سمجھ سکتا ہوں، میں کیا چیز ہوں؟ میری حقیقت کیا ہے؟ میں اگر اپنے آپ کو ارباب کمال کی صف فعال میں بیٹھنے کے قابل سمجھوں تو مجھ سے زیادہ کوئی نالائق نہیں، لیکن بہر حال جو کچھ ہوں ’’ ندوہ‘‘ ہی کے جھونپڑے کے لیے موزوں ہوں۔ تو و طوبیٰ و ما و قامت دوست فکر ہر کس بقدر ہمت اوست (19فروری1912ئ) ٭٭٭٭٭٭٭ مولوی عبدالکریم صاحب کی معطلی اور مولانا عبدالحئی صاحب جناب مولوی عبدالحئی صاحب! آپ نے مسلم گزٹ میں اس امر سے برأت ظاہر کی ہے کہ آپ مولوی عبدالکریم صاحب کی معطلی میں شریک مشورہ نہ تھے۔ مولانا! جو روداد جلسہ انتظامہ مورخہ 9مارچ1913ء شائع ہوئی ہے اس کی قرار داد کی عبارت یہ ہے۔ ’’ اس جلسہ کے نزدیک مولوی عبدالکریم صاحب کا مضمون مسئلہ جہاد (جو الندوہ باتہہ جون 1912ء میں شائع ہوا) اس کارروائی کا سزا وارانہ تھا، جو معتمد صاحب دار العلوم نے بہ مشورہ مولوی عبدالحئی صاحب و مولوی ظہور احمد صاحب کی اور یہ جلسہ یہ امر ضروری سمجھتا ہے کہ مولوی عبدالکریم صاحب سے یہ تینوں حضرات تحریری معافی مانگ کر جو نقصانات ان کو ان کی شہرت وغیرہ کے متعلق اس کارروائی سے پہنچے ہیں تلافی کریں۔‘‘ اس تجویز کی تائید مولوی اعجاز علی صاحب نے کی، مولوی محمد نسیم صاحب نے ترمیم کی کہ اس تجویز کا آخری حصہ جو معافی و تلافی کے متعلق ہے اس کو نکال دیا جائے، اس کی تائید مولوی عبدالباری صاحب نے کی اور باتفاق آرا ترمیم پاس ہوئی۔ یہ قرار داد بہ ترمیم تحریک مقامی پاس ہوا، آپ بھی اس جلسہ میں موجود تھے کیا جلسہ انتظامیہ کی یہ کارروائی جس میں نہایت کثرت سے ممبر شریک تھے اور جو خود آپ کے زیر اہتمام شائع کی گئی ہے، غلط سمجھی جائے؟ اور کیا اس میں اتفاق آرا کا لفظ غلط ہے؟ او مولوی عبدالباری صاحب نے اپنی شہادت میں یہ الفاظ بیان کیے ہیں۔ اس پر مولوی شبلی صاحب نے فرمایا کہ ’’ اچھا آپ (مولوی عبدالحئی صاحب) معطلی کا حکم لکھ دیں مولوی عبدالحئی صاحب نے منظور کیا ‘‘ کیا یہ الفاظ غلط ہیں؟ (7جون1913ء از وکیل) ٭٭٭٭٭٭٭ مولانا عبدالباری کی شہادت1؎ الندوہ کے مضمون کے متعلق میرے خلاف جو طوفان برپا کیا گیا۔ اس کے متعلق میں اب تک اس وجہ سے کوئی مفصل تحریر شائع نہ کر سکا کہ سخت بیمار تھا۔ اس کے علاوہ ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ جس قدر تحریریں مخالفت میں نکلی تھیں کسی ذمہ دار اور شریک واقعہ شخص کی نہ تھیں اس لیے میں ان لوگوں کے مقابلہ میں کچھ لکھنا بے سود سمجھتا تھا، لیکن اب مولوی عبدالباری نے مسلم گزٹ میں اپنا مفصل بیان درج کرایا ہے مولوی صاحب موصوف کا بیان متعدد وجوہ سے قابل لحاظ ہے۔ 1وہ میرے مخالف گروہ کے ایک بہت بڑے ممبر ہیں اور اس واقعہ کو بد نما صورت میں پھیلانے میں ان کی کوششوں کو خاص دخل ہے، اسی کے ساتھ مولوی عبدالکریم صاحب کی معطلی وغیرہ کے متعلق جو غیر معمولی اجلاس ندوہ کا ہوا تھا اس کے پانچ ممبروں میں سے ایک مولانا بھی تھے اور جو کارروائیاں اس وقت تک عمل میں آئیں ان میں شریک تھے۔ لیکن ان کی نسبت لوگوں نے یہ تاریل کی کہ ان کو دھمکی یا فریب دے کر اپنا ہم زبان بنا لیا 1؎ یہ بات ہر حال میں لحاظ کے قابل ہے کہ 9مارچ1913ء کو ندوہ کا جو جلسہ انتظامیہ اس معاملہ کے متعلق منعقد ہوا اس میں مولانا شریک تھے اور اس جلسہ کی کارروائی چھپ کر شائع ہو چکی ہے اس میں مولانا کی کوئی کارروائی درج نہیں، حالانکہ وہ رویو میری طرف سے نہیں شائع ہوئی تھی بلکہ مولوی خلیل الرحمن کے دفتر سے شائع ہوئی جو مولوی عبدالکریم صاحب کے سب سے بڑے اور ان کے مربی ہیں۔ تھا، ان اسباب سے ان کی شہادت کے متعلق میں ایک مفصل تحریر شائع کر سکوں گا۔ اس معاملہ میں جو فرد قرار داد جرائم میرے اوپر قائم ہے اس میں سب سے بڑا جرم یہ ہے کہ میں نے دیگر ارکان (شریک فیصلہ مقدمہ) کو دھمکی دے کر اپنا ہم زبان بنا لیا اور تمام امور اپنی مرضی کے مطابق فیصل کرائے۔ چنانچہ لکھنو سے ایک لوکل اخبار میں ایک اڈیٹوریل نوٹ اس سرخی سے نکلا تھا ’’ مولانا شبلی کی دھمکی‘‘ اصول شہادت کے متعلق اس واقعہ کی تحقیق کا اصل ذریعہ یہ تھا کہ خود ان لوگوں سے دریافت کیا جاتا جن کی نسبت بیان کیا جاتا ہے کہ میں نے ان کو دھمکی دی، یا ان کو مجبور کیا لیکن پبلک کو اس درد سر کی کیا ضرورت تھی؟ غنیمت ہے کہ یہ تکلیف مولانا نے خود گوارا کی۔ مولانا کی تحریر سے ظاہر ہوتا ہے اور یوں بھی ہم ارادت مند قیاس کر سکتے ہیں کہ مولانا کی ذات گرامی مختلف شئون و حیثیات رکھتی ہے ایک وہ عالم ہے کہ ’’ باملکوتیاں نہ پر داختے‘‘ اس شان کو مولانا ان الفاظ میں ظاہر فرماتے ہیں۔ ’’ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم لوگوں نے تمام تعلقات حکومت سے قطع کر دئیے ہیں مگر آپ لوگوں کا طرز عمل ایسا نہیں ہے آپ ان کی خوشنودی کے محتاج ہیں بلا رو رعایت جو امر حق ہو اس کو ظاہر کروں چاہے وہ گورنمنٹ کے موافق ہو یا مخالف‘‘ دوسرا وہ عالم ہے جس میں مولانا اس درجہ سے تنزل کر کے عالم ناسوت میں تشریف لاتے ہیں اس شان کو مولانا نے ان الفاظ میں ظاہر فرمایا ہے: ’’ اس واسطے اگر یہ معاملہ فرنگی محل کا ہوتا تو میں کوئی پروانہ کرتا مگر ’’ ندوہ‘‘ کا معاملہ ہونے کی وجہ سے مجھے بہت سوچ کر رائے قائم کرنا ہے۔‘‘ لیکن بہر حال یہ دونوں شون بذات خود قائم ہیں اس کسی کو دھمکی اور ڈراؤ سے کوئی واسطہ نہیں مولانا نے اگرچہ اپنی شہادت میں حسن تاویل اور شان نزویل کی تفصیل سے بہت کام لیا ہے وذالک شان العلم ذاتو سع وتفتن تاہم اصل معاملہ پر اس سے بہت کچھ روشنی پڑتی ہے، اصل بحث یہ ہے کہ جو تجویزیں منظور ہوئیں وہ مولانا نے بھی منظور فرمائی تھیں؟ یا نہیں؟ اس امر سے بحث نہیں کہ منظور کرنے کا شان نزول کیا تھا؟ اور مولانا نے اس کے متعلق کیا کیا گفتگو فرمائی تھی؟ کیونکہ یہ تو بہر حال مسلم ہے کہ مولانا جس شان سے ’’ ندوہ‘‘ کے ممبر ہیں اور ’’ ندوہ‘‘ کے جلسوں میں تشریف لاتے ہیں وہ ’’ باملکوتیاں نہ پر داختے‘‘ والی شان نہیں ہے اس میں مصالح وقت ضروریات زمانہ، مکروہات گردو پیش سب کا خیال رکھنا پڑتا ہے اور اسی عالم میں ہم لوگوں کو جناب کی ہم بزی کا شرف حاصل ہے اور یوں تو فرشتگان بابل بھی پہتے نحن فنتد نلا تنفس کا عذر کرتے ہیں لیکن درخواست کنندہ کے اصرار و خواہش پر بہر حال جادو سکھا ہی دیتے ہیں۔ معاملہ زیر بحث میں سب سے زیادہ پبلک کی ناراضی اس بات پر ہے کہ گورنمنٹ کو اس معاملہ کی خبر کیوں کی گئی؟ اور اس کو مداخلت کا موقع کیوں دیا گیا؟ اور حقیقت میں یہی چیز ہے، جو دیگر اور تمام کارروائیوں کا سنگ بنیاد ہے گورنمنٹ کے خبر کر دینے کے بعد بقیہ تمام کارروائیاں خود بخود ضروری تھیں، چنانچہ خود ان ممبروں کے ہاتھ سے انجام پائیں جو میری مخالف پارٹی کے قائد العسکر ہیں، اس کے متعلق مولانا ارشاد فرماتے ہیں ’’ اس کے بعد مولوی شبلی صاحب نے الندوہ کے مضمون جہاد کا ذکر چھیڑا اور فرمایا کہ اس بات میں کیا رائے ہے؟ اس کی اطلاع حکام کو کی جائے یا نہ کی جائے؟ اس کے جواب میں میں نے کہا کہ حکام کو چاہیں آپ اطلاع کریں یا نہ کریں ایسے امور کی اطلاع ہو ہی جاتی ہے۔‘‘ پہلے یہ گزارش ہے کہ واقعہ کی یہ صورت نہیں اور چونکہ مولانا کے عالم قدس کا بیان نہیں ہے اس لیے سہوونسیان کا ہو جانا ممکن ہے واقعہ کی یہ صورت ہے کہ جب جلسہ کی کارروائی شروع ہوئی تو سب سے پہلے میں نے تمام ارکان موجودہ کو مخاطب کر کے کہا کہ اس معاملہ میں کارروائی کرنے کے دو طریقے ہیں اور غور کر لیجئے کہ آپ لوگوں کو دونوں میں سے کون سا طریقہ اختیار کرنا چاہیے ۔ ایک طریقہ یہ ہے کہ آپ مولوی عبدالکریم صاحب کی نسبت جو کچھ کرنا چاہیں، بطور خود کر لیں اور اس کی کارروائی دفتر میں موجود ہے، تاکہ اگر کبھی گورنمنٹ استفسار کرے تو جواب دینے کا موقع حاصل رہے۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ آپ گورنمنٹ کو خبر کریں لیکن اس میں یہ اخمال ہے کہ مضمون جہاد کا وہاں ترجمہ کرایا جائے اور ممکن ہے کہ کوئی مترجم غلط ترجمہ کرے، اس صورت میں مضمون ممکن ہے خطرناک ہو جائے۔ میری اس تقریر پر مولانا نے فرمایا کہ آپ سمجھتے ہیں کہ اس مضمون کا ترجمہ اب تک نہ ہو چکا ہو گا یا نہ ہو رہا ہو گا۔ مولانا کے ساتھ ساتھ تمام ارکان نے بھی تائید کی صدائیں بلند کیں اور آخر طے ہوا کہ ڈپٹی کمشنر صاحب کو اس کی اطلاع کر دی جائے۔ لیکن اگر تسلیم بھی کر لی جائے کہ تقریر کی وہی صورت تھی جو مولانا نے بیان کی تاہم اس سے اس قدر ثابت ہوتا ہے کہ گورنمنٹ تک اس معاملہ کو پہنچانا، مولانا کے نزدیک چنداں جرم نہ تھا اور بہر حال وہ تجویز درج کارروائی کی گئی تو مولانا نے اس سے اپنی برأت نہیں فرمائی۔ تجاویز منظور شدہ ہیں دوسرا امر یہ تھا کہ مضمون مذکورہ ندوہ کے مقاصد و اغراض کے خلاف ہے۔ جو لوگ مذہبی حیثیت کی وجہ سے اس معاملہ میں سخت ناراضی کا اظہار کر رہے ہیں ان کی برہمی کی وجہ یہی ہے کہ ان کے نزدیک مضمون مذکور ایک مسئلہ مذہبی ہے اس کو مقاصد اور اغراض ندوہ کے خلاف کہنا کس قدر افسوسناک ہے۔ جناب مولانا کی شہادت اس مسئلہ کے متعلق یہ ہے: ’’ میں خود اس کے متعلق دوسری رائے رکھتا ہوں، مگر موجودہ زمانے کے اعتبار سے اور مضمون جہاز ہونے کے باعث ایسے مضمون کی اشاعت ندوہ کے مقاصد و اغراض کے خلاف ہے اور اس لیے بھی ضرور خلاف ہے کہ اس کے لیے گورنمنٹ سے پانچ سو روپے بہت غنیمت ہیں۔‘‘ مولانا کا پہلا فقرہ کہ میں خود اس کے متعلق دوسری رائے رکھتا ہوں یہ تو وہی عالم قدس کی واردات ہیں لیکن ہم کو اس عالم سے بحث ہے جس میں مولانا عالم ملکوت سے تنزل فرما کر ندوہ کے ارکان میں شامل ہوتے ہیں اور ندوہ کی تجاویز اور قرار دادیں وغیرہ منظور یا نا منظور فرماتے ہیں اس عالم میں مولانا کا بھی ارشاد بھی یہی ہے کہ ایسے مضامین کی اشاعت ندوہ کے مقاصد و اغراض کے خلاف ہے اگرچہ افسوس ہے کہ ندوہ کے اغراض و مقاصد جو علیحدہ چھپ کر شائع ہو چکے ہیں اس میں اس مقصد کا جو مولانا بیان کرتے ہیں کہیں ذکر نہیں، مولانا نے اس سے اوپر کی عبادت میں ایک موقع پر فرمایا ہے: ’’ ندوہ کی غرض اگر صرف تعلیم دینی ہوتی تو کوئی پروا نہ تھی مگر اس وقت اس کے مقاصد میں گورنمنٹ کا خوش رکھنا بھی ہے۔‘‘ ندوہ کے اغراض و مقاصد جو کل پانچ ہیں ایک چو ورقہ پر جلی خط میں چھپ کر کثرت سے شائع ہو چکے ہیں اور اب تک شائع ہوتے رہتے ہیں، مولانا کئی برس سے ندوہ کے ممبر ہیں اور اکثر جلسوں میں شریک ہوتے رہے ہیں اور ایک زمانہ ایسا بھی گزرا ہے جب مولانا کی بعض ناکام کوششوں سے لوگوں کو یہ امید بندھی تھی کہ اس کی سیکرٹری شپ کو عزت دینے کے لیے آمادہ ہیں اس لیے مولانا کی خدمت میں بہ ادب گزارش ہے کہ گورنمنٹ کا خوش رکھنا ندوہ کے مقاصد پنجگانہ میں سے کون سا مقصد ہے؟ اخیر بحث مولوی عبدالکریم صاحب کی معطلی کی ہے، اس کی نسبت مولانا ایک طول طویل تقریر کے بعد فرماتے ہیں: ’’ میں نے کہا معطل کرنا ہمارے اختیار میں نہیں ہے، اس پر بحث ہونے سے معلوم ہوا کہ ناظم کو اختیار ہے اس پر مولوی شبلی صاحب نے فرمایا کہ اچھا آپ (مولوی عبدالحئی صاحب) معطلی کا حکم لکھ دیں، مولوی عبدالحئی صاحب نے اس کو منظور کیا، میں ہر گز نہیں سمجھ سکتا ہوں کہ معطلی کس طرح ہماری طرف منسوب ہو گئی۔‘‘ مولانا کی اس تصریح سے اس قدر ثابت ہے کہ معطلی کا حکم دینا مولوی عبدالحئی صاحب نے منظور کیا تھا، ان کو بوجہ اس کے کہ نائب ناظم ہیں، یہ اختیار حاصل تھا، لیکن مولانا کو شاید یہ معلوم نہیں کہ جب کسی انجمن کا کوئی عہدہ دار اپنے حد جواز سے انجمن کے اجلاس میں بحیثیت اپنے عہدہ کے کوئی حکم دے گا تو وہ انجمن کی طرف سے سمجھا جائے گا جب تک کہ کوئی ممبر اس حد جواز کا منکر نہ ہو یا ممبری سے کنارہ کش نہ ہو جائے۔ اخیر میں مجھے سخت تعجب یہ ہے کہ مولانا کی اس قدر مفصل شہادت اور بیانات کا جلسہ انتظامیہ 9 مارچ 1913ء کی روداد میں جس میں مولانا شریک تھے اور جو چھپ کر شائع ہو چکی تھی کہیں ذکر نہیں ہے۔ مولانا کو یہ بیانات یا اس کے اہم ٹکڑے اس جلسہ کی روداد میں درج کرانے چاہئیں تھے تاکہ سب پر حجت ہو سکتی، روداد مذکور سے ظاہر ہوتا ہے کہ (بجز ایک خاص لفظ کے ) باقی تمام ارکان خمسہ تمام کارروائیوں میں شریک تھے اور اس لیے ان کارروائیوں کے متعلق جہاں لکھا گیا ہے کہ کالعدم قرار دی گئیں۔ وہاں یہ الفاظ ہیں: ’’ اس جلسہ کی کارروائی میں کل کارروائی جلسہ غیر معمولی منعقدہ 8جنوری 1913ء و کارروائی معتمد صاحب دار العلوم نسبت معطلی مولوی عبدالکریم صاحب خلاف دستور العمل ندوۃ العلماء بغیر کسی اختیار کے عمل میں لائی گئی ہے۔ لہٰذا کالعدم سمجھی جائے۔‘‘ عبارت مذکورہ میں یہ امر بھی خصوصیت کے ساتھ قابل لحاظ ہے کہ اس جلسہ نے جلسہ غیر معمولی کی جو کارروائی کالعدم قرار دی اس کی وجہ یہ نہیں بیان کی کہ وہ نا مناسب اور بیجا تھی بلکہ یہ بیان کی کہ دستور العمل کے رو سے اس جلسہ کو اس کارروائی کا اختیار حاصل نہ تھا۔ کیونکہ دستور العمل کے رو سے جلسہ انتظامیہ کے سوا کسی جلسہ کو کوئی اختیار حاصل نہیں ہے اور جلسہ انتظامیہ کے لیے سات ممبروں کے جمع ہونے کی شرط ہے اور اس جلسہ غیر معمولی میں صرف پانچ ممبر شریک تھے۔ بہر حال مولانا کے اظہار سے کچھ نہ کچھ اصل حقیقت ظاہر ہوئی ہے اور اگر بقیہ ارکان اربعہ بھی اپنے بیانات شائع کر دیں تو اصل حقیقت قطعاً منکشف ہو جائے گی اور اب تک تو جن لوگوں نے جو کچھ بطور شہادت کہا ہے سب وہ لوگ ہیں جن کا بیان اسراق سمع سے زیادہ نہیں۔ (24مئی 1913ء از وکیل) ٭٭٭٭٭٭ اسٹرائک کا سبب کون تھا؟ اسکندریہ کا کتب خانہ قدیم جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے پہلے قائم ہوا تھا۔ عیسائیوں نے عہد ظلمت میں برباد کر دیا لیکن جب اس بدنامی کا احساس ہوا تو الزام سے بچنے کا سب سے بڑا حیلہ جو انہوں نے ایجاد کیا وہ اس الزام کا مسلمانوں کے سر منڈھ دینا تھا چنانچہ ایک مدت تک تمام یورپ میں یہ اتہام اور افترا صدائے حق بن کر گونجا گیا۔ اسٹرائک کی تحقیق کرنے کا یہ طریقہ تھا کہ پہلے طلبہ کا خود اظہار لیا جاتا پھر مدرسین کی شہادت لی جاتی جو ہر حیثیت سے اعتبار کی قابل تھی۔ طلبہ نے مدرسین کو عرض حال میں اپنا فریق بنا لیا ہے مدرسین کی ایک کافی جماعتہے ان میں متعدد ایسے ہیں جن کا صدق اور راستی بے لوث ہونے پر خود مخالف پارٹی کو بھی اتفاق ہے اس بنا پر ان کا بیان ہر طرح پر طلبہ کی جانب داری سے آزاد ہوتا اس کے ساتھ ان شکایتوں کی تحقیق کی جاتی جو طلبہ نے پیش کیں جن سے اندازہ ہو سکتا کہ وہ اسٹرائیک کا سبب ہو سکتی ہیں یا نہیں؟ لیکن ان سب کے بجائے صرف یہ کیا گیا کہ دو خط پیش کئے گئے جن سے یہ ثابت کیا گیا کہ اسٹرائک کا محرک اور بانی فلان شخص یعنی ’’ میں ‘‘ تھا پہلا خط عبدالسلام کا ہے جو ایک فارغ التحصیل طالب علم کے نام ہے اس خط میں یہ بھی لکھا گیا کہ یہ خط ’’ میرے ‘‘ ایماء سے لکھا گیا، بے شبہ یہ خط نہایت بے ہودہ، سفیہانہ بلکہ مجنونانہ ہے میں نے اصل خط اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا ہے لیکن بہر نوع جس کا خط ہو میں صرف یہ کہنا کافی سمجھتا ہوں کہ اگر یہ خط میرے ایما سے لکھا گیا یا اب بھی میں اس کو جائز سمجھتا ہوں تو میں دائرہ اسلام سے خارج ہوں لعند اللہ علی الکاذبین دوسرا خط خاص میرا ہے اور بے شبہ مجھ کو تسلیم ہے کہ وہ میرا ہے لیکن یہ ظاہر ہے کہ اس کو اسٹرائک سے کوئی تعلق نہیں ہے چنانچہ وہ خط دفتر نظامت نے روداد میں شائع کر دیا ہے اس کو پڑھ کر ہر شخص اندازہ کر سکتا ہے اس میں ندوہ کے اصلاح کے طریقہ عمل کے سوا اور کچھ نہیں، بے شبہ یہ میرا خط، میری رائے اور میری استدعا ہے لیکن میں نہیں سمجھ سکتا کہ اس خط کو اسٹرائک سے کیا تعلق ہو سکتا ہے! اسٹرائک کا اصل سبب دریافت کرنا ہو تو ندوہ کے موجودہ دور کے سلسلہ واقعات کو پیش نظر رکھیے۔ دار العلوم کے طلبہ میں سے ایک ایک بچہ جانتا اور سمجھتا ہے کہ وہ قدیم عربی مدارس اور کسی انگریزی اسکول کو چھوڑ کر ندوہ میں کیوں پڑھتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ ندوہ کا نصب العین دونوں سے کوئی الگ چیز یا دونوں کا مجموعہ ہے۔ طلبہ اس طرز تعلیم اور ان خیالات کے مدت سے عادی ہو چکے تھے، جن صاحب کے ہاتھ میں اب ندوہ کی باگ ہے، طلبہ ایک مدت سے ان کے مبلغ علم، ان کے اشغال، ان کے مزاج ان کے انداز طبیعت سے واقف تھے، طلبہ یہ بھی جانتے تھے کہ مجلس انتظامی خود کوئی چیز نہیں، نیاناظم جو کچھ چاہتا ہے کرتا ہے، ایسی حالت میں انہوں نے دیکھا کہ دفعۃً ان کی قسمت کس شخص کے ہاتھ میں آ گئی ہے! لیکن انتظامی امور میں کچھ دخل دینا ان کے منصب سے بالاتر تھا اس لیے انہوں نے خاموشی کے ساتھ گوارا کیا لیکن چند ہی روز کے بعد انہوں نے دیکھا کہ طرز تعلیم بالکل بدل گیا ہے عربی تقریر کرنے کی مشق، مسائل علمی پر خطبہ دینا جدید زبان عربی کے وسائل تحصیل، فن تفسیر کے ساتھ خاص اعتناء یہ سب معفود ہو گیا ہے وہ یہ بھی دیکھتے تھے کہ پرنسپل کے اختیارات بالکل فنا ہو گئے ہیں، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ’’ مجلس دار العلوم‘‘ جو تعلیمی نصاب کی ذمہ دار ہے اور وہی ہر قسم کے تعلیمی انتظامات کا حق رکھتی ہے اس کا اجلاس بھی آج تک نہ ہوا بلکہ صرف ایک ذات واحد خود مختارانہ ندوہ کے تعلیمی اوراق الٹ پلٹ رہی ہے۔ یہ خود مختاری اس حد تک پہنچی کہ بخاری شریف کا سبق جو طلبہ مدرسہ سے باہر رہتے تھے روک دیا گیا۔ یہ حکم اس قدر ناموزوں تھا کہ جب پرنسپل صاحب سے اس کی تعمیل کرانے کے لیے کہا گیا تو وہ کئی دن تک لیت و لعل کرتے رہے اور خود مجھ سے آکر کہا کہ میں کیا کروں، مجھے یہ حکم دیا جاتا ہے، میں نے کہا کہ آپ ناظم صاحب سے تحریری حکم لکھوا لیجئے اور اسی کی تعمیل کیجئے، لیکن حکم دیے والا اس حکم کی ناموزونی کا خود دل میں احساس کرتا تھا۔ اس لیے پرنسپل صاحب سے کہا گیا۔ ’’ آپ خود تحریری حکم دے دیں، مجبور ہو کر انہوں نے حکم دیا، چونکہ بخاری شریف کا سبق میں پڑھاتا تھا اور خاص میرے نام سے حکم دینا مصلحت کے خلاف تھا اس لیے یہ حکم اس صورت میں دیا گیا کہ طلبہ کوئی سبق کسی سے خارج از مدرسہ نہ پڑھنے پایں۔ بہت سے طلبہ ایسے تھے جو باہر کے استادوں سے اپنی ناغہ شدہ کتابیں پڑھتے تھے، بہت سے ایسے تھے جو اپنی صف میں کمزور ہونے کی وجہ سے باہر کے اساتذہ سے سبق کا اعادہ کرتے تھے۔ اس امتناعی حکم نے دفعۃً طلبہ کے ایک گروہ کثیر کو تحصیل علم سے محروم کر دیا۔ طلبہ کے سامنے اب یہ مناظر پیش نظر ہیں، بخاری کا مقدس درس صرف ایک شخص کی ضد سے روک دیا گیا ہے۔ طلبہ تمام بیرونی اسباق سے روک دئیے گئے ہیں اور یہ حکم دیا گیا ہے کہ جو طلبہ بخاری شریف پڑھنے جاتے ہیں ان کا نام مدرسہ سے خارج کر دیا جائے گا طلبہ عاجزانہ درخواستیں دے رہے ہیں اور کچھ شنوائی نہیںہوتی۔ طلبہ مقامی ارکان کے پاس جاتے ہیں اور ہر جگہ سے صدائے دور باش‘‘ عین اسی حالت میں مولود شریف کا زمانہ آیا اور طلبہ نے جیسا کہ ہمیشہ سے معمول تھا مولود شریف کرنا چاہا لیکن اس خیال سے کہ مولود شریف ’’ میں‘‘ بیان کروں گا وہ مولود سے روکے گئے اور تین دن تک یہ مرحلہ رہا آخر لوگوں نے سمجھایا کہ مولود کے روکنے سے شہر میں عام برہمی پھیلے گی، مجبوراً چند شرطوں اور قیدوں کے ساتھ مولود کی منظور ی دی گئی۔ اس کے بعد اور اور واقعات پیش آئے جو اخبارات میں آ چکے ہیں کیا یہ تمام واقعات اس بات کے لیے کافی نہیں کہ طلبہ ایسے جابرانہ احکام گوارا نہ کر سکیں۔ میں ایماناً کہتا ہوں کہ میں نے طلبہ کو اسٹرائک سے روکا۔ بخاری شریف کا جب سبق بند کیا گیا تو عبدالخالق ایک طالب علم میرے پاس روتا ہوا آیا اور نہایت درد ناک الفاظ میں بولا کہ اب پانی سر سے گزر چکا ہے۔ لیکن میں نے ان کو سمجھایا کہ صبر و تحمل سے کام لو، اور اس قسم کی باتیں نہ کرو عبدالسلام کا خط بعض اخباروں میں چھپ چکا تھا اور میں اس سے واقف ہو چکا تھا ایک اور طالب علم کو بھی میں نے سمجھایاکہ تم اسٹرائک کا ہر گز خیال نہ کرو او رنہ میری نسبت سوئے ظن پیدا ہو گا وہ اس وقت خاموش ہو گیا دوبارہ مولود کے واقعہ کے وقت آیا اور پھر میں نے اس کو سمجھایا اس نے کہا کہ ہم آپ کی بدنامی کے ڈر کے مارے کب تک اپنے مذہب اور دین کی توہین گوارا کریں گے۔ اب ان واقعات پر غور کیجئے کہ ندوہ کے طلبہ دولت مند اور خوش حال نہیں ہیں20-22 لڑکے بالکل نادار ہیں جو ندوہ سے وظیفہ پا کر بسر کرتے ہیں باقی ایسے ہیں کہ بمشکل چھ روپے مہینہ کھانے کی قیمتیں ادا کرتے ہیں ان کو معلوم تھا کہ اسٹرائک کے ساتھ وہ دفعۃً مالی مدد اور ہر قسم کے آرام سے محروم ہو جائیں گے نادار طلبہ کا کوئی ٹھکانا نہیں رہے گا تعلیم و تعلم کا سلسلہ بالکل بند ہو جائے گا شہر میں ان کا کوئی خبر گراں اور حامی نہیں اس حالت میں کیا صرف عبدالسلام1؎ کا خط یا میری کشمکش ان کو ایسی حیرت انگیز خود کشی پر آمادہ کر سکتی تھی؟ پھر یہ خود کشی ایک دو دن کی نہ تھی بلکہ پورا ایک مہینہ ہو چکا ہے اور اب تک قائم ہے۔ زمانہ میں طلب حقوق کی جو عام ہوا چل رہی ہے اسٹرائک کے عظیم الشان واقعات جو علی گڑھ، آگرہ، لکھنو، لاہور میں پیش آ چکے ہیں اور آزادی کا جو مذاق عام ہو رہا ہے صحیح ہو یا غلط لیکن کیا اس سے کسی درس گاہ کے طلبہ بے اثر رہ سکتے ہیں؟ آپ جس کو اسٹرائک کہتے ہیں وہی چیز دوسروں کی نظر میں حقوق طلبی کی صورت میں جلوہ گر ہوتی ہے۔ تاریخوں میں یہ پڑھ کر کہ فاروق اعظم ؒ 1؎ یعنی مولانا عبدالسلام صاحب ندوی مولف کو عین منبر پر ایک شخص نے یہ جواب دیا تھا کہ اگر تم ٹیڑھے چلو گے تو میں تلوار سے تمہارا بل نکال دوں گا۔ کسی کو یہ خیال نہیں آتا کہ یہ اسٹرائیک یا بغاوت تھی بلکہ یہ آزادانہ فقرے اسلام کی تاریخ کے طغراے امتیاز ہیں ان حالات کے ساتھ بخاری شریف کے درس اور مولود کے روکنے پر اسٹرائک کر دینا کون سی تعجب کی بات ہو سکتی ہے کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ ندوہ میں جو قیامت انگیز اور شرمناک بد عملیاں ہو رہی ہیں ان پر صرف عبدالسلام کے خط کا پردہ ڈال دیا جا سکتا ہے اور پھر وہ ہمیشہ کے لیے نظر سے اوجھل ہو جائیں گی؟ (ہمدرد، 6اپریل 1914ئ) ٭٭٭٭٭٭٭ اصلاح ندوہ اور ہمدرد بخدمٹ ایڈیٹر صاحب ’’ ہمدرد ‘‘ دہلی ہمدرد کے پرچہ مورخہ 24اپریل 1914ء میں جو آرٹیکل ’’ اصلاح ندوہ‘‘ کے نام سے نکلا ہے اس کے اعتدال اور میانہ روی اور نیک نیتی کا مجھ کو دل سے اعتراف کرنا چاہیے ایڈیٹر صاحب تسلیم کرتے ہیں کہ ہم اپنا فرض ادا کرنے سے قاصر نہ رہیں گے اگر ہم یہ کہیں کہ ندوہ کو اس کے حال پر چھوڑ کر ان تمام عظیم الشان مقاصد کو خاک میں ملا دیا جائے جس کے حصول کی غرض سے اپنی قسم کا یہ پہلا ادارہ ہندوستان میں قائم کیا گیا تھا۔ لیکن وہ لکھتے ہیں کہ اصلاح کے دو طریقے ہیں، ایک یہ کہ پہلے جمہور قوم کی جانب سے خواہ جلسوں کے ذریعہ سے یا فرداً فرداً ندوہ کے موجودہ اراکین کے سامنے اصلاح کا پروگرام پیش کیا جائے اور خواہش کی جائے کہ وہ اپنے اس بڑے قومی ادارہ میں قوم کی آواز کا لحاظ کریں، پھر وہ لکھتے ہیں کہ پہلے یہ طریقہ اختیار کرنا چاہیے جب اس طریقہ سے اصلاح نا ممکن ہو تب دوسرا طریقہ (یعنی جوش کے ذریعہ سے کارکنان ندوہ کو مجبور کرنا) اختیار کیا جائے۔ ہم مختصراً عرض کرتے ہیں کہ آج بھی جلسہ دہلی میں وہی پہلا طریقہ مقصود ہے جس کی آپ نے ہدایت کی ہے لیکن ایڈیٹر صاحب اور عام پبلک کو یہ معلوم نہیں کہ یہ طریقہ پہلے اختیار کیا جا چکا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ پہلے کبھی اس قسم کی خواہش نہیں کی گئی اور اس دفعہ دفعۃً جبر یہ طریقہ اختیار کرنا مقصود ہے لیکن یہ دونوں باتیں غلط ہیں۔ حقیقت حال یہ ہے کہ ندوہ میں یہ خرابیاں مدت سے ہیں اور میں نے بار ہا فرداً فرداً اور اجتماعی طریقہ سے اس کی طرف توجہ دلائی، دو سال ہوئے کہ میں نے ایک مطبوعہ خط تمام ارکان کی خدمت میں بھیجا کہ موجودہ خرابیاں اس وجہ سے ہیں کہ ندوہ میں دو نہایت مختلف الخیال اور مختلف المذاق قسم کے ممبر ہیں اس لیے دونوں کی کشمکش کی وجہ سے کسی امر کی اصلاح نہیں ہو سکتی، اس بنا پر یہ مناسب ہو گا کہ یورپ کے قاعدہ کے موافق ایک مدت معین تک ایک مذاق کے تمام ممبر کام سے دست بردار ہو جائیں اور تنہا ایک فریق کو کام کرنے دیا جائے اور سب سے پہلے میں خود اور میرے ہم خیال اس کے موافق دست کش ہونے پر آمادہ ہیں لیکن یہ تجویز جلسہ انتظامیہ میں نا منظور کی گئی۔ اس کے بعد مولانا عبدالباری صاحب نے جو اس وقت ندوہ کے ممبر تھے اصلاح کی کوشش کی اور اسی مضمون کے مطبوعہ خطوط جاری کیے اور ایک بڑا معرکہ آلارا جلسہ ہوا۔ لیکن اس کا نتیجہ کچھ بھی نہ نکلا۔ ایک جلسہ مصالحت کا ہوا تھا جس میں ارکان ندوہ کے علاوہ بعض اور معزز حضرات بھی شریک تھے 18,19,20 جولائی 1913ء کو دفعۃً وہ انتظامات عمل میں آئے جس سے دور جدید کا آغاز ہوتا ہے۔ اس جلسہ میں بغیر اس کے کہ ایک منٹ قبل باہر کے ارکان کو خبر کی جائے تین سیکرٹریاں جو پہلے مدت سے قائم تھیں اور ندوہ کے تمام کام ان ہی کے ذریعہ سے انجام پاتے تھے اور جن پر اعتماد کا ووٹ بار بار جلسہ انتظامیہ میں بھی پاس ہو چکا تھا توڑ دی گئیں یہ کارروائی چونکہ ندوہ کے دستور العمل کے رو سے بالکل بے قاعدہ تھی اس لیے بار ہا اس کی طرف ارکان مقامی کو توجہ دلائی گئی اور بعض اخبارات میں نہایت تفصیلی مضامین لکھے گئے لیکن کسی نے پروا تک نہ کی بقول ایڈیٹر صاحب کے جوش اور شور و غل اور ہنگامہ آرائی سب سے آخری علاج ہے لیکن مجھ کو میرے دوست بتائیں کہ قومی احساس کا کیا حال ہے؟ کیا ہندوستان کے کسی معاملہ پر پبلک نے سرد اور معتدل آوازوںپر توجہ کی ہے۔ پولیٹکل معاملات، یونیورسٹی ڈیپوٹیشن، علی گڑھ کالج میں سیکرٹری اور اسٹاف کی قوت کا موازنہ، انجمن حمایت الاسلام کی اصلاح اور تقسیم عمل اس میں سے کون سی چیز ایسی ہے جو بغیر ہنگامہ آرائی اور شور و غل کے انجام پائی۔ ان واقعات کے ساتھ فقط غریب ندوہ پر کیوں الزام ہے؟ کیا اسی لیے کہ وہ دولت مند اور امراء کا اداہ نہیں ہے؟ لیکن بایں ہمہ اب بھی اس پہلے طریقہ پر عمل کرنا مقصود ہے جو بار بار استعمال کیا جا چکا ہے اور جس کی نسبت صاحب ہمدرد ہمیں مشورہ دیتے ہیں کہ پہلے ہم کو اس سے کام لینا چاہیے (گویا ہم نے اب تک اس سے کام نہیں لیا ہے) ہمدرد دہلی یکم مئی 1914ء ٭٭٭٭٭٭ جلسہ دہلی کے متعلق ایک عام غلط فہمی کی تردید یہ خیال غلطی سے عام طور پر پھیل گیا ہے کہ دہلی میں ندوہ کی اصلاحی تجویز کے متعلق جو جلسہ ہونے والا ہے وہ موجودہ کارکن اشخاص کی مخالفت اور ان کے ساتھ معرکہ آرائی کا جلسہ ہے اس غلط خیال نے تمام پبلک میں ایک اشتعال آمیز (مخالفت یا موافق) جوش پیدا کر دیا ہے، قومیں جب ابتدائی ترقی کے دور میں ہوتی ہیں تو ان کا مذاق طبع ہر بات میں اشتعال انگیز پہلو کو ڈھونڈتا ہے اور اس سے متاثر ہو کر اصل حقیقت کو نظر انداز کر دیتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ندوہ کے چند امور مسلمہ فریقین ہیں یہ امر کہ ندوہ میں کچھ خرابیاں ہیں دونوں فریق کو تسلیم ہے یہ امر کہ ان خرابیوں یا اصل قانون ندوہ میں اصلاح کی حاجت ہے دونوں کو تسلیم ہے گفتگو صرف یہ ہے کہ یہ خرابیاں کس نے پیدا کیں؟ اور اب ان کی اصلاح کا کیا طریقہ ہے؟ یہ ظاہر ہے کہ ہر فریق دوسرے فریق کو خرابیوں کو ذمہ دار بتاتا ہے اور اگرچہ اس میں شک نہیں کہ اگر کوئی آزاد کمیشن بیٹھتا تو یہ مسئلہ صاف ہو جاتا لیکن بہر حال ایسا کرنے میں مخالفت اور جوش کا زیادہ احتمال ہے اس لیے سر دست اسی نقطہ کو پیش نظر رکھنا چاہیے کہ خرابیاں کیا ہیں؟ اور اصلاح کا کیا طریقہ ہو سکتا ہے؟ طریقہ اصلاح کے متعلق ایک یہ غلط خیال پھیلا ہوا ہے کہ خود ندوہ کے جلسہ انتظامیہ میں یہ خرابیاں پیش کی جا سکتی ہیں اور وہ خود ان کی اصلاح کر سکتا ہے، لیکن واقعات یہ ہیں کہ جس زمانہ سے یہ خرابیاں اور بے ضابطگیاں ہیں اس زمانہ سے یہ مسئلہ بار ہا ندوہ کے ارکان کے سامنے آ چکا ہے سب سے پہلے ندوہ کے اصل قانون کا معاملہ ہے دونوں فریق قانون کی بعض دفعات کی لغویت اور بد اثری کو تسلیم کرتے ہیں اس بنا پر متعدد جلسہ ہائے انتظامیہ میں اس کی اصلاح کی خواہش کی گئی اور ہر صیغہ کے سیکرٹری نے جن دفعات کو صاف کرنا یا ترمیم و تنسیخ کرنا ضروری سمجھا، اس کے متعلق اپنی تحریری آراء لکھ کر بھیجیں ایک جلسہ انتظامیہ میں طے ہوا کہ مولوی ظہور احمد صاحب وکیل کے پاس یہ تمام آراء بھیجی جائیں اور وہ سب کو غور سے پڑھ کر ایک مسودہ تیار کریں جو جلسہ خاص میں پیش کیا جائے دو برس گزر جانے پر بھی کچھ کام نہیں ہوا، بالآخر مولوی صاحب موصوف سے لے کر ایک اور ممبر صاحب کے حوالہ کیا گیا اور پھر بھی کچھ نہ ہوا۔ اسی بناء پر یہ کہنا صحیح نہیں کہ خود ندوہ سے اصلاح کی خواہش نہیں کی گئی۔ دیگر معاملات کے متعلق تین دفعہ سر گرم کوششیں ہوئیں، ایک دفعہ مولوی عبدالباری صاحب نے جو اس وقت ندوہ کے ممبر تھے، اس کی کوشش کی اور مطبوعہ خطوط جاری کیے، دوسری دفعہ مرزا ظفر اللہ خان صاحب (رکن ندوہ) نے اصلاحی یاد داشت چھاپ کر تمام ممبروں کے پاس بھیجی میں نے بار بار اصلاحی معاملات پر توجہ دلائی۔ یہاں تک کہ ایک دفعہ مطبوعہ خطوط کے ذریعہ سے یہ تحریک پیش کی کہ لبرل اور کنسرویٹو گروہوں کی طرح ایک خاص مذاق کے ممبر چند برس کے لیے ممبری کے کام سے دست کش ہو جائیں اور دوسرے فریق کو کام کرنے دیں اور اس کی ابتداء میں نے اپنی دست کشی سے کرنی چاہی لیکن جلسہ انتظامیہ میں یہ تجویز بھی نا منظور ہوئی۔ ان واقعات کے بعد قریباً ایک سال تک اخبار وکیل نے ندوہ کے نقائص پر لیڈر اور مضامین شائع کیے لیکن پبلک کو مطلق احساس نہ ہوا۔ حالات مذکورہ کے بعد کیونکر کہا جا سکتا ہے کہ اصلاح کی خواہش کی یہ پہلی صدا ہے اور اس سے کسی فریق کی توہین یا تذلیل مقصود ہے۔ دہلی کے جلسہ کا یہ پروگرام ہے کہ دونوں فریق الگ الگ اصلاحی پروگرام مرتب کر کے لائیں۔ ان میں جن اصلاحات پر دونوں فریق کا اتفاق ہو وہ اسی وقت جلسہ میں مشتہر کر دی جائیں جن میں اختلاف ہو ان کے تصفیہ کے لیے جلسہ کی طرف سے ایک سب کمیٹی مقرر کر دی جائے اس میں ندوہ کے ارکان انتظامی بھی ممبر بنائے جائیں۔ اس بات کا خاص طور پر لحاظ رکھا جائے کہ ایسے مباحث نہ پیش ہوں جن سے ذاتیات معرض بحث میں آئین بلکہ ان امور کو لے لیا جائے جن کا تعلق ندوہ کے اصل قانون اور دستور العمل سے ہے اور جن کے فیصلہ کے لیے جزئی واقعات کے تحقیق کرنے کی ضرورت نہ ہو بلکہ خود قانون کا مطالعہ ان کا فیصلہ کر کے، مثلاً یہ بحث کہ موجودہ کارکن اور عہدہ دار واقعی عہدہ دار مجاز ہیں یا نہیں، واقعات کا چنداں محتاج نہیں بلکہ اصل قانون پر نظر ڈالنا کافی ہو سکتا ہے اور جس قدر واقعات کی شہادت اس کے لیے درکار ہے وہ کھلے ہوئے اور نمایاں واقعات ہیں مسلمانوں کی موجودہ بیداری کا سب سے نمایاں واقعہ عام قومی اجتماع ہے لیکن اگر اس دور میں بھی کوئی قومی ادارہ صرف چند اشخاص کے ہاتھ کا بازیچہ بن کر رہ جائے تو قومی زندگی کی طرف سے بالکل مایوس ہو جانا چاہیے۔ ارکان ندوہ کے علاوہ جو لوگ اس مسئلہ کو قوم میں لانے کے مخالف ہیں۔ صرف دو قسم کے لوگ ہیں یا وہ ہیں جو آج 22برس سے ندوہ کے مخالف اور اس کے وجود کے دشمن ہیں ان کو اس سے بڑھ کر کیا خوشی ہو سکتی ہے کہ ندوہ کل کا تباہ ہوتا ہوا آج تباہ ہو جائے یا وہ لوگ ہیں جو خود کسی ادارہ پر اسی طرح خود مختارانہ قابض ہیں اور ڈرتے ہیں کہ اس آگ کے شعلے پھیلتے پھیلتے ان کے گھر تک نہ پہنچ جائیں۔ فقط (زمیندار روزنامہ 2مئی 1914ئ) ٭٭٭٭٭٭ دار العلوم ندوۃ العلماء کی ایک اور خصوصیت ہندوستان میں آج جس قدر عربی مدارس موجود ہیں اور جن کی تعداد سینکڑوں ہزاروں تک پہنچ گئی ہے ان میں جو طلبہ تعلیم پاتے ہیں صرف وہ ہیں جن کو مدرسہ کی طرف سے کھانا کپڑا ملتا ہے یا مدرسہ کی سفارش پر دوسری جگہوں سے کھانا مقرر ہو جاتا ہے اس واقعہ سے متعدد نتائج حاصل ہوتے ہیں۔ 1عربی کی تعلیم صرف ان لوگوں میں محدود رہ گئی ہے جو افلاس کی وجہ سے اور کسی قسم کی تعلیم حاصل نہیں کر سکتے۔ 2عربی تعلیم ایسی بے کار شے سمجھ لی گئی ہے کہ بغیر اس قسم کی ترغیب دینے کے کوئی شخص اس کی طرف متوجہ نہیں ہو سکتا۔ 3ان مدارس میں اس قسم کا انتظام نہیں کہ ذی وجاہت لوگ اپنی اولاد کو وہاں بھیجنا گوارا کریں اور اس لیے امراء کا گروہ عربی اور مذہبی تعلیم سے قطعاً محروم ہوتا جاتا ہے۔ 4چونکہ صرف غریب لوگ عربی تعلیم حاصل کرتے ہیں اور ان کی تمام جماعت میں ایک ہی شخص بھی خوشحال اور صاحب جاہ و دولت نہیں ہوتا اس لیے اس گروہ کے خیالات اور جہتیں پستی کی طرف مائل ہوتی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ کوئی بڑا اولو العزم شخص اس گروہ میں نہیں پیدا ہوتا۔ لیکن دار العلوم ندوہ کی یہ عجیب خصوصیت ہے دو ثلث کے قریب وہ طلبہ ہیں جو اپنے مصارف کے آپ متکفل ہیں اور اگر دار الاقامہ (بورڈنگ ہاؤس) میں گنجائش ہوتی تو اس قسم کے طلبہ کی تعداد اور بہت زیادہ ہو جاتی۔ اس واقعہ سے متعدد امور ثابت ہوتے ہیں: 1یہاں کی عربی تعلیم میں کچھ ایسی خصوصیت ہے کہ دولتمند اور خوشحال لوگ بھی اس کو بیکار نہیں سمجھتے 2 یہاں کے دار الاقامہ میں ذی وجاہت لوگ بھی اپنی اولاد کا بھیجنا گوارا کرتے ہیں 3 دار العلوم سے بہت بڑا فائدہ یہ متوقع ہے کہ دولت مند گروہ میں بھی عربی اور مذہبی تعلیم بقدر ضرورت رواج پائے۔ اگرچہ بعض لوگوں کے نزدیک یہی امر ندوہ کے بڑے ہونے کا بڑا ثبوت ہو سکتا ہے کیونکہ وہ لوگوں کو ضروری تعلیم (یعنی انگریزی) سے روک کر ایک بیکارچیز میں پھنساتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ عربی تعلیم اگر صحیح اصول پر ہو تو وہ انگریزی تعلیم کی سد راہ نہیں بلکہ اور اس کے لیے راستہ صاف کرنے والی ہو گی۔ آج تیس برس سے انگریزی تعلیم کا غل برپا ہے باوجود اس کے ایک نہایت قلیل تعداد نے اس طرف توجہ کی ہے لیکن اگر علماء انگریزی تعلیم کے طرفدار بن جائیں تو دفعۃً قوم کی قوم کا رخ پھر جائے دار العلوم ندوہ کا مقصد اسی قسم کے علماء تیار کرنا ہے جو ایک طرف عربی اور مذہبی تعلیم کی حفاظت میں کوشش کریں اور دوسری طرف دنیوی تعلیم کی طرف بھی لوگوں کو رغبت دلائے۔ درکفے جام شریعت درکفے سندان عشق ہر ہو سنا کے نداند جام وسنداں باختن (الندوہ نمبر10جلد3) (شوال1324ھ مطابق ماہ نومبر1906ئ) ٭٭٭٭٭٭٭ علمی گروہ صوفیان مستند و زاہدان بے خبر از کہ پر سم من رہ میخانہ را ہمارے مصلحین نے جب جدید تعلیم کی بنیاد رکھنی چاہی تو ضروری سمجھا کہ پہلے قدیم عمارت ڈھاکہ سطح ہموار اور درست کر لی جائے ہم نے اس کو منظور کیا پرانی تعلیم (جس قدر ہم سے ہو سکا) عملاً مٹا دی گئی اور چونکہ خطرہ تھا کہ قدامت پرست لوگ منہدم شدہ عمارت نئے سرے سے نہ اٹھائیں اس لیے ضرور ٹھہرا کر دلوں سے بھی اس کی عظمت کا نقش مٹا دیا جائے۔ اس بناء پر ہم نے اس کو افسانہ پاریں، تقویم کہن، عضوشل، آب جامد وغیرہ مختلف خطابات دئیے اور اس طرح بار بار دہرایا کہ قدیم تعلیم بھی بول اٹھی کہ بہ من چنداں گنہ از بد گمانی میکند نسبت کہ من ہم در گمان افتادہ پندارم گنہگارم تیس برس کا زمانہ گزر گیا، قدیم تعلیم مرچلی، نئی نسلیں تیار ہوئیں ہزاروں بی اے نکلے سینکڑوں نے ایم اے کی ڈگریاں لیں، یہ سب کچھ ہوا لیکن نتیجہ؟ کیا کوئی علمی جماعت پیدا ہوئی؟ کوئی مسئلہ حل ہوا؟ کسی نے کچھ اجتہاد کیا؟ کوئی مصنف پیدا ہوا؟ قومی منبر پر کوئی خطیب نظر آیا؟ کسی کے قلم نے انشا پردازی کے معرکے فتح کیے؟ تم کہو گے کہ یہ ہماری نا انصافی ہے ایک نو عمر گرو ہ سے ایسے فتوحات عظیمہ کی توقع خود ہماری خام خیالی ہے، بے شبہ تم سچ کہتے ہو سوالات مذکورہ کو یوں بدل دینا چاہیے۔ کیا علمی مذاق کا کوئی گروہ پیدا ہوا؟ یورپ کی کسی فلسفیانہ کتاب کا ترجمہ ہوا؟ علوم جدیدہ کے کچھ مسائل قوم کی زبان میں شائع ہوئے کوئی علمی پرچہ نکلا؟ اسلام پر یورپ نے جو سینکڑوں نادر تصنیفات اور مضامین لکھے ان میں سے کچھ اردو زبان میں آیا؟ تم کہو گے کہ سوالات مذکورہ کا معیار اور گھٹانا چاہیے ہم اس کو بھی تسلیم کر لیتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ یورپ میں مذہب اسلام اور اسلامی لٹریچر پر عربی اور فارسی شاعری پر عرب کے جغرافیہ پر فلسفہ اسلام پر مسلمانوں کی تاریخ پر سینکڑوں نادر کتابیں اور رسالے لکھے گروہ کو ان میں سے کس قدر معلوم ہے؟ مسلمانوں کی سینکڑوں عجیب و غریب نادر تصنیفات کو یورپ نے شائع کیا ہے ان کی ان لوگوں کو خبر ہے؟ جرمنی میں مسلمانوں کے خاص علوم و فنون پر جو انسائیکلو پیڈیا لکھی جا رہی ہے کیا اس سے ان کو واقفیت ہے؟ پروفیسر ڈوزی نے دو ضخیم جلدوں میں تمام عربی مولد الفاظ کی ڈکشنری پچاس برس کی محنت میں لکھی کیا ان لوگوں نے اس کو دیکھا ہے گب میموریل سیریز جن کے ذریعہ سے کاص عربی اور فارسی کی قدیم نادر کتابیں شائع کی جا رہی ہیں، اس سے ان کو واقفیت ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ ہم نے اپنے علوم، اپنے فنون، اپنی تاریخ، اپنا تمدن سب کچھ فدیہ دے کر ایک نوکری پیشہ گروہ پیدا کیا ہے اور نازاں ہیں کہ نرخ بالا کن کہ ارزانی ہنوز لیکن ان سب حالات کے ساتھ سوال یہ ہے کہ چارہ کار کیا ہے کیا ہم کو اس درد کا علاج پرانے طریقہ کے مدراس میں ڈھونڈنا چاہیے؟ کیا وہاں کچھ تحقیق کا پر تو نظر آئے گا کوئی مشکل حل ہو گی؟ لفظوں کے گورکھ دھندے کے سوا اور کچھ ہاتھ آئے گا؟ قدماء کی تحقیقات کا نشان ملے گا؟ ابن ہشیم نے فن مناظر پر جو اضافہ کیا فارابی نے فن موسیقی میں جو ترقیاں کیں خیام نے جبر و مقابلہ پر جو کچھ لکھا ابن مسکویہ نے جو تاریخی تحقیقاتیں کیں ان میں سے کسی چیز کا پتہ لگے گا نہیں کچھ بھی نہیں ہمارے مولویو ں کے تو کان بھی ان سوالوں سے آشنا نہ ہوں گے۔ غرض موجودہ حالات کے ساتھ تو ان دونوں گروہوں میں سے کوئی گروہ ہمارے کام کا نہیں لیکن دیکھنا یہ ہے کہ کونسا گروہ کوشش کرنے سے کام کا بن سکتا ہے۔ ہر قوم جب ترقی کرتی ہے تو اس میں دو گروہ پیدا ہو جاتے ہیں۔ ایک وہ جو دنیوی علوم سیکھتا ہے سرکاری خدمتیں حاصل کرتا ہے انتظامات ملکی میں شریک ہوتا ہے پالیٹکس میں دخل دیتا ہے یہ گروہ علم و فن سے بے بہرہ نہیں ہوتا لیکن علم اس کا مقصد زندگی نہیں ہوتا ہمارے زمانے میں یہ گروہ وہی ہے جس کو ہم جدید تعلیم یافتہ گروہ کہتے ہیں۔ دوسرا گروہ علمی گروہ ہوتا ہے اس کی غرض و غایت محض علم ہوتی ہے، وہ تھوڑی سی معاش پر اکتفا کرتا ہے اور صرف علمی خدمت کو اپنا منتہائے مقصد قرار دیتا ہے۔ یہ گروہ اگرچہ در حقیقت آج کل مفقود ہے لیکن اس گروہ کے جو آثار خواص ہیں وہ عربی خواں گروہ میں پائے جاتے ہیں عربی خواں گروہ علانیہ جانتا ہے کہ عربی علوم کے پڑھنے سے معاش نہیں حاصل ہو سکتی اور زمانے کی نظروں میں ان علوم کی کچھ قدر نہیں تاہم یہ گروہ نہایت محویت شوق اور شفیتگی سے علوم عربی کی تحصیل میں مصروف ہے، صرف اس لیے کہ اس نے اپنا مقصد تحصیل دینا نہیں بلکہ تحصیل علم فرار رہا ہے جو کچھ کمی ہے یہ ہے کہ وہ جس چیز کو علم سمجھ رہے ہیں وہ علم کے نہایت ابتدائی مراتب ہیں۔ عربی میں جو علوم و فنون پڑھائے جاتے ہیں (دینیات کو چھوڑ کر) ان میں سے اکثر ایسے ہیں جن کو یورپ نے اس قدر ترقی دی ہے کہ ان کی تحقیقات کے سامنے پچھلے کارنامے بازیچہ اطفال سے زیادہ نہیں رہے یلبندی اور صدراکی طبیعات کو آج کل کی طبیعات سے کیا نسبت ہے عربی ادب کے متعلق یورپ نے عربی کی وہ قدیم نادر تصنیفات بہم پہنچائیں جن کی ہمارے علماء کو خبر تک نہیں غرض یہی عربی خواں گروہ اگر یورپ کی کسی زبان او ریورپ کی تحقیقات سے آشنا ہو جائے تو وہ گروہ بن جائیگا جس کو علمی گروہ کہتے ہیں اور جس کے بغیر قوم کی قوم خوب ست و خوش است و بو ندارد بے شبہ آج تک عربی خواں گروہ نے انگریزی زبان اور انگریزی علوم و فنون سے احتراز کیا، لیکن کیوں؟ اس لیے نہیں کہ ان کے نزدیک انگریزی پڑھنا کفر ہے بلکہ اس لیے کہ ان کو یہ غلط خیال ہے کہ انگریزی میں علوم و فنون نہیں، صرف سطحی اور عامیانہ باتیں ہیں یہ اعتقاد اس قدر راسخ ہو گیا ہے کہ ہم خود ندوہ میں برسوں سے اس اعتقاد کو زائل کرنا چاہتے ہیں لیکن کسی شخص پر کچھ اثر نہیں ہوتا جس کی وجہ صرف یہ ہے کہ ہمارے علماء یورپ کے علوم و فنون کا اندازہ انگریزی خوانوں سے کرتے ہیں اور یہ ظاہر ہے کہ اس گروہ سے یورپ کی علمی تحقیقات و تدقیقات کا اندازہ نہیں ہو سکتا۔ مسلمانوں میں علمی گروہ وہی بن سکتا ہے جو اسلامی علوم کے ساتھ تحقیقات حال سے بھی نا آشنا نہ ہو، چنانچہ بلاد اسلامیہ نے بدت کے تجربہ کے بعد اس نکتہ کو سمجھا اور اسی بنا پر قاہرہ میں ایک یونیورسٹی قائم کی گئی جس کا نام جامعہ مصریہ ہے تاہم اس یونیورسٹی میں یہ کمی ہے کہ اس میں خالص مذہبی علوم یعنی تفسیر و حدیث وغیرہ نہیں پڑھائے جاتے۔ اس جر کی تلافی کی اگر امید ہو سکتی ہے تو حیدر آباد سے ہو سکتی ہے جس نے دار العلوم کو وسیع پیمانے پر قائم کرنا چاہا ہے ندوہ کے تہی مایہ دار العلوم نے اسی مقصد کو پیش نظر رکھا ہوا ہے اور اب اس کی کامیابی کے نہایت ابتدائی آثار نظر آنے لگے ہیں۔ (الندوہ جلد6نمبر5) جمادی الاولیٰ 1327ھ بمطابق ماہ جون1909ء ٭٭٭٭٭٭ (سیاسی) مسلمانوں کی پولیٹکل کروٹ اگر یہ سچ ہے کہ تقسیم بنگال کے طمانچے سے مسلمانوں کی سیاست کا منہ پھر گیا، تو ہم رضا مند ہیں کہ اس تقریب مسرت میں بنگال کے سوا کچھ اور بھی نثار کر دیا جائے لیکن مرکز سیاست اور اس کے حوالے سے جو صدائیں آتی ہیں زود فنا ہونے کے ساتھ خود ان کا لہجہ بھی غلط ہے۔ پانیر کا مسلمان نامہ نگار لکھتا ہے کہ ’’ چونکہ اب نظر آتا ہے کہ ترکی اور ایران کے کمزور ہونے کی وجہ سے غیر ممالک میں ہمارا رتبہ قائم نہیں رہے گا اس لیے ہمیں ہندوؤں سے مل جانا چاہیے۔‘‘ ہندوؤں سے ملنا اچھی بات ہے لیکن یہ ہمیشہ سے اچھی بات تھی اور ہمیشہ اچھی بات رہے گی لیکن نامہ نگار نے جو جدید ضرورت بیان کی ہے وہ اسلام کا ننگ ہے کیا ہم کو ہمسایوں کے دامن میں اس لیے پناہ لینی چاہیے کہ اب ہمارا کوئی سہارا نہیں رہا؟ کیا اگر ترکی اور ایران پر زور ہوتے تو ہمارے ہمسایہ کے مقابلہ میں مدد کر سکتے؟ کیا شملہ ڈیپوٹیشن کی اس فخاری پر انگریزوں کو یقین آ گیا تھا کہ ہمارا سیاسی وزن اپنے ہمسایوں سے زیادہ ہے؟ نواب وقار الملک کا سنجیدہ لیکن بہادرانہ مضمون ایک سچے دلیر مسلمان کی آواز ہو سکتاتھا اگر اس میں یہ غلط منطق شامل نہ ہو جاتی کہ ’’ ہم نیشنل کانگریس میں شریک ہوجائیں گے تو ہماری ہستی اس طرح برباد ہو جائے گی جس طرح معمولی دریا سمندر میں مل جاتے ہیں‘‘ اگر پارسیوں کی قوم ایک لاکھ کی جماعت کے ساتھ ہندوؤں کے 19کروڑ اور مسلمانوں کے 5کروڑ افراد کے مقابلہ میں اپنی ہستی قائم رکھ سکتی ہے، اگر دادا بھائی نور ذرجی تمام ہندوستان کے مقابلہ میں سب سے بڑے پہلے پارلیمنٹ کا ممبر ہو سکتا ہے، اگر گو کھلے تنہا اصلاحی منصوبوں کی عظیم الشان تحریک کی بنیاد ڈال سکتا ہے تو 5کروڑ مسلمانوں کو اپنی ہستی کے مٹ جانے کا اندیشہ نہیں کرنا چاہیے۔ غرض دلائل اگرچہ غلط ہیں لیکن بات بالکل صحیح ہے کہ سیاسی خواب سے بیدار ہونے کا وقت آ گیا ہے ہم کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ جس چیز کو ہم سیاست سمجھتے تھے وہ سیاست کی تحقیر تھی ہماری سیاست کا کعبہ دراصل بت کدہ تھا۔ ہماری سیاست جس کی آواز کلمہ شہادت کی طرح ولادت کے دن سے ہمارے کانوں میں پڑی صرف یہ تھی ابھی وقت نہیں آیا ہے ابھی ہمیں سیاست کے قابل بننا چاہیے ابھی صرف تعلیم کی ضرورت ہے ہماری تعداد کم ہے اس لیے نیابتی اصول سلطنت ہمارے موافق نہیں۔ یہ الفاظ اس قدر دہرائے گئے کہ قوم کی رگ و پے میں سرایت کر گئے، ہر مسلمان بچہ ان خیالات کو ساتھ لے کر پیدا ہوتاہے اور زندگی کے تمام مراحل میں ساتھ رکھتا ہے مسلمانوں کی عام جماعت میں جب سیاست کا نام آتا ہے تو یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ اچھے سے اچھا نوجوان تعلیم یافتہ گراموفون کی طرح ان الفاظ کو دہراتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جدوجہد سعی و کوشش، حوصلہ مندی، قوت عمل، سرگرمی، جوش اور ایثار نفس کے لحاظ سے عام سناٹا چھا گیا ہم سنتے ہیں کہ گروکل میں تین سو بچے تعلیم پا رہے ہیں جنہوں نے اپنی زندگی قوم کے ہاتھ فروخت کر دی ہے اور باوجود دولت مندی کے زمین پر سوتے اور کمبل اوڑھتے ہیں۔ ہم کو معلوم ہے کہ پونا میں سرونٹس آف انڈیا سوسائٹی قائم ہے جہاں اس وقت 29 بی اے سیاست کی تعلیم پا رہے ہیں جو پانچ برس کی تعلیم کے بعد تمام عمر ہندوستان کی خدمت کریں گے اور ان کی کل زندگی کی قیمت صرف تیس روپیہ ماہوار ہو گی۔ ہم واقف ہیں کہ فرگوسن کالج میں (19) پروفیسروں نے جن میں سے کوئی شخص بی اے سے کم تعلیم یافتہ نہیں، صرف75 روپیہ ماہوار پر اپنی تمام عمر فروخت کر دی ہے۔ ہم اخباروں میں پڑھتے ہیں کہ آریہ کالج اور ہندو کالج میں متعدد ہندو پروفیسر ہیں جو بغیر کسی معاوضہ کے کام کرتے ہیں۔ لیکن یہ تمام عبرت انگیز آوازیں، یہ تمام پر جوش نمونے، یہ تمام حیرت انگیز واقعات ہمارے دلوں میں ایک ذرا جنبش نہیں پیدا کر سکتے۔ ہماری قومی درس گاہوں نے آج تک ایثار نفس کی ایک مثال بھی نہیں پیدا کی۔ ہمارا قومی تربیت یافتہ گریجویٹ قومی کام میں نرخ بازار سے ایک حبہ اپنی قیمت کم نہیں کرتا کیوں صرف اس لیے کہ ہمارا پولیٹکل احساس بالکل مر گیا ہے۔ دنیا میں صرف آئڈیل (مطمح نظر) ایک چیز ہے جو انسان کے جذبات اور احساسات کو بر انگیختہ کر سکتی ہے۔ ہمارا آئیڈیل کیا ہے؟ ہم نے کس چیز کو تاکا ہے؟ ہمارا کیا منتہائے خیال ہے؟ ’’ بی اے اور نوکریاں‘‘ کیا اس آئیڈیل سے قوم میں کسی قسم کے پر زور جذبات پیدا ہو سکتے ہیں؟ کیا اتنی سی بات کے لیے زحمتیں برداشت کی جا سکتی ہیں؟ کیا یہ مقصد کوئی بڑا ولولہ دل میں پیدا کر سکتاہے؟کیا اس ذوق میں فرش خاک پھولوں کی سیخ بن سکتا ہے؟ اس پست مقصد سے سخت نقصان یہ ہوا کہ تمام قوم کی قوم میں پست حوصلگی اور بزدلی چھا گئی۔ ہمارے سیاسی لعنت نے جائز آزادی کا نام بغاوت رکھ دیا ہے۔ ایک پارسی یا ہندو کانگرس میں جاتا ہے انتظام حکومت پر نکتہ چینیاں کرتا ہے اور پھر پارلیمنٹ اور وائسرائے کی کونسل کا ممبر باقی رہتا ہے۔ لیکن مسلمان ایجوکیشنل کانفرنس میں آتے گھبراتے ہیں اور سرسید سے فتویٰ پوچھتے ہیں یہاں تک کہ مرحوم کو علی گڑھ گزٹ میں مراسلہ چھاپنا پڑتا ہے کہ تعلیمی کانفرنس میں شریک ہونا ممنوع نہیں ہم کو معلوم ہے کہ بہت سے معزز لوگوں نے مسلم لیگ کی ممبری کے لیے یہ شرط پیش کی کہ صاحب کلکٹر بہادر سے اجازت دلوائی جائے۔ جب ہم اس اختلاف حالت کا سبب پوچھتے ہیں تو ہمارے لیڈر بہ نازک فرق ہم کو سمجھاتے ہیں کہ ہندو مچھر ہیں اس لیے گورنمنٹ کو ان کی بھن بھناہٹ کی پروا نہیں لیکن مسلمان شیر نیستاں ہیں ان کی ہمہمہ سے جنگل دہل جاتا ہے خیر! یہ فریب کاری ختم ہو چکی، غفلت کا دور گزر چکا، قوم میں ایک احساس پیدا ہو چلا ہے اور صرف یہ متعین کرنا رہ گیا ہے کہ نئی زندگی کا طریق عمل کیا ہو گا؟ ہم آئندہ تفصیل سے ایک ایک موضوع پر گفتگو کریں گے۔ 12فروری 1912ء 2 اس بحث میں امور ذیل بحث طلب ہیں 1پالیٹکس کی صحیح اسکیم 2ہمارے موجودہ طریقے کی غلطیاں،3ہندو، مسلمانوں کا اتحاد۔ اگرچہ ضرورت صرف اسی بات کے بتانے کی ہے کہ پالیٹکس کی صحیح اسکیم کیا ہے اور یہ کہ جو طریقہ اختیار کیا گیا ہے وہ نہ صرف بیکار ہے بلکہ اس کا یہ نتیجہ ہو گا کہ قوم ہمیشہ کے لیے پالیٹکس سے محروم رہ جائے۔ لیکن ان باتوں کے ثابت کرنے سے پہلے یہ بتانا چاہیے کہ خود پالیٹکس کی کیا حقیقت ہے؟ ’’ مسلمان‘‘ دو حیثیتیں رکھتے ہیں1گورنمنٹ برطانیہ کی رعایا میں2مسلمان ہیں اس بنا پر مسلمانوں کی پالیٹکس ان ہی دونوں اجزاء کا مجموعہ ہے اور ترتیباً پہلا جز دوسرے جز پر مقدم ہے۔ رعایا پر حکومت کا جو قدیم شخصی طریقہ تھا اس کا یہ اصل الاصول تھا اور آج بھی شخصی سلطنتوں میں قائم ہے کہ ’’ بادشاہ کی زبان قانون ہے وہ جو چاہتا ہے کر سکتا ہے، رعایا کو کسی قسم کے دخل دینے کا حق نہیں‘‘ اگر یہ تسلیم کر لیا جائے کہ انگریزی حکومت اسی قسم کی حکومت ہے تو تمام بحثوں کا خاتمہ ہو جاتا ہے پر جوش نیشنل کانگریس اور مردہ مسلم لیگ دونوں بیکار چیزیں ہیں، لیکن وہ انگلو انڈین بھی جو ہندوستانیوں کو کسی قسم کے حقوق دینے پر راضی نہیں، ان کے نزدیک بھی حکومت انگریزی کی نسبت ’’ شخصی حکومت‘‘ کا لقب ایک قومی عار ہے جس کو کوئی انگلش مین کبھی گوارا نہیں کر سکتا۔ اب انگریزی حکومت شخصی نہیں تو پارلیمنٹری (دستوری) ہے اگرچہ طرز حکومت بظاہر شخصی ہے، یعنی ایک خاص خاندان شاہی وراثۃً فرماں روا ہوتا ہے لیکن حکومت کا نظم و نسق، پارلیمنٹ ہاؤس آف لارڈز اور ہاؤس آف کانز سے مرکب ہے اس لیے یہ شخصیت دراصل اعلیٰ درجہ کی جمہوریت ہے اس اصول کے تسلیم کرنے کے ساتھ کہ انگریزی حکومت دراصل پارلیمنٹری (دستوری) ہے پالیٹکس کا مسئلہ پیدا ہو جاتا ہے یعنی یہ کہ رعایا کو انتظام حکومت میں ہر قسم کی مداخلت ہے اظہار رائے اور نکتہ چینی کا حق حاصل ہے بلکہ زیادہ صحیح یہ ہے رعایا محکوم بھی ہے اور حاکم بھی وہ خود اپنے لیے قانون بتاتی ہے اور خود اس پر عمل کرتی ہے۔ انگلستان میں یہ مسئلہ بالکل صاف ہے، لبرل اور کنسرویٹیو، دونوں میں سے کوئی اس سے انکار نہیں کر سکتا، لیکن ہندوستان میں آ کر اس مسئلہ کا رخ بدل جاتا ہے اور یہ وہی نقطہ ہے جہاں سے ہماری یعنی ہندوستانیوں کی پالیٹکس کا خط شروع ہوتا ہے اب سوال یہ ہے کہ کیا ایک عمدہ اصول حکومت، ایک پر فخر جمہوریت ایک بے نظیر قانون انصاف، صرف اس وجہ سے قالب بدل کر دفعۃً اپنی تمام خصوصیتیں کھو دیتا ہے کہ ملک اور نگت بدل گئی ہے؟ کیا ہندوستان کی خاک نے حاکمانہ دماغ نہیں پیدا کیے ہیں؟ کیا اس وسیع سر زمین میں بڑے بڑے مدبرین ملک نہیں گزرے؟ کیا یہاں کے مقننوں نے بانیان قانون کی صف میں ممتاز درجہ نہیں حاصل کیا؟ کیا اسی ملک نے اکبر اعظم، ٹوڈرمل، ابو الفضل، عضد الملک اور سر سالار جنگ نہیں پیدا کئے؟ جو خاک ان جواہرات کو پہلے پیدا کر سکتی تھی، کیا انگریزی حکومت کے مبارک عہد میں اس شرف سے محروم ہو گئی ہے؟ قیاس اور استنباط کی ضرورت نہیں، واقعات اور تجربے کیا شہادت دے رہے ہیں؟ ہندوستانیوں میں سے جن لوگوں کو حکومت کی بلند ذمہ داریاں دی گئیں، ان میں سے کون امتحان مقابلہ میں ناکامیاب رہا؟ کیا اس سے انکار ہو سکتا ہے کہ سید محمود، بدر الدین، طیب جی مولوی امیر علی بہترین جج تھے؟ کیا اس میں سے کسی کو شبہ ہے کہ نو روزجی پارلیمنٹ کا کامیاب ممبر تھا؟ کیا گو کھلے کی صدائے شہرت لندن میں نہیں گونجی؟ کیا سید علی امام اپنے ہمسروں کی صف میں اعلانیہ نمایاں نہیں ہے؟ لیکن چونکہ ایک مدعی کا دعویٰ گو کتنا ہی زبردست ہو آسانی سے تسلیم نہیں کیا جا سکتا، اس لیے ہمیں دیکھنا ہے کہ سب سے بڑی معدلت گاہ نے اس مسئلہ کے متعلق کیا فیصلہ کیا ہے؟ غدر کے بعد جب عنان حکومت حضور ملکہ معظمہ نے اپنے ہاتھ میں لی، تو پچھلے تجربہ کے نتیجے کے طور پر یہ اعلان دیا کہ ہندوستان میں حکومت کی جائے گی اس میں رنگ اور قومیت کا امتیاز نہ ہو گا۔ یہ اعلان حضور ممدوحہ کی ذاتی رائے نہ تھی بلکہ وہ پارلیمنٹ کی، ملک کی انگریزی قوم کی با ضابطہ آواز تھی۔ ہم کو معلوم ہے کہ لارڈ کرزن اس اعلان کو دل خوش کن وعدہ سمجھتے تھے لیکن لارڈ کرزن کو کیا حق حاصل ہے کہ وہ ایسے جائز، ایسے قابل فخر، ایسے پر انصاف ارشاد شاہی کی غلط تعبیر کر کے اس کی عظمت اور وقعت کو پامال کریں؟ لیکن ان سب باتوں سے قطع نظر، دیکھنا یہ ہے کہ اس معرکہ میں فتح و شکست کا کیا فیصلہ ہوا جس زمانہ میں اول اول ہندوستان کی طرف سے حقوق طلبی کا مقدمہ انصاف کی عدالت میں پیش ہوا اس وقت سے آج تک برابر انگلو انڈین کی طرف سے پر زور مقاومت ہے لیکن نتیجہ یہ ہوا کہ روز بروز حریف وک شکست ہوتی گئی۔ وہ بڑے بڑے عہدے جوان کے لیے مخصوص اور گویا زمین ممنوعہ تھے۔ ان سے خصوصیت کا پردہ اٹھ گیا، کلکتہ، بمبئی، الہ آباد، مدراس، پنجاب کے ہائی کورٹوں میں ہندوستانی انگریزوں کے ساتھ دوش بدوش بیٹھے، آج ایوان گورنری کے چھ ستونوں میں سے ایک ستون اعظم ہندوستان ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ رفارم اسکیم نے گویا سلف گورنمنٹ (زیر حمایت برطانیہ) کا سنگ بنیاد رکھ دیا۔ جو جدوجہد، جو سعی و عمل جو پر جوش کوششیں ملک میں جاری تھیں، نا ممکن تھا کہ مسلمان ان سے بے اثر رہتے۔ بمبئی محض دکانداروں کی منڈی ہے، مسلمانوں میں وہاں نام کو تعلیم نہیں، جس زمانہ کا یہ ذکر ہے اس وقت تک تمام بمبئی میں ایک گریجویٹ بھی نہیں پیدا ہوا تھا اور آج بھی دو چار سے زیادہ نہیں، تاہم اس خاک نے بدر الدین طیب جی پیدا کیا جو نیشنل کانگرس کی خطرناک پریسیڈنٹی قبول کرنے سے نہ جھجھکا اور جو سرکاری ملازمت یعنی ہائی کورٹ کی ججی کے زمانہ میں بھی اپنی آزاد خیالی کو دبانہ سکتا تھا۔ اس تاجرانہ منڈی کا دوسرا ممبر رحمت اللہ سیانی تھا اور اس نے بھی یہ منصب اعظم دلیرانہ حاصل کیا تھا۔ مدراس میں سید محمد اور کلکتہ میں مسٹر امیر علی پالیٹکس میں ہاتھ لگانے سے ڈرتے نہ تھے ان واقعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ملک کا ذرہ ذرہ پالیٹکس کی روشنی سے چمکتا تھا لیکن یہ نہایت تعجب انگیز بات ہے کہ ممالک مغربی و شمالی اور آگرہ و دہلی و پنجاب جو ایک زمانہ میں مرکز حکومت اور ہندوستان کے جسم کا دل و دماغ رہ چکا تھا۔ جہاں مسلمان نسبتہً ہندوستان کے تمام حصوں کی بہ نسبت زیادہ تعلیم حاصل کر چکے تھے جہاں عرب و عجم کے بہترین خاندانوں کی یادگاریں موجود تھیں وہ پالیٹکس سے اس قدر بے حس رہا کہ آج بھی پالیٹکس کا نام لیتا ہے تو زبان لڑکھڑاتی ہے، اس عجیب اور حیرت انگیز اختلاف حالت کا سمجھنا آسان نہیں یہ حالت قدرتی اور اصلی نہ تھی بلکہ پر زور رکاوٹوں نے پیدا کی تھی وہ پر زور دست و قلم جس نے اسباب بغاوت ہند لکھا تھا اور اس وقت لکھا تھا جب کورٹ مارشل کے ہیبت ناک شعلے بلند تھے وہ بہادر جس نے پنجاب یونیورسٹی کی مخالفت میں لارڈ لٹن کی تقریروں کی دھجیاں اڑا دی تھیں اور جو کچھ اس نے ان تین مضامین میں لکھا کانگریس کا لٹریچر حقوق طلبی کے متعلق اس سے زیادہ پر زور لٹریچر نہیں پیدا کر سکتا۔ وہ جاں باز جو آگرہ کے دربار سے اس لیے برہم ہو کر چلا آیا تھا کہ دربار میں ہندوستانیوں اور انگریزوں کی کرسیاں برابر درجہ پر نہ تھیں۔ وہ انصاف پرست جس نے بنگالیوں کی نسبت کہا تھا میں اقرار کرتا ہوں کہ ہمارے ملک میں صرف بنگالی ایسی قوم ہیں جن پر ہم واجبی طور سے فخر کر سکتے ہیں اور یہ صرف انہی کی بدولت ہے کہ علم اور آزادی اور حب وطنی کو ہمارے ملک میں ترقی ہوئی ہیں صحیح طور پر کہہ سکتا ہوں کہ وہ بالیقین ہندوستان کی تمام قوموں کے سرتاج ہیں (دیکھو تقریر پریسیڈنٹ مسلم لیگ بمقام ناگپور) حالات اور گردو پیش کے واقعات نے اس کو اس پر مجبور کیا کہ اس نے تمام اسلامی امہ کو پالیٹکس سے روک دیا، یہ کیوں ہوا؟ کن اسباب سے ہوا؟ کس چیز نے یہ اختلاف حالت پیدا کر دیا؟ ان سوالات کا جواب دینا آج غیر ضروری بلکہ مضر ہے۔ آج اجتہاد اور تقلید سے آزادی کا زمانہ ہے آج ہمیں کسی مسئلہ کو اس بناء پر ماننا یا انکار کرنا نہیں چاہیے کہ کسی بڑے سے بڑے شخص کی رائے اس کے متعلق کیا ہے؟ بلکہ اس لیے کہ فی نفسہ وہ مسئلہ کیا ہے؟ ہم (مسلمان) وہ لوگ ہیں کہ پیغمبر کے سوا کسی کو معصوم نہیں سمجھتے ہماری ایک بڑھیا نے فاروق اعظمؓ کو سر منبر ٹوک دیا تھا کہ ہماری تمام عقل و سمجھ دل و دماغ، تجربہ و مشاہدہ جذبات و احساسات سب اس لیے بیکار ہو جانے چاہئیں کہ کسی مصلح نے کسی زمانہ میں کہا تھا؟ تاہم ہمیں ایک دفعہ اس نامور لیڈر کے ارشادات کو اس نظر سے دیکھنا چاہئے کہ وہ ایک موقت شریعت تھی، یا اب ہماری پولیٹکل زندگی کا وہ ابدی قانون ہے سرسید مرحوم کی مشہور سیاسی تقریر کا جس کی خود غرضانہ قدر دانی کا ثبوت مسٹر بک نے اس کو تار پر ولایت بھیجنے سے دیا تھا سنگ بنیاد نہ تھا ’’ اگر کونسل کے ممبر انتخاب سے مقرر ہوں تو کسی طرح مسلمانوں کی تعداد ہندوؤں کے برابر نہیں ہو سکتی، کیونکہ ہندوؤں کی تعداد ہندوستان میں بمقابلہ مسلمانوں کے چوگنی ہے، پس جو طریقہ انتخاب کا قرار دیا جائے گا اور اس سے اگر ایک مسلمان ممبر ہو گا تو چار ہندو ہوں گے اور اگر بفرض محال کوئی ایسا قاعدہ رکھا جائے جس کے رو سے ہندو اور مسلمان دونوں قوموں کے ممبر برابر رہیں تو موجودہ حالت میں ایک مسلمان بھی ایسا نہ نکلے گا جو وائسرائے کی کونسل میں بمقابلہ ہندوؤں کے کام کرنے کے قابل ہو۔‘‘ یہ خطرہ بالکل بجا تھا اور اب بھی ہے لیکن بہر حال یہ تو وجود میں آ چکا رفارم اسکیم نے یہ خطرناک قاعدہ جاری کر دیا اور تمام مسلمان صرف اتنی ترمیم پر راضی ہو گئے کہ مردم شماری کی نسبت سے ان کی تعداد زیادہ رہے اور ان کے ممبروں کا انتخاب خود ان کے ہاتھ میں ہو۔ اس ترمیم کا اگرچہ اصل مسئلہ پر کچھ اثر نہیں پڑا۔ مسلمان اب بھی اقلیت میں ہیں اور ہمیشہ رہیں گے لیکن اس ترمیم کی کامیابی پر جو در حقیقت سرسید کی نا فرمانی تھی، تمام ہندوستان کے مسلمانوں نے اس سرے سے اس سرے تک خوشی کے نعرے بلند کیے نیشنل کانگریس کی شرکت اگر اس لیے بری تھی کہ وہ انتخابی اصول چاہتی تھی اور مسلمان کسی طرح اس اصول کو تسلیم نہیں کر سکتے تھے تو انتخابی اصول بہر حال آج وہ قبول کر چکے۔ تقریر مذکورہ بالا کا دوسرا ٹکڑا یعنی ’’ موجودہ حالت میں کوئی مسلمان وائسرائے کی کونسل میں ممبری کرنے کے قابل نہیں ہے‘‘ علی گڑھ اسکول کے لحاظ سے بالکل سچ ہے، لیکن کیا بدر الدین طیب جی، ماسٹر امیر علی، رحمت اللہ سیانی اس زمانہ میں اس کام کے قابل نہ تھے؟ اور کیا آج سید علی امام، سید حسن امام، مظہر الحق اپنے ہندو حریفوں سے کم ہیں؟ بے شبہ ان میں سے کوئی شخص مجموعی حیثیتوں سے گو کھلے نہیں ہے لیکن خود ہندوؤں میں دوسرا گو کھلے کون ہے۔ علی گڑھ نے سینکڑوں، ہزاروں اعلیٰ درجے کے دل و دماغ کی تربیت کی، ہزاروں گریجویٹ بنائے ’’ کامریڈ کا ایڈیٹر سجاد حیدر رجیا انشا پرداز اور ظفر علی خان جیسا دلیر پیدا کیا جو ایسے قابل اشخاص پیدا کر سکتا تھا کیا وہ بدر الدین طیب جی اور علی امام نہیں پیدا کر سکتا تھا؟ لیکن جس عضو سے کام نہیں لیا جاتا وہ بیکار ہو جاتا ہے اس لیے سیاسی تعلیم سے محروم رہنے کا یہ لازمی نتیجہ تھا اور یہی ہونا چاہیے تھا، سرسید کے ارشادات کا ایک فقرہ یہ ہے:‘‘ ’’ اگر بالفرض کوئی ایسا مسلمان نکل بھی آئے تو ہر گز یہ امید نہیں کہ وہ اپنے کاروبار چھوڑ کر سفر کی تکلیف گوارا کر کے تمام اخراجات جو ایک ممبر کونسل کے لیے زیبا ہیں اپنے پاس سے برداشت کر کے یا قوم سے چندہ کر کے کلکتہ اور شملہ میں حاضر رہے گا۔‘‘ کاش سرسید آج زندہ ہوتے اور دیکھتے کہ ایک مسلمان نہیں بلکہ کئی اور کئی سے بھی زیادہ کلکتہ اور شملہ کا سفر کرتے ہیں اور ہفتوں وہاں موجود رہتے ہیں اور ہر قسم کے مصارف برداشت کرتے ہیں۔ مسلمان خدا کے فضل سے ایسے فیاض ہیں کہ وائسرائے کی کونسل کا تو کیا ذکر ہے۔ بعض مجالس کے سالانہ جلسوں میں سینکڑوں ہزاروں کوس کا سفر کر کے آتے ہیں اور چند باتیں کر کے چلے جاتے ہیں، نیشنل کانگریس کی مخالفت کی سب سے بڑی وجہ سرسید نے یہ ظاہر کی تھی کہ اگر مقابلہ کا امتحان جو نیشنل کانگریس کے مطلوبات میں ہے ہندوستان میں جاری ہوا تو کمینہ قوموں کو حکومت کی کرسیاں نصیب ہوں گی اور ہندوستان کی شریف قومیں اپنے ملک کے ایک ادنیٰ درجہ کے شخص کا جس کی جڑ بنیاد سے واقف ہیں کبھی اپنی جان اور مال پر حاکم ہونا پسند نہ کریں گے۔ لیکن ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ بڑھئی، جلا ہے، رائیں گاڑیں، بڑے بڑے عہدوں پر پہنچے اور بڑے بڑے تیس مار خانوں اور نسل تیمور اور آل ہاشم نے ان کے آگے گردنیں جھکا دیں۔ سرسید نے اس تقریر میں یہ فرمایا تھا کہ بنگالی اس قدر بزدل ہیں کہ چھری کی صورت دیکھ کر کرسی پر سے گر پڑتے ہیں اور میز کے نیچے رینگنے لگتے ہیں، جب یہ فقرہ کہا گیا تھا بالکل سچ تھا لیکن کیا آج بھی سچ ہے؟ جب زمانہ اس قدر دور نکل آیا ہے جب تمام حالات بالکل بدل گئے ہیں جب موجودہ زمانہ نے پرانا منظر بالکل ختم ہو گیا تو کیا وہ شمع جو رات کے وقت جلائی گئی تھی روز روشن میں بھی رہنمائی کا کام دے گی؟ عورتوں کی تعلیم، ٹیکنیکل تعلیم، سائنس کی تعلیم کے متعلق سرسید کو جو بے اعتنائی تھی ان چیزوں میں ہم ان کی مخالفت کر کے گنہگار ہو چکے ہیں ایک پالیٹکس کا گناہ اور سہی ایں ہم اندر عاشقی بالا سے غمہا سے دگر لیکن بحث کا اصل پہلو اب بھی نظر انداز رہ گیا ہے، سرسید نے نیشنل کانگریس روکا تھا۔ لیکن نیشنل کانگریش اور پالیٹکس مرادف الفاظ نہیں ہیں۔ پالٹیکس کے متعدد اسکول ہیں انگلستان میں لبرل ہیں، کنسرویٹیو ہیں، ریڈیکل ہیں اور یہ سب پولٹیکل فرقے ہیں۔ نیشنل کانگریس پالیٹکس کا ایک خاص اسکول ہے ہم تسلیم کرتے ہیں کہ خاص سکول ہمارے لیے مفید نہیں، سوال یہ ہے کہ ہم کو مطلقاً پالیٹکس میں پڑنا چاہیے یا نہیں؟ یعنی ہمارے کچھ حقوق گورنمنٹ پر ہیں یا نہیں؟ انتظام حکومت میں ہم کو بھی مداخلت کا حق ہے یا نہیں؟ اور اگر ہے تو ہم کو اس کا مطالبہ کرنا چاہیے یا نہیں؟ سرسید نے مختلف موقعوں پر ملکی اور تعلیمی معاملات میں جس لہجہ میں حقوق کا مطالبہ اور آزادانہ اظہار رائے کیا کون اس سے زیادہ کر سکتا ہے؟ لارڈ لٹن نے جب پنجاب میں مشرقی یونیورسٹی قائم کی تو سرسید کو خیال پیدا ہوا کہ اس سے انگریزی تعلیم کا گھٹانا مقصد ہے اس وقت انہوں نے ’’ تہذیب الاخلاق‘‘ (بار دوم) میں تین ایسے پر جوش مضامین لکھے جن میں لارڈ لٹن کی اسکیم کی دھجیاں اڑا دیں اس کے چند فقرے ہیں۔ ’’ ہم نہایت سچائی اور گورنمنٹ کی خیر خواہی سے بتانا چاہتے ہیں کہ سمجھ دار اور دور اندیش ہندوستانی ان تمام کارروائیوں سے گورنمنٹ کی نسبت کیا خیال رکھتے ہیں نہایت بد خیال ان کے دل میں پیدا ہوتا ہے۔ چند سال گزرے کہ ان کو یقین کامل تھا کہ گورنمنٹ کو در حقیقت ہمیں واقعی تعلیم دینا منظور نہیں ہے وہ ہم کو ایسا مرکب بنانا چاہتی ہے کہ اسباب لاد کر ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچا دے اس کو انتظام ملک اور انتظام دفتر کے لیے چند ایسی پتلیاں درکار ہیں جو انگریزی لکھ سکتی ہوں۔‘‘ ’’ کچھ عرصہ نہیں گزرا کہ ہندوستانیوں میں سے یہ خیال دور ہوا تھا۔۔۔۔ مگر ہندوستانی خوب سمجھتے ہیں کہ تھوڑے دنوں سے بعض مدبرین سلطنت کی پالیسی پھر بدلی ہے اور ہندوستانیوں کو اب اعلیٰ درجہ کی تعلیم دینا مناسب نہیں سمجھتی۔‘‘ ’’ ہم پر احسان رکھ کر ہم کو دھوکے میں پھر ڈالا جاتا ہے کہ ہم تمہارے مشرقی علوم اور تمہاری مشرقی زبان کو ترقی دیتے ہیں مگر ہم پوچھتے ہیں کہ کیوں؟ اور کس مطلب سے؟ اس کا جواب کسی پیرایہ میں دیا جائے اور کیسے ہی میٹھے لفظوں میں دیا جائے اس کا نتیجہ یہی ہے کہ غلامی کی حالت میں رکھنے کے لیے۔‘‘ ’’ ہمارے لیے سیدھا ہاتھ کھلا ہوا ہے۔۔۔۔۔ جو فیض تعلیم و تربیت ہم نے ان مہذب ملکوں میں حاصل کیا ہے، اس کو اپنے ہم وطنوں اور ہم قوموں میں پھیلائیں۔‘‘ ’’ بیشک ایسا کرنے میں بہت مشکلات ہیں۔۔۔۔۔ ادھر اپنی فتح مند قوم کے ان تنگدل لوگوں کی مزاحمت کا برداشت کرنا ہے جو ہماری سماجی اور سیاسی حالت کی ترقی کو اپنی طبعی تنگدلی کے بر خلاف سمجھتے ہیں۔۔۔۔۔ مگر ہم کو اپنی قوم کی بھلائی پر نظر رکھنی چاہیے اور جو تکالیف اور مشکلات ہم کو پیش آئیں نہایت تحمل اور پختہ مزاجی سے برداشت کرنی چاہئیں۔‘‘ جب الہ آباد یونیورسٹی قائم ہو رہی تھی اور سرسید کو کھٹکا ہوا کہ اس میں بھی مشرقی تعلیم کو وسعت دی جائے گی تو انہوں نے ایک آرٹیکل لکھا جس کے یہ الفاظ تھے: ’’ علوم مشرقی کی ترقی کو دھوکا دیکر انگلش ہائی ایجوکیشنل کو گھٹانا اور جس طرح ایک تیلی اپنے کولہو کے بیل کی آنکھیں بند کر کے دن رات ایک ہی سرکل میں پھرائے جاتا ہے۔ اسی طرح ہندوستانی رعایا کی آنکھیں بند کر کے دن رات ایک ہی چکر میں ڈالے رکھنا، بیشک ایک نا مہذب گورنمنٹ کا کام ہے۔‘‘ ’’ ہم کو گورنمنٹ کی پالیسی کی کچھ پروا نہیں کرنی چاہیے اور خود اپنے انگریزی میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے اور اگر ہم میں سلف رسپکٹ کا کچھ بھی اثر باقی ہے تو گورنمنٹ کو دکھا دینا چاہیے کہ بلا شبہ گورنمنٹ کو لوگوں کی جانوں پر اختیار ہے مگر لوگوں کی رایوں پر نہیں۔‘‘ جو پست ہمت آج سرسید کی پیروی کا دم بھرتے ہیں اور پالیٹکس سے علیحدہ رہنے کے لیے سرسید کے مختص الحالات فقرات پیش کرتے ہیں انہوں نے سرسید کے پولیٹکل شاہنامہ میں سے صرف ’’ منیزہم منم یاد رکھا ہے1؎‘‘ بہر حال سرسید نے اگر نیشنل کانگرس سے روکا تو اچھا کیا، کانگریس میں شریک ہونا پھر بھی تقلید تھی جو ہمارا عار ہے ہمیں خود اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا چاہیے ہمیں اپنا راستہ آپ متعین کرنا چاہیے ہماری ضروریات ہندوؤں کے ساتھ مشترک بھی ہیں اور جداگانہ بھی اس لیے ہمیں ایک جداگانہ پولیٹکل اسٹیج کی ضرورت ہے اس موقع پر پہنچ کر دفعۃً ہمارے سامنے ایک چیز نمودار ہوتی ہے ’’ مسلم لیگ‘‘ یہ عجیب الخلقت کیا چیز ہے؟ کیا یہ پالیٹکس ہے؟ خدانخواستہ نہیں، انٹی کانگرس ہے؟ نہیں، کیاہاؤس آف لارڈز ہے؟ ہاں سوانگ تواسی قسم کا ہے۔ (4مارچ1912ئ) 3 ہمارے پچھلے دو مضامین نے ہمارے دوستوں کو سخت برہم کر دیا ہے ہمارا جرم منفرد جرم نہیں، بلکہ سینکڑوں جرائم کا مجموعہ ہے، ہم نے مسلمانوں کی سنی سالہ پالیٹکس کی بے احترامی کی، ہم نے مسلمانوں کی سیاسی پالیسی سے بغاوت کی، ہم نے اتفاق عام کے شیرازہ کو درہم کرنا چاہا ہماری گستاخیوں سے ڈر ہے کہ لیڈروں کی عظمت و شان میں فرق آ جائے، ہمارا لہجہ سخت ہے ہم لیگ جیسے پر زور ادارے کی عظمت کے منکر ہیں، ہم مصنف کے درجہ پر قانع نہ ہو کر سیاسی لیڈر بننا چاہتے ہیں ہم کونسل کی ممبری کے امیدوار ہیں۔ 1؎ فرودوسی کے شاہنامہ کا مشہور شعر منیزہ منم وخت افراسیاب برہنہ ندیدہ تنم آفتاب ایسے خطرناک جرائم کی تحقیقات کے لیے فوراً انکویزیشن کی عدالتیں نہ قائم کی جاتیں تو معلوم نہیں قوم کا کیا حال ہو جاتا؟ اس لیے راولپنڈی اور فیض آباد یعنی مشرق و مغرب دونوں سروں پر قیصر اور چودھویں صدی کے جرم میں عدالتیں قائم ہو گئیں اور پے در پے اجلاس ہوئے لیکن دونوں عدالتوں کے اصول میں کسی قدر فرق ہے فیض آباد کی عدالت نے صرف ہم کو مجرم قرار دیا ہے لیکن راولپنڈی کی عدالت گاہ کے کٹہرے میں ہمارے ساتھ چند اور مجرم نظر آتے ہیں، ان میں چند نوجوان (کامریڈ و زمیندار) ہیں جن کی مصیبت کا ہم کو غم نہیں وہ جوان جہاں ہیں ان کڑیوں کو جھیل لیں گے لیکن اسی حلقہ میں ایک ہفتہ دسالہ بڈھا (وقار الملک) بھی ہے، جو سرسید مرحوم کا صحبت یافتہ اور قومی تعلیم گاہ کی خدمت کرتے کرتے اس کی کمر خم ہو گئی ہے اس پر صریح اور صاف بغاوت کا الزام ہے وہ عدالت کے سامنے زبان حال سے کہہ رہا ہے۔ غازی چوتوئی تواست کا فربودن سب سے پہلے یہ دیکھنا ہے کہ اگر ہماری موجودہ پالیٹکس کوئی اصلی پالیٹکس ہے تو باوجود اس کے کہ اس کو تیس برس کی قدامت کا حق حاصل ہے، باوجود اس کے کہ اس کے صدر نشین ار وزراء تمام ہندوستان کے انتخاب اور دولت و عزت کے دیوتا ہیں باجوود اس کے کہ اس کی آرگنائزیشن کا وسیع سلسلہ تمام ہندوستان میں پھیلا ہوا ہے، باوجود اس کے تمام اسلامی جماعتیں اس کے حلقہ میں بندھ چکی ہیں باوجود اس کے مسلمان حکومت سے جو کچھ کہتے ہیں اسی کی زبان سے کہتے ہیں، باوجود اس کے کہ سپرٹ الیکشن جیسے معرکہ میں وہ فتح کامل حاصل کر چکی ہے۔ باوجود ان تمام باتوں کے ذرا سی ہوا بدلتے دفعۃً تیس برس کا بنا بنایا کھیل بگڑ جاتا ہے ایک پر زور عمارت ایک خفیف صدمے سے متزلزل ہو جاتی ہے ایک عالمگیر اور پر زور پالیسی میں دفعۃً ہر جگہ سر کشی کے آثار پیدا ہو جاتے ہیں۔ جو شخص دو برس تک مسلم لیگ کا سیکرٹری رہ چکا ہے وہ خود اس کی بے اعتباری کا مرثیہ پڑھتا ہے، قومی اخبارات کالہجہ بدل جاتا ہے، لیگ کا صیغہ راز ایجی ٹیشن کی تلقین پر آمادہ ہوتا ہے پالیٹکس کا مرکز ثقل، یعنی ملکی مطالبات میں ہندوؤں سے الگ رہنا اصل جگہ سے ہٹ جاتا ہے ولایت کی مسلم لیگ یہ تجویز پیش کرتی ہے کہ اب دونوں ڈانڈے قریب تر آ جائیں اور ایک مشترکہ پلیٹ فارم قائم ہو۔ ہم پر اکثر یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ ہم لیگ پر اعتراض کرتے ہیں لیکن خود نہیں بتاتے کہ صحیح پالیٹکس کیا ہے۔ اگرچہ ہم آگے چل کر صحیح پالیٹکس بتائیں گے لیکن سچ یہ ہے کہ صرف یہ سمجھ لینا کہ موجودہ پالیٹکس غلط ہے یہی صحیح پالیٹکس ہے غلط پالیٹکس کے جراثیم قوم کے دل و دماغ میں سرایت کر گئے ہیں اور یہی جراثیم صحیح پالیٹکس کی طرف متوجہ ہونے نہیں دیتے اگر سرے سے پالیٹکس کی مخالفت کی جاتی تو آسان تھا کہ صحت کی حقیقت سمجھا دی جاتی لیکن آپ سب کچھ تسلیم کر کے کہہ دیتے ہیں کہ ابھی اس کا وقت نہیں آیا ہے ابھی صرف تعلیم کی ضرورت ہے یہ ایک مختصر سا جملہ مسئلہ کی تمام اہمیت اور جذبات کے تمام جوش کو دفعۃً برباد کر دیتا ہے اور آپ وہیں پہنچ جاتے ہیں جہاں تیس برس پہلے تھے۔ سب سے بڑھ کر خطرناک یہ غلطی ہے کہ ایک فرضی بیکار چیز (مسلم لیگ) پیس کی جاتی ہے اور ظاہر کیا جاتا ہے کہ یہ پالیٹکس ہے قوم جو تیس برس کی افسوں گری سے معمول ہو چکی ہے، عامل جو کہتا ہے اس کو ویسا ہی نظر آتا ہے اس لیے آج ہزاروں اچھے پڑھے لکھے اس سراب کو چشمہ زندگی سمجھ رہے ہیں۔ یونان میں ایک مصور تھا اس نے مصوری کی تعلیم کی فیس دس روپیہ مقرر کی تھی لیکن جو شخص کسی اور مصور سے کچھ اور دیکھ کر آتا تھا اس سے دوگنی فیس لیتا تھا لوگوں نے سبب پوچھا اس نے کہا کہ دس روپیہ اس بات کے لیتا ہوں کہ جو کچھ پہلے سیکھ کر آیا ہے اس کو اس کے دل سے مٹا دوں ورنہ پچھلی غلط تعلیم کا اثر باقی رہ جاتا ہے اس بناء پر پالیٹکس کی بحث میں سب سے بڑا اور مقدم کام یہ ہے کہ یہ سمجھا دیا جائے کہ مسلم لیگ نہ آج بلکہ ہزار برس کے بعد بھی پالیٹکس نہیں بن سکتی۔ مسلم لیگ کیونکر قائم ہوئی؟ کب قائم ہوئی؟ کس نے قائم کی؟ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وحی (بقول سرسید مرحوم) خود دل سے اٹھی تھی یا کوئی فرشتہ اوپر سے لایا تھا؟ یہ سوالات اگرچہ اصل مسئلہ پر کسی قدر اثر رکھتے ہیں اور اگرچہ ان کے جواب دینے کا حق ہم کو اسی قدر حاصل ہے جس قدر خود بانی اول کو (کیونکہ جب یہ تماشا ہو رہا تھا تو ہم کو پردہ کی طرف جھانکنے کی اجازت تھی) تاہم اس سے ضروری تر باتیں در پیش ہیں اور ہم کو پہلے ان کی طرف متوجہ ہونا چاہیے۔ امور تنقیح طلب حسب ذیل ہیں 1کیا لیگ کا آ ئین سیاست سے مطابقت رکھتا ہے؟ 2کیا اس میں پالیٹکس کی علامات پائی جاتی ہیں؟ 3کیا مسلم لیگ، مسلم لیگ رہ کر کسی کام کے قابل ہو سکتی ہے؟ لیگ کا سنگ اولین شملہ کا ڈیپوٹیشن تھا اور اب یا آئندہ جو کچھ اس کا ترکیبی نظام قرار پائے ڈیپوٹیشن کی روح اس میں موجود رہے گی۔ ڈیپوٹیشن کامقصد سراپا یہ تھا اور یہی ظاہر بھی کیا گیا تھا کہ جو ملکی حقوق ہندوؤں نے (اپنی سی سالہ جدوجہد سے) حاصل کیے ہیں اس میں مسلمانوں کا حصہ متعین کر دیا جائے۔ آج مسلم لیگ کو شرم مٹانے کے لیے کبھی کبھی عام ملکی مقاصد میں سے بھی کسی چیز کو اپنی کارروائی میں داخل کر لیتی ہے لیکن ہر شخص جانتا ہے کہ یہ اس کے چہرہ کا مستعار غازہ ہے رات دن جو شور مچایا جاتا ہے روز مرہ جس عقیدہ کی تعلیم دی جاتی ہے جو جذبہ ہمیشہ ابھارہ جاتا ہے، وہ صرف یہ ہے کہ ہندو ہم کو دبائے لیتے ہیں اس لیے ہم کو اپنا تحفظ کرنا چاہیے۔ مسلم لیگ کا اصل عنصر صرف یہ ہے باقی جو کچھ ہے موقع اور محل کے لحاظ سے تصویر میں کوئی خاص رنگ بھر دیا جاتا ہے۔ ہم شملہ ڈیپوٹیشن کی عظمت اور اہمیت کے منکر نہیں وہ سب سے بڑا تماشا تھا، جو قومی اسٹیج پر کیا گیا لیکن گفتگو یہ ہے کہ رعایا میں سے دو قوموں کی باہمی نزاع اور چارہ جوئی کا نام پالیٹکس ہے؟ اگر یہ ہے تو سرکاری عدالتوں میں ہر روز جو کچھ ہوتا ہے سب پالیٹکس ہے اور ہائی کورٹ کو ہائی کورٹ نہیں بلکہ سیاست گاہ اعظم کہنا زیادہ موزوں ہو گا۔ جیسا کہ ہم اس مضمون کے پہلے حصہ میں لکھ آئے ہیں پالیٹکس کا خط وہاں سے شروع ہوتا ہے جہاں سے یہ بحث پیدا ہوتی ہے کہ انتظام حکومت میں رعایا کی شرکت کس حد تک ہونی چاہیے یعنی پالیٹکس حکومت اور رعایا کے باہمی مطالبہ جات کا نام ہے۔ نہ رعایا کے باہمی منازعات اور حقوق طلبی کا۔ اب کانگریس اور مسلم لیگ کے قرار دادوں کا باہم موازنہ نہ کرو، کانگرس نے 1885ء سے 1910ء تک جو ریزولیوشن پاس کیے ان میں سے بعض یہ ہیں: 1گورنمنٹ کی کارروائیوں پر ایک شاہی کمیٹی جس میں ہندوستانی نمائندہ کافی مقرر ہوں۔ 2انڈیا کونسل کی منسوخی 3سول سروس کا امتحان ہندوستان میں بھی قائم ہو 4 لیجلٹیو کونسلوں کی وسعت و اصلاح 5 فوجی اخراجات کی کمی 6 افلاس ہندوستان کی تدبیر اور ہندوستانی ڈیلیگٹ کی شرکت 7 مجرمان زیر وارنٹ سیشن میں انتقال مقدمہ کرا سکیں 8 جوڈیشنل اور ایگزیکٹو اختیارات کی تفریق 9 ہندوستانی والینٹر بنائے جائیں 10صنعتی تعلیم کا انتظام 11بندوبست استمراری 12پولیس کی اصلاح 13محکمہ آبکارں کی وسعت کی روک 14 مقدمات کا فیصلہ بذریعہ جوری 15 تعلیمی اخراجات کا اضافہ یہ وہ مطالبات ہیں کہ اگر پورے کر دئیے جائیں تو ہندوستان کی قسمت بدل جائے اس کے مقابلہ میں لیگ کے مطالبات ملاحظہ ہوں۔ 1سرکاری ملازمتوں میں مسلمانوں کو زیادہ حصہ ملنا چاہیے 2 مسلمانوں کی نیابت کے اصول کو میونسپلٹی اور بورڈ میں بھی وسعت دی جائے 3لیگ ان کوششوں کی نسبت افسوس ظاہر کرتی ہے جو اردو کے نقصان پہنچانے کے متعلق کی جا رہی ہیں۔ 4 ٹرانسوال میں ہندوستانیوں کے حقوق کا لحاظ کیا جائے۔ 5 اسلامی اوقاف کی تحقیقات کی جائے 6 وقف علی الاولاد کے مسئلہ کو تسلیم کیا جائے۔ یہ اعلیٰ ترین اور اہم ترین مطالبات ہیں جو لیگ نے پیش کیے ہیں، دونوں فریقوں کے مطالبات کی عظمت اور اہمیت اور دائرہ اثر میں جو فرق ہے تم خود سمجھ سکتے ہو۔ شاید کہا جائے کہ بچوں کی طرح دوراز کار بالا خوانی اور طمع خام کون سی رشک کے قابل چیز ہے لیکن جب سے کانگرس نے ملکی مطالبات کا دیباچہ شروع کیا اس وقت سے آج تک کے انتظامی تغیرات کا اگر مطالعہ کیا جائے تو صاف نظر آئے گا کہ سلف گورنمنٹ (زیر گورنمنٹ انگریزی) کا قدم برابر آگے بڑھتا جاتا ہے۔ لیکن تھوڑی دیر کے لیے اس سوال سے قطع نظر کر کے دونوں کے منتہائے خیال میں بلندی و پستی، وسعت اور تنگی کا کیا فرق ہے؟ یہ دیکھنا چاہئے کہ لیگ جو کچھ چاہتی ہے کس طریقہ سے چاہتی ہے؟ لیگ گورنمنٹ سے درخواست کرتی ہے کہ اوقاف بے جا طریقہ سے صرف ہو رہے ہیں ان کی نگرانی کی تدبیر اختیار کی جائے۔ گورنمنٹ جواب دیتی ہے کہ ثابت کرو کہ اوقا ف کا انتظام برا ہے اور یہ کہ اور مسلمان بھی نگرانی کے خواہش مند ہیں اس جواب پر دو برس گزر جاتے ہیں اور لیگ خواب غفلت کی انگڑائیاں لیتی ہے گورنمنٹ کا یہ حسن طلب تھا اس کے جواب میں لیگ کو یہ کرنا تھا کہ ایک یاد داشت تیار کرتی۔ تمام ہندوستان کے مسلمانوں سے اس پر دستخط کرائے جاتے، ہر صوبہ کی مقتدر انجمنیں عرضداشتیں بھیجتیں، تمام اخبارات ہم آہنگی کی صدائیں بلند کرتے۔ اس کے ساتھ واقعات اور اعداد سے اکثر اوقاف کی بد انتظامی ثابت کر دی جاتی۔ جس گروہ کے نزدیک صرف زبان سے کوئی لفظ بول دینا سیاست ہے وہ کیونکر سیاست کی حقیقت سمجھ سکتا ہے۔ سیاست ایک سخت قومی احساس ہے اس کا ظہور بیگار کے طریقہ پر نہیں ہوتا یہ احساس جب دل میں پیدا ہوتا ہے تو دل و دماغ اور اعضاء سب مصروف کار ہو جاتے ہیں اور خود بخود جدوجہد، محنت و سعی، تگ و دو، ایثار و فدویت کے جذبات پیدا ہو جاتے ہیں لیگ کا طرز عمل بتاتاہے کہ اس کی آواز ایک مصنوعی اور خارجی آواز ہے لیگ اس پر اصرار کرتی ہے کہ سپرٹ الیکشن کا اصول میونسپلٹیوں میں جاری کیا جائے لیکن سوال یہ ہے کہ جہاں یہ اصول جاری کر دیا گیا (وائسرائے کی کونسل اور صوبہ جات کی کونسل) وہاں اس سے کیا کام لیا گیا؟ کونسلوں میں ہمارے قائم مقاموں نے کس قسم کے سوالات کیے؟ کیا کیا اصلاحی تدبیریں پیش کیں؟ جن مسئلوں پر گفتگو کی وہ بازاری گفتگو تھی یا کسی ماہر فن کی؟ ہندو ممبر تمام ضروری رکارڈوں کا مطالعہ کرتا ہے اعداد بہم پہنچاتا ہے اور کوئی اہم، دقیق اور نتیجہ خیز سوال کرتا ہے جو عام آدمیوں کے دائرہ معلومات سے بالاتر ہوتا ہے۔ اس کے مقابلہ میں ہمارا پولیٹکل قائم مقام کونسل میں نہایت زور شور سے الزام دینے کے لہجہ میں سوال کرتا ہے کہ حکومت کو معلوم ہے یا نہیں کہ فلاں مختار خانہ میں وکلاء کے بیٹھنے کے لیے کرسیوں اور مونڈھوں کا انتظام ہے یا نہیں؟ سیاست دنیا کا سب سے بڑا جذبہ ہے، وہ مذہب کے برابر طاقت رکھتا ہے وہ انسان کے تمام جذبات کو زندہ کرتا ہے اس سے تمام قوتیں مشتعل ہو جاتی ہیں، وہ انسان میں ہر قسم کا ایثار اور خود فروشی پیدا کر دیتا ہے، کیا ہماری موجودہ پالیٹکس نے یہ اوصاف ایک شخص میں بھی پیدا کیے ہیں؟ کیا پالیٹکس کے دائرہ میں آنے والا شخص ایک ذرہ بھی اس بات کو محسوس کرتا ہے کہ وہ کسی قسم کے نقصان کے لیے تیار ہے؟ کیا وہ اپنے آپ میں کوئی عزم اور دلیری پاتا ہے؟ کیا ہمارے سیاسی تماشا گروں میں ایک شخص بھی تیار ہوا۔ جو سرونٹ آف انڈیا سوسائٹی (جس میں اس وقت تیس شخص موجود ہیں) کی طرح اپنی تمام زندگی، باوجود گریجویٹ ہونے کے تیس روپیہ ماہوار پر قوم کے لیے نذر کر دے؟ کیا گروکل (جس میں تین سو شخص تعلیم پا رہے ہیں) کی کوئی مثال ہم نے پیدا کی ہے؟ جناب وائسرائے کے حضور میں ڈیپوٹیشن کے ممبر بننے کے لیے تمام ملک نے اپنی خدمتیں پیش کی تھیں۔ لیکن ذرا سوال کو بدل دو۔ یعنی ڈیپوٹیشن کو وائسرائے کی خدمت میں نہیں بلکہ کسی ادنیٰ معمولی درجہ کے حاکم کے پاس جانا ہوتا تو گو مقصد کتنا ہی اہم ہوتا۔ تاہم ممبروں کی تعداد کس حد تک رہ جاتی؟ اس سوال کو ذرا اور ترقی دو یعنی فرض کرو کہ ڈیپوٹیشن کے جانے سے یہ احتمال ہوتا کہ کسی شگفتہ اور روشن پیشانی پر شکن پڑ جائے تو تعداد کا پارہ دفعۃً کس درجہ تک نیچے اتر آتا۔ حقیقت یہ ہے کہ ان لوگوں کا نفس خود ان کو دھوکا دے رہا ہے۔ یہ سمجھتے ہیں کہ سال میں دور دراز سفر اختیار کر کے پالیٹکس کے میلے میں جانا بھی ایثار نفس ہے لیکن کیا سال بھر میں ایک مشعلہ تفریح، نمود و نمائش کا اسٹیج جاہ نمائی کا ایک تماشا گاہ، ایثار نفس ہو سکتا ہے۔ درخت پھل سے پہچانا جاتا ہے اگر ہماری پالیٹکس ہوتی تو جدوجہد اور ایثار خود فروشی کے جذبات خود بخود ساتھ پیدا ہوتے۔ اکثر یہ کہا جاتا ہے اور گمراہی کا یہ ایک بڑا افسوں ہے کہ ہندوؤں میں پچاس برس کے امتداد نے یہ خاصیتیں پیدا کی ہیں، دو چار برس میں ایسے نتائج کی توقع کیونکر کی جا سکتی ہے لیکن واقعہ یہ ہے کہ جب پہلی اینٹ ٹیڑھی رکھی جاتی ہے تو تاثر یامی رود دیوار کج ایثار نفس، پالیٹکس پر ختم نہیں، اس کے اور بھی سینکڑوں مظاہر ہیں۔ دوسرے شعبوں میں ایثار کا کون سا مظہر نظر آیا؟ یونیورسٹی کو پالیٹکس سے کوئی تعلق نہیں، یونیورسٹی کے فیلو مسلمان بھی ہیں اور ہندو بھی ہیں، ہم نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ ہندو ممبر جب یونیورسٹی کے اجلاس میں جاتا ہے تو مسائل زیر بحث پر تیار ہو کر جاتا ہے، تمام ریکارڈوں کو ساتھ رکھتا ہے لوگوں کو پہلے سے اپنا ہم رائے بناتا ہے۔ بخلاف اس کے ہماری تعلیم گاہوں کے تربیت یافتہ جلسہ میں جا کر یہ بھی خبر نہیں رکھتے کہ ان کے سامنے کیا ہونے والا ہے۔ امتداد اور درازی زمانہ کو کوئی دخل نہیں، طریق عمل اگر ٹھیک ہو تو پہلے ہی دن سے نتائج کے آثار ٹھیک نظر آنے لگتے ہیں۔ تعلیم میں آج جہاں ہم ہیں، ہندو آج سے ساٹھ ستر برس پہلے وہیں تھے۔ لیکن ہندوؤں نے اس زمانہ میں، راجہ رام موہن رائے اور گیشب چندر سین پیدا کر دئیے اور ہم آج سو برس کے بعد بھی اس قسم کی مثالوں کی توقع نہیں کر سکتے۔ بمبئی کے مسلمانوں میں کچھ بھی تعلیم نہیں تاہم وہاں بدر الدین طیب جی پیدا ہوتا ہے جو کانگریس کا پریسیڈنٹ ہو سکتا ہے۔ ممالک متحدہ ہماری تعلیم کا مرکز ہے اور ہزاروں گریجویٹ تیار کر چکا ہے لیکن ’’ جی حضور‘‘ کے سوا وہ کیا چیز پیدا کر سکا ہے؟ اس سے معلوم ہو گا کہ امتداد زمانہ اور وسعت تعلیم اصل چیز نہیں بلکہ طریق عمل اور تخیل کا فرق ہے۔ سب سے آخری بحث یہ ہے کہ مسلم لیگ کا نظام ترکیبی کیا ہے؟ اور کیا وہ قیامت تک درست ہو سکتا ہے؟ پہلا سوال یہ ہے کہ کیا مسلم لیگ اس خصوصیت کو چھوڑ دے گی کہ اس کو سب سے پہلے دولت اور جاہ کی تلاش ہے اس کو اپنے صدر انجمن کے لیے، نیابت صدر کے لیے، سیکرٹری شپ کے لیے، ارکان کے لیے، اضلاع کے عہدہ داروں کے لیے وہ مہرے مطلوب ہیں، جن پر طلائی رنگ ہو؟ لیکن پولیٹکل بساط میں ان مہروں کی کیا قدر ہے؟ کیا ایک معزز رئیس، ایک بڑا زمیندار ایک حکام رس دولت مند کسی تحریک کے لیے اپنی جائیداد، اپنی حکام رسی اپنی فرضی آبرو کو نقصان پہنچانا گوارا کر سکتا ہے؟ ہندوؤں کے پاس زمینداری دولت اور خطاب کی کمی نہیں، لیکن کیا انہوں نے تیس برس کی وسیع مدت میں کسی بڑے زمیندار اور تعلقہ دار کو پریسیڈنٹی کا کرسی نشین کیا؟ کیا اس کے پریسیڈنٹوں میں کسی کا سر، خطاب کے تاج سے آراستہ ہے؟ لیکن ہم سب سے پہلے اجلاس میں پریسیڈنٹی کے لیے ایک ایسے شخص کو تلاش کر کے بہم پہنچاتے ہیں جس نے پالیٹکس کا لفظ تمام عمر نہیں سنا تھا۔ انگریزی، عربی، فارسی، اردو کوئی زبان نہیں جانتا تھا اور عین اجلاس کے وقت جب اس کی طرف سے ایک شخص اس کی صدارتی تقریر پڑھ رہا تھا تو وہ بیچارہ حیران تھا کہ یہ کون سی بولی بول رہا ہے۔ آج کل کسی شخص کی پرائیویٹ حالت پوچھنا خلاف تہذیب ہے لیکن بہ ضرورت مسلم لیگ سے اگر یہ سوال کیا جائے کہ مالی حالت کے لحاظ سے آپ کی ہستی کیا ہے؟ تو جواب ملے گا کہ ایک خاص ’’ دست کرم‘‘ اس بناء پر مسلم لیگ کے تمام منصوبے، تمام تجاویز، تمام ارادے اس ’’ دست کرم‘‘ کے اشاروں پر حرکت کرتے ہیں۔ مسلم لیگ کے نظام ترکیب کی سخت غلطی، اس کی شاخوں کا وجود ہے، یہ ظاہر ہے کہ تمام ملک میں ایسے مسلمان جو پالیٹکس کو صحیح طور سے سمجھ سکتے ہوں اور کوئی آزاد نہ کام کر سکتے ہوں کس قدر کم ہیں، یعنی اگر ان کو پھیلایا جائے تو ہر صوبہ کے حصہ میں بہ مشکل ایک آدمی آئے گا۔ اب جب ہر شہر میں ایک شاخ قائم کی جاتی ہے تو عہدہ داروں اور ممبروں کی تلاش ہوتی ہے اور چونکہ لائق اشخاص نہیں مل سکتے اس لیے جو شخص کچھ دولت مند مل جاتا ہے اس کے سر پر یہ پگڑی رکھ دی جاتی ہے نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ پالیٹکس کا ایک نہایت برانمونہ بازیچہ اطفال تیار ہوتا ہے قوم کے سامنے برا نمونہ سب سے بد تر چیز ہے، جب لوگ دیکھتے ہیں کہ اس کا نام پالیٹکس ہے تو ان کی پرواز، ہمت وہیں تک پہنچ کر رہ جاتی ہے۔ یہ سچ ہے کہ بعض اوقات کسی مسئلہ پر گورنمنٹ کی خدمت میں متفقہ آواز پہنچانے کے لیے اس میں آسانی ہوتی ہے کہ تمام شاخوں کو حکیم بھیج دیا جاتا ہے لیکن اس کے یہ کافی ہے کہ ہر شہر کی ایک فہرست مہیا رہے اور عند الضرورت اس سے یہ کام لے لیا جائے۔ صحیح پالیٹکس صحیح پالیٹکس کو اب مختصر لفظوں میں ادا کرنے کا وقت آ گیا ہے اور وہ یہ ہیں: 1سب سے پہلا اور مقدم کام یہ ہے کہ مسلم لیگ اپنے مقاصد کے دائرہ کو وسعت دے چھوٹی چھوٹی باتیں جو کسی خاص فرقہ سے تعلق رکھتی ہیں ان کے علاوہ ان چیزوں کو اپنا نصب العین قرار دے جن پر ہندوستان کی قسمت کا فیصلہ موقوف ہے مثلاً ایک بندوبست کا مسئلہ، جس کو لیگ نے کبھی خیال کے ہاتھ سے بھی نہیں چھوا۔ یہ وہ مسئلہ ہے جس پر ہندوستان کی سر سبزی کا مار ہے ہر شخص اپنی آنکھوں سے دیکھتا ہے کہ کاشتکار روز بروز مفلس ہوتے جاتے ہیں ہر بندوبست مال گزاری کی مقدار میں اس قدر اضافہ کر دیتا ہے کہ جو زمینیں مویشی کا حق تھیں ان کو اپنے کام میں لانا پڑتا ہے۔ چارہ نایاب ہوتا جاتا ہے چراگاہیں مزروعہ بنتی جاتی ہیں ایک فصل بھی اگر کم کر جائے تو فاقہ کی نوبت پہنچ جاتی ہے ہزاروں کاشتکار گھر چھوڑ چھوڑ کر نئی آبادیوں میں بھاگتے جاتے ہیں مال گزاری کے وقت ہزاروں لاکھوں کے زیورات رہن ہو کر بیدرد مہاجنوں کے گھر پہنچ جاتے ہیں، با ایں ہمہ ہر تیسویں سال نیا بندوبست ہوتا ہے اور زمیندار نئے بندوبست کے نام سے دہل جاتا ہے۔ فرض کرو! اگر بنگال کی طرح ہمارے ملک میں بھی استمراری بندوبست ہو جائے تو یہ ہندوستان کے حق میں رحمت ہو گا یا یہ کہ چند مسلمانوں کو موجودہ تعداد سے زیادہ نوکریاں مل جائیں۔ 2 سب سے بڑی بات یہ ہے کہ تمام انتظامی کاموں میں یہ خواہش کی جائے کہ ہندوستانیوں کی شرکت ہو، گو کھلے نے یہ بل پیش کیا تھا کہ ہر ضلع میں ایک کونسل چھ آدمیوں کی قائم ہو اور کلکٹر ضلع ان کے مشورہ سے انتظامی امور عمل میں لائے، کون اس سے انکار کر سکتا ہے کہ اپنا حال ہم دوسروں سے زیادہ جان سکتے ہیں کس کو اس سے انکار ہو سکتا ہے کہ اپنی تکلیف کا جس قدر احساس ہم کو ہو سکتا ہے، دوسرے کو نہیں ہو سکتا؟ اس لیے یہ سب سے عمدہ تدبیر تھی جو ملک کی بہبودی کے لیے پیش کی جا سکتی تھی، لیکن یہ بل نا منظور کر دیا تھا۔ مختصر یہ کہ بجز کسی خاص قرار دا دکے باقی تمام ان تجاویز کو جو کانگرس میں پیش کی جاتی ہیں مسلم لیگ کو اپنے پروگرام میں داخل کرنا چاہیے اور اس کی منظوری کے لیے اس طرح قانونی جدوجہد کرنا چاہیے، جس طرح ہندوؤں کا ماڈریٹ فرقہ کرتا ہے۔ 3مولوی امیر علی صاحب نے حال میں جو صورت تجویز کی ہے یعنی یہ کہ مشترکہ مسائل میں مسلمانوں اور ہندوؤں کا ایک مشترک اسٹیج قائم ہو اور جب حضور وائسرائے کی خدمت میں وفد جائے تو دونوں گروہ کے ممبر برابر کے شریک ہوں۔ یہ نہایت صحیح تجویز ہے اور اس کو فوراً اختیار کرنا چاہیے۔ 4 مسلم لیگ کی انتظامی کمیٹی بڑے بڑے زمینداروں اور علاقہ داروں سے بالکل خالی کر لی جائے صرف وہ لوگ شریک کئے جائیں جو آزادی اور حق گوئی کے ساتھ اظہار رائے کر سکیں۔ 5 سب سے بڑی اور سب سے مقدم ضرورت یہ ہے کہ قوم میں پالیٹکس کا مذاق پیدا کیا جائے پالیٹکس ایک وسیع علم ہے اس کے مسائل اور معلومات کا ایک عظیم الشان ذخیرہ ہے ان کو بقدر ضرورت اپنی زبان میں لایا جائے۔ مہمات مسائل پر رسالے اور پمفلٹ شائع کئے جائیں کچھ لوگ مقرر کیے جائیں جو ملک میں دورہ کریں اور پولیٹکل مسائل پر لیکچر دیں جو دلائل اور معلومات اور اعداد پر مبنی ہوں۔ 6 چند لوگ آنریری یا تنخواہ دار مقرر کیے جائیں جو کسی کسی خاص مسئلہ کے متعلق معلومات بہم پہنچائیں، مثلاً کسی ایک ضلع کے صدر مقام میں قیام کر کے ان امور کی تحقیقات کریں کہ تیس برس پہلے ضلع کی کیا حالت تھی؟ کتنے بڑے بڑے زمیندار تھے؟ کن لوگوں کے پاس زمینداریاں تھیں؟ اب کے احالت ہے؟ کتنی زمینداریاں نیلام ہو گئیں؟ کس قسم کے قرضوں میں نیلام ہوئیں؟ بندوبست کا کیا اثر پڑا؟ کاشتکاروں کی کیا حالت ہے؟ کتنے آدمی دوسرے ممالک میں چلے گئے؟ اس قسم کے اعداد اور واقعات سے پر نتائج یاد داشتیں تیار ہو سکیں گی اور گورنمنٹ ان سے فائدہ اٹھا سکے گی۔ ہندو، مسلمانوں کا اتحاد مسائل پالیٹکس کا یہ ایک اہم مسئلہ قرار دے دیا گیا ہے یعنی چونکہ ان دو قوموں میں اتحاد نا ممکن ہے اس لیے پولیٹکل معاملات میں ہمارا اور ہندوؤں کا کوئی اسٹیج نہیں بن سکتا۔ اس دلیل کے اگرچہ دونوں ٹکڑے غلط ہیں۔ لیکن اس فتنہ کو جس قدر کوئی بھڑکانا چاہے بھڑکا سکتا ہے اولاً تو فطرت انسانی جس قدر اختلاف کے لیے موزوں ہے اتفاق کے لیے نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ اختلاف کی حالت میں جس طرح تمام جذبات مشتعل ہو جاتے ہیں اتفاق کی حالت میں نہیں ہو سکتے، دوسرے مسلمانوں کی آب و گل میں رزم جوئی ہے یہ وصف عیب ہو یا ہنر لیکن بہر حال یہ ہمارا اصلی جوہر ہے جو ہمیشہ مختلف صورتوں میں ظاہر ہوتا رہا ہے اور اب بھی ہے ان سب پر مستزاد یہ کہ اخبار کے چلانے یا قوم کے لیڈر بننے کا یہ ایک آسان نسخہ ہے کہ فریقانہ جذبات کو برانگیختہ کر دیا جائے۔ تاریخی ترتیب اور منطق کے استدلال تمثیل کے لحاظ سے ہم کو ہندوؤں کی پچھلی تاریخ پر نظر ڈالنی چاہیے۔ یہ ظاہر ہے کہ ہندو کبھی ایران و عرب پر چڑھ کر نہیں گئے تھے اس کے بجائے ان کے ملک پر خود ہم نے حملہ کیا ہم نے ان کا مشہور کعبہ ’’ سومنات‘‘ برباد کر دیا ہم نے بنارس اور متھرا کے شوالے ویران کر دئیے۔ ہندوؤں کی خاندانی روایتیں ان زخمون کو ہمیشہ ہرا رکھتی ہیں لیکن جب اکبر نے ایک دفعہ محبت کی نگاہ اٹھا کر ان کی طرف دیکھ لیا تو یہی زخم خوردہ دل محبت سے چور تھے بہادر راجپوتوں اور مہراجوں نے نہ صرف جان و مال، بلکہ اپنا ننگ و ناموس تک حوالہ کر دیا۔ یعنی بیٹیاں تک دے دیں۔ یہ اکبر کا جبر اور راجپوتوں کا خوشامدانہ کام نہ تھا، جبر اور خوشامد دل کی رگوں میں گھر نہیں کر سکتے، جہانگیر کا بیٹا (خسرو) باغی ہوا تو اس کی ماں نے جو جے پور کی رانی تھی، خسرو کو بہت سمجھایا لیکن جب وہ نا خلف نہ مانا تو یہ غیرت مندراجپوتن یہ نہ دیکھ سکی کہ اس کی کوکھ بغاوت سے داغدار ہو، اس نے افیون کھا لی اور مر گئی، جہانگیر اس کی غیر مندانہ شرافت کی دادان الفاظ میں دیتا ہیـ: ’’ مکر رنجسر و مقدمات نوشت، داوارا ولالت بہ اخلاق و محبت من می کرد، چوں دید کہ ہیچ فائدہ ندارد، عاقبت نا معلوم است کہ یکجا منجر خواہد شد، از غیرتے کہ لازمہ راجپوتانی است، خاطر بزرگ خود قرار داد‘‘ جہانگیر پر اس وفاداری کا جو اثر ہوا خود اس کے الفاظ میں سننا چاہیے ’’ از قوت او بنا بر تعلقے کہ داشتم ایامے برمن گذشت کہ از حیات و زندگانی خود ہیچ گو نہ لذتے نہ داشتم، چہار شبانہ روز کہ سی و دوپہر باشد از غایت کلفت و اندوہ چیزے از ماگول و مشروب دار و طبیعت نہ گشت‘‘ یعنی اس کے مرنے سے مجھ پر ایسے دن گزرے کہ اپنی زندگی سے مجھ کو کچھ حظ نہیں ملتا تھا چار دن رات کہ بتیس پہر ہوتے ہیں کھانے پینے کی کوئی چیز استعمال نہ کر سکا۔ یہ سچے جذبات، یہ حیرت انگیز محبت، یہ جگر گداز اثر، خوشامد سے نہیں پیدا ہوتے۔ اکبر کے دربار کے ستون اعظم بیرم خان، خان اعظم کو کلتاش، بہادر خان صوبہ دار تھے ان میں کس کا دامن بغاوت کے داغ سے پاک ہے؟ لیکن یہ بدنامی کس ہندو راجہ نے نہیں اٹھائی مان سنگھ کو اکبر نے راجپوتوں کے قبلہ اعظم یعنی مہارانہ اودے پور کے مقابلہ پر بھیجا جس کی یہ غیرت تھی کہ جب وہ اپنے پاؤں کے انگوٹھے سے راجاؤں کی پیشانی پر تلک لگاتا تھا تب وہ راجہ ہو سکتے تھے مان سنگھ بے عذر گیا اور اودے پور سے معرکہ آرا ہو کر فتح حاصل کی۔ اکبر سے لے کر عالمگیر تک کس درباری ہندو نے بغاوت کی؟ عالمگیر کے مقابلہ میں ہندو بے شک تلوار لے کر بڑھے، لیکن کیوں؟ اس لیے نہیں کہ وہ مسلمان ہے بلکہ اس لیے کہ وہ شاہجہاں کی مرضی کے خلاف دار شکوہ کا باغی ہے اس وقت عالمگیر اور دار شکوہ دو حریف مقابل تھے، ہندوؤں نے عالمگیر کے مقابلہ میں دارا شکوہ کا ساتھ دیا، کیونکہ وہ شاہجہاں کا ولی عہد تھا۔ عین معرکہ کار زار میں جب راجہ روپ سنگھ (مہارانا اودیپور کا نواسا) فوجوں کو چیرتا ہوا عالمگیر کے قریب پہنچ گیا تو للکار کر بولا’’ ارے تو دارا کا مقابلہ کرنے چلا ہے‘‘ اس فقرہ کا لہجہ بتاتا ہے کہ وہ ہندوپن کے جوش سے نہیں بلکہ دارا کی محبت سے نکلا ہے۔ شاہجہاں کے بعد بعض اطراف میں ہندوؤں نے بغاوت کی لیکن وہ ایک مذہبی غلط فہمی پر مبنی تھی اور کوئی راجہ یا مہاراجہا س میں شریک نہ تھا اور وہ بہت جلد فرو ہو گئی۔ عالمگیر دکن چلا گیا اور پچیس برس تک دہلی کا پایہ تخت خالی رہا۔ اس سے بڑھ کر راجپوت راجاؤں کیلئے کیا عمدہ موقع تھا کہ دہلی پر حملہ آور ہوتے یا کم از کم راجپوتانہ میں علم بغاوت بلند کرتے۔ لیکن جے پور اور جودھ پور میں جو راجپوتی طاقت کا مرکز تھے نکسیر تک نہ پھوٹی شیوا جی نے البتہ بغاوت کی، سکھ بھی باغی ہوئے، لیکن یہ نو خیز ملکی دعویدار تھے اس کو بغاوت سے تعلق نہ تھا، بلکہ خود سری اور نئی سلطنت کی ابھرنے والی قوت تھی، دنیا میں جن لوگوں نے اپنے دست و بازو سے نئی نئی سلطنتیں قائم کیں کون ان کو باغی کہہ سکتا ہے؟و رنہ تیمور اور سکندر سے بڑھ کر کون باغی ہو سکتا ہے۔ یہ پرانی داستان تھی آج بھی دیہات اور قصبات میں چلے جاؤ تو ہندو اور مسلمان بھائی بھائی کی طرح ملتے ہیں وہ اسی طرح مسلمانوں کی تقریبات میں شریک ہوتے ہیں جس طرح خود ان کے عزیز و اقارب شریک ہوتے ہیں۔ ایک سال میں نے پٹیالہ میں عید کی نماز ادا کی عید گاہ کی عمارت اچھی دیکھ کر میں نے سوال کیا تو معلوم ہوا کہ مہاراجہ پٹیالہ نے اس کی تعمیر میں معقول امداد دی ہے یہ بھی معلوم ہوا کہ راجہ کا عام حکم ہے کہ جب کوئی نئی مسجد تعمیر ہو تو کم از کم خزانہ ریاست سے چھ سو روپیہ دئیے جائیں حالانکہ مہاراجہ کا خاندان سکھ ہے جو مسلمانوں کا سب سے بڑا حریف فرقہ سمجھا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ہندو ہماری قومی زبان اردو کو مٹا رہے ہیں لیکن کیونکر؟ کیا اس طریقہ سے کہ اردو زبان کے عہدہ سے عمدہ تر میگزین اور رسالے (ادیب اور زمانہ) ہندو نکال رہے ہیں اور اردو مصنفین کی قدر افزائی کر کے بہت سے نئے انشاء پردازان اردو تیار کر رہے ہیں؟ کیا اس طریقہ سے کہ ممالک متحدہ کے قابل ہندو اردو انشاء پردازی میں مسلمان انشاء پردازوں کے دوش بدوش چل رہے ہیں؟ زمانہ کے اوراق الٹتے ہوئے بار ہا میں نے ہندو مضمون نگاروں کو رشک کی نگاہ سے دیکھا ہے کیا اس طریقہ سے کہ پولیٹکل معلومات کے لحاظ سے اردو کا بہترین پرچہ ’’ ہندوستانی‘‘ ہے؟ جس کو ایک ہندو ایڈٹ کرتا ہے۔ اسی کے مقابلہ میں مسلمانوں نے اردو پرستی کا کیا ثبوت دیا ہے؟ ممالک متحدہ میں ان کا کونسا علمی پرچہ ہے؟ ان کی انجمن اردو کس مرض کی دوا ہے؟ اور مصنفین کی کیا قدر افزائی کی جا رہی ہے؟ ہندوؤں کا سب سے بڑا جرم نیشنل کانگریس قائم کرنا تھا جس نے ابد تک دونوں گروہوں میں حد فاصل قائم کر دی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اگر مسلمان اپاہج بنے بیٹھے رہے اور اگر وہ پالٹیکس سے خوف کھاتے رہے اگر ان کو وائسرائے کی کونسل میں بیٹھنے کے بجائے لونڈوں کے ساتھ مکتب میں بیٹھنا زیادہ پسند تھا اگر ان میں کسی قسم کا عزم، حوصلہ ہمت اور حقوق طلبی نہ تھی تو کیا ہندوؤں کا یہ فرض تھا کہ وہ بھی اپاہج اور بے دست و پا بن جاتے۔ ان تمام خیالات سے اگرچہ ہمارے فرضی رہبروں کا گروہ مخالف ہے لیکن مخالفت کا اب نفس واپسیں ہے قوم تیس برس تک احمق بن چکی اب اس کے حال پر رحم کھانا چاہیے اور قوم کو سمجھنے دینا چاہیے کہ یہ پولیٹکل سوانگ حقیقت میں پالیٹکس نہیں ہے۔ (مسلم گزٹ لکھنو)9اکتوبر1912ء (5) پچھلے آرٹیکل میں ہم نے مسلم لیگ کی موجودہ حالت اور ہندو مسلمانوں کے اتحاد کی متعلق بحث کی تھی ہمیں مسرت ہے کہ مضمون کے پہلے حصہ سے اکثر بزرگوں کو اتفاق ہے اور قوم کے بعض نہایت ممتاز لیڈروں نے ہمیں یقین دلایا ہے کہ اب کے سالانہ اجلاس میں لیگ کا نظام قریباً بدل دیا جائے گا اور جو تجویزیں ہم نے لیگ کی اصلاح کی پیش کی ہیں قریب قریب لیگ اسی قالب میں ڈھل جائے گی، اگر یہ صحیح ہے تو پھر ہم کو لیگ کی مخالفت کی کوئی وجہ نہیں ہو گی اور ہم سب سے پہلے اس کے آگے گردن جھکا دیں گے۔ لیکن آرٹیکل کے دوسرے حصہ نے ہمارے اکثر اعزہ اور احباب بلکہ قریباً تمام قوم کو آرزدہ کر دیا ہے اور سچ یہ ہے کہ ان کی یہ آرزدگی بیجا بھی نہیں ہے ہماری نیت گو کچھ ہی ہو اور گو اس پیرایہ کے اختیار کرنے کی کوئی وجہ ہوئی ہو لیکن یہ بالکل سچ ہے کہ اس مضمون نے بظاہر میزان عدل کا ایک پلہ بالکل جھکا دیا ہے ہم نے ہندوؤں کی وفاداری اور نیک طبعی کی قد دانی کی۔ لیکن مضمون کے پڑھنے والے پر ساتھ ہی یہ اثر پڑتا ہے کہ مسلمان قابل الزام تھے مسلمانوں کی بت شکنی کا ہم نے ایسے لفظوں میں ذکر کیا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہم مسلمانوں کو مجرم سمجھتے ہیں، مضمون سے مجموعی طور پر یہ اثر بھی پڑتا ہے کہ ہندوؤں نے مسلمانوں کے ساتھ جو وفاداری کی یہ ان کا احسان تھا مسلمانوں کی فیاضی کی قیمت نہ تھی لیکن واقعہ یہ ہے کہ یہ دونوں خیال غلط ہیں اس غلطی کی اصلی وجہ ایک اور غلطی تھی، یعنی ہم نے یہ فرض کر لیا کہ مسلم گزٹ کے تمام ناظرین ہمارے ان مضامین کو پڑھ چکے ہیں، جو عالمگیر اور جہانگیر اور مسلمانوں کی بے تعصبی کے متعلق شائع ہو چکے ہیں۔ مسلمانوں نے جس قدر بت شکنیاں کیں، مذہبی تعصب سے نہ تھیں، بلکہ اس کی وجہ یہ تھی کہ اس زمانہ میں مذہب اور پالیٹکس مخلوط تھے، یعنی حریف کی ملکی طاقت کا مٹانا بغیر اس کے نہیں ہو سکتا تھا کہ اس کی مذہبی طاقت کو بھی مغلوب کر دیا جائے۔ آج ایسے روشن زمانہ میں لارڈ کچز کو مہدی سوڈانی کی قبراسی غرض سے اکھڑوا کر برباد کر دینی پڑی اور خود ہندوؤں نے اسی ضرورت سے اپنے زمانہ اقتدار میں سینکڑوں مسجدیں برباد کر دیں۔ اسی بناء پر مسلمانوں نے حملہ کے وقت بت خانے گرائے لیکن امن و امان اور تسلط کے بعد کبھی کوئی بت خانہ نہیں گرایا گیا اور جو بت خانے گرائے گئے ان کے خاص پولٹیکل اسباب تھے، یہ مضمون اس قدر وسیع ہے کہ اس آرٹیکل میں سما نہیں سکتا اور اس لیے ہم بہ مجبوری اپنے ناظرین سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ کم از کم مضامین عالمگیر مطبوعہ کان پور کو ایک دفعہ ملاحظہ فرمالیں۔ اس مضمون میں ہم اس پہلو کو کسی قدر تفصیل کے ساتھ دکھانا چاہتے ہیں کہ ہندوؤں نے جو کچھ ہمارے ساتھ کیا وہ ان کا احسان نہ تھا، بلکہ ہمارے احسانات اور فیاضیوں کی قیمت تھی اور یہ کہنا مشکل ہے کہ یہ قیمت اصل مال کے برابر بھی تھی یا نہیں۔ ہندوؤں کی وفاداری کا زمانہ اکبر سے شروع ہوتا ہے اس لیے بہ تفصیل سننا چاہیے کہ اس واقعہ کی ابتدا کیونکر ہوئی اور کس طرح اس نے وسعت حاصل کی۔ ہمایوں کے زمانہ میں انبیر میں جو جے پور سے چند میل پر واقع ہے، ایک چھوٹی سی ریاست تھی یہاں کا راجہ پرتھی راج گچھواھ تھا۔ ہمایوں کے مرنے کے بعد جا بجا جو بغاوتیں برپا ہو گئیں ان میں حاجی خان نے جو شیر خان کا غلام تھا۔ نارنول کا محاصرہ کیا۔ اس محاصرہ میں پرتھی راج کا بیٹا راجہ بھارامل بھی شریک تھا، نارنول پر مجنون خان قابض تھا جو ہمایونی امراء میں تھا راجہ بھارامل نے مجنون خان سے دوستانہ نامہ و پیغام کر کے نارنول کو لے لیا اور مجنون خان کو عزت و آبرو کے ساتھ رخصت کر دیا جب اکبر نے کاروبار سنبھالا تو مجنون خان نے راجہ بھارامل کے اوصاف اکبر سے بیان کیے اکبر قابلیت و لیاقت کا عام قدر دان تھا فوراً طلبی کا فرمان گیا اور تخت نشینی کے پہلے ہی سال راجہ مذکور کی ملازمت شاہی حاصل کی۔ ایک موقع پر جب اکبر مست ہاتھی پر سوار ہو کر نکلا تو ہاتھی جس طرف رخ کرتا تھا لوگ پھٹ جاتے تھے۔ اتفاق سے ہاتھی راجہ بھارامل کی طرف جھکا، راجہ مع اپنے راجپوتوں کے اپنی جگہ پر جما رہا۔ اکبر دلیرانہ اداؤں کا شیدا تھا، بے اختیار راجہ کی طرف دیکھ کر بول اٹھا کہ ’’ تجھ کو نہال کر دوں گا۔‘‘ 6ء جلوس میں چونکہ راجہ کے بھتیجے راجہ سو جانے سرکشی کی تھی، اس لیے اجمیر کے صوبہ دار نے اس کو شکست دے کر چاہا کہ انبیر پر قبضہ کرے، راجہ بھارامل نے پہاڑوں میں جا کر پناہ لی، اسی سال اکبر اجمیر کی زیارت کو گیا اور جب اس کو یہ حال معلوم ہوا تو راجہ بھارا مل کو بلا بھیجا، راجہ نے سانگا گیر میں آ کر باریابی حاصل کی اور پہلے ہی دربار میں اکبر نے اس کو انعامات اور قدر دانیوں سے اس قدر زیر بار کر دیا کہ راجہ نے خود قرابت کی درخواست کی، اکبر نے منظور کیا سانبھر میں شادی کی رسمیں ادا ہوئیں اور راجہ کی لڑکی، حرم شاہی میں داخل ہوئی، راجپوتی اور تیموری خون کی آمیزش کا یہ پہلا دن تھا1؎ راجہ کی وفا شعاری جو جو صلہ اکبر نے دیا وہ یہ تھا کہ راجہ جو ابھی تک ایک معمولی راجہ تھا۔ ’’ عرش آشیانی (یعنی اکبر) پایہ نذر اور از جمیع راجہ ہادرایان ہندوستان گزرانیدہ فرزندان و نبائر و اقوام اور ابہ مرات بزرگ و مناقب ارجمند اعتبار بخشیدہ سر آمد اعیان وارکان ہندوستان ساخت (مآثر الامراء جلد2ص113)‘‘ راجہ بھارامل کے بعد راجہ بھگونت داس اس کا جانشین ہوا، اکبر نے اس کی بیٹی سے شہزادہ سلیم (جہانگیر )کا عقد کیا اکبر نے دلہن کی جو عزت افزائی کی، دنیا کی تاریخ اس کی کوئی مثال پیش نہیں کر سکتی، ہم اپنے ناظرین کو اجازت دیتے ہیں کہ وہ جس حد تک چاہیں قیاس کے جولا نگاہ کو وسعت دیں اور دیکھیں۔ 1؎ یہ پوری تفصیل مآثر الامراء جلد دوم ص111 تا ص113میں ہے۔ کہ کیا طائر وہم بھی اس حد تک پہنچ سکتا ہے؟ کے ادلہن پر زر و جواہر نثار کئے گئے؟ کیا تمام راستہ میں مخمل و کمخواب کے پا انلذ ڈالے گئے؟ کیا دو کروڑ کا مہر بندھا؟ ہاں یہ سب ہوا، لیکن یہ کوئی چیز نہ تھی۔ اکبر جو دنیا کا اس وقت سب سے بڑا شہنشاہ تھا اور شہزادہ علیم جو آگے چل کر جہانگیر ہوا۔ اور جو شہزادگی میں بھی شہنشاہوں کے برابر تھا۔ دلہن کے محافہ کو کہار بن کر اپنے کندھوں پر لائے 1؎ کیا ہندوؤں میں کسی راجہ مہاراجہ نے اپنی بہو کو یہ عزت دی ہے کیا خود اکبر نے شہزادیان تیمور کے لیے یہ ننگ گوارا کیا؟ اکبر و جہانگیر و شاہجہاں وغیرہ کے احسانات صرف سوشل احسانات نہ تھے، پولٹیکل احسانات اس سے بھی زیادہ تھے اور سچ یہ ہے کہ کسی قوم نے اپنی مفتوح قوم کو یہ عزت، یہ حقوق، یہ درجہ کبھی نہیں دیا۔ آج کلکٹری اور کمشنری کے عہدے ہندوستانیوں کے لیے منتہائے خیال ہیں لیکن تیموریوں نے وزارت اعظم اور سپہ سالاری تک ہندوؤں کو عنایت کی۔ (معارف نمبر1جلد1) ماہ رمضان المبارک1334ھ مطابق جولائی 1912ء ٭٭٭٭٭ لیڈروں کا قصور ہے یا لیڈر بنانے والوں کا؟ ہمیں یہ صاف نظر آ رہا ہے کہ ہندوستان کی اسلامی دنیا میں لیڈروں کی طرف سے ایک عام بغاوت کی ہوا چل گئی ہے لیکن ہم کو نہایت غور اور احتیاط سے دیکھنا چاہیے کہ جس طرح چالیس برس سے ہم اپنے لیڈروں کی کورانہ غیر معتدل غلامی کرتے رہے۔ اسی طرح اس بغاوت میں بھی ہم اعتدال کی حد سے متجاوز تو نہیں ہو گئے ہیں اور یہ کہ آزادی تقریر میں ہماری تیر اندازی کا نشانہ غلط تو نہیں قائم ہو گیا ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ وہ لوگ جو بڑے بڑے لمبے خطاب رکھتے ہیں، جو بڑی بڑی جائیدادوں کے مالک ہیں جن کو اپنے ذاتی معاملات کی وجہ سے ہر وقت حکام کی خوشنودی کی نبض دیکھتے رہنے کی ضرورت پڑتی ہے وہ قوم کے لیڈر نہیں ہو سکتے، وہ کسی طرح آزادانہ رائے نہیں دے سکتے ان کی جو پوزیشن ہے وہ جس کو حاصل ہو جائیگی اس کو بھی وہی کرنا پڑے گا جو وہ کر رہے ہیں بلکہ مجھ کو شبہ ہے کہ جو لوگ ان لیڈروں پر معترض ہیں، اگر وہ بھی ان ہی مجبوریوں میں گرفتار ہو جائیں تو وہ ان موجودہ لیڈروں کے برابر بھی آزادی سے کام نہ لے سکیں گے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ لیڈروں کا کیا قصور ہے؟ کیا انہوں نے خود لیڈر بننے کی خواہش کی؟ کیا انہوں نے اپنا نام پیش کیا؟ کیا وہ اس کے لیے کوئی کوشش کرتے ہے؟ میں نے خود دیکھا کہ سر آغا خان صاحب نے نہایت سچے اور بے ریا دل سے لیگ کی پریسیڈنٹی سے استعفا دے دیا اور اس پر سخت مصر ہوئے لیکن لوگوں نے نہ مانا اور ان کو اس قدر مجبور کیا کہ ایسی حالت میں انکار کرنا انسانیت کی حد سے گزر جانا تھا میں اس وقت موجود تھا جب نواب صاحب ڈھاکہ عام مجمع کے سامنے کہہ رہے تھے کہ لیگ کے جلسہ میں یہ میری اخیر شرکت ہے اور نو نو کے نعروں سے سارا ہال گونج رہا تھا۔ اس سے انکار نہیں ہو سکتا کہ ایسے بھی لیڈر ہیں جو لیڈری کے خواستگار ہیں اور جو اس کے لیے کسی قسم کی کوشش سے دریغ نہیں کرتے لیکن یہ انصاف کی بات نہیں کہ ان کی وجہ سے نا کردہ گناہ بھی الزام میں شریک کر لیے جائیں حقیقت یہ ہے کہ محسن اور لیڈر دو جداگانہ منصب ہیں اور ان دونوں کی حیثیتیں صاف صاف الگ کر لینی چاہئیں۔ مثلاً سر آغاخان نے یونیورسٹی کے معاملہ میں وہ کام کیا جو آج تک سات کروڑ مسلمانوں سے نہ ہو سکا اور غالباً کبھی نہ ہو سکا۔ انہوں نے قومی انسٹی ٹیوشن پر فیاضی کا مینہ برسا دیا۔ اسی بناء پر وہ ہمارے محسن ہیں اور ہمیں ان کا احسان ماننا چاہیے قومی مجالس میں ان کی فیاضیوں اور کوششوں کا ترانا گانا چاہیے قومی تاریخ میں ان کا نام سب سے اوپر لکھنا چاہیے، لیکن وہ ہمارے پولیٹکل لیڈر نہیں ہیں ان کی عمر کا تمام حصہ پولیٹکل زندگی سے الگ گزرا ہے ان کو پولیٹکل لٹریچر کے دیکھنے کا بہت کم موقع ملا ہے، انہوں نے اس فن کا مطالعہ نہیں کیا ہے اس کے ساتھ ان کے تعلقات اور معاملات آزادی کی اجازت نہیں دے سکتے اس لیے ہم کو ان کا وہ منصب قرار دینا چاہئے جو امریکہ میں راک فیلر اور کارینگی کا ہے کہ تمام امریکہ ان کی قومی فیاضیوں کا غلام ہے غاہم کوئی شخص ان کو لیڈر کے خطاب سے مخاطب نہیں کر سکتا۔ لیڈری کے لیے وہ شخص درکار ہے جو مسٹر گوکھلے کی طرح خطاب، جائیداد، دولت اور تمام تعلقات سے آزاد ہو۔ پر جوش اور دلیر ہو اس کے ساتھ پالیٹکس کا ماہر ہو اور پولیٹکل لٹریچر کا مدتوں مطالعہ کر چکا ہو۔ اگر قوم میں ایسے شخص موجود نہیں ہیں تو لیڈری کے تحت کو اور بھی چند روز خالی رکھنا اور واقعی تخت نشین کا انتظار کرنا چاہیے۔ سچ اور بالکل سچ یہ ہے، کہ لیڈروں کا نہیں بلکہ لیڈر بنانے والوں کا قصور ہے اس لیے کہ وہ پہلے ایک شہنشاہی قائم کرتے ہیں، تاکہ اس کے سایہ میں اور چھوٹی چھوٹی حکومتیں قائم ہو سکیں جن میں سے کوئی حکومت ان کے بھی زیر نگیں آ جائے اس لیے ہمیں لیڈروں سے نہیں بلکہ لیڈر گروں سے بچنا چاہیے۔ (مسلم گزٹ لکھنو) 18مارچ1912ء ٭٭٭٭٭٭٭ مسئلہ آرمینیا آرمینیا کے متعلق اگرچہ معلومات کے ذریعے موجود ہیں وہی انگریزی اخبارات ہیں جنہوں نے اور جن کی قوم نے ترکوں کے برباد کرنے کا گویا احرام باندھ لیا ہے، تاہم یہ عجیب بات ہے کہ ان جھوٹے ظلموں میں بھی سچ کے آثار صاف صاف نظر آتے ہے ریوٹر کے تاروں کے باہنی تناقض اور بے سروپائی نے خود بتا دیا کہ ان میں جھوٹ کا کس قدر حصہ ہے؟انگریزی اخبارات کی طرزتحریر سے خود ثابت ہو گیا کہ ان کا اصلی مقصود کیا ہے؟ تاہم نہایت مفید ہو گا اگر ہم یہ پتہ لگائیں کہ آرمینیا کے مسئلہ کے متعلق دوسری قوموں کے کیا خیالات اور کیا معلومات ہیں؟ بیروت کے مشہور اخبار ثمرات الفنون نے اس پر ایک بسیط آرٹیکل لکھا ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ فرانس جرمنی وغیرہ کے تمام اخبارات اس مسئلہ میں انگریزوں کے بر خلاف ہیں وہ اعلانیہ لکھتے ہیں کہ ان تمام ہنگاموں میں آرمینیوں ہی کی شرارت ہے اور انگریزوں نے جوان کی حمایت کا بیڑا اٹھا دیا ہے۔ یہ فقط ایک خود غرضانہ حکمت عملی ہے اخبار مذکور نے بہت سے اخباروں کو نام بنام گنایا ہے۔ مثلاً دیپا، سیاکل کو رسپوانس ، دولست، اندیندانس، یلح، نایہ فریاد، پارمد نیلاٹ، گالو (یہ فرنچ و جرمن اخبار ہیں) لیکن تلفظ کے نہ معلوم ہونے سے نام کی صحت نہیں ہو سکتی ہے اخبار مذکور نے فرانس کے نہایت مشہور اخبار الپتی ژور نال کے ایک آرٹیکل کا ترجمہ چھاپا ہے چنانچہ اس موقع پر ہم اس کا خلاصہ نقل کرتے ہیں ، وہ لکھتا ہے کہ ’’ ہم نے کچھ دن پہلے جو لکھا تھا، وہ سچ نکلا کہ دنیا کا امن و امان ترکی حکومت کے قائم رہنے پر موقوف ہے اور یہ کہ انگلستان ترکی کے انتظامات میں جس قسم کی مداخلت کر رہا ہے وہ عام امن و امان کو ضرر پہنچانے والا ہے۔‘‘ موجودہ واقعات نے ثابت کر دیا کہ آرمینیوں کے ہنگامے کی تحریک در حقیقت خود انگلستان نے کی ۔ بلکہ ترکی میں جو خود سر جماعت پیدا ہو گئی ہے وہ انگلستان ہی کے اغوا کی وجہ سے ہوئی ہے، انگلستان چند روز تک اس معاملہ میں چپ رہا لیکن یہ سکوت بھی دھمکی کا ثبوت تھا لیکن جب اس نے مہر سکوت توڑی تو بجائے اس کے کہ امن کی طرف اس کامیلان ہو، اس نے اور زیادہ برہمی پیدا کی، چنانچہ فارن سیکرٹری نے اپنی اسپیچ میں کہا کہ بیرونی معاملات پر خطر ہیں۔ اس کے بعد لارڈ سالسبری نے گلڈ ہال میں اسپیچ دی جس میں بہت کچھ مدمغانہ خیالات اور متناقض بیانات تھے تاہم چونکہ لارڈ موصوف کو یہ معلوم ہے کہ تمام اسلامی دنیا اور خود ہندوستان میں سلطان المعظم کو مسلمان کس نگاہ سے دیکھتے ہیں اس لیے ان کی تقریر میں نرمی اور چاپلوسی کا پہلو بھی تھا۔ اس معاملہ میں جو سلطنتیں انگلستان کے پیچھے پیچھے چل رہی ہیں وہ اٹلی اور آسٹریا ہیں، جن کو موہوم امیدوں نے اس کارروائی پر آمادہ کیا ہے، یہ ظاہر ہے کہ جرمنی بوجوہات مختلفہ اس جھگڑے سے بالکل الگ ہے اور سلطنت روس و فرانس نے سچے دل سے سلطان کی دوستی کا اظہار کیا ہے فرانس اس بات کو ہمیشہ نفرت کی نگاہ سے دیکھتا رہا ہے کہ اصلاح اور رفارم کے بہانے سے ترکی کے معاملات میں دست اندازی کی جائے گی۔ اس موقع پر ہم مناسب سمجھتے ہیں کہ ٹرکش گورنمنٹ نے آرمینیوں کے ساتھ جو رعایتیں ملحوظ رکھی ہیں ان کا مختصر سا تذکرہ کیا جائے جس سے معلوم ہو گا کہ انگریزی اخبارات نے آرمینیوں کی مظلومیت کی جو تصویر کھینچی ہے وہ کہاں تک صحیح ہے؟ مصر کے مشہور اخبار الموید نے ایک بسیط آرٹیکل اس عنوان سے لکھا ہے ’’ دولت عالیہ کے احسانات آرمینیوں پر‘‘ چنانچہ اس کا خلاصہ ذیل میں درج ہے۔ ’’ خاص قسطنطنیہ میں آرمینیوں کے 29گرجے،51ابتدائی مدرسے، 157سکول اور ایک صنعت کا مدرسہ ہے جس میں425لڑکے تعلیم پاتے ہیں،لڑکیوں کی تعلیم کے جدا مدرسے ہیں جن میں تین ہزار لڑکیاں تعلیم پاتی ہیں۔‘‘ اس کے سوا خاص سلطانی مدارس میں کثرت سے ارمنی داخل ہیں یہاں تک کہ بعض کالجوں میں زیادہ تعداد آرمینین طالب علموں کی ہے۔ محلہ ’’ یدی قولی‘‘ میں ان کا ایک خاص ہسپتال ہے جس میں سلطان کی طرف سے روزانہ ڈھائی من روٹی اور 5آثار گوشت مقرر ہے، اسی طرح ان کے یتیم خانہ کے لیے خاص سلطان کی طرف سے اسی قدر گوشت اور جنس روزانہ مقرر ہے ان کی تعلیم ترقی کے لیے چار سوسائٹیاں قسطنطنیہ میں قائم ہیں، جن میں سے ایک جو سب سے بڑی ہے سلطان کے انعامات سے ہمیشہ بہریاب رہی ہے۔ اس سوسائٹی کے ماتحت تمام ٹرکش حکومت میں35عام سکول میں دس زنانہ اسکول قائم ہیں جن میں5ہزار لڑکے اور لڑکیاں تعلیم پاتے ہیں۔ ان سب سے بڑھ کر یہ کہ سر شتہ تعلیم کی طرف سے ہمیشہ جو طالب علم یورپ کے مختلف شہروں میں تعلیم پانے کی غرض سے بھیجے جاتے ہیں، ان میں اکثر ارمن لڑکے ہیں جن کا خرچ سرشتہ تعلیم یا سلطان کی جیب خاص سے ملتا ہے۔ ترکی حکومت کے مختلف مقامات میں جو انجمنیں، کتب خانہ، علمی سوسائٹی قائم ہیں عموماً سب کو سلطان کی طرف سے مدد ملتی ہے۔ ترکی نے آرمینیوں کے فساد روکنے اور انگلستان کے بیجا دباؤ کے مقاومت کے لیے جو تیاریاں کیں اس کا مفصل حال اگرچہ اس وجہ سے نہیں معلوم ہو سکتا ترکی اخبارات پولیٹکل معاملات کے متعلق کچھ لکھنے کے مجاز نہیں ہیں، تاہم چھوٹی چھوٹی لوکل خبروں سے جس قدر مفہوم ہوتا ہے یہ ہے کہ 5 لاکھ فوج ہر قسم کے سامان سے لیس ہو کر تیار ہو گئی جن میں سے ڈھائی لاکھ دار السلطنت میں مقیم ہے اور باقی مختلف مقامات پر روانہ ہو چکی ہے اور جہاں جہاں قلعہ اور دمدمے تھے سب جگہ کثرت سے آلات جنگ بھیج دئیے گئے ہیں۔ آرمینیا کے اضلاع میں امن و امان قائم ہو جاتا ہے اور ارمنی اپنی حرکات سے نادم ہو کر سرکاری حکام کے پاس حاضر ہوتے جاتے ہیں ۔ ’’ چوں مرزن‘‘ جہاں بہت بڑا فساد ہوا تھا وہاں کے تمام ارمنی 7تاریخ ماہ تشرین کو جوق کے جوق جمع ہوئے اور فوجی افسروں کے پاس حاضر ہو کر با ٓاز بلند پکارے کہ بادشاہ ہم چوق یشاں (یعنی ہمارا بادشاہ ہمیشہ زندہ رہے) چنانچہ اسی وقت ترکی فوج جو موقع پر موجود تھی، فوجی قاعدہ سے صف آرا ہوئی اور آرمینیوں نے ان کے سامنے حلقے باندھے ثابت پاشا نے وسط میں کھڑے ہو کر ایک پر اثر تقریر کی اس وقت سب نے مل کر بادشا ہم چوق یشا کا نعرہ بلند کیا اس کے بعد مسلمان رعایا اور آرمینیوں نے اپنے اپنے غول سے دو سردار انتخاب کیے دونوں سرداروں نے نہایت دوستانہ طریقہ پر بڑھ کر ایک دوسرے کا شانہ چوما اور صلح و محبت کا اعلان عام دے دیا گیا۔ اس طرح اور مقامات میں بھی امن و امان قائم ہوتا جاتا ہے، افسوس ہے کہ انگریزی اخبارات ان واقعات پر پردہ ڈالتے ہیں اور سچ کو ظاہر ہونے نہیں دیتے آزاد لکھنو 21فروری1896ء ٭٭٭٭٭٭ متفرقات اضلاع سرحدی کا مختصر دورہ مولوی غلام محمد صاحب شملوی وکیل ندوہ پشاور میں مقاصد ندوہ کی اشاعت کے لئے گئے تھے وہاں کے لوگوں نے خواہش کی کہ خاکسار اور مولانا شاہ سلیمان صاحب کی زبان سے یہ مقاصد زیادہ دلنشین ہوں گے اس تحریک پر 22مارچ1909ء کو ہم لوگ لکھنو سے روانہ ہوئے اور 24کی صبح کو پشاور پہنچے اگرچہ ٹرین وہاں کچھ رات رہے پہنچی ہے، تاہم اکثر معززین اسٹیشن پر موجود تھے جن میں حاجی کریم بخش صاحب سیٹھی تاجر اعظم اور مسٹر عبدالعزیز ایم اے اسسٹنٹ ریونیو کمشنر وغیرہ حضرات بھی تھے۔ حاجی کریم بخش صاحب بہت بڑے تاجر ہیں اور حیرت یہ ہے کہ دولت مند ہونے کے ساتھ عالم بھی ہیں گویا مسلمانوں میں بھی علم اور دولت کا ساتھ ہو سکتا ہے ہم لوگ ان ہی کے مہمان ہوتے اور انہوں نے جس محبت اور فیاضی سے میزبانی کی ان کے شایان شان تھا۔ نواب سر کرنل اسلم خاں صاحب کے سی، آئی، ای اور صاحبزادہ عبدالقیوم صاحب سی آئی ای کے یہاں دعوتیں ہوئیں محمڈن کلب کے ممبروں نے ڈنر دیا ان سب صحبتوں میں ندوہ کے تذکرے رہے خصوصاً ڈنر کے بعد جب نواب اسلم خان صاحب نے میرے شکریہ کی تحریک کی تو میں نے جواب میں ندوہ کے متعلق مفصل تقریر کی اس ڈنر میں سرحد کے بعض بہت بڑے بڑے سردار شریک تھے۔ حسن اتفاق یہ کہ ان ہی دنوں میں وہاں کے چیف کمشنر نے جو یہاں کے لیفٹیننٹ گورنر کے ہم رتبہ ہیں بڑا دربار کیا تھا جس میں سرحد کے تمام روسا اور خواتین شریک ہوئے تھے اس کے ساتھ گارڈن پارٹی بھی تھی جس میں ہم لوگ بھی مدعو کئے گئے تھے۔ چیف کمشنر صاحب سے میں مکان پر بھی ملا، ان کی ملاقات کا ڈھنگ تمام ہندوستان کے حکام انگریزی سے الگ ہے، ملاقاتیوں کے لیے ایک خاص کمرہ ہے جس میں پر تکلف کرسیاں، کوچیں، میز وغیرہ ہیں، جو شخص آتا ہے پہلے وہاں بٹھایا جاتا ہے اور اس کے سامنے چائے، حقہ، سگریٹ، سوڈا، لمینڈ پیش کیا جاتا ہے لوگ خوب حقے اڑاتے ہیں، چائے پیتے ہیں اور باہم گلخپ کرتے ہیں، نماز کا وقت آ جائے اور کوئی نماز پڑھنی چاہے تو وضو کے لیے پانی اور جانماز بھی موجود رہتی ہے چیف کمشنر صاحب نہایت خوش اخلاق ہیں ملاقات کے وقت کھڑے ہو جاتے ہیں چلتے ہوئے دروازہ تک پہنچاتے ہیں رخصت ہونے کے وقت کہا کہ ’’ خدا آ پ کو دیر تک زندہ سلامت رکھے‘‘ اور غالباً یہ فقرہ سب کے لیے مبذول ہے۔ محمڈن کلب ہال میں وعظ اور لیکچروں کے متعدد جلسے ہوئے اور نہایت کثرت سے لوگوں کا مجمع ہوتا تھا، الوداعی جلسہ میں، میں نے صرف ندوہ کے مقاصد پر تقریر کی اور لوگوں پر خاص اثر ہوا، تقریر کے بعد لوگوں نے خواہش ظاہر کی کہ یہاں بھی معین الندوہ یعنی ندوہ کی موید ایک انجمن قائم کی جائے چنانچہ بزرگان ذیل نے خود اپنے نام پیش کیے۔ جناب سردار میر عالم خان صاحب اکسٹرا اسسٹنٹ پشاور پریسیڈنٹ جناب میر جمیل احمد صاحب ناظر چیف کمشنر صاحب صوبہ سرحد سیکرٹری جناب میاں عبدالعزیز صاحب اکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر پشاور ممبر جناب راجہ سراج الدین صاحب تحصیلدار جناب میاں عنوان الدین صاحب ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس پشاور جناب محمد عظیم خاں صاحب اسسٹنٹ سرجن پشاور ممبر جناب قاضی محمد اکبر جان صاحب جاگیردار پشاور جناب محمد اکرم خان صاحب بی اے چار سدہ ضلع پشاور جناب قلی خان صاحب نائب تحصیلدار جناب مولوی محمد سعید صاحب اسسٹنٹ انجینئر پشاور جناب میرزا غلام صمدانی صاحب سپرنٹنڈنٹ ریونیو کمشنر صاحب بہادر صوبہ سرحدی جناب محمد عظیم خاں صاحب تحصیلدار ایبٹ آباد، ضلع ہزارہ جناب میاں محمد قیم خاں صاحب ٹھیکیدار پشاور جناب میاں بدر الدین صاحب ہیڈ کلرک دفتر ریونیو کمشنر صاحب جناب میاں وسیع الدین صاحب آرکپولا جیکل سردی پرسنل اسسٹنٹ جناب سپرنٹنڈنٹ صاحب جناب مفتی محمد شریف صاحب انسپکٹر پولیس صدر تھانہ پشاور جناب بابو نور محمد صاحب وٹرنیری اسسٹنٹ چھاؤنی پشاور جناب مفتی محمد حسین صاحب ناظر محکمہ جوڈیشل کمشنر صاحب بہادر صوبہ سرحدی اگرچہ پشاور کے بزرگوں نے پہلے ہی مولوی غلام محمد صاحب شملوی کے جاتے وقت ندوہ کے لیے چندہ کی ایک رقم فراہم کر کے بھیج دی تھی تاہم میر جمیل احمد صاحب نے چاہا کہ جیسا کہ ندوہ کے سالانہ اجلاس میں قرار پایا ہے کہ دار الاقامۃ (بورڈنگ) کا ایک ایک کمرہ ایک ایک شہر مسلمانوں کی طرف سے بنوایا جائے اور اس کمرہ کی پیشانی پر اس شہر کا نام کندہ کیا جائے اس تجویز کے موافق پشاور کی طرف سے بھی ایک کمرہ بنوایا جائے، چنانچہ اس کی کارروائی شروع ہو گی اور امید ہے کہ عنقریب ایک ہزار کی رقم مہیا ہو جائے، اس رقم میں سے سو روپے ہمارے پاس چک کے ذریعہ سے آ بھی گئے ہیں، جو میاں محمد قسیم صاحب نے عنایت فرماتے ہیں۔ پشاور میں جن بزرگوں نے ندوہ کے ساتھ نہایت ہمدردی اور سرگرمی ظاہر کی، ان میں میر جمیل احمد صاحب، میاں عبدالعزیز صاحب، ڈاکٹر عظیم الدین صاحب، شیخ غلام محمد صاحب ڈسٹرکٹ انسپکٹر کا نام خصوصیت کے ساتھ لینے کے قابل ہے، ہمارے میزبان حاجی کریم بخش صاحب کو خدا نے اس قدر مقدرت دی ہے کہ اگر وہ چاہیں تو اکیلے ندوہ کا دار الاقامہ بنوا سکتے ہیں لیکن وہ اس لیے ندوہ سے کسی قدر کشیدہ ہیں کہ ندوہ میں انگریزی کیوں پڑھائی جاتی ہے تاہم انہوں نے دس روپیہ ماہانہ ندوہ کے لیے مقرر کیا ہے رخصت کے وقت مجھ کو سو روپے اور مولوی شملوی صاحب کو بیس روپے رخصتانہ دئیے ہم لوگوں نے بہت کہا کہ ہم لوگ رخصتانہ اور نذرانہ نہیں لیتے لیکن انہوں نے سخت اصرار کیا بالآخر ہم نے وہ رقم لے کر ندوہ میں داخل کر دی حسن اتفاق یہ ہے کہ ہمارے عزیز دوست خواجہ سجاد حسین صاحب بی اے (فرزند مولانا حالی) صوبہ سرحدی کے افسر تعلیمات ہیں انہوں نے پچاس روپے میری دعوت خشک کی مد میں پیش کیے میاں عبدالرشید صاحب نے بھی پچاس روپے دعوت کے دئیے یہ سب رقمیں ندوہ میں بھیج دی گئیں۔ پشاور، کابل کا گویا خاکہ ہے اکثر لوگ بلند بالا تنومند، سرخ و سفید اور قوی الجثہ ہوتے ہیں لیکن افسوس یہ ہے کہ شہر میں مختلف پارٹیاں ہیں اور باہم اتحاد نہیں، ایک اسلامیہ اسکول ہے جس کے سٹاف میں ایک بھی گریجویٹ نہیں وہیں ہندوؤں کا سکول ہے جو نہایت اعلیٰ درجہ کا اسکول ہے اسلامیہ سکول کے متعلق عمارت پچپن ہزار روپے پر گرو ہے حالانکہ عمارت کئی لاکھ کی ہے بہر حال ایں قصہ دراز ست بہ پایاں کہ رساند پشاور سے شاہ سلیمان صاحب حیدر آباد چلے گئے اور میں راولپنڈی آیا، یہاں بھی ایک اسلامیہ سکول ہے اور بہ نسبت پشاور کے اچھی حالت میں ہے، اس کے ہال میں میں نے ندوہ کے مقاصد پر لیکچر دیا، خواص و عوام ہر قسم کے لوگ نہایت کثرت سے تھے جلسہ کا اہتمام قاضی سراج الدین صاحب بیرسٹر سیٹھ آدم جی صاحب مشہور تاجر شیخ فضل الٰہی صاحب اور عبدالمجید خان صاحب بیرسٹر کی طرف سے تھا۔ ندوہ سے لوگوں نے نہایت دلچسپی ظاہر کی میں نے یہاں سے بھی ایک کمرہ بننے کی تحریک کی تھی اور لوگوں نے نہایت خوشی سے منظور کی، معین الندوہ بھی قائم ہوئی لیکن ابھی تک ممبروں کے نام میرے پاس نہیں آئے۔ میں راولپنڈی میں تھا کہ مولوی محمد اشرف صاحب وکیل کوہاٹ یہاں آئے اور کہا کہ مسلمانان کوہاٹ نے مجھ کو آپ کے بلانے کے لیے بھیجا ہے میں مولوی غلام محمد صاحب شملوی کے ساتھ اپریل 1909ء کو صبح کے وقت کوہاٹ پہنچا، اسٹیشن پر تمام اکابر کوہاٹ تشریف لائے تھے یہاں کے لوگ جس جوش اور محبت کے ساتھ ہم لوگوں سے ملتے تھے میں اس کا اثر اب تک دل میں پاتا ہوں یہ مشہور بات ہے کہ بودہم پیشہ باہم پیشہ دشمن لیکن بخلاف اور مقامات کے یہاں کے علماء اور قضاۃ ہمارے ساتھ اس گرم جوشی کے ساتھ پیش آئے کہ برادرانہ محبت کا لطف آتا تھا۔ اسلامی حکومت کے زمانہ میں جو عہدے تھے ان میں سے بعض کے نام باقی رہ گئے ہیں اور بعضوں کا تو نام بھی نہیں رہا۔ مثلاً محتسب کا عہدہ جس کو ہندوستان میں عالمگیر نے زندہ کیا تھا لیکن یہاں ایک خاندانی محتسب صلحب بھی ہیں اور اسی نام سے پکارے جاتے ہیں ان کو اس عہدے کے معاوضہ میں جو زمین ملی تھی، اب تک ان کے قبضہ میں ہے حکام انگریزی نے بھی ان کا یہ لقب قائم رکھا ہے ان کے پاس چمڑے کا ایک درہ خاندانی میراث میں چلا آتا ہے لیکن ان کو بلکہ خود ہم کو بھی اس بات کا افسوس ہے کہ غریب درہ کو اپنی خدمت کے انجام دینے کی اجازت نہیں کپڑے کا ایک غلاف ہے جس میں وہ اپنی افسردہ زندگی بسر کررہا ہے محتسب صاحب کو اپنے عہدہ کے لحاظ سے جابر اور تند مزاج ہونا چاہیے تھا لیکن وہ اس قدر منکسر المزاج ہیں کہ اتنا انکسار تو میں بھی نہیں پسند کرتا اس شہرمیں ایک اسلامی انجمن ہے جس کے سیکرٹری خان بہادر سید سکندر شاہ صاحب ایک معزز خاندانی رئیس ہیں اسسٹنٹ سیکرٹری مولوی سید اشرف صاحب وکیل ہیں اور سچ یہ ہے کہ کوہاٹ میں جو کچھ قومی زندگی ہے ان ہی کے دم سے ہے۔ سید سکندر شاہ صاحب کے اہتمام سے لیکچر کا جلسہ منعقد ہوا، پہلے دن مولوی غلام محمد صاحب شملوی نے تقریر کی، اور گویا کوہاٹ کو مسخر کر لیا، دوسرے دن زیادہ اہتمام ہوا اور کئی کئی میل سے لوگ آئے شاید کوہاٹ میں آج تک اس جمعیت اور اقتدار کا کوئی جلسہ نہ ہوا ہو گا، میں نے اسلام کی جامعیت اور ندوہ کے مقاصد پر تقریر کی اکثر ہندو اور آریہ صاحب بھی تشریف لائے تھے الوداعی جلسہ انجمن کے ہال میں منعقد ہوا جس میں میں نے معین الندوہ کے قائم کرنے کی تحریک کی انجمن کے تمام ارکان نے جن کی تعداد اکاون تھی ممبری قبول کی اسی وقت لوگوں نے ماہوار چندے بھی لکھوائے جس کی تعداد47روپے ماہوار تھی (اس کی تفصیل آئندہ چھپے گی) ماہواری چندے اگرچہ کم وصول ہوتے ہیں لیکن بزرگان کوہاٹ کی نسبت اس قسم کی بد گمانی نہیں کی جا سکتی۔ کوہاٹ کے لوگ نہایت سادہ، نیک دل، عقیدت کیش اور فداء اسلام تھے لیکن تعلیم نہیں ہے، نہ کوئی ایسا مقتدا ہے جو ان کو ٹھیک راستہ پر چلائے چند رسمیں ان میں جاری ہیں جن کے مصارف ان کو پامال کئے ڈالتے ہیں لیکن وہ اس کے پنجہ سے چھوٹ نہیں سکتے۔ رخصت کرنے کے وقت تمام بزرگان کوہاٹ اسٹیشن پر تشریف لائے اور نہایت جوش اور محبت کے ساتھ ہم کو رخصت کیا۔ بزرگان کوہاٹ نے بھی ایک کمرہ کی تعمیر کا ذمہ لیا اور اس کی پہلی قسط ایک سو سات روپے نقد عنایت کی اس میں ڈاکٹر عبدالقادر صاحب نے سو روپے دینا منظور کیا۔ (الندوہ نمبر3جلد6) ربیع الاول 1327ھ مطابق اپریل 1909ء ٭٭٭٭٭٭ حضور نظام کی چالیسویں سالگرہ اور اراکین ندوۃ العلماء کا تہنیت نامہ ریاست حیدر آباد دکن کو علمی فیاضی کے لحاظ سے ہندوستان کی تمام اسلامی ریاستوں میں جو خصوصیت حاصل ہے وہ محتاج بیان نہیں، کون نہیں جانتا کہ آج ہندوستان کے علمی گروہ کا ماوا، و ملجا، سر پرست، قدر دان دکن کا دار الحکومت حیدر آباد ہے۔ ہندوستان کی تمام علمی انجمنیں قدیم و جدید علوم کے مدرسے اسی مبارک ریاست کی فیاضیوں کے ممنون ہیں اس بناء پر یہ کہنا مبالغہ نہیں بلکہ واقعہ ہے کہ سلطنت آصفیہ خلد ہا اللہ تعالیٰ کی علم پروری سے ہندوستان کا علمی حصہ نشوونما پا رہا ہے۔ وابستگان دولت آصفیہ کے لیے سال بھر میں وہ موقع بے حد مسرت کا باعث ہوتا ہے جب حکمران ریاست اپنی زندگی کا ایک سال پورا کرتا ہے اور خیر و برکت کے ساتھ دوسرے سال میں قدم رکھتا ہے، اس موقع پ روہ اپنا فرض سمجھتے ہیں کہ اپنی دلی عقیدت مندی کو ظاہر کریں اور ریاست کے احسانات کا شکریہ ادا کریں چنانچہ امسال وہ مسرت خیز موقع ماہ شوال میں انتالیسویں مرتبہ جلوہ افروز ہوا اور 17سے 23 شوال تک جشن سالگرہ قرار پایا۔ ندوۃ العلماء اس موقع پر اظہار مسرت و عقیدت کے شرف سے کیونکر محروم رہتا؟ اس کا بڑا کارنامہ دار العلوم ہے جس نے ابھی ذہنی صورت بھی اختیار نہیں کی تھی کہ اسی ریاست کی علم پروری نے اپنی فیاضی کے سنگ اولین سے اس کی بنیاد رکھی، اس بناء پر اراکین ندوۃ العلماء نے اپنی دلی عقیدت مندی کو ایک تہنیت نامہ کی صورت میں پیش کرنا چاہا یہ طے پا چکا تھا کہ اراکین کا ایک منتخب وفد حیدر آباد میں حاضر ہو کر بالمشافہ حضور میں پیش کرے، اسی غرض سے خط و کتابت کی گئی لیکن پرائیویٹ سرکار عالی مداد المہام کی مندرجہ ذیل چھٹی نے اس رائے میں تبدیلی کر دی۔ پولیٹکل سیکرٹری گورنمنٹ نظام مراسلہ دفتر پرائیویٹ سیکرٹری مہاراجہ بہادر پیشکار و مدارا المہام سرکار عالی واقع25اکتوبر1904ء 20آذر 1315ف نشان 5344 حسب الحکم عالی جناب سر مہاراجہ بہادر یمین السلطنت مدار المہام سرکار عالی پولیٹکل سیکرٹری گورنمنٹ نظام و منجانب فرید و نجی جمشیدی اسکوائر سی آئی ای پرائیویٹ سیکرٹری مدار المہام سرکار عالی مقدمہ ملفوظ بخدمت معتمد صاحب دفتر ندوۃ العلماء بمقام لکھنو بجواب مراسلہ نشان1463 مورخہ 16 شعبان 1323 نگارش ہے کہ عالی جناب مدار المہام ارشاد فرماتے ہیں کہ ندوۃ العلما کی جانب سے بتقریب جشن چہل سالہ سالگرہ مبارک اس قدر مسافت بعیدہ سے کوئی وفد بھیجنے کی زحمت گوارا نہ فرمائی جائے اگر مجلس موصوفہ سے صرف تہنیت نامہ بھیج دیا جائے تو کافی ہو گا۔ جو بخوشی تمام بارگاہ خروی میں گزران دیا جائے گا۔ فقط محمد غوث پرسنل اسسٹنٹ اس بنا پر اراکین ندوۃ العلماء نے تعمیل ارشاد اپنا فرض سمجھ کر تہنیت نامہ مدار المہام بہادر کی خدمت میں روانہ کر دیا تاکہ جشن چہل سالہ کے موقع پر حضور میں پیش کر دیا جائے تہنیت نامہ بجنسہ درج ذیل ہے: بسم اللہ الرحمن الرحیم بہ حضور لا مع النور بندگان عالی متعالی رستم دوران افلاطون زمان، فلک بارگاہ مظفر الممالک فتح جنگ ہزہائنس نواب میر محبوب علی خان بہادر نظام الملک آصف جاہ سلطان دکن خلد اللہ ملکہ سپاس ایزد داد گر کہ دیرینہ آرزو ہارا روز کامرانی رسید، تمنا را ہنگامہ گرم شد، عیش و خرمی بر خود بالید نشاط و طرب رار و ز بازار آمد، یعنی آوازہ جشن چہل سالہ بندگان عالی جہان و جہانیاں را سامعہ نواز و مایہ صد گو نہ بہجت واہتزاز آمد وچوں بناشد کہ عہد معدلت مہد شہر یاری، نہ ہمین ممالک محروسہ آصفیہ رابۃ ترقیہائے روز افزوں و کامرانیہائے گوناگوں نواختہ است، بلکہ در وسعت آباد ہند ہیچ جائے و ناصیتے نیست کہ از تاب آفتاب فیض ایں دولت فرو غالی نگشتہ باشد رہنما یان طریقت و پشیروان شرع و نکتہ سنجان سخن و طاعت گزاران مساجد، ہمہ را فیض گستر یہائے کرم آصفی بہ نوعے کامروائے مطالب و مقاصد گر رایندہ است کہ اگر ہربن موے ایشاں درا داے سپاس زبانے گرد دباز ہم ز عہدۃ ایں کار بد رنتواں آمد دیژہ اانجمن ندوۃ العلماء را کہ برپا کردہ انفاس قدسیہ پیشردان طریقت وجادہ ثناسان شریعت ست از آغاز کار طوق منت دولت ہمایوں در گردن ست و زمزمہ سپا سگزاری و منت گزاری غلغلہ نواز بزم و انجمن اکنوں کہ تقریب جشن چہل سالہ بندگان شہریاری عالم و عالمیاں را مژوہ نواز آمد، ما ارکان واعضاے ایں جملہ انجمن بہ کمال اخلاص و نیاز و نہایت مسرت وابتہاج، مراسم تبریک و تہنیت را از تہ جان بجامے آریم، و بمقتضائے من لم یشکر الناس لم یشکر اللہ ادائے ایں فریضہ راز جملہ واجبات دینی می انگاریم واز صمیم قلب خواستگاریم کہ تاجہاں باشد دایں گنبد گرداں باشد دہر فرماں بر محبوب علی خاں باشد (الندوہ، نمبر11جلد2) ماہ ذیقعد 1323ھ مطابق ماہ جنوری1906ء ٭٭٭٭٭٭٭٭ مولانا حالی کی ذرہ نوازی خاکسار کے پاؤں کے زخمی ہونے پر بعض بزرگوں اور دوستوں نے رباعیاں لکھ کر بھیجیں ، سید سلیمان اسسٹنٹ ایڈیٹر الندوہ نے ان میں سے بعض پچھلے پرچے میں چھاپ دیں ان کو دیکھ کر ہمارے مخدوم مولانا حالی نے مینجر الندوہ کو ایک خط لکھا جو بعینہ درج ہے۔ ’’ رسالہ الندوہ میں مولانا شبلی کے احباب کی رباعیات دیکھ کر مجھے بھی یہ خیال ہوا کہ ان کے زمرہ احباب میں ہونے کا فخر حاصل کروں لہٰذا ذیل کے چار مصرعے موزوں کر کے آپ کی خدمت میں بھیجتا ہوں الندوہ کے کسی آئندہ نمبر میں ان کو بھی درج فرما دیجئے گا۔‘‘ شبلی کہ گزند پاش پر دل شکن ست باخستگیش خجستگی مقترن ست چنداں کہ بکاہند فزانیدا ینجا کار آستن چمن زپیراستن ست خاکسار الطاف حسین حالی از پانی پت 12اکتوبر1907 مولانا کا میری نسبت ایسے خیالات ظاہر کرنا محض ان کی ذرہ نوازی ہے وہ میرے احباب میں شامل ہونے کا ننگ گوارا فرماتے ہیں لیکن میری عزت یہ ہے کہ مجھ کو اپنے نیاز مندوں کے زمرہ میں شامل ہونے کی اجازت دیں، اب چند ہی ایسی صورتیں باقی رہ گئی ہیں جن کو دیکھ کر قدما کی یاد تازہ ہو جاتی ہے خدا ان بزرگوں کا سایہ قائم رکھے، آمین (الندوہ جلد4نمبر11) (ذیقعدہ 1225ھ مطابق ماہ دسمبر1907ئ) ٭٭٭٭٭٭٭ ہائے نواب محسن الملک مرحوم آج ہماری قدیم تعلیم و تربیت کی ایک اور یادگار مٹ گئی، جدید تعلیم ایک مدت سے جاری ہے اور آج سینکڑوں ہزاروں تعلیم یافتہ بڑے بڑے خدمات پر ممتاز ہیں لیکن قومی علم ابھی تک ان ہی لوگوں کے ہاتھ میں ہے جنہوں نے کالجوں کے ایوانوں میں نہیں بلکہ مکتب کی چٹائیوں پر تعلیم پائی تھی، جدید تعلیم بھی ان ہی کی بدولت پھیلی اور آج خود جدید تعلیم یافتہ گروہ ان ہی کے اشاروں پر حرکت کرر ہا ہے۔ لوگوں کو ڈر تھا کہ سرسید مرحوم کے بعد ان کے منصوبوں کو کون انجام دے گا؟ لیکن خدا نے ان ہی کے ہم نشینوں میں سے ایک ایسا شخص (نواب محسن الملک) پیدا کر دیا جو اور امور میں گو سرسید کا ہمسر نہ تھا لیکن کالج کی ترقی، وسعت اور مقبول عام بنانے میں سرسید سے کسی طرح کم رتبہ پر نہ تھا۔ اس نے تھوڑی مدت میں سات آٹھ لاکھ روپیہ جمع کر دیا۔ کالج کی ہر شاخ اس قدر ترقی کر گئی کہ اگر کوئی شخص جس نے سرسید مرحوم کی زندگی میں کالج کو دیکھا تھا آج جا کر دیکھے تو کالج کو پہچاننا مشکل ہو گا کانفرنس جو روز بروز پژ مردہ ہوتی جاتی تھی، نواب محسن الملک مرحوم نے اس کو دوبارہ زندہ کیا اور لاہور سے ڈھاکہ تک اس کے ڈانڈے ملا دئیے۔ مرحوم ذاتی صفات کے لحاظ سے بھی نادرہ گار تھے۔ اس درجہ اس عزت، اس رتبہ پر ان کے اخلاق کا یہ حال تھا کہ ادنی درجہ کے آدمیوں سے بہ ادب و عزت ملتے تھے، ملاقات میں ہمیشہ پیش قدمی کرتے تھے سب سے جھک کر ملتے تھے اس کے ساتھ نہایت فراخ حوصلہ، فیاض، سخی اور جواد تھے اور یہی اوصاف تھے جن کی وجہ سے انہوں نے ایک عالم کو مسخر کر لیا تھا۔ تصنیف و تالیف کے میدان میں بھی وہ مشاہیر کے ہمسر تھے، ان کا ایک خاص لٹریچر تھا جو ان ہی کے ساتھ مخصوص تھا قوت تقریر میں بھی وہ نہایت ممتاز تھے۔ ظاہری صورت و شان سے بھی خدا نے ان کو کافی حصہ دیا تھا، ان کے چہرے سے شان ٹپکتی تھی او گو وہ سید تھے لیکن تاتاری استخواں کا دھوکا ہوتا تھا۔ اخیر عمر میں ان کو کالج کے لڑکوں کی شورش کا بہت صدمہ ہوا۔ کہتے تھے کہ میں اس رنج سے گھلا جاتا ہوں اور واقع میں میں نے ان کو جب شملہ جاتے ہوئے دیکھا تو ان کی صورت دیکھ کر گھبرا گیا کہ اب یہ آفتاب لب بام آ پہنچا۔ محسن الملک! جا اور خوش خوش خدا کے سایہ رحمت میں آرام کر، تو درد بھرا دل رکھتا تھا لوگ بھی تیرے لیے روئیں گے اور بہت روئیں گے۔ در روزگار عشق تو، ماہم فدا شدیم افسوس کز قبیلہ مجنوں کسے نماند (الندوہ نمبر9جلد 4) (رمضان 1325ھ مطابق 17اکتوبر1907ئ) ٭٭٭٭٭٭ اختتام۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔The End