مقالات شبلیؒ جلدپنجم مرتبہ مولانا سید سلیمان ندویؒ دیباچہ بسم اللہ الرحمن الرحیم مقالات شبلی کے جو حصے اس سے پہلے شائع ہو چکے ہیں ان سے اگرچہ اس غلط خیال کی تردید ہو چکی ہ کہ مولینا شبلی مرحوم تاریخ کے سوا اور کوئی فن نہیں جانتے تھے۔ تاہم اس میں شبہ نہیں کہ تاریخ ان کا خاص فن تھا اور تاریخی کتابوں کے علاوہ انہوں نے بہت ے تاریخی عنوانات پر نہایت کثرت سے مضامین لکھے تھے جن کی دو جلدیں رسائل شبلی و مقالات شبلی کے نام سے ان کی زندگی ہی میںشائع ہو چکی تھیں۔ اس کے بعد بھی وہ اس قسم کے دوسرے تاریخی عنوانات پر مضامین لکھتے رے جو زیادہ تر الندوہ میں شائع ہوئے ہیں۔ ان مضامین کی دو قسمیں ہیں۔ کچھ مضامین تو مشہور لوگوں کے سوانح حیات سے تعلق رکھتے ہیں۔ اور کچھ کسی خاص تاریخی مسئلہ پر لکھے گئے ہیں۔ لیکن اگر ان تمام مضامین کو ایک رکھتے ہیں اور کچھ کسی کاص تاریخی مسئلہ پر لکھے گئے ہیں۔ لیکن اگر ان تمام مضامین کو ایک ہی جلد میں شائع کر دیا جاتا تو اس کی ضخامت بہت زیادہ بڑھ جاتی اور مضامین کی وحدت اور یکرنگی میں فرق آ جاتا ہے۔ اس لیے ان مضامین کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے۔ پہلے حصہ میں صرف اکابر اسلام کے سوانح حیات کے متعلق مضامین درج کیے گئے ہیں اوریہی حصہ اس وقت شائع کیا جار ہا ہے دوسرے حصہ میں وہ مضامین درج کیے جائیں گے جو کسی تاریخی مسئلہ کے متعلق ہیں اور یہ جلد اس کے بعد شائع ہو گی۔ اس جلد کے تمام مضامین الندوہ سے لیے گئے تھے صرف ایک غیر مطبوعہ مضمون جو معارف میں ان کی وفات کے بعد شائع ہے ۔ معارف سے لیا گیا ہے۔ سید سلیمان ندوی دارالمصنفین ‘ اعظم گڑھ ۱۶ جنوری ‘ سنہ ۱۹۳۶ء ٭٭٭ حضرت اسماء اخلاق عرب ایک نکتہ داں شخص نے کس قدر سچ کہا ہے کہ ’’ہم کو صرف یہی رونا نہیں ہے کہ ہمارے زندوں کو یورپ کے زندوں نے مغلوب کر لیا ہے۔ بلکہ یہ رونا بھی ہے کہ ہمارے مردوں پر بھی یورپ کے مردوںنے فتح پا لی ہے‘‘‘۔ ہر موقع اورہر محل پر جب شجاعت ‘ ہمت ‘ غیرت ‘ علم وفن غرض کسی کمال کا ذکر آتاہے تو اسلامی ناموروں کے بجائے یورپ کے ناموروں کا نام لیا جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ نہیں کہ قوم سے قومی حمیت کا مادہ بالکل جاتا رہا ہے بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ جدید تعلیم میں ابتدا سے اخیر تک اس بات کا موقع ہی نہیں ملتا کہ اسلاف کے کارناموں سے واقفیت حاصل کی جائے ۔ اس لیے جب فضائل انسانی کا ذکر آتا ہے تو خواہ مخواہ انہی لوگوں کا نام زبان پر آتا ہے جن کے واقعات کی آوازیں کانوں میں گونج رہی ہیں ‘ اور یہ وہی یورپ کے نامور ہیں یہ سلسلہ مضامین اسی غرض سے قائم کیا گیا ہے کہ جن لوگوں کو عربی زبان پر دسترس نہ ہونے کی وجہ سے اسلاف کے کارناموں سے اطلاع نہیں وہ رفتہ رفتہ ان واقعات ان واقعات سے واقف ہو جائیں۔ اس وقت خود بخود یہ حالت پیدا ہو گی کہ یورپین ناموں کے ساتھ عرب کے مقدس نام بھی ہمارے نوجوانوں کی زبانوں پر ہوں گے۔ عورتوں کا استقلال و ثبات و دلیری و آزادی حجاج بن یوسف نے جب عبداللہ ۱ بن زبیرؓ کا مکہ معظمہ میں محاصرہ کیا اور ہر طرف سے رسد وغیرہ کی بندی کر دی تھی تو عبداللہ بن زبیرؓ کی جمیعت میں کمی ہونی شروع ہوئی۔ یہا ں تک کہ چند مہینون کے بعد ان کے ساتھ صرف گنتی کے آدمی رہ گئے۔ وہ اپنی ماں کے پاس گئے اور کہا کہ اب میں مقابلہ سے عاجز آ چکا ہوں آپ کی کیا رائے ہے؟ کیا میں حجاج سے صلح کر لوں؟ وہ بولیں کہ ’’جان مادر! اگر تم ناحق پر تھے تو تم نے یہی بڑی غلطی کی کہ آج تک اپنی غلطی پر قائم رہے۔ اب یہ دوسری غلطی ہے کہ اب بھی اپنی ضد پر قائم ہو لیکن اگر تم حق پر تھے تو حق سے کسی حالت میں باز نہیں آنا چاہیے ’’عبداللہ بن زبیرؓ کو چونکہ اپنے برسر حق ہونے کا یقین تھا۔ عزم کر لیا کہ لڑ کر مر جائیں گے۔ باہر آ کر اسلحہ جنگ منگوائے اور ہتھیار سج کر ماں سے رخصت ہونے کے لیے دوبارہ گھر میں گئے ۔ ماں سے کہا کہ آخری رخصت کے لیے حاضر ہوا ہوں۔ انہوںنے گلے سے لگا لیا۔ عبداللہ بن زبیرؓ کے کپڑو ں کے نیچے زرہ تھی۔ گلے لگانے میں ان کو سختی محسوس ہوئی تو پوچھا کہ یہ کیا چیز ہے بولے کہ زرہ انہوں نے کہاں جان مادر! جو لوگ جان پر کھیلتے ہیں وہ زرہ نہیں پہنتے ۔ انہوں نے زرہ اتار کر پھینک دی۔ چلتے ہوئے ماںسے کہا کہ مجھ کو جو کچھ رنج ہے وہ صرف یہ ہے کہہ حجاج میری لاش کا مثلہ کرے گا۔ یعنی ناک کان کٹوائے گا بولیں ک بکری جب ذبح ہو چکتی ہے تو پھر اس کو کھال کے کھینچے جانے کی تکلیف محسوس نہیں ہوتی‘ ماں سے رخصت ہو کر حرم کعبہ میں گئے۔ ساتھیوں سے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱۔ عبداللہ بن زبیرؓ بڑی عظمت و جلال کے صحابی تھے۔ حضرت امام حسینؑ کے بعد انہوںنے خلافت کا دعویٰ کیا اور ایک مدت تک بنو امیہ کے حریف کے مقابل رہے۔ اکثر مورخین ان کو خلیفہ پنجم لکھتے ہیں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کہا کہ ت سے جو بن آئے کرو میں تو اب پہلی صف میںملوں گا۔ یہ کہہ کر حملہ کیا اور پہلے ہی حملہ میں دشمن کی صف اول الٹ دی۔ لیکن دشمنوں نے اس قدر پتھر برسائے کہ ان کی پیشانی زخمی ہوئی خون بہ کر قدموںمیںگرا تو یہ شعر پڑھا: فلسنا علی الاعقاب نذمی کلومنا ولکن علی اقدامنا تقطر الدم ہمارے زخموں کا خون ہماری پیٹھ پر نہٰں بلکہ ہمارے قدم پر ٹپکتا ہے آخر بڑی شجاعت سے لڑ کر شہید ہوئے۔ حجاج نے ان کی لاش سولی پر لٹکا دی۔ لوگوںنے کہا کہ ان کی ماں کے پاس بھجوا دیجیے ۔ حجاج نے کہا ان کی ماں خود مانگ بھیجیں تو بھیجدوں ۔ لوگوں نے ان کی ماں سے آ کر کہا۔ وہ سن کر چپ ہو رہیں چند روز کے بعد اتفاقاً اس طرف سے گزریں۔ بیٹے کی لاش سولی پر لٹکی دیکھی تو نظر اٹھا کر دیکھا اورکہا کہ: اما آن لھذا الفارس ان تیر جل کیا اب بھی یہ وقت نہیں آیا کہ یہ شہسوار اپنے گھوڑے سے اتر آئے۔ مکہ معظمہ جب فتح ہوا تو کثرت سے لوگ اسلام لاتے جاتے تھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر بیعت کرتے جاتے تھے۔ جب عورتوں کی باری آئی تو ہند (امیر معاویہؓ کی ماں) نقاب ڈال کر آئی۔ بیعت کے وقت جن باتوں کا اقرار لیا جاتا تھا‘ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ان کو پیش کیا تو یہ گفتگو ہوئی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم : تم اقرار کرو کہ شرک نہ کرو گی۔ ہند: آپ تو ہم سے ان باتوں کا اقرار لیتے ہیں کہ مردوں سے نہیں لیتے اچھا ہم اقرار کرتے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم: اوریہ کہ چوری نہ کرو گی۔ ہند: میں ابوسفیان کے مال سے دو چار آنے چوری سے لے لیا کرتی تھی ‘ کیا یہ بھی حرام ہے؟ ابوسفیان برابر سے بولے کہ اس کو میں نے خود معاف کیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم : اور یہ کہ تم زنا نہ کرو گی۔ ہند: کیا شریف عورت بھی ایسا کرتی ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم: اور یہ کہ اپنی اولاد کو نہ مار ڈالو گی (دختر کشی کی طرف اشارہ تھا) ہند: قدر بینا ھم صغاراً وقتلتھم یوم بدر کباراً فانت وھم اعلم ۱ ہم نے ان کو بچپن سے پالا تھا ۔ جب بڑے ہوئے تو آپ نے بدر کی لڑائی میںان کو ماڑ ڈالا ۔ تو آپ اور وہ باہم سمجھ لیجیے۔ عرب کی آزاد پسندی دیکھو کہ اس پر صحابہؓ نے برا نہیںمانا۔ بلکہ حضرت عمرؓ باوجود تصلب اور سخت مزاجی کے ہنس پڑے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱۔ تاریخ طبری صفحہ ۱۶۶۳ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ٭٭٭ المعتزلہ والاعتزال اسلام کے ان بہت سے فرقوں سے جن کی تعدا د کو ایک پیشن گوئی کے پورا کرنے کے لیے تہتر تک پہنچایا گیا ہے ۔ صرف چار فرقے ہیں جن کو زیادہ تر کامیابی ہوئی اورجو مدت تک موجود رہے۔ یعنی سنی ‘ شیعہ‘ معتزلہ‘ باطنیہ۔ ان میں سے دو آخر الذکر آج بالکل معدوم ہیں معتزلہ اگرچہ دنیا سے ناپید ہوگئے لیکن ایک مدت تک ان کو بہت عروج رہا بڑے بڑے نامور مصنفین ان میں پیدا ہوئے ۔ مشہور خلفاء اور سلاطین نے فخریہ اس لقب کو اختیار کیا۔ متعدد علوم اسی فرقہ کی بدولت عالم وجود میں آئے ۔غرض وہ خود اگرچہ دنیا میں نہیں رہے۔ لیکن مذہب میں علم میں تصنیف میں۔ لٹریچر میںان کی بہت سی یادگارں اب بھی موجود ہیں اور زمانہ ان کو آئندہ بھی مٹا نہیں سکتا۔ البتہ افسوس ہے کہ ان کے مٹنے کے ساتھ ان کی تاریخ بھی مٹتی چلی جاتی ہے اور ایک ایسے مشہور فرقہ کے واقعات کا معدوم ہو جانا تاریخی دنیا کا بہت بڑا افسوسناک حادثہ کہا جا سکتا ہے اس لحاظ سے خیال ہوا کہ معتزلہ کے متعلق ایک مختصر سا مضمون جس میں مذہب اعتزال کی ابتدا اور اس کی اشاعت ہر بعہد کی ترقیاں‘ ترقی و تنزل کے اسباب ‘ مشہور معتزلیون کے مختصر حالات‘ اعتزال کے مسائل اور ان پر ریویو‘ دوسرے فرقوں پر اس مذہب کا اثر‘ اور اس قسم کے امور لکھے جائیں۔ اس مضمون کا یہ پہلا ٹکڑا ہے جس میں اعتزال کی اجمالی تاریخ ہے۔ اور ٹکڑے وقتاً فوقتاً تہذیب الاخلاق میں شائع ہوں گے۔ اعتزال اگرچہ اور مذاہب کی طرح صحابہ کے اخیر زمانہ مٰں پیداہوا۔ لیکن اس کے ابتدائی آثار عین شروع اسلا م میں موجود تھے۔ حقیقت یہ ہے ہ ان مذاہب میں سے کسی مذہب کی نسبت خصوصیت کے ساتھ یہ کہنا کہ وہ فلاں زمانہ میںپیدا ہوا ایک قسم کی ناانصافی ہے یا تو یہ کہنا چاہیے کہ ابتدائے اسلام یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم و صحابہ کے زمانہ میں تسنن‘ اعتزال‘ قدر‘ کوئی مذہب موجود نہ تھا۔ یا یہ کہنا مناسب ہو گا کہ یہ تمام مذاہب اسی زمانہ میں پیدا ہو چکے تھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ تک اسلام ایک نہایت اجمالی اور سادہ چیز تھی۔ یعنی عقائد میں کلمہ توحید اور اعمال میں فرائض خمسہ عقائد کی سادگی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بھی کچھ زمانہ تک قائم رہی۔ کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے انتقال کے ساتھ روم و فارس کی مہمات شروع ہو گئیں۔ اور عرب کی دماغی اور عملی قوت کا سارا زور مہمات ملکی کی طرف مصروف ہو گیا۔ ان معرکہ آرائیون میں کلمہ توحید کا اجمالی مسئلہ تو ہمیشہ تازہ رہا کیونکہ جن قوموں پر حملے کئے جاتے تھے ان کے سامنے جنگ سے پہلے یہی مسئلہ پیش کیا جاتا تھا لیکن وہ اسی حد تک تھا کہ خدا ہے۔ یہ تفصیل اور باریک بینیان کہ ہے تو ککیا ہے؟ اس کی صفات کیا ہیں؟ اس کی قدرت کے کیا حدود ہیں؟ وغیرہ وغیرہ‘ اس وقت نہ پیدا ہو ئیں اور نہ ہو سکتی تھیں۔ تاہم صحابہ میں چونکہ ایک گروہ ایسا بھی تھا جو علمی اشغال میںمصروف تھا اور جنکو مہمات ملکی سے بہت کم تعلق رہتا تھا۔ اس لیے عقائد میںکسی قدر بحث و تدقیق شروع ہو گئی اور مختلف فرقوں ککی وجود کی گویا بنیاد قائم ہوئی۔ صحابہ کے زمانے تک عقائد میں جو اختلافات پیدا ہوئے ان میں سے چند یہ ہیں: اکثر صحابہ معراج جسمانی کے قائل تھے۔ حضرت عائشہؓ کو اس سے انکار تھا۔ عبداللہ بن عباس کا مذہب تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خدا کو دیکھا تھا۔ حضرت عائشہؓ اس کی منکر تھیں۔ عبداللہ بن عمر سماع موتیٰ کے قائل تھے بعض صحابہ اس کے سخت مخالف تھے۔ ابوہریرہؓ کا عقیدہ تھا کہ عزیزوں کے نوحہ کرنے سے مردہ پر عذابنازل ہوتاہے۔ حضرت عائشہؓ اس کی مخالف تھیں۔ عقائد کے متعلق تو انہی چند مساسئل میں اختلاف ہوا۔ لیکن اعمال چونکہ محسوس پیرایہ رکھتے تھے۔ اور روزانہ ان سے کام پڑتا تھا۔ اس لیے ان میں نہایت کثرت سے اختلافات پیدا ہو گئے تھے۔ بعض اختلافات جو وضو اورنماز کے مسائل کے متعلق تھے ان کی تفصیل یہ ہے۔ عبداللہ بن عباسؓ : وضو میں اعضاء کو ایک ایک بار دھونا چاہیے۔ ابوہریرہؓ: دو دو بار ابوہریرہؓ : آگ پر پکی ہوئی چیز کے استعمال سے وضو ٹوٹ جاتا ہے۔ جابرؓ : نہیں ٹوٹتا عائشہؓ: نماز فجر منہ اندھیرے پڑھنی چاہیے۔ رافع بن حذیمؓ: اسفار کرنا چاہیے۔ عائشہؓ : عصر میں جلدی کرنی چاہیے۔ ام سلمہؓ: تاخیر کرنی چاہیے۔ انس بن مالک و ابن عمرؓ : اقامت اکہری کہنی چاہیے۔ عبداللہ بن زیدؓ : دوہری کہنی چاہیے۔ علیؓ و ابن عباسؓ و ابوہریرہؓ: فجر میں قنوت پڑھنا چاہیے۔ ابومالک اشجعیؓ: نہیں ابوبکرؓ، عمرؓ، انسؓ، ابودرداء ؓ: مسح علی العمامہ جائز ہے۔ بعد دیگر صحابہؓ: نہیں اکثر صحابہؓ : مسح علی الخفین جائز ہے۔ عائشہ ؓ و ابن عباسؓ: جائز نہیں۔ لیکن عقائد اور اعمال کے ان اختلافات نے کسی قسم کا محسوس تفرقہ پیدا نہیںکیا سب لوگ ایک لقب یعنی مسلمان کے نام سے پکارے جات تھے۔ ایک دوسرے کے پیچھے نماز پڑھتے تھے۔ دوستانہ ملتے جلتے ھتے۔ حضرت علیؓ کے اخیر زمانہ تک یعنی سنہ ۳۷ ھ میں جب انہوںنے امیر معاویہؓ سے صلح کر لی اور حم کا فیصلہ تسلیم کر لیا۔ تو خود انکے ساتھیوں مٰں سے کئی ہزار آدمی ان سے الگ ہو گئے کہ لا طاعۃ لغیر اللہ یعنی مذہب کے حق و باطل کا فیصلہ ثالث اورحکم کی رائے پر نہیں ہو سکتا۔ یہ پہلا فرقہ تھا جو اسلا م میں قائم ہوا کیونکہ ان لوگوں نے تمام مسلمانوں سے جو ان کی رائے سے موافق نہ تھے ہر طرح کی علیحدگی اختیار کی‘ اور ان کا عقیدہ تھا کہ جو شخص ان کا ہم عقیدہ نہیں وہ مسلمان نہیں اس مناسبت سے یہ لوگ حضرت علیؓ کے دائرہ سے خارج ہو گئے اور ان کا نام خارجی مشہور ہو ا اس امتیازی نام سے اس بات کی ابتدا ہوئی کہ اختلاف آراء کی بنا پر جدا جدا فرقے قائم ہوں اوران کے نام جدا جدا رکھے جائیں۔ یہ بات بھی لحاظ کے قابل ہے کہ اگرچہ تمدن کی وسعت کا خود اقتضا تھا کہ اسلام کے مجمل عقائد روز بروز وسیع ہوتے جائیں۔ اور نے نئے فرقے قائم ہوں۔ لیکن پہلے وہی فرقے قائم ہوئے جن کو پالٹکس سے بھی کچھ لگائو تھا۔ خارجیوں کی ابتدا سی حیثیت سے ہوئی شیعہ فرقہ تو گویا پولیٹکل فرقہ تھا قدریہ مذہب جو ان دونوں کے بعدپیدا ہوا اور جو مذہب اعتزال کی اصل بنیاد ہے وہ بھی پولٹیکل حیثیت سے خالی نہ تھا ۔ سب سے پہلے قدر کی نسبت جس نے گفتگو کی وہ معبد جہنی تھا۔ یہ بنو امیہ کا زمانہ تھا اور استحکام سلطنت کے لیے ہمیشہ خونریزیاں کی جاتی تھیں۔ ملک میں ان سفاکیوں کی وجہ سے نہایت ناراضی پھیلی ہوئی تھی اور چونکہ اس وقت تک عرب میںآزادی کا مادہ باقی تھا وہمتعجب ہو کر افسران سلطنت سے پوچھتے تھے کہ تم مسلمان ہو کر ان خونریزیوںکو کیوں کر جائز رکھتے ہو۔ ان کی طرف سے جواب ملتا تھا کہ ہم کچھ نہیںکرتے جو کچھ کرتاہے خدا کرتا ہے القدر خیرہ و شرہ معبد جہنی بھی انہی لوگوں میں سے تھا۔ چنانچہ ایک دفعہ حسن بصری کی خدمت میںحاضر ہوا اور اس مسئلہ کے متعلق ان کی رائے دریافت کی۔ انہوں نے کہا کہ کذب اعداء اللہ یعنی دشمنان خدا (بنی امیہ) جھوٹے ہیں ۔۱ جیسا کہ ہم نے اوپر بیان کیا ہے اور مذاہب کی طرح اعتزال کے ابتدائی آثار بھی خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہؓ کے زمانہ میں موجود تھے۔ صحابہ میں سے اگرچہ بہت سے ایسے تھے جو مذہبی مسائل کے متعلق کچھ غور کرنا نہیں چاہتے تھے۔ یا عقل کو دخل دینا نہیں چاہتے تھے۔ لیکن ایسے بھی تھے جو ہر بات کو عقل کے معیار سے جانچنے یا کم سے کم یہ کہ عقل کو معاملات شرعیہ میںبیکار نہیں خیال کرتے تھے‘ یہی اعتزال کی اصلی بنیاد تھی جس پر آگے چل کر بڑی بڑی عمارتیںقائم ہوئیں۔ اعتزال کا سب سے پہلا مسئلہ جو مذہب اعتزال کی تاریخ کا آغاز ہے ‘ یہ تھا کہ انسا ن جو برائیاں کرتا ہے خدا نہیں کراتا‘ اس مسئلہ کو قدر کے لفظ سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔ اور یہی وجہ ہے کہ معتزلیوں کا دوسرا نام بھی قدر یہ بھی ہے۔ اسی مناسبت سے وہ اپنا نام عدلیہ رکھتے تھے۔ کیونکہ خدا کا عادل ماننا اس بات پر موقوف ہے کہ انسان کو اپنے افعال کا مختار مانا جائے اور معتزلہ ایسا ہی مانتے تھے ۔ اس مسئل کو سب سے پہلے معبد جہنی نے شائع اورمشتہر کیا۔ اور اسی وجہ سے قدریہ کے لقب سے مشہور ہوا۔ چونکہ اعتزال اور قدریہ کے اصول پالیٹکس سے بھی ایک خفیف تعلق رکھتے تھے اورمعبد علانیہ حکومت بنو امیہ کو برا کہتا تھا عبدالملک بن مروان نے سنہ ۸۰ ھ میں حجاج کے ہاتھ سے اس کو قتل کرا دیا ۔ ۲ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱۔ معارف ابن قتیبہ ص ۲۲۵ ۔ ۲۔ مقریزی ج ۲ ص ۳۵۶۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ معبد کے بعد غیلان دمشقی نے جو قبطی النسل تھا اس مسئلہ کی ترویج کی اس کے ساتھ چند اور مسائل بھی مذہب اعتزال میں شا مل کر لیے۔ جن میں ایک امر بالمعروف و نہی عن المنکر بھی تھا۔ یہ مسئلہ حکومت کے لیے ایک پر خطر مسئلہ تھا۔ اور چونکہ غیلان نہایت بے باکی سے اس کا اعلان کرتا تھا۔ ہشام بن عبدالملک نے جو سنہ ۱۰۵ میں تخت نشین ہوا۔ دمشق میں بلا کر اس کوپھانسی دے دی۔ معبدوغیلان نے جو ارکان اعتزال تھے اگرچہ بہت کم زمانہ پایا لیکن اتنے ہی عرصہ میں اعتزال کو بہت ترقی ہوگئی۔ سینکڑوں ہزاروں آدمیوںنے یہ مذہب قبول کر لیا اور اس کے بڑے بڑے اصول مرتب ہو کر قلم بند ہو گئے۔ اسی زمانہ میں دو شخصوں نے جو اتفاق سے ایک ہی سنہ یعنی سنہ ۸۰ ھ میں پیدا ہوئے تھے اس مذہب کو بہت زیادہ رونق دی‘ یعنی عمرو بن عبید اور واصل بن عطاء یہ دونوں حسن بصری کے شاگرد تھے اور ان کے حلقہ درس میں جو بصرہ کی مسجد میں منعقد ہوا کرتا تھا اکثر شریک ہوا کرتے تھے۔ ان دونوں خوارج کے ایک مسئلہ ا گناہ کبیرہ کا مرتکب کافر ہے بہت چرچا تھا۔ حسن کی مجلس میں اس کا ذکر آیا تو واصل نے کہا کہ میںایک تیسری شق اختیار کرتا ہوں۔ وہ یہ کہ مرتکب کبائر نہ مسلمان ہے نہ کافر۔ اس پر حسن نے سخت ناراضی ظاہر کی۔ واصل بن عمرو بن عبید دونوں ان کے پاس سے اٹھ کر چلے آئے اور اسی مسجد میںاپنا ایک حلقہ درس قائم کیا۔ حسن کے حلقہ سے الگ دیکھ کر لوگوں نے ان کو معتزلہ کہنا شروع کیا۔ اور اس لقب کی ایجاد کا یہ پہلا دن ہے۔ یہ دونوں مذہب اعتزال کے دست و بازو اور فضل و کمال کے چشم و چراغ تھے واصل عرب کے نہایت مشہور بلغیوں میںشمار کیا گیا ہے۔ اس کی قادر الکلامی کی ایک مثال یہ ہے کہ چونکہ وہ الثغ تھا یعنی اس کی زبان سے ’’ر‘‘ کا لفظ نہیںادا ہوتا تھا۔ اس لیے جو لیکچر دیتا تھا یا کوئی عبارت لکھتا یا بولتا تو عموماً ’’ر‘‘ سے خالی ہوتی تھی۔ علم کلام کا پہلا موجد وہی ہے ۔ اصول اولین اسی نے بیان کیے۔ علامہ ابو ہلال عسکری نے کتاب الاوائل میںبہت سے اولیات اس کی طرف منسوب کیے ہیں۔ چنانچہ لکھا ہے کہ ملحدوں کا ردل اول اسی نے لکھا ۔ مسائل فقیہ کے چار ماخذ قرآن ‘ حدیث‘ اجماع قیاس اسی نے قرار دیے ۔ عام و خاص کی اصطلاح اول اسی نے قائم کی۔ یہ مسئلہ کہ نسخ احکام میں ہو سکتاہے نہ اقوال میں ۔ اول اسی نے بیان کیا۔ علامہ ابن خلکان نے اس کی بہت سی تصنیفات کے نام گنائے ہیں جو نہایت عمدہ مضامین پر لکھی گئی ہیں۔ عمرو بن عبید کمالات علمی کے علاوہ نہایت عابد و زاہد اوردنیا سے بے نیاز تھا۔ حسن بصری سے ایک شخص نے اس کی نسبت سوال کیاتو انہوںنے کہا کہ تم ایسے شخص کی نسبت پوچھتے ہو جس کی گویا فرشتوں نے ادب سکھلایا ہے ۔ اور انبیا نے اس کی تربیت کی ہے میںنے اس سے زیادہ کسی کے ظاہر کو باطن کے ساتھ موافق نہیںپایا۔۱۔ خلیفہ منصور عباسی کے دربار میںاس کا آنا اورنہایت بے نیازی اور آزادی سے گفتگو کرنا نہایت دلچسپ واقعہ ہے۔ جس کا تذکرہ تمام مورخین نے کیا ہے ۔ اس کے مرنے پر خود مرثیہ لکھا۔ اہل تاریخ کا بیان ہے کہ یہ شرف کہ خلیفہ وقت کا مرثیہ لکھنا عمر و بن عبید کے سوا دنیا میں کسی کو حاصل نہیں ہوا۔ غرض و اصل اورعمرو کی نکتہ آفرینی سے مذہب اعتزال نے نہایت وسعت پیدا کی۔ عدل و قدر کے علاوہ اوربہت سے دقیق مسائل مذہب اعتزال میںشامل ہو گئے۔ ملک میں ان مسائل کا زیادہ چرچا ہوتا گیا ۔ یہاں تک کہ رفتہ رفتہ اس نے دربار خلافت میںبھی بار پایا‘ یزید بن ولید بن عبدالملک نے علانیہ یہ مذہب قبول کیا‘ اورجب ولید بن یزید نے جو سنہ ۱۲۵ھ میں تخت نشین ہوا تھا زیادہ عیاشی اور عیش پرستی شروع کی تو یزید ناقص نے امر بالمعروف کے دعوے سے جو اعتزال کے مائل کا پانچواں اصول تھا اشتہار جنگ دیا اور بہت سے معتزلہ اس کیساتھ ہو گئے ۱۔ یزید نے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱۔ ا بن خلکان ترجمہ عمرو بن عبید ۔ یزید کا اعتزال اور معتزلین کا اس کا ساتھ دینا مسعودی نے یزید کے حالات میں بیان کیا ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فتح حاصل کی اور ولید کو قتل کرا دیا۔ حکومت کا پایہ تھام کر اعتزال نے اور زیادہ ترقی کی ولید نے سنہ ۱۲۶ھ میں وفات پائی اور اس کے بد ۱۳۲ء میں دولت بنو امیہ کا خاتمہ ہو گیا۔ دولت عباسیہ کا دوسرا بادشاہ منصور اگرچہ خود کسی خاص مذہب کے انتساب سے مشہورہونا نہیںچاہتا تھا۔ لیکن چونکہ عمرو بن عبید سے جس کا ذکر اوپر گزر چکا بچپن کی دوستی تھی اور دونوں مدت تک ایک ساتھ تحصیل علم کرتے رہے تھے اس کے علاوہ عمرو بن عبید کی بے ریا خدا پرستی اور زہد و قناعت کا وہ دل سے معترف تھا۔ خود بخود اس کے عہد میں اعتزال کو ترقی ہوئی ۔ واصل بن عطا نے تمام اسلامی ممالک میںاپنے نقیب بھیج دیے کہ مذہب اعتزال کی منادی کیریں۔ عبداللہ بن الحارث کو مغرب بھیجا۔ اور بہت سے لوگوں نے مذہب اعتزال پر بیعت کی۔ حفص بن سالم کو خراسان روانہ کیا۔ وہاں جہم بن صفوان سے جو مذہب جہمی کا بانی ہے مناظرہ ہوا اورجہم نے زک پائی۔ اسی طرح ایوب کو جزیرہ‘ حسن بن زکو ان کو کوفہ عثمان طویل کو آرمینیہ بھیجا۔ آرمینیا میں بہت سے لوگوںنے یہ مذہب قبول کیا۔ ان واقعات کے سوا ایک نہات قوی سبب اورپیدا ہوا جس نے اعتزال کا سکہ بٹھا دیا۔ منصورنے سلطنت کے استحکام سے مطمئن ہو کر علوم و فنون کی اشاعرت پر توجہ دی اورپہلوی ‘ سریانی‘ ہندی زباونں سے حکمت و فلسفہ کی کتابیں ترجمہ کرائیں۔ سلطنت کے اثر سے ان ترجموں کو نہایت قبول حاصل ہوا۔ اور ملک میں فلسفیانہ مذاق کی گرم بازاری ہو گئی۔ یہود ‘ عیسائی‘ پارسی جو حکومت کی رعایا تھے۔ انہوںنے اس طرف زیادہ توجہ کی اور ساتھ ہی اسلام کے مسائل پر نکتہ چینیاں شروع ہو گئیں منصور نے تلوارت کے زور سے اس کو روکنا مناسب نہ سمجھا بلکہ بحث کی عام اجازت دے دی۔ غیر مذہب والوں سے مقابلہ میں محدثین اور فقہاء اپنی روایت لے کر آئے لیکن وہاں منقولات سے کام کیا کام چلتا تھا۔ آخر معتزلہ میدان میںآئے کہ ہم مذہب کو دلائل عقلی سے ثابت کر سکتے تھے۔ چنانچہ انہوںنے اکثر معرکوں میں غیر مذہب والوں کو شکست دی یہ دیکھ کر کہ حمایت اسلام کے لیے مذہب اعتزال کا زیادہ کام آ سکتا ہے ملک کے ممتاز لوگوں کو اعتزال کی طرف زیادہ توجہ ہوئی اورسینکڑوں ہزاروں آدمی معتزلی بن گئے۔ منصور کے بعد مہدی نے مذہبی آزادی کو روک دیا۔ مہدی کا خلف الرشید ہارون الرشید بھی اگرچہ فلسفہ و حکمت سے بے بہرہ تھا تاہم چونکہ دربار برمکیوں کا ہاتھ میں تھا اوروہ انتہادرجہ کے آزاد خیال اور علم دوست تھے اعتزال کا قدم آہستہ آہستہ آگے بڑھتا جاتا تھا۔ اخیر میںفقہا کے اشارہ سے ہارتون نے مناظرہ کی مجلسیں قطعاً بند کرا دیں۱۔ اور ساتھ ہی معتزلہ کی ترقی بھی گویا رک گئی۔ لیکن جب مامون تخت نشین ہوا تو اس کمی کا پورا معاوضہ مل گیا۔ مامون نے خود مذہب اعتزال قبول کیا اور تمام برے بڑے معتزلی علماء دربار میںباریاب ہوئے۔ ابولالہذیل علاف و نظام مامون کے استاد تھے اور مامون ان کا نہایت ادب و احترام کرتا تھا۔ علاف و نظام دونوںفلسفہ و حکمت کے بڑے استاد تھیے۔ مامون کہا کرتا تھا اظل ابو الھذیل علی الکلام کاظلال الغمام علی الانام یعنی ابوالہذیل نے علم کلام پر اس طرح سایہ کیا ہے جس طرح بادل آدمی پر سایہ کرتا ہے۔ ہارون کی روک ٹوک اور فقیہانہ تعصب نے غیر قوموں کو یہ یقیندلایا تھا کہ مذہب اسلام عقل کے مقابلہ میں ٹھہر نہیںسکتا۔ یہ بدگمانی یہاں تک بڑھی کہ غیر مذہب والوں کو یہ عام خیال پیدا ہو گیا کہ اسلام دنیا میں جو پھیلا وہ تلوار کے زور سے پھیلا۔ مامون نے یہ سن کر ایک عظیم الشان مناظرہ کی مجلس قائم کی تمام اطراف ملک سے ہر مذہب و ملت کے پیشوا طلب کیے۔ فرقہ مانویہ کا رئیس مذہب جس کا نام یزدان بخت تھا رئے سے طلب ہو کر آیا۔ ۱۔ ہر شخص کو نہایت آزادی سے گفتگو کرنے کی عام اجازت دی گئی۔ مسلمانوں کی طرف سے مامون نے ابوالہذیل علاف کو مقرر کیا۔ چنانچہ ابوالہذیل علاف نے یزدان بخت کو بالکل ساکت کر دیا‘ اورمیدان مسلمانوں کے ہاتھ رہا۲۔ مامون نے تمام اضلاع میں مناظرہ کی مجلسیں قائم کیں۔ ار ہر مذہب و ملت کے آدمیوں کو بحث و مناظرہ کی اجازت دی۔ ان مجالس میںہر جگہ معتزلی ہی ممتاز نظر آتے تھے اور درحقیقت اس وقت ان کی وجہ سے اسلام بڑے صدمہ سے محفوظ رہ گای۔ ابوالہذیل علاف کی خوبی تقریر اور زور کلام کی وجہ سے تین ہزار سے زیادہ آدمی ایمانلائے۔ ابو الہذل و نظا م نے مظہب اعتزال میں چند نئے اصول اضافہ کیے جن کی تفصیل آگے آئے گی۔ مامون کے بعد معتصم اور معتصم کے بعد واثق تخت پر بیٹھا۔ یہ دونوں معتزلی تھے۔ اور ان کی وجہ ے اعتزال کو زیادہ قوت حاصل ہو گئی تھی ۔ معتصم اور واثق کے دربار میں قاجی احمد بن ابی دائود جو قاضی القضاۃ تھے تمام سیاہ و سفید کے مالک تھے۔ یعنی ملک کا کوئی انتظام ان کی مرضی کے خلاف نہیں ہو سکتا تھا۔ قاضی صاحب معتزلی تھے۔ اور صرف ایک واسطے سے واصل بن عطا کی شاگردی کا شرف رکھتے تھے۔ ان کے زمانہ میںاعتزال کو وہ زور حاصل ہوا کہ پہلے کبھی نہیںہوا تھا۔ واثق کے بعد اگرچہ متوکل نے تعصب مذہبی کی وجہسے ہر قسم کی عقلی ترقی روک دی۔ لیکن تمام اسلامی ممالک میںیہ مذہب جڑ پکڑ چکا تھا۔ اور متوکل کے مٹانے سے مٹ نہ سکتا تھا چنانچہ چوتھی صدی تک اعتزال کو پوری قوت حاصل رہی او ربڑے بڑے متکلم مفسر‘ ادیب پیدا ہئے جن کی تصنیفات اب تک بڑے پایہ کی خیال کی جاتی ہیں۔ سب سے اخیر ابو علی جبائی تھا جس نے سنہ ۳۰۳ھ میں وفات پائی اورجس کے بعد اس درجہ کا کوئی امام الاعتزال نہیں پیدا ہوا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱۔ کتاب الفہرست ابن الندیم ۲۔ الملل والنحل لا حمد بن مرتضیٰ ذکر مامون ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسلامی ممالک میں اسپین میں فلسفہ اور عقلیات کو عوام نہایت ناپسند کرتے تھے۔ یہاں تک کہ اگر کوئی شخص فلسفہ کے مام سے منسوب ہوتا تھا تو بازار میں اس کا نکلنا مشکل ہو جاتا تھا حکیم ابن رشد اسی جرم مٰںجلا وطن کیا گیا۔ شام میںبھی فلسفہ و عقلیات کو کبھی ترقی نہیںہوئی۔ اس لحاظ سے ان دونوں ملکوں میںاعتزال کا رواج نہ پانا تعجب نہیںہندوستان کا بھی تقریباً یہی حال ہے کئی سو برس تک یہاں عقلی علوم کا قدم نہیں آیا۔ تیموریوںکے زمانہ سے منطق و فلسفہ کی بنیاد پڑی۔ لیکن اس وقت مذہب اعتزا ل خود ناپیدا ہو چکا تھا جس کی وجہ آگے آئے گی۔ چوتھی صدی کے آغاز میں ابوالحسن اشعری کا نشوونما ہوا۔ یہ ابو علی جبائی کے شاگرد تھے اور مدت تک معتزلی رہے۔ ایک دن ایک مسئلہ میں جو اعتزال سے تعلق رکھتا تھا انہوں نے جبائی کو بند کر دیا اورپھر اعتزال سے توبہ کر کے سنی اور شافعی ہو گئے۔فقہا اور محدثین جو فلسفہ اور منطق سے بالکل ناآشنا تھے اوراس وجہ سے معتزلیوں سے ہمیشہ جھکتے تھے ان کو ابوالحسن اشعری نے نہایت غنیمت معلوم ہوئے۔ انہوںنے ان کو نہایت تپاک سے لیا۔ اورانکی تصنیفات میں جا بجا قرٓان و حدیث کے حوالے تھے اس لیے عام لوگوں میں ان کا بہت رواج ہو گیا اور معتزلہ کا زور کم زور ہونا شروع ہوا۔ تاہم چوتھی صدی کے اخیر تک کوئی صوبہ بلکہ ضلع اور پرگنہ و شہر معتزلہ کے وجود سے خالی نہ تھا۔ چنانچہ علامہ بشاری نے جس نے چوتھی صدی میںدنیا کا سفر کیا‘ مقامات ذیل کے متعلق معتزلہ کی نسبت یہ تفصیل لکھی ہے۔ عرب: سردات اور حرمین کے سوا حل اور خصوصاً اعمان کے تمام باشندے معتزلی۔ عراق: معتزلہ یہاں بھی ہیں لیکن حنبلیوں اور شیعوں کاغلبہ ہے۔ اقور: موضع عانتہ میں کثرت سے معتزلی ہیں مصر: فسطاط میں معتزلہ کا بڑا زور ہے۔ خراسان: دیہات میں زعفرانیہ بہت ہیں۔ (زعفرانیہ درحقیقت اعتزال کی ایک شاخ ہے)۔ فارس: معتزلہ اور شیعہ کثرت سے ہیں کرمان: سیر جان میں اکثر معتزلہ ہیں خزرستان: اس ملک میں تمام دنیا کی بہ نسبت معتزلی زیادہ ہیں۔ امام ابولحسن اشعری نے سنہ ۳۳۰ھ میں ان کے مذہب نے عراق میں ترقیکرنی شروع کی ۔ ۱۔ پانچویں صدی میں چند بڑے بڑے نامور علما مثلاً قاضی ابوبکر باقلانی ابن فورک ‘ ابواسحاق ‘ سفرائی‘ ابو اسحاق شیرازی‘ امام غزالی نے اس مذہب کی تائید اورنصرت میں بہت سی کتابیںلکھیں۔ اور معتزلہ کی تکفیر اورتفسیق کی ۔ چونکہ اس وقت عباسیوں کی سلطنت برائے نام رہ گی تھی اور سلجوقیہ وغیرہ کی وجہ سے مذہبی آزادی بالکل باقی نہیں رہی تھی اشعری مذہب کے رواج کے ساتھ اعتزال کے جبرا مٹانے کی کوشش کی گئی معتزلیوں پر ہر رح کا ظلم کیا جاتا تھا۔ اور ان کو اپنے خیالات کے اظہار کی جرات نہیںہو سکتی تھی محمد بن احمد جو بہت بڑے معتزلی عالم گزرے ہیں اور نہ ۴۷۸ھ میں انتقال کیا پچاس برس تک اپنے گھر سے باہر نہیںنکل سکے علامہ زمحشری جن کی تفسیر کشاف گھر گھر میں پھیلی ہوئی ہے چونکہ معتزلی تھے اپنے ملک مٰں چین سے رہنے نہیںپاتے تھے مجبوراً مکہ چلے گئے چنانچہ اپنی ہی تفسیر میں ایک موقع پر اس کا اشارۃ ذکر کیا ہے۔ امام غزالی جس زمانہ میں بغداد کے مدرسہ نظامیہ میں مدرس تھے محمد بن تومرت مراکش سے آ کر ان کا شاگرد ہوا اور ان سے اشعری عقائد سیکھے ۔ بغداد سے واپس جا کر اس نے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱۔ مقریزی ج ۲ ص ۳۵۸ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سلطنت کی بنیاد ڈالی ۔ اور اس کی وفات کے بعد عبدالمومن بن علی جو اس کا جانشین ہوا تمام مغرب و اندلس کا بادشاہ بن گیا۔ محمد بن تومرت نے اشعری کے عقائد عبدالمومن کو حوالہ کر دیے تھے۔ اس نے اپنی تمام سلطنت میںان کو رواج دیااور حکم دے دیا کہ ان عقیدوں کو جا منکر ہو وہ قتل کر دیا جائے۔ چنانچہ سخت خونریزی کے بعد تمام اسپین اور مغرب میں اشعری کے سوا اورکسی فرقہ کا نام و نشان بھی باقی نہ رہا ۱۔ سلطان صلاح الدین فاتح بیت المقدس نے بچپن میں شاہ قطب الدین مسعود نیشاپوری سے تعلیم پائی تھی اور وہ اشعری المذہب تھے۔ سلطان صلاح الدین کو جب حکومت حاصل ہوئی تو اس نے تمام حکومت میں بجز اشعری عقائد جاری کر دیے۔۲۔ ساتویں صدی میں مغلوں اور ترکوں نے بغداد اور بغداد کے ساتھ بڑے بڑے شہروں بلکہ مسلمانوں کے تمام عقلی اور دماغی قوی ٰ کا استیصال کر دیا مدت تک تو یہ تمام ممالک ویران پڑے رہے۔ ترکوں کے مسلمان ہو جانے کے بعد دوبارہ نشوونما شرو ع ہوا۔ لیکن وہ عقلی ترقیاں پھر عود نہیں کر سکتی تھیں۔ ترک قلم کی بہ نسبت تلوار سے زیادہ کام لیتے تھے۔ اور چونکہ چھتی صدی کے بعد تمام اسلامی دنیا یعنی ہند خراسان ‘ فارس‘ عراق ‘ مصر ‘ شام ‘ ایشیائے کوچک‘ قسطنطنیہ وغیرہ میں ہر جگہ ترک ہی ترک تھے اس لیے وہ نازک اور دقیق مذہب جو تلوار کی بہ نسبت قلم سے زیادہ مناسبت رکھتا تھا دوبارہ زندہ نہ ہو سکا۔ مذہب اعتزال کی ابتدا ترقی اور تنزل ایہ نہایت اجمالی خاکہ ہے۔ دوسرے آرٹیکل میں ہم ان کے فرقوں کی تفصیل اور ہر ایک کے عقیدے اور عقائد پر ریویو لکھیں گے۔ تیسرے آرٹیکل میں مشہور علمائے اعتزال کے مختصر حالات ہوں گے ۔ (مقالات شبلی ۔ مطبوعہ لکھنو) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱۔ مقریزی ص ۳۵۸ ۔ ۲ ۔ مقریزی ص ۳۵۰ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ٭٭٭ ابن رشد ابوالولید کنیت‘ حفید لقب‘ محمد بن احمد بن محمد بن رشد نام ہے۔ اس کا خاندان اندلس میںنہایت معزز خاندان میںشمار کیا جاتا ہے۔ اس کا دادا محمد بن رشد سنہ ۴۵۰ھ مطابق سنہ ۱۰۵۸ء میں پیدا ہوا ۔ علم فقہ میںاس درجہ کمال حاصل کیا کہ قرطبہ (کارڈوا) میں قاضی القضاۃ مقرر ہوا۔ دور دور سے لوگ اس کے پاس فقہی مسائل کے حل کرنے کے لیے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱۔ یہ عجیب با ت ہے کہ ابن رشد کے حالات اسلامی تاریخوں اور تذکروں میں بہت کم ملتے ہیں ابن ابی اصیبعہ نے مختصر طور پر اس کا تذکرہ کیا ہے۔ نفح الطیب میں بھی اس سے زیادہ مختصر ہے۔ ابن الآبار اندلسی نے بھی اجمال سے کام لیا ہے یہ تمام کتابیں ہمارے پیش نظر ہیں‘ انصاری اور ذہبی کی کتابیں ہم نے نہیںدیکھیں لیکن ان کی عبارتیںمعلم رینان نے بعینہ نقل کی ہیں ان میںبھی ایسی تفصیل نہیں جو ابن رشد کے شایا ن تھی۔ حال میںمعلم رینان نے جو فرانس کا نہایت مشہور مصنف گزرا ہے‘ خاص ابن رشد کے حالات میں ایک ضخیم کتاب فرنچ زبان میں لکھی جس میں ابن رشد کی سوانح عمری تفصیل سے لکھی۔رینان کو بڑا موقع یہ حاصل تھا کہ ابن رشد کے یہودی شاگردوں نے جو کچھ ابن رشد کے متعلق لکھا تھا وہ اس کے پیش نظر تھا۔ رینان نے ابن رشد کے فلسفہ پر بھی نہایت تفصیل سے بحث کی ہے جس کی وجہ سے کتاب کی ضخامت پر چار سو صفحوں سے متجاوز ہو گئی ہے۔ بیروت کے ایک عیسائی مورخ نے اپنی کتاب آثار الادبار میں ا س کی مدد سے ابن رشد ا کسی قدر مفصل تذکرہ لکھا ہے۔ پروفیسر انطون نے ابن رشد کے حالات میں ایک مستقل کتاب عربی زبان میںلکھی جو حال میں اسکندریہ سے شائع ہوئی ہے۔ لیکن اس کی اصلی غرض ایک مسلمان عالم (شیخ محمد عبدہ) سے مجادلہ کرنا تھا۔ چنانچہ اصلی مقصد کو چھوڑ کر ساری کتاب مجادلہ اور مشاتمہ سے بھر دی ہے۔ اردو زبان مٰں بھی ابن رشد کے متعلق دو ایک مضمون لکھے گئے جن میں سینواب عماد الملک کا مضمون گو مختصر ہے لیکن چونکہ رینان سے ماخوذ ہے قابل استناد ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آتے تھے۔ ابن فران نے جو قرطبہ کی مسجد کا جامع امام تھا۔ اس کے فتاویٰ کا ایک مجموعہ مرتب کیا تھا جس کا ایک نسخہ اسپین کی ایک خانقاہ سان فیکتور میںتھا اور اب پیرس کے کتب خانہ میں ہے۔ شاہی دربار میں اس کو بڑ ا تقرب حاصل تھا۔ اور اکثر وہ ملکی معاملات میں دخیل ہوتا تھا۔ اس زمانہ میں مسلمانوں کا حریف مقابل الفونس تھاجو اکثر اندلس پر حملہ آور ہوا کرتا تھا اور چونہ خود اندلس کے عیسائی اس کی اعانت کرتے تھے اکثر کامیاب ہوتا تھا۔ محمد بن رشد نے خاص ا س غرض سے سنہ ۱۱۲۶ء میںمراکش (مراکو) کا سفر کیا اور سلطان مراکش سے درخواست کی کہ عیسائیوں کو اندلس سے جلاوطن کر کے افریقہ میںآباد کرایا جائے۔ سلطان نے اس صلاح کو نہایت پسند کیا۔ اور اس کے حکم سے ہزاروں عیسائی اندلس سے نکل کر طرابلس غرب میں جا کر آباد ہوئے محمد بن رشد نے سنہ ۵۳۰ھ مطابق سنہ ۱۱۶۲ء میں وفات پائی۔ محمد بن رشد کے فرزند احمد نے جو سنہ ۱۰۹۴ء میں پیدا ہو ا تھا اپنی ذات قابلیت سے اپنے باپ کی جگہ حاصل کی یعنی قرطبہ کا قاضی مقررہوا۔ سنہ ۱۱۶۸ء میں وفات پائی۔ اور اپنی یادگار میں ایک ایسا نامور فرزند چھوڑا جس کی تصنیفات آج اسلام کی سب سے بڑی علمی یادگار ہیں۔ ابن رشد سنہ ۵۲۲۰ھمطابق سنہ ۱۱۲۶ء میںاپنے دادا کی وفات سے ایک مہینہ پہلے بمقام قرطبہ میںپیدا ہوا علم چونکہ خاندانی تھا ۔ اس لیے خود اپنے والد سے علوم کی تحصیل شرو ع کی موطا جو ھدیث کی مشہور کتا ب ہے اس کا راوی اول یحیٰی صمودی اسپین کا ہی رہنے ولاا تھا اور اس جہ سے اس کو موطا کو ان ممالک میں اس درجہ قبول حاصل تھا کہ قرآن کے بعد شمار کی جاتی تھی۔ ابن رشد کی تعلیم اول اسی سے شروع ہوئی۔ وہ موطا کو زبانی یاد کرتا تھا اوراپنے باپ کو سناتا تھا۔ حافظ ابو القاسم بن بشکوال‘ ابومروان بن مسرہ‘ ابوبکر بن سمحون‘ ابوجعفر بن عبدالعزیز اور ابو عبداللہ مازری سے بھی حدیث کی تحصیل کی۔ علم فقہ حافظ ابو محمد بن رزق سے حاصل کیا ۔ ادب اور عربیت اندلس کے نصاب تعلیم کا لازمی جزو تھا۔ اس لیے نہایت محنت اور شوق سے اس کی تحصیل کی۔ ابوالقاسم بن طلیسان کا بیان ہے کہ ابو تمام اور متنبی کا دیوان اس کوزبانی یا د تھا اور اکثر صحبتوں میں ان کے اشعار وہ ضرب المثل کے طور پربرجستہ پڑھتا تھا۔ ان علوم کی تکمیل کے بعد اسنے طب کی طرف توجہ کی۔ اس زمانہ میں فن کا امام ابوجعفر ابن ہارون ترجالی تھا۔ وہ اشبیلیہ کا رہنے والا تھا اوروہاں کے اعیان میںگنا جاتا تھا۔ ابوبکر بن عربی جو امام غزالی کے شاگرد تھے۔ ان سے حدیث کی تحصیل کی تھی طب میںنہایت کمال حاصل کیا تھا ارسطو اور دیگر حکمائے متقدمین کی تصنیفات کا بڑا ماہر تھا۔ علوم نظریہ کے ساتھ معالجہ میں بھی کمال رکھتا تھا اور اس تعلق سے سلطان وقت یعنی یوسف بن عبدالعزیز کے دربار کا ملازم تھا۔ ابن رشد نے ابوجعفر کی خدمت میں ایک مدت تک طب کی تحصیل کی طب کے سوا اورعلوم بھی اس سے حاصل کیے جس کی تفصیل آگے آئے گی۔ اسپین کی علمی حالت اور ابن رشد کی فلسفیانہ تعلیم عرب مورخ متفق اللفظ ہیں کہ اندلس میںفلسفہ کا پڑھنا پڑھانا عام طور پر ناممکن تھ۔ا۔ اگر یہ صحیح ہے تو ابن رشد‘ ابن طفیل ‘ ابن باجہ جیسے حکماء کا اس ملک میں پیدا ہونا اسباب تاریخی کے خلاف ہے۔ اس لیے پہلے ہم اس عقدہ کو حل کرنا چاہتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اسپین میں مسلمانوں کی علمی زندگی ممالک مشرقیہ کی نسبت بالکل جداگانہ حالت رکھتی ہے۔ ممالک مشرقیہ میں علم و فن کی ابتدا دولت عباسیہ سے ہوئی جس کا صدر مقام بغداد تھا۔ عباسی حکومت کا مایہ خمیر پارسی اور عیسائی قومیں تھیں اور اس وقت تک ان کا ہر قسم کا لٹریچر زندہ موجود تھا ان کی آمیزش سے اسلامی علو م و فنون میں ابتدا ہی سے فلسفہ کا رنگ آ گیا تھا اور گو ایک مدت تک فقہا و محدثین بہت کچھ دامن بچاتے رہے لیکن آخر مذہب و فلسسفہ اس طرح سیر و شکر بن گئے کہ آج عقائدکو فلسفہ سے جد اکرنا‘ ناخن کو گوشت سے جدا کرنا ہے ۔ لیکن اسپین کی حالت اس کے بالکل برخلاف تھی اسپین میں اسلامی حکومت کی ترکیب بالکل خاص اور بے میل تھی یعنی عرب کے سوا کسی دوسری قوم کا شائبہ نہ تھا عرب کے قبائل اس کثرت سے وہاں جا کر آباد ہو گئے تھے کہ اسپین حجاز و نجد کا ایک ٹکڑا بن گیا تھا مفتوحہ قوموں کا کوئی علمی لٹریچر موجودنہ تھا‘ اورتھا تو اس قدر کمزور حالت مٰں تھا کہ فاتح لٹریزر پر کچھ اثر نہیں ڈال سکتا تھا۔ مذاہب میںسے جس مزہب کا یہاں راج ہوا وہ مالکی مذہب ھتا۔ جو عرب کے دل و دماغ کا آئینہ تھا۔ ان اسباب سے ملک کی آب و ہوا میں عربیت ‘ عربیت میں مذہب اور مذہب میں تصلب اور تقشف کا اثر آ گیا تھا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ عوام کسی کو فلسفہ و منطق میں مشغول دیکھتے تھے تو زندیق کا خطاب دیتے تھے۔ اور اگر اس کی زبان سے کوئی آزادانہ فقرہ نکل جاتا تھا تو بغیر اس کے کہ حکومت سے چارہ کار کے مستدعی ہوں خود ا س کی زندگی کا فیصلہ کر دیتے تھے۔ علامہ مقری نفخ الطیب میں لکھتے ہیں۔ کلما قیل فلان یقرء الفلسفۃ اطلقت علیہ العامہ اسم زندیق فان زل فی شبھۃ رجموہ بالحجارۃ و حرقوہ قبل ان یصل امرہ الی السلطان ’’جب یہ کہا جاتا تھا کہ فلاں شخص فلسفہ پڑھتا ہے تو عوام اس کو زندیق کہنے لگتے تھے اور اگر اس نے کسی شبہ میں لغزش کھائی تو قبل اس کے کہ بادشاہ کو اس کی خبر پہنچے اس کو پتھر مارتے تھے یا آگ میں جلا دیتے تھے‘‘۔ بایں ہمہ چونکہ مشرقی ممالک سے علمی تعلقات قائم تھے۔ یعنی تحصیل علوم کے لیے اسپین سیلوگ مشرق کوآتے جاتے رہتے تھے۔ اوریہاں کے اہل کمال قدر دانی کی امید پر مغرب کا سفر کیا کرتے تھے۔ اسپین اور مراکش میںبھی کبھی کبھی فلسفہ کا جلوہ نظر آ جاتا تھا۔ سب سے پہلے ان اطراف میں اس فتنہ کا پتہ تیسری صدی ہجری سیچلتا ہے اسحاق بن عمران بغداد کا ایک مشہور طبیب تھا۔ وہ زیادۃ اللہ بن تغلب کے زمانہ میں افریقہ گیا اور وہیں سکونت اختیار کر لی۔ علامہ ابن ابی اصبیبعہ اس کے حال میں لکھتے ہیں کہ یہ پہلا شخص ہے جس کی بدولت بلاد مغرب میں لوگوں نے فلسفہ کو جانا‘ اسحاق کے شاگرد ابن سلیمان نے ان فنون میں زیادہ کمال حاصل کیا۔ اورالہیات میں ایک کتاب لکھی جس کا نام بستان الحکمۃ تھا۔ منطق میں بھی اس کی ایک تصنیف مدخل کے نام سے موجود ہے لیکن ابھی تک یہ فتنہ باہر ہی باہر تھا یعنی خاص اسپین کی حدود اس آشوب سے پاک تھی۔ یہاں تک کہ خلیفہ الحکم المستنصر لدین اللہ کا زمانہ آیا جس نے اندلس کو تمام دنیا کے علوم و فنون سے معمور کر یدا۔ وہ سنہ ۳۵۰ھ میں تخت نشین ہوا۔ اور اس اہتمام سے علوم و فنون کی تربیت پر توجہ کی کہ ہارون الرشید اور مامون الرشید کا نام بھی ماند پڑ گیا۔ بلاد مشرقی میںہر ہر جگہ سفیر اور وکیل مقرر کیے کہ جس قدر نایات کتابیں جہاں سیمل سکیں کتب کانہ شاہی کو روانہ کی جائیں۔ دولت عباسیہ کا ہنوز علمی شباب تھا تاہم خلیفہ حکم کی رقیبانہ حوصلہ مندیوں کا مقابلہ نہ ہو سکا۔ اس کی یہ خاص کوشش تھی کہ جو نادر تصنیف ممالک مشرقیہ میں لکھی جائے بغداد سے پہلے اسپین پہنچ جائے ۔ چنانچہ جب یہ خبر مشہور ہوئی کہ علامہ ابوالفرج اصفہانی کتاب الاغانی لکھ رہا ہے تو حکم کے قاصدوں نے کتاب کے تمام ہونے سے پہلے ایک ہزار اشرفیاں مصنف کی خدمت میں پیش کیں کہ کتاب کا پہلا نسخہ جو تیار ہو وہ کتب شاہی کے لیے محفوظ رکھا جائے۔ اسپین کا خراج اس زمانہ میں پانچ کروڑ سے زائد تھا باوجود س کے حکم کے علمی شوق کے لیے کافی نہ تھا۔ صاحب نفح الطیب لکھتے ہیں: کان یستجلب المصنفات من الاقالیم والنواحی حتی ضاقت عنھا خزانیہ ’’وہ تمام ممالک اور اطراف سے کتابیں بہم پہنچاتا تھا یہاں تک کہ خزانہ شاہی ان مصارف کی برداشت نہ کر سکا‘‘۔ حکم نے جو کتب خانہ جمع کیا تھا اس کی وسعت کا اندازہ اس سے ہو سکتاہے کہ صرف عربی دیوانوں کی تعداد اس قدر تھی کہ فہرست کے ۸۰ صفحے ان کے ناموں کے نذر ہوئے۔ کل کتابوں کی مجموعی تعداد علامہ مقری نے چار لاکھ بیان کی ہے ۔ اس تعداد کی وقعت اس وقت اور زیادہ ہو جاتی ہے ۔ جب یہ خیال کیا جائے کہ یہ مجموعہ ہر قسم کے رطب و یابس کا انبا ر نہ تھا بلکہ زیادہ تر منتخب اورنادرہ روزگار کتابیں تھیں کیونہ حکم خود نہایت بڑا مبصر اور ناقد تھا ۔ مورخین کا بیان ہے کہ شاذو نادر ہی کوئی کتاب تھی جو حکم کے مطالعہ میں نہ آئی ہو‘ یا جس پر حکم نے مصنف کتا ب کا نسب اور سال وفات نہ لکھا ہو۔ اس کے علاوہ اکثر کتابوں پر اس کے لکھے ہوئے ایسے مفید اورنادر علمی قوائد ہوتے تھے جو حکم کے سوا اور کسی کے قلم سے نہ نکل سکتے تھے۔۱۔ اس کتب خانہ میں فلسفہ کی اکثر تصنیفات ممالک مشرقیہ سے منگوا کر جمع کر لی گئی تھیں۔ اوریہ کتابیں فلسفہ کی ترویج کا بڑا سبب ہوئیں۔۲۔ حکم کے بعد اس کا جانشین ہشام اگرچہ فلسفہ کا دشمن نکلا اور اس کے بعد ایک مدت تک کسی نے فلسفہ کی سرپرستی نہ کی۔ لیکن حکم نے فلسفہ دانوں کاایک ایسا گروہ پیا کر دیا تھا کہ جس کا سلسلہ اخیر زمانہ تک برابر قائم رہا۔ احمد اور عمر دو حقیق بھائی سنہ ۳۳۰ھ میں تحصیل علم کے لیے بغداد گئے اور سنہ ۳۵۱ھ مٰں یعنی حکم کی تخت نشینی کے ایک برس بعد وہاں سے واپس آئے۔ حکم نے دونوں کو اپنے خاص درباروں میں طلب کیا۔ ایک اور مشہور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱۔ حالات نفح الطیب اورپروفیسر رینان کی کتاب سوانح عمری ابن رشد میںتفصیل سے مذکور ہیں ۔ ۲۔ ابن ابی اصیبعہ ترجمہ ابو عبداللہ الکتانی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فاضل محمد بن عبدون الجیلی نے بھی ا س غرض سے سنہ ۳۴۷ میں ممال مشرقیہ کا سفر کیا سلیمان محمد بن ظاہر بن بہرام سیسانی سے جو اس زمانہ کا سب سے بڑا منطق دان تھا منطق کی تحصیل کی۔ وہ سنہ ۳۶۱ھ میں اندلس کو واپس آیا اورحکم نے اس کو طباعت کی خدمت دی۔ حکم کے دربار میں اور بہت سے فلسفہ داں تھے جن میں احمد بن حکم بن حفصون اور ابوبکر احمد بن جابر خاص شہرت رھتے تھے ۔ ان لوگوں نے خود اور واسطہ در واسطہ ان کے شاگردوں نے فلسفہ دانوں کا ایک مستقل خاندان قام کر دیا۔ یہاں تک کہ عبداللہ بن الکتانی نے سنہ ۴۲۰ھ میں انتقال کیا۔ اس نے جب منطق کی تکمیل کرنی چاہی تو محمد بن عبدون جیلی کے علاوہ فلسفہ دانوں کی ایک جماعت کثیر مثلاً عمر بن یونس‘ احمد بن حکم‘ ابو عبداللہ بن محمد ابراہیم القاضی‘ ابو عبداللہ بن محمد بن مسعود‘ محمد بن میمون‘ القاسم فید بن نجم‘ سعید بن فتمون‘ ابوالحارث اسقف‘ ابومرین بجائی موجود تھے اور ابو عبداللہ نے ان سب کی شاگردی کا فخر حاصل کیا۔ ایک خاص واقعہ جو اس سلسلہ مٰں لحاظ کے قابل ہے یہ ہے کہ حکم نے مسلمانوں کے ساتھ یہود و نصاریٰ کی بھی سرپرستی کی۔ اس نے اکثر علمائے یہود و نصاریٰ کو دربار میںجگہ دی اور ان کو اس رتبہ تک پہنچایا کہ وہ اپنے مذہبی علوم میں بغداد ک دست نگر نہ رہے۔ ابن ابی اصیبعہ کا بیان ہے کہ حکم کے زمانہ میں اسپین کے یہودی اپنے مذہبی رسوم اور مسائل فقیہ میں بغداد کے یہود کے محتاج تھے۔ اوروہیں سے فتویٰ منگواتے تھے لیکن جب خلیفہ حکم نے حسدامی بن اسحاق کو جو ایک نامور یہودی عالم تھا‘ دربار میں داخل یا اور دولت و مال سے مالا مال کر دیا۔ تو اس سے مشرقی ممالک سے زر خطیر صرف کر کے تمام مذہبی تاریخیںمنگوائیں اور اس وقت اسپین کے یہود بغداد سے بے نیاز ہو گئے۔ ۱۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱۔ طبقات الاطباء ترجمہ حسدامی بن اسحق ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حکم کے طرز عمل نے تعلیم کے دائرہ کو نہایت وسیع کر دیا۔ یعنی مسلمان ‘یہود نصاریٰ سب امیں فلسفہ و معقولات کی تعلیم پھیل گئی۔ ایک بڑا فائدہ یہ ہوا کہ ان فرقوں میں باہم علمی تعلقات قائم ہو گئے ۔ یہود و نصاریٰ پہلے بھی مسلمانوں کی شاگردی سے عار نہ رکھتے تھے لیکن اب مسلمانوں کو بھی غیر مذہب والوں کی شاگردی سے عار نہ رہا۔ بہت سے نامور علمائے اسلام کے حالات مٰں تم پرھو گے کہ وہ طب اورفلسفہ میں عیسائی علماء کے شاگرد تھے ۔ ان باتوںسے وسعت علمی کے علاوہ بڑا فائدہ یہ ہوا کہ فلسفہ کو ایک محفوظ جائے پناہ مل گئی۔ کیونکہ فلسفہ کی تعلیم و تعلم پر جوبرہمی ظاہر ہوتی تھی وہ مسلمانوں تک محدود تھی عیسائیوں اور یہودیون سے کوئی تعرض نہ کر سکتا تھا‘ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ حکم کے بعد جب فلسفہ کا کوئی سرپرست نہ رہا اور فلسفہ کی آزادانہ تعلیم بند ہو گئی تو اس کا اثر یہود اور نصاریٰ پر نہ پڑ سکا۔ اور اوہ بدستور فلسفہ کی تعلیم و تعلم میں مصروف رہے۔ کیونکہ غیر مذہب والوں کو اسلامی حکومتوں میںہمیشہ ہر قسم کی آزادی حاصل رہی‘ اس لیے وہ جو کچھ چاہتے تھے پڑھتے پڑھاتے تھے ان میں سے کوئی تعرض نہیںکر سکتا تھا۔ حکم کے بعد کئی صدیوں تک فلسفہ شاہانہ عنایت سے محروم رہا۔ یہاں تک کہ موحدین کی سلطنت قائم ہوئی یہ سلطنت محمد بن تومرت نے قائم کی تھی جو امام غزالی کا شاگرد تھا اور بڑا عالم تھا۔ اس وقت تک سپین کا شاہی مذہب فقہ میںمالکی ‘ اور عقائد میں حنبلی یا مجسمی تھا۔ موحدین کی سلطنت جب قائم ہوئی تو چونکہ بانی سلطنت اشعری تھا سلطنت کا مذہب بھی اشعری قرار دیا گیا۔ اشعری مذہب میں امام غزالی کی وجہ سے معقولات کا کسی قدر رنگ آ گیا تھا۔ اس لیے فلسفہ کے ساتھ وہ تعصب نہ رہا۔ عبدالمومن نے جو اس سلسلہ کا سب سے پہلا بادشاہ تھا۔ علوم و فنون پر شاہانہ حوصلہ سے توجہ کی اور عبدالملک بن زہر کو جو اس زمانہ کا بہت بڑا عالم تھا ۔ اپنے خاص مقربین میں داخل کیا۔ عبدالمومن کے بعد اس کے جانشین یوسف بن عبدالمومن نے (۵۵۸ھ میں تخت نشین ہوا) حکم اورمامون الرشید کا زمانہ یاد دلایا۔ وہ خود بہت بڑا عالم تھا علوم عربیہ میں کوئی شخص اس کاہمسر نہ تھا صحیح بخاری زبانی تھی فقہ میں بھی ابھی مہارت رکھتا تھا۔ ان علوم سے فارغ ہو کر اس نے فلسفہ پر توجہ کی۔ فلسفہ کی تصنیفات دور دور سے منگوائیں۔ اور ابن طفیل کو جو فلسفہ بو علی سینا کا ہمسر تھا ندیم خاص مقرر کر کے اس خدمت پر مامور کیا کہ تمام اطراف ودیار میں علما اور اہل فن طلب کیے جائیں اوران کو علمی خدمتیں دی جائیں۔ ابن طفیل نے جو آئمہ جمع کیے ان میں ایک ہمارا نامور ابن رشد بھی تھا۔۱۔ ان واقعات سے تم نے اندازہ کیا ہو گا کہ ابن رشد نے جس زمانہ میں نشوونما پایا ملک میں فلسفیانہ مذاق کا آغاز ہو چکاتھا۔ اس کے علاوہ اور متعدد اسباب تھے جن کی وجہ سے اس کو فلسفہ کی طرف رغبت ہوئی اس نیے جن اساتذہ سے فقہ اور طب کی تعلیم پائی تھی ان میں سے اکثر فلسفہ سے آشنا تھے ابوجعفر بن ہارون جس کی خدمت سے اس نے مدتوں استفادہ کیا۔ علوم عقلیہ کا بہت بڑا ماہر تھا۔ ابوبکر عربی جو علم فقہ میں اس کے استاد اور امام غزالی کے شاگرد تھے علم کلام کے تعلق کی وجہسے فلسفہ سے آشنا تھے۔ معلوم ہوتا ہے کہ ابن رشد کو ابتدائے تحصیل ہی میں فلسفہ کا شوق پیداہو گیا تھا۔ ابن ابی اصبیبعہ نے ابن باجہ کے حال میںلکھا ہے کہ ابن رشد نے اس کی شاگردی کی ہے۔ ابن باجہ نے سنہ ۵۳۳ھ میں وفات پائی ابن رشد ۵۲۰ھ میں پیدا ہوا تھا۔ اس بنا پر ابن باجہ کی وفات کے وقت ابن رشد کی عمر صرف ۱۳ برس کی تھی۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱۔ دیکھو ابن خلکان ذکر یوسف بن عبدالمومن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ابن رشد کے شیوخ فلسفہ میں سے ابن باجہ کے حالات خاص طورپر ذکر کرنے کے قابل نہیںکیونکہ اس سے ابن رشد کی علمی زندگی پر بھی روشنی پڑتی ہے۔ ابن باجہ کا نام محمد بن یحیٰ بن باجہ ہے وہ سرقسطہ (سرگوشہ) میںپیدا ہوا اوریہیں اس کی تعلیم و تربیت ہوئی۔ آغاز شباب ہی میں اس کے فضل و کمال کی یہ شہرت ہوئی کہ ابوبکر بن ابراہیم صحراوی رئیس میں سرقسطہ نے اس کو اپنا وزیر مقرر کیا لیکن ابن باجہ کی شہرت جس قدر فلسفیانہ مذاق میں بڑھتی جاتی تھی اسی قدر عوام اس کی طرف سے بدظن ہوتے جاتے تھے۔اس زمانہ میں امرائے بنو ہود اس وصف میں مشہور تھے۔ کہ وہ حکماء اور فلاسفہ کی قدر دانی کو عوام کی رضامندی پر مقدم رکھتے تھے۔ ابوبکر کو امرائے بنو ہود سے ہمسری کا دعویٰ تھا۔ اس لیے اس نے بھی چند روز تک عوام کی پروا نہ کی۔ لیکن نتیجہ یہ ہوا کہ اہل فوج تک برہم ہو گئے۔ اور ایک جماعت کثیر ترک ملازمت کر کے چلی گئی۔ مجبوراً ابن باجہ کو یہ دربار چھوڑنا پڑا اور مراکش جا کر ملثمین کے درباد میں ملازمت اختیار کی یہاں اس کی بہت قدر ہوئی۔ لیکن موت نے جلدی کی اور سنہ ۵۳۳ ھ میں انتقال کر گیا۔ آثار الادبار میںامیر رکن الدین بیرس کی کتاب زبدۃ الفکرۃ فی تاریخ الہجرۃ سے نقل کیا ہے کہ لوگوں نے حسد سے اس کو زہر دے دیا۔ یہ روایت صحیح ہو یا نہ ہو لیکن اس قدر مسلم ہے کہ عوا م اس کی جان کے دشمن ہوگئے تھے۔ علامہ ابن ابی اصیبعہ لکھتے ہیں کہ: بلی مجن کثیرۃ وشناعات من العرام و قصد و اھلاکہ مرات ’’اس کو بہت سی مصیبتیں پیش آئیں اورعوام اس کو برا بھلا کہتے تھے اور چند بار لوگوں نے اس کے مار ڈالنے کا قصد کیا‘‘۔ ابن باجہ کو علوم عقلیہ میںجو کمال حاصل تھا اس کے لحاظ سے وہ اندلس کا ارسطو کہا جا سکتا ہے۔ ممالک مشرقیہ میںبھی فارابی اور یعقوب کندی کے سواکوئی اس کا ہم پایہ نہیں پیدا ہوا ۔ علوم و فنون کو اس نے جو ترقی دی اس کی تفصیل کا یہ موقع نہیںلیکن اس کو اجمالاً ان عنوانوں میں بیان کیا جا سکتا ہے: ۱۔ ارسطو کی تصنیفات کی شرحیں لکھیں۔ ۲۔ فلسفہ کی شاخوں پر مستقل کتابیںلکھیں جن میں اپنی ذاتی تحقیقات درج کیں (ان تصنیفات کا ذکر تفصیل کے ساتھ طبقات الاطباء میں موجود ہے) ۳۔ امام غزالی کے برخلاف یہ ثابت کیا کہ علوم نظریہ ادراک حقائق کے لیے کافی ہیں علوم کشفیہ کی ضرورت نہیں۔ ۴۔ موسیقی پر نہایت محققانہ کتاب لکھی اور بہت سے راگ خود ایجاد کیے۔ ابن باجہ نے جس کام کو شروع کیا۔ ابن رشدنے اس کو انجام تک پہنچایا اور یہ بالکل قرین قیاس ہے کہ شاگرد نے استاد ہی کی رہنمائی سے اس پرخطر وادی میں قد م رکھا‘ اور یہ منزل طے کی۔ اس موقع پر یہ واقعہ افسوس کے ساتھ ظاہر کرناپڑتا ہے کہ ابن باجہ کی تصنیفات سے اسلامی کتب خانے بالکل خالی ہیں۔ البتہ یورپ میں کچھ کچھ پتا چلتا ہے منطق میں اس نے جو رسالے لکھے تھے و اسپین کے کتب خانہ اسکور یال میںمحفوظ ہیں۔ ایک رسالہ جس کا نام الوداع ہے اس کا ترجمہ یہودیوں نے عبرانی زبان میں کیا ہے ۔ فرانس کی لائبریری میں موجود ہے۔ حیواۃ المعتزل اس کی مشہور کتاب خود ناپید ہے لیکن موسیٰ یہودی نے شرح رسالہ حی ابن یقظان میں اس سے اکثر فوائد نقل کیے ہیں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱۔ ابن باجہ کا حال ابی ابن اصیبعہ نے لکھا ہے لیکن نہایت مختصر ہے‘ آثار الادبار میں تفصیل کی ہے لیکن اس کا ماخذ مشرقی کتابیں نہیں بلکہ یورپ کی تصنیفات ہیں۔نفح الطیب میں اس قدر لکھا ہے کہ فن موسیقی میں وہ ابونصر فارابی کا ہمسر ہے ۔ اور اسپین میں جو راگ مشہور ہیں اسی کی ایجاد ہیں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عہد قضا اوردربار کے تعلقات اوپر گزر چکاہے کہ ابن رشد کا دادا قاضی القضاہ کے منصب پر ممتا زتھا۔ اس تعلق سے ابن رشد کو آغاز شباب ہی میں قضاء کی خدمت مل گئی۔ وہ پہلے اشبیلیہ کا قاضی مقرر ہوا پھر ابو محمد ابن مغیث قاضی قرطبہ کے مرنے پر قرطبہ (کارڈوا) کے قضا کے خدمت ملی۔ اس خدمت کو جس خوبی سے اس نے انجام دیا۔ اس کی شہرت نے اس کو دربار شاہی تک پہنچا دیا۔ یہ موحدین کی سطلنت کا زمانہ تھا اور اس سلسلہ کا پہلا فرمانروا عبدالمومن سریر آرائے سلطنت تھا ؎۱ ۔ عبدالمومن خود ایک فاضل شخص تھا۔ محمد بن تومرت کے فیض صحبت سے جو امام غزالی کا شاگرد تھا اس کا فضل و کمال اور زیادہ ترقی کر گیا۔ ابن رشد ی دیانت اور کمالات علمی کا حال جب اس کو معلوم ہوا تو دربار میں آ کر اپنے خاص ندیموں میں شامل کیا‘ اور قضا کی خدمت بھی بحال رہنے دی سنہ ۵۴۷ھ میں جبکہ اس کی عمر ۲۷ سال کی تھی وہ قاضی القضاۃ مقرر ہوا۔ یعنی اندلس سے لے کر مراد کو تک کے کل علاقے اس کی قضا کے حدود میں آ گئے ۔ وہ ان تما م مقامات کا دورہ کرتا رہتا تھا۔ اوردیوانی عدالتوں کی نگرانی کرتا تھا۔ وہ اپنی تصنیفات میں اکثر بقید سال و تاری ان واقعات کا ذکر کرتا تھا جو زمانہ تصنیف میں پیش آئے۔ ان واقعات کے ترتیب دینے سے معلوم ہو سکتا ہے کہ کس کس سنہ میں وہ کہاں کہاں تھا عبدالمومن نے ۵۵۶ھ میں قضا کی اوراس کا بیٹا محمد یوسف تخت نشین ہوا۔ یوسف بہت بڑا فاضل اوربلند حوصلہ بادشاہ تھا۔ عبدالمومن نے اس کی تربیت میں تیغ و قلم‘ دونوں کے اہل کمال کا اہتمام کیا تھا جو لوگ تیغ کے فن میں یکتائے زمانہ تھے اس کی تعلیم و تربیت پر مامور کیے ؎۲ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ؎۱ ابن خلکان کی روایت کے موافق عبدالمومن نے سنہ ۵۴۱ھ میں مراکش پر قبضہ کیا اور سنہ ۵۴۴ھ میں ملثمین کی سلطنت کا خاتمہ ہو گیا اس لیے عبدالمومن کی سلطنت کا آغاز سنہ ۵۴۲ھ سے سمجھنا چاہیے ۔ ؎۲ ابن خلکان تذکرہ یوسف بن عبدالمومن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسی کا اثر تھا کہ یوسف دونوں میدانوں میں اپنے حریفوں سے آگے نظر آتا تھا۔ اس زمانہ میں عیسائیوں نے ٹالیڈو (طلیطلہ) کو دارالسلطنت قرار دے کر اسپین کے اکثر اضلاع مسلمانوں کے ہاتھ سے چھین لیے تھے۔ یوسف نے اپنے زور بازو پر اکچر اضلاع واس لیے ۔ لیکن اس مضمون میں ان واقعات کی تفصیل کا موقع نہیں یہاں صرف اس کے علمی حالات بیان کیے جا سکتے ہیں۔ وہ اگرچہ علوم و فنون میں کمال رکھتا تھا لیکن فلسفہ اور عقلیات کی طرف خاص میلان تھا‘ اسی بنا پر اس نے ابن طفیل نے جو علوم عقلیہ میں ابن سینا کا ہم پایہ تھا‘ ندیم خاص اور صیغہ علمی کا افسر مقرر کیا۔ ابن طفیل نے اس کے حکم کے مطابق دور دور سے ہر فن کے حکماء اورفضلاء دربار میں طلب کیے۔ ان میں ایک ہمارا رہنما ابن رشد بھی تھا۔؎۱ ابن رشد جس کیفیت کے ساتھ دربار میں داخل ہوا ہے اس کی کیفیت اس نے خود بیان کی ہے وہ کہتا ہے کہ : ؎۲ جب میں دربار میں داخل ہوا تو ابن طفیل بھی حاضر تھا۔ ا س نے امیر المومنین یوسف کے حضور میں مجھ کو پیش کیا اور میرے خاندانی اعزاز اور میری ذاتی لیاقت کو نہایت آب و تاب سے بیان کیا۔ یوسف میری طرف مخاطب ہوا‘ پہلے میرا نام و نسب پوچھا‘ پھر کہا کہ حکماء عالم کے متعلق کیا رائے رکھتے ہیں؟ یعنی ان کے نزدیک عالم قدیم ہے یا حادث؟ یہ سوال سن کر میں ڈر گیا اورچاہا لکہ بالطائف الحیل اس سوال کو ٹال جائوں۔ چنانچہ میں نے کہا کہ میںفلسفہ سے واقف نہیں۔یوسف مجھ کو بدحواس دیکھ کر ابن طفیل کی طرف متوجہ ہوا اور اس مسئلہ پر بحث کرنی شروع کی ۔ ارسطو اور افلاطون اور دیگر حکما نے جو کچھ اس مسئلہ کے متعلق لکھا ہے بہ تفصیل بیان کیا پھر متکلمین اسلام نے حکماء کی رائے پر جو اعتراضا ت کیے ہیں ایک ایک کر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ؎۱۔ ابن خلکان تذکرہ یوسف بن عبدالمومن ؎۲۔ پروفیسر رینان کی کتاب تذکرہ ابن رشد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کے بیان کیے ۔ یہ حالت دیکھ کر میرا خوف جاتا رہا لیکن مجھ کوتعجب ہوا کہ ایک بادشاہ علوم عقلیہ میں یہ دستگاہ رکھتا ہے جو طبقہ علما مین بھی شادو نادر ہی کسی کو حاصل ہوتی ہے۔ تقریر سے فارغ ہو کر اس نے پھر میری طرف توجہ کی‘ اب میں نے آزادی کے ساتھ اپنے خیالات ظاہر کیے۔ جب دربار سے رخصت ہوا تو مجھ کو خلعت زرنقد اورسواری کا گھوڑا عنایت کیا‘‘۔ فلسفہ کے سلسلہ میں ابن رشد کا جو بڑا کارنامہ ہے وہ تصنیفات ارسطو کی شرح ہے اس کارنامے کا اصلی باعث یوسف تھا خود ابن رشد کا بیان ہے کہ ایک دن ابن طفیل نے مجھ کو بلا بھیجا اورکہا کہ آج امیر المومنین (یوسف) اس بات پر افسوس کرتے ہیں کہ ارسطو کا فلسفہ نہایت دقیق ہے اور مترجموںنے ترجمہ اچھا نہیں کیا۔ کاش کوئی قابل شکص اس کام پر آمادہ ہوتا اور فلسفہ ارسطو کو اس طرح آسان کر کے ادا کرتا کہ لوگ آسانی سے سمجھ سکتے یہ کہہ کر ابن طفیل نے ابن رشد سے کہا کہ میری تو اب عمر نہیں رہی۔ اس کے علاوہ امیر المومنین کی خدمت سے فرصت نہیں ہوتی تم اس کو اٹھا لو اور تم ہی اس کا م کو سرانجام دے سکتے ہو۔ ابن رشد کا بیان ہے کہ اسی دن سے میں نے اس کام کی ابتدا کی۔ یوسف نے سنہ ۵۸۰ھ میں وفات پائی اوراس کا بیٹا یعقوب منصور تخت نشین ہوا۔ وہ نہایت اولوالعزم بادشاہ تھا۔ موحدین کی سلطنت اس کے زمانہ میں انتہائے کمال کو پہنچ گئی اس کی وسعت فتوحات اورجاہ و جلال کی داستان گو نہایت دلچسپ ہے لیکن ا س کا یہ محل نہٰںعلمی مرحلہ میں اس نے جو کام کیے ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ فقہاء کو حکم دیا کہ کسی مجتہد یا امام کی تقلید نہ کریں بلکہ خود اپنے اجتہاد سے کام لیں عدالتوں میںفقہ کی پابندی اٹھا دی چنانچہ جو فیصلہ کیا جاتا قرآن ‘ حدیث ‘ اجماع اور قیاس سے کیا جاتا تھا۔ ابن خلکان نے منصور کے حالات میں جہان اس واقعہ کا ذکر کیا ہے لکھا ہے کہ ہمارے زمانہ میں مغرب سے جو علماء آئے مثلاً ابو الخطاب بن وحیہ ‘ابو عمرو‘ محی الدین عربی وغیرہ سب کا یہی طریقہ تھا یعنی کہ کی کی تقلید نہیں کرتے تھے۔ نصور نے جیسا کہ ا س کی علم پروری کے لحاظ سے توقع کی جا سکتی تھی ابن رشد کی نہایت قدر دانی کی۔ سنہ ۵۹۱ھ میں جب وہ الفانس کے مقابلہ کے لیے جا رہا تھا۔ ابن رشد کو دواعی ملاقات کے لیے دربار میں طلب کیا۔ اور اس قدر تعظیم و تکریم کی کہ تمام دربار کو حیرت ہوئی۔ ارکان سلطنت میں سب سے زیادہ تقرب عبدالواحد کو حاصل تھا جو منصور کا داماد اورندیم خاص تھا۔ دربار کی ترتیب میں اس کا تیسرا نمبر تھا لیکن ابن رشد اس سے بھی آگے بڑھا ۔ یعنی منصور نے اس کو بلا کر خاص اپنے پہلو میں جگہ دی اوردیر تک باتیںکرتا رہا۔ ابن رشد جب دربار میں واپس آیا تو دوستوںنے بڑے بڑے جوش و خروش سے ا کا مبارک باد دی۔ انجام میں حکیم نے بجائے اس کے کہ مسرت کا اظہار کرتا افسوس ظاہر کیا اور کہا کہ ’’یہ خوشی کا نہیں بلکہ رنج کا موقع ہے کیونکہ دفعتہ اس درجہ کا تقرب برے نتائج پیدا کرے گا‘‘ اور افوس ایسا ہی ہوا۔ ٭٭٭ ابن رشد کی تباہی سلاطین اسلا م میں منصور اور اس کا ہم عمر سلطان صلاح الدین فاتح بیت المقدس اپنے زمانہ میں اسلام کے مایہ ناز تھے ۔ اتفاق سے ان دونوں کو اہل کمال بھی ایسے ہاتھ آئے تھے جن پر آج تک اسلام کو ناز ہے۔ یعنی ابن رشد اور شیخ الاشراق لیکن زمانہ کی نیرنگیاں دیکھو وہی صلاح الدین جس کا دامن انصاف ہر قسم کے داغ سے پاک تھا شیخ الاشراق کا قاتل ہے۔ اور وہی منصور جو عدل و انصاف کا پیکر مجسم تھا ابن رشد کا برباد کنندہ ہے۔ ابن رشد کی تباہی و بربادی چونکہ ایک حیرت انگیز واقعہ ہے اسلیے مورخین نے ا س کے اسباب کی تحقیق میںبہت جدوجہد کی ہے اور مختلف مورخوںنے مختلف اسباب بتائے ہیں۔ ایک روایت یہ ہے کہ ابن رشد کی عادت تھی کہ جب دربار میں منصور سے کسی علمی مسئلہ کے متعلق بحث کرتا تھا تو منصور کو ’’برادر من‘‘ کہہ کر خطاب کرتا تھا اس سے بڑھ کر یہ کہ ارسطو کی کتاب ’’الحیوانات‘‘ کی جو شرح لکھی ا س میں زرافہ کے ذکر میں لکھا ہے کہ اس جانور کو بادشاہ (یعنی منصور) کے ہاں دیکھا ہ۔ یہ معمولی طریقہ خطاب منصور کی گویا صریحی توہین تھی۔؎۱ یہ روایت اس لیے قرین قیاس معلوم ہوتی ہے کہ منصور بالطبع نہایت فخر پسند اور جاہ طلب تھا ۔ یورپ نے بیت المقدس کو جب مسلمانوں کے ہاتھ سے چھینا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ؎۱۔ ابن ابی اصیبعہ تذکرہ ابن رشد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ چاہا اور اس ارادہ سے یورپ کے ہر حصہ سے فوجوں کا بادل اٹھ کر بیت المقدس کی طرف بڑھا تو صلاح الدین نے منصور کے پاس قاصد بھیجا کہ یہ اسلام کی حمایت کا وقت ہے۔ منصور ہر طرح اعانت دینے کے قابل تھا‘ اور اعانت دینا چاہتا تھا لیکن اتنی سی بات پر برہم ہو گیا کہ صلاح الدین نے اسے اپنے خط میں اس کو امیر المومنین کے لقب سے مخاطب نہیں کیاتھا ؎۱ صلاح الدین کا تو صرف یہ قصور تھا کہ اس نے منسور کو تمام دنیا کا امیر المومنین نہیں مانا۔ ابن رشد نے یہ غضب کیا کہ منصور کو صرف بربر کے بادشاہ کے لقب سے یاد کیا اس سے بڑھ کر منصور کی کیا اہانت ہو سکتی تھی۔ اکثر مورخین کا بیان ہے کہ ابن رشد کی بربادی کا سبب منصور کا مذہبی تعصب تھا اورظاہر حالات بھی اس کے مقتضی ہیں کیونکہ ابن رشد جو فرد قرار داد جرم لگائی گئی تھی وہ الحاد اور بے دینی کی تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ موحدین کی سلطنت کی بنیاد مذلب کی سطح پر قائم ہوئی تھی ا سلسلہ کا بانی محمد بن تومرت امامت اور مہیدویت کا مدعی تھا اور اسی حیثیت سے اس نے سلطنت کی بنیاد قائم کی تھی۔ سلطنت کا صدر مقام مراکش تھا جو صحرا نشین بدوئوں کا گویا کعبہ تھا۔ اور جہاں ہر طرف بدویت اور سادہ عربیت کے آثار نظر آتے تھے۔ فوجی اورملکی ارکان ٹھیٹ مذہبی خیال کے لوگ تھے سلطنت کی ملکی قوت محض اس بات پر موقوف تھی کہ مذہبی جوش کا رنگ قائم رکھا جائے۔ عیسائیوں نے اسپین کے اکثر حصے دبا لیے تھے۔ ان کے مقابلے میں صرف مذہبی جوش کی قوت سے عہدہ برائی ہو سکتی تھی۔ اور منصور نے جو اس سلسلہ کا تیسرا فوجدار تھا اسی قوت سے کام لے کر عیسائیوں پر عظیم الشان فتوحات ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ؎۱ ابن خلکان تذکرہ یعقوب منصور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حاصل کی تھیں ان حالات کا لازمی نتیجہ یہ تھا کہ دربار فقہا اور محدثین کے ہاتھ میں تھا اور تمام ملک پر انہی کے خیالات چھا گئے تھے۔ ان واقعات کے ہوتے ہوئے ابن رشد نے فلسفہ پر توجہ کی اور اس طرح کہ ارسطو کو اپنا امام اورپیشوا قرار دیا۔ اس کی تمام خصوصیات کی تہذیب و ترتیب کی‘ ان پر شرحیں لگائیں اور بہت سے مسائل کی جو جمہور اسلام کے خلاف تھے حمایت کی۔ ان میں ایک مسئلہ یہ بھی تھا کہ افلاک قدیم اورازلی ہیں خدا نے ان کو نہیں پیدا کیا۔ بلکہ خدا صرف ان کی حرکت کا خالق ہے۔ ابن رشد نے صرف یہی نہیں کیا ک فلسفہ میں تصنیفات و تالیفات کیں اور فلسفیان مسائل کی اشاعت کی بلکہ ا کے ساتھ یہ بھی دعویٰ کیا کہ اسلامی عقائد کی صحیح تشریح وہی ہے جو ارسطو کے مسائل کے موافق ہے۔ اس سے برھ کر یہ یہ کہ اشاعرہ کے عقائد کو نہایت زور و شور کے ساتھ باطل کیا اور ثابت کیا کہ یہ عقائد عقل اور نقل دونوں کے خلاف ہیں۔ اس موقع پر یہ لحاظ رکھنا چاہیے کہ موحدین خود اشعری تھے اور انہوںنے اس مذہب کو شاہی مذہب قرار دیا تھا۔ ان سب پر یہ اضافہ ہوا کہ ابن رشد نے اما م غزالی کی تہافۃ الفلاسفہ کا رد لکھا اور اس کتاب میں اکثر جگہ امام صاحب کی شان میں گستاخانہ الفاظ استعمال کیے۔ حالانکہ امام غزالی موحدین کے پیران پیر تھے کیونکہ وہ محمد تومرت کے استاد تھے۔ اور محمد بن تومرت موحدین کا امام تھا اور ان کی سلطنت کا بانی تھا۔ فلسفہ کا رنگ ابن رشدپر اس قدر غالب آ گیا کہ بعض اوقات بے اختیار اس کی زبان سے ایسے الفاظ نکل جتے تھے جو عام عقائد کے خالف ہوتے تھے۔ انصار ی نے ابو محمد عبدالکبیر سے روایت کی ہے کہ ایک دفعہ منجموں نے یہ پیشن گوئی کی کہ اس سا ل نہایت سخت ہوا کا طوفان آئے گا جس سے ہزاروں آدمی ہلاک ہو جائیں گے ۔ عوام پر اس پیشن گوئی کا یہ اثر ہوا کہ لوگوں نے تہ خانے تیار کرائے اروتمام ملک میں نہایت سخت پریشانی پھیل گئی یہاں تک کہ خود سلطنت کو اس کی طرف متوجہ ہونا پڑا۔ اور دربار میں ایک بڑا مجمع ہوا اور تمام علماء اور فضلاء طلب کیے گئے ۔ ان میں ابن رشد بھی تھا۔ دربار سے لو گ واپس آئے تو میں نے ابن رشد سے کہا کہ اگریہ پیشن گوئی صحیں نکلی تو یہ دوسرا طوفان ہو گا کیونکہ قوم عاد کے بعد اس قسم کا طوفان نہیں سنا گیا۔ ابن رشد بے اختیار جھلا کر بولا کہ خدا کی قسم قوم عاد کا وجود ہی ثابت نہیں‘ طوفان کا کیا ذکر ہے۔ اس پر تمام لوگ حیرت زدہ ہو گئے۔ ابن رشد کی یہ تمام باتیں اگر اس کی ذات تک محدود رہتیں تو چنداں شورش نہ ہوتی لیکن وہ قاضی القضاۃ تھا فقیہ تھا طبیب تھا۔ اور یہ سب تعلقات ا س قسم یک تھے کہ اس کے معتقدات اور خیالات تما م ملک میں پھیل جاتے تھے۔ ان واقعات کا نتیجہ یہ ہوا کہ تمام ملک میں ایک آگ سی لگ گئی۔ ابن رشد سے جن لوگوں کو حسد تھا ان کو اس سے بڑھ کر کیا موقع مل سکتا تھا۔ ان لوگوں نے اس آگ کو اور بھڑکایا نوبت یہاں تک پہنچی کہ اگر منصور علانیہ ابن رشد سے باز پرس نہیںکرتاتو رعایا اس کی طرف سے بدگمان ہو جاتی ۔ غرض منصور نے حکم دیا کہ ابن رشدمع اپنے شاگردوں اورپیروئوں کے مجمع عام میں حاضر کیا جائے۔ چنانچہ قرطبہ کی مسجد میں ایک عظیم الشان مجمع ہوا جس میں ابن رشد ایک مجرم کی حیثیت سے لایاگیا ۔ اس مجمع میں تمام فقہا اور علماء شریک تھے۔ سب سے پہلے قاضی ابوعبداللہ ابن مروان نے تقریر کی اور کہا کہ ہر چیز میں نفع اور ضرر دونوں باتیں پائی جاتی ہیں اس بنا پر نافع اور مضر ہونے کا فیصلہ نفع اور ضرر کے غلطہ کے اعتبار سے کیا جاتا ہے۔یعنی اگر اس چیز میں نفع کی مقدار زیادہ ہے تو نافع ہے اور کم ہے تو مضر ہے ۔ قاضی ابو عبداللہ کے بعد ابو علی بن حجاج نے جو خطیب تھے کھڑے ہو کر اعلان کیا کہ ابن رشد ملحد اوربے دین ہو گیا ہے۔ یہ سب ہوا لیکن اسلامی آزادی اور فراخ حوصلگی کا پھر بھی اتنا اثر تھا کہ یورپ کی مجلس انکویزیشن کی طرح یہ فتویٰ نہیں دیا گیا کہ مجرم زندہ جلا دیا جائے بلکہ صرف اس سزا پر قناعت کی گئی کہ وہ کسی علیحدہ مقام پر بھیج دیا جائے۔ حاسدوںنے یہ بھی شہادت دی تھی کہ ابن رشد کے خاندان کا کچھ پتہ نہیں چلتا۔ کیونکہ اسپین میں جو قبائل آباد ہیں ابن رشد کو کسی سے خاندان تعلق نہیںہے۔ اس کا تعلق اگر ثابت ہوت اہے تو بنی اسرائیل کے خاندان سے ثابت ہوتا ہے۔ اس بنا پر یہ قرار پایا کہ وہ موضع لوسینا ؎۱ بھیج دیا جائے کیونکہ یہ خالص بنو اسرائیل کی بستی تھی اور ان کے سوا اور کوئی قوم یہاں سکونت نہیں رکھتی تھی۔ چونکہ اصلی غرض عوام کو مطمئن کرنا تھا اس لیے منصور نے ایک فرمان لکھوا کر تمام ملک میں شائع کر وا دیا جس میں اس واقع کا اجمالاً اورملاحدہ کی داروگیر کا تفصیلاً ذکر تھا۔ فرمان کی ابتدا ئی عبارت یہ تھی: قد کان فی سالف الدھر قوم خاضوا نی جورالا وھام واقد لھم عوامجم بشفوف علیھم فی الافھام حیث لاداعی یدعوالی الحی القیوم ولا حاکم یفسل بین المشکوک فیہ والمعلوم فحلدوا فی العالم مخامالھا من خلاق مسودۃ المعانی والا و راق بعدھا من الشریعۃ بعد المشرقین وتباینھا بتائن الثقلین یوھمون ان العقد میزانھا والحق برھا نھا وھم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ؎۱ یہ قرطبہ کے قریب ایک چھوٹی سی بستی تھی جہاں صرف یہودی سکونت رکھتے تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یتشعبون فی القضیۃ الواحدۃ فرقا ویسیرون فیھا شواکل وطرقا الخ چونکہ فرمان کی عبارت فضول مکرو قوافی اور حشو د زدید سے بھری ہوئی ہے اس لیے ہم نے اس کا لفظی ترجمہ نہیں کیا مضمون کا خلاصہ یہ ہے: زمانہ قدیم میں کچھ لوگ ایسے تھے جو وہم کے پیرو تھے۔ تاہم عوام ان ک کمال عقلی کے گرویدہ ہو گئے۔ ان لوگوںنے اپنے خیال کے مطابق کتابیں تصنیف کیں جو شریعت سے اس قدر دور تھیں کہ جس قدر مشرق سے مغرب دور ہے۔ ہمارے زمانہ میں بعض لوگوں نے ان ہی ملاحدہ کی پیروی کی اورانہی کے مذاق پر کتابین لکھیں۔ یہ کتابیں بظاہر قرآن مجید کی آیتوں سے آراستہ ہیں لیکن تہ میں الحاد اور زندقہ ہے۔ جب ہم کو ان حالات کی خبر ہوئی تو ہم نے ان کو دربار سے نکال دیا اورحکم دیا کہ ان کی تصنیفات جہاں ہاتھ آئیں جلا دی جائیں۔ عوام میں جو برہمی پھیل گئی تھی اس کے روکنے کے لیے یہ تدبیر بھی کافی تھی۔ منصور نے ایک خاص محکمہ اس غرض سے قائم کیا کہ فلسفہ وار منطق کی تصنیفات ہر جگہ سے مہیا کی جائیں اور جلا دی جائیں چنانچہ سینکڑوں کتابیں ‘ ہزاروں کتابیں آگ کی نظر ہو گئیں۔ منصورنے یہ سب کچھ کیالیکن وہ فلسفہ داں اور فلسفہ پرست تھا۔ اس لیے فلسفہ کی یہ تباہی اور بربادی ا س کو دل سے گوارا نہیں ہو سکتی تھی۔ تدبیر یہ اختیار کی کہ اس محکمہ کا افسر حفید ابوبرکر ان زہر کو مقرر کیا جو خود بہت بڑا فلسفہ داں تھا اور فلسفہ کا شیفتہ تھا۔ علامہ ابن ابی اصبیعہ نے ابوبکر بن زہر کے حال میں لکھاہے کہ اس سے منصور نے عرض یہ تھی کہ ابوبکر ابن زہر کے پاس فلسفہ اور منطق کی جو کتابیں آئیں گی وہ برباد ہونے سے محفوظ رہ جائیں گی۔ ابن زہر نے تمام کتب فروشوں کے پاس حکم بھیج دیا کہ فلسفہ کی جس قدر کتابیں موجود ہوں فوراً یہاں بھیج دی جائیں اور جو لوگ فلسفہ کی تحصیل میں مصروف ہوں ان کو سزا دی جائے۔ ابن زہر کا حکم منصورکا حکم تھا اس لیے اس کی ضرور تعمیل ہوئی ہو گی لیکن ابن زہر نے ان کتابوں کے ساتھ کیا سلوک کیا؟ اس کافیصلہ تم خود کر سکتے ہو ۔ ؎۱ قاصد رقیب بودہ و من غافل از فریب بے درد ‘ مدعا خودی اندرمیانہ ساست عام لوگ تو اس نکتہ کو نہ سمجھے لیکن اشبیلیہ میں ایک شخص رہتا تھا جو ابن زہر کا پرانا دشمن اور حاسد تھا ۔ اسنے ایک مضمون مختصر تیار کیا کہ ابن زہر خود فلسفہ کا بہت بڑا حامی ہے اور اس کے گھر میں اس فن کی ہزاروں کتابیںموجود ہیں جو رات دن اس کے مطالعہ میں رہتی ہیں محضر پر بہت سے لوگوں کے دستخط کرائے اور منصورکے پاس بھیجا۔ منصور نے محضرکو پڑھ کر حکم دیا کہ عرضی دہندہ قید خانہ بھیج دیا جائے۔ وہ گرفتار ہوکر قید ہوا ور تصدیق کرنے والے ثر کے مارے روپوش ہو گئے۔ منصور نے لوگوں سے کہا کہ اگر سارا اندلس جمع ہو کر شہادت دے تک بھی میں ابوبکر بن زہر کی نسبت کسی قسم کی بدگمانی نہیں کر سکتا ۔ ؎۲ ابن رشد جب جلاوطن کیاگیا تو اس کے ساتھ اور بڑے بڑے فضلا ء کو بھی شہر بدر کیے گئے۔ یعنی ابوجعفر ذہبی‘ ابوعبداللہ بن محمد براہیم قاضی بجایہ‘ ابو الزبیع الکفیف‘ ابو العباس۔ ابن رشد کی یہ حالت ہو گئی تھی کہ غریب جہا ں جاتا تھا ذلیل و رسوا کیا جاتا تھا خود اس کا بیان ہے کہ سب سے زیادہ مجھ کو جو صدمہ پہنچا یہ تھا کہ ایک دفعہ میں اور میرا بیٹا عبداللہ قرطبہ (کارڈوا) کی مسجد میں عصر کی نماز پڑھنے کے لیے گئے لیکن نہ پڑ ھ سکے چند بازاریوں نے ہنگامہ مچایا اورہم دونوں کو مسجد سے نکا ل دیا‘‘۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ؎۱ ابن ابی اصیبعہ ذکر حفید ابوبکر بن زہر۔ ؎۲۔ ابن ابی اصیبعہ ۱۲ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تاج الدین کا بیان ہے کہ جب میں اندلس گیا تو ابن رشد سے ملنا چاہا معلوم ہوا کہ معتوب سلطانی ہے اور کوئی شخص اس سے نہیں مل سکتا۔ ابن رشد کی گرفتاری اور ذلت پر عوام میںنہایت مسرت کا اظہار کیا گیا ۔ شعرا نے تہنیت آمیز نظمیں لکھیں بعض اشعار یہ ہیں لم تلزم الرشد بابن رشد لما علا فی الزمان جدک وکنت فی الدین ذاریاء ما کان ہکذا جدک دیگر نفذ القضاء باخذکل مموہ مللسف فی دینہ متزندق بالمنطق اشتغلوا فقیل حقیقۃ ان البلاء موکل بالمنطق دیگر تفلسفو ا واد عوا علوما صاحبھا فی المعاد یشقیٰ واحتقرو ا الشرع وازدروہ سفاھۃ منھم وحمقا منصور نے جو کچھ کیا تھا صرف ایک حکمت عملی تھی جس سے ایک فوری ہنگامہ کا فرو کرنا مقصود تھا ۔ شورش کم ہوئی تو منصورنے پھر ابن رشد کو دوبارہ دربار میں بلانا چاہا۔ اظہار حق یا منصور کی خاطر سے اشبیلیہ کے چند معزز لوگوںنے شہادت دی کہ ابن رشد پر جو تہمت لگائی غلط اور افتر ا تھی۔ غرض سنہ ۵۹۵ھ میں ابن رشد کی قسمت کا چاند گہن نکلا اور منصور نے اس کا مراکش میں طلب کیا لیکن عید ہوئی ذوق مگر شام کو ٭٭٭ ابن رشد کی وفات ان وقت آیا تھا کہ ابن رشد اپنے فضل و کمال کی داد پاتا اور ارسطو کی طرح اس کے تاج فضیلت پر دولت کا طرہ بھی نظر آتا لیکن بے رحم موت نے اس کا موقع نہ دیا۔ مراکش پہنچ کر وہ بیمار ہوا اور جمعرات کی رات صفر سنہ ۵۹۵ھ مطابق سنہ ۱۱۹۸ء میں مر گیا۔ شہر سے باہر جباشیہ کے ایک مقام ہے یہاں مدفون ہوا۔ لیکن ایک مہینہ کے بعد لوگوں نے قبر کھود کر ہڈیاں نکال لیں اور قرطبہ لے جا کر مقبرہ ابن عباس میں جو ابن رشد کا خاندانی قبرستان ہے دفن کیں۔ وفات کے وقت اس کی عمر ۷۵ برس کی تھی ۔ اس واقعہ کے بعد ایک مہینہ منصورنے بھی انتقال کیا۔ ابن رشد نے کئی اولادیں چھوڑیں۔ ایک بیٹا طب میں نامور ہوا۔ باقی نے فقہ کی طرف توجہ کی اورعہدہ قضا پر ممتا ز ہوئے۔ ابن رشد کے اخلاق و عادات ابن رشد کے اخلاق و عادات بالکل حکیمانہ تھے۔ وہ نہایت متواضع اور منکسر المزاج تھا ایک مدت تک عہدہ قضا پر مامور رہا اور دربار سلطنت میںمقرب رہا لیکن اپنی دولت و جاہ سے بذا ت خود مطلق فائدہ نہیں اٹھایا۔ اس کو جو کچھ ملتا تھا وطن اور اہل وطن پر صرف کرتا تھا۔ دربار شاہی کے تقرب سے بھی اس نے جو کام کیا وہ خلائق کاربراری اور عام نفع رسانی تھی۔ ؎۱۔ حلم اور عفو کی یہ حالت تھی کہ ایک شخص نے مجمع عام میں اس کا برا بھلا کہا اور سخت توہین کی وہ بجائے اس کے کہ مخالف سے انتقام لیتا الٹا مشکور ہوا کہ اس کی بدولت مجھ کو اپنے حلم کے جانچنے اور آزمانے کا موقع ملا۔ چنانچہ اس کے صلہ میں کچھ روپے نذر کیے‘ لیکن ساتھ ہی اس کو یہ نصیحت بھی کی کہ اوروں سے یہ سلوک نہ کرنا ورنہ ہر شخص اس قسم کے احسان کا قدردان نہیںہوتا۔ مزاج میں انتہا درجہ کا رحم تھا۔ مدتوں قاضی رہا لیکن کبھی کسی قتل کی سزا نہیں دی۔ اور ایسا موقع آ پڑتا تو عدالت کی مسند سے علیحدہ ہو جاتا اورکسی کو اپنا قائم مقام کر دیتا۔ مطالعہ اور کتب بینی کا بے انتہا شوق تھا۔ ابن الآبار کا بیان ہے کہ تمام عمر میں صرف دو راتیں ایسی گزریں کہ وہ کتب بینی اور مطالعہ سے باز رہا۔ ایک نکاح کی رات اور دوسری وہ رات جس میں اس کے باپ نے وفات پائی۔ انتہا درجہ کا فیاج اور سخی تھا۔ اس کی فیاضی دوست و دشمن پر یکساں تھی‘ کہا کرتا تھا کہ اگر میں صرف دوستوں کو دوں تو میں نے وہ کام کیا جس کو خود میرا دل چاہتا تھا‘احسان اور فضیلت یہ ہے کہ مخالفوں اور دشمنون کے ساتھ سلوک کیا جائے۔ وطن کا شیفتہ تھا۔ افلاطون نے جمہوریت پر جو کتاب لکھی ہے اس میں یونان کی تعریف کی ہے اور لکھا ہے کہ یہاں کے لوگوں کو تمام دنیا کی بہ نسبت علوم عقلیہ سے خاص مناسبت ہے۔ ابن رشد نے اس کتاب کی شرح میں اپنے وطن اسپین کو بھی یونان کا ہم پایہ قرار دیا ہے۔ جالینوس کا قول ہے کہ دنیا میں سب سے عمدہ آب و ہوا یونان کی ہے ۔ ابن رشد نے کتاب الکلیات میں برخلاف اس کے یہ دعویٰ کیا کہ اس فخر کا مستحق یونان نہیں بلکہ قرطبہ (کارڈوا) ہے ۔ ایک دفعہ منصور کے دربار میں ابن زہر اور ابن رشد میں یہ بحث ہوئی کہ اشبیلیہ اور قرطبہ یں کس کو ترجیح ہے۔ ابن زہر اپنے وطن اشبیلیہ کو ترجیح دیتا تھا ۔ ابن رشد نے کہا کہ اشبیلیہ میں جب کو ئی عالم مرجاتا ہے تو اور اس کے کتب خانہ کے فروخت کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے تو کتب خانہ کو قرطبہ لانا پڑتاہے کیونکہ اشبیلیہ میں ان چیزوںکو کوئی پوچھتا بھی نہٰں لیکن قرطبہ میں جب کوئی مغنی اورکلانوت مرتاہے تو اس کے آلات موسیقی اشبیلیہ میں جا کر فروخت ہوتے ہیں۔ ان واقعات سے دونوں شہروں کی فضیلت کا اندازہ ہو سکتا ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ؎۱ ابن الآباد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ابن رشد کی تصنیفات ابن رشد مختلف علوم و فنو ن میں کمال رکھتا تھا۔ اور تمام علوم و فنون میں اس کی تصنیفات موجود ہیں۔ ابن الآباد کی روایت ہے کہ موافق اس کی کل تصنیفات کے صفحے ۲۰ ہزار ہیں ۔ جن علوم کو اس نے خاص طرح پر ترقی دی وہ فقہ‘ طب اور فلسفہ ہیں اور ن میں سے ہم بہ ترتیب ہر ایک علوم کی تصنیفات کی تفصیل پیش کرتے ہیں: فقہ وہ بہت بڑا فقیہ تھا اور مدتوں قضا کے منصب پر ممتاز رہ چکا تھا۔ اس تعلق سے اس نے فقہ میں حسب ذیل کتابیں لکھیں جو سب کی سب مقبول و متد ادل اور فہ مالکی کے ضروری ارکان ہیں۔ ۱ ھدایۃ المجتہد و نہایۃ المقتصد اس کتاب میں اس نے ہر مسئلہ کے دلائل اوروجوہ لکھے ہیں ابوجعفر ذہبی کا قول ہے کہ فقہ میں اس سے بہتر کتاب میں نے نہیں دیکھی۔ نفح الطیب میں ابن سعید کا قول نقل کیا ہے کہ کتاب جلیل معظم معتمد عندالمالکیہ۔ ۲ تحصیل: اس میں صحابہ ‘ تابعین اور تبع تابعین کے فقہی اختلافات اور ان کے دلائل لکھے ہیں۔ اورخود محاکمہ اور فیصلہ کیا ہے۔ ۳ مقدمات: ہم نے یہ کتاب سید محمود مرحوم کے لیے کتب خانہ خدیویہ سے نقل کراکر منگوائی تھی۔ خیال تھا کہ ایک فلسفی فقہ کے فن کو لکھے گا تو کیونکر لکھے گا لیکن کتاب کو پڑھ کر ہم کو کچھ استعجاب نہیں ہوا۔ بے شبہ فقہ کی اورکتابوں کی نسبت وہ زیادہ صاف مرتب اورقریب الفہم ہے لیکن فلسفیانہ تدقیقات کا پتہ نہیں ابوزید و بوسی کی کتاب ’’الاسرار‘‘ ہم نے دیکھی ہے دونوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ اصول فقہ اس فن میں اس کی دو کتابیں ہیں: ۱ منہاج الادلۃ: مستقل تصنیف ہے۔ ۲ خلاصۃ المستصفی: امام غزالی نے احیر عمر میں مستصفی ایک کتاب لکھی تھی ‘ یہ اس کا خلاصہ ہے۔ طب طب میں ابن رشد کی تصنیفات نہایت کثرت سے ہیں۔ اور اس فن مٰں اس نے بہت کچھ اضافہ کیا ہے۔ یہ تصنیفات دو قسم کی ہیں۔ ایک جو اس نے بطور خود لکھی ہیں ان میں کتاب الکلیات نہایت جامع اور محققانہ ہے۔ اس کے سوا اور چھوٹے چھوٹے رسالے ہیں مثلاً مقالۃ فی المزاج مقالۃ فی نوائب الحمیٰ۔ دوسرے وہ جو یونانی تصنیفات کا خلاصہ یا شرحیں ہیں۔ ان کی تفصیل حسب ذیل ہے: ۱ شرحکتاب الاستطقسات لجالینوس ۵ تلخیص کتاب التعرض لجالینوس ۲ تلخیص کتاب المزاج لجالینوس ۶ تلخیص کتاب الحمیات لجالینوس ۳ تلخیص کتاب القوی لجالینوس ۷ تلخیص کتاب الادویۃ المفردہ لجالینوس ۴ تلخیص کتاب العلل و الاغراض لجالینوس ۸ تلخیص النصف الثانی من کتاب حیلۃ البر لجالینوس فلسفہ و کلام علم کی بدقسمتی اس سے بڑھ کر کیا ہو گی کہ و ہ شخص جو فلسفہ ارسطو کو سب سے بڑا مفسر تھا۔ جس کے فلسفہ نے دو سو برس تک یورپ پر حکمرانی کی جس نے بو علی سینا کی غلطیوں کی اصلاح کی جس نے ایک جدید علم کلام کی بنیا دڈالی جس نے اشاعرہ کے طلسم کو توڑ دیا‘ جس کے افادات کے لیے بیس ہزار صفحے درکار ہوئے آج اس کی تصنیفات اس طرح مفقود ہیں کہ کہیں دو چار ہاتھ آ جاتے ہیں تو شائقین فن سمجھتے ہیں کہ کیمیا ہاتھ آ گئی۔ اس کی وجہ کچھ تو یہ ہے کہ ا س کی تصنیفات خود اس کے زمانہ میں برباد کی گئیں۔ کچھ یہ کہ اسپین کی تصنیفات ممالک مشرقیہ میں کم پھیلیں اوراسپین خود تباہ کیا گیا۔ اور سب سے زیادہ یہ کہ عیسائیوں نے جب اسپین پر قبضہ کیا تو سب سے زیادہ انہوں نے مسلمانوں کے علمی کارناموں پر توجہ کی اسپین میں جب انکوئزیشن کا محکمہ قائم ہوا جس کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ جو کتابیں عقائد عیسویں کے خلاف ہوں وہ برباد کر دی جائیں تو کارڈینل کریمن نے جو اس محکمہ کا ایک ممبر تھا غرناطہ (گدینڈا) میں ۸۰ ہزار عربی زبان کی کتابیں جلا دیں۔ ابن رشد کی تصنیفات بھی اسی بدقسمت ذخیرہ میں شامل تھیں۔ تاہم ابن رشد کی تصنیفات ارباب فن میں اس قدر مقبول ہو چکی تھیں کہ یہ بالکل ناپید نہ ہو سکیں۔ ان تصنیفات کا بڑا ذخیرہ اسکوریال کی خانقاہ میںموجود ہے‘ جو مڈرڈ پائے تخت اسپین سے ۴۰ کلومیٹر کے فاصلہ پر واقع ہے اوری اور فرانس کے کتب خانوں میں ابن رشد کی بہت ی تصنیفات عبرانی خط میں لکھی ہوئی موجود ہیں۔ یہ اصل عربی نسخوں کا حال ہے ۔ باقی ان کتابوں کے عبرانی اورلاطینی ترجمے ان کی تفصیلی کیفیت سے آگے آتی ہے جس سے معلوم ہو گا کہ عبرانی اور لاطینی زبان میں ابن رشد کا کل کارنامہ محفوظ ہے۔ لیکن مسلمانوں میں ان زبانوں کے زباندان کہاں ہیں۔ ابن رشد کی جو تصنیفات ہماری نظر سے گزریں حسب ذیل ہیں۔ ۱ فضل المقال مناہج الادلۃ یہ دونو ں رسالے یورپ کی کوششوں سے ہاتھ آئے اوریورپ میں اول اول چھپے ۲ تہافۃ مصر میں چھپ گیا ہے ۳ مابعد الطبیعہ لارسطو قسطنطنیہ میں چھپا ہے۔ ۴ شرح کتاب القیاس لارسطو ایک قلمی نسخہ آرہ مدرجہ احمدیہ میں موجودہے۔ ۵ تلخیص کتاب الشعرو الخطابۃ لارسطو اس کتاب کے جستہ جستہ مقامات پروفیسر شیخونے علم الادب میں شامل کیے ہیں۔ فلسفہ میں اس نے مستقل کتابیںبہت کم لکھیں ۔ اس کی تمام تر تصنیفات ارسطو کی تصنیفات کی شرح یا خلاصہ ہیں۔ چنانچہ تفصیل حسب ذیل ہے: شمار نام کتاب مضمون ۱ جوامع کتب ارسطو فی الطبیعیات والاہیات ارسطو نے طبیعیات اور الٰہیات میں جس قدر ۲ کتاب الضروری فی المنطق منطق میں ہے اور جوامع کا ضمیمہ ہے۔ ۳ تلخیص کتب ارسطو ارسطو کی تمام کتابوں کا خلاصہ ہے۔ ۴ تلخیص کتاب الکون والفسادلارسو ۵ تلخیص ما بعد الطبیعۃ لارسطو ارسطو نے امورعامہ پر جو کتاب لکھی تھی اس کا خلاصہ ہے ۶ تلخیص کتاب الاخلاق لارسطو ارسطو کی کتاب الاخلاق کا خلاصہ ۷ تلخیص کتاب البرہان لارسطو ارسطو کے فن برہان پر جو کتاب لکھی تھی اس کا خلاصہ ۸ شرح کتاب السماء والعالم لارسطو کائنات الجو کے متعلق ارسطو کی کتاب کی شرح ہے ۹ تلخیص کتاب السماع الطبیعی لارسطو ۱۰ شرح کتاب النفس لارسطو ارسطو نے روح پر جو کتاب لکھی تھی اس کی شرح ہے۔ ۱۱ شرح کتاب القیاس لارسطو ۱۲ تلخیص الالٰہیات نیقولاوس نیقولائوس کے الٰہیات کا خلاصہ ہے یہ وہ کتابیں ہیں جو ارسطو وغیرہ کی تصانیف کا خلاصہ یا شرحیں ہیں مستقل تصنیفات حسب ذیل ہیں: شمار نام کتاب مضمون ۱ رسالہ مقالۃ فی العقل اس بحث میں ہے کہ عقل ہیولانی اخیر درجہ تک پہنچ کر روحانیات محض کا ادراک کر سکتی ہے یا نہیں۔ ۲ رسالہ یہ ثابت کیا ہے کہ عالم کی خلقت کو جس طرح اہل اسلام مانتے ہیں اور جو ارسطو نے بیان کیاہے دونوں قریب قریب ہیں۔ ۳ رسالہ ارسطو اور ابو نصر کی منطق میں جو تصنیفات ہیں ان کا موازنہ کیا ہے اور دونوں میں جو اختلاف ہے اس کو بتایا ہے ۔ ۴ رسالہ عقل کو انسان سے کس قسم کا تعلق ہے۔ ۵ رسالہ الٰہیات شفا کے چند مسائل کی تنقید ہے۔ ۶ رسالہ زمانہ کی حقیقت بیان کی ہے۔ ۷ رسالہ مادہ اول کے وجود پر ارسطو نے جو استدلال کیا تھا اس پر کسی نے اعتراض کیا تھا اس کا جوا ب ہے۔ ۸ رسالہ بوعلی سینا کے اس مسئلہ کو رد کیا ہے کہ وجودات کی تین قسمیں ہیں واجب بالذات ممکن بالذات واجب بالغیر وممکن مطلق۔ ۹ رسالہ بونصر فارابی اور ارسطو میں برہان کی ترتیب اور حدود کے متعلق جو اختلافات ہیں ان کو بیان کیا ہے۔ ۱۰ فصل المقال شریعت اور فلسفہ میں جو تعلق ہے اس کو بیان کیا ہے۔ ۱۱ مناہج الادلۃ مہات عقائد اسلام کو دلائل عقلیہ سے ثابت کیا ہے۔ ۱۲ تہافۃ التہافۃ امام غزالی کی تہافۃ الفلاسفہ کا رد ہے۔ ابن رشد کی تصنیفات کی کثرت تنوع جدت مضامین تحقیق و تنقید جس قدر حیرت خیز ہے اس سے زیادہ یہ امر تعجب انگیز ہے کہ تمام تصنیفات نہایت کثیر الشغالی اورپریشانی کی حالت میں ہیں۔ وہ قاضی القضاۃ اور افسر صیغہ عدالت تھا۔ اس تعلق سے وہ مراکو اور اسپین کے تمام بڑے بڑے اضلاع کا دورہ کرتا رہتا تھا۔ انہی دوروں میں تصنیف و تالیف کا شغل بھی رہتا تھا۔ کتاب الحیوان کی شرح میں خود اس نے لکھا ہے کہ یہ کتاب ماہ صفر سنہ ۵۶۵ھ میں بمقام اشبیلیہ تمام ہوئی پھر عذر خواہی کی ہے کہ ’’اگر اس کتاب میں سہو و خطا ہو گئی ہو تو معافی کی امید ہے ۔ کیونکہ اول تو کار منصبی سے فرصٹ نہیں ملتی دوسرے کتب خانہ وطن میں ہے اور ضروری کتاب ساتھ نہیں‘‘۔ اسی قسم کی عذر خواہی کتاب الطبیعہ کی شرح میں کی ہے اور لکھا ہے کہ یہ کتاب رجب سنہ ۵۶۵ھ میں بمقام اشبیلیہ تمام ہوئی۔ محبطی کا جو اختصار کیا ہے اس میں لکھا ہے کہ ’’میں نے صرف اہم اور مقدم مطالب لے لیے ہیں میری حالت بالکل اس شخص کی سی ہے جس کے مکان کو آگ لگ گئی ہو او وہ گھبراہٹ اور اضطراب میں صرف مکان کی ضروری اور قیمتی اسباب نکال نکال کر پھینک رہا ہو‘‘ کتاب الالٰہیات اور کتاب البیان سنہ ۵۷۰ھ کے آغاز میں ساتھ ساتھ لکھنی شروع کی تھیں۔ اسی اثناء میں بیمار ہو گیا اور زیست کی امید نہیں رہی۔ اس خیال سے کتاب البیان کو چھوڑ کر الٰہیات کی تکمیل میں مصروف ہو گیا تاکہ کتاب البیان کے ساتھ کہیں یہ بھی نہ رہ جائے۔ جوہر الکون پر جو رسالہ لکھا ہے وہ مراکو میں سنہ ۵۷۴ھ میں تمام ہوا ۔ لیکن ۵۷۵ھ میں پھر اشبیلیہ واپس جانا پڑا۔ یہاں اس نے فقہ پر ایک کتاب لکھی ۔ اس سنہ میں ابن طفیل کی وفات کی وجہ سے منصور نے اس کو مراکو میں بلا لیا اور اپنا طبیب خاص مقرر کیا۔ بہ ایاب و ذباب کثرت اشغال ‘ پریشانی اور پراگندہ دلی کوئی چیز اس کو اپنے اشغال سے نہ روک سکی اوریہ ابن رشد کی خصوصیت نہیں بزرگان اسلام میں عموماً یہ ادا پائی جاتی ہے کہ انقلابات مزانہ کی باد صرصر ان کے اوراق حواس کو پریشان نہیں کر سکتی ۔ امام رازی بو علی سینا امام غزالی ‘ شہاب مقتول وغیرہ کے جو کارنامے ہیں وہ بھی اسی قسم کی بے سروسامانی اور پریشانی کے زمانہ کے یادگار ہیں۔ یورپ میں فلسفہ ابن رشد کی اشاعت ؎۱ یور پ میں ابن رشد کی تصنیفات کی جس طرح اشاعت ہوئی اور اس کا اثر جو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ؎۱ اس مضمون کے متعلق چند باتیں کردینی ضروری ہیں: اول یہ کہ یہ مضمون تمام تر پروفیسر رینان کی کتاب ’’سوانح ابن رشد‘‘ سے ماخوذ ہے لیکن پروفیسر مذکور نے (بقیہ اگلے صفحہ پر) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یورپ پر پڑا۔ وہ ایک دلچسپ داستان ہے۔ لیکن اس کے بیان کرنے سے پہلے مناسب ہے کہ یورپ میں عام فلسفہ عرب کی اشاعت کی ابتدا کی مختصر کیفیت بیان کی جائے۔ یورپ جس زمانہ میں مسلمانوں سے صلیبی لڑائیاں لڑ رہا تھا اس وقت مسلمانوں کی نسبت یورپ کے عجیب عجیب خیالات تھے لیکن جب اسلامی ممالک ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (بقیہ حاشیہ ) اس مضمون کو اس قدر وسعت سے لکھا ہے کہ کئی سو صفحوں میں ادا ہوا ہے میں کبھی فرصت کے وقت پورے مضمون کو اردو میں لانے کی کوشش کروں گا لیکن اس وقت میں رینان کی کتاب کی طرف رجوع نہ کر سکا بلکہ الجامعہ کے ایڈیٹر نے رینان کی کتاب کا عربی میںجو نہایت ناتمام خلاصہ لکھا ہے اس کو مختصر طور پر ادا کر دیا ہے۔ یہ امر خاص طور پر لحاظ کے قابل ہے کہ اس مضمون میں جن یورپین پروفیسروں اور مصنفوں کے نام آئے ہیں ان کا تلفظ بدل گیا ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ فرنچ تلفظ انگریزی تلفظ سے بہت مختلف ہے۔ اس پر مزید یہ کہ الجامعہ کے ایڈیٹر نے ان ناموں کو معرب کر کے لکھا ہے اورمیںنے اس کی پیروی کی ہے فرنچ تلفظ عربی کے قالب میں ڈھل کر انگریزی تلفظ سے بالکل بیگانہ ہو گیا ہے۔ اور انگریزی خوانوں کو یہ نام بالکل اجنبی معلوم ہوں گے۔ اس مضمون میں اصلی جو چیز لحاظ کے قابل ہے یہ ہے کہ مسلمان اگرچہ اپنے علوم و فنون اور اپنے اسلاف کی یادگاروں کی پرستش کے بڑے دعوے دار ہیں ۔ لیکن یہ دیکھ کر ان کو سخت حیرت ہو گی کہ ابن رشد جس کی تصنیفات کا ان کو نام و نشان بھی نہیں ملتا۔ یور پ میں ایک مدت سے اس کی تصنیفات تمام بڑی بڑی یونیورسٹیوں میں داکل درس رہیں۔ اور سینکڑوں اہل فن ان تصنیفات کے شروح و حواشی لکھنے میں مصروف تھے۔ اس سے اس بات کا بھی اندازہ ہو گا کہ یورپ نے یونان اور عربی فلسفہ کو اب جو نظر انداز کیا ہے سوچ سمجھ کر کیاہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں اہل یورپ کا گزر ہوا اور ان کو ہر طرف مسلمانوں کے علمی اور عملی ترقیوں کے عجیب و غریب منظر نظر آئے تو سب سے پہلا اثر جو یورپ کے دل پر پڑا وہ مسلمانوں کی علمی فضیلت کا اعتراف تھا۔ یورپ کی یہ فیاض دلی رشک کے قابل ہے کہ ایک طرف تو مذہبی اختلافات کی بنا پر مسلمانوں کے خون کا پیاسا تھا لیکن دوسری طرف اس نے بے تکلف مسلمانوں کے خوان کرم سے زلہ ربائی شروع کر دی۔ سب سے پہلے طلیلیہ (ٹالیڈو) کے لارڈ بشپ نے جس کا نام ڈریمورنڈ تھا سنہ ۱۱۳۰ء میں ایک محکمہ اس غرض سے قائم کیا کہ اسلامی فلسفیانہ تصنیفات عربی سے لاطینی زبان میں ترجمہ کی جائیں۔ اس محکمہ کے ارکان وہ یہودی علماء تھے جو عربی زبان اور عربی فلسفہ کے ماہر تھے۔ ان میں سب سے ممتا ز یوحنا تھا جو اشبیلیہ کا رہنے والا تھا ۔ اس محکمہ کا افسر گولند لسالفی مقرر ہوا۔ اس محکمہ نے ابن سینا کی بہت سی کتابیں ترجمہ کیں۔ چند روز بعد دی کریمون اور الفرڈوئی مولائی نے فارابی اور کندی کی بعض بعض تصنیفیں بھی ترجمہ کیں۔ اسی زمانہ میں جزیرہ سسلی اور پنولی میں بھی عربی کتابوں کا ترجمہ شرو ع ہوا۔ یہ ابتدائی حالت تھی لیکن فلسفہ عرب کی اشاعت کا اصلی زمانہ در حقیقت فریڈرک دوم سے شروع ہوتا ہے جو جرمنی کا مشہور فرمانروا گزرا ہ۔ ی علم پرور بادشاہ درحقیقت یورپ کا مامون الرشید تھا۔ اس کی طبیعت فطرتاً فلسفیانہ واقع ہوئی تھی۔ اور جس قدر مذہبی گروہ اس کے خیالات کی مخالفت کرتا تھا اس کا میلان فلسفہ کی جانب اور بڑھتا جاتا تھا۔ چونکہ اس زمانہ میں عموماً علم و فن کے سرچشمہ اہل عرب تسلیم کیے جاتے تھے۔ اس نے ایک سسلی کے باشندہ سے عربی زبان سیکھی اور عرب کے رسم و رواج کا ا س قدر شیفتہ ہوا کہ مشرقی بادشاہوں کی طرح اس نے حرم اور خواجہ سرا مقرر کیے دور دور سے عربی داں فضلاء جمع کیے۔ یہاں تک کہ بغداد کے علماء و فضلاء بھی اس کے دربار میں پہنچے جو بڑی چوڑی آستینوں والی عبائیں زیب بدن کرتے تھے۔ فریڈرک علانیہ عرب کے علوم و فنون ومراسم کی مداحی کرتا تھا۔ حالانکہ یہ امر اس کے تمام دربار کو سخت ناگوار گزرتا تھا۔ باایں ہمہ صلیبی لڑائیوں کے سلسلے میں یورپ نے جب بیت المقدس پر چھٹا حملہ کیا تو بادشاہ بھی ایک فوج کثیر کے ساتھ اس حملہ میں شریک تھا ۔ لیکن یہاں بھی وہ علمی مشاغل سے کالی نہ رہا۔ مسلمان علماء کو اپنی مجلس میں بلاتا تھا اور ریاضی کے مشکل مسائل ان سے حل کراتا تھا۔ ان مسائل کو وہ اسلامی فوج کے سپہ سالا کے پاس بھی حل کرنے کی غرض سے بھیجتا تھا۔ اگرچہ مسلمانوں کے ساتھ وہ سخت لڑائیاں کرتا تھا۔ لیکن مذہب کی یہ حالت تھی کہ ہیکل مقدس میں جا کر حضرت عیسیٰ کی مقدس زیارت گاہ کی ہنسی اڑاتا تھا۔ یہاں تک کہ ایک دن لارد بشپ کے سامنے جا کر بھی ا س نے اسی قسم کی تمسخر آمیز باتیں کیں جن کو بشپ نے قلم بند کر لیا۔ عیسائی عموماً اس کو برا سمجھتے تھے اور خصوصاً پادریوں نے تو اس کی ہجو میں نظمیں لکھیں۔ پوپ نہم گریگوریس نے اپنی ایک تحریر میں اس کی نسبت فتویٰ دیا تھا کہ یہ بادشاہ فساد کا بادشا ہ ہے کیونکہ وہ اس بات کا قائل ہے کہ جب تک کوئی چیز عقل اورنظام طبعی سے ثابت نہ ہواس کو تسلیم نہیںکرنا چاہیے۔ عام عیسائی جماعت نے اس کو دجال کا خطاب دے رکھا تھا لیکن اس نے ان تما م باتوں کی مطلق پرواہ نہ کی اورنہایت آزاد دلی سے عربی کتابیں ترجمہ کرائیں۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ ابن رشد کے یہودی تلامذہ اسپین سے نکل کر مختلف ممالک میں پھیل گئے تھے۔ ان میں سے ایک خاندان جو طیبون کہلاتا ہے۔ اسپین سے ہجرت کر کے فرانس چلا آیا تھا۔ ان میں موسیٰ بن طیبون اور سمویل بن طیبون نے ابن رشد کی بعض کتابیں عبرانی میں ترجمہ کیں۔ ابن رشد کی تصنیفات کا یہ پہلا ترجمہ تھا۔ شہنشاہ فریڈرک نے جب اسلامی کتابوں کا ترجمہ کرانا چاہا تو ان یہودی علماء کو اس نے دربار میں بلایا اور یہ خدمت ان کے سپرد کی۔ یہود ابن سلیمان جو ٹالیڈو کا رہنے والا تھا اورفریڈرک کے خاص مقربین میںسے تھا اس نے سنہ ۱۲۴۷ء میں ایک کتاب لکھی جس کا نام طلب الحکمۃ رکھا۔ یہ کتاب تمام تر ابن رشد کی تصنیفات سے ماخوذ تھی۔ ایک اور یہودی عالم جس کانام یعقوب بن ابی مریم تھا اورجو نیپولی میں مقیم تھا۔ اورخاندان طیبون کا داماد تھا اس نے سنہ ۲۳۲ء میں شہنشاہ فریڈرک کی فرمائش سے ابن رشد کی متعدد تصنیفات ترجمہ کیں۔ اس کے بعد کالونیم نے جو ارل کا باشندہ تھا اور سنہ ۱۲۸۷ میں اس کی ولادت ہوئی تھی ابن رشد کی کتابوں کا عبرانی زبان میں ترجمہ شروع کیا۔ وہ لاطینی زبان بھی جانتا تھا۔ چنانچہ تہافۃ التہافۃ کا ترجمہ بھی ا س نے لاطینی ہی زبان میں کیا جو سنہ ۱۳۲۸ء میں انجام کو پہنچا۔ غرض چودھویں صدی کے آغاز تک ان رشد کا فلسفہ تمام یہود میں پھیل گیا ۔ اسی زمانہ میں ایک یہودی فاضل نے جس کا نام لادی حوشون تھا۔ اورجس کو اہل یورپ لادن افریقی کے نام سے یاد کرتے تھے ابن رشد کے فلسفہ کی اسی طرح شرح اور خلاصیلکھے جس طرح ابن رشد نے ارسطو کے فلسفہ کی شرح اور تلخیص ی تھی۔ یہ فاضل بالکل آزاد خیال تھا۔ وہ مادہ کے قدیم ہونے کا قائل تھا نبوت کی نسبت اس کا یہ اعتقاد تھا کہ وہ انسانی قوتوں سیایک قوت کا نام ہے۔ اس نے یہودی مذہب کو فلسفہ سے ملانا چاہا اور فلسفہ اور مذہب میں تطبیق کی۔ ان یہودی حکماء میں سب سے آخر شخص الیاس مدیجو تھا جو پیڈوا کی یونیورسٹی کا پروفیسر تھا۔ سولہویں صدی عیسوی میں یہود کے مذہبی علماء نے یہ دیکھ کر کہ فلسفہ مذہب کو برباد کیے دیتا ہے بڑے زور شور سے فلسفہ کی مخالفت شروع کی۔ چنانچہ میشنو نے جو مذہبی حیثیت سے ربی کا لقب رکھتا تھا۔ امام غزالی کی کتاب تہافۃ الفلاسفہ سنہ ۱۵۳۸ء میں شائع کی جس سے ابن رشد کی مخالفت کا اظہار مقصود تھا۔ اس وقت تک ابن رشد کے فلسفہ کی جو کچھ اشاعت اور ترویج ہوئی تھی زیادہ تر یہودیوں میںہوئی تھی۔ اوروہی فلسفہ ابن رشد کے حامی اورپیروخیال کیے جاتے تھے اب وہ زمانہ آیا کہ تمام یورپ میں ابن رشد کے فلسفہ نے رواج پایا۔ سب سے پہلا شخص جس نے یہ خدمت سنہ ۱۲۳۰ء میں انجا م دی میکال اسکاٹ تھا ۔ یہ فاضل ٹالیڈو (طلیطلہ) میں قیام رکھتا تھا۔ اور شاہ فریڈرک جس کا ذکر اوپر گزر چکا ہے اس کے درباریوںمیں تھا۔ اسکاٹ کے بعد مارسن نے جو خاص جرمنی کا رہنے والا تھا ابن رشد کے فلسفہ کی اشاعت کی ۔ یہ فاضل بھی فریڈرک کے دربار میں ایک معزز حیثیت رکھتا تھا۔اس کے بعد اسس طرف عام توجہ ہوئی یہاں تک کہ تیرہویں صدی کے ختم ہونے سے پہلے ابن رشدکی تمام فلسفیانہ تصنیفات لاطینی زبان میں ترجمہ ہو چکی تھیں۔ ابن رشدکے فلسفہ کی مخالفت ابن رشد کے خیالات کا یورپ میں پھیلنا تھا کہ تمام عیسائیون کی مذہبی جماعت میں ایک آگ سی لگ گئی۔ سنہ ۱۲۰۹ء میں ایک بڑا مذہبی جلسہ منعقد ہوا جس نے پیروان ابن رشد کی گمراہی کا فتویٰ دیا۔ سنہ ۱۲۱۵ء میں عیسائی مذہبی محکمہ نے یہ فتویٰ نافذ کیا کہ فلسفہ ارسطو اور تصنیفات بو علی سینا کر پڑھنا پڑھانا حرام ہے۔ سنہ ۱۲۳۱ء میں پوپ نہم نے جس کا نام گریگیوریوس تھا حکم دیا کہ عرب کے فلسفہ کا پڑھنا پڑھانا قطعا بند کر دیا جائے۔ گولیم ڈفرن جو ایک مشہور فاضل تھا۔ اس نے نہایت سختی سے ابن سینا کے فلسفہ کا رد لکھا ڈفرن کے بعد پیر نے جو بہت بڑا متکلم تسلیم کیا جاتا تھا فلسفہ عرب کے رد میں بہت سی کتابیں لکھیں لیکن یہ عجیب بات ہے کہ وہ بو علی سینا کا مداح تھا ۔ اور ابن رشد کو اس وجہ سے برا سمجھتا تھا کہ اس نے بوعلی سینا کی مخالفت کی تھی۔ مخالفین ابن رشد میں سب سے زیادہ شہرت سینٹ ٹامس نے حاصل کی ۔ یہ شخص مغربی کلیسا کا سب سے بڑا متکلم اورعالم خیال کیا جاتا ہے ۔ اس نے ابن رشد کے فلسفہ کو نہ صرف مذہبی بلکہ عقلی دلائل سے بھی رد کیا اور چونکہ ابن رشد فلسفہ ارسطو کا سب سے بڑا شارح خیال کیا جاتا تھا۔ ابن رشد کے مقابلہ میں وہ دلائل استعمال کیے جو ارسطو کے دلائل سے ماخوذ تھے۔ پادریوںنے اس خدمت کے صلہ میں اس کی اس قدر عزت کی کہ اس کو ایک مقدس مذہبی امام قرار دیا۔ چودھویں صدی کے ایک مشہور مصور نے سنہ ۱۳۴۰ء میں ایک عمدہ مرقع بنایا جو مقدس کا ترین کے گرجا بمقام بیزہ (اٹلی) میں نصب کیا گیا۔ اس مرقع کی صورت یہ تھی کہ سب سے اوپر ذات مقدس جلوہ گر ہے جس کے چارو ں طرف ملائکہ صف بستہ ہیں۔ ذات مقدس سے نور کی شعاعیںمنتشر ہوتی ہیں نیچے بادل کی سطح پر حضرت موسیٰ پولوس اور اناجیل اربعہ ہیں۔ اور نور کی شعاعیں ان پر آ کر پڑتی ہیں بادل کے نیچے مقدس ٹامس کھڑا ہے جس پر نور کی شعاعیں حضرت موسیٰ وغیرہ سے گزر کر پڑتی ہیں۔ ان شعاعوں کے علاوہ نور کی تین شعاعیں براہ راست ذات مقدس سے ٹامس پر پڑتی ہیں۔ ذرا نیچے دونوں ارسطو اور افلاطن کھڑے ہیں ان دونوں کے ہاتھ میں دو کتابیں ہیں جن سے نور کا ایک سلسلہ بند ہو کر ٹامس کے سر تک پہنچتا ہے اور ذات الٰہی کے نور میں مخلوط ہو جاتا ہے ۔ ٹامس کرسی پر جانشین ہے اس کے ہاتھ میں کتاب مقدس جو کھلی ہوئی ہے اور جس کے ہر صفحہ پر یہ عبارت ہے ’’میرا منہ سچ بولتا ہے اور میرے ہونٹھ گمراہی سے منکر ہیں‘‘ ٹامس کی کرسی کے چاروں طرف ہر درجے کے مقدس پادریوں کی قطار ہے جن پر ٹامس کی تصنیفات کی شعاعیں پڑ رہی ہیں۔ انہی شعاعوں میں سے ایک شعاع ابن رشد پر پڑ رہی ہے جو ٹامس کے سامنے زمین پر پچھڑا ہوا پڑا ہے ابن رشد کے جن مسائل کا رد لکھا ہے وہ حسب ذیل ہیں: ۱۔ مادہ ازلی ہے اور اس کی حقیقت نہیں معلوم ہو سکتی۔ ۲۔ سلسلہ کائنات کا اتصال اولیٰ جس طرح ابن رشد نے بیان کیا تھا۔ ۳۔ علت اولیٰ اور معلومات میں عقل کا توسط۔ ۴۔ کوئی شے عدم محض سے وجود میں نہیں آسکتی۔ ٹامس نے ان مسائل کو باطل ثابت کیا ہے یہ دعویٰ کیا کہ اصل میں ارسطو نے غلطی کی تھی اورحکمائے اسلا م نے غلطی پر غلطی کی ۔ ٹامس کی وفات کے بعد ریمون مارتینی نے فلسفہ عرب کی مخالفت میں کتابیں لکھیں۔ لیکن ان تصنیفات میں اس نے زیادہ تر امام غزالی سے مدد لی وہ کہا کرتا تھا کہ فلسفہ کا رد فلسفی (غزالی) کی زبنا سے زیادہ موزوں ہے۔ ریمون کے بعد بہت سے مصنفین نے ٹامس کی حمایت کی اورفلسفہ عرب کی مخالفت میں کتابیں لکھیں ان میںیہ مذاق اس قدر بڑھا کہ اٹلی کے مشہور شاعر ڈینٹی نے بھی ابن رشد کی ہجو لکھی۔ اس کے بعد جیل دی روم نے بڑے زور شور سے فلسفہ عرب خصوصاً ابن رشد کے فلسفہ پر حملہ یا اور اس میں اس قدر ناموری حاصل کی کہ مقدس ٹامس کے سوا اور کسی کو حاصل نہیں ہوئی تھی۔ لیکن اس میدان میں جو شخص سب کا پیشرو تھا وہ ریمون تھا یہ شخص دو بر بعد یعنی سنہ ۱۳۱۰ء سے سنہ ۱۳۱۲ء تک پیرس سے لے کر جنیوا نیپولی بزہ وغیرہ کا صرف اس غرض سے دورہ کرتا رہا کہ لوگوں کو فلسفہ عرب کی مخالفت پر آمادہ کرے۔ یہاں تک کہ جب سنہ ۱۳۱۱ء میں ویانا میں ایک مجلس منعقد ہوئی تو ا سنے پوپ کی خدمت میں ایک درخواست پیش کی جس میں تین باتوں کی درخواست کی ۔ ایک یہ کہ ایک بڑا لشکر مسلمانوں کے برباد کرنے کے لیے تیار کیا جائے۔ دوسری یہ کہ عربی زبان کی تعلیم کے لیے یونیورسٹیاں قاء کی جائیں۔ تیسری یہکہ ابن رشد کی تصنیفات کے ناجائز ہونے کا فتویٰ دے دیا جائے۔ حامیان ابن رشد مذہبی جماعت میں اگرچہ فلسفہ عرب کی نسبت اس قدر شور ش برپا تھی لیکن فلسفہ کا جادو ایسا نہ تھا کہ کوئی جماعت اس سے بے اثر رہ سکتی۔ مذہبی ہی گروہ میں ایک ایسا فرقہ پیدا ہو گیا جس نے نہایت استقلال اور دلیری سے فلسفہ عرب کی حمایت کی۔ یہ فرقہ فرانسیسکن کہلاتا ہے۔ ان لوگوںنے بڑی آزاد خیالی اور دلیری سے روما کی سطوت حکومت کا مقابلہ کیا اور ٹامس کے رد میں کتابیں لکھیں چونکہ یہ لوگ ٹامس کے عقائد کے ابطال کو اپنا اصلی فرض سمجھتے تھے اس لیے ان کو خواہ مخواہ فلسفہ عرب سے اعانت لینی پڑی۔ اس فرقہ کے مشہور لیڈر جان دی لاروشل نے علانیہ ابن سینا کی پیروی کا اظہار کیا اور علم النفس و اخلاق کی نسبت اس نے جو کچھ لکھا تمام تر ابن سینا کی تصنیفات سے لکھا۔ اب فرانس کی مذہبی تعلیم گاہ دو فرقوںمیں تقسیم ہو گئی۔ سرربون ک مدرسہ مٰں ٹامس کے معتقدات کی تعلیم دی جاتی تھی لیکن پیرس یونیورسٹی میں ابن رشد کا فلسفہ پڑھایا جاتا تھا۔ ڈمینکین فرقہ سوربون کی تعلیم کا حامی تھا۔ چنانچہ ان دونوں نے متفق ہو کر پوپ چہارم سے جس کا نام الیگزینڈر تھا چھ سات برس کے عرصہ میں چالیس فرمان اس مضمون کے صادر کرائے کہ عرب کے فلسفہ کا پڑھنا پڑھانا حرام ہے ۔ سنہ ۱۲۶۹ء میں پیرس کی مذہبی مقدس مجلس نے یہ فرمان صادر کیا۔ یہ جلسہ ان لوگوں کے فاسدہ العقیدہ ہونے کا فتوی ٰ دیتا ہے جو اعتقادات ذیل کے قائل ہیں: ۱۔ عالم ازلی ہے۔ ۲۔ تمام انسانوں میں ایک ہی عقل پائی جاتی ہے۔ ۳۔ انسان کا سلسلہ کسی ایک آڈم معین تک منتہی نہیںہوتا۔ ۴۔ نفس جسم کے ساتھ فنا ہو جاتا ہے۔ ۵۔ خدا جزئیات کا عالم نہیں ہے۔ ۶۔ خدا قابل فنا چیزوں کو ابدی نہیں کر سکتا۔ ان سب ہنگاموں کے ساتھ ابن رشد کا فلسفہ یورپ میںبرابر پھیلتا گیا۔ یہاں تک کہ چودھیوں صدی عیسوی میں بڑا حصہ یورپ کا ابن رشد کا پیرو بن گیا۔ چنانچہ فرانس کیمشہور بادشاہ یولس یاز دہم نے سنہ ۱۴۷۳ میں جب صیغہ تعلیم کی اصلاح کرنی چاہی تو پروفیسروں کو حکم دیا کہ ارسطو کی تصنیفات پر ابن رشد کی جو شرحیں ہیں وہ نصاب میں شامل کی جائیں ۔ اب یہ نوبت پہنچی کہ تمام یورپ میں ابن رشد کا فلسفہ علانیہ پڑھا جاتاتھا اور کوئی مخالفت نہیں کر سکتا تھا۔ پیڈوا کی یونیورسٹی ابن رشد کے فلسفہ نے اگرچہ تمام یورپ میں رواج پایا لیکن اعلیٰ صدر مقام اس فلسفہ کا پیڈوا کی یونیورسٹی تھی جو اٹلی میں واقع تھی۔ اس یونیورسٹی میں سب سے پہل جس نے ابن رشد کے فلسفہ کو داخل کیا پطرس دابانو تھا۔ اب یورپ کے تمام علمی طبقہ میں ابن رشد کی یہ عزت کی جاتی تھی کہ لوگ اس کے نام پر فخر کرتے تھے۔ اس یونیورسٹی میں سب سے پہلے ابن رشد کی طبی تصنیفات کی تعلیم شروع ہوئی پھر رفتہ رفتہ اس کے فلسفہ نے رواج پایا۔ اس تعلیم کا بانی اول پیٹروابانو تھا۔ اس زمانہ مٰں یورپ تعصب کا یہ حال تھا کہ اس کے مرنے کے بعد پیٹر مذکور پر انکویزیشن (مجلس تحقیقات) نے فرد قرار جرم قائم کی ۔ اور یہ فیصلہ ہوا کہ اس کی ہڈیاں قبر سے نکال کر جلا دی جائیں۔ چنانچہ اس فیاضانہ حکم کی تعمیل بھی ہوئی لیکن فلسفہ ابن رشد کا ہر قدم آگے بڑھتا جاتا تھا۔ پیڈوا کی یونیورسٹی کیماتحت اور جو بہت سی یونیورسٹیاں تھیں سب میں اس کے فلسفہ نے رواج پایا تمام اونچی سوسائٹیوں کے ممبر اس بات پر فخر کرتے تھے کہ ہم فلسفہ ابن رشد کی پیرو ہیں۔ باایںہمہ یورپ کا تعصب بھی اپنا کام کرتا جاتا تھا یہاں تک کہ متعصبین کی جماعت میںپیٹریارک ایک شخص پیدا ہوا جو نہ صرف ابن رشد بلکہ عام طور پر فلسفہ عرب کا دشمن تھا ۔ لیکن یہ عجیب بات ہے کہ پیٹر یارک ہی اس زمانے کا سب سے پہلا شخص تھا جس نے یورپ کو یونانی علوم و فنون پر تعلیم پر آمادہ کیا۔ وہ اپنے دوست جان و اندی سے کہا کرتا تھا کہ میں اطبائے یونان کا منکر نہیں ہوں لیکن عرب کے اطباء بالکل بے حقیقت ہیں میں نے عرب کے اشعار پڑھے ہیں‘ ان کی شاعری سے بڑھ کر کوئی چیز مہمل رکیک اور ضرر رساں نہیں ہو سکتی۔ ہامرے بعض اطباء کہت ہیں کہاگر آج بقراط زندہ ہوتا تو اہل عرب کی تصنیفات کے ہوتے وئے کوئی اس کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھتا۔ افسوس یہ کس قدر لغو بات ہے کیا ڈیماسینٹنس کے بعد سیرو مقرر نہٰں ہوا۔ کیا ہمر کے بعد درجل شاعر نہیں پیدا ہوا۔ کیا ہیر ڈوٹس کے بعد سالٹس نے تاریخ نویسی میںشریت عالم حاصل نہیں کی پھر یہ کیونکر مان لیا جائے کہ عرب کے بعد کوئی ہمسر نہ ہو گا جب کہ ہم اٹلی کے لوگ بہت سی باتوں میںاٹلی کو تمام دنیا پر ترجیح دیتے ہیں تو کس قدر افسوس کی بات ہے کہ عرب کو ہم تمام دنیا سے افضل تر مان لیں۔ ایک دفعہ ایک شخص پیٹر یارک سے ملنے آیا‘ سلسلہ کلام میں پیٹر یارک نے پولوس کے کلام کی سند پیش کی اس شخص نے کہا کہ آپ کو اختیار ہے جس کو چاہیں اپنا استاد اور رہنما بنائیں لیکن ہمارے لیے صرف ابن رشد کافی ہے‘‘۔ پیٹر یارک نے جواب دینا چاہا اس شخص نے کہا کہ مٰں آپ کو منع نہیںکرتا آپ پکے عیسائی رہیں۔ لیکن مجھ کو ان خرافات سے معاف رکھیے۔ پولوس (پیغمبر) جس کا نام آپ عظمت سے لیتے ہیں ابن رشد کے آگے اس کی کیا حقیقت ہے ۔ پیٹریارک غصہ سے بے تاب ہو کر بولا اور اس کو اپنے گھر سے نکال دیا۔ پیٹر یارک کے بعد پیڈوا کی یونیورسٹی میں جانڈن اس کا قائم مقام ہوا لیکن وہ ابن رشد کے فلسفہ کا بہت بڑا حامی تھا۔ یورپ نے اس کوسلطان الفلاسفۃ کا لقب دیا۔ جانڈن کے بعد پولوس نے اس کی جگہ لی۔ غرض پندرھویں صدی عیسوی کے ختم ہوتے ہوتے پیڈوا اور پولونیا کی یونیورسٹیوں میں ہر جگہ ابن رشد ہی ابن رشد تھا۔ لیکن ابن رشد کی عظمت کے چاند میں اب گہن لگنا شرو ع ہو گیا۔ بومبانا ایک شخص پیدا ہوا جس نے ابن رشدکے فلسفہ پر حملہ شروع کیا۔ ابن رشد اس بات کا قائل تھا کہ روح جسم کے فنا ہو نے کے بعد قائم رہتی ہے۔ اور اس لحاظ سے وہ ابدی چیز ہے۔ بومبونا نے اس مسئلہ کی مخالفت کی اور کہا کہ روح اور جسم ساتھ ساتھ فنا ہوتے ہیں البتہ چونہ نوع انسانی ہمیشہ قائم رہے گی اس لیے اس لحاظ سے انسان کو غیر فانی کہہ سکتے ہیں۔ فلسفہ ارسطو کے مفسرین میں سب سے زیادہ نامور اسکندر فردوسی ایک شخص گزرا ہے ابن رشد بھی جا بجا ا س سے اسناد کرتاا ہے۔ اس کا یہی مذہب تھا کہ روح فانی چیز ہے ۔ بومبونا کو ابن رشد کی مخالفت کی زیادہ تر جرات اسی وجہ سے ہوئی کہ خود ابن رشد کا معتقد علیہ بقائے روح کا منکر ہے۔ بومبونا کی مخالفت نے دو گروہ پیدا کر دیے ۔ ایک ابن رشد کا مخالف اور دوسرا موافق ۔ یہ امر حیرت سے سننے کے قابل ہے کہ لاون جو دسواں پوپ تھا اسی نے نیفوس ایک فلسفی عالم کو حکم دیا کہ بومبونا کا رد لکے بظاہر تو اس سے پوپ کی نہایت روشمن ضمیری ثابت ہوتی ہے لیکن اصل حقیقت ی ہے کہ ابن رشد کی تصنیفات میں فلسفہ کے ساتھ مذہب کا پہلو بھی ملحوظ تھا۔ بخلاف اس کے کہ بومبونا وغیرہ نے جن خیالات کا اظہار شروع کیا تھا دوسرے مذہب کی بنیاد ڈھائے دیتے تھے اوریہ اس ملحدانہ فلسفہ کا سنگ بنیاد تھا جس کی عمارت آج کل یورپ میں تکمیل کو پہنچ گئی ہے غرض نیفوس اوراشیلنی نے بومبونا کے رد میں بہت سی کتابیں لکھیں اور اٹلی کی تمام درس گاہوں میںیہ مباحث بڑے زور و شور سے پھیل گئے۔ بومبونا کا گروہ اسکندمین اور ابن رشد کا گروہ رشیدین کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ چونکہ یہ تحریک مذہب کے خلاف تھی اس لیے سنہ ۱۵۱۲ء میں ایک کانفرنس منعقد ہوئی جس نے یہ قرار دیا کہ جو شخص بقائے روح کا منکرہو وہ مردود ہے یہ بھی فیصلہ ہوا کہ جو لوگ ان خیالات کو پھیلاتے ہیں ان پر فرد قراردار جرم قائم کی جائے اور عدالت میں ان کے اظہار لیے جائیں۔۔ سولہویں صدی عیسوی میں چرچ نے علانیہ ابن رشد کی حمایت شروع کی ہر طرف سے ابن رشد کی تصنیفات اور تراجم کی مانگ آنے لگی ۔ لیکن چونکہ ابن رشد کی عظمت صرف اس حیثیت سے تھ کہ وہ فلسفہ ارسطو کا شارح ہے ۔ اس لیے اب لوگوں کو ارسطو کی اصلی نصنیفات اور تراجم کی ماننگ آ نے لگی لیکن چونکہ ابن رشچ کی عظمت صرف اس حیثیت سے تھی کہ وہ فلسفہ ارسطو کا شارح ہ اس لیے اب لوگوں کو ارسطو کی اصلی تصنیفات کی طرف توجہ ہوئی اور یہ خیال پیدا ہوا کہ ارسطو کے اصلی مسائل عربی اور لاطینی قالب میں آتے آتے کچھ سے کچھ ہو جاتے ہوں گے غرض اب اک نیا گروہ پیدا ہوا اور اس کا نام بھی اسی صفت سے مشہور ہوا۔ یعنی فرقہ جدیدیہ ۴ اپریل سنہ ۱۵۹۷ء میںپروفیسر ٹامس نے پیڈوا کی یونیورسٹی میں ارسو کی اصلی یونانی کتاب کو سامنے رکھ کر لیکچر دیا۔ اوریہ واقع اس قدر عظیم الشان سمجھا گیا کہ شعرا نے اس تقریب میں نظمیں لکھیں۔ اس جدید تحریک کا یہ نتیجہ ہوا کہ یا تو ابن رشد ارسطو کا قائم مقام سمجھا جاتاتھا یا وہ ارسطو کا حریف مقابل خیال کیا جانے لگا۔ چنانچہ فرقہ جدیدہ نے اپنے آپکو یونانی اورابن رشد کے پیرو اپنے آپ کو رشدی کہتے تھے۔ یونانی تصنیفات کی مراجعت نے ایک اور انقلاب یہ پیدا کیا کہ اب تک ارسطو کے فلسفہ کے سوا کسی اور فلسفہ کے نام سے بھی آشنا نہ تھے لیکن اب ایک اور فرقہ پیدا ہوا جو افلاطون کا پیرو تھا ۔ پیڈوا‘ بندقیہ اور اٹلی کے شمالی حصوں میںارسطو کے اصلی فلسفہ کی تعلیم ہوتی تھی اورفلارنس میں افلاطون کا فلسفہ پرھایا جاتا تھا غرض رفتہ رفتہ ابن رشد کے فلسفہ کا اثر بالکل جاتا رہا۔ سب سے آخری شخص جو ابن رشد کا پیرو تھا ۔ قیصر کریموسنی تھا جس نے سنہ ۱۶۳۱ء میں وفات پائی۔ ابن رشد اور نہ صرف ابن رشد بلکہ عام طورپر یونانی اور قدیم فلسفہ کی اصلی بربادی بیکن کے ہاتھو ں سے ہوئی جس کی تصنیفات سنہ ۱۵۹۷ء میں شائع ہوئیں ۔ فلسفہ قدیم کی بنیاد قیاسات اور موہمات پر تھی۔ بیکن نے اس طریقہ کو بالکل ہیچ قرار دیا اورعلمی عمارت کی بنیاد و مشاہدات و تجریبات کی سطح پر قائم کی اس کا نتیجہ یہ ہے ک آج انسان نے تمام عالم کائنات پر قبضہ کر لیا ہے اورقدرت کے جو مخفی اسرار باقی رہ گئے تھے کوئی دم میں ان پر سے بھی پردہ اٹھا چاہتا ہے۔ ابن رشد کی تصنیفات اور اجتہادات پر ہم کبھی آئندہ ریویو کریں گے؎۱۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ؎۱۔ اس مضمون کے متعدد ٹکڑے الندوہ اور معارف کے حسب ذیل نمبروں میں شائع ہوئے تھے اب ان ٹکڑوں کو مسلسل کر کے ایک مضمون بنا لیا گیا ہے ۔ (الندوہ جلد ۱ نمبر ۳‘ معارف جلد ۲ عدد ۱۲‘ الندوہ جلد ۱ نمبر ۷ ‘ الندوہ جلد ۳ نمبر ۶) مجددان اسلام علامہ ابن تمیمہ حرانی اسلام میں سینکڑوں ہزاروں بلکہ لاکھوں فضلا علما‘ مجتہدین‘آئمہ فن‘ مدبرین ملک گزرے لیکن مجدد یعنی رفارمر بہت کم پیدا ہوئے۔ ایک حدیث ہے کہ ہر صدی میں ایک مجدد پیدا ہو گا‘‘ اگر یہ مشتبہ حدیث مان لی جائے تو آج تک کم از کم تیرہ مجدد پیدا ہونے چاہئیں۔ لیکن اس حدیث کے صادق آنے کے لیے جن لوگوں کو مجددین کا لقب دیا گیا ہے ان میں سے اکثر معمولی درجہ کے لوگ ہیں۔ یہاں تک کہ علامہ سیوطی بھی اس منصب کے امیدوار ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ لوگوں نے مجدد کے رتبہ کا اندازہ نہیںکیا۔ مجدد یا رفارمر کے لیے تین شرطیں ضروری ہیں: ۱۔ مذہب یا علم یا سیاست (پالٹکس) میں کوئی مفید انقلاب پیدا کر دے ۔ ۲۔ جو خیال اس کے دل میں آیا ہو کسی کی تقلید سے نہ آیا ہو‘ بلکہ اجتہاد ہو۔ ۳۔ جسمانی مصیبتیں اٹھائی ہوں‘ جان پر کھیلا ہو‘ شرفروشی کی ہو۔ یہ شرائط قدما میں بھی بہت کم پائے جاتے ہیں اورہمارے زمانہ میں تو رفارمر ہونے کے لیے صرف یورپ کی تقلید کافی ہے۔ تیسری شرط اگر ضروری قرار نہ دی جائے تو امام ابو حنیفہ ‘ امام غزالی‘ امام رازی‘ شاہ ولی اللہ صاحب اس دائرہ میں آ سکتے ہیں۔ لیکن جو شخص رفارمر کا اصلی مصداق ہو سکتا ہے۔ وہ علامہ ابن تمیمہ ہے ہم اس بات سے واقف ہیں کہ بہت سے امور میں امام غزالی وغیرہ کو ابن تمیمہ پر ترجیح ہے۔ لیکن وہ امور مجددیت کے دائرے سے باہر ہیں۔ مجددیت کی اصلی خصوصیتیں جس قدر علامہ کی ذات میں پائی جاتی ہیں اس کی نظیر بہت کم ملتی ہے ۔ اس لیے ہم اس عنوان کے ذیل میں علامہ موصوف کے حالات اور ان کی مجددیت کی خصوصیات لکھنا چاہتے ہیں۔ نام و نسب و ولادت ؎۱ احمد نام‘ عرف ابن تمیمہ‘ تقی الدین لقب ‘ سلسلہ نسب یہ ہے ‘ احمد بن عبدالحلیم بن عبدالسلام بن عبداللہ بن الخضر بن محمد بن الخضر بن علی بن عبداللہ بن تمیمہ الحرانی۔ دمشق کے علاقہ میں حران ایک مقام کا نام ہے ان کے آبائو اجداد وہیں کے رہنے والے تھے ۔ ان کے داد ا محمد بن خضر کی والدہ کا نام تمیمہ تھا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ؎۱۔ علامہ ابن تیمیہ کے حالات اگرچہ کتابوں میں مذکور ہیں لیکن طبقات الحنابلہ میں ابن رجب حنبلی نے جو خود علامہ موصوف کے شاگرد کے شاگرد ہیں ان کا حال زیادہ تفصیل سے لکھا ہے ذیل ابن خلکان اور طبقات الحقاظ میں بھی مفید حالات ہیں۔ حافظ ابن حجر نے درکامنہ میں نہایت دلچسپ اور مفید حالا ت لکھے ہیں۔ لیکن میرے پاس اس کتاب کا جو نسخہ تھا نہایت غلط تھا اس لیے اکثر جگہ اس سے فائدہ نہ اٹھا سکا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ نہایت قابل تھیں اور وعظ کیا کرتی تھیں۔ علامہ موصوف نے ان ہی کی طرف منسوب ہو کر ابن تیمیہ کے نام سے مشہور ہیں۔ علامہ کے خاندان میںساتھ آٹھ پشت سے درس و تدریس کا مشغلہ چلا آتا ہے ۔ اورسب لوگ علم و فن میںں ممتاز گزرے۔ علامہ کے والد عبدالحلیم بہت بڑے عالم تھے۔ فن حدیث میںانکو کمال حاصل تھا ۔ علامہ موصوف دو شنبہ کے دن ۱۰ ربیع الاول سنہ ۶۶۱ھ میں بمقام حران پیدا ہوئ۔ یہ وہ زمانہ ہے کہ تاتاری بغداد کو غارت کر کے شام کی طرف پھیل رہے تھے اور جدھر جاتے تھے ملک کے ملک برباد کرتے چلے جاتے تھے۔ علامہ کے والد اسی پریشانی میں رات کو چھپ کر تمام خاندان کے ساتھ حران سے نکلے الگ الگ سواری کا بندوبست نہ تھا‘ سب کے سب ای گاڑی مٰں بیٹھے کتابیں بھی اسی گاڑی میںرکھیں تاتاری بھی تعاقب میں تھے لیکن خدا نے بچا لیا اور گرتے پڑتے دمشق پہنچ گئے۔ یہ سنہ ۶۶۷ء کا واقعہ ہے ۔ اس وقت علامہ کی عمر ۶ برس ک ی تھی ۔ علامہ نے والد کے اشارہ سے دمشق میں علم کی تحصیل شروع کی۔ دس برس کی عمر ہونے نہٰںپائی تھی کہ نحو ‘ صرف ‘ ادب وغیرہ سے فراغت حاصل کی اور ۱۷ برس کی عمر تک پہنچتے پہنچتے فتوے دینے کے قابل ہو گئے۔ تصنیف و تالیف بھی اسی عمر میں شروع ہو گئی۔ ۲۱ برس کی عمر میں ان کے والد کا انتقال ہو گیا۔ وہ متعدد مدارس میں مدرس تھے ۔ ان کے بعد ان تمام مدرسوں میںباپ کا عہدہ ان کو ملا۔ علامہ موصوف نے جن اساتذہ سے علوم کی تحصیل کی ان کی تعداد ۲۰۰ تک پہنچتی ہے جن میں سے مشاہیر کے نام یہ ہیں ابن ابی الیسر‘ کمال بن عبد‘ شمس الدین حنبلی‘ قاضی شمس الدین ابن عطاء الحنفی ‘ شیخ جمال الدین بن صیرنی‘ مجدالدین بن عساکر‘ بحیب مقداد‘ ابن ابی الخیر‘ ابن علان ابوبکر ہروی‘ کمال عبد الرحیم فخر الدین بن البخاری‘ ابن شیبان ‘ شرف بن القواس۔ یہ بات یاد رکھنے کے قاب ہے کہ ان کے اساتزہ میں زینب بھی ہیں جو ایک فاضل خاتون تھیں سنہ ۶۸۱ھ میں دار الحدیث سکریہ میں جو خاص فن حدیث کا درس گاہ تھا پہلا درس دیا۔ اس درس میں بڑے بڑے علماء اورفضلاء استفادہ کی غرض سے شریک ہوئے۔ چنانچہ قاضی القضاۃ بہاء الدین ‘ شیخ تاج الدین فزاری ‘زین الدین بن مرجل‘ شیخ زین الدین ابن منجاتک شریک تھے۔ علاہ نے یہ صرف بسم اللہ کے متعلق اس قدر نکات اور دقائق بیان کیے کہ لوگ حیرت ؎۱ زدہ رہ گئے ۔ تاج الدین فزاری نے یہ تقریر حرف بحرف قلمبند کی ہے ۔ اسی زمانہ میں جامع مسجد میں جمعہ کی نماز کے بعد قرآن مجید کی تفسیر پر ابتدا سے بہ ترتیب درس دینا شروع کیا۔ یہ درس اس قدر مفصل اور بسبیط ہوتا تھا کہ سورہ نوح کی تفسیر کئی برس میں تمام ہوئی۔ ان کے علم و فضل کا شہرہ اس قدر عام ہوتا جاتا تھا کہ سنہ ۶۹۰ھ سے پہلے پہلے یعنی جب ان کی عمر ۳۰ برس کو بھی نہ پہنچی تھی قاضی القضاۃ کا عہدہ پیش کیا گیا لیکنا نہوں نے انکار کر دیا ؎۲ سنہ ۶۹۱ھ میں حج کو گئے اور جب واپس آئے تو تمام ملک میں انکے فضل و کمال کا سکہ جم چکا تھا۔ لیکن اس حسن قبول کے ساتھ مخالفت کا سامان بھی جمع ہوتا جاتا تھا۔ اسلامی فرقوں میں سے اشعری اور حنبلی آپس میں حریف مقابل تھے۔ امام رازی نے اشاعرہ مذہب کو اس قدر مدلل اور روشن کر دیا تھا کہ حنبلی مذہب گویا بجھ چکا تھا۔ علامہ ابن تیمیہ حنبلی تھے اور ان کے نزدیک ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ؎۱۔ طبقات الحنابلہ ان رجب ؎۲۔ طبقات الحنابلہ ابن رجب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حنبلیوں ہی کی رائے صحیح تھی۔ اس لیے انہوں نے دلیری سے ان خیالات کا اظہار کیا۔ سنہ ۶۹۸ھ میں ؎۱ ایک استفتا ان کے پاس اس کے متعلق آیا۔ انہوں نے دو تین گھنٹہ میں اس کا لمبا چوڑا جواب لکھا جو حمویہ کے نام سے مشہور ہے ۔ اس میں نہایت تفصیل سے اشعریوں کی غلطی ثابت کی۔ یہ پہلا دن تھا کہ ان کی عداوت اور مخالفت کی صدا بلند ہوئی فقہا نے ان سے جا کر بحث کی لیکن قاضی امام الدین قزوینی ان کے طرف دار ہو گئے اور کہا کہ جو شخص علامہ کے مخالف کوئی بات کہے گا میں اس کو سزا دوں گا۔ شورش ؎۲ یہاں تک پہنچی کہ قاضی حنفی نے منادی کر ا دی کہ ابن تیمیہ فتویٰ نہ دینے پائیں۔ لیکن حکام میں سے ایک صاحب اثر نے علامہ کی طرفداری کی اور وہ فتنہ فرو ہو گیا۔ ؎۳ سنہ ۷۰۵ھ میں یہ فتنہ پھر سے زور شور سے اٹھا ۔ یہاں تک کہ شاہی حکم آیا کہ نائب السلطنت افر م علماء و فضلاء کے مجمع میں علامہ کا اظہار لیں۔ غرض سنہ ۷۰۵ھ کو تمام قضاۃ اور علماء ایوان شاہی میں جمو ہوئے اور علامہ کو بلوا بھیجا۔ وہ اپنی تصنیف ’’عقیدہ واسطیہ‘‘ ہاتھ مٰں لے کر آئے اوراس کوپڑھ کر سنایا۔ تین جلسوں میں پوری کتاب ختم ہوئی پھر ۲ صفر سنہ ۷۰۵ھ کو مناظرہ کی مجلس منعقد ہوئی اور علامہ صفی الدین ہندی افسر مناظرہ مقرر ہوئے پھر کسی وجہ سے ان کے بجائے کمال زملکانی جو مشہور محدث تھے اس خدمت پر مامور ہوئے۔ بالآخر سب نے تسلیم کیا کہ علامہ کے عقائد اہل سنت کے عقائد ہیں۔ چند روز کے بعد شاہی فرمان آیا کہ علامہ پر جو الزام لگائے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ؎۱۔ فوات الوفیات ؎۲۔ درد کا منہ حالات ابن تیمیہ ؎۳۔ طبقات الحنابلہ ابن رجب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ گئے تھے غلط تھے ۔ حافظ ابن حجر نے درد کا منہ میں لکھا ہے کہ علامہ نے اقرار کیا کہ میرے عقائد امام شافعی کے عقائد ہیں۔ ۱۲ رجب سنہ ۷۰۵ھ کو علامہ مزی نے بخاری کی کتاب افعال العباد کا درس جامع مسجد میںدیا اس پر بعض شافعیوں کو خیال ہوا کہ اس کا روئے سخن ہماری طرف ہے۔ چنانچہ قاضی شافعی سے جاکر شکایت کی اقااضی نے الٹا اسی کو قید کر دیا۔ علامہ ابن تیمیہ کو خبر ہوئی تو خود گئے اور بزور اس کو قید خانے سے چھڑا لائے۔ قاضی یہ سن کر قلعہ میں گئے کہ نائب السلطنت سے اس کی شکایت کریں۔ اتفاق سے علامہ بھی وہیں موجود تھے روبرو گفتگو ہوئی اور سخت کلامی تک نوبت پہنچی۔ بالآخر نائب السلطنت نے رفع فساد کے لیے منادی کرا دی کہ جو شخص ان عقائد کا اظہار کرے گا اس کو سزا دی جائے گی۔ ؎۱ چند روز کے بعد یہ فتنہ پھر اٹھا امرائے دربار میں سے بیرس چاشگیر کی حکومت کا دایاں ہاتھ تھا اور وہ شیخ نصر منجی کا نہایت معتقد تھا۔ شیخ نصر علامہ ابن تیمیہ اور ان کے عقائد کے سخت مخالف تھے یہاں تک کہ بعض لوگوں کو اس جرم پر قتل بھی کرا چکے تھے۔ انہوںنے بیرس کو آمادہ کر لیا ک علامہ دمشق سے قاہرہ طلب کیے جائیں۔ چنانچہ ۲۱ رمضان سنہ ۷۰۵ ھ کو علامہ ڈاک میں بیٹھ کر دمشق سے قاہرہ میں آئے اور اس کے دوسرے دن قلعہ میں دربار عام ہوا۔ قاضی ابن مخلوق مالکی حکم ہو کر بیٹھے ایک شخص جس کا نام ابن عدلان تھا اس نے اظہار دیاکہ ابن تیمیہ اس بات کے قائل ہیں کہ خدا حرف اورالفاظ کے ذریعہ سے بولتا ہے اور اس کی طرف انگلیوں سے اشارہ کیا جا سکتا ہے۔ یہ کہہ کر اس نے قاجی ابن مخلوق کی طرف دیکھا کہ کیا ایسا شخص قتل کا مستحق ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ؎۱۔ یہ واقعات صرف درد کامنہ میں ہیں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نہیں ہے۔ قاضی صاحب نے علامہ کی طرف خطاب کیا علامہ نے خطبہ (لکچر) کے طریقہ رپ جواب دینا چاہا اس لیے پہلے حمد و ثنا شروع کی۔ قاضی نے کہا کہ جلد جواب دو علامہ بولے کہ کیا حمد و ثنا نہ کروں؟ قاضی نے کہا کہ اچھا وہ ابھی ہو چکی اب تو جواب دو علامہ چپ ہو رہے جب زیادہ اصرار ہوا تو انہوں نے کہا کہ حکم کون ہے؟ لوگوں نے قاضی صاحب کی طرف اشارہ کیا چونکہ وہ اشعری تھے علامہ نے کہا کہ یہ خود فریق مقدمہ ہیں حکم کیونکر ہو سکتے ہیںل۔ اس پر لوگ برہم ہوئے اورعلامہ کو مجلس سے اٹھا دیا۔ علامہ کے بھائی شیخ شرف الدیں بھی اس معرکہ میںموجود تھے۔ وہ بھی علامہ کے ساتھ اٹھے اور ان کے منہ سے بدعا نکلی علامہ نے روکا اور کہا کہ یوں کہوں اللھم اھدھم۔ غرض قاضی مالکی کے حکم سے علامہ قلعہ کے قید خانہ میں بھیج دیے گئے۔ لیکن جب قاضی کو معلوم ہوا کہ یہاں کسی کی روک ٹوک نہیں لو گ علامہ سے بے تکلف ملتے جلتے ہیں تو انہوںنے کہا کہ ابن تیمیہ کا کفر ثابت ہو چکا ہے ۔ اس لیے فرض تو یہی تھا کہ وہ قتل کر دیے جائیں لیکن کم از کم قید خانے کی سختی تو ضروری ہے۔ غرض عید کے دن قلعہ سے منتقل ہو کر جب یوسف جو نہایت تاریک قید خانہ ہے قید کیے گئے۔ اسی زمانہ میں شاہی فرمان نافذ ہوا کہ جو شخص ابن تیمیہ کا ہم خیال ہو گا قتل کر دیا جائے گا۔ یہ فرمان ابن شہاب محمود نے جامع مسجد میں جا کر پڑھا۔ حنبلی فرقہ کے لوگ ہر جگہ سے گرفتا ر ہو کر آئے اور ان سے یہ اقرار لیا گیا کہ وہ شافعی العقیدہ ؎۱ ہیں۔ قاہرہ میں حنبلیوں کو طرح طرح کی سزائیں دی گئیں کہ وہ ابن تیمیہ کے عقیدہ سے باز آئیں۔ عجیب بات یہ ہے کہ اس عام آشوب میںعلامہ کی جس نے حمایت کی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ؎۱۔ درد کامنہ‘ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ شمس الدین ابن الحویری تھے جو مذہباً حنفی تھے۔ انہوںنے ایک محضر لکھا جس میں یہ عبارت لکھی کہ تین سو برس سے ابن تیمیہ کا کوئی ہمسر نہیں پیدا ہوا۔ اس جرم میں شمس الدین کی معزولی کی کوشش کی گئی۔ چنانچہ وہ اگلے سال معزول کر دیے گئے۔ ؎۱ اتفا ق یہ کہ سالار جو سلطان ناصر کا دست و بازو تھا علامہ کی حمایت پر آمادہ ہوا۔ اس نے تینوںمذہب کے فقہاء کو جمع کیا اور خواہش کی کہ علامہ قید سے رہا کر دیے جائیں۔ سب نے بالاتفاق فیصلہ کیا کہ اگر وہ چن شرائط قبول کریں اور بعض عقائد سے باز آئیں تو البتہ ان کی رہائی ہو سکتی ہے۔ چنانچہ ان شرائط کے قبول کرنے کے لیے علامہ طلب کیے گئے لینک وہ نہ آئے بار بار ان کو پیغام بھیجا گیا لیکن ان کو خیال کی آزادی کے مقابلہ میں اپنا قید ہونا گوارا تھا ۔ ؎۲ اس زمانہ کے واقعات کے متعلق ایک تحریر خود علامہ کی ہماری نظر سے گزری ہے اس کا نام مناظرہ مصریہ ہے۔ اس کے دیباچہ میں لکھتے ہیں کہ سنہ ۷۰۶ھ میں دو شاہی عہدہ دار میرے پاس آئے کہ چل کر علماء کے سامھے اپنے عقائد کا ثبوت بیان کیجیے۔ میں نے کہا کہ سال بھر سے تم لوگ میرے خلاف لوگوں کے بیان سنتے رہے اور کبھی مجو کو جواب کا موقع نہیں دیا۔ اب ایک دفعہ تنہا میرابیان بھی سن لو پھر مجمع عام میں گفتگو ہو گی۔ دونوں عہدہ دار واپس گئے اور یہ پیغام لائے کہ آپ کو مجبوراً چلنا ہو گا۔ میں نے انکار کیا کہ وہ لوگ واپس گئے اورپھر یہ پیغام لائے کہ فلاں فلاں عقیدوں سے باز آئو۔ میں نے جواب دیا کہ میں نے اس کے جواب میں یہ رسالہ لکھا۔ لطیفہ جن دنوں علامہ قید میں تھے باہر کے ایک رئیس نے علامہ کی صورت کا ایک آدمی دیکھا‘ متعجب ہو کر پوچھا کہ آپ کون ہیں؟ اس نے کہا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ؎۱۔ در د کامنہ ؎۲ طبقات و درد کامنہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ابن تیمیہ ۔ رئیس کو نہایت تعجب ہوا۔ اس نے ماردین کے رئیس کو اس واقعہ کی اطلاع دی رئیس ماردین نے بادشاہ مصر کو لکھا لوگوں کو نہایت حیرت ہوئی علامہ نے اس واقعہ کو ایک ضمنی موقع پر رسالہ الفرقان میںلکھا ہے ؎۱۔ اور یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ وہ غالباً جن تھا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ علامہ کی عظمت و شان نے اس رئیس کے دل میں ایک خیالی صورت پیدا کی جو مجسم ہو کر نظر آئی۔ جن کا خیال علامہ کی وہم پرستی ہے۔ (جن کے وجود سے انکار نہیں‘ لیکن جن یوں صورت بدل کر لوگوں کے پاس آیا جایا نہیںکرتے)۔ غرض ڈیڑھ برس تک علامہ قید خانہ میں رہے ان کے بھائی بھی ساتھ تھے۔ معمول تھا کہ قیدیوں کو کھانا کپڑا حکومت کی طرف سے ملتا تھا۔ لیکن علامہ نے عطیہ سلطانی سے بالکل انکار کیا اور فقر و فاقہ سے بسر کی ۔ ؎۲ ربیع الاول سنہ ۷۰۷ھ میں مہنا بن عیسیٰ جو عرب کا مشہور رئیس تھا مصر میں آیا اور خود قید خانہ میںجا کر علامہ کو چھڑا لایا۔ اس کے بعد متعدد جلسے منعقد کیے گئے اورتمام علماء و فضلا کو جمع کیا جس میں علامہ نے مسائل متنازعہ پر گفتگو کی۔ صاحب طبقات نے علامہ ذہبی کے حوالہ سے لکھا ہے کہ علامہ نے قتل کے ڈر سے بعض مسائل میںاتفاق کیا۔ لیکن صاحب و فیات نے جو علامہ کا شاگرد ہے لکھا ہے کہ علامہ نے حریفوں کو زور استدلال سے مغلوب کر لیا۔ بہرحال علامہ قید خانہ سے نکل کر درس و تدریس میں مشغول ہوئے اورچند روز کے لیے ان کو اطمینان نصیب ہوا۔ سلسلہ سخن کے اتصال سے ہم بہت دور نکل آئے اور بیچ کے اہم واقعات جن میں علامہ نے ملکی معاملات انجام دیے چھوٹ گئے۔ علامہ موصوف عام علماء کی طرح اپنا فرض صرف نماز‘ روزہ ادا کرنا نہیں سمجھتے تھے۔ بلکہ ان کے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ؎۱۔ مطبوعہ مصر صفحہ ۷۱ ؎۲ ۔ طبقات الحنابلہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نزدیک مہمات سیاست میں دخل دینا بھی علماء کے فرائض میں داخل تھا۔ سنہ ۶۷۸ھ میںجب ان کی عمر ۱۸۔۱۹ سال کی تھی غازان خا بن ہلاکو کان نے شام پر حملہ کیا سلطان ناصر (بادشاہ مصر) اس کے مقابلہ کو نکلا لیکن بڑے معرکہ کے بعد شکست کھائی غازان خاننے آگے بڑھ کر حمص پر قبضہ کر لیا۔ اس کی آمد آمد کی خبر سن کر دمشق میں اس قدر برہمی پھیلی کہ عام غارت گری شروع ہو گئی۔ علامہ ابن تیمیہ یہ حالت دیکھ کر خود غازان خان کے پاس گئے اور اس سے امن کا فرمان لے آئے۔ عام لوگ یہ سن کر مطمئن ہو گئے لیکن اہل فوج نے نہ مانا اورشہر کو لوٹنا شروع کر دیا۔ علامہ ابن تیمیہ نے شیخ الشیوخ نظا م الدین محمود کو لے کر شہر کا بندوبست اور امن و امان قائم کیا پھر غازان سے جا کر ملاقات کی۔ اس کے بعد تاتاری فوجیں بیت المقدس وغیرہ کی طرف بڑھیں اور ہزاروں آدمی گرفتار کر کے علامہ سردار لشکر کے پاس گئے اوربہت سے قیدیوں کو چھڑا لائے۔؎۱۔ سنہ ۶۹۹ھ میں غازان خان نے بڑے زور و شور سے شام کے حملہ کی تیاری کی قتلو شاہ وارتولائے جو اس کے سپہ سالار تھے فوجیں لے کر آگے بڑھے ۔ یہ خبر سن کر علامہ ابن تیمی نے جا کر ان سے گفتگو کی اور ان کو اس ارادے سے روکا ساتھ ہی جہاد کا سامان کیا اورہر قسم کی تیاریاں شروع کیں۔ اس وقت تو یہ فتنہ فرو ہو گیا لیکن سال بھر کے اندر پھر تاتاریوں کا سیلاب امنڈا اور ہر طرف تاتاری فوجیں پھیل گئیں۔ علامہ ڈاک میں بیٹھ کر مصر پہنچے اور اعیان سلطنت سے مل کر ان کو جہاد کی ترغیب دی۔ تمام شہر ان سے ملنے کے لیے آیا۔ یہاں تک کہ علامہ تقی الدین بن دقیق العید جو امام المحدثین اور قاضی القضاۃ تھے وہ بھی تشریف لائے۔ مصر کے لوگوں کو آمادہ کر کے علامہ دمشق کو واپس گئے اور جہاد کی تیاریاں کیں ۔ ؎۲ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ؎۱ یہ تمام واقعات تاریخ ابن خلدون میں مذکور ہیں جلد ۵ ذکر السلطنت اتراک مصر ؎۲ ۔ فوات الوفیات ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سنہ ۷۰۶ھ میں تاتاریوںنے پھر نہایت سروسامان سے شام پر چڑھائی کی قتلو شاہ اور چوپان جو سردار فوج تھے نوے ہزار فو ج لے کر برھے۔۔اس وقت شام سلطان ناصر کے قبضہ میں تھا۔ اس کو خبر ہوئی تو نہایت گھبرایا ارکان دربار نے بھی ہمت ہار دی۔ علامہ ابن تیمیہ یہ حالات سن کر ڈاک میں شام سے مصر پہنچے اوربادشاہ سے مل کر نہایت بیباکی سے اس کو غیرت دلائی اور کہا کہ اگر تم اسلام کی حمایت نہ کرو گے تو خدا کسی اور کو بھیجے گا جو اس فر ض کو انجام دے گا۔ اس کے بعد علامہ نے قرآن مجید کی یہ آیتیں پڑھیں۔ وان یتولوا لیتدل قوما غیرکم ثم ا یکونا ا امثالکم ’’اگر تم پیٹھ دکھائو گے تو خدا تمہارے بدلے اور قوم بھیجے گا ۔ اور وہ تمہاری طرح (بزدل) نہ ہوں گے۔‘‘ علامہ نے جس دلیری اور بے باکی سے بادشاہ سے گفتگو کی تمام لوگوں کو حیرت ہوئی ۔ امام تقی الدین ابن دقیق العید کو بھی ان کی جرات اورلطف استنباط پر حیرت ہوئی۔ ؎۱ علامہ کو اس سفارت میں پوری کامیابی حاصل ہوئی۔ سلطان ناصر شام کی طرف بڑھا اور مرج الصغر میں ثفخب ہے دونوں فوجیں معرکہ آراء ہوئیں۔ بڑ ے زور زور کا رن پڑا۔ بالآخر تاتاریوں کی فوجیں برباد ہو گئیں۔ ابن تیمیہ اس معرکہ میں علامہ کے بجائے ایک بہادر سپاہی نظر آئے۔ غازان خان اور امرائے تاتار کی سفارتوں میں علامہ نے جس آزادی سے دلیری سے سفارت کی خدمت انجام دی اس کا اندازہ اس سے ہوگا کہ ایک دفعہ جب وہ سپہ سالار قتلو خان کے پاس ایک شخص کی داد رسی کے لیے گئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ؎۱۔ ابن خلدون اور طبقات الحنابلہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو قتلو خان نے استہزا کے طور پر کہا کہ آپ نے کیوں تکلیف کی آپ نے بلا بھیجا ہوتا۔ میں خود حاضر ہو جاتا۔ علامہ نے کہا کہ نہیں حضرت موسیٰ فرعون کے پاس جاتے تھے فرعون حضرت موسیٰ کے پاس نہیں آتا تھا ۔ ؎۱ علامہ موصوف نے شیخ محی الدین اکبرو کے متعلق متعدد رسالوں میں لکھا تھا کہ وہ وحدت وجودکے قائل ہیں یعنی خدا اور مخلوقات سب ایک ہیں۔اور یہ مذہب اسلام کی تعلیم کے خلاف ہے ۔ اس پر صوفیوں کے گروہ نے حاکم شافعی سے جا کر شکایت کی۔ اس کے فیصلہ کے لیے ایک مجلس منعقد ہوئی۔ علامہ پر جو الزامات لگائے گئے تھے وہ غلط ثابت ہوئے لیکن علامہ نے یہ تسلیم کیا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے استغاثہ کرنے کا ناجائز سمجھتا ہوں۔ اس پر لوگوںمیں اختلاف رائے پیداہوا۔ بعض کہتے تھے کہ اس میںکیا حرج ہے ۔ لیکن حاکم بن جماعہ نے کہا کہ یہ خلاف ادب ہے۔ فیصلہ یہ ہوا کہ مقدمہ قاضی کے پاس بھیج دیا جائے اور وہ احکام شریعت کے موافق فیصلہ کردیں۔ آخر سلطنت کی طرف سے یہ حکم صادر ہوا کہ علامہ کے سامنے دو باتیں پیش کی جائیں یا تو چند شرائط کے ساتھ چھوڑ دیے جائیں یا اگر شرائط کے قبو ل کرنے سے انکار ہو تو قید خانہ گوارا کریں۔ علامہ نے قید خانہ قبول کیا ۔ لیکن ان کے احباب نے جو دمشق سے ان کے ساتھ آئے تھے اپنی طرف سے ذمہ داری لی کہ علامہ کو وہ شرطیں منظور ہیں اس بنا پر دمشق جانے کی اجازت ملی اورعلامہ ڈاک میں روانہ ہوئے ۔ لیکن دوسرے دن پھر واپس آنا پڑا۔ اور امراء اور قضاۃ نے پھر ایک مجمع کیا۔ مختلف لوگ رائیں دیتے تھے۔ بعض نے قید کی رائے دی۔ قاضی مالکی نے کہا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ؎۱ ۔ فوات الوفیات ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ان پر کوئی جرم ثابت نہیں ہے ۔ نورالدین زوادی سے لوگوں نے پوچھا تو متحیر ہوئے کہ کیا جواب دیں۔ علامہ نے دیکھا ہ ان کی وجہ سے لوگوں میںاختلاف آراء ہوتا ہے بولے کہ میں خود قید خانہ میںجاتا ہوں۔ زدادی نے کہا کہ اگر قید خانہ میں بھیجے جائیں تو وہاں ان کی شان کے مناسب ان سے برتائو کیا جائے لیکن اوروں نے کہا یہ نہیں ہو سکتا۔ سلطنت اس کو منظور نہیں کر سکتی۔ قید خانہ میں عام قیدیوں کی طرح رہنا ہو گا۔ غرض قید خانہ میں بھیجے گئے لیکن احترام قائم رہا۔ خدام کو ان کے ساتھ رہنے کی اجازت دی گئی ہر شخص ان کے پاس آن جانے کا مجاز تھا۔ چنانچہ مشکل سے مشکل فتوے لے کر لو گ آتے تھے اور علامہ ان کے جواب لکھتے تھے۔ اکثر لوگ برکت کی غرض سے ملنے جاتے تھے۔ خاص ان کے یاران صحبت کو بھی آزادی حاصل تھی بے تکلف ان سے مل سکتے تھے۔ ؎۱ سلطان مظفر کی چند روزہ ؎۲ سلطنت میں قاہرہ سے اسکندریہ بھیج دیے گئے۔ اور ایک وسیع خوش منظر برج میں نظر بند کیے گئے لیکن یہاں بھی ہر طرح کی آزادی حاصل تھی۔ نہانے کے لیے حما م میں بھی جا سکتے تھے۔ جب دوبارہ سلطان ناصر کو غلبہ حاصل ہوا اور سلطان مظفر قتل کر دیا گیا تو سلطان نے حکم دیا کہ علامہ نہایت عزت و احترام سے قاہرہ بلائے جائیں چنانچہ سنہ ۶۰۹ھ میں علامہ نہایت احترام کے ساتھ قاہرہ میںآئے۔ سلطان نے دربار میں بلایا اور جب وہ آئے تو کھڑے ہو کر تعظیم دی۔ سلطان نے مجمع عام میں علامہ کی نہایت تعریب کی جس سے غرض یہ تھی کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ؎۱۔ طبقات ابن رجب ؎۲۔ دردکامنہ میں لکھا ہے کہ قاضی زین بن مخلوق نے ان کو نائب السلطنت سے کہہ کر اسکندریہ کے قید خانہ میں بھجوایا تھا کہ کوئی ان سے ملنے نہ پائے لیکن لطف یہ کہ قاضی صاحب نے یہ حکم بھجوایا تھا تو مرض الموت میں گرفتار تھے حسن خاتمہ بغیر اس کے کیونکر ہو سکتا تھا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لوگ ان کی مخالفت سے باز آئیں۔ سلطان نے بھی یہ ارادہ کیا کہ علامہ کے مخالفوں کو سزاد لائے چنانچہ خود علامہ سے مشورہ کیا لیکن انہوںنے باز رکھا۔ ابن مخلوق جو علامہ کے قتل کے درپے تھے اس موقع پر موجود تھے۔ علامہ نے ان سے بھی درگزر کی چنانچہ وہ کہا کرتے تھے کہ میں ابن تیمیہ جیسا جوانمرد نہیں دیکھا۔ میںنے ان کے قتل کی کوشش کی لیکن جب مجھ پر ان کو قابو ملا تو معاف کر دیا۔ ؎۱ مہینہ بھر کے بعد سلطان نے پھر علامہ کو طلب کیا اوران سے ملاقات کی۔ سلطان کے حسن عقیدت کی وجہ سے علامہ کا آستانہ مرجع عام بن گیا۔ امراء اہل فوج‘ درباری سب آتے تھے اورنہایت عزت و احترام سے ملتے تھے۔ لیکن بعضوں کو اس قدر عناد تھا کہ اس حالت میں بھی شرارت سے باز نہ آتے تھے۔ ان میں سے ایک بزرگ فقیہ بکری تھے انہوںنے ایک دن علامہ کو اکیلا پا کر گریبان پکڑلیا۔ اور کہا کہ عدالت میںچلو مجھ کو تم پر استغاثہ کرنا ہے۔ زیادہ شور و غل ہوا تو ادھر ادھر سے لوگ جمع ہوگئے۔ فقیہ صاحب بھاگ نکلے۔ اتفاق یہ کہ ایک مدت کے بعد کسی بات پر سلطان ان سے ناراض ہوا اور حکم دیا کہ ان کی زبان کٹوا دی جائے علامہ کو خبر ہوئی تو سلطان سے سفارش کی اوراتنی بات پر معاملہ ٹل گیا کہ وہ فتوے نہ دینے پائیں۔ سنہ ۷۱۲ھ میں سلطان تاتاریوں کے مقابلہ کے لیے شام کو روانہ ہوا علامہ بھی جہاد کی غرض سے ساتھ ہوئے اور عسقلان تک ساتھ ساتھ آئے ۔ یہاں سے بیت المقدس کی زیارت کے لیے گئے ۔ زیارت سے فارغ ہو کر سات برس کے بعد دمشق میں آئے۔ ان کے بھائی اور اکثر شاگرد بھی ساتھ تھے۔ شہر کے لوگوں کو خبرہوئی کہ تمام شہر امنڈ آیا ۔ بڑی دھوم دھام سے شہر میں داخل ہوئے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ؎۱۔ طبقات ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور جن مدارس میں درس دیتے تھے وہاں درس دینا شروع کیا۔ سنہ ۷۱۸ھ ؎۱ میں علامہ نے خلف طلاق کے متعلق جمہور فقہا کے مخالف رائے ظاہر کی۔ اس پر ہنگامہ برپا ہو گیا۔ یہاں تک کہ لوگوں نے حکام سے شایت کی اور امن و امان قائم رکھنے کی غرض سے بادشاہی فرمان صادر ہوا کہ علامہ فتویٰ نہ دینے پائیں۔ شہر میںاس کی عام منادی کر ا دی گئی۔ لیکن علامہ نے کہا کہ حق کا چھپانا جائز نہیں۔ چنانچہ وہ عام طورپر فتویٰ دیتے رہے۔ بالآخر سلطان کے حکم سے قید کیے گئے اور قلعہ میںبھیج دیے گئے۔ ۵ مہینے کے بعد ۷۲۱ھ میں ہائی ملی اور بدستو ر پڑھانے میں مشغول ہوئے۔ لیکن جو عام ناراضی پھیل چکی تھی ا س کی آگ رہ رہ کر سلگتی اور بھڑکتی رہی۔ بیس برس پہلے علامہ نے ایک فتویٰ لکھا کہ صرف زیارت کے ارادہ سے مدینہ منورہ کا سفر کرنا شرعاً ثابت نہیں۔ یہ فتویٰ ایک فتنہ خوابیدہ تھا۔ جس کو موقع پا کر لوگوںنے جگایا اورتمام ہشر میںآگ سی لگ گئی۔ اٹھارہ بڑے بڑے فقہاء نے علامہ کے کفر کا فتویٰ دیا جن کے سرکردہ قاضی اختائی مالکی تھے۔ چاروں مذہب یعنی حنفی ‘ مالکی‘ حنبلی اور شافعی فقہا سے فتویٰ لیا گیاسب نے بالآخر اتفاق سے علامہ کی قید کا فتویٰ دیا ۔ ؎۱۔ چنانچہ شعبان ۷۲۶ھ میں شاہی فرمان کی روسے وہ دمشق کے قلعہ میں قید کر دیے گئے۔ ان کے بھائی شرف الدین پر اگرچہ جرم نہ تھا ‘ لیکن ان کی عت نے گوارا نہ کیا کہ بھائی کو تنہا چھوڑ دیں‘ اپنی خوش سے قید خانے مٰں گئے۔ ۱۴ جمادی الاولیٰ کو قید خانہ ہی میں ان کا انتقال ہو گیا۔ ان کے جنازہ کی نماز قلعہ سے باہر پڑھی گئی۔ لیکن علامہ کو اس میں شرکت کا موقع نہ دیا گیا۔ مجبوراً علاہ نے قید ہی کی حالت میں قلعہ کے اندر نماز ادا کی۔ چونکہ تکبیر کی آواز اندر تک ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ؎۱۔ درد کامنہ میں حافظ ابن حجر نے اس کو سنہ ۷۱۹ کا واقعہ بتایا ہے۔ ؎۲۔ طبقات ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آتی تھی اس لیے نماز کے ارکان میںفرق نہ آیا ۔ لیکن بھائی کا بھائی کے جنازہ میں نہ شریک ہو سکنے پر سب کو رقت ہوئی اورلوگ بہت روئے ؎۱ قید کی حالت میں بھی علامہ کا پاس ادب ملحوظ رکھا گیا۔ ان کے رہنے کو بہت اچھا کمرہ دیا گیا۔ کمرہ ہی میںپانی کا انتظام بھی تھا خدمت کے لیے ایک وفادار موجود تھا۔ علامہ نے یہاں نہایت اطمینان سے تصنیف و تالیف شروع کی۔ قرآن مجید کے حقائق پر بہت کچھ لکھا۔ کہا کرتے تھے افسوس ہے کہ جو نکات اور حقائق خدا نے القا کیے کبھی نہیں کیے گئے تھے۔ افسوس ہے کہ قرآن مجید کے سوا میں نے اپنی زندگی ااور تصنیفات میں کیوں صرف کی۔ جس مسئلہ پر علامہ کو سز ا ملی تھی اس کے متعلق علامہ نے نہایت مفصل مضامین لکھے۔ احبا ب اوراہل فتویٰ کوخطوط اور فتوے بھی لکھتے رہے۔ یہ تحریریں ملک بھر میں پھیلیں تو رفع فساد کے لیے حکم دیا گیا کہ علامہ کے پاس قلم و دوات وغیرہ کی کوئی چیز نہ جانے پائے۔ اس کے بعد علامہ نے جو سب سے اخیر تحریر لکھی وہ چند سطریں تھیں ۔ جن کا مضمون تھا کہ اگر اصلی سزا دی گئی تو وہ صر ف یہی ہے کہ یہ سطریں علامہ نے کوئلے سے لکھی تھیں۔ اب علامہ ہمہ تن ذکر و عبادت‘ تلاوت قرآن‘ مجاہد ہ اور ریاضت میں مشغول ہوئے۔ بالآخر بیمار ہو ئے اوربیس دن بیمار رہ کر دو شنبہ کی رات ذوقعدہ سنہ ۷۲۸ھ میں وہ آفتاب علم دنیا کے افق سے چھپ گیا اور تما م عالم میں تاریکی چھا گئی۔ رفتم واز رفتن ن عالمے تاریک شد من مگر شمعم چو رفتم ‘ بزم برہم ساختم علامہ کی زندگی تک تو زمین اور آسمان ان کے دشمن تھے لیکن جب ان کے مرنے کی خبر پھیلی تو تمام ملک پر سناٹا چھا گیا۔ موذن نے جامع مسجد کے مینار ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ؎۱ ۔ طبقات ذکر عبداللہ بن عبدالحلیم شرف الدین ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پرچڑھ کر اعلان دیا۔ پولیس والوں نے برجوں میںمنادی کر ا دی کہ دفعتہ تمام دکانیں بند ہو گئیں۔ نائب الحکومت کے پاس جا کر لوگوں نے تعزیت کی رسم ادا کی۔ آئمہ محدثین امام مزی وغیرہ نے غسل دیا۔ قلعہ میں کثرت کی وجہ سے تل دھرنے کو جگہ نہیں رہی۔ قلعہ سے لے کر جامع مسجد تک آدمیوںکی بھیڑ لگی ہوئی تھی شہر کا شہر امنڈ آیا تھا ۔ جامع مسجد سے قلع تک ٹھٹ لگ گیا جنازہ جامع مسجد لا کر رکھا گیا۔ ہجوم اور کشمشک سے بچانے کے لیے ہر طرف فوجیں متعین کی گئیں۔ سب سے پہلے قلعہ میں شیخ محمد تمام کی امامت سے جنازہ کی نماز پڑھی گئی ۔ پھر جامع دمشق میں نماز ہوئی۔ جب جنازہ چلا تو یہ کثرت تھی کہ کھوے سے کھوا چھلتا تھا لوگ دو رسے رومال عمامے چادر پھینکتے تھے کہ جنازہ سے چھو جائیں تو ان کو تبرک بنائیں۔ جنازہ سروں پر چلتا تھا اور آگے بڑھ بڑھ کر کشمکش سے پیچھے ہٹ ہٹ جاتا تھا ہر چند پہلے سے کچھ اطلاع نہ تھی۔ فقہا اور مفتیوں نے شہر کو علامہ کا دشمن بنا دیا تھا۔ تاہم ڈھائی لاکھ آدمی جنازہ میںساتھ تھے جن میںپندرہ ہزار عورتیںتھیں۔ رستہ میں لوگ زار زار روتے جاتے تھے۔ ؎۱۔ پردیں نشیں عورتوں بالا نشین اور کوٹھوں پر جنازہ کی طرف منہ کر کے نوحہ کرتی تھیں نماز میں صف قائم نہ رہ سکی صف سے صف اس طرح پیوستہ تھی کہ بیٹھنا تک ناممکن تھا۔ اسی حالت میں ایک شخص نے پکارا کہ اہلسنت کا جنازہ یوں اٹھتا ہ۔ اس پر مجمع چیخ اٹھا ۔ اور تمام فضا گونج گئی۔ علامہ کے بھائی زین الدین نے نماز پڑھائی اورمقبرہ صوفیہ میں اپنے بھائی شرف الدین کے پہلو میں دفن ہوئے۔ اس وقت ریل اور جہاز نہ تھے لیکن تمام دنیائے اسلام میں یہ خبر پھیل گئی اور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ؎۱ ۔ فوات الوفیات ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہر جگہ غائبانہ نمازیں پڑھی گئیں۔ مسافروں نے بیان کیاکہ چین میں ان کے جنازہ کی نماز پڑھی گئی۔ اور منادی یہ پکارتا تھا کہ الصلوۃ علی ترجمان القرآن ؎۱ (مترجم قرآن کی نماز)۔ (الندوہ جلد ۵ نمبر ۶) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ؎۱ ۔ یہ تمام حالات طبقات ابن رجب اور فوات الوفیات سے لیے گئے ہیں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ٭٭٭ متبنی الندوہ میں ہم نے اخلاق عرب کے عنوان سے ایک سلسلہ شروع کیا تھا جس کا صرف ایک نمبر نکل کر رہ گیا۔ آئندہ وہ سلسلہ پھر شروع ہو گا لیکن اس مضمون میں بھی اس عنوان کو پیش نظر رکھنا چاہیے۔ متبنی اگرچہ چوتھی صدی کا شاعر ہے۔ جب کہ شعرائے عرب کے تمام اوصاف مٹ چکے تھے۔ اور جبکہ شاعری بھی صرف بھٹئی اور گداگری رہ گئی تھی تاہم چونکہ متبنی کا بچپن صحرائے عرب اور بدویوں میں گزر ا تھا اس لیے عرب کے بہت سے شریفانہ اخلاق اس میں نظر آتے ہیں۔ متنبی کا کلام درس میں داخل ہے ۔ لیکن درس کا طریقہ ایسا ہے جس سے طلبہ میں بجز اس کے کہ اشعار کے معمولی معنی یاد کر لیں۔ کسی قسم کی استعداد پیدا نہیں ہوتی۔ اس کا یہ نتیجہ ہے کہ اگر یہ پوچھا جائے کہ متبنی کا خاص انداز کیا ہے؟ اسکے ہ عصر شعرا سے اس کو کیا نسبت ہے ؟ اس کی شاعری میںکیا عیوب ہیں اورکیامحاسن ہیں؟ تو طلبہ تو ایک طرف اکثر علماء بھی اس کے جواب سے قاصر رہیں گے اس لیے ہم نے اختصار کے ساتھ اس کے کلام پر تنقید بھی کی ہے ‘ اور یہ حصہ طلبہ اور علماء کے خاس ملاحظہ کے قابل ہے۔ متنبی ؎۱ کا نام و نسب یہ ہے کہ احمد بن الحسین بن الحسن بن عبدالصمد جعفی کندی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ؎۱۔ متنبی کے حالات اگرچہ اکثر تذکروں میں ملتے ہیں لیکن خزانۃ الادب (جلد اول صفحہ ۳۸۲) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کوفی کوفہ میں ایک محلہ تھا جس کو کندہ کہتے تھے متنبی اسی محلہ میں سنہ ۳۰۳ھ میں پیدا ہوا ۔ اسی محلہ میں ایک مکتب تھا جس میںشرفائے کوفہ کی اولاد تعلیم پاتی تھی متنبی نے اسی مکتب میں تعلیم پائی۔ اس زمانہ تک مکاتب میں ادب شعر اورنعت کی تعلیم ہوتی تھی متنبی نے بھی یہی فنون حاصل کیے۔ شباب کا ابھی آغاز بھی نہیں ہوا تھا کہ اس کا باپ اس کو لیے کر عرب چلا گیا۔ اورایک مدت تک مختلف قبیلوں میں دورہ کرتا رہا۔ خلفائے بنو امیہ کے ہاں دستور تھا کہ بچپن ہی میں اولاد کو قبائل عرب کے یہاں بھیج دیتے تھے تاکہ ان میں دلیری ‘ آزادی اورزور تقریر کے وہ جواہر پیداہ وں جو صحرا نورد عربوں کا خاصہ ہیں۔ متنبی کو خوش قسمتی سے یہ موقع ہاتھ آیا کہ اس کی سوانح میں عزم اور بلند ہمتی کے جو آثار نظر آتے ہیں اسی تربیت کے نتائج ہیں۔ متنبی فطرتاً شاعر تھا۔ بدویوں میںرہ کر یہ ملکہ اور راسخ ہو گیا۔ اس نے ہوش سنبھالنے کے ساتھ شعرکہنا شروع کر دیا تھا۔ اور چونکہ عام عرب کے انداز کے خلاف اس ی طبیعت مضمون آفرینی اور نازک خیالی کی طرف مائل تھی۔ اس کو اپناکلام تمام شعراء سے ممتاز نظر آتا تھا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اس نے نبوت کا دعویٰ کر دیا ۔ اور اپنے اشعار کو ایک معجزہ قرار دیا۔ سوانح متنبی میں لکھا ہے کہ اس نے قرآن کے جوا ب میں ایک کتاب بھی لکھی تھی چنانچہ اس کے چند فقے یہ ہیں۔ والنجم السیار والفلک الدوار واللیل والنھار ان الکا فرلفی اخطار امض علی سنتک واقف اثر من کان قبلک من المرسلین فان اللہ قامع بک زیغ من الحد فی الدین وضل عن السبیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میںنہایت مستند ذریعہ سے اس کے حالات لکھے ہیں۔ ایک مستقل کتاب بھی اس کی سوانح عمری میں لکھی گئی ہے جو شرح دیوان متنبی کے حاشیہ پر مصر میں چھاپی گئی ہے اور جس کا نام ’الصبح الممنی‘‘ ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ابو العلاء معری اور عبداللہ بن المقفع کی نسب یہ بھی مشہور ہے کہ انہوںنے قرآن مجید کا جواب لکھا تھا لیکن ہمارے نزدیک یہ سب یاروں کے لطیفے ہیں جو گرمی محفل کے لیے تصنیف ر لیے گئے ہیں۔ متنبی اور عبداللہ بن المقفع لامذہب اور بے دین سہی لیکن بد مذاق اور بے تمیز نہ تھے کہ ایسے متبذل کلام کو کلام الٰہی کے سامنے پیش کرتے۔ بہرحال متنبی نے صحرائے سمادہ میں نبوت کا دعویٰ کیا اور قبیلہ بنی کلب ؎۱ وغیرہ اس کے مرید ہو گئے۔ جب یہ فتنہ زیادہ بڑھا تو امیر لولونے جو سلطنت آخشیدیہ کی طرف سے حمص کا گورنر تھا ۔ متنبی کو گرفتار کر لیا قید خانہ بھیج دیا۔ مدت کی قید کے بعد متنبی نے توجہ کی اورقید سے نجات پائی۔ ۔اب اس نے شاعری کو ذریعہ معاش قرار دیا ‘ امراء اور اغنیاء کی شان میں قصائد لکھتا اورانعام حاصل کرتا تھا۔ ایک مدت تک اس کے اشعار بہت سستے داموں بکتے تھے یہاں تک کہ ایک قصیدہ جس کا مطلق یہ تھا: ایا لا یمی ان کنت وقت اللوائم علمت بمابی بین تلک المعالم سو اشرفیاں ملیں ‘ اوریہ پہلا دن تھا کہ متنبی کی شہرت نے پر پرواز نکالے۔ اس زمانے میں مصر و شام میںجو فرمانرواتھے ان میں سے سب سے زیادہ نامور سیف الدولہ تھا۔ وہ عربی النسل اور حمدان کے خاندان میں سے تھا۔ ایشیائے کوچک میں اس وقت تک قیصر روم کی سلطنت قائم تھی سیف الدولہ اکثر اس پر حملہ آور ہوتا تھا اورکامیاب نظر آتا تھا۔ بعض معرکوں میں اس نے رومیوں کی ہزاروں فوجیںبرباد کر دیں۔ اس کے ساتھ علم و فضل کا بڑا قدردان تھا اور خود نکتہ سج اورنکتہ داں تھا۔ مورخین نے لکھا ہے کہ شعرا اورمصنفین جس قدر اس کے دربار ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ؎۱۔ ابن خلکان ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں جمع ہوئے اور ہارون الرشید اور مامون الرشید کے سوا اور کسی کے دربار میں ایسا مجمع نہیں ہوا۔ حکمامیں فارابی اور مصنفین میں صاحب اغانی اسی کے دربار سے فیضیاب تھے۔ سیف الدولہ کے امراء میں ابو العشائر ایک قدردان امیر تھا۔ متنبی نے اس کی مدح میں قصیدے لکھے۔ اوراس کو اس قدر اپنا گرویدہ بنا لیا کہ اس نے سنہ ۳۷ ۳ ھ میں سیف الدولہ کے دربارمیں سفارش کی متنی اب اس رتبہ پر پہنچ گیا تھا کہ بلند ہمتی اور خودداری کے اوصاف جو ا سنے عرب سے سیکھے تھے۔ ان سے کام لے۔ چنانچہ سیف الدولہ کے دربار میں جانے کے لیے اس نے چند شرطیں پیش کیں جن میں سے ایک یہ تھی کہ دربار میں بخلاف اور شعرا کے بیٹھ کر قصیدہ پڑھے گا۔ سیف الدولہ نے اس کا کلا م سنا تو کہا کہ بے شبہ متنبی کو ایسی شرطوں کے پیش کرنے کا استحقاق تھا سیف الدولہ نے یہ دیکھ کر کہ متنبی میں سپہ گری کے جوہر بھی پائے جاتے ہیں اس کو فنون سپہ گری کی تربیت دلوائی ۔ چنانچہ حلب میں اساتذہ فن کے سپرد کیا کہ شہسواری اورنیزہ بازی کے کرتب سکھائیں۔ سیف الدولہ ایشیائے کوچک پر جو حملے کرتا تھا متنبی اکثر اس میں شریک ہوتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ معرکہ جنگ کی تصویر جس طرح وہ کھینچ سکتا ہے اس کے معاصرین سے نہیں کھنچ سکتی۔ سیف الدولہ اگرچہ متنبی کی قدردانی میںکوئی کمی نہیںکرتا تھا ۔ چنانچہ ایک دفعہ جب اس نے دریافت کیا کہ متنبی کو دفتر انعام سے کس قدر رقم دی جا چکی ہے تو معلوم ہوا کہ چار برس کی مدت میں پینتیس ہزار اشرفیاں اس کو مل چکی ہیں تاہم وہ متنبی کی بے حد خود پرستی اور غرور سے تنگ آ گیا۔ اس لیے کہ اس کا غرور توڑنے کے لیے وہ اکثر دربار کے اور شعراء کو متنبی کا مقابلہ کا حوصلہ دلاتا رہتا تھا۔ متنبی کو یہ سخت ناگوار ہوتا تھا اس کے سوا ناراضی کے اور اسباب بھی جمع ہو جاتے تھے ۔متنبی کے آنے سے پہلے سیف الدولہ کے دربار میں ابو العباس نامی شاعر بڑا رسو رکھتا تھا ۔ لیکن متنبی کی سحرکاریوں نے اس کا رنگ پھیکا کر دیا۔ ایک دن تنہائی میں ابوالعباس نے اس کی شکایت کی کہ سیف الدولہ چپ رہا۔ جب ابوالعباس نے زیادہ اصرار کیا تو سیف الدولہ نے کہا کہ تم متنبی کا مقابلہ نہیںکر سکتے۔ کیا تم متنبی کے اس شعر کا جواب کہہ سکتے ہو؟ یعود من کل فتح غیر مفتخر وقد اعد علیہ غیر محتفل وہ فتح پر فتح حاصل کرتا ہے لیکن اس کو غرور پیدا نہیں ہوتا۔ حالانکہ جب لڑائی کے لیے چلا تھا تو کچھ تیاری بھی نہیں کی تھی۔ ابوالعباس بڑا برہم ہو کر اٹھا‘ اور اس کو یقین ہو گیا کہ متنبی کے آگے ا س کا چراغ نہیں جل سکتا۔ اس سے بڑھ کر یہ کہ امیر ابو فراس جو سیف الدولہ کا بھائی تھا اوربہت بڑا شاعر تھا متنبی کی نخوت پرستی سے ناراض ہو کر سیف الدولہ کے پاس گیا اورکہا کہ آپ اس مغرور کو تین ہزار دینار سالانہ دیتے ہیں حالانکہ اس تنخواہ میں بیس شاعر اس درجہ کے مل سکتے ہیں ۔ غرض دربار کا دربار متنبی کا مخالف ہو گیا اور سب نے سیف الدولہ کے کان بھرنے شروع کر دیے۔ آخر سیف الدولہ نے ناراضی کا اظہار کیا۔ اس موقع پر اگرکوئی اور ایرانی شاعر ہوت تو اس حد تک خوشامد اور غلامانہ تملق کرتا کہ خواہ مخواہ ممدوح کا دل نرم ہو جاتا ۔ لیکن ایک عرب کا شاعر ایسا نہیں کر سکتا تھا۔ متنبی نے ایک اور قصیدہ لکھا جس میں نہایت آزادی اور دلیر ی سے سیف الدولہ کی ناقدردانی اور ناانصافی اور اپنی بلند قدری اور خودداری ظاہر کی۔ ا س قصید ہ کے جستہ جستہ اشعار سننے اور یاد رکھنے کے قابل ہیں۔ ہم ان میں سے چند اشعار کا ترجمہ درج کرتے ہیں: اے سب سے زیادہ عادل (بجز میرے معاملہ کے) تیرے ہی دربار میں نزاع ہے اور تو ہی دشمن اور تو ہی ثالث ہے۔ آدمی کو آنکھ سے کیا حاصل‘ اگر اس کو تاریی اور روشنی میںفرق معلوم نہ ہو۔ (یعنی سیف الدولہ کو نیک و بد کی تمیز نہیں معلوم) مجھ کو گھوڑے ‘ راتیں‘ صحرا‘ تلوار ‘ نیزے اور کاغذ قلم سب پہچانتے ہیں کاش یہ بادل (سیف الدولہ) جہاں برستا ہے وہیں جا کر گرجتا بھی (یعنی جن پر مہربانی کرتا اہے انہی پر ناراض بھی ہوتا)۔ اس قصیدہ پر تمام دربار برہم ہوا۔ یہاں تک کہ ایک شخص نے سیف الدولہ کی زبان سے ابوالعشائر کے پاس کہلا بھیجا کہ متنبی نے یہ گستاخیاں کیں ابو العشائر نے دس آدمی انطاکیہ سے روانہ کیے کہ متنبی کو سزا دیں۔ سیف الدولہ کے آستانہ پر متنبی سے ایک اور ان سے مٹ بھیڑ ہوئی‘ ایک نے متنبی کی باگ پر ہاتھ ڈالا متنبی نے تلوا ر کا ہاتھ مارا جو کمان کو کاٹ کر ہاتھ تک پہنچا اوروہ شخص زخمی ہو کر گرا‘ اب سب نے مل کر تیر برسائے لیکن متنبی لڑ بھڑ کر نکل آیا۔ غرض سنہ ۳۴۶ھ میںمتنبی حلب سے جو سیف الدولہ کا پایہ تخت تھا نکلا اور دمشق میں آیا۔ دولت عباسیہ کے ضعف سے مل میں ہر طرف خود مختار حکومتیں قائم ہو گئی تھیں جو برائے نام دربار خلافت سے اپنا تعلق ظاہر کرتی تھیں انہی میں مصر کی سلطنت تھی جس کا فرمانروا اس وقت کافور کا ایک خواجہ سرا تھا۔ اسلام نے غلاموں کو جورتبہ دیا اس کے نتائج میں ایک یہ بھی تھا کہ مصر و شام کی وسیع سلطنت ایک حبشی غلام کے قبضہ اقتدار میں تھی اور اس کا خطبہ حرمین میں پڑھا جاتا تھا ۔ کافور پہلے نہایت ادنیٰ درجے کا غلام تھا چونکہ نہایت کریہ المنطر اور عجیب الہیۃ تھا راہ چلتے لوگ اسے چھیڑتے تھے رفتہ رفتہ والی مصر ابوبکر بن طغج کی خدمت میں پہنچا جس کو دربار خلافت سے آخشید کا لقب ملا تھا۔ ابوبکر کے مرنے پر کافور نے اس قدر اقتدار حاصل کر لیا کہ اس کا جانشین بن گیا ۔ اور جب تک زندہ رہا بڑی شان و شوکت سے حکومت کی۔ مصر و شام و حجاز نجد و یمن میں اسی کے نام کا خطبہ پڑھا جاتا تھا۔ متنبی مداحی اور بھٹئی کے بالطبع متنفر تھا وہ چاہتا تھا کہ کسی سوبہ یا ضلع کی حکومت مل جائے تو آزادانہ زندگی بسر کرے۔ اسی توقع پر وہ کافور کے دربار میں حاضر ہوا۔ پہلا قصیدہ جو سنہ ۳۴۶ھ میں اس نے کافور کے سامنے پڑھا اس کا مطلع یہ ہے : کفی بک دائً ان تری الموت شافیا وحسب المنایا ان یکن امانیا کافور نے مختلف موقعوں پر اس کو گراں قدر صلے دیے لیکن اس کی بلند نظری کو ان چیزوں سے تسلی نہٰںہو سکتی تھی۔ اس نے اکثر قصیدوں میں اس خیال کو ظاہر کیا ایک قصیدہ کا خاتمہ یہ ہے : فارم بی ما اردت نی فانی اسد القلب ادمی الرواء جو خدمت چاہے میرے سپرد کر کیونکہ میں آدمی کی صورت میں شیر ہوں وفوادی من الملوک وان کا ن لسانی من الشعراء میرا دل بادشاہوں کا دل ہے گو میری زبان شاعروں کی ہے ایک اور قصیدہ میں لکھتا ہے : ابا المسک ہل فی الکاس فضل انالہ فانی اغنی منذحین و تشرب اے کافور پیالہ میں کچھ باقی بھی ہے جو میرے کام آئے بڑی دیر سے میں گا رہا ہوں اور تو پی رہا ہے وھبت علی مقدار کفی زماننا ونفسی علی مقدار کفک یطلب تو نے جو دیا وہ زمانہ کے ہاتھوں کے انداز سے دیا لیکن میں تو تیرے ہاتھ کے انداز سے چاہتا ہوں اذالم تنط بی ضیعۃ اوولایۃ فجودک یکسونی وسعلک یسلب اگر تو نے مجھ کو کوئی جاگیر یا کہیں کی حکومت نہ دی تو تیری سخاوت مجھ کو کپڑے پہنائے گی اور دربار میں اس کو چھین لے گی۔ کافور متنبی کی درخواست منظور کر لیتا لیکن متنبی کی بلند حوصلگیوں کا اس کو جو تجربہ ہوا اس نے یقین دلایا کہ متنبی کی حوصلہ مندی کی یہ ابتدائی منزلیں ہیں اور وہ سلطنت اور حکومت کے بغیر چین نہیں لے سکتا۔ متنبی کو جب اپنی ناکامی کا یقین ہو گیا تو اس نے کافور کے دربار میںجانا چھوڑ دیا اورہر طرح کے تعلقات ترک کر دیے۔ ایک ایشیائی دربار میں اس قسم کی گستاخی بہت بڑا جرم تھی کافور نے متنبی کو سزا دینی چاہی جس کی ابتدا یہ تھی کہ متنبی پر پہرے بتھا دیے گئے کہ بھاگ کر نکل جانے نہ پائے۔ سوانح متنبی میں لکھا ہے کہ جب کافور نے متنبی کو ضرر پہنچانے کا ارادہ کیا اور اس کی جان معرض خطر میں آ گئی تو بعض شخصوں نے ہمدردی کے لحاظ سے متنبی کو اس حال سے مطلع کر دینا چاہا لیکن کافور کے خوف سے یہ جرات نہ کر سکے۔ متنی نے آخر تنگ آ کر کافور کی ہجو لکھی جس کے دو شعر یہ ہیں: صارا الحضی امام الابقین بھا فالحر مستعبد والعبد معبود یہاں ایک خواجہ سرا فراری غلاموں کا امام ہے آزاد غلام بن گئے ہیں اور غلام معبود بن گیا ہے ماکنت احسبنی ابقی الی زمن یسئی بی فیہ کلب وھو محمود میں یہ نہیں خیال کرتا تھا کہ میں ایسا زمانہ دیکھوں گا ج میں ایک کتا مجھ کو ستائے اور پھر مھ کو اسی کی تعریف کرنی پڑے سلاطین اورامراء سے ناراض ہو کر ہجو لکھنا ایشیائی شعرا کا عام شعار تھا اور یہ ایشیائی شاعری کے چہرہ کا بڑا بدنما داغ ہے۔ فردوسی نے محمود کے تمام احسانات اور کارناموں کو یہ کہہ کر مٹا دیا : پرستار زادہ نیاید بکار دگرچند دار زپدر شہریار تاہم متنبی میں اس قدر شرافت کی ادا نظر آتی تھی کہ گو وہ اکثر امرا اور ہم عصروں سے ناراض ہوا لیکن ہجو صرف انہی کی لکھی جو ہجو کے قابل بھی تھے۔ سیف الدولہ سے بھی وہ ناراض ہو ا اور یہ ناراضی بجا بھی تھی ۔ تاہم اس نے بج ایک دوستانہ شکایت آمیز قصیدے کے ایک حرف بھی اس کی شان میں نہیںکہا۔ متنبی نے سمجھ لیا تھا کہ ہجو کے بعد مصر میں رہنا آسان نہیں چنانچہ اس نے پہلے سے تیاریاں کر رکھی تھیں۔ جس راستہ سے سفر کرنا تھا آدمی بھیج کر جابجا زمین کے نیچے نیزے اورہتھیار دبوا دیے۔ جان نثار غلاموں کو مسلح کیا دس دن کی خوراک کے موافق اونٹون پر پانی کے مشکیزے رکھوا لیے یہ سب سامان کر کے عین عید کے دن سنہ ۳۵۰ھ میں مصر سے نکلا۔ کافور کو یہ خبر ہوئی تو فوراً ہر طرف ناکہ بندیاں کروا دیں۔ تمام عرب قبائل ے پاص قاصد دوڑا دیے کہ متنبی جہاں ملے گرفتار کر کے بھیج دو یہ سب کچھ ہوا لیکن متنبی دو منزلہ سہ منزلہ طے کرتا لڑتا بھڑتا صاف نکل گیا۔ راہ میں اس کے غلاموں نے بے وفائی کی اس نے ان کو بھی چھوڑا اور جریدہ و تنہا تمام منزلیں طے کیں کوفہ میں پہنچ کر ایک طول طویل قصیدہ لکھا جس میں سفر کے تمام حالات اورراستہ کے مقامات نہایت تفصیل سے بیان کیے۔ چنانچہ مقامات کے نام گنا کر فخریہ لکھتا ہے ۔ فلما انخنار کذنا الرما ح فوق مکار منا والعلا جب میں سواری سے اترا تو نیزوں کو بلند ہمتی اور شرافت کی سطح پر گاڑا وبتنا نقبل اسیافنا ونمسحھا من دماء العدا اور تلوار کو بوسے دیے اور دشمنوں کے خون کے دھبے مٹائے لتعلم مصر و من بالعراق ومن بالعواصم انی الفتی تاکہ مصر اور عراق اور عواصم کو معلوم ہو جائے کہ میں مرد ہوں کوفہ سے متنبی نے بغداد کا رخ کیا۔ بغداد اس زمانے میں ویلیموں کے زیر اثر تھا اور مہلبی جو معز الدولہ کا وزیر تھا سیاہ و سپید کا مالک تھا۔ متنبی اس کے دربار میں حاضر ہوا اتفاق سے اس وقت ابوالفرج اصفہانی (مصنف کتاب الاغانی) بھی موجود تھا۔ علمی چرچے ہو رہے تھے کہ کسی نے یہ شعر پڑھا۔ سقی اللہ امواھا عرفت مکانھا جراما و ملکو ماوبذرا فابغمرا متنبی نے کہا کہ حراما نہیں بلکہ جرابا صحیح ہے۔ ابوالفرج اصفہانی نے اس سے انکار کیا۔ متنبی دوسرے دن بھی دربار میں گیا تو مہلبی منتظر تھا کہ مدحیہ قصیدہ کہہ کر لایا ہو گا۔ لیکن متنبی اس درجہ کے لوگوں کی مداحی کو عار سمجھتا تھا ؎۱۔ تیسرے دن بھی جب متنبی خالی ہاتھ گیا تو مہلبی کو نہایت رنج ہوا۔ اس نے شعرا کو اشارہ کیا کہ متبنی کی خبر لیں۔ چنانچہ شعرا نے ہجووں کا طومار لگا دیا لیکن متنبی کو خبر تک ہہوئی اور جب لوگوں نے کہا کہ آپ کی طرف سے بھی جواب ہونا چاہیے تو اس نے کہا کہ میں پہلے کہہ چکا ہوں؛ واذا اتتک مذمتی من ناقص فھی الشھادۃ لی بانی کامل جب کم درجہ کے لوگ میری برائیاں بیان کریں تو یہی دلیل ہے کہ میں کامل ہوں بغداد کی ناقدردانی دیکھ کر متنبی نے یہاں سے بھی نکلنے کا ارادہ کیا۔ بغدادچھوڑ کر اہل فن کا کہیں ٹھکانا تھا تو فارس و شیراز تھا جو عضد الدولہ کا پائے تخت تھا عضد الدولہ ا زمانے کا سب سے بڑا بادشاہ تھا اور اسی وجہ سے شہنشاہ کہلاتا تھا۔ اس کے درباریوں میں محمد بن العمید بڑے پایہ کا شخص تھا۔ خود صاحب علم و فن اور علم و فن کا نہایت قدر دان تھا۔ اس کو جب یہ خبرلگی کہ متنبی نے فارس کا رخ کیاہے تو اس کو بڑا تردد پیدا ہوا کہ اگر متنبی نے مہلبی کی طرح مجھ کو قابل خطاب نہ سمجھا تومیری بڑی تحقیر ہو گی۔ پیش بند ی کے طور پر جب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ؎۱۔ خزانۃ الادب تذکرہ متنبی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ متنبی کا ذکر آتا تو حقارت سے نام لیتا تھا اصبح المبنی میں لکھا ہے کہ ایک دن ابن العمید کے درباریوں میں سے ایک شخص اس کے پاس آیا تو دیکھا کہ وہ سر جھکائے ہوئے مغموم بیٹھا ہے۔ درباری نے پوچھا کہ حضور کیوں کر متفکر ہیں؟ ابن العمید نے کہا کہ میری بہن کے انتقال میںکچھ اوپر ساٹھ خط تعزیت کے آئے ہیں ہر خط متنبی کے اس شعر سے شرو ع ہوتا ہے۔ طوی الجزیرۃ حتی جاء نی خبر فزعت فیہ بامالی الی الکذب ایسے شخص کی شہرت کو میں کیونکر مٹا دوں۔ متنبی نے اگرچہ مختلف موقعوں پر یہ خیال ظاہر کیا تھا کہ میں بادشاہوں سے نیچے نہیں اترتا اور اسی بنا پر اس نے مہلبی کی مدح سے انکار کر دیا۔ لیکن ابن العمید کے متعلق اس کو اپنی ضد سے باز آنا پڑا ۔ ابن العمید دولت و حشمت ‘ جاہ و جلال ‘ انتظام و تدبر کے لحاظ سے جو کچھ تھا ہی علم و فضل میں بھی وہ متنبی کا ہمسر بلکہ بعض حیثیتوں سے بڑھ کر تھا۔ علمائے ادب کا اتفاق ہے کہ انشا پردازی اور نثاری میں تمام اسلامی دنیا میں اس کا جواب نہ تھا۔ یہ مشہور فقرہ ہے کہ انشا پردازی عبدالحمید سے شروع ہوئی اور ابن العمید پر ختم ہو گئی۔ صاحب بن عباد جو فن اد ب کا ایک رکن ہے ابن العمید ہی کا تربیت یافتہ ہے۔ اس کے علاوہ وہ فلسفہ و حکمت میںکمال رکھتا تھا اس لیے متنبی نے اگر اسکی مداحی گوارا کی تو کچھ بے جا نہ کیا۔ تاہم مداحی میں یہ آن قائم رکھی کہ مدح امیرانہ انداز سے نہیں کی بلکہ اس کے علمی اوصاف بیان کیے۔ بخلاف اس کے شعرائے عجم کسی شاعر یا مصنف کی بھی مدح کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ سکندر و دارا کی داستان سنا رہے ہیں۔ بہرحال متنبی نے ارجان کا ر خ کیا جہاں ابن العمید قیام پذیر تھا۔ شہر سے باہر ایک جگہ پر ٹھہر کر اپنے غلام کو بھیجا کہ ابن العمید کو جا کر خبر کرے۔ یہ دوپہر کا وقت تھا اورابن العمید خواب راحت کرنا چاہتا تھا ک یہ مژدہ پہنچا بے ساختہ اٹھ بیٹھا اور نہایت استعجاب سے پوچھا کیا واقعی متنبی یہاںآ گیا ہ ۔ اسی وقت استقبال کے لیے اپنے خاص حاجب کو بھیجا حاجب سوار ہوا تو جو لوگ راہ میںملتے تھے سب کو ساتھ لیتا گیا متنبی بڑے سرو سامان سے شہر میں داخل ہوا‘ دربار میں آیا تو العمید نے سروقد تعظیم دی۔ متنبی کے لیے پہلے سے ایک کرسی بچھا دی گئی تھی جس پر کمخواب کا گدا پڑا ہوا تھا۔ ابن العمید نے کہا میں آ پ سے ملنے کا بڑا مشتاق تھا۔ معمولی بات چیت کے بعد متنبی نے آستین سے اییک کاغذ نکالا اور یہ قصیدہ پڑھا۔ بادھواک صبرت اولم تصبرا وبکاک ان لم تجرد معک اوجری تشبیب کے بعد مدح کے بعض اشعار یہ ہیں: من مبلغ الاعراب عنی اننی شاھدت رسطالیس والا سکندرا بدویوں سے یہ پیغام کون جا کر کہے گا کہ میں نے ارسطو اور سکندر دونوں کو دیکھا وسمعت بطلیموس دارس کتبہ متملکا متبدیا متحضرا میں نے بطلیموس کو درس دیتے سنا جو فرمانروا بھی ہے ‘ بدوی بھی ہے شہری بھی ہے ابن العمید نے متنبی کی شاگردی اختیار کی یعنی مجموعہ نعت جو متبنی نے خاص اپنی تحقیق اور تقحص سے مرتب کیا تھا اس سے پڑھا۔ ابن العمید نے خلعت اور تحائف کے علاوہ پچاس ہزار اشرفیاں متنبی کی نذ رکیں۔؎۱ متنی ارجان ہی میں تھا کہ عضد الدولہ کو یہ خبر پہنچی اس لیے ابن العمید کو لکھا کہ متنبی کو یہاں بھیج دو ابن العمید نے یہ پیغام متنبی سے کہا عجمی میری قدر کیا جان سکتے ہیں۔ ابن العمید نے کہا عضد الدولہ مجھ سے ہر بات میں بڑھ کر ہے۔ متنبی نے کہا کہ مٰں بادشاہوں سے ملاقات سے تنگ آ گیا ہوں۔ میں ان کو بقائے دوام ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ؎۱۔ یہ پوری تفصیل خزانۃ الادب میں ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کا تاج پہنا دیتا ہوں اور ہو مجھ کو صلہ میں ایسی چیزیں دیتے ہیں جو چار دن بھی نہیںٹھہرتیں۔ اس کے علاوہ میں ایک جگہ جم کر قیام نہیں کر سکتا اور سلاطین مجھ کو قیام کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بڑی بے لطفی سے مجھ کو قطع تعلق کرنا پڑتا ہے ۔ ابن العمید نے تمام باتین عضد الدولہ کو لکھ بھیجیں ۔ وہاں سے جواب آیا کہ متنبی کو ہر بات کا پورا اختیار ہے۔ غرض متنبی ارجان سے روانہ ہواشیراز کو جل بارہ میل باقی رہ گئے تو عضد الدولہ نے ابو عمر صباغ کو متنبی کی پیشوائی کے لیے بھیجا دونوں ساتھ ساتھ آئے۔ صباغ کی فرمائش پر متنبی نے راہ میں قصیدہ مصریہ کے اشعار سنائے۔ متنبی کے لیے پہلے ایک آراسہ مکان تیار رکھا گیا تھا۔ سفر کی تکان مٹنے کے بعد وہ عضد الدولہ کے دربار میں گیا ااور عجد الدولہ کے تخت شاہی سے متصل دربار کے قاعدہ کے مطابق پا انداز کو بوسہ دیا پھر سروقد کھڑاہوا اور کہا کہ میں اس سواری کا ممنون ہوں جو مجھ کو یہاں تک لائی ۔ عضد الدولہ نے گرم جوشی یس سفرکے حالات پوچھے ۔ متنبی نے مناسب جواب دیا۔ چند روز کے بعد مدحیہ قصیدہ لے کر گیا اور چاہا کہ دربار کے دستور کے مطابق کھر ہو کر پڑھے لیکن عضد الدولہ نے بٹھا لیا۔ متنبی قصیدہ پڑھ کر چلا آیا تو عضد الدولہ نے کافور‘ عنبر مشک عود اسپ خاصہ جو پچاس ہزار بکریوں کے عوض خریدا گیا تھا۔ کمخواب کے استر کی چاردر ‘ عمامہ جب کی قیمت پانچ ہزار دینا رتھی۔ ہندوستانی مرصع تلوار جس کا پر تلا سونے کا تھا۔ ان سب کے علاوہ روپیوں کے توڑے صلے میںبھیجے۔ایک موقع پر جب اس نے گل افشانی کے جشن میں یہ شعر پڑھے: قد صدق الورد فی الذی زعما انک صیرت نثرہ دیما کانما مایج الھواء بہ بحر حری مثل مائہ عتما تو شاہانہ خلعت عطا کیا۔ متنبی نے اگرچہ عضد الدولہ کی مدح میں بہت کچھ زور طبیعت صرف کیا لیکن سیف الدولہ کے علمی دربار میں جن حریفوں کا اس کو مقابلہ رہتا تھا اس پایہ کے لوگ عضد الدولہ کے دربار میں کہاں سے آ سکتے تھے۔ اس لیے کلام میں وہ زور نہ پیدا ہوسکا۔ عضد الدولہ نے ا س تنزل کو محسو س کیا چنانچہ لوگوں کسے کہا کہ متنبی کا زور کلام اسی وقت تک رہا جب تک وہ عرب میں تھا۔ متنبی نے سنا تو کہا کہ جیسے مخاطب ہوتے ہیں ویسا ہی شعر بھی کہا جاتا ہے۔ تاہم عضد الدولہ نے قدردانی میں کچھ کمی نہیں کی۔ سوانح متنبی میں لکھا ہے کہ متنبی کو دو لاکھ درہم صلہ میں عطا کیے گئے ۔ آخر متنبی کا دل یہاں سے بھی اچاٹ ہو گیا۔ ایک وداعی قصیدہ لکھا اور عضد الدولہ سے رخصت ہو کر کوفہ کو روانہہوا۔ اہواز پہنچ کر مقام کیا راہ میں بارش کی وجہ سے اسباب اور کپڑے نم ہو گئے ۔ صندوق کھلوا کر کپڑے دھوپ میں پھیلا دئے ابولحسن سوسی کا بیان ہے کہ اس وقت میں موجود تھا رنگین اور بیش بہا کپڑے میدان میں پھیلائے گئے ت یہ معلوم ہو تا تھا کہ ہر طرف چمن کھل گیا ہے۔ متنبی کی دولت مندی کی خبر عام ہوئی تو بدویوں کا سردار فاتک اسدی آیا اور متبنی سے کہا کہ آگے راستہ بہت پرخطر ہے اگر ارشاد ہو تو میرے قبیلہ کے آدمی حضور کے ہمراہ جائیں حضور ان کو کچھ انعام دلادیں۔ متنبی کو اپنی شجاعت اور سپہ گری پر ناز تھا۔ اس کے ساتھ وہ نہایت بخیل اور جزرس بھی تھا۔ تلوار کے قبضہ پر ہاتھ رکھا اورکہا کہ جب تک یہ میرے ساتھ ہے میں آسمان کے نیچے کسی کی پرواہ نہیں کرتا۔ فاتک اٹھ کر چلا گیا اورساٹھ ستر آدمی لے کر ایک کمین گاہ میں چھپ بیٹھا۔ متنبی سامنے سے گزراتو دفعتہ حملہ آور ہوا۔ متنبی دیر تک لڑتا رہا لیکن ایک آدمی جماعت کثیر کا کیا مقابلہ کر سکتا تھا۔ شکست کھائی اور چاہا کہ جان بچا کر نکل جائے متنبی کے غلام نے کہا کہ آپ کو وہ شعر کیا ہوا: الخیل واللیل والبیداء تعرفنی والحرب والضرب والقرطاس والقلم مجھ کو گھوڑے ‘ راتیں صحرا جنگ و جدل کاغذ اور قلم سب پہچانتے ہیں متنبی نے کہا ہاں خوب یاد دلایا یہ کہہ کر پلٹا اور لڑ کر مارا گیا۔ اس قسم کا موقع ایران کے مشہور شاعر انوری کو بھی پیش آیاتھا یعنی راستہ میںچوروں نے آ لیا تھا انوری کے ساتھ ایک درزی اور ایک حکیم صاحب بھی تھے سب جان بچا کر بھاگنے لگے انوری نے اس واقعہ کو خود لکھا ہے اورمعذرت یہ کی ہے کہ: حکیم و شاعر درزی چگو نہ جنگ کند بعض مورخوںنے لکھا ہے کہ فاتک اسدی کی دشمنی کی یہ وجہ تھی کہ متنبی نے قبیلہ بنو ضبہ کی ہجو لکھی تھی۔ بہرحال جو کچھ ہوا فاتک کی ناقدردانی نے ایک ایسے شخص کو کھو دیا جس کا جواب اس وقت سے آج تک نہ پیداہو سکا۔ متنبی کے ساتھ اس کا بیٹا اور غلام بھی مارا گیا اور اس کی بے شمار دولت بے رحم غارتگروں کے ہاتھ آئی۔ زمرغان حرم درکام زاغان طعمہ اندازد مدار روزگار سفلہ پرور راتماشا کن (الندوہ جلد۲ نمبر ۴) جون سنہ ۱۹۰۵ء ٭٭٭ موبدان مجوس (ہندوستان میں) مسلمانوں کا تاریخی سرمایہ جو بہت کچھ مفقود ہو چکا اور ہوتا جاتا ہے اس نے علاوہ اور بہت سے نقصانات کے سب سے بڑا نقصان یہ پہنچایا کہ خود مذہب اسلام کے متعلق دنیا کو عجیب عجیب غلطیاںاور بدگمانیاں پیدا ہو گئیں اور ہوتی جاتی ہیں۔ یہاں تک کہ اب خود مسلمان بھی ان غلطیوں سے بچ نہیں سکتے۔ وہ بھی مذہب کی حقیقت وہی سمجھتے ہیں جو معلومات کے مفقود ہونے سے کئی سو برس سے قائم کر دی ہے۔ اہل یورپ کا یہ خاصہ ہے کہ دو ہم زمان واقعہ کو عموماً علت و معلول فرض کر لیتے ہیں مثلاً جب تاریخ سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اسالم کے بعد ایرانیوں کا لٹریچر برباد ہو گیا تو وہ قطعی طور سے فیصلہ کر لیتے ہیں کہ یہ اسلام ہی کے طرز عمل کا نتیجہ ہے۔ اسی طرح جب وہ دیکھتے ہیں کہ ہندوستان کی کسی اسلامی تاریخ میں پارسی قوم کے معابد کا پیشوا یان مذہب کا تصنیفات کا تعلیم و تلقین کا پتہ نہیں چلتا تو ان کو یقین ہو جاتا ہے کہ سلاطین ہندوستان نے تعصب کی وجہ سے یا تو سرے سے ان کو ملک میںگھسنے نہ دیا ایسی حالت میں رکھا کہ ان کی کوئی امتیازی حیثیت قائم نہ رہی جس سے ان کے متعلق کسی قسم کی کوئی اطلاع حاصل ہو سکتی۔ لیکن اصل حقیقت ی ہے کہ جو کچھ ہے تاریخی کم مایگی کاتصور ہے۔ ہم اس مضمون میں پارسیوں کے پیشوایان مذہبی (جن کو موبد کہتے ہیں) کا مختصر حال لکھنا چاہتے ہیں۔؎۱ جو ہندوستان میں سکونت رکھتے تھے اور جن کی تصنیفات و تالیفات وسعت کے ساتھ اہل علم میں پھیلی ہوئی تھیں اورچونکہ ان کے یہ حالات اسلامی ہی تصنیفات سے لیے گئے تھے اس لیے یہ بھی ظاہر ہو گا کہ مسلمانوںنے غیر قوموں کے لٹریر اور تاریخ کے ساتھ کیا سلوک کیا ہے۔ سلطنت تیموریہ میں سب سے پہلے اکبر کے زمانے میں موبدوں کا پتا چلتا ہے ۔ اکبر نے جس زمانے میں مذہبی کانفرنس قائم کی اور ہر مذہب و ملت کے پیشوا دور دور سے بلائے تو ایران سے بھی خط و کتابت کی۔ اس زمانہ میں پارسیوں کا پیشوائے کل آذر کیوان تھا۔ اس نے آنے میں معذرت کی لیکن ایک عجیب و غریب کتاب اپنی تصنیف بھیجی جس کی نسبت صاحب مآاثر الامرا لکھتے ہیں: نامہ از مولفات خود کہ مشعر ستایش مجردات و کواکب و متضمن نصائح و حکم بود فرستاد مشتمل بر چہار دہ جز ہر سطرز پارسی لجت بود‘ و تصحیف آن عربی و چون قلب می کردند ترکی و باز مصحف آن ہندی می شد۔ ؎۲ یعنی اس کتاب میں یہ کما ل تھا کہ خالص فارسی میںلکھی تھی لیکن اگر نقطوں کو ادل بدل کر پرھو تو عربی ہو جاتی تھی۔ اور الفاظ کو الٹ پلٹ کر پڑھو تو ترکی اور پھر مصحف کرنے سے ہندی ہو جاتی تھی۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ؎۱۔ یہ مضمون زیادہ تر بلکہ کل دبستان مذاہب سے لیا گیا ہے۔ اس کتاب کی نسبت مشہور ہے کہ محسن فانی کشمیری کی تسنیف ہے۔ بعض اس کو دارا شکوہ کی طرف منسوب کرتے ہیں لیکن حقیقت میں ہے کہ وہ ذوالفقار اردستانی کی تصنیف ہے جیسا کہ مآاثر الامرا (جلد دوم صفحہ ۳۹۲) میں مذکور ہے سب سے پہلے یہ کتاب بمبئی میں سنہ ۱۲۶۲ھ مین چھاپی گئی۔ اس کے بعد اور بہت سے مطابع میں چھپی۔ ؎۲۔ مآاثر الامرا جلد دوم صفحہ ۳۵۸۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اگرچہ اس ناممکن صنعت پر ہم یقین نہیں کر سکتے لیکن اس سے انکار کی کوئی وجہ نہیں کہ آذر کیوان نے اپنی کوئی تصنیف ضروربھیجی تھی آذر کیوان نے تو آنے سے انکار کیا لیکن دوسرا موبد جس کا نام آرد شیر تھا حسب طلب آیا اوراپنے ساتھ مذہبی آٹش کدہ کی آگ بھی لیتا آیا چنانچہ اس کی حفاظت و اہتمام شیخ ابوالفضل کے سپرد کیا گیا۔ یہ مآاثر الامرا کی روایت ہے لیکن دبستان مذاہب کے مصنف نے صاف تصریح کی ہے کہ آذر کیوان ہندوستان میں آیا اور عظیم آباد پٹنہ میں سکونت کی۔ اور سنہ ۱۰۲۷ھ میں ۸۵ برس کے سن میں انتقال کیا۔ ممکن ہے کہ یہ آذر کیوان وہ نہ ہو جس کا ذکر مآاثر الامرا میں ہے بلکہ کسی اور موبد کا نام ہو۔ بہرحال یہ آذر کیوان اسفندیار کے خاندان سے تھا۔ دبستان میں اس کا پورا شجرہ نسب لکھا ہے بچپن ہی سے وہ مرتاض اور گوشہ نشین تھا۔ ۱۸ برس خم میں بیٹھا۔ علوم و فنون میں یہ کمال حاصل کیا کہ لوگ اس کو ذوالعلوم لے لقب سے پکارتے تھے۔ عربی زبان کا بھی ماہر تھا۔ فقہا اور صوفیہ اس سے ملتے رہتے تھے اوران سے پرلطف صحبتیں رہتی تھیں۔ ایک دن کسی فقیہ نے پوچھا کہ آپ جانوروں کے مارنے سے کیوں منع کرتے ہیں۔ بولا کہ جو لوگ کعبہ کا احرام باندھتے ہیں ان کو جانور مارنا حرام ہے۔ دل بھی کعبہ ہے اس لیے جو لوگ اس کا احرام باندھتے ہیں ان کو جانور کا مارنا کیونکر جائز ہو سکتا ہے۔ ایک دن ایک شخص نے آذر کیوان سے کہا کہ میں سوداگر تھا رہزنوں کے ہاتھ سے تنگ آ کر آخر درویشی اختیا ر کی آذر کیوان نے کہا کہ اب تم خود رہزنی کرو گے۔ آذر کیوان کی تصنیفات سے جام کخیسرو کا ذکر دبستان میں کیا ہ اور اس کے اشعار بھی نقل کیے ہیں جو درج ذیل میں درج ہے: چوزا بدانہا برگذشتم روان رسیدم سوئے پاک فرخ روان بدانستم از بود نیھا ہمہ شدم باسروش بزرگ رمہ در و چون بسے برتری یافتم فروغے زیزداں ہمے تافتم چوبفزدو پر تو بروقت این مسنی سروشے بتا بیدا ہرمنی خدا بودواز من نشا نے نہ بود فراموش دیار روانے نہ بود ہم راز خود سایہ می یافتم بہ ہوش سروشان ہمی تافتم ز خوشان ہمی تافتم برروان چنین بہ اندام ہانیز خواں توانا و داناو والا بدم چنین تا ازاں پایہ برآمدم بدان رہ کہ رفتم شدم موئے تن بصد ایزدی فرہ زاں انجمن خداوند را پایہ زاں برترست کہ آمیزش بندہ را درخورست زدریائے ہستیش گیتے نمے نم نم بگو چیست بودش ہمے زمہر و نوازش کند بندہ را کہ برداشتن شاید افگندہ را گدارا تو انگر کند مہراو جہاں پر توے از خود چہراو مرادرا جزا و کس نیا رو ستود کہ او درنیا ید بگفت و شنود آذر کیوان کے تلامذہ کثرت سے تھے ان میں سے چند ممتاز شاگرد جن سے صاحب دبستان نے ملاقات کی تھی اور ان کی صحبت سے فائدہ اٹھایا تھا ان کے نام اور مختصر حالات حسب ذیل ہیںـ: فرشید ورد یہ بھی شیراز میں آذر کیوان کے فیض سے مستفید ہوا اورہندوستان میں سنہ ۱۰۲۹ھ میں وفات پائی۔ خرد مند سام نریمان کے خاندان سے تھا مصنف دبستان پٹنہ میں ان بزرگوں سے ملا تھا چنانچہ خود لکھتاہے : ’’گرد آور نامہ در پٹنہ این چہار م آزادہ یعنی خراد ‘ فرشید ورد‘ و بہمن و خرد مند رادید‘ ودعائے خیر دربارہ نامہ نگار بجائے آوردند‘‘۔ بہرام بن فرہاد گودرز کے خاندان سے تھا۔ آذر کیوان جس زمانہ میں پٹنہ میں تھا۔ بہرام شیراز سے چل کر پٹنہ آیا اورتکمیل نفس میں بڑی محنتیں اٹھائیں۔ اس نے فلسفہ کی تما شاخوں میں کمال حاصل کیا تھا اور ان فنون میں عربی پہلوی اور فارسی زبانوں کی تصنیفات سے واقفیت حاصل کی تھی۔ عربی فلسفہ کی کتابیں خواجہ جال الدین محممود سے جو علامہ ودانی کے شاگرد تھے پڑھی تھیں تجارت کے ذریعہ سے بسر کرتا تھا۔ سنہ ۱۰۳۴ھ میں بمقام لاہور وفات پائی۔ بہرام کی تصنیفات میں سے تین کتابیں زیادہ مشہور ہیں۔ شارستان دانش‘ گلستان بینش‘ شآرستان۔ مصنف دبستان نے پارسیوں کے عقائد و خیالات اکثر ہی کتابوں سے لیے ہیں۔ ہوشیار سورت میں پیدا ہوا ۔ رستم کے خاندان میں سے تھا نہایت راست باز‘ دلیر‘ صاحب تدبیر اور مقدمہ فہم تھا۔ آذر کیوان کی صحبت اٹھائی تھی ایک ایک پہر تک حبس نفس کر سکتا تھا کھانے پینے میں کسی چیز سے پرہیز نہیں تھا۔ سنہ ۱۰۵۰ھ میں بمقام آگرہ وفات پائی۔ سردومستان اس کی تصنیف ہے۔ موبد سروش زردشت کی نسل سے تھا۔ عربی اور فارسی کے ساتھ ہندی زبان بھی جانتا تھا۔ عربی بہرام بن فرہاد سے حاصل کی تھی۔ تمام عمر شادی نہیں کی۔ گوشت بھی نہیں کھاتا تھا۔ اس کی تصنیفات کثر ت سے ہیں مثلاً نوش دارد سبکتگیں۔ زردشت افشار وغیرہ۔ محمد محسن ایک فاضل کا بیان ہے کہ میں نے خدا کے ثبوت میں ۳۶۰ دلیلیں اس کی زبان سے سنیں لیکن ان کو قلم بند کرنا چاہا تو نہ کر سکا۔ اکثر خوراق عادات اس سے صادر ہوتے تھے۔ مصنف دبستان نے سنہ ۱۰۳۶ھ میں اس سے بمقا کشمیر ملاقات حاصل کی تھی۔ خدا جوئے ہرات کا باشندہ تھا۔ مدت تک جویائے حق رہا آخر خواب میں ہدایت ہوئی کہ آذر کیوان سے فیض حاصل ہو گا۔ چنانچہ موبد خوشی کے ساتھ اسطخر گیا اور آذر کیوان کے حلقہ میںشامل ہوا۔ عربی اور فارسی زبان میں مہارت کامل رکھتا تھا۔ اکثر چپ رہتا تھا اورلوگوں کے اصرار سے گفتگو کرتا تھا ۔ آذر کیوان کی مشہور کتاب جام کیخسرو کی شرح لکھی۔ سنہ ۱۰۴۰ھ میں بمقام کشمیر وفات پائی مصنف دبستان نے یہیں ا س سے ملاقات کی تھی۔ موبد خوشی ایک مدت تک حق کی تلاش میںتمام دنیا پھرتا رہا۔ آخر آذر کیوان کی خدمت میں پہنچا اور ا س سے مقامات سلوک تحصیل کیے۔ اس کی تصنیفات سے بزمگاہ ایک مفید کتاب ہے جس میںاس نے آذر کیوان کے بارہ شاگردوں کے حالات و واقعات لکھے ہیں۔ ان شاگردوں کے نام یہ ہیں آرد شیر ‘ خراد‘ شیرویہ‘ خرد مند‘ فرہاد‘ سہراب‘ ازادہ ‘ بیثرن ‘ اسفندیار ‘ فرشید ورد‘ بہمن ‘ رستم ‘ مصنف دبستان نے آذر کیوان کے شاگردوں کے حالات زیادہ تر اسی کتاب سے لکھے ہیں۔ بہرام بن فرشاد ارژنگ مانی اس کی تصنیف ہے آذر کیوان کا شاگرد تھا لیکن تکمیل بہرام کی خدمت میں کی۔ سنہ ۱۰۴۸ھ میں بمقام لاہور وفات پائی شیخ شہاب الدین مقتول سہروردی کی تصنیفات جو فلسفہ اشراق کے متعلق تھیں ان کا عربی سے فارسی میں ترجمہ کیا تھا۔ ایک عجیب بات یہ ہے کہ عربی ‘ فارسی اور ہندی کے علاوہ یورپ کی بعض زبانیں بھی جانتاتھا۔ اکثر کتابت کا شغل رکھتا تھا۔ اور نہایت قلیل الغذا تھا۔ مصنف دبستان کا بیان ہے کہ میں نے ۱۰۴۸ھ میں اس کو لاہور میں دیکھا تھا۔ ایک رات متصل دوزانو ایک مقام پر بیٹھا رہا اور ذرا جنبش نہ کی۔ موبد پرستار پٹنہ میں پیدا ہوا۔ بچپن میں آذر کیوان کی صحبت اٹھائی اور زیادہ تر فیض موبد سروش سے حاصل کیا ۔ پترہ سو بدی اس کی تصنیف ہے۔ شیدوش بن انوش زردشت کے خاندان سے تھا ۔ اس کا باپ آذر کیوان کا تربیت یافتہ تھا نہایت خوش لباس تھا۔ اوربڑے کروفر سے زندگی بسر کرتا تھا۔ خوبرو اوروجیہ تھا سنہ ۱۰۴۰ھ میں کشمیر میں بیمار ہوا اوریہیں وفات پائی نزع کی حالت میںحضرت نور بخش کے یہ اشعار پڑھنے شرور کر دیے: یکے قطرہ از محیط وجود اگر چند داریم کشف و ستود من از قطرہ کے گشتہ ام بس نفور خدایا رسانم بہ دریائے نور اخیر شعر پر دم نکل گیا۔ مصنف دبستان نے اس کا مرثیہ لکھا جس کے چند شعر یہ ہیں: شیدوش تازہ دیدہ من برکرا نہ شد گر چشم خانہ بود بہ سررود خانہ شد آرام گاہ طائر قدسی سپہر بود زین پست آشیان بہ فراز آشیانہ شد جانش بہ ذات حضرت جان آفریں رسید بیرون زقید چرخ و زمین زمانہ شد یہ تمام موبد جن کا ذکر ہوا‘ آذر کیوان کے شاگرد اور تربیت یافتہ تھے۔ مصنف دبستان نے اور موبدوں کے نام بھی لکھے ہیں ہم نے ان کو قلم انداز کیا۔ مسلمانوں کی بے تعصبی کا اس سے زیادہ اور کیا ثبوت ہو گا کہ بہت سے مسلمان فضلاء نے آذر کیوان کی شاگردی اختیار کی اورچونکہ وہ موحد اور صوفی تھا اس لیے سلوک کے مقامات اس سے طے کیے۔ ان میں سے محمد علی شیرازی ‘ محمد سعید اصفہانی‘ عاشور بیگ ‘ محمود بیگ کا حال مصنف دبستان نے تفصیل سے لکھا ہے۔ لوگوں کو یہ سن کر حیرت ہو گی کہ شیخ بہائو الدین عاملی نے بھی آذر کیوان کی صحبت سے فیض اٹھایا تھا سچ ہے: ہیچ کہ ذوق طلب‘ از جستجو بازم نہ داشت دانہ می چیدم من آن روزے کہ خرمن داشتم (الندوہ جلد ۲ نمبر ۶) ستمبر سنہ ۱۹۰۵ء ٭٭٭ زیب النساء بمبئی کے سفر میں ایک عزیز دوست جو انگریزی تصنیفات پر زیادہ اعتماد رکھتے ہیں۔ انڈین میگزین اینڈ ریویو کا ایک آرٹیکل دکھلایا جو زیب النساء کی سوانح العمری کے متعلق تھا۔ مجھ کو افسوس ہوا کہ ایک ایسے معزز پرچہ کا سرمایہ معلومات تمام تر بازاری قصے تھے جس میں سے ایک شرمناک قصہ عاقل خان رازی کا بھی ہے۔ اس سے زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ خود مسلمانوں میں بازاری اہل قلم نے زیب النساء کے جو حالات تجارتی غرض سے قلمبند کیے ہیں وہ بالکل بے سروپا ہیں۔ اس بنا پر خیال ہواکہ زیب النساء کے متعلق صحیح معلومات یکجا کر دیے جائیں موصوف الذکر دوست نے وعدہ کیا ہے کہ وہ اس کو انگریزی میں منتقل کر دیں گے۔ جس سے یہ فائدہ ہو گا کہ غلط معلومات کی اصلاح ہو جائے گی۔ انگریزی مصنفوں کی غلطیاں جو عالمگیر ہو جاتی ہیں۔ اس کی یہی وجہ ہے کہ کوئی شخص ان کی پردہ دری نہیں کرتا اورکرتا ہے تو ایسی زبان میں جس ی ان کو خبر تک نہیں ہوتی۔ اس لیے سلسلہ بہ سلسلہ وہ غلطیاں پھیلتی جاتی ہیں اور ان سے مسلمانوں اور عادات کی نسبت نہایت برے خیالات پیدا ہوتے ہیں۔ ایک عزیز دوست کی خاطر سے مجھ کو اپنے دائرہ تحریر سے ہٹنا پڑا ہے۔ لیکن میں اس بے اصولی سے شرمندہ نہیںہوں۔ زیب النساء کی ولادت زیب النساء اورنگ زیب کی سب سے پہلی اولاد تھی۔ اس کی ماں جس کا نام دلرس بانو بیگم تھا شاہ نواز خان صفوی کی بیٹی تھی۔ شاہ نواز کا اصلی نام بدیع الزمان ہے۔ جہانگیر کے زمانے میں معزز عہدوں پر ممتاز ہو کر شاہ نواز خان کے خطاب سے ملقب ہوا۔ شاہجہان کے زمانے میں بھی کارہائے نمایاں سرانجام دیے چونکہ لیاقت ذاتی کے ساتھ عالی خاندان بھی تھا۔ شاہجہان نے سنہ ۱۰۴۷ھ میں یہ کہ اس کی سلطنت کا دسواں سال تھا‘ اورنگ زیب کی شادی اس کی بیٹی سے کر دی۔ چار لاکھ مہر باندھا گیا۔ طالب کلیم نے مادہ تاریخ کہا دو گوہر ب یک عقد دوراں کشیدہ ؎۱ زیب النسا کی شادی کے دوسرے سال شوال سنہ ۱۰۴۸ھ میں پیدا ہوئی۔ عالمگیری امرا میں عنایت اللہ خان نہایت معزز عہدہ دار تھا۔ اس کی مان حافظہ مریم قابل اور تربیت یافتہ تھی ۔ زیب النساء جب پڑھنے کے قابل ہوئی تو اورنگ زیب نے اس کی تعلیم کے لیے حافظہ مریم کو مقرر کیا۔ جس نے حسب دستور سب سے پہلے قرآن مجید کی تعلیم دی؎۲۔ زیب النسا نے قرآن مجید حفظ یاد کیا جس کے صلہ میں اورنگ زیب نے تیس ہزار اشرفیان انعام میں دیں۔ ؎۳ تمام تاریخیں اور تذکر ے متفق اللفظ ہیں کہ زیب النساء نے عربی اور فارسی کی تعلیم نہایت اعلیٰ درجہ کی حاصل کی تھی۔ اور بڑے علماء اور فضلا اس کی خدمت میں رہتے تھے لیکن اس کے اساتذہ میں سے زیادہ مقرب اور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ؎۱ ۔ مآثر الامرا ء جلد دوم صفحہ ۶۷۰ ؎۲۔ مآثر الامراء جلد دوم صفحہ ۸۲۸ ؎۳۔ مآثر عالمگیری صفحہ ۵۳۸۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ باریاب ملا سعید اشرف ماژندارئی تھے۔ ملا سعید تقی مجلسی کے نواسے تھے۔ عالمگیر کے آغاز جلوس میں ایران سے آئے اور عالمگیر کو ان کو زیب النساء کی تعلیم کے لیے مقرر کیا ؎۱۔ اس وقت زیب النساء کی عمر قریبا اکیس برس کی تھی۔ اس سے قیاس ہو سکتا ہے کہ تیموریوں کی مستورات کی تعیم کا سلسلہ کس قدر ممتد ہوتا تھا۔ زیب النساء نظم و نثر میں ملا سعید ہی سے اصلاح لیتی تھی۔ ملا اشرف شاعر بھی تھے اور شاعری ہی کے وصف سے مشہور ہیں۔ قریباً ۱۳۔۱۴برس وہ تعلیم کے تعلق سے زیب النساء کی خدمت میں رہے۔ سنہ ۱۰۸۳ میں وطن جانا چاہا زیب النساء کی خدمت میں ایک قصیدہ لکھ کر پیش کیا جس میں رخصت کی درخواست کو اس طرح ادا کیا گیا تھا: یک بار از وطن نتواں برگرفت دل در غربتم اگرچہ فزون ست اعتبار پیش تو قرب و بعد تفاوت نمی کند گو خدمت حضور بنا شد مرا شعار نسبت چوباطنی است چہ دہلی چہ اصفہان دل پیش تست من چہ بہ قابل چہ قندہار؎۲ زیب النساء نے جس قسم کی تعلیم پائی تھی اور خود اس ا مذاق طبیعت جس قسم کا واقع ہوا تھا اس کے لحاظ سے وہ پالیٹکس سے بالکل ناآشنا تھی۔ تاہم عالمگیر کے پرپیچ عہد حکومت میں وہ بھی اس بدنامی سے بچ نہ سکی ۔ سنہ ۱۰۹۱ھ میں راجپوتوں نے جب عام بغاوت کی اور عالمگیر نے ان کے دبانے کے لیے شہزادہ اکبر کو فوج گراں دے کر جودھ پور کی طرف روانہ کیا تو راجپوتوں کے بہکانے سے شہزادہ خود باغی ہو گیا اور عالمگیر کے مقابلہ کو بڑھا۔ شہزاد النساء اور شہزادہ اکبر حقیقی بہن بھائی تھے۔ دونوں میں خط و کتابت بھی تھی۔ یہ خطوط پکڑے گے اور عالمگیر نے اس کے انتقام میں زیب النساء کی تنخواہ جو چار لاکھ سالانہ تھی بند ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ؎۱۔ سرو آزاد تذکرہ ملا اشرف ؎۲۔ ایضاً ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کر دی ۔ اس کے ساتھ تمام مال و متاع ضبط کر لیا گیا اور قلعہ سلیم گڑھ میں رہنے کا حکم ہوا؎۱۔ لیکن معلوم ہوتا ہے کہ بہت جلد اس کی بے گناہی ثابت ہو گئی اور عفو قصور کر دیا گیا کیونکہ سنہ ۱۰۹۴ھ میں جب حمیدہ بانو بیگم (والدہ روح اللہ خان) نے انتقال کیا تو رسم تعزیت ادا کرنے کے لیے عالمگیر نے زیب النساء کو روح اللہ خان کے گھر بھیجا۔ اسی سنہ میں شہزادہ کام بکش (عالمگیر کا سب سے چھوٹا بیٹا) کی شادی ہوئی تو تقریب کی رسمیں زیب النساء ہی کے محل میں ادا ہوئیں اور عالمگیر کے حکم سے تمام ارکان دربار زیب النساء کی ڈیوڑھی تک پا پیادہ گئے۔ زیب النساء نے شادی نہیں کی۔ عام طور پر مشہور ہے کہ سلاطین تیمور یہ لڑکیوں کی شادی نہیںکرتے تھے۔ اس غلط روایت کو یورپین مصنفوں نے بہت شہرت دی ہے۔ اور اس سے ان کو شاہی بیگمات کی بدنامی پھیلانے میں بہت مدد ملی ہے۔ لیکن یہ قصہ ہی سرے سے بے بنیاد ہے ۔ خود عالمگیر کی دو بیٹیاں زبدۃ النساء بیگم اور مہر النساء بیگم سپہرہ شکوہ اور ایزد بخش (پسر شہزادہ مراد) سے بیاہی تھیں۔ چنانچہ مآثر عالمگیری میں دونوں شادیوں کی تاریخیں اور مختصر حالات لکھے ہیں اور خاتمہ کتاب میں بھی اس کا ذکر کیا ہے۔ عالمگیر زیب النساء کی نہایت عزت کیا کرتا تھا۔ جب وہ کہیںباہر سے آتی تھی تو اس کے استقبال کے لیے شہزادوں کو بھیجتا۔ سفر و حضر میں اس کو ساتھ رکھتا تھا۔ کشمیر کے دشوار سفر میں بھی وہ ساتھ تھی۔ لیکن جب عالمگیر دکن گیا تو ا س نے غالباً اپنی علی زندگی کی وجہ سے پائے تخت کو چھوڑنا مناسب نہ سمجھا۔ اس کی چھوٹی بہن زینت النساء عالمگیر کے ساتھ گئی۔ چنانچہ اس کا بار بار نام واقعات میں آتا ہے ۔زیب النساء نے دلی میں قیام کیا اور وہیں پیوند زمین ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ؎۱۔ مآثر عالمگیری صفحہ ۲۰۴ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہو گئی۔ زیب النساء نے سنہ ۱۱۱۳ھ میں جو عالمگیر کی حکومت کا اڑتالیسواں سال تھا ‘ دلی میں انتقال کیا ۔ ادخلی جنتی مادہ تاریخ ہے۔ عالمگیر اس زمانے میں دکن کی فتوحات میں مصروف تھا۔ یہ خبر سن کر سخت غمزدہ ہوا بے اختیار آنکھون سے آنسو نکلے اور باوجود انتہا درجہ کے استقلال مزاج کے صبر کی تاب نہ لا سکا۔ سید امجد خان‘ شیخ عطا اللہ اور حافظ خان کے نام حکم صادر ہوا کہ اس کے ایصال ثواب کے لیے زکوۃ و خیرات دیں اور مرحومہ کا مقبرہ تیار کرائیں۔؎۱ خانی خان نسخہ مطبوعہ کلکتہ میں زیب النساء کا نام اور اس کے واقعات سنہ ۱۱۲۲ھ تک آتے ہیں۔ لیکن یہ صریحی غلطی ہے ۔ کاتبوںنے غلطی سے زینت النساء کو زیب النساء سے بدل دیا ہے۔ کمالات علمی اور عام اخلاق و عادات تمام مورخین نے بہ تصریح لکھا ہے کہ زیب النساء علوم عربیہ اور فارسی زباندانی میں کمال رکھتی تھیں۔ نستعلیق نسخ اور شکستہ خط نہایت عمدہ لکھتی تھیں۔ لیکن اس کی تصنیفات سے آج کوئی چیز موجود نہیں ۔ عام طور پر مشہور ہے کہ وہ مخفی تخلص کرتی تھی اور دیوان مخفی جو چھپ کر شائع ہو چکا ہے اسی کا ہے لیکن یہ صحیح نہیں کسی تاریخ یا تذکرہ میں اس کے تخلص یا دیوان کا ذکر نہیں مولوی غلام علی آزاد ید بیضا میں لکھتے ہیں کہ این دوبیت از نام او مسموع شدہ پھر دو شعر نقل کیے ہیں۔ اس کا دیوان ہوتا تو صرف دو شعر کا کیوں ذکر کرتے مخزن العرائب ایک تذکرہ ہے جو احمد علی سندیلوی کی تصنیف ہے مصنف نے نہایت کثرت سے فارسی تذکرے بہ پہنچائے ہیں اوران سے حالات اور اشعار انتخاب کیے ہیں۔ زیب النساء کے حال میں لکھتے ہیں: ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ؎۱۔ مآثر عالمگیری صفحہ ۴۶۲ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ’’اما دیوان اشعارش جائے بہ نظر نیامدہ مگر در تذکرہ انتخابش بہ نظر آمدہ لیکن اعتبار رانشاید ‘ سبب آن کہ اکثر شعرا ساتذہ‘ صاحب آن تذکرہ بنام بیگم نوشتہ بود‘‘۔ اس سے انکار نہیں ہو سکتا کہ وہ شاعر تھی لیکن معلوم ہوتا ہے کہ اس کا کلام ضائع ہو گیا۔ اسی تذکرہ میں ملا سعید اشرف کے حال میں لکھا ہے کہ زیب النساء کی بیاض خاص ایک خواص کے ہاتھ سے جس کا نام ارادت بہم تھا۔ حوض میں گر پڑی۔ چنانچہ سعید اشرف نے اس پر ایک قطعہ لکھا جو آگے آئے گا۔ غالباً یہ اشعار کی بیاض ہو گی تذکروں میں یہ دو شعر زیب النساء کے نام منقول ہیں: بشکند دستے کہ خم در گردن یا رے نشد کوربہ چشمے کہ لذت گیر دیدارے نشد صد بہار آخر شد و ہر گل بہ فرقے جا گرفت غنچہ باغ دل مازیب دستارے نشد زیب النساء کی تصنیفات و تالیفات سے زیب المنشا ات کا ذکر البتہ تذکروں میں آیا ہے تذکرۃ الغرائب کے مصنف نے لکھا ہے کہ ’’میںنے اس کو دیکھا ہے‘‘ یہ زیب النساء کے خطوط اور رقعات کا مجموعہ ہے۔ علم پروری زیب النساء نے خود کوئی تصنیف کی ہو یا نہ کی ہو لیکن اس نے اپنی نگرانی میں اہل فن سے بہت سی عمدہ کتابیں تصنیف کرائیں۔مولوی غلام علی آزاد ید بیضا میں لکھتے ہیں: ’’ہمت بہ ترقیہ حال ارباب فضل و کمال مصروف می داشتہ و جماعت کثیراز علماء و شعراء و منشیان و خوشنویسان بہ سایہ قدر دانی ا و آسودہ بودند و کتب و رسائل بسیار بنام اور سمت تالیف پذیر فتہ ‘‘۔ زیب النساء کا دربار حقیقت میں ایک اکاڈیمی (بیت العلوم ) تھی ۔ ہر فن کے علماء اور فضلاء نوکر تھے جو ہمیشہ تصنیف و تالیف میں مصروف رہتے تھے۔ یہ کتابیں عموماً اس کے نام سے موسوم ہوتی تھیں۔ یعنی ان کتابوں کے نام کا پہلا جز زیب النساء کا لفظ ہوتا تھا اس سے اکثر تذکرہ نویسوں کو دھوکا ہوا ہے ۔ اور انہوں نے وہ کتابیں زیب النساء کی تصنیفات میںشمار کیں۔ زیب النساء نے جو کتابیں تصنیف کرائیں ان میں زیادہ قابل ذکر تفسیر کبیر کا ترجمہ ہے یہ مسلم ہے کہ تفسیروںمیں امام رازی کی تفسیر سے زیادہ جامع تفسیر اورکوئی نہیں اس لیے زیب النساء نے ملا صفی الدین اردبیلی کو جو کشمیر میںمقیم تھے حکم دیا کہ اس کا فارسی میں ترجمہ کریں۔ چنانچہ اس کا نام زیب التفاسیر رکھا گیا بعض تذکرہ نویسوںنے غلط لکھ دیا ہے کہ وہ زیب النساء کی مستقل تصنیف ہے۔ زیب النساء نے تصنیف و تالیف کا جو محکمہ قائم کیا تھا اس کے ساتھ ایک عظیم الشان کتب خانہ کا ہونا بھی ضرور تھا۔ جس سے مصنفین فائدہ اٹھا سکیں۔ چنانچہ بیگم موصوف نے ایک نہایت عظیم الشان کتب خانہ قائم کیا۔ مصنف مآثر عالمگیری کا بیان ہے کہ اس کتب خانہ کی نظیر کسی کی نظر سے نہ گزری ہو گی۔ مصنف مذکور کے اصلی الفاظ یہ ہیں: ’’درسرکار علیہ کتابخانہ گرد آمدہ بود کہ بہ نظر ہیچ یکے درنیامدہ باشد ۔ (صفحہ ۵۳۹)‘‘ زیب النساء کے حسن مذاق سے بڑا نفع یہ ہوا کہ عالمگیر کی خشک مزاجی نے جو نقصان پہنچایا تھا اس کی تلافی ہو گئی۔ یاد ہو گا کہ دربار میں ملک الشعراء کا خاص عہدہ ابتدائے سلطنت سے چلا آ رہا تھا جس پر فیضی‘ طالب آملی‘ قدسی کلیم ‘ مامور رہ چکے تھے۔ عالمگیر نے اس عہدہ کو موقوف کر دیا اور دفعتہ شعرا گویا بے خان و مان ہوگئے لیکن زیب النساء کی قدردانی نے وہ پھر سے قائم کر دیا۔ مختلف تقریبوں پر شعرا قصیدے اور نظمیں لکھ کر پیش کرتے تھے اورگراں بہا انعام پاتے تھے۔ زیب النساء کی شعر دوستی کا یہ اثر ہوا کہ اہل سخن معمولی غرض و معرو ض سے بھی شعر ہی میں کرتے تھے۔ اس قسم کے چند واقعات کا ذکر دلچسپی سے خالی نہ ہو گا۔ اوپر ہم لکھ آئے ہیں کہ ارادت فہم نام ایک خاص کے ہاتھ سے زیب النساء کی بیاض خاص حوض میںگر پڑی تھی۔ اس جرم کی معافی کے لیے ملا سعید اشرف نے یہ قطعہ لکھ کر پیش کیا۔ اے ادا فہمے کہ پیشت فاضلان عصر را شستن مجموعہ اندیشہ باب افتادہ است درخم افلاطون زیاد دانشت سر خوش بود ہمچو مخمورے کہ در فکر شراب افتادہ است گاہ گاہے گزرے آدابی باد صبا از گل روئے عرقناکت نقاب افتادہ است آب حسرت در دہان اختراں گردیدہ است آتش غیرت بہ جان آفتاب افتادہ است ذہن صافت عا علم فرویدہ در دانشوری طبع افلاطون زبس در اضطراب افتادہ است دفتر فرہنگ در چنگش مجزا گشتہ است از کفش مجموعہ دانش در آب افتادہ است عرض حالے ہست رد خاطر کہ در اظہار آں بند بندم موج ساں در اضطراب افتادہ است آں بیاض خاصہ شاہی کہ دراطراف آں جائے افشاں نقطہائے انتخاب افتادہ است آں مرصع خواں گہر ریزی کہ باشد جلوہ گر در الفاظش بسی با آب و تاب افتادہ است نے ہمین ازیاد معدن رفت لعل آبدار گوہر غلطاں ہم از چشم سحاب افتادہ است بحر شعر آبدارش تازہ طوفاں کردہ است کشتیش درچار موج اضطراب افتادہ است گوئیا از سر بدر رفت ست آب جدولش کاین چنین گلزار اشعارش خراب افتادہ است آہ ازین غم در دل پیرو جوان پیچیدہ است لرزہ زین ہیبت بجاں شیخ و شباب افتادہ است بسکہ می بند ند ہریک بر بلوئے دیگرے گریباض گردنش خوانن تاب افتادہ است من چہ گویم کان چومژگان خودش برگشتہ بخت در تپ این غم چناں از خورو خواب افتادہ است زاں زماں باز از پریشان حالی و آشفتگی ہمچو زلف خویشتن درپیچ و تاب افتادہ است رفت رنگ آتشین چوں شمع صبح از عار خش ہمچو نبض موج اندر اضطرات افتادہ است فیض بخشا زور ثر پروانہ ‘ بخشا یشے کاتشے در وے چو شمع از التہاب افتادہ است درنہ خواہی دید ‘ یکدم دفتر افلاک را از ہمجوم گریہ اش یکسر خراب افتادہ است؎۱ نعمت خان عالی‘ اس زمانے کا مشہور شاعر تھا۔ ایک دفعہ اس نے ایک مرصع کلغی جو دستار پر لگاتے تھے۔ زیب النساء کی خدمت میں فروخت کے لیے پیش کی زیب النساء نے رکھ لی۔ لیکن جیسا کہ درباروں کا معمول ہے قیمت کے ملنے میں دیر ہوئی۔ نعمت خان نے یہ رباعی لکھ کر بھیجی: اے بند گیت سعادت اختر من درخدمت تو عیان شدہ جوہر من گرجیغہ خریدنی است کور زمن درنیست خریدنی ابزن برسر من اگر خریدنا ہے تو دام دلوائیے اور نہ خریدنا ہو تو میرے سر پر ماریے بیگم نے پانچ ہزار روپے دلوائے اور کلغی واپس کر دی۔ ؎۲ ملا سعید اشرف جو زیب النساء کا استاد تھا اور زیب النساء نظم و نثر میں اسی سے اصلاح لیتی تھی بڑے پایہ کا شاعر تھا ۔ تمام تذکروں میں اس کے حالات تفصیل سے لکھے ہیں۔ بیگم اس کو بہت عزیز رکھتی ہے۔ ایک دفعہ اس نے ایک لونڈی ملا صاحب کے پاس بھیجی کہ اس کو خدمت میں رکھیے۔ کنیز ملا صاحب کے مذاق کے موافق نہ تھی۔ ایک طویل قطعہ اس کی ہجو میں لکھ کر بیگم کو بھیجا۔ آغا ز کا شعر یہ تھا: قدر دانشور سنا نور چشم عالما اے کہ ہرگز قدرت ہم چشمیت حور نداشت مولوی غلام علی آزاد نے صرف یہی ایک شعر نقل کیا ہے اور لکھا ہے کہ اس مین قاب قوسین او ادنیٰ کا قافیہ فحش موقع پر استعمال کیا تھا۔ لیکن یہ نہایت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ؎۱۔ یہ تمام اشعار تذکرہ مجمع الغرائب اشرف سعید کے حالات میں نقل کیے گئے ہیں ۔ ؎۲۔خزانہ عامرہ تذکرہ نعمت خان عالی۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تعجب کی بات ہے زیب النساء تو زاہدانہ مذاق رکھتی تھی شاہی بیگمات کے دربار میں کسی کو اس قسم کی بے اعتدالی کی جرات نہیں ہو سکتی تھی۔ جہاں آرا ء بیگم (زیب النساء کی پھوپھی) ایک دفعہ باغ میں سیر کو نکلی۔ ہر طرف پردہ کرا دیا گیا۔ میرصیدی طہرانی ایک مشہور شاعر تھا۔ وہ کسی حجرہ میں چھپ کر سواری کا تماشا دیکھ رہا تھا۔ بیگم کا ہاتھی پاس سے گزرا تو بے ساختہ صیدی نے یہ مطلع پڑھا۔ برقع برخ افگندہ برد ناز بہ باغش تا نگہت گل بیختہ آید بہ دماغش باغ میں برقع پہن کر اس لیے جاتی ہے کہ پھول کی خوشبو چھن کر دماغ میں آئے بیگم نے حکم دیا کہ شاعر کو کشاں کشاں سامنے لائیں۔ بیگم نے بار بار مطلع پڑھواکرسنا اورپانچ ہزار روپے دلوائے لیکن ساتھ ہی حم دیا کہ شہر سے نکال دیا جائے ؎۱۔ یعنی یہ گستاخی کیوں کی۔ اس واقعہ سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ بیگمات کے لیے کس قسم کے آداب مقرر تھے۔ اخلاق و عادت زیب النساء اگرچہ درویشانہ اور مصنفانہ مذاق رکھتی تھی تاہم شاہجہان کی پوتی تھی اس لیے نفاست پسندی اور امارت کے سر و سامان بھی لازمی تھے۔ عنایت اللہ خان جو امرائے عالمگیری مین مقرب خاص تھا‘ زیب النساء کا میر خانساماں؎۲ تھا۔ کشمیر میں جا بجا خوشگوار اور خوش منظر چشمے ہیں ان میں سے ایک چشمہ کا نام احول تھا زیب النساء کی جاگیر میں تھا۔ زیب النساء نے اس کے متصل ایک نہایت پر تکلف باغ اور شاہانہ عمارتیں تیار کرائی تھیں۔ چنانچہ عالمگیر جب سنہ ۱۰۷۳ھ میں کشمیر کے سفر کو گیا ہے تو اس مقام پر ایک دن قیام کیا اور زیب النساء نے قاعدہ کے موافق نذر پیش کی اور روپے نچھاور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ؎۱۔ خزانہ عامرہ ذکر صیدی طہرانی ؎۲۔ مآثر الامراء جلد دوم تذکرہ عنایت اللہ خان صفحہ۸۲۹۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیے ؎۱۔ سنہ ۱۰۹۰ھ میں ابرک کا ایک بڑا خیمہ تیار کرایا تھا جو تمام تر شیشہ معلوم ہوتا تھا۔ نعمت خان عالی نے اس کی تعریف میں ایک چھوٹی سی مثنوی لکھی جس کے چند اشعار حسب ذیل ہیں۔ ازان جزگاہ طلقش چشم بددور کہ شد از جلوہ اش نور علیٰ نور تعالیٰ اللہ چہ روشن بارگاہے کدورت رادرین جانیست راہے زنورش گشتہ خیرہ چشم کوکب کمینہ خانہ زادش ماہ نخشب فرو غش گر چنین دارد جہاں تاب کسے شب رانخواہد دید در خواب چو عاجز گشت نطقم از ثنایش شدم جو یائے تاریخ بنایش پیے تاریخ آن گفتا زمانہ برزنگ دلم آئینہ خانہ بھائیوں سے نہایت محبت رکھتی تھی۔ سنہ ۱۱۰۵ھ میں جب اعظم شاہ مرض استسقا میں سخت بیمار ہوا تو زیب النساء نے اس کی تیمارداری ا س محبت سے کی کہ تمام ایام مرض تک اس پرہیزی غذا کے سوا جو شہزادہ کھاتا تھا کوئی اور غذا نہیں کھائی؎۲۔ محمد اکبر جس زمانے میں عالمگیر سے باغی ہو کر راجپوتوں سے مل گیا اس زمانے میں بھی زیب النساء نے اس سے برادرانہ راہ و رسم اور خط و کتابت ترک نہ کی۔ جس کے صلے میں اس کی تنخواہ اور جاگیر ضبط ہو گئی۔ زیب النساء کے متعلق جھوٹے قصے زیب النساء کے متعلق متعدد جھوٹے قصے مشہور ہو گئے ہیں جن کو یورپین مصنفین نے اور زیادہ آب و رنگ دیا ہے۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ زیب النساء اور عاقل خان میں عاشق اور معشوقی کا تعلق تھا۔ اور زیب النساء اس کو چوری چھپے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ؎۱۔ عالمگیر نامہ مطبوعہ کلکتہ ص ۸۳۶ ؎۲۔ مآثر الامراء جلد اول ص ۵۹۹ مآثر عالمگیری میں زیب النساء کے بجائے اینت النساء کا نام لکھا ے لیکن یہ وہی لفظی اشتباہ ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سے محل میں بلایا کرتی تھی۔ ایک دن عالمگیر محل میں موجود تھا کہ اس کو پتہ لگا کہ عاقل خان محل میں ہے اور حمام کی دیگ میں چھپا دیا گیا ہے۔ عالمگیر نے انجان بن کر اسی دیگ میں گرم پانی کرنے کا حکم دیا۔ عاقل خان نے احقائے راز سے دم نہ مارا اور جل کر رہ گیا۔ مرنے کے وقت یہ مطلع کہا تھا: بعد مردن زجفائے تو اگر یاد کنم از کفن دست بردن آرم فریاد کنم عاقل خان کا مفصل تذکرہ مآثر الامراء میں موجود ہے اور چونکہ شاعر تھا تمام تذکروں مٰں اس کے حالات مذکور ہیں۔ لیکن اس واقعہ کا کہیں نام و نشان نہین جن کتابوں میں اس کا حال مل سکتا تھا اورجو مستند اورمعتبر خیال کی جاتی ہیں حسب ذیل ہیں عالمگیر نامہ‘ مآثر عالمگیری ‘ مآثر الامرائ‘ تذکرہ سرخوش ‘ خزانہ عامرہ ‘ سرد آزاد‘ ید بیضا۔ ان کتابوں میں ایک حرف بھی اس واقعے کے متعلق نہیں ۔ حالانہ اس کی وفات کا تذکرہ سب نے لکھا ہے جو سنہ ۱۱۰۷ھ میں واقع ہوئی۔ دوسرا یہ واقعہ مشہور ہے کہ ایک دفعہ زیب النساء نے یہ مصرع کہا: از ہم نمی شود زحلاوت جدالبم چاہتی تھی کہ مطلع ہو جائے لیکن دوسرا مصرع ا س کی جوڑ کا موزوں نہیںہوتا تھا ناصر علی کے پاس مصرع لکھ کر بھیجا اس نے برجستہ کہا۔ از ہم نمی شود ز حلاوت جدالبم شاید رسید برلب زیب النسا لبم لیکن جو شخص تیموریوں کے جاہ و جلال اور آداب و آئین سے واقف ہے وہ سمجھ سکتا ہے کہ بیچارے ناصر علی کو خواب میں بھی اس گستاخی کی جرات نہیں ہو سکتی تھی۔ (الندوہ جلد ۶ نمبر ۹) اکتوبر سنہ ۱۹۰۹ء ٭٭٭ مولوی غلام علی آزاد بلگرامی دلی اور لکھنو میں جو مساویانہ رقابت قائم کر دی گئی ہے وہ اور کسی اعتبار سے صحیح ہو یا نہ ہو لیکن اس سے انکار نہیں ہو سکتا کہ ایک خاص بات میں (اور یہ کوئی معمولی بات نہیں) لکھنو ہندوستان کے تمام شہروں سے ہمیشہ ممتاز رہا ہے۔ وہ یہ کہ اس کے اطراف و جوانب میں مردم خیز بستیان ہیں انہوں نے جس درجے کے علماء پیدا کیے دلی ایک طرف کل ہندوستان نے اس پایہ کے اہل کمال پیدا نہیں کیے۔ ملا قطب الدین شہید‘ ملا نظام الدین بحر العلو‘ حمد اللہ ‘ ملا حن‘ ملا کمال قاضی مبارک جو آسمان علم کے ثوابت اور سیارے ہیں۔ انہی بستیوں کے خاک کے اٹھے تھے۔ سہالی ‘ گوپامئو‘ نیوتنی‘ موہان ‘ گو خود عالم شہرت میں روشناس نہیں لیلکن انہوںنے جو علمی جواہر پیدا کیے آج تمام ہندوستان ان کے نام سے گونج رہا ہے۔ انہی مردم خیز بستیوں میں ایک بلگرا م بھی ہے جو آج علمی حیثیت سے ایک خاص امتیاز رکھتا ہے۔ مولوی غلام علی آزاد جن کا مختصر حال ہم لکھنا چاہتے ہیں یہیں کے رہنے والے تھے۔ بلگرام میں جس قدر واسطی سادات آباد ہیں ان کے مورث اعلیٰ جو بلگرام میں آ کر آباد ہوئے سید محمد صغری ہیں۔ وہ خواجہ قطب الدین بختیار کاکیؒ کے مرید تھے اور سلطان شمس الدین التمش کے دربار سے تعلق رکھتے تھے ۔ سنہ ۶۱۴ھ اس زمانے میں بلگرام پر ایک ہندو راجہ قابض تھا جس کا نام سری تھا۔ اور جو نہایت متعصب اور سرکش تھا۔ سنہ ۶۱۴ھ میں سید محمد صغری اس کی سرکوبی کے لیے تھوڑی سی فوج لے کر روانہ ہوئے اور بلگرام پہنچ کر راجہ سے معرکہ آراء ہوئے۔ راجہ مع عزیز و اقارب کے قتل ہوا ۔ اور بلگرام پر پورا پورا تسلط ہو گیا۔ اس واقعہ کی تاریخ خداداد کے لفظ سے نکلتی ہے۔ سید محمد صغری نے یہیں اقامت اختیار کی۔ شیوخ فرشوری اور ترکمان جو ان کے ساتھ آئے تھے وہ بھی یہیں آباد ہو گئے ۔اس زمانے میں مالگزاری کا طریقہ یہ تھا کہ غلہ کی پیداوار کا دسواں حصہ لیا جاتا تھا جس کو وہ یکی کہتے ہیں چنانچہ محمود بن محمد شاہ بن سلطان فیروز شاہ دہلی کے فرمان کی جو عبادت مولوی غلام علی آزاد نے مآثر الکرام میں نقل کی ہے اسکے یہ الفاظ ہیں: ’’چنانچہ در عہد سلاطین ماضیہ عشرعین غلہ دادہ اندہم برآن جملہ بدہند‘‘۔ یہ فرمان سنہ ۸۰۵ھ کا ہے جو سید محمد صغری کے نام سے صادر ہوا تھا۔ سید محمد صغری نے بلگرام میں ایک قلعہ تعمیر کیا اور ۳۱ برس کی حکومت کے بعد سنہ ۶۴۵ھ میں وفات پائی۔ مولوی غلام علی آزاد انہی سید محمد کی اولاد میں سے ہیں۔ مولوی غلام علی آزاد روش یکشنبہ ۲۵ صفر سنہ ۱۱۱۶ھ میں بمقام بلگرام محلہ میدان پورہ میں پیدا ہوئے کتب درسیہ میر طفیل محمد بلگرامی سے پڑھیں جو اس زمانے کے مشہور فاضل تھے۔ عروض و قافیہ اور بعض ادب کی کتابیں میر سید محمد سے پڑھیں جو آزاد کے ماموں او ر سید عبدالجلیل کے فرزند رشید تھے۔ اس زمانے میں سید عبدالجلیل بلگرامی (آزاد کے نانا) اساتذہ روزگار میںشمار کیے جاتے تھے۔ وہ ۱۶ برس کی سیر و سیاحت و ملازمت سلطنت کے بعد وطن میں آئے۔اس وقت آزاد کی عمر ۱۷ برس کی تھی۔ یہ پہلا موقع تھا کہ آزاد نے ایسے نامور یگانہ دیدار سے آنکھیں روشن کیں۔ آزاد نے ان کی خدمت میں حاضر ہو کر زانوے شاگردی تہہ کیا اور کتب احادیث کی اجازت حاصل کی سنہ ۱۱۳۴ھ میں سید عبدالجلیل نے پھر دلی کا رخ کیا چونکہ آزاد کی تکمیل کے مراحل ابھی طے نہیں ہوئے تھے یہ بھی ساتھ گئے اور دو برس تک ان کی خدمت میں رہ کر استفادہ کیا۔ قاموس اللغہ کا معتدبہ حصہ اور حدیث سے ا سقدر خوش ہوئے کہ اکثر کہا کرتے تھے کہ امید سے تم سے میری یادگار قائم رہ جائے۔ فراغ تحصیل کے بعد وطن میں واپس آئے اورمدت تک یہیں رہے۔ سنہ ۱۱۴۲ھ میں سندھ کے سفر کا اتفاق ہوا۔ تقریب یہ ہوئی کہ ان کے ماموں میر سید محمد اس زمانے میں بادشاہ دہلی کی طرف سے سند ھ کے میر بخشی اور وقائع نار تھے اور سیوستان جو سندھ کا ایک شہر ہے ان کا صدر مقام تھا ۔ ان سے ملنے کے لیے بلگرام سے نکلے اور دلی لاہور اور ملتان ہوتے ہوئے سیوستان پہنچے۔ اس زمانے کے سفر کی دشواریوں پر خیال کرو کہ ذی الحجہ سنہ ۱۱۴۲ھ میں بلگرام سے روانہ ہوئے تھے اور ربیع الاول سنہ ۱۱۴۳ھ میں سیوستان پہنچے یعنی یہ مسافت ایک برس تین مہینے میں ختم ہوئی۔ میر سید محمد نے ان کو اپنا قائم مقام کر کے خود بلگرام کا قصد کیا۔ اور پورے چار برس کے بعد واپس آئے۔ آزاد سنہ ۱۱۴۷ھ میں سیوستان سے دلی میں آئے یہاں خبر لگی کہ ان کے والد ماجد مع تمام اہل و عیال الہ آباد میں تشریف رکھتے ہیں۔ یہ سن کر آگرہ ہوتے ہوئے الہ آباد پہنچے ۔ والدین سے مل کر سعادت دارین حاصل کی اور چند روش یہیں قیام رہا۔ اس قیام کے زمانے میں دو دفعہ بلگرام گئے۔ دوسری دفعہ جا کر واپس آئے تو سفر حج کا شوق دامن گیر ہوا بچپن میں کبھی خواب دیکھا تھا کہ جناب رسالت پناہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دیدار کا شرف حاصل ہوا ہے یہ آگ اندر ہی اندر سلگتی رہی یہاں تک کہ ضبط نہ ہو سکا اور۳ رجب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ؎۱۔ مآثر الاکرام تذکرہ سید عبدالجلیل بلگرامی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سنہ ۱۱۵۰ھ میں بے ایتار نکل کھرے ہوئے۔ اگرچہ کبھی پیادہ روی کا اتفاق نہیں ہوا تھا‘ لیکن بیتابی شوق میں سواری کا خیال بھی نہ آیا کسی کو خبر تک نہ ہونے دی یہاں تک کہ ان کے چلے جانے کا حال لوگوں کو تیسرے دن معلوم ہوا۔ عورتیں بہت بے قرار ہوئیں ان کے بھائی سید غلام حسن نے تین منزل تک تعاقب کیا مگر یہ ہاتھ نہ آئے۔ مجبوراً واپس آ گئے چونکہ آزاد نے اس خیال سے لوگوں کو پتا نہ لگ جائے معمولی راہ چھوڑ کر غیر متعارف راستہ اختیار کیا۔ اس لیے صحرا نوردی میں بڑی تکلیفیں اٹھائیں ۔ چنانچہ ایک مثنوی میں جو حالات سفر میں لکھی ہے اور جس کا تاریخی نام طلسم اعظم رکھا ہے فرماتے ہیں: مار خوابیدہ است جادہ او برنخیزد زپا فتادہ او پیک این راہ تیر نادک دار جامہ از تن کند دم رفتار رہزنش کاسہ از گداگیرد خار او دامن ہوا گیرد می بریدم رہے بہ بے پائی بار فیقے کہ بود تنہائی صبح تا شام راہ می رفتم خوں چکاں ترز آہ می رفتم ہمہ کہسار و دشت ناہموار قدم مورد ایں رہ دشوار ہر قدم دورہا و جسیحون ہا چوں دم تیغ تشنہ خون را موج خونناب و جوش آبلہا ریخت در راہ رنگ سلسلہ ہا بلگرام سے سرونج تک جو مالوہ کے اضلاع میں ہے پیادہ پا سفر کیا۔ نوبت یہ پہنچی کہ پائوں میں آبلے پڑ گئے اور قد م رکھنا مشکل ہو گیا۔ حسن اتفاق یہ کہ نواب آصفجاہ نظام دن مالوے میں فوجیں لیے پڑے ہوئے تھے۔ لشکریوں میں سے ایک نیک دل نے ان کے حال سے مطلع ہو کر نہایت فیاض دلی کی‘ گھر میں لے جا کر مہمان اتارا۔اورایک پرتکلف رتھ سواری کر دی۔ چونکہ ان کے فضل و کمال کا شہرہ دور دور پہنچ چکا تھا۔ نواب آصفجاہ کے دربار میں تقریب ہوئی۔ چنانچہ شعبان سنہ ۱۱۵۰ھ میں حضوری کا موقع حاصل ہوا انہوں نے اگرچہ کبھی تمام عمر امراء کی مدح میں زبان آلودہ نہیںکی۔ لیکن سفر حج کے شوق اور بیتابی میں خودداری کا سررشتہ ہاتھ سے جاتا رہا دربار میں جا کر یہ رباعی پڑھی۔ اے حامی دین محیط جود و احسان حق داد ترا خطاب آصف شایان او تخت بہ درگاہ سلیمان آورد تو آل نبی رابہ در کعبہ رسان سو اتفاق یہ کہ نواب اس زمانے میں مرہٹوں سے معرکے کر رہے تھے۔ اور بھوپال کی حدود میں ہر طرف آتش جنگ مشتعل تھی۔ اس وقت مسلمانوں میں عربیت کا اس قدر اچر باقی تھا کہ ان کے ہاتھ قلم کے ساتھ تلوار سے بھی آشنا تھے آزاد نے بھی ان معرکوں میں شرکت کی چنانچہ فخریہ کہتے ہیں: من ہم آن زور در صف اسلام بایکے ذوالفقار خون آشام قد پر دلانہ افشردم حملھا بر مخالفان بردم تشنگیہائے روزہ رمضان کردہ از کام تاجگر بریان سفر کعبہ و صیام و جہاد این سیہ دولت مرابہم روداد رمضان کے اخیر میں صلح ہو گئی اور نواب نے مطمئن ہو کر آزد کے زاد و راحلہ کا معقول بندوبست کر دیا۔ شروع شوال میں یہ بھوپا ل سے نکلے اور برہان پور ہوتے ہوئے ذوقعدہ کو بند سورت میں پہنچے۔ ۲۴ کو جہاز میں سوار ہوئے۱۸ محمر سنہ ۱۱۵۱ھ کو جدے میں اترے۔ سورت سے جدہ تک کا سفر قریباً دو مہینے میں طے ہوا شیخ محمد فاخر الہ آبدی جو مشہور صوفی اور شاعر گزرے ہیں اس زمانے میں یہیں تھے۔ آزاد کی آمد کی خبر سن کر بڑے اشتیاق سے لینے آئے۔ آزاد جہاز سے اترے تو پہلے ان ہی سے آنکھیں چار ہوئیں۔ دونوں بڑی گرم جوشی سے ملے جدہ سے چل کر ۲۳ محرم کو مکہ سے نکلے۔ پورے ایک مہینہ میںمدینہ پہنچے اس وقت ان کی عمر ۳۶ سال کی تھی۔ شیخ حیات جو سندھ کے رہنے والے تھے اور اس وجہ سے سندی کہلاتے تھے۔ اس زمانے کے بہت برے محدث تھے ۔ انہوںنے ہجرت کر کے مدینہ منورہ قیام اختیار کر لیاتھا۔ آزاد نے اس موقع کو نہایت غنیمت سمجھا اوران کی خدمت میں حاضر ہو کر صحاح ستہ کی سند لی۔ اکثرراتوں کو مسجد نبوی میں جا کر صحیح بخاری کا مطالعہ کیا کرتے تھے۔ اسی زمانے میں ایک غزل لکھی جس کا مطلع یہ ہے: نمود جلوہ اعجاز شمع مطلبی نماند شوخی چشم شرار بولہبی آٹھ مہینے یہاں قیام رہا ۱۴ شوال کو حج کے ارادے سے روانہ ہوئے اور ۲۶ کو مکہ معظمہ پہنچے۔ یہاں مناسک ااور اعمال حج کے ساتھ تحصیل عل کا سلسلہ بھی جاری رہا ۔ شیخ عبدالوہاب طنطاوی مصری جو مشہور مہدث گزرے ہیں ان سے حدیث کی تحصیل کی حج کے بعد طائف کا قصد کیا اورمزارات متبرکہ کی زیارت کی ۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ کے مزار پر حاضر ہوئے تو یہ شعر زبان سے نکلے: اے صبا رو بہ مزار پسر عم نبی خاک آں روضہ کم از عنبر تر شناسی کردہ ام خوب تماشا چمن طائف را نہ رسد ہیچ گل او بہ گل عباسی ربیع الثانی سنہ ۱۱۵۲ھ میں طائف سے روانہ ہوکر جدے پہنچے اور ۳ جمادی الاولیٰ کو جہا زپر سوار ہوئے جہاز آٹھویں دن بندرگاہ مخامین پہنچا۔ یہاں شیخ شاذلی کا مزار ہے۔ چونکہ جہاز نے چار دن تک یہاں لنگر کیا۔ یہاں کی خوب سیر کی شاذلی کے مزار پر فاتحہ پڑھی۔ ۲۹ جمادی الاولیٰ کو جہاز بندرگاہ سورت میں پہنچا جدے سے سورت تک کا راستہ ۲۶ دن میں طے ہوا۔ سورت میں پانچ مہینے تک قیام رہا۔ وہاں سے اورنگ آباد میں آئے اور یاباشاہ مسافر نقشبندی کی خانقاہ میں اترے ؎۱۔ چند روز تک گوشہ نشینی کی لیکن سیاحت کا شوق طبعی تھا۔ دکن کے مختلف مقامات میں پھرتے رہے آخر اورنگ آباد میں مستقل قیام اختیار کیا اوریہیں سنہ ۱۲۰۰ ھ میں وفات پائی۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ؎۱۔ مآثر الکرام شاہ حبیب اللہ قنوجی کے ذکر میں ضمناً لکھا ہے کہ اس خانقاہ میں سات برس تک قیام رہا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تصنیفات تصنیفات کی تفصیل سے پہلے یہ کہنا ضرورہے کہ ان کی تصنیفات میں ہندوستان میں اپنی قسم کی پہلی تصنیف ہیں فن رجال اور تاریخ اگرچہ مسلمانوں کا گویا خاص فن ہے لیکن ہندوستان کی علمی حالت کی کچھ ایسی افتاد پڑی تھی کہ ابتداسے اس زمانے تک کسی نے ایک کتاب بھی اس فن میں نہ لکھی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ہندوستان کے سینکڑوں ہزاروں علماء و فضلاء کے حالات پر آج گمنامی کا پردہ پڑا ہوا ہے آزاد سب سے پہلے شخص ہیں جس نے ہندوستان کے علماء اور ارباب عمائم کے حالات قلمبند کیے ۔ آزاد نے اس اولیت پر خود جا بجا فخر کا اظہار کیا ہے اوربجا کیا ہے ؎۱۔ اب تصنیفات کی تفصیل ملاحظہ ہو۔ سروآزاد شعر کا تذکرہ ہے۔ ید بیضا یہ بھی شعرا کا تذکرہ ہے او ر شاید سب سے پہلی تصنیف ہے ۔ پہلا نسخہ سیوستان (سندھ) میں لکھا تھا۔ پھر ہندوستان پہنچ کر بہت کچھ تصرف کیا اور سنہ ۱۱۴۸ھ میں دوسراایڈیشن شائع کیا۔ میں نے اس کتاب کا اصلی نسخہ ان کے ہاتھ کا لکھا دیکھا ہے۔ مآثر الکرام خاص بلگرام ‘ اور عموماً فقراء اور علمائے ہندوستان کے حالات میں ہے۔ سنہ ۱۱۵۰ھ سے پہلے اس کی تصنیف کی ابتدا ہوئی تھی کہ سفر حج پیش آیا اورمسودہ ناتمام رہ گیا۔ سنہ ۱۱۵۲ھ میں جب اورنگ آباد میں آئے تو وطن سے مسودہ منگوا کر کتاب پوری کی۔ خزانہ عامرہ خاص ان شعرا کے حالات میں ہے جن کو دربار شاہی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ؎۱۔ سبحتہ المرجان صفحہ ۲۶ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سے صلے میں ملے ہیں۔ اس میں ہندوستان کی تخصیص نہیں ہے سنہ ۱۱۷۶ھ کی تصنیف ہے جبکہ ان کی عمر ۶۱ برس کی تھی۔ روضۃ الاولیاء صوفیہ کے حالات میں ہے۔ سند السعادات فی حسن خاتمۃ السادات ثابت کیا ہے کہ سادات کا خاتمہ ضرور اچھا ہوتا ہے۔ دیوان عربی کئی دیوان ہیں جن کی مجموعی تعداد تین ہزار شعر ہیں یہ چھپ بھی گئے ہیں۔ دیوان فارسی شرح بخاری چند ابواب کی شرح ہے ۔ اس کا قلمی نسخہ بعض احباب کے کتب خانے میں موجود ہے۔ آزاد نے جا بجا تصریح کی ہے کہ وہ ہندی یعنی بھاشا زبان سے پوری واقفیت رکھتے ہیں خزانہ عامرہ میں ابو سعد مسعود سلمان کے حالات میں لکھتے ہیں۔ ’’من اگرچہ دو دیوان دارم عربی و فارسی‘ لکن شر ہندی راخوب می فہمم داز چاشنی۔ چاشنی آن خط مستوفی دارم‘‘۔ مسلمانوں پر یہ بڑا اعتراض ہے کہ انہوںنے اگرچہ تمام دنیا کے علوم و فنون کے ترجمے کیے لیکن کبھی زبان کی انشاء پردازی سے فائدہ نہیں اتھایا۔ انتہا یہ ہے کہ یونانی زبان جو مسلمانوں کے علوم کا اصلی سرچشمہ ہے۔ عربی نظم و نثر اس سے مطلق متاثر نہیں معلوم ہوتے۔ بے شبہ ا س اعتراض کا جواب نہیں ہو سکتا لیکن اس اعتراض کے وزن کو فیضی و آزاد نے کسی قدر کم کر دیا ہے۔ فیضی کی نل و من میں ان نازک اور لطیف استعارات کا صاف پرتو ہے جو سنسکرت کے ساتھ مخصوص ہے ۔ اور آزاد نے تو سبحۃ المرجان میں ایک خاص باب باندھا ہے جس میں انہوںنے عربی زبان میں بھاشا کے خیالات اور شاعرانہ صنائع منتقل کیے ہیں۔ ان صنعتوں کی تعداد ۲۳ ہے اور عربی زبان میں آزاد نے ان کے یہ نام لکھے ہیں۔ تنزیہ تشبیہ الشی بنفسہ‘ تشبیہ البرہان‘ انتزاع تشبیہ البرہان‘ انتزاع تشبیہ السلب ‘ تشبیہ القی‘ تشبیہ التقویہ ‘ تشیبہ الاسغنا ‘تشبیہ التمنی‘ التفصیل علی التفصیل ‘ تفصیل التعبیر برآعۃ الجواب ‘ جمع الخزانہ و تفریقہا‘ قلب الماہیۃ الاستبداد ‘ الطغیان ‘ التسلط ‘ الاعتساف‘ موالاۃ العدد‘ مخالطہ‘ التاویل اضمارالنہی‘ التنوع ‘ آزاد نے لکھا ہے کہ یہ صنعتیں ہندی زبان کے ساتھ مخصوص ہیں جو عربی و فارسی میں نہیں پائی جاتیں باقی اور زبانوںمیں بھی مشتر ک ہیں۔ آزادنے ہندی کے بحور و قوافی کا بھی عربی سے مقابلہ کیا ہے ۔ چنانچہ لکھتے ہیں کہ ہندی کی اکثر بحریں عربی و فارسی سے مختلف ہیں لیکن بحر تقارت ‘ کفن الخلیل‘ اور بحر سریع ‘ ہندی میں بھی ہے۔ ایک بڑا فرق یہ بتایا ہے کہ ہندی میں بعض بحریں ایسی ہیں جن کا قافیہ مصرع کے آخر کے بجائے وسط میں آتا ہے۔ اور باوجود اس کے یہ بحر مطبوع اور دلپسند ہے۔ تصنیفات مذکورہ میں سے سبحتہ المرجان اور مآثر الکرام تذکرہ علماء کی حیثیت سے قابل لحاظ ہیں۔ اگرچہ حالات نہایت اختصار کے ساتھ لکھ ہیں لیکن جو لکھا ہے کہ مستند لکھا ہے۔ قدما کے حالات میں اختصار کے لیے تو عذر موجود تھا کہ ماخذوں کا پتہ نہیں لیکن اپنے زمانے کے علماء کے حالات میں بھی نہایت اختصار برتا ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ کوتاہ قلمی ان کا خاصہ رہی ہے ۔ شعرا کے تذکرے میں جوتین کتابیںلکھی ہیں ان میں سے خزانہ عامرہ زیادہ مفصل اور مبسوط ہے۔ اس کے دیباچے میں کتاب کے ماخذ بتائے ہیں۔ ان میں لب اللباب عونی یزدی کا نام بھی ہے۔ یہ کتاب ہماری نظر سے گزری ہے اور اس لے ہم کو افسوس ہوتاہے کہ ایسے عمدہ ماخز سے آزاد نے پورا فائدہ نہیں اٹھایا تاہم خزانہ عامرہ میں بعض ایسی خصوصیات پائی جاتی ہیں جن کی داد دینی چاہیے۔ اول تو کثر شعرا کے ذکر میں ایسے شاعرانہ دلچسپ مباحث لکھے گء ہیں جن میں تنقید کی جھلک پائی جاتی ہے۔ دوسرے جا بجا ضمناً ایسے فوائد بیان کرتے جاتے ہیں جو تحقیقات علمی کی جان ہیں۔ شعر و شاعری کے نو دولت اکثر تصحیح الفاظ پر بہت جان دیتے ہیں۔ اور ذرا سے تبدل و تغیر پر اس قدر ہنگامہ آڑائی کرتے ہیں ک گویا وحی الٰہی کا کوئی لفظ ادل بدل ہو گیا ہے آزاد نے ایک موقع پر سینکڑوں الفاظ گنائے ہیں جو قاعدے کی رو سے بالکل غلط ہیں اور ناجائز ہیں۔ لیکن اساتذہ کے ہاں برابر چلے آتے ہیں ‘ مثلاً اب بسکہ در مشق جنون رسوا شدم پیرا نہ سر خند ند برمن نوخطان طفلان مکتب خانہ ہم ظہور حسن تو امیتی بہ دوران داد کہ بادشاہ زرعیت نمی ستاند باج اے رنگ آمیز ایں گہرھا دے از تو گزارش صورھا نیست گردیوانہ جامی تعجب بہر چیست کز عجائب ہائے دوران دیوار خاتم رسید غمزہ درتاخت خوش کزیں نا اہل گردد اسرار ہائے پنہاں فاش باطل السحر مگر ورد زبانم گردد کہ نگہ دارد ازان چشم فزوں سازمرا بعض جگہ دقیق علمی مباحث بیان کیے جاتے ہیں جس سے ان کی علمی دقت نظر کا ثبوت ہوتا ہے۔ یہ سب ہے لیکن افسوس اور سخت افسوس یہ ہے کہ جو چیز تذکرے کی جان ہے وہی نہیں۔ ایران میں تذکرے سے مقصود عمدہ اشعار کا انتخاب ہوتا تھا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ؎۱۔ خزانہ عامرہ صفحہ ۴۰۷ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ چنانچہ ابتدائی تذکرے صرف انتخابات ہیں مرزا صاحب کا انتخاب آج بھی موجود ہے جس میں کسی شاعر کا حال برائے نام بھی نہیں۔ صرف اشعار ہی اشعار ہیں لیکن انتخاب اس درجے کا ہے کہ ہزاروں تذکرے ا س پر نثا ر کر دیے جائیں۔ دالہ داغشانی اور آتشکدہ آزر میں گو حالات بھی ہیں لیکن خصوصیات موجود ہے بخلاف ان کے خزانہ عامرہ بلکہ آزاد کے تینوں تذکرے گویا لغ اشعار کا مجموعہ ہیں تمام کتاب میں مشک سے ایک آدھ شعر اچھا نکل آتا ہ۔ اس کی وجہ یہ ہے ہ اس زمانے میں تمام ہندوستان کا مذاق شاعری سخت خراب ہو چکا تھا۔ مضمون آفرینی یعنی جھوٹی خیال بندی پر لوگ جان دیتے تھے۔چنانچہ اس عہد کے جتنے تذکرے ہیں سب اسی مرض میں مبتلا ہیں۔ خان آرزو کا مجمع النفائس اس عہد کا عمدہ ترین تذکرہ خیال کیا جاتا ہے۔ اس کی بھی یہی حالت ہے یہ بدمذاقی اخیر تک قائم رہی یہاں تک کہ حضرت مرزا مظہر جان جانان نے ریزہ جواہر انتخاب کیا۔ میں نے ثقات دہلی سے سنا ہیکہ مرزا غالب وغیرہ کا خیال تھا کہ ہندوستان میں فارسی شاعری کا مذاق صحیح جو دوبارہ قائم ہوا۔ وہ اس انتخاب نے قائم کیا۔ آزاد کا عربی اور فارسی کلام اگرچہ کثرت سے ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کے چہرہ کمال کا داغ ہے۔ اس سے انکار نہیں ہو سکتا کہ وہ عربی زبان کے بہت بڑ ے ادیب ہیں۔نہایت نادر کتب ادبیہ پر ان کی نظر ہے۔ لغات اور محاورات ان کی زبان پر ہیں لیکن کلام میںاس قدر عجمیت ہے کہ اس کو عربی کہنا مشکل ہے ان کو اس پر ناز ہے کہ انہوں نے عجم کے خیالات عربی زبان میںمنتقل کیے ہیں لیکن نکتہ سنج جانتے ہیں کہ یہ ہنر نہیں بلکہ عیب ہے۔ خطا نمودہ ام و چشم آفریں دارم فارسی کی بھی یہی حالت ہے ۔ سینکڑوں ہزاروں اشعار ہیں ایک شعر بھی ایسا نہیں نکلتا جو اہل زبان کا کلام سمجھا جائے۔ آزاد نے دالہ داغستانی کے حال میں لکھا ہے کہ ’’چونکہ میری اور ان کی بہت کم صحبت رہی ہے اس لیے میں نے نہ ان کا ذکر سرد آزاد میں کیا اور نہ وانہوں نے میرا ذکر ریاض الشعراء میں کیا۔ اپنے خیال کے متعلق آزاد نے جو کچھ لکھا ہے صحیح لکھا۔ لیکن دالہ داغستانی کی نسبت ان کا نرا حسن ظن ہے ورنہ داغستانی آزاد کے کلام کو اس قابل کب سمجھتا تھا کہ تذکرے میں درج کرتا۔ اس نے جابجا تصریح کی ہے کہ ہندوستانی شعرا جس زبان مٰں شعر کہتے ہیں خدا جانے کس ملک کی زبان ہے۔ آزاد کے علمی کارناموں کے تذکرے میں مآثر الامراء کا ذکر قلم انداز نہیں کیا جا سکتا۔ یہ کتاب کتاب فن تاریخ میں اپنے موضوع کے لحاظ سے ایک ایسی کتاب ہے جس کی نظیر عربی زبانمیں بھیباوجود اس وسعت اور فراوانی مواد کے موجود نہیں۔ صمصام الدولہ شاہ نواز خان ‘نواب آصفجاہ دکن (مورث اعلائے حضور نظام دکن) کے امراء میں سے تھے۔ انہوں نے ایک کتاب خاص اس موضوع پر لکھنی چاہی کہ بابر کے زمانے سے اخیر عہد تک دولت تیموریہ میں جس قدر عہدہ داران سلطنت گزرے ہیں سب کے حالات قلم بند کیے جائیں چنانچہ مآثر الامرا کے نام سے اس کتاب کی تدوین و ترتیب شروع کی پورے پانچ برس اس کام میں صرف ہوئے اگرچہ امیر موصوف کا علمی پایہ خود اس قدر بلند تھا کہ جو ایسی تصنیف سے عہد برا ہونے کے لیے کافی تھا۔ تاہم امارت کی راحت پرستی سے حسب دلخواہ سامان نہ ہو سکا۔ امیر موصوف اس نکتے سے غافل نہیں تھے انہوںنے اس موقع پر آزاد کو یاد کیا۔ یہ اس وقت اپنے وطن بلگرام میں تھے وہین قاصد بھجا اورسفر کے لیے ہر طرح کے سامان مہیا کیے ۔ میں نے حیدرآباد میں خود آزاد کے ہاتھ کا لکھا ہوا ایک خط دیکھا ہے جس میںوہ ایک دوست کو لکھتے ہیں کہ نواب صمصام الدولہ نے مآثر الامرا کا مسودہ بھیجا ہے کتاب اچھی ہے لیکن چونکہ ترتیب کے لحاظ سے سخت اصلاح کی محتاج ہے میں نے نواب موصوف کو لکھا کہ یہ کام اتنی دور سے انجام نہیں پا سکتا۔ نواب نے میرے لیے پالکی کی ڈاک کا انتظام کر دیا۔ دو مہنے میں اورنگ آباد پہنچون گا۔ اور مسودہ کو درست کروں گا۔ اس زمانے کے امر کے علمی شوق کو دیکھو کہ ہزاروں کو س کے فاصلے سے اہل فن کو ان کاموں کے لیے بلواتے تھے بہرحال آزاد نے اورنگ آباد پہنچ کر کتاب کی اصلاح و ترتیب کی۔ لیکن بدقسمتی یہ کہ نواب موصوف ایک لڑائی میںمارے گئے۔ اور ا ن کے کتب خانے کے ساتھ یہ کتاب بھی اوراق خزاں کی طرح برباد ہو گئی۔ آزاد نے بڑے تفحص سے پورے ایک برس کے بعد مسودہ کا پتہ لگایا لیکن تمام اجزا درہم برہم ہو گئے تھے۔ بڑی مشکل سے اور دیدہ ریزی سے آزاد نے ان کی ترتیب کی لیکن قطب الملک عبداللہ خان کا حال سرے سے نہ تھا۔ امیر الامراء حسین علی خان کا تذکرہ ابتدا سے ناقص تھا۔ آصف جاہ و نظام الدولہ کا حال خود مصنف نے قلم انداز کر دیا تھا۔ آزادنے ان سب کے حالات خود لکھے اورکتاب میں شامل کیے۔ ابوالفضل اور سعد اللہ خان کا حال بھی مسودہ میں نہ تھا۔ غرض آزاد نے مسودہ کے اجزاء مرتب کیے۔ ناتمام حالات کی تکمیل کی حمد و نعت لکھی۔ انہی کی محنت اورکاوش کا نتیجہ ہے کہ اسلام کے تاریخی خزانے میں ایک ایسے نایاب جوہر کا اضافہ نظر آتا ہے اسی کے ساتھ ہم کو ایشیا ٹک سوسائٹی کا ممنون ہونا چاہیے جس نے اس بیش بہا سرمایہ کو شائع کر کے عام کر دیا۔ معاصرین اور علمی صحبتیں آزاد کا عہد وہ عہد تھا جب سلطنت تیموریہ کا آفتاب ڈھل چکا تھا۔ اس بنا پر علمی دربار کے ارکان بھی اس کے پایہ نہیں رہے تھے۔ تاہم ملا نظام الدین‘ محب اللہ بہاری‘ عبدالجلیل بلگرامی‘ شیخ علی خزین‘ خان آرزو‘ دالہ داغستانی وغیرہ جیسے فاضل اورنکتہ سنج موجود تھے۔ آزاد کو ان میں سے اکثر شہروں سے صحبتیں رہیں ان صحبتوں میں ان کے فضل و کمال ‘ اخلاق و عادات کے جوہر زیادہ کھلتے ہیں اس لیے ہم ان کو ذرا تفصیل سے لکھنا چاہتے ہیں۔ ایک دن نواب ناصر جنگ شہید کے ہاں (فرزند آصفجاہ) جن کا ذکر ذرا تفصیل سے آگے آٹا ہے اہل سخن کامجمع تھا کسی نے مرزا صائب کا یہ شعر پڑھا۔ اہل کمال رالب اظہار خامشی است منت پذیر ماہ ناتمام از ہلال نیست اس کے معنی میں سخت اختلاف ہوا اور واقعی اختلاف کا موقع تھا۔ ماہ تمام یعنی بدر کا ہلال سے منت پذیر نہ ہوناایک بے معنی سی بات تھی حاضرین بڑے زور شور سے گرم مباحثہ تھے کہ دفعتہ آزادنے کہا کہ یہاں ماہ تمام سے بدر مراد نہیں بلکہ پورے مہینے کا چاند مراد ہے۔ شعر کا مطلب یہ ے کہ اہل کمال کا چپ رہنا بھی ان کے کمال کا اظہار کر دیتا ہے۔ لیکن اس دعوے کی شاعرانہ دلیل یہ ہے کہ جو مہینہ انتیس دن کا ہوتا ہے ماہ نو کا محتاج ہوتا ہے۔ لیکن جو ہمیشہ پورے تیس دن کا ہوتاہے اس کوہلال کی حاجت نہیں سب نے آزاد کے معنی فہمی کی داد دی۔ ایک دن نواب موصوف دربار میں آئے تمام شعرا وفضلائے دربار مثلاً صمصام الدولہ ‘ شاہنواز خان ‘ موسوی خان ‘ جرات اورنگ آبادی ‘ رضوی خان‘ میراز جان رسا‘ نقد علی خان ایجاد ‘ وغیرہ ہمرکاب تھے۔ نواب نے تازہ غزل جو آزاد سے اصلاح پا چکی تھیں پڑھنی شروع کی ۔ ایک شعر میں سرو کو خراماں باندھا تھا اس شعر پر سب کی نگاہیں معترضانہ اٹھیں۔ نواب نے آزاد کی طرف دیکھا یعنی شعر آپ کی نظر سے گزر چکا ہے۔ آزاد نے فوراً صائب کا شعر سند میں پڑھا۔ یک راہ برآراز آستین دست نگارین در چمن تادستہا پنہاں کند سر و خرامان در بغل جرأت نے کہا کہ مرزا صائب سے تعجب ہے کہ سروکو خراماں باندھا سرو چلتا پھرتا نہیں خراماں کیوں کر ہو سکتاہے ۔ آزاد نے کہا شاعر ی کی بنیاد تخیل پر ہے۔ شاخیں جو ہوا کے اشارے سے ہلتی ہیں۔ جس سے درخت جھومتا ہوا نظر آتا ہے یہی درخت کا خراماں ہوتا ہے ۔ عربی میںاسی لحاظ سے شاخ کو میاد کہتے ہیں صائب کے سوا اور شعراء نے بھی سرو کو خراماں باندھا ہے خواجہ حافظ فرماتے ہیں: سرو از صبا گرد دچمان تاچوں قدت باشد رواں ہر چند بخرامد بآں سرو خرامان کے رسد شیخ علی حزین نے اس زمانے کے سب سے بڑے شاعر تھے۔ جس زمانے میں وہ ایران سے چل کر ہندوستان جا رہے تھے جب سیوستان پہنچے تو اتفاق سے آزاد سیوستان سے روانہ ہو کر وطن وک جا رہے تھے راستے میں ایک مقام پر اتفاقیہ ملاقات ہو گئی۔ بہت پر لطف صحبت رہی۔ حزین اگرچہ کسی کو خاطر میں نہیں لاتے تھے لیکن معلوم نہیں کس خیال سے آزاد کی بڑی قدردانی کی۔ اپنے ہاتھ کی لکھی ہوئی غزلیںآزاد کو تحفتہ دیں۔ خان آرزو نے حزیں پر جو اعتراضات کیے ہیں ان میںسے بعض کا جواب آزاد نے خرانہ عامرہ میں دیا ہے اور اچھی سندیں بہم پہنچائی ہیں۔ خان آرزو سے آزاد کی غائبانہ ملاقات تھی خان موصوف نے اپنے تذکرہ مجمع النفایس میں آزاد کا ذکر دو جگہ کیا ہے اور خوبی سے کیا ہے۔ شاہ آفرین لاہور ی پنجاب کے مشہور شاعر تھے آزاد جس زمانے میں سندھ کی طرف جا رہے تھے ۔ ۲۹ محمر سنہ ۱۱۴۳ھ میں لاہور میں ان سے ملاقات ہوئی۔ دوسری دفعہ سندھ سے واپس جاتے ہوئے رجب سنہ ۱۱۴۷ھ لاہور میں اترے اور پانچ دن تک قیام رہا۔ اس زمانے میں متعدد صحبتیں رہیں۔ آزاد ید بیضالکھ چکے تھے آفرین نے بڑے اصرار سے اس ک نقل لی اور اپنی مژنوی انبان معرفت ان کی نذر کی۔ حاکم لاہوری شاہ آفرین کے شاگرد تھے اور دربار شاہی سے توسل رکھتے تھے۔ آخر ترک تعلق کر کے واقف لاہوری کے ساتھ حرمین کا قصد کیا۔ واقف بیمار ہو کر سورت میں رہ گئے ۔ حاکم کو حج کی دولت نصیب ہوئی حج سے واپس آ کر حاکم اور واقف دونوں اورنگ آباد میں آئے۔ یہیں آرزو سے ملاقات ہوئی۔ حاکم نے یہاں رہ کر ایک تذکرۃ الشعرا لکھا جس میں صرف ان شعرا کا حال قلم بند کیا جن کو خود اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا تحفۃ المجالس نام رکھا۔ آزاد سے ذکر کیا تو انہوں نے کہا کہ موضوع کی مناسبت سے مردم دیدہ کا زیادہ مناسب ہو گا۔ حاکم پھڑک اٹھے اور یہی نام رکھا۔ خاتمے میں اس کا ذکر بھی کیا ہے چنانچہ کہتے ہیں۔ نسخہ تازہ کردہ ام تالیف کہ ازو تازہ شد روان سخن نام او کرد مردم دیدہ آنکہ بودہ است رازدان سخن اسم سامی او غلام علی است سرو آزاد بوستان سخن دالڈ داغستانی سے آزاد کی صحبت برآور نہ ہوئی۔ والد اور آزاد کا ساتھ سفر میں ہوا۔ سیوستان سے دلی تک دونوں ہم عنان آئے۔ ایک دن عالہ نے آزاد سے کہا کہ آئو ہم تم گھوڑے دوڑائیں۔ آزاد نے اول انکار کیا لیکن دالہ کے اصرار سے مجبور ہونا پڑا۔ دالہ کی سواری میں ایرانی گھوڑا تھا تاہم آزاد کے ہندی گھوڑیکا مقابلہ نہ کر سکا اورپیچھے رہ گیا دالہ نے نہایت برا مانا ایک دن آزادنے یہ شعر پڑھا۔ زدہ ام برسر جہاں پاپوش بے سبب این برہنہ پائی نیست دالہ نے کہا کہ ہمارے ملک میں کفش کہتے ہیں۔ پاپوش نہیںکہتے۔ آزاد نے مرزا صائب کا یہ شعر پڑھا۔ چرخ دردے است کہ از خرمن من خاستہ است خاک گردے است کہ افشاندہ پاپوش من است ایک دن دالہ نے کہا کہ طیارہ کا لفظ طاحطی سے ہے یاتائے قرشت سے آزاد نے کہ اکہ یراز محمد رفیع کے شعر سے مستنبط ہوتا ہے کہ طائے حطی سے ہے۔ دارد چومرغ عمرت پرواز بس بہ سرعت اسباب عیس و عشرت طیار گو نہ باشد میرزا سعید اشرف کا کلام بھی اس کی تائید کرتا ہے۔ می پرد باز از ہوئے عشق اورنگ ازرخم گرچہ بازنجیر موج بادہ طیارش کنم نور العین واقف سے بہت یارانہ تھا۔ مختلف وقتوں میں آزاد نے ان کی بڑی مدد کی۔ ایک دفعہ ایک اورنگ آباد سے ہندوستا ن کو جارہے تھے۔ راستہ میں ڈاکہ پڑا۔ جو کچھ کائنات تھی سب جاتی رہی۔ صرف ایک عینک اورتھوڑا سا پار جو مہوسی کے شوق میں ساتھ رہتا تھا بچ گیا۔ واقف نے پالاپور پہنچ کر آزاد کے پاس ایک قاصد بھیجا اور حقیقت حال سے اطلاع دی ۔ خط میں یہ شعر بھی لکھا تھا: عینکے و پارہ سیماب با ماندہ است چشم بیخواب و دل بیتاب با ماندہ است آزاد نے ہنڈوی کے ذریعہ سے کچھ روپے بھیج دیے۔ (الندوہ جلد دوم نمبر ۲) اپریل سنہ ۱۹۰۵ء فرید وجدی بک ہندوستان اور مصر کے مسلمانوں کی حالت اگرچہ اکثر باتوں میںملتی جلتی ہے ۔ لیکن بعض حالات میں تعجب انگیز اختلاف ہے۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ ہندوستان میں اب تک ہر قسم کی علمی ‘ سیاسی‘ تمدنی کام جو انجام پائے ہیں وہ قدیم تعلیم یافتہ بزرگوں کے ہاتھ سے انجام پائے ہیں۔ سرسید‘ نواب محسن الملک ‘ نواب انتصار جنگ ‘ آزاد‘ نذیر احمد ‘ حالی قدیم طریقہ کے تعلیم یافتہ ہیں۔ بخلاف اس کے مصر میں جو کچھ ہوا ہے یا ہو رہا ہے سب جدید تعلیم یافتہ لوگوں کا زور دست و بازو ہے۔ مصطفے کامل پاشا جو سیاست مصر کاعلمبردار ہے قاسم بک امین جس نے سب سے پہلے جنس لطیف کی آزادانہ حمایت کی فرید وجدی بک جس نے فلسفہ حال اور اسلام کی تطبیق پر ایک وسیع لٹریچر پیدا کر دیا سب کے سب جدید تعلیم کی پیداوار ہیں۔ فرید وجدی بک کی تصنیفات کا چونکہ ہم نے بھی اپنی تصنیفات میں جابجا ذکر کیاہے۔ اس لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ہم اس کے مختصر حالات ناظرین؎۱ کو پیش کریں۔ فرید وجدی بک سنہ ۱۸۷۵ء میں بمقام سکندریہ پیدا ہوا۔ ان کے والد کا نام مصطفے بک وجدی ہے جو نہر سویز کے محکمہ میں دکان کے منصف پر ممتاز تھے۔ فرید وجدی ۴ برس کی عمر میں سکندریہ کے ایک سکول میں مدرسہ اسمعیل آفندی کے نام سے مشہور ہے ۔ داخل ہوئے۔ نویں برس میں اس مدرسہ کوچھوڑ کر انہوںنے حمزہ قبطان کے مدرسہ میں نام لکھوایا ۔ پھر مالینو فالو کے سکول میں داخل ہوئے ۔ سنہ ۱۸۸۲ء میں جب ان کے والد سویز سے بدل کر قاہر ہ میں آ گے تو یہ بھی ان کے ساتھ آئے اور مدرسہ توفیقیہ میں داخل ہوئے۔ لیکن ان کے والد نے اس خیال سے کہ یہ جلد تعلیم سے فارغ ہو جائیں گے خانگی طور پر بھی تعلیم کا انتظام کیا۔ پھر ان کے والد دمیاط میں بھیج دیے گئے۔ یہ بھی والد کے ساتھ چلے آئے۔ یہاں انہوں نے معمولی درسی علوم چھوڑ کر خاص فلسفہ پر توجہ کی اور اسلا م و فلسفہ کی مطابقت پر غور کرتے رہے۔ چنانچہ ۱۸۹۸ء میں مذہب اور تمدن کی مطابقت پر ایک کتاب لکھی جس کا نام تطبیق الدیانۃ الاسلامیہ علیٰ نواسیس الطبیعۃ ہے۔ ان کے والد پھر بدل کر سویز آ گئے جہاں انہوں نے الحیواۃ کے نا م سے ایک ماہوار پرچہ نکالا جو ایک مدت تک نکل کر بند ہو گیا اس میں عموماً مذہبی اور فلسفیانہ مضامین ہوتے تھے۔ لیکن چونکہ مصر کی آب و ہوا میں آج کل پالٹکس سرایت کر گئی ہے اسلیے یہ اس دائرہ میں محدود نہیں رہ سکے۔ اور ایک روزانہ پرچہ دستور کے نام سے نکالا جو نہایت دلیری کے ساتھ اپنے فرائض ادا کرتاتھا۔ فرید وجدی نے اس وقت تک جو کتابیں تصنیف کیں حسب ذیل ہیں: ۱۔ تطبیق (اوپر گزر چکی ہے) یہ کتاب بھی فرنچ زبان میں لکھی تھی۔ ۲۔ الفلسفہ الحقہ فی بدائع الاکوان ۳۔ الحدیقۃ الفکریہ فی اثبات اللہ بالبراہین الطبیعیۃ ۴۔ المرا ۃ المسلمۃ ۵۔ الاسلام فی عصر العلم ‘ یہ بھی پانزدہ روزہ پرچہ تھا۔ ۶۔ صفوۃ العرفان فی تفسیر القرآن۔ ۷۔ سفیر الاسلام الیٰ سائر الاقوام۔ ۸۔ کنز العلوم و اللغۃ ‘ یہ گویا انسائیکلو پیڈیا ہے ۔ چالیس روپیہ قیمت ہے ۔ ایک عجیب بات ہے کہ باوجود تعلیم جدید کے عورتوں کی آزادی اور خود مختاری کے متعلق اس کے خیالات جدید تعلیم کے بالکل مخالف ہیں قاسم بک امین کی کتاب تحریر المراۃ کا اس نے جو جواب لکھا وہ درحقیقت لاجوا ب تھا۔ یہ بھی تعجب انگیز ہے کہ بخلاف عام جدید تعلیم یافتہ لوگوں کے وہ فرائض مذہبی کا نہایت پابند ہے۔ کسی وقت کی نماز میں کبھی تاخیر نہیں ہو سکتی۔ شراب کو کبھی اس نے ہاتھ تک نہیں لگایا۔ کاش ہمارے ملک میں نوجوانوں میں بھی کوئی فرید وجدی ہوتا۔ فرید وجدی کے کمالات کے اعتراف کے ساتھ ہم کو کسی قدر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ان کی مذہبی معلومات سطحی اور سرسری ہیں۔ اس لیے جب وہ حدیث یا قرآن مجید کے متعلق کچھ لکھتے ہیں تو ان کی کم مایگی کی جھلک صاف نظر آتی ہے۔ (الندوہ جلد ۵ نمبر ۶) ستمبر سنہ ۱۹۰۸ء اختتام۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔The End