مقالات شبلیؒ جلدہفتم (فلسفیانہ) مرتبہ مولانا سید سلیمان ندویؒ فلسفہ یونان اور اسلام علمی تاریخ کا یہ ایک اہم مسئلہ ہے کہ مسلمانوں نے اپنے دور میں فلسفہ و سائنس پر کچھ اضافہ یا اصلاح و ترمیم کی یا نہیں یورپ کے مستشرقین (اورنٹیلسٹ) میں بعض اس کے مقر ہیں اور بعض منکر ہیں لیکن ہم کو جہاں تک معلوم ہے جو لوگ مسلمانوں کے طرفدار ہیں انہوںنے بھی یہ فیصلہ اجتہاداً نہیں بلکہ تقلیداً کیا ہے۔ طرفداران اسلام میں پروفیسر لیبان‘ پروفیسر مونک‘ دوزی‘ دوگا ‘پروفیسر سیدیو (یہ سب فرنچ ہیں) گبن ‘ ڈریپر مکڈانلڈ زیادہ نامور ہیں۔ ان میں سے سیدیو اور مونک کے سوا بای عربی زبان سے بالکل ناآشنا ہیں‘ سیدیو اور مونک کی تصنیفات ہم نے اچھی طرح دیکھی اورپڑھی ہیں ان سے صاف ثابت ہوتا ہے‘ کہ وہ عربی فلسفہ سے نہایت سطحی واقفیت رکھتے تھے گبن ڈریپر وغیرہ سرے سے عربی زبان ہی نہ جانتے تھے اس لیے ان کی تحسین تحسین نا شنا س ہے۔ یہ تو ہمارے دوستوں کی حالت ہے لیکن مخالفوں کی حالت ان سے بھی عجیب تر ہے ‘ یہ لوگ مدعی ہیں کہ مسلمانوں نے ارسطو کورانہ تقلید کے سوا اورکچھ نہیں کیا ایک صاحب نے لکھا ہے کہ مسلمان ارسطو کی گاڑی کے قلی تھے‘ پروفیسر رینان نے ایک لیکچر دیا تھا‘ جس میں بیان کیا تھا کہ اسلام اور علم دونوں ایک ساتھ جمع نہیں ہو سکتے۔ لطف یہ ہے کہ ان میں سے ایک کو بھی مسلمانوں کی نادر تصنیفات سے دلچسپی نہیں۔ اس بنا پر ہم نے اس سلسلہ مضمون میں ارادہ کیا ہے کہ اس مسئلہ کو پوری تحقیق کے ساتھ قطعی طور سے فیصلہ کر دیاجائے‘ لیکن چونکہ عام طور پر یہ مشہور ہے اور مسلمانوں کی موجودہ تصنیفات بھی اس کی شہادت دے رہی ہیں کہ مسلمانوں میںمقلدین ارسطو کے سوا اور کوئی فرقہ موجود نہ تھا اس لیے اس نمبر میں ہم صرف تاریخی طور سے اس واقعہ کی غلطی ثابت کرتے ہیں۔ اس سلسلہ کے دوسرے نمبروں میں ہم یہ تفصیل سے بتائیں گے کہ مسلمانوں نے فلسفہ یونان پر کیا اضافہ کیا ‘ یا کیا اصلاح و ترمیم کی۔ حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں میں فسلفہ حکومت اور سلطنت کی راہ سے آیا‘ خلفائے عباسیہ نے اپنے شوق سے یونانی کتابوں کے ترجمے کرائے‘ ان کو پڑھ کر خود مسلمانوںنے بھی فلسفہ میں تصنیفات و تالیفات شروع کیں‘ لیکن یہ گروہ بھی وہی محدود گروہ تھا جو دربار خلافت سے تعلق رکھتا تھا عوام اور مذہبی فرقہ کو فلسفہ سے کسی قسم کی دلچسپی نہ تھی ‘ چار سو برس کے بعد امام غزالی نے فلسفہ اور منطق کو نصاب تعلیم میں داخل کیا اوراس وقت سے یہ فن عام طور پر رواج پا گیا‘ لیکن امام غزالی نے فلسفہ سے جو کچھ واقفیت حاصل کی تھی وہ صرف بو علی سینا اور فارابی کی کتابوں سے کی تھی چنانچہ ابن رشد نے تہافۃ التہافہ میں جا بجا تصریح کی ہے اور خود امام غزالی کی تصنیفات اس کی شاہد ہیں۔ مسلمانوں میں ابتدا ہی سے دو گروہ پیدا ہو گئے تھے ایک وہ جو صرف فلسفہ ارسطو کا مقلد تھا دوسرا جو حکما کا مقلد تھا یا بجائے خود اپنا خاص فلسفہ رکھتا تھا فارابی اور بو علی سینا پہلے گروہ میں داخل تھے ان دونوں کو ارسطو کے ساتھ یہ خوش اعتقادی تھی کہ بو علی سینا نے ایک موقع پر منطق الشفاء میں لکھا ہے کہ ارسطو کو اتنا زمانہ ہو ا لیکن آج تک اس کے ان مسائل اور تحقیقات پر کچھ اضافہ نہ ہو سکا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱۔ منطق الشفاء کا قدیم اور صحیح نسخہ ہمارے پس نظر ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ابو نصر فارابی نے ایک رسالہ لکھا ہے جس میں ثابت کیا ہے کہ افلاطون اور ارسطو کے جو مسائل بظاہر آپس میں مخالف معلوم ہوتے ہیں وہ درحقیقت مخالف نہیں اس رسالہ کا نام الجمع بین الرائین ہے اور یورپ میں چھت گیا ہے اس میں وہ ایک موقع پر افلاطون اور ارسطو کی نسبت لکھتا ہے۔ وکان ھذان الحکیمان عبد عان للھلسفۃ وفیثان لاوالمھاد اصولھا وعلیھما المعول فی قلیلھا و کثیرھا ’’یہی دونوں حکیم ہیں جو فلسفہ کے موجد اور اس کے اصول و قواعد کے بانی ہیں اور فلسفہ کے قلیل و کثیر کے متعلق صرف انہی پر اعتما دکی جا سکتا ہے۔‘‘ چونکہ فلسفہ کی تصنیفات ابتدا میں عام طور پر متد او ل نہ تھیں اورنہ ہو سکتی تھیں اس لیے وہ صرف خاص خاص کتب خانوں تک محدود ہیں اس قم کا سب سے بڑا کتب خانہ دولت سامانیہ کے پاس تھا۔ بوعلی سینا اسی کتب خانہ کا خوشہ چیں تھا یہ کتب خانہ بو علی سینا ہی کے زمانہ میں جل گیا اورتمام فلسفہ کی اعلیٰ تصنیفا ت برباد ہو گئیں‘ ا س کتب خانہ کی بربادی کے بعد بو علی سینا نے فلسفہ کی ہر شاخ پر نہایت کثرت سے کتابیں لکھیں ان تصنیفات کی مقبولیت کے مختلف اسباب جمع ہو گئے‘ اولاً تو قد ما کی تصنیفات قریباً معدوم ہو گئی تھیں ثانیتاً بو علی سینا متعدد سلطنتوں میں وزارت کے عہدہ پر ممتاز رہا۔ ان باتوں کے علاوہ یوں بھی یہ تصینیفات اپنے انداز میں بلند پایہ تھیں ۔ غرض بوعلی سینا کے بعد ہی تصنیفات تمام عالم میں پھیل گئیں۔ امام غزالی نے جب فلسفہ کی طرف توجہ کی تو یہی سرمایہ ان کے ہاتھ آ سکا۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ تھا کہ امام موصوف نے جب فلسفہ کو نصاب تعلی میں داخل کیا تو یہ وہی فلسفہ تھا جو بو علی سینا نے مرتب کیا تھا‘ یہاں تک کہ ارسطو کے مطالب کے سمجھنے میں بوعلی سینا نے جہاں جہاں غلطیاں کی تھیں وہ بھی بعینہ قائم رہ گئی تھیں اخیر میں اب رشد نے ان غلطیوں سے پردہ اٹھانا چاہا لیکن ابن رشد کی آواز اب اس نقار خانہ میں طوطی کی آواز تھی۔ غرض تمام اسلامی حلقہ ہائے درس میں یہی فلسفہ پھیل گیا‘ امام رازی نے اس فلسفہ پر بڑے زور و شور سے حملہ کیا عین ان کے انتقال کے بعد محقق طوسی نے اسی زور و قوت سے اس فلسفہ کی حمایت کی‘ محقق موصوف نے تاتاریوں کے ذریعہ سے بغداد کو تباہ کرا دیا۔بغداد ہی صرف ایک ایسی جگہ تھی جہاں ارسطو کے فلسفہ کی اور شاخوں کے ذخیرے بھی مل سکتے تھے اس لیے ا کی تباہی کے ساتھ یہ سب سامان بھی برباد ہوا اور جو کچھ رہ گیا وہی ارسطو کے خیالات تھے جو بوعلی سینا کے ذریعہ سے تمام ملک میں پھیل گئے تھے۔ اب فلسفہ کی تعلیم کی جو شاخیں قائم ہوئیں اور وہ محقق طوسی سے واسطہ سے ہوئیں محقق طوسی کے دو شاگرد قطب الدین شیرازی اوررازی نہایت نامور ہوئے اور انہی کی تصنیفات ملک میں پھیلیں ‘ محقق طوسی خود ہلاکو کے دربار میں وزارت کے عہدہ پر ممتاز تھے اور ان کے شاگرد قطب الدین شیرازی بھی دربار سے خاص تعلق رکھتے تھے‘ اس بنا پر ان کی تصنیفات کارواج پانا ایک لازمی امر تھا ۔ علامہ سید شریف جن سے زمانہ بعد میں تعلیم و تعلم کا سلسلہ پھیلا قطب الدین رازی کے شاگرد تھے غرض جو سلسلہ فلسفہ کے تعلم و تعلیم کا آج قائم ہے وہ ارسطو کا فلسفہ ہے جو بوعل سینا کے ذریعہ سے اشاعت پذیر ہوا۔ اسپین میں چھٹی صدی کے اخیر میں فلسفہ کو رواج ہوا لیکن یہ وہ وقت تھا کہ ارسطو کے فلسفہ کے سوا باقی تمام فلسفہ کی شاخیں ناپید ہو چکی تھیں۔ یہ تو فلسفہ کی حالت تھی علم کلام جو آج موجود ہے امام غزالی اور امام رازی کی بازگشت ہے لیکن ان دونوں بزرگوں نے علم کلام میں جس فلسفہ کو مخاطب بنایا تھا وہی ارسطو کا فلسفہ تھا۔ اس بنا پر پانچویں صدی سے آج تک فلسفہ کے جو مسائل قبول یا رد کی حیثیت سے علمی دائرہ میں پھیلے ہوئے ہیں وہ صرف فلسفہ ارسطو کے مسائل ہیں۔ یورپ نے فلسفہ کی تعلیم جو مسلمانوں سے حاصل کی وہ اسپین کی درسگاہوں سے کی جس کے پیشوا اور امام ابن رشد اور ابن طفیل وغیرہ تھے جو خاص فلسفہ ارسطو کے مقلد تھے اس بنا پر یورپ نے مسلمانوں کی جن فلسفیانہ تصنیفات و تالیفات پر دسترس حاصل کی وہ ارسطو ہ کا فلسفہ تھا اس صورت میں یورپ کا یہ کہنا کہ مسلمانوں نے ارسطو کے فلسفہ پر کچھ اضافہ نہیں کیا موجودہ حالات کے لحاظ سے بیجا نہیں لیکن یہ واقعات اس بات کی دلیل نہیںہو سکتے کہ مسلمانوں نے صرف ارسطو کا فلسفہ سیکھا اور اس پر کچھ اضافہ نہیں کیا۔ آج تمام دنیا میں اشاعرہ کا علم کلام پھیلا ہوا ہے لیکن کیا اس بنا پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ مسلمانوں میں اشاعرہ کے سوا اور کوئی علم کلام نہ تھا معتزلہ کا علم کلام جو چار سو برس تک بڑے زور و شور سے جاری رہا اور جس کی ہزاروں تصنیفات کے نام کشف الظنون وغیرہ میں ملتے ہیں اس کے وجود سے کس کو انکار ہو سکتا ہے۔ آ ج فن بلاغت کی جس قدر کتابیں موجود ہیں ان کو پڑھ کر ہر شخص یہ فیصلہ کرے گا کہ مسلمانوں کے علم بلاغت کا سرمایہ اسی قدر ہے لیکن کیا قدماء کی تصنیفات سے انکار ہو سکتا ہے اورکیا دلائل الاعجاز و اسرار البلاغۃ کے دیکھنے کے بعد جو آج کل اتفاق سے گمنامی کے گوشہ سے باہر نکلیں کوئی شبہ کر سکتا ہے‘ کہ موجودہ فن بلاغت کی کتابیں قدماء کی تصنیفات کے آگے بالکل ہیچ ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں میں ابتدا ہی سے ایک گروہ ایسا پیدا ہو گیا تھا جو ارسطو کے فلسفہ کا مخالف تھا‘ یہ گروہ ابتدا میں گمنام رہا لیکن چوتھی صدی سے اس نے ترقی حاصل کی اور پھر روز بروز زور پکڑتا گیا یہاں تک کہ بالکل ایک جداگانہ شاخ قائم ہو گئی۔ اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ سب سے پہلے نحوی نے ارسطو کے رد میں ایک کتاب لکھی یحیی نحوی اسکندریہ کا بطریق تھا اوراس نے حضرت عمرؓ کا زمانہ پایا تھا طبقات الاطبا میں لکھا ہے کہ عمرو بن العاصؓ نے جب اسکندریہ فتح کیا تو وہ ان کی خدمت میںحاضر ہو ا اور وہ اس کے ساتھ بہت عزت و احترام سے پیش آئے شہر زوری نے تاریخ الحکماء میں جس کا قلمی نسخہ ہمارے پیش نظر ہے لکھا ہے کہ وہ مدت تک زندہ رہا یہاں تک کہ امیر معاویہؓ کے پوتے خالد بن یزید نے اس سے طب کی تحصیل ی۔ شہرزوری نے یہ بھی لکھا ہے کہ ارسطو کے رولکھنے کا سبب یہ ہوا کہ یحیی نے جب فلسفہ میں بہت سی کتابیں لکھیں تو متعصب عیسائی اس سے سخت ناراض ہو گئے اوراس کو ضرور پہنچانا چاہا ان کے خوش کرنے کے لیے اس نے ارسطواور افلاطون کا رد لکھا جس کے صلہ میں عیسائیوں نے اس کو دس ہزار اشرفیاں نذر کیں‘ واقعہ کا یہ شان نزول صحیح ہو یا نہ ہو لیکن اس قدر یقین ہے کہ یحتیی نے ارسطو کے رد میں ایک مستقل کتاب لکھی‘ چنانچہ طبقات الاطبا اور فہرست ابن الندیم دونوں کتابوں میںہے شہرزوری نے ایک عجیب بات لکھی کہ امام غزالی کی کتاب تہابۃ الفلاسفہ اسی کتاب کا ماخوذ ہے چنانچہ شہر زوری کے الفاظ یہ ہیں۔ یحیی النحوی الدیلمی الملقب با لبطریق کان من القدماء نصرائیا فیاسو فاو قال ابو علی (علی ابن سینا) فی حقد ھوا المحسوہ علی النصاری لانہ منف کتباء فیھا عی افلاطن وار سطو حین ہمت النصاری بقتلہ و اکثر ما اوردہ الغزلی فی التھافۃ من تلک الکتاب ۱ یحیی اگرچہ مسلمان نہ تھا‘ لیکن چونکہ اسلام کے دور میں تھا اور اعلیٰ تصنیفات نہایت کثرت سے مسلمانوں میں متد اول ہوئیں مصنفین اسلام نے اس کو حکمائے اسلام میں شمار کیا ہے۔ جس طرح حنین بن اسحق اور ثابت بن قرہ حکمائے اسلام میں شمار کیے جاتے ہیں چنانچہ شہرزوری نے تاریخ الحکماء اور شہر ستانی نے کتاب الملل و النحل ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱۔ یہ عجیب بات ہے کہ شہرزوری نے اس یحیی کا ترجمہ دو موقعوں پر لکھا ہے ایک جگہ اس کو اسکندر رانہ اور دوسری جگہ دیلمی کہا ہے اس کی عبارت بتادر ہوتا ہے کہ یہ دو مختلف شخص تھے مگر ذرا غور کرنے سے معلوم ہو تا ہے کہ دونوں ایک ہی شخص ہیں شہرزوری کو دھوکا ہوا ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسی حیثیت سے اس کا تذکرہ کیا ہے ۔ یحیی کے بعد نظام معتزلی نے جو مامون الرشید کا معاصر تھا ارسطو کے رد میں ایک کتاب لکھی مل و نحل احمد بن یحیی زیدی میں لکا ہے کہ ایک دفعہ جعفر برمکی نے نظام کے سامنے ارسطو کا ذکر کیا‘ نظام نے کہا کہ میں نے اس کی کتاب کا رد لکھا ہے جعفر نے کہا تم تو اس کی کتاب اچھی طرح بھی نہیں سکتے۔ رد کیا کرو گے۔ نظام نے ارسطو کی کتاب زبانی پڑھنی شروع کی اور ساتھ ساتھ اس کے مسائل کو رد کرتا گیا جعفر متعجب ہو کر رہ گیا۔ اسی زمانہ کے قریب ابو علی جبائی نے ارسطو کی کتاب کون و فساد کا رد۱لکھا ہے ۔ ابو علی حیائی مشہور معتزلی گزرا ہے ۔ اس کا پورا نام محمد بن عبدالوہاب ہے اور ابن خلکان وغیرہ میں اس کا مفصل حال مذکور ہے ملل و نحل احمد بن یحیی زیدی میں لکھا ہے کہ اس کی تصنیفات کے ایک لاکھ پچاس ہزار ورق ہیں سنہ ۳۰۳ ھ میں وفات پائی۔ تیسری صدی میں حسن بن موسیٰ نو بختی نے جو بہت بڑا فلسفہ داں اورمتکلم تھا اورجس کے اہتمام اورنگرانی میں ثابت بن قرۃ وغیرہ یونانی کتابوں کا ترجمہ کیا کرتے تھے کتاب آلا راء والدیانامات لکھی۔ اس میں ارسطو کے منطق کے مہمات مسائل کا رد لکھا چنانچہ علامہ ابن تمیمہ الرد علی المنطق میںلکھتے ہیں۔ انی رایت ھذا الفضل اولا نی کلام النونحیتی فانہ بعد ان ذکر طریقۃ ارسطو فی المنطق قال وقد اعترض قوم من متکلمی احد الاسلام علی اوضاع المنطق ھذہ۔ اس عبارت سے یہ بھی ظاہر ہوتاہے کہ یہ اعتراضات خود حسن نو بختی کے ایجادات سے نہیں بلکہ اس نے متکلمین سے اخذ کیے ہیں‘ حسن نوبختی کے اس کتاب کا کچھ حصہ ابن تمیمہ نے نقل بھی کیا ہے اور آگے چل کر ہم اس سے فائدہ اٹھائیں گے۔ نو بختی کے بعد ابوبکر باقلانی نے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱۔ کتاب الفہرست ابن الندیم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جو امام غزالی کے استاد الاستاد تھے۔ وقائق کے نام سے ایک کتاب لکھی جس میں فلسفہ کا رد لکھا اور یہ ثابت کیا کہ یونانیوں کی منطق سے اہل عرب کی منطق کو ترجیح ہے۔ چنانچہ ابن تمیمہ الردعی المنطق میں لکھتے ہیں۔ وکذالک القاضی ابوبکربن الطیب فی کتاب الدقائق الذی ردفیہ علی الفلاسفۃ والمنجمین درج فیہ منطق المتکلمین من العرب علی منطق الیونان ’’اسی طرح قاضی ابوبکر بن طیب نے کتاب الدقائق لکھی جس میں اہل فلسفہ ونجوم کارد لکھا اور متکلمین عرب کی منطق کو یونانیوں کی منطق پر مرجح ثابت کیا۔‘‘ علامہ شہر کوہستانی (محمد بن عبدالکریم) المتولد سنہ ۴۷۹ھ جو مشہور متکلم گزر ے ہیں اور جن کی کتاب المل و النحل کا ترجمہ فرنچ زبان میںمع اصل کے چھاپا گیا ہے انہوں نے برقلس اور ارسطو کے رد میں ایک کتاب لکھی چنانچہ ملل و نحل میںجہاں برقلس کا ذکر کیا ہے خود لکھتے ہیں۔ ومد افردت لھا کتاباوا وردت فیہ شبہات ارسطاطالیس وھذہ تقریرات ابی علی بن سینا ونقضتھا علی قوانین منطقیۃ ’’اور میں نے اس پر ایک مستقل کتاب لکھی ہے جس میں ارسطو کے شبہات اور ابن سینا کی تقریریں نقل کی ہیں اور قواعد منطقی کے موافق ان کا نقض کیا ہے ۔‘‘ چھٹی صدی میں یہ مذاق عام ہو گیا کہ اور فلسفہ یونان کی مخالفت میں نہایت کثرت سے لوگوںنے کتابیں لکھیں ان لوگوں میںتین اشخاص نہایت نامور ہوئے ‘ ابو البرکات بغداد ی شیخ الاشراق امام رازی‘ ابوالبرکات کا نام ہبتہ اللہ بن علی اورلقب اوحد الزماں ہے خلفہ مستنجد باللہ کے دربار میں ملازم تھا ابن ابی اصبیغہ نے طبقات الاطباء میں اس کا مفصل حال لکھا ہے فلسفہ میں اس کی کتاب جس کا نام المعتبر ہے نہایت معرکہ کی اورمشہور کتا ب ہے شمس بازغہ میںخلا کی بحث میں اس کا ذکر آیا ہے۔ اس کتاب میں اس نے اکثر مسائل میں ارسطو کے خیالات کو غلط ثابت کیا ہے۔ علامہ ابن تمیمہ لکھتے ہیں وابوالبرکات و امثالہ قدردوا علی ارسطو ماشاء اللہ علم کے مسئلہ پر جو کچھ ارسطو نے لکھا تھا ابوالبرکات نے اس کے رد میں ایک خاص رسالہ لکھا ہے چنانچہ علامہ ابن تمیمہ لکھتے ہیں۔ ولھذا لما تفطق ابوالبرکات لفساذ قول ارسطو افر و مقالۃ فی العلمو تکلم علی بعض ماقالہ فی المعتبر انتصف منہ بعض الانتصاف ’’اسی لیے جب ابوالبرکات کو ارسطو کی رائے کی غلطی معلوم ہوئی تو علم کے مسئلے کے متعلق اس نے ایک رسالہ لکھا جس میں ارسطو نے انتقام لیا‘‘۔ شیخ شہاب الدین مقتول المتوفی سنہ ۵۵۶ھ نے فلسفہ میں اپنا خاص طریقہ قائم کیا اوراس کا نام فلسفہ اشراق رکھا چنانچہ اسی کتاب حکمتہ الاشراق میں خاص اسی فلسفہ کے مسائل بیان کیے ہیں اور ساتھ ساتھ ارسطو وغیرہ کے مسائل کو بھی رد کرتے گئے ہین۔ شیخ الاشراق نے اپنی او ر تصنیفات میں بھی ارسطو اور مشائین کی مخالفت کی ہے ۔ چنانچہ شہرزوری تاریخ الحکماء میں لکھتے ہیں۔ لا سما فی الکتاب المعروف بالمشاع والمطارھات فانہ استلوفی فیہ بحوث المتقدمین والمتاخرین و نقص فیہ اصول مذہب المشائین ’’خصوصاً مشارع اورمطارحات میں تمام قدماء اور متاخرین کے مباحث کا استقصاء کیا ہے اور حکمائے مشائین کے اصول توڑ دیے ہیں‘‘۔ امام رازی نے فلسفہ کے ساتھ جو سلوک کیا ہے اور جس طرح اس کی دھجیاں اڑا دیں مشہور عام ہے اس کی تفصیل کی ضرورت نہیں۔ اخیر میں علامہ ابن تمیمہ نے فلسفہ کی رہی سہی عزت کاک میں ملا دی فلسفہ اور منطق کے رد میں متعدد ضخیم کتابیں لکھیں منطق کا رد جو کئی سو صفحات پر مشتمل ہے ہمارے پاس موجود ہے علامہ موصوف کے نزدیک ارسطو کے فلسفہ کی جو وقعت ہے وہ ان کی عبارت ذیل سے معلوم ہو گی۔ ونحن کا تنازعھم ان کثیرا مھا یتکلمہ المتکلمون باطل لکن اذا تکلم بالانصاف والعدل و نظر فی کلام معلمھم الاول ارسطو وامثالہ فی کالعصیات وفی کلام من ھم عند المسلمین من شر طوائف المتکلمین کالجھیۃ والمعتزلۃ مثلا وجدبین ما یقولہ ھولاء المتعلسفۃ وبین ما یقولہ ھولاء من الفروق التی یبین فرط جھل اولائک بالبنۃ الی ھولاء وھذا کلام ارسطو موجودوکلام ھولاء موجود و ارسطو اکثر مابینی الامور الالھیتا علی مقدمات سو فسطائیۃ فی غاینہ الفساد واولا ان ہذا لیس موضع ذکرہ لذکرت کلام فی مقالہ اللام التی آخر علومہ بالفاظھا ’’ہم کو اس میں نزاع نہیں ہے کہ متکلمین کے اکثر اقوال لغو ہیں لیکن اگر انصاف اور حقانیت سے کام لیا جائے اورمعلم اول ارسطو کے کلام کا ان متکلمین سے مقابلہ کیا جائے جو مسلمانوں کے نزدیک بدترین متکلمین ہیں۔ مثلاً معتزلہ وجیہ تو صاف معلوم ہو جائے گا کہ ارسطو وغیرہ ان متکلمین کی نسبت بہت زیادہ جاہل ہیں‘ آج ارسطو اور متکلمین دونوں کا کلام موجودہے ‘ ارسطو کا یہ حال ہے کہ الہیات میں اپنے کلام کی بنیاد پر ان مقدمات پر قائم کرتا ہے جو بالکل لغو اور ظاہراً فریب ہیں اگر خلاف موقع نہ ہوتا تو میں ارسطو کی وہ عبارتیں بعینہ نقل کرتا جواس نے کتاب اللام میں لکھی ہیں ‘ جو اس کی سب سے آخری اور انتہائی نصنیف ہے۔‘‘ ایک عجیب حیرت انگیز بات یہ ہے کہ بو علی سینا ارسطو کا سب سے بڑ ا مقلد سمجھا جاتا ہے اس نے خود منطق الشفا کے دیباچہ میںلکھا ہے۔ ولی کتاب غیر ھذین الکتابین یعنی شفاء (کتاب للواحق) اور دت فیہ الفلسفۃ علیھا ھی یا بطع وعلی مایوجبہ المرای الصریح اللذی کایراعی فیہ جانب الشرکاء فی الصناعۃ دھوکتابی فی الفلسفۃ الشر قیۃ ومن اراد الحق اللذی لا مجمعۃ فیہ فعلیہ بطلب ذلک الکتاب ’’اور ان دونوں کتابوں کی (شفا اور لواحق) کے سوا میری ایک اور تصنیف ہے جس میں میں نے فلسفہ کو اصلی حقیقت کے موافق لکھا ہے اور اس خالص رائے کے اقتضاکے موافق لکھا ہے ‘ جس میں شرکائے فن کی رو رعایت ملحوظ نہیں کی جاتی ۔ یہ وہ کتاب ہے جس میں میں نے مشرقی فلسفہ کو لکھا ہے تو جو شخص بالکل خالص سچائی کا طالب ہو اس کو یہ کتاب تلاش کرنا چاہیے‘‘۔ شیخ نے اسی موقع پر یہ بھی تصرح کی ہے کہ شفاء میں میں نے جو کچھ لکھا ہے وہ ارسطو کا فلسفہ ہے۔ افسوس ہے کہ شیخ کی یہ کتاب (فلسفہ مشرقیہ) جس میں اس نے اپنا خاص فلسفہ لکھا ہے ۔ آج ناپید ہے شہرزوری نے تاریخ الحکماء میں لکھا ہے کہ اس کتاب کا نسخہ سلطان مسعود (پسر سلطان محمود) کے کتب خانہ میں تھا لیکن ایک لڑائی میں برباد ہو گیا۔ ان واقعات کے بعد کون کہہ سکتا ہے کہ مسلمانوں نے فلسفہ ارسطو کی تقلید کے سوا اور کچھ نہیںکیا۔ مسلمانوںنے فلسفہ کے متعلق خود جو کام کیاہے اس کو ہم اس مضمون کے آئندہ نمبروں میں تفصیل سے لکھیں گے۔۱۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱۔ افسوس ہے کہ یہ سلسلہ ناتمام رہا اور منطق اجرام فلکی دو نمبروں سے آگے نہ بڑھ سکا ’’س‘‘ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فلسفہ یونان اور اسلام یونانی منطق کی غلطیاں اس امر کی نسبت اتفاق عام ہے کہ سب سے پہلے اس فن (منطق) کی تدوین ارسطو نے کی اور اسی بنا پر وہ اس فن کا موجد شمار کیا جاتا ہے۔ یہ امر بھی عموماً تسلیم کیا جاتا ہے کہ ارسطو نے منطق کے جو قواعد مقرر کر دیے ہیں آج تک ان میں کوئی غلطی ثابت ہوئی نہ اس پر کچھ اضافہ ہو سکا۔ السبتہ یورپ کا یہ دعویٰ کہ بیکن نے منطق کی ایک نئی شاخ ایجاد کی جو منطق عملی یا استقرائی کے لقب سے ملقب ہے۔ ہم اس مسئلہ پر کہ یہ منطق درحقیقت منطق کی کوئی نئی شاخ ہے یا نہیں؟آئندہ بحث کریںگے ‘ اس موقع پر صرف یہ ظاہر کرنا ہے کہ اس شاخ کو چھوڑ کر یورپ کو بھی تسلیم ہے کہ ارسطو کی منطق پر ااج تک نہ اضافہ ہو سکا نہ اصلاح و ترمیم لیکن درحقیقت یہ ہے کہ حکمائے اسلام نے اس فن میں نہ صرف اصلاح و ترمیم کی بلکہ بہت سے مسائل کی غلطیاں ثابت کیں۔ اصل مقصود کے بیان کرنے سے پہلے یہ بیان کرنا ضرور ہے کہ ارسطو کی منطق کے کیا اجزاتھے ۔ اور ان کی کیا ترتیب تھی ارسطو نے منطق کو آٹھ حصوں میں تقسیم کیا تھا جن کی تفصیل ذیل میں ہے۔ قاطیغوریاس (کیٹگری) مقولات عشر یعنی کم کیف وغیرہ باری مینیاس اس میںمباحث ذیل شامل تھے کلمہ ‘ فعل ‘ حرف‘ کلی‘ متواطی ‘ مشکک‘ قضیہ ‘ حملیہ‘ شرطیہ ‘ جہات ‘ قضایا ‘ تناقض‘ عکس۔ انالوطیقا اول (انالیٹک) اس میں قیاس استقراء تمثیل سے بحث ہے۔ انالوطیقاثانی اس میں قضایا کے اقسام یعنی مشہورات ‘ متواترات وغیرہ سے بحث ہے۔ سوقسطیقا یعنی مغالطہ۔ طوبیقا (ٹاپک) یعنی فن جدل بوطیقا (ٹارک) خطابت یعنی وعظ لیکچر‘ اسپیچ وغیرہ کے اصول اورقواعد۔ بوطیقا (پوٹیری) یعنی شاعری۔ ان کتابوں میں سے قاطیغوریاس اصل یونانی زبان میں عربی ترجمہ کے ساتھ یورپ میں چھپ گئی ہے۔اور باری مینیاس اور اناطولیقا کا ترجمہ جو ابن رشد نے مرتب کیا ہماری نظر سے گزرچکا ہے۔ منطقیات شفا میں منطق کے یہ اٹھوں حصے اسی ترتیب سے شیخ نے لکھے ہیں جس طرح ارسطو نے لکھے تھے۔ فرفوریوس مصری نے پار فریس کلیات خمس کے مباحث اضافہ کیے جس کا نام ایسا غوجی ہے حکمائے اسلام نے جو کچھ ترمیم و اضافہ کیا ہے اس کی تفصیل حسب ذیل ہے۔ (۱) خطابت‘ شاعری اور جدل‘ درحقیقت منطق کے اجزا نہ تھے۔ اس نے یہ تینوں مباحث منطق سے خارج کر دیے ابن سینا نے چونکہ منطق الشفاء میں بالکل ارسطو کی تقلید کی ہے اس لیے یہ اجزا میں نہایت تفصیل سے موجود ہیں لیکن خود شیخ نے عیون الحکمۃ میں خطابت اور شعر کو گویا بالکل اڑا دیا ہے متاخرین نے یہ مباحث سرے سے ترک کر دیے۔ اس موقع پر افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتاہے کہ اگرچہ فن منطق ہیں ان چیزوں کا ذکر درحقیقت دخل در معقولات تھا لیکن ان کے نکال دینے کا یہ نتیجہ ہوا کہ سرے سے یہ لطیف مباحث فنا ہو گئے ہزاروں لاکھوں اسلامی تصنیفات میں ایک کتاب بھی نہیں جس میں شاعری اور خطابت کی حقیقت و ماہیت پر فلسفیانہ بحث کی گئی ہو فلسفہ دانوں نے ان مباحث سے بالکل ہاتھ اٹھالیا اہل ادب نے البتہ اس پر توجہ کی لیکن وہ فلسفیانہ نکات کہاں سے پیدا کر سکتے تھے نتیجہ یہ ہوا کہ کتب ادبیہ مثلا کتاب العمدۃ وغیرہ میں ان مسائل کے متعلق کچھ بحثیں ہیں لیکن وہ عامیانہ ہیں۔ (۲) مقولات عشر کو بھی درحقیقت منطق سے کوئی تعلق نہ تھا چنانچہ حکمائے اسلام نے اس کو بھی منطق سے خارج کر دیا ‘ امام رازی نے عیون الحکمۃ کی جو شرح لکھی اورجس کا قلمی نسخہ ہمارے پیش نظر ہے اس میں مقولات عشر کے ذکر میں لکھتے ہیں: اعلمان الحق ان ھذا الباب لما تعلق لہ بالمنطق البتک وانما ھوا حد ابواب العلم المالھی ’’حق یہ ہے کہ اس باب (مقولات عشر) کو منطق سے کوئی تعلق نہیں بلکہ وہ الہیات کے ابواب میں داخل ہے‘‘۔ (۳) عکس نقیص کی بحث ارسطو کی منطق میں بالکل نہ تھی علمائے اسلام نے اضافہ کیا ۔ (۴) ارسطو نے قیاس کے جس قدر احکام لکھے ہیں سب جملیات سے متعلق تھے شرطیات سے مطلقا اس نے تعرض نہیں کیا یہ بحث بو علی سینا کی ایجادات سے ہے اما م رازی شرح عیون الحکمۃ میں لکھتے ہیں۔ فان المعلم الاول ما تکلم فی ھذا القیاسیات الشرطیۃ وما اققاء اکاوزناً والشیخ ذعم ان المعلم کاانہ صناع وما نقل الی العربیۃ ثم زعم الشیخ انہ تکفل باستحزاجھا۔ ’’معلم اول نے قیاسیات شرطیہ سے بحث نہیں کی اور اس کی کچھ وقعت نہیں کی۔ اور شیخ بو علی سینا کا یہ خیال ہے کہ ارسطو نے خاص شرطیات کے بیان میں ایک کتاب لکھی تھی لیکن وہ ضائع ہو گئی اور عربی میں اس کا ترجمہ نہیں ہوا شیخ کا بھی یہ خیال ہے کہ شرطیات کے مباحث خاص اس کی ایجاد ہیں۔‘‘ (۵) سب سے بڑا تغیر جو حکمائے اسلام نے منطق میں کیا ہے اور جسکی وجہ سے فن کی گویا صورت بدل گئی تھی کہ منطق کے دوجداگانہ حصے قرار دیے تصورات و تصدیقات اس زمانہ سے پہلے تصورات کوئی جدا گانہ قسم نہ تھی‘ معرف اور حد کے مباحث کو ارسطو نے برہان کے ذیل میں ا س تقریب سے لکھا تھا کہ برہان کا صحیح ہونا مقدمات کی صحت پر موقوف ہے اور مقدمات صحت موضوع و محمول کی حقیقت اور حد کے سمجھنے پر موقوف ہے مثلاً جب ہم یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ عالم حارث ہے اور اسپر یہ دلیل لاتے ہیں کہ عال متغیر ہے اور جو متغیر ہے حادث ہے تو ان مقدمات کی صحت اس پر موقوف ہے کہ عالم کی حد اور حقیقت معلوم کی جائے تاہ یہ ثابت ہو سکے کہ تغیر اس کی ذاتیات یا خواص میں ہے اسی طرح تغیر کی حقیقت کا دریافت کرنا ضرور ہے تاکہ یہ ثابت ہو سکے کہ تغیر کے لیے حدوث ضروری ہیں۔ اس تعلق سے ارسطو نے اس پر بحث کی کہ حد اور معرف کس کو کہتے ہیں وہ کیونکر بنتا ہے اور کن چیزوں کا مرکب ہوتا ہے لیکن باوجود اس ے معرف کی بحث کو اس نے تصد یقات ہی کے متعلقات میں قرار دیا ہے۔ حکمائے اسلام کے نزدیک یہ خلط مبحث تھا ان کا خیال یہ تھا کہ جب یہ مسلم ہے کہ علم کی دو قسمیں ہیں تصور یعنی کسی چیز کا سادہ ادراک اور تصدیق یعنی کسی چیز کا مرکب ادراک یہ بھی مسلم ہے کہ دونوں کے حاصل ہونے کے مختلف طریقے ہیں تصور تصورات سے حاصل ہوتاہے اور تصدیق تصدیقات سے تو ضرور ہے کہ منطق کے دو حصے قرار دیے جائیں ایک تصورات جس میں تصورات کا طریقہ ادراک بیان کیاجائے دوسری تصدیقات جس میں تصدیقات کے طریقہ ادراک سے بحث کی جائے ۔تصورات کے مسائل کو جب مستقل اور علیحدہ کر لیا گیا تو ا سکے متعلق نہایت مفصل اور دقیق مباحث پیداہوگئے ہیں چنانچہ آج مروجہ منطق میں زیادہ مہتم بالشان حصہ تصورات ہی کا خیال کیا جاتا ہے۔ حکمائے اسلام نے اگرچہ اور بھی بہت سے تغیرات کیے لیکن مہمات یہی تھے اس لیے ہم انہی کے بیان پر اکتفا کرتے ہیں۔ یہ فقط تغیرات اور اضافہ واصلاحات کا بیان تھا۔ اس مضمون کے آئندہ حصہ میں ہم بتائیں گے کہ حکمائے اسلام نے منطق یونانی پر کیا کیا اعتراضات کیے اور ان مسائل کو جو آج تک تمام دنیا میں مسلم چلے آتے ہیں کس طرح غلط یا غیر ضروری ثابت کیا۔ (الندوہ جلد ۱ نمبر ۲) ٭٭٭ فلسفہ یونان اور اسلام یونانی منطق کی غلطیاں اہل منطق نے ادراک معلومات کے دو مختلف طریقے قرار دیے ہیں۔ معرف و حجۃ اور اس کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ علم کی دو قسمیں ہیں‘ تصور و تصدیق اور چونکہ دونوں دو مختلف قسم کے علم ہیں ‘ اس لیے ان کے ادراک کے طریقے بھی مختلف ہیں جن کا نام معرف حجۃ ہے لیکن غور کرنا چاہیے کہ جس چیز کو معرف کہتے ہیں وہ تصور ہے باتصدیق اس سوال کا جواب دینے سے پہلے ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ معرف کیونکر حاصل ہوتا ہے یعنی کسی شے کی حقیقت ہم کیونکر معلوم کرتے ہیں اس کا طریقہ یہ ہے کہ ہم پہلے اس بات کا پتہ لگاتے ہیں کہ اس شے میںکیا کیا چیزیں پائی جاتی ہیں پھر یہ دیکھتے ہیں کہ ان میں کیا کیا چیزیں ایسی ہیں جو اور اشیاء میں بھی مشترک ہیں اورکیا چیزیں ہیں جو اسی شے کے ساتھ خاص ہیں پھر یہ دیکھتے ہیں کہ یہ چیزیں اس شے کی ذات میں داخل ہیں یا اس کے خارجی اوصاف ہیں۔ اس طرح اقسام ذیل پیدا ہوتے ہیں۔ ذاتی۔ یعنی وہ چیزیں جو کسی شے کی اصل حقیقت میںداخل ہیں۔ عرضی جو خارج ہیں۔ فصل یعنی وہ ذاتی جو اس شے کے ساتھ خاص ہے۔ جنس یعنی وہ ذاتی جو اور چیزوں میں بھی مشترک ہے۔ عرض عام یعنی وہ عرضی جو اوروں میں بھی مشترک ہے۔ خاصہ یعنی وہ عرضی جو اسی شے کے ساتھ خاص ہو۔ جب اس طرح ایک شے کے تمام ذاتیات اور عرضیات معلوم ہو جاتے ہیں تو ہ ان کو ترکیب دیتے ہیں اور یہی مرکب اس شے کا معرف ہوتا ہے۔ اب غور کرو کہ معرف کے حاصل کرنے میں کن مقدمات سے کام لینا پڑتا ہے ‘ اس کی تفصیل یہ ہے ۔ ۱۔ اس شے میں فلاں فلاں چیزیں پائی جاتی ہیں۔ ۲۔ فلاں فلاں چیزیں اس شے کی ذاتی اور فلاں عرضی‘ ۳۔ ذاتیات میں فلاں چیزیں فصل ہیں اور فلاں خاصہ اورفلاں عام ‘ یہ تمام مقدمات قضایا اور تصدیقات ہیں اور اس لیے معرف دراصل تصدیقات سے حاصل ہوتا ہے‘ نہ تصورات سے۔ شاید یہ کہا جائے کہ معرف گو حاصل تصدیقات سے ہوتا ہے لیکن خود تصور ہے‘ مگر یہ حقیقت نہیں اولاً تو منطق کا یہ مسئلہ مسلمہ ہے کہ جو علم قضایا کے ترتیب دینے سے حاصل ہوتا ہے وہ تصدیق ہوتا ہے نہ تصور اور یہ ثابت ہو چکا کہ معرف کا علم قضایا سے حاصل ہوتا ہے۔ شاید یہ کہا جائے کہ معرف گو قضایا سے حاصل ہوتا ہے اور گووہ ابتدائی درجہ میں خود بھی قضیہ اور تصدیق ہوتا ہے لیکن ہ معرف اس سادہ تصور کا نام رکھتے ہیں جو اس قضیہ کے بعد حاصل ہوتا ہے‘ مثلاً جب ہم انسان کی حقیقت معلوم کرنا چاہتے ہیں تو ترتیب مقدمات کے بعد ہم کہتے ہیں کہ انسان کی حقیقت حیوان ناطق ہے۔ ا س وقت تک یہ ایک جملہ اور قضیہ ہے لیکن اس کے بعد جس طرح ہم انسان کا سادہ تصور کر سکتے ہیں‘ اسی طرح حیوان ناطق کا بھی سادہ تصور ہوتا ہے اور اسی کا نام معرف ہے۔ لیکن اگر اس بنا پر معرف کو تصور کہا جا سکتا ہے تو حجۃ او ر تصدیق کو بھی تصور کہنا چاہے کیونکہ مثلاً جب مقدمات کی ترتیب کے بعد ہم کو علم ہوتا ہے کہ علم حادثات ہے تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ گو اس وقت تک یہ قضیہ ہے لیکن اس کے بعد یہ قضیہ ایک سادہ تصور بن جاتا ہے ۔ یعنی حدوث عالم کا تصور اس وقت ہمارے ذہن میں حدوث عالم کا خیال قضیہ اورتصدیق کی حیثیت سے نہیں ہے‘ بلکہ جس طرح مرکبات اضافی کا تصور ہوتا ہے اسی طرح حدوث عالم کا بھی تصور ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ معرف کے ادراک میں اگرچہ حیثیت ملحوظ نہ ہو کہ وہ فلاں شے کی حقیقت اور حد ہے و وہ معرف نہیں بلکہ معرف ہے‘ ا س بنا پر معرف کا ادراک جو ہم کو ہوتا ہے وہ تصدیق اور قضیہ کی صورت میں ہوتا ہے اور یوں اس کو تصور کی صورت میںلانا چاہیں تو ہر قجیہ بھی تصور کی صورت میں لایا جا سکتا ہے ۔ مثلاً خدا ایک ہے عالم حادث ہے انسان ناطق ہے ان سب قضایا کو اس صورت میں بیان کیا جا سکتا ہے کہ خدا کی وحدانیت عالم کا حدوث‘ انسان کا نطق اس صورت ٰں یہ سب تصورات بن جائیں گے۔ امام رازی کا جو یہ مذہب ہے کہ تصورات نظری نہیں ہوتے‘ اس کی بھی یہی بنیاد ہے کیونکہ نظر اور فکر کے لیے ضرور ہے کہ مقدمات اورقضایا کی ترتیب سے کام لیا جائے۔ اس صورت میں تصور تصور نہیں رہے گا بلکہ تصدیق بن جائے گا۔ اس حیثیت کو چھوڑ کر ہم ایک اور حیثیت سے معرف کے مباحث پر نظر ڈالتے ہیں۔ معرف اور حد کے متعلق اہل منطق نے جو نکتہ آفرینیاں اور دقت پسندیاں کی ہیں ان میں سے اکثر کو وہ کندن و کاہ برآور دن ہیں۔ سرسری بات یہ ہے ہک بارہ سو برس سے آج تک معرف اور حد تام کے لیے انسان و حیوان ناطق کے سوا کوئی مثال پیدا نہ ہو سکی‘ اس مثال پر کئی قرن گزر چکے ہیں۔ اور اس کے چھوڑنے کی جرات ا وجہ سے نہیں ہوئی کہ دوسری کوئی مثال جس پر معرف کی تعریف صادق آنے کا پورا اطمینان ہو نصیب نہ ہوئی۔ لیکن غور سے دیکھو یہ دو ہزار سالہ مثال بھی صحیح ہے یا نہیں؟ انسان کی حد تام حیوان ناطق بتائی جاتی ہے اور حیوان کو جنس قریب اور ناطق کو فصل قریب کہا جاتا ہے ۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ناطق کے کیا معنی ہیں اہل منطق نے دریا بندہ معقولات سے اس کی تعبیر کی ہے اب سوال یہ ہے کہ ناطق کی حقیقت میں حیوانیت داخل ہے یا نہیں‘ اگر نہیں تو ملائکہ اور عقول مجروہ مٰں بھی نطق پایا جاتا ہے ‘ کیونکہ ان سے بڑھ کر دریا بندہ مقولات کون ہو سکتا ہے۔ اس صورت میں ناطق فصل نہیں بلکہ جنس ہو گا کیونکہ جو ذاتی اورون میں بھی مشترک ہو وہ جنس ہے نہ فصل اور اگر ناطق کی حقیقت میں حیوانیت داخل ہے تو اولاً معرف میں حیوان کا داخل کرنا بے فائدہ ہے ۔ دوسرے یہ کیونکر ثابت کیا جا سکتا ہے کہ حیوانات میں اوراک معقولات نہیں ادراک معقولات کے معنی جرئیات سے کلیات کا استباط کرنا ہے‘ اوریہ قوت کم و بیش اکثر حیوانات میں پائی جاتی ہے۔ ان اعتراضات سے بچنے کے لیے قدمائے منطقین نے ایک قید اور اضافہ کی تھی یعنی مرنے والا ناطق اور چونکہ ان کے نزدیک عقول مجروہ کو فنا نہیں اس لیے وہ اس تعریف میںداخل نہیں ہو سکتے‘ لیکن اس تعریف کی بنا پر قیامت میں جب آدمی دوبارہ پیدا ہو ں گے تو وہ انسان نہ ہوں گے‘ کیونکہ اعتقادات مسلمہ کے بموجب دوسری زندگی کے بعد پھر فنا نہیں اصل غلطی جو اس باب میںاہل منطق نے کی ہے وہ معرف کی قید میںجنس قریب اور فصل لازم کرنا ہے متکلمین اسلام معرف کے لیے اس قدر کافی سمجھتے تھے کہ ایک چیز کے وہ اوصاف بیان کیے جائیں جو الگ الگ مگر اوروں میں بھی پائے جاتے ہوں لیکن ان کا مجموعہ اس چیز کے سوا چیز میں نہ پایا جائے‘ نحلاف اسکے اہل منطق کے نزدیک حدتام کے لیے حسب ذیل امور ضرور ی ہیں۔ (۱) ایک شے کے تمام ذاتیات ذکر کیے جائیں جو اس میں اوروں میں مشترک ہوں۔ (۲) وہ ذاتی ذکر کیا جائے جو اس شے کے سوا اور کسی چیز میں نہ پایا جاتا ہو۔ اس میں پہلا مرحلہ یہ ہے کہ ذاتی اور عرضی کی تمیز نہایت مشکل ہے اوراس کو خود بو علی سینا نے تسلیم کیا ہے ۔ اور سچ یہ ہے کہ مشکل نہیں بلکہ نا ممکن ہے۔ دوسرا امر یہ ہے کہ تمام ذاتات کا کون احاطہ کر سکتا ہے ۔ جدید تحقیقات کیر و سے جن چیزوں کو بسیط خیال کیا جاتا ہے مرکب ثابت ہو گئیں اور مرکبات کے جس قدر اجزا سے پہلے قرار پائے تھے اس سے بہت زیادہ نکل آئے غرض حد تام میں جنس قریب کی قید لگائی اور جنس قریب کی یہ تعریف کی کہ تمام اجزائے مشترکہ کا مجموعہ ہو حدتام کو عنقا بناتا ہے۔ ٭٭٭ ذاتی اورعرضی تصورات کے اکثر مسائل ذاتی و عرضی کی تفریق پر مبنی ہیں اس لیے پہلے اس پر غور کرنا چاہیے کہ یہ تفریق صحیح ہے یا نہیں۔ ذاتی کی یہ تعریف کی گء ہے کہ شے کی نفس حقیقت میں داخل ہو۔ اور شے کا تصور تام اس کے تصور کے نہ ہو سکتا ہو‘ مثال میں اس کو یوں سمجھو کہ مثلاً انسان میں مختلف اوصاف پائے جاتے ہیں چلتا ہے پھرتا ہے کھاتا ہے پیتا ہے ہنستا ہے روتا ہے ‘ ان میں بعض اوصاف ایسے بھی ہیں جو اور جانوروں میں نہیں پائے جاتے لیکن اگر ان سب سے قطع نظر کر لیں تب بھی انسان کا وجود باقی رہتا ہے ‘ بخلاف اس کے اگر حیوانیت اور گویائی سے قطع نظر کرنا چاہیں تو نہیں کر سکتے ‘ یعنی اگر یہ نہ ہوں تو انسان بھی نہ ہو گا‘ اس کے لی یچلنا پھرنا وغیرہ انسان کی عرضیات میں ہے اور حیوانیت اور گویائی ذاتیات میں۔ اس بنا پر ذاتی کی یہ تعریف ٹھہری کہ ماہیت کا وجود بغیر اس کے نہ پایا جا سکے۔ پایہ کہ ماہیت کا تصور تام بغیر اس کے نہ ہو سکے۔ اس پر اعتراض یہ ہے کہ صورت میں دو ر لازم آتاہے مثلاً ہم کسی شے کی حقیقت دریافت کرنا چاہیں تو اس کا یہ طریقہ ہے کہ اس کے ذاتیات دریافت کریں اور ذاتیات کے دریافت کرنے کا یہ طریقہ ہے کہ ہم دیکھیں کہ اس شے میں ایسی کیا چیزیں پائی جاتی ہیں جو نفس حقیقت میں داخل ہیں۔ اور جن کے بغیر اس کا وجود اور تصور نہیں ہو سکتا‘ لیکن ابھی تو ہم کو اس شے کی حقیقت ہی معلوم نہیں‘ اس لیے ہم کیونکر جان سکتے ہیں کہ کون سی چیزیں نفس حقیقت میںداخل ہیں اور کون سی خارج‘ اور اگر یہی معلوم ہوتا تو ہم کو اس شے کی ماہیت کے دریافت کرنے کی ضرورت کیا ہوتی۔ مختصر یہ کہ ماہیت کے علم کے لیے ذاتی کا علم ضروری ہے اور ذاتی کے علم کے لیے ماہیت کا علم ضرور ی ہے۔ کیونکہ جب تک ماہیت متعین نہ ہو چکے ی کیونکر فیصلہ کیا جا سکتا ہے کہ فلاں چیز اسکی ماہیت میں داخل ہے۔ اور فلاں چیز خارج ‘ اسی بنا پر جن اشیاء کی حقیقت میں اختلاف ہے یعنی ایک شخص ان کی حقیقت اورکچھ بیان کرتا ہے اور دوسرا اور کچھ ان کے ذاتیات میں بھی اختلاف ہے ایک شخص اس کی ذاتیات کچھ اور بیان کرتا ہے اور دوسرا کچھ اور اس سے ثابت ہوتا ہے کہ جب تک ایک چیز کی نسبت یہ فیصلہ نہ ہو جائے کہ اس کی حقیقت تام کیا ہے اس وقت تک یہ بھی فیصلہ نہیں ہو سکتا کہ اس کے ذاتیات کیا ہیں۔ قیاس اہل منطق کا مذہب ہے کہ قیاس ہمیشہ دویازیادہ قضایا سے مرکب ہوتا ہے یعنی صرف ایک قجیہ سے استدلال نہیں کیا جا سکتا۔ اس پر یہ اعتراض وارد ہوتا ہے ۔ کہ اکثر دلائل میں ایک قضی مذکور ہوتا ہے۔ مثلاہم کہتہے ہیں کہ اس وقت دن ہے کیونکہ اس وقت آفتاب نکلا ہوا ہے‘ اس صورت میں صرف ایک مقدمہ سے استدلال ہے اہل منطق کہتے ہیں کہ یہاں کبریٰ مخدوف ہے اصل استدلال یوں ہے کہ اس وقت آفتاب نکلا ہوا ہے اورجب آفتاب نکلا ہوتاہے تو دن ہوتا ہے لیکن چونکہ کبریٰ سہلۃ الحصول اور بدیہی ہے اس لیے اس کا ذکر نہیں کرتے اور صرف صغریٰ پر اکتفا کرتے ہیں۔ اس مسئلہ کی تحقیق کے لیے ہم کو مقدمات ذیل سے کام لینا چاہیے۔ (۱) اہل منطق نے خود تسلیم کیا ہے کہ اکثر صورتوں میں محض لازم کے احساس سے ملزوم کا تصور ہو جاتا ہے مثلاً جب ہم دھوئیں کو دیکھتے ہیں تو ہمیں فوراً خیال آتا ہے کہ یہاں آگ ہے اس صورت میں ممکن ہے کہ ذریعہ علم یہ قیاس منطقی ہو کہ یہاں دھواں ہے اور جہاں دھواں ہوتا ہے وہاں آگ ہوتی ہے۔ لیکن یہ مقدمات ہمار ے ذہن میں بالکل خطور نہیںکرتے بلکہ دھوئیں کے دیکھنے کے ساتھ ااپ سے آپ آگ کا خیال دل میں آ جاتا ہے اور ترتیب مقدمات کی ضرورت نہیں پڑتی۔ (۲) یہ امر مسلم ہے کہ اکثر قضایا کا علم بہت سے ابتتداء مقامات کے جاننے پر موقوف ہوتاہے مثلاً جب ہم کہتے ہیں کہ عالم متغیر ہے اورجو متغیر ہے حادث ہے تو ہم سمجھتے ہیں کہ حدوث عالم کے علم کے لیے صرف ان دو مقدموں کا علم کافی ہے‘ لیکن درحقیقت یہاں اور بہت سے مقدمات ہیں جن کے جاننے کے بغیر حدوث عالم کا علم نہیں ہو سکتا۔ مثلاً یہ کہ جو چیز عام قیاس سے نتیجہ نہ پیدا کر سکیں گے لیکن باوجود اس کے کہ جب حدوث عالم پر اس طرح استدلال کیا جاتا ہے کہ عال متغیر ہے ھادث ہے تو صرف یہی دو مقدمات کافی سمجھے جاتے ہیں ۔ اوریہ نہیں کہا جاتا کہ یہاں ایک اور بھی مقدمہ ہے جو محذوف ہے ۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ گو یہ مقدمہ حقیقت میں ہمارے خیال میں موجود ہے اور اس استدلال کا موقوف علیہ بھی ہے تاہم چونکہ استدلال کے وقت وہ ساف صاف ہمارے پیش نظر نہیں ہوتا اور ہم یہ نہیں سمجھتے کہ ہم استدلال کے وقت اس سے کام لے رہے ہیں ۔ اس لیے استدلال کے لیے صرف وہی دو مقدمات کافی سمجھے جاتے ہیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے ہ استدلال میں صرف یہ امر ملحوظ ہوتا ہے کہ کون سے مقدمات ہمارے پیش نظر ہیں باقی وہ مقدمات جن کی طرف ہمارے ذہن کو بالذات سے التفات نہیں ۔ گو وہ ہمارے ذہن میں موجود ہیں اور دراصل ان ہی کی مدد سے ہم استدلال کر رہے ہیں۔ استدلال میں محسوب نہیں ہوتے‘ اب جب کہ یہ مسلم ہے کہ محض لازم کے تصور سے ملزوم کا تصور ہو سکتاہے اور دیگر مقدمات کے ترتیب کی ضرورت نہیںپڑتی تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ بہت سی صورتو ں میں صرف ایک قضیہ استدلال کے لیے کافی ہو سکتا ہے مثلاً اگر ہم آفتاب کے طلوع ہونے پراستدلال کرنا چاہیں تو صرف یہ کہنا کافی ہے کہ دن نکلا ہوا ہے اس صورت میں صرف صغریٰ کافی ہے کبریٰ کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ یہ مسلم ہے کہ لازم کا تصور ملزوم کے تصور کے لیے کافی ہے اس لیے جب ہم ن یکہا کہ دن نکلا ہوا ہے تو ہم نے لازم یعنی دن کا ذکر کیا اورلازم کا ذکر ملزوم کے تصور کے لیے کافی ہے حسن بن موسیٰ نوبجتی نے کتاب آلاراء دالدیانات میں لکھا ہے وقدسیۃ الانسان اذاشاہد الاشئی علی ان لہ موثر اوالکتابۃ علی ان الہ کاتبا من غیران یحتاج فی استدلالہ علی صیحۃ فلک الی المقدمتین یہی وجہ ہے کہ تمام آدمی روزانہ کاروبار میں ہر وقت صرف صغریٰ سے استدلال کرتے ہیں کبرٰی کا کسی کو خیال بھی نیںآتا ایک جاہل سے پوچھو کہ زراعت کیوں نہیں ہوئی تو وہ کہے گا کہ پانی نہیں ہوا اورصرف اس قدر کہنا نتیجے کا مستلزم ہو گا کیونکہ زراعت کا نہ ہونا پانی ک نہ ہونے کے لیے لازم ہے۔ باقی یہ دعویٰ کہ گو کبریٰ ذکر نہیںکیا جاتا لیکن مرکوز فی الذہن ہے تو ہر قسم کے قیاسات میں یہ دعویٰ کیا جا سکتا ہے کہ ان میں اور بہت سے مقدمات مرکوز فی الذہن ہیں ۔ اس امر کے فیصلہ کے لیے یہ دلیل کن مقدمات پر موقوف ہے ‘ یہ نہیں دیکھنا چاہیے کہ سلسلہ بہ سلسلہ اس توقف کا سلسلہ کہاں تک پہنچتا ہے بلکہ صرف یہ دیکھنا چاہیے کہ جس وقت ہم کو ایک نتیجہ کا ادراک ہوتا ہے تو کون سے مقدمات بالذات ہمارے پیش نظر تھے‘ جب ہم یہ کہتے تھے کہ آفتاب نکلا ہ اس لیے کہ دن نکلا ہوا ہے تو ہمیں صاف نظر آتا ہے کہ آفتاب نکلنے کا ادراک ہم کو دن کے ادراک کی وجہ سے ہوا ہے اس کے سوا کوئی اورمقدمہ پیش نظر نہیںہوتا۔ باقی یہ کہنا کہ کبریٰ گوندکور نہیں لیکن مرکوز فی الذہن ہے تو کبریٰ کے سوا اور بھی بہت سے مقدمات مرکوز فی الذہن ہوتے ہیں کیا ان سب کواستدلال کا جزء کہا جا سکتاہے۔ شکل اول اثبات مطالب میں سب سے زیادہ شکل اول بکار آمد ہے ۔ دوسری شکلوں کا انتاج اسی بنا پر ہے کہ وہ شکل اول کی صورت میں بدل سکتی ہیں لیکن شکل اول بھی اکثر صورتوں میں بے فائدہ ثابت ہوتی ہے۔ شکل اول کے نتائج کا مدار اس پر ہے کہ پہلے عام کے لیے ایک حکم ثابت کرتے ہیں‘ پھر ایک چیز اس عام کے تحت میںداخل کرتے ہیں‘ جس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ وہ حکم اس خاص کو ثابت ہے مثلاً جب یہ ثابت کرنا وہتا ہے کہ عالم حادث ہے تو کہتے ہیں کہ العالم متغیر و کل متغیر حادث اس شکل میں متغیر عام ہے اور عالم خاص‘ پہلے متغیر کے لیے حدوث ثابت کیا پھر یہ ثابت کیا کہ عالم متغیر کے افراد میں ہے‘ اس لیے نتیجہ یہ نکلا کہ عالم بھی حادث ہے غرض شک اول کا ماحصل یہ ہے کہ پہلے عام کے لیے کلیتہً ایک حکم ثابت کیاجائے پھر اس کے ذریعہ سے وہی حکم خاص پر منتقل کیا جائے اس بنا پر شکل اول میں کبریٰ کا موجبہ کلیہ ہونا ضروری ہے اور اس لیے غور طلب یہ ہے کہ موجبہ کلیہ کیونکر بنتا ہے ۔ اس کے صرف تین طریقے ہیں۔ (۱) محمول موضوع کا ذاتی ہو کیونکہ اس صورت میں موضوع کا ہر فرد خواہ مخواہ محمول کے ساتھ متصف ہوگا۔ (۲) ذاتی نہ ہو‘ لیکن استقراء سے یہ معلوم کیا گیا ہو کہ موضوع کا ہر فرد محمول کے ساتھ متصف ہے۔ (۳) استقراء کے ذریعہ سے جو کلیہ قائم ہو گا اس کا کریٰ بنانا بالکل بیکار ہو گا کیونکہ استقراء کے ذریعہ سے حداوسط کے تمام افراد کا پہلے احاطہ میںہو چکا ہے اورانہیں افراد مٰں اصغر بھی ہے مثلاً اگر ہم سرکہ کے ارد ہونے پر اس طرح استدلال کریں کہ سرکہ کھٹا ہے اورہر کھٹی چیز بارد ہے تو یہ استدلال محض لغو ہو گا‘ کیونکہ استقراء کے ذریعہ سے سرکہ کا بارد ہونا ہم کو پہلے ہی معلوم ہو چکا ہے اس لیے کہ اسقراء کے یہی معنی ہیں کہ تمام کھٹی چیزوںکا حال معلوم کیاجائے جن میں سرکہ بھی داخل ہے ۔ اگر استقراء کے وقت سرکہ کا دریافت کرنا رہ گیا تو استقراء صحیح نہیں ہو ا اور جب سرکہ کا بارد ہونا ہم کو جزئی حیثیت سے معلوم ہو چکا تو اب کیا ضرورت ہے کہ اس کو ایک کلی کے تحت میں داخل کر کے اس کے بارد ہونے کا علم حاصل کیاجائے۔ حاصل یہ کہ استقراء میں جزئیات کا علم پہلے حاصل ہوتاہے ۔ پھر اس سے یہ کلیہ قائم ہوتا ہے ۔ اس بنا پر شکل اول میں جب کبریٰ استقراء ہی ہو گا تو شکل اول بیکار ہو گئی کیونکہ استقراء کے ذریعہ اصغر کا اکبر کے ساتھ متصف ہونا پہلے ہی معلوم ہو چکا ہے اب شکل اول کے ذریعہ سے اس کے معلوم کرنے کی ضرورت ہے مثلاً تم نے یہ ثابت کرنا چہا کہ انسان ماشی ہے اور اس کے لیے یہ دلیل قائم کی کہ انسان حیوان ہے اور تمام حیوان ماشی ہیں تو سوال یہ ہو گا کہ تمام حیوانات کا ماشی ہونا کیونکر معلوم کیا؟ تم کہو گے کہ اسقراء سے یعنی ہر قسم کے حیوانات دیکھے اور سب میں یہ صفت مشترک پائی اس لیے یہ کلیہ قائم کیا کہ تمام حیوانات ماشی ہوتیہیں لیکن حیوانات میںانسان بھی تو تھا تم نے انسان کا تجربہ بھی کیا ہو گا اور اس میں یہ صفت پائی ہو گی اس سے ثابت ہوا کہ انسان کا ماشیہونا تم کو پہلے معلوم اور حیوان کا ماشیہونا اس کے بعد‘ اور جب انسان کا ماشی ہونا ثابت کرو کہ وہ حیوان کے تحت میںداخل ہے‘ ایسا کرنا صرف بے فائدہ نہیں بلکہ اس دور لازم آتا ہے کہ کیونکہ تمہارے استدلال کی بنا پر انسان کا ماشیہونا اس پر موقوف ہے کہ پہلے تمام حیوانات کا ماشی ہونا ثابت کیا جائے کیونکہ انسان بھی حیوان کی ایک نوع ہے اس لیے جب تک اس کا ماشی ہونا ثابت نہ ہو تمام حیوانات کا ماشی ہونا کیونکر ثابت ہو گا۔ دوسری صورت میں بھی یعنی جب کہ محمول موضوع کا ذاتی ہو‘ شکل اول بیکار ہو گی کیونکہ اس صورت میںضرور کہ محمول اصغر کا جزء ہوا اور حد اوسط عام ہو ‘ مثلاً کل انسان حیوان و کل حیوان حساس اس کی مثالم میں انسان کا حساس ثابت کرنا مقصود ہے ‘ اس کو تم نے یوں ثابت کیا کہ ہر انسان حیوان ہے اورہر حیوان حساس ہے‘ اس لیے ہر انسان بھی حساسہے اب سوال یہ پیدا ہو گا کہ جب صغریٰ میں تم کو یہ معلوم ہوا کہ ہر انسان حیوان ہے تو اسی وقت تم کو یہ بھی معلوم ہو چکا کہ ہر انسان حساس ہے ‘ کیونکہ حساس ہونا خود حیوان کی حقیقت میں داخل ہے اور اس کا جزء ہے اس لیے یہ کیونکر ممکن ہے کہ تم کو کل کا علم ہو اورجز کا علم نہ ہو۔ انسان کا حساس ہونا پہلے معلوم ہوتا ہے تب ا س کا حیوان ہونا معلوم ہوتا ہے۔ اس لیے اگر صغریٰ یعنی انسان کا حیوان ہونا تم کو معلوم ہے تو ا س کا حساس ہونا بدرجہ اولیٰ معلوم ہو گا ‘ اس صورت میںکبریٰ کے ساتھ ترکیب دینے کی کیا ضرورت ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ شکل اول صرف اس صورت میں مقید ہوتی ہے کہ جب کبریٰ کا علم تقلیدی ہوتا ہے مثلاً ایک طبیب نے ہم سے کہا کہ تمام کھٹی چیزیں بارد ہوتی ہیں ہم نے اس کو تسلیم کر لیا۔ اب جو چیز ہم کو کھٹی نظر آء گی ہ کو یقین ہو جائے گا کہ وہ بارد ہے کیونکہ ہم نے ا س کلیہ کو اپنی تحقیقات اور استقراء سے معلوم نہیں کیا ہے اس لیے ہم نے اس کے ہر فرد کا احاطہ نہیں کیا ہے اور اس کے لیے ہم کا سرکہ کا بارد ہونا پہلے سے معلوم تھا جب ہم نے اس کو کھٹا پایا تو فوراً مقدمات ذہن میںآئیں گے کہ یہ کھٹا ہے اور جس قدر کھٹی چیزیں ہوتی ہیں سب بارد ہوتی ہیں اس لیے یہ بارد ہے۔ جن صورتوں میں صغریٰ اور کبریٰ دونوںبدیہی ہوں۔ اس صورت میں بھی شکل اول محض بیکار ہو گی حالانکہ اہل منطق کے نزدیک ایسی صورتوں میں شکل اول زیادہ بکار ہوتی ہے کیونکہ اگر اصغر کا حد اوسط کے ساتھ متصف ہونا بدیہ ہے تو اکبر کے ساتھ اوربھی زیادہ بدیہی ہے۔ مثلا ً آگ ہے اورجو آگ ہے وہ جلاتی ہے اس لیے یہ جلاتی ہے ۔ یہ استدلال محض لغو ہے کیونکہ انسان کو پہلے آگ کے خاص خاص افراد کے جلانے کا علم تجربہ کے ذریعہ حاصل ہوتا ہے پھر وہ کلیہ قائم کرتاہے کہ ہر آگ جلاتی ہے۔ اس بنا پر آگ کے ایک خاص فرد کے جلانے کا علم اس کوپہلے حاصل ہوچکا ہے ہاں یہ ممکن ہے کہ اس نے خود آگ کا تجزیہ نہ کیا ہو بلکہ کسی سے سنا ہو کہ آگ جلاتی ہے ‘ پھر اس نے آگ کو دیکھا تو اس صورت میں اس کا یہ استدلال صحیح ہو گا کہ یہ آگ ہے اورجو آگ ہے وہ جلاتی ہے اس لیے یہ جلاتی ہے لیکن یہ وہی صورت ہے کہ اس کو کبریٰ کا علم تقلیداً حاصل ہوتا ہے اور اس صورت میں شکل اول کا مفید ہونا ہم نے خود تسلیم کیا ہے۔ الندوہ ماہ شعبان سنہ ۱۳۲۲ھ جلد ۱ نمبر ۴ ٭٭٭ فلسفہ یونان اور اسلام اجرام فلکی یونانیوںنے آسمان اوراجرام فلکی کے متعلق عجیب عجیب بیہودہ خیالات قائم کیے تھے اوروہ اس قدر یقینی اور قطعی سمجھے جاتے تھے کہ حکمائے یونان کے مختلف فرقے گو اور ہزاروں باتوں میں مختلف الرائے تھے لیکن ان مسائل میںاتفاق عام تھا۔ افلاطون اورارسطو وغیرہ کا یہ مذہب ہے کہ آسمان سخت اور ٹھوس ہیں اور وہ کسی طرح ٹوٹ یا پھٹ نہیںسکتے۔ ا س کے ساتھ ان میں روح اور عقل ہے اوران کی وح اور عقل ہم سے یہ مدارج اعلیٰ اور افضل ہے ۔ تمام عالم کا انتظام انہی کے دست مبارک میں ہے اوردنیا میں جو کچھ ہوتا ہے انہی کے اشاروں سے ہوتا ہے۔ فارسی اور اردو شاعری میں شعراء جو ہر موقع پر آسمان کے ظلم و ستم کا دکھڑا روتے ہیں‘ کبھی اس کی مہربانی کا انتظار کرتے ہیں یہ محض شاعری نہیں بلکہ اسی قدیم یونانی خیالات کا پرتو ہے اور فردوسی تو صاف آفتاب اور اجرام فلکی کو قادر اور فاعل مختار مانتا ہے۔ آسمانوں کے عاقل اور صاحب روح ہونے پر یونانیوں کا استدلال یہ ہے۔ آسمان دوری حرکت کرتا ہے یعنی گھومتا ہے اور چکر لگاتا ہے اورجو چیز دوری حرکت ہوتی ہے وہ صاحب عقل و شعور ہوتی ہے۔ اس دلیل کا پہلامقدمہ اورموقعوں پر ثابت ہو چکا ہے ۔ دوسرا مقدمہ یوں ثابت ہے کہ آسمانوں کی حرکت اگر ا سکے ارادہ اور اختیار میں نہیں ہے تو صرف دو احتمال ہوسکتے ہۃں طبعاً ہے یعنی حرکت کرنا خود آسمان کی فطرت ہے یا قسرا ہے یعنی کوئی اور چیز اس کو حرکت دے رہی ہے۔ طبعی حرکت کا قاعدہ ہے کہ متحرک کو کوئی خاص چیز یا خاص سمت مقصود ہوتا ہے اور جب متحرک اس چیز تک پہنچ جاتاہے تو ٹھہر جاتا ہے مثلاً ڈھیلا جب اوپر سے نیچے گرتا ہے تو زمین کی کشش کی وجہ سے زمین کی طرف رخ کرتا ہے اورجب زمین تک پہنچ جاتا ہے تو رک جاتا ہے۔ اس بنا پر طبعی حرکت کے لیے ضرور ی ہے کہ وہ دوری نہ ہو کیونکہ دوری حرکت میں مسافت کا کوئی خاص جز طبعاً مطلوب نہیںہوتا‘ اسی وجہ سے متحرک کسی جزو یا کسی نقطہ پر ٹھہرتا نہیں‘ بلکہ بار بار اس تک پہنچتا ہے اور پھر گزر جاتا ہے یہ اس بات کی دلیل ہے کہ مسافت کا کوئی جزو یا کوئی نقطہ بالبطع مطلوب نہیں ورنہ وہاں پہنچ کر حرکت رک جاتی۔ اب دوسرا احتمال رہ گیا یعنی یہ کہ آسمان بالطبع حرکت نہیںکرتا بلکہ کوئی اور چیز اس کو بہ جبر حرکت دے رہی ہے لیکن یہ احتمال بھی باطل ہے اولا تو اس کی وجہ یہ ہے کہ حرکت اسی چیز میں ہوتی ہے ۔ جس میںطبعی حرکت کو ثانیا اس وجہ سے کہ جو چیز آسمان کو حرکت دے رہی ہے ضروری ہے کہ صاحب ارادہ اور صاحب عقل ہو۔ اورجب حرکت کے لیے ایک صاحب عقل مانا پڑتا ہ۔ تو شروع ہی سے یہ کیوںنہ مان لیا جائے کہ خود آسمان ہی صاحب عقل ہے۔ ا ب صرف ایک احتمال اور رہ جاتا ہے وہ یہ کہ آسمان میںیہ حرکت خدا پیدا کرتا رہتاہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱۔ یہ استدلال نہایت لغو ہ ہم نے اس کو اجمالاً ذکر کیا ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن یہ ظاہر ہے کہ خدا بالذات کوئی کام نہیں کرتا بلکہ اس نے اسباب و علل کا ایک عظیم الشان سلسلہ قائم کر دیا ہے غلہ خدا پیدا کرتا ہے لیکن اس طرح کہ تخم زمین میں بویا جائے آبپاشی کی جائے کھاد ڈالی جائے غرض خدا عالم میں جو کچھ کرتا ہے اسباب و علل کے ذریعہ سے کرتا ہے اس لیے آسمان کی حرکت بھی ضروری ہے کہ کسی سبب اور علت کے ذریعہ سے کرتا ہے اس لیے آسمان کی حرکت بھی ضروری ہے کہ کسی سبب اور علت کے ذریعہ سے ہو یعنی آسمان میں روح ہو یا اس کی فطرت اس طرح بنائی گئی ہو کہ وہ خود بخود حرکت کرے۔ لیکن اوپر ثابت ہو چکا ہے کہ فطری حرکت دوری نہیں ہو سکتی اس لیے ضروری ہے کہ آسمان صاحب روح ہو اور یہی ثابت کرنا مقصود تھا کہ استدلال کی یہ تقریر پر عام فلسفہ کی کتابوں کے موافق ہے لیکن ابن رشد کا دعویٰ ہے کہ حکمائے اسلام نے یونانیوں کا فلسفہ سمجھنے میں اکثر غلطی کی ہے ۔ اس لیے ہم وہ دلیلیں بھی لکھتے ہیں جو ابن رشد نے تہافہ الفلاسفہ میں حکما کی طرف سے لکھی ہیں چنانچہ وہ حسب ذیل ہیں ۔ (۱) حرکت دوری میں کوئی خاص جگہ کوئی جہت یا سمت مقصود نہیں ہوتی بلکہ صرف حرکت مقصود ہوتی ہے اس لیے جب کسی چیز کا مقصد صرف حرکت کرنا ہو تو ضروری ہے کہ اس کو حرکت کا شوق ہو اور جب شوق ہو گا تو ضروری ہے کہ اس کا تصور ہو اور تصور کے لیے عقل اور روح کا ہونا ضروری ہے۔ (۲) اجرام فلکی دو متضاد اور مختلف حرکتیں کرتے ہیں یعنی غربی او شرقی اور یہ ظاہر ہے کہ متضاد اور مخالف حرکتیںوہی کر سکتا ہے جس میں عقل ارادہ اور روح ہو۔ ہم جانتے ہیں ہ ہمارے ناظری کو ان لغو اور بیہودہ خیالات اور دلائل کے سننے میں زحمت ہوء ہو گی اور ان کے عزیز وقت کا بے فائدہ نقصان ہوا ہو گا لیکن یہی بیہودہ گورکھ دھندے یونانیوں کے مایہ ناز اورکئی ہزار برس تک دنیا انہی مہمات کو رموز آسمانی سمجھتی رہی بو علی سینا محقق طوسی‘ قطب الدین شیرازی انہی جھوٹے طلسموں کے کلید بردار تھے‘ اور اسی پر فخر کرتے کرتے مر گئے‘ لیکن متکلمین اسلا م پر جادو نہ چل سکا ۔ انہوںنے اس طلس کی دھجیاں اڑا دیں سب سے پہلے انہوں نے اس سے انکار یا ہ آسمان ٹھوس ہے ‘ مجسم ہے ‘ حرکت کرتا ہے اور دوری حرکت کرتا ہے ظلمات بعضھا فوق بعض خواجہ زادہ تہافۃ الفلاسفہ میں لکھتے ہیں۔۲۔ انا لانسلم ان الافلاک متحرکۃ والذی عول علیھم الریاضیون فی ان الافلالک متحرکۃ ھی المشاہدۃ وھی انما تدل علیٰ حرکات الکواکب دون افلاک ’’ہم یہ تسلیم نہیںکرتے کہ آسمان حرکت کرتے ہیں ریاضی داں کہتے ہیں کہ آسمان کی حرکت مشاہدہ سے ثابت ہے لیکن مشاہدہ سے ستاروں کی حرکت ثابت ہوتی ہے نہ آسمان کی‘‘۔ حقیقت یہ ہے کہ آسمان کے جو اوصاف یونانی حکماء بیان کرتے ہیں‘ متکلمین اس کو اس وجہ سے بھی تسلیم نہ کر سکتے تھے کہ وہ نص قرآنی کے خلاف ہیں قرآن مجید میں صاف آیا ہے ۔ کل فی فلک یسبحون تمام ستارے آسمان میں تیرتے پھرتے ہیں۔ اب اگر آسمان کو ٹھوس اور مجسم اور ناقابل خرق و الیام مانا جائے تو اس میں ستاروں کا تیرنا کیونکر ہو سکتاہے‘ اسی بنا پر مولانا عصمت اللہ تشریح الافلاک کی شرح میںلکھتے ہیں: لا یخفی ان ظاہر القرٓان المجید یقتصی ان تحرک الکواکب فی الافلاک کالسا بحین فی الماء یسرعون و یبطون و یرجعون ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱۔ امام غزال نے تہافۃ الفلاسفہ میں نہایت تفصیل سے اس استدلال کی غلطیاں ظاہر کی ہیں علم کلام کی اور کتابوں میں بھی یہ بحث بہ تفصیل مذکور ہے ۲ ۔ کتاب مذکور مطبوعہ مصر صفحہ ۸۶ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ و یقیمون من غیر تحرک الافلاک لا نہ شبہ یسرا الکواکب بالسباعۃ نلزم منہ تشبہ الفلک بائما والکواکب بالسابحین و فی تفسیر لسان التنزیل ان الکواکب متحرکۃ فی الفلک وھذا قول حق قال اللہ تعالیٰ وکل فی فلک یسجون داما ما بقولہ الحکیم من ان الافلاک متحرکۃ نمخالف لض القرآن و باطل ’’پوشیدہ نہ رہے کہ ظاہر قرآن سے یہ ثابت ہوتاہے کہ ستار ے آسمان میں اس طرح حرکت کرتے ہیں کہ جس طرح پیراک پانی میں تیرتے ہیں کبھی تیز دوڑتے ہیں کبھی آہستہپ چلتے ہیں‘ کبھی ٹھہر جاتے ہیں کبھی پھر پڑتے ہیں بغیر اس کے کہ آسمان حرکت کرے ‘ کیونکہ قرآن مجید میں ستاروں کے چلنے کو تیرنے سے تشبیہ دی ہے اس لیے آسمان گویا پانی سے اور ستارے پیرا ک ہیں‘ تفسیر لسان التنزیل میں یہ ہے کہ ستارے آسمان میں تیرتے ہیں اور یہ بالکل سچ ہے خدا نے فرمایا ہے وکل فی فلک یسجون باقی حکماء جو کہتے ہیں کہ آسمان حرکت کرتاہے تو یہ قوم قرآن مجید کی تصریح کے خلاف ہے اور باطل ہے‘‘۔ اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ آسمان ویسا ہی ہے جیسا یونانی بیان کرتے ہیں یعنی ناقابل حزق والتیام ہے اور حرکت کرتا ہے تو یہ کیونکر ثابت ہو سکتا ہے کہ اس حرکت کے لیے آسمان کا صاحب عقل ہونا ضروری ہے بے شبہ خدا نے عالم میں سلسلہ اسباب قائم کیا ہے لیکن یہ سلسلہ آخر میںاس کی ذات تک پہنچ کر ختم ہوتا ہے اسی بنا پر خدا کو علۃ العلل کہتے ہیں ۔ اس صورت میں ممکن ہے کہ آسمان کی حرکت کی علت خدا ہی ہو اور اسباب و علت نہ ہوں۔ یہ بھی تسلیم کر لیا جائے کہ خدا خود بالذات علت نہیں تو اس پر کیا دلیل ہے کہ کوئی اور درمیانی چیز اس کی علت نہیں ہو سکتی۔ ابن رشد نے تہابۃ الفلاسفہ میں لکھا ہے کہ اگر کوئی او رچیز علت ہوتی تو یا آسمان سے اوپر ہوتی یا آسمان کے اندر اوپر تو اس لیے نہیں ہو سکتی کہ آسمان کے اوپرکچھ ہے ہی نہیں نہ خلا نہ ملا اورآسمان کے اندر اس لیے نہیں ہو سکتی کہ ہوتی تو ہم کو معلوم ہوتی‘‘۔ ابن رشد کا یہ دعویٰ کتنا معقول ہے کہ یہ چیز آسمان میںکہیں ہوتی تو ہم کو ضرور معلوم ہوتی‘‘۔ یہ بھی ممکن ہے کہ آسمان بالطبع متحرک ہو یعنی اس کی فطرت ہی ایسی بنائی گئی ہو کہ وہ حرکت کرتا رہتا ہے۔ اس خیال کو یونانیوںنے اس طرح باطل کیا تھا کہ طبعی حرکت دوری نہیں ہو سکتی اور آسمان کی حرکت دوری ہے لیکن اولاً تو دوری حرکت کا ثابت ہونا محل بحث ہے ۔ اور ثابت بھی ہو تو یہ محض غلط ہے کہ دوری حرکت طبعی نہیںہو سکتی۔ طبعی حرکت کے لیے یہ ضروری نہیں کہ کوئی خاص جہت یا کوئی خاص چیز مطلوب ہو ۔ صرف یہ کافی ہے کہ محض حرکت کرنا اس کامقصد ہو باقی یہ امر کہ جب محض حرکت کرنا مقصد ہو گا تو ضرور ہے کہ عقل اور ارادہ پایا جائے صرف دعویٰ ہی دعویٰ ہے جس کی کوئی دلیل نہیں ۔ (الندوہ ج ۳ نمر ۱۰ ماہ نومبر ۱۹۰۶ئ) ٭٭٭ فلسفہ اسلام اور فلسفہ قدیم اور جدید یہ مضمون درحقیقت تین مضمونوں پر مشتمل ہے یعنی یونان کا فلسفہ کیا تھا؟ فلسفہ حال کیا ہے؟ مسلمانوں کے فلسفہ کو ان دونوں فلسفوں سے کیا نسبت ہے؟ یہ مضمون گو علمی حیثیت سے خود ایک اہم مضمون ہے اس کے ساتھ ہمیں اوربھی چند اغراض پیش نظر ہیں جن کی تفصیل یہ ہے۔ ہمارے علماء کو فلسفہ حال سے جو علیحدگی یا نفرت ہے ‘ اس کی وجہ عام لوگ مذہبی تعصب قرار دیتے ہیں لیکن یہ بالکل غلط ہے ہمارے علماء جن علوم و فنون کے تعلیم و تعلم میں شب و روز مصروف ہیں یعنی منطق فلسفہ‘ ریاضی‘ وہ بھی دوسری ہی قوموںکے علو م و فنون ہیں اورخود علماء بھی جانتے ہیں کہ یہ سرمایہ ہمارا نہیں بلکہ اوروں کا ہے۔ علماء کے اجتناب کی اصلی وجہ یہ ہے کہ ان کے نزدیک علوم جدید میں دقیق علمی مسائل نہیں ہیں بلہ صرف صنعت گری و دستکاری کے کرشمے ہیں بخلاف اس کے یونانی فلسفہ رموز و اسرار حقیقت پر مشتمل ہے ۔ اس مضمون میں ہم دکھانا چاہتے ہیں کہ ہمارے علماء کا یہ خیال غلط ہے یونانی فلسفہ درحقیقت صرف لفظی الٹ پھیر یا خیالی اور فرضی باتیں ہیں بخلاف اس کے فلسفہ جدید کے اکثر مسائل حقائق و واقعات پر مبنی ہیں۔ جدید تعلیم یافتہ لوگوں کا یہ خیا ل ہے کہ مسلمانوں نے فلسفہ ارسطو کی محض کورا نہ تقلید کی‘ یہاں تک کہ جو مسائل بالکل غلط اور بے سروپا تھے ان کے متعلق بھی کسی قسم کی چون و چرا نہیں کی اس مضمون میںہم ثابت کریںگے کہ مسلمانوں نے فلسفہ ارسطو کے اکثر مسائل کی غلطیاں ظاہر کیں اور ارسطو کی غلامی سے آزادی کا راستہ اول انہی نے صاف کیا‘ بیکن نے جو عمارت اٹھائی اس کی داغ بیل مسلمانوں ہی نے ڈالی تھی۔ اس مضمون سے ظاہر ہو گا کہ مسلمانوںنے فلسفہ قدیم حال سے قریب کر دیا یہ ظاہر ہے کہ فلسفہ یونان اور فلسفہ حال میں بعد المشرقین کی نسبت ہے اصول ارتقا ء کے موافق کوئی شے دفعتہ ترقی نہیں کر سکتی‘ اس نے فلسفہ یونان کو فلسفہ حال تک پہنچنے کے لیے ایک درمیانی زینہ کا ہونا ضروری ہے یہ زینہ درحقیقت اسلام ہی کا فلسفہ تھا۔ اسی بحث کے ضمن میں یہ بھی ظاہر ہو گا کہ اسلامی فلسفہ کا اگر فلسفہ یونان و فلسفہ حال سے موازنہکیا جائے تو ثابت ہو گا کہ وہ یونان کی بہ نسبت فلسفہ حال سے زیادہ قریب ہے اس لیے ہمارے علماء کو فلسفہ قدیم کے مقابلہ میں فلسفہ حال کی زیادہ ہمدردی کرنی چاہیے۔ چونکہ یہ مضمون نہایت وسیع ہے اور ایک ایک مسئلہ کی نسبت اس قدر مباحث ہیں کہ ایک پرچے میں ایک سے زیادہ مسائل کی گنجائش نہیں نکل سکتی‘ اس لیے پہلے ہم ایک اجمالی نقشہ درج کتے ہیں جس سے ظاہر ہو گا کہ مسلمانوں نے فلسفہ ارسطو کے کس قدر مسائل سے اختلاف کیا ہ اس نقشہ میں بھی تما م اختلافات کا استسقاء نہیں کیاگیا ہے اورنہ ایک ماہوار رسالے میں اس قدر تفصیل کا موقع تھا۔ مشائین یعنی ارسطو و پیروان ارسطو متکلمین اسلام جسم ہیولیٰ کی صورت سے مرکب ہے اجزاء و یمقراطیسی سے مرکب ہے جسم متصل واحد ہے جس جن اجزاء ویمقراطیسی سے مرکب ہے ان میں باہم فاصلہ ہے اور اس بنا پر جسم متصل نہیں گو بظاہر متصل معلوم ہوتا ہے۔ تخلخل ۳ کی صورت میں جسم کی اصلی مقدار بڑھ جاتی ہے۔ نہیں بلکہ اجزاء و یمقراطیسی کا باہمی فاصلہ بڑھ جاتا ہے اورخالی جگہ میں کوئی اور لطیف شے داخل ہو جاتی ہے۔ موجودات کی دو قسمیں ہیں جوہر و عرض ‘ یعنی قائم بالذات و قائم بالغیر (مثلا رنگ ‘ خوشبو وغیرہ) نظام کے نزدیک جوہر مجموعہ اعراض کا نام ہے اور ابن کیسان کے نزدیک عرض کوئی چیز نہیں سب جوہر ہی جوہر ہے۔ اعراض باقی رہتے ہیں ہر وقت فنا ہوتے رہتے ہیں زمانہ جوہر ہے ۔ ایک موہوم شے ہے۔ خلا محال ہے۔ جائز ہے عناصر چار ہیں۔ اس حصر پر کوئی دلیل نہیں شیخ الاشراق کے نزدیک آگ کوئی عنصر نہیں۔ عناصر ایک دوسرے سے بدل جاتے ہیں مثلا ہوا پانی بن جاتی ہے۔ ابوالبرکات بغدادی کے نزدیک ہوا پانی نہیں بنتی بلکہ ہوا میں جو اجزاء مائیہ ہیں وہ باہر آ جاتے ہیں۔ کوئی ۱۰ عنصر امتزاج کی حالت میں اپنی خاصیت سے علیحدہ نہیں ہو سکتا۔ حکمائے بغداد کے نزدیک ہو جاتا ہے۔ پانی ۱۱ تمام عناصر میں بارد ہے۔ ابوالبرکات کے نزدیک پانی سے زیادہ خاک بارد ہے۔ حواس ۱۲ ظاہر ی کے سوا اورپانچ حواس باطنی ہیں یعنی حسن مشترک اور وہم وغیرہ۔ حواس باطنی کوئی چیز نہیں۔ روح ۱۳ مجرد اور غیر مادی ہے۔ مادی ہے اور دراصل ہیکل انسانی ہی روح ہے۔ فلاک ۱۴ میں روح اور تعقل ہے نہیں بلکہ قاد ہیں۔ عقول۱۵ عشرہ کا وجود ہے۔ عقول عشرہ کوئی چیز نہیں ۔ اب ہم تفصیل کے ساتھ بعض مسائل پر گفتگو کرتے ہیں۔ جسم کی حقیقت ارسطو وغیرہ کے نزدیک جسم دو چیزوں کا مرکب ہے ہیولیٰ و صورت‘ اس کی تفصیل یہ ہے کہ جسم ایک متصل اورپیوستہ چیز ہے یعنی ا س کے اجزا الگ الگ محسوس نہیںاور واقع میں بھی الگ الگ نہیں‘ اس بنا پر اتصال جسم کی حقیقت میں داخل ہے اس اصلاح کو اصلاح حکماء کی صورت میں جسیمہ کہتے ہیں اب بحث طلب یہ ہے کہ یہ اتصال جسم کی پوری حقیقت ہے‘ یا اتصال کے سوا جسم میںکوئی اورچیز بھی ہے اس سوال کے حل کرنے کے لیے کسی جسم کو لو اور کاٹ کے اس کے دو ٹکڑے کر و اس صورت میں جو اتصال پہلے موجود تھا جاتا رہے گا اور دو نئے اتصال پیدا ہو جائیں گے اب اگر یہ تسلیم کیا جائے ئکہ جسم کی حقیقت صرف اتصال ہی اتصال ہے۔تو جب پہلا اتصال جاتا رہا تو جسم بھی فنا ہو گیا کیونکہ جسم اتصال ہی کا نام تھا اس صورت میں کسی جسم کو دو ٹکڑے کر دینا اس کو محض فنا کر دینا ہو گا حالانہ صاف نظر آتا ہے کہ جسم فنا نہیں ہوتا بلکہ دو حصوں میں تقسیم ہو جاتاہے ۔ یہ دونوں حصے عدم سے وجود میں نہیں آتے بلکہ اسی جسم سے پیدا ہوتے ہیں اس سے معلوم ہوا کہ اتصال کے سوا جسم میںکوئی اور چیز بھی ہے ۔ جو دونوں حالتوں میںباقی رہتی ہے ۔ اسی چیز کی وجہ سے منفصل شدہ ٹکڑوں کو کہتے ہیں کہ یہ پہلے ہی جسم کے ٹکڑے ہیں اور عالم عدم سے نہیں آئے ہیں اسی چیز کا نام ہیولیٰ ہے۔ متکلمین اسلا م کو ہیولیٰ کے وجود سے بالکل انکار ہے ان کے نزدیک جسم نہایت چھوٹے چھوٹے اجزاء سے مرکب ہے جو کسی طرح تقسیم نہیںہو سکتے یہ اجزا اگرچہ باہم متصل نظر آتے ہیں لیکن واقع میں متصل نہیں ہیں ‘ ان میںکم و بیش کچھ نہ کچھ انفرا ج ہے ٹھوس چیزوں میںیہ انفراج کم ہوتا ہے اور ہلکی پھلکی چیزوں میںزیادہ اس بناپر یہ کہنا کہ اتصال جسم کی حقیقت میں داخل ہے غلط ہے۔ شرح مواقف میں ہے۔ المقصد السادس انھم ای المتکلمین انکرو ا المقدار بناء عی اف ترکیب الجسم عندھم من الجزء الذی لا یخیری فامۃ لا اتصال بین الاجزاء عندھم بل ھی منفضلہ بالحقیقۃ الا انہ لا یحس انفصا لھا لصغر المفاصل اللتی تماست الاجزاء علیھما فکیف تسلیم ان ثمہ اتصالاً ’’چھٹا باب اس بیان میں ہے کہ متکلمین نے مقدار کے وجود سے انکار کیاہے اس بناء پر کہ جسم ان کے نزدیک اجزاء ویمقراطیسی سے مرکب ہے متکلمین کے نزدیک ان اجزاء میں اتصال نہیں ہے بلکہ درحقیقت وہ الگ الگ ہیں لیکن چونکہ ان کا باہمی فاصلہ بہت کم اس لیے یہ فاصلے محسوس نہیں ہوتے ‘ تو کیونکر تسلیم کیا جائے کہ جسم میں اتصال ہے‘‘۔ متکلمین نے ارسطو کے استدلال کی غلطی ظاہرکرنے کے ساتھ بطور خود بھی ہیولیٰ کے ابطال پر بہت سی دلیلیں قائم کیں۔ لیکن وہ دقیق اور کسی قدر طویل الذیل ہیں اس لیے ہم اس موقع پر صرف ارسطو کے استدلال کی غلطی دکھانے پر اکتفا کرتے ہیں۔ اول تو جیسا ہم ابھی بیان کر چکے ہیں کہ جس میں درحقیقت اتصال ہے ہی نہیں‘ اس بنا پر ارسطو کااستدلال سرے سے غلط ہے لیکن اگر اتصال مان بھی لیا جائے تب بھی ہیولی کا ثبوت نہیںہو سکتا جسم کی حقیقت میں اگر اتصال داخل ہے تو مطلق اتصال ہے۔ نہ کہ کوئی خاص اتصال فرض کرو ایک جسم کا ہاتھ بھرکا ہے تو جسم ہونے کی حیثیت سے صرف اس قدر ضروری ہے کہ اس میں اتصا ل پایا جائے لیکن ہاتھ بھر کا ہونا یا اس سے کم اور زیادہ ہونا یہ باتیں جسم کی حقیقت سے خارج ہیں فرض کرو اس جسم کا اتصال ہاتھ بھر کا نہ ہوتا بلکہ کم یا کم زیادہ ہوتا تب بھی وہ جسم ہوتا۔ ارسطو کایہ استدلال اس بات پر مبنی ہے کہ جب مثلاً ایک جسم کے دو ٹکڑے کر دیے جائیں تو اتصال زائل ہو جاتا ہے لیکن یہ کس قدر صریح غلطی ہے اتصال اب بھی موجود ہے البتہ محدود اور مخصوص اتصال مثلاً ہاتھیا دو ہاتھ کا ہونا یہ جاتا رہا لیکن یہ خاص اتصال جسم کی حقیقت میں داخل نہیں جسم کے لیے مطلق اتصال شرط ہے نہ یہ کہ اسکی کوئی خاص مقدار قرار دی جائے۔ جوہر فرد جسم کی حقیقت کے متعلق بہت بڑا بحث طلب مسئلہ جوہر فرد کاوجود ہے‘ ارسطو وغیرہ اس بات کے قائل تھے کہ جسم کو اگر تقسیم کرتے جائیں تو کبھی کو ئی جزء ایسا نہ نکلے گا جہاںپہنچ کرتقسیم ٹھہر جائے بلکہ کیسا ہی چھوٹے سے چھوٹا جز ہو گا اس کے بھی اجزاء اور ٹکڑے نکلتے آئیں گے۔ متکلمین اس کے برخلاف اس بات کے قائل ہیں کہ جسم جواہر فرد سے یعنی ان اجزاء کا مرکب ہے جو اس قدر چھوٹے ہیں کہ کسی طرح تقسیم اورتجزید قبول نہیںکر سکتے۔ متکلمین نے جوہر فرد کے ثبوت پر بہت دلائل قائم کیے ہیں‘ ان میں سے ہم دو ایک اس موقع پر نقل کرتے ہیں۔ پہلی دلیل ایک کرہ اگر دوسرے کرے پر رکھا جائے تو ضرور ہے کہ دونوں کا اتماس جس نقطہ پر ہو وہ غیر منقسم ہو یہ نقطہ جوہر فرد (یا) لا یتجزیٰ ہو گا۔ دوسری دلیل اس سے انکار نہیں ہو سکتا کہ حرکت کا وجود ہے یہ بھی مسلم ہے کہ جب کوئی جسم حرکت میںہوتا ہے تو حرکت کے بعض اجزاء گزر چکتے ہیں۔ بعض آنے والے ہوتے ہ یں اور بعض دونوں کے بیچ یعنی زمانہ حال میںہوتے ہیں حرکت کا یہ حصہ یعنی زمانہ حال والا ضرور منقسم ہے اس لیے اگر زمانہ حال بھی منقسم ہو تو اس میں سے کچھ ماضی بن جائے گا کچھ مستقبل ہو جائے گا۔ بہرحال زمانہ حال غیر منقسم ہوتا ہے اس لیے جو حرکت زمانہ حال کے مساوی ہو گی وہ بھی غیر منقسیم ہو گی اب حرکت کا یہ حصہ جس مسافت سے منطبق ہو گا وہ بھی غیر منقسم ہو گی اور یہ جزء جو ہر فرد ہو گا۔ اس بناء پر جو ہر فردکے وجود سے انکار نہیں ہو سکتا‘ جسم انہی جواہر فرد کا مرکب ہے یہ جواہر آپس میں زیادہ پیوستہ ہوتے ہیں تو جسم ٹھوس ہوتا ہے ورنہ متخلخل اور ہلکا پھلکا ہوتا ہے یہاں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ یورپ کی موجودہ تحقیقات متکلمین کی رائے کے مطابق ہے چنانچہ تفصیل آگے آتی ہے۔ فلسفہ فلسفہ جدید کی رو سے جسم اور مادہ کی تحقیق حسب ذیل ہے: جسم یا مادہ وہ چیز ہے جو اس سے محسوس ہو سکے‘ جسم میں تین چیزیں ضروری ہیں حجم‘ صورت یا شکل‘ مقدار‘ جسم کی دو قسمیں ہیں‘ آلیہ ‘ غیر آلیہ ‘ آلیہ ہے وہ اجزاء یا اجسام مراد ہیں ‘ جن میںزندگی پائی جاتی ہے ‘ مثلاً انسان یا حیوان ہیں میں جو اجزاء ہیں اگرچہ بظاہر بے جان ہیں لیکن درحقیقت ان میں زندگی کا مادہ موجود ہے ‘ ورنہ ان کی ترکیب سے جاندار جسم نہیں بن سکتا ۔ غیر آلیہ سے وہ اجسام مراد ہیں جن میں مطلق زندگی نہیں پائی جاتی مثلاً زمین یا ستارے۔ جسم میں تین قسم کے اجزاء ہیں ‘ جزئیات یعنی جسم کے وہ چھوٹے چھوٹے اجزاء اور چھوٹے چھوٹے حصوںمیں تقسیم ہو سکتے ہیں ان کی ماہیت وہی ہوتی ہے جو خود جسم کی ہوتی ہے مثلاً اگر جسم سیال ہے تو یہ بھی سیا ل ہوں گے اگر جسم گیاس ہے تو یہ بھی گیاس ہوں گے۔ وقائق ‘ یہ جزئیات سے چھوٹے چھوٹے ہوتے ہیں اور ان کی تقسیم بغیر اس کے نہیں ہو سکتی‘ کہ ان کی ماہیت فنا ہو جائے‘ مثلاً آکسیجن کا کائی ریزہ لو ‘اس کو اگر تقسیم کرو گے تو وہ آکسیجن نہ باقی رہے گا ایسے ریزہ کو دقیقہ کہتے ہیں۔ جوہر فرد‘ یہ وہ جزء ہے جو مطلقاً تقسیم نہیں ہو سکتا اور یہ جسم کا سب سے اخیر جز ہے جسم کے انتہائی اجزاء یہی جو اہر فردہ ہیں‘ اور مادہ کے متعلق آج کل کی تحقیقات کا مدار انہی جواہر فردہ کی تحقیقات پر ہے یورپ میں سب سے پہلے دیکارٹ ان جواہر فردہ کا قائل ہوا اورپھر یہ خیال تمام یورپ میں پھیل گیا جسم کے جو ذرات یا وقائق ہیں‘ ان میں باہم کش اتصال ہوتی ہے یعنی ہر ذرہ دوسرے ذرہ سے چمٹا ہوتا ہے یہ کشش بعض اجسام کے دقائق میں بہت زیادہ ہوتی ہے ان کو ٹھوس کہتے ہیں لوہا جو ٹھوس ہے اس کے یہی معنی ہیں کہ اس کے دقائق آپس میں نہایت قوی کشش اتصال رکھتے ہیں۔ کشش اتصال کی کمی و بیشی کی وجہسے اجسام کی تین قسمیں پیدا ہوتی ہیں۔ جامد یعنی بالکل ٹھوس سیال مثلاً پانی تیل وغیرہ غاز جس کو گیس کہتے ہیں۔ اجسام یا مادہ میں چھ خاصیتیں پائی جاتی ہیں امتداد متبخری ہو سکنا‘ عدم تداخل یعنی ایسا نہیں ہو سکتا کہ دو جسم ایک طرح بن جائیں کہ ایک نے جس قدر جگہ پہلے سے گھیری تھی اسی میں دوسرا بھی سما جائے مسامیہ یعنی مسامات کا ہونا‘ استمرار یعنی جب جسم کو حرکت دی جائے گی تو وہ برابر حرکت ہی کرتا رہے گا‘ جب تک اس کو کوئی روک نہ دے‘ اسی طرح جسم ساکن کر دیا جائے گا تو وہ برابر ساکن رہے گا ‘ جب تک اس کو پھر حرکت نہ دی جائے بقا یعنی کوئی جسم فنا نہیں ہو سکتا نہ کلاً نہ جزاً۔ جسم جن ذرات کا مرکب ہے ان میں دو قسم کی کشش پائی جاتی ہے ۔ کشش اتصال کشش کیمیاوی ‘ کشش اتصال کا ذکر ابھی اوپر گزر چکا‘ کشش کیمیاوی کے یہ معنی کہ جب مثلاً کاربن اور آکسیجن آپس میں ملتے رہتے ہیں‘ تو کاربانک ایسڈ بن جاتی ہے اس اتحاد کے لیے کاربن اور آکسیجن ایک قوت اثر رسے ایک دوسرے کو اپنی اپنی طرف کھینچتے ہیں جس طرح زمین پتھر کو اپنی طرف کھینچتی ہے‘ اسی کشش کی وجہ سے مختلف عناصر آپس میں ملتے رہتے ہیں اور ترکیب امتزاجی پیدا ہوتی ہے یہ کشش نہ ہوتی تو دنیا میں کوئی مرکب چیز نہ بنتی ‘ سب عناصر الگ الگ رہتے اسی کشش کیمیاوی کا اثر ہے کہ نباتات میں زمین کے اجزاء ملتے ہیں اور نباتاتی اجزاء بن جاتے ہیں اسی طرح نباتاتی اجزاء حیوانا ت کے جسم میں حیوانی اجزاء بن جاتے ہیں۔ اس کشش کیمیاوی کی حقیقت سے متکلمین اسلام بخوبی واقف تھے مولانا روم فرماتے ہیں: میل ہر جز ئے بہ جزے ہم نہد ز اتحاد ہر دوتولیدے جہد ہر یکے خواہاں دگررا ہمچو خویش ازپے تکمیل فعل و کار خویش دور گردوں راز موج عشق داں گرنبو دے عشق ‘ بفردے جہاں کے جمادی محو گشتی درنبات کے فدائے روح گشتی نامیات ہر یکے برجا نسر دے ہمچویخ کے بدی پراں وجویاں ہمچو ملخ جملہ اجزائے جہاں زاں حکم پیش جفت جفت وعاشفان جفت خویش ہست ہر جزوے بہ عالم جفت خواہ راست ہمچوں کہر باد برگ کاہ عناصر اربعہ آج سے ہزاروں برس پہلے خدا جانے کس نے اپنی اٹکل سے کہہ دیا تھا کہ عناصر چار ہیں آگ ‘ پانی ‘ ہوا ‘ خاک ‘یہ باد ہوائی بات معلوم نہیں قبول کا کیا اثر رکھتی تھی۔ کہ یورپ کے موجودہ تحقیقات سے قبل تک تمام دنیا اس کو تسلیم کرتی آئی اور قدیم تعلیم یافتہ مسلمان تو آ ج بھی اس مسئلہ کو وحی آسمانی سمجھتے ہیں ندوۃ العلماء کے ایک جلسہ میں ایک نظم پڑھی گئی تھی جس کا ایک شعر یہ تھا: از عناصر سہ و شصت آمدہ اینک بشمار تو ہماں درگرد آتش و اب استی دباد اس پر برہمی یہ ہوئی ہکہ ایک برے ہمہ داں فاضل نے ا س نظم کے ا س جواب میں لکھی جو رسالہ البیان میں شائع ہوئی تھی۔ بہرحال قدمائے یونان کی تحقیقات سے جو عناصر کے متعلق تھی حسب ذیل ہے: ۱۔ عناصر چار ہیں کیونکہ کوئی جسم حرارت ‘ برودت ‘ رطوبت اورپیوست سے خالی نہیں ہو سکتا‘ اور ان کیفیتوں کی باہمی ترکیب سے یہی چار عنصر پیدا ہوسکتے ہیں۔ ۲۔ آگ انتہا درجہ کی گرم‘ پانی انتہا درجہ کا بارد‘ ہوا انتہا درجہ کی لطیف‘ خاک انتہا درجہ کی جامد ہے۔ ۳۔ سب سے اوپر آگ کا کرہ ہے ‘ پھر ہوا کا‘ پھر پانی کا‘ پھر خاک کا۔ ۴۔ یہ عناصر آپس میں تبدیل ہو سکتے ہیں اورہوتے ہیں ہوا پانی بن جاتی ہے پانی ہوا ہو جاتا ہے ہو آگ ہو جاتی ہے وہکذا‘ حکمائے اسلام نے سب سے پہلے اس بات سے انکار کیا کہ عناصر چار سے زیادہ نہیں ہو سکتے‘ شرح مواقف و شرح تجرید میںاس کو مفصلاً لکھا تھا اور شرح تجدید میں امام رازی کی پوری عبارت اس کے متعلق نقل کی ہے۔ لیکن یہ اعتراض صرف احتمال آفرینی کی بنیاد پر تھا کوئی نیا عنصر انہوں نے نہیں نکالا نہ اس کی تحقیقات پر توجہ کی۔ پانی کو یونانی جو سب سے زیادہ بار د مانتے تھے‘ ابوالبرکات بغدادی نے اپنی کتاب المعتر میں اس سے انکار کیا شرح اشارات امام رازی میں ہے‘ امافی القضیہ الثانیۃ وھی ان البالغ فی البرودۃ بطبعہ ہوالماء فقد نازع فیہ صاحب المعتبر و ز عمران الارض البرد منہ لان الکثافۃ لازمۃ البرودۃ والطافۃ لازمۃ للحرارۃ فلما کانت الارض اکثف وجب ان تکدن ابرودانما یکون الاحساس ببرودۃ الماء اشد من الاماس ببودۃ الارض لان المطافتہ یصل الی مسام اللامس والارض لکثافتھا لا یصل ’’باقی دوسرا مسئلہ یعنی یہ کہ پانی سب سے زیادہ بارد ہے تو اس سے صاحب معتبر نے انکار کیا اس کا دعویٰ ہے کہ خاک سب سے زیادہ بارد ہے کیونکہ برودت کے لیے کثیف ہونالازم ہے اسی طرح حرارت کے لیے لطیف ہونا لازم ہے یہ چونکہ خاک سب سے زیادہ کثیف ہے اس لیے ضرور ہے کہ وہی سب سے زیادہ بارد ہو‘ چھونے میں جو پانی ٹھنڈا معلوم ہوتا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ پانی کی برودت لطافت کی وجہ سے مساوات تک پہنچ جاتی ہے بخلاف خاک کے وہ کثافت کی وجہ سے مسامات تک نہیں پہنچ سکتی۔‘‘ ۳۔ یونانیوں نے ہوا کو جو سب سے زیادہ لطیف مانا تھا امام رازی نے شرح اشارات میںاس کو اس طرح باطل کیا ۔ وعندہ نالنار اولی بذلک فانا نفی ان الشی کلما کان اسخن کان الطف وارق قواما ماونری ان الھواء کلما ازوادت سخونۃ ازدارت رقتہ رنری ان النار التی عندہ نانی عنایت اللطافۃ نقوی فی ظنو نتا اتہ کان التی اسخن کان الصف وذلک یقتضی ان یقون النار الطف الاجرام ’’ہمارے نزدیک آگ زیادہ لطافت کی مستحق ہے کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ کوئی چیز جس قدر زیادہ گرم ہوتی ہے اس کا قوام زیادہ رقیق اور لطیف ہو جاتا ہے ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ ہوا میں قدر زیادہ گرم ہوتی ہے ‘ اسی قدر اس کی لطافت بڑھ جاتی ہے‘ اس بنا پر گمان غالب پیدا ہوتا ہے کہ جو شے جس قدر زیادہ گرم ہو گی اسی قدر زیادہ لطیف ہو گی اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ آگ تمام اجسام سے زیادہ لطیف ہے۔‘‘ ۴۔ سب سے بڑھ کر یہ یہ کہ شیخ الاشراق نے اس بات س ے انکار کیا کہ آگ بھی کوئی عنصر ہے اور یہ امر بالکل تحقیقات حال کے موافق ہے یورپ کے تمام علمائے حال اس بات پر متفق ہیں کہ آگ کوئی عنصر نہیں شیخ الاشراق کے الفاظ یہ ہیں (دیکھو شرح حکمتہ الاشراق مقالہ رابعہ)۔ والحق یابی ھذا ای کون النار عنصر اخرممتاز اعن الھواء بصورۃ مقومۃ بل ہی انمایمتا زعنہ بکیفیۃ خارجبۃ ’’حق یہہے کہ آگ ہواہے کوئی الگ اورجداگانہ عنصر نہیں ہوا سے اگر وہ ممتاز ہے تو خاص کیفیت میں نہ کہ ماہیت کے لحاظ سے‘‘۔ شیخ نے یونانیوں کے تمام دلائل نقل کر کے ان کو باطل کیا ہے ۔ اخیر میں لکھتے ہیں: فالاصول اصول ای الغصریات ثلثۃ تو اصول یعنی عناصر تین ہیں۔ شیخ الاشراق نے اسی پر اکتفا نہیںکیا بلکہ آگ کے عنصر ہونے پر یونانیوں کے جو دلائل تھے ان کو یہ تفصیل ذکر کے ان کی لغویت ثابت کی یونانیوںنے اس امر پر کہ آگ ایک عنصر ہے ‘ اور اس کا کرہ آسمان کی سطح زیریں سے متصل ہے مختلف دلیلیںقائم تھیں۔ ایک یہ کہ شعلہ ہمیشہ اوپر اٹھتا ہے اس سے ثابت ہوا کہ آگ کا کرہ اوپر ہے۔ شیخ الاشراق کہتے ہیں کہ شعلہ کوئی الگ چیز نہیں بلکہ حرارت میں جب حرارت آ جاتی ہے‘ تو وہ مشتعل ہو کر اوپر کو رخ کرتی ہے‘ کیونکہ حرارت کا قاعدہ ہے کہ وہ اجسام میں رقت اور لطافت پیدا کر دیتی ہے اور لطیف چیز ہمیشہ اوپر رہنا چاہتی ہے ۔ ومن خاصیۃ الحرارۃ التلطیف فیکون صعود الم تفع التلطفہ لکونہ ھواء حارالا لکونہ ناراً (شرح حکمۃ الاشراق) ’’اور حرارت کی خاصیت لطیف کر دینا ہے تو شعلہ کا اوپر اٹھنا اس وجہ سے نہیں کہ وہ آگ ہے بلکہ اس وجہ سے ہے کہ وہ گرم ہوا ہے اور سی وجہ سے لطیف ہے‘‘َ دوسری دلیل یہ تھی کہ آسمان کی حرکت کی وجہ سے سخت حرارت پیدا ہوتی ہے اس وجہ سے اس کے نیچے آگ پیدا ہو گئی شیخ الاشراق کہتے ہیں کہ اگر یہ صحیح بھی ہو تو اس سے آگ کا وجود لازم نہیں آتا‘ بلکہ وہ ہوا جو آسمان ک نیچے ہے وہی گرم ہو جاتی ہے۔ ۵۔ یونانی عناصر کے اسحالہ کے قائل تھے‘ یعنی یہ کہ ایک عنصر بدل کر ‘ دوسرا عنصر ہو جاتا ہے‘ ابوالبرکات بغدادی نے اس سے انکار کیا‘ یونانی کہتے تھے کہ کسی گلاس میں اگر نہایت ٹھنڈا پانی رکھا جائے تو گلاس کی بیرونی سطح پر پانی کے چھوٹے چھوٹے قطرے نظر آئیں گے‘ یہ ہوا جو پانی بن گی ہے ابوالبرکات کہتے ہیں کہ ہوا پانی نہیں بنی بلکہ ہوا میں پانی کے جو نہایت چھوتے چھوٹے ذرات تھے وہ برادت کی وجہ سے نمایاں ہو گئے ۔ شرح تجرید قوشجی میں ہے ۔ کمازھب الیہ ابوالبرکات قانہ زعھم ان فی الھواء المطیف بالطاس اجزاء لطیفۃ مائیۃ لکنھا لضحرھاوجذب حرارۃ الھواء ایاھا لمھکن من خرق الھواء والنزول علی اکاناء نلما یبروالاناء الھواء الذی یلیہ زالت السخونتہ من الاجزاء المائیۃ الصغیر ۃ نکشفت و ثقلت تنزلت واجتمعت علی اکاناء ’’ابوالبرکات اس بات کا قائل ہے کہ پیالے کے آس پاس جو ہوا ہے اس میں پانی کے لطیف اجزاء شامل ہیں‘ لیکن چونکہ وہ چھوٹے ہیں اور ہوا کی گرمی ان کو جذب کرتی رہتی ہے ۔ اس لیے ان کو یہ قدرت نہیں کہ ہوا کو چیر کر برتن پر اتر آئیں لیکن جب ہوا نے برتن کو ٹھنڈا کر دیا ‘ تو پانی کے اجزاء سے حرارت زائل ہو گئی‘ اس لیے یہ اجزاء دلدار ہو کر اتر آئے‘ اور برتن کی سطح پر جم گئے‘‘۔ ابوالبرکات کی یہ رائے بالکل آج کل کی طبیعات کے موافق ہے۔ (الندوہ ج ۲‘ نمبر ۲) ٭٭٭ علوم جدیدہ علم کی حقیقت علوم جدیدہ کے مسائل بعض ایسے ہیں جو بالکل حال کی ایجاد ہیں۔ اگلے زمانے میں ان کا نام و نشان تک نہ تھا بعض ایسے ہیں کہ جو پہلے بھی موجود تھے‘ لیکن آج ان کی تشریح جس طرح کی جاتی ہے ‘ اس کا نام علم ہے ‘ اس کے متعلق حصولی ‘ حضوری ‘ حصول اشیاء بانفسہا اور باشباجہا کی طول طویل بحثیں تمام متداول کتابوں میں مذکور ہیں۔ حکمائے حال نے علم کی جس طرح تشریح کی ہے ۔ اس کی تفصیل حسب ذیل ہے۔ ۱۔ انسان کو خدا نے مختلف حواس دیے ہیں ‘ اور ہر حواس کے مدرکات جدا ہیں۔ قوت سامعہ صرف آواز کو محسوس کرتی ہ ‘ اجسام یا رنگ اور خوشبو وغیرہ کو ادراک نہیں کر سکتی‘ شامہ ‘ آواز‘ اور صورت کا احساس نہیں کر سکتی ۔ ۲۔ اکثر چیزیں مختلف چیزوں کا مجموعہ ہوتی ہیں جو مختلف حواسوں سے محسوس ہوتی ہیں مثلاً شہد میں لزوجیت ہے‘ جس کولامسہ محسوس کرتا ہے رنگ ہے جو آنکھ سے محسوس ہوتا ے‘ خوشبو ہے جس کو شامہ سے تعلق ہے‘ وزن ہے جس کا ادراک لامسہ کی استعانت سے ہوتا ہے۔ جب کسی کو مختلف حواس سے محسوس ہوتے ہیں‘ تو جو کیفیتیں محسوس ہوتی ہیں‘ وہ ہمارے حافظہ کے خزانہ میں جمع ہوتی ہیں اب ان میں سے جب کسی ایک کا احساس ہوتا ہے ‘ تو اس چیز کی باقی کیفیتیں ہم کو یاد آ جاتی ہیں‘ مثلا ہم نے کسی وقت شہد کو دیکھا چکھا اور سونگھا تھا ‘ اس سے شہد کی نسبت ہمارے حافظہ میںتین کیفیتیں جمع ہوئیں رنگ مزہ ‘ خوشبو اب فرض کرو کہ ہم نے دور سے شہد کو دیکھا اور اس کی خوشبو یا مزہ ہمیں محسوس نہیں ہوتا‘ تاہم اس کا مزہ اور خوشبو خودبخود ہمیں یاد آ جائے گی‘ اس بنا پر احساس اور ادراک کے متعدد مدارج ہیں۔ ۱۔ محض احساس بالفعل مثلاً ہم ایک سیب کو دیکھ رہے ہیں ۲۔ احساس سابق اور احساس یا لفعل دونوں مثال ہم نے شہد کو دیکھا اور ا س کا جو مزہ پہلے ہم نے چکھا تھا اس وقت یا د آ گیا ‘ تو ا س کی رنگت کا ادراک موجود احساس کے ذریعہ سے ہے اور مزہ کا ادراک گزشتہ احسا س کی یاد ہے۔ ۳۔ محض تصور مثلاً ہم نے شہد کو کبھی دیکھا سونگھا اورچکھا تھا اب شہد ہمارے سامنے نہیں ہے‘ لیکن ہمیں وہ یاد آ گیا اور اس کے ساتھ اس کا رنگ ‘ مزہ خوشبو سب یاد آ گئی تو ان سے کوئی چیز موجودہ بالفعل نہیں بلکہ احساس سابق کا تذکرہ ہے اور اس لحاظ سے اس وقت ہم کو شہد کا محض تصور ہی تصور ہے۔ یہاں یہ نکتہ خاص لحاظ سے قابل ہے کہ جو علم احساس یالفعل سے حاصل ہوتا ے وہ قطعی اور یقینی ہے اور جس میں گزشتہ احساس سے کام لینا پڑتا ہے وہ یقینی نہیں ہے ۔ کیونکہ ممکن ہے کہ گزشتہ احساس کی یاد میںہم نے غلطی کی ہو‘ ادراک اور احساس کی نوعیت کے متعلق ایک عام غلطی یہ کی جاتی ہے کہ جب ہم مثلاً سبب کو دیکھ کر کہتے ہیں کہ ہم کو سیب کا علم ہوا‘ تو ہم سمجھتے ہیں کہ یہ علم بدیہی ہے کیونکہ بالذات حواس ظاہری کو ذریعہ سے حاصل ہوا ہے‘ حواس نے صرف رنگت اورشکل محسوس کی ہے‘ باقی اس کا مزہ اور خوشبو تو چونہ اس کا احساس پہلے ہو چکا تھا‘ اس لیے ہم نے یقاس کر لیا کہ جب صورت اور رنگ وہی ہے تو مزہ اور خوشبو بھی وہی ہو گی اس لیے محسوس بالفعل صرف شکل اور رنگ ہے ‘ باقی گزشتہ محسوس کی یاد ہے اب جب کہ ہمار ے سامنے سرے سے ایک شے موجود نہ ہو لیکن اس کے مختلف آثار ہ پہلے محسوس کر چکے ہوں اور اس لیے اس کا خیال ہمارے ذہن میں آئے تو یہ تصور ہو گا کہ اس بنا پر تصور کی تعریف یہ ہو گی کہ کسی شے کے گزشتہ احساسا ت کی یاد ۔ ان بیانات سے ثابت ہو گا کہ تصور کی تعریف جو یونانیوں نے کی تھی یعنی کسی شے کی صورت جو ذہن میں حاصل ہو وہ کئی لحاظ سے غلط ہے ۔ پہلی غلطی تو یہ ہے کہ ذہن یا عقل میں کوئی مادی شے نہیں جس میں صورت کا انعکاس ای انطباع ہو دوسری غلطی یہ ہے کہ تصور کے وقت ہمارے کوئی نئی صورت حاصل نہٰں ہوتی بلکہ ایک حاصل شدہ صورت کا تذکرہ ہوتا ہے ہمارے حافظہ میں بہت سے معلومات ہیں‘ جب ہم ان کی طرف متوجہ ہوتے ہیں‘ تو کہا جاتا ہے کہ ہم نے ان کا تصور کیا‘ اب اگرتصور کی حقیقت وہ ہو جو یونانی بیان کرتے ہیں تو معنی یہ ہوں گے کہ اس وقت کوئی نئی صورت حاصل ہوئی ہو حالانکہ اس وقت کوئی نئی صورت حاصل نہیںہوئی بلکہ جو صورت پہلے سے حاصل تھی اسی کی طرف ہمارا ذہن متوجہ ہوا ہے کیونکہ کشی سے کی صورت حاصل اس وقت ہوتی ہے جب وہ شے ہمارے حواس کے سامنے موجود ہو‘ اس مسالحت کی وجہ یہ ہے کہ کسی شے کی حاصل شدہ صورت کی یادد لانے کا بڑا ذریعہ رویت ہے اور رویت میں اشیاء کی صورت اانکھ کے پردہ پر منطبع ہوتی ہیں اس لیے احساس بصری میںجو صورت حاصل ہوتی ہے وہ تصو ر نہیں بلکہ تصور پیدا کرنے والی ہے۔ لیکن یہ تمام ادراکات یعنی احساس بالفعل احساس مرکب تصور محض سب ادراک کے ابتدائی درجہ ہیں یعنی یہ سب جزئیات کے ادراک کے طریقے ہیں کلیات کا ادراک اس طرح ہوتا ہے کہ ہم بہت سے جزئیات کو دیکھتے ہیں‘ ان سب میں بعض چیزیں مشترک پاتے ہیں‘ یہ قدر مشترک کوئی موجود خارجی نہٰںہے نہ کسی خاص موجود خارجی کے مطابق ہے‘ لیکن ایک قسم کا وجدان ہے جو بہت سے جزئیات کو دیکھنے اور ان میں سے بعض اوصاف کے مشترک پانے سے پیدا ہوتا ہے اس وجدان کا نام تعقل ہے اور اسی کو کلیات کا ادراک کہتے ہیں۔ منطق میں جس چیز کو تصور کہا جاتا ہے وہ تصور نہیں بلکہ تعق ہے کیونکہ تصور کے لیے صورت کی ضرورت ہے اورکلیات کے ادراک میں کوئی خاص صورت نہیں حاصل ہوتی ۔ بلکہ صرف بہت سے جزئیات کے استسقاء سے اس طرح منترع ہوتا ہیکہ ہم افراد کے خصوصیات کو حذف کرتے جاتے ہیں اورایک مفہوم عام پیدا کر لیتے ہیں ۔ ہم نے زید ‘ بکر عمر و کو دیکھا ان کی جو الگ الگ خصوصییتیں تھیں مثلاً قومیت‘ وطن‘ جسمانی ترکیب وغیرہ وغیرہ سب کو حذف کرتے گئے تو صرف انسانیت ایک ایسی چیز باقی رہی جو سب میں مشترک ہے یہ انسانیت خارج میںموجود نہیں اوراس کے لیے وہ کسی شامہ سے محسوس نہیں ہو سکتی بلکہ جزئیات کے دیکھنے سے منتزع ہوتی ہے ‘ اس لیے اس کو تصور نہیں بلکہ شعور یا تعقل کہا جا سکتا ہے اور چونکہ علم کی یہ اعلیٰ درجہ کی قسم ہے اس لیے علم کی تعریف یا تو یوں کرنی چاہیے کہ تصور مع تعقل یا صرف تعقل پر اکتفا کرنا چاہیے۔ (مقالات شبلی مطبوعہ لکھنو) ٭٭٭ جذب یا کشش سرآئزک نیوٹن یورپ کا مشہور فلاسفر ہے ۔ جو سنہ ۱۶۴۲ء میں پیدا ہو ا اور ۱۷۲۷ء مٰں وفات پائی۔ یورپ کا خیال ہے کہ مسئلہ کشش یعنی یہ کہ ہر جسم دوسرے جسم کو اپنی طرف کھینچتا ہے اسی فلسفی کی ایجاد ہے اور سینکڑوں فلسفیانہ مسائل اسی مسئل پر مبنی ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ مسئلہ کشش مختلف صورتوں میںمدت سے تسلیم ہوتا چلا آیا ہے یہ نہایت قدیم خیال ہ کہ ہر شے اپنے مرکز کی طرف کھینچتی ہے۔ اسی بناء پر یونانی یہ خیال کرتے تھے کہ ڈھیلا جب اوپر پھینکنے کے بعد زمین پر گرتا ہے تو اس وجہ سے گرتا ہے کہ اس کا مرکز یا جز طبعی زمین ہے اس لیے زمین اس کو اپنی طرف کھینچتی ہے اس مسئلہ کو غلطی سے یونانیوںنے بے موقع بھی وسعت دی مثلاً یہ کہ آگ کا شعلہ‘ اس لیے اوپر کو اٹھتا ہے کہ آگ کا مرکز زمین سے اوپر ہے اور اسی لیے شعلہ اپنے مرکز کی طرف جانا چاہتا ہے‘ حالانکہ اس کی وجہ یہ نہیں بلکہ یہ وجہ ہے کہ ہلکی چیز بھاری چیز سے اوپر رہتی ہے۔ لیکن ہمیں اس غلطی سے اس موقع پر بحث نہیں صرف یہ ثابت کرنا مقصود ہے کہ کشش کا خیال نہ تھا بلکہ ایک خاص صورت یعنی کشش مرکزی تک محدود تھا۔ لیکن حکمائے اسلام نے اس اصول کو وسعت دی ثابت بن قرہ اس بات کا قائل تھا کہ ہر جسم کے اجزاء میں باہم کشش ہوتی ہے ۔ امام رازی نے مباحث شرقیہ میں اس کی عبارت نقل کی ہے اورہم اس کو بعینہ نقل کرتے ہیں۔ واما السبب فی اذارمینا المدرۃ الیٰ العلیٰ عادت جانب الارض فھو ان جزء کل عنصر یطلب سائرالا جزامن ذلک العنصر لذاتہ طلب الژئی لشبھھ فانک لوتوھمت الاماکن علی مازکس نامن الخلاء ثمر جعل بعض اجزاء الارض فی موجع من ذلک الخلاء ربتاتیھا فی موضع آخر عنہ وجب ان یجذب الکثیر منھا الصغیر ولاصامت الارض تصنفین ووقع کل واحد من لنصنفین فی جانب آکر کان طلب کل واحد من القسمین مساویا لطلب صاحبہ حتی یلیقیا فی الوسط بل لوتوھم ان الارض کلھا لو رفعت الی تلک الشمس ثم اطلق من الموضع الذی ھی نیہ الاحجر الکان یرتفع ذالک الحجر الیھا الطلبہ للشئی العظیم الذی ہو شبیھہ وکذلک لوتوھم اتفاتن تقطعت و تقرقت فی جوانب العام ثم اطلقت لکان یتوجہ بضھا الی بعض ریقف حیث یتھیاء لبقاء جملتہ اجز لھافیہ ۱ ’’باقی اس کا سبب کہ ب ہم پتھر کو اوپر پھینکتے ہیں تو وہ زمین پر آ جاتا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر عنصر کا ہر جزء باقی اجزاء کو ڈھونڈتا ہے جس طرح ہر شے اپنی جنس کی طرف کھینچتی ہے اگر یہ فرض کیا جائے کہ زمین کے بعض اجزاء کسی خلا میں اٹھا کر رکھ دیے جائیں اور دوسرے اجزا اسی خلامیں کسی اور موقع پر رھے جائیں تو ضرور ہو گا کہ بڑے اجزا چھوٹے اجزا کو اپنی طرف کھینچیں گے اوراگر یہ فرض کیا جائے کہ زمین کے دو ٹکڑے ہو جائیں اور دونوں ٹکڑوں الگ الگ رکھ دیے جائیں تو دونوں ٹکڑے ایک دوسرے کی طرف کھنچیں گے۔ یہاں تک کہ وسط میںپہنچ کر مل جائیں گے۔ بلکہ اگر یہ فرض کر لیا جاوے کہ زمین معلق اٹھا کر فلک شمس پر رکھ دی جائے اور ایک پتھر اس موجودہ زمین کی سطح سے اوپر کو پھینکا جائے تو وہ اوپر چڑھتا جائے گا‘ کیونکہ وہ اپنے ہم جنس اعظم کا طالب ہو گا اس طرح اگر یہ فرض کیا جائے کہ زمین کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے ان کو چھوڑ دیا جائے تو اس کے تمام اجزاء ایک دوسرے کی طرف حرکت کریں گے اور وہ سب مل کر ایک ہو جائیں گے‘‘۔ یہ مسئلہ خاص ثابت بن قرہ کا ایجاد ہے‘ اسی بنا پر امام رازی نے جہاں یہ قول نقل کیا ہے لکھا ہے : مذھبا عجیبا اختارہ لنفسہ اس سے ترقی کر کے اکثر علماء اس بات پر قائل ہوئے کہ تمام اجسام میں جذب اور کشش کی خاصیت ہے یہاں تک کہ یہ خیال شعراء بھی پھیل گیا مولانا روم نے مثنوی میں اس مسئلہ کا جہاں ذکر کیا ہے ‘ ہم وہ اشعار مولانا روم کی سوانحعمری میںلکھ چکے ہیں اس موقع پر ایک اور شاعر کے اشعار نقل کرتے ہیں وحشی یزدی مثنوی شیریںفرہاد میںکہتا ہے یہ لحاٖظ رکھنا چاہیے کہ جذب اور کشش کے بجائے اس زمانے میںمیل کا لفظ استعمال کرتے تھے۔ یکی میل است باہر ذرہ رقاص کشاں ہر ذرہ راتا مقصد خاص اگر پوئی راسفل تابہ عالی نہ بینی ذرہ زیں میل خالی ز آتش تابہ باداز آب تاخاک ززیر ماہ تابالائے افلاک ہمیں میل ست اگر دانی ہمیں میل جبنیت درجبنیت خیل در خیل سر ایں رشتہائے بیچ در بیچ ہمیں میل ست باقی ہیچ در ہیچ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱۔ یہ عبارت بہت لمبی ہے ہم نے اسی قدر پر اکتفا کیا ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہمیں میل ست کاہن رادر آموخت کہ خود رابر دو برآہن رباد دخت ہمیں میل آمد و ناگاہ پیوست کہ محکم کاہ رابرکہر بایست بہ ہر طبعے نہادہ آرزوے تگ و پودادہ ہر یک رابہ سوئے غرض کیں میل چون گرد و قومی پے شود عشق و درآید در رگ و پے (الندوہ جلد ۶ نمبر ۸‘ شعبان سنہ ۱۳۲۷ھ مطابق ستمبر ۱۹۰۹ء ) ٭٭٭ فلسفہ اسلام مسئلہ ارتقاء اور ڈارون ڈارون کی بیس برس کی پیہم کوشش اور غور و محنت کی داد ہمارے ملک نے تو یہ دی ہے کہ وہ انسان کی اصل بندر قرار دیتا ہے اس لیے خود بندر ہے۔ لیکن ایسا مسئلہ جس کو قریباً یورپ کے تمام حکما تسلیم کرتے ہیں اس قابل نہیںکہ اس کو ہنسی سے اڑا دیا جائے اس لیے ہم ضروری سمجھتے ہیں کہ پہلے یہ بتائیں کہ اس مسئلہ کی حقیقت کیا ہے ۔ ڈارون کا دعویٰ کیا ہے ‘ ا سکے کیا اصول ہیں؟ پرھ یہ دیکھیں کہ حکمائے اسلام کا اس کے متعلق کیا خیال تھا؟ جب کسی نئے مسئلہ کا ثابت کرنا مقصود ہوتو اس کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ پہلے وہ باتیں استدلال میں پیش کی جائیں جن کو فریق مخالفت بھی تسلیم کرتاہے پھر وہ باتیں جو ان تسلیم کردہ باتوں سے خود بخود لازم آتی ہیں ۔ اس طرح رفتہ رفتہ اصل مطلب تک آئیں ہم بھی یہی طریقہ اختیار کرتے ہیں۔ اس قدر مسلم ہے کہ اکثر جانوروں کی بہت سی مختلف قسمیں ہوتی ہیں کبوتر کے سینکڑوں اقسا م ہیں کتے سینکڑوں قسم کے ہوتے ہیں گھوڑوں کی بہت سی نسلیں ہیں‘ ان اقسام کی صورت شکل ‘ رنگ و روپ‘ ڈل ڈول‘ عادت و خاصیت میں بھی نہایت فرق ہوتا ہے باوجود اس کے سب لوگ یہی مانتے ہیں کہ وہ ایک ہی جانور ہیں اور ایک ہی خاندان سے ہیں طوطے سبز بھی ہوتے ہیں‘ سفید بھی‘ نہایت چھوٹے بھی چیل کے برابر بھی بعضوں کے سرو پر کلغی ہوتی ہے ۔ لیکن سب کے سب طوطے ہیں۔ سفید کلغی والا طوطا چیل یا باز نہیں کہلاتا۔ان مختلف طوطوں کی صورت و شکل رنگ ڈیل ڈول‘ اس قدر باہم مختلف ہے پھر تم سب کو ایک ہی جانور اور ایک ہی نسل بتاتے ہو‘ صرف اس لیے کہ ان میں کچھ چیزیں مشترک ہیں غور کرو فاختہ اور کبوتر میں کیا اس سے زیادہ اختلاف ہے کیا ان میں اس قدر مشترق باتیںنہیں ہیں جتنا طوطوں کے اقسام میں ہیں اس بنا پر کیا یہ مناسب نہیں کہ فاختہ کے مفہوم کو ذرا اور وسیع کرو کہ کبوتر بھی اس کے دائرہ میں آ جائے‘ اتنی وسعت پیدا کر لو کہ تو ذرا اور آگے برھو کہ کچھ اور جانور بھی فاختہ کے ذیل میں آ جائیں گے آگے اور بڑھنا ہو گا لیکن ابھی ہم یہیں رک جاتے ہیں۔ اب ایک اور بات پر غور کرتو تم نے تمام موجودات کی ۴ قسمیںکی ہیں‘ جمادات یعنی زمین پہاڑ وغیرہ نباتات ‘ حیوانات ‘ انسان ان میں سے تم نے یہ فرق رکھا ہے کہ جمادات وہ چیزیں ہیں جن میںنمو یعنی بڑھنے کی طاقت نہیں ہوتی نباتات وہ ہیں جو بڑھتے ہیں جیسے درخت وغیرہ حیوانات وہ جو چل پھر بھی سکتے ہیں اورانسان میں ان سب باتوں کے ساتھ عقل بھی ہوتی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ یہ حدیں جو تم نے مقرر کی ہیں کیا ہر جگہ قائم رہتی ہیں حال کی تحقیقات سے ثابت ہوا کہ بعض جزائر میںایسی بیلیں ہوتی ہیںجو درختوں پر لپٹی رہتی ہیں لیکن جب کوئی جانور سامنے آ جاتا ہے تو جھپٹ کر اس سے لپٹ جاتی ہیں اورا ن کا خون اس طرح چوس لیتی ہیں کہ وہ جانور مردہ ہو کر گر پڑتا ہے۔ بعض مقامات میں ایک پھول ہوتا ہے اس کی پتیاں کھلی رہتی ہیں ۔ جب کوئی مکھی اس پر آ بیٹھتی ہے تو فوراً پتیاں سمٹ کر اس کو بند کر لیتی ہیں اور اس کاخون چو س کر چھوڑ دیتی ہیں۔ یہ تو حال کے تجربے سے لیکن چھوئی موئی کا درخت تو تم نے دیکھا ہو ہگا ۔ اس سکو چھوئو تو اس کی پتیاں خود بخود سمٹنی شروع ہو جاتی ہیں اور ہاتھ اٹھا لینے سے بھی برابر سمٹتی رہتی ہیں یہاں تک کہ بالکل سمٹ جاتی ہیں کیا ان مثالوں سے یہ نہیں ثابت ہوتا کہ بعض نباتات میں بھی حرکت کی قوت ہوتی ہے‘ اس صورت میںنباتات اور حیوانات میں تم نے جو سرحد قائم کی تھی وہ ٹوٹ جاتی ہے ۔ ۳۔ تم دیکھتے ہو کہ جمادات‘ نباتات ‘ حیوانات ہر ایک قسم میں کتنی قسمیں اوران میں کس قدر مدارج کا اختلاف ہے گھوڑے ٹٹو بھی ہوتے ہیں ترکی بھی‘ عرب بھی ‘ ویلر بھی‘ ان کے افعال ہیں آثار میں‘ اوصاف میں‘صورت شکل میں کس قدر فرق ہوتا ہے یہ اختلاف مراتب ‘آب و ہوا ‘ زمین ‘ تربیت موسم وغیرہ کے اختلاف سے پیدا ہوتا ہے ان ملکوں کا معمولی کتا‘ برفانی پہاڑوں پر جا کر دو ایک نلس کے بعد اس کے بدن پر ریچھ کی طرح بال نکل آت ہیں ولایت کے انگور ‘ سیب وگیرہ ہمارے مل میں بوئے جاتے ہیں تو ان کی لطافت مزہ بالیدگی میں فرق آ جاتا ہے یہاں کا گھوڑا عرب میں جائے تو چار پیشوں کے بعد اس میں عربی گھوڑے کے اوصاف پیدا ہو جائیں گے۔ کبوتر پالنے والے ایک قسم کے کبوتر میں دوسری قسم کے کبوتروں کے اوصاف پیدا کرنے چاہتے ہیں ۔ تو ان کا میل دے کر پیدا کر لیتے ہیں۔ غرض ہر چیز کے مختلف مدارج ہیں اور یہ مدارج آب و ہوا وغیرہ کے اختلاف سے پیدا ہوتے ہیں۔ ۴ ۔ یہ بھی نظر آتا ہے کہ تمام چیزیں ترقی اور تنزل کرتی رہتی ہہلیں آم جنگل میں خود رو تھے آبادی میںآ کر ترقی کی‘ رفتہ رفتہ بمبئی ‘ لنگڑا‘ ثمر بہشت‘ فجری اور شاہ پسند ہو گئے ۵۔ اب ابتدا سے چلو سب سے کم درجہ کے نباتات وہ ہیں جو گھور ے وغیرہ پر اگتے ہیں یہ دارصل محض خاک اک لبدا ہیں پانی پرا‘ بالیدگی پیدا ہوئی تازہ ہوئے دھوپ کھائی مرجھا کر خشک ہو گئے ۔ دوسرے دن پھر ہوا چلی پھر پیدا ہوئے‘ اور حسب معمول خشک ہو گئے ان سے برھ کر سبزہ ہے ‘ جو دیر تک رہتا ہے زمین سے غذا بھی حاصل کرتا ہے لیکن پھل پھول تخم نہیں اس لیے ان کی نسل نہیں چل سکتی ان سے بڑھ کی گیہوں وغیرہ ہیں جن کے تخم ہوتے ہیں اوراس سے ان کی بقائے نسل ہوتی ہے ۔ ان سے ترقی یافتہ درخت ہیں جن میں غلہ سے کچھ زیادہ اوصاف ہوتے ہیں بڑھتے بڑھتے خرما اور کھجور تک نوبت پہنچتی ہے جن میںحیوانات کے بعض اوصاف پائے جاتے ہیں حیوانات جس طرح نر و مادہ ہوتے ہیں اور جب ک نر کے پھول کے زیرے مادہ پر نہ چھڑکیجائیں وہ بار آور نہیں ہوتے اسی کو عرب کی اصطلاح میں تلقیح اور ہندی میں شادی کرنا کہتے ہیں نباتات کو قاعدہ یہ ہے کہ اوپر سے ان کو کاٹ لو تو ان کو نقصان نہیں پہنچتا۔ جب تک ان کی جڑ قائم ہے وہ زندہ رہیں گے بخلاف اس کے حیوانات اورانسان کا یہ حال ہے کہ اگر ان کا سر کٹ جائے تو گوتمام اعضا سلامت رہیں لیکن وہ زندہ نہیں رہ سکتے۔ خرما کے درخت کا بھی یہی حال ہے ۔ اگر اس کے اوپر کا حصہ کو کاٹ ڈالیں تو وہ باقی نہیں رہ سکتا اس سے آگے برھ کر چھوئی موئی کے پتے جس میں حرکت کی خاصیت ہے جو خاص حیوانات کے ساتھ مخصوص ہے اس حرکت کی نسبت ی ہخیال ہو سکتا ہے کہ وہ طبعی اور فطرتی ہے ارادی نہیں ہے اس لیے اس درجہ سے برھ کر وہ نباتات ہیں جن کا ذکر اوپر گزرا اور جن سے صاف ارادہ حرکت کے آثار پائے جاتے ہیں۔ اب حیوانات کو لو‘ سب سے کم درجہ کا حیوان ایک کیڑا ہے جو سمندر میں پیدا ہوتا ہے ۔ یہ گویا فالودہ کا ایک ٹکڑا ہوت اہے۔ کسی قسم کا کوئی عضو اس میں نہیں ہوتا چمڑا گوشت‘ پٹھ ‘ رگ کوئی چیز نہیں ہوتی۔ اس کے اندر سے دھاگے کی طرح تار نکلتے ہیں انہی تاروں کے ذریعہ سے غذا کو جذب کرتا ہے ‘ پھر یہ تار سمٹ کر اس کے جسم کے اندر چلے جاتے ہیں اس حالت سے آگے برھ کر وہ جانور پیدا ہوتے ہیں جن کے منہ ہوتا ہے لیکن اور اعضاء نہیں ہوتے اورچھونے کے سوا‘ ان میں اور کوئی قوت نہیں ہوتی‘ وہ سونگھ نہیں سکتے سن نہیں سکتے‘ دیکھ نہیںسکتے مثلاً کیچوے وغیرہ رفتہ رفتہ اور اعجاء پیدا ہوتے جاتے ہیں یہاں تک کہ ان جانوروں کا وجود ہوتا ہے جن کے کان‘ ناک آنکھ سب ہیں ہر قسم کے حواس ہیں لیکن ان کا قد آدمی کی طرح سیدھا نہیں ہوتا۔ اس سے بھی بڑھ کر جانور وہ ہیں جن کو لوگ بن مانس کہتے ہیں اور جن کی بعض قسمیں مثلاً گورولا وغیرہ لاٹھی لے کر بالکل آدمیوں کی طرھ چلتے ہیں ‘اور ایک خاندان اس طرح مل جل کر رہتاہے جس طرح انسان رہتے ہیں اور ان میں وہ تمام اوصاف پائے جاتے ہیں جو افریقہ کے وھشی آدمیوں میں پائے جاتے ہیں اب ان تمام گزشتہ مقدمات کو مختصر پیش نظر رکھو یعنی۔ ۱۔ موجودات کے جو انواع ہیں جمادات نباتات حیوانات انسان ان میں سے ہر ایک کی سینکڑوں ہزاروں قسمیں ہیں جن کو سب لوگ ایک ہی شما رکرتے ہیں مثلاً کبوتر گھوڑے وغیرہ کا اقسام ۲۔ ایک قسم ترقی کر کے دوسری قسم میں داخل ہو جاتی ہے۔ ۳۔ جمادات‘ نباتات‘ حیوانات ان میں سے ہر ایک کی ترقی یافتہ قسمیں اوپر نوع سے مل جاتی ہیں ۔ یعنی جماد میں نمو پیدا ہو جاتاہے۔ اس لیے وہ نباتات کہلایا جا سکتا ہے ۔ نباتات میں ‘ ارادی حرکت پیدا ہو جاتی ہے‘ اس لیے اس کو حیوان کہہ سکت ہیں حیوانات میں عقل و ہوش اور ادنیٰ درجہ کا تمدن پیدا ہو جاتا ہے۔ یہ امور تو قطعی ثابت ہو چکے ہیں اب گفتگو صر ف یہ رہ جاتی ہے کہ یہ تو عین ابتدا ہی سے ایک ہی زمانہ الگ الگ پیداہوئی تھیں جماد الگ پیدا ہو ا نباتات الگ وجود مٰں آئے‘ حیوانات جدا پیدا ہوئے انسان علیحدہ مخلوق ہوا یا یہ کہ انہی نوع میں سے ادنیٰ درجہ کی ترقی کر کے اعلیٰ ہوئی پھر اس سے اعلیٰ ہوئی پھر اس سے اعلیٰ تر ہوئی‘ یہاں تک کہ انسان وجود میں آ گیا۔ عام لوگوں کا خیال ہے کہ دنیا میںجب پیدا ہوئی تو جمادات ‘نباتات ‘ حیوانات ‘ سب ایک ہی زمانہ مٰں پیدا ہوئے اور الگ الگ پیدا ہوئے‘ دارون کی رائے ہے کہ پہلے پہلے صرف نوع پیدا ہوئی وہی ترقی کرتے کرتے انسان کی حد تک پہنچ گئی۔ یہ ظاہر ہے کہ دونوں احتمالوں میں سے کوئی قطعی یوں بھی ہو سکتا ہے اوردوں بھی اس لیے اتنا تو بہرحال مان لینا چاہیے کہ ڈارون جو کہتا ہے وہ ایسی چیز نہیں جس کی ہنسی اڑائی جائے وہ بھی ایک احتمال ہے اور تم جو کہتے ہو وہ بھی احتمال ہے اور دونوں میں کوئی قطعی اور یقینی نہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ان دونوں احتمالوں میںسے زیادہ قرین قیاس کون سا ہے ۔ اور روزہ مرہ کے تجربے کیا شہادت دیتے ہیں۔ یہ ظاہر ہے کہ ہم رات دن دیکھتے رہتے ہیں۔ کیا تمام چیزیں ترقی کر تی رہتی ہیں ۔ گلاب کی صرف دو قسمیںتھیں آج کئی سو قسمیں ہیں۔ جن پھولوں میں سو سو پتیاں ہوتی تھیںکئی کئی ہزار تک پہنچیں‘ آب و وا‘ موسم اور ملکی ترقی نے جانوروں کے اقسام کو کہاں سے کہاں تک پہنچا دیا۔ یہ بھی آنکھوں سے نظر آتا ہ کہ اعلیٰ قسم ابتدا خود بخود نہیں پیدا ہوئی بلکہ وہ ادنیٰٰ چیز ترقی کر تے کرتے اعلیٰ بن گئی خود ہم نے ایک ادنیٰ چیز کو ترقی دے کر اعلیٰ کر دیا اسی طرح فطرۃ ادنیٰ چیزیں اعلیٰ ہوتی رہتی ہیں ۔ اس بناء پر بھی زیادہ قرین قیاس ہے کہ جمادات نباتات حیوانات بھی اسی طرح ترقی پا کر ایک نوع سے دوسری نوع ہوتی گئی اس احتمال کر بڑے سے بڑا اعتراض یہ ہوتا ہے کہ یہ سلسلہ اب کیوں بند ہو گیا آج کیوں کوئی گھاس ترقی کر کے جانور نہیں بن جاتی ۔ اس کا جواب یہ ہے کہ ایک نوع سے دوسری نوع میں جو انقلاب ہوتا ہے یہ و دو سو برس کا کام نہیں ۔ ہزاروں برس میں یہ انقلابات وقوع میں آتے ہیں اس کے علاوہ جو چیزیں ایسی ہیں جن میںاوپر کی نوع کی بعض خاصیتیں پائی جاتی ہیں۔ یہ وہی ہیں جو ترقی کی راہ مٰں اور رفتہ روفتہ اوپر کی نوع سے بدل جائیں گی جن نباتات میں حرکت ارادی کی قوت کم ہے ت کہتے ہو کہ ابتدا ہی سے اس کی یہ حالت ہے کہ لیکن یہ کیوں کہ مانا جائے کہ ابتداء وہ محض وہ نباتات تھے ترقی کر کے اس حالت پر پہنچے کہ ان میں حیوان کی بعض خاصیتیں آئیں اس سے بھی بڑھ کر ترقی کریں گے‘ اورپورے حیوا ن بن جائیں گے اس قسم کی چیزوں کو یہ سمجھنا چاہیے کہ اپنی جگہ سے چل چکے ہیں کسی قدر راستہ طے ہو چکا ہے لیکن ابھی پوری منزل طے نہیں ہوئی۔ تشریح نے علانیہ ثابت کر دیا ہے اورہم نے خود فوٹو دیکھے ہیں کہ آدمی کا بچہ جب ماں کے پیٹ میں مہینہ دو مہینہ کا ہوتا ہے تو اس کی صورت میں بعض اور دوسر ے جانوروں کے جنین (پیٹ کا بچہ) میں ذرا برابر فرق نہیں ہوتا کیا یہ اس بات کا ثبوت کافی نہیں کہ انسان کا بچہ ترقی کر کے اخیر منزل تک پہنچ جاتا ہے اورجانور ابھی تک اس منزل تک نہیں پہنچے ہیں۔ اگر کوئی شخص کہے کہ کبوتر کی جو شینکڑوں ہزارو ں قسمیں ہیں ان میں سے ہر ایک قسم ابتدا پیدا ہوتی ہے تو تم بے تکل کہہ دو گے کہ یہ غلط ہے بلکہ خدانے کبوتر کو پیدا کر دیا اور ترقی و تنوع کا ایک قاعدہ مقرر کر دیا۔ اس کے موافق کبوتروں کی مختلف اقسام پیدا ہوتی رہتی ہیں اسی طرح یہ کیوں نہ مانو کہ خدانے ایک نوع سے دوسری نوعیں پیدا ہوتی رہتی ہیں۔ حکمائے اسلام کا اس کے متعلق خیال رسائل اخوان الصفا میں اس بحث کو تفصیل سے لکھا ہے ہم جستہ جستہ مقامات سے اس کا اقتباس کرتے ہیں ۔ ترتیب موجودات بینا نیھا بان آخر مرتبہ المعدینۃ متصلۃ باول مرتبۃ النبانیۃ نزیران نتبعھا رسالۃ النبات ونبین فیھا ایضاً طرفا من کیفیۃ نشواء النبات و کمیۃ اجناسھا وفنون اتواعھا و خواصھا و منافعھا و مضارھا بینن فیھا ایضاً ان آخر مرتبۃ النبات متصلۃ باول المرتبۃ الحیوانیۃ وان آخر مرتبہ الحیوانیۃ متصلۃ باول المرتبۃ الانسانیۃ ۱ ’’ہم نے پہلے رسالہ میں یہ بیان کیا ہے کہ جمادات کا انتہائی درجہ نباتات کے ابتدائی درجہ سے ملا ہواہے ہم چاہتے ہیں کہ اس کے بعد نباتات پر ایک رسالہ لکھیں جس میں مختصراً بتائیں کہ نباتات کیونکر پیدا ہوتے ہیں ان کے کتنے اقسام اورانواع ہیں ؟ ان کے خواص فوائد اور نقصانات کیا ہیں؟ اس میں ہم یہ بھی بیان کریں گے کہ نباتات کا انتہائی درجہ حیوانیت کے ابتدائی درجہ سے متصل ہے اور حیوانیت کا انتہائی درجہ انسانیت کے ابتدائی درجہ سے ملا ہوا ہے۔‘‘ کھجور حیوانی نبات ہے ان النخل نبات حیوانی لان بعض احوالہ مبتاین لا حوال النبات وان کان جسمہ نباتا بیان ذلک ان القوۃ انصاعلۃ منفضلۃ من القوۃ المنفعلۃ والدلیل علی ذلک ان اشخاص الفحولہ منہ مبانیۃ لاشخاص اکاناث ولا شخاص فحولتہ لقاح فی اناتھا کمایکون ذلک للحیوان فاما سائر النبات فان القوۃ القاعلۃ منہ لبیست بمنضصلۃ من القوۃ المنضعلۃ بالشخص‘ فبھذا لا عتبار مبین ان النخل نباتی بالجسم حیوانی بالنفس اذکانت افعالد افعال النفس الحیوانیۃ و فی البنات نوح آخر فعلۃ ایضاً فعل النفس الحیوانیۃ لکن جسمہ جسم النبات وھو الکثوت وذالک ان ھذا النوع من النبات لیس لہ اصل ثابت فی الارض کمایکون سائر النبات وکالہ اوراق کا دو اقہابل انھا تلتف علی اکا شجاروالزروع الشوع نتمتص من رطوبتھا وتغتذی بھا کما یغتذی الدولذی بدب علی ورق الاشجار و قضبیان النبات و یقصر ضھانیا کلھا و یغتذی بھا ’’کھجور حیوانی نبات ہے اس لیے کہ اس کے بعض خواص نباتات کے خواص بتائے ہیں گو اس کا جسم نباتی ہے ۔ اس کا ثبوت ی ہہے کہ کھجور میں قوت فاعلہ قوت منفعلہ سے ممتاز اور جدا ہے چنانچہ نر کھجور اور مادہ کھجور کے درخت ایک دوسرے سے ممتاز ہوتے ہیں۔ نر کھجور ‘ مادہ کھجور کو حاملہ کر تی ہے۔ جیسا کہ حیوانات کرتے ہیں ورنہ اور تمام نباتات میں قوت فاعلہ اور قوت منفعلہ الگ الگ نہیں ہوتیں۔ اس دلیل سے ثابت ہوا کہ کھجور جسم کے لحاظ سے نبات ہے اور نفس کے اعتبار سے حیوان ہے کیونکہ اس کے افعال حیوانات کے افعال ہیں نباتات میں ایک اور قسم ہے جس کا فعل بھی نفس حیوانی کا فعل ہے لیکن اس کا جسم نباتی ہے وہ امر بیل ہے۔ اس کی جڑ نہیں ہوتی ۔ جس طرح اور نباتات کی جڑیں ہوتی ہیں اورنہ اس پتے ہوتے ہیں بلکہ درختوں پر کھیتوں پر کانٹوں پر لپٹتی ہے اور ان کی رطوبت کو چوستی ہے اور اس سے غذ ا حاصل کرتی ہے جس طرح وہ کیڑے جو درختوں کے پتوں اور نباتات کی شاخوں پر رہتے ہیں کتر کر کھاتے ہی اور اس سے غذا حاصل کرتے ہیں۔ ‘‘ نباتات میں بھی قوت لامسہ ہوتی ہے النبات لہ قوۃ اللمس فقط والدلیل علی ذلک ارسالہ یعروقہ نحو المواضع الندیۃ وامتناعہ من ارسالہ نحو الضحور دالیبس ایضافا نہ متی اتفق منبلتہ فی مضیق مال وعدل عنہ طالبا اللفستحہ و السعۃ فان کان فوتہ سقف یمنعہ من الذھاب علو اوکان لہ ثقت من جانب مال الی نحو قلک الناجیۃ حتی اذا طال طلع من ھناک فھذہ الافعال تدل علی ان لہ حاد تمیزاً لقدر الاحیۃ ’’نباتات میں صرف قوت لامسہ ہوتی ہے اس کی دلیل یہ ہے کہ نباتات اپنے ریشوں کو مرطوب زمین کی طرف جانے دیتے ہیں اور پتھریلی اور خشک زمین کی طرف جانے سے روکتے ہیں جب کبھی ایسا اتفاق ہوتا ہے کہ کوئی گھانس کسی تنگ جگہ میں اگتی ہے تو ہٹ کر دوسری طرف کا رخ کرتی ہے اوروسیع جگہ تلاش کرتی ہے اگر اس کے اوپر چھت ہو جر کی وجہ سے وہ اوپر نہٰں چڑھ سکتی اور چھت میں کسی طرح سوراخ ہے تو وہ اسی سوراخ کی طرف مائل ہو جاتی ہے یہاں تک کہ جب خوب بڑھ جاتی ہے تو اسی سوراخ میں سے ہو کر اوپر نکل آتی ہے ان باتوں سے ثابت ہوتا ہے کہ نبات کو بھی بقدر ضرورت حس اور تمیز ہے‘‘۔ سب سے کم درجہ کا حیوان قاران الحیوان وانقصہ ہو الذی لیس لہ الا حاستہ واحدۃ فقط ولیس لھا سمع ولا بصرو ولاشم وکازوق الا الحس واللمس فقط وھکذر اکثر الدیدان اللننی تتکون فی الطین وفی قصر الجبار ’’سب سے کم درجہ کا حیوان وہ ہے جس کے صرف ایک حاسہ ہوتا ہے ا س کے کان آنکھ‘ شامہ ‘ ضائقہ کچھ نہیں ہوتا‘ صرف چھونے کی حس ہوتی ہے چنانچہ اکثر کیڑے جو مٹی اور دریائوں کی تہہ میں پیدا ہوتے ہیں اسی قسم کے ہوتے ہیں‘‘۔ اس درجہ کا حیوان حیوان بھی ہے اورنبات بھی فھذا النوع حیوان نباتی لانہ نیلبت جسمہ کماینبت بعض النبات و یقوم علی ساقہ قائما وھو من اجل انہ یتحرک جسم حرکتہ اختیار یۃ حیوان ومن اجل انہ لیست لہ الا ماسہ واحد ۃ فھو انقص الحیوان رتبۃ فی الحیوانیۃ رتلک الحاسۃ ایضا فقد یشارک بھا النبات ’’’اس قسم کا حیوان نباتی حیوان ہے کیونکہ اس کا جسم بھی نبات کی طرح نمو کرتاہے اور اپنے بل پر کھڑا ہوتا ہے ‘ یہ حیوان اس اعتبا ر سے کہ اختیاری حرکت کرتا ہے جانور ہے اور اس لحاظ سے صرف ایک حاسہ رکھتا ہے‘ سب سے کم درجہ کا حیوان ہے اورنباتات ہے کیونکہ بعض نباتات میں بھی یہ حاسہ ہوتا ہے۔‘‘ علامہ ابن مسکویہ المتوفی سنہ ۴۲۱ھ نے بھی الفوز الاصغر میں اس مسئلہ پر تفصیل سے بحث کی ہے لیکن ابن مسکویہ کائنات کا یہ سلسلہ نباتات سے شروع کرتا ہے کم درجہ کے نباتات فنقول ان مرتبۃ النبان فی قبول ھذا اکاثر الشریف ھوالمانجم من الارض لم یخج الی بذرو لم تیحفظ نوعہ بیذر کانواع الحشائش ذوالک انہ فی افق الجہادو الفرق بینھما ھوا ھذا المقدر الیسیر من الحرکۃ الصغیصہ فی قبول اثر لنفس ولا یزال ھذا الاش یقوی فی نبات آخریلبہ فی الشرف الی ان یصیولہ من القوۃ فی الحرکۃالی ان یتفرع و نسبط و نیشعب و عیحظ نوعہ بابدز و یظھر فیہ من اثر الحکمۃ اکثر مما یظھر فی الاول وکایزال ھذا المعنی یزداد فی شئی لحمہ شئی ظہور الی ان یصیرالی الشجر الذی لہ ساق و ددق و ثمر یحفظ بہ نوعہ وھذا ھوا الواسط من المنازل الثلاثۃ الا ان اول ھذا المرتتہ متصل لھا قبلہ فی افقہ وھو ماکان من الثمر علی الجبال و فی البرادی المتقطعۃ وفی الغیاض وجزائر الجبار لا تحتاج الی غرس بل بینت الذاتہ وان کان یحفظ نوعہ بالیذ روھو ثقیل الحرکۃ بطی النشرء ثم یندرج من عندہ المرتبۃ و یقعی ہذ ا الاثر فیۃ و یظھر ژرمہ علی مادرنہ حتی نیتھی الی الشجار الکریمہ التی تحتاج الیٰ غایتہ من استطابۃ التربرہ واستعذاب الماء ولاھواء لا عتدال منراجھا والی صیانتہ ثمر تھا التی تحفظ بھانو عھا کالزیتون والرمان والسفرجل والتفاح والتین واشباھا ویندرج ایضا فی قبول ھذا الاثر من ظھور الشرف الی اننیھتی الی ان نیھتی الی ریتۃ الکرم والخنل فاذا انتھی الی ذالک صاد فی الافق الا علیٰ من النبات واریحیث ان زار قبولہ لھذا اکاثرلم یبتولہ صورۃ النبات ونیل حسینیذ صورۃ الحیوان و ذالک ان انخل تدبلغ من شرنہ علی البنات الی ان حصل فیہ نسبۃ قویتہ من الحیوان و مشابھۃ کثیرۃ منہ اولھا ان الذکر منھا متمیز من الا نثی وانہ یحتاج الی التلفتح لیتم حملہ وکالسفاد نی الحیوان‘ والہ مع ذلک مبدئا آخر غیر عروقہ واصلہ اعنی الجمادالذی ھوکا لدماغ من الحیوان فان عدمنت لدافتح تلف… و تداحصیت ینخل کثرۃ تشابہ للحیوان لیس ھذا موضع احصائھا و ھذہ الرتبۃ الاخرۃ من النبات وان کانت فی شرفہ تانھا اول افق الحیوان وھوارون مرتبتہ واخسھا نباتات کا درجہ احساس کے قبول کرنے میںاس طرح شروع ہوتا ہے کہ سب سے ادنی درجہ کا نبات جب زمین سے اگتاہے تو وہ تخم کا محتاج نہیں ہوتا اور نہ وہ تخم کے ذریعہ سے اپنی نوع کی حفاظت کرتا ہے ‘ جیسے گھاس اور یہ جماد کا آخری درجہ ہے اس قسم کے نباتات اور جمادات میں صرف تھوڑی سی حرکت کا فرق ہے اور یہ قوت ان دوسرے بناتات میں جو اس کے اوپر ہیں‘ بڑھنی شروع ہو جاتی ہے یہاں تک کہ قوت حرکت اتنی ہو جاتی ہے کہ اس کی شاخیں ہوتی ہیں پھیلتا ہے تخم کے ذریعہ سے اپنی نسل کی حفاظت کرتا ہے اور حکمت کے آثار اس میں اس سے کم درجہ کے نباتات سے زیادہ ظاہر ہوتے ہیں اور یہ قوت رفتہ رفتہ بڑھتی جاتی ہے یہاں تک کہ وہ درخت پیدا ہوتے ہیں جن کے تنے پتیاں پھل ہوتے ہیں جن سے وہ اپنی نوع کی حفاظت کرتے ہیں‘ یہ درجہ ‘ متوسط منزل ہے لیکن اس کا ابتدائی درجہ اپنے اوپر کے رجہ سے ملا ہوا ہے اس سے اوپر کے نباتات وہیں جو پہاڑ جنگل جھاڑی‘ جزائر میں ہوتے ہٰں جن کو بالقصد لگانے کی ضرورت نہٰںہو تی بلکہ خود بخود اگتے ہیں اگرچہ وہ تخم کی وساطت سے اپنی نسل محفوظ رکھتے ہیں اوراس قسم کے درجنوں میں دیر سے نمو اور بہت کم حرکت ہوتی ہے ۔ پھر نباتات اس درجہ سے آگے قدم رکھتا ہے اورحیات کے آثات اس میں قوی ہوتے جاتے ہیں اور اپنے سے کم درجہ کے حیوانات پر امتیاز رخاص رکھتے ہیں یہاں تک کہ وہ درخت پیدا ہوتے ہیں جن کی نشوونما کے لیے اعتدال مزاج کی وجہ سے عمدہ زمین خوش گوار آب و ہوا کی ضرورت ہوتی ہے ۔ اس بات کے محتاج ہوتے ہیں کہ ان کے پھل محفوظ کیے جائیں جن پر ان کی بقائے نوع موقوف ہے جیسے زیتون انار بہی سیب انجیر وگیرہ پھر نبات ترقی کر کے انگور ‘ کھجور تک پہنچتا ہے ۔ یہاں پہنچ کر نباتات اپنی انتہائی منزل تک پہنچ جاتاہے کہ اگر اس میں ذرا اور قوت پیدا ہو جائے تو نباتات کی سرحدسے آگے بڑھ کر حیوانات میں داخل ہو جائے اوریہ اس لیے کہ کھجور کی تمام نباتات سے اتنا ممتاز ہو گیا ہے کہ اس کو حیوانات کے ساتھ بہت مشابہت ہو جاتی ہے اول یہ کہ نر کھجور مادہ کھجور سے ممتاز ہوتاہے اور حیوانات کی طرح مادہ کونر سے حاملہ ہونے کی ضرورت ہوتی ہے اور کھجوروں میں جڑ اور عروق کے وا ایک اور چیز بھی ہوتی ہے جس پر اس کی حیات موقوف ہوتی ہے ۔ یعنی کہا جاجو انسان اور حیوانات کے دماغ میں قائم مقام ہوتی ہے اگر کھجور میں کہا جاا کو کوئی صدمہ پہنچے تو کھجور ہی خشک ہو جاتی ہے اورمیں نے ھجور اور حیوانات میں بہت سی مشابہتیں دریافت کی ہیں جن کی تفصیل کا یہ موقع نہیں ہے یہ نباتات کی ترقی کا سب سے آخری زینہ ہے اگرچہ نباتات کا یہ اعلیٰ درجہ ہے مگر یہ حیوانیت کا دیباچہ ہے اور حیوانیت اس سے بالا تر ہے۔‘‘ سب سے کم درجہ کا حیوان وذالک اول ما یرقی النبات من منزلۃ الاخیرۃ دھوان ینقلع من الارض ولا یحتاج الی اثبات الحروق فیھا یمایحصل لہ من التصرف بالحرکۃ الاختیاریۃ وھذہ الرتبۃ الاولیٰ من الٰھوانیۃ ضعیفۃ لضعف اثر الحس ینھا وانما تظھر بحجۃ واحدۃ عنی حساو ا حدو ھوا الحس الطعام الذی یفال لہ حس اللمس وذالک کالصدف وانواع الحلزون الذی یوجد فی شاطی النھار ان خز یا یطائے نرموضعہ و تمسک بہ وان کان قد انقلع من الارض وصصادت لہ حیاۃ مالانہ فی الافق القریب من النبات وفیہ مناسبتہ منہ ثم ینتقل عن ھذہ الرتبہ الی ان ینتقل و یتحرن ویقوی فیہ قوۃ الحس کالوودوکثیر منالفراش والدبیب ثم یرتقی ان ہذہ المرتبۃ ایضاً ویقوی اثر النفس الی ان یصیرمنہ الحیوان الذی لا اربعۃ حواس کالخلد و اما اشبہہ ثم یرتقی من ذالک انی ان یصیرلہ من حس البصر ضعیف کالنمل والنحل ثم یقوی ذلک الیٰ ان بصیرمنہ الحیوان ان الکامل فی الحواس الخمس وھی مع ذلک متفاوتہ المراتب فمنھا الیلیدۃ الجافیہ الحواس التی تستجیب للتادیب و تقتل الامر والنھی و تستعد بقول اثر النطق و التمبز کالفرس ن البھائم والبازی من الطیر ثم یقرب من آخر مرتبۃ البھائم ویصیر فی افقدا لا علیٰ و فی مرتبہ الانسان وھذا المرتبۃ وان کانت شریفۃ نھی خسیسۃ دنیۃ بعیدۃ من مرتبۃ الانسان وھی مراتب القرودو اشباھسا من الحیوان التی تادبت الانسان فی خلقۃ الانسانیۃ ولیس بینھا و بینہ الا الیسیر الذی ان تجادزہ مادانسانا ’’نباتات جو اپن منزل سے آگے برھتا ہے تو اس کا پہلا زینہ یہ ہے کہ زمین سے الگ ہو جائے اور اس کو اس کی ضرورت نہ رہے کہ اس کی جڑیں زمیں میں گڑی رہیں تاکہ وہ اختیاری حرکت کر سکے‘ اور حیوانیت کا یہ ابتدائی درجیہ ہے جو قوت حاسہ کی کمی کی وجہ سے ابھی کمزور ہے‘ اور ابھی صرف اس میں ایک ہی قمس کا حاسہ پیدا ہوا ہے یعنی چھوتنے کی قوت جیسے صدف اور کیڑے جو لب دریا پیدا ہوتے ہیں اگر ان کو آہستہ سے پکڑو تو یہ زمین سے بالکل چمٹ جاتے ہیں ۔ گو یہ زمین سے الگ ہیں اس لیے نباتات سے یہ بالکل مشابہ ہیں کہ ابھی تک یہ زمین سے بالکل بے نیاز نہیں ہیں۔ پھر حیوان آگے بڑھتا ہے یہاں تک کہ اس میں حرکت پیدا ہو جاتی ہے اور وہ چلنے پھرنے لگتاہے قوت احساس زیادہ ہوتی ہے جیسے کیڑے پتنگے اور رینگنے والے کیڑے یا پھر ترقی کرتا ہے اور اس میں فیضان روح زیادہ ہوتا ہے یہاں تک کہ وہ ایسا حیوان ہو جاتا ہے جس میں چار قسم کے حاسے ہوتے ہیں جیسے چھچھوندر وغیرہ پھر ایک زینہ اور قدم رکھتا ہے اور اس میں تھوڑی سی بصارت پیدا ہوتی ہے جیسے چیونٹی اور شہد کی مکھیاں پھر آگے بڑھتا ہے یہاں تک کہ حیوان الحواس پیدا ہوتے ہیں اورگو ان میں جو حواس خمسہ موجود رہتے ہیں لیکن بااعتبار سمجھ کے اوران کے مختلف طبقات ہوتے ہیں بعض بے سمجھ ناقص الحواس ہوتے ہیں بعض سمجھ دار لطیف الحواس ہوتے ہیں جن میں تعلیم کی صلاحیت ہوتی ہے امر و نہی کو سمجھتے ہیں عقل انسانی کے قبول کرنے کی ان میں صلاحیت ہوتی ہے جیسے چوپایوں میں گھوڑا اور پرندوں میں باز پھر حیوان ترقی کر کے حیوانیت کے انتہائی درجہ پر پہنچ جاتا ہے اورانسان کی سرحد میں داخل ہونا چاہتا ہے گو یہ درجہ باعتبار حیوانیت کے اعلیٰ ہے مگر بہ نسبت انسانیت کے بہت نیچے ہے اور یہ درجہ بندر وغیرہ کا ہے جو انسان سے بالکل مشابہ ہیں اور ان میں اور انسان میں اورانسان میں تھوڑا ہی سا فرق ہے جس کو بندر اگر کر لیں تو بالکل انسان ہو جائیں۔ انسان کے مدارج فاذ ابلغہ انتصبت تامتہ و یظھرینہ من قوۃ تمیز الشی اللسیر فضل تمیتر وا ھتداء الیٰ العمارف و یقوی فیہ اثر النفس و ھذاء المرتبۃ القربیۃ من الانسان ھی فی افق البھیمۃ و ھی فی اقصی المعمورۃ من الارض وفی اطرافھا…کالزنجم و غیرھم فان ھولاء لیس بینھم و بین المرتبۃ آلاخرۃ من لبھائم التی ذکرتھا‘ کثیر فرق ولیس توثر عھم حکمتہ ولا یقسلونھا ایضا من الامم المجادرۃ ثم لایزال اثر النطق یزید الی ان بصیر فی وسط المعمورۃ فی الاقلیم الثالث دالرابع والخامس تحینذ یکمل ھذا الاثر و یعیر یحث تواہ من الذکاء والفھم والیتقط للمودو ایک نے الصناعات واستخراج غوامض العلوم و اتصاع فی المعارف ۱ ’’جب حیوا ن اس درجہ پر پہنچتا ہے اس کا قد سیدھا ہو جاتا ہے‘ اس میں تھوڑی سی تمیز کی قوت آ جاتی ہے مگر ابھی ان میں علوم کی استعداد نہیں ہوتی اورنہ ان کی روحانی قوت کچھ زیادہ زور آور ہوتی ہے اور یہ انسان کامل کے قریب کا درجہ حیوانیت کی انتہا ہے یہ حیوانی انسان زمین کے انتہاء آباد حصہ میں ادھر ادھر پائے جاتے ہیں جیسے حبشی اور وحشی قومیں کیونکہ ان میں اور آخری حیوانوں مٰں کچھ زیادہ فرق نہیں ہوتا‘ نہ تو ان سے کوئی حکمت اخذ کی جاتی ہے اور نہ یہ اپنی ہمسایہ قوموں سے اخذ کرتے ہیں اس طرح عقل انسان درجہ بدرجہ بڑھتی جاتی ہے یہاں تک کہ زمین کی وسط آبادی میں یعنی تیسری چوتھی پانچویں اقلیم میں عقل انسانی کمال کو پہنچ جاتی ہے اور ان میں ذہانت سمجھ بیدار مغزی صنائع میں درک ہوتا ہے ۔ علوم کی باریکیاں حل کرتے ہیں فنون کو وسعت دیتے ہیں۔‘‘ احمد نظامی عروضی سمرقندی جو چھٹی صدی کا ایک بلند پایہ حکیم ہے ‘ اپنی تصنیف چہار مقالہ میں اسی مسئلہ کی اس طرح تشریح کرتا ہے۔ چوں آثا ر ایں کوکب در قسط ایں عناصر تاثیر کرد …ازمیان خاک و آب آتش و باد ایں جمادات پدیر آمد… اماں چوں روزگار برآمد داوداز املاک متواتر بود مزاج عالم سفلی نضجے یافت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱۔ الفوز الاکبر لا بن مسکویہ المتوفی سن ۴۲۱ ص ۸۷ تا ۹۱ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ و نوبت انفعال پال فرچہ رسید کہ درمیان آب و ہوا بود ظہور عالم بنات بود… تاور عالم جماد اول چیزیکہ… ترقی ہمی کر دو شریف ترہمی شدبمر جاں رسید یعنی بسد کہ آخریں عالم جماد آنست تا پیوستہ بود ‘ بادلیں چیزے ازتبات دادل عالم خاربود‘ وآخر خرما کہ تشبیہ کروہ اند بعالم حیوان … وآں از دشمن بگریزد کہ تاک از عشقیہ بگریزد‘ و عشقیہ گیا ہیست کہ چوں برتاک ہیچ چیز شریف تراز نخل و تاک نبود بجہت آنکہ بعال فوق نسبت کردند و قدم از دائرہ عالم خود بیروں تہادند بجانب اشرف ترقی کردند‘ اماچوں ایں عالم کمال یافت و اثر آیا از عالم علوی درامہات سفلی تاثیر کردہ مزاج لطیف تر گرفت و نوبت بفرچہ ہوا و آتش افتاد ‘ فرزند لطیف ترآمد ظہور عالم حیوان بودوآں قوتہا کہ بنات داشت باخود آور دود و قوت آنر افزودیکے کہ … قوت مدر کہ …کہ حیوانی چیز ہابددوریا بد دوم قوت جینیدن بارادہ خود…‘‘ ہر حیوانے ایں قوت مدرکہ و محرکہ را داردواں وہ کہ ایشاں منشعب شوند حیوان کامل خوانند و ہرچہ کم بود ناقص چنانکہ مارگوش ندارد مور چشم ندارد‘ … داما ہیچ ناقص تراز خراطین نبود آں کریمست کہ در گل جوی پیدا می شود‘ اول حیوان اوست و آخر نسناس و آں حیوانیست در بیابان ترکستان منتصب القامتہ الفی القدو عریض داد بعد از انسان از حیوان شریف تراست… اماں چوں کردر طواں و ہور ‘ درزماں لطف مزاج زیادہ شود نوبت بفرجہ رسید کہ میاں عناصر وا فلاکست انسان درو جود آمد و ہر چہ در عالم جمادونبات و حیوان بود باخویشتن بیادرد و قبولات معقولات برآں زیادت کردو معقل برہمہ بادشاہ باشد‘ ’’ستاروں کی تاثیرات نے جب عالم عنصری میں اثر کیا… تو مٹی اور پانی سے آگ اور ہوا کی مدد سے جمادات پیدا ہوئے…جب ان پر ایک مدت گزر گئی اور فلک کے دور ے پیہم جاری تھے اور عالم عنصری میں کسی قدر استعداد پیدا ہوئی اور اثر کی نوبت میں فضا تک پہنچی جو درمیان پانی اورہوا کے ہے تو عالم نباتات کا ظہور ہوا… یہاں تک کہ عالم جماد میں سب سے پہلے جس چیز نے ترقی کی اور سب سے اعلیٰ مرتبے پر پہنچی وہ مرجان ہوا‘ یعنی عالم جماد کی آخری نوع بنا جو عالم بنات کی اول نوع سے ملا ہوا تھا اورنباتتات کا ابتدائی درجہ کانٹا ہے اورانتہائی کھجور ہ جس کو لوگوں نے عالم حیوان سے تشبیہ دی ہے … کھجور اپنے دشمن سے بھاگتاہے جس طرح عشق پیچاں سے انگور کا درخت بھاگتا ہے۔ عشق پیچاں ایک قسم کی گھاس ہے جو انگور کے درخت پر لپٹنے سے درخت کو خشک کر دیتا ہے تو عالم نبات میں کھجور اور انگور سے زیادہ کوئی ترقی یافتہ چیز نہیں ہے اس لیے کہ یہ دونوں عالم حیوان سے مشابہ ہیں اور اورنبات کے دائرہ میں ان کا قدم آگے ہے اور انہوں نے درجہ اعلیٰ کی طرف ترقی کی ہے لیکن جب عالم عنصری کی استعداد کامل ہو گئی تو گردش فلکی اور کواکب نے عالم عنصری پر اثر کیاتو عناصر کا مزاج زیادہ لطیف ہو گیا اوراس فضا تک نوبت پہنچی جو ہوا اور آتش کے درمیان ہے تو عالم حیوان پیدا ہوا اور نباتات میں جو کچھ قوتیں تھیں ان کو بھی اپنے ساتھ لایا اور دو قوتوں کا اور بھی اضافہ کیا ایک قوت مدرکہ جس کے ذریعہ سے انسان علم حاصل کرتا ہے دوسری قوت محرکہ جس کی وجہ سے حرکت ارادی کرتا ہے جس حیوان میں کہ قوت مدرکہ اور قوت محرکہ اور وہ دس حاسے پائے جاتے ہیں جو اسی قوت مدرکہ کی شاخیں ہیں‘ حواس ظاہرہ خمسہ جو اس باطنہ خمسہ) تو وہ حیوان حیوان کامل ہوتا ہے اور جس قدر حاسے کم ہوں گے اتنا ہی کم درجہ کا وہ ناقص حیوان ہون گا جیسے سانپ کے کان نہیں ہوتے‘ چیونٹیوں کی آنکھیں نہیں ہوتیں لیکن کیچوے سے زیادہ کوئی ناقص حیوان نہیں ہوتا کیچوا ایک قسم کا کیڑا ہے جو دریا کی مٹی میں پیداہوتا ہے۔ حیوانیت کا ابتدائی نمونہ کیچوا ہے ۔ اور انتہائی بن مانس بن مانس ترکستان کے صحرا مٰں ایک قسم کا جانور ہوتاہے جس کا قد سیدھا ناخن چوڑا ہوت اہے انسان سے اس کو بہت الفت ہوتی ہے بن مانس انسان کے بعد تمام حیوانات سے ترقی یافتہ ہے۔ جب اس عالم پر ایک مدید زمانہ گزر گیا اورعناصر کے مزاج بہت زیادہ لطیف ہو گئے تو اس فضا کو نوبت پہنچی کہ جو عناصر اور افلاک کے درمیان ہے تو انسان کا وجود ہوا جو جمادات نباتات‘ حیوانات کے تمام قویٰ کا جامع ہوا اور معقولات کے سمجھنے کی قوت مزید برآں پیدا کی اور عقل کے ذریعہ سے اس نے سب پر بادشاہت کی ‘‘۔ (الندوہ ج ۴ نمبر ۵‘ جمادی الاول سنہ ۱۳۱۵ھ مطابق جون سنہ ۱۹۰۷ء ) ٭٭٭ ڈاکٹر برٹن اور تاریخ فلسفہ اسلام ڈاکٹر برٹن جرمنی کا مشہور فاضل ہے وہ کثرت سے مختلف زبانیں جانتاہے‘ اس نے تین یونیورسٹیوں سے فلسفہ کی ڈگری حاصل کی ہے اور اب بن کی یونیورسٹی میں مشرقی زبانوں اور اسلامی فلسفہ کی تعلیم کا پروفیسر ہے چار برس سے اس نے اپنی زندگی صرف عربی فلسفہ کی تحقیقات پر وقت کر دی ہے۔ یورپ میں سینکڑوں فضلاء میں جو اسلامی علوم کی تحقیقات میں مصروف ہیں‘ لیکن ڈاکٹر برٹن کا کما ل اس قدرمسلم ہو گیا ہے کہ اس خاص مضمون کے متعلق وہ مرجع عام بن گیا ہے ۔ تمام اطراف یورپ سے اس کے پاس اسلامی فلسفہ کے متعلق استفسارات آتے ہیں اور وہ تسلی بخش جواب دیتا ہے۔ فلسفہ اسلام کے متعلق اس کی دو تصنیفیں جرمن زبان میں شائع ہو چکی ہیں ایک کا مابعد الطبیعیہ ہے یہ کتاب اصل میں شیخ بو علی سینا کی کتاب ما بعد الطبیعہ کا ترجمہ ہے لیکن ترجمہ کے ساتھ اس نے ایک مقدمہ لکھا ہے جس میں بتایا ہے کہ بوعلی سینا نے یونان اور بالخصوص ارسطو کے فلسفہ پر کیا اضافہ کیا؟ مسلمانوں میں بو علی سینا کی تصنیفات اور فلسفہ کو جو رواج ہوا اور جس عظمت سے ا س کا نام لیا جاتا ہے کسی اور فلسفی کا نام نہیں لیا گیا ‘ لیکن اگر یہ جاننا چاہیں کہ اس نے یونان کے فلسفہ پر کیا اضافہ کیا تو اس کا کوئی سامان نہیں‘ یہاں تک کہ عام رائے یہ قائم ہو گئی کہ بوعلی سیناصرف ارسطو کا شارع تھا‘ ایک یورپین مورخ نے اسی بنا پر لکھ دیا کہ مسلمان کسی فلسفہ کے بانی نہیں وہ ارسطو کی گاڑی کھینچنے والے قلی ہیں۔ ڈاکٹر برٹن چونکہ یونانی اور عربی فلسفہ کا ماہر ہے ‘ اس لیے اس کو اس بحث کے فیصلہ کرنے کا پورا حق تھا‘ اس نے تفصیل کے ساتھ کتاب کے دیباچہ میں بتایا کہ بو علی سینا نے ارسطو پر کس قدر اضافہ کیا اسی کے ساتھ اس نے یہ بھی ثابت کیا کہ عہد وسطیٰ میںتمام یورپ میںجس قدر فلسفی تھے بو علی سینا ان سب سے فلسفہ میں ممتاز تھا ڈاکٹر موصوف کی دوسری کتاب فلسفہ اسلام کی تاریخ پر ہے ۔ اس نے اس کتاب کا نام درجات الفلسفہ فی الاسلام رکھا ہے۔ اور فلسفہ اسلام کے چار دور قائم کیے ہیں۔ ۱۔ متکلمین ۲۔ فلاسفہ ۳۔ طبیعیین ۴۔ صوفیہ دور اول سنہ ۸۰۰ء سے سنہ ۹۰۰ ء تک یہ ہارون اور مامون کا دور ہے۔ اس دور میں ارسطو‘ فلاطون سکندر فردوسی ثامسطیوس کی کتابوں کا ترجمہ ہوا۔ اس دور میں فلاسفہ اسلام ‘ زیادہ تر یونان کا فلسفہ تھا جو اس بات کو مانتے تھے کہ خدا کا کوئی ارادہ و اختیار نہیں ہے بلکہ اس کے تمام افعال اس طرح صادر ہوتے ہیں جس طرح آفتاب سے روشنی۔ دور دوم ۹۰۰ء سے ۱۰۵۰ء تک اس دور میں متکلمین نے فلسفہ یونان پر نکتہ چینی شروع کی اور اس مذہب کو باطل کیا کہ خدا سے مجبوراً افعال صادر ہوتے ہیں۔ دور سوم ۱۰۵۰ء سے ۱۸۰۰ء تک اس دور میں ارموی‘ ابہری‘ کاتبی ‘ تفتازانی عضالدین ‘ ایجی دوانی پیدا ہوئے۔ دور چہارم موجودہ دور جو دراصل یورپ کے فلسفہ کا دور ہے جس کی تقلید مصر وغیرہ میں جاری ہے۔ دور سوم کی نسبت اب تک لوگوں کا خیال تھا کہ اس عہد کی تصنیفات مستقل تصنیفات نہیں بلکہ قدیم کتابوں کی شرحیں حاشیے ہیں لیکن ڈاکٹر برٹن کا دعویٰ ہے کہ فلسفہ کی تاریخ میں یہی سب سے مہتم بالشان دور ہے ڈاکٹر صاحب نے نہایت توضیح کے ساتھ ان فلسفیانہ مباحث کا ذکر کیا ہے جس میں اس دور کے علماء نے یونانیوں کی غلطیاں نکالیں۔ اور بہت سے جدید مسئلے ایجاد کیے۔ ڈاکٹر صاحب کی یہ کتاب جرمن زبان میں ہے۔ محمد بدر جوبن کی یونیورسٹی میں تعلیم پا رہے ہیں ڈاکٹر موصوف کے شاگر د ہیں‘ انہوں نے ڈاکٹر صاحب کی تصنیفات کے متعلق ایک آرٹیکل الموید مورخہ ۲۳ ربیع الثانی سنہ ۱۳۲۷ہجری میںلکھا ہے ’’ہمارا یہ مضمون اسی آرٹیکل سے ماخوذ ہے لیکن افسوس اور سخت افسوس ہے کہ بدر صاحب نے اصل جو بات تھی وہی چھوڑ دی ‘ ڈاکتر صاحب موصوف نے جہاں دور سوم کی تحقیقات اور ایجادات پر بحث کی ہے اس کی نسبت وہ لکھت ہیں: وقد بحث الاکتود فی ھذا الموضوع بحثا علمیاً فلسفیالا یسع مقالی فی ھذا البحث فیہ ولا یانس بہ الفریق الاعظم من القراء ’’ڈاکٹر صاحب نے اس موضوع پر فلسفیانہ علمی بحث کی ہے لیکن ہمارے اس آرٹیکل میں اس کی گنجائش نہیں اور ہمارے ناظرین میں سے اکثروں کو اس سے کچھ دلچسپی نہ ہو گی‘‘۔ مصر میں لوگوں کو اس مضمون سے دلچسپی نہ ہو تو وہ لیکن ہندوستان میں خصوصاً ندوہ کے ہم مذاق لوگوں کی نسبت تو ہم دعوی ٰ کر سکتے ہٰں کہ وہ صرف اسی بحث کو دلچسپی کی نظر سے دیکھنا چاہتے ہیں۔ باقی باتیں تو اوربھی بار ہا سنی اور دیکھی ہیں۔ جس میں نامہ بندھا تھا دلبر کا وہی پر گر پڑا کبوتر کا (الندوہ نمبر ۵ جلد ۶) جمادی الاول سنہ ۱۳۲۷ھ مطابق ماہ جون ۱۹۰۹ء ) ٭٭٭ فلسفہ اور فارسی شاعری سحابی نجفی دو برس سے مسلمانوں کے شاعرانہ مذاق کا جو انداز ہے اوراس کی وجہ سے آج جس قسم کے اشعار زبانوں پر چڑھے ہوئے ہیں یادل و دماغ میں جاگزیں ہیں اس نے یہ عام خیال پید اکر دیا ہے کہ فارسی شاعری کے خزانہ یں زلف و خال و خط‘ جھوٹی خوشامد‘ مداحی‘ مبالغہ اور فرض خیال بندی کے سوا اور کچھ نہیں فردوسی کا رزمیہ مولانا روم کا تصوف سعدی کی پندوموعظت استثنائی چیزیں ہیں‘ جس طرح کنکر پتھر کے ڈھیروں میں کہیں کہیں ایک آدھ چمکتے ہوئے جوہر بھی نظر آ جاتے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ فارسی شاعری ترقی کی اس حد تک پہنچ چکی ہے جس کی نظیر سے ایشیا کی تمام زبانیں خالی ہیں‘ عرب نے بے شبہ شاعری کو معراج کمال تک پہنچایا ہے لیکن شاعری کی ایک اعلیٰ صنف یعنی فلسفہ کا مطلق پتہ نہیں‘ بخلاف اس کے فارسی میں اس کثرت سے فلسفیانہ خیالات ادا کیے گئے ہیں کہ اگر ان کو ترتیب سے یکجا کیا جائے تو فلسفہ کی ایک مستقل کتاب بن جائے فلسفیانہ شاعری کے مشہور ارکان خیام اور ناصر خسرو ہیں لیکن یہ عجیب بات ہے کہ جو تاجدار اس اقلیم کا شاہنشاہ لے شہرت عام کے ممبر پر اس کے نام کا خطبہ نہیں پڑھا جاتا اگرچہ اہل فن اس کے مام سے اچھی طرح واقف ہیں تمام تذکروں میںاس کا ذکر مرزا صاحب نے اس کو رباعی گو یوں کا خاتم تسلیم کیا ہے ۔ رباعی گرز موز و نان ‘ مسلم شد سحابی را‘ لیکن با ایں ہمہ وہ خود اور اس کا کلام شہرت کی حد تک نہ پہنچ سکا اس کے حالات بھی بہت کم معلوم ہیں تاریخ ولادت کسی نے نہیں لکھی زمانے کی تعیین کے لیے تذکرہ نویسوںنے اسی قدر کافی خیال کیا کہ اکبر اور عباس صفوی کا ہم عصر تھا مولوی غلام علی آزاد نے سر و آزاد میں لکھا ہے کہ ۱۰۱۰ھ میں وفات پائی زندگی کا کارنامہ یہ ہے کہ چالیس برس تک نجف میںگوشہ نشیں رہا اورکبھی روضہ مبارت کے احاطے سے باہر قدم نہیںرکھا ۔ مولوی غلام علی آزاد نے صبح صادق کے حواے سے نقل کیا ہے ‘ کہ ایک دفعہ کہیں جا رہے تھے راہ میں ایک نہر تھی چاہا کہ سطح آب سے گزر جائیں پائوں تہ میں جانے لگا بولے کہ یہ دنیاوی تعلق کا اثر ہے مجھ کو تو کسی چیز سے علاقہ نہیں البتہ دیوان سے دلبستگی ہے ۔ یہ کہہ کر دیوا ن کو پانی میں ڈال دیا ست ر ہزار رباعیاں تھیں ان میںسے بیس ہزار کے قریبب لوگوں نے بیاضوں میںلکھ لیں تھیں وہ رہ گئیں باقی مفقود ہیں تقی اوحدی نے لھا ہے کہ جرجان اصلی وطنہے لیکن ولادت شوستر میں ہوئی ‘ والہ داغستانی کی یہ تحقیق ہے کہ استر آباد میں پیدا ہا وار نجف میں زندگی بسر کی۔ تجرد اور گوشہ نشینی کا یہ درجہ تھا کہ نام بھی گوشہ نشین رہا عالم تجرد کے تاجدار اور بھی گزرے ہیں لیکن وہ جس قدر گمنام بننا چاہتے تھے اسی قدر اور زیادہ مشہور ہوتے تھے جس قدر چھپتے تھے اسی قدر زیادہ چمکتے تھے اسی بنا پر شاعر نے کہا ہے : درکیش ماتجرد عنقا تمام نیست درفکر نام ماندا گراز نشان گزشت یہ فخر سحابی ہی کی قسمت میں تھا کہ اس نے نہ صرف اپنے آپ کو بلکہ اپنے نام کو بھی لوگوں سے روشناس ہونے نہ دیا۔ سحابی کی شاعری کی صرف ایک صنف یعنی رباعی اختیار کی رباعیوں کی تعداد میں اختلاف ہے بعضوںنے ستر ہزار بیان کی ہے ۔ والہ داغستانی اور ہدایت قلی کو صرف چھ ہزار رباعیاں دیکھی ہیں عالمگیری امراء میں ایک شخص محمد سمیع نام تھا اس کے کتب خانہ کا ایک مجموعہ اشعار میری نطر سے گزرا۔ اس کے پہلے حصہ کی سرخی منتخب رباعیات سحابی ہے اس میں چھ ہزار سے زیادہ رباعیاں ہیں جب انتکاب اس قدرہے تو پورا کلام اس سے کچھ زیادہ ہی ہو گا اس مجموعہ کی نقل میرے کتب خانہ میں موجود ہے۔ رباعیوں کے علاوہ غزلیں بھی ہیں والہ داغستانی نے ان کے اشعار بھی نقل کیے ہیں ۔ لیکن وہ ایسے موتی نہیں کہ سحابی کے تاج کمال پر ٹانکے جائیں البتہ مثنوی کا ایک شعر ہے جو اس قابل ہے کہ اس پر سے ہزار مثنویاں نثار کر دی جائیں عشق حقیقے ست مجازی مگیر ایں دم شیر ست بہ بازی مگیر رباعیوں کی ہر قسم کے صوفیانہ فلسفیانہ اور اخلاقی مضامین ہیں ہم چند رباعیاں نقل کرتے ہیں اور ان کے مضامین کی تشریح کرتے ہیں۔ (۱) عوام بلکہ خواص تک کا اعتقاد ہے کہ سلسلہ کائنات کے اکثر واقعات برگزید گان خاص کی مرضی اور خواہش کے مطابق ظہور میں آتے ہیں‘ شاعر کا خیال ہے کہ یہ نہیں بلکہ نظام عالم جس طرح چل رہا ہے اس کو کسی خواہش اور استدعا سے کوئی علاقہ نہیں جو کچھ ہوتا ہے ہوا جاتا ہے اس میں کسی کو فائدہ یا نقصان پہنچ جائے تو اتفاقی بات ہے نظام عالم کا وہ مخاطب نہیں اس کی یہ مثال ہے کہ دریا اپنے ور میں موجیں مارتا ہے‘ اس میں کہین کوئی تنکا آیا اوربہائو مں کہیں سے کہیں پہنچ گیا اب اگر تنکا یہ خیال کرے کہ دریا کا یہ زور و شور میری دشمنی کی وجہ سے تھا تو اس سے بڑھ کر کیاحماقت ہو سکتی ہے یہی حال انسان کا ہے زمانے کے حوادث خود بخود پیش آتے رہتے ہیں کسی انسان کو فائدہ یا نقصان پہنچانا ان کو پیش نظر نہیں ہوتا۔ اس خیال کو سحابی نے اس طرح ادا کیا ہے ۔ عالم نجروش لا الہ الا ہوست غافل بہ گمان کہ دشن ست او یا دوست دریا بہ وجود خویش موج دارد خس پندار کہ ایں کشاکش با اوست عا م لوگ کسی وقت تسبیح وغیرہ کے ذریعہ سے خدا کا ذکر وغیرہ کرتے ہیں لیکن خد اکا نام لینا حقیقی تسبیح نہیں ہے انسان اگر معرفت الٰہ حاصل کر ے تو جو کچھ وہ زبان سے بولے گا سب خدا کی تسبیح ہے۔ تسبیح چہ سود مرد بے عرفاں را جز آنکہ شناسد مگر آں سلطان را ہر چیز کہ گوید آدمی تسبیح است گربشنا سد بہ واجبے سبحان را (۳) انسان میں خدا نے بڑی صفتیں مثلاً غصہ‘ کینہ ‘ حسد وغیرہ پیدا کی ہیں دراصل بری نہیں بلکہ یہ چیزیں خدا نے اس لیے پیدا کی گئی ہیں کہ حفاظت اور خود اختیاری کے کا م میں آئیں انسان میں اگر غصہ اور غضب کا مادہ نہ ہوتوتو وہ دشمن کے حملے سے اپنے آپ کو نہ بچاتا اورہلاک ہو جاتا ‘ یا مثلاً اس کا کوئی عزیز یا دوست مارا جاتا تو وہ انتقام کا خواستگار نہ وہتا‘ اور برائیوں کی بھی یہی کیفیت ہے کہ وہ درحقیقت کسی ضرر کے روکنے کے لیے پیدا کی گئی ہیں۔ ہر نفس بدے نیک شود عرفاں را گربشناسی حکیم صاحب شاں را سگ اہل محلہ رابود دور بانے ہر چند کہ دزد خوش ندارد آں را (۴) تعداد الہ یعنی کئی خدا ماننا باطل ہے ہر چند کہ عالمی ست شیدا اورا جنگ ست بغیر بینی ما اورا یک خواجہ ہزار بندہ امی شاید یک بندہ نکو نیست دو مولا اورا یعنی ایک آقا کے ہزار غلام ہو سکتے ہیںلیکن ایک غلام کے کئی آقا ٹھیک نہیں۔ (۵) چونکہ حضرت صوفیہ وحدت وجود کے قائل ہیں اس لیے وہ جبر و قدر کے مسئلہ میں جبر کا پہلو لیتے ہیں یعنی جو کچھ کرتا ہے خدا ہی کرتا ہے انسا کو مطلق کسی قسم کا اختیار حاصل نہیں حکماء کہتے ہیں کہ ارادہ اور خواشہ ہمارے اختیار میں ہے اس لیے نفس کو امارہ کہتے ہیں کہ وہ برائی کا حکم دیتی ہے سحابیکہتا ہے کہ ہاں نفس ہم کو برائی کا حکم دیا‘ لیکن نفس کو اس کا حکم دینے کا حکم کس نے دیا۔ ہر قرعہ کیہ زد حکیم دربارہ ما کردیم ونہ بود غیران چارہ ما بے حکمش نیست ہر چہ سرزدار نا مامورہ اوست نفس امارہ ما (۶) صوفیہ نے وحدت وجود کی تعبیریں مختلف طور سے کی ہیں جن میں سے ایک حباب اور دریا کی تشبیہ ہے۔ آج کل یورپ کے عام فلاسفر کہتے ہیں کہ دنیا میں دو چیزیں ہیں مادہ اورقوت‘ اور مادہ کبھی قوت سے خالی نہیں ہو سکتا۔ اس کے ساتھ یہ بھی نظر آتا ہے کہ عالم کے تمام نظام میں خاص تناسب اور انتظام پایا جاتا ہے۔ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ ایک اور چیز ہے یعنی عقل جس کو انگریزی میں وژڈ م کہتے ہیں تامام عالم ایک مادہ ے اس مادہ میں ایک عام قوت ہے اس عام قوت میںایک عقل کل ہے اور یہی خدا ہے سحابی نے بھی وحدت وجود کی تعبیر اسی کے قریب قریب کی ہے ۔ اے از تو حقیقت تو بس نا پیدا باآں کہ توئی زہرچہ پیدا پیدا توحید طلب ‘ عین ہمہ اشباشو ہمچویک جان درہمہ اعضا پیدا (۷) قرآن مجید میں خدا نے کہا ہے کہ قرآن ہدایت بھی کرتا ہے اور گمراہ بھی یضل بہ کثیرا و یھدی بہ کثیرا سحابی نے اس کواس طرح ثابت کیا ہے ۔ قرآن ہادی ست گرچہ ہر ملت را اوسط خواہد زکثرت و قلت را ہر جند عسل ہست شفا اللناس امانہ ہمہ مرض نہ ہر علت را (۸) تغیرات سے عالم سے خدا کی ذات میں کوئی تغیر نہیں پیدا ہوتا ہر چند کہ ہست آمد و شد مارا برحال خود است ذات‘ آں یکتارا از خلق ملا لیے نہ دارد خالق از موج تعب نمی شود دریا را (۹) انسان لوگوں کی نسبت بھلائی یا برائی کی رائے قائم کرتا ہے اور اس بنا پرلوگوں کو بھلا برا کہتا ہے لیکن انسان کسی کے اخلاق و صفات کو اسی وقت اچھی طرح جان سکتا ہے جب خود وہی ہو جائے۔ جز عین تو نیست کہ خوانی اورا دراز نظر قبول دانی اورا تاکے گوئی کہ ایں بددآں نیک ست ہر کس کو تو نیستی چہ دانی اورا (۱۰) عالم میں جو کچھ نظر آتا ہے ی ہحقیقی نہیں حقیقی وہ چیز ہے جو نظر نہیںآتی‘ مثلا ً ہم کسی کو دیکھتے ہیں تو جو چیز نظر آتی ہے وہ صرف رنگ اور اس کا ظاہری طول و عرض ہے ۔لیکن یہ چیزیں دراصل جسم کی حقیقت نہیں ہیں۔ وہ صرف رنگ اور ا س کا ظاہری طول و عرض ہے لیکن یہ چیزیں دراصل جسم کی حقیقت نہیں ہیں یامثلاً ہوا کا بگولا جب اٹھتا ہے تو ہم صرف گرد اور خاک کو دیکھتے ہیں جو چکر کھا رہی ہے لیکن اس کے اندر جو اصلی چیز ہے یعنی ہوا اور ہم کو نظر نہیں آتی‘ جس چیز کو ہم آسمان سمجھتے ہیں وہ بعد نظر ہے آسمان نہیں اسی بنا پر حضرات صوفیہ نے دو نام رکھے ہیں نمود یعنی جو چیز نظر آتی ہے اور اصلی جنہٰں ہے بود یعنی جو حقیقی ہے اور نظر نہیں آتی۔ تو آئینہ وجود مائی عدائے عدم ما یعنی مارا مگر تواں دید بہ ما ہر چیز کہ پیداست نمود است نہ بود بعد است کبودے کہ بینی نہ سما (۹۱۱) اچھے سے اچھے کا م میں بھی اگر خود غرضی شامل ہو تو اس کی قدر نہیں ہو سکتی ہر شخص چاہتا ہے کہ لوگ اس کے حق میں دعائے خیر کریں لیکن فقیر اور سائل لوگوں کو جو دعائیں دیتے ہیں اس کی قدر نہیں کی جاتی ہے۔ تاثیر تحیت و تحیت خواں را ازبے غرضی شناس پاکی جاں را چیزے نہ بودبہ ازدعا انساں را اماز لب گدانہ خواہندآں را (۱۲) دنیا کی قدر وعزت اس وجہ سے ہے کہ لوگوں کا مذاق اور حوصلہ بلند نہیں ہے اس لیے کم رتبہ چیزوں کو بڑی چیز سمجھتے ہیں اور اس کی قدر کرتے ہیں۔ صاحب نظر عشق کہ عالی گرست آرام گہش زہرد و عالم بدر ست عز دنیاز اہل دنیا ست ہمہ قدر کہ وجوز کثرت گا ود خرست یعنی دنیا کی عزت دنیا داروں کی وجہ سے ہے اگر مویشی اور گائے بیل نہ ہوتے تو چارے اور گھاس کی کیا قدر ہوتی۔ (۱۳) خدا کے پہچاننے میں عقل بالکل بیکار ہے۔ جزو جہ اللہ دلیل وجہ اللہ نیست ایں دیدہ دری بہ نور مہر و مہ نیست درد رطہ عشق عقل جزابلہ نیست غواصاں را شمع‘ دلیل رہ نیست یعنی غواص جو دریا میں غوطہ لگاتے ہیں وہ مشعل لے کر نہیں چلتے اسی طرح عقل معرفت الٰہی کی راہ میں بے کار ہے ۔ (۱۴) انبیاء کی ضرورت کیوں ہے حق کرہمہ چیز جل رب خواں شدہ است از غائت پیدائی پنہاں شدہ است اودر سخن و زبان او تشنا سند حاجت بہ نبوت از پی آں شدہ است (۱۵) دعا کی عدم ضرورت دائم دل و جاں ازددر افردختن ست گرساختن ست از گر سوختن ست از حق کرم و لط تمنا کردن مہرومہ رار و شنی آموختن ست (۱۶) نیکی اس غرض سے کرنا کہ بہشت ہاتھ آئے گی ‘ یا برائی سے اس لیے بچنا کہ دوزخ سے نجات ملے گی ۔ کم رتبہ لوگوں کا کام ہے صاحب معرفت ‘ خون و طمع کی بنا پر کوئی کام نہیں کرتا بلکہ اسس لیے کرتا ہے کہ یہی کرنا چاہیے۔ اس لیے ایک بڑے اہل اللہ فرمایا کرتے تھے کہ کاش دوزخ اور جنت مٹا دی جاتی کہ جو شخص کی عبادت کرتا محض خلوص سے کرتا خوف اور طمع کا لگائو نہ ہوتا۔ ایں خلق کہ عقل رابہ خود نا خلف است بے خوف ورجائے نار و جنت تلف ست چوں حزکہ براہ راست آرند اورا خوف چوب ست با امید علف ست یعنی اگر دوزخ اور جنت کا ڈر اور طمع نہ ہوتی تو عوام بد اخلاق ہو کر تباہ ہو جاتے جس طرح گدھا سیدھے راستے پر جب ہی چلتا ہے جب ڈنڈے کھانے کا ڈر یا چارہ یا گھاس کی امید ہو۔ (الندوہ نمبر ۸ جلد ۴ ) شعبان شنہ ۱۳۲۵ھ مطابق ستمبر سنہ ۱۹۰۷ء ٭٭٭ حقائق اشیا ء اور معشوق حقیقی تصوف کا راستہ عام شارہ راہ سے اس قدر الگ ہے کہ نیا شخص اس عالم میں آتا ہ توہر طرف سے اس کے کان میںصدائیں آتی ہیں کہ اس نے آج تک جو کچھ دیکھا تھا سنا تھا سمجھا تھا‘ سب غلط ہے لیکن ایک مدت کا تجرہ علم اور یقین دفعتہ بدل نہیں سکتا‘ اس لیے انسان کو خواہ مخواہ شبہ پیدا ہوتا ہے کہ خود یہ عالم وہمیات کا عالم ہے ‘ جہاں بداہت مشاہدہ تجربہ کی کچھ قدر نہیں‘ حضرات صوفیہ بھی اس بات کو جانتے ہیں کہ جو کچھ وہ سمجھانا چاہتے ہیں آسانی سے سمجھ میں آنے کی بات نہٰں اس لیے تلقین و ہدایت سے پہلے ان کو عام طرح پر اس مسئلہ کی طرف لوگوں کو متوجہ کرنا پڑتا ہے کہ حقائق اشیاء کیا ہیں؟ وہ پہلے یہ تلقین کرتے ہیں کہ ہر چیز کی حقیقت کا پتہ لگائو کہ وہ اصل میں کیا ہے ۔ پھر نہایت کثرت سے مثالوں کے ذریعہ سے سمجھاتے ہیں کہ جس چیز کو تم ایک چیز کی حقیقت سمجھتے ہو یہ اس کی حقیقت نہیں خواجہ فرید الدین عطار فرماتے ہیں: اگر اشیاء چنیںبودے کہ پیداست سوال مصطفے کہ آمدی راست نہ باحق مہتر دیں گفت آلہی بمن بنحائے اشیارا کماہی خداوند کہ ایں اشیاء چگونہ است کہ درچشم تو اکنوں باژ گونہ است یعنی اگر تمام چیزیں ایسی ہی ہیں جیسی درحقیقت ظاہر میں نظر آتی ہیں تو رسول اللہ صلعم یہ کیوں فرماتے کہ اے خدا مجھ کو اشیاء کو اس طرح دکھا جس طرح وہ واقع میں ہیں سحابی کہتا ہے ۔ ہر چیز کہ پیدا ست نمود ست نہ بود بعد ست کبودیے کہ بینی نہ سما جو کچھ دکھائی دیتا ہے یہ نمود ہے حقیقت نہیں۔ یہ نیلا نیلا جو نظر آتا ہے آسمان نہیں بلکہ بعد نظر ہے۔ مولانا روم نے اس مسئلہ کو سمجھانے کے لیے پہلے محسوسات کو لیا ہے اورکثرت سے مثالیں دے کر بتایا ہے کہ جو چیز علانیہ محسوس نظر آتی ہے وہ دراصل نہیں بلکہ اس میں جو چیز اصلی ہے وہ محسوس نہیں۔ نیست را نبمود ہست آں محتشم ہست را نبمود بر شکل عدم بحرا پوشید و کف کرد آشکار بارا پوشیدہ و نمبوت غبار چوں منارہ خاک پیچاں در ہوا خاک از خود چوں برآبد برعلا خاک را بینی بہ بالا اے علیل بادرانہ جزبہ تعریف و لیل کف ہمی بینی و دریا از دلیل فکر پنہاں‘ آشکارا قال و قیل نفی را ثبات می پند اشتبم دیدہ معدوم بینے دا شتیم ایں عدم راچوں نشاند اندر نظر چوں نہاں کرد آں حقیقت از بصر ایں جہان نیست بس ہستان شدہ داں جہان ہست بس پنہاں شد یعنی مثلاً بگولا جب اٹھتا ہے تو ہ کو جو چیز نطر آتی ہے وہ خاک ہے لیکن اصل میں جو چیز ہے اور جس چیز نے خا ک کو حرکت دی ہے وہ ہوا ہے خاک علانیہ نظر آتی ہے لیکن ہوا کو دلیل اور قیاس سے ثابت کرنا پڑتاہے ۔ ہم جب بات چیت اور بحث مباحثہ کرتے ہیں تو گفتگو اور بات چیت ہر شخص ہدایت محسوس کرتا ہے ‘ لیکن بات کا جو اصلی سبب ہے یعنی فکر اور تعقل وہ مخفی ہے غرض جو چیزیں علانیہ نظر آتی ہیں وہ اصلی چیزیں نہیں ہیں اور جو اصلی چیزیں ہیں وہ محسوس اور بدیہی نہیں۔ جو چیز جس قدر حقیقی اور واقعی ہے اسی قدر غیر محسوس اور مشاہد ہے آج کل کے مذاق کے موافق اس کو یوں سمجھو کہ سب سے یقینی اور قطعی چیز مادہ ہے لیکن زیادہ غور کرو تو معلوم ہو تا ہے کہ مادہ میں سے جو چیز محسوس ور مشاہد ہے وہ صرف رنگ اور مقدار ہے باقی کوئی چیز حواس سے محسوس نہیں ہو سکتی ہم قیاس کرتے ہیں کہ چونکہ رنگ اور طول و عرض خود نہیں قائم ہو سکتے اس لیے کوئی اور چیز ہے جس مٰں رنگ اور طول و عرض قائم ہے لیکن جو لوگ یہ کتہے ہیں ہ جوہر خود کوئی چیز نہیں ‘ بلکہ چند عرضوں کا مجموعہ ہے ۔ وہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ مادہ کوئی چیز نہیں چند اعراض جمع ہو گئے ہیں جن کو ہم مادہ کہتے ہیں غرض کسی چیز کے موجود ہونے کا مدار صرف محسوس اور مشاہد ہونے پر نہیں۔ اجمالی طور پر جب یہ ذہن نشین ہو جاتا ہے کہ حقائق اشیاء میں ہم غلطی کر سکتے ہیں اور کرتے ہیں تو حضرات صوفیہ خاص خاص چیزوں کی نسبت جن سے تصوف کو تعلق ہے تلقین کرتے ہیں کہ ان کی وہ حقیقت نہیں جو عام لوگ سمجھتے ہیں مثلاً تمام عالم اس پر متفق ہے کہ زندگی کا اصلی مقصد حصول لذت ہے حضرات صوفیہ بھی اسی کے قائل ہیں لیکن وہ کہتے ہیں کہ پہلے اس کا فیصلہ کرنا چاہیے کہ اصلی لذت کیا ہے ؟ شروع سے لو ‘ بچہ کھیل کود‘ آلات لہو و لع ب ‘ رنگین اور ملمع چیزوں کو پسند کرتا ہے بڑا ہو کر سمجھتا ہے کہ طفلانہ مذاق تھا اب خوش لباسی ‘ عیش پرستی‘ سیر و تفریح پر جان دیتا ہے جب معلومات اور خیالات میں اور ترقی ہوتی ہے تو سمجھتا ہے کہ یہ جووانی کی ترنگیں تھیں۔ اب ان کا وقت نہیں اور اب وہ زیادہ اونچے کاموں میں مصروف ہوتا ہے علم اور قابلیت پیدا کرتا ہے ناموری اور عزت کا جویاں ہوتا ہے دولت وجاہ عزت و شہرت عہدہ و منصب حاصل کرتا ہے مقتدائے عا م بن جاتا ہے اوریہ گو کہ کمال زندگی کا اخیر درجہ ہے لیکن حقیقت شناسی اس سے بھی آگے بڑھتی ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ بھی بے حقیقت خبریں تھی اسی طرح یہ سلسلہ آگے بڑھتا جاتا ہے بالآخر ایک حد قرار پاجاتی ہے اور ارباب ظاہر کے نزدیک وہی حاصل زندگی ہوتا ہے۔ حضرات صوفیہ فرماتے ہیںکہ جس طرح بچپن سے لے کرآج تک ت نے غلطیاں کیں اب بھی غلطیوں کا سلسلہ بند نیں ہوا‘ جس طرح ترقی کے مدارج نے پچھلی باتیں بے حقیقت ثابت کیں اب بھی مدارج ترقی باقی ہیں ۔ اور ان کی کوئی انتہا نہیں‘ ایک درجہ طے ہو گا دوسرا پیش آئے گا دوسرا طے ہو گا تیسرا پیش آئے گا وہکذ ا لیکن یہ درمیانی منزلیں بھی ذوق اوروجدان سے خالی نہیں اس لیے رہ رواں را خستگی راہ نیست عشق خو د راہ است وہم خود منزل است حسن و جمال ایسی چیز ہے جو تمام عالم کو مرغوب ہے لیکن لوگ یہ فیصلہ نہیں کرتے کہ جمال اصلی کیا چیز ہے؟ لوگ جن چیزو ںکو پسند کرتے ہیں وہ عارضی حسن ہے اصلی نہیں دیوار اگر آفتاب کے عکس پڑنے سے روشن ہو جائے تو دیوار کو روشن نہیں کہنا چاہیے بلکہ حقیقت میں آفتاب روشن ہے اسی طرح جن چیزوں میں عارضی اوصاف ہیں وہ حقیقت میں صاحب اوصاف نہیں مولانا روم کہتے ہیں۔ ہمچوآں آبلہ کہ تاب آفتاب دید بر دیوار و حیراں شد شتاب عاشق دیوار شد کایں یا ضیاست بے خبر کایں عکس خورشید سماعت چوں بہ اصل خویش پیوست آں ضیا دید دیوار سیہ ماندہ بہ جا اویماندہ و دراز مطلوب خویش سعی ضائع رنج باطل پائے ریش گرچہ آہن سرخ شد او سرخ نیست پرتو عاریت آٹش زنے ست گرشود پر نور روشن یا سرا تو مدان روشن مگر خورشید را درد رو دیوار گوید روشنم پر تو غیرے ندارم ایں منم پس بگوید آفتاب اے نارشید چونک من غائب شوم آید پدید سبز ہاگویند ما سبزار خودیم شادو خند انیم و بس زیبا خدیم فصل تابستاں بگوید سے امم خویش را بینید چوں من بگذرم تن ہمی نازہ و بہ خوبی و جمال روح پنہاں کردہ فتر پرو بال گو بدش ای مزبلہ تو کیتی یک دو روز از پر تو من ازیستی غنج و نازت می نہ گنجد در جہاں باش کہ تامن شوم از تو نہاں پر تو روح ست نطق چشم و گوش پرتو آتش بود و در آب جوش اسی غلطی کا نتیجہ ہے کہ لوگ حسن کے معنی رنگ روپ ‘ چمک فمک‘ تناسب اعضاء اعتدال جسم ‘ نازک ادائی ‘ شوخی وغیرہ وغیرہ سمجھتے ہیں اوران کے ذہن میں نہیں آ سکتا کہ جس چیز میں یہ کچھ نہ ہو وہ بھی خوبصورت ہو سکتی ہے حالانکہ تمام عالم میں جو حسن ہے یہاں تک کہ آفتاب کی چمک قو س قزح کی رنگینی ‘ آسمان کی نیلگوئی ‘ سبزہ کا روپ‘ بچپن کا نمو‘ شباب کی تازگی ‘ بڑھاپے کا نور سب پر حسن حقیقی کا ایک ذرا سا پرتو پڑ گیا ہے ۔ آں شعاعے بود بر دیوار شاں جانب خورشید وارفت آں نشان برہرآں چیزے کہ افتدآن شعاع تو برآں ہم عاشقی آئی اے شجاع عشق تو بر ہر چہ آں موجود بود آں زد صف حق چورز راند و د بود چوں زری باصل رفت و مس بماند ازری خویشتن مفلس بماند طبع سیر آمد طلاق اونجو اند‘ پشت بردے کر دو دست از دی فشاند اززرا اندد و دصفاتش ‘ پابکش از جہالت قلب۱ را کم گوے خوش کان خوشی در قلب ہا عاریتی ست زیر زینت مایہ بے زینتی ست زر زر دے قلب درکاں فی رود سوئے آں کاں تو بروکاں میرود نو راز دیوار تاخورے رود تو بداں خوررو کہ در خورمی رود زاں سپس بستاں تو اب از آسمان چوں ندیدی تو وفادر ناوداں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱۔ کھوٹا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ غرض تمام اشیاء میں جو اوصاف ہیں عارضی ہیں اصل میں کوئی اور چیز ہے جہاں سے ان اوصاف کا فیضان ہوتا ہے یا جو ان اوصاف کے ساتھ حقیقتہ متصف ہے جب یہ مقدمات اور یہ سلسلہ ذہن نشین ہو جاتا ہے تو حضرات صوفیہ کی اصلی تلقین شروع ہو تی ہے اور وہ یہ ہے کہ تم جن چیزوں کو اپنا مقصد اپنا مطلوب اپنی حاصل زندگی قرار دیتے ہو غور سے دیکھو کہ وہ تمہارا حقیقی مقصد زندگی ہونے کے قابل ہیں یا نہیں جس چیز کو تم نے حسین سمجھا تھا وہ خود حسین نہ تھی بلکہ حسن حقیقی کا اس پر پرتو پڑ گیا تھا ۔ جو بہت جلد جاتا رہا ۔ اس لیے تمہارا منتہائے خیال اور منتہائے خواہش حسن حقیقی جمال حقیقی اور معشوق حقیقی ہونا چاہیے اور یہی تصوف کی جان اور اس کا دین و ایمان ہے۔ ابر راتا بے اگر ہست ازمہ است ہر کہ مہ خواند ابررا او گمرہ است نورمہ برابر چوں منزل شدہ است روے تاریکش زمہ مبدل شدہ است گرچہ ہمبرگ مہ است و دولت ست اندرا برآں نورمہ عاریت ست وایہ عاریت بودروزے دو چار مادرا مارا تو گیر اندر کنار من نخو اہم دایہ‘ مادر خوش ترست موسیم من دایۃ من مادرست من نخواہم ہم لطف حق ازواسطہ کہ بلاک خلق شد ایں رابطہ (الندوہ ج ۷ نمبر ۷) ٭٭٭ ندوۃ العلما ء کا اجلاس سالانہ اور علمی نمائش گاہ اسلام کا یہ ایک خاصہ لازمی تھا کہ جس سرزمین پر وہ قدم رکھتا تھا وہاں کا ذرہ ذرہ علم کی روشنی سے چمک اٹھتا تھا ‘ ہندوستان میں چھ سو برس تک اسلامی حکومت سایہ گستر رہی‘ اس لیے ضرور تھا کہ یہاں بھی ہر جگہ اس کے آثار پائے جاتے ہیں‘ لیکن سو سوا سو برس کے ملکی انقلابات نے قدیم یادگاروں کو اس طرح برباد کر دیا کہ کبھی گویا یہ چیز تھی ہی نہیں لیکن زیادہ چھان بین و تفحص و تلاش سے ثابت ہوتا ہے کہ اب بھی اس ویرانہ میں سینکڑوں ہزاروں بیش بہا خزانے دبے پڑے ہیں جن کی کسی کو خبر نہیں‘ یا ہے تو قدردانی کی نگاہ سے نہیں دیکھے جاتے یا اس درجہ کی قدردانی ہے جو بخالت اور تنگدلی کی حد سے بھی گزر گئی ہے جس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ ان چیزوں پر گم شدگی کا پردہ پڑ گیا ہے ‘ اسی خیال کی بنا پر ندوۃ العلماء کے سالانہ اجلاس میں علمی نمائش گاہ کا صبعہ قائم ہوا‘ اور نہایت قلت عرصت کے ساتھ جو کچھ ممکن تھا کیا گیا۔ اس تجویز کیا آئندہ کامیابی کی پیشن گوئی اس سے کی جا سکتی ہے کہ اگرچہ نمائش کے اشتہارواعلان کے لیے بہت کم زمانہ ہاتھ آیا یہاں تک کہ بعض مشہور اخبارات نے ا س کا اعلان اس وقت شائع کیا جب کہ نمائش کا اجالس ہو رہا تھا اور بعض حسد پیشہ اخبارات نے سرے سے اشتہار شائع نہیں کیا دور دراز سے جو چیزیں آ سکتی تھیں وہ قلت وقت کی وجہ سے نہ آ سکیں ملک کے بڑے حصہ کو خبر تک نہ ہونے پائی کہ تاہم اس قدر سامان مہیا ہو گیا کہ لٹریچر اور تاریخی تحقیقات کے لیے اچھا خاصہ سرمایہ ہاتھ آ گیا۔ ندوہ کے پہلے اجلاس مورخہ ۱۴ اپریل سنہ ۱۹۰۶ء میں مقام بنارس می یہ تمام علمی سرمایہ ٹائو ن ہال مین ایک خاص ترتیب سے سجایا گیا ۔ شہر کے اکثر انگریزی حکام بڑے شوق سے شریک ہوئے خصوصاً صاحب کمشنر ایک ایک چیز کو نہایت شوق اور نقص کی نگاہ سے دیکھتے تھے ‘ اور اس کے متعلق تاریخی حالات و واقعات پوچھتے جاتے تھے ‘ علما ء و فضلاء جو دور دراز مقامات سے آئے تھے ان کو اگرچہ فرامین وغیرہ سے چنداں دلچسپی نہ تھی لیکن فن حدیث کی جو نادر کتابیں مہیا کی گئی تھیں اور جن میں سے متعدد کتابیںصحیح بخاری سے پیشتر زمانہ کی تصنیف تھیں‘ ان کو خواہ مخواہ اپنی طرف مائل کرتی تھیں اس تمام نادر سرمایہ کی تقسیم حسب ذیل تھی۔ فرامین و توقیعات شاہی‘ نادر الوجو د کتابیں‘ نہایت قدیم زمانہ کی لکھی ہوئی کتابین‘ مشہور خطاطوں کے خط کے نمونے مصنفین کے ہاتھ کے مسودات‘ سلاطین اور امرا کے ہاتھ کی تحریریں‘ فن بلاغت کا پورا سلسلہ‘ فرامین و توقیعات فرامین اور احکام کثرت سے مہیا کیے گئے تھے ۔ بعض فرامین جو ہندی زبان میںتھے تیرہ تیرہ سو برس کے تھے ۔ اسلامی زمانہ کے فرامین تغلق سے لے کر احمد شاہ پسر محمد شاہ کے زمانہ تک کے تھے‘ ان فرامین کو دیکھنے سے اسلامی سلطنتوں کی تہذیب و تمدن کا اندازہ ہو سکتا ھتا۔ ان کا کاغذ سیاہی‘ شان خط‘ حسن تحریر دیکھنے کے قابل تھی۔ چھ چھ سو برس گزر چکے ہیں لیکن کاغذ اپنی حالت پر قائم ہے۔ سیاہی کا یہ حال ہے کہ گویا لکھنے والا ابھی لکھ کر اٹھا ہے ۔ خط کی شان عہد بعہد ترقی ہوتی گئی تعجب ی ہے کہ شاہجہان کا عہد جو تہذیب و تکلیف کا نصف کا نصف النہار ہے ۔ شان خط اور نفاست میں عالمگیری دور ک اہر قدم آگے ہے ۔ پہلے فرمانوں کے طغرے سیاہی سے لکھے جاتے تھے خود عالمگیر کے اخیر دور میں طلائی ہو گئے۔ ان ظاہری باتوں کو چھوڑ کر بہت سے تاریخی اہم نتائج حاصل ہوتے ہیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے۔ (۱) ان فرامین سے مسلمانوں کے تعصب اور بے تعصبی کے مسئلہ پر کچھ روشنی پڑتی ہے‘ فرامین میں اکثر مدومعاش یا کارہائے خیر کے متعلق ہوتے تھے‘ لیکن اس میں ہندو اورمسلمان برابر کے شریک نظر آتے ہیں ۔ بنارس میں جنگم کشائیں کا ایک خاندان ہے جو مدت دراز سے اب تک قائم ہے‘ اس کے نا م کے فرامین تعلق کے عہدسے لے کر شاہجہان تک کے عہد تک نمائش میں پیش کیے گئے تھے۔ ان فرامین میںجنگم کو بڑی بڑی جاگیریںعطا کی گئی ہیں۔ ایک عجیب بات یہ ہے کہ ہمایوں اور شاہجیہان وغیرہ کے فرمان میںہندوئوں کو مطیع الاسسلام کے لفظ سے تعبیر کیا ہے یہ مسلم ہے کہ اکبر ہندوئوں کی نہایت خاطر داری کرتا تھا۔ اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ غالباً ہندو مطیع اسلام کے لقب سے فخر کرتے تھے‘ اور اسی بنا پر اکبر نے ان کو اسی لفظ سے تعبیر کیا ہے‘ اکبر کے فرمان میں یہ بھی لکھا ہے کہ راجہ ٹوڈرمل کی سفارش سے یہ فرمان عطا ہوا غالباً یہ لقب ٹوڈر مل‘ اور دیگر ہندو امرا ء کی سفارش سے قرار پایا ہو گا۔ عالمگیر کے زمانہ میں کسی مسلمان نے جنگم کے مکانات پر زبردستی قبجہ کر لیا تھا جنگم نے عدالت میں استغاثہ کیا قاضی نے جنگم کے حق میں فیصلہ کیا پھر اسد خاں جو عالمگیر کے مشہور امراء میں ہے اس کے دربار تک مقدمہ پہنا۔ اسد خاں نے بھی جنگم کو ڈگری دی یہ دونوں اصلی فیصلے آج جنگم کے خاندان میں موجود ہیں۔ اور نمائش میں پیش کیے گئے تھے۔ ان فیصلوں میں جنگم کے ساتھ جس ہمدردی کا اظہا رکیا گیا ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عالمگیر کے زمانہ میں ہندوئوں کے ساتھ کیا برتائو کیا۔ اسد خاں کے فیصلہ میں عمال کو تاکی دکی ہے کہ آئندہ مستغیث کو کبھی اس قسم کی شکایت کا موقع نہ دیا جائے۔ (۲) ان فرامین سے اسلامی سلطنتوں کی عام فیاضی اور علمی قدردانی کا اندازہ ہوتا ہے فرمانوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہندوستان میںاس سرے سے اس تک واقعہ نگار اور پرچہ نویس مقرر تھے‘ جن کا یاک فرض یہ بھی تھا کہ ملک میں جہاں کوئی شخص کسی علم و فن کی خدمت میںمصروف ہوتا تھا فوراً پرچہ نویس بادشاہ وقت کو اطلا ع دیتا تھا ۔ اور وہاں سے جاگیر میں کوئی گائوں یا کوئی زمین عطا ہوتی تھی ۔ تاکہ وہ شکص باطمینان خاطر معاش سے بے فکر ہو کر اپنے کا م میں مشغول ہو ۔ یہ انتظام بنگال سے لے کر کشمیر تک پھیلا ہوا تھا ۔ اور اس قسم کی معافیات اورجاگیر کی تعداد لاکھوں تک پہنچ گئی تھی۔ جہانگیر نے ایک ضمنی موقع پر تزک میں ایک سال کی عطیات کاذکر کیا ہے اس سے معلوم ہوتاہے کہ صرف ایک سال میں تقریباً ایک لاکھ بیگہ زمین اس قسم کے مصارف خیر میں عطا کی گئی ۔ اس موقع پر یہ بات اظہار کے قابل ہے کہ اس قسم کی فیاضی میں عالمگیر سب سے بڑھا ہوا ہے جو فرامین نمائش میں فراہم کیے گئے تھے ان میں دو مثلٹ سے زائد عالمگیر کے عہد کے تھے ۔ حالانکہ عالمگیری فرامین کے ساتھ کچھ اعتنا نہیں کی گئی تھی۔ فرامین کے دیکھنے سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ جن لوگوں کو فرامین عطا ہوتے تھے وہ چنداں وجاہت اور سعی و سفارش کے وسائل نہیں رکھتے تھے باوجود اسکے ہزاروں کوس کے فاصلہ سے دربار شاہی تک ان کی خبر پہنچی تھی اور ان کی دست گیری کی جاتی تھی۔ (۳) فرامین کی پشت پر جو عبارتیں درج ہیںان سے یہ ظاہر ہوتاہے کہ سرکاری دفاتر نہایت باقاعدہ‘ منضب‘ اور وسیع تھے۔ ہر کاغذ مختلف رجسٹروں پر درج ہوتاتھا اورہر داخلہ کی تاریخ بمطابقت سنہ قمری و شمسی درج کی جاتی تھی فرامین پر تمام امرائے شاہی جن کا تعلق اس محکمہ سے ہوتا تھا ان کے دستخط ثبت ہوتے تھے ایک فرمان کے حاشیہ پر جو عبارتیں ثبت ہیں ان کی نقل حسب ذیل ہے جس سے ظاہر ہو گا کہ فرامین کا محکمہ کتنے دفتروں اور رجسٹروں پر مشتمل تھا بہ تاریخ ۲ شہر جمادی الاول سنہ ۴۳ ھ نقل بدفتر توجیہ مفصلی رسید محمد صادق بہ تاریخ‘ ۲ شہر جمادی الاول سنہ ۴۳ ھ جلوس والا موافق سنہ ۱۱۱۱ہجری نقل بدگتر ایمہ شد ‘ داخل روزنامچہ واقعہ غرہ محرم الحرام سنہ ۴۳ جلوس والا تاریخ ۲۰ شہر ربیع الاخر سنہ الیہ داخل انتکاب شد بہ تاریخ بست و ہشتم شہر ربیع الثانی سنہ ۴۳ جلوس معلی بدفتر دیوان الصدارت شد ‘ داخل اور راچہ نمودہ شد‘ بمعرفت صادق ‘ (عہدہ دار کا نام) بموجب یادداشت واقعہ فرمان والا شان نوشتہ شد ‘ بتاریخ ۲۲ ربیع الثانی سنہ ۴۳ جلوس والا موافق سنہ ۱۱۱۱ ھ مطابق ا مرداد ماہ الٰہی نقل بدفتر صاحب توجیہ شد‘ بتاریخ بست و پنجم شہر ربیع الآخرسنہ ۴۳ جلوس والا نقل بدفتر استیفاے ابواب حال رسیدہ‘ (۴) آج اکثر لوگ اس بات کے شاکی ہیں‘کہ انگریزی گورنمنٹ میں ٹیکس بہت کثرت سے ہیں۔ تیموریوں کے زمانہ ٹیکس کی یہ بھرمار نہ تھی لیکن فرامین سے ظاہر ہوتا ہے کہ ٹیکسوں کی تعداد اس زمانہ میں بھی بہت کم تھی چنانچہ ان کے اقسام حسب ذیل تھے قنلغہ ‘ جریبانہ‘ ضابطانہ‘ مہرانہ ‘ داروغگانہ‘ پیکار‘ شکار‘ دہ نیمی‘ مقدمی‘ صددئی‘ قانون گوئی‘ جن لوگوں کو مد معاش کے طور پر کوئی زمین عطا ہوتی تھی وہ ان ٹیکسوں سے معاف تھے اور فرامین میں اس معافی کی تصریح کی جا سکتی تھی۔ نقل فرامین اگرچہ متعدد فرامین کی عکسی تصویریں لے لی گئی ہیں جو دفتر ندوہ سے درخواست کرنے پر مل سکتی ہیں‘ لیکن عام آگہی کے لیے اس موقع پر بعض فرامین نقل کر دیے جاتے ہیں۔ عالمگیر کے فرمان کا چربہ اتارا گیا ہے باقی کی عبارتیں میں نقل کر دی گئی ہیں۔ فرمان محمد ہمایوں شاہ غازی‘ حکام و دیوانیاں و عہدہ داران و کارکنان ۱ …بنارس بد انند کر دریں دلا بذروہ عرض رسید کہ سی صد بیگہ زمین…موضع مذکور بموجب احکام حکام ماضی…من ملک ارج جنگم بنا برآں فرمان واجب الاوغان صادر شد کہ اراضی مذکور بہماں …پاید کہ حسب الفرمان عمل نمودہ ہیچ آفریدہ ‘ پیرامون آں نگردند‘ و نغرض نرسانند… واصلاً و قطعاً مزاحم بآں زمین نہ شوند… بتقدیم رسانند… تحریر… اللہ اکبر فرمان اکبر بادشاہ نشان مہر فرمان عالیشان… چوں سابقاً حسب فرمان عالیشان موازی چار صد و ہشتاد بیگہ زمن از گنہ…بنارس دروجہ مد و معاش مطیع الاسلام ملک ارجن و جنگم مقرربود‘ دریں دلابہ عرض اشرف اقدس رسید حکم جہاں نمطاع صادرشد کہ من ابتدائے خریف سحی بیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱۔ جو الفاظ نہیںپڑھے گئے وہاں نطقے دیے گئے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (ایک ترکی مہینہ کا نام ہے) از جملہ آراجی مذکور موازی…بطناب بانس ازہماں محل سابق حسب الصلاح عمدۃ الملک رکن السلطنت راجہ ٹوڈر مل دروجہ مدومعاش مشار الیہما مقرر باشد‘ کہ حاصلات آنرا سال بسال متصرف شدہ بدعا گو ے دوام دولت اشغالی نماید می باید کہ حکام و کرد و ریان و جاگیرداران حال و استقبال پر گنہ مذکورہ زمین… از محل قدیم پیمودہ و چک بستہ بتصرف ارگزارند‘ دبہ علت مال و جہات و سائر…چوں قنلعہ و پیشکش و دہ نیم و مہرانہ و مخصلانہ و جریبانہ و تکرار زراعت و کل تکالیف دیوانی… اس فرمان سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہمایوں کے زمانہ میںجس قدر جاگیر مقرر تھی‘ اکبر نے اپنے زمانہ میں اس پر اضافہ کر دیا۔ نقل فرمان عالمگیر باسمنہ سبحان تعالیٰ شانہ دریں وقت میمنت عنوان فرمان والا شان واجب الادغان صادر شد کہ دو صد پانزدہ بیگہ زمین افتادہ لائق زراعت خارج جمع از پر گنہ حویلی سرکار کز امضاف بصوبہ الہ آباد دروجہ مدد معاش مسماۃ نور النساء وغیرہا حسب الضمن مقرر باشد کہ حاصل آنرا صرف معیشت نمودہ بدعا بقاء دولت ابد طراز مواظب نمایند باید کہ حکام و عمال جو جاگیر داران وکر ور یان حال و استقبال زمن مزبور راپیمودہ و چک بستہ بتصرف آنہا بازگزارند واصلاً و مطلقاً تغیر و تبدل بداں راہ و بعلت مال و جہات و اخراجات مثل قتلغہ و پیشکش و جریبانہ و طالبانہ و محصلانہ و مہرانہ و دارغگانہ و پیکار و شکار و مقدمے وقانونگوئی و ضب رسالہ بعدتشخیص چک و تکرار زراعت و کل مطالبات سلطانی و تکالیف دیوانی مزاحم نشوند اندریں باب ہر سال سند مجدد بطلبند و اگردرمحل دیگر چری داشتہ شد آنرا اعتبار نکند یاز دہم شہر ربیع الاول چل و سویم از جلوس معلیٰ نوشتہ شد‘‘ اخیر میں ہم کو ان بزرگوں کاشکریہ ادا کرنا چاہے جنہوںنے اپنی عنایت سے یہ فرامین نمائش میں رکھنے کے لیے بھیجے‘ بالخصوص جناب قاضی شوکت حسن صاحب مراد آبادی‘ مولوی عبد الحئی صاحب رائے بریلوی‘ واڈیٹر صاحب نیر اعظم بہت زیادہ شکریہ کے مستحق ہیں۔ نادر الوجود کتابیں اس قسم کی کتابوں کے فراہم کرنے کا اصلی مقصد یہ ہے کہ ملک میں جس قدر نادر کتابیں ہیں‘ ان کا پتہ لگ جائے‘ اور ان کی ایک مرتب فہرست تیار ہو جائے‘ تاکہ وقتاً فوقتاً ان کے چھپنے اور شائع کرنے کی کوشش کی جائے یا کم از کم یہ معلوم رہے ک فلاں کتاب فلاں مقام پر موجود ہے تاکہ عند الضرورت ان سے کسی طریقہ پر فائدہ اٹھایا جائے ۔ ملک میں جو بڑے بڑے کتب خانے مثلاً ریاست رام پور ‘ حیدر آباد‘ پٹنہ موجود ہیں‘ ان کے علاوہ سینکڑوں پرائیویٹ کتب خانے ہیں جن سے اگرچہ مل کو واقفیت نہیں ‘ لیکن نہایت نادر ذخیرے ان میں موجود ہیں‘ یہاں تک کہ معمولی اشخاص کے پاس ایسی کتابیں نکل آتی ہیں جن کا دوسرا نسخہ کہیں نہیںمل سکتا۔ اس بنا پر نمائش میں بقدر امکان اس قسم کی کتابیں بقدر معتدبہ فراہم کی گئی ۔ فن حدیث کی نہایت نایاب کتابیں مولوی شمس الحق صاحب ڈیانوی نے عنایت کی تھیں جن میں سے متعدد کتابیں ایسی تھیں جو امام بخاری سے بیشتر زمانہ کی تصنیف تھیں۔ ابن رشد کی تصنیفات اور تراجم اس قدر نایاب ہیں کہ یورپ کو بھی ہاتھ نہیںآئے‘ لیکن اس نمائش میں منطق کے وہ آٹھوں حصے موجود تھے جو ابن رشدنے ارسطو کی کتاب سے مرتب کیے تھ اس قسم کی اور بہت سی نایاب کتابیں تھیں جن میں بعض کے نام حسب ذیل ہیں۔ مسند عبد حمید الکسی المتوفی سنہ ۲۴۹ ‘ مسند ابو عوانہ المتوفی سنہ ۳۰۶۔ کشف الاستار عن زوائد مسند البزاز کا عالم الہثیمی ‘ مصنف بن ابی شیبہ‘ قانون مسعود للبیرونی ‘ ترجمہ اپنشد از دار شکوہ ‘ ترجمہ جوگ بشت از فیضی ‘ مدینۃ العلوم ارنیقی‘ معرفۃ الاثار والسنن للبیہقی ‘ معالم النن للخطابی‘ شرح سنن ابی دائود لا بن القیم‘ شرح جامع الصغیر للقاضی خاں‘ خصائص لابن جنی شرح عیون الحکمۃ للامام الرازی‘ رسائل فارابی ‘ رسائل افلاطون‘ شرح محبطی‘ تاریخ الاسلام للذہبی‘ داس کا صرف ایک ٹکڑا تھا) ان کتابوں کے دیکھنے سے بعض ایسی باتیں معلوم ہوتی ہیں جن کو تاریخی اور علمی تحقیقات کے سلسلہ میںانکشاف ( ڈسکوری) کے لفظ سے تعبیر کیا جا سکتا ہے مثلاً قانون مسعودی میں بیرونی نے لکھا ہے ہ ہمارے زمانہ میں ایک بڑا ہیئت دان زمین کی حرکت کا قائل ہے کتاب کی اصل عبارت ہے: وما انا فشاھدت احد من مال الی نصرۃ ھزالرای من المتنودین فی علم الھئیۃ لم یلترم نزول الثقل الی الارض علیٰ نفطر عمود اعلی وجمھاک منحرفاً علی زوایا مختلفۃ لا تضبط فیہ ولا تتحفظ غیر المسامۃ لان الرجل رای الثقل عن الارض حرکتین احد بھم ارویۃ کما فی طبیحۃ الجزء من تقییل الکل فی خواصہ و الا خری مستقیمہ لا نجدابہ الی معدنہ فالثقیل اذا تقصل عن الارض تحرک یا ولیھما حوکۃ یوجب فی الھواء الدوم الھسامتۃ الولیمۃ واما الثانیۃ المستقیمہ فیوجب لو تجردت وقوعہ عن غرب المسامنۃ ابداً لکن ھویتہ مرکب منھما فذالک لا ینحرف عن المسامنۃ والحظ الذی ینزل علیہ لیس بعمود علی الارض بالحقیقہ بل مائل مخو المشرق الخ ’’اس عبارت کا حاصل مطلب حسب ذیل ہے کہ میںنے ایک شخص کو جو علم ہئیت میں کمال رکھتا ہے اس رائے کی طرف مائل دیکھا وہ کہتا ہے کہ جب کوئی چیز بلندی سے گرتی ہ تو عمودی خط پر نہیں گرتی بلکہ منحرف ہو کر مختلف زاویے پیدا کرتی ہوئی گرتی ہے اس شخص کی رائے ہے کہ زمین کا جب کوئی ٹکڑا زمین سے جدا ہو کر گرتاہے تو ا س میں دو طرح کی حرکتیںپیدا ہوتی ہیں ایک دوری حرکت ہوتی ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ زمین دوری حرکت کرتی ہے اور جز ء ہمیشہ کل کا تابع ہوتا ہے دوسری مستقیم ہوتی ہے کیونکہ ہر چیز اپنے مرکز کی طرف سیدھی جاتی ہے اس بنا پر جب کوئی زمین سے جدا ہو کر گرتی ہے تو اس میںدونوں طرح کی حرکتیں پیدا ہوتی ہیں پہلی حرکت مسامتت چاہتی ہے اور دوسری استقامت اور اگر یہی مستقیم حرکت ہوتی تو وہ چیز مسامتت سے غرب کی جانب گرتی لیکن چونکہ دونوں حرکتیں ایک ساتھ ہیں‘ اس یے مسامنت سے انحراف نہیں ہوتا لیکن عمودی خط پر وہ چیز نہیں گرتی بلکہ مشرق کی طر ف ہٹ کر گرتی ہے‘‘۔ اس تقریر میں اگرچہ بعض زائد اور لغو باتیں شامل ہو گئی ہیں لیکن یہ مسئلہ مصرحاً موجود ہے کہ زمین دوری حرکت کرتی ہے۔ زمین کی حرکت پر آج جو دلیلیں پیش کی جاتی ہیں‘ ان میں سے ایک یہ ہے کہ جب کسی بلند مقام سے کوئی ڈھیلا پتھر گرتا ہے ‘ تو سیدھا نہیں گرتا بلکہ ہمیشہ مشرق کی جانب منحرف ہو کر گرتاہے ۔ یہ دلیل اس استدلال سے ملتی جلتی ہے جو عبارت مذکورہ بالا میں پیش کیا گیا ہے۔ یہ امر بالکل معلوم نہ تھا کہ مسلمانوں نے فن جنگ پر کوئی سائنٹفک کتاب لکھی تھی جس میں اصول ہندسی کے مطابق فوجوں کی صف آرائی اور طریق جنگ کے قواعد اور اصول منضبط کیے ہوں لیکن یورپ نے اس قسم کی ایک کتاب کا پتہ لگایا جو جرمن ترجمہ کے ساتھ چھپ کے شائع ہو چکی ہے اور اس نمائش میں پیش کی گئی ہے افسوس ہے کہ اس کتاب کا صرف ساتواں ٹکڑا ہاتھ آیا ہے ۔ تاہ جو حصہ موجود ہے اس میں ہندسی اصول کے مطابق فوجوں کی صف آرائی کے متعد د طریقے لھے ہیں ارو ان کے نقشے دیے ہیں اور بتایا کہ کہ اس طریقہ سے جنگ کرنے سے آٹھ دس ہزار فوج ایک لاکھ پر غلبہ پا سکتی ہے۔ سنسکرت کی کتابوں کے ترجمے فارسی میں ہوئے تھے ان مین سے متعدد کتابیں تھیں ۔ اوپشند جو ہندوئوں کی کتاب آسمانی ہے اس کا ترجمہ داراشکوہ کا کیا ہوا موجود تھا خاتمہ میں یہ عبارت درج تھی۔ ’’ایں ترجمہ پنکھتای ہر چہار بید کہ موسوم بہ سراکبر ست وتمام نورالانوار…محمد دارا شکوہ در مدت شش ماہ آخر دو شنبہ بست و ششم ماہ رمضان سنہ ہجری ایک ہزار وشصت سنہ ۱۰۶۷ھ و ہفت در شہر دہلی در منزل تکیور دیا تمام رسا بند‘‘۔ اس کتاب کے دیباچہ سے ایک بحٹ طلب مسئلہ حل ہو جاتا ہے۔ عالمگیر نے داراشکوہ کے مقابلہ کا جب قصد کیا تو اس کا یہ سبب ظاہر کیا کہ دارا شکوہ بد عقیدہ اور بددین ہے اس لیے اگر وہ ہندوستان کا فرماں روا ہوا تو ملک میں بد دینی پھیل جائے گی ‘ عام مورخوں کا خیال ہے کہ یہ محض ایک فریب تھا‘ نہ دارا شکوہ بے دین تھا اور نہ عالمگیر کی مخالفت کا یہ سبب تھا۔ دلوں کا حال خدا کو معلوم ہے لیکن اس کتاب کے دیباچہ سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ داراشکوہ بالکل ہندو بن گیا تھا ۔ اور کچھ شبہ نہیں کہ اگر وہ تخت شاہی پر متمکن ہوتا تو اسلامی شعار اور خصوصیات بالکل مٹ جاتے‘ عا م تاریخوں میں لکھا ہے کہ عالمگیر نے اپنے زمانہ حکومت میں حکم دے دیا تھا کہ ہندوئوں کے وہ مدارس بند کر دیے جائیں جن میں وہ مسلمانوں کو تعلیم دیتے ہیں مورخین نے اس اجمال کی گرہ نہیں کھولی‘لیکن داراشکوہ کے حالات سے قیاس ہوتاہے‘ کہ اس زمانہ میں ہندوئوں کو یہ جرات ہو گئی تھی کہ وہ غریب مسلمان بچوں کو اپنے پاٹ شالوں میں دنیوی اور مذہبی تعلیم دیتے تھے اور اس کا جو اثر پڑ سکتا ہے وہ محتاج بیان نہیں۔ بہرحال داراشکوہ نے اس کتاب میں بسم اللہ کے بجائے گنیش جی کی تصویر دی ہے اور دیباچہ میں لکھا ہے کہ اصل قرآن مجید یہی کتاب ہے چنانچہ ہم اصلی عبارت اس موقع پر نقل کرتے ہیں (نقل کفر کفر نہ باشد) ’’چوں دریں ایام بلدہ بنارس کہ دارالعلوم ایں قوم است تعلق باین جوی داشت…اپنکت ہاکہ یعنی اسرار پوشیدنی باشد و منتہائے مطلب جمیع اولیاء اللہ است در ہزار و شصت و ہفت ہجری بے غرضانہ ترجمہ نمودہ و ہر ممشکلے و ہر سخن بلندی توحید کہ می خواست طالب آں بو د نمی یافت ازیں خلاصہ کتاب قدیم کہ بے شک و شبہ اولین کتب سماوی و سرچشمہ بحر تو حید ست و قدیم ست کہ آیت قرآن مجید بلکہ تفسیر اوست‘ و صریح ظاہر شود کہ ایں آیت بعینہ در حق ایں کتاب سمادی و سرچشمہ بحر توحید ست و قدیم ست کہ انہ لقرٓان کریم فی کتاب مکنون لا یمسہ الا المطھرون تنزیل من رب العلمین یعنی قرآن کری در کتاب است کہ آں کتاب پنہا ن است اور ادرک نمی کند مگر وے کہ مطہر باشد و نازل شدہ از پروردگار عالم مشخص و معلوم می شد کہ ایں آیت درحق زبور و توراۃ و انجیل نیست چوں اپنکھت کہ سر پوشیدہ فی است اصل ایں کتاب است و آیتہائے قرآن مجید بعینہ دراں یافتہ می شود‘ پس تحقیق کہ کتاب مکنون ایں کتاب قدیم باشد‘‘۔ مشہور خطاطوں کے خط کے نمونے اس سلسلے میں سب سے نادر چیز یاقوت مستعصمی کا لکھا ہوا قرآن مجید تھا جس کو تقریباً ساڑھے چھ سو برس ہوئے یاقوت خلیفہ مستعصم باللہ عباسی کے دربار کا مشہور خوش نویس تھا جس کا نظیر آج تک پیدا نہیں ہوا۔ یہ قرآن لکھنو کے ایک کتب فروش کے پاس ہے میں نے اس کو جا کر یدکھا اور زور قلم پر حیرت زدہ رہ گیا ۔ لیکن افسوس ہے کہ وہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱۔ جو نسخہ قدیم ہاتھ آیا بہت غلط لکھا ہوا ہے ۔ اس لیے بعض بعض جگہ الفاظ نامربوط معلوم ہوتے ہیں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نمائش میں نہ لایا جا سکا] کتب فروش اس کو اپنے پاس سے جدا کرنا گوارا نہیں کرتا اور جوہدیہ طلب کرتا ہے یعنی ہزار روپیہ گو اس نسخہ کی حیثیت سے کچھ بھی نہیں لیکن افسوس ہے کہ ندوہ کے خزانے کی اتنی بھی حیثیت نہیں۔ نستعلیق نویسوںمیں سلطان علی مشہدی‘ حافظ نور اللہ اور بڑے مشہور خطاط گزرے ہیں۔ ابوالفضل نے آئین اکبر ی میں ان کا تذکرہ کیا ہے ۔ شاہجہان کے عہد کا مشہور خوشنویس آغا عبدالرشید ویلمی تھا جو متقدمین سے بھی گولے سبقت لے گیا تھا ان سب کے ہاتھ قطعات مہیا کیے گئے تھے۔ ان میں سے آغا عبدالرشید کے قطعہ کا فوٹو بھی لیا گیا جو دفتر ندوۃ العلماء سے مل سکتا ہے۔ خط نسخ کے ہر قسم کے نمونے جمع کیے گئے تھے‘ جن سے عہد بعہد کی تبدیلیاں اور ترقیاں معلوم ہو سکتی تھیں۔ ایک نادر چیز داراشکوہ کے ہاتھ کا لکھا ہوا ایک قطعہ تھا قطعہ کے نیچے یہ الفاظ ہیں ’’حررہ داراشکوہ‘‘ سنہ کتابت بھی لھا ہے اگرچہ خوشنویسی کے لحاظ سے یہ قطعہ مشاہیر خوشنویسوں سے مقابلہ نہیں کر سکتا لیکن اس لحاظ سے کہ ایک شہزادہ عالی تبار کے ہاتھ کی یادگار ہے ایک نادر چیز ہے اور اس سے ثابت ہوتا ہے کہ سلاطین تیموریہ کس قسم کی تعلیم و تربیت حاصل کرتے ہیں۔ ان چیزوں کا بڑا ذخیرہ نواب علی حسن خاں صاحب بھوپال اور ان کے بھانجے سید مرتضیٰ صاحب نے عنایت فرمایا تھا۔ مطلا مذہب کتابیں اس قسم کی کتابوں کا بڑا ذخیرہ نمائش میںپیش کیا گیا تھا یورپین حکام جو اس موقع پر شریک تھے ان صناعیوں پر تعجب کرتے تھے اور واقعی جو دیدہ ریزی اور صناعی ان چیزوں میں صرف کی گئی تھی اور کئی کئی سو برس گزرنے پر بھی طلا اور لاجورد کی آب و تاب کی جو کیفیت تھی وہ لوگوں کو متحیر کر دیتی تھی تعجب ہے کہ یہ تکلفات قرآن مجید اور مذہبی چیزوں کے ساتھ مخصوص نہ تھے دیوان شاہ پور طہرانی سجۃ الابرار جامی‘ قصائد انوری ‘ خمسہ نظامی تمام و کمال زار افشاں کاغذ پر تھے۔ مصنفین کے مسودات اس سلسلہ میں کچھ بڑا سرمایہ مہیا نہیں ہو سکا۔ صرف مصحفی کا تذکرہ الشعراء اردو اورقدرت اللہ قدرت کا طبقات الشعراء نمائش میںپیش کیا گیا تھا۔ مصحفی نے مسودہ کسی اور سے لکھوایا ہے لیکن جا بجا اپنے ہاتھ سے کانٹ پھانس کی ہے ۔ اور اکثر جگہ اپنے ہاتھ سے ہاشیہ پر مضامین سے اضافہ کیا ہے بعض جگہ کسی شاعر کا نام لھکا ہے اور سادہ صفحہ چھوڑ دیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت تک قابل اطمینان حالات نہیں معلوم ہو سکتے تھے اس تذکرہ کے دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آب حیات میں انشاء اللہ خاں کے متعلق جو کچھ لکھا گیا ہے اس میںبہت سی نہایت ضروری باتیں رہ گئی ہیں۔ امرائے تیموریہ کے کتب خانہ کی کتابیں اس قسم کی متعدد کتابیں موجودتھیں فضائل خاں عالمگیری امراء میں مشہور شخص گزرا ہے اس کے کتب کانہ کی ایک کتاب منہاج امام نودی قدیم زمانہ کی لکھی ہوئی تھی ایک اور امیر محمد سمیع کے کتب خانہ کی متعد د کتابیں تھیں ان کتابوں پر امراء کی مہریں ثبت ہیں جن میں عموماً نام و کطاب کے ساتھ یہ لفظ بھی ہے خانہ زاد عالمگیر بادشاہ یا فدی عالمگیر بادشاہ اس قسم کی کتابوں کے دیکھنے سے امرائے تیموریہ کے علمی مذاق کا اندازہ ہوتا ہے جس قدر کتابیں نظر آئیں اکثر کمیاب اور بے نظیر تھیں محمد سمیع کے کتب خانہ کا ایک مجموعہ تھا جس میں سحابی نجفی کی قریباً سات ہزار انتخابی رباعیاں تھیںحالانکہ سحابی کی رباعیات بہت کم ملتی ہیں اس مجموعہ میں نظامی کے خمسہ کا اس طرح انتخاب تھا کہ ۳۵ مختلف عنوان مثلاً ترتیب بادشاہی‘ صفت دولت‘ رائے و تدبیر‘ مکانات‘ مذمت طعن وغیرہ وغیرہ قائم کیے گئے تھے اورباب کے متعلق پانچوں کتابوں میںسے متفرق اشعار یکجا کر دیے گئے تھے ۔ حالانکہ اصل کتاب میں یہ عنوان نہیں ہیں ‘ کوئی شخص اگر نظامی کی تسنیفات پر ریویو لکھنا چاہے تو اس انتخاب سے نہایت آسانی مل سکتی ہے اس مجموعہ میں حکیم ناصر خسرو کا پورا دیوان بھی شامل ہے۔ ان کتابوں کے دیکھنے سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ کتب خانہ کی ترتیب و نظام نہایت باقاعدہ تھا‘ ہر کتاب پر نمبر ۱ کتاب کے صفحات کی تعداد جائزہ قیمت اور اس کے ساتھ مالک کتب خانہ کی مہر یا دستخط ہے۔ فن بلاغت کا سلسلہ یہ سلسلہ اس عرض سے مہیا کیاگیا تھا کہ آج کل کے علماء اور مدرسین جو مختصر معانی و مطول کے معتکف ہو کر بیٹھ گئے ہیں ان کے خیالات میں کچھ وسعت پیدا ہو اور سمجھیں کہ فن بلاغت کس چیز کا نامہے ۔ اور اس کی مسلسل تاریخ کیا ہے سب سے پہلے اس سلسلہ پر جو تصنیف ہوئی وہ ارسطو کی کتاب الخطابہ کا ترجمہ تھا اس کتاب میں ارسطو نے بتایا کہ جب کوئی شخص کسی مضمون پر تقریر کرنا چاہے تو اس کو کس قسم کے مقدمات اور استدلال سے کام لینا چاہیے اس کتاب کا مستقل ترجمہ ہاتھ نہیں آیا۔ لیکن بہت سے اجزا بیروت کے ایک عیسائی نے علم الادب میں شائع کر دیے ہیں اس کے بعد جاحظہ نے جو فن بلاغت کا امام تھا ایک کتاب لکھی جس میں اس نے فن بلاغت کے اصول اور قواعد سے مطلقاً بھث نہیں کی بلکہ مشہور خطیبون اور بلیغوں کے کلام میں جو اعلیٰ درجہ کی بلیغ عبارتیں پائی جاتی تھیں ان کو استسقاء کر کے یکجا کر دیا اس کتاب کا نام البیان و المتین ہے اور مصر میں چھپ گئی ہے ہر فن ابتدا میں اس طرح شروع ہوتا ہے۔ کہ فن کے جزئیات کثرت سے مہیا کیے جاتے ہیں پھر ان سے کلیات قائم کر لیے جاتے ہیں۔ جاحظ نے اس طرح فن کے قائم کرنے کا گویا مصالحہ مہیا کر دیا ہے۔ اس کے بعد ابن قدامہ نے نقد الشعر لکھی جو قسطنطنیہ میںچھپ گئی ہے یہ کتاب اصلی فن بلاغت پر مبنی ہے اس میں مختصر معانی و مطول کی طرح جملہ و کلام کے لفظی اجزا سے بحث نہیں کی ہے ‘ بلکہ مضمون کے لحاظ سے چند ابواب قائم کیے ہیں مثلاً مدح ذم مرثیہ ‘ عشق و محبت پھر بتایا ہے کہ ان میں سے جس مضمون کو لکھنا چاہیں کیونکر لکھ سکتے ہیں مثلاً اگر مدح لکھنی ہو تو ممدوح کے کس قسم کے اوصاف کا ذکر کرنا چاہیے ۔ اور کن اوصاف کو نظر اندا ز کرنا چاہیے۔ یہ کتاب اگرچہ نہایت مختصر اور گویا فن بلاغت کا دیباچہ ہے لیکن حقیق فن بلاغت کے جس قدر مسائل اس میں مل سکتے ہیں یہ کتب درسیہ کے ہزاروںصفحوں میں ان کا نام و نشان بھی نہیں مل سکتا مختصر معانی مطول‘ اطول سب پڑھ جائو‘ ایک حرف بھی اس کے متعلق نہیں مل سکتا کہ رنج یا خوشی کا مضمون بیان کرنا ہو تو کس طریقہ سے کیا جائے۔ کہ دلوں پر ایک عالم چھا جائے نقد الشعر کے بعد عسکری نے کتاب الصاعتین لکھی ۔پھر امام عبدلقاھر جرجانی نے دلائل الاعجاز اور اسرار البلاغۃ تصنیف کی ان کتابوں نے اگرچہ اصل فن کی حیثیت بدل دی یعنی مضمون کی حیثیت کو چھوڑ کر الفاظ اور ترتیب الفاظ پر مدار رکھا اور یہی طریقہ آج تک چلا آتا ہے تاہم جو کچھ لکھا فلسفیانہ مذاق پر لکھا‘ اور نہایت خوبی سے بتایا کہ کلمات کی یہ ترتیبیں کیوں دلوں پر اثر کرتی ہیں۔ اس کے بعد سکاکی نے مفتاح لکھی اوراس کے نقش قدم پر ایضاح مختصر معانی مطول وغیرہ لکھی گئیں۔ یہ تمام سلسلہ نمائش میں فراہم کیا گیا تھا لیکن چونکہ علماء کو ان سے مطلقاً دلچسپی نہ تھی‘ نمائش کی میز پر یہ کتابیں رکھی بھی نہ گئیں موجودہ مذاق کا جمود اس درجہ تک پہنچ گیا ہے کہ مختصر معانی و مطول کے علاوہ اس فن میں کوئی کتاب آسمانی بھی نازل ہو تو شاید اس کو بھی حسن قبول نہ حاصل ہو جس طرح قرآن مجید کے ہوتے ہوئے آج کل عل کلام دوسری کتابوں کے ذریعہ سے سکھلایا جاتا ہے۔ فارسی شاعری کا پورا سلسلہ فارسی شاعری رود کی سے شروع ہوئی اورقآنی پر ا س کا خاتمہ ہوا یہ قریباً ہزار برس کی مدتہے اس مدت میں ہزاروں شعرا پیدا ہوئے شاعری نے مختلف صورتیں بدلیں متعدد اور گونا گوں دور قائم ہوئے لیکن جو ذخیرہ عام لوگوں کے پیش نظر ہے وہ نہایت محدود ہے اور جس قدر بھی وہ کبھی اس نظر سے نہیں دیکھا گیا کہ مختلف زمانوں کا رنگ الگ نظر آئے اورہر عہد کی خصوصیتں نمایاں ہو جائیں۔ اس لحاظ سے قصد کیا گیا کہ رودکی سے قاآنی تک جتنے دور گزرے ہیں ہر ایک کا نمونہ الگ الگ پیش کیا جائے اور ان کو اس طرح ترتیب دیا جائے کہ عہد بعہد کی ترقیا ں اور تبدیلیاں صاف نظر آتی جائیں چنانچہ اس کا پورا سامان مہیا ہو گیا تھا‘ لیکن افسو س ہے کہ ریلوے کی غلطی سے تمام کتابیں بعد از وقت پہنچیں اس سے بڑھ کر ی سوء اتفاق کہ سیکرٹری نے فارسی شاعری کی مسلسل تاریخ پر جو لیکچر دینا چاہتا تھا تنگی وقت کی وجہ سے ملتوی رہ گیا۔ اس لیے نمائش کا یہ حصہ آئندہ سال کے لیے اٹھا رکھا گیا اور اس شعر پر عمل کرنا پڑا از جلوہ بیا رام ‘ ومے کا ینہمہ ساماں در حوصلہ دیدہ‘ بیک بار نہ گنجد (الندوہ جلد ۳ نمبر ۲) ٭٭٭ اختتام۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔TheEnd