Darbar-E-Akbari دربار اکبری مصنف شمس العلماء مولانا محمد حسین آزاد حصہ اول پیش لفظ ’’ابتدا میں لفظ تھا۔ اورلفظ ہی خدا ہے‘‘ پہلے جمادات تھے۔ان میں نمو پیدا ہوئی تو نباتات آئے۔ نباتات میں جبلت پیدا ہوئی تو حیوانات پیدا ہوئے۔ ان میں شعور پیدا ہوا تو بنی نوع انسان کا وجود ہوا۔اس لیے فرمایا گیا ہے کہ کائنات میں جو سب سے اچھا ہے، اس سے انسان کی تخلیق ہوئی۔ انسان اور حیوان میں صرف نطق اور شعور کا فرق ہے۔ یہ شعور ایک جگہ پر ٹھہر نہیں سکتا۔ اگر ٹھہر جائے تو پھر ذہنی ترقی،روحانی ترقی اور انسانی ترقی رک جائے۔تحریر کی ایجاد سے پہلے انسان کو ہر بات یاد رکھنا پڑتی تھی۔علم سینہ بہ سینہ اگلی نسلوں کو پہنچتا تھا۔ بہت سا حصہ ضائع ہو جاتا تھا۔ تحریر سے لفظ اور علم کی عمر میں اضافہ ہوا۔ اور انھوں نے نہ صرف علم حاصل کیا بلکہ اس کے ذخیرے میں اضافہ بھی کیا۔ لفظ حقیقت اور صداقت کے اظہار کے لئے تھا۔ اس لئے مقدس تھا۔ لکھے ہوئے لفظ کی اور اس کی وجہ سے قلم اور کاغذ کی تقدیس ہوئی۔بولا ہوا لفظ آئندہ نسلوں کے لئے محفوظ ہوا تو علمو دانش کے خزانے محفوظ ہو گئے۔ جو کچھ نہ لکھا جا سکا وہ بالاخر ضائع ہو گیا۔ پہلے کتابیں ہاتھ سے نقل کی جاتی تھیں،اور علم سے صرف کچھ ہی لوگوں کے ذہن سیراب ہوتے تھے۔ علم حاصل کرنے کے لئے دور دور کا سفر کرنا پڑتا تھا۔ جہاں کتب خانے ہوں، اور ان کا درس دینے والے عالم ہوں۔ چھاپہ خانے کی ایجاد کے بعد علم میں وسعت آئی۔ کیونکہ وہ کتابیں جو نادر تھیں، وہ کتابیں جو مفید تھیں آسانی سے فراہم ہوئیں۔ قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کا بنیادی مقصد اچھی کتابیں کم سے کم قیمت پر مہیا کرنا ہے۔ تاکہ اردو کا دائرہ نہ صرف وسیع ہو بلکہ سارے ملک میں سمجھی جانے والی، بولی جانے والی،ا ور پڑھی جانے والی اس زبان کی ضرورتیں پوری کی جائیں۔ اور نصابی اور غیر نصابی کتابیں آسانی سے مناسب قیمت پر سب تک پہنچیں۔ زبان صرف ادب نہیں ،سماجی اور طبعی علوم کی کتابوں کی اہمیت ادبی کتابوں سے کم نہیں، کیونکہ ادب زندگی کا آئینہ ہے۔ زندگی سماج سے جڑی ہوئی ہے۔ اور سماجی ارتقا اور ذہن انسانی کی نشو ونما طبعی انسانی علوم اور ٹیکنا لوجی کے بغیر ممکن نہیں۔ اب تک بیورو نے اور اب تشکیل کے بعد قومی اردو کونسل نے مختلف علوم اور فنون کی کتابیں شائع کی ہیں۔اور ایک مرتب پروگرام کے تحت بنیادی اہمیت کی کتابیں چھاپنے کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ یہ کتاب اس سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ امید ہے کہ یہ اہم علمی ضرورت پورا کرے گی۔ میں ماہرین سے یہ گزارش بھی کرو ں گا کہ اگر کوئی بات ان کو نادرست نظر آئے،تو ہمیں لکھیں تاکہ اگلے ایڈیشن میں نظر ثانی کرتے وقت خامی دور کر دی جائے۔ ڈاکٹر محمد حمید اللہ بھٹ ڈائریکٹر قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان وزارات ترقی انسان وسائل، حکومت ہند نئی دہلی مقدمہ بسم اللہ الرحمن الرحیم حضرت قبلہ وکعبہ رحمتہ اللہ علیہ کی تصنیف ایسی نہیں جس پر میرے جیسا ہمیچدان کج مج بیان کسی مقدمہ لکھنے کی جرات کرتا، لیکن کتاب ھذا کا پہلا ایڈیشن جو مطبع رفاہ عامہ لاہور میں چھپا تھا۔ (جس کے مالک ومینجر میر ممتاز علی صاحب ہیں۔) اس کے آغاز میں مینجر صاحب موصوف نے ایک ایسا عجیب وغریب مقدمہ تحریر کیا ہے۔جس کی وجہ سے نہ صرف مجھے اس بات کی ضرورت محسوس ہوئی کہ دوسرا ایڈیشن اپنے اہتمام سے کسی دوسرے مطبع میں چھپواؤں، بلکہ مینجر صاحب مو صوف کے تحریر کردہ مقدمہ کی اصلی حقیقت ظاہر کرنے کے لئے مجھے اس امر کی جسارت کرنے پر مجبور ہونا پڑا کہ کتاب ہذا کے ساتھ ایک مختصر مقدمہ شامل کر دوں۔ میر ممتاز علی نے پہلے ایڈیشن کے ساتھ جو مقدمہ لکھا ہے۔ اس میں تحریر کا انداز ایسا رکھا ہے کہ گویا دربار اکبری کا کوئی ایسا مسودہ مرقومہ حضرت قبلہ مرحوم ان کو دستیاب نہیں ہوا، جو مسودہ سمجھا جانے کے قابل ہو۔بلکہ ایک ٹوٹا پھوٹا ، بے ربط ،بے ترتیب،بے سرو پا مجموعہ چند پرچوں اور پرزوں اور دیگر کا غذات کا ایسی مشکلات ومصائب طے کرنے کے بعد جو ہفت خوان رستم کی مشکلات سے مشابہ تھیں، میر صاحب موصوف کے ہاتھ آیا۔اور ایسی جستجوئیں اور تفتیشیں ان کاغذات کی بہم رسانی کے لئے ان کو کرنی پڑیں،جو بہت ہی قابل داد ہیں، سب سے زیادہ افسوس ناک غلط بیانی میر صاحب کے لکھے ہوئے مقدمہ میں یہ تھی کہ انہوں نے حضرت قبلہ مرحوم کی نسبت یہ تحریر کیا کہ ’’وہ یہ سن کر کہ میں ان کا مسودہ لینے کے درپے ہوںجوش جنون میں مسودات کا ایک بستہ لے کر دریائے راوی پر پہنچے اور پل پر کھڑے ہو کر اس کو دریا برد کر دیا۔یقین کیا جاتا ہے کہ اس میں دربار اکبری کا صاف شدہ مسودہ ہو گا۔‘‘اس فرضی دریا بردگی کے قصے پر (جس کا علم سوائے میر صاحب کے اور کسی کو نہیں جو غالبا اس وقت ہمراہ ہو ں گے۔)میر صاحب موصوف نے کمال اندوہ وقلق اور درد وسوز کے ساتھ یہ بھی ارقام فرمایا ہے۔ خدا جانے اس سخن ور نے نظم ونثر کے کیا کیا موتی پروئے ہوں گے جو ہماری بد قسمتی سے دریا میں غرق ہو گئے‘‘۔غرض کہ میر صاحب کے اس بیان کے ساتھ جب ان کے مزید ایسے بیانات کو شامل کیا جائے،جن کا ما حصل یہ ہے کہ جو مسودہ شاگردوں کا صاف کیا ہوا تھا، وہ غلطیوں کا مجموعہ تھا۔اور جو مسودہ مصنف نے اپنے ہاتھ سے لکھا تھا۔ وہ چھوٹے چھوٹے پرزوں پر تھا۔ جو علاوہ بہت کٹے ہوئے اور مشکوک ومشتبہ ہونے کے پڑھے جانے کے بھی قابل نہ تھے۔اور پینسل سے لکھی ہوئی تحریریں قریبا محو ہو چکی تھیں۔اور ان ہی وجوہات سے میر صاحب کو مسودہ میں جا بجاتصرفات کرنے پڑے۔(جس میں خذف، ایزاد اور تبدیلی غرض کہ ہر قسم کے تصرفات شامل ہیں۔) اور اوراق کے اوراق جو گم تھے،ان کی گم شدگی دیکھ کر بقول میر صاحب کے ’’ بجز اس کے اور کیا چارہ ہو سکتا تھا کہ اس حصہ ناقص کو میں خود لکھ کر پورا کروں۔ تو ان بیانات کے مطالعہ سے پڑھنے والے کے دل میں اس کے سوا اور کیا اثر پیدا ہو سکتا تھا۔ کہ بحٰثیت مجموعی کتاب دربار اکبری دراصل قریبا میر موصوف ہی کی عرق ریزی اور محنت کا نتیجہ ہے۔ ورنہ حضرت قبلہ مرحوم کے صاف کردہ مسودات تو دریائے راوی میں ہی غرق ہو چکے تھے۔علاوہ بریں بقول میر صاحب موصوف ضمیمہ دربار اکبری تو تمام وکمال ہی میر صاحب موصوف کا اپنا لکھا ہوا ہے۔۔ ایسے حالات میں دربار اکبری میں اسی قدر فرق آجانے کا احتمال ہے ،جس قدر حضرت قبلہ مرحوم اور میر صاحب کی وقعت میں تفاوت ہے۔ اس لئے اس امر کی سخت ضرورت محسوس ہوئی کہ اصلی واقعات کا پبلک پر انکشاف ہو جائے۔ حقیقت حال یوں ہے کہ جب میر ممتاز علی نے مطبع رفاہ عام کی مشینیں ولایت سے منگوائیں،قدرتی طور پر ان کو چھاپنے کے لئے کتابوں کی تلاش ہوئی۔چنانچہ انھوں نے مجھ سے بھی کتابوں کے چھپوانے کی درخواست کی، میں نے بغیر کسی شک کے دربار اکبری اور سخن دان فارس کے حصہ اول کا مسودہ میر صاحب کو دے دیا۔ اور معاہدہ یہ ہوا کہ دونوں کتابوں کیخرچ چھپوائی و آمدنی وفروخت میں میرا اور ان کا حصہ نصف نصف ہو گا۔ مسودوں کے لے جانے کے تقریبا چھ مہینے بعد انہوں نے مجھے ایک طویل خط لکھا، اس میں بہت پیچ در پیچ شرائط دربار اکبری کے چھاپنے کی نسبت پیش کیں، جن کو میں نے منظور نہ کیا اور صاف لکھ دیا کہ آپ دربار اکبری کا مسودہ واپس کر دیں۔جب میر صاحب نے دیکھا کہ میں کسی طرح راضی نہیں ہوتا تو انہوں نے پھر وہی شرط سابقہ نصف نصف حصہ خرچ و آمدنی کو منظور کر کے کتاب چھاپنی شروع کر دی۔ مقدمہ کے صفحہ اول پر جو میر صاحب نے دربار اکبری کے مسودہ حاصل کرنے کی کوشش کا ذکر کیا ہے۔ وہ بالکل صحیح نہیں ہے، وہ کبھی کتب خانہ مصنف مر حوم میں داخل ہو کر کسی کتاب کو چھونے کے مجاز نہیں ہو سکتے تھے۔صفحہ نمبر 2 پر جو میر صاحب نے مسودوں کا بستہ دریائے راوی میں ڈالنے کا ذکر کیا ہے۔ یہ بھی درست نہیں، میں نے جس وقت حضرت قبلہ وکعبہ مرحوم کی طبیعت میں مجذوبیت کا اثر دیکھا تو فورا تمام مسودے جو اب تک چھپوا چکا ہوں، کتب خانے میں سے خود نکال لیے۔جو مسودہ جو میں نے میر صاحب کو دیا تھا۔ وہ آخری مرتبہ صاف شدہ مسودہ تھا۔ لیکن چونکہ حضرت مرحوم کا قاعدہ تھا کہ ہر ایک مسودہ میں خواہ وہ کتنی ہی دفعہ دیکھا ہوا ہو، ہمیشہ ترمیم کرتے رہتے تھے۔اس لئے وہ جگہ جگہ سے ضرور کٹا ہوا تھا۔ حضرت مرحوم نے تمام حالات اعیان دربار اکبری کے علیحدہ علیحدہ کاغذوں میں ترتیب دے کر رکھ چھوڑے تھے۔اور غالبا اسی ترتیب سے ان کو کتاب میں درج کرنا منظور تھا، اگر چہ مسودہ مذکور کٹا ہوا تھا، اور کہیں کہیں چیپیاں بھی لگی ہوئی تھیں۔ مگر وہ ایسی حالت میں تھا کہ ایک سمجھ دار کاتب ایسے شخص کی نگرانی میں جو مصنف کی تحریر پڑھنے کا عادی ہو ،اچھی طرح سے نقل کر سکتا ہے۔ چنانچہ سخن دان فارس کا مسودہ جو میں نے ۱۹۰۷ ئ؁ میں چھپوایا تھا۔ اور مجھے اس کے چھپوانے میں کوئی دقت پیش نہ آئی تھی۔ صفحہ ۳ کے آخر میں جو میر صاحب نے لکھا ہے۔ کہ بعض ناقص حصوں کو میں نے خود لکھ کر پورا کیا ،درست نہیں ہے۔ تمام حالات بالکل مکمل تھے۔ اور حضرت مرحوم مصنف اپنے مختلف احباب سے بار ہا حالت صحت میں ذکر کر چکے تھے کہ مسودہ بالکل مکمل ہے۔ اور صرف چھپوانے کی دیر ہے۔مسودہ جو ں کاتوں میں نے مقفل کر رکھا تھا۔ کوئی کاغذ بھی اس کا ضائع نہیں ہوا تھا۔ سنین کی صحت کی نسبت جو میر صاحب نے لکھا ہے۔ کہ میں نے علی قلی خاں شیبانی کی جگہ علی قلی خان سیستانی کر دیا ہے۔ یہ صحیح کو غلط کر دیا ہے۔ کیونکہ اصل میں علی قلی خاں شیبانی درست ہے۔ علی قلی خاں شیبانی قبیلہ تھا۔جہاں جہاں کتابوں کے حوالے دیے ہوئے ہیں۔ وہاں اصل کتاب کے مضمون شاگردوں یا دوستوں کے نقل کیے ہوئے موجود ہیں۔ چنانچہ ایک خط حافظ ویران مرحوم کا اصل مسودہ میں رکھا ہے۔ کہ میں منتخب التواریخ میں سے فلاں حصہ نقل کروا کر بھیجتا ہوں اور وہ نقل مسودہ میں شامل تھی۔صفحہ ۴ کے آخر میں جو تتمہ خود لکھنے کا ذکر میر صاحب نے کیا ہے۔ یہ بھی صحیح نہیں ہے۔ چونکہ الحق یعلوا ولا یعلیٰ کا ارشاد بالکل صحیح ہے۔اس لئے تائید غیبی یہ ہوئی کہ میر صاحب موصوف نے دربار اکبری چھاپنے کے بعد کتاب مذکورہ کا مسودہ جو میں نے ان کو دیا تھا، مجھے واپس کر دیا ،اور دیتے وقت وہ تتمہ کا مسودہ دستخطی حضرت مرحوم بھی نکالنا بھول گئے۔ جس کی نسبت انہوں نے ایسی دلیری سے لکھ دیا تھا۔ کہ وہ قریبا تمام وکمال ہی ان کے رشحات قلم کا نتیجہ ہے۔ تتمہ کے اس مسودے میں مجھے خدا داد خان دکنی ، سکندر خان ازبک، مرزا شاہرخ، تردی بیگ ترکستانی، قاضی نظام بدخشی، ملا عالم کابلی، برہان نظام شاہ، حسین نظام الملک، اسمعیل نظام الملک، ابراہیم برہان الملک،چاند بی بی، میر عبد الطیف قزوینی، میر غیاث الدین علی، خواجہ مظہر علی تربتی، حکیم الملک گیلانی، شاہ ابو المعانی، مرزا شرف الدین حسین، ابراہیم حسین ، گل رخ بیگم، حکیم محد مرزا، تورہء چنگیزی، ملا شیری، حضرت شیخ سلیم چشتی رحمتہ اللہ علیہ، حضرت محمد غوث گوالیاری رحمتہ اللہ علیہ، شیخ گدائی کنبوہ، ہیمو بقال، سادات بارہہ، سلیمہ سلطان بیگم، شمس الدین محمد تکہ خان، شہاب خان، ناصر الملک، ملا پیر محمد خاں، محمد سعید بہادر خان، حسین قلی خاں جہاں، اسمعیل قلی خاں، خواجہ امینا، خواجہ منصور، آصف خاں، عبد اللہ خاں ازبک، شاہ عارف حسینی، میاں عبد اللہ نیازی، سھر ندی، شیخ علائی، سلیمان کرائی، سید محمد میر عادل، رن تھنبور، نظام احمد بخشی، سید محمد جون پوری، حکیم مصری، پیر روشنائی، خاندان سوری کے حالات مصنف کے اپنے قلم سے درست کیے ہوئے مل گئے ہیں۔ جو کتاب مطبوعہ میں حرف بحرف نقل کیے گئے ہیں۔ اصل کتاب میں مصنف نے جگہ جگہ تتمہ کا حوالہ دیا ہے۔ یہی ایک بدہی ثبوت اس امر کا ہے کہ مصنف نے تتمہ لکھ لیا تھا۔ مسودات مذکورہ جس کا جی چاہے میرے پاس دیکھ سکتا ہے۔ صفحہ ۵ کے دوسرے پیرا گراف میں میر صاحب نے تحریر کیا ہے کہ جو خیالات قبلہ مرحوم سے وہ سنا کرتے تھے۔ ان کو اپنے الفاظ میں لکھ کر انہوں نے مقولہ آزاد ظاہر کیا ہے۔چنانچہ میر صاحب کے اصلی فقرات نقل کر دیئے جاتے ہیں۔ مصنف کا قاعدہ ہے کہ کسی کسی واقعہ کے بیان میں اپنے تئیں بہ لفظ آزاد خطاب کر کے اپنے دلی خیالات ظاہر کیا کرتا ہے۔مجھے چونکہ اپنے معزز استاد کے ہمراہ تقریبا پندرہ سال رہنے کا اتفاق ہوا تھا۔ اس لیے جہاں تک مجھے ان کی معیت سے ان کے عادات وخیالات سے آگاہی ہو سکتی تھی۔ اس کے لحاظ سے میں نے اسی طرح بعض واقعات پر ان کے دلی خیالات ظاہر کیے ہیں، اور چونکہ وہ انہی کے خیالات ہیں۔ اس لئے میں نے وہاں آزاد کا لفظ لکھنا ہی مناسب جانا ہے۔ درحقیقت یہ کام کئی سال کا تھا، جس کو میں نے چند ماہ میں ختم کیا‘‘۔ اس کے بارے میں سوائے اس کے اور کیا عرض کر سکتا ہوں کہ جس کا دل چاہے وہ اصلی مسودات دستخطی حضرت قبلہ مرحوم میرے پاس دیکھ کر اس بیان کی صحت کا خود اندازہ کر لے، اس موقع پر اس لطیفہ کا ذکر کرنا خالی از لطف نہ ہوگا کہ صفحہ ۶۹۷ سطر ۹ میں یہ فقرات درج ہیں۔آج سے پندرہ سولہ برس پہلے تک میں نے خود دیکھا کہ تورہ چنگیزی کا اثر باقی چلا آتا ہے۔ ان فقرات کو کم ازکم اس تتمہ میں خذف کر دینا چاہیئے تھا۔ جس کو میر صاحب تمام و کمال اپنی تحریر ظاہر کرتے ہیں۔ کیونکہ حضرت قبلہ مرحوم کا سفر بخارا کرنا تو سب کو معلوم ہے۔ مگر میر صاحب کو خود اقبال کرنا پڑے گا کہ وہ کبھی حدود ہندوستان سے باہر کبھی تشریف نہیں لے گئے۔ اس سے بڑھ کر ایک اور واقعہ جو میری نظر سے گزرا ہے۔ جو قابل ذکر ہے، یعنی بعض بعض حاشیے جو اصلی مسودات دستخطی حضرت قبلہ مرحوم میں موجود ہیں۔ ان کے جناب میر صاحب نے کتاب مطبوعہ میں بجنسہ ِ نقل کر کے نیچے اپنا نام یعنی ممتاز علی لکھ دیا ہے۔جن سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ میر صاحب کے اپنے نتائج طبع ہیں۔ ان حالات کا انکشاف پبلک کی اطلاعات کے لیے اشد ضروری تھا۔تاکہ ان کو کتاب ہذا کی وقت میں کوئی شبہ نہ ہو۔ ورنہ منتخب مبصران زبان اور چیدہ سخن دان تو حضرت قبلہ مرحوم کی زبان وکلام اور ان کے لطف بیان کو خود پہچان سکتے ہیں۔ چنانچہ مولانا شبلی سے مجھے ایک دفعہ پٹیالہ میں جناب آنر ایبل خلیفہ صاحب مرحوم کے مکان پر نیاز حاصل ہوا۔تو انہوں نے تعجب سے ظاہر فرمایا کہ جو مضمون میر ممتاز علی نے مقدمہ دربار اکبری میں لکھا ہے۔ کہ تتمہ ان کی تحریر ہے،درست ہے۔میں نے تمام حالات عر ض کر دیئے۔ انہوں نے فرمایا کہ تتمہ کی عبارت پڑھ کر مجھے پہلے ہی خیال ہوا تھا کہ یہ زبان مولوی صاحب کے سوا کسی دوسرے کی نہیں ہو سکتی، امید ہے کہ جو لوگ زبان کے نبض شناس ہیں،انہوں نے میر صاحب کے ان بیانات کی حقیقت اور وقعت کو پہلے ہی سمجھ لیا ہو گا۔لیکن جن صاحبان کو کوئی مغالطہ یا شکوک پیدا ہوئے ہوں ،ان کو اب اس امر کا عین الیقین ہو جانا چاہیئے کہ دربار اکبری میں کوئی قابل تذکرہ تحریف یا تصرف نہیں کیا گیا۔ بلکہ بحیثیت مجموعی یہ حضرت قبلہ مرحوم کی اصلی تصنیف اور ان کے دستخطی مسودات کے مطابق ہے۔۔۔ خاکسار محمد ابراہیم مصنف امر تسر مورخہ ۳ اگست ۱۹۱۰ئ؁ دیباچہ دہلی کے آخری تاجدار میرزا ابو ظفر بہادر شاہ ثانی کے وقت میں زوال و انحطاط کی جو صورت پیدا ہو گئی تھی ، اس نے خصوصیت کے ساتھ مسلمانوں کو اپنے مستقبل کے بارے میں عموماً فکر مند کر دیا تھا ۔ ملک الشعرا شیخ محمد ابراہیم ذوق نے بھی ایک قصیدے میں بادشاہ سے خطاب کر کے کہا تھا ؎ سوتے سیرت سے ہیں مردان دلاور ممتاز ورنہ صورت میں تو کچھ نہیں شہباز سے چپل (سر) سید احمد خاں نے ’’ آثار الضادید ‘‘ میں مسلم سلاطین کے تواریخی نقوش کی عکاسی کی ۔ پھر مغلیہ خاندان کے ایک جلیل القدر بادشاہ کی فتوحات کی شاندار داستان کو حیات تازہ عطا کرنے کے لیے ’’ آئین اکبری ‘‘ کی تصحیح کا کام کیا۔ اس قسم کے کاموں کافائدہ یہ ہوا کہ نئی نسل کو اپنے ماضی سے دلچسپی پیدا ہوئی۔ محمد حسین آزاد نے جو بعد میں ’’ شمس العلما ‘‘ ہوئے ، اسی زمانے میں ’’ ہمایوں نامہ ‘‘ کا مطالعہ کیا۔ لکھتے ہیں : ’’ فقط ایک گلبدن بیگم ہمایوں کی بہن تھی کہ اس نے ہمایوں نامہ لکھا تھا وہ نسخہ اب میرے پاس نہیں۔ دلی میں بڑی کوشش سے بہم پہنچایا تھا۔ اس کے پہلے ورق پر چند عورتوں کے حال اور بھی کسی نے لکھ دیئے تھے۔ وہ بھی شاعرانہ طور سے اور شاعری کے سلسلے میں ۔‘‘ (مکتوبات آزاد ، ص 35) آزاد نے ’’ اکبر نامے ‘‘ کا بھی مطالعہ کیا تھا اور اس کتاب سے وہ بہت متاثر ہوئے تھے۔ ’’ دربار اکبری میں انہوں نے جگہ جگہ اس کے بیانوں کو دوسری کتابوں کے مندر جات پر ترجیح دی ہے۔ تواریخ سے آزاد کو جو شغف پیدا ہو گیا تھا اس کااندازہ ان کے ایک خط کے اس اقتباس سے بھی کیا جا سکتا ہے : ’’ یہ (چاند بی بی) بھی بڑی با لیاقت اور صاحب ہمت بی بی دکن میں ہوئی ہے۔ اسنے نادرۃ الزمانی کہتے تھے۔ آپ وہاں سے اس کی حالات دریافت فرمائیں اور مجھے بھی عنایت کریں۔ انشاء اللہ کبھی کام آئیں گے۔ اسی طرح مصالح (کذا) اکٹھا ہوا کرتا ہے۔ رفتہ رفتہ عمارت تیار ہو جاتی ہے۔ ‘‘ (مکتوب ص 40) صاحبان تصنیف و تالیف کا طریقہ یہی ہے ۔ وہ اپنی دلچسپی کے موضوعات سے متعلق مسالہ جمع کرتے رہتے ہیں۔ پھر جب حالات ساز گار ہوتے ہیں۔ اس ذخیرہ کو اپنے طور پر مرتب کر کے کتاب پوری کرلیتے ہیں۔ اس ذکر سے یہ ظاہر کرنا مقصود ہے کہ کسی تصنیف سے متعلق آغاز کا ر کے زمانے کا تعین کرنا بہت مشکل ہے۔ آزاد نے ’’ دربار اکبری ‘‘ بڑے نے ذوق وشوق سے لکھی تھی۔ ان کے اس ذوق و شوق کی وجہیں کئی تھیں۔ ایک یہ بھی تھی کہ وہ سلطان جلال الدین محمد اکبر کے بارے میں یہ رائے رکھتے تھے کہ : ’’ وہ لکھنا پڑھنا نہ جانتا تھا۔ پھر بھی اپنی نیک نامی کے کتابے ایسے قلم سے لکھ گیا ہے کہ دن رات کی آمدورفت اور فلک کی گردشیں انہیں گھس گھس کر مٹاتی ہیں مگر وہ جتنا گھستے ہی اتنا ہی چمکتے ہیں ۔ اگر جانشین بھی اس رستے پر چلتے تو ہندوستان کے رنگا رنگ فرقوں کو دریائے محبت پر ایک گھاٹ پانی پلا دیتے بلکہ وہی آئین ملک ملک کے لئے آئینہ ہوتے۔ اس کے حالات بلکہ بات بات کے نکتے اول سے آخر تک دیکھنے کے قابل ہیں ۔ ‘‘ (دربار اکبری ص 1) امکان ہے کہ آزاد نے یہ رائے ’’ اکبر نامے ‘‘ کے مطالعے کے بعد قایم کی ہو۔ اگر ایسا ہے تو خیال کیا جا سکتا ہے کہ آزاد کی کتاب اسی کا عکس ہے۔ جس زمانے میں آزاد نے ’’ آب حیات ‘ ‘ لکھنے کا منصوبہ بنایا ، کم و بیش اسی وقت انہوں نے ’’ دربار اکبری ‘‘ کے لکھنے کا بھی ارادہ کر لیا تھا۔ جن لوگوں کو ’’ آب حیات ‘‘ کے سلسلے میں خطوط لکھے تھے۔ ان میں سے بعض سے ’’ دربار اکبری کے لیے بھی مواد فراہم کرنے کی درخواست کی تھی ۔ مثال کے طور پر مولوی محمد عظیم اللہ رعمنی کے بارے میں ان کا کہنا ہے : ’’ آب حیات ، کی برکت سے بندہ آزاد کو بھی ان کی خدمت میں نیاز حاصل ہوا ۔ ‘‘ اور رعمنی نے ’’ دربار اکبری ‘‘ کے لیے بھی بعض اطلاعات فراہم کی تھیں۔ آزاد نے اعتراف کیا ہے کہ : ’’ انہوں نے شفقت فرما کر ریاست قدیم اور واقفیت خاندانی کی معلومات سے جو نپور اور غازی پور زمنیہ کے بہت سے حالات عنایت کیے ۔ ‘‘ (ایضاًص 252) مواد کے حصول کی کوششوں سے قطع نظر ، معلوم ہوتا ہے کہ 1882 میں آزاد نہ صرف یہ کتاب لکھنے کا ارادہ مصمم کر چکے تھے بلکہ انہوں نے اس کے نام کا تعین بھی کر لیا تھا۔ اس سال کے 15 اکتوبر کے ایک خط میں انہوں نے لکھا ہے : ’’ خدا اس ، دربار ، سے فارغ کر دے تو آپ سے سرخرو ہوؤں ۔ مجھے دل سے خیال ہے ۔ آپ کیوں شرمندہ کرتے ہیں ؟ ‘‘ (مکتوبات ص 37) ’’ دربار اکبری ‘‘ کا پہلا مسودہ 1883میں مکمل ہوگیا تھا۔ آزاد کے 10 اگست کے ایک خط میں اس کی کیفیت اس طرح مذکور ہے : ’’ ایک نسخہ ، آب حیات ، طبع جدید بذریعہ عریضہ نیاز ار سال خدمت کیا ہے … ’ دربار اکبری ‘ کو لپٹ رہا ہوں مگر دوہی دن جم کر بیٹھا تھا کہ آنکھوں نے رنگ بدلا اور دماغ جواب دینے لگا ۔ خیز میں نے ایک دن آرام دیا۔ تخفیف معلوم ہوئی ۔ اب آہستہ آہستہ چلا جاتا ہے۔ خیر ۔ کام خدا کے فضل سے ہوگیا … اب جو لکھنا تھا وہ میں نے لکھ لیا اور ہر ایک حال مسلسل بھی ہو گیا۔ جو کام باقی ہے وہ فقط اتنا ہے کہ کہیں کوئی فقرہ بڑھا دیا، کہیں دو کو ایک کر دیا۔ تصویروں کے باب میں اتنا لکھا ۔ جناب سید صاحب نے جواب بھی نہ دیا۔ میں نے آٹھ دس تصویریں بہم پہنچائی ہیں۔ جس طرح ہو گا ا نہیں سے اس گڑیا کو سنوار کر حاضر کر دوں گا۔ ‘‘(مکتوبات ص 61تا 62) ’’ دربار اکبری ‘‘ اپنی ابتدائی صورت میں لکھی جا چکی تھی لیکن ’’ اس گڑیا ‘‘ کی آرایش وزیبایش کا کام ابھی باقی تھا ، اس لیے اسے منظر عام پر نہیں لایا جا سکتا تھا اور بقول سید جالب دہلوی اب بھی: ’’ لوگوں کو امید تھی کہ … (آزاد ) ، دربار اکبری ، کوبڑی رونق و شان سے سجائیں گے اور اس کے مینا بازار کی زمانہ حال کے لوگوں کو سیر کرائیں گے ۔ ‘‘ (دیپاچۂ مکتوبات ص 29) آزاد کے حالات بہت سازگار نہیں رہ گئے تھے لیکن وہ پورے انہماک کے ساتھ اپنے کاموں میں مصروف تھے ۔ ان کا کہنا تھا : ’’ اچھا مجھے پنشن بھی دے دیں گے تو قناعت کروں گا اور تصنیفات کو پورا کروں گا۔ اپنے لخت جگہ بچوں کو نیج جاں تڑپتا نہ چھوڑونگا۔ چھپائی کا کام دس بارہ دن سے زیادہ نہیں رہا۔ ’ آب حیات ‘ نے مجھے ہلاک کر دیا۔ مجھ سے بے وقوفی ہوئی ہے۔ دس مہینے کا کام تھا جو ڈیڑھ مہینے میں کیا ہے ۔ اللہ آسان کرے۔ ‘‘ (مکتوبات ص 56تا 57) اس غیر معمولی مشقت کی وجہ یہی تھی کہ وہ چاہتے تھے کہ جلد از جلد ’ دربار اکبری ‘ کو مکمل کر دیں لیکن کاموں کا سلسلہ کسی طرح ختم نہیں ہو رہا تھا۔ ایک کے بعد ایک نیا کام سامنے آجاتا تھا ۔ یکم ستمبر 1888کو آزاد نے لکھا تھا: ’’ میں نے سخندان فارس ‘ کو نظرثانی کر کے رکھ دیا ہے ۔ چاہا کہ اب ’ دربار اکبری ‘ کو سنبھالوں مگر مروت اور حمیت نے اجازت نہ دی کیونکہ استاد مرحوم شیخ ابراہیم ذوق کی بہت سی غزلیں قصیدے بے ترتیب پڑے ہیں اور میں خوب جانتا ہوں کہ ان کا ترتیب دینے والا میرے سوا دنیا میں کوئی نہیں۔ ‘‘ (مکتوبات ص 80) اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ’’ دیوان ذوق ‘‘ کی ترتیب کے بعد آزاد ’’ دربار اکبری ‘‘ کی طرف متوجہ ہونا چاہتے تھے لیکن غالباًوہ ایسا نہیں کر سکے۔ دیوان کی ترتیب (1891)کے کوئی پندرہ سال کے بعد 26 ستمبر 1906ء کو انہوں نے ذکر کیا تھا : ’’ یہ تو آپ کو معلوم ہے جکہ ’ مآثر الامرا ، اور ’ سوانح اکبری ‘ کسی زمانے میں دیکھی تھیں ۔ یہاں تلاش تھی اور نہیں ملتی تھیں۔ چند مقاموں میں پرانی کتابوں کا پتا لگا تھا۔ چھ دن میں بھاگ گیا اور دوڑا دوڑا آیا۔ جو کچھ ہاتھ لگا اسے دیکھتان گیا اور یاد داشتیں لیتا گیا۔ ’ مآثر الامرا ، بھی مل گئی۔ شکر کا مقام ہے کہ جو کچھ میں نے دانہ دانہ اور قطرہ قطرہ کر کے جمع کیا ہے وہ ’ مآثر الامرا ‘ سے بہت زیادہ نکلا۔ پھر بھی حق سے گزرنا کفر ہے۔ ہر شخص کے حال میں تین تین چار چار نکتے مل گیے اور اچھے مل گئے۔ سب سے زیادہ یہ کہ اب جو ’ دربار اکبری ‘ کا مشاہدہ کرے گا یہ نہکہہ سکے گا کہ آزاد کو ’ مآثر‘ ہاتھ نہیں آئی۔ (مکتوبات ص 31تا 32) ’’ مآثرالامرا‘‘ کے دستیاب ہو جانے پر آزاد کا خوش ہونا بجا تھا لیکن علم کا بحرذ خار ناپیدا کنار ہے۔ ساری کوششوں کے باوجود بعض مآخذ ایسے رہ جاتے ہیں جن تک صاحبان تصنیف کی رسائی نہیں ہوتی۔ آزاد بھی اس صورت حال سے مستثنا نہیں تھے۔ بہر نوع ان کی جستجو اور تگ و دود قابل رشک تھی کہ انہوں نے اپنے موضوع سے متعلق بیشتر معروف کتابیں فراہم کر لی تھیں ۔ ’’ دربار اکبری ‘‘ کی سرسری ورق گردانی سے جن مآخذ کے نام سامنے آتے ہیں ، ان کی فہرست درج ذیل ہے : نمبر شمار نام کتاب مصنف کیفیت 1 ۔ آئین اکبری شیخ ابوالفضل علامی کشورداری و تاسیسات اکبرو (دفتر سوم اکبرنامہ) احوال مشاہیر آں زماں 2۔ اقبال نامۂ جہانگیری محمد شریف مخاطب بہ معتمد خاں احوال پادشاہان تیموری … درسہ جلد 3۔ اکبرنامہ شیخ ابوالفضل علامی درسہ دفتر … دفتر اول تا 17جلوس اکبری دفتر دوم 18تا 64جلوس اکبری دفتر سوم ۔ آئین اکبری 4۔ اکبر نامہ(مثنوی شیخ فیضی ابن مبارک 5۔ انشائے فیضی عرف مرتب : نور الدین محمد عبداللہ لطیفۂ فیاضی 6 ۔ تاریخ راجستھان ٹاڈ 7۔ تاریخ رشیدی مرزا حیدر دغلات کشمیری تاریخ مخول کا شغرو مخولستان…درسہ حصہ 8۔ تاریخ شیر شاہی عباس خاں بن شیخ علی شیروانی یہ عباس خاں کی تصنیف ’’ تحفہ اکبر شاہی ‘‘ کا تیسرا حصہ ہے ۔ یہ کتاب اکبر کے حکم سے لکھی گئی تھی …تین ابواب میں 9۔ تاریخ فرشتہ یہ گلشن ابراہیمی ملا محمد قاسم بن ہندوشاہ استرابادی معروف بہ فرشتہ ازدورۂ غزنویاں تا 1015ھ … دردو جلد 10۔ نذکرہ ہفت اقلیم ملا امین احمد رازی (زمانۂ تالیف 996ھ تا 1002ھ) عارفوں ، امیروں اور بادشاہوں کا تذکرہ 11۔ ترجمہ آئین اکبری (انگریزی ) بلاک مین (=بلا خمن) 12۔ توزک جہانگیری= جہانگیر نامہ جہانگیربادشاہ سرگذشت خوداز سال جلوس بہ بعد 13 ۔ خلاصتہ التواریخ سبحان سنگھ دھیر بٹالوی ازابتدا تاوفات عالمگیر پادشاہ 14 ۔ دیوان فیضی شیخ فیضی بن مبارک 15 ۔ ذخیرۃ الخوانین شیخ فرید بھکری 16 ۔ رقعات ابوالفضل ابوالفضل بن مبارک بقول آزاد یہ نج کی (پرائیویٹ) تحریری ہیں 17۔ زبدۃ التواریخ نورالحق المشرقی الدہلوی البخاری ابن شیخ عبدالحق مغرالدین محمد بن سام تادورۂ جہانگیر شاہ 1 ۔ ’’ درباراکبری ‘‘ تاریخ زیدتین ‘‘ کا بھی ذکر ہے ۔ وہ شاید یہی ہو ؟ نمبر شمار نام کتاب مصنف کیفیت 18۔ سفینۂ خوشگو بندرابن داس خوشگو درسہ حصص 19۔ سلیمانوبلقیس (مثنوی) شیخ فیضی 20۔ سیر العارفین شیخ گدای کنبو مقالات و حالات مشایخ 21۔ سیر المتاخرین نواب غلام حسین خاں طبا طبائی ازتیمور شاہ تا 1195ھ درسہ دفتر…کلکتہ سے 1248ھ میں چھپی 22 ۔ شاہجہاں نامہ ملا عبدالحمید لاہوری عہد شاہجہانی کی تاریخ 23 ۔ طبقات اکبری مولانا نظام الدین احمد بن محمد مقیم الہروی دریک مقدمہ و نہ طبقہ (یعنی دہلی ، دکن ، گجرات ، بنگالہ ، مالوہ ، جونپور ، سندھ ، کشمیر ، ملتان ) ویک خاتمہ ۔ تاسنہ الف 24۔ عالمگیر نامہ محمد کاظم بن منشی محمد امین قزدینی تاریخ حکومت دہ سال اول عالمگیر پادشاہ 25۔ فرہنگ جہانگیری میر جمال الدین انجو فرہنگ عربی و فارسی بہ زبان فارسی ۔ جہانگیر بادشاہ کے نام معنون۔ 26 ۔ کشکول ابوالفضل علامی آزاد کا دعوا کہ اس کا ایک نسخہ انہوں نے دیکھا۔ 27۔ کلمات الشعرا محمد افضل سر خوش 169شاعروں کا تذکرہ 28۔ مآثر الامرا نواب صمصام الدولہ شاہنواز خاں و عبدالحی 1500ء سے 1780ء تک کے کل 735امرا سے سلطنت کے حالات 2 ؎ اس کتاب کا نولکشوری ایڈیشن مطبوعہ 1875ء راقم کو جناب احسان آوارہ (باندہ) نے ازراہ علم نوازی عنایت کیا ہے۔ 3 ؎’’دربار اکبری ‘‘ میں ’’ تذکرۂ پر جوش ‘‘ کا بھی حوالہ ہے۔ شاید وہ یہی ہو۔ نمبر شمار نام کتاب مصنف کیفیت 29۔ مآثررحیمی مرتب : ملا عبدالباقی خانخاناں کے لیے کہے گئے قصیدوں کا مجموعہ ۔ شاعر کا حال اور قصیدے کی تقریب وغیرہ کا بیان بھی 30۔ مرکز ادوار (مثنوی) شیخ فیضی بن مبارک 31۔ مکاتبات ابوالفضل ابوالفضل بن مبارک درسہ دفتر… =انشاے ابوالفضل مرتب : عبدالصمدبن افضل محمد دفتر اول : بادشاہ کی طرف سے مراسلے دفتر دوم : اپنے خطوط وغیرہ دفتر سوم : اپنی کتابوں کے دیباچے 32۔ مکتوب شیخ عبدالحق محدث دہلوی ؟ 33۔ منتخب التواریخ ملا عبدالقادربن ملوک شاہ بدایونی غزنویوں سے اکبر کے عہد تک کی تاریخ 34۔ منتخب اللباب محمد ہاشم مخاطب بہ ہاشم علی خاں امیر تیمور تا محمد شاہ بادشاہ =تاریخ خانی خاں وبعدہ‘ خانی خان نظام الملک دردوحصہ ۔ یعنی ’’ برتاریخ فرشتہ ‘‘… کلکتہ میں چھپی 35۔ نفایس المآثر میر علاء الدین قزوینی کامی۔ (یہ نام تاریخی ہے) 36۔ نل دمن مثنوی شیخ فیضی 37۔ ہفت کشور مثنوی شیخ فیضی ’’ دربار اکبری ‘‘ میں ان چند کے علاوہ اور بھی کئی کتابوں کے ضمناً حوالے آتے ہیں بعض اقتباس اس طرح ہیں : ’’ ایک پرانی کتاب میرے ہاتھ آئی۔ اس کے دیباچے سے معلوم ہوا کہ اس وقت تک ہندوستان کے بادشاہی دفتروں کے کاغذ ہندو ملازم ہندی اصول کے بموجب رکھتے تھے۔ ‘‘ (دربار اکبری ص 361) ’’ ایک کتاب دیکھی جو زبان لاطینی (رومی) سے ترجمہ ہوئی تھی۔ ‘‘ (ایضاً ص 68) ’’ ڈیلیٹ ایک ڈچ سیاح کا بیان ۔ ‘‘(ایضا ص 485) ’’ خانی ، رقعات عالمگیری اور مشہور حکایتوں اور روایتوں سے عالمگیر اور نواب سعادت علی خاں مرحوم کے حالات انہیں سنوایئے اور ان کے لطایف و حکایات سے کان بھرتے رہیے۔ ‘‘(ایضاً ص 71) ایک مقام پر آزاد نے یہ ذکر بھی کیا ہے کہ ’’ اکبری اور جہانگیری سندیں ان کے پاس موجود ہیں۔ میں نے سیاحت بمبئی میں وہ کاغذات بچشم خود دیکھے ہیں۔ ‘‘ غرض اس کتاب کی کی تیاری میں آزاد نے کم و بیش ہر طرح کے مآخذ سے استفادہ کیا ہے۔ ’’ دربار اکبری ‘‘ میں سب سے زیادہ جس کتاب کا ذکر آیا ہے وہ ملا عبدالقادر بدایونی کی ’’ منتخب التواریخ ‘‘ ہے ۔ اس کی سرسری ورق گردانی سے بھی انداز ہو جائے گا کہ نصف سے زاید اوراق پر ’’ منتخب التواریخ ‘‘ کا ذکر موجود ہے ۔ معلوم ہوتا ہے کہ آزاد اس کتاب کے مندرجات کو مختلف معروف کتابوں کے مقابلے میں لایق ترجیح سمجھتے تھے۔ ایک مقام پر انہوں نے تحریر کیا ہے کہ : ’’ جو میں نے لکھا ہے یہ ملا صاحب کو قول ہے اور یہی ٹھیک معلوم ہوتا ہے ۔ دکن کے فرشتہ کو پنجاب کی کیا خبر ؟ ‘‘ (دربار اکبری ص 186) اسی طرح صفحہ 70 وغیرہ پر بھی ہے۔ ایک سے زاید مقاموں پر آزاد نے بدایونی کے حالات میں اپنے معاملات کے عکس کو بھی دیکھنے کی کوشش کی ہے مثلاً : ’’ ان کی تاریخ اپنے مضمون و مقصود کے اعتبار سے اس قابل ہے کہ الماری کے سر پر تاج کی جگہ رکھی جائے … باوجود ان باتوں کے جو کم نصیبی ان کی ترقی میں سنگ راہ ہوئی وہ یہ تھی کہ زمانے کے مزاج سے اپنا مزاج نہ ملا سکتے تھے … قباحت یہ تھی کہ جس طرح طبیعت میں جوش تھا ، اسی طرح زبان میں زور تھا۔ اس واسطے ایسے موقع پر کسی دربار اور کسی جلسے میں بغیر بولے رہا نہ جاتا تھا۔ اس عادت نے مجھ ناقابل کی طرح ان کے لیے بھی بہت سے دشمن بہم پہنچائے تھے۔ ‘‘ (ایضا ص 420) باوجود اس کے قاری کے ذہن میں بار بار یہ تاثر ابھرتا ہے کہ آزاد نے اپنی کتاب میں بدایونی کی کتاب کا جواب پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ بعض مقاموں پر یہ صورت زیادہ کھل گئی ہے مثال کے طور پر : ’’ لطیفہ ۔ ملا صاحب کے رونے کا مقام تو یہ ہے کہ 998ھ کے جشن میں … میر عبدالحئی صدر جہاں مفتی کل ممالک ہندوستان نے … جام طلب کر کے نوش جاں فرمایا۔ ‘‘ (ایضا ص 72) بیان واقعات میں زیب داستان کے لیے کچھ کچھ بڑھا لینا معمولات میں سے ہے ۔ ’’ دربار اکبری ‘‘ بھی اس معاملے میں کچھ مختلف نہیں ہے۔ خود آزاد کو بھی اس بات کا بخوبی احساس تھا ، چنانچہ ایک مقام پر لکھتے ہیں : ’’ استغفرالہ کدھر تھا اور کدھر آن پڑا ، مگر باتوں کے مصالحہ بغیر تاریخی حالات کا بھی مزہ نہیں آتا ۔ ‘‘ (ایضاً ص 596) اور آزاد نے بوجوہ شعوری طور پر مختلف طریقوں سے کتاب کو مزیدار بنا دینے کی کوشش کی ہے۔انہوں نے اسے محض تاریخی واقعات کا خشک مجموعہ نہیں رہنے دیا ہے۔ اکبر کی اصلاحات کی تائید میں انہوں نے اپنے وقت کی ایک دلچسپ صورت حال کا بیان کیا ہے : ’’ اس ملک پنجاب میں ایک عورت کا مقدمہ پیش ہوتا ہے۔ چار خاوند حاضرہیں۔ ہر شخص کے ساتھ ایک ملا صاحب منڈا ہوا سر ، ناف تک ڈاڑھی ، پاؤں تک کرتہ ، نیلالنگ ، ہلاس دانی ہاتھ میں ، بہ حلف شرعی فرماتے ہیں کہ میں نے بہ زبان خود نکاح پڑھا ، تو چار پانچ مسلمان باایمان گواہ کہ مجلس عام میں پڑھا گیا اور ماں باپ نے پڑھوایا ۔ ‘‘ (دربار ۔ ص 60 حاشیہ) اللہ جانتا ہے کہ اس قسم کے واقعات کتنے پیش آتے ہوں گے۔ اور کتنے آزاد کی زندہ دلی نے اختر کیے ہوں گے ۔ بہر نوع اتنی بات میں شبہ نہیں کہ ملا صاحب کی ہیئت کذائی کا یہ بیان مسلمانوں کے لیے نہایت افسوسناک ہے۔ ’’ دربار اکبری ‘‘ کو آزاد نے ایک مربوط و مسلسل کتاب کے طور پر نہیں لکھا تھا۔ انہوں نے مختلف اشخاص اور افراد نے حالات الگ الگ اور مختلف وقتوں میں لکھتے تھے۔ ان متفرق اجزا کو مرتب کرنے کا کام ان کی وفات کے بعد ان کے صاجزادے محمد ابراہیم مصنف امر تسر نے کیا تھا۔ مرتب نے بھی اس بارے میں لکھا ہے : ’’ حضرت مرحوم نے تمام حالات اعیان دربار اکبری کے علاحدہ علاحدہ کاغذوں میں ترتیب دے کر رکھ چھوڑے تھے اور غالباً اسی ترتیب سے ان کو کتاب میں درج کرنا منظور تھا۔‘‘ (مقدمۂ دربار ص 3 ) مرتب کا خیال بطور مجموعی صحیح معلوم ہوتا ہے لیکن بعض اجزا کے بارے میں صورت حال غالباً کچھ اور ہو سکتی تھی مثلا عبدالرحیم خانخاناں کے حالات میں جو تمہیدے ہے ، وہ اس بات کی زیادہ متقاضی ہے کہ اسے بیرم خاں کے ذکر سے ملحق کر دیا جائے۔ مکتوبات آزاد کے مطالعے سے بھی پتہ چلتا ہے کہ بعض حصوں کو لکھ لینے کے بعد آزاد نے اپنے قدرشناسوں کیپ اس ان کی رائے کے لیے بھیجا تھا ۔بخوبی امکان ہے کہ ان رایوں کی روشنی میں آزاد نے کچھ ردوبدل بھی کی ہو۔ ایک خط کا اقتباس یہ ہے : ’’ دربار اکبری ‘‘ کا تب سے بھی لکھواتا ہوں۔ آپ بھی لکھ رہا ہوں۔ خدا کرے کچھ ہو جائے۔ اب خدا کے فضل سے کئی حال آپ کے سنانے کے قابل ہو گئے ہیں۔ فیضی کے حال پر نظر ثانی کی تو مذہب کے سلسلے میں مجھے خیال آیا کہ دیکھیے آپ اور آپ کے بھائی صاحب اسے سن کر اور پڑھ کر کیا فرماتے ہیں ۔ خدا وہ وقت دکھائے ؎ وصل ان کا خدا نصیب کرے میر ، جی چاہتا ہے کیا کیا کچھ (مکتوبات ص 37 تا 38) اس میں شک نہیں کہ فکرو خیال کے آداب اور زبان و بیان کے اصول سے متعلق اپنی کتاب میں جا بجا آزاد نے بہت اچھی اچھی باتیں لکھی ہیں۔ مذہبی بحثوں کے بارے میں اصولوں کی حد تک تو ان کا موقف یہی تھا کہ : ’’ تم اپنی فکرو کرو ۔ وہاں تمھارا اعمال سے سوال ہو گا۔ یہ نہ پوچھیں گے کہ اکبر کے فلاں امیر نے کیا کیا لکھا۔ اس کا عقیدہ کیا تھا اور تم اس کو کیسا جانتے تھے ۔ ‘‘ (دربار ص 368) لیکن صحیح بات یہ ہے کہ آزاد بھی آخر انسان ہی تھے اور انسان کے معمولات میں ہے کہ : ’’ اپنے پیارے اور پیار کرنے والے کی ہر بات پیاری ہوتی ہے۔ ‘‘ قدرتی طور پر اپنے پیاروں کے قصور اور غیروں کی خوبیوں پر عموماً نگاہیں نہیں جمتیں۔ اکبر ، آزاد کو محبوب تھا۔ اس کے حالات میں اس کی اور اس کے مقربوں کی شعوری اور غیر شعوری تائید و حمایت میں کوئی روایت سامنے آتی تو دل اس کو نظر ان داز کرنے پر آمادہ نہیں ہوتا تھا۔ اپنے اس عمل کی کیفیت کا احساس آزاد کو رہا ہے چنانچہ ایک موقع پر انہوں نے اس کا اظہار اس طرح کیا ہے : ’’ لوگ کہیں گے کہ آزاد نے ’ دربار اکبری ‘ لکھنے کا وعدہ کیا تھا اور شاہنامہ لکنے لگا۔ ‘‘ (ایضاً ص 35 ) اس ’’ شاہنامے ‘‘ میں دوسرے بادشاہوں یا اکبری عہد کے ’’ قبطیوں ‘‘ کے بارے میں جو کچھ ہے اس پر کسی کا ناک بھوں چڑھانا بیکار ہے۔ اس باب میں اس حقیقت کو بھی انداز نہیں کیا جانا چاہیے کہ جس زمانے میں آزاد نے اس کتاب کو مکمل کیا ہے ، ان پر جذب کی کیفیت طاری تھی اور اس حال میں جو کچھ ان کے قلم سے نکلا ہے ، وہ فی الواقع ان کے دل کی گہرائیوں سے نکلا ہے اور اس میں آزاد خود اپنے احوال کا عکس دیکھتے تھے ۔ لکھتے ہیں : ’’ خدا حاسدوں کا منہ کالا کرے جنہوں نے دونوں بھائیوں کی سنہری سرخروئی کو روسیاہی کر دیا۔ آزاد بھی ایسے ہی بے لیاقت بدا صاحت حاسدوں کے ہاتھ سے داغ داغ بیٹھا ہے۔ پھر بھی شکر ہے کہ روسیاہی سے محفوظ ہے اور خدا محفوظ رکھے … الخ ۔ ‘‘ (ایضا ص 224) آزاد نے ایک اکبر کے مقابلے میں بعد کے بادشاہوں کے معاملات پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے : ’’ یہ یلغاریں بابری بلکہ تیموری و چنگیزی خون کے جوش تھے کہ اکبر پر ختم ہوگئے۔ اس کے بعد کسی بادشاہ کے دماغ میں ان باتوں کی بو نہ رہی۔ بنیے تھے کہ گدی پر بیٹھے تھے۔ ان کی قسمیں لڑتی تھیں۔ انہیں گویا خبر نہ تھی کہ ہمارے باپ دادا کون تھے اور انہوں نے کیونکر یہ قلعے ، یہ ایوان ، یہ تخت ، یہ درجے تیار کیے تھے جن پر ہم چڑھے بیٹھے ہیں۔ ‘‘ (دربار ص 27) عام ہے کہ اپنے کی ترقی کے ذکر سے جی خوش ہوتا ہے اور اس کی تکلیف کے بیان سے دل تڑپ جاتا ہے۔ اصولی طور پر مورخ کی ذمہ داریاں جو بھی ہوں لیکن اس کے سینے میں بھی دل دھڑکتا ہے۔ اصول اور آئین کی باتیں درست سہی لیکن وہ اپنے دل کو کہاں لے جائے ؟ ایک جنگی معرکے کا بیان کرتے ہوئے ایک سپاہی سے آزاد نے جو سوال کیا ہے اور پھر قارئین کو جو نصیحت کی ہے اس کی داد نہ دینا بھی ظلم ہے : ’’ اختیار الملک نے کہا : ’ من سید بخاریم ‘ مرابگذار ‘۔ سہراب بیگ نے کہا : ’ تو اختیار الملک ہستی … ‘ یہ کہا اور جھٹ سر کاٹ لیا لہو ٹپکتے سرکودامن میں لے کر دوڑا ۔ حضور میں نذر گزران کوانعام پایا۔ وہ آغا سہراب : اسی منہ سے کہو گے : ’ فدایت شوم یا مولیٰ ۔ ‘ میرے دوستو ! ایسے وقت پر خدا اور خدا کے پیاروں کا پاس رہے تو بات ہے ۔ نہیں تو یہ باتیں ہی باتیں ہیں۔ ‘‘ (دربار ص 34 ) میدان جنگ کی ہولناکیوں کے ذکر کے باوجود نیکیوں کی یہ تلقین بھی آزاد کا کارنامہ ہے ۔ آزاد نے عام مورخین کے عمل پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے : ’’ یہ برا کرتے ہیں کہ (غیر مسلموں کے لیے)ملعون ، کافر ، اورسگ بیدین وغیرہ الفاظ سے زبان کو آلودہ کرتے ہیں ۔ ‘‘ (ایضاً ص 308) بات بالکل صحیح ہے لیکن شاید مسلک کی گرمی میں ، زبان پر اپنی حاکمانہ قدرت دکھانے کے لیے یا ممکن ہے دل کے جذبے ، ایمان کے جوش اور بیان کے زور میں غیر مسلموں نہیں بلکہ ان لوگوں کے واسطے جن کو دنیا والے مسلمان کہتے آئے ہیں۔ اس قسم کے بہ کثرت توصیفی کلمات کے استعمال سے خود مولانا محمد حسین آزاد نے اسی ’’ دربار اکبری ‘‘ کو مزین اور آراستہ کیا ہے چنانچہ بعض ترکیبیں یہ ہیں : بدنیت ، سفلے ، شیطان طینت ، بے حیا بے شرم ، مسجدوں کے بھوکے ، جعلساز بزرگان عالم نما ، بے لیاقت شیطان ، نمکحرامی کا مصالح ، روٹی توڑ اور شروے چٹ ملانے ، سردار مردار وغیرہ وغیرہ۔ جہاں تک زبان وبیان کا تعلق ہے ، اس مقام پر اتنا کہنا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ’’ آب حیات ‘‘ کی عبارت میں بلاغت کا وصف نمایاں اور زبان اس کی فارسی کے رنگ ڈھنگ سے قریب تر ہے۔ اس کے برخلاف ’’ دربار اکبری ‘‘ کا طرز بیان واضح اور سلیس ہے اور اس کی زبان پر ہندوستانی روز مرہ کا اثر غالب معلوم ہوتا ہے۔ اس تبدیلی میں کتاب کے موضوع کو بھی کم و بیش دخل ہو سکتا ہے۔ اور خود آزاد کے مخصوص حالات کو بھی۔ اردو کے ایک عام قاری کے لیے ’’ دربار اکبری ‘‘ کی زبان سریع الفہم ہونے کے ساتھ ساتھ زیادہ پر کشش معلوم ہوتی ہے۔ محض نمونے کے طور پر دو اقتباس درج ذیل ہیں : ’’ نیی سلطنت کا بنانا اور اپنے حسب مطلب بنانا اور پرانی جڑوں کو زمین کی تہ میں سے نکالنا ، انہیں لوگوں کا کام تھا جو کر گئے۔ خو شامد کیا آسان بات ہے۔ پہلے کوئی کرنی تو سیکھی۔ ‘‘ اور : ’’ خدا تر نوالہ دے خواہ سو کھا ٹکڑا ، باپ کا ہاتھ بچوں کے رزق کا چمچہ بلکہ ان کی قسمت کا پیمانہ ہوتا ہے ۔ ‘‘ ’’ دربار اکبری ‘‘ کی تصنیف کے کام کی سرپرستی سالار جنگ کر رہے تھے۔ ابھی کام کا سلسلہ جاری تھا کہ ان کا انتقال ہو گیا۔ دو طالب علموں نے آکر اطلاع دی۔ اس کا ذکر آزاد نے اس طرح کیا ہے: ’’ دربار اکبری ‘ درست کر رہا ہوں۔ ان کے نام پر کردوں گا۔ دونوں (طالب علم) خوش ہو گیے اور کہا کہ: ’ ضرور کیجیے ۔ یہ عمارت عظیم الشان ان کے نام پر یادگار ہو گی جو کبھی منہدم نہ ہو گی ۔ میں نے کہا : ’ بلکہ دو تین اور بھی ‘ اب آپ کی خدمت میں عرض یہ ہے … پھر اسے سنبھالتا ہوں ۔ خدا و مولیٰ اسد اللہ الغالب سر انجام کو حد انجام پر پہنچانے والے ہیں مگر مشورت طلب یہ نکتہ ہے کہ آیا وہی ڈڈیکیشن کا مقرری خاکہ رنگ بھر کر سجادوں یااسے موقوف رکھ کر یہ لکھوں کہ ایسے شخص کے حادثہ جا نکاہ پر عالم نے نالہ وزاری کے معمولی حق ادا کیے اور یادگار کے لیے تاریخیں اور نظمیں لکھیں۔ فقیر آزاد سے اور کچھ نہ ہو سکا۔ یہ کتاب ان کے نام پر لکھتا ہوں کہ ان دنوں زیر قلم تھی ۔ چہ کند بینوا ہمیں دارد ۔ ‘‘ (مکتوبات ص 52تا 53) ’’ دربار کبری ‘‘ آزاد کی زندگی میں چھپ نہیں سکی اس لیے ڈڈیکیشن کی آرزو حسرت بن کر دل ہی میں رہ گئی۔ مطبوعہ کتاب میں دوسری بڑی کمی یہ پیدا ہو گئی کہ اس کے لیے آزاد نے بہت کوشش سے جو تصویریں حاصل کی تھیں ، ان میں سے ایک بھی اس میں شامل نہیں کی جا سکی ۔ تصویروں سے متعلق آزاد کے بعض بیان یہ ہیں : ’’ آپ نے تصویروں کا کچھ بندوبست نہ فرمایا۔ مجھے اکبر کی ایک تصویر ہاتھ آئی کہ تین چار ترک عورتیں بیٹھی ہیں اور وہ تین برس کا بچہ بیچ میں کھیلتا پھرتا ہے۔ رات کا وقت ہے۔ شمع روشن ہے۔ جھنجھنے وغیرہ سامنے پڑے ہیں ۔ یہ اکبر کے ابتدائی حالات میں لگائی واجب ہے۔ ایک ایسی ہی پرانی تصویر اور ملا دو پیازہ کی ہاٹھ آئی۔ بیربل کے ساتھ اسے بھی لگانا واجب ہے، اگرچہ کتاب سے ملا دوپیازہ کی اصل معلوم نہیں ہوتی مگر مسخروں اور بھانڈوں سے اس کا شملہ دستار بیربل کی دم میں مضبوط باندھا ہے۔ راجہ مان سنگھ کی تصویر بھی سندی ہے۔ سرکار الور سے منگائی ہے۔ ‘‘ (مکتوبات ص 59 تا 60) اور : ’’ میں نے بڑی کوشش سے چند تصویریں مہاراجہجے پور کے پوتھی خانہ سے حاصل کیں۔ ان میں جو اکبر کی تصویرملی وہ سب سے زیادہ معتبر سمجھتا ہوں اور اسی کی نقل سے اس موقع کا تاج سر کرتا ہوں۔ ‘‘ (دربار ص 144تا 145) لیکن مولانا کے دل کا یہ ارمان بھی دل ہی میں رہ گیا اور نہایت محنت اور کوشش سے جمع کی گئی سب تصویریں بہ گمان غالب ضایع ہو گئیں۔ ’’ دربار اکبری ‘‘ کو سب سے پہلے مصنف کے ایک عزیز شاگردمولوی میر ممتاز علی نے اپنے مطیع رفاہ عام لاہور میں اپنے مقدمہ کے ساتھ چھپوا کر شایع کیا تھا اس کے بعد مصنف کے صاجزادے محمد ابراہیم مصنف امرنسر نے 1910میں کتاب کو اس دعوے کے ساتھ چھپوایا کہ : ’’ بہ حیثیت مجموعی یہ حضرت قبلہ مرحوم کی اصلی تصنیف اور ان کے دستخطی مسودات کے مطابق ہے ۔ ‘‘ محمد ابراہیم نے اپنے مقدمے میں مولوی ممتاز علی کے بعض بیانوں کی تردید کی ہے اور کتاب کے متن میں ترتیب وغیرہ کی جو خرابیاں تھیں ان کو درست کیا ہے لیکن اب بھی تتمہ کے بعض اجزا کے بارے میں خیال ہوتا ہے کہ شاید ان کی جگہ کوئی اور تھی۔ ’’ دربار اکبری ‘‘ اپنے زمانے کی مقبول تصانیف میں سے ہے۔ اس کتاب کے کم سے کم دو ایڈیشن اور بھی نکلے اور یہ دونوں 1910کے مطبوعہ متن کی نقل تھے۔ 1937ء میں محمد باقر ، گجرات گورنمنٹ کالج نے اس کتاب کو شیخ مبارک علی کی عالمگیر الکڑک پریس لاہور سے چھپوا کرشایع کیا تھا۔ جیسا کہ مذکور ہوا ان میں سے کسی بھی ایڈیشن میں نہ تو تصویریں ہیں اور نہ وہ ڈڈیکیشن ہی ہے جس کا اوپر ذکر کیا گیا ہے۔ محمد باقر نے اتنا ضرور کیا ہے کہ بعض باتوں کے انتساب میں غلطی اور تکرار وغیرہ کی نشاندہی کر دی ہے مثال کے طور پر حکم ہمام اور حکیم ابوالفتح کے منسوب بعض مقولوں کے لیے حاشیہ پر لکھا ہے : ’’ یہی مقبولے صفحہ 665پر حکیم ابوالفتح کے نام سے لکھے ہیں۔ ان کو میراث میں ملے ہوں گے۔ 12۔ محمد باقر ۔ ‘‘ (دربار ص 672) ’’ دربار اکبری ‘‘ اب تقریباً نایاب ہو چلی ہے۔ اس لیے ’’ قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان ‘‘ نے فوری طور پر اس کے متن کو شایع کر دینے کا مثبت فیصلہ کیا ہے۔ امید ہے کہ کونسل کے اس اقدام کی عام طور سے پذایرائی ہو گی۔ فقط محمد انصار اللہ دوشنبہ 20ستمبر 1999ئ 4/1172سر سید روڈ سر سید نگر ، علی گڑھ 202002 جلال الید اکبر شہنشاہ ہندوستان امیر تیمور نے ہندوستان کو زور شمشیر سے فتح کیا۔ مگر وہ ایک بادل آیا تھا کہ گر جا باسا اور دیکھتے دیکھتے کھل گیا۔ بابر اس کا پوتا چوتھی پشت میں ہوتا تھا۔ سوا سو برس کے بعد آیا۔ اس نے سلطنت کی داغ بیل ڈالی تھی۔ کہ اسی رستے میک عدم کو روانہ ہوا۔ ہمایوں اس کے بیٹے نے قصر سلطنت کی بنیاد کھودی اور کچھ اینٹیں بھی رکھیں۔ مگر شیر شاہ کے اقبال نے اسے دم نہ لینے دیا۔ اخیر عمر میں اس کی طرف پھر ہوائے اقبال کا جھوکا آیا تو عمر نے وفانہ کی ۔ یہاں تک کہ 963ہجری میں یہ با اقبال بیٹا جانشیں ہوا۔ تیرہ برس کے لڑکے کی کیا بساط ۔ مگر خدا کی قدرت دیکھو۔ اس نے سلطنت کی عمارت کو انتہائے بلندی تک پہنچایا۔ اور بنیاد کو ایسا استوار کیا کہ پشتوں تک جنبش نہ ہوئی۔ وہ لکھنا پڑھنا نہ جانتا تھا۔ پھر بھی اپنی نیک نامی کے کتابے ایسے قلم سے لکھ گیا ہے کہ دن رات کی آمدورفت اورف لک کی گردشیں انہیں گھس گھس کر مٹاتی ہیں مگر وہ جتنا گھستے ہیں اتنا ہی چمکتے آتے ہیں۔ اگر جانشین بھی اسی راستے پر چلتے تو ہندوستان کے رنگا رنگ فرقوں کو دریائے محبت پر ایک گھاٹ پانی پلا دیتے۔ بلکہ دہی آئین ملک ملک کے لیے آئینہ ہوتے۔ اس کے حالات بلکہ بات بات کے نکتے اول سے آخر تک دیکھنے کے قابل ہیں ٭ جن دنوں ہمایوں شیر شاہ کے ہاتھ سے پریشان حال تھا۔ ایک دن ماں نے اس کی ضیافت کی۔ وہاں ایک نوجوان لڑکی نظر آئی۔ اور وہ دیکھتے ہی اس کے حسن و جمال کا عاشق شیدا ہو گیا۔ دریافت کیا تو 1 ؎ اکبر ولد ہمایوں ۔ ولد بابر ۔ ولد عمر شیخ مرزا ۔ ولد ابو سعید مرزا ۔ ولد سلطان محمد میرزا ۔ ولد میراں شاہ ۔ ولد امیر تیمور صاجقران ٭ لوگوں نے عرض کیا کہ حمید ہ بانو بیگم اس کا نام ہے ۔ ایک سید بزرگوار شیخ ژندہ پیل احمد جام کی اولاد میں ہیں۔ اور آپ کے بھائی مرزا ہندال کے استاد ہیں۔ یہ ان کے خاندان کی بیٹی ہے۔ ہمایوں نے چاہا کہ اسے عقد میں لائے۔ ہندال نے کہا۔ منانسب نہیں ۔ ایسا نہ ہو کہ میرے استاد کو ناگوار ہو۔ ہمایوں کا دل ایسا نہ آیا تھا۔ کہ کسی کے سمجھائے سمجھ جاتا۔ آخر محل میں داخل کر لیا ٭ لیکن حضرت عشق نے شادی کی تھی۔ اور محبت کے قاضی نے نکاح پڑھا تھا۔ ہمایوں کو دم بھر جدائی گوارانہ تھی۔ دن ایسے نحوست کے تھے کہ ایک جگہ قرار نہ ملتا تھا۔ ابھی پنجاب میں ہے ابھی سندھ میں ہے۔ ابھی بیکانیر جیسلمیر کے ریگستان میں سرگرداں چلا جاتا ہے۔ پانی ڈھونڈھتا ہے۔ تو منزلوں تک میسر نہیں۔ جو دھپور کا رخ ہے کہ ادھر سے امید کی آواز آئی ہے ۔ قریب پہنچ کر معلوم ہوتاہے۔ کہ وہ امید نہ تھی دغا آواز بدل کر بولی تھی۔ وہاں توموت منہ کھولے بیٹھی ہے۔ ناچار پھر الٹے پاؤں پھر آتاہے۔ یہ سب مصیبتیں ہیں۔ مگر پیاری بی بی دم کے ساتھ ہے ۔ کئی لڑائی کے مقاموں میں اس کے سبب سے خطر ناک خرابیاں اٹھانی پڑیں۔ مگر اسے تعویذ کی طرح گلے سے لگائے پھرا۔ جب وہ جو دھپور کے سفر میں تھے تو اکبر ماں کے پیٹ میں باپ کے رنج وراحت کا شریک تھا۔ اس سفر سے پھرے اور سندھ کی طرف آئے۔ ایام ولادت بہت نزدیک تھے۔ اس لیے بیگم کو امر کوٹ میں چھوڑا ۔ اور آپ آگے پرانی لڑائی کو تازہ کیا۔ اسی عالم میں ایک دن ملازم نے آکر خبر دی کہ مبارک ۔ اقبال کا تارا طلوع ہوا۔ یہ ستار ایسے ادبار کے وقت جھلملایا تھا۔ کہ کسی کی آنکھ ادھر نہ اٹھی۔ مگر تقدیر ضرور کہتی ہو گی کہ دیکھنا ! آفتاب ہو کر چمکے گا۔ اور سارے ستارے اس کی روشنی میں دھند لے ہو کر نظروں سے غائب ہو جائیں گے ٭ ترکوں میں رسم ہے کہ جب کوئی ایسی خوشخبری لاتا ہے تو اسے کچھ دیتے ہیں۔ ایک سفید پوش اشراف ہو گا تو اپنا چغہ ہی اتار کر دے دیگا۔ امیر ہے تو اپنی دستگاہ کے بموجب خلعت اور گھوڑا نقد و جنس جو جو کچھ ہو سکے گا دیگا۔ سب کی ضیافتیں کریگا۔ نوکروں کو انعام و اکرام سے خوش کریگا۔ ہمایوں کے پاس جب سوار یہ خبر لایا تو اس کی حالت ایسی ہو رہی تھی کہ دائیں بائیں دیکھا ۔ کچھ نہ پایا۔ آخر یاد آیا کہ کمر میں ایک مشک نافہ ہے۔ اسے نکال کر توڑ اور ذرا ذرا سامشک سب کو دے دیا کہ شگون خالی نہ جائے۔ اللہ اللہ تقدیر نے کہا ہو گا کہدل میلا نہ کیجو۔ اس بچے کی شمیم اقبال مشک کی طرح تمام عالم میں پھیلے گی۔ ولادت کی تاریخ ہوئی ع شب یکشنبہ وپنج رحب است 949ہجری ٭بے سامان بچے کو جس طرح خدا نے تمام سامان ملک و دولت کے دئے۔ اسی طرح ولادت کے دقت ستاروں کو بھی اس نظام کے ساتھ ہر ایک برج میں واقع کیا کہ آج تک نجومی حیران ہوتے ہیں۔ ہمایوں خود ہئیت اور نجوم کا ماہر تھا۔ وہ اس کے زائچے کو اکثر دیکھا کرتا تھا اور کہتا تھا کہ کئی باتوں میں امیر تیمور سے بھی زیادہ مبارک ہے۔ اکبر ابھی حمل میں تھا۔ اور میر شمس الدین محمدؐ کی بی بی بھی حاملہ تھیں ۔ بیگم نے ان سے وعدہ کیا تھا۔ کہ میرے ہاں بچہ ہو گا۔ تو تمہارا دود اسے دونگی۔ اتفاق یہ کہ جب اکبر پیدا ہوا۔ تو ان کے ہاں ابھی کچھ نہ ہو ا تھا۔ بیگم نے پہلے آپ دود پلایا ۔ پھر ان کے دود نہ رہا تو بعض بعض اور ربیبیاں بھی دود پلاتی رہیں ۔ چند روز کے بعد جب ان کے ہاتھ بچہ ہوا تو انہوں نے دود پلایا۔ اور زیادہ ترانہیں کا دود پیا سبب ہے کہ اکبر انہیں جیحی کہا کرتا تھا۔ اکبر میں بہت سی باتیں تھیں کہ دوربینی کی عینک اور دور اندیشی کی آنکھیں اسے دکھاتی تھیں ۔ بہت سے کارنامے تھے کہ اس کی جرأت اور ہمت کے جوش اٰنہیں سر انجام دیتے تھے۔ اکثر چغتائی مورخوں نے انہیں پیشین گوئی اور کرامات کے رنگ میں جلوہ دیا ہے۔ البتہ اتنی بات ہے کہ ایسے بااقبال اور نیک نیت لوگوں میں بعض باتیں ایسی ہوتی ہیں کہ عام لوگوں میں نہیں ہوتیں میں ان میں سے چند حکایتیں نقل کرتا ہوں۔ اس سے یہ مطلب نہیں کہ انہیں سچ سمجھو۔ جو بات واقعی ہے اور دل کو لگتی ہے ۔ خود معلوم ہو جاتی ہے۔ دکھانا یہ منظور ہے کہ اس زمانے میں ایسی ایسی باتیں بادشاہوں کی طرف منسوب کرتے اور فتخر سمجھتے تھے ۔ جیجی کا بیان ہے کہ ایک دفعہ اکبر نے کئی دن دور نہ پیا تھا ۔ لوگوں نے کہا کہ جیجی نے جادو کر دیا ہے۔ 1 ۔اکبر کے طابع وقت میں ہند کے جو تشی اور یونان کے منجم اختلاف کرتے ہیں۔ ایک کہتے ہیں اسد ہے۔ ایک کہتے ہیں سنبلہ ہے۔ جب میر فتح اللہ شیرازی آئے تو انہیں دونوں زائچے دکھائے وہ ہیئت اور منجوم میں مہارت کل رکھتے تھے۔ دونوں کو دیکھ کر کہا کہ منجمان ہند ، موجب تحقیق قدما کے فلک الروج کی حرکت کو نہیں مانتے۔ اہل یونان میں حکمائے متقدمین اور ارسطو نے متحرک مانا ہے۔ ااور جس حکیم متحرک مانتا ہے مگر مقدار حرکت نہیں نہیں لکھتا ۔ بطلمیوں نے لکھا ہے کہ سو برس میں دورہ پورا کرتا ہے بعض کہتے ہیں کہ 63ہزار سال میں دورہ تمام کرتا ہے۔ اکثر حکما ء کہتے ہیں کہ 70 برس میں ایک درچہ 25 ہزار دو سو برس میں دورہ پورا کرتا ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ 63برس میں ایک درجہ یعنی 22 ہزار 6 سو 80 برس میں دورہ کرتا ہے۔ ان حسابوں سے اس وقت تک 17درجے کا فرق ہو گیا۔ کیونکہ ہندی رسد 1190برس پہلے کی بنی ہوئی ہے۔ 1190کو 70 پرتقسیم کیا تو 17 نکلے پس معلوم ہوا کہ 17درجے کا فرق ہونا چاہئے۔ غرض میر موصوف نے بھی رسد جدید کے بموجب اسد ہی طابع قرار دیا اور کہا کہ سنبلہ 17 درجہ اپنی جگہ سے حرکت کر گیا ہو گا ۔ اور اسد طلوع ہو گیا ہوگا۔ ہمایوں کو علم ہیئت میں مہارت کامل تھی۔ بیٹے کا زائچہ سامنے دکھ کر اکثر دیکھا کرتا تھا اور سوچتا تھا۔ مصاحبان خاص کا بیان ہے بعض دفعہ ایسا ہوتا تھا کے دیکھتے دیتکھے اٹھ کھڑا ہوتا تھا۔ حجرے کا دروازہ بند کر دیتا۔ تالیاں بجا کر اچھلتا اور مارے خوشی کے چک پھیریاں لیا کرتا تھا۔ اور یہ تو اکثر کہا کرتا تھا کہ اس بچے کا زائچہ کئی باتوں میں امیر تیمور صاجقران کے زائچے پر فائق ہے ۔ 2 ؎ میر شمس الدین محمد ؐ کا مفصل حال دیکھو تمتے ہیں۔ یہ چاہتی ہے کہ اور کوئی دودنہ پلاے چیجی کو اس بات کا بڑا رنج تھا۔ ایک دن اکیلی اکبر کو گود میں لئے بیٹھی تھی۔ اور غم سے افسر تھی۔ بچہ چپکا اس کا منہ دیکھ رہا تھا۔ یکایک بو لا کہ جیجی ۔ غم نہ کھاؤ۔ دودھ تمہارا ہی پیونکا اور خبر دار اس بات کا کسی سے ذکر نہ کرنا ۔ جیجی حیران ہوئی۔ اور ڈر کے مارے کسی سے نہ کہا ۔ جب اکبر بادشاہ ہوا تو ایک دن شکار گاہ میں شکار کھیلتے تھک کر درخت کے نیچے اتر پڑا کہ آرام لے۔ اس وقت فقط کو کہ یوسف ؑ محمدؐ خاں پاس تھا۔ ایک بڑا ژدہا کہ جس کے دیکھنے سے ڈر لگتا تھا۔ نکلا ۔ اور ادھر ادھر دوڑنے لگا۔ اکبر بے خطر جھپٹا ۔ اس کی دم پکڑ کر کھینچی ۔ اور پٹخ پٹخ کر مار ڈالا۔ کو کہ حیرا ن ہوا۔ اور آکر یہ ماجراماں سے بیان کیا۔ اس وقت جیجی نے وہ راز سر بستہ بھی کھولا۔ جب اکبر کی ماں حاملہ تھی۔ تو ایک دن بیٹھی سی رہی تی۔ یکایک کچھی خیال آیا۔ سوئی سے پنڈلی کو گودا۔ اور اس میں سرمہ بھرنے لگی۔ ہمایوں بار سے آگیا۔ پوچھا۔ بیگم یہ کیا کرتی ہو ؟ اس نے کہا میرا جی چاہا کہ ایسا ہی گل میرے بچے کے پاؤں میں بھی ہو ۔ خدا کی قدرت دیکھو۔ اکبر پیدا ہوا تو اس کی پنڈلی میں بھی ویسا ہی سر مئی نشان تھا۔ ہمایوں سندھ کے ملک میں مدت تک لڑتا بھڑتا رہا کہ شائد قسمت یاوری کرے۔ اور ایسی صورت بن جائے کہ پھر ہندوستان پر فوج کشی کرنے کا سامان بہم پہنچان جائے۔ لیکن لیکن نہ تدبیر چلی نہ شمشیر ۔ اسی عرصے میں بیرم خاں آن پہنچے انہوں نے آکر سب حال سنے او ر صورت حال کو دیکھ کر دربار میں گفتگو اور خلوت میں صلاحیں ہوئی۔ بیرم خاں نے کہا کہ ان بے مروتوں سے ہرگز امید نہیں۔ اور مروت کریں تو اس ریگستان میں کیا خاک ہے۔ جو کچھ ہاتھ آئے ۔ ہمایوں نے کہا۔ بہتر ہے کہ اب ہندوستان کو خیر باد کہیں اورملک موروثی میں چلکر قسمت آزمائیں بیرم خاں نے کہا کہ اس ملک سے بادشاہ مغفور نے کیا پایا جو حضور کو حاصل ہو گا۔ ایران کو چلیں تو قرین مصلحت ہے۔ وہ میرا اور میرے بزرگوں کا ملک ہے۔ کیا شاہ کیا فقیر سب مہماں نواز ہیں۔ غلام وہاں کے رسم وارہ سے واقف ہے۔ اور حضور کے خاندان عالی نے بھی وہانسے ہمیشہ مبارک اور کامیابی کے شگون پائے ہیں۔ ہمایوں نے ملک سندھ سے ڈیرے اٹھائے۔ ایران کا ارادہ فسخ نہ کیا تھا مگر یہ خیال تھا کہ جیسا سفر دور کا ہے۔ ویسے ہی کامیابی کی امید بھی دور دراز ہے۔ فی الحال بولان کی گھاٹی سے نکل کر قندھار کو دیکھنا چاہئے کہ قریب ہے۔ وہاں سے مشہد کارستہ بھی روشن ہے۔ بلخ و بخارا کی راہ بھی جاری ہے۔ عسکری مرزا اسوقت قندھار میں حکومت کر رہا ہے۔ میں اس قدر حادثے اٹھا کر آیا ہوں۔ عیال کا ساتھ ہے۔ آخر بھائی ہے جتیا خون کب تک ٹھنڈا رہیگا۔ کچھ بھی حق نہ سمجھا تو مہمانی ترکانہ کہیں نہیں گئی۔ چند روزہ کراس کا اور نمکخوار ان قدیم کا رنگ دیکھوں گا بوئے وفا نہ پاؤ نگا تو جدھر منہ اٹھیگا چلا جاؤں گا کہ خلق خدا ملک خدا۔ 1 ۔ جس بچے کی ماں کا دود دیتے تھے۔ وہ بچہ شاہزادے یا امیر زادے کا کوکہ کہلاتا تھا۔ اس کی اور اسکے رشتہ داروں کی بڑی خاطر ہوا کرتی تھی اور ان کا حق سلطنت میں شریک ہوتا تھا۔ بچہ مذکور کو کوکلتاش خاں خطاب ملتا تھا۔ اکبر نے دود تو آٹھ دس بیبیوی کا پیا تھا مگر بڑی حقدار ان میں ماہم بیگم اور جیجی یعنی میر شمس الدین محمدؐ خاں کی بیوی شمار ہوتی تھیں ۔ شہر یار بے شہر اور بادشاہ بے لشکر ان خیالات میں غلطاں و پیچاں ۔ غم غلط کرتا کہ وہ و دشت کو دیکھتا چلا جاتا تھا۔ ایک منزل میں ڈیرے ڈالے پڑا تھا۔ کسی نے آکر خبر دی کہ فلاں شخص کامران کا وکیل سندھ جاتا ہے۔ شاہ حسین ؑ ارغون کی بیٹی سے کامران کے بیٹے کی نسبت کا پیام لیکر چلا ہے۔ اور اس وقت قلعہ سیوی میں اترا ہوا ہے۔ ہمایوں نے ایک ملازم ہے کہ اتھ شقہ بھیج کر اسے بلایا۔ وہ بے وفا قلعے کا استحکام کر کے بیٹھ رہا اور جواب میں کہلا بھیجا کہ اہل قلعہ مجھے آنے نہیں دیتے۔ ہمایوں کورنج ہوا۔ اس عالم میں شال ۱؎کے قریب پہنچا مرزا عسکری کوبھی خبر پہنچ گئی تھی۔ بے مروت بھائی نے خانہ برباد بھائی کی آمد سن کر ایک سردار کو بھیج دیا تھا کہ حالات معلوم کر کے لکھتا رہے۔ اور ادھر سے ہمایوں نے بھی دو ملازموں کو روانہ کیا تھا۔ وہ سردار مذکور کوررستے میں مل گئے۔ اس نا اہل نے فوراً دونوں کو گرفتار کر کے قندہار کو روانہ کیا اور جو احوال معلوم ہوا وہ لکھ بھیجا۔ ان میں سے ایک وفا دار نے موقع پایا۔ وہ بھاگ کر پھر ہمایوں کے پاس آیا۔ اور جو کچھ وہاں سنا تھا۔ اور دیکھ کر قرینوں سے سمجھا تھا سب بیان کیا۔ اس نے یہ بھی کہا کہ حضور کے آنے کی خبر سن کر مرزا عسکری بہت گھبرایا ہے۔ قلعہ قندھار کی مورچ بندی شروع کر دی ہے۔ بھائی کی بے مہری اور لوگوں کی بے حیائی اور بیوفائی دیکھ کر ہمایوں کی امید ٹوٹ گئی اور مشتنگ کی طرف باگیں پھیریں ۔ پھر بھی ایک محبت نامہ مفصل لکھا جس کا القاب یہ تھا : برادر بے مہر بے ارادت معلوم نمایند ۔ اس میں محبت اور اپنا بت کے لہو کو بھی بہت گرمایا تھا۔ اور نصیحتوں اور نیک صلاحوں کے خریطے بھرے تھے۔ مگر کان کہا جو سنیں ؟ اور دل کہاں جو مانے ؟ یہ خط دیکھ کر مرزا کے سر پر اور بھی شیطان چڑھا۔ رفیقوں کو لے کر چلا کر بے خبر پہنچ کر ہمایوں کو قید کرلے۔ موقع نہ پائے تو کہے کہ استقبلال کو آیا ہوں۔ غرض ن ور کا تڑکا تھا کہ سوار ہوا۔ اور پوچھا کہ ادھر دامن کوہ کا رستہ کون جانتا ہے۔ چی بہادر ایک اذبک پہلے ہمایوں کے وفا داروں کا نوکر تھا۔ تباہی کے عالم میں مرزا عسکری کے پاس نوکری کرلی تھی ۔ اس وقت نمک کی تاثیر چمک اٹھی اور ہمایوں کی حالت نے اس کے دل میں غائبانہ رحم پیدا کیا۔ اس نے عرض کی ۔ میں جانتا ہوں اور کئی دفعہ آیا گیا ہوں۔ مرزا نے کہا سچ کہتا ہے۔ ادھر اس کی جاگیر تھی۔ اچھا آگے آگے چل اس نے کا میرا یا بو کام نہیںدیتا۔ 1 ۔ یہ وہی مقام ہے جو آج کل سیبی کے نام سے مشہور ہے ۔ 2 ۔ یہ مقام قندھار سے گیا رہ کوس درے ہے۔ مرزا نے ایک نوکر سے گھوڑا دلوا دیا۔ چی بہادر نے تھوڑی دور آگے چل کر گھوڑا اڑایا اور سیدھا بیرم خاں کے خیمے میں آیا۔ کان میں کہا کہ مرزا آن پہنچا ہے۔ اب فرصت کا وقت نہیں۔ اور میں قدرتی اتفاق سے اس طرح پہنچا ہوں۔ بیرم خاں اسی وقت چپ چاپ اٹھ کر خبیمے کے پیچھے سے ہمایوں کے پاس آیا اور حال بیان کیا ۔ سوا اس کے اور کیا ہو سکتا تھا کہ ایران کا ارادہ مصمم کریں۔ تردی بیگ کے پاس آدمی بھیجا۔ کہ چند گھوڑے بھیج دو۔ اس نااہل بے مروت نے صاف جواب دیا۔ ہمایوں کو خدا یا د آیا کہ بھائیوں کا یہ حال۔ نمک خوارول اور ہمراہیوں کا یہ حال ۔ جو دھپور کے رستے کی بیوفائی اور بے حیائی بھی یاد آگئی۔ چاہا کہ اسی وقت خود جائے اور اس کو حد کو پہنچائے۔ بیرم خاں نے عرض کی کہ وقت تنگ ہے۔ بات کی بھی گنجائش نہیں۔ آپ ان کا فرنعمتوں کو قہرالہٰی کے حوالے کریں۔ اور جلد سوار ہوں ۔ اکبر اس وقت پورا برس دن کا بھی نہیں ہواتھا۔ اسے میر غزنوی اور خواجہ سرا وغیرہ اور ماہم اتکہ کے سپرد کر کے یہیں چھوڑا۔ بیگم تو جان کے ساتھ تھیں۔ وفا داروں سے کہا کہ مرزا کا خدانگہبان ہے۔ ہم آگے چلتے ہیں بیگم کو کسی طرح تم ہم تک پہنچا دو۔ آپ مخلصا ن جاں نثار کے ساتھ دشت غربت کو روانہ ہوا۔ پیچھے بیگم بھی آن ملیں۔ مورخ کہتے ہیں کہ اس شکستہ حال قافلہ میں نوکر چاکر مل کر 70آدمی سے زیادہ نہ تھے۔ تھوڑی ہی دور گئے تھے۔ کہ رات نے آنکھوں کے آگے سیاہ پر دہ تان دیا۔ خیال یہ تھا کہ ایسا نہ ہو بے مہر بھائی تعاقب کرے۔ بیرم خاں نے کہا مرزا عسکری اگرچہ شہزادہ ہے۔ مگر پیسے کا غلام ہے۔ اسوقت خاطر جمع سے بیٹھا ہو گا۔ دو منشی ادھر ادھر ہونگے اور اسباب اجناس کی فہرست لکھوا رہا ہو گا۔ اگر ہم خدا پر توکل کر کے اس وقت جاپڑیں تو باندھ ہی لیں جب مرزا بیچ میں نہرہا تو نوکر نمک خوار ہیں۔ سب حاضر ہو کر سلام کرینگے۔ بادشاہ نے کہا کہ صلاح تو بہت ٹھیک ہے مگر ایک ارادہ کر لیا۔ اور دور دراز عرصہ سامنے ہے چلے ہی چلو۔ اب ادھر کی سنو مرزا عسکری جب مشتنگ کے پاس پہنچے۔ تو اپنے صدر اعظم کا بھیجا ہمایوں کو جعلسازی کے پیغاموں سے باتوں میں لگائے۔ مگر مکاری کا میاب نہ ہوئی۔ ہمایوں روانہ ہو گیا تھا۔ ساتھ ہی ایک گروہ کثیر پہنچا۔ پھٹے پرانے خیمے کھڑے تھے۔ ٹوٹے پھوٹے نوکر چا کر پڑے تھے۔ انہیں آکر گھیر لیا کہ کوئی آدمی اردو سے نکلنے نہ پائے۔ پیچھے مرزا عسکری پہنچے۔ چی بہادر کا پہنچنا اور ہمایوں کی روانگی کا سال صدر اعظم سے مفصل سنا۔ بے وارثے قافلے کو پڑا دیکھ کر اپنی بد نیتی پر بہت پچتایا۔ تردی بیگ سب کو لیکر سلام کو حاضر ہوئے۔ مگر سب میں یہ بھی نظر بند ہو گئے۔ میر غزنوی سے پوچھا کہ مرزا (اکبر)کہاں ہیں۔ 1۔ وہ ہی میر غزنوی جو اکبر کی بادشاہت میں خان اعظم میر شمس الدین محمد ؐ اتکہ خاں ہوگئے۔ دیکھو تتمہ۔ عرض کی۔ گھر میں ہیں۔ چچا نے ایک اونٹ میوے کا بھتیجے کے لئے بھیجا۔ اتنے میں رات ہو گئی۔ مرزا عسکری بیٹھے اور جو بات خانخاناں نے وہاں کی تھی ،اس کی تصویر کھینچ گئی کہ ایک دو منشیوں کو لیکر اسباب ضبطی کی فہرست لکھوانے لگے۔ صبح کو سوار ہوئے۔ اور نقارہ بجاتے ہمایوں کے اردو میں داخل ہو کر چھوٹے بڑے سب کو گرفتار کر لیا۔ تردی بیگ صندوق دار تھے کفایت شعاری کے انعام میں شکنجہ پر سوار گئے گئے۔ بہت آدمی ان کے ماتحت ہوئے۔ اور جو جمع کیا تھا۔ دام دام ادا کر دیا۔ اکثر بے گناہ مارے گئے۔ بہت باندھے گئے۔ سب لوٹے گئے۔ ہمایوں کا غصہ اتنی سزا ہرگز نہ دے سکتا جو مرزا عسکری کے ہاتھوں سے مل گئی۔ بے رحم چچا ڈیوڑھی پر آیا کہ بھتیجے سے ملونگا۔ یہاں رات قیامت کی رات گزری تھی سب کے ول دھکڑ دھکڑ کرتے تھے۔ کہ ماں باپ اس حال سے گئے۔ ہم ان پہاڑوں میں بے سرو سامان پڑے ہیں۔ بے مروت چچا ہے۔ اور معصوم بچے کی جان ہے۔ اللہ ہی نگہبان بے میر غزنوی اور ماہم انکہ اکبر کو کندھے سے لگائے سامنے آئی۔ منافق چچا نے گود میں لے لیا۔ اور زہر خندہنسی سے بول چال کر چاہا کہ بچہ ہنسے بولے۔ مگر اکبر کے لبوں پر تبسم بھی نہ آیا۔ چپکا منہ دیکھا کیا۔ کینہ ور چچا نے مکدر ہو کر کہا ۔ میدانم فرزند کیست ۔ باما چگو نہ شگفتہ شود ۔ مرزا عسکری کے گلے میں ایک انگوٹھی سرخ ریشم کی ڈوری میں تھی۔ لال کچھا باہر نظر آتا تھا۔ اکبر نے اس پر ہاتھ بڑھایا۔ بارے چچا نے اپنے گلے سے اتار کر بھتیجے کے گلے میں ڈال دی۔ دل شکستہ ہوا خواہوں نے کہا ۔ کیا عجب ہے خدا ایک دن اسی طرح سلطنت کی انگوٹھی اس نونہال کی انگلی میں پہنا دے۔ غرض جو کچھ مرزا عسکری کے ہاتھ آیا۔ لوٹا گھسوٹا۔ اور اکبر کو بھی اپنے ساتھ قندھارلے گیا۔ قلعے کے اندر ایک بالا خانہ رہنے کو دیا۔ اور سلطان بیگم اپنی بی بی کے سپرد کیا۔ بیگم بڑی محبت و شفقت سے پیش آتی تھی۔ خدا کی شان دیکھو۔ باپ کے جانی دشمن بیٹے کے حق میں ماں باپ ہو گئے۔ ماہم اور جیجی اندر اور میر غزنوی باہر خدمت میں حاضر رہتے تھے۔ یا عنبر خواجہ سرا تھا کہ اکبری اقبال کے دور میں اعتماد خاں ہو کر بڑا صاحب اختیار ہوا۔ ترکوں میں رسم ہے کہ بچہ جب پاؤں چلنے لگتا ہے۔ تو باپ دادا چچا وغیرہ میں سے جو بزرگ موجود ہو۔ وہ اپنے سر سے عمامہ اتار کر بچے کو چلتے ہوئے مارتا ہے۔ اس طرح کہ بچہ گر پڑے اور اس کی بڑی خوشی سے شادی کرتے ہیں۔ جب اکبر سوابر س کا ہوا۔ اور پاؤں چلنے لگا۔ تو ماہم نے مرزا عسکری سے کہا۔ کہ یہاں تم ہی اس کی باپ کی جگہ ہو۔ اگر یہ رسم ادا ہو جائے۔ تو شفقت بزرگانہ سے بعید نہ ہو گا۔ اکبر کہا کرتا تھا کہ ماہم کا یہ کہنا اور مرزا عسکری کا عمامہ پھینکنا اور اپنا گرناوہ ساری صورت حال مجھے اب تک یاد ہے۔ انہیں دنوں میں سر کے بال بڑھانے کو بابا حسن ابدال کی درگاہ میں لے گئے تھے۔ کہ قندھار میں ہے۔ وہ بھی آج تک مجھے یاد ہے۔ جب ہمایوں ایران سے پھرا ۔ اور افغانستان میں آمد آمد کا غل ہوا۔ تو مرزا عسکری اور کامران گھبرائے۔ آپس میں دونوں کے نامہ و پیام دوڑنے لگے۔ کامران نے لکھا کہ اکبر کو ہمارے پاس کابل میں بھیج دو۔ مرزا عسکری نے یہاں مشورت کی بعض سرداروں نے کہا بھائی اب پاس آپہنچا ہے۔ اعزاز و اکرام سے بھتیجے کو بھیج دو۔ اور اسی کو عفو تقصیرات کا وسیلہ قرار دو۔ بعض نے کہا کہ اب صفائی کی گنجائش نہیں رہی۔ مرزا کامران ہی کا کہنا ماننا چاہئے۔ مرزا عسکری کو بھی یہی مناسب معلوم ہوا ۔ اکبر کو سب متعلقوں کے ساتھ کابل بھیج دیا۔ شب برات مرزاکامران نے انہیں خانزادہ بیگم اپنی پھوپھی کے گھر میں اتروایا۔ اور ان کے کاروبار بھی انہیں کے سپرد کئے۔ دوسرے دن باغ شہر آرا میں دربار کیا۔ اور اکبر کو بھی دیکھنے کو بلایا۔ اتفاقاً کا دن تھا ۔ دربار خوب آراستہ کیا تھا۔ وہاں رسم ہے کہ بچے اس دن چھوٹے چھوٹے نقاروں سے کھیلتے ہیں۔ مرزا ابراہیم اس کے بیٹے کے لئے رنگین و نگارین نقارہ آیا۔ اس نے لے لیا اکبر بچہ تھا۔ کیا سمجھتا تھا ۔ کہ میں کس حال میں ہوں اور یہ کیا وقت ہے۔ اس نے کہا کہ یہ نقارہ میں لونگا۔ مرزا کامران تو پورے حیادار تھے۔ انہوں نے بھتیجے کی دلداری کا ذرا خیال نہ کیا کہا کہ اچھا ۔ دونوں کشتی لڑو ۔ جو پچھاڑے اسی کا نقارہ ۔ یہی خیال کیا ہو گا کہ میرا بیٹا اس سے بڑا ہے۔ مارلیگا ۔ یہ شرمندہ بھی ہو گاور چوٹ بھی کھائیگا۔ ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات ہوتے ہیں۔ وہ نو نہال اقبالمندان باتوں کو ذرا خیال میں نہ لایا۔ جھٹ لڑنے کو آگے بڑھالپٹ کر گتھ مٹھ ہو گیا۔ اور ایسا بے لاگ اٹھا کر مارا کہ دربار سے غل اٹھا۔ اور اندر اندر آپس میں کہا کہ اسے کھیل نہ سمجھو۔ یہ باپ کا دمامہ دولت لیا ہے۔ جب ہمایوں نے کابل فتح کیا۔ تو اکبر دو برس دو مہینے آٹھ دن کا تھا۔ بیٹے کو دیکھ کر آنکھیں روشن کیں۔ اور خدا کا شکر بجا لایا۔ چند روز کے بعد تجویز ہوئی کہ ختنے کی کی رسم ادا کی جائے۔ بیگم وغیرہ حرم سرا کی بیبیاں قندھار میں تھیں وہ بھی آئیں۔ اس وقت عجب تماشا ہوا۔ ظاہر ہے کہ جب ہمایوں اور اس کے ساتھ بیگم ایران کو گئے تھے۔ اس وقت اکبر کی کیا بساط تھی ۔ دنوں اور مہینوں کا ہو گا۔ اتنی سی جانکیا جانے کہ ماں کون ہے۔ 1 ۔ انہیں بابا حسن ابدال کے نام سے راہ پیشاور میں ایک منزل مشہور : اب جو سواریاں آئیں تو ان سب کو لا کر محل میں بٹھایا ۔ اکبر کو بھی لائے۔ اور کہا کہ جاؤ مرزا۔ اماں کی گود میں جا بیٹھو ۔ بھولے بھولے بچے نے پہلے تو بیچ میں کھڑے ہو کر ادھر ادھر دیکھا پھر خواہ دانش خداداد کہو۔ خواہ دل کی کشش کہو۔ خواہ لہو کا جوش کہو۔ سیدھا ماں کی گود میں جا بیٹھا ماں برسوں سے بچھڑی ہوئی تھی۔ آنکھوں سے آنسو نکل پڑے۔ گلے سے لگایا اور پیشانی پر بوسہ دیا۔ اس عمر میں اس کی سمجھ اور پہچان پر سب کو بڑی بڑی امید یں ہوئیں۔ 954ھ میں جب کامران پھر باغی ہوا تو کابل کے اندر تھا۔ اور ہمایوں باہر گھیرے پڑا تھا۔ ایک دن دھاوے کا ارادہ تھا۔ باہر سے گوبے برسانے شروع کئے۔ اکثر اشخاص کے گھر اور گھر والے اندر تھے۔ وہ خود ہمایوں کے لشکر میں شامل تھے۔ بے درد کامران نے ان کے گھر لوٹ لئے۔ ننگ و ناموس برباد کئے۔ ان کے بچوں کو مار مار کر فصیل پر سے پھنکوایا۔ ان کی عورتوں کی چھاتیاں باندھ باندھ کر لٹکایا۔ غضب یہ کیا کہ جس مورچے پر لوگوں کا زور تھا۔ پونے پانچ برس کے معصوم بھتیجے کو وہاں بٹھا دیا۔ ماہم نے گود میں دبکا لیا۔ اور ادھر سے پیٹھ کر کے میٹھ گئی۔ کہ اگر گولا لگے تو بالا سے پہلے میں پیچھے بچہ ۔ ہمایوں کے لشکر میں کسی کو اس حال کی خبر نہ تھی۔ یکایک توپ چلتے چلتے بند ہو گئی۔ کبھی مہتاب دکھائی ۔ تو رنجک چاٹ گئی کبھی گولا اگل دیا۔ سنبل خاں میرآتش بڑا تیز نظر تھا۔ اس نے غور سے دیکھا تو سامنے آدمی بیٹھا معلوم ہوا ۔ دریافت کیا تو یہ حقیقت حال معلوم ہوئی۔ آزاد ۔ یہ کچھ بڑی بات نہیں جب اقبال رفیق حال ہوتا ہے۔ تو ایسا ہی ہوتا ہے۔ اور مجھے تو سردار عرب و عجم کا قول نہیں بھولتا۔ اجللک حافظک تیری اجل ہی محافظ ہے۔ جب تک اس کا وقت نہیں آیا۔ تب تک کسی حربۂ ہلاکت کو تجھ پر اثر نہ کرنے دے گی۔ موت خود اسے روکے گی اور کہے گی تو ابھی سے اسے کیونکہ ہلاک کرتا ہے۔ یہ تو فلاں وقت پر میرے حصہ میں آنے والا ہے۔ جب 961ہجری میں ہمایون نے ہندوستان کی طرف فتح کا نشان کھولا تو اقبال منڈبیٹا ساتھ تھا اور 12 برس آٹھ مہینے کی عمر تھی۔ ہمایوں نے لاہور میں مقام کیا۔ امرا کو آگے بڑھایا۔ افغانوں نے نواح جالندھر میں بڑی شکست اٹھائی۔ سکندر سورنے خواتین افغان اور دلاور پٹھانوں کا اتنی ہزار انبوہ درانبوہ لشکر جمع کیا اور سرہند پر جم کر سد سکندر ہو گیا۔ بیرم خاں فوج لے کر آگے بڑھا۔ شہزادے کو سپہ سالار قرار دیا۔ اور مورچے باندھ کر لڑائی ڈالی۔ اسی عرصے میں ہمایوں بھی لاہور سے جا پہنچا۔ ان میدانوں میں اکبر نے ہمت و جرأت کے خوب خوب نشان دکھائے اور آخر یہ معرکہ اسی کے نام پر فتح ہوا۔ بیرم خاں نے کلہ مینار یادگار بنایا۔ 1؎۔شاہان ایشیا کا قدیمی دستور ہے۔ کہ جب لڑائی کا میدان مارتے ہیں تو مقام جنگ میں ایک بلند اور نمودار مقام پر بڑا ساگڑ ھا کھودتے ہیں۔ باغیوں کے سرکاٹ کراس میں بھرتے ہیں اس پر ایک بلند عمارت شکل مینار بناتے ہیں کہ فتح کی یادگار رہے اور دیکھنے والوں کو عبرت ہو اس کو کلہ منار کہتے ہیں۔ اور اس مقام کا نام سر منزل رکھا۔ فتحیاب بادشاہ اور ظفر یاب شہزادہ کامیابی کے نشان لہراتے دلی ہیں داخل ہوئے۔ آپ وہاں بیٹھے۔ امرا کو اطراف ممالک میں ملک گیری کے لیے روانہ کیا۔ سکندر سورمان کوٹ کے قلعوں کو امن کا گنبد سمجھ کر پہاڑ کے دامنوں میں دبک بیٹھا تھا اور وقت کا منتظر تھا کہ جب ہوائے اقبال آئے۔ ابری کی طرح پہاڑ سے اٹھے۔ اور پنجاب پر چھا جائے۔ ہمایوں نے شاہ ابو المعالی کو صوبہ پنجاب دیا۔ اور چند امرا نے جنگ آزمودہ کو ساتھ کیا کہ فوجیں لیکر ہمراہ ہوں۔ وہ جب آئے تو سکندر افواج شاہی کی ٹکر نہ اٹھا سکا۔ اس لئے پہاڑوں میں گھس گیا۔ شاہ ابوالمعالی لاہور میں آئے ۔ کہ قدیم الایام سے شاہ نیشن شہر ہے۔ یہاں شاہی فرما نروائی کی شان دکھائی۔ جو امرا مدد کو آئے تھے۔ یا پہلے سے پنجاب میں تھے ان کے رتبے اور علاقے خاص بادشاہ کے دیئے ہوئے تھے۔ شاہ ابوالمعالی کے دماغ میں شاہی کی ہوا بھری ہوئی تھی۔ ان کی جاگیروں کو پھوڑا توڑا ۔ بلکہ پر گنات خالصہ میں تصرف کیا اور خزانے میں بھی ہاتھ ڈالا ۔ یہ شکایتیں دربار میں پہنچ ہی رہی تھیں۔ کہ سکندر نے بھی زور پکڑنا شروع کیا۔ اس وقت ہمایوں کو بندوبست مناسب کرنا واجب ہوا ۔ چنانچہ ملک پنجاب اکبر کے نام کر دیا اور بیرم خاں کو اس کا اتالیق کر کے ادھر رواد کیا۔ جب اکبر آیا تو شاہ ابوالمعالی نے سلطان پور کنار بیاس تک پیشوائی کی۔ اکبر نے بھی باپ کی آنکھ کا لحاظ کر کے بیٹھنے کی اجازت دی مگر شاہ جب اپنے ڈیروں میں گئے۔ تو شکایت سے لبریز گئے۔ اور اکبر کو کہلا بھیجا۔ کہ جو عنایت بادشاہ مجھ پر فرماتے ہیں سب کو معلوم ہے ۔ آپ کو بھی یاد ہو گا کہ جوئے شاہی کے شکار میں مجھے ساتھ کھانے کو بٹھایا ۔ اور تم کو الش بھیجا۔ اور ایسا اکثر ہوا ہے۔ پھر کیا بات ہے کہ آپ نے میرے بیٹھنے کو نمدتکیہ الگ بچھوایا۔ اور دستر خوان بھی الگ تجویز کیا۔ اکبر کی بارہ تیرہ برس کی عمر تھی۔ مگر رہانہ گیا اور کہا تعجب ہے ۔ میر کو ابتک نسبتوں کی کیفیت کا امتیاز نہیں۔ آئین سلطنت کا اور عالم ہے۔ اور شفقت و محبت کا رستور کچھ اور ہے۔ (شاہ کا حال دیکھو تتمہ میں) 1 ؎ اب اسے سلطان پور ڈھیریاں کہتے ہیں ویران پڑا ہے اور کوسوں تک عمارت عالیشان کے کھنڈر چلے جاتے ہیں۔ کپڑے کے رنگ میں مشہور ہے۔ وہاں کی آب و ہوا میں قدرتی تاثیر ہے۔ پرانی وضح کی چھینٹیں اب تک چھپتی ہیں۔ کوئی صاحب ہمت کاریگروں کی دستگیری کرنیوالا ہو تواب بھی دستکاری دکھانیکو حاضر ہیں ۔ تاریخ فرشتہ میں بھی اس کے مصنف نے اس شہر کا حال اور آبادی کی رونق دکھائی ہے۔ مصنف مذکور عہدمذکور و عہد جہانگیری میں عادل شاہ کیطرف سے خود وکیل ہو کر آیا تھا۔ جہانگیر اس وقت لاہور میں تھا۔ اور شہر مذکور شاہراہ کے سرے پر تھا۔ اور کثرت آبادی اور عمارات حالی سے گلزار ہو رہا تھا۔ ایک زمانے میں دولت خاں لودھی کا دارالحکومت تھا ۔ 2 ؎ جوئے شاہی و وہی مقام ہے جو راہ پشاور کابل میں اب حلال آباد کہلاتا ہے۔ ہمایوں نے علاقہ مذکور بچپن ہی میں اکبر کے نام کر دیا تھا اہل تاریخ کہتے ہیں کہ اسی سال سے اس کی سر سبزی اور پیداوار میں ترقی ہونے لگے۔ جب اکبر بادشاہ ہوا تو اس کی آبادی اور تعمیر بڑھا کر جلال آباد نام رکھا تھا۔ کتب قدیمہ میں اس علاقہ کا نام ننگ نہار لکھا ہوا نظر آتا ہے۔ خانخا ناں نے اکبر کو ساتھ لیا۔ اور دریائے لشکر کو پہاڑ پر چڑھا دیا۔ سکندر نے جب طوفان آتا دیکھا تو قلعہ بند ہو کر بیٹھ گیا۔ لڑائی جاری تھی۔ بہادروں کی تلواریں لہو سے کارناموں کی تصویریں کھینچتی تھیں کہ برسات آگئی۔ پہاڑ میں یہ موسم بہت دق کرتا ہے۔ اکبر پیچھے ہٹ کر ہوشیار پور کے میدانوں میں اتر آیا۔ اور ادھر ادھر شکار میں دل پہلانے لگا۔ ہمایوں دلی میں بیٹھا آرام اور ملک کے انتظام میں مصروف تھا۔ کہ دفعتہ کتاب بنانے کے کوٹھے پر سے گر پڑا۔ جاننے والے جان گئے کہ گھڑی ساعت کا مہمان ہے۔ نیم جاں کو اٹھا کر محل میں لے گئے۔ اسی وقت اکبر کو عرضی کی اور یہاں ظاہر کیا کہ چوٹ سخت آئی ہے اور ضعف زور پر ہے۔ اس لئے باہر نہیں نکلتے خاص خاص مصا جب اندرجاتے تھے۔ اور کوئی سلام کو بھی نہ جاتا تھا۔ باہر یہ صورت کہ کبھی دواخانے سے دوا جاتی ہے۔ کبھی باورچی خانے سے مرغ کا شوربا۔ دمبدم خبر آتی ہے۔ کہ اب طبیعت بحال ہے ۔ اور اس وقت ذرا ضعف زیادہ ہے۔ اور وہ اندر ہی اندر بہشت میں پہنچ گئے۔ حکمت عملی دربار میں شکیبی شاعر تھا کہ قدوقامت ۔ صورت شکل میں ہمایوں سے بہت مشابہ تھا۔ کئی دفعہ اسے بادشاہ کے کپڑے پہنا کر محل سرا کے کوٹھے پر سے اہل دربار کو دکھایا اور کہا کہ ابھی حضور کو باہر آنے کی طاقت نہیں۔ دیوان عام کے میدان سے مجرا کر کے رخصت ہو۔ جب اکبر تخت نشین ہوا اور سب طرف فرمان جاری ہو گئے۔ تب بادشاہ کے مر نے کا حال ظاہر کیا۔ سبب یہی تھا کہ اس زمانے میں بغاوت اور بدعملی کا ہو جانا ایک بات تھی۔ خصوص ایسے موقع پر کہ سلطنت کے قدم بھی نہ ٹکے تھے۔ اور ہندوستان افغانوں کی کثرت سے افغانستان ہو رہا تھا۔ کلانور دھر جس وقت ہر کارے نے آکے خبر دی۔ اکبر کے ڈیرے اس وقت بڈھانے کے مقام پر تھے۔ سپہ سالار نے آگے بڑھنا مناسب نہ سمجھا۔ کو پھرا جواب علاقہ گورداس پور میں ہے ساتھ ہی نذر شیخ چولی ہمایوں کا مراسلہ لے کر پہنچا۔ جس کا لفظی ترجمہ یہ ہے : ۔ 7 ۔ ربیع الاول کو ہم مسجد کے کوٹھے سے کہ دولت خانے کے پاس ہے۔ اترتے تھے۔ سیڑھیوں میں اذاں کی آواز میں آئی۔ بہ مقتضائے ادب زینے میں بیٹھ گئے۔ موذن نے اذان کو پورا کیا تو اٹھے کہ اتریں۔ اتفاقاً عصا کا سراقبا کے دامن میں اٹکا۔ ایسا بے طور پاؤں پڑا کہ نیچے گر پڑے۔ پتھر کی سیڑھیاں تھیں۔ کان کے نیچے کگر کی ٹکر لگی۔ کچھ لہو کی بوندیں ٹپکیں ۔ تھوڑی دیر بیہوشی رہی۔ ہوش بجا ہوئے تو ہم دولت خانہ میں گئے۔ الحمداللہ خیر ہے۔ اصلاً وہم کو دل میں راہ نہ دینا۔ فقط۔برابر ہی خبر پہنچی کہ 15 کو ہمارے ہمایوں نے عالم قدس کو پرواز کی۔ خانخاناں نے امرا کو جمع کر کے جلسہ کیا۔ اور بموجب اتفاق رائے کے جمعہ کے دن 2 ربیع الثانی 963ہجری نماز کے بعد تیموری تاج نے اکبری اقبال کے رنگ میں جلوہ دکھایا۔ اس وقت اس کی عمر شمسی حساب سے تیرہ برس نو مہینے کی اور قمری حساب سے 14 برس کئی مہینے کی تھی۔ بموجب آئین چنگیزی و تیموری کے تمام رسمیں جشن شاہانہ کی ادا ہوئیں۔ بہار نے پھول برسائے۔ آسمان نے تارے اتارے۔ اقبال نے خبر سن کر سر پر سایہ کیا۔ امرا کے منصب بڑھے۔ خلعت انعام جاگیریں تقسیم ہوئیں۔ فرمان جاری کئے۔ اکبر بموجب باپ کی وصیت کے خانخانان کی بہت عزت و عظمت کرتا تھا۔ اور حق یہ ہے کہ اس کی جاں نثاریاں جو سخت خطر ناک معرکوں میں خصوصا سفر ایران پر ظہور میں آئی تھیں وہ ہر وقت اس کی سفارش کرتی تھیں چنانچہ اب اتالیقی و سپہ سالار ی کے منصب پر وکیل مطلق کا عہدہ زیادہ کیا ۔ اس موقع پر کہ ہمایوں کا ہمائے روح دفعتہ کا ہمائے روح دفعتہ پرواز کر گیا۔ اور اکبر کے سر پر ہمائے سلطنت نے سایہ ڈالا شاہ ابو المعابی کی نیت بگڑی خانخانان جس کے دستر خوان پر 30 ہزار شمشری بہادر پلاؤ کی قابیں گھسیٹیں۔ اس کے نزدیک شاہ کا پکڑ لینا کیا بڑی بات تھی۔ ذرا اشارہ کرتا خیمے میں گھس کر باندھ لاتے۔ مگر تلوار ضرور چلتی ۔ خون بھی بہتے۔ اور یہاں ابھی معاملہ نازک تھا۔ لشکر میں ہل چل پڑ جاتی ۔ خدا جانے نزدیک و دور کیا کیا ہوائیاں اڑتیں۔ جوچوہے گمنامی کے بلوں میں جا بیٹھے تھے۔ پھر شیر بن بن کر نکل آتے۔ اس لئے سو چا اور بہت مناسب سوچا کہ حکمت عملی سے اسے قابومیں کرلینگے ۔ کشت و خون سے کیا حاصل۔ جب دربار تخت نشینی ہوا تھا۔ تو شاہ ابوالمعالی اس میں شامل نہ ہوئے تھے۔ اورپ ہلے بھی ان کی طرف سے کھٹکا تھا۔ ساتھ ہی یہ بھی معلوم ہوا کہ وہ اپنے خیمے میں بیٹھے فرزندی کے دعوؤں سے بلند پروازیاں کرتے ہیں۔ اور خوشامدی ہم جنس اور انہیں آسمان پر اڑاتے ہیں ۔ بیرم خان نے امراء سے مشورت کی اور تیسرے دن دربار سے پیغام بھیجا کہ بعض مہمات سلطنت میں مصلحت در پیش ہے۔ ارکان دولت حاضر ہے۔ بے تمہارے صلاح ناتمام ہے۔ تھوڑی دیر کیلئے تشریف لانا مناسب ہے۔ پھر حضرت سے رخصت ہو کر لاہور کو روانہ ہو جاؤ۔ وہ غرور کی شراب میں بد مست تھا۔ اور خدا جانے کیا کیا خیال باندھ رہا تھا۔ کہلا بھیجا کہ صاحب میں شاہ غفران پناہ کے غم میں ہوں۔ مجھے ان باتوں کا ہوش نہیں۔ میں نے ابھی سوگ بھی نہیں اتارا۔ اور بالفرض اگر میں آیا تو نئے بادشاہ مراتب اعزاز میں کس طرح پیش آئیں گے ؟ نشست کہاں قرار پائی ہے۔ 1 ؎ ہمایوں نے پہلے 10 برس دوسری دفعہ 10 مہینے سلطنت کی ۔ امرا مجھے سے کس طرح پیش آئیں گے ؟ وغیرہ وغیرہ طول طویل تقریریں اور حیلے حوالے کہلا بھیجے۔ خیر یہاں تو یہ مطلب تھا کہ ایک دفعہ وہ دربار تک آجائیں ۔ جو جو انہوں نے کہا۔ سب بے عذر منظور ہوا۔ اور وہ تشریف لائے اور بعض امورات سلطنت میں گفتگو ہوئی۔ اسی عرصے میں دستر خوان بچھا۔ شاہ صاحب نے سلابچی پر ہاتھ بڑھائے۔ تو لک خاں قوجیں افسر توپ خانہ ان دنوں خوب بھسنڈ بنا ہوا تھا۔ بے خبر پیچھے سے آیا اور شاہ کی مشکیں کس لیں۔ شاہ تڑپ کر اپنی تلوار کی طرف پھرے۔ جس سپاہی زادہ کے پاس تلوار رہتی تھی اسے پہلے ہی کھسکا دیا تھا غرض کہ شاہ قید ہو گئے بیرم خاں کا ارادہ قتل کا تھا۔ مگر پہلا رحم اکبر کا جو ظاہر ہوا۔ یہی تھا کہ اس نے کہا جان کھونی کیا ضرورت ۔ قید کر دو ۔ چنانچہ پہلوان گل گز کوتوال کے حوالے کیا۔ شاہ نے بڑی کرامات دکھائی۔ سب کی آنکھوں میں خاک ڈالی اور قید سے بھاگ گئے۔ پہلوان بچارا عزت کا مارا زہر کھا کر مر گیا۔ سال اول جلوس میں کل اشیائے سودا گری پر سے محصول کا بند کھول دیا۔ کئی برت تک سلطنت کے کاروبار اپنے ہاتھ میں نہیں لئے اس لئے پوری پوری تعمیل ہیں ہوئی مگر اس کی نیت نے جوہر دکھا دیا۔ جب اپنا کام آپ کرنے لگا۔ تو تجویز کو پورا کیا۔ اس وقت بھی اہل کاروں نے سمجھایا کہ ملک ہند ہے۔ اس کی یہ رقم ایک ولایت کا خرچ ہے۔ مگر اس دریا دل نے ایک نہ سنی اور کہا جب خلق خدا کی جب کترکر توڑے بھرے تو اس خزانے پر بھی حیف ہے۔ اکبری لشکر سکندر کو دبائے پہاڑوں میں لئے جاتا تھا۔ برسات کا موسم آہی گیا تھا۔ مینہ کی فوج با دلوں کے دگلے۔ اور شقق کی رنگا رنگ وردیاں پہن کر موجود ات دینے آئی۔ انہوں نے غنیم کو پتھروں کے حوالے کیا اور آپ جالندھر میں آکر چھاؤنی ڈالی۔ مینہ کی بہاریں دیکھ رہے تھے اور غنیم کا رستہ رد کے ہوئے تھے۔ کہ سر نکالنے نہ پائے۔ اکبر بھی شکار کھیلتے تھے۔ نیزہ بازی ۔ چوگان بازی ۔ تیر اندازی کرتے تھے۔ ہاتھی لڑاتے تھے۔ خان بابا سلطنت کے بندوبستوں میں تھے۔ جو یکایک خبر پہنچی کر ہیموں بقال نے آگرہ لے کر دلی مارلی۔ اور تردی بیگ وہاں کا حاکم بھاگا چلا آتا ہے۔ ہیموں بقال اس کی اصل و نسل اور ترقی کا مفصل حال تتمے میں دیکھو ۔ یہاں اتنا سمجھ لو کہ اس نے افغانی اقبال کی آندھیوں میں ترقی کی پرواز کی تھی۔ جو سردار بادشاہی کے دعویدار ۔ اور اس کے بڑھانے اور دھادوں کے میدان چڑھانے والے تھے۔ وہ آپس میں کٹ کر مر گئے۔ بنی بنائی فوج اوربادشاہی خزانے اس کے قبضے میں آگئے۔ ملک دل میں خیالات کی نسل پھیلنی شروع ہوئی اسی عرصے میں ہمایوں کو مرگ ناگہانی پیش آئی۔ ہیموں کے دماغ میں جو امید نے انڈے بچے دیئے تھے۔ انہوں نے کہا سلطنت کے پروبال نکالے۔ سمجھا کہ 14 برس کا لڑکا تخت پر ہے۔ وہ بھی سکندر سور کے ساتھ پہاڑوں میں الجھا ہوا ہے۔ صاحب ہمت بقال نے میدان خیال میں اپنے حال کی موجودات لی۔ افغانوں کے انبوہ بے حساب گرد نظر آئے۔ کئی بادشاہوں کی کمائی ۔ خزانے اور سلطنت کے کارخانے ہاتھ کے نیچے معلوم ہوئے تجربے نے کان میں کہا کہ اب تک جدھر ہاتھ ڈالا ہے۔ پورا پڑا ہے ۔ بابر کئے دن یہاں رہا ہمایوں کے رات یہاں رہا۔ اس لڑکے کی بنیاد کیا ہے۔ غرض جس لشکر کو ایسے قدرتی موقع کی امید پر تیار کر رہا تھا۔ اسے اپنی ذاتی لیاقت سے ترتیب دے کر روانہ ہوا۔ آگرے میں اکبر کیطرف سے سکندر خاں حاکم تھا۔ اس کے ہوش غنیم کی آمد آمد ہی میں اڑ گئے۔ آگرے جیسا مقام ۔ دستے میں ایک مقام پر دل شکستہ سکندر الٹ کر اڑا ۔مگر کئی ہزار سپاہیوں کوقتل قید اور دریا میں غرق کروایا اور پھر بھاگ نکلا۔ ہیموں کا حوصلہ اور زیادہ ہوا او ر طوفان کی طرح دلی کا رخ کیا۔ بڑے بڑے جتھے والے افغان ۔ جنگی تجربہ کار اور جنگ کے بھاری سامان 500ہزار فوج جرار پٹھان اور راجپوت میواتی وغیرہ کی ۔ ہزار ہاتھی ۔ 51توپ قلعہ شکن ۔ پانسو گھڑنال اور شتر نال زنبورک ساتھ تھے۔ اس دریا نے جگہ سے جنبش کی۔ اور جہاں جہاں چغتائی حاکم بیٹھے تھے۔ سب کو رولتا ہوا دلی پر آیا۔ اور خوش آیا کہ اس وقت وہاں تردی بیگ حاکم تھا۔ جس کی ضعف تدبیر اور بے ہمتی کے کارناموں کی اسے بھی خبر تھی۔ تردی بیگ کو جب یہ خبر پہنچی۔ تو ایک عرضی اکبر کو لکھی۔ اور امرائے بادشاہی جو نزدیک وہ دور تھے۔ انہیں خطوط روانہ کئے۔ کہ جلد حاضر اور جنگ میں شامل ہو۔ باوجود اس کے آپ کچھ بندوبست نہ کیا۔ جب غنیم کے لشکر کی شان اور سازو سامان کی خبر دھوم دھام سے اڑیں۔ تو مشورے کا جلسہ کر کے گفتگو شروع کی ۔ بعض کی صلاح ہوئی کہ قلعہ بند ہو کر بیٹھے رہو اور لشکر بادشاہی کا انتظار کرو۔ اس عرصے میں جب موقع پاؤنکل کر شب خون مارو۔ اور ترکانہ حملے بھی کرتے رہو۔ بعض کی صلا ح ہوئی کہ پیچھے ہٹو اور بادشاہی لشکر کے ساتھ آکر مقابلہ کرو۔ بعض کی صلاح ہوئی کہ علی قلی خاں بھی سنبھل سے آتا ہے۔ اس کا انتظار کرو کہ زبردست سپہ سالار ہے۔ دیکھیں وہ کیا کہتا ہے یہاں تک کہ غنیم لڑائی کے پلے پر آگیا اور کوئی پہلو نہ رہا مگر یہ کہ نکلیں اور لڑمریں۔ چنانچہ فوکیں لیکر بڑھے۔ اور تغلق آباد پر میدان جنگ قرار پایا۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ اکبری اقبال یہاں بھی کام کر گیا تھا۔ مگر خواہ تردی بیگ کی بے ہمتی نے ۔ خواہ اس کی قضا نے مارا ہوا میدان ہاتھ سے کھود یا۔ خان زمان برق کے گھوڑے پر سوار آیا تھا مگر میرٹھ میں پہنچا تھا کہ یہاں کام تمام ہو گیا۔ اس لڑائی کا تماشا دیکھنے کے قابل ہے۔ 1 ؎ تغلق آباد دہلی سے قریب ساتھ کوس کے ہے۔ جس وقت دونوں لشکر صفیں باندھ کر میدان می جمے۔ تو آئین جنگ کے بموجب امراے شاہی آگاہ پیچھا۔ دایاں ۔ بایاں سنبھال کر کھڑے ہوئے ۔ تردی بیگ قلب میں قائم ہوئے۔ ملا پیر محمد کہ لشکر بادشاہی سے ضروری احکام لے کر آئے تھے۔ پہلو میں جم گئے۔ ادھر ہیموں بھی لڑائی کا مشاق ہو گیا تھا۔ اور پرانے جنگ آزمودہ افغان اس کے ساتھ تھے۔ اس نے بھی اپنے گرد فوج کا قلعہ باندھا ۔ اور مقابل ہوا۔ لڑائی شروع ہوئی۔ پہلے توپ و تفنگ کے گولوں نے لڑائی کے پیغام پہنچائے۔ تیزوں کی زبانیں جنبش میں آئی۔ تھوڑی ہی دیر میں لشکرہی کا ہرا دل اور داہنا ہاتھ آگے بڑھا۔ اور اس زور سے ٹکر ماری کہ اپنے سامنے کے حریفوں کو الٹ کر پھینک دیا۔ وہ گڑ گانوے کی طرف بھاگے۔ اور یہ انہیں ریلتے دھکیلتے پیچھے ہوئے ۔ ہیموں اپنے فدائیوں کی فوج اور تین سو ہاٹھی کا حلقہ لئے کھڑا تھا کہ اسی کا اسے بڑا گھمنڈ تھا۔ اور دیکھ رہا تھا کہ اب ترک کیا کرتے ہیں۔ ادھر تردی بیگ بھی منتظر تھے کہ آدھا میدان تو مار لیا ہے۔ آگے کیا کرنا چاہئے۔ اس انتظار میں کئی گھنٹے گزر گئے۔ اور جو فوج فتحیاب ہوئی تھی۔ وہ مارا مارا کرتی ہو دل پلول تک جاپہنچی۔ آخر تردی بیگ سوچ میں رہے اور جو انہیں کرنا چاہئے تھے وہ اس نے کیا کہ ان پر دھاوا کر دیا۔ اور بڑے پیچ سے کیا۔ جو فوج شاہی اس کی فوج کو مارتی ہوئی گئی تھی۔ اس کے گردو پیش سوار دوڑا دئے۔ اور کہا ۔ کہتے چلے جاؤ کہ الور سے حاجی خاں افغان ہیموں کی مدد کو پہنچا ۔ اور تردی بیگ کو بھگا دیا۔ مگر حاجی خاں بھی اسی رستے پھر آتا ہے۔ کیونکہ جانتا ہے۔ ترک دغا باز ہوتے ہیں۔ مبادا بھاگ کر پلٹ پڑیں۔ ادھر تو وہ چکمہ چلا۔ ادھر تردی بیگ پر حملہ کیا جو بے وقوف باوجود کامیابی کے چپ چاپ کھڑا تھا۔ اور ہیموں اب حملہ نہ کرتا تو وہ احمق تھا۔ کہ حریف کی بے ہمتی کھلی نظر آتی تھی۔ اور آگا اور ایک بازو اس کا صاف میدان ۔ غضب یہ ہوا کہ تردی بیگ کے قدم اکھڑ گئے۔ اور ہزار غضب یہ کہ رفیقوں کی ہمت نے بھی دغا کی۔ خصوصأ ملا پیر محمد کہ حریف کی آمد کو دیکھتے ہی ایسے بھاگ نکلے۔ گویا ۔ اسی ساعت کے منتظر تھے۔ لڑائی کا قاعدہ ہے کہ ایک کے پاؤں اکھڑے اور سب کے اکھڑے ۔ خدا جانے اصل معاملہ کیا ہو کہتے ہیں کہ خانخاناں کی تردی بیگ سے کھٹکی ہوئی تھی۔ ملا ان دنوں میں خانخاناں کے رفیق خاص الخاص بنے ہوئے تھے اور اس نے اسی غرض سے انہیں بھیجا تھا ۔ خان خانان ! اگر ا یسا کیا تو حیف ہے تمہاری اس دانائی اور ذہن کی رسائی پر جو ایسی باریکیوں کی تلاش میں خرچ ہوئی۔ فتحیاب حملہ آور جو ہو ڈل پلول سے سرداروں کے سر اور لوٹ کے مال باندھے پھرے تو پریشان خبریں سنتے ۔ حیران چلے آتے تھے۔ شام کو مقام پہ پہنچے ۔ تو دیکھتے ہیں کہ جہاں تردی بیگ کو چھوڑا تھا۔ وہاں حریف کا لشکر اتر ا ہوا ہے۔ چپ رہ گئے کہ کیا ہوا ؟ فتح کی تھی ۔ شکست بن گئی۔ چپ چاپ دلی کے برابر سے آہستہ آہستہ نکل کو پنجاب کی طر ف چلے۔ ادھر فتح یاب جب تغلق آباد تک پہنچ گیا تو اس سے کب رہا جاتا تھا۔ دوسرے ہی دن ہیمول دلی میں داخل ہوئے۔ دلی عجب مقام ہے ! کون ساسر ہے کہ ہوائے حکومت رکھے اور وہاں پہنچ کر تخت پر بیٹھنے کی ہوس نہ کرے۔ اس ہمت والے نے فقط جشن اور راجہ مہاراجہ کے خطاب پر قناعت نہ کی بلکہ بکر ماجیت کے خطاب کو نام کا تاج کیا۔ اور سچ ہے ۔ دلی جیتی بکر ماجیت کیوں نہ ہوں۔ دلی لے کر اس کا دل ایک سے ہزار ہو گیا تھا۔ تردی بیگ کی بے ہمتی کو آیندہ کی روئداد کا نمونہ سمجھا۔ اور سامنے میدان کھلا نظر آیا۔ وہ جانتا تھا کہ خان خاناں نوجوان بادشاہ کو لئے سکندر کے ساتھ پہاڑوںمیں پھنسا ہوا ہے۔ اس لئے دلی میں ایک دم ٹھیرنا مناسب نہ سمجھا۔ بڑھے گھمنڈ کے ساتھ پانی پت پر فوج روانہ کی۔ اکبر جالندھر میں چھاؤنی ڈالے مینہ کے تماشے دیکھ رہا تھا۔ یکا یک خبر پہنچی۔ کہ ہیموں بقال عدلی کا سپہ سالار رامرائے شاہی کو سامنے سے ہٹاتا۔ منزلوں کے ورق الٹتا چلا آتا ہے۔ کہ آگرے سے سکندر خاں ازبک بھاگا۔ ساتھ ہی سنا کہ غنیم نے تردی بیگ کو توڑ کر دلی بھی مارلی۔ ابھی باپ کا سایہ سر پر سے اٹھا ۔ ابھی یہ شکست عظیم پیش آئی۔ اس پر ایسے سخت غنیم سے سامنا ! افسردہ ہو گیا۔ اور لشکر میں خبریں برابر پہنچ رہی ہیں۔ کہ فلاں امیر چلاآتا ہے۔ فلاں سردار بھی بھاگا آتا ہے۔ ساتھ ہی خبر آئی کہ علی قلی خاں میدان جنگ میں نہ پہنچ سکا تھا وہ جمنا پار تھا کہ دلی کی مہم طے ہو گئی۔ دو تخت گاہیں ہاتھ سے نکل گئیں۔ لشکر میں کھلبلی پڑ گئی۔ اور شیر شاہی معرکے یاد آگئے۔ امرا نے آپس میں کہا کہ موقع بیڈ ھب ان پڑا ہے۔ بہتر ہے کا بل کو اٹھ چلیں سال آیندہ میں سامان کر کے ائیں گے اور غنیم کو دفع کرینگے۔ خان خانان نے جب یہ رنگ دیکھا۔ تو خلوت میں اکبر سے سارا حال عرض کیا اور کہا کہ حضور کچھ فکر نہ کریں یہ بے مروت بے ہمت جان کو عزیز کر کے ناحق حوصلہ ہارتے ہیں۔ آپ کے اقبال سے سب سر انجام و انتظام ہوجائیگا۔ فدوی جلسۂ مشورت کر کے انہیں بلاتا ہے۔ فقط حضور کا دست اقبال میری پشت پر چاہئے۔ چنانچہ امرا بلائے گئے۔ انہوں نے وہی تقریریں ادا کیں۔ خان خانان نے کہا۔ ایک برس کا ذکر ہے۔ جو شاہ جنت مکان کی رکاب میں ہم تم آئے۔ اور اس ملک کو سر سواری مارلیا اس وقت لشکر ۔خزانہ ۔ سامان جس پہلو سے دیکھو پہلے سے زیادہ ہے۔ ہاں ! کمی ہے تو یہ ہے کہ وہ شاہ نہیں۔ پھر بھی خدا کا شکر کرو اگرچہ ہما نظر نہیں آتا مگر اس کا سایہ سر پر موجود ہے۔ یہ معاملہ کیا ہے ! جو ہم ہمت ہاریں ۔ کیا اس واسطے کہ اپنی جانیں پیار ی ہیں۔ کیا اس واسطے کہ بادشاہ ہمارا نوجوان لڑکا ہے ؟ افسوس ہے ہمارے حال پرکہ جس کے بزرگوں کا ہم نے اور ہمارے باپ دادا نے نمک کھایا ہے۔ ایسے نازک وقت میں اس سے جانیں عزیزکریں اوروہ ملک جس پر اس کے باپ اور دادا نے تلواریں مار کر ۔ہزار جان جو کھوں اٹھا کر قبضہ پایا تھا۔ اسے مفت غنیم کے حوالے کر کے چلے جائیں۔ جبکہ ہمارے پاس کچھ سامان نہ تھا اور سامنے دو پشت کے دعویدار افغان تھے۔ وہ تو کچھ نہ کر سکے۔ یہ 16سو برس کا مرا ہوا بکر ماجیت آج کیا کر ل گا۔ برائے خدا ہمت نہ ہارو اور ذرا خیال کرو۔ عزت اور آبرو کو تو یہاں چھوڑا۔ جانیں لے کر نکل گئے تو منہ کس ملک میں دکھائیں گے۔ سب کہیں گے کہ بادشاہ تو لڑکا تھا۔ تم کہنہ عمل۔ کہن سال سپاہیوں کو کیا ہوا تھا۔ مار نہ سکتے تھے تو مر ہی گئے ہوتے۔ یہ تقرپرسن کر سب چپ ہو گئے۔ اور اکبر نے امراے دربار کیطرف دیکھ کر کہا کہ دشمن سر پر آ پہنچا کابل بہت دور ہے۔ اڑ کر بھی جاؤ گے تو نہ پہنچ سکو گے۔ اور میرے دل کی بات تو یہ ہے کہ اب ہندوستان کے ساتھ سر لگا ہوا ہے۔ جو ہو سویہیں ہو۔ یا تخت یاتختہ ۔ دیکھو خان بابا ! شاہ مغفرت پناہ نے بھی سب کاروبار کا اختیار تمہیں دیا تھا۔ میں تمہیں اپنے سر کی اور ان کی روح کی قسم دے کر کہتاہوں۔ کہ جو مناسب وقت اور مصلحت دولت دیکھو۔ اسی طرح کرو۔ دشمنوں کی کچھ پرواہ نہ کرو ۔میں نے تمہیں اختیار دیا۔ یہ سن کر امرا چپ ہو گئے۔ خان بابا نے فوراً تقریر کا رنگبدلا۔ بڑی اولوالعزمی اور بلند نظری سے سب کے دل بڑھائے ۔ اور دو ستانہ مصلحتوں کے ساتھ نشیب و فراز دکھا کر متفق کیا۔ امرا ے اطراف کو اور جو شکستہ حال دلی سے شکست کھا کر آئے تھے۔ ان کے نام دل دہی اور دلاسے کے فرمان جاری کر کے لکھا کہ تم بہ اطمینان تھا نیسر کے مقام میں آکر ٹھیرو۔ ہم خود لشکر منصور کو لئے آتے ہیں غرض عید قربان کی نماز جالندھر کی عید گاہ میں پڑھی اور مبارک باد لیکر پیش خیمہ دلی کی طرف روانہ ہوا۔ فال مبارک سلاطین سلف میں بہت سے شغل تھے کہ شوق ہائے شاہانہ سمجھے جاتے تھے۔ ان ہی میں مصوری تھی۔ ہمایوں کو تصور کا بہت شوق تھا۔ اکبر کو حکم دیا تھا کہ تم بھی سیکھا کرو۔ جب سکندر کی مہم فتح ہو چکی (ہیموں کی بغاوت کا ابھی ذکر فکر بھی نہیں تھا) اکبر ایک دن تصویر خانے میں بیٹھا تھا۔ مرقع کھلے تھے۔ مصور حاضر تھے۔ ہر شخص اپنی دست کاری میں مصروف تھا۔ اکبر نے ایک تصویر کھینچی ۔ کہ گویا ایک شخص کاسر ہاتھ پاؤں الگ الگ کٹے پڑے ہیں۔ کسی نے عرض کی حضور یہ کس کی تصویر ہے ؟ کہا ہیموں کی ۔ لیکن اسے شہزادہ مزاجی کہتے ہیں ۔ کہ جب جالندھر سے چلنے لگے۔ تو میرا آتش نے چاہا کہ عید کی مبارک بادی میں آتش بازی کی سیر دکھائے۔ انہوں نے اس میں یہ بھی فرمائش کی کہ ہیموں کی مورت بناؤ اور راون کی طرف آگ دے کر اڑاؤ چنانچہ اس کی تعمیل ہوئی۔ اچھا۔ مبارک بود فال فرخ زدن نہ بر رخ بلکہ شہ رخ زون جب اقبال سامنے ہوتا ہے۔ تو وہی منہ سے نکلتا ہے۔ جو ہونا ہوتا ہے ! نہیں ! یہ ہی کہو کہ جو منہ سے نکلتا ہے۔ وہی ہوتا ہے۔ خان خانان کی لیاقت اور ہمت کی تعریف میں زبان قلم قاصر ہے مشرقی ہندوستان میں تو یہ تلا طم پڑا ہوا تھا۔ اور سکندر سور جو کہ پہاڑوں میں رکا بیٹھا تھا۔ دانا سپہ سالار نے اس کے لئے فوج کے بندوبست سے سد سکندر باندھی ۔ راجہ رام چندر کانگڑ سے کانگڑ ے کا راجہ بھی تیار ہو رہا تھا۔ اسے ایسا دبدبہ دکھا کر پیغام سلام کئے۔ کہ حسب دلخواہ عہد نامہ لکھ کر حضور میں حاضر ہو گیا۔ غرض دلاور سپہ سالار بادشاہ اور بادشاہی لشکر کو ہوا کے گھوڑوں پر اڑاتا بجلی اور بادل کی کڑک دمک دکھاتا دلی کو چلا۔ سر ہند کے مقام پر دیکھا کہ بھاگے بھٹکے امیر بھی حاضر ہیں۔ ان سے ملاقاتیں کر کے صالح و مشورت کے ساتھ بندوبست شروع کئے۔ لیکن خود مختاری کی تلوار نے اس موقع پر ایسی کاٹ دکھائی ۔ کہ تمام امراے بابری میں کھلبلی پڑ گئی۔ پھر بھی کوئی دم نہ مار سکا بلکہ ہر شخص تھرا کر اپنے اپنے کام پر متوجہ ہو گیا۔ آزاد وہ تردی بیگ حاکم دہلی کا قتل تھا۔ یہ ضرور ہے کہ دونوں امیروں کے دلوں میں عداوت کی پھانسیں کھٹک رہی تھیں مگر مورخ یہ بھی کہتے ہیں کہ مصلحت یہی تھی جو تجربہ کار سپہ سالار اس وقت کہ گزرا اور اس میں کچھ شک نہیں کہ اگر یہ قتل با لکل بے جا ہوتا تو بابری امیر (جن میں ایک ایک اس کا برابر کا دعوے دار تھا) اسی طرح دم بخود نہ رہ جاتے۔ فوراً بکڑ کھڑے ہوتے ۔ بادشاہ جواں سال تھا نیسر کے مقام پر تھا جو سنا کہ غنیم کا توپ خانہ 20 ہزار منچلے پٹھانوں کے ساتھ پانی پت کے مقام پر آگیا۔ خان خاناں نے بڑے استقلال کے ساتھ لشکر کے دو حصے کئے۔ ایک کو لیکر شکوہ شاہانہ کے ساتھ خود بادشاہ کی رکاب میں رہا۔ دوسرے میں چند دلاور اور جنگ آزمودہ امیر اپنی اپنی فوجوں کے ساتھ رکھے۔ ان پر علی قلی خاں شیبانی کو سپہ سالار کر کے دشمن کے مقابلے پر بطور ہراول روانہ کیا۔ اور اپنی فوج خاص بھی ساتھ کر دی۔ اس جواں ہمت ۔ اور پر جوش افسر نے برق و باد کو پیچھے چھوڑا ۔ کرنال پر جا کر مقام کیا۔ اور جاتے ہی ہاتھوں ہاتھ حریفوں سے آتش خانہ پھین لیا۔ جب ہیموں نے سنا کر آتش خانہ اس بے آبروئی کے ساتھ ہاتھ سے گیا تو دماغ رنجک کی طرح اڑ گیا۔ دلی سے دھواں دھار ہو کر اٹھا۔ بڑی بے پروائی سے پانی پت کے میدان میں آیا اور جتنی جنگی طاقت تھی۔ حوصلے سے نکال کر میدان میں ڈال دی۔ علی قلی خاں کچھ خطر خاطر میں نہ لایا۔ خان خانان سے مدد بھی نہ مانگی۔ جوف وج اپنے پاس تھی وہی لی اور آکر حریف سے دست و گریبان ہوگیا۔ پانی پت کے میدان میں رن پڑا۔ اور ایسا بھاری رن پڑا کہ خدا جانے کب تک کتابوں میں یادگار رہے گا۔ جس صبح کو یہ معرکہ ہوا۔ اکبری لشکر میں لڑائی کا کسی کو خیال نہ تھا ۔ وہ خاطر جمع سے پچھلی رات رہے کہ نال سے چلے اور کچھ دن چڑھا تھا جو ہنستے کھیلتے چند کوس زمین طے کر کے اتر پڑے رستے کی گرد چہروں سے نہ پونچھی تھی۔ اور میدان جنگ یہاں سے 5 کوس آگے تھا۔ جو ایک سوار تیر کی رفتار پر پہنچا۔ اور خبر دی کہ غنیم سے مقابلہ ہو گیا۔ 30 ہزار فوج اس کی ہے۔ اکبری جاں نثار فقط 10 ہزار ہیں خان زمان جرأت کر کے لڑبیٹھا ہے۔ مگر میدان کا طور بے طور ہے۔ خان خانان نے پھر لشکر کو تیاری کا حکم دیا۔ اور اکبر خود اسلحہ جنگ سجنے لگا مگر چہرے سے شگفتگی اور شوق جنگ پٹکتا تھا۔ فکر یا پریشانی کا اثر بھی معلوم نہ ہوتا تھا۔ وہ مصاحبوں کے ساتھ ہنستا ہوا سوار ہوا۔ ہر ایک امیر اپنی اپنی فوج کو لئے کھڑا تھا۔ اور خان خاناں گھوڑا مارے ایک ایک غول کو دیکھتا پھرتا تھا۔ اور سب کے دل بڑھاتا تھا۔ نقارچی کو اشارہ ہوا۔ ادھر نقارے پر چوٹ پڑی اکبر نے رکاب کو جنبش دی اور دریائے لشکر بہاؤ میں آیا۔ تھوڑی دور چل کر خدا جانے آدمی تھا یا فرشتہ سامنے سے گھوڑا مارے آیا۔ ایک شخص نے خبر دی کہ لڑائی فتح ہوگئی ۔ کسی کو یقین نہ آیا۔ ابھی میدان جنگ کی سیاسی نمودار نہ ہوئی کہ فتح کے نور اڑتے نظر آنے لگے۔ جو خبر دار آتا تھا مبارک مبارک کہتا ہوا خاک پر گر پڑتا تھا۔ اب کون تھم سکتا تھا ۔ پل کی پل میں گھوڑے اڑا کر پہنچے۔ اتنے میں میں ہیموں مجروح اور بدل سامنے حاضر کیا گیا۔ وہ ایسا چپ چاپ سر جھکائے کھڑا تھا کہ نوجوان بادشاہ کو ترس آیا۔ کچھ پوچھا۔ اس نے جواب نہ دیا کون کہہ سکے کہ عالم حیرت میں تھا یا مذامت تھی۔ یا ڈر چھا گیا تھا اس لئے بولا نہ جاتا تھا۔ شیخ گدائی کنبوہ کہ خاندان میں مسند معرفت کے بیٹھنے والے ۔ اور دربارمیں صدر الصدور تھے۔ اس وقت بولے۔ ’’ پہلا جہادہے۔ حضور دست مبارک سے تلوار ماریں کہ جہاں اکبر ہو۔ ‘‘ بادشاہ نوجوان کو آفرین ہے۔ رحم کھا کر کہا کہ یہ تو آپ مرتا ہے۔ اس کو کیا ماروں ! پھر کہا میں تو اسی دن کا م تمام کر چکا۔ جس دن تصور کھینچی تھی۔ مقام جنگ پر کلہ منار عظیم الشان بنوا دیا اور دلی کو روانہ ہوئے۔ ہیموں کی بی بی خزانے کے ہاتھی لے کر بھاگی۔ اکبری لشکر سے حسین خاں اور پیر محمد خاں فوج لیکر پیچھے دوڑے۔ وہ بیوہ بڑھیا کہاں بھاگتی ؟ بجواڑے کے جنگل پہاڑوں میں کو ادہ گاؤں پر جا کر پکڑا۔ جو دولت تھی۔ بہت تورستے کے گنواروں کے حصے کی تھی۔ باقی غازیوں کے ہاتھ آئی۔ وہ بھی اتنی تھی کہ اشرفیاں ڈھالوں میں بھر بھر کر بٹیں۔ جس رستے سے رانی گزر ی تھے۔ روپے اشرفیاں اور سونے کی اینٹیں گرتی چلی گئی تھیں۔ برسوں تک مسافر رستے میں پایا کرتے تھے۔ خدا کی شان وہی خزانے تھے جو شیر شاہ ۔ سلیم شاہ ۔ عدلی نے سالہا سال میں جمع کئے تھے۔ اور خدا جانے کن کن کلیجوں ہاتھ گھنگولے تھے۔ ایسے مال اسی طرح برباد ہوتے ہیں۔ ع بباد آمد و ہم ببادے رود ۔ خواجہ حافظ نے کیا خوب کہا ہے ؎ ہر چہ دل کرد فراہم ہمہ اش دیدہ بباخت اللہ اللہ کہ تبہ کردو کہ اندو ختہ بود بیرم خانی دور کا خاتمہ اور اکبر کی خود اختیاری تقریباً 4 برس تک اکبر کا یہ حال تھا۔ کہ شاہ شطرنج کی طرح مسند پر بیٹھا تھا۔ خان خاناں جس چال چاہتا تھا اسی چال چلتا تھا۔ اور اسے اس بات کی کچھ پروا بھی نہ تھی۔ نیزہ بازی و چوگان بازی کرتا تھا باز باشے اڑاتا تھا۔ ہاتھی لڑاتھا تھا۔ جاگیر ۔ انعام موقوفی بحالی کل کاروبار سلطنت خان خاناں کے ہاتھ میں تھے۔ اس کے رشتہ دار بلازم اورمتوسل عمدہ زرخیز اور سر سبز جاگیریں پاتے تھے۔ سامان والباس سے خوشحال نظر آتے تھے۔ بادشاہی نمک خوار جو باپ دادا کے عہد سے خدمتوں کے دعوے رکھتے تھے۔ ان کی جاگیریں ویران ۔ خود پریشان اور شکستہ حال تھے۔ بلکہ بادشاہ اپنے شوقوں کے لئے بھی خزانہ خالی پاتا تھا۔ اس لئے کبھی کبھی تنگ ہوتا تھا۔ پندرہ سوار برس کے لڑکے کی کیا بساط ہوتی ہے۔ علاوہ براں بچپ سے خان خاناں کی اتالیقی کے نیچے رہا تھا۔ لوگ اس کی شکایت کرتے تو چپ ہو رہتا تھا۔ 1 ؎ یہ وہ بجواڑ ہ نہیں جو ضلع ہوشیار پور پنجاب میں ہے۔ بلکہ ایک بجواڑہ بیانہ علاقہ آگرہ میں ہے اور یہاں وہی مراد ہے۔ خاں خاناں کے اختیارات اور تجویزیں کچھ نئی نہ تھیں۔ ہمایوں کے عہد سے جاری چلی آتی تھیں مگر اس وقت عرض معروض کے رستے سے ہوئی تھیں۔ اور بادشاہ کی زبان سے حکم کا لباس پہن کر نکلتی تھیں۔ البتہ اب وہ بلا واسطہ خان خانان کے احکام تھے۔ دوسرے یہ کہ اول اول سلطنت ملک گیری کی محتاج تھی۔ قدم قدم پر مشکلوں کے دریا اور پہاڑ سامنے تھے۔ اور اس کے سر انجام کا حوصلہ خان خاناں کے سوا ایک کو بھی نہ تھا۔ اب میدان صاف اور دریا یاب نظر آنے لگے۔ اس لئے ہر شخص کو اچھی جاگیر اور عمدہ خدمت مانگنے کا منہ ہو گیا ۔ اور اس کا اور اس کے متوسکوں کا فائدہ آنکھوں میں کھٹکنے لگا۔ خان خانان کی مخالفت میں کئی امیر تھے۔ مگر سب سے زیادہ ماہماتکہ اور اس کا بیٹا آدہم خاں اور چند رشتہ دار تھے۔ کیا دربار ۔ کیا محل ۔ ہر جگہ دخیل تھے۔ ان کا بڑا حق سمجھا جاتا تھا ۔ اور واقعی تھا بھی۔ ماہم نے ماں کی جگہ بیٹھ کر اسے پالا تھا۔ اور جب بے درد چچا نے معصوم بھتیجے کو توپ کے مہرے پر رکھا تو وہی تھی جو اسے گود میں لے کر بیٹھی تھی۔ اس کا بیٹا ہر وقت پاس رہتا تھا۔ اندر وہ لگاتی بجھاتی رہتی تھی۔ اور باہر بیٹا اور اس کے متوسل ۔ اور حق تو یہ ہے کہ اس عورت کے تعلقے اور حوصلے نے مردوں کو مات کر دیا تھا۔ تمام امراے دربار حد سے زیادہ اس کی عظمت کرتے تھے اور مادر مادر کہتے منہ سو کھتا تھا۔ وہ مہینوں اندر ہی اندر جوڑ توڑ کر تی رہی۔ پرانے خوانین و امرا کو اپنے ساتھ شامل کیا۔ تم خان خانخاں کے حال میں دیکھنا ! اس کا جھگڑا بھی مہینوں تک رہا۔ اس عرصے میں اور اس کے بعد بھی جو کام خان خاناں دربار میں بیٹھ کر لیا کرتا تھا۔ ملک داری کے معاملے امرا کے عہدے اورمنصب و جاگیر ۔ موقوفی ۔ بحالی کل کاروبار وہ اندر ہی اندر بیٹھے کرتی۔ قدرت الہٰی کا تماشا دیکھو۔ کہ سب دل کے ارمان دل ہی میں لے گئی۔ انا اور انا والوں نے سمجھا تھا کہ مکھی کو نکال کر پھینک دینگے اور گھونٹ گھونٹ پی کر ہم دود کے مزے لیں گے یعنی خان خاناں کو اڑا کر اکبر کے پردے میں ہم ہندوستان کی بادشاہت کرینگے۔ وہ بات نصیب نہ ہوئی۔ اکبر پردہ غیب سے ان لیاقتوں کا مجموعہ بن کر نکلا تھا۔ جو ہزاروں میں ایک بادشاہ کو نصیب نہ ہوئی ہونگی۔ اس نے چند روز میں ساری سلطنت کو انگوٹھی کے نگینے میں دھر لیا۔ دیکھنے والے دیکھتے رہ گئے۔ اور دیکھتا کون ؟ جو لوگ خان خانان کی بربادی پر چھریاں تیز کئے پھرتے تھے۔ برس دن کے اندر باہر اس طر ح نابود ہو گئے۔ گویا قضا نے جھاڑو دیکر کوڑا پھینک دیا۔ (خان خاناں کا معاملہ 967ھ میں فیصلہ) کہنا یہ چاہئے کہ 968ھ سے اکبر بادشاہ ہوا۔ کیونکہ اب اس نے خود اختیاری کے ساتھ ملک کے کاروبار سنبھالے ۔ یہ وقت اکبر کے لئے نہایت نازک موقع تھا اور مشکلیں اس کی چند ر چند تھیں۔ (1)وہ ایک بے علم اور بے تجربہ نوجوان تھا جس کی عمر 17 برس سے زیادہ نہ تھی۔ بچپن ان چچاؤں کے پاس بسر ہوا جو اس کے باپ کے نام کے دشمن تھے۔ لڑکپن کی حد میں آیا تو باز اڑاتا رہا گئے دوڑاتا رہا۔ پڑھنے سے دل کو سوں بھاگتا تھا (2)لڑکپن کی حد سے نہ بڑھا تھا کہ بادشاہ ہو گیا۔ شکار کھیلتا تھا ۔ شیر مارتا تھا۔ مست ہاتھیوں کو لڑاتا تھا۔ جنگلی دیوزادوں کو سد ھاتا تھا سلطنت کے کاروبار سب خان بابا کرتے تھے یہ مفت کے بادشاہ تھے۔ (3)ابھی سارا ہندوستان فتح بھی نہ ہوا تھا۔ پورب کا ملک شیرش اہی سر کشوں سے افغانستان ہو رہا تھا۔ اور ایک ایک راجہ بکر ماجیت اور راجہ بھوج بنا ہوا تھا۔ سلطنت کا پہاڑ اس کے سر پر آپڑ ااور اس نے ہاتھوں پر لیا۔(4)بیرم خان ایسا منتظم اور رعب داب والا امیر تھا کہ اسی کی لیاقت تھی جس نے ہمایوں کا بگڑا ہوا کام بنایا اور صلاحیت کے رستے پر لایا۔ اس کادفعتہ دربار سے نکل جانا کچھ آسان بات نہ تھی خصوصاً وہ حالت کہ تمام ملک باغیوں سے بھڑوں کا چھتہ ہو رہا تھا (5)سب سے زیادہ یہ کہ ان امیروں پر حکم کرنا اور ان سے کام لینا پڑا جن کی بے وفائی نے ہمایوں کو چھوٹے بھائیوں سے برباد کو واویلہ وہ دوغلے اور دورخے لوگ تھے۔ کبھی ادھر کبھی ادھر مشکل تر یہ کہ بیرم خاں کو نکال کر ہر ایک کا دماغ فرعون کا دارالخلافہ ہو گیا تھا ۔ نوجوان شہزادہ کسی کی نگاہ میں جچتا نہ تھا۔ ہر شخص اپنے تیئں خود مختار سمجھتا تھا۔ مگر آفرین ہے اس کی ہمت اور حوصلے کو کہ ایک مشکل کو مشکل نہ سمجھا سخاوت کے ہاتھ سے ہر گرہ کو کھولا۔ جو نہ کھلی اسے تیغ شجاعت سے کاٹا۔ نور نیک نیتی نے ہرا رادے کو پورا اتارا۔ اقبال کا یہ عالم تھا کہ فتح اور ظفر حکم کی منتظر رہتی تھی۔ جہاں جہاں لشکر جاتے تھے۔ فتح یاب ہوتے تھے اکثر مہموں میں خود اس کڑک دمک سے یلغار کر کے گیا اور کہ کہنہ عمل سپاہی اور پرانے پرانے سپہ سالار حیران تھے۔ اکبر کی پہلی یلغار ادہم خاں پر ملک مالوہ میں شیر شاہ کی طرف سے شجاعت خاں عزف شجادل خاں حکمرانی کرتا تھا۔ وہ 12برس ایک مہینے کی میعاد بسر کر کے دنیا سے رخصت ہوا۔ باپ کی ہمسند پر بازید خاں عرف باز بہادر نے جلوس کیا دو برس دو مہینے عیش و عشرت کے شکار کرتا رہا کہ دفعتہ اقبال اکبری کا شہباز ہوا ے ملک گیری میں بلند پرواز ہوا۔ بیرم خاں نے اس مہم پر بہادر خاں ۔ خان زماں کے بھائی کو بھیجا۔ انہیں دنوں میں اس کے اقبال نے رخ بدلا۔ بہادر خاں مہم کونا تمام چھوڑ کر طلب ہوا۔ بیرم خاں کی مہم کا فیصلہ کر کے اکبر نے ادھر کا قصد کیا۔ آؤ ہم خان اور ناصر الملک پیر محمد خاں کے لوہے تیز ہو رہے تھے ان ہی کو فوجیں دے کر روانہ کیا۔ بادشاہی لشکر فتح یاب ہوا۔ باز بہادر اس طرح اڑگیا جیسے آندھی کا کوا اس کے گھر میں پرانی سلطنت تھی اور دولت بے قیاس۔ دفینے ۔ خزینے ۔ توشہ خانے ، جواہر خانے تمام عجائب و نفائس سے مالا مال ہو رہے تھے۔ کئی ہزار ہاتھی تھے۔ عربی و ایرانی گھوڑوں سے اصطبل بھرے ہوئے وغیرہ وغیرہ وہ عیش کا بندہ تھا۔ عشرت و نشاط ۔ ناچ گانا ۔ رات دن رنگ رلیوں میں گزارتا تھا۔ سیکوڑوں کنچنیاں ۔ کلا نوت ۔ گائک ۔ ناٹک نوکر تھے۔ کئی سوگائنیں ڈومنیاں پاتریں حرم سرا میں داخل تھیں ۔ بے قیاس نعمتیں جو ہاتھ آئیں تو ادہم خاں مست ہو گئے۔ کچھ ہاتھی ایک عرضداشت کے ساتھ بادشاہ کو بھیج دیئے۔ اور آپ وہیں بیٹھ گئے ۔ ملک میں سے علاقے بھی آپ ہی امرا کو تقسیم کر دیئے۔ پیر محمد خاں نے بھی بہت سمجھایا ۔ مگر ہوش نہ آیا۔ آدم خاں کے ماتھے پر ایک پاتر (کنچنی) نے جو کالک کا ٹیکہ دیا۔ ماں کے دود سے منہ دھوئینگے تو بھی نہ مٹیگا باز بہادر پشتوں سے فرما نروائی کرتا تھا۔ مدتوں سے سلطنت جمی ہوئی تھی ۔ عیش کا بندہ تھا ۔ اور آرام و بے فکری میں زندگی بسر کرتا تھا۔ اس کا دربار اور حرم سرادن رات راجہ اندر کا اکھاڑا تھا۔ انہیں میں ایک پاترایسی پریزاد تھی۔ جس کے حسن کا باز بہادر دیوان بلکہ عالم میں افسانہ تھا رو پ متی اس کا نام تھا۔ اس حسن و جمال پر لطف یہ کہ لطیفہ گوئی۔ حاضر جوابی ۔ شاعری ۔ گانے بجانے میں بینظیر نہیں ۔ بدر منیر تھی۔ ان خوبیوں اور محبوبیوں کی دھوم سن کر ادہم خاں بھی لٹو ہو گئے ۔اور پیام بھیجا۔ اس نے بڑے سوگ اور بروگ کے ساتھ جواب دیا۔ ’’ جاؤ خانہ بربادوں کو نہ ستاؤ باز بہادر گیا۔ سب باتیں گئیں۔ اب اس کام سے جی بیزار ہو گیا۔ ‘‘ انہوں نے پھر کسی کو بھیجا۔ ادھر بھی اس کی سہیلیوں نے سمجھایا کہ دلاور۔ بہادر ۔ سجیلا جوان ہے۔ سردار ہے۔ سردار زادہ ہے۔ اور انا کا بیٹا ہے تو اکبر کا ہے کسی اکور کاتو نہیں۔ تمہارے حسن کا چاند چمکتا رہے۔ باز گیا تو گیا۔ اسے چکور بناؤ۔ عورت نے اچھے اچھے مردوں کی آنکھیں دیکھی تھیں۔ جیسی صورت کی وضع دار تھی ویسی ہی طبیعت کی بھی وضع دار تھی۔ دل نے گوارا نہکیا مگر سمجھ گئی کہ اس سے اس طرح چھٹکارا نہ ہو گا۔ قبول کیا۔ اور دو تین دن بیچ میں ڈال کر وصل کا وعدہ کیا ۔ جب وہ رات آئی تو سویرے سویرے ہنسی خوشی بن سنور۔ پھول پہن عطر لگا۔ چھپر کھٹ میں گئی۔ اور پاؤں پھیلا کر لیٹ رہی۔ وہ ٹپا تان لیا۔ محل اولیوں نے جانا کہ رانی جی سوتی ہیں۔ ادہم خان ادھر گھڑیاں گن رہے تھے۔ وعدے کا وقت نہ پہنچا تھا کہ جاپہنچے ۔ اسی وقت خلوت ہو گئی۔ لونڈیاں چیریاں یہ کہہ کہ سب باہر چلی آئیں کہ رانی جی سکھ کرتی ہیں۔ یہ خوشی خوشی چھپر کھٹ میں داخل ہوئے کہ اسے جگائیں۔ جاگے کون ؟ وہ تو زہر کھا کر سوئی تھی ۔ اور بات کے پیچھے جان کھوئی تھی۔ اکبر کو بھی خبر پہنچی۔ سمجھا کہ یہ انداز اچھے نہیں ۔ چند جاں نثاروں کو ساتھ لیکر گھوڑے اٹھائے رستے میں کا کرون کا قلعہ ملا کر ادہم خاں بھی اس پر فوج کشی کر کے آیا چاہتا تھا۔ قلعہ دار ادھر ادھر کی خبر داری میں تھا۔ یکایک دیکھا کہ ادھر سے بجلی آن گری ۔ کنجیاں لے کر حاضر ہوا۔ اکبر قلعے میں گیلہ جو کچھ حاضر تھا نوش فرمایا اور قلعہ دار کو خلعت دے کر منصب بڑھایا۔ پھر جور کاب میں قدم رکھا تو اس سناٹے سے گیا کہ ماہم نے بھی قاصد دوڑائے تھے مگر سب رستے ہی میں رہے۔ یہ دن رات مارا مار گئے۔ اور صبح کا وقت تھا کہ ادہم کے سر پر جا دھمکے اسے خبر بھی نہ تھی فوج لے کر کا کرون پر چلا تھا۔ چند عزیز مصاحب ہنستے بولتے آگے آگے جاتے تھے انہوں نے جو یکا یک اکبر کو سامنے سے آتے دیکھا۔ بے اختیار ہو کر گھوڑوں سے زمین پر گر پڑے۔ اور آداب بجا لائے آدہم خاں کو بادشاہ کے آنے کا سان گمان بھی نہ تھا۔ اس نے دور سے دیکھا حیران ہوا کہ کون آتا ہے جسے دیکھ کر میرے نوکر آداب بجا لائے۔ گھوڑے کو ٹھکرا کر آپ آگے بڑھا ۔ دیکھا حیران ہوا کہ کون آتا ہے جسے دیکھ کر میرے نوکر آداب بجا لائے۔گھوڑے کو ٹھکرا کر آپ آگے بڑھا ۔ دیکھ تو آفتاب سامنے ہے۔ ہوش جاتے رہے ۔ اتر کر رکاب پر سر رکھدیا۔ قدم چومے ۔ بادشاہ ٹھہر گئے۔ امرا اور خوانین قدیمی نمک خوار جو ادہم کے ساتھ آتے تھے۔ سب کے سلام لئے۔ ایک ایک کو پوچھ کر سب کا دل خوش کیا اگرچ ادہم ہی کے گھر میں جا کر اترے۔ مگر شگفتہ ہو کر بات نہ کی ۔ گرد سفر سے آلودہ تھے۔ توشہ خانے کا صندوق پیچھے تھا۔ کپڑے نہ بدلے۔ ادہم نے لباس کے بقچے حاضر کئے۔ منظور نہ فرمائے۔ ایک ایک امیر کے آگے روتا جھینکتا پھرا۔ خود بھی بہت ناک گھسنی کی ۔ بارے دن بھر کے بعد عرض قبول اور خطامعاف ہوئی۔ حرم سرا کی پشت پر جو مکان تھا ۔ رات کو اس کے کوٹھے پر آرام کیا۔ اکھڑ جوان(دہم خاں)کی سر شت میں بدی داخل تھی۔ بد گمانی نے اس کے کان میں پھونکا کہ بادشاہ جو یہاں اترے ہیں۔ اس سے میرے ننگ و ناموس پر نظر منظور ہے۔ سر شوری نے صلاح دی کہ جس وقت موقع پائے ۔ ماں کے دودھ میں نمک گھولے اوحق نمک کو آگ میں ڈال کر بادشاہ کا کام تمام کر دے۔ نیک نیت بادشاہ کا ادھر خیال بھی نہ تھا۔ خیر جس کا خدا نگہبان ہو اسے کون مار سکے۔ اس بے ہمت کی بھی ہمت نہ پڑی۔ دوسرے ہی دن ماہم جا پہنچی۔ بیٹے کو بہت لعنت ملامت کی ۔ بادشاہ کے سامنے بھی باتیں بنائیں ۔ تمام ضبطی کے نفائس تحائف حضور میں حاضر کئے۔ اور بگڑی ہوئی بات پھر بنا لی۔ بادشاہ نے یہاں چار دن مقام کیا۔ ملک کا بندوبست کرتے رہے۔ پانچویں دن روانہ ہوئے۔ شہر سے نکل کر باہر ڈیروں میں اترے۔ باز بہادر کی عورتوں میں سے کچھ عورتیں پسند آئی تھیں۔ وہ ساتھ لے لی تھیں۔ ان میں سے دو پر ادہم خان کی نیت بگڑ ی ہوئی تھی۔ ماں کی لونڈیاں ۔ مامائیں بادشاہ کی حرم سرا میں بھی خدمت کرتی تھیں۔ ان کی معرفت دونوں پریوں کواڑا لیا۔ جانا تھا کہ ہر شخص کوچ کے کاروبار اور اپنے اپنے حال میں گرفتار ہے۔ کون پوچھے گا۔ کون پیچھا کرے گا۔ اکبر کو جب خبر ہوئی تو سمجھ گیا۔ دل ہی دل میں دق ہوا۔ اسی وقت کوچ ملتوی کر دیا اور چاروں طرف آدمی دوڑائے ۔ وہ بھی ادھر ادھر سے جستجو کر کے پکڑ ہی لائے۔ ماہم نے سنا ۔ سمجھی کہ جب دونوں عورتیں سامنے آئیں۔ بھانڈا پھوٹ جائیگا۔ اوربیٹے کے ساتھ میرا بھی منہ کالا ہو گا۔ افسوس دونوں بے گناہوں کو اوپر ہی اوپر مرواڈالا۔ کٹے ہوئے گلے کیا بولتے۔ اکبر پر بھی راز کھل گیا تھا ۔ مگر لہو کا گھونٹ پی کر رہ گیا۔ اور آ گرے کو روانہ ہوا۔ اللہ اکبر ۔ پہلے ایسا حوصلہ پیدا کر لے جب کوئی اکبر سا بادشاہ کہلائے۔آگرے میں آئے اور چند روز کے بعد اوہم خاں کو بلا لیا۔ پیر محمدخاں کو علاقہ سپرد کیا۔ یہ اکبر کی پہلی یلغار تھی۔ کہ جس رستے کو شاہان سلف پورے ایک مہینے میں طے کرتے تھے۔ اس نے ہفتے بھر میں طے کیا۔ دوسری یلغار خان زمان پر خان زماں علی قلی خان نے جو نپور وغیرہ اضلاع شرقی میں فتوحات عظیم حاصل کر کے بہت سے خزانے اور سلطنت کے سامان سمیٹے تھے۔ اور حضور میں نہ بھیجے تھے۔ شاہم بیگ کے مقدمے میں ابھی اس کی خطا معاف ہو چکی تھی۔ اولو اعزم بادشاہاوہم خاں سے دل جمعی کر کے آگرے میں آیا۔ آتے ہی تو سن ہمت پر زین رکھا اور سورج مغرب سے مشرق کو چلا ؎ یک جاقرار ہمت عالی نمے کند گردش ضرورت اسد سپہر بلند را بڈھے بڈھے امرا کو رکاب میں لیا۔ وہ خان زمان کو جانتا تھا۔ کہ من چلا بہادر ہے۔ اور غیرت والا ہے اہل دربار نے اسے ناحق ناراض کر دیا ہے۔ شاید بگڑ بیٹھا۔ تو بہتر ہے۔ کہ تلوار درمیان نہ آئے۔ کہن سال نمک احلال بیچ میں آکر باتوں میں کام نکال لیں گے۔ چنانچہ کالپی کے رستے الہ آباد کا رخ کیا اور اس کڑک دمک سے کڑہ مانک پور جاکھڑا ہوا ۔ 1 ؎ مفصل حال دیکھو تتمہ میں ۔ کہ خان زماں اور بہادر خاں دونوں ہاتھ باندھ کر پاؤں میں آن پڑے وہاں سے بھی کامیابی اور کامرانی کے ساتھ پھرے۔ بہکانے والوں نے اس کی طرف سے بہت کان بھرے تھے۔ مگر نیک نیت بادشاہ کا قول تھا کہ آدمی ایک نسخہ معجون دواخانہ الہٰی کا ہے مستی وہوشیاری سے مرکب ہے۔ اسے بہت سوچ سمجھ کر استعمال کرنا چاہیے۔ یہ بھی کہا کرتا تھا ۔ کہ امرا ہرے بھر ے درخت ہیں۔ ہمارے لگائے ہوئے ہیں۔ انہیں سر سبز کرنا چاہیے ۔ نہ کاٹنا انسان میں برگزیدہ صفت معافی گناہ ہے۔ جو حضور میں چلا آئے اور ناکام پھر جائے۔ تو اس پر حیف نہیں ہم پر حیف ہے۔ (دیکھو اکبر نامہ کو اسی مقام پر شیخ ابوالفضل نے کیا لکھتا ہے)۔ تیر آسمانی اور غیب کی نگہبانی اکبر کی نیت اور علوہمت کی باتیں حد تحریر سے باہر ہیں 970ھ میں ولی پہنچے ۔ شکار گاہ سے پھرتے ہوئے سلطان نظام الدین اولیا کی زیارت کو گئے ۔ وہاں سے رخصت ہوئے۔ ماہم کے مدرسے کے پاس تھے۔ جو معلوم ہوا کہ کچھ شانے میں لگا ۔ دیکھا تو تیرا کہ پوست مال تھا ۔ مگر 2/3پار نکل گیا تھا۔ دریافت کیا۔ معلوم ہوا کہ کسی نے مدرسے کے کوٹھے پر سے مارا ہے۔ ابھی تیر نہ نکلا تھا۔ کہ مجرم کو پکڑ لائے۔ دیکھا کہ فولاد حبشی مرزا اشرف الدین حسین کا غلام ہے۔ آقا چند روز پہلے بغاوت کر کے بھاگا تھا ۔ جب شاہ ابوالمعالی سے سازش ہوئی تو تین سو آدمی جنہیں اپنی جاں نثاری کا بھروسہ تھا اس کے ساتھ گئے تھے۔ آپ مکہ کا بہانہ کر کے بھاگا پھرتا تھا۔ اس میں سے یہ شب سیاہ اس کام کا بیڑا اٹھا کر آیا تھا۔ لوگوں نے چاہا فولاد سنگ دل سے پوچھیں کہ یہ حرکت کس کے اشارے سے کی ہے ؟ اکبر نے کہا نہ پوچھو۔ غلام روسیاہ خدا جانے کیا کہے۔ اور کن کن جاں نثاروں کی طرف سے شبہے ڈال دے۔ بات نہ کرن دو کام تمام کردو۔ دریا دل بادشاہ کے چہرے پر کچھ اضطراب نہ ہوا اسی طرح گھوڑے پر سوار چلا آیا ۔ اور قلعہ دین پناہ میں داخل ہوا۔ چند روز میں زخم اچھا ہو گیا۔ اور اسی ہفتے میں سنگھا سن پر بیٹھ کر آگرے کو روانہ ہوئے۔ عجیب اتفاق اکبر کے کتوں میں ایک زرد رنگ کا کتا تھا۔ نہایت خوبصورت ۔ اسی واسطے مہوہ اس کا نام رکھا تھا ۔ وہ آگرے میں تھا۔ جس دن یہاں تیر لگا۔ اسی دن سے مہوے نے راتب کھانا چھوڑ دیا تھا۔ جب بادشاہ وہاں پہنچے ۔ تو میر شکار نے حال عرض کیا۔ اکبر نے اسے حضور میں منگا یا۔ آتے ہی پاؤں میں لوٹ گیا۔ اور نہایت خوشی کی حالتیں رکھائیں ۔ اپنے سامنے راتبہ منگا کر دیا جب اس نے کھایا۔ یہ یلغاریں بابری بلکہ تیموری و چنگیزی خون کے جوش تھے کہ اکبر پر ختم ہو گئے۔ اس کے بعد ہا کسی بادشاہ کے دماغ میں ان باتوں کو بوجھی نہ رہی۔ بنئے تھے کہ گدی پر بیٹھے تھے۔ ان کی قسمیں لڑتی تھیں۔ اور امرا فوجیں لے کر مرتے پھرتے تھے۔ اس کا کیا سبب سمجھنا چاہئے ؟ ہندوستان کی آرام طلب خاک ۔ اور باوجود گرمی کے سرو مہر بٹوا اور بزدل پانی۔ روپے کی بہتات ۔ سامانوں کی کثرت۔ یہاں جوان کی اولاد ہوئی۔ ایک نئی مخلوق ہوئی انہیں گویا خبر نہ تھی۔ کہ ہمارے باپ دادا کون تھ۔ اور انہوں نے کیوں کہ یہ قلعے ۔ یہ ایوان یہ تخت ۔ یہ درجے تیار کئے تھے۔ جن پر ہم چڑھے۔ بیٹھے ہیں۔ میرے دوستو ! تمہارے ملک کے اہل خاندان جب اپنے تئیں شکوہ وشان کے سامانوں میں پاتے ہیں۔ تویہ سمجھتے ہیں۔ کہ ہم خدا کے گھر سے ایسے ہی آئے ہیں۔ اور ایسے ہی رہیں گے۔ جس طرح ہم آنکھ ناک ہاتھ پاؤں لے کر پیدا ہوئے ہیں۔ اسی طرح یہ سب چیزوں ہمارے ساتھ پیدا ہوئی ہیں۔ ہائے غافل بد نصیبو! تمہیں خبر نہیں۔ کہ تمہارے بزرگوں نے پسینے کی جگہ خون بہار کر اس ڈھلتی پھرتی چھاؤں کو قابو کیا تھا اور اگر اور کچھ اور نہیں کر سکتے تو جو قبضے میں ہے۔ اسے تو ہاتھ سے جانے نہ دو۔ تیسری یلغار گجرات پر اکبر نے یلغاریں تو بہت کیں مگر عجیب یلغار وہ تھی ۔ جب کہ احمد آباد گجرات میں خان اعظم اسکا کو کہ گھر گیا۔ اور شتر سوار فوج کو اڑا کر پہنچا ۔ خدا جانے رفیقوں کے دلوں میں ریل کا زور بھر دیا تھا کہ تار برقی کی پھرتی۔ اس سمے کا تماشہ ۔ ایک عالم ہو گا دیکھنے کے قابل آزاد اس حالت کا فوٹو گراف الفاظ و عبارت کے رنگ و روغن سے کیوں کر کھینچ کر دکھائے۔ اکبر ایک دن فتح پور میں دربار کر رہا تھا۔ اور اکبری نورتن سے سلطنت کا بازو آرستہ تھا۔ دفعتہ پر چہ لگا کر حسین مرزا چغتائی شہزادہ ملک مالوہ میں باغی ہو گیا۔ اختیار الملک دکنی کواپنے ساتھ شریک کیا ہے۔ ملکی باغیوں کی بے شمار جمعیت ۔ اورحشری فوج جمع کی ہے۔ دور دور تک ملک مار لیا ہے۔ اور مرزا عزیز کو اس طرح قلعہ بند کیا ہے کہ نہ وہ اندر سے نکل سکے۔ نہ باہر سے کوئی جا سکے۔ مرزا عزیز نے بھی گھبرا کر ادھر اکبر کو عرضیاں ۔ ادھر ماں کو خط لکھنے شروع کئے۔ اکبر اسی فکر میں داخل محل سرا ہوا۔ وہاں جی جی نے رونا شروع کر دیا ۔ کہ جس طرح ہو۔ میرے بچے کو صحیح سلامت دکھاؤ ۔ بادشاہ نے سمجھا ۔ کہ سارا لشکر بھیرو بنگاہ سمیت ایسا جلدی کیوں کر جا سکے گا۔ اسی وقت محل سے باہر آیا۔ اور اقبال اپنے کام میں مصروف 1 ؎ جس کا دودھ پیتے ہیں اسے ترکوں کے بچے جی جی کہا کرتے ہیں ۔ ہوا۔ کئی ہزار کار آزمودہ اور من چلے بہار روانہ کئے۔ اور کہہ دیا۔ کہ ہر چند ہم تم سے پہلے پہنچیں گے۔ مگر جہاں تک ہو سکے تم بھی اڑے ہی جاؤ۔ ساتھ رستے کے حاکموں کو لکھا۔ کہ جتنی کو تل سواریاں موجود ہوں۔ تیار کر لیں۔ اور اپنی اپنی انتخابی فوج سے سرارہ حاضر ہوں۔ خود تین سو جاں نثاروں سے (خافی خاں نے چار پان سو لکھا ہے) کہ تمام نامی سردار اور درباری مصنب وار تھے۔ سانڈنیوں پر بیٹھ۔ کوتل گھوڑے۔ اور گھڑبہلیں لگا۔ نہ دن دیکھا نہ رات۔ جنگل اور پہاڑ کاٹتا چلا۔ غنیم کے تین سو سپاہی سر گنج سے پھرے ہوئے گجرات کو جاتے تھے۔ اکبر نے راجہ سالباہن ۔ قادر قلی ۔ رنجیت وغیرہ وغیرہ سداروں کو کہ بال باندھے نشانے اڑاتے تھے۔ آوا ز دی کہ لینا۔ اور نہ جانے دینا۔ یہ ہوا کی طرح گئے۔ اور اس صدمے سے حملہ کیا کہ طرح اڑا دیا۔ شگون مبارک اسی عالم میں شکار بھی ہوتے جاتے تھے۔ ایک جگہ ناشتے کو اترے کسی کے منہ سے نکلا۔ اوہو ! کیا ہرن کی ڈار درختوں کی چھاؤں میں بیٹھی ہے۔ بادشاہ نے کہا ۔ آؤ شکار کھیلیں ۔ ایک کالا ہرن سامنے نکلا۔ اس پر سمندر ٹانگ چیتا چھوڑا۔ او ر کہا کہ اگر اس نے یہ کالا مار لیا۔ تو جانو کو غنیم کو مار لیا۔ اقبال کا تماشا دیکھو۔ کہ ماہی لیا ۔بس پل ٹھہرے اور روانہ ۔ غرض ستائیس منزلوں کو لپیٹ (خافی خان نے لکھا ہے کہ 40 منزلیں شاہان سلف نے مہینوں میں طے کیا) نویں دن گجرات کے سامنے دریائے نرپتی کے کنارے پر جا کھڑا ہوا۔ جن امرا کو پہلے روانہ کیا تھا۔ رستے میں ملتے جاتے تھے۔ شرمندہ ہوتے تھے۔ سلام کرتے تھے اور ساتھ ہو لیتے تھے۔ پھر بھی اکثر نبھ نہ سکے۔ پیچھے پیچھے دوڑے آتے تھے۔ جب گجرات سامنے آیا تو موجودات لی۔ تین ہزار نامو ر نشان شاہی کے نیچے مرنے مارنے کو کمربستہ تھے۔ اس وقت کسی نے تو کہا کہ جو جاں نثار پیچھے رہے ہیں۔ آیا چاہتے ہیں۔ ان کا انتظار کرنا چاہیئے کسی نے کہا۔ شنجون مارنا چاہئے۔ بادشاہ نے کہا ۔ کہ انتظار بزدلی اور شنجون چوری ہے۔ سلاح خانے سے ہتیار بانٹ دیئے۔ دائیں بائیں آگے پیچھے فوج کی تقسیم کی ۔ مرزا عبدالرحیم یعنی خان خاناں کا بیٹا سولہ برس کا نوجوان تھا۔ اسے سپہ سالاروں کی طرح قلب میں قرار دیا۔ خود سو سوار سے الگ رہے کہ جدھر مدد کی ضرورت ہو ادھر ہی پہنچیں۔ اقبال کی مبارک فال بادشاہ جب خود مر پر رکھنے لگے۔ کہ دبلغہ نہیں رہتے ہیں دبلغہ اتار کر راجہ دیپ چند کو دیا تھا۔ 1 ؎ دبلغۃ خود کے آگے کی طرف پر چھجا لگاتے تھے کہ دھوپ اور چھوٹے موٹے صدموں سے بچائو رہے۔ کہ لئے آؤ ۔ وہ رستے میں اترتے چڑھتے کہیں رکھ کر بھول گیا۔ اس وقت جو مانگا تو وہ گھبرایا اور شرمندہ ہوا۔ فرمایا ۔ اوہو ! کیا خوب شگون ہوا ہے۔ اس کے مضحایہ کہ سامنا صاف ہے ۔بڑھو آگے ۔ خاصے کے گھوڑوں میں ایک باد رفتار تھا۔ سر سے پاؤں تک سفید براق ۔ جیسے نور کی تصویر اکبر نے اس کا نام نور بیضا رکھا تھا۔ جس وقت اس پر سوار ہوا۔ گھوڑا بیٹھ گیا۔ سب ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگے کہ شگون اچھا نہ ہوا۔ راجہ بھگوان داس (مان سنگھ کے باپ نے آگے بڑھ کر کہا۔ حضور فتح مبارک ۔ اکبر نے کہا۔ سلامت باشید ۔ کیوں کرنا اس نے کہا۔ اس رستے میں تین شگون برابر دیکھتا چلا آیا ہوں۔ (1)ہمارے شائستہ میں لکھا ہے کہ جب فوج مقابلے کو تیار ہو۔ اور سینا پتی کا گھوڑا سواری کے وقت بیٹھ جائے۔ تو فتح اسی کی ہوگی۔ (2)ہوا کا رخ حضور ملا حظہ فرمائیں۔ کہ کس طرح بدل گیا۔ بزرگوں نے لکھ دیا ہے۔ کہ جب ایسی صورت ہو۔ سمجھ لیجئے کہ مہم اپنی ہے۔ (3)رستے میں دیکھتا آیا ہوں کہ گد چیلیں۔ کوے برابر لشکر کے ساتھ چلے آتے ہیں۔ اسے بھی بزرگوں نے فتح کی نشانی لکھا ہے۔ محبت کے نازونیاز اکبر بادشاہ قوم کا ترگ۔ مذہب کا مسلمان تھا۔ راجہ یہاں کے ہندی وطن اور ہندو مذہب تھے۔ اتفاق اور اختلاف کے مقدمے تو ہزاروں تھے۔ مگر میں ان میں سے ایک نکتہ لکھتا ہوں ۔ ذرا آپس کے برتاؤ دیکھوں اور ان سے دلوں کے حال کا پتہ لگائو۔ اسی ہنگامے میں راجہ جے مل (۴اجہ روپسی کا بیٹا تھا) اکبر کے برابر نکلا۔ اس کا بکتر بہت بھاری تھا ۔اکبر نے سبب پوچھا۔ اس نے کہا کہ اس وقت یہی ہے۔ زرہ وہیں رہ گئی۔ درو خواہ بادشاہ نے اسی وقت بکتر اتروایا۔ اور اپنے خاصے کی زرہ پہنوا دی۔ وہ سلام کر کے خوش ہوتا ہوا اپنے رفیقوں میں گیا۔ اتنے میں راجہ کرن (مالدیو راجہ جووھپورکے پوتے) کو دیکھا۔ کہ اس کے پاس زرہ بکتر کچھ نہ تھا۔ بادشاہ نے وہی بکتر اسے دیدیا۔ جے مل اپنے باپ (روپسی) کے سامنے گیا۔ اس نے پوچھا۔ بکتر کہاں ہے ؟ جے مل نے سارا ماجرا سنایا۔ روپسی کی جودھپوریوں سے خاندانی عداوت چلی آتی تھی۔ اسی وقت بادشاہ کے پاس آدمی بھیجا کہ حضور میرا بکتر مرحمت ہو۔ وہ میرے بزرگوں سے چلا آتا ہے۔ اوربڑا مبارک اور فتح نصیب ہے۔ اس وقت یا کہ خیر ہم نے اسی واسطے خاصے کی زرہ تمہیں دے دی ہے۔ کہ فتح کا تعویذ اور اقبال کا گٹکا ہے۔ اسے اپنے پاس رکھو۔ روپسی کے دل نے نہ مانا۔ اور تو کچھ نہ ہو سکا۔ اسلحہ جنگ اتار کر پھینک دیئے۔ اور کہا خیر میں میدان جنگ میں یونہی جاؤں گا۔ اس نازک موقع پر اکبر کو بھی اور کچھ نہ بن آیا۔ کہا۔خیر ہمارے جاں نثار ننگے لڑیں تو ہم سے بھی نہیں ہو سکتا۔ کہ زرہ بکتر میں چھپ کر میدان میں لڑیں۔ ہم بھی برہنہ تیر وتلوار کے منہ پر جائینگے۔ راجہ بھگوان داس اسی وقت گھوڑا اڑا کر جے مل کے پاس گئے۔ اسے سمجھایا بہت لعنت ملامت کی اور سمجھا بجھا کر دنیا کے رستے کا نشیب و فراز دکھایا۔ یہ بڈھا خاندان کا ستون تھا۔ اس کا سب لحاظ کرتے تھے۔ اس نے شرمندہ ہو کر پھر ہتیار سجے۔ راجہ بھگوان داس نے آکر عرض کی کہ حضور ! روپسی نے بھنگ پی تھی۔ اس کی لہروں نے ترنگ دکھائی تھی۔ اور کچھ بات نہ تھی۔ اکبر سن کر ہنسنے لگا۔ اور ایسا نازک جھگڑا لطیفہ ہو کر اڑا گیا۔ ایسے ایسے منتروں نے محبت کا طلسم باندھا تھا جو ہر دل پر نقش ہو گیا تھا ،خاندان کی ریت رسوم ۔ مبارک نا مبارک بلکہ دین آئین ۔ سب برطرف ۔ اب جو اکبر کہے وہی ریت رسوم ۔ جو اکبر خوشی وہی مبارک جو اکبر کہہ دے وہی دین آئین۔اور اس سے بڑے مطلب نکلتے ھتے۔ کیونکہ اگر مذہب کے دلائل سے انہیں سمجھا کر کسی بات پر لانا چاہتے تو سر کٹواتے ۔ اور راجپوت کی ذات قیامت تک اپنی بات سے نہ ٹلتی ۔ اکبری آئین کا نام لیتے تو جان دینے کو بھی فخر سمجھتے تھے۔ غرض حکم ہوا کہ باگیں اٹھاؤ خان اعظم کے پاس آصف خاں کو بھیجا کہ ہم آپہنچے ۔ تم اندر سے زور دے کر نکلو۔ اس پر ایسا ڈر چھایا تھا کہ قاصد بھی پہنچے تھے ۔ ماں نے بھی خط لکھے تھے۔ اسے بادشاہ کے آنے کا یقین ہی نہ آتا تھا۔ یہی کہتا تھا کہ دشمن غالب ہے۔ کیوں کر نکلوں ۔ یہ امرائے اطراف میرا دل بڑھانے اور لڑانے کو ہوائیاں اڑاتے ہیں۔ احمد آباد تین کو س تھا۔ حکم ہوا کہ چند قراول آگے بڑھ کر ادھر ادھر بندوقیں سر کریں۔ ساتھ ہی نقارہ اکبری پر چوٹ پڑی۔ اور گورکھے کی گرج سے گجرات گونج اٹھا۔ اس وقت تک بھی غنیم کو اس یلغار کی خبر نہ تھی۔ بندوقوں کی کڑک اور ڈنکے کی آواز سے اس کی لشکر میں کھلبلی پڑی۔ کسی نے جانا کہ دکن سے ہماری مدد آئی ہے۔ کسی نے کہا۔ کہ کوئی بادشاہی سردار ہو گا۔ دورنزدیک سے خان اعظم کی کمک کو پہنچا ہے۔ حسین مرزا گھبرایا۔ خود گھوڑا مار کر نکلا۔ اور قراولی کرتا ہوا آیا ۔ کہ دیکھوں کون آتا ہے۔ دریا کے کنارے پر آکھڑا ہوا۔ ابھی نور کا تڑکا تھا۔ سبحان قلی ترکمان (بیرم خانی جوان تھا) یہ بھی پار اتر کر میدان دیکھتا پھرتا تھا۔ حسین مرزا نے اسے آواز دی۔ بہادر۱؎ دریا کے پار یہ کس کا لشکر ہے۔ ۱؎۔ اہل دکن کا محاورہ تھا۔ ایک دوسرے کو بہادر کہہ کر بات کرتے تھے ۔ اور سر لشکر کون ہے ؟ اور اس نے کہا ۔ ’’ لشکر بادشاہی اور شہنشاہ آپ سر لشکر ۔ ’’ پوچھا کون شہنشاہ ؟ وہ بولا اکبر شہنشاہ غازی ۔ جلدی جا ۔ ان ادبار زدہ گمراہوں کو راہ بتا کہ کسی طرف کو بھاگ جائیں۔ اور جانیں بچائیں۔ مرزا نے کہا ۔ بہادر ! ڈراتے ہو۔ چودہواں دن ہے ۔ میرے جاسوسوں نے بادشاہ کو آگرے میں چھوڑا ہے۔ سبحان قلی نے قہقہہ مارا ۔ مرزا نے کہا۔ مگر بادشاہ ہیں۔ تو وہ جنگی ہاتھیوں کا حلقہ کہا ہے جو رکاب سے جدا نہیں ہوتا ؟ اور بادشاہی لشکر کہاں ہے ؟ سردار مذکور نے کہا۔ آج نواں دن ہے رکاب میں قدم رکھا ہے۔ رستے میں سانس نہیں لیا۔ ہاتھی کیا ہاتھ میں اٹھا لاتے ؟ شیر جنگ ۔ فیل شکار ۔ بہادر جوان جو سات ہیں۔ یہ ہاتھیوں سے کچھ کم ہیں ؟ کس نیند سوتے ہو۔ اٹھو سر پر آفتاب آگیا۔ یہ سنتے ہی مرزا موج کی طرح کنار دریا سے الٹا پھرا۔ اختیار الملک کو محاصرے پر چھوڑا۔ اور خودسات ہزار فوج لے کر چلا کہ طوفان کو روکے ۔ ادھر بادشاہ کو انتظار تھا کہ خان اعظم ادھر قلعے سے ہمت کر کے نکلے۔ تو ہم ادھر سے دھاوا کریں۔ مگر جب وہ دروازے سے سر بھی نہ نکال سکا۔ تو اکبر سے رہانہ گیا۔ کشتی کا بھی انتظار نہ کیا۔ تو کل بخدا گھوڑے دریا میں ڈال دیئے۔ اقبال کی یاوری دیکھو کہ دریا پایاب تھا۔ لشکر اس پھرتی سے پار اتر گیا ۔ کہ جاسوس خبر لائے۔ غنیم کا لشکر ابھی کمر بندی میں ہے۔ میدان میں جا کر پرے جمائے۔ اکبر ایک بلندی پر کھڑا میدان جنگ کا انداز دیکھ رہا تھا۔ اتنے میں آصف خاں مرزا کو کہ کے پاس پھر کر آیا اور کہا کہ اسے حضور کے آنے کی خبر بھی نہ تھی۔ میں نے قسمیں کھا کھا کر کہا ہے۔ جب یقین آیا ہے۔ اب لشکر تیار کر کے کھڑا ہوا ہے وہ ابھی پوری بات نہ کہہ چکا تھا۔ کہ درختوں میں سے غنیم نمودار ہوا۔ حسین مرزا جمعیت قلیل دیکھ کر خود پندرہ سو فدائی مغلوں کو لے کر سامنے آیا۔ اور بھائی اس کا بائیں پر گرا۔ ساتھ ہی گجراتی اور حبشی فوج بازؤوں پر آئی۔ ادھر سے بھی ترک بہ ترکی کلہ بہ کلہ جواب ہونے لگے۔ اکبر الگ کھڑا تھا ۔ اورقدرت الہٰی کا تماشہ دیکھ رہا تھا۔ کہ پروہ غیب سے کیا ظاہر ہوتا ہے۔ اس نے دیکھا کہ ہر اول پر زو ر پڑا۔ اور طور بے طور ہوا ہے۔ راجہ بھگوان داس پہلو میں تھا۔ اس سے کہا کہ اپنی قوج تھوڑی ہے اور غنیم کا ہجوم بہت ہے۔ مگر تائید الہٰی پر اس سے بہت بھروسا ہے۔ چلو ہم تم مل کر جاپڑیں کہ پنجہ سے مشت کا صدمہ زبردست پڑتا ہے۔ اس فوج کی طرف چلو ۔ جدھر سر خ جھنڈیاں نظر آتی ہیں حسین مرزا نہیں میں ہے۔ اسے مارلیا تو میدان مار لیا۔ یہ کہہ کر گھوڑوں کو جگہ سے جنبش دی ۔ حسین خاں ٹکریہ نے کہا کہ ہاں ’’ دھاوے کا وقت ہے ‘ ‘ بادشاہ نے آواز دی۔ ابھی پلہ دور ہے۔ تھوڑے ہو۔ جتنا پاس پہنچ کر دھاوا کرو گے۔ تازہ دم پہنچو گے۔ اور خوب زور سے عریف پر گرو گے۔ مرزا بھی اپنے لشکر سے کٹ کر ایک دستے کے ساتھ ادھر آیا۔ وہ زور میں بھراآیا تھا۔ مگر اکبر اطمینان اور دلاسے کے ساتھ فوج کو لئے جاتا تھا۔ اور گن گن کر قدم رکھتا تھا ۔ کہ پاس جا پہنچے ۔ راجہ ہاپا چارن نے کہا ہاں دھاوے کا وقت ہے۔ ساتھ ہی اکبر کی زبان سے نعرہ نکلا۔ ۔ اللہ اکبر۔ ان دنوں میں خواجہ معین الدین چشتی سے بہت اعتقاد تھا۔ اور یا ہادی یا معین کا وظیفہ ہر وقت زبان پر تھا۔ للکار کر آواز دی۔ کہ ہاں (مر ن) سورن بیند ازید ۔ آپ اور سب سوار یا ہاوی معین کے نعرے مارتے جا پڑے۔ مرزا نے جب سنا کہ اکبر اسی غول میں ہے۔ نام سنتے ہی ہوش اڑ گئے فوج بکھر گئی اور خود بے سروپا بھاگا۔ رخسارے پر ایک زخم بھی آیا۔ گھوڑا مار سے چلا جاتا تھا۔ جو تھور کی باڑ سامنے آئی۔ گھوڑا جھجکا ۔ اس نے چاہا کہ اڑا جائے۔ مگر نہ ہو سکا۔ اور نہ بیچ میں پھنس گیا۔ گھوڑا بھی ہمت کرتا تھا۔ وہ خود بھی حوصلہ کرتا تھا۔ مگر نکل نہ سکتا تھا۔ کہ اتنے میں گدا علی ترکمان خاصے کے سواروں میں سے پہنچا۔ اور کہا ۔ آۂ میں تمہیں نکالوں ۔ وہ بھی عاجز ہو رہا تھا۔ جان حوالے کر دی ۔ گدا علی اسے اپنے آگے سوار کر رہا تھا۔ خان کلاں (مرزا کو کہ کے چچا) کا ایک نوکر بھی جا پہنچا۔ یہ لالچی بہادر بھی گدا علی کے ساتھ ہو گئے۔ فوج پھیلی ہوئی تھی۔ فتح یاب سپاہی بھگوڑوں کو مارتے باندھتے پھرتے تھے۔ سپہ سالار بادشاہ ۔ چند سرداروں اور جان نثاروں کے بیچ میں کھڑا تھا۔ ہر شخص اپنی خدمتیں عرض کر رہا تھا۔ وہ سن سن کر خوش ہوتا تھا کہ کم بخ تحسین مرزا کو مشکین بندھا سامنے حاضر کیا۔ بادشاہ کے آگے آکر دونوں میں جھگڑا ہونے لگا۔ یہ کہتا تھا میں نے پکڑا ہے۔ وہ کہتا تھا میں نے فوج لطائف کے سپہ سالار ملک تمسخر کے مہاراجہ پر برسور ما سپاہی بیٹھے ہوئے۔ کبھی اکبر کے آگے۔ کبھی پیچھے۔ خواہ مخواہ گھوڑا دوڑائے پھرتے تھے۔ انہوں نے کہا۔ مرزا ! تم آپ بتا دو۔ تمہیں کس نے پکڑا ہے۔ کم بخت مرزا نے کہا کہ مجھے کون پکڑسکتا تھا۔ حضور کے نمک نے پکڑا ہے۔ لوگوں کے دلوں سے تصدیق کے سانس نکلے۔ اکبر نے آسمان کو دیکھا۔ اور سر کو جھکا لیا پھر کہا مشکیں کھول دو۔ آگے ہاتھ باندھو! سزا تو دل کی تھی قابل بہت سی مار کھانے کے تری زلفوں نے مشکین باندھ کر مارا تو کیا مارا مرزا نے پانی پینے کو مانگا۔ ایک شخص پانی لینے کو چلا۔فرحت خاں چیلے نے دوڑ کر مرزا بد نصیب کے سر پر ایک دو تہر ماری اور کہا۔ کہ ایسے تمک حرام کو پانی ؟ رحم دل بادشاہ کو ترس آیا۔ اپنی چھاگل سے پانی پلوایا۔ اورفرحت خاں سے کہا۔ اب یہ کیا ضرور ہے۔ نوجوان بادشاہ نے اس میدان میں بڑا سا کھا کیا۔ وہ کیا کہ پرانے سپہ سالاروں سے بھی کہیں کہیں بن پڑتا ہے۔ بے شک اس کے ساتھ کہن سال ترک اور پر اتم راجپوت سائے کی طرح لگے تھے۔ مگر اس کی ہمت اور حوصلے کی تعریف نہ کرنی بے انصافی میں داخل ہے۔ وہ سفید براق گھوڑے پر سوار تھا۔ اور عام سپاہیوں کی طرح تلواریں مارتا پھرتا تھا۔ ایک موقعہ پر کسی دشمن نے اس کے گھوڑے کے سرپر ایسی تلوار ماری۔ کہ چراغ پا ہوگ یا۔ اکبر بائیں ہاتھ سے اس کے بال پکڑ کر سنبھلا۔ اور حریف کو برچھا مارا ۔ کہ زور کوتوڑ کر پار ہو گیا۔ چاہتا تھا کہ کھینچ کر پھر مارے۔ مگر پھل ٹوٹ کر زخم میں رہا۔ اور بھگوڑا بھاگ گیا۔ ایک نے آکر نیزہ مارا۔ چیتہ بڈگو جرنے بر چھا پھینگ کر اسکا کام تمام گیا۔ اکبر چاروں طرف لڑتا پھرتا تھا۔ سرخ بد خشی لہو میں لال زخمی ہو کر گھبرایا ہوا قلب میں آیا اور اکبر کی شمشیر زنی اور اپنے زخمی ہونے کے احوال اس اضطراب کے ساتھ بیان کئے کہ لوگوں نے جانا بادشاہ مارا گیا۔ لشکر میں میں تلا طم پڑ گیا۔ اکبر کو بھی خبر ہوئی۔ فورا فوج قلب کے برابر میں آیا۔ اور للکارنا شروع کیا کہ ہاں باگیں لئے ہوئے۔ ہاں قدم اٹھائے ہوئے۔ غنیم کے قدم اکھڑ گئے ہیں ایک حملے میں فیصلہ ہے۔ اس کی آواز سن کر سب کی جان میں جان آئی اور دل قوی ہو گئے۔ ایک ایک کی جاں بازی اور جاں فشانی کے حال عرض ہو رہے تھے۔ سپاہی جو گردوپیش حاضر تھے۔ دو سو کے قریب ہو نگے کہ ایک پہاڑ ی کے نیچے سے غبار کی آندھی اٹھی۔ کسی نے کہا خان اعظم نکلا ہے۔ کسی نے کہا اور غنیم آیا۔ ایک سوار حکم شاہی کے ساتھ دوڑا اور آواز کی طرح پہاڑ سے پھرا۔ معلوم ہوا کہ محاصرے کے چھوڑ کر اختیار الملک ادھر پلٹا ہے۔ لشکر میں کھلبلی پڑی۔ بادشاہ نے پھر بہادروں کو للکارا۔ نقارچی کے ایسے اوسان گئے کہنقارے پر چوٹ لگانے سے جی رہ گیا۔ یہاں تک کہ اکبر نے خود برچھی کی نوک سے ہشیار کیا۔ غرض سب کو سمیٹا اور پھر فوج کو لے کر دل بڑھاتا ہوا دشمن کی طرف متوجہ ہوا۔ چند سرداروں نے گھوڑے جھپٹائے۔ اور تیر اندادزی شروع کی۔ اکبر نے پھر آواز دی کہ نہ گھبراؤ۔ کیوں کھنڈے جاتے ہو۔ دلاور بادشاہ شیر مست کی طرح خراماں خراماں جاتا تھا۔ اور سب کو دلا سا دیتا جاتا تھا۔ غنیم طوفان کی طرح چڑھا چلا آتا تھا۔ مگر جوں جوں پاس آتا تھا۔ جمعیت کھنڈی جاتی تھیں۔ دور سے ایسا معلوم ہوا ۔ کہ اختیار الملک چند رفیقوں کے ساتھ جمعیت سے کٹ کر جدا ہوا ہے۔ اور جنگل کارخ کیا ہے۔ وہ فی الحقیقت حملہ کرنے نہیں آیا تھا۔ متواتر فتحوں کے سبب سے تمام ہندوستان میں دھاک بندھ گئی تھی۔ کہاکبر نے تسخیر آفتاب کاعمل پڑھا ہے۔ اب کوئی اس پر فت نہ پا سکے گا۔ محمد حسین مرزا کی قید اور تباہی لشکر کی خبر سنتے ہی اختیار الملک بے اختیارمحاصرہ چھوڑ کر بھا گا تھا۔ تمام لشکر اس کا جیسے چیونیٹوں کی قطار۔ برابر سے کترا کرنکل گیا۔ اس کا گھوڑا بگٹوٹ چلا جاتا تھا ۔ یہ کمبخت بھی تھور میں الجھا۔ اور خود زمین پر گرا۔ سہراب بیگ ترکمان ھی اس کے پیچھے گھوڑا ڈالے چلا جاتا تھا۔ دست و گریبان پہنچا اور تلوار کھینچ کر کودا۔ اختیار الملک نے کہا ۔ ’’ اے جو ان ! تو ترکمان مے نمائی ۔ و ترکماناں غلام مرتصے علی دو دستداران اومے باشند۔ من سید بخاریم ۔ مرا بگزار ‘‘ سہراب بیگ نے کہا ’’ اے دیوانہ ! چوں بگزار م ؟ تو اختیار الملک ہستی۔ تو اشناختہ و نبالت سر گرداں آمدہ ام ‘‘۔ یہ کہا اور جھٹ سر کاٹ لیا۔ پھر کر دیکھے تو کوئی اپنا گھوڑا لے بھاگا۔ لہو ٹپکتے سر کو دامن میں لے کر دوڑا۔ خوشی خوشی آیا۔ اور حضور میں نذر گزران کر انعام پایا۔ واہ آغا سہراب ! اسی منہ سے کہو گے۔ فدایت شوم یا مولیٰ۔ بابی انت و امی یا مولیٰ۔ میرے دوستو ایسے وقت پر خدا اور خدا کے پیاروں کا پاس رہے۔ تو بات ہے ۔ نہیں تو یہ باتیں ہی باتیں ہیں۔ حسین خان کا حال میں نے الگ لکھا ہے۔ اس بہار جاں نثار نے اس حملے میں اپنی جان کو جان نہیں سمجھا۔ اور ایسا کچھ کیا ۔ کہ بادشاہ دیکھ کر خوش ہو گیا۔ تحسین و آفرین کے طرے اسکے سر پر لٹکائے۔ خاصے کی تلواروں میں ایک تلوار تھی کہ اکبر نے اس کے گھاٹ اور کاٹ کے ساتھ مبارکی اور دشمن کشی دیکھ کر ہلا کی خطاب دیا تھا۔ اس وقت وہی ہاتھ میں علم تھی۔ وہی انعام فرما کر جان نثار کا دل بڑھایا۔ تھوڑا دن باقی رہ گیا تھا۔ اوربادشاہ اختیار الملک کی طرف سے خاطر جمع کر کے آگے بڑھا چاہتے تھے۔ کہ ایک اور فوج نمودار ہوئی۔ فتح یاب پساہ پھر سنبھلی اور قریب تھا باگیں اٹھا کر جا پڑیں کہ شیخ محمدؐ غزنوں (مرزا عزیز کو کہ کے بڑے چچا) فوج مذکور میں سے گھوڑا مار کر آگے آئے اور عرض کی کہ مرزا کو کہ حاضر ہوتا ہے۔ سب کی خاطر جمع ہوئی۔ بادشاہ خوش ہوئے۔ اتنے میں وہ بھی صحیح و سلامت آن پہنچے۔ اکبر نے گلے لگایا۔ ساتھیوں کے سلام لئے۔ قلعے میں گئے۔ میدان جنگ میں کلہ منار بنوانے کا حکم دیا۔ اور دو دن کے بعد دارا لخلافہ کو روانہ ہوئے۔ پاس پہنچے تو جو لوگ رکاب میں تھے۔ سب کو دیکھنی دردی سے سجایا۔ وہی چھوٹی چھوٹی برچھیاں ہاتھوں میں دیں۔ اور خود بھی اسی وردی کے ساتھ انکے کمان افسر ہو کر شہر میں داخل ہوئے۔ امرا وشر فادبزرگان شہر نکل کر استقبال کو آئے۔ فیضی نے غزل سنائی ؎ نسیم خوش دلی از فتخ پور مے آید کہ بادشاہ نمن ازراہ دور مے آید یہ مبارک مہم اول سے آخر تک خوشی کے ساتھ ختم ہوئی۔ البتہ ایک غم نے اکبر کو رنج دیا۔ اور سخت رنج دیا۔ وہ یہ کہ سیف خاں اس کا جاں نثار اور وفا دار کو کہ پہلے ہی حملے میں منہ پر دو زخم کھا کر سرخ رودنیا سے گیا۔ سر نال کا میدان جہاں سے فساد اٹھا تھا۔ اس میں وہ نہ پہنچ سکا تھا۔ اس ندامت میں اپنی موت کی دعا مانگا کرتا تھا۔ جب یہ دھاوا ہوا تو اسی نشے کے جوش میں خاص حسین مرزا اور اس کے ساتھیوں پر اکیلا جا پڑا۔ اور جاں نثاری کا حق ادا کر دیا۔ وہ کہا کرتا تھااور سچ کہتا تھا کہ مجھے حضور نے جان دی ہے۔ عجیب اتفاق اس کی ماں کے ہاں کئی دفعہ برابر بیٹیاں ہی ہوئیں۔ کابل کے مقام میں پھر حاملہ ہوئی۔ باپ نے اس کی ماں کو بہت دھمکایا۔ اور کہا۔ اب کے بیٹی ہوئی۔ تو تجھے چھوڑ دوں گا جب ولادت کے دن نزدیک ہوئے۔ تو بے بس بی بی مریم مکانی کے پاس آئی۔ حال بیان کیا۔ اور کہا کہ کیا کروں۔ اسقاط حمل کر دونگی۔ سبلا سے گھر سے بے گھر تو نہ ہوں۔ جب وہ رخصت ہو کر چلی تو اکبر رستے میں کھیلتا ہوا ملا۔ اگرچہ بچہ تھا۔ مگر اس نے بھی پوچھا۔ کہ جی جی کیا ہے ؟ افسر دہ معلوم ہوتی ہو۔ اس بچاری کا سینہ درد سے بھرا ہوا تھا۔ اس سے بھی کہہ دیا۔ اکبر نے کہا ۔ میری خاطر عزیز ہے۔ تو ایسا ہرگز نہ کرنا ۔ اور دیکھنا ! بیٹا ہی ہو گا۔ خدا کی قدرت سیف خاں پیدا ہوا۔ اس کے بعد زین خاں پیدا ہوا۔ مرتے وقت ۔ اجمیری اجمیری اس کی زبان سے نکلا۔ شاید خواجہ اجمیر کا نام درد زبان تھا۔ یا اکبر کو پکارتا تھا۔ کہ کمال عقیدت کے سبب سے اس درگاہ کے سات اسے نسبت خاص ہو گئی تھی ۔ حسین خان نے عرض کی ۔ کہ میں اس کے گرنے کی خبر سنتے ہی گھوڑا مار کر پہنچا تھا۔ اس وقت تک حواس قائم تھے۔ میں نے فتح کی مبارک باد دے کر کہا کہ تم تو سر خرو چلتے ہو دیکھیں ہم بھی تمہارے ساتھ ہی آتے ہیں یا پیچھے رہنا پڑے۔ عجیب تر یہ کہ لڑائی سے ایک دن پہلے اکبر چلتے اتر پڑا اور سب کو لے کر دستر خوان پر بیٹھا۔ ایک ہزارہ بھی اس سواری میں ساتھ تھا۔ معلوم ہوا کہ شانہ بینی کے فن میں باہر ہے۔ (قوم مذکور میں شانہ بینی کی فال سے حال معلوم کرنا ورثہ قدیم ہے کہ اب تک چلا آتا ہے) اکبر نے پوچھا ۔ ملا فتح ازکیست ؟ کہا قربانت شوم ۔ ازماست ۔ مگرامیرے ازیں لشکر بلا گردان حضور مے شور۔ پیچھے معلوم ہوا کہ سیف خاں ہی تھا۔ دیکھو تو زک جہانگیری صفحہ 20 لوگ کہیں گے۔ کہ آزاد نے دربار اکبری لکھنے کا وعدہ کیا۔ اور شاہنامہ لکھنے لگا۔ تو اب ایسی باتیں لکھتا ہوں کہ جن سے شہنشاہ موصوف کے مذہب ۔ اخلاق ۔عادت اور سلطنت کے دستور و آداب ۔ اور اس کے عہد کے رسم و رواج اور کاروبار کے آئین آئینہ ہوں۔ خدا کرے کہ دوستوں کو پسند آئیں۔ اکبر کے دین و اعتقاد کی ابتدا و انتہا اس طرح کی فتوحات سے کہ جن پر کبھی سکندر کا اقبال اور کبھی رستم کی دلاور ی قربان ہو۔ ہندوستان کے دل پر ملک گیری کا سکہ بٹھا دیا۔ اٹھارہ بیس برت تک اس کا یہ حال تھا کہ جس طرح سیدھے سادھے مسلمان خوش اعتقاد ہوتے ہیں ۔ اسی طرح احکام شرع کو ادب کے کانوں سے سنتا تھا۔ اور صدق دل سے بجا لاتا تھا۔ جماعت سے نماز پڑھتا تھا۔ آپ اذان کہتا تھا۔ مسجد میں اپنے ہاتھ سے جھاڑو دیتا تھا۔ علما وفضلا کی نہایت تعظیم کرتا تھا۔ ان کے گھر جاتا تھا۔ بعض کے سامنے کبھی کبھی جوتیاں سیدھی کر کے رکھ دیتا تھا۔ مقدمات سلطنت شریعت کے فتوے سے فیصلہ ہوتے تھے۔ جابجا قاضی و مفتی مقرر تھے۔ فقرا ومشائخ کے ساتھ کمال اعتقاد سے پیش آتا تھا۔ اور ان کے برکت انفاس سے اپنے کاروبار میں فیض حاصل کرتا تھا۔ اجمیر میں جہاں خواجہ معین الدین چشتی کی درگاہ ہے۔ سال بہ سال جاتا تھا۔ کوئی مہم یا مراد ہو۔ یا اتفاقاً پاس سے گزر ہو۔ تو برس کے بیچ میں بھی زیارت کرتا تھا۔ ایک منزل سے پیادہ ہوتا تھا۔ بعض منتیں ایسی بھی ہوئیں کہ فتح پور یا آگرے سے اجمیر تک پیادہ گیا۔ وہاں جا کر درگاہ میں طواف کرتا تھا۔ ہزاروں لاکھوں روپے کے چڑھا دے اور نذرمیں چڑھاتا تھا۔ پہروں صدق دل سے مراقبے میں بیٹھتا تھا۔ اور دل کی مرادیں مانگتا تھا ۔ فقرا اور اہل طریقت کے حلقے میں شامل ہوتا تھا۔ ان کی وعظ و نصیحت کی تقریریں گوش یقین سے سنتا تھا۔ قال اللہ و قال الرسول میں وقت گزارتا تھا۔ معرفت کی باتیں ۔ علمی تذکرے۔ حکمی اور الہٰی مسئلے اور دینی تحقیقاتیں ہوتی تھیں۔ مشائخ وعلماء فقراو غربا کو نقد ۔ جنس ۔ زمنیں ، جاگیرین دیتا تھا۔ جس وقت قوال معرفت کے نغمے گاتے تھے۔ تو رویپ اور اشرافیاں مینہ کی طرح برستے تھے۔ اور ایک عالم ہوتا تھا۔ کہ دردویوار پر حیرت چھا جاتی تھی۔ یا ہادی یا معین کے اسم وہیں سے عنایت ہوتے تھے۔ یہ وظیفہ ہر وقت زبان پر تھا۔ اور ہر شخص کو یہی ہدایت تھی۔ اسے سمرن کہتا تھا۔ لڑائیوں میں جب دھاوا ہوتا ۔ ایک نعرہ مار کر کہتا۔ ہاں سمر ن بیند ازید ۔ آپ بھی اور ساری فوج ہندو مسلمان یا ہادی یا معین للکارتے ہوئے دوڑپڑتے۔ ادھر اٹھائیں۔ ادھر غنیم بھاگا۔ اور میدان صاف ۔ لڑائی فتح۔ علماو مشائخ کا طلوع اقبال اورقدرتی زوال اس 20برس کے عرصے میں جو برابر فتوحات خدا داد ہوئیں۔ اور عجیب عجیب طور سے ہوئیں تدبیریں تمام تقدیر کے مطابق پڑیں۔ اور جدھر ارادہ کیا۔ اقبال استقبال کو دوڑا کہ دیکھنے والے جیران رہ گئے۔ چھہ برس میں دور دور تک کے ملک زیر قلم ہو گئے۔ جس طرح سلطنت کا دائرہ پھیلا ۔ ایسا ہی اعتقاد بھی روز بروز زیادہ ہوتا گیا۔ پروردگار کی عظمت دل پر چھا گئی۔ ان نعمتوں کے شکرانے میں اور آئندہ فضل و کرم کی دعاؤں میں نیک نیت بادشاہ ہر وقت تو جہ اور حضور قلب سے درگاہ الہی میں رجوع رکھتا تھا۔ شیخ سلیم چشتی کے سبب سے اکثر فتح پور میں رہتا تھا۔ محلوں کے پہلو میں سب سے الگ پرانا سا حجرہ تھا۔ پاس ایک پتھر کی سل پڑی تھی ۔ تاروں کی چھاؤں اکیلا وہاں جا بیٹھتا ۔ نور وں کے تڑکے ۔ صبحوں کے سویرے ۔ رحمت کے وقت مراقبوں میں خرچ ہوتے تھے۔ عاجزی اور نیاز مندی کے ساتھ وظیفے پڑھتا ۔ اپنے خدا سے دعائیں مانگتا۔ اور نور سحر کے فیض دل پر لیتا۔ عام صحبت میں بھی اکثر خدا شناسی معرفت شریعت اور طریقت ہی کی باتیں ہوتی تھیں۔ رات کو علما و فضلا کے مجمع ہوتے تھے۔ اس میں بھی یہی باتیں ۔ اور حدیث تفسیر ۔ اس میں علمی مسائل کی تحقیقیں ۔ اسی میں مباحثے بھی ہو جاتے تھے۔ اس ذوق شوق نے یہاں تک جوش مارا کہ 982ھ میں شیخ سلیم چشتی کی نئی خانقاہ کے پاس ایک عظیم الشان عمارت تعمیر ہوئی۔ اور اس کا نام عبادت خانہ رکھا۔ یہ اصل میں وہی حجرہ تھا۔ جہاں شیخ عبداللہ نیازی سر ہندی کسی زمانے میں خلوت نشین تھے۔ اس کے چاروں طرف چار بڑے ایوان بنا کر بہت بڑھایا۔ ہر جمعہ کی نماز کے بعد نئی خانقاہ یعنی شیخ الاسلام (شیخ سلیم چشتی) کی خانقاہ سے آکر یہاں دربار خاص ہوتا تھا۔ مشائخ وقت ۔ علماوفضلا اور فقط چند مصاحب و مقرب درگاہ ہوتے ۔ درباریوں میں اور کسی کو اجازت نہ تھی۔ خدا شناسی اور حق پرستی کی ہدائتیں اور حکائتیں ہوتی تھیں۔ رات کو بھی جلسے ہوتے تھے۔ دل نہایت گداز اور سرتا پا فقر کی خاک راہ ہو گیا تھا ۔ مگر علما کی جماعت ایک عجیب الخلقت فرقہ ہے۔ مباحثوں کے جھگڑے تو پیچھے ہونگے۔ پہلے نشست ہی پر معرکے ہونے لگے۔ کہ وہ مجھ سے اوپر کیوں بیٹھے۔ اور میں اس سے نیچے کیوں بیٹھوں۔ اس لئے اس کا یہ آئیں باندھا کہ امرا جانب شرقی میں سادات جانب غربی ہیں۔ علما و حکما جنوبی میں ۔ اہل طریقت شمالی میں بیٹھیں۔ دنیا کے لوگ طرفہ معجون ہیں ۔ عمارت مذکور کے پاس ہی انوپ تلاؤ دولت سے لبریز تھا۔ لوگ آتے تھے۔ اور اس طرح روپے اشرفیاں لے جاتے تھے ۔ جیسے گھاٹ سے پانی ۔ ملا شیری شاعر اس پر بھی خوش نہ ہوئے ۔ 1 ؎ شیخ عبداللہ نیازی بھی پہلے شیخ سلیم چشتی کے مرید تھے۔ ان کا حال دیکھو تتمہ میں 2 ؎ انوپ تلاؤ ۔ دیکھو تتمہ۔ چنانچہ اس ہیئت مجموعی پر ایک نہایت غمگین قطعہ نظم کیا جس کا ایک شعر یاد ہے۔ دریں ایام دیدم جمع با اموال قار ونی عبادتہاے فرعونی عمارتہائے شدادی ہر ایوان میں شب جمعہ کو بادشاہ آپ آتا تھا۔ وہاں کے اہل جلسہ سے باتیں کرتا تھا۔ اور تحقیقات مطالبہ سے معلوم کے ذخیرے بھرتا تھا۔ آرائش وزیبائش ان ایوانوں کو اپنے ہاتھ سے سجاتی تھی۔ گلدستے رکھتی تھیں۔ عطر چھڑکتی تھی ۔ پھول برساتی تھی۔ خوشبوئیاں جلاتی تھی۔ سخاوت روپوں اور اشرفیوں کی تھیلیاں لئے حاضر تھی۔ کہ دو اور حساب نہ پوچھو۔ کیونکہ انہیں لوگوں کی اوٹ میں اہل حاجت بھی آن پہنچے تھے۔ گجرات کی لوٹ میں عمدہ عمدہ کتابیں اعتماد خاں گجراتی کے کتب خانے کی آئی تھیں۔ اور خزانہ عامرہ میں جمع تھیں۔ انکے نسخے بھی علما کو بٹتے تھے۔ جمال خاں تو رچی نے ایک دن عرض کی کہ فدوی آگرے میں ایک دن شیخ ضیاء الدین ولد شیخ محمد ؐ غوث گوالیاری کی خدمت میں گیا تھا۔ ایسی مفلسی غالب ہوئی ہے۔ کہ میرے لئے کئی سیرچنے بھنائے تھے۔ کچھ آپ کھائے۔ کچھ مجھے دیئے۔ باقی خاتقاہ میں فقرا اور مریدوں کے لئے بھیج دیئے۔ یہ سن کر بادشاہ کے دل پر درد پر اثر ہوا۔ انہیں بلا بھیجا۔ اور اسی عبادت خانے میں رہنے کو جگہ دی۔ ان کے اوصاف بھی ملا صاحب سے سن لو۔ (دیکھو تتمہ) افسوس یہ کہ مسجدوں کے بھوکوں کو جب تر نوالے ملے۔ اور حوصلے سے زیادہ عزتیں ہوئیں ۔ تو گردنوں کی رگیں سخت تن گئیں۔ آپس میں جھگڑنے لگے۔ اور غل ہو کر شور سے شر اٹھے۔ ہر شخص یہ چاہتا تھا کہ میں اپنی فضیلت کے ساتھ دوسرے کی جہالت دکھاؤں۔ دغا بازیاں ۔ ان کے دھوکے بازیاں اور جھگڑے بادشاہ کو ناگوار ہوئے۔ ناچار حکم دیا۔ کہ جو نامعقول بے محل بات کرے اسے اٹھا دو۔ ملا صاحب سے کہا۔ آج سے جس شخص کو دیکھو کہ نامعلوم بات کہتا ہے۔ ہم سے کہدو ہم مجلس سے اٹھا دینگے۔ آصف خاں برابر حاضر تھے۔ ملا صاحب نے چپکے چپکے ان سے کہا کہ اگر یہی بات ہے تو بہتوں کو اٹھنا پڑیگا۔ پوچھا یہ کیا کہتا ہے ؟ جو انہوں نے کہا تھا۔ اس نے کہدیا۔ سن کربڑے خوش ہوئے۔ بلکہ اور مصاحبوں سے بیان کیا ملانے اپنی جنگ و جدل میں جو خود نمائی کی بیرقیں ہلاتے تھے۔ ایک نمونہ اس کا یہ ہے۔ لطیفہ حاجی ابراہیم سر ہندی مباحثوں میں بڑے جھگڑا اور مغالطوں میں چھلا دے کا تماشا تھے۔ ایک دن چار ایوان کے جلسے میں مرزا مفلس سے کہا۔ کہ موسیٰ کیا صیغہ ہے ۔ اور اس کا ماخذ استقاق کیا ؟ مرزا علوم عقلی کے سرمائے میں بہت مال دار تھے۔ مگر اس جواب میں مفلس ہی نکلے۔ شہر میں چرچا ہو گیا ۔ کہ حاجی نے مرزا کو لا جواب کر دیا۔ اور حاجی ہی بڑے فاضل ہیں۔ جاننے والے جانتے تھے۔ کہ یہ بھی تاثیر زمانہ کا ایک شعبدہ ہے۔ یہ رباعی ملا صاحب نے فرمائی : ازبہر فساد و جنگ بعضے مردم کروند بکوے گمرہی خود راکم درمدر سہ ہر علم کہ آموختہ آند فی القبر یضرہم ولا ینفعھم 1 ؎ شیری دیکھو تتمہ 2 ؎ ملا عبدالقادر بدایونی مراد ہے 3 ؎ دیکھو تتمہ لطیفہ تحصیل فوائد پر نظر کر کے بادشاہ خوش اعتقاد دل سے چاہتا تھا کہ یہ جلسے گرم رہیں ۔ چنانچہ ان ہی دنوں میں قاضی زادہ لشکر سے کہا۔ کہ تم رات کو بحث میں نہیں آتے ؟ عرض کی حضور آؤں تو سہی لکین حاجی وہاں مجھ سے پوچھیں۔ عیسیٰ کیا صیغہ ہے۔ تو کیا جواب دوں۔ لطیفہ اس کا بہت پسند آیا۔ غرض اختلاف رائے اور خود نمائی کی برکت سے عجب عجب مخالفتیں ظاہر ہونے لگیں۔ اور ہر عالم کا یہ عالم تھا ۔ کہ جو میں کہوں دہی آیت وحدیث مانو۔ جو ذرا چون و چرا کرے اس کے نئے کفر سے ادھر کوئی ٹھکانا ہی نہیں۔ دلیلیں سب کے پاس آیتوں اور روایتوں سے موجود بلکہ علمائے سلف کے جو فتوے اپنے مفیصد مطلب ہوں۔ وہ بھی آیت و حدیث سے کم درجے میں نہ تھے۔ 983ھ میں مرزا سلیمان والی بد خشاں شاہ رخ اپنے پوتے کے ہاتھ سے بھاگ کر ادھر آئے۔ صاحب حال شخص تھے۔ مرید بھی کرتے تھے۔ اور معرفت میں خیالات بلند رکھتے تھے۔ یہی بھی عبادت خانے میں آتے تھے۔ مشائخ و علماء سے گفتگوئیں ہوتی تھیں۔ اور ذکر قال اللہ وقالیٰ الرسول سے برکت حاصل کرتے تھے۔ ملا صاحب دو برس پہلے داخل دربار ہوئے تھے۔ انہوں نے وہ کتابیں ساری پڑھیں تھیں۔ جنہیں لوگ بڑھ کر عالم و فاضل ہو جاتے ہیں۔ اور جو کچھ استادوں نے بتا دیا تھا۔ وہ حرف بہ حرف یاد تھا۔ لیکن اس میں بھی کچھ شک نہیں کہ اجتہاد کچھ اور شے ہے۔ وہ مرتبہ نہ حاصل تھا۔ مجتمہد کا یہی کام نہیں کہ آیت یا حدیث یا کسی فقہ کی کتاب کے معنے تبادے۔ کام اس کا یہ ہے۔ کہ جہاں صراحتہ آیت یا حدیث موجود نہیں یا کسی طرح کا احتمال ہے۔ یا آیتیں یا حدیثیں بظاہر معنوں میں مختلف ہیں۔ یہ وہاں ذہن سلیم کی ہدایت سے استنباط کر کے فتونے دے ۔ جہاں دشواری پیش آئے۔ وہاں مصالح وقت کو مد نظر رکھ کر حکم لگائے۔ آیت و حدیث عین مصالح خلق اللہ میں ۔ ان کے کاموں کو بند کرنے والی یان ان کو حد سے زیادہ تکلیف میں ڈالنے والی نہیں ہیں۔ واہ رے اکبر تیری قیافہ شناسی ۔ ملا صاحب کو دیکھتے ہی کہہ دیا۔ کہ حاجی ابراہیم کسی کو سانس نہیں لینے دیتا۔ یہ اس کا کلہ توڑ یگا۔ چنانچہ علم کا زور۔ طبیعت بے باک ۔ جوانی کی امنگ ۔ بادشاہ ود مدد کو پشت پر ۔ اور بڈھوں کا اقبال بڈھا ہو چکا تھا۔ یہ حاجی سے بڑھ کر شیخ صدر کو ٹکریں مارنے لگے۔ ان ہی دنوں میں شیخ ابو الفضل بھی ان پہنچے۔ اس فضیلت کی جھولی میں دلائل کی کیا کمی تھی۔ اور اس طبع خدا داد کے سامنے کسی کی حقیقت کیا تھی ۔ جس دلیل کو چاہا۔ چٹکی میں اڑا دیا۔ بڑی بات یہ تھی کہ شیخ اور شیخ کے باپ نے مخدوم اور صدر وغیرہ کے ہاتھ سے برسوں تک زخم اٹھائے تھے۔ جو عمروں میں بھرنے والے نہ تھے ۔ علما میں خلاف و اختلاف کے رستے تو کھل ہی گئے تھے۔ چند روز میں یہ نوبت ہو گئی ۔ کہ فرد عی مسائل تو درکنار رہے۔ اصول عقاید میں بھی کلام ہونے لگے۔ اور ہر بات پر طرۂ یہ کہ دلیل لاؤ۔۔۔ اور اس کی وجہ کیا۔ رفتہ رفتہ غیر مذہب کے عالم بھی جلسوں میں شامل ہونے لگے۔ اور خیالات یہ ہوئے۔ کہ مذہب میں تقلید کچھ نہیں ۔ ہر بات کو تحقیق کر کے اختیار کرنا چاہئے۔ حق یہ ہے کہ نیک نیت بادشاہ سے جو کچھ ظہور میں آیا۔ مجبوری سے تھا۔ 986ھ تک بھی ملا صاحب لکھتے ہیں۔ کہ رات کو اکثر اوقات عبادت خانے میں علماو مشائخ کی صحبت میں گزرتے تھے۔ خصوصاً جمعہ کی راتیں ۔ کہ رات بھر جاگتے تھے۔ اور مسائل دین کے اصول و فروع کی تحقیقیں کرتے تھے۔ اور علما کا یہ عالم تھا۔ کہ زبانوں کی تلواریں کھینچ کر پل پڑتے تھے کٹے مرتے تھے۔ اور آپس میں تکفیر و تضلیل کر کے ایک دوسرے کو فناہ کئے ڈالتے تھے۔ (ملا صاحب کہتے ہیں) شیخ صدر اور مخدوم الملک کا یہ حال تھا۔ کہ ایک کا ہاتھ اور ایک کا گریبان ۔ دونوں طرف کے روٹی توڑا اور سردے چٹ ملانوں نے دو طرفہ دھڑے باندھ رکھے تھے۔ گویا فرعونی دوہ تھا۔ سبطی وقبطی دونوں گروہ حاضر تھے۔ ایک عالم ایک کام کو حلال کہتا تھا۔ دوسرا اسی کو حرام ثابت کر دیتا تھا۔ بادشاہ انہیں اپنے عہد کا امام غزالی اور امام رازی سمجھے ہوئے تھا۔ جب انکا یہ حال دیکھا تو حیران رہ گئے۔ ابوالفضل و فیضی بھی آگئے تھے۔ اور ان کے بھی طرفدار دربار میں پیدا ہو گئے تھے۔ یہ ومبدم اکساتے تھے۔ اور بات بات میں ان کے بے اعتباری دکھاتے تھے۔ آخر علمائے اسلام ہی کے ہاتھوں یہ خواری ہوئی۔ کہ اسلام اوہر عام مذہب یکساں ہوگئے۔ اس میں علماو مشائخ سب سے بڑھ کر بد نام ہو ئے۔ پھر بھی بادشاہ اپنے دل سے حق مطلق کا طالب تھا۔ بلکہ ہر نقطے کی تحقیق اور ہرامر کی دریافت کا شوق رکھتا تھا۔ اس لئے ہر ایک مذہب کے عالموں کو جمع کرتا تھا۔ اور حالات دریافت کرتا تھا۔ بے علم انسان تھا۔ مگر سمجھ والا تھا۔ کسی مذہب کا دعویدار اسے اپنی طرف کھینچ بھی نہ سکتا تھا۔ وہبھی ان سب کی سنتا تھا۔ اور اپنی من سمجھوتی کرلیتا تھا۔ اس کے پاک اعتقاد اور نیک نیت میں فرق نہ آیا تھا۔ جب 984ھ میں داؤد افغان کا سرکٹ کر بنگالہ سے فساد کی جڑا کھڑگئی۔ تووہ شکرانے کے لئے اجمیر میں گیا ۔ عین عرس کے دن پہنچا۔ موجب اپنے معمول کے طواف کیا۔ زیارات کی ۔ فاتحہ پڑھی۔ دعائیں مانگیں۔ دیر تک حضور قلب سے مراقبے میں بیٹھا رہا۔ حج کے لئے فاقلہ جانے والا تھا۔ خرچ راہ میں ہزار ہا آدمیوں کو روپے اور سامان سفر دیا۔ اور حکم عام دیا کہ جو چاہے حج کو جائے۔ خرچ راہ خزانے سے دو ۔ سلطان خواجہ خاندان خواجگان میں سے ایک خواجہ باعظمت کو میر واج مقرر کیا۔ چھ لاکھ روپے نقد ۔ 12 ہزار خلعت اور ہزاروں روپے کے تحفے تحائف ۔ جو اہرشرفائے مکہ کے لئے دیئے۔ کہ وہاں کے مستحق لوگوں کو دینا۔ یہ بھی حکم دیا۔ کہ مکے میں عظیم الشان مکان بنوا دینا ۔ تاکہ حاجی مسافروں کو تکلیف نہ ہوا کرے جس وقت میرحاج قافلے کو لے کر روانہ ہوئے۔ تو اس تمنا میں کہ میں خانہ خدا میں حاضر نہیں ہو سکتا۔ بادشاہ نے خود وہی وضح بنائی جو حالت حج میں ہوتی ہے۔ بال قصر کئے۔ ایک چادر آدھی کا لنگ ۔ آدھی کا جھرمٹ ۔ ننگے سر ننگے پاؤں نہایت رجوع قلب اور عجز کے ساتھ حاضر ہوا۔ کچھ دور تک پیادہ پا ساتھ چلا۔ اور زبان سے اسی طرح کہتا جاتا تھا۔ لبیک لبیک لاشریک لک لبیک الخ (حاضر ہوا۔ میں حاضر ہوا اے واحدہ لاشریک میں حاضر ہوا) جس وقت بادشاہ نے یہ الفاظ اس حالت کے ساتھ کہے۔ عجب عالم ہوا خلق خدا کے دلوں کے آہ و نالے بلند ہوئے۔ قریب تھا کہ درختوں اور پتھروں سے بھی آواز آنے لگے۔ اس عالم میں سلطان خواجہ کا ہاتھ پکڑ کر شرعی الفاظ کہے جن کے معنے یہ تھے کہ حج اور زیارت کے لئے ہم نے اپنی طرف سے تمہیں وکیل کیا۔ شعبان 984ھ کو قافلہ روانہ ہوا۔ میر حاج چھ سال متواتر ان ہی ساسے جاتے رہے۔ البتہ یہ بات پھر نہ ہوئی۔ شیخ ابوالفضل لکھتے ہیں۔ کہ بعض بھولے بھالے عالموں کے ساتھ اکثر غرض پرستوں نے ساجھا کر کے بادشاہ کو سمجھایا۔ کہ حضور کو بذات خود ثواب حج حاصل کرنا چاہیے اور حضور بھی تیار ہو گئے ۔ لیکن جب حقیقت پرست دانشمندوں نے حج کی حقیقت اور اس کا راز اصلی بیان کیا تو اس ارادے سے باز رہے۔ اور بموجب بیان مذکورہ بالا کے میر حاج کے ساتھ قافلہ روانہ کیا۔ سلطان خواجہ مع تحائف شاہی اور اہل حج کے جہاز الہٰی میں بیٹھے کہ اکبر شاہی جہاز تھا۔ اور بیگمات جہاز سلیمی میں بیٹھیں کہ رومی سوداگروں کا تھا۔ 1 ؎ 24شعبان 984ھ کو یہ قافلہ روانہ ہوا۔ قطب الدین خان کو کلتاش اور راجہ بھگوتی داس۔ رانا کی مہم پر گئے ہوئے تھے۔ انہیں حکم ہوا کہ ہمراہ ہو کر کنارۂ دریائے شور تک پہنچا دو۔ دیکھو عالمگیر نامہ۔ جلوۂ قدرت علماو مشائخ کی بد اقبالی کے اصلی اسباب ایسے عالی حوصلہ شہنشاہ کے لئے یہ حرکتیں علما کی ایسی نہ تھیں۔ جن پر وہ اس قدر بیزار ہو جاتا ۔ اصل معاملہ ایک تفصیل پر منحصر ہے۔ جسے میں مختصر بیان کرتا ہوں۔ وہ یہ ہے کہ جب سلطنت کا پھیلا ؤ ایک طرف افغانستان سے لے کر گجرات دکن بلکہ سمندر کے کنارے تک پھیلا۔ دوسری طرف مشرق میں بنگالے سے آگے نکل گیا۔ ادھر بھکر اور حد قند ھار تک جا پہنچا۔ اور اٹھارہ بیس برس کی ملک گیری لیں اس کی دلاوری نے دلوں پر سکہ بٹھا دیا۔ آمد کے رستے بھی خرچ سے بہت زیادہ کھل گئے۔ اور خزانوں کے ٹھکانے نہ رہے۔ ایسے آئین بند بادشاہ کو اس کی قانون بندی بھی واجب تھی۔ اس لئے ادھر متوجہ ہوا۔ سلطنت کا انتظام اب تک اس طرح تھا ۔ کہ دیوانی فوجداری کل قاضیوں اور مفتیوں کے ہاتھ میں تھی۔ اور یہ اختیار انہیں شریعت اسلام نے دیئے ہوئے تھے۔ جن کی بات پر کوئی دم نہ مار سکتا تھا۔ امرا پر ملک تقسیم تھا۔ وہ باشی بیستی سے لے کر ہزار ی و پنجہزاری تک جو امیر منصب دار ہوتا تھا۔ اس کی فوج اور اخراجات کے لئے ملک ملتا تھا۔ باقی خالصہ بادشاہی کہلاتا تھا۔ اکبر کے اقبال کو اس موقع پر دو کام درپیش تھے۔ پہلے چند با اختیاروں سے جگہ خالی کرنی دوسرے کا رواں صاحب ایجاد اشخاص کا پیدا کرنا ۔ پہلاکام کہ ظاہر میں فقط اپنے نوکروں کا موقوف کر دینا ہے۔ آج آسان معلوم ہوتا ہے۔ لیکن اس وقت ایک کٹھن منزل تھا۔ کیونکہ قدامت نے ان کے قدم گاڑ دیئے تھے۔ جس کا اگلے وقتوں میں ہلانا بھی محال تھا۔ اگرچہ لیاقت ان کے لئے بالکل سفارش نہ کرتی تھی۔ لیکن رحم اور حق شناسی جو ہر وقت اکبر کے ناصح مخفی تھے۔ ان کے ہونٹ برابر ہلے جاتے تھے۔ مضمون سفارش یہی کہ ان کے باپ دادا تمہارے باپ دادا کی خدمت میں رہے۔ انہوں نے تمہاری خدمت کی ہے۔ یہ اب کسی کام کے نہیں رہے۔ اور اس گھر کے سوا ان کا کہیں ٹھکانا نہیں۔ افسوس یہ ہے کہ اس زمانے میں خاص و عام اپنے خیالات پر ایسے جمے ہوئے تھے۔ کہ ان کے نزدیک کسی پہلے دستور کا بد لنا (اگرچہ قلم کی تراش ہی کیوں نہ ہو) ایسا تھا۔ جیسے نماز روزہ کو بدل دیا۔ وہ لوگ اعتقاد کئے بیٹھے تھے۔ کہ جو کچھ بزرگوں سے چلاآتا ہے۔ عین آیت و حدیث ہے۔ اس میں یہ بھی کہنے کی حاجت نہ تھی ۔ کہ جس نے یہ قاعدہ باندھا وہ کون تھا۔ یہ بھی پوچھنا ضرور نہیں ۔ کہ مذہبی طور پر ہوا تھا۔ یا عام کا روبار کے طور پر ۔ ان کے دل پر نقش تھا۔ کہ جو کچھ ہمارے بزرگوں سے چلا آتا ہے۔ اس کی برکت ہزاروں منافع کا چشمہ اور بے شمار برائیوں کے لئے مبارک سپر ہے۔ جس میں ہماری عقل کام نہیں کر سکتی ۔ ایسے لوگوں سے یہ کب ممکن تھا کہ وہ موجودہ باتوں پر غور کریں۔ اور آگے عقل دوڑائیں۔ کہ کیا صورت ہو۔ جو حالت موجودہ سے زیادہ فائدہ مند اور باعث آسانی ہو۔ یہ لوگ یا علما تھے۔ کہ شریعت کے سلسلے میں کارروائی کر رہے تھے۔ یا عام اہلکار اور اہل عمل تھے۔ اکبر کے اقبال نے ان دونو مشکل کو آسان کر دیا۔ علما کی مشکل تو اس طرح آسان ہوئی کہ تم سن چکے ۔ یعنی خدا پرستی اور حق جوئی کے جوش نے اسے علمائے دیندار کی طرف دیاوہ متوہ کیا۔ اور یہ توجہ اس درجے کو پہنچی۔ کہ ان عام و اکرام اور قدر دانی ان کی حد سے گزر گئی ۔ حسد اس فرقے کا جوہر ذاتی ہے۔ ان میں جھگڑے اور فساد شروع ہوئے۔ لڑائی میں انکی چلتی تلوار کیا ہے ؟ تکفیر اور لعنت۔ اس کی بوچھاڑ ہونے لگی۔ آخر لڑتے لڑتے آپ ہی گر پڑے۔ آپ ہی بے اعتبار ہو گئے۔ صاحب تدبیر کو فکرو تر دد کی ضرورت ہی نہ ہوئ۔ی آزاد ۔ وقت کی حالت دیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ ان لوگوں کے ادبار کا موسم آگیا تھا۔ ثواب کی نظر سے ایک معاملہ پیش ہوتا تھا۔ عذاب نکل آتا تھا۔ مہم بنگالہ جو کئی برس جا ری رہی۔ تو معلوم ہوا کہ اکثر علما و مشائخ کے عیال فقرو فاقے سے تباہ ہیں۔ خدا ترس بادشاہ کو رحم آیا۔ حکم دیا کہ سب جمعہ کو جمع ہوں بعد نماز ہم آپ روپے بانٹیں گے ایک لاکھ مرد عورت کا انبرہ تھا۔ میدان چوگان بازی میں جمع ہوئے۔ فقرا کا ہجوم ۔ دلوں کی بے صبری ۔ احتیاج کی مجبوری ۔ کارواروں کی بے دردی یا بے پروائی۔ اسی بندے خدا کے پامال ہو کر جان سے گئے۔ اور خدا جانے کتنے پس کر نیم جاں ہوئے۔ مگر کمروں سے اشرفیوں کی ہمیانیاں نکلیں۔ بادشاہ رحم کا پتلا تھا۔ جلد ترس آجاتا تھا۔ نہایت افسوس کیا۔ مگر اشرفیوں کو کیا کرے۔ بد گمان اور بے قدر بھی ہو گیا۔ شیخ صدر کی مسند بھی الٹ چکی تھی۔ اور بہت کچھ پردے کھل گئے تھے۔ کئی دن کے بعد 987ھ میں نئے صدر کو حکم دیا۔ کہ مسجدوں کے اماموں اور شہروں کے مشائخ وغیرہ کے لئے جو صدر سابق نے جاگیریں دی تھیں۔ ہزاری سے پانصدی تک کو پرتال کرو۔ تحقیقات میں بہت سے جاگیر خوار تحقیف میں آئے۔ اور اس قربانی میں کسی کو یاد تو گویا گائے میں سے غدود ۔ باقی ہضم۔ مسجدیں ویران۔ مدد سے کھنڈر ۔ بزرگان واکابر اور روشناس مشاہیر شہروں میں ذلیل ہو گئے۔ جلا وطن میں ہوگئے۔ تباہ ہو گئے۔ جو رہے۔ بد نام کرنے والے۔ آرام کے بندے ۔ باپ دادا کی ہڈیاں بیچنے والے۔ جب محتاج ہوئے۔ تو دھنیوں جلا ہوں سے بدتر ہو گئے۔ اور انہی میں مل گئے۔ بلکہ ہندوستان میں کسی فرقے کی اولاد ایسی ذلیل نہ تھی۔ جیسے شرفائے مشائخ کی ۔ خدمتگاری وسائیسی بھی نہ ملتی تھی۔ کیونکہ وہ بھی نہ ہو سکتی تھی۔ 1 ؎ ملا صاحب لکھتے ہیں کہ یہ قاضی علمی بغدادی ۔ ملا حسین واعظم کے پوتے تھے۔ انہیں کار گزار دیکھ کر شیخ صدر کی چوٹ پر صدر نشین کیا تھا۔ یہ بھی دربار الہی ے اپنے حق کو پہنچ گئے تھے۔ 1000ھ میں کشمیر کے دیوان تھے۔ وہاں لمبے چوڑے حساب اور ہزاروں وقتیں پھیلا رکھی تھیں سپاہ و رعیت کا ناک میں دم تھا ۔ خنجر زمانہ نے کان کاٹے۔ اور کٹے ہوئے کان پر قلم رکھا۔ گدھے پر چڑھا کہ تشہیر کیا ۔ کہ عدم سفر میں بھی پیادہ نبھائیں ملا صاحب سفر عنایت کیا ؎ چونکہ قاضی علی بغدادی حسرتے یادگار باخود برو خامہ منشی قضا بنوشت سال تاریخ اور کہ موذی مرد ان لوگوں سے بد اعتقادی و بیزاری کا سبب ایک نہ تھا۔ بڑے بڑے پیچ تھے۔ ان میں سے کھلی بات بنگالے کی بغاوت تھی۔ کہ بزرگان مذکور کی برکت سے اس طرح پھیل پڑی۔ جیسے بن میں آگ لگی۔ سبب اس کا یہ ہوا۔ کہ بعض مشائخ معافی دار اور مسجدوں کے امام اپنی جاگیروں کے باب میں ناراض ہوئے۔ ان کے دماغ پشتوں سے بلند چلے آتے تھے۔ اور اسلام کی سند سے سلطنت کو اپنی جاگیر سمجھے بیٹھے تھے۔ مشائخ عظام اور ایمہ مساجد نے (انہیں آج تم ایسی کنگال حالت میں دیکھتے ہو۔ ان دنوں میں یہ لوگ بادشاہ کی حقیقت کیا سمجھتے تھے) وعظ کی مجلسوں میں ہدایت شروع کر دی کہ بادشاہ وقت کے ایمان میں فرق آگیا۔ اور اس کے عقائد درست نہیں ہیں اتفاق یہ کہ کئی امراے فرمانروا دربار کے بعض احکام سے ۔ اور اپنی تنخواہ لشکر ۔ اور ملک کے حساب کتاب وغیرہ میں ناراض تھے۔ انہیں بہانہ ہاتھ آیا۔ دینی اور دنیاوی فرقے متفق ہو گئے۔ علما اور قاضیہ اور مفتیوں میں سے بھی جو ہو سکا۔ اسے ملا لیا۔ چنانچہ ملا خمد یزدی قاضی القضاۃ جو نپور تھے۔ انہوں نے فتوے دیا کہ بادشاہ وقت بد مذہب ہو گیا۔ اس پر جہاں واجب ہے۔ جب یہ سندیں ہاتھ میں آئیں تو کئی جلیل القدر ۔ عمروں کے جاں نثار ۔ صاحب لشکر امیر ۔ بنگالہ اور شرق رویہ ملکوں میں باغی ہوگئے۔ اور جہاں جہاں تھے تلواریں کھینچ کر نکل پڑ۔ وفا دار امیر اپنی اپنی جگہ سے اٹھ کر اس آگ کے بجھانے کو دوڑے۔ بادشاہ نے آگرے سے خزانے اورفوجیں کمک پر بھیجیں مگر فساد روز بروز بڑھتا جاتا تھا۔ المہ مساجد اور خانقاہوں کے مشائخ کہتے تھے۔ کہ بادشاہ نے ہماری معاش میں ہاتھ ڈالا۔ خدا نے اس کے ملک میں ہاتھ ڈالا۔ اس پر آیتیں اور حدیثیں پڑھتے تھے۔ اور خوش ہوتے تھے۔ وہ اکبر بادشاہ تھا۔ اسے ایک ایک بات کی خبر پہنچتی تھی۔ اور ہر بات کا تدارک کرنا واجب تھا۔ ملا محمد یزدی اور معزالملک وغیرہ کو ایک بہانے سے بلا بھیجا۔ جب وزیر آباد (آگرے سے دس کوس) پہنچے ۔ تو حکم بھیجا۔ کہ ان دونوں کو الگ کر کے دریائے جمن کے رستے گوالیار پہنچا دو (مجرمان سلطنت کو جیلخانہ تھا) پیچھے حکم پہنچا۔ کہ فیصلہ کر دو پہلے داروں نے دونوں کو ایک ٹوٹی کشتی میں ڈالا۔ اور تھوڑی دور آگے جا کر چادر آب کا کفن دیا۔ اور گرداب کو گور میں دفن کر دیا۔ اور مشائخ ملاؤں کو بھی جن جن پر شبہ تھا۔ ایک ایک کر کے عدم کے تہ خانے میں بھیج دیا۔ بہتیروں کو نقل مکان کے ساتھ پورب سے پچھم ۔ اور دکھن سے اتر میں پھینک دیا۔ وہ جانتا تھا۔ کہ ان کا اثر بہت تیز و تند اور سخت پرزور ہے۔ چنانچہ اس بد اعتقادی کا چرچا مکے مدینے اور روم اور بخارا و سمر قند تک پہنچا۔ عبداللہ خاں اذبک نے رسم کتابت بند کر دی ۔ مدت کے بعد جو مراسلہ لکھا۔ تو اس میں صاف لکھ دیا۔ کہ تم نے اسلام چھوڑا۔ ہم نے تمہیں چھوڑا۔ اور ادھر کا اکبر کو بڑا بچاؤ رہتا تھا۔ کیونکہ اذبک کی بلانے دادا کو وہاں سے نکالا تھا۔ اور اب بھی اس کا کنارہ قندھار ۔ کابل اور بد خشاں سے لگا ہوا تھا۔ باوجود ان تدبیروں کے بغاوت مذکور کئی برس میں دبی۔ کروڑوں روپے کا نقصان ہوا۔ لاکھوں جانیں گئیں۔ ملک تباہ ہوئے۔ بہت سے قاضی ۔ مفتی علما و مشائخ عہدہ دار تھے۔ ان کی رشوت خواریوں اور فتنہ کاریوں نے ننگ کر دیا۔ یہ بھی خیال تھا کہ شائد ان میں صاحب معرفت اور اہل دل بلکہ کشف و کرامات والے لوگ ہوں۔ ملک کی مصلحت نے حکم دیا کہ جو صاحب سلسلہ مشائخ ہیں۔ سب حاضر ہوں۔ اب دل میں ان لوگوں کو وہ عظمت نہ رہی ۔ جو ابتدا میں تھی۔ چنانچہ ملازمت کے وقت نئے آئینوں کے بموجب انہیں بھی تسلیم و کورنش وغیرہ بجا لانی پڑی۔ پھر بھی ہر ایک کی جاگیرو وظیفہ کو خود دیکھتا تھا۔ خلوت و جلوت میں باتیں بھی کرتا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ شائد اس گروہ میں کوئی سوار نکلے اور اس سے کچھ خدا کا رستہ معلوم ہو۔ مگر افسوس کہ وہ بات کے قابل بھی نہ تھے۔ ان سے کیا معلوم ہوتا۔ خیر جو مناسب دیکھے جاگیر وظیفے دیئے۔ جسے سنتا کہ مرید کرتا ہے۔ حال و قال کا جلسہ جماتا ہے۔ اسے کہیں کا کہیں پھینک دیتا۔ ان لوگوں کا نام دکاں دار رکھا تھا۔ اور سچ رکھا تھا ع بد نام کنندہ نکونامے چند روز انہیں کی جاگیروں کے مقدمے پیش رہتے تھے۔ کیونکہ یہی لوگ معافی دار بھی تھے۔ انقلاب زمانہ دیکھو ! جتنے بڈھے سن رسیدہ مشائخ تھے (واجب الرحم و قابل ادب نظر آتے تھے) انہیں پر فتنہ و فساد کا خیال زیادہ ہوتا تھا۔ کیونکہ وہی زیادہ ان صفتوں سے موصوف ہوتے تھے۔ اور انہی پر لوگ گرویدہ ہوتے تھے۔ آخر حکم ہوا کہ صوفیہ و مشائخ کے فرمانوں کی پرتال ہندو دیوان کریں۔ کہ رعایت منہ کریں گے۔ پرانے پرانے خاندانی مشائخ جلا وطن کئے گئے۔ گھروں میں چھپ رہے۔ گمنامہ ہو بیٹھے ۔ بدحالی نے حال و قال سب بھلا دیئے۔ ؎ چناں قحط سالے شد اندر دمشق کہ یاراں فراموش کردند عشق اے خدا تیری شان ۔ چوں آیم برسرقہر ۔ نہ خویش گزارم نہ بیگانہ ۔ سوکھوں کے ساتھ گیلے بروں کے ساتھ اچھے سب جل گئے۔ علمائے با اختیار میں کہ اراکین دربار تھے۔ بعض اشخاص فی الحقیقت صاحب دل اور کریم النفس تھے۔ مثلا میر سید محمد میر عدل کو خالص اسلام کے باخبر عالم تھے۔ اور عالم بھی باعمل تھے۔ علوم دینیہ کی سب کتابیں پڑھے تھے۔ مگر جتنے الفاظ کتاب میں لکھے تھے۔ ان سے بال بھر سرکنا کفر سمجھتے تھے۔ خاص سے لے کر عام تک سب ان کا ادب کرتے تھے۔ اور اکبر خود بھی لحاظ کرتا تھا۔ سلطنت کی مصلحتوں پر نظر کر کے انہیں دربار سے ٹالا۔ اور بھکر کا حاکم کر کے بھیج دیا۔ اور شیخ صدر کے حال میں نے علیحدہ لکھے ہیں۔ تم پڑھوں گے تو معلوم کرو گے۔ مخدوم نے کئی بادشاہوں کے دور اس طرح بسر کئے تھے۔ کہ شریعت کے پردے میں دربار کے ایوان ۔ امیروں کے دیوان بلکہ رعایا کے گھر گھر پر دھوآں دھار چھائے ہوئے تھے۔ شاہان بااقبال ان کا منہ دیکھتے رہتے تھے۔ اور انہیں اپنے ساتھ موافق رکھنا مصالح ملکی کا جز سمجھتے تھے۔ ان کے آگے یہ لڑکا بادشاہ کیا مال تھا۔ اللہ اللہ لڑکوں کے ہاتھوں بڑھاپے کی مٹی خراب ہوئی (ابو الفضل و فیضی کون تھے۔ ان کے آگے کے لڑکے ہی تھے ) شیخ صدر کے اختیار اگرچہ بادشاہ نے خود بڑھائے تھے۔ مگر ان کی کہن سالی اور جلالت خاندانی نے (کہ امام صاحب کی اولاد میں تھے) لوگوں میں دلوں میں بڑا اثر دوڑایا تھا۔ اور ابتدا میں انہی اوصاف کی سفارشوں نے دربار اکبری میں لا کر اس رتبہ عالی تک پہنچایا تھا۔ کہ ہندوستان میں ان سے پہلے یا پیچھے کسی کو نصیب نہ ہوا۔ علمائے عصران کے بچے عچے تھے۔ کہ قاضی و مفتی بن کر ملک ملک میں امیر و غریب کی گردن پر سوار تھے۔ شاید باتدبیر نے ان دونوں کو مکے بھیج کر داخل ثواب کیا۔ اور بہتیرے علما تھے۔ انہیں ادھر ادھر ٹال دیا۔ جو کچھ کیا مصلحت کی مجبوری سے کیا عہد قدیم میں ہر سلطنت کو شریعت کے ساتھ ذاتی پیوند رہا ہے۔ اول اول سلطنت شریعت کے زور سے کھڑی ہوئی ۔ پھر شریعت اس کے سائے میں بڑھتی گئی۔ مگر اس دربار کا رنگ کچھ اور ہونے لگا اول تو سلطنت کی جڑ مضبوط ہو کر دور تک پہنچ گئی تھی۔ دوسرے بادشاہ سمجھ گیا تھا۔ کہ ہندوستان میں ۔ اور توران و ایران کی حالت میں مشرق مغرب کا فرق ہے۔ وہاں بادشاہ اور رعایا کا ایک مذہب ہے۔ اس لئے جو کچھ علمائے دین حکم دیں۔ اسی پر سب کو ایمان لانا واجب ہوتا ہے۔ خواہ کسی کی ذات خاص یا ملکی امورات کے مواقف ہو۔ خواہ خالف ۔ برخلاف اس کے ہندوستان ہندوؤں کا گھر ہے۔ ان کا مذہب ۔ اور رسم و رواج اورمعاملات کا جداطور ہے۔ ملک گیری کے وقت جو باتیں ہوجائیں۔ وہ ہو جائیں۔ جب ملک داری منظور ہو۔ اور اس ملک میں رہنا ہو تو چاہئے۔ کہ جو کچھ کریں نہایت سوچ سمجھ کر اور اہل ملک کے مقاصد و اغراض کو مد نظر رکھ کر کریں۔ تم جانتے ہو کہ صاحب عزم بادشاہ کے لئے جس طرح ملک گیری کی تلوار میدان صاف کرتی ہے۔ اسی طرح ملک داری کا قلم تلوار کے کھیت کو سبز کرتا ہے۔ اب وہ وقت تھا کہ تلوار بہت سا کام کر چکی تھی۔ اورقلم کی عرق ریزی کا وقت آیا تھا۔ علما نے شریعت کے اسناد سے خدائی زور پھیلا رکھے تھے۔ کہ نہ ان کو کوئی دل برداشت کر سکتا تھا۔ نہ ملک کی مصلحت اس بنیاد پر بلند ہو سکتی تھی۔ بعض امر ا بھی اکبر کی رائے سے متفق تھے۔ کیونکہ جانیں لڑا کر ملک لینا انہیں کا کام تھا۔ اور پھر ملک داری کر کے حکومت جمانا بھی انہیں کا ذمہ تھا۔ وہ اپنے کام کی مصلحتوں کو خوب سمجھتے تھے۔ قاضی و مفتی انکے سر پر حاکم شرع تھے۔ بعض مقدموں میں لالچ سے بعض جگہ حماقت سے ۔ کہیں بے خبری۔ کہیں بے پروائی سے کہیں اپنے فتو ے کا زور دکھانے کو امرا کیساتھ اختلاف کرتے تھے۔ اور انہیں کی پیش جاتی تھی۔ اس صورت میں امرا کو ان سے تنگ ہونا واجب تھا۔ دربار میں اب ایسے عالم بھی آگئے تھے ۔ کہ قرابادین قدرت کے عجائب نسخے تھے۔ خوشامد اور حصول انعام کے لالچ نے انہیں ایسے ایسے مسائل بتا دیئے تھے۔ کہ بادشاہوں کے شوق مصلحت سے بھی بہت آگے نکل گئے تھے۔ اور نئی اصلاح و انتظام کے لئے رستہ کھلا۔ ابو الفضل وفیضی کا ناحق نام بد نام ہے کر گئے۔ داڑھی والے پکڑے گئے مونچھوں والے۔ غازی خان بد خشی نے کہا ۔ کہ بادشاہ کو سجدہ جائز ہے۔ علما نے کان کھڑے کیے۔ غل مچایا۔ گفتگو کے سلسلے پھیل کر الجھے۔ معترض ملانوں کے جوش نہ دم لیتے تھے۔ نہ لینے دیتے تھے۔ جواز کے طرف دار بڑی ملائمت سے نہیں روکتے اور اپنی بنیاد جمائے جاتے تھے۔ کہتے تھے کہ عہد سلف پر نظر کرو۔ امت ہائے قدیمہ کو دیکھو۔ وہ عموماً اپنے بزرگوں کے سامنے تحفہ عجز و نیاز سمجھ کر ادب سے پیشانی زمین پر رکھتے تھے۔ ملائک کا سجدہ حضرت آدم کو کیسا تھا ؟ ج ظاہر کہ تعظیمی ۔ باپ اور بھائیوں کا سجدہ حضرت یوسف کو کیوں تھا۔ ج تحفہ ادب پیش کیا تھا۔ نہ کہ پر سقش بندگی ۔ بس وہی سجدہ یہ ہے۔ پھر انکار کیوں ؟ اور تکرار کیا ؟ لطیفہ طرہ اس پر یہ ہے۔ کہ ملا عالم کا بلی ہمیشہ افسوس کیا کرتے تھے۔ کہ ہائے مجھے یہ نکتہ نہ سوجھا۔ حریف بازی لے گیا۔ لطیفہ حاجی ابراہیم سرہندی کے زعفرانی اور لال کپڑوں پر جو دھبہ لگا۔ دیکھو میر سید محمد میر عدل کے حال میں ۔ لطیفہ بادشاہ نے کہا کہ مہر کا سجمع اللہ اکبر کہیں تو کیسا ہو۔ باوجود اوصاف مذکورہ کے حاجی صاحب بولے۔ اس میں شبہ پڑتا ہے۔ اس لئے دلذکر اللہ اکبر ہو تو بہتر ہے۔ بادشاہ نے کہا کہ یہ شبہ نہیں وہم و وسوسہ ہے۔ بندہ ضعیف ۔ محتاج ۔ عاجز ۔ خدائی کا دعوے کیونکر کر سکتا ہے۔ ایک شاعرانہ مناسبت ہے۔ اس مطلب کو ادھر لے جانا کیا ضرور تھا۔ سب طرف سے اس کی تائید ہوئی۔ اور یہی لکھا گیا۔ غرض نوبت یہ ہوئی۔ کہ شریعت کے اکثر فتوے تجویزت ملکی سے ٹکرانے لگے۔ علما تو ہمیشہ سے زوروں پر چڑھے چلے آتے تھے۔ وہ اڑنے لگے۔ اورب ادشاہ بلکہ امرا بھی تنگ ہوئے۔ شیخ مبارک نے دربار میں کوئی منصب نہ لیا تھا۔ مگر برس میں ایک دو دفعہ کسی مبارک باد یا کچھ اور تقریب سے اکبر کے پاس آیا کرتے تھے۔ ان کی تعریف میں اول تو اتنا ہی کہنا کافی ہے۔ کہ ابوالفضل و فیضی کیب اپ تھے۔ اور جو فضل و کمال بیٹوں کو بہم پہنچا۔ اسی مبارک باپ کی کرامات تھی۔ وہ جیسا علم و فضل میں ہمہ داں عالم تھا۔ ویسا ہی عقل و دانش کاپتلا تھا۔ اس نے کئی سلطنتیں دیکھی تھیں۔ اور سوبرس کی عمرپ ائی۔ مگر دربار یا اہل دربار سے تعلق ہی نہ پیدا کیا۔ علمائے عہد درباروں اور سرکاروں میں دوڑتے پھرتے تھے۔ وہ اپنے گھر کے گوشہ میں علم کی دوربین لگائے بیٹھا تھا۔ اور ان شطرنج بازوں کی چالوں کو دور سے دیکھ رہا تھا ۔ کہ کہاں بڑھتے ہیں۔ اور کہا چوکتے ہیں۔ اور بے غرض دیکھنے والا تھا۔ اس لئے چالیں اسے خوب سوجھتی تھیں۔ اس نے ان لوگوں کو تیر ستم بھی اتنے کھائے تھے کہ دل چھلنی ہو رہا تھا۔ شیخ مبارک کی تجویز سے یہ صلاح ٹھیری ۔ کہ چند عالموں کو شامل کر کے آیتوں اور روایتوں کی اسناد سے ایک تحریر لکھی جائے۔ خلاصہ جس کا یہ کہ امام عادل کو جائز ہے۔ کہ اختلافی مسئلے میں اپنی رائے کے موجب وہ جانب اختیار کرے۔ جو اس کے نزدیک مناسب وقت ہو ۔ اور اس کی تجویز کو علماء و مجتمہدین کی رائے پر ترجیح ہو سکتی ہے۔ مسودہ شیخ مبارک نے کیا۔ قاضی جلال الدین ملتانی ۔ صدر جہاں مفتی کل ممالک ہندوستان خود شیخ موصوف ۔ غازی خاں بد خشی نے اول دستخط کئے۔ پھر اگرچہ مطلب تو جن سے تھا۔ انہیں سے تھا۔ مگر علما ۔ فضلا ۔ قضی ۔ ومفتی اور بڑے بڑے عمامہ بند جن کے فتوؤں کو لوگوں کے دلوں میں گہری تاثیریں تھیں۔ سب بلائے گئے اور مہریں ہوگئیں۔ اور 997ھ میں علما کی مہم عظیم فتح ہوئی۔ اس محضر کے بنتے ہی علمائے دولت پر ست کے گھروں میں ماتم پڑ گئے۔ مسجدوں میں بیٹھے تھے۔ تسبیحیں ہاتھ میں منہ سے نکلتا تھا۔ کہ بادشاہ کافر ہو گیااور حق بجانب تھا۔ کہ سلطنت ہاتھ سے نکل گئیں۔ اگلے وقتوں میں ایک حکمت عملی تھی کہ جن لوگوں کا کچھ لحاظ ہوتا تھا۔ اور ملک میں رکھنا مصلحت نہ ہوتا تھا۔ انہیں مکہ کو بھیج دیتے تھے۔ چنانچہ شیخ و مخدوم کو بھی ہدایت ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ ہم پر حج و اجب نہیں ۔ ہمارے پاس پیسہ کہاں ؟ غرض ریل دھکیل کر دونو کو روانہ کر ہی دیا۔ دیکھو دونو صاحبوں کے حال ۔ امام عادل کے لفظ پر بادشاہ کا خیال ہوا کہ خلفائے راشدین اور اکثر سلاطین بلکہ امیر تیمور اور مرزا الغ بیگ گورگاں بھی برسر منبر جمعہ و جماعت میں خطبہ پڑھا کرتے تھے۔ ہمیں بھی پڑھنا چاہیے ۔ چنانچہ مسجد فتح پور میں جو جمعہ کے دن جذماعت ہوئی۔ تو بادشاہ منبر پر گئے۔ لیکن عجب اتفاق ہوا کہ تھر تھر کا نپنے لگے۔ اور زبان سے کچھ نہ نکلا۔ آخر شیخ فیضی کے 3 شعر پڑھ کر اتر آئے۔ سوبھی اور کوئی برابر سے بتاتا گیا : ۔ خداوندے کہ مارا خسروی داد دل دانا ؤ باز وے قوی داد بعدل و داد مارا رہنموں کرد بجز عدل از خیال مابروں کرد بودو صفش زحر فہم برتر تعالیٰ شانہ ، اللہ اکبر دوسرا کام اہل عمل میں بھی دیوان اور منشی بڑے بڑے کار گزار امیر تھے۔ ان پرانے پاپیوں نے بادشاہی دفتر کو اختیار کے بستوں میں باندھ رکھا تھا۔ ا ن کی دفتر ی لیاقت ۔ پرانی و اقفیت اور حساب کتاب کی مہارت کسی کو خاطر میں نہ لاتی تھی۔ اور بادشاہ سمجھتا تھا کہ میں بے علم ہوں۔ اس مہم کو بھی اسکے اقبال نے بڑے اسلوب سے سر انجام کیا۔ کوئی مرگ یا۔ کسی کو گرد ش ایام نے پیچ میں ڈال کر مارا۔ ان کی جگہ با لیاقت ۔ باکمال صاحب ایجاد لوگوں کو گھر کے گوشوں سے نکال کر ۔ دور دور کے تنکوں سے کھینچ کر دربار میں حاضر کر دیا۔ ٹوڈر مل ۔ فیضی ۔ حکیم ابو الفتح ۔ حکیم ہمام ۔ میر فتح اللہ شیرازی نظا الدین بخشی و غیرہ اشخاص تھے۔ ان میں ایک ایک شخص ہر فنی تھا۔ اور جس فن میں دیکھو بجائے خود ایسی دستگار رکھتا تھا۔ کہ گویا یک فنی تھا۔ یہ لوگ اس وقت کے ارسطو و افلاطوں تھے۔ اگر اظہار فن کے موقع پاتے تو خا جانے کیا کیا کچھ لکھ جاتے۔ مگر وقت نہ پایا۔ دفتر کی ترتیب اور حساب کتاب کا انتظام ان کے رتبہ کمال کے لئے کمینہ کام تھا۔ دفتر مال اور اسکے حساب کتاب میں بھی ایسے تھے۔ کہ ایک ایک شخص کا نام گوشہ کا غذ میں موتی ہو کر ٹکے۔ مگر ٹوڈر مل اسی کام میں تھا۔ اس لئے پہلے اس کا نام لینا واجب ہے۔ 1 ؎ دیکھو خواجہ شاہ منصور ۔ خواجہ امنا مظفر خاں وغیرہ کے حال تتمہ میں ۔ اس وقت تک دفتر شاہی کہیں ہندی میں تھا۔ کہیں فارسی میں ۔ کہیں مہاجنی بہی کھاتہ ۔ کہیں ایرانی ترتیب۔ اس میں بھی پرزے پرزے کاغذ کے بے حساب تھے۔ سر رشتہ و انتظام نہ تھا۔ یہ مجسم عقلیں مل کر بیٹھیں ۔ کمیٹیاں کیں۔ گفتگو ئیں ہوئیں۔ مال دیوانی ۔ فوجداری وغیرہ وغیرہ کے الگ الگ سرشتے باندھے اور ہر ایک کو اصول و ضوابط کے رشتوں سے کس دیا کہ کل قلمر و اکبری میں ایک آئین اکبری جاری ہو۔ ہر بات میں جزوی جزوی نکتوں پر نظر کی گئی ۔ جس کا پہلا نقطہ یہ تھا ۔ کہ کل دفتروں میں ایک سنہ پر حساب کی بنیاد ہو۔ اوراسی کا نام سنہ فصلی ہو۔ ملا صاحب نے اس بات پر بڑی دادوبے داد کی ہے اور اسے بھی انہی فریاد وں میں داخل کیا ہے جن سے اکبر کے دل میں تنفر یا عداوت اسلام ثابت کرتے ہیں۔ لیکن معاملے کی اصلیت اس فرمان کے مطالعے سے کھلتی ہے جو اس باب میں جاری ہوا۔ فرمان مذکور سے یہ بھی آئینہ ہوتا ہے کہ معاملات سلطنت میں کیا کیا مشکلیں سد راہ تھیں۔ جس کے لئے بادشاہ ملک پرور کو یہ قانون باندھنا واجب ہوا تھا۔ میں بھی فضول فقروں کو چھوڑ کر ترجمہ لکھتا ہوں۔ مگر احتیاط رکھی ہے کہ جو مطلب کے فقرے ہیں ان کا مضمون نہ رہ جائے فرمان مذکور ابوالفضل کا لکھا ہوا تھا۔ دیکھو تتمہ ۔ بندوبست مالگزاری مالگزاری اور مالیات کا انتظام حقیقت میں ابھی تک تخمین پر تھا۔ جن دیہات کا جو رقبہ تھا۔ اور جو اسکی جمع تھی۔ وہی صد ہا سال سے بندھی چلی آتی تھیں ۔ بہتری باتیں منشیان دفتر کی زبان پر ہی تھیں۔ سلطنتوں کے انقلابوں نے انتظام کا موقع نہ آنے دیا تھا۔ دفتر مال میں بڑی خرابی یہ تھی کہ ایک امیر کو ملک دیتے تھے۔ اہل دفتر اسے 10 ہزار کا کہتے تھے۔ وہ حقیقت میں پندرہ ہزار کا ہوتا تھا۔ پھر بھی جسے دیتے تھے۔ وہ روتا تھا کہ 5 ہزار کا بھی نہیں۔ تجویز ہوئی کہ کل ممالک محروسہ کی پیمائش ہو جائے اور جمع تحقیقی قرار دی جائے۔ جریب رسی کی ہوتی تھی۔ اس سے تروخشک میں فرق ہو جاتا تھا۔ اس لئے بانس کے ٹوٹوں میں لوہے کے حلقے ڈال کر جریبیں تیار ہوئیں۔ رعایا کے فائدے کو مد نظر رکھ کر 50گز کی جگہ 60 گز کا طول قرار دیا۔ تمام اراضی خشک و ترمع اقسام زمین ریت کے میدان کوہستان بیابان جنگل شہر دریا نہر جھیل تلاو کواں وغیرہ وغیرہ سب کو ناپ ڈالا۔ اور کوئی چیز باقی نہ چھوڑی۔ ذرہ ذرا دفتر میں قلمبند کر لیا۔ یہ سمجھ لو کہ کاغذات مالگزاری میں جو جو تفصیلیں تم آج دیکھتے ہو۔ یہ اکبری عہد کی تحقیقیں ہیں کہ اب تک اسی طرح چلی آتی ہیں ۔ البتہ بعض اصلاحیں بھی ہوئی ہیں۔ اور ایسا ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے۔ بعد پیمائش کے جس قدر زمین کا محصول ایک کروڑ تنگہ ہو۔ وہ ایک معتبر آدمی کو دی گئی۔ اس کا نام کروری ہوا۔ اس پر کارکن فوطہ دار مقرر ہو ئے۔ وغیرہ وغیرہ۔ اقرار نامہ لکھا گیا کہ تین برس میں نامرزوعہ کو بھی مرزوعہ کردونگا۔ اور روپیہ خزانے میں داخل کردونگا۔وغیرہ وغیرہ ۔ بہت سے جزئیات س تحریر میں داخل تھے۔ سیکری گاؤں کو فتح پور شہر بنا کر مبارک سمجھا تھا۔ اور اس کی رونق اور آبادی وزیبائی اور اعزاز کا بڑا خیال تھا بلکہ چاہا تھام کہ یہ دارالخلافہ ہو جائے۔ اسی مرکز سے چاروں طرف پیمائش شروع ہوئی۔ پہلے موضع کا نام آوم پور۔ پھر شیث پور۔ ایوب پور وغیرہ وغیرہ ہو کر یہ ٹھیری کہ تمام موضع پیغمبروں کے نام پر ہو جائیں بنگ بہار ۔ گجرات دکن ۔ بدستور الگ رکھے گئے۔ اور اس وقت تک کا بول قندھار غزنیں ۔ کشمیر ۔ ٹھٹہ ۔ سواد بنیر ۔ بجور ۔ تیراہ ۔ بنگش ۔ سورٹھ ۔ اڑیسہ فتح نہ ہوئے تھے۔ باوجود اس کے 182عامل (کروری) مقرر ہوئے۔ جس طرح چاہا تھا اس طرح یہ کام نہ چلا کیونکہ لوگ اس میں اپنا نقصا ن سمجھتے تھے۔ معافی دار جانتے تھے کہ ہمارے پاس زمین زیادہ ہے۔ اور اس کی آمدنی بھی زیادہ ہے۔ پیمائش کے بعد جس قدر زیادتی ہو گی کترلینگے۔ جاگیر دار یعنی امرا کو بھی یہی خیال تھا۔ انسان کی طبیعت کو خدا نے ایسا بنایا ہے کہ وہ کسی پابندی کے نیچے آنا گوارا نہیں کرتا۔ اس لئے زمیندار بھی کچھ خوش تھے کچھ ناخوش ۔ اور ظاہر ہے کہ کوئی کام نہیں چل سکتا۔ جب تک کہ کل اشخاص جن جن کا قدم اسمیں ہے سب خوش اور یک دل ہو کر کوشش نہ کریں ۔ چہ جائیکہ نقصان سمجھ کر خارج ہوں افسوس یہ ہے کہ کروریوں نے آبادی پر اتنی کوشش نہ کی جتنی تحصیل پر ۔ کاشتکار ان کے ظلم سے برباد ہو گئے۔ بال بچوں کو بیچ ڈالا۔ خانہ ویران ہو گئے۔ بھاگ گئے۔ کروری بدنیت و بدعمل کہاں بچ سکتے تھے۔ 3 برس جو کھایا سو کھایا۔ پھر جو کھایا تھا۔ راجہ ٹوڈرمل کے شکنجے میں آکر اگلنا پڑا۔ غرض وہ فائدہ مند اور عمدہ بندوبست خلط ملط ہو کر سرمایہ نقصان ہو گیا اور جو مطلب تھا وہ حاصل نہ ہوا۔ شکریئے کی جگہ جا بجا شکائتیں اور گھر گھر میں اسی کا رونا پڑا۔ عاملوں کی ہجویں ۔ قواعد آئین کے مضحکے ہوئے۔ انہی میں سے جریب کے حق میں کسی مثنوی کا ایک شعر ہے ؎ در نظر عبرت مرد لبیب مار دو سر بہ کہ طناب جریب ملازمت اور نوکری شرفا کے گزارے کیلئے ان دنوں میں دورستے تھے ایک مد و معاش دوسرے نوکری۔ مدومعاش جاگیر تھی کہ علما و مشائخ اور ائمہ مساجد کیلئے ہوتی تھیں اس میں خدمت معاف تھی۔ نوکری میں خدمت بھی ہوتی تھی۔ یہ وہ باشی سے لیکرپنجہزاری تک جو ملاز م ہوتے تھے سب اہل سیف ہوتے تھے۔ وہ باشی کو 10 بیستی کو 20 وغیرہ وغیرہ سپاہی رکھنے ہوتے تھے۔ اسی طرح دو بیستی ۔ پنجہ باشی ۔ سہ بیستی چار بیستی ۔ یوز باشی وغیرہ وغیرہ پنجہزار ی تک تنخواہ کی صورت یہ کہ حساب کے بموجب اتنی زمین کا قطعہ یاد یہیہ یادیہات یا علاقہ یا ملک مل جاتا تھا۔ اس کے محاصل سے اپنے ذمہ واجب کی فوج رکھیں۔ اور اپنی حیثیت اور عزت امارت کو درست رکھیں۔ ایک بات اورس ن لو کہ یہاں اس زمانے میں اور ایشیائی ملکوں میں اب بھی یہی دستور ہے کہ جتنا کسی کا سامان اور خرچ و افر ۔ خصوصاً دستر خوان کا پھیلاؤ اور رفیقوں اور نوکروں کی جمعیت زیادہ ہوتی ہے۔ اتنا ہی وہ شخص با لیاقت عالی ہمت اور صاحب خانوادہ سمجھا جاتا ہے ۔ اور اتنا زیادہ اور جلد اس کا منصب بڑھاتے ہیں۔ ملازمان مذکور میں سے جس کو جیسی لیاقت دیکھتے تھے۔ ویسا کام اہل قلم میں بھی دیتے تھے۔ لڑائی کا موقع آتا تو جن جن کے نام تجویز میں آتے۔ کیا اہل سیف کیا اہل قلم ان کے نام حکم پہنچتے۔ وہ باشی سے لیکر صدی دو صدی تک وغیرہ وغیرہ ۔ کل منصب دار اپنے اپنے ذمے کی فوج ۔ پوشاک ہتیار اور سامان سے درست کرتے اور حاضر ہوتے۔ حکم ہوتا تو آپ بھی ساتھ ہوتے۔ نہیں تو اپنے آدمی لشکر میں شامل کر دیتے۔ بد نیت منصب داروں نے یہ طریقہ اختیار کیا کہ سپاہی تیار کر کے مہم پر جاتے۔ جب پھر کر آتے تو چند آدمی اپنی ضرورت کے بموجب رکھ لیتے۔ باقی موقوف ۔ ان کی تنخواہیں آپ ہضم ۔ روپے سے بہاریں اڑاتے یا گھر بھرتے۔ ب پھر مہم پیش آتی اور یہ اس بھروسے پر بلائے جاتے کہ آراستہ فوجیں جنگی سپاہی لے کر حاضر ہونگے۔ وہ کچھ اپنے دستر خوانوں کے پلاؤ۔ کچھ کنجڑے ۔ بھٹھیارے ۔ دھنئے جلا ہے۔ کچھ جنگلی مغل ۔ پٹھان ۔ ترک ۔ کہ ہزاروں بازاروں میں پھرتے تھے۔ اور سراؤں میں پڑے رہتے تھے۔ ان ہی کو پکڑ لاتے تھے۔ کچ اپنے خدمتگار ۔ کچھ سائیس ۔ شاگرد پیشہ وغیرہ لیتے۔ گھسیاروں کو گھوڑے اور بھٹیاروں کو ٹٹوؤں پر بٹھاتے ۔ کرائے کے ہتیار ۔ مانگے تانگے کے کپڑوں سے لفافہ چڑھاتے اور حاضر ہوتے۔ لیکن توپ تلوار کے منہ پر ان لوگوں سے کیا ہوتا تھا۔ عین لڑائی کیوقت بڑی خرابی ہوتی تھی۔ ایشیا کے فرما نر واؤں کا عہد قدیم سے یہی آئین تھا۔ کیا ہندوستان کے راجہ مہاراجہ ۔ کیا ایران تو رازن کے بادشاہ ۔ میں نے خود دیکھا افغانستان ۔ بد خشان ۔ سمرقند ۔ بخارا وغیرہ وغیرہ ملکوںمیں اب تک بھی یہی آئین چلا آتا تھا۔ ادھر کے ملکوں میں سب سے پہلے کابل میں یہ قانون بدلا۔ اور وجہ اسکی یہ ہوئی کہ جب امیر دوست محمد خاں نے احمد ؐ شاہ دورانی کے خاندان کو نکال کر بے مزا حم حکم حاصل کیا تو افواج انگلشیہ شاہ شجاع کو اس کا حق دلوانے گئیں۔ ادھر سے امیر بھی لشکر لیکر نکلا۔ تمام سردار صاحب فوج اسکے ساتھ ۔ محمد شاہ خاں غلزئی ۔ امین اللہ خان لوگری۔ عبداللہ خاں اچک زئی۔ خاں شیریں خاں قزلباش ۔ وغیرہ وہ خوانین تھے کہ ایک پہاڑی پر کھڑے ہو کر نقارہ بجائیں تو تیس تیس چالیس چالیس ہزار آدمی فوراً جمع ہو جائیں۔ امیر سب کو لیکر میدان جنگ میں آیا وہ نو لشکروں کے سپہ سالار منتظر کہ کدھر سے لڑائی شروع ہو۔ دفعتہ ایک افغان سردار امیر کی طرف سے گھوڑا اڑا کر چلا اس کی فوج اس کے پیچھے پیچھے ۔ جیسے چیونٹیوں کی قطار ۔ دیکھنے والے جانتے ہیں کہ یہ حملہ کرتا ہے۔ اس نے آتے ہی شاہ کو سلام کیا اور قبضہ شمشیر نذر گزرانا ۔ دوسرا آیا ۔ تیسرا آیا۔ امیر صاحب دیکھتے ہیں تو گرد میدان صاف ہوتا جاتا ہے۔ ایک مصاحب اور رفت بہ لشکر فرنگی ۔ امیر حیران ۔ اتنے میں ایک وفا دار گھوڑا مار کر آیا۔ اے امیر صاحب کر امے پر سید ۔ ہمہ لشکر نمک حرام شد۔ برابر سے ایک نے امیر کے گھوڑے کی باگ پکڑ کر کھینچی اور کہا۔ ہاں ۔ امیر صاحب چہ مے بینید و رق برگشت بیک کنار کشیدہ خودرا یہ سن کر امیر صاحب نے بھی باگ پھیری۔ وہ آگے آگے ۔ باقی پیچھے پیچھے ۔ گھر چھوڑ کر نکل گئے۔ جب دولت انگلشیہ نے پھر تاج بخشی کر کے انہیں ملک عنایت کیا تو سمجھا یا کہ اب امرا اور خوانین پر فوج کو نہ چھوڑنا اب فوج نوکر رکھنا۔ آپ تنخواہ دینا اور اپنے حکم میں فوج کو رکھنا۔ چونکہ نصیحت پا چکے تھے۔ جھٹ سمجھ گئے۔ جب کابل میں پہنچے تو بڑی حکمت عملی سے بندوبست کیا اور آہستہ آہستہ تمام خوانین اور سرکردگان افغانستان کو نیست و نابود کر دیا۔ جو رہے ان کے بازو اس طرح توڑے کے ہلنے کے قابل نہ رہے۔ دربار میں حاضر رہو۔ تنخواہ نقد لو ۔ گھروں میں بیٹھے تسبیحیں ہلایا کر و ۔ ع کجا بودا شہب کجاتا ختم۔ آئین داغ ہندوستان کے سلاطین سلف میں سب سے پہلے علاء الدین خلجی کے عہد میں داغ کا ضابطہ نکلا تھا۔ وہ اس نکتے کو سمجھ گیا تھا۔ اور کہا تھا کہ امرا کو اس طرح رکھنے میں خود سری کا زور پیدا ہوتا ہے۔ جب ناراض ہونگے۔ مل کر بغاوت پر کھڑے ہوجائینگے۔ اور جسے چاہینگے۔ بادشاہ بنالینگے۔ چنانچہ فوج نوکر رکھی اور داغ کا قانون قائم کیا۔ فیروز شاہ تغلق کے عہد میں جاگیریں ہو گئیں۔ شیر شاہ کے عہد میں پھر داغ کا آئین تازہ ہوا۔ مگر وہ مر گیا۔ داغ بھی مٹ گیا۔ اکبر جب 981ھ میں پٹنے کی مہم پر گیا۔ تو امرا کی فوجوں سے بہت تنگ ہوا کہ سپاہی بد حال اور سپاہ بے سامان تھی۔ شکائتیں پہلے سے بھی ہورہی تھیں۔ جب پھر کر آئے تو شہباز خاں کنبو نے تحریک کی اور آئین مذکور پر عمل درآمد شروع ہوا۔ شاہ باتدبیر سمجھا کہ اگر اس حکم کی تعمیل دفعتہ عام کرینگے تو تمام امرا گھبرا اٹھینگے کیونکہ پوری فوجیں کس کے پاس ہیں۔ ان کی آزردگی سے شاید کچھ قباحت رنگ نکالے۔ اس کے علاوہ تمام ملک میں یکبار گی نگہداشت شروع ہو جائیگی۔ اس میں اور خرابی ہو گیے جلا ہے۔ سائیس ۔ گھسیارے ۔ بھٹھیارے اور ان کے ٹٹو جو ہاتھ آئینگے۔ سب سمیٹ لینگے۔ اس لئے قرار پایا کہ وہ باشی اور بیستی منصف واروں سے موجودات شروع ہو۔ اپنے اپنے سواروں کو لیکر چھاؤنی میں حاضر ہوں اور فہرست کے ساتھ پیش کریں۔ ہر ایک کا نام ۔ وطن ۔ عمر ۔ قدوقامت ۔ خط و خال ۔ غرض تمام حلیہ لکھا جائے۔ موجودات کے وقت ہر نکتہ مطابق کرتے تھے اور فہرست پر نشان کرتے جاتے تھے۔ اس کو بھی داغ کہتے تھے۔ ساتھ اس کے گھوڑے پر لوہا گرم کے داغ لگاتے تھے اس عمل درآمد کا نام آئین داغ تھا ۔ استاد مرحوم نے اسی اصطلاح کا اشارہ کیا اور کیا خوب کہا ہے ؎ کہتی ہے ماہی بریاں کہ دبیران قضا داغ دیتے ہیں اسے جس کو درم دیتے ہیں جب درجہ مذکور کے ملازم جا بجا داغ ہو گئے۔ تو صدی دو صدی وغیرہ کی نوبت آئی بلکہ آدمی سے بڑھ کر منصبداروں کے اونٹ ہاتھی خچر ۔ گدھے ۔ بیل وغیرہ جو ان کے کاروبار سے متعلق تھے سب داغ کے نیچے آگئے۔ یہ بھی ہو گئے تو ہزاری پنجہزار تک نوبت پہنچی کہ معرج مراتب امرا کی تھی۔ حکم تھا کہ جو امیر داغ کی کسوٹی پر پورا نہ اترے اس کا منصب گر جائے۔ اصل وہی تھی کہ کم اصل ہے جب ہی کم حوصلہ ہے۔ اس قابل نہیں کہ اس کے مصارف کو اتنا خرچ اور اسے یہ منصب دیا جائے انکار داغ کی سزا میں بہت سے نامی امیر بنگالہ بھیجے گئے۔ اور منعم خاں خان خاناں کو لکھا گیا کہ ان کی جاگیریں وہیں کر دو۔ باوجود اس نرمی وآہستگی کے منصبدار بہت گھبرائے۔ مظفر خاں عتاب میں آئے۔ مرزا عزیز کو کلتاش ان کا لاڈلا امیر اور ضدڈی سپہ سالار اتنا جھگڑا کہ دربار سے بند ہو گیا اور حکم ہو گیا کہ اپنے گھر میں بیٹھے نہ یہ کسی کے پاس جانے پائے نہ کوئی اس کے پاس آنے پائے۔ 1 ؎ سلاطین چغتائیہ میں یہ آئین تھا کہ جس امیر پر خفا ہوتے تھے اسے بنگالہ میں پھینک دیتے تھے۔ کچھ اس سبب سے کہ گرم ملک تھا اس پر ہوا مرطوب ۔ بیمار ہو جاتے تھے۔ اور کچھ اس سبب سے کہ ولادیتی لوگ اپنے ملک سے دوری اور بعد مسافت سے بہت گھبراتے تھے۔ اور ناجنسی محض کے سبب سے اس ملک میں تنگ رہتے تھے۔ داغ کی صورت (ابوالفضل آئین اکبری میں لکھتے ہیں )ابتدا میں گھوڑے کی گردن پر سیدھی طرف سین کا سرا (3)لوہے سے داغ دیتے تھے۔ پھر ووالف متقاطع بہ قائمہ ہو گئے مگر چاروں سرے ذرا موٹے۔ یہ نشان سیدھی ران پر ہوتا تھا۔ پھر مدت تک چلہ اتری کمان ()کی شکل رہی ۔ پھر یہ بھی بدلا گیا۔ لوہے کے ہند سے بن گئے۔ یہ گھوڑے کے سیدھے پٹھے پر ہوتے تھے۔ پہلی دفعہ 1/3دوسری دفعہ 2/3وغیرہ ۔ پھر خاص طور پر کے ہندسے سرکار سے مل گئے۔ شہزادے ۔ سلاطین سپہ سالار وغیرہ سب انہی سے نشان لگاتے تھے۔ اس میں یہ فائدہ ہوا کہ اگر کسی کا گھوڑا مرجاتا اور وہ کورا گھوڑا داغ کے وقت حاضر کرتا تو بخشی فوج کہتا تھا کہ آج کی تاریخ سے حساب میں آئیگا۔ سوار کہتا تھا۔ میں نے اسی دن خریدلیا تھا۔ جس دن پہلا گھوڑا مرا تھا۔ کبھی یہ بھی ہوتا تھا کہ سوار کرا یہ کا گھوڑا لا کر دکھا دیتے تھے۔ کبھی پہلے گھوڑے کو بیچ کھاتے تھے۔ داغ کے وقت اس چہرے کا گھوڑا لا کر دکھا دیتے تھے۔ وغیرہ وغیرہ ۔ اس داغ سے دغا کے رستے بند ہو گئے۔ داغ مکرر میں یہی داغ دوبارہ تیسری دفعہ تبارہ ۔ ملا صاحب اس مقدمے کو بھی غصے کی وردی پہنا کر اپنی کتاب میں لائے ہیں چنانچہ فرماتے ہیں اگرچہ سب امرا ناراض ہوئے اور سزائںی بھی اٹھائیں لیکن آخری یہی آئین سب کو ماننا پڑا۔ اور غریب سپاہی کے طبق میں پھر بھی خاک ہی پڑی۔ ادھر امرا نے اپنا آئین یہ باندھا کہ داغ کے وقت کچھ اصلی کچھ نقلی ۔ وہی لفافلے کی فوج لا کر دکھا دی اور منصب پورا کر وا لیا۔ جاگیر پر جا کر سب رخصت ۔ وہ فرضی گھوڑے کیسے۔ او کرائے کے ہتیار کہاں ؟ پھر کام کا وقت ہو گا تو دیکھا جائیگا۔ مہم آن پڑی۔ تو فضیمت ورسوائی ۔ جو اصلی سپاہی ہے اسی کی تباہی ہے۔ دلاور ۔ بہادر معرکے مارنے والے مارے مارے پھرتے ہیں۔ تلواریں مارنے والے بھوکجوں مرتے ہیں۔ گھوڑا اتنی امید پر کون باندھے۔ کہ بادشاہ کو کبھی مہم پیش آئیگی تو کسی امیر کے نوکر ہو جائینگے۔ آج رکھیں تو کھلائیں کہاں سے بیچتے پھرتے ہیں۔ کوئی نہیں لیتا۔ تلوار گرو رکھتے ہیں بنیا آٹا نہیں دیتا۔ اس بربادی کا نتیجہ یہ ہے کہ وقت پر ڈھونڈیں تو جسے سپاہی کہتے ہیں وہ انسا ن پیدا نہیں۔ اسی سلسلے میں ملا صاحب عبارت آئندہ تمسخر کے رنگ میں لکھتے ہیں ۔ مگر مجھ سے پوچھو تو وہ غصہ بھی ناحق تھا اور یہ تمسخر بھی بے جاہے۔ حق یہ ہے کہ اکبر نے اس کام کو دلی شوق اورب ڑی کوشش سے جاری کیا تھا۔ کیونکہ وہ حقیقی اور تحقیقی بادشاہ مہمات و فتوحات کا عاشق تھا۔ آپ تلوار پکڑ کر لڑتا تھا۔ اور سپاہیانہ یلغاریں کرتا تھا۔ اس لئے بہادر سپاہی اور دیدار و جوان اسے بہت پیارا تھا۔ چنانچہ جب آئین مذکور جاری کیا۔ تو بعض وقت خود بھی دیوان خاص میں ان بیٹھتا تھا اور اس خیال سے کہ میرا سپاہی پھر بدلا نہ جائے اس کا چہر ہ لکھواتا تھا۔ پھر کپڑوں اور ہتھیاروں سمیت ترازو میں تلواتاتھا۔ حکم تھا کہ لکھ لو۔ یہ اڑھائی من سے کچھ زیادہ کا نکلا۔ وہ ساڑھے تین من سے کچھ کم ہے۔ پھر معلوم ہوتا تھا کہ ہتیار کرائے کے لئے تھے اور کپڑے مانگے کے تھے۔ ہنسکر کہہ دیتا تھا کہ ہم بھی جانتے ہیں مگر انہیں کچھ دینا چاہیئے۔ سب کا گزار ہ ہوتا رہے۔ سوار دو اسپہ ویک اسپہ تو تو عام بات تھی مگر پرورش کی نظر نے نیم اسپہ کا آئین نکالا مثلا اچھا سپاہی ہے مگر گھوڑے کی طاقت نہیں رکھتا۔ حکم دیتا تھا۔ کہ خیر دو مل کر ایک گھوڑا رکھیں ۔ باری باری سے کام دیں 6 روپے مہینہ گھوڑے کا ۔ اس میں بھی دو نو شریک یہ سب کچھ صحیح مگر اسے اقبال سمجھو خواہ نیک نیتی کا پھل۔ کہ جہاں جہاں غنیم تھے خود بخود نیست و نابود ہو گئے۔ نہ فوج کشی کی نوبت آتی تھیں۔ نہ سپاہی کی ضرورت ہوتی تھی۔ اچھا ہوا منصب دار بھی داغ کے دکھ سے بچ گئے۔ ملا صاحب اپنے جوش جذبہ میں خواہ مخواہ ہر بات کو بدی اور تعدی کا لباس پہناتے ہیں ۔ اس میں کچھ شبہ میں نہیں کہ وہنیک نیت تھا اور رعایا کہ دل سے پیار کرتا تھا ۔ سب کی آسائش کے لئے خالص نیت سے یہ اور صدہا ایسے ایسے آئین باندھے تھے۔ البتہ اس سے لاچار تھا کہ بد نیت اہل کار عمل درآمد میں خرابی کر کے بھلائی کوبرائی بنا دیتے تھے۔ داغ سے بھی دغا باز نہ باز آئئیں تو وہ کیا کرے۔ ابو الفضل نے آئین اکبری 1006ھ میں ختم کی ہے اس میں لکھتے ہیں کہ سپاہ بادشاہی فرمان روایان زمین خیز (راجگان وغیرہ )کی سپاہ مل کر 44 لاکھ سے زیادہ ہے۔ بہتوں کے لئے داغ اور چہر ہ نویسی نے ماتھے روشن کیے ہیں۔ اکثر بہادروں نے شرافت اطوار ۔ اور اعتبار کے جوہر سے منتخب ہو کہ حضوری رکاب میں عزت پائی ہے۔ یہ لوگ پہلے یکے کہلاتے تھے۔ اب احدی کا خطاب ملا (ملا صاحب کہتے ہیں کہ اس میں توحید الہٰی اکبر شاہی کا اشارہ بھی تھا) بعض کو داغ سے معاف بھی رکھتے ہیں۔ تنخواہ ایرانی ۔ تورانی کی 25روپے ۔ ہندی20۔ خالصہ 15۔ اس کو برآوردی کہتے تھے۔ منصب دار خود سوار اور گھوڑے بہم نہ پہنچا سکتے انہیں برآوردی سوار دیئے جاتے تھے۔ وہ ہزاری ہشت ہزاری ۔ ہفت ہزاری منصب تینوں شہزادوں کے لئے خاص تھے۔ امرا میں انتہائے ترقی پنجہزاری تھی۔ اور کم سے کم وہ باشی ۔ منصب داروں کی تعداد 66تھی کہ اللہ کے عدد ہیں۔ بعض متفرقات کے طور پر تھے کہ یاوری یا کمکی کہلاتے تھے جو داغ دار ہوتے تھے ان کی عزت زیادہ ہوتی۔ اکبر اس بات سے بہت خوش ہوتا تھا کہ دیدار و سپاہی ہو خود اسپہ ہو۔ منصبداروں کاسلسلہ اس تفصیل سے چلتا تھا۔ وہ باشی ۔ بیستی ۔ دوبیستی ۔ پنجاہی ۔ سہ بیستی ۔ چار بیستی ۔ صدی وغیرہ وغیرہ انہیں حسب تفصیل ذیل سامان رکھنے ہوتے تھے : ۔ سوارا گر طاقت رکھتا ہو تو ایک گھوڑے سے زیادہ بھی رکھ سکتا تھا۔ انتہا 25 گھوڑے تک اور چار پائے کا نصف خرچ خزانے سے ملتا تھا۔ پھر تین گھوڑے سے زیادہ کی اجازت نہ رہی۔ یک اسپہ سے زیادہ کو ایک اونٹ یا بیل بھی بار برداری کے لئے رکھنا ہوتا تھا۔ گھوڑے کے لحاظ سے بھی سوار کی تنخواہ میں فرق ہوتا تھا۔ چنانچہ عراقی والے کو : پیادے کی تنخواہ سے عہ ۔ مے۔ ے تک ہوتھی تھی ان میں مجلس والے کو : 12 ہزار بندوقچی تھے کہ حاضر رکاب رہتے تھے۔ بندوقچی کی ترکی : تنخواہ معہ 12 ۔ معہ ۔ ے 12 تک ہوتی تھی۔ یابو : تازی: جنگلہ : آئین صراف صرافوں اور جہاجنوں کی سیہ کاری اب بھی عالم میں روشن ہے۔ اس وقت بھی شاہان سلف کے سکوں پر جو چاہتے تھے بٹا لگاتے تھے۔ اور غریبوں کی ہڈیاں توڑتے تھے۔ حکم ہوا کہ پرانے روپے جمع کر کے سب گلا ڈالو ۔ ہماری قلمرو میں یک قلم ہمارا سکہ چلے۔ اور نیا پرانا ہر سنہ کا یکساں سمجھا جائے۔ جو گھس پس کر بہت کم ہو جائے اس کے لئے آئین و قواعد قائم ہوئے۔ شہر شہر میں فرماں جاری ہو گئے۔ قلیچ خاں کو انتظام سپرد ہوا کہ سب سے مچلکے لکھوالو۔ مگر یہ تو دلوں کے کھوٹے تھے۔ لکھ کر بھی باز نہ آئے ۔ پکڑے آتے تھے۔ باندھے جاتے تھے۔ ماریں کھاتے تھے۔ مارے بھی جاتے تھے۔ اور اپنی کرتوتوں سے باز نہ آتے تھے۔ احکام عام بنام کارکنان ممالک محروسہ جوں جوں اکبری سلطنت کا سکہ بیٹھتا گیا۔ اور سلطنت کی روشنی پھیلتی گئی۔ انتظام و احکام بھی پھیلتے گئے۔ چنانچہ ان میں سے ایک دستور العمل کا خلاصہ اور اکثر تاریخوں سے نکتہ نکتہ چن کو یکجا کرتا ہوں کہ شہزادوں امیروں حاکموں ۔ عاملوں کے نام فرماں کا خلعت پہن کر جاری ہوئے تھے۔ سب سے پہل یہ کہ رعایا کے حال سے با خبر رہو۔ خلوت پسند نہ ہو کہ کہ اس میں اکثر امور کی خبر نہ ہوگی جن کی تمہیں اطلاع واجب تھی۔ بزگران قوم سے بہ عزت پیش آؤ۔ شب بیداری کرو۔ صبح ۔ شام ۔ دوپہر ۔ آدھی رات کو خدا کی طرف متوجہ ہو۔ کتب اطلاق ۔ نصاٹح ۔ تاریخ کو زیر نظر رکھو۔ مسکین اور گوشہ نشین لوگ جو آمدورفت کا دروازہ بند کر بیٹھتے ہیں۔ ان کے ساتھ سلوک کرتے رہو۔ کہ ضروریات سے تنگ نہ ہونے پائیں۔ اہل اللہ نیک نیت صاحبدلوں کی خدمت میں حاضر ہوا کرو۔ اور دعا کے طلب گار رہو۔ مجرموں کے گنا ہوں پر بی غور کیا کرو کہ کس پر سزاواجب ہے کس سے چشم پوشی کیوں کہ بعض اشخاص ایسے بھی ہیں جن سے کبھی ایسی خطائیں ہو جاتی ہیں کہ زبان پر لانا بھی مصلحت نہیں ہوتا۔ مخبروں کا بڑا خیال رکھو۔ جو کچھ کر و خود دریافت کر کے کرو۔ داد خواہوں کی عرض خودسنو۔ ماتحت حاکموں کے بھروسے پر سب کام نہ چھوڑ دو۔ رعایا کو دلداری سے رکھو۔ زراعت کی فراوانی اور تقادی اور دیہات کی آبادی میں بڑی کوشش رہے ۔ ریزہ رعایا کے حال کی فردا فردا بڑی غورو پرداخت کرو۔ نذرانہ وغیرہ کچھ نہ لو۔ لوگوں کے گھروں میں سپاہی زبردستی نہ جا اتریں۔ ملک کے کاروبار ہمیشہ مشورت سے کیا کرو۔ لوگوں کے دین و آئین سے کبھی معترض نہ ہو۔ دیکھو دنیا چند روزہ ہے۔ اس میں نسان نقصان گوارا نہیں کرتا۔ دین کے معاملے میں کب گوارا کرے گا۔ کچھ تو سمجھا ہی ہو گا۔ اگر وہ حق پر ہے۔ … تو تم حق سے مخالفت کرتے ہو ؟ اور اگر تم حق پر ہوت و وہ بچارا بیمار نادانانی ہے۔ رحم کرو اور دستگیری نہ کر ترض و انکار ۔ ہر مذہب کے نکو کاروں اور خیر اندیشوں کو عزیز رکھو۔ ترویج دانش اور کسب کمال میں بڑی کوشش کرو۔ اہل کمال کی قدردانی کرتے رہو کہ استعدادیں ضائع نہ ہو جائیں۔ قدیمی خاندانوں کی پرورش کا خیال رکھو۔ سپاہی کی ضروریات و لوازمات سے غافل نہ رہو۔ خود تیر اندازی تفنگ ۔ اندازی وغیرہ سپاہ ہیانہ ورزشیں کرتے رہو۔ ہمیشہ شکار ہی میں نہ رہو۔ ہاں تفریح مشق سپاہ گری کی رعایت سے ہو۔ نیر نور بخش عالم کے طلوع پر اور آدھی رات کو کہ حقیقت میں طلوع وہیں سے شروع ہوتا ہے۔ نوبت بجا کرے جب نیر اعظم برج سے برج میں جاوے تو توپیں اور بندوقیں سرہوں کہ سب باخبر ہوں۔ اور شکراؤ الہٰی بجا لائیں۔ کو توال نہ ہو تو اس کے کاموں کو خود دیکھو اور سرانجام کرو۔ اس خدمت کو دیکھ کر شرماؤ نہیں عبادت الہٰی سمجھ کر بجا لاؤ کہ اس کے بندوں کی خدمت ہے۔ کو توال کو چاہئے کہ ہر شہر قصبہ گاؤں کل محلے ۔ گھر گھر والے سب لکھ لے۔ ہر شخص آپس کی ضمانت و حفاظت میں رہے۔ ہر محلہ پر میر محلہ ہو۔ جاسوس بھی لگے رکھو کہ ہر جگہ کا حال رات دن پہنچاتے رہیں شادی ۔ عمی ۔ نکاح ۔ پیدائش ہر قسم کے واقعتا کی خبر رکھو ۔ کوچہ ۔ بازر ۔ پلوں اور گھاٹوں پر بھی آدمی رہیں ۔ رستوں کا ایسا بندوبست رہے کہ کوئی بھاگے تو بے خبر نہ نکل جائے۔ چور آئے آگ لگ جائے۔ کوئی مصیبت پڑے تو ہمسایہ فورا مدد کرے۔ میر محلہ اور خبر دار بھی فوراً اٹھ دوڑیں۔ جان چھپا بیٹھیں تو مجرم ۔ ہمسایہ ۔ میر محلہ اور خبر دار کی اطلاع بغیر کوئی سفر میں نہ جائ۔ اور کوئی آکر اترنے بھی نہ پائے۔ سوداگر ۔ سپاہی ۔ مسافر ہر قسم کے آدمی کو یکھتے رہیں۔ جن کا کوئی ضامن نہ ہو ان کو الگ سر ا میں بساؤ۔ وہی با اعتبار لوگ سزا بھی تجویز کریں۔ رتسا و شرفائے محلہ بھی ان باتوں کے ذمہ دار ہیں۔ ہر شخص کی آمد و خرچ پر نظر رکھو۔ جس کا خرچ آمد سے زیادہ ہے ضرور دال میں کالا ہے۔ ان باتوں کو انتظام اور بہبودی خلائق سمجھا کرو ۔ روپیہ ۔ کھینچے کی نیت سے نہ کرو۔ بازاروں میں دلال مقرر کر دو۔ جو خرید و فروخت ہو۔ میر محلہ کی و خبر دار محلہ کی بے اطلاع نہ ہو۔ خریدنے اور بیچنے والے کا نام روزنامچہ میں درج ہو۔ جو چپ چپاتے لین دین کرے۔ اس پر جرمانہ ۔ محلہ محلہ اور نواح شہر میں بھی رات کے لئے چوکیدار رکھو۔ اجنبی آدمی کو ہر وقت تاڑتے رہو۔ چور ۔ جیب کترے اچکے۔ اٹھائی گیرے کا نام بھی نہ رہنے پائے۔ مجرم کو مال سمیت پیدا کرنا اس کا ذمہ ہے۔ جو لاوارث مر جائے یا کہیں چلا جائے۔ اس کے مال سے سرکاری قرضہ ہو تو پہلے وصول کرو۔ پھر وارثوں کو دو۔ وارث موجود نہ ہو تو امین کے سپرد کر دو اور دربار میں اطلاع لکھو۔ حق دار آجائے تو وہ پائے۔ اس میں بھی نیک نیتی سے کام کرو۔ روم کا دستور یہاں نہ ہو جائے کہ جو آیا ضبط ۔ ملا صاحب اس پر طرہ لگاتے ہیں ۔ کہ جب تک واروغہ بیت المال کا خطہ نہیں ہوتا تب تک اس کا مردہ بھی دفن نہیں ہوتا۔ اور قبرستان کو شہر کے باہر نیا ہے۔ وہ بھی روبہ مشرق ۔ کہ عظمت آفتاب نہ جانے پائے۔ شراب کے باب میں بڑی تاکید رہے۔ بوجھی نہ آنے پائے ۔ پینے والا ۔ بیچنے والا ۔ کھینچنے والا سب مجرم ۔ ایسی سزا دو کہ سب کی آنکھیں کھل جائیں۔ ہاں کوئی حکمت اور ہوش افزائی کے لئے کام میں لائے تو نہ بولو ۔ نرخوں کی ازرانی میں بڑی کوشش رکھو۔ مالدار ذخیروں سے گھر نہ بھرنے پائیں۔ عیدوں کے جشنوں کا لحاظ رہے۔ سب سے بڑی عید نو روز ہے۔ نیر نور بخش عالم برج حمل میں آتا ہے۔ یہ فروز دین کی پہلی تاریخ ہے۔ دوسری عید 19 اسی مہینے کی ۔ کہ شرف کا دن ہے۔ تیسری 3۔ اردی بہشت کی وغیرہ وغیرہ ۔ شب نوروز اور شب شرف کوشب برات کی طرح چراغاں ہوں۔ اول شب نقارے بحبیں۔ معمولی عیدیں بھی بدستور ہوا کریں۔ اور ہر شہر میں شادیانے بجا کریں۔ عورت بے ضرورت گھوڑے پر نہ چڑھے۔ دریاؤں اور نہروں پر مردوں اور عورتوں کے غسل کو اور پنہاریوں کے پانی بھرنے کو الگ الگ گھاٹ تیار ہوں۔ سودا گر بے حکم ملک سے گھوڑا نہ نکال لے جائے۔ ہندوستان کا بردہ کہیں اور نہ جانے پائے۔ نرخ ایشیا بادشاہی قیمت پر رہے۔ بے اطلاع کوئی شادی نہ ہوا کرے۔ عوام الناس کی شادی ہو تو دولہا دلہن کی کوکوتوالی میں دکھا دو عورت 12 برس مرد سے بڑی ہو تو مرداس سے تعلق نہ کرے کہ باعث ضعف و ناتوانائی ہے۔ لڑکا 16برس اور لڑکی 14برس سے پہلے نہ بیاہی جائے چچا اور ماموں وغیرہ کی بیٹی سے شادی نہ ہو کہ رغبت کم ہوتی ہے۔ اولاد ضعیف ہو گی۔ جو عورت بازاروں میں کھلم کھلا بے برقع ۔ بے گھونگٹ پھرتی نظر آیا کرے یا ہمیشہ خاوندے سے دنگہ فساد رکھے اسے شیطان پورہ میں داخل کرو۔ ضرورت مجبور کرے تو اولاد کو گرد رکھ سکتے ہیں جب روپیہ ہاتھ آئے چھڑا لیں۔ ہندو کا لڑکا بچپن میں جبراً مسلمان ہو گیا ہو تو بڑا ہو کر جو مذہب چاہے اختیار کرے ۔ جو شخص جس دین میں چاہے چلا جائے کوئی روکنے نہ پایئ۔ ہندنی عورت مسلمان کے گھر میں بیٹھ جائے تو وارثوں کے گھر پہنچا ۔ دو مندر ۔ شوالہ ۔ آتش خانہ ۔ گرجا جو چاہے بنائے روک ٹوک نہ ہو۔ 1 ؎ صاحب اس حکم پر بڑے خفا ہوتے ہیں اور کہتے ہیں۔ اہلکاروں اور ملازموں کی بن آئی۔ لوگوں کے کام بند کر دیئے۔ جب تک اپنی منہ بھرائی نہ ملے لیتے۔ شادی نہیں ہونے دیتے۔ آزاد ملا صاحب کا فرمانا ۔ سر آنکھوں پر مگر یہ ھی تو دیکھو کہ عوا م میں شادی کے دخوے آج تک بھی کیسے الجھے ہوئے پیش آتے ہیں۔ باوجودیکہ ایسا چست اور درت انگریزی قانون ہے۔ پھر بھی اس ملک پنجاب میں ایک عورت کا مقدمہ پیش ہوتا ہے۔ چار خاوند حاضر ہیں۔ ہر شخص کے ساتھ ایک ملا صاحب منڈا ہوا سر ۔ ناف تک داڑھی ۔ پاؤ تسک کرتہ ۔ نیلا لنگ ۔ ہلاس دانفی ہاتھ میں ۔ بحلف شرعی فرماتے ہیں کہ میں نے بہ زبان خود نکاح پڑھا تو 5-4مسلمان با ایمان گواہ کہ مجلس عام میں پڑھا گیا ، اور ماں باپ نے پڑھوایا۔ سرکار کو بھی سوار رجسٹری کے کچھ نہ بن آئی۔ اس کے علاوہ سینکڑوں ہزاروں احکام ملکی ۔ مالی ۔ داغ محلی ۔ ٹکسال ۔ فرد فرد رعایا۔ واقعہ نویسی چوکی نویسی ۔ بادشاہ کی تقسیم اوقات ۔ کھانا ۔ پینا ۔ سونا ۔ جاگنا ۔ اٹھنا ۔ بیٹھتا ۔ وغیرہ وغیرہ تھے۔ کہ آئین اکبری کا مجلد ضخیم اس سے آراستہ ہے کوئی بات آئین و قواعد و قانون سے بچی نہ تھی۔ ملا صاحب ان کا بھی خاکا اڑاتے ہیں۔ اور یہ ظاہر ہے کہ نئیایجاد تھے۔ جو بات نئی معلوم ہوتی ہے اس پر لوگوں کی نظر اٹکتی ہے۔ اس وقت بھی اہل دربار مل کر بیٹھے ہونگے تو ضرور ان باتوں کے چرچے کرتے ہوں گے۔ اورچونکہ صاحب علم و صاحب کمال تھے اس لئے ایک ایک بات لطائف و ظرائف کے ساتھ نقل مجلس ہوتی ہو گی۔ لطیفہ ایک موقع پر حکم ہوا کہ قلعہ لاہور میں دیوان عام کے سامنے چبوترہ ہے اس پر مختصر مسجد بنوا دو کہ بعض اشخاص بہ حالت حضوری کا ر ضروری میں مصروف ہوتے ہیں۔ نماز کاوقت ہو تو انہیں دور جانا نہ پڑے۔ ہمارے سامنے نماز پڑھیں اور پھر حاضر ہو جائیں ۔ حکیم مصری کے دہن ظرافت میں پانی بھر آیا اور فرمایا ۔ شاہ ماکرد مسجد ے بنیاد ایہا المومنوں مبارک باد وندریں نیز مصلحت دارد تانماز ان گزار بشما رد حکیم صاحب کی باتیں مصری کی ڈلیاں تھیں۔ جس قدر حال ان کا معلوم ہوا ۔ علیحدہ لکھا ہے تتمے کوپڑھ کر منہ میٹھا کر و۔ ہندؤں کے ساتھ اپنا یت اکبر اگرچہ ترک ماوراء النہری تھا۔ مگر اس نے ہندوستان میں آکر جس طرح ہندؤں اور ہندو ستائیوں سے اپنابت پیدا کی ۔ و ایک صنعت کیمیائی ہے کہ کتابوں میں لکھنے کے قابل ہے ۔ اور یہ بھی ایک تمہید پر منحصر ہے۔ واضح ہو کر جب ہمایوں ایران میں گیا اور شاہ طہما سپ سے ملاقات ہوئی تو ایک دن دونو بادشاہ شکار کو نکلے۔ کسی مقام پر تھک کر اترے پڑے۔ شاہی فراش نے اٹھ تہ غالیچہ ڈال دیا۔ شاہ بیٹھ گئے۔ ہمایوں کے ایک زانو کے نیچے فرش نہ تھا۔ اس عرصے میں کہ شاہ اٹھیں اور غالیچہ کھو ل کر بچھائیں۔ ہمایوں کے ایک جاں نثار نے جھٹ اپنے تیر دان کا کار چوبی غلاف چھری سے چاک کیا اور اپنے بادشاہ کے نیچے بچھا دیا۔ شاہ طہما سپ کو یہ پھرتی اور ہوا خواہی اس کی پسند آئی۔ اور کہا کہ برادر ہمایوں ! تمہارے ساتھ ایسے ایسے جاں نثار نمک حلال تھے۔ اور پھر ملک ہاتھ سے اس طرح نکل گیا۔ اس کا کیا سبب ہے ؟ بادشاہ نے کہا کہ بھائیوں کے حسد اور عداوت نے کام خراب کر دیانمک خوار نوکر ایک آقا کے بیٹے سمجھ کر کبھی ادھر ہو جاتے تھے کبھی ادھر ۔ شاہ نے کہا کہ ملک کے لوگوں نے رفاقت نہ کی ؟ ہمایوں نے کہا کہ کل رعایا غیر قوم غیر مذہب ہیں۔ اور خود ملک کے اصلی مالک ہیں۔ ان سے رفاقت ممکن نہیں ۔ شاہ نے کہا کہ ہندوستان میں دو فرقے کے لوگ بہت ہیں ایک افغان ۔ دوسرے راجپوت ۔ خدا کی مدد شامل حال ہو اب کی دفعہ وہاں پہنچو تو افغانوں کو تجارت میں ڈال دو۔ اور راجپوتوں کو دلا سا و محبت کے ساتھ شریک حال کر و (دیکھو مآثر الامرا) ہمایوں جب ہندوستان میں آیا تو اسے اجل نے اماں نہ دی۔ اور اس تدبیر کو عمل میں نہ لا سکا البتہ اکبر نے کیا۔ اور خوب طور سے کیا۔ وہ اس نکتے کو سمجھ گیا تھا کہ ہندوستان ہندؤں کا گھر ہے۔ مجھے اس ملک میں خدا نے بادشاہ کر کے بھیجا ہے ۔ ملک گیری اور تسخیر کی حالت میں ممکن ہے کہ ملک کوتلوار کے زور سے دیر کیا اور اہل ملک کو ویران کر دیا ۔ ملک والوں کو دبا لیا۔ لیکن جب کہ میں اسی گھر میں رہنا اختیار کروں تو یہ ممکن نہیں کہ ان کے ملک کے کل فوائد اور آرام ، میں اور میرے امرا اٹھائیں اورملک والے ویران و پریشان رہیں۔ اور پھر میں آرام سے بھی بیٹھ سکوں۔ اور یہ اس سے بھی زیادہ مشکل ہے کہ انہیں بالکل فنا کر کے نیست و نابود کر دوں۔ وہ یہ بھی جانتا تھا کہ میرے باپ صر چچاوں کے ہاتھ سے کیا گزری۔ چچاؤں کی اولاد اور انکے نمک خوار موجود ہیں۔ اور جو ہم قوم ترک اس وقت میرے ساتھ ہیں۔ یہ ہمیشہ دود ھاری تلوار ہیں۔ جدھر فائدہ دیکھا ادھر پھر گئے۔ غرض جب اس نے ملک کو آپ سنبھالا تو ایسا ڈھنگ ڈالا جس میں حاض و عام اہل ہندیہ نہ سمجھیں کہ غیر قوم ترک ۔ غیر مذہب مسلمان ۔ کہیں سے آکر ہم پر حاکم ہو گیا ہے۔ اس لئے ملک کے فوائد و منافع پر کوئی بند نہ رکھا۔ اس کی سلطنت ایک دریا تھا کہ جس کا کنارہ ہر جگہ سے گھاٹ تھا۔ آؤ۔ اور سیراب ہو جائے۔ دنیا میں کون ہے کہ جان رکھتا ہو اور دریا کے کنارے پر نہ آئے۔ جب ملک گیری نے بہت سے معرکے طے کر دیئے۔ اور رونق دزیبائی کو اس کے دربار سجانے کا موقع ملا۔ ہزاروں راجہ ۔ مہاراجہ ۔ ٹھاکر ۔ سردار حاضر ہونے لگے۔ دربار ان جو امر کی پتلیوں سے جگمگا اٹھا۔ عالی ہمت بادشاہ نے ان کے اعزاز اور مدارج کا بڑا لحاظ رکھا۔ اخلاق کا پتلا تھا۔ ملنساری اس کی طبیعت میں داخل تھی۔ ان سے اس طرح پیش آیا کہ سب کو آئندہ کے لئے بڑی بڑی امیدیں ہونیں بلکہ جو ان کا متوسل ہو کر آیا۔ اس سے اس طرح پیش آیا کہ ایک عالم ادھر کو جھک پڑا پنڈت کبیشر ۔ گنی گنوان ہندوستان کے جو آئے اس طرح خوش نکلے کہ شائد اپنے راجاؤں کے دربار سے بھی اسی طرح نکلتے ہوں گے۔ ساتھ یہ بھی سب کو معلوم ہو گیا ۔ کہ یہ برتاؤ اس کا ہمارے پھسلانے کے لئے نہیں ہے۔ اس کا مطلب یہی ہے کہ ہم کو اپنا کر ے اور ہمارا ہو رہے اور اس کی سخاوتیں اور دن رات کے کاروبار اوراپنایت کے برتاؤ اس خیال کی ہر دم تصدیق کرتے تھے۔ نوبت یہاں تک پہنچی کو ہمقوم اور غیر قوم کاف رق اصلانہ رہا۔ سپہ داری اور ملک داری کے جلیل القدر عہدے ترکوں کے برابر ہندؤں کو ملنے لگے۔ دربار کی صف میں ایک ہندو ایک مسلمان دو مسلمان ایک ہندو برابر نظر آنے لگے۔ راجپوتوں کی محبت ان کی ہر بات کو بلکہ ریت رسوم اور لباس کو بھی اس کی آنکھوں میں خو شنما دکھانے لگی۔ چغے اور عمامہ کو اتار کر جامہ اور کھڑکی دار پگڑی اختیار کر لی داڑھی کو رخصت کر دیا تخت و دیہیم کو چھوڑ کر سنگھا سن پر بیٹھنے اور ہاتھی پر چڑھنے لگا۔ فرش فروش سواریاں اور دربار کے سامان آرائش سب ہندوانے ہونے لگے۔ ہند و او ہندوستانی لوگ ہر وقت خدمت گز اری میں حاضر ۔ جب بادشاہ کا یہ رنگ ہوا تو اراکین و امرا ایرانی تو رانی سب کا وہی لباس ۔ دربار ۔ اور پان کی گلوری اس کا لازمی سنگار ہو گیا۔ ترکوں کا دربار اندر سبھا کا تماشا تھا۔ نوروز کا جشن ایران و توران کی رسم قدیم ہے۔ مگر اس نے ہندوانی ریت رسوم کا رنگ دیکر اسے بھی ہند و بنایا۔ ہر سالگرہ پر جشن ہوتا تھا۔ شمسی بھی قمری بھی ۔ ان میں تلا دان کرتے تھے۔ 7اناج 7دھات وغیرہ میں تلتے تھے۔ برہمن بیٹھ کر ہون کرتے تھے۔ اور سب کی گٹھریاں باندھ اسیسیں دیتے گھر کو چلے جاتے۔ دسہرہ کو آتے۔ اشیر بادیں دیتے۔ پوجا کرواتے ۔ ماتھے پر ٹیکہ لگاتے ۔ جواہر و مروارید سے مرصع راکھی ہاتھ میں باندھتے ۔ بادشاہ ہاتھ پر باز بٹھاتے قلعے کے برجوں پر شراب رکھی جاتی۔ بادشاہ کے ساتھ اہل دربار بھی اسی رنگ میں رنگے گئے۔ اور پان کے بیڑوں نے سب کے منہ لال کر دیئے ۔ گائے کا گوشت ۔ لسن پیاز بہت سی چیزیں حرام اور بہت سی حلال ہو گئیں۔ صبح کو روز جمنا کے کنارے شرق رویہ کھڑکیوں میں بیٹھتے تھے کہ پہلے آفتاب کے درشن ہوں۔ ہندوستان کے لوگ صبح کو بادشاہ کے دیدار کو بہت مبارک سمجھنے ہیں۔ جو لوگ دریا پر آشنا ن کو آتے تھے۔ مرد عورتیں بچے ہزار در ہزار سامنے آتے تھے۔ ڈنڈوتیں کرتے۔ مہابلی بادشاہ سلامت کہتے اور خوش ہوتے۔ وہ اپنے بچوں سے زیادہ انہیں دیکھ کر خوش ہوتا ۔ اور خوشی بھی بجا تھی جس کے دادا (بابر) کو اپنی قوم( ترک) اس تباہی کے ساتھ اس کے موروثی ملک سے نکالے۔ اور پانچ چھ پشت کی بندگی پر خاک ڈالتے یہ غیر قوم غیر جنس ہو کر اس محبت سے پیش آئیں ان سے زیادہ عزیز کون ہو گا۔ 1 ؎ ڈرا راجہ ٹورڈرمل کے حال میں دیکھو کہ جب راجہ موصوف کو کلی ممالک ہند کی وزارت اعظم کے اختیارات ملے تو لوگوں نے کیا شکایت کی اور نیک نیت بادشاہ نے کیا جواب دیا 2 ؎ دیکھو محلی قلی خاں کا سال اس کا سربریدہ کیونکر پہچانا گیا۔ 3 ؎ دیکھو تتمہ شاہزاہ گان تیموری کا حال اور وہ ان کے دیکھنے سے خوش نہ ہو گا تو کس سے ہو گا۔ اکبر نے سب کچھ کیا مگر راجپوتوں نے بھی جاں نثاری کو حد سے گزار دیا۔ سیکڑدنمیں سے ایک بات ہے کہ جہانگیر نے بھی تزک میں لکھی ہے۔ اکبر نے رسوم ہند کو ابتدا میں فقط اس طرح اختیار کیا گویا غیر ملک کا تازہ میوہ ہے۔ یا نئے ملک کا نیا سنگار ہے۔ یا یہ کہ اپنے پیاروں اور پیار کرنیوالوں کی ہر بات پیاری لگتی ہے۔ مگر ان باتوں نے اسے مذہب کے عالم میں بد نام کر دیا اور بد مذہبی کا دغ اس طرح دامن پر لگایا کہ آج تک بے خبر اور بے درد ملا اس کی بد نامی کا سبق ویسا ہی پڑھے جاتے ہیں۔ اس مقام پر سبب اصلی کا نہ لکھنا اور داد گو بادشاہ پر ظلم کا جاری رکھنا مجھ سے نہیں دیکھا جاتا میرے دوستو ! تم نے کچھ سمجھ لیا۔ اور آئندہ سمجھو گے کہ ان علمائے زر پرست کی سینہ سیاہی اور بد نفی نے کس قدر جلد انہیں اور ان کے ہاتھوں اسلام کو ذلیل و خوار کر دکھایا۔ ان نااہلوں کے کاروبار دیکھ کر نیک نیت بادشاہ کو ضرور خیال ہوا ہو گا کہ حسد اور کینہ وری علمائے کتابی کاخاصہ ہے۔ اچھا انہیں سلام کروں اورجو بزرگ اہل باطن اور صاحبدل کہلاتے ہیں ان میں ٹٹولوں شاید اندر سے کچھ نکلے ۔ چنانچہ اطراف ملک سے مشائخ نامداد بلائے۔ ہر ایک سے الگ الگ خلوت رہی اور بہت باتیں اور حکایاتیں ہوئیں لیکن جس کو دیکھا خاکستری جامہ کے اندر خاک نہ نہ تھا۔ مگر خوشامد ، اور وہ خود دو چار بیگھ مٹی کا سائل تھا۔ افسوس وہ آرزو مند اس بات کا کہ کوئی بات یا فقیرانہ کرامات یاراہ خدا کا رستہ ان سے ملے۔ انہیں دیکھا تو خود اس سے مانگنے آتے تھے۔ معجزہ کہاں ۔ کرامات یاراہ خدا کا رستہ ان سے ملے۔ انہیں دیکھا تو خود اس سے مانگنے آتے تھے۔ معجزہ کہا۔ کرامات کجا ۔ باقی رہے اخلاق ۔ توکل ۔ خوف الہی ۔ درد مندی ، سخاوت ۔ ہمت۔ ظاہری باتیں۔ اس سے بھی پاک صاف پایا۔ انجام یہ ہوا کہ بد گمانی خدا جانے کہاں کہاں دوڑ گئی۔ ملا صاحب ایک بزرگ کا نام لکھ کر کہتے ہیں۔ فلاں نامی صاحبدل اور مشہور مشائخ تشریف لائے۔ بڑی تعظیم سے بعاد تخانہ میں اتارا انہیں نے نماز معکوس دکھائی اور سکھائی ۔ اور بادشاہ کے ہاتھ بیچ بھی ڈالی ۔ محلمیں کوئی حرم حاملہ تھی ۔ کہاکہ بیٹا ہو گا۔ وہاں بیٹی ہوئی۔ اور بہت سی خشک اور بے نمک اور بد مزہ حرکتیں کیں ۔ کہ سوا افسوس کے کچھ زبان قلم پر نہیں آتا۔ آں نہ صوفی گری و آزاد یست بلکہ کیدی گری و قلا بیست دزدی ور اہ زنی بہتر ازیں کفن از مردہ کنی بہتر ازیں ایک شخص حسب الطلب حاضرہوئے۔ مگر اس طرح کہ تعمیل کی نظر سے حکم سنتے ہی خانقاہ سے 1 ؎ خلیفہ شیخ عبدالعزیز دہلوی کے تھے۔ اور سر ہند کے رہنے والے تھے۔ 2 ؎ شیخ متھی افغان پنجاب سے تشریف لے گئے ؟ اٹھ کھڑے ہوئے۔ سواری (ڈولا) پیچھے آئی۔ خود فرمان کے ادب سے پچیس تیس منزل بادشاہی پیادوں کے ساتھ پیادہ آئے۔ قنچور میں پہنچے ۔ تو ایک بزرگ کے گھر اترے اور کہلا بھیجا کہ حکم کی تعمیل کی ہے مگر میری ملاقات کسی بادشاہ کو مبارک نہیں ہوئی۔ بادشاہ نے فورا انعام و اکرام کے ساتھ حکم بھیجا کہ آپ کو تکلیف کرنی کیا ضرور تھی۔ بہت اشخاص دور ہی دور سے کنارہ کش ہو گئے خدا جانے کچھ اندر تھا بھی یا نہیں۔ ایک صاحبدل آئے۔ نہایت نامی اور عالی خاندان تھے ۔ بادشاہ نے ان کی کھڑے ہو کر تعظیم بھی کی۔ نہایت اعزاز و اکرام سے پیش آیا۔ مگر جو کچھ پوچھا۔ انہوںنے کانوں کی طرف اشارہ کیا اور جواب دیا کہ اونچا سنتا ہوں۔ علم ۔ معرفت ۔ طریقت ۔ شریعت جس معاملہ میں پوچھتا تھا۔ انجان اور بھولی بھالی صورت بنا کر کہتے تھے۔ اونچا سنتا ہوں ، غرض وہ بھی رخصت ہوئے۔ جس کو دیکھا یہی معلوم ہوا۔ کہ خانقاہ یا مسجد میں بیٹھے ہیں۔ دوکان داری کر رہے ہیں۔ اندر لامکان ؎ کرے کعبہ میں کیا جو سر بت خانہ سے آگہ ہے وہاں تو کوئی صورت میں بھی ۔ یہاں اللہ ہی اللہ ہے بعضے شیطان طینتوں نے کہا۔ کتابوں میں لکھا ہے ۔ کہ اختلاف مذاہب جو سلف سے چلا آتا ہے۔ ان کا دفع کرنے والا آئیگا۔ اور سب کو ایک کر دے گا۔ وہ اب آپ پیدا ہوئے ہیں۔ بعض نے کتب قدیم کے اشاروں سے ثابت کر دیا کہ 990ھ میں اس کا ثوبت نکلتا ہے۔ ایک عالم کعبتہ اللہ سے شریف مکہ کارسالہ لیکر تشریف لائے۔ اس میں اتنی بات کو پھیلا یا تھا کہ دنیا کی 7ہزار برس کی عمر ہے۔ وہ ہو چکی۔ اب حضرت امام مہدی کے ظہور کا وقت ہے۔ سو آپ ہیں۔ قاضی عبدالسمیع میا نکالی قاضی القضاہ تھے۔ ان کا خاندان تمام ماوراء النہر میں عظمت اور برکت سے نامور تھا۔ مگر یہاں یہ عالم تھا ۔ کہ بازی لگا کر شطرنج کھیلنا وظیفہ تھا۔ جلسہ میخواری ایک عالم تھا۔ جس کے آفرید گار وہ تھے۔ رشوت نذرانہ تھا جس کا لینا مثل ادائے نماز فرض عین تھا۔ تمسکوں میں سود پر حسب الحکم لکھتے تھے۔ اور صول کر لیتے تھے۔ (حیلہ شرعی بھی ضرور چاہئے) قاسم خاں فوجی نے کچھ اشعار لکھ کر ان کے احوال و افعال کی تصویر کھینچی تھی ۔ ایک شعر اس کای اد ہے ؎ پیرے ز قبیلہ ، معزز ریشے چوگل سفید یک گز نیک نیت بے علم بادشاہ طالب خیر اورجو یائے حق تھا۔ ایسی ایسی باتوں نے اس کے عقل و ہوش پر یشان کر دیئے ؎ 1 ؎ شیخ جمال بختیاری پوشیدہ مرفع اندریں خامے چند بگر فتہ بہ طامات الف لامے چند (لاالہ الااللہ) نارفتہ رہ صدق و صفا گامے چند بد نام کنندۂ نکونامے چند آتش پرست پارسی نوساری علاقہ گجرات دکن سے آئے۔ وہ دین زر دشت کی کتابیں بھی لائے۔ ملک دل کا بادشاہ ان سے بہت خوش ہو کرملا۔ شاہان کیانی کی رسم و رواج ۔ آگ کی عظمت کے آئین۔ اور اس کی اصطلاحیں معلوم کیں۔ ملا صاحب کہتے ہیں۔ آتشکدہ محل کے پاس بنوایا حکم تھا۔ ایک دم آگ بجھنے نہ پائے کی آیات عظیمۂ الہٰی اور اس کے نوروں میں سے ایک نور ہے۔25جلوس میں بے تکلف اگ کو سجدہ کی۔ جب پراغ یا شمع روشن ہوتی۔ صاحبان مقربین تعظیم کو اٹھ کھڑے ہوتے تھے۔ اہتمام اس کا شیخ ابوالفضل کے سپرد ہوا۔ آزاد پارسیان مذکور کو نوساری میں چار سو بیگھ زمین جاگیر دی۔ اب تک ان کے قبضے میں چلی آتی ہے۔ اکبری اور جہانگیر میں سندیں ان کے پاس موجود ہیں۔ میں نے سیاحت بمبئی میں وہ کاغذات بچشم خود دیکھے ہیں۔ اہل فرنگ کا آنا اور ان کی خاطرداری اکبر اگرچہ علوم و فنون کی کتابیں نہ پڑھا تھا۔ مگر اہل علم سے زیادہ علوم وفنون اور شائستگی اور تہذیب کا عاشق تھا۔ اور ہمیشہ ایجاد و ااختراع کے رستے ڈھونڈھتا تھا۔ اس کی دلی آرزو یہ تھی کہ جس طرح فتوحات ملکی اور شجاعت و سخاوت میں نامور ہوں۔ اور امیر ملک قدرتی پیداوار اور زرخیزی میں باغ زر ریز ہے۔ اسی طرح علوم و فنون میں نامور ہو۔ وہ یہ بھی جان گیا تھا کہ علم و کمال کے آفتاب نے یورپ میں صبح کی ہے۔ اس لئے اس ملک کے باکمالوں کی تلاش رکھتا تھا۔ یہ امر قانون قدرت میں داخل ہے۔ کہ جو ڈھونڈھیگا سو پائیگا۔ سامان اس کے خود بخود پیدا ہو جاتے ہیں۔ ان میں سے چند اتفاق لکھتا ہوں۔ 979ھ میں ابراہیم حسین مرزا نے بغاوت کر کے قلعہ بندر سورت پر قبضہ کر لیا۔ بادشاہ لشکر نے جاکر گھیرا۔ اورخود اکبر بھی یلغار کر کے پہنچا۔ سودا گران فرنگ کے جہاز ان دنوں میں آتے رہتے تھے ۔ مرزا نے انہیں لکھا کہ اگر تم آؤ۔ اور اس وقت میں میری مدد کرو تو قلعہ تمہیں دیدونگا۔ وہ لوگ آئے۔ مگر بڑی حکمت سے آئے۔ یعنی بہت سے عجائب و غرائب تحفے مختلف ممالک کے ساتھ لیتے آئے۔ جب لڑائی کے پلے پر پہنچے۔ تو دیکھا۔ کہ سامنے کا وزن بھاری ہے۔ مقابلہ میں کامیاب نہ ہو سکیںگے ۔ جھٹ رنگ بدل کر ایلچی بن گئے۔ اور کہا کہ ہم تو اپنی سلطنت کی سفارت پر آئے ہیں۔ دربار میں پہنچ کر تحفے تحائف گزرانے ۔ اور خلعت و انعام کے ساتھ مراسلہ کا جواب لیکر رخصت ہوئے۔ اکبر کی باد پسند طبیعت اپنے کام سے کبھی نچلی نہ رہتی تھی۔ جس طرح اب بمبئی اور کلکتہ ہے۔ ان دنوں اکثر یورپ اور ایشیا کے جہازوں کے لئے گودا اور سورت بندرگاہ تھے۔ معرکہ مذکور کے کئی برس بعد اس نے حاجی حبیب اللہ کا شی کو زرکثیر دیکر روانہ کیا۔ صنعتوں کے ماہر اور ہر فن کے مبصر ساتھ کئے کہ بندرگاہ گووا میں جا کر مقام کرو اور وہاں سے عجائب و نفائس دیار فرنگ کے لاؤ۔ اور جو صنعت گر اور دستکار ممالک مذکورہ کے وہاں سے آسکیں۔ انہیں بھی ساتھ لائے۔ جس وقت شہر میں داخل ہوئے تو عجائبات کی برات بن گئی۔ انبوہ کثیر جوان و پیر کا ساتھ تھا۔ بینچ میں بہت سے اہل فرنگ اپنا ملکی لباس پہنے۔ اور اپنے قانون موسیقی کے بموجب فرنگی باجے بجاتے شہر میں داخل اور دربار میں حاضر ہوئے۔ انہی کے نوادر و غرائب میں اول ارغنوں (آرگن) ہندوستان میں آیا۔ وقت کے مورخ لکھتے ہیں۔ مگر معلوم ہوتا ہے کہ اس باجے کو دیکھ کر عقل حیران اور ہوش سر گردان ہے۔ دانا یان مذکور نے دربار ۔ اکبری میں جو اعزاز پائے ہوں گے۔ بادبانوں نے اڑا کر یورپ کے ملک ملک میں پہنچائے ہوں گے۔ اور جابجا امیدوں کے دریا لہرائے ہوں گے ۔کسی موج نے بندر ہگلی کے کنارے پر بھی ٹکر کھائی ہو گی۔ امرا کی کارگزاری جدھر بادشاہ کا شوق دیکھتی ہے۔ ادھر پسینہ ٹپکاتی ہے۔ چنانچہ 23 جلوس میں شیخ ابوالفضل اکبر نامہ میں 986ھ لکھتے ہیں۔ کہ خان جہان حسین قلی خان نے کوچ بہار کے راجہ سے اطاعت نامہ اور تحائف و نفائس اس ملک کے لیکر دربار میں بھیجے تاب بار سو تاجر فرنگ بھی حاضر دربار ہوا۔ اور باسوبارن تو بادشاہ کے حسن اخلاق اور اوصاف طبع دیکھ کر حیران رہ گیا۔ اور اکبر نے بھی ان پر درستی عقل اور شائستگی حال کا صاد کیا۔ 35 جلوس میں لکھتے ہیں۔ پادری فریبتون بندر گووا اسے اتر کر حاضر دربار ہوئے۔ بہت سے عقلی اور نقلی مطالب سے آگاہ تھے۔ شہزاد گان تیز ہوش کو ان کا شاگرد کیا کہ یونانی کتابوں کے ترجمہ کا سامان فر اہم اور ہر رنگ کی باتوں سے آگاہی حاصل ہو۔ پادری موصوف کے علاوہ ایک گروہ انبوہ فرنگی۔ ارمنی ۔ حبشی وغیرہ کا تھا۔ کہ ممالک مذکور کی عمدہ اجناس لایا تھا۔ بادشاہ دیر تک سیر دیکھتے رہے۔ 40ج میں پھر ایک قافلہ بندر مذکور سے آیا۔ اشیائے عجیب و اجناس غریب لایا۔ ان میں چند دانشور صاحب ریاضت مذہب نصاری کے تھے۔ کہ پادری کہلاتے ہیں۔ نوازش بادشاہی سے کامیاب ہوئے۔ دیکھو اقبال نامہ 1003ھ۔ ملا صاحب فرماتے ہیں کہ پاپا یعنی پادری آئے۔ ملک افرنجہ کے دانایان مرتاض کو پادھری کہتے ہیں اور مجتہد کامل کو پاپا۔ وہ مصلحت وقت کی رعایت سے احکام کو تبدیل کر سکتا ہے۔ اور بادشاہ بھی اس کے حکم سے عدول نہیں کر سکتا۔ وہ انجیل لائے اور ثالث ثلثہ پر دلائل پیش کر کے نصرانیت کا اثبات کیا اور ملت عیسوی کو رواج دیا۔ ان کی بڑی خاطریں ہوئیں۔ بادشاہ اکثر دربار میں بلاتا تھا۔ اور دینی حالات اور دنیاوی معاملات میں گفتگو میں سنتا تھا۔ ان سے توریت و انجیل کے ترجمے کرنے چاہے۔ اور کام بھی شروع ہوا مگر ناتمام رہا اور شاہزادہ مراد کو ان کا شاگرد بھی کیا (ایک اور جگہ کہتے ہیں) جب تک یہ لوگ رہے۔ ان کے حال پر بہت توجہ رہی۔ وہ اپنی عبادت کے وقت ناقوس بجاتے تھے۔ اور باجوں سے نغمہ سرائی کرتے تھے۔ اور بادشاہ سنتا تھا۔ آزاد ۔ معلوم نہیں۔ کہ جو زبان شاہزادے سیکھتے تھے۔ وہ رومی تھی یا عبرانی تھی۔ ملا صاحب اگرچہ سنہ نہیں لکھتے مگر قرینے سے معلوم ہوتا ہے کہ مراد کی شاگردی کا تعلق بھی پادری فریبتون سے تھا۔ شاید وہ اپنی یونانی زبان سکھاتے ہونگے۔ جس کا ابوالفضل کے بیان سے اشارہ پایا جاتا ہے۔ یہ سب کچھ ہے۔ مگر ہماری کتابوں سے نہیں معلوم ہوتا کہ اس وقت کون کون سی کتابیں ان لوگوں کی معرفت ترجمہ ہوئیں۔ البتہ ایک کتاب میں نے خلیفہ سید محمدحسن صاحب کے کتب خانہ میں دیکھی۔ کہ زبان لاطینی (رومی) سے اسی عہد میں ترجمہ ہوئی تھی۔ ملا صاحب لکھتے ہیں۔ ایک موقع پر شیخ قطب الدین جالیسری کو کہ مجذوب خراباتی تھے۔ لوگوں نے پادریوں کے مقابلے میں مباحثے کے لئے پیش کیا۔ ۔ فقیر مذکور میدان مباحثہ میں جوش خروش سے صف آرا ہوئے۔ کہا کہ ایک بڑاڈھیر آگ کا دہکاؤ ۔ جس کو دعوی ہو میرے ساتھ آگ میں کود پڑے۔ جو صحیح سلامت نکل آئے وہ حق پر ہے۔ آگ دہکا کر تیار کی۔ انہوں نے ایک پاپا کی کمر میں ہاتھ ڈال کر کہا۔ ہاں بسم اللہ ۔ پاپاؤں نے کہا کہ یہ بات خلاف عقل ہے۔ اور اکبر کو بھی یہ حرکت ناگوار گزری آزاد ۔ بے شک ایسی بات کہنی گویا اقرار ہے اس بات کا کہ ہمارے پاس دلیل عقلی نہیں ۔ اور مہمانوں کا دل آزردہ کرنا نہ شریعت میں درست ہے نہ طریقت میں۔ تبت اور خطا کے لوگوں سے وہاں کے حالات سنتا تھا۔ جین مت کے لوگوں سے بودھ دھرم کی کتابیں سنا کرتا تھا۔ ہندؤں میں بھی صدہا فرقہ ہیں اور سیکٹروں میں ہی کتابیں ہیں۔ وہ سب کو سنتا تھا۔ اور ان پر گفتگو ئیں کرتا تھا۔ لطیفہ چند مسلمانوں بلکہ شیطانوں نے ایک فرقہ پیدا کیا کہ نماز روزہ وغیرہ عبادات و طاعات سب چھوڑ دیئے ۔ ناچ رنگ شراب کباب کو مشغل لازمی اختیار کیا۔ علما نے بلا کر ہدایت کی ۔ کہ اعمال ناشائستہ سے تو بہ کرو۔ جواب دیا کہ پہلے تو بہ کر لی ہے۔ جب یہ اختیار کیا ہے۔ انہیں دنوں میں اکثر سلسلوں کے مشائخ بھی حکومت سے اخراج کے لئے انتخاب ہوئے تھے۔ چنانچہ ان بے سلسلہ اور ان باسلسلہ اشخاص کو ایک قندھاری کا روان کے سلسلے میں رواں کر دیا۔ کارواں باشی کو کہا کہ انہیں وہاں چھوڑ آؤ۔ کاروان مذکور قندھار سے ولادیتی گھوڑے لے آیا کہ کار آمد تھے۔ انہیں چھوڑ آیا کہ نکمے تھے۔ بلکہ کام بگاڑنے وال۔ جب زمانہ بدلتا ہے۔ تو ایسے ہی مبادلے کیا کرتا ہے۔ تین سوبرس بعد استاد مرحوم نے اس انگوٹھی پر نگینہ جڑا ہے ؎ عجب نہ تھا کہ زمانے کے انقلاب سے ہم تمیم آب سے اور خاک سے وضو کرتے خلاصہ مطالب مذکورہ بالا کا یہ ہے۔ کہ مختلف اور متفرق معلومات کا ذخیرہ ایک ایسے بے تعلیم دماغ میں بھرا ۔ جن پر ابتدا سے اب تک کبھی اصول و قواعد کا عکس بھی نہ پڑا تھا۔ سمجھ لو کہ اس کے خیالات کا کیا حال ہو گا۔ اتنا رضور ہے کہ اس کی نیت بدی اور بد خواہی پر نہ تھی۔ اسے یہ بھی خیال تھا۔ کہ کل مذہبوں کے بانی نیک نیتی سے لوگوں کو حق پرستی اور نیک راہ پر لایا چاہتے تھے۔ اور انہوں نے اپنے اصول عقاید اور احکام و مسائل اپنے فہم اور اپنے عہد کے بموجب نیکی و اخلاق اور تہذیب و شائستگی کی بنیاد پر رکھے تھے۔ اسے یہ بھی یقین تھا۔ کہ ہر مذہب میں حق پرست اورص احب معرفت لوگ ہوئے ہیں۔ نیک نیت بادشاہ جو سب سے اعلیٰ رتبے کی بات سمجھتا تھا۔ وہ یہ تھی کہ پروردگار سب العالمین ہے۔ اور قادر مطلق ہے۔ اگر سارا حق ایک ہی مذہب کے حجرے میں بند ہوتا۔ اور وہی خدا کو پسند ہوتا تو اسی کو دنیا میں رکھتا۔ باقی سب کو نیست و نابود کر دیتا۔ لیکن جب ایسا نہ کیا تو معلوم ہوا کہ اس کا ایک مذہب نہیں۔ سب اسی کے مذہب ہیں۔ بادشاہ سایہ خدا ہے۔ اسے بھی ہی سمجھنا چاہئے۔ کہ سب مذہب میرے ہیں۔ استاد مرحوم نے کیا خوب کہا ہے ؎ ہم کو کیا یاں راہ پر ہے کوئی یا گمرا ہ ہے ، اپنی سب سے راہ ہے اور سب سے یاد اللہ ہے اسی واسطے اسے اس بات کا شوق نہ تھا کہ سارا جہان مسلمان ہو جائے۔ اور مسلمان کے سوا دوسرا آدمی نظر نہ آئے۔ چنانچہ اس کے دربار میں بہت سے مقدمے اس جھگڑے کے دائر ہوئے ۔ بلکہ ایک مقدمے نے ایسا طول کھینچا۔ کہ شیخ صدر کی بنیاد اکھڑ گئی ہے ؎ درحیر تم کہ دشمنی کفر و دیں چراست ازیک چراغ کعبہ و بتخانہ روشن است ہندو ہر وقت پہلو سے لگے تھے۔ ان سے ہر ایک بات پوچھنے کا موقع تھا۔ وہ بھی مدتوں سے دعائیں کر رہے تھے۔ کہ کوئی پوچھنے والا پیدا ہو۔ شوق تحقیق کو ان کی طرف جھکنے کا زیادہ موقع ملا۔ طالب تحقیق بادشاہ پر گھوتم برہمن کو (ابتدا میں سنگھا سن بتیسی کا ترجمہ لکھوایا کرتا تھا) بلا کر تحقیقاتیں کرتا تھا۔ ملا صاحب فرماتے ہیں ۔ ایک بالا خانہ خوابگاہ کہلا تا تھا۔ آپ اس کی کھڑکی میں بیٹھتے تھے۔ خلوت میں دیوی برہمن کو (جو مہا بھارت کا ترجمہ کرواتا تھا) چارپائی پر بٹھاتے تھے۔ اور رسیاں ڈال کر اوپر کھینچ لیتے تھے۔ وہ بیچ ہوا میں ہوتا تھا۔ کہ نہ زمین پر ہو نہ زمین پر ہو نہ آسمان پر۔ اس سے آگ کے سورج کے ۔ اور ہر ایک ستارہ کے ۔ اور ہر ایک دیوی ۔ دیوتا ۔ بڑھا ۔ مہادیو ۔ بشن ۔ کرشن ۔ رام ۔ مہامائی وغیرہ کی پوجا کے طریقے اور ان کے منتر سیکھتے تھے۔ اور ان کے مسائل اور افسانوں کو بڑے شوق سے سنتے تھے۔ اور چاہتے تھے کہ ان کی ساری کتابیں ترجمہ ہو جائیں۔ ملا صاحب فرماتے ہیں ۔ 30 جلوس کے بعد زمانہ کا رنگ بالکل بدل گیا۔ کیونکہ بعض دیں فروش ملا بھی شامل ہو کر ان کے ساتھ ہمداستان و گئے۔ نبوت میں کلام۔ وحی میں سکوت ہونے لگے۔ معجزے کرامت ۔ جن ۔ پری ۔ ملائک جو آنکھ سے غائب اس کا انکار۔ قرآن کا تواتر۔ اس کا کلام الہٰی ہونا۔ سب باتوں کے لئے ثبوت طلب ۔ تناسخ پر رسالے لکھے گئے۔ اور قرار یہ پایا کہ اگر مرنے کے بعد ثواب یا عذاب ہے تو تناسخ ہی سے ہو سکتا ہے اس کے سوا کوئی صورت ممکن نہیں۔ ایک فقرہ کتابوں میں لکھا چلا آتا ہے۔ مامن مذہب الاوفیہ قدم راسخ للتناسخ اتنی بات کو بڑھ کر بہت سے پھیلا وے پھیلائے ارباب زمانہ اس قسم کے اشعار پڑھتے تھے اور خوش ہوتے تھے ؎ درحقیقت بد ست کورے چند مصحفے ماند و کہنہ گورے چند گور باکس سخن نمے گوید ، سر قراں کسے نمے جوید لطیفہ خان اعظم جب کعبتہ اللہ سے پھرے تو جہان کو دیکھ کر ذرا عقل آگئی تھی۔ ڈاڑھی بڑھائی اور درگاہ اکبری میں چڑھائی ؎ اگر ابکے پھرے جیتے وہ کعبہ کے سفر سے تو جانو پھرے شیخ جی اللہ کے گھر سے سبحان اللہ ۔ وہی خان اعظم ۔ جن سے ڈاڑھی کے طول پر کیا کیا طول کلام ہوئے۔ دیکھو خان موصوف کا حال 990ھ میں ایک مہم پر سے فتحیات آئے۔ بادشاہ خوشی خوشی باتیں کر رہے تھے۔ اسی کے سلسلے میں فرمایا کہ ہم نے تناسخ کے لئے دلائل قطعی پیدا کئے ہیں ۔ شیخ ابوالفضل تمہیں سمجھا ئینگے ۔ تم قبول کرو گے۔ تسلیم کے سوا جواب کیا تھا ! ایک بڑے خاندانی مشائخ تھے۔ دیوی برہمن کو خوابگاہ پر جاتے ہوئے دیکھ کر انہیں بھی شوق 1 ؎ ملا صاحب فرماتے ہیں شیخ تاج الدین ولد ذکریا اجودھنی دہلوی تھے۔ (اجودھن اب پاک پٹن کہلاتا ہے) اور اکثر اشخاص شیخ ذکریا موصوف کو تاج العارفین کہتے ہیں۔ یہ حضرت شیخ مان پانی پتی کے شاگرد تھے۔ شیخ مان پانی پتی وہ شخص تھے ۔ کہ لوائح پر شرح لکھی تھی۔ اور نزہت الارواح پر بھی موٹی شرح فخر فرمائی تھی۔ اور صوف میں ایسی اسی یادگاریں چھوڑی تھیں کہ علم توحید کے دوسرے محی الدین عربی تھے۔ پیدا ہوا اور مکروحیلہ کی کمند پھینک کر خوابگاہ پر پہنچنے لگے۔ بہت مقاصد قرآن کے اور مطالب پران کے ملا کر ایک کر دیئے ۔ وحدت وجود کی بنیاد رکھ کر ہمہ اوست کا منارہ بلند کیا۔ اور فرعون کو بھی مومن ثابت کر کے کسی کو بھی ایمان سے محروم نہ رکھا۔ بلکہ منقوش خاطر کر دیا کہ مغفرت کی امید ہمیشہ خوف عذاب پر غالب ہے۔ کم سے کم اس کا پر تو ضرور ہے۔ پس قبلہ مرادات اور کعبہ حاجات وہی ہے۔ سجدہ اس کے لئے جائز ہے۔ کہ فلاں فلاں پیروں کو ان کے مرید کیا کرتے تھے۔ شیخ یعقوب کشمیری نے (کہ اپنی مشہور تصنیفوں سے مرشد اور مقتدائے وقت مشہور تھے) اس معاملہ میں بعض تمہیدیں عین القضات ہمدانی سے نقل کیں اور ایسی ایسی بہت سی گمراہیاں پھیلائیں۔ ملا صاحب خفا ہو کر کہتے ہیں۔ بیربر نے یہ روشنی ڈالی ۔ کہ آفتاب ذات الہٰی کا مظہر کامل ہے۔ سبزہ کا اگانا ۔ غلوں کا لانا۔ پھولوں کا کھلانا۔ عالم کا اجالا۔ اہل عالم کی زندگی اس سے وابستہ ہے۔ اس لئے تعظیم اور عبادت کے لائق ہے۔ اس کے طلوع کی طرف رخ کرنا چاہئے نہ کہ غروب کی طرف۔ اسی طرح آگ ۔ پانی ۔ پتھر اور پیپل کے ساتھ سب درخت مظاہر الہٰی ہوگئے۔ یہاں تک کہ گائے اور گوبر بھی مظاہر الہٰی ہوئے۔ ساتھ اس کے تلک اور جنیؤ کو بھی جلوہ دیا۔ مزا یہ کہ علما و فضلا مصاحبان خاص نے اس کی تقویت کی۔ اور کہا کہ فی الحقیقت آفتاب نیر اعظم ۔ اور عطیہ بخش تمام عالم ۔ اور مربی بادشاہوں کا ہے۔ اور جوبااقبال بادشاہ ہوئے ہیں۔ وہ اس کی عظمت کو رواج دیتے رہے ہیں۔ اس قسم کی رسمیں ہمایوں کے عہد میں بھی جاری تھیں۔ کیونکہ چنگیزی ترکوں کا تورہ تھا۔ وہ قدیم سے نوروز کو عید مناتے تھے۔ اور خوان یغما لگا کر لوٹتے لٹاتے تھے۔ اسلام میں بھی ہر بادشاہ نے کہیں کم کہیں زیادہ اسے عید کا دن سمجھا ہے۔ اور فی الحقیقت جس دن سے اکبر تخت پر بیٹھا تھا۔ اس مبارک دن کو عالم کی عید سمجھ کر جشن کرتا تھا۔ اس کے رنگ کے موافق سارا دربار رنگین ہوتا تھا۔ ہاں اب وہ ہندوستان میں تھا۔ اس لئے ہندوستان کی ریت رسمیں بھی برت لیتا تھا۔ برہمنوں سے تسخیر آفتاب کا منتر سیکھا۔ کہ نکلتے وقت اور اور آدھی رات کو اسے جپا کرتا تھا۔ ویپ چند راجہ مجہولہ نے ایک جلسہ میں کہا۔ کہ حضور اگر گائے خدا کے نزدیک واجب التعظیم نہ ہوتی تو قرآن میں سب سے پہلے اس کاسورہ کیوں ہوتا ۔ اس کے گوشت کو حرام کر دیا۔ اور تاکید سے کہ دیا کہ جو ماریگا ۔ مارا جائے گا۔ حکما طب کی کتابیں لے کر تائید کو حاضر ہوئے کہ اس کے گوشت سے رنگ کے مرض پید ہوتے ہیں۔ ردی اور دیر ہضم ہے۔ آزاد ملا صاحب اس کی باتوں کو جس طرح چاہیں۔ بدرنگ کر کے دکھائیں۔ وہ حقیقت میں اسلام کا منکر بھی نہ تھا۔ چنانچہ میرا بو تراب میر حاج ہو کر مکہ کو گئے تھے۔ وہ 987ھ میں پھر کر آئے۔ اور ایک ایسا بھاری پتھر لائے۔ کہ ہاتھی سے بھی نہ اٹھے جب قریب پہنچے ۔ تو لکھا کہ فیروز شاہ کے عہد میں قدم شریف آیا تھا۔ حضور کے عہد مقدس میں فدوی یہ پتھر لایا ہے۔ اکبر سمجھ گیا تھا۔ کہ سید سادہ لوح نے سودا گری کی ہے۔ مگر اس لئے کہ خاص و عام میں اس بیچارے کی ہنسی نہ ہو۔ اور جو لوگ مجھے انکار نبوت کی تمہتیں لگاتے ہیں۔ ان کے دانت ٹوٹ جائیں۔ اس لئے حکم دیا کہ آداب الہی کے ساتھ دربار آراستہ ہو۔ سید موصوف کو فرمان پہنچا کہ چار کوس پر توقف کر و۔ شہزادوں اور تمام امیروں کو لے کر پیشوائی کو گئے۔ دور سے پیادہ ہوئے۔ نہایت ادب اور عجز و نیاز سے خود اسے کندھا دیا۔ اور چند قدم چل کر فرمایا ۔ کہ امرائے خوش اعتقاد اسی طرح دربار تک لائیں۔ اور پتھر میرہی کے گھر پر رکھا جائے۔ ملا صاحب کہتے ہیں ۔ کہ 987ھ میں قیامت آگئی۔ اور یہ موقع وہ تھا کہ سب طرف سے خاصر جمع ہو گئی تھی۔ تجویز ہوئی کہ لا الٰہ الا اللہ کے ساتھ اکبر خلیفۃ اللہ کہا کریں۔ پھر بھی لوگوں کے شور شرابے کا خیال تھا۔ اس لئے کہتے تھے۔ کہ باہر نہیں۔ محل میں کہا کرو۔ عوام کا لا نعام کی زبانوں پر اللہ اکبر کے سوا وظیفہ نہ تھا۔ اکثر اشخاص سلام علیک کی جگہ اللہ اکبر۔ جواب میں جل جلالہ کہتے تھے۔ ہزاروں روپے اب تک موجود ہیں۔ جن کے دونوں طرف یہی سکہ منقوش ہے۔ گوکہ جاں نثار اور باوفا۔ با اعتبار گنے جاتے تھے۔ مگر صالح ہوئی کہ پہلے ان میں سے کوئی ابتدا کرے۔ چنانچہ قطب الدین خان کو کہ کو مذہب تقلیدی چھوڑنے کے لئے اشارہ ہوا۔ وہ سیدھا سپاہی تھا۔ اس نے خیر اندیشی و دلسوزی کے رنگ میں ظاہر کیا۔ کہ ولایتوں کے بادشاہ یعنی سلطان روم وغیرہ سن کر کیا کہیں گے۔ سب کا یہی دین ہے۔ خواہ تقلیدی ہے خواہ نہیں ہے۔ بادشاہ نے بگڑ کر کہا۔ ہاں ! تو سلطا روم کی طرف سے غائبانہ لڑتاہے۔ اپنے لئے جگہ پیدا کرتا ہے۔ کہ یہاں سے جائے تو وہاں عزت پائے۔ جاو ہیں چلاجا۔ شہباز خان کمبو نے بھی تیز و تند سوال جواب کئے بیربر موقع تاک کر کچھ بولے۔ انہیں تو اس نے اس سختی سے دھکایا کہ صحبت بدمزہ ہو گئی۔ اور امرا آپس میں کھسر پھسر کرنے لگے۔ بادشاہ نے شہباز خان کو خصوصا اور اوروں کو مگھم میں کہا کیا بکتے ہو۔ تمہارے منہ پر گو میں جوتیاں بھر کر لگواؤں گا۔ ملا شیری نے اس عالم میں ایک قصیدہ کہا کہ اس کے چند اشعار ان کے حال میں لکھے ہیں۔ انہی دنوں میں قرار پایا کہ جوشخص دین الہی اکبر شاہی میں داخل ہو۔ چاہئے کہ اخلاص چار گانہ رکھتا ہو۔ ترک مال ۔ ترک جان ۔ ترک ناموس ۔ ترک دین ۔ ان میں سے جو چاروں رکھتا ہے۔ وہ پورا ہے ۔ ورنہ پون ۔ آدھا ۔ چوتھائی۔ جیسا ہو گا ویسا اس کا اخلاص ہو گا۔ سب مخلص مرید درگاہ ہو گئے کہ ان کا دین دین الہٰی اکبر شاہی تھا۔ ہدایت اور ترویج مذہب اور تعلیم مسائل کے لئے خلیفہ بھی تھے ا ن میں سے خلیفہ اول شیخ ابوالفضل تھے۔ جو شخص دین الہٰی میں آتا تھا۔ وہ اقرار نامہ لکھ کر دیتا تھا۔ اس کا انداز یہ تھا۔ منکہ فلاں ابن فلاں باشم ۔ بطوع و رغبت و شوق قلبی از دین اسلام مجازی و نقلیدی کہ ازپدراں دیدہ و شنیدہ بودم ۔ ابراو تبراہ نمودم ۔ ودر ۔ دین الہٰی اکبر شاہی درآمدم ۔ و مراتب چہارگانہ اخلاص کہ ترک مال و جان و ناموس و دین باشد قبول نمودم ۔ اس دین میں بڑے بڑے عالیشان امیر اور صاحب ملک فرمانروا داخل ہوتے تھے۔ چنانچہ مرزا جانی حاکم ٹھٹہ بھی خلقہ ارادت میں آیا خطوط مذکورہ ابو الفضل کے سپرد ہوتے تھے۔ کہ جس جس کا جیسا اعتقاد ہو نمبر وار ترتیب دے رکھو۔ شیخ موصف مجتہد اور خلیفہ دین الہٰی کے تھے اس طریقے کا نام توحید الہی اکبر شاہی تھا۔ امر ا میں سے جو اشخاص دین الہی اکبر شاہی میں داخل ہوئے ان کی تفصیل کتابوں کے انتخاب سے حسب ذیل معلوم ہوتی ہے۔ 1 ۔ ابوالفضل خلیفہ 10۔ صدر جہاں مفتی کل ممالک ہندوستان اور 2 ۔ فیضی ملک الشعراے دربار 11۔ 3 ۔ شیخ مبارک ناگوری 12۔ ان کے دونو صاجزادے 4 ۔ جعفر بیگ آصف خاں مورخ اور شاعر 13۔ میر شریف املی 5 ۔قاسم کابلی شاعر 14 ۔ سلطان خواجہ صدر 6۔ عبدالصمد مصور دربار اور شاعر 15 ۔ مرزا جانی حاکم ٹھٹہ 7 ۔ اعظم خاں کو کہ مکہ سے آکر 16۔ نقی شوستری شاعر و دو صدی منصبدار 8 ۔ ملا شاہ محمد شاہ آبادی 17 ۔ شیخ زادہ گو سالہ بنارسی 9۔ صوفی احمد 18 ۔ بیربر اسی سلسلہ میں ملا صاحب کہتے ہیں ایک دن جلسہ مصاجت میں کہا کہ آج کے زمانہ میں بڑا عقلمند کون ہے ۔ بادشاہوں کو مسثتثنیٰ کروا اور تباؤ حکیم ہمام نے کہا ۔ میں تو یہ کہتا ہوں ۔ کہ سب سے زیادہ میں عقلمند ہوں۔ ابو الفضل نے کہا۔ میرا باپ بڑا عقلمند ہے۔ اس قسم کے کلمات سے ہر شخص نے اپنے عقلمندی ظاہر کی۔ اکبر کی ساری تاریخ میں یہ آئین آب زرے لکھنے کے قابل ہے۔ کہ باوجود ان سب اتوں کے اس سال میں اس نے صاف حکم دے دیا کہ ہندؤں کاجزیہ معاف کیا جائے۔ اور یہ کئی کروڑ روپیہ سالانہ کی آمدنی تھی۔ معافی جزیہ پہلے بھی بعض بعض بادشاہ ہندؤں سے جزیہ لیتے رہے تھے۔ سلطنت کے انقلابوں میں کبھی موقوف ہوتا تھا۔ کبھی مقرر ہو جاتا تھا۔ جب اکبر کی سلطنت نے استقلال پکڑا تو ملا نوں نے پھریاد دلایا چنانچہ ملا صاحب سنوں کے خلط ملط میں لکھتے ہیں ’’ انہی دنوں میں شیخ عبدالنبی اور مخدوم الملک کو فرمایا کہ تحقیق کر کے ہندؤں پر جزیہ لگاؤ۔ مگر پانی پر تحریر ہوا تھا۔ جھٹ ہٹ گیا۔ ‘‘ پھر 987ھ میں چوٹ کرتے ہیں۔ ’’ تمغایعنی محصول اور جزیہ کہ کوئی کروڑ کی آمدنی تھی۔ اس سال میں موقوف کر دیا۔ اور تاکید کے ساتھ فرمان جاری ہوئے۔ وہ اس تحریر سے لوگوں کے دلوں پر یہ پر تو ڈالتے ہیں کہ دین کی بے پروائی بلکہ اسلام کی دشمنی نے اس کے دل میں حرارت دینی کو ٹھنڈا کر دیا تھا ۔ اب حقیقت حال سنو کہ اول سنہ یکم جلوس میں اکبر کو معافی جزیہ کا خیال آیا تھا۔ نوجوانی کا عالم تھا۔ کچھ بے پروائی کچھ بے اختیاری حکم جاری نہ ہوا۔ 09جلوس میں پھر اس مقدمہ پر بحث ہوئی۔ علمائے دیندار کا زور پورا پورا تھا۔ اس لئے قیل و قال ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ شریعت اسلام کا حکم ہے۔ ضرور لینا چاہئے چنانچہ کہیں اس پر عمل ہوا۔ کہیں نہ ہوا 988ھ 25جلوس میں بادشاہ صلاح اندیش پھر اس عزم پر مستقل ہوا۔ اور کہا کہ عہد سلف میں جو یہ امر تجویز کیا گیا تھا۔ سبب یہ تھا کہ ان لوگوں نے اپنے مخالفوں کے قتل اور غارت کو مصلحت سمجھا تھا۔ چنانچہ اس نظر سے کہ ظاہری انتظام قائم رہے۔ یعنی جو ہاتھ آئے کچھ روپیہ قرار دیا اور اس کا نام جزیہ رکھا۔ اب کہ ہماری خیر اندیشی اور کرم بخشی اور مرحمت عام سے غیر مذہب اشخاص یک جہتان ہمدین کی طرح کمر باندھ کر رفاقت پر جان دیتے ہیں۔ اور خیر خواہی اور جانفشانی میں جاں نثاری کی حد سے گزر گئے ہیں۔ کیونکر ہو سکتا ہے اہل خلاف سمجھ کر انہیں بے عزت اور قتل و غارت کیا جائے۔ 1 ؎ غالباً 983ھ ہوں۔ اور ان جاں نثاروں کو مخالف قیاس کیا جائے۔ ان لوگوں پر کہ جن کی پہلی نسلوں میں اور ہماری اصلوں میں عداوت جانی تھی ۔ دبے ہوئے خون جو خدا جانے کس طرح خاک پر گرے تھے۔ مگر اب ٹھنڈے ہو گئے ہیں۔ انہیں و مبدم جگانا اور گرمانا کیا ضرور ہے اصل بات تو یہ ہے کہ بڑا سبب جزیہ لینے کے لئے یہ تھا کہ سلطنتوں کے منتظم اور معاون سامان اور اسباب دنیوی کے محتاج تھے۔ اس ذریعے سے معاش میں وسعت پیدا کرتے تھے۔ اب ہزاراں ہزار زرنقد خزانہ میں موجود ہے۔ بلکہ آستانہ اقبال کے ایک ایک ملازم کو بے ضرورتی سے بڑھ کر فارغ البالی حاصل ہے۔ پھر منصف دانا کوڑی کوڑی چننے کے لئے کیوں نیت بگاڑے اور نہیں چاہئے کہ موہوم فائدہ کے لئے نقد نقصان پر تیار ہو بیٹھے۔ آزاد ۔ اگرچہ دینے والوں کو پیسے آنے ۔ یا کچھ روپے دینے پڑتے تھے۔ مگر فرمان جاری ہوتے ہی گھر گھر خبرپ ہنچ گئی۔ اور زبان زبان پر شکرانے جاری ہو گئے۔ ذرا سی بات نے دلوں اور جانوں کومول لے لیا۔ یہ بات ہزاروں خون بہانے اور لاکھوں لونڈی یا غلام بنانے سے نہ حاصل ہوتی۔ ہاں مسجد نشین ملا نے جنہوں نے مسجدوں میں بیٹھ کر پیٹ پالے اور کتابوں کے لفظ یاد کر لئے تھے۔ ان کے کان میں آواز گئی کہ آتا ہو ا روپیہ بند ہوا۔ جان تڑپ گئی ایمان لوٹ گئے۔ لطیفہ ایک جلسہ میں کوئی ملا نے صاحب بھی آگئے ۔ گفتگو یہ تھی۔ کہ مولویوں کو (سیاق) حساب میں لیاقت کم ہوتی ہے ملانے صاحب الجھ پڑے۔ ایکشخص نے کہا۔ اچھا بتاؤ۔ دوا اور دو کے ملا گھبرا کے بولے چار روٹیاں ۔ پناہ بخدا ۔ یہ مسجدوں کے فرما نروا۔ دن کا کھانا دوپہر ڈھلے۔ اور رات کا کھانا آدھی بجے کھاتے ہیں کہ شائد کوئی اچھی چیز آجائے۔ اور اور اچھی چیز آجائے۔ اور اس سے بھی اچھی چیز آجائے۔ شائد کوئی بلانے ہی آجائے۔ آدھی بجے رات کے گھڑیاں گنتے ہیں اور بیٹھے رہتے ہیں۔ ہوا سے کنڈی ہلی اور دروازہ کودیکھنے لگے۔ کہ کوئی کچھ لایا۔ مسجد مںی بلی کی آہٹ ہوئی اور چوکنے ہوئے کہ دیکھیں کیا آیا ۔ اللھمہ احفظنا من کل بلاء الدنیا و عذاب الا خوۃ ایسے لوگ مصالح سلطنت کو کیا سمجھیں۔ انہیں کیا خبر کہ یہ معاملہ کیا ہے اور اس کا ثمرہ کیا ہے۔ ایک ایسے ہی مقام پر ابوالفضل نے کیا خوب لکھا ہے ؎ تو خود مے نشنوی بانگ دہل را رموز سر سلطان راچہ دانی ترا از کاف کفرت ہم خبر نیست حقایقہاے ایمان راچہ دانی پھر ملا صاحب فرماتے ہیں۔ ابھی 990ھ ہوئے تھے جو لوگوں نے ذمن نشین کیا 1000ھ ہو چکے مذہب اسلام کا دور ہو چکا۔ اب دین نیا ہو گا۔ چنانچہ دین الہٰی اکبر شاہی کو کہ احکام حکمت پر مشتمل تھا۔ جلوہ دینا شروع کیا۔ اسی سنہ میں حکم دیا کہ سکوں میں سنہ الف معقوش ہو۔ اور تاریخ الفی تصنیف ہوئی۔ زمین بوسی کے نام سے سجدہ قائم ہوا کہ بادشاہوں کے لئے لازم ہے۔ شراب کا بند کھل گیا مگر اس میں بھی ایک آئین تھا کہ بقدر فائدہ ہوا ۔ بیماری میں حکیم بتائے تو پیو اتنی نہ پیو کہ بد مستیاں کرتے پھرو اور ایسا ہو تو سزا بھی سخت تھی۔ دربار کے پاس ہی آبکاری کی دوکان تھی نرخ سرکار سے مقرر تھا۔ جسے درکار ہوئی وہاں گیا۔ رجسٹر میں اپنا ۔ باپ کا دادا کا نام ۔ قومیت وغیرہ وغیرہ لکھوائی ۔ اور لے آیا۔ مگر یار لوگ کسی گم نام کو بھیج دیتے تھے۔ فرضی نام لکھوا کر منگاتے تھے۔ اور شیر مادر کی طرح پیتے تھے۔ خواجہ خاتون دربان اس کا داروغہ تھا۔ یہ بھڑوا بھی اصل میں کلال ہی کی نسل تھا۔ اس احتیاط پر بھی شور شرابے ہوتے تھے۔ سر پھوٹتے تھے۔ دارالقضا سے سخت سزائیں۔ ملتی تھیں۔ مگر خاطر میں کون لاتا تھا۔ لطیفہ لشکر خان میر بخشی ایک دن شراب پی کر دربا میں آیا اور بد مستی کرنے لگا۔ اکبر بہت خفا ہوا۔ گھوڑے کی دم سے بند ھوایا۔ اور لشکر خاں کو لشکر میں تشہیر کیا۔ سب نشے ہرن ہو گئے۔ ان ہی لشکر خاں کو عسکر خاں خطاب ہوا۔ لوگوں نے استر خاں بنا دیا۔(واہ خچرخاں) لطیفہ ۔ ملا صاحب کے رونے کا مقام تو یہ ہے کہ 998ھ کے جشن میں دربار خاص تھا شراب کا دور چل رہا تھا۔ کہ میر عبدالحی صدر جہاں مفتی کل ممالک ہندوستان نے اپنے ولی شوق و ذوق سے جام طلب کر کے نوش جان فرمایا ۔ اکبر نے مسکرا کر خواجہ حافظ کا شعر پڑھا ؎ در عہد بادشاہ خطا بخش جرم پوش قاضی پیالہ کش شدو مفتی قرابہ نوش حضرت صدر جہاں کا حال دیکھو تتمے میں ۔ یہی بزرگوار ۔ حکیم ہمام کے ساتھ عبداللہ خاں ازبک کے دربار میں برسم سفارت بھیجے گئے۔ اور مراسلت میں جو فقرے ان کی شان میں نازل ہوئے تھے یہ ہیں۔ سیادت مآب ۔ نقابت نصاب میر صدر جہاں از جملہ اعاظم سادات کبار داجلہ /تقیاے ایں دیار ۔ زمانہ کی تاثیر کو دیکھو کہ اہل عالم کا کیا حال کر دیا تھا۔ اور اکبر کی اس میں کیا خطا تھی۔ سبحان اللہ کسی استاد نے کہا ہے اور کیا خواب کہاہے ؎ عشقت جزز عالم بیہوشی آورد اہل صلاح رابہ قدح نوشی آورد یاد تو اے نگار چہ معجون حکمت است کز ہر چہ خواندہ ایم فراموشی آورد بازاروں کے برآمدوں میں رنڈیاں اتنی نظر آنے لگیں کہ آسمان پر اتنے تارے بھی نہ ہونگے۔ خصوصا دارالخلافہ میں۔ ان سب کو شہر کے باہر ایک جگہ آباد کیا ۔ اور شیطان پورہ نام رکھا۔ اس کے لئے بھی آئین تھے۔ داروغہ ۔ منشی ۔ چوکیدار موجود ۔ جو کسی رنڈی کے پاس آکر رہتا۔ یا گھر لے جاتا نام کتاب میں لکھوا جاتا۔ بے اس کے کچھ نہ ہو سکتا تھا۔ رنڈیاں نئی نوچی کو نہ بٹھا سکتی تھیں ہاں کوئی امیر چاہے ۔ تو حضور میں اطلاع ہو پھر لے جائے۔ پھر بھی اندر ہی اندر کام ہو جاتے تھے۔ پتہ لگ جاتا تو اس رنڈی کو خود الگ بلاتے اور پوچھتے کہ یہ کام کس کا رگزار کا تھا۔ وہ بتا بھی دیتی تھیں معلوم ہوتا تھا تو اس امیر کو خلوت میں بلا کر خوب لعنت ملامت کرتے۔ بلکہ بعضوں کوقید بھی کر دیا آپس میں بھی بڑے شور و شر ہوتے تھے۔ سر پھوٹتے تھے۔ ہاتھ پاؤں ٹوٹتے تھے۔ مگر مانتا کون تھا۔ ایک دفعہ یہاں بیربرجی کی بھی چوری پکڑی گئی۔ جاگیر پر بھاگ گئے۔ داڑھی جو مسلمانوں میں نور الہٰی کہلاتی ہے۔ بڑی خوار ہوئی۔ سبزہ رخسار کی جڑپتال سے ڈھونڈ کر نکالی۔ جہاں سے اسے پانی پہنچتا ہے۔ لطیفہ ۔ علما میں ایک مشائخ تھے۔ اور خاص حضرت شیخ مان پانی پتی کے بھتیجے تھے۔ اپنے عم بزرگوار کیکتب خانہ میں سے ایک کرم خور دہ کتاب لے کر تشریف لائے۔ اس میں سے حدیث دکھائی کہ آنحضرت کی خدمت میں ایک صحابی تشریف لائے۔بیٹا ساتھ تھا اس کی ڈاڑھی منڈی ہوئی تھی۔ آنحضرت نے دیکھ کر فرمایا کہ اہل بہشت کی ایسی ہی صورت ہو گی۔ بعض جعلساز فقیہوں نے کتب فقہ میں سے ۔ یہ فقرہ جواز کی سند میں نکالا کما یفعلہ بعض القضات عصات کو ظالموں نے قضات پڑھ دکھایا۔ غرض تمام دربار منڈ کر صفاچٹ ہو گیا۔ اہل ایران و توران جن کی ڈاڑھیوں کی خوبصورتی تصویر کا عالم دکھاتی تھی۔ ان کے رخسارے میدان لق ودق نظر آنے لگے۔ ملا صاحب پھر چوٹ فرماتے ہیں۔ ہندؤں کے مذہب کا ایک مشہور مسئلہ ہے کہ 10جانور ہیں جن کی صورت میں خدانے ظہور کیا ہے۔ ایک ان میں سے شور ہے۔ بادشاہ نے بھی اس کا خیال کیا اور زیر جھرو کہ اور بعض مقامات میں جدھر یہ لوگ اشنان کو آتے تھے۔ سور پلوائے۔ کتے کے فضائل میں یہ دلیل پیش ہوئی کہ اس میں 10 خصلتیں ایسی ہیں کہ ایک بھی انسان میں ہو تو دلی ہو جائے۔ بعض مقربان درگاہ نے کہ خوش طبعی اور ہمہ دانی اور ملک الشعرائی سے ضرب المثل ہیں۔ چند کتے پالے۔ گوددنمیں بٹھاتے تھے۔ دستر خوان پر ساتھ کھلاتے تھے۔ منہ چومتے تھے اور بعض مردود شاعر ہندی و عراقی فخر سے ان کی زبانیں منہ میں لیتے تھے۔ سند کے لئے ایک صوفی شاعر کا یہ قول تھا ؎ بسکہ درچشم ودلم ہر لخط اے یارم توئی ہر کہ آید در نظر از دور پند ارم توئی شیخ فیضی کے کتوں پر ملا صاحب ہمیشہ تاک باندھے بیٹھے ہیں ۔ جہاں موقع پاتے ہیں ایک پتھر کھینچ مارتے ہیں۔ دیکھو یہاں بھی منہ مارا لیکن حقیقت یہ ہے کہ شکار کے ذوق شوق میں اکثر شاہان و امرا کتوں کا بھی شوق رکھتے تھے اور رکھتے ہیں۔۔ ترکستان اور خراسان میں رسم عام ہے۔ اکبر نے بھی کتے رکھے تھے اور رکھتے ہیں ۔ ترکستان اور خراسان میں رسم عام ہے اکبر نے بھی کتے رکھے تھے۔ قاعدہ ہے کہ جس بات کا بادشاہ کو شوق ہوتاہے۔ امرائے قربت پسند کو اس کا شوق واجب ہوتا ہے۔ اس لئے فیضی نے بھی رکھے ہونگے۔ ملا صاحب چاہتے ہیں ثابت کریں کہ وہ فرض مذہبی سمجھ کر کتے پالتا تھا۔ لطیفہ ۔ مطلع مذکورہ بالا لکھ کر مجھے یاد آیا کہ شاعر نے جب یہ مطلع جلسہ احباب میں پڑھا ۔ اورکہا ع ہر کہ آید در نظر از دور پندارم توئی۔ تو ایک شوخ طبع شخص نے کہا ۔ آنجا ۔ اگر سگ نبطر آید ؟ اس نے کہا۔ پندارم توئی۔ جب زبانیں کھل جاتی ہیں اور خیالات کے میدان وسیع ہو اتے ہیں تو ایک عقلی بات میں ہزار بے عقلی کی باتیں نکلنے لگتی ہیں ۔ چنانچہ ملا صاحب فرماتے ہیں اور بجا فرماتے ہیں۔ دربار میں تقریریں ہوئی تھیں کہ غسل جنابت کی کیا ضرورت ہے۔ اس سے تو انسان اشرف المخلوقات کی بنیاد قائم ہوتی ہے۔ جس سے اہل علم صاحب فضل ۔ پاک خیال نیک بنیاد لوگ پیدا ہوتے ہیں اس سے آدمی ناپاک ہو جائے ؟ اس کے کیا معنی بلکہ حق پوچھو تو غسل کر کے اس کی بنیاد رکھنی چاہئے۔ اور یہ کیا بات ہے کہ اتنی سی چیز کے نکلنے میں غسل واجب ہو جائے۔ اس سے دس بیس حصہ زیادہ کثافتیں دن بھر میں کئی کئی دفعہ نکل جائیں۔ اس پر کچھ بھی نہ ہو۔ کوئی کہتا تھا کہ شیر اور سور کا گوشت کھانا چاہئے کہ بہادر جانور ہیں۔ کھانے والے کی طبیعت میں ضرور بہادری پیدا کرتا ہو گا۔ کوئی کہتا تھا کہ چچا اور ماموں کی اولاد کے ساتھ قرابت نہ کرنی چاہئے کہ رغبت کم ہوتی ہے اس واسطے اولاد ضعیف ہو گی۔ آزاد ۔ دانایان فرنگ نے بھی لکھا ہے۔ انسان کی طبیعت میں داخل ہے کہ جس خون سے خود پیدا ہوا ہے اسی خون کی نسل پردہ شوق کا جوش اور رغبت کا دلولہ نہیں ہوتا جو غیر خون ہوتا ہے ۔ دیکھو خچر میں گھوڑی سے زیادہ زور ہوتا ہے۔ کوئی کہتا تھا کہ جب تک بیٹا 16 برس کا اور بیٹی 14 برس کی نہ ہو جائے۔ تب تک نکاح جائز نہیں ۔ اولاد کمزور ہو گی۔ شادی ابوالفضل آئین اکبری اکبری میں جو لکھتے ہیں اس کا خلاصہ یہ ہے ۔ کتخدائی میں نسل انسان کی بقا اور بزم دنیا کی زیبانش اور ڈانو اڈول دلوں کی بہرہ داری اور گھر کی آبادی ہے۔ اور بادشاہ نیک روز گار چھوٹے بڑوں کا پاسبان ہے اس لئے شادی کے معاملے میں نسبت معنوی اور ذات کی ہمسری کو نہیں چھوڑتا۔ چھوٹی عمر دولہا دلہن اسے پسند نہیں۔ عمدہ فائدہ نہیں۔ نقصان بڑا ہے۔ اکثر مزاج مختلف ہوتے ہیں ۔ گھر نہیں بستے ۔ ہندوستان شرمستان ہے۔ بیاہی ہوئی عورت دوسرا خاوند کر نہیں سکتی تو کام مشکل ہوتا ہے۔ دولہا دلہن اور دونوں کے ماں باپ کی خوشی لازم سمجھتا ہے قریب کے رشتہ داروں میں مناسب سمجھتا ہے۔ اور جب دلیل میں ابتدائے عالم کا حال بیان کرتا ہے کہ دیکھو جڑواں لڑکی اس کے ساتھ کے لڑکے سے نہ بیاہی جاتی تھی تو معترض لوگوں کی زبانیں بند ہو جاتی ہیں مہر کی زیادتی کو پسند نہیں کرتا۔ کہ جھوٹ اقرار کرنا پڑتا ہے۔ دتیا کون ہے۔ کہتا ہے کہ مہر کا بھانا پیوند کا توڑنا ہے۔ ایک جورو سے زیادہ پسند نہیں کرتا کہ طبیعت کی پریشانی اور گھر کی دیرانی ہوتی ہ۔ بڈھے کو جوان نہ کرنی چاہئے کہ بے حیائی سے دو آدمی بادیانت کم لالچ مقرر کئے تھے۔ ایک مردوں کی تحقیقات کرتا تھا۔ دوسرا عورتوں کی۔ توے بیگی کہلاتے تھے اور اکثر دونو خدمتیں ایک ہی کے سپرد ہوتی تھی۔ شکرانہ میں طرفین کو نذرانہ بھی دینا ہوتا تھا۔ پنجہزاری سے ہزاری تک 10اشرفی ترکش بند سے دہ باشی تک اور ہزاری سے پانصدی تک 4-4اشرفی اور منصبدار …… پانصدی سے دو صدی تک 2 اشرفی متوسط اشخاص ……یک روپیہ دو مصدی سے دو بیستی تک 1اشرفی عام ……… یک دام اب یہ عالم ہو گیا کہ امراے دربار تو بالائے طاق رہے۔ وہی صدر جہاں مفتی الممالک تھے۔ جنہوں نے جشن نور وزی میں بادہ گلرنگ کا جام لیکر پیا۔ حریر اطلس کے پکڑے پہننے لگے۔ ملا صاحب نے ایک دن ان کا لباس دیکھ کر پوچھا کہ کوئی روایت نظر سے گزری ہو گی ؟ فرمایا ہاں جس شہر میں رواج ہو جائے۔ جائز ہے میں نے کہا شائد اس روایت پر بنیاد ہو گی کہ حکم سلطان سے عدول مکر وہ ہے ۔ فرمایا اسکے علاوہ بھی ملا مبارک ایک عالم تھے۔ ان کا بیٹا شیخ ابوالفضل کا شاگرد تھا۔ اس نے بڑے تمسخر کے ساتھ ایک رسالہ لکھ کر پیش کیا کہ نماز روزہ حج وغیرہ عبادتیں سب بے حاصل ۔ ذرا انصاف کرو۔ جب عالموں کا یہ حال ہو تو بے علم بادشاہ کیا کرتے۔ مریم مکانی بادشاہ کی والدہ مر گئیں۔ امراے دربار وغیرہ 15 ہزار آدمیوں نے بادشاہ کے ساتھ بھدرہ کیا۔ انا یعنی خان اعظم مرزا عزیز کو کلتاش خاں کی ماں مر گئی۔ اس کا بڑا ادب تھا اور نہایت خاطر کرتے تھے۔ خود اور خان اعظم نے بھدرہ کیا۔ خبر پہنچی کہ لوگ بھی بھدرہ کروا رہے ہیں۔ کہلا بھیجا کہ اوروں کو کیا ضرور ہے۔ اتنی دیر میں بھی 4 سو سر اور منہ صفاچٹ ہو گئے۔ اصل یہہے کہ لوگوں کو یہ باتیں ایک کھیل تھیں۔ اور ہزاروں مسخراپن ہیں۔ یہ بھی ایک دل لگی سہی۔ اس میں دین و مذہب کا کیا علاقہ ۔ ملا صاحب خواجہ مخواہ خفا ہوتے ہیں۔ آپ نے جب بین بجانی سیکھی تھی تو نماز کی طرح واجب سمجھ کر سیکھی تھی ؟ ہر گز نہیں ایک دل کا بہلا وا تھا۔ ان لوگوں نے ایسی باتوں کو دربار کا مشغلہ سمجھ لیا تھا۔ ابکر کو اس کا لحاظ بھی ضرور تھا کہ یہ ملک ہندوستان ہے۔ ہندؤں کو یہ خیال نہ ہو کہ ہم پر ایک متعصب مسلمان حکومت کر رہا ہے۔ اس لئے سلطنت کے آئین اور مقدمات کے احکام میں بلکہ روز مرہ کاروبار میں اس مصلحت کی رعایت ضرور ہوتی ہو گی۔ اور ایسا ہی چاہئے تھا۔ خوشامدیوں سے کوئی زمانہ خالی نہیں۔ اسے بھی خوشامدیں کر کے بڑھاتے چڑھاتے ہونگے۔ اپنی بڑائی یاد انانی کی تعریف یا اس کا لحاظ کسے بھلا معلوم نہیں ہوتا۔ وہ بھی ان باتوں سے خوش ہوتا تھا۔ اور اعتدال سے بڑھ بھی جاتا تھا۔ اور وہ تو بے علم بادشاہ تھا علما و مشائخ کے حالات سن چکے ۔ ملا صاحب لکھتے ہیں ۔ تحریروں یں سنہ ہجری موقوف ہوگیا۔ سنہ الہٰی اکبر شاہی تحریر ہونے لگا۔ آفتاب کے حساب سے برس میں 14 عیدیں ہونے لگیں۔ نوروز کی دھوم دھام عید رمضان و عید قربان سے بھی زیادہ ہونے لگی اس کی تفصیل مکمل تو ضیح سن چکے مگر لطیفہ یہ ہے ملا صاحب لکھتے ہیں کہ بادشاہ حروف مختصہ عربی مثلا ث ح ع ص ض ط وغیرہ جن میں امتیاز ضرور ہوتا ہے ان سے بھی گھبراتے تھے۔ آزاد ۔ بزرگان عالم نما کو اکثر دیکھا ہو گا کہ باتوں میں بھی ع اور ح کو خواہ مخواہ حلق بلکہ پیٹ کے اندر سے نکالتے تھے۔ خصوصاً جو ایک دفعہ حج بھی کرآئے ہیں۔ دربار میں ایسوں کی گفتگو پر اشارہ ضرور ہوتے ہونگے۔ ملا صاحب اس پر خفا ہو کر فرماتے ہیں اگر عبداللہ کو ابداللہ اور احدی کو اہدی کہتے تھے تو بادشاہ خوش ہوتے تھے اور منشیان دفتر الہ آباد کو بھی الہٰ باس لکھتے تھے۔ آغاز اسلام میں جبکہ چاروں طرف فتوحات دین کی روشنی پھیلتی چلی جاتی تھی۔ ایران پر بھی فوج اسلام آئی ہوئی تھی۔ فارس کا ملک تسخیر ہوتا جاتا تھا۔ ہزاروں برس کی پرانی سلطنت تباہ ہو رہی تھی۔ فردوسی نے اس حالت کو نہایت خوبصورتی سے ادا کیا ہے۔ چنانچہ خسرو کی ماں کی زبانی جو اشعار لکھے ہیں ۔ ان میں سے دو شعر ہیں ؎ زشیہ شتر خوردن دسوسمار عرب رابجائے رسیداست کار کہ تخت کیاں راکند آرزو تفوبر تو اے چرغ گرداں تفو ملا صاحب فرماتے ہیں ان شعروں کو پڑھو اکر خوش ہوتے ہیں۔ اور جو مسائل کہ اسلام میں عقاید قرار اپا چکے ہیں ۔ ان کی تحقیقاتیں اور اس پر ردو قدح ہوتی ہے۔ عقلی دلائل سے گفتگو ہوتی ہے۔ علمی مجلس ہوتی ہے۔ اور مصاحبوں میں سے 40 آدمی منتخب ہوتے ہیں۔ حکم ہے۔ کہ جو شخص چاہے۔ سوال کرے اور ہر علم میں گفتگو ہو۔ اگر کسی مسئلے پر مذہب کی رو سے سوال ہو ۔ تو کہتے کہ اسے ملاؤں سے پوچھو۔ ہم سے وہ پوچھو ۔ جو عقل و حکمت سے متعلق ہو۔ اگر کسی بزرگ کے کلام سے سند دیں۔ تو صاف نا مقبول کہ وہ کون تھا ؟ وہ تو فلاں فلاں موقع پر خود ایسا تھا۔ اور ایسا تھا۔ اس نے خود فلاں مقام پر یوں کہا۔ اور ایسا کیا ۔ ویسا کیا ۔ انہی باتوں کے جا بجا مدرسوں اور مسجدوں میں چرچے ہیں۔ 999ھ کے جشن میں عجب عجب آئین ایجاد ہوئے۔ خود ماہ آبان میں اتوار کو پیدا ہوئے تھے۔ حکم ہوا کہ اتوار کو تمام قلمرو ںمیں جانور ذبح نہ ہونے پائے۔ آبان کے تمام مہینے میں اور جشن نو روز کے 18 دن تک ذبح بند ۔ جو کرے۔ سزا پائے۔ جرمانہ بھرے گھر لٹ جائے۔ آپ خاص خاص دنوں میں گوشت کھانا چھوڑ دیا۔ یہاں تک کہ کھانے کے دن برس میں 6 مہینے بلکہ اس سے بھی کم رہ گئے۔ اور ارادہ ہوا کہ گوشت کھانا ہی چھوڑ دیں۔ آفتاب کی عبادت کے وقت دن رات میں 4 تھے۔ صبح و شام ۔ دوپہر ۔ آدھی رات ۔ دوپہر کو اس کی طرف منہ کرتے تھے۔ اور نہایت رجوع قلب کے ساتھ ایک ہزار ایک نام کا وظیفہ پڑھتے تھے۔ دونو کان پکڑ کر چک پھیری لیتے تھے۔ کانوں پر مکمے مارتے جاتے تھے۔ اور کچھ حرکتیں اور بھی ایسی ہی کرتے تھے۔ تلک بھی لگاتے تھے۔ حکم ہوا کہ طلوع اور آدھی رات کو نقارہ بجا کرے۔ چند روزبعد حکم ہوا۔ کہ ایک عورت سے زیادہ نکاح نہ کرو۔ ہاں ۔ جو رو بانج ہو تو مضائقہ نہیں۔ جو عورت مایوس ہو جائے ۔ نکاح نہ کرے۔ بیوہ نکاح چاہے تو کوئی نہ روکے ۔ ہندو عورتیں لڑکپن میں بیوہ جاتی ہیں۔ وہ اور جس عورت نے مرد سے کچھ کامیابی نہ پائی۔ اور بیوہ ہو گئی ہو۔ اور بیوہ ہو گئی ہو ۔ وہ ستی نہ ہو۔ ہندو اس پر اس نے چنانچہ گفتگوئیں ہوئیں۔ ان سے کہا کہ بہت خوب اگر یہ ہے تو رنڈوے مرد بھی ستی ہوں۔ ضدی لوگ سوچ میں گئے۔ آخر ان سے کہا کہ خیر اگر ایسی ہی ضد پر قائم ہو تو ستی نہ ہو۔ مگر اتنا ضرور ہو کہ رنڈو اجورو نہ کرے اس کے اقرار نامے لکھ دو ۔ ہندؤں کے تہواروں کے لئے بھی حکم ہوا اور فرمان جاری ہوے شروع سال بکر ما جیت میں بھی تبدیلی چا ہی تھی۔ مگر نہ چلی۔ پواج داراذل کو علم نہ پڑھائیں۔ کہ سخت خرابیاں کرتے ہیں۔ ہندؤں کے مقدمے فیصل کرنے کے لئے برہمن مقرر ہوں۔ ان کے معاملے قاضی مفتیوں کے ہاتھ میں نہ پڑیں۔ قسم کو دیکھا۔ کہ گاجر مولی کی طرح لوگ کھائے جاتے ہیں۔ اس لئے حکم دیا کہ لوہا گرم کر کے رکھو۔ کھو لتے تیل میں ہاتھ ڈلواؤ۔ جل جائے تو جھوٹا ۔ یا وہ فوطہ مارے دوسرا آدمی تیر پھینکے۔ اس عرصے میں سر نکال دے تو جھوٹا ۔ مگر ایک دو برس بعد ستی کا آئین نہایت شدت سے جاری ہوا۔ اور حکم ہوا ۔ کہ اگر عورت خود ستی نہ ہو۔ تو پکڑ کر نہ جلا دیں۔ مسلمانوں کو تاکید ہوئی ۔ کہ بارہ برس تک ختنہ نہ کرو ۔ پھر لڑکے کو اختیار ہے۔ چاہے کرے۔ چاہے نہ کرے۔ جو قسائی کے ساتھ کھانا کھائے اس کا ہاتھ کاٹ ڈالو ۔ اس کے گھر والوں میں کوئی کھائے تو انگلی کترلو۔ اس سال میں شہر کے باہر دو عالیشان محل بنوائے۔ خیر پورہ ۔ دھرم پورہ۔ ایک میں فقرائے اسلام کے لئے کھانا پکتا تھا۔ ایک میں ہنود کے لئے شیخ ابوالفضل کے آدمیوں کا اہتمام تھا مگر جوگی غول کے غول آنے لگے۔ ان کے لئے ایک اور سر ابنی۔ اس کا نام جوی پورہ رکھا۔ رات کو چند خدمتگاروں کے ساتھ جاتے۔ خلوت میں باتیں کرتے تھے۔ اور ان کے عقائد مذہب ۔ جوگ کے اسرار و حقائق ۔ اور عبادت و اشتغال کے طریقے ۔ حرکات ۔ سکنات ۔ بیٹھنا ۔ اٹھنا ۔ سونا ۔ جاگنا ۔ کایاپلٹ وغیرہ کے کرتب ان سے حاصل کئے بلکہ کیمیا گری بھی سیکھی۔ اور سونا لوگوں کو دکھایا۔ شوراتری کی رات کو (جو گیوں کا بڑا میلہ ہوتا ہے) ان کے گرو اور مہنتوں کے ساتھ پرشاد کھائے۔ انہوں نے کہا۔ کہ اب آپ کی عمر معمولی عمر سے سہ چند چہار چند ہو گئی ہے۔ تماشایہ کہ حکمتیاں دربار نے بھی اس کی تائید کی اور کہا کہ دور قمر ہو چکا اس کے احکام بھی ہو چکے۔ اب دور زحل شروع ہوا۔ اس کا عمل اور اسکے احکام جاری ہونگے۔ عمریں بھی بڑھ جائیں گی۔ اتنی بات تو کتابوں سے بھی ثابت ہے کہ اگلے وقتوں میں سیکڑوں سے لے کر ہزار ہزار برس سے زیادہ جیتے تھے۔ اور ہندؤں کی کتابوں میں تو آدمیوں کی عمر 10 ۔ 10 ہزار برس کی لکھی ہے۔ اب بیھ نتبت کے پہاڑوں میں خطائیوں کے عابد لامہ ہیں۔ ان کی دو دو سو برس بلکہ اس سے بھی زیادہ عمر ہے۔ انہی کے خیال سے کھانے پینے کے باب میں اصلاحیں اور گوشت کے کھانے میں کمی کر دی۔ عورت کے پاس جانا چھوڑ دیا ۔ بلکہ جو کچھ ہوا اس پر بھی تاسف تھا ۔ تالوپر سے بال منڈوا ڈالے۔ ادھر ادھر رہنے دیئے۔ خیال یہ تھا کہ اہل صفا کی روح کھوپری کے رستے نکلتی ہے یہی وہم و خیال کی آمد کا رستہ ہے۔ اس وقت ایسی آواز آتی ہے۔ جیسے بجلی کڑکی اور یہ ہو تو جانو کہ مرنے والا بڑا نیک تھا۔ اور نیک انجام ہوا۔ اور اب اس کی روح کسی بادشاہ عالمگیر جہاں تسخیر کے قالب میں جائیگی۔ (جسے سنسکرت میں چکروتی راجہ کہتے ہیں) اپنے طریق کا نام توحید الہی رکھا۔ مریدان خاص جوگیوں کی اصطلاح کے بموجب چیلے کہلاتے تھے۔ پواج ۔ اراذل ۔ مکار ۔ رکابی مذہب جو قلعہ معلے میں قدم رکھنے کے قابل نہ تھے۔ روز صبح کو آفتاب پرستی کے وقت زیر جھرو کہ جمع ہوتے تھے۔ جب تک درشن نہ کر لیں۔ مسواک ۔ کھانا ۔ پینا ان پر حرام تھا۔ رات کو ہر محتاج ۔ مسکین ۔ ہندو ۔ مسلمان ۔ رنگ رنگ کے آدمی ۔ ہر مرد عورت ۔ اچھے ۔اپاہج سب کو اجازت تھی۔ عجب ہنگامہ ہوتا تھا۔ جب سورج کے نام جپ چکتے تھے۔ پروہ سے نکل آتے تھے۔ یہ لوگ دیکھتے ہی سجدہ میں جھک جاتے تھے۔ اس میں بارہ بارہ آدمی کی ایک ایک ٹولی باندھی تھی۔ (دیکھو اس میں بھی آئین و قانون قائم ہے) کہ جماعت جماعت مرید ہوتی تھی۔ شجرہ کی جگہ اپنی تصویردے دیتے تھے۔ کہ اس کاپ اس رکھنا اور زیر زیارت رکھنا باعث برکت و ترقی اقبال ہے۔ ایک زریں اور مرصع غلاف میں رکھتے تھے۔ اور اس سے سر کوتا جدار کرتے تھے۔ سلطان خواجہ امین میر حاج مریدان خاص الخاص میں سے تھا۔ ملا احمد ٹٹوی نے سلطان 991الخوارج اس کے مرنے کی تاریخ کہی تھی۔ مگر ایک کی کسر رہی۔ خواجہ کی قبر بھی نئے ایجاد سے تصنیف ہوئی۔ چہرے کے سامنے ایک جالی رکھی تھی۔ کہآفتاب گناہوں سے پاک کرنے والا ہے۔ روز صبح کو اس کی شعاع منہ پر پڑے۔ ہونٹوں کو آگ بھی دکھائی تھی۔ حکم تھا کہ قبر میں مریدوں کے سر مشرق کو پاؤں مغرب کو رہیں۔ خود بھی سونے میں اس کی پابندی کرتے تھے۔ برہمنوں نے حضور کے لئے بھی 101نام تراشے تھے۔ کہتے تھے کہ مایا کی لیلا ہے۔ بش ۔ کشن ۔ رامچند رجی وغیرہ اوتار گزرے ہیں۔ اب اس روپ میں پرکاش کیا ہے۔ اشلوک بنا بنا کر پڑھتے تھے۔ پرانے پرانے کاغذوں پر لکھے دکھاتے تھے۔ کہ پراتم پنڈت لکھ کر رکھ گئے ہیں۔ ’’ایک چکروتی راجہ اس دیس میں ہو گا۔ براہمنوں کا آور مان ۔ گو کی رکھیا کریگا۔ دنیا کو دنیاؤ سے بسائیگا۔ 1 ؎ ملا صاحب نے چیلوں کے آئین کو یہ لباس پہنایا ہے۔ ابوالفضل نے 991ھ کی تجویزوں میں لکھا ہے ۔ کہ اس سنہ میں لونڈی علاموں کو آزادی کا حکم ہوا۔ کیونکہ خدا کے بندوں پر انسان کی بندگی کا داغ سخت بے ادبی ہے۔ ہاں بادشاہی غلام جو حضور ی منظور کریں۔ وہ چیلے کہلائیں 985ھ تک 12 ہزار یکہ جوان تھے۔ (باڈی گارڈ) چند روز کے بعد ادری انکا خطاب ہوا۔ پھر یہ لوگ چیلے ہو گئے۔ آزاد ۔ ایسے آقا کی غلامی جان دیکر بھی ہاتھ آئے۔ تو سستی ہے۔ جاتا کون تھا۔ آزاد ہو کر بھی چیلے کہلاتے تھے۔ عیش کرتے تھے۔ اور بہاریں اڑاتے تھے۔ جانیں دے کر خدمتیں بچا لاتے تھے۔۔ دلی میں جو چیلوں کا کوچہ مشہو ر ہے۔ وہاں کی زمانہ میں سلاحین چغتائیہ کے اسی نسل کے خانہ زاد رہتے تھے۔ مکندبرہم چاری اکبر کے سامنے ایک پراچین پترا پیش ہوا کہ الہٰ آباس میں مکندر برہم چاری کے پاس تھا۔ جس نے اپنا سارا بدن کاٹ کاٹ کر ہون کر دیا تھا۔ وہ اپنے چیلوں کے لئے اشلوک لکھا کر رکھ گیا تھا۔ اس نے خلاصہ یہ تھا۔ کہ ہم عنقریب ایک بادشاہ بااقبال ہو کر آئینگے۔ اس وقت تم بھی حاضر ہونا ۔ بہت سے برہمن بھی اس پترے کے ساتھ حاضر ہوئے۔ اور عرض کی کہ جب سے آج تک مہاراج پر گیان دھیان جمائے بیٹھے ہیں۔ حساب کیا تو معلوم ہوا کہ اس کے مرنے اور اکبر کے پیدا ہونے میں صرف تین چار مہینے کا فرق تھا۔ بعض لوگوںنے یہ بھی کہا۔ کہ برہمن کا ملکش مسلمان کے گھر میں جنم لینا عقل میں نہیں آتا۔ عرض کی۔ کہ کرنے والے نے تدبیر میں کوتاہی نہیں کی۔ مگر تقدیر کو کیا کرے کہ اسے خبر نہ تھی۔ ہون کی جگہ کچھ ہڈیاں اور لوہا گڑا تھا۔جو کچھ پیش آیا اس کا اثر ہے۔ مسلمانوں نے کہا۔ کہ ایسا نہ ہو۔ ہم ہندوؤں سے پیچھے رہ جائیں۔ حاجی ابراہیم نے ایک گمنام۔ غیر مشہور ۔ کرم خودہ کتاب کبھی کی گڑی دبی نکالی۔ اس میں شیخ ابن عربی کے نام سے ایک عبارت منقول تھی۔ جس کا خلاصہ یہ ہے۔ کہ امام مہدی کی بہت ساری بیبیاں ہوں گی۔ اور ڈاڑھی منڈی ہو گی۔ اورچند ایسی ایسی باتیں اور تھیں۔ مطلب یہ کہ وہ آپ ہی ہیں۔ یکہ سپاہی تھے۔ انہی کا نام احدی رکھا تھا۔ اب مریدوں کا خطاب ہوا۔ اس امت کے باب میں خیال تھا۔ کہ یہ اصل احد ہی لوگ ہیں۔ کیونکہ عالم توحید میں پورا اخلاص رکھتے ہیں۔ کوئی وقت آن پڑیگا۔ تو دریا سے آب اور طوفان آتش سے بھی منہ نہ پھیرینگے۔ ملا صاحب جو چاہیں سو کہیں۔ میرے نزیک نیک نیت بادشاہ کا کچھ قصور نہیں۔ جب اہل دین خود اپنے دین و ایمان کو لا کر سامنے نثار کر یں تو فرمایئے وہ کیا کرے ؟ چنانچہ ملا شیری پنجاب میں صدالصدور تھے۔ وہی ملا شیری جنہوں نے بڑے جوش ایمان خروش یقین کے ساتھ بے دینی کی شکایت میں قطعہ کہا تھا۔ اب انہوچں نے آفتاب کی تعریف میں ایک ہزار ایک قطعہ کہہ کر ہزار شعاع نام رکھا۔ اس سے بڑھ کر سنئے۔ لطیفہ حضرت میر صدر جہاں کی پیاس بادہ گلرنگ سے نہ بجھی۔ چنانچہ 1004ھ میں مع دو فرزند پر خوردار مریدان خاص میں داخل ہوئے۔ ہاتھ چومے ۔ قدم لئے کرامات کی نعمت لی۔ اور خاتمہ تقریر پر عرض کی۔ ریش مراچہ حکم مے شوو۔ فرمودند ۔ باشد (رہے۔ ہرج کیا ہے ؟ ) پھرب ھی آفرین ہے ۔ اس حق شناس بادشاہ کو گہ جب سجدہ زمیں بوس آئین دربار میں داخل ہو ا تو ان بزرگوار کو اس سے مستثنے کیا۔ وہ خود اپنے دل میں شرماتا ہو گا۔کہ مفتی شریعت میں ۔ مسند پیغمبر پر بیٹھے ہیں۔ ان کی مہر سے چار دانگ ہندوستان میں فتولے اری ہوتا ہے۔ تخت کے سامنے ان کا سر جھکوانا مناسب نہیں۔ اس پر ان کی یہ کراماتیں۔ واہ ویلا۔ واہ مصیبتا۔ کوئی مجھے بتاؤ کہ وہ امر کیا تھا۔ جو اکبر کو کرنا چاہئے تھا۔ اور اس نے نہ کیا۔ بے دین خود اپنے ونیوں کو دنیا پر قربان کئے دیتے تھے۔ اس بے چارے کا کیا گناہ۔ ایک فاضل اجل کو حکم دیا۔ کہ شاہنامے کو نثر میں لکھو۔ انہوں نے لکھنا شروع کیا۔ جہاں نام آجاتا ۔ آفتاب کو غرشانہ ، اور جلتہ عزمتہ لکھتے تھے۔ جیسے خدا کے لئے۔ حضرت شیخ کمال بیابانی اکبر کو اس بات کا بڑا خیال رہا کہ کوئی شخص صاحب کرامات نظر آئے۔ مگر ایک بھی نہ ملا۔ 997ھ میں چند شیطان اسی شہر لاہور میں ایک بڈھے شیطانکو لائے کہ حضرت شیخ کمال بیابانی ہیں۔ انہیں دریاے راوی پر بٹھا دیا۔ کرامات یہ کہ کنارہ پر کھڑے ہو کر باتیں کرتے ہیں۔ اور پل کی پل میں ہوا کہ طرح پانی پر سے گزر کر پار جا کھڑے ہوتے ہیں۔ دیکھنے والوں نے تصدیق کی کہ ہم نے آپ دیکھ لیا ہے۔ اور سن لیا۔ انہوں نے پار کھڑے ہو کر صاف آواز دی ہے۔ کہ میاں فلانے بابس اب تم گھر جاؤ۔ بادشاہ خود اسے لے کر دریا کے کنارے گئے۔ اور چپکے سے یہ بھی کہا۔ کہ ہم ایسی چیزوں کے طلبگار ہیں اگر کوئی کرشمہ ہمیں دکھاؤ۔ تو مال مملکت جو کچھ ہے سب تمہارا بلکہ ہم بھی تمہارے ۔ وہ چپ دم بخود ۔ جواب کیا دے؟ کچھ ہو تو کہے۔ تب بادشاہ نے کہا کہ اچھا اس کے ہاتھ پاؤں باندھ کر قلعہ کے برج پر سے۔ دربا میں ڈال دو۔ اگر کچھ ہے تو صحیح سلامت نکل آئے گا۔ نہیں تو جائے جہنم کو یہ سن کر ڈر گیا اور پیٹ کی طرف اشارہ کر کے کہا۔ کہ یہ سب اس دوزخ کے لئے ہے۔ رموزتاریخ کے تاڑے والے تاڑ گئے ہوں گے کہ اس وقت دریائے راوی کی لہریں ثمن برج کے پاؤں میں لوٹتی تھیں۔ جوآج قلعے سے دو میل پر ے ہٹ گیا ہے۔ بات یہ تھی کہ وہ شخص لاہوری ہی تھا۔ اس کا یاک بیٹا ڈاڑھی منڈا بھی ساتھ تھا۔ باپ بیٹوں کی آواز بہت ملتی تھی۔ جس سے باپ کرامات دکھانے کا وعدہ کرتا ۔ بیٹا بھی نام سن لیتا۔ اور پل یا کشتی پر چڑھ کر پار چلاجاتا۔ جب موقع وقت ہوتا تو باپ یہاں کنارے پر گفتگو کرتا۔ ادھر ادھر باتیں کرتا پھرتا۔ بیٹا سامنے سے دیکھتا رہتا۔ یہ لوگوں کو جل دے کر کنارے سے نیچے اترتا کہ وضو کر کے عمل پڑھتا ہوں۔ وہیں ادھر ادھر کڑاڑوں میں چھپ جاتا۔ بیٹا بدذات چند لمحہ بعد ادھر سے آواز دیتا۔ میاں فلانے جاؤ گھر کو ۔ ع آخر ش گرگ زادہ گرگ شود یہ حال معلوم ہوا۔ تو بادشا بڑے خفا ہوئے۔ بھکر بھیج دیا۔ اس نے وہاں بھی جال مارا ۔ کہا کہ میں ابدال ہوں۔ جمعہ کی رات لوگوں کو دکھا دیا۔ سر الگ ہاتھ پاؤں الگ۔ خان خاناں ان دنوں مہم بھکر پر تھے۔ دولت خاں ان کا سپہ سالار (وکیل مطلق۔ اتالیق جو کہو سو بجا) اس کا معتقد ہو گیا۔ بھلا وہ بھی افغان وحشی تھا۔ خود خان خاناں نے اس دانائی و فرزانگی زیر کی و فیلسوفی کے ساتھ غوطہ کھایا۔ اس غول بیابانی نے کہا۔ حضرت خضر سے آپ کی ملاقات کروا دیتا ہوں۔ دریاے اٹک کے کنارے پر ڈیرے پڑے تھے۔ خان خاناں خود آکر کھڑے ہوئے۔ مصاحب اور رفقا ساتھ۔ اس دغا باز نے غوطہ مار کر سر نکالا۔ اور کہا کہ خضر علیہ السلام آپ کو دعا فرماتے تھے۔ خان خاناں کے ہاتھ میں ایک سونے کی گیند تھی۔ کہا کہ ذرا گیند دیکھنے کو مانگتے ہیں۔ انہوں نے دے دی ۔ اس نے وہ گیند پانی میں ڈال کر ایک اور غوطہ مارا ۔ غرض اول بدل کر پیتل کی گیند ہاتھ میں دے دی۔ باتوں باتوں اور ہاتھوں ہاتھوں میں سونے کی گیند اڑا لے گیا۔ اکبر پر حالت طاری ہو بادشاہ نیک نیت کوایک دن عجب واقعہ پیش آیا ۔ وہ پاک پٹن سے زیارت کرتا ہو نند نہ کے علاقہ میں پہنچااور دامن کوہ کے جانور گھیر کر شکار کھیلنے لگا۔ چار دن کے عرصہ میں بے حساب شکار مار کر گرا دیئے۔ حلقہ سمٹتے سمٹتے ملا چاہتا تھا۔ دفعتہ بادشاہ کا دل ایسا جوش و خروش میں آیا۔ کہ بیان میں نہیں آسکتا ۔ عجب جذبے کا عالم ہوا۔ کسی کو معلوم نہ ہوا۔ کہ کیا دکھائی دیا تھا۔ اسی وقت شکار بند کیا۔ جس درخت کے نیچے یہ حالت ہوئی تھی۔ وہاں زرکثیر فقیروں اور مسکینوں کو دیا۔ اس خلوۃ غیبی کی یاد گار میں ایک عمارت عالیشان بنوانے کا اور باغ لگانے کا حکم دیا۔ وہیں بیٹھ کر سر کے بال منڈوائے اور جو مصاحب بہت مقرب تھے۔ خو شامد کے استرے سے خود بخود منڈ گئے اس حالت نے عجیب و غریب رنگ سے شہروں میں شہرت پھیلائی بلکہ زندگی کے باب میں رنگ برنگ کی ہوائیاں اڑیں۔ بعضے مقاموں میں بد عملی بھی ہوگئی۔ خیال مذکور کا اعتقاد ایسا دل پر چھایا ۔ کہ اس دن سے شکار کھیلنا ہی چھوڑ دیا۔ جہاز رانی کا شوق ایشائی بادشاہوں کو دریائی ملک گیری کا خیال بالکل نہیں ہوا۔ اور راجگان ہند کا تو ذکر ہی نہ کرو۔ کہ پنڈتوں نے سفر دریا کو خلاف مذہب لکھ دیا تھا۔ اکبر کی طبیعت کو دیکھو۔ کہ باپ دادا کے ملک کو کبھی دریا سے تعلق نہ ہوا۔ خود ہند وستان ہی میں آکر آنکھیں کھولی تھیں۔ اور خشکی کے فساد دم نہ لینے دیتے تھے۔ باجوں اس کے دریا پر نظر لڑی ہوئی تھی۔ یہ شوق اسے دو سبب سے پیدا ہوا تھا۔ اول یہ کہ جو فاقلے سودا گروں یا حاجیوں کے جاتے اور آتے تھے۔ ان پر ڈچ اور پرتگالی جہاز دریا میں آن گرتے تھے۔ لوٹتے تھے مارتے تھے۔ آدمیوں کو پکڑ لے جاتے تھے۔ بالکل صلاحیت سے پیش آتے تو یہ تھا کہ اندازہ سے بہت زیادہ محصول وصول کرتے اور تکلیف بھی دیتے تھے۔ بادشاہی لشکر کا ہاتھ وہاں بالکل نہ پہنچ سکتا تھا۔ اس لئے اکبر دق ہوتا تھا۔ فیضی جب دکن کی سفارت پر گیا ہے اور وہاں سے رپورٹیں کر رہا ہے۔ ان میں روم اور ایران کی خبریں جہاز ی مسافروں کی زبانی اس خوبصورتی سے لکھتا ہے ۔ جس سے معلوم ہوتا ہے۔ کہ اکبر انہیں بڑے شوق سے سن رہا ہے۔ ان تحریروں میں بعض جگہ راہ دریا کی بے انتظامی کا بھی اثر پایا جاتا ہے۔ اس خیال سے وہ بندرگاہوں پر بڑے شوق سے قبضہ کر تا تھا۔ اس وقت ادھر کراچی کی جگہ ٹھٹہ اور دکن کی جانب میں بندرگووہ ۔ کمبائت اور سورت کا نام بہت کتابوں میں آتا ہے۔ دریا ے راوی بڑے زور شور سے بہہ رہا تھا۔ اکبر نے چاہا تھا کہ جہاز یہاں سے چھوڑے۔ اور ملتان کے نیچے سے نکال کر سکر سے ٹھٹے میں پہنچا دیے۔ چنانچہ اسی لاہور کے باہر ایک جہاز کا بچہ تیار ہوا۔ جس نے مستول کے رنگ میں 36 گز کا قد نکالا۔ جب بادبانوں کے کپڑے پہنا کر روانہ کیا۔ تو بعض مقاموں پر پانی کی کمی سے رک رک گیا۔ جب 1002ھ میں ایلچی ایرا ن کو رخصت کر کے خود ایلچی روانہ کیا۔ تو حکم دیا۔ کہ لاہور سے براہ دریا لاہری بندر میں جا اترو اور وہاں سے سوار ہو کر سرحد ایران میں داخل ہو۔ وہ زمانہ اور تھا ۔ ہوا اور تھی۔ پانی اور تھا۔ اس پر آئے دن کی لڑائیان اور فساد اور سب امیروں کے سینہ میں اکبر کا دل بھی نہ تھا۔ جو اپنے شوق سے اس کا م کو پورا کرتے۔ اور دریا کو ایسا بڑھاتے کہ جہاز رانی کے قابل ہو جاتا۔ اس لئے کام آگے نہ چلا۔ ملک موروثی کی یاد نہ بھولتی تھی ! اکبر کے درخت سلطنت نے ہندوستان میں جڑ پکڑی تھی۔ لیکن ملک موروثی یعنی سمر قند و بخارا کی ہوائیں۔ ہمیشہ آتی تھیں۔ اور اس کے دل کو سبزہ ترکی طرح لہراتی تھیں۔ یہ داغ اس کے بلکہ اس سے لیکر عالمگیر تک کے دل پر ہر وقت تازہ تھا۔ کہ بابر ہمارے دادا کو اذبک نے پانچ پشت کی سلطنت سے محروم کر کے نکالا۔ اور ہمارا گھر دشمن کے قبضہ میں ہے۔ لیکن عبداللہ خاں اذبک بھی بڑا بہادر ۔ صاحب عزم ۔ بااقبال بادشاہ تھا۔ ہٹانا تو درکنار اس کے حملہ سے کا بل اور بدخشان کے لالے پڑے رہتے تھے۔ دالئی کا شغر کے نام ایک مراسلہ اکبر کا دفتر ابوالفضل میں ہے۔ اسے تم پڑھو گے تو کہو گے کہ فی الحقیقت اکبر بادشاہ سلطنت کی شطرنج کا پورا شاطر تھا۔ ملک مذکور پر بھی اس کا خاندانی دعولیٰ تھا۔ مگر کجا کا شغر اور کجا ہندوستان پھر بھی جب کشمیر پر تسلط کر لیا توب زرگوں کا وطن یاد آیا۔ تم جانتے ہو کہ شطرنج باز جب حریف کے کسی مہرہ کو مارنا چاہتا ہے۔ یا حریف کے ایک مہرے کو اپنے کسی مہرے پر آتا دیکھتا ہے تو اسی مہرے سے سینہ بسینہ لڑکر نہیں مار سکتا۔ اسے واجب ہے کہ دائیں بائیں ۔ دور نزدیک تک کہیں کہیں کے مہروں سے اپنے مہرے کو زور اور حریف پر ضرب پہنچائے۔ اکبر دیکھتا تھا کہ میں ازبک پر کابل کے سوا اور کہیں سے چوٹ نہیں کر سکتا۔ کشمیر کی طرف سے ایک رستہ بد خشان کا نکلا ہے۔ اور اس کا ملک ترکستا ن و تاتار کی طرف دور دور تک پھیل گیا ہے۔ اور پھیلا چلا جاتا ہے۔ وہ یہ بھی سمجھا شمشیر ازبک کی چمک پر کاشغر خطا ختن سہمی ہوئی انکھوں سے دیکھ رہا ہو گا۔ اور ازبک اسی فکر میں ہے کہ کب موقع پائے اور اسے بھی نگل جائے۔ اکبر نے اسی بنیاد پر والئی نے شغر سے قرابت قدیمی کا رشتہ ملا کر رستہ نکالا۔ خط مذکور میں اگرچہ کھول کر نہیں لکھا۔ مگر پوچھتا ہے۔ کہ حکومت خطا کا حال مدت سے معلوم نہیں۔ تم لکھو کہ وہاں کا حاکم کون ہے اس کی کس سے محالفت ہے۔ کس سے موافقت ہے۔ صاحب علم و فضل اور اہل دانش کون کون اشخاص ہیں۔ مسند ہدایت پر کون کون لوگ مشہور ہیں۔ وغیرہ وغیرہ۔ ہندوستان کے عجائب و نفائس سے جو کچھ تمہیں مرغوب ہو ۔ بے تکلیف لکھو۔ وغیرہ وغیرہ ۔ ہم اپنا معتبر فلاں شخص روانہ کرتے ہیں۔ اسے آگے کو چلتا کر دو۔ وغیرہ وغیرہ۔ مصالح مملکت جو قافلہ سال بسال حج کو جاتا تھا۔ اور اکبر اپنی طرف سے میر حاج مقرر کر کے ساتھ کرتا تھا۔ اس کے ہاتھ ہزاروں روپے مکہ معظمہ ۔ مدینہ منورہ اور مختلف روضوں اور درگاہوں کے مجاوروں کو بھیجتا تھا۔ کہ ہر جگہ تقسیم ہو جائیں۔ اور ان میں بھی خاص خاص اشخاص کے لئے روپے اور تحفے الگ ہوتے تھے۔ کہ خفیہ دیئے جاتے تھے۔ شرفائے مکہ میں سے خاص خاص لوگوں کو جو خفیہ روپے پہنچتے تھے۔ آخر کس غرض سے ؟ یہ سلطان روم کے گھر میں سرنگ لگتی تھی۔ افسوس اس وقت کے مورخوں نے خوشامد کے انبار باندھے ۔ مگر ان باتوں کی پرواہ بھی نہ کی۔ نہ اس وقت کے دفتر رہے۔ جن سے یہ نکتے کھلتے۔ نقد و جنس تو لاکھوں روپے جاتے تھے۔ ایک رقم جس کا شیخ عبدالنبی صدر سے یہاں آکر مطالبہ ہوا ے ہزار کی تھی۔ اور کھلم کھلا جو کچھ جاتا تھا۔ اس کا کیا ٹھکانا ہے۔ اکبر نے اولاد سعادتمند نہ پائی بااقبال بادشاہ کی اولاد پر نظر کرتا ہوں۔ تو افسوس آتا ہے۔ کہ بڑھاپے میں ان سے دکھ بھی پائے۔ اور داغ بھی اٹھائے۔ بلکہ اخیر عمر میں ایک بیٹا رہا اس کی طرف سے بھی دل آزردہ اور ناکام ہو گیا۔ خدا نے اسے تین بیٹے دیئے تھے۔ اگر صاحب توفیق ہوتے۔ تو دست و بازو دولت واقبال کے ہوتے۔ اس کی تمنا تھی کہ یہ نو نہال میری ہی ہمت اور میرے ہی خیالات کی ہوا میں سر سبزہ سر فراز ہوں۔ کوئی ملک مقبوضہ کو سنبھالے اور مفتوحہ کو بڑھائے۔ کوئی دکن کو صاف کرے۔ کوئی افغانستان کو پاک کر کے آگے بڑھے۔ اور اذبک کے ہاتھ سے باپ دادا کا ملک چھڑائے ۔ مگر وہ شرابی کبابی ایسی ہوس رانی اورعیش پرستی کے بندے ہوئے کہ کچھ بھی نہ ہوئے دو ہو جہازباغ جوانی کے نونہال لہلہاتے گئے۔ تیسرا جہانگیر رہا۔ سلطنت کے مورخ دولت کے نمک خوار تھے۔ ہزار طرح باتیں بنائیں۔ مگر بات یہی ہے۔ کہ اکبر جیسا باپ اس سے ناراض اور اس کے افعال سے بیزار ہو گیا۔ جہانگیر سب سے پہلے 17 ربیع الاول 977ھ کو پیدا ہوا۔ اور یہراجہ بھارا مل کچھوا ہہ کا نواسہ تھا۔ یعنی راجہ بھگوانداس کا بھانجہ ۔ مان سنگھ کی پھوپھی کا بیٹا۔ مراد 977ھ میں 10 محرم کو فتچور کے پہاڑوں میں پیدا ہوا تھا۔ اور اسی واسطے اکبر پیار سے اسے پہاڑی راجہ کہا کرتا تھا۔ مہم دکن پر سپہ سالار ہو کر گیا۔ شراب مدت سے گھلا رہی تھی۔ اور ایسی منہ لگی تھی۔ کہ چھٹ نہ سکتی تھی۔ وہاں جا کر اور بڑھ گئی۔ اور بیماری بھی حد سے زیادہ گزر گئی۔ آخر 1007ھ میں 30 برس کی عمر میں مرا۔ اور نامراد و ناشاد جواں مرگ دنیا سے گیا۔ تاریخ ہوئی۔ ع ازگلشن اقبال نہالے گم شد جہانگیر اپنی توزک میں لکھتا ہے ۔ سبزہ رنگ ۔ باریک اندام ۔ خوش قد ۔ بلند بالا تھا۔ تمکین ووقار چہرہ سے نمودار تھا۔ اور سخاوت و مرد انگی اطوار سے آشکار ۔ باپ نے اس کے شکرانہ ولادت سمیں بھی اجمیر کی درگاہ کے گرد طواف کیا۔ شہر کے گرد فصیل بنوائی۔ عمارات عالی اور شاہانہ محل بلند کر کے قلعہ مرتب کیا۔ اور امرا کو بھی حکم دیا۔ کہ اپنے اپنے حسب مراتب عمارتیں بنوائیں۔ تین برس میں طلسمات کا شہر ہو گیا۔ دانیال اسی سال اجمیر میں پیدا ہوا۔ اس کی ماں جب حاملہ تھی۔ تو برکت کے لئے اجمیر میں ایک نیک مرو صالح مجاور درگاہ کے گھر میں اسے جگہ دی تھی۔ مجاور مذکور کا نام شیخ دانیال تھا۔ پیدا ہو تو اس کی مناسبت سے اس کا بھی نام دانیال رکھا۔ یہ وہی ہو نہار تھا۔ جس سے خان خاناں کی بیٹی بیاہی تھی۔ مراد کے بعد اس مہم دکن پر بھیجا۔ خان خاناں کو بھی ساتھ کیا۔ پیچھے پیچھے آپ فوج لے کر گیا۔ کچھ ملک اس نے لیا ۔ کچھ آپ فتح کیا سب اس کا دیا خاندیس کا نام دان دیس رکھا۔ کہ دانیال کا دیس ہے۔ اور دارالخلافہ کو پھر آیا۔ وہ جان رہا۔ بھی شراب میں غرق ہوا۔ بد نصیب باپ کا خبریں پہنچیں۔ خان خاناں پر فرمان دوڑنے شروع ہوئے ۔ وہ کیا کرے۔ سمجھایا ۔ تاکید کی ۔ نوکروں کو تنبیہ کی ۔ کہ شراب کی بوند اندر نہ جانے پائے۔ اسے لت لگ گئی تی۔ نوکروں کی منت خو شامد کی۔ کہ خدا کے واسطے جس طرح ہو کہیں سے لاؤ ۔ اور کسی طرح پلاؤ ؎ اے ذوق اتنا دختر رز کو نہ منہ لگا چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی بما نہار جوان کو بندوق کے شکار کا بھی بہت شوق تھا۔ ایک بندوق بہت عمدہ اور نہایت بے خطا تھی۔ اسے ہمیشہ ساتھ رکھتا تھا۔ اس کا نام رکھا تھا یکہ و جنازہ ۔ یہ بیت آپ کہہ کر اس پر لکھوائی تھی ؎ از شوق شکار تو شودجاں تروتازہ برہر کہ خورد تیر تو یکہ و جنازہ جن نوکرو ں و مصاحبوں سے بے نکلف تھا۔ انہیں کمال منت و زاری سے کہا۔ ایک نادان خیر خواہ لالچ کا مارا اسی بندوق کی نالی میں شراب بھر کر لے گیا۔ اس میں میل اور دھوآں جما ہوا تھا۔ کچھ تو وہ چھٹا کچھ شراب نے لوہے کو کاٹا۔ خلاصہ یہ کہ پیتے ہی لوٹ پوٹ ہو کر موت کا شکار ہو گیا۔ یہ بھی خوبصورت اور سجیلا جوان تھا۔ اچھے ہاتھی اور اچھے گھوڑے کا عاشق تھا۔ ممکن نہ تھا ۔ کہ کسی امیر کے پاس سنے اور لے نہ لے۔ گانے کا شوقین تھا۔ کبھی کبھی آپ بھی ہندی دوہرے کہتا تھا۔ اور اچھے کہتا تھا۔ اس جو انمرگ نے 33 برس کی عمر 1013ھ میں باپ کے جگر پر داغ دیا۔ اور سلیم کی جہانگیری کے لئے پاک صاف میدان چھوڑا۔ دیکھو تزک جہانگیری۔ جہانگیر بھی بھی شراب خواری میں کسر نہیں کی۔ اپنی سینہ صافی سے آپ تزک کے 10 میں لکھتے ہیں۔ خورم (شاہجہان ) کی 24 برس کی عمر ہوئی اورکئی شادیاں ہوئیں۔ اب تک شراب سے لب آلودہ نہیں کئے تھے۔ میں نے کہا۔ کہ بابا شراب تو وہ شے ہے۔ کہ بادشاہوں اور شاہزادوں نے پی ہے۔ تو بچوں والا ہو گیا۔ اور اب تک شراب نہیں پی۔ آج تیر بلا کا کا جشن ہے۔ ہم تمہیں شراب پلاتے ہیں۔ اور جازت دیتے ہیں ۔ کہ روزہائے جشن اور ایام نوروز اور بڑی بڑی مجلسوں میں شراب پیا کرو۔ لیکن اعتدال کی رعایت رکھو۔ کیونکہ اس قدر پینی کو جس میں عقل جاتی رہے۔ داناؤں نے ناروا سمجھی ہے ۔ چاہئے کہ اس کے پینے سے فائدہ مد نظر ہو۔ نہ کہ نقصان ۔ بو علی جسے تمام فلاسفہ و اطبا میں بزرگ دنیا سمجھتے ہیں ۔ رباعی کہہ گیا ہے ۔ رباعی مے دشمن مست و دوست ہشیارا ست اندک تریاق و بیش زہر ماراست ازبسیارش مضر تے اندگ نیست در اندک اور منفعتے بسیاراست غرض بڑی تاکید سے پلائی۔ اپنا حال لکھتا ہے ۔ میں نے 15 برس کی عمر تک شراب نہیں پی تھی۔ بچپن میں والدہ اور اناؤں نے بچوں کی دوا کی طرح کبھی والد بزرگوار سے عرق منگا لیا۔ اور وہ بھی تولہ بھر گلاب یا پانی ملایا۔ کھانسی کی دوا کہہ کر کھے پلا دیا۔ ایک دفعہ والد بزرگوار کا شکر اٹک کے کنارے پر پڑا ہوا تھا۔ میں شکار کو سوار ہوا۔ بہت پھرتا رہا۔ شام کو آیا تو ھکن معلوم ہوئی۔ استاشاہ قلی تو پچی اپنے فن میں بڑا صاحب کمال تھا۔ میرے غم بزرگوار ۔ مرزا حکیم کے نوکروں میں سے تھا۔ اس نے کہا۔ ایک پیالی نوش جان فرمائیں۔ تو ساری ماندگی جاتی رہے۔ جوانی دوانی تھی۔ ایسی باتوں پر دل مائل تھا۔ محمود آبدار سے کہا۔ حکیم علی کے پاس جا ۔ سرور کا شربت لے آ۔ حکیم نے ڈیڑھ پیالہ بھیج دیا۔ زرد بسنتی شیریں۔ سفید شیشہ میں ۔ میں نے پیا۔ عجب کیفیت معلوم ہوئی۔ اس دن سے شراب شروع کی۔ اور روز بروز بڑھاتا رہا۔ یہاں تک نوبت پہنچی۔ کہ شراب انگوری کچھ معلوم ہی نہ ہوتی تھی۔ عرق شروع کیا۔ 9برس میں یہ عالم ہوا۔ کہ عرق دو آتشہ کے 14 پیالے دن کو 7رات کو پیتا تھا۔ کل 6 سیرا کبری ہوئی۔ ان دنوں ایک مرغ کے کباب روٹی کے ساتھ اور مولیاں خوراک تھی۔ کوئی منع نہ کر سکتا تھا۔ نوبت یہ ہوئی کہ حالت خمار میں رعشہ کے مارے پیالہ ہاتھ میں نہ لے سکتا تھا اور لوگ پلاتے تھے۔ حکیم ہمام حکیم ابوالفتح کا بھائی والد کے مقربان خاص میں تھا۔ اسے بلا کر حال کہا۔ اس نے کمال اخلاص اور نہایت دلسوزی سے بے حجابانہ کہا۔ صاحب عالم ! جس طرح آپ عرق نوش جاں فرماتے ہیں۔ نعوذ باللہ ۔ چھ مہینے میں یہ حال ہو جائیگا۔ کہ علاج پذیر نہ رہیگا۔ اس نے چونکہ خیر اندیشی سے عرض کیا تھا۔ اور جان بھی عزیز ہے۔ میں نے فلو نیا کی عادت ڈالی۔ شراب گھٹاتا تھا۔ فلونیا بڑھاتا جاتا تھا۔ حکم دیا۔ کہ عرق شراب انگوری میں ملا کر دیا کرو۔ چنانچہ دو حصے شراب انگوری۔ ایک حصہ عرق دینے لگے۔ کھٹاتے 7 برس میں 6 پیالے پر آگیا۔ اب 15برس سے اسی طرح ہوں۔ نہ کم ہوتی ہے۔ نہ زیارہ ۔ رات کو پیاکرتا ہوں۔ مگر جمعرات کا دن مبارک ہے کہ میرا روز جلوس ہے ۔ اور شب جمعہ متبرک رات ہے۔ اور اس کے آگے بھی متبرک دن آتا ہے۔ اس لئے نہیں پیتا۔ جمعہ کادن آخر ہوتا ہے۔ تو پیتا ہوں۔ جی نہیں چاہتا کہ وہ رات غفلت میں گزرے ۔ اور منعم حقیقی کے شکر سے محروم رہوں ۔ جمعرات اور اتوار کو گوشت نہیں کھاتا۔ اتوار والد بزرگوار کی پیدائش کا دن ہے۔ وہ بھی اس دن کا بڑا ادب کرتے تھے۔ چند روز سے فلونیا کی جگہ افیون کر دی ہے۔ اب عمر 46برس 4مہینے شمسی پر پہنچی۔ 47 برس 9مہینے قمری ہوئے۔ 8 رتی 5 گھڑ ی دن چڑھے ۔ 6 رتی پہر رات گئے کھاتا ہوں۔ آزاد ! دیکھتے ہو سادہ لوح مسلمان آج حکومت اسلام اور عمل اسلام کہہ کر فداہوئے جاتے ہیں۔ عقل حیران ہے کہ وہ کیا اسلام تھے۔ اور کیا آئین اسلام تھے۔ جس کو دیکھو شیر مادر کی طرح شراب پئے جاتا ہے۔ ناموں کی فہرست لکھ کر اب کیوں انہیں بدنام کروں ۔ اور ایک شراب لوکیارویئے۔ سن چکے اور سن لوگے کہ کیا کیا کچھ ہوتا تھا ۔ ع غرض میں کیا کہوں۔ دنیا عجب تماشا ہے۔ اب شہزادوں کو سعادتمندی کے کارنامے سنو کہ اکبر کو ملک دکن کی تسخیر کا شوق تھا۔ ادھر کے حکام و امرا کو پرچاتا تھا۔ جو آتے تھے۔ انہیں دلداری و خاطر داری سے رکھتا تھا۔ خود سفارتیں بھیجتا تھا۔ 1003ھ میں معلوم ہوا۔ کہ برہان الملک کے مرنے اور اس کے نااہل بیٹوں کی کشا کشی سے گھر بے چراغ اور ملک میں اندھیر پڑ گیا۔ امرائے دکن کی غرضیاں بھی دربار اکبری میں پہنچیں۔ کہ حضور اس طرف کا قصد فرمائیں۔ تو عقیدتمند خدمت کر حاضر ہیں۔ اکبر نے جلسہ مشورۃ قائم کر کے ادھر کا عزم مصمم کیا۔ ملک کو امرا پر تقسیم کیا۔ ان کے عہدے بڑھائے۔ اس وقت تک دربار میں پنجہزاری منصب معراج مدارج تھا۔ اب شہزادوں کو وہ منصب عطا کئے جو آج تک نہ سنے تھے۔ بڑے شاہزادے یعنی سلیم (جو بادشاہ ہو کر جہانگیر ہوا) کوکہ ولیعہد دولت تھا۔ دوازدہ ہزاری (2)مراد کو دہ ہزاری (3)دانیال کو ہفت ہزاری۔ مراد کو سلطان روم کی چوٹ پر سلطان مراد بنا کر مہم دکن پر روانہ کیا۔ ناتجربہ کار شہزاد ہ اول سب کو بلند نظر نوجوان نظر آیا۔ مگر حقیقت میں پست ہمت اورکوتاہ عقل تھا۔ خان خاناں جیسے شخص کو اپنی عالی دماغی سے ایسا تنگ کیا۔ کہ وہ اپنی التجا کے ساتھ دربار میں واپس طلب ہوا۔ اور مراد دنیا سے ناشاد گیا۔ اکبر نے ایک ہاتھ جگر کے داغ پر رکھا۔ دوسرے ہاتھ سے سلطنت کو سنبھال رہا تھا۔ جو 1005ھ میں خبر آئی کہ عبداللہ خاں اذبک وائی ترکستان نے بیٹے کے ہاتھ سے قضا کا جام پیا اور ملک میں چھری کٹاری کا بازار گرم ہے۔ اس نے فوراً انتظام کا نقشہ بدلا۔ امرا کو لے کر بیٹھا۔ اور مشوۃ کی انجمن جمائی۔ صلاح یہی ٹھیری کہ پہلے دکن کا فیصلہ کر لینا واجب ہے ۔ گھر کے اندر کا معاملہ ہے۔ اور کام بھی قریب الاختتام ہے۔ ادھر سے خاطر جمع کر کے ادھر چلنا چاہیے۔ چنانچہ دانیال کے نام پر مہم نامزد کی۔ اور مرزا عبدالرحیم خان خاناں کو ساتھ کر کے خاندیس روانہ کیا۔ سلیم کو شہنشاہی خطاب اور بادشاہی لوازمات و اسباب دیکر ولیعہد قرار دیا۔ اجمیر کا صوبہ متبرک سمجھ کر اس کی جاگیر میں دیا۔ اور میواڑ (ادیپور) کی مہم پر نامزد کیا۔ راجہ مان سنگھ وغیرہ نامی مرا کو ساتھ کیا۔ تمن ۔ توغ ۔ علم ۔ نقارہ ۔ فراش خانہ وغیرہ تمام سامان سلطانی عنایت فرمائے۔ لاکھ اشرفی نقد دی۔ عماری دار ہاتھی سواری کو دیا۔ مان سنگھ کو بنگالہ کا صوبہ پھر عنایت فرمایا۔ اور حکم دیا کہ شہزادہ کی رکاب میں جاؤ۔ جگت سنگھ اپنے بڑے بیٹے کو ۔ یا جسے مناسب سمجھو نیابت بنگالہ پر بھیج دو۔ دانیال کی شادی خان خاناں کی بیٹی سے کر دی۔ ابوالفضل بھی مہم دکن پر گئے ہوئے تھے۔ انہوں نے اور خان خاناں نے اکبر کو لکھا کہ حضور خود تشریف لائیں ۔ تو یہ مشکل مہم ابھی آسان ہو جائے ۔ اکبر کا اسپ ہمت قچی کا محتاج نہ تھا۔ ایک اشارہ میں برہانپور پر جاپہنچا۔ اور اسیر کا محاصرہ کر لیا۔ خانخاناں دانیال کو لئے احمد نگر کو گھیرے پڑا تھا۔ کہ اکبر نے آسیر کا قلعہ بڑے دور شور سے فتح کیا۔ ادھر احمد نگر خانخاناں نے توڑا۔ 1601/1009ء اب ملک کے دروازے خود بخود کھلنے لگے۔ ابراہیم عادل شاہ کا ایلچی بیجا پور سے تحائف گراں بہالے کر حاضر ہوا۔ تحریر و تقریر میں اشارہ تھا۔ کہ بیگم سلطان اس کی بیٹی کو حضور شہزادۂ دانیا ل کی ہمنشینی کے لئے قبول فرمائیں۔ اکبر یہ عالم دیکھ کر باغ باغ ہو گیا۔ میر جمال الدین ابخو کو اس کے لین کے لیے بھیجا۔ بڈھے بادشاہ کا جوان اقبال ادائے خدمت میں طلسمات کا تماشا دکھا رہا تھا۔ جو خبر پہنچی کہ شاہزادہ ولیعہد رانا کی مہم کو چھوڑ کر بنگالہ کو چلا گیا۔ بات یہ تھی کہ اول تو وہ نوجوان عیش کا بندہ تھا۔ آپ اجمیر کے علاقہ میں شکار کھیل رہا تھا۔ امرا کو رانا پر روانہ کیا تھا۔ دوسرے وہ کوہستان ویران ۔ گرم ملک غنیم جان سے ہاتھ دھوئے ہوئے کبھی ادھر سے ان گرا ۔ کبھی ادھر سے شبخون مارا ۔ بادشاہی فوج بڑے حوصلہ سے حملے کرتی تھی۔ اور روکتی تھی۔ رانا جب دہتا تھا۔ پہاڑوں میں بھاگ جاتا تھا۔ شہزادہ کے پاس بد نیت اور بد اعمال مصاحب صحبت میں تھے۔ وہ ہر وقت دل کو اچاٹ اور طبیعت کو آوارہ کرتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ بادشاہ اس وقت مہم دکن میں ہیں۔ اور منصوبہ عظیم پیش نظر ہے۔ مدتوں کی منزلیں اور مسافت درمیان ہے۔ آپ راجہ مان سنگھ کو اس کے علاقہ پر رخصت کر دیں اور آگرہ کی طرف نشان دولت بڑھا کر کوئی سیر حاصل اور سر سبز علاقہ زیر قلم کر لیں۔ یہ امر کچھ معیوب نہیں۔ جو ہر ہمت اور غیر سلطنت کی بات ہے۔ 1 ؎ ابوالفضل کی دوراندیشی نے اکبر کو یہ سمجھایا۔ کہ جو کچھ ہوا مان سنگھ کے اغواء سے ہوا۔ مورکھ شہزادہ ان کی باتوں میں آگیا۔ اور ارادہ کیا کہ پنجاب میں جا کر باغی بن بیٹھے۔ اتنے میں خبر آئی کہ بنگالہ میں بغاوت ہو گئی۔ اور راجہ کی فوج نے شکست کھائی۔ اس کی مراد برآئی ۔ راجہ کو ادھر رخصت کیا۔ اور آپ مہم چھوڑ آگرہ کو روانہ ہوا۔ یہاں آکر باہر ڈیرے ڈال دیئے قلعہ میں مریم مکانی (والدہ اکبر) بھی موجود تھیں۔ قلیچ خاں پر انا خدمت گزار اور نامی سپہ سالار قلعدار اورتحویلدار تھا۔ اور کار سازی و منصوبہ بازی میں یکتا مشہور تھا۔ اس نے نکل کربڑی خوشی اور شگفتہ روئی سے مبارکباد دی۔ پیشکش اور نذرانہ شاہانہ گزران کر ایسی خیر خواہی کے ساتھ باتیں بنائیں۔ اور تدبیریں بتائیں ۔ کہ شاہزادہ کے دل پر اپنی ہوا خواہی پتھر کی لکیر کر دی۔ ہر چند نئے مصاحبوں نے کان میں کہا۔ کہ پرانا پاپی بڑا متفنی ہے۔ اس کا قید کر لینا مصلحت ہے۔ یہ آخر شہزادہ تھا۔ نہ مانا ۔ بلکہ رخصت کے وقت اسے کہہ دیا کہ ہر طرف سے ہشیار رہنا ۔ اور قلعہ کی خبر داری اور ملک کا بندوبست رکھنا۔ جہانگیر جمنا اتر کر شکار کھیلنے لگا۔ مریم مکانی پر یہ راز کھل گیا تھا۔ اور وہ بیٹے سے زیادہ اسے چاہتی تھیں۔ انہوں نے بلا بھیجا۔ نہ آیا۔ ناچار خود سوار ہوئیں۔ یہ آنے کی خبر سن کر شکار کی طرح بھاگے۔ اور جھٹ کشتی پر بیٹھ کر الہ آباد کو روانہ ہوئے۔وادی کہن سال افسردہ حال اپنا سامنہ لے کر چلی آئی۔ اس نے آلہ آباد پہنچ کر سب کی جاگیریں ضبط کر لیں۔ الہ آباد آصف خاں میر جعفر کے سپرد تھا۔ اس سے لے کر اپنی سرکار میں داخل کر لیا۔ بہار اودھ وغیرہ آس پاس کے صوبوں پر قبضہ کر لیا۔ ہر جگہ اپنے حاکم مقر ر کئے۔ وہ اکبری ملازم پرانے قدیم الخدمت ٹھوکر یں کھاتے ادھر آئے۔ بہار کا خزانہ 30 لاکھ سے زیادہ تھا۔ اس پر قبضہ کیا۔ صوبہ مذکور شیخ جیون اپنے کوکہ کو عنایت کیا۔ اور قطب الدین خاں خطاب دیا۔ تمام مصاحبوں کو منصب اور خانی و سلطانی کے خطاب دیئے گئے۔ جاگیریں دیں اور آپ بادشاہ بن گیا۔ 1600/ھ1009ء اکبر دکن کے کنارہ پر بیٹھا پورب پچھم کے خیال باندھ رہا تھا۔ یہ خبر پہنچی تو بہت گھیرایا۔ میر جمال الدین حسین کے آنے کا انتظار بھی نہ کیا۔ مہم کو امرا پر چھوڑا۔ اور آپ حسرت و افسوس کے ساتھ آگرہ کو روانہ ہوا۔ اس میں کچھ شک نہیں ۔ کہ اگر یہ ہلہلا چند روز اور نہ اٹھتا۔ تو دکن کے بہت سے قلعدار خود کنجیاں لے لے کر حاضر ہو جاتے۔ اور دشوار مہمیں آسان طور سے طے ہو جاتیں۔ پھر ملک موروثی یعنی تر کستان پر خاطر جمع سے دھاوے مارتے۔ مگر مقدر مقدم ہے۔ نااہل و ناخلف بیٹے نے جو حرکتیں وہاں کیں۔ باپ کو حرف حرف خبر پہنچی۔ اب اسے محبت پدری کہو خواہ مصلحت ملکی سمجھو۔ باجود ایسی بے اعتدالیوں کے باپ نے ایسی بات نہ کی جس سے بیٹا بھی باپ کی طرف سے ناامید ہو کر کھلم کھلا باغی ہو جاتا۔ بلکہ کمال محبت سے فرمان لکھا۔ اس نے جواب میں ایسے زمین آسمان کے افسانے سنائے ۔ گویا اسکی کچھ خطا ہی نہیں۔ بلا بھیجا ۔ تو ٹال گیا۔ اور ہر گز نہ آیا۔ اکبر آخر باپ تھا۔ اور آخری وقت تھا۔ دانیال بھی دنیا سے جانے والا تھا۔ یہی ایک نظر ایک نظر آتا تھا۔ اور اسے بڑی منتوںمرادوں سے پایا تھا۔ ایک اور فرمان لکھ کر محمدؐ شریف ولد خواجہ عبدالصمد شیریں قلم کے ہاتھ روانہ کیا۔ کہ وہ ان کا ہم سبق تھا۔ اور بچپن سے ساتھ کھیلا تھا۔ زبانی بھی بہت کچھ کہلا بھیجا۔ اور بڑی محبت اور اشتیاق دیدار کے پیام بھیجے۔ بہت بہلایا پھسلایا۔ خدا جانے وہ منا یا نہ مناا۔ باپ بچارا آپ ہی کہہ سن کر خوش ہو گیا۔ اور حکم بھیجا کہ ملک بنگال اور اڑیسہ تمہاری جاگیر ہے۔ اس کا انتظام کرو۔ مگر اس نے حکم کی تعمیل نہ کی اور آلے بالے بتاتا رہا۔ 1011ھ میں پھروہی روز سیاہ پیش آیا۔ الہ آباد میں بگڑ بیٹھے۔ اپنے نام کا خطبہ پڑھوایا۔ ٹکسال میں سکہ لگوایا۔ روپے اشرفیاں مہاجنوں کے لین دین میں آگرہ اور دلی پہنچائیں کہ باپ دیکھے اور جلے۔ اس کے پرانے وفا داروں اور قدیمی جاں نثاروں کو اپنا بدخواہ اور نمک حرام ٹھیرایا۔ کسی کو سخت قید ۔ کوئی قتل۔ یہاں تک کہ شیخ ابوالفضل کے خون ناحق سے فارغ ہوئے۔ اب یا تو اکبر بلاتا تھا۔ یہ آتے نہ تھے۔ یا مصاحبوں سے صلاح مشورہ کر کے تیس چالیس ہزار لشکر جرار کے ساتھ آگرہ کو چلے۔ رستے میں بہت سے امیروں کی جاگیریں لوٹتے آئے ۔ اٹاوہ میں آصف خاں کی جاگیر تھی۔ وہاں پہنچ کر مقام کیا۔ آصف خاں دربار میں تھا۔ اس کے وکیل نے آقا کی طرف سے لعل گراں بہانذر گزرانا۔ اور عرضی پیش کی (اکبر کے اشارے سے لکھی گئی تھی) اس پر بھی زر خطیر اس کی جاگیر سے وصول کیا۔ جن امرا کی جاگیریں صوبہ بہار میں تھیں۔ سب نالاں تھے۔ آصف بہت کہتے رہتے تھے۔ مگر سلیمان صلاح اندیش ایسے جواب دیتا تھا۔ جسے سن کر محبت کے سینے سے دودھ بہنے لگتا تھا۔ امرا چپ تھے۔ مگر آپس میں کہتے تھے۔ کہ بادشاہ کی سمجھ میں نہیں آتا۔ دیکھئے اس بے حد شفقت کا انجام کیا ہوتا ہے۔ جب نوبت حد سے گزر گئی۔ اور وہ اٹاوہ سے بھی کوچ کر کے آگے بڑھا تو انتظام سلطنت میں خلق عظیم نظر آیا۔ اب اکبر کا بھی یہ حال ہوا۔ کہ یا تو بیٹے کے ملنے کی آرزو اور ذوق شوق کے خیالات سنا سنا کر خوش ہوتا تھا۔ یا اپنے اور اس کے معاملے کے انجام کو سوچنے لگا۔ فرمان لکھا جس کا خلاصہ یہ ہے۔ خلاصہ فرمان ۔ اگرچہ اشتیاق دیدار فرزند کا مگار کا حد سے زیادہ ہے۔ بوڑھا باپ دیدار کا پیاسا ہے۔ لیکن پیار ے بیٹے کا ملنے کو آنا۔ اور اس جاہ و جلال سے آنا دل محبت منزل پر شاق اور ناگوار معلوم ہوتا ہے۔ اگر تجمل اور خوشنمائی لشکر کی اور موجودات سپاہ کی منظور نظر ہے۔ تو مجرا قبول ہو گیا۔ سب کو جاگیروں پر رخصت کر دو۔ اور معمول کے بموجب چھڑے چلے آؤ۔ باپ کی دکھتی آنکھوں کو روشن اور محروم دل کو خوش کرو۔ اگر لوگوں کی یا وہ گوئی سے کچھ وہم و وسواس تمہارے دل میں ہے جس کا ہمیں سان گمان بھی نہیں تو کچھ مضائقہ نہیں الہ آباد کی طرف مراجعت کرو اور کسی قسم کے وسو سے کو دل میں راہ نہ دو۔ جب وہم کا نقش تمہارے دل سے دھویا جائیگا۔ اس وقت ملازمت میں حاضر ہونا۔ اس فرمان کو دیکھ کر جہانگیر بھی بہت شرمایا کیونکہ کوئی بیٹا باپ کے سلام کو اس کروفر سے نہیں گیا۔ اور ایسے اختیارات نہیں دکھائے اور کسی بادشاہ نے بیٹے کی بے اعتدالیوں کا اس قدر تجمل بھی نہیں کیا۔ چنانچہ وہیں ٹھہر گیا۔ اور عرضی لکھی۔ کہ غلام خانہ زاد کو سوا آرزو ے ملازمت کے اور کچھ خیال نہیں ہے۔ وغیرہ وغیرہ ۔ اب حکم حضور کا اس طرح پہنچا ہے۔ اطاعت فرمان واجب جان کر چند روز اپنے خداوند و مرشد و قبلہ کی درگاہ سے جدا رہنا ضرور ہوا۔ وغیرہ وغیرہ ۔ یہ لکھا اور الہ آباد کو پھر گیا۔ اکبر کے حوصلے کو آفرین ہے کہ کل بنگالہ بیٹے کی جاگیر کر دیا۔ اور لکھ بھیجا کہ اپنے ہی آدمی تعینات کر دو۔ سفید و سیاہ کا تمہیں اختیار ہے۔ اور ہماری ناخوشی کا وسوسہ اور غدغہ دل سے نکال ڈالو۔ بیٹے نے شکریہ کی عرضداشت لکھی اور خود اختیاری کے ساتھ اپنے ہاتھوں کے احکام وہاں جاری کر دیئے۔ صحبت میں مصاحب اچھے نہ تھے۔ بے اعتدالیاں بڑھنے لگیں۔ اکبر پریشان رہتا تھا امرائے دربار میں نہ کسی کی عقل پر اعتماد تھا نہ دیانت کا اعتبار تھا۔ نا چار شیخ ابوالفضل کو دکن سے بلایا وہ اس طرح مارے گئے۔ خیال کرنا چاہئے کہ دل پر کیا صدمہ گزرا ہو گا۔ واہ رے اکبر زہر کا گھونٹ پی کر رہ گیا۔ جب کچھ بن نہ آئی تو خدیجۃ الزمانی سلیمہ سلطان بیگم کو کہ دانائی کاردانی اور سخن سنجی و حسن تقریر میں سحر آفرین تھیں۔ بیٹے کی تسلی اور دلا سے کے لئے روانہ کیا۔ خاصہ کے ہاتھیوں میں سے فتح لشکر ہاتھی۔ خلعت اور تحفے گراں بہا بھیجے لطیف میوے من بھاتے کھانے ۔ مٹھایاں پوشاک و لباس کی اکثر چیزیں برابر لی جاتی تھیں کہ کسی طرح بات بنی رہے اور ضدی لڑکا ہاتھوں سے نہ نکل جائے۔ وہ اکبر بادشاہ تھا۔ سمجھتا تھا کہ میں چراغ سحری ہوں ۔ اس وقت یہ تکرار بڑھی تو سلطنت کا عالم تہ و بالا ہو جائیگا۔ کارداں بیگم وہاں پہنچی۔ اپنی کاردانی سے وہ منتر پھونکے کہ مرغ و حشی دام میں آگیا۔ اور ایسا کچھ سمجھایا۔ کہ ہٹیلا لڑکا ساتھ چلا آیا۔ رستے میں سے پھر مرضی آئی کہ مریم مکانی مجھے لینے آئیں۔ اکبر نے جواب میں لکھا کہ مجھے تو اب ان سے کہنے کا منہ نہیں۔ تم آپ ہی لکھو۔ خیر ایک منزل آگرہ رہا تو مریم مکانی بھی گئیں۔ اپنے ہی گھر میں لا کر اتارا۔ دیدار کا بھوکا باپ وہاں آپ چلا گیا۔ بارے ایک ہاتھ مریم مکانی نے پڑکا۔ ایک سلیمہ سلطان بیگم نے سامنے لائے باپ کے قدموں پر ان کا سررکھا۔ باپ کو اس سے زیادہ اور دنیا میں تھا کیا ؟ اٹھاکر دیر تک سر چھاتی سے لگائے رہے اور روئے۔ اپنے سر سے دستاور اتار کر بیٹے کے سر پر رکھ دی۔ ولی عہدی کا خطاب تازہ کیا اور حکم دیا کہ شادیانے بجیں ۔ جشن کیا۔ مبارکبادیں ہوئیں۔ رانا کی مہم پر پھر نامزد کیا اور امرا فوجیں دے کر ساتھ کئے۔ یہ یہاں سے روانہ ہوئے۔ اورفتچور میں جا کر مقام کیا۔ بعض سامانوں اور خزانوں کے پہنچے میں دیر ہوئی۔ نازک مزاج پھر بگڑ گیا۔ اور لکھا کہ کفایت اندیش حضور کے سامان بھیجنے میں تامل کرتے ہیں۔ یہاں بیٹھے بیٹھے اوقات ضائع ہوتی ہے۔ اس مہم کے لئے لشکر و افر چاہئے۔ رانا پہاڑوں میں گھس گیا ہے وہاں سے نکلتا نہیں۔ اس لئے چاروں طرف سے فوج روانہ کرنی چاہئے۔ اور ہر جگہ اتنی فوج ہو کہ جہاں مقابلہ ہو پڑے۔ اس کاجواب دے سکے۔ امیدوار ہوں کہ فی الحال مجھے اجازت ہو کہ جہاں مقابلہ ہو پڑے۔ اس کا جواب دے سکے۔ امیدوار ہوں کہ فی الحال مجھے اجازت ہو کہ جاگیر پر جاؤں وہاں حسب دلخواہ خود کا فی ووافی سامان سر انجام کر کے حکم کو تعمیل کر دوں گا۔ اکبر نے دیکھا کہ لڑکا پھر مچلا۔ سوچ سمجھ کر اپنی بہن کر بھیجا۔ پھوپھی نے بھی جا کر بہتیرا سمجھایا۔ وہ کیا سمجھتا تھا۔ آخر باپ کو اجازت ہی دیتے بن آئی۔ یہ کوچ بہ کوچ شان شاہانہ سے الہٰ آباد کو روانہ ہوئے۔ کوتہ اندیش امیروں نے اکبر کو اشارہ کیا کہ موقع ہاتھ سے نہ دینا چاہیے( قید) اس نے ٹال دیا۔ جاڑے کا موسم تھا۔ دوسرے ہی دن ایک پوستین سمور سفید کا بھیجا کہ ہمیں اس وقت بہت پسند آیا ۔ جی چاہا کہ نور چشم اسے پہنے اور کچھ تحفے کشمیر کابل کے اور بھی ساتھ بھیجے۔ مطلب یہی تھا کہ اس کے دل میں شبہ نہ آئے۔ اس نے الہٰ آباد میں پہنچ کر پھر وہی اکھاڑ پچھاڑ شروع کر دی۔ جن امرا کو باپ نے پچاس برس کی محنت میں جانباز اور جان نثار دلاور فتحیاب تیار کیا تھا۔ اور اس کے بھی محرم راز تھے انہی کو برباد کرنے لگا۔ وہ اٹھ اٹھ کر دربار میں آنے لگے۔ خسرو اس کا بیٹا راجہ مان سنگھ کا بھانجا تھا۔ مگر بے عقل اور بد نیت تھا۔ وہ اپنے حال پر اکبر کی شفقت دیکھ کر سمجھتا تھا۔ کہ دادا مجھے ولیعہد کردیگا۔ باپ کے ساتھ بے ادبی و بے باکی سے پیش آتا تھا ۔ اور کبھی کبھی اکبر کی زبان سے بھی نکل گیا تھا کہ اس باپ سے تویہ لڑکا ہو نہار معلوم ہوتا ہے۔ ایسی ایسی باتوں پر نظر کر کے وہ کوتہ اندیش لڑکا اور بھی لگاتا بجھا تارہتا تھا۔ یہاں تک کہ اس کی ماں کو یہ حالات دیکھ کر تاب نہ رہی۔ کچھ تو جنون اس کا موروثی مرض تھا۔ کچھ ان باتوں کا غم و غصہ ۔ بیٹے کو سمجھایا۔ وہ باز نہ آیا۔ آخر راجپوت رانی تھی افیم کھا کر مر گئی کہ اس کی ان حرکتوں سے میرے دودھ پر حرف آئیگا۔ انہی دنوں میں بادشاہی واقعہ نویس ایک لڑکے کو لیکر بھاگ گیا۔ کہ نہایت صاحب جمال تھا۔ اور جہانگیر بھی اسے دربار میں دیکھ کر خوش ہوا کرتا تھا۔ حکم دیا کہ پکڑ لاؤ۔ وہ کئی منزل سے پکڑے آئے۔ اپنے سامنے دونوں کی زندہ کھال اتروا ڈالی۔ اکبر کو بھی دم دم کی خبرپہنچتی تھی۔ سن کر تڑپ گیا اور کہا۔ اللہ اللہ شیخو جی ہم تو بکری کی کھال بھی اترتے نہیں دیکھ سکے۔ تم نے یہ سنگدلی کہاں سے سیکھی ۔ شراب اس قدر پیتا تھا کہ نوکر چا کر ڈر کے مارے کونوں میں چھپ جاتے تھے۔ پاس جاتے ہوئے ڈرتے تھے۔ جو حضوری سے مجبور تھے وہ نقش دیوار کھڑے رہتے تھے۔ وہ ایسی حرکتیں کرتا تھا جن کے سننے سے رونگٹے کھڑے ہوں۔ ایسی ایسی باتیں سن کر عاشق باپ سے نہ رہا گیا۔ یہ بھی معلوم تھا کہ زیادہ تر شراب کی خانہ خرابی سے ۔ چاہا کہ خود جاؤں اور آپ سمجھا کر لے آؤں۔ کشتی پر سوار ہوا۔ ایک دن کشتی ریت میں رکی رہی ۔ دوسرے دن اور کشتی آئی۔ دو دن مینہ کا تار لگا رہا۔ اتنے میں خبر پہنچی کہ مریم مکانی کا براحال ہے۔ مختصر یہ کہ پھر آئے اور ایسے وقت پہنچے کہ لبوں پر دم تھا۔ ماں نے بیٹے کا آخری دیدار دیکھ کر 1012ھ میں دنیا سے سفر کیا۔ اکبر کوب ڑا رنج ہوا۔ بھدرا کیا کہ چنگیز خانی تو رہ اور ہندوستانی ریت کا حکم تھا۔ 14سونمک حلالوں نے ساتھ دیا۔ تھوڑی دور سعادت مند بیٹے نے ماں کا تابوت کو دلی روانہ کیا کہ شوہر کے پہلو میں دفن ہو۔ الہٰ آباد میں خبر پہنچی تو یہ بھی کچھ سمجھے۔ اور روتے بسورتے باپ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ عاشق باپ نے گلے لگایا بہت سمجھایا۔ معلوم ہوا۔ کہ کثرت شراب سے دماغ میں خلل آگیا ہے۔ نوبت یہ ہو گئی تھی کہ فقط شراب کا نشہ بس نہ تھا۔ اس میں افیون گھول کر پیتے تھے جب ذرا سرور معلوم ہوتا تھا۔ اکبر نے حکم دیا کہمحل سے نکلنے نہ پائیں۔ مگر پھر کب تک ۔ ناچار تفریحوں اور ترکیبوں سے طبیعت کی اصلاح کرتا تھا۔ اور حکمت عملی کے علاجوں سے دیوانہ کو قابو میں لاتا تھا۔ غائبانہ حاضر انہ شفتیں کر کے پھسلاتاتھا کہ ہٹیکے لڑکے کی ضدوں میں بڑوں کا نام نہ مٹ جائے اور فی الحقیقت وہ ملک و تدبیر کا بادشاہ سچ سمجھا تھا۔ ابھی مراد کے آنسوؤں سے پلکیں نہ سو کھی تھیں کہ اکبر کو پھرجوان بیٹے کے غم میں رونا پڑا یعنی 1013ھ میں دانیال نے بھی اسی شراب کے پیچھے اپنی جان عزیز کو ضائع کیا اور سلیم کے کے لئے میدان خالی چھوڑ گیا۔ باپ کو اب سوا سلیم کے دین و دنیا میں کوئی نہ تھا۔ بیٹا اور اکلوتا بیٹا ع داغ فرزندے کند فرزند دیگر راعزیز۔ اسی عرصہ میں ایک دن بعض سلاطین اور شہزادوں کی فرمائش سے صلاح ٹھہیری کی ہاتھیوں کی گڑائی دیکھیں۔ اکبر کا بھی قدیمی شوق تھا ۔ جوانی کی امنگ آگئی۔ ولیعہد دولت کے پاس ایک بڑا بلند اور تناور ہاتھی تھا۔ اسی گئے اس کا نام گرانبار رکھا تھا۔ وہ ہزاروں ہاتھیوں میں نمودار نظر آتا تھا۔ اور لڑائی میں ایسا بلونت تھا کہ ایک ہاتھی اس کی ٹکر نہ اٹھا سکتا تھا۔ خسرو (شاہزادہ ولیعہد کے بیٹے) کے پاس ایسا ہی نامور اور دھیں دھونکڑ ہاتھی تھا۔اس کا نام آپ روپ تھا دونوں کی لڑائی ٹھہیری ۔ خاصہ بادشاہی میں بھی ایک ایسا ہی جنگی ہاتھی تھا۔ اس کا نام رن تھمن تھا۔ تجویز ٹھیہری کہ جوان دونوں میں سے دب جائے اس کی مدد پر رن تھمن آئے۔ بادشاہ اور اکثر شہزادے جھروکوں میں بیٹھے۔ جہانگیر اور خسرو اجازت لیکر گھوڑے اڑاتے میدان میں آئے۔ ہاتھی آمنے سامنے ہوئے اور پہاڑ ٹکرانے لگے۔ اتفاقاً بیٹے (خسرو) کا ہاتھی بھاگا اور باپ کا (جہانگیر) ہاتھی اس کے پیچھے چلا۔ خاصہ کے فیلبان نے بموجب قرار داد کے رن تھمن کو آپ روپ کی مدد پر پہنچا۔ جہانگیری نمک خواروں کو خیال ہوا کہ ایسا نہ ہو۔ ہماری جیت ہار ہو جائے۔ اس لئے رن تھمن کو مدد سے روکا۔ چونکہ پہلے سے یہ بات ٹھہیری ہوئی تھی۔ فیلبان نہ رکا۔ جہانگیر نوکروں نے غل مچایا برچھوں کے کوچے اور پتھر مار نے شروع کئے۔ یہانتک کہ فیلبان شاہی کی پیشانی پر پتھر لگا اور کچھ لہو بھی منہ پر بہا۔ 1 ؎ خاندان چغتا یہ کی اصطلاع میں بادشاہ اور ولیعہد کے سوا جو خاندان کے بھائی بند ہوں۔ سلاطین کہلاتے ہیں بلکہ مجازاً ایک کو بھی سلاطین کہہ دیتے ہیں۔ اگرچہ لفظاً جمع کا صیغہ ہے۔ خسرو ہمیشہ دادا کو باپ کی طرف سے اکسایا کرتا تھا۔ اپنے ہاتھی کے بھاگنے سے گھسیانا ہو گیا ۔ اور جب مدد بھی نہ پہنچ سکی تو دادا کے پاس آیا۔ بسورتی صورت بنا کر باپ کے نوکروں کی زیادتی اورف یلبان خاصہ کی مجرو ہی کا حال برے رنگ سے دکھایا ۔ جہانگیر کے نوکروں کا شور شرابا اور اپنے فیلبان کے منہ پر لہو بہتا ہوا سامنے سے اکبر نے بھی دیکھا تھا۔ بہت برہم ہوا۔ خورم (شاہجہان) کہ 14برس کی عمر تھی اور دادا کی خدمت سے ایک دم جدا نہ ہوتا تھا۔ اس وقت بھی حاضر تھا۔ اکبر نے کہا۔ تم جاؤ اپنے شاہ بھائی (جہانگیر) سے کہو کہ شاہ بابا (اکبر) کہتے ہیں۔ دونو ہاتھی تمہارے ۔ دونوں فیلبان تمہارے ۔ جا نور کی طرفداری میں ہماری ادب کا بھول جانا یہ کیا بات ہے۔ خورم اس عمر میں بھی دانشمند اور نیک طبع تھا۔ ہمیشہ ایسی باتیں کیا کرتا تھا۔ جس میں باپ اور دادا میں صفائی رہے۔ وہ گیا اور خوشی خوشی پھر آیا۔ غرض کی ۔ شاہ بھائی کہتے ہیں ۔ حضور کے سر مبارک کی قسم ہے کہ فدوی کو اس بیہودہ حرکت کی ہرگز خبر نہیں اور غلام کبھی ایسی گستاخی گوارانہیں کر سکتا۔ غرض باپ کی طرف سے اس طرح تقریر کی کہ دادا خوش ہو گیا۔ اکبر اگرچہ جہانگیر کی حرکات ناشائستہ سے ناراض تھا اور اس عالم میں کبھی خسرو کی تعریف بھی کر دیا کرتا تھا مگر سمجھتا تھا کہ یہ اس سے بھی نالائق ہے۔ وہ یہ بھی سمجھ گیا تھا کہ خسرو ایک دفعہ ہاتھ پاؤں ہلائے بغیر نہ رہیگا کیونکہ اس کا پیچھا بھاری ہے۔ یعنی مان سنگھ کا بھانجا ہے۔ تمام سرداران کچھواہہ ساتھ دیں گے۔ خان اعظم کی بیٹی اس سے بیاہی ہے۔ وہ بھی سلطنت کارکن اعظم ہے۔ ان دونو کا ارادہ تھا کہ جہانگیر کو باغی قرار دے کر اندھا کر دیں اور قید رکھیں خسرو کے سر پر تاج اکبری رکھ دیں مگر دانا بادشاہ برسوں کی مدت اور کوسوں کی مسافت کو سامنے دیکھتا تھا۔ وہ یہ بھی سمجھتا تھا کہ جب اس طرح بگڑے گی تو گھر ہی بگڑ جائیگا ۔ اس لئے مصلحت یہی نظر آئی کہ سب کاروابار بدستور رہے اور جہانگیر ہی تخت نشین ہو۔ ان رنوں میں جو بڑے بڑے امیر تھے۔ وہ اضلاع دور دست میں بھیجے ہوئے تھے۔ اس لئے جہانگیر عت ہراساں تھا۔ چنانچہ جب اکبر کی حالت غیر ہوئی تو اس کے اشارے مے قلعہ سے نکل کر ایک مکان محفوظ میں جا بیٹھا۔ وہاں شیخ فرید بخشی وغیرہ پہنچے اور شیخ اپنے مکان میں لے گئے۔ 1 ؎ خورم۔ سلیم یعنی جہانگیر کا بیٹا تھا۔ یہ راجہ ادے سنگھ کی بیٹی۔ راجہ مالدیو فرمانروائے جودھ پور کی پوتی کے شکم سے 1000ھ اسی شہر لاہور میں پیدا ہوا تھا۔ اکبر نے اسے خود بیٹا کر لیا تھا۔ بہت پیار کرتا تھا۔ اور ہر وقت دادا کی خدمت میں حاضر رہتا تھا ۔ 2 ؎ اس نے اکثر معرکوں میں دلاوری کے کارنامے دکھا کر جہانگیر سے مرتضیٰ خاں خطاب حاصل کیا۔ سید صحیح النسب تھا ۔ کہتا تھا کہ میں رضوی سید ہوں مگر حقیقت میں نقوی سید تھا یعنی حضرت جعفر تو آب کی اولاد تھا ۔ جنہیں اکثر مصنف جعفر کذاب لکھتے ہیں اکبر کے عہد میں بھی بڑی جانقشانی اور نمک حلالی سے خدمتیں بجا لاتا رہا تھا یہاں تک کہ بخشیگری کے منصب تک پہنچا تھا۔ جب بیٹے کوکئی دن نہ دیکھا تو اکبر بھی سمجھ گیا اور اسی عالم میں بلایا گلے سے لگا کر بہت پیار کیا اور کہا کہ امراے دربار کو یہیں بلالو۔ پھر بیٹے سے کہا۔ اے فرزند ! جی نہیں قبول کر تا کہ تجھ میں اور میرے ان دو لتخواہوں میں بگاڑ ہو جنہوں نے برسوں میرے ساتھ یلغاروں اور شماروں میں محنتیں اٹھائیں اور تیغ و تفنگ کے منہ پر جان جو کھوں میں رہے۔ اور میرے جاہ و جلال اور ملک و دولت کی ترقی میں جانفشانی کرتے رہے۔ اتنے میں امرا بھی حاضر ہو گئے۔ سب کی طرف مخاطب ہو کر کہا کہاے میرے وفا دارو ۔ اے میرے عزیز و اگر بھولے سے بھی کوئی خطا تمہاری میں نے کی ہو تو معاف کر و۔ جہانگیر نے جب یہ بات سنی تو باپ کے قدموں پر گرا اور زار زار رونے لگا۔ باپ نے سرا ٹھا کر سینہ سے لگایا تو تلوار کی طرف اشارہ کر کے کہا اسے کمر سے باندھو ۔ اورمیرے سامنے بادشاہ بنو۔ اور پھر کہا کہ خاندان کی عورتوں اور حرم سرا کی بیبیوں کی غورو پر داخت سے غافل نہ رہنا۔ اورقدیمی نمک خواروں اور میرے پرانے ہوا خواہوں اور رفیقوں کو نہ بھولنا۔ سب کو رخصت کر دیا۔ اور مرض کو آرام ہوا مگر وہ طبیعت نے سنبھالا لیا تھا۔ غرض جہانگیر پھر شیخ فرید کے گھر میں جا بیٹھا۔ اکبر کی بیماری مں خورم اس کی خدمت میں حاضر تھا۔ اسے محبت دلی اور سعاد تمندی کہو یا باپ کی اور اپنی مصلحت وقت سمجھو ۔ اہل تاریخ یہ بھی لکھتے ہیں کہ باپ (جہانگیر) محبت پدری کے سبب سے بلا بلا بھیجتا اور کہتا تھا کہ چلے آؤ۔ دشمنوں کے نرغے میں رہنا کیا ضرور ہے۔ وہ نہ آتا تھا اور کہلا بھیجتا تھا کہ شاہ بابا کا یہ حال ہے۔ اس عالم میں انہیں چھوڑ کر کس طرح چلا آؤں۔ جب تک جان میں جان ہے۔ شاہ بابا کی خدمت سے ہاتھ نہ اٹھاؤ نگا۔ یہاں تک کہ ماں بیقرار ہو کر آپ اس کے لینے کو دوڑی گئی۔ اور بہت سمجھایا مگر اور ہرگز اپنے ارادے سے نہ ٹلا۔ دادا کے پاس رہا اور باپ کو بھی دم دم کی خبریں پہنچاتا رہا۔ اس وقت اس کا وہاں رہنا اور باہر نہ آنا ہی مصلحت ہوا۔ خان اعظم اور مان سنگھ کے آدمی ہتیار بند چاروں طرف پھیلے ہوئے تھے۔ اگر وہ نکلتا تو فوراً پکڑ ا جاتا۔ جہانگیر ہاتھ آجاتا تو وہ بھی گرفتار ہو جاتا۔ جہانگیر نے ان حالات کو خود بھی توزک میں لکھا ہے۔ اسے بڑا خطر اس واقعہ کے سبب سے تھا جو شاہ طہما سپ کے بعد ایران میں گزرا تھا۔ جب شاہ کا انتقال ہوا تو سلطان حیدر اپنے امرا ورفقا کی حمایت سے تخت نشین ہو گیا۔ بری جان خانم شاہ طہما سپ کی بہن پہلے سے سلطنت کے کاروبار اور انتظام مہمات میں دخل رکھتی تھی وہ اسکی تخت نشینی دل سے نہ چاہتی تھی۔ اس نے شفقت کے پیام بھیج کر بھتیجے کو قلعہ میں بلایا۔ بھتیجا نفاق سے بے خبر۔ وہ بے خبر پھوپھی کے پاس گیا۔ اور جاتے ہی قید ہو گیا۔ قلعہ کے دروازے بند ہو گئے۔ اس کے رفقا نے جب سنا تو اپنی اپنی فوجیں لے کر آئے اور قلعہ کو گھیر گیا۔ اندر والوں نے سلطان حیدر کو مار ڈالا اور اس کا سر کاٹ کر فصیل پر سے دکھایا اور کہا کہ جس کے لئے لڑتے ہو اس کا تو یہ حال ہے اب کس بھروسے پر مرتے ہو اور سر کو باہر پھینک دیا۔ جب ان لوگوں کو یہ حال معلوم ہوا تو دل شکستہ ہو کر پریشان ہو گئے اور شاہ اسمعیل ثانی تخت نشین ہو گیا ۔ غرض مرتضیٰ خاں (شیخ فرید بخشی) جہانگیر کا بھی خیر خواہ تھا ۔ اس نے آکر بندوبست کیا۔ وہ بخشی بادشاہی تھا اور امرا اور افواج کی طبیعت میں اثر عظیم رکھتا تھا۔ چنانچہ اس کے سبب سے خان اعظم کے نوکروں میں بھی تفرقہ پڑ گیا۔ خسرو کا یہ عالم تھا کہ کئی برس سے ہزار روپیہ روز (3 لاکھ 60ہزار سالانہ) ان لوگوں کو دے رہا تھا کہ وقت پر کام آتا۔ اخیر وقت میں بعض خیر خواہاں سلطنت نے مشورہ کر کے یہی مناسب دیکھا کہ مان سنگھ کو بنگالہ کے صوبہ پر ٹالنا چاہیئ۔ چنانچہ اسی دن اکبر سے اجازت لی اور فوراً خلعت دے روانہ کر دیا۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ اندر اندر مدت سے کھچڑی پک رہی تھی مصلحت اندیش بادشاہ نے اپنے علوحوصلہ سے گھر کا راز کھلنے نہ دیا تھا۔ اخیر میں جا کر یہ باتیں کھلیں۔ ملا صاحب تیرہ چودہ برس پہلے لکھتے ہیں (اس وقت دانیال اور مراد بھی زندہ تھے) ایک دن بادشاہ کے پیٹ میں درد ہوا اورشدت اس کی اس قدر ہوئی کہ بیقراری ضبط کی طاقت سے گزر گئی۔ اس وقت عالم اضطراب میں ایسی باتیں کرتے تھے۔ جس سے بڑے شہزادے پر بد گمانی ہوتی تھی کہ شائد اسی نے زہر دیا ہے۔ باریاد کہتے تھے۔ بابا شیخو حی ! ساری سلطنت تمہاری تھی۔ ہماری جان کیوں لی۔ بلکہ حکیم ہمام جیسے معتمد پر بھی سازش کا شبہ ہوا۔ پیچھے یہ بھی معلوم ہوا کہ اس وقت جہانگیر نے شاہزادہ مراد پر خفیہ پہرے بٹھا دیئے تھے۔ مگر جلد ہی صحت ہو گئی۔ پھر شاہزادہمراد اور بیگمات نے بادشاہ سے سب حال عرض کیا۔ اواخرعمر میں اکبر کو فقرا اور اہل کمال کی تلاش تھی اور غرض اس سے یہ تھی کہ کوئی ترکیب ایسی ہو جس سے اپنی عمر زیادہ ہو جائے۔ اس نے سنا۔ ملک خطا میں فقرا ہوتے ہیں کہ لامہ کہلاتے ہیں ۔ چنانچہ کا شغر اور خطا کو سفیر روانہ کئے۔اسے یہ بھی معلوم ہوا کہ صاحب ریاضت ہندوں میں بہت ہوتے ہیں۔ اور ان کے مختلف فرقوں میں سے جوگی حبس دم ۔ کا یا پلٹ اور اس قسم کے شغل و عمل بہت رکھتے ہیں اس لئے اس فرقہ کے فقیروں کو بہت جمع کرتا تھا۔ اور ان کے ساتھ صحبت رکھتا تھا لیکن افسوس یہی ہے کہ موت کا علاج کچھ نہیں ایک دن یہاں سے جانا ہے۔ دنیا کی ہر بات میں کلام کو جگہ ہے۔ لا کلام بات ہے تو یہی ہے کہ ایک دن جانا ہے۔ غرض 11 جمادی الاول کو طبیعت علیل ہوئی حکیم علی اپنے جملہ اوصاف کے ساتھ فن طبابت میں ایسا صاحب کمال تھا کہ اسی کو علاج کے لئے کہا۔ اس نے 8 دن تک دفع مرض کو مزاج پر چھوڑا کہ شائد اپنے وقت پر طبیعت آپ دفع کرے لیکن بیماری بڑھتی ہی گئی۔ نویں دن علاج پر ہاتھ ڈالا دس دن تک دوا کی۔ کچھ اثر نہ ہوا۔ بیماری بڑھتی جاتی تھی اور طاقت گھٹتی جاتی تھی ؎ مرض عشق پر رحمت خدا کی مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی باوجود اس کے اس ہمت والے نے ہمت نہ ہاری۔ دربار میں آبیٹھتا تھا۔ حکیم نے انیسویں دن پھر علاج چھوڑ دیا۔ اس وقت تک جہانگیر پاس موجود تھا مگر جب طور بے طور دیکھا تو چپکے سے نکل کر شیخ فرید بخاری کے گھر میں چلا گیا کہ اسے باپ کے نمک حلالوں میں اپنا بھی جان نثار سمجھتا تھا ۔ی ہاں وقت کا منتظر تھا اور دولت خواہ دم بدم خبر پہنچا رہے تھے کہ حضور ؐ اب فضل الہٰی ہوتا ہے اور اب اقبال کا ستارہ طلوع ہوتا ہے (یعنی باپ مرتا ہے اور تم تخت نشین ہوتے ہو) افسوس افسوس ۔ ع دنیا ہیچ است و کار دنیا ہمہ ہیچ اے غافل ! کئے دن کے لئے ؟ اور کس امیہ 9 اور اس بات کا ذرا خیال نہیں کہ 22 برس کے بعد مجھے بھی یہی دن آنے والا ہے۔ اور ذرا بھی شک نہیں کہ آنے والا ہے۔ آخر بدھ کے دن 12جمادی الآخر 1014ھ کو آگرے میں اکبر نے دنیا سے انتقال کیا۔ 64برس کی عمر پائی۔ آزاد ۔ ذرا اس دنیا کے رنگ دیکھو ! وہ کیا مبارک دن ہو گا ! اور دلوں کی شگفتگی کا کیا عالم ہو گا۔ جس میں کہنے والوں نے ولادت کی تاریخیں کہی تھیں۔ انہی میں سے ایک تاریخ ہے ع شب یکشبنہ و پنج رجب است 1 ؎ ایشیائی سلطنتوں میں اکثر ایسا ہوتا ہے کہ بادشاہ کے مرتے ہی بغاوت ہو جاتی ہے۔ سلطنت کے دعویدار مختلف امرا اور ارکان سلطنت کو ملا لیتے ہیں۔ ہزاروں واقعہ طلب لالچی ان کے ساتھ ہو جاتے ہیں۔ دعویدار سلطنت کے کبھی کشت و خون سے کبھی سازش سے ایک دوسرے کو مروا ڈالتے ہیں۔ تاریخ کیا ہے ! لطیفہ غیبی ہے۔ سنہ ۔ مہینا ۔ دن ۔ تاریخ ۔ وقت سب موجود ۔ ایسے بادشاہ کی تاریخ بھی ایسی ہی چاہئے تھی اور اس دن کی خوشی کا کیا کہنا کہ جمعہ 2 ربیع الثانی 963ھ کو تخت پر بیٹھا۔ کسی نے نصرت اکبر ۔ کسی نے کام بخش ۔ خدا جانے کیا کیا تاریخیں کہی ہو ں گی اللہ اللہ وہ گجرات کی یلغاریں وہ خان زمان کی لڑائیاں ۔ وہ جشنوں کی بہاریں ۔ اقبال کے نشان ۔ خدائی کی شان ؎ گیا حسن خوبان دلخواہ کا ہمیشہ رہے نام اللہ کا کہا وہ عالم ! کہاں آج کا عالم ! ذرا آنکھیں بند کر کے خیال کرو۔ اس کا مروہ ایک الگ مکان میں سفید چاردر اوڑھے پڑا ہے۔ ایک ملا صاح تسبیح ہلا رہے ہیں۔ چند حافظ قرآن شریف پڑھے جاتے ہیں۔ کچھ خدمت گزار بیٹھے ہیں۔ تہلا ئینگے۔ کفنا ئینگے ۔ نناویں دروازے سے چپ چپاتے لے کر چلے جائینگے۔ دفنا کر چلے آئینگے ؎ لائی حیات آئے۔ قضالے چلی ۔ چلے اپنی خوشی نہ آئے نہ اپنی خوشی چلے وہی ارکان دولت جو اس کی بدولت سونے روپے کے بادل اڑاتے تھے۔ موتی رولتے تھے۔ جھولیاں بھر بھرلے جاتے تھے۔ اور گھروں پر لٹاتے تھے۔ رزق برق پڑے پھرتے ہیں۔ نیا دربار سجاتے ہیں۔ نئے سنگار ۔ نئے نقشے تراشتے ہیں۔ نئے بادشاہ تراشتے ہیں۔ نئے بادشاہ کو نئی خدمتیں دکھائینگے ۔ بڑی بڑی ترقیاں پائینگے۔ جس کی جان گئی اس کی پروا بھی نہیں۔ آصف خاں کو آفرین ہے۔ اسی عالم میں ایک تاریخ تو کہہ دی ؎ فوت اکبر شد از قضاے الہٰی گشت تاریخ فوت اکبرشاہ اس میں ایک زیادہ ہے۔ کسی نے تخرجہ خوب کیا ہے ۔ ع الف کشیدہ ملائک زفوت اکبر شاہ یعنی ملائک نے اس کے غم میں فقیری و قلندری اختیار کی۔ اس لئے ماتھے پر الف اللہ کا کھینچا۔ وہاں آسمان پر انہوں نے وہ الف کھینچا۔ یہاں اعداد میں سے الف کا ایک شاعر نے کھینچ لی۔ 1014پورے رہ گئے۔ آزاد ۔ الف کشیدن بمعنی قلندری اختیار کر دن کے لئے فارسی میں کسی استاد کے کلام سے سند چاہئے۔ اور سکندرہ کے باغ میں کہ اکبر آباد سے کوس بھر ہے۔ دفن کیا۔ ایجاد ہائے اکبری اگرچہ علوم نے اس کی آنکھوں پر عینک نہ لگائی تھی۔ اور فنون نے دماغ پر دستکاری بھی خرچ نہ کی تھی۔ لیکن وہ ایجاد کا عاشق تھا۔ اور یہی فکر تھا کہ ر بات میں نئی بات پیدا کیجئے۔ اہل علم اور اہل کمال گھر بیٹھے تنخواہیں اور جاگیریں کھا رہے تھے۔ بادشاہ کے شوق ان کے آئینہ ایجاد کو اجالتے تھے۔ وہ نئی سے نئی بات نکالتے تھے۔ نام بادشاہ کا ہوتا تھا۔ شیر شکار اکبر ہاتھیوں کا شوقین تھا۔ ابتدا میں فیل شکاری کا شوق ہوا اور کہا کہ ہم خود ہاتھی پکڑینگے۔ اس میں بھی نئے نئے ایجاد نکالینگے۔ چنانچہ 971ھ میں مالوہ پر فوج کشی کی تھی۔ گوالیار سے ہوتے ہوئے نرور کے جنگلوںمیں گھس گئے۔ لشکر کو کئی فوجوں میں تقسیم کیا۔ ایک ایک فوج پر ایک ایک امیر کوفوجدار کیا۔ اور اپنے اپنے رخ کو چلے۔ بہت سر گردانی کے بعد پہلے ایک ہتنی نظر آئی۔ اس کی طرف ہاتھی لگایا وہ بھاگی یہ پیچھے پیچھے دوڑے اور اتنا دوڑے گئے کہ وہ تھک کر ڈھیلی ہو گئی۔ واہنے بائیں جو دو ہاتھی لگے ہوئے تھے۔ ایک نے رسا پھینکا دوسرے نے لپک لیا اور دونوں طرف سے لٹکا کر اتنا ڈھیلا چھوڑا کر ہتنی کی سونڈ کے نیچے ہو گیا۔ پھر جو تانا تو گلے سے جا لگا۔ ایک فیلبان نے اپنا سرا دوسرے کی طرف پھینک دیا۔ اس نے لپکر کے دونوں سروں میں گرہ دی یا بل دیا۔ اور اپنے ہاتھی کے گلے میں باندھ لیا۔ پھر جو ہاتھی کو دوڑایا تو ایسا دبائے چلا گیا کہ ہتنی ہاپن کر بے دم ہو گئی۔ ایک فیلبان اپنیا ہاتھی برابر لے گیا۔ اور جھٹ اس کی پت پر جا بیٹھا۔ آہستہ آہستہ رستے پر لگایا۔ ہری ہری گھانس امنے ڈالی۔ کچھ چاٹ دی کچھ کھلایا۔ وہ بھوکی پیاسی تھی۔ جو کچھ ملا غنیمت معلوم ہوا۔ پھو جہاں (انا تھالے آئے ملا ئے کتا بدار کا بیٹا بھی ساتھ ہو گیا ۔ اس کھینچا تانی میں ہاتھیوں کی روندن میں آگیا تھا۔ غنیمت ہوا کہ جان بچ گئی۔ گرتا پڑتا بھاگا۔ چلتے چلتے ایک کجلی بن میں جا نکلے۔ ایسا گھن کا بن تھا ۔ کہ دن بھی شام ہی نظر آتا تھا۔ اقبال اکبری خدا جانے کہاں سے گھیر لایا تھا کہ وہاں 70 ہاتھی کا گلہ چرتا نظر آیا۔ بادشاہ نہایت خوش ہوا ۔ اسی وقت آدمی دوڑائے۔ تمام فوجوں کے ہاتھی جمع کر لئے۔ اور لشکر سے شکاری رستے منگائے۔ اپنے ہاتھی پھیلا کر رستے روک لئے۔ اور بہت سے ہاتھیوں کو ان میں ملا دیا۔ پھر گھیر کر آہستہ آہستہ ایک کھلے جنگل میں لائے۔ چر کٹوں اور فیلبانوں کو ہزار آفرین کہ جنگلیوں کے پاؤں میں رستے ڈال کر درختوں سے باندھ دیا۔ بادشاہ اور ہمراہی و ہیں اتر پڑے۔ جس جنگل میں کبھی آدمی کا قدم نہ پڑا ہو گا قدرت کا گلزار نظر آنے لگا۔ رات وہیں کاٹی۔ دوسرے دن عید تھی۔ وہیں جشن منائے۔ گلے مل مل کر آپس میں مبارکبادیں دیں۔ اورسوار ہوئے۔ ایک ایک جنگلی کو دو دو اکبری ہاتھیوں کے بیچ میں رستوں سے جکڑ کر رواں کیا۔ حکمت عملی سے آہستہ آہستہ لیکر چلے۔ کئی دن کے بعد جہاں لشکر کو چھوڑ کر گئے تھے۔ آن شامل ہوئے۔ افسوس یہ ہے کہ جاتے ہوئے جبکہ ہاتھیوں کا حلقہ دریائے چنبل سے اترتا تھا۔ لکنہ ہاتھی دوب گیا۔ 971ھ میں اکبر ملک مالوہ سے خاندیس کی سرحد پر دورہ کر کے آگرہ کی طرف پھرا۔ رستے میں قصبہ سیری پر ڈیرے ہوئے اور ہاتھیوں کا شکار ہونے لگا۔ ایک دن بڑا گلہ ہاتھیوں کا جنگل میں ملا ۔ حکم دیا کہ بہادر سوار جنگل میں پھیل جائیں۔ گلہ پر گھیر ا ڈالا کر ایک طرف کا رستہ کھلا رکھیں۔ اور بیچ میں لے کر نقارے بجانے شروع کریں۔ چند فیلبانوں کو حکم دیا کہ اپنے سدھے سدھائے ہاتھیوں پر سوار ہو جاؤ۔ اور سیاہ شالیں اوڑھ کر ان کے پیٹ سے اس طرح وصل ہو جاؤ کہ جنگی ہاتھیوں کو ذرا نظر نہ آؤ ۔ اور ان کے آگے آگے ہو کر قلعہ سیری کی طرف لگالے چلو۔ سواروں کو سمجھا دیا کہ گرو گھیرے نقارے بجاتے چلے آؤ۔ منصوبہ درست بیٹھا اور سارے ہاتھی قلعہ مذکور میں فیل بند ہو گئے۔ فیلبان کو ٹھوں اور دیواروں پر چڑھ گئے۔ بڑے بڑے رسوں کی کمندیں اور پھاندیں ڈال کر سب کوباندھ لیا۔ ایک ہاتھی بڑا بلونتا ور مستی میں بپھرا ہوا تھا۔ کسی طرح قابو میں نہ آیا۔ حکم دیا کہ ہمارے کھنڈے رائے ہاتھی کو لیکر اس سے لڑاؤ ۔ وہ بڑا تناور اور جنگلی ہاتھی تھا۔ آتے ہی ریل دھکیل ہونے لگی۔ ایک پہر دو نوں پہاڑ ٹکرائے آخر جنگلی کے نشے ڈھیلے ہوگئے۔ قریب تھا کہ کھانڈے رائے اسے دبالے۔ حکم ہوا کہ منہ پر مشعلیں جلا جلا کر ماروتا کہ اس کا پیچھا چھوڑے بڑی مشکلوں سے دونو جدا ہوئے۔ مگر جنگلی دیوزادجب ادھر سے چھٹا تو بھاگا اور قلعے کی دیوار ٹکروں اور ٹھوکروں سے توڑ کر جنگل کو نکل گیا۔ یوسف خاں کو کلتاش (مرزا عزیز کو کہ کے بڑے بھائی) کو کئی ہاتھی اور ہاتھی بان دے کر اس کے پیھے بھیجا اور کہا کہ رن بھیروں ہاتھی کو (کہ حلقہ خاصہ کا ہاتھی اور بد مستی اور زبردستی میں بد نام عالم تھا) جا کر الجھا دو ۔ تھکا ہوا ہے۔ ہاتھ آجائیگا اس نے جا کر پھر لڑاء یڈالی۔ فیل بانوں نے رسوں میں پھانس کر ایک درخت سے جکڑ دیا اور دو تین دن میں چار پر لگا کر لے آئے۔ چند روز تعلیم پا کر فیلہائے خاصہ میں داخل ہو گیا۔ اور گج پتی خطاب پایا۔ گوئے آتشیں چوگان بازی کا بہت شوق تھا۔ اکثر ہوتا تھا کہ کھیلتے کھیلتے شام ہو گئی۔ بازی ابھی تمام نہ ہوئی۔ اندھیرا ہو گیا گیند نہیں دکھائی دیتی۔ نا چارہ کھیل بند کرنا پڑتا تھا۔ اس لئے 974ھ میں گوئے آتشیں نکالی کہ اندھیرے میں شعلے کی طرح جاتی معلوم ہوتی تھی۔ وہ ایک قسم کی لکڑی کی تراشی تھی۔ اوپر کچھ دوائیں مل دیتے تھے(فاس فورس ہو گا) جب ایک دفعہ اسے آگ دیتے تھے۔ تو چوگان کی چوٹ اور زمین پر چٹخنے میں یا لڑھکنے سے بجھتی نہ تھی۔ واہ ۔ رات کی بہار دن سے بھی زیادہ ہو گئی۔ چار ایوان یا عبادت خانہ 983ھ میں دولتخانہ فتچور میں تیار ہوا۔ یہ گویا ایک کونسل (انجمن) عقلا۔ علما کی تھی کہ مسائل مذہبی ۔ مہمات سلطنت مقدمات ملکی اس میں پیش ہوتے تھے۔ اور جو کتابی یا عقلی اختلاف ان میں ہوتے تھے وہ کھل جاتے تھے۔ جس وقت اسے قرار دیا تھا۔ تو خالص نیک نیتی کے ساتھ یہی غرض رکھی تھی دوسرا ایجاد قدرتی پیدا ہوگیا کہ آپس کے رشک اور اختلاف باہمی کے سبب سے ان میں پھوٹ پڑ گئی۔ اور اس سے شریعت جو سلطنت کو دبائے ہوئے تھے اس کا زور ٹوٹ گیا۔ تقسیم اوقات 986ھ میں تقسیم اوقات کی ہدایت فرمائی۔ جب سو کے اٹھیں تو سب کاموں سے ہاتھ روک کر باطن ہی کی طرح ظاہر کو بھی نیاز طلب کریں۔ (عبادت میں مصروف ہوں) اور دل کو جان آفریں کی یاد سے روشنی دیں۔ اس ضروری وقت میں یہ بھی چاہئے کہ نئی زندگی پائے۔ شروع وقت کو کسی اچھے کام سے سجائیں کہ سارا دن اچھی طرح گزرے ۔ اس کا م میں 5 گھڑی سے کم خرچ نہ ہو (دو گھنٹے ہوئے) اور اسے ابواب مقاصد کی کنجی سمجھے۔ بدن کا بھی تھوڑا سا خیال چاہئے۔ اس کی خبر گیری اور لباس پر توجہ کرنی چاہئے مگر اس میں 3 گھڑی سے زیادہ نہ لگے۔ پھر دربار عام میں عدل کے دروازے کھول کر ستم رسیدوں کی خبر گیری کریں۔ گواہ اور قسم حبلہ گروں کی دست آویز ہے۔ اس پر اعتماد نہ کرنا چاہئے۔ تقریروں کے اختلاف اور قیافوں کے انداز سے اور نئی جستجوؤں سے اور بڑی بڑی حکمتوں سے مطلب کا کھوج لگانا چاہئے۔ یہ کام ڈیڑھ پہر سے کم نہ ہو گا۔ دنیاعالم تعلق ہے۔ تھوڑا کھانے پینے میں بھی مصروف ہونا ضرور ہے۔ کہ کام اچھی طرح ہو سکے اس میں دو گھڑی سے زیادہ نہ لگا ئینگے۔ پھر عدالت کی بارگاہ کو بلندی بخشیں گے۔ جن بے زبانوں کے دل کا حال کوئی کہنے والا نہیں۔ ان کی خبر لیں۔ ہاتھی ۔ گھوڑے ۔ اونٹ خچر وغیرہ کو ملا حظہ کر لیں۔ اس بے تکلف مخلوق کے کھانے کھلانے کی بھی خبر لینی واجب ہے۔ 4گھڑی اس کیلیء جدا کرنی چاہئے۔ پھر محلوں میں جایا کریں۔ او جو پاکدامن بیبیاں وہاں حاضر ہوں ان کی عرض معروض سنیں کہ مرد عورت برابر اور انصاف سب پر شامل رہے۔ بد ن ہڈیوں کی عمارت ہے۔ نیند پر اس کی بنیاد رکھی ہے۔ اس نیت سے کہ طاقت اور شکرانہ مل کر کار گزاری کریں اڑھائی پہر نیند کو دینے چاہئیں۔ ان ہدایتوں سے اہل شرف نے سعادت کا سرمایہ سمیٹا ۔ اور سخت بیداری کا آئین ہاتھ آیا۔ معافی جزیہ و محصول تمام احکام اکبری میں جو حکم سنہری حرفوں سے لکھنے کے لائق ہے وہ یہ ہے 987ھ کے پس و پیش میں جزیہ اور چنگی کا محصول معاف کر دیا ۔ جس کا محاصل کئی کروڑ روپیہ ہوتا تھا۔ گنگ محل گفتگو ہوئی کہ انسان کی طبعی اور مار دی زبان کیا ہے ؟ خدا کے ہاں سے کیا مذہب لے کر آئے ہیں ؟ اور پہلے پہل کیا کلمہ اور ان کی زبان سے نکلتا ہے۔ 988ھ میں اس کی تحقیق کے لئے شہر سے الگ ایک وسیع عمارت بنوائی۔ تقریباً 20 بچے پیدا ہوتے ہی ماؤں سے لے لئے۔ اور وہاں لے جا کر رکھا۔ انائیں۔ پالنے والی۔ خدمت گزار کیا عورتیں کیا مرد ۔ سب گونگے ہی رکھے کہ گفتگو ے انسانی کی آواز تک کان میں نہ جائے آرام و آسائش کے سامان کمال فارغ البالی کے ساتھ موجود تھے۔ مقام کا نام گنگ محل تھا۔ چند سال کے بعد آپ وہاں گئے۔ خدمت گاروں نے بچوں کو لا کر آگے چھوڑا ۔ چھوٹے چھوٹے تھے۔ چلتے ۔ پھرتے ۔ کھیلتے ۔ کودتے ۔ بولتے بھی تھے مگر بات کا ایک لفظ سمجھ میں نہ آتا تھا۔ جانوروں کی طرح غائیں بائیں کرتے تھے۔ گنگ محل میں پلے تھے۔ گومگے نہ ہوتے تو کیا ہوتے۔ الاسماء تنزل من السماء التزام دوازدہ سالہ اکبر کے کاروبار کے عمل درآمد دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض ایجاد اسکے رفع قباحت یا باعث آسائش ۔ یافائدہ کی نظر سے ہوتے تھے۔ بعض فقط مضامین شاعرانہ تھے۔ بعض اس خیال سے تھے کہ مختلف بادشاہوں سے خاص خاص باتیں یادگار ہیں۔ یہ بات ہماری بھی یادگار رہے۔ چنانچہ 988ھ میں خیال آیا کہ ہمارے بزرگوں نے 12-12سال کا ایک ایک مجموعہ کر کے ہر سال کا ایک ایک نام رکھا ہے۔ آئین باندھنا چاہئے کہ ہم اور ہمارے جاں نثار ہر سال میں اس کے مناسب حال ایک خاص کام التزام رکھیں : ۔ سچقائیل چوہے کو نہ ستائیں (سچقان ۔ موش) اودئیل گائے بیل کو پرورش اور کسانوں کو دان پن کر کے مدد کریں (اود ۔ گاؤ) پارسن ئیل نہ خرگوش کھائیں نہ اس کا شکار کریں (پارس ۔ پلنگ) تو شقائیل نہ خرگوش کھائیں نہ اس کا شکار کریں (تو شقان ۔ خرگوش) لوئی ئیل مچھلی سے دہی معاملہ رہے (لوئی ۔ مگر مچھ) ییلا نیل سانپ کو نہ آزار دیں (ییلان ۔ مار) آیت ئیل نہ گھوڑوں کو ذبح کریں نہ کھائی ۔ خیرات میں دیں (آت ۔ گھوڑا) قوی ئیل بکری سے یہی سلو ک رہے (قوی ۔ بکری) پچی ئیل بندر کا شکار نہ کریں ۔ جس کے پاس ہو ۔ جنگل میں چھوڑ دے (پچی ۔ بندر) تخاقوئیل مرغا نہ ماریں ۔ نہ لڑائںی (تخاقو ۔ مرغا) ایت ئیل کتے کے شکار سے دل نہ بہلائی۔ اس و فا دار کو آرام دیں ۔ خصوصاً بازاری کو (ایت ۔ کتا) تنگوزی ئیل تنگز ۔ سور) چاند کے مہینوں میں امورات مفصلۂ ذیل کا لحاظ ررکھیں : ۔ محرم جاندار کو نہ ستاؤ ہم سال کے لئے دستگیری کرو صفر بندی آزاد کردو شعبان کسی پر سختی نہ کرو ربیع الاول 30نیک محتاج شخصوں کو بخشش کرو رمضان اپاہج کو کھلاؤ۔ پہناؤ ربیع الثانی غسل کر کے خوشحال ہو شوال ہزار دفعہ نام الہٰی ورد کرو جمادی الاول لباس فاخرہ اور ابریشمین کپڑے نہ پہنو ذیقعدہ اول شب جاگتے رہو۔ اور چند غیر مذہب آدمیوں جمادی الثانی چمڑا کام میں نہ لاؤ کو سلوک کر کے روز خوش کرتے رہو رجب 40 برس کی دستگاہ کے بموجب اپنے ذالحجہ آئش خلق کے لئے عمارت بناؤ مردم شماری 989ھ میں حکم ہوا کہ تمام جاگیردار ۔ عالم ۔ شقدار وغیرہ وغیرہ سب ملکرو دفتر مردم شماری ۔ نام بنام ۔ بہ قید پیشہ و حرفہ وغیرہ وغیرہ مرتب کریں۔ خیر پورہ ۔ دھرم پورہ شہروں اور منزلوں میں جا بجا دو دو مقام مقرر ہوئے کہ ہندو مسلمان وہاں کھانا کھائیں اور سامان آسائش سے آرام پائیں۔ مسلمانوں کے لئے خیر پور ہ ۔ ہندؤں کے لئے دھرم پورہ۔ شیطان پورہ 990ھ میں آباد ہوا اس کی سیر دیکھنی ہے تو دیکھو صفحہ 77 زنانہ بازار جشن سالانہ کے درباروں کا انداز تم نے دیکھ لیا ہے۔ اس کے بازاروں کا تماشا محلوں کی بیگمات کو بھی دکھایا ۔ 991ھ میں یہ آئین قرار پایا دیکھو صفحہ 153۔ ترقی اجناس مختلف اشیاء جو مہمات سلطنت میں اجزائے ضروری بلکہ ہمیشہ کاروبار کے لازمی اوزار ہوتے ہیں وقت پر تیار نہیں ملتیں اس لئے 990ھ میں حکم دیا کہ ایک ایک کی حفاظت اور ترقی اور عمدہ اقسام کا بہم پہنچانا ایک ایک امیر کے ذمہ ہو۔ اس سپرد گی میں مناسبت حال بلکہ ظرافت کا گرم مصالح بھی چھڑکا ۔۔ نمونہ کے طور پر چند نام اور نامداروں کے کام لکھتا ہوں : ۔ عبدالرحیم خانخاناں گھوڑے کی نگہداشت راجہ ٹوڈرمل ہاتھی اور غلہ مرزا یوسف خاں خان اعظم کے بڑے بھائی کو اونٹ کی نگہداشت سپردکی۔ شائد اس میں یہ اشارہ ہو کہ اس گھرانے کا ہر شخص عقل کا اونٹ ہے۔ شریف خاں بھیڑ ۔ بکری ۔ اعظم خاں کے چچا تھے۔ بھیڑ بکری کیا بلکہ دنیا کے جانور اس خاندان کی امت تھے۔ شیخ ابوالفضل پشمینہ نقیب خاں کتابت قاسم خاں میر بحرو میر بر پھول پتی۔ جڑی بوٹی وغیرہ نباتات ان کے سپردہوئی۔ مطلب یہ کہ جنگل اور دریا کے سامان خوب بہم پہنچیں گے۔ دونو میں انہیں کی بادشاہی ہے۔ حکیم ابوالفتح مسکرات ۔ مطلب ۔ یہ کہ حکیم ہیں اس میں بھی حکمتیں نکالیں۔ راجہ بیربر گائے بھینس ۔ اس میں اشارہ تھا کہ گائے کی رکھیا تمہارا دھرم ہے اور بھینس اس کی بہن ہے۔ لطف یہ ہے کہ صورت دیکھو تو خود ایک جاموش اکبری ہے۔ کشمیر میں کشتیوں کی عمدہ تراشیں 997ھ میں لشکر اور امراے لشکر اور بیگمات سمیت گلگشت کشمیر کو گئے دریا اور تالابوں میں ۔ 30ہزار کشتی سے زیادہ چلی جاتی تھی۔ مگر بادشاہی نشست کے لائق ایک بھی نہ تھی۔ بنگالے کی کشتیاں اور ان کے نشیمن اور مکانات اور بالا خانے اور کھڑکیوں کی عمدہ تراشیں دیکھی تھیں۔ ان کے نمونے پر ہزار کشتی چند روز میں تیار ہو گئی اور امرانے بھی اس طرح پانی گھر بنائے۔ دریا پر ایک آباد شہر چلنے لگا۔ جہاز 1002ھ میں دریائے راوی کے کنارے پر جہاز تیا ر ہوا ۔ 35گز الہٰی کا مستول تھا۔ 2936بڑھئی اور لوہار وغیرہ اس میں کام کرتے تھے۔ جب تیار ہوا تو جہاز سلطنت کا ناخدا کنارے آکر کھڑا ہوا۔ جر ثقیل کے عجیب و غریب اور زار لگائے۔ ہزار آدمی نے ہاتھ پاؤں کا زور لگایا۔ 10 دن میں بڑی مشکل سے پانی میں ڈال کر لاہری بندر کو روانہ کیا۔ جہاز کے بوجھ اور دریا کی کم آبی کے سب سے جا بجا رک رک گیا۔ اوربڑی مشکل سے بندر مقصود تک پہنچا۔ اس زمانہ میں ایسے روشن دماغ اور یہ سامان کہاں تھے جو دریا کا زور بڑھا کر گزر گاہ کو جہازرانی کے قابل کر لیتے اس لئے آمدورفت جاری نہ ہوئ۔ی اگر امرائے عہد اور اس کے جانشین بھی ویسے ہی ہوتے تو کام چل نکلتا۔ 1004ھ میںایک اورجہاز تیار ہوا۔ اس میں پانی کی کمی کا لحاظ رکھ کر جہاز کے بوجھ کی رعایت کی گئی۔ 15 ہزار من سے زیادہ بوجھ اٹھا سکتا تھا۔ یہ لاہور سے لاہری تک آسان جا پہنچا اس کا مستول 37گز کا تھا۔ 16338روپے کی لاگت میں تیار ہوا تھا (دیکھو اکبر نامہ) اکبر کی تحصیل علمی ۔ اور شوق علمی سلاطین و امرا کے بچوں کے لئے ایشیائی ملکوں میں پڑھنے لکھنے کی عمر چھ سات برس سے زیادہ نہیں۔ جہاں گھوڑے پر چڑھنے لگے۔ چوگان بازی شروع ہوئی۔ پھر شکار ہونے لگے۔ شکار کھیلتے ہی کھل کھیلے۔ اب پڑھنا کجا اور لکھنا کجا۔ چند روز میں ملک و دولت کے شکار پر گھوڑے دوڑنے لگے۔ اکبر جب 4 برس 4 مہینے 4 دن کا ہوا تو ہمایوں نے بیٹے کی۔ بسم اللہ کی۔ ملا عصام الدین ابراہیم کو آخوندی کا اعزاز ملا چند روز کے بعد سبق سنا تو معلوم ہوا کہ اللہ اللہ ۔ ہمایوںنے جانا کہ اس ملانے توجہ نہیں دی۔ لوگوں نے کہا کہ ملا کو کبوترب ازی کا بہت شوق ہے۔ شاگرد کا دل بھی کبوتروں میں ہوائی ہوگیا۔ ناچار ملا بایزید کو مقرر کیا ۔ مگر نتیجہ کچھ نہ حاصل ہوا۔ ان دونوں کے ساتھ مولانا عبدالقادر کا نام شامل کر کے قرعہ ڈالا۔ اس میں مولانا کا نام نکلا۔ چند روز وہ پڑھاتے رہے۔ غرض جب تک کابل میں رہا اپنے دلی شوق سے شہ سواری۔ شتر ووانی ۔ سگ تازی کبوتر بازی میں الجھا رہا۔ ہندوستان میں آکر بھی وہی شوق رہے۔ ملا پیر محمد ۔ بیرم خان خان خاناں کے وکیل تھے۔ جس وقت حضور کی طبیعت حاضر ہوتی اور خیال آتا۔ تو برائے نام ان کے سامنے بھی کتاب لے بیٹھتے۔ 963ھ میں میر عبداللطیف قزوینی سے دیوان حافظ وغیرہ پڑھنا شروع کیا۔ 987ھ میں علما کے جھگڑے سن سن کر زبان عربی کی بھی ہوس ہوئی۔ اور صرف ہوائی شروع کی ۔ شیخ مبارک استاد ہوئے۔ مگر اب بچپن کا مغز کہاں سے آئے۔ خیر یہ بھی ایک ہوا تھی چند روزمیں بدل گئی ایک لطیفہ اکثر اشخاص کی زبانی سنا مگر کتاب میں نہیں دیکھا۔ چونکہ مشہور ہے۔ آمد سخن کے طور پر لکھا جاتا ہے۔ ایک دن خلوت کا دربار ہوا۔ اور اراکین خاص موجود ۔ ایلچی توران مراسلت گزرا نتا ہے۔ اس نے ایک کاغذ پیش کر کے اکبر کی طرف بڑھایا کہ قبلہ عالم ملا حظہ فرمایند ۔ فیضی نے اس کے ہاتھ سے لے لیا کہ پڑھے۔ وہ ایک انداز سے مسکرایا۔ اور نگاہوں سے طنز بے علمی کے اشارے ٹپکتے تھے۔ فیضی فوراً بولے۔ در حضرت ماسخن مگوئید ۔ مگر نشنید ید کہ پیغمبر ماصلوٰۃ اللہ علیہ ہم امی بودہ۔ ہندوستان کے مورخ کہ تمام دولت چغتائی کے نمک خوار تھے۔ عجیب عبارتوں سر اسکی بے علمی کو جلوے دیتے ہیں۔ کبھی کہتے ہیں ۔ حقیقت معنوی پر عالم صورت کے علوم کا پردہ نہ ڈالا تھا۔ کبھی کہتے ہیں پروردگار کو ثابت کرنا تھا۔ کہ یہ برگزیدہ الہی بے تحصیل علوم ظاہری کے ہمارے فیوضات کا متناہی کا منبع ہے۔ کبھی کہتے ہیں۔ اس میں حکمت الہی یہ تھی کہ اہل علم پر روشن ہو جائے کہ اکبر بادشاہ خدا آگاہ کی عقل و دانش خدا داد ہے۔ بندہ سے حاصل کی ہوئی نہیں ہے۔ وغیرہ وغیرہ یہ سب کچھ تھا مگر علم کا مذاق بلکہ علوم و فنون کاشوق اورقدر دانی کا جوش جو اس کو تھا ۔ کوئی عالم بادشاہ بھی ہوتوشائد اتنا ہوا۔ ذرا عبادت خانہ چار ایوان کے جلسے یاد کرو۔ راتوں کو ہمیشہ کتابیں پڑھواتا تھا۔ اور سنتا تھا ۔ علمی تحقیقیں تھیں۔ علمی باتںی تھیں۔ اور علمی چچرچے تھے۔ کتب خانہ کئی جگہ تقسیم تھا۔ کچھ حرم سرا میں کچھ باہر ۔ اس میں دو تقسیمیں تھیں۔ کچھ قدر و قیمت ۔ کچھ علوم و فنون نثر نظم ۔ ہندی ۔ فارسی ۔کشمیری ۔ عربی الگ الگ تھیں۔ اسی انتظام سے سال یہ سال موجودات لی جاتی تھی۔ عربی کا لمبر سب سے اخیر تھا۔ اہل دانش وقت معمولی پر کتابیں سناتے تھے۔ اور وہ بھی جس کتاب کو سنتا تھا ۔ ایک صفحہ بھی نہ چھوڑتا تھا۔ پڑھتے جہاں پر ملتوی کرتے تھے۔ وہاں اپنے ہاتھ سے نشان کر دیتا تھا۔ اور جب کتاب ختم ہوتی تو پڑھنے والے کو بحساب صفحات جیب خاص سے انعام ملتا تھا۔ مشہور کتابوں میں سے شائد ہی کوئی کتاب ہو گی جو اس کے سامنے نہ پڑھی گئی ۔ کوئی تاریخی سر گزشت ۔ اکثر فقہی مسائل ۔ علوم کے عمدہ مباحثے ۔ فلسفہ و حکمت کے نکتے ایسے نہ تھے جن میں وہ خود بحث اور گفتگو نہ کر سکتا ہو۔ کتاب کے دوبارہ سننے سے اکتا تانہ تھا۔ بلکہ اور بھی دل لگا کر سنتا تھا۔ اور اس کے مطالب پر گفتگو کرتا تھا۔ اخلاق ناصری ۔ کیمیاے سعادت سینکڑوں مسئلے فقہ کے اور اس میں اختلاف علمائے کے زبانی یاد تھے۔ تاریخی معلومات میں ایک جامع الاخبار کتاب بلکہ کتب خانہ تھا۔ ملا صاحب منتخب التواریخ میں لکھتے ہیں۔ حکایت سلطنت شمس الدین التمش کے باب میں مشہور ہے کہ وہ بینر تھا۔ اور اصل اس کی یہ ہے کہ اس نے ایک دفعہ کسی خوبصورت صاحب جمال لونڈی سے صحبت کرنی چاہی۔ کچھ نہ ہو سکا۔ اور چند دفعہ ایسا ہی ارادہ کیا مگر خالی گیا۔ ایک دن وہی لونڈی اس کے سر میں تیل مل رہی تھی۔ معلوم ہوا کہ کئی بوندیں سر پر ٹپکی ہیں۔ بادشاہ نے سر اٹھا کر دیکھا اور رونے کا سبب پوچھا ۔ بڑے اصرار سے بتایا کہ مجھے یاد ہے بچپن میں میرا ایک بھائی تھا اور آپ کی طرح اس کے بھی سر کے بال اڑے ہوئے تھے۔ اسے یاد کر کے میرے ا ٓنسو نکل پڑے۔ جب تحقیق کیا کہ یہ تباہی زدہ کیونکر آئی تھی اور کہاں سے آئی تھی تو معلوم ہوا کہ بادشاہ کی حقیقی بہن تھی۔ خدا نے اس نیک نیت بادشاہ کو اس طرح گناہ سے بچایا۔ بعداس کے ملا صاحب لکھتے ہیں کہ راقم اوراق کو خلیفہ افاق اکبر بادشاہ اکثر خلوت گاہ میں رات کو بلالیتے تھے۔ اور گفتگوئے زبانی سے اعزاز بڑھایا کرتے تھے ایک دفعہ فتچور میں اور ایک دفعہ لاہور میں فرمایا کہ یہ نقل سلطان غیاث الدین بلبن کی ہے اور کچھ زیادہ نکتے بھی بیان فرمائے۔ قابوس نامہ ۔ ملفوظات شیخ شرف الدین منیری ۔ حدیقہ حکیم ثنائی مثنوی معنوی۔ جامع جم۔ شاہنامہ ۔ خمسہ نظامی ۔ کلیات امیر خسرو۔ کلیات جامی۔ دیوان خاقانی انوری وغیرہ وغیرہ اور ہر قوم کی تاریخیں اس کے سامنے بلانا غہ پڑھی جاتی تھیں۔ اور گلستان بوستان سب سے زیادہ ۔ ترجمہ کا سر شتہ خاص تھا۔ مختلف زبان داں نوکر تھے۔ سنسکرت ۔ یونانی ۔ عربی کی کتابیں فارسی اور بھاشا میں ترجمہ کرتے تھے۔ جہان یہ صاحب زبان بیٹھتے تھے۔ اس مقام کا نام مکتب خانہ تھا زیچ جلغ بیگ کا ترجمہ میر فتح اللہ شیرازی کے اہتمام سے ہوا۔ کشن جوتشی۔ گنگا دھر مہیش مہائند بھی اس میں شامل تھے۔ کہ سنسکرت سے مدد کرتے تھے۔ تفصیل کتابوں کی جو اکبر کی فرمائش سے یا اس کے عہد میں لکھی گئیں کتابیں جو اس کی فرمائش سے تصنیف ہوئیں۔ اب تک اہل نظر ان میں سے مطالب کے پھول اور فوائد کے میوے چن چن کروا من بھرتے ہیں استاد مرحوم نے کیا خوب فرمایا ؎ روز اس گلشن رخسار سے لے جاتے ہیں اپنے دامان نظر مر دم بینا بھر کر سنگھاسن بتیسی کی پتلیوں کو بادشاہ کی فرمائش سے 982ھ میں ملا عبدالقادر بدایونی نے فارس کے کپڑے پہنائے اور نامہ خردا افزا اس کا تاریخی نام ہوا۔ حیواۃ الحیوان عربی میں تھی۔ اکبر پڑھو ا کر اس کے معنی سنا کرتا تھا۔ 983میں ابوالفضل سے فرمایا کہ اس کا فارسی میں ترجمہ ہو چنانچہ شیخ مبارک نے لکھ دیا۔ دیکھو اس کا حال۔ اتھر بن بید 983ھ میں شیخ بہاون ایک برہمن دکن سے آکر اپنی خوشی سے مسلمان ہوا۔ اور خواصوں میں داخل ہوا۔ اسے حکم ہوا کہ اس کا ترجمہ کرواؤ ۔ یہ چوتھا بید ہے۔ فاضل بدایونی کو لکھنے کی خدمت سپرد ہوئی۔ اکثر عبارتیں ایسی مشکل تھیں کہ معنی بیان نہ کر سکتا تھا۔ انہوں نے عرض کی اول شیخ فیضی کو پھر حاجی ابراہیم کو یہ خدمت سپرد ہوئی۔ مگر وہ بھی نہ لکھ سکے آخر ملتوی رہا بلوک مین صاحب آئین اکبری کے ترجمے میں لکھتے ہیں ۔ ترجمہ ہو گیا تھا۔ کتاب الاحادیث ملا صاحب نے ثواب جہاد اور ثواب تیر اندازی میں لکھی۔ اور نام بھی تاریخی رکھا 986ھ میں اکبر کو نذر گزرانی ۔ معلوم ہوتا ہے کہ 976ھ میں ملازمت سے پہلے اپنے شوق سے لکھی تھی۔ ان کا قلم بھی نچلا نہ رہتا تھا۔ آزاد کی طرح کچھ نہ کچھ کئے جاتے تھے۔ لکھتے تھے۔ ڈال رکھتے تھے۔ تاریخ الفی 990ھ میں فرمایا کہ ہزار سال پورے ہو گئے۔ کاغذوں میں سنہ الف لکھے جاتے ہیں۔ وقائع عالم کاہزار سالہ حال لکھ کر اس کانام تاریخ الفی رکھنا چاہئے۔ تفصیل دیکھ عبدالقادر کا حال شیخ ابوالفضل لکھتے ہیں کہ دیباچہ میں نے لکھا۔ راما ئن 993 ھ میں ملا عبدالقادر بدایونی کو حکم دیا کہ اس کا ترجمہ کرو۔ چند پنڈت ساتھ کئے 997ھ میں ختم ہوئی۔ ضخامت 120جز ہوئی ۔ کل کتاب کے 25 ہزار اشلوک ہیں۔ فی اشلوک 65حرف۔ مہا بھارت کو بھی انہی پنڈتوں نے ترجمہ کروایا تھا۔ جامع رشیدی 993ھ میں ملا عبدالقادر کو حکم ہوا کہ شیخ ابوالفضل کی صلاح سے اس کا خلاصہ کرو۔ وہ ایک مجلد ضخیم ہے۔ توزک بابری کہ عقل عملی کا قانون ہے 997ھ میں عبدالرحیم خان خانان نے حسب الحکم ترکی سے فارسی میں ترجمہ کر کے نذر گزرانی اور بہت پسند آئی۔ تاریخ کشمیر راج ترنگنی کا ذکر آیا۔ وہ کشمیر کے عہد قدیم کی تاریخ زبان سنسکرت میں ہے۔ ملاشاہ محمدؐ شاہ آبادی ایک فاضل جامع معقول و منقول تھے۔ انہیں حکم دیا تھا کہ اس کا ترجمہ لے کر کشمیر کی تاریخ لکھو۔ تیار ہوئی تو عبارت پسند نہ آئی ۔ 999ھ میں ملا صاحب کو حکم دیا کہ سلیس اوربرجستہ عبارت میں لکھو۔ انہوں نے دو مہینے میں لکھ دی۔ معجم البلدان 999ھ میں حکیم ہمام نے کتاب مذکور کی بہت تعریف کی اور کہا کہ فوائد عجیب اور حکایات غریب پر مشتمل ہے ترجمہ ہو جائے تو خوب ہے۔ دو سوجز کی کتاب تھی دس بارہ شخص ایرانی و ہندوستانی جمع کئے۔ اور کتاب کے ٹکرے کرکے بانٹ دی۔ چند روز میں تیار ہو گئی۔ نجات الرشید 999ھ میں خواجہ نظام الدین بخشی کی فرمائش سے ملا عبدالقادر نے لکھی نام تاریخی ہے۔ مہا بھارت سنہ الف میں ترجمہ شروع ہوا۔ بہت سے مصنف اور مترجم مصروف رہے تیار ہو کر باتصویر لکھی گئی۔ اور مکرر لکھی گئی۔ رزمنامہ نام پایا۔ شیخ ابوالفضل نے اس پر دیباچہ لکھا۔ تقریبا دو چز ہو گے۔ طبقات اکبر شاہی سنہ الف تک لکھی گئی آگے نہ چلی۔ 1 ؎ یہ شاہ آباد علاقہ کشمیر میں ہے۔ سری نگر دارالحکومت سے 3 منزل ادھر۔ سواطع الالہام 1002ھ میں شیخ فیضی نے ایک تفسیر بے نقط لکھی 75جز ہیں۔ دیکھو فیضی کا حال۔ موارد الکم یہ بھی فیضی نے لکھی ۔ بے نقط ہے۔ نلدمن 1003ھ میں اکبر نے شیخ فیضی کو حکم دیا کہ پنج گنج نظامی پر پنج گنج لکھو۔ انہوں نے 4 مہینے میں اول نل دمن کہہ کر گزرانی دیکھو فیضی کا حال۔ لیلاوتی ایک حساب کی کتاب ہے فیضی نے سنسکرت سے فارسی کے قالب میں ڈھالی۔ دیکھو فیضی کا حال۔ بحر الاسماء 1004ھ میں ایک ہندی افسانے کو ملا عبدالقادر بدایونی سے درست کروایا جس نے بحرالا سماء نام پایا۔ اصل ترجمہ سلطان زین العابدین بادشاہ کشمیر کے حکم سے ہوا تھا۔ بڑی فربہ اور ضخیم کتاب ہے۔ اور اب نہیں ملتی۔ اکبر نامہ 40 برس کا حال اکبر کا ہے۔ اور آئین اکبری اس کا حصہ دوم ۔ کل ابوالفضل نے لکھا۔ دیکھو ابوالفضل کا حال۔ عیاردانش قصہ کلیلہ و دمنہ ابوالفضل نے لکھا۔ دیکھو ابوالفضل کا حال۔ کشکول شیخ ابوالفضل نے سیاحت نظر کے عالم میں جو جو کتابوں میں دیکھا ۔ اور پسند آیا۔ انتخاب کے طور پر لکھا ۔ اسی مجموعہ کا نام کشکول ہے۔ اکثر علمائے صاحب نظر کا قاعدہ ہے۔ کہ جب مختلف کتابوں کی سیر کرتے ہیں تو ان میں سے یاد داشتیں لکھتے جاتے ہیں۔ چنانچہ شیخ حرعا ملی۔ شیخ بہاؤ الدین ۔ سید نعمت اللہ جزائری ۔ شیخ بوسف بحرانی وغیرہ اکثر علما کے کشکول ہیں اور ایران میں چھپ گئے ہیں۔ ناجک علم ہیئت میں ایک کتاب تھی۔ مکمل خاں گجراتی نے حسب الحکم اس کا فارسی میں ترجمہ کیا ہرس بنس اس میں سری کرشن جی کا حال ہے۔ ملا شیری نے حسب الحکم فارسی میں ترجمہ کیا۔ جوتش خان خاناں نے جوتش میں ایک مثنوی لکھی۔ ہر بیت میں ایک مصرع فارسی ایک سنسکرت ثمرۃ الفلاسفہ عبدالستار ابن قاسم کی تصنیف ہے۔ اکبری تاریخ میں شہرت کی سرخی اس کے نام پر نہیں نظر آتی۔ مصنف خود دیباچہ میں لکھتا ہے کہ میں نے چھ مہینے کے عرصے میں زبان مذکور پادری جرونمو شوپرسے حاصل کر لی۔ بول نہیں سکتا۔ مگر مطلب خاصہ نکال لیتا ہوں۔ چنانچہ ادھر بادشاہ نے اس کتاب کے ترجمے کا حکم دیا۔ ادھر کتاب تیار ہو گئی۔ مصنف مذکور اور اس کی کتاب ابوالفضل کے اس فقرے کی تصدیق کرتے ہیں جو اس نے پادری فریتبون وغیرہ اہل فرنگ کے آنے کے ذکر میں لکھا ہے ’’ یونانی کتابوں کے ترجمے کا سامان بہم پہنچا۔ ‘‘ کتاب مذکور میں اول روما کی تاریخ قدیم کا مختصر بیان ہے پھر مشاہیر اہل کمال کے حالات ہیں۔ انداز عبارت ایسا ہے کہ اگر دیباچہ نہ پڑھو تو تم جانو کو ابوالفضل یا اس کے شاگرد کا مسودہ ہے۔ نظرثانی کی نوبت نہ پہنچی ہو گی۔ 48جلوس اکبری میں لکھی گئی۔ 1011ھ ہوئے۔ یہ کتاب خلیفہ سید محمد حسن صاحب وزیر پٹیالہ کے کتب خانہ میں میری نظر سے گزری۔ خیر لبیان ایک کتاب پیر تاریکی نے لکھی۔ یہ وہی پیر ہے جس نے اپنا نام پیر روشنائی رکھا تھا ۔ کوہستان پشاور میں جو وہابی پھیلے ہوئے ہیں وہ اسی کی امت چلے آتے ہیں۔ جو ادھر ادھر نئے پیدا ہوئے ہیں۔ انہیں میں جا ملتے ہیں۔ عمارات عہد اکبر شاہی 961ھ میںجب ہمایوں ہندوستان پر آیا تو لاہور میں پہنچ کر آپ یہاں ٹھہیرا اور اکبر کو باتالیقی خان خاناں آگے بڑھایا۔ سر ہند کے مقام پر سکندر سور پٹھانوں کا ٹڈی دل لئے پڑا تھا۔ خان خانان نے جا کر میدان میں صف آرائی کی اور ہمایوں کو عرضی لکھی۔ وہ بھی جا پہنچا۔ لڑائی بڑے معرکے سے شروع ہوئی اور کئی دن تک جاری رہی۔ جو پہلو اکبر اور بیرم خان کے سپرد تھا۔ ادھر سے خوب خوب کارنامے ہوئے۔ اور جس دن شاہزادے کے دھاوے کا دن تھا اسی دن معرکہ فتح ہوا چنانچہ اس فتح کے تہنیت نامے اس کے نام سے لکھے گئے۔ خان خاناں نے مقام مذکور کا نام سر منزل رکھا کہ شاہزادہ کے نام کی پہلی فتح تھی ۔ اور ایک کلہ منار یادگار تعمیر کیا۔ 929ھ میں خان اعظم شمس الدین محمد خان اتکہ آگرہ میں شہید ہوئے۔ ان کا جنازہ دلی میں بھجوایا اوراس پر مقبرہ بنوایا۔ اسی تاریخ ادہم خاں ان کے جرم قتل میں قتل ہوا۔ اسے بھی اسی رستے روانہ کیا۔ اس کے چالیسویں کے دن ماہم بیگم اس کی ماں کہ اکبر کی انا تھی بیٹے کے غم میں دنیا سے کوچ کر گئی۔ اس کا جنازہ بھی وہیں بھیجا کہ ماں بیٹے ساتھ رہیں اور ان کی قبر پر مقبرہ عالیشان بنوایا۔قطب صاحب کے پاس اب تک بھول بھلیاں مشہور ہے۔ 963ھ سال اول جلوس میں ہیمول کی مہم فتح ہوئی۔ پانی پت کے میدان میں جہاز لڑائی ہوئی تھی کلہ منار بنایا دیکھو صفحہ 9۔ نگر چین شہر آگرہ سے 3 کوس کے فاصلے پر کرائی ایک گاؤں تھا۔ اس دلکشا مقام کی سر سبزی اور سیرابی اکبر کو بہت پسند آئی۔ اکثر سیرو شکار کو وہیں آجاتے تھے۔ اور دل کو شگفت کرتے تھے۔ 971ھ میں خیال آیا کہ یہاں شہر آباد ہو۔ چند روز میں پھلے پھولے باغ ۔ عالیشان عمارتیں ۔ شاہانہ محل۔ پائین باغ ۔ دلچسپ مکانات چو پڑکے بازار۔ اونچی اونچی دکانیں۔ بلند بالا خانے تیار ہو گئے۔ امرائے دربار اور اراکین سلطنت نے بھی اپنی اپنی دسترس کے بموجب مکان حرم سرائیں۔ خانہ باغ تعمیر کئے۔ بادشاہ نے یہیں ایک میدان ہموار مرتب کیا تھا کہ اس میں چوگان کھیلا کرتے تھے۔ وہ میدان چوگان بازی کہلاتا تھا۔ شہر مذکور اپنی بینظیر لطافتوں اور عجیب و غریب ایجادوں کے ساتھ س قدر جلد تیار ہوا کہ دیکھنے والے حیران رہ گئے۔ (ملا صاحب کہتے ہیں) اور مٹا بھی ایسا جلد کہ دیکھتے دیکھتے نشان تک نہ رہا۔ میں نے خود آگرہ جا کر دیکھا اور لوگوں سے دریافت کیا۔ مقام مذکور اب شہر سے پانچ کوس سمجھا جاتا ہے۔ اس وقت کی کتابوں میں جو شہر سے تین کوس فاصلہ لکھا ہے۔ اس سے اور وہاں کے خرابوں سے دریافت کر سکتے ہیں کہ جب شہر آگرہ کہاں تک آباد تھا۔ اور اب کتنا رہ گیا ہے۔ مسجد و خانقاہ شیخ سلیم چشتی اکبر کی 27-28برس کی عمر ہو گئی تھی۔ اور اولاد نہ تھی ہوئی تو مر گئی۔ شیخ سلیم چشتی نے خبر دی کہ وارث تاج و تخت پیدا ہونے والا ہے۔ اتفاق یہ کہ انہی دنوں محل میں حمل کے آثار معلوم ہوئے۔ اس خیال سے کہ برکات انفاس قریب تر ہو جائے۔ حرم مذکور کو شیخ کی پہلی خانقاہ اور حویلی کے پاس کوہ سیکری پر ایک شاہانہ عمارت اور نئی خانقاہ اور نہایت عالیشان مسجد کی تعمیر شروع کی کہ کل سنگین ہے اور ایک پہاڑ ہے کہ پہاڑ پر دھرا ہے۔ مسافران عالم کہتے ہیں کہ ایسی عمارتیں عالم میں کم ہیں۔ تخمیناً 5 برس میں تیار ہوئی۔ اس کا بلند دروازہ کسی بنئے نے بنوایا تھا۔ فتح پور سیکری 979ھ میں حکم ہوا کہ دیوان دولت اور شبستان حشمت کے لئے قصر ہائے عالی تعمیر ہوں اور تمام امرا درجہ اعلیٰ سے لیکر ادنے تک سنلگین اور گچکاری کی عمارتوں سے محل اور مکان آراستہ کریں۔ سنگین اور چوڑے چوپڑ کے بازار۔ اوپر ہوا دار بالا خانے نیچے مدرسے خانقاہیں اور حمام گرم ہوں۔ شہر میں خانہ باغ ۔ باہر باغ لگیں۔ شرفا و غربا ہر پیشہ کے لوگ آباد ہو کر دلچسپ مکانوں اور دلکش و کانوں سے شہر کی آبادی بڑھائیں۔ گرو شہر کے پتھر اور چونے کی فصیل کا دائرہ کھینچیں۔ 4 کوس کے فاصلے پر مریم مکانی کے محل اور باغ دلکشا تھا۔ بابر نے بھی رانا پر یہیں فتح پائی تھی۔ اکبر نے مبارک شگون سمجھ کر فتح آباد نام رکھا تھا۔ پھر فتح پور مشہور ہو گیا اور بادشاہ کو بھی یہی منظور ہوگ یا۔ الاسماہ تنزل من السماء چاہا تھا کہ یہی دارالخلافہ ہو جائے۔ خدا نے 985میں حکم دیا کہ ٹکسال بھی یہیں جاری ہو۔ چنانچہ 4گوشہ روپے پہلے وہیں سے نکلے۔ بنگالی محل اور ایک اور محل اسی سنہ میں آگرہ میں تیار ہوا۔ قاسم ارسلان نے دونوں کی تاریخ کہی۔ تمام شد دو عمارت بسان خلد بریں بدور دولت صاحب قران ہفت اقلیم یکے بہ بلدۂ دارالخلافہ آگرہ دگر بہ خطہ سیکری مقام شیخ سلیم سپہرازپے تاریخ ایں دو عالی قصر رقمز دہ دو بہشت بریں بکلک قدیم قلعہ اکبر آباد آگرہ کو زیادہ تر سکندر لودی نے آباد کیا۔ اور ایسا بڑھایا چڑھایا کہ اینٹ پتھر چونے سے قلعہ تیار کر کے دارالسطنت بنادیا۔ اس وقت دونوں طرف شہر آباد تھا۔ بیچ میں جمنا بہتی تھی۔ قلعہ شہر کے مشرق پر تھا۔ 973ھ میں اکبر نے حکم دیا کہ قلعہ کو سنگین بنائیں۔ اور سنگ سرخ کی سلیں تراش تراش کر لگائیں دو طرفہ گچ اور قتر سے مستحکم عمارتیں بنیں۔ ملا صاحب فرماتے ہیں 3 سیر غلہ سر جریب تمام ولایت پر لگا دیا۔ محصل پہنچے اور امرائے جاگیردار کی معرفت وصول کر لائے۔ 5برس میں تیار ہو گیا ۔عرض دیوار 30 گز ۔ ارتقاع ۔ 60 گز ۔ 4 دروازے خندق عمیق پانی تک کہ 10 گز پر نکل آیا تھا۔ تین چار ہزار آدمی کی مدد روز لگتی تھی۔ اب بھی طول میں جمنا کے کنارے تک پھیلا ہوا نظر آتا ہے۔ دیکھنے والے کہتے ہیں کہ یہ قلعہ بھی اپنا نظیر نہیں رکھتا۔ شیخ فیضی نے دروازے کی تاریخ کہی بنائے دبہشت پھر ملا صاحب کہتے ہیں قریب 30 کروڑ کے لاگت ہے اور ہندوستان بھر کے روپے کو چھاتی پر لئے بیٹھا ہے۔ 1 ؎ بدایونی میں مدت تعمیر 5 برس اور اکبر نامہ میں 8 برس لکھتے ہیں اور مقدار عرض اور ارتفاع میں بھی فرق ہے کہ خانی خاں لکھتے ہیں 973میں شروع اور 980ھ میں تمام ہوا۔ 30 لاکھ روپیہ خرچ ہوا۔ انہی نے یہ بھی لکھا ہے کہ عوام میں یہ خیال ہے کہ اکبر کے عہد سے اس کا نام اکبر آباد ہوا۔ مگر مرزا امینا شاہجہاں نامہ میں لکھتا ہے کہ شاہجہان نے دادا کی محبت سے اکبر آباد نام رکھا۔ اس سے پہلے آگرہ ہی مشہور تھا۔ کاریگر معمار۔ سنگتراش نزاکت کار۔ مصور جادونگار۔ لہار مزدور وغیرہ وغیرہ 4 ہزار آدمی کی مدد روز جاری تھی۔ دولت خانہ خاص میں سنگتراشوں کی منبت اور پچی کاری اور مصوروں کی سحر نگاری نے آئندہ ایجاد کے لئے جگہ نہیں چھوڑی۔ اس لئے تاریخ ہوئی بنائے۔ قلعہ شد بہرزر ۔ اس کے عالیشان دروازے کے دونو طرف دو ہاتھی پتر کے تراش کر کھڑے کئے تھے کہ آمنے سامنے سونڈیں ملا کر محراب بناتے تھے۔ اور سب اس کے نیچے سے آتے جاتے تھے۔ اس کا نا ہتیاپول تھا (پول بمعنی دروازہ) اسی پر نقارہ خانہ دربار تھا۔ ملا شیری نے تاریخ کہی ؎ کلک شیری پے تاریخ نوشت بے مثال آمدہ دروازہ فیل اب نقارہ نہ رہا ۔ صاحب نقارہ نہ رہے۔ نقارخانہ بے فائدہ چیز تھی۔ سر کار نے اسے کرا کر پتھر بیچ ڈالے۔ دروازہ باقی ہے۔ ہاتھی بھی نہرہے۔ ہتیاپول کا نام باقی ہے۔ اور جامع مسجد اس کے محاذی واقع ہوئی ہے۔ فتح پور سیکری کے ہتیا پول میں ہاتھی موجود ہیں سونڈیں ٹوٹ گئیں۔ افسوس محراب کا لطف نہ رہا۔ ہمایوں کا مقبرہ 977ھ میں شہر دہلی میں دریائے جمن کے کنارے پر میرک مرزا غیاث کے اہتمام سے آٹھ نو برس کی محنت میں تیار ہوا۔ تمام سنگین۔ اس کے گلتراشی اور منبت کاری کے لئے پہاڑوں نے اپنے جگر کے ٹکڑے بھیجے۔ اور معماروں نے صنعت کاری کی جگہ جادو گری خرچ کی۔ اب تک دیکھنے والوں کی آنکھیں پتھرا چاتی ہیں۔ مگر حیرت کی نگاہیں نہیں تھکتیں۔ عمارات اجمیر 977ھ میں پہلے سلیم پیدا ہوا۔ پھر مراد پید ا ہوا۔ بادشاہ شکرانے اور منت بڑھانے کو اجمیر گئے۔ شہر کے گرد قلعہ باندھا امرا کو حکم ہوا کہ تم بھی عالیشان عمارتیں بناؤ۔ سب تعمیل کر کے شکوہ اقبال کی شہ نشینوں میں بیٹھے اور آفرین بادشاہی طرہ و ستار ہوئی۔ شرقی جانب میں بادشاہی دولت خانے تھے تین برس میں سب عمارتیں تیار ہو گئیں۔ کوکر تلاؤ کہ خسرو شیریں کار کی توجہ سے شکر تلاؤ ہو گیا۔ اس کا افسانہ سننے کے قابل ہے۔ جب 977ھ میں شاہزادہ مراد کی ولادت کے شکرانے ادا کر کے اجمیر سے پھرے تو ناگور کے رستے آئے اور اسی مقام پر ڈیرے ہوئے ۔ رعایاے شہر نے حاضر ہو کر عرض کی کہ خشک ملک ہے اور خلق خدا کی گزران دو تالابوں پر ہے۔ گیلانی تلاؤ شمس تلاؤ کہ کو کر تلاؤ کہلاتا ہے۔ اور بند پڑا ہے۔ بادشاہ نے اس کی پیمائش کروا کر صفائی امرا پر تقسیم کی اور وہیں مقام کر دیا۔ چند روز میں صاف ہو کر کٹورے کی طرح چھلکنے لگا۔ اور شکر تلاؤ نام پایا۔ کو کر تلاؤ اس لئے کہتے تھے۔ کہ کسی سودا گر کے پاس ایک وفا دار کتا تھا۔ اسے بہت عزیز رکھتا تھا مگر کچھ ضرورت ایسی پڑی کہ ایک شخص کے پاس گرو رکھ دیا۔ چند روز کے بعد اس پر خدا نے کرم کیا کہدولت و مال سے آسودہ حال ہو گیا۔ اور اپنی وفا کی گٹھری لینے چلا۔ اتفاقاً کتا بھی اپنی وفا کے جوش میں اس کی طرف چلا تھا۔ مقام مذکور پر ملاقات ہوئی۔ کتے نے دیکھتے ہی پہچان لیا اور دم ہلا کر اس کے پاؤں میں لوٹ گیا اور یہاں تک خوش ہوا کہ دم نکل گیا۔ سودا گر جتنا محبت والا تھا۔ اس سے زیادہ ہمت والا تھا۔ یہاں پکا تلاؤ بنایا کہ آج تک اس کی ہمت اورکتے کی محبت پر گواہی دیتا ہے۔ چاہ و منارہ اکبر نے عہد کیا تھا کہ ہر سال ایک دفعہ اجمیر میں زیارت کو حاضر ہوا کہ دنگا۔ 981ھ میں آگرہ سے وہاں تک ہر میل پر ایک کواں اور ایک منارہ تعمیر کیا۔ اس وقت تک جتنے ہرن شکار کئے تھے۔ ان کے سینگ جمع تھے۔ ہر منارہ پر لگا کر سراپا شاخ در شاخ کر دیا کہ یہ بھی یادگار رہے۔ ملا صاحب اس کی تاریخ میل شاخ کہہ کر فرماتے ہیں۔ کاش کہ ان کی جگہ باغ یا سرا بنواتے کہ فائدہ بھی ہوتا۔ آزاد کہتا ہے۔ کاش ملا صاحب کو دے دیتے۔ یونیورسٹی پنجاب ہوتی تو ڈپوٹیشن لے کر پہنچتی کہ ہمیں دے دو ۔ ع غرازیل گوید نصیبے برم۔ عبادتخانہ چار ایوان 981ھ میں بمقام فتح پور سیکری تعمیر ہوا دیکھو صفحہ 108۔ الہ آباد پراگ پر گنگا جمنا دونوں بہنیں گلے ملتی ہیں۔ اس پانی کے زور کا کیا کہنا جہاں دو محبت کے دریا ٹکر کھائیں۔ یہ ہندؤں کے تیر تھ کا مقام ہے۔ ہمیشہ سے یہاں منتیں مانتے ہیں اور نتاسخ کے خیالات میں جانیں دیتے ہیں۔ 981ھ میں اکبر پٹنے کی مہم پر جاتا تھا۔ مقام مذکور پر حکم دیا کہ ایک حصار عظیم الشان قلعہ آگرہ کے نقشے پر تعمیر ہو ۔ اور یہ ایجاد زیادہ ہو کر چار قلعوں میں تقسیم ہو۔ ہر قلعے میں محل ۔ مکانات ۔ بدلا خانے خوشنما طرزوں کے ساتھ مرتب ہوں۔ پہلا قلعہ وہاں ہو جہاں ٹھیک دو نو دریاؤں کی ٹکر ہے۔ اس میں 12خانہ باغ ہوں ہر باغ میں کئی کئی مکانات دلکشا۔ یہ خاص دولت خانہ بادشاہی ۔ (2)میں بیگمات اورشاہزادے (3)قرباے سلطانی ۔ ملازم اور اہل خدمت ۔ خاص و عام ۔ مہندسان تیز ہوش نے اس کے نقشوں کی تراشیں پیدا کرنے میں ذہن لڑا کر کار نامے دکھلائے اور ساتھ ہی ایک کوس طولانی۔ 40 گز عریض ۔ 40گز بلند بند مستحکم باندھ کر عمارتیں تیار کھڑی کر دیں۔ 28 جلوس میں عمارت کا کام ختم ہوا تھا۔ پھر وہ الہ آبناد سے الہ باس ہو گیا۔ ارادہ ہوا کہ اس میں دارالخلافہ قائم کریں۔ امر ا نے بھی عمارات عالی تعمیر کیں۔ شہر کی آبادانی اورف راوانی زیادہ ہوئی۔ ٹکسال کا سکہ بیٹھا۔ شریف سرمدی کا شعر مقبول ہو کر منقوش ہوا ؎ ہمیشہ چوں زر خورشید و ماہ روشن باد بہ شرق و غرب جہاں سکہ الہ آباد اسی عہد میں چوکی نویسی کا آئین مقرر ہوا تھا۔ چند معتبر منصبدار تھے۔ کہ باری باری سے حاضر ہوتے تھے۔ روز مرہ ساعت بساعت کے احکام لکھتے رہتے تھے۔ وہ چوکی نویس کہلاتے تھے۔ امیر منصبدار ۔ احدی جو خدمت پر حاضر ہوتے تھے۔ ان کی یہ حاضری لکھتے تھے۔ جو سندیں اور چٹھیاں ان کی تنخواہوں کی خزانہ پر ہوتی تھیں انہی کی تصدیق سے ہوتی تھیں۔ محمد شریف مذکور اور محمدؐ نفیس بھی انہیں میں تھے۔ ان کی لیاقت بھی بہت خوب تھی اور اکبر کی بھی نظر عنایت تھی۔ اس واسطے حاضر بھی زیادہ رہتے تھے۔ محمد شریف شیخ ابوالفضل کے جلسے کے بھی یار تھے۔ انشائے ابوالفضل کے دفتر دوم میں کئی خطہ ان کے نام ہیں اور مان سنگھ وغیرہ امرا کے خطوط میں ان کی سفارش بھی کی ہے۔ پھرتو ملا صاحب کو ان پر خفا ہونا واجب ہوا۔ چنانچہ سلسلہ تاریخ میں اس مقام پر فرماتے ہیں ۔ ان کے باب میں کسی نے شعر بھی کہا ہے ؎ دوچوکی نویس اندہر دوکثیف یکے نانفیس و دگرنا شریف قلعہ تارا گڑھ اسی سال میں زیارت اجمیر کو گئے اور حضرت سید حسین خنگ سواہ کی عمارات مزار اورفصیل کی تعمیر کی۔ 1 ؎ شیخ ابوالفضل نے اکبر نامہ میں اسے عنبر سر اور ملا صاحب نے عنبر لکھا ہے۔ فرماتے ہیں انبر کے پاس موضع ملتان پر خیمے ہوئے معلوم ہوا کہ یہ شہر قدیم ہے۔ خدا جانے کب سے ویران پڑا ہے اس کی آبادی کا سر انجام کر کے وہاں سے اٹھے۔ منوہر پور شہر انبر پر لشکر اترا۔ معلوم ہوا کہ قریب تر یہاں سے ملتھان نام ایک شہر قدیم کے ویرانے پڑے ہیں اور خاک کے ٹیلے اس کی تاریخ سنا رہے ہیں ۔ اکبر نے جا کر دیکھا۔ حکم دیا کہ فصیل دروازے باغ وغیرہ تیار ہوں۔ کام امرا کو تقسیم ہو گئے اور تعمیر میں بڑی تاکید کی ۔ انتھا ہے کہ 8 دن میں کچھ سے کچھ ہو گیا۔ اور رعایا آباد ہو گئی ۔ رائے منوہر ولدرائے لون کرن حاکم سانبھر کے نام پر منوہر پور اس کا نام رکھا۔ ملا صاحب کہتے ہیں کنور مذکور پر بڑی نظر عنایت تھی۔ سلیم کے ساتھ کھیل کر بڑا ہوا تھا۔ شعر بھی خوب کہتا تھا اور اس میں تو سنی تخلص کرتا تھا۔ جوان قابل اور ہر معاملہ میں منصف مزاج تھا۔ رائے مرزا منوہر کہلا تا تھا۔ قلعہ اٹک جب محمد ؐ حکیم مرزا کی اخیر مہم فتح کر کے کابل سے پھرے تو اٹک کے گھاٹ پر مقام ہوا۔ جاتے ہوئے تجویز ہو گئی تھی کہ یہاں جنگی قلعہ تعمیر ہو ۔ 990ھ 14خورداد دوپہر پر دو گھڑی بجے اپنے مبارک ہاتھ سے بنیاد کی اینٹ رکھی۔ بنگالہ میں کٹک بنارس ہے اس کا نا م اٹک بنارس رکھا۔ خواجہ شمس الدین خانی انہیں دنوں میں بنگالہ سے آئے تھے۔ ان کے اہتمام سے تعمیر ہوا۔ کنار اٹک پر جو دو پتھر جلالاہ ۔ کمالا کہلاتے ہیں۔ اسی صاحب تاثیر بادشاہ نے خطاب دیا ہے۔ عجب برکت والے لوگ تھے۔ جو موج دل میں آئی۔ عالم کی زبان پر جاری ہو گئی۔ حوض حکیم علی 1002ھ میں حکیم علی نے لاہور میں ایک حوض بنایا کہ پانی سے لبریز تھا۔ عرض وطول 20X20۔ گہرام 3 گز ۔ بییچ میں حجرہ سنگین ۔ اس کی چھت پر بلند منارہ حجرہ کے چاروں طرف 4 پل ۔ لطف یہ تھا کہ حجرہ کے دروازے کھلتے تھے۔ اور پانی اندر نہ جاتا تھا۔ 7 برس پہلے قتچور میں ایک حکیم نے اسی کمال کا دعوے کیا۔ یہی سب سامان بنوایا مگر بن نہ آیا۔ آخر کہیں غوطہ مار گیا۔ اس با کمال نے کہا اور کر دکھایا۔ میر حیدر معمائی نے تاریخ کہی ۔ حوض حکیم علی بادشاہ بھی سیر کو آئے۔ سنا کہ جو اندر جاتا ہے۔ رستہ ڈھونڈتا ہے۔ نہیں ملتا۔ دم گھٹ کر گھبراتا ہے۔ اور نکل آتا ہے۔ خود کپڑے اتار کر غوطہ مارا ۔ اور اندر جا کر سارا حال معلوم کیا۔ ہوا خواہ بہت گھبرائے ۔ جب نکلے تو سب کے دم میں دم آئے۔ جہانگیر نے 1016ھ میں لکھا ہے۔ آج آگرہ میں حکیم علی کے گھر اس حوض کا تماشا دیکھنے گیا۔ جیسا والد کے وقت میں لاہور میں بنایا تھا۔ چند مصاحبوں کو ساتھ لے گیا کہ انہوں نے نہیںدیکھا تھا۔ 6X6ہے۔ پہلو میں ایک حجرہ ہے نہایت روشن ۔ رستہ اسی حوض میں سے ہے۔ مگر پانی اسے راہ سے اندر نہیں آتا۔ 10۔ 12 ۔ آدمی اس میں جلسہ جما کر بیٹھ سکتے ہیں۔ انوپ تلاؤ 986ھ میں فتچور سے بھیرہ کی طرف شکار کو چلے۔ حکم دیا کہ ناتمام حوض کو صاف کر کے ہر قسم کے سکول سے لبریز کر دو کہ ہم اعلیٰ سے اونیٰ تک خلق اللہ کو اس کا فیض پہنچائینگے۔(ملا صاحب کہتے ہیں پیسوں سے بھروایا تھا) ۔ طول عرض 20X20۔ عمق دو قد آدم ۔ سنگ سرخ کی عمارت تھی۔ چند روز کے بعد رستے میں راجہ ٹوڈرمل نے عرض کی کہ 17کروڑ بھر چکے ہیں مگر بھرا نہیں ہے۔ فرمایا کہ جب تک ہم پہنچیں۔ لبا لب کر دو۔ جس دن تیار ہوا۔ آپ کنارے پر آئے ۔ شکر الہٰی بجا لائے۔ پہلے ایک اشرفی ایک روپیہ ۔ ایک پیسا آپ اٹھایا ۔ اسی طرح امرائے دربار کو عنایت فرمایا ۔ شیخ ابوالفضل لکھتے ہیں کہ راقم شگر فنامہ نے بھی کرم عام سے فیض خاص پایا۔ پھر مٹھیاں بھر بھر کر دیں اور دامن بھر بھر کر لوگ لے گئے۔ اور ہر شخص نے برکت کا تعویذ بنا کر رکھا۔ جس گھر میں رہا اور اس میں کبھی روپے کا توڑا نہ ہوا۔ ملا صاحب فرماتے ہیں ۔ شیخ منجھو قوال صوفیانہ وضع رکھتا تھا۔ شیخ ادہن جونپوری کے مریدوں میں سے تھا انہی دنوںمیں حوض مذکور کے کنارے پر اسے بلایا۔ اس کا گانا سن کر بہت خوش ہوئے۔ تان سین اور اچھے اچھے گویوں کو بلا کر سنوایا۔ اور فرمایا کہ اس کیفیت کو تم میں سے ایک نہیں پہنچتا۔ پھر اس سے کہا ۔ منجھو ۔ جاسب نقدی تو ہی اٹھا لے جا ۔ اس سے کیا اٹھ سکتی تھی! عرض کی ۔ حضور ! یہ حکم دیں کہ جتنی غلام اٹھا سکے اتنی لے جائے۔ منظور فرمایا۔ غریب ہزار روپے کی قریب ٹکے باندھ لے گیا۔ 3برس میں اسی طرح لٹا کر حوض خالی کر دیا۔ ملا صاحب کو بہت افسوس ہوا۔ آزاد میں نے ایک پرانی تصور دیکھی۔ اکبر اس تلاؤ کے کنارے پر بیٹھے ہیں۔ بیربل وغیرہ چند امرا حاضر ہیں۔ کچھ مرد ۔ کچھ عورتیں ۔ کچھ لڑکیاں پنہیاریوں کی طرح اس میں سے گھڑے بھر بھر کر لئے جاتے ہیں۔ اللہ اللہ جو سخاوت کی بہار دیکھنے والے ہیں انہیں یہ بھی ایک تماشا ہے۔ جہانگیر نے توزک میں لکھا ہے۔ کہ 36X36طول عرض ساڑھے 4 گز عمق تھا۔ 34 کروڑ 48 لاکھ 46 ہزار دام = 16لاکھ 79 ہزار 4 سو روپے کی نقدی اس میں آئی تھی۔ روپے اور پیسے ملے ہوئے تھے۔ ضرورت اور احتیاج کے پیا سے مدتوںتک آتے اور دلوں کی پیاس بجھاتے رہے۔ تعجب یہ ہے کہ اس میں کپور تلاؤ نام لکھا ہے۔ ٭……٭……٭ اکبر کی شاعری اور طبع موزوں وہ دربار قدرت سے اپنے ساتھ بہت سی نعمتیں لایا تھا۔ ان میں طبیعت بھی موزوں لایا تھا۔ اسی واسطے کبھی کبھی اشعار زبان سے نکل جاتے تھے۔ یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اشعار جو اس کے نام پر کتابوں میں لکھے ہیں اسی کے ہیں ۔ کیونکہ اگر وہ ملک شاعری میں شہرت چاہتا تو شاعر ہزار ول تھے۔ جلدیں کی جلدیں تیار کر دیتے۔ لیکن جب یہی چند شعر اس کے نام پر لکھے ہیں تو اپنی ہی طبیعت کی امنگ ہے۔ جو کبھی کبھی موقع پر ٹپک پڑی ہے۔ شائد لفظ یا لفظوں میں کسی نے اصلاح بھی کر دی ہو۔ خیر طبیعت کا انداز دیکھ لو۔ مطلع گریہ کر دم زغمت موجب خوشحالی شد ریختم خون دل از دیدہ دلم خالی شد رباعی مے ناز کہ دل خون شدہ ؟ ازدوری او من یار غمم زوست مہجوری او در آئینہ چرخ نہ قوس قزح است عکس است نمایاں شدہ از چوری او قطعہ دو شینہ بکوے مے فروشاں پیمانہ مے بزر خر یدم ! اکنوں زخمارسر گرا نم ! زر دادم و ورد سر خریدم مطلع من بنگ نمے خورم مے آرید میارید من چنگ نمے زنم نیا آرید رید 997ھ میں بہار کشمیر کی گلگشت کے لئے مع لشکر و امرائے لشکر تشریف لے گئے۔ اور بیگمات کو بھی ساتھ لیا کہ باغ قدرت کا تماشا دیکھ کر سب خوش ہوں۔ آپ امرائے خاص اور مصاحبوں کو لے کر آگے بڑھ گئے تھے۔ شہر سری نگر میں پہنچ کر خیال آیا کہ مریم مکانی کے دولت خیز قدم بھی ساتھ ہوں۔ تو نہایت مبارک بات ہے۔ شیخ کو حکم ہوا کہ عرضداشت لکھو۔ وہ تحریر میں مصروف تھے۔ خود فرمایا۔ اور یہ بھی عرضداشت میں درج ہو ؎ حاجی بسوے کعبہ روداز برائے حج یا رب بود کہ کعبہ بیاید بسوئے ما ٭……٭……٭ عہد اکبر کے عجیب واقعات مقام بکسر میں راوت ٹیکا نام موضع مذکور کا مقدم تھا۔ کسی دشمن نے قابو پا کر اسے مار ڈالا۔ مقتول نے دو زخم کھائے تھے۔ ایک پیٹھ پر ۔ دوسرا کان کے نیچے ۔ چند روز کے بعد اس کے رشتہ دار کے گھر بچہ پیدا ہوا کہ یہی دو زخم اس کے موجود تھے۔ لوگوں میں چرچا ہوا۔ اور جب وہ بڑا ہوا تو اس نے بھی یہی کہا۔ بلکہ اکثر اس کی باتیں ایسے ایسے نشان و مقام کے پتے سے بتائیں کہ سب حیران ہوئے۔ معاملہ اکبر نے بھی اس کا دوبارہ جنم لینا تسلیم کیا۔ مگر اکبر نامہ میں لکھا ہے کہ بادشاہ نے کہا۔ اگر زخم لگے تھے۔ تو راوت کے جسم پر لگے تھے۔ جان پر نہ تھے۔ اس جسم میں آئی ہے تو جان آئی ہے۔ پھر جان آئی ہے۔ پھر زخموں کا اس بدن پر ظاہر ہونا چہ معنی دارد۔ اس پر اپنی والدہ کا حال بیان کیا۔ دیکھو صفحہ 4 ۔ ایک اندھے کو لائے کہ جو کچھ بات اس سے کہتے تھے۔ وہ بغل میں ہاتھ دیکر جواب دیتا تھا۔ اور بغل سے شعر پڑھتا تھا۔ مشق اور ورزش سے یہ بات بہم پہنچائی تھی۔ نواح اکبر آباد میں ایک بغاوت کے دبانے کو فوج بادشاہی گئی۔ وہاں لڑائی ہوئی۔ لشکر بادشاہی میں دو بھائی تھے۔ قوم کھتری ۔ اکبر آباد کے رہنے والے کو جڑواں پیدا ہوئے تھے۔ اور باہم بالکل مشابہ تھے۔ ایک ان میں سے کام آیا۔ اور چونکہ لڑائی جا ری تھی۔ دوسرا وہاں موجود رہا۔ مقتول کی لاش گھر آئی۔ دو نو بھائیوں کی بیبیاں اس کے ساتھ ستی ہونے کو تیار ہوئیں۔ یہ کہتی تھی میرا شوہر ہے۔ وہ کہتی تھی میرا ہے۔ مقدمہ کو توال کے پاس اور وہاں سے دربار میں پہنچا۔ بڑے بھائی کی بی بی کہ جس کا خاوند چند ساعت پہلے پیدا ہوا تھا۔ آگے بڑھی۔ اور عرض کی ۔ حضور میرے والی کا 10برس کا بیٹا مر گیا تھا۔ اور اسے فرزند کے مرنے کا بڑا غم ہوا تھا۔ اس لاش کا سینہ چیر کر دیکھئے۔ اگر اس کے جگر میں داغ یا سوراخ ہوتو جانئے کہ وہی ہے نہیں ہے تو وہ نہیں ہے۔ اسی وقت جراح حاضر ہوئے۔ چھاتی چاک کر کے دیکھا تو زخم تیرکی طرح سوراخ موجود تھا۔ سب دیکھ کر حیران رہ گئے۔ اکبر نے کہا کہ بواتم سچی ہو۔ اورجلنے اور نہ جلنے کا تمہیں اختیار ہے۔ ایک شخص کو لوگ لائے کہ اس میں مرد عورت دونو کی علامتیں موجود تھیں۔ ملا صاحب لکھتے ہیں کہ اسے مکتب خانہ کے پاس لا کر بٹھایا تھا۔ یہیں ہم کتب علمی ترجمہ کیا کرتے تھے۔ جس وقت چرچا ہوا تو میں بھی گیا۔ وہ ایک حلال خور تھا۔ چادر اوڑھے گھونگھٹ نکالے شرمندہ صورت کچھ منہ سے نہ بولتا تھا۔ حضرت بن دیکھے قدرت الہٰی کے قائل ہو کر چلے آئے۔ 990ھ میں ایک آدمی کو لائے کہ نہ اس کے کان تھے۔ نہ کانوں کے چھید تھے۔ رخسارے اور تمام کنپٹیاں صفاً صفا ۔ مگر ہر بات برابر سنتا تھا۔ ایک شیر خوار بچے کا سر اعتدال بدن سے زیادہ بڑھنے لگا۔ اکبر کو اطلاع ہوئی اس نے بلا کر دیکھا اور کہا کہ چمڑے کی چست ٹوپی بناؤ اور اسے پہناؤ۔ رات دن ایک لمحہ سر سے نہ اتارو ایسا ہی کیا۔ چند روز میں بڑھاؤ تھم گیا۔ 1007ھ میں جب اکبر آسیر کی مہم پر خود لشکر لے کر چلا۔ فوج نربدا سے عبور کر رہی تھی۔ ہاتھیوں کا حلقہ کہ سواری کا جز اعظم تھا۔ دریا اترا۔ فیلبانوں نے دیکھا کہ خاصہ کے ہاتھی کی زنیجر سونے کی ہو گئی۔ داروغہ فیلخانہ کو خبر کی۔ اس نے خود جا کر دیکھا۔ بادشاہ کو خبر ہوئی۔ زنجیر منگا کر ملا حظہ کی۔ چاشنی لی۔ ہر طرح درست۔ گفتگو کے بعد یہ مضمون نکلا کہ دریا میں کسی مقام پر سنگ پارس ہو گا۔ اس خیال سے ہاتھیوں کو پھر اسی گھاٹ اور اسی رستے پر کئی بار وار اور پارلے گئے کچھ بھی نہ ہوا۔ ملا صاحب 963ھ کے حالات میں لکھتے ہیں کہ بادشاہ نے خان زمانہ کی اخیر مہم کے لئے نشان فتح بلند کئے۔۔ میں حسین خاں کے ساتھ ہمسفر تھا۔ وہ ہرال ول ہو کر تعمیل فرمان کے لئے روانہ ہوا۔ میں شمس آباد میں رہ گیا۔ عجائبات سے یہ بات معلوم ہوئی کہ ہمارے پہنچنے سے کئی دن پہلے رات کے وقت ایک دھوبی کا ننھا بچہ چبوترہ پر سوتا تھا۔ غفلت میں کروٹ لی۔ پانی میں جاپڑا۔ دریا کا بہاؤ اسے دس کوس تک صحیح سلامت لے گیا۔ اور بھو جپور پر جا کر کنارے سے لگا دیا۔ وہاں کسی دھوبی نے دیکھ کر نکالا وہ انہی کا بھائی بند تھا۔ اس نے پہچانا ۔ صبح کو ماں باپ کے پاس پہنچا دیا۔ خصائل و عادات اور تقسیم اوقات اس کی طبیعت کارنگ ہر عہد میں بدلتا رہا۔ بچپن کی عمر کہ پڑھنے کا وقت تھا کبوتروں میں اڑایا ۔ ذرا ہوش آیا تو کتے دوڑانے لگے۔ اور بڑے ہوئے۔ گھوڑے بھگانے اورباز اڑانے لگے۔ نوجوانی تاج شاہانی لے کر آتی۔ بیرم خاں وزیر صاحب تدبیر مل گیا تھا۔ یہ سیرو شکار اور شراب و کباب کے مزے لینے لگے۔ لیکن ہر حال میں مذہبی اعتقاد سے دل نورانی تھا۔ بزرگان دین سے اعتقاد رکھتا تھا۔ نیک نیتی اور خدا ترسی بچپن سے مصاحب تھی۔ طلوع جوانی میں آکر کچھ عرصہ تک ایسے پرہیز گار نماز گذار ہوئے کہ کبھی کبھی خود مسجد میں جھاڑو دیتے تھے۔ اور نماز کے لئے آپ اذان کہتے تھے۔ علم سے بے بہرہ رہے مگر مطالب علمی کی تحقیقات اور اہل علم کی صحبت کا شوق اتنا تھا کہ اس سے زیادہ نہیں ہو سکتا۔ باوجودیکہ ہمیشہ فوج کشی اور مہموں میں گرفتار تھا۔ اور انتظامی کاروبار کا ہجوم تھا۔ سواری شکاری بھی برابر جاری تھی۔ مگر وہ علم کا عاشق علم و حکمت کے مباحثوں اورکتابوں کے سننے کو وقت نکال ہی لیتا تھا۔ یہ شوق کسی خاص مذہب یا خاص فن میں محبوس نہ تھا۔ کل علوم اور کل فنون اس کے لئے یکساں تھے۔ 20برس تک دیوانی فوجداری بلکہ سلطنت کے مقدمات بھی علمائے شریعت کے ہاتھ میں رہے۔ جب دیکھا کہ ان کی بے لیاقتی اور جاہلانہ سینہ زوری ترقی سلطنت میں خلل انداز ہے تو آپ کام کو سنبھالا۔ اس عالم میں جو کچھ کرتا تھا ارائے تجربہ کار اور معاملہ فہم عالموں کی صلاح سے کرتا تھا۔ جب کوئی مہم پیش آتی یا اثنائے مہم میں کوئی نئی صورت واقع ہوتی یا کوئی انتظامی امر آئین سلطنت میں جاری یا ترمیم ہوتا تو پہلے امرائے دولت کو جمع کرتا۔ ہر شخص کی رائے کو بے روک سنتا اور سناتا اور اتفاق رائے اور صلاح اور اصلاح کے ساتھ عمل درآمد کرتا اور اس کا نام مجلس کنگاش تھا۔ شام کو تھوڑی دیر آرام لے کر علماو حکما کے جلسہ میں آتا تھا۔ یہاں مذہب کی خصوصیت نہ تھی۔ ہر طریق اور ہر قوم کے صاحب علم جمع ہوتے تھے۔ ان کے مباحثے سن کر معلومات کے خزانے کو آباد کرتا تھا۔ اس کے عہد میں عمدہ اور مفید اور عالی رتبے کی تکابیں تصنیف ہوئیں گھنٹے ڈیڑھ گھنٹے کے بعد جو عرضیاں حکام و عمال نے بھیجی تھیں انہیں سنتا تھا اور ہر نکتے پر خود حکم مناسب لکھواتا تھا۔ آدھی رات کوی اد الہی میں مصروف ہوتا۔ بعد اس کے شبستان راحت میں غروب ہوتا تھا کہ جسم و جان کو خواب کی خوراک دے لیکن بہت کم سوتا تھا بلکہ اکثر رات بھر جاگتا تھا۔ اس کی نیند عموماً 3 گھنٹے سے زیادہ نہ ہوتی تھی۔ صبح سے پہلے اس کا دل روشن ہوتا تھا۔ ضروریات سے فارغ ہوتا۔ نہا دھو کر بیٹھتا ۔ دو گھنٹے یاد خدا کرتا اور انوار سحر سے دل کو روشنی دیتا۔ آفتاب کے ساتھ دربار میں طلوع ہوتا تھا۔ اہالی موالی بھی اندھیرے منہ حاضر ہوتے تھے۔ ان کی عرض معروض سنتا تھا۔ بے زبان نمک خوار نہ دکھ کی شکایت کر سکتے نہ کسی آرام کی درخواست ۔ اس لئے خود اٹھ کر جاتا اور ان کی عرضیاں صورت حال سے پڑھتا اصطبل اور فیلخانہ شتر خانہ ۔ آہو خانہ وغیرہ وغیرہ جانوروں کو اول ۔ بعد ان کے اور کار خانوں کو دیکھتا تھا۔ اقسام صنعتگری کی کار گاہوں کا ملا حظہ کرتا تھا۔ ہر باب میں عمدہ ایجاد کرتا تھا۔ اور دلپذیر اصلاحیں دیتا تھا۔ اہل کمال کے ایجادوں کی قدر مقدار سے زیادہ کرتا تھا ۔ اور ہر فن میں اس توجہ سے شوق دکھاتا تھاکہ گویا اسی فن کا فریفتہ ہے ۔ توپ بندوق وغیرہ آلات جنگ کی صنعت اورفنون دستکاری میں دستگاہ رکھتا تھا۔ گھوڑے اور ہاتھی کا عاشق تھا۔ جہاں سنتا تھا لے لیتا تھا۔ شیر چیتے گینڈے نیل گائیں بارہ سنگے۔ ہرن وغیرہ وغیرہ ہزاروں جانور بڑی محبت سے پالے اور سدھائے تھے۔ جانوروں کے لڑانے کا بڑا شوق تھا۔ مست ہاتھی ۔ شیر اور ہاتھی۔ ارنے بھینسے۔ گینڈے ۔ ہرن لڑاتا تھا۔ چیتوں سے ہرن شکار کرتا تھا۔ باز ۔ بہری جرے۔ باشے اڑاتا تھا۔ اور یہ دل کہ بہلاوے ہر سفر میں ساتھ رہتے تھے۔ ہاتھی گھوڑے چیتے وغیرہ جانوروں میں بعضے بہت پیارے تھے۔ ان کے پیارے پیارے نام رکھے تھے۔ جن سے اس کی طبیعت کی موزونی اور ذہن کی مناسبت جھلکتی تھی۔ شکار کا دیوانہ تھا۔ شیر کو شمشیر سے مارتا تھا۔ ہاتھی کو زور سے زیر کرتا تھا۔ خود صاحب قوت تھا اور سخت محنت برداشت کر سکتا تھا۔ جتنی جفا کشی کرتا تھا اتنا ہی خوش ہوتا تھا۔ شکار کھیلتا ہوا بیس تیس کوس پیدا نکل جاتا تھا۔ آگرہ اور فتچور سیکری سے اجمیر تک کہ 7 منزل ہے اور ہر منزل 12 کوس کی ۔ کئی دفعہ پیادہ زیارت کو گیا۔ شیخ ابوالفضل لکھتے ہیں کہ ایک بار جرأت و جوانی کے جوش میں متھرا سے پیادہ پا شکار کھیلتا ہوا چلا۔ آگرہ اٹھارہ کوس ہے تیسرے پہر جا پہنچا۔ اس دن دو تین آدمیوں کے سوا کوئی ساتھ نہیں نبھ سکا۔ گجرات کے دھاوے کا تماشہ دیکھ ہی چکے ہو۔ دریا میں کبھی گھوڑا ڈال کرکبھی ہاتھی پر کبھی آپ پیر کر پار اتر جاتا تھا۔ ہاتھیوں کی سواری اور ان کے لڑانے میں عجیب و غریب کرتب دکھاتا تھا۔ دیکھو صفحہ 106 ، 138۔ غرض مصیبت کا اٹھانا اور جان جو کھوں میں پڑنا اسے مزا دیتا تھا۔ خطر کی حالت میں اس پر کبھی اضطراب نہ معلوم ہوتا تھا۔ باوجود اس جو انمردی و دلیری کے غصے کا نام نہ تھا اور ہمیشہ شگفتہ اور شاد نظر آتا تھا ۔ باوجود اس دولت وحشمت اور خدائی جاہ و جلال کے نمائش کا خیال نہ تھا۔ اکثر تخت کے آگے فرش پر ہو بیٹھتا۔سیدھا سادہ مزاج رکھتا۔ سب سے بے تکلف باتیں کرتا تھا۔ رعیت کی داد خواہی کو سنتا تھا اور فریادڈ رسی کرتا تھا۔ ان سے خلق و محبت کے ساتھ بولتا تھا اور نہایت درد خواہی سے حال پوچھتا اور جواب دیتا تھا۔ غریبوں کی خاطر داری بہت کرتا تھا۔ جہانتک ہو سکتا ان کی دل شکنی گوارا نہ کر سکتا تھا۔ ان کے غریبانہ نذرانوں کو امیروں کے پیشکشوں سے زیادہ عزیز رکھتا تھا۔ اس کی باتیں سن کر یہ معلوم ہوتا تھا۔ گویا اپنے تئیں کم تریں مخلوقات شمار کرتا ہے۔ اس کی ہربات سے خدا پر توکل معلوم ہوتا تھا۔ اس کی رعایا اس کے ساتھ دل سے محبت رکھتی تھی۔ ساتھ ہی اسکے دلوں پر اس کی ہیبت اور دہشت بھی چھائی ہوئی تھی۔ دشمنوں کے دلوں میں اس کے دلیرانہ دھادوں اور فتوحات کے کارناموں نے بڑا رعب ڈالا تھا۔ باوجود اس کے خواہ مخواہ لڑائی کا شوق نہ تھا۔ لڑائی کے معرکوں اور جنگ کے میدانوں میں دل اور جان تک کھپا دیتا تھا مگر ہمیشہ فہم و فراست سے کام لیتا تھا۔ دل میں ہمیشہ صلح مدنظررکھتا تھا۔ جب حریف اطاعت کے رستے پر آتا۔ فوراً عذر قبول اور ملک بحال۔ جب مہم ختم ہوتی دارالسطنت پھر کر آتا اور آبادانی و فراوانی کے شغلوں میں مصروف ہوتا۔ بنیاد سلطنت اس پر رکھی تھی کہ جہاں تک ہو سکے ملک کی خوشحالی اور لوگوں کی فارغ البالی میں خلل نہ آئے۔ سب آسودہ حال رہیں۔ فنج صاحب اس عہد میں ملکہ الزبتھ کے دربار سے سفیر ہو کر آئے تھے۔ انہوںنے جو حالات مشاہدہ کر کے لکھے ہیں اور ان مطالب کا آئینہ ہیں۔ خدا ترسی اور رحم و شفقت اس کے خمیر میں رچی ہوئی تھی۔ کسی کا دکھ دیکھ نہ سکتا تھا۔ گوشت بہت کم کھاتا تھا۔ جس تاریخ پیدا ہوا تھا۔ اس دن اور اس سے چند روز پہلے اور پیچھے بالکل نہ کھاتا تھا اور حکم تھا کہ ان دنوں کل ممالک محروسہ میں ذبح نہ ہو۔ جہاں ہوتا تھا چوری چھپے سے ہوتا تھا۔ پھر اس مہینے میں اور اس سے پہلے اور پیچھے ترک کر دیا۔ پھر جتنے برس عمر کے تھے اتنے دن پہلے اور پیچھے چھوڑ دیا۔ علی مرتضیٰ شیر خدا کا قول ہے کہ سینے کو حیوانات کا گورستان نہ بناؤ۔ یہ خزانہ اسرار الہٰی کا ہے۔ یہی مضمون ادا کرتا تھا اور کہتا تھا۔ گوشت آخر درخت میں نہیں لگتا۔ زمین سے نہیں اگتا جاندار کے بدن سے کٹ کر جدا ہوتا ہے۔ اسے کیسا دکھ ہوتا ہو گا کہ اگر انسان ہیں تو ہمیں بھی درد آنا چاہئے۔ ہزاروں نعمتیں خدانے دی ہیں۔ کھاؤ پیو اور مزے لو۔ ذرا سے چٹخارے کے لئے کہ پل بھر سے زیادہ نہیں رہتا جان کا ضائع کرنا بڑی بے عقلی و بیر حمی ہے۔ کہتا تھا کہ شکار نکموں کا کام ہے اور جلا دی کی مشق ہے۔ ناخداترسوں نے خدا کی جانو نکا مارنا تماشا ٹھہیرایا ہے۔ بے گناہ بے زبانوں کی جان لیتے ہیں انہیں سمجھتے کہ یہ پیاری صورتیں اور موہنی مورتیں خاص اس کی صنعت گری ہے۔ اس کا مٹانا سنگدلی اور اور شقادت ہے ؎ چہ خوش گفت فردوسی پاک زاد کہ رحمت براں تربت پاک باد میازار مورے کہ دانہ کش است کہ جان دارو و جان شیریں خوش است خاص دن اور بھی تھے کہ ان میں گوشت مطلق نہ کھتا تھا وسط عمر میں حساب کیا گیا تھا۔ تو ان دنوں کا مجموعہ 3 مہینے ہوتے تھے۔ رفتہ رفتہ برس میں چھ مہینے ہو گئے آخر عمر میں یہاں تک کہتا تھا کہ جی چاہتا ہے کہ گوشت کھانا ہی چھوڑ دیجئے۔ وہ کم خوراک تھا۔ اکثر ایک وقت کھانا کھاتا تھا۔ اور جتنا کم کھاتا تھا اس سے بہت زیادہ محنت اٹھاتا تھا۔ عورت سے بھی کنارہ کش ہو گیا تھا۔ بلکہ جو کچھ ہوا اس کے ضائع ہونے کا افسوس کرتا تھا۔ آداب کورنش شاہان دانش آرا نے اپنی اپنی رسائی کے بموجب اداے آداب کے آئین رکھے تھے۔ کسی ملک میں سرجھکاتے تھے۔ کہیں سینہ پر ہاتھ بھی رکھتے تھے۔ کہیں دوزانوبیٹھ کر جھکتے تھے (ترکوں کا آئین آداب تھا) اور اٹھ کھڑے ہوتے تھے۔ اکبر نے یہ آئین قرار دیا کہ ادب پرست دولت خواہ سامنے آکر آہستگی سے بیٹھے۔ سیدھے ہاتھ کو مٹھی کر کے پشت دست کو زمین پر ٹیکے اور آہستگی سے سیدھا اٹھے۔ دست راست تالو کو پکڑ کراتنا جھکے کہ دہر ا ہو جائے او ایک خوشنما انداز سے داہنی طرف کو جھوک دیتا ہوا اٹھے۔ اسی کو کورنش کہتے تھے۔ اس کے معنے یہ تھے کہ محسوس اور معقول زندگی اسی پر منحصر ہے ۔ اسے دست نیاز پر رکھ کر نذر کرتا ہے۔ خود فرمان پذیری پر آمادہ ہوتا ہے۔ اور جان و تن سپرد حضور کرتا ہے اس کو تسلیم بھی کہتے تھے۔ اکبر نے خود بیان کیا کہ وہ عالم طفولیت میں ایک دن ہمایوں کے پاس آکر بیٹھا۔ مہر پدری نے اپنے سر سے تاج اتار کر نور چشم کے سر پر رکھ دیا۔ تاج دولت فراخ تھا۔ پیشانی پر درست کر کے اور گدی کی طرف بڑھا کے رکھ دیا۔ عقل و اداب اتالیق ساتھ آئے تھے۔ ان کے اشارے سے اٹھا کر آداب بجا لائے۔ دست راست کی مٹھی کو پشت کی طرف سے زمین پر ٹیکا اور سینہ و گردن کو سیدھا کر کے آہستگی سے اٹھا کر مبارک تاج آنکھوں پر پردہ نہ ہو جائے۔ یا کان پر نہ ڈھلک جائے۔ کھڑے ہو کر پر ہما اور کلغی کو بچا کرتا لو پر ہاتھ رکھا کہ شگون سعادت گر نہ پڑے اور جتنا جھک سکتا تھا جھک کر آداب بجا لایا۔ بچپن کے عالم میں یہ جھک کر اٹھنا بھی ایک خوشنماانداز ہوا ۔ باپ کو پیارے فرزند کا ادائے آداب بہت اچھا معلوم ہوا۔ حکم دیا کہ کورنش و تسلیم اسی طرز پر ادا ہوا کرے۔ اکبر کے وقت میں ملازمت ۔ رخصت ۔ عطائے جاگیر ۔ عنایت منصب۔ انعام خلعت ہاتھی اور گھوڑا مرحمت ہوتا تھا تو تھوڑے تھوڑے فاصلے پر تین تسلیمیں ادا کرتے ہوئے پاس آکر نذر دیتے تھے۔ اور عنایتوں پر ایک ۔ بندگان با ارادت جنہیں جلوت میں بھی بار ملتے تھے جب بیٹھنے کی اجازت پاتے تھے تو سجدہ نیاز کرتے تھے۔ حکم تھا کہ دل میں سجدہ الہٰی کی نیت رہے۔ کج فہم ۔ ظاہر ہیں اسے مردم پرستی سمجھتے تھے اس واسطے ایسی سعادت کے لئے عام اجازت نہ تھی۔ دربار عام میں بندگان خاص کو بھی حکم نہ تھا ۔ کوئی باارادت اس طرح چہرہ نورانی کرنا چاہتا تو بادشاہ خفا ہوتا۔ جہانگیر کے وقت میں کسی بات کی پروانہ تھی یہی رسم عموماً جاری رہی۔ شاہجہاں کے عہد میں پہلا حکم یہی جاری ہوا کہ سجدہ موقوف ہو۔ ذات الہٰی کے سوا دوسرے کے لئے روا نہیں۔ فہایت خان سپہ سالار نے کہا کہ کہ بادشاہ کے سلام میں اور عام اہل دولت کے سلام میں کچھ امتیاز واجب ہے۔ سجدہ کی جگہ زمین بوس ہو تو مناسب ہے کہ خادم و مخدوم اور بادشاہ و رعیت کا سرشتہ باقاعدہ رہے۔ قرار پایا کہ اہل آداب دونو ہاتھ زمین پر ٹیک کر اپنے پشت دست کو بوسہ دیا کریں۔ اہل احتیاط نے کہا کہ اس میں بھی سجدہ کی صورت نکلتی ہے ۔ سال وہم جلوس میں یہ بھی موقوف ہوا۔ اس کی جگہ چوتھی تسلیم اور بڑھا دی سادات ۔ علما ۔ مشائخ ملازمت کے وقت سلام شرعی ادا کرتے تھے۔ اور رخصت کے وقت فاتحہ پڑھ کر دعا کرتے تھے۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ قدیمی دستور ترکستان کا ہے کیونکہ وہاں بھی یہی رسم ہے بلکہ عموماً ہر صحبت اور ہر ملاقات میں یہی عمل درآمد عام تام ہے ۔ لطائف اقبال دنیا میں دیکھا جاتا ہے کہ جب دولت و اقبال کسی کی طرف جھک جاتے ہیں تو عالم طلسمات کو مات دیتے ہیں ۔ جو چاہے وہی ہو۔ جو منہ سے نکل جائے وہی ہو۔ اکبر کی فرمانروائی میں ایسی باتوں کا ظہور بہت نظر آتا ہے۔ مہمات سلطنت اورفتوحات ملکی کے علاوہ اسکے تہور اور ہمت و جرأت کے معاملے کل تائید اقبال کا اثر تھے۔ اکثر معاملات میں جو کچھ اس نے ابتدا میں کہہ دیا اسی انتہا پر خاتمہ ہوا۔ اگر اس کی فہرست لکھوں تو بہت طولانی ہو چند باتیں بطور تمثیل لکھتا ہوں۔ 37 جلو س میں اکبر نے قاضی نور اللہ شستری کو محالات کشمیر کی جمع بندی کے لئے بھیجا۔ یہ باوجود کمال علم وفضل کے نہایت دقیقہ رس اور دیانت دار شخص تھے عاملان کشمیری کو ڈر ہوا کہ ہمارے بیچ کھل جائینگے۔ انہوں نے باہم مشورت کی۔ بادشاہ بھی لاہور سے اسی طرف جانے والے تھے۔ مرزا یوسف خاں صوبہ دار کشمیر استقبال کوادھر آیا۔ مرزا یادگار اس کا رشتہ دار نائب رہا۔ کشمیریوں نے سازش کر کے اسے بغاوت پر آمادہ کر دیا۔ اور کہا کہ رستے دشوار ۔ملک ٹھنڈا سامان جنگ بہت کچھ موجود ہے۔ کشمیر ایسی جگہ نہیں کہ ہندوستان کا لشکر آئے اور سر سواری اسے مار لے۔ وہ بھی انکی باتوں میں آگیا اور خود سر ہو کر تاج شاہی سر پر رکھا۔ دربار میں ا ن باتوں کا سان گمان بھی نہیں تھا۔ اکبر نے لاہور سے کوچ کیا اور دریائے راوی سے اترتے ہوئے کسی مصاحب سے پوچھاکہ یہ بیت شاعر نے کونسے گنجے کے حق میں کہی تھی۔ کلاہ خسروی و تاج شاہی بہر کل کے رسد حاشاو کلا تماشایہ ہوا کہ مرزا یادگار سر سے گنجہ نکلا لشکر دریائے چناب کے کنارے پہنچا تھا کہ اس فساد کی خبر پہنچی۔ اکبر کی زبان سے نکلا ؎ دلد الزناست حاسد منم آنکہ طالع من ولد الزنا کش آمد چوستارہ یمانی لطف یہ ہے کہ یادگار تقرہ نام ایک کچٹی کے پیٹ سے تھا جس کے نطفے کی بھی تحقیق نہ تھی۔ اکبر نے یہ بھی کہا کہاین لولی بچہ بمجرد برآمدن سہیل کشتہ خواہد شد ۔ شیخ ابوالفضل نے دیوان حافظ میں فال دیکھی۔ یہ شغر نکلا ؎ آں خوش خبر کجاست کزیں فتح مژدہ داد تاجاں فشانمش چوزروسیم درقدم عجیب بات یہ کہ جب یادگار کا خطبہ پڑھا گیا تو اسے ایسی تھر تھری چڑی جیسے بخار چڑھا اور مہر کن سکہ کی مہر کھودنے لگا۔ فولاد کی کنی اس کی آنکھ میں جا پڑی۔ آنکھ بیکار ہو گئی ۔ اکبر نے یہ بھی کہا کہ دیکھنا جو لوگ اس کی بغاوت میں شامل ہیں انہی میں سے کوئی شخص ہو گا۔ کہ اس کا گنجہ سرکاٹ لائیگا۔ خدا کی قدرت کہ انجام کا اسی طرح وقوع میں آیا۔ دنیامیں کوئی مشغل اور کوئی شوق ایسا نہ تھا جس کے یہ عاشق نہ ہوں۔ اس عشقبازی سے کبوتر چھٹ جاتے تو سخت دشواری تھی۔ انواع و اقسام کے کبوتر شہر شہر بلکہ ولایتوں سے منگائے تھے۔ عبداللہ خاں اذبک کو لکھا اس نے کبوتران گرہ باز اور ان کے کبوتر باز ملک توران سے بھیجے۔ یہاں ان کی بڑی قدر ہوئی۔ مرزا عبدالرحیم خانخانان کو انہی دنوں میں فرمان لکھا ہے۔ اس میں بھی مضامین رنگین کے بہت کبوتر اڑائے ہیں اورایک ایک کبوتر کا نام بنام حال لکھا ہے۔ آئین اکبری میں جہاں اور کارخانوں کے آئین و ضوابط لکھے ہیں ۔ اس کے بھی لکھے ہیں۔ اور ایک کبوتر نامہ بھی لکھا گیا۔ شیخ ابوالفضل اکبر نامہ میں لکھتے ہیں ۔ ایک دن کبوتر اڑ رہے تھے۔ وہ بازیاں کرتے تھے۔ آپ تماشا شادیکھتے تھے۔ کہ ایک خاصہ کے کبوترپر بہری گری۔ انہوں نے للکار کر آواز دی خبر دار۔ بہری جھپٹا مارتے مارتے رک کر ہٹ گئی۔ اس کا قاعدہ ہے کہ اگر کبوتر کنوٹ کر کے نکل جاتا ہے۔ تو چکر مارتی ہے اور پھر آتی ہے۔ بار بار جھپٹے مارتی ہے اور آخر لے جاتی ہے مگر وہ پھر نہ آئی۔ اکبر کی شجاعت ذاتی اور بے حد دلاوری یہ بات راجگان ہند کے اصول سلطنت میں داخل تھی کہ راج کا فرمانروا اکثر خطر ناک اور جان جو کھوں کے کام کر کے خاص و عام کے دلوں میں ایک تاثیر پھیلائے جس سے وہ سمجھیں کر بے شک تائید غیبی اس کے ساتھ ہے اور اقبال اس طرح مددگار ہے کہ ہم میں سے یہ بات کسی کو نصیب نہیں۔ اور اسی واسطے اس کی عظمت خدا کی عظمت اور اس کی اطاعت اطاعت الہٰی کی پہلی سیڑھی ہے۔ اور یہی بات ہے کہ ہند و راجہ کو بھگو ان کا اوتارا اورمسلمان ظل اللہ (سایہ خدا) کہتے ہیں ۔ اکبر اس بات کو خوب سمجھ گیا تھا ۔ تیموری و چنگیزی لہو کی گرمی سے ہمت ۔ جرات ۔ جذبہ و جوش اور شوق ملک گیری جو اس کے لہو میں باقی تھا وہ خیالات کو اور بھی گرماتا رہتا تھا۔ بلکہ یہ جوش یا بابر کی طبیعت میں تھا یا اس میں کہ جب دریا کے کنارے پر پہنچتا تھا۔ خواہ مخواہ گھوڑا پانی میں ڈال دیتا تھا۔ جب وہ اس طرح دریا اترے تو نمک حلالوں میں کون ہے کہ جان نثاری کا دعوے رکھے اور اس سے آگے نہ ہو جائے۔ ہمایوں راحت پسند تھا۔ کہیں ایسا ہی بوجھ پڑا ہے جب وہ اس طرح جان پر کھیلا ہے۔ یلغاریں کر کے مہمیں کرنی۔ ہمت کے گھوڑے پر چڑھ کر آپ تلوار مار نی۔ قلعوں کے محاصرے کرنے ۔ سر نگیں لگانی۔ ادنے سپاہیوں کی طرح مورچے مورچے پر آپ پھرنا اکبری کا کام تھا۔ اس کے بعد جو ہوئے عیش و آرام کے بندے تھے۔ بندگان خدا سے عبادت وصول کرنے والے دربار بادشاہی کے رکھوالے اور پیٹ کے ماروں کے سرکٹوانے والے بنئے مہاجن تھے کہ باپ دادا کی گدی پر بیٹھے ہیں۔ یا پیرزادے کہ بزرگوں کی ہڈیاں بیچتے ہیں اور آرام سے زندگی کرتے ہیں۔ اکبر جب تک کابل میں تھا تو اونٹ سے بڑا کوئی جانو ر نظر نہ آتا تھا۔ اس لئے اسی پر چڑھتا تھا۔ دوڑاتا تھا لڑاتا تھا۔ کبھی کتوں سے کبھی تیرو کمان سے شکار کھیلتا تھا۔ اور نشانے لگاتا تھا۔ باز باشے اڑاتا تھا۔ جب ہمایوں ایران سے ہندوستان کو پھر ا اور کابل میں آرام سے بیٹھا۔ تو اکبر کی عمر پانچ برس سے کچھ زیادہ ہو گی۔ یہ بھی چچا کی قید سے چھٹا۔ اور سیرو شکار جو شاہزادوں کے شغل ہیں ان میں دل خوش کرنے لگا۔ ایک دن کتے لے کر شکار کو گیا۔ کوہستان کا ملک ہے ایک پہاڑ میں ہرن خرگوش وغیرہ شکار کے جانور بہت تھے۔ چاروں طرف نوکروں کو جما دیا کہ رستہ روکے کھڑے رہو۔ کوئی جانور نکلنے نہ پائے۔ اسے لڑکا سمجھ کر نوکروں نے بے پروائی کی ایک طرف سے جانور نکل گئے۔ اکبر بہت خفا ہوا۔ الٹا پھرا اور جن نوکروں نے غفل تکی تھی۔ انہیں سوائی کیساتھ تمام اردو میں تشہیر کیا (پھرایا) ہمایوں سن کر خوش ہوا۔ اور کہا شکر خدا کہ ابھی سے اس نونہال کی طبیعت میں سیاست شاہانہ اور ایجاد آئین کے اصول ہیں۔ جب 962ھ میں ہمایوں نے اکبر کو صوبہ پنجاب کا انتظام سپرد کر کے دلی سے روانہ کیا تو سرہند کے مقام میں حصار فیروزہ کی فوج آکر شامل ہوئی ان میں استاد عزیز سیستانی بھی تھا۔ اسے توپ اوربندوق کے کام میں کمال تھا۔ اور بادشاہ سے رومی خان کا خطاب حاصل کیا۔ 1 ؎ اس عہد میں اکثر توپ انداز روم سے آتے تھے۔ اسی واسطے بادشاہوں کے دربار سے رومی خاں خطاب پایاکرتے ۔ توپ وتفنگ کے کاروبار ممالک یورپ سے اول دکن میں آئے پھر ہندوستان میں پھیلے۔ تھا وہ بھی اکبر کے سلام کو آیا۔ اپنی نشانہ بازی اور تفنگ اندازی کے کمال میں اس خوبی سے دکھائے کہ اکبر کو بھی شوق ہو گیا۔ اور شکار کا عشق تو پہلے ہی تھا۔ یہ اس کا جزاعظم ہوا۔ چند روز میں ایسا مشاق ہو گیا۔ کہ بڑے بڑے گل چلے استاد کان پکڑنے لگے۔ چیتوں کا شوق جس طرح ہندوستان میں چیتوں سے شکار کھیلتے ہیں ۔ ایران و ترکستان میں اس کا رواج نہیں ۔ جب ہمایوں دوبارہ ہندوستان پر آیا۔ اکبر ساتھ تھا بارہ برس کی عمر تھی۔ سر ہند کے مقام پر سکندر خان افغان انبوہ درانبوہ افغانوں کی فوج کو لئے پڑا تھا۔ جنگ عظیم ہوئی اور ہزاروں کا کھیت پڑا۔ افغان بھاگے ۔ خزانے ہزار در ہزار اور اموال بے شمار فوج بادشاہی کے ہاتھ آئے۔ دلی بیگ ذوالقدر (بیرم خاں کا بہنوئی حسین قلی خاں خان جہاں کا باپ ) سکندر کے چیتا خانے میں سے ایک چیتا لایا۔ اس کا نام فتح باز تھا۔ دوندو اس کا چیتا بان تھا۔ دوندو نے اپنے کرتب اور چیتے کے ہنر اس خوبی سے دکھائے کہ اکبر عاشق ہو گیا۔ اور اسی دن سے چیتوں کا شوق ہوا۔ سیکڑوں چیتے جمع کئے۔ ایسے سدھے ہوئے تھے کہ استاروں پر کام دیتے تھے۔ اور دیکھنے والے حیران رہتے تھے۔ کمخواب و مخمل کی جھولیں اوڑھے ۔ گلے میں سونے کی زنجیریں ۔ آنکھوں پر زر دوزی چشمے چڑھے۔ بہلوں میں سوار چلتے تھے۔ بیلوں کا سنگار بھی ان سے کچھ کم نہ تھا۔ سنہری روپہلی سنگوٹیاں چڑھی۔ زر دوزی تاج سر پر۔ زریں و زرتار جھولیں جھم جھم کرتی ۔ غرض کہ عجب بہار کا عالم تھا۔ ایک دفعہ سفر پنجاب میں چلے جاتے تھے۔ کہ ایک ہر ن نمودار ہوا۔ حکم ہوا کہ اس پر چیتا چھوڑو ۔ چھوڑا ۔ ہرن بھاگا۔ ایک گڑھا بیچ میں آگیا۔ ہرن نے چاروں پتلیاں جھاڑ کر جست کی اور صاف اڑ گیا۔ چیتا بھی ساتھ ہی اڑا۔ اور ہوا میں جادبو چا۔ جیسے کبوتر اور شہباز عجب طرح سے اوپر تلے گتھ متھ ہوتے ہوئے گرے۔ سواری کا انبوہ تھا۔ دلوں سے واہ واکا ولولہ نکلا۔ عمدہ عمدہ چیتے آتے تھے۔ ان میں سے انتخاب ہوتے تھے اور اعلیٰ سے اعلیٰ خاصہ میں داخل ہوتے تھے۔ عجیب اتفاق یہ ہے کہ ان کی تعداد کبھی ہزار تک نہ پہنچی۔ جب ایک دو کی کسر رہتی کچھ نہ کچھ عارضہ ایسا ہوتا تھا کہ چند چیتے مر جاتے تھے۔ سب حیران تھے۔ اوراکبر بھی ہمیشہ متعجب رہتا تھا۔ ہاتھی ہاتھی کا بڑا شوق تھا۔ اور یہ شوق فقط شاہوں اور شہزادوں کا شوق نہ تھا۔ ہاتھیوں کے سبب سے اکثر مہمیں قائم ہوگئیں۔ جن میں لاکھوں کروڑوں روپے صرف ہوئے اورہزاروں سر کٹ گئے۔ خود ہاتھی پر بہت خوب بیٹھتا تھا۔ سر شور ۔ مست ۔ آدم کش ہاتھی کہ بڑے بڑے مہاوت ان کے پاس جاتے ہویء ڈریں۔ وہ بے لاگ جاتا ۔ برابر گیا ۔ کبھی دانت ۔ کبھی کا ن پکڑا اور گردن پر نظر آتا۔ ہاتھی سے ہاتھی پر اچھل جاتا تھا۔ اور اس کی گردن پر بیٹھ کر بے تکلف ہنستا کھیلتا لڑاتا ۔ بھگاتا ۔ گدی ۔ جھول کچھ نہیں ۔ فقط کلاوہ میں پاؤں ہے اور گردن پر جما ہوا ہے۔ کبھی درخست پر بیٹھ جاتا ۔ جب ہاتھی برابر آیا۔ جھٹ اچھلا اور گردن یا پشت پر پھر وہ بہتری جھر جھریاں لیتا ہے۔ سر دھنتا ہے۔کان پھٹ پھٹاتا ہے۔ یہ کب ہلتے ہیں۔ ایک دفعہ اس کا پیارا ہاتھی مستی کے عالم میں جھپٹا اور فیلخانہ سے نکل کر بازاروں میں ہتیائی کرنے لگا۔ شہر میں کہرام مچ گیا۔ اکبر سنتے ہی قلعہ سے نکلا اور پتا لیتا ہوا چلا کہ کدھر ہے۔ ایک بازار میں پہنچ کر غل سنا کہ وہ سامنے سے آتا ہے۔ اور خلقت خدا کی بھاگی چلی آتی ہے۔ یہ ادھر ادھر دیکھ کر ایک کوٹھے پر چڑھ گیا ۔ اور اس کے چھجے پر آکر کھڑا ہوا۔ جونہی ہاتھی برابر آیا جھٹ لک کر اس کی گردن پر ۔ دیکھنے والے بے اختیار چلائے۔ آہا ہا ہا ۔ پھر کیا تھا ۔ دیو قابو میں آگیا۔ یہ باتیں چودہ پندرہ برس کی عمر کی ہیں۔ لکنہ ہاتھی بد مستی و بدخونی میں بد نام عالم تھا۔ ایک دن (دہلی میں) اس پر سوار ہوا اور ایک جنگجو خونریز اسی کے جوڑ کا ہاتھی منگا کر میدان میں لڑانے لگا۔ لکنہ نے بھگا دیا۔ اور بھاگتے کے پیچھے دوڑا۔ ایک تو مست دوسرے فتحیابی کا جوش ۔ لکنہ اپنے حریف کے پیچھے دوڑا جاتا تھا۔ ایک تنگ اورگرے گڑھے میں پاؤں جا پڑا۔ پاؤں بھی ایک ستون کا ستون تھا۔ مستی کی جھونجھل میں بپھر بپھر کر جو حملے کئے تو بہنیہ بھی پٹھے پر سے گر پڑا۔ اکبر اول سنبھلا ۔ اخیر کو اس کے آسن بھی گردن سے اکھڑے ۔ مگر پاؤں کلاں وہ میں اٹکارہ گیا۔ جاں نثار نمک حلال گھبرا گئے۔ اور عجب غلغلہ پڑا گای۔ یہ اس پر سے اترے اور جب ہاتھی نے اپنا پاؤں باہر نکال لیا تو پھر اسی پر سوار ہو کرہنستے کھیلتے چلے گئے۔ وہ زمانہ ہی اور تھا۔ خان خاناں زندہ تھے۔ انہوں نے صدقے اتارے ۔ روپے اشرفیاں نثار کیں۔ اور خدا جانے کیا کیا کچھ کیا۔ خاصہ کے ہاتھیوں میں ایک ہاتھی کا ہوائی نام تھا کہ بد ہوائی اور شرارت میں باردت کا ڈھیر تھا۔ ایک موقع پر کہ وہ مست ہو رہا تھا۔ میدان چوگان بازی میں اسے منگایا۔ آپ سوار ہوئے۔ ادھر ادھر دوڑاتے پھرے۔ بٹھایا اٹھایا سلام کروایا۔ رن باگھ ایک اور ہاتھی تھا اسکی بد مستی اور سر شوری کا بھی بڑا غل تھا۔ اسے بھی وہیں طلب فرمایاں ۔ اور آپ ہوائی کو لے کر سامنے ہوئے۔ ہوا خواہوں کے دل بیقرار ہو گئے۔ جب دو نو دیو ٹکر مارتے تھے پہاڑ ٹکراتے تھے۔ اور دریا جھکولے کھاتے تھے۔ آپ شیر کی طرح اوپر بیٹھے ہوئے تھے۔ کبھی سر پر تھے اور کبھی پشت پر ۔ جاں نثاروں میں کوئی بول نہ سکتا تھا۔ آخر اتکہ خاں کو بلا کر لائے کہ سب کا بزرگ تھا۔ بڈھا بچارہ ہانپتا دوڑا آیا۔ حالت دیکھ کر حیران رہ گیا۔ داد خواہوں کی طرح سر ننگا کر لیا پاس گیا اور مظلوم فریاد یوں کی طرح دونو ہاتھ اٹھا کر چیخیں مارنے لگا۔ شاہم ابرائے خدا بنجشیہ للہ پر حال مردم رحم آرید ۔ بادشاہم ! جان بندگاں مے رود۔ چاروں طرف خلقت کا ہجوم تھا ۔ اکبر کی نظر اتکہ خاں پر پڑی۔ اسی عالم میں آواز دی۔ چرا بیقراری مے کنید۔ اگر شمار آرام نے نشنید ماخود را ازپشت فیل مے اندازیم ۔ وہ محبت کا مارا ہٹ گیا۔ آخر رن باگھ بھاگا۔ اور ہوائی آگ بگولا ہو کر پیچھے پڑا۔ دونوں ہاتھی آگادیکھتے تھے۔ نہ پیچھا۔ گڑھا نہ ٹیلا۔ جو سامنے آتا لہ نگھتے پھلانگتے چلا جاتے تھے۔ جمنا کا پل سامنے آیا۔ اس کی بھی پروانہ کی۔ دو پہاڑوں کا بوجھ کشتیاں دیتی تھیں اور اچھلتی تھیں۔ خلقت کناروں پر جمع تھی اور دلوں کا عجب عالم تھا۔ جان نثار وریال میں کود پڑے۔ پل کے دونو طرف تیرتے چلے جاتے تھے۔ خدا خدا کر کے ہاتھی پار ہوئے۔ بارے رن باگھ ذرا تھما۔ ہوائی کے زور شور بھی ڈھیلے پڑے اس وقت سب کے دل ٹھکانے ہوئے جہانگیر نے اس سر گذشت کو اپنی تو زوک میں درج کرکے اتنا زیادہ لکھا ہے۔ ’’ میرے والد سے مجھ سے خود فرمایا کہ ایک دن ہوائی پر سوار ہو کر میں نے ایسی حالت بنائی۔ گویانشے میں ہوں گا پھر یہی سارا ماجرا تحریر کیا۔ اور اکبر کی زبانی یہ بھی لکھا ہے کہ ’’ اگر میں چاہتا تو ہوائی کو ذرا سے اشارے میں روک لیتا مگر اول سر خوشی کا عالم ظاہر کر چکا تھا۔ اس لئے پل پر آکر سنبھلنا مناسب نہ سمجھا کہ لوگ کہینگے بناوٹ تھی۔ یا یہ سمجھیں گے۔ کہ سر خوشی تو تھی مگر پل اور دریا دیکھ کر نشے ہرن ہو ئے اور ایسی باتیں بادشاہوں کے باب میں نازیباں ہیں‘‘۔ اکثر شیر ببر شکار گاہوں یا عالم سفر میں اس کے سامنے آئے۔ اور اس نے تنہا مارے۔ کبھی تیر ۔ کبھی تفنگ ۔ کبھی تلوار سے۔ بلکہ اکثر آواز دے دی ہے۔ کہ خبردار کوئی اور آگے نہ بڑھے۔ ایک دن فوج کی موجودات لے رہا تھا۔ دوراجپوت نوکری کے لئے سامنے آئے۔ اکبر کی زبان سے نکلا ۔ کچھ بہادری دکھاؤ گے ؟ ان میں سے ایک نے اپنی بوچھی کی بوڑی اتار کر پھینک دی اور دوسرے کی برچھی کی بھال اس پر چڑھائی ۔ تلواریں سونت لیں۔ برچھی کی ایناں سینوں پر لیں اورگ ھوڑوں کو ایڑیں لگائیں۔ بے خبر گھوڑے چمک کر آگے بڑھے۔ دونو بہادر چھد کر بیچ میں آن ملے۔ اس نے اس کے تلوار کا ہاتھ مارا ۔ اس نے اس کے ۔ دونو وہیں کٹ کر ڈھیر ہو گئے۔ اور دیکھنے والے حیران رہ گئے۔ اکبر کو بھی جوش آیا مگر کسی کو اپنے سامنے رکھنا مناسب نہ سمجھا ۔ حکم دیا کہ تلوار کا قبضہ دیوار میں خوب مضبوط گاڑو۔ پھل باہر نکلا رہے ۔ پھر تلوار کی نوک پر سینہ رکھ کر چاہتا تھا کہ آگے کو حملہ کرے۔ مان سنگھ دوڑ کر لپٹ گیا۔ اکبر بڑے جھنجھلاے۔ اسے اٹھا کر زمین پر دے مارا کہ جوش خدا داد کو ظاہر نہ ہونے دیا۔ انگوٹھے کی گھاٹی میں زخم بھی آگیا تھا۔ مظفر سلطان نے زخمی ہاتھ مروڑ کر مان سنگھ کو چھڑایا۔ اس کشتم کشتا میں زخم زیادہ ہو گیا تھا۔ مگر علاج سے جلد اچھا ہوگیا۔ ان ہی دنوں میں ایک دفعہ کسی خلاف طبع بات پر غصے ہو کر سواری کو گھوڑا مانگا ۔ اور حکم دیا کہ سائیس خدمتگار کوئی ساتھ نہ رہے۔ خاصہ کے گھوڑوں میں ایک سرنگ گھوڑا تھا ایرانی کہ خضر خواجہ خاں نے پیش کیاتھا (خالو تھے) گھوڑا نہایت خوبصورت اور خوش ادا تھا مگرجیسا ان اوصاف میں بے نظیر تھا۔ ویسا ہی سر کش سر شور اور شر یر تھا۔ چھٹ جاتا تھا تو کسی کو پاس نہ آتے دیتا تھا۔ کوئی چابکسوار اس پر سواری کی جرات نہ کر سکتا تھا۔ بادشاہ خود ہی اس پر سوار ہوتے تھے۔ اس دن غصے میں بھرے ہوئے تھے۔ اسی پر سوار ہو کر نکل گئے۔ رستے میں خدا جانے کیا خیال آیا کہ اتر پڑے اور درگاہ الہی کی طرف متوجہ ہوئے۔ گھوڑا اپنی عادت کے بموجب بھاگا۔ اورخدا جانے کہاں سے کہاں نکل گیا۔ یہ اپنے عالم میں غرق۔ اس کا خیال بھی نہیں۔ جب حالت سے ہوش میں آئے۔ تو دائیں بائیں دیکھا۔ وہ کہاں ! نہ کوئی اہل خدمت پاس نہ اور گھوڑا ساتھ ۔ کھڑے سوچ رہے تھے۔ اتنے میں دیکھتے ہیں۔ وہی وفا دار گھوڑا سامنے سے دوڑا چلا آتا ہے۔ پاس آیا اور سامنے سر جھکا کر کھڑا ہو گیا۔ جیسے کوئی کہتا ہے کہ خانہ زاد حاضر ہے۔ سوار ہو جایئے۔ اکبر بھی حیران رہ گیا۔ اور سوار ہو کر لشکر میں آیا۔ اگرچہ بادشاہوں کو ہرملک میں اور ہر وقت میں جان کا ڈر لگا رہتا ہے۔ مگر ایشائی ملکوں میں جہاں شخصی سلطنت کا سکہ چلتا ہے۔ وہاں زیادہ تر خطر ہوتا ہے۔ خصوصاً اگلے وقتوں میں کہ نہ سلطنت کا کوئی اصول یا قانون تھا۔ نہ لوگوں کے خیالات کا کوئی قاعدہ تھا۔ باوجود اس کے اکبر کسی بات کی پروانہ کرتا تھا۔ اسے ملک کے حال سے باخبر رہنے اور لوگوں کو آرام و آسائش سے رکھنے کا بڑا خیال تھا۔ ہمیشہ اسی فکر میں لگا رہتا تھا۔ ابوالفضل سے خود ایک دن بیان کیا کہ ایک رات آگرہ کے باہر چھڑیوں کا میلہ تھا۔ میں بھیس بدل کر وہاں گیا کہدیکھوں لوگ کس حال میں ہیں ۔ اور کیا کرتے ہیں ۔ ایک بازاری سا آدمی تھا۔ اس نے مجھے پہچان کر اپنے ساتھیوں سے کہا دیکھنا بادشاہ جاتا ہے ۔ وہ برابر ہی تھا میں نے بھی سن لیا ۔ جھٹ آنکھ کو بھینگا کر کے منہ ٹیڑھا کر لیا۔ اور اسی طرح بے پروائی سے چلا گیا ان میں سے ایک نے بڑھ کر دیکھا اور غور کر کے کہا۔ وہ نہیں۔ بھلا اکبر بادشاہ کہاں اس کی وہ صورت کہا ں ! یہ تو کوئی ٹڑھموا ہے۔ اور بھینگا بھی ہے۔ میں آہستہ آہستہ اس بھیڑ سے نکلا۔ اور اپنے تکلیف کو برطرف کر کے قلعہ کی راہ لی۔ اژدہا مارنے کا حال آگے آئیگا۔ اکبر نے اپنے غنیموں پر بڑے زور شور کی یلغاریں اور جان جو کھوں کے ساتھ دھاوے کئے اور تھوڑی جمعیت سے ہزاروں کے لشکر گردباد کر دیئے لیکن ایک دھاوا اس نے ایسے موقع پر کیا جس کا اس سلسلہ میں لکھنا بھی ناموزوں نہیں ہے۔ موٹہ راجہ کی بیٹی راجہ جیمل سے بیاہی تھی۔ وہ جان نثار اکبر کا مزاج شناس تھا۔ 991ھ میں کسی کا ر ضروری کے لئے اسے بنگالہ بھیجا تھا۔ حکم کا بندہ گھوڑے کی ڈاک پر بیٹھ کردوڑا۔ تقدیر کی بات کہ جو سا کے گھاٹ پر تھکن بٹھایا ۔ اور تھوڑی ہی دیر میں لٹا کر بستر مرگ پر سلا دیا ۔ بادشاہ کو خبر ہوئی سن کر بہت افسوس ہوا محل میں آئے تو معلوم ہوا کہ اس کا بیٹا اور چند اور جاہل راجپوت اپنی جہالت کے زور سے رانی کو زبردستی ستی کرتے ہیں۔ خدا ترس بادشاہ کو ترس آیا۔ اور تڑپ کر اٹھ کھڑا ہوا۔ سمجھ اکہ ممکن ہے کسی اور امیر کو بھیج دوں ۔ مگر اس کے سینے میں اپنا دل اور دل میں یہ درد کیونکر ڈال دوں ۔ فوراً گھوڑے پر بیٹھا اور ہوا کہ پر لگا کر اڑا۔ اکبر بادشاہ کادفعتہ تختگاہ سے غائب ہو جانا آسان بات نہ تھی۔ شہر میں شور اور عالم میں شور ش مچ گئی۔ جا بجا ہتیار بتدی ہونے لگی۔ اور اس دوڑا دوڑ میں اعرا اور اہل خدمت میں سے کوئی ساتھ نبھ سکے ؟ چند جاں نثار اور کئی خدمتگاررکاب میں رہے اور دفعتہ محل واردات پر جا کر کھڑے ہوئے ۔ اکبر کو شہر کے قریب کسی جگہ ٹھیرایا۔ راجہ جگناتھ اور راجہ رائسال گھوڑے مار کر آگے بڑھ گئے تھے ۔انہوں نے جا کر خبر دی کہ مہابلی آگئے۔ ضدی جاہلوں کو روکا اورحضور میں لا کر حاضر کر دیا۔ بادشاہ نے دیکھا کہ اپنے کئے پرپشیمان ہیں۔ اس لئے جاں بخشی کی لیکن حکم دیا کہ چند روز ادبخانہ زندان میں رہیں۔ رانی کی جان کے ساتھ ان کی بھی جان بچ گئی۔ اسی دن وہاں سے پھرا۔ جب فتح پور میں پہنچا تو سب کے دم میں دم آیا۔ 974ھ میں تیغ آفتاب مشرق پر چمک رہی تھی۔ اکبر خان زماں کی مہم میں مصروف تھا۔ محمد حکیم مرزا کو بد صلاح مصاحبوں نے صلاح بتائی کہ آپ بھی آخر ہمایوں بادشاہ کے بیٹے ہیں اور ملک کے وارث ہیں پنجاب تک ملک آپ کار ہے۔ وہ بھولا بھالا سادہ شہزادہ ان کے کہنے میں آکر لاہور میں آگیا۔ اکبر نے ادھر کی حرارت کو عفو تقصیر کے شربت اور نذرانہ جرمانہ کی سکنجبین سے فرو کیا۔ امرا کو فوجیں دے کر ادھر بھیجا اور فوراً سمند ہمت پر سوار ہوا۔ محمد حکیم آمد آمد کی ہوا میں اڑ کر کابل پہنچے۔ اکبر نے لاہور میں آکر مقام کیا اور شکار قمر غہ کا حکم دیا۔ سردار منصبدار قراول اور شکاری دوڑے اور جلد حکم کی تعمیل کی۔ قمر غہ یہ ایران و توران کے بادشاہوں کا قدیمی شوق تھا۔ ایک فراخ جنگل کے گرد بڑے بڑے لکڑوں کو دیوار سے احاطہ باندھتے تھے۔ کہیں ٹیلوں کی قدرتی قطاروں سے ۔ کہیں بنائی ہوئی دیواروں سے مدد لیتے تھے۔ تیس تیس چالیس چالیس کوس سے جانوروں کو گھیر کر لاتے تھے۔ رنگ برنگ کے جانور درندے چرندے۔ پرندے ان میں آجاتے تھے۔ اور نکاس کے رستے بالکل بند کر دیتے تھے۔ بیچ میں کئی بلند مقام بادشاہ اور شہزادوں کے بیٹھنے کے لئے بناتے تھے۔ بادشاہ سوار ہو کر خود شکار مارتا تھا۔ پھر شہزادے ۔ پھر اجازت ہو جاتی تھی۔ خاص خاص امیر بھی شامل سوار ہو کر خود شکار مارتا تھا۔ پھر شہزادے ۔ پھر اجازت ہو جاتی تھی خاص خاص امیر بھی شامل ہو جاتے تھے۔ روز بروز دائرے کو سیکٹر تے اورجانوروں کو سمیٹتے لاتے تھے۔ اخیر دن جبکہ تھوڑی جگہ میں جانوروں کی بہتات ہو جاتی تھی۔ تو ان کی دھکا پیل اور ریل دھکیل۔ گھبراہٹ اور اضطراب سے بولانا اور دوڑنا ۔ چلانا ۔ بھاگنا ۔ کودنا ۔ ترارے بھرنا ۔ اچھلنا اور گرپڑنا۔ شکار بازوں کو طرفہ تماشا اور اہل درد کے دلوں کا عجب عالم ہوتا تھا۔ اسی کو شکار قمر غہ اور شکار جرگہ بھی کہتے تھے۔ اس موقع پر 40 کوس کے دورے سے جانور گھیر کر لائے اور لاہور سے 5 کوس پر شکار مذکور کا گھیرا ڈالا۔ خوب شکار ہوئے۔ اور نیک شگون نظر آئے۔ یہاں کی صید افگنی سے دل خوش کر کے کابل کے شکار پر گھوڑے اٹھائے۔ راوی کے کنارے پر آکر اپنے لباس اور ترکیوں تازیوں کے منہ سے لگا میں اتار ڈالیں ۔ خود امرا اور مصاحبوں سمیت دریا سے پیر کر پار ہوئے۔ اقبال اکبری کی دستگیری سے سب صحیح سلامت اتر گئے۔ الا خوشخبر خاں کہ جس طرح خوشخبری کے لانے میں پیش قدم تھا۔ یہاں پیش روی کر کے کنارہ عدم پر جانکلا۔ اس عجیب شکار گاہ کی ایک پرانی تصویر ہاتھ آئی۔ ناظرین کے معائنہ کے لئے آئینہ دکھاتا ہوں۔ سواری کی سیر سلطنت کی شکوہ اور دولت وحشمت کے انبوہ ۔ جشن سالگرہ اور جشن جلوس پر بہار دکھاتے تھے۔ بارگاہ جلال آراستہ ۔ تخت مرصع زریں وسیمیں چبوترے پر جلوہ گر۔ تاج اقبال میں ہما کا پر۔ چتر جواہر نگار سر پر ۔ زربفت کا شامیانہ موتیوں کے جھار ۔ سونے روپے کے استادوں پرتنا۔ ابر یشمیں قالینوں کے فرش۔ درو دیوار پر شالہائے کشمیری ۔ مخملہائے رومی ۔ اطلسمائے چینی لہراتے۔ امرادست بستہ دو طرفہ حاضر چوبدار۔ خاص بردار اہتمام کرتے پھرتے ہیں۔ ان کے زرق برق لباس۔ سونے روپے کے نیزوں اور عصاؤں پر باناقی اور سقر لاطی غلاف طلسمات کی پتلیاں تھیں خدمت کرتی پھرتی تھیں۔ شادی و مبارکبادی کی چہل پہل اور عیش و عشرت کی ریل پیل ہوتی تھی۔ بارگاہ کے دونو طرف شہزادوں اور امیروں کے خیمے۔ باہر دونو طرف سواروں اور پیادوں کی قطار ۔ بادشاہ دو منزل راوٹی (جھرو کے) میں آبیٹھتے۔ اس کا زرد وزی خیمہ۔ سایہ اقبال کا شامیانہ ۔ شہزادے سامرا ۔ سلاطین آتے۔ انہیں خلعت و انعام ملتے۔ منصب بڑھتے۔ روپے اشرفیاں سونے چاندی کے پھول اولوں کی طرح برستے۔ یکایک حکم ہوتا کہ ہاں نور بہتے۔ فراشوں اور خواصوں نے منوں بادلا اور مقیش کتر کر جھولیوں میں بھر لیا ہے اور صندلیوں پر چڑھ کر اڑا رہے ہیں۔ نقار خانے میں نوبت جھڑ رہی ہے۔ ہندوستان ۔ عربی ۔ ایرانی ۔ تورانی ۔فرنگی باجے بجتے ہیں ۔ غرض گھما گھمی تھی اور ناز و نعمت کے لئے صلائے عام تھا۔ اب دولھا کے سامنے سے عروس دولت کی برات گزرتی ہے۔ نشان کا ہاتھی آگے۔ اس کے بعد اور ہاتھیوں کی قطار ۔ پھر ماہی مراتب اور اور نشانوں کے ہاتھی جنگی ہاتھیوں پر فولادی پاکھریں۔ پیشانیوں پر ڈھالیں۔ بعض کی مستکوں اور دیوزادی نقش و نگار۔ بعض کے چہروں پر گینڈوں ۔ ارنے بھینسوں اور شیروں کی کھالیں کلوں سمیت چڑھی ہوئی۔ ہیبت ناک صورت ڈراونی مورت۔ سونڈوں میں گرز ۔ برچھیاں تلواریں لئے ۔ سانڈنیوں کا سلسلہ جن کے سوسوکوں کے دم ۔ گردن کھچی ۔ سینے تنے۔ جیسے لقا کبوتر۔ پھر گھوڑوں کی قطاریں ۔ عربی ۔ ایرانی ۔ ترکی ۔ ہندوستانی آرستہ پیراستہ ساز ویراق میں غرق۔ چالاکی میں برق۔ اچھلتے ۔ مچلتے ۔ کھیلتے ۔ کودتے ۔ شوخیاں کرتے چلے جاتے تھے۔ پھر شیر ۔ پلنگ ۔ چیتے ۔ گینڈے بہتیرے جنگل کے جانور سدھے سدھائے شائستہ ۔ چیتوں کے چھکڑوں پر نقش و نگار ۔ گل گلزار ۔ آنکھوں پر زر دوزی غلاف وہ اور ان کے بیل کشمیری شالیں ۔ مخمل و زربفت کی جھولیں اوڑھے۔ بیلوں کی سروں پر کلغیاں اور تاج ۔ سینگ مصوروں کی قلمکاری سے قلمدان کشمیر ۔پاؤں میں جھانجن ۔ گلے میں گھنگرو ۔ چھم چھم کرتے چلے جاتے تھے۔ شکاری کتے کو شیر سے منہ نہ پھرائیں۔ شکار کی بوپر تپال سے پتا نکال لائیں۔ پھر خاصے کے ہاتھی آتے۔ ان کی زرق و برق کا عالم اللہ اللہ ۔ آنکھوں کو چکا چوندی آتی تھی۔ یہ خاص الخاص چاہیتے تھے۔ ان کی جھلا بور جھولیں۔ موتی اور جواہرٹنکے۔ زیوروں میں لدے پھندے۔ قوی ہیکل سینوں پر سونے کی ہیکلیں لٹکتی۔ سونے چاندی کی زنجیریں سونڈوں میں ہلاتے۔ جھومتے جھامتے ۔ خوش مستیاں کرتے چلے جاتے تھے۔ سواروں کے دستے پیادوں کے قشون (پلٹنیں) سپاہ ترک کے ترکی و تاتاری لباس۔ وہی جنگ کے سلاح ۔ ہندوستانی فوجوں کا اپنا اپنا بانا۔ کیسری دگلے۔ سورما راجپوت ہتیاروں میں اوپچی بنے۔ وکھنیوں کے دکھنی سامان ۔ت و نچانے آتشخانے ان کی فرنگی و رومی وردیاں سب اپنے اپنے باجے بجاتے۔ راجپوت شہنائیوں میں کڑکے گاتے۔ اپنے نشان لہراتے چلے جاتے ھتے۔ امراو سردار اپنی اپنی سپاہ کو انتظام سے لئے جاتے تھے۔ جب سامنے پہنچتے۔ سلامی بجا لاتے۔ دمامے پر ڈنکا پڑتا۔ سینوں میں دل ہل جاتے۔ اس میں حکمت یہ تھی ۔ کہ فوج اور لوازمات فوج اور ہرشے کی موجودات ہو جائے۔ کوتاہی ہو تو پوری ہو جائے۔ قباحت ہو تو اصلاع میں آئے۔ ایجاد مناسب اپنی جگہ پائے۔ اکبر کی تصویر اکبرکی تصویریں جا بجا موجود ہیں مگر چونکہ سب میں اختلاف ہے اس لئے کسی پر اعتبار نہیں میں نے بڑی کوشش سے چند تصویریں مہاراجہ جے پور کے پوتھی خانہ سے حاصل کیں۔ ان میں جو اکبر کی تصویر ملی۔ وہ سب سے زیادہ معتبر سمجھتا ہوں۔ اور اسی کی نقل سے اس مرقع کا تاج سر کرتا ہوں۔ لیکن یہاں اس تصویر کو جلوہ دیتا ہوں ۔ جو کہ جہانگیر نے اپنی توزک میں عبارت و الفاظ سے کھینچی ہے۔ حلیہ مبارک ان کا یہ تھا کہ بلند بالا۔ میانہ قد ۔ گندمی رنگ ۔ آنکھیں اور بھویں سیاہ ۔ گورہ پن نے صورت کو خنک نہیں کیا تھا۔ نمکینی زیادہ تھی۔ شیر اندام ۔ سینہ کشادہ چھاتا ابھرا ہوا۔ دست و بازو لمبے۔ اسے بڑی دولت و اقبال کا نشان سمجھتے تھے۔ آواز بلند تھی۔ گفتگو میں لذت اور قدرتی نمکینی تھی۔ اور سج دھج میں عام لوگوں کو ان سے کچھ مناسبت نہ تھی۔ شکوہ خداداد ان کے صورت حال سے نمودار تھی۔ سفر میں بارگاہ کا کیا نقشہ تھا جب دورہ کا سفر یا شکار کا لطف منظور ہوتا تھا تو مختصر لشکر اور ضروری شکوہ سلطنت کے اسباب ساتھ لئے جاتے تھے۔ لیکن چار دانگ ہندوستان کا شہنشاہ 44 لاکھ سپہ کا سپہ سالار اس کا اختصار بھی ایک عالم کا بہلاؤ تھا۔ آئین اکبری میں جو کچھ لکھا ہے۔ آ ج کے لوگوں کو مبالغہ نظر آتا ہے۔ مگر یورپ کے سیاح ہوا جو اس وقت یہاں آئے۔ ان کے بیان سے بھی حالات مذکور ہ کی تصدیق ہوتی ہے۔ بارگاہ کی شان و شکوہ کا غذی سجاوٹ میں کب آسکتی ہے۔ شکار میں اور پاس کے سفر میں جو انتظام ہوتا تھا۔ اس کا نقشہ کھینچتا ہوں۔ گلال بار۔ یہ چوبی سرا پردہ خرگاہ کی وضع کا ہوتا تھا۔ تسموں سے مضبوطی کی جاتی تھی۔ سرخ مخمل ۔ بانات ۔ قالینوں سے سجاتے تھے۔ گرد عمدہ احاطہ ایک قلعہ تھا۔ اس میں مضبوط دروازہ ۔ قفل کنجی سے کھلتا تھا ۔ سو گز سے سو گز یا زیادہ ۔ حضور کا ایجاد ہے۔ اس کے شرقی کنارے پر بارگاہ ۔ بیچ کے استادوں پر دو کڑیاں ۔ 54 کمروں میں تقسیم ۔ ہر ایک کا 24 گز طول۔ 14 گز عرض ۔ 10 ہزار آدمی پر سایہ ڈالتی تھی۔ ہزار پھر تیلے قراش ایک ہفتے میں سجاتے تھے۔ چرخیاں ۔ پہئے وغیرہ جرثقیل کے اوزار زور لگاتے تھے۔ لوہے کی چادریں اسے مضبوط کرتی تھیں۔ فقط سادی بارگاہ جس میں مخمل زرباف ۔ کمخواب ۔ زربفت کچھ نہ لگائیں۔ 10 ہزار کی لاگت میں کھڑی ہوتی تھی۔ اور کبھی اس سے بھی زیادہ بوجھ دیتی تھی۔ بیچ میں چوبیس راوٹی 10ستونوں پر کھڑی ہوتی تھی۔ ستون تھوڑے تھوڑے زمین میں گڑے ہوئے۔ سب باہم برابر مگر دو اونچے۔ ان پر ایک کڑی۔ اوپر اور نیچے داسہ مضبوطی کرتا تھا۔ اس پر کئی کڑیاں ۔ ان پر لوہے کی چادریں۔ کہ نرمادگی انہیں وصل کرتی تھی۔ دیواریں اور چھتیں نرسلوں اورب انس کی کھپچیوں سے بنی ہوئںی۔ دروازے دویا ایک ۔ نیچے کے داسہ کے برابر چبوترہ۔ اندر زربفت و مخمل سجاتے تھے۔ باہر بانات سلطانی ۔ ابریشمین نواڑیں اس کی کمر مضبوط کرتی تھیں گرد اور سرا پردے۔ اس سے ملا ہوا ایک چوبیں محل دو منزل 18 ستون اسے سر پر لئے کھڑے رہتے تھے ۔ چھ چھ گز بلند ۔ چھت تختہ پوش۔ اس پر چوگزے ستون ۔ نرمادگیوں سے وصل ہو کر بالا خانہ سجاتے تھے۔ اندر باہر اسی طرح سے سنگار کرتے تھے۔ لڑائیوں میں اس کا پہلو شبستان اقبال سے ملا رہتا تھا۔ اسی میں عبادت الہٰی کرتے تھے۔ یہ پاک مکان ایک صاحبدل تھا۔ ادھر کا رخ خلوتخانہ وحدت پر ۔ ادھر کانگار خانہ کثرت پر ۔ آفتاب کی عظمت بھی اسی پر بیٹھ کر ہوتی تھی۔ پھر اول حرم سرا کی بیبیاں دولت دیدار حاصل کرتی تھیں۔ پھر باہر والے حاضر ہو کر سعادت کے ذخیرہ سمیٹتے تھے۔ دوروں کے سفر میں ملازمت بھی یہیں تھی۔ اس کا نام دوآشیانہ منزل تھا اور اسی کو جھرکہ بھی کہتے تھے۔ زمیں دوز طرح طرح کے انداز پر ہوتے تھے۔ ایک کڑی بیچ میں یادو۔ بیچ میں پردے ڈال کر الگ الگ گھر کر دیتے تھے۔ عجائبی 9شامیا نے چار چار ستونوں پر ملا کر کھڑے کرتے تھے۔ 5 چوگوشے ۔ 4 مخروطی اور یک لخت بھی ہوتے تھے۔ ایک ایک کڑی بیچ میں۔ منڈل 5 شامیا نے ملے ہوئے چار چار ستو نوں پر تانتے تھے۔ کبھی گرد کے چار کو لٹکا دیتے تھے تو خلوتخانہ ہو جاتا تھا۔ کبھی ایک طرف کبھی چاروں طرفیں کھول کر جی توش کرتے تھے۔ اٹھ کھنبہ 17شامیا نے جدا اور ملے ہوئے سجاتے تھے۔ آٹھ آٹھ ستونوں پر۔ خرگاہ شیخ ابوالفضل کہتے ہیں مختلف وضع کی ہوتی ہیں یک دری اور دودری۔ بندہ آزاد کہتاہے۔ اب تک بھی تمام تر کستان میں صحرا نشینوں کے گھر یہی ہیں۔ بیدہ وغیرہ لچکدار درختوں کی موٹی اور پتلی پتلی ٹہنیاں سکھاتے ہیں ۔ اور چھوٹی بڑی موقع موقع سے کاٹ کر ایک مدور ٹٹی کھڑی کرتے ہیں۔ بلند قدم آدم ۔ اس پر ویسی ہی موزوں اور متناسب لکڑیوں سے بنگلہ چھاتے ہیں۔ اوپر موٹے موٹے صاف۔ عمدہ اور خوشرنگ نمدے منڈھتے ہیں۔ اندر بھی دیواروں پر گلکاری کے نمدے اور قالین سجاتے ہیں اور ان کی پٹیوں سے خاشئے چڑھاتے ہیں۔ یہ سب انہی کی دستکاری ہوتی ہے۔ چوٹی پر گز بھر مدور روشندان کھلا رکھتے ہیں۔ اس پر ایک نمدہ ڈال دیتے ہیں۔ برف پڑنے لگی تو یہ نمدہ پھیلا رہا۔ ورنہ کھلا رکھتے ہیں ۔ جب چاہا لکڑی سے کونا الٹ دیا۔ لطف یہ ہے ۔ کہ اس میں لوہا بالکل نہیںلگاتے۔ لکڑیاں آپس میں پھنس جاتی ہیں جب چاہا کھول ڈالا۔ گٹھے باندھے ۔ اونٹ ۔ گھوڑوں ۔ گدھوں پر لادا اور چل کھڑے ہوئے۔ حرم سرا بارگاہ کے باہر موزوں مناسب 24 چوبین راوٹیاں 10گز طول 6 گز عرض۔ بیچ میں قناتوں کی دیواریں۔ اس میں بیگمات اترتی تھیں۔ کئی خیمے اور خرگاہ اور کھڑے ہوتے تھے۔ اس میں خواصیں اترتی تھیں۔ آگے سائبان زردوزی ۔ زربفتی ۔ مخملی بہار دیتے تھے۔ اس سے ملا ہوا اسراپر دہ گلیمی کھڑا کرتے تھے۔ یہ ایسا دل بادل تھا کہ اس کے اندر کئی خیمے اور لگاتے تھے۔ اردو بیگنیاں اور اور عورتیں ان میں رہتی تھیں۔ اس کے باہر دولتخانہ خاص تک سو گز عرض کا ایک صحن سجاتے تھے کہ مہتابی کہلا تا تھا۔ اس کے دونوطرف بھی پہلی طرح سراچہ سماں باندھتا تھا۔ دو دوگز پر چھ گزی چوب ، کھڑی گز بھر زمین میں گڑی۔ سروں پر برنجی قبے۔ اسے اندر باہر 2 طنابیں تانے رہتی تھیں ۔ چوکیدار برابر برابر پہرے پر حاضر۔ اس خوشی خانہ کے بیچ میں میں ایک صفہ (چبوترہ) اس پر چار چو بہ شامیانہ اس پر رات کو جلوس فرماتے تھے۔ خاصان درگاہ کے سوا کسی کو اجازت نہ تھی۔ گلال بار سے ملا ہوا۔ 30 گز قطر کا دائرہ کھینچتے تھے۔ 12حصوں میں تقسیم کرتے تھے۔ گلاں بار کا دروازہ ادھر نکالتے تھے۔ 12 شامیانہ 12گزے اس پر سائبانی کرتے تھے۔ اور قناتیں انہیں خوشنما تر اش کے تقسیم کرتی تھیں۔ اس خلوتخانہ کی ایچکی خانہ کہتے تھے۔ مناسب انداز سے ہر مقام پر ایک صحت خانہ ہوتا تھا۔ یہ پانحانہ کو خطاب عطا ہوا تھا اس سے ملا ہوا ایک گلیمی پردہ سرا۔ 150گز مربع۔ اس کی چوبیں بھی اسی طرح قبوں سے تاجدار بیچ میں بارگاہ وسیع۔ ہزا فراش اسے سجاتے تھے۔ 72کمروں میں تقسیم اوپر 15 گز کا شہتیر اس کے اوپر قلندری کھڑی کرتے تھے۔ خیمے کی وضع ہوتی تھی۔ اوپر مومجامہ وغیرہ اس کے 50 شامیانے 12 گزے دامن پھیلائے کھڑے تھے۔ یہ دولتخانہ خاص تھا۔ اس کا دروازہ بھی زنجیر فقل کنجی سے محفوظ ہوتا تھا۔ بڑے بڑے امیر سپہ سالار بخشی بے اجازت نہ جا سکتے تھے۔ ہر مہینے اس بار گاہ کو نیا سنگار ملتا تھا۔ اندر باہر رنگین ۔ نقشی بوقلموں میں فرش اور پردے چمن کھلا دیتے تھے۔ اس کیگ رد 350گز کے فاصلے پر طنابیں کھنچتی تھیں۔ تین تین گز پر ایک ایک چوب کھڑی ہوئی۔ جا بجا پاسبان ہشیار ۔ یہ دیوانخانہ عام کہلاتا تھا۔ ہر جگہ پہرہ وار ۔ اخیر میں جا کر 12طناب کے فاصلے پر ایک طناب 60 گز کی نقار خانہ۔ اس میدان کے بیچ میں اکاس دیا روشن ہوتا تھا۔ اکاس دئے کئی ہوتے تھے۔ ایک یہاں اور ایک سرا پردہ کے آگے کھڑا کرتے تھے۔ 40 گز کا طولانی ستون ہوتا تھا۔ اسے 15 طنابیں تانے کھڑی رہتی تھیں۔ دور تک روشنی دکھاتا تھا۔ اور بھولے بھٹکے وفا داروں کو اندھیرے میں در دولت کا رستہ بتاتا تھا۔ اور اس کیدائیں بائیں کا حساب لگا کر اور امر کے خیموں کے پتے لگا لیتے تھے۔ 100ہاتھی 500اونٹ 400چھکڑے 100کہار 500منصبدار اور احدی ۔ ہزار فراش ایرانی و تورانی وہندوستانی 500بیلدار ۔ 100سقے ۔ 50نجا۔ بہت سے خیمہ دوز مشعلچی ۔ 30چرم دوز150حلال خور (خاکروب کو خطاب عطا ہوا تھا) اس آباد شہر کے ساتھ چلتے تھے۔ پیادے کا مہینہ 6 روپے سے 3 روپے تک تھا۔ 1500کے ہموار خوشنما قطعہ زمین پر بارگاہ خاص کا سامان پھیلتا تھا۔ 300گز گول فاصلہ دے کر دائیں بائیں پیچھے پہرہ وار کھڑے ہوتے تھے۔ پشت پر بیچوں بیچ میں سو گز کے فاصلے پر مریم کانی۔ گلبدن بیگم اور اور بیگمات اور شہزادہ دانیال۔ دائیں پر شاہزادہ سلطان سلیم ۔ (جہانگیر) بائیں پر شاہ مراد ۔ پھر ذرا بڑھ کر توشہ خانہ ۔ آبدار خانہ ۔ خوشبو خانہ وغیرہ تمام کارخانے ہر گوشے پر خوشنما چوک ۔ پھر اپنے اپنے رتبے سے امرا دونوں طرف غرض لشکر اقبال اور بارگاہ جلال ایک چلتا ہوا شہر تھا۔ جہاں جا کر اترتا تھا۔ عیش و عشرت کا میلا ہوتا تھا۔ جنگل میں جنگل ہو جاتا تھا۔ چار چار پانچ پانچ میل تک دو طرفہ بازار لگ جاتے تھے۔ سارا لاؤ لشکر اور سامان مذکور ایک طلسمات کا شہر آباد ہو جاتا تھا۔ اور گلال بار بیچ میں قلعہ نظر آتا تھا۔ شکوہ سلطنت جب دربار آراستہ ہوتا تھا۔ بادشاہ با اقبال اورنگ سلطنت پر جلہ گر ہوتا تھا۔ اورنگ ہشت پہلو موزوں اور خوشنما تخت تھا۔ گنگا جمنی یعنی سونے چاندی کے عنصروں سے ڈھلا ہوا۔ دریا نے دل ۔ پہاڑ کے جگو نکال کو پیش کیا۔ لوگ سمجھے کہ الماس ۔ لعل ۔ یاقوت اور موتیوں سے مرصع ہے ؎ بائستے انجم ازپے ترصیع تاج و تخت نازم فروتنی کہ جواہر قرار یافت سر پر چتر زرکار و زرتار جواہر نگار۔ جھالروں میں مروار ید و جواہرات جھلمل جھلمل کرتے ۔ سواری کے وقت 7 چتر سے کم نہ ہوتے تھے۔ کوتل ہاتھیوں پر چلتے تھے۔ سایہ بان ہیضوی تراش۔ گز بھر بلند۔ دستہ چتر کے برابر ۔ اور اسی طرح زربفت اور مخمل زرباف سے سنگار تے تھے۔ جواہرات اور مروارید ٹکے ہوئے۔ چالاک خاص بردار رکاب کے برابر لئے چلتے تھے۔ دھوپ ہو تو سایہ کر لیتے تھے۔ اور اسے آفتاب گیر بھی کہتے تھے۔ کوکبہ چند سونے کے گولے صیقل اور جلا سے مبارک ستاروں کی طرح و غد غاتے پیشگاہ دربار میں آویزاں ہوتے تھے۔ اور یہ چاروں بادشاہ کے سوا کوئی شاہزادہ یا امیر نہ رکھ سکتا تھا۔ علم سواری کے وقت لشکر کے ساتھ کم سے کم 5 علم ہوتے تھے۔ ان پر بانات کے غلاف رہتے تھے۔ میدان جنگ میں کھل کر ہوا میں لہراتے تھے۔ چترتوغ ایک قسم کا علم تھا مگر علم سے چھوٹا۔ کئی قطاس کے گپھے اس پر طرہ (قطاس سرا گائے یعنی پہاڑی گائے کی دم) تمن توغ اسے بھی چتر توغ ہی سمجھو ۔ اس سے ذرا اونچا ہوتا تھا۔ یہ دونو رتبے میں اونچے تھے اور شہزادوں کے لئے خاص تھے۔ جھنڈہ وہی علم۔ پلٹن پلٹن اور رسالے رسالے کا الگ ہوتا تھا۔ بڑا معرکہ ہو تو تعداد بڑھا دیتے تھے۔ نقارے کے ساتھ الگ ہوتا تھا۔ گورکہ عربی میں دمامہ کہتے ہیں۔ ایک نقار خانہ میں کم و بیش 18 جوڑیاں ہوتی تھیں۔ نقارہ کم و بیش 20 جوڑیاں۔ دہل کئی ہوتے تھے۔ کم سے کم 4 بجتے تھے۔ کرنا۔ سونے چاندی اور پیتل وغیرہ سے ڈھالتے تھے۔ چار سے کم نہ بجتی تھیں۔ سرنا ایرانی و ہندوستانی کم سے کم 9 نغمہ سرائی کراتی تھیں۔ نفیر ایرانی و ہندوستانی فرنگی ہر قسم کی کئی نفیریاں نغمہ ریزی کرتی تھیں سینگ گائے کے سینگ کی وضع پر تانبے کا سینگ ڈھال لیتے تھے۔ اور دوبجتے تھے۔ سنج (جھانج) تین جوڑیاں بجتی تھیں۔ پہلے 4 گھڑی رات رہے۔ اور 4 گھڑی دن رہے نوبت بجا کرتی تھیں۔ اکبری عہد میں ایک آدھی ڈھلے بجنے لگی کہ آفتاب چڑھاؤ کے درجہ میں قدم رکھتا ہے۔ دوسری طلوع کے وقت۔ جشن نور وزی نوروز ایک عالم افروز دن ہے کہ ایشیا کے ہر ملک اور ہر قوم کے لوگ اسے عید مانتے ہیں۔ اور بالفرض کوئی بھی نہ مانے تو بھی موسم بہار ایک قدرتی جوش ہے۔ کہ اپنے وقت پر خود بخود ہر دل میں ذوق شوق پیدا کرتا ہے۔ یہ امر کچھ انسان یا حیوان پر منحصر نہیں بلکہ اس کا اثر ہر شے میں جان ڈال دیتا ہے۔ انتہا ہے کہ مٹی میں سر سبزی اور سبزی میں گلکاری کرتا ہے۔ بس اسی کا نام عید ہے۔ ترک چنگیزی کہ کچھ مذہب نہ رکھتے تھے۔ اور جاہل محض تھے۔ باوجود اس کے ادنے صاحب مقدور سے لے کر امرا و بادشاہ تک اس دن گھروں کو سجاتے تھے۔ خوان یغما لگاتے تھے۔ سب مل کر لوٹتے لٹاتے تھے۔ اور اسے سال بھر کے لئے مبارک شگون سمجھتے تھے۔ ایرانی پہلے بھی مانتے زرتشت نے آکر اس پر مذہبی سکہ لگایا۔ کبونکہ اس کے خیالات کے بموجب آفتاب سب سے روشن دلیل خدا شناسی سکہ لگایا۔ کیونکہ اس کے خیالات میں ان سے متفق ہیں۔ خصوصاً اس جہت سے کہ ان کے بعض مہاراجگان جلیل القدر کے جلوس اور اکثر بری بڑی کامیابیاں اسی دن ہوئی ہیں۔ اکبر کو انہیں فرقوں سے تعلق تھا۔ اس لئے وہ بھی نوروز کے دن جشن شاہانہ کے سامان میں فصل بہار کے شان دکھاتھا۔ اور سلطنت کا نوروز مناتا تھا۔ چونکہ وہ ہندوستان میں تھا۔ اور ہندؤں میں ایس رہنا سہنا اور گزارہ کرنا تھا۔ اس لئے ان کی ریت رسوم کی بھی بہت باتیں داخل کر لی تھیں۔ تمہیں یاد ہے : اس بے علم بادشاہ کو علمائے زر پرست نے ذہن نشین کر دیا تھا کہ سنہ ہزار میں ملک و ملت بدل جائیگا اور اس کے صاحب فرمان آپ ہی ہوں گے وہ اس خوشی میں ایسا بیقرار ہوا کہ جوب اتیں سنہ الف پر کرنی تھیں۔ پہلے ہی کر گزرا۔ یہاں تک کہ 990ھ میں ہی سنہ الف کا سکہ لگادیا۔ اور جشن نور وزی کی شان و شکوہ میں بھی عمدہ عمدہ ترقیاں اور فائدہ مند اصلاحوں سے جاہ و جلال کو جلوہ دیا۔ جشن کے قواعد و آئین نے اسل بسال کی ترقیوں سے پرورش پائی مگر آزاد سب کو ایک جگہ سجاتا ہے کہ دلچسپ تماشا ہے۔ دیوان عام و خاص کے گرد 12ایوان عالیشان تھے ۔ جن کی عمارت کو خوشنما اور بیش بہا پتھروں نے سنگین اور رنگین کیا تھا۔ ایک ایک ایوان ایک ایک امیر باتد بیر کر عنایت ہوا۔ کہ ہر عالی حوصلہ اسے آراستہ کر کے اپنی قابلیت اور علوہمت کا نمونہ دکھائ۔ ایک طرف دولت خانہ خاص تھا۔ وہ خدمتگاران خاص کے سپرد ہوا کہ آئین بندی کریں سبھا منڈل کہجلوہ گاہ خاص تھا۔ سجایا گیا اور تمام مکانات کے درو دیوار کو پرتگالی بانات رومی دکاشانی مخمل ۔ بنارسی زربفت و کمخواب ۔ سییل دوپٹے۔ تاش تمامی۔ گوٹے ٹھپے ۔ پنیمک ۔ مقیش کے خلعت پہنائے۔ کشمیری کی شالیں اڑھائیں۔ ایران و ترکستان کی قالین پا انداز میں بچھا دیئے۔ ملک فرنگ اور چین اور ماچین کے رنگا رنگ پردے ۔ نادر تصویریں عجیب و غریب آئینے سجائے شیشہ اور بلور کے کنول ۔ مردنگ ۔ قندیلیں۔ جھاڑ ۔ فانوسیں ۔ قمقمے لٹکائے۔ شامیا نے تانے آسمانی خیمے بلند کئے۔ مکانات کے صحنوں میں بہار نے آکر گلکاری کی اور کشمیری کے گزاروں کو تراش کرفتچور اور آگرہ میں رکھ دیا۔ اسے مبالغہ نہ سمجھنا۔ جو اس وقت ہوا۔ اس سے بہت کم ہے۔ یہ جو کہ آج آزاد لکھتا ہے۔ جب عالم ہی اور تھا ۔ وہ اصل حال تھا۔ آج خواب و خیال ہے۔ وہ وہ سامان جمع تھے کہ عقل دیکھتی تھی۔ اور حیران تھی۔ اگلے وقتوں کے امرا کو بھی ہر قسم کی عجیب غریب اور عزیز اور الوجود چیزوں کا شوق ہوتا تھا۔ اور جس قدر یہ سامان زیادہ ہوتا تھا۔ اس سے ان کے سلیقہ اور ہمت و حوصلے کا اندازہ کیا جاتا تھا۔ اگرچہ یہ اوصاف عموماً امیری کے لازمے تھے۔ مگر قاعدہ ہے کہ ہر شخص کو بمقتضائے طبیعت خاص خاص قسم کی چیزوں کا یا مختلف صنائع و بدائع میں سے ایک دو کا دلی شوق ہوتا ہے بلکہ بعضوں کے عہدے اور منصب اشیائے خاص کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں۔ چنانچہ خان خاناں اور خان اعظم کے ایوان ملک ملک کے صنائع و بدائع سے ایک کامل نمائش گاہ بنے ہوئے تھے۔ جن کے درو دیوار۔ فصل بہار کی چادر کو ہاتھوں پر پھیلائے کھڑے تھے۔ اور ہر ستون ایک باغ کو بغل میں دبائے تھے۔ اکثر امرا نے اسلحہ حرب کے عمدہ نمونے دکھائے تھے۔ کہ ہندوستان سے جمع کئے تھے۔ اور اور ملکوں سے منگائے تھے۔ شاہ فتح اللہ نے اپنے ایوان میں علوم و فنون کا طلسم باندھ کر ہر بات میں نکتہ اور نکتہ میں باریکی پیدا کی تھی۔ گھڑیاں اورگھنٹے چل رہے تھے۔ علم ہیئت کے آلات۔ کرے۔ ربع محیب اسطرلاب نظام فلکی کے نقشے۔ اور ان کی مجسم مورتوں میں سیارے اور افلاک چکر مار رہے تھے۔ جر اثقال کی کلیں اپنا کام کر رہی تھیں۔ علم کیمیا اور علم نیر نجات کے شعبدے ساعت بساعت رنگ بدل رہے تھے۔ دانایان فرنگ موجود تھے۔ بیلان (بیلون)کا خیمہ کھڑا تھا۔ ارغنوں (آرگن) کا صندوق رنگا رنگ کی آوازیں سناتا تھا۔ ممالک روم و فرنگ کی عمدہ صنعتیں اور انوکھی دستکاریاں جادو کا کام اور اچنبھے کا تماشا تھیں۔ انہوں نے تھیئٹر کا ہی سما باندھا تھا۔ جس وقت بادشاہ آکر بیٹھے۔ موسیقی فرنگ نے مبارکباد کی نغمہ سرائی شروع کی۔ باجے بج رہے تھے۔ فرنگی ساعت بسا عت رنگ برنگ کے برن بدل کر آتے تھے۔ اور غائب ہو جاتے تھے۔ پرستان کا عالم نظر آتا تھا۔ ف ۔ اکبر بادشاہ فقط ملک کا بادشاہ نہ تھا۔ ہر فن اور ہر کام کا بادشاہ تھا۔ ہمیشہ علوم و فنون کی پرورش اور ترقی کی فکر میں رہتا تھا۔ اس کی قدر دانی نے دانا یان فرنگ کو بندر گووہ سورت اور ہگلی سے بلا کر اس طرح رخصت کیا۔ کہ یورپ کے ممالک مختلفہ سے لوگ اٹھ اٹھ کر دوڑے۔ اپنے اور ملک ملک کے صنائع و بدائع لا کر پیش کش کئے۔ اس موقع پر ان سب کے نمونے سجائے گئے۔ اور ہندوستان کے صنعت گروں نے بھی اپنی دستکاریاں دکھا کر شاباش و آفرین کے پھول سمیٹے۔ نوروز سے لے کر 18 دن تک ہر ایک امیر نے اپنے اپنے ایوان میں ضیافت کی حضور رونق افروز ہوئے اور بے تکلف اور دوستانہ ملاقات سے محبت و اتحاد کی بنیاد دلوں میں استوار کی۔ امرانے اپنے رتبے کے بموجب پیشکش گزرانی۔ ارباب طرب اور اہل نشاط کے طوائف کشمیری۔ ایرانی ۔ تورانی ۔ ہندوستانی گویئے۔ ڈوم ۔ ڈھاڑی۔ میراثی ۔ کلاؤنت ۔ گائک نانک ۔ سپروائی۔ ڈومنیاں۔ پاتر کنچنیاں ہزار ۔ درہزار جمع ہوئںی۔ دیوان خاص اور دیوان عام سے لے کر بازؤں کے نقار خانوں تک جا بجا مقامات تقسیم ہو گئے تھے۔ جدھر دیکھو راجہ اندر کا اکھاڑ تھا ۔ جنش کی ریت سوم کی بھی سیر دیکھو۔ روز جشن سے ایک دن پہلے مبارک ساعت سبھ لگن میں ایک سہاگن بی بی اپنے ہاتھ سے دال دلتی۔ اسے گنگا جل میں بھگوتی۔ پیٹھی پیس کر رکھتی۔ جشن کی ساعت قریب آئی۔ 1 ؎ ملا صاحب 988ھ میں لکھتے ہیں۔ ارغنوں باجا آیا۔ کہعجائب مخلوقات سے ہے۔ حاجی حبیب اللہ فرنگستان سے لایا تھا۔ بادشاہ محظوظ ہوئے۔ اہل دربار کو بھی دکھایا۔ ایک بڑا صندوق تھا قد آدم۔ ایک فرنگی اندر بیٹھ کر تا ربجاتا تھا۔ دو باہر بیٹھتے تھے۔ صندوق میں مور کے پرلگے تھے۔ ان کی جڑوں پر انگلیاں مارتے تھے۔ کیا کیا آوازیں نکلتی تھیں ! کہ روح پر اثر ہوتا تھا فرنگی دم بدم کبھی سرخ کبھی زرد۔ بوقلموں ہو ہو کر نکلتے تھے۔ اور ساعت بساعت رنگ بدلتے تھے۔ عجب عالم تھا اہل مجلس حیران تھے۔ کیفیت اس کی ٹھیک ٹھیک ادا نہیں ہو سکتی۔ بادشاہ اشنان کو گئے۔ رنگین جوڑا۔ ساعت اور ستاروں کے موافق حاضر۔ جامہ پہنا ۔ کھڑکی دار پگڑی راجپوتی انداز سے باندھی۔ مکٹ سر پر رکھا۔ کچھ اپنا خاندانی کچھ ہنددانی گہنا پہنا۔ جو تشی اور نجومی اسطر لاب لگائے بیٹھے ہیں۔ جشن کی ساعت آئی برہمن نے ماتھے پر ٹیکا لگایا۔ جواہر نگار کنگن ہاتھ میں باندھا کولے دہک رہے ہیں۔ خوشبوئیاں تیار ہیں۔ ادھر ہون ہونے لگا۔ چوکے میں کڑھائی چڑھی ہے۔ یہاڈں اس میں بڑا پڑا وہاں بادشاہ نے تخت پر قدم رکھا۔ نقارہ دولت پرچوٹ پڑی۔ نوبت خانہ میں نوبت بجنے لگی کہ گنبد گردوں گونج اٹھا۔ خوانوں اور کشتیوں پر زرنگار طورہ پوش پڑے۔ موتیوں کے جھالر لٹکتے۔ امرا لئے کھڑے ہیں۔ سونے روپے کے بادام پستے وغیرہ میوہ جات۔ روپے اشرفیاں ۔ جواہراس طرح نچھاور ہوئے جیسے اولے برستے ہیں۔ دربار ایک مرقع قدرت الہٰی کا تھا۔ راجوں کے راجہ مہاراجہ اور بڑے بڑے ٹھاکر کہ فلک سے سر نہ جھکائیں۔ ایرانی تورانی سردار کہ رستم وا سفندیار کو خاطر میں نہ لائیں۔ خود زرہ۔ بکتر ۔ چار آئینہ سر سے پاؤں تک لوہے میں غرق۔ تصویر کا عالم کھڑے ہیں۔ خاص شہزادوں کے سوا کسی کوب یٹھنے کی اجازت نہیں۔ اول شہزادوںنے پھرامرائے درجہ بدرجہ نذریں دیں۔ سلام گاہ پر گئے۔ وہاں سے تخت گاہ تک تین جگہ آداب وکورنش بجا لائے۔ جب چوتھا سجدہ کہ آداب زمین بوس کہلا تھا ادا کیا تو نقیب نے آواز دی کہ آداب بجالا جہاں پناہ بادشاہ سلامت ۔ مہابلی بادشاہ سلامت ۔ ملک الشعرانے سامنے آکر قصیدہ مبارکباد کا پڑھا۔ خلعت و انعام سے سر بلند ہوا۔ برس میں دودفعہ تلادان ہوتا تھا(1)نوروز۔ سونے کی ترازو کھڑی ہوتی۔ بادشاہ 12 چیزوں میں تلتا تھا۔ سونا چاندی ۔ ابریشم ۔ خوشبوئیاں ۔ لوہا۔ تانبا ۔ جست توتیا۔گھی دودھ۔ چاول ست نجا۔ (2)جشن ولادت ۔ قمری حساب سے 5 رجب کو ہوتا تھا۔ اس میں چاندی قلعی کپڑا ۔ 12 میوے ۔ شیرینی تلوں کا تیل۔ سبزی سب کھ برہمنوں اور عام فقیروں غریبوں کو بٹ جاتا تھا۔ اسی حساب سے شمسی تاریخ کو۔ مینا بزار۔ زنامہ بازار ترکستان میں دستور ہے کہ ہفتے میں دو دفعہ یا ایک دفعہ ہر شہر میں اور اکثر دیہات میں بازار لگتے ہیں۔ اس آبادی کے اور اکثر پانچ پانچ چھ چھ کوس سے آس پاس کے لوگ پچھلی رات سے گھروں سے نکلتے ہیں۔ دن نکلے مقام پر آکر جمع ہوتے ہیں عورتیں برقع سروں پر نقاہیں سنہ پر ۔ ابریشم ۔ سوت ۔ ٹوپیاں۔ رومال پھلکاری اپنی دستکاری ۔ یا ضرورت کی ماری جو کچھ ہو بیچنے کو لاتی ہیں۔ مرد ہر قسم کے پیشہ ور اپنی اپنی جنس سے بازار کو گرم کرتے ہیں۔ مرغی اور انڈے سے لیکر گراں بہا گھوڑوں تک اور گڑی گاڑھے سے لیکر قیمتی قالین تک ۔ میوہ جات سے لیکر اقسام غلہ بھس اور گھانس تک ۔ تیل گھی۔ مسگری۔ بخاری۔ لہاری کے کام یہاں تک کہ مٹی کے باسن تک سب موجود ہوتے اور دوپہر میں سب بک جاتے ہیں۔ اکثر لین دین مبارلے میں ہوتے ہیں۔ بادشاہ نیک آئین نے اسے اصلاح و تہذیب کے ساتھ رونق دی۔ آئین اکبری میں لکھا ہے کہ ہر مہینے معمولی بازار کے تیسرے دن قلعہ میں زنانہ بازار لگتا تھا۔ غالبا یہ امرآئین میں داخل ہو گا۔ عمل اس پر کبھی کبھی ہوتا ہو گا۔ جب جشن کے آداب و آئین شان و شکوہ میں اپنے خزانے خالی کو لیتے۔ اور آرائش اور زیبائش کی بھی ساری دستکاری خرچ ہو چکتی تو ان ایوانوں میں جو درحقیقت ایجاد اور عقل و شعور کے بازار تھے۔ زنانہ ہو جاتا۔ وہاں محل کی بیگمات آتی تھیں کہ ذرا ان کی آنکھیں کھلیں اور سلیقے کی آنکھیں میں سگھڑا پے کا سرمہ لگائیں۔ امراو شرفا کی بیلبیلوں کو بھی اجازت تھی جو چاہے آئے اور تماشا دیکھے ۔ دکانوں پر تمام عورتیں بیٹھ جاتی تھیں۔ سودا گری اورس ودا زیادہ تر زنانہ رکھا جاتا تھا۔ خواجہ سرا قلما قتیاں ۔ اردہ بیگنیاں اسلحہ جنگ سجے۔ انتظام کے گھوڑے دوڑاتی پھرتی تھیں۔ عورتیں ہی پہروں پر ہوتی تھیں۔ مالیوں کی جگہ مانیں چمن آرائی کوتی تھیں اس کا نام خوش روز تھا۔ نیک نیت بادشاہ آپ بھی آتا تھا۔ اور اپنی رعیت کی بہو بیٹیوں کی دیکھ کر ایسا خوش ہوتا تھا کہ ماں باپ بھی اتنا ہی خوش ہوتے ہونگے۔ جہاں مناسب جگہ دیکھتے تھے بیٹھ جاتے تھے۔ بادشاہ بیگم ۔ بہنیں ۔ بیٹیاں پاس بیٹھتی تھیں۔ امرا کی بیبیاں آکر سلام کرتیں۔ نذریں دیتیں بچوں کو سامنے حاضر کرتیں۔ ان کی نسبتیں حضور میں قرار پاتی تھیں۔ اور حقیقت میں یہ بھی آئین سلطنت کا ایک جز تھا۔ کیونکہ یہی لوگ اجزائے سلطنت تھے۔ شطرنج کے مہروں کی طرح باہم تعلق رکھتے تھ۔ اور آپس میں ایک ایک کا زور ایک ایک کو پہنچ رہا تھا ۔ ان کے باہمی محبت و عداوت ۔ اتفاق و اختلاف اور ذاتی نفع و نقصان کے اثر بادشاہ کے کاروبار تک پہنچے تھے۔ ان کی نسبتوں کے معاملے خواہ اس جشن پر خواہ کسی اور موقع پر ایک مبارک تماشا دکھاتے تھے۔ کبھی دو امیروں میں ایسا بگاڑ ہوتا تھا کہ دونوں یا ایک ان میں سے راضی نہ ہوتا تھا۔ اور بادشاہ چاہتے تھے کہ ا ن میں بگاڑ نہ رہے بلکہ اتحاد ہو جائے۔ اس کا یہی علاج تھا کہ دونو گھر ایک ہو جائیں۔ جب وہ کسی رطح نہ مانتے تو بادشاہ کہتے تھے کہ اچھا یہ لڑکا یا لڑکی ہماری تمہیں اس سے کچھ کام نہیں دہ یا اس کی بی بی خانہ زادی سے کہتے۔ حضور ! لونڈی بھی اس بچے سے دستبردار ۔ آخر حضور ہی کے لئے پالا تھا۔ محنت بھر پائی۔ باپ کہتا ۔ کرامات ! بہت مبارک ۔ مگر خانہ زاد کو اب اس سے کچھ واسطہ نہیں۔ غلام حق سے ادا ہوا۔ بادشاہ کہتے بہت خوب ہم نے بھی وصول پایا۔ کبھی بیگم بیاہ کا ذمہ لے لیتیی۔ کبھی بادشاہ لے لیتے اور شادی کا سر انجام اس طرح ہوتا کہ ماں باپ سے بھی نہ ہو سکتا۔ دنیا کے معاملات سخت نازک ہیں۔ کوئی بات ایسی نہیں جس کے فوائد کے ساتھ نقصان کا کھٹکا نہ لگا ہو۔ اسی آمدورفت میں سلیم (جہانگیر) کا دل زین خاں کو کہ کی بیٹی پر آیا اور ایسا آیا کہ قابو ہی میں نہ رہا۔ غنیمت ہوا کہ اس کی ابھی شادی نہ ہوئی تھی۔ اکبر نے خود شادی کر دی لیکن قابل عبرت وہ معاملہ ہے جو کہن سال بزرگوں سے سنا ہے یعنی یہی مینا بازار لگا ہوا تھا ۔ بیگمات پڑی پھرتی تھیں۔ جیسے باغ میں قمر یاں یا ہر یاول میں ہرنیاں ۔ جہانگیر ان دنوں نوجوان لڑکا تھا۔ بازار میں پھرتا ہوا چمن میں آنکلا۔ ہاتھ میں کبوتر کا جوڑا تھا۔ سامنے کوئی پھول کھلا ہوا نظر آیا کہ عالم سرور میں بہت بھایا۔ چاہا کہ توڑے ۔ دونوں ہاتھ رکے ہوئے تھے وہیں ٹھیر گیا۔ سامنے سے ایک لڑکی آئی شہزادہ نے کہا کہ بوا ذرا ہمارے کبوتر تم لے لو ہم وہ پھول توڑ لیں۔ لڑکی نے دو نوکبوتر لے لئے۔ شہزادہ نے کیا ری میں جا کر چند پھول توڑے۔ پھر کر آیا تو دیکھا کہ لڑکی کے ہاتھ میں ایک 1 ؎ عبدالرحیم خان خاناں کو دیکھا کہ بن باپ کا لڑکا ب اور بیرم خاں کا بیٹا ہے بعض امرا ابتک دربار میں ہیں جن کے دلوں میں کانٹا ساکھٹک رہا ہے۔ چنانچہ شمس الدین محمد خاں اتکہ کی بیٹی یعنی خان اعظم مرزا عزیز کو کہ کی بہن سے اس کی شادی کر دی اب بھلا مرزا عزیز کو کہ کب چاہیگا کہ عبدالرحیم کو کچھ صدمہ پہنچے اور بہن کا گھر برباد ہو۔ اور عبدالرحیم جس کے گھر میں اتکہ کی بیٹی خان اعظم کی بہن ہے۔ اس کے دل میں وہ خیال کب باقی رہ سکتا ہے۔ کہ اس کا باپ میرے باپ پر تلوار کھینچ کر سامنے ہوا تھا۔ اور لشکر خونریز کے ساتھ مقابلہ کیا تھا۔ خان خاناں کی بیٹی سے دانیال نے اپنے بیٹے کی شادی کر دی۔ قلیچ خاں کہ سپہ سالار تھا اور 4 ہزاری منصب رکھتا تھا۔ اس کی بیٹی سے مراد کی شادی کر دی۔ سلیم (جہانگیر) سے مان سنگھ کی بہن بیاہی تھی اور اس کے بیٹے خسرو سے خان اعظم کی بیٹی کی شادی کی تھی وغیرہ وغیرہ مصلحت اسی میں یہی تھی کہ ہر شاہزادہ اور امیر کو اس طرح آپس میں مسلسل اور وابستہ کر دیں کہ ایک کازور دوسرے کو نقصان نہ پہنچا سکے۔ کبوتر ہے۔ پوچھا دوسرا کبوتر کیا ہوا ؟ عرض کی۔ صاحب عالم ! وہ تو اڑ گیا۔ پوچھا ہیں ! کیونکر اڑ گیا۔ اس نے ہاتھ بڑھا کر دوسری مٹھی بھی کھول دی کہ حضوریوں اڑ گیا۔ اگرچہ دوسرا کبوتر بھی ہاتھ سے گر گیا مگر شہزادے کا دل اس انداز پر لوٹ گیا۔ پوچھا تمہارا کیا نام ہے ؟ عرض کی مہر نسا خانم پوچھا تمہارے باپ کا کیا نام ہے ؟ عرض کی مرزا غیاث ۔ حضور کا ناظم بیوتات ہے۔ کہا اور امرا کی لڑکیاں محل میں آیا کرتی ہیں ۔ تم ہمارے ہاں نہیں آتیں ؟ عرض کی میری اماں جان تو آتی ہیں۔ مجھے نہیں لاتیں۔ ہمارے ہاں لڑکیاں گھر سے باہر نہیں نکلا کرتیں۔ آج بھی بڑی منتوں سے یہاں لائی ہیں۔ کہا تم ضرور آیا کرو۔ ہمارے ہاں بڑی احتیاط سے پردہ رہتا ہے۔ کوئی غیر نہیں آتا۔ وہ سلام کر کے رخصت ہوئی۔ جہانگیر باہر آگیا۔ مگر دونوں کو خیال رہا۔ تقدیر کی بات ہے۔ کہ پھر جو مرزا غیاث کی بی بی بیگم کے سلام کو محل میں جانے لگی تو بیٹی کے کہنے سے اسے بھی ساتھ لے لیا بیگم نے دیکھا بچپن کی عمر۔ اس میں ادب قاعدے کا لحاظ ۔ سلیقہ اور تمیز اس کی بہت بھلی معلوم ہوئی باتیں چیتیں پیاری لگیں بیگم نے بھی کہا اسے تم ضرور لایا کرو۔آہستہ آہستہ آمدورفت زیادہ ہوئی ۔ شہزادے کا یہ عالم کو جب وہ ماں کے پاس آئے تو وہاں موجود۔ وہ دادی کے سلام کو جائے تو یہ وہاں حاضر ۔ کسی نہ کسی بہانے سے خواہ مخواہ اس سے بولتا۔ بات چیت کرتا تو اس کا طور ہی کچھ اور نگاہوں کو دیکھو تو انداز ہی کچھ اور غرض بیگم تاڑ گئی اور خلوۃ میں بادشاہ سے عرض کی۔ اکبر نے کہا۔ مرزا غیاث کی بی بی کو سمجھا دو چند روز لڑکی کو یہاں نہ لائے۔ اور مرزا غیاث سے کہا کہ لڑکی کی شادی کردو۔ جب خان خاناں بھکر مہم پر تھا تو طہما سپ قلی بیگ ایک بہادر نوجوان شریف زادہ ایران سے آیا تھا اور مہم مذکور میں کار نمایاں کر کے اس کے مصاحبوں میں داخل ہو گیا تھا۔ وہ شریف نواز شرافت پرست اسے ساتھ لایا تھا۔ اور حضور میں اس کی خدمتیں عرض کر کے دربار میں داخل کیا تھا۔ اس نے شجاعت اور دلآوری کے دربار سے شیرافگن اں خطاب حاصل کیا تھا۔ بادشاہ نے اس کے ساتھ نسبت ٹھیرا دی۔ اور جلدی ہی شادی کر دی۔ یہی شادی اس جواں نامراد کی بربادی تھی۔ تدبیر میں کوتاہی نہیں ہوئی۔ تقدیر سے کس کا زور چل سکتا ہے ؟ انجام کا اس کا یہ ہوا کہ جو نہ ہونا تھا سو ہوا۔ شیرافگن خاں موت کا شکار ہو کر جو انمرگ دنیا سے گیا۔ مہر نسا بیوہ ہوئی۔ چند روز کے بعد جہانگیری محلوں میں آکر نور جہاں بیگم ہو گئی۔ افسوس نہ جہانگیر رہے نہ نور جہاں رہیں ناموں پر دھبا رہ گیا۔ اختتام۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔حصہ اول Darbar-E-Akbari دربار اکبری مصنف شمس العلماء مولانا محمد حسین آزاد حصہ دوئم بیرم خان خان خانان جس وقت شہنشاہ اکبر خود اختیار صاحب دربار ہوا اس وقت یہ امیر ملک گیر دربار میں نہ رہا تھا۔ لیکن اس میں کسی کو انکار نہیں کہ اکبر بلکہ ہمایوں کی بنیاد سلطنت بھی اس نے دوبارہ ہندوستان میں قائم کی۔ پھر بھی میں سوچتا تھا کہ اسے دربار اکبری میں لاؤں یا نہ لاؤں ۔ یکایک اس کی جانفشاں خدمتیں اور بے خطا تدبیریں سفارش کو آئیں۔ ساتھ ہی شیرا نہ حملے اور رستمانہ کا ر نامے مدد کو آپہنچے۔ وہ شاہانہ جاہ جلال کے ساتھ اسے لائے۔ دربار اکبری میں درجہ اول پر جگہ دی اور نعرہ شیر ا نہ کی آواز میں کہا۔ یہ وہی سپہ سالار رہے جو ایک ہاتھ پر نشان شاہی لئے تھا کہ خوش نصیبی اس کی جس کے پہلو میں چاہے۔ سایہ کر کے قائم ہو جائے۔ دوسرے ہاتھ میں تدابیر و زارت کا ذخیرہ تھا کہ جس کی طرف چاہے نظام سلطنت کا رخ پھیر دے۔ نیک نیتی کے ساتھ نیکو کاری اس کو مصاحب تھی اور اقبال خدا داد مددگار تھا کہ وہ فیروز مند جس کا م پر ہاتھ ڈالتا تھا پورا پڑتا تھا۔ یہی سبب ہے کہ تمام مورخوں کی زبانیں اس کی تعریفوں میں خشک ہوتی ہیں۔ اور کسی نے برائی کے ساتھ ذکر نہیں کیا۔ ملا صاحب نے تاریخی حالات کے ذیل میں بہت جگہ اس کے ذکر کئے ہیں۔ آخر کتاب میں شعرا کے ساتھ بھی شامل کیا ہے وہاں ایک سنجیدہ اور مختصر عبارت میں اس کا برگزیدہ حال لکھا ہے۔ جس سے بہتر کوئی کیفیت خان خاناں کے خصلائل و اطوار کی۔ اور سند اس کے اوصاف کمالات کی نہیں ہو سکتی ہیں ۔ بعینہ اس کا ترجمہ لکھتا ہوں دیکھنے والے دیکھیں گے۔ کہ یہ اجمالی الفاظ اس کے تفصیلی حالات سے کیسی مطابقت کھاتے ہیں ۔ اور سمجھیں گے کہ ملا صاحب بھی حقیقت شناسی میں کس رتبہ کے شخص تھے عبارت مذکور ہ کا ترجمہ یہ ہے۔ وہ مرزا جہاں شاہ کی اولاد میں تھا۔ رموز دانش ۔ سخاوت ۔ راستی حسن خلق ۔ نیاز و خاکساری میں سب سے سبقت لے گیا تھا ۔ ابتدائے حال میں بابر بادشاہ کی خدمت میں بیچ میں ہمایوں بادشاہ کے حضور میں رہ کر بڑھا چڑھا اور خانخانان کے خطاب سے سرفراز ہوا۔ پھر اکبر نے وقت بوقت القاب میں ترقیاں دیں۔ نہایت فقیر دوست۔ صاحب حال اور نیک اندیش تھا۔ ہندوستان جو دوبارہ فتح بھی ہوا اور آباد بھی ہوا۔ یہ اس کی کوشش اور بہادری اور حسن تدبیر کی برکت سے ہوا۔ دنیا کے فاضل اطراف و جوانب سے اسکی درگاہ کی طرف رخ کرتے تھے۔ اور دریا مثال ہاتھ سے شاداب ہو کر جاتے تھے۔ اس کی بارگاہ آسمان جاہ ارباب فضل و کمال کے لئے قبلہ تھی۔ اور زمانہ اس کے وجود شریف سے فخر کرتا تھا۔ اخیر عمر میں بسبب اہل نفاق کی عداوت کے بادشاہ کا دل اس سے پھر گیا۔ اور وہاں تک نوبت پہنچی ۔ جس کا ذکر حالات سالانہ میں لکھا گیا۔ شیخ داود جہنی وال کے ذکر میں لکھتے ہیں : ۔ درعہد بیرم خاں کہ بہترین عہد ہابود و ہند حکم عروس داشت جامع اوراق درآگرہ طالب علمی میکرد۔ محمد قاسم فرشتہ نے نسب نامہ کو زیادہ تفصیل دی ہے اور ہفت اقلیم میں اس سے بھی زیادہ ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ایران کے قرا قوئیلو تر کمانوں میں بہار لو قبیلہ سے علی شکر بیگ ترکمان ایک سردار نامی گرامی خاندان تیموری سے وابستہ تھا۔ ولایت ہمدان ۔ دینور ۔ کردستان ۔ اور اس کے متعلقات وغیرہ کا حاکم تھا۔ کتاب ہفت اقلیم اکبر کے عہد میں تصنیف ہوئی ہے اس میں لکھا ہے۔ کہ اب تک وہ علاقہ قلمرو علی شکر مشہور ہے۔ علی شکر کی اولاد میں شیر علی بیگ ایک سردار تھا۔ جب سلطان حسین بالقیرا کے بعد سلطانت برباد ہوئی تو شیر علی بیگ کابل کی طرف آیا ۔ اور سیستان وغیرہ سے جمعیت پیدا کر کے شیراز پر چڑھ گیا۔ وہاں سے شکست کھا کر پھرا۔ پھر بھی ہمت نہ ہارا۔ ادھر ادھر سے سامان سمیٹنے لگا۔ آخر بادشاہی لشکر آیا اور انجام کو شیر علی میدان میں قضا کا شکار ہو گیا۔ اس کا بیٹا اورپ وتا یار علی بیگ اور سیف علی بیگ پھر افغانستان میں آئے ۔ یار علی بیگ بابر کی یاوری میں پہنچ کر غزنی کا حاکم ہو گیا مگر چند روز بعد مر گیا۔ سیف علی بیگ باپ کاقائم مقام ہوا۔ مگر عمر نے وفا نہ کی۔ اس کا بیٹا ۔ خرد سال با اقبال تھا جو بیرم خاں کے نام سے نامی ہوا۔ سیف علی بیگ کی موت نے عیال کے ایسے دل توڑ دیئے کہ کچھ نہ کر سکے۔ چھوٹے سے بچے کو لیکر بلخ میں چلے آئے۔ یہاں اس کے خاندان کے کچھ لوگ رہتے تھے۔ چند روز ان میں رہا۔ کچھ پڑھا لکھا اور ذرا ہوش سنبھالا۔ جب بیرم خاں نوکری کے قابل ہوا۔ ہمایوں ان دنوں میں شہزادہ تھا ۔ خدمت میں آکر نوکر ہوا۔ علوم معمولی سے تھوڑا تھوڑا بہرہ حاصل تھا۔ ملنساری ۔ حسن اخلاق ۔ آداب محفل ۔ طبع کی موزونی اور موسیقی میں بھی اچھی آگاہی رکھتا تھا۔ خلوت میں خود بھی گاتا بجا تا تھا۔ اس لئے ہم عمر آقا کے مصاحبوں میں داخل ہو گیا ۔ ایک لڑائی میں اس سے ایسا کار نمایاں بن پڑا کہ دفعتہ شہرہ ہو گیا۔ اس وقت 16برس کی عمر تھی۔ بابر بادشاہ نے بلایا خود باتیں کر کے حال پوچھا اور چھوٹے سے بہادر کا بہت سادل بڑھا یا ۔وضع ہونہار پیشانی پر اقبال کے آثار دیکھ کر قدر دانی کی اور کہا کہ شہزادہ کے ساتھ دربار میں حاضر ہوا کرو۔ پھر اپنی خدمت میں لے لیا۔ سعادتمند لڑکا کار گزاری اور جاں نثاری کے بموجب ترقی پانے لگا۔ ہمایوں بادشاہ ہوا توپھر اسکی حضور ی میں رہنے لگا۔ اس شفیق آقا اور وفا دار نوکر کے حالات و معاملات دیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ دونوں ہے کہ دونوں میں فقط محبت نہ تھی بلکہ ایک قدرتی اتحاد تھا۔ جس کی کیفیت بیان میں نہیں آسکتی ۔ ہمایوں دکن کی مہم میں جانپانیر کے قلعہ کو گھیرے پڑا تھا۔ یہ قلعہ ایسی کڈھب جگہ پر تھا کہ ہاتھ آاا بہت مشکل تھا۔ نبانیوالوں نے ایسے ہی وقت کیلئے عمودی پہاڑوں کی چوٹی پر بنایا تھا۔ اور گرد اس کے جنگل اور درختوں کا بن رکھا تھا۔ اسو قت دشمن بہت ساکھانا دانا بھر کر خاطر جمع سے اندر بیٹھ رہے تھے۔ ہمایوں قلعہ کو گھیرے باہر پڑا تھا عرصہ کے بعد پتہ لگا کر ایک طرف سے جنگل کے لوگ رسد کی ضروری چیزیں لیکر آتے ہیں۔ قلعہ والے اوپر سے رسے ڈال کر کھینچ لیتے ہیں۔ ہمایوں نے بہت سی فولادی اور چوبی میخیں بنوائیں ایک رات اسی چوراستہ کی طرف گیا۔ پہاڑ میں اور قلعہ کی دیوار میں گڑوا کر رسے ڈلوائے ۔ سیڑھیاں لگوائیں اور اور طرف سے۔ لڑائی شروع کی۔ قلعہ والے تو ادھر جھکے ۔ ادھر سے پہلے 39بہادر جانوں پر کھیل کر رسوں اور سیڑھیوں پر چڑھے جن میں چالیسواں دلاور خود بیرم خاں تھا۔ لطیفہ ۔ اس نے کمندکے پیچ میں عجیب لطیفہ سر کیا۔ ایک رسی کی گرہ پر ہمایوں نے قدیم رکھا کہ اوپر چڑھے۔ بیرم خاں نے کہا ٹھیریئے ذرا میں اس پر زور دیکر دیکھلوں رسی مضبوط ہے۔ ہمایوں پیچھے ہٹا ۔ اس نے جھٹ حلقہ میں پاؤں رکھا اور چارق دم مار کر دیوار قلعہ نظر آیا۔ غرض صبح ہوتے ہوتے تین سو جانباز اور پہنچ گئے اورخود بادشاہ بھی جا پہنچا۔ صبح کا دروازہ ابھی بند تھا جو قلعہ فتح ہو کر کھل گیا۔ 946ھ میں جو سہ کے مقام پر شیر شاہ کی پہلی لڑائی میں بیرم خاں نے سب سے پہیل ہمت دکھائی اپنی فوج لیکر بڑھ گیا دشمن پر جا پڑا۔ حملہ ہائے مردانہ اور چپقلش ہائے ترکانہ سے غنیم کی صف کو تہ و بالا کر دیا۔ اور اس کے لشکر کو الٹ کر پھینک دیا۔ مگر امرئاے ہمراہی کوتاہی کر گئے اس لئے کامیاب نہ ہوا اور لڑائی نے طول کھینچا۔ انجام یہ ہوا کہ غنیم نے فتح پائی اور ہمایوں شکست کھا کر آگرہ بھاگ آیا یہ وفا دار کبھی تلوار بن کر آقا کے آگے ہوا کبھی سپر بن کر پشت پر رہا۔ دوسری لڑائی نواح قنوج میں ہوئی ہمایوں کی قسمت نے یہاں بھی وفا نہ کی بدحالی سے شکست کھائی۔ امرااور فوج اس طرح پر یشان ہوئی کہ ایک کو ایک کا ہوش نہ رہا۔ مارے گئے باندھے گئے۔ ڈوب گئے۔ اور بیابان مرگ ہوئے ؎ بیاباں مرگ ہے مجنوں خاک آلودہ تن کس کا؟ سئے ہے سوزن خارمغیلاں تو کفن کس کا؟ انہی میں وہ جاں نثار بھی بھاگا اور سنبھل کی طرف جانکلا۔ میاں عبدالوہاب رئیس سنبھل سے اس کا 1 ؎ دیکھو تاریخ شیر شاہی جو اکبر کے حکم سے لکھی گئی تھی ۔ پہلے کا اتحاد تھا اور انہوں نے اپنے گھر میں رکھا مگر ایسا نامی آدمی چھپے کہاں ۔ اس لئے مترسین لکھنو کے راجہ پاس بھیج دیا کہ علاقہ جنگل میں ہی چند روز تم رکھو مدت تک وہاں رہا۔ نصیر خاں ساکم سنبھل کو حکم ہو گئی۔ اس نے مترسین کے پاس آدمی بھیجا ۔ مترسین کی کیا تاب تھی کہ شیر شاہی امیر کے آدمیو نکو ٹال دے۔ ناچار بھیج دیا۔ نصیر خاں نے قتل کرنا چاہا یہاں مسند عالی جیسے خاں کہ کہن سال امیر زادہ افغانوں کو تھا شیر شاہ کا بھیجا ہوا آیا تھا۔ اس کی اور میاں عبدالوہاب کی سکندر لودی کے وقت سے دوستی تھی میاں نے عیسی خاں سے کہا کہ نصیر خاں ظالم اییس نامور اور عالی ہمت سردار کو قتل کرنا چاہتا ہے ہو سکے تو کچھ مدد کرو۔ میاں کا اور ان کے خاندان کی بزرگی کا سب لحاظ کرتے تھے۔ عیسیٰ خان گئے اور قید سے چھڑا کر اپنے گھر لے آئے۔ شیر شاہ نے عیسے خاں کو ایک مہم پر بلا بھیجا۔ یہ مالوہ کے رستہمیں جا کر ملے۔ بیرم خاں کو ساتھ لیگئے تھے۔ اس کا بھی ذکر کیا۔ اس نے منہ بنا کر پوچھا ابتک کہاں تھا۔ مسند عالی نے کہا شیخ مہن قتال کے ہاں پناہ لی تھی۔ شیر شاہ نے کہا بخشیدم ۔ عیسی خاں نے کہا خون تو ان کی خاطر سے بخشا اسپ و خلعت میری سفارش سے دیجئے۔ اور ابو القاسم گوالیار سے آیا ہے۔ حکیم دیجئے۔ کہ اس کے پاس اترے ۔ شیر شیاہ نے کہا قبول ۔ شیر شاہ وقت پر لگاوٹ بھی ایسے کرتے تھے کہ بلی کو مات کر دیتے تھے۔ بیرم خاں کی سرداری کی اب بھی ہوا بندھی ہوئی تھی۔ شیر شاہ بھی جانتے تھے کہ صاحب جو ہر ہے اور کام کا آدمی ہے ۔ ایسے آدمیوں کے یہ خود تابعدار ہو جاتے تھے اور کام لیتے تھے ۔ چنانچہ جس وقت وہ سامنے آیا تو شیر شاہ کھڑے ہو کر گلے ملا اور دیر تک باتیں کیں۔ وفا اور اخلاص کے باب میں گفتگو تھی۔ شیر شاہ دیر تک دلجوئی کی غرض سے باتیں کرتا رہا اسی سلسلہ میں اس کی زبان سے یہ فقرہ نکلا ’’ ہر کہ اخلاص دارد خطا نمکیند ‘‘ خیر وہ جلسہ بر خاست ہوا۔ شیر شاہ نے اس منزل سے کوچ کیا۔ یہ اور ابوالقاسم بھاگے رستہ میں شیر شاہ کا ایلچی ملاوہ گجرات سے آتا تھا۔ اور ان کے بھاگنے کی خبر سن چکا تھا مگر کبھی ملاقات نہ ہوئی تھی دیکھ کر شبہ ہوا۔ ابوالقاسم قدوقامت میں بلند بالا اور خوش اندام تھا جا ناکہ یہی بیرم خاں ہے اسے پکڑ لیا۔ بیرم خاں کی نیک ذاتی و جوانمردی اور نیک نیتی پر ہزار آفرین ہے کہ خود آگے بڑھا اور کہا کہ اسے کیوں پکڑا ہے بیرم خاں تو میں ہوں۔ ابوالقاسم کو دس ہزار آفرین ۔ کہا کہ یہ میرا غلام ہے مگر وفا دار ہے۔ اپنی جان کو حق نمک پر فدا کرنا چاہتا ہے اسے چھوڑ دو۔ خیر ۔ بے قضانہ کوئی مر سکے نہ بچ سکے۔ وہ بے چارہ شیر شاہ کے سامنے آکر مارا گیا۔ اور بیرم خاں موت کامنہ چڑا کر صاف نکل گئے۔ شیر شاہ کو بھی خبر ہوئی اس ماجرے کو سنکر افسوس کیا او ر کہا۔ جب اس نے ہمارے جواب میں کہا تھا کہ چنیں است ہر کہ جو ہر اخلاص دارد خطا نمیکند ۔ ہمیں اسی وقت کھٹکا ہوا کہ یہ اٹکنے والا نہیں۔ جب خدا نے پھر اپنی خدائی کی شان دکھائی اکبر کا زمانہ تھا اور وہ ہندوستان نے سفید و سیاہ کا مالک تھا تو ایک دن کسی مصاحب نے پوچھا کہ مسند عالی عیسیٰ خاں اس وقت آپ سے کس طرح پیش آئے تھے ۔ خان خاناں نے کہا جان انہوں نے بچائی تھی۔ وہ ادھر آئے نہیں اور تو کیا کروں اگر آئیں تو کم سے کم چندیری کا علاقہ نذر کروں۔ بیرم خاں وہاں سے گجرات پہنچا سلطان محمود سے ملا۔ وہ بھی بہت چاہتا تھا کہ میرے پاس رہے اس سے حج کے بہانے رخصت لے کر بندر سورت میں آیا اور وہاں سے آقا پیارے کا پتا لیتا ہوا سندھ کی سرحد میں جا پہنچا۔ ہمایوں کا حال سن ہی چکے ہو ۔ کہ قنوج کے میدان سے بھاگ کر آگرہ میں آیا۔ قسمت برگشتہ ۔ بھائیوں کے دل میں دغا۔ امرا بے وفا ۔ سب نے یہی کہا کہ اب یہاں کچھ نہیں ہو سکتا۔ لاہور میں بیٹھ کر صلاح ہو گی۔ یہاں آکر کیا ہونا تھا۔ کچھ نہ ہوا۔ یہ ہوا کہ غنیم شیر ہو کر دبائے چلا آیا ۔ ناکام بادشاہ نے جب دیکھا کہ دغا باز بھائی وقت ٹال رہے ہیں اور پھنسانے کی نیت ہے۔ اور غنیم ہندوستان پر چھتا ہوا سلطان پور کنار بیاس تک آپہنچا ہے ناچار ہند کو خدا حافظ کہہ کر سندھ کا رخ کیا اور 3 برس تک وہاں قسمت آزماتا رہا۔ جب بیرم خاں وہاں پہنچا ہمایوں مقام جون کنارہ دریائے سندھ پر ارغونیوں سے لڑتا تھا۔ روز معرکے ہو رہے تھے اگر چہ شکست دیتا تھا مگر رفیق مارے جاتے تھے جوتھے ان سے وفا کی امید نہ تھی ۔ خانخاناں جس دن پہنچا 7محرم 950ھ تھی۔ لڑائی ہو رہی تھی اس نے آتے ہی دور سے یہ لطیفہ نذر کیا کہ ملازمت بھی نہ کی سیدھا میدان جنگ میں پہنچا اپنے ٹوٹے پھوٹے نوکروں اور خدمت گاروں کو ترتیب دیا اور ایک طرف سے موقع دیکھ کر حملہ ہائے مردانہ اور نعرہ ہائے شیرانہ شروع کر دیئے۔ لوگ حیران ہوئے کہ یہ غیبی فرشتہ کون اور کہاں سے آیا۔ دیکھیں تو بیرم خاں ساری فوج خوشی کے مارے غل مچانے لگی۔ ہمایوں اس وقت ایک بلندی سے دیکھ رہا تھا۔ حیران ہوا کہ معاملہ کیا ہے۔ چند نوکر پاس حاضر تھے ایک آدمی دوڑ کرآگے بڑھا اور خبر لایا کہ خانخاناں آپہنچا۔ یہ وہ وقت تھا کہ ہمایوں ہندوستان کی کامیابی سے مایوس ہو کر چلنے کو تیار تھا ۔ کلایا ہوا دل شگفتہ ہو گیا اور ایسے جاں نثار با اقبال کے آنے کو سب مبارک شگون سمجھے۔ حب حاضر ہوا تو ہمایوں نے اٹھ کر گلے لگا لیا۔ دونو مل کر بیٹھے۔ مدتوں کی مصیبتیں تھیں اپنی اپنی کہانیاں سنائیں۔ بیرم خاں نے کہا کہ یہ جگہ امید کا مقام نہیں۔ ہمایوں نے کہا چلو جس خاک سے باپ دادا ٹھے تھے اسی پر چل کر بیٹھیں ۔ بیرم خاں نے کہا کہ جس زمین سے حضور کے والد نے پھل نہ پایا حضور کیا لینگے۔ ایران کو چلئے وہ لوگ مہمان پر ور اور مسافر نواز ہیں ملا حضہ فرمایئے کہ امیر تیمور جدا اعلیٰ حضور کے تھے۔ ان کے ساتھ شاہ صفی نے کیا کچھ کیا۔ اور ان کی اولاد نے دودفعہ آپ کے ولد کو مدد دی۔ ملک ماوراء النہر پر قبضہ دلایا۔ تھمنا و تھمنا خدا کے اختیار ہے۔ رہایا نہ رہا۔ اور ایران فدوی اور فدوی کے بزرگوں کا وطن ہے۔ وہاں کے کاروبار سے غلام خوب واقف ہے۔ ہمایوں کی بھی سمجھ میں آگیا اور ایران کا رخ کیا۔ اس وقت بادشاہ اور امرائے ہمراہی کی حالت ایک لٹے قافلہ کی تصویر تھی یا کاروان وفا کی فہرست جس میں سب نوکر چا کر مل کر 70آدمی سے زیادہ نہ تھے لیکن جس کتاب میں دیکھا اول نمبر پر بیرم خاں کا نام نظر آتا ہے۔ اور حق پوچھو تو اس کے نام سے فہرست کی پیشانی کو چمکانا چاہیے تھا۔ وہ رزم کا بہادر اور بزم کا مصاحب سایہ کی طرح پیارے آقا کے ساتھ تھا۔ جب کوئی شہر پاس آتا تو آگے جاتا اور اس خوبصورتی سے مطالب ادا کرتتا کہ جا بجا شاہانہ شانہ شان سے استقبال اور نہایت دھوم دھام سے ضیافتیں ہوتی گئیں۔ قزوین کے مقام سے شاہ کی خدمت میں نامہ لیکر پہنچا اور اس خوبی سے وکات کا حق ادا کیا کہ شاہ مہماں نوازآبدیدہ ہوا بیرم خاں کی بھی بہت خاطر کی۔ اور بڑی عزت سے مہمانداری کی۔ جو مراسلہ جواب میں لکھا اس میں عزت و احترام کے ساتھ کمال شوق ظاہر کیا اور یہ شعر بھی لکھا ؎ ہمائے اوج سعادت بدام ما افتد اگر تر ا گذرے بر مقام ما افتد جب تک ایران میں رہے وہ ہما کا سایہ ہمایوں کے ساتھ تھا ہر ایک کام اور پیغام اسی کے ذریعے سے طے ہوتا تھا بلکہ شاہ اکثر خود بلا بھیجتا تھا کیونکہ عقل و دانش کے ساتھ اس کی مزہ مزہ کی باتیں اور حکایاتیں اور شعر و سخن ۔ لطائف و ظرائف سن کر وہبھی بہت خوش ہوتا تھا۔ شاہ یہ بھی سمجھ گیا کہ یہ خاندانی سردار نمک حلالی اور وفا داری کاجوہر رکھتا ہے اسی واسطے طبل و علم کے ساتھ خانی کا خطاب عطا کیا تھا اور شکار جرگہ میں بھی جو رتبہ بھائی بند شہزادوں کا ہوتا ہے وہ بیرم خاں کا تھا۔ جب ہمایوں ایران سے فوج لیکر پھر ادھر آیا تو قندھار کو گھیرے پڑا تھا۔ بیرم خاں کو ایلچی کر کے کامران مرزا اپنے بھائی کے پاس کا بل بھیجا کہ اسے بھیجا کہ اسے سمجھ کر راہ پر لائے۔ اور یہنازک کام حقیقت میں اسی کے قابل تھا رستہ میں ہزارے کی قوم نے روکا اور سخت لڑائی ہوئی۔ بہادر نے ہزاروں کو مارا اور سیکڑوں کو باندھا اور بھگایا۔ میدان صاف کر کے کابل پہنچا۔ وہاں کامران سے ملا اور اس انداز سے مطلب ادا کئے کہ اسوقت اس کا پتھر دل بھی نرم ہوا۔ کامران سے کچھ کام نہ نکلا۔ البتہ اتنا فائدہ ہوا کہ بعض شہزادے اور اکثر سردار کچھ اس کی رفاقت میں اور کچھ اسکی قید میں تھے اور سب سے جدا جدا ملا۔ ہمایوں کی طرف سے بعض کوتحفے دیئے۔ بعض کو مراسلوں کے ساتھ بہت سے محبت کے پیام پہنچائے۔ اور سب کو دلوں کو پر چایا۔ کامران نے اتنا پردہ کیا کہ ڈیڑھ مہینے کے بعد خانہ زاد بیگم بڑی پھوپھی کو بیرم خاں کے ساتھ مرزا عسکری کی طرف روانہ کیا کہ اسے سمجھائے۔اور ہمایوں کو عذر معذرت کے ساتھ صلح کا پیغام بھیجا۔ جب ہمایوں نے قندھار فتح کیا تو جس طرح شاہ سے اقرار کر آیا تھا وہ علاقہ ایرانی سپر سالار کے حوالے کر دیا اور آپ کا بل کو چلا جسے کا مران دبائے بیٹھا تھا۔ امرانے کہا جاڑے کا موسم سر پر ہے۔ رستہ کڈھب ہے ، عیاں اور اسباب کا ساتھ لے چلنا مشکل ہے ۔ بہتر ہے کہ قندھار سے بداغ خاں کو رخصت کیا جائے حرم بادشاہی بھی یہاں آرام پائینگے۔ اور خانہ زادوں کے عیال بھی ان کے سایہ میں رہینگے۔ ہمایوں کو بھی یہ صلاح پسند آئی اور بداغ خاں کو پیغام بھیجا۔ ایرانی فوج نے کہا کہ جب تک ہمارے شاہ کا حکم نہ آئے۔ ہم یہاں سے نہ جائیں گے۔ ہمایوں لشکر سمیت باہر پڑا تھا۔ ملک برفانی اس پر بے سامانی غرض سخت تکلیف میں تھے۔ امرا نے سپاہیانہ منصوبہ کھیلا ۔ پہلے کئی دن ولایتی اور ہندی سپاہی بھیس بدل کر شہر میں جاتے رہے۔ گھاس اور لکڑیوں کی گٹھریوں میں ہتھیار پہنچاتے رہے۔ ایک دن صبح نور کے تڑکے گھاس کے اونٹ لدے ہوئے شہر کو جاتے تھے کئی سردار اپنے اپنے بہادر سپاہیوں کو ساتھ لئے انہیں کی آڑ میں دبکے دبکے شہر کے دروازے پر جا پہنچے۔ یہ جانباز مختلف دروازوں سے گئے تھے۔ چنانچہ گندگان دروازہ سے بیرم خاں نے بھی حملہ کیا تھا۔ پہرے والوں کو کاٹ کر ڈال دیا اور دم کے دم میں اس طرح پھیل گیا کہ ایرانی حیرانی میں آگئے۔ ہمایوں مع لشکر شہر میں داخل ہوا۔ اور جاڑ اآرام سے بسر کیا۔ لطیفہ یہ ہے کہ شاہ کو بھی خالی نہ چھوڑا ۔ ہمایوں نے مراسلہ لکھا کہ بداغ خاں نے تعمیل احکام میں کوتاہی کی اور ہمراہی سے انکار کیا اس لئے مناسب معلوم ہوا کہ ا سے ملک قندھار لیا جائے۔ اور بیرم خاں کے سپرد کیا جائے کہ بیرم خاں دامن دولت سے وابستہ ہے۔ اور خاک ایران کا پتلا ہے۔ یقین ہے کہ اب بھی ملک مذکور کو آپ دربار ایران سے متعلق سمجھیں گے۔ خاص اس معرکہ میں بیرم خاں کی ہمت یا حسن تدبیر پر اہل نظر بہت سوچ کر رائے لگائیں کہ قابل تعریف ہے ، یا محل اعتراض کیونکہ اسے جس زور سے اپنے آقا کی خدمت کیلئے جانفشانی کرنی واجب تھی۔ اسی طرح آقا کو یہ بھی سمجھانا واجب تھا کہ برف کا موسم گزر جائیگا۔ مگر بات رہ جائیگی۔ اور دربار ایران بلکہ ملک ایران اس معاملہ کو سن کر کیا کہیگا۔ جس لشکر اور سر کی بدولت ہم کو یہ دن نصیب ہوئے۔ اس یکو ہم تلوار سے کاٹیں اور اس برف و باران میں تلوار کی آنچ دکھا کر گھروں سے نکالیں کب مناسب ہے۔ افسوس باوفابیرم یہاس شاہ کی فوج اور سردار فوج ہے ۔ جس سے خلوت و جلوت میں تم کیا کیا باتیں کرتے تھے اور اب اگر کوئی موقع آن پڑے۔ تمہیں وہاں جانے کا منہ ہے یا نہیں بیرم خاں کے طرفدار ضرور کہیں گے۔ کہ وہ نوکر تھا ۔ اور اس اکیلے آدمی کی رائے جلسہ مشورہ کو کیونکر دبا سکتی تھی۔ اسے یہ بھی خطر ہو گا کہ امرائے ماوراء النہری آقا کے دل میں میری طرف سے یہ شک نہ ڈالیں کہ بیرم خاں ایرانی ہے۔ ایرانیوں کی طرفداری کرتا ہے۔ دوسرے برس ہمایوں نے پھر کابل پر فوج کشی کی اور فتح پائی۔ بیرم خاں کو قندھار کا حاکم کر کے چھوڑ آیا تھا۔ کابل کا فتحنامہ جو ہمایوں نے لکھا تو یہ شعر خود کہے اور اپنے ہاتھ سے اس پر لکھے اور فتحنامے کو محبت نامہ بنا کر بیرم خاں کو بھیجا۔ مثنوی شکر للہ کو بازشادانیم بررخ یاردوست خند انیم دشمناں رابکام دل دیدیم میوہ باغ فتح راچیدیم روز نور وزبیرم است امروز دل احباب بے غم است امروز شاد بادا ہمیشہ خاطر یار غم نگزر دبگر دیار و دیار ہمدا سباب عیش آماداست دل فکر و صالت افتاداست کہ جمال حبیب کے بنیم گل زباغ و صال کے چینم گوش خرم شودز گفتارت دیدروشن شودزدیدارت درحریم حضور شادبہم بنشینیم خرم و بے غم بعدزاں فکر کار ہند کنیم عزم تسخیر ملک سند کنیم ہردرے بستہ کشادہ شود ہرچہ خواہیم ازاں زیادہ شود انچہ خواہیم اززمان وزمیں گوید آمین جبرئیل امین یا الہٰی میرم گرداں دوجہاں رامسخرم گرداں۔ اور خط کے حاشیہ پر یہ رباعی لکھی رباعی اے آنکہ انیس خاطر مخرونی چوطبع لطیف خویش موزونی بے یاد توام نیست زمانے ہرگز آیا تو بیاد من مخروں چونی بیرم خاں نے اس کے جواب میں اس طرح عقیدت ظاہر کی ۔ رباعی اے آنکہ بذات سایہ بیچونی ازہر چہ تر اوصف کنم افرذنی چوں میدانی کہ بے توچوں میگرزد چوں مے پرسی کہ در فراقم چونی بیرم خاں قندھار میں تھا وہاں کے انتظام کرتا تھا اور جو جو حکم پہنچتے تھے نہایت گرمجوشی اور عرقریزی سے تعمیل کرتا تھا باغیوں اور نمک حراموں کو کبھی مار کر بھگاتا تھا کبھی تابع کر کے دربار کو روانہ کرتا تھا۔ تاریخ کے جاننے والے جانتے ہیں کہ وطن کے امراو شرفانے بابر سے کیسی بیوفائی اور نمک حرامی کی تھی مگر اس کی مروت نے بے وفاؤں سے کبھی آنکھ نہ چرائی تھی۔ اسی باپ کی آنکھ سے ہمایوں نے سر مہ مروت کا نسخہ لیا تھا۔ اس لئے بخارا و سمر قند اور فرغانہ کے بہت لوگ آن موجود ہوئے تھے۔ اول تو قدیم الایام سے توران کی خاک ایران کی دشمن ہے۔ اس کے علاوہ تورانیوں کا مذہب بھی سنت و جماعت ہے۔ ایرانی تمام شیعہ ۔ غرض 961ھ میں ہمایوں کو شبہ ڈالا کر بیرم خاں قندھار میں خود سری کا ارادہ رکھتا ہے۔ اور شاہ ایران سے سازش رکھتا ہے۔ صورت احوال کے ساان ایسے تھے کہ ہمایوں کی نظرم میں اس شبہ کا سایہ یقین کا پتلا بن گیا چوں مضامین مجمع گردو شاعری دشوار منیست ۔ کابل کے جھگڑے ہزاروں اور افغانوں کی سر شوریاں ۔ سب اسی طرح چھوڑیں اور چند سواروں کے ساتھ گھوڑے مار کر خود قندھار پر جا کھڑا ہوا۔ بیرم خاں بڑا رمز شناس اور معاملہ فہم تھا اس نے بدگویوں کی بدی اور ہمایوں کی بد گمانی پر ذرا دل میلانہ کیا۔ اور اس عقیدت اور عجزو نیاز سے خدمت بجا لایا کہ خود بخود چغل خوروں کے منہ کالے ہوگئے۔ دو مہینے ہمایوں وہاں ٹھیرا۔ ہندوستان کی مہم سامنے تھی خاصر جمع سے کابل کو پھرا۔ بیرم خاں کو بھی حال معلوم ہو گیا تھا۔ چلتے ہوئے عرض کی ۔ غلام کو حضور اپنی خدمت میں لے چلیں۔ منعم خاں یا جس جان نثار کو مناسب سمجھیں یہاں چھوڑیں۔ ہمایوں بھی اسکے جوہروں کو پرکھ چکا تھا اسکے علاوہ قندھار ایک ایسے نازیک موقع پر واقع ہوا تھا کہ ادھر ایران کا پہلو تھا ادھر ترکان اذبک کا۔ ادھر سرکش افغانوں کا اس لئے وہاں سے اس کا سر کانا مصلحت نہ سمجھا۔ بیرم خان نے عرض کی کہ اگر یہی مرضی ہے تو ایک اور سردار میری اعانت کو مرحمت ہو چنانچہ بہادر خاں علی قلیخاں شیبانی کے بھائی کو زمین و اور کا حاکم کر کے چھوڑا۔ ایک دفعہ کسی ضرورت کے سبب سے بیرم خاں کا بل میں حاضر ہوا۔ انفاقاً عید رمضان کی دوسری تاریخ تھی ہمایوں بہت خوش ہوا۔ اور بیرم خاں کی خاطر سے باسی عید کو تازہ کر کے دوبارہ جشن شاہانہ کے ساتھ دربار گیا۔ دوبارہ نذریں گزریں اور سب کو خلعت اور انعام و اکرام دیئے۔ قبق اندازی اور چوگان بازی کے ہنگامے گرم ہوئے۔ بیرم خاں اکبر کو لیکر میدان میں آیا ۔ اسی 10 برس کے لڑکے نے جاتے ہی کدو پر تیر مارا اور ایسا صاف اڑایا کہ غل مچ گیا۔ بیرم خاں نے مبارکباد میں قصیدہ کہا مطلع عقد قبق ۔ بود خدنگ تو ازکجک کرداز ہلال صورت پر دیں شہباب حک اکبر کے عہد میں بھی کئی سال قند ھارا س کے نام پر رہا شاہ محمدقندھاری اس کی طرف سے نائب تھا وہی انتظام کرتا تھا۔ ہمایوں نے آکر کابل کا انتظام کیا اور لشکر لیکر ہندوستان کو روانہ ہوا۔ بیرم خاں سے کب بیٹھا جاتا تھا قندھار سے برابر عرضیاں شروع کر دیں کہ اس مہم میں غلام خدمت سے محروم نہ رہے۔ ہمایوں نے فرمان طلب بھیجا۔ وہ اپنے پرانے پرانے کا رآزمودہ دلاوروں کو لیکر دوڑا اور پشاور کے ڈیروں لشکر میں شامل ہوا۔ سپہ سالاری کا خطاب ملا اور صوبہ قندھار جاگیر میں عنایت ہو کر ہندوستان کو روانہ ہوئے۔ یہاں بھی امرا کی فہرست میں سب سے پہلے بیرم خاں کا نام نظر آتا ہے۔ جس وقت پنجاب میں داخل ہوئے ادھر ادھر کے ضلعوں میں بڑے بڑے لشکر افغانوں کے پھیلے ہوئے تھے مگر ادبار آچکا تھا کہ انہوں نے کچھ بھی ہمت نہ کی لاہور تک بے جنگ ہمایوں کے ہاتھ آیا۔ ہمایوں لاہور میں ٹھیرا اور امرا کوآگے روانہ کیا۔ افغان کہیں کہیں تھے۔ مگر جہاں تھے گھبرائے ہوئے تھے۔ اور آگے کو بھاگے جاتے تھے۔ جالندھر پر لشکر شاہی کا مقام تھا۔ خبر آئی کہ تھوڑی دور آگے افغانوں کا انبوہ کثیر جمع ہو گیا ہے۔ خزانہ ومال بھی سب ساتھ ہے اور آگے کو جایا چاہتا ہے تردی بیگ مال کے عاشق تھے ۔ انہوں نے چاہعا کہ بڑھ کرہاتھ ماریں خان خاناں سپہ سالار نے کہلا بھیجا کہ مصلحت نہیں۔ بادشاہی جمعیت تھوڑی ہے غنیم کا انبوہ ہے اور خزانہ و مال اس کے پاس ہے مباداکہ پلٹ پڑے اور مال کے لئے جان پر کھیل جائے اکثر امرا کی رائے خانخاناں کے ساتھ تھی۔ یہ اس نے نہمانا اور چاہا کہ اپنی جمعیت کے ساتھ دشمن پر جا پڑے۔ دوستوں میں تلوار چل گئی۔ طرفین سے بادشاہ کو عرضیاں گئیں ۔ وہاں سے ایک امیر فرمان لیکر آیا اپنوں کو آپس میں ملایا اور لشکر آگے روانہ ہوا۔ ستلج پر آکر پھر اختلاف ہوا خبر لگی کہ ماچھی واڑہ کے مقام پر 30 ہزار افغان ستلج پار پڑے ہیں ۔ خانخاناں اسی وقت اپنی فوج لیکر روانہ ہوا کسی کو خبر نہ کی اور مارا مار دریا پار اتر گیا شام قریب تھی کہ دشمن کے قریب جا پہنچا۔ جاڑے کا موسم تھا خبردار نے خبر دی کہ افغان ایک آبادی کے پاس پڑے ہیں۔ اور خیموں کے آگے لکڑیاں اور گھاس جلا جلا کر سینک رہے ہیں تاکہ اگتے رہیں اور روشنی میں رات کی بھی حفاظت رہے۔ اور اس نے اور بھی غنیمت سمجھا۔ دشمن کی کثرت کا ذرا خیال نہ کیا ایک ہزار سوار سے کہ خاص جاں نثار تھے۔ گھوڑے اٹھائے اور فوج دشمن کے پہلو پر جا کھڑا ہوا وہ بجواڑہ کے مقام میں پانی کے کنارے پر پڑے تھے سر اٹھا یا تو موت چھاتی پر نظر آئی۔ گھبرا گئے۔ احمقوں نے جتنی لکڑیاں اور گھاس کے ڈھیر تھے۔ سب میں بلکہ ان کے ساتھ آبادی کے چھپروں میں بھی آگ لگا دی کہ خوب روشنی ہو جائیگی تو دشمن کو اچھی طرح دیکھیں گے ترکوں کو اور بھی موقع ہاتھ آیا خوب تاک تاک کر نشانے مارنے لگے۔ افغانوں کے لشکر میں کھلبلی پڑ گئی۔ علی قلی خاں شیبانی کہ خانخاناں کی دستگیری سے ہمیشہ قوی بازو تھا سنتے ہی دوڑا اور اور سرداروں کو خبر ہوئی وہ بھی اپنی اپنی فوجیں لیکر دوڑا دوڑ آن پہنچے۔ افغان بد حواس ہو گئے۔ لڑائی کا بہانہ کر کے سوار ہوئے۔ خیمے ڈیرے اسباب اسی طرح چھوڑا۔ اورس یدھے دلی کو بھاگ گئے۔ بیرم خاں نے فورا خزانوں کا بندوبست کر لیا جو عجائب و نفائس گھوڑے ہاتھی ہاتھ آئے عرضی کے ساتھ لاہور کو روانہ کئے۔ ہمایوں نے عہد کیا تھا کہ جب تک جئے گا۔ ہندوستان میں کسی بندے کو بردہ نہ سمجھیگا چنانچہ جو عورت لڑکا لڑکی گرفتار ہوئے تھے سب کو چھوڑ دیا اور ترقی اقبال کی دعائیں لیں اس وقت ماچھی واڑے میں بڑی آبادی تھی۔ بیرم خاں آپ وہاں رہا اور سرداروں کو جا بجا افغانوں کے پیچھے روانہ کیا۔ دربار میں جب عرضی پیش ہوئی اور اجناس و اموال نظر سے گزرے سب خدمتیں مقبول ہوئیں۔ اور القاب میں خانخاناں کے خطاب پر یار و فا دار اور ہمدم غمگسار کے الفاظ بڑھائے۔ اس کے نوکروں کے لئے کیا اشراف کیا پاجی ۔ کیا ترک۔ کیا تاجیک ۔ سقہ ۔ فراش باورچی۔ ساربان تک سب کے نام بادشاہی دفتر میں داخل ہو گئے۔ اور خانی و سلطانی کے خطابوں سے زمانہ میں نامدار ہوئے۔ اور سنبھل کی سرکار اس کی جاگیر لکھی گئی۔ سکندر سور 80ہزار افغان کا لشکر جرار لئے سرہند پر پڑا تھا اکبر بیرم خاں کے سایہ اتالیقی میں اس پر فوج لیکر گیا۔ مہم مذکور بھی خوش اسلوبی سے طے ہوئی۔ اس کے فتحنامے اکبر کے نام سے جاری ہوئے۔ بارہ تیرہ برس کے لڑکے کو گھوڑا کدانے کے سوا اور کیا آتا ہے مگر وہی بات ع اے باوصبا ایں ہمہ آوردہ تست۔ جب ہمایوں نے دلی پر قبضہ کر لیا تو جشن شاہانہ ہوئے۔ امرا کو علاقے خلعت انعام و اکرام ملے۔ سب انتظام خانخاناں کی تجویز اور اہتمام سے تھے۔ سر ہند کا صوبہ اس کے نام پر ہوا کہ ابھی وہاں فتح عظیم حاصل کی تھی۔ سنبھل علی قلی خاں شیبانی کو ملا۔ پٹھان پنجاب کے پہاڑوں میں پھیلے ہوئے تھے۔ 963ھ میں ان کی جڑاکھاڑنے کے لئے اکبر کوفوج دیکر بھیجا۔ اس مہم کے بھی کل کاروبار خانخاناں کے ہاتھ میں دیئے۔ اتالیقی و سپہ سالاری کا عہدہ تھا ۔ اور اکبر اسے خان باباکہتا تھا ۔ ہونہار شہزادہ پہاڑوں میں دشمن شکاری کی مشق کرتا پھرتا تھا کہ دفعتہ ہمایوں کے مرنے کی خبرپہنچی۔ خانخاناں نے اس خبر کو بڑی احتیاط سے چھپا رکھا۔ لشکر کے امزا کو نزدیک دور سے جمع کر لیا۔ وہ سلطنت کے آئیں و آداب سے خوب واقف تھا۔ شاہانہ دربار کیا۔ اور تاج شاہی اکبر کے سر پر رکھا۔ اکبر باپ کے عہد سے اس کی خدمتیں اور عظمتیں دیکھ رہا تھا اور جانتا تھا کہ برابر تین پشت کا خدمت گزار ہے۔ چنانچہ اتالیقی و سپہ سالاری پر وکیل مطلق کا منصب زیادہ کیا۔ عنایات و اختیارات کے علاوہ خطاب خان بابا القاب میں داخل کیا۔ اور خود زبان سے کہا کہ خان بابا ! حکومت و امارت کے بندوبست۔ موقوفی و بحالی کے اختیار۔ سلطنت کے بد خواہوں او خیر خواہوں اور خیر خواہوں کا باندھنا ۔ مارنا ۔ بخشنا ۔ سب تمہیں اختایر ہے۔ کسی طرح کے دسواس کو دل میں راہ نہ دو۔ اور اسے اپنا ذممہ سمجھو۔ یہ سب اس کے معمولی کام تھے۔ فرمان جاری کر دیئے۔ اور سب کاروبار بدستور کرتا رہا۔ بعض سرداروں پر خود سری کا خیال تھا۔ ان میں سے ابو المعالی تھے۔ انہیں فورا باندھ لیا۔ اس نازک کام کو اس خوبصورتی سے طے کر دینا خان خاناں ہی کا کام تھا۔ اکبر دربار و لشکر سمیت جالندھر میں تھا ۔ جو خبر پہنچی کر ہیموڈ ھو سر نے آگرہ لیکر دلی مارلی۔ تردی بیگ حاکم وہاں کا بھاگا چلا آتا ہے۔ سب حیران رہ گئے۔ اور اکبر بھی بچپن کے سبب سے گھبرایا۔ وہ اسی امر میں جان گیا۔ تھا کہ ہر ایک سردار کتنے کتنے پانی میں ہے۔ بیرم خاں سے کہا کہ خان بابا تمام ملکی ومالی کا روبار کا تمہیں اختیار ہے۔ جس طرح مناسب دیکھو کرو۔ میری اجازت پر نہ رکھو۔ تم عموے مہربان ہو۔ تمہیں والد بزرگوار کی روح مبارک کی اور میرے سر کی قسم ہے کہ جو مناسب دیکھنا سو کرنا۔ دشمنوں کی کچھ پروانہ کرنا ۔ خان خاناں نے اسی وقت امرا کو بلا کر مشورت کی ۔ ہیموں کا لشکر لاکھ سے زیادہ سنا گیا تھا۔ اور بادشاہی فوج 20 ہزار تھی۔ سب نے بالاتفاق کہا کہدشمن کی طاقت اور اپنی حالت ظاہر ہے۔ ملک بیگانہ ۔ اپنے تئیں ہاتھیوں سے کچلوانا اور چیل کوؤں کو گوشت کھلانا کونسی بہادری ہے ؟ اس وقت مقابلہ مناسب نہیں کابل کو چلنا چاہیے وہاں سے فوج لیکر آئینگے۔ اور سال آئندہ میں افغانوں کا بخوبی علاج کرینگے۔ خانخاناں نے کہاکہ جس ملک کو دو دفعہ لاکھوں جانیں دیکر لیا۔ اس کو بے تلوار ہلائے چھوڑ جانا۔ ڈوب مرنے کی جگہ ہے۔ بادشاہ تو ابھی بچہ ہے۔ اسے کوئی الزام نہ دیگا۔ اس کے باپ نے عزتیں بڑھا کر ایران تو ران تک ہمارا نام روشن کیا۔ وہاں کے سلاطین و امرا کیا کہیں گے۔ اور سفید ڈاڑھیوں پر یہ رو سیاہی کا وسمہ کیسا زیب دیگا۔ اس وقت اکبر تلوار ٹیک کر بیٹھ گیا اور کہا خان بابا درست کہتے ہیں ۔ اب کہاں جانا اور کہاں آنا بن مرے مارے ہندوتان نہیں چھوڑا جا سکتا یا تخت یا تختہ ۔ بچہ کی اس تقریر سے بڈھوں کی خشک رگوں میں جرات کا خون سر سرایا۔ اور کوچ کا حکم ہو گیا ۔ دلی کی طرف فتح کے نشان کھول دیئے۔ رستہ میں بھاگے بھٹکے سردار اورس پاہی بھی آکر ملنے شروع ہوئے۔ خانخاناں ۔ فرزانگی۔ سخاوت ۔ شجاعت کے لحاظ سے یکتا تھے مگر جوہری زمانہ کی دکان میں ایک عجب رقم تھے کسی کو بھائی کسی کوبھتیجا بنا لیتے تھے۔ تردی بیگ کو بھی تقان تردی کہا کرتے تھے۔ مگر بات یہ ہے کہ دلوں سے دونو امیر آپس میں کھٹکے ہوئے ھتے۔ اورص ورتیں درباروں کی معمولی امر اتفاقی ہیں دونو ایک آقا کے نوکر تھے۔ خان خاناں کو اپنے بہت سے حقوق و اوصاف کے دعوے تھے۔ اسے جو کچھ تھا قدامت کا دعوے تھا۔ منصبوں کے رشک اور خدمتوں کی رقابت سے دونوں کے دل بھرے ہوئے تھے۔ اب ایسا موقع آیا کہ خان خاناں کا تیر تدبیر نشانے پر بیٹھا۔ چنانچہ اسکی بے ہمتی اور نمک حرامی کے حالات کیا نئے کیا پرانے حضور میں عرض کر دیئے تھے۔ جس سے کچھ قتل کی بھی اجازت پائی جاتی تھی۔ اب جو وہ شکست کھا کر شکستہ حال شرمندہ صورت لشکر میں پہنچا تو انہوں نے موقع غنیمت سمجھا۔ ان دنوں باہم شکر رنجی بھی تھی چنانچہ پہلے ملا پیر محمد نے جا کر وکالت کی کرامات دکھائی کہ ان دنوں خان خاناں کے خیر خواہ خاص تھے۔ پھر شام کو خاں خاناں سیر کرتے ہوئے نکلے۔ پہلے آپ اس کے خمیے میں گئے پھر وہ ان کے خیمہ میں آیا بڑی گر مجوشی سے ملے۔ تو قان بھائی کو بڑی تعظیم اور محبت سے بٹھایا خود ضرورت کے بہانے دوسرے خیمہ میں گئے۔ نوکروں کو اشارہ کر دیا تھا۔ انہوں نے بیچارے کا کام تمام کردیا۔ اور کئی سرداروں کو قید کر لیا۔ اکبر تیرہ چودہ برس کا تھا شکرے کا شکار کھیلنے گیا ہوا تھا۔ جب آیا تو خلوۃ میں ملا پیر محمد کو بھیجا۔ انہوں نے جا کر پھر اس سردار مردار کی طرف سے اگلی پچھلی نمک حرامیوں کے نقش بٹھائے۔ اور یہ بھی عرض کی فدوی خود تغلق آباد کے میدان میں دیکھ رہا تھا اس کی بے ہمتی سے فتح کی ہوئی لڑائی شکست ہو گئی ۔ خان خاناں نے عرض کی ہے کہ حضور دریائے کرم ہیں فدوی کو خیال ہوا کہ اگر آپ نے آکر اس کی خطا معاف کر دیا پھر تدارک نہ ہو سکے گا۔ مصلحت وقت پر نظر کر کے غلام نے اسے مارا تو سخت گستاخی ہے۔ اور موقع نہایت نازک ہے اگر اس وقت چشم پوشی کی تو سب کام بگڑ جائیگا۔ اور حضور کے بڑے بڑے ارادے ہیں۔ نمک خوار ایسا کرینگے۔ تو مہمات کا سر انجام کیونکر ہو گا۔ اس لئے یہی مصلحت سمجھی۔ اگرچہ گستاخانہ جرات ہے مگر اس وقت حضور معاف فرمائیں۔ اکبر نے ملا کی بھی خاطر جمع کی اور جب خان خاناں نے حضور ی کے وقت عرض کی تو اس وقت بھی اسے گلے لگایا اور اس کی تجویز پر آفرین و تحسین کر کے فرمایا کہ میں تو مکرر کہہ چکا ہوں کہ اختیارتمہارا ہے۔ کسی کی پروا اور کسی کا لحاظ نہ کرو۔ اور حاسدوں اور خود مطلبوں کی ایک بات نہ سنو جو مناسب دیکھو وہ کرو۔ ساتھ یہ مصرع پڑھا ع دوست گردوست شود ہر دو جہاں دشمن گیر ۔ باوجود اس کے اکثر مورخ یہی لکھتے ہیں کہ اس وقت اگر ایسا نہ ہوتا تو چغتائی امیر ہرگز قابو میں نہ آتے۔ اور وہی شیر شاہی شکست کا معاملہ پھر ہو جاتا۔ یہ انتظام دیکھ کر ایک ایک مغل سردار کہ اپنے تئیں کیکاؤس اور کیقباد سمجھے ہوئے تھا ہوشیار ہو گیا۔ اور خود سری اور نفاق کا خیال بھلا کر سب ادائے خدمت پر متوجہ ہو گئے یہ سب کچھ ہوا۔ اور اس وقت سب حریف دبک بھی گئے مگر دلوں میں زہر کے گھونٹ پی پی کر رہ گئے۔ غرض پانی پت کے میدان میں ہیموں سے مقابلہ ہوا۔ اور ایسی گھمسان کی لڑائی ہوئی کہ اکبری سکہ کا نقش فتوحات کے تمغوں پر بیٹھ گیا۔مگر اس معرکہ میں جتنی بیرم خاں کی ہمت اور تدبیر تھی اس سے زیادہ علی قلی خاں کی شمشیر تھی ۔ غرض ہیموں زخمی شکستہ بستہ اکبر کے سامنے لا کر کھڑا کیا گیا۔ شیخ گدائی کنبوہ نے اکبر کو کہا کہ جہاں اکبر کیجئے۔ ہمت اکبر نے گوارا نہ کیا آخر بیرم خاں نے بادشاہ کی مرضی دیکھ کر یہ شعر پڑھا ؎ چہ حاجت تیغ شاہی رانجون ہرکس لٓودن تو بنشیں داشارت کن بچشمے یا با بروئے اور بیٹھے بیٹھے ایک ہاتھ جھاڑا۔ پھر حضرت شیخ نے خود ایک ہاتھ پھینکا۔ مرے کو ماریں شاہ مدار اہل اللہ لوگ حال و قال کی مجلسوں کو رونق دینے والے تھے۔ انہیں یہ ثواب کی نعمت کہاں ملتی ع اچھا ہوا کہ دل کا یہ ارماں نکل گیا۔ آزاد ۔ دیکھنا قسمت والے ایسے ہوتے ہیں جہاد اکبر کا ثواب کیسا سستا ہاتھ آیا ہے۔ یہ سب تودرست ۔ مگر خان خاناں ! تمہارے لوہے کہ زمانے نے مانا ۔ کون تھا جو تمہاری بہادری تسلیم نہ کرتا ۔ میدان جنگ میں مقابلہ ہو جاتا تو بھی تمہارے لئے بنئے بچارے کا مار لینا فخر نہ تھا۔ چہ جائیکہ اس حالت میں نیمجاں مردے کو مار کر اپنی دلاوری اور عالی ہمتی کے دامن پر کیوں داغ لگایا ؎ کسی بیکس کو اے بیداد گر مارا تو کیا مارا جو آپ ہی مر رہا ہوا اس کو گرمارا توکیا مارا بڑے موذی کو مارانفس امارہ کو گرمارا نہنگ و اژدھا ؤ شیر نرمارا تو کیا مارا لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ خانخانان نے اسے زندہ کیوں نہ رکھا۔ منتظم آدمی تھا۔ رہتا تو بڑے بڑے کام کرتا۔ آزاد سب کہنے کی باتیں ہیں جب معرکہ کا وقت ہوتا ہے عقل چرخ میں آجاتی ہے۔ موقع نکل جاتا ہے۔ تو صلاحیں بتاتے ہیں۔ انصاف شرط ہے۔ اس وقت کوت و دیکھو کہ کیا عالم تھا۔ شیر شاہ کا سایہ ابھی آنکھوں کے سامنے سے نہ ہٹا تھا۔ بلکہ افغانوں کے شور سے تمام کشور ہندوستان طوفان آتش ہو رہا تھا۔ ایسے زبردست اور فتحیاب غنیم پر فتح پائی۔ گرداب فنا سے کشتی نکل آئی۔ اور وہ بندھ کر سامنے حاضر ہوا ہے دل کا جوش اس وقت کس کے قابو میں رہتا ہے اور کسے سوجھتا ہے کہ یہ رہے گاتو اس سے فلاں کار خانہ کا انتظام خوب ہو گا۔ غرض فیروزی کے ساتھ دلی پہنچے اور ادھر ادھر فوجیں بھیج کر انتظام شروع کر دیئے۔ اکبر کی بادشاہی تھی۔ اور بیرم خاں کی سربراہی ۔ دوسرے کا دخل نہ تھا۔ شکار کو جانا شکار گاہوں میں رہنا۔ محل میں کم جانا اور جو کچھ ہو باجازت خان خانان۔ اگرچہ امرائے دربار اور بابری سردار اس کے با لیاقت اختیاروں کو دیکھ نہ سکتے تھے۔ مگر کام ایسے پیچیدہ پیش آتے تھے۔ کہ اس کے سوا کوئی ہاتھ نہ ڈال سکتا تھا۔ سب کو اس کے پیچھے پیچھے چلنا ہی پڑتا تھا۔ اسی عرصہ میں کچھ جزوی جزوی باتوں پر بادشاہ اور وزیر میں اختلاف پڑا۔ اس پر یاروں کا چمکانا غضب خدا جانے نازک مزاج وزیر کئی دن تک سوار نہ ہوا۔ یا قدرتی بات ہوئی کہ کچھ بیمار ہوا۔ اس لئے کئی دن حضور میں نہ گیا۔ موقع وہ کہ سنہ دوم جلوس میں سکندر کوہستان جالندھر میں محصور ہوا ہے۔ اکبری لشکر قلعہ مانکوٹ کو گھیرے ہوئے تھے۔ خانخانان کے دنبل نکلا تھا کہ سوار بھی نہ ہو سکتا تھا۔ اکبر نے فتوحا اور لکھنہ ہاتھی سامنے منگائے اور لڑائی کا تماشہ دیکھنے لگا۔ یہ بڑے دھاوے کے ہاتھی تھے۔ دیر تک آپس میں ریلتے دھکیلتے رہے اور لڑتے لڑتے بیرم خان کے خیموں میں آن پڑے۔ تماشائیوں کا ہجوم ۔ عوام کا شوروغوغا۔ بازار کی دکانیں پامال ہوگ ئیں۔ اور ایسا غل مچا کر بیرم خاں گھبرا کر باہر نکل آیا۔ خان خانان کو شمس الدین محمد خاں اتکہ کی طرف خیا ل ہوا کہ اس نے کچھ بادشاہ کے کان بھرے ہونگے۔ اور ہاتھی بھی بادشاہ کے اشارے سے ادھر ہو لے گئے ہیں۔ تاہم اتکہ لیاقت کی پتلی اور بڑی حوصلے والی بی بی تھی۔ خان خانان کے اس کی زبانی کہلا بھیجا کہ اپنی دانست میں کوئی خطا خیال میں نہیں آئی کہ خانہ زاد سے ظہور میں آئی ہو پھر اس قدربے اعتنائی کا سبب کیاہے۔ اگر اس خیر اندیش کی طرف سے کوئی بات خلاف واقع حضور تک پہنچ ہے تو ارشاد ہو کہ فدوی اس کا عذر کرے۔ یہاں تک نوبت پہنچی کہ فددی کے خیمہ پر ہاتھی ہول دیئے۔ اسی عرض و معروض کے ساتھ ایک بی بی محل میں مریم مکانی کی بندمت میں پہنچی۔ ماہم نے جو حال تھا وہ خود ہی بیان کر دیا اور کہا کہ ہاتھی اتفاقاً ادھر آن پڑے بلکہ قسمیہ کہا نہ کسی نے تمہاری طرف سے کہا ہے نہ حضور کو کچھ خیال ہے ۔ لاہور میں پہنچے تو اتکہ خاں اپنے بیٹوں کو لیکر خان خانان کے پاس آئے۔ اور قرآن پر ہاتھ رکھ کر قسم کھائی کہ میں نے خلوت یا جلوت میں ہرگز تمہارے باب میں حضور سے کچھ نہیں کہا۔ اور نہ کہوں گا۔ سورخ یہی کہتے ہیں ۔ کہ خان خانان کی خاطر جمع اب بھی نہ ہوئی۔ اکبر کی دانائی کا نمونہ اس عمر میں اتنی بات سے معلوم ہوتا ہے کہ سلیمہ سلطان بیگم ہمایوں کی پھوپھی کی بیٹی بہن تھی۔ اور اپنے مرنے سے چند روز پہلے اس کی نسبت بیرم خاں سے ٹھیرادی تھی۔ اس موقع پر 964ھ اور سنہ 2 جلوسی تھے اور لاہور سے آگرہ کو جاتے تھے جالندھر یادلی کے مقام میں اکبر نے اس کا عقد کر دیا کہ اتحاد کا رشتہ اور مضبوط ہو گیا۔ بڑی دھوم دھام ہوئی۔ خان خانان نے بھی جشن شاہانہ کے سامان کئے۔ اکبر بموجب اس کی تمنا کے مع امرا کے خود اس کے گھر گیا۔ خانخانان نے بادشاہی نثاروں اور لوگوں کے انعام و اکرام میں وہ دریا بہائے کہ جو سخاوت کی شہرتیں زبانوں پر تھیں و انہوں میں آن پڑیں۔ اس شادی میں بیگمات نے بڑی تاکید سے صلاح دی۔ مگر بخاری و ما وراء النہری ترک کہ اپنے تئیں امرا کہہ کہہ کر فخر کرتے تھے۔ اس قرابت سے سخت ناراض ہوئے۔ اور کہا کہ ایرانی ترکمان اور وہ بھی نوکر۔ اس کے گھرمیں ہماری شہزادی جائے۔ یہ ہمیں زنہار گوارا نہیں۔ تعجب یہ ہے کہ پیر محمد خان نے اس آگ پر اور بھی تیل ٹپکا یا۔ آزاد ایرانی تورانی کا بہانہ تھا ۔ اور شیعہ سنی کا افسانہ ۔ رشک دہی منصب اور اس کے اختیارات کا تھا۔ آل تیمور اور آل بابر کی انہیں کیا پرواہ تھی ۔ خود نمک حرامیاں کر کے بابر کا چھ پشت کا ملک برباد کیا۔ ہندوستان میں آکر پوتے کے ایسے خیر خواہ بن گئے۔ اور بیرم خان بھی کچھ نیا امیر نہ تھا۔ پشتوں کا امیر زادہ تھا۔ اس کے علاوہ اس کی ننھیال کا خاندان تیموری سے رشتہ بھی تھا۔ خواجہ عطار خواجہ احسن مشہور بہ خواجہ زادہ چغانیاں مرز علائوالدین…… ان کی بی بی شاہ بیگم دختر محمود مرزا ۔ ابن سلطان ابو سعید مرزا تھی۔ دستر مذکور چوتھی پشت مرزا نورالدین میں علی شکر بیگ کی نواسی تھی کیونکہ علی شکر بیگ کی بیٹی شاہ بیگم شاہزادہ محمود مرزا سے منسوب تھی۔ اس سابقہ رشتے کے خیال سے بابر نے اپنی بیٹی گلرنگ بیگم کو مرزا انورالدین سے منسوب کیا۔ علی شکر کون ؟ خان خانان کے جد سوئمی اس سلسلے سے خدا جانے خانخانان کا خاندان تیموری سے کیا رشتہ ہوا۔ مگر ضرور کچھ نہ کچھ ہوا(دیکھو اکبر نامہ جلد دوم صفحہ 8اور مآثر الامرا میں بیرم خاں کا حال ) گگھڑ کی قوم کو قدیم سے دعوی ہے کہ ہم نوشیرداں کی اولاد ہیں۔ جہلم پار سے اٹک تک کی پہاڑیوں میں یہ لوگ پھیلے ہوئے تھے۔ ہمیشہ کے سر شور تھے۔ اور حکومت کے دعوے رکھتے تھے۔ اس وقت بھی ایسے ایسے ہمت والے سردار ان میں موجود تھے۔ کہ شیر شاہ ان کے ہاتھوں سے تھک گیا تھا۔ بابر اور ہمایوں کے معاملات میں بھی ان کے اثر پہنچتے تھے۔ ان دنوں میں سلطان آدم گھڑا اور اس کے بھائی بڑے دعوے کے سردار تھے۔ اورہمیشہ لڑتے بھڑتے رہتے تھے۔ خان خانان نے سلطان آدم کو حکمت عملی سے بلایا۔ وہ مخدوم الملک ملا عبداللہ سلطان پوری کی معرفت آیا۔ دربار میں پیش کیا اور خانخانان نے اسے رسم ہندوستان کے بموجب دستار بدل بھائی بنایا۔ ذرا اس کے ملک داری کے انداز تو دیکھو۔ خواجہ کلاں بیگ ایک پرانا سردار بابر کے عہد کا تھا۔ اس کا بیٹا مصاحب بیگ کہ شرارت اور فتنہ انگیزی میں بے اختیار تھا خانخانا ن نے ایک مفسدانہ جرم پر اسے مروا ڈالا۔ اس میں بھی قتل کے بانی ملا پیر محمد تھے۔ مگر دشمنوں کو تو بہانہ چاہئے تھے۔ بد نامی کا شیشہ خانخاں کے سینے پر توڑا۔ اور تمام امرائے شاہی میں غل مچ گیا بادشاہ کو بھی اس کے مرنے کا افسوس ہوا۔ ہمایوں اسے مصاحب منافق کہا کرتا تھا ۔ اور اس کی بداعمالیوں سے نہایت تنگ تھا۔ جب کابل میں کامران سے لڑائیاں ہو رہی تھیں ۔ تو یہ نمک حرام ایک موقع پر ہمایوں کے پاس تھا اور کامران کی خیر خواہی کے منصوبے باندھ رہا تھا۔ اندر اندر اسے پرچے بھی دوڑا رہا تھا۔ یہانتک کہ میدان جنگ میں ہمایوں کو زخمی کروا دیا۔ فوج نے شکست کھائ۔ی انجام یہ ہوا کہکابل ہاتھ سے نکل گیا۔ اکبر خرد سال ۔ پھر بے حرحم چچا کے کے پنجے میں پھنس گیا۔ اس کاق اعدہ تھا کہ کبھی ادھر ہوتا تھا کبھی ادھر چلا جاتا تھا۔ اور یہ اس کا ادنی کمال تھا ہمایوں ایک دفعہ نواح کابل میں کامران سے لڑ رہا تھا۔ اس موقع پر یہ اور اس کا بھائی مبار زبیگ ہمایوں کے ساتھ تھے۔ ایک دن میدان جنگ میں کسی نے آکر خبر دی کہ مبارزبیگ مارا گیا۔ ہمایوں نے بہت افسوس کیا اور کہا اس کی جگہ مصاحب مارا جاتا۔ ہمایوں کے بعد اکبری دور ہوا تو شا ابو المعالی جا بجا فساد کرتا پھرتا تھا یہ اس کے مصاحب بن گئے اور مدت تک اس کے ساتھ خاک اڑاتے پھرے۔ خانزمان باغی ہو گیا تو اس کے پاس جاموجود ہوئے بیٹے کو مہر دار کروا دیا۔ آپ عہدہ دار بن گئے۔ چند در چند بندوبستوں کے بعد دلی میں آئے خان خانان نے اس کے باب میں اصلاح مزاج کی تدبیریں کی تھیں مگر ایک کار گرنہ ہوئی اور دہ راہ پر نہ آیا۔ ان دنوں دارلخلافہ میں فساد کی تحمریزی کرنے لگا۔ بیرم خاں نے قید کر لیا۔ اور تجویز کی کہ مکہ گوروانہ کر دے۔ ملا پیر محمد اس وقت خانخانان کے مصاحب تھے اور یہ خون کے عاشق تھے اور انہوں نے کہا قتل پھر بھی قیل و قال کے بعد یہ ٹھیہری کہ ایک پرزہ پر قتل ایک پر نجات لکھ کر نمدتکیہ کے نیچے رکھ دو پھر ایکر پرچہ نکالو ۔ وہی حکم غیب ہے تقدیر الہٰی یہ کہ پیر کی کرامات سچی نکلی اور مصاحب دلی میں قتل ہوا۔ امرائے بادشاہی میں اغل مچ گیا کہ قدمی الخدمتوں کی اولاد اور خاص خانہ زاد مارے جاتے ہیں کوئی نہیں پوچھتا۔ تیموری خاندان کا آئین ہے کہ خاندانی نوکروں کو بہت عزیز رکھتے ہیں۔ بادشاہ کو بھی اس امر کا خیال ہوا۔ مصاحب بیگ کی آگ ابھی ٹھنڈی نہ ہوئی تھی کہایک شعلہ اور اٹھا۔ ملاپیر محمد اب بڑھتے بڑھتے امیر الامرا کے درجہ کو پہنچ کر وکیل مطلق ہو گئے تھے۔ سنہ 3 جلوس میں بادشاہ مع لشکر دلی سے آگرہ کو چلے خانخانان اور پیر محمد خاں ایک دن صبح کے وقت شکار کھیلتے چلے جاتے تھے۔ خانخانان نے اپنے رکابداروں سے پوچھا کہ بھوک لگی ہے ۔ ناشتے کے لئے رکاب خانہ میں کچھ موجود ہے ؟ پیر محمد خاں بول اٹھے کہ اگر ذرا ٹھیر جایئے تو جو کچھ حاضر ہے۔ وہ حاضر ہو۔ خان خاناں نوکروں سمیت ایک درخت کے نیچے اتر پڑا۔ دستر خوان بچھ گیا۔ 3سو پیالی شربت کی اور 7سو غوریاں کھانے کی موجود تھیں خانخانان کو تعجب ہو امنہ سے کچھ نہ کہا پردل میں خیال رہا ؎ مگر توب ے خبری کاندریں مقام ترا۔ چہ دشمنان حسودند دوستان غیور ۔ اس کے علاوہ چونکہ ملا اب وکیل مطلق تھا ہر وقت حضور میں حاضر رہتا تھا۔ سب کی عرضیاں اس کے ہاتھ پڑتی تھیں۔ تمام امرا اور اہل دربار بھی اسی کے پاس حاضر ہوتے البتہ پر ضرور تھا کہ وہ کم حوصلہ مغرور ۔ بیرحم اور کمینہ مزاج تھا۔ اہالی و اشراف وہاں جاتے تھے اور ذلت اٹھاتے تھے اسپر بھی بہتوں کو بات نصیب نہ ہوتی تھی۔ آگرہ پہنچ کر ملا کچھ بیمار ہوئے۔ خان خانان خبر کو گئے۔ کوئی ازبک غلام دروازہ پر تھا اسے کیا خبر تھی کہ ملا اصل میں کیا ہے ۔ اور خان خاناں کا رتبہ کیا ہے اور وہ دونوں قدیمی علاقہ کیا ہے وہ دن بھر میں بہت سے بڑے بڑوں کو روک دیا کرتا تھا۔ اپنی عادت کے بموجب انہیں بھی روکا اور کہا کہ جب تک دعا پہنچے آپ ٹھیریں۔ جب بلائیں گے تب جایئے گا۔ ملا آخر خان خانان کا چالیس برس کا نوکر تھا۔ تعجب پر تعجب ہوا۔ جزبز ہو کر رہ گیا اور زبان سے نکلاع بلے خود کر دہ راد ماں نہ باشد لیکن یہ آنا بھی آخر خانخاناں کا آنا تھا۔ یا قیامت کا آنا تھا۔ ملا سنتے ہی خود دوڑے آئے او کہتے جاتے تھے۔ معذور فرمایئے دربان آپ کو پہچانتا نہ تھا یہ بولے کر بلکہ تم بھی ! اس پر بھی یہ ہوا کہ خانخانان تواندر گئے خانی ملازموں میں سے کوئی اندر نہ جا سکا فقط طاہر محمد سلطان ۔ میر فراغت نے بڑی دھکاپیل سے اپنے تئیں اندر پہنچایا۔ خان خانان دم بھر بیٹے اور گھر چلے آئے۔ دو تین دن کے بعد خواجہ امینا (جواخیر میں خواجہ جہاں ہوگئے) اور میر عبداللہ بخشی کو ملا کے پاس بھیجا او ر کہا کہ تمہیں یاد ہو گا کتاب بغل میںمارے طالب العلمی اور نامرادی کی وضع سے تم قندھار میں آئے تھے۔ ہم نے تم میں قابلیت دیکھی اور اخلاص کی صفتیں پائیں۔ اور کوئی کوئی خدمت بھی تم سے اچھی بن آئی ۔ چنانچہ بدترین درجہ فقر طالب علمی سے عرش المراتب خانی وسلطانی اور درجہ امیر الامرائی تک پہنچایا۔ مگر تمہارا حوصلہ دولت و جاہ کی گنجائش نہیں رکھتا ۔ خطر ہے کہ کچھ ایسا فساد نہ اٹھاؤ جس کا تدارک مشکل ہو جائے۔ ان مصلحتوں پر نظر کر کے چند روز یہ غرور کا اسباب تم سے الگ کر لیتے ہیں تاکہ بگڑا ہوا مزاج اور معزور دماغ ٹھیک ہو جائے۔ مناسب ہے کہ علم و نقارہ اور اسباب حشمت سب سپرد کر دو۔ ملا کی کیا مجال تھی جو دم مار سکے۔ وہ غرور کا مواد جس نے بہت سی انسان صورتوں کوب ے عقل اور خبطی کر رکھا ہے ۔ بلکہ انسانیت 1 ؎ مفصل حالات کے لئے دیکھو صفحہ 722 اور آدمیت کے رستے سے گرایا ہے ۔ جنگل کے بھتوں میں ملایا اور ملاتا ہے۔ اسی وقت سب حوالہ کر دیا۔ اور وہی ملا پیر محمد رہ گئے جو کہ تھے۔ پہلے قلعہ بیانہ کے قید خانہ میں بھیج دیا۔ ملانے ایک رسالہ خان خانان کے نام پر تصنیف کیا اس میں فقط برہان تمانع کو طول و تفصیل کے ساتھ بیان کیا۔ اور یہ ایک مشہور مباحثہ علما میں ہے۔ گویا تفسیر ہے اس آیت کی وکان فیہما اطۃ الاللہ لفسدتا اس میں ایک لطیف اشارہ تھا اس بات کا کہ میری غلط فہمی تھی جو آپ کی بارگاہ اختیار کے سامنے اپنا خیمہ لگاتا تھا۔ اور اب میں آپ پر ایمان لا کر توبہ کرتا ہوں یہ رسالہ بھی بھیجا اور بہت سے عذر و معذرت کے خط لکھے۔ عجز و انکسار نے پہنچ کر شفاعت کی مگر قبول نہ ہوئی کہ بے وقت تھی۔ چند روز کے بعد براہ گجرات مکہ کو روانہ کردیا۔ اس کی جگہ حاجی محمد سیستانی کو بادشاہ کا استاد اور وکیل مطلق کر دیا کہ وہ بھی اپنا ہی دامن گرفتہ تھا۔ جب بادشاہ کو یہ حال معلوم ہوا۔ کچھ نہ کہا مگرر نج ہوا۔ شیخ گدائی کنبوہ شیخ جمالی کے بیٹے تھے اور مشائخوں میں داخل ہو گئے تھے۔ جس وقت ہمایوں کی 1 ؎ ملا پیر محمد یہاں سے چلے۔ گجرات کے پاس رادھن پور میں پہنچ کر مقام کیا۔ وہاں فتح خاں بلوچ نے بہت خاطر داری کی یہاں سے ادہم وغیرہ امرا کے خط پہنچے کہ جہاں ہو وہیں ٹھیر جاؤ۔ اور انتظار کر و کہ پر وہ غیب سے کیا ظاہر ہوتا ہے بیرم خاں کو خبر ہوئی کہ ملا وہاں بیٹھے ہیں۔ انہوں نے کئی سرداروں کوفوج کیس اتھ روانہ کیا۔ ملا ایک پہاڑ کی گھاٹی میں گھس کر اڑے اور دن بھر لڑے رات کو نکل گئے۔ مال اسباب ان کا سب بیرم خانی سپاہ کے ہاتھ آیا اہلکار دیکھتے تھے مگر پیش کس کی جائے۔ بادشاہ دیکھتے تھے اور شربت کے گھونٹ پیتے جاتے تھے۔ آزاد تماشہ دیکھنے والے ان بناتوں کو سن کر جوچاہیں باتیں بنائیں لیکن تم غور کرو۔ ایک شخص پر کل سلطنت کا بوجھ ہے۔ درستی و خرابی کا ذمہ دار وہ ہے جب ارکان سلطنت اییس گردن کش اور خود سرہوں اور سینہ زہ رہوں تو وہ ان سے سلطنت کا کام کیونکر چلا سکتا ہے حقیقت میں یہ لوگ اس کے ہا تھ پاؤں ہیں۔ جب ہاتھ پاؤں بجائے کام کرنے کے کام بگاڑنے والے ہوں تو اسے واجب سہے کہ اور ہاتھ پاؤں پیدا کرے یا کام سے دست بردار ہو جائے ۔ 2 ؎ مجھے اب تک نہیں کھلا کر شیخ گدائی کی ذات یا صفات میں کیا داغ تھا۔ ہر صاحب تاریخ ان کے باب میں گول گول باتیں کرتا ہے مگر کھول کر نہیں کہتا جو کچھ حال ان کا اور ان کے خاندان کا مختلف مقاموں سے معلوم ہوا ہے اس کے لئے دیکھو تتمہ ۔ خان خانان نے جو انہیں صدارت کا منصب دیا بادشاہی فرمان میں جہاں اور اعتراض کیا ہے خان خانان نے ضرور کہا ہو گا کہ شیخ نے میرے ساتھ جو رفاقت کی تھ۔ی شاہ جنت مکان کا ملازم سمجھ کر کی تھی۔ اور بادشاہی امید پر کی تھی۔ اب جو کچھ اس کے ساتھ کیا گیا خدمت بادشاہی کا صلہ ہے ۔ کوئی اپنا حق قرابت نہیں ہے۔ جو لوگ باپ دادا کا نام لیکر آج حاضر خدمت ہیں۔ اس وقت کہاں گئے تھے ؟ حریفوں کے ساتھ تھے یا جان بچا گئے تھے جنہوں نے رفاقت کی ان کاحق بہر صورت مقدم ہے۔ اور حضور حق شناسی سے قطع نظر کر کے دیکھیں آئین مملکت کیا فتوی دیتا ہے ؟ ظاہر ہے کہ جولوگ برے وقت میں رفاقت کرتے ہیں اگر بھلے وقت میں ان سے سلوک نہ کیا جائے تو آئندہ کسی کو کیا امید ہو گی اور کس بھر وسے پر کوئی رفاقت کریگا۔ مسجد نیشن ملانے یا خود غرض لوگ جو چاہیں سو کہیں۔ یہ مسجد و مدرسہ کا وظیفہ ملیں کہ حضرت پیر صاحب کی اولاد میں یا مولوی صاحب کے بیٹے ہیں انہیں کودے دو یہ مہمات سلطنت ہیں ذرا سی اونچ نیچ میں بات بگڑ جاتی ہے اور اس سے ایسا طوفان اٹھ کھڑا ہوتا ہے کہ ملک و مملکت تہ و بالا ہو جاتے ہیں اور ذرا ہی سی بات میں بن بھی جاتے ہیں۔ پھر کسی کو معلوم بھی نہیں ہوتا کہ یہ کیا تھا۔ آزاد جن مشائخ اور اماموں سے اونچا بٹھایا تھا۔ غور تو کرو۔ وہ کون تھے ؟ وہی بزرگوار جن کا حال چند سال کے بعد کھل گیا۔ اگر ایسے لوگوں سے اونچا بٹھا دیا تو کیا کفر ہو گیا ؟ سلطنت بگڑی اور خان خاناں پر وقت پڑا تو انہوں نے گجرات میں کچھ رفاقت کی تھی۔ اب انہیں صدارت کا منصب دیکر کل اکابر و مشائخ بند سے اونچا بٹھایا۔ خود ان کے گھر جاتے تھے۔ بلکہ بادشاہ بھی کئی دفعہ گئے تھے اور اس پر لوگوں نے بہت چرچا کیا تھا او کہتے تھے ع سگ نشیند بہ جائے گیپائی۔ اب وہ وقت آیا کہ یا تو خان خانان کی ہر تجویز عین تدبیر تھی۔ یا ہر بات نظروں میں کھٹکنے لگی اور حکموں پر پر ناراضیاں بلکہ شوروغل ہونے لگے ۔ خیر وہ برائے نام وزیر تھا مگر عقل و تدبیر کا بادشاہ تھا ۔ جب لوگوں کے کے چرچے سنے اورب ادشاہ کو بھی کھٹکتے دیھکا تو گوالیار کا علاقہ مدت سے خود سر تھا۔ بادشاہی فوج بھی گئی تھی۔ کچھ بندوست نہ ہو سکتا تھا۔ اب اس نے بادشاہ سے کچھ مدد نہ لی۔ خاص اپنی ذاتی فوج سے گیا۔ اور اپنے جیب خرچ سے لشکر کشی کی۔ آپ جا کر قلعہ کے نیچے ڈیرے ڈال دیئے۔ مورچے باندھے اور حملہ ہائے شیرانہ اور شمشیر دلیرانہ سے قلعہ توڑا۔ اور ملک فتح کر دیا۔ بادشاہ بھی خوش ہوگئے اور اور لوگوں کی زبانیں بھی قلم ہو گئیں۔ ملک مشرقی میں افغانوں نے ایسا سکہ بٹھایا تھا کہ کوئی امیر ادھر جانے کا حوصلہ نہ کرتا تھا۔ خان زمان کہ بریم خان کا داہنا ہاتھ تھا۔ اور اس پر بھی دشمنوں کا دانت تھا۔ اس نے ادھر کی مہم کا ذمہ لیا اور ایسے ایسے کارمے کئے کہ رستم کے نام کو پھر زندہ کر دیا۔ چندیری اور کالپی کا بھی وہی حال تھا۔ خان خاناں نے اس پر بھی ہمت کی مگر امیروں نے بجائے مدد کے بد مددی کی ۔ بنانے کے عوض کا م خراب کیا ۔ غنیموں سے سازشیں کر لیں۔ اس لئے کامیاب نہ ہوا فوج ضائع ہوئی روپیہ برباد ہوا اور ناکام چلا آیا۔ مالوہ کی مہم کا چرچا ہورہا تھا۔ عرض کی۔ فدوی بذات خود جائے گا۔ اور اپنے خرچ خاص سے اس مہم کو سر کرے گا۔ چنانچہ خود لشکر لیکر گیا۔ امرائے دربار مدد کی جگہ بد خواہی پر کمر بستہ ہو گئے۔ اطراف کے زمینداروں میں مشہور کیا کہ خان خانان پر بادشاہ کا غضب ہے ۔ اور بادشاہ کی طرف سے خفیہ حکم لکھ لکھ کر بھیجے کہ جہاں موقع پاؤ اس کا کام تمام کردو اب اس کا رعب داب کیا رہا۔ اس حالت میں اگر وہ کسی سردار یا زمیندار کوت وڑ کر موافق کرے اور انعام یا اعزاز کے وعدے کرے تو کون مانتا ہے۔ انجام یہ ہوا کہ وہاں سے بھی ناکام پھرا۔ بنگالہ کی مہم کا بیڑا اٹھایا۔ وہاں بھی دوغلے دغا بازدوستوں نے دونوں طرف مل کرکام خراب کر دیئے بلکہ نیکنامی تودڈرکنار پہلے الزاموں طرہ زیادہ ہوا کہ خان خاناں جہاں جاتا ہے جان بوجھ کر کام خراب کرتا ہے بات وہی ہے کہ اقبال کا ذخیرہ ہو چکا ۔ جس کاگم پر ہاتھ ڈالتا تھا۔ بنا ہوا بگڑ جاتا تھا ۔ اللہ اللہ یا تو وہ عالم کو جو بات ہے۔ پوچھو خان بابا سے ۔ جو مقدمہ ہے۔ کہو خان خانان سے سلطنت کے سفید و سیاہ کا کل اختیار۔ آفتاب اقبال اس اوج پر کہ جس سے اونچا ہونا ممکن نہیں(مشکل یہ ہے کہ اس نقطہ پر پہنچ کر ٹھہرنے کا حکم نہیں) افسوس اب اس کے ڈھلنے کا وقت آگیا۔ ظاہری صورتیں یہ ہوئیں کہ بادشاہی ہاتھیوں میں ایک مست ہاتھی فیلبان کے قابو سے نکل گیا۔ اور بیرم خاں کے ہاتھی سے جالڑا۔ ہر چند بادشاہی فیلبان نے روکا مگر ایک تو ہاتھی اس پر مست نہ دب سکا۔ اور ایسی بے جگہ ٹکر ماری کہ بیرم خاں کے ہاتھی کی انتڑیاں نکل پڑیں۔ خان بڑے خفا ہوئے اور فیلبان شاہی کوقتل کیا۔ انہی دنوں میں ایک خاصہ کا ہاتھی مستی میں آکر جمنا میں اتر گیا۔ اور بد مستیاں کرنے لگا۔ بیرم خاں بھی کشتی میںسوار سیر کرتے پھرتے تھے کہ ہاتھی اپنی ہتیائی کرنے لگا۔ اور ٹکر کو دریائی ہاتھی پر آیا۔ یہ حال دیکھ کر کناروں سے غل اور دریا میں شوراٹھا۔ ملاح بھی گھبراگئے ۔ ہاتھ پاؤں مارتے تھے۔ اور دل ڈوبے جاتے تھے۔ خان پر عجب حالت گزری بارے مہاوت نے ہاتھی کو دبا لیا۔ اور بیرم خاں اس آفت سے بچ گئے اکبر کو خبر پہنچی۔ مہاوت کوب اندھ کر بھیج دیا مگر یہ پھر چال چوکے کہ اسے بھی وہی سزا دی۔ اکبر کوب ڑا رنج ہوا۔ اور تھوڑا بھی ہوا ہو گا۔ تو بڑھانے والے موجود تھے۔ قطرہ کو دریا بنادیا ہو گا۔ غلطی پر غلطی یہ ہوئی کہ بادشاہ کے خاصہ کے ہاتھی امرا کو تقسیم کر دیئے کہ اپنے اپنے طور پر انہیں تیار کرتے رہیں۔ اس کا عذر یہی ہو گا۔ کہ نوجوان بادشاہ کے خیالات انہی کے سبب سے پریشان ہوتے ہیں۔ نہ یہ ہونگے۔ نہ یہ خرابیاں ہونگی اور اس کا ہر وقت کا مشغلہ یہی تھا ۔ وہ بہت گھبرایا اور دق ہوا۔ خانخانان کے دشمن توبہتیرے تھے مگر ماہم بیگم ادھر خاں اس کا بیٹا۔ شہاب خاں اس کا رشتہ کا داماد اور اکثر رشتہ دار ایسے تھے کہ اندر باہر ہر طرح کی عرض کا موقع ملتا تھا۔ اکبر اس کا اور اس کے لواحقوں کا حق بھی بہت مانتا تھا۔ یہ علامہ بڑھیا ہر دم لگاتی بجھاتی رہتی تھی اور جوان میں سے موقع پاتا تھا۔ بات بات پر اکساتا تھا کبھی کہتے تھے کہ یہ حضور کو بچہ سمجھتا ہے اور خاطر میں نہیں لاتا۔ بلکہ کہتا ہے کہ میں نے تخت پر بٹھایا۔ جب چاہوں اٹھادوں اور جسے چاہوں بٹھادوں۔ کبھی کہتے کہ شاہ ایران کے مراسلے اس کے پاس آتے ہیں۔ اور اس کی عرضیاں جاتی ہیں فلاں سوداگر کے ہاتھ تحائف بھیجے تھے۔ درباری رقیب جانتے تھے کہ بابر اور ہمایوں کے وقت کے پرانے پرانے خدمت گزار کہاں کہاں ہیں اور کون اشخاص ہیں جن کے دل میں خان خانان کی رقابت یا مخالفت کی آگ سلگ سکتی ہے۔ ان کے پاس آدمی بھیجے تمہیں یاد ہے شیخ محمد غوث گوالیاری کا دربار سے کیونکر سلسلہ ٹوٹا اور وہ ان سب باتوں کو خانخانان کے اختیارات کا پھل سمجھے تھے۔ ان کے پاس بھی خطوط بھیجے۔ اور مقدمات کے ایچ پیچ سے آگاہ کر کے برکت انفاس کے طلبگار ہوئے۔ وہ مرشد کامل تھے۔ نیت خالص سے شریک ہوئے۔ اگرچہ سلسلہ کلام پھیلتا جاتا ہے مگر اتنی بات کہے۔ بغیر آزاد آگے نہیں چل سکتا کہ باوجود تمام اوصاف و کمالات اور دانائی و فرزانگی کے بیرم خاں میں چند باتیں تھیں جو زیادہ تر اس کی برہمی کا سبب ہوئیں۔ (1)اولو اعلزم صاحب جرات شخص تھا۔ جو مناسب تدبیر دیکھتا تھا۔ کر گزرتا تھا ۔ اس میں کسی کا لحاظ نہ کرتا تھا۔ اور اس وقت تک زمانہ ایسا پایا تھا کہ سلطنت کی نازک حالتوں اور بھاری مہموں میں دوسرا شخص ہاتھ بھی نہ ڈال سکتا تھا۔ اب وہ وقت نکل گئے تھے۔ پہاڑکٹ گئے تھے۔ دریا پایا ب ہو گئے تھے کام ایسے پیش آتے تھے کہ اور بھی کر سکتے تھے۔ مگر یہ بھی جانتے تھے کہ خانخاناں کے ہوتے ہمارا چراغ نہ جل سکیگا۔ (2) وہ اپنے اوپر کسی اور کو دیکھ بھی نہ سکتا تھا۔ پہلے وہ ایسے مقام میں تھا کہ اس سے اوپر جانے کو رستہ بھی نہ تھا۔ اب سرٹک صاف بن گئی تھی اور ہر شصخ کے ہونٹ بادشاہ کے کان تک پہنچ سکتے تھے۔ پھر بھی اس کے ہوتے بات کا پیش جانا مشکل تھا۔ (3) عظیم الشان مہموں اور پیچیدہ معرکوں کے لئے اسے ایسے بالیاقت شخصوں اور سامانوں کا تیار رکھنا واجب تھا۔ جن سے وہ اپنی برجستہ تدبیروں اوربلند ارادوں کو پورا کر سکے۔ اس کے لئے روپوں کی نہریں اور چشمے جاگیریں اورعلاقے قابو میں ہونے چاہئیں۔ ابتک وہ اس کے ہاتھ میں تھے۔ اب ان پراوروں کو بھی قابض ہونے کی ہوس ہوئی۔ لیکن یہ خطر ضروری تھجا۔ کہ اس کے سامنے قدم جمنے مشکل ہونگے(4) اس کی سخاوت اورق در دانی ہر وقت با لیاقت اشخاص کا مجمع اور بہادر سپاہیوں کا انبوہ اس دقر فراہم رکھتی تھی کہ تیس ہزار ہاتھ اس کے دستر خوان پر پڑتا تھا۔ اسی واسطے جس مہم پر چاہتا فورا ہاتھ ڈالدیتا تھا۔ اس کی تدبیر کا ہاتھ ہرملک و مملکت میں پہنچ سکتا تھا اور سخاوت اس کی رسائی کو بڑھاتی رہتی تھی۔ اس لئے جو الزام لگاتے وہ اس پر لگ سکتا تھا۔ (5)اسے یہ خیال ضرور ہو گا کہ اکبری وہی بچہ ہے جو یمیر گود میں کھیلا ہے اور یہاں بچے کے لہو میں خود مختاری کی گرمی سر سرانے لگی تھی۔ اس پر حریفوں کی اشتعالک براقت کر مائے جاتی تھی۔ یہ سب کچھ تھا مگر جو جو خدمتیں اس نے عقیدت و اخلاص سے کی تھیں ۔ ان کے نقش اکبر کے دل میں بیٹھے ہوئے تھے۔ ساتھ ہی اس کے یہ بھی تھا کہ کسی کو نوکر نہ رکھ سکتا تھا۔ کسی کو کچھ نہ سکتا تھا۔ خانخاناں کے متوسل اچھے اچھے علاقوں میں تعینات تھے وہ باسامان اور خوش لباس نظر آتے تھے۔ جو خاص بادشاہی نو کر کہلاتے تھے۔ وہ ویران جاگیریں پاتے تھے اور ٹوٹے پھوٹے حال سے پھرتے تھے۔ بھانڈا یہاں سے پھوٹتا ہے کہ 967ھ سنہ 5 جلوس میں اکبر اور بیرم خاں مع اہل دربار آگرہ میں تھے۔ مریم نکانی ولی میں تھیں۔ حریف ساتھ لگے ہوئے تھے۔ اور ہر دم فساد کے منتر اس پر دم کرتے چلے آتے تھے۔ بیانہ کے مقام میں یہی ذکر ایک جلسہ میں چھڑا۔ مرزا اشرف الدین اکبر کے بہنوئی بھی موجود تھے۔ انہوں نے صاف کہدیا کہاس نے بندوبست کر لیا ہے۔ آپ کو تخت سے اٹھا وے اور کامران کے بیٹے کو بٹھا دیے۔ خود غرضوں کی صلاحیں مطابق ہوئیں اور اکبر شکار کواٹھا۔ آگرہ سے جالیسر اور سکندرہ ہوتے ہوئے خورجہ ہو کر سرائے بگھل میں آن اترے ۔ ماہم نے رستہ میں دیکھا کہ اس وقت بیرم خاں سے میدان خالی ہے۔ بسورتی صورت بنا کر اکبر کے سامنے آئی۔ اور کہ بیگم کا ضعیفی او ناطاقتی سے عجب حال ہے۔ کئی خط میرے پاس آئے ہیں ۔ حضور کے دیکھنے کو ترستی ہیں۔ بادشاہ کو بھی اس بات کا خیال ہو گیا۔ ادہم خاں اور اکثر رشتہ دار کہ صاحب رتبہ امیر تھے۔ دلی ہی میں تھے اسی عرصہ میں ان کی عرضیاں پہنچیں۔ آخر لہو کاجوش تھا۔ بادشاہ کا دل کڑھ گیا۔ اوردلی کو چلے شہاب خاںپنجہزاری امیر تھا۔ اور ماہم کا رشتہ دار تھا۔ اس کی بی بی پایا آغا مریم مکانی کی رشتہ دار تھی اس وقت وہی دلی کا حاکم تھا۔ دلی پچیس تیس کوس رہی ہوگی کہ وہ بڑھ کر استقبال کو پہنچا اورہ بہت سے نذرانے پیشکش گزرانے اور شہاب الدین حمد خاں گیا۔ بعد اس کے خلوت میں گیا۔ کانپتی ہانپتی صورت بنا کر بولا کہ حضور کے قدم دیکھے ۔ زہے طالع مگر اب جانثاروں کی جانوں کی خیر نہیں خانخاناں سمجھیں گا کہ حضور کا دلی میں آنا ہمارے اشارہ سے ہوا ہے ۔ پس جو مصاحب بیگ کا حال ہوا سو ہمارا ہو گا۔ محل میں ماہم نے یہی رونا رویا بلکہ اس کے اختیارات اور انجام کی قباحتیں دکھا کر تنکے کو پہاڑ کر دکھایا ۔ اورکہا کہ اگر بیرم خاں ہے تو حضور کی سلطنت نہیں۔ اور سلطنت تو اب بھی وہی کرتا ہے سردست تو یہی مشکل ہے کہوہ کہیگا کہ آپ میری بے اجازت گئے۔ ان کی اشارت سے گئے۔ اتنی طاقت کس میں ہے کہاس کا مقابلہ کر سکے یا اس کے غصہ کو سنبھال سکے۔ اب شفقت شاہانہ یہی ہے کہ اجازت ہو جائے۔ یہ قدیمی خانہ زاد خانہ خدا کو چلے جائیں۔ وہاں غائبانہ دعائوں سے خدمت بجا لائیں گے۔ 1 ؎ مرزا اشرف الدین ایک کا شغری خواجہ زاد تھے۔ جب ئے تو ایسے گربہ مسکین تھے کہ اکبر نے خانخاناں کی صلاح سے اپنی بہن کی شادی کر دی۔ خانخاناں کے بعد باغی ہوگئے۔ وہ ملک کو تباہ کرتے پھرتے تھے اور امرا فوجیں لئے پھرتے تھے۔ خانخانان ہی کار عب واب تھا کہایسوں کو دبا رکھا تھا۔ ان سرکش گردنوں نے جو کچھ کیا اس کی سزا پائی بعض کے حالات تتمے میں دیکھو گے۔ دیکھو صفحہ 747۔ (2) اہل تاریخ کہتے ہیں کہبادشاہ آگرہ سے شکار کو نکلے تھے۔ رستے میں یہ کار سازیاں ہوئیں۔ ابوالفضل کہتے ہیں کہ اکبر نے ان لوگوں کے ساتھ اندر اندر بندوبست کر لئے تھے شکار کا بہانہ کر کے دلی میں آئے اور خانخاناں کی مہم کو طے کیا۔ اکبر نے کہا میں خان بابا کو تمہاری عفو تقصیر کے لئے لکھتا ہوں۔ چنانچہ شقہ لکھا کہ ہم آپ مریم مکانی کی عیادت کویہاں آئے ہیں۔ ان لوگوں کو اس میں کچھ دخل نہیں ہے۔ اس خیال سے ان کے دل بہت پریشان ہیں۔ تم ایک حظ اپنی مہرو دستخط سے انہیں لکھ بھیجو کہ ان کی تشفی خاطر ہو جائے اور اطمینان سے ادائے خدمت میں مصروف رہیں وغیرہ وغیرہ ۔ اتنی گنجائش دیکھتے ہی سب پھوٹ بہ۔ شکایتوں کے دفتر کھولدیئے۔ شہاب الدین احمد خاں نے اصلی اور وصلی کئی مقدمے اور مثلییں تیار رکھی تھیں۔ ان کے حالات عرض کئے۔ دو تین رفیق گواہی کے لئے تیار کر رکھے تھے۔ اننہوں نے گواہیاں دیں۔ غرض اس کہ بد اندیشی اور بغاوات کے ارادے ایسے بادشاہ کے دل پر نقش کردیئے کہ اس کا دل پھر گیا۔ اور سوا اس کے چارہ نہ دیکھا کہ اپنی حالت کو ان کی صلاح و تدبیر کے حوالے کر دے۔ ادھر خان خاناں کے پاس جب شقہ پہنچا اور ساتھ ہی ہوا خواہوں کے خطوط پہنچے کہ دربار کارنگ بے رنگ ہے تو کچھ حیران ہوا۔ کچھ پریشان ہوا ۔ کمال عجزو انکساری کے سات عرضی لکھی اور قسم ہائے شرعی کے ساتھ لکھا ۔جس کا خلاصہ یہ کہ جو خانہ زاد اس درگاہ کی خدمت وفا واخلاص سے کرتے ہیںغلام کے دل میں ہرگز ان کیطرف سے برائی نہیں وغیرہ وغیرہ ۔ یہ عرضی خواجہ امین الدین محمود کی پھر خواجہ جہاں ہوئے اور حاجی محمد خاں سیتانی اور رسول محمد خاں اپنے معتبر سرداروں کے ہاتھ روانہ کی ۔ اور کلام اللہ ساتھ بھیجا کہ قسموں کا وزن زیادہ ہو۔ یہاں کام حد سے گزر چکا تھا۔ تحریر کا اثر کچھ نہ ہوا۔ کلام بالائے طاق اورعجز ونیاز کے امانت دارق ید ہو گئ۔ شہاب الدین احمد خاں باہر وکیل مطلق ہو گئے ماہم اندر ہی اندر بیٹھی حکم احکام جاری کرنے لگی۔ اور مشہور کر دیا کہ خان خانان حضور کی غضبی میں آیا بات منہ سے نکلتے ہی دور پہنچ گئی۔ امرا اور ملازم دربار جو آگرہ میں خان خاناں کے پاس تھے۔ اٹھ اٹھ کر دلی کو دوڑے۔ دامن گرفتہ لوگ اپنے ہاتھ کے رکھے ہوئے نوکر الگ ہو ہو کر چلنے شروع ہوئے یہاں جو آتا ماہم اور شہاب الدین احمد خاں اس کامنصب بڑھاتے۔ جاگیریں اور خدمتیں دلواتے۔ صوبجات اور اطراف و اجوانب میں جو امرا تھے ان کے نام احکام ہماری کئے۔ شمس الدین خاں اتکہ کو بھیرہ علاقہ پنجاب میں حکم پہنچا کہ اپنے علاقہ کا بندوبست کر کے لاہور کو دیکھتے ہوئے جلد دلی میں حاضر حضور ہو۔ منعم خاں بھی احکام و ہدایات کے ساتھ کابل سے طلب ہوئے۔ یہ پرانے سردار کہنہ عمل سپاہی تھے کہ ہمیشہ بیرم خاں کی آنکھیں دیکھتے رہے۔ ساتھ ہی شہر پناہ اور قلعہ دہلی کی مرمت اور مورچہ بندی شروع کر دی۔ واہ رے بیرم تیری ہیبت۔ یہاں خانخانان نے اپنے مصاحبوں سے مشورہ کیا۔ شیخ گدائی اور چند اور شخصوں کی یہ رائے تھی کہ ابھی حریفوں کا پلہ بھاری نہیں ہوا۔ آپ یہاں سے جریدہ سکوار ہوں ۔ اور نشیب و فراز سمجھا کہ بادشاہ کو پھر قابو میں لائیں کہ فتنہ انگیزوں کو فساد کا موقع نہ ملے۔ بعض کی رائے تھی کہ بہادر خاں کو فوج دیکر ماوہ پر بھیجا ہے۔ خود وہاں چلو اور ملک تسخیر کر کے بیٹھ جاؤ۔ پھر جیسا موقع ہو گا۔ دیکھا جائیگا۔ بعض کی صلاح تھی کہ خانزمان کے پاس چلو ۔ پورب کا علاقہ افغانوں سے بھرا ہوا ہے۔ صاف کرو اور چند روز وہاں بسر کرو۔ خانخاناں ہر شخص کا بلکہ زمانے کا مزاج پہچانے ہوئے تھا۔ اس نے کہا کہ اب حضور کا دل مجھ سے پھر گیا۔ کسی طرح نبھنے کی نہیں۔ تمام عمر دولت خواہی میں گزاری ۔ بڑھاپے میں بد خواہی کا داغ پیشانی پر لگانا ہمیشہ کے لئے منہ کا لا کرنا ہے۔ ان خیالوں کو بھول جاؤ۔ مجھے حج اور زیارات کا مدت سے شوق تھا۔ خدا نے خود سامان کر دیا ہے۔ ادھر کا ارادہ کرنا چاہئے۔ امرا اور رفقا جو ساتھ تھے انہیں خو د دربار کو رخصت کر دیا۔ وہ سمجھا اور خوب سمجھا کہ یہ سب بادشاہی نوکر ہیں۔ انہوں نے اگرچہ مجھ سے بہت فائدے اٹھائے ہیں۔ بلکہاکثر میرے ہاتھ کے بنائے ہوئے ہیں۔ لیکن ادھر بادشاہ ہے۔ اگر میرے پاس رہے تو بھی عجب نہیں کہ ادھر خبریں دے رہے ہوں یا دینے لگیں اور اخیر کو اٹھ بھاگیں بہتر ہے کہ میں خود انہیں رخصت کر دوں۔ وہاں جا کر شائد کچھ اصلاح کی صورت نکالیں کیونکہ آخرمجھ سے نقصان نہیں پایا۔ پایا ہے تو فائدہ ہی پایا ہے۔ بیرم خاں نے خانزمان کے بھائی بہادر خاں کو فوج دیکر مالوہ کی مہم پر بھیجا تھا۔ دربار کا یہ حال دیکھ کر بلا بھیجا کہ اس کی ضروریات کو دربار سے کون خبر لیگا۔ دربار سے اس کے نام بھی حکم طلب پہنچا۔ اس میں کئی مطلب ہونگے۔ اول یہ کہ وہ دونوں بھائی خان خاناں کے دوبازو تھے مبادا کہ بے اختیار ہو کر اٹھ کھڑے ہوں دوسرے یہ کہ ذاتی فائدہ کی امید پر اس سے پھریں اور ادھر مڑیں۔ اگر نہ مڑیں تو منحرف تو نہ ہوں۔ مگر بہادر بچپن میں اکبر کے ساتھ کھیلا ہوا تھا اور اکبر اسے بھائی کہتا تھا اس لئے ہر بات میں اس سے بے تکلف تھا۔ غالباً ان کے ڈھب کا نہ نکلا ہو گا۔ اور خان خاناں کی طرف سے صفائی کے نقش بٹھاتا ہو گا۔ اس لئے بہت جلد اسے اٹاوہ کا حاکم کر کے مغرب سے مشرق میں پھینک دیا۔ شیخ گدائی وغیرہ رفقانے صلاحیں دیں اور خاں خاناں نے بھی چاہا تھا کہ آپ حضور میں حاضر ہواور باتیں جرم و گناہ قرار دی گئیہیں۔ انکی عذر معذرت کر کے صفائی کرے۔ بعد اس کے رخصت ہو ۔ یا جیسا وقت کا موقع دیکھے ویسا کرے۔ لیکن حریفوں نے وہ بھی نہ چلنے دی انہیں یہ ڈر ہوا جب یہ اکبر کے سامنے آیا۔ اپنے مقاصد کو پر اثر تقریر کے ساتھ اس طرح ذہن نشین کریگا کہ جو نقش ہم نے اتنے دنوں میں بٹھائے ہیں ۔ سب مٹ جائینگے۔ اور بنی بنائی عمارت کو چند باتوں میں ڈھاوے گا۔ اکبر کو یہ ڈرایا کہ وہ خود صاحب فوج و لشکر ہے۔ امرا سب اس سے ملے ہوئے ہیں نمک حلالوں کی تعداد بھی بہت کم ہے۔ اگر وہ یہاں آیا تو خداجانے کیا صورت ہو۔ بادشاہ بھی لڑکا ہی تھا۔ ڈر گیا اور صاف لکھ بھیجا کہ ادھر آنے کا ارادہ نہ کرنا۔ ملازمت نہ ہوگی۔ اب تم حج کو جاؤ۔ پھر آؤ گے تو پہلے سے بھی زیادہ خدمت پاؤ گے۔ بڈھا خدمت گزار اپنے مصاحبوں کی طرف دیکھ کر رہ گیا کہ تم کیا کہتے تھے اور میں کیا کہتا تھا اور اب کیا کہتے ہو۔ غرض حج کا ارادہ مصمم کیا۔ اکبر کی خوبیوں کی تعریف نہیں ہو سکتی۔ میر عبداللطیف قزوینی کہ اب ملا پیر محمد کی جگہ استاد تھے اور دیوان حافظ پڑھایا کرتے تھے۔ انہیں فہمائش کر کے بھیجا اور زبانی پیغام دیا کہ تمہارے حقوق خدمت اور اخلاص عقیدت عالم پر روشن ہیں۔ ابھی تک ہماری طبیعت سیرو شکار کی طرف مائل تھی کاروبار ملکی تم پر چھوڑ دیئے تھے۔ اب مرضی ہے کہ مہمات خلائق کو بذات خود سرانجام فرمائیں تم مدت سے ترک دنیا کا ارادہ رکھتے ہو۔ اور سفر حجاز کا شوق ہے۔ یہ نیک ارادہ مبارک ہو۔ پر گنات ہندوستان سے جو علاقہ پسند ہو وہ لکھو۔ تمہاری جاگیر ہو جائیگا۔ گماشتے تمہارے اس کا محاصل جہل تم کہو گے وہاں پہنچا دینگے۔ یہ پیغام بھیجا اور فوراً خود بھی اسی طرف کوچ کیا۔ چند امرا کو آگے بڑھا دیا کہ خان خانان کو سرحد کے باہر نکال دو۔ جب یہ لوگ قریب پہنچے تو اس نے انہیں لکھا کہ میں نے دنیا کا بہت کچھ دیکھ لیا اور کر لیا۔ اب سب سے ہاتھ اٹھا چکا۔ مدت سے ارادہ تھا کہ خانہ خدا اور روضہ ہائے مقدسہ پر جا کر بیٹھوں اور یاد الہٰی میں مصروف ہوں۔ الحمد اللہ کہ اب اس کا سلسلہ ہاتھ آیا ہے۔ اس دریا دل نے سر چشم کہ کر قبول کیا اور بہت خوشی سے تعمیل کی۔ ناگور سے طوغ و علم نقارہ ۔ فیلخانہ تمام اسباب امیرانہ اور شوکت شاہانہ کا سامان حسین قلی بیگ اپنے بھانجے کے ساتھ روانہ کر دیا۔ جھجر کے مقام میں پہنچا۔ اس کی عرضی جو مضامین نیاز اور صدق دل کی دعاؤں سے سہرائی ہوئی تھی۔ درگاہ میں پڑھی گئی۔ اور حضورخوش ہو گئے۔ اب وہ وقت آیا کہ خانخاں کے لشکر کی چھاؤنی پہچانی نہ جاتی تھی۔ جو رفیق دونوں وقت ایک قاب میں کھانے پر ہاتھ ڈالتے تھے۔ بہت ان میں سے چلے گئے۔ انتہا ہے کہ شیخ گدائی بھی الگ ہو گئے۔ فقط چند رشتہ دار اور وفا کے بندے تھے۔ وہی ساتھ رہے۔ (ایک ان میں حسین خان افغان بھی تھے ان کا حال الگ لکھا جائیگا) ابوالفضل اکبر نامہ میں کئی ورق کا ایک فرمان لکھتے ہیں کہ دربار سے اس محروم القسمت کے نام جاری ہوا تھا۔ اسے پڑھ کر بے درد بے خبر لوگ تو نمک حرامی کا جرم لگائینگے۔ لیکن قابل اعتبار دو شخصوں کا حال ہو گا۔ ایک وہ کہ جس نے اس کے جزوی جزوی حالات کو نظر انصاف سے دیکھا ہو گا وہ آئندہ ہمدردی اور رفاقت سے توبہ کرے گا دوسرے جس نے کسی ہونہار امیدوار کے ساتھ جانفشانی اور کانبازی کا حق ادا کیا ہو گا۔ اس کی آنکھوں میں خون اتر آئے گا بلکہ آتش غضب سے جگر جلے گا اور دھواں منہ سے نکلے گا۔ 1 ؎ دیکھو صفحہ 283 فرمان مذکور میں اس کی تمام خدمتوں کو مٹایا ہے ۔ اس کے اقربا کی جانفشانیوں کو خاک میں ملایا ہے اس پر خود پروری۔ خویش پردری اور ملازم پروری کے الزام لگائے ہیں۔ اس پر جرم لگائے ہیں کہ پٹھان سرداروں کو بغاوت کی ترغیب دی۔ خود فلاں فلاں طریقوں سے بغاوت کے منصوبے باندھے ۔ اس میں علی قلی خاں اور بہادر خاں کو بھی لپیٹ لیا ہے۔ بڑھاپے کی نمک حرامی و بیوفائی سے خبیث خیالات اور کثیف الفاظ اس کے حق میں صرف کر کے کاغذ کو سیاہ کیا ہے ان دردوں کو کون جائے ؟ بد نصیب بیرم خاں جانے یا جس ناکام کی بیرم خاں جیسی خدمتیں برباد ہوئی ہوں اس کا دل جانے ۔ خصوصاً جب یقین ہو کہ یہ ساری باتیں دشمن کر رہے ہیں۔ اور گودوں کا پالا ہوا آقا ان کے ہاتھوں میں کاٹ کی پتلی ہے ع یا رب مبادکس رامخدوم بے عنایت۔ کمظرف دشمن کسی طرح اس کا پیچھانہ چھوڑتے تھے۔ اس کے پیچھے چند امیروں کو فوج دے کر روانہ کیا تھا کہ جائیں اور سرحد ہندوستان سے نکال دیں جب وہ نزدیک پہنچے تو بیرم خاں نے انہیں لکھا کہ میں نے دنیا کا بہت کچھ دیکھ لیا اور اس سلطنت میں سب کچھ کر لیا۔ کوئی ہوس دل میں نہیں۔ میں سب سے ہاتھ اٹھا چکا ۔ مدت سے دل میں شوق تھا کہ خانہ خدا اور روضہ ہائے مقدسہ کی ان آنکھوں سے زیارت کر وں الحمد اللہ کہ اب اس کا سلسلہ ہاتھ آیا ہے۔ تم کیوں تکلیف کرتے ہو وہ سب چلے آئے ۔ ملا پیر محمد جس کو خان خاناں نے حج کو روانہ کر دیا تھا۔ انہیں اسی وقت حریفوں نے پیغام بھیج دیئے۔ تھے کہ یہاں گل کھلنے والا ہے۔ جہاں پہنچے ہو۔ وہیں ٹھہیر جانا۔ وہ گجرات میں بلی کی طرح تاک لگائے بیٹھے تھے۔ اب حریفوں کے پرچے پیام پہنچے کہ بڈھا شیر ادھ مواہو گیا۔ آؤ شکار کرو۔ یہ سنتے ہی دوڑے جھجر کے مقام میں ہی ملازمت ہوئی۔ یاروں نے علم نقارہ دلوا کر فوج کا سردار کیا کہ خانخاناں کے پیچھے پیچھے جائیں ۔ اور ہندوستان سے مکہ کو نکال دی۔ ادہم خاں ماہم کا بیٹا اور بڑے بڑے سرداران کے ساتھ ہویئ۔ ادھر خان خاناں نے ناگور پہنچ کر خبر پائی کہ مار واڑ کے راجہ مال دیو نے گجرات دکن کا رستہ روک رکھا ہے۔ سلطنت کے نمک حلال سے اسے صدمے پہنچے ہوئے تھے۔ دور اندیشی کر کے ناگور سے خیمہ کا رخ پھیر ا کہ بیکانیر سے ہوتا ہوا پنجاب سے نکل کر قندھار کے رستے مشہد مقدس کی راہ لے ۔ مگر دربار سے جو احکام جاری ہو رہے تھے۔ انہیں دیکھ کر دل ہی دل میں گھٹ رہا تھا۔ حریفوں نے زمینداران اطراف کو لکھا کہ یہ زندہ نہ جانے پائے جہاں پاؤ کا م تمام کردو۔ ساتھ ہی ہوائی اڑائی کہ خانخانا ں پنجاب کو بغاوت کے ارادے سے چلا ہے۔ وہاں ہر قسم کے سامان آسانی سے بہم پہنچ سکتے ہیں ۔ایسا دق ہوا کہ رائے بدل گئی۔ ان سفلوں کو کیا خاطر میں لاتا تھا۔ صاف کہ دیا کہ جن مفسدوں اور بد کر داروں نے حضور کو مجھ سے ناراض کیا ہے۔ اب انہیں سزا دے کر بادشاہ سے رخصت ہو کر حج کو جاؤنگا۔ فوج بھی جمع کرنی شروع کی۔ اور امرائے اطراف کو مضامین وحالات مذکورہ سے اطلاع دی ۔ ناگور سے بیکا نیر آیا۔ راجہ کلیان مل اس کا دوست تھا۔ اور حق پوچھو تو حریفوں کے سوا کون تھا جو اس کا دوست نہ تھا۔ وہاں آئے دھوم دھام کی ضیافتیں ہوئیں۔ کئی دن آرام لیا۔ اتنے میں خبر آئی کہ ملا پیر محمد تمہیں ہندوستان سے جلا وطن کرنے آتے ہیں۔ دل جل کر خاک ہو گیا ۔ ملا کا اس طرح آنا کچھ چھوٹا سا زخم نہ تھا۔ مگر انہوں نے قناعت نہ کی۔ اس پر داغ بھی دیا۔ یعنی ناگور میں ٹھہیر کر خانخانان کو ایک خط لکھا۔ اس میں طنز کی چنگاریاں تو بہت سی تھیں۔ مگر ایک شعر بھی درج تھا ؎ آمدم دردل اساس عشق محکم ہم چناں باغمت جان بلا فرسودہ ہمدم ہم چناں خانخانان نے بھی ترکی کا جواب ترکی لکھا۔ مگر یہ فقرہ اس میں بہت برجستہ واقع ہوا تھا۔ آمدن مردانہ امارسیدہ توقف کردن زنامہ ۔ ہر چند چوٹیں پہلے سے بھی کر رہا تھا اور اس سے بھی کر رہا تھا اور اس نے یہ فقرہ بھی لکھا۔مگر مسجد کے ٹکڑ گدا کو 40 برس نمک کھلا کر امیر الامرا بنایا تھا۔ آج اس سے یہ باتیں سننی پڑیں۔ عجب صدمہ دل پر گزرا۔ چنانچہ اسی دل شکستگی کے عالم میں ایک عریضہ حضور میں لکھا۔ جس کے کچھ فقرے ہاتھ آئے ہیں۔ وہ خون کے قطرے ہیں جو دل فگار سے ٹپکے ہیں۔ ان کا رنگ دکھلانا بھی واجب ہے ۔ چوں بموجب اظہار وآرزوئے حاسداں ۔ حقوق خدمت ۔ دیرینہ سہ واسطہ آں دودماں پامال تہمت کفران نعمت درخدمت ولی نعمت گرویدہ ۔ و معاندان در حلال دانستن خون رافضی فتولے واوہ اند۔ برائے محافظت جاں کہ درہمہ مذہب واجب است مے خواہم بمددرفاقت خودرا ازیں بلیہ نجات دہم ۔ بدیں ہنیت (کہ باظہار اہل غرض اسباب بغنی آمادہ میدانند) در خدمت آں خداوند (ہر چند نفس الامرازادہ بیت اللہ باشد) آمدن کفر میدانم و بر عالمے ظاہر است کہ در خاندان ماتر کاں نمک حرامی بظہور نیا مدہ لہذاراہ مشہد اختیار نمودہ ام کہ بعد طواف روضہ امام علیہ السلام و عتبات نجٹ اشرف و کر بلائے معلی و خواندن فاتحہ دراں مکانہائے شریف برائے بقائے سلطنت و عمر آن دلی نعمت از سر نو احرام کعبتہ اللہ بندھم ۔ التماس آنست کہ اگر بندہ راہ جرگہ نمک حراماں واجب القتل میدانند۔ یکے ازبندہ ہائے بے نام ونشانں راتعین فرمانید کہ سر بیرم بریدہ برسناں جلوہ وہاں براے تنبیہ و عبرت دیگر بد خواہان دولت بحضور بیارو د ع گر قبول افتد رہے۔ عزو شرف ۔ والا سردار ئے فوج سوائے ملاے خارجی کہ از نمک پر وردہ ہاے نمک بحرام و اخراجی فدوی است بد یگر یکے از بندہ ہائے درگاہ والا مقرر شود۔ اس نازک موقع پر کہ بدنصیبی کا سچ تھا اس وفا دار جاں نثار نے چاہا تھا کہ اپنی اور بادشاہ کی ناراضی کا پردہ رہ جائے اور عزت کی پگڑی کو دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر ملک سے نکل جائے مگر قسمت نے بڈھے کی داڑھی لونڈوں یا طفل مزاج بڈھوں کے ہاتھ میں دیدی تھی۔ بد نیت بداندیش نہ چاہتے تھے۔ کہ وہ سلامت جانے پائے غرض جب بات بگڑ جائے اور دل پھر جانیں تو الفاظ و عبارت کا زور کیا کر سکتا ہے۔ البتہ اتنا ہوا کہ جب بادشاہ نے یہ عرض پڑھی تو آبدیدہ ہوئے اور دل کو رنج ہوا ملا پیر محمد کو بلا لیا اور آپ دلی کو پھرے۔ مگر حریفوں نے اکبر کو سمجھایا کہ خان خاناں پنجاب کو چلا ہے۔ اگر یہ پنجاب میں جا پہنچا اور وہاں بغاوت کی تو مشکل ہو گی۔ پنجاب ایسا ملک ہے کہ جس قدر فوج اور سامان فوج چاہیں ہر وقت بہم پہنچ سکتا ہے۔ کابل کو چلا گیا تو قند ھار تک قبضہ کر لینا اس کے آگے کچھ دشوار نہیں اور خود نہ کر سکا تو دربار ایران سے مدد لانی بھی اسے آسان ہے ان مصلحتوں پر نظر کر کے فوج کی سرداری شمس الدین محمد خاں اتکہ کے نام کی اورپنجاب کو روانہ کیا۔ سچ پوچھو تو آگے جو کچھ ہوا۔ اکبر کے لڑکپن اور ناتجربہ کاری سے ہوا۔ سب مورخ بالا تفاق لکھتے ہیں کہ بیرم خاں کی نیت میں فساد نہ تھا۔ اگر اکبر شکار کھیلتا ہوا خود اس کے خیمے پر جا کھڑا ہوتا تو وہ قدموں پر آہی پڑتا ۔ بات بنی بنائی تھی یہانتک طول نہ کھچتا ہوا خود اس کے خمیے پر جا کھڑا ہوتا تو وہ قدموں پر آہی پڑتا ۔ بات بنی بنائی تھی ۔ یہاں تک طول نہ کھچتا نوجوان بادشاہ کچھ بھی نہ کرتا تھا۔ جو کچھ تھے بڑھیا اور بڑھیا والوں کے کرتوت تھے ان کا مطلب یہ تھا کہ اسے آقا سے لڑا کر نمک حرامی کا داغ لگائیں۔ اسے گھبرا کر بھالڑ کی صورت میں دوڑائیں اور اگر جل کر اسی حالت موجودہ کے ساتھ پلٹ پڑا تو شکار ہمارا مارا ہوا ہے۔ اس غرض سے وہ آتش کے پرکالے نئی ہوائیاں اڑاتے تھے اور کبھی اس کے ارادوں کی کبھی اکبر کے حکموں کی رنگا رنگ پھل چھڑیاں چھوڑتے تھے۔ کہن سال سپہ سالار سنتا تھا۔ پیچ و تاب کھاتا تھا اور رہ جاتا تھا۔ اس بغاوت کے شوشہ سے وہ نیک نیت نیک رائے دنیا سے بے آس اہل دنیا سے بیزار بیکا نیر سے پنجاب کی حد میں داخل ہوا۔ امراے اجناب کو لکھا کہ میں حج کو جاتا تھا۔ مگر سنتا ہوں کہ چند اشخاص نے خدا جانے کیا کیا کہ کہ مزاج اشرف بادشاہی کو میری طرف سے متغیر کر دیا ہے۔ خصوصاً ماہم اتکہ کہ استقلال کے گھمنڈ کرتی ہے۔ اورکہتی ہے کہ میں نے بیرم خاں کو نکالا۔ اب ہمت یہی چاہتی ہے کہ ایک دفعہ آکر بدکرداروں کو سزا دینی چاہئے پھر مئے سرے سے رخصت لیکر سفر مقدس پر متوجہ ہونا چاہئے۔ اس نے اہل و عیال اور مرزا عبدالرحیم 3 برس کے بیٹے کو جو بڑا ہو کر خانخاناں اور اکبری سپہ سالار ہوا تھا۔ تمام نقد و جنس مال و دولت اور اسباب کے ساتھ بھٹنڈہ کے قلعہ میں چھڑوا شیر محمد دیوانہ اس کا خاص الخاص ملاز م اور قدیم الخدمت اور ایسا باعتبار تھا کہ بیٹا کہلاتا تھا وہ بھٹنڈہ کا حاکم تھا۔ اور اس پر کیا منحصر ہے۔ جو اس وقت کے امرا اور سردار تھے۔ سب اس کے عیال تھے۔ اس کے بھروسے پر خاطرجمع کر کے آپ دیپالپور کو روانہ ہوا۔ دیوانہ نے مال اسباب سب ضبط کر لیا اور آدمیوں کی بڑی بیغرتی کی۔ خانخاناں کو جب خبر پہنچی تو خواجہ مظفر علی اپنے دیوان کو اور درویش محمد اذبک کو بھیجا کہ شیر محمد دیوانہ کو سمجھائیں۔ دیوانہ کو کتے نے کاٹا تھا۔ وہ کب سمجھتا تھا ع اے عاقلاں کنارہ کہ دیوانہ مست شد۔ ان دونوں کو بھی مفسد ٹھہرایا اورق ید کر کے حضور میں بھیج دیا۔ خانخاناں کا مطلب ان انتظاموں سے یہ تھا۔ کہ جو کچھ میرا مال و متاع ہے۔ وہ ستوں کے پاس رہے کہ ضرورت کے وقت مجھے مل جائے گا۔ میرے پاس ہو تو خدا جانے کیا اتفاق ہے۔ دشمنوں اور لٹیروں کے ہاتھ تو نہ آئے۔ میرے کام نہ آئے میرے دوستوں کے کام آئے۔ انہی دوستوں نے وہ نوبت پہنچائی۔ یہ رنج کچھ تھوڑا نہ تھا۔ اس پر عیال کا قید ہونا۔ اور دشمنوں کے ہاتھ میں جانا۔ غرض نہایت دق ہوا۔ اور زمانہ کا یہ حال تھا ۔ کہ اگر کسی سے مصلحت بھی چاہتا۔ تو وہاں اسے مایوسی کی خاک آنکھوں میں پڑتی تھی۔ اور وہ وہ باتیں پیش آتی تھیں۔ جن کا عشر عشیر بھی تحریر میں نہیں آسکتا ۔ حیران پریشان ۔ غیرت و غصہ میں بھرا ہوا ۔تھاڑہ کے گھاٹ سے ستلج اترا۔ اور جالندھر پر آیا۔ دربار دہلی میں بعض کی رائے ہوئی کہ بادشاہ خود جائیں۔ بعض نے کہا کہ فوج جائے۔ اکبر نے کہا۔ دونوں رایوں کو جمع کرنا چاہئے۔ آگے فوج جائے۔ پیچھے ہم ہوں۔ چنانچہ شمس الدین محمد خان اتکہ بھیرہ سے پہنچ لئے تھے۔ انہیں فوج دیکر آگے بھیجا۔ اتکہ خان بھی کوئی جنگ آزمودہ سپہ سالار نہ تھا۔ سلطنت کے کاروبار دیکھے تھے۔ مگر برتے نہ تھے۔ البتہ نیک طبع ۔ متحمل مزاج ۔ سن رسیدہ شخص تھا ۔ اہل دربار نے انہی کو غنیمت سمجھا۔ بیرم خان کو اول خیال یہ تھا کہ اتکہ خاں پرانا رفیق ہے۔ وہ اس آگ کو بجھائے گا۔ مگر خانخانان کا منصب ملتا نظر آتا تھا۔ وہ بھی آتے ہی ہمدمان حضور میں داخل ہو گئے۔ اور خوشی خوشی فوج لے کر روانہ ہوئے۔ ماہم کی عقل کا کیا کہنا ہے۔ صاف پہلو بچا لیا۔ اور بیٹے کو کسی بہانہ سے دلی میں چھوڑ دیا۔ خانخانان جالندھر پر قبضہ کر رہا تھا کہ خان اعظم ستلج اتر آئے اور گناچور کے میدان پر ڈیرے ڈال دیئے۔ خانخانان کے لئے اس وقت تھے تو دو ہی پہلو تھے۔ یا لڑنا اور مرنا۔ یادشمنوں کے ہاتھوں قید ہونا اور مشکیں بندھو اکر دربار میں کھڑے ہونا۔ خیر وہ خان اعظم کو سمجھتا کیا تھا جالندھر کو چھوڑ کر پلٹا۔ اب مقابلہ تو پھر ہو گا۔ مگر پہلے اتنی بات کہنی ضرور ہے کہ خانخانان نے اپنے آقا پر تلوار کھینچی ۔ بہت برا کیا۔ لیکن ذرا چھاتی پر ہاتھ رکھ کر دیکھو۔ جو جو خیال اور رنج و ملال اس وقت اس کے مایوس دل پر چھائے ہوئے تھے۔ ان پر نظر نہ کرنی بھی بے انصافی ہے۔ اس میں شک نہیں کہ جو جو خدمتیں اس نے بابر اور ہمایوں سے لیکر اس وقت تک کی تھیں۔ وہ ضرور اس کی آنکھوں کے سامنے ہوں گی۔ آقا کی وفا داری کا نباہنا۔ اودھ کے جنگلوں میں چھپنا۔ گجرات کے دشتوں میں پھرنا۔ شیر شاہ کے دربار میں پکڑے جانا اور ان نازک وقتوں کی دشواریاں سب اسے یاد ہوں گی۔ ایران کا سفر اور قدم قدم کی کٹھن منزلیں اور شاہ کی دربار داریاں بھی پیش نظر ہوں گی۔ اسے یہ بھی خیال ہو گا۔ کہ کیسی جان بازی اور جان جو کھوں سے ان مہموں کو اس نے سر انجام دیا۔ سب سے زیادہ یہ کہ جو گروہ مقابل میں نظر آتا ہے۔ ان میں اکثر وہ بڈھے دکھائی دیتے ہیں۔ جو ان وقتوں میں اس کے منہ کوتکتے تھے۔ اور ہاتھوں کو دیکھتے تھے ۔ یا کل کے لڑکے ہیں کہ جنہوں نے ایک بڑھیا کی بدولت نوجوان بادشاہ کو پھسلا رکھا ہے۔ یہ باتیں دیکھ کر اسے ضرور خیال ہوا ہو گا۔ کہ جو ہو سو ہو۔ ان سفلوں اور نا اہلوں کو جنہوں نے کچھ نہیں دیکھا۔ ایک دفعہ تماشا تو دیکھا دو کہ حقیقت انکی بادشاہ کو بھی معلوم ہو جائے۔ پرگنہ دگدار نواح گناچور میں کہ جنوب مشرق جالندھر پر تھا دونوں چھاؤنیوں کے دھوئیں طرفین کو دکھائی دینے لگے۔ بڈھے سپہ سالارنے پہاڑ اور لکھی جنگل کو پشت پر رکھ کر ڈیرے ڈال دیئے۔ اور فوج کے دو حصے کئے۔ ولی بیگ ذوالقدر ۔ شاہ قلی محرم ۔ حسین خان ٹکریہ وغیرہ کو فوجیں دے کر آگے بڑھایا دوسرے حصے کے چاروں پرے باندھ کر آپ بیچ میں قائم ہوا۔ اس کے رفیق تعداد میں تھوڑے تھے۔ مگر مروت اور مردانگی کے جوش نے ان کی کمی کو بہت بڑھا دیا تھا۔ ہزاروں دلاوروں نے اس کی قدر دانی کے ہاتھ سے فیض پائے تھے ۔ ان سب کا مول یہ گنتی کے آدمی تھے۔ جو رفاقت کے نام پر جان قربان کرنے نکلے تھے۔ وہ خوب جانتے تھے کہ بڈھا جوان مرد ہے ۔ اور مرد کا ساتھ مرد ہی دیتا ہے۔ 1 ؎ بلوک مین صاحب لکھتے ہیں کہ کنور پھلور ۔ گونا چور کے جنوب مغرب میں تھا۔ فرشتہ کہتا ہے کہ یہ لڑائی ماچھی واڑہ کے باہر ہوئی۔ جو میں نے لکھا ہے یہ ملا صاحب کا قول ہے اور یہی ٹھیک معلوم ہوتا ہے ۔ دکن کے فرشتہ کو پنجاب کی کیا خبر۔ وہ اس غصہ میں آگ ہو رہے تھے کہ مقابل میں وہ لوگ تھے۔ جنہیں بوالہوسی نے مرد بنایا ہے۔ جب تلوار مارنے کے وقت تھے۔ تو کچھ نہ کر سکے۔ اب میدان صاف ہے تو نوجوان بادشاہ کو پھنسلا کر چاہتے ہیں ۔ کہ بڈھے خانہ زاد کی محنتیں برباد کریں۔ سو وہ بھی ایک بھیا کے بھروسے پر۔ وہ نہو تو اتنا بھی نہیں۔ ادھربڈھے سید یعنی خان اعظم نے بھی فوجوں کی تقسیم کر کے صفیں باندھیں ۔ قرآن سامنے لا کر سب سے عہد و پیمان لئے۔ بادشاہی عنایتوں کا امیدوار کیا۔ سوا تنی ہی اس بچارے کی کرامات تھی۔ جس وقت سامنا ہوا تو بیرم خانی فوج نہایت جوش و خروش سے لیکن بالکل بے باکی اور بے پرواہی سے آگے بڑھی کہ آؤ۔ دیکھیں تو سہی تم ہو کیا چیز جب قریب پہنچے تو یکدلی نے ان کی جانوں کو اٹھا کر اس طرح فوج بادشاہی پر دے مارا گویا بیرم کے گوشت کا ایک مچا تھا کہ اچھل کر حریف کی تلواروں میں جا پڑا۔ جو مرنے تھے مرے۔ جو بچے۔ آپس میں ہنستے کھیلتے اور دشمنوں کو ریلتے دھکیلتے چلے۔ کیا تڑپنا دل مضطر کا بھلا لگتا ہے کہ جب اجھلے ہے ترے سینہ سے جالگتا ہے ہائے۔ ان کے دلوں میں ارمان ہو گا کہ اس وقت نوجوان بادشاہ آئے۔ اور باتیں بنانے والوں کی بگڑی حالت دیکھے ع ببیں کہ از کہ شکستی و باکہ پیوستی ۔ خان اعظم ہٹے۔ مگر اپنے رفیقوں سمیت کنارہ ہو کر ایک ٹیلہ کی آڑ میں تھم گئے ۔ پرانے فتحیاب نے جب میدان کا نقشہ حسب مراد دیکھا تو ہنس کر اپنی فوج کو جنبش دی۔ ہاتھیوں کی صف کو آگے بڑھایا۔ جس کے بیچ میں فتح کا نشان۔ اس کا تخت رواں ہاتھی تھا۔ اور اس پردہ آپ سوار تھا۔ یہ فوج سیلاب کی طرح اتکہ خان پر چلی۔ یہاں تک تمام مورخ بیرم خان کے ساتھ ہیں۔ آگے ان میں پھوٹ پڑتی ہے۔ اکبری اور جہانگیری عہد کے مصنف کوئی مردانہ کوئی نیم زنانہ ہو کر کہتے ہیں کہ اخیر میں بیرم خاں نے شکست کھائی خانی خاں کہیت ہیں کہ ان مصنفوں نے رعایت سے بات کو چھپایا ہے۔ ورنہ شکست اتکہ خان پر پڑی۔ اور بادشاہی لشکر پریشان ہو گیا۔ بادشاہ خود بھی لودیانہ سے آگے بھ چکا تھا۔ اب خواہ شکست کے سبب سے ۔ خواہ اس لحاظ سے کہ ولی نعمت کے سامنے کھڑے ہو کر اسے لڑنا منظور نہ تھا۔ بیرم خاں اپنے لشکر کو لیکر لکھی جنگل کی طرف پیچھے ہٹا۔ منعم خاں کابل سے بلائے ہوئے آئے تھے۔ لودیانہ کی منزل پر آداب بجا لائے۔ کئی سردار ساتھ تھے۔ ان میں تردی بیگ کا بھانجا مقیم بیگ بھی موجود تھا۔ اس کی ملازمت ہوئی۔ دیکھو ! لوگ کیسے کیسے مصالح کہاں کہاں سے سمیٹ کر لاتے ہیں ۔ ملا صاحب فرماتے ہیں۔ منعم خاں کو خانخاناں کا خطاب اور وکیل مطلق کا عہدہ ملا۔ دخل الولی و خرج الولی کا نکتہ کھل گیا۔ اکثر امرا کو اپنی اپنی حیثیت بموجب منصب اور انعام دیئے۔ اسی منزل میں قیدی اور زخمی ملا حظہ سے گزرے۔ جو لڑائی میں گرفتار ہوئے تھے۔ نامی سرداروں میں دلی بیگ ذوالقدر خانخاناں کا بہنوئی حسین قلی خان کا باپ تھا ۔ کہ گنوں کے کھیت میں زخمی پڑا پایا تھا۔ یہ بھی ترکمان تھا۔ اسمعیل قلی خاں حسین قلی خان کا بڑا بھائی تھا۔ حسین خاں ٹکر یہ کہ آنکھ پر زخم آیا تھا۔ کہ اس کے جمال شجاعت پر چشم زخم ہوا تھا۔ ولی بیگ بہت زخمی تھا۔ چنانچہ زندان میں زندگانی کی قید سے چھٹ گیا۔ اس کا سرکاٹ کر ممالک مشرقی میں بھیجا کہ شہر بشہر تشہیر ہو ۔ مشہور یہ تھا کہ دلی بیگ ذوالقدر خانخاناں کو زیادہ تر برہم کرتا ہے۔ پورب میں خانزماں اور بہادر خاں تھے۔ کہ بیرم خانی ذیلدار کہلاتے تھے۔ اور اس کا سر بھیجنے سے حریفوں کا یہی مطلب ہو گا کہ دیکھو تمہارے حمایتیوں کا یہ حال ہے۔ لے جانے والا بھی چوبدار چھوٹی امت کاآدمی تھا۔ اور حریفوں کا آدمی تھا کہ دربار کے فتحیات تھے۔ خدا جانے اس نے کیا کہا ہو گا اور کس طرح پیش آیا ہو گا بہادر خاں کو برداشت کہاں۔ رنج نے اس کی آتش غضب کو بھڑکایا اور اس نے چوبدار کو مرواڈالا۔ یہ گستاخی اس کے حق میں بہت خرابی پیدا کرتی مگر اس کے مصاحبوں اور دوستوں نے اسے پاگل بنا دیا۔ چند روز ایک مکان میں بند رکھا اور حکیم علاج کرتے رہے ۔ اور جھوٹ شہرت انہوں نے بھی نہیں دی۔ یار پرستی اور فوا داری بھی تو ایک مرض ہے۔ اہل دربار نے بھی اس وقت پروہ ہی رکھنا مصلحت سمجھا اور ٹال گئے کیونکہ وہ دونوں بھائی میدان جنگ میں طوفان آتش تھے۔ چند سال بعد ان سے بھی کسر نکالی۔ اتکہ خاں بھی دربار میں پہنچے۔ اکبر نے خلعت و انعام سے امرا کے دل بڑھائے۔ لشکر کو ماچھی واڑہ پر چھوڑا اور آپ لاہور پہنچے۔ کہ دارالسطینت ہے۔ ایسا نہ ہو کہ واقعہ طلب لوگ اٹھ کھڑے ہوں۔ یہاں خاص و عام کو اقبال کی تصویر دکھا کر تشفی دی۔ اور پھر لشکر میں پہنچے۔ دامن کوہ میں بیاس کے کنارہ پر تلواڑہ ان دنوں میں مضبوط مقام تھا۔ اور راجہ گنیش وہاں راج کرتا تھا۔ خانخاناں پیچھے ہٹ کر وہاں آیا۔ راجہ نے بہت خاطر کی اور سب سامانوں کا ذمہ لیا۔ اسی کے میدان میں لڑائی جا ری ہوئی پرانا سپہ سالار تجویز و تدبیر میں اپنا نظیر نہ رکھتا تھا۔ چاہتا تو چٹیل میدان میں لے لشکر اگا دیتا۔ پہاڑ کو اسی لئے پشت پر رکھا تھا کہ مقابلہ پر بادشاہ کا نام ہے۔اگر پیچھے ہٹنا پڑے تو پھیلنے کو بڑے بڑے ٹھکانے تھے۔ غرض لڑائی برابر جا ری تھی۔ اس کی فوج مورچوں سے نکلتی تھی اور لشکر بادشاہی سے لڑتی تھی۔ ملا صاحب کہتے ہیں۔ ایک موقع پر لڑائی ہو رہی تھی۔ اکبری لشکر میں سے سلطان حسین جلا ٹر کہ نہایت سجیلا جوان اور دلاور اور دیدارو امیر زادہ تھا۔ میدان میں زخمی ہو کر گرا۔ بیرم خانی جوان اس کا سرکاٹ کر مبارکباد کہتے لائے۔ اور خانخاناں کے سامنے ڈال دیا۔ دیکھ کر افسوس کیا۔ رومال آنکھوں پر رکھ کر رونے لگا اور کہا۔ سولعنت ہے اس زندگی پر ۔ میری شامت نفس سے ایسے ایسے جوان ضائع ہوتے ہیں ! باوجودیکہ پہاڑ کے راجہ اور رانا برابر چلے آتے تھے۔ فوج اور ہر طرح کے سامان سے مدد دیتے تھے۔ اور آیندہ کے لئے وعدے کرتے تھے مگر اس نیک نیت نے ایک کی نہ سنی انجام کا خیال کر کے آخرت کا رستہ صاف کر لیا۔ اسی وقت جمال خاں اپنے غلام کو حضور میں بھیجا۔ کہ اجازت ہو فدوی حاضر ہوا چاہتا ہے۔ ادھر سے مخدوم الملک ملا عبداللہ سلطان پوری فوراً چند سرواروں کو لیکر روانہ ہوئے کہ دلجوئی کریں اور لے آئیں۔ ابھی لڑائی جاری تھی۔ وکیل دونوں طرف سے آتے اور جاتے تھے۔ خدا جانے تکرار کس بات پر تھی۔ منعم خاں سے نہ رہا گیا۔ چند امراو مقربان بارگاہ کے ساتھ بے تحاشا تھا خانخانان کے پاس چلا گیا۔ کہن سال سردار تھے۔ کہنہ عمل سپاہی تھے قدیمی رفاتیں تھیں۔ مدتوں ایک جگہ رنج و راحت کے شریک رہے تھے۔ دیر تک دل کے درد کہتے رہے۔ ایک نے دوسرے کے بات کی داد دی۔ منعم خاں کی باتوں سے اسے یقین آیا کہ جو کچھ پیام آئے ہیں۔ واقعی ہیں۔ فقط سخن سازی نہیںہے۔ غرض خانخاناں چلنے کو تیار ہوا۔ جب وہ کھڑا ہوا بابا زنبور اور شاہ قلمی محرم دامن کپڑ کر رونے لگے۔ کہ ایسا نہو جان جائے۔ یا عزت پر حرف آئے۔ منعم خاں نے کہا اگر زگیادہ ڈرہے تو ہمیں یرغمال میں یہاں رہنے دو ۔ خیر یہ پرانی محبت کی شوخیاں تھیں۔ ان لوگوں سے کہا کہ تم نہ چلو۔ انہیں جانے دو اگر انہوں نے اعزاز و اکرام پایا تو تم بھی چلے آنا ورنہ نہ آنا۔ اس بات کو انہوں نے مانا اور وہیں رہ گئے۔ اور رفیقوں نے بھی روکا۔ پہاڑ کے راجہ اور رانا مرنے مارنے کے عہد و پیماں باندھے موجود تھے۔ وہ بھی کہتے رہے اور امداد فوج اور سامان جنگ کی تیاریاں دکھاتے رہے۔ مگر وہ نیکی کا پتلا اپنے نیک ارادہ ہے۔ نہ ٹلا ۔ اورس وار ہو کر چلا۔جو فوج اس کے مقابلے پر دامن کوہ میں پڑی تھی۔ اس میں ہزاروں ہوائیاں اڑ رہی تھیں۔ کوئی کہتا تھا کہ امرائے شاہی جو یہاں سے گئے ہیں انہیں بیرم خاں نے پکڑ رکھا ہے۔ کوئی کہتا تھا ہرگز نہ آئیگا وقت ٹالتا ہے اور سامان بہم پہنچاتا ہے۔ پہاڑ کے راجہ مدد کو آئے ہیں۔ کوئی کہتا تھا پہاڑ کے رستے علی قلی خاں اور شاہ قلی محرم 1 ؎ یاد کرو یہ وہی شاہ قلی محرم ہیں جو میدان جنگ سے ہوئی ہاتھی کو ہیموسمیت پکڑ کر لے آئے تھے۔ خانخانان نے اسے بچہ ماہالا تھا ۔ محرم ترکوں میں ایک درباری عہدہ ہے۔ آتے ہیں۔ کوئی کہتا تھا۔ صلح کا پیچ مارا ہے۔ رات کو شنجون ماریگا۔ غرض جتنے منہ تھے اتنی ہی باتیں ہو رہی تھیں۔ کہ جوجریدہ لشکر میں داخل ہو گیا۔ تمام فوج نے خوشی کا غل مچایا۔ اور نقاروں نے دور دور خبر پہنچائی۔ کچھ میل فاصلہ پر حاجی پور دامن کوہ میں بادشاہ کے خیمے تھے۔ سنتے ہی حکم دیا کہ تمام امرائے دربار استقبال کو جائیں۔ اور قدیمی عزت و احترام سے لائںی۔ ہرشخص جاتا تھا۔ سلام کرتا تھا پیچھے ہو لیتا تھا۔ وہ شاہ نشان سپہ سالار جس کی سواری کا غل نقارہ کی آواز کو سوں تک جاتی تھی۔ اس کا گورا گورا چہرہ اس پر سفید ڈاڑھی۔ ایک نور کاپتلا تھا کہ گھوڑے پر دھرا تھا۔ چہرے پر مایوسی برستی تھی۔ اور نگاہوں سے ندامت ٹپکتی تھی۔ تمام انبوہ چپ چاپ پیچھے تھے۔ سنا ٹے کا سماں بندھا تھا۔ جب بادشاہی خیمہ کا کلس نظر آیا تو گھوڑے سے اتر پڑا۔ ترک جس طرح گنہگار کو بادشاہ کے حضور میں لاتے ہیں۔ اس نے آپ بکتر سے تلوار کھول کر گلے میں ڈالی ۔ پٹکے سے اپنے ہاتھ باندھے ۔ عمامہ سرسے اتار کر گلے میں لپیٹا۔ اور آگے بڑھا ۔ خیمہ کے پاس پہنچا۔ تو خبر سن کر اکبر بھی اٹھ کھڑا ہوا۔ لب فرش تک آیا۔ خانخانان نے دوڑ کر سر پاؤں پر رکھ دیا۔ اور ڈاڑ ھیں مار مار کر رونے لگا۔ بادشاہ بھی اس کی گودوں میں کھیل کر پلا تھا۔ آنسو نکل پڑے۔ اٹھا کر گلے سے لگایا اور اس کی قدمی جگہ یعنی دست راست پر پہلو میں بٹھایا۔ آپ اس کے ہاتھ کھولے۔ دستار سر پر رکھی ۔ خانخاناں نے کہا۔ آرزو تھی کہ حضور کی نمک حلالی میں جان کو قربان کروں۔ اور شمشیر بند بھاٹی جنازہ کا ساتھ دیں۔ حیف کہ تمام عمر کی جانفشانی اور جاں نثاری خاک میں مل گئی۔ اور خدا جانے ابھی قسمت میں کیا لکھا ہے۔ یہی شکر ہے ۔ کہ اخیر وقت میں حضور کے قدم دیکھنے نصیب ہو گئے۔ یہ سن کر دشمنوں کے پتھر دل بھی پانی ہو گئے۔ دیر تک تمام دربار مرقع تصویر کی طرح خاموش رہا۔ کوئی دم نہ مار سکتا تھا۔ ایک ساعت کے بعد اکبر نے کہا۔ کہ خان بابا اب صورتیں تین ہیں۔ جس میں تمہاری خوشی ہو۔ کہدو (1)حکومت کو جی چاہتا ہے تو چند یری دکالپی کا ضلع لے لو۔ وہاں جاؤ اور بادشاہی کرو (2)مصاحبت پسند ہے ۔ تو میرے پاس رہو۔ جو عزت و توقیر تمہاری تھی اور اس میں فرق نہ آئیگا۔ (3)حج کا ارادہ ہو تو بسم اللہ ۔ روانگی کا سامان خاطر خواہ ہو جائیگا۔ چند یری تمہاری ہو چکی۔ محاصل تمہارے گماشتے جہاں کہو گے پہنچا دیا کریں گے ۔ خانخانان نے عرض کی کہ قواعد اخلاص و اعتقاد میں اب تک کسی طرح کا تصور اورفتور نہیں آیا۔ یہ سارا تردد فقط اس لئے تھا۔ کہ حضور میں پہنچ کر کر رنج و ملال کی بنیاد کو آپ دھوؤں ۔ الحمد اللہ جو آرزو تھی پوری ہو گئی۔ اب عمر آخر ہوئ۔ی کوئی ہوس باقی نہیں ۔ تمنا ہے تو یہی ہے کہ آستانہ الہٰی پر جاپڑوں۔ اور حضور کی عمر و دولت کی دعا کیا کروں۔ اور یہ معاملہ جو پیش آیا۔ اس سے بھی مطلب فقط یہ تھا کہ فتنہ انگیزوں نے جو اوپر سے اوپر مجھے باغی بنا دیا تھا۔ اس شبہ کو خود حضور میں پہنچ کر رفع کروں۔ غرض حج کی بات قائم ہو گئی۔ حضور نے خلعت خاص اور خاصہ کا گھوڑا عنایت کیا۔ منعم خاں دربار سے اپنے خیمے میں لے گیا۔ خیمے ڈیرے اسباب خزانے سے لیکر باورچی خانہ تھا جو تھا سب حوالہ کر کے آپ نکل آیا۔ بادشاہ نے پانچہزار روپیہ نقد اور بہت کچھ اسباب دیا۔ ماہم اور ماہم والوں کے سوا کوئی شخص نہ تھا۔ جس کے دل میں اس کی محبت نہ ہو۔ اپنے اپنے منصب کے بموجب نقد و جنس جمع کیا۔ کہ ترکوں کی رسم تھی۔ اور اسنے چند وغ کہتے ہیں چنانچہ ناگور کے رستہ گجرات دکن کو روانہ ہوا۔ حاجی محمد خاں سیستانی 3 ہزاری امیر کہ انکا مصاحب اورقدیمی رفیق تھا۔ بادشاہ نے اسے فوج دیکر رستہ کی حفاظت کے لئے ساتھ کیا۔ رستہ میں ایک دن کسی بن میں سے گزر ہوا۔ پگڑی کا کنارہ کسی ٹہنی میں اس طرح الجھا کہ پگڑی گر پڑی۔ لوگ اسے براشگون سمجھتے ہیں ۔ اس کے چہرے پر بھی ملال معلوم ہوا۔ حاجی محمد خان سیستانی نے خواجہ حافظ کا شعر پڑھا ؎ دربیاباں چوں بہ شوق کعبہ خواہی زد قدم سر زنش ہاگر کندخار مغیلاں غم مخور یہ سن کر وہ ملال خوشی کاخیا ل ہو گیا ۔ پٹن گجراتمیں پہنچا۔ یہیں سے گجرات کی سرحد شروع ہوتی ہے۔ عہد قدیم میں اسے نہروالہ کہتے تھے۔ موسی خاں فولادی وہاں کا حاکم۔ اور حاجی خاں الوری بڑی تعظیم سے پیش آیا۔ اور دھوم سے ضیافتیں کیں۔ اس سفر میں کچھ کام تو تھا نہیں۔ کیونکہ کاروبار کی عمر تمام ہولی تھی۔ اس لئے جہاں خانخاناں جاتا تھا۔ دریا ۔ باغ ۔ عمارت کی سیر کر کے دل بہلاتا تھا۔ سلیم شاہ کے محلوں میں ایک کشمیر ن بی بی تھی۔ اس سے سلیم شاہ کی ایک بیٹی تھی۔ وہ خانخاناں کے لشکر کے ساتھ حج کو چلی تھی۔ وہ خانحانان کے بیٹے مرزا عبدالرحیم کوبہت چاہتی تھی۔ اور وہ لڑکا بھی اس سے بہت ہلا ہوا تھا۔ اور خانخانان اپنے فرزند یعنی مرزا عبدالرحیم سے لڑکی کی شادی کرنی چاہتا تھا۔ اس بات کا افغانوں کو بہت خارتھا (دیکھو خانی خاں اور ماثر) ایک دن شام کے وقت سہس لنگ وہاں کے تلاؤ میں تواڑے پر بیٹھا۔ پانی پر ہوا کھاتا پھرتا تھا۔ مغرب کے وقت کشتی سے نماز کے لئے اترا مبارک خاں لوہالی۔ ان میں تیس چالیس افغانوں کو لیکر سامنے آیا۔ ظاہر یہ کیا کہ ہم ملاقات کو آئے ہیں۔ بیرم خان نے مروت و اخلاص سے پاس بلالیا۔ اس نامبارک نے مصافحہ کے بہانے پاس آکر پشت پر ایک خنجر مارا کہ سینہ کے پار نکل آیا۔ ایک اور ظالم نے سر پر تلوار ماری۔ کہ کام تمام ہو گیا اس وقت کلمہ اللہ اکبر زبان سے نکلا۔ غرض جس شربت شہادت کی وہ خدا سے التجا مانگتا تھا اور دعائے سحری میں التجا کیا کرتا تھا۔ اور مردان خدا سے تمنا کیا کرتا تھا۔ خدا نے اسے نصیب کیا۔ لوگوں نے نامبارک سے پوچھا کہ کیا سبب تھا۔ جو یہ غضب کیا کہا کہ ماچھی واڑہ کی لڑائی میں ہمارا باپ مارا گیا تھا۔ ہم نے اسکا بدلہ لیا۔ 1 ؎ وہاں کی مشور سیر گاہ تھی۔ سہس ہندی میں ہزار کہتے ہیں اور لنک گھر اس تالاب کے گرد ہزار مندر تھے۔ شام جب اس کے گنبدوں پر دھوپ ہوتی تھی تو ان کی روشنی۔ اور کلسوں کی چمک کا پانی میں عکس ۔ اور کناروں کا سبزہ عجب بہار دیتا تھا۔ اور جب چراغ جلے۔ ان میں روشنی ہوتی تھی۔ اس کے عکس جو پانی میں پڑتے تھے تو ساراتلاؤ جگمگ جگمگ کرتا تھا۔ نوکر چاکر یہ حال دیکھ کر تتر بتر ہو گئے۔ اللہ اللہ کبھی وہ دولت وصولت اور کجا یہ حالت کہ اس کی لاش سے خون پڑا بہتا تھا اور کوئی نہ تھا کہ آخر خبر بھی لے۔ اس بیکس کے کپڑے تک اتار لئے گئے۔ آب رحمت ہو ہوا پر کہ خاک کی چادر اڑھا کر پردہ کیا۔ آخر وہیں کے فقراومساکین نے شیخ حسام الدین کے مقبرہ میں کہ مشائخ کبار میں مشہور تھے۔ اور سلطان الاولیاء کے خلفا میں تھے۔ دفن کر دیا۔ قاسم ارسلاں نے تاریخ کہی۔ ماثر میں لکھا ہے کہ ایک رات اسے خوب میں یہ تاریخ معلوم ہوئی تھی ؎ بیرم بہ طواف کعبہ چوں بست احرام درراہ شد از شہادتش کا ر تمام در واقعہ ہاتفے پے تاریخش گفتہ کہ شہید شد محمدؐ بیرام لاش دلی میں لا کر دفن کی۔ حسین قلی خاں خان جہاں نے 985ھ میں مشہد مقدس میں پہنچائی۔ لاوارث قافلہ پر جو مصیبت گزری۔ عبدالرحیم خانخاناں کے حال میں پڑھو۔ عبرت خدا کی شان دیکھو ! جن جن لوگوں نے اس کی برائی میں اپنی بھلائی سمجھی تھی۔ ایک برس کے پس و پیش میں دنیا سے گئے۔ اور ناکام و بدنام ہو گئے۔ سب سے پہلے میر شمس الدین محمد خان اتکہ ۔ اور گھنٹہ بھر نہ گزرا کرا دہم خاں 40دن نہ ہوئے تھے۔ کہ ماہم ۔ دوسرے ہی برس پیر محمد خاں۔ خرابی خانخاناں کا اصلی سبب اس مہم کا سبب خواہ بیرم خاں کی سینہ زوری کہو۔ خواہ یہ کہو کہ اس کے زبردست اختیارات اور احکام کی امرا کو برداشت نہ ہوئی۔ خواہ یہ سمجھو کہاکبر کی طبیعت میں خود حکمرانی کاجوش پیدا ہو گیا تھا۔ ان باتوں سے کوئی بھی نہو۔ خواہ سب کی سب ہوں۔ حق پوچھو تو سب کے دلوں میں فتیلہ لگانے والی وہی مردانی عورت تھی۔ جو مردوں کو چالاکی اورمردانگی کا سبق پڑھاتی تھی۔ یعنی ماہم اتکہ ۔ وہ اور اس کا بیٹا یہ چاہتے تھے۔ کہ سارے دربار کو نگل جائیں۔ میر شمس الدین محمد خاں اتکہ جس کے نام پر مہم مذکور کی فتح لکھی گئی انہوں نے جب خاتمہ مہم کے بعد دیکھا کہ ساری محنت برباد گئی۔ اور ماہم والے سلطنت کے مالک بن گئے۔ تو اکبر کو ایک عرضی لکھی۔ باوجودیکہ اپنی شرافت اور متانت کے جوہر کی ہر حرف میں رعایت رکھی ہے۔ پھر بھی یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس کے ہاتھ سے داغ داغ ہور ہے ہیں۔ عرضی مذکور اکبرنامہ میں درج ہے ۔ میںنے اس کا ترجمہ ان کے حال میںلکھا ہ ۔ اس سے بہت سی رمزیں مہم مذکور۔ اور ماہم کی کینہ وری کی عیاں ہونگی دیکھو ؎۱ اس کا حال 1 ؎ دیکھو صفحہ 567۔ 2 ؎دیکھو صفحہ 749دودھ پلانے والی کو آتکہ کہتے تھے۔ 12 بیرم خاں کا مذہب ملا صاحب فرماتے ہیں، اس کا دل پر گذار تھا ۔ اکابر اور مشایخ کے کلام پر بہت اعتقاد رکھتا تھا ۔ ذرا سی معرفت کے نکتہ پر آنسوبھر لاتاتھا۔ صحبت میںہمیشہ قال اللہ وقالل الرسول کاذکر تھا۔ اور خود باخبر انسان تھا۔ حکایت سیکری میںکسی فقیر گوشہ نشین سے ملنے گیا۔ اہل جلسہ میں سے ایک شخص نے شاہ صاحب سے پوچھا تعز من تشاء وتزل من تشاء بالسرآل لیکن عقیدہ تفصیل کی طرف مایل تھا ۔ حافظ محمد امین جو خاص بادشاہی اور خاندانی طبیب تھے ان سے کہا کرتا تھا کہ جناب علی مرتضیٰ کے القاب میںچند کلمے اور اصحابوں سے زیادہ پڑھا کرو۔ تباہی سے پہلے ایک عہم او رپرچم مرصع مشہد مقدس میں چڑھانے کو تیار کیا تھا ۔ اس پر کروڑ روپیہ لاگت آئی تھی اور قاسم ارسلاں نے علم امام ہشتم اس کی تاریخ کہی تھی ۔ پرچم پر مولوی جامی کی یہ غزل بھی لکھی تھی ۔ سلام علی آل طہ و یس سلام علی روضہ حل فیہا سلام علی الخیر النبین امام یباہی بہ الملک والدین اما بحق شاہ مطلق کہ آمد شہ کاخ عرفان گل باغ احسان علی ابن موسے رضا کز خدایش حریم درش قبلہ گاہ سلاطیں در درج امکان مسہ برج تمکین رضا شد لقب چوں رضا بودش آئین یہ علم بھی ضبطی میں گیا۔ اور خیر خواہان دولت نے خزانہ میںداخل کیا۔ اخلاق کل مورخ نئے اور پرانے بیرم کے حق میںسو ا تعریف کے کچھ نہیں لکھتے ۔ فاضل بداؤنی تو کسی سے نہیں چوکہتے اور وہ بھی جہاں ا س کا ذکر کرتے ہیں خوبی اور شگفتگی کے ساتھ لکھتے ہیں۔ پھر بھی خالی تو نہ چھوڑنا چاہیے تھا ۔ جس سال اس کا خاتمہ بالخیر کرتا ہے ۔ وہاں کہتا ہے۔ اس سال میں خان خاناں نے ہاشمی قندھاری کی ایک غزل دست برو ترکانہ میںاڑا کر اپنے نام سے مشہور کی ۔ صلہ میں ۶۰ ہزار روپیہ نقد دیکر پوچھا۔ آرزو پوری ہوئی ۔ اس نے کہا ۔ پوری تو جب ہوکہ پوری ہو (یعنی آرزو ؎۱ دیکھو صفحہ نمبر ۷۵ جب پوری ہو کہ لاکھ روپیہ کی رقم پوری ہو۔ یہ لطیفہ بہت پسند آیا ۔ ۴۰ ہزار بڑھا کر پورے لکھا کر دیے خدا جانے کیا ۔ ساعت تھی ۔ چند ہی روز میں غزل کا مضمون اور ادبار کا اثر ظاہر ہو گیا غزل: من کیستم عنان دل ازدست داوؤ دیوانہ وار در کمر کرد گشتہ گاہے چو شمع ز آتش دل درگرفتہ بیرم ز فکر اندک و بسیار فارغیم وزدست دل براہ غم از پافتا دہ بے اختیار سر بگر یباںنہادہ گرچوں فتیلہ بادل آتش فتادہ ہرگز نہ گفتہ ایم کے یا زیادہ آزاد دیکھو ملا صاحب نے ظرافت کا نشتر مار اتھا وہاں سے سخاوت کا چشمہ بہ نکلا ۔ یہ وہی نیت کا پھل نمبر ۲ سخاوت رام داس لکھنوی ۔ سلیم شاہی زمانہ کا گویا تھا کہ موسیقی میں دوسرا تان سین کہلاتا تھا وہ اس کے دربار میں آیا اور گایا۔ خزانہ میں ا س وقت کچھ نہ تھا ۔ ا س پر لاکھ روپیہ دیا۔ اس کا گانا کی آنکھوں میںآنسو بھر آتے تھے۔ ایک جلسہ میںنقد جنس جو اسباب موجود تھا سب دیدیا اور آپ الگ اٹھ گیا۔ نمبر ۳۔ سخاوت )جہجار خاں ایک سردار افغان امیروں سے باقی تھا ۔ علم طو غ اور نقارہ سے اس کی سواری چلتی تھی ۔ ملا صاحب کیامزہ سے لکھتے ہیں ۔ اخیر عمر میںسپاہگری چھوڑ کر تھوڑی سی مدد معاش پر بیٹھ رہا تھا کہ زہد اور عبادت کی برکت سے قناعت کی دولت پائی تھی ۔ اس نے قصیدہ کہہ کر سنایا۔ خان خاناں نے لاکھ روپیہ دیکر کل سرکار سر ہند کا امین کر دیا ۔ چوں مرہ نگیں سما شد بزیر آب پر گار تمش بز میں داد لعل ناب خواجہ کلاں بیگ کا لطیفہ ٹھیک ہوا کہ سخن فہمی عالم بالا ہم معلوم شد۔ حاصل کلام یہ ہے کہ اس کی اہمیت عالی کی نظر میں لک بھی کک (خس ۔ تنکا) تھا۔ یہ گھاس پھوس کہ پانی سوار نظر آتے ہیں۔ نمبر ۴۔ ایک اور لطیفہ )امیر علاء الدولہ اپنے تذکرہ میںفہمی قزوینی کے حال میں لکھتے ہیں کہ خاندان وزارت سے تھا ۔ لیکن بے قید اور تکلفات سے آزاد رہتا تھا۔ رنگ سرخ اور آنکھیں کیری تھیں۔ ایک جلسہ میں بیرم خاں نے اسے دیکھ کر کہا۔ مرزا ، خر مہرہ چرا بر وے۔ وہ ختہ ۔ مرزا نے کہا برائے چشم ز خم۔ خاں خاناں بہت خوش ہوئے۔ ہزار روپے ۔ خلعت ۔ گھوڑا اور ایک لاکھ کی جاگیر عنایت کی۔فہمی اکبر کی تعریف میں اکثر قصا ید کہا کر تھا۔ ایک قصیدہ کے دو شعر تذکرہ مذکور سے مجھے پہنچے ؎ منم ہمیشہ ثنا خوان کہ بادشاہ سلامت دعا ہمے کنم از جاں کہ بادشاہ سلامت بریں کتابہ نیلی رواق کاتب قدرت خطے نوشتہ زا فشاں کہ بادشاہ سلامت نمبر ۵۔ سخاوت، ۳۰ ہزار شریف شمیشر زن ان کے دستر خوان پر کھانا کھاتاتھا۔ اور ۲۵ امیر بالیاقت صاحب تدبیر اس کے ملازم تھے ۔کہ برکت خدمت سے پنج ہزاری منصب ۱ اور صاحب طبل و علم ہوئے۔ دیکھو ماثر۔ غیرت مردانہ جب میدان جنگ کے لئے ہتھیار سجنے لگتا تو دستار کا سرا ہاتھ میںاٹھاتا اور کہتا۔ الہی یا فتح یاشہادت ۔ بد ھ کے دن معمول تھا کہ ہمیشہ شہادت کی نیت دے حجامت اور غسل کیا کرتاتھا ۔ ماثر الامرا۔ علو حوصلہ اس آفتاب کا اقبال عین اوج پر تھا ۔ دربار لگا ہوا تھا ۔ ایک سید سادہ لوح کسی بات پر خوش ہوئے۔ کھڑے ہو کر کہا۔ نواب کی حصول شہادت کے لیے سب فاتحہ اور دعا کریں سب اہل دربار سید صاحب کا منہ دیکھنے لگے۔ اس عالی حوصلہ نے مسکر کر کہا ۔ جناب سید ! بایں اضطراب غمخواری نکنید ۔ شہادت عین تمنا است مگرنہ بایں زودی۔ دیکھو اقبال نامہ اور ماثر الامرا ۔ انہی کتابوں میںہے کہ ہمیشہ بد ھ کے دن خط بنواتاتھا غسل کرتا تھا ۔ اس نیت سے کہ میںشہادت کے لیے مستعد اور مہیا رہوں ۔ ہمیشہ اس نعمت کے لیے دعا کرتا رہتا تھا اور اہل اللہ سے دعا چاہتا تھا ۔ نقل ایک شب دربار میںہمایوں بادشاہ بیرم خاں سے کچھ کہہ رہے تھے۔ رات زیادہ گنی تھی ۔ نیند کے مارے بیرم خاں کی آنکھیں بند ہونے لگیں۔ بادشاہ کی بھی نگاہ پڑ گئی۔ فرمایا بیرم ! من بشما میگویم ۔ شما خواب میکنید۔ بیر م نے کہا قر بانت شوم از بزرگان شنیدہ ام کہ درسہ مقام حفاظت سہ چیز واجب است ۔ در حضرت بادشاہان حفظ چشم۔ در خدمت دروپشیان نگہدار ی دل۔ در پیش علما پاسبانی زبان۔ در ذات حضور صفات سہ گانہ جمع مے بینم ۔ فکر مے کنم کدام کدام شاں را نگہدارم ۔ اس جواب سے بادشاہ بہت خوش ہوئے (ماثر الامرا) آزاد اس برگزیدہ انسا ن کے کل حالات پڑھ کر صاحب نظر صاف کہہ دینگے کہ اس کا مذہب شیعہ ہوگا۔ لیکن اس کہنے سے کیا حاصل ۔ ہمیں چاہیے کہ اس کی چالل ڈھا ل دیکھیں۔ اور گذر گاہ دنیا میںآپ چلنا سیکھیں۔ اس عالی حوصلہ دریا دل نے دوست و دشمن کے انبوہ میںکسی ملنساری اور سلامت روی سے اور بے تعصبی اور خوش اعتدالی سے گذارہ کیا ہوگا۔ وہ شاہانہ اختیار تھا۔ کل سلطنت کے کاروبار اس کے ہاتھ میں تھے ۔ اور شیعہ سنی جن کے شمار ہزاروں اور لاکھوں سے بڑھے ہوئے تھے۔ سب کی غرضیں او ر امیدیں اس کے دامن کھینچی تھے۔ با وجود اس کے کیسا دونوں فرقوں کو دونوں ہاتھوں پر برابر لئے گیا گیا کہ مورخاں وقت میں کوئی اسکے تشیع کا ثبوت تک نہ کر سکا۔ملا صاحب جیسے نظر باز نے بہت تاڑا تو یہ کہا کہ تفضیل پر ما ئل تھا ۔ اہل اسلام میں ایک فرقہ وہ ہے کہ خلافت میںحضرت علی کو چوتھے درجہ میںرکھتے ہیں مگر کہتے ہیں کہ فضال و اوصاف میںپہلے تینوں خلفا سے افضل تھے۔ جن سنت جماعت لوگوں کو اس سے کام پڑتا ان پر اس قدر اخلاق اور سخاوت مبذول کرتا تھا کہ امرائے اہل سنت نہ کرتے تھے۔ دیکھو مخدوم؎۱ الملک کا حال تصفیف ہر تزکرہ و تاریخ میںلکھتے ہیں کہ شعر کا نکتہ شناس تھا اور خود بھی خوب کہتا تھا ۔ ماثر الامراء میں ہے کہ استادوں کے شعروں میں ایسی صلاحیں کیں کہ اہل سخن نے انہیںتسلیم کیا۔ ان سب کا مجموعہ مرتب کیا تھا۔ اور اس کا نام و خلیہ رکھا تھا ۔ فارسی اور ترکی زبان میںتمام کمال دیوان لکھے اور قصآید بلیغ نظم کیے ۔ ملا صاحب اکبر کے زمانہ میںلکھتے ہیں کہ آج کل اس کے دیوان زبانوں اور ہاتھوں پر رواں ہیں محوی شاعر کے حال میںلکھا ہے کہ ۔ اس کی یہ رباعی بیرم خاں کے دیوان میںلوح دیباچہ پر درج ہے ؎ ز کون و مکان نخست آثار نبود آمد چو ہمیں و وحرف مفتاح وجود کاشیا ہمہ از دو حرف کن شد موجود شد مطلع دیباچہ دیوان شہود افسوس کا دن آج ہے ۔ جس میں اس کی ایک غزل بھی پوری نہیںملتی ۔ تاریخوں ۱ اور تذکروں میں متفرق اشعار رہیں۔ ہفت اقلیم ملا امین رازی میں ایک قصیدے کے بھی بہت شعر لکھتے ہیں۔ جس کا مطلع ہے ؎ شہے کہ بگذ رواز زپہرا افسراو اگر غلام علی نیست خاک برسراو؎ ؎صفحہ ۳۱۳ امیر الامرا خان زماں علی قلی خاں شیبانی علی قلی خان او راسکے بھائی بہادر خاں۱؎ نے خاک سیستان سے اٹھ کر رستم کا نام روشن کر دیا ملا صاحب سچ کہتے ہیں جس بہادری اور بے جگری سے انہوں نے تلواریں ماریں۔ لکھتے ہوئے فلم کا سینہ پھٹا جاتا ہے ۔ یہ شاہ نشان سپہ سالار دولت اکبری میں بڑے بڑے کارنامے دکھاتے اور خدا جانے ملک کو کہاں سے کہا ں پہنچاتے ۔ حاسدوں کی ناائقی اور کینہ دری ان کی جانفشانیوں اور جانبازوں کو دیکھ نہ سکی۔ آزاد میں اس معاملے میں انہیں اعتراض سے پاک نہیںرکھ سکتا ۔ وہ آخر دربار میں سب کو جانتے تھے۔ اور سب کچھ جانتے تھے۔ خصوصا بیرم خاں کی بربادی اور جانفشانی دیکھ کر چاہیے تھا کہ ہشیار ہوجاتے اور قدم قدم پر سوچ سمجھ کر پاؤں رکھتے ۔ افسوس کہ پھر بھی نہ سمجھے اور وہ جانبازیاں جن سے دربار دلاوری میںرستم و اسفند یار کے برابر جگہ پاتے ۔ سب اپنی بربادی میںخرچ کیں۔ یہاں تک کہ نمک حرامی کا داغ لے کر دنیا سے گئے۔ حیدر سلطان ان کاباپ قوم کا اذبک تھا ۔ اور شیبانی ؎۲ خاں کے خاندان میںسے تھا ۔ اس ؎۳ نے ایک اصفہا نی عورت سے شادی کی تھی۔ شاہ طہماسپ نے جو فوج ہمایوں کے ساتھ کی اس میں بہت سے سردار بااعتبار تھے۔ انہی میں حیدر سلطان اور اس کے دونوں بیٹے بھی تھے ۔ قندھار کے حملوں میںباپ بیٹے ہمت مردانہ کے جوہر دکھاتے رہے۔ ایران کا لشکر رخصت ہوا تو حیدر سلطان ہمایوں کے ساتھ رہا۔ بلکہ ایسی خصوصیت حاصل کی کہ ایرانی سپہ سالار اس کی معرفت حاضر ہوکر رخصت ہوااور خطا داروں کی خطا اس کی سفارش سے معاف ہوئی۔ اس کی خدمتوں نے ہمایوں کے دل میں ایسا گھر کیا تھا کہ اس وقت قندھار کے سوا کچھ پاس نہ تھا ۔ پھر بھی شال کا علاقہ اس کی جاگیر میںدیا تھا ۔ بادشاہ ابھی اسی طرف تھا کہ لشکر میںوبا پڑی اس میں حیدر سلطان نے قضا کی ۔ چند روز بعد ہمایوں نے کابل کی طرف علم کا پرچم کھولا۔ شہر آدھ کو س رہاتو مقام کیا ۔ امرا کی تقسیم اورفوج کی ترتیب کی۔ دونوںبھائیوں کو خلعت دیکر سوگ سے نکالا اور بہت دلا سا دیا۔ اس وقت بکا ول بیگی (کھانا کھلانے کا دروغہ تھا ) جب کامران طالیقان پر قلعہ بند ہو کر ہمایوں سے لڑ رہا تھا ۔ روز جنگ کے میدان گر م ہوتے تھے۔ ؎۱ بہادر خاں کے حالات کے لیے دیکھو صفحہ ۷۵۷ ۲؎ وہی شیبانی خاں جس نے بابر کو ملک فرغانہ سے نکالا اور تیمور کا نام ترکستان سے مٹایا ۔ ۳؎ یہ قول فرشتہ دخانی خاں وغیر ہ کا ہے مگر بعض مورخ کہتے ہیں کہ جام پر قزلباش اور اذبک میںسخت لڑائی ہوئی ۔ اس میں حیدر سلطان قزلباشوں کی شمول سر سرخرو ہو اور انہی میںسکونت اختیار کر کے ایک اصفہائی عورت سے شادی کر لی ۔ دونوںبھائی دلوں میں دلاوری کے جوش،۔ اور فوجیں رکاب میںلئے تلواریں مارتے پھرتے تھے ۔ اس میںعلی قلی خان کے لباس نوجوانی کو زخموں سے گلرنگ کیا۔ ہندوستان پر ہمایوں نے فوج کشی کی ۔ اس میں بھی دونوں بھائی شمشیر و دوم کی طرح میدان میں چلتے تھے۔ اور دشمنوں کو کاٹتے تھے۔ ہمایوں نے لاہور میںآکر دم لیا۔ ہر چند پیشاور سے یہاں تک افغان ایک میدان میںنہ لڑے مگر ان کے مختلف سردار جا بجا جمعیتوں کے انبوہ لئے دیکھ رہے تھے کہ کیا ہوتا ہے خبر لگی کہ ایک سردار دیپال پور ۱؎ پر فوج فراہم کر رہا ہے ۔ بادشاہ نے چند امراء کو سپاہ و سامان دے کر روانہ کیا۔ اور شاہ ابوالمعالی کو سپہ سالار کیا۔ وہاں مقابلہ ہو ااور افغانوں نے میدان جنگ یں حد سے بڑھ کر حوصلہ دکھایا۔ شاہ ملک حسن کے سپہ سالا رتھے لیکن وہاں نگاہوںکی تلواریں ناز کے خنجر نہیں چلتے ۔ فوج کا میدان میں لڑانا اور خود شمشیر کا جوہر دکھانا اور بات ہے ۔ جب میدان کار زار گرم ہوا تو ایک جگہ افغانوں نے شاہ کو گھیر لیا ۔ سیستانی شیر اپنے رفیقوں کے ساتھ دھاڑتا اور للکارتاپہنچا۔ اور وہ ہاتھ مارے کہ میدان ما ر لیا بلکہ شہرت و ناموری کا نشان یہیں سے ہاتھ آیا۔ ستلج پار کی لڑائی میںجو خانخاناں کی فوج نے میدان مارا یہ سایہ کی طرح پیچھے پیچھے فوج لئے پہنچے۔ لشکر بادشاہی میںایک آوارہ گمنام ۔ بے سر و پا سپاہی قنبر نام تھا ۔ اور اپنی سادہ مزاجی کیسبب سے قنبر دیوانہ مشہور تھا۔ لیکن کھانے کھلانے والا تھا ۔ اس لئے جہاں کھڑا ہو جاتاتھا۔ کچھ نہ کچھ لو گ ا س کے ساتھ ہوجاتے تھے۔ جب ہمایوں نے سر ہند پر فتح پائی تو وہ لشکر سے جد اہو کر لوٹتا مارتا چلا گیا۔ گاؤں اور قصبوں پر گرتا تھا ۔ جو پاتا تھا لوٹتا تھا اور لوگوں کو دیتا تھا ۔ خدائی لشکر ساتھ ہوتا جاتا تھا ۔ قنبر دیوا نہ تھا مگر اپنے کام کا ہوشیار تھا۔ کچھ قیمتی چیزیں ہاتھی گھوڑے جو ہاتھ آتے ۔ عرایض بندگی کے ساتھ حضور میں پہنچاتا جاتاتھا۔ یہاں تک کہ سنبھل میںجا پہنچا۔ ایک نامی افغان بہادر سردار وہاں کا حاکم تھا اس نے مقابلہ کیا۔ تقدیر کی بات ہے کہ باوجود جمعیت و سامان کے بے جنگ ویران ہوگیا۔ ۱؎ دیپالپور لاہور سے جنوب مغرب کی جانب واقع ہے ۔ جب قنبر نے جمعیت امیرانہ بہم پہنچائی ۔ تو دماغ میںخیالات شاہانہ سمائے کہ میںمالک ملک اور کھانے پکواتا تھا ۔ یہ دیوانہ عجب مزے کی باتیںکر تاتھا۔ اس کا دستر خوان وسیع تھا ۔اچھے کھانے پکواتا تھا ۔ سب کو بٹھاتا اور کہتا بخورید مال مال خدا، جان جانِ خدا۔ قنبر دیوانہ بکاول خدا ۔ ہاں بخورید ، اس کا دل دستر خوان سے بھی زیادہ وسیع تھا۔ اس سخاوت نے یہاں تک جوش خروش دکھایا کہ کئی دفعہ گھر کا گھر لٹا دیا۔ آپ باہر نکل ہو اور کہا مال خدا ئیست ہان بند ہائے خد بیا ئید ۔ بگیرید ۔ بردارید۔ ونگزارید۔ انسان کا یہ بھی قاعدہ ہے کہ ترقی کے وقت جب اونچا ہوتا ہے تو خیالات اس سے بھی بہت اونچے ہوجاتے ہیں ؎ جتنے نشے ہیں یاں روش نشئہ شراب ہوجاتے بد مزہ ہیں جو بڑھ جاتے حد سے ہیں ادب آداب بھول گیا ۔ اور حقیقت میںیا دہی کب کئے تھے جو بھولتا ۔ ایک لشکر ی آدمی بلکہ صحرائی جانور تھا۔ بہرحال جو لوگ اس کا رکاب میں جانفشا نیا ں کرتے تھے ۔ انہیںآپ ہی بادشاہ خطاب دینے لگا۔ آپ ہی علم و نقارے بخشنے لگا۔ انہی بھولی بھالی باتوں میںیہ بھی ضرور تھا کہ رعایا کیساتھ بعض بعض بے اعتدالیاں کرتا تھا ۔ جب آدمی کا ستارہ بہت چمکتا ہے ۔ تو اس پر نگاہ بھی زیادہ پڑنے لگتی ہے لوگوں نے حضور میںایک ایک بات چن کر پہنچائی ۔ بادشا ہ نے علی قلی خاں کو خاں زمان کا خطاب دیکر روانہ کیا کہ سنبھل قنبر سے لے لو۔ بداؤں اس کے پاس رہے ۔ اسے بھی خبر پہنچی اور ساتھ ہی علی قلی خاں کا وکیل پہنچا کہ فرمان آیا ہے ۔ چل کر تعمیل کر۔ و ہ کب خاطر میں لاتا تھا۔ جاہل سپاہی تھا سنبھل کر سنبھر کہتا تھا ۔ دربار میں بیٹھتا اور کہتا۔ سنبھر ۔ قنبر و علی قلی خاں چہ ؟ مثل ہماں است کہ وہ کسے درختانِ کسے ۔ علی قلی خاں کو کیا واسطہ ۔ ملک میں نے مارا کہ تونے ؟ خان نے پہنچ کر بدایوں کے پاس لشکر ڈالا او اسے بلا بھیجا ۔ قنبر کب آتے تھے یہ کہتے تھے کہ تو میرے پاس کیوں نہیںآتا۔ تو بادشا ہی بندہ ے تو میں بھی حضرت کا غلام ہوں۔ مجھے بادشاہ کیساتھ تجھ سے زیادہ قرب ہے ۔ اپنے سر کی طرف انگلی اٹھاتا اور کہتا کہ یہ سرتارج شاہی سمیت پیدا ہوا ہے ۔ خان نے فہمایش کے لئے اپنے معتبر بھیجے انہیں قید کر لیا ۔ بھلا خان زمان اس پاگل کو کیا خاطر میںلاتا تھا ۔ آگے بڑھ کر شہر کا محاصرہ کر لیا ۔ دیوانہ نے یہ بر کیا کہ ان دنوں میںرعایا کو زیادہ ناراض کر نے لگا۔ کسی کا مال لے لیا ۔ کسی کے عیال کے لئے ۔ لوگوں کی بے اعتباری کے سبب سے رات کو آپ مورچے مورچے پر قلعداری کا اہتمام کرنا پھرتا تھا ۔ باوجود اس دیوانہ پن کے سیانہ بھی ایسا تھا ۔ کہ ایک دفعہ آدھی رات کو پھرتے پھرتے ایک بنئے کے گھر میںپہنچا جھک کر زمینک سے کان لگائے۔ چند قدم آگے پیچھے بڑھ کر ہٹ کر پھر دیکھا پھر پہلی جگہ آکر بیلداروں کو آواز دی اور کہا کہ ہاں۔ آہٹ معلوم ہوتی ہے۔ یہیں کھو دو۔ دیکھا تو وہیںنقب کا سر انکلا کہ علی قلی خان باہر سے سرنگ لگا رہا تھا ۔ یہ بھی معلوم ہو اکہ قلعہ خدا جانے کن وقتوں کا بنا ہوا تھا ۔ باہر والوں نے جس طرف سے سرنگ لگائی ۔ فصیل میںسال کے شہتیر اور لوہے کی سلاخیں پائی تھیں۔ بنانے والے نے آثار بھی پانی تک پہنچا دیا تھا ۔ خانزماں کونسی حکمت عملی سے پتا لگ گیا ۔ وہی ایک جگہ تھی جہاں سے اندر سرنگ جاسکتی تھی ۔ بہر حال اگر قنبر تاڑ نہ جاتا تو اسی دن علی قلی خاں کی فوج سرنگ کی راہ سر توڑا ندر چلی آتی ۔ خاں بھی یہ زیر کی دیکھ کر حیران رہ گیا ۔ خیر شہر کے لو گ ا س سے تنگ تھے۔ خان کے معتبر جو قلعے میں قید تھے ۔ انہوں نے اندر اندر شہر کے لوگوں کو ملا لیا۔ جب رعایا پھر گئی ۔ پھر کیا ٹھکانا ، باہر والوں کو پیغام بھیجا کہ رات کو اس برج پر فلا نے وقت اس مورچے سے حملہ کرو۔ ہم کمندیں ڈالکر اور زینے لگا کر چڑھا لینگے ۔ شیخ حبیب اللہ وہاں کے روسائے سر گروہ میںسے تھے اور شیخ سلیم چشتی کے رشتہ داروں میں سے تھے۔ وہ خود اس معاملے میںشریک تھے۔ چنانچہ رات کے وقت شیخ زادہ کے برج کی طرف سے چڑھا ہی لیا اور ایک طرف آگ بھی لگا دی ۔ شب اپنی سیاہ چادر تانے سوتی تھی اور دنیا غافل پڑی تھی۔ قنبر سیاہ بخت نے وقت کو غنیمت سمجھا اور ایک کالا کمبل اوڑھ کر بھا گ گیا۔ مگر اسی دن علی قلی خاں کے شکاری خرگوش کی طرح جنگل سے پکڑ لاے۔ بامروت سپہ سالار نے ہر چند کہا کہ فرمان شاہی کی بے ادبی کی ہے ۔ تو بہ اور معذرت کر۔ دیوانہ کس کی سنتا تھا کہا کہ معذرت چہ معنی دارد۔ آخر جان کھوئی اور مدت تک اس کی قبر درگاہ بنکر شہر بداؤں کو روشن کرتی رہی ۔ لوگ پھول چڑھاتے اور مرادیں پاتے تھے۔ علی قلی خاں نے اس کا سر کاٹ کر عرضی کے ساتھ دربار میں بھیج دیا۔ رحم دل بادشاہ ہمایوں کو یہ بات پسند نہ آئی بلکہ ناراضی کے ساتھ فرمان لکھا کہ جب وہ اظہار بندگی کرتا تھا۔ اور چاہتاتھا کہ معذرت کو حضور میںحاضر ہو تو پھر یہاں تک کیوں نوبت پہنچائی۔ اورجب گرفتار ہوکر آیا تو قتل کیوں کیا۔ انہیںدنوں میںہمایوں کے ہمائے حیات نے پروانہ کی۔اقبال چتر بنا اور اکبر کے سر پر قربان ہوا۔ ہیمو ڈھو سر افغانوں کے گھر کا نمک خوار ممالک مشرقی میںحق نمک ادا کرتے کرتے بہت قوت پکڑ گیا تھا۔ اور روز بروز زوروں پر چڑھتا جاتاتھا۔ جب اس نے دیکھا کہ ۱۳ برس کا شہزادہ بادشاہ ہندوستان ہوا ہے تو فوج لے کر چلا۔ بڑے بڑے امرائے افغانب اور جنگ کے بے شمار سامان لئے طوفان کی طرح پنجاب پر آیا تغلق آباد پر تردی بیگ کو شکست دی۔ دلی میں جس کا تخت بادشاہوں کی ہوس کا تاج ہے ۔ جشن شاہانہ کیا۔ اور دلی جیت کر بکر ما جیت بن گیا۔ شادی خاں ایک پرانا افغان شیر شاہی پٹھانوں میں سے ادھر کے علاقے دبائے ہوئے تھا خان زماں اس سے لڑرہا تھا ۔ جب ہیموں کا غلغلہ اٹھا تو بہادر نے مناسب سمجھا کہ پرانے خاک تو وہ پر تیر اندازی کرنے سے بہتر ہے کہ نئے دشمن پر جا کر تلوار کے جوہر دکھا ؤں۔ اس لئے ادھر کا معاملہ ملتوی کر کے دلی کا رخ کیا۔ مگر لڑائی کے وقت تک میدان میںنہ پہنچ سکا میرٹھ میںتھا کہ سنا۔ امرا بھاگے ۔ یہ دلی سے اوپر اوپر جمنا پار ۱؎ ہوا اور کرنال سے ہوتا ہو اپنجاب ہی کی طرف چلا۔ دلی کے بھگوڑے سر ہند میںجمع ہور ہے تھے۔ یہ بھی انہیں میںشامل ہوا ۔ اکبر آئے سب کی ملازمت ہوئی۔تردی بیگ باہر سے باہر ہی مر چکے تھے۔ اکبر نے عنایت و مرحمت بلکہ انعام و اکرام سے شکستہ دلوں کی مرہم پٹی کی ۔ یہ سب خان خاناں کی تدبیریں تھیں۔ رستہ میںخبر پہنچی کہ ہیموں دلی سے چلا۔ خان خاناں نے لشکر کے دو حصے کئے۔ پہلے حصے کے لئے چند جنگ آزمودہ امیروں کو انتخاب کیا۔ خانزماں کے سرپر امیر الامرائی کلگی تھی۔ اس پر سپہ سالاری کا چتر لگایا ۔ سکندر وغیرہ امرا کو ساتھ کیا۔ اپنی بھی فوج ساتھ کی اور اسے ہر اول کر کے آگے روانہ کیا۔ دوسری فوج کو اکبر کی رکاب میںلیا۔ اور شکوہ شاہانہ کے ساتھ آہستہ آہستہ چلا۔پیش قدم سپہ سالار اگرچہ نوجوان تھامگر فنون جنگ میں قدرتی لیاقت رکھتا تھا۔ میدان کا اندازہ دیکھتا تھا ۔ فوج کا بڑھانا ۔ لڑانا موقع وقت کا سمجھنا ۔ حریف کے حملہ کا سنبھالنا۔ عین موقع پر خو دھا وے سے نہ چوکنا وغیر ہ وغیرہ ۔ غرض ان مقدموں میںاسے ایک استعداد خداداد تھی کہ جس انجام کو سوچ کر ہاتھ ڈالتا تھا ۔ وہی شکار پکڑلاتا تھا ادھر ہیموں کو اس انتظام کی خبر پہنچی ۔ خاطر میںنہ لایا ۔ دلی مار کر دل بہت بڑ ھ گیا تھا۔ ترکی کا جواب ترکی دیا۔ افغانوں کے دو عالی جاہ سردار انتخاب کیا کہ ان دنوں میدان جنگ میںچلتی تلوار بنے ہوئے تھے۔ انہیں ۲۰ ہزار فوج دی اور توپخانہ کہ دریا ئے آتش کا دہانہ تھا ساتھ روانہ کیا کہ پانی پت پر جاکر ٹھیرو۔ ہم بھی آتے ہیں۔ نوجوان سپہ سالار کے دل میں دلاوری کی امنگ بھری ہوئی کہ اس بکر ماجیت سے مقابلہ سے جس کے سامنے سے پرانا سپاہی اور نامور سپہ دار بھاگ نکلا۔ اور جوان بخت نوجوان تخت پر بیٹھا تماشہ دیکھ رہا ہے اتنے میں سناکہ حریف کا توپخانہ پانی پت پر آگیا۔ چند سرداروں کو آگے بھیجا کہ جا کر چھینا جھپٹ کریں۔ انہوں نے پہنچ کر لکھا کہ غنیم کا وزن بہت بھاری ہے۔ سیستانی شیر خود جھپٹا اور اس صدمے سے جاکر گرا کہ ٹھنڈے لوہے سے گرم لوہے کو دبا لیا او رہاتھوں ہاتھ توپخانہ چھین لیا ۔ صد ہاگھوڑے ہاتھی شیروں کے ہاتھ آئے۔ ہیموں کو توپخانہ ہی پر بڑا گھمنڈ تھا۔ جب یہ خبر سنی تو ایسا جھنجلا کر اٹھا جیسے دال میںبگھار لگا اور سارا لشکر لیکر روانہ ہوا۔ ۳۰ ہزار جوشن پوش ۔ ۱۵ سو ہاتھی جن میں پانسو جنگی فیل مست ان کے چہروں کو کالے پیلے رنگ پھیر کر ہیبت ناک بنایا تھا ۔ اور سر وں پر ڈراؤنے جانوروں کی کھالیں ڈالی تھیں لوہے کی پاکھریں پیٹ پر پڑی ۔ مستکوں پر ڈھالیں۔ گرد چھریاں کٹاریں کھڑی۔ سونڈوں میںزنجیریں اور تلواریں ہلاتے ۔ ہر ہاتی پر ایک ایک سورما سپاہی ۔ اور مہنت مہاوت بٹھایا تھا کہ دیوزاد لڑائی کے وقت خاطر خواہ کام دیں۔ ادھر بادشاہی فو ج میں کل ۱۰ ہزار کی جمعیت تھی جن میں ۵ ہزار جنگی دلاور تھے ۔ ؎۱ باغپت کے گھاٹ اترا ہوگا۔ ؎؎ سیستانی رستم نے جب حریف کی آمد آمد سنی تو جا سوس دوڑائے لیکن بادشاہ کے آنے یا کمک منگانے کا کچھ خیال نہ کیا۔فوج کی تیاری کا حکم سنایا اور امر اء کو جمع کر کے مجلس مشورت آراستہ کی ۔ میدان نگ کے پہلو تقسیم کئے ۔ پہلے یہی خبر آئی کہ ہیموں پیچھے آتا ہے۔ شادی خاں سپہ سالاری کرتا ہوا فوج کو لاتا ہے دفعتہ پرچہ لگا کہ ہیموں خود ہی ساتھ آیا ہے پانی پت سے ایک پڑاؤ آگے بڑھ کر گھڑونڈہ پر مورچے باندھے ہیں۔ خانزماں کا آگے بڑھنے کا ارادہ تھا ۔ مگر تھم گیا ۔ اور شہر سے ہٹ کر مقابلے پر لشکر جمایا ۔ چاروں پہلو امرا پر تقسیم کر کے فوجوں کا قلعہ باندھا۔ بیچ میںآپ اقبال کا نشان علم کیا ۔ ایک بڑا ساچتر تیار کیا اسے اپنے سر پر لگایا ۔ اور سپہ سالاری کی شان بڑھا کر قلب میںجا کھڑا ہوا۔ لڑائی شروع ہوئی اور میدان کا رزار گرم ہوا۔ طرفین کے بہادر بڑھ بڑھ کر تلواریں مارنے لگے ۔ خانزمانی جاں نثار بے جگر ہو کر حملے کرتے تھے ۔ اور تلوار کی آنچ پر اپنی جان کو دے دے مارتے تھے ۔ مگر باوجود اس کے کامیاب نہ ہو سکتے ۔ دھاوا کرتے تھے اور بکھر جاتے تھے کیونکہ کم تھے۔لیکن سیستانی شیر کا جوش سب کے دلو نپر چھایا ہوا تھا۔ کسی طرح باز نہ آتے تھے۔ لڑتے تھے مرتے تھے اور شیروں کی طرح بپھر بپھر کر جا پڑتے تھے ۔ ہیموں ۱؎ ہوائی ہاتھی پر سوار قلب لشکر کو سنبھالے کھڑا تھا ۔ اور فوج کو لڑا رہا تھا ۔ آخر میدان کا اندازہ دیکھ کر اس نے ہاتھی ہول دئے ۔ کالے پہاڑوں نے اپنی جگہ سے جنبش کی اور کالی گھٹا کی طرح آئے اکبر نمک خوار خاطر میںنہ لائے۔ بھاگے مگر ہوش و حواس سے کلے پانی کے سیلاب کو رستہ دیا۔ اور لڑتے بھڑتے ہٹتے چلے گئے۔ لڑائی کے وقت لشکر کا رخ اور دریا کا بہاؤ ایک حکم رکھتا ہے جدھر کو پھر گیا پھر گیا غنیم کے ہاتھیوں کی صف بادشاہی فوج کے ایک پہلو کو ریتتی ہوئی لے گئی ۔ خانزمان اپنی جگہ کھڑا تھا ۔ اور سپہ سالاری کی دور بین سے چاروں طرف نظر دوڑا رہا تھا ۔ اس نے دیکھا کہ سیاہ آندھی جو سامنے سے اٹھی برابر کو نکل گئی ۔ اب ہیموں قلب لشکر کو لئے کھڑا ہے۔ یکبار گی فوج کو للکا ر کر حملہ کیا۔ ترک تیر وں کی بوچھاڑ کرتے ہوئے بڑھے ۔ ادھر سے ہاتھی تلواریں سونڈوں میںپھراتے اور زنجیریںجھلاتے آگے آئے اس وقت علی قلی خان کے آگے بیرم خانی جوان جانفشانی کر رہے تھے ۔ جن میں حسین قلی خان اس کا بھانجا سپہ سالار تھا ۱؎ ہیموں کے ہاتھی کا نام ہوائی تھا ۔ اور شاہ قلی محرم وغیرہ صاحب سردار تھ ۔ سچ یہ ہے کہ بڑا ساکھاگیا ۔ اور ہاتھیوں کے حملے کو حوصلے اور ہمت سے روکا وہ سینہ سپر ہو کر آگے بڑھے۔ اور جب دیکھا کہ گھوڑے ہاتھیوں سے بدکتے ہیں تو کو دپڑے اور تلواریں کھینچ کر صفوں میںگھس گئے ۔ انہوں نے تیروں کی بوچھاڑ سے سیاہ دیوزادوں کے منہ پھیروئے او رکالے پہاڑوں کو خاک تو وہ سا بنا دیا عجب گھمسان کا رن پڑا۔ ہیموں کی بہادری تعریف کے قابل ہے ۔ وہ ترازو باٹ کا اٹھانے والا۔ دال چپاتی کا کھانے والا ۔ ہووے کے بیچ میں ننگے سر کھڑا تھا ۔ فوج کا دل بڑھا تا تھا ۔ اور فتح کا منتر جو کسی گیانی گنوان یا پنڈت بدیا وان نے بتایا تھا ۔ جپے جاتا تھا فتح شکست خدا کے اختیار ہے ۔ سپا کا پتھراؤ ہوگیا ۔ شادی خاں افغان اس کے سرداروں کی ناک تھا ۔ کٹ کر خاک پر گر پڑا۔ فوج اناج کے دانوں کی طرح کھنڈگئی ۔ پھر بھی اس نے ہمت نہ ہاری ہاتھی پر سوار ۔ چاروں طرف پھرتا تھا۔ سرداروں کے نام لے لے کر پکارتا تھا ۔ کہ سمیٹ کر پھر جمع کرلے اتنے میںایک قضا کا تیراسکی بھینگی آنکھ میں اسیا لگا کہ باہر نکل گیا ۔ اس نے اپنے ہاتھ سے تیر کھینچکر نکالا۔ اور آنکھ پر رومال باندھ لیا۔ مگرزخم سے ایسا بے قرار اور بیچو اس ہوا کہ ہووے میں گر پڑا۔ یہ دیکھ کر اس کے ہوا خواہوں کے جی چھوٹ گئے۔ سب تتر بتر ہوگئے ۔ اکبر کے اقبال اور خانزماں کی تلوار پر اس مہم کا فتح نامہ لکھا گیا ۔ ہیموں کی گرفتاری اور قتل کی کیفیت دیکھو صفحہ ۱۳ اس کے صلے میں سرکار سنبھل اور میان دواب کا علاقہ اس کی جاگیر ہوگیا ۔ اور خود امیر الامرا خانزما ن ہوئے بلکہ حق پوچھو تو بقول بلوک میں صاحب ، خانزمان نے ہندوستان میںتیموری سلطنت کی بنیاد رکھنے میں بیرم خاں سے دوسر انمبر حاصل کیا ۔ سنبھل کی سرحد سے تمام جانب مشرق میں افغان چھائے ہوئے تھے ۔ رکن خاں روحانی ایک پرانا پٹھا ن ان کا سردار تھا۔ خان زمان فوج لے کر چڑھا۔ لکھنو تک تمام شمالی ملک صاف کردیا ۔ اور ان ملکوں میں ایسا لڑاکہ ایک ایک میدان اس کا کا رنامہ تھا دفتر روزگار پر ۔اکبر قلعہ مانکوٹ کا محاصرہ کئے پڑا تھا کہ حسن کاں پچکوئی نے سرکار سنبھل پر ہاتھ مارنا شرو ع کیا ۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ اس فساد کی خبر سن کر یا اکبر ادھر آئے گا یا خانزمان جو آگے بڑھ جاتا ہے وہ اس طرف الجھیگا ۔ خانزماں لکھنو کے مقام میں تھا کہ حسن خاں ۲۰ ہزار آدمی سے آیا ۔ اورخانزماں کے پاس کل تین چار ہزار فوج افغان دریاے سرد ہی اتر آئے ۔ بہادر خاں کی فوج نے گھاٹ پر روکا ۔ خانزماں کھانا کھاتاتھا۔ خبر آئی کہ غنیم آن پہنچا۔ یہ ہنسکر کہتے ہیں کہ ایک بازی شطرنج تو کھیل لو۔ مزے سے بیٹھے ہیں اور چالیس چل رہے ہیں۔ پھر خبر دار نے خبر دی کہ غنیم نے ہماری فوج کو ہٹا دیا۔ آوازدی کہ ہتیار لانا۔ بیٹھے بیٹھے ہتیار سجے جب خیمے ڈیرے لٹنے لگے اورلشکر میں بھاگڑ پڑگئی ۔ تب بہادر خاں سے کہا کہ اب تم جاؤوہ آگے گیا ۔ دیکھیے تو دشمن دست و گریبان ہے۔ جاتے ہی چھری کٹاری ہوگیا۔ پھر آپ تھوڑے سے رفیق کہ رکاب میںتھے لے کر چلا۔ نقارہ پر چوٹ ما رکر جو گھوڑے اٹھائے تو اس کڑک دمک سے پہنچا کہ غنیم کے قدم اٹھ گئے اور ہوش اڑ گئے ۔ ان کے انبوہ کو گٹھری کر کے پھینک دیا۔ افغان اس طرح بھاگے جاتے تھے۔ جیسے گلہ ہائے گوسپند۔ سات کوس تک فرش کر تا چلا گیا ۔ کشتے کٹے پڑے تھے اور زخمی لوٹتے تھے ۔ سبد لیا اور دل سنگار اس لڑائی کے ہاتھیوں میں ہاتھ آئے تھے۔ ۹۶۴ھ میں جو نپور پر قبضہ کر کے سکندر عدلی کا قائم مقام ہوگیا۔ ۳ جلوس میںہی ا کے باغ عیش میںنحوست کے کویک نے گھونسلا بنایا ۔ تم پہلے سن چکے ہو اس کا باپ اذبک تھا اور اس لئے قومی حماقتوکا بھی ظہور ضرور تھا ۔ احمق نے شا ہم بیگ ایک خوبصورت خوش اوا نوجوان کو نوکر رکھ الیا کہ پہلے ہمایوں بادشاہ کے پیش خدمتوں میںتھا ۔ فتحیاب حدود لکھنو میں تھا ۔ اور شا ہم بھی اس کے پا س تھا ۔ جس طرح امرائے دنیا کا دستور ہے ہنستے کھیلتے عیش کرتے تھے۔ اور سرکاری خدمتیں بھی اس طرح بجا لاتے تھے کہ ترقی منصب کے ساتھ تحسین و آفرین کے خلعت حاصل کرتے تھے اور دیکھ نے والے دیکھتے رہ جاتے تھے۔ اگرچہ وہ شیبانی خان کی نسل میںتھا اور اسکا باپ خاص ازبک تھا لیکن ماں ایرانی تھی ۔ اور اس نے ایران میں پرورش پائی تھی ۔ اس لئے مذہب شیعہ تھا ۔ قابل افسوس یہ بات ہے کہ اس کی دلاوری اور تیزی طبع نے اسے حد سے زیادہ بے باک کر دیاتھا ۔ اس کی صحبتوں میں خواہ خلوۃ ہو خواہ جلوت بدکلام اور بے لگام جہلا جمع ہوتے تھے۔ ان سے کھلم کھلا بے تہذیب گفتگوئیں ہوتی تھیں ۔ کہ جو کسی طرح مناسب نہیں اہل سنت جن کا دورہ اس وقت آفتاب کا دورہ تھا ۔ لہو ک گھونٹ پیتے تھے ۔ لیکن اکبر کے دل پر اس کی خدمتیں نقش پر نقش بٹھاتی تھیں۔ او ر دونوں بھائی خانخا ناں کے دونوں ہاتھ تھے اس لئے کوئی بول نہ سکتا تھا ۔ ۱؎ عجب زمانہ تھا۔ شاہ قلی محرم ایک بہادر اور نامی امیر تھے ۔ انہی دنوں میںانہوں نے بھی عاشق مزاجی کے میدان میں جولا نی دکھائی قبول خاں ایک مقبول نوجوان کہ رقص میں مور اور آواز میں کومل تھا ۔ اس پر شاہ قلی دیوانے تھے۔ اکبر باوجود یکہ ترک تھا مگر اتفاقہے کہ اس شوق سے نفرت تھی ۔ جب سنا تو قبول خاں کو بلا کر پہرے میں دیدیا۔ امیر مذکور کو بڑ ارنج ہوا ۔ گھر کو آگ لگادی اور جرگیون کو جو ن بدل کر جنگل میں جا بیٹھے ۔ خان خاناں کے ذیلدارہ نمیں تھے۔ خان خاناں نے ان کی دلدادی کے لئے ایک غزل بھی کہی اور جوگی جی کو جا کر سنائی۔ ادھر انہیں سمجھایا ۔ ادھر حضور ہیں عرض کی اور جوگی سے امیر بناکر پھر دریا میں داخل کیا۔ کیا کہوں، سمر قند و بخارا میںجو تماشے اس شوق کے اپنی آنکھوں سے دیکھے ۔ جی چاہتا ہے کہ لکھوں مگر قانون وقت قلم کو جنبش نہیں کرنے دیتا ۔ یہ وہی شاہ قلی محرم ہیں جو ہیمو کا ہاتھی گھیر لائے تھے اور انہی چار امیروں میں سے ایک ہیںجنہوں نے بیرم خاں کی رفاقت سے برے وقت میںبھی منہ نہ موڑا تھا ۔ بادشاہی خدمتیں بھی ہمیشہ جانفشانی سے بجا لاتے رہے ۔ محرم اب بھی ترکستان میںمعتبر او رمعزز عہدہ اہل دربار کاہے ۔ غنیم کے لشکر میں سے ایک شخص بھاگا۔ اور ملا پیر محمد کے پاس آکر کہا کہ آپ کی پناہ میں آیا ہوں اب شرم آپ کے ہاتھ ہے۔ ملا صاحب نے سفارش کرنی چاہی ۔ مگر جانتے تھے کہ وہ ایک بے پرواہ سینہ رو آدمی ہے۔ اس لئے ادھر کچھ سلسلہ نہ ہلایا ۔ مذہبی حالات سن سن کر یہ بھی آگ بگولا ہورہے تے۔ اس لئے اس کی عیاشی کے معاملات کو بری آب و تاب سے حضور میں عرض کیا ۔ اور ایسا چمکایا کہ نوجوان بادشاہ خلاف عادت آ پے سے باہر ہوگیا ۔ پھر بھی خان خاناں موجود تھے۔ انہوں نے ادھر جلتی آگ پر تقریروں کے چھینٹے دئے۔ ادھر خانزماں کی طرف پرچے اڑائے ۔ اپنے معتبر دوڑائے۔ اسے بلا بھیجا ۔ اپنے اوپر جو حریف اندر اندر وار کر رہے تھے ان کے نشیب و فراز سمجھائے۔ اور رخصت کر دیا۔ اس وقت آگ دب گئی ۔ ۴ جلو س میںحکم پہنچا کہ شاہم کوبھیج دو یانکال دو اور خود لکھنو کو چھوڑ کر جو نپور پر فوج کشی کرو کہ افغانوں کے سردار وہاں جمع ہیںتمہاری جاگیر اور امراء کو عنایت ہوئی یہ مہم جونپور میںتمہاری کمک ہونگے ۔ امرا ئے مذکور جو فوجیں جرار لیکر روانہ ہوئے انہیں حکم ہوا کہ اگر خانزماں فرمان کی تعمیل کرے تو کمک کرو ورنہ کالپی وغیرہ کے حاکموں کو ساتھ لے کر اسے صاف کرو۔ خان زماں سن کر حیران رہ گیا کہ ذرا سی بات جس پر اس قدر قہر و عتاب ۔ وہ اپنے حریفوں کو خوب جانتا تھا ۔ سمجھا کہ نوجوان شہزادہ بادشاہ ہوگیا ہے ۔ بد اندیشوں نے بیچ مارا۔ شاہم کو روانہ دربار نہ کیا ۔ کہ مبادا جان سے ماراجائے۔ لیکن اپنے علاقے سے نکال دیا۔ برج علی اپنے معتبر ملازم اور مصاحب کو حضور میںبھیجا کہ مخالفوں نے جو الٹے نقش بٹھا ئے ہیںانہیں عجز و انکسار کے ہاتھ جوڑ کر اچھی طرح مٹائے۔ بادشاہ دلی میں تھے۔ قلعہ فیروز آباد میں اترے ہوئے تھے کمبخت بر ج علی جب حضور میںپہنچا تو پہلے ملا پیر محمد سے ملنا واجب تھا کہ وکیل مطلق ہوگئے تھے ۔ ملا قلعے کے برج پر اتریے ہوئے تھے برج علی سید ھا برج پر چڑھ گیا ۔ اور خلاص و نیاز کے پیغام پہنچائے انکا دماغ برج آتشبازی کی طرح اڑا جاتاتھا ۔ بڑے خفا ہوئے ۔ وہ بھی آخر جاں نثارو نمک حلال کا وکیل تھا ۔ شایدکچھ جواب دیا ہوگا یہ ایسے جامے سے باہر نہ ہوئے کہ حکم دیا۔ باندھ کر ڈال دو۔ اور مار کر تھیلا کر دو۔ اس پربھی دل کا بخار نہ نکلا ۔ کہا کہ برج پر سے گرادو۔ اسی وقت گرایاگیا ۔ اور دم کے دم میں جسم کی عمارت زمین سے ہموار ہوگئی ۔ قسائی پیر محمد نے قہقہہ ما رکر کہا۔ آج نام کا اثر پورا ہوا۔ خانزمان نے شاہم کا تو پھرنام بھی نہ لیا۔ مگربرج علی کی جان اوراپنی بے عز تی کا سخت رنج ہوا۔ خصوصا اس سبب سے جو رقیبوں نے جو ڑ ما را وہ چل گیا۔ اور اس بات بھی بادشاہ تک نہ پہنچی۔ خان خاناں موجود تھے۔ انکو ابھی خبر نہ ہوئی تھی کہ اوپر ہی اوپر کام تمام ہوگیا ۔ پھر سنا تو سوا افسوس کے کیا ہوسکتا تھا۔ اور حقیقت میںاینٹیں خان خاناں کی بنیاد کی بھی نکل رہی تھیں۔ چند ہی روز میں بادشاہ نے آگرہ کو کوچ کیا۔ رستے میںخانخاناں اور پیر محمد خاں کی بگڑی اور ایک کے بعد ایک پر آفت آئی۔ اگرچہ دریار کے رنگ بد رنگ ہورہے تھے مگر دریا دل سپہ سالار ان نا اہلوں کو کا خاطر میںلاتے تھے۔ خانزماں او خانخا ناں کی صلاح ہوئی کہ ان کی زبانیں تلواروں سے کاٹنی چاہئیں۔ چنانچہ ایک طرف خانخانان نے فتوحات پر کمر باندھی ۔ دوسری طرف خانزماں نے نشان کھولا کہ آب تیغ سے داغ بدنامی کہ دھوئے۔ کوڑ یہ افغان نے آپ ہی سلطان بہادر اپنا خط اب رکھا۔ بنگالہ میںاپنا سکی و خطبہ جاری کر دیا۔ خانزماں جونپور میںتھا ۔ کہ وہ تیس چالیس ہزار سوار سے چڑھ آیا۔ یہ اس وقت بھی دستر خوان پر تھے کہ اس نے آن لیا۔ جب خدمتگاروں کے ڈیرے سے اور اپنے سر اپر دے لٹوائے ۔ تو خاطر جمع سے اٹھے۔ اور رفیقوں اور جاں نثاروں کو لیکر چلے بلکہ حریف انکے ڈیرے میںجا پہنچا تو دستر خوان اسی طرح بچھایا پاے۔ خیر یہ باہر نکل کر سوار ہوئے۔ نقارہ بجا کر ادھر ادھر گھوڑا مارا۔ نقارہ کی آواز سنتے ہی کھنڈے ہوئے نمک کوار سمٹے۔ ان گنتی کے سواروں سے جو تلوار لیکر پلے تو افغانوں کے دھوئیں اڑا دئے بہادر خاں نے اس مہم میںوہ بہادری دکھائی کہ رستم و اسفند یار کے نام کو مٹا دیا ۔ جو افغان بہادری کے دعووں سے ہزار ہزر سوار کے وزن میںتلتے تھے۔ انہیں کاٹ کاٹ کر خاک ہلاک پر ڈال دیا۔ انکی فوج میدان جنگ میںکم رہی تھی۔ لوٹ کے لالچ پر سب خیموں میںگھس گئے تھے ۔ توشتہ دان بھر رہے تھے اور گھٹریاں باندھ رہے تھے۔ جس وقت نقارہ بجا ۔ اور ترک تلواریں لیکر پل پڑے۔ وہ اس طرح بھاگے جیسے مہال سے مکھیاں اڑیں۔ ایک نے پلٹ کر تلوار نہ کھینچی۔ خزائے اور مالخانے سامان جنگ بلکہ سامان سلطنت گھوڑے ہاتھی سب چھوڑ گئے اور اتنی لوٹ ہاتھ آئی کہ پھر فوج کو بھی ہوس نہ رہی میوات کے مفسد کہ سرشوری کے بانے باندھے بیٹھے تھے اور ہزاروں سرکش پٹھان دہلی و آگرہ کو گھڑ دوڑ کے میدان بنائے پھرتے تھے۔ جنکی گردن کی رگیں کسی تدبیر سے ڈھیلی نہ ہوتی تھیں۔ اس نے سب کو آب شمشیر سے ٹھیک کر دیا۔ ان خدمتوں کا اتنااثر ہوا کہ پھر چاروں طرف سے اس کی واہ ہونے لگی بادشاہ بھی خوش ہو گئے۔ بدگویوں کو زبانیں قلم ہوگئیں اور حاسدوں کے منہ ووات ک طرح کھلے رہ گئے ۔ اکبرجو چند رو ز بیرم خاں کی مہم میںمصروف رہا تو ممالک مشرقی کے افغانوں نے فرصت کو غنیمت سمجھا۔ اور سمٹ کر اتفاق کیا۔ انہوں نے کہا کہ ادھر کے علاقہ میں جو کچھ ہے خانزماں ہے۔ اسے اڑا دیں تو میدان صاف ہے ۔ عدلیٰ افغانوں کا بیٹا کہ قلعہ چنار کا مالک ہوکر بہت بڑھ چڑھ چکا تھا اسے شیر خاں بنا کر نکالا۔ وہ بڑی جمعیت اور دعوے کے ساتھ لشکر لیکر آیا۔ خانزماں جو نپور میںتھا ۔ اگرچہ وہ کود ل شکستہ تھا اور خانخانان کی تباہی نے اسکی کمر توڑ دی تھی۔ لیکن سنتے ہی تمام امرائے اطراف کو جمع کر لیا ۔ اور چاہا کہ علیم کو روکے ۔ لیکن ادھر اک پلہ بھاری پایا۔کہ ۲۰ ہزار ۔ ۵۰ ہزار پیادے ۔ پانسو ہاتھ اسکے ساتھ تھے۔ خانزماں نے چڑھ کر جانا مناسب نہ سمجھا۔ غنیم اور بھی شیر ہوکر آیا۔ اور دریائے کودی پر ان پڑا جسکے کنارے پر جونپور آباد ہے ۔خانزماں اندر اندر تیاری کرتا رہا اور کچھ نہ بولا۔وہ تیسرے دن دریا اترا اور بڑے گھمنڈ سے بڑھا۔خود چند سرداروں کے ساتھ فوج سے موج مارتا پرانے پٹھانوں کو لئے سلطان حسین شرقی کی مسجد کی طر ف آیا ۔ اور چند نامور سرداروں کے زور سے داہنے کو دبایا کہ لعل دروازہ پر حملہ کریں کئی تلورئے افغانوں کو بائیںپر ڈالا کہ شیخ پھول کے بند کا مورچہ توڑیں اکبری دلاور بھی آگے بڑھے اور لڑائی شروع ہوئی ۔ میدان جنگ میں خانزمان کا پہلا اصول قواعد غنیم کے حملے کا سنبھالنا تھا۔ اسے دائیں بائیں ادھر ادھر کے سرداروں پر ڈالتاتھا۔ او رآپ بڑے ہوش و حواس سے مستعد کھڑا رہتاتھا۔ جب دیکھتا کہ حریف کا زور ہو چکا۔ تب تازہ دم آپ ا س پر حملہ کرتا تھا اور اس طرح ٹوٹ کر گرتا تھا کہ امان نہ دیتا تھا اور دشمن کے دھوئیں اڑا دیتا تھا ۔ چنانچہ یہ بازی بھی اسی چال سے جیتا ۔ حریف ایسے لشکر کثیر اور جم غفیر او رسامان و افر کو برباد کرکے ناکام بھاگا۔ اور ہاتھی گھوڑے سے جواہر نفائس لاکھوں روپے کے خزانے اور مال خانزمان کو گھر بیٹھے دے گیا ۔ خدا دے تو بندہ اس کامزہ کیوں نہ لے ۔ انہوں نے امرا کو بانٹا سپا کو انعام بے شمار دیا۔ آپ سامان عیش آرام درست کر کے بہاریں اڑائیں۔ یہ ضرور ہے کہ جو کچھ اس مہم میںہاتھ آیا اس کی فہرست حضور میں نہ عرض کی۔ا وریہ دوسری فتح تھی جو نپور میں۔ خانزماں پر اکبر کی پہلی یلغار چغلخوروں کی طبیعت بند رکی خلصت کا چھاپا ہے۔ ان سے نچلا نہیںبیٹھا جاتا۔ کوئی نہ کوئی شے نوچنے کریدنے کے لئے ضرور چاہیے۔ فتوھات مذکورہ کی خبریں سنکر پھر بادشاہ کو بہکانا شروع کیا۔ وہ جانتے تھے کہ اکبر ہاتھیوں کا عاشق ہے ۔ اس لئے خزانوں او رعجائب و نفائس کے بیانوں کے ساتھ یہ بھی کہا کہ اس لڑائی میںخانزماں کو وہ وہ ہاتھی ہاتھ آئیں ہیں کہ دیکھنے والے دیکھتے ہیں اور جھومتے ہیں۔ چنانچہ جب بادشاہ اوہم خاں کا بندوبست کر کے مالوہ سے پھرے تو آتے ہی پھر تو سن ہمت پرسوار ہوئے منعم خاں و خواجہ جہاں وغیرہ امرائے قدیم کو ساتھ لیا۔ اورکالپی کے رستے یکایک کڑہ مانکپور پر جا اترے دونوں بھائیوں کو بھی خبر ہوگئی تھی ۔ وہ بھی جونپور سے یلغار کئے چلے آتے تھے کنارہ مقام کڑہ پر سجدہ بندگی میںجھک کر سر بلند ہوئے۔ جان مال سب حاضر کروئے۔ ہاتھیوں پر سارا جھگڑا اٹھا تھا۔ انہوں نے بہت سے مست ہاتھی لو ٹ کے۔ بلکہ اپنے فیلخانہ کے بھی نذر گزارنے ۔ ان میں سے وبستکان۔ پلتہ۔ ولیل ۔ سبدلیا ۔جگموہن بادشاہ کو ایسے پسندآئے کہ خلقہ خاصہ میں داخل ہوئے۔ اکبر عفو و کرم کادریا تھا۔ اس کے علاوہ بہادر خاں کے ساتھ کھیلا ہوا تھا۔ اس لئے اسے بھائی کہا کرتاتھا۔ خانزمان کی دلاوری اور جاں نثاری نے اسے اپنا عاشق بنا رکھا تھا۔ اس لئے دونوں بھائیوں کی طرف سے دل میںگھر تھا۔ ہنسی خوشی ملا۔ اعزاز و اکرام بڑھائے ۔ خلعت پہنائے ۔ زین زریں اور ساز مرصع کے ساتھ گھوڑوں پر چڑھاکر رخصت کیا۔ چغلخوروں کو بڑے بھروسے تھے۔ مگر جو جو باتیں انہیں نے کان میںپھوکی تھی۔ ان کا ذکر زبان تک نہ آیا۔ اس صلح کی تاریخیں بھی شاعروں نے کہیںایک مجھے بھی پسند ہے ؎منہی اقبال دریں کہنہ دیر غلغلہ اند اخت کہ الصتلح خیر دونوںبھائی ملک گیری کے میدان میں کارنامے دکھاتے تھے۔ او رملک داری کے معاملوں میں پانی پر سنگین نقش جماتے تھے ۔ مگردربار کی طرف سے بے دلی اور آرزودگی اٹھاتے تھے۔ اکبر جیسے بادشاہ کو ایسے جاں بازوں کی قدر دانی واجب تھی اور جانبار بھی قدیم الخدمت ، چنانچہ ۹۷۱ ھ میںملا عبداللہ سلطان پوری۔مولانا علاء الدین لاری ۔ شہاب الدین احمد خاں اور وزیر خاں کو بھیجا کہ انہیں سمجھاؤ اورنصیحت کرو۔ توبہ کراؤ اور کہو کہ ناامید نہ ہونا رحمت بادشاہی کا دریا تمہارے واسطے لہریں مار رہا ہے ۔ فتح خاں اور حسن خاں افغان لشکر کثیر افغانوں کا لے کر قلعہ رہتاسے گھٹا کی طرح اٹھے اور سلیم شاہ کے بیٹے کو بادشاہ بنا کر مہم کا منصوبہ جمایا ۔ ولایت بہار کو تسخیر کیا اور بجلیوں کی طرح ادھر ادھر کو ندنے لگے ۔ بعض علاقے خانزماں کے بھی دبالئے۔ دونوںبھائیوں نے ابراہیم خاں اذبک اور مجنون خان قاقشاں کو آگے بڑھایا مگر دیکھا کہ افغانوں کا ٹڈی دل زور میںبھر آتا ہے ۔ میدان میں مقابلہ نہ ہو سکے گا۔ اس لیے دریائے سون کے کنارے اندر باری پر قلعے کو اور مورچوں سے استحکام دیاتھا ۔ اور مقابلے کو تیار بیٹھا تھا ۔ ایک دن ارکان بادشاہی بیٹھے گفتگو کر رہے تھے اور مورچوں سے استحکام دیا تھا ۔ اور مقابلے کو تیار بیٹھا تھا۔ ایک دن ارکان بادشاہی بیٹھے گفتگو کر رہے تھے جو غنیم آن پہنچا او رآتے ہی خانزمان کی فوج کو لپیٹا شہر کی طر آیا۔ خانزمان کا لشکر بھاگا اور افغان خیموں ڈیروں کو بلکہ آس پاس کے گھروں کو لوٹنے لگے ۔ یہ اسی وقت اٹھ کھڑا ہو اور سوار ہو کرنکلا۔ جو ہمراہی ساتھ ہوسکے انہیںلے کر دیوار قلعہ کے نیچے آیا ۔ ایک پہلو میںکھڑا قدرت الہی کا تماشہ دیکھتا ہے ۔ اور لطیفہ غیبی کا منتظر ہے کہ حسن خاں تبتی کو دیکھتا ہے ۔ بخت بلند نام ہاتھی پر سوار چلا آتا ہ ۔ یہ فوج لیکر سامنے ہوا اور حملے کے لیے آواز دی۔ دشمن کی فوج بہت تھی ۔ حملہ کی ضرب کمزور پڑی اور فوج کھنڈ گئی۔یہ چند آدمیوں کے ساتھ مر نے پر مصمہ ہو کر برج کی طرف دوڑا ۔ توپ تیار دھری تھی۔غنیم ہاتھی پر سوار ہتیائی کرتا چلاآتا تھا۔ خانزماں نے اپنے ہاتھ سے شست باندھ کر جھٹ توپ داغ دی خدا کی شان گولہ جو توپ سے نکلا۔ قضا کا گولہ تھا۔ ہاتھی اس طرح الٹ کر گرا جیسے برج گرا۔ اس کے گرتے ہی پٹھانوں کے اوسان خطا ہوئے۔ جب بیرم خاں نے بہادر خاں کو مالوہ کی مہم پر بھیجا تھا تو کوہ پارا نام ہاتھی دیا تھا ۔ وہ دیو مست کہیں اسی طرف زنجیروں سے جکڑا کھڑا تھا اوربدمستی کررہا تھا ۔ افغانی مہاوتوں کو اسکے کرتوتوں کی خبر نہ تھی ۔ آتے ہی زنجیریں کھول دیںک چڑھ کر قبضہ کریں۔ وہ ابھی زنجیروں سے نہ نکلا تھا کہ قابو سے نکل گیا ۔ ایک فیلبان کو وہیںچیر ڈالا اور زنجیر کر چکراتا اس طرح چلا گویا آندھی اوربھونچال ساتھ ہی آئے۔ لشکر میںقیامت مچ گئی ۔ غنیم نے جانا کہ خانزماں نے گھات سے نکل کر پہلو مارا۔جو پٹھان لوٹ پر پڑے ہوئے تھے۔ بد حواس ہو کر بھاگے ۔ خان زمان کی فوج اس امداد الہی کو دیکھ کر پلتی اور افغانوں کے پیچھے دوڑی۔ مارے ۔ باندھے ۔ لاکھوں روپیہ کے مال اور اسباب گراں بہا، نامی ہاتھی ۔عمدہ گھوڑے اور بے شمار عجائب و نفائس ہاتھ آئے۔ اس نے اس خداد فتح کے شکرانے میں بادشاہ کے لئے تحائف خسروانہ بھیجے اورامر ا کو گراں بہادر رخصتا نوں سے گرا نبار کر دیا۔ دوسری فوج کشی خان زمان کا گھوڑا ہوائے اقبال میںاڑا جاتا تھا کہ پھر نحوست کی ٹھوکر لگی۔اسمیں کچھ کلام نہیں کہ دشمن ہر وقت دونوں بھائیوں کے درپے تھے وہ بھی کچھ اپنے نشتہ دلاوری سے کچھ غفلت عیاشی سے دشمنوں کو چغلخوری کے لئے موقع دیتے تھے ۔ شکایتیں پیش ہوئیں کہ لڑائیوں میںجو خزانے او راشیائے عجیب و نفیس ہاتھ آئی ہیں۔ سب لئے بیٹھا ہے ۔ بھیجتا کچھ نہیں۔ ان میں صف شکن اور کوہ پارہ وہ ہاتھیونکی ایسی تعریف کی کہ اکبر سن کر مست ہوگئے۔ تو وہ انہیں خاطر میں نہ لاتے ہونگے ۔ فتوحات کی مستی او راقبال کے نشے میں اپنے کارناموں کو خاندان کے فخر سے چمکاتے تھے۔ اور حریفوں کے خاکے اڑاتے تھے۔ حریف ان باتوں کو اکبر کے سامنے ایسے پیرائے میں اداکرتے تھے۔ جس سے کناروں کی نشتر بادشاہ کی طرف چبھتے تھے اور اس بغاوت کے شبہے پڑتے تھے۔ یہ شبہے اس سے زیادہ ترخطرناک نظر آتے ہونگے کہ اسکی رکاب میں ۳۰ ہزار جرار لشکر ایرانی تورانی افغان راجپوت کا تھا کہ جدھر خود گھوڑا اٹھاتا تھا۔ آندھی او ربھونچال ساتھ آتا تھا۔ یہاں تک کہ بعض صحبتوں میںاکبر کی زبان پر یہ بات آئی کہ شیبانی خاں کے خاندان پر یہ کیا ناز کیا کرتے ہیں۔ جانتے نہیں کہ اس کی بدولت فردوس مکانی نے کیا کیا مصیبتیں اٹھائیں اور آزارپائے۔ میں اذبک کا تخم ہندوستان میںنہ چھوڑ و ںگا ۔ بدترین اتفاقات یہ کہ انہی دنوں میں عبداللہ خاں اذبک وغیرہ کئی سرداروں سے برابر اعمالیاں ظہور میںآئیں۔ وہ بھی جب دربار کی طرف سے مایوس ہوئے خانزماں کے پاس پہنچے اور سب نے مل کر بغاوت کی۔ باغیوں نے ملک بغاوت کی تقسیم اس نقشے پر کی کہ سکندر خاں اذبک اور ابراہیم خاں (خانزماں کا ماموں) لکھنو میں رہیں۔ خانزماں ، بہادر خاں دونوںبھائی کڑہ مانکپور میں قائم ہوں۔ جب یہ خبریں مشہور ہوئیں اور بدنظروں نے صورت حال کو دور دور سے دیکھا تو ادھر ادھر سے جمع ہوکر خان زمان پر آئے کہ وہی آنکھوں میں کھٹکتا تھا۔ اور حقیقت میں جو کچھ تھا وہی تھای۔ نمک حلالی کے سوداگروں میں مجنوں خاں اور باقی خاں قاق شال جمعیت اور جتھے والے لوگ تھے جو بہادری اور جانفشانی دکھا کر چاہتے تھے کہ بد نصیب خانزماں کی دو پشت کی محنت مٹائین اور اپنے نقش بادشادہ کے د ل پر بٹھائین۔ وہ ان کی کیا حقیقت سمجھتا تھا ۔ مارما ر کر بھگا دیا ۔ مجنوں خاں بھاگ بھی نہ سکے۔ مانکپور میں گھر گئے انکے رفیق محمد امین دیوانہ پکڑے گئے۔ دربارشاہی میں ابھی آصف خاں صاف اور جرم بغاوت سے پاک تھے۔ وہ مجنوں خاں کی مدد کو آئے۔ محاصرہ سے نکالا۔ اپنے خزانے کھول دئیے ۔ سپاہ کی کمر بندھوائی۔ مجنوں خاں کو بھی بہت س روپیہ دیا۔ انہی کی بدولت اس نے پھر پر وبال درست کئے او ردونوں مل کر خان زمان کے سانے بیٹھے گئے۔ دربا ر کی طرف عرضیاں پرچے دوڑائے۔ رونے اڑائے بڈھے باقی خاں نے اپنی عرضی میںایک شعر بھی لکھا۔ مطلب یہ تھا کہ حضور خود آئیں اور بہت جلد آئیں؎ اے شہ سوار مصرکہ آرائے روز رزم از دست رفتہ معرکہ پادر رکاب کن اکبر مالوہ کی یلغار مار کر آیا تھا۔ یہ حال دیکھ کر سمجھا کہ معرکہ بے ڈھب ہے فور امنعم خاں کو روانہ کیا فوج لے کر قنوج کے گھاٹ اتر جاؤ۔ وہ یہ بھی جانتا تھا کہ مقابلہ کس سے ہے اور یہ جو لوگ آگ لگاتے ہیں اور سپہ سالاری کا دم بھرتے ہیں ان کا وزن کیا ہے ۔ چنانچہ کئی دن تک خودلشکر کشی کے سامانوں میں صبح وشام تک غرق رہا۔ آس پاس کے امرا اور فوج کو فراہم کیا ۔ جو موجود تھے ۔ انہیں پورا سپاہی بنایا ۔ اس لشکر میں ۱۰ ہزار فقط ہاتھی تھے۔ باقی تم آپ سمجھ لو۔ باوجود اسکے شکار کی شہرت دی اور نہایت پھرتی کے ساتھ روانہ ہوئے۔ یہاں تک کہ جو مختصر خاص اپنی رکاب میںتھی ۔ وہ قابل شمار بھی نہ تھی ۔ منعم خاں کہ ہراول ہو کرروانہ ہواتھا ۔ ابھی قنوج میں تھا کہ اکبر بھی جاپہنچے ۔ مگر وہ کہن سال عجب سلیم الطبع صلح جو سردار تھا۔ وہ بے شک بادشاہ بادشاہ کانمک حلال جاں نثار تھا۔ مگر مقدمے کی تہ کو سمجھا ہو اتھا اسے کسی طرح منظور نہ تھا کہ لڑائی ہو۔ اور خدمتگذار موروثی اپنے دشمنوں کے ہاتھوں مفت بربار ہو۔ چنانچہ اس وقت خانزمان محمد آباد یں بیخیر بیٹھا تھا ۔ اگریہ گھوڑے کر جا پڑتا تو وہ آسان گرفتار ہوجاتا۔ منعم خاں نے ادھر تو اسے ہشیار کر دیا۔ ادھر لشکر کو روک تھام سے لے چلا کہ ابھی سامان ناتمام ہے سارے لوازمات جنگ فراہم کر کے چلنا چاہیے۔ اس عرصے میںخانزماں کہیںکے کہیں پہنچے ۔ باوجود ان باتوں کے اس کی طرف سے کئی سرداروں کو پیغام سلام کر کے توڑ لیا تھا ۔ انہیں حضور میںپیش کرکے خطائیں معاف کروائیں۔ بادشاہ نے اسے وہیں چھوڑا اور یلغار کر کے لکھنو پہنچے ۔ سکندر خاں پیچھے ہٹا ۔ اور بھاگا بھاگ جو نپور پہنچا کہ سب مل کر بچاؤ کی صور ت نکالیں۔ بادشاہ بھی ان کے منصوبے کوتاڑ گئے۔ انہوں نے بھی ادھر ہی کا رخ کیا۔ اور منعم خان کو حکم بھیجا کہ لشکر کو لے کر جونپور کی طرف چلو۔ خانزماں آخر پرانے سپاہی تھی ۔ یہ بھی بادشاہ کو سامنے سے آتے دیکھ کر متفرق رہنا مصلحت نہ سمجھتے تھے۔ آصف خان و مجنون خان کامقابلہ چھوڑا اور جونپور پہنچے ۔ رفیقوں سے جا کر حال بیان کیا۔ انہوں نے جب سنا کہ بادشاہ ادھر آتے ہیں۔ سب اکٹھے ہو کر عیال سمیت جو نپور سے نکلے ۔ اور پیچھے ہٹ کر دریا پار اتر گئے۔ اکبر اگرچہ بادشاہ تھا ۔ مگر وقت اس پر اس طرح کے جوڑ توڑ مارتا تھا۔ جیسے عمدہ اہلکار اور پرانے سپہ سالار اسے معلوم تھا کہ خان زمان نے امراء راجگان بنگالہ سے موافقت کرلی ۔ راجہ اڑیسہ جو مشرقی راجاؤں میںسپاہ سامان کے باب میں نامور ہے۔ سلیمان کرارانی اس کے ملک پر کئی دفعہ گیا ہے اور قابو نہیں پایا مہا پاتر بھاٹ کہ سلیم شاہ کے مصاحبوں سے تھا اور فن موسیقی او ر ہندی شاعری میں اپنا نظیر نہ رکھتا تھا اسے اور حسن خاں خزانچی کو راجہ اڑیسہ کے پا س بھیجا اور فرمان لکھا ۔ سلیمان کرارانی علی قلی خاں کی مدد کوآئے تو تم آکر ا سکے ملک کو تہ و بالا کر دیان۔ اورکہے کہ جب خانزماں لشکرشاہی کی طرف متوجہ ہو تورہتاس سے اتر کر ا سکے ملک میں بغاوت برپا کرے۔ اس نے پہلی دفعہ اطاعت کے وعدے کر کے فیل بخت بلند کو تحائف پیشکش سے گرانبار کیا ۔ اب دوبارہ پھر بھیجا ۔ اس نے وعدہ و عید میںقلیچ خاں کو رکھا ۔ اسے جب قرائن سے حال معلوم ہوا تو رخصت ہوکر ناکام واپس آیا۔ اکبر خود جونپور میںجا پہنچے ۔ آصف خاں جنہوں نے نمک حلا ل بن کر مجنوں خاں کو قلعہ بندی سے نکالا تھا پانچ ہزار سوار سے حضور میں حاضر ہوئے۔ انہیں سپہ سالاری ملی کہ باغیوں پر فوج لے کر جاؤ۔ ساتھ ہی بعض امراء کو سرداران افغان اور راجگان اطراف کے پاس بھیجا کہ اگر خان زماںبھاگ کر تمہارے علاقے میںآئے۔ تو روک لو۔ چنانچہ حاجی محمد خاں سیستانی۔ بیرم خانی بڈھوں میں سے باقی تھا۔ اسے سلیمان گرارانی کے پاس بھیجا تھا۔ کہ کل بنگالہ کا حاکم تھا ۔ اورپرانے افغانوں میں سے وہی کھرچن رہ گیا تھا ۔ خانزماں کئی برس سے یہاں تھا اور اس عرصے میںبڑی رسائی سے س ملک میں کاروائی کی تھی ۔سلیمان گرارانی کی اس سے بڑی رفاقت تھی۔ اس نے جھٹ حاجی محمد خاں کو پکڑ کر خانزماں کے پاس بھیج دیا ۔ وہ اول تو ہموطن سیستانی۔ دوسرے بیرم کانی پرانا رفیق ۔ جب بڈھے کہن سال کو جوان دولت جوان اقبال کے سامنے لائے۔ ایک دوسرے کو دیکھ کر بہت ہنسے ۔ ہاتھ پھیلا پھیلا کر گلے ملے۔ بیٹھ کر صلاحیں ہوئیں۔ بڈھے نے تجویز نکالی کہ دل میںنمک حرامی یا دغا نہیں۔ کسی غیر بادشاہ سے معاملہ نہیں۔ تم یہیںحاضر رہو۔ ماںکومیرے ساتھ روانہ کردو۔ وہ محل میں جائینگی ۔ بیگم کی معرفت عرض کرینگی ۔ باہرمیں موجود ہوں بگڑی بات بن جائیگی ۔ دشمنوں کی کچھ پیش نہ جائیگی۔ اب ذرا خیال کرو۔ اکبرتو جونپور میںہیں۔ آصف خاں او رمجنون خاں خانزماں کے سامنے کڑہ مانک پو رمیںفوجیں لئے پڑے ہیں۔ درباری نمک حراموں نے آصف خاں کو پیغام بیجھا کہ رانی درگاوتی کے خزانوں کا حساب سمجھانا ہوگا کہد و دوستوں کو کیا کھلواؤگے ؟ اور چورا گڈھ کے مال میں سے کیا تحفے دلواؤگے اسے کھٹکا تو پہلے بھی تھا۔ اب گھبر ا گیا ۔ لوگوں نے اس یہ بھی شبہ ڈالا کہ خان زمان کے مقابلے پر بھیجنا۔ فقط تمہارا سر کٹوانا ہے ۔ آخر ایک دن سوچ سمجھ کر آدھی رات کے وقت اس نے خیمے ڈیرے اکھیڑے اور میدان سے اٹھ گیا۔ اس کے ساتھ زیر خاں اس کا بھائی او رسرداران ہمراہی بھی اٹھ گئے ۔ بادشاہ نے سنتے ہی اسکی جگہ تو منعم خاں کو بیجا کہ مورچہ قائم رہے اور شجاعت خاںکو اس کے پیچھے دوڑایا شجاعت خاں مانکپور پر پہنچ کر چاہتے تھے کہ دریا اتریں۔ آصف خاں تھوڑی دور بڑھاتھا جو خیر پائی کہ مقیم بیگ پیچھے آتا ہے ۔ جاتے جاتے پلٹ پڑا ۔ اور دن بھر اس طرح جان توڑ کر لڑا کہ مقیم بیگ کا شجاعت خانی خطاب خاک میں مل گیا ۔ آصف رات کو اپنی جمعیت اور سامان سمیت فتح کا ڈنکا بجا تا چلاگیا۔ صبح کو انہیں خبرہوئی وریا اتر کر اپنی شجاعت کے روئے سیاہ کو دھویا اور پیچھے پیچھے دوڑے ترک تھے مگر ترکوں کاقول بھول گئے تھے کہ جو حریف کمان بھر نکل گیا۔ تیروں کے پلے نکل گیا ۔ خیر جیسے گئے ویسے ہی دربار میںآن حاضر ہوگئے۔ خانزماں عرصہ جنگ کا پکا شطرنج باز تھا ۔ منعم خاں ابھی اس کے مقابلے پر نہ پہنچا تھا جو اس نے دیکھا کہ بادشاہ بھی ادھر ہی چلے آئے۔ اودھ کا علاقہ خالی ہے ۔ اپنے بھائی بہادر خاں کو سپہ سالار کر کے اودھ کو فوج روانہ کی۔ اور سکندر خاں کو اس کی فوج سمیت ساتھ گیا ۔ کہ جاؤ اور ادھر کی طرف ملک میںبد عملی پھیلاؤ۔ بادشاہ نے سننے ہی چند کہنہ عمل سرداروں کو فوجیں دیکر ادھر کی طرف روانہ کیا۔ میر مغر الملک مشہدی کو ان کا سردار مقرر کیا ۔ مگر یہ خلعت ان کے قد پر کسی طرح ٹھیک نہ تھا۔ انہیںحکم یہ دیا کہ بہادر کو روک لو۔بھلا ان سے بہادر کب رکتاتھا۔ ادھر منعم خاں خان دماں کے مقابل پہنچے ۔ دونوں قدیم یار اور دلی دوت تھے۔ پیغام سلا م ہوئے بی بی سروقد ایک پراتم بڑھیا۔ بابر بادشاہ کے محلوں کا تبرک باقی تھیں۔ انہیں منعم خاں کو حرم سرا میں بھیجا۔ باہر چند معتبر اور کارواں اشخاص بھیجے۔ حاجی محمد خاںبھی جاکر شامل ہوئے۔ انہیں دنوں میں یہ بھی ہوائی اڑی تھی کہ چند اکبری جانباز اس تاک میں ہیں کہ موقع پاکر خانزماں اور بہادر خاں کا کام تمام کردیںاس لیے علی قلی خاں کو آنے میں تائل ہوا۔ آخر یہ ٹھیری کہ بوسہ پیغام سے کام نہیںچلتا ۔ خانزماں او رمنعم خاں مل کر گفتگو کریں اور بات قرار پایا جائے۔ باوجود شہرت مذکور کے اس بات کو علی قلی خاں نے نہایت خوشی سے منظور کیا ۔ دونوں کی فوجیں دریائے جوسا کے کناروں پر آکر کھڑی ہوئیں۔ ادھر سے خانزماں ، شہر یار گل ۔سلطان محمد میر آب آہوئے حرم اپنے غلام کو لیکر کشتی میں سوارہوئے۔ ادھر سے منعم خاں خانخا ناں،مرزاغیاث الدین علی۔ بایزید بیگ ، میر خاں گلام ،سلطان محمد قبیق (کدہ) کے ساتھ کشتی میں بیٹھ کر چلے۔ سماں دیکھنے کے قابل تھا۔ فوج در فوج اور صف در صف ہزاروں آدمی تھے ۔ وارپار گنگا کے کناروں پر کھڑے تماشہ دیکھ رہے تھے۔ کہ دیکھیے کیا ہوتا ہے ۔مزا ہے جو پانی میں بجلیاں چمکتی نظرآئیں۔ غرض بیچ دریامیں ملاقات ہوئی۔ دل میںجوش سینہ صاف تھا ۔ خان زماں سامنے سے دیکھتے ہی کھڑے ہوگئے۔ ہنسے او ر ترکی میںکہا۔ کفت لیق سلام علیم ، جوں ہی کشی برابر آئی۔ بے باک دلاور کو وکر خاں خاناں کی کشتی میںآگئے۔ جھک کر گلے ملے۔ اور بیٹھے ۔ پہلے خدمت فروشیاں کیں۔ پھر رفیقوں کے ظلم و ستم ۔ بادشاہ کی بے پروائی۔ اپنی بے یاری و بے مددگاری پرروئے۔ خانخا ناں عمر میںبھی بڑے تھے۔ کچھ داد دیتے رہے ، کچھ سمجھاتے رہے۔ آخر یہ ٹھیری کہ ابراہیم خاں اذبک ہم سب کا بزرگ ہے ۔ اور خزانہ اور اجناس گراں بہا اور ہاتھی جو کہ ہر جگہ فساد کی جڑ ہیں۔ لیکر جائیں ۔ مال حرم میں جا کر عفو تقصیر کی دعا کرے ۔ اور تم میری طرف سے حضور میںیہ عرض کرو کہ اس رو سیاہ سے بہت گناہ ہوئے ہیں۔ منہ دکھانے کے قابل نہیں رہا۔ ہاں چند جانفشانی اور جاں نثاری کی خدمتیں بجا لا کر اس سیاہی کو دھولوں۔ اس وقت خود حاضر ہونگا۔ دوسرے دن منعم خاں چندا امرا کے ساتھ کشتی میںبیٹھ کر خان زماں کے خیموں میں گئے۔ اس نے آداب بزرگانہ کے ساتھ پیشوائی کی ۔ جشن شاہانہ کا ساما ن کیا۔ دھوم دھام سے مہمانداری کی۔ خواجہ غیاث الدین وہی پیغام لے کر دربار میں گیے ۔ وہاں سے خواجہ ۱؎ جہاں۔ کہ مہمات سلطنت انکے ہاتھوں پر طے ہوتے تھے ۔خانزماں کی تسلی خاطر کے لئے آئے۔ منعم خان نے کہا کہ اب کچھ بات نہیں رہی۔ خانزماں کے ڈیر ے پر چل کر گفتگو ہوجائے۔ خواجہ جہاں نے کہا کہ وہ بے باک ہے۔اور مزاج کا تیز ہے ۔ اور وہ پہلے بھی مجھ سے خوش نہیں، مبادا کوئی بات ایسی ہوجائے کہ پیچھے افسوس کرنا پڑے ۔ جب منعم خاں نے بہت اطمینان دیا تو کہا کہ اچھا اس سے کوئی آدمی یرغما میں لیلو۔ خانخا ناں نے یہی کہلا بھیجا ۔ وہ دل کا دریا تھا ۔ اس نے فورا ابراہیم خاں اذبک اپنے ماموں کو بھیج دیا۔ غرض منعم خان اور صدر جہاں خان زماں کے لشکر میںگئے۔ سب نشیب و فراز دیکھ کر بندوبست پختہ ہوئے۔ دوسرے دن جہاں کابھی ڈر نکل گیا ۔ پھر گئے اور ابراہیم خاں اذبک کے ڈیرے پربیٹھ کر باتیں ہوئیں۔ مجنون خاں قاقشاں وغیرہ سرداروں کوبھی خان زماں سے گلے ملوادیا خاں دماں کے دربار میںچلنے پر بہت گفتگوئیں ہوئیں۔ اس نے نہ مانا اور کہا کہ ابراہیم خاں ہم سب کا بزرگ ہے۔ اور ریش سفید ہے ۔ باہر ہے ۔ اندر والدہ جائے اور فی الحال خطا معاف ہوجائے پھر آبدیدہ ہوکر کہا کہ مجھ سے سخت گناہ اور کمال روسیاہی ظہور میںآئی ہے ۔ سامنے نہیں جاتا خدمت لائقہ بجا لاؤنگا ۔ اور سیاہی کو دھونگا ۔ جبھی حاضر دربار ہونگا۔ دوسرے دن یہ امر تمام اجناس گراں بہااور اچھے اچھے ہاتھی۔ جنمیں بال سندر اوراچپلہ وغیرہ بھی تھے لیکر دربار کوروانہ ہوئے۔ خانخاناں نے چادر کی جگہ تیغ وکفن ابراہیم خاں کے گلے میں ڈالا ۔ وہ سرننگا پاؤں ننگے طورہ چنگیز خانی کے بموجب بائیں طرف سے سامنے لا کر کھڑا کیا۔ اور دونوں ہاتھ اٹھا کر عرض کی خواہی بدار خواہی بکش رائے رائے تست ، خاں خاناں نے عفو تقصیر کی دعائیں کیں ، خواجہ جہان آمیںآمین کہتے گئے۔ اکبر نے کہا کہ خاں خاناں تمہاری خاطر عزیز ہے۔ ہم نے ان کے گناہ سے در گزر کی مگردیکھیے کہ یہ راہ عقیدت پرہتے ہیں یا نہیں۔ خاں خاناں نے دوبارہ عرض کی کہ انکی جاگیر کے باب میںکیا حکم ہے۔ فرمایا تقصیر یں معاف کر دیں تو جاگیریں کیا حقیقت ہیں۔ تمہاری خاطر سے وہ بھی بحال کیں۔شرط یہ ہے کہ جب تک لشکر اقبال ہمارا ان حدود میںہے ۔ خانزماں دریا پار رہے جب ہم دارلخلافہ میںپہنچیں۔ تو اسکے وکیل حاضر ہوکر ایوان اعلیٰ سے سندیں ترتیب کروالیں۔ اور انکے بموجب عمل کریں۔ خانخاناں شکر کے سجدے بجا لایا ۔ اور پھر کھڑے ہو کر کہا ، دوپشت کے قدیم الخدمت ہونہار جوانوں کی جانیں حضور کے عفو و کرم سے بچ گئیں یہ کام کرنے والے ہیں اور کام کرکے دکھا ئینگے ۔ حکم ہوا کہ ابراہیم خاں کے گلے سے تیغ و کفن اتاریں۔ بادشاہ حرام سرا میں گئے تو وہ عمر نوح سامنے آئی ۱؎ وہی خواجہ امینا دیکھو صفحہ نمبر ۷۲۲ جس کا سان فقط بیٹوں کی آس پر چلتا تھا۔ قدموں پر گر پڑی۔ ہزاروں دعائیں دیں۔ بیٹوں کی نااہلیاں بھی کہتی جاتی تھی۔ عفو قصور کی سفارشیں بھی کرتی جاتی تھے۔ روتی تھی اور دعائیں دیتی تھی اسکی حالت دیکھ کر اکبر کو رحم آیا جو کچھ دربار میں کہہ کر آیا تھا ۔ اور بہت دلا سا دیا ۔ خان زماں کو باہر سے خانخا ناں نے لکھا ۔ اند رسے ماں نے بیٹوں کو خوشخبری دی۔ اور لکھا کہ وہ پارہ اور صف شکن وغیرہ ہاتھی اور تحفے تحائف جلد روانہ کر دو۔ ان کی خاطر جمع ہوئی او رسب چیزیں بڑے تحمل کے ساتھ بھیجدیں۔ امرائے شاہی اور بہادر خاں کی لڑائی ادھر تومہم طے ہوئی۔ اب ادھر کا حال سنو۔ یہ تو تم سن چکے کہ بہادر اور سکندر خاں کو خانزماں نے اودھ کی طرف بھیج دیا تھا ۔ کہ ملک میںخرابی کر کے خاک اڑاو۔ بہادر نے جاتے ہی خیر آباد پر قبضہ کر لیا اور ملک میںپھیل گیا۔ یہ بھی دیکھ چکے کہ ادھر سے انکے روکنے کے لیے اکبرنے میر معز الملک وغیرہ امرا کو فوج دے کر بھیجا اب ذرا تماشا دیکھو۔ دربار میںتو یہ معاملے ہو رہیں ہیَ وہاں جب بادشاہی لشکر پاس پہنچا تو بہادر خاں جہاںتھا وہیں تھم گیا ۔ معز الملک کے پاس وکیل بھیجا ۔ حرم سرا میں ا سکی بہن کے پاس عورتیں بھیجیں اور یہ پیغام دیا کہ خانزماں کی منعم خاں کے ذریعے سے عرض و معروض ہورہی ہیَ ہمارے لئے تم درگاہ بادشاہی میںسفارش کرو۔ کہ خطائیں معاف ہوجائین ۔فی الحال ہاتھی وغیرہ جو کچھ ہیں کیل لے جائیگا۔ جب ہم خطاؤں سے پاک، اور تقصیریں معاف ہوجائینگی تو خود حاضر دربار ہونگے۔ معز الملک مصر غرور کا فرعون اور شداد بنا ہوا تھا۔ وہ کہتا تھا کہ جو میں ہوں سو ہے کون؟ آسمان پر چڑھ گیا اور کا نمک حرامو ! تم آب تیغ کے سواپاک نہیں ہو سکتے ۔ تمہار ے داغ کو میںآب شمشیر سے دھوؤنگا اتنے میں لشکر خاں میر بخشی (بادشاہ نے عسکر خاں خطاب دیا ۔ لوگوں نے استر خان بنا دیا ) اورراجہ ٹورڈرمل جا پہنچے کہ صلح یا جنگ جو کچھ مناسب سمجھیں فیصلہ کر دیں۔ بہادر خاںپھربادشاہی لشکر کے کنارے پرآیا ۔ معز الملک کو بلایا ۔ او ر سمجھایا کہ بھائی والدہ اور ابراہیم خاں کو درگاہ میںبھیجا چاہتے ہیں۔ بلکہ ابتک بھیجدیا ہوگا اور عفو تقصیر کی امید قوی ہے ۔ جب تک وہاں سے جواب نہ مل جائے۔ تب تک ہم بھی تلوار پر ہاتھ نہیںڈالتے ۔ تم بھی اس عرصے میں صبر کرو۔ معز الملک تو آگ تھے۔ روجہ رنجک پہنچے ۔ جوںجوں بہادر اور سکندر دھیمے ہوتے تھے ۔ یہ آگ بگولا ہوئے جاتے تھے ۔ اور سوا حرف سخت کے کچھ کہتے ہی نہ تھے ۔ وہ بھی آخر بہادر خاں تھے ۔ جب ناکام پھرے تو ناچار مرتا کیا و کرتا ، اپنے لشکر میں جاکر کام کی فکر میںلگے ۔ وقت ضرورت چو نماند گریز دست بگیرو سرشمشیر تیز نواح خیرآباد میںفوج تیار کر کے سامنے ہوئے۔ ادھر سے معز الملک بادشاہی لشکر کو لے کر بڑے گھمنڈ سے آگے بڑھے۔ بہادر خاں اگرچہ اس موقع پر بہت دل شکستہ اور پریشان تھا۔ مگر وہ سینے میں شیر کا دل اور ہاتھی کا کلیجہ لے کر پیدا ہوا تھا۔ فوج جما کر سامنے ہوا۔ دھاوا ادھر ادھر سے برابر ہوا اور دو نو لشکر اس صدمے سے ٹکرائے جیسے دو پہاڑوں نے ٹکرکھائی ۔میدان میںمحشر برپا ہوگیا۔ بادشاہی فوج نے سکندر کو ایسا ریلا کہ بھاگا۔ پشت پر ایک جھیل تھی۔ کود پھاند کر پار اتر گیا ۔ بہت ڈوبے ۔ بہت مارے گے۔ اور امرائے شاہی اپنی اپنی فوجوں کو لے کر سب انہیں کے پیچھے دوڑے ۔ سکندر تو بھاگا مگر بہادر خاں سد سکندر ہو کر کھڑا رہا۔ اس نے دیکھا کہ معز الملک تھوڑی سی فوج کے ساتھ سامنے ہے۔ باز کی طرجھپٹ کر گرا۔ معز الملک دبان کے بہاؤ تھے نہ کہ میدان کے میدان کے۔ بہادر نے پہلے ہی حملے میں الٹ کر پھینک دیا۔ شاہ بداغ خاںجمے تھے۔ انہیں گھوڑے نے پھینکا ۔ بیٹے نے زور کیا کہ اٹھا ئے۔ نہ ہوسکا۔ اپنی جان لے کر نکل گیا ۔باپ کو ازبکوں کے حوالے کر گیا۔ ٹوڈر مل اورلشکرخاں مدد کے لئے جار ہے تھے۔ شام تک الگ الگ لڑتے رہے۔ رات کو سیاہ چادر کے پردے میںوہ بھی سرک گئے۔ قنوج میںپہنچے ۔ اور بھاگے بھٹکے بھی آکر جمع ہوئے۔ بادشاہ کو عرضی لکھی اس میںحریفوں کے ظلم و ستم کو بڑی آب و تاب سے ادا کیا ۔ التجا یہ ہے کہ ایسے نمک حراموں کو قرار واقعی سزا دینی چاہیے۔ حق یہ ہے کہ معز الملک کی تلخ مزاجی اور کج اخلاقی ۔اور ٹورڈرمل کی سختیوں نے امرائے ہمراہی کو بہت جلا رکھا تھا۔ وہ بھی وقت پر جان بوجھکر پہلو دیگئے۔ ورنہ رسوائی کی نوبت یہاں تک نہ پہنچتی ۔ پرانے پرانے جانبازجن میں حسین حاں بھی شامل تھے۔ میدان سے ٹلنے والے نہ تھے ۔ مرنے اور ٹِنے والے تھے۔ دربار میں ابراہیم خاںتیغ و کفن اتار کر خلعت اور ہار پہن چکے تھے۔ علی قلی خاں کے وکیل بھی نقد و جنس ، تحفہ تحائف ۔ کوہ پارہ اور صف شکن روانہ دربار کر چکے تھے کہ یہ عرضی پہنچی ۔ بادشاہ نے کہا، خیر اب توہم خانخاناں کی خاطر سے خانزماں کے اور اسکے ساتھ اوروں کے گناہ بھی بخش چکے۔ معز الملک اورٹودرمل چپ چپاتے چلے آئے۔ اور نفاق پیشہ مدت تک آداب و کورنش سے محروم رہے ۔ لشکرخاں بخشی گری سے معزول خواجہ جہاں سے مہر کلاں کہ مہر مقدس کہلاتی تھی چھن گئی ۔ اور سفر حجاز کو رخصت کیا۔ کم بخت خانزماں پر نحوست کی چپل نے پھر جھپٹا مارا۔ بادشاہ ا س مہم سے فارغ ہو کر چنار گڈھ کا قلعہ دیکھنے گئے ( اسے قلعہ نہ سمجھنا ۔ جنگل کا جنگل بلکہ کوہستان ہے کہ فصیل کے حلقے میںگھرا ہوا ہے ) وہاں شکارکھیلے ۔ ہاتھی پکڑے ۔ اس میں دیر لگی ۔ ملک مذکور کئی برس سے خانزماں کی حکومت میںرہ چکا تھا ۔ یا تو بے انتظامی اس کی نہ دیکھ سکا۔ یا بادشاہی اہلکاروں کی بد عملی نہ برداشت کر سکا۔ غرض گنگا اتر کو جونپور ۔ غازی پور ہ وغیرہ کا انتظام شروع کر دیا اس ارادہ پر کچھ سکندر خاں اذبک نے اکسایا تھا۔ کچھ اس کے دل میںیہ آصف خاں کا معاملہ سن لو۔ ایک وقت تو وہ تھا کہ اس نے مجنون خاں کو خانزماں کی قید سے چھڑایا اور دو نوں فوج لے کر خانزماں کے مقا بل ہوگے ۔ جب اہل دربار کے لالچ نے اسے بھی میدان وفاداری سے دھکیل کر نکال دیا۔ل تو وہ جونا گڈھ میں جا بیٹھا ۔ اب جو خانزماں کی مہم سے بادشاہ کی خاطر جمع ہوئی تو مہدی قاسم خاں کو اس کی گوشمالی کے لئے بھیجا۔ حسین خاں وغیر ہ چند امرائے نامی کو حکم دیا ۔ کہ فوجیں لے کر اس کے ساتھ ہوان۔ آصف کو ہر گزاپنے سلیمان سے لڑنا منظور نہ تھا۔ درگاہ بادشاہی میںعفو تقصیر کی عرضی لکھی۔ مگر دعا قبول نہ ہوئی۔ ناچار خانزماں کو خط لکھا ۔ اور آپ بھی جلد جا پہنچا خانزماں کے زخم دل ابھی ہرے پرے تھے۔ جب ملا تو نہایت غرور اور بے پروائی سے ملا۔ آصف خاں دل میں پچتایا۔ کہ ہائے یہاں کیوں آیا ۔ ادھر سے جب مہدی خاں پہنچے ۔ تو میدان صاف دیکھ کر جو نا گڈو پر قبضہ کر لیا ۔ اور آصف خاں کو خانزماں کے ساتھ دیکھ کر پہلو بچا لیا۔ یہاں خانزماں آپ تو فرما آخر مان کر بیٹھے ۔ آصف خان کو کہا کہ پورب میں جا کر پٹھانوں سے لڑو بہاد رخاں کو اس کے ساتھ کیا۔ وزیر خان آصف کے بھائی کو اپنے پاس رکھا۔ گویا دونوں کو نظر بند کر لیا۔ اور نگاہ ان کی دولت پر ۔ وہ بھی مطلب تاڑ گئے تھے۔ دونوں بھائیوں نے اندر اندر پرچے دوڑا کر صلاح موافق کی۔ یہ ادھر سے بھاگا ۔ وہ ادھر سے ۔ کہ دونوں ملک کر مانک پور پر آجائیں۔ بہادر خاں آصف کے پیچھے دوڑا ۔ جونپور ا ور مانکپورکے بیچ میںسخت لڑائی ہوئی ۔ آخر آصف خان پکڑے گئے ۔ بہاد رخاں اسے ہاتھی کی عما ر ی میں ڈال کر روانہ ہوئے۔ ادھر وزیر خاں جونپور سے آتا تھا ۔ خبر سنتے ہی دوڑ ا۔ بہادر خاں کے آدمی تھورے تھے ۔ اور تھکے ہوئے تھے ۔ جو کچھ تھے لو ٹ میں لگے ہوئے تھے ۔ اس لئے حملے کو روک نہ سکا ۔ بھاگ نکلا اورلوگوں سے کہا کہ عماری میںآصف کا فیصلہ کردیں۔ وزیر خاں پیش دستی کر کے جا پہنچا ۔ اور بھائی کو نکال لے گیا ۔ پھر بھی آصف کی انگلیاں کٹیں اور ناک پر زخم آیا ۔ انجام یہ ہوا کہ پہلے وزیر خاں حاضر حضور ہوا۔ پھر آصف خاں کی خطا معاف ہوگئی۔ میر مرتضی شریفی میر سید شریف جر جانی کی اولاد میںتھے۔ ان کی تحقیقات و تصنیفات نے انہیںعلم کے دربار سے فخر نوع بشر ثانی عقل ہادی عشر کا خطاب دلوایا تھا ۔ یہ نہایت مقدس اور صاحب فضل و کمال تھے۔ ملا صاحب سال آئیندہ کے حال میںلکھتے ہیں۔ کہ دلی میں فو ت ہوئے۔ اور امیر خسرو علیہ الرحمتہ کے ہمسایہ میں دفن ہوئے۔ قاضیوں نے اور شیخ الاسلام نے حضور میں عرض کی کہ امیر خسرو ہندی اور سنی ۔ میر مرتضی ایرانی ہیں اور رافضیج ۔ کچھ شک نہیں کہ انہیں اس ہمسائے سے تکلیف ہوگی حکم دیا کہ وہاں سے نکال کر اور جگہ دفن کر دو ۔ سبحان اللہ ۔ زمانہ کا اور خیالات کا انقلاب دیکھو دعوی بھی ہوگا آخر ملک حضور کا مال ہے ۔ میں بھی حضور کا مال ہوں۔ قدیمی جاں نثار ہوں ۔ اور انتظام ہی کرتا ہوں۔ تباہ تونہیں کرتا ۔ یاروں نے بادشاہ کو پھر چمکا دیا ۔ کہ دیکھیے حضور کے حکم کو خاطر میںنہیں لاتا انہوںنے فورا اشرف خاں میر منشی کو بھیجا کہ جونپور میں جا کر انتظام کرلو۔ خانزماں کی بڑھیا ماں کو قلعہ میں لا کر قید کر دو۔یہاںمظفر خاں کو لشکر اور چھاؤنی کا انتظام سپر د کیا۔ آپ یلغار کر کے خانزماں کی طرف دوڑے اور سر سوار غازی پور میں جا پہنچے ۔ وہ اددھ کے کنارے پر تھا۔ اور بے فکر کاروبار میں مصروف تھا۔ دفعتہ بادشاہ کی آمد آمد کا غل سنا۔ خزانہ ومال کی کشتیاں بھری چھوڑیں اور آپ پہاڑوں میں گھس گیا۔ ادھر بہادر خاں اپنے بہادر دلاوروں کو جونپور پر لے کر آیا کمندیں ڈال کر قلعے میں کود گیا ۔ ماں کو نکالا۔ اور میر منشی صاحب کو مضمون کی طرح باندھا اور لے گیا ۔ وہ چاہتا تھا ۔ کہ لشکر بادشاہی پر گر کر مظفر کو ظفر کی گردن پڑھائے۔ مگر سنا کہ بادشاہ اودھ سے پھرے آتے تھے ۔ اس لئے پھر سکندر سمیت دریا پار اتر گیا ۔ خانزماں نے اپنے معتبر یعنی میرزا میرک رضوی کے ساتھ پھر خانخاناں کے پاس بھیجا۔ معافی کے دروازہ کی زنجیر ہلائی۔ اور عجز و نیار کے ہاتھوں سے قدم لئے۔ جو عرضی لکھی اس میںیہ شعر بھی تھا ؎ بدیں امید ہائے شاخ در شاخ کرم ہائے تومارا گرد گستاخ خانخاناں صلاح و اصلاح کے ٹھیکہ دار تھے۔ انہوں نے میر عبدالطیف قزوینی ۔ مخدوم ملک ۔ شیخ عبدا لنبی صدر کو بھی شامل کیا۔ سب کو ساتھ لے کر حضور میں حاضرہوا۔ انہوں نے حال عرض کیا۔ آخر قدیمی نمک پر وردہ اور خدمت گزار تھے ۔ اگلی پچھلی جاں نثاریوں نے شفاعت کی۔ اکبر نے کہا خطا معاف جاگیر بحال مگرحضور میںآکر حاضر رہیں۔ یہ حکم لے کر روانہ ہوئے۔ جبل لشکر کے پاس پہنچے ۔ تو خانزماں استقبال کو آیا ۔ بڑی تعظیم و تکریم سے لے گیا ۔ ضیافتیں کھلائیں۔ جواب میںعرض کیا کہ حضور بدولت و اقبال دارلخلافہ کو تشریف لیجائیں۔ دو تین منزل آگے بڑھ کر دونوں غلام حاضر حضور ہوتے ہیں۔ برسوں سے یہاںملک داری اور ملک گیری کر رہے ہیں۔ حساب کتاب کا فیصلہ کو دیں۔ بزرگان مذکور کو بڑے اعزاز و احترام سے رخصت کیا ۔ بہت سے تحائف دئے۔ انہوں نے پھر جاکر حضور میں عرض کی۔ یہ بھی قبول ہوئی اور عہدہ و پیمان کو قسموں کی زنجیروں سے مضبو ط کیا ۔ بادشاہ دارلخلافہ میں داخل ہوگئے۔ آذاد تدبیر کے بندے ضرور کہے گے کہ حاضر باشی دربار کا مورچہ بہت خوب ہاتھ آیا تھا ۔ سپاہی تھے اہلکار نہ تھے ۔ اس لئے چالل چوکے۔ یہ کہو کہ دور رہنے میں جو آزاد حکومت کا مزا پڑ گیا تھا۔ اس نے جونپور مانک پور سے الگ نہ ہونے دیا۔ ورنہ موقع یہ تھا کہ جس بادشاہ کے حکموں سے وہ انہیں خراب کر رہے تے ۔ اب یہ پہلو میںبیٹھتے اور اسکی تلوار سے حریفوں کے ناک کان کاٹتے ۔ چند ہی روز بعد یہ عالم ہوا کہ علمائے سینہ زور میںسے ایک نہ رہا۔ اکبری دربار کا رنگ ہی اور ہو گیا میر فتح اللہ شیرازی ، حکیم ابو الفتح ، حکیم ہمام وغیر ہ وغیرہ صد ہا ایرانی تھے۔ اورسلطنت کے کاروبار تھے۔ جو لوگ ایک زمانے میں دب کر نہایت سختی اٹھاتے ہیں۔ کچھ عرصے کے بعد زمانہ ضرور انہیں اٹھا کر بلند کر تا ہے ۔ اکبر یہاں اس جھگڑے میںتھا۔ جو خبر پہنچی کہ کابل میں فساد عظیم برپا ہوا۔ اور مرز احکیم فوج لے کر کابل سے پنجاب کی طر ف آتا ہے۔ سن کر بہت تردد ہوا۔ امرائے پنجاب اس کے سینے پر خاطر خواہ ٹکر مار کر ہٹا سکتے تھے۔ مگر اکبر کو بڑا خیال یہ تھا ۔ کہ اگر وہ ادھر سے بھاگا اور ہماری طرف سے مایوس ہوا تو ایسا نہ ہو کہ بخارا میں اذبک کے پاس چلا جائے۔ اس میں خاندان کی بدنامی بھی ہے ۔ اور یہ قباحت بھی ہے کہ اگر اذبک اسے ساتھ لیکر ادھر رخ کرے ۔ اور کہے کہ ہم فقط حقدار کو حق دلوانے آئے ہیں۔ قندھار کابل ۔ بدخشاں کالے لینا اسے سہل ہے۔ اس لے تمام امرائے پنجاب کو لکھا کہ کوئی حکیم مرزا کا مقابلہ نہ کرے۔ جہاں تک آئے آنے دو۔ مطلب یہ کہ شکار ایسے موقع پر آجائے۔ جہاں سے بآسانی ہاتھ آجائے ادھر خانزماں سے عفو تقصیرپر فیصلہ کر کے آگرہ کی طرف ہٹا ۔ حکیم مرزا کا حال دیکھو تتمہ کے حالات میں اور یہ بھی دیکھو کہ اس کی بغاوت نے کتنی دور جا کر گل کھلایا ہے ۔ خانزماں نے جب سنا کہ حکیم مرزا پنجاب پر آتا ہے ۔ تو بہت خوش ہوا۔ اس واقعہ کو اپنے حق میںتائید آسمانی سمجھا اور کہا ع خدا شرے بر انگیزو کہ خیر ما درال باشد جو نپور میں ا س کے نام کا خطبہ پڑھا اور عرضی لکھی ۔ جس کا خلاصہ یہ تھا کہ ۴۰ ہزار نمک خوار موروثی حضور کے حکم کا منتظر بیٹھا ہے ۔ آپ جلد تشریف لائیں۔ غزالی مشہدی خانزماں کے حضور میں ایک شاعر باکمال تھا اس نے سکہ کاسجع بھی کہہ دیا ؎ بسم اللہ الرحمن الرحیم وارث ملک است محمد حکیم اتنی بات پر صبر نہ کیا جہاں جہاں امرائے بادشاہی تھے۔ فوجیں بھیج کر انہیں گھیر لیا ۔ ابراہیم حسین مرزا وغیرہ کو لکھا کہ تم اٹھ کھڑے ہو۔ یہ وقت پھر نہ آئے گا ۔ اور خود فوج لے کر قنوج پرآیا۔ اکبر کا اقبال تو سکندر کے اقبال سے شرط باندھے ہوئے تھا۔ پنجاب اور کابل کی مہم کا فیصلہ اس آسانی سے ہوگیا کہ خیال میںبھی نہ تھا ۔ چندروز پنجاب میں شکار کھیلتا رہا ۔ ایک دن شکار گاہک میں وزیر خاں آصف خا ں کا بھائی آیا۔ اور بھائی کی طرف سے بہت عذر معذرت کی۔ اکبر نے اس کی خطا معاف کر کے پھر پنجہزاری کی خدمت دی۔ تیسری فوج کشی مہم کابل کی تحقیقات سے اکبر کو یقینل ہو گیا تھا ۔ کہ یہ منصوبہ خانزماں کا پورا پڑاتا تو تمام ہندوستان ایک آتشبازی کا میدان ہوجاتا۔ اس صورت میں واجب ہے کہ ان دونو ں بھائیوں کا پورا تدارک کیا جائے چنانچہ آصف خاں وزیر خاں کو حکم دیا کہ جاؤ اور کڑہ مانکپور کا ایسا کڑا انتظام رکھو کہ خانزماں اور بہادر خان جنبش نہ کر سکیں۔ ۱۲ رمضان ۹۷۴ ھ کو لاہور سے کوچ کیا۔ اور خود بھی جھٹ پٹ تلغار کر کے آگرہ پہنچا جنگ آزمودہ امیروں کو فوجوں کے ساتھ روانہ کیا۔ ہراولی حسین خاں کے نام پر ہوئی۔ اس کی سخاوت اسے سدا مفلس رکھتی تھی ۔ اب جو ستواس کا صدمہ اٹھا کر آیا تھا تو بہت شکستہ حال ہو رہاتھا ۔ معلوم ہوا کہ شمس آباد اپنے علاقے پر گیا ہوا ہے۔ اس لئے قباخاں گنگ ہراول ہوا۔ ۲۶ شوال کو آگرہ سے نکلا۔ سکیٹ مشرق آگرہ میں خبر لگی کی خانزماں نے قنوج سے ڈیرے اٹھائے اور رائے بریلی کو چلا جاتا ہے ۔ محمد قلی برلاس اور ٹورڈرمل کو ۶ ہزار فوج دیکر سکندر خاں اذبک کے روکنے کو بھیجا۔ او رآپ مانکپور کو مڑے اور چاروں طرف تیاری اور خبرداری کے فرمان بھیج دے۔ رائے بریلی میںپہنچ کر سنا کہ خانزماں نے سلطان مرزا کی اولاد سے سازش کر لی اور مالوہ کو جاتا ہے کہ ادھر کے علاقے فتح کرے اور کچھ نہ ہو تو شاہان دکن کی پناہ میںجا بیٹھے۔ علی قلی خاں کو یہ خیا ل تھا کہ جن جھگڑوں میں میں نے اکبر کو ڈالا ہے۔ ان کا برسوں میں فیصلہ ہوگا ۔ چنانچہ ایک قلعے پر کسی بادشاہی سردار کو گھیرے پڑ اتھا ۔ خبر پہنچی کہ اکبر آگرہ میںآن پہنچے ۔ اور تمہاری طرف کو نشان لشکر لہراتا چلا آتا ہے۔ ہنس کر یہ شعر پڑھا ؎ سمندر تند زریں لعل اور خورشید راماند کہ از مشرق بمغرب رفت ایک شب درمیاں ماند پھر بھی وہ ہمت کا پہاڑ اور تدبیر کا دریا تھا ۔ شیر گڈھ (قنوج) اسے مانک پور کو چلا کہ بہادر خاں بھی وہی تا۔ یہ کسی اور سردار کو گھیرے پرا تھا ۔ دونوں بھائی گنگا کے کنارے کنارے چل کر سنگروڑ (مانک پور اورآلہ آباد کے بیچ میںہے شاہ نواب گنج کہلاتا ہے ) کے پاس پل باندھ کر گنگا اتر گئے۔ اکبر نے جب یہ خبریں سنیں۔ تو یلغار کر کے چلا مگر رستے دو تھے۔ ایک عام شاہ راہ کہ طولانی تھا۔ دوسر ا نزدیک تھا ۔ مگربیج میںپانی نہ ملتاتھا ۔ لوگوں نے حال عرض کیا۔ اور شاہ کو شاہ راہ چلنے کی صلاح دی۔ بلند نظر بادشاہ نے کہا۔ کہ جو ہو۔ سو ہو۔ جلد پہنچنا چاہیے ۔ توکل بخدا ادھر ہی سے روانہ ہوا۔ اقبال کا زور دیکھو کہ رستے میں مینھ برسا ہوا تھا۔ جابجا تلاؤ کے تلاؤ بھرے ملے۔ اور فوج اس آرام سے گئی کہ آدمی یا جانور کسی کو تکلیف نہ ہوئی۔ غرض شب و روز مارا مارا چلاگیا ۔رات کا وقت تھا کہ گنگا کے کنارے پر پہنچا ۔ جس کے پار کڑھ مانک پور آباد ہے ۔ کشتی ناؤ کچھ نہ تھی ۔ سب کی صلاح یہی تھی کہ یہاں ٹھیر کر اور امرا کا انتظار کریں ، خاطر خواہ سامان سے آگے بڑھنا چاہیے کہ علی قلی خاں کا سامنا ہے ۔ مگر اکبر نے ایک نہ سنی ۔ بال سندر پر سوار تھا ۔ آپ آگے بڑھا اور دریا میں ہاتھی ڈال دیا۔ خدا کی قدرت کا زور ۔ گھاٹ بھی ایسا مل گیا ۔ کہ دریا پایاب تھا گنگا جیسا دریا اور ہاتھی کو کہیں تیرنا نہ پڑا۔ غرض بہت سے نامی اورجنگی ہاتھی ساتھ تھے اور فقط سو سواروں کے ساتھ پار ہوا۔ اور پچھلی رات چپ چاپ گنگا کے کنارے پر سو کر گذار دی۔ خانزماں کے لشکر میںبہت تھوڑا فاصلہ تھا ۔ کہ نواب گنج سے پر کر کڑہ کو دریا کے داہنے کنارے پر گنہ سنگروڑ میںآگیا تھا۔ صبح ہوئی ۔ تو علی قلی خان کی فوج کے سرپر تھا۔ اس وقت آصف خان بھی مسلح اور تیا رفوج لئے آن پہنچا ۔ مجنون خاں اور آصف خان و مبدم خانزماں اور اس کے لشکر کی خبریں اکبر کو پہنچا رہے تھے۔ اور حکم یہ تھا کہ پہر میں دو دفعہ قاصد بھیجو ۔ اور احتیاط رکھو کہ خانزماں کو خبر نہ و۔ ایسا نہ ہو کہ نکل جائے ۔ علی قلی خاں اور بہادر خاں کو بادشاہ کے اس طرح پہنچنے کا سامان گمان بھی نہ تھا ۔ یہاں تمام رات ناچ گانا تھا ۔ اور شراب عشرت کا دور تھا ۔ رنڈیا چھم چھم ناچتی ہیں اور کہتی ہیں۔ بشکن بشکن۔ مست مغل خماری آنکھیں کھولتے اور کہتے ہاں۔ بشکن بشکن کہ مبارک شگو نیست ، شکستیم دشمن راع زویم بر صف رنداں دہرچہ بادا باد غرض رات نے صبح کی کروٹ لی ستارہ نے آنکھ ماری۔ اور شفق خونی پیالہ بھر کر مشرق سے نمودار ہوئی۔ نور کے تڑکے ۔ بادشاہی فوج کاایک آدمی ان کے خیمے ک پیچھے جاکر بہ آواز بلند چلایا کہ مستو بیخبرو! کچھ خبر بھی ہے ، بادشاہ خود لشکر سمیت آن پہنچے اور دریا بھی اتر لئے ۔ اس وقت خانزماں کے کان کھڑے ہوئے۔ مگر جانا کہ آصف خاں کی چالاکی ہے ۔ مجنون خاں قاقشال کو پھونس پتا بھی نہ سمجھتا تھا۔ کچھ پروا نہ کی ۔ خبر دینے والا بھی کوئی بادشاہی ہو خواہ تھا۔ چونکہ فوج بادشاہی بہت کم تھی ۔ یعنی تین چار ہزار فوج مرا کی تھی ۔ پانسو سوار بادشاہ کے ہمراہ آئے تھے۔ پیچھے پانسو ہاتھی بھی آن پہنچے تھے۔ بہر حال اکثر سردار نہ چاہتے تھے کہ اس میدان میں تلوار چل جائے۔ اس شخص کا مطلب یہ تھا ۔ کہ بادشاہ کے آنے کی خبر سن کر خانزماں بھاگ جائے۔ غرض نور کا تڑکا تھا۔ کہ بادشاہی نقارہ پر چوٹ پڑی۔ یہ آواز سن کر اٹھ کھڑے ہوئے اور لشکر کا بندوبست کرنے لگے۔ ۹۷۴ھ نو بجے پیر کا دن۔ عید قربان کی پہلی تاریخ تھی۔ منکر وال ۱؎ (سنگر وال) علاقہ الہر آباد پر مقام تھا کہ میدان جنگ میںتلوار میان سے نکلی۔ ۱؎بلو ک مین صاحب کہتے ہیں سنکر حال کو اس فتح کے سبب سے اب فتح پور کہتے ہیں ایک چھوٹا سا گاؤں کرہ کے جنوب مشرق میں ہے ۔ ۱۰۔ ۱۱ میل پر اور دریا سے بہت دور نہیں۔ دونوں بھائی شیر ببر کی طرح آئے اور اپنے اپنے پرے جما کر پہاڑ کی طرح ڈٹ گئے ۔ قلب میںخان زمان قائم ہوا۔ ادھر سے اکبر نے ہاتھیوں کی صف باندھ کر فوج کے پرے باندھے۔ پہلے ہی بادشاہی فوج سے بابا خاں قاقشاں ہر اول کی فوج لے کر آگے بڑھا اور دشمن کی طرف سے جوہر اول اس کے سامنے آیا اسے ایسا دبا کر ریلا کہ وہ علی قلی خان کی فوج میں جا پڑا ۔ بہادر خاں دیکھ کر جھپٹا ۔ اور اس صدمے سے آکر گرا کہ بابا خاں کو اٹھا کر مجنو ن خان کی فوج پر دے مارا۔ اور باوجودیکہ اپنی فوج بے ترتیب ہو رہی تھی ۔ دونو کو الٹتا پلٹتا آگے بڑھا۔ دم کے دم میں صفوں کو تہ و بالا کر دیا ۔ ادھر ادھر چاروں طر ف لشکر میں قیامت برپا ہوئی۔ اور ساتھ ہی قلب کا رخ کیا۔ کہ اکبر امر ا کے غول میں وہیں موجود تھا۔ بڑے بڑے سردار اور بہادر جان نثار آگے تھے۔ انہوںنے سینہ سپر ہو کر سامنا روکا مگر کھلبلی پڑ گئی۔ بادشاہ بال سندر ہاتھی پر سوار تھے ۔ اور مرزا عزیز کو کہ خواصی میں بیٹھے تھے۔ ان کا خاندان گردو پیش جما ہوا تھا۔ اکبر نے دیکھا۔ کہ میدان کا رنگ بدلا نظر احتیاط ہاتھی سے کود کر گھوڑے پر سوار ہوا۔ اور بہادروں کو للکارا ۔اب دونوں بھائیوں نے پہچانا کہ ضرور بادشاہ اس لشکر میںہے ۔ کیونکہ سرداروں میں کوئی ایسا نہ تھا ۔ جو ا سکے سامنے اس طرح جم کر ٹھہرے ۔ اور بندوبست سے جابجا مدد پہنچائے۔ ساتھ ہی ہاتھیوں کا حلقہ نظر آیا ۔ اب انہوں نے مرنا دل میںٹھان لیا ۔ اور جہاں جہاں تھے وہیں قائم ہو گئے ۔ کیونکہ بادشاہ کا مقابلہ ایک غور طلب امر تھا ۔ اسے وہ بھی نہ چاہتے تھے۔ ان بدنصیبوں نے بھی خوب لاگ ڈانٹ سے لڑائی جاری کر رکھی تھی ۔ مگرنمک کی مار کا حربہ کچھ اور ہی ضرب رکھتا ہے۔ بہادر خاں کے گھوڑے کے سینے میں ایک تیر لگا کہ چراغ پار ہو کر گر پڑا او روہ پیادہ ہوگیا۔ بادشاہ کو ابھی تک اس کی خبر نہ ہوئی تھی ۔ سب کو بدحواس دیکھ کر خو د آگے بڑھا اور فوجداروں کو آواز دی کہ ہاتھیوں کی صف کو علی قلی خاں اپنی جگہ جما کھڑا تھا۔ بار بار بہا در خاں کا حال پوچھتا تھا ۔ او ر مدد بھیجتا تھا ۔ ابھی کچھ خبرنہ تھی کہ دونوں بھائیوں پر کیا گذری کہ اکبری بہادروں کو فتح کی رگ پھڑکتی معلوم ہوئی اور کامیابی کے آثار ظاہر ہونے لگے ۔ بات یہ ہوئی کہ ادھر سے پہلے ہیر انند ہاتھی علی قلی خاں کی فوج پر جھکا۔ ادھر سے مقابلے میں رودیانہ ہاتھی تھا ۔ ہیر انند نے قدم کاٹ کر اس طرح کلہ کی ٹکر ماری کی درویا نہ سینہ ٹیک کر بیٹھ گیا۔اتفاقا ایک تیر فضا کے تیر کی طرح علی قلی خاں کے لگا۔ دلاور بڑی بے پرواہی سے نکال رہاتھا کہ دوسرا تیر گھوڑے کے لگا ۔ اور ایسا بیڈھب لگا کہ ہر گز سنبھل نہ سکا۔ گرا اور سوار کو بھی لے کر گرا۔ ہمراہیوں نے دوسر ا گھوڑا سامنے کیا ۔ اتنے عرصے میں کہ وہ سوار ہو ایک بادشاہی ہاتھی باغیوں کو پامالل کرتا ہوا بلا کی طرح اس پر پہنچا ۔ خانزماں نے آوا ز دی ۔ فوجدار ہاتھی کو روکنا ۔ میںسپہ سالار ہوںزندہ حضور میں لیجا۔ بہت انعام پائے گا ۔ اس کم بخت نے نہ سنا ہاتھی کو ہو ل ہی دیا۔ افسوس وہ خانزماں جس کے گھوڑے کی جھپٹ سے فوجوں کے دھوئیں اڑتے تھے۔ اسے ہاتھی روند کر ہوا کی طرح اور طرف نکل گیا ۔ اور وہ خاک پر سسکتا رہ گیا۔ اللہ اللہ جس بہادر کو فتح و اقبال ہو اکے گھوڑوں پر چڑھاتے تھے ۔ جس عیش کے بندے کو ناز و نعمت مخملوں کے فرش پر لٹاتے تھے۔ وہ خاک پر پڑا دم توڑتا تھا۔ جوانی سرہانے کھڑی سر پیٹتی تھی۔ او دلاوری زار زار روتی تھی ۔ سارے ارادے اور حوصلے خواب و خیال ہوگئے تھے۔ ہاں خانزماں یہ یہاں کا معمولی قانون ہے ۔ تم نے ہزاروں کو خاک و خون میںلٹایا ۔ آؤ بھائی اب تمہاری باری ہے۔ اسی خاک پر تمہیں سونا ہوگا۔ سر لشکر کے مرتے ہی لشکر پریشان ہوگیا۔ فوج شاہی میں فتح کا نقارہ بج گیا۔ اکبر ادھر ادھر کمک دوڑاتا رہا تھا کہ اتنے میں نظر بہادر بہادر خاں کو اپنے آگے گھوڑے پرسوار کرکے لایا۔ اور حضور میںپیش کیا ۔ اکبر نے پوچھا ، بہادر چونی ، کچھ جواب نہ دیا ۔ اکبر نے پھر کہا ۔ اس نے کہا ۔ الحمد اللہ علی کل حال ۔بادشاہ کا دل بھر آیا بچپن کا عالم اور ساتھ کاکھیلنا یاد آیا ۔ پھر کہا بہادر مابشماچہ بد ی کر دہ بوویم کہ شمشیر برروئے ماکشیدید۔ وہ شرمندہ شرمسار سرجھکائے کھڑا تھا ۔ مارے خجالت کے کچھ جواب نہ دے سکا ۔ کہا تو یہ کہا کہ الحمد اللہ علی کلی خاں کہ ور آخر عمر دیدار حضرت بادشاہ کہ ماحی گناہاں است نصیب شد۔ آفرین ہے اکبر کے حوصلے کو گنہ بخش کا لفظ سنتے ہی آنکھیں نیچے کر لیں۔ اورکہا بحفاظت نگہدارید ۔ اس نے پانی مانگا ۔ اپنی چھا گل میںسے پانی دیا۔ اس وقت تک کچھ خبر نہ ہوئی تھی کہ علی قلی خان کا کیا حال ہوا۔ دولت خواہوں نے سمجھا کہ ایسے شیر بھائی کا قید ہونا علی قلی خاں نہ دیکھ سکیگا ۔ قیامت برپا کر یگا ۔ اپنی جان پر کھیلے گا ۔مگر اسے چھڑالے جائے گا ۔ اس لئے کوئی کہتا ہے بے اطلاع۔ کوئی کہتا ہے اکبرکے اشارے سے شہباز خاں کمبو نے بے نظیر بہادر کا نقش صفحہ ہستی سے مٹا دیا ۔ مگر ملا صاحب کہتے ہیں، کہ شہنشاہ اس کے قتل پر راضی نہ تھے۔ بادشاہ میدان میںکھڑے تھے ۔ نمک حرام پکڑے آتے تھے۔ اور مارے جاتے تھے ۔ بادشاہ کو بڑا خیال خانزماں کاتھا ۔ جوآتا اس سے پوچھتے تھے۔ اتنے میںبابو فوجدار ۱؎ پکڑ آیا ۔ اس نے عرج کی کہ میں دیکھتا تھا۔ حضور کے ایکدنت ہاتھی نے اسے مارا ہے ہاتھی اور مہاوت کے پتے بھی بتائے بہت سے ہاتھی دکھائے ۔ چنانچہ اس نے نین سکھ ہاتھی کو پہنچانا اور حقیقت میں اس کے ایک دانت تھا۔ اکبر ابتک شبہ ہی میںتھا۔ کہ جو نمک حراموں کے سر کاٹ کر لائے۔ انعام پائے ۔ ولایتی کے سر کے لئے اشرفی ۔ ہندوستانی کے سر کے لئے روپیہ ۔ ہائے کمبخت ہندوستانیو ! تمہارے سرکٹ بھی سستے ہی رہے ۔ لشکر کے لوگ بے سرو پا اٹھ دوڑے ۔ ۱؎؎فوجداری خلیبان کو کہتے ہیں گوویں بھر بھر کر سر لاتے تھے ۔ اور منھیاں بھر بھر کر روپے اشرفیاں لیتے تھے ۔ ہر سر کو دیکھتے تھے ۔ دکھاتے تھے۔ اورپہچانتے تھے۔ افسوس انہی سروں میں سے خانزماں کا سر بھی ملا کہ اوبار کا سر ہوگیا۔ سبحان اللہ ۔ جس سر سے فتح کا نشان جد انہ ہوتا تھا ۔ جس سے اقبال کا خود اترتا نہ تھا ۔ جس چہرے کو کامیابیوں کی سرخی شگفتہ رکھتی تھی۔ اس پر خوں نے سیاہ دھاریاں کھینچی تھیں۔ نحوست نے خاک ڈالی تھی ۔ کون پہچانے ، سب کو تردد تھا۔ ارزانی مل اس کا خاص اور معتبر دیوان بھی قیدیوں میں حاضر تھا۔ بلایا اور دکھا کر پوچھا ۔ اس نے سر کو اٹھا لیا۔ اپنے سر پر دے مارا اور ڈاڑھیں مار مار کر رونے لگا۔ خواجہ دولت کہ پہلے اس کے حرم سرا کا خواجہ سرا تھا ۔ وہاں سے آکر حضور میںملازم او رپھر دولت خان ہوگیا تھا ۔ اس نے دیکھا اور کہا مرنے والے کو عادت تھی کہ ہمیشہ پان بائین طرف سے کھایا کرتا تھا ۔ اسی لئے ادھر کے دانت رنگین ہوگئے تھے ۔ دیکھا تو ایسا ہی تھا۔ اس بدنصیب پر وہاں یہ گذری تھی کہ نین سکھ تو روند کر چلا گیا۔ وہ نیم جاں پڑ ادم توڑتا تھا۔ کوئی گمنام چھاؤنی کا چکر یا وہاں جانکلا۔ او رمغل کو سسکتے دیکھ کر سر کاٹ لیا۔ اتنے میں ایک بادشاہی چیلا پہنچا۔ اس نے ا س سے چھین لیا۔ اور دھکے دیکر دھتکا ر دیا۔ آپ آکر اشرفی انعام لے لی ۔ ہائے زمانے کی گردش دیکھتے ہو، یہ اسی سیستانی رستم ثانی کا سر ہے ۔ اس پر کتے لڑ رہے ہیں الی کتوں کا شکار نہ کروائے۔ شکار بھی کروائے تو شیرہی کا کروائے ۔ نہیںنہیں تیرے ہاں کیا کمی ہے ۔ شیر کا پنجہ قدرت دیجو۔ اور دنیا کے کتوں پر شیر رکھیو۔ جب اکبر کو یقین ہو اکہ خانزماں کا بھی کام تمام ہوا۔تو گھوڑے سے اتر کا خاک پر پیشانی کورکھ دیا ۔ اور سجدہ شکر بجا لایا۔ تمام اہل تاریخ اس مہم کے خاتمے پر عبارتوں کا زور دکھا تے ہیں۔ اور کہتے ہیں ۔ یہ فتح کارنامہائے جہاں ستانی سے تھی ۔ کہ فقط تائید حضرت زوالجلال۔ک اور تقویت دولت و اقبال سے ظہور میںآئی وغیرہ وغیرہ۔ اگرچہ گرمی بشدت تھی ۔ مگر اسی دن بادشاہ الہ آباد میں چلے آئے۔ خانزماں ، بل بے تری ہیبت اور واہ رے تیرا دبدبہ ، مرد ہو تو ایسا ہو۔ آزاد کو تیرے مرنے کا افسوس نہیں، مرتا تو ایک دن سب کو ہے ۔ ہاں اس بات کا افسوس ہے کہ خاتمہ اچھا نہ ہو۔ تو اس سے بھی زیادہ تباہی و بدحالی سے مرتا ۔ تیری لاش اس سے بھی سو اخراب و خوارہوتی مگر آقا کی جاں نثاری میںہوتی تو آب زر سے لکھی جاتی ۔ خدا حاسدوں کا منہ کالا کرے جنہوں نے دونون بھائیو نکی سنہری سرخرونی کو روسیاہی کردیا۔ آزاد بھی ایسے ہی بے لیاقت بد اصالت حاسدوں کے ہاتھ سے داغ داغ بیٹھا ہے ۔ پھر بھی شکر ہے کہ روسیاہی سے محفوظ ہے اور خدا محفوظ رکھے۔یہ نااہل خود کچھ نہیں کر سکتے ۔ اوروں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر لاتے ہیں اور مورچے باندھتے ہیں۔ موقع پاتے ہیں تو افسروں سے لڑاتے ہیں۔ خیر آزاد بھی پروا نہیں کرتا اپنے تئیں خدا کے اور انہیں زمانے کے حوالے کر دیتا ہے ۔ ان کے اعمال ہی ان سے سمجھ لیتے ہیں ؎ تو بندکنندہ خود را بروزگار گذار کہ روزگار ترا چاکر پست کینہ گذار اتفاق خواجہ نظام الدین بخشی نے طبقات اکبری میںلکھا ہے کہ میں ان دنوں آگرہ میں تھا۔ ادھر تو مقابلے ہورہے تھے ۔ ادھر لوگ رات دن نئی نئی ہوائیاں اڑا رہے تھے ۔ اورپوستیوں افیمیوں کا تو کام یہ ہے۔ ایک دن دو چار دوست بیٹھے ہوئے تھے۔ جی میںآیا کہ لاؤ ہم بھی ایک پھلجھڑی چھوڑیں مضمون یہ تراشا کہ خانزماں او ربہادر خان مارے گئے ۔ بادشاہ نے ان کے سر کٹواکر بھیجے ہیں۔ دارلخلافہ کو چلے آتے ہیں۔ چند شخصوں سے ذکر کیا۔ شہر میں یہی چرچا فورا پھیل ہوگیا۔ خدا کی قدرت کہ تیسرے دن ان کے سر آگرہ میںپہنچ گئے۔ اور وہاں سے دلی اور لاہور ہوتے ہوئے کابل پہنچے ملا صاحب لکھتے ہیںکہ میں بھی اس تجویز میں شامل تھا ؎ بسا فالے کہ ازبا یچہ برخاست چو اختر در گذشت آں فال شد است جن کو ان سے فائدے تھے انہوں نے پردرد اور غمناک تاریخیں کیں ؎ چوں خان جہاں ازیںجہاں رفت بباد بنیاد فلک سر سرا ز پافتاد تاریخ وفانش از خرد جستم گفت فریاد زدست فلک بے بنیاد دوسری طرف والوں نے کہا۔ فتح اکبر مبارک۔ ایک تاریخ کا مصرع ہے ع قتل دو نمک حرام بے دیں اور اس میں ایک کی کمی ہے قاسم ارسلان نے کہی تھی ۔ لفظ اور اخیر کو دیکھنا ۔ وہی مذہب کا اشارہ ہے آزاد کہتا ہے کہ شیعہ بیر م خاں بھی تھے ۔ ان کے لئے ہر شاعر اور ہر مورخ نے سوا تعریف کے زبان نہیں ہلائی۔ یہ انعام ہے اسی بد زبانی کا کہ غیر مذہب کے لئے جو منہ میں آتا تھا کہہ اٹھتے تھے۔ ایک شخص سے محبت رکھنی کچھ اور شے ہے اور بدکلامی اور بے تہذیبی کچھ اور شے ہے ۔ اچھا جیسا تم نے کہا تھا ویسا سن لو استاد مرحوم نے کیا خواب کہا ہے ؎ بد نہ بولے زیر گردوں گر کوئی میری سنے ہے یہ گنبد کی صدا جیسی کہے ویسی سنے برج علی بچارا ۔ اس طرھ سے کیوں گرا۔ اسی بنیاد پر اپنے سر پر آسمان کیوں ٹوٹا ۔ اسی بنیاد پر ۔ خیر آزاد کو ان جھگڑوں سے کیا غرض ہے بات میںبات نکل آئی تھی کہہ دی ؎ اگر دریافتی بردانشت بوس دگر غافل شدی افسوس افسوس بے لاگ تاریخ تو یہ ہوئی ہے۔ کہ دوخون شدہ۔ مگر اس کی بنیاد یہ ہوئی کہ پانچ برس پہلے جب اتکہ خاں کو اوہم خاں نے مارا۔ اور ماراگیا ۔ تو کہنے والوںنے کہا تھا کہ دونوں شد ب یہ دونوں مارے گئے ھ۔ ۵ ملا صاحب نے کہا ۔ دونوں شدہ۔ خانزماں سخی تھا ۔ عالی ہمت تھا ۔ اور امیرانہ مزاج رکھتا تھا۔ فکر کا تیز اور مزاج کا ذکی تھا علما و شعرا اور اہل کمال کا بڑا قدر دان تھا۔ شہر زمانیہ اسی کا آباد کیا ہو اشہر ہے۔ اور ریلوے کا سٹیشن بھی ہے ۔ ۶ کوس غازی پوری سے ہے۔ غزالی مشہدی اپنی بداعمالی و بداطواری کے سبب سے وطن کو بھاگ گیا۔ اورپھر کر دکن میںآیا ۔ وہاں تنگ تھا۔ خانزماں نے ہزار روپیہ خرچ بھیجا اور بلا بھیجا ۔ ساتھ اس کے رباعی لکھی۔ دیکھنا ہزار کا اشارہ کس خوبصورتی سے کیا ہے ؎ اے غزالی بحق شاہ نجف کہ سوئے بندگان بیچوں آئی چونکہ بے قدر بودہ آنجا سر خود راہگیر و بیروں آئی الفتی یزدی کہ شاعر تھا اور علم ریاضی میں صاحب کمال تھا۔ خانزماں کے پاس نہایت خوشحالی کے ساتھ رہتا تھا۔ وہ آپ بھی شعر کہتا تھا کہ عاشق مزاجی کا مصالح ہے۔ سلطان تخلص کرتاتھا اور شعرو شاعری کے جلسے رکتھا تھا۔ جب خانزماں نے غزل کہی جس کا مطلع ذیل میںلکھا جاتا ہے تو ادھر کے اضلاع میںبہت شاعروں نے اس پر غزلیں کہیں؎ خان زمان کسی اور صاحب طبع نے کہا وہ صاحب فرماتے ہیںکہ میںنے بھی کہا باریک چو موئیست میانے کہ تو واری گفتم کہ گمانیست دہانے کہ تو واری سر چشمہ خضر است دہانے کے تو واری گویا سر آں موست دہانے کہ تو داری گفتا کہ یقین است گمانے کہ تو داری ماہی ست دراں چشمہ زبانے کہ تو واری ملا صاحب کو طرز قدما پسند ہے اس لئے اس زمانے کی شاعری پر طنز کر کے کہتے ہیں ایسی شاعری جس کا زمانہ جاہلیت میں رواج تھا اور اب غنیمت معلوم ہوتی ہے ۔ ان دنوں میںاس سے تو بہ نصوح کرنی اچھی ہے خانزماں کے چند شعر لکھ کر اس کا مذاق طبع دکھاتا ہوں۔ لہ فغان و نالہ بسان جرس مکن اے دل دلہ صبا بحضرت جاناں بآں زماں کو تودانی دلہ دلبر ے دارم کہ رویش چوں گل و موسنبل است دلہ جانا نہ بود مثل تو جان نہ دیگر اے مغچہ از دست تو پیمانہ نہ نوشم زجور یار شکایت بکس مک اے دل نیاز مندی من عرض کن چناں کہ تودانی سنبل پر چین اور افتادہ برروئے گل است مانند من دل شدہ دیوانہ دیگر مامست الستیم ز پیمانہ دیگر شعراء عصر کے سلسلے میںجو ملا صاحب نے سلطان سبکلی کا حال لکھا ہے اس میںلکھتے ہیںکہ قندھار کے علاقہ مین سبکل ایک گاؤں ہے ۔ سلطان وہاں کا رہنے والا ہے ۔ لوگ اسے چھپکلی کہتے تھے۔ وہ شرماتا تھا اور کہتا تھا کہ کیاکروں لوگوں نے کیسا کثیف اور مردار نام رکھ دیا ہے خانزماں کا تخلص بھی سلطان تھا اس نے سبکلی کو خلعت گراں بہا کے ساتھ ہزار روپیہ بھیجا اور کہا کہ ملا یہ تخلص ہماری خاطر سے چھوڑ دو ۔ اس نے وہ ہدیہ پھیر دیا اور کہا کہ واہ میرے باپ نے سلطان محمد میرانام رکھا ہے ۔ میں اس تخلص کو کیونکر چھوڑ سکتا ہوں۔ میںتم سے برسوں پہلے اس تخلص سے شعر کہتا رہا اور شہرت تمام حاصل کی ہے ۔خانزماں نے بلا کر سمجھایا ۔ آخر کہا کہ نہیںچھوڑتے تو ہاتھی کے پاؤں میںکچھواتا ہوں اور غصہ ہوکر ہاتھی بھی منگا لیا اس نے کہا زہے سعادت کہ شہادت نصیب ہو جب خانزماں نے بہت دھمکایا تو مولینا علاؤ الدین لاری خان زماں کے استاد موجود تھے انہوں نے کہا کہ مولینا جامی کی ایک غزل دوا گرفی البدیہہ جواب کہدے تو معاف کر دو اور نہ کہہ سکے تو تمہیں اختیار ہے دیوان موجود تھا۔ یہ مطلع نکلا؎ دل خطت را رقم صنع الہی دارنست بر سر سا دہ رخاں حجت شاہی دانست محمد سلطان نے اسی وقت غزل لکھی اس کا مطلع ہے ۔ ہر کہ دل را صدف سر الہی دانست قیمت گوہر خود را بکماہی دانست باوجویکہ کچھ بھی نہیں ۔ پھر خانزماں بہت خوش ہوا تحسین و آفرین کی اور اس سے چند رو چند زیادہ انعام دے کر اعزاز سے رخصت کیا ۔ پھر سلطان وہاں نہ رہ سکا ۔ خانزماں سے رخصت بھی ہو ا اور نکل گیا ملا صاحب کہتے ہیں۔ حق یہ ہے کہ بے مروتی اسی کی تھی ۔ خانزماں جیسا امیر اس انسانیت کے ساتھ تخلص مانگے اوروہ ایسے بزرگوں سے قیل وقال کرے مناسب نہ تھا۔ آزاد ملا صاحب سے دونوں بھائیوں سے خفا بھی ہیں۔ تاریخ قتل میںنمک حرام بھی کہا۔ بے دین بھی کہا۔ پھر بھی جہاں خانزماں اور بہادر خاں کا ذکر آیا ہے ان کے کارنامے بیان کرتے ہیں اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ لکھتے ہیں اور باغ باغ ہوتے ہیں۔ اور جہاں بغاوت کا ذکر کیا ہے وہاں بھی حاسدوں کی فتنہ پروازی کااشارہ ضرور کیا ہے ۔ اس کا سبب کیا ہے ان کے اوصاف ذاتی ، نیکی فیض رسانی ، کما ل کی قدر دانی ، دلاوری ، شمشیر زنی میں نے خوب دیکھا وصف اصلی میں ایک پر زور تاثیر ہے ۔ خواہ اپنا ہو خواہ بیگانہ ۔ اپنے حق کو اس کے منہ سے اس طرح کھینچ کر نکالتی ہے جیسے سنار جنتری میں سے تار نکالتا ہے ۔ بہادر خاں بھی موزوں طبیعت تھا ۔ ملا آصفی کی زمین میں اسکی غزل کا مطلع ہے ؎ آصفی برما شب غم کار بے تنگ گرفتہ کو صبح کہ آئینہ مازنگ گرفتہ بہادر آں شوخ جفا پیشہ بکف سنگ گرفتہ گویا بمن خستہ رہ جنگ۱؎گرفتہ بہ نشستہ مہ من بہ سر سند خوبی شا ہے کہ جابر سر اورنگ گرفتہ از نالہ دے بس نکند بے تو بہادر زینساں کہ نے زعم ز تو در جنگ گرفتہ یہ لکھ کر ملا صاحب فرماتے ہیں۔ ان کا اتنا ہی بہت سے کلام الملوک ملوک الکلام ۔ اس کا اصلی نام محمد سعید خاں تھا ۔ ہمایوں کے عہد میںبیرم خاں کی مصلحت سے زمینداور کا حاکم رہا۔ اکبری عہد میں خطا معاف ہوئی بیرم خاں کا دور تھا ملتان کا حاکم ہوگیا ۔ ۲ جلوس میںمانکوٹ کی مہم میںبلایا گیا ۔ نام کی بہادری کو کام کی بہادری سے ثابت کیا ۔ پھرملتان گیا اور بلوچوں کی مہم ماری ۔ ۳ جلوس میںمالوہ کی مہم پر گیا ۔ بیرم خاں کی مہم میں اہل دربار نے اسے لیا اور وکیل مطلق کر دیا ۔ چند ہی روز کے بعد اتا وہ کا حاکم کرکے بھیجدیا جس پھرتی کے ساتھ اس نے اپنے بھائی کے کارناموں میں حصہ لیا اس کا تماشا ابھی دیکھ چکے ۔ اخیر وقت کا حال بھی دیکھ لیا کہ شہباز خاں کمبوکی کی بے دردی سے کبوتر کی طرح شکار ہوگیا۔ اٹاوہ میںتھے جب ولی بیگ ذوالقدر کا سر بادشاہی قورچی لیکر پہنچا۔ انہوں نے اسے مروا ڈالا۔ خیر خواہوں نے اس خیال سے کہ مبادا بادشاہ کے دل پر ملال آئے انہیں دیوانہ بنا دیا ۔ اور اس بہانہ سے بلا ٹل گئی ۱؎ جنگی آدمی تھا شعر میں بھی جنگ ہے۔ منعم خان خان خانان اس نامور سپہ سالار اور پنج ہزاری امیر کا سلسلہ کسی خاندان امارت سے نہیں ملتا ۔ لیکن یہ بات اس سے بھی زیادہ فخر کی ہے۔ کیونکہ وہ اپنی ذات سے خاندان امارت کا بانی اور امرائے اکبر ی میں وہ رتبہ پیدا کیا کہ ۹۷۸ ھ میں جو عبداللہ خاں ازبک فرمانروائے ترکستان کی طرف سے سفارت آئی۔ اس میں خاص منعم خاں کے نام سے علیحدہ تحائف کی فہرست تھی ۔ وہ قوم کا ترک اور اسکا اصلی نام منعم بیگ تھا۔ بزرگوں کا حال فقط اتنا معلوم ہے کہ باپ کا نام بیرم بیگ تھا۔ ہمایو ں کی خدمت سے منعم خاں ہو کر ان کا اور فضیل بیگ ان کے بھائی کانام بھی سلسلہ تاریخ میںمسلسل ہوا۔ مگر ابتدائی حال میںفقط اتنا ہی معلوم ہوتا ہے ۔ کہ کوئی عمدہ نوکر ہے۔ اور جو حکم آقا دیتا ہے۔ اسے پورا کرتا ہے شیر شاہی معرکوں میںساتھ تھا ۔ تباہی کی حالت میںشریک حال تھا ۔ وہ مصیبت کا سفر جو سندھ سے جودھ پور تک ہوا۔ اس میں اور اس کی واپسی میں شامل ادبار تھا جب اکبرتخت نشین ہوا تو منعم خاں کی عمر ۵۰ سال سے زیادہ تھی ۔ اس عرصے میں جو اس نے ترقی نہ کی اس کاسبب یہ معلوم ہوتا ہے ، کہ وہ سنجیدہ مزاج دور اندیش احتیاط کا پابند تھا ۔ اور آگے بڑھنے میںہمیشہ حکم کا محتاج تھا۔ سلاطین سلف کے زمانے ملک گیری ۔ شمشیر زنی اور ہمت کے عہد تھے۔ ان میں وہی شخص ترقی کر سکتا تھا۔ جو ہمت حوصلہ اور دلاوری رکھتا ہو۔ اور اسکی سخاوت رفیقوں کا مجمع اس کے گرد رکھتی ہو۔ ہر کام میںبڑھ کر قدم رکھے اور آگ نکل کر تلوار مارے ۔ وہ بھی ان اوصاف کا استعمال خوب جانتا تھا ۔ مگر جو کچھ کرتا تھا۔ اپنی جیب سے پوچھ کر اور اعتدال سے اجازت لیکر کرتاتھا ۔ اکثر باتوں سے معلوم ہوتا ہے ۔ کہ عزت کو بہت عزیر رکھتا تھا۔ وہاں قدم نہ رکھتا تھا۔ جہاں سے اٹھانا پڑے کسی کے تنزل میںترقی نہ چاہتاتھا ۔ اور تنازع کے مقام میںنہ ٹھیرتا تھا۔ وہاں قدم نہ رکھتا تھا۔ جہاں سے اٹھانا پڑے ۔ کسی کے تنزل میںترقی نہ چاہتا تھا۔ اور تنازع کے مقام میں نہ ٹھیرتا تھا۔ یاد کرو جب بد گویوں کی چغلخوری سے ہمایوں کابل سے یلغار کر کے قندھار پرگئے۔ تو بیرم خاں نے خو د چاہا۔ کہ منعم خاں کو اس کی جگہ قندھار میں چھوڑیں لیکن جس طرح ہمایوں نے نہ مانا ۔ اسی طرح منعم خان نے بھی منظور نہ کیا۔ کسی کے وقت میںرفاقت کرنی بڑے مردوں کا کام ہے جبکہ ہمایوں سندھ میں شاہ حسین ارغون کے ساتھ لڑ رہا تھا ۔ اور لشکر ادبار اور فوج بدنصیبی کے سوا کوئی اس کا ساتھ نہ دیتا تھا ۔ افسوس اس وقت منعم خاںنے بھی ایک بدنامی کا داغ پیشانی پر اٹھایا ۔ لشکر کے لوگ بھاگ بھاگ کر جانے لگے ۔ خبرلگی۔ کہ منعم خاں کا بھائی یقینا اور منعم خاںبھی بھاگئے پر تیار ہیں۔ ہمایوں نے قید کر لیا ۔افسوس کہ یہ شک بہت علد یقین بن گیا ۔ اور منعم خاںبھی بھاگ گئے ۔ اس عرصے میںبیرم خاں آن پہنچے ۔ بادشاہ کو ایران لے گئے ادھر سے پھرے ۔ توافغانستان میں یہ بھی پھر آن ملے۔ خیر صبح کو بھولا شام کو گھر آئے تو وہ بھولا نہیں کہلاتا ۔ یہ علو حوصلہ اس کا قال تعریف ہے کہ چغل خوروں کی بدگوئی نے ہمایوں کو بدگمان کیا۔ اس نے چاہا کہ قندھار بیرم کاں سے لے کر منعم خاں کے سپر کر دیں۔ منعم خاں نے خود انکار کیا او رکہا کہ ہندوستان کی مہم سامنے ہے۔ اس وقت حکالم اور احکام کا الٹ پلٹ کر نامناسب مصلحت نہیں ہے۔ ۹۶۱ میں ہمایوں افغانستان کا بندوبست کر رہاتھا ۔ بیرم خاں قندھار کا حاکم تھا ۔ اکبر کی عمر دس گیارہ برس کی تھی ۔ ہمایوں نے منعم خان کو اکبر کا اتالیق مقرر کیا ۔ اس نے شکرئیے میں جشن شاہانہ ترتیب دیا۔ معہ ہل دربار بادشاہ کی ضیافت کی اور پیش کش ہائے شائیستہ نذر گذارے ۔ جیسی اس قوت بادشاہی تھی ویسا ہی جشن شاہانہ ہو گا ویسے ہی پیش کش ہونگے ۔ اسی سنہ میں ہمایوں ہندوستان پر فوج لیکر چلا۔ محمد حکیم مرزا ایک برس کا بچہ تھا ۔ اس ستارہ کو ماہ جو جک بیگم ا سکی ماں کے دامن میںلٹا کر کابل کی حکومت اس کے نام کی بیگمات کوبھی یہیں چھوڑا۔ اور کل کاروبار کا انتظام منعم خاں کے سپر دکیا۔ جب اکبر تخت نشین ہوا۔ تو شاہ الوالمعالی کابھائی میر ہاشم ادھر تھا ۔ کھمرو ۔ ضحاک ۔ غور بند اسکی جاگیر تھے۔ یہاں شاہ نے بد نیتی کے آثار دکھلائے۔ اس باتدبیر سردار نے وہاںمیر ہاشم کو لطائف الجبل سے بلا کر قید کر لیا ۔ ادھر بادشاہ خوش ہوگئے۔ ادھر اپنے پہلو سے کانٹا نکل گیا ۔ تمام افغانستان تھا اور یہ تھے حکومت کے نقار سے بجاتے پھرتے تھے۔ جب ہمایوں ہندوستان کو چلا تھا ۔ تو بدخشاں کا ملک مرزا سلیمان کو دے آیا تھا ۔ اور ابراہیم مرزا اس کے بیٹے سے بخشی بیگم اپنی بیٹی کی شادی کر دی تھی جب یہاں ہمایوں مر گیا ۔ تو مرزا سلیمان اور اس کی بیگم کی نیت بگڑی بیگم ہمایوں کے پر سے کا بہانہ کر کے کابل میں آئی وہ نام کو حرم بیگم تھی ۔ لیکن اپنے طنطنے سے سلیمان بلکہ سارے خاندان کو جو رو بناکر ولی نعمت بیگم کا لقب پیدا کیا تھا ۔ ہندوستان میں جو کچھ ہو رہا تھا۔ وہ سنا ۔ کابل میںدیکھا کہ منعم خاں ہیں یا بیگمات ہیںتب حالات معلوم کر کے گئی پھر ادھر سے مرزا سلیمان فوج لے کر آئے۔ مرزا ابراہیم اپنے بیٹھ کے ساتھ لائے کہ اس سے ہمایوں کی بیٹی منسوب تھی غرض مرزا نے آکر کابل کو گھیر لیا منعم خاں نے آمد آمد کی خبر سنتے ہی اکبر کو عرضی کی اور خندق فصیل کی مرمت کر کے قلعہ بند ہو بیٹھا ۔ مقتضائے احتیاط لڑائی میدان میںڈالی۔ ادھر سے اطمینان کا فرمان گیا ۔ بدخشی حملے کرتے تھے اند روالے توپ و تفنگ سے جواب دیتے اتفاقا بیگمات کے لینے کو اکبر نے چند امیر کچھ فوج کیساتھ بھیجے تھے ۔ یہ ابھی اٹک بھی نہ اتر ے تھے وہاں خبر مشہور ہوگئی کہ ہندوستان سے مدد آگئی ۔ اس زمانے میں علمائے شریعت سے بڑے کام نکلتے تھے مرزا سلیمان گھبر ا گیا ۔ اس نے قاضی نظام بدخشی کو قاضی خان بنایا تھا۔ بہت سے پیغام سلام سمجھا کر منعم خاں کے پاس بھیجا ۔ قاضی صاحب کے پا س مطالب و دلائل کا سرمایہ ا س سے زیادہ نہ تھا کہ مرزا سلیمان بڑا دیندار ۔ پرہیز گار ، خدا پرست بادشاہ ہے ۔ طریقت و شریعت کی برکتوں سے فیض یافتہ ہے۔ وہ بھی خاندان تیمور یہ کا چراغ ہے بہتر ہ کہ اسکی اطاعت اختیار کرو۔ اور ملک سپرد کر دو۔ لڑائی کی قباحتیں بند گان خدا کی خونریزی اور خونریزی کے گناہ دکھا کر بہشت و دوزخ کے نقشے کھینچ دے۔ من قتل نفسا فکانما قتل لناس جمیعا منعم خان بھی پراتم بڈھے تھے۔ انہوں نے باتوں کے جواب باتوں ہی سے دئے۔ اور باوجود بے سامانی اور تنگدستی کے مہمانداروں اور ضیافتوں اور روشنی میں اس قدر جمعیت اور سامان کے دبدبے دکھائے۔ کہ قاضی خان کی آنکھیں کھل گئیں۔ او راصلیت حال اصلا نہ کھلی ۔ ساتھی ہی یہ بھی کہا کہ سامان قلعہ داری کافی ووانی ہے۔ ذخیرے برسو ں کے لیے بھرے پڑے ہیں لیکن جو باتیں آپ نے فرمائیں۔ انہی خیالوں سے اب تک اندر بیٹھاہوں۔ ورنہ جنگ میدان میںکلہ شکن جواب دیتا ۔ احتیاط کا سر رشتہ ہاتھ سے دینا سپاہی کا کام نہیں دریا سے بھی کمک روانہ ہوئی ۔ اور پیچھے سامان برابر چلا آتا ہے ۔ لیکن آپ بھی مرزا کو سمجھائین۔ کہ ابھی تو ہمایوں بادشاہ کا کفن بھی میلا نہیں ہوا۔ ان کی عنایتوں کو خیال کرو۔ کفران نعمت کا داغ نہ اٹھاؤ۔محاصرہ اٹھاؤ ۔ اہل عالم کیا کہے گئے ۔ قاضی صاحب ناامید ہو کر صلح کی طرف پھرے ۔منعم خاں بھی مصلحتا راضی ہوگئے ۔ مگرایلچی کارواںتھا۔ پہلے شرط یہ کی ۔ کہ مرزا کے نام کا خطبہ پڑھا جاوے ۔ دوسرے ہماری سر حد بڑھائی جائے۔ منعم خاں نے برائے نام ایک گمنام مسجد میں چند آدمی جمع کروا کر خطبہ پڑھوا دیا مرزا سلیمان اسی دن محاصرہ اٹھا کر چلے گئے ۔ نئے علاقے میںاپنا معتبر چھوڑ گئے مکر وہ بھی بدخشاں نہ پہنچے تھے کہ ان کا معتبر ایک ناک دو کان سلامت لیکر پہنچ گیا ۔ غرض منعم خاں نے فقط حکمت عملی کے زور سے کابل کو بربادی سے بچا لیا۔ افسوس جب بڈھے شیر نے (منعم خاں) دور تک میدان صاف دیکھا ۔ تو پہلے حملے میں گھر کی بلی کو شکار کیا۔ دولت بابری کے خدمت گذاروں میں خواجہ جلا ل الدین محمود ایک مصاحب دربار تھے ۔ کہ انکی خوش طبعی کو یاوہگوئی نے بد مزہ کر دیا تھا۔ باوجود اس کے خود نیز طبع ۔ آتش دماغ ۔ بڑا فخر اس بات کاتھا ۔ کہ ہم شاہ قلی ہیں اس گھمنڈ کی سختیوں اور تمسخر کی تیزیوں نے تمام اہل دربا کا ناک میں دم کر دیا تھا ۔ خصوصا منعم خاں کہ جلکر کوئلہ ہورہاتھا ۔ اور دربار کاحال بھی معلوم تھا کہ بیرم خاں ناراض ہے۔ ہمایوں کے وقت میں منعم خان کو اتنی طاقت کہاں تھی جو خواجہ سے انتقال لیتے ۔ مگر اب کہ کابل میں حاکم بااختیار ہوئے اور جھاڑو گھر کے مالک ہوگئے کچھ آپ سمٹے کچھ فتنہ سازوں نے کمر بندھوائی۔ خواجہ غزالی کے حاکم تھے۔ خان نے انہیں عہد و پیمان کر کے غزنی میں بلایا اور قید کر لیا۔ اسی عالم میں چند نشتر ان کی آنکھ میںلگوائے او رسمجھے کہ بینائی سے معذور ہوگئے ۔ انہیں تو اس خیال میں کچھ پرواہ نہ رہی۔ خواجہ بڑے کر امات والے تھے۔ کوئی دم چراتا ہے وہ آنکھیں چر ا گئے تھے چند روز کے بعد جلال الدین اپنے بھائی کے پاس بھاگ گئے کہ بنگش کے رستے سے قلات اورکرنٹے سے ہو کر دربار اکبری میں جاپہنچے منعم خاں نے سنتے ہی آدمی دوڑائے ۔ پھر بیچا رے کو پکڑوا منگایا ۔ بظاہر قید کیا ۔ چند روز کے بعد اندر ہی کا م تمام کر دیا۔ ایس سلیم الطبع آدمی سے خون ہونا وہ بھی اس بے عزتی و بے مروتی سے کمال افسوس کا مقام ہے ۔ جب دربار میںبیرم خاں کی بربادی کی تدبیریں ہورہی تھیں۔ تو اہل مشورہ نے اکبر سے کہا کہ جو پرانے پرانے نمک خوار دور نزدیک ہیں انہیں اس مہم میں شامل کر نا ضرور ہے ۔ چنانچہ منعم خاں کو بھی کابل سے بلایا تھا ۔ اس نے وہاں غنی خان اپنے بیٹے کو چھوڑا ۔ اور خیزا خیز لدھیانے کے مقام میں اکبر کو سلام کیا۔ اکبر اس وقت خانخاناں کے تعاقب میںتھا ۔ شمس الدین محمد خاں تکہ آگے آگے تھے حضور سے خانخا ناں کے خطاب کے ساتھ وکالت کا منصب حاصل کیا ۔ لیکن اس کی نیک نیتی کا ثبوت اس روئداد سے ہو سکتا ہے جو بیرم خاں کے حال میں لکھی گئی ۔ کہ جب لڑائی کے بعد بیرم خاں سے پیغام سلام ہونے لگے ۔ تو کس بیتابی سے اس سے پاس دوڑا چلا گیا۔ جب خان خاناں کا قصہ فیصل ہوگیا۔ تو منعم خاں خان خاناں تھے اکبر مہم سے فارغ ہو کر آگرہ میں گئے بیرم خاں کا علیشان محل جس ک پاؤں میںدریا کا پانی لوٹ لوٹ کر لہریں مارتا تھا ۔ منعم خاں کو انعام فرمایا ۔ اسے خیال تھا کہ خان خاناں کا عہدہ اور کل اختیارات مجھے ملے گے ۔ لیکن پانسا پلٹ گیا ۔ اکبر کی آنکھیں کھلنے لگی تھیں۔ وہ سلطنت کے کاروبار اپنی رائے پر کرنے لگا ۔ ماہم سے وکالت کے کاروبار چھن گئے ۔ میرا تکہ وکیل مطلق ہوگئے۔ ماہم اور ہام والونکی بھی سخت ناگوار ہوا۔ ادہم خان ماہم کے بیٹے کے دلیں آگ لگیں ہوئی تھی منعم خاں نے اسے بھڑکایا ۔ او ر شہاب خاں نے تیل ڈالا۔ نوجوان بھڑک اٹھا ۔ کوتہ اندیش نے برسر دیوان جلسہ امراء میں آکر میراتکہ کو قتل کر دیا۔ لیکن جب و ہ قصاص میں قتل ہوا تو جو جو اس فتنہ پردازی میںشریک تھے۔ انہیں سخت خطرہ ہوا۔ شہاب خاں کا رنگ زرد ہوگیا ۔ منعم خاں بھی گھبرائے ۔ اور سنہ ۷ جلوس تھے کہ بھاگے ۔ اکبر نے اشرف خاں میر منشی کو بھیجا وہ فہمائش سے مطمئن کر کے لے آئے مگر چند روز کے بعد قاسم خاں میربحر کے ساتھ پھر آگرہ سے بھاگے ۔ دوتین آدمی ساتھ لئے ۔ بوسہ کے گھاٹ پر کشتی کی سیر کا بہانہ کیا وہاں جا کر مغرب کی نماز پڑھی اور رستے سے کٹ کر الگ ہونے کا بل کا ارادہ کیا۔ رو پڑے ہو کر بجواڑہ میں آئے ۔ علاقہ ہوشیار پور میں آکر کوہ کا دامن پکڑا۔ پہاڑوں پر چڑھتے ۔ اور کھڈوں میں اترتے قسمت کی مصیبت بھرتے سروت علاقہ میان دوآب میں جاپہنچے ۔ کہ میر محمو د منشی کی جاگیر تھا۔ جنگل میں اترے ہوئے تھے ۔ وہاں کا شقدر قاسم علی اسپ خلاب۔ سیستانی گشت کرتا ہوا ادھر نکلا۔ وہ انہیں پہنچا نتا نہ تھا ۔مگر وضع سے معلوم کیا کہ سردار ہیں کہیں روپوش بھاگے جاتے ہیں۔ اسی وقت علاقے کو پھرا۔ چند سپاہی اور کچھ گاؤں کے زمیندار ساتھ لیکر گیا اور انہیں گرفتار کر کے لے آیا ۔ سید محمود یہار اورعالی ہمت اور سردار عالی شان لشکراکبری کے تھے ۔ اس علاقے میں ان کی جاگیر تھی ۔ کسی سبب سے اس نواح میں تھے ۔ انہیں خبر کی۔ کہ دو شخص امرائے بادشاہی سے نظر آتے ہیں۔ ادھر سے جاتے ہیں۔ اور آثار و اطوار سے کوف زدہ معلوم ہوتے ہیں۔ آپ دیکھیے یہ کون صاحب ہیںیہ آٹھ پہر کے ساتھ رہنے سہنے والے انہوں نے پہچا نا۔ بڑے تپاک سے ملاقاتیں ہوئیَ موقع کو غنیمت سمجھا اپنے گھر لائے ۔ تعظیم و تکریم سے رکھا۔ مہمانداری کے حق ادا کئے اور اعزازو کرام سے اپنے فرزندوں او ربھائی بندوں کے ساتھ خود لے کر حضور میں حاضر ہوئے۔ یہاں لوگوں نے اکبر کو بہت کچھ لگایا بجھایا تھا ۔ بلکہ یہ بھی اشارہ کیا تھا ۔ کہ اس کا گھر ضبط کرنا چاہیے۔ اکبر نے کہا کہ فقط وہم سے منعم خاں نے ایسا کیا ہے ۔ وہ نہ جائیگا ۔ اور اگر گیابھی و کہاں گیا ؟ کابل ہمارا ہی ملک ہے ۔ کوئی ان کے گھر کے گرد پھٹکنے نہ پائے۔ وہ بندہ قدیم الخدمت ا س خاندان کا ہے ۔ ہم اسکا سب اسباب وہیں بھجوا دیںگے ۔ جب یہ آئے تو سب کے منہ بندہوگئے۔ بادشاہ نے بہت دلجوئی کی۔ اور وہی مرحمت اس کے حال پر مبذول فرمائی جو کچھ چاہیے تھی۔ وکالت کا منصب او ر خان خاناں کا خطاب بحال رکھا۔ ۹۷۰ ھ میں منعم خاں نے ایک ہمت دلاورانہ کی اور افسوس کہ اس میںٹھوکر کھائی ۔ محمل تہمید اس کی یہ ہے کہ وہ یہاں تھا۔ اور غنی خاں اس کا بیٹا کابل میں قائم مقام تھا ۔ اس نااہل لڑکے نے وہاں رعایا کو اپنی سختی سے امرا کو نااہلی سے ایسا تنگ کیا کہ حکیم مرزا کی ماں چوچک بیگم ابھی دق ہوگئی ۔ فضیل بیگ منعم خاں کابھائی آنکھیں ۱؎ نہ رکھتا تھا ۔ مگرفتنہ و فساد کی تاک میں سر تا پا آنکھیں تھا۔ وہ بھی نااہل بھتیجے کی خود سری سے تنگ تھا۔ اس نے اور اہل خد مت نے بیگم کو بھڑکایا ۔ اس کی اور ابو الفتح ا سکے بیٹے کی صلاحوں سے نوبت یہ ہوئی ۔ کہ ایک دن غنی خاں فالیز کی سیر سے پھر کرآیا ۔ لوگوں نے شہر کا دروازہ بند کر لیا ۔ وہ کئی دروازوں پر دور آخر دیکھا کہ ہمت کا موقع نہیں۔ اب قید کا وقت ہے ۔ اس لئے کابل سے ہاتھ اٹھا کر ہندوستان کی طرف پاؤں بڑھایا ۔ وہاں فضیل بیگ کو بیگم نے مرزا کا اتالیق کردیا ۔اندھے سے سوا بے ایمانی کے کیا ہوتا تھا اس نے اچھی اچھی جاگیریں آپ لیں اور اپنے وابستوں کو دیں۔ بری بری مرزا کے متعلقین کو دیں۔ ابو الفتح تحریر وغیرہ کے کام کرتا تھا۔ یہ عقل کا اندھا تھا۔ باپ خود غرضی ۔ بد اعمالی ۔شراب خوری کے حاشئے چڑھاتا تھا۔ لوگ پہلے سے بھی زیادہ تنگ ہو گئے ۔ آخر ابوالفتح دختر رزکی بدولت بزم دغا میںمارے گئے ۱؎ جب ہمایوں کے بھائیوں نے بغاوت کی تو منعم خاں ہمایوں کے ساتھ تھا ۔ فضیل بیگ کامران کے ہاتھ آگیا ۔ وہ مردم آزادی کا مشتاق تھا ۔ اسے فضیل کو اندھا کر دیا۔ سر کٹ کر نیزے پر چڑھگیا۔ اندھ بھاگا مگر پکڑا آیا۔ اور اتے ہی بیٹے کے پاس پہنچا۔ اب ولی بے کابل کے صاحب اختیار ہوئے ۔ یہ پورے ولی تھے۔ انہوں نے اکبر کوبھی لڑکا سمجھا۔ اور خود بھی ہوشاہی کی ہوامیں اڑنے لگے۔ وہاں کے شور شر دیکھ کر اکبر کو یہاں تک خطر ہوا کہ کابل ہاتھ سے نکل نہ جائے ۔ منعم خاں کچھ خوبی آب و ہوا سے کچھ جسمانی آسائشوں کی طفیل سے کچھ آزاد انہ حکمرانی کے مزے سے ہمیشہ کابل کی آرزو رکھتا تھا ۔ اس لئے اکبر نے حکیم مرزا ک اتالیقی اور حکومت کابل اس کے نام پر کر کے ادھر روانہ کیا ۔اور کئی امیر اسکی مدد کے لیے فوج دیکر ساتھ کئے منعم خاں کابل کے نام پر جان دے رہے تھے۔ کابلیوں کی سرشوری و سینہ زوری کو ذراخاطر میں نہ لائے۔ دولت حضوری کی بھی قدر نہ سمجھے ۔ حکم ہوتے ہی روانہ ہوگئے اورکوچ بہ کوچ منزلیں لپیٹ کر جلا ل آباد کے قریب جا پہنچے ۔ امراکا اور فوج کمک کا بھی انتظار نہ کیا ۔ بیگم اور اس کے مشورہ کا روں کو جب یہ خبر پہنچی ۔ تو خیال کیا کہ منعم خاں کے بیٹے نے یہاں بہ ذلت اٹھائی ہے ۔ بھائی بھتیجے اس خواری سے مارے گئے ہیں۔ خدا جانے آخر کس کس سے کیا سلوک کرے اس لئے باسمان جمعیت بہم پہنچائی ۔ اہل فساد نے مرزا کو بھی فوج کے ساتھ لیا۔ اور مقابلے پر آئے پہلو یہ سوچا کہ اگر ہم نے فتح پائی۔ تو سبحانب اللہ اور شکست پائی تو یہاں نہ رہے گے ۔ بادشاہ کے پاس چلے جا ئے گے غرض بیگم نے ایک سردار کو فوج دے کر آگے بڑھایا ۔ کہ قلعہ جلال آباد کا استحکام کرے۔ منعم خاں کو جب یہ خبر پہنچی تو ایک جنگ آزمودہ سردار کو اسکے روکنے کے لیے بھیجا ۔ وہ اس عرص میں قلعے کا بندوبست کر چکا تھا اس نے جلال آباد کے میدان میں لڑائی ڈال دی۔ اتنے میں خبر لگی ۔ کہ بیگم اور مرزا بھی آن پہنچے۔ منعم خاں کیسے ہی جوش و خروش میں ہوں۔ مگر اپنی سلامت روی کی چال نہ چھوڑتے تھے جبار بردی ایک سردار بابر کے عہدہ کا تھا۔ کہ اب لباس فقیری میں امیری کرتا تھا۔ وہ بھی سوائے کابل میں منعم خاں کے ساتھ اڑا اجاتا تھا ۔ اسے بھیجا ۔ کہ مرزا سے جا کر گفتگو کر ۔ کشت و خون کی نوبت نہ پہنچے ۔ باتوں میںکام نکل آئے۔ اور یہ منتر نہ چلے ۔ تولڑائی کل پرڈالے آج ملتوی رکھے کہ ستارہ۱؎ سامنے ہے۔ فوج ہر اول میں ثمر یکہ ۱؎ گھورآ دوڑائے آیا اور کہا کہ غنیم بہت کم ہے۔ ایسی حالت میں لڑائی کل پر نہ ڈالو۔ ایسا نہ ہو وہ ہراساں ہو کر نکل جائے اور بات بڑھ جائے ۔ منعم خاں اور حیدر خاں دونوں کابل کے عاشق تھے۔ اور سپاہگری پر مغرور ۔ رکابی فوج کی ہمت اور اپنے حوصلے پر گھوڑے بڑھائے چلے گئے ۔ اور چار باغ کے پاچ خواجہ رستم کی منزل پر میدا ن جنگ قائم ہوا۔ خان خاناں جب اپنے اصول سے باہر قدم رکھتے تھے جبھی خط پاتے تھے۔ انکا سردار جو اہر اول بنکر گیاتھا ۔ مارا گیا ۔ ۱؎ترکوں میںمشہور ہے کہ یلدوز ایک ستارہ ہے ۔ لڑائی کے میدان میں جس فریق کے سامنے ہوتا ہے۔ اس کی شکست ہوتی ہے ۔ ۲؎ یکہ ایک قسم کے انتخابی اور بہادر سواروں کا رسالہ ہوتا تھا کہ اسے یکہ سواروں کا رسالہ کہتے تھے ۔ اکبر کے عہد خوش اعتقادی اور دین الہی وغیر ہ کی قیدیں لگا کہ یکونکواحدی کہنے لگے۔ اس میں توحید خاص کا اشارہ تھا۔ اور ایسا سکت کشت و خون ہو اکہ فوج بربا دہوگئی ۔ او رانہوں نے شکست کھائی بہت سے ہمراہی کابلیوں سے جاملے۔ نقد جنس ۳۰ لاکھ کا خزانہ او ر توشہ خانہ سب کا بلی لٹیروں کو دیکر آپ بحال بنا ہ وہاں سے بھاگے ۔ اور غنیمت ہو اکہ وہ لوٹ پر گر پڑے ورنہ خود بھی شکار ہوجاتے۔ منعم خاں بے ہوش۔ بدحواس پر جھڑے دم نچے پشاور میںپہنچے ۔ مدت تک سوچتے رہے۔ آخر اکبر کو سار احال لکھا ۔ اور عرض کی کہ بندہ منعم نے نعمت حضوری او رمرحمت بادشاہی کی قدر نہ جانی ۔ اس بد اعمالی کی یہ سزا تھی ۔ اب منہ دکھانے کے قابل نہیں رہا۔ حکم ہو تو مکے کو چلا جائے ۔ گناہوں سے پاک ہوگا ۔ جب حضور میں حاضر ہونے کے قابل ہوگا۔ یہ التجا قبول نہیں ۔ تو کچھ جاگیر سرکار پنجاب میں مرحمت ہوجائے کہ صورت حال درست کر کے شرف زمین بوس حاصل کروں۔ منعم خاں کچھ مارے ڈرکے کچھ مارے شرم کے پشاور میںبھی نہ ٹھیر سکا۔ اٹک اتر کر گکھڑوں کے علاقے میں چلاآیا ۔ سلطان آدم گکھڑ بڑی آدمیت اور حوصلے سے پیش آیا۔ اور شان کے لائق مہمانداری کی حیران بیٹھ تھا کہ کیا کرے۔ نہ چلنے کورستہ نہ بیٹھنے کو جگہ نہ دکھانے کو منہ ہارے اکبر نے اپنے قدیم الخدمت ملازم کو بڑی تسلی اور دلاسے کے ساتھ جواب لکھا ۔ کہ کچھ خیال نہ کرو تمہاری جاگیر سابق بحال ہے اپنے ملازم بدستور علاقوں پر بھیج دو۔ آپ چلے آؤ۔ عنایات الطاف اسقدر ہونگے کے سب نقصان پورے ہو جائے گے ۔ اور یہ رنج کا مقام نہیں۔ عالم سپا ہگری میں اکثر ایسی صورتیں پیش آتی ہیں۔ انشا ء اللہ جو ہرج ہوئے ہیں۔ سب کا تدارک ہوجائیگا منعم خاں کی خاطر جمع ہوئی۔ دربار میں حاضر ہوئے۔ اور جلد آگرہ کے قلعدار ہوگئے۔ اور کئی سال تک خدمت انہی کے نام پر رہی۔ ۹۷۳ھ؁ میں جب کہ اکبر نے علی قلی خاں سیستانی پر فوج کشی کی۔ تو چند رو زپہلے منعم خاں کو فوج دے کر آگے روانہ کیا ۔ اور اس نے اپنی سلامت روی اور دونو طرف کی دلسوزی دخیر اندیشی سے کارنمایاں کئے کہ بادشاہ بھی خوش ہوگئے ۔ اگرچہ آگ لگانے والے بہت تھے لیکن اس کی کوشش اسی میں عرق ریزی کر ر ہی تھی کہ سلطنت کا قدیم الخدمت بربار نہ ہو۔ آخر نیک نیتی کامیاب ہوئی او رمہم کا خاتمہ صلح و صفائی پر ہوا۔ دشمنوں نے اس کی طرف سے بادشاہ کو شبہے بھی ڈالے۔ مگر کچھ اثر نہ ہوا۔ ۹۷۵ھ؁ میںجب خانزماں او ربہادر خاں کے خون سے خاک رنگین ہوئی۔ اور مشرقی فساد کا خاتمہ ہوا۔ تو منعم خاں کو دارلخلافہ آگرہ میںچھوڑ گئے تھے ۔ اسے بلا بھیجا۔ بڑھاپے میں اقبال کا ستارہ طلوع ہو اتمام علاقہ علی قلی خان کا ۔ تمام جونپور ۔ بنارس ۔ غازی پور ۔ چنار گڈھ ۔ زمانیہ سے سیکر دریاے جو ساکے گھاٹ تک عطا فرمایا ۔ او رخلعت شاہانہ اورگھوڑا دے کر رخصت کیا ۔ وہ بڑے حوصلہ اور تدبیر کے ساتھ وہاں حکومت کرتا رہا ۔ او ر سلیمان کرارانی اور لودی وغیرہ افغانوں کے سردار کو ملک بنگالہ اوراضلاع مشرقی میں افغانوں کے عہد سے حاکم مستقل اور صاحب لشکر تھے۔ انہیں بھی کچھ صلح او ر کچھ جنگ کے سامان دکھا کر دباتا رہا اور حق پوچھو ۔ تویہی آخری تین برس اس کی عمر درا ز کا نچوڑ تھے۔ جسے خانخاناں کے خطاب سے اسکے نام کو تاج دار کر سکتے ہیں۔ اور یہ بنگالہ کی مہم ہے جس کی بدولت وہ دربار اکبری میں آنے کے قابل ہواہے ۔ اور سلیمان سے عہد نامہ کر کے اکبر کا سکہ خطبہ جار ی کردیا۔ اکبر چتوڑ کی مہم تھا ۔ خانخاناں کو خبر پہنچی کہ زمانیہ پر جو اسد اللہ خاں نمک خوار بادشاہی حکومت کررہا ہے اس نے سلیمان کرارانی کے پاس آدمی بھیجا ہے ۔ کہ تم اس علاقے پر قبضہ کر لو ۔ خانخاناں نے فورا فہمائش کے لیے معتبر بھیجے ۔ وہ بھی سمجھ گیا ۔ اور قاسم موشکی خان خانان کے گماشے کو علاقہ سپرد کر کے خدمت میںحاضر ہوا افغانوں کا لشکر جو قبضہ کرنے آیا تھا۔ ناکام پھر گیا۔ سلیمان کا وزیر لودھی تھا۔ کہ دریائے سون وکیل مطلق کے اختیار کام کرتا تھا۔ اس نے جب اکبری فتوحات پے در پے لکھیں ۔ اور خانخاناں کو سلیم الطبع صلح جو سنجیدہ مزاج پایا تو دوستی کے رنگ جمائے تاکہ ملک سلیمان آسیب میںنہ آئے۔ چنانچہ نا مہ و پیام اور دوستی کی بنیاد اورتحفے تحائف ان پر عمارتیں چننے لگے ۔ چتوڑ کے محاصرہ نے طول کھینچا ۔ سرنگوں کے اڑنے میںفوج بادشاہی بہت برباد ہوئی۔ سلیمان کے خیالات بدلے۔ یہ خبریں سنکر اپنے آصف کے ذریعے سے منعم خاں کوبلا بھیجا ۔ کہ محبت سے ملاقات کر کے بنیاد اتحادکو محکم کریں۔ خیر خواہوں نے احتیاط پر نظر کرکے روکا۔ مگرنیت دلاور بے تکلف چلاگیا۔ ساتھ چند امرا اور فوج میںکل تین سو آدمی ہونگے ۔ لودی لینے آیا ۔ بایزید سلیمان کا بڑا بٹیا کئی منزل پیشوائی کو آیا ۔ جب پننہ پانچ چھ کوس رہا تو خود استقبال کو آیا ۔ بڑ اعزازو احترام سے ملا۔ پہلے کاخانخاناں نے جشن کرکے اسے بلایا ۔ دوسرے دن اس نے مہمانی سلیمانی کر کے انہیںبلایا بڑ ے اعزاز و احترام کئے ۔ گراں بہار تحفے پیشکش کئے ۔ مسجدوں میںاکبری خطبہ پڑھا گیا۔ سکے نے سنہری روہری لباس پہنا۔ سلیمان کے دربار میںدیو سیر ت مصاحب بھی تھے۔ انہوں نے کہا کہ اکبر تومہم میں مصروف ہے ادھر جو کچھ ہے۔ منعم خان ہے۔ اسے مار لیں تویہاں سے وہاں تک ملک خالی ہے۔ لودھی کو بھی خبر ہوگئی ۔ وہی اس صلح و صفائی کا سفیر تھا۔ اس نے سمجھایا کہ ایسا نہ چاہیے۔ مہمان بلا کر دغاکروگے ۔ تو خاص و عام ہمیںکیا کہے گے ۔ اوراکبر جیسے با اقبال بادشاہ سے بگاڑنا خلاف مصلحت ہے۔ یہ خانخاناں نہ ہوگا اور خانخاناں بنا کر بھیج دے گا ۔ ان گنتی کے آدمیوں کو مار کر ہمارے ہاتھ کیا آئے گا ۔ اور ہمارے سر پر خود دشمن قوی موجود ہیں۔ جن کے روکنے کے لیے ہم نے یہ سد سکندر اٹھائی ہے ۔ اسے آپ کو گرانا ۔ عقل دور اندیش کے خلاف ہے ۔ وہ یہ کہتا ہے ۔ مگر افغان غل مچائے جاتے تھے ۔ منعم خاں کو بھی خبر پہنچی ۔ اس نے لودھی کو بلا کر صلاح کی لشکر کو وہیںچھوڑا ۔ اور چند آدمیوں کے ساتھ وہاں سے اڑ نکلے۔ جب بڑھیا پری شیشے سے نکل گئی ۔ تو دیوزادوں کی خبر ہوئی ۔ اپنی بد نے تی پر پچتائے۔ جلسے بیٹھے ۔ صلاحیں ہوئیں۔ آخر بایزید اور لودھی جریدہ خان خاناں کے پاس آئے۔ او ر اعزازو احترام کے مراتب طے کر کے چلے گئے۔ خانخاناں گنگا اتر کر تین منزل آئے تھے ۔ جو چتوڑ کا فتحنامہ پہنچا۔ پھرتو ان کا ایک زور دہ چند ہوگیا۔ لیکن ان کی سلامت روی نے سلیمان کو مطمئن کر رکھاتھا ۔ وہ اپنے حریفوں کے پیچھے پڑا ۔ اور سب کو دغا و جفا سے فنا کر دیا ۔ مگرچند ہی روز میں خود لقمہ فنا ہوگیا۔ جب کہ داؤد ملک سلیمان پر قابض ہوا۔ اور تخت پر بیٹھا ۔ باپ کا ایک خیال دماغ میں نہ رہا ۔ تاج شاہی سر پر رکھا ۔ بادشاہی کی ہوا میں اڑنے لگا۔ اپنے نام کا خطبہ پڑھوایا ۔ سکہ جاری کیا ۔ اکبر کو عرضی تک بھی نہ لکھ ی ۔ اور جو دربار اکبر ی کے لیے آئین عمل میںلانے تھے ۔ سب بھول گیا اکبر گجرات کو مار کر قلعہ سورت پر تھے ۔ کہ پھر خبریں پہنچیں۔ منعم خاں کو حکم پہنچا کہ داؤد کو دست کرو یا ملک بہارفورا فتح کر لو۔ سپہ سالار لشکر جرار لے کر گیا ۔ اور داؤد کو ایسا دبایا کہ اس نے لودھی ان کے قدیم دوست کو بیچ میںڈال کر دو لاکھ روپیہ نقد اور بہت سی اشیائے گراں بہا پیش کش گذرایں یہ جنگ کے نقارے بجائے گئے تھے۔ صلح کے شادیانے گاتے چلے آئے ۔ اکبر جب بندر سورت کا قلعہ فتح کر کے پھرا ۔ تو ہمت میں جوانی کا جوش و خروش ۔ اقبال کا سمندر طوفان اٹھا رہا تھا ۔ فتوحات موجوں کی طرح ٹکراتی تھیں۔ ٹورڈر مل کر منعم خاں کے پاس بھیجا۔ کہ خود جاکر ملک اور اہل ملک کی حالت دیکھو ۔ اور ان کے ارادوں پر غور کرو۔ منعم خاں سے بھی دریافت کرو کہ اس صورت حال کو دیکھ کر تمہاری کیا رائے ہے۔ وہ گیا اور جلد واپس آیا اور جو حالات معلوم کئے تھے سب بیان کئے یہاں فورا منعم خاں کے نام آغاز جنگ اور امرا کے لیے روانگی بنگالہ کے فرما ن جاری ہوئے۔ داؤد کی بد نصیبی سے اس کے منافق سرداروں کے ساتھ اس قدر جلد بگاڑ ہوا ۔ جس کی امید نہ تھی پیچ تو ہمیشہ سے چلتے تھے۔ اب چند ہاتھیوں پر داؤد کو لودی سے لڑ ادیا ۔ لودی نے ایسے ہی وقتوں کے لئے ادھر راہ نکال رکھی تھے ۔ منعم خاں سے مدد مانگی ۔ انہوں نے فورا چند سردار اور ایک فوج معقول روانہ کی۔چند روز کے بعد ان کی تحریریں آئیں۔ کہ وہ تو داؤد سے مل گیا ۔ اور ہمیں رخصت کر دیا۔ خاںخاناں بڑھاپے کے گریبان میںگردن جھکاے سوچ رہے تھے کہ اب کیا ہوگا۔ اور کرنا کیا چاہیے۔ ساتھ ہی ان کے مخبر خبر لائے کہ لودی کو داؤد نھے مروا ڈالا۔ یہ ایسے ہی موقع کی تاک میںتھے۔ فوج کشی کرنے میںتھا تو اسی کا کھٹکا تھا۔ فورا لشکر لے کر پٹنہ اور حاجی پور آئے۔ اب نوجوان کو آنکھیں کھلیں ۔ اور لودھی کی یاد آئی مگر اب کیا ہو سکتا تھا ۔ اسپ دولت بزیران تو بود مہرہ عیش بر مراد تو بود چوں تو کم تاختی کسے چہ کند لیک بد یافتی کسے چہ کند فصیل اور قلعہ پٹنہ کی مرمت شروع کر دی ۔ یہاں غلطی بہ کھائی۔ کہ تلوار میان سے نہیں نکلی۔ گولی بندوق میںنہیںپڑی۔ اور قلعہک بند ہو کر بیٹھ گیا خانخاناں نے محاصرہ ڈالا۔ اور بادشاہ کوعرضی کی کہ اس ملک میںلڑائی بے سامان دریائی کے نہیں ہوسکتی ۔ ادھر سے جھٹ جنگی کشتیاں ۔ جنگ دریائی کے سامان اور رسد فرواں سے بھر کرروانہ ہوئیں۔ بڈھا سپہ سالار خود بھی مدت سے تیار ی کررہاتھا ۔ اور ادھر ادھر فوجیں دوڑائیں۔ مگرنہایت احتیاط سے کام کرتا تھا ۔ جہاں کچھ بھی خطرہ دیکھتا تھا۔ جرات نہ کرتا تھا فورا پہلو بچاجاتاتھا ۔ روپیہ کی بھی کفایت کرتا تھا ۔ ہاں سامان جنگ اور رسد وغیر ہ کی ضرورت دیکھتا تو لاکھوں لٹاتاتھا۔ چنانچہ گورکھپور فتح کیا ۔ افغانوں کا یہ حال تھا ۔ کہ ایک جگہ سے پریشان ہوکر بھاگتے تھے ۔ دوسری جگہ اس سے زیادہ جمعیت اور استقلال کے ساتھ جم جاتے تھے۔ وہ سرداروں کو فوج دے کر مقابلے پر بھیجتا تھا او ر وقت پر خود بھی پہنچتا ت تھا مگر ساتھ ملا لینے کی تاک میں رہتا تھا۔ پٹنہ کے محاصرہ نے طو ل کھینچا ۔ خان خاناں نے عرضی کی ۔ کہ اگرچہ لڑائی جاری ہے ۔ اور جاں نثار حق نمک ادا کر رہے ہیں۔ مگر برسات نزدیک ہے ۔ جتنا جلد فیصلہ ہو اتنا ہی مناسب ہے اور جب تک حضور نہ آئیں یہ آرزو نہ بر آئے گی ۔ بادشاہ نے اسی وقت ٹوڈرمل کو روانہ کیا ۔ اور مہمات اطراف کا بندوبست کر کے حکم دیا کہ لشکر تیار ہو۔اور اس سفر کی مسافت دریا میں طے ہو۔ لشکر آگرہ سے خشکی کے رستے روانہ ہوا۔ اور آپ معہ بیگمات اور شہزادے ہائے کا مگا را اور امراے باوقار کشیتوں پر سوار ہوئے۔ بادشاہ جوان اقبال جو ان ارکان دولت جوان ابو الفضل فیضی ملا صاحب انہی دنوں دربار میںپہنچے تھے فتح و اقبال اشارے کے منتظر ۔ عجب شان و شکوہ سے چلے ۔ دریا میں عیش کا دریا بہا جاتاتھا ۔ اس سواری کاتماشہ دیکھنا ہو توملا صاحب ۱؎ کے حال میں دیکھو۔ کہ اکبر بلکہ خاندان چغتائی میں کسی کو ایسا موقع نصیب نہ ہوا ہوگا۔ منعم خاں ہر طرف تدبیر کے گھوڑے دوڑاتے تھے۔ اورافغانوں کو ملاتے تھے ۔ جو قابو میںنہ آتے تھے انہیں دباتے تھے۔ ان کے لشکر کو بڑی مصیبت پڑتی ۔ مگر حسین خاں پنی جو ادھر سے آکر ملا تھا۔ ا س سے یہ نکتہ ہاتھ آیا ۔ کہ برسات میں دریا بہت چڑھے گا ۔ اس لئے پن پن کا بند توڑ دینا چاہیے۔ کہ پانی گنگا میںجا گرے۔ یہ بند استاد نے اسی غرض سے باندھا تھا ۔ کہ پانی قلعے کے گرد آجائے غنیم آئے یہاں تو ٹھیرے نہ سکے ۔پٹنہ میںحاجی پور سے رسد برابر پہنچ رہی تھی ۔ چاہا کہ پہلے حاجی پور کو فتح کرلیں۔مگر فوج ایسی وافر نہ تھی ۔ اس لیے ارادہ رہے گا۔ دیکھو صفحہ نمبر۴۳۴ داؤد نے بھی بند کی حفاظت کے لئے بڑی احتیاط سے فوج رکھی تھی ۔ مگر مجنون خاں رات کی سیاہ چادر اوڑھ کر اس پھرتی سے کام کر آیا کہ نیند کے مستوں کو خبر نہ ہوئی ۔ وہ شرم کے مارے ایسے بھاگے کہ داؤد کے پا س تک نہ جاسکے ۔ آوارہ و سر گرداں گھوڑا گھات پہنچے۔ بادشاہ منزل بمنزل خشکی و تری کی سیر کرتے ۔ شکار کھیلتے چلے جاتے تھے ۔ ایک دن داس پور کنار گنگا پر سرسول تھی ۔ کہ اعتما د خاں خواجہ سرا لشکر گاہ سے پہنچا۔ لڑائی کا حال عرض کیا ۔ اور اس کا بیان سے غنیم کا نہایت زور ظاہر ہوا۔ میر عبد الکریم اصفہانی کوبلا کر سوال کیا ۔ انہو ںنے حساب کر کے کہا ؎ بزودی اکبر ازبخت ہمایوںن برد ملک از کف داؤد بیروں بلکہ جب بادشاہ فتح پور سے آگرہ میں آکر سامان روانگی کر رہے تھے۔ اسی وقت میرنے یہ حکم لگایا تھا؎ گرچہ باشد لشکر جرار بے حدو شمار لیک باشد فتح و نصرت در قدوم شہریار شیر پور پر ٹورڈرمل بھی حاضر ہوئے ۔ اور مہر مورچے کا حا ل مفصل بیان کیا۔، منعم خان کی طرف سے حضوری کے باب میںعرض کی ۔ فرمایا کہ س سے زیادہ استقبال نہ کریں۔ کہ محاصرے کا مدا ر انہی پر ہے ۔ سب امرا اپنے اپنے مورچے پر قائم رہیں۔ ٹورڈرمل رات ہی رات رخصت ہوئے۔ یہ سفر دو مہینے دس دن میںختم ہوا۔ کوئی نقصان ایسانہیں ہوا۔ کہ قابل تحریر ہو۔ البتہ چند کشتیاں طوفان گرداب میں آکر بتا سہ کی طرح بیٹھ گئیں۔ جب بادشاہ چھاؤنی کے سامنے پہنچے ۔ توخانخاناں نے بہت سی کشتیاں اور نواڑے سامان آرائش کے ساتھ جنگی آتش بازی سے سجائیں خود استقبال کو چلا ۔ توپ خانوں پر گولہ انداز قواعد او رنظام کے ساتھ بیٹھے ۔ رنگ رنگ کی بیرقیں لہرا تی بڑی شکوہ شان سے آیا ۔ اور رکا ب کو بوسہ دیا حکم ہوا تمام توپوں کو مہتاب دکھا دو۔ توپوپخانوں نے بھی اس زمانے سے سلامی تاری۔ کہ زمین میںبھونچال آگیا۔ اور کوسوں تک دریا دھواں دھا ر ہوگیا ۔ نقاروں کاغل۔ دماموں کی گرف ۔ کرناکی کڑک۔ قلعے والے حریان ہو کر دیکھنے لگے کہ قیامت آگئی ۔ چھاؤنی پنچ پہاڑی پر تھی ۔ کہ دریا سے اس طرف ہے ۔ بادشاہ منعم خاں ہی کے ڈیروں میں آئے ۔ اس نے بڑی طمطراق سے آرائش کی تھی ۔ سونے کے طبق جواہر اور موتیوں سے بھر کر کھڑا ہوا۔ لپ بھر بھر کر نچھاور کرتا تھا اور کہتاتھا ؎ کلاہ گوشئہ دہقان بہ آسمان رسید کہ سایہ برسرش افگند چوں تو سلطانے نفیس تحائف ۔ گراںبہا جواہر نذر گذرانے۔ کہ حدو حساب سے باہر تھے پرانے پرانے امیر خدمتگار بابر ی نئے نئے نوجوان جاں نثار اکبر ی کہ مہینوں ہوئے خدمت سے محروم تھے ۔ سلینوں میں جوش وفا ۔ دلوں میں شوق ۔ منہ میں دعا ۔ بچوں کی طرح دوڑے آئے۔ جھک جھک کر سلام کرتے تھے۔ اور دل شوق بندگی کے مارے قدموں میںلوٹے جاتے تھے ؎ کیا تڑپنا دل مضطر کا بھلا لگتا ہے جب اچھلتا ہے ترے سینے سے جا لگتا ہے اکبر ایک ایک کو دیکھتا تھا۔ نام لے لے کر حال پوچھتا تھا ۔ اور نگاہیں کہتی تھیں کہ دل میں وہی محبت لہراتی ہے ۔ جو ماں کے سینے سے دودھ بن کر پیار ے بچوں کے منہ پر ٹپکتی ہے۔ غرض سب اپنے اپنے خیموں اور مورچوں کو رخصت ہوئے۔ دوسرے دن بادشاہ سوار ہوئے۔ اور مورچوں پر پھر کو قلعے کا ڈھنگ اور لڑائی کا رنگ دیکھا یہی صلاح ہوئی ۔ کہ پہلے حاجی پور کا فیصلہ کیاجائے پھر پٹنہ کا فتح کر لینا آسان ہے ۔ چنانچہ خان عالم کو چند سرداروں کے ساتھ تعینات کیا۔ خان خانان نے ا یک ایلچی داؤد کے پاس بھیجا تھا۔ اور بہت سی نصیحتیں وصیعتیں کہلا بھیجی تھیںجن کا خلاصہ ہے کہ خان فرزند ابھی تک اختیار تمہارے ہاتھ میں ہے ۔ اپنی صورت حل کو دیکھا ۔ اکبری اقبال کو سمجھو۔ اتنی جانتیں برباد ہوئیں بہتر ہے کہ اور خون نہ ہوں۔ مال و ناموس خلائق پر رحم کرو۔ جوانی اور سرخوشی کی بھی حد ہوتی ہے۔ بہت کچھ ہوچکا اب بس کرو کہ عالم کی تباہی حد سے گزر چکی ہے ۔ اس دولت خداداد کے دامن سے اپنی گردنیں کیوں نہیں باندھ دیتے کہ سب مصلحتیں پوری ہوجائیں۔ لڑکا سرتا تھا ۔ اس نے بہت سوچ سوچ کر ایلچی کورخصت کیا۔ اور اپنا معتبر ساتھ کیا۔ چنانچہ وہ بھی اسی دن حاضر حضور ہوا۔ خلاصہ جواب یہ کہ حاشاوکلا سرداری کا بار اپنے سر پر لینے کی خوشی نہیں۔ مجھے لودی نے اس بلا میں ڈالا۔ اور وہ اس کی سزا کو پہنچا ۔ اب عقیدت بادشاہی میرے دل پر چھا گئی ہے ۔ جتنی جگہ جس جگہ ملے قناعت اور سرمایا سعادت ہے ۔ خورد سالی اور مستی جوانی میں یہ حرکت ہوگی ۔ کہ منہ نہیں دکھا سکتا ۔ اور جب تک کوئی خاطر خواہ خدمت کر کے سر خرو نہ ہوں۔ حاضر نہیں ہوا جاتا۔ بادشاہ سمجھ گئے کہ لڑکا چالاک ہے اور نیت درست نہیں۔ ایلچی سے کہا کہ اگر داؤد صدق دل عقید ت رکھتا ہے توابھی چلائے۔ یہاں انتقام کا کبھی خیال نہیں ہوا۔ اگر نہیںآنا تو تین صورتیں ہیں (۱) یاتو وہ ادھر سے آئے۔ ہم ادھر سے آتے ہیں ایک ادھر کا سردار ادھر آجائے۔ اور ایک ادھر کا سردار ادھر جائے۔ دونوں لشکروں کو روکے رہیں کہ کوئی اور دلاور باہر نہ جائے پائے۔ ہم دونوں بخت آزمائی کے میدان میںکھڑے ہیں۔ اور جس حربہ سے وہ کہے قسمت کے ہاتھوں سے لڑائی کا فیصلہ کرلیں (۲) یہ نہیں تو ایک سردار جس کی قوت اور دلاوری پر اسے پورا بھروسا ہو۔ ادھر سے اور ایک ادھر سے نکلے۔ جو فتح پائے اس کے لشکر کی فتح (۳) اگر اس فوج میںایسا کوئی نہ ہو۔ تو ایک ہاتھی ادھر کالو اور ایک ادھر کا لو اور لڑا دو۔ جس کا ہاتھی جیتے اس کی فتح۔ وہ ایک بات پر راضی نہ ہوا۔ بادشاہ نے ۳ ہزار سوار جرار عین طوفان آب میںکشتیوں پر سوار کئے۔ قلعہ گیری کے اسباب ز بنورک ۔ رہکلے ۔ بان ۔ جزائل ۔ توپ تفنگ۔ عجیب و غریب حربے اور بہت سا میگزین دیا۔ اور یہ سب سامان اس دھوم دھامک اور آرائش و نمائش سے روم و فرنگ کے باجوں کے ساتھ روانہ ہوا۔ کہ کان گونجتے تھے اور دل سینوں میں جوش مارتے تھے۔ بادشاہ خود پہاڑی پر چڑھ گئے اور دوربین لگائی ۔ میدان جنگ گرم تھا ۔ اکبری بہادر قلعہ شکن حملے کر رہے تھے۔ اور قلعہ والے جواب دے رہے تھے۔ قلعے کی توپوں کے گولے اس زور سے آتے تھے ۔ کہ تین کوس پر سرا پردہ تھا۔ بیچ میں دریا بہتا تھا اور وہ دوسروں پر سے جاتے تھے ۔ جاں نثاروں نے سن لیا تھا ۔ کہ جوہر شناس ہمار ا چشم دور بیں سے دیکھ رہا ہے ۔ اسی طرح جان توڑ کر دھاوے کرتے تھے ۔ کہ بس ہو۔ تو گولا بنیں اورقلعے میں جاپڑیں۔ یہاں سے لشکروں کے ریلے دکھائی دیتے تھے۔ آدمی نہ پہنچا نے جاتے تھے ۔ بات یہ تھی کہ چڑھاؤکے مقابل سے پانی کا سینہ توڑ کر کشتیوں کو لے جانا سخت محنت اور دیر چاہتا تھا ۔ مگرپرانے ملاحوں نے خان عالم کی رہنمائی کی ۔ بڑے بڑے دلاور سردار ، سورما سپاہی چن کر کشتیوں پر سوار کئے۔ کچھ دن باقی تھا ۔ کہ ملاحوں نے چڑھاؤ کے سینے پر کشتیوں کو چڑھانا شروع کیا ۔ پانی کی چادر اوڑھ لی اور منہ پر دریا کا پاٹ لپیٹا ۔ راتوں رات ایک ایسی نہر میں لے گئے ۔ کہ عین حاجی پور کے نیچے آکر گرتی تھی پچھلی رات باقی تھی ۔ کہ بیڑا یہاں سے چھوٹا ۔ صبح ہوتے جس غل سے قلعہ والے اٹھے ۔ وہ شور قیامت تھا۔ سب گرداب حیرت میں ڈوب گئے۔ کہ اتنی فوج کدھر سے آئی اور کیونکر آئی ۔ انہوں نے بھی گھبرا کر کشتیاں تیا رکیں ۔ اور مقابلے پر پہنچے کہ طوفان کوآگے بڑھنے دیں۔ پہلے افسرپوں اور بندوقوں نے پانی پر آگ برسائی ۔ لڑائی بہت زور پر تھی ۔ اور فی الحقیقت اس سے زیادہ جان لڑانے کا وقت کونسا ہوگا۔ عصر کا وقت تھا ۔ کہ اکبری شفقت کا دریا چڑھاؤ پر آیا ۔ بہت سے بہادر انتخاب کئے۔ کہ کشتیوں پر سوار ہو کر جائیں۔ او رمیدان جنگ کی خبرلائیں قلعہ والوں نے دیکھ کر اوپر سے گولے برسانے شروع کئے۔ اور اٹھارہ کشتیاں ان کے روکنے کو بھیجدیں بیچ منجدھار میںٹکرہوئی۔دیکھ گئے تھے ۔ کہ بادشاہ ہمار ا دیکھ رہا ہے ۔ دریاکے دھوئیں اڑائے اور آگ برساتے پانی پر سے ہوا کی طرح گزر گئے ۔ حریف دیکھتے ہی رہ گئے پھر بھی چڑھاؤ کی چھاتی توڑ کر جانا کچھ آسان نہ تھا ۔ اور کمک کو غنیم نے دریا میں روک رکھا تھا ۔ دور ہی سے مقام جنگ پر گولے مارنے شروع کئے۔ ان کے گولوں نے غنیم کی ہمت کا لنگر توڑ دیا۔ اورکشتیاں ہٹانی شروع کیں۔ اب کمک کے ملاح پہلو کاٹ کر چلے ۔ اگرچہ قلعے سے گولے پڑنے شروع ہوئے۔ مگر یہ بھاگا بھاگ ایک موقع کے گھاٹ پر جا پہنچے ۔ اور وہاں سے کشتیوں کو چھوڑا کہ تیر کی طرح سیدھی معرکہ جنگ پر آئیں۔ بادشاہی فوج کناروں پر اتری ہوئی تھی اور سینہ بہ سینہ لڑائی ہورہی تھی ۔ افغانی سرداروں نے کوچہ بندہ کر کے بھی لڑائی ڈالی ۔ مگرتقدیر سے کون لڑسکے ۔ خلاصہ یہ کہ حاجی پور فتح ہوگیا ۔ اور بادشاہی فوج قلعے پر قابض ہوگئی ۔ اس فتح سے داؤد کا لوہاٹھنڈا ہوگیا۔ باوجودیکہ بیس ہزار جرار اور جنگی ہاتھی مست بے شمار اور توپ خانہ آتش بار ساتھ تھا ۔ رات ہی کو کشتی میںبیٹھا اور پٹنی سے نکل کر لوگوں کوبھاگ گیا۔ سر ہر بنگالی جس کی صلاح سے لودھی کو مار کر بکر ماجیت خطاب دیاتھا ۔ اس نے کشتیوں میںخزانہ ڈالا اور پیچھے پیچھے روانہ ہوا۔ گوجر خاں کرارانی جس کا رکن الدولہ خطاب تھا۔ جو کچھ اٹھا سکا اٹھایا ۔ وہ ہاتھیوں کو آگے ڈال کرخشکی کے رستے بھاگ گیا ۔ ہزاروں آدمی کی بھیڑ دریا میں کود کو دپڑی اور طوفان اجل کے ایک جھکولے میں ادھرسے ادھر پہنچی ۔ ہزار در ہزار آدمی گھبرا گھبرا کر برجوں اورفصیلوں پر چڑھ گئے ۔ اور وہاں سے کود کر گہری خندق کابھراؤ ہوگئے ۔ بہتیرے سے کوچہ و بازار میںہاتھی گھوڑوں کے نیچے پاما ل ہوگئے ۔ ویران طیران جب دریائے پن پن پر پہنچے توگوجر خاں نے ہاتھیوں کو آگے ڈالا اور پل سے اتر گیا۔ بھیڑ کایہ عالم تھا ۔ کہ پل بھی بوجھ نہ اٹھا سکا۔ آخر ٹوٹ گیا ۔ بہتیر سے نامی گرامی افغان تھے ۔ کہ اسباب اور ہتھیار پھینک ننگے پانی میں گرے اور گرداب اجل میں چکر مارکر بیٹھ گئے۔ سر تک نہ نکالا۔ پچھلا پہر تھا کہ خانخاناں نے آکر خبردی ۔ بہادر بادشاہ اسی وقت تلوار پکڑ کر اٹھ کھڑا ہوا ۔ خانخاناں نے عرض کی۔ کہ صبح کو حضور اقبال کا قدم شہر میںرکھیں ۔ کہ خبر بھی تحقیق ہوجائے اور احتیار کی باگ بھی ہاتھ میںرہے اکبر شعاع آفتاب کے ساتھ دہلی دروازے کے رستے پٹنہ میں داخل ہوا۔ اور نظر عبرت سے داؤد کے محلوں کو دیکھا ۔ تاریخ ہوئی ۔ فتح بلا پٹنہ ۔ مگر دوسرا نگینہ نگیں سلیمان ہے ۔ع کہ ملک سلیماں زاوؤد رفت خلوت کے چمن میں حکم ہوا۔ مشورت کی بلبلیں آئیں کہ بنگالہ کے لئے کیا صلاح ہے۔ بعض کا زمرد ہواکہ برسات میںملک مقبوضہ کا بندوبست ہو۔ جاڑے کی آمد میں بنگالی پر خونریزی سے گلزار کا خاکہ ڈالا جائے۔ بعض نے نغمہ سرائی کی کہ غنیم کو دم نہ لینے دو۔ اڑجائیں اورچھری کٹاری ہوجائیں کہ یہی بہار ہے۔ فتح کے گلچین اور سلطنت کے باغبان نے کہا کہ ہاں یہی ہانک سچی ہے ۔ ساتھ ہی خاں خاناں نے التجا کی۔ اس واسطے اسی کو مہم سپر د ہوئی ۔ چنانچہ دس ہزار لشکر خونخوار ۔ امرا ۔ بیگ اور بیگچے سب کمک کے لئے ساتھ دینے ۔ او ر سپہ سالاری منعم خاں کے نام پر قرار پائی ۔ کشتیاں اورآتش خانے جو ساتھ آئے تھے ۔ سب عطا ہوئے ۔بہار کا ملک اسکی جاگیر ہوا۔ بعد اس کے جاں نثاروں اور وفاداروں کو جاگیریں اور انعام خلعت و خطاب ہر ایک کی خدمت درجے کے لائق دیکر آپ دریا کے رستے آئے تھے ۔ اسی رستے شادیانے بجائے فتح کے بادبان اڑتے خوشی کی لہریں بہاتے دارلخلافہ کو روانہ ہوئے۔ سالہا سال سے وہ ملک افغانستان ہورہا تھا۔ داؤد سراسیمر ہو کر بنگالہ کے رخ بھاگا ۔ خان خاناں اور ٹورڈرمل چھاؤنی ڈال کر ٹانڈہ میں بیٹھے ۔ ٹانڈہ گورکے مقابل میں گنگا کے داہنے کنارے پر ہے اور بنگالہ کا مرکز ہے۔ ادھر ادھر سرداروں کو پھیلا دیا اور وہ جابجا لڑتے تھے ۔ افغان شکستیں کھاتے تھے۔ مضبوط اور مستحکم مقاموں کو چھوڑتے تھے اور جنگلوں میں گھس جاتے تھے ۔ پہاڑوں پر چڑھ جاتے تھے ۔ ایک جگہ سے بھاگ جاتے تھے ۔ دوسری جگہ جم جاتے تھے ۔ کہیں بھاگتے تھے ۔ کہیں بھگا تے تھے ۔چنانچہ اول سورج گڈھ فتح ہوا ۔ پھر منگیر مارا۔ ساتھ ہی بھاگل پور اور پھر کھل گاؤں لیا۔ گڑھی باوجود قدرتی استحکام کے لیے جنگ ہاتھ آئی ۔ وہ ملک بنگالہ کا دروازہ ہے۔ اس کے ایک پہلو کو پہاڑ نے دوسرے کو پانی نے مضبوط کیا ہے ۔ انہوں نے دو طرف سے دبا کر ایسا تنگ کیا کہ بے جنگ ہاتھ آگیا ۔ خان خاناں کی جاگیر پہلے بہار میںتھی اب بنگالہ میں کردی ۔ اس نے خواجہ شاہ منصور اپنے دیوان کو وہاں بھیجدیا خبرآئی کہ داؤد ٹاندہ پہنچا ہے۔ وہاں بیٹھے گا ۔ اور ادھر کے مقامات کا استحکام کر رہا ہے ۔ محمد قلی خاں بر لاس کو کہ پرانا امیر اور کہنہ عمل سپاہی تھا۔ فوج دیکر ادھر روانہ کیا ۔ اور آپ ٹانڈہ میں بیٹھ کر ملک کے بندوبست میں مصروف ہو اکہ مرکز ملک کاتھا۔ افغانوں کو جو خرابی نصیب ہوئی فقط آپس کی پھوٹ سے ہوئی ۔ لودی کو داؤد نے مروا ڈالا تھا اور گوجر سے بگاڑ تھا ۔ ایک موقع ایسا پڑا کہ اتفاق کے فائدے کو دونوں نے سمجھا۔ اور آپس میں صفائی ہوگئی صلاح یہ ٹھیری کہ دونوں مل جائیں او رفوجیں ملا کر لشکر شاہی سے مقا بلہ کریں۔ شائد نصیبہ یاوری کرنے داؤد نے کٹک بنارس کو مضبوط کر کے اہل و عیال کو وہاں چھوڑا۔ اوردونوں سردار لشکر خونخوار درست کرکے مقابلہ کو چلے۔ خانخاناں سنتے ہی ٹانڈہ سے روانہ ہوا۔ اور ٹورڈر مل کے لشکر کے ساتھ شامل ہوکر کٹک بنارس کارخ کیا ۔ رستے میں دونوںلشکروں کا مقابلہ ہوا۔ افغانوں کو شیر شاہ کا پڑھایا ہوا سبق یاد تھا ۔ لشکر کے گرد خندق کھود کر قلعہ باندھ لیا۔ اس طرح کئی دن تک لڑائی جاری رہی ۔ طرفین کے بہادر نکلتے تھے ۔ افغان ہمت مردانہ کرتے تھے ۔ ۱؎ تاثر الامراء میں ۲۰ ہزار لشکر ہے ترک ترکتاز دکھاتے تھے۔ لڑائی کی انتہا نظر نہ آتی تھی ۔ دونوں حریف تنگ ہو گئے ۔ ایک دن میدان میں صفیں جماکر فیصلہ کے لئے آمادہ ہوئے۔ ہاتھی بنگالہ کی ہری گھاسیں کھا کر افغانوں سے سو امست ہورہے تھے۔ پہلے وہی بڑھے۔ خانخاناں بھی اکبری امرا کو دائیںبائیں اور پس و پیش جمائے بیچ میںآپ کھڑا تھا۔ لیکن ستارہ اس دن سامنے تھا۔ اور انہیں پہلے ستارہ آنکھیں دکھا چکاتھا ۔ اس لئے لڑائی کا ارادہ نہ تھا حکم دیا کہ آج حریف کے حملے کودور دور سے سنبھالو۔ ہاتھیوں تو توپوں اور زنبوروں سے روکو۔ آگ کی مار خدا کی پناہ ۔ حریف کے کئے نامی ہاتھی آگے بڑھے تھے الٹے ہی پھر گئے ۔ اور اکثر اڑ گئے ۔ بہت سے نامور افغان ان پر سوار ہو گئے ۔ گوجر خاں داؤد کی فوج پیش قدم کا سردار تھا۔ وہ حملہ کر کے ہر اول پر آیا ۔ خان عالم سردار ہر اول نوجوان سردار تھا ۔ اس کی جرات دیکھ کر نہ رہ سکا اور حملہ کیا ۔ لیکن دلاوری کے جوش میںبہت تیزی کر گیا اس کی فوج بندوقیں خالی کرتی جاتی تھی ۔ خانخاناں روک تھام کے انتظام میں تھے ۔ یہ حال دیکھ کر آدمی بھیجا کہ فوج کو روکو۔ یہاں اس کے دلاور غنیم پر جا پڑے تھے۔ بڈھے سپہ سالار نے جھنجھلا کر پھر سوار دوڑایا اور بتا کید کہلا بھیجا کہ کیا لڑکپن کرتے ہو۔ جلد فوج کو پھیر لاؤ۔ وہاں لڑائی دست و گریبان ہوگئی تھی ۔ اور صورت یہ تھی کہ گوجر خاں نے بہت سے ہاتھیوں کو سامنے رکھ کر حملہ کیا تھا ۔ سراگائے کی دمیں ، چیتوں شیروں ، اورپہاڑی بکرونکی کھالیں جن کے چہروں پر سینگ اور دانت تک بھی موجود تھے۔ ہاتھیوں کے چہروں پر چڑھائے تھے ۔ترکوں کے گھوڑوں نے نہ یہ صورتیں دیکھی تھیں ۔ نہ یہ بھیانک آوازیں سنی تھیں ۔ بد ک بدک کر بھاگے اور کسی طرح نہ تھم سکے ۔ فوج ہر اول ہٹ کر اور سمٹ کر مقدمہ لشکر میں جا گھسی ۔ سردار ہر اول (خان عالم )ثابت قدمی سے کھڑا رہا مگر ایسا گرا کہ قیامت ہی کو اٹھے گا ۔ کیونکہ حریف کا ہاتھی آیا اور اسے پامال کر گیا ۔ افغانوں نے خوشی کا شور و فغان کیا او رگوجر خاں نے انہیں لے کر اس زور سے حملہ کیا کہ سامنے کی فوج کور ولتا ہوا ۔ قلب میں جا پڑا۔ یہاں خود خانخاناں امرائے عالی شان کو لئے کھڑا تھا بڈھوں نے جوانوں کو بہت سنبھالا ، مگر سنبھلے کو ن؟ گوجر مارا مارا بگ ٹوٹ چلا آتا تھا سیدھ اآیا اور اتفاق یہ کہ خانخاناں ہی سے مٹ بھیڑ ہوگئی ۔ بے وفا پلا ؤ خور بھاگ گئے۔ اور گوجر نے برابر آکر کئی ہاتھ تلوار کے مارے ۔ یہاں خان خا ناں کمر میںدیکھتے ہیں تو تلوار بھی نہیں۔ غلام جو تلوار لئے رہتا تھا ۔ خدا جانے کہاں کا کہاں جا پڑا۔ کوڑا ہاتھ میںتھا وہ تلواریں مارتا تھا ۔ یہ کوڑے سے پیش آتے تھے ۔ سرد گردن اور بازو پر بھی زخم کھائے ۔ اور زخم بھی کاری کھائے ۔ اچھے ہونے پر بھی کہا کرتا تھا ۔ کہ سرکا زخم اچھا ہوگیا ہے ۔ مگر بینائی بگڑ گئی۔ گردن کا گھاؤ بھر گیا ہے ۔ مگر مڑ کر نہیںدیکھ سکتا ۔ کندھے کے زخم نے ہاتھ نکما کر دیا۔ اچھی طرح سر تک نہیں جاسکتا ۔ باوجود اس کے پھرنے کا خیال تک نہ تھا ۔ کئی امرا رفاقت میںتھے وہ بھی زخمی ہوگئے۔ اس عرصے میں حریف کے ہاتھی بھی آپہنچے ۔ اور خانخاناں کاگھوڑا ہاتھیوں سے بدکنے لگا۔ روکا مگر بے قابو ہوگیا ۔ آخر ٹھوکر بھی کھائی۔ کچھ نمک حلال نوکروں نے باگ پکڑ کر کھیچنی کہ ٹھیر نیکا موقوع نہیں: ا س بچارہ کو فکر یہ کہ میںسپہ سالار ہوکر بھاگو نگا۔ تو سفید ڈاڑھی لیکر کسے منہ دکھاؤنگا ۔ خیر اس وقت انکی درد خواہی غنیمت ہوئی۔ اس طرح بھاگے کے گویافوج والوں کو فراہم کرنے گئے ہیں۔ گھوڑا دوڑائے تین چار کوس بھاگے گئے ۔ اور افغان بھی ارووے بادشاہی تک دبا ئے چلے آئے۔ تمام خیمے اور سارا بازار لٹ گیا ۔ مگربادشا ہی سردار کو بھاگ کر چاروں طرف کھنڈ گئے تھے ۔ کچھ دو ر جاکر ہوش میں آئے پھر پٹنے اور افغان جو مارا مارا چیونٹیوں کی قطار چلے جاتے تھے ۔ ان کے دونوں طرف لپٹ گئے ۔ برابر تیروں سے چھیدتے چلے جاتے تھے ۔ اور اس لمبے تاتنے کی گنڈیریاں کترتے جاتے تھے ۔ نوبت یہ ہوئی کہ اپنے بیگانے کسی میں سکت نہ رہی۔ اور افغان خود تھک کر رہ گئے ۔ گوجر پٹھا نو نکو ہکارتا اور للکارتا تھا کہ مار لو مار لو۔ خانجہاں کو تو مار لیا ہے ۔ اب تردد کیا ہے ۔ باوجود اس کے مصاحب جو برابر میںتھے۔ ان سے کہتا تھا کہ فتح ہوگئی مگر دل کا کنول نہیں کھلتا تھا۔ کہ اتنے میں اسے مدد غیبی کہو خواہ اکبری اقبال سمجھو کہ کسی کمان سے ایک تیر چلا جو گوجر خاں کی جان کے لئے قضا کا تیر تھا اس نے فتح یاب بہادر کو گھوڑے سے گرا دیا ۔ ساتھیوں نے سر پر سردار نہ دیکھا تو بے سرو پا بھاگے ۔ یا تو افغان مار امارا چلے جاتے تھے یا خود مرنے لگے ۔ اس الٹ پلٹ میںخان خاناں کو ذرا سی فرصت نصیب ہوئی تو ٹھیر کر سوچنے لگا کہ کچھ کرنا چاہیے ۔ اور کیا کرنا چاہیے؟ اتنے میں ا سکا نشا نچی بھی نشان لئے ۔آن پہنچا۔ ساتھ ہی غل ہو اکہ گوجر خاں مارا گیا ۔ خانخاناں نے گھوڑا پھیرا ۔ اور ادھر ادھر جو دلاور تھے ۔ وہ بھی اکٹھے ہوگئے ۔ جو افغان تیر کے پلے پر نظر آیا ا سے رونا شروع کیا۔ قلب پر جو گذری سو گزری ۔ مگر لشکر بادشاہی ٹورڈرمل اپنے لشکر کو لئے دائیں پر کھڑے تھے ۔ اور شاہم خاں جلائر بائیں پر ۔ یہاںخان عالم کے ساتھ خانخاناں کے بھی مرنے کی اڑ گئی تھھی ۔ لشکر کے دل اڑے جاتے تھے۔اور یہ رنگ جمائے جاتے تھے ۔ ادھر گوجر کی کامیابی دیکھ کر داؤد کا دل بڑھ گیا ۔ اور فوج کو جنبش دی۔ تاکہ دائیں سے دہکا دیکرگوجر سے جاملے۔ راجہ اور شاہم نے جب یہ طور دیکھا تو اس طرح کھڑے ہونا اپنا بھی مناسب نہ دیکھا گھوڑے اٹھائے اور توکل بخدا افغانوں کے دائیںبائیں پر جاگرے ۔ جس وقت ٹورڈرمل اور داؤد میںلڑائی ترازو ہورہی تھی ۔ سادات بارہہ کے سردار حریف کے دائیں بازو پر ٹوٹ پڑے۔ اور اسے برباد کر کے اپنے دائیں کی مد د کو پہنچے ۔ یہ حملہ اس زور کا ہوا۔ کہ غنیم کے دونوں بازوؤں کو توڑ کر قلب میںپھینک دیا ۔جہاں داؤد سپہ سالاری کا چتر چمکا رہا تھا ۔ اسکے جنگی اور نامی ہاتھی صف باندھے کھڑے تھے انہیں ترکوں نے تیروں سے چھلنی کر دیا ۔ اور اس کی جمعیت میںہل چل پڑ گئی ۔ اتنے میں نقارہ کی آواز آئی۔ اورخان خاناں کا علم کہ فتح کا نمودار نمونہ تھا۔ دور سے آشکار ہوا ۔ امرا اور افواج شاہی کے گئے ہوئے ہوش ٹھکانے آگئے۔ داؤد کو جب خیر پہنچی کہ گوجر خاں مارا گیا ہے۔ رہے سہے حواس بھی اڑ گئے اور لشکر کے قدم اٹھ گئے ۔ تمام اسباب اور سامان اور بڑے بڑے دل بادل ہاتھی برباد کر کے سیدھا کٹک بنارس کو بھاگ گیا۔ خانخاناں نے خدا کی درگاہ میںشکر کے سجدے کئے کہ بگڑی بات کا بنانے والا وہی ہے ۔ ٹورڈرمل کو کئی سرداروں کے ساتھ اس کے پیچھے روانہ کیا ۔ اور خود اسی منزل میں مقام کر کے زخمیوں کے اور اپنے علاج میںمصروف ہوا۔ ہزاروں افغان تتر بتر ہو گئے۔ سرداروں کو پھیلا دیا او ر تاکید کیکہ ایک کو جانے نہ دیں۔ میدان جنگ میں ان کے سروں سے مدکلہ مینار بلند کئے کہ فتح کی خبر آسمانکل تک پہنچائیں۔ داؤد کٹک ۱؎ بنارس میںپہنچ کر قلعے کے استحکام میں مصروف ہوا۔ مفسد پھر فراہم ہوکر اس کے ساتھ ہوگئے ۔ یہ بھی گفتگو ہوئی ۔ کہ جو شکست پڑی بعض بے احتیاطیوں سے پڑی ہے ۔ مفسد پھر فراہم ہوکر اس کے ساتھ ہوگئے ۔ یہ گفتگو ہوئی ۔ جو شکست پڑی بعض بے احتیاطیوں سے پڑی ہے۔ اب کے بندوبست سے کام کرنا چاہیے۔ اس نے دل میں ٹھان لی ۔ کہ مرجانا ہے ۔ یہاں بھاگنا نہیں۔ لیکن خان خاناں کو گھر میںمہم پیش آئی۔ اول تو مدت سے بادشاہی لشکر سفر میں خانہ بربار پھرتاتھا۔ دوسرے بنگالہ کی بیماری اور مرطوب ہوا سے تنگ تھے۔ اس لئے سپاہی سے لیکر سردار تک سب گھبراگ ئے ۔ راجہ ٹورڈرمل نے ہر چند تسلی اور دلاسے کے منتر پھونکے ۔ اور دلاوری کے نسخوں سے مرد بھی بنایا ۔ مگرکچھ اثر نہ ہوا خانخاناں کو سب حال لکھا اور کہلا بھیجا کہ تمہارے آئے بغیر کچھ نہیں ہو سکتا۔ اقبال شہنشاہی سے کام بن چکا ہے ۔ لیکن کام چوروں کی بے ہمتی سے پھر مشکل ہوجائے گا ۔ ان لوگوں سے کچھ امید نہیں خانخاناں کے زخم ابھی ہرے تھے ۔سنگھاسن پر بیٹھ کر روانہ ہوا۔ سامنے جاکر ڈیرے ڈال دئیے۔ لالچ کے بھوکوں کو روپے اشرفی سے پر چایا ۔ غیرت والوں کو اونچ نیچ دکھا کر سمجھایا ۔ اور وہی اپنا الصلح خیر کا ختم شروع کیا ۔ غنیم کو بھی بے سامانی اور سرگردانی نے تنگ کر دیا تھا ۔ پیغام سلام دوڑنے لگے کئی دن وکیلوں کی آمد ورفت اور گفتگوؤں کی ردو بدل ہوئی۔ یہاں بھی امراکے ساتھ مشورے ہوتے رہے ۔ اکثر امرا راضی تھے کہ جلد فیصلہ ہو او ر صحیح سلامت گھروں کو پھریں۔ ہال ٹورڈرمل نہ مانتے تھے۔ وہ کہتے تھے کہ غنیم کی جڑ اکھڑ گئی ہے۔ ۱؎ ماثر الامرا میںکٹک اڑیسہ لکھا ہے ۔ خرگوش کی طرح چاروں طرف بھاگا پھرتا ہے ۔ اب اس کا پیچھا چھوڑنا نہ چاہیے۔ داؤد حیران کہ قلعہ داری کا سامان نہیں میدان جنگ کی طاقت نہیں۔ بھاگنے کا رستہ نہیں۔ ساتھ ہی خبرآئی کہ جو فوج بادشاہی گھوڑا گھاٹ پر گئی تھی ۔ وہ بھی فتح کر کے گھوڑوں پرسوار ہوگئی ۔ اس خبر سے داؤد کی زرہ ڈھیلی ہوئی۔ ناچار جھکا ۔ بڈھے سرداروں کو بھیجا ۔ وہ خان خاناں او رامرائے بادشاہی کے پاس آئے۔ یہ خود ہی تیار بیٹھے تھے ۔ پھر بھی تمام امرائے بادشاہی کو جمع کر کے جلسہ مشورۃ جمایا ۔ سب نے اتفاق کیا۔ مگر راجہ ٹورڈرمل ناراض تھے ۔ لیکن غلبہ رائے کا صلح پر تھا ۔ راجہ نے بہتیر سے ہاتھ پاؤں مارے مگر کثرت رائے کے سامنے کچھ پیش نہ گئی ۔ اور چندشرطوں پر صلح ٹھیری۔ داؤد ایسے اضطراب میںتھا ۔ کہ جو کچھ کہا گیا چارنا چار قبول کیا اور احسا نمند ہو کر قبول کیا۔ خانخاناں نے بڑے توزک و احتشام سے جشن جمشیدی ترتیب دیا ۔ لشکرکے باہر ایک بڑا اور بلند چبوترہ تیار کر اکر سرا پردہ شاہانہ قائم کیا۔ بہت دور تک سڑک کی داغ بیل ڈالی۔ دونوں طرف صفیں باندھ کر بادشاہی فوجیں بڑے جاہ و تجمل سے کھڑی ہوئیں۔ اندر سرا پروہ کے بہادر سپاہی خلعت زرتیں اور لباس فاخرہ پہنچے ۔ دائیں بائیں اور پس و پیش کھڑے ۔ امرا اور سردار کمال جاہ چشم سے اپنے اپنے رتبے پر قائم ۔ وہ امیر داؤدکو لینے گئے ۔ اور وہ افغان بچہ۔ نوجوان رعنا اور صاحب جمال زیباتھا ۔ بڑی کرو فرسے بزرگان افغان کو ساتھ لے کر آیا ۔ اور اردو خان خاناں کے بیچ میں ہوکر دربار میں داخل ہوا۔ سپہ سالار کہن سال گرمجوشی کے ساتھ عزت و احترام سے پیش آیا۔ مگرجس طرح بزرگ خوردوں سے ۔ آدھی دور تک سراپردہ میں استقبال کیا۔ داؤد نے بیٹھتے ہی تلوار کمرے سے کھول کر خانخاناں کے سامنے دھری دی او رکہا۔ چوں بمثل شماعزیزاں ز خمے و آزارے رسد من از سپاہگری بیزارم۔ حالا داخل دعا گویان درگاہ شدم۔ خانخاناں نے تلوار اٹھا کر اپنے نوکر کو دیدی اس کا ہاتھ پکڑا برابر تکنے سے لگا کر بٹھایا ۔ بزرگانہ اور مشفقانہ طور سے مزاج پرسی اور باتیں کرنے لگا ۔ دسترخوان آیا ۔ انواع و اقسام کے کھانے ۔ رنگا رنگ کے شربت ۔ مزے مزے کی مٹھایاں چنی گئیں۔ خانخاناں خود ایک ایک چیز پرا س کی صلح کرتا تھا ۔ میووں کی تشتریاں اور مربوں کی پیالیاں آگے بڑھاتا تھا ۔ نور چشم ، بابا جان اور فرزند کہہ کر باتیں کرتا تھا ۔ دسترخون اٹھا۔ پان کھائے ۔ میر منشی قلمدان لیکر حاضر ہوا۔ عمہد نامہ لکھا گیا ۔ خانخاناں نے خلعت گراں بہا اور شمیشیر مرصع جس کے قبضہ او سازمیں جواہرات گراں بہا جڑے ہوئے تھے۔ خزانہ شاہی سے منگا کر دی۔ اور کہا حالا ما کمر شمارا بنوکری بادشاہ بندیم ۔ اسے جس وقت تلوار باندھنے کو پیش کی۔ تو اس نے آگرہ کی طر منہ کیا رجھک جھک کرتسیمیں و آداب بجا لایا ۔ خانخاناں نے کہا ۔ شمار طریقہ دولت خواہی اختیار کرو اید ۔ایں شمشیر از جانب شہنشاہ بر بندید۔ ولایت بنگالہ را چنانچہ التماس خواہم کرد۔ موافق آں فرمان عالی شان کواہد آمد ۔ اس نے تلوار کا قبضہ آنکھوں سے لگایا او ربار گاہ خلافت کی طرف رخ کر کے سجدہ تسلیم کیا یعنی نوکر ان حضور میں داخل ہوتاہوں۔ غرض بہت سے تکلف بجا لا کر اور بہت سے نفا ئس اور عجائب تحفے دیکر اور لیکر اسے رخصت کیا۔ اور یہ دربار بڑی گرمی اور شگفتگی سے برخاست ہوا۔ یاد رکھنے کے قابل یہ بات ہے کہ ایسا عالی شان دربار آراستہ ہوا اور وہی بات کا پورا ٹورڈرمل تھا کہ اس میں شامل نہ ہو ابلکہ صلحنامہ پر بھی مہر نہ کی ۔ سپہ سالار اس مہم کو طے کرکے گور میںآیا ۔ مصلحت اسمیںیہ تھی ۔ کہ گھوڑا گھاٹ جو ان بھڑوں کاچھتہ تھا ۔ وہ یہاں سے پا س ہے ۔ بادشاہی چھاؤنی چھاتی پر دیکھ کر افغان خود دب جائے گے ۔ کور عہد قدیم میں دارلخلافہ تھا۔ اوراب بھی اپنی دلکشائی و سر سبزی سے آنکھوں میں کھبا ہو اہے ۔ اس کا نادر قلعہ اور بے نظیر عمارتیں گرتی چلی جاتی ہیں۔ سب نئی ہوکر اٹھ کھڑی ہونگی۔ ملا صاحب لکھتے ہیں خانخاناں ان جھگڑوں سے فارغ ہو کر عین برسات کے دنو ں میں ٹانڈہ کو چھوڑ کر گور میںآیا ۔ وہ بھی خوب جانتاتھا۔کہ ٹانڈہ کی آب و ہوا معتدل او ر صحت بخش ہے۔ گور کی ہوا خراب ۔ پانی بدبو اور کمزور ہے مگر ع صید راچوں اجل آید سوئے صیا درود امرا نے بھی کہا مگر اس کے خیال میں نہ آیا ۔ اور ارادہ یہ کہ گور کو نئے سرے سے آباد کیجئے ۔ تمام امرا اور اہل لشکر کو حکم دیا ۔ کہ یہیں چلے آؤ۔ افسوس کہ گور آباد نہ ہوا۔ البتہ گوریں بہت سی آباد ہوگئیں۔ بہت سے امرا او ر سپاہی کہ میدان مردی میںتلواریں مارتے تھے ۔ بسترمرگ پر عورتوں کی طرح پڑے پڑے مر گئے ۱؎۔ عجیب عجیب مرض ۔ انوکھی بیماریاں جن کے نام جاننے بھی مشکل ہیں۔ بے چاروں کے گلو گیر ہوئیں۔ فوج در فوج بندے خدا کے رو ز آپس میں رخصت ہتے تھے ۔ اورجان دیتے تھے ۔ ہزاروں کالشکر گیا تھا ۔ شایدسو آدمی جیتے گھر پھرسے ہونگے ۔ نوبت یہ ہوئی کہ زندے مردوں کے دفن سے عاجز ہوگئے۔ جو مرتا پانی میںبہا دیتے ۔ ہردم اور ہر ساعت خانخاناں کو خبریں پہنچتی تھیں۔ ابھی وہ امیر مر گیا۔ ابھی وہ امیر سرد ہوگیا ۔ پھر بھی سمجھتا نہ تھا ۔ بڑھاپے میںمزاج چڑ چڑا ہوجاتاہے ۔ اس کی نازک مزاجی کے سبب سے کوئی کھلم کھلا جتا بھی نہ سکتا تھا۔ کہ یہاں سے نکل جانا مصلحت ہے ۱؎ حاجی محمد خاں سیستانی ۔ اور خان زمانی بڈھے۔ اشرف خاں میر منشی قدیمی بھی انہی میںرخصت ہوئے۔ اتفاق یہ کہ اتنی مدت ایک وہی شخص تھا ۔ کہ بیمار نہ ہوا۔ دفعتہ خبر لگی کہ جنید افغان نے صوبہ بہار میںبغاوت کی انہیںبھی گور سے نکلنے کو بہانہ ملا۔ اور تو سب ادھر روانہ ہوئے ٹانڈہ میںآکر جس کی ہوا لوگ اچھی سمجھتے تھے ان کی طبیعت علیل ہوگئی ۔ دس دن بیمار رہے۔ گیارھویں دن روانہ ہوگئے ۔ اسی برس سے زیادہ عمرتھی ۔ ۹۸۳ میں موت کے فرشتہ نے پکارا۔ خدا جانے مالک کو جاکر حساب سمجھایا یا رضوان کو۔ وہ جاہ و جلال ۔ عزو کمال خواب تھا یا کہ خیال ۔ وارث کوئی نہ تھا برسوں کی جمع کی ہوئی کمائی کا بادشاہی خزانچیوں نے آکر میزان مستوفی ملالیا۔ غالبا اس کی کفایت شعاری سے خفا ہو کر ملا صاحب نے یہ فقرے فرمائے ہیں۔ کچھ اور گناہ تونہیں معلوم ہوتا ۔ خیر یہ مرنے کے بعدا س غریب کو جو چاہیں سوفرمایں۔ ان کی زبان اور قلم سے کون بچا ہے۔ اور ایک دن یہ بھی ہے۔ کہ وہ آنکھوںل سے دیکھ رہے تھے۔ آج سینکڑوں برس کی بات ہے۔ ہمارا قیاس آج ایک بات کا جواب بھی نہیں دے سکتا اصلیت پر کیا پہنچ سکتا ہے منعم خاں کے اخلاق و عادات اکثر معاملات سے ثابت ہوا ہے کہ ان کے مزاج میں رفاقت کا جو ش بہت تھا۔ اور دل اس کادوستوں کی درد مندی سے بہت جلد اثر پذیر ہوتا تھا ۔ تمہیں یاد ہے ۔ بیرم خاں کا حال۔ کہ لڑتے لڑتے دفعتہ اس کے خیالات خلو ص عقیدت پر لائل ہوئے۔ اور اکبر کی خدمت میں حاضر ہونے کے لیے پیغام بھیجا ۔ یہاں حریفوں نے اکبر کے دل میں پھر شک شبہے ڈالے۔ ادھر سے بھی خطر تھا ۔ گفتگو نے وکیلوں کی آمد ورفت میںطول کھینچا۔ ملا صاحب فرماتے ہیں ہنوز معرکہ جنگ پر پابود و آمد ورفت وکیلاں پر جاکر منعم خاں با معدودے بے تحاشا اور ابخا رفت خانخاناں را آورد۔ یہ اس کی صفائی دل کا جوش اور نیت کی نیکی تھی۔ ورنہ خانخا ناں کا منصب دار خطاب بھی اسے مل چکاتھا ۔ اس کے دل میں رقابت کے خیا ل اور منصب چھن جانے کا خطر پڑ جاتا توعجب نہ تھا۔ علی قلی خان ک معرکے یاد کرو ۔ کس کس طرح اس کی معافی تفصیرات میں کوششیں کرتارہا ۔ اور بار بار کرتا رہا۔ پہلی ہی معانی پر ٹورڈرمل نے عرضی لکھی ۔ کہ بہادر خاں بھائی خان زماں کا اپنی حرکت سے بلائے نہیںآتا ۔ بادشاہ نے عرضی سن کر کہا کہ منعم خان کی خاطر سے ہم اس کی خطا معاف کر چکے ہیںلکھ دو کر فوجیں لئے چلے آئیں خان زماں دربار بگڑا اور منعم خاں سے ملتجی ہوا۔ اس نے دیکھا ۔ کہ اب میری عرض کی گنجائش نہیں۔ اسے بھی لکھا۔ اور شیخ عبد النبی صدر میر مرتضیٰ شر یفی ۔ ملا عبدا للہ سلطانپوری کی وساطت سے پھر حضور میںعرض کی ۔ آپ دست بستہ ۔ آنکھیں بند۔ سر جھکائے کھڑا تھا۔ آخر گناہ معاف ہی کر وادیا وہ جانتا تھا کہ بعض امراے حسد پیشہ کی چالاکی نے ا ن دونوں بھائیوں کو بلاے اوبار میںگرفتار کیا ہے ۔ یہ اورو وہ پرانے جاں نثار سلطنت کے تھے۔ اس لئے بیچ میں بھی خاں زماں کو اکثر دربار کی ایسی باتوں کی خبریں اور تدارک کی صلاحیں دیتا رہتا تھا۔ جس میںحریفوں کے صدمے سے بچ کر سعادت مندی کی راہ پر آجائے کہ نمک حرام نہ کہلائے چغل خوروں نے عرض بھی کی کہ منعم خان ا س سے ملا ہوا ہے ۔ وہ اپنی نیک نیتی سے ایک قدم بھی نہ ہٹا ۔ تمہیںیاد ہوگا ۔ کہ بیرم خاں کی مہم در پیش تھی ۔ جو منعم خاں کا بل سے بلایا ہوا آیا ۔اور لدھیانے کے مقام پر حاضر دربار ہوا۔ اس نے مقیم خاں کو بھی پیش کیا۔ ک ترددی بیگ کابھانجا تھا اور ایسے موقع پر اسکا پیش کرنا گویا منارہ ترقی پراٹھا کر پھینک دینا تھا ۔ وہ تو تردی بیگ کا بھانجا تھا جب دربار میںرتبہ ہم زبانی حاصل ہوا اور شجاعت خاں خطاب ہوگیا ۔ تو ایک دن دربار خلوت میںمنعم خان کو ایسے الفاظ کہے تو تورہ ترکانہ اور دربار شاہانہ کے خلا ف تھے ۔ اکبر خفا ہوا۔ منعم خاں ن دونوںبنگالہ میںتھے ۔شجاعت خاں کو اس کے پاس بھجوا دیا ۔ یعنی اس نے تمہارے حق میں یہ یہ کہا ہے تم ہی اس سے سمجھ لو ۔ آفرین ہے منعم خاں کے حوصلے کو کہ بڑی عزت اور توقیر سے پیش آیا ۔ اس کی دلجوئی و خاطر داری کی۔ اور لائق حال جاگیر اپنے پاس تجویز کر دی ۔ وہ بھی بلند نظر امیر زادہ تھا ۔ نہ رہنے کوراضی ہو نہ جاگیر قبول کی خانخاناں نے یہ بھی قبول کیا۔ حضور مین اس کی معافی کے لئے عرض داشت لکھنی او رسامان اعزاز کے ساتھ رخصت کیا ۔ ا نہیں حکام نجوم اور تاثیر شگون وغیر ہ کا بھی خیال ضرور تھا۔ یاد کر د کابل میںجب انکے بھائی بندوں کا فساد ہو اور یہ یہاں سے گئے قلعہ اٹک پر معرکہ ہوا ا س دن انہوں نے لڑائی کو روکنا چاہا۔ کہ منحوس ستارہ سامنے ہے۔ گوجر خاں کی لڑائی جس میںخود زخمی ہوئے وہاں بھی جام میںیہی شربت تھا۔ لطف یہ کہ دونوں جگہ پینا پڑا ؎ جو قسمت میں لکھا ہے جان ہو دیگا وہی پھر عبث کا ہے کو طالع آزمائی کیجئے اگرچہ ہمدردی اور حم وکرم ان کے اصلی مصاحب تھے۔ مگر خواجہ جلال الدین محمود کے ساتھ کابل میںجو سلوک کیا۔ نہایت بد نما داغ اس کے دامن نیک نامی پر رہا۔ اضلاع مشرقی میں اس نے مسجدیں اور عالی شان عمارتیں اپنی عالی ہمتی کی یادگار چھوڑ دی جونپور میںبھی کئی عمارتیں تھیں۔ مگر ۹۷۵ ھ میںدریائے گومتی پر پل باندھا ہے ۔ وہ اب تک جوں کا توں موجود ہے۔ تین سو برس گزر چکے زمانے کے صدمے او ردریا کے چڑھاؤ ایک کنکر کو جنبش نہیں دے سکتے اس کی طر ز عمارت اور تراش کی خوبیاں ہندوستان کی قدیمی تعمیروں کی شان و شکوہل بڑھاتی ہیں۔ اور سیا حان عالم سے دادلیتی ہیں ۔ یہ پل ہے جسے لو گ کہتے ہیں ۔ کہ ان کے غلام کانام فہیم تھا۔ اور پل مذکور بھی اسی فہیم غلام کے اہتمام سے بنا تھا ۔ بہر حال پل مذکور کی جانب مشرق حمام کے پاس ایک محراب پر یہ اشعار کندہ ہیں ؎ خان خاناں خان منعم اقتدار نام او منعم از آں آمد کہ ہست از صراط المستقیمش ظاہر است رہ بتاریخش بری گرافگنی! بستہ ایں پل رابہ توفیق کریم برخلائق ہم کریم وہم رحیم شاہ راہے سوئے جنات النعیم لفظ بدر ا از صراط مستقیم منعم خاں جس طرح آپ اپنے خاندان کے بانی تھے۔ اسی طرح اپنی ذات پر خاتمہ کر گئے۔ اولاد میں فقط غنی خاں ایک بیٹا تھا۔ مگر جیسا باپ لائق تھا ۔ ویسا ہی وہ ناخلف نالائق ہوا۔ بالیاقت باپ سے پاس بھی نہ رکھ سکا۔ کابل کے مفسدے کے بعد چند رو ز خراب و خوار ۔ پھر دکن کو چلا گیا ۔ وہاں ابراہیم عادل شاہ کی سرکار میںنوکر ہوگیا۔ پھر خدا جانے کیا ہوگیا ۔ دیکھو تاثر الامرا۔ زنان باد دار اے مرد ہشیار ازاں بہتر نزدیک خرد مند اگر وقت ولادت مار زایند کہ فرزندان ناہموار زایند ملاصاحب کہتے ہیں۔ کہ جونپور کے علاقے میں جھک مارتا پھرتا تھا اسی عالم میں زندگی رسوائی سے مخلصی پائی ۔ بزرگان قدیم کی عمدہ یادگار مولوی عظیم اللہ صاحب غنی ایک عاشق فضل و کمال غازی پور زمینہ میں رئیس خاندانی ہیں۔ ان کے والدین علوم فنون خصوصا شعر و سخن کے شیفتہ و شید ا تھے ۔ اور اسی ذوق و شوق میں خصوصا شیخ امام بخش ناسخ کی محبت کے سبب سے ہمیشہ گھر چھوڑ کر لکھنو جاتے تھے اور مہینوں وہیںرہتے تھے ۔ مولانا رغمی سلہم اللہ کا پانچ برس کا سن تھا۔ اسی عمر سے یہ والد کے ساتھ جایا کرتے تھے۔ عالم طفولیت سے شیخ مرحوم کی خدمت میںرہے ۔ اور سالہا سال فیض حضوری سے بہرہ یاب ہوئے۔ انہی سے شعر کی اصلاح لی ۔ بلکہ رغمی تخلص بھی انہی نے عنایت فرمایا کہ تاریخ تلمذ پر مشتمل ہے۔ رغمی موصوف اردو فارسی میںصاحب تصنیفات ہیں۔ا ور نظم و نثر میںمجلدات ضخیم مرتب کی ہیں۔ چونکہ سرکار انگریزی میںبھی عمدہ اور بااعتبار عہدوں کا سرانجام کر کے پنشن پائی ہے۔ اس لئے علاقہ مذکور میں تاریخی اور جغرافیائی حالات کی تحقیقات کامل رکھتے ہیں۔ آب حیات کی برکت سے بندہ آزاد کوبھی ان کی خدمت میں نیاز حاصل ہوا۔ انہوں نے شفقت فرما کر ریاست قدیم اور واقفیت خاندانی کی معلومات سے جونپور اور غازی پور زمینہ کے بہت سے حالات عنایت کئے ۔ وہ فرماتے ہیں کہ اکبر بادشاہ ۹۷۲ میں یہا ں آئے۔ اور جس مقام پر پل مذکور رہے۔ یہیں کھڑے ہوکر تعمیر کی فرمائش فرمائی ، خانخاناں نے معماروں کو بلا کر کہا۔ انہوں نے عرضک کی یہاںپانی بہت گہرا ہے اور ہمیشہ رہتا ہے ۔ ابراہیم لودھی نے بھی ارادہ کیا تھا اس وقت یہاں سے آدھ کوس جانب مشرق بدیع منزل کے پاس جگہ تجویز ہوئی تھی ۔ کہ گرمی میںوہاں پانی کم ہوجاتا ہے ۔ خانخاناں نے کہا۔ بادشاہ نے اسی مقام کو پسند کیا ہے ۔ کہ قریب قلعہ ہے بہتر ہے ۔ کہ یہیں پل بنے چنانچہ انہوں نے اول دکن کی جانب میں نہایت مستحکم اور عالی شان پانچ محراب کاایک پل بنایا ۔ اس کی تاریخ بھی کسی شخص نے کہی تھی ۔ اگرچہ اب عبور زبانہ سے حروف مٹ گئے ہیں مگر مولوی صاحب موصوف نے اسی نظر عنایت سے جو آزاد کے حال پر مبذول ہے ۔ پڑھ کر سب نکالے اور یہ قطعہ تحریر فرمایا ؎ مقامے ساخت سلطان السلاطین سرشتہ آب و خاکش ا زمسرت بعثرت کامران باداکہ آمد دراوقبلہ ارباب حاجت الہی تاقیامت باد معمور ازیں بانی بنائے عمر و دولت چو از پیر خرد تاریخ آں جست حکیم پر خر دگفتار بہ عشرت خان اعظم مرزا عزیز کوکلتاش خان تما م تاریخیں اور تذکرے خان اعظم کی عظمت امیرانہ اور شجاعت رستمانہ اور لیاقت اور قابلیت کی تعریفوںسے مرصع ہیں۔ لیکن اس قسم کے حالات کم ہیں جن سے یہ نگینے ا س کی انگوٹھی پر ٹھیک آجائیں ہاں اکبر کے ہم سن تھے۔ساتھ کھیلتے کر بڑے ہوئے تھے ۔ یہ ضرور معلوم ہوتا ہے کہ اکبر کی عنایتوں اور شفقتوں نے رتبے اور قدر منزلت بہت بڑھائی تھی۔ بلکہ ان کی سپاہیانہ طبیعت ۔ اور بادشاہ کی ناز برداریوں نے لاڈلے بچوں کی طرح ضدی اور بد مزاج کر دیا تھا ۔ خیر میں حالات دیکھتا ہوں۔ ناظرین ان سے آپ ہی نتیجے نکال لینگے ۔ اس میںکچھ شک نہیں۔ کہ جو کچھ ہیں۔نہایت دلکش اور دلچسپ ہیں۔ اس کے والد میر شمس الدین محمد خاں تھے ۔ کہ اکبری عہد میں خان اعظم اور اتکہ خان کہلاتے تھے۔ اکبر ابھی پیدا نہ ہواتھا ۔ جو بادشاہ بیگم نے میرزا عزیز کی ماں سے کہہ دیا تھا کہ میرے ہاں لڑکا ہوگا ۔ تو اسے تم دودھ پلانا۔ اکبرپیدا ہوا۔ ان کے ہاں ابھی بچہ پیدا نہ ہوا تھا ۔ اس عرصہ میں اور بیبیان او ربعض خواصیں دودھ پلاتی رہیں پھر ان کے ہاں بچہ پیدا ہوا تو انہوں نے دودھ پلایا ۔ اور زیادہ تر انہی نے یہ خدمت ادا کی۔ جب ہمایوں ہندوستان سے بالکل مایوس ہوا ۔ا ور راہ قندھار سے ایران کوروانہ ہوا۔ تو ان میاں بیوی کو اکبر کے پاس چھوڑ گیا۔ خدا کے آسرے پر دو نو ں دکھ بھرتے رہے یہاں تک کہ ہمایوں وہاں سے پھرکر آیا ۔ کابل کو فتح کیا۔ اور اکبر کے اقبال کیساتھ ان کا ستارہ بھی نحوست سے نکلا۔ اکبر ان کے سبب سے انکے سارے خاندان کی رعایت بدرجہ غایت کرتا تھا ۔ اورعزت کے مدارج پر جگہ دیتا تھا ۔ یہ بھی ہمیشہ خطرناک موقع پر جاں نثاری کا قدم آگے رکھتے تھے ۔ اکبر خان اعظم کی ماں کو جی جی کہتاتھا۔ اور بڑا ادب بلکہ ماں سے زیادہ خاطر کرتا تھا ۔ حالات آئندہ سے واضح ہوگا۔ ۹۶۹ ھ میںخان اعظم شمس الدین محمد خان تکہ شہیدہوئے تو اکبر مرزا عزیز کی کہ چھوٹے بیٹھے تھے بہت دلداری کی ۔ تمام خاندان کو تسلی دی ۔ چند روز کے بعد خان اعظم خطاب دیا۔ مگر ہمیشہ پیار سے مرزا عزیز اور مرزا کو کہ کہتاتھا ۔ ہر وقت مصاحبت میںرہتے تھے ۔ جب ہاتھی پر سوار ہوتے تھے تو اکثر انہی کو خواصی میںبٹھاتے تھے ۔ ان کی گستاخی اور بے اعتدالی کو بھائی بیٹوں کا ناز سمجھتے تھے خوش ہوتے تھے اورکہتے تھے کہ جب اس پر غصہ آتا ہے تو دیکھتا ہوں۔ کہ میرے اور اسکے بیچ میںودود کا دریا بہہ رہا ہے ۔میں چپ رہ جاتاہوں۔ اکثر کہا کرتے تھے کہ اگر میرزا عزیز مجھ پر تلوار کھینچ کر آئے تو آج تک یہ وارانہ کرلے۔ میرے ہاتھ اس پر نہ پھینکا ۔ ۱؎ دیکھو تمتہ میں صفحہ ۷۴۹ خان اعظم کو بھی اس بات کا بڑ اناز تھا ۔ کہ ہم اکبر بادشاہ کے عزیز بلکہ بھائی ہیں۔ اخبار قربت ان کے اس قدر دور دور پہنچے تھے ۔ کہ ۹۷۸ میںجو عبداللہ خان اذبک کی طرف سے سفارشات آئی اس میں تحائف سلطنت کے ساتھ انکے او رمنعم خاں خانخاناں کے نام علیحدہ تحائف آئے۔ آزاد ۔ باوجود ان محبتو نکے نہ سمجھنا کہ اکبر کسی کے حال سے نافل تھا ۔ جب محمد حکیم مرزا کابل سے بغاوت کر کے آیا تھا اور بعد اس کے ۹۷۴ میں چتوڑ کی مہم م یں اسے خبریں پہنچی تھیں کہ اتکہ خیل یک رخ نہیں۔ اور یہ آئین سلطنت تھا کہ جب ایک حاکم مدت تک ایک مقام پر رہتا تھا ۔ تو اسکی جاگیر تبدیل کر دیتے تھے۔ چنانچہ ۹۷۵ ھ میںتمام اتکہ خیل کو پنجاب سے بلا لیا۔ پنجاب حسین قلی خاں کو مل گیا ۔ مرزا عزیز ہمیشہ حضور میںرہتے تھے۔ اس لئے دیپالپور ان کی جاگیر میں بدستور رہا۔ اوروں کو چند روز کے بعد سنبھل ۔ قنوج وغیرہ کے علاقے مل گئے ۔ دیپالپور کا علاقہ خاص انکی جاگیر تھا۔ ۹۷۸ ھ میں بادشاہ پاک پٹن سے زیارت کر کے ادھر آئے انہوں نے عرض کی کہ لشکر شاہی مدت سے برابر تکلیف سفر اٹھا رہا ہے۔ چند روز حضور یہاں آرام فرمائیں۔ بادشاہ نے کئی مقام کئے اور مع شہزادوں او رامرائے دربار انکے گھر گئے ۔ خان اعظم نے ضیافتوں اور مہمانداریوں میںبڑی بری عالی ہمتی دکھائی۔ رخصت کے دن گرانبہا نذرانے پیشکش گزرانے عربی اور ایرانی گھوڑے جن پر سو نے روپے کے زین کو ہ پیکر ہاتھی نقرئی اور طلائی زنجریں سونڈ ھونمیں جھلاتے مخمل زر بفت کی جھولیں سونے چاندی کے آنکس ۔ موتی ۔جواہرات گراں بہار سے مر صع کرسیاں پلنگ ، سونے چاندی کی چوکیاں ،سیکڑوں باسن طلائی و نقرئی ، جواہرات قیمتی بڑے عجائب اجناس ملک فرنگ ۔ روم ۔ خطا یزد کے نفائس تحائف خارج از حدو قیاس حاضر کئے ۔ شہزادوں اور بیگماتوں کو لباس اور زیور ہائے گراں مایہ پیش کئے تمام ارکان دولت اور اراکین سلطنت کل ارباب منصب اہل فضل اہل کمال جو ملازم رکاب تھے ۔ بلکہ تمام لشکر کو کوان انعام سے فیض پہچا ئے اور سخاوت کے در یا میںپانی کی جگہ دود کے طوفان اٹھائے ۔ اسکے نمک خوار مظفر حسین کو دیکھنا ۔ کیا مزے کی تاریخ کہی ہے ۔ ع مہمان عزیز اندشہ و شہزادہ آزاد۔ ہاں۔ بادشاہ کا دود بھائی ایسا ہی دریا دل ہونا چاہیے۔ ملا صاحب نے اس ضیافت میںفقط اتنا لکھا ہے ۔ ایسی ضیافت کی کہ کم کسی نے کی ہوگی۔ خود سمجھ لو کہ اتنا ہی کچھ کیا ہوگا۔ جو حضرت کا قلم اتنا رسا ہے ۔ آزاد۔ اکبر اگرچہ ناخواندہ بادشاہ تھا ۔مگر ملک داری اور ملک گیری کے علم میں ماہر کامل تھا۔ وہ اپنے امیر زا دو نکو اس طرح حکمرانی کشور ستانی کی تعلیم کرتاتھا ۔ جیسے کوئی کامل مولوی اپنے شاگردوں کو کتاب کے سبق یاد کرواتا ہے ان میں سے ٹورڈرمل ، خانخاناں ، مان سنگھ خان اعظم بااستعداد شاگرد نکلے۔ ۹۷۹ ھ میں جو صوبہ گجرات فتح کیا تھا ۔ انہیں جاگیر میںعنایت ہوا۔ کہ انتظام کرو۔ لیکن اکبر تو ادھر آیا ۔ وہاں محمد حسین مرزا او ر شاہ مرزا نے فولاد خاں دکنی اور سرشور افغان نو وغیرہ سے موافقت کرکے لشکر فراہم کیا اور مقام پٹن پر آکر ڈیرے ڈال دئے ۔ تاثرا لامرا میں لکھا ہے کہ حسین مرزا کی جرات و شجاعت کا یہ عالم تھا کہ جنگ کے معرکوں میں دلا وران زمانہ کے حوصلے سے بڑھ کر قدم مارتا تھا ۔ خان اعظم نے امراے شاہی کی اطراف سے جمع کیا ۔ بعض امراے اکبر ی جو حسب الحکم اپنی خدمتوں پر جاتے تھے خود دوڑ کر آئے اور شامل ہوئے ۔ غرض لشکر آراستہی ہو کر باہر نکلا ۔ غنیم بھی ادھر سے اپنی جمعیت سنبھال کر آگے بڑھا ۔ جب پلہ جنگ پر پہنچے ۔ تو طرفین نے اپنے اپنے لشکروں کے پرے باندھکر بازی شطرنچ کی طرح ایک دوسرے کو قوی پشت کیا۔ اتنے میں خبر لگی ۔ کہ غنیم کا ارادہ ہے پیچھے سے حملہ کرے انہوں نے چند امرا کو الگ کر کے فوج دی۔ اور اس کے بندوبست سے خاطر جمع کی ۔ جب خان اعظم نے میدان میں آکر فوج کو قائم کیا۔ تو غنیم نے لشکر شاہی کی جمعیت او رسرداروںل کا بندوبست دیکھ کر لڑائی کو ٹالنا چاہا اور صلح کا پیغام دیکر ایک سردار کو بھیجا ۔ امرائے شاہی صلح پر راضی ہوگئے ۔مگر ایک امیر گھوڑا مار کر خان اعظم کے پا س پہنچا اورکہا کہ زنہار صلح منظور نہ فرمائیے کہ دغا ہے جب آپ کی فوجیں اپنے اپنے مقاموں پر چلی جائینگی ۔ یہ پھر سر اٹھائینگے ۔ خان اعظم نے اس کی دو راندیشی پر تحسین کی۔ اور غنیم کو جواب میںکہلا بھیجا کہ صلح منظور ہے لیکن تمہاری نیت صاف ہے تو پیچھے ہٹ جاؤ کہ ہم تمہارے مقام پر آن اتریں۔ انہوں نے یہ بات نہ مانی ۔ خان اعظم نے فوج کو آگے بڑھایا ۔ غنیم کی دائیں فوج نے بائیں پر حملہ کیا او ر اس کڑک دمک سے آیا ۔ خان کی فوج کا بازو اکھڑ گیا ۔ قطب الدین قدیم الخدمت سردار تھا ۔ وہ اپنے ہمراہیوں کے ساتھ رہیں گڑ کر کھڑا ہو گیا ۔ آفرین ہے ہمت مردانہ پر کہ جب غنیم کے ہاتھی نے حملہ کیا ۔ تو بڑھکر اسکی مستک پر ایک ایسا ہاتھ تلوار کا رمار ا کہ مستک کا پیٹ کھول دیا۔ تعجب یہ کہ فوج ہر اول پر زور پڑا تو وہ بھی مقابلہ میں ٹھیر نہ سکی۔ اور آگے کی فوج بھی درہم برہم ہوکرپیچھے ہٹی۔ بھاگنے والے بھاگتے بھی ہیں۔ لڑتے بھی تھے۔ حریف ان کے پیچھے گھوڑے مارے چلے جاتے تھے۔ خان اعظم کو لئے کھڑا تھا ۔ اور تقدیر الہی کا منتظر تھا۔ اتنے میں پانسو سوار کا پر اس پر بھی آیا مگر ٹکر کھا کر پیچھے ہٹا۔ غنیم نے جب دیکھا کہ میدان ہمارے ہاتھ رہا۔ اور دائیں میں اتنی طاقت نہیں کہ بائیں کو مدد کوآئے۔ بادشاہی سردار دور سے تماشا دیکھ رہے ہیں۔ تووہ مطمئن ہو کر ٹھیرا کہ اب کیا کرنا چاہیے۔ اس عرصہ میںفوج ا سکی لوٹ پر گر پڑی لیکن بائیں فوج میں قطب الدین خاں پر سخت بنی ہوئی تھی ۔ خان اعظم اپنی فوج کو لیکر ادھر پہنچا اور اسکے بہادر گھوڑے اٹھا کر باز کی طرح جا پڑے ۔ غنیم کی فوج ادھر سے تتر بتر ہوگئی ۔ کیونکہ اور فوجوں کے لوگ کچھ تو بھاگتو نکے پیچھے بھاگے جاتے تھے ۔ کچھ لوٹ پر گرے ہوئے تھے۔ سرداروں سے نہ ہو سکا کہ پھیلاؤ کو پھر سمیٹ لیں۔ یہ اقبال اکبر ی کا طلسمات تھا کہ شکست سے فتح ہوگئی اور بگڑی ہوئی بات بن گئی ۔ خان اعظم اپنی فوج لیکر ایک بلندی پر آن کھڑا ہوا۔ اتنے میںغل ہو اکہ مرزا پھر ادھر پلٹے ۔ خان اعظم کی فوج بھی سنبھل کر کھڑی ہوئی ۔ غنیم سے اول غلطی یہ ہوئی کہ اس نے بھاگتوں کا پیچھا کیا ۔جیسا پہلے حملے میں کامیاب ہو ا تھا ۔ ساتھ ہی خان اعظم پرآتا تو میدان مار لیا تھا۔ یا جس طرح باگیں اٹھا کر گیا تھا ۔ اسی طرح سیدھا شہر گجرات میںجا داخل ہوتا تو خان اعظم کو اور بھی مشکل ہوئی ۔ اب جو دوبارہ اس کے غبار لشکر نے نشان دکھایا توادھر سب سنبھل گئے تھے کچھ بھاگے ہوئے پلٹ کر پھرے تھے۔ وہ بھی آن ملے ۔ایک امیر نے کہا۔ کہ بس یہی موقع حملہ کاہے ۔ خان اعظم چاہتا تھا کہ باگ اٹھائے ۔ جو ایک سردار نے کہا۔ اتنے امیر موجود ہیں۔ سپہ سالار کو حملہ پر جانا کہاں کا آئین ہے ابھی حملہ کی نوبت نہ آئی تھی کہ معلوم ہوا غنیم خو د ہی ہٹا ۔ اورفوج اسکی گھونگٹ کھا کر میدان سے نکل گئی ۔ دشمن کی فوج میںایک مست ہاتھی تھا ۔ کہ اس کا فیلبان تیر قضا کا شکار ہوا تھا۔ وہ شتر بے مہاراپنے بیگانہ سب کو روندتا اورکھندلتا پھرتاتھا۔ جدھر نقارہ کی آواز سنتا ادھر ہی دوڑتا ۔ لشکر بادشاہی میںجو فتح کے نقارے جابجا بجنے لگے ۔ وہ بولا گیا ۔ خان اعظم نے حکم بھیج کر نقارے موقوف کر وائے او ر دیوانہ دیوکو گھیر کر گرفتار کر لیا ۔ خان اعظم فتح کے نشان لہراتا گجرات میں داخل ہوا۔ مگر غنیم کا پیچھا چھوڑنا مناسب نہ سمجھا۔ پھر فوج لیکر چلا۔ جب یہ خبر دربار میںپہنچی اکبرکوبڑی خوشی ہوئی ۔ ایک امیر کے ہاتھ آفرین کا فرمان بھیج کر انہیں بلا بھیجا یہ سن کر پھولے نہ سمائے۔ اورمارے خوشی کے بے سرو پادربار کی طرف دوڑے۔ ۹۸۰ ھ؁ میںبے ڈھب مصیبت کے پھندے میںپڑگئے تھے اگراکبر کی تلوار اورہمت کی پھرتی مدد نہ کرتی ۔ تو خدا جانے کیا ہوجاتا ۔ خان اعظم گجرات میں بیٹھے تھے ۔ کبھی شاہانہ حکومت کے ۔ کبھی امیرانہ سخاوت کے مزے لیتے تھے کہ وہی محمد حسین مرزا اختیار الملک دکنی کے ساتھ مل گیا۔ دکن کے کئی سردار اور بھی آن ملے ۔ اور تمام احمد نگر وغیرہ کی اطراف پر پھیل گئے انجام یہ ہو ا کہ خان اعظم بھاگ کر احمدآباد میںگھس بیٹھے ۔ اور اسی کو غنیمت سمجھا۔ کہ شہر توہاتھ میںہے ۔ غنیم ۱۴ ہزار لشکر جمع کرکے گجرات پر آیا اورخان اعظم کو ایسا محاصرہ میں دبوچ لیا کہ تڑپ نہ سکے۔ ایک دن فضل خاں فوج لیکر خانپور دروازہ سے نکلے اور لڑنے لگے ۔ غنیم ایسے امنڈکر آئے کہ سب کو سمیٹ کر قلعہ میںگھسیر دیا۔ فاضل خاں سخت زخمی ہوئی اور غنیمت سمجہو کہ جان لے کر بھاگے ۔ سلطان خواجہ گھوڑے سے گر کر خندق میںجا پڑے ۔ فصیل پر سے رسا ڈالا۔ ٹوکرا لٹکایا۔ جب نکلے سب کے جی چھوٹ گئے ۔ اور کہہ دیا کہ اس غنیم کا مقابلہ ہماری طاقت سے باہر ہے ۔ عرضیاں اور خطوط دوڑانے شروع کئے ۔ یہی عرائض کی تحریر تھی اور یہی پیام کی تقریر کی اگرحضور تشریف لائیں توجانیں پھینگی ۔ ورنہ کام تمام ہے ۔ محل میںجی جی آتی تھی ۔ اور روتی تھی کہ واریمیرے بچے کو جاکر لے آؤ ۔ اکبر عمدہ عمدہ سرداروں اور سپاہیوں کو لے کر سوار ہوا۔ اور اس طح گیا کہ ۲۷ دن کا راستہ ، دن میں لپیٹ کر ساتویں دن گجرات سے تین کوس پر دم لیا ۔ فیضی نے جو سکندر نامہ کے جواب میں اکبر نامہ لکھنا چاہا تھا۔ اس میں معرکہ کا خوب سماں باندھا ہے ؎ بہ یک ہفتہ تااحمد آباد رفت توگوئی کہ برمرکب آباد رفت یلاں بر شتر ترکش اندر کمر شتر چوں شتر مرغ درزیر بر لڑائی کا بیان ہفت خوان ستم کی داستان ہے اکبرکے حال میںدیکھ لو۔ علاء الدولہ نے تذکرہ میںلکھا ہے ۔ کہ جب اکبر نے گجرات فتح کی تو شاہزادہ سلیم کی وکالت اور نیابت کیساتھ دوکروڑ ساٹھ لاکھ کا علوفہ کرکے دارلملک احمد آباد سے پایہ تخت گجرات میںممتاز کیا ۔اس دن ایک تقریب خاص کے سبب سے میںبھی حاضر تھا اور میںمرزا کا ملازم بھی تھا۔ شب برات کی ۱۵ تاریخ تھی۔ میںنے اسی وقت تاریخ کہی ع گفتار کہ بہ شب برات دادند ہدو دوسرے سال فتوحات بنگالہ کے شکران میںبادشاہ فتح پور سے اجمیر گئے ۔ دو بڑ ے بڑے نقارے جو لوٹ میںآئے تھے ۔ وہاں نذ رچڑھائے ، خان اعظم پہلے سے اشتیاق حضوری میںعرضیان دوڑا رہے تھے ۔ یلغار کر کے احمد آباد سے پہنچے بادشاہ بہت خوش ہوئے ۔اٹھے اورچند قدم بڑھ کر گلے لگالیا۔ ۹۸۲ ھ میں مرزا سلیمان کی آمد آمد تھی ۔ اور ضیافت کے وہ سامان ہورہے تھے کہ جس سے جشن جمشید کی شان شکوہ گرد تھی ۔ انہیں حکم پہنچا کہ تم بھی حاضر دربار ہونا کہ زمرہ امرا میں پیش ہو۔ خاں اعظم ڈاک بٹھا کر فتح پور میں حاضر ہوئے۔ نکتہ اکبر ہندوستان کے لوگوں کو عمدہ عہدے اور بااعتبار خدمتیں بہت دینے لگا تھا ۔ اور اسکے کئی سبب تھے کچھ تو اس لیے کہ اس کے باپ داد نے ہمیشہ بخارا اور سمر قند کے لوگوں سے خطا پائی تھی ۔ اور اس سے بھی اکثر ترکوں نے بغاوت کی تھی ۔ کچھ اس سبب سے کہ یہاں کے لوگ۔ صاحب علم ۔ بالیاقت با تدبیر اپنے ملک کے حا ل سے باخبر ہوتے تھے۔ اوراطاعت بھی صدق دل سے کرتے تھے ۔ کچھ ا س سبب سے کہ ان کا ملک تھا۔ اس لئے اس سے فائدہ اٹھانا بھی پہلے انکا حق تھا۔ بہرحال ترک اس بات سے جلتے تھے۔ اور اکثر طرح طرح سے بدنام کرتے تھے کبھی کہتے تھے بد مذہب ہوگیا ۔ کبھی یہی کہتے تھے کہ بزرگوں کے خدمتگاروں اور حق داروں کے حق بھول گیا ۔ اس موقع پر کہ مرزا سلیمان آنے والا تھا ۔ بادشاہ با تدبیر نے اسے یہ بات دکھائی مصلحت سمجھی کہ دیکھو جو لوگ باوفا اور جاں نثار ہیں وہ انکو انکی اولاد کو کتنا بڑھاتا ہوں۔ اورکس قدر عزیز رکھتا ہوں۔ اور مرزا عزیز کو دیکھے ۔ کس رتبہ عالی پر پہنچایا ہے ۔ کہ میری انکہ لڑکاہے۔ اور اس کے علاوہ بھی بہت سے قدیم الخدمت اور کبنہ عمل اہل سیف واہل قلم موجود تھے انہیں پیش کیا۔ انہی دنوں میں داغ کا آئین جاری ہواتھا ۔ امرا کو یہ قانون ناگوار تھا۔ بادشاہ نے مرزا عزیر کو اپنا سمجھ کر فرمایا کہ پہلے خان اعظم اپنے لشکر کی موجودات دے گا۔ ہٹیلے نواب کی آنکھوں پر ان دنوں جوش جوانی نے پردہ ڈالا تھا ۔ ایک میاں باؤ لے اوپر سے پی بھنگ ہمیشہ کے لاڈلے تھے۔ یہ اپنی ہت پر آکر اڑگئے ا ور نئے قانون کی قباحتیں صاف صاف کہنی شروع کیں۔ بادشاہ نے کچھ فہمائش کی۔ اور ارکان دولت نے تائید میں تقریریں کیں۔ یہ جواب میں کس سے رکتیتھے ۔ بادشاہ نے تنگ آکرکہا۔ ہمارے سامنے نہ آؤ کئی دن کے بعد آگرہ بھیج دیا ۔ کہ اپنے باغ میں رہیں اور آمد ورفت کا دروازہ بند۔ نہ یہ کہیں جائیں۔ نہ کوئی انکے پاس آئے۔ باغ مذکور کا نام باغ جہاں آرا تھا کہ خود ذوق و شوق کی نہروں سے سر سبز کیا تھا۔ ۹۸۳ ھ؁ میں بادشاہ کو خود خیال آیا۔ اور تفصیر معاف کر کے پھر صوبہ گجرات میں رخصت کرنا چاہا۔ یہ تو پورے ضدی تھے زمانہ ۔ بادشاہ نے پھر کہلا بھیجا کہ وہ ملک سلاطین عالی جاہ کا تخت گاہ ہے۔ اس نعمت اور حضور کی عنایت کا شکرانہ بجا لاؤ اور جاؤ۔ انہوں نے کہلا بھیجا کہن سال بڈھے نے بہت سے نشیب وفراز دکھلا کر سمجھایا ۔ ماںنے بھی کہا ۔ جھنجھلا ئی اور خفا بھی ہوئی۔ مگر یہ کسی کی سنتے تھے۔ ادھر مرزا خاں کی قسمت زور کر رہی تھی ۔ اور خان خاناںہونا تھا ۔ بادشاہ نے اسے بھیج دیا۔ وہ شکرانے بجا لایا ۔ اور سجدے کرتا ہوا روانہ ہوا۔ ان کی خطا توہر وقت معاف تھی۔ مگر یہ کہو ۹۸۶ ھ میںانہوں نے بھی معافی خطا کو منظور کیا۔ ۹۸۷ ھ؁ میںمرزا پر سے بڑی کل بل بلی۔ بادشاہ خلوت میں تھے۔ دفعتہ دولت خانہ اقبال سے غوغای عظیم کی آوازیں بلند ہوئیں ۔ معلوم ہوا کہ مرزا کو کہ زخمی ہوئے۔ حقیقت حال یہ تھی کہ بھوپت چوہان اٹاوہ کا راجہ باغی ہوکر ملک بنگالہ میںچلاگیاتھا۔ بنگالہ تسخیر ہو گیا وہ پھر اپنے علاقہ میںآیااور رعیت کو پرچاتے ۔ چوروں اور رہزنوں کودبانے لگا ۔ حکام بادشاہی نے اسے دبایا اور دربار میںعرضی کی ۔حکم ہوا کہ ملک مذکور مرزا کی جاگیر ہے۔ یہ جاکر اس کا بندوبست کریں۔ وہ بھاگ کر راجہ ٹورڈرمل او ربیربر کے پاس آیا ۔ اور جرم بخشی کارستہ نکالا۔ مرزا کو یہ حال معلوم ہوا۔ حضور میں عرض کی حکم ہوا کہ شیخ ابراہیم ، شیخ سلیم چشتی کے خلیفہ اسے بلائیں۔ اور حال دریافت کریں ۔ وہ ظاہر میں بندگی اور دل سے مرزا کی گھات میں تھا ۔ راجپوتوں کی جمعیت سے لشکر میںآیا ۔اور شیخ سے کہا کہ مرزا مجھے اپنی پناہ میںلیں۔ اور جرم بخشی کا ذمہ لیکر حضور میںلے چلیں۔ ورنہ میں اپنی جان کھودونگا۔ شیخ اسے اور مرزا کو لیکر حضور میںحاضرہوئے۔ آئین تھا کہ بارگاہ میںبے اجازت کسی کوہتھیار بند نہ آنے دیتے تھے ۔ اس کی کمر میں جمدھر تھا۔ ایک پہر ہ والے نے جدھر پر ہاتھ رکھا ۔ وہ بدگمان ہوا۔ اور جھٹ جمدھر کھینچ لیا۔ مرزا نے ہاتھ پکڑ لیا۔ اس نے انہیں زخمی کیا۔ ،پالکی میں پڑ کر گھر گئے۔ دوسرے دن حضور نے جا کر آنسو پونچھے اور دم دلاسوں کی مرہم پٹی چڑھائی ۔ ۹۸۸ ھ؁ میںپھر نحوست آئی ۔ اسکی کہانی بھی سننے کے قابل ہے ۔ ان کا دیوان کچھ روپیہ کھا گیا تھا ۔ انہوں نے اسے طالب اپنے غلام کے سپر د کیا کہ روپیہ وصول کرے۔ اس نے دیوان جی کو باندھ کر لٹکادیا۔ چوبکار ہی شروع کر دی اور ایسا مارا کہ مار ہی ڈالا۔ دیوان کا باپ روتا پیٹتا حضور میں حاضر ہوا بڈھے کی حالت دیکھ کر بادشاہ کو بہت رنج ہوا۔ قاضی لشکر کو حکم ہوا کہ تحقیقات کرے۔ خان اعظم نے کہا کہ غلام کو میںنے سزا دیدی ۔ میر امقدمہ حضور قاضی کے ہاتھ میں نہ ڈالیں ۔ اس میں میری بے عزتی ہے۔ بادشاہ نے یہ عرض منظور نہ کی۔ یہ خفا ہو کر پھر گھر جابیٹھے ۔ کئی مہینے کے بعد بادشاہ نے خطا معاف کی ۔ ۹۸۸ ھ؁ میں بنگالہ میں فساد ہوا۔ مظفر خاں سپہ سالار مارا گیا توان کی پنج ہزاری منصب عنایت کیا۔ ابھی تک خان اعظم انکے باپ کا خطاب بھی امانت رکھا تھا۔ وہ عنایت فرما کر راجہ ٹورڈرمل کی جگہ بنگالہ کی مہم پر سپہ سالار کر دیا۔ کئی امیر کہنہ عمل سپاہی اور پرانے تیغ زن فوجوں سمیت ساتھ کئے۔ انہیں بھی بھاری بھاری خلعت او ر عمدہ گھوڑے سے دیکر اعزاز بڑھایا ۔ مشرقی امر ا کے نام فرمان جاری ہوئے کہ یہ آتے ہیں۔سب ان کی اطاعت کرنا اور حکم سے باہر نہ ہونا۔ منعم خاں خان خاناں او رحسین قلی خان خانجہاں اس ملک میں برسوں تک رہے ۔ تلواروں نے خون آور تدبیروں نے پسینے بہائے۔ مگر ملک مزکور کا برا حال ہو رہا تھا ۔ ایک طرف توافغان جو اپنا ملک سمجھتے تھے۔ جا بجا فساد کرتے تھے ۔ دوسری طرف بادشاہی امرا جو نمک حرام ہورہے تھے ۔ وہ کبھی آپ کبھی افغانوں کے ساتھ مل کر یار دھاڑ کرتے پھرتے تھے۔ خان اعظم فوجیں بھیج کر ان کا بندوبست کرتے تھے۔ ان پر بس نہ چلتا تھا ۔ امراے ہمراہی پر خفا ہوتے تھے ۔ بہت غصے ہوتے تو ایک چھاؤنی چھو ڑ دوسری چھاؤنی میںچلے جاتے تھے ۔ امرا بہت چاہتے تھے کہ انہیں خوش رکھیں۔ مگر وہ خوش ہی نہ ہوتے تھے ۔ ٹورڈر مل بھی ساتھ تھے۔ کمر باندھے پھرتے تھے۔ کبھی ادھر کبھی ادھر ۔ ایک برس سے زیادہ یہ دوبرس تک ادھر رہے اور رات دن انہیں میں غلطان و پیچاں پڑے رہے ۔ امارت بھی خرچ کی۔ روپیہ دے کر بھی باغیوں کو پرچایا۔ پر اس ملک کے معاملے ایسے نہ تھے کہ پاک و صاف ہوجائیں۔ ۹۹۰ ھ میں جب بادشاہ کابل کی مہم فتح کر کے فتح پور میںآئے۔ تو ۹۹۱ ھ کے جشن میںآکر شامل دربار ہوئے اور وہاں بغاوت ہوگئی ۔ اوربنگالہ سے لے کر حاجی پور تک باغیوں نے لے لیا خان اعظم مہم بنگالہ کے لئے دوبارہ خلعت اور فوج لے کر روانہ ہوئے ۔ اور اس کا بندوبست کیا۔ ۹۹۲ ھ میں عرضی کی کہ اس کی ہوا مجھے موافق نہیں۔ چند روز رہا تو زندگی میںشبہ ہے ۔ بادشاہ نے بلا لیا۔ اکبر کا دل مدت سے دکن کی ہوا میں لہرا رہا تھا ۔ ۹۹۳ ھ میں ادھر کے اضلاع سے ملک مذکور میں فتنہ و فساد کی خبریں آئیں ۔میر مرتضے اور خداوند خاں امراے دکن برار سے احمد نگر پر چڑھ گئے ۔ کہ نظام الملک کاپایہ تخت تھا۔ وہاں سے شکست کھا کر راجہ علی خاں حاکم خاندیس کے پاس آئے۔ کہ اکبر کے پاس جاتے ہیں۔مرتضے نظام شاہ نے راجہ علی خاں کے پاس آدمی بھیجے ۔ کہ فہمائش کر کے روک لو۔ وہ روان ہ ہوگئے تھے۔ اس لئے آدمی بھیجے کہ خوا نین کو روکے۔ وہ نہ رکے اورنوبت تلوار و تفنگ کی پہنچی ۔ انجام یہ کہ انہیں لوٹ کھسوٹ کر ذخیرہ وافر جمع کیا ۔ اور وہ آگرہ پہنے ۔ راجہ علی خاں بڑا دو ر اندیش او رصاحب حکمت تھا۔ خیال ہوا کہ بہادر اکبر کو یہ امر نگوار نہ گذرا ہو وہ جانتا تھا کہ اکبرہاتھی کاعاشق ہے۔ ۱۵۰ ہاتھی بیٹے کے ہاتھ روانہ دربار کئے بزم نو روزی میںاس نے اور بہت سے نفائس اور اسباب و اجناس پیشکش گذارے ۔ ساتھی ہی تسخیر دکن کے رستے دکھائے ۔ خانخاناں تو احمدآباد میںپہلے ہی سے موجود تھے۔ تمام امرا اور سرداروں کے نام فرمان جاری ہوئے۔ چند امرا کو ادھر روانہ کیا ۔ اور خان اعظم کوفرزندی کا خطاب اور سپہ سالار قرار دے کر حکم دیا کہ برارلیتے ہوئے احمد نگر کوجا مارو ۔انہوں نے ہنڈیا میںجاکر مقام کیا۔ اور فوج بھیج کر سالوں گڑھ پر قبضہ کیا۔ ناہراراؤ اطاعت میں حاضر ہوا۔ اور راجہ بھی کمربستہ خدمت میں حاضر ہونے لگے ۔ اور ملک گیری کا ہنگامہ گرم ہوا۔ بادشاہ نے ملک مالودکے عمدہ عمدہ مقام پیارے کو کہ کی جاگیر کر دیے ۔ جب امرا کو ان کی ہمراہی کے فرمان پہنچے تو سب فراہم ہوئے۔ تقدیر کے اتفاق سے نا اتفاقی کی آندھی اٹھی اور اندھیرا پھیلنا شروع ہوا۔ سپہ سالار پر بدگمانی غالب آئی او ر ایسا گھبرایا کہ انتظام کا رشتہ تباہ ہوگیا۔ ماہم بیگم کی نشانی شہا ب الدین احمد خاں موجود تھے ۔ ان کی صورت دیکھ کر باپ کا خوںآنکھوں میںاترآیا ۔ خان اعظم اکثر صحبتوں میں اس بڈھے کہن سال کو ذلیل کرنے لگے۔ شاہ فتح اللہ شیرازی کو بادشاہ نے اصلاح و تدبیر کے لئے ساتھ کر دیا تھا۔ کہ یہ ادھر کے ملک اور ملک داروں سے واقف تھے ۔ اور ان کی تدبیروں کو وہاں کے لوگوں میںبڑا اثر تھا۔ یہ نفاق کے حرفوں کو مٹاتے تھے ۔ کینہ ورسی کی آگ کو دباتے تھے اور کہتے تھے کہ دیکھو یہ موقع آپس کی عداوت کا نہیں ہے ۔ مہم خراب ہوجائے گی۔ باپ سب کا اکبر بادشاہ ہے اس کی بات میںفرق آئے گا۔ ملک ملک میں رسوائی ہوگی خان اعظم ان سے بھی خفا ہوگئے ۔ باوجودیکہ بادشاہ شاہ فتح اللہ استادبھی تھے ۔ مگر رقیب کا خیر خواہ ٹھرا کر بزرگی کو طاق پر رکھا۔ خود خان اعظم اور ان کے مصارحب سر مجلس تمسخر اور تضحیک سے شاہ موصوف کوآزروہ کرنے لگے۔ شاہ تدبیر کے ارسطو اور عقل کے افلاطون تھے۔ لطائف الحیل سے ان باتوں کوٹالتے اور وقت گزارتے تھے۔ اور شہاب الدین بڈھے سردار کی تو اس قدر خواری ہوئی کہ وہ خفا ہو کر فوج سمیت رایسین دو اجین اپنے علاقے کو اٹھ گیا ۔ انہوں نے بجائے دلداری اور دلجوئی کے اس پر جرم قائم کیا۔ کہ میںایک بادشاہ کابھائی دوسرے سپہ سالار میری اجازت بغیر جانا چہ معنی وارد۔ فوج لیکر اس کے پیچھے دوڑے ۔ تو لک خان قوچی کہ شجاعت اور ہمت میں نظیر نہ رکھتا تھا۔ اور دست راست کی فوج کا سپہ سالار تھا ۔ اسے بھی کچھ تہمت لگائی اور غافل قیدکر لیا دشمن دل میںڈر رہا تھا کہ خدا جانے بادشاہی لشکر کب اور کن کن پہلوؤں سے حملہ کر بیتھے ۔ جب اس نے دیکھا کہ دیر ہوتی چلی جاتی ہے۔ اور پھر خبریں پہنچیں کہ امرا اپنے گھر میںلڑ جھگڑ رہے ہیں۔ تووہ شیر ہوگیا۔ چند امرا کے ساتھ ۲۰ ہزار فوج کی ۔جن میں محمد تقی کو سپہ سالار کیا۔ وہ مقابلہ کوروانہ ہوئے۔ مرزا محمدتقی خود راجہ علی خاں کے پا س گئے ۔ بعض دکنی سردار جو ہوا کا رخ دیکھ رہے تھے ۔ وہ بھی بد ہوا گئے قریب تھا کہ سلطنت کی نوبت ، رسوائی تک پہنچے ۔ میر فتح اللہ پھر بیچ میکںآکر آپس کی مصلحت اور غنیم کی مصالحت میں آکر شامل ہوگے ۔یہی غنیمت ہو کہ پردہ رہ گیا۔ راجہ علی خاں حاکم خدندیس دکن کے حصوں کا سردار اور مالک شمشیر تھا ۔ وہ خان اعظم کی رفاقت کو شعلہ ہوگیا تھا ۔ یہ حال دیکھ کر اس نے بھی موقع پایا۔ برادر اور احمد نگر کے امرا او ر ان کی فوجوں کو ساتھ لے کر چلا۔ مرز عزیز نے یہ سن کر ادھر سے شاہ فتح اللہ کو بھیجا کہ فہمائش کریں۔ وہ دکن کے جنگلوں کا شیر تھا اب کس کی سنتا تھا ۔ سیدھا آیا ۔ شاہ فتح اللہ وہاں سے ناکام پھرے اور آز ردہ اور بیزار ہوکر خان خاناں کے پا س گجرات چلے گئے ۔ راجہ علی خان کی آمد آمددیکھ کر خان اعظم گھبرائے ۔ امرا کومشورہ کے لئے جمع کیا۔ جو آدمی دوست و دشمن کو نہ پہنچانے اور موقع کو نہ سمجھے ۔ ان کے لئے مشورہ کیا ؟ اور صلاح کون دے ؟ کئی دن مقام ہنڈیا میں آمنے سامنے پڑے رہے ۔ مقابلے کی طاقت نہ پاء ی۔ رفیقوں پر اعتبار نہ ہوا۔ ایک شب چپ چپاتے کسی گمنام رستہ سے نکل ملک برار کا رخ کیا۔ ایلچ پوراس کا پایہ تخت تھا۔ اس کا اور جس شہر کو پایا لوٹ کھسوٹ کر ستیا ناس کردیا ۔ اور دولت بے قیاس سمیٹی ۔ ہتیا راؤ ادھر کا راجہ ساتھ ہوگیا تھا ۔ وہ کڈھب رستوں میں رہنمائی کرتا آتا تھا۔ راہ میں اس پر خیال ہواکہ یہ غنیم سے ملا ہوا ہے۔ وہ بدگمانی کی تلوار سے غصے کی درگاہ میں قربانی ہوا۔ ایلچ پور میںپہنچ کر بعض امراء کی صلاح ہونی کہ اسی طرح باگیں اٹھائے چلے چلو۔ اور احمد نگر تک دم نہ لو۔ کہ دارلملک دکن کا ہے ۔ بعضوں نے کہا کہ یہیں ڈیرے ڈال دو۔ اور جو ملک لیا ہے ۔ اس کا انتظام کرو۔ انہیں کسی کی بات پر بھروسہ نہ تھا ۔ یہاں بھی نہ تھمے اور نہ دربار کارخ کیا ۔ غنیم سوچتارہ گیا کہ دانش مند سپہ سالار سپہ لئے ہوئے ملک کوچھوڑ کر چلا گیا ۔ خدا جانے اس میں کیا پیچ کھیلا ہے ۔ یہاں اندر کچھ بھی نہ تھا۔ وہ جریدہ ان کے پیچھے دوڑا۔ اس رستے میں عجب حالت گذری ۔ قدم اٹھاے چلے جاتے تھے ۔ بھدے ہاتھی اور بھاری بھاری بوجھ رہے تھے ۔ انہیں کوچے کاٹ کاٹ کر ڈالتے جاتے تھے۔ کہ ہاتھی دشمن کے ہاتھ آئیں۔ تو ان کے کام کے نہ ہوں۔ دشمن کو راہ میں ہنڈیا شہر بلاکر بادشاہی علاقہ تھا ۔ ایلچ پور کے بدلے میں اسے لوٹ مار کر ٹھیکرا کر دیا۔ غنیم کی چنداول (لشکر کے پچھلے حصہ) سے لڑائی ہوتی چلی آتی تھی رستے میں آرام لینے کی مہلت نہ ملی ۔ ایک موقع پر تھم کر لڑائی ہوئی ۔ اس میں بھی جگ ہنسائی ہوئی۔ غرض ہزار جان کندن سے ندربار کی حد میں لشکر کو چھوڑا اور آپ احمد آبا دکی طرف چلے۔ یہ اس خیال خام میںگئے تھے ۔ کہ خانخاناں میرا بہنوئی ہے اس سے مدد لاؤ نگا ۔ اور غنیم کو مار کر تباہ کر وں گا ۔ خانخاناںبھی دربار اکبری کی ایک اعلی رقم تھے ۔ وہ فورا محمو د آباد کی منزل میںنظام الدین احمد کے ڈیروں میںآکر ملے ۔ کہ بڑودہ کو جاتے تھے ۔ انکی گرمجوشی اور تپاک اور اختلاط کا کیا بیان ہوسکے ۔ د ن کو مشورے رہے۔ اور یہ ٹھیری کہ اس وقت احمد آباد چلے چلو۔ بہن بھی وہیں ہیں۔ ان سے ملو پھرمل کر دکن پر چلو۔ چنانچہ وہ دو نواد ہرگئے ۔ نظام الدین احمد امرا اوافواج ہمراہی کو لئے بڑودہ کو روانہ ہوئے۔ بڑودہ میںپھر دو نو خان آئے ۔ خان اعظم تو پھر آگے بڑھ گئے ۔ کہ جب تک خان خاناں لشکر لے کر احمد آباد سے آئیں میںلشکر ندر بار کو تیار کرتاہوں۔ خان خاناں پھر احمد آباد گئے ۔ اور نظام الدین احمد کو لکھا کہ جب تک میں نہ آؤں ۔ بڑودہ سے نہ بڑھنا چنانچہ تھوڑے ہی عرصے میںفوج آراستہ کو لیکر پہنچے اور بھڑوچ کو چلے ۔ وہان پہنچے تھے جو خان اعظم کے خط آئے ۔ کہ اب تو برسات آگئی ۔ اس سال لڑائی موقوف رکھی چاہیے۔ سال آئندہ میں سب مل کر چلے گے ۔ راجہ علی خاں او ر دکنی سردار اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے ۔ یہ سب کو گالیاں دیتے بدر بار سے دربار میں آن حاضر ہوئے۔ ۹۹۵ ھ؁ میں صلاح ہوئی کہ دودھ میںمٹھاس ملاؤ اور بھی مزہ دیگا ۔ خان اعظم کی بیٹی سے شاہزادہ مراہ کی شادی ہوجائے۔ شاہزادہ اس وقت ۱۷ برس کا تھا۔ مریم مکانی یعنی اکبر کی والدہ کے گھر میںیہ شادی رچی ۔ خان اعظم کی عظمت بڑھائی تھی ۔ بادشاہ خود برات لے کر گئے اور دھوم دھام سے دلہن بیاہ لائے۔ ۹۹۶ ھ ؁میںلڑکا بھی پیدا ہوا اور مرزا رستم نام رکھا۔ ۷ ۹۹ ھ؁ میں احمد آباد گجرات خانخاناں سے لیکر پھر انہیں دیا۔ یہ کہتے تھے کہ مالوہ کا ملک اچھا ہے میں تو وہ لوںگا ۔ وہ اکبر بادشاہ تھا۔ خدا جانے اس نے اپنی تجویز میںاور کیا کیا مصلحتیں مد نظر رکھی تھیں ۔ مشورہ کے لئے جلسہ بٹھایا ۔ الحمد اللہ صلاح بھی ایسی ٹھیر گئی جس میں ان کی ضد پوری ہوئی۔ یہ سازو سامان کر کے ادھر روانہ ہوئے ۔ ۹۹۹ ھ ؁میں خان اعظم نے ایسا میدان ماراکہ کسی فحتیاب سے پیچھے نہ رہا۔ جام سرسال اس ولایت کے اعلیٰ حکمرانوں میںسے تھا ۔ اور ہمیشہ فسادوں کی تاک میںرہتا تھا۔ اس نے مظفر گجراتی کو پیر مرد بنا کر نکالا۔ سورٹھ کا حاکم دولت ۱؎ خاں اورراجہ کنکار کچھ کا حاکم بھی شامل ہوا۔ ۲۰ ہزار کا بلوہ باندھ کر لڑنے کو آئے ۔خان اعظم نے ادھر ادھر خطوط لکھے کوئی مدد کو نہ آیا ۔ اس ہمت والے نے دل نہ ہارا اور جس طرح ہو سکا جمعیت کی صورت پیدا کر کے نکلا۔ غنیم نے بڑے حوصلے سے فوجوں کو بڑھایا ۔ خاں اعظم نے چند سردار وں کو فوج دیکر آگے روانہ کر دیا۔ ان سے کوتہ اندیشی یہ ہوئی ۔ کہ یہ غنیم کے ساتھ صلح کی گفتگو میںکیں۔ ان کے دماغ اور بھی بلند ہوگئے ۔ اور جنگ کے نقارے بجاتے آگے بڑے ۔ ضد ہی سپہ سالار کو غصہ آیا ۔ باوجودیکہ ۱۰ ہزار سے زیادہ جمعیت نہ تھی اور غنیم کے ساتھ ۳۰ ہزار فوج تھی ۔ یہ سامنے ڈٹ گیا۔ اور لشکر کو سات فوجوں میں تقسیم کیا۔ قلب میں اپنا فرزند خورم چاروں طرف امرائے شاہی اپنی اپنی فوجوں سے قلعہ باندھ کر کھڑے ہوئے ۔ اور انہیں اور سپاہ کی مدد سے قوی پشت کیا ۔ انور اپنے بیتے کو چھو سو سواروں سے الگ کیا ۔ اور خود بہت سے سورما سپاہیوں کی جمعیت میں چار سو سوار لیکر کھڑے ہوئے۔ کہ جدھر وقت پڑے فورا پہنچیں۔ ادھر سے مظفر نے میدان میںفوجیں قائم کیں۔ کہ یکایک مینہ برسنا شروع ہوا۔ اور بارش کاتار لگ گیا ۔ جس انداز سے لڑائی شروع ہوئی تھی۔ وہ ملتی ہوگیا۔ اور طرفین سے ترکانہ حملے ہوتے رہے۔ غنیم بلندی پر تھا۔ یہ نیچے تھے ۔ بڑی وقتیں پیشں آئیں ۔ مشکل یہ ہوئی کہ ادھر رسد بند ہوگئی ۔ دو دفعہ شبخون بھی لے گئے ۔ مگرناکام پھرے ۔ جب تکلیفیں حد سے گذر گئیں توخان اعظم نے اس میدان میںفوج کو لڑانا مناسب نہ سمجھا۔ چار کوس کوچ کر کے جام کے علاقے میںگھس گیا۔ یہاں مینہ نے ذرا مان دی جنگل نے جانوروں کے لئے گھاس دی۔ لوٹ مار نے غلہ کی رسد پہنچائی ۔ مظفر کو ناچار ادھر کودنا پڑا۔ اور دریا کو بیچ میںڈال کر ڈیرے ڈال دیے۔ بڑ ی بات یہ ہوئی ۔ کہ طول مدت کے سبب سے غنیم کی سپاہ کو بال بچوں کے فکر ہوئے۔ لشکر کو چھوڑا ادھر بھاگنے لگے ۔ مگرمظفر کہاں سنتا تھا ۔ جس حال میںتھا قائم رہا۔ فوجوں میں روز چھینا جھپٹی ہوجاتی تھی ۔ مگرایک دن میدان ہوا اور میدان بھی وہ ہوا کہ فیصلہ ہی ہوگیا۔ دونو سپہدار اپنی اپنی سپا ہ کو لے کر روانہ نکلے۔ اور قلعے باندھ کر سامنے ہوئے اول خان اعظم کے بائیں کی فوج پیش قدمی کر کے بڑھی ۔ او ر ایسی بڑھی۔ کہ ہر اول سے بھی آگے نکل گئی ۔ اورپل کے پل میںغنیم کی فوج سے چھری کٹاری ہوگئے ۔ سرداروں نے خود بڑھ کر تلواریں ماریں۔ اور ایسے لڑے کے مرگئے۔ افسوس یہ کہ جو فوجیں خان اعظم نے مدد کو رکھی تھیں وہ پہلو بچا کر آگئیں۔ اور دشمن ان کا پیچھا کرتاڈیروں تک چلا آیا ۔ اسے وہاں پہنچ کر چاہیے تھا کہ پیچھا مارتا۔ ۱؎ دولت خاں فرما نرواے ملک سورٹھ میں خان غوری کا بیٹا تھا ۔ اور کہتا تھا کہ میں سلاطین غور کی اولاد ہوں۔ اس نے گٹھریاں باندھنی شروع کرد یں البتہ ہر اول ہر اول سے خوب ٹکرایا ۔ اور باقی فوجیں بھی بڑھ بڑھ کر دست و گریبان ہوگئیں۔ لشکر غنیم کے راجپوت گھوڑوں سے کود پڑے۔ اور کمر پنکے آپس میں باندھ باندھ کر سد سکندر ی کی طرح ڈٹ گئے۔ کام تیر تفنگ سے گزر گیا ۔ اور دست بدست معاملہ آپڑا۔ قریب تھا کہ لشکر شاہی کا حال بدحال ہوجائے۔ اتنے میں آگے کی فوج نے بڑھ کر غنے م کے بائیں کو الٹ دیا۔ خان اعظم منتظر وقت کھڑا تھا۔ جھٹ لشکر کو للکارا۔ اور گھوڑے اٹھائے اسے خدائی اقبال کہنا چاہیے کہ ادھ راس نے باگ لی ۔ادھر دشمن کے قدم اکھڑے ۔ مظفر اور جام بے ہوش بدحواس بھاگے۔ اسکے کئی سردار دو ہزار بہادروں کے ساتھ میدان میںکھیت رہے۔ تھوڑی دیر میں سامنا صاف ہوگیا۔ نقد و جنس تو چاند ہاتھی سامان امارات اور اسباب جاہ حشمت جس قدر فوج شاہی کے ہاتھ آیا۔ اس کا حساب نہیں۔ اکبری لشکر کے سو بہادروں نے جانیں عزت پر قربان کیں۔ اور پانسو نے زخموں س چہر گلرنگ کیا۔ شیخ فیضی نے فتوحات ۹۹۹ھ؁ عزیزی تاریخ کہی ۔ خان اعظم سخاوت کے شہزادہ تھے۔ اور کیوں نہ ہوں بادشاہ کے بھائی تھے امرائے لشکر کو خلعت ہاتھی ۔ گھوڑے نقد و جنس بے حساب دیتے ۔ انشا پرواز بھی اچھے تھے۔ بادشاہ کو اپنی لڑائی کا نامہ خواب بنا بنا کر لکھا ۔ وہاں بھی اندر محلوں میں باہر درباروں میں بڑی مبارکبادیں ہوئیں۔ خان اعظم کے سب دار غنیموں کے پیچھے دوڑے ۔ خورم فرزند فوج لے کر مظفر کا پتا چیتا چلا۔ رستے میں بعض قلعوں کو فتح کرنا چاہا۔ مگر امراے ہمراہی کی سستی سے کام کی درستی نہ ہوئی ۔ خان اعظم نے بھی اس وقت فوج کا بڑھانا اور ملک کا پھیلانا نہ سمجھا۔ ہاتھ پاؤں ساتھ نہ دیں تو دل کیا کرے ۔ امرا اور فوجوں نے اپنے اپنے علاقوں میں آرام لیا۔ ۱۰۰۰ ھ؁ میں خبر لگی کہ دولت خان جو جام کی لڑائی میں تیر کھا کر بھاگا تھا۔ تیرا جل کا نشانہ ہوا خان اعظم لشکر آراستہ کر کے نکلا۔ اور جونا گڑھ کی تسخیر پر کمر باندھی ۔ کہ ملک سوہر ٹھ کا حاکم نشین شہر تھا ۔ پہلا شگون یہ ہوا کہ جام کے بیٹے اس ملک کے چند سرداروں کے ساتھ آکر لشکر میںشامل ہو گئے ۔ ساتھ ہی کو کہ بنگلور سومنات اور ۱۶ بندر بے جنگ قبضہ میںآگئے ۔ قلعہ جونا گڑھ کی مضبوطی فولاد کیساتھ شرط باندھے کھڑی تھی ۔ خان اعظم نے توکل بخارا محاصرہ ڈالا۔ معلوم ہوگیا تھا کہ کاٹھی لوگ قلعے میں رسد پہنچا رہے ہیں ایک سردار کو بھیج کر ان کا بندوبست کیا۔ اقبال اکبری کو زور دیکھو۔۔ کہ اسی دن قلعے کے میگزین میںآگ لگ گئی ۔ غنیم نے اگرچہ نقصان سخت اٹھایا ۔ مگر حوصل ذرا نہ ٹوٹا ۔ قلعے والے اور بھی گرم ہوئے۔ سو توپ پرفتیلہ پڑتا تھا ۔ اور برابر ڈیڑھ من کا گولہ گرتا تھا ۔ پرتگالی توپچی نے گول انداز ہی میں جان لڑائی کہ گولی کی طرح حوصلہ سے نکل پڑا ۔ اور خندق میں گر کر ٹھنڈا ہو گیا ۔ خان اعظم نے بھی سامنے ایک پہاڑی ڈھونڈھ کر نکالی۔ اس پر توپیں چڑھائیں۔ اور قلعے پر گولے اتا رنے شروع کر دیے ۔ قلعے میں بھونچال او ر قلعہ والوں میں تلاطم مچ گیا ۔ خلاصہ یہ کہ قلعہ والے تنگ ہو گئے ۔ آخر میاں خان اور تاج خاں پسران دولت خاں نے کنجیاں حوالہ کردیں۔ اور پچاس سردار صاحب نشان دلشکر آکر حاضر ہوئے ۔ خان اعظم نے ان کی بڑی دلداری کی۔ بھاری خلعت ۔ بلند منصب او ربڑی بڑی جاگیریں دیکر خوش کیا۔ خود بھی بہت خوشی کے جشن کئے۔ہاں جو بادشاہ کے بھائی ہوئے ہیں۔ ایسا ہی کرتے ہیں۔ اور خوش کیوں نہ ہوں اب تو سومنات قبضے میں آیا ۔ محمود غزنوی ہوگئے ۔ اور حق بھی یہ ہے ۔ کہ بڑا کام کیا۔ اکبری سلطنت کا باٹ سمندر کے گھاٹ تک پہنچا دیا۔ کچھ تھوڑی خوشی کامقام نہیں۔ اکبر کو بھی اس بات کی بڑی آرزو تھی ۔ کیونکہ اسے دریائی طاقت کے بڑھانے کا دل سے خیال تھا۔ اب خان اعظم سمجھا کہ جب تک مظفر ہاتھ نہ آئے گا۔ یہ فساد فرو نہ ہوگا۔اس نے کئی سردار نامی فوجیں دیکر روانہ کئے ۔ اور انور اپنے بیٹے کو ساتھ کیا ۔ مظفر نے ملک ہار کے راجہ کے پا س پناہ لی تھی ۔ کہ دوارکا کا مندر وہیں ہے ۔ راجہ بھی اس کی مدد پر کمربستہ ہوا۔ یہ فوجیں اس طرح سر توڑ پہنچیں ۔ کہ دوار کا بے جنگ ہاتھ آگیا راجہ نے مظفر کو اہل و عیال سمیت ایک جزیرے میںبھیج دیا تھا ۔ جب انہوں نے راجہ کودبایا ۔ تو وہ بھی اس کے پیچھے بھاگا۔ انہوں نے گھوڑا اٹھا کر رستے میںجالیا ۔ وہ پلٹ کر اڑا۔ اور خوب جان توڑکر لڑا۔ دریا کے کنارے تھے۔ زمین کہیںبلند کہیں گہری اور جگہ ناہموار ۔ سوار کا گذارہ نہ تھا۔ اکبری بہادروں نے گھوڑے چھوڑ دیے ۔ اور خوب تلواریں ماریں۔ راجہ اور اس کی فوج نے بھی کمی نہیںکی ۔ شام تک تلوار کی آنچ سے میدان میں آگ لگی ہوئی تھی ۔ مگر قضا سے کون لڑے ۔ گلے پر چھوٹا ساتیر کھا کر راجہ کی گلو خلاصی ہوئی۔ مگر مظفر گزھوں میں گرتا پڑتا نکل کر کچھ میں پہنچا۔ وہاں کے راجہ نے چھپا رکھا۔ اور مشہورہوا کہ دریا میںڈوب گیا۔ خان اعظم کو جب خبرپہنچی ۔ تو عبداللہ اپنے بیٹے کو آور فوج دیکر کچھ روانہ کیا ۔ جام یہ خبر سن کر گھبرایا بال بچوں کو لیکر دوڑا ۔ کہ ایسا نہ ہو۔ تہمت یا بدگمانی میرے خانہ دولت کو برباد کر دے۔ عبداللہ سے رستے میں آکر ملا۔ اور بنیاد اخلاص کو مستحکم کیا۔ کچھ کے راجہ نے بھی وکیل بھیجے ۔ بہت ساعجز و انکسار کیا اور کہا کہ بیٹے کہ حاضر دربار اور مظفر کی تلاش کرتا ہوں۔ یہ رویدا خان اعظم کے پا س جونا گڈھ میںپہنچی ۔ اس نے لکھا ۔ کہ اگر صدق دل سے دولت خواہی بادشاہی اختیار کی ہے ۔ تومظفر کو ہمارے حوالہ کردو۔ اس نے پھر لمبی لمبی تقریریں ایچ پیچ کے جملوں میں ملفوف کر کے بھیجیں ۔ خان اعظم نے کہا۔ کہ فقروں سے کام نہیں چلتا ۔ غنیم کو میرے حوالے کر و ۔ نہیں تو برباد کر ونگا ۔ او رملک تمہارا جام کے دامن میں ڈال دونگا۔ راجہ کا مطلب اس طول میں فقط وقت گذارنا تھا ۔ کہ شاید کوئی اور نکاس کا پہلو نکل آئے ۔ جب سب رستے بند پائے۔ تو کہا مورپی کا ضلع قدیم ہے میرے علاقے میں تھا ۔ وہ مجھے دیدو۔ اور جگہ بتا دیتا ہوں۔ تم جاکراس کو گرفتار کرلو۔ خان اعظم، کے سپاہیوں نے چاروں طرف سے گھیر کر پکڑ لیا ۔ خوشی کا جوش کہتا تھا ۔ کہ ابھی لے اڑیں۔ اور مصلحت کہتی تھی ۔ کہ اگر رستے میں ا س کے جاں نثار آکر جانوں پر کھیل جائیں تو کیا ہو۔ بہرحال اندھیرے کے پردے کا انتظار کیا ۔ اور راتوں رات خان اعظم کی طرف لے کر دوڑے ۔ مظفر صبح ہوتے نماز کے بہانے اترا۔ اور طہارت وضو کے لئے ایک درخت کے نیچے گیا۔ جب دیر تک نہ آیا ۔ تو انہوں نے آواز دی ۔ وہاں سے جواب بھی نہ آیا ۔ آخر جاکر دیکھا ۔ بکرا سا ذبح کیاپڑا تھا۔ اسے بھی اسی روز سیاہ کا خیال تھا۔ اس لئے حجامت کے لوازمات پاس رکھا کرتاتھا ۔ کہ اسمیں استرا بھی لگا رہے ۔ آج کام آیا۔ سرکٹ کر خان اعظم کے پاس آیا۔ اس نے روانہ دربار کر دیا ۔ کہ فساد کی جڑ کٹ گئی۔ ۱۰۰۱ ھ؁ میں خان اعظم سے وہ کام ہوا۔ کہ تمام اہل تاریخ اس کی تعریفوں کے وظیفے پڑھتے ہیں۔ اور ملا صاحب نے تو اس کی دینداری پر اپنی انشا ء پردازی کے سہرے چڑھائے ہیں۔ مگرتھوڑی سی تمہید بغیر اس معا ملے کا مزا نہ آئے گا ۔ یہ تو تم نے بار بار سن لیا ۔ کہ اکبر نے انہیںفرزندی کا خطاب دے رکھا تھا۔ اوراپنی خدمت میں رکھ کر تربیت کیا تھا ۔ جیسا عزیز اس کا نام تھا ۔ ویسا ہی اسے عزیز رکھتے تھے اور تمام ارکان دولت میں عزت دیتے تھے ۔ اپنی خواصی میں بٹھاتے تھے۔ اور خاص خاص موقع پر اسے ضروریاد کرتے تھے لیکن اس کی طبیعت ایسی واقع ہوئی تھی ۔ کہ ہمیشہ جاہل اور کو تہ اندیش ۔ بلکہ ضدی اور لاڈلے بچوں کی طرح ذرا ذرا سی بات پر بگڑ بیٹھتا تھا۔ او ر لطف یہ ہے کہ اکبر اس کی گستاخیوں کا بھی کچھ خیال نہ کرتا تھا ۔ بلکہ خود اسے مناتا تھا ۔ او ر عنایت و انعام سے خوش کرتا تھا ۔ ایک پیچ کسی کو خاطر میں نہیںلاتا ۔ جو احکام اس کی خلاف مرضی دربار سے پہنچتے تھے ۔ وہ جانتا تھا کہ شیخ کی فطرت ہے ۔ اس کا ترکانہ مزاج اور سپاہیانہ طبیعت اپنی آرزوگی کو چھپا نہ سکتے تھے صاف صاف ظاہر بھی کر دیتے تھے۔ خان اعظم سپاہی زادہ تھا ۔ اور خود سپاہی تھا۔ ایسے لوگوں کو مذہب کا پاسداری ہوتی ہے ۔ تو سخت تعصب کے ساتھ ہوتی ہے ۔ دربار میں تحقیقات مذاہب او ر اصلاح اسلام کی تدبیریں جاری تھیں۔ اس اصلاح میں ڈاڑھیوں پر ایسی وبا آئی تھی ۔ کہ اکثر امرا بلکہ علما نے ڈاڑھیاں منڈوالی تھیں۔ ڈاڑھی کی جڑ کو ڈھونڈ کر پتال سے نکالا تھا۔ ملا صاحب نے تاریخ کہی تھی ۔ جس کا مصرع مقصود ہے ع بگفتار یشہا برباد وادہ مفسدے چندے انہی دنوں میں وہ بنگالہ سے فتح پور میںآیا تھا۔ یہاں ہر وقت یہ ہی چرچے رہتے تھے ۔ اس کے سامنے کسی مسئلے میں بحث ہونے لگی۔ ضدی سپاہی کو اس وقت مذہب کی ضد آگئی ۔ اس نے بھی گفتگو شروع کی۔ وہاں علما و فضلا کے خاکے اڑ جاتے تھے۔ یہ تو کیا حقیقت تھے ۔ انہوں نے بہت زور طبیعت اور مبلغ استعداد دکھایا ہوگا۔ تو مولانا روم کی مثنوی یا حدیقہ حکیم سنائی کے شعر سند میں پڑھے ہو وہاں پر سیر کیا کام آتی تھی ۔ک غرض سپاہی بگڑا بخار تو پہلے ہی سے دل میں بھرے تھے۔ نوبت یہ ہوئی کے سامنے ہی شیخ کو اور بیربر کو آگے دھر لیا۔ اگرچہ تعزیر عام بے دین اور بد اعتقادوں کے باب میں کرتے تھے ۔ مگربات کا رخ انہی دونوں کی طرف تھا ۔ خیر وہ جلسہ انہی مگھم باتوں میںطے ہو گیا۔ اس کے علاوہ بادشاہ نے آئین باندھا تھا ۔ کہ امرائے سرحدی کو ایک مدت مقررہ کے بعد موجودات دینے کو حاضر ہونا چاہیے۔ خان اعظم کے نام فرمان طلب گیا ۔ قدیمی لاڈلے تھے۔ متواتر فرما ن ہوگئے ۔ نہ آئے اکبر کے حکام ۔ ابو الفضل کی انشا پر دازی ۔ رنگا رنگ کے مضامین دست بستہ حاضر تھے ۔ خد اجانے کیا کیا لکھا ۔ مگر انشا ء پردازی کا ایک جادو چلا۔ ان کی ڈاڑھی بہت لمبی تھی ۔ اور اس کے باپ میں تقریریں اور تحریریں ہوچکی تھیں۔ ماثر الامرا سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک دفعہ یہ بھی لکھا گیا۔ ظاہر ایشم ریش نما گرانی میکند کہ این ہمہ تعلل در آمدن دارند ۔ جام کی لڑائی پر قرار پایا تھا کہ منت مانو یہ مہم فتح ہوجائیگی توڈاڑھی سے بھی لمبی عرضی لکھی اور بحث لکھی ۔یہ سب ہوتا تھا ۔ مگر وہ حاضر دربار نہ ہوا تھا ۔ سیکڑوں مقدمات مالی و ملکی تھے ۔ دربار کے اکثر احکام اور بھی کچھ اس کے خلاف مقصد کچھ خلاف طبع گئے ۔ خدا جانے وہ شیخ کی فطرت تھی ۔ یا خان کی بدگمانی تھی ۔ اس کے بعض خطوط سے معلوم ہوتا ہے ۔ کہ وہ سیدھا سپاہی صاف صاف آزردگی اور نہایت آشفتگی ظاہر کرتا تھا ۔ ان میں کبھی کبھی یہ بھی لکھتا تھا کہ میں نے دنیا چھوڑ دی۔ حج کو چلا جاونگا غرض اب اکبر کو خبر نویس کی تحریر سے اور بعض امرا کے عرائض سے بھی معلوم ہوا کہ اسے ہٹیلے نے مصمم ارادہ کر لیا ۔ بادشاہ نے فرمان لکھے ۔ اور بڑھیا ماں نے برابر خطوط لکھے ۔ کہ خبردار خبردار ایسا ارادہ نہ کرنا مگر وہ کب سننے والا تھا۔ جو کرنا تھا ۔ وہی کر گزرتا۔ ملا صاحب نے مرزا کو کہ کے حج کو جانے کاحال لکھ کر اکبر کی مذہبی کے اشاروں سے عجب بدنما عکس دلوں پر ڈالا ہے۔ اسے پڑھ کر مجھے بھی خیال تھا۔ کہ وہ خوش اعتقاد امیر فقط جوش دینداری سے ہندوستان چھوڑ کر نکل گیا ۔ پھرمدت دراز میںجب بہت سی کتابیں نظر سے گذریں تومعلوم ہو اکہ کچھ بھی نہ تھا جہاں اور بچوں کی سی ضدیں تھیں۔ وہاں یہ بھی ایک بات تھی ۔ مثلا یہ کہ فرمانوں کی پشت پرجہاں میری مہر ہوتی تھی ۔ وہاں قلیچ خاں کی مہر کیوں ہوتی ہے اور جو کام میں کرتاہوں وہ قلیچ خاں اور ٹورڈرمل کیوں کرتے ہیں۔ چنانچہ ابوالفضل کے دفتر دوم میں ایک بڑا طولانی مراسلہ ہے۔ کہ شیخ موصوف نے خان اعظم کے نام لکھا ہے۔ اول ڈیڑھ بلکہ دہ صفحے میںبہت سی حکمت اخلاق اور فلسفہل و اشراق سے تمہید یں پھیلائی ہیں۔ بعد اس کے جو کچھ لکھتے ہیں۔ اس کا ترجمہ کرتا ہوںاور جس قدر کہ ممکن ہے ۔ مطابقت الفاظ کے ساتھ لکھتا ہوں۔ مراسلہ مذکور اگرچہ ظاہر میں شیخ کی طرف سے ہے ۔ مگرحقیقت میںبادشاہ کے رکھتا کرتاہے۔ اور اسکے علاوہ بھی کئی خط ہیں۔ جن سے دلداری اور دلجوئی کے دود اورشربت ٹپکٹے ہیں۔ غرض شیخ مراسلہ مذکر میں لکھتے ہیں جو کچھ میں سمجھتا ہون۔ اسکے لکھنے سے پہلے سرگذشت واقعی کے بغیر نہیں رہ سکتا۔ قرۃ العین شمس الدین احمد نے نامہ دارلاشکوہ تمہارے لڑکے نے تمہارا خط عرض اقدس میںپہنچایا ۔ چونکہ حضرت مقام و فور عنایت و عطو فت میںتھے ۔ یکبار گی حیران رہ گئے ۔ اگرچہ پہلے ہمیشہ خلوتوں میں تمہارے اخلاق قدیمی کا ذکر کیا کرتے تھے ۔ اور جب کوئی کوتہ اندیش حرف نامناسب تم سے منسوب کرتا تھا ۔ تو ا س قدر مہربانی ظاہر فرماتے تھے۔ کہ وہ تنگ حوصلہ شرمندہ ہوجاتاتھا۔ہمیشہ تمہارے خشکی ۱؎ دماغ کے دنوں میںخلوت اور دربار میںنہایت توجہ ظاہر ہوتی تھی ۔ خصوصا ان دنوں میں کہ اخلاق دولت کی میری رفاقت اور توجہ شہنشاہی کی برکت سے تم رحمت الہی کے منظور وغیرہ نظر ہو کرخدمات لائقہ سے کامیاب ہوئے۔ کیا جم کی فتح۔ کیا جو ناگڑھ کی۔ کیا تنو مظفر وغیرہ کا گرفتار کرنا۔ کیا کہوں ۔ کہ حضرت کیسے تمہارے مشتاق ہوئے ہیں۔ دن رات تمہاری یاد میں گزرتی ہے۔ ہمیشہ اس بات کے طلبگار ہیں۔ کہ کب وہ دن ہوگا۔ کہ اپنے سامنے تمہیں مرحمتہای خسروانہ سے مالا مال کریں۔ جو کچھ تم نے والدہ مقدسہ اورفرزندان عزیز کو لکھا ہے۔ اس سے ایسا شوق آستان بوسی ظاہر ہوتاتھا۔ ۱؎ خشکی دماغ کے لفظ کو دیکھو۔ اور مورخوں نے بھی قید ۔ سابقہ کے ذکر میں یہی لفظ استعمال کیا ہے معلوم ہوتا ہے اس وقت جو دربار میں آپ نے بادہ گوئی کی تھی اور نظر بند ہوئے تھے اس حرکت ناشائستہ کا نام خشکی دماغ رکھا گیا تھا اور قید کا حکم اس پردے میںتھا کہ علاج معالجہ ہوتاہے کہ اسی نور روز عالم افروز میںاپنے تئیں پہنچا ؤ گے ۔ نو روز نہیں۔ تو شرف آفتاب میں توخواہ مخواہ پہنچو گے دفعتہ ایک شخص نے عرض کی۔ کہ تم سرانجام خدمت کو ناتمام چھوڑ کر اس خیال سے خود جزیرے کو چلے گئے ۔ کہ اسے تسخیر کر و گے ۔ حضور کو تعجب ہوا۔ اس خیر خواہ جہمور سے مجھ سے پوچھا۔ میںنے عرض کی۔ کہ ایسی باتیں دشمن کے سوا کوئی نہیں کہہ سکتا ۔ وہاں کچھ وغدغہ ہوگا۔ خود ملازمت حضور میںآنے والے ہیں۔ گئے ہونگے تو اس لئے گئے ہونگے کہ جاکر خرخشہ صاف کر دیں۔ اور خاطر جمع سے حضور میںآئیں۔ خلوص عقیدت میں فتور واقع ہو؟ یہ کب ہوسکتا ہے ۔ حضور نے پسند فرمایا ۔ اور کہنے والا شرمندہ ہوگیا۔ اب کہ حضرت حد سے زیادہ تم پر متوجہ ہیں۔ اور اس سبب سے کہ عنایت روز افزوں حضور کی تمہارے باب میں جلوہ ظہور دے رہی ہے ۔ کوتاہ حوصلہ ناتواں ہیں۔ پیچ و تاب میںہیں۔ اتفاقا کشن داس تمہارا وکیل پہنچا اور جو خط تم نے مجھے لکھا تھا۔ مجھ سے مشورہ کئے بغیر ہی حضور کے دست اقدس میںدیا ۔ حسب الحکم قرۃ العین شمس الدین نے مضمون عرض کیا۔ سن کربہت تعجب ہوا۔ کمترین سے فرمایا دیکھو ہماری عنایت کس درجہ پر ہے۔ اور عزیز اب بھی اس طرح لکھتا ہے جہاں کی مہرہوتی تھی ۔ پہلے یہاں مظفر خاں راجہ ٹورڈرمل اور لوگ مہر کرتے تھے۔ یہ گلہ تھا ۔ تو اس وقت کرنا چاہیے تھا۔ اگرچہ وہاں بھی گلہ کرتے ہیں۔ تو اس قوت بازوئے سلطنت کے تمہارے حق میں ہماری بے عنایتی کی دلیل نہیں ہوسکتی تھی ۔ بات فقط یہ ہے ۔ کہ گھر کے کام آخر کسی سے لینے چاہییں۔ جس کویہ خدمتیں سپر د ہون۔ ایک مقام پر مہر کرنی اسی خدمت کا جز ہے ۔ اعظم خاں گھر میںہو۔ اور اس خدمت پر متوجہ ہو۔ تو اول اور اولیٰ ۔ وہ جس طرح امیر الامرا ہے۔ امیر معاملہ بھی ہوگا۔ یہ سب اس کے تابع ہوں گے ۔ یہ بدگمانی تمہاری خاطر اقدس کو ذرا ناگوار ہوئی۔ خیر خواہان بزم مقد س نے (میںنے ) مناسب موقع باتیں عرض کرکے بہت اچھی طرح ا سکا تدارک کر دیا۔ قرۃ العین کو جو تم نے لکھا تھا۔ اور جو واقعہ تم نے دیکھا تھا ۔ اور فتوحات مذکورہ اس کا نتیجہ سمجھا تھا۔ اس کا ذکر کر دیا ۔ جو نذر تم نے بھیجی تھی ۔ وہ خیال شہنشاہی کی اور جو کچھ تمہارے مخلصوں نے کہا تھا ۔ اس کی بھی موید ہوتی۔ پھر لمبی تقریروں میں تقریبا دو صفحہ حکمت اخلاق کے طور پر لکھتے ہیں ۔ او رمختلف طبقات انسان کی تفصیل و تقسیم کر کے کہتے ہیں۔ قلیچ خاں کا شکوہ بیجا ہے ۔ تم اور طبقہ اور اور گرو ہ سے ۔ باوجود اس کے منصب حالت اور اعتبار میںتمہارے پاسنگ بھی نہیں۔ اس کے علاوہ تم کو کہ تمہاری فرزندی کی نسبت ۔ ساتھ اس کے خا ص الخاص ۔ بادشاہی توجہیں تمہارے لئے تمام ۔ بار ہا زبان گوہر فشاں پر فرزند کا لفظ تمہارے لئے آتا ہے ۔ اس سے قطع نظر جو خدمات شائستہ تم سے اور تمہارے خاندان سے ہوئیں۔ زمانے کے کونسے امیر کو یہ رتبہ ہے ۔ کہ اس مجموعے میںتمہارے ساتھ برابری کر سکے۔ پھر تمہیں کب زیبا ہے ۔ کہ ا س کا نام اپنے پدر بزرگوار کے برابر لاکر شکوہ کرو۔ اور مرزا اورراجہ کا نام لے کر اپنے برابر کو دو۔ وہاں یہ غصے کی رنگ آمیزیاں ہیں۔ مگر غضب ہے۔ کہ تم جیسے بزرگ کے پا س غسے کو راہ ہو۔ اور اس سے ایسے دب جاؤ۔ اگرکنارہ کشی سبب مذکورہ سے بجا ہے ۔ تو آخر پہلے بھی یہی حال تھا۔ کہ تم سے پہلے اور لوگ اس عہد سے پر کام کرتے ہیں پس تم نے ان کی جگہ کام کرنا کیونکر گوارا کر لیا تھا ۔ اور بات تو وہی ہے جو کہ زبان شہنشاہی پر گذری ہے ۔ عزیز من مجلسوں میںکیسے کیسے آدمی کیسے آدمیوں کی جگہ بیٹھ جاتے ہیں۔ اگرغصے ہوکر گلہ کرو۔ تو وہاں بھی کرو۔ کہ کیسا آدمی کی جگہ بیٹھ گیا ہے۔ مہر تو ایک نام کا نقش ہے۔ کہ دوسرے نقش کی جگہ ہوگیا ۔ دیکھو تو سہی۔ اس میں اور اس میں کہاں تک فرق ہے۔ پھر ایک ڈیڑھ صفحہ کا طولہ کلام کرکے خاتمہ میں لکھتے ہیں۔ چونکہ تم دولت خواہ حقیقی اس درگاہ کے ہو۔ اسلئے میں نے اتنا طول کلام کیا۔ اب دو کلموں پر اختصار کرتا ہوں۔ کہ تم کسی چیز کے پابند نہ ہو۔ آستان بوسی کاارادہ کرو۔ اور اپنے تئیں حضور میںپہنچاؤ۔ کہ یہاں خورمی ۔ خوشحا لی ۔ کامروانی کے سوا کچھ اور نہ ہوگا۔ ظاہرا تو یہی ہے ۔ کہ چل لئے ہوگے ۔ تم بزرگ زمانہ ہو۔ اگر کاطر روشن ادھر مائل ہو۔ تو اور باتیں کہوں۔ کہ دین اور دنیا میں کام آئیں۔ ورنہ خیر اندیشی وائم تو قائم ہے ۔ کہ دادار جہاں آفریں نے دل کو عطا کی۔ دل نے ہاتھ کے حوالہ کی۔ اس نے قلم کودی۔ قلم نے کاغذ پر لکھ دی ۔ خدا ہمیں اورتمہیں ان باتوں سے محفوظ رکھے۔ جو کہ باید و شاید نہیں۔ اس نے جواب میںان کی موچھیں پکڑ پکڑ کر خواب ہلائی ہیں۔ ایک پرانے مجموعہ میں سے اس کی اصل عرضداشت کی نقل میرے ہاتھ آئی۔ تتمہ میں درج ۱؎ ہے۔ ایک عرضداشت عین روانگی کے وقت لکھی ہے ۔ اسمیں اور مطالب بھی مندرج ہیں۔ اس مطلب کے متعلق جو فقرے ہیں۔ ان کا ترجمہ لکھتاہوں بدخواہان دین و دولت نے آپ کو راہ راست سے ہٹاکر بد عاقبتی کے رستے میںبدناملک کر دیا ہے ۔ اورنہیں جانتے کہ کون سے بادشاہ نے نبوت کا دعویٰ کیاہے ۔ آیا کلام اللہ جیسا قرآن آپ کے لئے نازل ہواہے ۔ یاشق القمر جیسا معجزہ آپ سے ہوا ہے چار یار باصفا جیسے اصحاب آپ کے ہیں ؟کہ آپ اپنے تئییں اس بدنامی سے متہم کرتے ہیں۔ بہ نسبت ان خیر خوار ہوں کے جو حقیقت میں بد خواہ ہیں۔ عزیر کو کہ فدویت رکھتا ہے ۔ اور قصد بیت اللہ کرتا ہے ۔ اس ارادہ سے کہ وہاں بیٹھ کر آپ کے لئے راہ راست پر آنے کی دعا کرے گا۔ امیدوار ہے کہ ا س گنہگار کی دعا قاضی الحاجات کی درگاہ میںقبول ہوکر اثر بخشیگی ۔ اوروہ آپ کو راہ راست پر لائیگا۔ ان دنوں اس کے حسن تدبیر اور آب شمشیر سے دریائے شور کے کنارے تک اکبری عملداری پہنچ گئی ۱؎ دیکھو صفحہ ۷۵۰ تھی اور پندرہ ؎ بندہ حلقہ حکومت میںآگئے تھے ۔ جوں جوں بادشاہ لطف و محبت کے فرمان لکھتے گئے۔ اس کا وہم بڑھتا گیا۔ خدا جانے کیا سمجھا۔ کہ ہر گز مناسب نہ دیکھا ۔ اس نے وہاں کے لوگوں میں یہ ظاہر کیا ۔ کہ بندر دیو کو دیکھنے جاتا ہوں۔ فقط چند غمگسار مصاحبوں سے راز کھولا۔ اور کسی سے ذکر نہ کیا اول بند پور پر پہنچا ۔ یہ مقام سمندر کے کنارے تھا۔ اس میں بڑا وسیع اور سنگین قلعہ تھا۔ اور گھر بھی اکثر سنگیں ہی تھے ۔ یہاں سے بنگلور آیا ۔ او روہاں کے لوگوں سے کہا۔ کہ بندر دیو کو دبانے جاتا ہوں۔ امرائے شاہی کو رخصت کر کے ان کی جاگیروں پر بھیجدیا ۔ حکام بندر سے اقرار نام لے لئے۔ کہ آپ کی بے اجازت سوداگران ملک غیر کو لنگر گاہ دیو میں نہ آنے دیگے ۔ مطلب اس سے یہ تھا کہ پرتگالی قوم برسا کو دبائے اوردھمکائے رکھے ۔ اس کا رعب و داب ایسا پھیل رہا تھا۔ کہ وہ دب گئے ۔ اور خاطر خواہ شرطوں پر اقرار نامے لکھ دئے ۔مرزا نے کئی جہاز بادشاہی بنوائے تے۔ ان میں ایک کا نام جہاز الہی تھا ۔ یہ بھی اقرار ہوگیا ۔ کہ جہاز الہی آدھا دیو بندر میںبھر دینگے ۔ باقی آدھے کو جہاں کپتان جہاز چاہے بھرے ۔ خرچ اس کا کہ ۱۰ ہزار محمودی ہوتاتھا ۔ ان سے طلب نہ کرے ۔ جہازجہاں چاہے جائے۔ کوئی روک نہ سکے ۔ جام اور بہار ادھر کے بااقتدار حاکم تھے ۔ انہیں اسی دھوکی میںرکھا ۔ کہ ہم براہ سمندر بندر بندر سندھ پہنچے گے ۔ وہاں سے ملتان کے رستے دربار حضور میں جاکر آداب بجا لائیں گے۔ تمہیں رفاقت کرنی ہوگی ۔ اس عرصے میں کنارہ کنارہ منزل بہ منزل چلا جاتاتھا۔ کہ پرتگالیوں کا عہد نامہ بھی دستخط ہوکرآگیا ۔ سومنات کے گھاٹ پر پہنچ کر بخشی بادشاہی وغیرہ اشخاص کوقید کر لیا۔ کہ مبادا فوج کو سمجھا کر متفق کرلیں اور مجھے روکیں۔ سومنات کے پا س بندر بلاور میںپہنچ کر جہا زالہی پر سوار ہوا۔ خورم ۔انور ۔ عبدالرسول ۔ عبدالطیف مرتضی قلی ۔ عبدالقوی چھ بیٹوں کو اور چھ بیٹیوں اور اہل حرم ۔نوکر چاکر ۔ لونڈی غلام کو ا س میں بٹھایا۔ ملازم بھی سو سے زیادہ ساتھ لئے۔ نقد و جنس سے جو کچھ ساتھ لے سکا۔ وہ بھی لیا ۔ کھانے پینے لئے کے لئے کافی ذخیرہ بھرا۔ اورہندوستان کو ہندوستانیوں کے حوالے کر دیا۔ جس وقت وہ خیمہ سے نکل کر جہاز کی طرف چلا۔ ایک عالم تھا جس کے مشاہدے سے دیکھنے والوں کی آنکھوں میںآنسو اور دلوں میں دریائے شوق لہراتے تھے ۔ تمام لشکر اورفوجیں آراستہ کھڑی تھیں جب وہ لشکر کے سامنے آکر کھڑا ہوا۔ نقاروں پر ڈنکے پڑے ۔پلٹنوں اور رسالوں نے سلامی دی۔ ترم اور طنبور ۔ سازفرنگی ۔ عربی ۔ ہندی باجے بجنے لگے ۔ جو سپاہی ہمیشہ لڑائیوں اورپردیس کے دکھوں۔ سردی گرمی کے دنو ں میں اس کے شریک حال ۔اور احسانوں اورانعاموں سے مالا مال رہتے تھے۔ ۱؎ دیکھو ۔کہاں سے کہاں تک سمندر کاکنارہ قبضے میں آگیاہے ۔ غم سے لبریز کھڑے تھے۔ جن لوگوں کو قید کیا تھا ۔ چھوڑ دیا۔ اور معذرت کر کے خطا معاف کروائی۔ سب سے دعا کی درخواست کی۔ اور لمبے لمبے ہاتھوں سے سلام کرتا ہوا جہاز میںجابیٹھا۔ ناخدا سے کہا ۔ کہ خانہ خدا کے رخ پر بادبان کھول دو۔ ملاصاحب نے تاریخ کہی ؎ بجائے راستان شد خان اعظم چو پرسیدم زدل تاریخ سالش ولے و زعم شاہنشاہ کج رفت بگفتا میرزا کو کہ بہ حج رفت ناز بردار بادشاہ کو جب یہ خبر پہنچی ۔ توناگوار بھی ہوا۔رنج بھی ہوا۔ دل کے خیالات عجیب و غریب فقروں میں زبان سے ٹپکے ۔ اور کہا کہ مرزا عزیر کو میںایسا چاہتا ہوں۔ کہ اگر وہ مجھ پر تلوار کھینچ کر آتا۔ تو میں ضبط کرتا ۔ وہ زخمی کر لیتا۔ تب ہاتھ ہلاتا۔ افسوس اس کم فرصت نے محب کی قدر نہ جانی اور سفر کر بیٹھا ۔ خدا کرے کامیاب مقصد ہو۔ اور خیر و خوشی سے پھر آئے۔ میںیہود اور نصاریٰ اور غیروں سے بھی اپنائیت کے رستے میںہوں۔ وہ تو پروردگار کے رستے پر جاتا ہے ۔ اس سے کیونکر مخالفت کا خیال ہوسکتا ہے۔ محمد عزیز سے ایسی محبت ہے کہ وہ مجھ سے ٹیڑھا بھی چللے۔ تو میں سیدھا ہی چلو نگا۔ اس کی برائی نہ چاہوں گا ۔ بڑا خیا ل یہ ہے کہ اگر رنج دوری میں مال کا کام تمام ہوگا ۔ تو اس کا انجام کیا ہوگا۔ کاش ا ب بھی کئے پر بچتائے اور پھرآئے۔ اسی غم و غصہ کے عالم میںاکبر نے کہا کہ چند روز ہوئے۔ جی جی میرے پاس آئیں۔ ایک کٹورا پانی کا میرے سر پر سے وا ر کر لیا ۔ اور کہا ۔ الہی بہ خویشتین بر گرفتم ۔ میںنے حال پوچھا ۔ کہا ۔ آج رات کو میں نے ایک ایسا خواب دیکھا ہے۔ مجھے بھی اس بات کا خیال تھا۔ مگرمعلوم ہوتا ہے۔ کہ میرے قالب میںبیٹے کو دیکھا تھا ۔ اور جیجی تومارے غم کے مرنے کے قریب ہوگئی بادشاہ نے بہت دلجوئی اوردلداری کی (شمسی ۱؎) شمس الدین ا سکے بڑے بیٹے نے بچپن سے حضور میںپرورش پائی تھی ۔ اسے ہزاری منصب دیا ۔ شادمان کو پانصدی کردیا۔ آباد جاگیریں دیں اور ادھر ملک جو خالی پڑا تھا ۔ اس کی حکومت مراد کے نام کرکے بندوبست کردیا۔ خان اعظم جو یہاں سے گئے تھے ۔ تو دماغ میںیہ دعویٰ بھرے تھے ۔ کہ ہم اکبر بادشاہ کے بھائی ہیں۔ اس کا جلال و جاہ لوگوں سے پیغمبری بلکہ خدائی کے اقرار لیتا ہے۔ اورمیں ایسا دیندار حق پرست ہوں کہ اس کی درگاہ کوچھوڑ کر چلا آیاہوں۔ مگر وحدہ لا شریک ذولجلال والاکرام کادربار تھا۔ وہاں انہیں کسی نے پوچھا بھی نہیں۔ انہوںنے سخاوت کو مدد پر بلایا ۔ وہ ہزاروں اور لاکھوں سے عاضر ہوئی لیکن اس دروازے پر ایسے ایسے بہت مینہ برس جاتے تھے ۔ شریف مکی اوروہاں کے خدام و علما خاطر ۱؎ اکبر اسے شمسی کہا کرتا تھا ۔ یہی نام مشہور ہو گیاتھا ۔ دیکھنا ۔ اس میںبھی وہی اشارہ ہے سورج والا۔ میںبھی نہ لائے۔ بلکہ بے دماغی اور تلخ مزاجی ان کی مصاحب وہاں بھی ساتھ تھی۔ اور بچوں کی سی ضدیں ہر وقت موجود تھیں۔ ان رفیقوں کی بدولت شرمائے۔ مکہ سے بہت تکلیفیں اٹھائیں۔ غرض اصلی خدا کے گھر میں گزارہ نہ ہو سکا۔ نقلی خدا کا گھر پھر غنیمت نظر آیا ۔ باوجود اس کے مکی معظمہ و مدینہ منورہ میںحجرے خرید کر وقت کئے۔ کہ حاجی اور زائر آکر رہا کریں۔ مدینہ منورہ کے خرچ ہر سالہ کی بر آور بنا کر پچاس برس کا مصارف وہاں کے شرفا کو دیا۔ اور رخصت ہوئے۔ سفر کی عمر کوتاہ ، یہاں لوگ سمجھے بیٹھے تھے کہ آپ ہر گز نہ آئینگے ۔ ۱۰۰۲ ھ میں یکایک خبرآئ۸ی کہ خان اعظم آگئے ۔ اور گجرات میںپہنچ گئے ۔ اب حضور میںچلے آتے ہیں بادشاہ پھول کی طرح کھل گئے۔ فرمان کے ساتھ گراںبہا خلعت اور بہت سے عمدہ گھوڑے روانہ کئے۔ محل میں بڑی خوشیاں ہوئیں۔ ان سے بھی رہا کہا ں جاتا تھا۔ گجرات سے عبداللہ کو ساتھ لیا۔ بندر ملاول کے رستے چوبسویں دن لاہور میںآن حاضر ہوئے۔ خورم کو کہہ دیا ۔ کہ تم سارے قافلہ کو لیکر منزل بہ منزل آؤ۔ حضور میںآکرزمیں پر رکھ دیا ۔ اکبر نے اٹھایا ۔ مرزا عزیز مرزا عزیز کہتے تھے اورآنکھوں سے آنسو بہتے تھے۔ خوب بھیج کر گلے لگایا ۔ جی جی کو دمیںبلا بھیجا ۔ بڑھیا بیچاری سے چلا نہ جاتا تھا۔ بیٹے کی جدائی میںجاں بلب ہورہی تھی ۔ تھرتھراتی سامنے آئی۔ خوشی کے مارے زار زار روتی تھی ۔ وہ اس بیقرار ی سے دوڑ کر لپٹی کہ دیکھنے والے بھی رونے لگے ۔ بادشاہ کے آنسو جاری تھے۔ اور حیران دیکھ رہے تھے ۔ خان اعظم نے خدا سے لڑ جھگڑ کر دعا قبول کرائی ہوگی ۔ پنجزاری منصب خاں اعظم خطاب پھر عنایت کیا۔ اور کہا کہ گجرات پنجاب، بہار جہان چاہو جاگیر لو انہیںبہار پسند آیا۔ بیٹوں کو بھی منصب اورجاگیریں عطا ہوئیں۔ شمس الدین ہزاری خورم ہثت صدی انور شش صدی شادمان پانصدی عبداللہ ۴ صدی عبدالطیف ۲ صدی مرتضی قلی صدو پنجاہی عبدالقوی صدو پنجاہی اب انہیں بھی خوب نصیحت ہوگئی تھی آتے ہی خاص مریدوں کے سلسلے میںداخل ہوگئے ۔ حضور میں سجدہ ادا کیا ۔ ڈاڑھی درگاہ میںچڑھائی ۔ اور جو جو لوازم خوش اعتقادی کے تھے۔ سب بجالائے ۔پھر تو ہر صحبت اور ہم زبانی میںپیش تھے۔ حاجی پور ۔ غازی پور جاگیر مل گیا۔ دین الہیٰ کے اصول کی علامی سے تعلیم پانے لگے۔ خاقانی نے کیا خوب کہا ہے : ؎ دریں تعلیم شد عمر وہنوز ابجد ہمی خوانم ندانم کے سبق آموز خواہم شد بدیو ،نش ۱۰۰۳ ھ؁ میں ایسے بڑھے اورچڑھے کہ وکیل مطلق ہو کر سب سے اونچے ہوگئے ۔ چند روز بعد مہر ازبک (مہر انگشتری ) اور پھر مہر توزوک مہر درباری ، بھی انہی کو سپر ہو گئی ۔ اس کا دو انچ قطر کا دائرہ تھا۔ گرد ہمایوں سے لے کر امیر تیمور تک سلسلہ چغتائیہ کا دوڑ تھا۔ بیچ میں جلال الدین اکبر بادشاہ کا نام روشن تھا۔ مہر مذکور فرامین عطائے۔ مناصب و جاگیر اور مہمات ملک داری کے عظیم الشنا فرمانوں پر اعزاز پر اعزاز و اعتبار بڑھاتی تھی یہ اس وقت کی صنعت گری کا عمدہ نمونہ تھا ۔ جسے تاریخی کتابوں میںملا علی احمد کا کارنامہ صنعت کہکر ذکر کیاہے ۔ میں نے کئی فرمانوں میںدیکھی ہے۔ اور حقیقت میںدیکھنے کے قابل رہے ۔ لطیفہ شاہجہان بادشاہ نے ابوطالب حکیم اپنے ملک الشعرا کو مہر داری کی خدمت عطا کرنی چاہی اس نے فورا یہ شعر پڑھا؎ چو مہر تو دارم چہ حاجت بہ مہرم مرا مہر داری بہ از مہر داری حکم ہوا کہ سلطنت کے حکم احکام سپر د ہفتے میںدو دن سر دیوان بیٹھا کریں۔ دیوان بخشی مستوفی تمام ایل عمل ان کی ہدایا کے بموجب کا م کیا کریں۔ ۱۰۰۷ھ؁ میںجب خو د بادشاہ نے قلعہ آسیر کا محاصرہ کیا۔ یہ ساتھ تھے۔ مورچوں پر جاتے تھے۔ اطراف کو دیکھتے تھے۔ اور حملہ کے رخ قرار دینے میں ابوا لفضل کے ساتھ عقل لڑاتے تھے حملے کے دن انہوں نے اور ان کی فوج کی پیش قدمی نے خوب کام کیا۔ ۱۰۰۸ھ؁ میںوہیں جی جی کا انتقال ہوگیا۔ جو بچپن میںانہیںکندھے لگائے پھرتی تھی۔ بادشاہ نے بہت غم کیا چند قدم اس کے جنازے کو کندھا دیا۔ اور چارا بردکی صفائی کی کہ آئین چنگیزی تھا ۔ خان اعظم اور انکے رشتہ داروں نے بھی صفائی میںساتھ دیا۔ اگرچہ حکم دیا تھا کہ اس رسم میںہماری رفاقت ضرور نہیں۔ مگر اتنے حکم پہنچنے میںکئی ہزار ڈاڑھیوں کی صفائیاں ہو گئی تھیں۔ ۱۰۱۰ ھ؁ میںہفت ہزاری شش ہزار سوار کا م منصب عطا ہوا اور خسرو ولد جہانگیر سے ان کی بیٹی منسوب ہوئی۔ سامان سا چق کہ ایک شاہانہ سوار تھی ۔ اس کا اندازہ اس سے قیاس کرنا چا ہیے کہ جہاں آرائش کے ہزاروں سامان گراں جہا تھے ۔ وہاں ایک لاکھ روپیہ نقد تھا ۔ امرائے دربار ساچق لیکر انکے گھر گئے۔ اس سنہ میں شمس الدین خاں انکے بیٹے کو دو ہزار منصب دیکر گجرات بھیجدیا۔ ۱۰۱۱ھ؁ میںشادمان اور عبداللہ کو ہزاری منصب عطا ہوئے۔ انور ان دونوں سے بڑا تھا ۔ مگر بڑا ہی شرابی تھا ۔ اس لئے نمبر میں سب سے پیچھے پڑا تھا ۔ اب ذرا ہوش میںآیا ۔ اکبری دربار میںان کے بچوں کے لئے بہانہ ہی چاہیے تھا ۔ وہ بھی ہزاری ہوگیا۔ ۱۰۱۴ ھ؁ میں نحوست کا سیارہ سیاہ چادر اوڑھکر سامنے آیا ۔ اکبربیمار ہوا اور اس کی حالت نے ناامیدی کے آثا دکھائے ۔ تو انہوں نے اور مان سنگھ نے بعض راز داروں کی معرفت اسکا مافی الضمیر دریافت کیا کہ حکم ہو تو خسرو کی ولیعہدی کی رسمیں ادا کر دی جائیں۔ وہ حقیقت میںجہانگیر سے محبت نہیں عشق رکھتا تھا۔ یا یہ کہو کہ اس دوراندیش ۔ معاملہ فہم ، تجربہ کار بادشاہ نے سمجھا ۔ کہ اس وقت نئی بنیاد ڈال کر یہ عمارت اٹھانی برف کے ستونوں پر گنبد قائم کرنا ہے ۔ انکے ارادے تاڑ گیا اور حکم دیا ۔ کہ مان سنگھ اسی وقت بنگالہ اپنی جاگیر کو روانہ ہوئے۔ اور وہاں جاکر اس طرح بندو بست کرے۔ تاثر میںہے کہ جہانگیر اکبر کے اشارے سے شہر میں ایک محفوظ مکان میںجا بیٹھا تھا۔ چنانچہ شیخ فرید بخشی اور بعض اور دولت خواہ جا پہنچے اور شیخ اسے اپنے گھر لے گئے۔ خان اعظم نے جب سنا کہ مان سنگھ جاتے ہیں۔ خسرو کو بھی ساتھ لئے جاتے ہیں۔ تو اسی وقت اپنے قبائل کو راجہ کے گھر بھیج دیا ۔ او رکہلا بھیجا ۔ کہ اب میرا بھی یہاں رہنا مناسب نہیں۔ مگر کیا کرں ۔ خزانوں اور اجناس خانوں کے لئے بغیر چارہ نہیں اور بار برداری سے ۔ نہیں راجہ نے کہا۔ دل تو میرا بھی یہی چاہتا ہے۔ کہ اس وقت میں تم سے جدا نہ ہوں۔ مگر مجھ سے خود سامان نہیںسنبھل سکتا۔ ناچار خان اعظم قلعے میںرہ گئے ۔ آخر اکبر کا انتقال ہوا۔ اور جس بادشاہ کو کبھی دولہا بنا کر جشن کے تخت پر بٹھا تے تھے۔ کبھی خواصی میںبیٹھ کر میدان جنگ میںلاتے تھے۔ اس کے جنازے کو کندھا دیا۔ جہانگیر تخت نشین ہوا۔ امرا نے حاضر دربار ہوکر مبارکباد کی نذریں دیں۔ نئے بادشاہ نے کمال مرحمت سے خان اعظم کی عظمت بڑھائی۔ اور کہا کہ جاگیر پر نہ جاؤ۔ میرے پاس ہی رہو۔ غالبا اس سے یہ مطلب ہوگا ۔ کہ دربار سے دور ہوگا۔ توبغاوت کے سامان مہیا کرنے کو میدان فراغ پائے گا۔ آخر خسرو باغی ہوا۔ اور جہانگیر کے دل پر نقش ہوگیا ۔ کہ اس کے لڑکے کا کیا حوصلہ تھا۔ یہ جرات سے خان اعظم کی پشت گرمی سے ہی ہوئی ہے۔ جب اس کی مہم سے فارغ ہواتو یہ عتاب و خطاب میں آئے۔ اور اس میں کچھ شک نہیں ۔ کہ خان اعظم کو خسرو کی بادشاہت کا بڑا ارمان تھا ۔ وہ اس آرزو میںایسا آپے سے باہر تھا کہ اپنے راز داروں کو کہا کرتاتھا۔ کاش ایک کان میںکوئی کہے ۔ کہ خسرو بادشاہ ہوگیا۔ اور دوسرے کان میں حضرت عزرائیل موت کا پیغام دیدیں۔ مجھے مرنے کا افسوس نہ ہوگا۔ مگر ایک دفعہ اس کی بادشاہت کی خبر سن لوں۔ غرض اب یہ نوبت ہوئی کہ دربار میںجاتے تھے۔ تو کپڑوں کے نیچے کفن پہن کر جاتے تھے۔ کہ دیکھئے زندہ پھروں یا نہ پھروں۔ بڑ اعیب اس میںیہ تھ ا۔ کہ گفتگو میںسخت بیبا ک تھا ۔ اس کی زبان اس کے قابو میںنہ تھی جو منہ میں آتا تھا ۔ صاف کہہ بیٹھتا تھا۔ موقع بے موقع کچھ نہ دیکھتا ۔ اس امر نے جہانگیر کو تنگ اور اکثر اہل دربار کو اس کو دشمن کر دیا تھا ۔ چنانچہ اسی جوش غضب کے دنوں میں جہانگیر ۱؎ نے امراے خاص کو ٹھیر لیا ۔ خلوت میں لے گئے ۔ اور خان اعظم کا مقدمہ جلسہ مشورۃ میںڈالا۔ ۱؎ تاثر امراء میں ہے ۔ کہ ایک شب امیر الامراء سے سخت کلامی کی ۔ بادشاہ نے اٹھ کر مشورہ کا جلسہ کیا ۔ امیرا لامرا نے کہا کہ کشتن او توقف نیخواہد ۔ مہابت خاں نے کہا۔ مراد کنگاش دخلے نیست ۔ سپاہیم۔ شمشیر سروہی دارم۔ بکمرا و منیر نم۔ اگر دو حصہ نہ کندوست مراببر ند۔ جب گفتگو ئیں۔ ہونے لگیں۔ تو امیرا لامر نے کہا۔ اس کے فنا کر دینے میںدیر کیا لگتی ہے۔ بادشاہ کی مرضی دیکھ کر مہابت خاں بولا کہ میںتو سپاہی آدمی ہوں۔ مجھے صلاح مشورہ نہیںآتا۔ سروہی رکھتا ہوں ۔ کمر کا ہاتھ مارتاہوں۔ دو ٹکڑے نہ کردے تومیرے دو نو ہاتھ قلم۔ خان جہاں (غالبا خان اعطم کا خیر خواہ تھا یا عموما نیک نیت تھا) نے کہا۔ حضور میں تو اس کے طالع کو دیکھتا ہوں۔ او رحیران ہوتا ہوں۔ ایک جہان خانہ زاد کی نظر گزرا۔ جہاں دیکھا حضور کا نام روشن نظر آیا ۔ اور وہیں خان اعظم کانام بھی موجود ،۔ قتل کرنا اس کا کچھ مشکل نہیں۔ مشکل یہ ہے کہ ظاہر کوئی خطا معلوم نہیںہوتی ۔ اگر اسے حضور نے مارا۔ توتمام عالم میںوہی مظلوم مشہور ہوگا۔ جہانگیر اس پرذرا دھیما ہوا۔ اتنے میں سلیمہ سلطان بیگم پروے کے پیچھے سے پکار کر بولیں۔ حضور! محل ۱؎ کی بیگمات اس کی سفارش کو آئی ہیں۔ حضور آئیں۔ توآئیں ورنہ سب باہر نکل پڑیں گی۔ بادشاہ گھبرا کر اٹھ کھڑے ہوئے۔ حرم میںچلے گئے ۔ وہاں سب نے مل کر ایسا سمجھایا کہ خطا معاف ہوگئی ۔ خان اعظم نے افیم تک بھی نہ کھائی تھی ۔ بادشاہ نے خاصہ کی گولیاں (اپنے کھانے والی گولیاں) دیں۔ اور رخصت کیا۔ یہ آگ تو دب گئی ۔ مگر چند ہی روز بعد خواجہ ابوالحسن تربیتی نے خاص اس کے ہاتھ لکھا ایک خط مدت سے لگا رکھا تھا ۔ اب پیش کیا۔ اس کا حال جس طرح جہانگیر نے خود اپنی توزک میںلکھا ہے ۔ ترجمہ لکھتا ہوں۔ میرا یقین کہتا تھا۔ کہ خسرو اس کا داماد ہے۔ اور وہ ناخلف میرا دشمن ہے ۔ اس کے سبب سے میری ذات سے خان اعظم کے دل میں ضرور نفاق ہے۔ اب اس ایک خط سے معلوم ہوا کہ خبث طبعی کو اس نے کسی وقت بھی جانے نہیں دیا۔ بلکہ میرے والد بزرگوار سے بھی جاری رکھا تھا ۔ مجمل یہ ہے کہ ایک موقع پر اسنے ایک خط راجہ علی خاں کو لکھا تھا ۔ اول سے آخر تک بدی اور بد پسندی اورایسے مضمون کہ کوئی دشمن کے لئے بھی نہیں لکھتا ۔ اور کسی کی طرف نسبت نہیں کر سکتا چہ جائیکہ حضرت عرش آشیانی جیسے بادشاہ اور صاحب قدردان کے حق وغیرہ وغیرہ ۔ یہ تحریر برہان پور میںراجہ علی خاں کے دفتر خزانہ میں سے ہاتھ آئی۔ اسے دیکھ کر میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔ اگربعض خیالات کا اور اس کی ماں کے دود کا ملاحظہ نہ ہوتا ۔ توبجا ہوتا ۔ کہ اپنے ہاتھ سے اسے قتل کرنا ۔ بہر حال بلایا۔ اور اس کے ہاتھ میں وہ نوشتہ دیکر کہا۔ سب کے سامنے بہ آواز بلند پڑھے۔ مجھے گمان تھا ۔ کہ اسے دیکھ کر اس کی جان نکل جائیگی ۔ انتہائے بے شرمی اور بے حیائی ہے۔ کہ اس طرح پڑھنے لگا ۔ گویا اس کا لکھا ہی نہیں کسی اور کا لکھا ہوا پڑھوایا ہے۔ وہ پڑھ رہا ہے۔ حاضران مجلس بہشت آئین ۔ بندہاے اکبر ی جہانگیری ۔ جس نے وہ تحریر دیکھی اور سنی ۔ لغت دلفریں کرنے لگے ۔ ۱؎ حضرت ، ہمہ بیگمہ بجہت شفاعت میر نا کو کہ در محل جمع شدہ اندر ۔اگر تشریف آرند بہتر ولا برمے آیند اس سے پوچھا کہ قطع نظر ان نفاقوں کے جو مجھ سے کئے او راپنے اعتقاد و ناقص میںان کے لئے کچھ وجیہیں بھی قرار دی تھیں۔ والد بزرگوار نے کہ تجھ کو اور تیرے خاندان کو خا ک راہ سے اٹھا کر اس رتبہ اعلیٰ تک پہنچایا ۔ کہ اس درجے پر پہنچے جس پر ہم جنس اور ہم رتبہ لوگ رشک کرتے ہیں۔ بات کیا ہوئی تھی ؟ کہ دشمنان و مخالفان دولت کو ایسی باتیں لکھیں۔ او ر اپنے تئیں حرامخوروں اور بد نصیبوں میں جگہ دی۔ سچ ہے۔ سرشت اصلی اور پیدائش طبعی کو کیا کرے۔ جب تیری طبعیت نے آب نفاق سے پرورش پائی ہو۔ تو ان باتوں کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے۔ جو کچھ مجھ سے کیا تھا۔ اس سے میں درگزرا ۔ اور جو منصب تھا۔ پھر اسی پر سرفراز کیا۔ گمان تھا کہ تیر انفاق خاص میرے ہی ساتھ ہوگا۔ اب جو یہ بات معلوم ہوئی ۔ کہ اپنے مربی اور خدا ے مجازی سے بھی اس درجے پر تھا۔ تو تجھے تیرے اعمال اور تیرے مذہب کے حوالے کیا ۔ یہ باتیں سن کر چپ رہ گیا ۔ ایسی رویسا ہی کے جواب میںکہے کیا ؟ جاگیر کی موقوفی کا حکم دیا اور جو کچھ اس ناشکرے نے کیا تھا ۔ اگرچہ اس میں عفو اور درگزر کی گنجائش نہ تھی ۔ مگربعضے لحاظوں کی رعایت کر کے درگزر کی۔ مورخ کہتے ہیں کہ نظر بند بھی رہے۔ ۱۰۱۷ ھ؁ جلوس میں خسرو کے ہاں بیٹا (خان اعظم کا نواسہ )پیدا ہوا ۔ بادشاہ نے بلند اختر نام رکھا۔ خان اعظم کو گجرات عنایت ہوا۔ اور حکم ہوا کہ وہ حاضر دربار رہے جہانگیر قلی خاں اسکا بڑابیٹا جا کر ملک کا کاروبار کرے۔ ۱۰۱۸ ھ؁ جلوس میں اسے داد بخش یعنی خسرو کے بیٹے کا اتالیق کیا۔ اسی سنہ میں امراے جلیل القدر دکن پر بھیجے گئے۔ اورمہم بگڑگئی۔ معلوم ہوا کہ سبب اس خرابی کا آپس کا نفاق اور بے اتفاقی خان خاناں کی تھی اس لئے خان اعظم کو چند امرا او ر منصبداروں کے ساتھ فوج دے کر کمک کے لئے بھیجا ۔ دس ہزار سوا دو ہزار احدی۔ کل بارہ ہزار۔ تیس لاکھ روپیہ خرچ خزانہ کئی حلقے ہاتھیوں کے ساتھ کئے۔ خلعت فاخرہ ۔ کمر شمشیر مرضع ۔ گھوڑا اورفیل خانہ اور پانچ لاکھ روپیہ امداد کے طور پر عنایت ہوا۔ اسی سنہ میں خورم پسر خان اعظم کو جو نا گڈھ کی حکومت دیکر بھیجا تھا اسے کامل خاں خطاب ملا۔ ۱۰۲۰ ھ؁ میں خان اعظم کے بیٹے کو شادمان خاںخطاب دیکر ایک ہزاری ہفت صدی ذات پانسو سوار کے ساتھ علم مرحمت ہوا۔ خان اعظم کا ستارہ جو ابھی نحوست کے گھر سے نکلا۔ اسی سنہ میںپھر رجعت کھا کر الٹا گرا۔ وہ برہان پورمیں آرام سے بیٹھا امارات کی بہاریںلوٹ رہاتھا ۔ کہ بادشاہ اودے پور پر ہم کیا چاہتے ہیں۔ بڈھے سپہ سالار کو بہادری اور دلاور ی کا جوش آیا ۔ عرضی کی۔ حضور کو یا د ہوگا۔ دربار گہر بار میں جب مہم رانا کا ذکر آتا تھا ۔ تو فدوی عرض کیا کرتا تھا ۔ آرزو ہے کہ مہم ہو۔ اور فدوی جاں نثا ر ہو۔ بندگان حضور پر یہ بھی روشن ہے ۔ کہ یہ مہم وہ ہے جس میں مارا بھی جائے تو شہید راہ خدا ہے فتح یاب ہوا۔ تو غازی ہونے میں کیا کلام ہے ۔ اس جاں نثاری سے جہانگیر بہت خوش ہوا۔ اورکمک مدد توپخانے نقد خزانے وغیرہ وغیرہ جو کچھ درخواست کی سرانجام ہوگیا۔ یہ روانہ ہوئے ۔ اودے پور کے کوہستان میں جاکر مہم شروع ہوئی وہاں سے عرضی کی۔ کہ جب تک نشان اقبال ادھر کی ہوا میںنہ لہرا ئے گا ۔ کھلنا اس عقدے کا دشوار ہے جہانگیر اٹھے۔ یہاں تک دائرہ اجمیرمیں جااترے ۔ شاہزادہ خورم (شاہجہان) کو دو ہزار سوار خوش اسپ امرائے کہنہ عمل اوربہت سے سامان ضروری دیکر آگے روانہ کیا ۔ یہ سب وہاں پہنچے او رکاروبار جاری ہوا۔ آزاد کلیہ قاعدہ ہے کہ باپ کے با تدبیرجاں نثار بیٹے کے عہدمیں۔ بے عقل سینہ زور ۔ بلکہ سر شور گنے جاتے ہیں۔ چہ جائیکہ دادا کے وقت کے ۔ اور وہ بھی خان اعظم ۔ ان کی اور شاہزادوں کی رائے نے مطابقت نہ کھائی ۔ کام بگڑنے لگے۔ ادھر شاہزادہ کی عرضیاں آئیں ۔ ادھر خبرنویسوں کے پرچے پہنچے ۔ اور امرائے لشکر کی تحریروں سے ان کی تائید ہوئی۔ سب سے زیادہ ان کی اپنی بد مزاجی اور بد دماغی ع گواہ عاشق صادق درآستیں باشد غرض بادشاہ کے دل پر نقش ہوگیا۔ کہ فساد خان اعظم کی طرف سے ہے یہ خیال اتناہی رہتا تو بھی بڑی بات نہ تھی بہت ہوتا ۔ تو بلا کر ان کے علاقے پر بھیج دیتے۔ بڑا چغلخوران کا وہ رشتہ تھا ۔ کہ خسرو کے خسر تھے اور وہ جرم بغاوت میںخود معتوب تھا۔ چنانچہ شاہزادہ خورم نے صا ف لکھا ۔ کہ خان اعظم اسی رعایت سے مہم کو برباد کیا چاہتا ہے ۔ اس کایہاں رہنا کسی طرح مناسب نہیں ۔ مست الست بادشاہ نے فورا مہابت خاں کو روانہ کیا اور حکم دیا کہ خان اعظم کواپنے ساتھ لیکر آؤ ۔ وہ گیا۔ او ر خان کو عبداللہ اس کے بیٹے سمیت حاضر دربار کیا۔ آصف خان کے سپرد ہوئے۔ کہ قلعہ گوالیار میں قیدیوں کی طرح محبوس رکھو۔ بلکہ چند روز پہلے خسرو کے لئے ماں بہنو ں کی منت وزاری سے اجازت ہوگئی تھی ۔ کہ حضور میں آیا کرے ۔ اب اسے بھی حکم ہواکہ بدستور آناجانابند۔ اللہ شکر خورہ کو شکر ہی دیتا ہے ۔ آصف خاں نے حضور میں عرض کی۔ کہ خان اعظم قید خانہ میںمجھ پر عمل پڑھتا ہے۔ ترک حیوانات ، خلوت ، عورتوں سے علیحدگی وغیرہ وغیرہ عمل مذکور کے لئے شرط ہے ۔ وہ اسے خود حاصل ہے۔ بادشاہ نے حکم دیا کہ تما م خانہ داری کے لوازمات اور آسائش کے سامان وہیںبھیج دو۔ اور دستر خوان پر بھی سب طرح کے کھانے ، امیرانہ نعمتیں۔ ے ہاں تک کہ مرغ مرغابی۔ تیتر کے کباب لگانے لگے ۔ خان اعظم کہتا تھا ۔ کہ مجھے عمل کا سامان گمان بھی نہ تھا۔ خدا جانے ادھر ہی ادھر یہ معاملہ کیونکر ہوگیا۔ کچھ عرصہ کے بعد خسرو توچھٹ گیا ۔ خسرو اسی طرح قید رہے ۔ مگر رہائی کے وقت اقرار نامہ لکھوا لیاکہ بے پوچھے بات نہ کرونگا۔ بادشاہ جد روپ گسائیں سے بڑی محبت کے ساتھ ملتے تھے ۔ اسکی فقیرانہ اور حکیمانہ باتیں سن کر خطوط ہوتے تھے۔ بلکہ اس کی فرمائش کو ٹالتے نہ تھے ۔ خان اعظم ان کے پاس گئے اور بڑی عجزو انکسار کے ساتھ التجا کی ۔ چنانچہ ایک دن جو جہانگیر گسائین کے پا س گئے تو اس نے عارفانہ اورصوفیانہ تقریروں میںمطلب ادا کیا ۔ اس کا اثر پور اہوا۔ آکر حکم دیا۔ کہ خسرو بدستور دربار میں حاضر ہو اکرے ۔ افسوس یہ کہ اخیر عمر میں مرتے مرتے خان اعظم نے ایک بیٹی کے رنڈاپے کا داغ اٹھایا ۔ یعنی ۱۰۳۰ ھ میں خسرو مر گیا ۔ شاہجہان مہم دکن پر رخصت ہو اتھا۔ وہ آکر باپ سے ا س بد نصیب بھائی کی سفارش کیا کرتا تھا ۔ اس موقع پر جہانگیر نے اسے کہا۔ میں دیکھتا ہوں خسرو ہمیشہ آزردہ اور مکدر رہتا ہے۔ اور کسی طرح اس کا دل شگفتہ نہیں ہوتا ۔ اسے تم اپنے ساتھ لیتے جاؤ۔ اور جس طرح مناسب سمجھو ۔ حفاظت میںرکھو۔ وہ دکن میںبھائی کے ساتھ تھا۔ کہ دفعتہ درد قولنج اٹھا اور مر گیا بعض مورخ یہ بھی کہتے ہیں۔ رات کو اچھا بچھا۔ سویا۔ صبح دیکھو تو فرش پر مقتول پڑا ہے۔ ۱۰۳۲ ھ؁ جلو س اٹھارہ میں داد بخش خسرو کے بیٹے کو صوبہ گجرات ہوا۔ نہیں بھی ساتھ رخصت کیا۔ ۱۰۳۳ ھ؁ جلوس انیس میں بد مزاجی او رخوش مزاجی نفاق کے جھگڑے تما م ہوئے ۔ساری باتیں زندگی کے ساتھ ہیں۔ مر گئے کچھ بھی نہیں ۔ احمد آباد گجرات میں خان اعظم نے دنیا سے انتقال کیا۔ جنازہ کو دلی مین لائے۔ سلطان مشائخ کے ہمسایہ میںتکہ خاں سوتے تھے۔ انکے پہلو بیٹے کو لٹا کر اماں زمین کے سپرد کردیا۔ خان اعظم کی ہمت ۔ شجاعت ، سخاوت ، لیاقت کی تعریفوں میں تمام تاریخوں اور تذکروں کی ایک زبان ہے میں اول اس باب میں جہانگیر بادشاہ کا کلام لکھتا ہوں توزوک میںکہتے ہیں میر ے او رمیرے والد بزرگوار نے اس کی ماں کے دور کا خیال کرکے اسے سب امراء سے بڑھا دیا تھا ۔ اور اس سے اسکی اولاد کی طرف سے عجیب عجیب باتوں کی برداشت کرتے تھے۔ علم سیرو فن تاریخ میں اسے کامل یاداشت تھی ۔ تحریر اور تقریر میںبے نظیر تھا ۔ نستعلیق خوب لکھتا تھا۔ ملا بااقر ولد ملامیر علی شاگرد تھا۔ یہ بات بالاا تفاق ہے۔ کہ ارباب استعداد اسکے قطعے کو اساتذہ مشہور کی تحریر سے کم درجہ نہ دیتے تھے۔ مدعا نویسی میںبڑی دستگاہ رکھتا تھا۔ مگرعربیت سے عاری تھا۔ لطیفہ گوئی میںبے مثل تھا ۔ شعر بھی اچھا کہتا تھا ۔ یہ رباعی اس کے واردات حال سے ہے ؎ عشق آمد واز جنوں برد مندم کرد آزاد زبند دین و دانش گشتم وارستہ ز صحبت خرد مندم کرد تاسلسلہ زلف کسے بند م کرد جو کچھ حالات بیان ہوئے ۔ سمجھنے والا اس سے نتیجے نکال سکتا ہے مگر تاثر الامراء وغیرہ تاریخوں سے صاف صاف ثابت ہے ۔ کہ ا سکی خودپسندی خودارئی۔ بلند نظری بلکہ اوروں کی بد اندیشی حد سے گذری ہوئی تھی ۔ اور اکبر کی دامداری اور ناز برداری نے ان قباحتوں کی پرورش کیا تھا ۔ جس کے حق میں جو چاہتا تھا۔ کہہ بیٹھتا تھا۔ کسی انسان یا مقام یا انجام کا ہر گز لحاظ نہ کرتا تھا۔ اسی واسطے یہ بات زبان زد تھی ۔ کہ اسے اپنی زبان پر اختیار نہیںآخر اقرار نامہ لیا گیا ۔ کہ جب تک تم سے بات نہ پوچھیں ۔ تم نہ بولو۔ لطیفہ ایک دن جہانگیر نے جہاں قلی (ان کے بیٹے ) سے کہا۔ کہ ضامن پدرے شوی؟ اس نے کہا۔ ورہر امر مگرزبان۔ سلاطین چغتائیہ کا آئین تھا کہ جب کوئی امیر حکم بادشاہی لیکر دوسرے امیر کے پاس جاتا تھا ۔ تو وہ اس کا استقبال کرکے بڑی تعظیکم سے ملتا تھا ۔ جس وقت یہ اوائے پیام کرتا تھا ۔ وہ کھڑے ہو کر بموجب قواعد مقررہ کے کو رنش و تسلیم بجا لاتا تھا ۔ خصوصا جبکہ خبر کسی ترقی یا عنایت و مرحمت کی ہوتی تھی ۔ توزیادہ تر شکرانے کرتاتھا ۔ بہت سی دعائیں دیتا تھا۔ اور جو امیر آتے تھے۔ انہیں تحائف نقد و جنس ساتھ کرکے رخصت کرتا تھا۔ جب جہانگیر نے ان کی خطا معاف کی اور پنج ہزاری منصب پر بحال کر نے لگا ۔ تو دربار بلا یا۔ شاہجہان سے کہا کہ بابا (شاہجہان کو بابا ۔ یا بابا خورم کہا کرتاتھا) مجھے یاد ہے کہ تمہارے داد انے جب انہیں دو ہزاری منصب عنایت فرمایا ۔ توشیخ فرید بخشی اور راجہ رام داس کو بھیجا ۔ کہ جا کر منصب کی مبارکباد دو ۔ جب وہ پہنچے ۔ تویہ حمام میںتھے ۔ وہ ڈیوڑھی پر بیٹھے رہے ۔ ایک پہر کے بعد یہ نکلے۔ دیوان خانہ میںآکر بیٹھے اورانہیں سامنے بلایا۔ مبارک بادلی بیٹھے سر پر ہاتھ رکھا (یہ آداب و کورنش ہوا)اور کہا تو یہ کہا ، اب اس کے لئے اور فوج رکھنی پڑی۔ ان کاخیال بھی نہ کیا اور رخصت کر دیا ۔ بابا مجھے شرم آتی ہے ۔ کہ بحالی منصب پر مرزا کو کہ کھڑے ہوکر تسلیم بجا لائے ۔ خیر تم اس کی طرف سے کھڑے ہو کر آداب بجا لاؤ۔ استعداد علمی تحصیل علمی ان کی عالمانہ تھی ۔ لیکن دربارواری اور مصاحبت میں بے نظیر تھی۔ہر بات ایک لطیفہ تھی ۔ فارسی کے فصیح انشا پرداز اورعمدہ مطلب نگار تھے۔ زبان عربی تحصیل نہ کی تھی مگر کہا کرتے تھے ۔ ورعربی واہ عربیم: لطیفہ ان کا قول تھا۔ کہ جب کسی معاملے میںکوئی مجھ سے کچھ کہتا ہے۔ تومیں سمجھتا ہوں کہ ایسا ہی ہوگا ۔ اور اسی بنا پر کاروائی کی صورت سوچنے لگتا ہوں جب وہ کہتا ہے ۔ نواب صاحب آپ خلاف نہ سمجھیں ۔ میں سچ کہتا ہوں ۔ تب مجھے شبہ پیدا ہوتا ہے۔ جب وہ قسم کھاتا ہے تو یقین ہو جاتا ہے کہ جھوٹا ہے۔ مصاحبت اور علم مجلس میں بے نظیر تھے ۔ او ر مزے کی باتیں کرتے تھے۔ لطیفہ فرمایا کرتے تھے۔ کہ امیر کے لیے چار بیبیاں چاہییں ۔ مصاحبت اورباتوں چیتوں کے لئے ایرانی خانہ سامانی کے لئے خراسانی بیج کے لئے ہندوستانی ۔ چوتھی ترکانی۔ اسے ہر وقت مارتے دھاڑتے رہیں کہ اور بیبیاں ڈرتی رہیں۔ چند فقرے آزاد کو ا یسے لکھنے پڑے کہ خان اعظم کی روح سے شرمسار ہے۔ لیکن مورخ کا کام ہر بات کا لکھنا ہے اسلئے مآثر الامرا کے ورق کو اپنی برات کا گواہ پیش کر کے لکھتا ہے ۔ کہ وہ خبث و نفاق ، سخت مزاجی و بدکلامی میں سر آمد عہد تھے ۔ اور تند غضب تھے جب کوئی عامل ان کی سرکار میںمعزول ہوکر آتا تھا ۔مستونی ان کا روپیہ طلب کرتا ۔ اگر دیدیا تودے دیا ۔ ورنہ اتنا مارتا کہ مرجاتا ۔ لیکن خوبی یہ ہے کہ مارکھا کر بچ نکلتا تو پھر کوئی مزاحمت ہی نہ تھی لاکھ روپیہ ہی کیوں نہ ہو۔ کوئی برس نہ گزرتا تھا۔ کہ ان کے غصے کا استرا ایک دو دفعہ اپنے ہندو منشیوں کے سر اورمنہ صاف نہ کرتا ہو۔ رائے درگا داس ان کے خاص دیوان تھے ۔ ایک موقع پر اور منشیوں نے گنگا اشنان کی رخصت لی۔ نواب اس وقت کچھ خوشی کے دم میںتھے ۔ کہا کہ دیوان جی تم ہر برس اشنان کو نہیں جاتے اس نے ہاتھ باندھ کر عرض کی۔ میراشنان تو حضور کے قدموں میںہوجاتا ہے ۔(وہاں بھد رانہ ہوا یہاں ہوگیا سمجھ گئے ۔ وہ قانون منسوخ کر دیا۔ نماز کے مقید نہ تھے ۔ مگر مذہب کا تعصب بہت تھا۔ ان کی طبیعت میںزمانہ سازی ذرانہ تھی۔ نور جہاں کی وہ اوج موج رہی اور اسکی بدولت اعتما الدولہ اور آصف جاہ کے دربار میں بھی ایک عالم کی رجوع تھی ۔ مگر یہی نہ گئے ۔ بلکہ نورجہاں کے دروازے تک بھی قدم نہ اٹھا ۔ برخلاف خانخاناں کے ۔ وہ ضرورت کے وقت رائے گوردھن اعتماد الدولہ کے دیوان کے گھرپر بھی موجود ہوتے تھے۔ خان اعظم کے بیٹے جہانگیری عہد میںباعزت و احترام رہے ۔ سب سے بڑا شمن الدین جہانگیر قلی خطاب تھا ۔ اور تین ہزاری کے رتبے تک پہنچا ۔ شادمان شادمان خاں ہوتے ۔ خورم اکبر کے عہد میں جو نا گڈھ پر تھا ۔ گجرات میں باپ کے ساتھ تھا۔ جہانگیری عہد میں کامل خاں خطاب پایا ۔ رانائے اودے پور کی مہم میںشاہجہان کے ساتھ تھا۔ مرزا عبداللہ جہانگیر نے سردار خاں خطاب دیا۔ جب کوکہ گوالیار کے قلعے میںقید ہوئے تو یہ بھی ساتھ تھے۔ مرزا نور زین خاں کو کہ کی بیٹی اس سے منسوب تھی۔ یہ سب تین ہزاری اور دو ہزاری کے رتبے کو پہنچے ۔ خان اعظم کے حالات سے اتنا معلوم ہوتاہے۔ کہ ایک جاہل مزاج مسلمان خواہ ٹرا سپاہی یا ضدی امیر زادہ تھا۔ بعض باتیں ایسی بھی ہو جاتی تھیں جن سے اسے لوگ احمق کہتے تھے ۔ نقلیں جو اس باب میں مشہور ہیں وہ کتابی نہیں ہیں۔ اس لئے درج کتاب نہیں کرتا ۔ اتنا ضرور ہے کہ سادگی کہو۔ کم فہمی نام رکھو۔ غرض یہ وصف اس خاندان کے لہو میں داخل تھا ۔ ان کے چچا میر محمد خاں اتکہ خاں اور خان کلاں کہلاتے تھے۔ اکبر نے کمال خاں گکھڑ کے ساتھ کیا ۔ کہ اس کے بھائی بندوں نے سرشوری کر کے اسے نکال دیا ہے ۔ تم فوج لیکر جاؤ۔ اور اس کا حق دلوا دو چند امیر صاحب فوج اور بھی ساتھ تھے۔ بادشاہی سرداروں نے جا کر پہاڑوں کو ہلا ڈالا۔ آدم خاں گکھڑ کمال خاں کا چچا قید ہوا۔ لشکر خاں اس کا بیٹا کشمیر کو بھا گ گیا ۔ اور پکڑا آیا مگر دو نو اپنی موت سے مر گئے۔ امرائے شاہی نے ملک کمال خاں کو سپر د کر دیا اور آگرہ میں آکر حضور کو سلا م کیا ۔ خان کلاں سب سے آگے تھے ۔ بادشاہ نے ان کی سلامی لینے کے واسطے دربار عالی ترتیب دیا۔ خان موصوف نے اپنی سای بہادری کا زور لگا کر ایک قصیدہ بھی کہا۔ اس دن امرا ۔ فضلا ۔ شعر وغیرہ اکابر سلطنت کے لئے حاضڑ ہونے کا حکم دیاتھا۔ خان نے کہا کہ ایسے دربار پر بہار پر میر ا قصیدہ پڑھا جائے۔ توبڑی بہار ہے۔ بادشاہ کو بھی اس گھرانے کا بڑھانا منظور تھا ۔ بلکہ اسی واسطے یہ دربار کیا تھا ۔ غرض تمام جلسہ مرتب و مکمل ، آراستہ اور بادشاہ بھی دل و جان سے کان لگائے۔ کہ دیکھیں ۔ خان کلاں کیا کہتے ہیں۔ انہیں بھی بڑے انعام کی امید۔ غرض پہلا ہی مصرع پڑھا بحمد اللہ کہ دیگر آمدم فتح گکر کردہ لو گ تو انہیں پہلے سے جانتے تھے ۔ آپس میںنگاہیں لڑیں۔ اور دلوں میں گد گدیاں ہوئیں۔ کہ دیکھنے آکے کیا کہتے ہیں۔ اتنے میں عبدلملک خاں ان کا داماد آن پہنچا۔ اور آگے بڑھ کر بولا ۔ خانم دیگر آمدیم بخوانید ۔ کہ مامردان دیگر ہم در رکاب شما بودند۔ اتنا کہنا تھا کہ ایک قہقہہ اڑا اور ہنسی کے مارے سب لوٹ گئے ۔ خان کلاں نے دستا رزمین پر دے ماری ۔ اور کہا۔ بادشاہوں ۔ دادازدست این مروک ناقابل کہ ہمہ مشقت مراضائع ساخت۔ عبدالملک خاں کی حقیقت بھی سن لو ۔ اپنا سجع آپ کہا تھا اورمہر درباری کے نگینے پر کھدوا کر اپنے تئیں رسوا کیا تھا ؎ عبدراچوں بر ملک افزوں کنی پس الف لامے درواندروں کنی ملا شیرازی شاعر ہندی نے ان کی تعریف میں قصیدہ کہا تھا۔ کہ تمام دوزخے مضامین سے رنگین اگرگنوار بیاید مقابل تو گریز کہ صاحبی و مقابل نمے شوی بہ گنوار حسین خاں ٹکریہ یہ سردار نورتن کے سلسلے میںآنے کے قابل ۱؎ مگر اپنے اسلام اور دینداری میں اس قسم کے خیالات رکھتا تھا۔ جن کے بیان سے معلوم ہوتا ہے ۔ کہ اس وقت کے سیدھے سادھے مسلمانوں کے کیا طور و طریقے تھے۔ سب سے زیادہ یہ کہ ملا صاحب کے حالات اور خیالات کو اس سے بڑا تعلق ہے ۔ جہاں ا سکا ذکر آتا ہے ۔ بڑی محبت سے لکھتے ہیں ماثر سے معلوم ہوتا ہے ۔ کہ یہ بہادر افغان اول بیرم خاں خانخاناں کا نوکر ہوا۔ اور اسی وقت سے ہمایوں کے ساتھ تھا۔ جب کہ اس نے ایران سے آکرقندھار کا محاصرہ کیا۔ اور فتح پائی۔ شجاعت ہر معرکے میں اسے بے جگر کر کے آگے بڑھائی رہی ۔ اور جانفشانی اس کے درجے بڑھاتی رہی مہدی قاسم خاں ایک معزز سردار تھا ۔ وہ اس کاماموں تھا۔ اور اس کی بیٹی سے اس کی شادی ہوئی تھی ۔ یہ اکبر کے عہد میںبھی بااعتبار رہا۔ جبکہ سکندر سور کو اکبری لشکر نے دباتے دباتے جالندھر کے پہاڑوں میں گھسیڑ دیا۔ اور پھر بھی پیچھا نہ چھوڑا ۔ تو سکندر قلعہ زمان کوٹ میںبیٹھ گیا۔ امرا روز لڑتے تھے اور جوہر دکھاتے تھے اس بہادر نے ان لڑائیوں میںوہ کام کئے ۔ کہ رستم ہوتا تو داد دیتا ۔ حسن خاں اس کے بھائی نے بڑھ کر قدم مارا ۔ کہ جان کو نام پر قربان کیا۔ حسین خاں نے وہ وہ تلواریں ماریں ۔ کہ ادھر سے اکبر اور ادھر سے سکندر دونو دیکھتے تھے اور عش عش کرتے تھے اور روز بروز بادشاہ زرخیز علاقے اس کی جاگیر میں دیتے تھے ان حملوں میں حسن خاں ان کا بھائی جاںباز بہادروں میں سرخرو ہو کر دنیا سے گیا۔ بادشاہ جب ۹۶۵ ھ میں لڑائی کے بعد ہندوستان کو چلے تو اسے صوبہ پنجاب عنایت کیا ۔ لطیفہ جب یہ حاکم لاہور تھے ۔ تو ایک لمبی ڈاڑھی والامرد معقول ان کے دربار میںآیا ۔ یہ حامئے اسلام تنظیم کو کھڑے ہو گئے ۔ مزاج پر سی سے معلوم ہوا کہ وہ تو ہندو ہے۔ اس دن سے حکم دیا ۔ کہ جو ہندوہوں وہ کندے کے پا س ایک رنگین کپڑے کا ٹکڑا ٹکوایا کریں۔ لاہور بھی ایک عجیب چیز ہے یہاں کے لوگوں نے ٹکریہ نام رکھ دیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ جس طرح اب پیوند کو ٹاکی کہتے ہیں اس قت اسے ٹکڑی کہتے تھے۔ ۹۶۶ ھ؁ میں اندری سے آگرہ میںآئے۔ اور چند سرداران نامی کے ساتھ فوجیں لے کر رنتھنبور پر گئے۔ مقام سوپر پر میدان ہوا ۔ بہاد رپٹھان دھاوے کا شیر تھا ۔ ایسے متواتر حملے کئے ۔ کہ راے سرجن رانا قلعے میں گھس گیا ۔ یہ اسے دبا رہا تھا ۔ کہ خانخاناں کے ساتھ زمانے نے دغا کی۔ اور عالم کا نقشہ بدلتا نظر آیا ۔ جن لوگوں کے رنگ جمتے جاتے تھے ۔ ان کی ان کی پہلے سے لاگیں چلی آتی تھیں (صادق محمد خاں وغیرہ) اس لئے دل شکستہ ہوگیا ۔ ۱؎ مصنف کی ترتیب کے مطابق ان کے حالات تتمہ میںدرج ہونے چاہیے تھے ۔ دیکھو صفحہ ۴۴۳۔ اور مہم کرنا ناتمام چھوڑ کر گوالیا میںآیا ۔ مالوے کا ارادہ تھا ۔ کہ خانخاناں نے آگرہ سے خط لکھا اور بلا بھیجا بر ے وقت میں کوئی کسی کا ساتھ نہیں دیتا ۔ بڑے بڑے سردار اس کے دامن گرفتہ کہلاتے تھے پچیس ان میں سے پنجہزاری تھے ۔باقی کا شمار تم سمجھو۔ ان میں سے فقط چھ امیر تھے جنہوں نے جان اور مال کو بات پر قربان کر کے خانخاناں کا ساتھ دیا۔ اور ان میں سے ایک حسین خاں تھے ۔ ایک شاہ قلی خاں محرم۔ جب گنا چور کے میدان میں خانخاناں کا اتکہ خاں کی فوج سے مقابلہ ہوا۔ تووفاداروں نے خوب خوب جوہر دکھائے۔چار دلاور سردار میدان جنگ میںزخمی ہوکر گرے۔ اور بادشاہی فوج کے ہاتھ میںگرفتار ہوئے۔ انہی میں خان مذکور تھا۔ ایک زخم اس کی آنکھ پر آیا ۔ کہ زخم نہ تھا۔ جمال دلاوری کے لئے چشم زخم تھا۔ مہدی قاسم خاں اور اس کا بیٹا دربار میں بااعتبار تھے او رمعلوم ہوتا ہے کہ بادشاہ بھی حسین خاں کے جوہر وفا سے خوب واقف تھا اسی واسطے عزیزر کھتا تھا۔ ساتھ اس کے اپنے بدنیت مصاحبوں سے واقف تھا۔ چنانچہ حسین خاں کو اس کے سالے کے حوالے کر دیا ۔ اس میں ضرور یہ غرض تھی ۔ کہ بد اندیشوں کی بدی سے محفوظ رہے۔ جب اچھا ہواتو خدمتیں بجا لانے لگا۔ چند روز کے بعد پتیالی ۱؎ کا علاقہ ملا ۔ کہ امیر خسرو کی ولادت گاہ ہے ۔ ۹۷۴ ھ؁ میںمہد ی قاسم خان حج کو چلے ۔ حسین خان ا سکے بھانجے بھی تھے۔ دامادھی ۔ حسن اعتقاد سے پہنچانے کو سمندر کے کنارے تاتھ گیا۔ پھرے ہوئے آتا تھا ۔ جو دیکھا کہ ابراہیم حسین مرزا وغیرہ شہزادہ گان تیموری نے ادھر کے شہروں اور جنگلوں میں آفت برپاکررکھی ہے ۔ ایک مقام پر غل ہوا۔ کہ شہزادہ مذکور فوج لئے لوٹتا مارتا چلا آتا ہے ۔ یہ بالکل بے سرو سامان تھے۔ مقرب خاں ایک دکنی سردار کے ساتھ ستو اس میںپناہ لی ۔ قلعے میں ذخیر ہ نہ تھا ۔ گھوڑے اونٹ تک نوبت پہنچ گئی ۔ سب کاٹ کر کھا گئے۔ مقرب خاں کی کہیں سے مدد نہ پہنچی ۔ ابراہیم مرزا ہر چند پیام بھیجتا تھا۔ قلعہ والوں کے سر پر شجاعت کھیل رہی تھی ۔ کسی طرح صلح پر راضی نہ ہوتے تھے۔ ادھر مقرب خان کا باپ اور بھائی ہنڈ یہ میں گھرا ہوا تھا ۔ مرز ا کی فوج نے ہنڈیہ کو توڑ ڈالا۔ اور بڈھے کا سر کاٹ کر بھیج دیا۔ مرزا نے اسے نیزے پرچڑھا کر مقرب خاں کو دکھایا ۔ اہل قلعہ کو کہا کہ مقرب خاں نے مجبور ہو کر شہر حوالے کر دیا ۔ اور خود بھی جا کر سلام کیا ۔ حسین خاں کو بھی قول دیکر امان دی اور قسم کھا کر باہر نکلا۔ یہ ایک رخہ بہادر اپنی بات کا پورا تھا۔ ہر گز نہ مانا اور سامنے نہ گیا ۔ کہ اپنے بادشاہ کے باغی کو سلام کرنا پڑیگا۔ اس نے بہت کہا کہ میری رفاقت اختیار کرو۔ یہ ان سے کب ہو سکتا تھا۔ آخر اجازت دی کہ جہاں چاہو چلے جاؤ۔ اکبرکو سب خبریں پہنچ گئی تھیں۔ جب دربار میں آیا ۔ خان زماں کی مہم درپیش تھی ۔ اور قدر دانی و دلداری کے بازار گرم تھے ۔ بہت عنایت کی۔ قلعہ بندی کی مصیبت نے کمال مفلس و بدحال کر دیا تھا ۔ ۹۷۴ ھ میں ۳ ہزاری اور شمس آباد کا علاقہ بھی ملا ۔ ۱؎ دریائے گنگا کے کنارے تھا مگر سخاوت کی بد انتظامی اسے تنگدست ہی رکھتی تھی ۔ وہ یہاں علاقے کا انتظام اوراپنی فوج کی درستی میں مصروف تھا کہ اکبر خاں زماں پر فو ج کشی کی۔ اوریہ ا سکی تیسری دفعہ تھی ۔ جسمیں اکبر کا ارادہ تھا ۔ کہ اب کی دفعہ ان کا فیصلہ ہی کر دے ۔ ا س فوج کشی میں جس قدر پھرتی تھی ۔ اس سے زیادہ سنگینی اور استحکام تھا۔ ملا صاحب لکھتے ہیں۔ اول لشکر کی ہر اولی اس کے نام ہوئی تھی۔ مگرچونکہ وہ استواس سے قلعہ بندی اٹھا کر آیاتھا۔ اور مفلس اور پریشاں حال ہورہا تھا۔اس لئے دیر ہوئی۔ بادشاہ نے اسکی جگہ قباخاں گنگ کو ہر اول کیا۔ ملا صاحب کہتے ہیں۔ میں ان دنوں اس کے ساتھ تھا ۔ شمس آباد میں ٹھیر گیا ۔ وہ وہاں سے آگے بڑھ گیا۔ آزاد اس مہم میںحسین خاں کے شامل نہ ہونے کا سبب یہی ہے ۔ جو ملا صاحب نے کہا ۔ لیکن یہ بھی عجب نہیں کہ وہ اور علی قلی خاں وغیرہ سب بیرم خانی امت تھے ۔ حسین خاں یک رخہ سپاہی تھے ۔ اوروہ جانتا تھا ۔ کہ منافقان حسد پیشہ نے خواہ مخواہ اسے باغی کر وایا تھا۔ اس لئے نہ چاہا ۔ کہ اس مہم میںشامل ہو او ر دوست کے منہ پر بے تقصیر تلوار کھینچے ۔ اور دیکھنا وہ اس کی کسی لڑائی میں شامل نہیںہوا۔ میر معز الملک کی ہمراہی میںبہادر خاں کی لڑائی میں شامل تھے ۔ محمد امین دیوانہ کہ وہ بھی خاص بیرم خاں کاپالا ہوا ۔ ہر اول کا سردار تھا ۔ اور حسین خاں بھی اپنی فوج میں موجود تھے۔ ملا صاحب یہاں لکھتے ہیں۔ بہت سے بہادر اس معرکے میںموجود تھے ۔ مگر معزالملک اور لالہ ٹورڈرمل کے روکھے پن سے بیزار تھے۔ انہوں نے لڑائی میںتن نہ دیا۔ ورد سرمیدان خواری نہ ہوتی۔ ۹۷۷ ھ میں لکھنو کا علاقہ اس کی جاگیرمیں تھا۔ کہ مہدی قاسم خاں ان کا خسر حج سے پھرا۔ بادشاہ نے لکھنو اس کی جاگیر میں دیدیا ۔ حسین خاں اس علاقے کا اپنی جاگیر سے نکلنا نہ چاہتا تھا ۔ ان کی مرضی یہ تھی کہ مہدی قاسم خاں خود بادشاہ سے کہیں اور لینے سے انکار کریں۔ اسنے لے لیا ۔ یہ بہت خفا ہوئے اور آیہ ہذا فراق بینی دبینک پڑھا۔ اس طرح کہ قیامت پر دیدار جا پڑے ۔ باوجویکہ مہدی قاسم خاں کی بیٹی کو دل و جان سے چاہتا تھا ۔ اس پر اس کے باپ کے جلانے کو اپنے بیٹی سے نکاح کر لیا ۔ اسے پتیالی میںرکھا ۔ اورقاسم خاں کی بیٹی کو خیر آباد اس کے بھائیوں میں بھیجدیا ۔ نوکری سے بیزار ہوگیا ۔ اورکہا کہ اب خدا کی نوکری کرینگے ۔ اور جہاد کر کے دین خدا کی خدمت بجا لائینگے ۔ کہیں سن لیا تھا ۔ کہ اودھ کے علاقے سے کوہ شوالک میںداخل ہوں۔ تو ایسے مندر اور شوالے ملتے ہیں۔ کہ تمام سونے چاندی کی اینٹوں سے چنے ہوئے ہیں۔ چنانچہ لشکر تیار کر کے دامن کوہ میں داخل ہوا پہاڑیوں نے اپنے معمولی پیچ کھیلے ۔ گاؤں چھوڑ دیے ۔ اور تھوڑی بہت مار پیٹ کے بعد اونچے اونچے پہاڑوں میں گھس گئے ۔ حسین خاں بڑھتا ہوا وہاں جا پہنچا۔ جہاں سلطان محمود کا بھانجا پیر محمد شہید ہوا تھا ۔ او ر شہیدوں کا مقبرہ موجود تھا ۔ اس نے شہیدوں کی پاک روحوں پر فاتحہ پڑی۔ قبریں مسمار پڑی تھیں۔ ان کا چبوترہ باندھا اور آگے بڑھا ۔ دور تک نکل گیا ۔ مقام جزائل پر جا پہنچا اوروہاں تک گیا ۔ کہ جہاں اجمیر دارلخلافہ ان کا دو دن کی راہ رہ گیا ۔ یہاں سونے چاندی کی کان ابریشم اور تمام عجائب ونفائس ولائت تبت کے ہوتے ہیں۔ اس سر زمین کی قدرتی تاثیر ہے۔ نقارہ کی دمک لوگوں کے غل اور گھوڑوں کے ہنہنانے سے برف پڑنے لگتی ہے۔ چنانچہ یہی آفت برسنی شروع ہوئے۔ گھاس کے پتے تک نایا ب ہوگئے ۔ رسد کا راستہ ہی نہ تھا ۔ بھوک کے مارے لوگوں کے حواس جاتے رہے ۔ حسین خاں دلاور کا دل اپنی جگہ بدستور قائم تھا۔ اس نے لوگوں کے دل بہت بڑھائے۔ جواہرات اور خزانوں کے لالچ دینے ۔سونے چاندی کی اینٹوں کی بھی کہانیاں سنائیں۔ مگر سپاہی دل ہا ر چکے تھے ۔ کسی نے قدم نہ اٹھایا ۔ اور اس کے گھوڑے کی باگ پکڑ کر زبردستی کھینچ لائے پھرتے ہوئے پہاڑیوں نے رستہ روکا ۔چاروں طرف سے امنڈ آئے۔ پہاڑوں کی چوٹیوں پر چڑھ کھڑے ہوئے۔ اور تیر برسانے شروع کئے۔ ان تیروں پر زہریلی ہڈیوں کی پیکان چڑھی تھی۔ پتھروں کی بارش تو ا ن کے نزدیک کچھ بات ہی نہ تھ ا۔ بڑے بڑے بہادر سور ما شہید ہو گئے ۔ جو جیتے پھرتے وہ زخمی تھے۔ پانچ پانچ چھ چھ مہینے بعد زہر کی تاثیر سے وہ بھی مر گئے۔ حسیں خاں پھر دربار حاضر ہوئے۔ اکبر کو بھی افسوس ہوا ۔ مگر اس نے عرض کی مجھے کانت گولہ کا علاقہ جاگیر ہے کہ دامن کو ہ ہے ۔ میں ان سے انتقام لئے بغیر نہ چھوڑونگا ۔ درخواست منظور ہوئی ۔ اس نے بھی کئی دفعہ دوحہ پہاڑ کے دامن کو ہلا ہلا دیا ۔ مگر اندر نہ جا سکا۔ اوراپنے پرانے پرانے سپاہی جو پہلی دفعہ بچا کر لایاتھا ۔ انہیں اب کی د فعہ مو ت کا زہر آب پلایا ۔ پہاڑ کا پانی ایسا لگا کہ بن لڑے مر گئے۔ ۹۸۰ ھ؁ میں کہ اکبر خاں اعظم کی مدد کے لئے خو د یلغار کر کے گیا تھا۔ میدان جنگ کی تصویر تم دیکھ چکے ہو رستم و اسفندر یار کے معرکے آنکھوں میںپھر جاتے تھے ملا صاحب لکھتے ہیں کہ حسیں خاں اس موقع پر پیش قدم تھا اور اکبر شمشیر زنی دیکھ دیکھ کر خوش ہورہا تھا ۔ اسی وقت بلوایا اور شمشیر خاصہ کہ جسے کاٹ اور گھاٹ کی خوبی سے او رجوہر دشمن کشی سے ہلا کی خطاب دیا تھا انعام فرمائی۔ ابراہیم حسین مرزا لوٹتا مارتا ہندوستان کی طر ف آیا ۔ کہ اکبر گجرات میںہے ادھر میدان خالی ہے شاید کچھ بات بن جائے۔ حسین خاں کی جاگیر اس وقت کانت گولہ ہی تھی ۔ پتیالی اور بداؤں کے سرکش دبانے آئے ہوئے تھے۔ ہندوستان میںابراہیم کے آنے سے بھونچال آگیا ۔ مخدوم الملک اور راجہ بھاڑ مل فتح پور میں وکیل مطلق تھے۔ دفعتہ ان کا خط حسین خان کے پاس پہنچا۔ کہ ابراہیم دو جگہ شکست کھا کر دلی کی اطراف میںپہنچا ہے اور یہ پائے تخت کا مقام ہے کہ خالی پڑا ہے ۔اس فرزند کو چاہیے ۔ کہ جلد اپنے تئیں وہاں پہنچائے ۔ یہ ایسے معرکوں کے عاشق تھے خط دیکھتے ہی اٹھ کھڑے ہوئے۔ رستے میں خبر لگی کہ راجہ اولیر جو ابتدائی جلو س اکبری سے ہمیشہ نواحی آگرہ میںرہزنی اور فساد کرتا رہتا ہے۔ اور قزاق بنا پھرتا ہے ۔ اور بڑے نامی امیروں کے ساتھ سخت معرکے مار کے اچھے اچھے بہادروں کو ضائع کر چکا ہے ۔ اس وقت نو راہے کے جنگل میں چھپا ہوا بیٹھا ہے ۔ رمضان کی ۱۵ تھی ۔ حسین خان اور اس کے لشکر کے لوگ روزے سے تھے اور بے خبر چلے جاتے تھے ۔ ٹھیک دوپہر کا وقت تھا۔ کہ یکایک بندوق کی آواز آئی ۔ اور فورا لڑائی شروع ہوگئی راجہ ادلیر نے جنگل کے گواروں کو ساتھ لیا تھا ۔ درختوں پر تختے باندھ رکھے تھے۔ ڈاکو ان پر مزے سے بیٹھ گئے ۔ اور جنگل پہاڑوں کو تیر و تفنگ کے منہ پر دھر لیا ۔ لڑائی کے شروع ہوتے ہی حسین خاں کے زانو کے نیچے گولی لگی ۔ ران میں دوڑ گئی ۔ اور گھوڑے کی زین پر جا کر نشان دیا۔ اسے ضعیف آگیا ۔ چاہتا تھا کہ گرے مگر بہادری نے سنبھالا ۔ ملا عبدالقادر بھی ساتھ تھے۔ لکھتے ہیں۔ کہ میں نے پانی چھڑکا آس پاس کے لوگوں نے جان اروزہ کا ضعف ہے ۔ میںنے باگ پکڑ کر چاہا کہ کسی درکت کی اوٹ میں لے جاؤں ۔ آنکھ کھولی خلاف عادت چیں بہ چیں ہو کر مجھے دیکھا اور جھنجھلا کر کہا کہ باگ پکڑنے کا کیا موقع ہے ۔ بس اتر پڑو اسے وہیں چھوڑ کر سب اتر پڑے۔ ایسی گھمسان کی لڑائی ہوئی اور طرفین سے اتنے آدمی مارے گئے ۔ کہ وہم بھی ان کے شمار میںعاجز ہے۔ شا م کے قریب اس قلیل جماعت کے حال پر خدا نے رحم کیا ۔ فتح کی ہوا چلی۔ اور مخالف اس طرح سامنے سے چلنے شروع ہوئے۔ جیسے بکریوں کے ریوڑ چلے جاتے ہیں۔ سپاہیوں کے ہاتھوں میں حرکت نہ رہی۔ جنگل میںدوست دشمن غٹ پٹ ہوگئے ۔ باہم پہنچانتے تھے۔ اور ضعف کے مارے ایک کا ہاتھ ایک پر نہ اٹھتا تھا ۔ بعض مقبول اور مستقبل بندوں نے جہاد کا بھی ثواب لیا اور روزہ بھی رکھا ۔ برخلاف فقیر کے کہ جب بے طاقت ہونے لگا ۔ تو گھونٹ پانی بہم پہنچا کر گلا ترکیا ۔ بعضے بیچاروں نے بے آبی سے جا ن دی۔ اچھے تار تھے کہ اچھی شہادر کوپہنچے ۔ بڈھا سردار حسین خاں فتح پاکر کانت گولہ کو گیا ۔ کہ سامان درست کرے اور علاقے کابندوبست کرے ۔ اتنے میں سنا کر حسین مرزا نواحی لکھنو میں سنبھل سے ۱۵ کوس رہے سنتے ہی پالکی میں پڑ کر چل کھڑا ہو ا۔ مرزا بانس ریلی بریلی کو کترا گیا۔ او ر وہ یلغار کرکے دوڑا ۔ مرزا کو خان کی بہادری کا حال خوب معلوم تھا ۔ لکھنو کے نواحی میں فقط سات کوس کافاصلہ رہ گیا تھا ۔ اگر لڑائی ہوتی تو خدا جانے ۔ قسمت کا پاسا کس پہلو پڑتا ۔ مگرجو حالت اس وقت حسین خاں کی اور لشکر کی تھی اس کے لحاظ سے مرزا نے غلطی کی جو نہ آن پڑا۔ اور بچ کر نکل گیا ۔ حق یہ ہے کہ اس کی دھاک کام کر گئی۔ حسین خان سنبھل پر گیا ۔ آدھی رات تھی ۔ نقارے کی آواز پہنچی ۔ پرانے پرانے سردار نبوہ لشکر لئے موجود تھے جانا کہ مرزا آن پہنچا۔ سب قلعے کے دروازے بند کر کے بیٹھ رہے ۔ اور مارے رعب کے ہاتھ پاؤں پھو ل گئے آخر قلعے کے نیچے کھڑے ہو کر آواز دی کہ حسین خاں ہے تمہاری مدد کو آیا ہے ۔ اس وقت خاطر جمع ہوتی تو پیشوائی کو نکلے۔ دوسرے دن سب امرا کو جمع کر کے مشورت کی۔ سب کی رائے یہ تھی ۔ کہ گنگا کے کنارے پر اہار کے قلعے میں اور امرا بھی لشکر لئے بیٹھے ہیں۔ ان کے ساتھ چل کر ملنا چاہیے۔ اور جو صلاح ہو سو عمل میںآئے۔ حسین خاں نے کہا۔ بارک اللہ مرزا کو یہ دور دست ملک اور گنتی کے سواروں سے یہاں تک آن پہنچا۔ تمہارے پاس اضعاف مضا عف لشکر او ربیس تیس سردار پرانے سپاہی اور سنبھل کے قلعے میں ہیں۔ ادھر وہ قلعہ اہار والے سردار ہیں۔ کہ جمعیت بے شمار لے کر چوہے کی بلوں میں چھپے بیٹھے ہیں۔ اب دوباتوں کا موقع ہے یا تو تم گنگا پار اترجاؤ۔ اہار والے پرانے بہادروں کو بھی ساتھ لو۔ اور مرزا کا رستہ روکو کہ پار نہ اترسکے ۔ اور میںپیچھے سے آتا ہوں ۔ جو کرے سو خدا ۔ یا میں جھٹ پٹ پار اتر جاتا ہوں ۔ تم پیچھے سے دباؤ ۔ کہ شہنشاہی دولت خواہی کا حق یہی ہے ۔ اس پر ان میں سے ایک راضی نہ ہوا۔ ناچارجو سوار ساتھ تھے ۔ انہیں کو لیکر بھاگا بھاگ اہار پر پہنچا۔ انہیںبھی باہر نکالنا چاہا۔ جب نکلے تو بہت ملامت کی اور جمع کر کے کہا کہ غنیم ولایت کے بیچ میں آن پڑا ہے ۔ اور یہا ں بدحواسی کا یہ عالم ہے ۔ گویا لشکر میں خرگوش آگیا ۔ اگرجلد جنبش کرتے ہو تو کچھ کام ہو جائے گا ۔ زندہ ہاتھ آئے گا اور فتح تمہارے نام ہوگی ۔ انہوںنے کہا کہ ہمیں تو دلی کی حفاظت کا حکم تھا۔ وہاں سے ریلتے ہوئے یہاں تک لے آئے۔ خواہ مخواہ مقابلہ کیا ضرور ہے ۔ خدا جانے انجام کیا ہو۔ ادھر مرزا مروہہ کو لوٹتا ہوا چو مالہ کے گھاٹ سے گنگا پار ہوا۔ اور لاہور کا رستہ پکڑا ۔ حسین خاں امرا پر دولت خواہی ثابت کرکے ان سے جدا ہوا۔ اور گڑھ مکتیسر پر ا سطرح جھپٹ کر آیا کہ حریف سے دست و گریبا ن ہوجائے۔ امرا میں سے جنہوں نے ساتھ دیا ترک سبحان قلی اور فرخ دیوا نہ تھا ۔ پیچھے اہار والے امیروں کے بھی خط آئے کہ ذرا ہمارا انتظا ر کرنا کہ ۹ سے گیارہ اچھے ہیں۔ مرزا کے سامنے میدان خالی تھا ۔ جیسے خالی شطرنج میںرخ پھرتا ہے ۔ اسی طرح مرزا پھرتاہے ۔ اور آباد شہروں کو لوٹتا مارتا چلا جاتا تھا ۔ پائل نواح انبالہ میں فحش و فضیحت بندگان بیگناہ کے عیال کی حد سے گزر گئی ۔ غرض حسین خاں پیچھے پیچھے دبائے چلا آتا تھا ۔ اور اس کے پیچھے پیچے امرا تھے ۔ سرہند میں آکر سب رہ گئے ۔ حسین خاں ہی لپٹا چلا آیا ۔ اور سوار اس کے رفاقت میں سو سے زیادہ نہ تھے ۔ لودیانہ میںخبر پائی کہ لاہور والوں نے دروازے بند کر لیے ۔ اور مرزا شیراز گڑھ اور دیپال پور کو گیا۔ حسین قلی خاں کا بھانجا ۔ کانگڑہ کو گھیر ے پڑا تھا اس نے مرزا کی آمد آمد سنتے ہی پہاڑوں سے صلح کا ڈھنگ ڈالا۔ انہوں نے منظور کیا۔ بہت سے نقد جنس جن میںپانچ من سونا تھا ۔ لعل بہا میںلیا ۔ اور وعدہ کر لیا کہ سکہ خطبہ بادشا ہی جاری رہے گا ۔ چند نامی سردار اس اس کے ساتھ تھے ۔ جن میں راجہ بیربر بھی شامل تھے ۔ سب کو لیکر سیل کی طرح پہاڑ سے اترا۔ حسین خاں سنتے ہی تڑپ گیا۔ اور قسم کھائی کہ مبتک حسین قلی خاں سے نہ جاملوں روٹی حرام ہے ۔ یہ دیوانگی کہ ہزار درجہ ان سا قلوں کی عقلوں پر شرف رکھتی ہے۔ اسے ازائے لئے جاتی تھی ۔ جنہی دال علاقہ شیر گڈھ میںپہنچ کر شیخ داؤد جنہی دال سے کہ بڑے خدا رسیدہ فقیر تھے ملاقات کی کھانا آیاتو انہوں نے عذر بیان کیا۔ انہوں نے کہا۔ آزردن دل دوستاں جہل است و کفارہ یمین سہل ۔ اس خوش اعتقاد نے تعمیل حکم سعادت سمجھ کر اسی وقت غلا م آزاد کیا اور کھانا کھایا۔ فاضل بداؤنی بھی اس یلغار میںساتھ تھے کہتے ہیں کہ رات کو وہیں رہے ۔ اور کل رسد کا ساما ن شیخ کے ہاں سے ملا۔ میںلاہور سے تیسرے دن وہاں پہنچا اور حضرت کی حضوری میں وہ کچھ آنکھوں سے دیکھا کہ خیال میں بھی نہ تھا۔ چاہا تھا کہ دنیا کے کاروبار چھوڑ کر ان کی جاروب کشی کیا کروں۔ مگرحکم ہو ا کہ فی الحال ہندوستان جانا چاہیے۔ رخصت ہو کر بحال خراب و دل پریشاں کہ خدا کسی کو نصیب نہ کرے رخصت ہوا چلتے وقت نالہاے بے اختیار دل سے نکلے ؎ دل یہ امید صدائے کہ در تو برسد نالہا کر د دریں کوہ کہ فر ہاد نہ کرد حضرت کو خبر ہوئی ۔ باوجودیکہ تین دن سے زیادہ کسی کو حکم نہ تھا ۔ مجھے چوتھے دن بھی رکھا۔ بہت سے فیض پہنچائے اور ایسی ایسی باتیں کہیں کہ اب تک دل مزے لیتا ہے ؎ میروم سوئے وطن وز درد دل بے اختیار نالہ دارم کہ پنداری بہ غربت میروم حسین قلی خان مرزا سے چھری کٹاری ہواچاہتا تھا ۔ حسین خان اس کے پیچھے تھا۔ تلنبہ ایک منزل رہاتھا حسین قلیخان کو خط لکھا کہ چار سو کوس یلغار مارکر یہاں تک آیا ہوں۔ اگرا س فتح میںمجھ کو بھی شریک کر اور ایک دن لڑائی میںدیر کرو تو آثار محبت سے دو رنہ ہوگا۔ وہ بھی آخر بیرم خاں کا بھانجا تھا ۔ یہ سنتے ہی ظاہر خوش باشد کہا ۔ اور گھوڑے کو ایک قمچی اور کر گیا ۔ اسی دن مارا مارا تلنبے کے میدان میں جہاں سے ملتان ۴۰ کو س رہتا ہے ۔ تلواریں کھینچ کر جاپڑا ۔ مرزا کو اس کے آنے کی خبربھی نہ تھی ۔ شکار کوگیا تھا ۔ فوج کچھ کوچ کی تیاری میںتھی ۔ بعضے بے سامان پریشان تھے۔ جنگ میدان کی لڑائی کی ناہمواری سے گھوڑا اٹھو کر کھاکر گرا نوجوان لڑکا پکڑا گیا۔ مرزا اتنے میں شکار سے پھرے اتنے میں کام ہاتھ سے جا چکاتھا ۔ ہر چند سپاہیانہ کوششیں کیں۔ اور مردانہ حملے کئے۔ کچھ نہ ہو سکا ۔ آخر بھاگ نکلا۔ فتح کے دورے پر دن حسین خاں پہنچے ۔ حسین قلی خاں نے میدان جنگ دکھایا ۔ اور ہر ایک کی جانفشانی کاحال بیان کیا۔ حسین خاں نے کہا کہ غنیم جیتا نکل گیا ہے نہیں تعاقب کر نا چاہیے تھا ۔ کہ جیتا پکڑ لیتے ۔ کام ابھی ناتمام ہے ۔ اس نے کہا کہ نگر کوٹ یلغار کر کے آیا ہوں شکر نے وہاں بڑی بڑی محفلیں اٹھائیں۔ اب ان میں طاقت نہیںرہی ۔ بہی بڑی فتح تھی ۔ حالا نوبت یاران دیگر ست حسین خاں نے اس امید پر کہ شاید اس کی بھی نوبت آجائے اورمحنت پانسو کوس کی یلغار کی بھول جائے۔ اس سے رخصت ہو کر چلا۔ تھکے ماندے آدمیوں کو ہاتھی اور نقارہ سمیت لاہور بھیجدیا اور آپ مرزا بچارہ کے پیچھے چلا۔ جہاں بیاس اورستلج ملتے ہیں وہا ں مرزا بدنصیب پر جنگل کے ڈاکوؤں نے شبخوں مارا۔ ایک تیر اس کی گدی پر ایسا لگا کہ منہ میں نکل آیا ۔ جب حال بہت بد ھال ہوا۔ تو اس نے بھیس بدلا ساتھی ساتھ چھوڑ چھو ڑ کر الگ ہوئے۔ اور جدھر گئے مارے گئے ۔ مرزا نے دو تین قدیمی غلاموں کیساتھ فقیرانہ لباس کیااور شیخ ذکریا نام ایک گوشہ نشین کے پا س پناہ لی ۔ وہ مرشد کامل تھے ۔ ظاہر میںرحم کا مرہم دکھایا اندر اندر سعید خاں حاکم ملتان کو خبردی۔ اس نے جھٹ اپنے غلام کو بھیجا ۔ وہ قید کرکے لیگیا حسین خان ادھر ادھر پھر رہے تھے ۔ گرفتاری کی خبر سنتے ہی ملتان پہنچے ۔ سعیدخاں سے ملے۔ اس نے کہا کہ مرزا سے بھی ملو۔ حسین خاں نے کہا کہ ملاقات کے وقت اگر تسلیم بجالاؤں تو شہنشاہی کے اخلاص کے خلاف ہے ۔ اور نہیں کرتا تو مرزا دل میںکہے گا کہ اس راہ زن کو دیکھو ۔ جب ستواس کے محاصرے میں میںنے امان دیکر چھوڑا تو کس کس طرح کی تسلیمیں کی تھیں۔ آ ج ہم اس بدحالی میںہیں تو پرواہ بھی نہیںکرتا۔ مرزا نے یہ بے تکلفانہ بات سن کر کہا کہ آئیے بے تسلیم ہی ملے۔ کہ ہم نے معاف کیا۔ مگر وہ جب گیا تو تسلیم بجا لایا ۔ مرزا افسوس کر کے کہتا ہے کہ ہمیں سرکشی اور جنگ کا خیال نہ تھا ۔ جب ج ان پر بن گئی تو سر لے کر ملک بیگانہ میں نکل آئے یہاںبھی نہ چھوڑا ۔ قسمت میں تو یہ ذلت پہنچنی تھی ۔ کاش تیرے سامنے سے بھاگتے کہ ہم جنس تھا ۔ تجھ ہی لو کچھ فائدہ ہوتا۔ حسین قلیخان کہ دین و مذہب سے بیگانہ ہے ۔ اس سے شکست کھانے کا افسوس ہے۔ حسین خاں وہاں سے کانت گولہ یعنی اپنی جاگیر پر گئے وہاں سے ادھر تو حسین خاں ادھر حسین قلی خاں دربار میںپہنچے مسعود حسین مرزا کی آنکھوں میں ٹانکے لگائے باقیوں میں سے ہر ایک کے رتبے کے بموجب کسی کے منہ پر گدگے کی ۔ کسی پر سور کی ۔ کسی پر کتے کی۔ کسی پر بیل کی کھال سب چہروں اور سینگروں سمیت چڑھائیں اور عجب مسخر ا پن کے ساتھ دربار میں حاضر کیا ۔ تین سو آدمی کے قریب تھے ۔ مرز اکے ساتھیوں میں سے تقریبا سو آدمی تھے ۔ کہ دعوے کے بہادر تھے۔ اور خانی او ربہادری کے خطاب رکھتے تھے۔ حسین قلی خاں سبکو پناہ دیکر جاگیر پر لے گئے ۔ وہاں خبرپائی کہ حضور میںان کی خبر پہنچ گئی ہے ۔ اس لئے سب کو رخصت کر دیا آخر بیرم خاں کا بھانجا تھا جب مفصل حال لڑائی کا بیان کیا تو ان لوگوں کے نام بھی لئے مگر کہاکہ قیدیون کے باب میں حضور سے قتل کا گلہ نہیں ہے ۔ فدوی نے سب حضور کے صدقے میںچھوڑ دئے اکبر نے بھی کچھ نہ کہا اور حسین خاں سے بھی کچھ نہ پوچھا۔ حسین قلی خاں کو اس کی نیک نیتی کا پھل ملا۔ کہ خان جہاں کا خطاب ملا۔ ۹۸۳ ھ میں جبکہ پٹنہ پر مہم تھی۔ اور اکبر کو دل سے اس مہم میں اہتمام تھا۔ منعم خاں خانخاناں کی سپہ سالاری تھی ۔ بھون پور کے علاقے میںبادشاہ دورہ کرتے پھرتے تھے ۔ قاسم علی خاں کو بھیجا کہ بچشم جاکر معرکہ جنگ دیکھے اور ہر ایک جانفشانی کا حال عرض کرے۔ وہ آپس آیا اور سب حال بیان کیا حسین خاں کا حال پوچھا تو اس نے کہا کہ کوچک کاں اس کا بھائی توحق الخدمت بجا لاتا ہے۔ مگر حسین خان کانت گولہ سے اودھ میںآکر لوٹتا پھرتا ہے ۔ بادشاہ نہایت خفا ہوئے۔ اور انجام اس کا یہ ہوا کہ جب کچھ عرصہ بعد دورہ کرتے ہوئے دلی میں پہنچے ۔ توحسین خاں بھی پتیالی اور بھونگاؤں میں آیا ہوا تھا ۔ ملازمت کو حاضر ہوا ۔ معلوم ہوا کہ مجرا بندہے ۔ اورشہباز خاں کو حکم ہے کہ طناب دولتخانہ کی حد سے باہر نکال دو۔ اس قدیمی نمک خوار کو نہایت رنج ہوا۔ ہاتھی اونٹ گھوڑے جو کچھ سامان امارت کا تھا سب لٹا دیا ۔ کچھ ہمایوں کے روضے کے مجاوروں کو دیاکچھ مدرسہ اور خانقاہوں کے غریبوں کو دیا اور کفنی گلے میں ڈال فقیر ہوگیا ۔ کہ اسی نے مجھے نوکر رکھا تھا۔ وہی میرا قدردان تھا۔ اب میرا کوئی نہیں اس کی قبر پر جھاڑ و دیا کرونگا۔ جب یہ خبر حضور میںپہنچی تو مہرباں ہوئے شان خاصہ عنایت ہوئی اور ترکش خاص کاتیر پروانگی کے لئے دیا۔ کانت گوز او رپتیالی کی ایک کروڑ بیس لاکھ دام کی جاگیر ہوتی تھی ۔ حکم دیا کہ بدستورسابق مقرر رہے ۔ اورکروڑی مداخلت نہ کرے ۔ جب سوار داغ و محلہ پر حاضر کر یگا ۔ تو جاگیر تنخواہ کے لائق جائے گا ۔ وہ لکھ لٹ مسخرا ۱۰ سوار بھی نہ رکھ سکتا تھا ۔ بحسب ضرورت دفع الوقت کرکے جاگیر پر پہنچا۔ ۹۸۲ ھ میں فاضل بداؤنی لکھتے ہیں حسین خاں کہ سپاہی پیشہ بہادروں میںسے تھا س کے ساتھ معنوی علاقے کے ساتھ میرا رابطہ عظیم و قدیم تھا۔ او خالصتا اللہ محبت تھی۔ داغ و محلہ کی خدمت سپاہی کی گردن توڑنے والی اور لذتوں کوخاک میںملانے والی ہے۔ آخر وہ بھی نہ کر سکا۔ چنانچہ ظاہری دیوانگی اور باطنی فرزانگی کے ساتھ جاگیر سے روانہ ہوا۔ فیقان خاص کی جماعت جو طوفان آتش اور سیلاب دریا سے منہ توڑنے والی نہ تھی اور کسی طرح اس کی رفاقت نہ چھوڑ سکتی تھی ۔ انہیں ساتھ لیا او رعلاقوں کے زمیندار جنہوں نے جاگیرداروں کو خواب تک میںبھی نہیں دیکھا تھا انہیں پامال کرتا ہوا کوہ شمالی کارخ کیا ۔ جس کا مدت العمر سے عاشق تھا سونے چاندی کی کانین وہاں کی سامنے تھیں۔ اور اس وسیع دل میںنقرئی اور طلائی مندروں کا شوق تھا کہ جن میںعالم سماتا تھا۔ بسنت پور ایک نہایت بلنداور مشہور جگہ ہے یہ تو وہاں پہنچا۔ یہاں جو زمیندار اور کروڑی اس کے سامنے چوہے کے بلوں میں چھپے رہے تھے۔ انہوںنے اب مشہور کیا کہ حسین خاں باغی ہوگیا ۔ او ریہی عرضیاں حضور میں بھی پہنچیں حضرت شہنشاہی نے بعض امراء سے دریافت کیا ۔ زمانے کی وفاداری کو دیکھو کہ جو لوگ قرابت قریبی رکھتے تھے۔انہوں نے کلمہ حق سے پہلو بچا لاے او ر کہا تو اور جو کچھ بولے برے ہی بولے۔ غرض یہاں تو اپنے یہ بیگانگی خرچ کر رہے تھے۔ وہاں اس نے بسنت پورجا گھیرا اور بے قاعدہ محاصرہ ڈالا۔ بہت سے کار آزمودہ رفیق کام آئے اور خود شانہ کے نیچے کاری زخم کھایا ناچار او ناکام وہاں سے الٹاپھرا۔ اور کشتی سوار دریائے گنگا کے رستے گڈھ مکتیسر میںپہنچا کہ پتیالی جا کر اہل و عیال میںرہے اور علاج کرے ماثر الامرا میں لکھا ہے ۔ کہ وہ منعم خاں کے پاس چلا تھا کہ وہ حضور کا قدیمی بڈھا خدمت گذار اور میرا یا ر ہے اس کے ذریعے سے خطامعاف کراؤنگا ۔ صاد ق محمد خاں پھرتی کر کے جا پہنچا اور قصبہ بار ہہ پر جا پکڑا۔ جو کچھ متن میں ہے۔ یہ ملا صاحب ان کے نمک حلال دوست کی تحریر ہے۔ ابوالفضل اکبر نامے میںلکھتے ہیں کہ حسیں خان ملک لوٹتے پھرتے تھے۔ بادشاہ سن کر دوبارہ ناراض ہوئے۔ اور ایک سردار کو سادات بارہہ اور سادات امروہہ کی جمعیت سے روانہ کیا ۔ وہ کچھ خواب مستی سے ہوش میںآیا ۔ کچھ زخم سے دل شکستہ ہورہا تھا ۔ بہر حال ہدایت کے رستے پر آاے ۔ جو اوباش ساتھ تھے۔ وہ فوج بادشاہی کی خبر سنتے ہی بھاگ گئے۔ خان نے ارادہ کیا کہ بنگالہ منعم خاں خان خاناں اپنے قدیمی دوست سے ملے۔ اور اسکی معرفت درگاہ میںتوبہ کرے۔ گڈھ مکتیسر کے گھاٹ سے سوار ہوکر چلا تھا۔ کہ بارہہ کے مقام پر گرفتارہوا۔ صادق محمد خاں ایک امیر تھا کہ فتح ہند سے بلکہ جنگ قندھار سے نزاکت مزاج اور تعصب مذہب کے سبب حسین خان کا اس کے ساتھ بگاڑ تھا ۔ بموجب بادشاہ کے حکم کے اس کے ہاں لاکر اتارا اورشیخ مہناطبیب بھی فتحپور سے علاج کے لئے آیا ۔ دیکھکر حضور میںعرض کی زخم خطرناک ہے۔ حکیم عین الملک کو بھیجا۔ مجھے انسے پہلا سابقہ تھا ۔ ساتھی ہی رخصت لیکر میںآیا ۔ ملاقات کی۔ آیا م گرما کی حسرت اور قدیمی محبتیں ۔ اور اندنوں کی باتیں یاد آئیں۔ آنکھوں کے سامنے آگئیں۔ آنسو بھر آئے اور دیر تک باتیں کچھ کچھ کہتے رہے؎ ہر جامن واد جملہ بہم بازرسیدیم بنے واسطہ گوش ولب ازراہ دل و چشم ازبیم بداندیش لب خویش گزدیدیم بسیار سخن بود کہ گفتم وشنیدیم اتنے میںبادشاہی جراح پٹی بدلنے آئے۔ بالشت بھر سلائی چلی گئی زو رسے کردیدتے تھے۔ کہ دیکھیں زخم کہانگک ہے۔ وہ مردانہ نیش کو نوش کی طرح پئے جاتا تھا ۔ تیوری پر مل نہ لاتا تھا ۔ بے تکلف مسکراتا تھا اور باتیں کئے جاتا تھا ۔ ردے م شگفتہ ازسخن تلخ مردم است زہراست دروہان ولبم درتبسم است افسو کہ دیدار قیامتی اور رخصت واپسیں تھی۔ جب ہم فتح پور پہنچے تو تین چار دن بعدسنا کہ اول اسہال ہوا پھر انتقال ہوگیا۔ جس سخی نے عالم عالم خزانے مستحقوں کو بخش دئے اس کے پاس کچھ نہ تھا کہ دفن و کفن میںلگائیں۔ خواجہ محمد یحیٰی نقشبندی کوئی بزرگ اس زمانے میں بڑے پیر مشہور تھے۔ انہوں نے بڑی عزت و احترام سے مسکن غریباں میںپہنچایا ؎ درخاک چگو نہ خفتر بتوانم دید آنرا کہ مراز خاک برداشتہ بود وہاں سے پیتالی میں لاکر اس گنج الہی کو زیر خاک کیا کہ وہیں اس کے رشتہ دار دفن تھے ۔ ملا صاحب نے گنج بخشی سے تاریخ نکالی ۹۸۵ ھ فاضل بداؤنی لکھتے ہیں۔ کہ جس دن اس کی وفات کی خبر پہنچی تو میر عدل اس دن بھکر کو روانہ ہوتے تھے۔ میںانہیں رخصت کرنے گیا اور یہ حال بیان کیا۔ زار زار وروئے اور کہا کہ کوئی دنیا میں رہے تو اس طرح رہے جیسے حسین خان؎ غلام ہمت آم کو زیر چرخ کبود زہر چہ رنگ تعلق پذیر و آزاد است اتفاق یہ کہ میر مرحوم سے بھی وہی ملاقات یادگار رہی۔ انہوںنے خود بھی کہا کہ سب یار چلے گئے دیکھئے پھر تمہیں ہم دیکھ سکیں یا نہیں۔ عجب بات منہ سے نکلی تھی کہ وہی ہوا؎ تادریں گلہ کو سفندے ہست نہ نشیند اجل زقصابی ! فاضل مذکور نے اس بہادرافغان کی دینداری ۔ سخاوت اور بہادری کی اتنی تعریفیں لکھی ہیں کہ ان وصفوں کے ساتھ اگر پیغمبر نہیں تو اصحابوں سے کسی طرح کم نہیں کہہ سکتے ۔ چنانچہ فرماتے ہیں جن دنوں لاہور میں حاکم مستقل تھے تو ثقہ لوگوں سے سناگیا کہ دنیا کی نعمتیں موجود تھیں مگر وہ جو کی روٹی کھاتے تھے۔ فقط اس خیال سے کہ آنحضرت نے یہ ہر مزے کے کھانے نہیںکھائے۔ میںکیونکر کھاؤں ۔ پلنگ اور نرم بچھونوں پر نہ سوتے تھے۔ کہ حضرت نے اس طرح آرام نہیں فرمایا ۔ میںکیونکر آراموں سے لطف اٹھاؤں ۔ ہزاروں مسجدوں اور مقبروں کی تعمیر اور ترمیم کروائی ۔ اکثر علما و سادات و مشا ئخ ا سکی صحبت میںرہتے تھے اسلئے سفر میںچارپائی پر نہ سوتا تھا ۔ تہجد کی نماز کبھی قضانہیں کی ۔ لاکھوں اورکروڑوں کی جاگیر مگرطویلے میں اس کے خاصے کا ایک گھوڑے سے زیادہ نہ تھا۔ کبھی ایسا مستحق آجاتا تھا کہ وہ بھی لے جاتا تھا۔ اکثر سفر خود مقام میںپیادہ ہی رہ جاتا تھا۔ نوکر غلام اپنے گھوڑے کس کر لے آتے تھے۔ کسی شاعر نے قصیدہ کہا تھا ۔ اس میںیہ مصرع بھی تھا اورواقعی سچ تھا خان مفلس غلام با سامان قسم کھائی تھی کہ روپیہ جمع نہ کرونگا۔ کہتا تھا ۔ جو روپیہ میرے پاس آتا ہے جبتک خر چ نہیں کر لیتا پہلو میں تیرسا کھٹکتا ہے۔ روپیہ علاقے پر سے آنے نہ پاتاتھا۔ وہیں چھٹیاں پہنچ جاتی تھیں اور لوگ لیجاتے تھے نذر بان رکھی تھی ۔ کہ جو غلام ملک میں آئے پہلے ہی دن آزاد رہے شیخ خیر آبادی اس زمانے میں ایک بزرگ کر لاتے تھے ۔ وہ ایک دن کفایت شعاری کے فواید اور روپیہ کے جمع کرنے کے لئے نصیحت کرنے لگے ۔ غصے ہو کر جواب دیا۔ پیغمبر صاحب نے کبھی ایسا کیا ہے ۔ حضرت امید تو یہ تھی کہ اگر ہم پر حرص ہوا غالبل ہو تو آپ نصیحت کریں۔ نہ کہ دنیاکے اسباب کو ہماری نگاہوں میں جلوہ دیں۔ فاضل مذکور کہتے ہیں۔ کہ وہ قوی ہیکل قدو قامت کی شان و شوکت سے بڑ ا دیدار و جوان تھا ۔ میںہمیشہ میدان جنگ میں اس کے ساتھ نہیںرہا۔ مگرکبھی کبھی جو جنگلوں میں لڑائیاں ہوئیں تو موجود تھا۔ حقیقت یہ ہے جو بہادری اس میںپائی ۔ پہلوانوں کے نام افسانو ں میںدیکھی جاتی ہے۔ شاید ان میں ہو تو ہو۔ جب لڑائی کے ہتیار سجتاتھا تو دعا کرتا تھا الہی یا شہادت یا فتح۔ بعض شخصوں نے کہا کہ پہلے فتح کیوں نہیںمانگتے ۔ جواب دیا کہ عزیزان گزشتہ کے دیکھنے کی تمنا مخدومان موجود کے دیدار سے زیاد ہے۔ سخی ایسا تھا کہ اگر جہان کے خزانے اور روئے زمین کی سلطنت اسے مل جاتی ۔ پھر بھی وہ پہلے ہی دن قرضدار نظر آتا ۔ کبھی ایسا اتفاق ہوتا تھا چالیس چالیس پچاس پچا س ایرانی مجنس ترکی گھوڑے سوداگر لائے ہیں ۔ فقط اتنا کہہ کر کہ تودانی و خدا قیمت ہوگئی اور ایک ہی جیسے میں سب بانٹ دئے۔ اور جن کو نہیں پہنچے ان سے بااخلاق تما م عذر کیا۔ میری پہلی ملاقات آگرہ میںہوئی ۔ پانسو روپے اور ایک ایرانی گھوڑا کہ اسی وقت لیاتھا مجھے دیدیا ؎ شاہ ہر روزم ندید و بے سخن صد لطف کرد شاہ یزدیم دیدو مدحش گفتم و ہیچم نداد کیا کیجئے ع ہر کہ را ہر چہ ہست میگویند جب مرا تو ڈیڑھ لاکھ روہے سے زیادہ قرض نکلا۔ چونکہ قرج خواہوں سے نیکی اور نیک معا ملگی کرتارہا تھا سب آئے۔ خوشی خوشی تمسک پھاڑتے اورمغفرت کی دعائیں دیکر چلے گئے جس طرح اوروں کے وارثوں سے جھگڑے ہوتے ہیں اس کے بیٹوں سے کوئی کچھ نہ بولا۔ مجھ سے ان کی تعریف کا حق کب ادا ہو سکتا ہے مگر اس لئے کہ نوجوانی عمر کی ۔ بہار کا موسم ہوتا ہے ۔ وہ اس کی خدمت میںگزرا اور اسکے التفات کی بدولت میری حالت نے بہت اچھی پرورش پائ۔ کہ شہر ہ زمان اور انگشت نمائے جہانیاںہوا۔ اسی کی تقریب سے یہ توفیق پائی کہ بندگان خدا کو علم و آگاہی کے فوائد پہنچا سکتا ہوں اس لئے اپنے دفتر میں بعض وصف اس کے کہے کہ ہزار میں سے ایک بہت سے ایک اور بہت میں سے تھوڑ ے ہیں افسوس ہے اس وقت پر کہ بڑھاپے کی خواری اور نحوست کی سرگردانی کا موسم ہے ۔ اسی طرح کے خیالات سے کئی صفحے سیاہ کر کے کہتے ہیں۔ کہ ہم نے آپس میںعہد قدیم کو استحکام دیاتھا ۔ خدا اسے امید ہے کہ میرا اس کا حشر بھی ساتھ ہی ہو ۔ وما ذلک علی اللہ بعزیز۔ اللہ کے نزدیک یہ کچھ بڑی بات نہیں۔ ابو الفضل نے انہیں تین ہزاری کی فہرست میںلکھا ہے ۔ ان کا بیٹا یوسف خاں جہانگیر کے دربار میں امیر تھا ۔ اسنے مرزا عزیر کو کہ کے ساتھ دکن میںبڑی شجاعت دکھائی ۔ وہ ۵ جہانگیری میں شاہزان پرویز کی مدد پر گیا تھا یوسف خاں کا بیٹا عزت خان تھا وہ شاہجہان کی سلطنت میںحق خدمت ادا کرتا تھا۔ ……………………… مہیش داس راجہ بیربر ان کا نام اکبر کے ساتھ اس طرح آتا ہے ۔ جیسے سکندر کے ساتھ ارسطو کا نام۔ لیکن جب ان کی شہرت کو دیکھ کر حالات پر نظر کرو۔ تو معلوم ہوتا ہے ۔ کہ اقبال ارسطو سے بہت زیادہ لائے تھے۔ اصل کو دیکھو تو بھاٹ تھے۔ علم و فضل کو خود ہی سمجھ لو کہ بھاٹ کیا اور اس کے علم وفضل کی بساط کیا۔ کتاب تو بالائے طاق رہی۔ آج تک ایسا اشلوک نہیںدیکھا۔جو گنوان پنڈتوں کی سبھا میںفخر کی آواز سے پڑھا جائے ایک دہرا نہ سنا کہ دوستوں میں دہرایا جائے۔ لیاقت کو دیکھو توٹورڈرمل کجا اور یہ کجا۔ مہمات اور فتوحات کو دیکھو توکسی میدان میں قبضہ کونہیں چھوا۔ اس پر یہ عالم ہے کہ سارے اکبری نورتن ۔ میںایک دانہ بھی ان کے قدر و قربت سے لگا نہیںکھاتا۔ بعض مورخ لکھتے ہیں کہ اصلی نام مہیش داس تھا اور قوم برہمن اکثر کہتے ہیں کہ بھاٹ تھے۔ برہییہ تخلص کرتے تھے۔ ملا صاحب بھاٹ کے ساتھ برہمداس نام لکھتے ہیں۔ کالپی وطن تھا۔ اول رام چندر بھٹ کی سرکار میںنوکر تھے۔ جس طرح اور بھاٹ شہروں میںپھرتے ہیں۔ اسی طرح یہ بھی پھرا کرتے تھے۔ اور اسی طرح کے کبت کہا کرتے تھے۔ ابتدائے جلوس میںکہیں اکبر سے مل گئے تھے ۔ قسمت کی بات تھی ۔ خداجانے کیا با ت بادشاہ کو بھاگئی ۔ باتوں ہی باتوں میں کچھ سے کچھ ہوگئے۔ بے شک قربت او رمصاحبت کی حیثیت سے کوئی عالی جاہ امیر اور جلیل القدر سردار ان ان کے رتبر کو نہیں پہنچتا ۔ لیکن تاریخ سلطنت کے سلسلہ میںجو تعلق انہیںہے ۔ وہ نہایت تھوڑا نظر آتا ہے۔ ذرا دیکھنا ۔ ملا صاحب ان کا حال کسی طرح لکھتے ہے ں ۹۴۰ ھ میں نگر کوٹ حسین قلی خاں کی تلوار پر فتح ہوا۔ شرح اس قصہ کی مجملا یہ ہے کہ بادشاہ کو لڑکپن سے برہمنوں بھاٹوں اور اقسام طوائف ہنود کی طرف میلان خاطر اور التفات خاص تھا۔ اوائل جلوس میںایک برہمن بھاٹ منگتا برہم داس نام کالپی کارہنے والا کہ ہنود کے گانے اس کا پیشہ تھا ۔ لیکن بڑا سرتا ۔ اورسیاناتھا ۔ اس نے ملازمت میںآکر تقریب وہم زبانی کی بدولت مزاج میںدخل پیدا کیا ۔ اورترقی کرتے کرتے منصب عالی کے پہنچ کر یہ عالم ہوا۔ ع من توشدم تومن شدی من تن شدم توجاں شدی اول کب راے (کوی کبت کہنے والا۔ کب رائے ۔ کبت کہنے والوں کا راجہ گویا ملک الشعرا ) پھر راجہ بیربر خطا ب ہوا۔ بنیاد اس مہم کی یہ تھی کہ بادشاہ نے کسی بات پر ناراض ہوکر کانگڑہ کی فتح کا حکم دیا ۔ اورراجہ بیربر بنا کر ملک مذکور ان کے نام کر دیا۔حسین قلی خان کو فرمان بھیجا ۔ کہ کانگڑھ پر قبضہ کرکے راجہ بیربر کی جاگیر کردو مصلحت اس میںیہی ہوگی۔ کہ ہندؤں کا مقدس مقام ہے۔ برہمن کا نام درمیان رہے ۔ حسین قلی خان نے امرائے پنجاب کو جمع کیا ۔ لشکر اور توپخانے فراہم کئے ۔ قلعہ کتائی اور پہاڑ کی چڑھائی کے سامان ساتھ لئے ۔ راجہ جی کو نشان کا ہاتھی بناکر آگے رکھا اورروانہ ہوا۔ سپہ سالار جس عرق ریزی سے گھاٹیوں میں اترا اور چڑھائی پرچڑھا ۔ اس کے بیان میںمورخوں کے قلم لنگڑے ہوتے ہیں۔ غرض کہیں لڑائی کہیں رسائی سے کانگڑھ پرجاپہنچا۔ آزاد ۔ ایسی محنت اورجانکاہی کے مقاموں میں راجہ جی کیا کرتے ہوں گے ؟چلاتے اور غل مچاتے ہونگے ۔ مسخرا پن کے گھوڑے دوڑاتے پھرتے ہونگے قلیوں اور مزدوروں کو گالیاں دیتے ہونگے ۔ اورہنسی ہنسی میںکام نکالتے ہونگے ۔ کانگڑہ کا محاصرہ بڑی سختی کے ساتھ ہوا۔ اس فوج میں کیا ہندو کیا مسلمان سب ہی شامل تھے۔ دھاوے کے جوش میںجو سختیاں ہوئیں۔ اس میں راجہ جی بہت بدنام ہوئے چونکہ پنجاب پر ابراہیم مرزا باغی ہو کر چڑھ آ یا تھا۔ اس لئے حسین قلی خاں نے صلح کر کے محاصرہ اٹھایا۔ راجہ کانگڑہ نے بھی غنیمت سمجھا ۔ اس لئے جو شرطیں پیش کیں۔ خوشی سے منظور کیں۔ چوتھی شرط سپہ سالار نے کہا حضور سے یہ ولایت راجہ بیربر کو مرحمت ہوتی تھی ۔ ان کے لئے کچھ خاطر خواہ ہونا چاہیے۔ یہ بھی منظور ہوا اور جو کچھ ہوا۔ اتناہوا۔ جس میںترازو کی تول فقط پانچ من بوزن اکبری رکھا گیا ۔ اورہزاروں روپیہ کے عجائب و نفانس بادشاہ کے لئے ۔ بیربر جی کو اور جھگڑوں سے کیا غرض تھی۔ اپنی وکشنالے لی اور گھوڑے پر چڑھ کر ہوا ہوئے۔ اکبر گجرات احمد آباد کی طرف مارا مارا کوچ کو تیار تھا اسے سلام کیا اور اسیسیں دیتے لشکر میںشامل ہوگئے۔ آواخر ۹۹۰ ھ میں راجہ بیربر نے ضیافت کے لئے عرض کیا ۔ او ربادشاہ منظور فرما کر ان کے گھر گئے ۔ وہی چیزیں جو کبھی کبھی عنایت کی تھیں۔ حاضر کیں۔ نقد کونثار کیا ۔ باقی پیشکش کر دیااور سر جھکا کر کھڑے ہوگئے ۔ آزاد صورت حال اور ہوگی ۔ عجب نہیں کہ اہل دربار اور اہل خلوت نے ان پر تقاضے شروع کئے ہوں۔ کہ سب امرا حضور کی ضیافت کرتے ہیں۔ تم کیوں نہیں کرتے ہو۔ لیکن ظاہر ہے کہ امرا لڑائیوں پر جاتے تھے۔ ملک مارتے تھے ۔ حکومتیں کرتے تھے۔ دولتیں کماتے تھے۔ انعام واکرام بھی پاتے تھے۔ وہ بادشاہ کی ضیافتیں کرتے تھے۔ تو شاہانہ جاہ وجلال سے گھر سجاتے تھے۔ جس کی ادنے بات یہ کہ سوا لاکھ روپیہ کا چبوترہ باندھتے تھے۔ مخمل و زربفت و کمخواب راہ میں پاانداز بچھاتے تھے۔ جب قریب پہنچتے تھے ۔ تو سونے چاندی کے پھول برساتے تھے۔ دروازے پر پہنچتے تھے۔ توموتی طبق کے طبق نچھاور کرتے تھے۔ لاکھوں روپے کے تحائف جنمیں لعل جواہر۔ شالیں۔ مخمل ہائے زربفت ۔ اسلحہ گراں بہا۔ لونڈیاں حسین۔ غلام صاحب جمال ہاتھی گھوڑے کہاں تک تفصیل لکھوں خلاصہ یہ کہ جو کماتے تھے۔ سولٹاتے تھے ۔ راجہ بیربر کے لیے یہ رستے بندتھے ۔ انہوںنے منہ سے کچھ نہ کہا۔ جو کچھ انہوں نے دیا تھا ۔ وہی ان کے سامنے رکھ کر کھڑے ہوگئے۔ مگر وہ شرمانے والے نہ تھے ۔ کچھ نہ کچھ بھی ہوگا۔ و ہ تو حاضر جواجی کی پھلجڑی تھے۔ آزاد ہوتا تو اتنا ضرور کہتا ۔ کہ عطائے شما بہ لقائے شما ۔ ع ہرچہ زیشاں میر سد آخر بدیشاں میر سد بیر بر دربار سے لے کر محل تک ہر جگہ ہروقت رمے ہوئے تھے۔ اور اپنی دانائی اور مزاج شناسی کی حکمت سے ہر بات پر حسب مراد حکم حاصل کرتے تھے۔ اسی واسطے راجہ اور مہاراجہ امرا ء اور خواتین لاکھوں روپے کے تحفے بھیجتے تھے۔ بادشاہ بھی اکثر راجاؤں کے پا س انہیں سفیر کر کے بھیجتے تھے۔ یہ نہایت زیرک اور دانا تھے ۔ کچھ تو قوی قربت سے کچھ منصب سفارت سے کچھ اپنے چٹکلوں او ر لطیفوں سے وہاں بھی جاکرگھل مل جاتے تھے۔ اور وہ کام نکال لاتے تھے۔ کہ لشکروں سے نہ نکلتے تھے ۔ ۹۸۴؁ ھ میں بادشاہ نے رائے لون کرن کے ساتھ راجا ڈونگر پور کے پاس بھیجا۔ راجہ اپنی بیٹی کو حرم سرائے اکبری میں داخل کیا چاہتا تھا ۔ مگربعض باتوں سے رکا ہواتھا ۔ انہوں نے جاتے ہی ایسا منتر مارا۔ کہ سب سوچ بچار بھلا دیے ۔ ہنستے کھیلتے مبارک سلامت کرتے سواری لے آئے۔ ۹۹۱ ؁ھ میں زین خاں کو ککہ کے ساتھ راجہ رام چندر کے دربار میںگئے۔ بیر بھدر اس کا بیٹا آنے میں اندیشہ کرتا تھا۔ انہوں نے اسے بھی باتوں میںلبھا لیا۔ اسی طرح وغیرہ وغیرہ۔ اسی سنہ میںراجہ بیربر پر سے بڑی کل بل ٹلی۔ اکبر نگر چین کے میدان میںچوگان بازی کر رہے تھے ۔ راجہ جی کو گھوڑے نے پھینک دیا ۔ خدا جانے صدمہ سے بے ہوش ہوگئے۔ یا مسخرا پن سے دم چرا گئے ۔ پکارا۔ پکارا۔ بڑی محبت سے سر سہلایا ۔ اوراٹھوا کر گھر بھجوایا۔ اسی سنہ میں ایک دن میدان چوگان بازی میں بادشاہ ہاتھیوں کی لڑائی کا تماشا دیکھ رہے تھے کہ اور تماشا ہوگیا۔ دل چاچر ہاتھی سرشوری اور بدمزاجی میںمشہور تھا ۔ کہ یکایک دو پیادوں پر دوڑ پڑا۔ وہ بھاگے دل چاچر ان کے پیچھے بھاگا جاتا تھا ۔ کہ بیربر سامنے آگئے۔ انہیں چھوڑکر ان پر جھپٹا ۔ راجہ جی میں بھاگنے کے اوسان بھی نہ رہے۔ بدن کے لدھر عجب عالم ہوا اور انبوہ خلائق میںغل اٹھا ۔ اکبر گھوڑا مار کر خود بیچ میںآگئے ۔ راجہ جی توگرتے پڑتے ۔ ہانپتے کانپتے بھاگ گئے ۔ ہاتھی چند قدم بادشاہ کے پیچھے آکر تھم گیا ۔ واہ رے اکبر تیرا اقبال۔ سواد اور باجوڑ کا علاقہ ایک وسیع ملک پشاور کے مغرب میںہے ۔ اس کی خاک ہندوستان کی طرح زرخیز اور بار آور ہے ۔ اور آب و ہوا کا اعتدال او رموسم کی سردی اس پر اضافہ ۔ شمال میںسلسلہ ہندو کش ۔ مغرب میں کوہ سلیمان کا زنجیرہ ۔ جنوب میں خیبر کی پہاڑیاں ہیں۔ کہ دریائے سندھ تک پھیلی ہوئی ہیں۔ یہ علاقہ بھی ایک حصہ افغانستان کا ہے۔ یہاں کے تناور اور دلاور افغان بر دارانی کہلاتے ہیں۔ ملک کی حالت نے انہیں سرشور اور سینہ زور بناکر اپنی قوموں میں ممتاز کیا ہے ۔ اور ہندوکش کی برفانی چوٹیوں تک چڑھا دیا ہے ۔ علاقہ مذکور میں تیس تیس چالیس چالیس میل کے میدان یا وادیاں ہیں۔ اور ہر میدان میں سے پہاڑوں کو چیر کر درے نکلتے ہیں۔ یہ اور میدانوں او روادیوں سے ملتے ہیں۔ کہ ہو اکی لطافت زمین کی سبزی ۔ پانی کی روانی میں کشمیر کو جواب دیتی ہیں۔ یہ وادیاں یا تو دروں پر ختم ہوتی ہیں۔ جن کے گرد اونچے اونچے پہا ڑ ہیں۔ یا گھنے گھنے جنگلوں میں جاکر غائب ہوجاتی ہیں۔ ایسا ملک حملہ آوروں کے لئے سخت دشوار گزارہوتا ہے۔ مگر وہاں کے لوگوں کے لئے کچھ بات ہی نہیں چڑھائی اترائی کے مشاق ہیں۔ رستے جانتے ہیں۔ جھٹ ایک وادی سے دوسری وادی میں جا نکلتے ہیں۔ کہ جہاںناواقف آدمی دنوں بلکہ ہفتوں تک پہاڑوں میں ٹکراتا پھرے۔ اگرچہ وہاں کے افغان سرشوری اور راہزنی کو اپنا جوہر قومی سمجھتے ہیں۔ لیکن ایک حکمتی شخص نے پیری کا پردہ تان کر اپنا نام پیر روشنائی رکھا اور خیلہائے مذکورہ سے بہت جاہلوں کو فراہم کر لیا ۔ کوہستان مذکور جس کا ایک ایک قطعہ قدرتی قلعہ ہے ۔ ان کے لئے پناہ ہوگیا ۔ وہ کنار اٹک سے لیکر پشاور اور کابل تک رستہ مارتے تھے۔ اور لوٹ مار سے آبادیوں کو ویران کرتے تھے ۔ بادشاہی حاکم فوجیں لے کر دوڑتے تووہ سینہ زوری سے سر توڑمقابلہ کرتے ۔ اور دبتے تو اپنے پہاڑوں میں گھس جاتے ۔ ادھریہ لوگ پھرے ۔ ادھر سے وہ پھر نکلے اور پیچھا مار کر فتح کو شکست کردیا۔ ۹۹۳ ھ میں اکبر نے چاہا کہ ان کی سخت گردنوں کو توڑ ڈالے۔ اور ملک کا پورا بندوبست کرے۔ زین خاں کو کلتاش کو چندامراء کے ساتھ فوجیں دے کر روانہ کیا۔ وہ لشکر شاہی اور سامان کو دکشائی اور رسد کے رستے کرکے ملک میں داخل ہوا۔ پہلے باجوڑ پر ہاتھ ڈالا۔ میر ے دوستو ! یہ کوہستان ایسا بے ڈھنگا ہے۔ کہ جن لوگوں نے ادھر کے سفر کئے ہیں ۔ وہی وہاں کی مشکلوں کو جانتے ہیں ناواقفوں کی سمجھ میںنہیںآتا۔ جب پہاڑ میںداخل ہوتے ہیں تو پہلے زمین تھوڑی تھوڑی چڑھتی ہوئی معلوم ہوتی ہے۔ پھر دور سے ابر سا معلوم ہوتا ہے۔ کہ ہمارے سامنے دائیں سے بائیں تک برابر چھا یا ہوا ہے۔ اور اٹھتا چلا آتا ہے ۔ جوںجوں آگے بڑھتے چلے جاؤ ۔ چھوٹے چھوٹے ٹیلوں کی قطاریں نمودار ہوتی ہیں۔ ان کے بیچ میں سے گھس کر آگے بڑھے۔ تو ان سے اونچی اونچی پہاڑیاں شروع ہوئیں۔ ایک قطار کو لانگھا ۔ تھوڑی دور چڑھتا ہوا میدان اور پھر وہی قطار آگئی۔ یا تو وہ پہاڑ بیچ میں سے پھٹے ہوئے ہیں (درہ) انکے بیچ میںسے نکلنا پڑتا ہے۔ یا کسی پہاڑ کی کمر پر سے چڑھتے ہوئے اوپرہو کر پار اتر گئے۔ چڑھائی اوراترائی میں۔ اور پہاڑ کی دھاروں پر دونو طرف گہرے گہرے نظر آتے ہیں۔ کہ دیکھنے کو دل نہیں چاہتا ۔ ذرا پاؤں بہکا اور گیا۔ پھر تحت الثرے سے ورے ٹھکانانہیں۔ کہیں میدان آیا۔ کہیں کو س دو کوس جس طرح چڑھتے تھے۔ اسی طرح اترناپڑا۔ کہیں برابر چڑھتے گئے۔ رستے میںجا بجا دائیںبائیں درے آتے ہیں۔ کہیںاور طرف رستہ جاتا ہے۔ اور ان دروں کے اندر کوسوں تک گلی گلی چلے جاتے ہیں۔ غرض سرابالا (چڑھائی) سراشیب (اترائی) کمر کوہ (چڑھائی کے بیچ میں جو پہاڑ کے پہلو بہ پہلو راہ ہو) گربیان کوہ (پہاڑ میںشگاف ہو) تنگی کوہ (وہ پہاڑوں کے بیچ میںجو گلی جاتی ہے) تیزی کوہ (پہاڑ کی دھار پر جورستہ چلتا ہوا ۔ دامن کوہ (پہاڑ کے ااتالکا میدان) ان الفاظ کے معنے وہاں جا کر کھل سکتے ہیں۔ گھرمیںبیٹھے تصور کریں توسمجھ میںنہیں آسکتے ۔ یہ تمام پہاڑ بڑے بڑے اور چھوٹے چھوٹے درختوں سے چھائے ہوئے ہیں۔ دائیں بائیں پانی کے چشمے اوپر سے اترتے ہیں۔ زمین پر کہیں مہین مہین اورکہیں نہر ہوکر بہتے ہیں۔ کہیں دو پہاڑیوں کے بیچ میں ہوکر بہتے ہیں۔ کہ پل یا کشتی بغیر پار اتر نا مشکل ہے او ر چونکہ پانی بلندی سے گرتا آتا ہے۔ اور پتھروں میں ٹکراتا ہوابہتا ہے ۔ اسلئے اس زور سے جاتا ہے۔ کہ پایاب گزرنا ممکن نہیں۔ گھوڑا ہمت کرے۔ تو پتھروں پر سے پاؤں پھسلتے ہیں۔ ایسے بے ڈھنگے رستوں میں او رتمام دائیںبائیں دروں میں اور دامان کوہستان میںافغان آباد ہوتے ہیں۔ دنبوں اور اونٹوں کی پشم کے کمل ۔ نمدے شطرنجیاں اورٹاٹ بلتے ہیں۔ ان کی چھوٹی چھوٹی تمبوٹیا ں کھڑی کر لیتے ہیں۔ دامن کوہ میںکو ٹھے کوٹھریاں ڈال لیتے ہیں۔ وہیں کھیتی کرتے ہیں۔ جنگلوں کے سیب بہی ۔ ناشپاتی اورانگور انکے قدرتی باغ ہیں۔ وہی کھاتے ہیں اور مزے سے جیتے ہیں۔ جب کوئی بیرونی دشمن حملہ کرتا ہے توسامنے ہو کر مقابلہ کرتے ہیں۔ ایک اونچی پہاڑی پر چڑھ کر نقارہ بجاتے ہیں۔جہاں جہاں تک آواز پہنچی ۔ ہر شخص کو پہنچنا واجب ہے ۔ دو دو تین تین وقت کا کھانا۔ کچھ روٹیاں کچھ آٹے گھر سے باندھے ۔ ہتھیار لگائے اور آن موجود ہوئے ۔ جو وہـ ٹڈی دل سامنے پہاڑیوں پر چھایا ہوا نظر آتا ہے تو بادشاہی لشکر جو میدان کے لڑنے والے ہیں۔ دیکھ کر حیران ہوجاتے ہیں۔ اور جب خیال آتا ہے ۔ کہ کتنے اور کیسے پہاڑ ہم طے کر کے یہان تک آئے ہیں پیچھے تووہ ر ہے ۔ او ر آگے یہ بلا۔ نہ زمین کے نہ آسمان کے۔ اس وقت خدا یاد آتا ہے ۔ جس وقت مقابلہ ہوتا ہے۔ توافغان نہایت بہادری سے لڑتے ہیں۔ جب دھاوا کرتے ہے ں۔ تو توپوں پران پڑتے ہیں۔ لیکن بادشاہی لشکروں کے سامنے تھم نہیں سکتے ۔ جب دبتے ہیں تو پہاڑوں پر چڑھ جاتے ہیں۔ اور دائیں بائیں کے دروں میں گھس جاتے ہیں۔ وہ قوی ہیکل اورطاقت مند ہوتے ہیں ۔ویس کے لوگوں کو فقط اونچی زمین پر چڑھنا ہی ایک مصیبت نظر آتی ہے۔ ان کا یہ عالم ہے کہ سر میں یا دل و جگر میں گولی یا تیر لگ گیاتو گر پڑے۔ بازو ران ہاتھ پاؤں میںلگے تو خاطر میںبھی نہیںلاتے ۔ بند ر کی طرح درختوں میں گھستے ۔ پہاڑوں پر چڑھتے چلے جاتے ہیں۔ اس عالم میںگولی لگی۔ بہت ہوا تو ہاتھ مارا۔ ذرا کھجا لیا۔ جیسے بھر نے ڈنک مارا ۔ بلکہ مچھر نے کاٹا۔ بڑی مشکل جو بادشاہی لشکروں کوپیش آتی ہے۔ وہ یہ ہے کہ جتنا آگے بڑھتے ہیں۔ نادان جانتے ہیں ۔ کہ میدان سامنے کھلا۔ او رحقیقت میں موت کے منہ میں گھستے جاتے ہیں۔ وہ افغان جو سامنے ہٹ کر آگے بھاگ گئے یا دائیں بائیںدروں میںگھس گئے تھے۔ پہاڑیونکے نیچے جا کر اوپر چڑھ آتے ہیں۔ اور دروں کے اندر کی مخلوق بھی آن پہنچتی ہے۔ اوپر سے گولیاں اور تیر برساتے ہیں۔ ورنہ پتھر۔ اور حقیقت تو یہ ہے ۔ کہ ایسے موقع پر جہاںفوج سمجھ چکی تھ ۔ کہ میدان صاف کر کے آگے بڑھے ہیں۔ ان کا فقط غل مچانا کافی ہوتا ہے ۔ اور سامنے کی لڑائی توکہیں گئی ہی نہیں۔ وہ میدان تو ہر وقت طیار ہے ۔ جب تک کمرمیںآٹا بندھا ہے۔ لڑرہے ہیں۔ ہوچکا۔ گھروں کو بھاگ گئے۔ کچھ رہ گئے ۔ کچھ اورکھانا باندھ آئے کچھ اور نئے آن شامل ہوئے۔ غرض بادشاہی لشکر جتنا آگے بڑھے۔ اور پچھلی مسافت زیادہ ہو۔ اتنا ہی گھر کا رستہ بند ہوتا جاتاہے۔ اور وہ بند ہوا تو سمجھ لو کہ خبر بند۔ رسد بند۔ گویا سب کام بند۔ زنین خان نے لڑائی کی شطرنچ بہت اسلوب سے پھیلائی ۔ اور بادشاہ کو لکھا کہ لشکر اقبال کے بڑھنے کو کوئی روک نہیںسکتا۔ افغانوں کے بڈھے بڈھے سردار چادریں گلے میںڈال کر عفو تقصیر کے لئے حاضرہوگئے تھے ۔ لیکن جو مقامات قابل احتیاط ہیں۔ ان کے لئے اور لشکر مرحمت ہونا چاہیے۔ اس قت بیربر کا جہاز عمر کہ مردادوں کی ہوا میں بھرا چلا جاتاتھا۔ دفعتہ گرداب میں ڈوبا۔ دربارمیں امر تجویز طلب یہ تھا کہ کس امیر کو بھیجنا چاہیے۔ جو ایسے کڈھب رستوں میںلشکر کو لے جائے او ر پیچیدہ صورتوں کو جو وہاں پیش آئیں۔ سلیقہ کے ساتھ سنبھالے۔ ابوالفضل نے درخواست کی کہ فدوی کو اجاز ت ہو۔ بیربر نے کہا۔ غلام ۔ بادشاہ نے قرعہ ڈالا۔ موت کے فرشتہ نے بیر بر کا نام سامنے دکھایا۔ اس کے چٹکلوں اور لطیفوں سے بادشاہ بہت خوش ہوتے تھے۔ اور ایک دم بھی جدائی گوارا نہ تھی ۔ لیکن خدا جانے کسی جوتشی نے کہ دیا یا خود ہی خیال آگیا کہ توپخانہ بھی ساتھ چا ہیے ۔ انداز محبت خیال کرو کہ جب رخصت ہونے لگا۔ تو اس کے بازو پر ہاتھ رکھ کر کہا۔ بیر بر جلدی آنا۔ جس دن روانہ ہوا۔ شکار سے پھرتے ہوئے خود اس کے خیموں میںگئے ۔ اور بہت سی نشیب و فراز کی باتیں سمجھائیں۔ یہ فوج دانی اور سامان کافی کے ساتھ روانہ ہوئے۔ ڈوک کی منزل میںپہنچے تو سامنے ایک تنگی تھی ۔ افغان دونوں طرف پہاڑوں پر چڑھ کھڑے ہوئے۔ بیر بر تودور سے کھڑے غل مچاتے رہے۔ مگر اور امرا زور دے کر بڑھے۔ پہاڑ کے جنگلی بے سرو پا وحشی ہوتے ہیں۔ ان کی حقیقت کیا ہے ۔ مگرانہوں نے اس شدت سے اور سختی سے فوج شاہی کا سامنا کیا کہ اگرچہ بہت سے افغان مارے گئے۔ مگر بادشاہی فوج بھی بہت سی بھاری چوٹیں کھا کر ہٹی اورچونکہ دن کم رہ گیا تھا ۔ واجب ہوا کہ دشت کو الٹے پھرآئیں۔ بادشاہ بھی سمجھتے تھے۔ کہ مسخرے بھاٹ سے کیا ہونا ہے ۔ کچھ عرصہ کے بعد حکیم ابوالفتح کوبھی فوج دے کر روانہ کیاتھا ۔ زین خاں اگرچہ ہندوستان کی ہوامیں سرسبزہواتھا۔ لیکن سپاہی زادہ تھا۔ اس کے باپ دادا اسی خاک سے اٹھے تھے۔ اور اسی خاک میں تلواریں مارتے او رکھاتے دنیا سے گئے تھے۔ وہ جب ملک باجوڑ میںپہنچا تو جاتے ہی چاروں طرف لڑائی پھیلا دی۔ ایسے دھاوے کئے۔ کہ پہاڑ میںبھونچال ڈالدیا۔ ہزاروں افغان قتل کئے۔ اور قبیلے کے قبیلے گھیر لئے۔ بال بچے قید کر لئے اور ایسا تنگ کیا کہ انکے ملک اور سردار طنا بیں گلے میں ڈال ڈال کر آئے کہ اطاعت کے لئے حاضر ہوئے ہیں۔ زین خان اب ولایت سواد کی طرف متوجہ ہوا۔ افغان سامنے کے ٹیلوں اور پہاڑیوں سے ٹڈیوں کیطرح امنڈ کر دوڑے۔ اور گولیاں اور پتھر اولوں کی طرح برسانے شروع کئے۔ ہر اول کو ہٹنا پڑ امگر مقدمہ کی فوج نے ہمت کی کہ ڈھالیں منہ پر لیں۔ اور تلواریں سونت لیں۔ غرض جس طرح ہوا تنگی سے نکل گئی ۔ انہیں دیکھ کر اوروں کے دلوں میں بھی ہمت کا جوش سرسرایا ۔ غرض کہ جس طرح ہوا فوج اوپر چڑھ گئی ۔ اور افغان بھاگ کر سامنے کے پہاڑ پر چڑھ گئے۔ زین خاں اوپر جا کر پھیلا۔ چکدرہ میںچھاؤنی ڈال کر گرد مورچے تیا رکئے۔ اور قلعہ باندھ لیا۔ چونکہ چکدرہ ولایت مذکور کا بیچوں بیچ مقام ہے ۔ اور یہاں سے ہر طرف زور پہنچ سکتا ہے۔ اس لئے سامنے کراکر کا پہآر اور بنیر کا علاقہ رہ گیا باقی سب ضلع قبضہ میں آگیا۔ اسی عرصہ میں راجہ بیربر اور حکیم بھی آگے پیچھے پہنچے ۔ اگرچہ راجہ کی اور زین خاں کی پہلے سے چشمک تھی۔ لیکن جب ان کے آنے کی خبر پہنچی تو حوصلہ سپہ سالاری کو کام میں لایا۔ استقبال کر کے آیا ۔ اور رستے ہی میں ان سے آکر ملا۔ صفائی اور گرمجوشی سے باتیں کیں۔ پھر آگے بڑھ گیا اور لشکر کے عبور اور انتظام راہ میں مصروف رہا۔ وہ دن بھر کھڑا رہا۔ تمام فوجوں اور بھیر اور بار برداریوں کو ان برف پوش پہاڑوں سے اتارا اور آپ وہیں اتر پڑا۔ رات اسی جگہ گذاری کہ پٹھان پیچھے نہ آن پڑیں۔ حکیم فوج لے کر پہلے قلعہ چکدرہ پر دوڑ گئے ۔ صبح کو قلعہ پر سب شامل ہوئے۔ کو کلتاش نے وہاں جشن کیا۔ ان لوگوں کواپنا مہمان قرار دے کر بہت خاطر داری کی۔ اور مہمانی کے بڑے بڑے سامان کرکے اپنے خیموں پر بلایا۔ کہ تجویز وں پر اتفاق رائے ہوجاتے ۔ اس مقام پر راجہ بھوٹ بہے۔ بہت سی شکائتیں کیں۔ اور کہا کہ بادشاہی توپخانہ ہمارے ساتھ ہے۔ بندگان دولت کو چاہیے تھا ۔ کہ اس کے گرد آکر جمع ہوتے اور یہاں صلاح مشورہ کی گفتگو ہوتی۔ اگرچہ مناسب یہ تھا کہ کوکلتاش کی سپہ سالاری کے لحاظ سے راجہ بیربر توپخانہ اس کے حوالے کر دیتے ور سب اس کے پاس جمع ہوتے لیکن پھربھی زین خاں بے تکلف چلا آیا ۔ اور سب سردار بھی اس کے ساتھ چلے آئے۔ البتہ ناگوار گذرا۔ بد ترین اتفاق یہ کہ حکیم اور راجہ کی بھی صفائی نہ تھی ۔ یہاں حکیم اور راجہ میں گفتگو بڑھ گئی اور راجہ نے گالیوں تک نوبت پہنچا دی۔ کوکلتاش کے حوصلہ کو آفرین ہے ۔ کہ بھڑکتی آگ کو دبایا اور صلاحیت و صفائی کے ساتھ صحبت طے ہوگئی ۔ لیکن تینوں سرداروں میں اختلاف ہی رہا۔ بلکہ روز بروز عداوت اور نفاق بڑھتا گیا ۔ ایک کی بات کو ایک نہ مانتا تھا۔ ہر شخص یہی کہتا تھا کہ جو میں کہوں سب اسی طرح کریں۔ زین خان سپاہی زادہ تھا ۔ سپاہی کی ہڈی تھا۔ خود بچپن سے لڑائیوں ہی میں جوانی تک پہنچا تھا۔ وہ اس ملک کے حال سے بھی واقف تھا۔ اور جانتا تھا کہ ادھر کے لوگوں سے کیوں کہ میدان جیت سکتے ہیں۔ حکیم نہایت دانش مند تھا۔ مگر دربار کا دلاور تھا ۔ نہ کہ ایسے کڈھب پہاڑوں کا اور پہاڑی وحشیوں کا تدبیریں خوب نکالتاتھا۔ مگر دو ر دور سے ۔ اور یہ ظاہر ہے کہ کہنے اور برتنے میں بڑ افرق ہے۔ اس کے علاوہ اسے یہ بھی خیال تھا ۔ کہ میں بادشاہ کا مصاحب خاص ہوں۔ وہ تومیری صلاح بغیر کام نہیں کرتے ۔ یہ ایسے کیا ہے۔ بیربر جس دن سے لشکر میں شامل ہوئے تھے جنگلوں اور پہاڑوں کو دیکھ دیکھ کر گھبراتے تھے۔ ہر وقت بدمزاج رہتے تھے۔ اور اپنے مصاحبوں سے کہتے تھے۔ حکیم کی ہمراہی اور کوکہ کی کوہ تراشی دیکھیے ۔ کہاںپہنچاتی ہے ۔ رستے میںبھی جب ملاقات ہوجاتی توبرا بھلا کہتے اور لڑتے ۔ آزاد اس کے دو سبب تھے اول تو یہ کہ وہ محلوں کے شیر تھے ۔ نہ مرد شمشیر ۔ دوسرے بادشاہ کے لاڈلے تھے۔ انہیں یہ دعوے تھا کہ ہم اس جگہ پہنچ سکتے ہیں جہان کوئی جاہی نہیں سکتا۔ ہمیں ان کی مزاج میں وہ دخل ہے کہ ٹھیری ٹھیرائی صلاح توڑ دیں۔ زین خان کیا مال ہے اور حکیم کی کیا حقیقت ہے ۔ غرض خود پسندیوں نے مہم کو بگا ڑدیا۔ زین خاں کی رائے یہ تھی ۔ کہ میری فوج مدت سے لڑ رہی ہے۔ تمہاری فوج میں سے کچھ چکدرہ کی چھاؤنی میںرہے اور اطراف کا بندوبست کرتی رہے۔ کچھ میرے ساتھ شامل ہو کر آگے بڑھے یا تم میں سے جس کا جی چاہے آگے بڑے ۔ راجہ اور حکیم دونوں میں سے ایک بھی اس بات پر راضی نہ ہوئے انہوں نے کہا حضور کا حکم یہ ہے کہ انہیں لوٹ مار کر برباد کر دو۔ ملک کی تسخیر اور قبضہ مدنظر نہیں ہے ہم سب ایک لشکر ہو کر مارتے دھاڑتے ادھر سے آئے ہیں۔ دوسر ی طرف سے نکل کر حضور کی خدمت میںجا حاضر ہوں زین خاں نے کہا۔ کس محنت و مشقت سے یہ ملک ہاتھ آیا ہے حیف رہیگا۔ کہ مفت چھوڑ دیں۔ اچھا اگر کچھ بھی نہیں کرتے تو یہی کرو کہ جس رستے آئے ہو۔ اسی رستے پھر کر چلو کہ انتظام پختہ ہوجائے۔ راجہ تو اپنے گھمنڈ میںتھے ۔ انہوںنے ایک نہ سنی ۔اور دوسرے دن اپنے ہی رستہ روانہ ہوئے۔ ناچار زین خاں بھی اور سردار لشکر بھی فوج اورسامان ترتیب دے کر پیچھے پیچھے ہولئے۔ اور دن بھر میں پانچ کوس پہاڑ کاٹا۔ دوسرے دن کے لئے قرار پایا کہ رستہ سخت ہے۔ تنگ تنگ گھاٹیاں او ر بڑا پہاڑ سامنے ہے۔ اور تیز چڑھائی ہے۔ باربرداری ۔ بہیر۔ بنگاہ سب ہی کا گذرنا ہے۔ اس لئے آدھ کوس پر جا کر منزل کریں۔ دوسرے دن سویرے سے سوار ہوں۔ کہ آرام سے برف پوش پہاڑ کو پائمال کرتے ہوئے سب اتر جائیں۔ اور خاطر جمع سے منزل پر اتریں یہی سب کو صلاح ٹھیری تھی ۔ کہ تمام امرا کو چھٹیاں بٹ گئیں۔ نور کے تڑکے کے دریائے لشکر نے جنبش کی۔ ہر اول کی فوج ن ے ایک ٹیلے پر چڑھل کر نشا ن کاپھریرا دکھایا تھا کہ افغان نمودار ہوئے۔ اور دفعتہ اوپر نیچے ۔ دائیں بائین سے ہجوم کیا ۔ خیر پہاڑوں میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ بادشاہی لشکر نے مقابلہ کیا۔ اور انہیں مارتے ہٹاتے آگے بڑھ گئے ۔ جب مقلم مقررہ پر پہنچے تو ہر اول اور اسکے ساتھ جو خیمے ڈیرے والے تھے۔ انہوں نے منزل کر دی۔ قسمت کی گردش دیکھو! بیر بر کو کسی نے خبردی تھی کہ یہاں افغانوں کیطرف سے شبخوں کا ڈر ہے ۔ چار کوس آگے نکل چلو گے تو پھر کچھ خطر نہیں۔یہ منزل پر نہ اترے آگے بڑھتے چلے گئے۔ دل میں سمجھے کہ دل بہتیرا ہے ۔ چار کوس چلنا کیا مشکل ہے۔ اب وہاں پہنچکر نچنت ہوجائیں گے ۔ آگے میدان آجائے گا پھر کچھ پرواہ نہیں۔ اور امرا آپ ہی آرہے گے ۔ چلو آگے ہی بڑھ چلو لیکن انہوںنے آگرہ۔ او ر سیکری کا رستہ دیکھاتھا۔ اور پہاڑ کب دیکھے تھے۔ اوران کی منزلیں کہاں کاٹی تھین۔ جو لوگ بادشاہی سواری کے ساتھ ڈولہ ۔ پالکیوں۔ تام جاموں میں پھرے ۔ انہیں کیا خبر کیا یہ معاملہ کیا ہے ۔ اور شبخوں کا موقع کیا ہے ۔ اور شبخوں ماریں بھی تو پہاڑ ی کر کیا لینگے ۔ مگر یہ سمجھنا بھی تو جنگی ہی لوگوں کا کام ہے نہ بھاٹوں کا ۔ وہ سمجھے کہ جو کچھ ہے ۔ یہی چار کوس کا معاملہ ہے۔ آخر تین جنگی لشکر آگے پیچھے چلے۔ آزاد میرے دوستو! وہ ملک تو دنیا ہی نئی ہے۔ کیونکر لکھوں کہ تمہارے تصور میں تصویر کھینچوں یہ عالم ہے کہ چاروں طرف پہاڑ ۔ درختوں کا بن۔ گھاٹی ایسی تنگ کہ دو تین آدمی بمشکل چل سکیں۔ رستہ ایسا کہ پتھروں کی اتار چڑھا ؤ پر ایک لکیر سی پڑی ہے۔ اسی کو سڑک سمجھ لو ۔ گھوڑوں ہی کا دل ہے اور انہیں کے قدم ہیں۔ کہ چلے جاتے ہیں۔ کبھی دائیں پر کبھی بائیں پر ۔ کہیں دو نو ظرف کھڈ ہیں۔ کہ دیکھنے کو جی نہیںچاہتا ۔ ذرا پاؤں ادھر ادھر ہوا۔ لڑکا اور گیا ۔ یہ عالم ہوتا ہے کہ نفسی نفسی پڑی ہوتی ہے۔ ایک بھائی لڑکا جاتا ہے ۔ دوسرا بھائی دیکھتا ہے اور آگے ہی قدم اٹھاتا جاتا ہے ۔ کیا ذکر جو سنبھالنے کا خیال آئے۔ چلتے چلتے ذرا کھلا آسمان اور کھلا میدان آیا تو سامنے ایک دیوار پہاڑوں کی معلوم ہوئی جس کی چوٹیاں آسمان سے باتیں کرتی ہیں۔ خیال آتا ہے کہ اس سے گذر جائیں گے۔ تو مشکل آسان ہو جائے گی ۔ دن بھر کی منزل مار کر اوپر پہنچے ۔ وہاں جا کر کچھ میدان آیا ۔ اور دور دور چوٹیاں دکھائی دیں۔ اتر کر ایک اور گھاٹی میںجا پڑے کہ پھر وہی آسمانی دیواریں موجود ۔ وہ پہاڑ چھاتی پر غم کا پہا ڑ ہوجاتے ہیں۔ الہی کیونکر یہ کوہ غم کٹے۔ دل کہتا ہے کہ بس مرلئے یہیں۔ بعض موقع پر ایک جانب کو ذرا چھوٹے چھوٹے ٹیلے نمودار ہوتے ہیں۔ مسافر کا دل تازہ ہوجاتا ہے۔ کہ بس اب ان میں سے نکل کر میدان میں چلے جائے گے ۔ مگر ان سے آگے بڑھ کر ایک میدان آیا۔ کئی کوس بڑھ کر پھر ایک درہ گھسنا پڑا۔ چشموں کی چادریں گرنے کی آوازیں آنے لگیں ۔ آدھ کوس کوس بھر کے بعد پھر وہی اندھیران ۔ مشرق و مغرب تک کا پتہ نہیں یہ کسے معلوم ہو کہ دن چڑھا ہے یا ڈھل رہا ہے ۔ اور آباد ی کا ذکر ہی نہ کرو۔ غرض بیر بر تو اسی بھلاوے میںآگے بڑھ گئے کہ ہمت کر کے نکل جاؤینگے ۔ تو آج ہی سب کا خاتمہ ہوگا ۔ پیچھے والے آپ ہی چلے آویں گے ۔ مگر یہ آنا دربار یا عید گاہ سے گھر آنا تو نہ تھا ۔ جو لوگ اتر پرے تھے ۔ اور کچھ خیمے لگا چکے تھے ۔ انہوں نے جو دیکھا کہ راجہ بیربر کی سواری چلی۔ اوروہ آگے جاتے ہی سمجھے کہ ہمیں حکم پہنچایا رائے پلٹ گئی۔ ہاتھ پاؤں پھول گئے۔ جو ابھی آکر کھڑے ہوئے تھے۔ وہ دوڑ پڑے۔ اورجو ڈیرے لگا چکے تھے ۔ یا لگاتے تھے۔ وہ گھبرا گئے کہ ان سب کو سمٹیں ۔ اور بغل میں مار کر بھاگ چلیں۔ آخر خیمے گرادئیے۔ کچھ لپیٹے اور کچھ باندھے اور پیچھے پیچھے بھاگے ہندوستان کے رہنے والے لوگ پہاڑوں سے اور رات اور دن کو مار مار۔ ہر وقت کے خوف و خطرے تنگ ہوہی رہے تھے ۔ یہ حالت دیکھر کر جو خاطر جمع سے چلے آتے تھے۔ ان میں بھی گھبراہٹ پیدا ہوئی اور بے تحاشا آگے کو بھاگے ۔ افغانوں کے آدمی بھی انہیں ملے جلے آتے تھے۔ اور دائیں بائیں پہاڑوں پر لاگے ہوئے تھے ۔ انہوں نے جو ہل چلی دیکھی ۔ لوٹنا شروع کردیا۔ اگر لشکر شاہی کے لوگ ہوش و ہواس درست رکھتے ۔ یا بیربر کو خدا توفیق دیتا کہ وہیں باگ وک کر کھڑا ہوجاتا تو ان لٹیروں کو مار لینا اورہٹا دینا کچھ بڑی بات نہ تھی ۔ مگر لاڈلے راجہ کو ضرور خیا ل ہوا ہوگا کہ اتنا بڑا لشکر ہے۔ نکل سی آئیں۔ چو مر جائیں مر جائیں تم تو چلو۔ لشکر جو کوسوں کی قطار میں دریا کی طرح چڑھاؤ میںچلا آتاتھا ۔ ایک تلاطم میں پڑ گیا ۔ افغانوں کایہ عالم تھا ۔ کہ لوٹ مار باندھ اپنا کا م کئے جاتے تھے۔ رستہ کڈھب ۔ گھاٹیاں تنگ ۔ برا حال ہوا۔ زین خان بچارہ خوب خوب اڑا ۔ آگے بڑ ھ کر او ر پیچھے والوں کو سنبھال کر جان لڑائی ۔ مگر کیا کر سکتا تھا ۔ مقام بے موقع ۔ بیل خچریں اونٹ لدے پھندے لوٹ لے گئے۔ آدمی بھی بے شمار ضائع ہوئے اور جو ان کے ہاتھ آئے پکڑ کر لے گئے غرض لڑتے مرتے مارتے چھ کو س آئے۔ دوسرے دن زین خاں نے مقام کیا کہ لوگ ٹوٹے پھوٹے کی مرہم پٹی کریں۔ اور ٹھیر کر ذرا دم لیں۔ آپ راجہ بیربر کے ڈیرے گیا ۔ اور امرا کو جمع کر کے مشورہ کا جلسہ کیا ۔ اکثر اہل لشکر ہندوستانی ہی تھے ملک اور ملک کی حالت سے گھبراگئے تھے۔ کثرت رائے یہی ہوئی کہ نکل چلو۔ اس نے کہا آگے پہاڑ اور ٹیلے بیڈھب ہیں۔ لشکروالوں کے دل ٹوٹ گئے ہیں۔ افغان دلیر ہو کر پہاڑوں پر امنڈ آئے ہیں لکڑی چارہ پانی دانہ بہت ملتا ہے۔ میری صلاح یہی ہیی ۔ کہ چندرو ز قیام کریں۔ اور اپنی حیثیت درست کرکے باغیوں کو ایسی گوشمالی دیں۔ کہ ان کے بگڑے ہوئے دماغ درست ہو جائیں۔ اور یہ صلاح نہ ہوتو ان کے بھائی بندعیال مال مویشی بھی ہمارے قبضہ میںہیں۔ وہ پیغام سلام کریںگے اور اطاعت کر کے خفو تقصیر جائینگے ۔ قیدی ان کے حوالے کر کے خاطر جمع کے ساتھ یہاں سے چلے گے۔ یہ صلاح بھی پسند ہو۔ تو حضور میں سب عرض حال لکھ کر بھیجیں۔ اور کمک منگائیں۔ ادھر سے فوج آکر پہاڑوں کو روک لے۔ ہم ادھر سے متوجہ ہوں۔ لیکن یہ ہندوستانی وال خور جنہوں نے گھر کا ماما نچتڑیاں کھائیں پہاڑ ان سے کب کئے ۔ ایک بات پر بھی صلاح نہ ٹھیری ۔ مطلب وہی کہ یہاں سے نکل چلو۔ اور گھر چل کر توری پھلکے اڑاؤ۔ غرض دوسرے دن کمال اضطراب اور بے سرو سامانی میں خیمے ڈیرے اکھیڑ روانہ ہوئے بہیر بنگاہ ہمیشہ پیچھے ہوتی ہے۔ اور افغانوں کا قاعدہ ہے ۔کہ انہی پر گرا کرتے ہیں اس لیے زین خان آپ چند اول ہوا۔ منزل سے اٹھتے ہی لڑائی شروع ہوئی۔ افغانوں کا یہ عالم کہ سامنے پہاڑوں پر سے امنڈتے آتے ہیں۔ کھڈوں۔ گھاٹیوں اورمار پیچوں میں چھپے بیٹھے ہیں۔ دفعتہ نکل کھڑے ہوتے ہیں ہندوستانی چیخیں مارتے ہیں۔ اور ایک ایک پر گرے پڑتے ہیں جہاں گھاٹی یا درہ آتا ۔ وہاں قیامت آجاتی ۔ آدمی اور جانور۔ زندہ اور مردہ کوئی نہ دیکھتا تھا ۔ پامال کئے چلے جاتے تھے۔ سنھبالنے اور اٹھانے کا توکیا ذکر ۔ سردار اور سپاہی کوئی پوچھتا نہ تھا۔ زین خان بچارا جابجا دوڑتا تھا۔ اور سپر کی طرح جان آگے دھرے دیتاتھا۔ کہ لوگ آسانی سے گذر جائیں۔ جب شام ہوئی تو افغانوں کی ہمت بڑھی ۔ ادھر کے دل ٹوٹ گئے ۔ وہ چاروں طرف سے امنڈ کر گرے۔ اور تیر اندازی و سنگ باری کرنے لگے ۔ بادشاہی لشکر اور بہیر میں ایک کہرام مچ گیا پہاڑ تہ و بالا ہوگیا۔ رستہ اپنا تنگ تھا ۔ کہ دو سوار بھی برابر چل نہ سکتے تھے۔ اوراندھیرا ہو گیا ۔ افغانوں نے بھی موقع پایا۔ آگے پیچھے اوپر نیچیے سے گولی تیر پتھر برسانے شروع کئے۔ ہاتھی ۔ گھوڑے ، آدمی ہوئے ۔رات ہوگئی ۔ زین خاں نے مارے غیرت کے چاہا۔ کہ ایک جگہ اڑ کر راہ اخلاص میں جا ن قربان کر دے۔ ایک سردار آیا ۔ اور باگ پکڑ کر ا س نبوہ میں سے نکالا۔ گھاٹیوں میں اتنے آدمی گھوڑے ۔ ہاتھی پڑے تھے ۔ کہ رستہ بند ہوگیا تھا ۔ ناچار گھوڑا چھوڑ کر پیادہ ہوا۔ اور بے راہ ایک پہاڑی پر چڑھ کر بھاگا۔ ہزار دشواری سے منزل پر جان پہنچائی۔ لوگ بھی گھبراہٹ میںکہیں کے کہیں جا پڑے بعضے سلامت پہنچے ۔ بعض قید ہوگئے۔ حکیم ابو الفتح بڑی جان کندن سے منزل پر پہنچے ۔ مگر افسوس یہ کہ راجہ بیربر کا پتہ نہ لگا۔ اور وہ کیا ہزاروں آدمی جانوں سے گئے۔ جن میںاکثر بادشاہ شناس اور درباری منصبدار تھے۔ اور قیدیوں کی تو گنتی کہاں۔ غرض ایسی شکست فاحش ہوئی کہ تمام اکبری سلطنت میںکبھی اس خرابی کے ساتھ فوج نہیں بھاگی ۔ چالیس پچاس ہزار میں کچھ بھی باقی نہ رہا۔ زین خان اور حکیم ابوالفتح نے کہاں بد حالی کے ساتھ اٹک میںآکر دم لیا۔ پٹھانوں کو اتنی لوٹ ہاتھ آئی۔ کہ سات پشت تک بھی نصیب نہ ہوئی ہوگی۔ اس خبر کے سننے سے خصوصا راجہ بیربر کے مرنے سے کہ مصاحبان بزم و انس اور محرمان انجمن قدس میں سے تھا۔ خاطر قدسی پر اس قدر بارغم ہوا۔ کہ گویا ابتدائے جلوس سے آج تک نہ ہوا تھا ۔ دورات دن معمولی سرور نہ کیا ۔ بلکہ کھانا تک نہ کھایا۔ مریم مکانی نے بہت سمجھایا۔ بندگان عقیدت کیش نے نالہ و ززاری کی تو طبیعت کو مجبور کر کے کھانے پینے پر متوجہ ہوئے زین خان او ر حکیم وغیرہ سلام سے محروم کئے گئے۔ لاش کی بڑی تلاش رہی مگر ۔ افسوس کہ وہ بھی نہ پائی۔ ملا صاحب اس بات پر بہت خفا ہیں۔ کہ اس کا رنج کیوں کیا ۔ لکھتے ہیں اور کن کن شوخیوں کے ساتھ لکھتے ہیں۔ جو لوگ سلام سے محروم ہوئے تھے انکی خطا معاف ہوگئی۔ اور چونکہ بیربر جیسے مصاحب کو آپس کے نفاق میںبرباد کیا اور (نفاق تو ثابت تھا ) اس لئے چند روز نظر سے مردود او رکو رنش سے محروم رہے۔ پھر وہی درجہ تھا بلکہ اسے سے بھی بڑھ گئے کسی امیر کے مرنے کا ایسا رنج نہیں کیا ۔ جیسا بیربر کا کیا (کہتے تھے ) افسوس اس کی لاش کو گھاٹی میں سے نکال نہ سکے۔ اسے آگ تو مل جاتی پھر آپ ہی تسلی دیتے تھے۔ خیر وہ ساری قیدوں سے آزاد ۔ پا ک او ر الگ تھا۔ نیر اعظم کی روشنی اس کے پاک کرنے کو کافی ہے۔ اور پاک کرنے کی تو اسے حاجت بھی نہ تھی۔ آزاد لوگ جانتے تھے۔ کہ بیربل آٹھ پہر بادشاہ کے دل کا بہلا وا ہے ۔ اب جو اس کے مرن سے ایسا بے تاب و بے قرار دیکھا تو رنگا رنگ کی خبر لانے لگے ۔ کوئی جاتری آتا اور کہتا کہ میں جولاجی سے آتا ہوں۔ جوگیوں کے ایک غول میںبیربر چلا جاتاتھا ۔ کوئی کہتاتھا کہ سنیاسیوں کے ساتھ بیٹھا کتھا بانچ رہاتھا۔ بادشاہ کے دل کی بے قراری ہر بات کی تصدیق کرتی تھی۔ خود کہتے تھے کہ وہ علائق دنیا سے الگ تھا اور غیرت والا تھا۔ تعجب کیا ہے ۔ شکست کی شرمندگی سے فقیر ہوکر نکل گیا ہو درباری احمق ان خیالات کو او رپھیلاتے تھے۔ اور ان پر حاشیے چڑھاتے تھے۔ لاہور میں روز نئی ہوائی اڑتی تھی ۔ آخر یہاں تک ہو کہ بادشاہ نے ایک آدمی کانگڑہ بھیجا کہ بیربر کو ڈھونڈ کر لاؤ۔ دیکھا تو کچھ بھی نہ تھا ۔ اس کی زندگی کا ڈھکو سلا اور بادشاہ کا اس پر یقین ایسا مشہور ہوا کہ جابجا چرچا ہوگیا ۔ یہاں تک کہ کالنجر اس کی جاگیر تھا۔ وہاں کے منشیوں کی عرضیاں آئیں کہ یہاں تھا۔ ایک برہمن اسے پہلے سے خوب جانتا تھا۔ اس نے تیل ملنے میں خط و خال پہچانے اور یہاں ضرور ہے مگرکہیں چھپا ہوا ہے ۔ حضور سے فورا کروڑی کے نام فرمان جاری ہوا۔ اس احمق نے ایک غریب مسافر کو حماقت سے یا ظرافت سے بیربر بنا کر رکھ چھوڑا تھا۔ اب جو فرمان پہنچا۔ اور تحقیق کیا تو سمجھا کہ دربار میں سخت ندامت ہوگی ۔ بلکہ نوکری کا خطرہ اس نے حجام کو تو بھیج دیا اور بے گناہ مسافر کو مفت مارڈالا۔ جواب میں عرضی کر دی کہ یہاں تھا تو سہی مگر قضائے سعادت پابوس سے محروم رکھا۔ دربار میں دوبارہ ماتم پرسی ہوئی۔ پھر مرنے کی سوگوار یاں ہوئیں کروڑی اور اور نوکر وہاں کے اس جرم میںطلب ہوئے کہ حضور کوکیوں نہ خبر کی۔ قید رہے ۔ شکنجہ سزائین آئے ہزاروں روپیہ جرمانہ بھرے۔ آخر چھٹ گئے ۔ واہ مرنے کا بھی مسخرا پن رہا۔ اور لوگوں کی جانوں کو مفت عذاب میں ڈالا۔ اگرچہ بیربر کا منصب دو ہزاری سے زیادہ نہ تھا ۔ لیکن عنایت اس قدر تھی ۔ کہ ہزاروں اور لاکھوں اور کے جواہر ۔ برس بلکہ مہینوں میں عطا ہوجاتے صاحب السیف والقلم خطاب میں داخل تھا ۔ مراسلوں اور فرمانوں میںقلم آٹھ آٹھ سطریں سیاہ کر لیتاتھا۔ جب ان کا نام صفحہ پر ٹپکتا تھا ۔ ان کے مر نے کی خبر خود امرائے عالی شان کو لکھ لکھ کر بھیجی ۔ چنانچہ عبدالرحیم خان خاناں کے نام ایک چھ صفحے کا طولانی فرمان لکھا ہے ۔ ابو الفضل کے پہلے دفتر میں موجود ہے۔ اکبر اسے ایسا محرم راز اسمجھتاتھا۔ کہ کسی طرح کا پردہ نہ تھا ۔ انتہا ہے کہ آرام کے وقت حرم سرا کے اندر بھی بلا لیتے تھے۔ اور حق پوچھو تو ان کے چنگلوں اور چہلوں کا وہی وقت تھا کہ خلوۃ خاص اور مقام بے تکلف ہوتاتھا ۔ بیربر دین الہی اکبر شاہ میں داخل تھے۔ اور مرید باخلاص تھے۔ اور مراتب چہا رگانہ کی منزلوں میں سب سے آگے دوزے جاتے تھے۔ ملا صاحب ان سے بہت خفا معلوم ہوتے ہیں۔ مگر یہ برا کرتے ہیں۔ کہ ملعون ۔ کافر اور سگ بے دین۔ وغیرہ الفاظ سے زبان آلودہ کرتے ہیںیہ ضرور ہے کہ بیربر جی ہنسی میں اسلام اور اسلام والوں کو بھی جو چاہتے تھے سو کہ جاتے تھے۔ مسلمان امیروں کو یہ بات ناگوار ہوتی ہوگی۔ چنانچہ شہباز خاں کمبوہ چار ہزاری منصبدار جو اکثر مہموں میں سپہ سالا ر بھی ہوا۔ (شہر اللہ نام تھا لاہوری تھے) اور خودبیربر کے طرف دار ہوگئے۔ یہ لوگ سمجھتے تھے کہ بیربر ہی بادشاہ کو عقائد ہنود کی طرف زیادہ تر کھینچتا ہے ۔ صفحہ ۷۷ میںتم نے دیکھ لیا ۔ کہ بادشاہ نے شیطان پور آباد کیا تھا۔ لیکن خفیہ دریافت کرتے رہتے تھے اور بڑی احتیاط تھی ۔ کہ امرا میںسے کوئی وہاں نہ جائے۔ ایک دفعہ خبر دینے والے نے خبر دی کہ بیربر جی کا دامن بھی وہاں سے ناپاک ہوا ۔ جانتے تھے کہ بادشاہ اس جرم سے بہت ناراض ہوتے ہیں۔ یہ کوڑہ گھا ٹم پور اپنی جاگیر میں چلے گئے تھے۔ ان کے خبرداروں نے بھی انہیں خبردی ۔ کہ بھانڈا پھوٹ گیا ہے ۔ یہ سن کر بہت گھبرائے۔ اور کہا میںتواب جوگی ہوکر نکل جاؤ نگا۔ جب بادشاہ کو خبر ہوئی تو دلجوئی اور خاطر داری کے فرمان لکھے اور بلا لیا۔ بیربر کے مرنے پر اکبر کی اس قدر بیقراری اور یادگاری دیکھ کر لوگ تعجب کرتے ہیں۔ کہ ایسے عالم فاضل تجربہ کار بہادر سردار دلا ورا کان دربار موجود تھے اور اکثر ان میں سے ان کے سامنے ہی مرے تھے یہ کیا سبب کہ بیربر کے برابر کسی کے مرنے کا رنج نہیںہوا۔ یہ امر کچھ زیاد ہ غور طلب نہیں ظاہر ہے کہ ہر ایک امیر اپنے کام اور کرتب کا صاحب کمال تھا۔ اور ہر ایک کام کیے لئے خاص خاص موقع ہوتا تھا ۔ مثلا علما و فضلا کا جلسہ ہو۔ علی تحقیقاتیں ہوں۔ شعر و شاعری ہو۔ وہاں خواہ مخواہ۔ فیضی ابولفضل ۔ شاہ فتح اللہ ۔ حکیم ابو لفتح ۔ حکیم ہمام یا دآئے گے ۔ بیربر ایسے تھے کہ کچھ جانیں خواہ نہ نہ جانیں۔ سمجھیں یا نہ سمجھیں دخل او ر معقولات کرنے کو موجود تھے۔ مذاہب تقلیدی تو اعتراضوں کے زیر مشق بن رہے تھے ۔ کتاب اور سند سے کچھ بحث ہی نہ تھی ۔ کیا ہندو کیا مسلمان زیر تحقیقات تھے اس نے اس معاملے میںوہ رتبہ پید اکیا تھا کہ وہ اور ابو الفضل وغیر ہ دین الہی اکبر شاہی کے خلیفہ تھے جب منقولات کا کیا کہنا ہے ۔ اس میں تو جس کا چاہیں خاکہ اڑائیں اورجسے چاہیں مسخرا بنائیں۔ ملکی انتظام اور دفتر کے بندوبست ہوں تو راجہ ٹورڈرمل اور علمائے مذکور یاد آئینگے ۔ بیربر اگرچہ ان کاغذوں کے کیڑے نہ تھے ۔مگر ایک عجیب رقم تھے۔ کچھ تیزی فکر کچھ مسخرا پن سے وہاں بھی جو عقل میںآتا تھا کہتے تھے ۔ بلکہ زبانی جمع خرچ سے سب میزان مستوفے ملا دیتے تھے۔ اور جب موقع دیکھتے تو مناسب وقت کوئی دہرہ۔ کوئی کبت ۔ کوئی لطیفہ کا گلدستہ بھی تیار کرکے سرمجلس حاضر کرتے تھے۔ مہمات ملکی ہوں تو وہاں بھی حاضر ۔ بے تلوار جنگ کرتے تھے ۔ اوربے توپ توپخانے اڑاتے تھے سواری شکاری کے وقت کبھی کوئی امرا میں سے پھنس جاتاتھا تو ساتھ ہو لیتا تھا ۔ ورنہ ان کا کیا کام تھا ۔ یہ سپاہی بن کر سیر و شکار کے وقت بھی آگے آگے ہوجاتے ۔اورباتوں کے نون مرچ سے وہیں کباب تیار کرکے کھلاتے ۔لیکن شیر چیتے کی بوپاتے تو ایک ہاتھی کے ہودہ میںچھپ جاتے ۔ تفریح کی صحبت ناچ رنگ کے تماشے یا اور اس قسم کی خلوتیں ہوں تو راجہ اندر بھی تھے۔ وہاں ان کے سوا دوسرے کو دخل کب ہوسکتاہے ۔ ان محسبوں کا سنگار کہو۔ باتو نکا گرم مصالح کہو۔ جو سمجھو بجا ہے پھر خیال کرو کہ ہر دم ان کا غم اور ہر لحظہ وہ یاد نہ آتے تو کون یاد آتا۔ بڑا افسوس یہ ہے ۔ کہ اکبر نے ان کے لئے کیا کیا کچھ نہ کیا۔ مگر اکبر کے لئے انہوں نے کوئی یادگار چھوڑی ۔ سنسکرت کے اشلوک تو درکنار۔ بھاٹ کا ایک دھرا ایسا نہیں جسے دلونکی امنگ کسی موقع پر بول اٹھا کرے ۔ ہاںاکثر لطیفے ہیں۔ کہ متھرا کے چوبوں اور مندروں کے مہنتوں کی زبان پر ہیں۔ جب مفت کی رسولیوں سے پیٹ پھلا کر چت لیٹ جاتے ہیں تو پیٹ پر ہاتھ پھیرتے ہیں۔ ڈکاریں لیتے ہیں اور کہتے ہیں۔ واہ بیر بر جی واہ کیا اکبر بادشاہ کو غلام بنایا تھا ۔ بعضے کہتے ہیں۔ کہ اگلی جون میں بیربر راجہ تھے۔ اور اکبر ان کے داس تھے اور پھر ایک لطیفہ کہتے ہیں۔ اور کروٹیں لے لے کر گھڑیوں تعریفیں کرتے رہتے ہیں بڈھے بڈھے بینوں بلکہ پروالے پرانے منشیوں کو بھی یہ لطیفے تاریخ دانی اور علم مجلس کا سرمایہ ہوتے ہیں۔ میںنے چاہا تھا کہ کچھ تصنیف نہیں ملتی تو خاتمہ احوال میں چند رنگین اور نمکین چٹکلے ہی لکھوں مگربہت کم لطیفے ایسے ملے ۔ جن میںعالمانہ یا شاعرانہ کسی طرح کا لطف ہو۔ پرانی پرانی بیاضیں بڑی تلاش سے پید اکیں اور جہاں لطائف بیربل کا نام سنا ۔ وہیںکوشش کا ہاتھ پہنچا یا ۔ لیکن جب پڑھنے لگا۔ تو تہذیب نے ورق میرے ہاتھ سے چھین لیا۔ ایک پہیلی ان کی مدت سے یاد ہے وہ ہی لکھی جاتی ہے ۔ باتوں کا صراف اس سے بھی ان کی لیاقت اور متانت کا کھوٹا کھڑا کھیگا۔ مال پوا گھی میںغرق سواد میں میٹھا ۔ بن بیلن وہ بیلا ہے کہیں بیربل سنیں اکبر ۔ یہ بھی ایک پہیلا ہے ۔ آزاد سے پوچھو تو سید انشا کے مال پوے اس سے کہیں مزے کے ہیں ! غزل کے تین شعر یاد ہیں۔ یہ اب حسن پر اپنے گھمنڈ کرتے ہیں گرو جی چیلوں کو اپنے بھسنڈ کرتے ہیں کہ اپنے شیش محل ہی میں ڈنڈ کرتے ہیں شراب ان کو کہیں مت پلا ئیوانشا کھلا کے مال پوے ترتراتے موہن بھوں کہ وہ تو مست ہو مجلس کو بھنڈ کرتے ہیں ان کے ایک بیٹے کا نام ہرم رائے تھا ۔ دربار داری اور راجاؤں کی ملاقات وغیرہ میں خدمات بادشاہی بجا لاتاتھا۔ بڑے بیٹے کا نام لالہ تھا۔ وہ بھی حاضر دربار رہتا تھا ۔ ۱۰۱۰ ھ میں استعفا دیا۔ اورکہا کہ مہابلی اب بھگوان کی یاد کیا کرونگا۔ بادشاہ نے بہت خوش ہوکر عرضی منظور کی۔ وہ حقیقت میں ترقی نہ ہونے سے ناراض تھا۔ اور بادشاہ نے عیاشی کے سبب سے اس کی ترقی ہوکر عرضی منظور کی۔ وہ حقیقت میںترقی نہ ہونے سے ناراض تھا ۔ اور بادشاہ نے عیاشی کے سبب سے اس کی ترقی مناسب نہ دیکھی تھی۔ غرض یہاں سے رخصت ہوکر گیا اور الہ آباد میں ولیعہد کی نوکری کرلی۔ ابو الفضل کہتے ہیں۔ کہ تند خو ئی اور خود کامی سے فضو ل خرچ ہے اور تمناو طلب کو بڑھائے جاتاہے ۔ پیش نہیں جاتی ۔ حماقت میں جاپڑا اورادھر کا خیال باندھا۔ وہ بات بھی نہ بن پڑی۔ خدیو عالم نے رخصت فرما کر اس کے مرض کا علاج کیا۔ راجہ بیربر جی کی تصویر دیکھ کر تعجب آتا ہے ۔ کہ ایسا بھدا آدمی اتنا زیرک اوردانا کیونکر تھا جسکی تیزی فہم کی سب مورخ تعریف کرتے ہیں۔ مخدوم الملک ملا عبداللہ سلطان پوری فرقہ انصار سے تھے ۔ اور بزرگ ان کے ملتان سے سلطان پور آکر آباد ہوئے تھے۔ عربیت اور فقہ وغیرہ و فنون جو کہ علمائے اسلام کے لئے لوازمات سے ہیں۔ ان میں یگانہ تھے۔ مآثر امراء میں ہے ۔ کہ مولینا عبدالقادر سرہندی سے کسب کمال کیا تھا ۔ خاص و عام کے دلوں پر ان کی عظمت ابر کی طرح چھائی ہوئی تھی ۔ اور ہر بات آیت او ر حدیث کا حکم رکھتی تھی ۔ اس خیال سے جو بادشاہ وقت ہوتا تھا ۔ زیادہ تران کا لحاظ رکھتا تھا۔ ہمایوں عموما علماء کے ساتھ اعزازو کرام سے پیش آتا تھا ۔ مگر ان کی نہایت تعظیم کرتاتھا۔ اس سے مخدوم الملک و شیخ الاسلام خطا ب لیا تھا۔ اور بعض کہتے ہیں۔ کہ شیخ الاسلام شیر شاہ نے بنایا تھا ۔ اس نیک نیت بادشاہ کے کاروبار سلطنت میں اعتبار و اعتماد کے ساتھ ایک خصوصیت خاص رکھتے ہیں ۔ جب ہمایوں تباہ ہوکر ایران کی طرف گیا۔ تو ان کی بزرگی اور اقتدار کے اثر شیر شاہی سطلنت کو برکتیں پہنچانے لگے ۔ راجہ پورن رایسمین اورچند یری کا راجہ انہی کے عہد و پیمان کے اعتبار پر حاضر دربار ہوا۔ اور آتے ہی شیر شاہل کی دولت صولت کا شکا ر ہوا۔ اس کے عہد میں بھی باعزازر ہے ۔ سلیم شاہ کے عہد میں ا س سے بھی زیاد ہ ترقی کی اور انتہا درجہ کا زور پیدا کیا ۔ چنانچہ شیخ علائی کے حال میںبھی کچھ کچھ لکھا گیا ۔ انہوں نے ان کے اور ان کے پیر کے قتل میں کوشش کا حق ادا کیا ۔ اور انجام کو شیخ علائی مظلوم انہی کے فتووں کی اسناد لے کر بہشت میںپہنچے ۔ اسی عہد میں موضع جہنی علاقہ لاہورمیں شیخ داود جہنی وال ایک بزرگ مشائخ صاحب معرفت تھے کہ عبادت و ریاضت اور زہد و پارسا ئی نے مریدوں کے انبوہ سے ان کی خانقاہ آباد کی تھی اور دور دور تک خاص و عام ان کے ساتھ عقیدت رکھتے تھے۔ ملا صاحب کہتے ہیں۔ قوت ربانی اورنسبت حقائی سے فقیر کے سلسلوں کو ایسا رواج دیا تھا ۔ کہ جس کا غلغلہ نفح صور تک خاموش نہ ہوگا۔ جن دنوں ملا عبداللہ سلطان پوری نے کہ مخدوم الملک کہلاتے ہیں۔ سعی و کوشش کی کمر اہل اللہ کے استیصال پرباندھی اور اکثروں کے قتل کا باعث ہوئے۔ تو گوالیار سے سلیم شاہ کا فرمان طلب بھیجکر بلوایا ۔ وہ ایک دو خادمونکر لیکر جریدہ روانہ ہوئے۔ اور شہر کے باہر مخدوم الملک سے ملاقات ہوئی وغیرہ وغیرہ ۔ شیخ نے پوچھا کہ فقراے بے تعلق کے طلب کا کیا سبب ہے ۔ مخدوم الملک نے کہا کہ میں نے سنا ہے تمہارے مرید ذکر وقت یا داود کہتے ہیں۔ انہوں نے جواب دیا کہ سننے میں شبہ ہوا ہوگا۔ یاودود کہتے ہونگے ۔ اس تقریب سے ایک دن شب رہ کر ان سے مواعظ ور نصائح بلند اور معارف اور حقائق ارجمند بیان کئے کہ مخدوم الملک کے دل پر بھی اثر ہو۔ انہیں عزت سے رخصت کر دیا ۔ ملا صاحب کا دل بھی ان کی شدتوں سے پکا پھوڑا ہو رہا تھا ۔ جہاں ذرا سارختہ پاتے ہیں پھوٹ بہتے ہیں۔ چنانچہ زمرہ فقرا میں لکھتے ہیں۔ جب شاہ عارف حسنی احمد آباد گجرات سے پھر کر آئے تو لاہور میں مقام کیا۔ بہت لوگ کمالات پر گرویدہ ہوئے انہوں نے بعض جلسوں میں گجرات کے رمستانی میوے منگا کر لاہور میں لوگوں کو کھلائے۔ پنجاب کے علما جن کے ستون مخدوم الملک تھے۔ انہیں لپٹ گئے گناہ یہ قرار دیا کہ آخر یہ میوے اوروں کے باغوں کے ہیں۔ اورانہوں نے بے اجازت ان میں تصرف کیا ہے ۔ اس لئے ان کا تصرف حرام اور کھانے والوں کا کھانا حرام ہے۔ وہ تنگ ہوکر کشمیر چلے گئے سلیم شاہ اگرچہ مخدوم الملک کا نہایت ادب کرتا تھا۔ یہاں تک کہ ایک موقع پر جو رخصت کرنے کو لب فرش تک آیا تو جوتیاں سیدھی کرکے ان کے سامنے رکھیں۔ مگر یہ سب باتیں اس مطلب برداری کے لئے تھیں کہ جانتا تھا۔ عوام کے دلوں میں ان کی باتوں کا اثر ہے اور بہت کچھ کر سکتے ہیں۔ سفر پنجاب میں مصاحبوں کے حلقے میں بیٹھا تھا ۔ کہ مخدوم تشریف لائے۔ دورے دیکھ کر بولا۔ سچ مید ایند کہ ایں کہ می آید ۔ ایک مصاحب نے عرض کیا بفر مایند سلیم شاہ نے کہا بابر بادشاہ را پنج پسرلود چہا ر پسرازہندوستان رفتند یکے ماندہ ۔ مصاحب نے پوچھا ۔ آں کیست کہا۔ ایں ملا کرمی آیدسر مست خاں نے کہا تقریب نگاہد اشتن ایں چنیں منفتن چیست ۔ سلیم شاہ نے کہا۔ چہ تواں کرد۔ بہترے زونمی یا بمی اور جب ملا عبداللہ پہنچے ۔ تو ا ن کو تخت پر بٹھایا ۔ ایک تسبیح مروارید ۔ کہ اسی وقت پیشکش میں گزری تھی وہ دی ۔ کہ ۲۰ ہزار کی تھی ۔ سلیم شاہ کے دل پر مخدوم کے باب میںجو ہمایوں کے طرفداری کے نقش تھے اسے فقط بدگمانی نہ سمجھنا کیونکہ جب ہمایوں فتحیابی کے نشان گازتا ہوا کامل میں آن پہنچتا تو لاہور میں بھی خبر مشہور ہوئی ۔ حاجی پراچہ ان دنوں میں یہاں ایک سوداگر تھا۔ کابل میں اس کی آمدورفت تھی۔ مخدوم نے احتیاطا خط نہ لکھا ۔ مگر اس کی معرفت ایک جوڑی موزوں کی اورایک قمچی بطور تحفہ بھیجی ۔ اسکے یہ معنی تھے۔ کہ میدان صاف ہے۔ موزے چڑھاؤ۔ اور گھوڑے کو قمچی کرو۔ آزاد میں سوچتا ہوں کہ اپنے حریفوں کے شان و شکوہ او ر شاہانہ اقتدار دیکھ کر شیخ مبارک کیا کہتا ہوگا ۔ جاننے والے جانتے ہیں۔ کہ جب باکمال لوگ نارسائی اور بے قدری کے گڑھوں میں پڑ جاتے ہیں۔ اور کم قدر لوگ بخت اور نصیب کی یاوری سے اوج کمال پر پہنچنے ہیں۔ تو گرنے والوں کے دلوں پر سخت چوٹیں لگتی ہیں اس حالت میںکبھی تو وہ اپنے کمال علمی کو دولت بے زوال او ر غیروں کے اتفاقی اقبال کو دودہ کا ابال کر جی خوش کرلیتے ہیں ۔ کبھی گوشہ نشینی کے ملک بے خطر کی تعریفیں کر کے دل بہلا لیتے ہیں۔ کبھی بادشاہوں کی خدمت کو بند غلامی کہ کر اپنی آزاد حالت کو بادشاہت سے بھی اونچا مرتبہ دیدیتے ہیں۔ بے شک افراط علم اور کمال کا نشہ بہت ناچیز کرکے دکھاتا ہے ۔ مگر دنیا برا مقام ہے ۔ اور اہل دنیا برے لوگ ہیں۔ یہ ظاہر پرست حکومت کے بندے اور دولت کی امت ہیں۔ اور مشکل یہ ہے ۔ کہ انہی لوگوں میں گذارہ کرنا ہے ۔ انکے طمطراق ظاہر ی پر شیخ مبارک کا علو حوصلہ نہیں دبتا ہوگا۔ لیکن جو ذلتیں اور مصیبتیں اورجان کے خطر پیش آتے تھے۔ ان میں خدا ہی دکھائی دیتا ہوگا۔ آزادی کی خیالی باتوں سے مصیبتوں کے زخم۔ اور محسوس تکلیفوں کے داغ راحت و آرام کے پھول نہیں بن جاتے۔ جب ہمایوں نے پھر آکر ہندوستان پر قبضہ کیا۔ تو مخدوم صاحب ہی خاص الخاص تھے۔ اور مختار کل لیکن اکبر کے آغاز سلطنت میں مخدوم صاحب پر عجب نحوست آئی ۔ جب اکبر نے ہیموں پر فوج کشی کی تو ۔ سکند ر خاں افغان اپنی قومی جمعیت کے ساتھ پہاڑوں میں دبکا بیٹھا تھا ۔ یہ خبر سن کر نکلا۔ اور ملک میںپھیل کر علاقہ سے روپیہ تحصیل کرنے لگا ۔ حاجی محمد خاں سیستانی حاکم لاہور تھا۔ ۔اسے معلوم ہوا کہ سکندر ۔ انہی کے اشارہ پر باہر نکلا ہے ۔ مخدوم صاحب ی پرزری اور مالداری بھی مشہور تھی۔ حاجی نے روپیہ نچوڑنے کیلئے موقع پایا ۔ انہیں کئی شخصیتوں کے ساتھ پکڑ کر شکنجے میںکس دیا ۔ بلکہ مخدوم صاحب کو آدھا زمین میں گاڑ دیا۔ اور جو گنج قاروں انہوں نے سالہا سال میں دفینہ کیا تھا ۔ دم میں کھینچ لیا۔ خانخاناں نام کو توترک سپاہی تھا ۔ مگرتد بیر سلطنت کا ارسطو تھا۔ اس نے سنا تو بہت خفا ہوا۔ اور جب فتح کے بعد بادشاہ کے ساتھ پھر لاہور میں آیا ۔ تو حاجی کے وکیل کو مخدوم صاحب کے گھر بھیجا کہ عذر تقصیر بجالائے۔ اورانہیں لاکھ بیگھ کی جاگیر علاقہ مان کوٹ میںدی ۔ چند روز میںپہلے سے بھی زیادہ اختیارات کر دئے۔ کیونکہ بادشاہ لڑکا نا تجربہ کار تھا۔ اور ایسے اشخاص کی تالیف قلوب مصلحت وقت تھی ۔ بڑ ے بڑے معاملے سلطنت کے ان کی معرفت سر انجام پاتے تھے۔ آدم خاں گکھڑ پنڈی اور جہلم کے علاقے کا اولوالعزم سردارتھا ۔ وہ انہی کی معرفت حضور میں آیا خانخاناں کی تدابیر سلطنت کا عقل کل تھا ۔ اس نے آدم خاں سے بھائی بندی کا صیغہ پڑھا۔ اورپگڑی بدل بھائی ہوئے ۔ جب خانخاناں کی اور اکبر کی بگڑی اورانجام کو خانخاناں نے حضور میں رجوع کا پیغام بھیجا۔ اور اسکے لئے کو ہ اورمنعم خاں گئے ۔ خان زمان کی عفو تقصیرات میںانہی کی شفاعت کام کرتی تھی مگر جب اکبر کو خود سلطنت کے سنبھالنے کی ہوس ہوئی۔ تو اس نے آئین مملکت کا انداز بدلا۔ اور دلداری اور ملنساری پر ملک داری کی بنیاد رکھی۔ اس کے خیالات انہیں ناگوار معلوم ہونے لگے ۔ اور اس میں بھی شک نہیں۔ کہ انہوں نے بڈھے بڈھے بادشاہوں کو ہاتھوں میں کھلایا تھا۔ جب نوجوان لڑکے کو تخت پر دیکھا ہوگا ۔ تو یہ بھی بڑھتے بڑھتے حد اعتدال سے بڑھ گئے ہوں گے ۔ اس عرصے میں فیضی اور ابولفضل پر خدا کا فضل ہوا۔ پہلے بڑ ا بھائی ملک الشعرا ہوگیا ۔ پھر چھوٹے نے میر منشی ہوکر مصاحبت خاص کا رتبہ پایا۔ شیخ مبارک پر جو جو مصیبتیں مخدوم کے ہاتھوں سے گذری تھیں۔ بیٹوں کوبھولی نہ تھیں۔ انہوں نے ان کے تدارک کے فکر کرکے اکبر کے کان بھرنے شروع کئے۔ اور اکبر کے خیالات بھی بدلنے شروع ہوئے۔ فاضل بد ایوانی لکھتے ہیں۔ کہ اکبر ہر شب جمعہ کو علماء و فضلا و سادات و مشائخ کو بلاتا تھا۔ اورخود بھی جلسے میں شامل ہوکر علوم وفنون کے تذکرے سنا کرتا تھا ۔ وغیرہ ۱؎ وغیرہ ۔ اسی جگہ لکھتے ہیں کہ مخدوم الملک مولانا عبداللہ سلطان پوری کو بے عزت کرنے کے لئے بلا تے تھے۔ اور حاجی ابراہیم و شیخ ابوالفضل کہ نیا آیا تھا ۔ اور اب نئے مذہب کا مجتہد بلکہ مرشد حق اور داعی مطلق تھا۔ اس کے ساتھ چند اور نو علموں کو مباحثے پر چھوڑ دیتے تھے۔ اس کی ہر بات میں شک وشبہے پید اکرتے تھے۔ اس میںبعض امرائے مقرب بھی بادشاہ کے اشارے کاوش اور کاہش میں تراوش کرنے لگے ۔ کبھی کبھی ٹپکتے تھے۔ توعجیب و غریب نقلیںمخدوم سے روایت کرتے تھے۔ اور بڑھاپے میںیہ آیت اس پر ٹھیک صادق آئی ومنکم من یرد الی ارذل العمر یعنی تم میں سے ذلیل عمر کی طر ف دھکیلے جائینگے ۔ چنانچہ ایک شب خان جہاں نے عرض کی۔ کہ مخدوم الملک نے فتوی کر دیا ہے کہ ان دنوں حج کو جانا فرض نہیں بلکہ گناہ ہے۔ بادشاہ نے سبب پوچھا۔ بیان کیا کہ خشکی سے جائیں تو را فضیوں کے ملک سے گزرنا پڑتا ہے۔ تری کی راہ جائیں۔ توفرنگیوں سے معاملہ پڑتا ہے۔ وہ بھی ذلت ہے۔ جہاز کے عہد نامے پر حضرت مریم اور حضرت عیسیٰ کی تصویریں کھینچی ہوئی ہیں اور یہ بت پرستی ہے پس دو نو طرح ناجائز ہے۔ ایک حیلہ شرعی نکال رکھا تھا ۔ یعنے ہر سال کے اخیر پر تمام روپیہ بی بی کو ہبہ کر دیتا تھا ۔ اورسال کے اندر پھر واپس لے لینا تھا ۔ کہ زکوۃ سے بچ جائیں اور اسکے علاوہ اکثر حیلے معلوم ہوئے کہ بنی اسرائیل کے حیلے بھی ان کے آگے شرمندہ ہیں۔ غرض اس طرح کی رذالت ۔ خباثت ۔ جہالت مکاری دنیاداری و ستمگاری کی باتیں شہروں کے مشائخ و فقرا سے خصوصا ائمہ و اہل استحقاق سے بے حد حساب کی تھیں ۔ ۱؎ دیکھو فاضل بد اؤنی کا حال صفحہ ۴۲۱ ایک ایک ظاہر ہوئی۔ اور یوم تبلی السرائر کا راز دلوں پر کھل گیا۔ دربار کے لوگ بہت سی باتیں کہ اس کی ذلت اور ہانت اور مذمت پر مشتمل تھیں۔ بیان کرتے تھے اور جب پوچھا کہ برشما حج فرض شدہ۔ توجواب دیا کہ نے۔ ملا صاحب ایک اور جگہ لکھتے ہیں۔ ابو الفضل بادشاہ کے اشارے سے بموجب مصرع مشہور ع کہ یک یک عنایت قاضی بہ ارہزار گواہ صدر اور قاضی اور حکیم الملک اور مخدوم الملککے ساتھ دلیرانہ لپٹنا تھا۔ اور اعتقا دیات میں مباحثے کرتا تھا ۔ بلکہ ان کی بے عزتی میںذرا بھی کسر نہ رکھتا تھا۔ اور بادشاہ کہ اچھا معلوم ہوتاتھا۔ سترے بہترے بڈھوں نے آصف خاں میر بخشی کی معرفت خفیہ پیغام بھیجا۔ کہ کیوں خواہ مخواہ ہم سے الجھتے ہو۔ اچرا با وماورمے افتی۔ واہ ملا صاحب ، اس نے کہا ہم ایک شخص کے نوکر ہیں ۔ بینگنوں کے نوکرنہیں۔ یہ اشارہ اس مشہورلطیفے کی طر ف تھا ۔کہ کوئی بادشاہ کھانا کھا رہا تھا۔بننگین بہت مزادئے فرمایا کہ وزیر بینگن بہت خوب ترکاری ہے۔ وزیر نے لطف و لذت اور طب و حکمت بلکہ نقل حدیث سے بھی اس کی تعریفیں کیں۔ پھر ایک موقع پر بادشاہ نے کہا کہ وزیر بینگن و بری ترکاری ہے ۔ وزیر نے پہلے سے زیادہ ہجو کردی ۔ بادشاہ نے کہا کہ اس دن تو تم نے اس قدر تعریف کر دی۔ اور آج ایسی ہجو کرتے ہو۔ یہ کیا بات ہے ۔ اس نے عرض کی کہ خانہ زاد حضور کا نوکر ہے ۔ بینگنوں کا نوکر نہیں۔ فدوی توحضور کے کلام کی تائید کرے گا۔ پھر ایک جگہ ملا صاحب فرماتے ہیں۔ بڑی خرابی یہ ہوئی ۔ کہ مخدوم اور شیخ صدر کی بگڑ گئی ۔ مخدوم الملک نے ایک رسالہ لکھا کہ شیخ عبد النبی نے خضرخاں شروانی کو پیغمبر صاحب کے برا کہنے کی تہمت لگا کر اور میر حبش کو رفض کے الزام میںناحق مار ڈالا۔ او ر اس کے پیچھے نماز بھی جایز نہیںکہ باپ نے عاق کر رکھا ہے۔ اور اسے بواسیر خونی بھی ہے۔ شیخ موصوف نے انہیں بے علمی اور گمراہی کے الزام لگانے شروع کئے ۔ ملانوں کے دو گروہ دور رویہ سبطی اور قبطی ہوگئے۔ نئے نئے مسئلوں میںجھگڑنے لگے ۔ انجام اس لڑائی کا یہ ہوا۔ کہ دونو گر پڑے ۔ یعنے بادشاہ دونو سے بے اعتقاد ہوگیا۔ بلکہ سنی شیعہ خنفی تو بالائے طاق رہے ۔اصل اصول میں خلل پڑ گئے ۔ اور ان کی بد اعتقادی میں اصل اعتقاد کچھ کا کچھ ہوگیا ۔ تقلیدی مذہب کو بے عقل سمجھ کر تحقیق شروع ہوگئی ۔ زمانے کا رنگ بدل گیا۔ یا تو یہ شیخ مبارک سے بلکہ ہر شخص سے بات بات پر سند طلب کرتے تھے۔ اور اس پر رد و قدح کرتے تھے۔ یا اب ان سے دلیلیں طلب ہوتی تھیں۔ اور کچھ کہتے تھے۔ تو اس میں ہزار رستے نکلتے تھے۔ مخدوم الملک کے دماغ میںابھی تک پرانی ہوا بھری ہوئی تھی ۔ انہیں بجائے خو د یہ دعوے تھے کہ جسے ہم بادشاہ اسلام کہینگے ۔ وہی تخت اسلام پر قائم رہ سکے گا۔ جو بادشاہ ہم سے پھر جائے گا۔ اس سے خدائی پھر جائیگی ۔اس عرصے میںدربار شاہی کے عالموں نے محضر تیار کر لیا کہ بادشاہ عادل مجتہد وقت اور امام عصر ہ اور مسائل اختلافی میں وہ اپنی صوابدید پر ایک رائے کو دوسری رائے پر ترجیح دے سکتا ہے ۔ ۱؎ غرض تو انہیں دونو سے تھی ۔ مگربرائے نام سب علما طلب ہوئے۔ کہن سال بزرگوں نے جبرا قہرا مہریں کردیں۔مگر بہت بڑا معلوم ہوا۔ مخدوم نے فتوے دیا کہ ہندوستان ملک کفر ہوگیا۔ یہاں رہنا جائز نہیں۔ اور خود مسجد میں رہنا اختیار کیا۔ اور اکبر کو کبھی کہتے شیعہ ہو گیاہے ۔ کبھی ہندو کبھی نصار ے وغیر ہ وغیرہ۔ یہاں زمانے کا مزاج آب و ہوا کے ساتھ بدل چکا تھا۔ ان کے نسخے نے کچھ اثر نہ کیا ۔ اور بادشاہ نے کہا کیا مسجد میرے ملک میںنہیں ، یہ کیا لچر باتیں ہیں ۔آخر ۹۸۷ ھ میں جس طرح ہوا دونوں صاحبوں کو مکہ معظمہ روانہ کر دیا ۔ اور کہ دیا کہ بے حکم وہاں سے نہ آئیں۔ احمد کہ بہ مکتب نمیر ود ولے برندش ۔ماثر االامر میںہے کہ شیخ ابن حجر مکی ان دنوں زندہ تھے۔ چونکہ مذہب کی سنگینی میں دونو صاحبوں کے خیالات ہم وز ن تھے ۔ اس لئے بڑی یکدلی اور محبت سے ملاقاتیں ہوئیں ۔ وہ وہیں رہتے تھے ۔ یہ مسافرتھے۔ اس لئے قافلہ میں آئے۔ اور انہیں لے گئے ۔ باوجودیکہ موسم نہ تھا۔ مگر لطف رسائی اور زور آشنائی سے کعبے کا دروازہ کھلا کر مخدوم صاحب کو زیارت کروائی۔ آزاد جناب مخدوم اور شیخ ممدوح بلحاظ اعقادات کے ایک سے ایک بھاری ہیں۔ فرق اتنا ہے ۔ کہ مخدوم صاحب کی تصنیفات نے شہرت و اعتبار کا درجہ نہیں پایا۔ اور اسی سبب سے نایاب ہیں۔ شیخ ابن حجر مکی کی کتابیں مستند اور مشہور ہیں۔ ہاں تقریب بادشاہی اور دربار کی رسائی سے مخالفان مذہب کی سزا وایذا کے لئے جو اختیارات اور بر موقعے مخدوم صاحب نے پائے۔ وہ کسی کو کب نصیب ہوئے ہیں۔ مخدوم صاحب نے شیعوں کو قتل ۔ قیداور خاک ناکامی سے ہمیشہ دبائے رکھا۔ مگر ان کی تردید میکں کوئی خاص تصنیف نہیںلکھی ۔ شیخ صاحب کی صواعق محرقہ بھی بجلی کی طرح دور دور سے چمک کر سنی بھائیوں کی آنکھوں کو روشنی دکھاتی ہے۔ مگر شیعہ بھائی بھی رو و قدح کے لئے سنگ چقماق لئے تیار ہیں۔ چنانچہ قاضی نور اللہ نے نسخہ صوارم مہرقہ اس کا جواب لکھا افسوس لڑنا اور جھگڑنا اور باہم تفرقے ڈالنا جہلا کا کام ہے۔ علما کو چا ہیے تھا۔ کہ ان کی حرارت جہالت کو بتا شیر علم کی ٹھنڈائی سے بجھاتے ۔ قسمت کی گردش دیکھو کہ وہی لوگ دیا سلائیوں کے بکس کاغذوں میںلپیٹ کر رکھ گئے ؎ جنگ ہفتا دو ملت ہمہ را عذر بنہ چوں ندیدند حقیقت رہ افسانہ زدند دیکھو اکبر کا حال ۔محصمہ کی نقل صفحہ ۳۵۱ ہے ۱۲۔ مآ ثرا لامرا میں ہے ۔ کہ افغانوں کا تمام زمانہ اور ہمایوںاوراکبر کی نصف سلطنت میں مخدوم صاحب معزز معتبر اورہوشیاری ۔ متانت رائے۔ تجربات امور اور جمع اموال سے شہرت رکھتے تھے۔ وہاں پہنچ کر ہندوستان کے مزے یاد آتے تھے۔ اورکچھ نہ ہوسکتاتھا۔ مگر یہ کہ محفلوں اور مجلسوں میں بیٹھ کر اکبر کا فر بناتے تھے۔ جو حکومتوں کے مزے یہاں اڑائے تھے۔ ایسے نہ تھے کہ آسانی سے بھول جاتے ۔ تڑپتے تھے اور مجبور وہیں پڑے تھے ۔آخر اس بوجھ کونہ مکے کی زمین اٹھا سکی نہ مدینے کی جہاں کے پتھر تھے۔ وہیں پھینکے گئے۔ شعر بہ طواف کعبہ رفتم بحرم رہم تداوند بہ زمیں جو سجدہ کردم زر مین کر دم زز میں ندا برآمد کہ برون درچہ گردی کہ درون خانہ آئی کہ مراخراب کر دی تو بہ سجدہ ریانی ملا صاحب اگرچہ مخدوم صاحب اور شیخ صدور دونو سے خفا تھے ۔ مگر بادشاہ پر ان سے بہت زیادہ خفا تھے۔ اس مقام تک انہیں کیا خبر تھی کہ دونو بزرگوں کا انجام کیا ہوگا۔ فرماتے ہیں ۔ بادشاہ نے ۹۸۶ ھ میں خواجہ محمد یحیی کو کہ حضرت خواجہ احرار قدس اللہ روحہ کے پوتوں میں تھے ۔ میر حاج قرار دے کر ۴ لاکھ روپے حوالہ کئے۔ اور شوال کے مہینے میں اجمیر سے روانہ کیا۔ شیخ عبدا لغنی اور مخدوم الملک کو جنہوں نے آپس میں لڑ جھگڑ کر۔ اگلوں اورپچھلوں سے بھی بے اعتقاد کر دیاتھا۔ اوردین حق سے پھرنے کا سبب یہی تھے ۔ اس قافلے کے ساتھ مکے کو خارج کر دیا۔ کہ واذآ تعارضا تساقطا دونکر آئینگے تو دونو گرینگے چنانچہ دوسرے برس مقصد کو پہنچے ۔ اور انجام کا ر کہ اسی کا اعتبار ہے۔ عارضی آلائش سے پا ک ہوگئے۔ اور ایمان بچا لے گئے ۔ ہم نے اپنا کام آخر کیا۔ تاریخ ہوئی کہ ہو عزیز قوم ولوا اور قوم کا معزز ہے جو گمراہ ہوگئی ما ثر الامراء میں ہے کہ باوجود اس حاجت اور رستے کی رفاقت کے شیخ وصدر کیا راہ میں کیا مقامات متبرکہ میںصاف نہ ہوئے۔ مخالفت قائم رہی۔ ظاہری سبب یہ ہوا کہ محمد حکیم مرزا حاکم کابل سوتیلا بھائی اکبر کا باغی ہوکر پنجاب پر آیا ۔ ادھر خان زمان نے ملک مشرقی میں بغاوت کی۔ قاعدہ ہے کہ چھوٹی چھوٹی باتیں بڑی بڑی ہوکر جلد دور پہنچ جاتی ہیں۔ یہ خبر مکے تک بھی پہنچی۔ مکے تک خبر پہنچنے میں یہاں انتظام ہوگیا مگر دونوں صاحبوں نے خبر سنتے ہی موقع غنیمت سمجھا۔ سوچے کہ اکبر پر بے دینی کا الزام لگا کر اور فتنووں کار توسوں سے زور دیکر حکیم مرزا کو قائم مقام کردیں تو پھر سلطنت ہاتھ میں بے گلبدن بیگم سلیمہ سلطان بیگم اکبر کی پھوپھیاں وغیرہ بیگمات بھی حج سے پھر کر آئی تھیں۔ انہیں کیساتھ روانہ ہوئے۔ اور گجرات دکن میں پہنچ کر ٹھیرے۔ کہ حال معلوم کریں۔ یہاں حکیم مرزا کا معاملہ پہلے ہی طے ہوچکاتھا۔ اکبر ی اختیاروں کو دیکھ کر بہت ڈرے بیگمات سے سفارش کروائی۔ اکبر کے کان میں ان کے کلمات طیبات اول سے آخر تک حرف بحرف پہنچ رہے تھے۔ مہمات ملکی اور مصالح سلطنت میں عورتوں کی سفارش کا کیا کام ۔ حاکموں کو حکم پہنچے ۔ کہ نظر بند رکھیں۔ اور بآہستگی مسلسل کر کے روانہ کر دیں۔ مخدوم صاحب کیفیت حال سن کر بے حال ہوگئے اور ابھی روانہ دربار نہ ہوئے تھے۔ کہ ملک عدم کی روانگی کے لئے اجل کا حکم پہنچا۔ ۹۹۰ ھ میں بمقام احمد آباد دنیا سے انتقال کیا۔ مآثر الامرا یں ہے۔ کہ بادشاہ کے حکم سے کسی نے زہر دے دیا۔ اگر یہ سچ ہے توہاتھوں کا کیا اپنے سامنے آگیا جس فساد مملکت کا خطر دکھا کر انہوں نے شیخ علائی کو ماراتھا۔ اسی مصلحت ملکی میں مارے گئے۔ جنازہ احمد آباد سے جالندھر میںآیا ۔ اور خاک سے روپوش ہوا۔ ان کے املاک اور مکانات لاہور میں تھے اور گھر میںبڑی بڑی قبریں تھیں ۔ جن کے لمبے لمبے طول و عرض بزرگان مرحوم کی مقدار بزرگی ظاہر کرتے تھے ۔ ان پر سبز غلاف پڑتے رہتے تھے۔ اور دن ہی سے چراغ جل جاتے تھے ۔ ہر وقت تازے پھول پڑتے رہتے تھے۔ یہاںپھول پتے لگانے والوں نے پتے لگائے اور کہا کہ حضور یہ مزار دکھاوے کے بہانے ہیں۔ حقیقت میں دفینے اور خزانے ہیں۔ کہ خلق خدا کے گلے کاٹ کاٹ کر جمع کئے ہیں (ملا صاحب فرماتے ہیں) قاضی علی فتح پور سے لاہور میںآیا ۔ اور اتنے خزینے اور دفینے نکلے۔ کہ وہم کی کنجی بھی ان کے قفلوں کو نہ کھول سکے۔ اس کے گورخانے میں سے چند صدوق نکلے۔ کہ ان میں سونے کی اینٹیں چنی ہوئی تھیں۔ مردوں کے بہانے سے دفن کئے تھے ۔ شکنجے میں کسے گئے۔ تین کروڑ روپے دم نقد نکلے۔ اورجو مال لوگوں کے پاس گئے یا رہ گئے وہ عالم الغیب کے سوا کسی کو معلوم نہیں۔ یہ ساری اینٹیں کتابوں سمیت کہ انہیںبھی اینٹیں ہی سمجھنا چاہیے۔ سب اکبری خزانے میں داخل ہو گئیں۔ بیٹے اسکے چند روز قید شکنجے میں رہے ۔ اور آخر بلی کی ٹکیا کو محتاج ہوگئے۔ فاضل بد اونی نے جو مضامین مذکورہ بالا کے بعد ان کے علم و فضل کی تعریف کی ہے۔ اس میں لکھا ہے کہ تنزیہ الانبیا اور شمائل نبوی ان کی عالمانہ تصنیفات ہیں ساتھ ہی یہ بھی لکھا ہے۔ ملائے موصوف ترویح شریعت میںبڑی کوشش کرتے تھے۔ اور متعصب سنی تھے ۔ بہت سے بے دین اور رافضی ان کی سعی سے اس ٹھکانے لگے ۔ جو کہ ان کے لئے تیار ہوا تھا (یعنی جہنم) فاضل موصوف نے ان سے اپنی ملاقات کا حال جو لکھا ہے ۔ بعینہ ترجمہ اس کا لکھتا ہوں۔ جس سال اکبر نے گجرات فتح کی تھی۔ مخدوم الملک وکالت کی خدمت پر تھے۔ اورعین جاہ و جلال میںتھے میں پنجاب سے پھرتا ہوا وہاں پہنچا۔ ابو الفضل اور میںابھی نوکر نہ ہوئے تھے۔ حاجی سلطان تھا۔ تیسری اورہم سب ملکر گئے۔ کہ شیخ کی باتیں سنیں۔ آپ فتح پور سیکری کے دیوان خاص میںبیٹھے تھے۔ روضتہ الاحباب کا تیسرا دفتر سامنے دھرا تھا ۔ اور کہہ رہے تھے کہ مقتدایان ولایت چہ خرابی ہادر دین کردہ اند ۔ اور یہ شعر اس میں سے پڑ رہا ۔شعر ہمیں بس بود حق نمائی او کہ کرد ند شک در خدائی او اور کہا کہ اوزر فض ہم گذانید ہ کا ررا بجائے دیگر سایندہ کہ حلول باشد،۔ قرار دادہ ام کہ ایں جلدر الحضور شیعہ بسوزم۔ میںگوشہ ہائے گمنام سے نکل کر آیا تھا ۔ مخدوم موصوف کے حالات اور اختیارات کی خبر نہ تھی ۔ پہلی ہی ملاقات تھی۔ میں نے کہا کہ یہ تواس شعر کا ترجمہ ہے جو امام شافعی کی طرف منسوب ہے؎ لو ان المرتضی ابدی محلۃ کفی فی فضل مولینا علی لصار الناس طرا سجدالہ وقوع الشک فیہ انہ اللہ مخدوم نے میری طرف گھور کر دیکھا اور کہا کہ یہ کس سے منقول ہے ۔ میںنے کہا شرح دیوان امیرسے فرمایا ۔ شار ح دیوان کہ قاضی میر حسین میبذی ہے۔ وہ بھی متہم بہ رفض ہے۔ میںنے کہا خیر یہ اوربحث نکلی شیخ ابو الفضل اور حاجی سلطان بار بار منہ پر ہاتھ رکھ رکھ کر اشارے سے مجھے منع کرتے تھے۔ پھر بھی میںنے اتنا کہا کہ بعض معتبر لوگوں سے سنا ہے ۔ کہ تیسرا دفتر میر جمال الدین کا نہیں۔ ان کے بیٹے سیدمیرک شاہ کا ہے یاکسی اور کا ہے۔ اسی واسطے اس کی عبارت پہلے دو دفتروں سے نہیںملتی ۔ کہ نہایت شاعرانہ ہے مخدثانہ نہیں۔ جواب دیاکہ بابائے من دردفتر دوم نیز چیز ہا یافتہ ام ۔ کہ ولالت صریح بر بدعت وفساد اعتقاد دارد۔ وبراں حواشی نوشتہ ام وغیرہ وغیرہ ۔ شیخ ابو الفضؒ برابر بیٹھے تھے۔ میرے ہاتھ کو زور سے ملتے تھے۔ کہ چپکے رہو۔ آخر مخدوم نے پوچھا کہ یہ کون ہے ۔ ان کی کچھ تعریف تو کرو۔ لوگوں نے مجملا حال بیان کیا ۔ بارے صحبت خیر و عافیت سے ختم ہوئی ۔ وہاں سے نکل کر یاروں نے کہا کہ شکر کرو آج بڑی بلا ٹلی۔ کہ وہ تمہارے حال سے متعرض نہ ہوئے ۔ نہیںتو کون تھا کہ بچا سکے ۔ وہ ابو الفضل کہ ابتدا میںدیکھ دیکھ کر اپنے شاگردوں سے کہا کرتے تھے۔ چہ خلل ہا کہ دردیں ازیں نخیزد ۔ غرض کہ مخدوم موصوف ۹۹۰ ھ میںفوت ہوئے اور شیخ مبارک نے اپنی آنکھوں سے ایسے سخت دشمن کی تباہی دیکھ لی ۔ اور بڑی بات یہ ہوئی کہ اپنے لڑکوں کے ہاتھ سے دیکھی ۔ خد ا کی شان ہے اکثر دیکھا جاتا ہے ۔ کہ جن لوگوں کی زمانہ مساعدت کرتا ہے ۔ اور جاہ و جلال اورا قبال کے عالم میں وہ کسی پر جبر کرتے ہیں۔ انجام کو اسی کے ہاتھوں یا اس کی اولاد کے ہاتھوں اس سے بدتر حالات ان پر گذر جاتی ہے۔ خدا ہم کو اختیار کے وقت عاقبت بینی کی عینک عطا کرے۔ بعض تاریخوں میں لکھا ہے ۔ کہ کشف الغمہ ۔ عصمت الانبیا ۔ منہاج الدین سیر نبوی میں انکی تصنیفات سے تھیں۔ مآثر الامرا مین منہاج الدین اور حاشیہ شرح ملا لکھا ہے ۔ ان کا بیٹا حاجی عبدالکریم باپ کے بعد لاہور میں آیا ۔ اور پیر ی مریدی کا سلسلہ جاری کیا۔ آخر ۱۰۴۵ ھ میںوہ بھی باپ کے پا س پہنچا ۔ خاک کا قالب لاہورمیں نویں کوٹ کے پاس دفن ہوا۔ کہ وہیں زیب النساء کاباغ تعمیر ہوا۔ شیخ یحیی ۔ اللہ نور ۔ عبدالحق اعلیٰ حضور بھی انکے بیٹے تھے۔ شیخ بدایوانی افسوس کرکے کہتے ہیں۔ کہ شیخ یحیی باپ کے بعد حرکات مکروہ کانمونہ ہوا۔ شیخ عبدالنبی صدر شیخ عبدالنبی ولد شیخ احمد بن شیخ عبدا لقدوس ، اصل وطن اندری۔ علاقہ گنگو اور خاندان مشائخ میںنامور تھا ۔ ابتدا میںدل عبارت و ریاضت کی طرف بہت مائل تھا۔ ایک پہر کا مل حبس دم کے ساتھ ذکر میںمصروف رہتے تھے ۔ کئی دفعہ مکی معظمہ اور مدینہ منورہ گئے۔ وہاں علم حدیث حاصل کیا۔ اول سلسلہ چشتیہ میںتھے۔ آباؤاجداد کی محفل حال وقال میں غنا اور سماع بھی تھا۔ انہوں نے وہاں سے آکرناجائز سمجھا ۔ اور محدثین کا طریقہ اختیار کیا۔ تقوے ۔ پرہیز گاری، طہارت ، پاکیزگی اور عبادت ظاہری میںمشغول رہتے تھے۔ اور درس و تدریس وعظ و نصیحت میںبشدت سرگرم تھے۔ اکبر کو اپنی سلطنت میںتقریبا ۱۸ برس تک مسائل اسلام کی پابندی اور علمائے اسلام کی عظمت کا بڑا خیال رہا۔ ۹۷۲ ھ میں مظفر خاں وزیر کل تھا اور اسی کی سفارش سے انہین صدر الصدور کر دیا۔ فاضل بداؤنی کہتے ہیں۔ کہ عالم عالم اوقاف و انعامات اور وظائف با استحقاق بخشے۔ اور اس قدر کہ اگرتمام بادشاہان ہند کی بخششوں کو ایک پلے میں رکھیں۔ اور اس عہد کے انعام کو ایک پلہ ہیں۔ تو بھی یہی جھکتا رہے گا ۔ یہاں تک بتدریج ۔رفتہ رفتہ پلہ اصلی پر آن ٹھیرا ۔ اور قضیہ بالعکس ہوگیا۔ یہ زمانہ وہ تھا کہ مخدوم الملک کا ستارہ غروب پرتھا ۔ اور شیخ صدر طلوع پرتھے۔ تعظیم و احترام کایہ حال تھا ۔ کہ کبھی کبھی علم حدیث کے سنن کو بادشاہ خود ان کے گھر جاتے تھے۔ ایک دفعہ جوتے ان کے سامنے اٹھا کر رکھے۔ شاہزادہ سلیم کو حجرہ تعلیم میں داخل کیاکہ مولانا جامی کی چہل کا سبق لیاکرے شیخ کی ترغیب اوربرکات صحبت سے خود بھی احکام شرعی کی پابندی میں حد سے گزر گئے تھے۔ آپ اذان دیتے تھے۔ اور امامت کرتے تھے۔ اور مسجد میںاپنے ہاتھ سے جھاڑو دیتے تھے۔ عالم شباب میں جشن سال گرہ کی تقریب پر لباس زعفرانی پہن کر محلسراے باہر آئے۔ شیخ موصوف نے منع کیا۔ اور شدت تاکید کو اس جوش و خروش سے ظاہر کیا۔ کہ عصا کا سرا باداہ کے جامہ کو لگا۔ مگر انہوںنے کچھ جواب نہ دیا ۔ حرم سرا میںچلے آئے اور ماں سے شکایت کی۔ ماںنے کہا۔ لو تم ! جانے دو۔ یہ کچھ رنج کا مقام نہیں باعث نجات ہے۔ کتابوں میںلکھا جائے گا۔ کہ ایک پیر مفلوک نے ایسے بادشاہ عالی جاہ کوعصا مارا اور وہ فقط شرع کے ادب سے صبر کرکے برداشت کر گیا۱؎ ۱؎ مآثر الامرا میںہے کہ کپڑوں پر زعفران کے چھینٹے دیے ہوئے تھے۔ سلاطین سلف کے عہد میں مسجدوں کے امام بادشاہ کی طر ف سے ہوا کرتے تھے۔ او ر وہ سب صاحب خاندان عالم فاضل متقی پرہیز گار ہوتے تھے۔ سلطنت سے انکے لئے جاگیریں مقر ہوتی تھیں۔ چنانچہ انہیں دنوں میں حکم ہوا کہ تمام ممالک محروسہ کے امام جب تک اپنی مدد معاش اور جاگیر ونکے فرمان پر صدر الصدور کی تصدیق اور دستخط نہ حاصل کر لیں ۔ تب تک کروڑی اور تحصیلدار اس کی آمدنی انہیں مجرانہ دیں۔ یہ بااستحقاق لو گ انہتائے ممالک مشرقی سے لے کر سر حد سندھ تک سب صدر کے حضور میںپہنچے ۔ جس کا کوئی قوی حامی امرا میں سے ہوگیا یا مقربان شاہی میں سے کسی کی سفارش ہاتھ آگئی ۔ ا س کاکام بن گیا ۔ جن کو یہ وسیلہ میسر نہ ہوا۔ وہ شیخ عبدالرسول اور شیخ کے وکیلوں سے لے کر فراشوں دربانوں، سائیسوں اور حلا ل خوروں تک کوبھی بھاری بھاری رشوتیں دیتے تھے۔ اور جو ایسا کرتے تھے وہ گرداب سے ناؤ نکال لے جاتے تھے۔ جن بد نصیبوں کو یہ موقع ہاتھ نہ آتاتھا۔ وہ لکڑیاں کھاتے تھے۔ اور پامال ہوتے تھے۔ بہت سے نامراد اس بھیڑ اور انبوہ میں لوؤں کے مارے مرمر گئے ۔ بادشاہ کوبھی خبر پہنچی ۔ مگراقبال زور پر تھا ۔ صدر عالی کے قدر کی تعظیم اورعلوشان سے منہ پر نہ لا سکے۔ شیخ جب مسند جاہ و جلا ل پربیٹھے تھے۔ تو دربار کے بڑے بڑے عالیشان امرا اہل علم اور اہل اصلاح کو ساتھ لے کر شیخ کے دیوان خانہ میںشفاعت اور سفارش کے طور پر لاتے تھے۔ شیخ بد مزاجی سے پیش آتے تھے۔ اورکسی کی تعظیم بھی کم کرتے تھے۔ بڑے مبالغوں سے اور بڑی عجز و زاری سے ہدایہ اور عالمانہ کتابوں کے پڑھانے والوں کو سو بیگھ یا کچھ کم زیادہ زمین ملتی تھی۔ اس سے زیادہ ہوتی تو سالہا سال کی مقبوضہ زمین بھی کاٹ لیتے تھے۔ اور عوام گمنام ، دلیل و خوار یہاں تک کہ ہندوؤں کوبھی اپنی مرضی سے دیتے تھے اس طرح علم و علما کی قیمت روزبروز گھٹتی گئی۔ عین دیوان میںدوپہر کے بعد جب کرسی غرور پر بیٹھ کر وضو کرتے تھے۔ تو آب مستعمل کی چھنٹییں تمام سر اور منہ پر اور امراے کبار اور مقربان بلند رتبہ کے کپڑوں پرپڑتی تھیں۔ اور وہ کچھ پروا نہ کرتے تھے۔ غرض کے بندے اخلق خدا کی کارسازی کے لئے برداشت کرتے تھے۔ اور خوشامد اور لگاوٹ سے جس طرح شیخ چاہتے تھے۔ ۔ سلوک بھی کرتے تھے۔ لیکن پھر جب وقت آیا ۔ تو جو کچھ نگلا تھا۔ سب اگلوالیا۔ کسی بادشاہ کے زمانہ میں کسی صدر کو یہ تسلط اور تصرف اور استقلال حاصل نہیں ہوا۔ اور بات تو یہ ہے۔ کہ اس کے بعد خاندان مغلیہ میںدین کے زور اور مذہبی اختیارات کے ساتھ صدر کا عہدہ ہی غدرمیں آگیا ۔ پھر صدر الصدور ہوا نہ وہ اختیارات ہوئے۔ چند ہی روز گذرے تھے۔ کہ آفتاب ڈھلنے لگا۔ فیضی و ابوالفضل بھی دربار میںآن پہنچے تھے۔ ۹۸۵ ھ میںیہ حکایتیں شکایتوں کی سروں میں بادشاہ کے کان تک پہنچیں۔ ان کا اثر کچھ نہ زیادہ ہوا۔ مگر یہ حکم ہوا کہ جن کی معافی پانسو بیگھ سے زیادہ ہو۔ وہ خود حضور میںفرمان لیکر حاضر ہوں۔ او ر اس میں بہت سی کا سازیاں کھلیں۔ چند روز کے بعد ہر صوبہ ایک ایک امیر کے سپر د ہو گیا ۔ چنانچہ پنجاب مخدوم الملک کے حصے میںآیا ۔ یہیں سے دونوں کے دلوں میںغبار پیدا ہوئے۔ اور تھوڑے ہی عرصہ میں خاک اڑنے لگی ۔ بادشاہ کی مرضی پاکر شیخ ابولفضل سردربار مسائل میں مناظرے اور مباحثے کرنے لگے۔ ایک دن دستر خوان پر بادشاہ امراکے ساتھ کھانا کھاتے تھے۔ شیخ صدر نے مزعفر کے قاب میں ہاتھ ڈالا ۔ شیخ ابوالفضل نے اسے زعفران کا چھینٹا دیکر کہا کہ اگر زعفران نجس یا حرام ہے تو اس کا کھانا کیوں کر حلال ہوسکتا ہے۔ مسئلہ شرعی ہے ۔ کہ تین دن تک حرام کا اثر باقی رہتا ہے۔ اگر حلال ہے ۔ تووہ اعتراض اور احتساب کیاتھا۔ ہر صحبت میں اس قسم کے مسائل پر نوک جھوک ہوجاتی تھی ۔ ایک دن جلسہ امرا میں اکبر نے کہا کہ تعداد نکاح کی کہاں تک جائز ہے ۔ جوانی میںکچھ ا سباب کا خیال نہ تھا جتنے ہوگئے ۔ ہوگئے۔ اب کیا کرنا چاہیے۔ ہر شخص کچھ کچھ عرض کرتا تھا۔ اکبر نے کہا ایک دن شیخ صدر کہتے تھے کہ بعض کے نزدیک نو تک بیبیاں جائز ہیں۔ بعض اشخاص بولے کہ ہاں ابن ابی لیلے کی یہی رائے ہے۔ کیونکہ ظاہر آیت کے لفظ یہی ہیں۔ فانکو اماطاب لکم مثنی و ثلاث ورباع یعنی نو اورجنہوں نے دو دو تین چار چار کے معنوں کا خیال کیا وہ ۱۸ بھی کہتے ہیں۔ مگر ان روایتوں کو ترجیح نہیں۔ اسی وقت شیخ سے پچھوا بھیجا ۔ انہوںنے وہی جواب دیا کہ میںنے اختلاف علما کا بیان کیاتھا فتوے نہیں دیا تھا ۔ یہ بات بادشاہ کو بری لگی ۔ اور کہا اگر یہ بات ہے تو شیخ نے ہم سے نفاق برتا جب کچھ اور کہا اور اب کچھ اور کہتے ہیں۔ اور اس بات کو دل میںرکھا۔ جب یہ باتیں ہونے لگیں۔ اور بادشاہ کا مزاج لوگوں نے پھر دیکھا ۔ تو زمانے کے لوگ ہر وقت کے منتظر بیٹھے تھے۔ بات بات میںگل کتر نے لگے ۔ یا تو یہ عالم تھا کہ محدثی کا نقارہ بجتا تھا ۔ کیونکہ مدینہ منورہ سے حدیث کا فیض لیکرآئے ہیں۔ اورامامت ان کا حق کہ امام اعظم کی اولادہیں۔ یا اب یہ حال ہو اکہ مرزا عزیز کو کہ نے کہا۔ حدیث الحرم سوہ الظن کو بچہ بچہ جانتا ہے ۔ حائے مہملہ اور زائے معجمہ سے ہے۔ شیخ نے شہزادہ کو حائے معجمہ اوررائے مہملہ سے پڑھا دیا ہے جس کو علم حدیث پر بڑا گھمنڈ ہے۔ اس کا یہ حال ہے ۔ آپ نے اس کا رتبہ اس حد تک پہنچا دیا۔ اب اسے ابو الفضل اور فیضی کا اقبال سمجھو۔ خواہ مخواہ اور صدر کا اوبار کہو۔ بڑی قباحت یہ ہوئی۔ کہ دونوکی آپس میںبگڑگئی۔ اور جن جن مسئلوں اور فتووں میںافراط و تفریط ہوئی تھی ۔ ان میں ایک دوسرے کا پردہ فاش کرنے لگے ۔ معلوم ہوا کہ میر حبش کا قتل رفض کے جرم میں اور خضر خاں شروانی کا قتل اس جرم میںکہ پیغمبر صاحب کی جناب میںبے ادبی کی۔ تہمت بے اصل تھا ۔ اسی عرصے میں میر مقیم اصفہانی اور میر یعقوب حسین خاں حاکم کشمیر کی طرف سے تحائف پیش کش لے کر آئے۔ یہاں یہ چرچاہوا کہ کشمیر میںجو سنی شیعہ کے فساد میں ایک شیعہ قتل ہو اتھا۔ اور اسکے عوض میںسنی مفتی مواخذہ میں آکر قید اور قتل ہوئے۔ اس کاباعث میر مقیم تھا۔ شیخ صدر نے اس جرم کے انتقام میں میر مقیم ار میر یعقوب دونوں کو قتل کیا۔ کہ شیعہ تھے۔ اب لوگوں نے کہا کہ یہ بھی خون ناحق ہوئے۔ ان مقدموں کے علاوہ بھی دونو جلیل القدر عالم نئے نئے مسئلوں پر جھگڑے پیدا کرتے تھے ۔ جس کا انجام یہ ہو اکہ بادشاہ دونو سے بے اعتقاد ہو گیا۔ فیضی و ابوالفضل کو اس قسم کے موقع غنیمت ہوتے ہونگے ۔ وہ ضرور شیعوں کو زور دیتے ہوںگے اور بادشاہ کو برسر رحم لاتے ہوں گے اور انہی باتوں سے رفض کی تہمت میں آکر مفت کا داغ کھاتے ہوںگے ۔ ملا صاحب کہتے ہیں۔ رہی سہی بات یہاں سے بگڑی کہ انہی دنوں میں متھرا کے قاضی نے شیخ صدر کے پاس استغاثہ کیا کہ مسجد کے مصالح پر ایک سرشور اور مالدار برہم نے قبضہ کر کے شوالہ بنا لیا اور جب روکا تو اس نے پیغمبر صاحب کی شان میںبے ادبی کی اور مسلمانوں کی بھی بہت اہانت کی ۔ شیخ نے طلبی کا حکم بھیجا و ہ نہ آیا۔ نوبت اکبر تک پہنچی ۔ چنانچہ بیربل اور ابوالفضل جاکر اپنی رسائی اور اعتبار کے ذمے پر لے آئے۔ ابوالفضل نے جو کچھ لوگوں سے سناتھا عرض کیا اور کہا کہ بے ادبی بے شک اس سے ہوئی ۔ علما کے دو فریق ہو گئے۔ بعض نے قتل کی اجازت مانگتے تھے۔ مگر ہو صاف حکم نہ دیتے تھے۔ اتنا کر ٹال دیتے تھے کہ احکام شرعی تمہارے متعلق ہے۔ ہم سے کیا پوچھتے ہو۔ برہمن مدت تک قید رہا۔ محلوں میںرانیوں نے بھی سفارشیں کیں ۔ مگر شیخ صدر کا بھی کچھ نہ کچھ خیال تھا ۔ آخر جب شیخ نے بہت تکرارسے پوچھا ۔ توکہا کہ بات وہی ہے کہ جو میں کہ چکا ہوں۔ جو مناسب جا نو وہ کرو۔ شیخ نے گھر پہنچتے ہی قتل کا حکم دے دیا۔ جب یہ خبر اکبر کو پہنچی تو بہت خفا ہوا ۔ اند ر سے رانیوں نے اور باہر سے راجا مصاحبوں نے کہنا شرور کیا کہ ان ملانوں کو حضور نے اتنا سر پر چڑھایا ہے کہ اب آپ کی خوشی کابھی خیال نہیں کرتے ۔ اور اپنی حکومت و جلال دکھانے کے لئے لوگوں کو بے حکم قتل کر ڈالتے ہیں۔ ایسی ایسی باتوں سے اس قدرکان بھرے کہ بادشاہ کوتاب نہ رہی اورجو مادہ مدت سے غلیظ ہورہا تھا ۔ یکبارگی پھوٹ بہا ۔ رات کو انوپ تلاؤ کے دربار میںآکر پھر اس مقدمہ کاحال بیان کیا۔ فتنہ ۱؎ انگیز اکسانے والوں سے اور نو خیز مفتیوں سے مسئلہ کی تحقیق کرتے تھے۔ ایک کہتا تھا ۔ بھلا ردود قدح کے جواب و سوال کس نے کئے ہونگے ۔ دوسراکہتا تھا ۔ شیخ سے تعجب ہے۔ و ہ تو اپنے امام اعظم کی اولادکہتے ہیں ۔ اور ان کا فتوی ہے کہ کفار مطیع اسلام پیغمبر کی شان میں بے ادبی کرے تو عہد شکنی اور ابراء ذمہ نہیںہوتا ۔ فقہ کی کتابوں میں تفصیل سے لکھا ہے ۔ شیخ نے اپنے جد کی مخالفت کیوں فرمائی ۔ ۱؎ ان سے فیضی اور فضل مراد ہوںگے فاضل بد ایوانی لکھتے ہیں۔ یکبارگی دور سے مجھ پر نظر پڑی میری طرف متوجہ ہوکر اور نام لیکر آگے بلایا۔ اور کہا کہ آگے آؤ۔ پوچھا کہ تونے بھی سننا ہے کہ اگر ۹۹ روایتیں مقتضی قتل ہوں۔ اور ایک رایت موجب رہائی ہو۔ تو مفتی کو چاہیے کہ روایت اخبرکو ترجیح دے۔ میں نے عرض کی۔ حقیقت میںجو حضر ت نے فرمایا ۔ اسی طرح ہے۔ اور مسئلہ ہے ان الحدود العنوبات تنذر بالشبہات اس کے معنی فارسی میں ادا کئے۔ افسوس کے ساتھ پوچھا۔ شیخ کو اس مسئلہ کی خبر نہ تھی ۔ کہ اس برہمن بے چارے کو ما ر ڈالا۔ یہ کیا معاملہ ہے۔ میں نے کہا البتہ شیخ عالم ہے ۔ باوجود اس روایت کے جو دیدہ و دانستہ قتل کا حکم دیا۔ ظاہر یہی ہے کہ کوئی مصلحت ہوگی ۔ فرمایا وہ مصلحت کیا ہے ۔ میں نے کہا یہی کہ فتنہ کادروازہ بند ہو۔ اور عوام میں جرات کا مادہ نہ رہے ۔ ساتھ شفائے قاضی عیاض کی روایت نظر میںتھی وہ بیان کی بعض خبیثوں نے کہا۔ کہ قاضی ایاز تو مالکی ہے۔ اس کی بات حنچی ملکوں میں سندنہیں ہے۔ بادشاہ نے مجھ سے کہا تم کیاکہتے ہو؟ میںنے کہا اگرچہ مالکی ہے لیکن اگر مفتی محقق سیاست پر نظر کرکے اس کے فتوے پر عمل کرے ۔ تو شرعاجائز ہے ۔ اس باب میں بہت قیل و قال ہوئی ۔ بادشاہ کو لوگ دیکھتے تھے۔ کہ شیر کی طرح موچھیں کھڑی تھیں۔ اور پیچھے سے مجھے منع کر رہے تھے کہ نہ بولو۔ یکبار بگڑ کر فرمایا ۔ کیا نامعقول باتیں کرتے ہو۔ فورا تسلیم بجا لا کر پیچھے ہٹا اپنی ذیل میںآن کھڑا ہوا ۔ اور اس دن سے مجلس مباحثہ اور ایسی جرات سے کنارہ کرکے گوشہ اختیار کیا کبھی کبھی دور سے کورنش کر لیتا تھا ۔شیخ عبدلنبی کا کام روز بروز تنزل پانے لگا۔ اور آہستہ آہستہ کدورت بڑھتی گئی ۔ دل پھرتاگیا ۔ اوروں کو ترجیح ہونے لگی۔اور نئے پرائے اختیار ہاتھ سے نکلنے لگے ۔ دربار میں بالکل جانا چھوڑ دیا ۔ شیخ مبارک بھی تاک میںلگے ہی رہتے تھے۔ انہی دنوں میںکسی مبارکباد کے لئے آگرہ سے فتح پور میںپہنچے ۔ ملازمت کے وقت بادشاہ نے یہ سارا ماجرا سنایا ۔ انہوں نے کہا کہ آپ خود مجتہد اور اپنے زمانہ کے امام ہیں۔ شرعی اور ملکی احکام کے اجرا میں ان کی ضرورت کیا ہے ۔ کہ سوا شہرت بے اصل کے علم سے کچھ بہرہ نہیں رکھتے ۔ بادشاہ نے کہا ۔ جب تم ہمارے استاد ہو۔ اور سبق تم سے پڑھا ہو۔ تو ان ملا نوں کی منت سے مخلصی کیوں نہیں دیتے ۔ وغیرہ وغیرہ ۔ اسی بنیاد پر محضر اجتہاد تیار ہوا۔ کہ جس کی تفصیل شیخ مبارک کے حال میں نقل کی گئی ہے۔ شیخ صدر اپنی مسجد میںبیٹھے ۔ اور بادشاہ اور اہل دربار کو بے دینی اور بد مذہبی سے بدنام کرنے لگے مخدوم الملک سے انکی بگڑی ہوئی تھی ۔ بر ا وقت دیکھا ۔ تو دونوں ہمددر مل گئے۔ ہر شخص سے کہتے تھے۔ کہ جبرا مہریں کروائیں۔ ورنہ یہ امامت کیا ہے اور عدالت کیاہے۔ آخر مخدوم الملک کے ساتھ ہی انہیںبھی حج کو روانہ کیا ۔ اور حکم دیا کہ وہیں عبادت الہی میں مصروف رہیں۔ بے حکم نہ آئیں۔ بیگمات نے سفارش اور شفاعت کی مگر قبول نہ ہوئی۔ کیونکہ روز نئی شکایتیں پہنچتی تھیں۔ اور ان سے بغاوت کے خطر پیدا ہوتے تھے۔ شیخ نے آخر حق رفاقت ادا کیا کہ ٹھکانے لگا دیا؎ یہ سمجھ عشق کے دریا کے تلاطم کا سلوک کہ کنارے تو تجھے گورکے پہنچاتا ہے لیکن اب بھی ظاہری عزت کو قائم رکھا ۔ چنانچہ ایک فرمان شرفائے مکی کے نام لکھا ۔ اور اکثر تحائف ہندوستان کے او ر بہت ساز ر نقد روانہ کیا کہ شرفائے موصوف اشخاص کو دیں۔ یہ وہاں پہنچے ۔ تو نئی دنیا نظر آئی۔ ان کے فضل و کرامت کو مکہ اور مدینہ میں کیا وزن ہوسکتاتھا ۔ ان کے علم و فضل کو علمائے عرب کب خاطر میںلاتے تھے۔ اور خاطر میںکیا لاتے مسائل علمی تو بالاے طاق بڈھے بے چاروں کے منہ سے ان کے سامنے پوری بات نہ نکلتی تھی ۔ ساتھ اس کے جب ہندوستان کے جاہ و جلال اور حکومتوں کے مزے یا د آتے ہوںگے ۔ تو چھاتی پر سانپ لوٹ جاتے ہوں گے۔ اور کچھ بس نہ چلتا تھا۔ اکبر اور اس کے خیر خواہوں کو اس طرح بدنام کرتے تھے۔ کہ ادھر روم ادھر بخارا تک آواز پہنچتی تھی ۔ ۹۸۹ ھ میںپھر بادشاہ نے اہل حج کا قافلہ روانہ کیا ۔ بادشاہی میر حاج ساتھ گیا ۔ شرفائے مکی کے نام لکھا اور اس میں یہ بھی درج کیا ۔ کہ ہم نے شیخ عبدالنبی اور مخدوم الملک کے ہاتھ زر نقد اور اکثر تحائف ہندوستان کے روانہ کئے تھے ۔ ہر فرقہ اور مقام کے لوگوں کے لئے رقمیں تھیں۔ کہ بموجب فہرست کے دیدینا وہاں بحصہ رسدی ہر شخص کو تقسیم ہو۔ اورفہرست سے الگ بھی کچھ روپیہ دیا تھا۔ کہ بعض بعض اشخاص کو خفیہ طور پر دینا۔ اور اس میں کسی اور کا حق نہیں۔ یہ خاص انہیں اشخاص کا حصہ ہے۔ اور یہ رقم فہرست میںنہ لکھی تھی ۔ شیخ صدر کویہ بھی حکم تھا کہ جو عجیب و نفیس چیزیں ادھر کے ملکوں میںملیں وہ لے لینا اور اس مد کے لئے جو رقم دی گئی تھی ۔ اگر کافینہ ہو ۔ تو جو رقم خفیہ دینے کو دی ہے۔ اس میںسے روپیہ لے لینا۔ پس یہ لکھیے ۔کہ آپ انہوںنے کتنا روپیہ پہنچایا۔ یہ بھی سنا گیا ہے ۔ کہ بعض بدعمل شریروں نے فاضائئل مآب کمالات اکتساب شیخ معین الدین ہاشمی شیرازی کے باب میں حسد وعداوت سے تہمت لگائی ہے اور اس کی ایذاوذہانت کے درپے ہوئے ہیں۔ اور مشہور کیا ہے کہ فاضل موصوف نے ہمارے نام پر کوئی رسالہ لکھا ہے۔ اس میںبعض باتیں ملت برحق اور شریعت پا ک کے مخالف درج کی ہیں نعوذ باللہ من شرور نفسہم ۔ اس کی تصنیفات سے کوئی شے ۔ کہ خلاف معقول و منقول ہو۔ ہر گز ہر گز سماعت اشرف تک نہیںپہنچتی ۔ اور جب سے فاضل مذکور دربار میں پہنچا۔ کوئی امر تقوے و پرہیز گاری اور اطاعت شرع مصطفوی کے سوا نہیںدیکھا گیا ۔ ان شریروں بدکاروں حاسدوں شیطانوں کو تنبیہ کرد اور سزاد و۔ اور فاضل مذکور کو ان فتنہ پردازوں اور مفسدوں کے ظلم سے چھراؤ اور تعجب ان لوگوں سے ہے ۔ کہ ایسے طوفان شیطان جنہیںبے عقل بچے بھی یقین نہ کریں۔ وہ سن کر کس طرح مان گئے۔ اور شیخ معین الدین جیسے شخصک کے درپے آزاد ہوگئے۔ ایسے لوگون کو مقامات متبر کہ سے نکال کر پھر نہ آنے دو۔ قسمت کی گردش دیکھو ۔ کہ انہیںبھی مخدوم الملک کے ساتھ ہندوستان کو پھرنا مصلحت معلوم ہوا ؎ اگر اب کے پھرے جیتے وہ کعبے کے سفر سے توجانو پھرے شیخ جی اللہ کے گھر سے اے حضرات ، خانہ خدا میںپہنچ لئے ۔ جب ایک دفعہ ہندوستان کا منہ کالا کر چکے ۔ تو پھر نا کیا تھا ۔ مرزا بیدل نے کیا خواب کہا ہے ؎ رفتن و نآمدن بایدزآب آموختن خانہ ویرانی بہ عالم از حباب آموختن مگرروئے طمع سیاہ قسمت کا لکھا پورا ہوناتھا۔ وہ کھینچ کر لایا ۔ اور خانہ خدا سے اس طرح بھاگے ۔ جیسے قیدی کالے پانی سے بھاگتا ہے۔ سبب وہی تھا۔ کہ چند مہینے سے پہلے یہاں ممالک مشرقی میں امرانے بغاوتیں کی تھین۔ انہیں کے سلسلے میں محمد حکیم مرزا کابل سے چڑھ کر پنجا ب پرآیا ۔ اور لاہور کے میدان میںآن پڑا۔ یہ خبریں وہاں بھی پہنچیں ۔ بڑھاپا تھا ۔ مگر بجھے ہوئے زوق و شوق کوئلے پھر چمک اٹھے۔یہ بھی اور مخدوم بھی سمجھے کہ حکیم مرزا ہمایوں کا بیٹا ہے ۔ کچھ وہ ہمت کرے گا۔ کچھ ہم دینداری کے زور لگائینگے۔ اکبر کو بیدین کرکے اکھاڑ پھینکیں گے۔ نوجوان لڑکا بادشاہ ہوگا۔ یہ پرانی بھ پھر ہری ہو جائیںگی۔ اس کی شاہی ہوگی۔ ہماری خدائی ہوگی ؎ دناے فراخ است اے لسپر تو گوشہ ماگوشہ ہم چوںملخ از کشت شہ تو خوشہ ماخوشہ یہا ںدربار میںانتظام کی چلتی ہوئی کلیں تیار ہوگئی تھیں۔ انہیںمہینے بلکہ برس لگے یہاںدنوں کے اندر سب بندوبست ہوگئے۔ ان غریبوں کو ہندوستان کی مٹی کھینچ کر لائی تھی ۔ افسوس کہ اخیر وقت میںخراب ہوئے۔ اس وقت کمبایت اتاری کا بندر تھا۔ احمد آباد گجرات میںآئے۔ معلوم ہو اکہ سبحان اللہ وہاں سے لے کر ہندوستان پنجاب کابل تک ایک میدان ہے۔ اور سونے چاندی کا دریا ہے۔ کہ لہراتا ہے یا باغ ہے کہ لہلہاتا ہے ۔ مخدوم تووہیں جاں بحق ہوئے ؎ شب فراق میں آخر تڑپ کے مر گئے ہم بھلا ہوا کہ نہ دیکھی سحر جدائی کی شیخ صدر فتح پور کے دربار میںآکر حاضر ہوئے۔ یہاں عالم ہی اور تھا۔ پر کہن سال نے جب دیکھا تو عقل حیران اور منہ کھلا ر ہ گیا۔ کہ الہی یہ وہی ہندوستان ہے ۔ یہ وہی دریا ہے جس میں شاہان دین دار کے جلو س تھے ۔ اب دوستون جو ایوان سلطنت کو اٹھائے کھڑے ہیں۔ وہی فضل و فیضی ہیں۔ مبارک کے بیٹے ۔ جو گوشہ مسجد میں بیٹھا ۔ طالب علموں کو پڑھاتا تھا۔ سو بھی پکار کر نہیں۔ چپکے چپکے ۔ اے پروردگار تیری شان ۔ اے پروردگار تیری قدرت ع کبھی کے دن ہیں بڑے اور کبھی کی رات بڑی یہاں بھی پہنچا نے والوں نے خبریں پہنچا دی تھیں۔ اکبر کی بید ینی اور بد اعتقادی کے باب میں جو جو باتیں ان کی برکت ہے مکہ اور مدینہ میںمشہور ہوئی تھیں۔ حرف بحرف بلکہ حاشیہ چڑھ کر آئی تھیں۔ اکبر آگ بگولا ہورہا تھا ۔ جب گفتگو ہوئی تو ادھر کہن سال کی پرانی عادتیں۔ خدا جانے کیا کہ دیا۔ یہاں اب خدائی کے دعوے شعر الہی دیکھنے صحبت برار ہوکیوں کر زبان دراز ہوں میں اور بد زباں صیاد خود بادشاہ نے انہیں کچھ سخت الفاظ کہے (الہی تیری امان) یہ وہی شیخ صدر ہیں ۔جن کے گھر میںخود حصول سعادت کے لئے جاتے تھے۔ جس ہاتھ سے جوتی ان کے سامنے رکھی۔ آج وہی ہاتھ تھا ۔ کہ اس عالم کہن سال کے منہ پر زور کا مکا ہو کر پڑا۔ اس وقت اس بے چارے نے اتنا کہا کہ بکار و چرانمنے زنی ۔ جب مکہ کو بھیجا تھا تو اہل قافلہ کے خرچ اور وہاں کے علما و شرفا کے لئے ستر ہزار روپیہ بھی دیا تھا ۔ ٹورڈرمل کو حکم ہوا۔ کہ حساب سمجھ لو۔ اور تحقیقات کے لئے شیخ ابو الفضل کے سپر دکر دیا ۔ دفترخانہ کی کچہری میں جس طرح اور کروڑی قید تھے۔ اسی طرح یہ بھی قید تھے۔ اور وقت پر حاضر ہوتے تھے۔ شان الہی جن مکانوں میں وہ خود دربار کرتے تھے۔ اور امرا اور علما حاضر ہوتے تھے۔ کوئی پوچھتا نہ تھا ۔ آج وہاں خود جواب دہی میں گرفتار تھے۔ غرض مدت تک یہی حال تھا ۔ اور شیخ ابوالفضل کی حوالات میںتھے۔ ایک دن سنا کہ رات کو گلا گھونٹ کر مر و ا ڈالا۱؎۔ اوریہ بھی بادشاہ کا اشارہ لے کر کیا تھا ۔ دوسرے دن عصر کا وقت ہو گیاتھا ۔ اور مناروں کے میدان میںلاش پڑ ی تھی ۔ ملا صاحب کس قدر خفا تھے۔ اس مرحوم کا دم نکل گیا اور ان کا غصہ نہ نکل چکا۔ ترحم او ر مغفرت تو درکنار فرماتے ہیں۔ شبے اور راخفہ کردند وبحق و اصل شد۔ در روز دیگر درمیان منارہا تھا تانماز دیگر افتادہ بودان فی فرلائے لعبرہ لا ولیالابصار و شیخ کنبی تاریخ یافتند؎ گرچہ ایشخ کالنبی گفتند کالنبی نیست شیخ ماکنبی ست یہ شعر اکثر اشخاص ان کی شان میںپڑھا کرتے تھے۔ (کتب ۔ بھنگ) اور (بحق واصل شد) کے لفظ کو دیکھو اس میں کیا کام کر گئے۔ چاہو یہ سمجھ لو۔ کہ ذات حق کے ساتھ وصل ہوگئے۔ چاہو یہ کہو کہ امر حق کوپہنچ گئے۔ ……………… ۱؎ معتمد خاں نے اقبال نامہ میں صاف لکھ دیا ہے ۔ کہ ابوافضل نے بادشاہ کے اشارہ سے مروا ڈالا۔ شیخ مبارک اللہ عرف شیخ مبارک زمانے میں دستور ہے کہ بیٹے کا پتا باپ کے نام سے روشن ہوتا ہے۔ لیکن حقیقت میں وہ بڑا مبارک باپ جو خود کمال سے صاحب برکت ہو۔ اور بیٹوں کی ناموری اس کے نام کو زیادہ تر روشن کرے ۔ یعنی کہا جائے کہ یہ وہی شیخ مبارک ہے ۔ جو فیضی اور ابوالفضل کا باپت تھا۔ وہ علوم عقلی میں حکیم الہی ور علوم نقلی میںصاحب اجتہاد تھا۔ اور شیخ اس کا خاندانی لقب تھا ۔ وہ نام کا مبارک تھامگر مقدر ایسا منحوس لایا تھا ۔ کہ اہل حسد کی عداوت سے دو ثلث اپنی زندگی کے یعنی ۶۳ برس اس مصیبت میں کاٹے کہ خدا دشمن کوبھی نصیب نہ کرے ۔ حریف ہمیشہ فوجیں باندھ باندھ کر اس پر حملے کرتے رہے۔ اور وہ ہمت کا پورا۔ تسبیح ہاتھ میں عصا آگے رکھے بیٹھا تھا سبق پڑھاتا تھا یاکتاب دیکھتا تھا۔ اور کہتاتھا ۔ دیکھیں تمہارے حملے ہارتے ہیں کہ ہمارا تحمل ۔ باوجود فضائل و کمالات کے جب اس کی مصیبت دیکھی جاتی ہے ۔ اور بعد اس کے بیٹوں کی قابلیت واقبال کے ساتھ اس جاہ جلال پر نظر کی جاتی ہے توایک داستان قابل عبرت معلوم ہوتی ہے۔ مختلف نوشتوں اور کتابوں سے ان کے نہایت جزوی جزوی حالات معلوم ہوئے ۔ میںبھی جہاں تک ممکن ہوگا۔ چھوٹے سے چھوٹا نکتہ نہ چھوڑونگا۔ اوراہل نظر کو دکھاؤنگا ۔ کہ ان باکمالوں کی کوئی بات ایسی نہیں۔ ہوغورکے قابل نہ ہو ۔چاہا تھا کہ اس مقام پر ان کے نسب نامہ کو قلم انداز کردوں مگران جپتوں اور ستاروں میں بھی ایسے پیچیدہ راز نظر آتے ہیں۔ جنہین کھولے بغیر آگے نہیں چلا جاتا ۔ ناظرین عنقریب معلوم کریں گے کہ ان کے کمال نے زمانے کو کس قدر ان کی مخالفت پر مسلح کیا تھا۔ زیادہ تر دشمن ان کے ہم پیشہ بھائی یعنی علما وفضلات تھے۔بقانی خاں لکھتے ہیں کہ لوگوں کو ان کے نسب میںکچھ طعن تھا۔ چنانچہ بیٹوں کے ایک خط کے جواب میں شیخ مبارک نے دشمنوں کی تہمت کو دھویا ہے ۔ اورانہیںتسلی دی ہے۔ بیٹوں کا خط نہیں آیا۔ خط شیخ مبارک بنام ابوالفضضل و فیضی بابائے من ۔ از فضلائے ایں عہد کہ ہمہ جو فروش و گندم نما اندودیں رابد ینا فروختہ تہمت آں برمابستہ اند از گفتہ حرف آنہا بباید رنجید۔ واز انکہ از طرف بجابت ما گفتگو وارند۔ دل پر تشویش نباید نمود۔ درایامے کہ والد من تفویض و دیعت حیات نمود۔ من سجد تمیز نہ رسیدہ بودم۔ والدہ من مراد رسایہ عواطف یکے از سادات دوے الاحترام درکمال عسرت پرورش مے داد۔ اور تربیت من از طرف درس علمی و دیگر تادیب کمال سعی بکار مے برداز ازانکہ مراحسب فرمودہ بزرگے موسوم بہ مبارک ساختہ بود۔ روزے یکے از ہمسایہ ہائے حسد پیشہ آں سید والا نثراد کہ غمخواری و تیماداری مابیکساں می نمود رابکلمات درشت رنجا نیدہ مرابعد نجابت مطعن نمود ۔ والدہ ام گریہ کناں نزدآں سید والا مقام کہ از نسب و حسب پدرم اطلاع داشت۔ رفتہ نالش تعذی او نمود۔ وآں سید اور راز جرد توبیخ تمام نمود۔ الحال الحمداللہ کہ حق سبحانہ و تعالیٰ ماوشمارا ازفضل بے پایان خویش ورسایہ لطف و کرم بادشاہ عادل باذل فخر زمین و زمن بدیں رتبہ و پایہ رساندہ کہ فضلائے عصر از راہ ہم چشمی حسدے دارند ورشک مے برند۔ الے آخرہ۔ اس خط کے انداز سے معلوم ہوتا ہے کہ لوگ انہیں لونڈی بچہ یا غلام بچہ کہتے ہونگے ۔ کیونکہ مبارک اکثر غلاموں کا نام ہوتا ہے ۔ ابوالفضل نے اکبر نامہ کے خاتمے میںاپنا نسب نامہ اس طوالت سے لکھا ہے ۔ کہ میں حیران تھا۔ اس طول کا سبب کیا ہوگا۔ جب یہ رقعہ نظر سے گذرا توسمجھا کہ وہ دل کا بخار بے اس تفصیل کے نہیں نکل سکتا تھا۔ خلاصہ تحریر ابوالفضل آئین اکبری کے خاتمے میں اگرچہ خاندان کی نسب سرائی کرنی ایسی ہے۔ جیسے کوئی کمال درجہ کا مفلس بزرگوں کی ہڈیاں لیکر سوداگری کرے۔ یا نادانی کی جنس کو بازار میں ڈالے۔ اپنے عیب کو نہ دیکھے اور غیروں کے ہنر پر آپ فخر کرے دل نہ چاہتا تھا کہ کچھ لکھوں اور بے حاصل افسانہ سناؤں۔ دنیا میں اس سلسلے کا پابند کسی منزل کونہیں پہنچتا ۔ اور صورت کے چشمے سے معنی کا باغ ہرا نہیں ہوتا؎ چونا داناں نہ دربند پدر باش چو دود از روشنی نبو دنشاں مند پدر بگذار و فرزند ہنر باش چہ حاصل زانکہ آتش راست فرزند زمانے کے محاورے میں نسب۔ تخمہ ۔ نژاد ۔ ذات وغیرہ اسی کو کہتے ہیں۔ اور اسے بلند او رپست درجوں میں پابند کرتے ہیں۔ ہشیار دل آگاہ جانتا ہے کہ ان درجوں کے معنے یہ ہیں۔ کہ باپ داد کا سلسلہ جو برابر چلاآتا ہے ۔ گویا اس لڑی کے دانوں میں سے ایک کولے لیا ۔ اور جو ان میں ظاہری امارت یا حقیقت شناسی میں پڑا ہوا۔ اور کسی نام یا لقب یا سکونت کے سبب سے مشہور ہوگیا۔ اسکو باپ داد ا کہ کر فخر کرنے لگے ۔ عام لوگ سبکو آدم صفی اللہ کی اولاد کہتے ہیں سمجھ والے لوگ ان قصہ خوانوں کی باتوں پر دل لگا کر اور خیال نہیں کرتے ۔ اور فاصلے کی دوری دیکھ کر بیچ کی فصلوں کی پرواہ نہیں کرتے ۔ جو بیدار دل سعادت کو چن لیتے ہیں۔ وہ ان کہانیوں کو خوب راحت کا سامان کیوں سمجھیں۔ اوران کمالوں پر تکیہ کرکے تلاش حقیقت سے کیوںبازار یں؎ بندہ عشق شدی ترک نسب کن جامی کاندریں راہ فلاں چیزے نیست قسمت کا لکھا کہ مجھے ایسے ہی صورت پرستوں اوررسم کے بندوں میں ڈال دیا۔ اور ایسے گروہ میںملا دیاجو کہ خاندان کے فخر کوکمال سے بہتر سمجھے ہیں۔ناچار کچھ وہ بھی لکھ دیتا ہوں۔ اور ویسے لوگوں کے لئے سبھی دستر خوان لگا دیتا ہوں۔ بزرگان کرام کا شمار ایک لمبی کہانی ہے۔ مگر زندگی کے دم بڑی قیمتی ہیں۔ ان نالائق باتوں کے عوض میںانہین کیونکر بیچوں ۔ خیر یہی سمجھ لو۔ کچھ ان میں سے علوم رسمی میں ۔ کچھ لباس امیری میں۔کچھ دنیاداری میں۔ کچھ خلوت اور گوشہ نشینی میں زندگی بسر کر گئے۔ مدت تک یمن کی زمین ان بیدار دلوں کا وطن تھا ۔ شیخ موسیٰ پانچویں پشت میںمیرے دادا تھے۔ انہیں ابتدائے حال میںخلق سے وحشت ہوئی۔ گھر اور گھرانے کو چھوڑ کر غربت اختیار کی ۔ علم وفضل کو رفاقت میں لیا اور معمورہ جہاںکو عبرت کے قدموں سے طے کیا ۔ نویں صدی میںعلاقہ سندھ قصبہ ریل میں پہنچ کر گوشہ نشین ہوئے۔ اور خدا پرستان حقیقت کیش سے دوستی کا پیوند کر کے خانہ داری اختیار کی۔ اریل ایک دلچسپ آبادی علاقہ سیوستان میں ہے ۔ شیخ موسے اگرچہ جنگل سے شہر میں آئے۔ مگردنیا کے تعلقوں میںپابند نہ ہوئے۔ آگاہی کا سجادہ تھا ۔ اور بے بدل زندگی کو نقش بو قلموں کی اصلاح میں صرف کرتے تھے۔ بیٹے پوتے ہوئے۔ وہ بھی انہیں عمل درآمد کو آئین سمجھتے تھے۔ دسویں صدی کے شروع میں شیخ خضر کو آرزو ہوئی کہ ہند کے اولیاء کو بھی دیکھیں۔ اور دریائے عرب کی سیر کر کے اپنے بزرگوں کی نسل سے ملاقات کریں۔ بہت سے رشتہ داروں اوردوستوں کے ساتھ ہند میں آئے ۔ ناگور ۱؎ میںپہنچے (یہاں کئی بزرگوں کا نام لکھ کر کہتے ہیں) ان سے صورت و معنی کافیض پایا ۔ اورانہی بزرگوں کے ایما سے مسافر ت کے ارادہ کو سکونت سے بدل کر لوگوں کی ہدایت میں مصروف ہوئے۔ پہلے کئی بچے مر گئے تھے ۔ ۹۱۱ ھ میں شیخ مبارک نے ملک معنی سے آکر عالم وجود میںہستی کی چادر کندھے پر ڈال۔ اس لئے مبارک اللہ نام رکھا۔ کہ اللہ مبارک کرے۔ چاربرس کی عمر تھی کہ بزرگوں کی قوت تاثیر سے عقل و آگاہی کی طاقت روز بروز بڑھنے لگی۔ ۹ برس کی عمر میں سرمایہ کمال بہم پہنچایا۔ ۱۴ برس کی عمر میںعلوم رسمی حاصل کر لئے ۔ اور ہر ایک علم میں ایک ایک متن یاد کر لیا۔اگرچہ عنایت ایزدی ان کی قافلہ سالار تھی ۔ بہت بزرگوں کی خدمت میں آمد ورفت رکھتے تھے۔ مگر شیخ عطن کے پاس زیادہ تررہتے تھے ۔ اور ان کی تعلیم سے دل کی پیاس آور زیادہ ہوتی تھی۔ شیخ عطن ترک نزاد تھے ۔ ۱۲۰ برس کی عمر پائی۔ سکندر لودھی کے زمانہ میں ناگور کو وطن اختیار کیا اور شیخ سالار ناگوری سے خدا شناسی کی آنکھیں روشن کیں۔ ایران توران اور دور دور کے ملکوں سے عقل و آگاہی کا سرمایہ لائے تھے۔ ۱؎ ناگور اجمیر کے شمال مغرب میں ہے ۔ اس عرصہ میں شیخ خضر کو پھر سندھ کا خیال ہوا۔ کہ چند رشتہ دار وہاں ہیں انہیں جاکر لے آئیں۔ لیکن یہ سفر انہیں آخرت کا سفر ہوا۔ یہاں ناگور میں بڑا قحط پڑا اورساتھ ہی وبا آئی۔ کہ آدمی آدمی کو نہ پہنچا نتا تھا۔ لوگ گھر چھوڑ چھوڑ کر بھاگ آئے ۔ اس آفت میں شیخ مبارک اوران کی والدہ رہ گئی ۔ باقی سب مر گئے ۔ شیخ مبارک کے دل میں تحصیل علم اور جہاں گردی کا شوق جوش ما رہا تھا ۔ مگر والدہ اجازت نہ دیتی تھی ۔ اور خود سری طبیعت میں نہ تھی ۔ وہیں اصلاح طبیعت میں مصروف رہے ۔ اور تحصیل علوم اور کسب فنون نہایت کاوش اور کاہش سے کرتے رہے ۔ فن تاریخ اور عام حوالات سے ایسی آگاہی حاصل کی۔ جس کی بدولت عالم میں مشہور ہوگئے۔ چند روز کے بعد خواجہ عبداللہ احرار کی خدمت میں پہنچے ۔ کہ وہ ان دنوں نوشداراے حقیقت کی جستجو میں سیاحی کرتے ہندوستان میںآنکلے تھے۔ ان سے تلاش الہی کا رستہ معلوم کیا۔ اوربہت سے فیض معنی حاصل کئے۔ نوٹ:خواجہ احرار نے ۱۲۰ برس کی عمر پائی۔ بڑی بڑی سیاحیاں کیں۔ اور ۴۰ برس ختاد ختن کے ملکوں میںبسر کئے ۔ وہ شیخ مبارک پر نہایت شفقت کرتے تھے۔ چنانچہ ان کی تصنیفات و ملفو ظات میںجہاں درویشے پر سید دور ویشے گفت آتا ہے ۔ اس سے شیخ مبارک ہی مراد ہیں۔ خواجہ احرار ۲۰ فروری ۱۴۹۰ ء کو سمر قند میںفوت ہوئے۔ احکانام حضرت اہل اللہ میں خواجہ خواجگان مشہور ہے ۔ اس عرصے میںوالدہ کا انتقال ہوگیا ۔ دل کی وحشت دوبالا ہوئی دریائے اسود کا رخ کیا۔ ارادہ تھا۔ کہ کر ہ زمین کا دورہ کریں ۔ اورفرقہ فرقہ اشخاص سے ملاقات کرکے فیض کمال حاصل کریں۔ احمد آباد گجرات میںپہنچے ۔ وہ شہر اپنی شہرت کے بموجب اہل کمال کی جمعیت سے آراستہ تھا۔ اور ہر طرح کی تکمیل کا سامان موجود تھا ۔ یہ بھی مشہور تھا کہ سید احمد گیسو دراز کی درگاہ سے فیض برکت کے چشمے بہتے ہیں۔ اور وہ ان کے ہم وطن بھی تھے ۔ غرض یہاں سفر کی خورجین کندھے سے ڈال دی۔ علما و فضلا سے ملاقات ہوئی تحصیل میںتدریس کا سلسلہ جاری ہوا۔ چاروں اماموں کی کتابیں اصولا و فروعا حاصل کیں اورایسی کوششیں کیں۔ کہ ہر ایک میں اجتہاد کا مرتبہ پیدا ہو گیا ۔ اگرچہ اپنے بزرگوں کی پیروی کرکے حنفی طریقہ رکھا۔ مگرعمل میں ہمیشہ انتہائی درجہ کی احتیاط کرتے رہے ۔ بڑ اخیال اس بات کا تھا کہ جو کچھ نفس سرکش کو مشکل معلوم ہو وہی ہو۔ اسی عرصے میں علم ظاہری سے علم معنوی کی طر ف گذر ہوا۔ بہت سی کتابیں تصوف اورعلم اشراق کو دیکھیں ۔ بہتیری تصنیفیں منطق اور الہیات کی پڑھیں۔ خصوصا حقایق شیخ محی الدین عربی اور شیخ ابن فارض اور شیخ صدر الدین قونوی اور بہت سے اہل حال اوراہل قال کی تصنیفات نظر سے گذریں ۔ نئے نئے نکتے حل ہوئے اورعجب عجب پردے دل پر سے الٹے ۔ پروردگار کی بڑی نعمتوں سے ایک نعمت یہ ملی کہ خطیب ابولفضل گا زرونی کی ملازمت حاصل ہوئی۔ انہوں نے قدر دانی اور آدم شناسی کی آنکھوں سے دیکھا ۔ اور بیٹا کولیا۔ بہت سا معقولات کا سرمایہ دیا۔ اور ہزاروں باریکیاں ۔ تجرید شفا۔ اشارات ۔ تذکرہ ار محبطی کی کھولیں۔ اس صحبت میں حکمت کے بستان سرائے اور ہی طراوت دکھائی۔ اور بنیش و بصیرت کا چشمہ رواں ہوگیا ۔ خطیب دانشمند کو شاہان گجرات کی کشش و کوشش نے شیرازے کھینچا تھا ۔ چنانچہ انہی کی برکت نے اس ملک میں علم و حکمت کا خزانہ نہ کھولا۔ اور دانش و دانائی کو نئی روشنی دی۔ انہوں نے انبوہ زمانے کے دانشوروں کو دیکھاتھا ۔ اوران سے بہت کچھ پایا تھا ۔ مگرعلوم حقیقی وفنون عقلی میںمولانا جلال الدین دوانی کے شاگرد تھے۔ شیخ مبارک نے وہاں اور عالموں اور خدا رسیدہ بزرگوں کی خدمت سے بھی سعادتوں کے خزانے بھرے۔ اورتصوف کے کئی سلسلوں کی سند لی ۔ شیخ عمر ٹھٹوی کی خدمت سے بڑا نور حاصل کیا۔ اورسلسلہ کبرویہ کا چراغ روشن ہوا۔ شیخ یوسف مجذوب ایک مست آگاہ دل و لی کامل تھے۔ ان کی خدمت میںجانے لگے ۔ اور خیال اس بات پر جما کہ علمی معلومات کو دل سے دھو کر علوم حقیقی کا خیال باندھیں اوردریائے شور کا سفر کریں ۔شیخ موصوف نے فرمایا کہ دریا کے سفر کا دروازہ تمہارے لئے بند ہوا ہے ۔آگرہ میں جا کر بیٹھو ۔ اوروہاں مقصد نہ حاصل ہو تو ایران و توران کا سفر کرو۔ جہاں حکم ہو وہاں بیٹھ جاؤ اوراپنی حالت پر علوم رسمی کی چادر کا پردہ کرلو ۔ کہ تنگ ظرفوں کے دل حقائق معنوی کی برداشت نہیں رکھتے۔ ۶ محرم ۹۵۰ ھ کو آگرہ میں آکر اترے کہ قسمت کی چڑھائی کی پہلی منزل تھی۔ شیخ علا ؤالدین مجذوب سے ملاقات ہوئی۔ انہوں نے فرمایا کہ اس شہر اقبال میں بیٹھو۔ اور سفر کا خاتمہ کرو۔ ایسی بشارتیں دیںکہ وہاں سے قدم اٹھا نا مناسب نہ سمجھا۔چنانچہ شہر کے مقابل دریائے جمنا کے اس پار کنارہ پر چار ۱؎باغ کی بستی تھی ۔ وہاں میر رفیع الدین صفوی چشتی ۱؎ انجوی کے ہمسائے میں اترے۔ اور ایک قریشی گھرانے میںکہ علم وعمل سے آراستہ تھا۔ شادی کہ۔ سید موصوف محلہ کے رئیس تھے۔ انکے رہنے غنیمت سمجھے ۔ آشنائی ہوئی تھی ۔ دوستی ہوگئی۔ گرم جوشی اور شگفتگی سے ربطہ ہوگیا ۔ وہ صاحب دولت اور صاحب دستگاہ تھے۔ انہوںنے اپنے رنگ میںملانا چاہا ۔ مگر انہوں نے نہ مانا ۔ اور توکل کے آستانہ کو چھوڑنا گوارا نہ کیا ۔اندر حق شناسی کے شغل تھے۔ باہر درس و تدریس ۔ جب ۹۵۴؁ ھ میں سے موصوف کا انتقال ہوگیا۔ تو شیخ مبارک نے پھر گوشہ عزلت سنبھالا۔ براشغل کوشش کایہی تھا کہ باطن کو دھوتے رہتے تھے۔ اور ظاہر کو پاک رکھتے تھے ۔ روئے نیاز کا رساز حقیقی کی طرف کیا ۔ ۱؎ پہلے اسے چار باغ کہتے تھے ۔ پھر ہشت بہشت ہوا۔ بابر نے نئی بنیاد ڈال کر افشاں کہلوایا۔ اب رام باغ کہلاتا ہے ۲؎ انجو شیراز میں واقع ہے ۱۲ اور علوم وفنون کے درس میںدل بہلانے لگے۔ اوروں کی گفتگوؤں کو اپنے حال کا پردہ کر لیا۔ خواہش کی زبان کاٹ ڈالی۔ معتقدوں میں سے کوئی بااحتیاط آدمی اخلاص سے نذر لاتا ۔ توضرورت کے قابل لے لیتے ۔ باقی لوگوں سے معذرت کرکے پھیر دیتے اور ہمت کے ہاتھ سے آلودہ نہ کرتے ۔ ۹۵۴ ھ ۱۵۴۷ ھ ۲۳ برس کی عمر میںفیضی اور ۹۵۸ ھ ۱۵۵۱ ء ۴۷ برس کی عمر میں ابوالفضل یہیں پیدا ہوئے۔ چند روز میںچھوٹے سے لے کر بڑے تک اسی چشمے پر آنے لگے ۔ اور داناؤں اور دانشوروں کا گھاٹ ہوگیا ۔ بعضے حسد کے مارے سازشیں کرنے لگے ۔ بعضے محبت سے ملے اور رفیق خلوت ہوگئے۔ شیخ مبارک کونہ اس کا رنج تھا۔ نہ اسکی خوشی تھی ۔ شیر شاہ اور سلیم شاہ نے اور بعض اور لوگوں نے چاہا۔ کہ یہ خزانہ شاہی سے کچھ لیں ۔ اور جاگیر مقرر ہوجائے ۔ ہمت بلند تھی ۔ نظر نہ جھکی ۔ اس سے ترقی کارتبہ اور بڑھا ۔ پرہیز گاری اور احتیاط کا یہ عالم کہ بازار میںکہیں گاناہوتا ۔ تو قدم اٹھا کر جلد نکل جاتے۔ چلتے تو دامن اور پانجامہ اونچاکرکے چلتے تھے۔ کہ نجس نہ ہوجائے۔ کوئی محفل میں نیچا پاجامہ پہن کر آتا تو جتنا زیادہ ہوتا پھروا ڈالتے ۔ لال کپڑا پہنے دیکھتے تو اتروا ڈالتے ۔ ظاہر پرست اور ابو لہوس تے اور گھبراتے ۔ انہیں مباحثوں کے جھگڑے اور دکانداری کی بھیڑ بھاڑ بڑھائی منظور نہ تھی ۔ ہاںحق کے اظہار ار بدکاروں کی ملامت میں ذرا تخفیف نہ کرتے تھے۔ جو بدکتے انہیںپر چاتے نہ تھے۔ چند عالم اس عہد کے خصوصا جوکہ فضیلت اورپارسائی کے دعووں سے سلطنت میں دخیل تھے وہ شیخ مبارک سے سخت عداوت رکھتے تھے مخدوم الملک ملا عبداللہ سلطانپوری ہمایوں۔ شیر شاہ سلیم شاہ کے درباروں میں شریعت کے مالک بنے ہوئے تھے۔ شیخ عبدالنبی مشایخ واجب التعظیم میں سے تھے ان کے کلاموں کی لوگوں کے دلونمیں تاثیر تھی ۔ کیونکہ درباری زورکے ساتھ اپنے درس و تدریس مسجدوں کی امامت ۔ خانقاہوں کی نشست اور مجلسوں کے وعظوں سے دلوں کو دبوچ رکھا تھا۔چاہتے تواحکام سلطنت پر مخالفت شرع کا فتوی لگا کر خاص و عام میں ولولہ کو ڈال دیتے تھے۔ ان کی معرفت اکثر مقاصد بادشاہی رعایا سے آسان نکل آتے تھے۔ ان مصلحتوں پر نظر کرکے بادشاہ وقت بھی ان کی خاطر داری کیا کرتے تھے ۔چنانچہ فیصلہ مقدمات سے بڑ ھ کر احکام سلطنت تک انہی کے فتووں پر منحصر تھے ۔ جب یہ لوگ بادشاہوں کی محفل سے اٹھتے تھے۔ تو بڑ ے بڑے ارکان سلطنت اور اکثر خود بادشاہ لب فرش تک پہنچانے آتے تھے۔ بعض موقع پر خود بادشاہ ان کے سامنے جوتیاں سیدھی کر کے رکھ دیتے تھے۔ شیخ مبارک کیا معلومات کتابی۔ کیا تحریر و تقریر ہیں ۔ ان لوگوں کے بس کا نہ تھا ۔ ایسے عالم کے خیالات کوبھی سمجھ لو کہ کیسے ہونگے ۔ وہ ضرور ان بزرگوں کو خاطر میں نہ لاتا ہوگا۔ مولوی نے دستر خوانوں کی مکھیاں ہوتے ہیں عام علما بیان مسائل اور فتاووں میں ملانے مخدوم اور شیخ صدر کا منہ دیکھتے ہوں گے ۔شیخ مبارک پر وا بھی نہ کرتا ہوگا۔ اور سچ بھی ہے جس کا علم و عمل ہر وقت حق پرستوں کا دائرہ رکھتا ہو۔ او رخود دنیا کی دولت اور جاہ ومنصب کی ہوس نہ رکھتا ہو اسے کیا ضرورت ہے۔ کہ جس گردن کو خدا نے سیدھا پیدا کیا ۔ اسے اوروں کے سامنے جھکائے۔ اور وہ رائے جسے قدرت سے آزادی کی سند ملی ہے ۔ اسے دنیا کے لالچ کے لئے نا اہلوں کے ہاتھ بیچ ڈالے۔ جب کسی غریب ملا یا مشا یخ پر مخدوم یا صدر کوئی سختہ گرفت کرتے تو وہ بے چارا شیخ کے پاس آتا تھا۔ شیخ کی شوخ طبیعت کو یہ شوق تھا۔ مسجد ہی میںبیٹھے بیٹھے ایک نکتہ ایسا بتا دیتے تھے کہ جب وہ جاکر جواب پیش کرتا تھا ۔ توحریف کبھی فقہ کی بغل جھانکتے تھے۔ کسی حدیث کا پہلو ٹٹولتے تھے مگر جواب نہ پاتے تھے ایسی ایسی باتوں سے رقیب ہمیشہ اس کی تاک میںلگے رہتے تھے۔ اور رنگا رنگ کی تہمتوں سے طوفان اٹھاتے تھے۔ چنانچہ ابتدا میں مہدویت کی تہمت لگائی۔ اصلیت ا سکی فقط اتنی تھی ۔ کہ شیر شاہ کے عہد میں شیخ علائی مہدوی ایک فاضل تھا۔ وہ جس طرح علم وفضل میں صاحب کمال تھا ۔ اسی طرح پرہیز گاری میں حد سے گذرا ہوا تھا ۔ اور حدت طبع نے اس کی سحر بیانی کو آتش زبانی کے درجے تک پہنچا دیا تھا ۔ یہ نہیں ثابت ہوتا۔ کہ شیخ مبارک اس کے معتقد یا مریدتھے۔ لیکن خواہ اس سبب سے کہ طبیعت بھی سمجنس طبیعت کی عاشق ہوتی ہے۔ اور ہم جنس طبیعتوں میں مقناطیسی کشش ہے ۔ خواہ اس سبب سے کہ مخدوم الملک ان کے قدیمی رقیب اس کے دشمن ہوگئے تھے۔ غرض تیز طبع پرہیز گاروں میں محبت اور صحبت کا سلسلہ ضرور تھا۔ اور شیخ مبارک اکثر جلسوں اور معرکوں پر اس کی رفاقت میں شامل ہوتے تھے۔ جو بات اس کی حق ہوتی تھی ۔ بے خطر تصدیق کرتے تھے۔ با اقتدار دشمنوں کی مطلق پروانہ کرتے تھے۔ بلکہ جب اپنے جلسوں میں بیٹھتے تو حریفوں پر لطیفوں کے پھول پھینکتے تھے۔ نتیجہ اس کا یہ ہوا۔ کہ شیخ علا ئی بچارے مارے گئے۔ اور شیخ مبارک مفت بدنام ہوگئے۔ پہلے ہمایوں اورپھر شیر شاہ و سلیم شاہ کے وقت میں افغانی دورتھا۔ اس میں آئے دن کے تغیرات سے ملک کا حال بھی پریشان تھا۔ اور علمائے مذکور کا زوربھی زیادہ تھا ۔ اس لئے شیخ مبارک عقل و دانش کا چراغ گوشہ میںبیٹھ کر روشن کرتے تھے۔ اور حقیقت کے نکتے چپکے چپکے کہتے تھے ۔ جب ہمایوں پھر آیا۔ تو شیخ نے بے خطر ہوکر مدرسے کو رونق دی ۔ اسکے ساتھ ایران و ترکستان کے دانا و دانش پسند لوگ آئے ان سے علوم کا زیادہ چرچاپھیلا۔ ان کا مدرسہ بھی چمکا۔ اسی عرصے میں زمانے کی نظر لگی ۔ ہمایوں مرگیا۔ ہیموں نے بغاوت کی ۔ علمی صحبتوں کی رونق جاتی رہی۔ بہت لوگ گھروں میں بیٹھ گئے ۔ کچھ شہر چھوڑ کر باہر نکل گئے۔ شیخ کو اس قدر شہرت حاصل ہوگئی تھی۔ کہ ہیمو نے بھی بعض صلاح مشوروں میں ان سے پیغا م سلام کئے بلکہ شیخ کی سفارش پر اکثر اشخاص کی جاں بخشی اورمخلصی بھی کردی۔ مگریہ اس سے پرچے نہیں۔ ساتھ ہی قحط پر ا کہ تباہی عام خلعت پرعموما اور خاص لوگوں کے لئے خصوصا ارزاں ہوگئی۔ گھر اور گھرانے نے فنا ہوگئے ویرانی کا یہ عالم ہوا کہ شہرمیں گنتی کے گھروں کے سوا کچھ نہ رہا۔ شیخ کے گھر میں ان دنوں زن و مرد ۔ آدمی تھے لیکن اس بے پروائی سے گزران کرتے تھے کہ کوئی کہتا تھا کیمیا گر ہیں۔ کوئی جانتا تھا جادوگر ہیں۔ بعضے دن فقط سیر بھر اناج آتا تھا ۔ اسے مٹی کی ہانڈی میںابالتے تھے۔ وہی آب جوش بانٹ کھاتے تھے۔ اور ایسے آسودہ نظر آتے تھے۔ گویا اس گھر میں روزی کا کچھ خیال ہی نہیں۔ عبادت کے سوا ذکر نہ تھا۔ اور شغل کتاب کے سوا فکر نہ تھا۔ اس وت فیضی آٹھویں برس میں اور ابولفضل پانچویں برس میںتھے۔ وہ اس عالم میں ایسے خوش رہتے تھے۔ کہ لو گ دنیا کی نعمتیں کھا کر نہ خوش ہوتے ہوں گے اور باپ ان سے زیادہ۔ کیونکہ وہ ہر طرح ان کی خوبیوں کا سرچشمہ تھا۔ جب اکبری دور شروع ہوا۔ ظالم میںامن ہوا۔ شیخ کامدرسہ پھر گرم ہوا۔ اورعلوم نقلی و عقلی کی درس و تدریس ایسی چمکی۔ کہ شیخ کے نا م پر علم وکمال کے طلب گار ملک ملک سے آنے لگے ۔ درباری عالموں کو آتش حسد نے پھر بھڑ کایا ۔ پرانے علم فروشوں کو اپنی فکر پڑی اور نوجوان بادشاہ کے کان بھرنے شروع کئے ۔ دنیا جہاں احتیاجوں کا مینہ برستا ہے بہت بری جگہ ہے جس وقت کہ شیخ عبدالنبی صدر اہل حاجت کے لئے درگاہ تھا۔ اورائمہ مساجد اور علما و مشائخ کو جاگیروں کے اسناد ان سے ملتے تھے۔ شیخ مبارک دنیا کے صدموں سے لڑتے لڑتے تھک گیا۔ اس پر عیال کا انبوہ ساتھ ؎ توڑا کمر شاخ کو کثرت نے ثمر کی دنیا میں گر انبار نے اولاد غضب سے! گذارہ کارستہ ڈھونڈھنے لگا۔کی کسی طرح دن بسر کرے۔ وہ یہ بھی سمجھا ہوگا۔ کہ ان عالم نمارند فروشوں ہیں۔میرا سرمایہ سے کم ہے۔ جومیںاپنا حصہ نہ مانگوں کہ میرا حق ہے ۔ چنانچہ علم کے لحاظ سے دور نزدیک سمجھ کر شیخ صدر کے پاس گیا۔ پھربھی اپنی آزادی کا پہلو بچایا ۔ فیضی کو ساتھ لیتاگیا ۔ اورعریضہ میںلکھا کہ سو بیگھہ زمین مدد معاش کے طور پر اس کے نام ہوجائے۔ شیخ صدر خدائی اختیار ونکے صدر نشین تھے۔ وہاں فقط عرضی داخل دفتر نہ ہوئی۔ بلکہ بڑی بے نیازی اورکراہت کے ساتھ جواب ملا کر یہ رافضی مہدوی ہے نکال دو۔ عذاب کے فرشتے دوڑے اورفورا اٹھادیا۔ اللہ اللہ پیرکہن سال۔ کوہ کمال ۔ دریائے دانش دل پر کیا گذری ہوگی۔ آسمان کی طرف دیکھ کر رہ گیا ہوگا اور آنے پر پچتا یا ہوگا۔ مگر زمانے نے کہا ہوگا نہ گھبرانا ہمارا مزاج خود ان معجونوں کی برداشت نہیں رکھتا ۔ یہ پرانے برج تمہارے نوجوانوں کی گھڑ دوڑ میںڈھا ئے جائینگے اورجلد ڈھائے جائینگے۔ علمائے مذکور نے ایک موقع پر چند اہل بدعت تشیع اور بد مذہبی کے جرم میں پکڑے بعض کو قید کیا بعض کوجان سے مار ڈالا۔ ابوالفضل کہتے ہیںبعض بدگو ہرمیرے والد کو شیعہ سمجھ کر برا کہنے لگے اورنہ سمجھے کہ کسی مذہب کے اصول و فروغ کو جاننا اور شے اور ماننا اور شے ہے۔ خاص مقدمہ یہ ہوا ۔ کہ ایک سید عراق (ایران) کا رہنے والا یگانہ زمانہ تھا وہ ایک مسجد میں امام تھا اورعلم کے ساتھ عمل کا پابند تھا ۔ علمائے وقت اس سے بھی کھٹکتے تھے۔ مگر اکبر کی توجہ ہر بات پرتھی۔ اس لئے کچھ صدمہ نہ پہنچا سکتے تھے۔ ایک دن دربار میںمسئلہ پیش کیا کہ میر کی پیش نمازی درست نہیں۔ یہ عراقی ہیں۔ اورحنفی مذہب کی ایک روایت ہے کہ اہل عراق کی گواہی معتبر نہیں۔ اس سے یہ نتیجہ نکالا ککہ جسکی گواہی معتبر نہیں۔ اس کی امامت کیوں کر صحیح ہوسکتی ہے۔ امامت کے جانے سے سید کا گذارہ مشکل ہوگیا ۔ وہ شیخ سے اتحاد برادرانہ رکھتاتھا۔ ان سے درد بیان کیا۔ انہوںنے بہت سی ہوش افزا تقریریں سنا کر اس کی خا طر جمع کی اور رد جواب پر دلیری دے کر سمجھایا کہ یہ لوگ روایت کے معنے نہیں سمجھتے ۔جو سند لائے ہیں۔ اس میں عراق سے عراق عجم مراد نہیں۔ عراق حرب مرا د ہے ۔ امام صاحب (امام ابو حنیفہ ) کے وقت میں عراق عجم کا یہ حال کہاںتھا ۔ جواب ہے ۔ کتابوں میںفلاں فلاں مقام پر اس کی توضیح ہے ۔ اوریہ سمجھنے کہ کسی مقام کے آدمی ہوں۔ سب یکساں نہیں ہیں۔ ایک اشرف اشراف ہیَ وہ حکما و علما و سادات ہیں۔ دوسرے اشراف۔ ان سے امرا اور زمیندار وغیرہ مراد ہیں۔ تیسرے اوساط ۔ ان سے اہل حرفہ اور اہل بازار مراد ہیں ۔ چوتھے ادنے اور پواج کہ وہ ان سے بھی نیچے ہیں۔ مقدمات میں ہر ایک کے لئے سزا کے بھی چار درجے رکھے ہیں۔ نیکی بدی کا موقع ہوتو اس آئین کی رعایت کیوںنہ ہو۔ اور بات درست ہے ۔ اگر ہم مجرم کو برابر ہی گوشمالی دیں۔ تو شاہ راہ عدالت سے انحراف ہو۔ یہ سن کر سید خو ش ہوگئے اور تحریر حضور میں گذارنی ۔ دشمن دیکھ کر حیران رہ گئے۔ مگر سمجھ گئے۔ کہ اس آگ کی دیا سلائی کہاں سے آئی۔ اس قسم کی تائیدیں اورامدادیں کئی دفعہ کھلم کھلا بھی ہوئیں۔ شیخ فضل لکھتے ہیں مسئلہ مذکور جاہلوں میں شورش کا سرمایہ ہوگیا ۔ سبحان اللہ گروہا گروہ خلائق کا اتفاق ہے۔ کہ کوئی مذہب ایس نہیں جس مکیںایک نہ ایک بات کی کسر نہ ہو۔ اور ایسا بھی کوئی مذہب نہیں کہ سر تاپاباطل ہی ہو۔ اس صورت میں اگرایک ماہر شخص اپنے مذہب کے برخلاف کسی غیر مذہب کے مسئلہ کو اچھا کہے تو اسکی باریکی پر غور نہیں کرتے ۔ دشمنی پر تیار ہوجاتے ہیں۔ نتیجہ اس کا یہ ہوا کہ شیخ مبارک کو مہدویت کے ساتھ تشیع کی بھی تہمت لگ گئی ۔ (ملا صاحب لکھتے ہیں) میں جس زمانہ میں شیخ مبارک سے پڑھتا تھا ۔ تو ایک فتوے شیخ کو لکھا ہوا لے کر میاں حاتم سنبھلی کے پا س گیا وہ بھی اس زمانہ میں فاضل مسلم الثبوت تھے۔ اور فقہ میں امام اعظم ثانی کہلاتے تھے۔ انہوں نے مجھ سے پوچھا۔ کہ شیخ کی مولوتے کیسی ہے ۔ میں نے ان کی ملائی اور پارسائی اور فقر و مجاہدات و ریاضیات اور امر معروف اور نہی منکر کا حال جو کچھ جانتا تھا ۔ بیان کیا۔ کہ شیخ اس زمانہ میں نہایت احتیاط کے ساتھ پابند تھے۔ میاں نے کہا کہ درست ہے۔ میں نے بھی بہت تعریف سنی ہے ۔مگر کہتے ہیں۔ کہ عہد و یہ طریقہ رکھتے ہیں ؟ یہ بات کس طرح ہے ؟میں نے کہا کہ میر سید محمد کی ولایت اور بزرگی تو مانتے ہیں۔ مگر مہدویت نہیں مانتے ۔ میاں نے فرمایا کہ میر کے کمالات میںکسے کام ہے۔ وہاں میر سید محمد میر عدل بھی بیٹھے تھے۔ میری گفتگو سن کر وہ بھی متوجہ ہوئے۔ اور پوچھا کہ انہیں لوگ مہدوی کیوںکہتے ہیں ؟ میں نے کہا کہ نیکی کی تاکید اور برائیوں سے بشدت منع کرتے ہیں۔ پھر پوچھا میں عبدالحی خراسانی (کہ چند روز صدر بھی کہلاتے تھے) ایک دن خانخاناں کے سامنے شیخ کی مذمت کر رہے تھے۔ تم جانتے ہو اس کا کیا سبب ہوگا ۔ میں نے کہا کہ ہاں۔ ایک دن شیخ مبارک نے انہیں رقعہ لکھا تھا۔ اس میں بہت باتیں نصیحت کی تھیں۔ از انجملہ یہ بھی تھا کہ تم مسجد میں نماز با جماعت میں کیوں نہیں شامل ہوتے ۔ میاں عبدالحی نے برا مانا۔ اور جماعت کی تاکید سے یہ نتیجہ نکالا ۔ کہ مجھے رافضی کہا ہے ۔ میر عدل موصوف بولے۔ یہ استدلال تو ایسا ہے ۔ کہ کوئی کسی کو کہے کہ تم نماز جماعت نہیں پڑھتے ۔ اور جو نماز جماعت نہ پڑھے۔ وہ رافضی ہے۔ تو تم بھی رافضجی ہو۔ اور ظاہر ہے کہ اس شخص کا کبری مسلم نہیں ہے ۔ اسی طرح یہ مقدمہ کہ شیخ امر معروف کرتا ہے۔ اور جو امر معروف کرتا ہے۔ وہ مہدوی ہے۔ یہ بھی نامسلم ہے ۔ غرض معلوم ہوتا ہے ۔ ان کے باب میں ا س قسم کے چرچے خاص و عام میں رہتے تھے۔ اہل تجربہ یہ جانتے ہیں۔ کہ دنیا کے لوگ جب حریف پر غلبہ دشوار دیکھتے ہیں۔ تو اپنے مدد گاروں اور طرفداروں کی جمعیت بڑھانے کے لئے مخالفت مذہب کا الزام اس کے گلے باندھ دیتے ہیں۔ کیونکہ عوام الناس اس نام سے بہت جلد جو ش میں آجاتے ہیں۔ اور اس بہانہ سے حریف کے خراب کرنے کا مفت کا لشکر ہاتھ آجاتا ہے ۔ پس عجب نہیں۔ کہ جب علمائے مذکور نے شیخ مبارک کے فضل و کمال کو اپنے بس کا نہ دیکھا تو رنگ رنگ کے پہلوؤں سے بدنام کیا۔ سلیم شاہ کے عہد میں مہدویوں کی طرف سے بغاوت کا خطر تھا۔ اس وقت مہدویت کی علت لگائی۔ اکبر کے اوائل عہد میں ترکان بخارا کا ہجوم تھا۔ وہ ایرانی مذہب کے سخت دشمن تھے ۔ اس کے وقت میں رافضی رافضی کہ کے بدنام کر دیا ۔ کہ وار پورا پرے۔ اور اسمیں بھی شک نہیںکہ شیخ مبارک صاحب اجہتاد تھا۔ اور مزاج کا آزاد تھا ۔ جس مسئلہ میں اس کی رائے شیعوں کی طرف مائل ہوتی ہوگی۔ صاف بول اٹھتا ہوگا۔ تاریخ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے ۔ کہ ہمایوں کے عہدمیں بہت ایرانی ہندوستان میں آگئے تھے۔ مگر تقیہ کے پردہ میں رہتے تھے۔ مذہب ظاہر نہ کرتے تھے۔ اوراکثر ان میں صاحب اقتدار بھی ہوگئے تھے۔ یہ بھی طبعی امر ہے کہ جب ہمارے دشمن کا کوئی حریف بااقبال پیدا ہوتا ہے۔ تو اسے اپنی کامیابی سمجھتے ہیں۔ فائدہ و بیفائدہ اس سے مل کر دل خو ش ہوتاہے۔ اور زبان خود بخو د اس کی ہمداستانی پر حرکت کرتی ہے۔ ملائے مخدوم اور شیخ صدر کے جو سلوک شیعوں سے تھے۔ وہ انکے حال میں معلوم ہوںگے ۔ شیخ مبارک ضرور شیعوں سے ملتا ہوگا۔ اور گفتگوؤں میں انکا ہمداستان ہوتاہوگا۔ ع شیخ تیری ضد سے چھوڑوں دین و ایماں توسہی خیر یہ کچھ ایسی ملامت کی بھی با ت نہیں۔ آخر وہ انسان تھا۔ فرشتہ نہ تھا۔ یہ بھی قاعدہ ہے ۔ کہ جب انسان اپنے مقابل میں دشمنوں کو نہایت قوی دیکھتا ہے ۔ اورانکی عداوت کے تدارک اپنی طاقت سے باہر پاتا ہے تو ایسے باقتدار لوگوں سے رشتے ملاتا ہے ۔ جو دشمنوں سے پھٹے ہوئے ہوں۔ اور برے وقت میں اس کے کام آئیں۔ ا سکے حریفوں کو دیکھو ۔ کیسے زبردست اختیارات رکھتے تھے ۔اور انہیں کسی بیدردی سے اس بیچارے کے حق میں خرچ کرتے تھے۔ جو عاملہ سنت جماعت تھے۔ ان سے اس غریب کواصلا توقع نہ تھی۔عزت اور ننگ و ناموس کسے عزیز ن ہیں جان عزیر کسے بیداری نہیں۔ وہ اگر غیروں سے نہ ملتا ۔ توکیاکرتا ۔ اور ان کی اوٹ میں جان نہ بچاتا تو کہاں جاتا۔ میں نے ابوالفضل و فیضی کے حال میں شیعہ و سنی کے معاملہ پر صلح و صلاحیت کے چندخیال لکھے ہیں۔ کہ شاید دونو تلواروں کی تیزیاں کچھ گلاوٹ پرآئیں۔ لیکن عجیب منحوس ساعت تھی ۔ جس وقت شیعہ و سنی کا فساد پڑا تھا ۔ ۱۳ سو برس گذرے ۔ اور طرفین نے ہزاروں صدمے اٹھائے۔ اور اہل صلاحیت نے بھی بہتیر ہی زور لگائے۔ مگر دونوں میں سے ایک بھی رستہ پر نہ آیا۔ خلاصہ تحریر ابوالفضل اہل حسد ہر وقت جوش میں ابلتے پھرتے ۔اور فساد کے چھتوں پر فتنہ کی بھڑیں آندی رہتی تھیں۔ لیکن جب اکبری سلطنت کے نور پھیلنے لگے ۔ تو ۹۶۷ ھ میں شیخ مبارک کے مدرسہ پر دانش وداد کا علم بلند ہوا۔ بزرگان روزگار نے شاگردی میں قدم جمائے ۔ رجوع خلائق کے ہنگامے گرم ہوئے۔ اہل حسد گھبرائے کہ اگرنمونہ ان اوصاف کا شاہ جوہر طلب تک پہنچا۔ دلنشیں ہوگیا ۔ تو ہمارے پرانے اعتباروں کی کب آبرو رہیگی اورانجام اس کا کس رسوائی تک پہنچے گا ۔ چنانچہ شیخ اپنے بڑھاپے اورعلم و فضل کے سرور میں اور بیٹے جو ش علم و جوانی کے نشے میںبیخبر بیٹھے تھے۔ کہ دشمنوں نے ایک سازش کی ۔ا ور اس کے سبب سے شیخ کو ایسی خطرناک مصیبتیں اٹھائی پڑیں۔ کہ دل امان امان کرتا ہے۔ شیخ ابو الفضل نے کچھ تفصیل خود اکبر نامہ کے خاتمہ میںلکھی ہے ۔ جس عبارت میں اس جاہ وبیان نے افسونگری کی ہے ۔ اس کا خلاصہ میںلانا محال ہے۔ حیرجہاں تک قلم میں طاقت ہے کوشش توکرتا ہوں ۔ چنانچہ کہتے ہیں۔ علمائے حسد پیشہ بادشاہی دربار میں مکرو فریب کی جنس کو سوداگری میںلگا کر فتنہ اورفساد اٹھانے تھے۔ مگر نیک اشخاص موجو د تھے۔ نیکی کے پانی سے آگ بجھا دیتے تھے ۔ اکبرکے ابتدائی زمانہ میں راستی پیشہ سچے ملنسار الگ ہوگئے تھے۔ شیطانوں اورفتنہ پردازوں نے قابو پائے۔ مقربان درگاہ کا سر گروہ عداوت پر کمر باندھ کر تیا رہوا مخدوم مراد ہے یاصدر ، پدر بزرگوار ایک دوست الہی کے گھر گئے تھے اور میں ساتھ تھا۔ کہ وہ مغرور تکبر فروش وہاںآیا ۔ اور مسئلے بگھارنے لگا۔ مجھے جوانی کے نشہ میں عقل کی مستی چڑھی ہوئی تھی ۔ آنکھ کھول کر مدرسہ ہی دیکھا تھا۔ بازار معاملات کی طرف قدم بھی نہ اٹھایا تھا۔ اس کی بے ہودہ بکواس پر قدرت نے میری زبان کھولی ۔ اور دیکھنے والے حیران رہ گئے۔ اسی وقت سے احمقانہ انتقام کی فکر میں پڑا۔ جو فتنہ گرہار کر بیٹھ رہے ۔ انہیں جاکر پھر بھڑ کا دیا۔ والد بزرگوار ان کی دغا بازیوں سے نچنت اور میںعلم کے نشوں میںچور۔ دنیا پرست بیدینوں نے عقل مند دغولیوں کی طرح حق گزاری اور دین آرائی کے رنگ میں جلسے جمائے۔ چند لالچیوں کے دلوں پر شبخون مار کر اکثروں کی گوشہ نیستی میںبھیج دیا۔ اور بندوبست کرنے لگے ۔ ایک دور رخا۔ مکار ۔ دو غلا دغاباز پیدا کیا ۔ کہ روباہ بازی سے والد کی دانش نگاہ میں نیک بن کر گھسا ہواتھا۔ اور اندر سے ادھر یک دل دو قالب تھا۔ دشمنوں نے اسے ایک پٹی پڑھا کر اور بے ہوشی کا منتر سکھا کر آدھی رات کو بھیجا۔وہ شعبدہ باز نیرنگ ساز اندھیری رات میںمنہ بسورتا آنکھوں میںآنسو بڑے بھائی (فیضی) کے حجرہ میںپہنچا۔ اور طلسمات کے ڈھکو سلے سناکر بھائی بے چارے کو گھبرا دیا۔ اسے دغا وفریب کی کیا خبر ، بہکاوے میںنہ آتا تو کیا کرتا ۔ کہا یہ کہ بزرگارن زمانہ مدت سے آپ کے دشمن ہورہے ہیں۔ اور کھوٹے ناشکروں کو شرم آتی نہیں۔ آج انہوں نے قابوپاکر بلوہ کیا ہے کچھ علماء مدعی کھڑے ہوئے ہیں۔ چند عمامہ بند گواہ ہوئے ہیں۔ اور جو طوفان باندھے ہیں۔ ان کے لئے حیلے حوالے تیار کئے ہیں۔ سب جانتے ہیں۔ کہ ان شخصوں کو بارگاہ مقدس میں کیسا درجہ اعتبار ہے ۔ اپنی گرم بازاری کے لیے کیسے کیسے سرفرازوں کو اکھیڑ کر پھینکدیا ۔ اور کیا کیا ستم کئے ہیں۔ ایک میرا دوست ان کی رازگاہ میں ہے ۔ اس نے اس آدھی رات میں آکر مجھے خبر دی ہیں بے قرار ہو کر ادھر دوڑا۔ ایسا نہ ہو کہ تدارک کا وقت ہاتھ سے جاتا رہے ۔ صلاح یہ ہے کہ کسی کو خبر نہ ہو۔ شیخ کو ابھی کہیں لے جا کر چھپا دو۔ وہ جب تک دوست جمع ہو کر حقیقت حال بادشاہ تک نہ پہنچائیں ۔ سب چھپے رہیں۔ بھائی سیدھا سادھا نیک ذات اسے وہم زیادہ ہوا۔ بے اوسان شیخ کی خلوت گاہ میںآیا۔اور حال بیان کیا۔ شیخ نے فرمایا کہ دشمن تو غالب ہو رہے ہیں۔ مگر خدا موجود ہے۔ بادشاہ عادل سر پر ہے عقلائے ہفت کشور موجود ہیں۔ اگر چند بے دیانت اوربیدینوں کو حسد کی بدمستی نے بیچین کیاہے ۔ تو اصلیت بھی اپنی جگہ قائم ہے۔ دریافت کا دروازہ بند نہیں ہو گیا ۔ اور یہ بھی سمجھ لو۔ اگر تقدیر الہی میں ہماراآزاد نہیں لکھا توسارے دشمن امنڈ آئیں۔ بال بیکار نہ کر سکینگے ۔ اوردغا کا ایک داؤں نہ چلے گا ۔ ہاں خدا کی مرضی یہی ہے توخیر ۔ ہم نے بھی اس خاک تو وہ سے ہاتھ اٹھا لیا۔ ہنستے کھیلتے نقد زندگی حوالے کردیتے ہیں۔ قسمت کی گردش نے عقل سے لی تھی ۔ غم وغصہ سپر کر دیا تھا ۔ فیضی حقیقت طرازی کو افسانہ سرائی اور خوشی کے ابھار کو سوگواری سمجھے۔ چھری پر ہاتھ ڈال کر کہا۔ کہ دنیا کے معاملے اور ہیں اور تصوف کی داستان اور شے ہے ۔ اگر آپ نہیں چلتے تو میں اپنا کام تمام کرتا ہوں۔ پھر آپ جانتے ۔ میںتو روز بد نہ دیکھوں۔ یہ سن کر باپ کی محبت اٹھ کھڑی ہوئی۔ پیر نورانی کے جگانے سے میںبھی جاگا۔ مجبورا اسی اندھیری رات میںتینوں پیادہ پانکلے۔ نہ کوئی راہبر ۔ نہ پاؤں میں طاقت ۔ پدر بزرگوار چپ نیر نگنے زمانہ کا تماشہ دیکھیں۔ میں اور بھائی جانتے تھے۔ کہ زمانہ کے کاروبار اور دنیا کے معاملوں میں ہم سے سوا نادان کون ہوگا۔ گفتگو شروع ہوئی۔ کہ جائیںتو کہاں جائیں۔ جس کا وہ نام لیتے میں نہ مانتا ۔ جسے میں کہتا وہ اعتراض کرتے ۔ عقل حیران کہ کیا۔ کیجئے ابوالفضل اس عالم میں کہتے ہیں ؎ دشمنان دست کیں بر آورند ایک ج ہاں آدمی ہمے یا ہم ہم بدشمن دروں گریرم از انکہ دوستے مہرباں نمے یا بیم مرومے درمیاں نمے یا بیم یاری از دوستاں نمے یا بیم میںابھی نوجوان ناتجربہ کار صبح ولادت کا منہ نہار ۔ خاکی بازار کا دوالیہ ۔ معاملات دنیا کے خواب و خیال سے خبرتک نہیں۔ بڑے بھائی ایک شخص کو صاحب حقیقت سمجھے ہوئے تھے۔ وہیںپہنچے ۔ آسودہ دلوں کو دیکھ کر اس کا دل ٹھکانے نہ رہا۔ گھر سے نکل کر پیچتایا ۔ ہکا بکا رہ گیا ۔ مگر مجبور ۔ دم لینے کو جگہ بتائی ۔ اس ویرانہ میںگئے۔ تو اسکا دل سے سوا پریشان ۔ عجب حالت گذری ۔ اور غضب غم واندوو چھایا ۔ بڑے بھائی پھر بھی مجھ ہی پر جھنجلانے لگے ۔ کہ زیادہ عقل نے زیادہ خرا ب کیا۔ باوجود مکی تجربہ کے تم ٹھیک سوچے تھے۔ اب کیا علاج اور فکر کا رستہ کیا ہے ۔ اورکہاں ہو کہ ذرا بیٹھ کر آرام کا سانس تو لیں ۔ میںنے کہا۔ اب بھی کچھ نہیں گیا۔ اپنے کھنڈلے کو پھر چلو۔ گفتگو آن پڑے تومجھے وکیل کردو۔ یہ جو ارباب زمانہک بنے ہوئے ہے۔ ان کی چادریں اتار لونگا۔ اور بند کام کھل جائیگا۔ والد نے کہا آفرین ہے ۔ میںبھی اسی کے ساتھ ہوں۔ بھائی پھر بگڑے اور کہا تجھے ان معاملوں کی خبر نہیں۔ ان لوگوں کی مکاری اور چھل بٹوں کو توکیا جائے۔ اب گھر کو چھوڑو۔ اور رستہ کی بات کہو۔ اگرچہ میںنے تجربہ کے جنگل نہیںپائے تھے۔ اور نفع نقصان کا مزہ نہیں اٹھایا تھا ۔ مگر خدا نے دل میں ڈالی۔ میںنے کہا۔ دل گواہی دیتا ہے کہ اگرکوئی آسمانی بلا نہ آن پڑے ۔ توفلاں شخص رفاقت کرے۔ ہاں کوئی سخت موقع آن پڑے۔ توتھمنا بھی مشکل ہے ۔ رات کا وقت اور وقت تنگ ۔ دل پریشان ۔ خیر ادھر ہی قدم اٹھائے۔ پاؤں میں آبلے ۔ دلدل اوررپٹن کے میدان ۔ چلے جاتے تھے۔ مگرتوبہ توبہ کرتے جاتے کہ کیا وقت ہے توکل کی رسی مٹھی سے نکلی ہوئی۔ مایوسی کی راہ سامنے ۔ ایک عالم اپنا تلاشی ۔ قدم بھی مشکل سے اٹھتا تھا اور سانس سخت جا تی ہی سے آتا تھا ۔ عجب حالت تھی ۔ رات ہے توخطرناک ۔ کل ہے تو روز قیامت ۔ بدذاتوں کا سامنا۔ غرض صبح ہوتے اس کے دروازے پر پہنچے ۔ وہ گرم جوشی سے ملا۔ اچھے خلوت خانہ میں اتارا۔ غمہائے گوناگوں ذرا الگ ہوئے۔ دو دن نچنت گذرے اورکچھ خاطر جمع سے بیٹھے ۔ مگربیٹھنا کہاںخبرآئی کہ آخر حسد کے جلوتروں نے شرم کا پردہ پھاڑ کر دل کے پھپھولے پھوڑے۔ پکے دغولیوں کی چال چلے ہیں۔ جس رات ہم گھر سے نکلے۔ صبح کو عرض معروض کر کے بادشاہ کوبھی بد مزہ کیاا نہوں نے حکم دیا ۔ کہ ملکی اور مالی کام تو بے تمہاری صلاح کے چلتے نہیں۔ یہ تو خاص دین و آئین کی بات ہے ۔ اس کا سرانجام تمہارا کام ہے۔محکمہ عدالت میںبلاؤ۔ جو شریعت فتوی دے۔ اوربزرگان زمانہ قرار دیں وہ کرو۔ انہوں نے جھٹ بادشاہی چوبداروں کو ہلکار کر بھیج دیا۔ کہ پکڑ لاؤ۔ حال انہیں ہی معلوم تھا ڈھونڈھ بھال میںبہت عرقریزی کی۔ کچھ بد ذات شیطان ساتھ کر دے تھے۔ گھر میں نہ پایا ۔ توجھوٹ بات کو سچ بنا کر گھر کو گھیر لیا۔ پہرے بٹھادئے۔ اور شیخ ابوالخیر چھوٹے بھائی ناسمجھ لڑکے کوگھر میں پایا۔ اسی کو پکڑ کر لے گئے۔ ہماری روپوشی کے افسانے کو بڑی آب وتاب سے عرض کیا ۔ اور اسے اپنی باتوں کی تائید سمجھے ۔ خدا کی قدرت دیکھو۔ بادشاہ نے سن کر خود فرمایا ۔ کہ شیخ کی عادت ہے ۔ سیر کو نکل جاتا ہے ۔ اب بھی کہیں گیا ہوگا۔ ایک درویش گوشہ نشین ۔ ریاضت کیش ۔ دانش اندیش پر اتنی سخت گیری کیوں ، اور بے فائدہ الجھنا کس لئے اس بچہ کو ناحق لے آئے ۔ اور گھر پر پہرے کیوں بٹھا دئے ؟ اسی وقت بھائی کو چھوڑ دیا اورپہرے بھی اٹھ آئے۔ گھر پر امن و امان کی ہواچلی۔ ابھی نحوست رستہ میںتھی اوروہم غالب تھا۔ روز الٹی سلٹی خبریں پہنچ رہی تھیں۔ پھر چھلپنا ہی مصلحت سمجھے۔ اب کمینے بد ذات شرمائے ۔ مگرسوچے کہ اس وقت یہ آوارہ و سرگرواں پھررہے ہیں۔ انکا کام تمام کر دیناچاہیے۔ دو تین سیہ سیاہ بھیجو کہ جہاں پائیں فیصلہ کردیں۔ انہیں ڈر یہ ہوا تھا۔ کہ مبادا بادشاہ کے الفا ظ سن کر حضور میںآموجود ہوں۔ او ر دین دواد کے دربار کو عقل کے اجالے سے روشن کر دیں۔ اس لئے بادشاہ کے جواب کے چھپایا ۔ دہشت او ر وحشت کی ہوائیاں اڑا کر بھولے بھالے دوست اور زمانہ ساز یاروں کو ڈرا دیا۔ رنگ برنگ کے بانے باندھے ۔ ان کا یہ عالم ہوا۔ کہ اندیشہ ہائے دو دراز میں ڈانو ڈوں ہو کیا امدا د خ؁الی سے بھی بھاگنے لگے ۔ ایک ہفتہ گذرا تو صاحب خانہ نے گھبرا کر آنکھیں پھیریں۔ اور اس کے نوکروں نے بھی فرش مروت کو الٹ دیا۔ وہموں کو سلوٹوں میںہماری عقل بھی دب گئی۔ خیال یہ ہوا کہ دربار والی خبرجو سنی تھی ۔ شاید جھوٹ ہو۔ اوربادشاہ خودمتلاشی ہوں۔ وقت براہے ۔ زمانہ پیچھے پر ا ہوا ہے ۔ مبادایہ گھر والا ہی پکڑوا دے۔ عجب غم و اندوہ دل پر چھایا اور بڑا اندیشہ ہوا۔ میںنے کہا اتنا تو میںجانتا ہوں۔ کہ درباروالی خبر ضرور صحیح ہے ۔ نہیں تو بھائی کو کیوں چھوڑا ۔ اور پہرے گھر سے کیوں اٹھے۔ امن وامان کے زمانہ میں ہزاروں ہوائیاں اڑاتے تھے۔ اور اچھے اچھے اشراف کمر باندھ کر کھڑے ہوجاتے تھے۔ اب تودنیا میںآگ لگی ہوئی ہے۔ یہ گھروالا گر ذرا اٹھا ۔ توعجب گیا ہے ۔ اوریہ بھی سمجھ لو کہ اسے ہمارا پکڑ وانا ہوتا ۔تو ظاہر داری کو نہ بدلتا ۔ اور اس میں دیر کیوں کرتا۔ ہاں یہ ہے کہ بہت سے شیطانوں نے اسے بولا دیا ہے اورنوکروں کو گھبرا دیا ہے۔ کہ ہم تلخی و بدخونی دیکھ کر نکل جائیں اور اس کا پیچھا چھوڑ دیں۔ ہوش و حواس اس ٹھکانے کر کے پھر صلاح سوچنے لگے ۔ روز مصیبت کو دیکھا تو کل کی رات سے بھی سوا اندھرا تھا۔ براوقت سامنے آیا ۔ پہلے جان پہنچان نکالنے اور حال کی رائے لگانے پر مجھے سب نے آفرین کی۔ اور آئندہ کے لئے ستون مشورت قرار دیا۔ خورد سالی سے قطع نظر کر کے عہد کیا ۔ کہ اب اس کے خلاف رائے نہ کرینگے ۔ شام ہوئی تواس ویرانے سے نکلے۔ دل ہزار پارہ۔ دماغ شوریدہ سینہ زخم اندوز خاطر گر انبار اندوہ رفیق خیال میںنہیں۔ پاؤں میں زور نہیں۔ پناہ کا ٹھکانہ نہیں ۔ زمانہ میں امن و امان نہیں۔ ایک قصبہ نظر آیا ۔ اس بھوت نگر اندھیر پورے میںبجلی سی چمکی۔ اور چہرہ نشاط کا رنگ بکھرا۔ ایک شاگرد کا گھر معلوم ہوا دل خوش ہوگئے۔ وہاں جاکر ذرا آرام کا سانس لیا۔ ہر چند گھر اس کے دل سے سوا تنگ اور دن پہلی رات سے بھی اندھیرا تھا۔ مگر ذرا دم لیااور بے ٹھکانے سرگردانی سے ٹھکانے ہوئے۔ گوشہ میںفکر دوڑنے لگے اورعقلیں سوچ میں لمبے لمبے قدم مارنے لگیں۔ جب آرام کی جگہ اور اطمینان کا منہ کسی طرف نظرنہ آیا ۔ تو میں نے جواب کی عبارت ا سطرح سجائی کہ یہ اچھے اچھے دوست اورپرانے پرانے شاگرد ۔ خوش اعتقاد مریدوں کا حال چند ہی روز میں روشن ہوگیا۔ اب صلاح وقت ہے کہ یہ شہر و بال خانہ عقل اور گزندگاہ کمال ہے یہاں سے نکل چلیں۔ ان دوستوں دربے استقلال آشناؤں سے جلد کنارے ہوں۔ خوب دیکھ لیا۔ ان کی وفاداری کا قدم ہوا پر ہے اور پائداری کی بنیاد موج دریا پر۔ اورشہر کو چلو۔ کہیں خلوت کا گوشہ ملے ۔ کوئی انجان خوش سعادت و اپنی پناہ میں لے ۔ وہاں سے بادشاہ کا حال معلوم ہو۔ مہر و قہر کا اندازہ ٹٹولیں۔ گنجائش ہو تو نیک اندیش انصاف طرازوں سے پیام سلام ہوں۔ زمانہ کا رنگ ویو دیکھیں۔ وقت مدد کرے اور بخت یاری دے تو اچھا نہیں تو میدان عالم تنگ نہیں پیدا ہوا ۔ پرندہ تک کے لئے گھونسلہ اور شاخ ہے ۔ اسی منحوس شہر پر قیامت کے قبالے نہیں لکھے ۔ ایک اور امیر دربار سے اپنے علاقہ کو رخصت ہوا ہے اور آبادی کے پاس اترا ہے۔ اسی کے روزنامہ احوال میںکچھ نور کی سطریں نظر آتی ہیں۔ سب سے ہاتتھ اٹھاؤ۔ اور اس کی پناہ میںچلو ۔ مقام بھی بے نشان ہے۔ شاید ذرا آرام ملے۔ اگرچہ دنیاداروں کی آشنائی کا بھروسہ نہیں۔ مگراتنا تو ہے ۔ کہ ان فتنہ پردازوں سے اس کا لگاؤنہیں۔ بڑے بھائی بھیس بدل کر اس کے پاس پہنچے ۔ وہ سن کر بہت خوش ہوا۔ اور ہمارے آنے کی غنیمت سمجھا۔ خوف و خطر کا زورتھا۔ اس لئے بھائی کئی ترک دلاوروں کو ساتھ لیتے آئے۔ کہ بد ذات ڈھونڈتے پھرتے ہیں۔ رستہ میںکوئی آفت پیش نہ آئے۔ اندھیری رات مایوسی کی چاد ر اوڑے پری تھی ۔ کہ دو دل آگاہ پھر کر آیا ۔ اور آرام کی خوش خبری اورآسودگی کا پیام لایا ۔ اسی وقت بھیس بدل کر روانہ ہوئے۔ اور رستے سے الگ الگ اور اس کے ڈیرہ میں داخل ہوئے۔ اس نے نہایت اطمینان اورعجب خوشی ظاہر کی۔ آسائش نے مژدہ سعادت سنایا ۔ دن آرام سے گذرا۔ زمانہ کے فتنہ وفساد سے خاطر جمع بیٹھے تھے ۔ کہ یکایک جو پریشانی پھیلی ہوئی تھی ۔ اس بھی سخت تربلا آسمان ہے برس پڑی۔ یعنی امیر مذکور کے لئے دربار سے پھر طلب آئی ۔لوگوں نے جس شراب سے پہلے احمق کو بدحواس کیا تھا۔ اس بھولے بھالے کو بھی بولا دیا۔ اس نے آشنائی کا ورق ایسا دفعتہ الٹ دیا ۔ کہ رات ہی کو وہاں سے نکل کھڑے ہوئے۔ ایک اور دوست کے گھر آئے۔ اس نے تو پیر نورانی کے آنے کو ود ود مبارک سمجھا۔ مگرہمسایہ میں ایک بدذات فتنہ پر وا زتھا۔ اس لئے بہت گھبرایا ۔ اور حیرت نے بادلا بنادیا۔ جب لوگ سو گئے ۔ تویہاں سے بھی نکلے۔ اور بے ٹھکانے نکلے۔ ہر چند فکر دوڑائے اور دل ٹھکانے کرکے ذہن لڑائے۔ کوئی جگہ سمجھ میںنہ آئی۔ ناچار دل ڈانو ڈول خاطر غم آلود۔ اسی امیر کے ڈیروں میں پھر آئے۔ عجب تر یہ کہ وہاں کے لوگوں کو ہمارے نکلنے کی خبر بھی نہ تھی ۔ خیر بے اس ۔ بے سہارے تھوڑی دیر حواس جمع کرکے بیٹھے۔ بڑے بھائی کی رائے ہوئی۔ کہ عقل کی رہنمائی نہ تھی ۔ وہم کی سر گردانی تھی ۔ جو یہاں سے نکلے تھے۔ ہر چند میںنے کہا۔ کہ اس کی حالت کا رنگ بدلنا اور نوکروں کاآنکھ پھیرنا صاف دلیل ہے ۔ مگراس کی سمجھ ہی میں نہ آیا۔ امیر مذکور کی بد مزگی بڑھتی جاتی تھی ۔ مگرکچھ ہو بھی نہ سکتا تھا۔ جب اس اوچھے تنگ ظرف دیوانہ مزاج نے دیکھا۔ کہ یہ قباحت کو نہیں سمجھتے ۔ اور خیمہ سے نہیں نکلتے ۔ تو روز روشن نہ بات کی نہ صلاھ کوچ کر گیا۔ پیسہ کے بندے نوکر چاکر اس کے۔ خیمہ اکھاڑ روانہ ہوئے۔ ہم تینوں میدان خاک پربیٹھے رہ گئے ۔ عجب حالت ہوئی۔ نہ جانے کو راہ نہ ٹھیرنے کو جگہ۔پاس اسپ فروشی کا بازار لگاتھا۔ نہ کوئی پردہ نہ کچھ اوٹ ۔ چار طرف یا تو دو رخے آشنا اور دشمنان صد رنگ تھے۔ یا ناواقف کرخت پیشانی یا بد عہد بے وفا دوڑتے پھرتے تھے۔ ہم دشت بے پناہ میں خاک بے چارگی پر بیٹھے۔ حال بد حال ۔ صورت پر اگندہ ۔زمانہ ڈراونا۔ غم واندوہ کے لمبے لمبے کوچوں میں خیالات ڈانوا ڈول پھرنے لگے۔ اب اٹھنے کے سوا چارہ کیا تھا۔ ناچار چلے ۔ بد اندیشوں کی بھیڑ میںبیچوں بیچ سے ہو کر نکلے ۔ حفاظت الہی نے ان کی آنکھوں پر پرد ہ ڈال دیا ۔ اسی پر توکل کیا۔ اس خطرگاہ سے باہر آئے۔ اب ہمراہی و مسا زی کی عمارت کو دریا برد کیا۔ بیگانوں کی ملامت اور آشناؤں کی صاحب سلامت کو سلام کر کے ایک باغیچہ میںپہنچے ۔ یہ چھوٹی سی جگہ بڑی پناہ کا گھر معلوم ہوا۔ گئے ہوش ٹھکانے آئے۔ اورعجب قوت حاصل ہوئی ۔مگرمعلوم ہوا۔ ادھر بھوتوں کا گزر رہے جاسوس اورانہوں نے پھرتے پھرتے تھک کر یہیں کہیںدم لیا ہے ۔ الہی پناہ ۔ دل پارہ پارہ ۔ حالت پریشان وہاں سے بھی نکلے۔ غرض جہاں جاتے تھے۔ بلائے ناگہانی ہی نظر آتی تھی۔ دم لیتے تھے۔ اوربھاگ نکلتے ۔ گھبراہٹ کی دوڑا دوڑ اوراندھوں کی بھاگا بھاگ تھی ۔ اس عالم میں ایک باغبان ملا۔ اس نے پہنچان لیا۔ ہم گھبرا گئے۔ او رایک سناٹے کاعالم ہوگیا۔ قریب تھا کہ دم نکل جائے۔ مگر اس سعادت مند نے بری تسلی دی ۔ اپنے گھر لایا۔ بیٹھ کر غم خواری کی۔ اگرچہ بھائی کا اب بھی ایک رنگ آتاتھا ۔ ایک جاتا تھا ۔ مگر میرا دل خوش ہوتا تھ ا۔ اورخوشی بڑھتی جاتی تھی۔ اس کی خوشامد سے دوستی کے ور ق پڑھ رہاتھا ۔ اور پیر نورانی کے خیالات خدا سے لو لگائے سجادہ معرفت پر ٹہل رہے تھے۔ اورنیر نگٹے تقدیر کا تماشا دیکھتے تھے۔ کچھ رات گئے پھر باغ والا آیا۔ اورشکایت کرنے لگا۔ کہ مجھ جیسے مخلص مققد کے ہوتے اس شورش گا ہ میں آپ کہاں رہے۔ او رمجھ سے کنارہ کیوں کیا؟ فی الحقیقت یہ بے چارہ جتنا نیک تھا۔ میرے قیاس میں اتنا نہ تلا تھا۔ ذرا دل شگفتہ ہوا میںنے کہا دیکھتے ہو۔ طوفان آیا ہوا ہے۔ یہی خیال ہوا۔ کہ ایسا نہ ہو دوستوں کو ہمارے سبب سے دشمنوں کا آزار پہنچے ۔ وہ بھی ذرا خوش ہوا۔ اورکہا اگر میرا کھنڈلا پسند نہیں تو ازر جگہ نکالتاہوں۔ پخنت ہوکر وہاںبیٹھو۔ ہم نے منظور کیا۔ وہاں جا اترے اور جیسا جی چاہتا تھا۔ ویسی ہی خلوت پائی گھر والوں کی بھی خاطر جمع ہوئی۔ کہ جیتے توہیں۔ ایک مہینے سے زیادہ اس آرام خانہ میںرہے ۔ یہاں سے آشنا یا باانصاف اور دوستان بااخلاص کو خط لکھے ۔ ہر شخص کوخبرہوئی۔ اور تدبیریں کرنے لگا ۔ ادھر بھائی نے ہمت کی کمرباندھی ۔ پہلے آگرہ اور وہاں سے فتح پور پہنچے کہ اردوے معلے میںجو دوست تدبیروں میں دلسوزی کر رہے ہیں انہیں اور گرمائیں۔ ایکدن صبح کا وقت تھا کہ محبت کا پتلا دور اندیش بھائی ہزاروں غم و اندوہ کو رفاقت میںلئے پہنچا زمانہ سنگدل کا پیام لایا کہ بزرگان دربار میں سے ایک شخص نے شیاطین کی افسانہ سازی کا حال سن کر مارے غصہ کے نیا ز مندی اور آداب کے نقاب منہ سے الٹ دینے تند اور سخت تقریر سے عرض کیا کہ حضور کیاآخری دور تمام ہوتا ہے ؟قیامت آگئی ؟ حضور کی بادشاہی میں بدکار بد دماغوں کو فراغتیں ہیں۔ اور نیک مردوں کو سرگردانی ۔ یہ کیا قانون چل رہاہے۔ اور کیسی خدا کی ناشکری کی ہے۔ بادشاہ نے نیک نیتی پر رحم کر کے فرمایا کس کا ذکر کرتے ہو؟ اور کس شخص سے تمہاری مراد ہے؟ خواب دیکھا ہے یادماغ عقل پریشان ہو رہا ہے۔ جب اس نے نام لیا تو حضرت اس کی کج فہمی پر بگڑے ۔ اور کہا کہ اکابران زمانہ نے اس کی دل آزاری اور جان کھونے پر کمر باندھ کر فتوے تیار کئے ہیں ۔ مجھے ایک دم چین نہیں دیتے اور میں جانتا ہوں کہ آج شیخ وہاں موجود ہے صا ف ہمارے مقام کا نام لے دیا۔ مگر جان کر انجان بنتا ہوں۔ک کسی کو کچھ کسی کو کچھ کہہ کر ٹال دیتا ہوں۔ تجھے خبر نہیں۔ یوں ہی بلا پڑتا ہے اورحد سے بڑھا جاتا ہے۔ صبح آدمی بھیج کر شیخ کو حاضر کرو اور علماء کا ہنگامہ جمع ہو۔ بڑے بھائی نے یہ شورش سنتے ہی راتوں رات یلغار کرکے اپنے تئیں ہمارے پاس پہنچایا۔ ہم نے پھر وہی بھیس بدلا۔ کسی کو خبر نہ کی اور آگرہ کوچل کھڑے ہوئے۔ مگرایسی پریشانی ہوئی کہ تمام ایام نحوست میںکبھی نہ ہوئی تھی ۔ اگرچہ کھل گیا تھا ۔ کہ لوگ کہاں تک ساتھ ہیں۔ اور داد گر شہر یار سے کیا کیا کہا ہے۔ اور غیب دان کو کتنی خبر ہے۔ لیکن پریشانی نے سخت بولا دیا کہ خدا جانے وقت پراؤنٹ کس کروٹ بیٹھے۔ پہلے موت کے منہ سے بھاگے جاتے تھے۔ کہ آفتاب نے دنیا کو نورستان کیا اب یہ عالم کہ بد گوہر اندھیر چیوں کا ہجوم ۔شہر کا رستہ ۔بد ذات جاسوسوں کا ہنگامہ یا رویا اورکوئی نہیں۔ اترنے کو جگہ نہیں۔ زبان فصیح لڑکھڑاتی جاتی ہے۔ زبان شگافتہ نرسل بے چارہ کیا لکھ سکے۔ گھبرائے بولائے۔ ایک ویران کھنڈر میںگھس گئے۔ شہر کے شور و شراد دشمنوں کی نظر سے ذرا آسودہ ہوئے۔ بادشاہ عالم کی نوازش کاحا ل معلوم ہوگیا تھا۔ سب کی رائے ہوئی کہ گھوڑوں کا سامان کریں۔ اور یہاں سے فتح پور سیکری کو چلیں۔ وہاں فلا نے شخص سے قدیمی صداقت کا سلسلہ ہے۔ انہیں کے گھر جابیٹھیں ۔ شاید کہ یہ غوغا تھم جائے۔ اور بادشاہ عنایت فرمائیں ۔ پھر دیکھ لینگے۔ غرض معقول لوگوں کی طرح سامان کر کے رات کو روانہ ہوئے۔ وہ حاسدوں کے خیالات سے بھی اندھیرے اور بکواسیوں کے افسانہ سے کہیں لمبے تھے۔ چلے جاتے تھے۔ راہبر کی بیوقوفی اور لج روی میں بھٹکتے بھٹکتے صبح ہوتی تھی ۔ کہ اس اندھیر خانہ میںپہنچے ۔ وہ نادان جگہ سے تو نہ پھسلا مگر ایسے ڈرا ونے ڈھکو سلے سنائے۔ کہ بیان نہیں ہوسکتے ۔ مہربانی کے رنگ میںکہا کہ اب وقت گذر گیا۔ اور بادشاہ کا مزاج تم سے برہم ہوگیا۔ پہلے آجاتے توکچھ صدمہ نہ پہنچا۔مشکل کام آسانی سے بن جاتا ۔ پا س ہی ایک گاؤں ہے۔ جب تک بادشاہ نوازش پر مائل ہوں۔ وہاں چند روز بسر کرو۔ گاڑی پر بٹھایا اورروانہ کر دیا۔ مصیبت د ر مصیبت پیش آئی۔ وہاں پہنچنے تو جس زمیندار کی امید پر بھیجا تھا وہ گھر میں نہ تھا۔ اس اجاڑ نگری میں جا اترے۔ مگر بیجا۔ وہاں کے داروغہ کو کوئی کاغذ پڑھوانا تھا۔ اس نے پیشانی سے دانائی کے آثار معلوم کر کے بلا بھیجا ۔ وقت تنگ تھا۔ ہم نے انکار کیا ۔ تھوڑی ہی دیر میں معلوم ہوا۔ کہ یہ گاؤں تو ایک سنگدل بد مغز کا ہے ۔ انہوں نے بے وقوفی کی کہ یہاں بھیجا ۔ ہزار۔ بے قراری اور غم واندود کے ساتھ جانوں کو وہاں سے نکالا۔ایک انجان سا رمیر ساتھ تھا ۔ بھولتے بھٹکتے آگرہ کے پاس ایک گاؤں میں آکر اترے کہ وہاں ایک گھر میںآشنائی کی بو آتی تھی ۔ اس دن کے راہ رستے لپیٹ سپیٹ کر تیس کوس راہ چلے ۔ وہ بھلا مانس بڑی مروتوں سے پیش آیا۔ مگرمعلوم ہوا کہ ایک جھگڑا لو جعلساز کی زمین وہاں ہے اور کبھی کبھی ادھر بھی آن نکلتا ہے ۔ آدھی رات تھی کہ اندوہناک دلوں کو لے کر یہاں سے بھی بھاگے ۔ صبح ہوتے شہر میں پہنچے ۔ ایک دوست کے گھر میں امن کا گوشہ پایا۔ نامرا دی کا خاکدان ۔ فراموشی کی خواجگاہ ۔ نااہلی بھوت نگر ۔ کم ظرفی کا کنج پورہ تھا۔ ذرا آرام سے دم لیا ۔ دم بھر نہ گذرا تھا ۔ کہ اس بے مروت خدا آزار۔ خود مطلب نے یہ متری چھوڑی۔ کہ ہمسایہ ایک فتنہ کا بد روزگار رہتا ہے۔ نئی بلا نظر آئی ۔ا ور عجب مصیبت نے شکل دکھائی ۔ پاؤں دوڑا دوڑ سے ۔ سر راتوں کے سفر سے کان گھڑیالوں سے ۔ آنکھیں بے خوابی سے فرسودہ ہوگئی تھیں۔ عجیب درد غم دل پر چھایا ۔ اوررنج کا پہاڑ چھاتی پر آن پڑا۔ سب کے فکر سوچ بچار میں لگے گئے ۔ صاحب خانہ ادھر ادھر جگہ ڈھونڈتاپھرے دو دن عجب کشاکش میںبسر ہوئے۔ ہر سانس یہی کہتا تھا کہ دم آخر ہوں۔ پیر نورانی کوایک سعادت مند کا خیال آیا۔ اور صاحب خانہ نے بڑی جستجو سے اس کا گھر نکالا۔ اتنی بات بھی ہزاروں سلامتی کے شادیانے تھے۔ اسی وقت اس کی خلوت گاہ میںپہنچے ۔ اس کی شگفتہ روی اورکشادہ پیشانی سے دل خوش ہو گیا۔ امیدوں کے گلبن پر کامیابی کی نسیم لہرانے لگی ۔ اورچہر ہ حال پر اور ہی شگفتگی آئی ۔ اگرچہ مرید دتھا۔ مگر سعادت کے ذخیرے بھرے ہوئے تھے۔ گمنامی میں نیک نامی سے جیتا تھا۔ کم مائیگی میں امیری سے رہتا تھا۔ تنگ دستی میں دریا دلی کرتا تھا۔ بڑھاپے میں جوانی کا چہرہ چمکاتا تھا۔ اس کے ہاں خلوت گاہ پسندیدہ ہاتھ آئی۔ تدبیریں ہونے لگیں۔ اورپھر خطوط بازی شروع ہوئی۔ اس آرام آباد میںد ومہینے ٹھیرے۔ بارے مقصود کا دروازہ کھلا۔ خیر اندیش حق طلب مدد کو اٹھ کھڑے ہوئے۔ اور کاروان اقبال مندیاوری کرنے کو بیٹھ گئے ۔ اول تو میل ملاپ کی میٹھی میٹھی باتوں سے فتنہ ساز ۔ حیلہ پرداز اورکھوٹے بداعمالوں کو پرچایا ۔ اورپتھروں کو موم کیا۔ پھر شیخ کے کمالات اور نیکیاں اورخوبیاں ایک خوبصورتی کے ساتھ حضور تک پہنچائیں۔ اورنگ نشین اقبال نے دور بینی اور قدر شناسی کی ر و سے جواب دئیے۔ کہ محبت سے لبریز تھے ۔ بزرگی ارمردم کے رستہ سے بلا بھیجا۔ میرا تو ان دنوں تعلق دنیا کی طرف سر جھکتا ہی نہ تھا ۔ پیر نورانی بڑ ے بھائی کو ساتھ لے کر دربارہمایوں میں گئے۔ رنگارنگ کی نوازشوں سے رتبے بڑھ ے۔ یہ دیکھتے ہی ناشکروں میںسناٹا ہوا۔ بھڑوں کا چھتا چپ چاپ ہوگیا۔ اورعالم کا تلاطم تھم گیا۔ در س کا ہنگامہ گرم ہوا۔ خلوت گاہ تقدس کی آئین بندی ہوئی۔ نیک مردوں کے قانون زمانہ نے جاری کئے۔ (ابو الفضل اس عالم میں کہتے ہیں) اے شب نہ کنی آں ہمہ پر خاش کر دوش دیدی چہ دراز بود دو شینہ شبم راز من چناں مکن فاش کہ دوش ہاںاے شب وصل آں چنا باش کر دوش حضرت دہلی کے شوق طواف نے پیر نورانی کا دامن کھینچا ۔ مجھے چند شاگردوں کے ساتھ لے گئے۔ جب سے آگرہ میںآکر بیٹھے تھے۔ اس گوشہ نورانی میں عالم معنی پر اس قدر خیال جما تھا۔ کہ عالم صورت پر نگاہ کی نوبت نہ آتی تھی ۔ یکبارگی عالم سفلی کے مطالعہ نے دل کا گریبان پکڑا۔ کہ خاندان کی ابوا لابائی تیرے نام رہی ۔ مجھ سے راز کی گٹھری کھولی کہ آج مجھے جا نما ز پر نیند آگئی۔ کچھ جاگتا تھا ۔ کچھ سوتا تھا۔ انوار سحری میں خواجہ قطب الدین اور شیخ نظام الدین اولیا خواب میںآئے۔ بہت سے بزرگ جمع ہوئے وہاں بزم مصالحت آراستہ ہوئی۔ اب عذر خواہی کے لیے ان کے مزاروں پر چلنا مناسب ہے ۔ کہ چند روز اس سر زمین میں ان کے طور پر مصروف رہیں۔ والد مرحوم اپنے بزرگوں کے طریقہ کے بموجب مسائل ظاہری کی بہت حفاظت کرتے تھے۔ طنبور وترانہ اصلانہ سننے تھے۔ حال قال جو صوفیوںمیںعام ہے۔ پسند نہ کرتے تھے۔ اس رنگ کے لوگوں کو مطعون کرتے تھے۔ خود بہت پرہیز کرتے تھے۔ اور سخت ممانعت فرماتے تھے۔ اس رنگ کے لوگوں کو مطعون کرتے تھے۔ خود بہت پرہیز کرتے تھے۔ اور سخت ممانعت فرماتے تھے۔ اور دوستوں کو روکتے تھے۔ ان بزرگوں نے اس رات اس پر یزادپرست کا دل لبھا لیا۔ یہ بھی سب کچھ سننے لگے ۔ بہت سے بزرگ اس گلزار زمین (دلی) میںپڑے سوتے تھے ان کی خاک پر گذر ہوا۔ دل پر نور کے طبقے کھل گئے اور فیض پہنچے۔ اگر اس سرگذشت کی تفصیل لکھوں تو دنیا کے لوگ کہانی سمجھنگے ۔ اور بدگمانی سے گنہگار کر ے گے ۔ یہاں تک کہ مجھے بھی زاویہ تجرد سے بارگاہ تعلق میں لے گئے۔ دولت کا دروازہ کھولا۔ اعزاز کا مرتبہ بلند ہوا۔ اور حرص کے متوالے حسد کے لوٹے مارے لوگ دیکھ کر بولا گئے۔ میرے دل کو درد اور ان کے حال پر رحم آیا۔ اور خدا سے عہد کیاکہ ان اندھوں کی زیاں کاریاں کا خیال دل سے بھلا دون۔ بلکہ اسکے عوض میںنیکی کے سوا کچھ خیال نہ کروں۔ توفیق آلاہی کی مدد سے اس خیال میں غالب رہا۔ مجھے عجیب خوشی اور سب کو اور ہی طاقت حاصل ہوئی۔ ان کی بلند پروازیاں تو دیکھ لیں۔ اب ملا صاحب کی بھی دو دو باتیں سن لو۔ کہ اتنے اونچے سے کس طرح نیچے پھینکے ہیں۔ چنانچہ فرماتے ہیں۔ جن دنوں میر حبش وغیرہ اہل بدعت (شیعہ) گرفتار اور قتل ہوئے۔ ان دنوں شیخ عبدالنبی صدر اورمخدوم وغیرہ تمام علماء نے متفق اللفظ و المعنے ہوکر عرض کی۔ کہ شیخ مبارک مہدوی بھی ہے۔ اور اہل بدعت (شیعہ) بھی ہے۔ گمراہ ہے اور گمراہ کرتا ہے۔ غرض برائے نام اجازت لے کر درپے ہوئے کہ بالکل رفع دفع کرکے کام تمام کردیں۔ محتسب کو بھیجا کہ شیخ کو گرفتار کر کے حاضر کرے ۔ شیخ بچوں سمیت روپوش ہوگیا تھا ۔ وہ ہاتھ نہ آیا ۔ اس لیے ان کی مسجد کا ممبر ہی توڑ ڈالا۔ شیخ سلیم چشتی ان دنوں جاہ وجلال کے اوج پر تھے ۔شیخ مبارک نے اول ان سے التجا کر کے شفاعت چاہی شیخ نے بعض خلفا کے ہاتھ کچھ خرچ اور پیغام بھیجا کہ یہاں سے تمہارا نکل جانا مصلحت ہے۔ گجرات چلے جاؤ۔ انہوں نے ناامید ہو کر مرزا عزیز کو کہ سے تو تسل نکالا۔ اس نے ان کی ملائی اور درویشی کی تعریف کی ۔ لڑکوں کی فضیلت کا حال بھی عرض کیا اور کہا کہ مرو متوکل ہے ۔ کوئی زمین حضور کے انعام کی نہیں کھاتا ایسے فقیر کو کیا ستانا؟ غرض مخلصی ہوگئی۔گھر آئے اور ویران مسجد کو آباد کیا۔ شیخ مبارک کا نصیبہ نحوست سے نکاح کئے بیٹھا تھا ۔ ۶۳ برس کی عمر مبار کی آئی اور انہیں دیکھ کر مسکرائی یعنی ۹۷۴ ھ میں شاعری کی سفارش سے فیضی دربار میںپہنچے ۔ ۹۸۱ ھ میں ابوالفضل جا کر میر منشی ہوگئے۔ اور جس عمر میں لوگ سترے بہترے کہلاتے ہیں۔ پیر نورانی جوانی کا سینہ ابھا ر کر اپنی مسجد میں چہل قدمی کرنے لگے ۔ اب اقبال وادبار کی کشتی دیکھو۔ کہ جوان عقلوں نے حریفوں کی بوڑھی تدبیروں کوکیونکر پچھاڑا۔ ادھر تو ابوالفضل اور فیضی کی لیاقتیں انہیں ہاتھوں ہاتھ آگے بڑھا رہی تھیں۔ اور مصلحت انہیں وہ رستے دکھاتی تھھی۔ کہ اکبر بلکہ زمانہ کہ دل پر ان کی دانائی کے نقش بیٹھ رہے تھے۔ ادھر شیخ الاسلام مخدوم الملک اور شیخ صدر سے ایسی باتیں ہونے لگیں جن سے خود بخود ہو ا بگڑ گئی ۔ اکبر کی قدر دانی اور جوہر شناسی سے دربار میں بہت عالم ہندوستان ایران و توران کے آکر جمع ہوگئے۔ چار ایوان کا عبد وتخانہ علم کا اکھاڑا تھا۔ راتوں کو علمی جلسے ہوا کرتے ۔ اکبر خود آکر شامل ہوتا ۔ علمی مسائل پیش ہوتے تھے اور دلائل کی کسوٹی پر کسے جاتے تھے۔ جو جو ایذا ئیں ان بزرگوں کے ہاتھوں باپ نے عمر بھر سہی تھے او انہوں نے بچپن میںد یکھی تھیں۔ وہ بھولی نہ تھیں۔ ا س لئے ہمیشہ گھات میں لگے رہتے تھے۔ اور حریفوں کی شکست کے لئے ہر مسئلہ میں دلائل فلسفی اور خیالات عقلی سے خلط بحث کر دیتے تھے۔ بوڑھوں کی بوڑھی عقلی اور بوڑھی تہذیب کو جوانوں کی جوان عقل او ر جوان تہذیب دبائے لیتی تھی ۔ اور بے اقبالی بڈھوں کا ہاتھ پکڑے ایسے رستوں پر لئے آجاتی تھی ۔جس سے خود گر پڑتے تھے۔ اسے شیخ مبارک کی دور اندیشی کہو۔ خواہ علو ہمت سمجھو۔ یہ بڑی نادانی کی۔ کہ باوجود بیٹوں کے علو اقتدار او رکمال جاہ و جلال کے آپ دربار کی کوئی خدمت نہ لی۔ مگر عقل کے پتلے تھے۔ کبھی کبھی صلاح مشورے کے لئے۔ کبھی کسی مسئلہ کی تحقیق کے لئے ۔ اور اکبر کو خود بھی علمی مباحثوں کے سننے کا شوق تھا۔ غرض کوئی نہ کوئی ایسی صورت پیدا کرتے تھے۔ کہ اکبر جہاں ہوتا وہیں خود شیخ مبارک کو بلایا کرتا تھا۔ پیر نورانی نہایت شگفتہ بیان اور خوش صحبت تھا۔ اس کی رنگین طبیعت دربار بھی خوشبواور خوش رنگ پھول برسایا کرتی تھی۔ بادشاہ بھی اسکی باتیں سن کر خوش ہوتا تھا۔ شیخ کسی فتح عظیم یا شادی یا عید وغیر ہ کی مبارکباد پر ضرور آتے تھے۔ اور تہنیت کی رسم ادا کر کے رخصت ہوتے تھے۔ جب ۹۸۱ ھ میں اکبر گجرات فتح کرکے آئے تو بموجب رسم قدیم کے تمام عمائد اور روسا مشائخ و علما مبارکباد کو حاضر ہوئے۔ شیخ مبارک بھی آئے۔ اور ظرافت زبان کی قیچی سے یہ پھول کترے۔ ۔ سب لوگ حضور کو مبارکباد دینے آئے ہیں۔ مگرعالم غیب سے میرے دل پر یہ مضمون ٹپکا رہے ہیں کہ حضور چاہیے ہمیں مبارکباد دیں۔ کیونکہ خداوند عالم نے ہمیں دوبارہ سعادت عظمے عطا فرمائی ۔ یعنے حضور کا جوہر مقدس ۔ حضور نے ایک ملک مارا تو حقیقت کیا ہے۔ اگرچہ بڑھاپے کا ناز تھا ۔ مگر یہ انداز اکبر کو بہت پسند آیا۔ اعزاز کے ساتھ رخصت کیا۔ اور اکثر اس نکتہ کو یاد کیا کرتے تھے۔ نقیب خاں خلوت کی صحبت میں تاریخی اور علمی کتابیں پڑھ کر سنایا کرتے تھے۔اکثر حیوۃ الحیوان بھی پڑھی جاتی تھی ۔ اس کی عبارت عربی تھی ۔ معنے سمجھانے پڑھتے تھے۔ک اس لئے ابوالفضل کو حکم دیا اور شیخ مبارک نے فارسی میں ترجمہ کیا۔ کہ اب بھی موجود ہے۔ اکبر کو علمی تحقیقاتوں کا شوق تھا۔ اور اس کے لیے زبان عربی کا جاننا ضروری ہے۔ اس لئے خیال ہوا کہ عربی زبان حاصل کرے۔ لڑکوں نے کہا ہوگا کہ ہمارے شیخ کو جو پڑھانے کا ڈھب ہے۔ وہ ان مسجدی ملانوں میں سے کسی کو نصیب نہیں۔ باتوںباتوں میں کتابیں دل میں اتار دیتے ہیں۔ شیخ مبارک بلائے گئے۔ فیضی انہیں ساتھ لے کر حاضر ہوئے اور صرف ہوائی شروع کی۔ اس صحبت میں فیضی نے یہ بھی عرضی کی ۔ کہ شیخ ماتکلف اصلا۱؎ ندارد۔ اکبر نے کہا ۔ آرے تکلفات راہمہ برشما گذاشتہ اند چند روز کے بعد ہجوم تعلقات سے وہ شوق جاتارہا۔ اور شیخ کا آناوہی اتفاقی تقریبوں پر رہے گا ۔ کبھی کبھی آتے اور حکمت فلسفہ ۔ تاریخ نقل حکایات ۔ غرض اپنی شگفتہ بیانی سے بادشاہ کو خوش کر جاتے۔ شیخ کو علم موسیقی میںمہارت تھی ۔ ایک دفعہ بادشاہ سے اس امر میں گفتگو آئی۔ بادشاہ نے کہا کہ س فن کا جو سامان ہم نے بہم پہنچایا ہے ۔ تمہیں دکھا ئینگے ۔ چنانچہ شیخ منجو ۔ اور تانسین وغیرہ چند کلا ومتوں کو بلا بھیجا کہ شیخ کے گھر جاکر اپنا کمال دکھائیں۔ شیخ نے سب کو سنا ۔ اور تانسین وغیرہ چند کلاومتوں میتوانی گفت ۔ آخر سب کو سن کر کہا۔ کہ جانوروں کی طرح کچھ بھائیں بھائیں کرتا ہے۔ اس کے حریفوں کا چلتا حربہ یہی تھا۔ کہ شریعت کہ زور آور فتووں کی فوج سے سب کو دبا لیا کرتے تھے ۔ اور جسے چاہتے تھے۔ ۔ احکام اسلام کو ہر مسلمان سر آنکھوں پر لیتا ہے ۔ لیکن بعض موقع کسی پابندی کو سہار نہیں سکتے ۔ اکبر دل میں دق ہوتا تھا ۔ مگر جس طرح ہوتا انہیں سے گذراہ کرتا تھا۔ حیران تھا کہ کیا کرے۔ جن دنوں شیخ صدر نے ایک متھرا برہمن کوشوالہ اور مسجد کے مقدمہ میں قتل کیا۔ انہی دنوں میں شیخ مبارک بھی کسی مبارکباد ی کی تقریب سے حضور میںآئے۔ ان سے بھی اکبر نے بعض بعض مسئلے بیان کئے اور اہل اجتہاد کے سبب سے جو جو دقتیں پیش آتی تھیں۔ وہ بھی بیان کیں۔ شیخ مبارک نے کہا۔ کہ بادشاہ عادل خود مجتہد ہے۔ مسئلہ اختلافی میںبہ مناسبت وقت جو حضور مصلحت دیکھیں۔ حکم فرمائیں۔ ان لوگوں نے شہرت بے اصل سے ہوا باندھ رکھی ہے۔ اندر کچھ بھی نہیں ہے۔ آپ کو ان سے پوچھنے کی حاجت کیا ہے اکبر نے کہا کہ ہر گاہ شما استاد ماباشید و سبق پیش شما خواندہ باشیم۔ چرامارا از منت ایں ملایاں خلاص نمے سازید۔آخر سب جزئیات و کلیات پر نظر کرکے تجویز ٹھہری کہ ایک تحریر آیتوں اورروایتوں کو اسناد سے لکھی جائے۔ جس کا خلاصہ یہ کہ امام عادل کو جائز ہے ۔ کہ اختلافی مسئلہ میںاپنی راے کے بموجب وہ جانب اختیار کرے جو اس کے نزدیک مناسب وقت ہو۔ اور علما و مجتہدین کی رائے پر اس کی رائے کو ترجیح ہو سکتی ہے۔ ۱؎ اس سے یہ مطلب ہو گا کہ جو آداب و تعظیم کے الفاظ اور قواعد دربار میں مقرر ہوگئے تھے۔ اگر شیخ بجا نہ لائے تو بادشاہ کو ناگوارنہ گذرے۔ اور شیخ جس طرح اپنے جلسہ احباب میںبیٹھ کر باتیں کرتے ہیں۔ اسی طرح بادشاہ کے سامنے باتیں کرتے ہیں۔ چنانچہ مسودہ اس کا خود شیخ مبارک نے کیا۔ اگرچہ اصل مطلب انہی اشخاص سے تھا جو احکام اور مہمات سلطنت میں سنگ راہ ہو ا کرتے تھے۔ مگر علماء و فضلاء قاضی القضات مفتی اوربڑے بڑے عالم جن کے فتووں کو مہمات خلائق میں بڑی بڑی تاثیریں تھیں۔ سب بلائے گئے کہ اس پر مہریں کر دیں۔ زمانہ کے انقلاب کو دیکھو! آج شیخ مبارک صدر محفل میں بیٹھے تھے۔ حریف ان کے طلب ہوئے تھے عوام الناس کی صف میں آ کر بیٹھ گئے۔ اور جبراًً قہراً مہریں کر کے چلے گئے محضر مذکور کی بینہ نقل یہ ہے ۔ نقل محضر مقصود از تشئید ایں مبانی و تمہید ایں معانی انکہ چوں ہندوستان صنت عن الحدثان بمیامن معدلت سلطانی و تربیت جہاں بانی مرکز بانی مرکز من و امان و دائرہ عدل و احسان شدہ ۔ طوائف انام از خواص و عام خصوصاً علمائے عرفاں شعار و فضلائے وقائق آثار کہ ہادیان بادیہ نجات و سالکان مسالک اوتو العلم درجات انداز عرب و عجم روبدیں دیار نہادہ توطن اختیار نمودند۔ جمہور علمائے فحول کہ جامع فروغ و اول وحاوئیے معقول و منقول امذ۔ و بدین و دیانت و یانت الصاف دارند۔ بعد از تدبیر وافی و تامل کافی در غوامض معانی آیہ کریمیہ اطیعو اللہ و اطیعو الرسول واولی الامرمنکم و احادیث صحیح ان احب الناس الی اللہ یوم القیامۃ امام عدل من یطع الامیر فقد اطاعنی و سن بعض الامیر نقد عصانی و غیرذلک من الشواھد العقلیہ والد لاثل النقلیہ قراردادہ حکم نمودند کہ مرتبہ سلطان ععادل عنداللہ زیادہ ز مرتبہ مجتہدا ست حضرت سلطان الاسلام کہف الانام امیر المومنین ظل اللہ علی العالمین ابوالفتح جلال الدین محمد اکبر شاہ بادشاہ غازی خلد اللہ ملکہ ابداً عدل واعلم واعقل باللہ اند بنا بریں اگرود مسائل دین کہ بین المجتہدین مختلف فیہا است بذہن صائب و فکر ثاقت خود یک جانب را ا ز اختلافات جہت تسہیل معیشت بنی آدم و مصلحت انتظام عالم اختیار نمودہ بہ آں جانب حکم فرمانند متفق علیہ یشود و اتباع آں برعموم برایاو کافہ رعایا لازم و مستحتم است و ایضاً اگر بموجب رائے صواب نمائے خود حکمے را از احکام قرار د ہند کہ مخالف نصے نباشد و سبب ترفیہ عالمیان بودہ باشد عمل برآں نمودن برہمہ کس لازم و متحتم است و مخالف آں موجب سخط اخروی و خسران دینی و دنیوی و ایں مسطور صدق و فور حسبتہً للہ اظہار الاجرائے حقوق الاسلام بمحضر علمائے دین و فقہائے مہدیین تحریریافت دکان ذالک فی شہر جب سنہ ۹۸۷ھ سبع و ثمانین و تسعماتہ ۔ فاضل بداوئنی نے یہ بھی لکھا ہے کہ اگرچہ عالمان مذکور میں سے یہ صورت کسی کو گوارا نہ تھی مگر دربار میں بلائے گئے۔ ارو بری طرح لائے گئے۔ جبراً قہراً دستخط کرنے پرے۔ عوام الناس میں لا کر بٹھا دیا۔ کسی نے تعظیم بھی نہ کی۔ اور شیخ مبارک نے کہ اعلم علمائے زمان تھا خوشی خوشی دستخط کر کے اتنا زیادہ لکھا کہ ایں امریست کہ من بجان و دل خواہان و ازسالہائے باز نتظر آں بودم۔ پھر شیخ صدر اور ملائے مخدوم کا جو حال ہوا۔ ان کے حالات میں معلوم ہو گا۔ دیکھو اور خدا سے پناہ مانگو۔ ملا صاحب علما کے سلسلہ میں لکھتے ہیں شیخ مبارک زمانہ کے علماء کبار میں سے ہیں ۔ اور صلاح و تقوے میں ابنائے زمان اور خلائق دوران سے ممتاز ۔ اس کے حالات عجیب و غریب ہیں چنانچہ ابتدا میں ریاضت اور بہت مجاہدہ کیا۔ امر معروف و نہی منکر میں اس قدر کوشش کی تھی کہ اگر اس کی مجلس وعظ میں کوئی سونے کی انگوٹھی یا اطلس یا لال موزے یا سرخ زرد کپڑ ے پہن کر آتا تو اسی وقت اتروا دیتا ۔ ازار بند بڑیوں کے نیچے ہوتی تو اتنی پھڑوا ڈالتا۔ راہ چلتے کہیں گانے کی آواز آتی تو بڑھ کر نکل جاتا۔ آخر حال میں ایسا گانے کا عاشق ہو ا کہ ایک دم بغیر آواز یا گیت یا راگ یا از کے آرام نہ تھا۔ غرض مختلف رستوں کا چلنے والا تھا اورانواع و اقسام کے رنگ بدلنتا تھا۔ افغانوں کے عہد میں شیخ علائی کی صحبت میں تھا۔ اوائل عہد اکبری میں نقشبند یہ کا زور تھا۔ تو اس سلسلہ سے لڑی ملا دی تھی چند روز مشائخ ہمدانیہ میں شامل ہو گیا ۔ اخیر دنوں میں دربار پر ایرانی چھا گئے تھے تو ان کے رنگ میں باتیں کرتا تھا۔ اسی طرح اورسمجھ لوگو یا تکلمو ا الناس علی قدر عقو لھم پر ا س کا عمل تھا بہرحلا ہمیشہ علوم دینیہ کا درس رکھتا شعر معما اور فنون اور تمام فضائل پر حاوی تھا۔ برخلاف علمائے ہند ک خاص علم تصوف کو خوب سمجھتا تھا شاطبی علم قرات میں نوک زبان پر تھی۔ اور ا س طرح اس کا سبق پڑھاتا تھا کہ جو حق ہے۔ قرآن مجید دس قراتوں سے یاد کیا تھا۔ بادشاہوں کے دربار میں کبھی نہ گیا۔ باجود ان سب باتوں کے نہایت خوش صحبت تھا۔ نقل و حکایات اور واقعات دلچسپ کے بیان سے صحبت اور درس کو گلزار کر دیتا تھا۔ کہ احباب کا ا سکے جلدہ کو اور شاگردوں کا سبق چھوڑنے کو دل نہ چاہتا تھا۔ اخیر عمر میں آنکھوںسے معذور ہو گیا تھا اور درس و تدریس بھی چھوڑ دی تھی ۔ مگر علم الہیات کی تصنیف چلی جاتی تھی۔ اس عالم میں ایک تفسیر شروع کی۔ وہ کتاب چار ضخیم جلدوں میںاس قدر مبسوط اور مفصل ہوئی کہ جسے امام فخر الدین رازیکی تفسیر کا ہم پلہ سمجھنا چاہیے۔ اور مطالب و مضامین بھی انواع و اقسام کی تحقیقوں کے ساتھ درج تھے۔ منبع نفائس العلوم ا س کا نام رکھا اورعجیب بات یہ ہے کہ اس کے دیباچہ میں ایسے ایسے مطلب لکھے ہیں کہ ان سے دعوے مددی اورنئی صدی کی بو آتی ہے اور جو تجدید تھی وہ تو معلوم ہی ہے (یعنی دین الہی اکبر شاہی) جن دنوں میں تفسیر مذکور تمام کی ہے ابن فارض کا قصیدہ تئیہ کہ سات سو شعر کا ہے اوار قصیدہ بردہ اور قصیدہ کعب ابن زہیر اور بزرگوں کے قصائد و ظائف کے طور پر حفظ پڑھا جاتا ہے یہاں تک ہ ذی القعد سنہ ۱۰۰۰ھ کو اس جہان سے گزر گیا۔ ا سکا معاملہ خدا کے حوالے باوجود اس کے کوئی ملا ا سجامعیت کے ساتھ آج تک نظر نہیں آیا۔ مگر حیف ہے کہ حب دنیا اور جاہ و حشمت کی نحوست سے فقر کے لباس میں دین اسلام کے ساتھ کہیں ملاپ نہ رکھا۔ آگرہ میں آغاز جوانی میں میںنے بھی کئی برس ا س کی ملازمت میں سبق پڑھے تھے الحق صاحب حق عظیم ہے ۔ مگر بعض امور دنیا داری اور بے دینی کے سبب سے اوراس لیے کہ مال و جاہ اور زمانہ سازی اور مکروفریب اور تغیر مذہب و ملت میں ڈوب گیا۔ جو سابقہ تھا صلا نہ رہا۔ قل انا وایا کم لعلی ھدے او فی ضلال مبین کہدے کہ تم اور ہم راہ پر ہیں یا گمراہ ہیں(کون جانتا ہے) عوام الناس کی بات ہے۔ کہ ایک بیٹا باپ پر لعنت کرتا ہے اور رفتہ رفتہ قدم آگے بڑھای اوغیرہ وغیرہ آگے جو کچھ ملا صاحب نے لکھ دیا ہے میں لکھنا جائز نہیں سمجھتا۔ ملا صاحب کی سینہ زوریاں دیکھو بھلا بیٹا ماں یا باپ سے کہہ سکتا ہے کہ جائو ہمارا تمہارا سابقہ نہ رہا؟ اور اس کے کہنے سے ماں باپ کے حقوق سارے اڑ جائیں گے ؟ کبھی نہیں جب یہ نہیں تو استاد کے حق کیونکر مٹ سکتے ہیں اچھا جو معلومات قابلیت اور فہم و دراک کی استعداد ا س کی تعلیم سے حاصل ہوئی ہے۔ سب کی ایک پوٹلی باندھ کر اس کے حوالہ کر دو۔ اور آپ جیسے ول روز گھر سے اس کے پاس آئے تھے۔ ویسے ہی کورے رہ جائو ۔ پھر ہم بھی کہہ دیں گے کہ آپ کا تعلق اس سے کچھ نہ رہا۔ اور جب یہ نہیں ہو سکتا تو تمہارے دو حرف کہہ دینے سے کب چھٹکارا ہو سکتا ہے۔ شیخ مبارک نے کیا خطا کی ۔ برسوں لکھایا پڑھایا۔ ایسا عالم بنایا کہ علمائے وقت سے کلہ بکلہ گفتگوئیں کر کے سب کی گردنیں دبانے لگے۔ اس عالم میں بھی جب کوئی مصیبت آتی تو فوراً سینہ سپر ہو کر مدد کو حاضر ہوگئے اس پر ان کا یہ حال ہے کہ جہاں نام یاد آ جاتا ہے ایک نہ ایک الزام لگا جات ہیں ۔ یعنی اپنی تاریخ میں علمائے عصر کی شکایت کرتے کرتے کہتے ہیں شیخ مبارک نے خلوت بادشاہی میں بیر بر سے کہا۔ کہ جس طرح تمہارے ہاں کتابوں میں تحریفیں ہیں اسی طرح ہمار ے ہاں بھی ہیں قابل اعتبار نہیں رہیں اگر حق پوچھو تو اس بیچارے نے کیا جھوٹ کہا ۔ مگر ان کی قسمت اوروں کی باتیں اس سے ہزار من وزنی ہوتی ہیں۔ انہیںان کی حماقت یا ظرافت میں ڈال کر ٹال دیتے ہیں ان کے مہ سے یہ بات نکلی اور کفر ۔ ابوالفضل خود لکھتے ہیں رایات اقبال (لشکر اکبری) لاہور میں آئے ہوء یتھے اور مصالح ملکی کے سبب سے ٹھیرنا پڑا تھا۔ اس پیر حقیقت (والد ماجد ) کی جدائی سے دل بے قرار تھا۔ سال جلوس ۳۲ سنہ ۹۹۵ھ تھے میں نے التجا کی کہ یہیں تشریف لائیے۔ صورت و معنی کے واقف حال (والد موصوف )نے عرض قبول کی ۔ ۶ رجب کو تشریف لائے ۔ یہاں گوشہ و حدت میں خوشی کا افزائش دیتے تھے اب سب کام چھوڑ دیے تھے ۔ حال کا روزنامچہ لکھ کر نفس ابو البدائع کی زینت میں وقت گزارتے تھے۔ علوم ظاہری پر توجہ کم ہوتی تھی۔ذات و صفات پروردگار میں گفتگو فرماتے تھے اور عبرت کا سرمایہ لیتے تھے۔ دریائے آزادی کے کنارہ پر بیٹھے رہتے تھے۔ اور بے نیازی کا دامن پکڑے تھے۔ کہ مزاج قدسی اعتدال بدنی سے متغیر ہوا ایسی بیمار ی اکثر ہوتی تھی دفعتہ سفر واپسیں سے آگاہی ہوئی مجھ بے حواس کو بلایا اور ہوش افزا باتیں زبان سے نکلیں رخصت کے لوازمات ظاہر ہونے لگے ہمیشہ پردہ میں باتیں ہوتی تھیں۔ میرے دل کا جس پر اسرار قدرت کے صاحب ہونے کا بھروسا تھا یہ عالم ہوا کہ خون جگر کے گھونٹ گلے سے اترنے لگے۔ بڑی بے قراری سے کچھ اپنے تئیں سنبھالا۔ اور اسی پیشوائے ملک تقدس نے زور معنوی لگایا جب تھما سات دن بعد کمال آگاہی اور عین حضور ی میں ۱۷ ذیقعد سنہ ۱۰۰۱ھ تھی کہ ریاض قدس کو ٹہلتے چلتے گئے۔ ملک شناسائی کا سورج چھپ گیا۔ عقل ایزدشناس کی آنکھ جاتی رہی۔ دانائی کی کمر خم ہو گئی۔ دانش کا وقت اخیر ہو گیا۔ مشتری نے چادر سر سے پھینک دی عطارد نے قلم توڑ ڈالا۔ رفت آنکہ فلسوف جہاں بود بردلش درہائے آسمان معانی کشودہ بود بے اویتیم و مردہ دل اندا قربائے او گو آدم قبیلہ و عیسی دودہ بود ملا صاحب نے شیخ کامل تاریخ کہی۔ شیخ فیضی نے فخر المکمل اور اسی شہر لاہور میں امانت رکھا۔ لطیفہ ملائے موصوف اس واقعہ کی کیفیت ادا فرماتے ہیں اسی سال میں ۱۷ ذیقعد کو شیخ مبارک دناا دنیا سے تشریف لے گئے بیٹوں نے ماتم میں سروابرو کو منڈوا دیا اور ڈاڑھی مونچھ سے جا ملایا۔ اس چار ضرب کی تاریخ شریعت جدید ہوئی۔ شیخ ابوالفضل خود اکبر نامہ کے سنہ ۱۰۰۲ھ میں لکھتے ہیں بادشاہ لاہور میں آئے ہوئے تھے اس نگارنامہ کا میناکار (بندہ ابوالفضل)فضل آباد میں پدر گرامی ار مادر بزرگوار کی خوابگاہ پر گیا فرمایا تھا اس لیے دونوں برگزیدگان الہی کے نقش آگرہ کو روانہ کیے۔ وہاں اپنے پرانے ٹھکانے میں آرام کیا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱؎ دیکھو آئین اکبری کا خاتمہ۔ اکبر نامہ میں لکھتے ہیں کہ گردن میں ایک پھوڑا نکلا تھا ۱۱ دن میں کام تمام ہو گیا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شیخ مرحوم نے آٹھ بیٹے چھوڑے ۔ ابوالفضل نے اکبر نامہ کے خاتمہ میں خدا کی ۳۲ عنائتیں اپنے حال پر لکھی ہیں۔ ان یں سے چوبیسویں یہ کہ بھائی دانش آموز‘ سعادت گزیں‘ رضا جو‘ نیکو کار عطا کیے دیکھنا ایک ایک کو کس کس سانچے میں ڈھالتے ہیں۔ (۱) بڑے بھائی کا کیا حال لکھوں باوجود ایسے کمالات ظاہری و باطنی کے میری خوشی بغیر بڑھ کر قدم نہ اٹھاتا تھا۔ اپنے تئیں میری رضا کا وقف کر کے تسلیم میں ثابت قدم رہتا تھا۔ اپنی تصانیف میں مجھے اور وہ کچھ کہا ہے جس کا شکریہ میری طاقت سے باہر ہے چنانچہ ایک قصیدہ فخریہ میں فرمایا ہے ۔ جائیکہ از بلندی و پستی سخن رود از آسماں بلند تر از خاک کمترم با ایں چنیں پدر کہ نوشتم مکارمش درفضل مفتخرز گرامی برادرم برہان علم و فضل ابوالفضل گزدمش دارد زمانہ مغز معانی معطرم صد سالہ رہ میان من و اوست در کمال در عمر گرازو دو سہ سالے فزوں ترم در چشم باغباں نشود قدر اس بلند گراز درخت گل گزرو شاخ عرعرم اس کی (فیضی بھائی کی)ولادت سنہ ۹۵ھ میں ہوئی تھی۔ تعریف کس زبان سے لکھوں ۔ اسی کتاب میں کچھ لکھ کر دل کی بھڑاس نکالی ہے۔ آتشکدہ کو آب بیان سے بجھایا ہے ۔ سیلاب کا بند توڑا ہے ۔ اور بے صبری کا مرد میدان بنا ہوں۔ اس کی تصنیفات گویائی اور بینائی کے ترازو اور مرغان نغمہ سرا کا مرغزار ہیں۔ وہی اس کی تعریف کر لیں گے۔ اور کمال کی خبر دیں گے۔ خصائل و عادات کی یاد دلائیں گے۔ (۲) شیخ ابوالفضل نے اپنی تصویر کو جس رنگ میں نکالا ہے ان کے ہی حال میں دکھائوں گا اس محراب میں نہ سجے گی۔ (۳) شیخ ابوالبرکات اس کی ولادت ۱۷ شوال سنہ ۹۶۰ھ میں ہوئی علم و آگاہی کا اعلیٰ ذخیرہ نہیں جمع کیا۔ پھر بھی بڑا حصہ پایا ۔ معاملہ دانی شمشیر آرائی کارشناسی میں پیش قدم گنا جاتا ہے نیک ذاتی درویش پرستی اور خیر عام میں سب سے بڑھا ہوا ہے۔ (۴) شیخ ابوالخیر ۲ جمادی الاول سنہ ۹۶۷ھ کو پیدا ہوا۔ اخلاق کی بزرگیاں اور اشرافوں کی خوبیاں اس کی خوے ستودہ ہے زمانہ کے مزاج کو خو ب پہچانتا ہے اور زبان کو اس طرح قابو میں رکھتا ہے جس طرح اور اعضا کو (کم سخن ہے) شیخ ابوالفضل کے رقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ انہیں سب بھائیوں میں ان سے تعلق خاص تھا۔ ان کی سرکار کے کاغذات اسی بھائی کے حوالے تھے۔ کتب خانہ بھی اسی کے سپرد تھا۔ اکثر احباب کے خطوط میں فرمائشوں اور ضروری کاموں کا شیخ ابوالخیر پر حوالہ دیتے ہیں۔ (۵) شیخ ابوالمکارم۔ پیر کی رات ۲۳ شوال سنہ ۹۷۶ھ کو پید اہوا۔ ذرا جنوں میں آ جاتا تھا پدر بزرگوار زور باطن سے پکڑ کر درستی کے رستہ پر لاتے تھے۔ معقول و منقول اسی دانا ئے رموز انفس و آفاق کے سامنے ادا کیے ۔ حکمائے سلف کے پرانے تذکرے کچھ کچھ میر فتح اللہ شیرازی کی شاگردی میںپڑھے دل میں دستہ ہے امید ہے کہ ساحل مقصود پر کامیاب ہو گا۔ (۶) شیخ ابوتراب ۲۳ ذی الحجیہ سنہ ۹۸۸ کو پیدا ہوا۔ اس کی ماں اور ہے مگر سعادت کی خورجین بھر کر لایاہے۔ اور کسب کمالات میں مشغول ہے۔ (۷) شیخ ابو حامد ۲ ربیع الآخر سنہ ۱۰۰۲ھ کو پیدا ہوا اور (۸) شیخ ابو راشد پیر غرہ جمادی الاولے کو اسی سنہ میں پیدا ہوا۔یہ دونوں لونڈی کے پیٹ سے تھے لیکن اصالت کے آثار پیشانی پر چمکتے ہیں پیر نورانی نے ان کے آنے کی خبر دی تھی نام بھی رکھ دیے تھے ان کے ظہور سے پہلے اسباب سفر باندھا خدا سے امید ہے کہ ان کے انفاس گرامی کی برکت سے دولت خوشی نصیبی کے ساتھ ہم نشین ہوں ۔ کہ رنگ رنگ کی نیکیاں جمع ہوں بڑے بھائی (فیضی) نے تو ہستی کا اسباب باندھا اور عالم کو غم میں ڈالا۔ امید ہے کہ اور پھلے پھولے نو نہالوں کو خوشی کامرانی اور سعادت دوجہانی کے ساتھ خدا عمر دراز کرے اور صورت و معنی دینی اور دنیاوی نیکیوں سے سربلندی کرے۔ مختلف تاریخوںسے جو جابجا پتے گرتے ہیں تو چار بیٹیاں بھی شمار میں آتی ہیں۔ ان میں سے ایک عفیفہ کے حال میں ملا صاحب سنہ ۹۹۸ھ میں فرماتے ہیں ان دونوں میں خداوند خاں دکنی رافضی کہ شیخ ابوالفضل کی بہن حسب الحکم اس کے نکاح میں آئی تھی ولایت گجرات میں قصبہ کری جاگیر پاکیرو ہیں دوزخ ٹھکانے پہنچا۔ دوسری کی شادی میر حسام الدین سے ہوئی۔ یہ غازیخاں بدخشی کے بیٹے تھے باپ کے بعد ہزاری منصب نصیب ہوا ۔ اور دکن بھیجے گئیے۔ خان خاناں کا دربار دریائے قدرت تھا۔ دنیا موتی رولتی تھی۔ ان سے تو دو پشت کی آشنائی تھی۔ یہ بھی غوطے لگانے لگے ۔ مگر عین شباب میں محبت الٰہی کا جذبہ پید اہوا۔ خانخاناں سے کہا کہ ترک دنیا کا ارادہ دل پر چھا گیا ہے ۔ درخواست کرو ں گا تو منظور ہو گی۔ میں دیوانہ ہو جاتا ہوں آپ حضور میں لکھ کر مجھے دلی بھیجی دیجیے کہ جوعمر باقی ہے۔ سلطان المشائخ کے مزار پر بیٹھ کر گزار دوں۔ خانخاناں نے منتیں کر کے روکا کہ یہ دیوانگی ہزار فرزانگی سے افضل ہے۔ مگر ملتوی رکھتی چاہیے۔ نہ مانا۔ دوسرے دن کپڑے پھاڑ کر پھینک دیے کیچڑ مٹی بدن کو ملی اورکوچہ و بازار میں پھرنے لگے بادشاہ کو عرضی ہوئی۔ وہاں سے دلی کی رخصت حاصل ہو گئی ۔ ۳ برس کمال زہد اور پرہیز گار ی میں وہیں گزار دیے علم سے بے بہرہ کامل رکھتے تھے مگر سب کو آپ فراموشی سے دھو کر تلاوت قرآن مجید اور ذکر الٰہی میں مصروف ہو گئے۔ شاہ باقی اللہ جن کا وطن سمرقند اور ولات کابل میں ہوئی تھی۔ اور مزار اب بھی قدم شریف کے رستہ کو آباد کرتا ہے ۔ اس وقت زندہ تھے۔ چنانچہ ان سے ہدایت حاصل کی سنہ ۱۰۴۳ھ میں انتقال ہوا۔ پاک دامن بی بی نے شوہر ک اشارے پر تمام زروزیور فقراء مساکین کو بانٹ کر آلائش دنیا سے دامن پاک کیا تھا۔ جب تک جیتی رہی ۱۲ ہزار روے سال خانقاہ کے خرچ کے لیے بھیجتی رہی۔ تیسری راجہ علی خاں حاکم خاندیس کے بیٹے سے بیاہی اس کا بیٹا صفدر خاں سنہ ۴۵ جلو س میں ہزار ی منصب دار ہوا۔ چوتھی لاڈلی بیگم اس کی شادی اعتقاد الدولہ اسلام خاں شیخ علاء الدین چشتی سے ہوئی تھی۔ کہ شیخ سلیم چشتی کے پوتے تھے۔ اور حسن اخلاق اور خصائل مرضیہ کے سبب سے خاندان کی برکت تھے۔ جہانگیر تخت نشین ہوا تو انہیں اسلام خان خطاب پنجہزاری منصب اور بہار کا صوبہ عنایت ہوا کہ کوکلتاش کا رشتہ ملا ہوا تھا۔ سنہ ۳ جلوس میں بنگالہ بھی مرحمت ہوا۔ باوجودیکہ اکبر کے عہد میں ملک مذکور پر لاکھوں آدمیوں کے خون بہے تھے۔ پھر بھی پٹھانوں کی کھرچن کناروں میں لگی پڑی تھی۔ ان میں عثمان خاں قتلو لوہانی کا بیٹا تھا۔ کہ اب تک اس کی جڑ نہ اکھڑی تھی۔ شیخ نے خونریز لڑائیوں سے اس کا استیصال کیا۔ چنانچہ سنہ ۶ جلوس میں شش ہزاری منصب سے اعزاز پایا۔ اور سنہ ۱۰۲۲ھ میں دنیا سے کوچ کر کے فتح پور سیکری میں کہ بزرگو ں کا مدفن تھا خواب آرام کیا۔ ان کی سخاوت اور دریا دلی کے حالات دیکھ کر عقل حیران ہوتی ہے ۔ اپنے دستر خوان خاص کے علاوہ ایک ہزار طبق طعام اور اس کے لوازمات ملازموں کے لیے ہوتے تھے۔ گراں بہا زیور اور قیمتی کپڑوں کے خوان نوکر لیے کھڑے رہتے۔ جس کی قسمت ہوتی وہ انعام بھی دیتے تھے جھروکہ درشن دیوان عام۔ دیوان خاص وغیرہ مکانات دربار کہ لوازم سلاطین ہیں۔ انہوںنے بھی آراستہ کیے تھے۔ ہاتھی بھی اسی طرح لڑاتے تھے ۔ باوجود یکہ نہایت متقی پرہیز گار تھے کسی قسسم کا نشہ یا امر ممنوع عمل میں نہ لاتے تھے۔ لیکن کل بنگالہ کی کنچنیاں نوکر تھیں۔ اسی ہزار روپیہ مہیہ جس کا ۹ لاکھ ۶۰ ہزار روپیہ سال ہوا فقط ان کی تنخواہ کی رقم تھی۔ باوجود اس کے کہ اپنے لباس میں ذرا تکلف نہ کرتے تھے۔ دستار کے نیچے موٹے کپڑے کی ٹوپی اور قبا کے نیچے ویسا ہی کرتا پہنے رہتے تھے۔ دستر خوان پر ا کے سامنے پہلے مکئی اور باجرے کی روٹی ساگ کی بھجیا اور سٹھی چاولوں کا خشکہ آتا تھا۔ لیکن ہمت و سخاوت میں حاتم کو مات کرتے تھے ۔ جب بنگالہ مٰں تھے تو ۱۲۰۰ ہاتھی اپنے منصب داروں اور ملازموں کو دیے۔ ۲۰ ہزار سوار و پیادے فرقہ شیخ زادہ سے نوکر تھے۔ اکرام خاں ہوشگ بیٹا لاڈلی بیگم سے تھا۔ یہ دکن میں تعینات تھا پھر اسیر کا تعلقہ مل گیا۔ شیر خان ننور کی بیٹی اس سے بیاہی تھی۔ مزاج موافق نہ آیا۔ اس کے بھائی بہن کو لے گئے حقیقت میں مزاج اور ظالم طبع تھا ۔ شاہجہان کے عہد میں کسی سبب سے معزول ہو کر دوہزاری کے منصب سے گرا نقدی مقرر ہو گء فتح پورسیکری میں دادا کی قبر کے متولی ہو کر بیٹھ گئے۔ آگرہ میں اکبر کے روضہ کو س بھر مشرق کو ایک مقبرہ ہے۔ کہ لاڈلی کا روضہ کہلاتا ہے۔ وہاں کے کہن سال لوگ کہتے ہیں۔ کہ پہلے اس کے گرد بڑا احاطہ اور عالیشان دروازہ تھا۔ اندر کئی قبریں تھیں مگر کتابہ کسی پر نہ تھا ایک پر تعویز سنگ مرمر کا تھا۔ گرد فتح پور کے سنگ سرخ کی دیوار تھی۔ بیل صاحب مفتاح التاریخ میں کہتے ہیں ۔ کہ شیخ مبارک فیضی اور ابوالفضل یہیں دفن ہیں لیکن ابوالفضل نے خود آئین اکبری میں لکھا ہے کہ بابر نے جو جمنا کے اس پار چار باغ یادگار آباد کیا ہے۔ اس شگرف نامہ کا نقاش وہیں پیدا ہوا ہے ۔ والد اور بڑا بھائی وہاں سوتے ہیں۔ شیخ علاء الدین مجذوف اور میر رفیع الدی صفوی اور بہت سے کار آگاہ بھی وہیں آرام کرتے ہیں خیر مردہ بدست زندہ ہے۔ وہاں سے اٹھا کر یہاں رکھ دیا ہوگا ۔ اب پتا نہیںلگتا۔ کہ بوسیدہ ہڈیاں کب منتقل ہوئیں اور کس نے کیں ہاں عالیشان دروازہ کا کتابہ بہ آواز بلند پکارتا ہے کہ شیخ یہاں ہیں۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم و بہ ثقتی ھذہ الروضۃ للعالم الربانی والعارف الصمدانی جامع العلوم شیخ مبارک قدس سرہ قدوقف بنیانہ بحر العلوم شیخ ابوالفضل سلم اللہ تعالیٰ فی ظل رولۃ الملک العادل یطلبہ المدد لا قبال والکرم جلال الدین والدنیا اکبر بادشاہ غازی خلد اللہ تعالیٰ ظلال سلطنتہ باھتمام حضرت ابی البرکات فی سنۃ اربع والف لطیفہ سبحان اللہ یا پیر نورانی ۹۰ برس کی عمر ۔ وہ وہ اوصاف کمالات۔ آنکھوں سے معذور ماشاء اللہ اتنے بیٹے بیٹیاں۔ اور ان کے بھی بیٹے بیٹیاں۔ ا س پر تمہاری ہمت ۔ چلتے چلتے کرامات چھوڑ گئے۔ اور ایک نہیں دو دو ۔ ٭٭٭ اختتام۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔حصہ دوئم Darbar-E-Akbari دربار اکبری مصنف شمس العلماء مولانا محمد حسین آزاد حصہ سوئم ابو الفیض فیضی فیاضی سنہ ۹۵۴ھ میں جبکہ ہندوستان کی سلطنت سلیم شاہ کی سلامتی میں متفکر تھی۔ شیخ مبارک شہر آگرہ میں چار باغ کے پاس رہتے تھے۔ کہ نہال امید میں پہلا پھول کھلا۔ اقبال پکارا کہ مراد کا پھل لائے گا کامیاب ہو گا۔ اور کامیابی پھیلائے گا۔ ابوالفیض اس کا نام ہے۔ معصوم بچہ باپ کی نحوست کے سایہ میں پلا۔ وہ افلاس کی خشک سالی اٹھاتا۔ عداوت عدا کے کانٹے کھاتا جوانی کی بہار کو پہنچا۔ لیکن ایک لحاظ سے ان دنوں کو بھی اقبال کے دن سمجھو کہ عمر کے ساتھ اس کی فضیلت اور کمالات بھی جوان ہوتے گئے۔ اس کی مصیبتوں کی داتان اس کے باپ کے حال میں سن چکے ہیں۔ اور اکثر دلچسپ حالات ابوالفضل کے بیان میں دیکھو گے۔ اس نے علم و فضل کا سرمایہ باپ سے پایا ۔ اور علو عقلی و نقلی جو ایشیا میں مروج تھے ان میں مہارت حاصل کی۔ مگر فن شعر میں جو کمال دکھایا وہی ثابت کرتا ہے کہ فیخی کا دل و دماغ فیضان قدرت سے شاداب تھا۔ اور ملک الشعراء اپنی شاعری ساتھ لے کر آیا تھا۔ باپ اگرچہ شاعر نہ تھا۔ لیکن ہمہ دان فاضل تھا بیٹے کے کلام کو دیکھتا تھا۔ اسے نکتہ نکتہ سے آگاہ کرتا تھا۔ زبان کو فصاحت کی چاٹ لگاتا تھا۔ اور اس سے رموز سخن کے سرچشمے کھولتا تھا فن طب کو حاصل کیا مگر اس سے فائدہ فقط اتنا لیا کہ بندگان خدا کو معالجہ سے فیض پہنچاتا تھا۔ اور کچھ اجرت نہ لیتا تھا۔ جب ہاتھ میں زیادہ رسائی ہوی تو دوا بھی اپنے پاس سے دینے لگا۔ جب خدا نے دستگاہ بڑھائی اور فرصت نے تنگی کی تو رفاہ کی نظر سے ایک شفاخانہ بنوا دیا۔ ان باپ بیٹوں کے حال قادر مطلق کی قدرت نمائی کا ایک عمدہ نمونہ ہیں۔ جبکہ دشمنوں کا اخیر حملہ ان پر طوفان نوح کی طرح گزر گیا۔ اور وہ صحیح سلامت نکلے۔ تو خدا کا شکر بجا لائے اس میں اکبر اور نیک اندیش نیت کا حال بھی معلوم ہوا۔ اور زمانہ کا رنگ دربار کی حالت کے ساتھ بدلتا نظر آیا۔ بڈھا فاضل اپنے لٹے گھر اور گری ہوئی مسجد میں آ کر بیٹھا۔ ٹوٹے پھوٹے ممبر پر چراغ رکھ کر درس و تدریس کا دروازہ کھول دیا۔ او ر تعلیم ہدایت کے جلسے پھر گرم ہو گئے۔ وہ دیکھتا تھا کہ باداہ فضل و کمال کا طالب ہے۔ اور اہل دانش اور باتدبیر لوگوں کو ڈھونڈتا ہے۔ جو اشخاص اس سلسلہ میں نامزد ہوتے ہیں دربار میں پہنچ کر معزز مقام پاتے ہیں۔ اس کا کمال اپنے بازوے پرواز کو دیکھتا ہے اور رہ جاتا تھا۔ مگر آفرین ہے غیور ہمت اور بے نیاز دل کو کہ امراء کے دروازوں کی طرف نہ جھکتا تھا۔ شیخ فیضی جس کا آئے دن صدموں نے قافیہ تنگ کر رکھا تھا۔ اب اس کی طبیعت بھی ذرا کھلنے لگی تھی شاخ طبع سے جو پھول جھڑتے تھے ان کی مہک میدان عالم میں پھیل کر دربار تک پہنچنے لگی۔ سنہ ۹۷۴ھ میں بادشاہی لشکر نے چتوڑ پر علم اٹھائے تھے۔ جو کسی تقریب سے دربار میں اس کا ذکر ہوا کمال کے جوہری کو جواہر کے شوق نے ایسا بے قرار کیا کہ فوراً طلب فرمایا۔ دشمن بھی لگئے ہی ہوئے تھے۔ انہوں نے اسس حسن طلب کو طلبی عتاب کے پیرایہ میں ظاہر کیا۔ اور حاکم آگرہ کے نام لکھا کہ فوراً گھر سے بلائو اور سواروں کے ساتھ روانہ کر دو۔ کچھ رات گئی تھی۔ کہ چند ترکوں نے آ کر گھر پر غل مچایا انہیں کیا خبر تھی کہ ہم بادشاہ کے شوق کا گلدستہ لینے آئے ہیں۔ یا مجرم کو پکڑنے کو آئے ہیں۔ دشمنوں نے بہادران شاہی کا بہکا دیا تھا۔ کہ شیخ بیٹے کو چھپائے رکھے گا۔ اور حیلے حوالے کرے گا۔ ڈراوے اور دھمکاوے کے بغیر نہ دے گا۔ اتفاقاً فیضی باغ میں سیر کو گئے تھے اور اہل حسد کاسارا مطلب یہ تھا کہ وہ در کر بھاگ جائے گا۔ کچھ نہ ہو تو شیخ اور اسس کے عیال تھوڑی دیر پریشای وسرگردانی میں تو رہیں شیخ کو خبر ہوئی اس نے بے تکلف کہ ہدیا کہ گھر میں نہیں ہے سپاہی ازبک بے عقل نہ خود کسی کی سمجھیں نہ کوئی ان کی سمجھے۔ اس پر بادشاہی حکم اور شیطانون کا دل میں وسوسہ ڈالا ہوا قریب تھا کہ خناوں کا وسواس سچ کا روپ بدل کر فتنہ برپا کر دے اتنے میں فیضی بھی آن پہنچے۔ بیحیا بے شرم شرمندہ ہو گئے۔ آمدنی کے رستے بند تھے۔ سفر کا سامان کہاں بارے شاگردوں اور اہل ارادت کی سعی سے یہ مشکل بھی آسان ہو گئی ۔ اور رات ہی کو فیضی روانہ ہوئے۔ گھر اور گھرانے کے لوگ غم میں ڈوب گئے۔ کہ دیکھیے اب کیا ہوتا ہے کئی دن کے بعد خبر پہنچی۔ کہ خسرو آفاق نے غریب نوازی فرمائی ہے کچھ خطر کا مقام نہیں ہے۔ فیضی بادشاہ کے سامنے حاضر ہوئے تو حضور بس بارگاہ میں تھے۔ اس کے گرد جالی کا کٹہرا تھا اہیں باہر کھڑا کیا۔ یہ سمجھے کہ اس طرح کلام کا مزہ نہ آئے گا اسی وقت قطعہ پڑھا قطعہ بادشاہا درون پنجر دام از سر لطف خود مراجادہ زانکہ من طوطئی شکر خایم جائے طوطی درون پنجرہ بہ اکبر اس حاضر کلامی سے بہت خوش ہوا اور پاس آنے کی اجازت دی ۔ جو قصیدہ اول دربار میں پڑھا اس کا مطلع یہ ہے : سحر نوید رساں قاصد سلیمانی رسید ہمچو سعادت کشادہ پیشانی تین کم دو سو شعر ہیں۔ اور ہر شعر سے کمال شاعری کے ساتھ فضیلت اور فلسفہ حکمت کے فوارے جاری ہیں۔ اور چونکہ رستے میں کہا ہے اور موقع وقت سامنے ہے۔ اس لیے اکثر مناسب حال مضمون نہایت خوبصورتی سے ادا ہوئے ہیں چنانچہ بادشاہ سواروں کے پہنچنے پر جو گھر میں گھبراہٹ پڑی اور اپن طبیعت کو جو اضطراب ہوا اس وقت کی پریشانی اور بے قراری کی حالتیں عجیب عجیب رنگ سے دکھائی ہیں اور جہاں موقع پایا ہے دشمنوں کے منہ میں بھی تھوڑی تھوڑی خاک بھردی ہے۔ ازاں زماں چہ نویسم کہ بود بے آرام سفینہ دلم از موج خیز طوفانی گہے چو وہم سراسیمہ کز کدام دلیل برم ظنون و شکوک از علوم ایقانی چرابود متخالف رسوم اسلامی چرابود متشابہ حروف فرقانی زباں کشیدہ بدارا القضائے عجب و ریا شہود کذب زدعوے گران ایمانی اگر حقیقت اسلام در جہاں انیست ہزار خندہ کفر است بر مسلمانی وہ بلند خیال شاعر کہ ایک شگفتہ مزاج عالم تھا۔ اپنی شگفتہ بیانی اور دانش خداداد اور فرح دانی کی بدولت نہایت کم عرصہ میں درجہ مصاحبت تک پہنچ گیا۔ اور چند ہی روز میں ایسا ہو گیا۔ کہ مقام ہو یا سفر کسی عالم میں بادشاہ کو اس کی جدائی گوارا نہ تھی اس نے اعلیٰ درجہ کا اعتبار پید اکیا۔ ابوالفضل بھی دربار میں بلائے گئے۔ اور یہ عالم ہوا۔ ہ مہمات سلطنت میں کوئی بات بغیر ان کی صلا ح کے نہ ہوتی تھی فیضی نے کوئی ملکی و مالی خدمت نہیںلی۔ اورایسا ہو بھی نہیں سکتا تھا کیونکہ ادھر ہاتھ ڈالتا تو پہلے شاعری سے ہاتھ اٹھاتا ۔ لیکن ملک و مال کے جزوی جزوی معاملے اس کی صلاح پر منحصر تھے۔ ایک پرانی کتاب میرے ہاتھ آئی اس کے دیباچہ سے معلوم ہوا کہ اس وقت ہندوستان کے بادشاہ دفتروں کے کاغذ ہندو ملازم ہندی اصول کے بموجب رکھتے تھے۔ ولایتی ہوتے تھے ۔ تو انے طور پر لکھتے تھے ۔ اور اس سے دفتر شاہ میں عجب خلط ملط ہو رہا تھا۔ اکبر کے حکم سے نو ڈر مل فیضٰ میر فتح اللہ شیرازی۔ نظام الدین بکشی حکیم ابوالفتح حکیم ہمام مل کر بیٹھے اور کاغذات دفتر کے لیے قواعد و ضوابط باندھے اسی کے ضمن میں حساب کے قواعد بھی لکھے گئے۔ کہ سب محاسب ایک طور پر عمل درآمد کریں اور تحریروں میں اختلاف نہ ہو۔ جو شاہزادہ پڑھنے کے قابل ہوتا تھا اکبر اس کی استادی سے فیضی کو اعزاز دیتا تھا۔ کہ تعلیم و تربیت کرو چنانچہ سلیم مراد دانیلال سب اس کے شاگرد تھے اور اسے بھی اس امر کا بڑا فخر تھا۔ اپنی ہر تحریر میں دو باتوں کا شکر درگاہ الٰہی میں بجا لاتا ہے۔ اول یہ کہ درگاہ شہنشاہ میں قربت ہوئی ۔ دوسرے شاہزادوں کی استادی سے اعزاز پایا۔ مگر بار بار ہزار عجز و انکسار سے کہتا ہے کہ ان کے دل روشن پر سب کچھ روشن ہے۔ مجھے آتا کیا ہے جو انہیں سکھائوں میں ان سے آپ آداب اقبال کا سبق لیتا ہوں۔ نظر غور سے دیکھو ان کے اور ان کے حریفوں کی معرکہ آرائی کے انداز اور آئین جنگ بالکل ایک دوسرے کے خلاف تھے۔ حریف کہتے تھے۔ کہ سلطنت شریعت کے تابع ہے۔ ہم صاحب شریعت ہیں اس واسطے صاحب سلطنت کو واجب ہے۔ کہ جو کچھ کرے ہماری اجازت بغیر نہ کرے اور جب تک ہمارا فتویٰ ہاتھ میں ہے تب تک سلطنت کو ایک قدم بڑھانا جائز نہیں اس کے مقابل مین ان کا دستور العمل یہ تھا۔ کہ صاحب سلطنت خدا کا نائب ہے۔ جو کچھ وہ کرتا ہے عین مصلحت ہے اور مصلحت ملکی ہے وہی شریعت ہے ہم کو ہر حال میں اس کا اتباع اور اطاعت واجب ہے جو وہ سمجھتا ہے ہم نہیں سمجھتے جو وہ حکم کرے ا س کا بجا لانا ہمارا فخر ہے نہ کہ اس کا حکم ہمارے فتویٰ کا محتاج ہے۔ آزاد آج کل کے روشن دماغ کہتے ہیں کہ دونوں بھائی حد سے زیادہ خوشامدی تھے۔ درست ہے ان لوگوں کے سامنے بجلی چمکتی ہے مگر پیچھے بالکل اندھیرا ہے۔ انہیں کیا خبر ہے۔ کہ موقع وقت کیا تھا اور ان کا میدان کیسے پرانے پرزور اور جنگ آزمودہ دشمنوں سے بھرا ہوا تھا یہی آئین جنگ اوریہی توپ و تفنگ تھے جنہوںنے ایسے حریفوں پر فتحیاب کیا۔ ایک امن امان کی حکومت ہے جیسے محفل تصویر اس میں بیٹھ کر جو چاہیں باتیں بنائیں۔ نئی سلطنت کا بنانا اور اپنے حسب مطلب بنانا اورپرانی جڑوں کو زمین کی تہہ سے نکالنا انہیںلوگوں کا کام تھا جو کر گئے خوشامد کیا آسان بات ہے پہلے کوئی کرنی تو سیکھے۔ سنہ ۹۹۰ھ میں آگرہ کالپی کالخبر کی تحقیقات معافی کے لیے صدر الصدور کی مسند پر بیٹھے۔ سلاطین چغتائیہ میں ملک الشعراء کا خطاب سب سے اول غزالی شہیدی کو ملا ہے۔ اس کے بعد شیخ فیضی کو ملا ہے۔ یہ خطاب بھی اس نے اپنی درخواست سے نہ لیا تھا۔ اس کوا علیٰ درجے کی قربت اور اقتدار حاصل تھا مگر اس نے کسی منصب یا حکومت کی ہوس نہ کی۔ ملک سخن کی حکمرانی خدا سے لایا تھا۔ اسی پر قانع رہا اور یہ کچھ تھوڑی نعمت تو نہیں تھی ۔ اکبرنامہ میں شیخ ابوالفضل نے لکھا ہے کہ سنہ ۹۹۶ھ میں یہ خطاب ہوا اتفاق سے یہ دو تین دن پہلے شگفتگی طبع نے ایک قصیدہ کے اشعار میں رنگ دکھایا ہے۔ آں روز کہ فیض عام کردند تاکار سخن تمام کردند مارا ملک الکلام کردند از بہر صعود فکرت ما مارا بہ تمام در ربودند آرائش ہفت بام کردند اکبر اس کو اور اس کے مرصع کلام کو بہت عزیز سمجھتا تھا۔ بلکہ اس کی بات بات کو خلعت اور دربار کا سنگار جانتا تھا وہ یہ بھی جانتا تھا کہ دونوں بھائی ہر خدمت کو ایسی سنجیدگی اور خوبصورتی سے بجا لات ہیں کہ جو اس کے لیے مناسب ہے ۔ اس سے بھی بہتر درجہ پر پہنچا دیتے ہیں اور ہر کام کو جانفشانی سے اور دلی عرق ریزی سے بجا لاتے ہیں۔ اسی واسطے سے انہیں اپنی ذات سے وابستہ سمجھتا تھا۔ اور بہت خاطر داری اور دلداری سے کام لیتا تھا۔ فیضی کو کچھ فرمائش کی تھی۔ یہ حضور میں کھڑے لکھ رہے تھے۔ اکبر چپ تھا اور ان کی طرف کن انکھیوں سے دیکھتا جاتا تھا۔ بیربر بھی بڑے منہ چڑھے ہوئے تھے۔ انہوںنے کچھ بات کی اکبر نے آنکھ سے منع کیا۔ ارو کہا حرف مزنید شیخ جیو چیزے مینولیسد۔ اس فقرے سے اور وقت اخیر کی گفتگو سے معلو م ہوتا ہے کہ بادشاہ انہیں شیخ جیو(شیخ جی) کہا کرتا تھا۔ اکبر کو آرزو تھی کہ کل ہندوستان میرے زیر قلم ہو۔ اور سلاطین دکن ہمیشہ آزاد رہنا چاہتے تھے۔ اور اکثر آزاد رہتے تھے۔ چغتائیہ کے انداز حکومت میں بھی کچھ اور تھے ۔ اہل دکن کو پسند نہ تھے اور وہ اس طرح کی اطاعت کو بڑی بے عزتی سمجھتے تھے کہ سکہ خطبہ بحالی برطرفی تبدیلی عطیہ وغیرہ میں کسی کے حکم کے تابع ہوں ان کی صورت حال ایسی تھی کہ ان باتوں کو کھلم کھلا اکبر بھی نہ کہہ سکتا تھا۔ چنانچہ کبھی نامہ و پیغام بھیجتا تھا کبھی انہیں آپس میں لڑوا دیتا تھا کبھی حدود دکن پر کسی امیر کو بھیج کر خود ہی لڑائی ڈال دیتا تھا۔ انہی میں برہان الملک فرمانروا ئے احمد نگر تھا کہ اپنے ملک ے تباہ ہوکر دربار اکبری میں حاضر ہوا ۔ چند روز یہاں رہا ۔ انہوںنے روپے اور سامان سے مدد کی ۔ اور راجی علی خاں حاکم خدندیس کو بھی فرمان سفارشی لکھا۔ چنانچہ اس کی یاوری سے اپنے ملک پر قابض ہوا۔مگر جب حکومت حاصل ہوئی۔ توجو اہیںامیدیں تھیں وہ پوری نہ ہوئیں۔ اب اراادہ ہوا کہ فوج کشی کریں لیکن یہ بھی ان کا آئین تھا۔ کہ جہاں تک ممکن ہوتا تھا دوستی اور محبت سے کام نکالتے تھے۔ چونکہ وہاں حاکم شاہانہ زور رکھتے تھے ارو سکہ خطبہ بھی اپنے نام کا رکھتے تھے اس لیے سنہ ۹۹۹ھ میں ایک ایک امیر دانا کو ہر ایک کے پاس بھیجا راجہ علی خان حاکم خاندی کی سفارت شیخ کے سپرد ہوئی۔ برہان الملک کی فرمائش امین الدین کے نام ہوئی شیخ ابوالفضل کی تجویز سے یہ قرار پایا کہ راجہ علی خاں کے کام سے فارغ ہو کر شیخ فیضی اور امین الدین برہان الملک کے پاس جائیں اور حقیقت میں راجہ علی خاں ملک دکن کی کنجی تھا۔ اور امارت موروثی عمر کی درازی عقل و تدبیر دولت و افر جمعیت نے سپاہ نے اس کی کوشش کو ملک مذکور میں بڑی تاثیر دی تھی میں نے فیضی کی وہ عرض داشتیں دیکھی ہیں جو ا س نے وہاں پہنچ کر اکبر کو لکھی تھیں۔ ان سے رسوم زمانہ کے قانون اور اکبری دربار کے بہت سے آئین و آداب روشن ہوتے ہیں ۔ اور ان آداب و آئین کا باندھنے والا کون ہے یہی آئین بند تھے کہ ارسطو او سکندر کو آئینہ گر ی سکھاتے ہیں۔ عرایض مذکورہ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس خدمت سے جو اعتبار اور اعزاز کا عالی منصب تھا ہرگز خوش نہ تھا وہ اپنے آقا کی حضور کا عاشق تھا۔ چنانچہ حرف حرف سے افسوس جدائی اور اشتیاق مجرائی ٹپکتا ہے۔ عرضی ایک رپورٹ ہے جو اصل مقام اور رستہ کے جزوی حالات سے اطلاع دیتی ہے میں یہاں صرف اس صورت حال کا ترجمہ لکھتا ہوں۔ کہ کس طرح راجی علی خان کو فرمان شاہنشاہی دیا اور خلعت پہنایا۔ اور خان مذکور کس طرح پیش آیا فیضی لکھتے ہیں۔ فدوی نے خیمے اور سراپردے سے اس شان سے ترتیب دیے تھے جیسے بندگان عالم پناہ کے لیے شایان ہوتے ہیں۔ سراپردوں کے دو درجے کیے تھے۔ دوسرے درجے میں تخت عالی سجایا تھا۔ تمام زربفت لپیٹ دیا تھا۔ اوپر مخمل زرباف کا شامیانہ تانا تھا۔ تخت پر شمشیر بادشاہی خلعت خاصہ اور فرمان عالی رکھا تھا امرائے موجودہ تخت کے گرد بآداب شائستہ ترتیب سے کھڑے تھے۔ انعامی گھوڑے بھی آئین مناسب کے سامنے تھے رای علی خاں اپنے ارکین اور وکلائے حکام دکن کو ساتھ لے آئے ان آداب و قواعد کے ساتھ آیا۔ جو کہ بندگی اور دولت خواہی کے لیے لازم ہیں دوسر سے پیارہ ہوا۔ جو سراپردہ پہلے درجہ تھا۔ اس میں بڑے بڑے ادب سے داخل ہوا۔ اور اپنے ہمراہیوں کو لے کر آگے بڑھا۔ دوسرے سراپردہ میں پہنچا۔ دور سے تخت عالی دکھائی دیا اور تسلیم بجا لایا ار ننگے پائوں ہوا۔ تھوڑی دور چلا تھا کہ کہا گیا یہاں ٹھہر جائو اور تین تسلیمیں بجا لائو نہایت آداب سے تین تسلیمیں ادا کیں اور وہیں ٹھہرا رہا۔ تب بندہ نے فرمان معلے کو دونوں ہاتھوں پر لے کر اسے ذرا آگے بلایا اورکہا کہ بندگان عالی حضرت ظل الٰہی نے کمال عنایت اور بندہ نوازی سے تمہیں دو فرمان بھیجے ہیں۔ ایک یہ ہے کہ اس نے فرمان دونوں ہاتھو ں میں لیا۔ ادب سے سر پر رکھا اور پھر تین تسلیمیں کیں بعد ازاں میں نے کہا کہ دوسرا فرمان میں ہوں۔ پھر تسلیم بجا لایا۔ تب میں نے کہا کہ حضور نے خلعت خاصہ عنایت فرمایا ہے تسلیم بجا لایا اور پہنا۔ اسی طرح تلوار کے لیے تسلیم کی۔ جب حضور کے حرف عنایت کا نام آتا تھا۔ تسلیمیں بجا لاتا تھا۔ پھر اس نے کہا برسوں ہوئے آرزو ہے کہ بیٹھ کر تم سے باتیںکروں۔ یہ فقرہ اس نے کمال شوق سے کہا تھا۔ اس لیے میں نے کہا کہ بیٹھیے۔ ادب سے میرے سامنے بیٹھ گیا۔ بندہ نے مناسب وقت حکمت آمیز حقیقت آئین مطالب بیان کیے۔ کہ جو ا سکے قیام سعادت کی رہنمائی کریں۔ ان سب کا خلاصہ اوصاف الطاف اور جاہ و جلال بندگان حضور کے تھے۔ اس نے عرض کی حضرت کا بندہ دولتخواہ ہوں انہی کا بنایا ہوا ہوں انہی کا نظر یافتہ ہوں حضرت کی خوشی چاہتا ہوں اور عنایت کا امیدوار ہوں میں نے کہا حضرت کی عنایت تم پر بہت ہے تمہیں اپنوں کی نگاہ سے دیھتے ہیں۔ اوربندہ خاص سمجھتے ہیں ۔ اس سے زیادہ دلیل اس کی کیا ہو گی کہ مجھ ایسے غلام خاص کو تمہارے پاس بھیجا متواتر تسلیمیں بجا لایا اور خوش ہوا۔ اس عرصہ میں دو دفعہ اٹھنے کو اشارہ کیا۔ اس نے کہا۔ اس صحبت سے سیری نہیںہوتی دل چاہتا ہے شام تک بیٹھا رہوں۔ چار پانچ گھڑی بیٹھا خاتمہ مجلس پر پان اور خوشبو حاضر ہوئی مجھ سے کہا کہ تم اپنے ہاتھ سے دو۔ میں نے کئی بیڑے اپنے ہاتھ سے دیے بڑی تعظیموں سے لیے۔ پھر کہا گیا کہ بندگان حضرت کے دوام دولت کے لیے فاتحہ پڑھو نہایت ادب سے فاتحہ پڑھی پھر کمال تواضع سے لب فرش کے پاس تخت کے سامنے کھڑا ہوا۔ بادشاہی گھوڑے حاضر تھے۔ باگ ڈور کو چوم کر کمندھے پر رکھ لیا اور تسلیم کی۔ شاہزادہ عالمیان کے گھوڑوں کی باگ ڈوروں کو بھی کندھے پر رکھ کر تسلیم کی شاہزادہ عالمیان شاہ مراد کا گھوڑا لائے۔ تو اس کی باگ ڈور گلے میں لپیٹ کر تسلیمیں کیں اور رخصت ہوا۔ بندہ کے آدمی گن رہے تھے کل پچیس تسلیمیں کیں۔ بہت کشادہ پیشانی تھا۔ اور خوش تھا پہلی تسلیم پر مجھ سے کہا کہ فرمائیے تو حضرت کے لیے ہزار سجدے کروں۔ میں نے اپنی جان حضرت پر فدا کر دی ہے۔ فدوی نے کہا کہ تمہارے اخلاص و ارادت کے لیے تو یہی شایاں ہے۔ مگر سجدہ کے لیے حضرت نے حکم نہیں۔ خاصاں درگاہ اپنے جوش اخلاص کے مارے سجدہ میں سر جھکا دیتے ہیں۔ تو حضرت منع فرماتے ہیں۔ کہ یہ درگاہ خدا ہی کے واسطے ہے۔ ایک برس ۸ مہینے اور ۱۴ دن میں دونوں سفارتوں کا سرانجام کر کے سنہ ۱۰۰۱ھ میں حضور میں حاضر ہوئے تعجب ہے کہ برہان الملک پر ان کا جادو نہ چلا۔ بلکہ جو پیشکش بھیجے وہ بھی مناسب حال نہ تھے۔ راجہ علی خاں تجربہ کار بڈھے تھے ۔ انہوںنے اعلیٰ درجے کے تحائف و نفائس عریضہ کے ساتھ بھیجے۔ اوربہت سے عجز و انکسار کے مضمون ادا کیے ۔ یہاں تک کہ شاہانہ چیزوں کے ساتھ بیتے بھی سلیم کیلیے بھیج دیے۔ یہاں آ کر پھر وہ مصاحبت وہی گرم جوشیاں وہی دربار داریاں شاعری پھول برساتی تھی۔ غور تصنیف کان سے جواہر نکالتی تھی۔ مگراس سفر سے آ کر زندگی کا طور کچھ اور ہو گیا تھا۔ اکثر خاموش رہتے تھے۔ اسی عالم میں بادشاہ کی تحریک سے خمسہ پر پھر ہاتھ ڈالا۔ تفسیر وغیرہ کتابیں بھی اخیر ہی میں نکالیں ۔ انہیں دیکھ کر عقل حیران ہوتی ہے۔ کہ یہ کرتے کیا تھے؟ آٹھ پہر کے دن رات کے تو یہ کام نہیں۔ سنہ ۱۰۰۳ھ کے اخیر میں طبیعت بے لطف ہوئی ضیق النفس دہ تنگ کرنے لگا۔ ۴ مہینے پہلے دق ہر کر یہ رباعی زبان سے نکلی۔ رباعی دیدی کہ فلک بمن چہ نیرنگی کرد مرغ دلم از قفس بد آہنگی کرد آں سینہ کہ عالمے درو میگنجید تانیم نفس برآدرم تنگی کرد اخیر میں سب سے دل اٹھا لیا تھا۔ اور مرض بھی کئی جمع ہو گئے تھے۔ د و دن بالکل چپ رہے شاہ دانش نواز خود خبر کو آئے پکارا تو آنکھ کھولی۔ آداب بجا لائے مگر کچھ کہہ نہ سکے دیکھ کر رہ گئے۔ ہائے افسوس اس موقع پر حکم بادشاہی کا زور کیا چل سکتا تھا ۔ انہوںنے بھی رنج اٹھایا۔ اور آنسو پی کر چلے گئے۔ بادشاہ اسی دن شکار کو سوار ہوئے ۔ آخرت کے مسافر نے بھائی سے کہا تم حضور سے چار دن کی رخصت لے لو چوتھے دن خود روانہ ہو گئے۔ صفر سنہ ۱۰۰۴ھ تھی جو فضل و کمال کے گھر سے نالہ و ماتم کا شوراٹھا۔ شعر و سخن نے نوحہ خوانی کی کہ لفظوں کا صراف اور معنی کا مرصع کار مر گیا۔ بیماری کی حالت میں یہ شعر اکثر پڑھا کرتے تھے۔ گر ہمہ عال بہم آید بجنگ بہ نشود پائے یکے مور لنگ مرنے کا وقت ایسا نازک ہوتاہے کہ ہر شخص کا دل پگھل جاتاہے مگر حق تو یہ ہے ک ملاصاحب بڑے بہادر ہیں۔ دیکھو اس کے مرنے کی حالت کو کس طرح بیان کرتے ہیں۔ میں باحتیاط ترجمہ کرتا ہوں۔ محاورہ میں فرق رہ جائے تو اہل ذوق معاف فرمائیں۔۱۰ صفر کو ملک الشعراء فیضی اس عالم سے گزر گیا۔ چھ مہینے تک ایسے مرضوں کی شدت اٹھائی کہ ضد ایک دوسرے کی تھے۔ ضیق النفس ۔ استسقاء اور ہاتھ پائوں کاورم۔ خونی قے نے طول کھینچا۔ مسلمانوں کے جلانے کو کتوں سیگھلا ملا رہتا تھا۔ کہتے ہیں کہ جانکندن کی سختی میں بھی کتے کیا آواز نکلتی تھی۔ ایجاد شراع اور دین اسلام کے انکا میں بڑا تعصب رکھتا تھا۔ اس لیے اس وقت بھی دین کے مقدمہ میں ایک متقی پرہیز گار صاحب علم سے لایعنی بیہودہ کفر کی باتیں کہتا تھا۔ کہ اس کے عادات میں داخل تھیں شاید اسی سے اپنی ذات بابرکات مراد ہے پہلے بھی ان باتوں پر اصرار رکھتا تھا اس وقت بھی کہتا رہا ۔ یہاں تک کہ اپنے ٹھکانے پر پہنچا۔ تاریخ وے فلسفی و شیعی و طبعی دہری ایک اور ہوئی قاعدہ الحاد شکست (کئی تاریخٰں اور ایسی ایسی ناموزوں کہی ہیں کہاں تک لکھوں پھر لکھتے ہیں ’’آدھی رات تھی اور وہ حالت نزع میں تھا۔ کہ بادشاہ خود آئے۔ بیہوش تھا محبت سے اس کا سر پکڑکر اٹھایا۔ اور کئی دفعہ پکار پکار کر کہا شیخ جیو ہم حکیم علی کو ساتھ لائے ہیں۔ تم بولتے کیوں نہیں۔ بیہو ش تھا۔ صدا ندا کچھ نہ تھی۔ دوبارہ پوچھا تو پگڑی زمین پر دے ماری آخر شیخ ابوالفضل کو تسلی دے کر چلے گئے۔ ساتھ ہی خبر پہنچی کہ اس نے اپنے تئیں حوالہ کر دیا (مرگیا) انتا کہ کر بھی ملا صاحب کا دل کالی نہ ہوا۔ خاتمہ کتاب میں شعرا کی ذیل میں پھر لکھتے ہیںَ فنون جزئیہ میں مثلاً شعر معما عروض قافیہ تاریخ لغت طب خط انشا میں اپنا عدیل زمان میں نہ رکھتا تھا۔ اوائل میں تخلص مشہور سے شعر کہے آخر میں چھوٹے بھائی کے خطاب کی مناسبت ہیں کہ اس کو غلامی لکھتے ہیں شان بڑھانے کو فیاضی اختیار کی مگر مبارک نہ ہوا ایک دو مہینے میں رخت زندگی باندھ کر گٹھڑ کے گٹھڑ حسرت ہمراہ لے گیا۔ سفاہت اور فلہ پن کا موجد غرور گھمنڈ اورکینہ کا مخترع نفاق خباثت ریا۔ جب جاہ نمود اور شیخی کا مجموعہ تھا۔ اہل اسلام کے عناد و عداوت کی دادی میں اور اصل اصول دین کے طعن میں صحابہ کرام اور تابعین کی مذمت میں اوراگلے پچھلے متقدمین متاخرین مشائخ کے باب میں کہ مر گئے اور زندہ ہیں بے اختیار اور بے دھڑک بے ادبی کرتا تھا۔ سارے علماء صلحا و فضلا کے باب میں خفیہ اور ظاہر رات اور دن یہی حال تھا۔ کل یہود و نصارٰ ہنود واور مجوس اس سے ہزار درجہ بہتر تھے چہ جائے کہ نظاریہ اور صباحیہ تمام حرام چیزوں کو دین محمدی کی ضد سے مباح جانتا تھا۔ اور فرائض کو حرام جو بدنامی سو دریائوں کے پانی سے نہ دھوئی جائے گی۔ اس کے دھونے کو تفسیر بے نقط عین حالت مستی اور جنابت میں لکھا کرتا تھا۔ کتے ادھر ادھر سے پامال کرتے پھرتے تھے۔ یہاں تک کہ اسی انکار اور گھمنڈ کے ساتھ اصلی قرار گاہ کو بھاگ گیا۔ اور ایسی حالت سے گیا کہ خدا دکھائے نہ سنائے۔ جس وقت بادشاہ عیادت کو گئے تو کتے کی آواز سنی ان کے سامنے بھونکا۔ اوریہ بات خود سردربار بیان فرمائی۔ منہ سوج گیا تھا اورہونت سیاہ ہو گئے تھے ۔ یہاں تک کہ بادشاہ نے شیخ ابوالفضل سے پوچھا کہ اتنی سیاہی ہونٹوں پر کیسی ہے شیخ نے مسی ملی ہے۔ اس نے کہا کہ خون کا اثر ہے۔ قے کرتے کرتے سیاہ ہو گئے ہیں۔ بے شک جو مذمت اور طعن حضرت خاتم المرسلین کی شان میں کرتا تھا اس کے مقابل میں یہ باتیںبہت کم تھیں۔ رنگ رنگ کی تاریخیں مذمت آمیز لوگوں نے نکالی ہیں۔ ملا صاحب کے ہاں چھ تاریخیں موذی الفاظ میں لکھ کر پرھ اس کی روح کو ایذا دیتے ہیں۔ ہاں صاحب جو اس کے اور اس کے باپ بھائی کے حقوق آپ پر ہیں وہ اد ا نہیںہوئے۔ کچھ اوردھواں دل میں باقی ہو۔ وہ بھی نکال لیجیے جب وہ بیچارہ جیتا تھا۔ اس وقت بھی تمہارے سے بگڑنے پر نہ بگڑا بلکہ مصیبت میں کام ہی آتا تھا اب مر گیا ہے جو چاہو سو کہہ لو۔ یہ کیا کہا مجھے او بد زباں بہت اچھا سنا لے اور بھی دو گالیاں بہت اچھا پھر ملا صاحب لکھتے ہیں کہ ٹھیک چالیس برس تک شعر کہتا رہا۔ سب بے ٹھیک استخوان بندی خاصی مگر بے مغز اور بے سراپا بے مزہ۔ وادی شطحیات و فخریات میں مشہور سلیقہ رکھتا تھا۔ لیکن زوق حقیقت و معرفت اور چاشنی روحانی و عرفانی اور قبول خاطر نہ کرے۔ باوجودیکہ دیوان اور مثنوی میں ۲۰ ہزار سے زیادہ شعر ہیں مگر اس کی بجھی ہوئی طبیعت کی طرح ایک بیت میں بھی شعلہ نہیں مطر و دی اور مردودی کے سبب سے کسی نے اس کے کلام کی ہوس نہ کی برخلاف اور ادنیٰ شاعروں کے شعرے کہ بود زنکتہ سادہ ماندہمہ عمر یک سوادہ اور عجب تر یہ ہے کہ ان چھوٹے موٹے ڈھکوسلوں کی نقل کرنے میں بڑی بڑی رقمیں تنخواہوں میںخرچ کیں اورلکھوا لکھو ا کر دوست آشنائوں کو دور و نزدیک بھیجے۔ کسی نے بھی دوبارہ نہ دیکھا۔ شعر تو مگر زحرمتت ستر آموخت کز گوشہ خانہ میل بیروں نکند یہاں شیخ فیضی کی وہ عرضی نقل کرتے ہیں جو انہوںنے دکن سے ان کی سفارش میں بادشاہ کو لکھی تھی اوربعد اسکے پھر لکھتے ہیں۔ اگر کوئی کہے کہ اس کی طرف سے وہ محبت و اخلاص اور اس کے مقابلہ میں اس قدر مذمت اور درشتی یہ کیا مروت و وفا کا ائین ہے خصوصاً مرنے کے بعد اس طرح کہنا عہد شکنوں میں داخل ہونا۔ اور لا تذکر و امرتنکم الا بالخیر سے غافل نہیں ہونا چاہے۔ یہ کیا زیباہے ہم کہیں گے کہ یہ درست مگر کیا کیجیے کہ حق دین اور اس کے عہد کی حفاظت سب حقوں سے بالا تر ہے۔ الحب اللہ والبغض للہ قاعدہ مقرر ہے مجھے چالیس برس کامل کی اس کی مصاحبت میں گزرے۔ مگر وضعیں اس کی جو بدلتی گئیں اور مزاج میں فساد آتا گیا اور حالتوں میں خلل پڑتا گیا۔ ان کے سب سے رفتہ رفتہ (خصوصاً مرض موت میں) سب تعلق جاتا رہا۔ ا ب اس کا حق کچھ نہ رہا اور صحبت بگڑ گئی۔ وہ ہم سے گئے ہم ان سے گئے۔ باوجود ان سب باتوں کے ہم خدا کی راہ میں چلنے والے ہیں جہاں سب کا انصاف ہو جائے گا۔ الا خلاء یومئذ بعضھم لبعض عدو الا المتقین (ملا صاحب فرماتے ہیں) مال متروکہ میں سے چار ہزار چھ سو جلدیں نفیس صحیح کی ہوئی تھیں۔ جنہیں بطریق مبالغہ کہ سکتے ہیں کہ اکثر بخط مصنف یا عہد تصنیف کی تھیں سب سرکار بادشاہی میں داخل ہوگئیں۔ فہرست پیش ہوئی تو تین قسموں میں تقسیم کیں۔ اعلیٰ نظم طب نجوم موسیقی اوسط حکمت‘ تصوف‘ ہیئت‘ ہندسہ سے ادنیٰ تفسیر ‘ حدیث ‘ فقہ اور باقی شرعیات۔ ان میں سے ایک سو جلدیں نلدمن کی تھیں باقی کس شمار میں ہیں مرنے سے چند روز پہلے بعض آشنائوں کے بہت سے کہنے سے چند بتیں نعت اور معراج میں لکھ کر درج کر دی تھیں۔ آزاد ملا صاحب جو چاہیں فرمائیں اب دونوں عالم آخرت میں ہیں۔ آپس میں سمجھ لیں گے تم اپنی فکر کرو۔ وہان تمہارے اعمال سے سوال ہو گا۔ یہ نہ پوچھیں گے کہ اکبر کے فلاں امیر ن کیا کیا لکھا۔ اس کاعقیدہ کیا تھا اور تم اس کو کیسا جانتے تھے اور جہاں گیر کے فلاں نوکر کا کیا کیا معاملہ تھا اور تم اسے کیا جانتے ہو۔ کیا کہیں گے جو وہ پوچھے گا کیا کیا تم نے اسے ظفر ہم کو اگر خوف و خطر ہے تو یہی اتنا پھر بھی کہوں گا کہ نلدمن ہر کتب فروش کی دکان میںملتی ہے جس کا جی چاہے دیکھ لے۔ پونے دو سو شعر کی نعت معہ کیفیت معراج اس نزاکت اور لطافت اور بلند پروازی کے ساتھ لکھی ہے کہ انشاء پردازی اس کے قلم کو سجدہ کرتی ہے نعت کا مطلع ہی دیکھو جواب ہو سکتا ہے۔ آں مرکز دور ہفت جدول گرداب پسین و موج اول اب میںشیخ فیضی کی تصنیفات کی تفصیل اور ہر کتاب کی کیفیت کا حال لکھتا ہوں۔ دیوان خود مرتب کیا اور دیباچہ لکھ کرلگایا تباشیر الصبح نام رکھا۔ جب ترتیب دیا تو ایک دوست کو اس کی خوش خبری لکھ کر دل خوش کیا ہے۔ اس س معلوم ہوتا ہے کہ ۴۰ برس سے زیادہ کماء ہے۔ نو ہزار بیت کا ہے غزلیںسلیس اور شستہ فارسی زبان میں ہیں۔ استعاروں کے پیچوں سے بہت بچتے ہیں اور لطف زبان کا بڑا خیال رکھتے ہیں جس پر انہیں قدرت حاصل ہے باوجود اس کے اہل زبان کے حرف بحرف تابع ہیں طبیعت جو ش میں آتی ہے مگر زبان حد اعتدال سے نہیں بڑھ جاتی اوراپنی طرف سے ایک نقطہ کا تصرف بھی نہیں کرتی۔ میں ضرور کہتا کہ سعدی کا انداز ہے مگر وہ حسن و عشق میں زیادہ ڈوبے ہوئے تھے۔ یہ حکمت اور نفس ناطقہ کی حیثیت اور خودی میں خدا شناسی اور شکوہ معانی اور فخریہ و بلند پروازی کی ہوا میں اڑتے ہیں۔ کفر و الحاد کے دعوئوں میں بڑے زور دکھاتے ہیں حسن و عشق میں نظم ایشیا کے استاد ہیں انکانام فقط عادت کے سبب زبان پر آ جاتا ہے۔ وہ فاضل کامل ہیں اورزبان عربی کے ماہر کہیں کہیں ایک ایک مصرعہ یا آدھا آدھا مصرعہ عربی کا لگا جاتے ہیں تو عجب مزہ دیتا ہے۔ قصائد میں متقدمین کے قدم بقدم لے جاتے ہیں ۔ اورجو کچھ کہا ہے نہایت برجستہ کہا ہے۔ غزلیںمعہ قصٓئد بیس ہزار شمارمیں آتی ہیں ۔اکبر کو جو ان کاکلام پسند تھا سبب اس کا یہ تھا کہ اول تو عام فہم ہوتا تھا۔ صاف سمجھ میں آتا تھا۔ دوسرے اپنے آقا کی طبیعت کو سمجھ گئے تھے۔ اور حالات موجودہ کو دیکھتے رہتے تھے وقت کو خوب پہچانتے تھے۔ اور طبیعت حاضر لائے تھے۔ حسب حال خوب لکھتے تھے۔ اور عین برمحل کہتے تھے مطلب کو نہایت خوبصورتی اور برجستگی سے ادا کرتے تھے۔ دل لگتی اورمن بھاتی بات ہوتی تھی۔ اکبر سن کر خوش ہو جاتا تھا۔ اور سارا دربار اچھل پڑتا تھا۔ اکبر احمد آباد گجرات وغیرہ کی مہمیں فتح کر کے پھر ا تو تمام فوج پیچھے پیچھے سب وہیں کی وردی وہیں کے ہتھیار سجے۔ اکبر خود سپہ سالاروں کی طرح ساتھ۔ وہی لبس وہی اسلحہ دہی دکن کا چھوٹا سا برچھا کندھے پر رکھے اگے آگے چلا جاتا تھا۔ فتحپور کے قریب پہنچا تو کئی کوس آگے امراء استقبال کو حاضر ہوئے۔ فیضی نے بڑھ کر غزل پڑھی (اکبر ان دنوں فتح پور سیکری میں بہت رہتا تھا… مطلع نسیم خوش دلی از فتح پور مے آید کہ بادشاہ من ازراہ دورمے آید سنہ ۹۹۷ھ میں جب کشمیر کی مہم سے اطمینان ہوا تو بادشاہ گلگشت کو پہنچے۔ موسم بہار سے دل شگفتہ ہوئے فیضی نے جھٹ قصیدہ لکھا ۔ مطلع ہزار قافلہ شوق میکند شب گیر کہ بار عیش کشاید بخطہ کشمیر عرفی نے بھی کشمیر میں پہنچ کر بڑے زور کا قصیدہ لکھا ہے۔ مگر مضامین خیالیہ و بہاریہ میں بلند پروازی اور معنی آفرینی کی ہے۔ ان کا قصیدہ دیکھو تو تمام مضامین حالیہ کی تصویر ہے ۔ جب دربار شاہ یا جلدہ احباب میں پڑھا گیا ہو گا لٹا لٹا دیا ہو گا۔ سفر کابل میں ڈکہ کی منزل پر اکبر گھوڑے سے گر پڑا۔ انہوں نے اس قطعہ سے آنسو پونچھے۔ دوش از آسماں ضمیر م را گرہ غصہ برجبین افتاد حالتے رفت کز تصور آں لرزہ در چرخ ہفتمیں افتاد ہم بروئے زحل غبار نشست ہم در ابروئے زہرہ چین افتاد خاکم اندر دہن مگر کزر خش شاہ والا جلال الدین افتاد آسماں بانگ زد کہ غصہ محور نور خورشید برزمین افتاد چہ زیاں نور راز افتاون نور را جوہر ایں چنیں افتاد بلکہ روشن کند جہاں یک سر بر زمیں نور چوں قریں افتاد گفتم احسنت نکتہ گفتی کہ دلت نکتہ آفریں افتاد برخورد یارب از فروغ نظر ہر کہ رادیدہ دوربیں افتاد عالم افروز باد آں جوہر کہ بہ خورشید دلنشیں افتاد میر قریش ایلچی توران آنے والا تھا۔ تجویز ہوئی کہ سنہ ۳۱ کو جلود جشن قریب ہے اس میں اس کی ملازمت ہو۔ دیوان خانہ اٹک کی آئین بندی ہوئی چنانچہ وہ حاضر ہوا۔ کشمیر فتح ہوا تھا۔ راجہ مان سنگھ بھی کوہستان سرحدی میں فرقہ روشنائی کی مہم مار کر آئے تھے۔ ہزاروں افغان قتل اور ہزاروں قید کر کے لائے تھے۔ فوج کی حاضری اور ان کی حضوری بڑے شان و شکوہ سے دکھائی شیخ فیضی نے قصیدہ پڑھا۔ فرخندہ باد یارب برمملکت ستانی از مبد خلافت آغاز قرن ثانی انشائے فیضی جس کا حال ابھی بیان کروں گا۔ اس میں اکثر عرض داشتوں کی ذیل میں لکھتا ہے آج صبح کا عالم دیکھ کر حضور پر نور کا خیال آیا ۔ اور یہ غزل ہوئی ۔ کہیں لکھتا ہے باغ میں گیاتھا۔ فوارے چھٹ رہے تھے حضور کی وہ تقریر یاد آئی اوریہ شعر آبدار ٹپکا وغیرہ وغیرہ۔ خمسہ۔ سنہ ۹۹۳ھ میں حضور کا حکم ہوا کہ خمسہ نظامی پر سب نے طبیعتیں آز مائی ہیں تم بھی فکر کی رسائی دکھائو قرار پایا کہ۔ مخزن اسرار پر مرکز دوار ۳ ہزار بیت کی لکھو ۔ موجود ہے خسرو شیریں پر سلیمان و بلقیس ۴ ہزار بیت ہوں۔ اس کے متفرق اشعار ملتے ہیں لیلی مجنوں پر نل ومن کہ ہندوستان کے پرانے فسانوں میں سے ہے ۔ ۴ ہزار بیت میں ہو ۔ ہر جگہ ملتی ہے۔ ہفت پیکر پر ہفت کشور ۵ ہزار بیت میں ہو۔ اس کا نام و نشان نہیں سکندر نامہ پر اکبر نامہ اتنے ہی شعروں میں ہو۔ متفرق اشعار ہیں پہلی کتاب اسی دن شروع ہوئی۔ چند حروف بسم اللہ کی رموزمیں ہوئے ۔ اور اسی طرح نیرنگی نفس کیفیت سخن۔ قلم ۔ آفرینش ۔ دل ۔ علم۔ نظر۔ تمیز ۔ غرض جو کچھ کہا تھا بادشاہ نے سنا وار فرمایا اور یہ مرۃ القلوب ہے۔ باقی کتابوں کے بھی مختلف مقامات لکھے ہیں مگر سلطنت کے کاروبار تھے۔ مہمات ملکی و مالی کیہجوم تھ ے۔ اس لیے تین نسخے ناتمام رہے۔ سنہ ۱۰۰۲ھ میں اسے لاہور کے مقام پر ایک دن بادشا ہ نے بلا کر پھر خمسہ کی تکمیل کے لیے تاکید کی اور کہا کہ پہلے نل و من تمام کر دو چنانچہ چار مہینے میں کتاب مذکور لکھی اور حقیقت یہ ہے کہ لطیف استعارے رنگین تشبیہیں بلند مضامین نازک خیالات فصیح زبان لفظوں کی عمدہ تراشیں اور دلکش ترکیبیں۔ ادائے مطلب ک انداز دیکھنے کے قابل ہیں جس دن حضور میں لے گیا۔ شگون کے لیے ۵ اشرفیاں بھی اس پر رکھیں۔ دعائیہ زبان پر چہرہ رنگ کامیابی سے شگفتہ دل خوشی سے باغ باغ نذر گزرانی نے الحقیقت جس کے قلم سے یہ تاج مرصع ہو کر اکبری دربار میں آئے اور اکبر جیسے بادشاہ کے سامنے تعمیل فرمائش کے رتبے میں پیش ہو صبح مراد کی بہار اسی سے لہلہاتے دل میں دیکھنی چاہیے۔ میں نے انشا کے کئی رقعے دیکھے ہیں دوستو عجیب خوشی کے خیالات میں ختم کی خبریں دی ہیں۔ بکرماجیت کے زمانہ میں کالیداس نامی صاحب کمال شاعر گزراہے ۔ اس نے تو کتابیں بطور افسانہ اس نزاکت اور لطافت سے نظم کی ہیں کہ جواب نہیںرکھتیں ان میں سے ایک نل و من کی داستان ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ فیضی ہی جیسا صاحب کمال ہو جو ایسے طلسم کی تصویر فارسی میں اتارے ۔ یہ کتاب ہندوستان اور ہندوستان کے شاعروں کے لیے فخر کا سرمایہ ہے افسانہ مذکور کی خوش نصیبی ہے کہ فارسی کا شاعر بھی ملا تو ایسا ہی ملا۔ اہل زبان پڑھتے ہیں تو وجد کرتے ہیں حق پوچھوتو مثنوی مذکور کی لطافت و نزاکت کا بڑ ا سبب یہ ہے کہ سنسکرت زبان میں جو معنی آفرینی کے لطف تھے فیضی انہیں خوب سمجھتا تھا۔ ساتھ اس کے فارسی پر پوری قدرت رکھتا تھا ۔ وہ ا سکے خیالات ادھر لایا اور اس طرح لایا کہ نزاکت اور لطافت اصل سے بڑھ گئی۔ اور فارسی میں ایک نئی بات نظر آئی اس لیے سب کو بھائی۔ ملا صاحب فرماتے ہیں ان دنوں ملک الشعرا کو حکم فرمایا کہ پنج گنج لکھو۔ کم و بیش پانچ مہینے میں نل و من لکھی کہ عاشق و معشوق تھے۔ اور یہ قصہ اہل ہند میں مشہور ہے۔ چار ہزار دو سو شعر سے کچھ زیادہ ہیںنسخہ مذکور معہ چند اشرفیوں کے نذر گزارنا۔ نہایت پسند آیا۔ حکم ہوا کہ خوشنویس لکھے۔ اور مصور تصویریںکھینچے۔ اور نقیب خان رات کو جو کتابیںسناتے ہیں ان میں یہ بھی داخل ہو۔ مطلع کتاب یہ ہے۔ اے در تگ و پوے توز آغاز عنقائے نظر بلند پرواز اور حق یہ ہے کہ ایسی مثنوی اس تین سو برس مٰں خسرو شیریں کے بعد ہند میں شاید ہی کسی نے لکھی ہو۔ آزاد نعت کے جرم کی کیفیت بھی سن چکے ہیں لطف یہ ہے کہ باوجود اس کے بیان مذکور کے شعرا کے سلسلہ میں آپ نے نشانی مہرکن کا حال لکھا ہے۔ پھر دینداری اور خوش اعتقادی و حسن اخلاق وغیرہ کے اوصاف کے ساتھ اس کے اشعار سے فیضی کی مٹی خراب کی ہے۔ ایک جگہ فرماتے ہیں کہ فیضی کو جس قصیدہ پر بڑاناز ہے وہ یہ ہے ۔ شکر خدا کہ عشق بتا نست رہبرم در ملت برہمن و در دین آذرم نشانی نے اس پر لکھا ہے شکر خدا کہ پیرو دین پیغمبرم حب رسول و آل رسول است رہبرم نشانی نے نل و من پر بھی کچھ اشعار لکھے تھے باوجودیکہ حضرت کتاب مذکور کو خود پسند کا خلعت پہنا چکے تھے مگر اس پر بھی رہ نہ سکے۔ نشانی نے جو خاکہ اڑایا تھا ۔ آپ نے اس میں سے پینتالیس شعر لکھ ہی دیے۔ مثنوی چند زنی لاف کہ در ساحری سا مریم سا مریم سامری ہر نفس معجزہ عیسویست شعلہ نور شجر موسویست در سخنم نادرہ روزگار اہل سخن رامنم آموزگار ہر نفسم پردہ جادو شکیب ہر سخنم سحر ملائک فریب خسرو ملک ہمہ دانی منم عالم اقلیم معانی منم جوہر ہر سلک سخند انیم صیر فی نقد سخن رانیم ایں منم امروز دریں داوری شعلہ آتش بزباں آوری دعویٰ ایجاد معانی مکن شمع نہ چرب زبانی مکن شعلہ سرشتاز گہر ہائے پاک لاف مزن نیست چو درکیسہ خاک طبع تو ہر چند در ہوش زد یک سخن تازہ نشد گوش زد آنچہ تو گفتی دگراں گفتہ اند در کہ تو سفتی دگراں سفتہ اند خانہ کہ از نظم بیار استی آب و گلشن از دگراں خواستی سقف منقش کہ دریں خانہ است رنگ دے از خانہ بیگانہ است طبع تو دارد روش باغباں ساختہ باغے زنہال کساں سبزہ آں باغ زراغ دگر ہر گل عرناش زباغ دگر لخنچہ آں گرچہ رواں پر دراست لیک ز خون جگر دیگر است بید کہ بے میوہ سرے بر کشید ہرکس ازاں دانہ مشجر کشید تازگی آں نہ زباران تست از خوئے پیشانی یاران تست چند پے نقد کساں سوختن چشم بمال دگراں دوختن جمع مکن نقد سخن پروراں کیسہ لکن پرز زر دیگراں شربت بیگانہ فراموش کن آب زسر چشمہ خود نوش کن گر خضری آب حیات تو کو ورشکری شاخ نبات تو کو نخل صفت سربفلک میبری میوہ بجز خستہ نمے آوری سر کہ بر چرخ بساید سرش چاشنے میوہ نباشد برش برسخن خویش تفاخر چراست برمن دل خستہ تمسخر چراست من اگر از شرم نگویم سخن حمل بہ بیدا نشے من مکن نے چور طب سینہ پراز خستہ ام ہمچو صدف پر درو لب بستہ ام من اگر از بند کشایم زباں لب بکشانید زباں آوراں طعنہ چو ابلیس بآدم مزن حالت من در نگرودم مزن سامریم من کہ بزور فسوں بعتے از سحر بر آرم بروں غلغلہ در زہرہ و ماہ افگنم نسخہ ہاروت بچاہ افگنم ایں منم آں ساحر جادو مزاج کز سخنم یافتہ جادو رواج من کہ بجا دو سخنی شہرہ ام ہم فلک و ہم مہ وہ ہم زہرہ ام سامریاں درگرہ ہوئے من بابلیاں درچہ جادوے من دولت ایں کار بکام من است سکہ ایں ملک بنام من است از سخنم طرز سخن یادگیر عارمکن دامن استاد گیر ہر کہ باستاد ارادت برد در دو جہاں گنج سعادت برد یک سخن از نظم تو نبود درست مضحکہ اہل سخن نظم تست گرچہ بروئے تو نگوید کسے عیب تو پیش تو نجوید کسے لیک عقیب تو ملامت گراں برتورسانند کراں تا کراں شعر ترا گریمبیاں آورند عیب تو یک یک بزبان آورند شر ترا پیش تو تحسین کنند درپس تو لعنت و نفریں کنند نے تو بکس یارو نہ کو با تو یار عیب تو برتو نشود آشکار وہ کہ یکے یار نداری دریغ مونس و غم خوار نداری دریغ تا بتو عیب تو نماید کہ چیست وانچہ بجیب ت و کشاید کہ چیست مرکز ادوار سنہ ۱۰۰۴ھ میں شیخ ابوالفضل لکھتے ہیں۔ کہ ان کے کلام کی تلاش و ترتیب کے حالت میں ایک خاص بیاض نظر آئی کہ بہت شوریدہ لکھی ہوئی تھی۔ معلوم ہوا کہ عالم بیماری میں اکثر زیر قلم رہتی تھی۔ اشعر کو دیکھا تو مراۃ القلوب (مرکز ادوار) کے وزن میں تھے۔ پڑھی نہ جاتی تھی۔ ان کے ہمنشینوں اورہمزبانوں سے کہا وہ مل کر بیٹھے اورناامید ہو کر اٹھے ۔ آخر میں متوجہ ہوا نور آگاہی اور دانش الٰہی سے پڑھ کر مطلب مطلب اور مضمون مضمون کے شعر الگ الگ کیے۔ ارو ترتیب دے کر داستان داستان نئی سرخی کے نیچے لکھی۔ جس پریشاں نظم و نثر سے سخن آشنا مصاحبوں کا فکر ناامید ہو گیا تھا وہ مرتب ہو کر تیار ہو گئی جب میں نے اپنے بھتیجے ۱؎ کو زندگی جاوید کا مژدہ سنایا مجھ پر شادمانی اوراس پر حیرانی چھا گئی۔ باقی تین کتابوں کے بھی کچھ اشعار اور بعض داستانیں لکھی تھیں۔ چنانچہ کچھ کچھ ان میں سے اکبر نامہ میں درج ہیں ۔ ابوالفضل نے لکھا ہے کہ فارسی کا کل کلام نظم و نثر پچاس ہزار بیت اندازہ میں آیا ہے۔ ترتیب کے وقت یہ بھی معلوم ہوا کہ پچاس ہزار اشعار اہل زمانہ کی طبیعتوں سے بلند دیکھ کر خود دریا برد کر دیے تھے بعض کتابوں میں ہے۔ کہ سنہ ۱۰۰۶ھ میں اس کی ترتیب تمام ہوئی۔ لیلا وتی حساب کی کتاب سنسکرت میں تھی ۔ اس کے منہ سے ہندوستان کا ابٹنا دھو کر فارس کا گلگو نہ ملا ۔ ذرا دیباچہ کی ابتدا دیکھنا کس اندااز سے اٹھے ہیں۔ رباعی اول ز ثنائے بادشاہی گویم ونگہ ز ستایش الٰہی گویم ایں عقدہ معنی بقلم بکشایم ویں نکتہ سربستہ کماہی گویم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱؎ شاعر کے اشعار اس کے فرزند معنوی ہوتے ہیں اسی رشتہ سے انہیں اپنا بھتیجا کہا ہے ۔ اور جب پریشان اشعار کو مرتب کر کے کتاب بنا دیا تو اسے زندگی جاوید حاصل ہو گئی۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رسم است کہ چوں بدرگاہ بادشاہ مشرف شوند۔ نخست از مقربان بارگاہ توسل جونید ایں جایگانہ صمدیت و مقرب بارگاہ احدیث حضرت بادشاہ حقیقت آگاہ است خلد اللہ ملکہ و ابقاہ خواہی کہ چومن راہ ہدایٰ بشناسی نشناختہ راہ راہ کجا بشناسی ایں سجدہ ناقبول سودت ند ہد اکبر بشناس تا خدا بشناسی مہا بھارت کا ترجمہ بادشاہ نے دیا کہ نثر درست کر و اور مناسب مقام پر نظم سے آرائش دو۔ دو پرب (فن) درست کیے تھے کہ اس سے زیادہ ضروری کام عنایت ہو گئے اور آرائش ناتمام رہی۔ بھاگوت ور اتھرون بید کو بھی کہتے ہیں۔ کہ فارسی میں ترجمہ کیا گیا مگر کتاب سے ثابت نہیں یہ بھی مشہور ہے کہ فیضی عالم نوجوانی میں بنارس پہنچا اور کسی بڑے گنوان پنڈت کی خدمت میں ہندو بن کر رہا۔ جب تحصیل کر چکا تو رخصٹ کے وقت راز کھولا اور عفو تقصیر چاہی اس نے افسوس کیا۔ مگر اس کی ذہانت اورقابلیت سے بڑا خوش تھا۔ اس لیے عہد لیلیا کہ گاتیری کا منتر اور چاروں وید بھاشایا فارسی میں نہ کرنا۔اس کہانی کا بھی کتاب کتاب سے سراغ نہیں ملتا۔ اساتذہ سلف کی کتابوں سے جو عمدہ مقام پسند آیا۔ اسے لکھتے گئے تھے۔ وہ ایک عجیب گل دستہ نظم و نثر کا شیشہ عطر کا مجموعہ تھا۔ شیخ ابوالفضل نے ا س پر دیباچہ لکھا تھا۔ (دیکھو حال ابوالفضل)۔ انشائے فیضی سنہ ۱۰۳۵ھ میںنور الدین محمد عبداللہ خلف حکیم عین الملک نے ترتیب دی ہے۔ اورلطیفہ فیاضی اس کا نام رکھا ہے ۔ باب اول میں عرض داشتیں ہیں ۔ کہ اکثر سفارت دکن سے حضور بادشاہ میں عر ض کی ہیں یہ عرضیاں بڑی غور طلب رپورٹیں ہیں کہ رموز سلطنت پر مشتمل ہیں۔ ان کی چھوٹی چھوٹی باتیں ہمیں بڑے بڑے نکتے سکھاتی ہیں۔ اول عجز و انکسار کے انداز۔ اور مجھے اس میں جتانے کے قابل امر یہ ہیں کہ جب ہم ایشیا میں ہیں اور ہمارے آقا کمال شوق سے آداب و تعظیم کے خریدار ہیں تو ہمیں اس سے فائدے اٹھانے میں کیا عذر ہے آقا کی خوشی بڑی گانبہا شے ہے جب قیمت میں فقط چند لفظ یا فقرے خرچ کر کے ملے اور ہم نہ لے سکیں تو ہم سے زیادہ کم عقل یا کم نصیب کون ہو گا۔ ساتھی ہی یہ ہے کہ فقط ایک خاکساری کا مضمون ہے۔ جسے وہ انشا پرداز معنی آفریں کس کس طرح رنگ بدل کر پیش کر تا ہے۔ اورمستعمل اور فرسودہ جن کو کیسا خوش رنگ بنا بنا کر سامنے لاتا ہ۔ خدمت حضور سے جدائی کا رنج بھی بہت ہے۔ اسے کس کس خوبصورتی سے ادا کیا ہے۔ اور اس کے ضمن میں یہ بھی کہ ایسی بااعتبار اور بااعزاز خدمت میری طبع مملکت میں جس جس شہر سے گزرا ہے وہاں کی روداد حاکم کی کیفیت کارروائی اگر ضروری ہے تو ماتحتوں کی بھی خدمت گزاری ملک دکن میں پہنچے تو سرزمین کی کیفیت ملک کی حالت ہر مقام میں پیداوار پھول پھل کیا کیا ہیں۔ اور کیسے ہیں۔ اہل صنعت کے صنائع علماء حکماء شعرا وغیرہ اہل کمال کے حالات ان کی شاگردی کا سلسلہ کہ کن استادوں تک پہنچتا ہے ہر ایک کی لیاقت اخلا ق اطوار ہر ایک پر اپنی رائے کہ کون پرانی لکیر کا فقیر ہے۔ کون نئی روشنی سے اثر پذیر ہے۔ اور کون ان میں سے حضوری دربار کے قابل ہے۔ بعض لنگر گاہیں وہاں سے قریب ہیں معلوم ہوتا ہے کہ انہوںنے جاتے ہی سب طرف اپنے آدمی پھیلا دیے تھے۔ چنانچہ ہر عرضی میں لکھتے ہیں کہ میرا آدمی خبر لایا۔ فلاں تاریخ فرنگ کا جہاز اترا۔ فلاں فلا ں اشخاص روم ک ہیں وہاں کے حالات یہ سب معلوم ہوئے۔ فلاں جہاز آیا۔ بندر عباس سے فلاں فلاں اشخاص سوار ہوئے۔ ایران کے فلاں فلاں اشخاص ہیں۔ وہاں کے یہ حالات ہیں۔ عبداللہ خاں ازبک بے ہرات پر لڑائی ہوئی۔ یہ تفصیل ہے۔ اور یہ انجام ہے ۔ آئندہ یہ ارادہ ہے شاہ عباس خاں ازبک سے ہرات پر لڑائی ہوئی۔ یہ تفصیل ہے۔ اوریہ انجام ہوا۔ آئندہ یہ ارادہ ہے شاہ عباس نے تحائف تیار کیے ہیں۔ فلاں شخص کو ایلچی قرار دیے کر حضور میں بھیجے گا۔ وہاں فلاں فلاں اشخاص عالم اور صاحب فضل و کمال ہیں۔ عرائض مذکورہ سے اکبر کی طبیعت کا حال بھی معلوم ہوتا ہے کہ کن کن باتوں سے خوش ہوتا تھا اور باوجود شہنشاہی کے ان اہل علم اور اہل دانش کے ساتھ کس درجہ بے تکلف تھا۔ اور یہ کیسی لطافت اسے خوش کرتے تھے۔ اور کس درجہ کی ظرافت لطافت ہوتی تھی جو اس کے دل کو شفگتہ کرتی تھی۔ ان لطیفوں میں تم کو ایک نکتہ معلوم ہو گا۔ جو کہ مصلحت ملکی اور قانون حکمت سے آگاہ کرے گا۔ وہ کیا جو کمبخت اور منحوس جھگڑا تشیع اور تسنن کا تم دیکھ چکے ہو کہ علماء و امرائے دربار تمام بخاری و سمرقندی تھے اور کیسے زوروں پر چڑھے ہوئے تھے۔ مگر دیکھو گے کہ اور سمجھو گے کہ انہوںنے کس معاملے کو کیسا خفیف کر دیا تھا کہ دل لگی کا مصالح ہو گیا تھا۔ یہ عرضیاں بہت طولانی ہیں۔ میں ا ن میں سے ایک عرضی کی نقل لکھوں گا۔مگر اس میں بھ بعض مطالب کی عبارتیں چھوڑنی پڑیں گی۔ کہ طبیعتوں کے ذوق بجھ نہ جائیں ان سے یہاں کچھ تعلق نہیں ہے۔ ف۔ ان رقعوں میں جہاں شیخ ابوالفضل کا ذکر آیا ہے تو انہیں نواب علامی نواب اخوی‘ نواب اخوی علامی۔ کہیں اخوی شیخ ابوالفضل لکھتے ہیں۔ تفسیر سواطع الالہام سنہ ۱۰۰۲ ھ میں لکھی کہ علم و فضل کے ساتھ زور طبع اورحدت فکر کا زمانہ ے ۷۵ جزو کی کتاب تمام بے نقط قریب ایک ہزار بیت کے دیباچہ ہے۔ اس میں اپنا باپ کا بھائیوں کا اور تحصیل علم کا حال ہے۔ بادشاہ کی تعریف او ر قصیدہ لکھا ہے۔ ۹۹ فقرے کا خاتمہ ہے۔ کہ ادائے مطلب بھی ہے اور ہر فقرہ تاریخ اختتام ہے۔ فضلائے عصر نے اس پر تقریظیں لکھیں۔ شیخ یعقوب کشمیری صیرنی تخلص نے زبان عربی میں لکھی۔ میاں امان اللہ سرمہندی نے آغاز تصنیف کی تاریخ کہی۔ لارطب و لا یابس الا فی کتاب مبین نظرثانی کرنے لگے تو خود اس کی تاریخ احرار الثانی کہی میرحیدر معمائی ایک فاضل کا شان سے آئے تھے۔ انہوںنے سورۃ اخلاص میں سے تاریخ نکالی مگر بے بسم اللہ ملک الشعراء نے انہیں دس ہزار روپے انعام دیے۔ ملا صاحب نے بھی دو تاریخیں اور ایک تقریظ لکھی۔ مگر منتخب التواریخ میں جو بے نقط سنائی ہیں تم دیکھ ہی چکے ہو۔ یہ بھی فرماتے ہیں۔ کہ تفسیر مذکور میں مولانا جمال تکہ ۱؎ نے بہت اصلاح کی ہے اور درست کر دی ہے خیر جو چاہیں فرمائیں فیضی کو اس نعمت الہی کی بڑی خوشی ہوئی۔ اس کے انشا میں کئی خط احباب علماء کے ام ہیں لکھتا ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ پھولا نہیں سماتا۔ ان فقروں سے خوشی خوشی برستی ہے ۔ ایک خط میں لکھتا ہے۔ دسویں ۲؎ تاریخ ربیع الثانی سنہ ۱۰۰۲ھ کو میری تفسیر ختم ہوئی ۔ لوگ تقریظیں ۳؎ اور تاریخیں کہہ رہے ہیں ۔ سید محمد شامی ایک بزرگ احمد نگر میں ہیں انہوں نے بھی لکھی ہے۔ ت نے خود دیکھی ہو گی۔ مولانا ملک قمی نے اس کے باب میں رباعیاں کہی ہیں تم نے سنا ہو گا۔ مولانا ظہوری نے قصیدہ کہا ہے دیکھا ہو گا۔ یہاں بھی لوگوں نے خوب خوب چیزیں لکھی ہیں۔ اس میں خمسہ کے انتظام کی خوشخبری سناتا ہے۔ بعض خطوط میں موارد الکلم کی خبریں بھی دیتا ہے۔ موارد الکلم نصائح و مواعظ کی باتیں ہیں ۔ کہ چھوٹے چھوٹے فقروں میں لکھی ہیں۔ اصل بات تو یہ ہے کہ تفسیر مذکور لکھ کر طبیعت میں زور زبان میں قدرت ‘ کلام میں روانی اورلفظوں کی بہتات پیدا ہو گئی تھی۔ کہ جس پہلو سے چاہتا تھا مطلب ادا کر دیتا تھا۔ اس لیے وہی آیات و احادیث و کلام حکما کے مضامین ہیں جن کو بے نقط الفاظ میں ادا کیا ہے۔ موارو الحکم سلک درد الحکم تاریخی نام ہے۔ ایک خط میں لکھتے ہیں ابتدا میں ایک رسالہ غیر منقوط بادشاہ ظل اللہ کے نام لکھا ہے ۔ ملاحظہ کو بھیجتا ہوں۔ مگر بازیچہ اطفال عرب ہے کارنامہ صنادید ادب نہیں۔ آزاد۔ یہ رسالہ اب نہیں ملتا۔ شیخ حسن کالپی وال کے نام بہت خط ہیں۔ ایک میں لکھتے ہیں کہ جب آئو تو مقصد الشعراء ضرور لیتے آنا کہ تذکرہ کا اختتام اس پر منحصر ہے۔ اور اور کتابوں میں سے بھی جو ہو سکے انتخاب فرمائے گا۔ جی چاہتا ہے کہ اس کے دیباچہ میں آپ کا نام بھی لکھوں۔ آزاد تذکرہ مذکور بھی نہیں ملتا۔ خدا جانے تمام بھی ہوا تھا یا نہیں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱؎ لاہور میں ایک محلہ تھا مولانا جمال الدین ان دنوں یہاں ایک فاضل کامل تھے۔ اسی محلہ میں رہتے تھے۔ ۲؎ مولانا کمال الدین خطاط شیرازی کے نام انشا مذکور میں ایک خط لکھا ہے۔ ۳؎ فیضی تقریظ کی جگہ اپنی تحریر میں توقیع لکھتے ہیں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ان کی تصنیفات کی تعدادبعض کتابوں میں ۱۰۱ لکھی ہے مگر مجھے اس شمار میں کلا م ہے۔ مذہب ۔ فیضی اور ابوالفضل کے مذہب کا معاملہ ان کے با پ کی طرح گومگو رہا۔ ملائے بدایونی نے جو لکھا تم نے دیکھ لیا۔ کوئی دہریہ کہتا ہے۔ کوئی آفتاب پرست بتاتا ہے میں کہتا ہوں کہ ا س کی تصنیفات کو دیکھو۔ مگر اول سے آخر تک دیکھو۔ وہ بلند آوا ز سے پکار رہی ہیں کہ موحد کامل تھے۔ تب اس بدنامی نے کیونکر اشتہار پایا؟ ہاں ذرا غور سے خیال کرو۔ کہ اکبر کے آغاز سلطنت میں اور اس سے پہلے ہمایوں اور شیر شاہ تک کے عہد میں مخدوم اور ان کے خادموں کے اختیارات کیسے بڑھے ہوئے تھے تم نے دیکھ لیا کہ ان کی خود بینی اورخود پسندی اور روکھی سوکھی دینداری کے زور دوسرے کو دنیا میں نہ دیکھ سکتے تھے۔ ان کا یہ دعویٰ بھی تم نے دیکھ لیا کہ علم فقط علم دین ہے۔ جو ہم ہی جانتے ہیں اورجو ہم جانتے ہیں اور جو ہم کہتے ہیں۔ وہی درست ہے۔ اور جو اس میں قیل و قال کرے وہ کافر۔ فیضی اور ابوالفضل نے آپ دیکھ لیا ہو گا اور باپ سے اچھی طرح سن لیا تھا۔ کہ ان بے دلیل دعویدداروں کے ہاتھ سے کس آفت و عذاب میں عمر بسر ہوئی تم یہ بھی جانتے ہو کہ مخدوم و صدر نے قسمت کے زور سے ملک گیر بادشاہوں کے زمانے پائے تھے اور شمشیر زنی اورفوج کشی کے عہد دیکھتے تھے۔ اب وہ زمانہ آیا کہ اکبر کو ملک گیری کم کرنے اور ملکداری کی زیادہ ضرورتیں پڑرہی تھیں۔ انہں یہ بھی یاد تھا ک ہجب ہماایوں ایران میں تھا تو شاہ طماشب نے ہمدردی کی خلوتوں میں اس سے پوچھا کہ سلطنت کی اس طرح خانہ بربادی کا کیا سبب ہوا؟ اس نے کہا بھائیوں کی نااتفاقی شاہ نے کہا رعایا نے رفاقت نہ کی؟ ہمایوں نے کہا کہ وہ غیر قوم اور غیر مذہب ہیں۔ شاہ نے کہا ابکی دفعہ ہو جائو۔ تو ان یس موافقت کر کے ایسی اپنائیت پیدا کرو ۔ کہ مخالفت کا نام درمیان میں نہ رہے۔ اکبر یہ بھی جانتا تھا کہ مخدوم وغیرہ علما ہر دیگ کے چمچے ہیں۔ ہمایوں کے عہد میں اس کے خاص الخاص تھے شیر شاہ ہوا اسی کے ہو گئے۔ سلیم شاہ ہوا اسی کے ہو گئے۔ اور لطف یہ کہ وہ سب بھی جانتے تھے ۔ بلکہ خاص خلوتوں میں بیٹھ کر یہ کہتے تھے کہ اسے مخدوم نہ سمجھو۔ بابر کا پانچواں بیٹا ہند میں بیٹھا ہے پھر بھی اس کی عظمت اور نذر و نیاز میں فرق نہ لاتے تھے۔ اکبر یہ بھی سمجھتا تھا کہ ان عالموں نے بادشاہ اور امرائے بادشاہ کو ملک گیر یوں کے لیے قربانی سمجھا ہے۔ ملک رانی اورحکمرانی کے مزے احکام شریعت کی آڑ میں ان کا شکار ہیں وہ سمجھتا تھا۔ کہ بے ان کے فتویٰ کے بادشاہ کو ایک پتا ہلانے کا اختیار بھی نہیں ہے چنانچہ بیگناہوں کو قتل کروا دیتے تھے ۔ خاندانوں کو تباہ کروا دیتے تھے۔ وہ مڑ مڑ دیکھتا تھا۔ اور دم نہ مار سکتا تھا اکبر بھی یہ سمجھتا تھا۔ کہ بابر میرے دادا کو فقط ہموطن امراء کی نمک حرامی نے خاندانی سلطنت سے محروم کر دیا ۔ اور جو ادھر کے ترک ساتھ ہیں خاص نمک حرامی کا مصالح ہیں۔ عین وقت پر دغا دینے والے ہیں۔ اکبر یہ بھی دیک رہا تھا کہ بہت ایرانی یا شیعہ میرے باپ کے ساتھ ہیں ۔ اور میرے ساتھ ہیں۔ وہ جاں نثاری کے میدان میںاپنی جانوں کو جان نہیں سمجھتے تھے۔ باوجود اس کے انہیں دب کر اور اپنے مذہب کو چھپا کر رہنا پڑتا ہے۔ امرائے ترک انہیں دیکھ نہیں سکتے تھے۔ وہ یہ بھی جانتا تھا۔ کہ سب علما حسد کے پتلے ہیں۔ آپس میں بھی ایک دوسرے کا روادار نہیں ۔ روشن دماغ بادشاہ یہ سب حال دیکھ رہا تھا۔ اور سوچ رہا تھا کہ کیا کرے اور کس طرح پرانوں زوروں کو توڑے۔ اس نے سنہ ۹۸۲ھ میں ایک عالیشان مکان چار ایوان تیار کیا۔ اور عبادت خانہ قرار پایا علماء کا جلسہ ہوتا تھا خود بھی شامل ہوتا تھا۔ ان سے تحقیق مسائل کرتا تھا۔ آپس میں مباحثے کرواتا تھا اور ان کے جھگڑوں پر کان لگاتا تھا۔ کہ شاید اختلافوں میں کوئی اختلاف مفید مطلب نکل آئے فارغ التحصیل جوانوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر لیتا تھا۔ اور ان جلسوں میں شامل کرتا تھا۔ کہ اس زمانے کی آب و ہوا نے انہیںپالا ہے۔ جوان دماغ ہیں جوان عقلیں ہیں۔ شاید مزاج زمانہ کے موافق رائے لا ئے ہوں۔ اور مصلحت زمانہ کے موجب تجویزیں سوچتے ہوں۔ دربار کی یہ کیفیت تھی۔ اور زمانہ کا وہ حال تھا۔ کہ شیخ فیضی پہنچے۔ پھر ملائے بدایونی اور ساتھ ہی ابوالفضل بھی داخل دربار ہوئے۔ ان سب کی لیاقتیں ایک ہی تعلیم کا دودھ پی کر جوان ہوئی تھیں۔ تازے تازے علم طبیعتوں میں جوان کے زور ذہن تیز فکر بلند‘ بادشاہ خود حمایت پر ۔ اورسب جوان قریب العمر ملا صاحب کا حال دیکھو کہ سب سے پہلے نمبر پر ان کی بہادری نے فتح پائی بڈھے بڈھے عالموں سے زبان بزبا ن اور کلہ بکلہ مقابلے ہونے لگے۔ اور پران فضیلتیں جو انوں کی تقریروں سے اس طرح گرنی شروع ہوئیں جیسے درخت سے پکے پھل گرتے ہیں۔ بے خبر لوگ شیخ مبارک فیضی و ابوالفضل کو مخدوم صدر کے گرانے کا الزام دیتے ہیں لیکن حق یہ ہے کہ ان کا کچھ قصور نہ تھا۔ اب زمانے کا مزاح پرانے بوجھوں کا متحمل نہ رہا تھا۔ ان کے ہاتھوں سے نہ گرتے تو خود بخود گر جاتے۔ ان باپ بیٹوں کو جودہر یہ اور بدمذہبی کے الزام دیتے ہیں۔ یہ بھی تامل کا مقام ہے مجتہد کا کام کیا ہے؟ اصل مسئلہ کی صورت حال مصلحت مقام ہے۔ اور مناسب وقت کا دیکھنا۔ دیکھو! شریعت کے اکثر احکام ایسے ملکوں کے لیے قرار دیے گئے ہیں جہاں جمیعت کثیر اہل اسلام کی تھی۔ اور غیر مذہب کے لوگ جمعیت قلیل اہل اسلام کی ہو اور گزارہ کرنا ان لوگوں کے ساتھ ہو۔ کہ جمعیت کثیر اور جم غفیر صاحب ملک اور صاحب شمشیر غیر قوم اور غیر مذاہب کے لوگ ہوں۔ اور ملک بھی انہیں لوگوں کو ہو اچھا جاری کرتے ہو کروبہت خوب سب کے سب شہید ہو جائو۔ مگر سمجھ لو۔ کہ یہ شہید کیسے شہید ہوں گے۔ بھلا متقضائے وقت کے بموجب جب احکام نہ ہوتے تو قرآن میں آیتیں منسوخ کیوں ہوتیں ۔ اگر یہ نہ ہوتا تو خدا کیوں فرماتا۔ یمحو اللہ ما یشاء و یثبت و عندہ ام الکتاب اکبر آخر ملک گیر اور ملک دار تجربہ کار بادشاہ تھا۔ وہ اپنے ملک کی مصلحت کو خوب سمجھتا تھ۔ اسی واسطے جب ان کے کسی فتوے کو خلاف مصلحت دیکھتا تھا۔ تو روکتا تھا۔ اور شریعت کی دلیل سے ان کا جواب چاہتا تھا۔ علمائے مذکور پہلے عربی فقرے اور علمی الفاظ بول کر اسے دبا لیتے تھے۔ اب اگر وہ بے اصول یا خلاف مصلحت گفتگو کرتے تھے تو ابو الفضل فیضی آیت یا حدیث سے کبھی علمائے سلف کے فتوے سے کبی قیاس سے کبھی دلیل سے انہیں توڑ دیتے تھے۔ اور چونکہ بادشاہ کی رائے ان کی تائید پر ہوتی تھی علما دیکھتے رہ جاتے تھے۔ ملائے بدایونی تو کسی کا لحاظ کرنے والے نہیں تھے جس کی بات بیجا سمجھتے ہیں۔ مونچھ پکڑ کر کھینچ لیتے ہیں قاضی طوائیسی کے فتوئوں سے خفا ہو کر ایک جگہ لکھتے ہیں۔ کہ شیخ ابوالفضل کی وہ بات ٹھیک ہے کہ اگر امام اعظم در زمان مامے بود فقہے دیگرمے نوشت حریفوں کا اور بس نہ چلتا تھا ان پر اوران کے باپ پر قدیم سے زبانیں کھلی ہوئی تھیں۔ اب بھی رسوا کرتے تھے۔ کہ انہوںنے بادشاہ کو بد مذہب بنا دیا۔ ملا صاحب بھی رشک منصبی سے لبریز بیٹھے تھے۔ اگرچہ مخدوم اور شیخ صدر دونوں سے بیزا ر تھے مگر ان کے معاملوں میں بھی یہ ہی حریفوں کے ساتھ ہمداستان ہو جاتے تھے۔ یہ بات تو بدیہی ہے کہ باپ اور دونوں بیٹے علوم عقلی اور نقلی میں اعلیٰ درجے کمال پر پہنچے ہوئے تھے ۔ شیخ مبارک کی مہر فتوئوں پر لی جاتی تھی۔ لڑکوں کی جوانی نے بھی یہ رتبہ انہیں دیا ہو لیکن اگر کسی مسئلہ میں یہ علمائے وقت سے اختلاف کریں۔ تو ایک مجتہد کی رائے کا دوسری رائے سے اختلاف ہے۔ جو ہمیشہ عام چلا آتا ہے۔ اور اس وقت بھی عام تھا مجتہد اگر اپنے استنباط میں خطا کرے تو بھی مستحق ایک ثواب کا ہے نہ یہ کہ اس کی تکفیر کی جائے۔ البتہ ان کی تصنیفات کو بھی دیکھنا ضرور ہے۔ شاید ان سے کچھ عقائد کا حال کھلے شیخ مبارک کی کوئی تصنیف اس وقت ہمارے ہاتھ میں نہیں ہے۔ لیکن یہ تو ثابت ہے کہ اسے سب مانتے ہیں۔ فیضی کی تفسیر سواطع الہام اور موارد الکلام موجود ہے۔ کہیں اہل فن کے اصول سے بال بھر نہیں سرکا۔ تمام آیات و احادیث ارو بزرگوں کے کلمات و طیبات کے مضامین ہیں۔زبانی باتوں میں ملا صاحب جو چاہیں کہیں مگر نفس مطالب میں جب نہ اب کوئی دم نہیں مار سکتا تھا ورنہ ظاہر ہے کہ وہ بیدینی و بد نفسی پر آ جات تو جو چاہتے لکھ جاتے انہیں ڈر کس کا تھا۔ ابوالفضل کا کلام سبحان اللہ مطالب معرفت و حکمت میں اعلیٰ درجہ رفعت پر واقع ہوا ہے۔ دل میں کچھ ہوتا ہے جبھی زبان سے نکلتا ہے۔ ہانڈی میں جو کچھ ہوتاہے وہی ڈوئی میں آتا ہے۔ یہ خیالات ان پر اس طرح کیو ں کر چھائے رہے تھے؟ ان کی عبارتوں کا یہ عالم ہے کہ ایک ایک نقطہ معرفت اور حکمت کا دریا بغل میں لیے بیٹھا ہے۔ اور یہ نہیں ہوتا کہ جب تک دل اور جان حال و مقال سب اسی کے خیال پر وقف نہ کرے۔ اگر ان تحریروں کو فقط خیالات شاعرانہ اور عبارت آرائی اور انشا پردازی کہیں تو بھی ان کی جان پر ظلم ہے۔ بھلا شعر و سخن کے سامان میں انہیں انہی خیالات کے لینے کی کیا ضرورت تھی؟ وہ عالم خیال کے بادشاہ ملک سخن کے خدا تھے۔ جن مضامین میں چاہتے اپنے مطالب کو رنگ دیتے اور خلق و عالم سے واہ واہ لے لیتے ۔ بڑا الزام ان پر یہ ہے کہ اکبرکو خاص مسلمان نہ رہنے دیا۔ صلح کل اور ملنساری کے رنگ میں رنگ دیا ۔ آپ دہریہ تھے اور اسے بھی دہریہ کر دیا ۔ تین سو برس کی بات ہے ۔ کیا خبر ہے۔ انہوںنے اسے رنگ دیا یا مطیع فرمان نوکر اپنے آقا کے مصالح ملکی میں رنگے گئے ۔ اگر انہوں نے ہی رنگا تو اس رقل رنگ آمیز کی تعریف نہیں ہو سکتی جو حریف کہ فتاویٰ شریعت کے بہانوں سے ہر وقت قتل کے درپے رہتے تھے۔ ان سے جان بھی بچائی اور فتح بھی پائی۔ وہ کہتے ہیں کہ دنیا میں ہزاروں مذہب ہیں۔ خدا کا خود کیا مذہب ہے۔ ظاہر ہے کہ دنیا کے لحاظ سے ایک مذہب نہیں۔ ورنہ وہ کل عالم کی پرورش کیوں کرتا؟ اپنے فیض کو عام کیوں رکھتا اور سب کو ترقی کیوں دیتا ایک مذہب جو حق ہے وہی رکھتا۔ باقی سب فنا جب یہ بات نہیں ہے اور وہ رب العالمین ہے تو بادشاہ اس کا سایہ ہے ۔ اس کا مذہب بھی ہونا چاہیے اسے واجب ہے کہ جو درگاہ الہی سے ملا ہے۔ اسے سنبھالے سب مذہبوں کی پرورش اور حفاظت و حمایت اور رعایت برابر کرے۔ اس طرح کہ گویا وہی اس کامذہب ہے تخلقوا باخلاق اللہ اکبر اس بات کو خوب سمجھا ہوا تھا۔ اور یہ لوگ سلطنت کے ہاتھ تھے سلطنت کی زبان تھے۔ سلطنت کے دل و جان تھے ۔ ان کا مذہب کوئی کیونکر قرار دے سکتا ہے ۔ علمائے وقت کی دست درازی جو اپنے مخالف مذہبوں کو فنا اور برباد کیے دیتی تھی۔ اگر یہ اس کے روکنے میں ساعی ہوئے تو کیا برا کیا۔ در حیر کہ دشمنی کفر و دیں چراست ازیک چراغ کعبہ و بت خانہ روشن است رسم عام ہے۔ کہ اکثر تحریروں کے عنوان پر کوئی نام پروردگا ر کا لکھتے ہیں۔ بے شک وہاں فقط اللہ اکبر لکھا جاتا تھا۔ مگر تم ہی خیال کرو فیضی و ابوالفضل جو ارسطو و افلاطون کے دماغ کو استخوان بے مغز سمجھیں۔ ممکن ہے کہ اکبر کو خدا سمجھے ہوں گے۔ خوش طبع رنگین خیال شاعر تھے۔ جہاں اور ہزاروں لطیفے تھے یہ بھی ایک لطیفہ تھا۔ یاروں کے جلسوں میں بیٹھتے ہوں گے تو آپ قہقہے اڑاتے ہوں گے ۔ تشیع کا الزام بھی انہیں لگاتے ہیں۔ لیکن جن اتوں سے لوگوں نے انہیں شیعہ سمجھا۔ وہ غور طلب ہیں۔ شیخ مبارک کے حال میں تم سن چکے ہو۔ اس کے دامن پر یہ داغ لگایا گیا تھا۔ بیرم خاں کے حال میں تم پڑھ چکے ہو ۔ کہ ہمایوں سے بھی بخارائی اور ماورا لانہری سردار اس مذہب کی بابت شکایت کرتے تھے۔ اکبر نے باپ کی آنکھیں دیکھی تھیں۔ اور ساری داستانیں سنی تھیں۔ خود دیکھ رہا تھا کہ شیعہ اہل علم یا اہل قلم ہیں۔ تو اعلیٰ درجہ کمال پر ہیں ۔ جنگی یا ملکی خدمتیں سپرد ہوتی ہیں تو جانیں توڑ کر عرق ریزی کرتے ہیں۔ کیونکہ جانتے ہیں کہ چاروں طرف حریف تاک لگائے کھڑے ہیں۔ فیضی و فضل جب دربار میں آئے ہوں گے ۔ تو اور بھی شیعہ دربار میں موجود تھے۔ اس حالت میں کچھ اس سبب سے کہ انہوں نے خود علمائے اہل سنت کے ہاتھ سے دکھ اٹھائے تھے۔ اور انہوںنے امرائے درباار سے وار آئندہ کے خطروں میں یہ اورشیعہ تحریک تھے۔ انہوںنے انہیں غنیمت سمجھا ہو گا۔ انہوںنے انہیں۔ اس کے علاوہ یہ کتاب کے کیڑے اور علم و فن کے پتلے اور حکیم ہمام حکیم ابو الفتح‘ میر فتح اللہ شیرازی وغیرہ وغیرہ علوم و فنون کے دریا کی مچھلیاں تھیں۔ جنس کو جنس نے ربط دیا ہو گا۔ یہ امر میں ایک دوسرے کی تائید کرتے ہوں گے۔ ابوالفضل کے خطوط اس کے انشائوں میںدیکھو۔ فیضی کے خطوط اس کے رقعات میں پڑھو۔ جو تحریریں ان کے نام ہیں دل کی محبتیں کن کن الفاظ اور عبارتوں میں ٹپکتی ہیں۔ حکیم ابو الفتح اور میر فتح اللہ شیرازی مر گئے تو فیضی نے ان کے مرثیے کہے۔ اووہ کہے کہ سبحان اللہ و صل علی۔ ابوالفضل نے اکبر نامے یا مراسلات میں جہاں ان کے مرنے کا ذکر لکھا ۔ عبارت کی سطیں انبوہ ماتم نظر آتا ہے۔ کسی جلسہ میں شیعہ سنی کا مباحثہ ہوتا تھا تو ظاہر ہوتا تھا کہ شیعہ اس زمانہ میں دب دب کر بولتے تھے۔ یہ دونوں بھائی شیعوں کی تقریر کو قوت دیتے تھے اسے خواہ خلق و مروت کی پاسداری کہو خواہ مسافر پروری کہو۔ خواہ دل کا میلان سمجھ کرشیعہ کہو۔ اور بڑی بات تو وہی ہے کہ اکبر کو خود اس بات کا خیال تھا کہ یہ فرقہ کم ہے اور کمزور ہے۔ ایسا نہ ہو کہ زور آوروں کے ہاتھ سے کوئی نقصان اٹھائے۔ اور حق یہ ہے کہ شیخ مبارک کا حال دیکھو۔ وہ خود اس تہمت میں گرفتا رتھے۔ اکبر کے ابتدائی سلطنت میں کئی شیعہ قتل ہوئے اور فتووں کے ساتھ قتل ہوئے ان کے عہد میں جو قتل ہوئے ان کی تجویز میں یہ بادشاہ کی رائے کی تائید کرتے رہے اس میں خواہ کوئی شیعہ سمجھے خواہ سنی کہے ۔ خواہ دہریہ کہے خواہ لا مذہب سمجھے ۔ مرزا جان جاناں مظہر کا ایک شعر جدمر حوم کی زبانی تھا۔ دیوان میں نہیں دیکھا۔ کیا مزے سے حسن اعتقاد ظاہر کرتے ہیں۔ ہوں تو سنی پر علی کا صدق دل سے ہوں غلام خواہ ایرانی کہو تم خواہ تورانی مجھے مذہب کے معاملے میں میرا ایک خیال ہے خدا جانے احباب کو پسند آئے یا نہ آئے۔ ذرا خیال کر کے دیکھو۔ اسلام ایک خدا ایک پیغمبر ایک شیعہ اور سنی کا اختلاف ایک منصب خلافت پر ہے۔ جس کے واقعہ کو آج سے کم کم ۱۳ سو برس گزر چکے ہیں۔ وہ ایک حق تھا۔ کہ سنی بھائی کہتے ہیں۔ جنہوں نے لیا حق لیا شیعہ بھائی کہتے ہیں کہ نہیں حق اوروں کا تھا۔ اور ان کا نہ تھا۔ اگر پوچھیں کہ انہوںنے اپنا حق آ پ کیوں نہ لیا؟ تو یہی جواب دیں گے کہ صبر کیا۔ اور سکوت کیا۔ تم لینے والوں سے لے کر اس وقت دلوا سکتے ہو؟ نہیں لینے والے موجود ہیں ؟ نہیں طرفین میں سے کوئی نہیں ہے؟ نہیں اچھا جب یہ صورت ہے تو آج ۱۳ سو برس بعد اس معاملہ کو اس قدر طو ل دینا کہ قوم مین ایک فساد عظیم کھڑا ہو جائے چار آدمی بیٹھے ہوں تو صحبت کا مزہ جاتا رہے۔ کام چلتے ہوں تو بند ہو جائیں۔ دوستیاں ہوں تو دشمنی ہو جائے۔ دنیا جو مزرعۃ الاخرۃ ہے اس کا وقت کارہائے مفید سے ہٹ کر جھگڑے میں جا الجھے ۔ قوم کی اتحادی قوت ٹوٹ کر چند درچند گلے پڑ جائیں۔ یہ کیا ضرور ہے بہت خوب تم ہی حق پر سہی لیکن انہوںنے سکوت اور صبر کیا پس اگر ان ک ہو تو تم بھی صبر اور سکوت ہی کرو۔ زبانی بدگوئی اور بدکلامی کرنی اور بھٹیاریوں کی طرح لڑنا کیا عقل ہے ؟ اور کیا انسانیت ہے ؟ کیا تہذیب ہے؟ اور کیا حسن خلق ہے؟ ۱۳ سو برس کے معاملے کی بات ایک بھائی کے سامنے اس طرح کہہ دینی کہ جس سے اس کا دل آزردہ ہو بلکہ جل کر خاک ہو جائے۔ اس میں خوبی کیا ہے میرے دوستو اول تو ایک ذرا سی بات تھی خدا جانے کن کن لوگوں کے خوش طبع اور کن کن سہبوں سے تلواریں درمیان میں آ کر لاکھوں خون بہہ گئے۔ خیراب وہ خون خنک ہو گئے۔ زمانہ کی گردش نے پہاڑوں خاک اور جنگلوں مٹی ان پر ڈال دی ان جھگڑوں کی ہڈیاں اکھیر کر تفرقہ کو تازہ کرنا اور اپنایت میں فرق ڈالنا کیا ضرور ہے ۔ اور دیکھو۔ اس تفرقہ کو تم زبانی باتیں مت سمجھو۔ یہ وہ نازک معاملہ ہے کہ جن کے حق کے لیے تم آج جھگڑے کھڑے کرتے ہو۔ وہ خودسکوت کر گئے۔ تقدیری بات ہے اسلام کے اقبال کو ایک صدمہ پہنچنا تھا۔ سو نصیب ہوا فرقہ کا تفرقہ ہو گیا۔ ایک کے دو ٹکڑے ہو گئے پورا زور تھا اور دیکھو تم ۱۳ سو برس کے حق کے لیے آج جھگڑتے ہو؟نہیںسمجھتے کہ ان جھگڑوں کے تازہ کرنے میں تمہاری تھوڑی جمعیت اور مسکین فرقہ میں ہزاروں حقداروں کے حق برباد ہو جاتے ہیں۔ بنے ہوئے کا م بگڑ جاتے ہیں۔ روزگار جاتے ہیں۔ روٹیوں سے محتاج ہو جاتے ہیں۔ آئندہ نسلیں لیاقت اور علم و فضل سے محروم رہ جاتی ہیں۔ میرے شیعہ بھائی اس کا جواب ضرور دیں گے۔ کہ جوش محبت میں مخالفوں کے لیے صرف بدزبان سے نکل جاتے ہیں اس کے جواب میں فقط اتنی بات کا سمجھنا کافی ہے ۔ کہ عجب جوش محبت ہے ۔ جو دو لفظوں مین ٹھنڈا ہو جاتا ہے۔ اور عجب دل ہے جو مصلحت کو نہیں سمجھتا۔ ہمارے مقتدائوں نے جو بات نہ کی۔ ہم کریں۔ اور قوم میں فساد کا منارہ قائم کریں۔ یہ کیا اطاعت اور پیروی ہے۔ محبت تم جانتے ہو کیا شے ہے۔ ایک اتفاقی پسند ہے۔ تمہیں ایک شئی بھلی لگتی ہے۔ دوسرے کو بھلی نہیں ۔ اسی طرح بالعکس کیا تم یہ چاہتے ہو کہ جو چیز تمہیں بھاتی ہے۔ وہی سب کو بھائے ؟ یہ کتیا بات کیونکر چل سکے گی ۔ ابوالفضل نے ایک جگہ کہا ہے اور کیا خوب کہا ہے ۔ کہ جو شخص تمہارے خلاف رستہ پر چلتا ہے یا حق پر ہے یا ناحق پر اگر حق پر ہے تو احسان مند ہو کر پیروی کرو۔ ناحق پر ہے تو یا بیخبر ہے یا جان بوجھ کر چلتا ہے بیخبر ہے تو اندھا ہے۔ واجب الرحم ہے ۔ اس کا ہاتھ پکڑو جان بوجھ کر چلتا ہے۔ تو ڈرو اور خدا سے پناہ منگو غصہ کیا اور جھگڑا کیا۔ میرے باکمال دوستو۔ میں نے خود دیکھا اور اکثر دیکھا کہ بے لیاقت شیطان جب حریف کی لیاقت اپنی طاقت سے باہر دیکھتے ہیں۔ تو اپنا جبھا بڑھانے کو مذہب کا جھگڑا بیچ میں ڈال دیتے ہیں۔ کیونکہ اس میں فقط دشمنی ہی نہیں ہوتی بلکہ ایسا ہی بالیاقت حریف ہو۔ اس کی جمعیت ٹوٹ جاتی ہے۔ اور ان شیطانوں کی جمعیت بڑھ جاتی ہے۔ دنیا میں ایسے نافہم بے خبر بہت ہیں۔ ہ بات تو نہیں سمجھتے مذہب کا نام آیا اور آپے سے باہر ہو گئے۔ بھلا دنیا کے معاملات میں مذہب کا کیا کام؟ ہم سب ایک ہی منزل مقصود کے مسافر ہیں۔ اتفاقا گزرگاہ دنیا میں یکجا ہو گئے ہیں۔ رستہ کا ساتھ ہے بنا بنایا کارواں چلا جاتا ہے ۔ اتفاق اور ملنساری کے ساتھ چلو گے مل جل کر چلو گے۔ ایک دوسرے کا بوجھ اٹھاتے چلو گے۔ ہمدردی سے کام بٹاتے چلو گے۔ تو ہنسے کھیلتے رستہ کٹ جائے گا۔ اگر ایسا نہ کرو گے اور ان جھگڑالوئوں کے جھگڑے سے تم بھی پیدا کرو گے۔ تو نقصان اتھائو گے۔ آپ بھی تکلیف پائو گے۔ ساتھیوں کو بھی تکلیف دو گے جو مزہ کی زندگی خدا نے دی ہے بدمزہ ہو جائے گی۔ مذہب کے معاملہ میں انگریزوں نے خوب قاعدہ رکھا ہے۔ ان میں بھی دو فرقے ہیں۔ اور ان میں سخت مخالفت ہے‘ پرٹسٹنٹ اور رومن کیتھولک دو دوست بلکہ دو بھائی بلکہ کبھی میاں بیوی کے مذہب بھی الگ الگ ہوتے ہیں وہ ایک گھر میں رہتے ہیں۔ اورایک میز پر کھانا کھاتے ہیں۔ ہنسنا بولنا رہنا سہنا سب ایک جگہ مذہب کا ذکر بھی نہیں ایتوار کو اپنی اپنی کتابیں اٹھائیں اور ایک ہی بگھی میں سوار ہوئے ۔ باتیں چلتیں کرتے چلے جاتے ہیں ایک کاگرجا رستہ میں آیا۔ وہاں اتر پڑا۔ دوسرا بگھی میں بیٹھا اپنے گرجا کو چلا گیا۔ گرجا ہو چکا وہ بگھی میں سوار ہو کر آیا۔ رفیق کے گرجا پر آیا اسے سوار کیا اور گھرپہونچے۔ اس نے اپنی کتاب اپنی میز پر رکھ دی اس نے اپنی میز پر۔ پھر وہی ہنسنا بولنا کاروبار اس کا ذکر بھی نہیں۔ کہ تم کہاں گئے تھے ۔ اور وہاں کیوں نہ گئے تھے جہاں ہم گئے تھے۔ آزاد کہاں تھا ۔ اور کہاں آن پڑا کجا ابوالفضل کا حال کجا سنی شیعہ کا جھگڑا۔ لاحول ولا قوۃ الا باللہ ملا صاحب کی برکت نے آخر تجھے بھی لپیٹ لیا۔ اصل بات یہ ہے کہ ابوالفضل اور ملا صاحب ساتھ دربار میں آئے۔ دونوں کو برابر خدمتیں اور عہد ے ملے۔ یہ بیستی کے عہد کو خاطر میں نہ لائے۔ سپاہیانہ عہدہ کو اپنے علم و فضل کے لیے ہتک سمجھا۔ اس لیے اختیار نہ کیا۔ اس نے شکرانہ بندگانہ کے ساتھ منظور کیا۔ بادشاہ کو انکار ناگوار معلوم ہوا۔ ملا صاحب نے پرواہ نہ کی مباحثوں کی فتح یابی اور اپنے ترجمے کے کاغذوں کو دیکھ دیکھ کر خوش ہوتے رہے۔ شیخ بیچارہ اپنی بے وسیلہ حالت کو دیکھ کر سمجھ گیا۔ اور بچپن بلکہ دو پشت سے جو مکروہات سہنے کی مشق ہو رہی تھی اسے یہاں بھی کام میں نہ لایا۔ انجام یہ ہوا۔ کہ وہ کہیں کا کہیں نکل گیا۔ ملا صاحب دیکھتے رہ گئے وہ دونوں بھائی خدمت گزاری کی برکت سے مصاحب خاص ہو کر سلطنت کی زبان ہو گئے۔ یہ مسجدوں میںتقریریں کرتے پھرے گھر میں بیٹھ کر برھیوں کی طرح کو ستے کاٹتے رہے بس اصلی سبب ان تحریروں کا وہی رنج ہم سبقی اور وہی رشک ہم مکتبی تھا۔ کہ سیاہی بن کر سفید کاغذ پر ٹپکتا تھا اور بے اختیار گرتا تھا۔ ایک کتاب کے پڑھنے والے ایک سبق کے یاد کرنے والے تم وزارت کی مسند پائو ۔ مشیر شہنشاہ بن جائو۔ اورہم وہی ملا نے کے ملانے۔ ذرا تصور کر کے دیکھو۔ مثلاً ملا صاحب ان کے ہاں گئے۔ اور وہ راجہ مان سنگھ دیوان ٹوڈر مل وغیرہ اراکین سلطنت سے مصلحت اورمشورہ میں مصروف ہیں۔ ان کی دعابھی قبول نہ ہوتی ہو گی۔ ان کا دربار لگا ہوتا ہو گا۔ ان کے وہاں تک رسائی بھی مشکل ہوتی ہو گی۔ وہ جس وقت حکیم ابوالفتح حکیم ہمام‘ میر فتح اللہ شیرازی سے بیٹھے باتیں کرتے ہوں گے۔ وہ تمام رکن دربار انہیں ان مسندوں پر جگہ بھی نہ ملتی ہو گی۔ اگر ان کے ساتھ یہ مباحثہ علمی میں دخل دیتے ہوں گے تو ان کا کلام وقعت و وقار نہ پاتا ہو گا۔ یہ زور دیتے ہوں گے۔ و آخر ان کے گھر کے شاگرد تھے۔ دونوں بھائی اسی طرح ہنس کر ٹال دیتے ہوں گے جس طرح ایک عالی رتبہ خلیفہ اپنے مدرسہ کے طالب علم کو باتوں باتوں میں اڑا دیتا ہے۔ یہی باتیں دیا سلائی بن کر ان کے سینہ کو سلگاتی ہوں گی اور ہر وقت غصہ کے چراغ میںبتی اکساتی ہوں گی۔ جس کے دھوئیں سے کتاب کے کاغذ سیاہ ہیں۔ اوریہی سبب ہے کہ انہوںنے فیضی کو اکثر جگہ ستم ظریف کے القاب سے یاد کیا ہے۔ میرے دوستو ۔ ان کی بہنوں اور بھائیوں کی شادیاں امرا اور سلاطین کے خاندانوں میںہونے لگیں انتہا یہ کہ خود بادشاہ بھی ان کے گھر پر چلا آتا تھا۔ ملا صاحب کو یہ بات کہاں نصیب تھی۔ ٭٭٭ اخلاق و عادات فیضی کی تصنیفات سے اوراس کے ان حالات سے جو اور مصنفوں اور مورخوںنے لکھے ہیں معلوم ہوتا ہے کہ شگفتہ مزاج‘ خوش طبع‘ خندہ جبیں شخص ہو گا۔ ہمیشہ ہنستا بولتا رہتا ہو گا۔ شوخی اور ظرافت اس کے کلام پر پھول برساتی ہوں گی۔ اورفکر و ترد د غم و غصہ کو کم پاس آنے دیتی ہو گی۔ یہ بات ابوالفضل کی وضع سے کچھ فرق رکھتی ہے۔ ان پر متانت اور وقات چھائے ہوئے ہیں۔ تم غور سے خیال کرو ان کے اشعار کیسے شگفتہ ہیں خطوط اور رقعوں کو دیکھو ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے بے تکلف بیٹھے ہنستے ہیں اور لکھتے جاتے ہیں ان میں جا بجا لطیفے اور چٹکلے چھوڑتے جاتے ہیںملا صاحب نے بھی کئی جگہ لکھا ہے کہ ایک جلسے میںفلاں شخص سے اور مجھ سے فلاں مسئلے پر گفتگو ہوئی ۔ اس نے یہ کہا کہ میں نے یہ کہا شیخ فیضی بھی موجود تھا۔ ستم ظریفی کی عادت ہی ہے۔ یہ بھی اس کے ساتھ ہمداستاں تھا۔ آزاد سچ ہے میں نے بھی اکثر جلوں کے حال میں خیال کیا۔ کہ بیشک فیضی ہنسی ہنسی میں سب کچھ کہہ جاتے تھے اورسخت بات کو ہنسی میں ٹال دیتے تھے۔ ملا صاحب اس وصف پر بھی جا بجا خاک ڈالتے ہیں۔ چنانچہ ایک جگہ فرماتے ہیںکہ ستم ظریفی اس کی روش قدیمی تھی۔ گرمئے مجلس اورہمزبانی کے لیے دوستوں کے اجتماع کا دل و جان سے طلب گار تھا۔ مگر سر کچلے ہوئے اور دل بجھے ہوئے رکھتا تھا۔مصرعہ یار ما ایں دار دو آں نیز ہم! شیخ فیضی سخی اور مہما ںنواز تھ آپ کا دیوان خانہ علماء شعرا اور اہل کمال کے لیے ہوٹل تھا۔ اپنے بیگانے دوست دشمن سب کے لیے دروازہ کھلا اور دستر خوان بچھا تھا ۔ جو اہل کمال آتے تھ یہ انہیںاپنے گھر میں اتارتے تھے خود بھی بہت سلوک کرتے تھے حضور میں پیش کرتے تھے خدمتیںدلواتے تھے یا جو قسمت کا ہوتا تھا انعام و اکرام مل جاتا تھا۔ عرفی بھی جب آئے تھے تو پہلے انہی کے گھر میں مہمان رہے تھے عہد مذکور کی کتابوں سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ حسن اخلاق لطب طبع شگفتگی مزاج ہروقت فضل و کمال کے گلدستوں سے ان کا دیوان خانہ سجائے رکھتی تھی۔ ساتھ اس کے آسائش و آرام کے سامان بھی ایسے آراستہ کیے تھے کہ گھڑی بھر کی جگہ خواہ مخواہ پہر بھر بیٹھنے کو دل چاہے۔ ملا یعقوب صیرفی کشمیری (جنہوںنے ان کی تفسیر بے نقط پر عربی میں تقریظ لکھی ہے)جب کشمیر چلے گئے تو وہاں سے ملا صاحب کو کئی خط لکھے ہیں۔ ایک خط میں بہت سے مضامین شوقیہ لکھتے ہیں۔اور یہاں کی صحبتوں کویاد کر کے کہتے ہیں ۔ نواب فیاضی کے خسخانہ فیض میں دوپہر کی گرمی میں ستیل پائی کے فرش پر کہ ہوائے کشمیر سے بھی سر د ہے۔ جب بیٹھو اور برفاب پیو اور ان کے نکات شریفہ اور مقالات لطیفہ سنو تو امید ہے کہ مجھ اسیر محبت و حرمان کو بھی یاد کرو۔ اے بزم وصل حاضر غائبان را دست گیر ز آنکہ دست حاضراں از غائباں کوتاہ نیست غزل نقل عرض داشت فیضی بنام اکبر جو خاندیس نے لکھی! ذرہ ہیچ تر از ہیچ فیضی اولاً روئے ارادت بجانب آں قبلہ مراد کہ ظاہر و باطنش نظر گاہ خداوند یست آوردہ ادائے سجدات اخلاص مینما ید۔ بوصوے روحانی کہ دل را بچشمہ سار صدق و صفا برونست و ازغبار ریو در یا شستن نہ بآئین سالوسان صومعہ ظلمت کہ چند قطرہ آب رابر دست و روے ریزندو دل را بہزار کدورت و تیر گئے نفسانی بیا میزند و ایں را پا کی نام نہند۔ ثانیاً دعائے دعام عمرر و دولت و زازیاد عمر دل زندہ و باطن بیدار قصد میکند کہ زندگئے حقیقی ہمانست و پاکان آلہی باں زندہ اندوفنار ابگرد سرا پردہ عزتش راہ نیست و از دولت ہم دوام آگاہی مراد میدارد ۔ الحمد للہ کہ ہر دو عمر و زندگانی و ہر دو لت و کامرانی بہ آنحضرت حاصل است ۔ اگرچہ امثال ایں دعا ہا از مثل ایں نامراداں از ادب دور مینما ید زیرا کہ برگزیدہ کہ تن و جان اشرفش پرورش یافتہ نظر خدائی است و آسمان و ستارہ راکہ بکار سازی و میگرد انند و نقد ہیچ مقصودے نیست کہ در دامن دولت او نہ بستہ اند وہمگی بار عال و عالمیاں بردوش ہمت او نہادند بدائے مشتے خال تہیدست چہ احتیاج دارد اتا بندہ بیچارہ چکند کہ منصب بندگی دعا ست دانایان ہر ملت سر بر زمین نیاز می نہیند و پروردگار ازیں سجد ہابے نیاز است اگر بندہا عمر جاودانی بیا دبندو تمامی عمر دریک سجدہ بگذار انند حق سجود او بجانیا وردہ باشندہ بندہ در قصیدہ توحید گفتہ۔ سر بہ زمین درت برون و برداشتن نے بطریقت درست نے بہ حقیقت روا و در غزلے میگوید در سجدہ کہ سر نہ زتن میشود جدا در ملت وفا گنہش نام کردہ اند یارب بسیل حادثہ طوفاں رسیدہ باد بتخانہ کہ خانقہش نام کردہ اند زہے شرمند گئے بندہ کہ نام سجدہ بدرگاہ اومے برم اما امید میدارم ک یک سجدہ بے سرہم درراہ آنحضرت ابجا آورم الحاصل بعد از جہاں جہاں نیاز و عالم عالم مدح و ثنا عرصہ داشت منیماید۔ وقتے کہ بے سعادتی گریباں گیر بندہ شدہ ازدرکاہ عالی محروم ساخت ایام برسات بود درراہ بار انہائے فراواں گل دلائے بے نہایت بود آہستہ آہستہ ایں راہ طے شدہ بوااسطہ نفس راست گردن چار وار الاح شکست و ریخت در شہر ہائے بزرگ و دوسہ روز توقف درکار بود ۔ دیگراز کاروبار حکام و گیرددار عتمال ممالک محروسہ کہ در اثنائے راہ بودند مبصرانہ و بے غرضانہ ملاحظہ کردہ نظارہ کناں گزشت بعضے را مجمل عرض داشت مینماید۔ بلوچے کہ بفوجداری مقرر شدہ نزدیک بہ تنگے کوہ درمیاں لدھیانہ و سرہند چسپیدہ است دزدانے کہ از کوہ فردومے آیند دزدی دخوں چیزے مے برند۔ بادہم حق نذرے مید ہند۔ درآں حدود راہرواں رابسویش میکشند ۔ حافظ رخنہ باوجود آں ہمہ پیر یہادست و پائے میزند و درحداداامینتے ہست بذات خود امانت و دیانت دار و بااغہار بغایت دلکشا ساختہ میوہ باغہائے اونان و جسغراتست یک روز ہمراہ بندہ پیادہ بسیار گشت و گفت پیادہ مے گردم تا بدانند کہ ہنوز پیرو خزف نشدہ ام و در خدمت تقصیر۔ نیکنم اہل ہند ز و آسودہ ورعایا خوش وقت اندودعائے بندگان حضرت میکند۔ یعقوب بدخشی کروری تھا نیسر خدمت فوجداری و عمل داری تھا نیسرو پرگنات ہردو باجبی میتواند کردو متعہد ا یمنٹے راہ میتواند شد جرات و تردد بواقعی از دست او مے آید۔ قاسم کردرئے پانی پت نویسندہ قدیمی سربراہ است از راستی و دیانت از ممتازاں تو اند بود۔ شائستہ آن ست کہ درگاہ آسماں جاہ بودہ بخدمت کلی سرفراز باشہ۔ رعایائے آنجا گفتہ کہ حکم عالی بردہ عشر شذہ امید دارم کہ عمل براں نماید بموجب وعدہ کہ بایشاں کردہ بود عرض داشت مینماید۔ حکیم ععین الملک نقش دہلی وارد و در خدمت روضہ مقدسہ و مقامات پیران دہلی و خدمت فقرا و حسن سلوک بمردم تقصیر نمیکند و گوجران راہزن حاضر میبا شندو متعہد بندہ اندکہ ذردی نشود پسرش عبداللہ جوان رشید است ہموارہ در خدمت بادشاہی مے باشد۔ استاد یوسف مردود عہد در دہلی ست ریش رادر طنبور سفید کردہ بودا کنوں لبش از ریش و ستش از ناخن سفید تر شدہ نیک محمد چوبانی مرد گار آمدنی است و مستعد بزود خدمت است نمک رابحلالی میخورو شایستہ توجہ عالی است۔ چوں بدارالسلطنت فتحپور رسید اول بآستاں بوسی دولتخانہ سرفراز شدہ برائے سلامتی حضرت دعا کرداز حقیقت شہر چہ نویسد عمارت گلیں ہمہ داخل زمیں شدہ دیوار ہائے سنگین ایستادہ باتشخانہاد خانہار ا بعضے ازدورو بعضے از نزدیک نظارہ کردہ عبرت گرفت خصوصاً از خانہ میر فتح اللہ شیرازی کہ بآبستین نہصد سال ماورایام اور ازادہ بود دبدبہ آلہی بود کہ بحضرت کرامت فرسودہ بودند بآتشخانہائے حکیم ابوالفتح نیز رسد اوہم یگانہ آفاق بودازیں تعریف چہ بالا ترا کنوں وجود برادر گامیش غنیمت است شایستہ مجلس اشرف است سکنہ مواضع فتح پور و پرگنات آں حدود مثل شیخ ابراہمی مردے میطلبند شیخ بایزید پسر شیخ احمد در قبیلہ خود براستی و دستی ذات و اکثر صفات انسانی نظیر ندارد و لائق ایں خدمت است ۔ نیک و بد آنحدود میانہ و بہ اندک کس کار بسیار میتواندکرد ازنیکہ دیگرے بیاید باوتفاوت بسیار است و خویشان اوہم انتظام صییانبد موجب معموری شہر است و مستعد تراست دور وز در فتح پور بابہائے سینہ خراش چاہ درماندہ بود۔ آنگاہ بدرالخلافہ آگرہ کہ صد ہزار مصر بغداد فدائے آب و ہوائے ادبار رسید دی بغایت معمور و مرفہ از لطافت قلعہ عالی کہ حصن حصین دولت و اقبال است چہ شرح دہد کہ حیرت افزائے جہاں نورواں تو اندبودو ازدریائے جون کہ بلب ادب پائے قلعہ بوسیدہ و میگزرد چہ نویسد کہ آبروئے ہفت اقلیم است باد دے از آب نگاہ رندہ تر آب دے از باد گوا رندہ تر از درودیوار شہر شوق مے بار دودرہا چشم انتظار کشادہ و دیوار ہابہ تعظیم مووام عالی ایستادہ امید کہ مجداً بفرقدوم حضرت کامیاب گرددداطوار شاہ قیخاں و سلوک او بغایت پسندیدہ است شہر را برفاہیت نگاہ میدارد مہتر خاں بندہ با اخاص بادشاہ ست وجود او دریں شہر لازم است از احوال فقراو مساکین شہر خبر میگیرد ایں دو کس ا ز تردد نظام الدین احمد بسیارمے گفتند کہ متمردان مواس راکہ مالگزاری نمے کردند قلعہائے مضبوط و جاہائے قلب و اشتہ تنبیہ کرد۔ الحق از اصیلاں خانہ زاد کہ ور پایہ سریر والا تربیت یافتہ اندبغایت رشید است سی سال است کہ بخدمات اقدام مینما یدوروز بروز کار او در بیش است و در اخلاص و دیانت و کاروانی وبیملا حظگی از مردم ممتاز است لائق آں شدہ کہ ہموار بردرگاہ عالی بودہ برامور مالی و ملکی مطلع باشد و در نظر دیانت اوخان خانان و مرد احدی برابر است۔ چوں بدھو لپور رسید سراء دیداز سنگ بغایت رفیع کہ صادق خاں ساختہ و متصل آں حمام گرمے میباشدد باغے دلکشا مشتملبر عارات و دلکش پسرش رشید آنجا لود آں معمورہ را خواب نگاہ داشتہ و برسرراہ بسیارے از بند ہائے خدا فیض مے برندو آسائش مے یابند۔ سیر قلعہ گوالیار نیز کردہ شد میر مرتضیٰ نذر خاں پسر خدادند خاں کہ جوہر رشد از و پیداست پیش از بندہ یک روزہ رسیدہ بودند ویکے ازاحد یاں اززا ودھ کو چانیدہ آوردہ بودد بجا گیر جدید ہئیر جمیعتے واشتند میر مرتضیٰ مرکار آمدنی ست و تجربہ کارست درقلعہ نردرکشنداس یباشد و درا منیت راہ آنچہ از دست ا و مے آید بجامے آرد انا کاراز اندازہ اوست میر مصطفے بامتمروان نواحی سربسرہست۔ تعریف ولایت مالوہ بہ کدام قلم نگار د آبہائے رواں دید کہ در ہر قدمے ازاں بایستے گزشت از ہمہ سو چشمہائے دلکشاچوں دلہائے پاکاں میجو شید ازیں رباعی کہ گفتہ بود بیاد آمد رباعی زاہد بشگفت و گل تو پذ مردہ ہنوز شد بادرواں تو پائے افسردہ ہنوز از تابش آفتاب در سینہ سنگ صد چشمہ بجو شید تو افسردہ ہنوز زمینش ہمہ صالح زراعت بعضے ازاں قبیل کہ نیشکر بے آنکہ آب و ہند میشودو سیراب سجدے کہ درپنج گزی آب برمے آید ہزار شکر کہ بطنطنہ مخدوم عالی و موکب اقبال شاہزادہ عالمیاں نزدیک رسیدہ کہ روح بناتی در قالب ایں گل زمین کہ گلشن مراد و گلزار عزتست درآید حق سبحانہ تعالٰ قدوم ایشاں را برکل ایں ممالک کہ برسمت قطب جنوبی واقع شدہ مبارک گرداندو ایشاں رادر نور آفتاب دولت آنحضرت چوں قطب ثابت و پایدار دارد۔ سرونج شہریست کہ حکم بندر دارد و بلند خاں خواجہ سرا در ویرانی و تقصیر نمے کند و خانہائے کہ خویشان شہابخان و منصبدارا ں و سائر مردم بتدریج ساختہ بودند چو بہائے اور اکندہ فروختہ و درودیوار ہم شکستہ اگرچہ از پیری دت و پایش میلرز دو عنقریب است کہ دیوار گلبن بدنش از ہم ریز داما ولش ہمچناں سنگین است۔ در سجاد لپور خواجہ امین خویش وزیر خاں برعایا سلوک کوب کردہ و تقاوی و ادہ و پرگنہ معمور ساختہ و ہمہ چیز خود میر سد کارخانہائے پارچہ بانی ترتیب دادہ کہ چیرہ و فوطہ برائے حضرت مے بافند و دکان کاردانی واکردہ از دست خیلی خدمت و سربراہی مے آید اگر خدمت سرونج بعہدہ او باشد شہر معمور میشور قابل توجہ و تعمیر است رایق و فائق اجین بلکہ تمامی مالوہ محب علی اسب از دست اوکار مے آیدابراہیم قلی پسر اسمعیل خاں باجمعیت دراجین بو قاضی بابا مردے خوب ست۔ باغچہ نیشکرے دارد کہ قابل تعریف است درہیچ جابایں لطافت نیشکر خوب نمے شود۔ مندرودیدہ شد ویرانہ است عبرت افزا نربداپایاب بود شتران و کارواں بااسباب گزشتہ اسمعیل قلی خاں نظر آقا یوز باشی رادرحد جاگیر خود نگاہداشتہ سابق نوکر خانخاناں بود مرویست لایق خدمات بادشاہی و قابل ترقیات است دریں راہ قاصدان راجی علیخان ہمیشہ بامکتوبات می آمدند چوں بجاگیر او درآمد مردم مردم خوب منزل بمنزل میر سیدند و رسوم و آداب کہ میباشد بجامی آوردند کیفیت ملاقات او آں بود کہ معروض داشت۔ آوازہ فرقہ دم موکب جہاں نورد حضرت شاہزادہ عالمیان گوش ہوش اہل دربار رابارکردہ است راجی علی خان ہمیشہ میگوید سعادت ایں دیار است کہ شاہزادہ عالمیاں سایہ دولت و اقبا ل برامی می گستر ندایں سایہ برسر من مستدام باد حقیقت خدمتگاری و خیر خواہی من بر حضرت ایشاں روز بروز ظاہر خواہد شد و نتائج خدمات قدیم و جدید من بظہور خواہد پیوست و موجب سرفرازی من پروردگار عالم پناہ خواہد شد حالادر ساختگی پیشکش است کہ باعرضہ داشت مبارک قدوم شاہزادہ عالمیان دریںدوسہ روز روانہ سازد و جہیر لائق جہتہ دوصیہ برساختگی میکند کہ بندہ ہمراہ گرفتہ روانہ درگاہ معلے شودیکے راکہ ازدست برائے شاہزادہ بزرگ ادام اللہ اقبالہ آبخا بیارد۔ ویکے راکہ دختر پسر است بحضرت شاہزادہ عالمیان مدظلہ العالی درمالوہ حسب الحکم رساند اگر بندگان حضرت نیز از رائے التفات در فرمانے کہ بحضرت شاہزادہ اصد ار فرمائید اشارت بہ قبول ایںمعنی فرمایند بندہ نواز یست مبادا حضرت شاہزادہ فرمایند کہ بما حکم نرسیدہ و درفرمان جہاں مطاع قید نہ شدہ ملاحظہ ارد کہ بایںتقریب کہ از اختراعات واہمہ است توقفے واقع شود واجب بود معروج داشت۔ دو روز از رسیدن برہان پور گزشتہ بود ہ فرمان عالمیان مشتمل بر حکم رفتن بندہ پیش برہان نظام الملک شرف و رودیافت نمیداند کہ بندہ چہ بیطالعی دارد کہ ازدرگاہ معلے روز بروز تر میشود روزگار انتقام ایام دوام ملازمت کہ درسی سال حاصل بود دریں چند روز میخواہد بکشد بغیر از صبر چارہ نیست امیدوار است کہ اگر مہلتے نصیب باشد عنقریب مراجعت نمودہ بآستاں بوس عالی کہ متضمن سعادت جاودانی است کامیاب گردو دریں راہ ہر جادر ویشے شکستہ و مجذوبے شنید تنہا و پنہاں ملازمت کرد ہرگاہ التماس دعا برائے حضرت نمود اکثرے ہمیں گفتہ اندکہ آنحضرت راچہ احتیاج بدعائے ماست کار آں حضرت خدا ساختہ است بایں وجہ او محتاجیم و فے الواقع امراز کدام آرزو ست کہ آنحضرت را بوجہ کمال حاصل نباشد شایہ عدالت آنحضرت بر مفارق عالم و عالمیاں ابدی باد۔ برہان پور و حوالے او اندک جائے ست بغایت تنگ اکثرے بوستان ہرجا قطع زمینے بودہ مزروع شدہ از میوہ انجیر خوب میشود و خربزہ فرنگی ہم بشاخ درخت بست بست وسی سی خﷺشہ جنبانست کم نیست و اقسام کیلہ کہ میتواں خورد فراوانست خرپزہ ہندوستانی ہم ہفتہ باشد کہ رسیدہ و ہوائے اینجادر دے ماہ آلہی بہ طور ے گرم است کہ روز بجامہ یکتہی میاشد و شبہا بقبا اندک احتیاج میشود۔ آبہا خیلے تغیر کردہ از نزدیک شدن ایام نوروز و تصور دور بودن از درگاہ عالی باطن رابے آرام مے یابد اما ازانجا کہ پرتو عنایت آں حضرت بردوران و نزدیکان چوں نور آفتاب عالم تاب یکساں مے تابد فے الجملہ خود را تسلی میدہدو بتقدیرات ایزدی و رضائے شاہنشاہی خوش وقت ست حق تعالیٰ آں حضرت راعلے الدوام برحاضر و غائب و قریب و بعید و فقیر و غنی سایہ گستر دارد۔ یارب سرخیل کا میاباں باشی فرماں دہ آسماں خیاباں باشی تا سایہ و آفتاب باشند بہم درسایہ آفتاب تاباں باشی (۲) عرض داشت۔ مشتے خاک سرگرداں فیضی بجمیع ذرات و جور ہزاراںہزار تسلیم و سجود بتقدیم رسایندہ بمسامع والائے عاکفان عالی حضرت شاہنشاہی ظل الٰہی شاہ جہاں پرور اقلیم بخش تخت فرزاندہ ویہیم و تخش طلعت او آئینہ ذات حق فکرت و حجت اثبات حق قوت کونین ببازوئے او گنج دو عالم بتر از روئے او زوچو جم و جام نظر بہ کفش اوچو سلیماں خرد آصفش ہرچہ نہ از فکر بہ نزدش فسوں ہرچہ نہ از عقل بہ نزوش جنوں شیر شکارے کہ بہ بخت جواں کردہ شکارے دل بے آہواں شیر دل و شیر کشن وہ شیر گر تیر رو زود رس و دیر گیر از ورق غیب سبق یافتہ رتبہ ہمنامی حق یافتہ رباعی شاہے کہ لوائے رفعتش دور زدند در انجمنش ترانہ سور زدند آں سب ک فروغ او جہاں رابگرفت انجم بہ نظارہ عطسہ نور زدند رباعی شاہے کہ وجود او کمال است کمال اندیشہ بو صف او محال است محال ہرچند کہ اس م و جلال است جلال ذاتش ہمہ مظہر جمال است جمال ذرہ وار خاک کردار معروض میدارد ۔ ابتدائے عرض حال از تجلیات صبح صادق کہ زمان عشرت صبوحی کشاں خلوت خانہ نوروز ہنگام جوش و خروش زمزمہ سازان جلوہ گاہ حضور است مے نماید سحر ہاچوں از خواب (ک در محروی غشی کہ بحالت بحراں عارض شود و مرگ ناگہانی برابر میداند) سراسیمہ بر میخیزد بہ سفیدہ سحری کہ بہزاراں نور جلدہ گری میکند چشم حیرت مے کشاید بہ تصور آنکہ ایں آں سفیدہ صبح دولت و بیاض سعادت است کہ آں حضرت در انتظار ظہور آں بادیدہ و دل بیدار بدولت می نشینند بعد بعد ازاں کہ خطوط شعاعے نیر عالمتاب از مشرق بمشرق می پیوندد و از ہر خط مثل نور بدیدہ می کشندد پیغام سرور بہ دل مئی ساند کہ ایں ہماں سر رشتہ نور است کہ بآں حضرت رابطہ صوری و معنوی دارد چوں طلوع آں نور اعظم و نیر اکبر تمام و کمال میشود دیدہ رابآں نور الانوار آب و دل را باں رو ح الارواح تاب میدہدو دوام بقا و سجدہ لقائے آنحضرت را بہزاراں دعا و نیاز میخواہد و ایں ذرہ راست درباب صبح صادق دریاب کہ صبح عیش رو بنمود است خورشید در نور بدل بکشود است بنگر بہ سفیدہ دم کہ پیشانی چرخ در سجدہ خورشید غبار آلود است رباعی بنگر بہ سفیدہ تازہ نہ گلشن ازو گلچیناں را شگوفہ در دامن او نے نے گردے زلشکر خورشید است گردے کہ شود چسم جہاں روزن ازو رباعی ہر صبح دل فیض طلب می باید دریوزہ نور از دل شب می باید ای ذرہ چرا بے سروپا می گردی درحضرت خورشید ادب می باید رباعی شد صبح جہاں روشنی از سربگذشت زینبدہ سپہر زیب دیگر بگرفت خورشید کراں تا بکراں نور افگند سر تا سر عالم ہمہ در زر بگرفت دیر از احوال روز و شب چہ نویسد کہ بادیوار ہا ہمراز و بادر ہا ہم آواز ہست و شادمانی منحصر دراں میدان کہ خطہائے خدمت ابوی واخوئی از پایہ سریر خلافت میر سد مشتمل بر صحت مزاج اقدس کہ چوں طبیعت بہار باعتدال سررشتہ اندوحرف سعادت جاودانی برلوحہ پیشانی بکلک ازلی نوشتہ و آنکہ در درا السلطنت برتخت عزو جلال کہ مرکز دولت و اقبال است نشہ انتظام عالم و عالمیان بہ قوانین عقل کامل و اسالیب عدل شامل میفر مایند و مژدہ فتح و نوید نصرف از اطراف و اکناف ممالک محروسہ میر سد۔ ازیں بشارت ہائے ربانی سجد ہائے شکر پروردگار بتقدیم میر ساند و این نیم نفس باقی ماندہ رابہ ہمیں مژدہ ہائے دلاویز وابستہ میداند دچوں حالات ایں حدود موبموے برضمیر انور کہ آئینہ گیتی نمائے عل کل میداند روشن است ۔ برہماں اکتفامی نماید برہان نظام الملک از خاک برداشتہائے آنحضرت و پروردہ نعمت آں دولت خانہ خود را میداند ۔ چہار ماہ کامل ہست کہ بر سر جاگیر عادل خاں رفتہ از احمد نگر بمسافت ہفتاد وپنج کر وہے نشستہ و برکنار آب نہلوارہ کہ آبیست بزرگ و سرحدیست میاں جاگیر ہر دو قلعہ گلبن ساختہ و عادل خاں ہنوز در قلعہ بیجا پور نشستہ و لکر خود را باشاہزادہ ہزار سوار فرستاد و ہر روز جمعے ا ز طرفین برآمدہ جنگ میکندو از جانبین جماعتے کشتہ میشود و دریں ایام باقر را کہ عموی برہان نظام الملک میشود دربیجا پور بفلاکت می بودو عادل خاں اور ابرداشتہ و پیش رو لشکر خود کردہ گفت کہ تو بحکومت میر سی و ازیں معنی فی الجملہ نگرانی راہ یافتہ و راجی علی خاں دوکس اعتمادی خود را پیش نمودہ احتمال دارد کہ دریں ماہ گرگ آشتی فرار یابد اماہنوز اثرے پیدانیست وقتے کہ از احمد نگر میرفت مبالغہ عظیم کردہ شدد بیطاقتی ہا نمودہ شد بعجز تمام گفت کہ پیش کش تیار میشود بآنکہ نیمہ رارفتہ بود دو مرتبہ پیش او رسید و چندانکہ درحوصلہ گنجد نصیحت ہائے روشن کہ درجات و دانش و قانون معاملہ پسند نماید ۔ رہنمونی کردہ شد گفت ہنوز پیشکش تیار نشدہ بے اختیار در شہر پر شورش کہ از فتنہ سازاں و اوباشاں لبالب است تکیہ بر اقبال آں حضرت کردہ توقف نمود ہمیشہ خط مینو یسد کہ شمارا معاملہ بآں درگاہ عالم پناہ رواں مے ساز م چوں تربیت کردہ و نظر یافتہ حضرت است امیدوار است کہ ہمیشہ بر شاہزادہ سعادت سلوک نماید و سلوک او مقبول درگا ہ حضرت شود تا عاقبت او بخیر باشد چیز برآں حضرت ظاہر است و ہمہ و قائق احوال نیز برضمیر اقدس پرتو خواہد نداخت احمد نگر را احمد بنا کردہ کہ پدر نظام الملک بحر یست کہ جد ایں برہان است بایں طریق برہان بن احمد و احمد قلعہ ساختہ از شہر چا ر پنج تیر پرتاب دور است و حاکم آبخامی نشیند و اطراف قلعہ میدان ست و شہر طولانی آباد شدہ و حصارے ندارد وا ز احمد نگر دوکر وہی چشمہ ایست کہ آب را بطریق کاریز بہ شہر آوردہ و تقسیم کردہ در بعضے خانہائے بزرگاں جدول پوشیدہ ازاں آب رسیدہ و حوضکہاست کہ پرمیشودو باقی مردم بہ تمام و کمال شورا بہائے چاہ میخورند و مولانا عبدالرحمن جامی از بوالعجبی ہائے عالم گفتہ اند مستلزم ممات بود زہر و قیمتی است سرمایہ حیات بود آب و کم بہاست در ایام جنوں مرتضے بیروں شہر صلابت خاں بنامش باغے ساختہ فرح بخش نام سردبسیار داردو عمارتے است درمیان حوض بندہ آں را ندیدہ و ہوائے ایں حدود چندانے گرم نیست درعین سرطان کہ تیر ماہ الہی است شبہا احتیاج بلحاف میشو داز میوہ ہائے خربزہ خود اصلانیست چیزے درشت بیمزہ میشود کہ مردم ایں جامیگفتند خرپزہ است بندہ باور نکردوہ از میوہ ہا انجیر ایں جا بدنیست او انگور فخرے و دیگر اقسا ہم میشود اما فراواں نہ انناس از اطراف بسیار می آرند۔ امرت پھل وکیلہ فراوان است انبہ ایں جابد نیست گل سرخ بغایت کم باوجود کمی کم بوہم چنبہ و دیگر گلہائے ہندوستان بسیار است درخت صندل درباغہانشاں مید ہند درخت فلفل بسیار ست چند درخت انبہ ایں جاست کہ در دلود حوت برمیدہد واز محترفہ زرگراں خوب و پارچہ بافاں بے بدل اند۔ از ہمہ چیز دکن پارچہ است کہ میتواں گفت کاغذ و پارچہ خوب دردو جامے سازند و مے بافندیکے درپتن و دیگر در دولت آباد بیش ازیں چند سال دو بار ای جا قتل عام شرویک کس ازمردم ولایت زندہ نماندہ و تاسہ روزمی کشتند مردم خوب از فضلا و تجار و غیر آں کہ دریں مدت جمع شدہ بودند بہ قتل رسیدند و خانہائے آنہارا بغارت بردند و یکبار دیگر بعد از آمدن برہان الملک تاراج عظیم برسرغریباں شد و ہر کہ برسر اسباب خود می ایستادمی کشتند و زخمی میکردند برادران شیخ منور ایں جاغارت زدہ و زخمی ہستند واز شرم بخانہ خود نمی تواند رفت و شیخ منور ایں جا امید وار عنایت است و سوداگران افغان لاہوری تاراج زدہ بسیارمی گردند و بعضی مردم و ملازماں عصمت قباب سلیمہ سلطان بیگم نیز غارت یافتہ ہستند اسبابے کہ بدست ایں طور اوباشاں افتادہ باشد چگونہ باز بدست می آید بیفائدہ می گردند و سرگردانند۔ دیگر ابراہیم عادل خاں حاکم بیجا پور بیست و دوسالہ است و برادر زادہ علی عادل خاں خالی از جوہر سعادت نیست ارادت غائبانہ بحضرت داردچوں دلاور حبشی تربیت کردہ اوتسنن دارد و ایں دلاور را بد کردہ اند حالا پیش نظام الملک ہست و محمد قلی قطب الملک تشیع دارد۔ معمورہ ساختہ و عمارت پرداختہ بھاگ نگر نام بنام بھاگ متی کہ فاحشہ کہنہ و معشوقہ قدیم ادست حالا ولایت دکن ازانچہ در جاگیر ایں دوسہ کس مقرر است و چہ ازانچہ راجہا دارند و سلوک اینہا بایک دیگر مبصر اند باوجود چندیں موانع ملاحظہ کردہ شد اگر دمے چند دیگر مہلت باشد بحضور اشرف بہ تفصیل عرضہ داشت خواہد نمود وایں ولایت را داخل ممالک محروسہ می شمار دویک مرتبہ طنطہ قدوم اشرف و آوازہ موکب عالی ایں حدود رسید۔ ایں غزل بہ طریق حسب حال روئے نمود چوں از دل اخلاص منزل برخاستہ امید بہ وقوع انجامد ۔ غزل نسیم صبح مشک افشاں زگرد راہ می آید مگر از موکب اقبال اکبر شاہ می آید شبستان سعادت راز نقل وے لبالب کن کہ شہ در بوستان و شمع درخرگاہ می آید مغنی حجلہائے ارغنوں ترا قفل بردرنہ کہ در گوشہ صدائے کوس اکبر شاہ می آد بہ مہد سایہ دولت جہاں گو بادشاہی کن کہ بال افشاں ہمائے چتر ظل اللہ می آید اگر غم در غم شادی نمیرد جائے آں وارد نشاط دوستاں بر دشمناں جانکاہ می آید منجم بر سعادتہائے روز افزوں کواکب را بشارت دہ کہ بر اوج ثریا ماہ می آید بہ ہمت فتح عالم کن کہ در میداں سریاراں ز صد لشکر بیاید آنچہ ازیک آہ می آید دعا رامی برم تا آسماں بردست و ایں باشد کہ از دست دعا گویان دولت خواہ می آید دم صبح سعادت میدہد غافل مشو فیضی کہ فیض صبح آگاہی بر دل آگاہ می آید خموشی را بلند آوازہ کن ایں جا کہ از حیرت عیادت نیک میخیزد نفس کوتاہ می آید حضرتا برہمزدگی ضمیرد و آشفتگی دماغ نہ آنچناں سراسیمہ دارد کہ سروسامان سخن آرائے برگ و نوائے اندیشہ پیمائے ماندہ باشد دلیل ایں معنی ست کہ از لسان الغیب دارد شدہ۔ کے شعر تر انگیز خاطر کہ حزیں باشد یک نکتہ ازیں معنی گفتیم و ہمیں باشد گاہ گاہے در د ولی و حسب حالی بے اختیار بیروں می تراددگاہ ہمہ حسب حالت گاہ دریک بیت دوبیت درج میابد باقی بطفیل گفتہ میشود چنانچہ روشن غزل است کہ ہر بیتے از حاتے خبر میدہد و آنکہ تمام غزل بیک و تیرہ واقع میشود نادرمے افتد یک مرتبہ عرضہ داشت بدرگاہ می فرستاد و ایں غزل درحسب حال آں روئے نمود۔ فرستادہ ام گل بدست گیا ہے زبہر کل گوشہ کج کلا ہے نفس ریزہ بستہ بربال شوقے جگر پارہ ماند بر برگ آہے گرد دادہ دل در کف تیرہ شامے گردہ کردہ دم بادم صبح گاہے مژہ چند بر موکب شہر یارے نظر باز بر جلوہ شاہ راہے بایں نیم آہے کہ تالب بجنبد تسلی دہ آرزو گاہے گاہے ہزاراں غم آورد روبا کہ گویم کہ برنیم جاں کس نیار و سپاہے چرا میزند شعلہ سر تا بہ پایم اگر موبمویم ندارد گناہے زخون ناب مژگاں چہ بیروں تراوم چہ گلہا کہ سہ روز شب گیا ہے چہ پرسی کہ در خاک و خوں کیست فیضی بیغتاد صیدے زفتراک شاہے یک مرتبہ بعضے ہمراہاں بہ طریق خالی شدن شہر و گریز اگریزی مردم داخل فتنہ و فساد بیدلی کردند و بندہ نصیحت گرانیہا بودم و میگفتم کہ یاراں مرابہ فتراک اقبال ابد قرین بندید و ایں را حصار الٰہی بہ شمار ید و غم مخورید دریں باب ایں غزل روئے نمود غزل باز یادان طریقت سفرے درپیش است رہ نوردان بلارا خطرے درپیش است پانہ نہادہ دریں بادیہ قافلہ سوز ہر کہ دیدم ز اندیشہ سرے درپیش است کس نمی گویدم از منزل اول خبرے صد بیاباں بگذشت و دگرے درپیش است ہمرہاں ایں ہمہ نومید بنا شید از من کہ دعائی سحرم را اثرے درپیش است مانہ آنیم کہ نادیدہ قدم بگذاریم شکر کن قافلہ را رہبرے درپیش است عاقبت ناصیہ ماشود آئینہ بخت کوکب طالع مارا نظرے درپیش است اے صبا برسر آفاق گل مژدہ بریز کہ شب تیرہ مارا سحرے درپیش است فیضی ار قافلہ کعبہ رواں نیست بروں ایں قدر ہست کہ از قدرے درپیش است آخر الامر بعضے ہمراہان تاب ہمراہی نیاوردہ و کوتہ اندیشی نمودہ رفتند بہ تقریب آنہا گفتہ شد حسب حال است کہ نوشتہ می شود۔ زہم رہاں بہ کہ نالم کہ کوتہی کردند بمیر قافلہ عشق بے رہی کردند ہزار بادیہ زیں نامور فغاں آباد کہ محمل دلم ازبار خود تہی کردند گذاشتن چومنے را نہ از مروت بود براہ عقل نرفتند و ابلہی کردند بگرد نالہ شبگیر بختیاں گردم کہ در سماع نشستند و خرگہی کردند بیار ساقی ازاں شمع راہ گر مرداں بدہ بکورئے آنانکہ گمرہی کردند نوید بخت بہ فیضی رساں کہ اہل طلب جمازہ گرم بیاد شہنشہی کردند دیگر در ایام طراوت بہادر و لطافت اروی بہشت کہ نسیم آں از دل دود مے انگیخت وہوائے آں برجگر آتش مے بیخت دوبیت گفتہ شدہ بود درمیان ایں غزل است کہ در زمین غزل میر شاہی واقعہ شدہ است ماسادہ لوح دیر و خط سر نوشت ما عکس است از کتابہ طاق کنشت ما در راہ ما دلیر تگاپو مکن کہ ہست بالعرسالکان مراسر نوشت ما اے کبک مسعت قہقہہ برباغ مامبر گل غنچہ میکند دم اردی بہشت ما معلوم شد کہ حاصل مازین بہار چیست روزے کہ برق فتنہ وزدگرد کشت ما تعظیم حال دروکشاں داشت در نظر پیر مغاں کہ برسرخم ماند خشت ما فیضی بہ بین بہ ناصیہ ماکہ عشق کرد محو سجودیت رقم سرنوشت ما ودر ہمیں ایام یکبار فوارہ میجو شید ایں غزل حسب حال روئے نمود میکشد شعلہ سرے از دل صد پارہ ما جوش آتش بود امروز بفوارہ ما ہر کسے روز ازل تختہ تعلیم گرفت عشق مشاطگی آموخت ز نظارہ ما ہیچ دانی دل ماخورد چرا بشکستند آسماں آئینہا ساخت ز سیارہ ما رونق عہد بہ بینید کہ بر بستر خوں فتن مے بارو از آئین ستمگارہ ما خون پاکاں بود امروز دریں شہر کہ ہست جرعہ مژدہ فشاں برلب خونخوارہ ما دیدہ او بگذار جگر انباشتہ باد! ہر کہ گوید خبرے از دل آوارہ ما فیضی از نقد جہاں گرچہ تہی دستانیم کیمیا سالہ برد زنگ ز رخسارہ ما تربت میر حسن دہلوی در دولت آباد ات غالباً ہمراہ سلطان علاء الدین آمدہ ایں جا عمر مستعار را بآخر رسانید بخاطر رسید کہ دیوان ا و کشودہ یک غزل تبر کاتیمنا تتبع نمودہ شود اتفاقاً ایں غزل آمد باز نوائے بلبلاں عشق تو یاد میدہد ہر کہ بہ عشق نیست خوش عمر بباد میدہد شکستہ بستہ گفتہ شداز اتفاقات حسنہ آنکہ نام حضرت شاہزادہ عالمیاں قافیہ بود و بنام ایشاں مزین ساختہ فرستادہ و ایں معنی راتفاول برفتح و نصرت نمود بعرض اشرف نیز میر ساند صبح کہ ترک مست من شیشہ کشا میدہد عقل بخاک میدہد صبر بباد میدہد ہم مژہ اش ستیزہ را دشن بدست میدہد ہم نگہش زمانہ را عربدہ باد میدہد آہ کہ بردماغ دل میز ندم نسیم خوں جرعہ بسا غرے کہ آں ترک نژاد مید ہد جلوہ کاروان مانیست بناقہ و جرس شوق تو راہ می بعد درد تو زاد میدہد بیکسم و شکستہ دل تشنہ ابر وہمہ گربخور ندخون من کیست کہ داد میدہد فیضی نامراد من ازغم دہر غم مخور زانکہ مراد اہل دل شاہ مراد میدہد تاج ستان و تاج بخش باد کہ درسپہ کشی باغ غبار موکبش تاج قباد میدہد الحاصل در ہر آنے و درہر شانے آں حضرت ملحوظ و مشہور ندو مناقب و معالی آں حضرت ہموارہ در نظر است و حالات و کمالات درپیش دیدہ جلوہ گر در نظم و نثر حضرت و ایں حالت دریں غزل درج نمودہ شد ہر نظم گوہریں کہ بیاد تو گفتہ ام دل رخنہ کردہ و جگر خویش سفتہ ام از دیدہ صد نگاہ فراہم نمودہ ام تاکر دصد نظارہ زراہ تو رفتہ ام بیداری ستارہ گواہ است کز فراق شب بگذر اندم کہ بر آتش نخفتہ ام بربستہ ام شگاف دل از پارہ جگر تابنگری کہ درد تو در دل نہفتہ ام دارم ہزارہ پارہ ولے دہ چہ حسرت است کاندر خزان ہجر تو گلگل شگفتہ ام چوں جلعہ تو در و دل و در دیدہ من است تاخود حدیث گفتہ و از خود شنفتہ ام فیضی گماں مبر کہ غم دل بگفتہ ماند اسرار عشق آنچہ تواں گفت گفتہ ام دیگر امثال شش جہاز از ہرمز دریاے شدہ بود خواجہ معنائی جہری کہ عمدہ تجار است باقفائے دولت اسپ عراقی تاسہ جہاز بکوہ رفت و قاعدہ فرنگیان است کہ چہار اسپ رابکوہ می برندواسپان را آنچہ خواہش میکنندے مے گیرند و باقی را میگزا ر ندوبسہ جہاز در اروی بہشت ماہ الٰہی در چیول کہ داخل جاگیر نظام الملک است رسیدہ ایں مردم گفتہ اند کہ بست و چہار روز در دریا بودیم بعضے سوداگراں و بعضے قزلباشاں راکہ از صر ٖصر حوادث و فتن عراق و فارس فرار نمودہ بعزیمت آستاں بوس آں حضرت بمامن ممالک حفوسہ رسیدہ اند کلانتر اینہا حسن قلی افشار ست جوان بہادر ست در زمان طہماسب حکومت بعضے از نواحے اصفہان کردہ و دیگر حسین بیگ لشکر نویس است کہ در ایام حکومت یعقوب خاں نتوانست آبخا قرار بہ بو دن داد۔ وایں دوکس باکو چ خو د آمدند و در چیول فکر زار راہ میکنند بہ بندہ خطہا فرستادہ استمائے طلب داشتہ بودند بندہ یک جواب بہر ود نوشتہ بود خط اینہا بجنس و نقل خط خود ارسال داشتہ بنظر اقدس خواہد گذشت دیگر از اہل جہاز حمزہ حسن بیگ است کہ خویش خان خاناں است عزیمت تتہ دارد دیگر حاجی ابراہیم رکابدار سابق شاہ طہماسپ بود عنایت بیگ اور امی شناسد و غلامے زرگر ہم میداند چندے از اہل جہاز تا احمد نگر اند احوال عراق و روم و آں حدود بطورے کہ معلوم شد خلاصہ آں بعرض میر ساند شاہ عباس بہ بست سالگی رسیدہ و عین شعلہ جوانی اوست زانچہ طالع دو برادر اوکہ ابوطالب میرزا و طہماسپ میراز انام دارند مصحوب عرضہ داشت ارسال داشتہ منجمان درگاہ احوال و احکام از آغاز و انجام عرض خواہند نمود شاہ عباس بہ تفننگ اندازی و چوگان بازی و نیزہ بازی و شکار شغفے تمام دارد و بیاز شاہین مائل ست پارسال دو مرتبہ در نیزہ بازی از اسپ افتاد یک مرتبہ در اصفحان و یک مرتبہ در شیر ازو در ہر مرتبہ بزانوئے او آسیب عظیم رسیدہ اما بخیر گذشت آثار شجاعت و جاوت و غیرت از پیشانی احوال او مے درخشند باوجود مستی جوانی و شاہی کہ ہوش ربائے اکثر جوانان است جوہر رشد و عقل ازومی تابد ہنوز بہ نفس خود بہ مہمات سلطنت پرداختہ و کاروبار ملک و مال بہ عملہ و فعلہ گذاشتہ ۔ فرہاد خاں وکیل مطلق العنان و مصاحب دائمی اوست و حاتم بیگ ارد باری کہ ازدرایت و کفایت بہرہ تمام دارد وزیر حکومت است نزدیک رسیدہ کہ شاہم ہم از خواب گران غفلت بیدار شودو از مستی ایں بادہ ریا ہشیار گردد۔ و ازیں کہ اکثر ولایت خراستان از بے پروائی و پریشاں رائی از دست رفتہ بغایت متاثر است و در استخلاص آں اہتمام دارد پار سال میخواست کہ برسرخراساں لشکری چوں قریب ہری رسید طاعونہ پیدا شد بعضے رادر تہ بغل و بعضے رادر بیخ ران کہ مفرح اعضائے رئیسہ اند بشرہ مقدار نکود یا زیادہ یا کم برمی آید و ازہم میگذشتند ۔ شاہ ہم تب کرد و فتح عزیمت نمود و بجانب قزویں شتافتہ و فرہاد خاں با بعضے امرائے خراساں و بعض؁ شہر را گرفتہ در حوالے مشہد رسید و چندیں ہزار ازبک رادراں میاں کشت پسر عبداللہ از براہ یلغار کردہ و برسراورفت واد بموجب قرارداد کہ بشاہ کردہ بود برگشتہ بہ قویں آمد مردم کارواں میگفتند کہ پسر عبداللہ خاں باپنج شش ہزار کس کہ دریں یلغار رسیدہ بودند اگر فرہاد خاں می ایستاد کار از پیش بردہ بود شاہ را پار سال منجماں منع میکردند کہ بہ خراسان متوجہ نشود و بہ امسال مے گفتند کہ لشکر بہ کشد فتح از جانب شاہ خواہد بود و بہ ہمیںمضمون خطے از خان احمد گیلانی کہ از عالم نجوم بہرہ مند ست نیز رسیدہ و دیگر دولتیار کرد درمیان تبریز و قزویں بابست ہزار کس نامردی کردیک مرتبہ شاہ بجبتہ دفع و حسیں حاں حاکم قم را باپا نزدہ ہزار کس فرستادہ بود حسیں خاں شکست یافتہ بود احتمال داشت کہ چوں بخراساں متوجہ شود دولتیار برسر قزویں بیاید شاہ در دہم رمضان سال گذشتہ خود برسر دولتیار رفت بعضے برادران دولتیار ایں معنی را فہمیدہ خود شمشیر درگر دن کردہ پیش شاہ آمد شاہ اورا در صندوق کردہ در قزوین آورد و سوخت مردم می گفتند کہ دفع او کم از دفع ازبک نبود شاہ درہمہ ایام تورچی راپیش خان احمد گیلانی فرستادہ بود و برسر پرخاش شدہ بود کہ مارا ایں ہمہ حوادث ردے از شماداد ہیچ اثر یک جہتی ظاہر نشد خسان احمد ضعیف نالی کردہ پیری و توانائی را درمیان آورد اظہار کمال خلوص واردات نمودہ و گفتہ کہ ولایت و ناموس من ہمہ تعلق بشاہ دار دو صبیہ خودر ابہ فرزند شاہ کہ صفی نام دارد و درمشہد متولد شدہ و شش سالہ است امزوساختہ عریضہ نوشت شاہ ایں معنی قبول نمودہ ا ز قزوین حاتم بیگ رابا جمعے از علما بگیلان فرستاد و رشب برات گزشتہ عقد غائبانہ کردہ اند ورفتن و آمدن ایں مردم بہ چہل روش کشید خاں احمد آرزو ابریشم قماش کار است و دیگر تحفہا قریب بدہ ہزار تو ماں فرستاد و بروند ہاہم خوب پیش آمد بعد ازاں شاہ ز قزوین بہ اصفہان متوجہ شدہ در راہ خطے رسید کہ در یزدجماعۃ ازبک قریب بصد و پنجاہ کس بہ بہانہ موداگری آمدہ اندو بہ سپاہی مے مانند بحاکم یزد نوشت ہ آنہا راتا رسیدمن بہ حکمت نگاہ دارد و چوں شاہ در یزد آمد آنہارا پر سید و خواست کہ آزار رساند گفتہ اند کہ ما سوداگر انیم اگر شما سوداگراں را آزار میر سانید سوداگران ولایت شماہم آنجا بسیار اند شاہ آنہار ا گذاشت و ازیزد باصفہاں آمد و قور چیاں را باہتمام تمام ولایتہا فرستاد و مقرر ساخت کہ در ہمیں نوروز حوالے طہراں کہ ہمہ لشکر از اطراف جمع باشد و قرارداد کہ امر و قورچیاں کوچ خود را ہمراہ بردندتا برسر ناموس خود بودہ خیال برگشتن بخود راند ہند و انتظار خیر باد کار سلطان کہ بدرگاہ عالم پناہ آمدہ بسیارمے برد و توقع داشت کہ فکر لشکر ازیں جانب بہ طرف خراسان تعین شود ظاہر آنست کہ اگر امرائے اطراف ولایت تمرد و مخالفت نہ نمودہ باشند بعد از نوروز برخراساں لشکر کشیدہ باشد و منجمان عراق می گفتند کہ شاہ را دریں سال خطرے عظیم و قاطعے در درجہ طالع اور سیدہ تاچوں بگذر د شاہ را رگ غیرت در جنبش است و داعیہ تردد دارد تاتقدیر چیست شاہ لشکرے کہ از ممالک خود طلبیدہ بایں تفصیل است ذوالفقار خاں برادر خاں حاکم اردبیل و دامغان و ہ ہزار کس حسین خان قجر باجمعتہ قجر دراز دہ ہزار کس شاہ قلی سلطان شاملو حاکم ہمدان چہار ہزار کس۔ چراغ سلطان حاکم رے چہار ہزار کس فرخ خاں برادر مرتضے خاں ترکمان پنج ہزار کس۔ محمد قلی سلطان پسر مرتضے خان دو ہزار کس بنیاد خاں عاکم شیراز توابع دہ ہزار کس۔ حاکم یزد مع توابع پنج ہزار کس۔ امیر حمزہ خاں دسیادش خاں معہ پیادہ و سوار چہار ہزار کس۔ حاکم یزد معم توابع پنج ہزار کس۔ امیر حمزہ خان و سیادش خاں معہ پیادہ و سوار چہار ہزار کس۔ ملک سلطان محمد ہشت ہزار کس۔ ملک سلطان شاملو ہزار کس۔ احمد سلطان ذوالقدر ہزار کس۔ فرخ حسین خان شاملو پنج ہزار کس پسر علی خاں ہزار کس ۔ یادگار علی سلطان حاکم خوارزم و شمنان شوار و پیارہ دو ہزار کس۔ پیادہ و سوار اصفہان دہ ہزار کس جماعہ پیادہ از جمیع شہر ہا پانزدہ ہزار کس۔ تفصیل لشکر قورچی خاصہ وغیرہ بست ہزار کس نور باشی وغیرہ سوار یاز دہ ہزار کس۔ پیادہ ہشت ہزار کس تفصیل لشکر غلامان شاہ دیو جمشید حاکم قزوین دو ہزار کس۔ دیو حسین سہ ہزار کس۔ دیو ابدال دو ہزار کس۔ ایں لشکر از صد ہزار کس زیادہ است مردم می گفتند اکثر خواہند آمد کہ ہنگامہ اہتمام عظیم است تا امروز دریں صحبت شدہ باشد دیگر یکے از عراق مبارک نام در نواحے شہر شوستر خروج کردہ و مکرابہ لشکر روم جنگ کردہ ہمہ محل بر ایشاں ظفر یافتہ و خود را از محبان شاہ میگیرد و دم یک جہتی میزند و تحفہ گرامی میفرستد۔ دو سال شدہ و در بصرہ و بغدا د از رہگزر او بر تریست یکے از مخالفان او آمدہ ملازم شاہ شد بادشاہ اور اد اخل قورچیاں ساختہ روزے بہ شاہ گفت کہ مبارک بشما فیلسوفی میکند اگر باورندا و اسپے دارد کہ بہ نہصد تومان خریدہ و امروز چشم زمانہ مثل او تگاورے ندیدہ باشد ازو طلب دارند اگر فرستاد ہرچہ او میگوید راست است۔ در ساعت شاہ باد خطے مے نویسد ہ مابر جناح سفریم و شنیدہ ایم کہ چنیں اسپے دارید خاطر مائل باں شدہ ست بفر ستید اگر میسر شود از سواران کار آمدنی نیز آنچہ در وقت گنجد بفر ستید کہ دریں یساق باما باشند چوں ایں خط بمبارک میر سید در ہماں روز ہما ں وقت ہماں مرکب باسی صد اسپ دیگر باپسر خود معہ شش ہزار سوار روانہ مے ساز و ایں ہاپیش شاہ سید ند دیگر دہ ہزار عرب از اعراب عامری در نوحے خراسان جمع شدند و از برائے دین و مذہب قرار بہ جنگ اذبک دادند۔ انتظار شاہ میکشیدند۔ دیگر از وقائع پار سال آنکہ شاہ عباس دو برادر خورد خودرا کہ ابوطالب مرزا طہماسپ مرزا نام داشتتند میل کشیدہ و اسمعی مرزا و پسر حمزہ مرزا می کشیدہ چوں بسیار خورد سال بود میل بافتن تاب نتوانست آور بہ ہماں عذاب جاں بحق تسلیم کردہ شاہ عباس دو پسر دارد یکے مرزا صفی کہ بعرض رسید دیگر مرزا حیدر کہ پار سال ولادت یافت و سلطان محمد پدرش نابینائے مطلق شدہ ہمراہ شاہ عباس می باشد و برائے ا و خیمہ علیحدہ میز نند اندک چیزے باد مقر ر شدہ بفسق و فجور مشغول ست ہزال و خندہ و رقاصی د خواندگی برمزاج او غالب است۔ دیگر پیرانہ سال در ارد پیل دبائے عظیم شدہ چنانچہ بسیارے از مردم شہر را گذاشتہ بہ اطراف رفتہ بودند و ایں جاکہ ماندہ بودند تمام و کمال مردہ بودند و سوداگر بسیار خانہ بخانہ مردم افتادہ بود و درخا نہائے جمعے بگل برآوردہ بودند چوں بشاہ ایں خبر رسید قورچی تعین نماید کہ ضبط اموال و تحقیق مردم مہلک نماید دیگر از احوال پیرانہ سال اانکہ چوں بکتاش خاں کہ حاکم کر ماں و یزد بود جمعتے داشت و بشاہ عباس سرکشی میکرد یعقوب خاں ذوالقدر کہ حاکم شیراز بود بفر مودہ شاہ عباس برسریز درفت و بکتاش راکشت و اسباب فراواں بدست او افتاد و دماغ آں تنگ حوصلہ خللے پیدا کردہ و باد بیخردی و سودائے کوتہ اندیشی در اسراو پیچیدہ چنانچہ بہ مردم خودی گفت کہ من از شاہ طہماسپ حاصل شدہ ام و بہ بادشاہی برسر دو ر شیراز بنیاد خود سری و سرکشی مے کردد نزدیک بقعہ شیخ سعدی قلعہ ساخت و شاہ عباس از اصفہان مکرر اور اطلبیدہ و اموالے کہ بدست و افتادہ بود طلب و اشت نہ خود رفت نہ از اموال چیزے کہ بکار آید فرستاد شاہ از اصفہان بادروازدہ ہزار کس یلغار کردہ بہ شیراز رسید و اودر قلعہ اصححر شیراز با چہار صد کس مستحصن شدہ شاہ چہار ماہ نشست جماعتے کثیر رابہ دور قلعہ تعین نمود ہ در مجلس خود می گفت کہ باعتمادے تر از یعقوب نوکرے نداریم و دشمناں اور اتر سانیدند و اوہم متوہم شدہ پیش مانمے تو اندر رسید ایں خبر مکرر باوریدہ شام ہم معتمداں را فرستاد و بہ افسون و افسانہ او رارا قلعہ کشیدہ شاہ از تقصیرات او درگذشت باآنکہ روزے خان بیگ کہ ملازم یعقوب خاں بود بہ شاہ گفت کہ یعقوب خاں قصد شمادارد و جمعے را بریں کار موافق ساختہ شاہ قبو ل ایں معنی بنمود تاروزے بہ شکار برآمدند باجمعے از افراد خاں بیگ باز درعین شکار بہ شاہ گفت کہ یعقوب خاں در زیر جامہ زرہ پوشیدہ و برسر غدر است شاہ بہ تقریبے دست بردوشش میر ساند مے یابد کہ زرہ پوشیدہ است بہ بہانہ درد سر ترک شکار کردہ بہ شہرمے آید روز دیگر در دیوان خانہ می نشیندو مے گوید کہ یعقوب خاں را حاضر ساختند و جمعے از نوکروان اوراکہ ہر یکے بہ لقبے و خطابے بدنام کردہ بو د آوردند اتفاقاً پیش ازیں بجپد روز ریسماں بازاں ریسما نہاکشیدہ بودند کہ ریسماں بازی کنند یعقوب خاں رابجااء خود میگوید کہ بنشنید اور ابہ تمسخڑ آنجامے نشاند و شاہ خود عصائے گرفتہ پیش اومی ایستد و میگوید کہ شاہی بہ یعقوب خاں میر سد ایشاں شاہ باشند و مانوکر اں آنگاہ شاہ ایستادہ بہ آواز بلند میگوید کہ شاہ یعقوب خاں چنیں حکم میفر مایند کہ فلاں نوکر مارا ور ریسماں بہ کشند ہمچناں اور امی کشید ند تاآنکہ ہلاک می شدد ہمچنیں ہریکے را بہ طرزے خاص کشتند آخر نوبت بہ یعقوب خاں میرسد اور آویختہ درشکنکہ کردند و بہ سیاست مام لقمہ سگاں ساختند و حکومت فارس بہ بنیاد خاں ذوالقدر وادہ خود باصفہان آموقریب دو ماہ آنجا بودہ تفردین رسید و تتمہ احوال سابقہ معروض شد۔ دیگر از اخبار روم آنست کہ سلطان مراد در استنبول است صرع قدیم کہ داشتہ دریں ایام طغیاں کردہ چنانکہ بعضے اوقاات از صباحے تعشی مے کرد تا آخر روزگاہ بہ نیم روز تانیم شب سوار نمے تو اند شادر در سواری بسیار میگردد تاسہ فرسخے ایں طرف تبریز در تصرف رومیہ است و کوتل شمال سرحد شہ و قراحسن استاد جلورا پارسلا بہ استنبول فرستادہ سرحدم مشخص کردند وحاکم تبریز خواجہ سرائیست جعفر نام بہ تدبیر و شجاعت در گنجہ سراواں و قراباغ قلعہا ساختہ و استحکام نمودہ رومیہ بہ ہمسائیگی قزلباشاں راضٰ ترانداز ہمسائیگی اذبک غالباً سلطان مراد بہ عبداللہ خان نتوشہ بود کہ باعث تاخیر و اہمال چیست ازاں طرف شما بیایند و ازیں طرف مامے آئیم تاقزویں سرحد جانبین بودہ باشد عبداللہ خاں نوشتہ خراساں خود بقزویں منتہی میشود و نزدیک است کہ گرفتہ شود۔ مے آیم داعیہ و شوق ملاقات درج کردہ بود رومیہ را ایں حروف دور از کار ناخوش آمدہ رنجیدہ در کنگاش نہ آں بودند کہ بہ شاہ عباس کمک بد ہند پسر مرزا حمزہ پیش رومیہ است اگرچہ رومیہ اور اطلبیدہ اند کہ با وصیت خواہم کرد اما محالست کہ خلاف قانون کنند و در طلبید نش حیلہ چند خیال کردہ اند۔ دیگر سرآمد دانشمندان عراق و فارس میر تقی الدین محمد است کہ مشہو بہ تقیانسا بہ است و بہ دانشمندی او امروز در ولایت کسے نیست از شاگردان میر فتح است وقتے کہ میر فتح اللہ مولانا مرزا جان در شیراز کوس دانشمندی میزدند او نیزیکے از مدرسان مشہور شیراز بودہ بندہ مدتست کرصیت کمالات ادمی شنود از میر فتح اللہ مکرر تعریف او شنیدہ و کسے راکہ ایں چنیں شاگردے ماندہ باشد دلیل کمال او برعالمیاں ہمیں بس۔ ملا محمد رضائے ہمدانی از شیراز میر سد و اار وماغ سوختہائے مدرسہ است و جوہر فضیلت و اہلیت ازو ظاہر میگوید میرتقی میر الدین محمد آزروئے آستاں بوس حضرت بسیار داستہ زادراہ بہم نرسید و فرصتے بدست نیفتادہ وگرنہ دریں قافلہ می آید اگر فرمان عالیشان بہ الغامے بہ طلب او برود سرفرازی اوست یادگار میرفتح اللہ فرزند معنوی ایشانست بموجب آنکہ گفتہ اند اے گل بتو خور سندم تو بوئی کسے داری امید است کہ بدرگاہ معلے رسیدہ ا ز مجلس عالی کہ محل تدریس علوم کوفی و الٰہی و مقام اکتساب کمالات نفسی و آفاقی است مستفیض گردد۔ ودیگر قاضی زادہ ہمدانست کہ ابراہیم نام دار وبہ پیمائے دانشمندی شفا درس می گوید و برشرح اشارات حاشیہ نوشتہ و ترقیات عظیمش روئے دادہ و در ارد وئے شاہ است و ایں محمد رضا کہ آمدہ قرابتے بہ اودارد۔ و دیگر شیخ بہاء الدین اصفہانی است ر بعلبک متولد شدہ و ہفت سالہ ہمراہ پدر بہ ہرات آمدہ و پیش پدر خود ملا عبداللہ ایزدی تحصیل نمودہ در جمیع علوم تبحرے دارد و ممتاز است در اصفہان فی باشد۔ دیگر از مستعدان صاحب فطرت عالی و مشرب والا کہ لائق مجلس عالی تو اندبود چلپی بیگ است در شیراز و قزویں تحصیل کردہ و دریں دواز د ہ سال اور اتر قیات عظیم رو نمودہ دارد و ہمہ جامیگویند و حالا در شیراز است اگر ذرہ توجہ عالی بجانب او ہم شود بجائے خود است۔ دیگر در احمد نگر دو شاعر خاکی نہاد صافی مشرب اندو در شعر مرتبہ عالی دارندکے ملک قمی کہ بکس کمتر اختلاطہ میکندو ہمیشہ مژہ ترے دارد ازوست ایں رباعی دیک بیت رباعی ہر جاکہ بمردمے رسی مردم شو در ہر کہ غبارے نگری قلزم شو آمیزش حسن و عشق سر ازلیست من در تو گم و تو نیز در من گم شو بیت رفتم کہ خاراز پا کشم محمل نہاں شداز نظر یک لحظہ غافل گشتم و صد سالہ راہم دورشد دیگر ملائے ظہوری کہ بغایت رنگین کلام است و مکارم اخلاق تمام عزیمت آستاں بوس دارد ازو ست ایں رباعی و دو بیت گرنام اثر برد دعا از مانیست حاجت کہ گئے شود روا از ما نیست صبرے کہ زمانیست جدا از ما نیست در دے کہ کشد نیک دوا از ما نیست بیت بیاباں کرد اوغم نامہ پروازے نمے داند کف خونی مگر بربال مرغ نامہ بر ریزد بیت شوق صد بار فزوں میکشدم ہر نفسے ایں قدر مہر روانیست کسے رابہ کسے دیگر از حکایتہائے رنگیں کہ بندہ شنیدہ آنست کہ اذبکے را گرفتہ بودند کہ کلاوہ ریسیماں بخودداشت چوں پرسید ند گفت والدہ پیررے دارم بہ من دادہ است کہ اگر توانی بخون رافضی رنگین کن کہ چوں بمیرم کفن مرابہ آں بدو زند۔ مولانا ظہوری نقل کردہ کہ روزے در باغ یکے از شرفائے مکہ معظمہ مجمعے بودہ و اقام مردم برکنار حوض نشستہ مید اشتند بہ تقیربے یکے از ہالی ماورا النہر گفتہ کہ فردا چہار یار بہ چہار گوشہ حوض کوثر نشستہ آب بمومناں خواہند داد محمود صباح نیشاپوری درآں مجمع بود برخواستہ گفتہ نامعقول می گویند حوض کوثر مدوراست و ساقیش حضرت مرتضی علی و گریختہ شیخ عطار فرمود زنا دانی دلے پر جہل و پر مکر گرفتار علی ماندی و بوبکر گرآں بہتر و ایں بہتر تراچہ چو حلقہ ماندہ بردر تراچہ چو یک دم زیں تخیل می نرستی ندانم تاخدا را کے پرستی اہل عالم در ہر دو لائے یکے از مردم را معبود خود ساختہ واز خدا غافل شدہ توجہ آں شخصے دارند۔ در ولایت دکن اصل دکنیاں داور الملک رامے پر ستند و در عوام مشہو بہ دارالملک است یکے از سپاہیان گجرات بودہ و ہما نجاکشتہ شد دربست سی جاقبر بنام او ساختہ اندواز دحام دارند۔ دیگر سید محمود گیسو دراز است و قبر او در گلبرگہ است کہ داخل جاگیر عادل خان است و سابق در دہلی صومعہ مشیخت داشتہ سالے کہ حضرت صاحبقرانی فساد ہندوستان راشنیدہ متوجہ فتح آں بودند سید مذکور دکن آمدہ۔ ملا عبداللطیف بربری بشوق عربی شگفتہ بودند و در برہانپوری بود و عرائض راجی علی خاں را و انشا میکرد نقل غریب بفقیر بذرانیدہ کہ یکے ا اولا ید محمود گیسو دراز حضرت اللہ نام دارود پیش ازیںیکساں در برہانپور آمدند خادم از پیش من آمد کہ حضرت اللہ آمدند دو عا میر سانند و می فرمایند کہ کجا فرودمی آئیم گفتم خوش آمدند و صفا آوردند درخانہ خود فرودآیند۔ روز ملاقات بہ ملا عبداللطیف گفت کہ میدانید کہ من کیستم حضرت مریم را برعرش بردند و حضرت میر سید گیسو دراز را حاضر ساختند و بی بی را با حضرت میراں عقد بستند مانتیجہ ایشانیم ملا محمد عبداللطیف میگوید کہ من گفتم عجب است کہ بہ فرنگ تشریف نہ بردند گفت ولایت برادر ماست معلوم نیست کہ مردم آنجا سلوک لائق بما کنند یا نہ بندہ از خواجہ نظام الدین احمد نام ایں برادر عیسے مکرر شنید غالباً بہ گجرات ہم رفتہ بود۔ دیگر شنیدہ شد کہ تحریر نام حکیمے بود نظام الملک بحری اورا از فرنگ طلبیدہ اعتبار کردہ بود کہ روزے ایں حکیم در مجلس اوار خواجگی شیخ شیرازی کہ از دانشمندان مشہور است و از شاگرد ان خواجہ جلال الدین محمود پر سید کہ اگر سر دنیا آتش افروزند و مانعے نباشد از کوہ و تل آں آتش دیدہ میشود و آنکہ میگویند کہ تخت فلک قمر کرہ آتش ہست چرا دیدہ نمے شود بآنکہ مانعے نیست خواجگی شیخ جواب دادند ک از جہت بعد مسافت دیدہ نمیشود حکیم فرنگی نظام الملک گفت اگر حکم شود رقص کنم کہ ایں سخن صدرص دارد ہماں ساعت شاہ طاہر رسیدہ پر سید سخن میگذرد تقریر کردند گفت خواجگی شیخ غلط کردہ ہمہ عناصر بسیط اندومرئی نمے شوند ایں آتش کہ مرئی مے شود بجہتہ ترکیب اوست جزائے ارضی۔ دریں دیار نام حکیم مصری بسیار است و کارنامہائے عاج او بے شمار الحق بایں دانائی و دقیقہ رسی و تشخیص امراض و تحقیق معالجا و تصرف صریح در مزاج۔ وحدس کامل و تامل تمامی و عقل درست و دیانت تمام و درستی کلام و مہربان عموم و تجربہ بسیار و میمنت دست و پے یعنی خال و شگفتگی طبع و کشادگی پیشانی مبارکی روئے امروز طبیبے مثل ا و نشان نمے دہند و حکیم مشہور آفاق بودند۔ یکے حکیم عماد الدین محمود او مدتیست کہ درمشہد رحلت نمودہ دیگرے حکیم کال الدین حسین اورا خان احمد گیلانی از عراق طلبیدہ بود پیش او قانون می خواند پیرانہ سال سفر کرد حکیم ابو الفتح کہ شاگرد رشید حکیم عماد الدین محمود بود غریب دریافتے ورسائی درہمہ چیز داشت طبے یک گوشہ فضائل اوبودہ نادرہ زماں بودبندہ او رادیدہ بودم۔ سہم الغیب در طالع داشت و در ایام مرض زائچہ طالع ہمیشہ حاضر میداشت اتفاقا درہماں چند روزہ ما گرفتہ بود در برج طالعش و ایں خطرناک میباشد یک بار درایام بیماری۔ گنگادھر گفت از اوضاع کواکب معلوم میشود کہ علاجے ک میکند نہ علاج ایںمرض است بہتر ازیں در علاج فکر نہ کنید اما چوں قضا رسیدہ باشد دوا برعکس نتیجہ مید ہد چنانچہ مولوی معنوی فرمودہ۔ روغن بادام خشکی مے نمود از قضا سر کنگبین صفرا فزود حکیم ہمام استاد دیدہ است و اجازت نامہائے استاداں دارد بہ بندہ نمودہ بود واز عمل وحدس و صداقت و علم و فضل ا و بسیارمی گفتند نوشتہ و الحق چنیں است و غریب فطرۃ عالی دارد و نظر حضرت کیمیائے وکمال بخش مستعد آنست خوشا صاحب استعدادے کہ آئینہ فطرت اوبخاک ایں آستاں انجلایا بد حق سبحانہ آں حضرت را برائے تکمیل خلایق دیر گاہ دارد مستعان ہفت اقلیم آرز و مند آستاں بوس اند وصیت غریب پروری و دانا نوازی حضرت بہ مغرب و مشرق رسیدہ و اقبال آں حضرت مقناطیس ولہاست۔ ایں جادو طبیب اندپیش نظام الملک یکے حکیم کانشی واوچیزے بخواندہ واسمے برخودبستہ و بد نیست کہ ایخجاست شاید حکیم مصری می شناختہ باشد و دیگرے حکیم علی گیلانی س واسطی مائل بادنے سالے شد کہ از شیراز آمد ہ و دیگر جمعے از ہندیاں رستمی اندوکسے کہ او امتیازے داشتہ باشد نیست و ایں حکیم علی گیلانی شاگرد حکیم میر فتح اللہ شیرازی است و مدتیست کہ تعریف حیم فتح اللہ شنیدہ میشود و بقدر حالت دارد پارسال اوراجانی بیگ ٹھٹہ چہل توماں فرستاد از شیراز طلبیدہ بود و الحال در ٹھٹہ است اگر نجان خاناں حکم میشود ہ بدرگاہ فرستد سرفرازی اوست و ازآنجا راہ شیراز ہم نزدیک است و مردم تردد میکنند اگر تقیاء نسابہ راحکم طلب شود بندہ نوازی است۔ از مردم بلا د طالب علم کہ فی الجملہ امتیاز ے داشتہ باشد کسے دردکن نیست ملا محمد قاسم از طالبعلماں زبوں مردیست میگویند کہ پیش میر فتح اللہ و مولانا مرزا جان شاگردہ کرہد اما بوء ے از ایشاں ندارد و چند غیرب مفلوک گدا مشر ب از جبل عامل و نجف و کربلائے ہستند کہ شیعہ اندوباقی دکنیاں قدیم بعضے سنی و بعضے شیعہ اندواکثرے از حبشی زادہا اعتبار دارند و بزرگ اندوپدران اینہا کلاں بودند و کسے کہ معتبر باشد خاں خال است عرضداشت۔ تابایں جارسیدہ بو د کہ قاصدان فقیر از جاے کہ نظام الملک است رسید ند آنچہ بتازگی روئے نمود آنست کہ باقر عموی نظام الملک باپرنزدہ ہزار سوار باین ولایت آمدہ یک قصبہ را سوختہ و تاراجکردہ دربست کردہے شہر رسیدہ و تفرقہ غریب در شہر و حوالے راہ یافتہ بعضے میگویند ہ بشہر میر سدو بعضے میگویند کہ پیرار میر سد کہ حاکم آنجا سیف الملک یا اذبکے ست و راجی علی خاں ہم برین است و ایں ساختگی ست و بعضے میگویند بملازمت شاہزادہ عالمیان مے رود و نظام الملک جمعے کثیر از دنبال فرستادہ و خود ہم در مقام آمدن است کہ بزودی خود را بشہر رساند و دواشدہ کارش بوجود در تزلزلست۔ و دیگر دلاور خاں حبشی دہ دواز دہ سال بیجا پور رابنوعے ضبط کردہ بود کہ ایں عادل خان بے گفتہ او آب نمیتو انست خورد و بیروں نمے توانست آمدو اود اہل بیجا پور تمام از دست بدبختی او بہ جاں آمدہ بودند و حلقے رابہ تنگ داشتہ پار سال جمعے کثیر ہجوم کردہ بہ اشارہ عادل خاں میخوا ستند کہ اور ابگیر ندگریختہ ایں جا آمد ہمراہ نظام الملک بود درنیولا عادل کاں ازانجا قول و عہد فرستادہ طلبدہ کہ او امیدوار شدہ رفت در ساعت چشم اور اکندند و اموال می طلبید و اوپسرے داشت محمد خاں نام کہ عادل خاں آرزو میکرد کہ بطرز جامہائے او برآبش بدوزند و صورت نمے یافت اور اہم چشم می کندند از دہشت قالب تہی کرد دریں دور وز و حشتے است دریں شہر و فتنہ خیزی کہ بہ شرح راست نمے آید ع نہ پاے رفتن و نے جائے ماندن است مرا چوں بہ حکم حضرت آمدہ و در وقت پائے بو رخصت دست حضرت برپشت بندہ رسیدہ ہماں دست مبارک حضرت راحصار خود دانستہ باتوکلے درست و اخلاص کامل و دلے آزاد و نظرے راست برمتکائے ادب نشستہ است و توجہ باطن رابیدد قدرے خود و خداوند خود پیوسستہ ہموارہ سایہ عدالت و جلالت آن حضرت برنزدیکاں و دوراں شار درجمیع حوادثات زمانی باد۔ آزاد۔ اگرچہ میں نے کتاب مذکور میں سے فقط دو عرضیاںلکھی ہیں مگرا س کے مطالعے سے چند باتیں معلوم ہوتی ہیں۔ (۱) ی کہ کس قدر صاف اورسلیس لکھتا ہے ۔ اورکلام میں شیرینی اورلذت خدادا د ہے۔ (۲) اس عہد کے ملازم اپنے بادشاہ کے ساتھ کس آداب و تعظیم کے لباس میں ادائے مطلب کرتے تھے ۔ اور تعظیم کے علاوہ دلداری اور دلربائی کا اثر کس قدر بھرتے تھے جس کی ہم ہجو کرنا چاہیں تو فقط اتنا کہنا کافی ہے کہ خوشامد ! خوشامد! مگر میں کہتا ہوں کہ خوشامد ہی سہی مگر یہ خوشامد بھی قصداً نہ تھی۔ ان کے دل اس قدر احسانوں سے لبریز ہو رہے تھے کہ تمام خیالات خوشامد اور دعائیں ہو کر دل سے چھلکتے تھے۔ (۳) ان خطوط کو پڑھ کر یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ لکھنے والا ان کا ایک شگفتہ مزاج خوش باش آدمی ہے خط لکھ رہا ہے اورمسکرا رہا ہے۔ (۴) تم خیال کرو تو یہ بھی معلوم ہو گا کہ اس زمانہ میں جو ملازم کسی خدمت پر جاتے تھے تو روز رخصت سے لے کر منزل مقصود تک جو جو باتیں مفید و متعلق اپنے آقا کے مشاہدہ میں آتی تھیں سب کا پہنچانا داخل خدمت تھا۔ یہ نہ تھا کہ جس کام پر مامور ہوئے اسی کام کی نیت اور اسی منزل کی سیدھی باندھی اورچلے گئے ایک رسید کی رپورٹ بھیج دی کہ کام اس طرح سرانجام ہو گیا او ر بس اور سبب اس کے ظاہر ہیں۔ (۵) اس عرضی میں اورعرائض بھی تم دیکھو گے کہ عبداللہ اذبک والئے توران اور شاہ عباس وائی ایران اور تعلقات شارہ روم کے اخبار پر بہت اٹکتا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اکبر کو ان کا بڑا خیال ہو گا۔ اووہ فقط سندھ اور کابل و کشمیر کے قوس میں گردش کر کے ان کے خیالات پر نظر نہ رکھتا تھا بلکہ سمندر کا پھیرکھا کر ان کا پتہ لگتا تھا۔ دیکھو فیضی کی ایک انشا جو فقط عبارت آرائی کے شوق سے کسی نے جمع کر دی تھی اس سے یہ بھی نکتے کھلے ورنہ اورامرا جوادھر کی سرحد کے علاقوں پر تھے یہ باتیں ان کی خدمت کا جزو ہو ں گی افسوس وہ تحریریں ایسی نیست و نابود وہ جائیں کہ ہمیں ان تک پہنچنے کی امید نہیں ہو سکتی۔ (۶) تمہیں یاد ہو گا کہ اکبر کا جہازی شوق (جہاز رانی کا) یہاں سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ اسے لنگر گاہوں اور سمندر کے کناروں پر قبضہ کرنے کا بڑا خیال تھا۔ اورہر پہلو سے دریائے قوت کو بڑھاتا تھا اوریہ خیال فقط شاہانہ شوق نہ تھا۔ بلکہ نظام سلطنت اورملکی مصلحت پر تھا۔ (۷) تم نے دیکھا کہ اثنائے راہ کے شہروں کا گز یٹیر لکھتا جاتا ہے بعض شہروں کی صورت حال لکھتا ہے ان کے مشہور مقاموں کی تاریخ لکھتا ہے۔ ان کی پیداواریں لکھتا ہے کہاں کیا کیا چیزی عمدہ بنتی ہیں یہ بھی لکھ دیتا ہ اس میں دلربائی بھی چلی جاتی ہے کہ کپڑے کے کارخانے میں حضور کے لیے دستار اورپٹکے بن رہے ہیں مگر وہی باتیں لکھتا ہے جو ابھی بادشاہ تک نہیں پہنچیں ہر شہر کے علما و فضلا و حکما اور اہل کمال کا حال لکھتا ہے۔ اور ان کی تعریف میں وہ الفاظ خرچ کرتا ہے۔ جن سے ان کے اصلی جوہر کھل جائیں۔ اور معلوم ہو جائے کہ وہ ان ک ڈھب میں ہیں یا نہیں اورہیں تو کس درجہ پر ہیں اور کتنی قدردانی کے قابل ہیں ۔ ہر شہر کی مشہور درگاہوں کا حال لکھتا ہے۔ اس میںجہاں جگ پاتا ہے ظرافت کا گرم مصالحہ بھی چھڑکتا ہے اورتین سو برس کے بعد آج ہمیں خبر دیتا ہے کہ اکبر کن کن باتوں کا طلب گار تھا اوراس کا عہد کیسا تھا۔ بہشت آنجا کہ آزائے نباشد کسے رابا کسے کارے نباشد (۸) اس کے اشعار اور لطائف و ظرافت کو پڑھ کر اکبر کی طبیعت کا تصور بندہ جاتا ہے کہ وہ کن خیالات کا بادشاہ تھا۔ اور دربار اکبری کے اراکین جب اس کے گرد جمع ہوتے ہوں گے تو ایسی ہی باتون سے اسے خوش کرتے ہوں گے۔ (۹) تم نے شیعہ سنی کے لطیفے بھی دیکھے ۔ انہیںپڑھ کر صاف معلوم ہوتا ہے کہ غلطی سے ان لوگوں کی جو کہتے ہیں کہ فیضی و فضل شیعہ تھے یا شیعوں کے طرف دار تھے۔ یہ جب اکبر کے گردبیٹھتے ہوں گے اور شیعوں اور سنیوں کو جھگڑتے دیکھتے ہوں گے تو ہنستے ہوں گے کیونکہ اصل معاملہ سمجھے ہوئے تھے۔ جانتے تھے کہ بات ایک ہی ہے ۔ تنگ چشم کم حوصلہ سخن پرور ضدیوں نے بھوکے پلائو خوروں نے خواہ مخواہ جھگڑے پیدا کر دیے ہیں۔ (۱۰) اسکے آبدار کلام سے خصوصاً اس خط سے جو ملا صاحب کی سفارش میں لکھا ہے صاف معلوم ہوتا ہے کہ جو ان کے مخالف رائے تھے بلکہ عنادی مخالفت رکھتے تھے۔ ان سے بھی مخالفت فقط اتنی ہی بات پر ختم ہو جاتی تھی کہ خیر تمہاری رائے یہ ہے ۔ ہماری رائے یہ ہے ان کی مخالفت رائے انہیں عداوت اور کینہ وری اورانتقام کے درجے پر پہنچاتی ہے جبھی ہر صحبت میں خوش بیٹھتے تھے اورخوش ہو کر اٹھتے تھے۔ خدا ہمیں بھی خوش رہنے والی اور خوش رکھنے والی طبیعت روزی کرے۔ ٭٭٭ شیخ عبدالقادر بدایونی امام اکبر شاہ امام اکبر شاہ کہلاتے تھے ۔ اور علمائے عصر میں فضیلت کا درجہ رکھتے تھے ۔ ترجمہ اور تالیف میں اکبر کی فرمائشوں کو عمدہ طور پر سرانجام دیتے تھے۔ اسی خدمت کی بدولت ان کے جواہر معانی صفائی بیان کے ورقوں میں جگمگائے اور ان کی کثرت تصانیف اپنی عمدگی سے الماری کیدرجہ اول پر قابض ہو گئی ۔ جو تاریخ کہ ہندوستان کے حالات میں لکھی ہے۔ وہ اکبر کے دربار اور اہل دربار کے حالات سے تاریخی عبرتوں کا اعلیٰ نمونہ ہے ان کی تحریر سے معلوم ہوتا ہے کہ مہمات سلطنت اور کاروبار زمانہ کو خوب سمجھتے تھے۔ فاضل مذکور میں بڑی خوبی یہ ہے کہ ہر شخص کے خصائل اورجزوی عادات او ر اطوار کو چنتے ہیں اور اس خوبصورتی سے بیان کرتے ہیں کہ جب پڑھو نیا لطف حاصل ہوتا ہے اہل ذوق دیکھیں گے کہ اورجہاں تک ممکن ہو گا دکھاتا جائوں گا کہ وہ امرائے دربار میں جس کے برابر سے نکلتے ہیں ایک چٹکی ضرور لیتے جاتے ہیں۔ امرائے دربار سے ان کا اس قدر بگاڑ نہ ہوتا۔ مگر اس کا سبب یہ تھا کہ انہوں نے ملائی کے دائرے سے قدم نکالنا چاہا اوراسی کو دنیا کا فخر اور دین کی دولت سمجھا۔ انہیںکبھی تو بے علم یا کم لیاقت لوگ مراتب عالی پر نظر آئے۔ اوریہ ناگوار گزرا۔ اکثر چھوٹے تھے کہ آنکھوں کے سامنے بڑے ہوئے یا برابر سے آگے بڑھ گئے۔ کبھی باہر سے آئے۔ اور مختلف خدمات کی سنہری مسندوں پر بیٹھ کر صاحب جاہ و جلال ہو گئے۔ اور یہ ملا صاحب کے ملا ہی رہے۔ ایسے لوگوں کو ان کی فضیلت علمی ضرور خاطر میں نہ لاتی ہو گی ۔ بلکہ چاہتی ہو گی کہ میرا ادب پیش نگاہ رکھیں۔ ادھر دولت اور حکومت کو اتنا دماغ کہاں؟ میں نے خود تجربہ کیا ہے کہ ایسے موقع پر دونوں طرف سے کوتاہیاں اور قباحتیں ہوتی ہیں۔ اہل علم کو تو ان پر غصہ ہونے کے لیے کوئی سبب درکار ہی نہیںفقط اہل دول کی سواری اپنے جاہ و حشم کے ساتھ برابر سے نکل جاتی ہے۔ اگر وہ اپنے کاروبار کے افکار میں غلطاں و پیچاں جاتے ہوں تو بھی یہی کہتے ہیں کہ اللہ رے تمہارے غرار آنکھ میں بھی نہیں ملائے کہ ہم سلام ہی کر لیں۔ امارت کے تو مالک بن گئے۔ بھلا کوئی دو سطریں ہم لکھ دیں پڑھ بھی لو گے؟ اور اہل دول میں بھی اکثر کم ظرف ہوتے ہیں کہ جب کسی درجے پر پہنچتے ہیں تو اپنا سلام علماء کے ذمہ فرض سمجھتے ہیں۔ بلکہ اس پر قناعت نہ کر کے چاہتے ہیں کہ ہماری دربار داریاں کریں۔ اور چونکہ بادشاہ کی خلوت جلوت میں داخل رکھتے ہیں انہیں ان غریبوں کے کاروبار میں بولنے کے لیے بہت سے موقع ملتے ہیں۔ چنانچہ کبھی ان کے کاموں میں خلل ڈالتے ہیں۔ کبھی ان کی تصانیف پر جس کی عبارت بھی پڑھ نہیںسکتے ناک بھوں چڑھا دیتے ہیں۔ اور مصنف کے دل سے کوئی پوچھے تو اس کے دین و دنیا کی کائنات وہی ہے۔ کبھی نالائق کو لا کر ان سے بھڑا دیتے ہیں اور اپنے ہم جنسوں کی سفارشوں کو رفاقت میں لے کر انہیں آگے بڑھا لے جاتے ہی۔ یہ باتیں رفتہ رفتہ دشمنی کا درجہ حاصل کر لیتی ہیں۔ اور جب کہیں ان کا مقدمہ پیش پاتے ہیں تو ڈھونڈ ڈھونڈ کر خراب کرتے ہیں۔ غریب اہل علم سے اور کچھ نہیں ہو سکتا۔ ہاںقلم اور کاغذ پر ان کی حکومت ہے یہ بھی جہاں موقع پاتے ہیں اپنے گھسے ہوئے قلم سے وہ زخم دیتے ہیں کہ قیامت تک نہیں بھرتے۔ ان کی تاریخ اپنے مضمون و مقصود کے اعتبار سے اس قابل ہے کہ الماری کے سر پر تاج کی جگہ رکھی جائے۔ سلطنت کے عمومی انقلاب اورجنگی مہمات سے ہر شخص آگاہ ہو سکتاہے۔ لیکن صاحب سلطنت اورارکان سلطنت میں سے ہر ایک کے اطوار و اسرار اور نہن و آشکار سے جو وہ آگاہ کرتے ہیں دوسرا نہ ہو گا۔ اس کا سبب یہ ہے کہ تصنیف کے سلسلے میں اور فضائل علمی اور علم مجنسی وغیرہ ان کے اوصاف اکبر کی خلوۃ و دربار میں ہمیشہ پاس جگہ حاصل کرتے ہیں۔ اوران کی معلومات اور حسن صحبت کے لطائف سے امرائے درباراپنی دوستانہ صحبتوں کو گلزار کرتے تھے۔ علماء و فقراء اور مشائخ تو ان کے اپنے ہی تھے لطف یہ ہے کہ انہیں میں رہتے تھے۔ مگر خود ان کی قباحتوں میں آلودہ نہ ہوتے تھے۔ دور سے دیکھنے والوںمیں تھے۔ اس لیے انہیں حسن و قج خوب نظر آتا تھا۔ اونچی جگہ پر کھڑے دیکھ رہے تھے اس لیے ہر جگہ کی خبر اور ہر خبر کی تہہ معلوم ہوتی تھی وہ اکبر او ر ابوالفضل و فیضی اور مخدوم و صدر سے بھی خفا بھی تھے۔ اس لیے جو کچھ ہوا صاف صاف لکھ دیا۔ اور اصل بات تو یہ ہے کہ طرز تحریر کا بھی ایک ڈھب ہے۔ یہ خبی ان کے قلم میں خداداد تھی۔ ان کی تاریخ میں یہ کوتاہی ضرور ہے کہ مہمات و فتوحات کی تفصیل نہیں اور واقعات کو بھی مسلسل طورپر بیان نہیںکیا۔ لیکن اس خوبی کی تعریف کس قلم سے لکھوں کہ اکبری عہد کی ایک تصویر ہے۔ جزئیات اور اندرونی اسرر ہیں کہ اور تاریخ نویسوں نے مصلحتہ یا بے خبری میں قلم انداز کر دیے۔ ان کی بدولت ہم نے سارے عہد اکبری کا تماشا دیکھا۔ باوجود ان باتوں کے جو کم نصیبی ان کی ترقی میں سنگ راہ ہوئیں وہ یہ تھی کہ زمانے کے مزاج سے اپنا مزاج نہ ملا سکتے تھے جس بات کو خود برا سمجھتے تھے۔ اسے چاہتے تھے کہ سب برا سمجھیں اور اسے عمل میں نہ لائں جس بات کو اچھا سمجھتے تھے اسے چاہتے تھے کہ اسی طرح ہو جائے۔ قباحت یہ تھی کہ جس طرح طبیعت میں جوش تھا۔ اسی طرح زبان میں زور تھا۔ اس واسطے ایسے موقع پر کسی دربار اور کسی جلسے میں بغیر بولے رہا نہ جاتا ۔ اس عادت نے مجھ ناقابل کی طرح ان کے لیے بھی بہت سے دشمن بہم پہنچائے تھے۔ وہ حقیقت میں مذہبی فاضل تھے فقہ اصول فقہ اور حدیث کو خوب حاصل کیا تھا۔ عشق کی حرارت سے دل گداز تھا ۔ تصوف سے طبعی تعلق تھا علوم عقلی کو پرھا تھا۔ مگر اس کا شوق نہ تھا۔ زیادہ تر عادتیں اس لیے بگڑی تھیں کہ ان کی فضیلت نے شیر شاہ اور سلیم شاہ کے زمانے میں پرورش پائی تھی۔ ان بادشاہوں کا خیال قدیمی اصول کے بموجب یہ تھا کہ ہند ہندوئوں کا ملک ہے ہم اہل اسلام میں مذہب کے زور سے اتحا د اور اتفاق پیدا کریں۔ جب ان پر غلبہ اور قدرت پائیں گے تو مصنف مذکور اگر ا س عہد میں ہوتاتو خوب رونق پاتا۔ مگر اتفاقاً زمانہ کا ورق الٹ گیا۔ اور آسمان نے اکبر کے اقبال کی قسم کھا لی۔ اکبر کے ہا ں بھی پندرہ برس تک قال اللہ اور قال الرسول کے چرچے رہے۔ اور اہل علم اور اہل فقر کے گھروں میں دن رات شب قدر اور روز نو ہوتے رہے مگر مسائل علمہی کے ہجوم میں کبھی کبھی معقولات بھی دربار میں گھس آتے تھے معقول بادشاہ کو معقولات کی معلومات کا بھی شوق پیدا ہوا۔ ہر ایک زبان ہر ایک مذہب اور ہر علم کے عالم دربار میں آئے۔ بلکہ قدر دانی سے بلائے گئے پہلے شاعری کی سفارش سے فیضی آئے۔ ان کا دامن پکڑ کر ابوالفضل بھی آن پہنچے ۔ بہت سے فاضل ایران و توران کے پہنچے۔ اسی ضمن میں یہ بھی ثابت ہوا کہ مذہب کا اختلاف جس نے ہزاروں لاکھوں آدمیوں کو گروہ باندھ باندھ کر ایک کو دوسرے کے لہوکا پیاسا کر دیا ہے نہایت خفیف اور اعتباری فرق ہے اوراس اختلاف میں زیادہ کاوش کریں۔ تو بنی آدم یعنی ایک دادا کی اولاد میںتلوار درمیان میں آ جاتی ہے اور بہشت اور دوزخ کا فرق پڑ جاتا ہے۔ اس لیے اکبر کے خیالات بدلنے شروع ہوئے۔ ا س نے کہا انسان انس سے نکلا ہے خدا نے اسے مل کر رہنے کو بنایا ہے۔ اس لیے ملنساری اور اتحاد و ارتباط کو اصول سلطنت قرار دینا چاہیے۔ پرانے عالم پرانی باتوں کے خوگرفتہ تھے۔ انہیںیہ باتیں ناگوار ہوتیں۔ اکبر نے انہیں رستہ پر کھینچنا چاہا انہوں نے گردنیں سخت کیں ناچاریا توڑنا یا بیچ سے ہٹانا واجب ہوا ۔ ان خیالات کی ابتدا تھی جو فاضل مذکور دربار میں پہنچا۔ اس نے اول اول ترقی کے خوب قدم بڑھائے ۔ یہ نوجوان عالم اپنے علم کے جوش اور ترقی کی امنگ میں تھا۔ بڈھے ملاحوں کو اور ان کی بڈھی تعلیم کو توڑ توڑ کر اکبر کو خوش کیا۔ مگر یہ نہ سمجھا کہ اصول میرے اور بڈھوں کے ایک ہیں۔ اور اب زمانے نے نیا مزاج پکڑا ہے۔ انہیں توڑوں گا تو ساتھ ہی آپ بھی ٹوٹ جائوں گا غرج کچھ تو اس سبب سے کہ اس نے پرانی تہذیب کے دامن میںپرورش پائی تھی اور کچھ اس کی طبیعت بھی ایسی ہی واقع ہوئی تھی اس لیے وہ نئے زمانے میں پرانے مسائل کو واجب العمل سمجھتا تھا یہی سبب تھا کہ مخالفت شروع ہوئی ۔ اور چونکہ فضل و فیضی (اس کے خلیفہ اور استاد بھائی) ہی نئے خیالات نہ رکھتے تھے بلکہ زمانہ کا مزاج بدلا ہواتھا۔ اس لیے اس کے مزاج نے کسی سے موافقت نہ کھائی ۔ اس کی تصنیفات کے دیکھنے سے یہ معلوم ہوتاہے کہ وہ ایک زمانہ سے لڑائی باندھے بیٹھا ہے مخدوم الملک اور شیخ صدر شریعت کا ٹھیکہ لیے ہوئے تھے مگر وہ انہیں بھی قابل موافقت نہ سمجھتا تھا۔ کیونکہ دیانت اور امانت اور سچے دل سے شریعت کی پابندی چاہتا تھا اوران بزرگوں کا حال جو کچھ تھا وہ معلوم ہوا اورکچھ اس کے حال میں معلوم ہوجائے گا۔ یہی سبب ہے کہ یہ دونوں بلکہ کوئی مشہو عالم یا نامی عارف نہیں جو ا کے شمشیر قلم سے زخمی نہ ہوا ہو۔ تعجب یہ ہے کہ ملا صاحب خود روکھے سوکھے عالم تھے ۔ مگر طبیعت ایسی شگفتہ وشاداب لائے تھے کہ جو انشا پردازی کی جان تھی۔ باوجود علم و فضل اور مشیخت فقر کے گاتے بجاتے تھے بین پر بھی ہاتھ دوڑاتے تھے۔ شطرنج دو دو طرح کھیلتے تھے۔ جس سے عوا م کہتے تھے ۔ ہر فن مولیٰ تھے۔ بہرحال وہ اپنی کتاب میں ہر ماجرے اور ہر معاملے کو نہایت خوبصورتی سے ادا کرتا ہے۔ اور ا سکی حالت کی ایسی تصویر کھینچتا ہے کہ کوئی نکتہ اس کا باقی نہیں رہ جاتا۔ اس کی ہر بات چٹکلا اور ہر فقرہ لطیفہ ہے ۔ ہزاروں تیر اور خنجر اس کے شگاف قلم میں ہیں اس کی تحریر میں عبارت آرائی کام کام نہیں بہرحال کو بے تکلف لکھتا چلا جاتا ہے اور اس میں جدھر چاہتا ہے سوئی چبھو دیتا ہے۔ جدھر چاہتا ہے نشتر جدھر چاہتا ہے چھری چاقو چاہتا ہے تو ایک ہاتھ تلوار کا جھاڑتا ہے ۔ اور اس خوبصورتی سے کہ دیکھنے والا تو درکنار زخم کھانے والا بھی لوٹ ہی جاتا ہو گا۔ خود اپنے اوپر بھی پھبتیاں اور نقلیںکہتاجاتا ہے۔ اور بڑی خوبی یہ ہے کہ اصلی حال کے لکھنے میںدوست دشمن کا ذرا لحاظ نہیں کرتا۔ جن لوگوں کو برا کہتا ہے وہ بھی جہاں اپنے ساتھ سلوک کرتے ہیں لکھ دیتا ہے جب کسی بات پر خفا ہوتا ہے تو وہیں صلواتیں سنانے لگتا ہے۔ وہ دیبا چے میں لکھتے ہیں جب میں حسب الحکم بادشاہی ملا شاہ محمد شاہ آباد ی کی تاریخ کشمیر کو درست کر چکا تو سنہ ۹۹۹ھ تھے۔ اسی وقت اسی رنگ میں ایک تاریخ لکھنے کا خیا ل آیا۔ مگر آزاد کتاب کو دیکھنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ تھوڑی تھوڑی لکھتے گئے ہیں اوررکھتے گئے ہیں ۔ اخیر وقت میں سب کو مسلسل کیا ہے۔ اور خاتمے تک پہنچایا ہے ۔ کیونکہ ابتدا میں جو اکبر کا حال لکھا ہے۔ اس کے لفظ لفظ سے محبت ٹپکتی ہے۔ اور اخیر بیان سے ناراضٰ برستی ہے فقرا وار علما اور شعرا کے حال جو خاتمے میں لگائے ہیں یہ غالباً سب اخیر سے لکھے ہوئے ہیں ۔ کہ بہتوں کی خاک ہی اڑائی ہ۔ اور زیادہ تر تصدیق میرے خیال کی اس درد انگیز بیان سے ہوتی ہے جو میں نے ایک اور مقام میں درج کیا ہے ۔ ملاصاحب خود فرماتے ہیں کہ خواجہ نظام الدین نے جو ۳۸ برس کا حال اکبر لکھا ہے وہاں تک کے حالات مہمات بادشاہی اس سے لیے ہیں۔ باقی دو برس کا حال میں نے خاص اپنی معلومات سے لکھا ہے۔ اب جو نکتے میں نے مجمل لکھے ہیں ان کی تفصیل یہ ہے کہ اور اپنے خیالوں کی تصدیق ملاصاحب کے حالات سے کرتا ہوں۔ فاضل مذکور اگرچہ بدائونی مشہور ہیں۔ مگرموضع ٹونڈہ ۱؎ میں پیدا ہوئے کہ بساور کے پاس ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱؎ آگرہ سے کشمیر جاتے ہوئے پہلی منزل منڈاکر ۔ ۲ فتح پور۔ ۳۔ خانوہ متصل بجونہ۔ ۴۔ کروہہ۔ ۵۔ بساور۔ ۶ ۔ ٹونڈہ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسے ٹونڈہ بھیم بھی کہتے ہیں۔ یہ علاقہ بادشاہوں کے عہد میں سرکار آگرہ میں تھا۔ اور صوبہ اجمیر سے بھی متعلق رہا۔ ان کی ننیال بیانہ میںتھی جو آگرہ اور اجمیر کی سڑک کے کنارے پر ہے۔ وہ خود شیر شاہ کے حال میں اس کے عدل اور حسن انتظام کے حالات لکھتے لکھتے کہتے ہیں۔ جس طرح پیغمبر صاحب نے نوشیرواں کے زمانے پر فخر فرمایا ہے کہ بادشاہ عادل کے زمانے میں میری ولادت ہوئی ہے۔ الحمد للہ میں بھی بادشااہ کے عہد میں ۱۷ ربیع الثانی سنہ ۹۴۷ھ (۲۱ اگست سنہ ۱۵۴۰ئ) کو پیدا ہوا۔ ساتھ ہی نہایت شکستہ دلی کے ساتھ لکھتے ہیں باوجود اس کے کہتا ہوں کہ کاش اس گھڑی اور اس دن کو سال و ماہ کے دفتر سے مٹا دیتے تاکہ میں نے عدم کے خلوت خانے میں عالم خیال اور عالم مثال کے لوگوں کے ساتھ رہتا۔ کوچہ ہستی میں قدم نہ رکھنا پڑتا ۔ اور یہ رنگا رنگ کی مصیبتیں نہ جھیلنی پڑتیں جو دین دنیا کے ٹوٹے کی نشانیاں ہیں۔ پھر آپ ہی عذر کرتے ہیں استغفر اللہ مجھ شکستہ حال کی کیا مجال ہے کہ امر الٰہی میں دم مار سکوں۔ ڈرتا ہون کہ کہیں ایسی دلیر زبانی سے دین کے معاملے میں گستاخی نہ ہو جائے کہ وبال دوام کا ثمرہ دے چنانچہ پیغمبر صاحب کے اور چند بزرگوں کے قول بھی اسی مضمون کے نقل کرتے ہیں اورکہتے ہیں کہ جو خدا کو نہ بھائے ا سے توبہ ہے۔ گل راچہ مجال است کہ گوید بہ کلال کز بہرچہ سازی و چرامے شکنی انہوںنے شیر شاہ کی بڑی تعریف لکھی ہے کہتے ہیں کہ بنگالہ سے رہتاس پنجاب تک ۴ مہینے کا رستہ ہے اور آگرہ سے منڈو تک کہ مالوہ میں ہے۔ سڑک پر دو طرفہ میوہ دار درخٹ کے سایے کے لیے لگائے تھے۔ کوس کوس بھر ر ایک سرا ایک مسجد ایک کنواں بنوایا تھا۔ ہر جگہ ایک موذن ایک امام تھا۔ گریب مسافروں کے کھانے پکانے اور خدمت کرنے کے لیے ایک ہندو اور ایک مسلمان نوکر تھا ۔ لکھتے ہیں کہ اس وقت تک ۵۲ برس گزر چکے ہیں ۔ اب بھی ان کے نشان باقی ہیں انتظام کا یہ عالم تھا کہ ایک بڈھا پھوس اشرفیوں کا طباق ہاتھ میں لیے چلا جائے۔ جہاں چاہے پڑ رہے۔ چو یا لٹیرے کی مجال نہ تھی کہ آنکھ بھر کر دیکھ لیتے۔ اور جس سال مصنف پیدا ہوا تھا۔ اسی سال شیر شاہ نے یہ حکم دیا تھا۔ آزاد۔ قلعہ رہتاس کو اسنے عمل داری کی سرحد قرار دیا تھا۔ اورا س کا استحکام کیا تھا کہ گکھڑوں کے زبردست صدموں کے لیے سد راہ رہے۔ قلعہ مذکور جس پہاڑ پر ہے ۔ زمانہ قدیم میں کوہ بالناتھ کہلاتا تھا۔ اب ضلع جہلم سے متعلق ہے۔ ملا صاحب نے بساورمیں پرورش پائی۔ او ر اکثر جگہ محبت کے ساتھ اسے اپنا وطن کہتے ہیں۔ بزرگوں کا حال کہیں مفصل نظر سے نہیں گزرا خاندا ن امیر نہ تھا۔ مگر یہ ضرور ہے کہ فاروقی شیخ تھے۔ اور ودھیال ننھیال دونوں صاحب علم اور دین دار گھرانے تھے۔ علمی اور دینی نعمتوں کی قدر پہچانتے تھے۔ ان کے والد ملوک شان ابن حامد شاہ بھی… شرفا میں گنے جاتے تھے… اور شیخ پنجو سنبھلی کے شاگرد تھے اور معمولی کتابیں عربی و فارسی کی پڑھی تھی۔ ان کے نانا مخدوم اشرف تھے سلیم کے عہد میں فرید تارن ایک پنجہزاری سردار بجوواڑہ متصل بیانہ صوبہ آگرہ میں تھا ۔ اس کی فوج میں ایک جنگی عہدہ دار تھے۔ غرض فاضل مذکور سنہ ۹۵۲ھ سے سنہ ۹۶۰ھ تک اپنے والد ملوک شاہ کے دامن میں رہے۔ پانچ برس کی عمر تھی۔ جب سنبھل میںقرآن وغیرہ پڑھتے رہے۔ پھر نانا نے پیار سے نواسے کو اپنے پاس رکھا۔ او ر بعض ابتدائی کتابیں اورمقدمات صرف و نحو بھی خود پڑھائے۔ فاضل بدایونی بچپن ہی سے ایک خوش اعتقاد مسلمان تھے اوراہل فقر کی صحبت کو نعمت الٰہی سمجھتے تھے۔ سید محمد مکی ان کے پیر بھی وہیں رہتے تھے۔ وہ علم قرات میں کامل تھے اور ۷ قراتوں پر قدرت رکھتے تھے ان ہی سے قرات اور کوش الحانی کے ساتھ قرآن پڑھنا سیکھا اس وقت سنہ ۹۶۰ھ سلیم شاہی دور تھامگر یہ شاگردی بہت مبارک ہوئی اور ایک دن اسی کی سفارش سے دربار اکبری پہنچے۔ اور ۷ اماموں میں داخل ہو کر امام اکبر شاہ کہلائے۔ خود لکھتے ہیں کہ ۱۲ برس کی عمر تھی کہ والد نے سنبھل میں آ کر میاں حاتم سنبھلی کی خدمت میں حاضر کیا۔ سنہ ۹۶۱ھ میں کہ ۱۲ برس کی عمر تھی اس سے معلوم ہوا کہ سنہ ۹۴۹ھ میں پیدا ہوئے تھے ان کی خانقاہ میں رہ کر قصیدہ بردہ یاد کیا۔ وظیفہ کی اجازت مل گئی اور فقہ حنفی میں تبرکا کنز کے چند سبق پرھے اور مرید ہوا اسی سلسلہ سے کہتے ہیں میاں نے ایک دن والد مرحوم سے کہا کہ ہم تمہارے لڑکے کو اپنے استاد میاں شیخ عزیز اللہ صاحب کی طرف سے بھی کلاہ اور شجرہ دیتے ہیں۔ تاکہ علم ظاہری سے بھی بہرہ ور ہوں۔ شاید اسی کا اثر ہے کہ فن فقہ انہوں نے خوب حاصل کیا۔ اگرچہ تقدیر نے انہیں اور شغلوں میں لگایا مگر وہ عمر بھر اسی کے ذوق شوق میں رہے۔ ملا صاحب کی تیزی طبع کی کیفیت اس بیان سے معلوم ہوتی ہے ۔ کہ عدلی افغان کے حال میں لکھتے ہیں سنہ ۹۶۱ھ مں میاں کی خدمت میں آنے سے پہلے بادشاہی سرداروں نے بدایوں پر باغیوں سے لڑ کر فتح پائی میری ۱۲ برس کی عمر تھی جبھی میں نے تاریخ کہی تھی۔ چہ بس خوب کردہ اند۔ اس مٰں ایک زیادہ تھا۔ جب یہاںکی خدمتیں آیاتو ایک دن بتوں باتوں میں فرمانے لگے کہ ان دنوںمیں یہ خبر ن کر فی البدیہہ ہم نے کہہ دیا تھا۔ فتح ہائے آسمانی شد۔ دیکھو تو کتنے ہوتے ہیں؟ میں نے عرض کی کہ ایک کم ہوتا ہے۔ فرمایا قدما کی رسم خط کے بموجب ایک ہمزہ اور لگا دو۔ میں نے عرض کی کہ ہاںپھر تو پوری ہے۔ شیخ سعد اللہ نحویکہ فن مذکور میں بے مثل ھتے اوراسی سبب سے نحوی ان کے نام کا جز ہو گیا تھا بیانہ میں رہتے تھے۔ جب فاضل مذکور نانا کے پا س آئے تو ان سے کافیہ پڑھا۔ ہیموںنے سر اٹھایا اور لشکر اس کا لوٹتا مارتا بساور آ گیا۔ اس وقت سنبھل میں تھے۔ تمام بساورلٹ گیا اور برباد ہو گیا خود بڑے افسوس سے لکھتے ہیں کہ والد کا کتب خانہ بھی لٹ گیا۔ دوسرا ہی برس تھا کہ جو قحط کی مصیبت آئی۔ کہتے ہیںکہ بندگان خدا کی بدحالی دیکھی نہ جاتی تھی۔ ہزاروں آدمی بھوکوں مرتے تھے ۔ اور آدمی آدمی کو کھاتے جاتا تھا۔ سنہ ۹۶۶ھ میں علم کے شوق نے باپ بیٹوں کے دلوںمیںحب وطن کی گرمی کو ٹھنڈا کر دیا۔ اور آگرہ میں پہنے ۔ مولینا مرزا سمرقندی سے شرح شمسیہ اور بعض اور مختصرات پڑھے لکھتے ہیں کہ یہ شرح میر سید محمد ولد میرعلی ہمدانی کی ہے اورمیر سید علی وہی شخص ہیں جن کی برکت سے خطہ کشمیر میں اسلام پھیل گیا۔ قاضٰ ابوالمعالی بخارائی کو جب عبداللہ خاں اذبک نے جلا وطن کیا تھا تو وہ بھی آگر میں آئے۔ ان کے جلا وطن کرنے کا قصہ بھی عجیب ہے خود لکھتے ہیں کہ جب علم منطق توران میں پہنچا ۔ تو دیکھتے ہی دیکھتے لوگوں نے بڑے شوق سے متوجہ ہوئے۔ مگر مصالحہ ایسا تیز لگا کہ سب فلسفی فیلسوف ہو گئے۔ جب کسی نیکبخت صاحبدل کو دیکھتے تو اس کی ہنسی کرتے اورکہتے گدھا ہے گدھا۔ لوگ منع کرتیتو کہتے کہ ہم دلیل منطقی سے ثابت کر دیتے ہیں۔ دیکھو ظاہر ہے کہ یہ لاحیوان ہے۔ اورحیوان علم ہے۔ انسان خاص ہے۔ جب حیوانیت اس میں نہیں تو انسانیت جو کہ اس س خاص ہے وہ بھی نہیں۔پھر گدھا نہیں تو کیاہے۔ جب ایسی ایسی باتیں حد سے گزر گئیں تو مشائخ صوفیہ نے فتوے لکھ کر عبداللہ خاں کے سامنے پیش کیا۔ اور منطق کا پڑھنا پڑھانا حرام ہو گیا۔ اس میں قاضی ابوالمعالی ملا عصام۔ ملامرزا جان اور اکثر شخص بدعقیدہ ہو کر وہاںسے نکالے گئے تھے ۔ کہتے ہیں کہ چند سبق شرح و قایہ کے میں نے بھی قاضی ابوالمعالی سے پڑھے اور حق یہ ہے کہ وہ اس علم میں دریائے بے پایاں تھے۔ نقیب خاں بھی اس میں شریک ہوئے۔ آزاد مبارک عہد اور مبارک وقت تھا۔ اکبر کی لسطنت کا طلوع بیرم کاں کا دور شیخ مبارک کی برکتیں علم و کمال کی برکت علم و کمال پھیلانے لگی تھی۔ کہ فاضل بدائونی حلقہ درس میں داخل ہو کر فیضی ابوالفضل کے اور نقیب خاں کے ہم درس ہوئے۔ شیخ مبارک ک ذکر میں خود فرماتے ہیں جامع اوراق نفوان شباب میں آگرہ میں چند سال ان کی ملازمت میں سبق پڑھتا رہا۔ الحق ان کا حق عظیم مجھ پر ہے ۔ مہر علی بیگ سلدوز ایک جاں نثار خان خاناں اورنامی سردار اپنے زمانے کا تھا۔ اس نے اپنے باپ بیٹوں کو اپنے ہاں رکھا۔ مال صاحب کی شگفتہ مزاجی اور خوش صحبتی نے مہر علی کے دل میں محبت کو ایسی جگہ دی کہ ایک دم جدائی گوارا نہ تھای شیر شاہی سرداروں میں عدلی کا غلام جمال خاں چنار گڑھ کا حاکم تھا۔ اقبال اکبری کے دربار سے اس نے خود التجا کی کہ حضور سے کئی شائستہ اور کارداں امیر یہاں آئیں تو قلعہ سپرد کر دوں ۔ بیرم خاں نے مہر علی بیگ کا جانا تجویز کیا۔ اس نے ان سے کہا کہ تم بھی چلو۔ یہ خود بھی ملا تھاے اورم لا کے بیٹے تھے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱؎ دیکھو تمتہ صفحہ ۸۴۰ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ علم کے شوق نے اجازت نہ دی۔ اس کے ان کے والد اورشیخ مبارک کو مجبور کیا۔ اوریہاں تک کیہا کہ یہ نہ چلیںگے۔ تو میں بھی جانے سے انکار کر دوں گا۔ غرض پیارے دوست کی تمنا اور دونوں بزرگوںکے کہنے سے رفاقت اختیار کی چنانچہ لکھتے ہیں۔ عین برسات تھی۔ مگر دونوں بزرگوں کی رضا جوئی مقدم سمجھی باوجود نوسفر ی کے تحصیل علم میں خلل ڈالا اور سفر کے خوف و خطر اٹھائے۔ قنوج لکھنوتی جون پور بنارس کی سیر کرتا عجائب عالم کو دیکھتا جا بجا مشائش و علما کی صحبتوں سے فیض لیتا ہوا چلا۔ چنار میں پہنچے تو جمال خاں نے بڑی ظاہر داریوں سے خاطر داریاں کیں۔ مگر دل میں دغا معلوم ہوئی۔ مہر علی بیگ نے ہمیں وہیں چھوڑا۔ آپ سیر مکانات کے بہانے سوار ہوا۔ اور صاف نکل گیا۔ جمال خاں بدنامی سے گھبرایا۔ ہم نے کہا ’’کچھ مضائقہ نہیں کسی نے ان کے دل میں کچھ شبہ ڈالا ہو گا خیر ہم سمجھا کر آتے ہیں‘‘ گرض اس پیچ سے بھی نکل آئے۔ قلعہ پہاڑ کے اوپر ہے۔ نیچے دریا بڑے زور و شور سے بہتا ہے۔ کشتی ایک جگہ بے قابو ہو گئی۔ مولینا آخر ملا تھے بہت گھبرا کر لکھتے ہیں کشتی بڑے خطرناک گرداب میں جا پڑی۔ اور دامن کوہ میں کہ دیوار قلعہ کے پاس تھی موجوں میں الجھ گئی ہوا بھی ایسی مخالف چلنے لگی کہ ملاحوں کی کچھ پہیش نہ جاتی تھی اگر دشت و دریا کا خداوند نہ خدائی نہ کرتا تو کشتی امید گرداب بلا میں آ کر کوہ اجل سے ٹکرا چکی ہوتی۔ دریا سے نکل کر جنگلوں میں آئے۔ شیخ محمدغوث گوالیاری جو ہندوستان کے بڑے مشائخ سے ہیں۔ معلوم ہوئے کہ پہلے اس جنگل میں اور پہاڑ کے دامن میں یاد الٰہی کے ساتھ گزران کیا کرتے تھے۔ ہم اس مقام پر گئے ایک رشتہ دار ان کا موجود تھا اس نے ساتھ لے جا کر غار دکھایا کہ یہاں ۱۲ برس تک بیٹھے رہے اور بناس پتی کھاکر زندگی کی۔ آگرہ میں تھے۔ کہ سنہ ۹۶۹ھ می والد کا انتقال ہو گیا۔ انکی لاش بساور میں لے گئے۔ اور تاریخ لکھی۔ سر دفتر فاضل دوراں ملوک شاہ آں بحر علم معدن احسان و کان فضل چوں بود در زمانہ جہانے ز فضل ازاں تاریخ سال فوت وے آمد جہان فضل سنہ ۹۷۰ ھ میں خود سہسوان علاقہ سنبھل میں تھے۔ جو خط پہنچا کہ مخدوم اشرف نانا بھی بساور میں مر گئے۔ فاضل جہاں ان کے مرنے کی تاریخ ہوئی۔ لکھتے ہیں کہ میں نے اکثر جزئیات اورعلوم غریبہ (منطق و فلسفہ) ان سے پڑھے تھے۔ اور ا ن کے بڑے بڑے حق میرے اور اہل علم کے ذمہ تھے نہایت رن ہوا۔ والد کا داغ بھی بھول گیا۔ برس دن کے اندر دو صدمے گزرے ۔ بے فکر طبیعت پر عجب پریشانی گزری۔ دنیا کے فکر جن سے میں کوسوں بھاگتا تھا۔ ایک مرتبہ چاروں طرف سے تن تن کر سامنے آ رہے تھے۔ اور رستہ روک لیا۔ والد مرحوم میری طبیعت کی آزادی اور بے پروائی دیکھ دیکھ کر کہا کرتے تھے۔ کہ یہ سارے ولولے اور شورشیں تمہاری مجھ تک ہیں میںنہ ہوں گا تو دیکھنے والے دیکھیں گے۔ کہ تم کیسے بے قید رہتے ہو۔ اور دنیا اور دنیا کے کاروبار کو کیونکر ٹھوکر مار کر چھوڑ دیتے ہو۔ آخر وہی ہواکہ اب دنیا ماتم خانہ نظر آتی ہے۔ مجھ سے زیادہ کوئی ماتم زدہ نہیں ہے۔ دو غم ہیں۔ اور دو ماتم ہیں اور میں اکیلا ہوں۔ ایک سر ہے دو خمار کی طاقت کہاں سے لائے ایک سینہ دو بوجھ کیونکر اٹھائے۔ بیٹالی میں امیر خسرو پیدا ہوے۔ یہ علاقہ حسین خاں کی جاگیر تھا لکھتے ہیں کہ سنہ ۹۷۳ھ میں یہاں پہنچ کر حسین خاں سے ملے ۔ جوانی کے ذوق اور ہمت کے شوق نے دربار شاہی کی طرف دھکیلا۔ مگر اس افغان دیندار کی محبت ایمانی اور خوبیوںکی کشش نے رستے میں روک لیا۔ خود لکھتے ہیں کہ یہ شخص صاحب اخلاق ‘ متواضع درویش سیرت۔ سخی۔ پاکیزہ روزگار۔ پابند سنت و جماعت علم پرور۔ فضل دوست تھا۔ نیکی سے پیش آتا تھا اس کی صحبت سے جدائی اور نوکری کرنے کو جی نہ چاہا۔ دس بر س تک انہی گمنام گوشوں میںرہا وہ نیک لوگوں کی خبر گیری کرتا تھا۔ میں اس کی رفاقت کرتا تھا۔ ملا صاحب نے اس پرہیز گار اور بہادر افغان کی بڑی تعریفیں لکھی ہیں اور اس قدر لکھی ہیں کہ پیغمبروں تک نہیں تو اصحاب و اولیا کے اوصاف تک ضرور پہنچا دیا ہے۔ چونکہ اس کے حال میں ان کے اور اکبر کے عہد کے بہت حالات دست و گریبان ہوتے ہیں۔ ا س لیے اس کا حال علیحدہ لکھوں گا۔ کہ دلچسپ باتیں ہیں۔ ا س دلاور افغان نے ہمایوں کی مراجعت سے لے کر اکبر کے سال ۲۲ جلوس تک بڑی جاں نثاری اور وفاداری دکھائی۔ اور ۳ ہزار ی تک منصب حاصل کیا۔ غرض دو دیندار متفق الخیال مسلمان ساتھ رہتے تھے اور مزے سے گزران کرتے تھے۔ قیس صحرا میں اکیلا ہے مجھے جانے دو خوب گزرے گی جو مل بیٹھیں گے دیوانے دو حسین خاں کے پاس سنہ ۹۷۳ھ سے سنہ ۹۸۱ھ تک ۸ برس رہے ۔ قال للہ وقال الرسول سے اپنا اور اس کا دل خوش کرتے تھے بے تکلفی کی صحبتوں سے جی بہالتے تھے۔ علما و فقرا کی خدمتیں کرتے تھے جاگیر کے کاروبار اور وکالت کو حسن لیاقت اور شیرینی گفتار سے رسائی دیتے تھے۔ سنہ ۹۷۵ھ میں رخصت لے کر بدایوں گئے اور ملا صاحب دوبارہ دولہا بنے۔ شادی کی آرائش ۔ سامان بنائو سنگار سب ڈیڑھ سطر میں ختم کیا۔ مگر عجیب خوبصورتی سے بلکہ عبارت سے جھلکتا ہے کہ بی بی خوبصورت پائی اور انہیں بھی بہت پسند آئی۔ دیکھنا کیا مزے سے کہتے ہیں اس برس میں راقم تاریخ کی دوسری شادی واقع ہوئی اورموجب مضمون والاخرۃ خیر لک من الاولی مبارک نکلی تاریخ کہی گئی۔ چوں مرا از عنایت ازلی ازدواجے بماہ چہرے شد عقل تاریخ کد خدائی را گفت ماہے قرین نہرے شد آزا د اس سے یہ بھی معلوم ہوتاہے کہ پہلی سے خوش نہ تھے۔ خداجانے اس کے جیتے جی دوسری شادی کی یا بچاری مر گئی تھی۔ اس کا تو افسوس بھی نہ کیا۔ چند ہی روز میں لڑکا پیدا ہوا ۔ حسین خاں کے پاس پہنچے ۔ وہ ان دنوں لکھنومیں اپنی جاگیر پر تھے ان کی بدولت چند روز اودھ کی سیر کی وہاں کے علما و فقرا اور اہل اللہ سے ملاقاتیں کر کے بہت سے فیض حاصل کیے۔ حسین خاں کی جاگیر کی تبدیلی کے سبب سے بادشاہ سے خفا ہو گئے اورکوہستان میں فوج لے کر گئے کہ جہاد کر کے دین خدا کی خدمت کریں گے۔ سونے چاندی کے مندر ہیں۔ انہیں لوٹیں گے اور خود ترویج اسلام کریں گے۔ اس موقع پر یہ رخصت ہو کر بدائوں چلے گئے۔ مگر دو سخت صدمے اٹھائے ۔ لکھتے ہیں شیخ محمد چھوتے بھائی کو میں نے جان کے برابر پالا تھا بلکہ جان سے زیادہ چاہتا تھا۔ اس نے بہت سے اخلاق حمیدہ حاصل کیے تھے اخلاقی ملکی ملکہ ہو گئے تھے۔ ایک معقول گھرانے میں اس کی شادی کی۔ افسوس کیا خبر تھی کہ اس کارخیر میں ہزار مصیبتوں کی شر ہے تین مہینے شادی پر نہ گزرے تھے کہ اس کو اور نور چشم عبداللطیف کو زمانے کی نظر لگ گئی۔ پلک مارتے۔ ہنستا کھیلتا بچہ گود سے گور میں چلا گیا۔ وہ میری زندگی کا ہر ا بھرا پودا تھا۔ اور میں زمانے کا شہریار تھا۔ حیف اپنے ہی شہر میں پردیسی ہو گیا۔ انا للہ وانا علیہ راجعون ملا صاحب نے اس مصیبت میں بہت سے شعر کہے ۔ ایک ترکیب بند بھائی کے مرثیے میں لکھا ہے دل پر درد کا ابر چھایا ہوا تھا اس لیے کلام بھی تاثیر میں ڈوبا ہوا نکلا ہے۔ میں بھی اس کے لطف سے اپنے دوستوں کو محروم نہ رکھوں گا۔ باوجود اس کے نظم مذکور سے معلوم ہوتا ہے۔ کہ ملا صاحب کی زبان میں نظم کا ڈھب ایسا نہیں جیسا نثر کا ۔ اوریہ قاعدے کی بات ہے۔ یارب ایں روز چہ روزیست کہ افتاد مرا دیں چہ جانکاہ بلائیست کہ روادار مرا ہیچ کس نیست کہ فریاد من اور انر سید نرسد ہیچ کسے لیک بفر یاد مرا ماہ من آخر شب رفت پس پردہ غیب بیں کزیں حاملہ غیب چہ غم زاد مرا ماہ من آخر شب رفت پس پردہ غیب بیں کزیںحاملہ غیب چہ غم زاد مرا مایہ شادی و امید دلم رفت بخاک بعد ازیں دل بچہ امید شود شاد مرا گرچہ بنیاد من از صبر ققوی بودولے سل غم آمد و انداخت زنبیاد مرا آں کسے را کہ کنمم یاد بروزے صد بار وہ کہ یکبار بسالے نہ کندیاد مرا چرخ بے داد چہ غمہا کہ بہ من داد کنوں داد خود از کہ ستانم کہ دہد داد مرا حال دل ہیچ ندانم بکہ گویم چرکنم چارہ درد دل خود ز کہ جویم چرکنم اے فلک دہ کہ دلم خستہ و ویراں کر دی خاطر جمع مرا باز پریشاں کردی گوہرے کاں بکفم بود زاغیار نہاں آشکار از نظرم بردی و پنہاں کر دی سرو من بردی ازیں باغ بزندان لحد باغ راہبر من ماتم زدہ زنداں کر دی یوسفم را بہ کف گرگ سپردی و مرا در غمش معتکف کلبہ احزاں کر دی در گل تیرہ نہادی گل نورستہ من روز من باشب تیرہ زچہ یکساں کر دی حاصل آں کس کہ از و بود سرو سامانم بردی اوراو مرا بے سرو ساماں کر دی آں برادر کہ دریں شہر غریب آمدہ بود جاش دروشت بہ پہلوئے غریباں کر دی وقت گل آمد شد جائے محمد در خاک جائے آنست کہ از غصہ کنم برسر خاک آخر اے دیدہ چہ دیدی کہ ز عالم رفتی دیدہ پوشیدہ ازیں دیدہ پرنم رفتی چشم تاریک مرا روشنی از روے تو بود روشنی رفت زدل تا توز چشم رفتی بودہ چشم مرا ہمچو نگیں در خاتم چوں نتیں عاقبت الامرز خاتم رفتی دلت از ہیچ نمر شاد نشد در عالم حیف صد حیف کہ ماشاد زعالم رفتی جان پاک تو دریں مرحلہ بس غمگیں بود رخت بستی دازیں مرحلہ غم رفتی بر دل ازکار جہاں ہیچ نہ بودت بارے بارے ازکار جہں خوش دل و خورم رفتی بودم از مہد ترا مونس و ہمدم ہمہ دم در لحد بہرچہ بے مونس و ہمدم رفتی رفتی و حسرت توزیں دل حیراں نہ رود غمت از دل نرود تاز غمت جاں نہ رود کیست آں کس کہ نشان تو بمن گوید باز خبر جان رواں گشتہ بہ تن گوید باز قصہ گل کہ فرو ریخت ز آسیب خزاں کیست القصہ کہ با مرغ چمن گوید باز قاصدے کو کہ غم و در دمرا روے بڑے یک بیک پیش تو بروجہ سخن گوید باز تنگ دل غنچہ صفت گشتم و کس پیدا نیست کز تو حرفے بمن اے غنچہ دہ گوید باز ہست صدپیچ و شکن درد لم از ماتم تو کہ بتو زیں دل پر پیچ و شکن گوید باز دور رفتی چونیا مد زد یار تو کسے کہ زا حوال تو یک شمہ بمن گوید باز روم برسر گور تو قیامے بکنم تاجوابے شنوم از تو سلامے بکنم گویم اے گوہر نایاب چہ حالست ترا باتن خستہ و بے تاب چہ حالست ترا تو بخواب اجل و بے تو قیامت برخاست خیز و سر برکن ازیں خواب چہ حالست ترا از جدائی تو احباب بے بدحال اند اے جدا ماندہ زاحباب چہ حالست ترا شدہ از دوریت اصحاب بہ نزدیک ہلاک دور از صحبت اصحاب چہ حالست ترا بود جائے تو بہ محراب و کنوں مے نگرم ماندہ خالی تو محراب چہ حالست ترا مے خورم خون جگر بے تو مرا پرس گہے کہ دریں خوردن خونناب چہ حالست ترا برگلت صد گل سیراب و میداز اشکم زیر گل اے گل سیراب چہ حالست ترا در چنیں منزل غمناک بہ نزدیک تو کیست مونس روز او انیس شب تاریک تو کیست اے صنم از رخ خوب توجدا افتادہ وز فراق تو بصد گونہ بلا افتادہ تو بصحرائے و من ماندہ دریں شہر غریب اللہ اللہ تو کجا من بہ کجا افتادہ بارگل ہم نکشیدی و ندانم ایں بار برتو صد پشتہ خس و خار چرا افتادہ بارگل ہم نکشیدی و ندانم ایں بار برتو صدپشتہ خس و خار چرا افتادہ قدر وصل تو ندانستم وایں بود جزا کہ ملاقات تو با روز جزا افتادہ کردمے جاں بسروکار تو لیکن چہ کنم کہ سروکار تو باحکم خدا افتادہ سال تاریخ تو شد گفت چو سروت افتادہ آں سہی سروچہ ناگاہ زبا افتادہ قادری نالہ و فریاد نمے دارد سود در دعا کوش کہ نوبت بدعا افتادہ از خدا خواہ کہ کارش ہمہ محمود بود ہم خدا ازوئے وہم اوز تو خوشنود بود یارب اندر چمن خلد گزارش بادا قصر فردوس بریں جاے قرارش بادا درگلستان جناں چوں گزر و جلوہ کناں حور و غلماں زیمین و زیسارش بادا در شب تارچو عزم سفر عقبے کرد نور اسلام چراغ شب تارش بادا بر مزارش چوکسے نیست کہ افروز و شمع پر تو لطف خدا شمع مزارش بادا از عروس کہن دہر چوبگرفت کنار نو عروسان بہشتی بکنارش بادا ہیچ یارے چونشد ہمدم اد بعد از مرگ دمبدم رحمت حق ہمدم و یارش بادا مردماں قطرۃ اشکے کہ فشاند ندبرو گرد وآں قطرہ درناب و نثارش بادا تا ابد مسکن او دذدہ عیلیں باد ایں دعا از من و از روح امیں آمیں باد ایک خاندانی شخص کسی عورت پر عاشق ہو کر مر گیا۔ اس کے ماجرے کو انہوں نے افسانہ کے طور پر کھا ہے اور مزے سے لکھا ہے۔ اخیر میں طول کلا م کا عذر کرتے ہیں۔ اور ساتھ ہی کہتے ہیں خدا مجھے بھی یہی نعمت کرے۔ ساتھ ہی ایک اور شعبدہ بازی حضرت عشق یاد آ گئی اسے بھی ٹانک گئے مگر ا سکا لکھنا واجب تھا۔ کیونکہ شیخ صدر پر اور شیخ محمد غوث کے خاندان پر بھی ایک نشتر مارنے کا موقع ملتا تھا۔ یہ معاملہ نہایت اختصار کے ساتھ لکھا ہے ۔ اور خوبصورتی سے ادا ہوا ہے ۔ اس لیے میں لکھتا ہوں فرماتے ہیں۔ حکایت شیخ زادگان گوالیار میں سے ایک شخص تھے۔ کہ شیخ غوث گوالیاری سے قرابت قرینہ رکھتے تھے ۔ صلاح و صلاحیت کا لباس پہنتے تھے ۔ اورنام کے سر پر تاج شاہی کا تاج رکھتے تھے ۔ وہ ایک ڈومنی پر عاشق ہو گئے۔ کیا ڈومنی تھی۔ در مغرب زلف عرض دادہ صد قافلہ ماہ و مشتری را در چنبر زلف کردہ پنہاں دستار سپہر چنبری را بردامن ہجر و وصل بستہ بدبختی و نیک اختری را بادشاہ کو خبر پہنچی۔ انہوں نے کنچنی کو پکڑوا کر منگایا۔ مقبل خان کو دیدی کہ مقربان کاص میںتھا۔ یاروں کو شیخ زادہ صاحب کے ڈھنگ معلوم تھے۔ باوجودیکہ مقبل خاں نے رنڈی کو محفوظ مکان میں رکھا اور باہر کا دروانہ چن دیا تھا۔ مگر وہ ہمت کی کمند ڈال کر پہنچے اورلے ہی اڑے شیخ ضیاء الدین شیخ محمد غوث کے بیٹے کہ اب بھی باپ کی مسند پر ہدایت دار شاد فرماتے ہیں۔ ان کے نام بادشاہی حکم پہنچا انہوںنے بھی نصیحتوں وصیتوں سے سمجھا کر ڈومنی سمیت دربار میں حاضر کیا بادشاہ نے چاہا کہ اس خانہ بر انداز سے شیخ زادہ کا گھر بسا دیں۔ مگر شیخ ضیاء الدین اور اور لوگ راضی نہ وہئے کہ نسل بگڑ جائے گی۔ خاندان خراب ہو جائے گا۔ شیخ زادہ خانہ کراب کوتاب کہاں تھی چھری مار کر مر گیا۔ کفن و دفن پر علما میں تکرار ہوئی ۔ شیخ ضیاء الدین نے کہا شہید عشق ہے۔ اسی طرح خاک کے سپرد کر دو۔ شیخ عبدالنبی صدر عالی قدر اور علما اور قاضی ان کے تصدیقچی کہتے تھے کہ ناپاک مرا۔ آسودہ عشق نہیں آلودہ فسق ہے۔ ملا صاحب کا اس طرح فرمانا یا تو اس سے ہے کہ خود عاشق مزاج تھے اور اسی واسطے عاشقوں کے طرف دار تھے۔ یا یہ کہ شیخ صدر پر چوٹ کرنے میں خواہ مخواہ مزا آتا تھا۔ سنہ ۹۷۹ ھ میں ایک اپنا ماجرا بیان کرتے ہیں۔ جس سے تاریخ نویسی کی روح شاداب ہو تی ہے۔ اور معلوم ہوتا ہے کہ واقعہ نگار کو کیونکر واقعیت نگار ہونا چاہیے۔ لکھتے ہیں کہ اس سال میں عجیب خوفناک واقعہ ہوا۔ کانت گولہ حسین خاں کی جاگیر میں تھا۔ میں وہاں آیا۔ صدارت کا عہدہ تھا۔ اور فقرا کی خدمت میرے سپرد تھی۔ شیخ بدیع الدین مدار کا مزار مکن پور علاقہ قنوج میں ہے۔ مجھے زیارت کا شوق ہوا۔ آدمی نے آخر کچا دودھ پیا ہے غفلت اور ظلم و جہل سے اس کی سرشتہے بیجا جسارت کر بیٹھا ہے۔ اور خسارت و ندامت اٹھاتا ہے۔ ا س نے حضرت آدم سے بھی میراث پائی ہے غرض انہیں بلائوں نے میری عقل کی آنکھوں پر بھی پردہ ڈالا ہے۔ ہوس کا نام عشق رکھا۔ اور اس کے جال میں پھنسا دیا۔ قسمت کی تحریر پر قلم چل چکا تھا۔ وہ پیش آئی۔ او ر ایک سخت بے ادبی عین درگاہ میں واقع ہوئی۔ مگر غیرت اور عنایت الٰہی شامل حال ہوئی۔ کہ اس گناہ کی سز ا بھی یہیں ہونی چاہیے۔ یعنی طرف ثانی کے چند ادمیوں کو خدا نے تعین کیا کہ تلواریں کھینچ کر چڑھ آئے۔ اور پے درپے نو زخم سر ہاتھ اورکندھوں پر لگائے۔ سب زخم خفیف تھے۔ مگر سر کا گھائو گہرا تھا کہ ہڈی کو توڑ کر مغز پر پہنچا۔ اور تہی مغزی کا ثمرہ پایا۔ الٹے ہاتھ کی چھنگلی بھی کٹ گئی۔ وہیں بیہوش ہو کر گر پڑا۔ میں تو سمجھا کہ کام تمام ہوا۔ مگر ملک آخرت کی سیر کر آیا۔ اور خیز گزر گئی۔ خدا کرے عاقبت بخیر ہو۔ وہاں سے بانگر مو کے قصبے میں آیا۔ ایک بہت اچھا جراح ملا جس نے علاج کیا۔ ہفتے میں زخم بھر آئے اسی مایوسی کی حالت میں خدا سے وعدہ کیا کہ حج کروں گا۔ مگر ابھی تک سنہ ۱۰۰۴ھ ہیں پورا نہیںہوا۔ خدا موت سے پہلے توفیق دے۔ وما ذالک علی اللہ بعزیز۔ اے پروردگار تیرے آگے کچھ بڑی بات نہیں۔ پھر بانگرموسے کانت گولہ میں آیا ۔ غسل صحت کیا۔ مگر زخموں نے پانی رچرایا اور نئے سرے سے بیمار ہو گیا۔ خدا حسین خاں کو بہشت نصیب کرے ایسی پدری اور برادری محبت خرچ کی کہ انسان سے نہیں ہو سکتی۔ موسم کی سردی نے زخموں کو بہت خراب کیا تھا ۔ مگر خان موصوف نے اس شفقت و محبت سے تیمار داری کی کہ خدا اسے جزائے خیر دے حلواے گزر کھلایا اور ہر طرح خبر گیری کی وہاں سے بدایوں آیا۔ یہاں ناسور کوپھر چیرا۔ یہ عالم ہوا گویا موت کا دروازہ کھل گیا ۔ ایک دن کچھ جاگتا تھا کچھ سوتا تھا۔ دیکھتا ہوں کہ چند سپاہی مجھے آسمان پر پکڑ کے لے گئے ہیں۔ اور کچھ لوگ ہیں جیسے بادشاہی بساول عصا اور جریبینہاتھوںمیں لیے ہوئے دوڑتے پھرتے ہیں ایک منشی بیٹھا ہے اور کچھ فردیں لکھ رہا ہے۔ بولا کہ لے جائو لے جائو یہ آدمی وہ نہیں ہے۔ اتنے میں آنکھ کھل گئی ۔ خیال کیا تو دیکھا کہ درد کو آرام ہے۔ سبحان اللہ عام سے بچپن میں سنا کرتا تھا تو کہانی سمجھتا تھا ۔ اب یقین ہو گیا کہ عالم امکان وسیع ہے اور خدا کی قدرت غالب ہے۔ اس سال بدایوں میں بڑی آگ لگی۔ اور اتنے بندے خدا کے جل گئے کہ گنے نہ گئے ۔ سب کو چھکڑوں میں بھر کر دریا میں ڈال دیا۔ ہندو مسلمان کچھ معلوم نہ ہوا شعلے نہ تھے موت کی آنچ تھی۔ ہائے جان بڑی پیاری ہے۔ مرد عورت فصیل پر چڑھے۔ اورباہر کود پڑے جو بچ گئے و ہ جلے بھنے لنگڑے لولے ہو رہے۔ اپنی آنکھوں سے دیکھا پانی آگ پر تیل کا کام کرتا تھا۔ شعلے دھر دھر کرتے تھے۔ اور دور تک آواز سنائی دیتی تھی۔ آگ نہ تھی خدا کا قہر تھا۔ بہتوں کو خاک کر کے پامال کر دیا۔ بہتوں کو گو شمالی دیدی چند روز پہلے ایک مجذوب میان دوآب کے علاقہ سے آیا تھا۔ میں نے اسے گھر میں اتارا۔ باتیں کرتے کرتے ایک دن کہنے لگا کہ یہاں سے نکل جائیں میںنے کہا کیوں؟ بولا کہ یہاں خدائی تماشا نظر آئے گا۔ خراباتی تھا مجھے یقین نہ آیا۔ اسے فقط تقدیر کا اتفاق کہتے ہیں۔ کہ سنہ ۹۸۱ھ میں ۱۰ برس کے دوست بلکہ دینی بھائی حسین خاں سے ان کا بگاڑ ہو گیا۔ اور اس کا راز کچھ نہ کھلا کہ کیا بات تھی ۔ وہ سیدھا سادھا سپاہی باوجود رتبہ آقائی کے مقام عذر خواہی میں آیا۔ بد ائوں میں ان کی ماں کے پاس گیا اور سفارش چاہی مگر ملا صاحب بھی ضد کے پورے تھے ایک نہ مانی ۔کیونکہ انہوں نے دربار شاہی میں جانے کی تجویز مصمم کر لی تھی۔ تماشا یہ کہ اسی سنہ میں اکبر کے دماغ کو علم کے شوق نے روشن کرنا شروع کیا۔ دریا دل بادشاہ محدود العقل علما کی یاوہ گویوں سے تنگ ہو کر فہمیدہ اور مصلحت سنج لوگوں کی قدر کرنے لگا۔ رات کو چار ایوان کے عبادت خانہ میں جلسہ ہوتا تھا۔ تمام علماء و فضلاء جمع ہوتے تھے۔ اوران سے علمی مباحثے سنتا تھا۔ ملاصاحب کی جوانی کی عمر علم کا جوش طبیعت کی امنگ ان کے دل میں بھی ہوس نے موج ماری۔ فیض ہنر ضائع است تا نمنایند عود بر آٹش نہند مشک بسایند فیضی ابوالفضل وغیرہ ہمدرس جو ان کے ساتھ گوشہ مسجد اور صحن مدرسہ میں بیٹھ کر ذہن لڑاتے تھے۔ ان کی باتوں میں گھوڑے بھی دربار شاہی کے دوڑنے لگے تھے۔ یہ بھی بدائوں سے آگرہ میں آئے۔ آخر الحجہ سنہ ۹۸۱ھ تھا کہ جمال خاں قورچی سے ملاقات ہوئی۔ ملا صاحب خود کہتے ہیں وہ اکبر کے مصاحبان خاص میں سے تھا۔ اور باوجود یکہ پانصدی عہدہ دار تھا۔ مگر سیدھا سادھا سپاہی تھا او ر دیندار خوش اعتقاد مسلمان تھا۔ ساتھ اس کے ظرافت طبع خداداد جوہر تھا۔ مصاحبت کے زور سے جو تصرف بادشاہ کے مزاج میں اسے حاصل تھا۔ وہ کسی امیر کو نصیب نہ تھا۔ سخی تھا اورکھانے کھلانے والا تھا۔ سنہ ۹۸۲ھ میں مر گیا۔ دنیا میں نیک نام رہا۔ عقبے میں نیکی ساتھ لے گیا۔ جمال خاں ان کے پیچھے نما ز پڑھ کر اور علمی تقریریں سن کر بہت خوش ہوا۔ اکبر کے سامنے لایا اور کہا کہ حضور کے لیے پیش نماز لایا ہوں خود فرماتے ہیں۔ تدبیر کے پائوں میں تقدیر کی زنجیر پڑی ہے۔سنہ ۹۸۱ھ میں حسین خان سے ٹوٹ کر بدائوں سے آگرہ میں آیا۔ جمال خاں قورچی اور مرحوم جالینوس حکیم عین الملک کے وسیلے سے ملازمت شاہنشاہی حاصل کی۔ ان دنوں جنس دانش کا بڑا رواج تھا۔ پہنچتے ہی اہل نشست میں داخل ہو گیا۔ یہاں تک کہ جو علما تجرکے نقارے بجاتے تھے اور کسی کو خاطر میں نہ لاتے تھے بادشاہ نے ان سے لڑا دیا۔ خود بات کو پرکھتے تھے۔ خدا کی عنایت اور قوت طبع اور تیزی فہم اور دل کی دلیری سے کہ عالم جوانی کا لازمہ ے بہتوں کو زیر کیا۔ پہلی ہی ملازمت میں فرمایا کہ یہ بدائونی فاضل حاجی ابراہیم سرہندی کا سرکوب ہے چاہتے تھے کہ وہ کسی طرح سے زک پائے۔ میں نے بھی اسے خوب خوب الزام دیے۔ اور بادشاہ بہت خوش ہوئے۔ شیخ عبدالنبی صدر عالی قدر پہلے ہی خفا ہوئے تھے کہ ہم سے بالا بالا آن پہنچا ۔ اب جو مناظروں میں مقابل دیکھا تو وہی مثل ہوئی۔ کہ ایک تو سانپ نے کاٹا اس پر کھائی افیم خیر آخر رفتہ رفتہ ان کی کلفت بھی الفت سے بدل گئی۔ ملا صاحب اس فتحیابی پر ناحق خوش ہوئے۔ انہیں خبر نہ تھی کہ یہ فتح اپنی فوج کی شکست ہوئی ہے۔ کیونکہ آہستہ آہستہ بادشاہ کل علما سے بے اعتقاد ہوگیا پھر ان کے ساتھ یہ بھی نظروں سے گر گئے۔ ساتھ ہی لکھتے ہیں انہی دنوں میں شیخ ابوالفضل خلف شیخ مبارک جس کی عقل و دانش کا ستارہ چمک رہا تھا ملازمت میں آیا اورانواع و اقسام کی عنایتوں سے امتیاز پایا۔ تھوڑی دور آگے چل کر کہتے ہیں بادشاہ نے ملایان فرعون صفت کے کان ملنے کے لیے جس کی مجھ سے امید نہ رہی تھی انہیں خاطر خواہ پایا وغیرہ وغیرہ۔ ان کے اور ابوالفضل کے دونوں حالات پڑ ھ کر معلوم ہو جائے گا کہ اکبر کی نظر توجہ ان کی طرف تھی ۔ وہ ادھر پھر گئی۔ اسے اس کی قسمت کا زور کہو۔ خواہ اس کی مزاج شناسی سمجھو۔ اور یہی شک تھا جو ہمیشہ تیزاب بلکہ زہریلے الفاظ بن کر ان کے قلم سے ٹپکتا تھا۔ غرض فاضل مذکور ہر صحبت اور ہر جلسے میں موجود رہتے تھے جو خاص علما کیا سفر کیا مقام میں کہیں جدا نہ ہوتے ھتے۔ ان میں یہ بھی شامل ہو گئے۔ پہلے ہی سفر کا حال جو لکھتے ہیں اس کے ترجمہ کو پڑھو اور خیال رو کہ ایک نوجوان آدمی جب ایک عظیم الشان بادشاہ کی رکاب میںرہ کر شاہانہ شان اور شلطنت کے سامان دیکھتا ہے تو اس کے دل میں کیسے خیالات پیدا ہوتے ہیں ۔ اور دیکھو! ابھی تک وہ موقع ہے کہ آقا کا دل شفقت اور نئے نمک خوار کا سینہ وفاداری کے جوش سے لبریز ہے ۔ چنانچہ انہی دنوں مین اکبر شاہانہ لشکر لے کر منعم خاں کی مدد کو چلا کہ پٹنے پر پٹھانوں سے لڑ رہا تھا۔ فوج کو آگرہ سے خشکی کے رستے روانہ کیا۔ اور آپ مع بیگمات اور شاہزادہ ہائے کامگار اور امرا کے دریا کے رستے چلا ابھی تک ملا صاحب مہربان ہیں چنانچہ لکھتے ہیں ۔ رباعی شاہنشہ داد گستر دیں پرور جمشید جہاں ستاں محمد اکبر بنشست بردے بحرچوں اسکندر ہم بحر بفرمان دے آمد ہم بر بڑے شاہزادے کو بھی ساتھ لیا۔ کشتیوں کی کثر ت سے پانی نظر نہ آتا تھا۔ نئے نئے انداز کی کشتیاں آسمانی بادبان پر چڑھے ہوئے۔ کسی کا نام نہنگ سر ۔ کوئی شیر سر وغیرہ وغیرہ۔ رنگ برنگ کی بیرقیں لہراتی دریا کا شور ہوا کا زور۔ پانی کے سراٹے بیڑا چلا جاتا تھا ملاح اپنی بولی میں گاتے جاتے تھے جب عالم تھا۔ قریب تھا کہ پرندے ہوا میں اور مچھلیاں پانی میںرقص کرنے لگیں۔ وہ تماشا دیکھا کہ بیان میں نہیںآتا۔ جہاں چاہتے تھے اتر پڑتے تھے۔ اور شکار کھیلتے تھے۔ جب چاہتے تھے چل کھڑ ے ہوتے تھے۔ رات کو لنگر ڈال دیتے تھے۔ وہیں علمی بحثیں ہوتی تھیں۔ شعر شاعری کے چرچے بھی ہوتے تھے فیضی ساتھ تھے۔ ملا صاحب اسی سال میں آئے تھے یہ بھی ساتھ تھے۔ طبقات اکبری وغیرہ کتکابوں مٰںاس سے کچھ شیادہ کر کے لکھتے ہیں۔ کہ جو شاہانہ سامان خشکی کے سفر میں ہوتے ہیں سب کشتیوں پر لے چلے۔ کل کارخانے مثلا توپ خانہ‘سلاح خانہ‘ خزانہ ] نقار خانہ‘ کرکراق خانہ( توشہ خانہ) فراشنماء جبہ خانہ‘ باورچی خانہ طویلے وغیرہ وغیرہ سب کشتیوں پر تھے۔ ہاتھیوں کے لیے بڑی بڑی کشتیاں تیار ہوئیں اور ہاتھی وہ ساتھ لیے کہ ڈیل ڈول مستی اورتند خوئی میں مشہور تھے۔ بال سندر کے ساتھ دو ہتھنیاں ایک کشتی میں۔ سمن بال اور دو ہتھنیاں ایک کشتی میں۔ وغیرہ ۔ جو آرائشیں خیموں ڈیروں میں ہوتی تھیں وہ سب کشتیوں میں اور ان کی پوششوں میں کی تھیں۔ ان میں الگ الگ کمرے کمروں کی عمدہ تقسیم محرابوں اور طاقتوں کی تراشیں گھروں کی طرح کئی کئی منزلیں زینوں کے اتار چڑھائو ہوا کے لیے کھڑکیاں اور روشنی کے لیے تابدان۔ ہر بات میں نئے نئے ایجادات ۔ رومی چینی ‘ فرنگی مخملوں اور باناتوں کے پردے اور فرش ہائے بو قلموں۔ ہندوستانی دستکاریوں کی تفصیل کہاں تک ہو۔ کہ ایک افسانہ عجائب خانہ ہوا جاتا تھا۔ یہ سب سامان دریا میں بساط شطرنج کی طرح بہ ترتیب و انتظام چلتا تھا بیچ میں بادشاہ کی کشتی ہوتی تھی بڑی عالیشان جیسے جہاز۔ ملا صاحب کہتے ہیں دوسر ے سال شہنشاہ نے مجھ پر عنایت فرمائی اور بڑی محبت سے کہا کہ سنگھاسن بتیسی کی ۳۲ کہانیاں جو راجہ بکرما جیت کے حال میںہیں۔ سنسکرت سے فارسی میں ترجمہ کر کے طوطی نامہ کے رنگ میں نظم و نثر میں ترتیب دو اور ایک ورق نمونے کے طور پر آج ہی پیش کرو۔ برہمن زبان داں مدد کے لیے دیا۔ چنانچہ اسی دن ایک ورق شروع حکایت سے ترجمہ کر کے گزارنا۔ پسند فرمایا تمام ہوئی تو نامہ خرد افزا تاریخی نام قرار پایا اور پسند و قبول ہو کر کتب خانے میں داخل ہوئی حق پوچھو تو ملا صاحب کو تاریخ گوئی میں کمال ہے۔ سنہ ۹۸۳ھ تک صحبتیں موافق طبع تھیں۔ کیونکہ ان کے کلام کی بنیاد اصول و فروغ مذہب پر تھی۔ اور بادشاہ نے ابھی ابھی تک اس دائرے سے قدم نہ بڑھایا تھا۔ یہ بعض علما سے اس لیے ناراض تھے کہ فقط جو فروشی اورگندم نمائی سے دیندار اور سلطنت میں صاحب اختیار بنے ہوئے تھے وہ مخدوم اور صدر اور ان کی امت ک لوگ تھے ۔ اور بعض سے اس لیے خفا تھے کہ زبانی جمع خرچ اور لفاظی اور دھوکے کی دلیلوں سے علم کے دعوے دار بنے ہوئے تھے۔ مگر ان کا لوہا سب پر تیز ہوا کہ آتے ہی ہر ایک کو دبا لیا جو ذرا بے اصول بولتا تھا فوراً کان پکڑ لیتے تھے چنانچہ حکیم الملک کے ساتھ جو معرکہ کیا وہ تم نے دیکھا۔ سنہ ۹۸۳ھ تک کے حالات اور چار ایوان کے معرکوں میں اپنے اور عالموں کے لطائف و ظرائف خوشی خوشی لکھتے چلے جاتے تھے۔ کہ دفعتہ قلم کی رفتار بدلتی ہے۔ اور صاف معلوم ہوتا ہے کہ قلم سے حرف اور آنکھوں سے آنسو برابر بہہ رہے ہیں۔ چنانچہ لکھتے ہیں۔ آج ان معرکوں کو ۱۰ برس گزر گئے ہیں۔ وہ مناظرے اور مباحثے کرنے والے کیا محقق اور کیا مقلد سو سے زیادہ تھے ایک نظر نہیں آتا۔ سب نے موت کے نقاب میں منہ چھپا لییے خاک ہو گئے اور ان کی خاک بھی اڑ گئی۔ زخیل درو کشاں غیر مانماند کسے بیار بادہ کہ ماہ محنیمتیم بسے! جب نعمت جاتی ہے تو قدر آتی ہے ۔ اب ان ہم صحبتوں کو یاد کرتا ہوں۔ لہو روتا ہوں۔ آہیں بھرتا ہوں۔ نالے کرتا ہوں۔ اور مرتا ہوں۔ کا ش اس حسرت آباد میں چند روز اور بھی ٹھیرتے وہ جو کچھ تھے غنیمت تھے کہ بات کا رخ انہی کی طرف ہوتا تھا۔ اور بات کا مزا انہیں سے تھا۔ اب کوئی بات کے قابل ہی نہیں۔ رباعی افسوس کہ یاراں ہمراز دست شدند درپائے اجل یگاں یگاں پست شدند بودند تنک شراب در مجلس عمر یک لحظہ زما پیشترک مست شدند عبارت ہائے مذکورہ بالا کے انداز سے اور آئند کی عبارت سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ سلسلہ عین کامیابی اور لطف گرم جوشی کے عالم میںلکھا گیا تھا۔ لیکن وہ عبارت نظم و نثر جو ماتم زمانہ سے سیہ پوش ہے پیچھے حاشیے پر لکھی ہو گی۔ اور وہ بھی سنہ ۹۱ یا سنہ ۹۲ کے پس و پیش میں ہو گی۔ نہ سنہ ۹۹۹ھ میں جیسا کہ انہوں نے دیباچہ کتاب تحریر کیا ہے۔ سنہ ۹۸۳ھ میں مرزا سلیمان والی بدخشان ادھر بھاگ آیا تو اکبر نے بڑے جاہ و جلال سے استقبال کیا مرزا بھی عبادت خانہ (چار ایوان) میں آتا تھا۔ مشائخ و علما سے گفتگوئیں ہوتی تھیں )ملا صاحب فرماتے ہیں) صاحب حال شخص تھا اس سے معرفت کے بلند خیالات سنے گئے ۔ کبھی نماز باجماعت نہیں چھوڑی ۔ ایک دن میںنے عصر کی نماز پڑھ کر فقط دعا پر اکتفا کیا۔ الحمد نہ پڑھی مرزا نے اعتراض کیا کہ حمد کیوں نہیںپڑھی ۔ میں نے کہ اکہ آنحضرت کے عہد میں نما زکے بعد فاتحہ کا معمول نہ تھا۔ بلکہ بعض روایتوں میں مکروہ بھی آیا ہے۔ مرزا نے کہا کہ ولایت میں علم نہ تھا یا علما نہ تھے؟ (ملا بھی جھگڑنے کو آندھی تھے) میں نے کہا کہ ہمیں ختاب سے کام ہے ۔ نہ کہ تقلید سے۔ بادشاہ نے خود فرمایا کہ آئندہ سے پڑھا کرو۔ میں نے قبول کیا۔ مگر کتاب میں کراہت کی روایت نکال کر دکھا دی۔ گجرات کی لوٹ میں اعتماد خاں گجراتی کے کتب خانے کی نفیس نفیس کتابیں خزانہ عامرہ میں جمع تھیں۔ بادشاہ چار ایوان کے جلسوں میں علما کو تقسیم کر تے تھے۔ لکھتے ہیں کہ مجھے کئی کتابیں دیں۔ انہیںمیں ایک انوار المشکوۃ بھی تھی۔ اس میں ایک فصل بہ نسبت نسخوں کے زیادہ تھی۔ اس وقت تک بھی بادشاہ اکثر مسلمانوں میں انہیں کو مخاطب کر کے بات کہتے تھے اور ہر بحث میں پوچھتے تھے کہ حقیقت مسئلے کی کیا ہے۔ حضور میں امام تھے ہفتے کے ۷ دن ایک ایک دن باری بری سے نماز پڑھایا کرتے تھے۔ دوسرے سال میں ملا صاحب کہتے ہیں کہ خوش آدازی کے سبب سے جیسے طوطی کے پنجرے میں ڈالتے ہیں۔ اسی طرح مجھے ان میں داخل کر کے بدھ کی امامت کرائی اہتمام حاضر کا خواجہ دولت ناظر کے سپرد تھا۔ عجب سخت مزاج کوجو تھا۔ لوگوں کو بڑا دق کرتا تھا۔ الخصی لا ذکر ولا انثی (خواجہ ہیجڑا نہ زن زنان نہ زن مردان) اسی سال میں بیستی کا منصب دیا کچھ بھی عنایت کیا اورپہلی ہی دفعہ میں فرمایا کہ بیستی کے منصب کے بموجب گھوڑے داغ کے لیے حاضر کرو۔ لکھتے ہیں کہ شیخ ابوالفضل بھی اسی عرصے میں پہنچے تھے۔ اور ہم دونوں بموجب گھوڑے داغ کے لیے خاضر کرو۔ لکھتے ہیں کہ شیخ ابوالفضل بھی اسی عرصے میں پہنچے تھے۔ اور ہم دونوں کی وہی مثال ہے جو شیخ شبلی نے اپنے اور جنید کے لیے کہی تھی میں اور یہ دو جلی ٹکیاں ہیں کہ ایک تنور میں سے نکلی ہیں ابوالفضل نے جھٹ قبول کر کے کام شروع کر دیا۔ ار اس عرق ریزی سے خدمت بجا لایا کہ آخر دو ہزاری منصب اور وزارت ک درجے کو پہنچ گیا۔ (جس کی ۱۴ ہزار آمدنی ہے) ناتجربہ کاری اور سادہ لوحی سے اپنے کمل کو بھی نہ سنبھال سکا۔ سادات انجو میں سے ایک شخص نے ایسے ہی موقع پر اپنے آپ تمسخر کیا تھا وہ میرے حسب حال ہے۔ مرا داخلی سازی و بیتی مبیناد مادر بدیں نیتی مجھے ان دنوں میں یہی خیال تھا کہ قناعت بڑی دولت ہے۔ کچھ جاگیر ہے کچھ بادشاہ انعام و اکرام سے مدد کریں گے۔ اسی پر صبر کروں گا۔ سلامت اور عافیت کے گوشے میں بیٹھو ں گا علم کا شغل اور دل کی آزادی کا شیوہ نامرادی ہے۔ اسے سنبھالے رہوں گا۔ جاہ دنیا مطلب دولت فانی بگذار جاہ دیں بس بودو دولت اسلام ترا افسوس کہ وہ بھی میسر نہ ہوئی (یہاں میر سید محمد میر عدل کی نصیحت یاد کرتے ہیں اورروتے ہیں کہ دیکھو تتمہ صفحہ ۴۷۰) ملا صاحب بڑی اچھی اٹھان سے اٹھے مگر افسوس کہ رہ گئے اور بری طرح رہ گئے ۔ وہ ترقی پاتے وار خاطر خواہ سے بھی زیادہ پاتے ۔ مگر ضدی شخص اور بات کے پروش ایسی کرتے تھے کہ اس پرہر طرح کا نقصان اٹھاتے تھے۔ اور اسے فخر سمجھتے تھے۔ ابوالفضل کو زمانے کے گھسوں نے خوب سبق پڑھائے تھے۔ وہ سمجھ گیا ملا صاحب کو بیستی کا عہدہ ملا انکار کیا۔ اس نے فوراً منظور کیا۔ اور اطاعت و تسلیم کی اسی کا نیک ثمرہ پایا۔ اس کی تائید ان کی تحریروں سے ہوتی ہے لکھتے ہیں کہ ۹۸۳ھ میں میں نے رخصت مانگی ۔ نہ ملی بادشاہ نے ایک گھوڑا اور کچھ روپیہ دیا ہزار بیگھہ زمین دی اور کہا کہ فوجی دفتر سے تمہارا نام نکال دیتے ہہیں ان دنوں میں بیستی کے عہدے پر نظر کر کے یہ انعام مجھے بہت معلوم ہوا۔ کہ ہزاری کا ہم پلہ ہے۔ بادشاہی ہمزبانی ہے علم کا سلسلہ ہے خدمت کا بجا لانا ہے۔ سپاہی کی تلوار اور بندوق نہیں اٹھانی پڑتی۔ یہ سب کچھ درست مگر صدر کی ناموافقت اور زمانہ کی بد مددی سے خاطر خواہ فائدہ نہ ہوا۔ اور آئندہ ترقی کا رستہ نہ تھا۔ اتنا ہوا کہ فرمان میں مدد معاش کا لفظ لکھا گیا۔ نہ کہ جاگیر (جاگیر میں خدمت بھی بجا لانی پڑتی تھی) ہر چند عرض کی کہ اتنی زمین پر ہمیشہ حاضری کیوں کر ہو سکے گی۔ فرمایا کہ فوج کے زمرہ میں ترقی مل جائے گی۔ انعام سے بھی امداد ہوا کرے گی۔ شیخ عبدالنبی صدر صاف بولے کہ تمہارے ساتھیوں میں کسی کو اتنی مدد معاش نہیں دی۔ اب تک ۲۲ برس ہوئے آگے رستہ بند ہے۔ اور مدد میں قدرت الٰہی کے پردہ میں ہیں۔ ایک دو دفعہ سے زیادہ انعام کی بھی صور ت نہ دیکھی۔ وعدے ہی وعدے تھے۔ او ر اب تو زمانے کا ورق ہی الٹ گیا۔ البتہ خدمتیں ہیںجن کا کچھ نتیجہ ہی نہیں اور مہمل پابندیاں ہیں کہ مفت گلے پڑی ہیں کوئی لطیفہ غیبی ہو تو ان سے چھٹکارا ہو۔ یا وفا یا خبر وصل تو یا مرگ رقیب بازی چرخ ازیں یک دوسہ کارے بہ کند رضینا بقضاء اللہ و صبرنا علیٰ بلاء اللہ وشکرنا نعماء اللہ بہ ہمہ حال شکر باید کرد کہ مبادا ازیں بتر گردد حیرتی شاعر پر شاہ طہماسپ کی عنایتیں دیکھ کر یہ قطعہ فضولی بغدادی نے کہا تھا۔ وہ میری فضولیوں کے مناسب حال ہے۔ من ز خاک عرب و حیرتی از ملک عجم ہر دو گشیتم باظہار سخن کام طلب یافتیم از دو کرم پیشہ مراد دل خویش او زراز شاہ عجم من نظر از شاہ عرب دنیا میں جو کچھ ہے معلوم ہے۔ کار ساز بندہ نواز سے امید ہے ۔ کہ عاقبت بخیر ہو۔ اور خاتمہ سعادت ایمان پر ہو۔ ما عند کمر ینفذ وما عند اللہ باق جو تمہارے پاس ہے ہو چکے گا۔ جو خدا کے پاس ہے وہی رہی گا۔ امید از کرم اے کارساز ما این است کرنا امید نہ سازی امیدواراں را اب اختلافی مسئلے نکلنے لگے۔ جس سے بادشاہ اور صدر وغیرہ کے دلوں میں اختلاف پر کر حالتیںمختلف ہو گئیں (پہلا مسئلہ یہ تھا کہ ایک خاوند کیے جو روئیں کر سکتا ہے؟ میں نے جو کچھ معلوم تھا عرض کیا) (دیکھو حال شیخ عبدالنبی صدر صفحہ ۳۲۲) اسی سال میں لکھتے ہیں کہ شیخ بھاون کہ ولایت دکن کا ای برہمن دانا ہے ملازمت میں آیا اورشوق و رغبت کے ساتھ مسلمان ہو کر خاصہ کے چیلوں میں داخل ہو ا حکم ہوا کہ اتھرین بید (چوتھا بید) جس کے اکثر احکام اسلام سے ملتے ہیں بیان کرے۔ اور فقیر فارسی میں ترجمہ کرے۔ اس کی بعض عبارتیں ایسی تھی کہ وہ بیان نہ کر سکتا تھا۔ اور مطلب سمجھ میں نہ آتا تھا۔ میں نے عرض کی پہلے شیخ فیضی کو پھر حاجی ابراہیم سرہندی کو حکم ہوا۔ مگر جیسا جی چاہتا تھا نہ لکھ سکا۔ اب ان مسودوں کا نام و نشان بھی نہ رہا اس کے احکام میںسے ایک یہ ہے ۔ کہ جب تک ایک فقرہ (جس میں براہ راست بہت سے لام لام آتے ہیں جیسے لا الہ الا اللہ) نہ پڑھے تب تک نجات نہ ہو گی۔ اور کئی شرطوں کے ساتھ گائے گا گوشت بھی جائز ہے۔ اور مردے کو یا تو جلائیں نہیں تو دفن کریں وغیرہ۔ سنہ ۹۸۴ ھ میں بادشاہ اجمیر کے مقام میں تھے۔ کہ مان سنگھ ولد بھگوانداس کو اس درگارہ حضرت معینہ میں لے گئے۔ خلوت میں مدد چاہی خلعت اور گھوڑا تمام لوازم سپہ سالاری د ے کر رانا کیکا کی مہم کو کندہ دکو نبھل میر کو روانہ کیا۔ بڑے بڑے بہادر سردار اور پانچ ہزار قیمتی سوار بادشاہی خاصہ کملک کو ساتھ لے گئے ۔ اور اس کی اپنی فوج الگ تھی۔ لکھتے ہیں کہ اجمیر سے تین کوس تک برابر امیروں کے سراپردے لگے تھے۔ قاضی خاں اور آصف خاں کے رخصت کرنے کو میں بھی گیا۔ رستے میں غزا کے شوق نے بے اختیار کر دیا۔ پھرتے ہوئے سیدھا شیخ عالی قدر شیخ عبدالنبی صدر شیخ الاسلام کے پاس پہنچا اور کہا کہ آپ حضور سے رخصت لے لیں۔ انہوں نے اقبال تو کیا۔ مگر سید عبدالرسول ایک نامعقول بو الفضول ان کا وکیل تھا۔ اس پر ڈال دیا۔ میں نے دیکھا کہ بات دور جا پڑی۔ نقیب خاں کے ساتھ دینی بھائی چارا تھا اس نے کہا کہ امیر لشکر ہندو نہ ہوتا تو سب سے پہلے میں اس مہم کے لیے رخصت لیتا۔ میں نے اس کی خاطر جمع کی کہ ہم اپنا امیر بندگان حضرت کو جانتے ہیں مان سنگھ وغیرہ سے کیا کام ہے۔ نیت درست چاہیے۔ حضرت شاہنشاہی اونچے چبوترے پر پائوں لٹکائے مرزا مبارک کی طرف منہ کیے بیٹھے تھے ۔ کہ نقیب خا ں نے میرے لیے عرض کی اول فرمایا کہ اس کا تو امامت کا عہدہ ہے۔ وہ کیونکر جا سکتا ہے؟ اس نے عرض کی کہ غزا کی آرزو ہے۔ مجھے بلا کر پوچھا بہت ہی جی چاہتا ہے ؟ عرض کی بہت فرمایا سبب کیا؟ عرض کی دعا ہے کہ سیاہ ڈاڑھی کو ہوا خواہی میں سرخ کروں۔ کار تو بخاطر است خواہم کردن یا سرخ کنم روئے ز تو یا گردن فرمایا کہ انشاء اللہ فتح ہی کی خبر لائو گے۔ مراقبے میں سرجھکا کر توجہ سے رخصت کی فاتحہ پڑھی۔ میں نے چبوترے کے نیچے پا بوس کے یے ہاتھ بڑھائے۔ آپ نے اوپر کھینچ لیے۔ جب میں دیوان خانہ سے نکلا تو پھر بلایا ایک لپ بھر کر اشرفیاں دیں اورکہا خدا حافظ۔ گنیں تو ۶۵ تھیں۔ شیخ عبدالنبی صدر کی رخصت کو گیا۔ ان دنوں مہربان ہو کر پہلی کلفت اور الفت سے مبادلہ کیاتھا۔ فرمایا صفوں کا آمنا سامنا ہو تو مجھے بھی دعائے خیر سے یاد کرنا کہ بموجب جب حدیث صحیح کے قبول دعا کا وقت ہوتا ہے دیکھناً بھولنا نہیں قبول کر کے میں نے بھی فاتحہ (دعا) چاہی۔ او گھوڑا کس یاران یکدل کے ساتھ مل روانہ ہوا ۔ ع ہر روز بہ منزلے و ہر شب جائے یہ سفر اول سے آخر تک بڑی مبارکی سے طے ہوا۔ ان کی انشاء پردازی نے میدان جنگ کی تصویر نہایت خوبصورتی سے کھینچی ہے۔ مگر اس میں بھی لوگوںکے پہلوئوں میں قلم کی نوکیں چبھوتے جاتے ہیں ۔ (دیکھو راجہ مان سنگھ کا حال ۱؎) جب فتح ہوئی تو رانا بھاگ گیا۔ تو امرا مشوروںکے لیے بیٹھے۔ اور علاقے کا بندوبست شروع کیا۔ رام پرشاد ایک بڑا اونچا اور جنگی ہاتھی رانا کے پاس تھا۔ بادشاہ نے کئی دفعہ مانگا تھا۔ اس نے نہ دیا تھا۔ وہ بھی لوٹ میں آیا امرا کی صلا ح ہوئی۔ کہ اسے فتح نامہ کے ساتھ حضور میں بھیجنا مناسب ہے۔ آصف خاں نے میرا نام لیا۔ کہ یہ فقط ثوا ب کے لیے آئے ہیں ان کے ساتھ بھیج دو۔ مان سنگھ نے کہا۔ابھی تو بڑے بڑ ے کام پڑے ہیں۔ یہ میدان معرکہ میں صف جنگ کے آگے امامت کریں گے۔ میں نے کہا یہاں کی امامت کے لیے قضا ہے۔ میرا اب یہ کام ہے کہ میں جائوں اور بندگان حضرت کی صف کی آگے امامت ادا کروں۔مان سنگھ اس لطیفے پر بہت خوش ہوئے۔ احتیاطا تین سو سوار ہاتھی کے ساتھ کیے اور سفارش نامہ لکھ کر رخصت کیا۔ بلکہ موہنے تک تھانے بٹھانے کے بہانے شکار کھیلتے پہنچانے چلے آئے کہ ۲۰ کوس ہے۔ میں ماکھور اور مانڈل گڑھ سے ہوتا ہوا آنبیر کے رستے آیا۔ کہ مان سنگھ کا وطن تھا۔ اسی کے پہلو میں اب جے پور آباد ہے۔ رستہ میں جا بجا لڑائی کی کیفیت اور مان سنگھ کی فتح کا حال سناتا آتا تھا۔ لوگ تعجب کرتے تھے کسی کو یقین نہ آتا تھا۔ آنبیر سے پانچ کوس پر ہاتھی بجن میں پھنس گیا ۔ غضب یہ کیا کہ جوں جوں آگے جاتا تھا زیادہ دھنستا جاتا تھا۔ آخر ملا نے ہی تھے انداز تحریر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱؎ صفحہ ۵۴۱ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سے معلوم ہوتا ہے کہ بہت گھبرائے ۔ اور یہیں سے سمجھ لو کہ مہمات سلطنت اور اس کے خطرناک بوجھ ایسے لوگوں کی گردن پر پڑیں تو چھاتی بچے یا پھٹے کہاں ابوالفضل اور اس کے کارنامے اکبر لشکر جرار لیے آسیر کے گرد پڑا ہے۔ محاصرہ نے طو ل کھینچا ایک شب اندھیرا۔ بادل گرجے بینہ برسے ابو الفضل فوج لے کر زیر دیوار پہنچا۔ اور رسے ڈال کر شمشیر بکف قلعے میں کود پڑا۔ پہلے کوئی اتنا بڑا دل دکھائے۔ جب اس کے باب میں زبان ہلائے باتیں کرنے سے کیا ہوتا ہے۔ وہاں کے لوگ آئے اور کہا کہ اگلے برس بھی یہاں ایک بادشاہی ہاتھی پھنس گیا تھا اس کا یہی علاج ہے کہ ٹھیلوں مشکوں میں پانی بھر بھر کر ڈالتے ہیں۔ ہاتھی نکل آتا ہے۔ سقے بلائے انہوںنے بہت سا پانی ڈالا ۔ جب آہستگی سے آپ ہاتھی نکلا اور گرداب ہلاک سے نجات پائی۔ لکھتے ہیں بڑی مشکل سے ہاتھی نکلا۔ ہم انبیر میں پہنچے وہاں کے لوگ پھولے نہ سماتے تھے ۔ ان کے فخر کا سر آسمان سے جا لگا،۔ کہ ہمارے راجہ کے لڑکے نے ایسا معرکہ مارا ہے۔ خاندانی رقیب کا کلہ توڑا اورہاتھی چھین لیا۔ لونڈہ میں سے گزر ہوا۔ یہاں میں پیدا ہوا تھا۔ بساور میں آیا ع واول ارض مس جلدی ترابھا (پہلے ہی اس زمین کی خاک میرے بدن کو لگی ہے) اس بیان میں انکے تحریر سے بڑی خوشی ہوئی اورعجیب محبت ٹپکتی ہے۔ بے شک ایک شریف ملا لڑائی سیجیتا پھرے اور لڑائی جیت کر پھرے اس پر اتنے سارے بادشاہ اور جنگی سپاہی اوراتنا بڑا ہاتھی لے کر اپنے گائوں میں آئے اوروہاں کا ایک ایک آدمی دیکھنے آئے وہ خوش نہ ہو تو کون ہو؟ اور محبت بھی جتنی ٹپکے تھوڑی ہے جس خاک پر کھیل کر بڑے ہوئے اور جس زمین کی گو د میں لوٹ کر پلے اس کی محبت نہ ہو تو کس کی ہو؟ غرض جوں توں کر کے فتح پورپہنچے ( راجہ بھگوان داس راجہ مان نگھ کے باپ تھے) ان کے کوکہ کی معرفت فتحنامہ اور ہاتھی حضور میں گردانا۔ فرمایا اس کا نام کیا ہے؟ عرض کی رام پرشاد۔ فرمایا کہ سب پیر کی پرورش سے ہوا۔ اس کا نام پیر پرشاد ہے۔ پھر فرمایا کہ تمہاری تعریف بھی بہت لکھی ہے۔ سچ کہوتو کون سی فوج میں تھے۔ اور کیا کیا کام کیا۔ عرض کی کہ بادشاہوں کے حضور میں سچ بھی ڈرتے لرزتے کہا جاتا ہے فدوی جھوٹ کیونکر عرض کر سکتا ہے چنانچہ سب واقعی حالات عرض کیے پوچھا جنگی لباس تھا یا ننگے ہی رہے؟ عرض کی زرہ بکتر تھا ۔ فرمایا کہاں سے مل گیا۔ عرض کی سید عبداللہ خاں سے سب جو اب پسند آئے۔ تو دہ گنج میں سے ایک لپ بھر کر انعام فرمائی۔ ۹۶ اشرفیاں تھیں ۔ پھر پوچھا شیخ عبدالنبی سے مل لیے؟ عرض کی گرد راہ سے دربار پہنچا ہوں کیونکر مل سکتا ہوں ایک دوشالہ نخودی بڑھیا دیا کہ یہ لیتے جائو۔ شیخ سے مادر اور کہو کہ اسے اوڑھو ہمارے خاصے کارخانے کا ہے تمہاری ہی نیت سے فرمائش ک تھی۔ میں لے گیا۔ اور پیغام پہنچایا۔ شیخ خوش ہوئے پوچھا کہ رخصت کے وقت میں نے کہہ دیا تھا۔ کہ صفوں کا آمنا سامنا ہو تو دعا سے یاد کرنا۔ میں نے کہا کہ کل مسلمانوں کے حق میں جو دعا ہے وہ پڑھی تھی۔ کہا کہ یہ بھی کافی ہے۔ اللہ اللہ یہ وہی شیخ عبدالنبی ہیں۔ آخر حال میں اس بدحالی کے ساتھ دنیا سے گئے کہ خدا دکھائے نہ سنائے چاہیے کہ ب کو عبرت ہو جائے۔ ہر کہ را پرور دگیتی عاقبت خونش بریخت حال آں فرزند چوں باشد کہ خصمش مادر است کوکندہ کی مہم میں لکھتے ہیں کہ مان سنگھ ۔ آصف خان غازی خاں بدخشی کو جریدہ بلا بھیجا۔ آصف خاں اور مان سنگھ باہم نفاق رکھتے تھے چند روز سلام سے محروم رہے مگر ملا صاحب غازی خاں مہتر خاں علی مرا د اذبک خنجری ترک اور ایک دو اور بھی تھے کہ عنایات اور سرفرازی عہدہ سے معزز ہوئے اور یہ مہم سنہ ۹۸۵ھ میں طے ہوئی۔ اس وقت تک اسفاضل مصنف میںمخالفت نے فقط اتنا راستہ پایا تھا۔ کہ انتظامی امورات میں یا ملازموں کے کاروبارمیں بعض باتیں خالف طبع معلوم ہوتی تھیں۔ البتہ طبیعت شوخ اور زبان تیز تھی۔ جو لطیفہ کسی پر سوجھتا تھا۔ نوک قلم سے ٹپک پڑتا تھا۔ میں اسی سنہ میں رخصت لے کر وطن گیا تھا۔ بیماری کی شدت نے بستر سے ہلنے نہ دیا تھا۔ صحت پا کر روانہ دربار ہوا۔ راستے میں سید عبداللہ خاں بارہ سے ملاقات ہوئی۔ انہوںنے کہا۔ کہ راہ پر خطر ہے رضوی خاں ک ساتھ پرتا پھراتا دیپالپور ملک مالوہ میں آ کر حاضر ہوا۔ یہاں سنہ ۲۲ سل جلوس کے جشن کی دھوم دھام تھی۔ قراان حمائل اور خطبوں کی بیاض کی جن کی تصنیف میں انواع و اقسام صنائع و بدائع خرچ ہوئے تھے حضور میں پیش کی۔ یہ دونوں نایاب چیزیں حافظ محمد امین خطیب قندہاری کی تھیں۔ کہ ۷ اماموں میں سے ایک امام ہ۔ اور خوش خوانی اور خوش الحانی میں آج اپنا نظیر نہیں رکھتا۔ راہ بسا ور کی ایک منزل میں اس کا مال چوری ہو گیا۔ اس میں سے عبداللہ خاں نے یہ دونوں چیزیں بہم پہنچا کر رستے میں مجھے دی تھیں۔ بادشاہ خوش ہو گئے۔ حافظ کو بلایا اور خوشی طبعی کے طور پر کہا کہ یہ حمائل ہمارے واسطبے ایک جگہ سے آئی ہے لو اسے تم رکھو حافظ نے دیکھتے ہی پہچان لی۔ جان میں جان ا ٓ گئی۔ تسلیمات بیحد اور سجدہ گزاری بجا لاکر عرض کی کہ حضور نے اسی دن سید عبداللہ خان سے فرمایا تھا کہ انشاء اللہ تم پیدا کرو گے وہ چیزیں کہیں نہ جانے پائیں گی۔ پھر مجھ سے حال پوچھا۔ عرض کی بساور کے علاقے مزدور حوض اور کوئیں کھودتے ہیں دن کو کام کرتے ہیں رات کو رستہ مارتے ہیں۔ انہیں نے مال چرایا تھا۔ ایک ان میں سے پھوٹ گیا۔ اس پیچ میں نکل آئیں۔ پھر فرمایا حافظ خاطر جمع رکھو انشاء اللہ اور اسباب بھی مل جائے گا اور مجھے بڑھاپے نے ایسی تصنیفات سے عاجز کر دیا ہے۔ آخر جو فرمایا تھا وہی ہوا کہ باقی احباب بھی بیلداروں کے پاس نکلا۔ اور فتح پور میں سید عبداللہ خاںنے خود آ کر پیش کیا۔ اسی سنہ میں لکھتے ہیں کہ میں وطن سے آیا۔ اور از سر نو امامت کا حکم ہوا۔ خواجہ دولت ناطر تعینات ہے کہ خواہ مخواہ ہفتے میں ایک دفعہ چوکی پر حاضر کرے۔ ٹھیک وہی مثل ہے احمد بہ مکتب نمیرود و لے برندش اسی سنہ میں ملا صاحب کو بڑا رنج ہوا۔ حسین خاں ٹکریہ مر گئے ۔ ان کے ہم دم ہم عقیدہ۔ دوست آقا جو کچھ کہو یہ تھے۔ اگرچہ سنہ ۹۸۱ ھ میں ان سے بھی کسی گومگو معاملہ پر کھٹک کر الگ ہو گئے تھے ۔ مگر چونکہ آج کل کے زمانہ اور ارباب زمانہ سے بہت ناراض ہیں۔ اس لیے زیادہ رنج ہوا۔ حسین خاں ایک شیر دل سپاہی اور پکے سنی مسلمان تھے ۔ ان کی زندگی میں بھی اکبری عہد کے ایک حصہ کا رنگ الگ دکھاتی ہے۔ اس لیے ان کا حال الگ تھلگ لکھ کر داخل تتمہ ۱؎ جات کیا ہے۔ سنہ ۹۸۵ھ میں راجہ محجھولہ کو بانس بریلی کے علاقے میں دامن کوہ کے انتظام کے لیے بھیجا۔ اس نے وہاںسے ایک رپورٹ کی چند درخواستوں میں سے ایک یہ تھی۔ درگاہ سے جدا ہو کر اس صحرائے بیابان میں آ گیا ہوں کوئی رفیق و آشنا ساتھ نہیں اگر شیخ عبدالقادر بدائونی کو بھیج دیا جائے تو وہ اس ملک کے نیکی و بد سے خوب واقف ہے ۔ لوگ اس کے اعتبار پر رجوع بھی ہو جائیں گے۔ اور دربار میں اسے کوئی ایسی خدمت بھی سپرد نہیں ہے اس کے حال پر مرحمت اور بندہ درگاہ کی سرفرازی کا سبب ہو گا۔ والحکم اعلی خواجہ شاہ منصور نے ایک ایک فقرہ پڑھ کر سنایا ۔ اور حرف بہ حرف ہر بات کا جواب جو فرمایا وہ لکھا۔ اس مطلب پر نہیں کی نہ ہاں۔ موبر آمد بہ کف و موے تونامد بہ کفم ایں چنیں بخت کہ من دارم و ایں خو کہ تراست اسی برس اجمیر کے مقام سے حسب معمول حاجیوں کا قافلہ روانہ کیا۔ شاہ ابوتراب کو میر حاج بنایا بہت کچھ سامان دیے۔ اور حکم عام کہ جو چاہے جائے۔ شاہ موصوف اکابر سادات شیراز سے تھے۔ اور سلاطین گجرات ان سے بڑا اعتقاد رکھتے تھے۔ میں نے شیخ عبدالنبی صدر سے کہا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱؎ حسین خاں کا حال تتمہ میں ہونا چاہیے تھا۔ لیکن غلطی سے ۳۸۴ صفحہ پر درج ہو گیا۔ یہ شروع سے ہی اسی جگہ پر رہے ۔ اس لیے میں بھی ان کو دربار سے اٹھا کر پائین میں بٹھانے کی جرات نہیں کرتا ۔ ۱۲ محمد باقر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کہ مجھے بھی رخصت لے دو۔ شیخ نے پوچھا کہ ماں جیتی ہے؟ کہا کہ ہاں۔ پوچھا بھائیوں میں سے کوئی ہے؟ کہ اس کی خدمت کرتا رہے۔ میں نے کہا گزارے کا وسیلہ تو میں ہی ہوں۔ کہا کہ ماں کی اجازت لے لو تو اچھا ہے۔ بھلا وہ کب اجازت دیتی تھیں۔ یہ سعادت بھی رہ گئی اب حسرت کے مارے وٹیاں کاٹتا ہوں۔ اور کچھ نہیں ہو سکتا۔ نہ کرد لطف تو کارے و وقت کار گذشت نشد وصال تو روزے و روزگار گذشت ابھی تک ملا صاحب کو یہ اعتقاد باقی تھا کہ بادشاہ ظل اللہ نائب رسول اللہ ہیں۔ چنانچہ لکھتے ہیں۔ میں لشکر کے ساتھ ریواڑی کے ضلع مٰں تھا۔ وطن سے خبر آئی کہ ایک لونڈی کے پیٹ سے بیٹا پیدا ہوا ہے۔ مدت کے بعد اور بڑے انتظار کے بعد ہوا تھا۔ خوشی خوشی اشرفی نذر لے گیا۔ اورنام کے لیے عرض یا۔ فرمایا کہ تمہارے باپ دادا کا کیا نام ہے۔ عرض کی ملوک شاہ بن حامد شاہ ان دنوں یا ہادی کا وظیفہ ورد تھا۔ فرمایا کہ ان کا نام عبدالہادی رکھو۔ حافظ محمد ابن خطیب نے ہر چند کہا نام رکھنے کے بھروسے سے نہ رہو۔ حافظوں کو بلائو اور لڑکے کی درازی عمر کے لیے قرآن پڑھوائو میں نے خیال نہ کیا۔ آخر ۶ مہینے کا ہو کر مر گیا۔ خیر خدا میرے لیے اس کا ثواب ذخیرہ رکھے اور اسے قیامت کے دن میرا شفیع کرے۔ اسی منزل سے ۵ مہینے کی رخصت لے کر بساور آیا اور بعض ضرورتوں بلکہ فضولیوں کے سبب سے وعدہ خلافی کر کے سال بھر پڑ ارہا ایسی ایسی کم خدمتی اور مخالفتوں نے رفتہ رفتہ نظروں سے گر ادیا۔ اور بالکل توجہ نہ رہی۔ آج تک ۱۸ برس ہوئے ۔ ۱۸ ہزار عالم سامنے سے گزرگیا اسی محرومی میں مبتلا ہوں نہ روے قرار ہے نہ راہ فرار ہے۔ رباعی بختے نہ کہ با دوست بیا میزم من صبرے نہ کہ از عشق بہ پرہیزم من دستے نہ کہ باقضا در آویزم من پاسے نہ کہ از میانہ بگریزم من بادشاہ سنہ ۹۸۶ھ میں پنجاب کا دورہ کر کے دریا کے رستے دہلی پہنچے۔ اور آبی کشتی سے اتر کر کشی خاکی پر سوار ہوئے۔ سانڈیوں کی ڈاک بٹھا دی اور عین وقت پر اجمیر پہنچ کر عرس میں شامل ہوئے۔ دوسرے ہی دن رخصت ہو کر آغرہ کو پھرے۔ نور کا تڑکا تھا۔ صبح طباشیر بکھیر رہی تھی۔ کہ ٹونڈہ کی منزل میں پہنچے۔ ملا صاحب لکھتے ہیں میں بساور سے چل کر استقبا ل کے لیے پہنچا ہوا تھا حاضر خدمت ہو کر کتا الاحادیث نذر گزرانی اس میں جہاد کی فضیلت اور تیر اندازی کے ثواب بیان کیے ہیںَ اور نام ھبی تاریخی رکھا ہ۔ کتاب کتب خانہ شاہی میں داخل ہوئی۔ الحمد للہ کہ غیر حاضری اور وعدہ خلافی کا ذکر ہی نہ آیا۔ سنہ ۹۸۷ھ سے پہلے کی تصنیف ہو گی) ان کا قلم بھی آزا د کی طرح نچلا نہ رہتا تھا۔ کچھ نہ کچھ کہے جاتے تھے ڈال رکھا۔ ع غنیمت جمع کن غارتگرے روزے شود پیدا اب تک یہ حال تھا کہ آقا اپنے غلام کو ہر وقت محبت کی آنکھ سے دیکھتا تھا۔ اور قدردانی اور پرورش کے خیال کر کے خوش ہوتا تھا۔ اور عقیدت مند ملازم ہر بات پر ہوا خواہی ‘ خوش اعتقادی اور جاں نثاری کے خیالات کو وسعت دے کر ہزارطرح کی امیدیں رکھتا تھا۔ لیکن اب وہ وقت آ گیا کہ دونوں اپنی اپنی جگہ آ کر رک گئے۔ اور دونون کے خیالات بدل گئے دربار اور اہل دربار کے حالات تم نے دیکھ لیے۔ عالم بدل گیا تھا۔ اور حریف نئی دنیا کے لوگ تھے۔ اور ملا صاحب کی طبیعت ایسی واقع ہوئی تھی۔ کہ کسی سے میل نہ کھاتی تھی دینداری فقط بہانہ تھا۔ اور اس میں بھی شک نہیں کہ فضل و فیضی ان کے ہم درس و ہم سبق جس طرح اعلیٰ مراتب فضل و کمال تھے اسی طرح اعلیٰ مراتب جاہ و جلال میں اڑے جاتے تھے۔ اور اکثر اہل علم جو کتابی استعداد میں ملا صاحب کے ہم پلہ بلکہ ان سے کم تھے وہ زمانے کے موافق رفتار کر کے بہت بڑھ گئے تھے۔ اس لیے بھی ان کا جی چھوٹ گیا تھا۔ اور ہمت قاصر ہو گئی تھی حق پوچھو تو یہ اپنی زات سے اسی کام کے تھے ۔ جس میں جوہر شناس بادشاہ نے رکھا اوریہ اسے کرتے رہے اور اسی میں مر گئے۔ اکبر کے حال میں جو جو باتیں میں نے لکھی ہیں اکثر انہی کی کتاب سے لی ہیں۔ اور وہ سب درست ہیں۔ مگر یہ بھی کہتا ہوں کہ ملا صاحب نے انہیں برے اور بدنما موقع پر ترتیب دے کر دکھایا ہے۔ اور مصلحت ملکی کے امورات کو ایسے مقاموں پر سجایا ہے۔ کہ خواہ مخواہ ان سے اکبر اور اکثر علماء و امرا خصوصاً فضل و فیضی کے حق میں بے دینی اور بدنیتی کے خیالات پیداہوتے ہیں۔ اور اس میں ضرور ان کے رشک منصبی کو دخل تھا۔ چنانچہ اس عرصے کے بعد زمانے کی شکایت لکھتے لکھتے کہتے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ ان معاملات کی ابتدا میں شیخ ابوالفضل سے ایک جسے میں گفتگو ہوئی فتح پور کے دیوان خاص میں بیٹھے تھے کہنے لگے کہ ہمیں اسلام کے کل مصنفوں سے دو باتوں کا گلہ ہے۔ اول یہ کہ جس طرح پیغمبر صاحب کے حالات و واقعات سال بسال لکھے اسی طرح اور پیغمبروں کے حال نہ لکھے۔ میں نے کہا کہ قصص الانبیاء تو ہے ولے نہیں وہ تو بہت مجمل ہے۔ تفصیل سے لکھنا چاہیے تھا میںنے کہا کہ پرانے زمانے کی باتیں ہیں۔ مفسرین اور اہل تاریخ کے نزدیک اتنا ہی ثابت ہوا ہو گا۔ باقی ثبوت کو نہ پہنچا ۔ جواب میں کہا کہ یہ جواب نہیں ہو سکتا۔ دوسرے یہ کہ کوئی ادنیٰ پیشہ ور نہیں جن کا نام تذکرۃ الاولیاء اور نفحات الانس وغیرہ میں نہیںلکھا۔ اہل بیت نے کیا گناہ کیا تھا۔ کہ انہیںداخل نہ کیا۔ اور یہ نہایت تعجب کا مقام ہے یہاں بھی جو کچھ وقت نے گنجائش دی کہا گیا مگر کون سنتا ہے میں نے پوچھا کہ ان مشہور مذہبوں میں سے تمہاری رغبت کدھر زیادہ ہے۔ بولے کہ جی چاہتا ہیکہ چند ہی روز لامذہبی کے صحرا میں سیر کروں۔ میں نے کہا کہ نکاح کی قید اٹھا دو ۱؎۔ تو خوب ہو۔ برداشت غل شرع بتائید ایزدی از گردن زمانہ علیٰ ذکرہ السلام ہنسنے لگے۔ چونکہ ان دنوں اور مطالب اور مقاصد بھی درپیش تھے۔ میں نے گوشہ غزلت میں جان بچائی اور آیت فرار پٹھی کہ نظروں سے گر گیا۔ پہلی آشنائی بیگانگی ہو گئی۔ اور الحمد للہ کہہ میں اس حال میں خوش ہوں۔ رباعی دل در تگ و پو نشد نکوشد کہ نشد جز در تو فرونشد نکوشد کہ نشد گفتی کہ برنجم ارنکو شد کارت دیدی کہ نکونشد نکوشد کہ نشد سمجھ لیا کہ نہ میں رعایت کے قابل ہوں اورنہ یہ خدمت کے قابل اور اس پر سراسر راضی ہوں۔ بیاتا تکلف بہ یکسو نہیم نہ از تو قیام و نہ ازما سلام کبھی کبھی دور پا انداز سے کورنش کر لیتا ہوں اور دیکھ لیتا ہوں۔ ع کہ صحبت برنیا یدتا موافق نیست مشرب ہا دیکھیے آگے قسمت میں کیا ہے۔ دیدم کہ دیدن رخت از دور خوشتراست صحبت گزاشتم زتماشائیاں شدم ان جزئیات و خصوصیات کی تفصیل اور ان معرکوں کی ترتیب سال وار سلک تحریر میں لانی ناممکن ہے اس لے اس طریق پر اکتفا کیا۔ اور خدا ہر سال میں اپنے بندہ کا حافظ اور مددگار ہے۔ اسی کے بھروسے سے ان معاملات کے لکھنے میں دلیری تھی۔ ونرہ جو کچھ کیا ہے احتیاط کی منزل سے دور ہے۔ اور خدا گواہ ہے وکفی باللہ شھید کہ اس لکھھنے میں درد دین اور ملت مرحومہ اسلام کی دلسوزی کے سوااور کچھ غرض نہیں ہے اور حسد اور تعصب اور عداوت سے خداکی پناہ مانگتا ہوں۔ سنہ ۹۸۷ھ میں لکھتے ہیں چالیس برس کی عمر میں میں نے خدا نے ایک فرزند محی الدین نام عنایت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱؎ آزاد۔ ذرا حضرت کی فرمائش کو دیکھو اور ذوق طبع کا خیال کرو۔ کیا ارمان دل میں بھرے ہوں گے۔ جو یہ لفظ زبان سے نکلا۔ اور ان کے علو حوصلہ کو دیکھو کہ ان باتوں کو کیا ہنس کر ٹال دیتے ہیں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فرمایا بساور میں پیدا ہوا۔ اللہ علم نافع او رعمل مقبول نصیب کرے۔ انہی ایام میں ایک جگہ لکھتے ہیں۔ میں خدمت سے بچ کر الگ ہو گیا تھا۔ اور اپنے تئیں نیست و نابود سمجھ لیاتھا۔ وطن سے پھر کر آیا۔ رمضان کا مہینہ تھا۔ اجمیر کے مقام میں قاضی علی نے مجھے بھی پیش کیا۔ وہی ہزار بیگھ مدد معاش کہ وقت عزیز کے برباد کرنے والی ہے۔ اس کانام بھی سنایا۔ بدرگاہ حکام و درگاہ و بیگہ روی تاکنی بیگہ چند حاصل فرمایا کہ میں جانتا ہوں اس کے فرمان میں کچھ شرط بھی لگائی تھی! عرض کی ہاں بشرط خدمت فرمایا پوچھو کچھ ضعف تھا کہ حاضر نہ ہو سکے۔ غازی کاں بدخشی جھٹ بول اٹھے ضعف طالع ابوالفضل نے بھی زور ۱؎ دیا ۔ مقربوں میں سے ایک ایک نے امامت سابق کے لیے سفارش کی۔ یہاں نماز معزول ہو گئی تھی۔ اور امام بھی تخفیف آ گئی تھی۔ شہباز خاں بخشی نے عرض کی خدمت میں تو میںہمیشہ ہی رہتے ہیں فرمایا کہ ہم کسی سے زبرستی خدمت نہیںچاہتے۔ اگر خدمت نہیں چاہتا تو آدھی زمین رہ۔ میں نے فوراً تسلیم کی یہ( گستاخانہ حرکت) نہایت ناگوار گزاری اور منہ پھیر لیا۔ قاضی علی نے پھر عر ض کی کہ اس کے باب میں کیا حکم ہے۔ شیخ عبدالنبی صدر ابھی نکالے نہ گئے تھے۔ لشکر ہی میں تھے۔ فرمایا ان سے پوچھو۔ کہ بغیر خدمت کے کتنی زمین کا استحقاق تھا شیخ نے مولانا الہ داد امروہہ کی زبانی کہلا بھیجا کہ عیال دار ہے۔ اور سنا جاتا ہے۔ کہ خرچ بھی رکھتا ہے۔ حضور اس طرح فرماتے ہیں کہ تو سات آٹھ سو بیگھوں تو ضرور چاہیے۔ مقربان دربار نے یہ عرض بھی مناسب نہ سمجھی اورمجھے حضور ی خدمت پر مجبور کیا۔ ناچار پھر پھنس گیا۔ ع مرغ زیرک چوں بدام افتد تحمل بایدش اور یہ ساری ناراضی اسی بات پر تھی کہ داغ کی خدمت کے لیے کہا اور بار بار کہا کیوں نہ قبول کر لی اور میں بھی سمجھتا رہا اوریہی کہتا رہا۔ شادم کہ یک سوار ندارم پیادہ ام فارغ ز قید شاہم و از شاہزادہ ام یہ بڑی خوبی کی بات ہے کہ ملا صاحب نے اپنی تاریخ میں غیر کی ای اپنی کوی بات نہیں چھپائی۔ لکھتے ہیں مظہری نام ایک لونڈی تھی۔ کہ جس میں ظہور قدرت کا نمونہ تھا۔ میں اس پر عاشق ہو گیا۔ اس کے عشق نے ایسی آزادی اور وارفتگی طبیعت میں پیدا کی کہ سال بھر برابر بساور میں پڑا رہا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱؎ دکھو تتمہ صفحہ ۸۱۵ ۔ ۲؎ آفرین ہے فیضی و ابوالفضل کی ہمت و مروت کو کبھی بڑے وقت میں ان کے لیے کلمہ خیرسے نہ چوکے۔ حق یہ ہے کہ جب ایسے تھے تب ایسے رتبے کو پہنچے تھے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور عجیب عجیب عالم دل پر گزر گئے۔ سنہ ۹۸۹ھ میں برس دن کی غیر حاضری کے بعد فتح پور میں جا کر ملازمت حاصل کی۔ ان دنوں سفر کابل سے پھر کر آئے تھے۔ شیخ ابوالفضل سے پوچھا اس سفر میں یہ کیونکر رہ گیا تھا۔ عرض کی یہ تو مددمعاشیوں میں ہیں۔ بات ٹل گئی۔ کابل کے پاس بھی در جہاں سیکہا تھا کہ جو لوگ اہل سعادت ہیں ساتھ ہیں یا رہ گئے ہیں دونوں کی فہرست پیش کرو۔ خوانہ نظام الدین مرحوم مصنف تاریخ نظامی سے نئی نئی شناسائی ہوئی تھی۔ مگر ایسی ہوئی تھی کہ گویا سینکڑوں برس کی محبت تھی۔ دلسوزی اور الفت طبعی سے ( کہ سب پر عام اور مجھ پر خاص تھی) بیمار لکھوا دیا اورسچ لکھوایا تھا۔ کیونکہ خدا کے ساتھ معاملہ آسان ہے بندوں کا ڈر او ر اس سے طمع بڑا سخت مرض ہے ۔ مدت مفارقت میں خواجہ مذکور نے خط پر خط لکھے۔ کہ دیر بہت ہوئی ہے کم سے کم لاہور دلی متھرا جہاں تک ہو سکے استقبال کی کوشش کرنی چاہیے کہ دنیا کی رسم ہے اور احتیاط شرط ہے۔ اور مجھے اس عالم میں ایک ایک ساعت عمر جاوداں سے بہتر تھی۔ عاقبت اندیشی کجا اور نفع و نقصان کا خیال کجا۔ آخر توکل خدا نے اپنا کام کیا۔ تو باخدائے خود انداز کارد خوش دل باش کہ رحم اگر نہ کند مدعی خدا بکند اس عالم میں بھی کبھی خواب میں شعر موزوں ہو جاتے تھے۔ ایک دفعہ رات کو سوتے میں یہ شعر کہا مدتوں پڑھتا رہا اورروتا رہا۔ آئینہ ماروئے ترا عکس پذیر است گر تو نہ نمائی گنہ از جانب مانیست عزت اور جلال الہی کی قسم ہے آج ۷ ۱ برس ہوئے اب تک وہ لذت دل سے نہیں جاتی اور جب یاد کرتا ہوں زار زار روتا ہوں کاش جبھی دیوانہ ہو جاتا ہوں۔ ننگے سر ننگے پائوں کل جاتا اورججنجال سے چھٹ جاتا۔ خوش آنکہ دید روے تراو سپرد جاں آگہ نشد کہ سحر چیست وہ فیض دل کوپہنچا اور وہ کچھ سمجھا کہ عمروں تک لکھوں اور شکر کروں تو عشر عشیر بھی نہ ادا ہو۔ سنہ ۹۹۰ھ میں حکم ہوا کہ ہجرت کے ہزار سال پورے ہو گئے سب جگہ ہجری تاریخ لکھتے ہیں اب ایک ایسی کتاب تاریخ پر لکھی جائے جس میں پورا ہزار سال ہو حال شاہان اسلام کا درج ہو درحقیقت مطلب یہ تھا کہ اور تاریخوں کی ناسخ ہو۔ اس کا نام تاریخ الفی ہو۔ سنوں میں بجائے ہجرت کے لفظ رحلت لکھیں۔ اول روز وفات سے برس برس دن کا حال ۷ شخصوں کے سپرد ہوا۔ چنانچہ سال اول نقیب خاں کو دوم شاہ فتح اللہ کو۔ اسی طرح حکیم ہمام حیم علی حاجی ابراہیم سرہندی کہ انہین دنوں میں گجرات سے آیا تھا ۔ مرزا نظام الدین احمد اور فقیر (فاضل بدایونی) دوسرے ہفتے میں پھر اسی طرح ۷ آدمی تجویز ہوئے ۔ اسی طرح جب ۳۵ برس کا حال مرتب ہوا تو ایک شب میری تحریر میں ساتویں برس کا حال پڑھا جاتا تھا۔ اس میں خلیفہ حقانی شیخ ثانی کے زمانے میں بعض روایتیں تھیں جس میں شیعوں اور سنیوں کا اختلاف ہے۔ نماز کے پانچ وقتوں کے تقرر کا ذکر تھا۔ اور شہر نصیبین کی فتح کے ذکر میں تھا۔ کہ بڑے بڑے مرغوں کے برابر چیونٹے وہاں سے نکلے۔ بادشاہ نے اس مقام پر بیحد مناقشہ اور مواخذہ کیا۔ آصف خاں ثالث یعنی مرز جعفر نے بہت بہت مدد ی کی۔ البتہ شیخ ابوالفضل اور غازی خاں بدحشی ٹھیک ٹھیک توجیہیں کرتے تھے مجھ سے پوچھا کہ یہ باتیں کیوں کر لکھیں؟ میں نے کہا جو کتابوں میں دیکھا تھا۔ سو لکھا ہے۔ اختراع نہیں کیا۔ اس وقت روضۃ الاحباب اور تاریخ کی کتابیں خزانے سے منگا کر نقیب کاں کو دیں کہ تحقیق کرو۔ اس نے جو کچھ تا وہ کہہ دیا۔ خدا کی عنایت کہ ان بیجا گرفتوں سے مخلصی ہوئی چھتیسویں سال سے ملا احمد ٹھٹوی کو حکم ہو اکہ تم تمام کرو۔ یہ حکم حکیم ابوالفتح کی سفارش سے ہوا۔ ملا احمد متعصب شیعہ تھا۔ جو چاہا سو لکھا اس نے چنگیز خاں کے زمانے تک دو جلدیں تمام کیں۔ ایک رات مخالفت مذب کے جوش سے مرزا فولاد برلاس کے گھر آیا۔ اور کہا کہ حضور نے یاد کیا ہے۔ وہ گھر سے نکل کر ساتھ ہوا راستے میں مار ڈالا۔ اور خود بھی سزاکو پہنچا ۱؎۔ پھر ۹۹۰ھ تک آصف خاں نے لکھا۔ سنہ ۱۰۰۲ھ میں پھر مجھے حکم ہوا کہ اس تاریخ کو سرے سے مقالہ کر و اور سنو ے پس و پیش کو درست کرو۔ اول دوم جلد کو درست کیا۔ اور جلد سوم کو آصف خاں پر چھوڑا۔ شیخ ابوالفضل آئین اکبری میں لکھتے ہیں کہ اس کا دیباچہ میںنے لکھا ہے۔ اسی برس کے وقائع میں سے مہا بھارت کا ترجمہ کیا ہے۔ یہ ہندوئوں کی بڑی نامی کتابو ں میں سے ہے رنگ رنگ کے قصے ۔ نصیحتیں مصلحتیں اخلاق آداب معاش معرفت ‘ اعتقاد‘ بیان مذاہب ‘ طریق عبادات اور اس کے ذیل میں کوروں پانڈوں کی لڑائی کہ ہندوستان کے فرمانروا تھے۔ جسے ۴ ہزار برس سے زیادہ ہوئے۔ ااور بعضے کہتے ہیں کہ ۸ ہزار برس سے زیادہ ہوئے ہیں۔ ظاہر حضرت آدم سے بھی پہلے ہی ہوں گے۔ ہند کے لوگ اس کے پڑھنے اورلکھنے کو عبادت عظیم جانتے ہیں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱؎ دل چاہتا ہے کہ جیسے ملا صاحب پاک نویس مورخ ہیں ویسا ہی ان کا آئینہ بھی داغ تعصب سے پاک نظر آئے۔ مگر افسوس انہوں نے ملا احمد مظلوم کے باب می جو فحش و فضیحت کی نجاست اچھالی ہے لا حول ولا قوۃ۔ قلم تحریر مارے شرم ک سر نہیں اٹھاتا اور مجھے قانون تہذیب اجازت نہیں دیتا کہ دامن ورق کو ا س کی نقل سے نجس کروں۔ میں شیعہ بھائیوں کی بدزبانی پر خون جگر کھاتاتھا۔ اس سنی بھائی نے دل جلا کر خاک کر دیا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور مسلمانوں سے چھپاتے ہیں۔ (اکبر پر چوٹ کرکے کہتے ہیں) اس حکم کا سبب یہ تھا کہ انہیں دنوں میں شاہنامہ باتصویر لکھوایا تھا۔ اور امیر حمزہ کا قصہ بھی ۱۷ جلدوں میں باتصویر مرتب ہو کر ۱۵ برس کے عرصے میں تیار ہوا ۔ قصہ ابو مسلم اور جامع الحکایات وغیرہ کو بھی مگر رسنا اورلکھوایا۔ خیال آیا کہ یہ سب شاعری اور شاعروں کی تراشیں ہیں مگر کسی مبارک وقت میں لکھی گئی ہیں۔ اور ستارہ موافق تھا۔ اس لیے خوب شہرت پائی۔ پس ہندی کتابیں کہ دانا یان عابد و مرتاض نے لکھی ہیں۔ اور سب صحیح اور قطعا درست ہیں۔ اور ان لوگوں کے دین کے اور عقاید اور عبادت کا مدار اس پر ہے ہم انہیں اپنے نام سے فارسی میں کیوں نہ ترجمہ کریں۔ کہ عجیب اور نئی باتیں ہیں۔ دین و دنیا کی سعادت ہے اور دولت و حشمت بے زوال کا باعث ہے۔ اور اکثر اموال و اولاد کا سبب ہے۔ چنانچہ اس کے خطبے میں یہی لکھا ہ۔ غرض اس کام کے لیے خود پابندی اختیار کی اور پنڈتوں کو جمع کیا کہ اصل کتابوں کا ترجمہ بتایا کریں۔ چند شب آپ اس کے معنی نقیب خاں کو سمجھاتے رہے۔ وہ فارسی میں لکھتا گیا۔ تیسری رات فقیر (ملا صاحب) کو بلا کر فرمایا کہ نقیب خاں کے ساتھ شامل ہو کر لکھا کرو۔ تین چار مہینے تک ۱۸ میں سے دو پرب (فن) میںنے لکھے۔ اس پر سناتے وقت کیا کیا اعتراض نہ سنے۔ حرام خور اور شلغم خورہ کیا تھا ؟ وہ یہی اشارے تھے۔ گویا میرا حصہ ان کتابوں میں یہ تھا۔ سچ ہے قسمت کا لکھا ضرور ہوتا ہے پھر تھوڑا ملا شیری اور نقیب خاں نے لکھا۔ اور تھوڑا حاجی سلطان تھانیسری نے تنہا تمام کیا۔ پھر شیخ فیضٰ کو حکم ہوا۔ کہ نظم و نثر لکھو۔ وہ بھی دو (پرب) فن سے آگے نہ بڑھے۔ پھر حاجی مذکور نے دوبارہ لکھی۔ اور جو جو فروگزاشتیں پہلی دفعہ رہ گئی تھیں انہیں باطق النعل بالنعل درست کیا جز گھچ پچ لھے ہوئے تھے۔ اور ترجمہ کی مطابقت میںنقطہ مگس کی بھی تاکید تھی کہ رہ نہ جائے آخر حاجی بھی ایک سبب سے بھگر کو نکالا گیا۔ اب اپنے وطن میں ہے۔ اکثر ترجمہ بتانے والے کورو ں اور پانڈوں کے پا س پہنچے۔ جو بقی ہیںانہیںخدا نجات دے اور توبہ نصیب کرے۔ اس کا نام رزم نامہ رکھا۔ اور دوبارہ باتویر لکھوا کر امر کو حکم ہو ا کہ مبارک سمجھ کر نقل کروائیں۔ شیخ ابوالفضل نے دو جز کا خطبہ بھی لکھ کر لگایا۔ ف۔ بختاور خا ں نے مراۃ العالم میں لکھا ہے کہ ملا صاحب کو خدمت مذکور کے صلہ میں ۱۵۰ اشرفی اور دس ہزار تنگہ سیاہ انعام ہوئے۔ سنہ ۹۹۲ ھ میں لکھتے ہیں کہ فقیر کو حکم دیا کہ رامائن کا ترجمہ کرو۔ یہ مہابھارت سے بھی پہلے کی کتاب ہے ۲۵ ہزار اشلوک ہیں ہر اشلوک ۶۵ حرف کاہے۔ ایک افسانہ ہے کہ رامچندر اودھ کا راجہ تھا اس کو رام بھی کہتے ہیں۔ اور قدرت الہی کا ظہور سمجھ کر پوجا کرتے ہیں مجمل حال اس کا یہ ہے کہ اس کی رانی سیتا کو ایک دوہ سرا دیو عاشق ہو کر لے گیا۔ وہ جزیرہ لنکا کا مالک تھا۔ رام چندر اپنے بھائی لچھمن کے ساتھی اس جزیرہ میں پہنچا بے شمار لشکر بندروں اور ریچھوں کا جمع کیا کہ محاسب دہم کو اس کے شمار کی خبر نہیں۔ چار کوس کا پل سمندر کا باندھا۔ بعض بندروں کو تو کہتے ہیں کود پھاند کر اچھل گئے بعضے اپنے پائوں سے پل اترے۔ ایسی بعید العقل باتیں بہت ہیںکہ عقل نہ ہاں کہتی ہے نہ ناہل۔ بہر تقدیر رامچندر بندر سوار پل سے اترا۔ ایک ہفتہ گھمسان کی لڑائی لڑے راون کے بیٹوں پوتوں سمیت مارا۔ ہزار برس کا خاندان برباد کیا۔ اور لنکا اس کے بھائی کو د ے کر پھرا۔ ہندوئوں کا عقیدہ ہے کہ رامچندر ۱۰ ہزار برس تمام ہندوستان کی حکومت کر کے اپنے ٹھکانے پر پہنچا ۔ اس فرقہ کا خیال ہے کہ عالم قدیم ہے کوئی زمانہ نوع بشر سے خالی نہیں۔ اوراس واقعہ کو لاکھ در لاکھ برس گزر گئے اور آدم خیر البشر کو (جسے سات ہزار برس ہوئے) مانتے ہی نہیں۔ یہ واقعات یا تو سچ نہیں فقط کہانی ہیں۔ اور خیال محض جیسے شاہنامہ امیر حمزہ کا قصہ یا اس زمانے کا ہو گا کہ جنات اور حیوانات کی سلطنت روئے زمین پر تھی۔ ان دنوں کے واقعات تجیبہ میں سے یہ ہے۔ کہ دیوان خانہ فتح پور میں یاک حلال خور کو لائے اور کہتے تھے۔ کہ عورت تھی مرد ہو گیا۔ چنانچہ ایک پنڈت رامائن کے مترجموں میں سے دیکھ کر آیا۔ کہتا تھا کہ ایک عورت ہے شرم کے مارے گھونگھٹ نکالے ہوئے ہے بولتی نہیں حکما اس امر کی تائید میں دلیلیں پیش کر تے تھے کہ ایسے معاملے بہت پیش آئے ہیں۔ سنہ ۹۹۳ھ میں شروع ہوا نوروز کے جاہ و جلا ل کا کیا عالم لکھا جائے۔ آئین بندی تو آئین میں داخل ہو گئی تھی۔ امرا کے ہاں ضیافتوں میں گئے اور نذرانہ بھی لیے زیاد ہ یہ ہوا کہ نذریں اور پیش کشیں سب سے لیے فاضل بدائونی لکھتے ہیں ۔ ذرہ بے مقدار کسی شمار میں نہیںَ ہاں ہزار بیگھہ زمین کے سبب سے نام کا ہزاری ہے حضرت یوسف والی بڑھیا کی مثل یا د کر کے ۴۰ روپے لے گیا اور قبول کا درجہ پایا۔ ع خدمت پسند نیست دگر خدمتے بیار اب فاضل مذکور دربار کی صورت حال سے بہت تنگ تھے۔ موقع وہ تھا کہ عبدالرحیم خانخاناں کی بہار اقبال نوروز منا رہی تھی ۔ خود سنہ ۹۹۳ھ میں لکھتے ہیں کہ انہی دنوں میں مرزا نظام الدین احمد نے گجرات سے مجھے لکھا کہ خانخاناں نے یہاں سے روانہ ہوتے وقت یہ وعدہ کیا تھا کہ ملا الہ داد مروہہ کو اور تم کو حضور سے عرض کر کے لیتا آئوں گا۔ جب خانخاناں پہنچیں۔ توبموجب آداب مقررہ کے تم جا کر ان سے ملاقات کرو اور حضور سے اجازت لے کر ساتھ چلے آئو اوراس ولایت کی بھی سیر کرو۔ کہ عجب عالم ہے پھر جیسی صلاح ہو گی کیا جائے گا۔ فتح پور کے دیوان خانہ میں مکتب خانہ ۔ یہیں مترجم بیٹھے ہیں۔ جب خاں خاناں یہاں آئے تو میں جا کر ملا مگر وہ جھٹ پٹ رخصت ہو کر پھر گجرات کو روانہ و گیا۔ اور جو ارادہ میں نے نجات کا سرمایہ سمجھا تھا۔ وہ اندر ہی اندر رہ گیا اسے بھی مدت گزر گئی۔ سچ ہے وما تشا ون الا ان یشاء اللہ جو ہم چاہتے ہیں نہیںہوتا۔خدا چاہتاہے سو ہوتاہے۔ افسوس اب وہ وقت آیا کہ ان کے دوست آشنا دنیا سے چلنے شروع ہو گئے۔ لکھتے ہیں کہ بادشاہ کابل کو جاتے تھے۔ سیالکوٹ کی زمین پر ملا الہ داد امروہہ نے اپنے سینے پر داغ کھایا۔ اس کی حرارت جگر تک پہنچی حکیم حسن کا مسہل ہوا۔ اور دو دن میں واصل حق ہوئے۔ ع مرگ نوش است شربتت بادا خوب یار تھا اللہ رحمت کرے اے دل ترا کہ گفت بدنیا قرار گیر ایں جان نازنین را اندر حصار گیر بنگر کہ تات آمدہ چند کس برفت آخر یکے زرفتن شاں اعتبار گیر سنہ ۹۹۷ھ میں لکھتے ہیں رامائن کا ترجمہ کر کے رات کے جلسے میں پیش کی خاتمہ اس شعر پر تھا۔ ما قصہ نوشتیم بہ سلطان کہ رساند جاں سوختہ کردیم بہ جاناں کہ رساند بہت پسند آیا پوچھا کہ جز ہوئے عرض کی مسودہ ۷۰ جز کے قریب تھا ۔ صاف ہو کر ۱۲۰ ہوء فرمایا کہ جیسا مصنفوں کا دستور ہے۔ ایک دیباچہ بھی لکھ دو۔ مگر اب طبیعت میں امنگ نہیں رہی تھی اور لکھتا تو بے نعت لکھتا اس لیے ٹال گیا۔ اس نامہ سیاہ سے کہ مریے نامہ عمر کی طرح تباہ رہے خدا سے پناہ مانگتا ہوں کہ کفر کی نقل کفر نہیں۔ صاحب فرمان کے حکم سے لکھی ہے۔ اور بہ کراہت لکھی۔ ڈرتا ہوں ہ اس کا پھل پھٹکار نہ ملے۔ اور توبہ کہ توبہ یاس نہیں درگاہ تواب وہاب میں قبول ہو۔ لکھتے ہیں کہ انہی دنوں میں ایک دن مترجموں کی خدمتوں پر نظر کر کے حکیم ابوالفتح سے فرمایا کہ بالفعل یہ شال پوشاک خاص اسے دے دو۔ گھوڑا اور خرچ بھی عنایت ہو گا۔ اور شاہ فتح اللہ عضد الدولہ سے فرمایا کہ علاقہ بساور دردبست تمہاری جاگیر میں کیا۔ جو جاگیر اس میں سے اماموں کو دی ہو ئی ہے وہ بھی تمہیں معاف پھر میرا نام لے کر کہا کہ ی جوان بدائونی ہے ہم نے اس کی مدد معاش سوچ سمجھ کر بساور سے بدائوں میں کر دی ہے۔ جب میرا فرمان تیار ہواتوبرس دن کی رخصت لے کر بساور پہنچا۔ وہاں سے بدائوں آیا۔ ارادہ تھا کہ گجرات احمد آباد چل کر مرزا نظام الدین احمد سے ملوں کیونکہ سنہ ۹۹۳ھ میں ا سنے بلا بھیجا تھا ۔ تعلقات میں پھنس کر رہ گیا۔ نیم ملول کہ کارم نکونشد بدشد شود شود نشود گو مشوچہ خواہد شد علاقہ کشمیر میں شاہ آباد ایک قصبہ ہے ملا شاہ محمد شاہ آبادی فاضل جامع معقول و منقول تھے انہوں نے حسب الحکم کشیمیر کی تاریخ لکھی تھی ملا صاحب لکھتے ہیں۔ سنہ ۹۹۹ھ میں فرمائش کی کہ اسے خلاصہ اور سلیس فارسی میں لکھو۔ دو مہینے میں تیار کر کے گزرانی اور اخیرمیں لکھا۔ در عرض یک دو ماہ بتقریب حکم شاہ ایں نامہ شہ چو خط پری پیکراں سیاہ پسند ہو کر کتب خانہ میں داخل ہوئی۔ سلسلے میں پڑھی جاتی تھی۔ آزاد۔ افسوس کہ اصل اور اصلاحی دونوں تاریخیں اب نہیں ملتیں۔ ہاں ابوالفضل نے آئین اکبری میں شاہ محمد کی کتاب کا اشارہ کیا ہے کہ راج ترنگنی سے ترجمہ ہوئی تھی۔ اوروہ سنسکرت میں ہے۔ ایک دن حکیم ہمام نے معجم البلدان کہ ۲۰۰ جز کی ضخامت پر ہو گی۔ بڑی تعریف کر کے پیش کی۔ اور کہا کہ یہ عربی ہے۔ فارسی میں ترجمہ ہو جائے تو بہت خوب ہے۔ اس میں بہت حکایات عجیب و فوائد غریب ہیں۔ملااحمد ٹھٹھ قاسم بیگ۔ شیخ منور وغیرہ دس بارہ شخص ایرانی اور ہندی جمع کر کے جز تقسی کر دیے مترجموں کے آڑام کے لیے فتح پور میںپرانے دیوان خانہ میں مکتب خانہ تھا۔ ملا صاحب کے حصے میں دس جز آئے۔ ایک مہینہ میں تیار کر دیے۔ سب سے پہلے گزرانے اور اس حسن خدمت کو رخصت کا وسیلہ کیا کہ قبول ہوئی۔ اگرچہ ان کی قابلیت اور کارگزاری ہمیشہ اکبر کی جوہر شناسی کومرحمت کے رستے پر کھینچ لاتی تھی مگر دونوں کے خیالات کا اختلاف بیچ میں خاک اڑا کر کام خراب کر دیتا تھا۔ چنانچہ لکھتے ہیں کہ بڑے تامل سے ۵ ماہ کی اجازت ہوئی رخصت کے وقت خواجہ نظام الدین نے عرض کی ک ہان کی ماں مر گئی ہے۔ عیال کی تسکین و تشفی کے لیے جانا ضرور ہے۔ رخصت دی مگر ناراضی کے ساتھ سلام کے وقت صدر جہاں نے مکرر کہا۔ سجدہ بکن۔ وہ مجھ سے ادا نہ ہوا فرمایا جانے دو۔ بلکہ رنجیدگی کے سبب کچھ دیا بھی نہیں۔ غرض خواجہ نظا م الدین شمس آباد اپنی جاگیر پر جاتے تھے۔ میں بھی ساتھ جاتا تھا۔ وطن میں جا کر ایک کتاب لکھی۔ کہ نجات الرشید اس کا تاریخی نام ہے۔ اس کے دیباچہ میں لکھتے ہیں۔ خواجہ موصوف نے مجھے ایک فہرست گناہان صغیرہ و کبیرہ کی دی۔ اور کہا کہ یہ بہت مجمل ہے بہ تفصیل اور بادلیل نہیں۔ تم اسے اس طرح لکھ دو کہ نہ بہت طولانی ہو نہ ایسی مختصر وغیرہ وغیرہ میں نے اس کی تعمیل کی واجب سمجھی وغیرہ وغیرہ۔ آزاد۔ یہ مصنفوں کے معمولی بہانے ہیں۔ درحقیقت کتاب مذکور میں ان مسائل کی تفصیل ہے ۔ جو ان دنوں میں علمائے دیندار یا اکبری دربار میں اختلافی شمار ہوتے تھے۔ اس میں مہدوی فرقہ کا حال بھی مفصل ہے۔ اسے اس خوش اسلوبی سے بیان کیا ہے کہ ناواقف بھی انہیں بھی مہدویت پر مائل سمجھتے ہیں۔ مگر بات یہ ہے کہ میر سید محمد جونپوری جنہوں نے اصل میں مہدویت کا دعویٰ کیا ان کے داماد شیخ ابوالفضل گجراتی سے ملا صاحب کو رابطہ اورکمال اعتقاد تھا۔ اور بعض ذکر و شغل بھی ان سے حاصل کیے تھے۔ علاوہ برآں فرقہ مذکور ک بانی یا متجہد کمال شدت کے ساتھ مسائل شرعی کے پابند تھے اور یہ ایسے لوگوں کے عاشق تھے شاید اس لیے ان کی باتوں کو ہر جگہ اچھی طرح بیان کیا ہے۔ اپنی تاریخ میں لکھتے ہیں۔ سنہ ۹۹۹ھ میں گھر میں بیمار ہوگیا اور بدایوں پہنچا۔ اہل و عیال کو بھی وہیں لایا معالجہ کرتا رہا۔ مرزا پھر لاہو رچلے آئے میں گھر رہا۔ نامہ خرد افزا سنگھاسن بتییس کتاب خانے میں سے کھوئی گئی تھی۔ سلیمہ سلطان بیگم نے برابر حضور میں تقاضا کرنا شروع کیا۔ اس کے لیے مجھے کئی دفعہ یاد کیا۔ ہر چند دوستوں کے قاصد بھی بدایوں پہنچے مگر ایسے ہی سبب ہوئے کہ آنا نہ ہوا۔ حکم دیا کہ مدد معاش بند کر دو اورآدمی بھیجو ہک گرفتار کر کے لائیں۔ مرزا سے مذکور کو خدا غریق رحمت کرے۔ غائبانہ یار فروشیاں کیں۔ ابوالفضل نے مکرر عرض کی کہ کوئی ایسا ہی امر مانع ہو ا ہو گا۔ ورنہ وہ تو رکنے والا نہیں۔ لکھتے ہیں کہ جب برابر حکم پہنچنے شروع ہوئے تو بدائوں سے روانہ ہوا۔ حضور کشمیر کے سفر میںتھے بھنبر کی منزل میں حاضر ہوا۔ حکیم ہمام نے عرض کی کہ کونش کی آرزو رکھتا ہے۔ فرمایا کہ وعدے سے کتنے دن بعد آیا ہے۔ عرض کی پانچ مہینے۔ پوچھا تقریب سے۔ عرض کی بیماری کے سبب سے۔ اکابر بدائوں کا محضر اور حکیم عین الملک کی عرضٰ بھی اسی مضمون سے دلی سے لایا ہے۔ سب کچھ پڑھ کر سنایا۔ فرمایا بیماری پانچ مہینے نہیںہوتی ۔ اور کورنش کی اجازت نہ دی۔ شاہزادہ دانیال کا لشکر رہتاس پر پڑا تھا۔ میں شرمندہ افسردہ دل مردہ غمگین وہاں آن پڑا تھا۔ ان دنوں شیخ فیضی دکن کی سفارت پر تھے۔ جب ان کی مصیبت کی خبر سنی تو ایک عریضہ سفارش میں لکھا۔ انشائے فیضی میں درج ہے۔ عالم پناہا! درینولاد و خویش ملا عبدالقادر از بدائوں مضطرب حال گریاں و بریاں رسیدہ وا نمودند کہ ملا عبدالقادر چند گاہ بیمار بود واز موعد کہ بدرگاہ داشہ متخلف شدہ و اوراکسان بادشاہی یہ شدت تمام بردہ اند تا عاقبتش کجا انجام و گفتند کہ امتداد بیمار ا و بعرض اشرف نرسیدہ شکستہ نواز ملا عبدالقادر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱؎ شیخ علائی اور فرقہ مدوی کا حلا جو کچھ بہم پہنا دیکوھ تتمہ صفحہ ۷۸۲۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اہلیت تمام دارد و علوم رسمی آنچہ ملایان ہندوستان میخوانند خواندہ۔ پیش وقت ابوی کسب فضیلت کردہ و قریب بہ سی و ہفت سالمے شود کہ بندہ اورامے با فضیلت علمی طبع نظم و سلیقہ انشائے عربی و فارسی و چیزے از نجوم ہندی و حساب یادداشت ہہ وادی و دقوف در نغمہ دلایت و ہندی و خبرے از شطرنج کبیر و صغیر دارد ومشق بین بقدرے کرہد بوجود بہرہ مند بودن ازیں ہمہ فضائل بہ بے طمعی و قناعت و کم تردد نمودن و راستی و درستی و اد ب و نامرادی و شکستگی و گزشتگی و بے تعینی و ترک اکثر رسوم تقلید و درستی اخلاص و عقیدت بدرگار بادشاہی موصوف ست وقتے کہ لشکر برسر کونبھلمیر تعین مے شد او التماس نمودہ بامید جاں سپاری رفت و آنجا ترددے کرد زخمی ہم شد و بعرض رسیدہ انعام یافت۔ اول مرتبہ ادر اجلال خاں قورچی بدرگاہ آوردہ بعرض رسانیدہ بود کہ من امامے برائے حضرت پیدا کردہ ام کہ حضرت را خوش خواہد آمد۔ و میر فتح اللہ اندکے از احوال او بعرض اقدس رسانیدہ بود و خدمت خوی برحال او مطلع اند۔ اما مشہور است ع جوے طالع ز خروارے ہنر بہ چوں درگاہ راستانست دریں وقت کہ بے طاقتی زور آوردہ بندہ خود را حاضر پایہ سریر والا دانستہ احوال او بعرض رسانید۔ اگر دریں وقت بعرض نمیر سانید۔ نوعے ا ز ناراستی و بے حقیقی بود ۔ حق سبحانہ بندہ ہائے درگاہ رادر سایہ فلک پایہ حضرت بادشاہ برراہ راستی و حق گزاری و حقیقت شناسی قدم ثابت کرامت فرماید وآں حضرت رابر کل عالم و عالمیان سایہ گسترو شکستہ پرور و عطا پوش و خطا پوش بہ ہزاران ہزار دولت و اقبال و عظمت و جلال دیر گاہ داراد بعزت پاکان درگاہ الٰہی و روشندلان سحر خیز صبح گاہی۔ آمین۔ آمین۔ یہ عریضہ اگر چہ بروقت نہ پہنچ سکا ۔ اس وقت ڈاک نہ تھی۔ تار نہ تھا۔ مگر جب لاہور میں آ کر حضور میں پڑھا گیا تو سفارش کا انداز پسند آیا۔شیخ ابوالفضل کو حکم دیا کہ اکبر نامہ میں نمونے کے طور پر داخل کر دو اور فاضل مذکور نے بھی اپنی لیاقت کا سرٹیفکیٹ سمجھا۔ یہی سبب ہے کہ اپنی تاریخ میں بجنسہ نقل کر دیا۔ غرض فاضل مذکور شہزادہ کے لشکر میں آ پڑے لکھتے ہیں کچھ سمجھ میں نہ آتا تھا کہ کیا کروں حصن حصین کا ختم اور قصیدہ بردہ کا وظیفہ شروع کیا۔ اللہ بیکسوں اور بیقراروں کی خوب سنتا ہے الحمد للہ دعا قبول ہوئی پانچ مہینے بعد لشکر شاہی کشمیر سے پھرا اور لاہور میں آ کر خدا نے پھر بادشاہ کو مہربان کیا۔ جامع رشیدی تاریخ کی ایک بڑی موٹی کتاب ہے۔ اس کا ترجمہ مطلوب تھا۔ یاران مشفق و موافق مرزا نظام الدین احمد وغیرہ نے مجلس خلوت میں غائبانہ میرا ذکر کیا بارے ملازمت کا حکم ہوا میں حاضر ہو ا ایک اشرفی نذر گزارنی۔ بڑی التفات سے پیش آئے سب ندامت شرمساری ۔ بعد دشواری آسانی سے خدا نے رفع کر دی۔ الحمد للہ علی ذالک جامع رشیدی کے انتخاب کے لیے حکم ہوا۔ کہ علامی شیخ ابوالفضل کی صلاح سے کرو۔ اس میں شجرہ خلفائے عباسیہ مصریہ بنی امیہ کا تھا۔ کہ آنحضرت پر ختم ہوتا ہ۔ ارو وہاں سے حضرت آدم تک پہنچتا ہے۔ اسی طرح تمام انبیائے اولوالعزم کے شجرے عربی سے فارسی میںلکھ کر حضور میں گزارنے اور خزانہ عامرہ میں داخل ہوئے۔ اسی سنہ میں لکھتے ہیں کہ تاریخ الفی کے تین دفتروں میں سے دو تو ملا احمد افضی علیہ ما علیہ نے اور تیسرا آصف خاں نے لکھا ہے۔ ملا مصطفے کاتب لاہور ی کہ یار اہل ہے۔ اور احدیوں میں ملازم ہے اب مجھے حکم ہوا کہ اسے ساتھ لے کر پہلے دفتر کا مقابلہ اور تصحیح کرو۔ چنانچہ اسے بیھ تمام کیا شف آٖتاب کا جشن تھا یہی نذرانہ گزرانا۔ اور تحسین کا درجہ پایا۔ فرمیا کہ اس نے بہت معتصبانہ لکھا ہے دفتر دوم کو بھی صحیح کرو۔ ایک برس ا س میں صرف کیا مگر اپنے تعصب کی تہمت سے ڈر کر سلسلہ سال کو مسلسل کیا۔ مطالب سے معترض نہیں ہوا۔ اور اصل کو ذرا نہیں بدلا کہ ایسا نہ ہو۔ اور جھگڑا اٹھ کھڑا ہوا۔ گویا مرض کو طبیعت پر چھوڑ دیا۔ کہ آپ رفع کرے گی۔ لطیفہ ۔ ایک شخص کو دیکھا کہ گٹھلیوں سمیت کھجوریں کھا رہا ہے ۔ کسی نے پوچھا کہ گٹھلیاں کیوں نہیں پھینکتے کہا کہ یری تول میں یونہی چڑھی ہیں یہی حال میرا ہے کہ میری قسمت میں یونہی لکھا ہے۔ اسی سال میں خواجہ ابراہیم کا انتقال ہوا۔ یہ میرے دوستان خاص میں سے تھے۔ خواجہ ابراہیم حسین ہی ان کی تاریخ ہوئی اللہ رحمت کرے اسی سال میں خداوند عالم نے توفیق دی۔ کہ ایک قرآن مجید لکھ کر تمام کیا اور لوح جدول وغیرہ درست کر کے پیرو مرشد شیخ دائود جہنی وال کی قبر پررکھا۔ امید ہے کہ اورکتابیں جو میرے نامہ اعمال کی طرح سیاہ ہیں۔ یہ ان کا کفارہ اور مونس ایام حیات اور شفیع بعدممات ہو گا اللہ رحم کرے و کچھ بڑی بات نہیں۔ سنہ ۱۰۰۲ھ میں مصیبتوں کے کوڑے اور عبرتوں کے تازیانے ایسے لگے کہ جن لہو و لعب اور گناہوں میں اب تک مبتلا تھا ان سے توبہ کی توفیق نصیب ہوئی۔ اور خدا نے میری بداعمالی سے مجھے آگاہ کیا۔ ع آہ گر من چنیں بمانم آہ نیک فالی کے طور پر استقامت اس کی تاریخ کہی ملک الشعرا فیضی نے عربی میں قطعہ لکھا۔ آخر کا شعر یہ ہے۔ لقد تاب شیخی عن الحوبۃ و تاریخہ سابق التوبۃ مرزا نظام الدین خدمات بادشاہی میں قلیج خاں جیسے کہنہ عمل سردار کے ساتھ لاگ ڈانٹ رکھتا تھا۔ بادشاہ کے دل میں گھر کر لیا تھا۔ اورنہایت چستی و چالاکی سے مہمات سلطنت کو سرانجام دیتا تھا حسن کفایت اور تدبیر اور اخلاص اور دیانت دری و عرق ریزی کے سبب سے بادشاہ بہت مرحمت اور اعتماد فرمانے لگے تھے۔ چنانچہ قلیچ خاں اور امرا کو کہ مزاج میں دخل رکھتے تھے۔ اور درگاہ سے جدا نہ ہو سکتے تھے۔ ادھر ادھر بھیج دیا۔ اور اس کے لیے ابتدائی رعایت کا خیال رکھا تھا۔ عنایت گوناگوں کے ارادے تھے چاہتے تھے کہ اس کا جوہر عالی جو قابل نشوونما ہے صحرائے ظہور میں نکالیں۔ یکایک عین ترقی اور اوج کاروبار میں چشم زخم عظیم پہنچی۔ کہ اپنے بیگانے کسی کو امید نہ تھی تب محرقہ سے ۴۵ برس کی عمر میںعالم بے وفا سے گزر گیا۔ اور نیک نام کے سوا کچھ ساتھ نہ لے گیا۔ اس کے حسن اخلاق دیکھ کر بہت سے احباب کو امیدیں تھیں۔ خصوصاً مجھ حقیر کو یگانگی دینی اور اخلاص ولی رکھتا تھا۔ جو اغراض دنیا سے پاک ہے۔ آنکھوں ے اشک حسر ت بہائے سنگ ناامیدی سینے پر مارا۔ انجام کو صبر و شکیبائی کے سوا چارہ نہ دیکھا۔ کہ اہل صفا کی خصلت اورپرہیز گاروں کی عبادت ہے اور اس واقعہ کو سخت ترین مصائب جان کی عبرت کلی سمجھا۔ اب کسی سے رفاقت و محبت نہ کروں گا گوشہ گمنامی اختیار کیا۔ مجلس وعظ رفتنت ہوس است مرگ ہمسایہ واعظ تو بس است دریائے راوی پر پہنچے تھے ۔ کہ کشتی حیات کنارے لگ گئی۔ یہ واقعہ ۲۳ صفر سنہ ۱۰۰۳ھ کا ہے ۔ جنازہ لشکر سے لاہور لائے۔ اور اسی کے باغ میں دفن کیا خاص و عام میں کم اشخاص ہوں گے۔ جو اس کے جنازے پر نہ روئے ہوں گے۔ اور اس کے اکلاق کو یاد کر کے بے قرار نہ ہوئے ہوں گے ۔ ملاصاحب کی نظم دیکھو فرماتے ہیں۔ برہیچ آدمی اجل ابقا نمے کند سلطان قہر ہیچ محابا نمے کند عام است حکم میر اجل برجہانیاں ایں حکم برمن و توبہ تہنا نمے کند یہ قطعہ تاریخ میں ہوا رفت مرزا نظام الدین احمد سوئے عقبے و چست و زیبا رفت جوہر او زبسکہ عالی بود در جوار ملک تعالیٰ رفت قادری یافت سال تاریخش گوہرے بے بہاز دنیا رفت انہوںنے بھی ہندوستان کی تاریخ لکھی تھی۔ جس میں اکبر کا ۳۸ برس کا حال بہ تفصیل ہے۔ اور طبقات اکبری نام ہے۔ ملا صاحب نے نظامی سنہ ۱۰۰۱ھ سے اس کی تاریخ لکھی اورتاریخ نظامی نام رکھا۔ صاف صاف حالات بے مبالغہ و عبارت آرائی لکھے ہیں۔ جن سے معاملات و مہمات کی اصلیت واضح ہوتی ہے۔ اور معلوم ہوتاہے کہ وہ نہ کسی سے خوش ہیں نہ خفا ہیں جو جس کی بات ہے جوں کی توں درج کر دی ہے۔ اسی سال میں لکھتے ہیں۔ کہ چالیسواں سال جلوس کا شروع ہوا۔ جشن کے موقع پر تحویل سے دو دن پہلے دیوان خاص میں جھروکے پر بیٹھے تھے مجھے بلایا۔ میں اوپر گیا۔ آگے بلایا اور شیخ ابوالفضل سے کہا ہم تو شیخ عبدالقادر کوجوان فانی صوفی مشرب سمجھے ہوئے تھے وہ تو ایسا فقیہ متعصب نکلا جس کے تعصب کی رگ گردن کوکوئی تلوار کاٹ ہی نہیں سکتی۔ شیخ نے پوچھا حضور کس کتاب میں ؟ کیا لکھا؟ کہ حضور ایسا کیوں فرماتے ہیں۔ فرمایا اسی رزم نامہ میں (مہا بھارت) ہم نے رات کو نقیب خاں کو گواہ کر دیا اس نے کہا تقصیر کی۔ میں نے آگے برھ کر عرض کی۔ فدوی فقط مترجم تھا۔ جو دانا یان ہندی نے بیان کیا بے تفاوت ترجمہ کر دیا۔ اگر اپنی طرف سے لکھا تو تقصیر کی اور بہت برا کیا۔ شیخ نے یہی مطلب عرض کر دیا۔ چپکے ہو رہے۔ اس اعتراض کا سبب یہ تھا کہ میں نے ایک حکایت رزم نامہ میں لکھی تھی مضمون یہ کہ ہندوئوں میں سے ایک پنڈت نزع کے وقت لوگوں سے کہتا تھا آدمی کو چاہیے کہ جہل اور غفلت کی حد سے قدم بڑھا کر سب سے پہلے صانع بیچون کو پہچانے اور عقل کا رستہ لے اور فقط علم بے عمل پر نہ رہے کہ اس کا کچھ نتیجہ نہیں۔ نیک طریقہ اختیار کرے اور جتنا ہو سکے گناہوں سے باز رہے۔ یقین جانے کہ ہر کام کی پرسش ہو گی۔ یہیں میں نے یہ مصرع بھی لکھ دیا تھا۔ ہر عمل اجرے و ہر کردہ جزائے وارد اسی کو کہا کہ منکر نکیر ۔ حشر نشر۔ حساب میزان وغیرہ سب کو درست لک دیا ہے ۔ اورآ پ جو تناسخ کے سوا کسی چیز کے قائل نہیں ہیں اسے اس کی مخالفت قرار دیا ہے۔ اور مجھے تعصب اور فقاہت کے ساتھ متہم کیا۔ تاکے ملامت مژہ اشکبار من یکبار ہم نصیحت چشم سیاہ خویش آخر میں نے مقربان درگاہ کو سمجھایا کہ ہندو جزا اور سزا اوراچھے برے کاموں کے قائل ہیں۔ ان کا اعتقاد یہ ہے کہ جب کوئی مرتا ہے تو لکھنے والا جو عمر بھر اسکے اعمال لکھتا رہا ہے۔ قابض ارواح فرشتہ کے پاس لے جاتا ہے ۔ اس کا نام بادشاہ عدل ہے۔ وہ بھلائیوں برائیوں کا مقابلہ کر کے کمی بیشی نکالتا ہے پھر مرنے والے سے پوچھتا ہے۔ کہ پہلے بہشت میں چل کر آرام کی نعمتیں لو گے یا دوزخ میںچل کر عذاب سہو گے۔ جب دونوں درجے طے ہو چکتے ہیں تو حکم ہوتا ہے کہ پھر دنیا میں جائو۔ وہ ایک قالب مناسب حال اختیار کر کے زندگی بسر کرتاہے۔ اور اسی طرح دورے کرتا رہتا ہے۔ اخیر کو نجات مطلق پاتا ہ اورآواگون سے چھوٹ جاتاہے۔ غرض یہ معرکہ بھی خیریت سے گزر گیا۔ شرف آفتاب کے دن صدر جہاں سے کہا کہ روضہ منورہ خواجہ اجمیر پر کوئی متولی نہیں ہے۔ فاضل بدائونی کو کر دیں تو کیسا ہے؟ کہابہت خوب ہے۔ دو تین مہینے تک دربار کی خدمت میں دوڑا پھرا۔ کہ ان سرگردانیوں سے چھوٹ جائوں کئی دفعہ عرضیاں بھی لکھیں جواب ہی پر موقوف رہا۔ میرا دل یہی چاہتا تھا کہ رخصت لوں اور فرشتہ غیب کہتا تھا۔ گر دست درکار ے زی زنجیر در دستت زنم درخم مے غرقت کنم گرنام ہشیاری بری عید کی شب کو صدر جہاں نے عرض کی کہ اس کی رخصت کے باب میں کیا حکم ہے۔ فرمایا کہ اسے بہت کام ہیں۔ کبھی کبھی خدمت نکل آتی ہے۔ کوئی اور آدمی ڈھونڈ لو ارادہ الٰہی اس امر پر نہ آیا۔ خدا جانے اس دربدری اور سگ مگسی میں کیا مصلحت ہے۔ از در خویش مرا بر در غیرے ببری باز گوئی کہ چرا بر در غیرے گزری سالہا در طلب روئے نکو در بدرم روئے بنمائو خلاصم کن ازیں دربدری انہیں دنوں میں میرے سامنے ایک دن شیخ ابوالفضل سے کہا کہ اگرچہ فاضل بدائونی اجمیر کی خدمت بھی خوب کر سکتا ہے۔ مگ رہم ترجمہ کے لیے انہیں اکثر چیزیں دیتے ہیں۔ یہ خوب لکھتا ہے۔ اورہماری خاطر خواہ لکھتا ہے۔ جدا کرنے کو جی نہیں چاہتا۔ شیخ نے بھی اور امرا نے بھی تصدیق کی۔ اسی د ن حکم دیا کہ باقی افسانہ ہندی کہ سلطان زین العابدین بادشاہ کشمیر کے حکم سے تھوڑا سا ترجمہ ہوا۔ اور بہت سا باقی ہے۔ اور بحر الاسماء اس کا نا م رکھا ہے۔ اسے ترجمہ کر کے پورا کر دو چنانچہ اخیر جلد کہ ساتھ جزو ہیں ۵ مہینے میں تمام کر دی ۔ انہی دنوں میں ایک شب خوابگاہ خاصہ میں پایہ تخت کے پاس بلایا۔ صبح تک مقدمات مختلفہ میں باتیں کرتے رہے پھر فرمایا کہ بحرا لاسماء کی پہلی جلد جو سلطان زین العابدین نے ترجمہ کرائی تھی اس کی فارسی قدیم غیر متعارف ہے۔ اسے بھی مانوس عبارت میں لکھو۔ او ر جو کتابیں تم نے لکھی ہیں۔ ان کے مسودے تم آپ رکھو۔ میں نے زمیں بوس کر کے دل و جان سے قبول کیا اور کام شروع کیا۔ (مبارک ہو زمین بوس کی قسم ٹوٹی) بادشاہ نے بہت عنایت کی ۔ ۱۰ ہزار تنگہ مرادی دیے اور گھوڑا انعام فرمایا۔ انشاء اللہ یہ کتاب جلد اور خوبصورتی کے ساتھ دو تین مہینے میں تیار ہوجائے گی اوروطن کی رخصت جس پر جان دے رہا ہوں وہ بھی حاصل کر لوں گا۔ اللہ بڑاقادر ہے۔ اور قبولیت اسے سزاوار ہے۔ افسوس اب وہ زمانہ آیا کہ ان کے رفیقوںکے خیمے ڈیرے میں چلے جاتے ہیں۔ اور یہ افسوس کر رہے ہیں سنہ ۱۰۰۳ھ کے اخیر میں ر و رو کر کہتے ہیں۔ دو دلی دوست اور چلے گئے۔ شیخ یعقوب کشمیری صیرنی تخلص درگاہ سے رخصت لے کر واپس وطن گئے تھے مر گئے ۔ انا للہ وانا علیہ راجعون۔ یاراں ہمہ رفتند و در کعبہ گرفتند ماسست قدم بردر خمار بما ندیم از نکتہ مقصود نشد فہم حدیثے لا دین ولا دنیا بیکار بما ندیم ۲۷ ذلیحج کو حکیم عین الملک کہ راجی علی خا ں کے پاس ایلچی بن کر گء تھے وہاں سے رخصت ہو کر ہنڈیہ میں آئے (یہ ان کی جاگیر تھی) یہیں سے سفر آخرت اختیار کیا (ان کی اور جلال خاں قورچی کی وساطت سے ملا صاحب حضور میں پہنچے تھے)سبحان اللہ یار دوست ایک ایک کو دیکھتا ہوں کہ صحبت سے بیزار ہو کر سبسکار منزل آخرت کو دوڑ گئے۔ اور دوڑے جاتے ہیں۔ ہم اسی سیہ دلی اور پریشانی میں انجام کار سے غافل ہو کر بیہودگی میں عمر برباد کر رہے ہیں ۔ قطعہ اے دل چو آگہی کہ فنا درپے بقاست ایں آرزوئے دور و دراز از پے چراست باروزگار عہد تو بستی نہ روزگار پس ایں نفیر چیست کہ ایام بیوفاست محرم سنہ ۱۰۰۴ھ میں حکیم حسن گیلانی نے بھی قضا کی ۔ نہایت درویش نہاد۔ مہربان ۔ صاحب اخلا ق شخص تھا۔ رباعی بے خار اگر گلے میسر بودے ہر دم بہ جہاں لذت دیگر بودے زیں کہنہ سرائے زندگانی مارا خوش بودے اگر نہ مرگ بردر بودے انہی دنوں میں چند اشخاص اخلاص چہار گانہ کے ساتھ مریدوں میں داخل ہوئے۔ ڈاڑھیوں کو بھی صفائی بتائ۔ ان یں کوئی تو ایسے عالم تھے۔ کہ اپنے تئیں فاضل اجل سمجھتے تھے ۔ کوئی خرقہ پوش خاندانی مشائخ تھے کہ کہتے تھے ہم حضرت غوث الثقلین کے فرزند ہیں۔ اور ہمارے شیخ طریقت نے فرمایا ہے کہ بادشاہ ہند کو لغزش ہوئی ہے ۔ تم جا کر بچائو گے۔ وغیرہ وغیرہ۔ ملا صاحب ان کا خوب خاکا اڑاتے تھے۔ اور ان کی منڈی ہوئی ڈاڑھیوں میں خاک ڈال کر کہتے ہیں کہ موتراش چند تاریخ ہوئی۔ اسی سنہ میں اصغر کو شیخ فیضی نے بھی انتقال کیا۔ ان کے مرنے کا حال بہت خرابی کے ساتھ لکھا کر کہتے ہیں۔کہ چند ہی روز میں حکیم ہمام بھی دنیا سے گئے۔ دوسرے ہی دن کمالاے صدر بھی دونو کے گھروں پر اسی وقت بادشاہی پہرے بیٹھ گئے اورمال خانے مقفل ہو گئے ان کے مردے کفن کے چیتھڑے کو محتاج تھے۔ یہاں تاریخ کو ختم کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ حال تھے ان بعض اجزا کے جن جزوں سے زمانہ مرکب تھا۔ کہ صفر سنہ ۱۰۰۴ھ مطابق سال چہلم جلوس بہ سبیل اجمال مجھ شکستہ دل کے قلم شکسگہ رقم سے مرقوم ہوا۔ اور بغیر خلاف کے بے تکلف عبارت کی لڑی میں پرو دیا۔ باوجودیکہ تفصیل کے لحاظ سے دریائے عماں میں سے ایک بلبلا ہے اور ابروباراں سے ایک قطرہ ہے۔ مگر جو کچھ لکھا ہے سمجھ کر اور رقم خلل سے بچا کر لکھا ہے۔ الا ماشاء اللہ۔ مراد ما نصیحت بود گفتیم حوالت با خدا کردیم و رفتیم چونکہ تاریخ نظامی کے مصنف نے امر ائے عہد کے حال بھی لکھے ہیحں جن میں سے اکثر مرحوم چلے گئے ۔ میں نے ان فضولیوں کے ذکر سے زبان قلم کو آلود ہ نہیں کیا۔ من وفائے نہ دیدہ ام زکساں گر تو دیدی دعائے ما برساں خاتمہ کتاب میں لکھتے ہیں۔ روز جمعہ ۲۳ جمادی الثانی سنہ ۱۰۰۴ھ میں طول کلام کو کوتاہی د ے کر اتنے پر بس کرتا ہوں۔ تاریخ عمل تخرجہ سے نکالی۔ شکر للہ کہ بہ تمام رسید منتخب از کرم ربانی سال تاریخ ز دل جستم گفت انتخابے کہ ندارد ثانی! افسوس یہ ہے۔ کہ اسی سال میں کتاب کی تمام کی اور اسی سال کے اخیر میں خود تمام ہو گئے۔ ۵۷ برس کی عمر تھی۔ وطن بہت پیارا تھا۔ وہیں مرے وہیں پیوند خاک ہو گئے۔ آخر گل اپنی خاک در میکدہ ہوئی پہنچی وہیں یہ خاک جہاں کا خمیر تھا ایسے صاحب کمال اور کمال آفریںلوگوں کا مرنا نہایت افسوس کا مقام ہے۔ انہوں نے اپنے معاصروں کا غم کس کس خوبصورتی سے کیا۔ کوئی نہ تھا کہ ان کی کوبی کے لائق ان کا افسوس کر تا۔ ان کے مرنے پر افسوس کرنا کمال کی لاوارثی پر افسوس کرنا ہے۔ خوشگو نے اپنے تذکرے میں لکھا ہے کہ باغ انبہ واقع عطاپور نواح بدایوں میں دفن ہوئے۔ میں کہتا ہوں کہ اس وقت یہ نام اور مقام ہوں گے اب شہر سے دور ایک کھیت میں تین چار قبریں۔ ان پر تین چار درخت آم کے ہیں۔ اور یہ ملا کا باغ کہلاتا ہے۔ لوگ کہتے ہیںکہ انہی میں ملا صاحب کی قبر بھی ہے غالبا ً خوشگو کے بعد یہ مقام کبھی ملا کا باغ بھی کہلایا ہو گا۔ عطاپور اور باغ انبہ کا آج کوئی نام نہیں جانتا ۔ البتہ جس محلے میں ان کے گھر تھے اب بھی لوگوں میں زبان زد ہے۔ اور پتنگی ٹیلہ کہلاتا ہے۔ سید باڑہ میں ہے۔ مگر ٹیلہ یا گھر کا اثر آثار کچھ نہیں وہاں کے لوگ یہ بھی کہتے ہیں۔ کہ اولاد کا سلسلہ ایک بیٹی پر ختم ہو گیا تھا۔ اور اس کی نسل خیر آباد کے علاقہ اودھ میںباقی ہے۔ اکبر کے عہدمیں اس کتاب نے رواج نہ پایا ملا صاحب نے بڑی احتیاط سے مخفی رکھی تھی۔ جہانگیرکے زمانے میں چرچاہوا۔ بادشاہ نے بھی دیکھی حکم دیا کہ اس نے میرے باپ کو بدنام کیا ہے۔ اس کے بیٹے قید کر دو۔ اور گھر لوٹ لو۔ چنانچہ جو وارث تھے گرفتار آئے۔ انہوںنے کہا کہ ہم تو اس وقت خرد سال تھے۔ ہمیں خبر نہیں۔ ان سے مچلکے لیے کہ ہمارے پاس سے نکلے تو چاہو سزا دو۔ کتب فروشوں سے مچلکے لیے۔ کہ یہ تاریخ نہ خریدیں نہ بیچیں خافی کاں نے شاہجہاں سے محمد شاہ تک زمانہ دیکھا ہے۔ وہ حال مذکور لکھ کر کہتا ہے کہ تعجب ہے کہ باوجود ا تشدد کے خاص دارالخلافہ میں کتب فراشوں کی دکانوں پر سب سے زیادہ بدائونی ہی نظر آتی ہے۔ بادشاہ کی اس خفگی کی شہرت عام ہو گئی تھی ا س لیے قاسم فرشتہ شیخ نورالحق دہلوی (ولد شیخ عبدالحق محدث دہلوی) اور مولت تاریخ زید تی مورخ جہانگیری عہد میں تاریخ لکھ رہے تھے کسی نے اس ذکر سے قلم کو آشنا نہیں کیا۔ ٭٭٭ شیخ ابوالفضل ۶ محرم سنہ ۹۵۸ھ اسلام شاہ کا عہد تھا ۔ کہ شیخ مبارک کے گھر میں مبارک سلامت کا چرچا ہوا۔ ادب نے آنکھ دکھائی کہ خاموش دیکھو ادب و دانش کا پتلا پردہ شکم سے نکل کر ماں کی گو د میں آن لیٹا۔ باپ نے اپنے استاد کے نام پر بیٹے کا نام ابوالفضل رکھا مگر وہ فضل و کمال میں اس سے کئی آسمان اوپر اٹھ گیا ۔ اور جاہ و جلال کا تو کیا کہنا ہے شیخ مبارک کا حال بھی پڑھ ہی چکے ہو۔ یاد کر لو کہ کیسی تکلیف اور مصیبت میں پرورش پائی ہو گی۔ طالب علمی کا زمانہ افلاس کی نحوست دل کی پریشانی اور دشمنوں کی ایذائیں سہیں کر گزرا۔ مگر وہ لا علاج صدمے اس کے لیے روزنیا سبق اور تعلیم کی مشق تھے۔ جب اس طرح صبر اور برداشت کرتے ہیں۔ اور اس سلامت روی سے رستہ چلتے ہیں۔ تب اکبر جیسے شہنشاہ کی وزارت تک پہنچتے ہیں اس نے مبارک باپ کے دامن میں پل کر جوانی کر رنگ نکالا۔ اور اسی کے چراغ سے چراغ جلا کر قندیل عقل کو روشن کیا۔ اس زمانہ میں مخدوم اور صدر وغیرہ علماء بادشاہی بلکہ خدائی اختیار رکھتے تھے۔ جوں جوں ان کے جابرانہ احکام اور سینہ زور فتوے جاری ہوتے تھے۔ اس کی تحصیل کا ذوق اور مطالعہ کا عرق ریز شوق زیادہ ہوتا تھا۔ اقبال جوش و خروش کر رہا تھا۔ اور حال استقبال کو کھینچتا تھا۔ کہ حریفوں کی فنا میں کیوںدیر کر رہا ہے۔ ابوالفضل نے اکبر نامہ کا دفتر سوم لکھ کر خاتمہ میں اپنی ابتدائی تعلیم کا حال کچھ زیادہ تفصیل سے لکھا ہے ۔ اگرچہ اس میں بہت سی باتیں فضول معلو م ہوں گی۔ لیکن ایسے لوگوں کی ہر بات قابل سننے کے ہے۔ اس واقعہ نویس کے ہاتھوں کو بوسہ دیجیے۔ کہ اس نے جس طرح ہر شخص کے حالات کھلم کھلا لکھے اسی طرح اپنے سفید و سیاہ کو بھی صاف ہی دکھایا۔ انسان آخر انسان ہے۔ اس پر مختلف میں مختلف حالتیںگزرتی ہیں۔ البتہ نیک طبع لوگ اس سے بھی نیکی کا سبق لیتے ہیں۔ دیو طبع انسان صورت پھسلتے ہیں اور دلدل میں پھنس کر رہ جاتے ہیں۔ ابتدائی حالات برس سوابرس کی عمر میں خدا نے کرم کیا۔ کہ صاف باتیں کرنے لگا۔ پانچ برس کا تھا۔ کہ قدرت نے استعداد کی کھڑکی کھول دی۔ ایسی باتیں سمجھ میں آنے لگیں کہ جو اوروں کو نصیب نہیں ہوتیں پندرہ برس کی عمر میں پدر بزرگوار کے خزائن عقل کا خزانچی اور جواہر معانی کاپہرہ دار ہو گیا۔ اور خزانہ پر پائوں جما کر بیٹھ گیا۔ تعلیمی مطالب سے سدا د ل مرجھاتا تھا۔ اور زمانہ کی رسموں سے طبیعت کوسوں بھاگتی تھی۔ اکثر تو کچھ سمجھتا ہی نہ تھا۔ والد اپنے ڈھب سے عقل و دانش کے منتر پھونکتے تھے۔ ہر فن میں ایک رسالہ لکھ کر یاد کرواتے تھے۔ اگرچہ ہوش بڑھتا تھا۔ مگر مکتب علم کا کوئی مطلب دل کو نہ لگتا تھا۔ کبھی تو ذذرا بھی سمجھ میں نہ آتا تھا اور کبھی شبہے رستہ روکتے تھے اور زبان یاوری نہ کرتی تھی کہیں رکا ئو ہکلا دیتا تھا۔ تقریر کا بھی پہلوان تھا۔ مگر بیان نہ کر سکتا تھا۔ لوگوں کے سامنے آنسو نکل پڑتے تھے۔ اور اپنے تئیں آپ ملامت کرتا تھا۔ (اسی دفتر میں ایک اور مقام پر لکھتے ہیں) جو اہل علم کہلاتے ہیں۔ انہیں بے انصاف پایا۔ اس لیے تنہائی اور غربت کو جی چاہتا تھا۔ دن کو مدرسہ میں عقل کا نور پھیلاتا ۔ رات کو ویرانوں میں جاتا۔ کوچہ نامرادی کے دیوانوں کو ڈھونڈتا اور ان مفلس خزانچیوں سسے ہمت کی گدائی کرتا۔ اس عرصہ میں ایک طالب علم سے محبت ہو گئی۔ کچھ عرصہ تک خیال ادھر لگا رہا۔ چند روز گزرے تھے کہ اس کی ہمزبانی اور ہمنشینی کے لیے دل مدرسہ کی طرف کھنچے لگا۔ اچاٹ دل اور اکھڑی ہوئی طبیعت ادھر جھک پڑی قدرت کا طلسمات دیکھو کہ مجھ کو اڑا دیا۔ اور کو لے آئے (گویا میں میں نہ رہا بالکل بدل گیا) ۔ رباعی در دیر شدم ما حضرے آور دند یعنی ز شراب ساغرے آور دند کیفیت اومرا خود بے خود کرد بردند مرائو دیگرے آور دند حکمت کی حقیقتوں نے چاندی کھلا دی۔ جو کتاب دیکھی بھی نہ تھی پڑھنے سے اور زیادہ روشن ہو گئی۔ اگرچہ خاص عطائے الٰہی تھی۔ نعمت نے عرش مقدس سے نزول کیا تھا۔ لیکن پدر بزرگوار نے بڑی مدد کی۔ اور تعلیم کا تار ٹوٹنے نہ دیا۔ کشائش طبع کا بڑا سبب وہی بات ہوئی۔ دس برس تک آپ کہتا رہا۔ اوروں کو سناتا رہا۔ دن رات کی بھی خبر نہ ہوئی۔ معلوم نہ تھا کہ بھوکا ہوں یا پیٹ بھرا ہے۔ خلوت میں ہوں کہ صحبت میں۔ خوشی ہے یا غم ہے نسبت الٰہی اور رابطہ علمی کے سوا کچھ سمجھتا ہی نہ تھا۔ نفسانی دوست حیران ہوتے تھے ۔ کیونکہ دو دو تین تین دن غذا نہ پہنچتی تھی۔ وہ عقل کا بھوکا تھا۔ کچھ پروا نہ ہوتی تھی۔ ان کا اعتقادبڑ ھ گیا کہ دلی ہو گئے میں جواب دیتا تھا کہ تمہیں عادت کے سبب سے تعجب آتاہے ۔ ورنہ دیکھو کہ بیمار کی طبیعت مرض کے مقابلہ میں ہوتی ہے۔ تو کیونکر کھانے سے بے پروا ہوتی ہے۔ اس پر کسی کو تعجب نہیں آتا۔ اسی طرح دل اندر سے کسی کام میں لگ جائے اور سب کچھ بھلا دے تو کیا تعجب ہے۔ بہت کتابیں کہتے سنتے حفظ ہو گئیں علوم کے عالی عالی مطالب کہ پرانے ورقوں میں پڑے پڑے گھس پس گئے تھے۔ صفحہ دل پر روشن ہونے لگے۔ ابھی دل لگی نے وہ پردہ بھی نہ کھولا تھا ۔ اور بچپن کی پستی سے عقل کی بلندی پر بھی نہ چڑھا تھا اسی وقت سے متقدمین پر اعتراض سوجھتے تھے۔ لڑکپن پر نظر کر کے لوگ مانتے نہ تھے میرا دل جھنجھلاتا تھا۔ تجربہ نہ تھا طبیعت میں جوش آتا مگر پی جاتا تھا۔ ابتدائی طالب علمی میں جو اعتراض کہ میں ملا سعد الدین اور میر سید شریف پر کیا کرتا تھا۔ بعضے دوست لکھتے جاتے تھے۔ یکبارگی مطول پر خواجہ ابو القاسم کا حاشیہ آیا۔ اس میں وہ اعتراض موجود پائے۔ سب حیران رہ گئے انکار سے باز آئے اور اور نظر سے دیکھنے لگے اب روشندان کا روزن مل گیا۔ اور معرفت کا دروازہ کھلا۔ ابتدا میں جب میں نے پڑھانا شروع کیا تو حاشیہ اصفہانی کا ایک نسخہ ملا کہ آدھے سے زیادہ صفحے دیمک کھا گئی تھی۔ لوگ مایوس، کہ نکما ہے، میں نے اول گلے سڑے کنارے کتر کر پیوند لگائے۔ صبح نور و ظہور کے وقت بیٹھتا۔ عبارت کی ابتداء انتہا دیکھتا۔ ذرا سوچتا اور ہر جگہ مطلب کھل جاتا۔ اسی کے بموجب مسودہ کر کے عبارت جماتا اور اسے صاف کر دیتا۔ انہیں دنوں میں وہ پوری کتاب بھی مل گئی مقابلہ کیا تو 32 جگہ مترادف لفظوں کا فرق تھا اور تین چار جگہ قریب قریب سب دیکھ کر حیران رہ گئے۔ وہ محبت کی دل لگی جتنی زیادہ ہوتی تھی اتنی ہی روشنی دل کو زیادہ روشن کرتی تھی بیس برس کی عمر میں آزادی کی خوشخبری پہنچی۔ اس سے بھی دل بھر گیا۔ اب پہلا جنون شروع ہوا علوم و فنون آراستگی پر، جوانی کی امنگ کا زور شور، دعوؤں کا دامن پھیلا ہوا۔ دانش و بینش کا آئینہ جہاں نما ہاتھ میں تھانئے جنون کا غل کان میں پہنچنے لگا۔ او رہر کام سے رکنے کے لئے زور کرنے لگا۔ ان دنوں میں شہنشاہ روشن دل نے مجھے یاد فرما کر چھپاؤ کے گوشہ سے گھسیٹا وغیرہ وغیرہ۔ آزاد ابو الفضل نے باپ کے ساتھ دشمنوں کے ہاتھ سے بڑے بڑے صدمے اٹھائے۔ اخیر کا حملہ سب سے زیادہ سخت تھا۔ اس کی کچھ تفصیل شیخ مبارک کے حال میں لکھی گئی ہے ملا کی دوڑ مسجد تک، شیخ مذکور تو قسمت کے دکھ بھر کر پھر اپنی مسجد میں آن بیٹھے۔ اس پیر نورانی کو درباروں سرکاروں کا کبھی شوق نہیں ہوا تھا۔ مگر ہونہار جوانوں کو اقبال نے بیٹھنے نہ دیا۔ ان کے دلوں میں اظہار کمال کا جوش ہوا۔ اور سچ بھی ہے چاند سورج اپنی روشنی کیونکر سمیٹ لیں لعل دیا قوت آب و تاب کو کس طرح پی جائیں چنانچہ 974ھ میں شیخ فیضی باریاب حضور ہوئے 981ھ 20 برس کی عمر تھی کہ ابو الفضل پر بھی خدا کا فضل ہوا۔ اور دیکھو کہ انہوں نے اس عالم میں اس نعمت کو کس سلیقہ کے ساتھ سنبھالا۔ ابو الفضل دربار اکبری میں آتے ہیں اکبری سلطنت پھیلتی جاتی تھی اور سلطنت انتظام اور قانون انتظام کی محتاج تھی۔ خصوصاً اس سبب سے کہ طالب انتظام قدیمی قانون انتظام کو بدلنا اور وسعت دینا چاہتا تھا۔ اور ملک کو فقط تلوار سے پھیلانا مصلحت نہ دیکھتا تھا۔ بلکہ اہل ملک کے ساتھ مل کر تقویت دینا چاہتا تھا۔ جو قوم اور مذہب اور رسم و رواج کل باتوں میں مخالف تھے اس کے علاوہ ترک جو خود اپنی قوم تھی وہ تنگ خیال متعصب اور اس کام کے لئے نا قابل تھے۔ اور ان کی بد نیتی جو باپ دادا کے ساتھ دیکھی تھی اس سے اس کا دل بے اختیار اور بیزار تھا۔ دربار پر مذہبی علماء اور پرانے خیالوں کے امراء چھائے ہوئے تھے۔ نئی بات تو درکنار کوئی مناسب وقت تبدیلی ہوتی۔ تو ذرا سی بات پر چمک اٹھتے تھے اور اس میں بے اختیاری اور بے عزتی سمجھتے تھے ملک پرور بادشاہ نے اسی واسطے ایک مکان عالیشان بنا کر چار ایوان نام رکھا۔ اور علماء اور اہل طریقت اور امراء وغیرہ کے گروہ قرار دے کر رات کو جلسہ مقرر کیا۔ کہ شاید مصلحت وقت اور امر مناسب پر اتفاق رائے پیدا ہو۔ ان لوگوں میں مباحثوں اور مناظروں سے اور آپس کے رشک و حسد سے خود آپس میں جھگڑے پڑنے لگے۔ کسی مسئلہ کا حال ہی نہ کھلتا تھا۔ کہ اصل حقیقت کیا ہے وہ ہر چند ایک ایک کو ٹٹولتا تھا۔ اس عرصہ میں ملا صاحب پہنچفے۔ انہوں نے جوانی کے جوش ناموری اور ترقی کے شوق میں اکثروں کو توڑا۔ اور ایسے آثار دکھلائے جس سے معلوم ہوا کہ نئے دماغوں میں نئے خیال پیدا ہونے کی امید ہو سکتی ہے اس نوجوان کے خیالات کا چرچا بھی پھیل رہا تھا اور جس چشمہ سے ملا صاحب نے سیرابی پائی تھی وہ اسی کی مچھلی تھی بڑا بھائی خود دربار میں موجود تھا اقبال نے اسے دربار کی طرف جذب مقناطیس کے زور سے کھینچا۔ اگرچہ اس میدان میں اس کے موروثی خونخواروں کا ہجوم تھا۔ مگر یہ بھی موت سے کشتیاں لڑتا۔ قسمت کی نحوستوں کو ریلتا دھکیلتا۔ دربار میں جا ہی پہنچا۔ خدا جانے فیضی نے کسی موقع پر عرض کی یا کسی سے کہلوایا غرض چراغ روشن ہوا چنانچہ خود اکبر نامہ بھی لکھا ہے اور اپنے ابتدائی خیالات کا نئے رنگ سے نقشہ کھینچا ہے۔ 981ھ انیسواں سال جلوس تھا کہ اس نگار نامہ کے نقشبند ابو الفضل مبارک نے درگاہ مقدس میں سر جھکا کر رتبہ کو بلند کیا۔ عالم خلوت کے پیٹ سے نکل کر پانچ برس میں رسمی تمیز حاصل ہوئی۔ صورت و معنی کے باپ نے تربیت کی نظر سے دیکھا۔ 15 برس کی عمر میں فنون حکمی اور علوم نقلی سے آگاہ ہو گیا۔ اگرچہ انہوں نے دانش کا دروازہ کھول دیا اور دربار حکمت میں بار ملی مگر بخت کی بے یاری سے خود بینی اور خود آرائی میں تھا۔ چند روز رونق اور بھیڑ بھاڑ پیدا کرنے میں کوشش رہی طالبان وافش کے ہجوم نے غور کا سرمایہ بہت بڑھایا اور اس فرقہ کو بے تمیز اور بے انصاف پایا اس لئے خیال ہوا کہ انتہائی اختیار کیجئے اور غریب الوطن ہو کر رہیے دانایان ظاہر بیں کا اختلاف اور تقلیدی صورت پرستوں کا رواج تھا میں حیرت کے کوچہ میں حیران کھڑا دیکھتا تھا۔ چپ رہ نہ سکتا تھا بولنے کی طاقت نہ تھی پدر بزرگوار کی نصیحتیں صحرائے جنون میں نہ جانے دیتی تھیں مگر پریشانی خاطر کا پورا علاج بھی نہ ہوتا تھا کبھی خطہ خطا کے داناؤں کی طرف دل کھینچتا۔ کبھی کوہ لبنان کے فرناضوں کی طرف جھکتا۔ کبھی تبت کے لامہ لوگوں کیلئے تڑپتا۔ کبھی د کہتا کہ پادریان پرتگال کی رفاقت کا دم بھروں کبھی یہ کہ موبدان فارس اور ژند واستا کے رموز دانوں میں بیٹھ کر آتش اضطراب کو بجھاؤں کیونکہ سیانوں اور دیوانوں دونوں سے جی بیزار ہو گیا تھا وغیرہ وغیرہ۔ اس سحر بیان نے کئی جگہ اپنا حال لکھا ہے مگر جہاں ذکر آ گیا ہے نئے ہی رنگ سے طلسمات باندھا ہے آزاد اس سے زیادہ متحیر ہے نہ سب کو لکھ سکتا ہے نہ چھوڑ سکتا ہے۔ شیخ موصوف کی تحریروں کا خلاصہ یہ ہے کہ نصیبے نے یاوری کی اور حضور بادشاہی میں علم و فضل کا مذکور ہوا۔ ادھر سے طلب ہوئی مگر میرا دل نہ چاہتا تھا برادران گرامی اور دوستان خیر اندیش ہمزبان ہو گئے کہ بادشاہ صورت و معنی کا دربار ہے ضرور حاضر ہونا چاہیے یہاں دل کا جنون تعلق کی زنجیریں توڑے ڈالتا تھا۔ خدائے مجازی (والد بزرگوار) نے پردہ کھول کر سمجھایا کہ اورنگ نشین اقبال (اکبر) کے کمالات حقیقی کو کوئی نہیں جانتا کہ وہ دین و دنیا کا مجمع البحرین اور صورت و معنی کا مشرق انوار ہے جو عقدے دل میں پڑے ہیں وہیں جا کر کھلیں گے۔ ان کی خوشی کو اپنی مرضی پر مقدم سمجھا۔ دنیا کی دولت سے گنجینہ دار معنی کا (میرا) ہاتھ خالی تھا ایۃ الکرسی کی تفسیر لکھی بادشاہ آگرہ میں آئے ہوئے تھے کورفش کی سعادت حاصل کی اوراق مذکور نے تہیدستی کا غدرادا کیا وہ حسن قبول سے منظور ہوا۔ میں نے دیکھ اکہ اکسیر ملازمت سے دل کی سوزش کو تسکین ہو گئی۔ اور ذات قدمی کی محبت نے دل کو دبوچ لیا۔ بنگالہ کی مہم در پیش تھی اشغال سلطنت کے سبب سے گمنام گوشہ نشین کے حال پر توجہ نہ ہوئی وہ چلے گئے میں رہ گیا۔ وہاں سے بھی بھائی کے خطوں میں لکھا آتا تھا۔ کہ بادشاہ تجھے یاد کیا کرتے ہیں میں نے سورہ 1؎ فتح کی تفسیر لکھنی شروع کر دی جب پٹنہ فتح کر کے پھرے اور اجمیر گئے تو معلوم ہوا کہ وہاں بھی یاد فرمایا اقبال کے نشان فتح پور میں آئے تو والد بزرگوار سے رخصت لے کر گیا۔ بھائی کے پاس اترا دوسرے دن مسجد جامع میں کہ شہنشاہی عمارت ہے جا کر حاضر ہوا۔ جب بادشاہ آئے تو میں نے دور سے کورنش کر کے نور سمیٹا شہر یار جوہر شناس نے خود نظر دوربین سے دیکھ کر بلایا زمانہ اور اہل زمانہ کے حال کچھ کچھ معلوم تھے اور پلہ بھی دور کا تھا جانا کہ شاید کسی ہمنام کو بلایا ہو جب معلوم ہوا کہ میری ہی قسمت نے 1؎ اس پیر کہن سال اور اس کے جوانوں کے انداز دیکھو کہ کوئی ممکنہ لطافت اور نزاکت سے خالی تھا پہلی دفعہ جو پائے تخت میں ملازمت ہوئی تو آیۃ الکرسی کی تفسیر نذر گزاری تھی اس میں یہ نکتہ رکھا تھا کہ آیۃ الکرسی حفظ بلیات کیلئے پڑھا کرتے تھے حضور مہم پر چلے ہیں حفظ الٰہی شامل حال رہے فتح پور میں سورہ فتح کی تفسیر نذر دی اس میں یہ لطیفہ تھا کہ فتح مبارک ہو اور یہ فتوحات مشرقی کا دیباچہ ہے۔ یاوری کی ہے تو دوڑا۔ اور آستان جلال پر پیشانی رکھدی۔ اس دین اور دنیا کے مجموعے کچھ دیر تک مجھ سے باتیں کیں سورہ فتح کی تفسیر میں نے مرتب کر لی تھی نذر گذرانی بزم اقدس کے خواصوں سے میرے وہ وہ حال بیان کئے کہ مجھے بھی معلوم نہ تھے اس پر بھی دو برس تک میری طبیعت اچاٹ تھی اور دل کا جنون تنہائی کی طرف کھینچتا تھا مگر جان کی گردن میں کئی کمندیں پڑ گئیں مرحمت پر مرحمت بڑھتی جاتی تھی نا چیز سے ایک چیز کر دیا اور مدارج تربیت پایہ بپایہ بڑھتے گئے یہاں تک کہ بیت المقدس مقصود کی کنجی ہاتھ آ گئی۔ غرض ابو الفضل حاضر دربار ہوئے تو مزاج شناسی اور ادب خدمت اور اطاعت فرمان اور علم و لیاقت اور ظرافت با متانت سے اس طرح اکبر کا دل ہاتھ میں لیا۔ کہ ہر وقت روئے سخن انہیں دو نو بھائیوں کی طرف ہوتا تھا۔ مخدوم و صدر کے گھر میں ماتم پڑ گئے۔ اور حق بجانب تھا کیونکہ وہ شیخ مبارک کے فضل و کمال کو اگر دبا سکتے تھے تو حکومت دربار کے زور سے اب یہ میدان بھی ہاتھ سے گیا اور چند ہی روز میں اس کے نوجوان لڑکے مقدمات دربار اور مہمات سلطنت میں شامل ہونے لگے۔ ملا صاحب کا انداز بیان بھی ایک لذت رکھتا ہے ذرا دیکھئے اس معاملہ کو کیا مزے سے بیان کرتے ہیں اجمیر سے پھر کر 982 ھ میں بمقام فتح پور تھے خانقاہ کے پاس بادشاہ نے عبادت خانہ مرتب کیا کہ 4 ایوان پر مشتمل تھا اس کی تفصیل بہت طویل ہے کسی اور تقریب میں لکھی جائے گی انہیں دنوں شیخ ابو الفضل شیخ مبارک ناگوری کا سپوت بیٹا جسے علامی کہتے ہیں اور جس نے جہان میں عقل و دانش کا غلغلہ ڈال دیا ہے اور صباحیوں کے عقیدوں کا چراغ روشن کیا ہے کہ خود صبح روشن میں چراغ جلاتا تھا اور بموجب قول عرب کے کہ من تخالف تصرف جس نے مخالفت کی اسی کا تصرف ہو گیا اس نے تمام مذہبوں کی مخالفت کو اپنا فرض سمجھ لیا ہے اور اس کام پر کس کر کمر باندھی ہے غرض درگاہ میں آ کر ملازمت بادشاہی کو اپنی طبیعت میں داخل کر لیا تفسیر آیۃ الکرسی نذر گذرانی اور تفسیر اکبری تاریخ ہوئی۔ اور اس میں بہت سے دقائق اور نکات قرآنی درج تھے اور کہتے ہیں کہ باپ کی تصنیف تھی بادشاہ نے ملایان فرعون صفت کے کان ملنے کے لئے (جس کی مجھ سے مراد ہے اس کو خاطر خواہ پایا) پھر شیخ مبارک اور اس کے بیٹوں پو جودھواں دھار مصیبتیں مخدوم اور صدر کے ہاتھوں گذری تھیں ان سے چند سطریں سیاہ کر کے ملا صاحب لکھتے ہیں پھر ان کا دور دورا ہو گیا اور شیخ ابو الفضل نے بادشاہ کی حمایت اور زور خدمت اور زمانہ سازی اور بے دیانتی اور مزاج شناسی اور بے انتہا خوشامد سے جس گروہ نے چغلیاں کھائیں اور ناروا کوششیں کی تھیں انہیں بری طرح رسوا کیا۔ ان پرانے گنبدوں کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دیا۔ بلکہ تمام بندگان خدا مشائخ و علما عابد و صلحا یتیم و ضعفا سب کے وظیفے اور مدد معاش کاٹ لینے کا باعث وہی ہوا۔ پہلے زبان حال و مقال سے کہا کرتا تھا۔ رباعی یا رب بجہانیاں ولیلے بفرست فرعون صفت چوپشہ پیلے بفرست فرعون و شاں دست بر آور وستند موسیٰ و عصاؤ رود نیلے بفرست جب اس طریقے پر فساد اٹھنے لگے تو اکثر یہ رباعی اس کی زبان پر تھی رباعی آتش بد دست خویش در خرمن خویش چوں خود زدہ ام چہ نالم اد دشمن خویش کس دشمن من نیست منم دشمن خویش اے وائے من دوست من و دامن خویش بحث کے وقت اگر کسی مجتہد کا کلام سند میں پیش کرتے تو کہتا کہ فلانے حلوائی فلانے موچی، چلانے چرم گر کے قول پر ہم سے حجت کرتے ہو۔ بات تو یہ ہے کہ تمام مشائخ و علماء کا انکار اسے مبارک ہوا آزاد یہ رشک ان پر ملا صاحب ہی کو نہیں ہوا کہ ہم سبق اور ہم عمر تھے بڑے بڑے بڈھے اور صاحب کمال ارکان دربار تڑپتے تھے اور رہ جاتے تھے۔ اگر ہم حاکم کی مزاج شناسی کا سبق پڑھنا چاہیں تو بھی ایک نکتہ کافی ہے کہ ابو الفضل اور ملا صاحب موصوف آگے پیچھے دربار میں پہنچے تھے بادشاہ کی نظر کسی پر کم نہ تھی ملائے موصوف کو بیستی کا منصب عطا کیا اور خرچ کو روپیہ بھی دیا کہ گھوڑے پیش کر کے داغ کرا دو انہوں نے قبول نہ کیا ابو الفضل بھی ایک ملائے مسجد نشین کے بیٹے تھے اور مسجد سے نکل کر دربار میں پہنچے تھے انہوں نے فوراً تعمیل کی اور جو خدمت ہوئی بجا لائے وہ کیا سے کیا ہو گیا۔ یہ بیچارے ملا کے ملا ہی رہے (ذرا دیکھو ملا صاحب کس مزے سے اس مصیبت کا رونا روتے ہیں) ابو الفضل انشا پردازی کا بادشاہ تھا اور اکبر نے بھی پرکھ لیا تھا کہ اس کا دماغ بہ نسبت ہاتھوں کے بہت خوب لڑیگا۔ بلکہ ہاتھ میں قلم تلوار سے زیادہ کاٹ کریگا۔ اس لئے دار الانشا کی خدمت اسے سپرد کی اور مہمات سلطنت کی تاریخ بھی اس کے اہتمام میں تھی اس کے علاوہ ہر حکم کو بڑی احتیاط اور عرقریزی سے سر انجام کرتا تھا چنانچہ رفتہ رفتہ بادشاہ کے دل میں بڑا اعتماد اور اعتبار پیدا کیا اور ہر طرح کے صلاح و مشورے میں اس کی رائے ضروری ہو گئی یہاں تک کہ پیٹ میں درد ہوتا تو حکیم بھی ان کی صلاح سے مشخص ہوتا تھا پھنسی پر مرہم لگتا تھا تو ان کی تجویز نسخہ میں شامل ہوتی تھی ابو الفضل نے اب نلائی کے کوچہ سے گھوڑا دوڑا کر امرائے منصبداران کے میدان میں جھنڈا گاڑا۔ 993ھ کے جشن میں لکھتے ہیں کہ فلاں فلاں امرائے منصبدار کو اس اس خدمت کے صلہ میں یہ یہ منصب عطا ہوئے راقم شگر فنامہ کیلئے کسی خدمت نے سفارش نہ کی حضور سے ہزاری منصب عطا ہو گیا امید ہے کہ عمدہ خدمتیں سعادت کے چہرہ کو روشن رکیں۔ 997ھ میں بادشاہ کے ساتھ لاہور میں تھے ان کی والدہ کا انتقال ہو گیا نہایت رنج ہوا قلق کی کیفیت اس سے معلوم کر لو کہ بیقرار ہوتے تھے اور بار بار یہ شعر پڑھتے تھے کہ عرفی نے اپنے موقع پر کہا تھا شعر خوں کہ از مہر تو شد شیرو بہ طفلی خوردم باز آں شد داز دیدہ بروں مے آید خود لکھتے ہیں آج اقبال نامہ کا مصور (میں) ذرا بیہوش ہو گیا اور غمہائے گوناگوں میں ڈوب گیا خبر پہنچی کہ بانوے خاندان خاتون و دومان عصمت کی ماں مہر اندوز جہان نا پائدار سے عالم علوی کو چلی گئی۔ چوں ما در من بزید خاک است گر خاک بسر کنم چر باک است دانم کہ بدیں شغب فزائی زانجا کہ تو رفتہ نیائی لیکن چہ کنم کہنا شکیبم خود رابہ بہانہ مے فریبم شہر یار غمگین نواز نے آ کر سایہ عاطفت ڈالا اور زبان گوہر بار پر یہ لفظ گذرے اگر سب اہل جہان پانداری کا نقش رکھتے اور ایک کے سوا کوئی راہ نیستی میں نہ جاتا۔ تو بھی اس کے دوستوں کو رضا و تسلیم کے سوا چارہ نہ تھا۔ جب اس کارواں سرا میں کوئی دیر تک نہ ٹھہریگا۔ تو خیال کرو۔ کہ بے صبری کی ملامت کا کیا اندازہ کر سکیں اس گفتار دلاویز سے دل ہوش میں آ گیا اور جو مناسب وقت تھا اس میں مصروف ہو گیا۔ 999ھ میں خود لکھتے ہیں آج فرزند عبدالرحمن کے گھر میں روشن ستارہ نے روشنی بڑھائی۔ نشاط گوناگوں کا ہنگامہ ہوا۔ گیتی خداوند (اکبر) نے پشوتن نام رکھا۔ امید ہے کہ فرخی وفیروزی بڑھائے اور شائستگی عمر دراز سے پیوند پائے۔ اسی سنہ میں لکھتے ہیں کہ شاہزادہ سلیم (جہانگیر) کے خرد سال بیٹے خسرو کی بسم اللہ کا دربار ہوا۔ اول بادشاہ وحدت بخش درگاہ الٰہی میں عجز و انکسار بجا لائے۔ اور کہا کہو الف پھر انہیں حکم دیا۔ کہ روز تھوڑی دیر بیٹھ کر پڑھا دیا کرو۔ انہوں نے چند روز کے بعد چھوٹے بھائی شیخ ابو الخیر کے سپرد کر دیا۔ 1000ھ میں لکھتے ہیں کہ اقبال کے نقش طراز کو دو ہزاری منصب عطا ہوا۔ امید ہے کہ خدا متگذاری اپنی زبان سے اس کا شکریہ ادا کرے۔ اور حضور کی جوہر شناسی نزدیک و دور آ شکارا ہو۔ 1004/1595ھ میں فیضی کی تصنیفات کو دیکھا کہ اجزائے پریشان تھے بڑے بھائی کے جگر کے ٹکڑے اس بدحالی میں دیکھے نہ گئے۔ ان کی ترتیب پر متوجہ ہوئے 1006/1597-96 میں ان کی ترتیب سے فارغ ہوا۔ دو برس اس کام میں صرف ہوئے اس عرصہ میں دو ہزار پانصدی کے عہدے پر سرفراز ہوئے۔ چنانچہ آئین اکبری میں جو منصبداروں کی فہرست لکھ ہے اس میں اپنا عہدہ بھی لکھا ہے۔ ابو الفضل بڑے سرتے اور سیانے تھے اور یہ بھی جانتے تھے کہ اکبر کے سوا تمام دربار میں ایک بھی ان کا دل سے خیر خواہ نہیں ہے مگر ایک چال چو کے اور بہت چوکے شیخ مبارک نے قرآن مجید کی تفسیر لکھی تھی۔ انہوں نے اس کی نقلیں تیار کیں۔ اور ایران توران اور ملک روم وغیرہ میں بھیجیں۔ حاسد ہر وقت تاک لگائے بیٹھے رہتے تھے۔ انہوں نے کدا جانے کس پیرایہ میں اس مضمون کو اکبر کے سامنے ظاہر کیا۔ کہ اسے ناگوار گذرا۔ چغل خوروں کی باتیں کس نے سنی ہیں کہتا کہ کیا کیا موتی پر دئیے ہوں گے شاید یہ کہا ہو کہ حضور کے سامنے یہ اہل دین کو مقلد کہتا ہے اور تقلید کی قباحتیں اور دینیات کی خرابیاں ظاہر کرتا ہے اور دل سے اعتقاد مفسرانہ رکھتا ہے یا یہ کہا ہو کہ حضور سے کہتا ہے میں آپ کے سوا کسی کو نہیں جانتا۔ بلکہ حضور کو صاحب شریعت اور صاحب ملت اعتقاد کرتا ہے اور باطن میں شاید یہ کہا ہو کہ تفسیر مذکور کے خطبے میں حضور کا نام داخل نہیں کیا شاید سلاطین مذکورہ کے دربار میں رستہ نکالتا ہو۔ غرض جو کچھ کہا اس نے بادشاہ کے دل میں برا اثر پیدا کیا۔ ایک تاریخ میں لکھا ہے کہ جہانگیر نے یہ ماجرا باپ کے گوش گذار کیا تھا۔ ابو الفضل بڑے ادا شناس تھے اس بات کا بڑا رنج ظاہر کیا جیسے کوئی ماتم زدہ سوگ لے کر بیٹھتا ہے۔ اس طرح گھر میں بیٹھ رہے۔ دربار میں آنا چھوڑ دیا ملنا جلنا ترک کر کے اپنے بیگانے کی آمد و رفت بند کر دی بادشاہ کو اس حال کی خبر ہوئی۔ اس لئے علو حوصلہ سے کام لیا۔ اور کہلا بھیجا کہ آ کر اپنی خدمتیں سنبھالو۔ اس اثنا میں بہت پیغام سلام ہوئے آخر خود لکھتے ہیں کہ میں آگاہ دلی کے رستہ پر بیٹھا اور سمجھا کہ بادشاہ دوربین کو کم فہمی کی تہمت کیا لگاتا ہے نا فہمی تو تیری ہے ایسی باتیں دشمنوں کی آرزوئیں پوری کرتی ہیں؟ کیا خیال آ گیا کہ الٹا چلنے لگا؟ اور بے وقت داد و بیداد کرتا ہے۔ وغیرہ وغیرہ غرض پھر جو بادشاہ نے بلایا تو پہلے نقش مٹا کر درگاہ والا میں گئے اور عواطف گوناگون نے غموں سے سبکدوش کر دیا۔ 1005ھ میں لکھتے ہیں کشمیر کو جاتے ہوئے رجوڑی میں مقام ہوا شاہزادہ سلیم (جہانگیر) بے اجازت حاضر درگاہ ہوا رستہ میں کچھ بے انتظامی ہو گئی تھی (ایسا اکثر ہوتا تھا) چند روز کورنش سے محروم رکھ کر عتاب کی ادب گاہ میں رکھا (کہ پیچھے ہٹ کر ڈیرہ کرو) اس داد گری کی تحقیق میں انہیں بھی شامل کیا اور شاہزادہ کی اظہار شرمساری سے خطا معاف ہوئی۔ یہ تو ظاہر ہے کہ وہ اکبر کا مصاحب، مشورہ کار، صاحب اعتبار، میر منشی، وقائع نگار، واضع قوانین صاحب دیوان بلکہ اس کی زبان نہیں نہیں اس کی عقل کی کنجی یا یہ کہو کہ سکندر کے سامنے ارسطو تھا اور بان سے لوگ کچھ ہی کہیں اگر پوچھیں کہ وہ ان رتبوں کی لیاقت رکھتا تھا یا نہیں تو غیب سے آواز آئیگی کہ اس کا رتبہ ان سے بہت بلند تھا اس کے احکام کے طرز بیان اور امرا کے کاروبار پر اصلاحیں اور ان کی جانفشانی میں ہمیشہ کوتاہیاں جتانا بھی غضب تھیں۔ کہنے والے ضرور کہتے ہونگے۔ اور بے خبر اب بھی سمجھتے ہونگے کہ اکبر کے پاس بیٹھ کر باتوں کے طوطے مینا بناتے تھے عین معرکوں کے نازک وقتوں پر کام کا سر انجام دینا کچھ اور بات ہے اگر خود جنگ کے میدانوں میں ہوتے تو شیخ صاحب کو معلوم ہوتا کہ قدم قدم پر کیا کیا مشکلیں پیش آتی تھیں یہ سب سچ لیکن اس میں بھی شک نہیں کہ جب یہ پہاڑ خود اس کے سر پر آن پڑا۔ تو اسے انتہائے مردانگی اور نہایت خوش اسلوبی سے سنبھالا دیکھنے والے حیران تھے کہ ایک ملائے مسجد نشین کا بیٹا بادشاہت کے بوجھ اٹھائے چلا جاتا ہے اور کس خوبصورتی سے جاتا ہے میں مختصر طور پر اس کی کاروانی کے چند نمونے دکھاتاہوں۔ 1006ھ میں اس کی ترقی کے اندازوں نے چال بدلی دکن کے معاملے بہت پیچیدہ ہو گئے۔ اس مہم کو اکبر نے شاہزادہ مراد کے نام پر با مراد کیا تھا اور بہت سے تجربہ کار سپہ سالار اور نامور سردار فوجیں دے کر ساتھ کئے تھے شاہزادہ آخر نوجوان لڑکا تھا۔ ایسے کہنہ عمل سپہ سالاروں کا دبانا اس کا کام نہ تھا ایک کی صلاح پر کام کرتا تھا دو بر خلاف ہو کر بجائے مدد کے اس کی محنت کو برباد کرتے تھے سب سے زیادہ مصیبت یہ تھی کہ شاہزادہ کو شراب کی لت پڑ گئی تھی اس نے بالکل بد حال کر دیا تھا۔ اس لئے زیادہ تر کاروبار ابتر ہو گئے تھے جب یہ خبریں متواتر دربار میں پہنچیں تو اکبر بہت متردد ہوا۔ اور سوا اس کے چارہ نہ ہوا۔ کہ ابو الفضل کو جس کی جدائی کسی طرح گوارا نہ تھی۔ دربار سے جدا کرے۔ اکبر اقبال کا لشکر لئے پانچ برس سے پنجاب میں پھرتا تھا اور لاہور میں چھاؤنی چھائی تھی نتیجے اس کے بھی اچھے حاصل ہو گئے تھے کیونکہ کشمیر فتح ہو گیا یوسف زئی وغیرہ علاقہ سرحد کی مہمیں حسب و خواہ سر انجام ہو گئیں۔ عبداللہ خان ازبک کے رخنے بند ہوتے رہے۔ اور وہ ملک گیر بادشاہ 1005ھ میں نا خلف بیٹے کی بد اعمالی سے راہی ملک بقا ہوا۔ اس کے ملک کا انتظام برہم ہو گیا اس وقت اکبر کو ملک موروثی پر قبضہ کرنے کیلئے اس سے بہتر موقع نہ تھا۔ لیکن برہان الملک کی تباہی مملکت کے سبب سے دکن کا دستر خوان بھی سامنے تیار تھا اور مدت سے امراء اور افواج کی آمد و رفت جاری تھی مراد کی کیفیت احوال سے اسے معلوم ہو گیا۔ کہ دکن کی سپاہ سپہ سالار سے خالی ہوا چاہتی ہے۔ دو نو بیٹوں کو بلایا۔ اس کا ارادہ یہ تھا کہ سلیم کو فوج دے کر ترکستان کی مہم پر بھیجے وہ شرابی کبابی لڑکا بد مست ہو رہا تھا دانیال کی خبر لگی کہ وہ الہ آباد سے بھی آگے نکل گیا ہے اور اس کا ارادہ اچھا نہیں معلوم ہوتا ناچار خود لاہور سے نکلا کہ اسی کو ساتھ لیتا ہوا احمد نگر کو جائے اور دکن سے فارغ ہو کر تو ران کی مہم کا بندوبست کرے۔ اکبر کو ابو الفضل کی نیک نیتی اور عقل و تدبیر پر ایسا اعتبار تھا کہ اس کے کہے کو اپنا کہا سمجھتا تھا اور جس معاملہ میں یہ کسی سے اقرار کرتا تھا اسے اکبر اپنی زبان کا اقرار سمجھتا تھا ان باتوں کی تصدیق اس عبارت سے ہوتی ہے جو اس نے شاہزادہ دانیال کو اپنی عرضداشت میں لکھی ہے قبلہ ابو الفضل من مطالعہ کردہ چنیں یافتہ ام کہ بہ مہم دکن یا توردی یا من والا بہیچ صورت انجام کار صورت پذیر نیست و نخواہد شد ہر گاہ تو روی یقین است کہ شاہزادہ از گفتن تو بیروں نخواہد بود تاتوباشی بد یگرے مصلحت نخواہد کرد۔ و سخن ہر کوتاہ حوصلہ کم اندیش بے شعور ہیولا نخواہد گوش کرد۔ مناسب دولت آنست کہ بتاریخ غرہ ماہ پیشخانہ بکشی در ہشتم ماہ راہی شوی بندہ بعرض اقدس رسانید کہ گو سفند بکار قربانی مے آید یا بکار بریانی دیگر چہ چیزاست خوب است ہر گاہ کہ قبلہ چنیں میفرمانید مرداریں چہ عذرا است غرض1007ھ میں شیخ کو سلطان مراد کے لانے کا حکم ہوا۔ اور فرمایا کہ اگر مہم دکن کے امرا اس ملک کے رکھنے کا ذمہ لیں تو شاہزادہ کے ساتھ چلے آؤ۔ ورنہ شہزادہ کو روانہ کر دو۔ خود وہیں رہو۔ آپس میں اتفاق رکھو۔ اور مرزا شاہرخ کے ماتحت رہنے کی سب کو ہدایت کرو۔ مرزا کو بھی علم و نقارہ دیکر مالوہ کو رخصت لیا۔ کہ اس کی جاگیر تھی وہاں سے سپاہ کا سامان کرے اور جب دکن میں بلائیں جھٹ جا پہنچے۔ شیخ برہان پور کے پاس پہنچے بہادر خاں فرمانروائے خاندیس آسیر کے قلعہ سے اتر کر چار کوس لینے آیا۔ کمال آداب سے فرمان و خلعت لیکر سجود و عجز بجا لایا۔ انہیں ٹھیرانا چاہا۔ مگر یہ نہ رکے اور سوار ہو کر برہان پور جا اترے۔ بہادر خاں وہیں پہنچا۔ انہوں نے بہت سی تلخ نما شیریں اثر باتیں کہہ کر مصلحت کا رستہ دکھایا کہ فوج کشی میں شامل ہو اس نے آسان سی بات کے لئے مشکل حیلے حوالے پیش کئے البتہ کبیر خاں اپنے بیٹے کو دو ہزار فوج دے کر روانہ کر دیا۔ انہیں گھر لے جانا چاہا کہ ضیافت کرے انہوں نے کہا تم ساتھ چلتے تو ہم بھی چلتے اس نے بہت سے تحائف پیش کئے ابو الفضل کو باتیں بتانی کون سکھائے۔ ایسے طوطے مینا اڑائے کہ اس کے ہوش اڑ گئے۔ وہ آسیر کو چلا گیا اور یہ آگے بڑھ گئے جو ناز و دنیاز کا زور اس پر دکھاتے بجا تھا کہ اس کے چچا خداوند خاں سے ان کی بہن بیاہی ہوئی تھی۔ اور راجی علیخاں اس کا باپ دربار اکبری میں پورا نیاز و اخلاص رکھتا تھا چنانچہ سہیل خاں دکنی کی مہم میں خان خاناں کی رفاقت میں موجود تھا۔ اور کمال مردانگی کے ساتھ سر میدان مارا گیا۔ خود ابو الفضل لکھتے ہیں کہ بہت سے امراء کو میرے لیے اس خدمت کا نامزد ہونا گوارا نہ تھا انہوں نے متفق ہو کر ایسا پیچ مار اکہ ان کی دمبازیوں سے پرانے پرانے رفیق مجھ سے الگ ہو گئے ناچار ہو کر کئی سپاہ کا بندوبست کیا۔ نصیبہ مددگار تھا۔ بہت لشکر جمع ہوگیا۔ بد خواہوں نے علامت کی جالی لگا کر مجھ سے کہا کہ کیا کرتے ہو اس میں خطا ہے میں دست بردارانہ ہوا وہ شورش کی امید میں آنکھیں کھولے ہی رہے۔ کہ میں شاہزادہ لی چھاؤنی سے 30 کوس پر جا پہنچا۔ یہاں قاصدان تیز رفتار مرزا یوسف خاں وغیرہ شاہزادہ کے لشکر سے خطوط لے کر پہنچے کہ عجب بیماری نے گھیر لیا ہے چھڑے یہاں پہنچو شاید حکما کے اول بدل سے کچھ فائدہ ہو اور اعلیٰ ادنیٰ تباہی سے بچ جائیں اگرچہ بزرگان درگاہ کی طرف سے دل کہلایا ہوا تھا۔ اور ہمراہی بھی روکتے تھے۔ مگر میں سب کو شیطانوں کے وسوسے سمجھا۔ اور پھرتی کو تیز کیا۔ سارا فکر یہی تھا۔ کہ زندگی دلی نعمت کے کام میں کھپادوں اور زبانی اقبال مندی کو کار گذاری سے دکھا دوں۔ دیول گاؤں سے اور تیز ہو گیا شام ہوتے جا پہنچا اور وہ دیکھا کہ کوئی نہ دیکھے کام علاج سے گذر چکا تھا گردا گرد انبوہ درا انبوہ آدمی آوارہ سرداروں کو یہ خیال کہ شہزادہ کوشاہ پور لے کر پھر چلو۔ میں نے کہا اس عالم میں چھوٹے بڑے شکستہ دل ہو رہے ہیں عجب بلوہ ہو رہا ہے غنیم پاس ملک بیگانہ پھر چلنا گویا آفت کا شکار ہونا ہے گفتگو میں اس گلدستہ (شاہزادے) کی پریشانی زیادہ بڑھ گئی حالت بدحال ہوئی اور شاہزادہ جاں بحق ہوا کچھ لوگ بد نیتی سے کچھ اسباب سنبھالنے میں بعضے بال بچوں کی حفاظت میں الگ ہو گئے مدد الٰہی سے اس شورش میں دل نہ ہارا جو کچھ کرنا چاہیے تھا اس کے سر انجام میں لگ گیا جنازہ کو عورات سمیت شاہپور بھیج دیا۔ا ور اس مسافر کو وہیں خاک میں امانت رکھا۔ بعض اشخاص پرانی چھاؤنی سے نکل کر فتنہ انگیزی کرنے لگے جتنی فہمائش ہوئی اتنی نخوت زیادہ ہوئی اس عرصہ میں میری سپاہ جو پیچھے رہ گئی تھی آن پہنچی یہ تین ہزار سے زیادہ تھی اب میری بات کی اور بھی چمک ہوئی جو ٹیڑھے چلتے تھے اور صلح سے لڑتے تھے وہ ماننے کی بات پر کان دھرنے لگے۔ مگر چھوٹے سے بڑے تک کو یہی خیال تھا کہ پھر چلیں منعم خاں کے مرنے کی بنگالہ کے بغاوت کی شہاب الدین احمد خاں کے گجرات سے نکل آنے کی اور اس ملک کے فتنہ و فساد کی باتیں الگ الگ رنگ سے سنائیں میری رجوع خاص درگاہ الٰہی میں تھی اقبال بادشاہی کے نور سے آنکھ روشن تھی اس لئے جو جہان کو پسند تھی مجھے بری لگتی تھی بہت سے بد نیت جدا ہو گئے میں نے کار ساز حقیقی کی طرف دل کا رخ کیا۔ اور آگے ہی بڑھنے کا خیال رہا۔ فتح دکن کے لئے نشان بڑھایا اس بڑھنے سے دلوں میں اور ہی زور آ گئے سرحد کے لوگوں کو شکر گذار کر ہی رکھا تھا اور انہیں اور اس ملک کے اکثر نگاہبانوں کو فہمائش کے خطوط لکھے تنگدستوں کے ہاتھ روکے۔ شہزادہ کے خزانہ میں سے جو کچھ حضور میں بھیجنے کے قابل نہ تھا اور جو اپنے ساتھ تھا اور جو قرض مل سکا سب نچھاور کیا تھوڑے عرصہ میں جو لوگ چلے گئے تھے پھر آئے اور کاروبار کا ہنگامہ گرم ہو گیا۔ شہزادے کے کل علاقہ کا انتظام اچھی طرح ہو گیا۔ البتہ ناسک کا راستہ خراب اور عرصہ دور کا خبر دیر میں پہنچتی تھی وہ رہ گیا کیونکہ جب شہزادہ کے مرنے کی خبر پہنچی تو وہی کار پرداز ملک کا تھا نا امیدی نے فوج کو تتر بتر کر دیا جو لوگ میں نے بھیجے انہوں نے کم ہمتی کی جو ملک نکل گیا تھا وہ تو نہ آ سکا البتہ اور اکثر مضافات علاقہ میں زیادہ ہو گئے (اکبر کے اقبال نے آ کر اس واقعہ کی پیش گوئی کر دی ہو گی جو اس نے پہلے سے شیخ کو بھیج دیا اگر یہ نہ جا پہنچتا اور شہزادہ مر جاتا تو تمام فوج تباہ ہو جاتی۔ ملکوں میں رسوائی ہوتی۔ اور ایسی مشکلیں پیش آتیں کہ برسوں میں بھی ملک نہ سنبھلتا) درگاہ والا کے دمسازوں نے میرے عرائض نہ سنائے اور ایسی سرگذشت کو (شہزادہ کا مرنا) بد خیالی سے چھپایا بادشاہ کو حال معلوم ہو جاتا تو فوج اور خزانہ فوراً روانہ کرتا۔ میں تو درگاہ الٰہی میں عرضکر رہا تھا اور گیتی خداوند (اکبر) کی توجہ روز افزوں تھی سپاہ کا سر انجام ایسا ہوا کہ اہل زمانہ کا خیال سنبھال بھی نہ سکے دور و نزدیک کے لوگ حیران رہ گئے خدا کی قدرت امکان کی طاقت سے باہر ہے مجھے ناتوان سے کیا ہو سکتا ہے بیت نہ من ماندہ ام خیرہ درکار او کہ گفت آفرینے سزا دار او دربار کے طعن و تعریض کرنے والوں کو خاموشی اور پچھتاوے نے دبوچ لیا بد اندیش طوفان باندھتے تھے کہ بادشاہ نے آپ شیخ کو دربار سے دور پھینکا ہے۔ کار ساز حقیقی نے اسی کو میری بلند نامی کا سرمایہ کر دیا اور ان کو ندامت خانہ جاوید میں بٹھا دیا۔ غرض انتظام مہمات میں مصروف ہوا سندر داس کو فوج دیکر تلتم کے قلعہ پر بھیجا اس نے کا رآگہی سے بعض ملک نشینوں کو بلایا انہیں میں سے ایک جا کر قلعدار کو ساتھ لے آیا تھوڑی رگڑ جھگڑ میں قلعہ ہاتھ آ گیا۔ سوئید بیگ اور میرا بیٹا ادب خانہ زندان میں تھے چند روز بعد اسے بھی مہم دکن پر نامزد کر کے دولت آباد کو بھیجا قلعہ نشینوں نے لکھا کہ اگر عہد و پیمان سے یہ خاطر جمع ہو جائے کہ ہمارے مال و اسباب سے تعرض نہ ہو گا تو کنجیاں دیتے ہیں اس کا سر انجام ہو گیا کچھ حبشی اور دکنی مفسد ادھر کے علاقہ میں تھے عبدالرحمن فرزند کو پندرہ سو سوار اپنے اور اتنی ہی بادشاہی فوج ساتھ کر کے ان کی سرکوبی کو روانہ کیا جب شہزادے کے مرنے سے شورش گرم ہوئی تھی میں نے مرزا شاہرخ کو بہت بلایا لوگ ایسے ہنگاموں پر ہزاروں ہوائیاں اڑاتے ہیں۔ چنانچہ وہ خدا جانے کیا کیا خیال کر کے رہ گئے مجھے مرزا سے یہ امید تھی کہ فرمان نہ پہنچتا تو بھی وقت پڑے پر بیقرار ہو کر اپنے تئیں پہنچاتے مگر وہ کہنے والوں کے کہنے میں آ گئے۔ جب فرمان عتاب آمیز برابر پہنچے اور آخر بادشاہ نے حسین سزاول کو بھیجا تو کام ناکام روانہ ہوئے۔ خیر اب لشکر فیروزی میں آ کر شامل ہو گئے۔ میں استقبال کر کے ڈیروں میں لے آیا ایسے مردانہ پارسا گوہر کے آنے سے دل کھل گیا شیر خواجہ کہنہ عمل سردار سلطان مراد کی ہمراہی میں ایک فوج کا افسر ہو کر گیا تھا اور سرحد میں پر گنہ بیر کی حفاظت کر رہا تھا۔ برسات کا موسم آیا خبر لگی کی دکھنیوں نے فوجیں جمع کرنی شروع کی ہیں اور عنبر و فرہاد5 ہزار سوار حبشی دوکنی اور20 مست ہاتھی لے کر آنیو الے ہیں شیر خواجہ کے پاس فقط3 ہزار فوج تھی خود پیش دستی کر کے اور شہر سے کئی کوس آگے بڑھ کے غنیم پر جا پڑا لیکن کمی فوج کے سبب لڑتا۔ بھڑتا ہٹا اور قلعہ بند ہو کر بیٹھ گیا شیر خواجہ زخمی ہوا تھا مگر اس کے شکست دینے کی خبر اڑ گئی اس نے ادھر بھی خط بھیج دیا تھا میں نے اور فوج روانہ کر دی تھی جب یہ خبر پہنچی تو مصلحت کی انجمن جمائی کسی کی صلاح نہ تھی مینہ موسلا دھار برس رہا تھا اسی عالم میں میں جریدہ روانہ ہوا لشکر کے کاروبار مرزا شاہرخ کے سپرد کر گیا شیخ عبدالرحمن (اپنے بیٹے) کو دولت آباد سے بلایا کہ آپ کنارہ گنگپ جاؤ اور سپاہ سمیٹو کہیں آپ کہیں بیٹا جا بجا چوکیاں جماتے پھرتے تھے کہ آگے کا کام چلتا رہے اور پیچھے سے کاطر جمع رہے۔ سرداران شاہی میں سے کوئی ہمت والا نظر نہ آتا تھا مرزا یوسف خاں20کوس پر تھے میں جریدہ اور ادھر روانہ ہوا اور رات کو پہنچ کر اسے بھی مدد پر آمادہ کیا ادھر ادھر کی فوجوں کو سمیٹ کر ساتھ لیا اور لشکر کی حیثیت درست کر کے آگے بڑھا گنگ گو اوری چڑھاؤ پر تھا قسمت سے دفعتاً اتر گیا اور فوج پایاب گذر گئی جو غنیم کی فوج دریا کے کنارہ پڑی تھی وہ ہر اول کی جھپٹ میں اڑ گئی دوسرے دن لشکر قلعہ بیر کے گرد سے بھی اٹھ گیا درگاہ الٰہی میں شکرانے بجا لایا اور شادیانوں کے جلسے کئے دریائے گنار کے کنارے چھاؤنی ڈالی اور اس ملک میں رعب بیٹھ گیا اکبر نے جب دیکھا کہ امرائے موجودہ سے مہم دکن نہیں سنبھلتی تو شاہزادہ دانیال کو فوج دے کر روانہ کیا اور خانخانان1؎ کو اتالیق کا منصب دیا۔ (ابو الفضل لکھتے ہیں) اسی دن بڑے شہزادے (سلیم یعنی جہانگیر) کو صوبہ اجمیر دے کر رانا کی مہم سپرد کی شہریاد کو اس سے بڑی محبت ہے اور ہر دم محبت کا درجہ بڑھتا ہی رہتا ہے مگر وہ بادہ خوار ہمنیشیں ہے نیک و بد کی خبر نہیں چند روز سلام کی اجازت نہ دی بارے مریم مکانی کی سفارش سے کورنش کی دولت پائی اور پھر عہد کیا کہ رستے سے چلونگا اور خدمت کرونگا بادشاہ آپ مالودہ میں آ کر شکار کھیلنے لگے کہ 1مفصل دیکھوخان خاناں کے حال میں صفحہ620ھ سب طرف زور رہے خانخاناں کو دانیال کی رفاقت کے لئے روانہ کیا اور حکم دیا کہ جب خانخاناں وہاں پہنچے ابو الفضل روانہ درگاہ ہو۔ میں نے بڑی خوشیاں کیں اور اسی عرصہ میں قلعہ تبالہ فتح کیا۔ اکبر کو خبر پہنچی تھی کہ بڑا شاہزادہ رستے میں دیر کرتا ہے میر عبدالحے میر عدل کو نصائح سے گرانبار کر کے بھیجا میں احمد نگر کر روانہ ہوا چاند بی بی برہان الملک کی بہن اب اس کے پوتے (بہادر) کو دادا کا جانشین کر کے مقابلہ کو تیار ہوئی کچھ فوج نے اس کی بندگی اختیار کی آبھنگ خاں بہت سے فتنہ انگیز حبشیوں کو لئے بچہ کو بادشاہ مانتا تھا۔ مگر چاند بی بی کی جان کی فکر میں تھا۔ وہ بیگم امرائے بادشاہی کو خوشامد کے پیام بھیجتی تھی اور دکھنیوں کوبھی دوستی کی داستانیں سناتی تھی مجھ سے بھی وہی رستہ شروع کیا میں نے جواب دیا کہ اگر پیش بینی اور روشن اختری سے درگاہ الٰہی کے ساتھ وابستہ ہو جاؤ تو اس سے بہترکیا ہے جو عہد و پیمان ہیں میں نے اپنے ذمہ لئے ورنہ باتوں سے کیا فائدہ اور آئندہ کو رستہ بند۔ اس نے ہوا خواہ سمجھ کر دوستی کے پیوند کو مضبوط کیا سچی قسموں کے ساتھ اپنے ہاتھ کا لکھا عہد نامہ بھیجا کہ جب تم آبھنگ خاں کو زیر کر لو گے تو قلعہ کی کنجیاں سپرد کر دوں گی مگر اتنا ہے کہ دولت آباد میری جاگیر میں رہے۔ اور یہ بھی اجازت ہو کہ چند روز وہاں جا کر رہوں جب چاہوں حاضر درگاہ ہوں بہادر کو روانہ دربار کر دونگی افسوس میرے ہمراہیوں کے دل نہ دینے سے کام میں دیر ہو گئی شاہ گڑھ میں لشکر دیر تک پڑا رہا اور شہزادے کی آمد آمد بجھ گئی آبھنگ خاں کی بد اندیشی بھڑک اٹھی شمشیر الملک کو (کہ حکومت برار اس کے خاندان میں تھی) قید خانہ سے نکال کر فوج لے اور دولت آباد سے ہوتا ہوا ابرار کو چلا کہ وہاں فوج بادشاہی کا مال و اسباب اور اہل و عیال ہیں یہ لوگ گھبرا ئینگے اور لشکر میں تفرقہ پڑ جائیگا مجھے تو پہلے سے خبر تھی مرزا یوسف خاں وغیرہ کو فوج دے کر ادھر بھیج چکا تھا مگر یہ بے پروائی کے خوب شیریں میں رہے وہ ولایت برار میں داخل ہوا اور کھلبلی مچا دی بہت پاسبانوں کے پاؤں اکھڑ گئے اکثر محبت کے مارے اہل و عیال کی غمخواری کو اٹھ دوڑے میں نے ادھر فوج بھیجی۔ اور خود احمد نگر کو روانہ ہوا کہ باہر کے بدگو ہروں کی گردن دباؤں اور چاند بی بی کی بات کا کھوٹا کھرا دیکھوں ایک منز ل چلے تھے کہ مخالفوں نے سب طرف سے سمٹکر احمد نگر کا رخ کیا کہ اسے بچائیں مگر اقبال اکبری نے کبر اڑا دی کہ شمشیر الملک مر گیا یوسف خاں بھی چونک کر دوڑے کئی سرداروں کو آگے بڑھا دیا انہوں نے دم نہ لیا مارا مارا چلے گئے رات کو ایک جگہ جا لیا عجب ہل چل مچی اسی حال میں شمشیر الملک مارا گیا اور فتح کا شادیانہ نہ بجا۔ مہم کامیابی کے رستہ پر تھی اور ان کا لشکر دریائے گنگ کے کنارہ منگے پٹن پر تھا جو شہزادے کے احکام متواتر پہنچے کہ تمہاری عرقریزی نزدیک و دور کے دلوں پر نقش ہو گئی ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے سامنے احمد نگر فتح ہو تم ارادہ سے باز رہو اب ہمیں راہ نوردی میں دیر نہ ہو گی یہاں لشکر میں ایک نئی شورش اٹھی شہزادہ جب برہان پور پہنچا تو بہادر خان قلعہ آسیر سے نہ اترا شہزادے نے چاہا کہ اس بد دماغ کی گردن مسل ڈالے مرزا یوسف خان احمد نگر کی فوج کشی میں تھا اور آگے بڑھا چاہتا تھا اسے بلا لیا یہ دیکھ کر اوروں نے بھی ادھر کا رخ کیا بہتیرے سردار بے اجازت بھی اٹھ چلے غنیم جو دل میں تھرا رہا تھا یہ حال دیکھ کر شیر ہو گیا کئی دفعہ شبخون مارا بہادروں نے خوب دل لڑائے اور اچھی دھکا پیل کی حفاظت الٰہی اور متواتر فتحوں سے غنیم تتر بتر ہو گئے اور آبھنگ خاں نے خوشامد اور عاجزی شروع کی۔ چالش گیہاں خدیو بکشایش احمد نگر اکبر کو دانیال اور بہادر خاں کے معاملہ کی خبریں پہنچیں (ابو الفضل نے بھی لکھا ہو گا کہ شہزادہ لڑکپن کرتا تھا احمد نگر کا بنتا ہوا کام بگڑ جائیگا آسیر کا کام تو جب حضور چاہیں گے بنا بنایا موجود ہے) شہزادے کے نام فرمان جاری ہوا کہ احمد نگر پر چڑھے چلے جاؤ بہادر خاں کا حاجر نہ ہونا سرتابی سے نہیں ہے اس معاملہ کو ہم سمجھ لینگے شہزادہ روانہ ہوا اور بادشاہ آگے بڑھے بہادر خاں نے کبیر خاں اپنے بیٹے کو چند خواصوں کے ساتھ حضور میں بھیج کر عمدہ پیشکش گذرانے لیکن باوجود آمد و رفت امرا اور متواتر فہمائشوں کے حاضر نہ ہوا ناچار لشکر کشی کا حکم ہوا اور ابو الفضل کو فرمان پہنچا کہ انتظام سپاہ مرزا شاہرخ کے سپرد کر کے برہانپور میں چلے آؤ اگر بہادر خان نصیحت کو سمجھ کر ہمراہی کرے تو گناہ سابقہ کے عفو کا مژدہ سنا کر ساتھ لے آؤ۔ ورنہ جلد حاضر ہو کر مشورت کرنی ہے۔ یہ برہانپور کے قریب پہنچے تو بہادر خاں آ کر ملا ان کی نصیحتیں سن کر ہمراہی کے رستہ پر آیا مگر گھر جا کر پھر پلٹ گیا اور بیہودہ سا جواب دے دیا یہ حسب فرمان آگے بڑھے یہاں جشن نو روزی کی دھوم دھام ہو رہی تھی رات کا وقت تھا پریاں ناچ رہی تھیں نغمہ پرداز جادوگری کر رہے تھے تاروں بھرا آسمان چاندنی رات کی بہار تھی پھولوں بھرا چمن دونوں کے مقابلے ہو رہے تھے مبارک ساعت میں درگاہ پر آ کر پیشانی رکھدی اکبر کے دل کی محبت اسے قیاس کرنی چاہیے کہ اس وقت یہ شعر پڑھا۔ فرخندہ شبے باید و خوش مہتابے تابا تو حکایت کنم از ہر بابے شیخ شکریہ میں بڑی دیر تک اسی طرح چپکے رہے خان اعظم شیخ فرید بخشی بیگی اور ان کو حکم ہوا کہ جاگیر آسیر کو گھیرو اور مورچے لگا دو جلد ہی تعمیل ہو گئی شیخ فرید والی فوج اپنی کمی اور غنیم کی زیادتی سے دور بینی کرکے تین کوس پر تھم گے مگر کچھ بلند نظر غالباً خان اعظم مراد ہیں اشخاص نے رنج دیا اورحضور مکدر ہو گئے جب شیخ حضور میں آئے اور حقیقت سنائی تو کدورت رفع ہو گئی۔ ابو الفضل کو اسی دن ہزاری منصب اور صوبہ خاندیس کا انتظام سپرد ہوا انہوں نے جا بجا آدمی بٹھائے ایک طرف بھائی شیخ ابو البرکات کو بہت سے داناؤں کے ساتھ بھیجا دوسری طرف شیخ عبدالرحمن اپنے فرزند کو بندگان الٰہی کی ہمت سے تھوڑی فرصت میں سرکشوں کی گردنیں خوب مسلیں اکثروں نے فرمانبرداری کے عیش کمائے سپاہ نے اطاعت کی زمینداروں کی خاطر جمع ہو گئی اور اپنے کھیت سنبھالے۔ ابو الفضل نے بادشاہی عنایت و اعتبار اور اپنی لیاقت اور حسن تدبیر سے ایسی رسائی پیدا کی تھی کہ اس کی تدبیروں اور تحریروں کی کمندوں نے علاقہ کے حاکموں کو کھینچ کر دربار میں حاضر کر دیا بھائی اور بیٹا خاندیس کے ملک میں جانفشانی کر رہے تھے بادشاہ نے شیخ کو چار ہزاری منصب سے سر بلند کیا صفدر خاں کہ راجی علی خاں کا پوتا اور شیخ کا بھانجا تھا وہ حسب الطلب آگرہ سے حاضر حضور ہوا۔ اور ہزاری منصب عنایت ہوا کہ خاندانی سرداز زادہ ہے اس کی فہمائش کی ملک میں اچھی تاثیر ہو گی ابو الفضل کے انجام کو جہانگیر سے بڑا علاقہ ہے اکبر نامہ کے مطالعہ سے دلوں کا حال جا بجا کھلتے ہیں اس مقام پر میں فقط اس واقعہ کا ترجمہ لکھتا ہوں جو مہم مذکور میں پیش آیا کہ شیخ خود لکھتے ہیں اس سال کے واقعات سلطنت میں بڑے شہزادے کی ناہنجاری ہے اس نو نہال دولت کو رانائے اودے پور کی گوشمالی کیلئے بھیجا تھا اس نے آرام طلبی اور بادہ خواری اور بد صحبتی کے ساتھ کچھ مدت اجمیر میں گذاری، پھر اودے پور کو اٹھ دوڑا۔ ادھر سے رانا نے آ کر ہل چل مچا دی اور آباد مقام لوٹ لئے مادھو سنگھ کو فوج دے کر ادھر بھیجا رانا پھر پہاڑوں میں گھس گیا اور پھرتی ہوئی فوج پر شبخوں لایا بادشاہی سردار اڑے مگر کیا ہو سکتا تھا ناکام پھر سے یہ خدمت شائستگی سے سر انجام ہوتی نظر نہ آئی مصاحبوں کے کہنے میں آ کر پنجاب کا ارادہ کیا کہ وہاں جا کر دل کے ارمان نکالے دفعۃً افغانان بنگال کی شورش کا شور اٹھا راجہ مان سنگھ نے ادھر کا راستہ دکھایا مہم کو نا تمام چھوڑ کر اٹھ دوڑا آگرہ سے چار کوس اوپر چڑھ کر جمنا اترا مریم مکانی کے سلام کو بھی نہ گیا وہ ان حرکتوں سے آزردہ ہوئیں پھر بھی محبت کے مارے آپ پیچھے گئیں کہ شاید سعادت کی راہ پر آ جائے انکے آنے کی خبر سن کر شکار گاہ سے کشتی پر بیٹھا اور جھٹ دریا کے رستے آگے بڑھ گیا وہ مایوس ہو کر چلی آئیں اس نے الہ آباد پہنچ کر لوگوں کی جاگیریں ضبط کر لیں بہار کا خزانہ 30 لاکھ سے سوا تھا وہ لیا اور بادشاہ بن بیٹھا بادشاہ کو محبت بے حد تھی کہنے والوں نے اصل سی بھی زیادہ باتیں بنائیں اور لکھنے والوں نے عرضیاں بھیج کر سمجھائیں باپ کو ایک بات کا یقین نہ آیا فرمان بھیج کر اس سے حال دریافت کیا تو بندگی کا ایک افسانہ طولائی سنا دیا کہ میں بے گناہ ہوں اور آستان بوسی کو حاضر ہوتا ہوں۔ اس عرصہ میں ابو الفضل کی کار گذاریاں جاری تھیں بہادر خاں کو اور اس کے سرداروں کو خطوط لکھتے تھے اور اس کے اثر کہیں کم کہیں پورے ظاہر ہوتے تھے ایک موقعے پر اپنے پیارے شہر مایہ کے حال میں لکھتے ہیں لعل باغ میں آ کر آرام لیا اس گلشن کی چمن پیرائی راقم کے سپرد تھی میں دیر تک عجز و دنیاز سے شکرانے کرتا رہا سعادتوں کے دروازے کھلے بیت ترا گھر میرا منزل گاہ ہو ایسے کہاں طالع خدا جانے کدھر کا چاند آج اے ماہرو نکلا فتح آسیر آسیر1؎ پہاڑ کے اوپر عمدہ اور مستحکم قلعہ ہے مضبوطی اور بلندی میں ہمثیل کمرہ گاہ کوہ میں شمال کو قلعہ مالی ہے جو اس نادر قلعہ میں جائے اس میں ہو کر جائے اس قلعہ کے شمال میں چھوٹی مالی ہے اس کی تھوڑی سی تعمیری دیوار ہے باقی پہاڑ کی دھار دیوار ہو گئی ہے جنوب کو اونچا پہاڑ ہے کردہ نام اس کے پاس کی پہاڑی ساپن کہلاتی ہے سرکشوں نے ہر جگہ کو توپوں اور سپاہیوں سے مضبوط کر رکھا تھا کوتہ اندیش جانتے تھے کہ ٹوٹ نہ سکے گا غلہ گراں، منڈیاں دور، قحط سے سب بیدل ہو رہے تھے اور قلعہ والوں کی زر فشانی نے آش پاس کے بہت سے لوگوں کو پھسلا لیا تھا۔ بادشاہی سردار اپنے اپنے مورچوں سے حملے کرتے تھے مگر غنیم پر کچھ اثر نہ ہوتاتھا شیخ نے ایک پہاڑ کی گھاٹی سے ایسا چور رستہ معلوم کیا جہاں سے دفعتہ مالی کی دیوار کے نیچے جا کھڑے ہوں بادشاہ سے عرض کر کے اجازت لی اور جو امرا محاصرہ میں جا نفشانی کر رہے تھے سب سے مل کر قرار پایا کہ فلاں وقت میں حملہ کرونگا جب نقارہ اور کرنا کی آواز بلند ہوئی تم بھی سب نقارہ بجاتے نکل پڑو۔ کام ناکام سب نے مانا مگر اکثروں نے اس بات کو کہانی سمجھا۔ ایک رات کہ اندھیری بھی بہت تھی اور مینہ برس رہا تھا آپ خاصگی سپاہ کی ٹولیاں باندھ کر پایہ بپایہ سا پن پہاڑی پر چڑھاتا رہا پچھلی رات تھی کہ پہلے فوج نے اسی چور راستہ سے ہو کر مالی کا 1ایسا آہیر کا بنایا ہوا ہے کہ کسی زمانہ میں بڑا صاحب ہمت اور فتح یاب جوانمرد تھا بیشمار خزانے اس کی بنیاد استواری میں دبا کر دنیا سے اٹھ گیا۔ دروازہ جا توڑا بہت سے دلاور قلعہ میں گھس گئے اور نقارے اور کرنا بجانے شروع کر دئیے میں یہ سنتے ہی خود دوڑا پو پھٹتی تھی کہ سب جا پہنچے دوسری طرف سے دیوار پر طنابیں ڈال کر سب سے پہلے آپ قلعہ میں کود پڑا پھر اور بہادر چیونٹیوں کی قطار ہو کر چڑھ گئے۔ تھوڑی دیر میں غنیم کا ورق الٹ گیا۔ اس نے قلعہ آسیر کی راہ لی اور مالی قبضہ میں آ گیا اس ناکامی کے سبب سے بہادر خاں کی ہمت ٹوٹ گئی ادھر سے خبر آئی کہ دانیال اور خانخاناں نے احمد نگر فتح کیا۔ سب سے زیادہ یہ کہ قلعہ میں بیماری پھیل گئی اور غلوں کے ذخیرے ایسے سڑ گئے کہ انسان تو درکنار حیوان تک منہ نہ ڈالتے تھے رعیت اور سردار سب کے جی چھوٹ گئے اور کچھ عرصہ تک قیل و قال ہوتی رہی آخر گھبرا کر قلعہ آسیر بھی حوالہ کر دیا1601/1009ھ ۔ غیرت مردانہ سلطان بہادر گجراتی کے غلاموں میں سے ایک پراتم بڈھا تھا کہ سلطان کی تباہی کے بعد ہمایوں کے آغاز سلطنت میں پاسبانی کے برج ایک ایک کے حوالے تھے اس نے سپردگی قلعہ کی خبر سنتے ہی جان خدا کے سپرد کی اس کے بیٹوں کی ہمت دیکھو کہ سن کر بولے اب اس دوات کو اقبال نے جواب دیا زندگی بے حیائی ہے یہ کہہ کر افیم کھا لی ناسک والوں نے پناہ مانگی تھی مگر امرا کی بے پروائیوں سے زور پکڑتے پگڑتے بگڑ گئے اور مقدمہ ایک مہم ہو گیا خانخاناں کو احمد نگر اور انہیں عمدہ خلعت اور خاصے کا گھوڑا اور علم و نقارہ سے سر بلند کر کے ادھر روانہ کیا۔ ادھر تو اقبال اکبری ملک گیری اور کشور کشائی میں طلسم کاری کر رہا تھا ادھر خیر اندیشوں کی عرضیاں اور مریم مکانی کا مراسلہ کیا کہ جہانگیر کھلم کھلا باغی ہو گیا بادشاہ نے سب کام اسی طرح چھوڑے اور امر کو خدمتیں سپرد کر کے ادھر روانہ ہوا۔ ناسک کی مہم شروع ہو گئی تھی جو انہیں فرمان پہنچا کہ احمد نگر کی طرف جا کر خانخاناں کے ساتھ خدمت بجا لاؤ یہ حیران رہ گئے کہ یہاں بہت سے دلاوروں کو سمیٹا تھا ناسک کا قلعہ اور سر کشوب کی گردن ٹوٹا چاہتی تھی خدا جانے جو حیلہ پرار خدمت مں حاضر تھے انہوں یعنی خانخاناں کے طرفداروں نے بادشاہ کی رائے پھیر دی یا اصلیت حال معلوم نہ ہوئی خانخاناں کی طرفداری حد سے گزر گئی کہ مجھے یہاں سے بلا لیا عبدالرحمن کو مہم سپرد کر کے تعمیل حکم بجا لایا یہاں پہنچے تو خان خاناں انہیں کبھی صلاح و مشورے میں رکھتے تھے کبھی کسی کی سرکوبی کو کبھی کسی کی سرکوبی کو کبھی کسی دکھنی سردار کی فہمائش کو بھیجتے تھے یہ دل میں تنگ تھے مگر ان کی طبیعتوں میں یہ بات داخل تھی کہ احکام بادشاہی کو اس طرح بجا لاتے تھے گویا ان کی اصل رائے یہی ہے ان کا دل تحمل کا پہاڑ تھا اور حوصلہ دریائے ذخار یہاں بھی حکم کی تعمیل کو اپنا فرض سمجھ کر وقت کے منتظر تھے۔ آزاد: زال دنیا عجیب چیز اور عجیب طرح کی علامہ دہر ہے مرد دیندار کو بھی دہریہ کر دیتی ہے دیکھو جن دو دوستوں کے مراسلے عاشق و معشوق کے قبالے نظر آتے تھے جب اس بڑھیا پر دونوں کا معاملہ آن پڑا تو ایسے بگڑے کہ سب بھول گئے۔ یہ بھی اور ان کا بیٹا بھی باوجود ملا ہونے کے اکبری دولت میں ترکتاز ترکانہ وحیلہ ہائے مردانہ سے وہ کام کرتے تھے کہ دیکھنے والوں کی عقل حیران تھی۔ اکبر نامہ کے 306 جلوس کے آخر میں ایک مقام کی عبارت اہل نظر کو آگاہ کرتی ہے کہ وہ بالیاقت کار آگاہ کسی خدمت میں ہو مگر اس کا رعب داب کس مقدار پر تھا۔ مجھ راقم شگر فنامہ کو ناسک پر بھیجا رستہ میں شہزادہ کی ملازمت حاصل کی انہوں نے اپنی خواہش ظاہر کی کہ ہمارے حضور میں آ جاؤ میں نے بھی قبول کی وہی راجو کی مہم تھی جس کا وبال میرے سر پر رکھنا چاہتے تھے میں نے جواب دیا کہ حضور کے فرمانے سے انکار نہیں کرتا لیکن آپ کام پر توجہ نہیں فرماتے ایسا امر عظیم چند لالچی تنگ چشموں پر چھوڑ دیا ہے بے پروائی اور ناتواں بینی کے ہنگامہ کیں کیونکر کام ہو سکے؟ بارے کچھ سمجھے کار سازی کا آپ ذمہ لیا اور گھوڑا اور خلعت دے کر ادھر روانہ کیا۔ پہلی منزل میں اپنے قدم مبارک سے اعزاز بڑھایا یعنی میرے خیمہ میں آئے خاص کمر کا جدھر اور نامور ہاتھی بھی عنایت فرمایا؟ معتمد خاں نے اقبال نامہ بھی لکھا کہ 1009/1601ھ میں 20 ہاتھی معہ ہتھنتال اور 10 عمدہ گھوڑے انعام ہوء 1010ھ میں ایک خاصہ کا گھوڑا اس کے ساتھ ایک گھوڑا عبدالرحمن کو عنایت کیا اور20گھوڑے پھر بھیجے ایک شیخ ابو الخیر کو عنایت فرمایا کہ شیخ کو بھیج دو اسی سنہ میں50 ہزار روپیہ شیخ کو انعام ملا اور ایسے ایسے انعاموں کی انتہا نہ تھی ہمیشہ ہی ملتے رہتے تھے اسی سال میں شیخ کو پنجہزاری منصب مرحمت ہوا غرض تخمیناً تین برس دکن میں اس طرح برس ہوئے کہ ایک ہاتھ میں شمشیر و علم تھے اور ایک ہاتھ میں کاغذ و قلم تھا رمضان1010ھ میں وہیں اکبر نامہ کی جلد سوم تمام کی ہو گی اور اس کا خاتمہ تصنیفات کا خاتمہ تھا اس ارسطو نے یہ بات اپنے سکندر کے دل پر نقش کر دی تھی کہ فدوی حضور کی ذات قدسی سے غرض رکھتا ہے اور یہ امر واقعی تھا وہ کہا کرتا تھا اور سچ کہتا تھا کہ آپ کی خیر طلبی اور ہوا خواہی اور جان نثاری میرا دین و آئین ہے جس کی بات ہو گی بے رو رعایت عرض کر دونگا۔ امرا بلکہ شہزادوں تک سے بھی غرض نہیں اور چونکہ ہمیشہ ایسا ہی کرتا تھا اس لئے اکبر کے دل پر یہ نقش پورا بیٹھا تھا شہزادے خصوصاً سلیم اسے اپنا چلنخور سمجھ کر ناراض رہتے تھے اکبر نے مہم دکن سے پھر کر سلیم جہانگیر کے ساتھ ظاہری صورت حال کو درست کر لیا تھا1011/1206ھ میں سلیم نے پھر سلامت روی کا رستہ چھوڑا اور ایسا بگڑا کہ اکبر گھبرایا یہ بھی خیال تھا کہ ہونہار شہزادہ کو ویعہد سلطنت خیال کر کے امرا ضرور سازش رکھتے ہونگے مان سنگھ کی بہن اس سے بیاہی ہوئی تھی جس کے شکم سے خسرو شہزادہ پیدا ہوا تھا خان اعظم کی بیٹی خسرو سے بیاہی ہوئی تھی غرض بادشاہ نے ابو الفضل کو لکھا کہ مہم کے کاروبار عبدالرحمن فرزند کے سپرد کرو اور آپ جریدہ ادھر روانہ ہو۔ ابو الفضل نے اس کے جواب میں نہایت اطمینان اور تشفی کے مضامین سے عرضی بھیجی اور لکھاکہ فضل الٰہی اور اقبال اکبر شاہی کار سازی کریگا۔ تردو کا مقام نہیں اور فدوی حاضر خدمت ہوا۔ چنانچہ احمد نگر میں عبدالرحمن کو مہم کے کاروبار سمجھا کر لشکر اور سامان وہیں چھوڑا آپ جریدہ فقط ان آدمیوں کو لے کر روانہ ہوا کہ جن کے بغیر گذارہ نہ تھا سلیم شیخ سے بہت خفا تھا یہ بھی جانتا تھا کہ اگر یہ حضور میں آ پہنچا تو باپ کی آزردگی اور بھی زیادہ ہو جائیگی اور ادھر ادھر کے راجاؤں اور سرداروں سے ساز باز کر کے ایسی تدبیریں کریگا کہ میرا کام برہم ہو جائیگا جب سنا کہ جریدہ دکن سے چلا ہے تو راجہ مدھکر کا بیٹا راجہ نر سنگھ دیو کہ انڈچہ کا بندیمہ سردار تھا ان دنوں میں رہزنی کر کے دن کاٹتا تھا اور اس بغاوت میں شہزادہ کے ساتھ تھا اسے سلیم نے خفیہ لکھا کہ کسی طرح رستہ میں شیخ کا کام تمام کر دے اگر خدا نے تخت نصیب کیا تو خاطر خواہ رتبہ اور انعام سے سرفراز کرونگا۔ اس نے دربار شاہی میں بہت بے غرتی اٹھائی تھی اس لئے نہایت خوشی سے اس خدمت کو قبول کیا اور دوڑا دوڑا اپنے علاقے میں جا پہنچا۔ جب شیخ اجین میں پہنچا تو خبر اڑ رہی تھی کہ راجہ اس اس طرح ادھر آیا ہوا ہے رفیقان جاں نثار نے شیخ سے کہا کہ ہماری جمعیت تھوڑی ہے اگر یہ خبر سچ ہے تو مقابلہ مشکل ہو گا بہتر ہے کہ اس رستہ کو چھوڑ کر چاندہ کی گھاٹی سے چلیں قضا آ چکی تھی شیخ نے بے پروائی سے کہا کہ بکتے ہیں چور کا کہیں حوصلہ ہے جو بندگان بادشاہی کا رستہ روکے۔ ربیع الاول کی پہلی1011ھ جمعہ کا دن صبح کا وقت تھا شیخ منزل سے اٹھا دو تین آدمی ساتھ باگ ڈالے جنگل کا لطف اٹھاتا ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا کھاتا باتیں کرتا آگے چلا جاتا تھا سرائے برا سے آدھ کوس رہا تھا اور قصبہ انتری 3 کوس سوا رنے دوڑ کر عرض کی کہ وہ گرد و غبار اٹھا ہے اور رخ اس طرف معلوم ہوتا ہے شیخ نے باگ رو کی اور غور سے دیکھاگدائی خاں افغان قدیاں جاں نثار برابر تھا اس نے عرض کی ٹھہرنے کا وقت نہیں دشمن بڑے زور میں آتا معلوم ہوتا ہے ادھر جمعیت بہت کم ہے اس وقت صلاح یہی ہے کہ تم آہستہ آہستہ چلے جاؤ میں ان چند بھائیوں اور ہمراہبوں سے جانفشانی کر کے روکتا ہوں ہمارے مارتے مرتے تک فرصت بہت ہے یہاں سے قصبہ انتری دو تین کوس ہے بخوبی پہنچ جاؤ گے پھر کچھ خطر نہیں رائے رایاں اور راجہ راج سنگھ دو تین ہزار آدمیوں سے وہاں اترے ہوئے ہیں شیخ نے کہا گدائی خاں تجھ جیسے شخص سے تعجب ہے کہ ایسے وقت پر یہ صلاح دیتا ہے جلال الدین محمد اکبر بادشاہ نے مجھ فقیر زادے کو گوشہ مسجد سے صدر مسند پر بٹھایا میں آج ان کی شناخت کو خاک میں ملا دوں اور اس چور کے آگے سے بھاگ جاؤں کس منہ سے اور کس عزت سے ہمچشموں میں بیٹھ سکونگا؟ اگر زندگی ہو چکی ہے اور قسمت میں مرنا ہی لکھا ہے تو کے اہو سکتا ہے یہ کہہ کر نہایت دلاوری اور بے باکی سے گھوڑا اٹھایا گدائی خاں پھر گھوڑا مر کر آگے آیا اور کہا کہ سپاہیوں کو ایسے معرکے بہت پڑتے ہیں اڑے کا وقت نہیں ہے انتری میں جانا اور ان لوگوں کو ساتھ لے کر پھر ان پر آنا اور اپنا انتقام لینا تو سپاہیانہ پیچ ہے قضا آ چکی تھی کسی عنوان راضی نہ ہوا یہاں یہ باتیں ہو رہی تھیں کہ غنیم آن پہنچا اور ہاتھ ہلانے کی فرصت نہ دی شیخ بڑی بہادری سے تلوار پکڑ کر ڈٹا چند افغان ساتھ تھے جانیں نثار کر کے سرخرو ہوئے شیخ نے کئی زخم کھائے مگر ایک کا زخم ایسا لگا کہ گھوڑے سے گر پڑا جب لڑائی کا فیصلہ ہوا تو لاش کی تلاش ہوئی دیکھا کہ وہ دلاور جو کبھی اکبری تخت کا پایہ پکڑ کر عرض و معروض کرتا تھا اور کبھی سمند رفکر پر چڑھ کر عالم خیال کو تسخیرکرتا تھا ایک درخت کے نیچے خاک بیکسی پر ہیجان پڑا ہے زخموں سے خون بہتا ہے اور ادھر ادھر لاشے پڑے ہیں اسی وقت سر کاٹ لیا، اور شہزادے کے پاس بھجوا دیا شہزادے نے پائخانہ میں ڈلوا دیا کہ دنوں وہیں پڑا رہا قسمت میں یونہی لکھا تھا ورنہ شہزادے کی خفگی کیسی ہی سخت ہو کہہ دیتا کہ خبردار شیخ کا بال بیکا نہ ہو اور شرط یہ ہے کہ زندہ ہمارے سامنے حاضر کرو مگر شرابی کبابی نا تجربہ کار لڑکے کو اتنے ہوش و حواس کہاں تھے جو سمجھت اکہ جیتے پر ہر وقت اختیار ہوتا ہے مر ہی گیا تو کیا ہو سکتا ہے۔ امرائے اکبری کے دلوں کا حال اس نکتہ سے کھلتا ہے کہ کو کلتاش خاں نے تاریخ لکھی مصرع تیغ اعجاز نبی اللہ سریاغی برید مگر اس نے کود خواب میں اس سے کہا کہ میری تاریخ تو بندہ ابو الفضل کے اعداد سے نکلتی ہے افسوس یہ ہے کہ ملاے بدایونی اس وقت نہ رہے تھے اگر ہوتے تو خوشیاں مناتے اور خدا جانے کیا گل پھول لگا کر مضامین قلمبند کرتے۔ جہانگیر جس طرح ہر بات بے پروائی سے کر گزرتا تھا اسی بے پروائی سے اپنی توزک میں لکھ بھی لیتا تھا چنانچہ جہاں تخت نشین ہو کر امرا کو منصب دئیے ہیں وہاں کہتا ہے بندیلی راجپوتوں میں سے راجہ نر سنگھ دیو پر میری نظر عنایت ہے وہ شجاعت نیکذاتی سادہ لوحی میں اپنے ہمرتبہ لوگوں میں امتیاز تمام رکھتا ہے 3ہزاری منصب پر سرفراز ہوا۔ ترقی اور رعایت کا سبب یہ ہوا کہ اخیر کے دنوں میں میرے والد نے شیخ ابو الفضل کو دکن سے بلایا وہ ہندوستان کے شیخ زادوں سے زیادتی فضل و دانائی میں امتیاز تمام رکھتاتھا اور ظاہر حال کو زیور اخلاص سے سجا کر میرے والد کے ہاتھ بھاری قیمت پر بیچتا تھا اس کا دل مجھ سے صاف نہ تھا ہمیشہ ظاہر و باطن چغلیاں کھاتا رہتا تھا دن دنوں میں ( کہ فتنہ انگیزوں کے فسادوں سے والد بزرگوار مجھ سے ذرا آزردہ تھے) یقین تھا کہ اگر دولت ملازمت حاصل کرے تو اس غبار کو زیادہ اڑائیگا اور میری دولت مواصلت کو روکے گا اور ایسا کر دے گا کہ مجھے نا چار سعادت خدمت سے محروم رہنا پڑے نر سنگھ دیو کا ملک شیخ کے سر راہ تھا اور دن دنوں وہ بھی سرکشوں میں تھا میں نے بار بار پیغام بھیجے کہ اگر اس فتنہ انگیز کو روک کر نیست و نابود کر دے تو رعایت کلی پائیگا چنانچہ توفیق اس کی رفیق ہوئی جب شیخ اس کے نواح ولایت میں گزرتا تھا وہ آن پڑا تھوڑی سی ہمت میں اس کے ہمراہیوں کو تتر بتر کر ڈالا سر الہ آباد میں میرے پاس بھیج دیا اگرچہ اس بات سے عرش آشیانی کی خاطر مبارک بہت آزردہ ہوئی مگر کم سے کم اتنا ہوا کہ میں پخت و بیخطر ہو کر آستاں بوسی کو گیا اور رفتہ رفتہ کدورتیں صفائی سے بدل گئیں۔ ہندوستان کے مورخ آخر انہی بادشاہوں کی رعایا تھے بے رعایت حال لکھتے تو بیچارے رہتے کہاں؟ ملا محمد قاسم فرشتہ اپنی معتبر تاریخ میں اس واقعہ کی بابت فقط اتنا لکھتے ہیں کہ اس سنہ میں دکن سے شیخ ابو الفضل حاضر حضور ہوتے تھے رستہ میں رہزنوں نے مار ڈالا فقط اور یہ لکھنا ان ک ابیجا نہ تھا دیکھ لو کہ فقط حقیقت نویسی کے جرم میں ملا عبدالقادر کے گھر اور ان کے بیٹے پر جہانگیر کے ہاتھوں کیا آفت گزری اور خود زندہ ہوتے تو خدا جانے کیا حال ہوتا۔ ڈیلیٹ نام ایک ڈچ سیاح نے اس واقعہ کا حال لکھا ہے اسے اپنی تحریر میں کسی کا خطر نہ تھا اس لئے عجب نہیں کہ جو کچھ لکھا سچ ہی ہو گا وہ کہتا ہے کہ سلیم الہ آباد میں آیا اور سلطنت کا دعویٰ کیا خطبہ اپنے نام کا پڑھوایا روپے اشرفی پر اپنا سکہ لگایا بلکہ زر مذکور کو مہاجنوں اور اہل معاملہ کے لین دین میں ڈلوا کر آگرہ تک پہنچایا کہ باپ دیکھے اور جلے باپ نے یہ سب حال شیخ کو لکھا اس نے جواب میں لکھا کہ حضور خاطر جمع رکھیں جس قدر لد کہ ممکن ہے میں حاضر ہوا اور شہزادہ کو مناسب خواہ نا مناسب حالت سے حضور میں حاضر ہونا پڑیگا۔ غرض شیخ نے کاروبار کی درستی کر کے کئی دن بعد دانیال سے اجازت لی دو تین سو آدمی ساتھ لے کر روانہ ہوا اور حکم دیا کہ اسباب پیچھے آئے سلیم کو سب خبریں پہنچ رہی تھیں اور جانتا تھا کہ شیخ کے دل میں میری طرف سے کیا ہے ڈرا کہ اب باپ اور بھی ناراض ہو گا اس لئے جس طرح ہو شیخ کو روکنا چاہیے راجہ نر سنگھ دیو صوبہ اجین میں رہتا تھا اسے لکھا کہ نروا اور گوالیار کے آس پاس گھات میں لگا رہے اور جہاں موقع پائے اس کا سر کاٹ کر بھیج دے اس پر بہت سے انعام و اکرام اور پنجہزاری منصب کا وعد کیا راجہ نے خوشی سے منظور کر لیا ہزار سوار3ہزار پیادے لے کر تین چار کوس پر آن لگا۔ اور جاسوسی کے لئے قراول ادھر ادھر پھیلا دئیے کہ خبر دیتے رہیں شیخ کو اس گھات کی بالکل خبر نہ تھی جب کالے باغ میں پہنچا اور نروا کا رخ کیا تو راجہ کو خبر لگی وہ اپنے ہمراہیوں کے ساتھ یکایک آ کر ٹوٹ پڑا اور چاروں طرف سے گھیر لیا اور شیخ اور اس کے رفیق بڑی بہادری سے لڑے مگر دشمنوں کی تعداد بہت تھی اس لئے سب کے سب کٹ کر کھیت رہے شیخ کی لاش دیکھی تو 12 زخم آئے تھے اور ایک درخت کے نیچے پڑا تھا وہاں سے اٹھا کر سر کاٹا اور شہزادے کے پاس بھیج دیا وہ بہت خوش ہوا فقط آزاد شیخ کو اس معاملہ میں تمام آل تیمور کے مورخ الزام دیتے ہیں کہ وہ خود پسند اور خود رائے آدمی تھا اپنی عقل کے سامنے کسی کو سمجھتا ہی نہ تھا یہاں بھی خود رائی کی اور اس کا نتیجہ پایا لیکن در حقیقت یہ مقدمہ غور طلب ہے اس میں کچھ شک نہیں کہ اسے اپنے جوہر کمالات اور عقل و دانش سے آگاہی تھی اور اکبر کے دربار میں جانفشاں محنتیںاور جاں نثار خدمتیں کی تھیں ان پر بھروسہ تھا ساتھ ہی یہ بھی خیال ہو گا کہ مجھ جیسے شخص کے لیے شہزادہ نے یہ حکم نہ دیا ہو گا کہ جان سے مار ڈالے بلکہ یہ بھی خیال ہو گا کہ اگر اس شرابی کبابی لڑکے نے کہہ بھی دیا ہو گا تو جو سردار ہو گا وہ مجھے جان سے مارنے کا قصد نہ کریگا بہت ہو گا تو باندھ کر اس کے سامنے حاضر کر دے گا امرا بغاوت کرتے ہیں فوجوں کی فوجیں کاٹ کر ڈال دیتے ہیں ملک ٹوٹ کر تباہ کر دیتے ہیں پھر تیموری درباروں میں ان کی خطائیں اس طرح معاف ہو جاتی ہیں کہ ملک و منصب بحال رہ کر پہلے سے سوا عالی رتبے پاتے ہیں اور یہاں تو کچھ بات بھی نہیں اتنا ہی ہے کہ شہزادے کو میری طرف سے باپ کے سامنے چغلیاں کھانے کا خیال ہے پس اتنی بات کے لئے میدان سے بھاگنا اور بھگوڑا کہلانا کیا ضرور ہے نامردی اور بزدلی کا داغ کیوں اٹھاؤں اور یہیں ڈٹ جاؤں۔ انجام یہی ہو گا کہ پکڑ کر شہزادے کے سامنے لے جائینگے یہ سکندر و افلاطوں غصہ کے بھوت بن جائیں تو پری بنا کر شیشہ میں اتار لوں وہ تو مورکھ شہزادہ ہے دو منتر ایسے پھونکو گا کہ اٹھ کر ساتھ ہو جائے اور ہاتھ باندھ کر باپ کے پاؤں میں جا رہے مگر وہی بات کہ تقدیر الٰہی وہ کچھ سمجھا جاتا اور معاملہ کچھ نکلا اور تم بھی ذرا غور کر کے دیکھو کہ وہ بندیلہ بھی دھاڑ مار لٹیرا ہی تھا جو اس طرح پیش آیا کوئی راجہ ہوتا اور راج نیت کی رایت کا برتنے والا ہوتا تو اس وحشیانی طور سے شیخ کا کام تمام نہ کرتا نہ بات نہ چیت نہ لڑائی کا آگانہ پیچھا کچھ معلوم ہی نہ ہوا سینکڑوں بھیڑئیے تھے کہ چند بکریوں پر آن پڑے اور دم کے دم میں چیر پھاڑ بھاگ گئے۔ اب ادھر کی سنو کہ جب مرنے کی خبر دربار میں پہنچی تو سناٹے کا عالم ہو گیا سب حیران رہ گئے سوچتے تھے کہ بادشاہ سے کہیں کیا؟ کیونکر اکبر جانتا تھا کہ وہی میرا ایک ذاتی خیر اندیش ہے اور ان میں کوئی امیر دل سے اس کا خیر خواہ نہیں خدا جانے کیا خیال گزرے اور کدھر بجلی گر پڑے آل تیمور میں دستور قدیم تھا کہ جب کوئی شہزادہ مرتا تھا تو اس کی خبر بادشاہ کے سامنے صاف بیدھڑک نہیں کہہ دیتے تھے اس کا وکیل سیاہ رومال سے ہاتھ باندھ کر سامنے آتا تھا اور خاموش کھڑا رہتا تھا معنی یہی ہوتے تھے کہ اس کے آقا نے انتقال کیا۔ اکبر اسے اولاد سے زیادہ عزیز رکھتا تھا اس لئے وکیل سر جھکائے رومال سے ہاتھ باندھے آہستہ آہستہ ڈرتا ہوا تخت کے گوشہ کی طرف آیا اکبر دیکھ کر متحیر ہو گیا اور کہا خیر باشد کیا ہوا۔ جب اس نے بیان کیا تو اس قدر غمناک اور بے قرار ہوا کہ کسی بیٹے کے لئے یہ حال نہ ہوا تھا کئی دن تک دربار نہ کیا اور کسی امیر سے بات نہ کی افسوس کرتا تھا اور روتا تھا بار بار چھاتی پر ہاتھ مارتا تھا اور کہتا تھا کہ ہائے شیخو جی بادشاہت لینی تھی تو مجھے مارنا تھا شیخ کو کیا مارنا تھا اس کا بے سر لاشہ آیا تو یہ شعر پڑھا شعر شیخ ما از شوق بے حد چوں سوئے ما آمدہ ز اشتیاق پاے بوسی بے سروپا آمدہ 52 برس چند مہینے کا سن مرنے کے دن نہ تھے مگر موت نہ دن دیکھتی ہے نہ رات جب آ جائے وہ ہی اس کا وقت ابو الفضل کی قبر اب بھی انتری میں موجود ہے جو گوالیار سے پانچ چھ کوس کے فاصلہ پر ہے اور مہاراجہ سیندھیا کا علاقہ ہے اس پر ایک غریبانہ وضع کی عمارت ہے ابو الفضل نے اپنے باپ اور ماں کی ہڈیاں لاہور سے آگرہ پہنچائی تھیں کہ ان کی وصیت پوری ہو مگر اس کی لاوارث لاش کا اٹھانے والا کوئی نہ ہوا کہ جہاں گرا وہاں ہی خاک کا پیوند ہوا۔ اس کے دل کی روشنی اور نیک نیتی کی برکت ہے کہ آج تک انتری کے لوگ ہر جمعرات کو وہاں ہزاروں چراغ جلاتے اور چڑھاوے چڑھاتے ہیں۔ جگنو اڑ اڑ کے چلتے جاتے ہیں صحرا کی طرف گور مجنوں پہ کہیں آج چراغاں ہو گا ہاتھ چومینگے میرے گبرو مسلماں دونو ایک میں دست صنم ایک میں قرآن ہو گا اکبر بیٹے کو تو کیا کہتے رائے رایاں کو فوج دے کر بھیجا کہ نر سنگھ دیو کو اس کی بد اعمالی کی سزا دو عبدالرحمن کو فرمان لکھا جس کا خلاصہ یہ تھا کہ تم اس کے ساتھ شامل خدمت ہو اور باپ کی کینہ خواہی اور انتقال سے اپنی حلال زادگی اہل عالم پر آشکار کرو۔ یہ دونوں مدت تک جنگلوں اور پہاڑوں میں اس کے پیچھے مارے مارے پھرے وہ کہیں نہ ٹھہرا۔ لڑتا رہا بھاگتا رہا۔ شیخ نے سچ کہا تھا کہ رہزن ہے وہ کس طرح جم کر لڑتا آخر دونون تھک کر چلے آئے۔ افسوس کے قلم اور رسیہ بختی کی سیاہی سے لکھنے کے قابل یہ بات ہے کہ جو فضل و کمال تھا وہ فضل اور فیضی کے ساتھ دنیا سے رخصت ہوا اتنے بھائی اور عبدالرحمن اکلوتا بیٹا تھا سب خالی رہ گئے۔ ابو الفضل کے مذہب کا بیان دربار اکبری کی سیر کرنے والوںکو شیخ مبارک کے مذہب کا حال معلوم ہے ابو الفضل اس کا رشید بیٹا تھا سمجھ لو کہ اس کے خیالات بھی باپ کے خیالات کی نسل پاک تھے البتہ زمانہ کی آب و ہوا سے ذرا رنگ بدل گیا تھا اگرچہ ان نقطوں کو شیخ مبارک فیضی ملا صاحب وغیرہ کے بیان میں دائرہ کی گردش سے پھیلا چکا ہوں۔ مگر حق یہ ہے کہ مجھے بھی ان کے بار بار کہنے میں مزا آتا ہے اس لئے ایک دفعہ پھروں گا ارمان نکالتا ہوں شاید کہ باتوں باتوں میں روئے حقیقت سے پردہ اٹھ جائے میرے دوستو تمہیں معلوم ہے اور پھر معلوم کرو کہ شیخ مبارک ایک فاضل ہمہ دان تھا اور دماغ ایسا روشن لے کر آیا تھا کہ چراغ علم کیلئے قندیل فروزاں تھا وہ ہر علم کی کتابیں کامل استادوں سے پڑھا تھا اور پڑھاتا تھا اور نظر اس کی تمام علوم عقلی و نقلی پر برابر چھائی ہوئی تھی باوجود اس کے جو کچھ دل کو حاصل ہو گیا تھا وہ کتابوں کے الفاظ و عبارت میں محدود نہ تھا اور بات وہی تھی جو اس کی سمجھ میں آ گئی تھی۔ اسی عہد میں کئی عالم تھے کہ کتابی علوم میں پورے تھے یا ادھورے مگر نصیبوں کے پورے تھے جسکی بدولت شاہان وقت کے دربار میں پہنچ کر شاہی بلکہ خدائی اختیار دکھا رہے تھے ان کے ناتھ گھی میں تر اور انگلیاں رزق کی کنجیاں دیکھ کر بہت سے علمائے مسند نشین اور مشائخ اور ائمہ مساجد گرد بیٹھے ان کا کلمہ پڑھا کرتے تھے۔ شیخ مبارک دربار شاہی کا ہوسناک نہ تھا اس کا دل خدا نے ایس ابنایا کہ جب اپنی مسجد کے چبوترہ پر بیٹھتا اور چند طالب علم کتابے کھولے ہوتے تو ایسا لہکتا اور چہکتا تھا کہ وہ لطف باغ میں نہ گل کو حاصل ہے نہ بلبلکو اور بات یہ ہے کہ شاہوں کے دربار اور امراء کی سرکار کی طرف اس کے شوق کا قدم اٹھتا ہی نہ تھا البتہ جب کسی غریب پر علمائے مذکورہ اختیار جابرانہ اور فتووں کے زور سے ظلم کرتے اور وہ التجا لاتا تو اسے آیتوں اور روایتوں سے سپر تیار کر دیتا تھا جس سے اس کی جان بچ جاتی تھی اور اس بات میں وہ کسی کی پروا نہ کرتا تھا ان لوگوں کو بھی خبر ہو جاتی تھی اور اپنے جلسوں میں اس کے چرچے خطرناک الفاظ سے کرتے تھے کبھی راففتی بناتے کبھی مہدوی ٹھہراتے اور اسجرم کی سزا اس زمانہ میں قتل ہی تھی لیکن اس کی فضیلت اور حقیقت کا بھروسا اسے زور دیتا تھا وہ سن کر ہنس دیتا تھا اور کہتا تھا کہ یہ ہیں کون؟ اور ہیں کیا اور سمجھتے کیا ہیں؟ کبھی گفتگو کا موقع آن پڑا تو سمجھا دینگے۔ شیخ مبارک کی اس رسم و راہ نے اسے اکثر خطر میں ڈالا اور سخت تکلیفوں میں مبتلا کیا لیکن اسے کچھ بھی پروا نہ ہوئی اور ان کے اختلافوں کو ہنسی کھیل سمجھ کر بنا تا رہا ایشیا کے مذاہب مروجہ خصوصاً فرقہ ہائے اسلام کی کتابوں پر اس کی معلومات چاندنی کی طرح کھلی ہوئی تھی دشمنوں کی ایذا اور آزاد عام دیکھ کر کتب متفرقہ کو اور نظر سے دیکھنے لگا جب کوئی مسئلہ اس طرح کا آتا فوراً کتابی حوالوں سے حریفوں کی حرفت کو بند کرتا یا اختلافی مسئلہ دکھا کر ایسا شبہ پیدا کر دیتا کہ دق ہو کر رہ جاتے لیکن جو کچھ کہتا تھا سوچ سمجھ کر اور حق کو جانچ کر سند اور اصلیت کی بنیاد پر کہتا تھا کیونکہ رقیبوں کے فتووں میں شاہانہ زورہوتا تھا اگر یہ حق پر نہ ہوتا تو جان پر حرف آتا تھا۔ ہمایوں شیر شاہ، سلیم شاہ کی بادشاہی میں ان لوگوں کی خدائی رہی اور اکبری دور میں چند سال سلطنت ان کی زبان پر چلتی رہی نوجوان بادشاہ کو خیال ہوا کہ دائرہ سلطنت کو تمام ہندوستان پر پھیلائے اور چونکہ یہاں مختلف قوم اور مختلف مذہب کے لوگ ہیں اس لئے واجب ہوا کہ اپنائت اور محبت کے ساتھ قدم بڑھائے اس نے اس کوشش میں کامیابی بھی پائی مگر علمائے مذکور اس راہ میں چلنا کفر سمجھتے تھے ملک پرور کو واجب ہوا کہ اس کے لئے اسی ڈھب کا کار گذار بہم پہنچائے فیضی و فضل ہمہ داں عالم تھے اور ہمہ رنگ طبیعت رکھتے تھے انہوں نے آقا کے حکم اور خدمت کے لوازمات کو اسی مرضی سے بھی بڑھ کر سر انجام دیا کار سلطنت کا دستور العمل اس امر کو قرار دیا کہ خدا رب العالمین اور خلائق کا آودہ و آباد کرنے والا ہے ہندو مسلمان گبروترسا اس کے نزدیک سب برابر ہیں بادشاہ سایہ خدا ہے اسے بھی یہی بات مد نظر رکھنی واجب ہے اس چھوٹے سے نکتے میں کئی مطلب نکل آئے سلطنت کی بنیاد محکم ہو گئی بادشاہ کی قربت حاصل ہو گئی جن حریفوں سے جان کا خطر تھا خود بخود ٹوٹ گئے البتہ وہ اور ان کی امت جو سلطنت اور دولت کو فقط اسلام ہی کا حق سمجھے ہوئے تھے ان کے کاروبار پہلی اوج موج پر نہ رہے انہوں نے انہیں بدنام کر دیا اور حق بات وہی ہے کہ بادشاہ کی فرمائش کو اس کی مرضی سے بھی کئی درجے بڑھا کر بجا لاتے تھے بادشاہ کی خوشی دیکھی تو عمامہ بڑھا کر کھڑکی دار پگڑی باندھ لی عبا اتار کر جامہ پہن لیا وغیرہ وغیرہ ایک ہندو کو شیخ صدر نے فتوے شریعت کے زور سے مروا ڈالا۔ انہوں نے گفتگو کے معرکہ میں شیخ صدر کی رفاقت نہ کی بادشاہ کی تقریر کی تائید کرتے رہے اسی ذیل میں ملا صاحب چوٹ کرتے ہیں ملک فرنگ کے ریاضت کیش داناؤں کو پادہری کہتے ہیں اور مجتہد کامل کو کہ مصلحت وقت کے بموجب تغیر احکام بھی کر سکتا ہے اور بادشاہ بھی اس کے حکم سے عدول نہیں کر سکتا پاپا کہتے ہیں وہ لوگ انجیل لائے تثلیث کی دلیلیں پیش کیں اور نصرانیت کی حقیقت ثابت کر کے مذہب عیسوی کو رواج دیا بادشاہ نے شہزادہ مراد کو فرمایا او رانہوں نے شگون برکت کے طور پر چند سبق پڑھے ابو الفضل ترجمہ کے لئے مقرر ہوئے بسم اللہ کی جگہ یہ مصرعہ تھا ع اے نامی توژ ژو کرستو شیخ فیضی نے کہا سبحانک لا شریک یا ہو پھر ایک جگہ داغ دیتے ہیں تو سارے علاقہ گجرات سے آتش پرست آئے انہوں نے دین و دشت کی حقیقت ظاہر کی اور آگ کی تعظیم کو عبادت عظیم بیان کر کے اپنی طرف کھینچا کیانیوں کی راہ وروش اور ان کے مذہب کی اصلاحیں بتائیں حکم ہوا کہ شیخ ابو الفضل کا اہتمام ہو اور جس طرح ملک عجم کے آتشکدے ہر دم روشن رہتے ہیں یہاں بھی ہر وقت کیا دن کیا رات روشن رکھو کہ آیات الٰہی میں سے ایک آیت اور اس کے نوروں میں سے ایک نور ہے۔ خیران باتوں کا مضائقہ نہیں کیونکہ سلطنت کے معاملات کچھ اور ہیں اور ملکی مصلحت کا مذہب جدا ہے ان میں اکبر پر بھی اعتراض نہیں کر سکتے یہ تو اس کے نوکر تھے جو آقا کا حکم ہوتا تھا بجا لانا واجب تھا یہاں تک مقدمہ سہل ہے ہاں مشکل یہ ہے کہ جب شیخ مبارک مر گئے تو شیخ ابو الفضل نے معہ بھائیوں کے بھدرا کیا اصل فقط اتنی تھی کہ بادشاہ ہر مذہب کے ساتھ محبت و رغبت ظاہر کرتا تھا ہندوؤں کے ساتھ چولی دامن کا ساتھ تھا اس لئے ان سے زیادہ تھے۔ چنانچہ جب انگہ مر گئی اور مریم مکانی کا انتقال ہوا تو دونوں دفعہ اکبر نے خود بھدرا کیا اور دلیل یہ تھی کہ عہد قدیم میںسلاطین ترک بھی ایسے موقع پر بھدرا کیا کرتے تھے بادشاہ کی خوشی اس میں دیکھی انہوں نے بھی بھدرا کیا یہ سب باتیں بادشاہ کی دلجوئی اور اس کی مصلحت ملکی کے لئے تھیں ورنہ فیضی و فضل جو انی تیزی فکر اور زور زبان سے دلائل افلاطون اور براہین ارسطو کو روئی کی طرح دھنکتے تھے وہ اور دین الٰہی اکبر شاہی پر اعتقاد لائینگے یا جزئیات مذکورہ ان کا عقیدہ ہو جائے گا توبہ توبہ سب کچھ کرتے ہونگے اور پھر اپنے جلسوں میں آ کر کہتے ہونگے کہ آج کیا احمق بنایا ہے دیکھا ایک مسخرہ بھی نہ سمجھا اور حقیقت یہ ہے کہ جیسے ان کے زبردست حریف تھے اور لا علاج موقعے ان پر پڑتے تھے وہ ایسی تجویزوں کے بغیر ٹوٹ بھی نہ سکتے تھے یاد کرو مخدوم الملک وغیرہ کا پیام اور ابو الفضل کا جواب کہ ہم بادشاہ کے نوکر ہیں بینگنوں کے نوکر نہیں۔ انشاے ابو الفضل کو دیکھ وکہ خانخاناں نے جو ایک مراسلہ شیخ ابو الفضل کو لکھا تھا اس میں یہ بھی پوچھا تھا کہ تمہاری صلاح ہو تو ایرج کو دربار میں بھیج دوں کہ دین و آئین سے با خبر ہو یہاں میرے ساتھ لشکر میں ہے اور جنگلوں میں سرگرداں پھرتا ہے شیخ نے اس کے جواب میں خط لکھا ہے اور نکتہ مذکورہ کے باب میں یہ فقرہ لکھا ہے دربار میں ایرج کا بھیجنا کیا ضرور ہے تمہیں اس میں اصلاح عقیدہ کا خیال ہے یہ امید بے حاصل ہے اب تم خیال کرو کہ دربار کی طرف سے اس کے اصلی خیالات کیا تھے جو یہ فقرہ قلم سے ٹپکا ہے۔ اس کی تصنیفات کو دیکھو جہاں ذرا سا موقع پاتا ہے کس خلوص عقیدت سے مضامین عبودیت اور حق بندگی ادا کرتا ہے اور انہیں فلسفہ الٰہی کے مسائل میں اس طرح تضمین کرتا ہے کہ افلاطون بھی ہوتا توا سکے ہاتھ چوم لیتا ابو الفضل کے دفتر دوم و سوم کو دیکھئے اس کی تصریف شیخ شبلی کریں یا جنبید بغدادی آزاد کیا کہے۔ کیونکہ سودا میں کروں وصف بناگوش اسکا نہیں ہے آب گہر سے یہ زباں پاک ہنوزا شاہ ابو المعالی لاہوری نے اپنے ایک رسالہ میں لکھ دیا ہے کہ میں شیخ ابو الفضل کو اچھا نہ جانتا تھا ایک شب دیکھا کہ اسی کو لا کر بٹھایا ہے اور وہ آنحضرت کا جبہ پہنے ہے۔ دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ اس کی بخشش کا وسیلہ ایک مناجات ہوئی ہے جس کا پہلا فقرہ ہے الٰہی نیکاں رابو سیلہ نیکی سرفرازی بخش وبداں رابمقتضائے کرم دلنوازی کن۔ ذخیرۃ الخوانین میں لکھا ہے کہ رات کو فقرا کی خدمت میں جاتا تھا اشرفیاں نذر دیتا تھا اور کہتا تھا کہ ابو الفضل کی سلامتی ایمان کی دعا کرو اور یہ لفظ اس کا تکیہ کلام تھا کہ آہ کیا کروں بار بار کہتا تھا اور ٹھنڈے سانس بھرتا تھا۔ اکبر نے کشمیر میں ایک عالی شان عمارت بنائی تھی کہ ہندو مسلمان جس کا دل رجوع ہو وہاں آ کر بیٹھے اور معبود حقیقی کی یاد میں مصروف رہے اس پر عبارت مفصلہ ذیل نقش کی تھی کہ ابو الفضل نے ترتیب دی تھی ذرا اس کے الفاظ کو دیکھو کس صدق دلس ے ٹپکتے ہیں۔ اکہی بہر خانہ کہ مے نگرم جو یائے تواند و بہر زباں کہ مے شنوم گویاے تو شعر کفر و اسلام در رہت پویاں وحدہ لا شریک لہ گویاں اگر مسجد بیاد تو نعرہ قدوس منیر نندو اگر کلیسیاست بشوق تو ناقوس مے جنبانندر رباعی اے تیر غمت را دل عشاق نشانہ خلقے ہو مشغول و تو غائب زمیانہ گہ معتکف ویرم و گہ ساکن مسجد یعنی کہ ترامے طلبم خانہ بخانہ اگر خاصان ترا بکفرا و اسلام کارے نیست ایں ہر دور اور پردہ اسلام تو بارے نہ کفر کافر روا دیں دیندار را ذرہ درد دل عطار را ایں خانہ یہ نیت ایتلاف قلوب موحدان ہندوستان و خصوصاً معبود و پرستان عرصہ کشمیر تعمیر یافتہ۔ بفرمان خدیو تخت و افسر چراغ آفرینش شا اکبر نظام اعتدال ہفت معدن کمال امتزاج چار عنصر خانہ خرابے کہ نظر صدق نیند اختہ ایں خانہ را خراب ساز دبا ید کہ تخت معبد خود را بیند از دچہ اگر نظر بہ دل است با ہمہ ساختنی ست واگر چشم بر آب و گل است ہمہ براند اختنی مثنوی خداوند چو داد کار دادی مدار کار بر نیت نہادی توئی برکار گاہ نیت آگاہ بہ پیش شاہ داری نیت شاہ بلوک مین صاحب لکھتے ہیں کہ عمارت عالمگیر کے عہد میں منہدم ہوئی۔ ملا صاحب کی تاریخ کو دیکھ کر افسوس ہوتا ہے کہ جس کے باپ سے فیض تعلیم پایا اسی کے مذہب و اعتقاد پر ٹوکرے بھر بھر خاک ڈالی بات یہ ہے کہ جب ایک مطلوب پر دو طالبوں کے شوق ٹکراتے ہیں تو ایسے ہی شرارے اڑتے ہیں دربار میں دو نوجوان آگے پیچھے پہنچے۔ شاگرد کے خیالات چند روز بھی استاد اور خلیفہ کے ساتھ درست نہ رہے۔ یہ ضرور تھا کہ ابو الفضل نے بادشاہ کے مزاج اور مناسبت وقت اور اپنی مصلحت حال کی نظر سے اکثر باتیں ایسی کیں کہ ملا صاحب کا فتویٰ اس کے بر خلاف ہو گیا لیکن حق یہی ہے کہ ان کی روز افزوں ترقی ومبدم کی قربت ملا صاحب سے دیکھی نہ جاتی تھی اس لئے بگڑتے تھے اور تڑپتے تھے اور جس رستے سے جگہ پاتے تھے بخارات نکالتے پھر بھی لیاقت کی خوبی دیکھو کہ علم و فضل اور تصنیفات میں کچھ سقم نہیں نکال سکے۔ مگر روے حسد سیاہ تفسیر اکبری پیش کرنے کا حال اپنی کتاب میں لکھا تو بھی شوشہ لگا دیا کہ لوگ کہتے ہیں اس کے باپ کی تصنیف ہے اچھا یہ ہی ہے تو اس کے باپ کا مال ہے آپ کے باپ کا تو نہیں اس کا باپ تو ایسا تھا تمہارا تو باپ بھی ایسا نہ تھا اور اگر حقیقت میں ابو الفضل ہی کی تصنیف تھی تو اس سے زیادہ فخر کیا ہو گا کہ 20 برس کی عمر میں ایک نوجوان ایسی تفسیر لکھے جسے علما اور اہل نظر شیخ مبارک جیسے شخص کا کلام سمجھیں ابو الفضل نے سنا ہو گا تو کئی چمچے خون دل میں بڑھ گیا ہو گا ان باپ بیٹوں کے باب میں ملاے موصوف کا عجیب حال ہے کسی کی بات ہو کسی کا ذکر ہو۔ ان باپ بیٹوں کے باب میں ملاے موصوف کا عجیب حال ہے کسی کی بات ہو کسی کا ذکر ہو جہاں موقع پاتے ہیں ان بیچاروں میں سے کسی نہ کسی کے ایک نشتر مار دیتے ہیں چنانچہ زمرد علما میں شیخ حسن موصلی کا حال لکھتے ہیں کہ شاہ فتح اللہ کا شاگرد رشید ہے اور خلاصہ احوال یہ ہے کہ فنون ریاضی اور طبعی اور اقسام حکمت میں ماہر ہے وغیرہ وغیرہ وہ فتح کابل کے موقع پر حضور میں پہنچا تھا بڑے شہزادے کی تعلیم پر مامور ہوا شیخ ابو الفضل نے بھی یہ علوم اس سے خفیہ پڑھے اور دقائق اور باریکیاں حاصل کیں پھر بھی اس کی تعظیم نہ کرتا تھا آپ فرش پر بیٹھتا اور استاد زمین پر آزاد خیال کرو کجا شیخ حسن کجا اس کا کمال فضیلت کہیں کا ذکر کہیں کا فکر ابو الفضل غریب کو ایک ٹھوکر مار گئے فیضی بیچارے کو بھی ایسے ہی نشتر مارتے! جاتے ہیں کہیں ایک ہی تیر میں دو نوکر چھید جاتے ہیں دیکھو فیضی کے حال میں شیخ کی انشا پردازی شیخ کی انشا پردازی اور مطلب نگاری کی تعریف نہیں ہو سکتی یہ نعمت خدا داد ہے کہ خدا کے ہاں سے اپنے ساتھ لایا تھا ہر ایک مطلب کو اس خوبصورتی سے ادا کرتا ہے کہ سمجھنے والا دیکھتا رہ جاتا ہے بڑے بڑے انشا پردازوں کو دیکھو جہاں عبارت میں لطف اور کلام میں زور پیدا کرنا چاہتے ہیں تو بہار سے رنگ لیتے ہیں اور حسن و جمال سے خوبی مانگ کر کلام کو رنگین و نمکین کرتے ہیں یہ قادر الکلام اپنے پاک خیالات اور سادہ الفاظ میں اصلی مطلب کو اس طرح ادا کرتا ہے کہ ہزار رنگینیاں ان پر قربان ہوتی ہیں اس کے سادگی کے باغ میں رنگ آمیزی کا مصور اگر قلم لگائے تو ہاتھ قلم ہو جائیں وہ انشا پردازی کا خدا ہے اپنے لطف خیالات سے جیسی مخلوق چاہتا ہے الفاظ کے قالب میں ڈھال دیتا ہے لطف یہ ہے کہ جس عالم میں لکھتا ہے نیا ڈھنگ ہے اور جتنا لکھتا جاتا ہے عبارت کا زور بڑھتا اور چڑھتا چلا جاتا ہے ممکن نہیں کہ طبیعت میں تھکن معلوم ہو میں اس کی تصنیف کے ایک ایک نسخہ کی کیفیت لکھونگا۔ اور جہاں تک میری نا تمام لیاقت اور نا رسا قلم پہنچے گا وہاں تک ان کا حال آئینہ کرونگا۔ یہ الفاظ جو اس کے کمال کے باب میں لکھتا ہوں نہ سمجھنا کہ آج کے رواج بے کمال کی نسبت سے لکھتا ہوں نہیں اس وقت کہ ہفت اقلیم کے اہل کمال جمع تھے اور پائے تخت ہندوستان میں ولایتوں کے علما اور ارباب کمال کا جمگھٹا تھا جب بھی تمام انبوہ کو چیر کر اور سب کو کہنیاں مار کر آگے نکل گیا۔ اس کے دست و قلم میں زور تھا کہ ملکوں کے اہل کمال کھڑے دیکھا کرتے تھے اور یہ آگے بڑھتا تھا۔ اور نکل جاتا تھا ورنہ کون کسی کو بڑھنے دیتا ہے وہ مر گیا ہے اور آج تک اس کی تحریر سب سے آگے اور سب سے اونچی نظر آتی ہے۔ امین احمد رازی نے اسی عہد میں تذکرہ ہفت اقلیم لکھا ہے اس ایرانی کے انصاف پر بھی ہزار آفرین ہے کہ ہندوستانی شیخ کے باب میں اس طرح حق کو ظاہر کیا ’’ بے شائبہ تکلف و سخنوری و بے غائلہ تصنیف و مدح گستری امروز در عقل و فہم نظیر و عدیل ندارد با آنکہ ہموارہ در خدمت شاہنشاہی چوں عرض بجوہر قائم است اگر ساعتے فرصتے مے یابد اوقات رابہ تحصیل سخنان فضلا و تحقیق مطالب حکما مصروف میدارد دو در انشاید بیضا دارد چہ نوادر حکایات بعبارت تازہ در سلک تحریر مے کشد۔ واز تکلفات منشاینہ و تصنیفات مترسلانہ اجتناب واجب میداند و شاہد ایں معنی اکبر نامہ است و ہمچنیں بشعر خواندن رغبت بسیار داردو بہ نزاکت و دقت نظم نیک مے رسددا حیاناً بنا برآزمودن طبع جواہر نظمے از کان اندیشہ بیروں مے آرد۔‘‘ تصنیفات اکبر نامہ دفتر اول میں سلسلہ تیمیوریہ کا حال ہے مگر مختصر بابر کا کچھ زیادہ ہمایوں کا اس سے زیادہ (عام ترتیب میں یہ جلد اول ہے) پھر اکبر کا17 برس کا حال اسے قرن اول قرار دیا ہے کیونکہ 13 برس کی عمر میں تخت نشینی کے 17 برس کا حال یہ کل 30 برس ہوئے (عام ترتیب میں اس پر جلد دوئم ختم ہوتی ہے) دیباچہ میں کچھ عذر بھی لکھے ہیں جیسا کہ با کمال مصنفوں کا انکسار ہوتا ہے یہ منصفانہ تحریر قابل تعریف ہے کہ میں ہندی ہوں فارسی میں لکھنا میرا کام نہیں تھا بڑے بھائی کے بھروسے پر یہ کام شروع کیا اور افسوس یہ کہ تھوڑا ہی لکھا گیا تھا جو ان کا انتقال ہوا۔ دس برس کا حال ان کی نظر سے اس طرح گذرا ہے کہ انہیں اس پر بھروسہ نہ تھا میری خاطر جمع نہ تھی۔ دفتر دوم 18 جلوس یعنی قرن ثانی سے شروع کیا ہے اور 46 جلوس1110ھ پر ختم کیا عام ترتیب میں جلد سوم ہے باقی آخر عہد اکبر کا حال عنایت اللہ محب نے لکھ کر تاریخ اکبری پوری کی مگر مروج نہیں۔ اسے الفنسٹین صاحب محمد صالح کی طرف منسوب کرتے ہیں) جلد اول جس میں ہمایوں کا حال ختم کیا ہے اس کی عبارت سلیس منشیانہ محاورہ متانت سے دست و گریبان ہے۔ جلد دوم اکبر کی 17 سالہ سلطنت کا حال ہے اس میں مضامین کا جوش و خروش لفظوں کی شان و شکوہ عبارت زور شور پر ہے۔ اور بہار کے رنگ اڑتے ہیں اس کا انداز عالم آر اے عباسی اور انشائے ظاہر وحید سے ملتا ہے۔ جلد سوم میں رنگ بدلنا شروع ہوا ہے عبارت بہت متین سنجیدہ اور مختصر ہوتی جاتی ہے یہاں تک کہ اس کے وہ سالہ اخیر کو دیکھیں تو آئین اکبری کے قریب قریب جا پہنچتی ہے لیکن جس جس رنگ میں ہے اسے پڑھ کر دل کہتا ہے کہ یہی خوب ہے۔ ہر جشن جلوس پر بلکہ بعض بعض معرکوں کی ابتداء میں ایک ایک تمہید چند سطر یا آدھے صفحے کی کہیں بہاریہ رنگ میں کہیں حکیمانہ انداز میں اس میں دو دو شعر بھی نہایت خوبصورتی کے ساتھ تضمین ہیں جن میں اکثر رنگینی کم، متانت زیادہ۔ نمونہ کے طور پر چند جلوسوں کے دیباچے لکھتا ہوں۔ آغاز سال ہژدہم الٰہی از جلوس مقدس شاہنشاہی دریں ہنگام سعادت پیرائے شعہ رایات سلطان بہار صیقلگر مرات طبائع شد چمن رابیر ند سوری و پرنیاں سمن آئین بستند شمال و صباخں و خاشاک خزاں از گلستان روزگار و رفتند اعتدال ہوا چوں عدالت شاہنشاہی نیرنگ ساز بدائع نگار و تاز گیہائے شگرف و نادرہ کاریہائے نو شگفت افزائے جہانیاں شد خواست پریدن چمن از چابکی خواست چکیدن سمن از ناز کی قافلہ زن یا سمن و گل بہم قافیہ گو قمری و بلبل بہم پس از سپری شدن ہشت ساعت و ہفت دقیقہ شب چہار شنبہ ششم ذیعقد ہفصد و ہشتاد قمری نیر اعظم فروغ افروز عالم پر تو محاذات بہ برج گل انداخت و عالم عنصری فروغ ملک روحانی گرفت۔ آغاز سال بست و دوم الٰہی از جلوس اقدس شاہنشاہی شہر یار معدلت دوست در حواشئے دیپالپور عبادت نشاء تجرد و تعلق را در نقاب شکار بتقدیم رسانیدہ صورت رابہ معنی مزاج یکشائی مے بخشد لو ظاہر را پایہ باطن مید ہد گلبانگ اعتدال ربیعہ چہرہ افروز انبساط آمد نشاط رابارگاہ فراخ زدند و ہنگامہ بخشش رونق دیگر پذیرفت شب دو شنبہ تسبم ذوالحجہ بعد از ہفت ساعت و دوازدہ دقیقہ فروغ افزامے نورستان ایزدمی پر تو خرمی بحمل انداخت مناظر صورت را رنگ آمیزی مطالع انوار حقیقت در گرفت آسماں جواہر نیسانی بار معانی بزمین فروریخت وادبہ نثار قدوم نور سیدگان ملک تقدس ہزاراں نقش دلفریب بیروں فرستاد گیتی خدیو مراسم سپاس گذاری را آئین تازہ پیش گرفت و بخایش رار و زبہجت پدید آمد جہاں از نقش قدرت شد چو صورتخانہ مانی چمن از نور حکمت شد چو فکر بو علی سینا زمیں از خرمی گوئی کشادہ آسماں استی کشادہ آسماں گوئی شگفتہ بوستاں استی آغاز سال بست و ششم الٰہی از جلوس شاہنشاہی علم دولت نو روز بصحرا برخاست فیض روح القدس از عالم برنا برخاست چہ ہوا ئیست کہ خلدش بہ تحیر بہ نشست چہ زمینے است کہ چرخش بتولا برخاست شب پنجشبہ پنجم صفر نہ صدو نود ہلالی بعد از سپری شدن شش ساعت دبست و دود ققیہ نور پرواز جہان صورت و معنی و بار خدائے عالم پنہاں و پیدابہ برج حمل نظر حرمی انداخت و عنصری عالم را چوں روحانی ملک نور آگیں گردانید جشن شادمانی آریش تازہ یافت۔ صلائے عیش بلند آوازہ شد۔ ازانچہ در سر آغاز ایں سال خجۃ تابش ظہور داد نہضت رایات ہمایوں است بصوب دریائے سندھ۔ آغاز سال بست و نہم از مبدائے جلوس دریں سر آغاز روز افزوں و تازہ کاری دولت ابد پیوند رسیدن نو خواستگان دیریں بقا جہاں را شادمانی دیگر بخشید و بے برگان آفرینش را تازہ آبے بر روے کار آمد نظم شکایتہا ہمیں کردی کہ بہمن برگ ریز امد بیا برخیز گلشن بیں کہ بہمن در گریز آمد زرعد آسماں بشنو تو آواز دہل یعنی عروسی دار دایں بستاں کہ بستاں بر جہیز آمد بقشبنداں کار آگاہ سلطنت درنیز نگئے آرایش دولت خانہ والانگہی بکار بردند وبگزیں روشے اساس ازیں بر نہادند۔ بست و پنجم اسفندار مز دربستاں سرائے کہ چہار کروہے فتحپور بفرمایش حضرت مریم مکانی سر سبز و شاداب است بزم عشرت پیر استند و برخے پردگیاں دراں روحانی منزلگاہ بار یا فتند اشارہ یہ ہے کہ اس سال سلیم کی شادی ہے۔ جس طرح ملا صاحب وقت پر رک نہیں سکتے اس وقت آزاد بھی نہیں رہ سکتے۔ ان کی روح سے چند ساعت کے لئے معافی مانگتا ہے اور اہل انصاف کو دکھاتا ہے کہ ہر شخص کے کمال میں بلکہ بات بات میں بال کی کھال اتارتے تھے اور بیشک صراف سخن تھے لفظ لفظ کو خوب پرکھتے تھے لیکن میں حیران ہوں کہ رات دن ابو الفضل و فیضی سے شیر و شکر رہتے تھے۔ اور ان کلاموں کو ان کی زبانوں سے سنتے تھے اور اپنے کلام کو بھی دیکھتے تھے باوجود اس کے اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ اکبر نامہ کے عہد تحریر میں مجھ سے ایک رکن سلطنت نے کہا کہ بادشاہ نے شہر نگرچیں آباد کیا ہے۔ اکبر نامہ کے انداز میں تم بھی اسکی تعمیر کی صورت حال لکھو۔ آپ نے اس پر ایک آدھے صفحہ کی عبارت لکھی ہو گی۔ اسے بھی اپنی کتاب میں درج کر دیا ہے۔ یہ ضرور ہے کہ اپنا بیٹا سب کو خوبصورت معلوم ہوتا ہے۔ لیکن ملا صاحب اور سب برابر بھی تو نہیں۔ اندھیرے اجالے میں فرق نہ معلوم ہوا؟ بیشک اکبر نامہ کا انداز یہی ہے۔ مضامین کا ہجوم۔ عبارت کا جوش و خروش۔ لفظوں کی دھوم دھام۔ کلمات مترادف کی بہتات۔ ہر واقعہ کے ساتھ اس کی دلیل و برہان کئی کئی کاف بیانیہ جملے معترضے۔ فقرہ پر فقرہ چڑھتا چلا آتا ہے۔ گویا کمان کیانی ہے۔ کہ کھنچتی ہی چلی جاتی ہے۔ انہوں نے اس کی نقل کی ہے۔ خیر وہ تو کب ہو سکتی ہے۔ بیٹھے منہ چڑاتے ہیں۔ اور اخیر کے شعر پر تو رو ہی دئیے۔ تم نے دیکھ ہی لیا ہے۔ وہ بھی شعر لکھتا ہے۔ مگر سبحان اللہ جیسے انگوٹھی پر یاقوت جڑ دیا۔ بھلا اس عبارت کو کتاب میں نقل کر کے اپنے تئیں رسوا کرنا کیا ضرور تھا۔ (ملا صاحب کی عبارت) دریں سال تعمیر شہر نگر چیں واقع شد وسطرے چند کہ یکے از اعیان دولت در وقت تالیف اکبر نامہ بفقیر فرمودہ بود کہ دریں باب بنویسد۔ آں را بجنس ایرا دمے نماید۔ چوں مہندرس کارخانۂ ابداع۔ اندیشہ بلند شہر یار کامگار را کہ معمار معمورۂ گیتی خصوصاً بنائے مقصورۂ ہند است۔ از آغاز فطرت اختراع آئین ایجاد فرمودہ تابمتضائے بیت جہاندار داند جہاں داشتن یکے را بریدن دگر کاشتن ہر سہ منزلے و ہر گل زمینے را کہ ہوائے آں معتدل و فضائے آں فسخ۔ آبش گوارا۔ و سوادش مسطح باشد تعمیر بخشیدہ محل نزول اجلال مواکب اقبال سازد چہ اختیار اماکن متنزہ و مساکن طیبہ و منازل مروجہ۔ و میاہ عذب۔ بہر ابقائے نعمت صحت بدنی۔ و احتمائے اعتدال مزاج انسانی کہ وسیلۂ معرفت و طاعت یزدانی ہماں تواند بود۔ از جملۂ ستۂ ضروریہ است۔ خصوصاً وقتے کہ بعضے از مصالح ملکی نیز مثل سیر و شکار وغیرہ ہآں منضم گردد۔ بنا بریں دواعی دریں سال خجستہ فال بعد از معاودت از سفر مالوہ کہ اولیاے دولت منصور و اعدائے ملک مقہور شدہ بودند پیشدید ہمت والا نہمت و اقتضائے رائے جہاں آرا چناں افتاد کہ ککرولی را بیک فرسنگے آگرہ واقع شدہ و بااعتبار لطافت آب و نظافت ہوا بر خیلے امکنہ رحجانے و مزیتے تمام داشتہ۔ معسکر حشم ہمایوں و مخیم دولت اہد پیوند گردایندہ و از مضایق مداخل و معارج شہر قدسی مآثر رافراغتے حاصل گشتہ اوقات فرخندہ سمات را گاہے بچوگاں بازی۔ و گاہے بدوایندن سگان تازی و پرایندن جانوران گوناگوں مصروف سازند۔ و بنائے آں معمورۂ بلند اساس را بشگون استحکام مبانئے قصر سلطنت بزدال و تفاول از دیا و جاہ و جلال گرفتہ۔ فرمان نافذ براں گونہ غرا صدا ریافت۔ کہ باریافتگان قرب و منظور ان نظر عاطفت ہر کدام از برائے خود درآں مکان مرفہ عمارت عالی و منازل رفیع بنیاد نہند و در اندک مدت سواد آں بقطعۂ لطیف از پر تو توجہ حضرت ظل اللٰہی۔ خال رخ نو عروس عالم شد و نگر چیں کہ عبارتست از امن آباد نام یافت بیت للہ الحمد ہر آں نقش کہ خاطر مے خواست آمد از غیب پس پردۂ اقبال پدید ملا صاحب نے گول مول فقرے میں لکھا ہے۔ نہیں کھلتا کہ فرمائش کرنے والا کون تھا؟ غالباً آصف خاں یا قلیچ خاں ہوں گے۔ امرا میں سے انہیں کے جلسوں میں آپ اکثر شامل رہا کرتے تھے۔ اور یہ بھی عجب نہیں ۔ کہ ابوالفضل ہی نے فرمائش کر دی ہو۔ وہ بھی ثقہ ظریف تھے۔ کہا ہو گا کہ باتیں تو بہت بناتے ہیں۔ کچھ کر کے بھی تو دکھائیں۔ گھڑی دو گھڑی دل لگی رہے گی۔ ع ہاں خلیفہ ہم بھی دیکھیں پہلوانی آپ کی باوجود ان سب باتوں کے جو شخص اس دریائے فصاحت کو اول سے آخر تک پڑھے گا۔ اور پھر کنارہ پر کھڑے ہو کر دیکھے گا تو معلوم کرے گا۔ کہ اس کے سرچشمہ پر پانی کا لطف اورلذت کچھ اور ہے۔ ۲۰ کوس پر کچھ اور ہے۔ بیچ میں کچھ اور ہے۔ اور پھر کچھ اور۔ یہ اتفاقات وقت کا مقتضا ہے۔ نئے ایجادوں میں ایسی تبدیلیاں ضرور ہوتی ہیں۔ یہ کوتاہی اس کی قابل ترمیم ہے۔ وہ جہاز سخن کا ناخدا ضرور اس بات کو سمجھا ہو گا۔ اور عجب نہیں۔ کہ اگر عمر وفا کرتی تو اول سے شروع کر کے اخیر تک ایک رفتار کر دکھاتا۔ دفتر سوم آئین اکبری ۱۰۰۶؁ھ میں تمام کی۔ اس کی تعریف حد بیان سے باہر ہے۔ کیونکہ ہر ایک کارخانہ کا۔ اور ہر ایک معاملہ کا حال۔ اس کے جمع و خرچ کا حال۔ ہر ایک کام کے ضوابط و قانون لکھے ہیں۔ سلطنت کے صوبہ صوبہ کا حال۔ ان کے حدوداربعہ۔ ان کی مساحت۔ اس طرح کہ اول مختصر ہر جگہ کے تاریخی حال۔ پھر وہاں کی آمدنی اور خرچ۔ پیداوار قدرتی و صنعتی وغیرہ وغیرہ۔ وہاں کے مشہور مقام۔ مشہور دریا۔ نہریں یا نالے اور ان کے سرچشمے۔ اور یہ کہ کہاں سے نکلے اور کہاں کہاں گزرتے ہیں۔ اور کیا فائدہ دیتے ہیں۔ اور کہاں کہاں خطر ہیں۔ اور کب کب ان سے نقصان پہنچے۔ وغیرہ وغیرہ۔ فوج اور انتظام فوج۔ امرا کی فہرست اور ان کے مدارج۔ اقسام ملازمان۔ اسامی اہل دربار و اہل خدمت فہرست اہل دانش۔ علما و اہل کمال۔ اہل موسیقی۔ اہل صنعت۔ فقرائے صاحب دل عام اہل ریاضت۔ تفصیل مزاروں اور مندروں کی اور ان کے حالات۔ بیان ان اشیا کا جو ہندوستان کے ساتھ خصوصیت رکھتی ہیں۔ عقائد اہل ہند۔ علوم اہل ہند اور بہت سے حقائق و دقائق ان کی کتابوں سے حاصل کئے تھے۔ یہ باتیں آج کل کے اہل نظر کی آنکھوں میں نہ جچیں گی کہ سرکاری رپورٹیں دیکھتے ہیں۔ اب ادنیٰ ادنیٰ ضلع کے ڈپٹی کمشنر یا مہتممان بندوبست اسے کئی درجہ زیادہ تحقیقیں اپنے ضلع کی سالانہ رپورٹوں میں لکھ دیتے ہیں۔ لیکن جو لوگ زیادہ نظر وسیع رکھتے ہیں اور پس و پیش پر برابر نگاہ دوڑاتے ہیں اور زمانہ کی کار گذاری کو وقت بوقت دیکھتے چلے آتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ اس وقت اس سلسلہ کا سوچنا اور نظام باندھنا اور اس کا پھیلانااور پھر سرانجام کو پہنچانا ایک کام رکھتا تھا۔ جو کرتا ہے۔ وہی جانتا ہے۔ کہ لفظ لفظ پر کتنا لہو ٹپکانا پڑتا ہے۔ اب تو رستہ نکل آیا۔ دریا پایاب ہے۔ جس کا جی چاہے اتر جائے۔ مطالب مندرجہ کی تحقیقوں پر نظر کیجئے تو عقل حیران ہوتی ہے۔ کہ کہاں سے یہ ذخیرہ پیدا کیا۔ اور کس خاک میں سے ذرے چن چن کر یہ سونے کا پہاڑ کھڑا کر دیا۔ ایک ادنیٰ نکتہ دیکھ کر سمجھ لو کہ سات اقلیم کی معمولی تقسیم کر کے آپ بھی نئی تحقیقاتیں لکھی ہیں۔ ان میں کہتا ہے۔ کہ اہل فرنگ کے سیاحوں نے آج کل ایک نیا جزیرہ دیکھا ہے۔ جس کا نام چھوٹی دنیا (ینگی دنیا) رکھا ہے۔ ظاہر ہے۔ کہ اس سے امریکہ مراد ہے۔ جو انہی دنوں کولمبس نے دیکھی تھی۔ مگر افسوس اس کتاب کی کم نصیبی پر کہ ملا صاحب نے کس خواری سے خاک اڑائی۔ آئین اکبری کی عبارت کے باب میں کچھ کہے بغیر آگے بڑھوں تو دربار انصاف میں مجرم قرار پائوں۔ اس لیے کم سے کم اتنا کہنا واجب ہے۔ کہ اس کے چھوٹے چھوٹے فقرے۔ مقلوبی ترکیبیں۔ نئی تراشیں۔ اس پر دل پذیر و دلکش دو دو تین تین لفظوں کے جملے سنجیدہ برگزیدہ صفحوں کا عطر اور ورقوں کی روحیں ہیں۔ فضول اور زاید لفظ ممکن نہیں کہ آنے پائے۔ تشبیہ اور استعارہ کا نام نہیں۔ اضافت پر اضافت آ جائے تو قلم کا سر کٹ جائے۔ پاک صاف سلیس اور اس پر نہایت برجستہ اور متین ہے۔ تکلف عبارت آرائی۔ مبالغے اور بلند پروازیوں کا نام نہیں۔ یہ انداز ابو الفضل نے اس وقت اختیار کیا ہو گا۔ جب کہ آتش پرستوں کا مجمع خاندیس کے علاقہ سے ژند و پہلوی کی کتابیں لے کر آیا ہو گا۔ بیشک اس نے اس امر کا التزام نہیں رکھا۔ کہ عربی لفظ اصلاً عبارت میں نہ آنے پائے۔ لیکن انداز عبارت دساتیر اور اردیراف وغیرہ پارس کی کتب قدیمہ سے لیا ہے۔ اور یہ اصلاح اس کی بالکل درست اور قرین مصلحت تھی۔ کیونکہ اگر فارسی خالص کی قید لگاتا تو کتاب مشکل ہو کر فرہنگ کی محتاج ہو جاتی۔ جس طرح اب ہر شخص پڑھتا ہے۔ اور مزے لیتا ہے۔ پھر یہ بات کب ہو سکتی تھی۔ غرض کہ جو کچھ اس نے لکھا خوب ہی لکھا ہے۔ وہ اپنی طرز کا آپ ہی بانی تھا۔ اور اپنے ساتھ ہی لے گیا۔ پھر کسی کی مجال نہ ہوئی ۔ کہ اس انداز میں قلم کو ہاتھ لگا سکے۔ اللہ اللہ آئین اکبری کا خاتمہ لکھتے لکھتے ایک مقام پر زور میں بھر کر کیا مزے سے لکھتا ہے اور سچ کہتا ہے۔ ؎ صد داستان بو العجب آمد بروئے کار حیراں شوند اگر دو سہ حرفے رقم زنند نکتہ چینی جن لوگوں کے دماغوںمیں نئی روشنی سے اجالا ہو گیا ہے۔ وہ اس کی تصنیفات کو پڑھ کر یہ لکھتے ہیں کہ ابوالفضل ایشیائی انشا پردازوں میں سب سے بڑا مبالغہ پرداز مصنف تھا۔ اس نے اکبر نامہ اور آئین اکبری کے لکھنے میں فارسی کی پرانی لیاقت کو تازہ کیا ہے۔ اس نے خوش بیانی اور یادہ سرائی کے پردہ میں اکبر کی خوبیاں دکھائی ہیں اور عیب اس طرح چھپائے ہیں کہ جس کے پڑھنے سے ممدوح اور مداح دونوں سے نفرت ہوتی ہے اور دونوں کی ذات و صفات پر بٹا لگتا ہے۔ البتہ بڑا علامہ۔ عاقل۔ دانا۔ مدبر تھا۔ دنیا کے کاموں کے لیے جیسی عقل کی ضرورت ہے وہ اس میں ضرور تھی۔ آزاد کہتا ہے۔ کہ جو کچھ الفاظ و عبارت کے پڑھنے والوں نے کہا یہ بھی ہے۔ لیکن وہ مجبور تھا۔ کیونکہ فارسی کا ڈھنگ چھ سو برس سے یہی چلا آتا تھا۔ اس کے ایجادوں نے بہت اصلاح کی ہے اور خرابیوں کو سنبھالا ہے۔ باوجود اس کے جو زبان کے ماہر ہیں۔ اور رموز سخن کے تاڑنے والے ہیں۔ اور کلام کے انداز اور ادائوں کو جانتے اور پہچانتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ جو کچھ کہا اور جس پرایہ میں کہا۔ کوئی بات اٹھا نہیں رکھی۔ اصل حقیقت کو لکھ دیا ہے۔ اور انشاء پردازی کا آئینہ اوپر رکھ دیا ہے۔ یہ اسی کا کام تھا۔ یہ بھی اسی کا کام تھا۔ کہ سب کچھ کہہ دیا۔ اور جن سے نہ کہنا تھا۔ وہ کچھ بھی نہ سمجھے۔ اور اب تک بھی نہیں سمجھے۔ خوشامد کی بات کو ہم نہیں مانتے۔ ہر زبان کی تاریخیں موجود ہیں۔ کونسا مؤرخ ہے۔ کہ خوشامد شاہ اور حمایت قوم سے پاک ہو۔ وہ اپنے آقا کا ایک نمک حلال وفادار نوکر تھا۔ اسی کے انصاف سے اس کے خاندان کی عزت و آبرو بچی۔ اسی کی حفاظت سے سب کی جانیں بچیں۔ اسی کی بدولت اس کے فضل و کمال نے قدر و قیمت پائی۔ اسی کی قدر دانی سے رکن سلطنت ہو گیا۔ اسی کی پرورش سے تصنیفات ہوئیں اور انہوں نے بلکہ خود اس نے صدہا سال کی عمر پائی۔ خوشامد کیا چیز ہے؟ اس کا تو دل عبادت کرتا ہو گا۔ اور جان لوٹ لوٹ کر خاک راہ ہوئی جاتی ہو گی۔ اس نے بہت سا ادب ظاہر کیا۔ شکریہ ادا کیا۔ لوگوں نے خوشامد نام رکھا اور خوشامد کی تو تعجب کیا؟ اور گناہ کیا کیا؟ آج کے لوگ اس کی جگہ پر ہوتے تو اس سے ہزار درجہ زیادہ بکواسیں کرتے اور ایسا نہ کر سکتے۔ مگر ان کی وہ قسمت کہاں۔ ہاں ہاں ایک بات ہے۔ اس نے ہندوستان میں بیٹھ کر ایشیائی علوم اور زبان عربی و فارسی میں یہ کمال پیدا کیاکہ اکبر کا وزیر ہو گیا۔ تم اب انگریزی میں ایسا کمال پیدا کرو کہ سب کو پیچھے ہٹائو اور بادشاہ وقت کے دربار پر چھا جائو۔ پھر دیکھیں تم کتنے مصنف ہو اور کیا لکھتے ہو۔ میرے دوستو دیکھو! وہ سلطنت کا ایک جزو تھا۔ آج ارکان سلطنت نظام ملکی کے لیے ہزار طرف سے حکمت عملی اور مصلحتیں کھیلتے ہیں۔ اگر ہر بات میں سچ۔ واقعیت اور اصلیت پر چلیں اور لکھیں تو ابھی سلطنت درہم برہم ہو جاتی ہے۔ لوگوں کو حرف پڑھنے آ گئے ہیں۔ زبان چلنے لگی ہے۔ دوسرے کی بات کو سمجھتے نہیں۔ جو منہ میں آتا ہے کہے جاتے ہیں۔ ابوالفضل کے بعد علامہ کا خطاب سلاطین تیموری میں سعد اللہ خاں چنیوٹی کے سوا کسی کو نصیب نہیں ہوا۔ کہ وزیر شاہجہان کا تھا۔ ملا عبدالحمید لاہوری نے شاہجہاں نامہ میں ایلچی ایران کے حال میں لکھا ہے کہ بادشاہ کی طرف سے ایک مراسلہ لکھا گیا۔ کہ سعد اللہ خاں نے لکھا تھا۔ وہیں اصل مراسلہ بھی نقل کر دیا ہے کیا کہوں ابوالفضل کی نقل تو کی ہے۔ ایک تمہید بھی اول میں ویسی ہی اٹھائی ہے۔ الفاظ کی دھوم دھام بھی دکھائی ہے۔ فقرہ پر فقرے بھی مترادف سوا کئے ہیں مگر یہ عالم ہے جیسے کوئی نو رفتار لڑکا چلتا ہے۔ دو قدم چلے گر پڑے۔ اٹھے چار قدم چلے بیٹھ گئے۔ اور یہ بات بھی اس صورت میں حاصل ہوئی ۔ کہ صاحب کمال جلدیں کی جلدیں لکھ کر رستہ بتاتا گیا تھا۔ بھلا وہ بات کجا۔ اسے دیکھو کہ روا رو چلا جاتا ہے۔ نہ فکر کی پرواز تھکتی ہے۔ نہ قلم کی نوک گھستی ہے۔ اب ملا عبدالحمید کا حال سنو سلطنت چغتائیہ میں شاہجہان کی سلطنت سیف و قلم کے سامانوں اعلیٰ درجہ کی بانام و نشان سلطنت تھی۔ علماء و فضلا کے علاوہ ہر علم و فن کے باکمال اس کے دربار میں موجود تھے۔ بادشاہ کو منظور ہوا کہ عہد سلطنت کا کارنامہ لکھا جائے۔ جستجو ہوئی کہ آج کل اعلیٰ درجہ کا انشا پرداز کون ہے؟ کئی شخصوں کے لیے امیروں نے تقریب کی۔ کوئی پسند نہ آیا۔ ملا عبدالحمید لاہوری اس سند سے پیش ہوئے کہ شیخ کے شاگرد ہیں۔ ان سے بہتر کون ہو سکتا ہے۔ انہوں نے کچھ حال بھی نمونہ کے طور پر لکھ کر عرض کیا۔ حضور میں منظور ہوا۔ اور خدمت تحریر حوالہ ہوئی۔ ظاہر ہے کہ ابوالفضل کا شاگرد بڈھا فرتوت شاہجہان کے زمانہ میں ہو گا تو کیا ہو گا۔ تھوڑا سا حال لکھ کر وہ سترے بہترے ہو گئے۔ باقی کتاب اور لوگوں نے لکھی۔ خیر کوئی لکھے یہاں لکھنے کے قابل یہ بات ہے۔ کہ شاگرد ہونا اور شے ہے اور استاد کی بات حاصل ہو جانی اور شے ہے۔ شاہجہاں نامہ کی عبارت آرائی۔ بہار افشانی۔ گلریزی۔ رنگینی مسلم۔ مترادف فقروں کے جوڑے لگے ہوئے ہیں۔ مقفیٰ فقروں کے کھٹکے برابر چلے جاتے ہیں۔ مینا بازار لگا دیا۔ رسائل طغرا سجا دئیے۔ مگر اسے اکبر نامہ کی عبارت سے کیا نسبت۔ ملا عبدالحمید نازک خیال بہار بند انشاء پرداز اچھے تھے۔ رنگین رنگین لفظ چن کر لاتے تھے۔ اور بہاریہ فقروں میںمعمولی طور پر سجاتے تھے۔ اور مطلب ادا کر دیتے تھے۔ اس خلاق معانی کا کیا کہنا ہے۔ اس کے خانہ باغ میں گل و سنبل کو لائیں تو رنگ اڑ جائیں۔ طوطی و بلبل آئیں تو پر جل جائیں۔ وہاں تو فلسفہ و حکمت کی انشاء پردازی ہے۔ بیان و مطلب کے لئے آسمان طبع سے مضمون نہیں تارے اتارتا تھا۔ اور فلسفی نظر سے جانچ کر اپنی قادر الکلام زبان کے سپرد کرتا تھا۔ وہ جن لفظوں میں چاہتی تھی۔ ادا کر دیتی تھی۔ اور ایسا کہتی تھی۔ کہ آج تک جو سنتا ہے سر دھنتا ہے۔ ہم فقروں کو بار بار پڑھتے ہیں اور مزے لیتے ہیں۔ ان کی عمدہ تراشیں۔ انوکھی ترکیبیں دیکھنے کے قابل ہیں۔ فقط لفظوں کے پس و پش سے مطالب کا زمین سے آسمان پر پہنچا دینا اسی کا کام ہے۔ صورت ماجرا ایسی بنیاد سے بیان کرتا ہے۔ کہ دل تسلیم کرتا جاتا ہے۔ کہ یہ واقعہ جو ہوا۔ زمانہ کی حالت حکم کرتی تھی۔ کہ اسی طرح واقع ہو۔ اور اسی کے بموجب نتیجہ نکلے۔ کیونکہ بنیاد اس کی وہ تھی۔ اور وہ تھی وغیرہ وغیرہ۔ مکاتبات علامی یعنی انشائے ابوالفضل کہ مدرسوں اور مکتبوں میں عام و تام ہے۔ اس کے تین دفتر ہیں۔ انہیں اس کے بھانجے نے ترتیب دیا ہے۔ کہ نسبت فرزندی رکھتا تھا۔ اول دفتر میں مراسلے ہیں۔ جو بادشاہ کی طرف سے سلاطین ایران و توران کے لئے لکھے تھے۔ اور فرمان لکھے ہیں۔ کہ امرائے دولت کے لئے جاری ہوئے تھے۔ الفاظ کی شکوہ۔ معانی کا انبوہ۔ فقروں کی چستی۔ مضامین کی بلندی۔ کلام کی صفائی زبان کا زور دریا کا شور ہے۔ کہ طوفان کی طرح چلا آتا ہے۔ سلطنت کے مطالب ۔ ملکی مقاصد۔ ان کے فلسفی دلائل ۔ آئندہ نتائج کی ساری دلیلیں گویا ایک عالم ہے کہ بادشاہ طبع کے سامنے سر جھکائے کھڑا ہے کہ مطالب اور الفاظ کو جس پہلو سے جس جگہ چاہتا ہے باندھ لیتا ہے۔ وہی عبداللہ خاں اوزبک کا قول زبان پر آتا ہے۔ کہ اکبر کی تلوار تو نہیں دیکھی۔ مگر ابوالفضل کا قلم ڈرائے دیتا ہے۔ دفتر دوم میں اپنے خطوط اور مراسلے ہیں۔ کہ امرا اور احباب و اقربا وغیرہ کے نام لکھے ہیں۔ ان کے مطالب اور قسم کے ہیں۔ اس لئے بعض مراسلے جو خانخاناں یا کوکلتاش خاں وغیرہ کے نام ہیں وہ دفتر اول کی ہوا میں پرواز کرتے ہیں۔ باقی دفتر سوم کے خیالات میں مسلسل ہیں پہلے دونوں دفتروں کے باب میں اتنی بات کہنی ضرور ہے کہ سب پڑھتے ہیں۔ اور پڑھانے والے پڑھاتے ہیں۔ بلکہ علما و فضلا شرحیں اور حاشئے لکھتے ہیں۔ لیکن کچھ فائدہ نہیں۔ مزا اس کا جبھی آئے گا۔ کہ پڑھنے پڑھانے سے پہلے ادھر بابر۔ ہمایوں اکبر کی تاریخ۔ ادھر سلاطین صفویہ کی تاریخ ایران اور عبداللہ خاں کی تاریخ توران دیکھی ہو۔ راجگان ہند کے سلسلوں اور ان کی رسم و رواج سے آگاہی ہو۔ دربار اور اہل دربار کے حالات سے اور ان کے آپس کے جزوی جزوی معاملات سے بخوبی واقف ہو۔ یہ نہ ہو۔ تو پڑھنے والا ساری کتاب پڑھ لے گا۔ ایک اندھا ہے کہ تمام عجائب خانہ میں پھر آیا۔ اور کچھ خبر بھی نہیں۔ دفتر سوم میں اپنی بعض کتابوں کے دیباچے۔ بعض مصنفین سلف کی کتابوں میں سے کسی کتاب کو دیکھا ہے۔ اسے دیکھ کر جو جو خیال گزرے ہیں۔ انہیں کی تصویر ایک نثر کے رنگ میں کھینچ دی ہے۔ اس زمانہ میں کوئی ریویو کا نام بھی ایشیا میں نہ جانتا تھا۔ اس کے نکتہ یاب فکر کو دیکھو کہ تین سو برس پہلے ادھر گیا اکثر جگہ نفس ناطقہ کے مراتب عالی۔ طبیعت کی وارستگی۔ دل کی آزادی۔ جس میں دین و دنیا سے بیزاری۔ باوجود اس کے خیالات کی بلندی پروازی کا ایک عالم آباد ہے۔ بے خبر کہتے ہیں۔ کہ دونوں بھائی دہرئیے تھے۔ بد مذہب تھے۔ وہاں آ کر دیکھیں سبحان اللہ یہ جنید بغدادی بول رہے ہیں یا شیخ شبلی اور حقیقت میں خدا جانے کیا ہیں۔ اس دفتر کے شائق کو چاہیے کہ فلسفہ و حکمت کے ساتھ تصوف اور حکمت اشراق سے بھی بہرہ کافی حاصل ہو۔ تب لطف اٹھائے گا۔ ورنہ کھانا کھائے جائو۔ نوالے چبائے جائو۔ پیٹ بھر جائے گا۔ مزہ پوچھو تو کچھ نہیں۔ اس میں بعض سفید بیاضوں پر دیباچے لکھے ہیں۔ کہ کسی میں چیدہ اور برگزیدہ اپنی پسند کے اشعار شعرائے باکمال کے لکھتے ہیں۔ کسی میں بعض کتابوں کی کوئی عبارت یا تاریخی روایت پسند آتی تھی۔ وہ لکھ لیتے تھے۔ کسی میں کچھ موتی نظم یا نثر ہو کر اپنی طبیعت سے ٹپکتے تھے۔ وہ بھی ٹانک لیا کرتے تھے۔ کسی میں حساب کتاب کی یادداشت لکھتے تھے۔ افسوس وہ جواہر کے ٹکڑے اب کہاں ملتے ہیں۔ کتابوں پر خاتمے لکھے ہیں۔ یا ان پر اپنی رائے لکھی ہے ان کے اخیر میں یہ بھی لکھ دیا ہے کہ یہ فلاں تاریخ فلاں مقام میں لکھا گیا۔ معلوم ہوتا ہے کہ جو کیفیت ہمیں آج ان کے دیکھنے سے حاصل ہوتی ہے۔ یہ اسے اسی وقت معلوم تھی۔ اکثر تحریریں لاہور میں۔ بعض کشمیر میں ۔ بعض خاندیس میں لکھی ہیں۔ وغیرہ وغیرہ۔ انہیں پڑھ کر ہمیں ضرور خیال آتا ہے کہ لاہور میں اس وقت کیا عالم ہو گا۔ اور وہ خود کس طرح یہاں بیٹھا ہو گا۔ جب یہ لکھ رہا ہو گا۔ کشمیر اور اس کے اطراف میں دو دفعہ میرا گزر ہوا۔ کئی مقاموں پر دونوں بھائی یاد آئے اور دل پر عجب عالم گزرا (امیر حیدر بلگرامی سوانح اکبری میں لکھتے ہیں کہ مکاتبات ابوالفضل کے چار دفتر تھے۔ چوتھا خدا جانے کیا ہوا)۔ عیار دانش کتاب کلیلہ و دمنہ ہے۔ اصل سنسکرت میں تھی۔ یہاں سے نوشیرواں نے منگائی۔ وہاں مدت تک اسی عہد کی فارسی زبان میں جاری رہی۔ عباسیہ کے زمانہ میں بغداد میں پہنچ کر عربی میں ترجمہ ہوئی۔ سامانیوں کے عہد میں رودکی نے نظم کی۔ بعد اس کے کئی قالب بدل کر ملا حسین واعظ کی زبان سے فارسی متعارف کے کپڑے پہنے اور پھر اپنے اصل وطن یعنی ہندوستان میں آئی۔ اکبر نے جو اسے دیکھا تو خیال آیا کہ جب اصل سنسکرت ہمارے پاس موجود ہے۔ تو اسی کے مطابق کیوں نہ ہو۔ دوسرے یہ کہ کتاب مذکور پندو نصائح کے لحاظ سے خاص و عام کے لئے کار آمد ہے۔ یہ ایسی عبارت میں ہونی چاہیے۔ جسے سب سمجھ سکیں۔ انوار سہیلی لغات و استعارات کے ایک پیچ میں آ کر مشکل ہو گئی ہے۔ شیخ کو حکم دیا کہ اصل سنسکرت کو سامنے رکھ کر ترجمہ کرو۔ چنانچہ چند روز میں تمام کر کے ۹۹۶؁ھ میں خاتمہ لکھ دیا۔ مگر خاتمہ بھی وہ لکھا ہے۔ کہ معنی آفرینی کی روح شاد ہوتی ہے۔ ملا صاحب اس پر بھی اپنی کتاب میں ایک وار کر گئے۔ اکبر کے احکام جدیدہ کی شکایت کرتے کرتے فرماتے ہیں۔ کہ اسلام کی ہر بات سے نفرت ہے۔ علوم سے بیزاری ہے۔ زبان بھی پسند نہیں۔ حروف بھی نامرغوب ہیں۔ ملا حسین واعظ نے کلیلہ دمنہ کا ترجمہ انوار سہیلی کیا خوب لکھا تھا۔ اب ابوالفضل کو حکم ہوا۔ کہ اسے عام صاف ننگی فارسی میں لکھو۔ جس میں استعارہ و تشبیہ بھی نہ ہو۔ عربی الفاظ بھی نہ ہوں۔ بالفرض ملا صاحب کی رائے اکبر کے باب میں بالکل واقعی ہو۔ لیکن اسی مقدمہ خاص کو دیکھ کر کہہ سکتے ہیں۔ کہ ابوالفضل پر ہر جگہ طعن بے جا ہے۔ یہ تو ظاہر ہے کہ شیخ کا اور اس کے بزرگوں کا جو کچھ سرمایۂ فخر و کمال تھا۔ یہی عربی کے علوم اور عربی زبان تھی۔ اسے ان چیزوں سے نفرت و بیزاری ہونی ممکن نہیں ۔ ہاں اپنے بادشاہ کا فرماں بردار نوکر تھا۔ اپنی مصلحت کو سمجھتا تھا۔ آقا اور نوکر کے مراتب کو خوب پہچانتا تھا۔ اگر وہ اس کے حکموں کی صدق دل سے تعمیل نہ کرتا تو کیا کرتا۔ نمک حرام ہوتا؟ اور خدا کو کیا جواب دیتا؟ اور اکبر کے اس حکم سے بیزاری کا نتیجہ کیونکر نکال سکتے ہیں؟ اگر ایک دشواری کو آسانی کی منزل پر پہنچا دیا۔ تو اس میں کفر کیا ہو گیا۔ ملا صاحب کے ہاتھ میں قلم ہے۔ یہ بھی اپنے ملک تصنیف کے اکبر بادشاہ ہیں۔ جو جی چاہے لکھ جائیں۔ رقعات ابوالفضل یہ اس انداز کے خطوط ہیں جو انگریزی ملازموں میں نج کی (پرائیویٹ) تحریریں کہلاتی ہیں۔ ایک ایک فقرہ قابل دیکھنے کے ہے۔ ان سے اس کے طبعی حالات۔ دلی خیالات او ر گھر کے معاملات معلوم ہوتے ہیں۔ پھر بھی مزہ جبھی آئے گا کہ اس عہد کے تاریخی حالات اور اہل زمانہ کے جزوی جزوی امورات سے خوب واقف ہو۔ سبحان اللہ جن شیخ ابوالفضل کے لیے بھی لکھ چکا ہوں۔ کہ کبھی شیخ شبلی ہیں اور کبھی جنید بغدادی۔ انہی نے خان خاناں کے باب میں جو جو کچھ لکھا ہے۔ میں اسے پڑھ کر شرماتا ہوں۔ اور خان خاناں بھی وہ کہ جب پہلے دفتر میں اسے اکبر کی طرف سے فرمان لکھتے ہیں۔ تو محبت کا یہ عالم ہے کہ دل و جان اور دم و ہوش فدا ہوئے جاتے ہیں۔ دوسرے دفتر میں اپنی طرف سے خط لکھتے ہیں۔ تو محبت کا یہ عالم ہے کہ دل و جان اور دم و ہوش فدا ہوئے جاتے ہیں۔ بیرم خاں تو کیا؟ یہ معلوم ہوتا ہے۔ کہ ماں کے پیار بھرے سینہ سے دودھ بہا ہے۔ باوجود اس کے جبکہ خاندیس میں خانخاناں شہزادہ دانیال کے ساتھ ملک گیری کر رہا ہے۔ بعض اطراف میں یہ خود لشکر لئے پھرتے ہیں۔ کبھی دونوں پاس پاس آ جاتے ہیں۔ کبھی دور جا پڑتے ہیں۔ اور کام دونوں کے باہم دست و گریباں ہیں۔ وہاں سے بعض عرضداشتوں میں اکبر کو اور اکبر کی ماں اور اکبر کے بیٹے۔ اور شہزادہ سلیم یعنی جہانگیر کو عرضیاں لکھی ہیں۔ ان میں خانخاناں کی بابت وہ کچھ لکھتے ہیں اورایسے ایسے خیالات میں اول مضمونوں کو ادا کرتے ہیں کہ عقل حیران ہو کر کہتی ہے۔ یا حضرت جنید آپ اور یہ خیالات یا حضرت بایزید آپ اور یہ مقالات۔ میں ان میں سے بعض عرائض کی نقلیں اخیر میں ضرور لکھوں گا۔ انشاء اللہ تعالیٰ۔ کشکول فقیر کی کشتی گدائی کو کہتے ہیں۔ کہ ہر شخص نے دیکھی ہوگی۔ جو کچھ پاتا ہے۔ پلائو۔ خواہ چنے کے دانے۔ آٹا ہو کہ روٹی۔ دال کہ بوٹی۔ ہر طرح کا ٹکڑا ۔ گھی میں تر کہ سوکھا۔ کچھ ساتھ ہو ۔ کہ روکھا۔ باسی۔ تازہ۔ میٹھا۔سلونا۔ ترکاری۔ میوہ غرض سب کچھ اس میں ہوتا ہے۔ صاحب شوق اور طالب استعداد جو کتابوں کی سیر کرتا ہے۔ وہ ایک سادی کتاب پاس رکھتا ہے۔ جو مطلب پسند آتا ہے ۔ کسی علم کا ہو۔ کسی فن کا ہو۔ نثر یا نظم اس میں لکھتا جاتا ہے۔ اسے کشکول کہتے ہیں۔ اکثر علما کے کشکول مشہور ہیں اور ان سے طالب شائق کو سرمایہ معلومات کا حاصل ہوتا ہے۔ دلی میں میں نے ایک نسخہ ابوالفضل کے کشکول کا دیکھا تھا۔ شیخ ابوالخیر کے ہاتھ کا لکھا ہوا تھا۔ جامع اللغات ایک مختصر کتاب لغت میں ہے۔ عالم طالب علمی میں الفاظ جمع کئے ہوں گے۔ اسے ابوالفضل جیسے محقق کی طرف منسوب کرتے ہوئے شرم آٹی ہے۔ رزمنامہ (ترجمہ مہابھارت) پر دو جزو کا خطبہ لکھا ہے۔ ان کی تصنیفات کے دیکھنے سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ عاشقانہ اور رنگین مضامین زمین طبع میں بہت کم سرسبر ہوتے تھے۔ بہاریہ مضامین اور گل و بلبل اور حسن و جمال کے اشعار کہیں اتفاقاً خاص سبب سے لانے پڑتے تو مجبور لاتے تھے۔ طبیعت کی اصلی پیداواری جو کچھ تھی وہ نفس ناطقہ کے خیالات ۔ حکمت۔ معرفت۔ فلسفہ۔ پند۔ نصیحت۔ دنیا کی بے حقیقتی اور اہل دنیا کی ہوسوں کی تحقیر ہوتی تھی۔ ان تحریروں سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے۔ جو کچھ لکھتے تھے۔ قلم برداشتہ لکھتے تھے۔ اور طبیعت کی آمد سے کہتے تھے۔ انہیں اپنی تحریر میں جانکاہی اور عرق ریزی پر زور نہ ڈالنا پڑتا تھا۔ ان کے پاس دو جوہر خداداد تھے۔ اول مضامین و مطلب کی بہتات۔ دوسرے قدرت کلام اور الفاظ کی مساعدت۔ کیونکہ اگر یہ نہ ہوتے تو کلام میں ایسی صفائی اور روانی نہ ہوتی۔ نظم میں کوئی کتاب نہیں لکھی۔ لیکن یہ نہ سمجھنا کہ اس کی طبیعت قدرتی شاعری سے محروم تھی۔ میں نے غور کر کے دیکھا ہے۔ جہاں کچھ لکھا ہے اور جتنا لکھا ہے۔ ایسا لکھا ہے۔ کہ کانٹے کی تول۔ یہ ضرور ہے کہ ضرورت کا بندہ اور وقت کا پابند تھا۔ بے ضرورت کوئی کام ہو۔ اس کے قانون میں جائز نہ تھا۔ جہاں مناسب و موزوں دیکھتا ہے۔ نثر کے میدان کو نظم کے گلدستوں سے سجاتا ہے۔ جس سے ثابت ہوتا ہے ۔ کہ طبیعت حاضر تھی۔ اور عین موقع پر مدد دیتی تھی۔ جو مضمون چاہتا تھا۔ نہایت سنجیدہ اور برجستہ الفاظ اور چست ترکیب کے ساتھ موزوں کرتا تھا۔ مگر وہی کہ جتنی ضرورت ہو۔بلکہ یہ سنجیدگی اور برجستگی بڑے بھائی کے کلام کو حاصل نہ تھی۔ اکثر مثنوی کے ڈھنگ میں چند شعر لکھتا ہے اور نظامی کے مخزن اسرار اور سکندر نامہ سے ملا دیتا ہے۔ قصیدہ کے انداز میں انوری سے پہلو مارتا ہے۔ اور آگے نکل جاتا ہے۔ شکل و شمائل اکبر نامہ کے خاتمہ میں شیخ نے خدا کی چند نعمتوں کا ذکر کیا ہے۔ ان میں نمبر ۵و ۶ سے معلوم ہوتا ہے۔ کہ وہ ہاتھ پائوں ڈیل ڈول میں معتدل تھے۔ اعضا میں تناسب اور اعتدال تھا۔ اکثر تندرست رہتے تھے۔ مگر رنگ کے کالے تھے۔ عرائض مندرجہ کے اخیر میں تم دیکھو گے۔ کئی جگہ خانخاناں کی شکایت میں لکھتے ہیں۔ کہ حضور وہ جتنا رنگ کا گورا ہے۔ اتنا ہی دل کا سیاہ ہے۔ میں اگرچہ رنگ کا کالا ہوں۔ مگر دل کا سیاہ نہیں۔ اہل نظر نے ان کی تصنیفات کو اکثر پڑھا ہو گا۔ اور خیال کیا ہو گا۔ تو ضرور کھل گیا ہو گا۔ کہ وہ ایک متین کم سخن متحمل شخص ہو ں گے۔ چہرے سے ہر وقت معلوم ہوتا ہو گا۔ کہ کچھ سوچ رہے ہیں۔ ہر کام میں ہر بات میں چلنے پھرنے میں آہستگی ہو گی۔ چنانچہ یہی باتیں اس وقت کی تاریخوں کے متفرق مقاموں سے تراوش کرتی ہیں۔ ماثر الامراسے معلوم ہوتا ہے۔ کہ کبھی حرف ناشائستہ ان کے منہ سے نہ نکلتا تھا۔ فحش یا گالی سے زبان آلودہ نہ کرتے تھے۔ غیر تو درکنار اپنے نوکر تک پر بھی خفا نہ ہوتے تھے۔ غیر حاضری کی تنخواہ ان کی سرکار میں مجرا نہ لیتے تھے۔ جس کو وہ نوکر رکھتے تھے۔ پھر موقوف نہ کرتے تھے۔ نکما نالائق ہوتا ۔ تو اس کی خدمتوں کو ادل بدل کرتے رہتے۔ جب تک رکھ سکتے۔ رہنے ہی دیتے۔ وہ کہتے تھے۔ کہ اگر موقوف ہو کر نکلے گا۔ تو نالائق سمجھ کر کوئی نوکر نہ رکھے گا۔ جب آفتاب حمل میں آتا اور نیا سال شروع ہوتا ۔ تو گھر اور تمام کارخانوں کو دیکھتے۔ حساب کتاب کا فیصلہ کرتے۔ گوشواروں کی فہرست لکھوا کر دفتر میں رکھ لیتے اور کتابوں کو جلوا دیتے۔ سب پوشاک نوکروں کو بانٹ دیتے تھے۔ مگر پائجامہ سامنے جلوا دیتے تھے (خدا جانے اس میں کیا مصلحت تھی) شیخ کی تین بیبیاں تھیں۔ ۱۔ ہندوستانی۔ غالباً یہی گھر والی ہو گی۔ جس کے ساتھ ماں باپ نے شادی کر کے بیٹے کا گھر آباد کیا ہوگا۔ ۲۔ کشمیرن۔ عجب نہیں کہ پنجاب اور کشمیر کے سفروں میں خود تفریح طبع کا سامان بہم پہنچایا ہو۔ اگرچہ اس متین فاضل اور منصفانہ خیالات کے آدمی سے یہ بات بعید ہے مگر انسان ہے ایک وقت دل شگفتہ بھی ہوتا ہے۔ ۳۔ ایرانی۔ اگر میرے رائے غلط نہ ہو۔ تو یہ بی بی فقط زبان کی درستی اور خاص خاص محاورات رواں کرنے کی غرض سے کی ہو گی۔ فارسی کی انشا پردازی اس کا کام تھا۔ زبان کا جویا تھا۔ ہزاروں محاورے ایسے ہوتے ہیں کہ اپنے مقام پر خود بخود ہی ادا ہو جاتے ہیں۔ نہ پوچھنے والا پوچھ سکتا ہے۔ نہ بتانے والا بتا سکتا ہے۔ صاحب زبان سیاق تحریر میں بول جاتا ہے۔ اور طالب زبان وہیں گرہ میں باندھ لیتا ہے۔ پس خانہ داری کی جزئیات اور گھر کے کاروبار کی ادنیٰ ادنیٰ بات فرہنگ و مصطلحات سے کب حاصل ہو سکتی ہے۔ یہ کتابوں سے بھی معلوم ہوتا ہے۔ کہ دونوں بھائیوں کی صحبت میں ہمیشہ ایرانی موجود رہتے تھے۔ اور تمام خدمتگار اور کسب و کار کے لوگ ایرانی ہی تھی۔ مگر گھریلو باتیں تو گھر ہی میں ہوتی ہیں۔ اصلی محاورات اس ترکیب کے بغیر نہیں حاصل ہوتے ۔ دستر خوان کھانے کا حال سن کر تعجب آتا ہے۔ اجناس کا وزن ۲۲ سیر ہوتا تھا۔ کہ مختلف رنگوں سے پک کر دستر خوان پر لگتی تھیں۔ عبدالرحمن پاس بیٹھتا تھا۔ اور خانساماں کی طرح دیکھتا رہتا تھا۔ خانساماں بھی سامنے حاضر رہتا تھا۔ دونوں خیال رکھتے تھے۔ کہ کس رکابی میں سے دو تین یا کئی نوالے کھائے۔ جس کھانے میں سے ایک ہی دفعہ کھایا اور چھوڑ دیا۔ وہ دوسرے وقت دستر خوان پر نہ آتا تھا۔ کسی کھانے میں آب و نمک کا فرق ہوتا تو آپ فقط اشارہ کرتا۔ یعنی چکھو۔ وہ چکھ کر خانساماں کو دیتا۔ منہ سے کچھ نہ کہتا۔ خانساماں اس کا تدارک کرتا۔ جب دکن کی مہم پر تھا۔ دستر خوان وسیع اور کھانے ایسے پرتکلف اور عمدہ ہوتے تھے کہ آج کل کے لوگوں کو یقین نہ آئے۔ ایک بڑی خیمہ میں دستر خوان چنا جاتا تھا۔ ہزار عمدہ قابیں کھانے کی معہ اس کے لوازمات کے ہوتی تھیں اور سب امرا میں بٹ جاتی تھیں۔ پاس ہی اور بڑا خیمہ ہوتا تھا۔ اس میں کم درجہ کے لوگ جمع ہوتے تھے۔ اور کھانے کھاتے تھے۔ باورچی خانہ ہر وقت گرم رہتا تھا۔ اور کھچڑی کی دیگیں تو ہر وقت چڑھی ہی رہتی تھیں۔ جو بھوکا آتا تھا۔ رزق پاتا تھا۔ اور کھاتا تھا۔ چھبیسواں شکرانہ اداکرتے ہیں۔ کہ ۱۲ شعبان پیر کی رات ۹۷۹؁ھ میں لڑکا ہوا۔ مبارک دادا نے پوتے کا نام عبدالرحمن رکھا ۔ خود فرماتے ہیں۔ اگر ہندی نژاد ہے۔ مگر مشرب یونانی رکھتا ہے۔ حضور نے اسے کوکہ یعنی اپنے دو بھائیوں میں شامل کیا ہے۔ (اکبر ہی نے اس کی شادی سعادت یار خاں کوکہ کی بیٹی کے ساتھ کی تھی) ستائیسواں شکرانہ ہے ۔ کہ ۳ ذیقعد ۹۹۹؁ھ جمع کو عبدالرحمن کے ہاں لڑکا ہوا۔ گیتی خداوند نے پشوتن نام رکھا۔ عبدالرحمن عبدالرحمن نے جو باپ کے ساتھ دکن میں جانبازیاں کیں کچھ کچھ بیان ہوئیں۔ وہ حقیقت میں بڑا بہادر تھا۔ جن معرکوں میں جنگ آزمودہ سپاہی جھجک جاتے تھے۔ وہ جھپٹ کر جاتا تھا اور دلاوری اور دانائی کے زور سے ان معاملوں کو فیصلہ کر دیتا تھا۔ اسے زمانہ کے اہل تاریح تیر روئے ترکش لکھتے ہیں۔ تلنگانہ وغیرہ کی مہمیں مار کر اس نے باپ کے ساتھ دکن میں بڑا نام پید اکیا۔ اکبر کے سرداروں میں شیر خواجہ کہنہ عمل سپاہی تھا۔ کہیں اس کے ساتھ اور کہیں آگے بڑھ کر خوب خوب تلواریں ماریں۔ اور ملک عنبر دکن کے بہادر سردار کو دھاوے مار مار کر اور میدان جما جما کر شکستیں دیں۔ جہانگیر کی یہ بات قابل تعریف ہے۔ کہ اس نے باپ کے غصہ کو بیٹے کے حق میں بالکل بھلا دیا۔ دو ہزاری منصب عطا کیا۔ اور افضل خاں خطاب دیا۔ ۳؁ جلوس میں اسلام خاں اس کے ماموں کی جگہ بہار کا صوبہ دار کیا۔ بلکہ گورکھپور بھی جاگیر دیا۔ جب یہ بہار کا حاکم تھا۔ تو صدر مقام پٹنہ تھا۔ ایک جعلساز فقیر قطب الدین نام ادھر آیا۔اور لوگوں کو بہکایا۔ کہ میں جہانگیر کا بیٹا خسرو ہوں۔ قسمت نے یاوری نہ کی مہم بگڑ گئی۔ اب اس حال میں پھرتا ہوں۔ کچھ واقعہ طلب لوگ لالچ سے کچھ رحم کھا کر اس کے ساتھ ہو گئے۔ اس نے فوراً پٹنہ پر دھاوا کیا۔ وہاں شیخ بنارسی اور مرزا غیاث عبدالرحمن کی طرف سے حاکم تھے۔ انہوں نے ایسی بزدلی کی۔ کہ جعلی خسرو قابض ہو گیا۔ اور کل اسباب و خزانہ سب ہاتھ آیا۔ رحمن سنتے ہی شیر کی طرح آیا۔ جعلی خسرو مورچے باندھ کر سامنے ہوا۔ دریائے پن پن پر لڑائی ہوئی۔ مگر پہلے ہی حملے میں جعلی فوج تتر بتر ہو گئی۔ اور وہ بھاگ کر قلعہ میں گھس گیا۔ رحمن بھی پیچھے ہی پیچھے پہنچے اور پکڑ کر مار ڈالا۔ دو نوں بزدل سرداروں کو دربار میں بھیج دیا۔ جہانگیر سزا کے معاملے میں بڑے دھیمے تھے۔ انہوں نے ان کے سر منڈوائے۔ عورتوں کے کپڑے پہنائے اور الٹے گدھوں پر بٹھا کر شہر میں پھرایا۔ چند ہی روز بعد رحمن بیمار ہوئے۔ جب دربار میں گئے بڑی عزت ہوئی۔ افسوس کہ ۸؁جلوس جہانگیری میں باپ کے ۱۱ برس بعد مر گئے۔ پشوتن ایک بیٹا چھوڑا۔ پشوتن نے جہانگیر کے عہد میں ۷ سو پیادہ ۔ ۳ سو سوار کی افسری تک ترقی کی۔ شاہجہان کے عہد میں پانصدی کا منصب لیا۔ اور ۱۵؁ جلوس تک خدمتیں بجا لاتا رہا۔ میں نے وعدہ کیا تھا کہ خانخاناں وغیرہ کے باب میں جو انہوں نے پھول کترے ہیں۔ آخر میں ان کے ترجمہ سے ناظرین کا دل شگفتہ کروں گا۔ چنانچہ ایک عرضی مہم دکن سے بادشاہ کو لکھی ہے۔ اس میں القاب و آداب طولانی کے بعد حالات مختلفہ کے ذیل میں بعض امورات انتظامی خانخاناں کے متعلق لکھتے ہیں۔ پھر کہتے ہیں قسم ہے عزت الٰہی کی۔ اور اس کی گواہی کافی ہے کہ جو کچھ لکھا ہے۔ جو کہا ہے وہی ہے۔ اس میں ذرا بھی اور کچھ شبہ نہیں ہے۔ واللہ باللہ ثم باللہ الطالب الغالب الحی الذی لایموت۔ کہ کئی دفعہ کئی بار اس کے آدموں کو میرے پاس پکڑ کر لائے۔ اور اس کے نوشتے اقبال بادشاہی کے برخلاف پکڑے اور بجنسہٖ شہزادہ والا گوہر کو دکھائے۔ تمام ارکان دولت انگشت بدنداں ہو گئے۔ ہاتھ ملے اور رہ گئے۔ بیچارگی سے خاموش ہیں۔ عجز و انکسار کے سوا کوئی رستہ نہیں دیکھتے۔ چپ بیٹھے ہیں۔ مگر بڑے چھوٹے۔ امیر غریب سب سمجھتے ہیں کہ مہم دکن کو اسی نے الجھاوے میں ڈالا ہے۔ اور اسی کے سبب سے رکی ہوئی ہے۔ قبلۂ من۔ فدوی نے کئی دفعہ عریضہ میں عرض کیا ہے۔ مگر جواب شافی نہیں پاتا۔ عجب بات ہے۔ کہ فدوی کی عرض بھی غرض سمجھی جاتی ہے۔ ابوالفضل اس درگاہ کا پلا ہوا ہے اور خاک سے اٹھایا ہوا ہے۔ خدا نہ کرے کہ غرض آلودہ کہے۔ اور اس میں کوشش کرے جس میں اس خاندان کی بدنامی ہو۔ صاحب من ہم ہندوستان کے آدمی یکرو ہیں۔ خدا نے ہماری سرشت میں دو روئی پیدا ہی نہیں کی۔ الحمد للہ کہ ہم نمک کو حلال کر کے کھاتے ہیں۔ اور لوگوں کی طرح سفید رو اور سیاہ دل نہیں ۔ اگرچہ ظاہر میں رنگت کا کالا ہوں۔ باطن سفید رو ہے۔ جیسے آئینہ کے ظاہر میں اس کی سیاہ رنگی سے وہم پڑتا ہے۔ مگر خوب ملاحظہ فرمائیں۔ پاکیزہ دروں اور صاف دل ہوں۔ کھوٹ کپٹ کچھ نہیں۔ شعر نیم مہ کز فروغ غیر دارد خانہ نورانی چو خورشیدم کہ نور خانہ از شمع زباں دارم ایک اور تحریر میں فرماتے ہیں۔ قبلۂ من۔ اگرچہ شہزادہ کامگار کے اوضاع و عادات کی طرف سے ذرا خاطر جمع ہوئی ہے۔ لیکن عبدالرحیم بیرم کے فن و فریب کو کیا کیجئے اور کیا کہئے کہ لکھنے میں بیان عاجز اور کہنے میں زبان قاصر ہے۔ اگر تمام عمر اس کی ذوفنیوں کو لکھتے جائیے۔ پھر دیکھئے تو عشر عشیر بھی نہیں لکھا۔ ایک ذات بے بدل ہے۔ کہ نظیر اور شبیہ نہیں رکھتی۔ مکرو دغا میں یگانہ اور بے بدل زمانہ ہے۔ کیوںکہ اسے ہر باطن میں گزر ہے۔ اور ہر طرح کی ظاہر کی خبر ہے۔ ابھی دل میں بات نہیں گزرتی کہ اسے آگاہی ہو جاتی ہے۔ انسان اپنے کام کا ارادہ نہیں کرتا۔ کہ اسے معلوم ہو جاتا ہے۔ سبحان اللہ مجھ سرگردان بادیۂ حیرت کو اس تفکر نے گھیررا ہے کہ کیسی چالاکی ہے۔ کیسی طراری و مکاری ہے۔ کہ خدا تعالیٰ نے اسے کرامت فرمائی ہے لیکن یہ بات ذرا دل میں کھٹکتی ہے۔ کہ ظاہرا مشیئت حق میں سہو اور خطا ہوئی۔ جب یہ زمانہ کا نادرہ کار اور بوالعجائب روزگار موجود ہے۔ تو عزازیل بیچارے کو کہ اس کے اطفال دبستان میں داخل ہونے کے قابل ہی نہیں۔ لعنت کے لیے کیوں اختیار کیا؟ ع در ہر بن موئے او زبانے دگر است کوئی نمک کھائے اور اس بدسرشتی اور بدطینتی سے سلسلۂ تیموریہ کی دشمنی دل میں رکھتا ہو۔ تو اس کا کام کیونکر چلے گا؟ کیونکر انجام بخیر ہو گا؟ کیونکر نیکی کا منہ دیکھے گا؟ قبلۂ من۔ تمام دن تمام رات عنبر مقہور کے جاسوس اور مخبر موجود رہتے ہیں۔ اور بے خطر اور بے کھٹکے ان سے شیروشکر رہتا ہے۔ شہزادہ والا گوہر کا ملاحظہ اور رعایت ادب کچھ بھی نہیں ہے۔ اتنی بھی پروا نہیں کہ شاید کوئی درگاہ عالی میں لکھ بھیجے! اور حضور کو ملال ہو۔ یہ بے حیائی اور بے پروائی ہے۔ دعاگو شرطیہ لکھتا ہے۔ کہ اگر وہ اس ملک میں نہ ہو تو ایک سال میں دکن کی مہم پاک و صاف کر دیتا ہے۔ لیکن کیا کرے اور کیا کر سکتا ہے۔ اس کا نقش ایسا جم گیا ہے۔ کہ حضور کو بھی اور شہزادۂ عالمیان کو بھی اعتقاد ہوگیا ہے۔ کہ دکن کی مہم اس بغیر فتح نہ ہو گی۔ اور جب وہ نہ ہو گا کچھ نہ ہو گا۔ لانسلم۔ لانسلم۔ لانسلم۔ کوئی نہ مانے۔ میں نہ مانوں گا۔ تم بھی نہ مانو کہ ایسا ہو گا۔ بلکہ قضیہ بالعکس ہے کیونکہ جب وہ اس ملک میں نہ ہوگا۔ مہم کا کام بن جائے گا۔ اور تھوڑے عرصے میں۔ ذرا سی دیر میں دکن ہاتھ آ جائے گا اور دکنی آ کر سلام کریں گے۔ مانع الخیر وہی ہے۔ حقاً حقاً ثم حقا، لعزۃ اللہ تعالیٰ و کفی باللہ شہیدا۔ کہ جو کچھ میں نے کہا ہے اور لکھا ہے یہی ہے۔ اصلاً و قطعاً اس میں شبہ نہیں۔ واللہ باللہ تاللہ الغالب الحے الذی لایموت۔ کہ کئی بار اس کے آدمیوں کو گرفتار کر کے دعا گو کے پاس لائے اور اس کے نوشتے کہ بالکل اقبال و دولت بادشاہی کے مخالف ہیں۔ بجنسہٖ شہزادۂ والا گوہر کو دکھائے۔ تمام ارکان دولت دانتوں میں انگلیاں دے کر رہ گئے اور ہاتھ ملتے تھے۔ سب بیچارگی اور ناچاری سے چپ لگائے ہیں۔ اور عجز و انکسار میں اپنا بھلا دیکھتے ہیں۔ اور خاموشی کو نباہے جاتے ہیں۔ اعلیٰ ادنیٰ چھوٹے بڑے سب سمجھے ہوئے ہیں۔ کہ مہم دکن کو وہی الجھاوے میں ڈالتا ہے۔ اور اسی کے کرتوتوں سے مہم بند ہے۔ شعر ہر کہ زبانش دگر و دل دگر تیغ بباید زدنش بر جگر (ایک اور عرضی میں) قلبۂ ابوالفضل۔ میں تو لکھتے لکھتے تھک گیا۔ حضور کے دلنشیں نہیں ہوتا۔ انتہا یہ ہے۔ کہ حضور اسے معزول نہ فرمائیں۔ اتنا ہی لکھیں۔ کہ فلاں شخص کی بے مصلحت کچھ کام نہ کرو۔ اور ہمارے کہے سے پھروگے۔ تو آزردگی اور رنج ہو گا۔ شاید اسے پڑھ کر اس کے دل میں اثر ہو۔ بعض باتوں میں ذرا ہمیں بھی شریک کر لیا کرے۔ جہانگیر کو ایک عرضی دکن سے لکھی ہے۔ ذرا دیکھو نوجوان لڑکوں کو شیخ صاحب کن باتوں سے اور کیسے الفاظ و عبارت سے پھسلاتے ہیں۔ بڑے لمبے آداب القاب کے بعد لکھتے ہیں۔ کہ دنیا شش جہت میں محصور ہے۔ میں بھی شش جہت میں اپنی عرض کو منحصر کر تا ہوں۔ جہت اول یہ ہے اور دویم یہ ہے۔ تیسری جہت کے ضمن میں لکھتے ہیں کہ شہزادہ دانیال دن رات شراب میں غرق ہے۔ کوئی تدبیر راہ اصلاح پر نہیں لا سکتی۔ کئی دفعہ حضرت اعلیٰ کی خدمت اقدس میں عرضداشت لکھ چکا ہوں۔ بہتر ہے۔ کہ تم خود بدولت و سعادت اجازت لے کر ادھر تشریف لے آئو۔ دانیال کو گجرات بھجوا دو۔ تمہارے آنے سے تمام دکنیوں کو عبرت ہو جائے گی۔ اور عنقریب دکن فتح ہو جائے گا۔ عنبر سیاہ رو خود آ کر حاضر ہو جائے گا۔ چاہئے تھا کہ آپ ا س باب میں صاف و صریح لکھ کر مجھے بھیجتے۔ لیکن اصلاً و قطعاً متوجہ نہ ہوئے۔ اور اس امر میں کوشش نہ فرمائی اور کبھی اس دعا گو کو جواب شافی سے سرفراز نہ فرمایا۔ میں نیں جانتا کہ اس کا باعث کیا ہوگا۔ اور بندہ سے کون سی خطا ہوئی ہو گی کہ جس سے خاطر شریف پر ملال ہو ا ہو گا۔ خدا گواہ ہے کہ جو بندہ کی طرف سے دشمنوں نے آپ سے کہا ہے واللہ جھوٹ باللہ جھوٹ۔ ثم باللہ جھوٹ ہے۔ خدا نہ کرے کہ بندہ سے آنحضرت (آپ) کے باب میں حرف ناشائستہ سرزد ہو۔ ساری بات یہ ہے کہ بندہ کی بدنصیبی اس درجہ پر پہنچی ہے۔ کہ باوجود دولت خواہی و خاکساری کے غرض گو روسیاہ لوگ آپ سے نامناسب باتیں کہتے ہیں۔ اس میں میری کیا خطا۔ مگر خدا سے امیدوار ہے کہ جو کسی کی بدی کے درپے ہو گا۔ اچھی طرح سے اس کی جزا پائے گا۔ اللہ کے ہزار ناموں سے ایک نام حق ہے۔ جب وہی ناحق کا سزاوار ہو گا۔ تو حق کون کرے گا۔ دوسرے یہ کہ گنجائش کیا ہے؟ جو میں حضرت اعلیٰ سے تمہاری برائی کہوں۔ کیا مجھے اتنا بھی شعور نہیں۔ کہ بادشاہی کے سنبھالنے کی لیاقت کسے ہے؟ خاندان تیموریہ کا ننگ و ناموس کون رکھتا ہے اندھا بھی ہو تو اپنی قباحت سمجھ سکتا ہے اور چشم دل سے دیکھ سکتا ہے۔ چہ جائیکہ صاحب نظر۔ میں کور نہیں۔ کج فہم ہوں تو ہوں۔ مگر اتنا تو شاید سمجھوں کہ تم میں اور اور شہزادوں میں کیا فرق ہے۔ ع ز کعبہ تا سرکویش ہزار فرسنگ است آزاد خدا جانے شیخ صاحب نے کیا کچھ موتی پروئے ہوں گے۔ میں نے مہم دکن کے ضمن میں چند سطریں اکبر نامہ کی ترجمہ کر دی ہیں۔ ان سے ان کے اصلی خیالات معلوم ہو چکے مگر باوجود اس کے خیال کرو کہ کس خوبصورتی سے اپنی خیر خواہی کے نقش نوجوان لڑکے کے دل پر بٹھائے ہیں۔ چوتھی جہت کے ضمن میں لکھتے ہیں۔ کہ بندہ نے کئی دفعہ عبدالرحیم بیرم کی نالائقی کے باب میں حضور اعلیٰ کو لکھا کہ قبلۂ من اس سے آگاہ دل رہیں۔ اور اس کے ظاہری چاپلوسی پر فریفتہ نہ ہوں۔ ع در ہر بن موئے او زبانے دگر است عیاری اور مکاری میں بے نظیر آفاق ہے۔ خدا نے ویسا پیدا ہی نہیںکیا۔ وہ خدا کی حد آفرینش سے بہت بڑھ کر ہے۔ دورنگی اور دہ زبانی ختم ہے۔ اور نمک حرامی اس پر منحصر ہے۔ خدا گواہ ہے ملائک بھی اس عرضی پر شہد بمافیہ لکھتے ہیں۔ کہ دو دمان تیموریہ کا دشمن ہے اور یہ شیوہ اس کی میراث ہے۔ آنحضرت پر روشن ہے کہ بیرم نمک حرام نے اس سلسلۂ عالی کے برباد کرنے میں کمی نہیں کی۔ کیا کیا کام کئے۔ کیا کیا چالیں چلا۔ خدا خاندان والا کا مددگر تھا۔ اس کے مکر و حیلے نہ چلے۔ کچھ نہ کر سکا۔ خوار ہو گیا۔ کون برہنہ گنواروں کے ہاتھ پڑا۔ انہوں نے اسے بھی کون برہنہ کر کے نچایا ۔ کہ من سگ ملکم۔ من سگ ملکم کہہ کر ناچا۔ آخر حق مرکز آ ٹھیرا۔ اور کیوں نے ٹھیرے۔ جہاں اکبر جیسا بادشاہ عادل غازی ہو۔ وہاں وہ ذاتی کنگلا ہند کی بادشاہت کیونکر لے سکتا۔ جہاں ایسا شہباز شاخسار ملک پر حی و قائم ہو۔ ایک بندر چار دانگ ہندوستان کی حکومت کیونکر لے سکتا تھا۔ جہاں تیموری نیستان کا نرہ شیر دڑو کتا ہو۔ گیدڑ کی کیا طاقت ہے۔ کہ اس کا جانشین ہو۔ قصہ کوتاہ سخن مختصر۔ مہم دکن میں اس سے ایسے معاملے نہیں دیکھے۔ ایسی باتیں نہیں سنیں۔ کہ کہنے سے یقین بھی آ جائے۔ اور لکھنے میں مطلب بھی ادا ہو جائے۔ حضور یقین فرمائیں۔ کہ جب تک وہ اس ملک میں ہے۔ ہر گز فتح نہ ہو گی۔ ہم ناحق ٹھنڈا لوہا پیٹ رہے ہیں۔ وغیرہ وغیرہ۔ آزاد دیکھنا باوجود اس متانت اور ثقاہت کے نوجوانوں کی دلجوئی کرنے کو کیسی باتیں کرتے ہیں۔ خیر دنیا میں مطلب نکالنا چاہو۔ تو سب ہی کچھ کرنا پڑتا ہے۔ اور درباروں کے معاملے ایسے ہی ہوتے ہیں۔ اکبر کے بیٹے کو ایک عرضی لکھی ہے۔ اس میں مختلف مطالب لکھتے لکھتے کہتے ہیں شہزادہ والا گوہر کی کیا فریاد کروں اور شکایت کیا لکھوں۔ اگر میں جانتا کہ یہاں ایسی ایسی خرابیاں دامن گیر ہوں گی۔ تو ہر گز ہر گز ادھر کا رخ نہ کرتا۔ مگر مہندس قضا نے ہی مقدرمیں لکھا تو چارہ کیا؟ بندہ میں کیا طاقت ہے۔ کہ مشیت حق کو بدل سکے۔ میں تو زمانہ کی نیرنگیوںاور فلک کی کج رفتاریوں سے حیران تھا۔ مگر جب اس عبدالرحیم کو دیکھا تو سب بھول گیا۔ بھرے زخم ہرے ہو گئے۔ پرانے ناسور پھر بہ نکلے۔ داغوں سے لہو ٹپک پڑا۔ میں کیا کہوں کہ اس نادر الاعضا بوالعجوبۂ روزگار کو شکوہ کروں۔ اس کے ہاتھ سے زمانہ کے دل پر داغ پڑے ہوئے ہیں۔ اور افلاک اس کے ظلم سے سینہ چاک ہیں۔ ع باہر کہ بنگرم بہ ہمیں داغ مبتلا است جادوگر کہوں۔ مگر اس کا سرمایہ اس سے بہت ہے۔ سامری ہوتا تو اس کے ہاتھ سے چیخ اٹھتا اس کا ایک گوسالہ تھا۔ جس سے جادوگری کرتا تھا۔ اس کے ہزار گوسالے ہیں کہ خلق عالم اس کے ہاتھ سے فریاد کر رہی ہے۔ سارے بادشاہی لشکر کو گوسالہ بنا رکھا ہے اور جادو کاریاں کر رہا ہے۔ دکن کے لوگوں کو ایسا پھسلایا ہے۔ کہ پیغمبری کا دعویٰ کرے تو ابھی بندگی کا اقرار کرتے ہیں۔ اور اسے اپنا آفرید گار مانتے ہیں۔ سبحان اللہ کیا مکاری ہے۔ اور کیا عیاری ہے۔ کہ خدا نے اسے نصیب کی ہے۔ شہزادہ عالمیان رات دن اس کے ہاتھ سے نالاں ہیں۔ اور فریاد و فغاں کرتے ہیں۔ مگر اس پر نظر پڑی اور گونگے ہو گئے۔ تن بدن میں ذرا جنبش نہیں ہوتی۔ اپنے تئیں اس کے حوالے کر دیا ہے۔ کئی دفعہ اس کی بے باکیاں اور نادر ستیاں دیکھ لی ہیں۔ اور صریح کار ہائے ناشائستہ اس سے ہوئے ہیں۔ چنانچہ اس کے خطوط جو عنبر برگشتہ روزگار کو لکھے تھے۔ وہ کاغذ ہاتھوں لے کر شہزادے کو دکھائے اور نقل درگاہ والا میں بھیج دی۔ کچھ نہ ہوا۔ اور اس کا کچھ بھی نہ کر سکے۔ میں نامراد کس حساب اور کس شمار میں ہوں۔ اور کس جمع خرچ میں داخل ہوں۔ کہ اس کے اعمال ناشائستہ کا عوض لوں۔ بے چارہ دشت غربت میں سرگرداں اپنے حال میں حیران مجھے حضرت ظل الٰہی سے یہ امید نہ تھی۔ کہ میرے لئے اپنی خدمت سے جدائی تجویز کریں گے۔ اور ایسی عجیب بلا سے ٹکرائیں گے۔ حیرت در حیرت ہے کہ یہ کیا تجویز تھی جو فرمائی۔ حق علیم ہے۔ خلق اللہ کو یہ وہم تھا۔ کہ اگر قطب شمالی حرکت کر کے جنوب میں چلا جائے۔ اور جنوبی جنبش کر کے شمال میں جا گھسے۔ تو ہو سکتا ہے۔ ابوالفضل شاید ہی برکات سعادت قرین سے دور ہو۔ خیر مجھے کیا طاقت تھی۔ کہ ان کے فرمانے میں دخل دوں۔ سروچشم کہہ کر قبول کیا۔ اور ان کے حکم سے مہم دکن پر چلا آیا۔ مگر کون سی محنتیں تھیں کہ نہ پہنچیں ۔ اور کون سی سختیاں تھیں کہ نہیں اٹھائیں۔ قبلۂ من۔ غموں کا لشکر ٹوٹ پڑا ہے۔ بیکس ۔ نہتا۔ نہ زرہ نہ چلتا۔ میدان مصیبت میں کھڑا ہوں۔ نہ بھاگنے کی طاقت ہے۔ نہ لڑنے کا حوصلہ۔ ہاں حضور کی ہمت عالی اگر رکاب امداد میں قدم رکھے اور نیک دلی حقیقی کو کام فرمائے۔ تو اس کمترین کی مخلصی ہو جائے۔ آخری عمر حضرت کی قدمبوسی میں گزارے کہ ابوالفضل کی سعادت دو جہان اس میں مندرج ہے۔ کوئی نیک ساعت اور مبارک گھڑی دیکھ کر حضور کو سمجھائیے۔ اور للہ مجھے بلوائیے۔ وغیرہ وغیرہ۔ دانیال کو ایک طولانی عرضی میں اپنے قاعدے کے بموجب مطالب مختلفہ تحریر کئے ہیں۔ اس میں لکھتے ہیں عبدالرحیم بدکردار عنبر روسیاہ برگشتہ روزگار کے ساتھ یک دل و یک زبان ہو کر فیلسوفی کر رہا ہے۔ خدائے عز و جل حق ہے۔ ناحق کو اس کی درگاہ میں رواج نہیں ہے۔ انشاء اللہ تعالیٰ ہمیشہ اس کا کام تنزل میں رہے گا۔ اور اس خاندان سے شرمندہ ہو گا۔ آقائے ابوالفضل ! جہاں تک ہو سکے۔ اسے اپنے رازوں سے آگاہ نہ کیجئے گا۔ مریم مکانی کو لکھتے ہیں کہ ۲۵ برس سے یہ کہنہ لنگ مہم اسی طرح چلی جاتی ہے۔ ختم نہیں ہوئی۔ اور حضور سمجھتے ہیں کہ دولت تیموری کا سارا رعب و داب اس مہم پر منحصر ہے۔ خدا نہ کرے کہ یہ مہم بگڑے۔ یہ مہم بگڑی تو بات ہی بگڑ جائے گی۔ حضور سمجھائیں کہ حضرت اعلیٰ للہ توجہ فرمائیں۔ اور پھر وہی عبدالرحیم بیرم کا رونا روتے ہیں۔ اسی تحریر میں یہ بھی لکھتے ہیںکہ ملک دکن عجب ملک ہے۔ خوشحالی کو خدا نے یہاں پیدا ہی نہیں کیا اکثر جگہ لکھتے ہیں۔ کہ کابل و قندھار و پنجاب اور ملک ہیں۔ وہاں کے اور معاملے تھے۔ یہاں انداز کچھ اور ہے۔ جو باتیں وہاں کر جاتے ہیں۔ وہ یہاں پیش ہی نہیں جاتیں۔ یہ بات بھی ہر عرض میں لکھتے ہیں۔ کہ حضور اعلیٰ نے کئی بار فدوی کو لکھا ہے کہ ہم نے تمہیں اپنی جگہ بھیجا ہے۔ اور جہاں ہمیں آپ جانا تھا۔ وہاں تمہیں بھیجا۔ تمہیں سفید و سیاہ کا اختیار ہے جسے چاہو نکال دو۔ مختار ہو یہ کیا ہے کہ بار بار عبدالرحیم بیرم کے باب میں لکھتا ہوں اور نہیں سنتے۔ تاریخوں سے بھی معلوم ہوا اور بزرگوں سے بھی سنا کہ یہ دونوں بھائی پہلو سبز تھے۔ اہل کمال۔ علما۔ شرفا۔ مشائخ اور اہل طریقت جو آتے تھے۔ ان سے بمروت پیش آتے تھے۔ مہمانی کے حق ادا کرتے تھے۔ دربار شاہی میں لے جاتے تھے۔ اور اپنے پاس سے بھی سلوک کرتے تھے۔ چنانچہ ایک خط کی عبارت کا ترجمہ لکھتا ہوں۔ جو شیخ نے اپنے والد شیخ مبارک کو لکھا ہے ۔ معلوم ہوتا ہے کہ انہوںنے دلی کے بعض اہل طریقت کی جاگیر کے لیے سفارش لکھی تھی۔ اس فقرے کے جواب میں کشمیر سے لکھتے ہیں۔ اس حقائق آگاہ سے (آپ سے) مخفی نہ ہوگا۔ کہ حضرت دہلی کے اعزہ کے لیے مکرر عرض اقدس تک پہنچایا۔ کہ ایک جماعت مستحقان بااستحقاق اور خیر خواہان بے کینہ و نفاق اس متبرک گوشہ میں رہتے ہیں اور ہمیشہ حضور کی دولت و حشمت و عمر کی دعا کرتے رہتے ہیں۔ حکم ہوا کہ جو کچھ تو عرض کرے گا۔ مقبول درگاہ ہوگا۔ حسب الحکم ۱۰ ہزار بیگہ زمین افتادہ اور مزروعہ ان کے نام پر بہ تفصیل لکھ کر نظر اقدس سے گزاری مقبول ہوئی۔ ساتھ اس کے حکم ہوا کہ ہزار بیگہ پر سو روپیہ بیلوں اور تخم ریزی کے لئے عنایت ہوں۔ آپ یہ خوشخبری بھی وہاں کے مخادیم کی خدمت میں پہنچا دیں۔ کہ ان کی خاطر جمع ہو۔ انشاء اللہ فرمان واجب الاذعان روپیہ سمیت پہنچا سمجھیں اور ان سے فرمائیے گا کہ کمترین کی یہ خدمت میں مجرا ہو۔ جس قدر ممکن ہو گا۔ اور وقت گنجائش دے گا اپنی طرف سے بھی خدمت کرے گا۔ اعزہ کے باب میں کسی صورت سے اپنے تئیں معاف نہ رکھئے گا۔ خدا نے کرے کہ ابوالفضل مہمات اہل فضل میں غفلت اور کاہلی کرے۔ کیونکہ اسے اپنے حق میں سعادت دارین اور دولت کونین سمجھتا ہے اور اپنا شرف جانتا ہے نیک آدمی وہی ہے جس سے ان لوگوں کی خدمتیں سرانجام پا رہی ہیں۔ نہ سمجھیں کہ ابوالفضل دنیا کے میل میں آلودہ ہو گیا ہے۔ اپنے یارودیار کی ضرورتوں کو بھول گیا ہے۔ نعوذ باللہ من ذالک جب تک زندہ ہوں۔ ان لوگوں کا خاکروب ہوں۔ اور اس گروہ پرشکوہ کی خاک راہ۔ ان کی خدمت مجھ پر لازم بلکہ فرض ہے۔ ع در پائے تو ریزم آنچہ در دست من است بلکہ جان میں کلام ہے جان کیا چیز ہے جسے کوئی اس گروہ سے عزیز رکھے۔ قصہ مختصر کہ جو خدمت اس معتقد کے لائق ہو ایک اشارہ فرمائیں کہ سرانجام کروں گا۔ اور اسے اپنی جان پر احسان کر کے سمجھوں گا۔ مخدوم الملک اور شیخ عبدالنبی صدر کے معاملے تمہیں معلوم ہی ہیں۔ مخدوم نے غروب اقبال کے عالم میں جونپور کے بعض بزرگوں کے لئے سفارش لکھی۔ انہوں نے اس کے جواب میں خط لکھا۔ آفرین ہے اس حوصلہ کو وہ مخدوم الملک جو کسی وقت میں بھی ان سے نہیں چوکے اور کتے کا دانت بھی پایا تو ان غریب مسجد نشینوں کے پائوں میں چبھو دیا۔ اس کے حق میں کیسی برکت و عظمت کے الفاظ خرچ کئے ہیں اور کس طرح اعزاز و احترام سے جواب لکھا ہے۔ مگر اسے کیا کریں کہ وقت بیوقت ہے یہ آسمان پر ہیں وہ زمین پر۔ ان کی تحریر کو دیکھتا ہوں تو حرف حرف پڑا ہنس رہا ہے۔ مخدوم نے پڑھا ہو گا تو آنسو نکل پڑے ہوں گے۔ اول تو القاب و آداب میں دو صفحے سے زیادہ سفیدی سیاہ کی ہے۔ مثلاً صاحب العزۃ والعلا جامع الصدق و الصفا صاف اشارہ ہے کہ دل میں کیا ہے اور قلم سے ہمیں کیا لکھ رہے ہو۔ مگر یہ خدا لکھواتا ہے اور آپ کو لکھنا پڑتا ہے۔ حاجی الشرع والملۃ والدین ماحی الکفر والبدعۃ والبغی فالعالمین مطلب اس کا یہی ہے کہ ایک وقت تھا۔ کہ کفر کے مٹانے کے ٹھیکہ دار بنے ہوئے تھے۔ اور بدعتی۔ باغی۔ کافر ہم تھے۔ آج خدا کی شان دیکھو کہ تم کہاں ہو اور ہم کہاں ہیں۔ انیس السلاطین جلیس الخواقین اسے پڑھ کر مخدوم نے ضرور ٹھنڈا سانس بھر اہو گا۔ اور کہا ہو گا۔ کہ ہاں میاں جب کبھی تھے۔ تو سب ہی کچھ تھا۔ اب جو ہو سو تم ہو۔ ایک نشتر اس میں یہ بھی ہے کہ جناب! صاحب فقر اور صاحب شریعت کو سلاطین اور خوانین سے کیا تعلق۔ عالی حضرت معالی منقبت قدوسی منزلت خادم الفقرا ناصر الغربا۔ واہ ہم غریبوں فقیروں کے ساتھ کیا کیا سلوک کئے ہیں۔ مخدوم الملک عز شانہ و عم احسانہ دیکھو خدائی تک تو پہنچا دیا ہے اور بندہ سے آپ کیا چاہتے ہیں۔ معمولی تمہیدوں اور تعریفوں کے بعد فرماتے ہیں۔ قبلۂ ابوالفضل التفات نامہ جو اس مخلص صمیمی کے لیے نامزد فرمایا ہے۔ اس میں ارشاد ہے کہ جونپور کے رہنے والے اور گوشہ نشینوں کے حال سے خبردار نہیں اور اس سعادت سے بہرہ نہیں رکھتے۔ سبحان اللہ میں کہ تمام عمر اس گروہ کی خدمت میں گزاری پھر بھی یہی چاہتا ہوں کہ ہمیشہ ان عزیزوں کی خدمت میں رہوں۔ اور مقدور کے بموجب جو مجھ سے ہو سکے ان کے باب میں بھلا ہی کروں۔ آنحضرت (آپ ) میرے حق میں فرماتے ہیں۔ میں کیا علاج کر سکتا ہوں۔ کہ میری قسمت نحس کی بدمددی سے آپ کے دل میں یقین ہو گیا۔ خدائے مصحف کی قسم ہے جب سے حضرت ظل الٰہی کی خدمت میں ذرا راہ بندگی بہم پہنچائی ہے اور روشناسی حاصل ہوئی ہے لحظہ بلکہ لمحہ بھی عزیزوں کی یاد سے غافل نہیں بیٹھتا اور ان کے مہموں کے سرانجام مں کسی طرح بھی اپنے تئیں معاف نہیں رکھتا۔ ۴۰ ہزار بیگہ قابل الزراعت سے اہالی حضرت دہلی کے لئے خدمت کی ہے۔ ۱۰ ہزار بیگہ موالی سرہند کے لئے۔ ۲۰ ہزار بیگہ عزیزان ملتان کے لیے ۔ کل قریب لاکھ بیگہ عزیزان و مجاوران کے لئے التماس کر کے لی ہے۔ علیٰ ہذا القیاس ہر شہر کے فقرا آئے اور حالات اپنے ظاہر کئے۔ حضرت اعلیٰ سے عرض کر کے ہر ایک کے حالات کے موافق مدد معاش اور کچھ کچھ نقد لے کر نذر کیا۔ خدا علیم ہے کہ اگر ساری خدمتیں بیان کرے تو دفتر ہوتا ہے۔ آپ کے خادموں کے لیے درد سر سمجھ کر تفصیل نہ لکھی۔ مخدومان جونپور اپنے غرور سے کہ آنحضرت (آپ) پر روشن ہے مجھ مخلص کے پاس نہ آئیں اور کمال خود بینی کے سبب مجھ نامراد کی طرف متوجہ نہ ہوں۔ تو میرا اس میں کیا گناہ ہے پھر بھی جب آپ اس طرح لکھتے ہیں تو اپنی جان پر احسان کر کے اور اپنی سعادت جان کر وہاں کے عزیزوں کے نام فرمان درست کر کے بھیجتا ہے۔ یقین تصور فرمائیں اور پہنچا ہوا سمجھیں اتنی تکلیف دیتا ہوں کہ آپ ناموں کی تفصیل لکھ بھیجیں۔ اور ہر ایک کی کیفیت بھی ظاہر فرمائیں کہ ہر ایک کی مہمسازی کی جائے۔ خدائے تعالیٰ اس برگزیدہ انفاس و آفاق کو مسند مدرسی پر باتمکیں رکھے (بیٹھے لڑکے پڑھایا کرو مگر واہ حضرت شیخ آپ کا حوصلہ آپ ہی کے واسطے ہے) شیخ صدر کے نام بھی ایک خط ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جن دنوں وہ حج کو گئے تھے انہی دنوں میں بعض ضرورتوں کے سبب سے انہیں خط لکھا تھا۔ اس کے جواب میں آپ نے بڑی تعظیم و تکریم کے ساتھ ایک خط لکھا اول القاب میں ڈیڑھ صفحہ کاغذ پر نمک پیستا ہے کہ غریب بڈھے کے زخموں پر چھڑکیں پھر فرماتے ہیں امید گاہا ان دنوں میں خبر فرحت اثر سنی ہے کہ آنحضرت (آپ) نے طواف حرم باحرمت کے لئے عزم جزم فرمایا ہے۔ مبارک ہے اور خوب ہے خدا سب دوستوں کو اس سعادت سے مشرف کرے۔ اور مطلب اصلی اور مقصد حقیقی تک پہنچائے اور آپ کی برکت سے اس آرزو مند خالص کو بھی اس حریم عزت قرین اور حرم حرمت آئین میں معزز و مشرف کرے۔ یہ بات کئی دفعہ حضرت پیر دستگیر مرشد حقیقت تدبیر ظل الٰہی شاہنشاہی کی خدمت اشرف اقدس ہمایوں میں عرض کی۔ اور رخصت کے لئے التماس کیا۔ لیکن قبول نہ ہوا کیا کروں ان کی خوشی قضائے الٰہی کے ساتھ جڑی ہوئی ہے جو کام ان کے بغیر ہو گا کچھ فائدہ نہ ہو گا کشائش نہ دے گا۔ خصوصاً مجھ بے نوا عاجز طبع کو کہ جان سے اس مرشد حقیقی کو دست ارادہ دے رکھا ہے اور دل کے ظاہر و باطن کو اسی دستگیر روشن ضمیر کے سپرد کیا ہے۔ میرا ارادہ ان کے ارادے پر موقوف ہے۔ میرا قصد ان کے حکم سے وابستہ ہے۔ کیونکر دلیری کر سکتا ہوں اور ان کے فرمائے بغیر کب کوئی کام کر سکتا ہوں کیونکہ ہر صبح و شام ان کے دیدار شریف کا دیکھنا مجھے حج اکبر بلکہ اس سے بھی افضل تر ہے۔ ان کی گلی کا طواف سعادت جاودانی ہے اور منہ دیکھنا میوۂ زندگانی۔ غرض مجبور اب کے سال بھی سفر ملتوی رہ گیا اور دوسرے سال پر جا پڑا۔ ع تا درمیانہ خواستۂ کرد گار چیست اگر رضا قضائے آسمانی کے موافق پائے گا۔ تو طواف کعبۂ معظم پر متوجہ ہو گا۔ یارب ایں آرزدے من چہ خوش است تو بدیں آرزو مرا برساں اس عزم و نیت میں خدا یارو یاور ہے۔ اس خط کو دیکھ کر شیخ صدر کے دل پر کیا گزری ہو گی۔ یہ اسی شیخ مبارک کا بیٹا ہے۔ کون شیخ مبارک جس کے فضل و کمال کو برسوں تک شیخ صدر اور مخدوم اپنے خدائی زوروں سے دباتے رہے اور تین بادشاہوں کے عہد تک اسے کافر اور بدعتی بنا کر کبھی جلاوطنی کے زیر سزا رکھا تھا۔ یہ وہی شخص ہے جس کے بھائی فیضی کو مبارک باپ سمیت اس نے دربار سے نکلوا دیا تھا۔ خدا کی قدر ت دیکھو آج اس کے بیٹے بادشاہ وقت کے وزیر ہیں اور ایسے صاحب تدبیر کہ انہیں دودھ میں سے مکھی کی طرح نکال کر پھینک دیا۔ اور وہ اجتہاد جس کے زور سے یہ حضرات دن و دنیا کے مالک اور پیغمبر کے نائب بیٹھے تھے۔ اس کا محضر علما و مشائخ کی مہر دستخط سے اس نوجوان بادشاہ کے نام لکھوا دیا۔ جو لکھنا پڑھنا بھی نہیں جانتا۔ اور ان نوجوانوں کے خیالات وہ ہیں کہ اگر ان دونوں صاحبوں کی حکومت ہو تو قتل سے کم کوئی سزا ہی نہیں۔ آج انہی شیخ صدر کو کیسے کھلے دل سے اور کیا پھیل پھیل کر لکھتے ہیں کہ حضرت ظل الٰہی شاہنشاہی پیر دستگیر۔ مرشد حقیقت تدبیر کی بے اجازت حج کو کیونکر جائوں اور مجھے تو اس کا دیدار حج اکبر ہے۔ حق یہ ہے کہ مخدوم اور صدر کے زور حد سے گزر گئے تھے۔ زمانے کا قاعدہ ہے کہ جب کوئی زور بہت بڑھ جاتا ہے تو خود اسے توڑتا ہے۔ اور ایسے سخت صدمے سے توڑتا ہے جس کی چوٹ کو کوئی پہاڑ نہیں سہار سکتا ہے اور ان بزرگوں کے تو کام وہ تھے۔ کہ اگر زمانہ نہ توڑتا تو خود ٹوٹ جاتے۔ خیر اختیار کے وقت خدا ہمیں اعتدال کی عینک عنایت کرے۔ معلوم ہوتا ہے کہ ماں نے اسے کوئی خط لکھا ہے اور مطالب متفرقہ میں یہ بھی لکھا ہے کہ غربا اور اہل حاجت کی خبر گیری ضرور کیا کرو۔ اس کے جواب میں ذرا دیکھو اپنے علمی اور فلسفی خیالات کو کن لاڈ کی باتوں میں ادا کرتے ہیں۔ اول تو کہیں بادشاہ کی عنایتوں اور نعمتوں کے شکرئیے ہیں اور کہیں اپنے محاسن اخلاق اور نیک نیتی کے دعوے ہیں۔ اسی میں یہ کہ بادشاہ کی عنایتوں کو بھی خلق خدا کی ضروریات اور آسائش کے کام میں لاتا ہوں۔ اسی میں لکھتے لکھتے کہتے ہیں کہ قبلۂ ابوالفضل! اہل شریعت کہتے ہیں کہ جس شخص نے بے نماز کی دستگیری کی۔ اس کے لیے فرشتے دوزخ میں کوٹھڑی بنائیں گے اور جس نے اہل عبادت اور نماز گزار کی دستگیری کی۔ اس کے لیے بہشت میں ایوان بنائیں گے۔ آمنا۔ صدقنا۔ جو اس پر ایمان نہ لائے کافر ہے لیکن ابوالفضل کی عاجز شریعت کا فتویٰ یہ ہے کہ خیرات عام چاہئے۔ نمازیوں کو بھی دے اور بے نمازوں کو بھی۔ کیونکہ اگر بہشت میں گیا تو ایوان تیار ہے وہاں عیش کرے گا۔ اور اگر دوزخ میں گیا۔ اور بے نمازوں کو کچھ دیا نہیں تو ظاہر ہے کہ وہاں اس کے لیے گھر نہ ہو گا۔ اور لوگوں کے گھروں میں گھستا پھرے گا۔ اس لیے ایک پرانا جھونپڑا وہاں بھی ضرور رہے۔ دور اندیشی کی بات ہے۔ اللہ تعالیٰ اس راہ میں اپنے محبوں کو توفیق علے التحقیق عنایت کرے اور پھر ابوالفضل بے نوا کو مطالب اصلی اور مقاصد حقیقی تک پہنچائے۔ اپنے احسان سے اور اپنے کمال کرم سے ۔ کعبۂ ابوالفضل عزیز بھائی شیخ ابوالمکارم کی شادی کے لئے مجھے لکھتے ہو کہ آناچاہیے۔ ع چوں نیایم بسر و دیدۂ خود مے آیم کیوں نہ آئوں گا۔ سر سے آئوں گا۔ آنکھوں سے آئوں گا۔ کئی دن سے ایک ایسا موقع ہے کہ حضرت ظل الٰہی (بادشاہ) اس ذرہ حقیر پر اس طرح نور التفات ظاہر فرماتے ہیں۔ کہ ہر وقت کچھ نہ کچھ ارشاد فرماتے رہتے ہیں۔ ایسا کہ کوئی مخلوق۔ کوئی آفریدہ بیچ میں محرم اسرار نہیں ہے۔ ع میان عاشق و معشوق رمزیست آنا دو تین دن پر ملتوی ہے۔ انشاء اللہ بعد رمضان مبارک قدم بوسی کا شرف حاصل کروں گا وغیرہ وغیرہ خدا یا رویا رو یاد۔ آزاد۔ یہ آخری فقری اکثر خطوں کے خاتمہ میں لکھتے ہیں۔ سچ ہے ان بے کس بے وسیلہ بھائیوں کا وسیلہ یارویارو جو تھا۔ خدا ہی تھا۔ موتمن الدولہ عمدۃ الملک راجہ ٹوڈر مل تعجب ہے کہ اکبر بادشاہ کا وزیر ۔ کل کشور ہند کا دیوان اور کسی مصنف نے اس کے خاندان یا وطن کا حال نہ لکھا۔ خلاصتہ التواریخ میں بھی دیکھ لیا۔ باوجودیکہ ہندو مؤرخ ہے اور ٹوڈرمل کا بھی بڑا ثنا خواں ہے مگر اس نے بھی کچھ نہ کھولا۔البتہ پنجاب کے پرانے پرانے پنڈتوں اور خاندانی بھاٹوں سے دریافت کیا تو اتنا معلوم ہوا کہ ذات کا کھتری اور گوت کا ٹنن تھا۔ پنجاب کے لوگ اس کی ہم وطنی سے فخر کرتے ہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ لاہوری تھا۔ اور بعض کہتے ہیں۔ کہ چونیاں ضلع لاہور کا تھا۔ اور وہاں اس کے بڑے بڑے عالیشان مکانات موجود ہیں۔ ایشیاٹک سوسائٹی نے بھی اس کے وطن کی تحقیقات کی۔ مگر یہ قرار دیا کہ موضع لاہر پور علاقہ اودھ کا رہنے والا تھا۔ بیوہ ماں نے اس ہونہار لڑکے کو بڑی تنگدستی اور افلاس کی حالت میں پالا تھا۔ اس کے صدق دل کی دعائیں جو ٹھنڈے سانس کے ساتھ رات کو درگاہ الٰہی میں پہنچتی تھیں۔ ایسا کام کر گئیں۔ کہ شاہنشاہ ہندوستان کے دربار میں ۲۲ صوبہ کا دیوان کل اور وزیر باتدبیر ہو گیا۔ اول عام منشیوں کی طرح کم علم نوکری پیشہ آدمی تھا۔ اور مظفر خاں کے پاس کام کرتا تھا۔ پھر بادشاہی متصدیوں میں داخل ہو گیا۔ اس کی طبیعت میںغور۔ قواعد کی پابندی اور کام کی صفائی بہت تھی اور ابتدا سے تھی۔ مطالعہ کتاب اور ہر بات کے حاصل کرنے کا شوق تھا۔ چنانچہ علم و لیاقت اور ساتھ اس کے رجوع کاروبار میں بھی ترقی کرنے لگا۔ کام کا قاعدہ ہے کہ جو اسے سنبھالتا ہے۔ چاروں طرف سے سمٹتا ہے اور اسی طرف ڈھلکتا ہے۔ چونکہ وہ ہر کام کو سلیقہ اور شوق سے سرانجام کرتا تھا۔ اس لئے بہت سی خدمتیں اور اکثر کارخانے اس کے قلم سے وابستہ ہو گئے۔ اس کی معلومات امورات دفتر اور حالات معاملات میں ایسی ہو گئی تھی کہ امرا اور درباری کاردار ہر بات کا پتہ اس سے معلوم کرنے لگے۔ اس نے کاغذات دفتر اور مسلہائے مقدمات اور کھنڈے ہوئے کاموں کو بھی اصول و قواعد کے سلسلہ میں بندش دی۔ رفتہ رفتہ بے واسطہ بادشاہ کے سامنے حاضر ہو کر کاغذات پیش کرنے لگا۔ اور ہر کام میں اسی کا نام زبان پر آنے لگا۔ ان سببوں سے سفر میں بھی بادشاہ کو اس کا ساتھ لینا واجب ہوا۔ ٹوڈرمل دھرم کرم اور پوجا پاٹ کی پابندی سے پورا ہندو تھا۔ مگر وقت کو خوب دیکھتا تھا اور ضروریات و فضولیات میں نظر دقیق سے امتیاز کرتا تھا۔ ایسے موقع پر اس نے دھوتی پھینک کر برزو پہن لیا۔ اور جامعہ اتار چغے پر کمر کس لی۔ موزے چڑھا لئے۔ ترکوں میں گھوڑا دوڑائے پھرنے لگا۔ پادشاہی لشکر کوسوں میں اترا کرتا تھا۔ ایک آدمی کو دیکھنا چاہتے۔ دن بھر بلکہ کئی دن لگ جاتے تھے۔ اس نے پیادہ۔ سوار۔ توپخانہ۔ بہیر۔ رسد۔ بازار لشکر کے اتارنے کے لئے بھی پہلے اصولوں میں اصلاحیں نکالیں۔ اور ہر ایک کو مناسب مقام پر جمایا۔ اکبر بھی آدمیت کا جوہری اور خدمت کا صراف تھا۔ جب اس کی سپاہیانہ کمر بستگی اور ترکانہ پھرتی دیکھی تو سمجھ گیا ۔کہ متصدی گری کے علاوہ سپاہ گری و سرداری کا جوہر بھی رکھتا ہے۔ ٹوڈر مل پابندی آئین تعمیل احکام اور محاسبات عمل درآمد میں کسی کی بال بھر بھی رعایت نہ کرتا تھا۔ اور لوگ اس سبب سے اسے سخت مزاجی کا الزام لگاتے تھے۔ ۹۷۲؁ ھ میں اس نے وصف مذکور کو اس طرح استعمال کیا۔ کہ اس کا نتیجہ سخت مضرت کے رنگ میں نمودار ہوا۔ جب بادشاہ نے خان زمان کی مہم میں منعم خاں وغیرہ امرا کو کڑا مانک پور بھیجا۔ تو میر معز الملک کو بہادر خاں وغیرہ کے مقابلہ پر قنوج کی طرف روانہ کیا۔ پھر ٹوڈر مل کو کہا کہ تم بھی جائو۔ اور میر کے ساتھ شامل ہو کر سرشور نمک خواروں کو سمجھائو۔ راہ پر آ جائیں تو بہتر ہے۔ ورنہ اپنی سزا کو پہنچیں۔ جب یہ وہاں پہنچے۔ تو پیغام سلام شروع ہوئے۔ بہادر خاں بھی لڑنا نہ چاہتا تھا۔ مگر میر کا مزاج آگ تھا۔ راجہ باروت پہنچے۔ خلاصہ یہ کہ لڑ مرے۱؎۔ اور مفت ذلت اٹھائی ۔ مگر راجہ کو آفرین ہے۔ کہ میدان سے نہ ٹلا۔ پیارے راجہ! گھر کے ملازموں سے حساب و کتاب میں اپنے قواعد و ضوابط کو جس طرح چاہو برت لو۔ لیکن سلطنتوں کی مہمات میں بگڑی بات کا بنانا کچھ اور آئین چاہتا ہے۔ وہاں کے اصول قوانین درگذر کے کاغذوں پر چشم پوشی کے حروف میں لکھے جاتے ہیں۔ جن کی تحریر سے آزاد کے دست و قلم کوتاہی کرتے ہیں۔ چتوڑ۔ رن تھنبور۔ سورت کی فتحوں میں راجہ کی عرق ریز کوششوں نے مؤرخوں سے اقرار نامے لے لئے کہ قلعہ گیری کی تدبیروں اور اس کے سامان و لوازمات میں جو راجہ کی عقل رسا کام کرتی ہے۔ وہ اسی کا کام ہے۔ دوسرے کو نصیب نہیں۔ ۹۸۰؁ ھ میں اسے حکم ہوا کہ گجرات جائو اور وہاں کے آئین مال اور جمع و خرچ کا دفتر کا بندوبست کرو۔ گئے اور چند روز میں کاغذات مرتب کر کے لائے۔ یہ خدمت حضور میں مجرا ہوئی۔ ۹۸۱؁ھ میں جب کہ منعم خاں بہار کی مہم پر سپہ سالاری کر رہے تھے۔ لڑائی نے طول کھینچا۔ یہ بھی ۱؎۔ دیکھو میر معز الملک کا حال معلوم ہوا ۔ کہ امرائے لشکر آرام طلبی یا آپس کی لاگ یا غنیم کی رعایت سے جان توڑ کر خدمت بجا نہیں لاتے۔ راجہ ٹوڈر مل اب ایسے بااعتبار۔ مزاجدان اور محرم راز ہو گئے تھے۔ کہ انہیں چند امرائے نامی کے ساتھ فوجیں دے کر کمک کے واسطے روانہ کیا۔ تاکہ لشکر کا انتظام کریں۔ اور سست یا فتنہ گر لوگ انہیں جاسوس خدمت سمجھ کر اس طرح کام دیں۔ گویا حاضر حضور ہیں۔ غرض شہباز خاں کمبو وغیرہ امرائے نامی کو ساتھ کیا اور لشکر کے انتظام اور نگرانی کے لیے بھی چند ہدائتیں کیں۔ یہ بڑی پھرتی سے گئے۔ اور خانخاناں کے لشکر میں شامل ہوئے۔ دشمن مقابلہ پر تھا۔ میدان جنگ کی ترتیب ہوئی۔ راجہ نے تمام لشکر کی موجودات لی۔ ذرہ دیکھو! لیاقت اور کارگذاری کیا چیز ہے۔ بڈھے بڈھے بہادر۔ چغتائی ترک۔ ہمایوں بلکہ بابر کے معرکے دیکھنے والے۔ اکثر دلاور سپہ سالار کہ تلواریں مار کر اس درجہ تک پہنچے ۔ وہ اپنے اپنے عہدے لے کر کھڑے ہوئے۔ اور قلم کا مارنے والا متصدی گمنام کھتری ان کی موجودات لینے لگا۔ ہاں ۔ کیوں نہیں؟ جب وہ اس منصب کے لائق تھا تو اپنا مرتبہ کیوں نہ لے اور اکبر جیسا منصف بادشاہ کیوں نہ دے۔ جب پٹنہ فتح ہوا تو اس مہم میں بھی اس کی خدمتوں نے اس قدر مردانہ سفارشیں کیں۔ کہ علم اور نقارہ دلوایا۔ منعم خاں کی رفاقت سے جدا نہ ہونے دیا۔ اور بنگالہ کی مہم کے واسطے جو امرا انتخاب ہوئے۔ ان میں پھر اس کا نام لکھا گیا۔ کہ وہ اس مہم کا روح رواں ہو گیا تھا۔ چنانچہ ہر معرکہ پر مستعد اور کمر بستہ پہنچا۔ اور پیش قدمی سے پہنچا۔ مگر ٹانڈہ کی مہم میں ایسی ہمت کی کہ فتح ناموں اور تاریخوں میں منعم خاں کے ساتھ اس کا نام لکھا گیا۔ جنید کرارانی کی بغاوت کو اس نے بڑی بہادری سے دبایا۔ ایک دفعہ غنیم بے غیرتی کی خاک سر پر ڈال کر بھاگا۔ دوبارہ پھر آیا۔ اس سے سخت دھوکا کھایا۔ بعض موقع پر کوئی سردار منعم خاں سے بگڑ گیا۔ اور کار بادشاہی میں ابتری پڑنے لگی۔ تو ٹوڈرمل نے بڑی دانائی اور ہمت و استقلال سے اس کی اصلاح کی۔ اور چست و درست بندوبست کیا۔ عیسیٰ خاں نیازی فوج لے کر آیا۔ اور قبا خاں کنگ کے مورچہ پر سخت آن بنی۔ اس وقت اور امرا بھی پہنچے۔ مگر آفرین ہے۔ ٹوڈرمل خوب پہنچا۔ اور بر محل پہنچا۔ جب کہ دائود خاں افغان نے گوجر خاں سے موافقت کر کے عیال کو رہتاس میں چھوڑا۔ اور آپ فوج لے کر آیا۔ تو راجہ فوراً مقابلہ کو تیار ہوا۔ امرائے شاہی روز روز کی فوج کشی اور بدہوائی بنگالہ سے بیزار ہو رہے تھے۔ راجہ نے دیکھا۔ کہ میری بیم و امید کے منتر اثر نہیں کرتے۔ منعم خاں کو لکھا۔ وہ بھی مذبذب تھے۔ کہ اتنے میں فرمان اکبری نہایت تاکید کے ساتھ پہنچا۔ اسے پڑھ کر خانخاناں بھی سوار ہوئے۔ اور دو لشکر جررار لے کر غنیم کے مقابل ہوئے۔ طرفین کی فوجیں میدان میں آراستہ ہوئیں۔ لشکر بادشاہی کے قلب میں منعم خاں کے سر پر سپہ سالاری کا نشان لہررا رہا تھا۔ گوجر خاں حریف کا ہراول اس زور شور سے حملہ کر کے آیا۔ کہ بادشاہی فوج کے ہراول کو قلب میں دھکیلتا چلا گیا۔ منعم خاں تین کوس تک برابر بھاگا گیا۔ آفرین ہے ٹوڈرمل کو کہ داہنا بازولشکر کا تھا۔ وہ نہ فقط جما رہا بلکہ سرداران فوج کے دل بڑھاتا رہا۔ اور کہتا رہا۔ کہ گھبرائو نہیں۔ اب دیکھو فتح کی ہوا چلتی ہے۔ حریف نے خان عالم کے ساتھ خانخاناں کے مرنے کی خبر اڑا دی۔ یہ فوج کو اپنی جگہ لئے کھڑا تھا۔ رفیقوں نے جب اس سے کہا تو کمال استقلال کے ساتھ بولا۔ کہ خانخاناں نہ رہا۔ تو کیا ہوا۔ ہم اکبری اقبال کی سپہ سالاری پر لڑتے ہیں۔ وہ سلامت رہے۔ دیکھو۔ اب انہیں فنا کئے دیتے ہیں۔ تم گھبرائو نہیں۔ اور جس وقت موقع پایا دائیں سے یہ اور بائیں سے شاہم خاں جلائر اس زور شور کے ساتھ جا گرا۔ کہ غنیم کے لشکر کو تہ و بالا کر دیا۔ اتنے میں گوجر خاں کے مرنے کی خبر پہنچی اس وقت افغان بدحواس ہو کر بھاگے۔ اور لشکر شاہی فتح یاب ہوا۔ ۹۸۳؁ھ میں دائود کا ایسا ننگ حال ہوا۔ کہ صلح کی التجا کی۔ لشکر بادشاہی لڑائی کے طول اور ملک کی بدہوائی کے سبب سے خود بہ تنگ ہو رہا تھا۔ دائود کی طرف سے بڈھے بڈھے افغان خانخاناں اور امرائے لشکر کے خیموں پر پہنچے۔ اور پیغام سلام سنائے۔ خانخاناں کا آئین سپہداری ہمیشہ صلح پر تھا۔ وہ راضی ہو گیا۔ امرا پہلے ہی جانوں سے تنگ جینے سے بیزار ہو رہے تھے۔ ان کی مراد بر آئی۔ سب نے اتفاق رائے کیا۔ ایک ٹوڈرمل کہ ہمیشہ آرام و آسائش کو آقا کے کام اور نام پر قربان کرتا تھا راضی نہ ہوا۔ اور کہا۔ کہ دشمن کی جڑ اکھڑ چکی ہے۔ اور تھوڑی سی ہمت میں سب افغان فنا ہو جائیںگے۔ اس کی التجائوں اور اپنے آراموں پر نظر نہ کرو۔ دھاوے کئے جائو اور پیچھا نہ چھوڑو۔ خانخاناں اور امرائے لشکر نے اسے بہت سمجھایا۔ مگر وہ اپنی رائے سے نہ ہٹا۔ اگر صلح ۱؎ ہوئی۔ اور اس کا دربار بڑے شکوہ و شان اور بادشاہی سامان کے ساتھ آراستہ ہوا۔ تمام لشکر نے عید منائی۔ مگر وہ بات کا پورا دربار تک بھی نہ آیا۔ خانخاناں نے ہزار جتن کئے۔ کس کی سنتا تھا۔ صلح نامہ پر مہر تک نہ کی۔ جب اطراف بنگالہ کی طرف سے اطمینان ہوا۔ تو بادشاہ نے اسے بلا بھیجا۔ جان نثار کہ مزاج شناس تھا۔ حاضر ہوا۔ عمدہ نفائس اس ملک کے اور عجائب دیار فرنگ کے جو کہ دریائی تجارتوں سے وہاں ۱؎ دربار صلح کا تماشہ دیکھنے کے قابل ہے۔ (دیکھو حال منعم خاں خانخاناں صفحہ ۲۴۷) پہنچتے ہیں۔ حضور میں لا کر پیش کئے۔ وہ جانتا تھا۔ کہ میرے بادشاہ کو ہاتھی بہت پیارے ہیں۔ ۵۴ ہاتھی چن کر لایا۔ کہ نہایت عمدہ اور تمام بنگالہ میں نامی تھے۔ اس نے حضور میں تمام حقیقت ملک کی اور سرگذشت معرکوں کی بہ تفصیل بیان کی۔ اکبر بہت خوش ہوا۔ اور عالی منصب دیوانی عطا فرمایا اور چند روز میں تمام ملکی اور مالی خدمتیں اس کی رائے روشن کے حوالہ کر کے وزارت کل اور وکالت مستقل کی مسند پر جگہ دی۔ اسی سنہ میں منعم خاں مر گئے۔ فساد تو وہاں جاری ہی تھا۔ دائود پھر باغی ہو گیا۔ اور افغان اپنی اصالت دکھانے لگے۔ تمام بنگالہ میں بغاوت پھیل گئی۔ امرائے اکبری کا یہ عالم تھا۔ کہ لوٹ کے مال مار کر قاروں ہو گئے تھے۔ انسان کا قاعدہ ہے کہ جتنی دولت زیادہ ہوتی ہے۔ اتنی ہی جان عزیز ہوتی جاتی ہے۔ توپ تلوار کے منہ پر جانے کو کسی کا جی نہ چاہتا تھا۔ بادشاہ نے خانجہاں کو ممالک مذکور کا انتظام سپرد کیا۔ اور ٹوڈرمل کو ساتھ کیا۔ جب بہار میں پہنچا۔ چاروں طرف تدبیروں اور تحریروں کے ہراول دوڑا دئیے۔ بخاری اور ماوراء النہری امرا گھروں کے پھرنے کو تیار تھے۔ اسے دیکھ کر حیران ہو گئے۔ کیونکہ زبردست اور کاروان افسر کے نیچے کام دینا کچھ آسان نہیں، بعضوں نے خرابی آب و ہوا کا عذر کیا۔ بعضوں نے کہا۔ یہ قزلباش ہے۔ ہم اس کے ماتحت نہیں رہ سکتے۔ خاندانی تجربہ کار کو اس علم میں دستگاہ تھی۔ اس نے خاموشی اختیار کی۔ اور سخاوت اور علو حوصلہ کے ساتھ فراخ دلی دکھاتا رہا۔ اسمٰعیل قلی خاں اس کا بھائی پیش دستی کی تلوار ہاتھ میں اور پیش قدمی کی فوجیں رکاب میں لے کر چاروں طرف ترکتاز کرنے لگا۔ ٹوڈرمل کی لیاقت اور کاروانی دیکھو اور ساتھ ہی یہ دیکھو کہ اپنے آقا کا کیسا صدق دل سے خیر خواہ تھا۔ اس نے کہیں دوستانہ فہمائش سے۔ کہیں ڈراوے سے ۔ کہیں لالچ سے۔ غرض اپنی حکمت عملی سے سب کو پرچا لیا۔ کہ لشکر بنے کا بنا رہا۔ اور کام جاری ہو گیا۔ وہ دونوں با وفا مل جل کر بڑے حوصلے۔ صاف سینے اور کھلے دل سے کام کرتے تھے۔ سپاہی کے دل اور سپاہ کی قوت بڑھاتے تھے۔ پھر کسی بدنیت کی یاوہ گوئی کیا چل سکتی تھی۔ لیکن جا بجا لڑائیاں صف آرائی کے ساتھ ہوتی تھیں اور کامیابی پر ختم ہوتی تھیں۔ راجہ کبھی دائیں پر ہوتا تھا۔ کبھی بائیں پر اور اس دلاوری سے عین موقع پر اور بڑھ کر کام دیتا تھا۔ کہ سارے لشکر کو سنبھال لیتا تھا۔ غرض بنگالہ کا بگڑا ہوا کام پھر بنا لیا۔ معرکہ کا میدان اخیر حملہ دائود کا تھا۔ کہ شیر شاہی اور سلیم شاہی عہد کی کھرچن اور پرانے پرانے پٹھانوں کو سمیٹ کر نکالا۔ اور عین برسات کے موسم میں گھٹا کی طرح پہاڑ سے اٹھا۔ یہ چڑھائی اس دھوم دھام کی تھی۔ کہ اکبر نے خود آگرہ سے سواری کا سامان کیا۔ یہاں جنگ سلطانی کا کھیت بڑا تھا۔ دونوں لشکر قلعہ باندھ کر سامنے ہپوئے۔ خانجہاں قلب میں اور ٹوڈرمل بائیں پر تھا۔ اور بہادر بھی دونوں طرف کے اس ہمت سے لڑے۔ کہ دلوں کے ارمان نکل گئے۔ فتح و شکست خدا کے ہاتھ ہے۔ اکبر اور اکبر کے امرا کی نیت کام کر گئی۔ دائود گرفتار ہو کر قتل ہوا۔ وہ حسرت ناک حالت بھی دیکھنے کے قابل۱؎ ہے۔ اس کے خاتمہ سے لڑائی کا خاتمہ ہو گیا۔ اور قوم افغان کی بنگالہ اور بہار سے جڑ اکھڑ گئی۔ ٹوڈرمل نے دربار میں حاضر ہو کر ۳۰۴ ہاتھی نذر گزرانے کہ اکبر کے لیے یہی اس ملک کا بڑا تحفہ تھا۔ مہم کے فتح نامے خانجہاں اور راجہ ٹوڈرمل کے نام سے گلگوں ہوئے۔ اسی عرصہ میں معلوم ہوا کہ وزیر خاں کی بے تدبیری سے گجرات اور سرحد دکن کا حال تباہ ہے حکم ہوا کہ معتمد الدولہ راجہ ٹوڈرمل جلد پہنچے۔ اس نے اول سلطان پور ملک ندربار کے علاقہ میں دورہ کیا۔ اور دفتر کو دیکھا ۔ وہاں سے بندرسورت میں آیا۔ ادھر سے بھڑوچ۔ بڑودہ۔ چانپانیر ہوتا ہوا گجرات سے ہو کر پٹن کے دفتر مالیات کے دیکھنے کو گیا تھا۔ کہ مرزاکامران کی بیٹی جو ابراہیم مرزا کی بی بی تھی۔ اپنے بیٹے کو لے کر آئی۔ اور گجرات کے علاقہ میں فساد برپا کیا۔ اس کے ساتھ اور باغی اٹھ کھڑے ہوئے۔ اور ملک میں غدر ہو گیا۔ وزیر خاں نے سامان جنگ اور قلعہ و فصیل کے ٹوٹے پھوٹے کا بندوبست کیا اور بسم اللہ کے گنبد میں بند ہو کر بیٹھ رہا۔ ساتھ ہی قاصد دوڑائے۔ کہ بھاگا بھاگ ٹوڈرمل کو خبر کریں۔ گوشت تو پھس ہو گیا۔ دال کو آفرین ہے کہ خوب ابال دکھایا۔ وہ جس ہاتھ میں قلم پکڑے لکھ رہا تھا۔ اسی میں تلوار پکڑ کر چلا۔ گجرات میں آیا۔ وزیر خاں کو مرد بنا کر شہر سے باہر نکالا۔ مفسد بڑودہ پر قابض تھے۔ باگیں اٹھائے پہنچے۔ چار کوس بڑودہ رہا تھا۔ جو باغیوں کے قدم اٹھ گئے۔ اور بھاگ نکلے۔ یہ آگے تھے۔ اور وہ پیچھے۔ کنبایت سے جوناگڑھ ہوتے ہوئے دولقہ کے تنگ میدان میں جا کر رکے اور ناچار ہو کر مقابلہ کیا۔ دونوں فوجیں جم گئیں۔ اور وزیر خاں قلب میں قائم ہوئے۔ چاروں پرے چاروں طرف سے آراستہ۔ جن میں راجہ بائیں پر۔ غنیم نے صلاح کی تھی۔ کہ صفیں باندھتے ہی زور شور سے لڑائی ڈال دو۔ کچھ سامنے ہو اور باقی دفعتہ بھاگ نکلو۔ اکبری بہادر ضرور تعاقب کریں گے۔ راجہ ہی آگے ہو گا۔ موقع پا کر دفعتہ پلٹ پڑو۔ پھر دونوں کو گھیر کر وزیر خاں اور راجہ کو مار لو۔ کہ کام تمام ہے اور حقیقت میں انہیں بڑا خیال راجہ ہی کا تھا۔ غرض جب لڑائی شروع ہوئی۔ تو مرزا مریل چال سے وزیر خاں پر آئے۔ اور مہر علی کو لابی ۱؎۔ دیکھو حال خانجہاں صفحہ ۷۱۰۔ کہ اصل بانی فساد تھا۔ راجہ پر آیا۔ راجہ سد سکندر تھا۔ وہ اس سے ٹکر کھا کر پیچھے ہٹا۔ بادشاہی لشکر کا داہنا ہاتھ بھاگا۔ اور قلب نے بھی بے ہمتی کی۔ ہاں وزیر خاں بہت سے بہادروں کے ساتھ خوب ڈٹا۔ اور قریب تھا۔ کہ ننگ و ناموس پر جان قربان کر دے۔ کہ راجہ نے دیکھا۔ اور اس سینے کے جوش سے جس میں ہزار دل کا جوش بھرا تھا۔ گھوڑے اٹھائے۔ غنیم کی فوج کو الٹتا پلٹتا پہنچا۔ اور اس زور سے آ کر گرا۔ کہ حریف کہ بندوبست کا سب تانا بانا ٹوٹ گیا۔ کامران کے بیٹے نے کام کیا تھا! عورتوں کو مردانہ کپڑے پہنا کر گھوڑوں پر چڑھایا تھا۔ خوب تیر اندازی اور نیزہ بازی کرتی تھیں۔ غرض بہت سے کشت و خون کے بعد غنیم بھاگ گئے اور غنیمت بہت سی چھوڑ گئے۔ باغی بھی بہت گرفتار ہو گئے۔ ٹوڈرمل نے لوٹ کے اسباب اور ہاتھی اور قیدیوں کو جوں کا توں وہی لباس اور وہی تیر و کمان ہاتھ میں دے کر روانہ دربار کر دیا۔ کہ زنانی مردانگی کا نمونہ بھی حضور دیکھ لیں۔ دھارا اس کے رشید بیٹے نے انہیں دربار میں لا کر پیش کیا۔ ۹۸۷؁ھ میں بنگالہ سے پھر زور شور کا غبار اٹھا۔ اس دفعہ آندھی کا رنگ اور تھا۔ یعنی خود امرائے شاہی میں بگاڑ تھا۔ سپاہ اور سرداران سپاہ سپہ سالار سے باغی ہو گئے تھے۔ اور تعجب یہ کہ سب کے سب ترک اور مغل تھے۔ اکبر نے ٹوڈرمل کو روانہ کیا۔ اور دیکھو! جو اکثر سردار اس کے ماتحت دئیے وہ بھی راجگان ہندوستان ہی تھے۔ کیونکہ جانتا تھا۔ سب بھائی بند ہیں۔ مل جائیں گے۔ لیکن ٹوڈرمل کے لئے یہ نہایت نازک موقع تھا۔ کیونکہ مقابل میں اگرچہ باغی تھے۔ لیکن خاندان چغتائی کے قدیمی نمک خوار تھے۔ اپنی ہی تلواروں سے اپنے ہاتھ پائوں کٹتے تھے۔ اس پر مشکل یہ کہ وہ مسلمان اور یہ ہندو۔ مگر لیاقت والے نے مہم ک وبڑے تحمل اور سوچ سمجھ کے ساتھ انجام دیا۔ تدبیر اور شمشیر کے عمدہ جوہر دکھائے۔ اور بڑی جانبازی اور جانکاہی سے خدمتیں بجا لایا۔ جن کو کھینچ سکا۔ ان کو حکمت عملی سے کھینچا۔ جو بالکل نمک حرام تھے۔ وہ تلوار یا اپنے اعمال کے حوالہ ہوئے۔ جا بجا بھاگتے پھرتے تھے۔ نمک حلال جاں نثار ان کے پیچھے پیچھے تھے۔ لیکن کیا ادھر کیا ادھر۔ خلق خدا اور بندگان بادشاہی تباہ ہوتے تھے۔ اس مہم میں بعض منافق بد اندیشوں نے سازش کی تھی۔ کہ لشکر کی موجودات کے وقت راجہ کا کام تمام کر دیں۔ بلوہ کا خون ہو گا۔ کون جانے گا؟ اور کون پہچانے گا؟ راجہ بڑے سیانے تھے۔ ایسے ڈھب سے الگ ہو گئے کہ اپنی جان بچ گئی۔ اور بداندیشوں کا پردہ رہ گیا۔ اس مہم میں اس نے منگیر کے گرد فصیل اور دمدمہ وغیرہ بنا کر جنگی اور عالیشان قلعہ کھڑا کر دیا۔ ۹۷۹؁ھ میں سب جھگڑے چکا کر پھر دربار میںآیا۔ اور اپنے عہدۂ وزارت کی مستقل مسند پر بیٹھا۔ دیوان کل ہو گیا۔ اور ۲۲ صوبۂ ہندوستان پر اس کا قلم دوڑنے لگا۔ ۹۹۰؁ھ میں اس نے بادشاہ کا جشن ضیافت اپنے گھر میں سرانجام دیا۔ اکبر بادشاہ بندہ نواز وفاداروں کا کارساز تھا۔ اس کے گھر گیا۔ ٹوڈرمل کی عزت ایک سے ہزار ہو گئی۔ اور ہزاروں وفاداروں کے حوصلے بڑھ گئے۔ ۹۹۳؁ھ میں اسے ۴ ہزاری منصب عطا ہوا۔ اسی سنہ میں کوہستانی یوسف زئی و سواد وغیرہ کی مہم ہو گئی۔ بیربر ۱؎ مارے گئے۔ بادشاہ کو نہایت رنج ہوا۔ دوسرے دن انہیں روانہ کیا۔ مان سنگھ جمرود کے مقام میں تھے۔ اور تاریکیوں کے ہجوم میں تلوار سے روشنی کر رہے تھے۔ حکم پہنچا کہ راجہ سے جا کر ملو۔ اور اس کی صلاح سے کام کرو۔ راجہ نے کوہ لنگر کے پاس سواد کے پہلو میں چھائونی ڈال دی۔ اور فوجوں کو پھیلا دیا۔ راہزنوں کی حقیقت کیا ہے۔ مارے گئے۔ باندھے گئے۔ بھاگ گئے۔ یہ سرکشوں کی گردنیں توڑ کر سربلند اور سرفراز واپس آئے۔ باقی سرحد کا معاملہ کنور مان سنگھ کے ذمہ رہا۔ ۹۹۶؁ھ میں قلیچ خاں نے گجرات سے آکر عجائب و غرائب پیش کیش حضور میں گزرانے۔ حکم ہوا۔ کہ ٹوڈرمل کے ساتھ دیوان خانہ میں مہمات ملکی و مالی سرانجام دیا کرو۔ (ملا صاحب لکھتے ہیں) ٹوڈرمل سترا بہترا بدحواس ہو گیا ہے۔ کوئی حریف رات کو آن لاگا۔ تلوار ماری تھی۔ پوست مال گزر گئی۔ شیخ ابوالفضل اس ماجرے کی حقیقت خوب لکھتے ہیں۔ امرائے نیک طینت پر گمان تھا۔ کہ عداوت مذہب سے کسی نے یہ حرکت کی ہو گی۔ تحقیقات سے معلوم ہوا۔ کہ راجہ نے کسی کھتری بچہ کو بداعمالی کی سزا دی تھی۔ اس کی آنکھوں پر غصہ نے اندھیری چڑھائی۔ چاندنی رات تھی۔ وہ سیہ دل گھات لگائے بیٹھا تھا۔ جب راجہ آیا۔ موقعع پایا کام کر گیا۔ آخر وہ بھی اور اس کے شریک بھی معلوم ہو گئے۔ ایک ایک نے سزا پائی۔ ۹۹۷؁ھ میں بادشاہ کشمیر کو چلے۔ آئین تھا کہ یورش کے موقع پر دو امیر جلیل القدر دارالسلطنت میں رہا کرتے تھے۔ لاہور کا انتظام راجہ بھگوان داس کے سپرد ہوا اور راجہ ٹوڈرمل کو بھی یہیں چھوڑا۔ اول تو سو مرضوں کا ایک مرض ان کا بڑھاپا۔ اس پر کچھ بیمار بھی ہوئے۔ بادشاہ کو عرضی لکھی جس کا خلاصہ یہ تھا۔ بیماری نے بڑھاپے سے سازش کر کے زندگی پر حملہ کیا ہے۔ اور غالب آ گئی ہے۔ ۱؎۔ دیکھو بیربر کا حال صفحہ ۳۰۶۔ موت کا زمانہ قریب نظر آتا ہے۔ اجازت ہو ۔ تو سب سے ہاتھ اٹھا کر گنگا جی کے کنارے جا بیٹھوں اور خدا کی یاد میں آخری سانس نکال دوں۔ بادشاہ نے اول ان کی خوشی کے لئے فرمان اجازت بھیج دیا تھا۔ کہ وہاں افسردہ طبیعت شگفتگی پر آجائے گی۔ مگر دوسرا فرمان پھر پہنچا۔ کہ کوئی خدا پرستی عاجز بندوں کی غمخواری کو نہیں پہنچتی۔ بہت بہتر ہے کہ اس ارادہ سے رک جائو۔ اور اخیر دم تک انہیں کے کام میں رہو اور اسے آخرت کا سفر خرچ سمجھو۔ پہلے فرمان کی اجازت پر تن بیمار اور جان تدرست کو لے کر ہردوار چلے تھے۔ لاہور کے پاس اپنے ہی بنوائے ہوئے تالاب پر ڈیرا تھا۔ جو دوسرا فرمان پہنچا کہ چلے آئو۔ (شیخ ابوالفضل اس حال کی تحریر میں کیا خوب سرٹیفیکیٹ دیتے ہیں) وہ نافرمانی بادشاہی کو نافرمانی الٰہی سمجھا۔ اس لئے جب فرمان وہاں پہنچا۔ فرمانبرداری کی۔ اور گیارھویں دن یہاں کے پالے ہوئے جسم کو یہیں رخصت کر گیا۔ راستی۔ درستی۔ مردانگی۔ معاملہ شناسی اور ہندوستان کی سربراہی میں یگانہ روزگار تھا۔ اگر تعصب کی غلامی۔ تقلید کی دوستی۔ دل کی کینہ وری اور بات کی پچ نہ کرتا۔ تو بزرگان معنوی میں سے ہوتا۔ اس موت سے کار سازی بے غرض کو چشم زخم پہنچی۔ اور معاملات کی حق گذاری کے بازار میں وہ گرمی نہ رہی۔ مانا کہ بادیانت آدمی (جو ہم آشیانہ عتقا) ہے ہاتھ آجائے۔ لیکن یہ اعتبار کہاں سے لائے۔ ٹوڈرمل کی عمر کا حال کسی نے نہیں کھولا۔ ملا صاحب نے جو حالت بیان کی ہے۔ اس سے یہ معلوم ہو گیا۔ کہ عمر سے بھی برکت پائی تھی۔ حضرت تو سب پر خفا ہی رہتے ہیں۔ ابھی شاہ فتح اللہ اور حکیم ابوالفتح پر غصے ہوئے تھے۔ یہ بچارہ تو ہندو تھا۔ اس پر جتنا جھنجھلائیں ۔ تھوڑا ہے۔ فرماتے ہیں۔ راجہ ٹوڈرمل اور راجہ بھگوان داس امیر الامرا کہ لاہور میں رہتے تھے۔ جہنم اور دوزخ کے ٹھکانوں کو بھاگے اور تہ در تہ کے درجوں میں جا کر سانپ بچھوئوں کے واسطے سامان حیات ہوئے۔ سقرت ھما اللہ ایک مسرع سے دونوں کی تاریخ روشن کی ہے ۔ ع بگفتا ٹوڈر و بھگوان مردند اس سے بھی دل ٹھنڈا نہ ہوا۔ پھر فرماتے ہیں ؎ ٹوڈرمل آنکہ ظلمش بگرفتہ بود عالم چوں رفت سوے دوزخ خلقے شدند خرم تاریخ رفتنش را از پیر عقل جستم خوش گفت پیر دانا وے رفت در جہنم اکبر کو جتنا اس کی عقل و تدبیر پر اعتبار تھا۔ اس سے زیادہ دیانت اور امانت نمک حلالی وفا شعاری پر بھروسا تھا۔ جب وہ پٹنہ کی مہم پر جان نثاری کر رہا تھا۔ تو دفتر کا کام رائے رام داس کے سپرد ہوا۔ کہ وہ بھی کاروانی۔ سلامت نفسی اور نیک نیتی کے ساتھ عمدہ اہلکار تھا۔ اسے دیوانی کا خلعت بھی عطا ہوا۔ مگر حکم ہوا۔ کہ طلب تنخواہ کے کاغذ راجہ کے محرر و منشی اپنے ہی پاس رکھیں۔ اس کے سبب سے اس کے رشتہ داروں کی کارگذاری بھی درجۂ اعتبار کو پہنچتی تھی۔ چنانچہ بنگ بہار کی مہم میں نواڑوں اور کشتیوں کا انتظام پرمانند کے سپرد ہوا۔ کہ راجہ کے خویشوں میں سے تھا۔ یہ بات بآواز بلند تعریف کے قابل ہے۔ کہ باوجود ایسی لیاقت جانفشانی۔ اور جاں نثاری کے خود اپنے تئیں بلند کرنا نہ چاہتا تھا۔ دیکھو کئی لڑائیوں میں اسے خود سپہ سالاری کا موقع پیش آیا۔ مگر وہ کبھی قلب میں کہ سپہ سالار کی جگہ ہے ۔ قائم نہ ہوا۔ اس کے کاروبار سے معلوم ہوتا ہے کہ آقا کے حکم پر محو ہر کر بلکہ اپنے حال اور خیال سے بے خبر ہو کر کام کا سرانجام کرتا تھا۔ تم نے دیکھا ہو گا۔ کہ ہر مہم میں کیسا بر وقت پہنچتا تھا۔ اور ہر معرکہ میں جان توڑ کر فتح کو قوت دیتا تھا۔ بنگالہ کی مہم میں ہمیشہ سردار سے سپاہی تک بے دل ہو کر بھاگنے کو تیار ہوتے تھے۔ وہ کہیں دلداری سے اور کہیں غمخواری سے۔ کہیں بیم و امید سے مقدمۂ مطلب منقوش خاطر کر کے سب کو روکے رکھتا تھا۔ حسین قلی خاں خانجہاں کی سپہ سالاری پر جب ترک سوار بگڑے۔ تو مہم بھی بگڑ گئی تھی۔ غیر کا بڑھنا اور اپنے پیچھے ہٹنا کسے پسند آتا ہے۔ کیا اس کا دل نہ چاہتا تھا۔ کہ میں سپہ سالار کہلائوں۔ لیکن آقا کی خوشی پر نظرر کھی۔ اور ایسا کچھ کیا۔ کہ سب سردار خانجہاں کی اطاعت پر راضی ہو گئے۔ اس کی علمی لیاقت کا اندازہ صرف اتنا ہی معلوم ہوتا ہے۔ کہ اپنے دفتر کی تحریروں کو بخوبی لکھ پڑھ لیتا تھا۔ مگر طبیعت ایسی قواعد بند اور اصول تراش لایا تھا۔ جس کی تعریف نہیں ہو سکتی۔ مالیات کے کام کو ایسا جانچتا تھا۔ اور اس کے نتیجوں کو ایسا پہچانتا تھا۔ کہ جو اس کا حق ہے۔ میں نے پہلے بھی لکھا ہے اور دوبارہ لکھتا ہوں۔ کہ اس سے پہلے حساب کا دفتر بالکل برہم تھا۔ جہاں ہندو نوکر تھے۔ وہاں ہندی کاغذوں میںکام چلتا۔ جہاں ولایتی تھے۔ وہ فارسی میں کاغذ رکھتے تھے۔ ٹوڈرمل۔ فیضی۔ میر فتح اللہ شیرازی۔ حکیم ابوالفتح۔ حکیم ہمام ۔ نظام الدین بخشی وغیرہ نے بیٹھ کر قواعد باندھے اور سب دفتروں میں انہیں کے بموجب کام جاری ہوا۔ خواجہ شاہ منصور اور مظفر خاں نے دفتر کے انتظام میں بڑے بڑے کام کئے۔ مگراس نے سب پر پانی پھیر دیا۔ اور شہرت کے میدان میں ان سے آگے نکل گیا۔ بہت سے نقشے اور فردوں کے نمونے آئین اکبری میں درج ہیں۔ اسی کی اصطلاحیں اور الفاظ ہیں۔ کہ آج تک مال گذاری اور حساب کے کاغذات میں چلے آتے ہیں۔ سکندر لودھی کے زمانہ تک دھرم دان ہندو فارسی یا عربی نہ پڑھتے تھے۔ اس کانام ملکش بدھیا رکھا تھا۔ راجہ نے تجویز کیا تھا۔ کہ کل قلمرو ہندوستان میں یک قلم دفتر فارسی ہو جائیں نتیجہ اس کا یہ تھا۔ کہ جو ہندو اہل قلم۔ اہل تجارت اور صاحب زراعت ہوں، انہیں ضرور فارسی پڑھنی چاہیے۔ اس سے ہندوئوں میں اضطراب پیدا ہوا۔ اور چند روز مشکلیں بھی پیش آئیں۔ لیکن ساتھ ہی یہ خیال بھی اسی نے خاص و عام میں پھیلا دیا۔ کہ بادشاہ وقت کی زبان رزق کی کنجی اور دربار شاہی کی دلیل ہے۔ ادھر بادشاہ بھی اکبر بادشاہ تھا۔ جس نے محبت کا جال پھینک کر دلوں کو مچھلیوں کی طرح پھانس لیا تھا۔ یہ بات بہت جلد سب کی سمجھ میں آ گئی۔ چند سال کے عرصے میں بہت سے ہندی فارسی خواں۔ فارسی داں ہو گئے۔ اور دفتروں میں اہل ولایت کے پہلو دبا کر بیٹھنے لگے۔ اس کی حکمت عملی کو دیکھو۔ کس خوبی سے قوم کے مالی اور ملکی منصوبوں کے لیے شاہراہ کھولی ہے۔ بلکہ حق پوچھو۔ تو فارسی عربی الفاظ کو اسی وقت سے ہندوئوں کی زبانوں میں بلکہ گھروں میں رستہ مل گیا۔ اور یہیں سے اردو کی بنیاد ریختہ سے استوار ہوئی۔ ۹۹۰؁ھ میں سونے سے تانبے تک کل سکوں میں اصلاحیں ہوئیں۔ راجہ کی تجویز اس اصلاح کا جزو اعظم ہے۔ اس میں بڑا وصف یہ تھا۔ کہ تجویز و تدبیر میں مصلحت کے کسی پہلو کو جانے نہ دیتا تھا۔ اول اول دیوان عالی دماغ شاہ منصور تمام دفاتر سلطنت کو اپنے قلم کی نوک سے دبائے ہوئے تھے۔ دیوان مستوفی وزیر۔ جو کچھ سمجھو وہی تھے۔ ساتھ اس کے کاغذات حساب کے کیڑے تھے۔ اور کفایت شعاری کے تالاب میں بگلا۔ مگر سپاہی او ملازم کا جونک کی طرح لہو پی جاتے تھے۔ ۹۸۷؁ھ میں انہوں نے نئی کاردانی خرچ کی۔ اور فوج کی تنخواہ کے چند آئین باندھے۔ راجہ نے ایک مفصل عرضداشت لکھی۔ اس میں حساب کتاب دفتر کے قواعد لکھے تھے۔ اور مصلحت وقت کے نشیب و فراز دکھا کر سپاہی کی رعایت کو مقدم رکھا تھا۔ اکبر خود فرقہ سپاہی کے مائی باپ تھے۔ چنانچہ خواجہ سے یہ کام لے لیا۔ اور ان کی خدمت شاہ قلی محرم کو اور وزارت وزیر خاں کو مل گئی۔ ایسی ہی خیر خواہیاں تھیں۔ جن سے شاہ کا وہ حال۱؎ ہوا۔ اور یہی مصلحت کے پہلو تھے۔ جن کی رعایتوں سے ان کے کلام کو سپاہ کے دلوں میں وہ راہ تھی۔ کہ بنگالہ کے معرکوں میں کامیابی حاصل کی۔ اس نے حساب میں ایک رسالہ لکھا ہے ۔ اس کے گر یاد کر کے بنئے اور مہاجن دکانوں پر اور ۱؎۔ دیکھو شاہ کا حال صفحہ ۷۲۳۔ دیسی محاسب گھر اور دفتر کے کاروبار میں طلسمات کرتے ہیں۔ اور مدرسوں کے ریاضی داں منہ دیکھتے ہی رہ جاتے ہیں۔ کشمیر اور لاہور کے کہن سال لوگوں میں کتاب خازن اسرار کے نام سے مشہور ہے مگر کمیاب ہے۔ میں نے بڑی کوشش سے کشمیر میں جا کر پائی۔ لیکن دیباچہ دیکھ کر تعجب ہوا کہ ۱۰۰۵؁ھ کی تصنیف ہے۔ حالانکہ خود ۹۹۷؁ھ میں مر گیا۔ شاید اس کی یادداشت کی کتاب پر کسی نے دیباچہ لگا دیا۔ دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے۔ کہ دو حصوں پر مشتمل ہے۔ ایک میں دھرم۔ گیان۔ اشنا۔ پوجا پاٹ وغیرہ وغیرہ ۔ دوسرے میں کاروبار دنیاوی۔ دونوں میں چھوٹے چھوٹے بہت باب ہیں۔ ہر چیز کا تھوڑا تھوڑا بیان ہے۔ مگر سب کچھ ہے ۔ چنانچہ دوسرے حصہ میں علم الاخلاق۔ تدبیر المنزل کے علاوہ اختیار ساعات ۔ موسیقی۔ سرودھ۔ شگون آواز طیور۔ پرواز طیور وغیرہ تک بھی لکھے ہیں۔ کتاب مذکور سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے مذہب کا پکا اور خیالات کا پورا تھا۔ ہمیشہ گیان دھیان میں رہتا تھا۔ اور پوجا پاٹ مذہبی لوازمات حرف بحرف ادا کرتا تھا۔ اور چونکہ اس زمانہ میں بے قیدی و آزادی کی فصل بہار پر تھی۔ اس لئے ان خصائل کے ساتھ انگشت نما تھا۔ کہاں ہیں۔ وہ لوگ؟ جو کہتے ہیں کہ نوکر وفادار جبھی ہوتا ہے۔ جب اس کے خیالات اور حالات بلکہ مذہب اور اعتقاد بھی آقا کے ساتھ ایک ہو جائیں۔ وہ آئیں۔ اور ٹوڈرمل کے حالات سے سبق پڑھیں۔ کہ سچے مذہب والے وہی لوگ ہیں۔ جو اپنے آقا کی خدمت صدق و یقین سے بجا لائیں۔ بلکہ جتنا صدق و یقین مذہب میں زیادہ ہو گا۔ اتنی ہی وفاداری اور جاں نثاری زیادہ صدق و یقین کے ساتھ ہو گی۔ اچھا اس کی نیت کا پھل بھی دیکھ لو۔ اکبری دربار میں کون سا امیر ذی رتبہ تھا۔ جن سے وہ ایک قدم پیچھے یا فیض انعام میں نیچے رہا۔ جزویات مذہبی اور اس کے رسوم و قیود کی پابندی بعض موقع پر انہیں تنگ کرتی تھی۔ چنانچہ ایک دفعہ بادشاہ اجمیر سے پنجاب کو آتے تھے۔ سفر کا عالم۔ ایک دن کوچ کی گھبراہٹ میں ٹھاکروں کا آسن کہیں رہ گیا۔ یا وزیر سلطنت کا تھیلہ سمجھ کر کسی نے چرا لیا۔ راجہ کا قاعدہ تھا۔ کہ جب تک پوجا نہ کر لیتے تھے۔ کوئی کام نہ کرتے تھے۔ اور کھانا بھی نہ کھاتے تھے۔ کئی وقت کا فاقہ ہو گیا۔ اکبری لشکر میں ڈیرے ڈیرے چرچا ہو گیا۔ کہ راجہ کے ٹھاکر چوری گئے۔ وہاں عالم مسخرے۔ فاضل شہدے۔ بیربر جیسے کئی پنڈت اور بدھیا دان موجود تھے۔ خدا جانے کیا کیا لطیفے چھانٹے ہوں گے۔ بادشاہ نے بلا کر کہا کہ ٹھاکر چوری گئے۔ ان داتا تمہارا ایشور ہے وہ تو نہیں چوری گیا؟ اشنان کر کے اسے یاد کرو۔ اور کھانا کھائو۔ خود کشی کسی مذہب میں ثواب نہیں۔ راجہ نے بھی اپنے خیال سے رجوع کی۔ آزاد۔ کہنے والے کچھ ہی کہیں۔ لیکن میں اس کے استقلال پر ہزار تعریفوں کے پھول چڑھائوں گا۔ بیربر کی طرح دربار کی ہوا میں آ کر اپنا دین تو نہیں گنوایا۔ البتہ دین الٰہی اکبر شاہی کے خلیفہ نہ ہوئے۔ خیر وہ خلافت انہی کو مبارک ہو۔ شیخ ابوالفضل نے جو فقرے اس کی عادات اور اخلاق کے بارے میں لکھے ہیں۔ ان کے باب میں آزاد کو کچھ لکھنا واجب ہے۔ وہ فرماتے ہیں۔ اگر تعصب کی پرستاری۱؎۔ تقلید۲؎ کی محبت اور کینہ کشتی۳؎ نہ ہوتی۔ اور۴؎ اپنی بات پر مغرور ہو کر نہ اڑتا۔ تو بزرگان معنوی میں سے ہوتا۔ عوام الناس ضرور کہیں گے۔ کہ شیخ لامذہب تھے۔ جس کو پابند مذہب اور بزرگوں کی لکیر پر چلتا دیکھتے تھے۔ اس کی خاک اڑاتے تھے۔ آزاد کہتا ہے۔ کہ یہ سب درست ہے لیکن ابوالفضل بھی آخر ایک شخص تھے۔ اسی جگہ نہیں۔ کئی جگہ راجہ کے حق میں ایسے ہی فقرے تراشے ہیں۔ کچھ نہ کچھ ضرور ان قباحتوں کے ضرر لوگوں کو پہنچے ہوں گے۔ جب راجہ بنگالہ کی مہم سر کر کے آئے۔ ۵۴ ہاتھی اور نفائس گراں بہا پیش کش گزرانے۔ وہاں بھی لکھتے ہیں۔ بادشاہ نے مقدمات مالی و ملکی اس کے فہم درست پر حوالہ کر کے دیوان کل ہندوستان کا مقرر فرمایا۔ وہ راستی اور کم طمعی میں عمدہ خدمت گزار تھا۔ بے لالج کاروبار کرتا تھا۔ کاش کینہ کش اور انتقامی نہ ہوتا۔ کہ طبیعت کے کھیت میں ذرا ملائمت پھوٹ نکلتی۔ یہ بھی سہی۔ تعصب مذہبی چہرہ پر رنگ نہ پھیرتا ۔ تو اتنا قابل ملامت نہ ہوتا۔ باوجود اس کے عام اہل زمانہ وک دیکھ کر کہنا چاہیے۔ کہ سیر دلی اور بے طمعی کے ساتھ۔ عرق ریز کاردان۔ قدردان خدمت گزار تھا۔ اور کم نظیر نہیں۔ بے نظیر تھا۔ دیکھئے کیا سرٹیفکیٹ دیا ہے۔ اب اس ۵ فقرہ کی عبارت کو پھر پڑھو اور غور سے دیکھو۔ پہلا اور دوسرا فقرہ اس کی قوم کے لیے فخر کی سند ہے۔ تیسرے فقرہ پر بھی خفا نہ ہونا چاہیے۔ کیونکہ وہ آخر انسان تھا۔ اور ایسے عالیشان رتبہ پر کہ ہزاروں لاکھوں آدمیوں کے معاملات اس سے ٹکر کھاتے تھے۔ اور بار بار ٹکر کھاتے تھے۔ ایک دفعہ کوئی لے نکلتا ہو گا۔ تو یہ دوسرے موقع پر کسر نکالتا ہو گا۔ اور چونکہ ضابطہ دفتر اور کفایت بادشاہی پر بنیاد عمل تھی۔ اس لئے حضور میں بھی اسی کی بات سرسبز ہوتی ہو گی۔ میرے دوستو! دنیا نازک مقام ہے۔ اگر دشمن سے بچائو نہ رکھتا۔ تو زندگی کیونکر ہوتی۔ اور گزارہ کہاں کرتا۔ چوتھے فقرہ پر بھی چڑنا نہیں چاہیے۔ کیونکہ وہ دیوان تھا۔ امرائے عالیشان سے غریب سپاہی تک اور صاحبان ملک سے لے کر ادنیٰ معانی دار تک سب کا حساب کتاب اسے کرنا پڑتا تھا۔ وہ واجب الطلب میں کسی کی رعایت کرنے والا نہ تھا۔ اور باخبر اہلکار تھا۔ دنیا میں ادنیٰ سے اعلیٰ تک اپنی کفایت اور اپنا فائدہ چاہتے ہیں۔ اور ایک ایک رقم مندرجہ دفتر پر ضرور گرفت کرتا ہو گا۔ لوگ حجتیں کرتے ہوں گے۔ حساب کا معاملہ تھا۔ کسی کی پیش بھی نہ جاتی ہو گی۔ سفارشیں بھی آتی ہوں گی۔ وہ سنتا نہ ہو گا۔ دربار تک بھی نوبتیں پہنچتی ہوں گی اور راجہ کاٹ ہی لیتا ہو گا۔ اکبر رحیم و کریم بادشاہ تھا۔ مگر آئین سلطنت اور ضوابط دفتر کو توڑنا بھی نہ چاہتا تھا۔ اس لئے کہیں کہیں وہ بھی دق ہوتا ہو گا۔ سب ناراض ہوتے ہوں گے۔ یہی بنیاد ہے۔ ان اشعار کی جو ملا صاحب نے لکھے اور انہی باتوں سے جل کر موزوں طبعوں نے اس کا سجع کہا تھا۔ ؎ آنکہ شد کار ہند از و مختل راجۂ راجہاست ٹوڈرمل باوجود ان سب باتوں کے جو کچھ کرتا تھا۔ اپنے آقا کی خیر خواہی سمجھ کر کرتا تھا۔ اور خزانہ شاہی میں داخل کرتا تھا۔ اگر خود بیچ میں کتر لیتا۔ تو گنہگار اور وہ کترتا تو لوگ کب چھوڑتے۔ اسی بیچارے کو کتر ڈالتے۔ یہی سبب ہے کہ اس کی راستی اور درستی کو ہر شخص برابر مانتا ہے۔ البتہ ایک بات کا مجھے بھی افسوس ہے۔ بعض مؤرخ لکھتے ہیں۔ کہ شاہ منصور کے قتل کی جو سازشیں ہوئی تھیں۔ ان میں کرم اللہ (شہباز خاں کمبو کے بھائی) نے بھی کچھ خطوط پیش کئے۔ وہ بھی جعلی تھے۔ اور یہ راجہ کی کارسازی تھی۔ اس وقت کوئی نہ سمجھا پیچھے راز کھلا۔ خیر راجہ کی اور ان کی کاغذی بحثیں تھیں۔ دونوں اہلکار تھے۔ خدا جانے طرفین سے کیا کیا وار چلتے ہوں گے۔ اس وقت ان کا نہ چلا۔ ان کا چل گیا۔ بٹالوی صاحب خلاصہ التواریخ سے تعجب ہے ۔ کہ ملک پنجاب میں بیٹھ کر کتاب لکھی اور شاہجہاں اور عالمگیر کا زمانہ پایا۔ انہوں نے بھی ٹوڈرمل کی اصل نسل اور عمر اور سنہ ولادت کی توضیح نہیں لکھی ۔ البتہ اس کے اوصاف میں ایک بڑا ورق تحریر کیا۔ جو تقریباً راستی اور اصلیت کے الفاظ سے مرصع ہے۔ اس میں کہتے ہیں۔ راز دان سلطنت تھا۔ دقائق سیاق اور حقائق حساب میں بینظیر تھا۔ محاسبوں کے کاروبار میں باریکیاں نکالتا تھا۔ ضوابط و قوانین وزارت۔ آئین سلطنت ۔ ملک کی معموری رعیت کی آبادی۔ دفتر دیوان کے دستور العمل۔ حقوق بادشاہی کے اصول۔ افزونی خزانہ۔ رستوں کی امنیت۔ مواجب سپاہ۔ شرح دامی پر گنات۔ تنخواہ جاگیر۔ مناصب امرا کے قواعد۔ سب کچھ اس کی یادگار ہیں۔ اور سب جگہ انہیں قواعد اور ضوابط پر عمل درآمد ہے۔ (۱) جمع دہ بدہی پرگنہ وار اس نے باندھی (۲) طنابی جریب خشکی اور تری میں گھٹ بڑھ جاتی ہے۔ اور ۵۵ گز تھی۔ اس نے ۶۰ گز کی جریب بانس یا نرسل کی قرار دی اور لوہے کی کڑیاں بیچ میں ڈالیں۔ کہ کبھی فرق نہ پڑے ۱؎ (۳) اس کی تجویز سے ۹۸۲؁ھ میں کل ممالک محروسہ بارہ صوبوں میں منقسم ہوئے اور دہ سالہ بندوبست ہو گیا۔ چند گائوں کا پرگنہ۔ چند پرگنوں کی سرکار۔ چند سرکار کا ایک صوبہ قرار دیا۔ (۴) روپیہ کے چالیس دام ۲؎ ٹھیرائے۔ پرگنہ کی شرح دامی دفتر میں مندرجہ ہوئی (۵) کرور دام پر ایک عامل مقرر کر کے کروری نام رکھا۔ (۶) امرا کے ماتحت نوکر ہوتے تھے۔ ان کے گھوڑوں کے لئے داغ کا آئین مقرر کیا۔ کہ ایک جگہ کا گھوڑا دو دو تین تین جگہ دکھا دیتے تھے۔ عین وقت پر کمی سے بڑا ہرج پڑتا تھا۔ اس میں کبھی تو سواروں کی دغا بازی ہوتی تھی۔ کبھی امرا خود بھی دغا دیتے تھے۔ کہ جب موجودات ہوتی تو فوراً سوار سپاہی نوکر رکھ لئے اور لفافہ چڑھا کر موجودات دلوائی۔ ادھر سے رخصت ہوئے۔ ادھر جا کر موقوف (۷) بندہائے بادشاہی کی سات ٹولیاں باندھیں۔ ہفتہ کے سات دن کے بموجب ہر ٹولی میں سے باری باری آدمی لئے جاتے تھے۔ اور چوکی میں حاضر ہوتے تھے۔ (۸) روز کے واسطے ایک ایک آدمی چوکی نویس مقرر ہوا۔ کہ ہر اہل خدمت کی حاضری بھی لے۔ اور جو عرض معروض حکم احکام ہوں۔ جاری کرے اور جا بجا پہنچائے۔ (۹) ہفتہ کے لئے سات واقعہ نویس مقرر ہوئے۔ کہ تمام دن کا حال ڈیوڑھی پر بیٹھے لکھا کریں۔ (۱۰) امرا و خوانین کے علاوہ چار ہزار یکہ سوار خاص رکاب شاہی کے لئے قرار دئیے۔ انہیں کواحدی کہتے تھے۔ کہ یکہ کا ترجمہ ہے۔ ان کا داروغہ بھی الگ ہوا۔ (۱۱) کئی ہزار غلام۔ کیا لڑائیوں کے گرفتار۔ غلامی سے آزاد ہوئے۔ اور چیلہ ان کا خطاب ہوا۔ کیونکہ خد اکے بندے آزاد ہیں۔ انہیں غلام یا بندہ کہنا روا نہیں۔ غرض سینکڑوں جزئیات آئین و قواعد کے ایسے باندھے کہ بعض امرا اور وزرا نے کوششیں کیں اور کرتے ہیں۔ آگے نہیں نکل سکتے۔ اس کے بعد منصب وکالت مرزا عبدالرحیم خانخاناں کو مرحمت ہوا۔ اس نے بھی منصب مذکور اور امورات وزارت کو باحسن وجوہ رونق دی۔ کہ مورد تحسین ہوا۔ (۱۲) ہندوستان میں خرید و فروخت۔ دیہات کی جمع بندی۔ تحصیل مال۔ نوکروں کی تنخواہوں کا حساب کیا راجائوں کیا بادشاہوں میں تنگوں پر تھا۔ مگر پیسے دیا کرتے تھے۔ چاندی پر ضرب لگتی تھی۔ تو چاندی کے تنگے کہلاتے تھے اور ایلچیوں اور ڈوموں کو انعام میں دیا کرتے تھے۔ عام رواج نہ تھا۔ چاندی کے مول بازار میں بک جاتے تھے۔ ٹوڈرمل نے منصبداروں اور ملازموں کی ۱؎۔ ایک بیگھ مربع =۳۶۰۰ گز شاہجہانی ۲؎۔ دام میں نے دیکھا ہے۔ وزن میں ایک تولہ۔ مرصع جیسا دلی کا پیسہ سے ایک طرف اکبر کا نام معمولی طور پر ۔ دوسری طرف دام نہاتی خوش قلم خط ثلث میں۔ تنخواہ میں انہی کو جاری کیا۔ اورآئین باندھا۔ کہ تنگہ کی جگہ دیہات سے روپیہ وصول ہوا کرے۔ اس کا ۱۱ ماشہ وزن رکھا۔ روپیہ کے ۴۰ دام قرار دئیے۔ اس کا آئین یہ کہ تانبے پر ٹکسال کا خرچ لگائیں۔ تو روپیہ کے پورے ۴۰ دام پڑتے ہیں۔ وہی نوکروں کو تنخواہ میں ملتے تھے۔ اسی کے بموجب جمع کل دیہات قصبات پرگنات کی دفتر میں لکھی جاتی تھی۔ اس کا نام عمل نقد جمع بندی رکھا۔ محصول کا آئین یہ باندھا کہ غلہ زمین بارانی میں۔ نصف کاشتکار۔ نصف بادشاہ کا۔ بارانی میں ہر قطعہ پر 1/4 اخراجات اور اس کی خرید و فروخت کی لاگت لگا کر غلہ میں 1/3 بادشاہی۔ نیشکر وغیرہ کے جنس اعلیٰ کہلاتے ہیں۔ اور پانی اور نگہبانی اور کٹائی وغیرہ کی محنت غلہ سے زیادہ کھاتی ہے۔ 1/4 1/5 1/6 1/7 حسب مراتب حق بادشاہی ۔ باقی حق کاشتکار۔ اگر محصول لیں۔ تو ہر جنس میں بیگھ مربع پر زر نقدی لیں۔ اس کا دستور العمل بھی جنس وار لکھا ہے۔ یہ بات بھی قابل تحریر ہے۔ کہ قواعد مذکورہ کے بہت سے جزئیات ۔ خواجہ شاہ منصور۔ مظفر خاں اور میر فتح اللہ شیرازی وغیرہ کے نکالے ہوئے تھے۔ا ور بیشک انہوں نے کاغذات کی چھان بین اور انتظام دفتر میں بڑی عرق ریزی کی ہے مگر اتفاق تقدیری ہے۔ کہ ان کا کوئی نام بھی نہیں جانتا ۔ جس عمدہ انتظام کا ذکر آتا ہے۔ وہاں ٹوڈرمل کا نام پکارا جاتاہے۔ طالع شہرت رسوائی مجنوں بیش است ورنہ طشت من و اوہر دو زیک بام افتاد باوجود ان سب باتوں کے یہ نکتہ اکبر کی کتاب اوصاف میں سنہری حرفوں سے لکھنا چاہیے۔ کہ امرا نے راجہ کے اختیارات اور ترقیات متواتر دیکھ کر بعض امورات میں شکایت کی۔ اور یہ بھی کہا۔ کہ حضور نے ایک ہندو کو مسلمانوں پر اس قدر اختیار اور اقتدار دے دیا ہے۔ ایسا مناسب نہیں۔ سینہ صاف اور بے تکلف بادشاہ نے کہا۔ ہر کدام شمادرسرکار خود ہندوئے دارد۔ اگر ماہم ہندوئے داشتہ باشیم۔ چرا زوبدبایدبود۔ تم سب کی سرکاروں میں کوئی نہ کوئی منشی ہندو ہے۔ ہم نے ایک ہندو رکھا ۔تو تم کیوں برا مانتے ہو۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ راجہ مان۱؎ سنگھ اس عالی خاندان راجہ کی تصویر دربار اکبری کے مرققع میں سونے کے پانی سے کھنچنی چاہیے۔ کیونکہ سب سے پہلے اس کے باپ دادا کی مبارک رفاقت اکبر کی ہمدم اور رفیق حال ہوئی۔ جس سے ہندوستان میںتیموری خاندان کی بنیاد نے قیام پکڑا۔ بلکہ یہ کہنا چاہیے۔ کہ انہوں نے اپنی رفاقت اور ہمدردی سے اکبر کو اپنایت اور محبت کرنی سکھا دی۔ اور خلق و عالم کو دکھا دیا۔ کہ راجپوتوں میں جو خیال چلا آتا ہے۔ کہ سر جائے بات نہ جائے۔ اس کی مورت دیکھنی چاہو۔ تو انہیں دیکھ لو۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ ان بات کے پوروں نے اس ترک بادشاہ کی رفاقت میں اپنی جان کو جان نہ سمجھا اور اپنے اور اس کے ننگ و ناموس کو ایک کر دیا۔ ان کی ملنساری اور وفاداری نے اکبر کے دل پر نقش کر دیا۔ کہ ملک ہند ایسی اجزائے شرافت سے مرکب ہے کہ اگر ان کے ساتھ غیر قوم بھی محبت اور ہمدردی کرے۔ تو یہ ایسا کچھ کرتے ہیں۔ کہ اپنی قوم کی تو کیا حقیقت ہے۔ حقیقی بھائی کو بھول جاتے ہیں۔ یہ کچھواہہ کے خاندان عظیم الشان میں نامی گرامی اور صدہا سال سے خاندانی راجہ چلے آتے تھے۔ ان کے ساتھ تمام قوم کچھواہہ اکبر کی جاں نثاری پر کمر بستہ ہو گئی۔ اور ان کی بدولت راجپوتوں کے اکثر خاندان آ کر شامل ہو گئے۔ لیکن اکبر کی دلربائی اور دلداری کا جادو بھی ان پر ایسا کارگر ہوا۔ کہ آج تک سب چغتائی خاندان کی محبت کا دم بھرتے ہیں۔ ۹۶۳؁ھ پہلے سال جلوس میں دربار اکبری سے مجنوں خاں قاقشال نارنول پر حاکم ہو کر گیا۔ حاجی خاں کہ شیر شاہ کا غلام تھا۔ وہ مجنوں خاں پر چڑھ آیا۔ راجہ بھاڑا مل۔ راجہ آبیز کہ اس وقت کچھواہہ خاندان کا چراغ روشن کرنے والا تھا۔ حاجی خاں کے ساتھ تھا۔ مجنوں خاں کی عقل و ہوش جاتے رہے۔ گھر گئے اور حالت تنگ ہوئی۔ خاندانی راجہ مرد کہن سال۔ مروت و انسانیت کے جواہر سے خزانہ وار تھا۔ اور بات کے نشیب و فراز انجام و آغا زکو خوب سمجھتا تھا۔ اس نے صلح کا بندوبست کر کے مجنوں خاں کو محاصرہ سے نکلوایا۔ اور عزت و حرمت کے ساتھ دربار شاہی کو روانہ کر دیا۔ یہی راجہ بھاڑا مل ہیں۔ جو راجہ بھگوان داس کے باپ اور مان سنگھ کے دادا تھے۔ مجنوں خاں جب دربار میں پہنچا ۔ تو راجہ کی مروت۔ محبت۔ اخلاص۔ عالی ہمتی اور اس کے ۱؎۔ بہاری مل۔ پورن مل۔ روپسی ۔ آسکرن۔ جگ مل پانچ بھائی تھے۔ جگ مل کا بیٹا جہاں سنگھ تھا۔ عالی خاندان کے حالات اکبر کے سامنے بیان کئے۔ دربار سے ایک امیر فرمان طلب لے کر گیا۔ راجہ سامان معقول کے ساتھ حاضر دربار ہوا۔ یہ وہی مبارک موقع تھا۔ کہ اکبر ہیمو کی مہم مار کر دلی آیا تھا۔ چنانچہ راجہ کی بڑی عزت اور خاطر داری کی۔ جس دن راجہ اور فرزند اور اس کے ہمراہی بھائی بندوں کو خلعت اور انعام و اکرام مل رہے تھے۔ اور وہ رخصت ہوتے تھے۔ بادشاہ ہاتھی پر سوار ہو کر باہر نکلے تھے۔ اور ان کا تماشہ دیکھتے تھے۔ ہاتھی مست تھا۔ اور جوش مستی میں جھوم جھوم کر کبھی ادھر کبھی ادھر جاتا تھا۔ لوگ ڈر ڈر کر بھاگتے تھے۔ ایک دفعہ ان راجپوتوں کی طرف بھی جھکا۔ وہ اپنی جگہ سے نہ ٹلے۔ اسی طرح کھڑے رہے۔ بادشاہ کو ان کی دلاوری بہت پسند آئی۔ راجہ بھاڑا مل کی طرف متوجہ ہو کر یہ الفاظ کہے۔ ترانہاں خواہم کرد۔ عنقریب مے بینی کہ اعزاز و افتخارت زیادہ بر زیادہ میشود۔ اسی دن سے راجپوتوں کی خصوصاً راجہ بھاڑا مل اور اس کے متعلقوں اور متوسلوں کی قدر دانی کرنے لگے۔ اور ان کی بہادری اور دلاوری روز بروز دل پر نقش ہوتی گئی۔ اکبر نے مرزا ۱؎ شرف الدین حسین کو میوات کا حاکم کر کے بھیجا تھا۔ اس نے ادھر ادھر پھیلنا شروع کیا تھا۔ اور آبنیر کو لینا چاہا۔ راجہ بھاڑامل کا ایک فتنہ پرداز بھائی شرکت ریاست کے باعث مرز ا سے آن ملا۔ اور ساتھ ہو کر لشکر لے گیا۔ چونکہ گھر کی پھوٹ تھی۔ اس واسطے مرزاغالب آیا۔ اور راجہ کے چند بھائی بند گرو لے کر پھرا۔ ۹۶۸؁ھ میں بادشاہ زیارت اجمیر کو چلے۔ رستہ میں ایک امیر نے عرض کی۔ کہ راجہ بھاڑا مل جو دہلی میں حاضر دربار ہوا تھا۔ اس پر مرزا نے بڑی زیادتی کی ہے۔ بیچارہ پہاڑوں میں گھس کر گزارہ کر رہا ہے۔ وہ عالی ہمت بامروت خاندانی راجہ ہے۔ اگر حضور کی توجہ شامل حال ہو گی۔ تو خدمات عظیم بجا لائے گا۔ بادشاہ نے حکم دیا۔ کہ تم خود جا کر لے آئو۔ چنانچہ وہ لینے گیا۔ راجہ خود نہ آیا۔ عرضی کے ساتھ نذرانہ بھیجا۔ اور اس کا بھائی امیر مذکور کے ساتھ آیا۔ اکبر نے کہا کہ یہ صحیح نہیں ہے۔ وہ خود آئے۔ راجہ بھاڑا مل نے بڑے بیٹے بھگوان داس کو اہل و عیال کے پاس چھوڑا۔ اور سانگانیہ کے مقام پر خود حاضر ہوا۔ بادشاہ نے بڑی محبت اور دلداری سے اس کی تشفی کی۔ اور دربار کے امرائے خاص میں داخل کیا۔ راجہ کے دل میں بھی ایسا محبت اور وفا کا جوش پیدا ہوا۔ کہ رفتہ رفتہ اپنے یگانوں میں اور اس میں کچھ فرق نہ رہا۔ چند روز کے بعد راجہ بھگوان داس اور مان سنگھ بھی آ گئے۔ اکبر نے ان دونوں کو ساتھ لیا۔ اور راجہ بھاڑا مل کو رخصت کیا۔ مگر دل مل گئے تھے۔ چلتے ہوئے کہہ دیا کہ جلد چلے آنا ۔ اور سامان کر کے آنا۔ کہ پھر جانے کی تکلیف نہ کرنی پڑے۔ ۱؎۔ دیکھو مرزا کا حال صفحہ ۷۴۷۔ مذہب کی دیوار اور قانون قومی کا قلعہ اپنی مضبوطی اور استواری میں سد سکندری سے کم نہیں۔ مگر آئین سلطنت (جسے ہندوستان میں راج نیت کہتے ہیں) کا قانون سب پر غالب ہے۔ جب اس کی مصلحت کا دریا چڑھائو پر آتا ہے۔ تو سب کو بہا لے جاتاہے۔ اکبر کوشاہ طہماسپ کا قول یاد تھا۔ (دیکھو صفحہ ۶۰، ۶۱) اس نے اس خاندان کی نیک نیت اور اخلاص و محبت دیکھ کر سوچا ۔ کہ ان کے ساتھ قرابت ہو جائے۔ تو بہت خوب ہو۔ اور یہ امر ممکن بھی نظر آیا۔ چنانچہ بڑے موقع کے ساتھ یہ سلسلہ ہلایا۔ اور اس میں کامیاب ہوا۔ یعنی ۹۶۹؁ھ میں راجہ بھاڑا مل کی بیٹی مان سنگھ کی پھوپھی بیگمات اکبری میں داخل ہو کر محل کا سنگار ہو گئی۔ باوجودیکہ رانا کے ساتھ ان کا خاندانی تعلق تھا۔ مگر جب ۹۷۴؁ھ میں چتوڑ پر مہم ہوئی۔ تو راجہ بھگوان داس اکبر کے ساتھ تھے۔ اور ہر مورچے پر سپر کی طرح کبھی آگے تھے۔ کبھی پیچھے۔ (دیکھو تتمہ) ۹۷۹؁ھ میں جب اکبر گجرات پر خود فوج لے کر گیا۔تو راجہ مان سنگھ بھی باپ کی رفاقت میں ہمراہ تھا۔ نوجوانی کا عالم۔ دل میں امنگ۔ دلاوری کا جوش۔ راجپوتی خون کہتا ہو گا۔ کہ چنگیزی ترک جن کے دل فتح یابی نے بڑھائے ہیں۔ اس وقت باگ سے باگ ملائے ہیں۔ ان سے قدم آگے بڑھا رہے۔ اور انہیں بھی دکھلا دو۔ کہ راجپوتی تلوار کی کاٹ کیا رنگ دکھاتی ہے۔ کیا راہ میں کیا میدان جنگ میں جدھر ذرہ اکبر کا اشارہ پاتا تھا۔ فوج کا دستہ لیتا تھا۔ اور اس طرح جا پڑتا تھا۔ جیسے شیروپلنگ شکار پر جاتے ہیں۔ اس عرصہ میں خان اعظم احمد آباد میں گھر گئے۔ اور چغتائی شہزادے افواج دکن کو ساتھ لے کر اس کے گرد چھا گئے۔ اکبر نے آگرہ سے کوچ کیا۔ اور مہینے کی راہ سات دن میں طے کر کے احمد آباد پر جا پہنچا۔ راجہ بھگوان داس اور کنور مان سنگھ اس مہم میں ساتھ تھے۔ اور بادشاہ کے گرد اس طرح سے جان نثاری کرتے پھرتے تھے۔ جیسے شمع کے گرد پروانے۔ چغتائی مؤرخوں نے یہ معاملہ درج تاریخ نہیں کیا۔ مگر ٹاڈ صاحب تاریخ راجستھان میں لکھتے ہیں۔ اور حقیقت میں دیکھنے کے قابل ہے۔ راجہ مان سنگھ شعلہ پور کی مہم مار کر آتا تھا۔ اودے پور کی سرحد سے گزرا۔ سنا کہ رانا پرتاپ کوملمیر میں ہے۔ وکیل بھیجا اور لکھا کہ آپ سے ملنے کو دل بہت چاہتا ہے۔ رانا نے اودے ساگر تک استقبال کر کے جھیل کے کنارے ضیافت کا سامان کیا۔ جب کھانے کا وقت ہوا تو رانا آپ نہ آیا۔ بیٹے نے آ کر کہا۔ ’’رانا جی کے سر میں درد ہے۔ وہ نہ آئیں گے۔ آپ کھانے پر بیٹھیں۔ اور اچھی طرح کھائیں۔‘‘ راجہ مان سنگھ نے کہلا بھیجا۔ کہ جو مرض ہے عجب نہیں کہ وہی ہے۔ جو میں سمجھا ہوں۔ مگر یہ تو لاعلاج مرض ہے۔ اور جب وہی مہمانوں کے آگے تھال نہ رکھیں گے۔ تو کون رکھے گا؟ رانا نے کہلا بھیجا۔ مجھے اس کا بڑا رنج ہے۔ مگر کیا کروں۔ جس شخص نے بہن ترک سے بیاہ دی۔ تو اس کے ساتھ کھانا بھی کھایا ہی ہو گا۔ راجہ مان سنگھ اپنی حماقت پر پچھتایا۔ کہ یہاں کیوں آیا۔ اور وہ صدمہ گزرا کہ دل ہی جانتا تھا۔ چاول کے چند دانے لے کر ان دیوی کو چڑھائے۔ وہی اپنی پگڑی میںرکھ لئے۔ اور چلتے ہوئے کہا۔ تیری عزت بچانے کو ہم نے اپنی عزت کھوئی۔ اور بہنیں بیٹیاں ترک کو دیں۔ تمہاری یہی مرضی ہے۔ کہ خوف میں رہیں تو ہمیشہ رہو اختیار ہے۔ اس لئے کہ اس ملک میں تمہارا گذر نہ ہو گا۔ گھوڑے پر چڑھا اور رانا کی طرف مخاطب ہو کر کہا (اس وقت وہ بھی آ موجود ہوا تھا) رانا جی اگر تمہاری شیخی نہ جھاڑ دوں۔ تو میرا نام مان نہیں۔ پرتاپ بولا۔ ہم سے ہمیشہ ملتے رہنا۔ کسی بے لحاظ نے برابر سے یہ بھی کہا۔ جی اپنے پھپا (اکبر) کو بھی ساتھ لانا۔ جس زمین پر یہ ضیافت ہوئی تھی۔ اسے کھدوایا۔ گنگا جل سے دھلوا کر پاک کیا۔ سردار نہائے۔ پوشاک بدلی۔ گویا سب اس کے آنے سے ناپاک ہو گئے تھے۔ اس بات کی ذرہ ذرہ خبر اکبر کو پہنچی۔ بہت غصہ آیا۔ اسے بڑا خیال یہ تھا۔ کہ ایسا نہ ہو راجپوت کی ذات غیرت کھا کر پھر بگڑ جائے۔ اور جس تعصب کی آگ کو میں نے سو سو پانی سے دھیما کیا ہے۔ وہ پھر سلگ اٹھے۔ عالی ہمت بادشاہ کے دل میں یہ خیال کانٹے کی طرح کھٹک رہا تھا۔ آخر چند روز بعد رانا پر فوج کشی ہوئی۔ سلیم (جہانگیر) کے نام سپہ سالاری ہوئی۔ مان سنگھ اور مہابت خاں ساتھ ہوئے کہ شہزادہ ان کی صلاح پر چلے۔ بادشاہی لشکر رانا کے ملک میں داخل ہوا۔ اور چھوٹے موٹے مقابلوں کو ٹھوکریں مارتا آگے بڑھا۔ رانا ایک ایسے کڈھب مقام میں لشکر لے کر اڑا۔ جسے پہاڑوں کے سلسلوں اور گھاٹیوں کے پیچوں نے خوب مضبوط کیا تھا۔ کومل میر سے رکناتھ تک (شمال سے جنوب تک) ۸۰ میل طول۔ میر پور سے ستولا تک (مشرق مغرب میں) اسی قدر عرض۔ اس مسافت میں پہاڑ جنگل گھاٹیوںاور ندیوں کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ دارالسلطنت کو شمال جنوب۔ مغرب جدھر سے جائو رستہ ایسا تنگ ہے کہ گویا گھاٹی ہی ہے۔ ہر طرف عمودی پہاڑ چلے جاتے ہیں۔ چوڑان اتنی کہ دو گاڑیاں بھی برابر نہیں چل سکتیں۔ گھاٹی میں سے نکلو تو قدرتی دیواریں کھڑی ہیں (انہیں کول کہتے ہیں) بعض جگہ میدان بھی ایسے ایسے آ جاتے ہیں۔ کہ بڑا لشکر چھائونی ڈال دے۔ چنانچہ ہلدی گھاٹ کا میدان ایسا ہی ہے۔ وہ پہاڑ کی گردن پر واقع ہے۔ اس لئے بیڈھب مقام ہے۔ پہاڑ کے اوپر اور نیچے راجپوتوں کی فوجیں جمی ہوئی تھیں۔ ٹیلوں کے اوپر اور اور پہاڑوں کی چوٹیوں پر بھیل جو اصلی کیڑے ان پتھروں کے ہیں۔ تیر کمان لئے تاک میں بیٹھے تھے۔ کہ جب موقع آئے۔ بھاری بھاری پتھر حریف پر لڑھکائیں۔ درہ کے دہانہ پر رانا میواڑ کے سورما سپاہیوں کو لئے ڈٹا تھا۔ غرض کہ یہاں ایک گھمسان کا کشت و خون ہوا۔ کئی راجہ اور ٹھاکر جانوں سے ہاتھ اٹھا کر آن گرے اور اپنے بہادر رانا کے قدموں پر خون کے نالے بہائے۔ گرم میدان میں رانا قرمزی جھنڈا لئے تیار تھا۔ کہ کسی طرح راجہ مان سنگھ نظر آئے۔ اور اس سے دو دو ہاتھ ہوں۔ یہ ارمان تو نہ نکلا۔ لیکن جہاں سلیم (جہانگیر) ہاتھی پر کھڑا لشکر کو لڑا رہا تھا۔ وہاں جا پہنچا اور ایسا بے جگر ہو کر گیا۔ کہ سلیم اس کے برچھے کا شکار ہو جاتا۔ اگر ہودہ کے فولادی تختے اس کی جان کی سپر نہ بن جاتے۔ پرتاپ جس گھوڑے پر سوار تھا۔ اس کا نام چٹک تھا۔ وفادار گھوڑے نے آقا کی بڑی رفاقت کی۔ اس لڑائی کے مرقعے جو تاریخ میواڑ میں شامل ہیں۔ ان میں گھوڑے کا ایک پائوں سلیم کے ہاتھی پر رکھا ہوا ہے۔ اور سوار اپنے حریف پر نیزہ مارتا ہے۔ فیلبان کے پاس بچائو کا سامان کچھ نہ تھا۔ وہ مارا گیا۔ مست ہاتھی بے مہاوت رک نہ سکا اور ایسا بھاگا کہ سلیم کی جان بچ گئی۔ یہاں بڑا بھاری رن پڑا۔ مغل نمک حلال اپنے شہزادہ کے بچانے میں اور میواڑ کے سورما اپنے سینا پتی کی مدد میں ایسے جان توڑ کر لڑے۔ کہ ہلدی گھاٹ کے پتھر شنگرف ہو گئے۔ پرتاپ نے سات زخم کھائے۔ دشمن اس پر باز اور جروں کی طرح گرتے تھے۔ مگر وہ راج کے چتر کو نہ چھوڑتا تھا۔ تین دفعہ دشمنوں کے انبوہ میں سے نکلا۔ اور قریب تھا۔ کہ دب مرے۔ جھالا کا سردار دوڑا اور اس بلا سے رانا کو نکال کر لے گیا۔ راج کا چتر ایک ہاتھ میں اور جھنڈا دوسرے میں لے کر ایک اچھے مقام کی طرف بھاگا۔ اگرچہ خود مع اپنے جان نثاروں کے مارا گیا۔ مگر رانا نکل آیا۔ جب سے اس کی اولاد میواڑ کے بادشاہی نشان اپنے ہاتھ میں رکھتی ہے۔ اور درباروں میں رانا کی داہنی طرف جگہ پاتی ہے۔ راجہ خطاب ہوا ہے۔ اور ان کا نقارہ دروازہ قلعہ تک بجتا ہے۔ یہ رتبہ دوسروں کو حاصل نہیں۔ یہ بہادری ایسے دشمنوں کے سامنے کیا پیش جاتی جن کے ساتھ بیشمار توپیں اور ہکلے آگ برساتے تھے۔ اور اونٹوں کے رسالے آندھی کی طرح دوڑتے تھے۔ فوج پر شکست پڑی۔ بائیس ہزار راجپوت میں سے فقط آٹھ ہزار جیتے بچے۔ اگرچہ فوج پر شکست پڑی۔ مگر اس وقت بچ کر نکل جانا ہی بڑی فتح تھی۔ رانا پرتاپ اپنے چٹک گھوڑے پر سوار بھاگا۔ اور دو مغلوں نے اس پر گھوڑے ڈالے۔ وہ اس کے پیچھے گھوڑے لگائے آتے تھے۔ کہ رستہ میں ایک ندی آئی (پہاڑ میں سے نکلی تھی) اگر چٹک ذرا جھجکتا۔ تو پھنس ہی گیا تھا۔ وہ بھی گھائل ہو رہا تھا۔ مگر وہ ہرن کی طرح چاروں پتلیاں جھاڑ کر پانی پر سے اڑ گیا۔ شام ہو گئی تھی۔ بان کے نعل پتھروں سے ٹکرا کر پتنگے اڑاتے تھے۔ اس نے سمجھا۔ کہ دشمن آن پہنچے۔ اتنے میں کسی نے اس کی بولی میں پیچھے سے پکارا۔ او نیلے گھوڑے کے سوار۔ پرتاپ نے پھر کر دیکھا۔ تو سکٹ اس کا بھائی ہے۔ یہ کسی گھر کے معاملہ میں بھائی سے خفا ہو کر نکل گیا تھا۔ اکبر کی نوکری کر لی تھی اور اس لڑائی میں موجود تھا۔ جب دیکھا کہ میرا بھائی۔ میری قوم کا نام روشن کرنے والا۔ میرے باپ دادا کا نام روشن کرنے والا۔ اس حالت کے ساتھ جان لے کر بھاگا ہے۔ اور دو مغل اس کے پیچھے پڑے ہیں تو سب غصہ جاتا رہا۔ خون نے جوش مارا۔ اور اس کے پیچھے ہو لیا۔ موقع پا کر دونوں مغلوں کو فنا کیا اور بھائی سے جا ملا۔ کس مدت کے بچھڑے بھائی کس طرح ملے۔ گھوڑے سے اتر کر خوب گلے ملے۔ یہاں چٹک بیٹھ گیا۔ سکٹ نے اسے گھوڑا دیا۔ اس کا نام انگارد تھا۔ جب رانا نے اس کا اسباب اتار کر دوسرے گھوڑے پر رکھا تو افسوس کہ چٹک کا دم نکل گیا۔ یہاں اس کی یادگار میں ایک عمارت بنوائی ہے۔ اودے پور کی آبادی میں آدھے گھر ہوں گے۔ جن کی دیواروں پر یہ تصویریں کھنچی ہیں۔ سکٹ نے رانا بھائی سے چلتے ہوئے ہنس کر کہا۔ بھائی جی جب کوئی جان بچا کر بھاگتا ہے۔ تو دل کا کیا حال ہوتا ہے؟ پھر اس کی خاطر جمع کی۔ کہ جب موقع پائوں گا۔ پھر آئوں گا۔ سکٹ وہاں سے ایک مغل کے گھوڑے پر چڑھا اور سلیم کے لشکر میں آیا۔ لوگوں سے کہا۔ کہ پرتاپ نے ان دونوں پیچھا کرنے والوں کو مارا۔ ان کی حمایت میں میرا گھوڑا بھی مارا گیا۔ ناچار میں ان میں سے ایک کے گھوڑے پر آیا ہوں۔ لشکر میں کسی کو یقین نہ آیا۔ آخر سلیم نے بلا کر عہد کیا۔ کہ سچ کہہ دو گئے تو میں معاف کر دوں گا۔ سیدھے سپاہی نے اصل حال کہہ دیا۔ سلیم اپنے عہد پر قائم رہا مگر کہا کہ اب تم اپنے بھائی کے پاس جا کر نذد دو۔ اور وہیں رہو۔ چنانچہ وہ اپنے ملک میں چلا گیا۔ رانا کیکا ملک میواڑ میں راج کرتا تھا۔ اور ہندوستان کے مشہور راجائوں میں سے تھا۔ جب اکبر نے چتوڑ مار لیا تو رانا نے کوہستان ہندوارہ میں قلعہ کوکنڈہ تعمیر کیا۔ اس میں بیٹھا۔ ملک کنبھل میر پر حکومت کر تا تھا۔ مقام مذکور اردلی پہاڑوں میں جانب شمار اودے پور سے ۴۰ میل کے فاصلہ پر واقع ہے۔ ہندوستان کے اکثر راجہ اکبر کی اطاعت یا سلامت روی کے سلسلہ میں آ گئے تھے۔ مگر رانا اپنی اکڑ تکڑ پر قائم تھا۔ چنانچہ ۹۸۳؁ھ میں اکبر معہ لشکر اجمیر گیا۔ جب درگاہ ایک منزل رہی تو پیادہ ہوا۔ زیارت کر کے نذر نیاز چڑھائی۔ ایک دن درگاہ میں مان سنگھ کو بھی ساتھ لے گیا۔ دیر تک دعائیں اور التجائیں کیں۔ وہیں بیٹھے اور امرا بھی حاضر تھے۔ صلاح مشورے ہو کر فوج کشی قرار پائی۔ مان سنگھ کو خطاب فرزندی کے ساتھ سپہ سالاری عنایت ہوئی۔ پانچ ہزار سوار رقمی کہ کچھ خاصہ کے اور کچھ ماتحت امرا تھے۔ مدد کو دئیے۔ کئی امیر جنگی تجربہ کار مع ان کی فوجہائے جرار کے ساتھ روانہ کیے۔ اور ریاست رانا کی طرف متوجہ کیا۔ دریائے لشکر طوفان کی طرح حدود اودے پور میں داخل ہوا۔ کنور نے مانڈل گڑھ پر ٹھہر کر لشکر کا انتظام کیا۔ اور ہلدیو کی گھاٹی سے نکل کر کوکنڈہ پر جا پہنچا کہ وہیں رانا رہتا تھا۔ رانا اپنے دارالخلافہ سے نکلا اور سورما راجپوت جو قومی حمایت کے نام پر پہاڑوں میں بیٹھے تھے۔ تلواریں کھینچ کر ساتھ نکلے۔ مان سنگھ ابھی نوجوان کنور تھا۔ مگر اس نے اکبر کی رکاب میں رہ کر اس شطرنج کے نقشے بہت کھیلے تھے۔ خود چند امرائے کہنہ عمل کے ساتھ قلب میں قائم ہوا۔ کئی پرے باندھ کر قلعۂ لشکر کو سد سکندری بنایا۔ اور عمدہ عمدہ بہادر چن کر ہر فوج کے لیے کمک تیار رکھی۔ ۱؎ ملا صاحب بہ نیت جہاد اس لڑائی میں شامل ہوئے تھے۔ انہوں نے لفظوں کے آب و رنگ سے میدان جنگ کا ایسا نقشہ اتارا ہے کہ مؤرخوں کے قلم ٹوٹ گئے۔ آزاد اس موقع پر اس کا فوٹو گراف لے کر دربار اکبری میں سجاتا ہے۔ رانا تقریباً تین ہزار سوار کے ساتھ بادل کی طرح پہاڑ سے اٹھا۔ دو فوج ہو کر آیا۔ ایک فوج نے ہراول شاہی سے ٹکر کھائی۔ پہاڑی زمین تھی۔ گڑھے۔ جھاڑی پہاڑیوں کے ایچ پیچ بہت تھے۔ ہراول اور کمک ہراول غٹ پٹ ہو گئے۔ بھگوڑی لڑائی لڑنی پڑی۔ بادشاہی لشکر کے راجپوت بائیں طرف سے اس طرح بھاگے۔ جیسے بکریاں۔ ہراول کو لانگھ پھلانگ کر دائیں طرف کی فوج میں گھس آئے۔ ہاں سادات بارہ اور بعضے غیرت والے بہادروں نے وہ کام کئے۔ کہ شاید ہی رستم سے ہوں۔ طرفین سے بہت آدمی کام آئے۔ جس فوج میں رانا تھا۔ اس نے گھاٹی سے نکلتے ہی قاضی خاں بدخشی کو لیا۔ کہ دہانہ روک کر کھڑے ہوئے تھے۔ انہیں اٹھا کر الٹتے پلٹتے قلب میں پھینک دیا۔ سیکری وال شیخ زادے تو اکٹھے ہی بھاگے۔ شیخ ابراہیم شیخ منصور (شیخ ابراہیم خلف سلیم کے داماد) ان کے سردار تھے۔ بھاگنے میں ایک تیر ان کے چوتڑوں پر بیٹھا۔ مدت تک دکھ بھرا۔ قاضی خاں باوجود ملائی کے بہادری سے اڑے۔ ہاتھ پر ایک تلوار کھائی۔ کہ انگوٹھا کٹ گیا۔ مگر ٹھہرنے کی جگہ نہ تھی۔ قاضی صاحب جواز فرار کی حدیثیں تلاوتے کرتے ہوئے ہٹ کر قلب میں آ گئے۔ الفرار مما لا یطاق من سنن المرسلین۔ ۱؎ دیکھو صفحہ ۴۳۹ (آزاد۔ علما کے قربان جائیے۔ زبان سے کہتے ہیں۔ کہ جو جہاد سے بھاگے اس کی توبہ کبھی قبول نہیں ہوتی۔ خود بھاگتے ہیں۔ تو پیغمبروںکو بھی بھگا کر آگے رکھ لیتے ہیں۔) اور جو پہلے حملے میں بھاگے تھے۔ انہوں نے تو پانچ چھ کوس تک دم ہی نہ لیا۔ ایک دربار بیچ میں تھا۔ اس سے بھی پار ہو گئے۔ لڑائی تازہ ہو رہی تھی۔ جو ایک سردار گھوڑا اڑاتا نقارہ بجاتا آیا۔ کہ بندگان بادشاہی یلغار کر کے آن پہنچے۔ لشکر بادشاہی سے شور قیامت کا غل تھا۔ اور اس منتر نے بڑا اثر کیا۔ بھاگتے ہوئے تھم گئے۔ بھاگے ہوئے پلٹ پڑے اور غنیم کے پائوں اکھڑ گئے۔ راجہ رامساہ گوالیاری رانا کے آگے آگے بھاگا آتا تھا۔ اس نے مان سنگھ کے راجپوتوں کی جان پر عجب کارپردازی کی۔ کہ بیان نہیں ہو سکتی۔ یہ لوگ وہ تھے۔ کہ ہراول کے بائیں سے بھاگ کر آئے تھے۔ مگر ایسے بدحواس آئے کہ آصف خاں کو بھی بھگوڑا کر دیا ہوتا۔ دائیں طرف پر سادات بارہ تھے۔ ان میں پنا ہ لی۔ اگر سادات بارہ ثابت قدمی سے نہ اڑتے اور ہراول کی طرح نوک دم بھاگتے ۔ تو رسوائی میں کچھ باقی نہ رہا تھا۔ رانا نے ہاتھیوں کو بادشاہی ہاتھیوں سے آن ٹکرایا۔ ان میں دو مست دیوزاد ٹکرم ٹکرا ہو گئے۔ حسین خاں بادشاہی فیلبان مان سنگھ کے آگے بیٹھا تھا۔ وہ گرا۔ مان سنگھ آپ مہاوت کی جگہ جا بیٹھا۔ اور اس استقلال سے ڈٹا ۔ کہ اس سے زیادہ کیا ہو گا۔ الحمد للہ کہ قلب قائم رہا۔ ادھر سے جو رامساہ بھاگا تھا۔ اس نے اپنے اور تین بیٹوں کے خون سے داغ بدنامی کو دھو دیا۔ فیلبان نے غنیم کی طرف سے رام پرشاد ہاتھی کو بڑھایا۔ یہ بڑا قوی ہیکل اور جنگی ہاتھی تھا۔ بہت سے جوانوں کو پامال کر کے صفوں کو چاک در چاک کر دیا۔ کمال خاں فوجدار شاہی نے ادھر سے گجراج ہاتھی کو سامنے کیا۔ دیر تک آپس میں ریلتے دھکیلتے رہے۔ بادشاہی ہاتھی دب نکلا تھا۔ اقبال اکبری نے رام پرشاد کے مہاوت کو قضا کی گولی ماری۔ کہ اس دھکم دھکا میں زمین پر آ پڑا۔ بادشاہی فیلبان واہ رے تیری پھرتی۔ کود کر رانا کے ہاتھی پر جا بیٹھا۔ اور وہ کام کیا۔ کہ کسی سے نہ ہو سکے۔ اتنے میں یکہ سوار جو مان سنگھ کی اردلی میں تھے۔ رانا کی فوج پر ٹوٹ پڑے اور اس گھمسان کا رن پڑا۔ کہ مان سنگھ کی سپہ سالاری اس دن معلوم ہو گئی۔ ملاشیریں نے سچ کہا ہے۔ ع کہ ہندو میزند شمشیر اسلام رانا کے ساتھ مان سنگھ کا مقابلہ ہوا۔ اور اوپر تلے کئی وار ہوئے۔ آخر رانا نہ ٹھیر سکا۔ مان سنگھ کے ہاتھ سے زخم کھایا۔ سب کو وہیں چھوڑا اور بھاگا۔ اس کی فوج میں بھی کھلبلی پڑ گئی اور اس کے سردار بھاگ بھاگ کر اس کی طرف ہٹنے لگے۔ آخر سب پہاڑوں میں گھس گئے۔ گرمی کا موسم آگ برسا رہا تھا۔ لو چل رہی تھی۔ زمین آسمان تنور کی طرح بھڑک رہے تھے۔ بھیجے سر میں پانی ہو گئے۔ صبح سے دوپہر تک لڑتے رہے۔ پان سو آدمی کا کھیت پڑا۔ ۱۲۰ مسلمان باقی ہنود۔ زخمی غازی تین سو سے زیادہ۔ لوگوں کا یہ خیال تھا۔ کہ رانا بھاگنے والا نہیں۔ یہیں کسی پہاڑی کے پیچھے چھپ رہا ہے۔ پھر پلٹے گا اس لئے تعاقب نہ کیا۔ خیموں میں پھر آئے اور زخمیوں کی مرہم پٹی میں مصروف ہوئے۔ دوسرے دن وہاں سے کوچ کیا۔ میدان میں ہوتے ہوئے ہر شخص کی کارگذاری کو دیکھتے ہوئے درہ سے گذر کر کوکنڈہ میں آئے۔ رانا نے چند معتبر جاں نثار محلوں پر تعینات کئے۔ کچھ وہ کچھ مندروں میں سے پانڈے نکلے۔ کل بیس آدمی ہوں گے۔ اپنی جانیں دے کر نام کو سرخرو لے گئے۔ ہندوئوں کی قدیمی رسم تھی۔ جب شہر خالی کرتے تھے۔ ننگ و ناموس کے لئے ضرور جانیں دیتے تھے۔ معلوم ہوا کہ رانا کے شبخون کا بھی خیال تھا۔ کیونکہ شہر کے گرد پتھر چن کر ہاتھوں ہاتھ ایسی دیوار اور خندق بنا لی تھی۔ جس سے سوار گھوڑا نہ اڑا سکیں۔ مان سنگھ نے سرداروں کو جمع کر کے مقتولوں کی فہرستیں مرتب کیں۔ اور جن کے گھوڑے مارے گئے تھے۔ ان کی تفصیل طلب ہوئی۔ سید محمود خاں بارہ نے کہا۔ کہ ہمارا تو نہ کوئی آدمی ضائع ہوا۔ نہ گھوڑا مرا۔ خالی اسم نویسی سے کیا حاصل۔ غلہ کی فکر کرو۔ یہ کوہستان بہت کم زراعت ہے۔ غلہ تھڑ گیا۔ اور رسد پہنچتی نہ تھی۔ لشکر میں کہرام مچا ہوا تھا۔ پھر کمیٹی ہوئی۔ ایسے موقع پر ایسا ہی ہوتا ہے۔ ایک ایک امیر کو ایک سردار فرض کر کے قرار پایا۔ کہ باری باری سے غلہ کی تلاش میں نکلا کرے۔ پہاڑوں پر چڑھ جاتے تھے۔ جہاں جہاں ذخیرہ یا آبادی کی خبر پاتے وہاں جاتے۔ اناج سمیٹتے تھے۔ اور آدمیوں کو باندھ لاتے تھے۔ جانوروں کے گوشت سے گزارہ کرتے تھے۔ آم ایسی بہتات سے تھے کہ حد بیان سے باہر ہے۔ لشکر کے کنگلوں نے کھانے کی جگہ بھی وہی کھائے۔ اور بیمار ہو کرتمام لشکر میں کثافت پھیلا دی۔ آم بھی ایک ایک سوا سوا سیر کا ہوتا تھا۔ گٹھلی چھوٹی۔ مگر مزہ چاہو تو کھٹاس مٹھاس کچھ نہیں۔ بادشاہ کے بھی دل کو لگی ہوئی تھی۔ ایک سردار کو ڈاک بٹھا کر بھیجا۔ کہ لڑائی کا حال دیکھ کر آئے۔ یہاں فتح ہو گئی تھی۔ وہ آیا۔ حال احوال معلوم کر کے دوسرے دن رخصت ہوا۔ خدمت میں سب قبول ہوئیں۔ باوجود اس کے چغل خوروں نے کہہ دیا۔ کہ فتح کے بعد کوتاہی ہوئی۔ ورنہ رانا گرفتار ہو جاتا۔ بادشاہ کو بھی خیال ہوا۔ مگر تحقیق کے بعد معلوم ہو گیا۔ کہ شیطانی طوفان ہے۔ ۹۸۹؁ھ میں اس نے وہ دلاوری دکھائی۔ کہ ہندی لوہے نے ولایتی کے جوہر مٹا دئیے۔ ملک بنگال میں اکبری امرا نے بغاوت کی۔ یہ نمک حرام تمام نئے پرانے ترک اور بعض کابلی افغان تھے۔ انہوں نے سمجھا ۔ کہ بادشاہ کی مخالفت کے لئے جب تک کوئی بادشاہی ہڈی ہمارے ہاتھ میں نہ ہو گی۔ ہم باغی ہی کہلائیں گے۔ اس لئے مرزا حکیم کو عرضیاں لکھیں۔ اور اس کے امرا کو خطوط اور زبانی پیغام بھیجے۔ خلاصہ یہ کہ آپ بھی ہمایوں بادشاہ کے لخت جگر ہیں۔ اور برابر کا حق رکھتے ہیں۔ اگر ہمت شاہانہ کو حرکت دے کر ادھر سے آئیں۔ تو غلامان قدیم ادھر سے جاں نثاری کے واسطے حاضر ہیں۔ اس کے پاس بھی ہمایوں کے خدمت گذار بلکہ بابری عہد کی کھرچن باقی تھی۔ اول اس کا ہوا خواہ شادمان کوکہ تھا۔ جس کا باپ سلیمان بیگ اندجانی اور دادا لقمان بیگ تھا۔ کہ کسی زمانہ میں بابر بادشاہ کا منظور نظر تھا۔ ان خام طمع لوگوں نے خیال مذکور کو اور بھی چمکا کر نوجوان شہزادہ کے سامنے جلوہ دیا۔ اس نے موقع کو غنیمت سمجھا۔ اور پنجاب کا رخ کیا۔ ایک سردار کو فوج دے کر آگے روانہ کیا۔ وہ پشاور سے بڑھ کر دریائے اٹک اتر آیا۔ یوسف خاں (مرزا عزیز کا بڑا بھائی) وہاں کا جاگیر دار تھا۔ اس بے توفیق نے بے پروائی کے ساتھ ایک سردار کو روانہ کیا۔ وہ ایسا آیا۔ کہ فوج بھی ساتھ نہ لایا۔ اس حالت میں غنیم کو کیا روک سکے۔ اکبری اقبال کا طلسم دیکھو۔ کہ یہ ایک دن ادھر سے شکار کو نکلا۔ غنیم ادھر کے جنگل میدان دیکھتا تھا۔ رستہ میں ٹکر ہوئی اور تلوار چلی۔ غنیم زخمی ہو کر بھاگ نکلا۔ اور پشاور آ کر مر گیا۔ اکبر نے یوسف خاں کو بلا لیا۔ اور مان سنگھ کو سپہ سالار مقرر کر کے روانہ کیا۔ دیکھئے خاندانی خدمت گزاروں سے جی بیزار نہ ہو تو کیا ہو اور غیروں سے کام نہ لے تو کیا کرے۔ جب بادشاہ کے بھائی بندوں میں کوئی بغاوت کرتا تھا۔ تو امیر دونوں طرف دیکھتے رہتے تھے۔ ایک گھر کے آدمی کچھ ادھر ہوتے تھے۔ کچھ ادھر پیغام سلام برابر جاری رہتے تھے۔ جس کی فتح ہوئی۔ دوسری طرف والے بھی ادھر جا ملے۔ شرمندہ صورت بنا کر سلام کیا۔ کہ حضور اسی خاندان کے خانہ زاد ہیں۔ ہمایوں بابر بلکہ تمام نسل تیموری میں جو گھر بگڑا ۔ اسی طرح بگڑا۔ اکبر کو شاہ طہماسپ کی نصیحت یاد تھی۔ اس نے جب سلطنت کو سنبھالا۔ تو راجپوتوں کو زور دیا اور خصوصاً ایسے موقع پر ان سے اور ایرانیوں سے اور سادات بارہ سے کام لیتا تھا۔ کیونکہ وہ بھی بخاریوں یا افغانوں سے میل کھانے والے نہ تھے۔ ایرانی جاں نثاری اور وفاداری کے ساتھ لیاقت کے پتلے تھے۔ اور سادات کی تو ذات مالک شمشیر ہے۔ غرض مان سنگھ نے سیالکوٹ اپنی جاگیر میں آ کر مقام کیا۔ اور فوج کا سامان درست کرنے لگا۔ ایک پھرتیلا سردار فوج دے کر آگے بھیجا کہ قلعہ اٹک کا بندوبست رکھے۔ رارجہ بھگوان داس نے لاہور کو مضبوط کیا۔ ادھر مرزا حکیم نے جب سنا۔ کہ سردار مردار ہوا۔ تو شادمان اپنے کوکہ کو عمدہ سپاہ کے ساتھ روانہ کیا۔ اس کی ماں نے مرزا کو جھولا ہلا ہلا کر پالا تھا۔ وہ مرزا کے ساتھ کھیل کر بڑا ہوا تھا۔ اور حقیقت میں دلاور جوان تھا۔ افغانستان میں اس کی تلوار نے جوہر دکھائے تھے۔ اور سرداری کا نام روشن کیا تھا۔ آیا اور جھٹ قلعہ کا محاصرہ کر لیا۔ مان سنگھ بھی پنڈی میں پہنچ لئے تھے۔ جو یہ خبر پہنچی۔ راجپوتی خون سینے میں ابل پڑا۔ اور جب تک اٹک سامنے نظر نہ آیا۔ کہیں نہ اٹکا۔ شادمان خواب غفلت میں تھا۔ نقارہ کی آواز سن کر جاگا۔ اور محاصرہ اٹھا کر بڑے حوصلے کے ساتھ سامنے ہوا۔ کنور مان اور شادمان نے جگر داری اور سرداری کے ارمان نکال دئیے۔ سورج سنگھ مان سنگھ کے بھائی نے ایسے حملہ ہائے مردانہ کئے کہ اسی کے ہاتھ شادمان خاں زخم کھا کر خاک ہلاکت پر گرا۔ جب مرزا نے سنا کہ شادمان دنیا سے ناشاد گیا تو سخت غمناک ہوا۔ اور خود لشکر لے کر چلا۔ مگر اکبر کے حکم برابر پہنچ رہے تھے۔ کہ نہ گھبرانا اور خبردار مرزا کو نہ روکنا۔ آنے دینا۔ اور جب تک ہم نہ آئیں۔ حملہ نہ کر بیٹھنا۔ نکتہ اکبر جانتا تھا کہ یہ کوتاہ اندیش لڑکا ان بہادروں کے سامنے تھم نہ سکے گا۔ شکست ضرور کھائے گا۔ اور جب بھاگے تو ایسا نہ ہو۔ کہ دل ٹوٹ جائے اور ترکستان چلا جائے۔ عبداللہ خاں اسے غنیمت سمجھے گا اور ادھر سے فوج لے کر آیا۔ تو پھر معاملہ کچھ اور ہو جائے گا۔ غرض یہ ہٹتے گئے اور وہ بڑھتا بڑھتا لاہور تک آیا۔ راوی کے کنارے باغ مہدی قاسم خاں میں آن اترا۔ راجہ بھگوان داس اور کنور مان سنگھ۔ سید حامد بارہ اور چند امرائے دربار شہر کے ساتھ دروازے بند کر کے بیٹھ گئے۔ اکبر کے پیام پہنچ رہے تھے۔ کہ خبردار حملہ نہ کرنا۔ مطلب یہ تھا کہ میں بھی لشکر لے کر جا پہنچوں۔ امرا چاروں طرف پھیل جائیں۔ اور اسے گھیر کر پکڑ لیں۔ کہ آئندہ کا قصہ ہی پاک ہو جائے۔ شیر شہر میں بند تڑپتے تھے اور رہ جاتے تھے۔ کہ حکم کی زنجیروں سے جکڑے ہوئے تھے۔ پھر بھی شہر اور اطراف شہر کا انتظام استحکام کے ساتھ کر لیا تھا۔ اپنے اپنے مورچوں کو سنبھالے بیٹھے تھے۔ اور مرزا کے حملوں کا جواب دندان شکن دیتے تھے۔ خبر لگی ۔ کہ لاہور کے ملانے بلانا چاہتے ہیں۔ اور قاضی اور مفتی کاغذکے چوہے دوڑا رہے ہیں۔ چنانچہ ان کا بڑی روک تھام سے بندوبست کیا۔ اکبر نے یہ خبر دلی میں سنی۔ ہمت کے گھوڑے پر سوار ہوا۔ اور باگ اٹھائی۔ مرزا حکیم کو خیال تھا۔ کہ بادشاہ بنگالہ کی مہم میں مصروف ہے۔ ملک خالی پڑا ہے۔ باغ مذکور میں ۲۰ دن خوشی کی بہاریں منائیں۔ جب سنا کہ ادھر نمک حراموں کے کام بگڑنے چلے جاتے ہیں۔ اور اکبر سرہند میں آن پہنچا۔ تو محاصرہ چھوڑا۔ اور باغ مہدی قاسم خاں سے ایک کوس اوپر چڑھ کر پار ہوا۔ اور جلالپور علاقہ گجرات سے دریائے چناب اترا۔ بھیرہ کے قریب جہلم اترا اور مقام مذکور کو لوٹا۔ وہاں سے بھی بھاگا۔ مقام گھیپ کے پاس دریائے سندھ اتر کر کابل کو بھاگا۔ گھاٹیوں پر گھبراہٹ میں بہت سے آدمی بہ گئے۔ ساتھ ہی سرہند کے مقام سے اکبر کا حکم پہنچا۔ کہ تعاقب نہ کرنا۔ دربار میں مصاحبوںسے بار بار کہتا تھا۔ بھائی کہاں پیدا ہے۔ گھبرا کر بھاگا ہے۔ اٹک دریا اترنا ہے۔ ایسا نہ ہو ۔ کہ رستہ میں کوئی صدمہ پہنچے۔ کنور مان سنگھ بموجب حکم کے معمولی راہ سے پشاور پر جا پڑے۔ اکبر نے لشکر شاہانہ ترتیب دے کر شاہزادہ مراد کو روانہ کیا کہ کابل تک پہنچے۔ اور مرزا کا پورا پورا بندوبست کر دے۔ بادشاہی امیر اور کہنہ عمل سپہ دار ساتھ گئے۔ مگر ان میں وہی چلتی تلوار فوج ہراول کا افسر قرار پایا۔ یہ لشکر چلا اور خود باشاہ اقبال کا لشکر لے کر ان کی پشت و پناہ ہوا۔ ہندوستان آزاد کا وطن ہے۔ مگر حق سے نہ گذرے گا۔ خاک ہند کو انسان کے بے ہمت۔ بے حوصلہ کام چور۔ مفت خور۔ آرام طلب بنانے میں کیمیائی تاثیر ہے۔ امرائے دربار اگرچہ ایرانی تورانی افغان کی ہڈی تھے۔ مگر جب اکبر اٹک کے پاس پہنچا۔ تو امرا کو مدت تک ہندوستان میں رہنے سے وہ ملک ایک نئی دنیا نظر آنے لگا۔ سرزمین کی حالت نئی۔ چاروں طرف پہاڑ۔ ہر قدم پر جان کا خطرہ۔ انسان نئے جنگل کے جانور نئے۔ لباس نئے۔ بات نئی۔ آواز نئی۔ آگے منزل سے منزل کٹھن۔ انہوں نے یہ بھی سنا تھا کہ وہاں خونی برف پڑتی ہے۔ تو انگلیاں بلکہ ہاتھ پائوں تک جھڑ جاتے ہیں۔ لشکر کے لوگ اکثر ہندی بلکہ ہندو تھے۔ جنہیں اٹک پار ہونا بھی روانہ تھا۔ اس کے علاوہ کیا ولایتی کیا ہندی اب تو سب کے گھر یہیں تھے۔ کچھ ہندوستان کے مزے یاد آئے۔ کچھ بال بچے۔ سب چاہتے تھے۔ کہ معاملہ کو زبانی باتوں میں لپیٹ کر صلح کریں۔ اور پھر چلیں۔ اکبر کو عرض و معروض سے راہ پر لانا چاہا۔ اور اس کی رائے یہ تھی۔ کہ مرزا حکیم نے کئی دفعہ تنگ کیا ہے۔ اب کی دفعہ بھی اسی طرح پھر چلے۔ تو کل یہی فساد پھر اٹھے گا۔ یہ بھی سمجھا ہو گا۔ کہ فوج کے دل پر کسی کا ایسا خطر بیٹھنا اچھا نہیں۔ وہ اس بات کو ضرور ٹٹولتا ہو گا۔ کہ اس مہم سے ان کا ہلو بچانا خیالات مذکورہ کے سبب سے ہے۔ یا مرزا حکیم کی محبت نے ان کے دل گداز کئے ہیں۔ شیخ ابوالفضل کو حکم دیا کہ جلسۂ مشورت بٹھائو۔ اور ہر شخص کی تقریر تحریر کر کے عرض کرو۔ شیخ نے ہر ایک کا بیان اور اس کے دلائل کا خلاصہ لکھ کر عرض کیا۔ لیکن بادشاہ کی رائے پر ان کا کچھ اثر نہ ہوا۔ مان سنگھ جو شہزادہ کو لئے آگے بڑھا تھا۔ اسے اور آگے بڑھا دیا۔ اور خود لشکر کو لے کر روانہ ہوئے۔ برسات نے اٹک کا پل باندھنے نہ دیا۔ خود بادشاہ اور تمام لشکر کشتیوں پر اتر گئے۔ بھاری سامان اٹک کے کنارے چھوڑے۔ اور آپ جریدہ فوج لے کر چلے۔ ساتھ ہی بھائی کے لیے بھی دلجوئی اور فہمائش کے پیغام چلے جاتے تھے۔ بلکہ دیر بھی اسی غرض سے تھی۔ کہ ایسا نہ ہو۔ لشکر بادشاہی کے دوڑا دوڑ پہنچنے سے صلح و صلاح کا موقع نہ رہے اور نوجوان بھائی کی جان مفت ہاتھ سے جائے۔ چنانچہ دریائے اٹک اتر کر ایک فرمان مرزا حکیم کے نام پر بھیجا۔ خلاصہ مضمون یہ تھا۔ کہ وسعت آباد ہندوستان میں سلاطین صاحب تاج و نگین تھے۔ سب اولیائے دولت کے قبضہ میں آ گیا اور سرداران روزگار نے سر جھکا دئیے۔ تمہارے خاندان کے امرا ان بادشاہوں کی جگہ بیٹھے حکومت کر رہے ہیں۔ جب یہ حال ہے تو اس دولت سے بھائی بے نصیب کیوں ہو۔ بزرگان سلف نے چھوٹے بھائی کو بمنزلہ فرزند شمار کیا ہے۔ مگر حق یہ ہے ۔ کہ بیٹا اور بھی پیدا ہو سکتا ہے۔ بھائی نہیں ہو سکتا۔ اب تمہاری عقل و دانش کے لیے یہ لائق ہے کہ خواب غفلت سے بیدار ہو کر ملاقات سے خوش کرو۔ اور اس سے زیادہ دیدار سے محروم نہ رکھو۔ مرزا کی طرف سے کچھ پیام زبانی اور ندامت نامہ عفو تقصیر کے مضمون سے آیا۔ وہ بے بنیاد اور بے قاعدہ تھا۔ مگر اکبر نے یہاں سے ایک امیر کو ان کے ساتھ کیا اور پیغام بھیجا کہ عفو تقصیر منحصر ہے۔ اس پر کہ جو کچھ ہوا اس پر ندامت ظاہر کرو۔ آئندہ کے لئے عہد کو قسم کی زنجیروں سے مضبوط کرو۔ اور جس ہمشیرہ کو خواجہ حسن سے منسوب کیا ہے۔ اسے ادھر روانہ کر دو۔ مرزا نے کہا کہ سب صدق دل سے منظور ہے۔ مگر ہمشیرہ کے بھیجنے پر خواجہ حسن راضی نہیں ہوتا۔ اور وہ اسے بدخشاں لے گیا۔ میں بہرحال اپنے کئے سے پشیمان ہوں۔ کردہ ام توبہ واز کردہ پشیمان شدہ ام کافر باز نہ گوئی کہ مسلماں شدہ ام مرزا کے عریضہ اور پیام سے امرا کو عفو تقصیر کے چرچے کا زیادہ موقع ملا۔ یہ بھی معلوم ہوا۔ کہ قلیچ خاں اور یوسف خاں کو کہ وغیرہ امرائے جلیل القدر کے پاس سازش کے خط آئے ہیں۔ ہر چند انہوں نے لانے والوں کو قتل تک سزائیں دیں۔ لیکن اکبر نے پھر بھی مشورت کا جلسہ کیا اور ابوالفضل سکرٹری ہوئے۔ اس کمیٹی کے ۲۰ ممبر تھے۔ سب کی رائے کا خلاصہ یہی تھا۔ کہ جب مرزا اپنے اعمال سے ندامت ظاہر کرتا ہے۔ اور عفو تقصیر بادشاہ کے کرم کا آئین ہے۔ جرم بخشی کریں۔ ملک بخشی کریں۔ اور یہیں سے پھر چلیں۔ شیخ اگرچہ نوجوان نو دس برس کے نوکر تھے۔ نہ عمر نے ڈاڑھی کو طولانی۔ نہ اس کے طول کو سفید کیا تھا۔ نہ کئی پشت کی خدمت گذاری تھی۔ مگر مصلحت وقت ان کا اصول تھا۔ اس لئے خوب دل کھول کر تقریر کی۔ اور کہا کہ بادشاہی لشکر اس قدر سامان سے اتنی دور تک پہنچا۔ بادشاہ خود سر لشکر ہو کر اس میں موجود۔ اور چند منزل پر منزل مقصود۔ خالی باتوں پر۔ بے بنیاد تحریر پر۔ گمنام آدمی کی وکالت پر پھر چلنا۔ کیا مقتضائے عقل ہے۔ اور پیچھے پھر کر تو دیکھو۔ پنجاب کا ملک ہے۔ برسات سر پر ہے۔ دریا چڑھ گئے ہیں۔ اس عالم میں یہ خدائی کا سامان ساتھ۔ جنگی اسباب ہمراہ۔ الٹا پھرنا آگے بڑھنے سے زیادہ دشوار ہے۔ نقصان اٹھا کر پھرنا اور فائدہ کو چھوڑنا کسی طرح مناسب نہیں۔ نتیجہ پاس آ گیا ہے۔ اسے حاصل کر لو۔ گو شمالی خاطر خواہ کے بعد بخشائش نمایاں کا بھی مضائقہ نہیں۔ امرائے دولت اس لچھے دار تقریر سے خفا ہو گئے۔ بہت گفتگو ہوئی۔ آخر شیخ نے کہا۔ بہت خوب ہر شخص اپنی رائے حضور میں عرض کر دے۔ کمترین سے جب تک نہ پوچھیں گے۔ نہ بولے گا۔ سب اٹھ کھڑے ہوئے۔ بہرحال جلسہ کی روئداد لکھی گئی۔ دوسرے دن شیخ کو تو بخار ہو گیا۔ کاغذ حضور میں پیش ہوا بادشاہ نے پوچھا کہ شیخ کہاں ہے۔ اور اس کی رائے کیا ہے۔ ایک شخص نے چرب زبانی سے کہا۔ بیمار ہے۔ مگر رائے ہمارے ساتھ ہے۔ بادشاہ بہت دق ہوئے۔ کہ ہمارے سامنے تو وہ رائے تھی۔ جلسہ میں ان کے ساتھ ہو گیا۔ شیخ جو دوسرے دن حضور میں گئے۔ تو دیکھتے ہیں۔ بادشاہ کے تیور بگڑے ہوئے ہیں۔ لکھتے ہیں کہ میں سمجھ گیا۔ کہ دغا بازوں نے پیچ مارا۔ جان سے بیزار ہو گیا۔ آخر تقریر کو تحریک ہوئی اور بات کی تحقیق ہوئی۔ جب دل کو قرار آیا۔ بادشاہ نے خفا ہو کر کہا کہ کابل کی سردی اور سفر کی تکلیف لوگوں کو ڈراتی ہے۔ آرام کو دیکھتے ہیں۔ مصلحت کو نہیں دیکھتے اچھا امرا یہیں رہیں۔ ہم اہل خدمت کے ساتھ جریدہ یلغار کر کے جائیں گے۔ یہ کب مجال تھی۔ کہ اکبر بادشاہ جائے۔ اور کوئی رہ جائے۔ کوچ پر کوچ چلنا شروع کیا۔ کیونکہ اب تک جو آہستہ آہستہ آتے تھے۔ اس میں بڑا لحاظ یہی تھا۔ کہ پیغام سلام میں مرزا راہ پر آ جائے۔ ایسا نہ ہو۔ کہ مایوس ہو کر گھبرائے۔ اور دفعتہ ترکستان کو نکل جائے۔ نظام الدین بخشی کو بھیجا کہ یلغار کر کے جلال آباد جا کر لشکر شاہزادہ میں بیٹھ کر امرا سے مشورت کر کے کیفیت حال لکھو۔ وہ گئے اور بہت جلد واپس آئے اور یہ پیغام لائے۔ کہ اگرچہ مرز ازبان سے کہتے ہیں۔ کہ ہم بہت ہیں بہت ہیں۔ مگر حالت یہی کہتی ہے۔ کہ فتح حضرت کے قدموں میں ہے۔ غرض پشاور میں بوجھ بھار کے اسباب ڈال دئیے۔ سلیم کو راجہ بھگوان داس کی حفاظت میں لشکر کے ساتھ چھوڑا۔ تجمل شاہانہ سے ہاتھ اٹھایا۔ اور ہلکے ہو کر یلغار کے گھوڑوں کی باگیں لیں۔ بے ہمت کچھ رہ گئے۔ کچھ رستے سے پھر گئے۔ اب مرزا حکیم کی کہانی سنو۔ فتنہ انگیز اسے یہی کہے جاتے تھے۔ کہ اکبر ادھر نہیں آئے گا۔ اور آئے گا تو اس قدر پیچھا نہ کرے گا۔ جب اس نے دیکھا۔ کہ بے پل اٹک سے پار ہوئے اور دریائے لشکر کے چڑھائو موج در موج چلے آتے ہیں۔ تو شہر کی کنجیاں بزرگان شہر کو دے دیں۔ عیال و اطفال کو بدخشاں روانہ کر دیا۔ آپ دولت و مال کے صندوق اور اسباب ضروری لے کر باہر نکل گیا۔ ایک ارادہ یہ تھا۔ کہ فقیر ہو کر ترکستان کو چلا جائے۔ مصاحب صلاح دیتے تھے۔ کہ ینگش کے رستے سے جا کر ہندوستان میں فساد برپا کرے۔ یا افغانستان کے پہاڑوں میں سر پھوڑتا پھرے اور جیسا ادھر کا معمول ہے لوٹ مار کرتا رہے۔ اس شش و پنج میں تھا۔ جو خبریں پہنچیں۔ کہ بادشاہ کے امرائے لشکر میں کوئی ادھر آنے کو راضی نہیں۔ فتنہ گروں کو دیا سلائی ہاتھ آئی۔ انہوں نے پھر آگ سلگائی۔ صورت حال بیان کی۔ اور کہا کہ لشکر شاہی میں ہر قوم کے لوگ ہیں۔ ایرانی۔ تورانی۔ خراسانی۔ افغانی۔ کوئی آپ پر تلوار نہ کھینچے گا۔ جب مقابلہ ہو گا۔ سب آن ملیں گے۔ ہندو اور ہند کی تلوار شمشیر ولایتی کے آگے چل نہیں سکتی۔ اور ان کے دل یہاں کی سردی اور برف کے نام سے تھراتے ہیں۔ صلاح یہی ہے کہ ہمت مردانہ کر کے ایک معرکہ کریں۔ اگر میدان ہاتھ آ گیا۔ تو سبحان اللہ۔ کچھ نہ ہوا تو جو رستے موجود ہیں۔ انہیں کوئی بند نہیں کر سکتا۔ کچھ ان لوگوں نے اکسایا۔ کچھ بابری خون میں دھواں اٹھا۔ نوجوان لڑکے کی رائے بدل گئی۔ اور کہا کہ بے مرے مارے مالک نہ دوں گا۔ سرداروں کو روانہ کیا۔ کہ حشری لشکر سمیٹتے چلے جائو۔ اور جہاں موقع ملے لشکر بادشاہی پر ہاتھ مارتے جائو۔ افغانستان کے ملک میں اسطرح سے جمیت بہم پہنچانا اور پہاڑوں کے پیچھے سے شکار مارتے جانا کچھ بڑی بات نہیں۔ وہ آگے رہے۔ پیچھے مرزا نے بھی ہمت کے نشاپ پر پھریرا چڑھایا۔ بادشاہی لشکر کا تانتا بندھا ہوا تھا۔ انہوں نے جہاں پایا۔ پہاڑیوں کے پیچھے سے نکل نکل کر ہاتھ مارنا شروع کیا۔ مگر رہزنوں کی طرح۔ البتہ فریدوں خاں نے مان سنگھ کے لشکر کا پیچھا مارا۔ خزانہ بادشاہی کو لوٹ لے گیا۔ اور سرداروں کو پکڑ لیا۔ ڈاک چوکی کا افسر دورہ کے طر پر بادشاہ کے لشکر سے مان سنگھ کے لشکر تک آتا جاتا تھا۔ وہ اس وقت پہنچا تھا۔ کہ بہیر لٹ رہی تھی۔ انہی قدموں بھاگا۔ وقت وہ ہے۔ کہ کنور نوجوان شہزادہ مراد کو لئے خورد کابل پر (کابل سے سات کوس ادھر) جا پہنچا۔ اور بادشاہ جلال آباد سے بڑھ کر جانب سرخاب پر (مان سنگھ سے پندرہ کوس ادھر) ہیں۔ اور مرزا کی بدحالی اور اپنی لشکر کی خوش اقبالی کی خبریں برابر چلی آتی ہیں۔ کہ دفعتہ خبربند ہوئی۔ پھر ڈاک چوکی ہرکارے جو برابر خبریں لا رہے تھے۔ حاجی محمد احدی افسر ڈاک نے آ کر عرض کی۔ کہ فوج بادشاہی کو شکست ہوئی۔ اور افغانوں نے رستہ بند کردیا ہے۔ اکبر کو سخت تردد ہوا۔ اتنے میں ڈاک چوکی کے افسر نے نہایت اضطرار کے ساتھ آ کر خبر دی لیکن فقط اس قدر کہ لڑائی ہوئی۔ اور لشکر بادشاہی نے شکست کھائی۔ فوراً جلسہ مشورت بیٹھا۔ اول اس نقطہ پر بحث ہوئی۔ کہ خبر کیوں بند ہے۔ اس میں تقریروں نے طول کھینچا۔ اکبر نے کہا۔ اگر شکست ہوتی تو اتنا لشکر کثیر تھا۔ اور فقط پندرہ کوس کا فاصلہ اب تک سینکڑوں لوٹے مارے آ جاتے۔ ایک آدمی کا آنا اور پھر خبر کا بند ہو جانا چہ معنی دارد۔ یہ خبر غلط ہے۔ دوسرا نقطہ یہ کہ اب کیا کرنا چاہیے۔ بعض نے یہ کہا۔ کہ الٹے قدموں پھرنا چاہیے۔ جو لشکر شاہی پیچھے آتا ہے۔ اسے ساتھ لے کر پورے سامان سے آئیں اور قرار واقعی تدارک کریں۔ اس پر اعتراض ہوا۔ کہ اگر بادشاہ نے ایک قدم پیچھے ہٹایاتو لاہور تک ٹھیرنے کو جگہ نہ ملے گی۔ بالکل ہوا بگڑ جائے گی۔ مرزا کا دل ایک سے ہزار ہو جائے گا۔ اپنے لشکر کے جی چھوٹ جائیںگے۔ افغانوں کے کتے بلیاں شیر ہو کر تمہارے سپاہیوں کو پھاڑ کھائیں گے۔ ملک افغانی ہے۔ دیکھو ہماری طاقت کے تین ٹکڑے ہو گئے۔ ایک فوج اٹک کے کنارے پڑی ہے۔ دوسری پشاور میں۔ تیسری خورد کابل میں پہنچ لی۔ تین جگہ لڑائی آ پڑی۔ ایک رائے یہ بھی تھی۔ کہ یہیں توقف کرنا چاہیے۔ اور جو لشکر پیچھے آتا ہے۔ اس کا انتظار کرنا چاہیے۔ اس صلاح میں یہ قباحت نکلی کہ اس وقت توقف بھی ہٹنے سے کم نہیں۔ اگر بادشاہ چند سرداروں کے ساتھ بیچ میں گھر گئے۔ تو بھی مشکل ہے۔ ابوالفضل وغیرہ مزاج شناس بول اٹھے کہ تو کل بخدا بڑھے چلو۔ اگرچہ رکاب میں جاں نثار کم ہیں۔ مگر وزن میں زیادہ ہیں۔ کیونکہ جنگ آزمودہ جانباز ہیں۔ اور صدق دل سے وفادار ہیں۔ اگر مرزا حکیم نے لشکر کو روکا بھی ہو گا۔ تو دمامۂ دولت کا آوازہ سنتے ہی کھنڈ کر ہٹ جائے گا۔ یہی رائے درست ٹھیری۔ اور آگے روانہ ہوئے۔ خبر کے بند ہونے کا سبب فقط اتنی بات تھی۔ کہ مرزا کا ماموں فریدوں فساد کا فتیلہ لئے پہاڑ کے پیچھے پیچھے چلا آتا تھا۔ اس نے اپنے بازئوں میں یہ طاقت نہ دیکھی۔ کہ ان شیروں کے ساتھ سینہ بہ سینہ ہو کر لڑے۔ اس لئے فوج کے پیچھے سے آ کر چنداول پر گرا۔ بھیر کی بساط کیا بھاگنے لگے۔ جنگی دلاور پلٹ کر آئے۔ کہ افغان لوٹ کے لئے بھاگنے کو فتح سے سوا کامیابی سمجھتے تھے۔ پہاڑوں میں بھاگ گئے۔ بادشاہ نے کئی لاکھ کا خزانہ بھیجا تھا۔ جو قلیچ خاں کی تفویض میں تھا۔ اور وہ بھی دنبالہ فوج میں تھا۔ اس بھاگا بھاگ میں حریفوں کا ہاتھ اس پرپڑ گیا۔ خزانے کے اونٹ بھی گھسیٹ لے گئے۔ اسی عالم میں افسر ڈاک چوکی جا پہنچا تھا۔ بھیر کو بھاگتا دیکھ کر ہٹا اور بادشاہ کو خبر پہنچائی۔ غرض دلاور بادشاہ امرائے رکابی کے ساتھ باگیں اٹھائے چلا جاتا تھا۔ ہر قدم پر ہمت گھوڑے کو قمچی اور حوصلہ ایڑ لگاتا تھا۔ سرخاب اور جگدلک کے بیچ میں تھے۔ جو فتح کی خوشخبری پہنچی۔ وہیں گھوڑے سے اتر کر زمین پر سر رکھ دیا۔ اور دیر تک شکر الٰہی کے مزے لیتا رہا۔ اب میدان جنگ کی کیفیت سننے کے قابل ہے۔ اگرچہ خزانہ بادشاہی کے لوٹنے سے مرزا کو غرور بڑھ گیا تھا۔ لیکن دل گھٹا جاتا تھا۔ دن کی لڑائی سے جی چراتا تھا اور چاہتا تھا۔ کہ شبخون مارے۔ مان سنگھ فوج لئے تیار تھا اور خدا سے چاہتا تھا۔ کہ کسی طرح حریف میدان میں آئے۔ اور وہ کم ہمت بے دل سپاہ پیادہ جمع کئے جاتا تھا۔ سازش اور آمیزش کی غرض سے امرائے لشکر کے نام خطوں کے چوہے دوڑاتا تھا۔ کہ بادشاہ ان سے بدگمان ہو۔ سپہ سالار شاہی شہزادہ مراد کو لئے خورد کابل پر پڑا تھا۔ مرزا سامنے پہاڑ پر تھا۔ ایک شب بہت زیادہ شورش معلوم ہوئی۔ رات کو سامنے نہایت کثرت سے آگیں جلتی نظر آئیں۔ سپاہ ہند دیکھ کر حیران رہ گئی۔ شب برات کی رات تھی۔ یا دیوالی کا ہنگامہ۔ انہوں نے اپنے بندوبست ایسے پختہ کئے کہ حریف شبخون مارے تو پچھتا کر پیچھے ہٹے۔ روشنی صبح نے جنگ کے پیام پہنچائے۔ مرزا ایک گھاٹی سے فوج لے کر نکلا۔ اور لڑائی کا میدان گرم ہوا۔ نوجوان سپہ سالار ایک پہاڑی پر کھڑا افسوس کر رہا تھا۔ کہ ہائے میدان نہیں۔ ہراول نے بڑھ کر ٹکر ماری۔ بڑا کشت و خون ہوا۔ مرزا بھی خوب جان توڑ کر لڑا۔ وہ بھی سمجھا ہوا تھا۔ کہ اگر ہندوستان دال خوروں کے سامنے سے بھاگا۔ تو کالا منہ لے کر کہاں جائوں گا۔ ادھر مان سنگھ کو بھی راجپوت کے نام کی لاج تھی۔ خوب بڑھ بڑھ کر تلواریں ماریں۔ اور ایسے جوش دکھائے۔ کہ آخر دال نے گوشت کو دبا لیا۔ اور مرزا میدان چھوڑ کر بھاگ گئے۔ اس معرکہ میں ہراول کی ہمت نے ایسا کام کیا۔ کہ اور لشکر کو حوصلہ نکالنے کا ارمان رہ گیا۔ دوسرے دن صبح کا وقت تھا۔ کہ فریدوں خاں مرزا کا ماموں پھر فوج لے کر نمودار ہوا۔ مان سنگھ ہی کی فوج مہرہ پر تھی۔ تلواریں میان سے نکلیں اور تیر کمانوں سے چلے۔ بندوقوں نے آگ اگلی۔ اور توپیں دل میں ارمان لئے کھڑی تھیں۔ کہ پہاڑی سرزمین تھی۔ غرض جا بجا لڑائی پڑ گئی۔ کابلی بہادر شیر تھے۔ مگر یہ بھی منہ کا نوالہ تو نہ تھے۔ کہ نگل جاتے۔ ریل پیل ہو رہی تھی۔ کہیں یہ چڑھے جاتے تھے کہیں وہ بڑھ آتے تھے۔ مان سنگھ ایک پہاڑی پر کھڑا دیکھ رہا تھا۔ جدھر بڑھنے کا موقع دیکھتا تھا۔ ادھر فوج کو آگے بڑھاتا تھا۔ جدھر جگہ نہیں پاتا تھا۔ ہٹا تا تھا۔ مشکل یہ تھی کہ زمین کی ناہمواری انتظام جمنے نہ دیتی تھی۔ دفعتہ غنیم زور دے کر آیا۔ ہراول کی فوج سینہ سپر کر کے سامنے ہوئی۔ مگر لڑائی دست و گریبان تھی۔ بعض نے جان دے کر نیک نامی حاصل ۔ بعض نے ہٹنا مصلحت سمجھا سپہ سالار تاڑ گیا کہ میری سپہ کا رنگ بدلا۔ تڑپ اٹھا۔ بھائی کو پہلو سے جد اکیا۔ سورما سردار تلوارئیے راجپوت آس پاس جمے ہوئے تھے۔ انہیں بھی حکم دیا اور موقع دیکھ دیکھ کر فوج فوج کمک بھیجنی شروع کر دی۔ گجنالیں بھری تیار تھیں۔ ہاتھیوں کوریلا۔ اور توپوں کو مہتاب دکھائی کہ جنگل گونج اٹھا۔ اور پہاڑ دھواں دھار ہو گئے۔ بادشاہی ہاتھی حلقہ خاصہ کے تھے۔ شیروں کے شکار پر لگے ہوئے تھے۔ بادلوں کی طرح پہاڑیوں پر اڑنے لگے۔ یہ آفت دیکھ کر افغانوں کے بڑھے ہوئے دل پیچھے ہٹے۔ تھوڑی دیر میں قدم اکھڑ گئے۔ نشانچی نے نشان پھینکا۔ اور سب میدان چھوڑ کر بھاگ گئے۔ مرزا نے چاہا تھا۔ کہ اگر فوج نے جان عزیز کی ہے۔ تو میں اپنی جان کو ننگ و نام پر قربان کر دوں۔ مگر چند جاں نثاروں نے آ کر گھیر لیا۔ مرزا نے جھنجلا کر انہیں ہٹایا۔ اور حملہ پر مستعد ہوا۔ محمد علی اسپ باگ پکڑ کر گھوڑے سے لپٹ گیا۔ اور کہا کہ پہلے مجھے مار لو۔ پھر اختیار ہے۔ خلاصہ یہ کہ مرزا بھی بھاگ گئے۔ سورما راجپوتوں نے بڑا ساکھا کیا اور دلاوروں نے خوب خوب کارنامے دکھائے۔ بھاگتوں کے پیچھے گھوڑے اٹھائے۔ تلواریں کھینچ لیں۔ اور دور تک مارتے اور للکارتے چلے گئے۔ پھر بھی جو تعاقب کا حق تھا۔ اس کا ارمان نہ نکلا اور خیال یہ بھی تھا۔ کہ ایسا نہ ہو۔ مرزا کسی ٹیلے کے پیچھے سے چکر مار کر فوج کا پیچھا مارے۔ بعض بہادر گھوڑے مارتے ایسے گئے کہ کئی کوس آگے بڑھ کر ایک ٹیلے پر مرزا کو جا لیا۔ اور اس نے جان کو بچا لینا فتح عظیم سمجھا۔ سپہ سالار فتح کے دمامے بجاتا کابل میں داخل ہوا۔ اکبر بھی پیچھے پیچھے چلے آتے تھے۔ اور اس دن بت خاک پر ڈیرہ تھا۔ کہ مان سنگھ سرداروں کو ساتھ لئے پہنچے۔ سرخروئی کے ساتھ فتح کی مبارک باد ادا کی۔ بادشاہ نے کابل میں پہنچ کر ملک پر مرزا حکیم کو عنایت کیا۔ اور پشاور اور سرحدی ملک کا انتظام اور اختیارات کنور مان سنگھ کے سپرد کر آئے۔ (اور کنار اٹک پر قلعہ تعمیر کیا) اس قابلیت کی تعریف نہ زبان سے ہو سکتی ہے۔ نہ قلم سے کہ ایک نوجوان ہندو راجہ نے افغانوں میں بہت اچھی رسائی پیدا کی۔ اور سرحدی افغانوں کا بھی ایسا بندوبست کیا۔ کہ سرشوری کی گردنیں ڈھیلی ہو گئیں۔ ۹۹۳؁ھ میں حال و استقبال کی مصلحتوں پر نظر کر کے صلاحیں ہوئیں۔ کہ خاندان کچھواہہ سے ولی عہد سلطنت کا تعلق زیادہ کیا جائے۔ راجہ مان سنگھ کی بہن سے شادی ٹھیری۔ اس شادی کی دھوم دھام اور آرائشوں کی تفصیل کہیں لکھی نہیں۔ اور ہوتی بھی تو کتاب ہی بنتی۔ ملا صاحب نے مجمل طور پر لکھا ہے۔ کہ سلیم کی عمر سولہ برس کی تھی۔ بادشاہ معہ امرائے دربار آپ بیاہنے چڑھے۔ مجلس عقد میں قاضی مفتی اور شرفائے اسلام حاضر ہوئے۔ نکاح پڑھا گیا۔ دو کروڑ تنگے کا مہر باندھا۔ پھیرے بھی ہوئے۔ ہون وغیرہ ہنود کی رسمیں بھی ہوئیں۔ دلہن کے گھر سے دولھا کے گھر تک پالکی پر برابر اشرفیاں نچھاور کرتے لائے۔ لڑکی کے باپ (راجہ بھگوان داس) نے کئی طویلے گھوڑے۔ سو ہاتھی۔ ختنی ۔ حبشی۔ چرکس۔ ہندی۔ صد ہا لونڈی غلام دئیے دلھن کا گہنا کیا کہنا۔ باسن تک مرصع اور سونے چاندی کے تھے۔ لباس ہائے رنگا رنگ کے صدہا صندوق بھرے ہوئے۔ فرش ہائے بو قلموں بے حد و شمار جہیز میں دئیے ۔ امرا کو بھی ہر ایک کے مناسب حال خلعت اور گھوڑے عراقی۔ ترکی۔ تازی۔ سنہری۔ رپہلی زین اور سازویراق سے آراستہ تیار کئے۔ ابوالفضل لکھتے ہیں۔ دین و دنیا را مبارک باد کیں فرخندہ عقد از برائے انتظام دین و دنیا بستہ اند ور نگارستان دولت نور چشم شاہ را حجلۂ چوں پردہ ہاے دیدہ رنگیں بستہ اند برادر صورت و معنی شیخ ابوالفضل فیضی نے قطعۂ تاریخ کہا۔ ؎ ز ہے عقد در پاش سلطاں سلیم کہ پر تو دہد سال امید را ز پروردن آفتاب و دل قرانے شدہ ماہ و ناہید را کابل سے خبریں آ رہی تھیں۔ کہ محمد حکیم مرزا کو بادہ خواری برباد کر رہی ہے۔ ۹۹۴؁ھ میں اس نے کام تمام کر دیا۔ اکبر نے کنور مان سنگھ کو زیر دیوار لگا رکھا تھا۔ حکم پہنچا کہ فوراً فوج لے کر کابل میں جا بیٹھو۔ یہ بھی معلوم ہوا تھا۔ کہ فریدوں خاں اس کا ماموں اور اکثر مصاحب و ملازم جو مرزا کے پاس تھے۔ وہی اس کے خیالات کو پریشان کیا کرتے تھے۔ اب وہ کچھ اس خطر سے کہ خدا جانے دربار میں ہمارے ساتھ کیا سلوک ہو۔ اور بعض اپنے فساد جنگی کے سبب سے اس بات پر آمادہ ہوئے کہ مرزا کہ بچوں کو ساتھ لے کر ترکستان میں عبداللہ خاں اذبک کے پاس چلے جاویں۔ اکبر نے دو خاندانی خدمت گزاروں کو روانہ کیا۔ فرمان بھیج کر سب کو دلاسے دئیے۔ اور پیچھے پیچھے آپ پنجاب کو روانہ ہوا۔ اور مان سنگھ کابل کو جس کے اٹک پار ہوتے ہی غول کے غول افغان سلام کو حاضر ہونے لگے۔ا س نے کابل پہنچ کر وہ ملک داری کی لیاقت دکھائی۔ جو کہ اسے بزرگوں کی صدہا سالہ فرمانروائی سے میراث میں پہنچی تھی۔ اس کی رسائی اور لطف و اخلاق نے اہل کابل کے دلوں کو تسخیر کر لیا۔ اور دو برس پہلے جو مروتیں کی تھیں۔ انہوں نے تائید کی۔ مرزا نے مرنے سے پہلے اپنی معافی تقصیرات کی عرضی حضور میں بھیجی تھی۔ اور دونوں بچوں کو اور بخت النسا بہن کو اور اس کے بیٹے مرزا والی کو روانگی دربار کے ارادہ سے جلال آباد بھیج دیا تھا۔ چنانچہ ان میں سے مرزا کا یتیم افراسیاب گیارہ برس کا اور کیقباد چار برس کا اور اس کا بھانجا والی بھی خورد سال تھا۔ فریدوں خاں وغیرہ فتنہ انگیز اپنے خیالات فاسد میں گمرا ہ ہو رہے تھے۔ مان سنگھ سب کو رسائی سے راہ راست پر لایا اور حکمت عملی کی قید میں مسلسل کر لیا۔ جگت سنگھ فرزند کو وہاں چھوڑا اور آپ سب کو لے کر روانہ ہوا۔ راولپنڈی کے مقام میں اکبر کے پایہ تخت کو بوسہ دیا اور سب کی ملازمت کروائی۔ بادشاہ بہت دلداری سے پیش آیا۔ پچپن چھیاسٹھ ہزار روپے انعام دئیے۔ وظیفے اور جاگیریں مناسب حال عنایت کر کے محبت کی تخم ریزی کی۔ دریا دل اکبر نے یوسف زئی وغیرہ سرحدی علاقہ کنور کو دے دیا اور کابل میں راجہ بھگوان داس کو بٹھایا۔ وہاں راجہ کو قدیمی بلکہ خاندانی مرض نے دیوانہ کر دیا۔ کنور نے فوراً جا کر راجہ کی جگہ لی اور راج کرنے لگا۔ کنور نے اس حکومت میں کام یہ کیا کہ کوہستان یوسف زئی کے علاقے میں آفریدی وغیرہ خیل ہائے افغانی جو فساد کی آگ جلا رہے تھے۔ انہیں ملک سے نکال دیا۔ اکبر اس عرصہ میں اٹک کے کنارے کنارے پھرتا تھا۔ کبھی قلعہ اٹک کے کارخانہ میں توپ ریزی کا تماشہ دیکھتا تھا۔ اور اس میں عمدہ عمدہ ایجاد کرتا تھا۔ یہ کھیل تماشے بھی مصلحت سے خالی نہ گئے۔ یوسف زئی کے سرداروں کا انتظام جم گیا۔ کابل کا بندوبست ہو گیا۔ کوتاہ اندیش افغان سب اپنی اپنی جگہ بیٹھ گئے۔ ملک کا مالک آپ موجود ہے۔ سب سے بڑی بات یہ ہوئی۔ کہ عبداللہ خاں اوزبک جو سمجھ رہا تھا۔ کہ کابل کا شکار اب میں نے مارا۔ وہ ان کامیابیوں اور سرحدی کارروائیوں سے ڈرا۔ کہ مبادا اپنے ملک موروثی پر آئے۔ اس نے تحفہ ہائے شاہانہ کے ساتھ ایلچی بھیج کر عہد نامہ کیا۔ ۹۹۵؁ھ میں مان سنگھ کی بہن کے گھر لڑکا پیدا ہوا۔ خسرو نام رکھا۔ آزاد زمانہ کی سیہ کاری اور فتنہ سازی کو دیکھ کر عقل حیران ہے۔ اسی شہر لاہور میں وہ بچہ ہوا تھا۔ یہیں چھٹی کی شادیاں اور مبارک بادیاں ہوئی تھیں۔ وہی بچہ جوان ہو کر باپ سے باغی ہوا۔ اور اسی لاہور میں گرفتار ہو کر آیا۔ تورۂ چنگیزی کے بموجب تلوار گلے میں لٹکتی ہے۔ سر جھکائے تھر تھر کانپتا ہے اور دربار میں باپ کے سامنے کھڑا ہے۔ آج نہ وہ ہے نہ وہ ۔ سب افسانہ ہو گیا۔ ؎ کھیل ہے پتلیوں کا بزم جہاں کا عالم رات بھر کا یہ تماشا ہے سحر کچھ بھی نہیں جب اکبر کی حسن تدبیر اور عقل خدادا د کا ذکر آئے۔ تو مان سنگھ کے حسن لیاقت کو بھی نہ بھولنا چاہیے۔ کہ اس کی نوجوان عمر اور کابل جیسا ملک۔ جہاں سرشور ملانوں اور وحشی مسلمانوں کی خدائی۔ اور مان سنگھ ان پر فرمانروائی کرے۔ وہ برس دن سے زیادہ رہا۔ اور زو شور سے حکومت کرتا رہا۔ فقط راجپوت سردار اور راجپوت فوج اس کے ماتحت نہ تھی۔ بلکہ ہزاروں ترک افغانی ہندوستانی اس کے ساتھ تھے۔ برفانی پہاڑ پر کیا گرمی کیا جاڑے شیر کی طرح دوڑتا پھرتا تھا۔ اور جہاں خرابی پڑتی اس کی اصلاح کرتا تھا۔ ۹۹۵؁ھ میں راجہ بھگوان داس کو حرم سرا اور محلوں کا انتظام سپرد ہوا۔ اور یہ خدمت انہیں اکثر سپرد رہتی تھی۔ سفر میں حرم سرا کی سواریوں کا انتظام ۔ مریم مکانی کی سواری کا بھی اہتمام کرتے تھے۔ افغانستان سے شکایتیں پہنچیں۔ کہ راجپوت اہل ملک پر زیادتیاں کرتے ہیں۔ اس لیے کنور مان سنگھ کو بہار کا حاکم کر کے بھیج دیا۔ بنگالہ میں افغانوں کی کھرچن کمینہ سرشور باقی تھی۔ مغلوں کی بغاوت کے زمانہ میں وہ بھی نکمے نہ بیٹھے تھے۔ انہوں نے فتو جاٹ کو اپنا سردار بنایااور ملک اڑیسہ اور دریائے دامودر کے کنارے تمام شہروں پر قبضہ کر لیا۔ کنور مان سنگھ نے وہاں جا کر بندوبست شروع کئے۔ کئی برس پہلے بعض امرائے نمک حرام نے ملک بنگالہ میں علما و مشائخ کے فتوے ہاتھ میں لے کر بادشاہ پر بے دینی کا اشتہار دیا تھا۔ اور تلواریں کھینچ کر جا بجا بغاوت کے نشان کھڑے کر دئیے تھے۔ ان کی گردنیں جنگی خونریزیوں سے توڑی گئی تھیں۔ مگر بعض ان میں سے اب بھی زمینداروں کے سایہ میں سر چھپائے بیٹھے تھے۔ اور جب موقع پاتے تھے۔ فساد کرتے تھے۔ ان کے رستے بند کئے۔ راجہ پورن مل کندھوریہ عظیم الشان قلعہ بنا کر سمجھے تھے۔ کہ ہم لنکا کے کوٹ میں بیٹھے ہیں۔ انہیں تلوار کے گھاٹ پر اتار کر سیدھا کیا۔ لوٹ مار میں خزانے اور مال خانے بہت کچھ ہاتھ آئے۔ اپنے بھائی کے لئے اس کی بیٹی لی۔ صلح کے وقت تحفہ تحائف میں۔ اس سے اطاعت کے ساتھ تحائف گراں بہا لئے۔ نفائس و عجائب کے ساتھ ۵۴ ہاتھی دربار میں بھیجے۔ ۹۹۷؁ھ میں اکبر کا دل گلگشت کشمیر کی ہوا میں لہلہایا۔ راجہ بھگوان داس کو لاہور کا انتظام سپرد کر کے روانہ ہوئے۔ یہاں راجہ ٹوڈرمل سرگباش ہوئے۔ راجہ بھگوان داس انہیں اول منزل پہنچانے گئے۔ آتے ہی پیٹ میں ایسا در د اٹھا۔ کہ لٹا دیا۔ کوئی علاج کار گر نہ ہوا۔ پانچویں دن دنیا سے سفر کیا۔ شیخ ابوالفضل ان کے باب میں رائے لکھتے ہیں۔ راستی اور وقار سے بہرہ پایا تھا۔ بادشاہ کشمیر سے پھر کر کابل کو چلے تھے۔ رستے میں خبر پہنچی۔ بہت افسوس کیا۔ کنور مان سنگھ کو فرمان راجگی کا خطاب۔ خلعت خاصہ اسپ بازین زریں اور پنج ہزاری منصب سے سربلند کیا۔ بہار کے بندوبست سے مان سنگھ کی خاطر جمع ہوئی۔ مگر اکبری سپہ سالار سے کب بیٹھا جاتا تھا۔ ۹۹۷؁ھ میں اڑیسہ کی طرف گھوڑے اٹھائے۔ ملک مذکور سرحد بنگالہ کے پار واقع ہے۔ اول پرتاب دیو وہاں کا راجہ تھا۔ نرسنگھ دیو اس کے ناخلف بیٹے نے باپ کو زہر سے مارا۔ اور جلد مارا گیا۔ سلیمان کرارانی دانش و دین کا پتلا اس وقت بنگالہ میں فرماں روائی کرتا تھا۔ اس نے ملک مذکور کو مفت مار لیا۔ چند روز کے بعد زمانہ نے اس کا ورق بھی الٹا۔ اوڑیسہ قتلو خاں وغیرہ افغانوں کے ہاتھ میں رہا۔ اس وقت مان سنگھ نے نشان فتح پر پھریرا چڑھایا۔ برسات دل بادل کے لشکر میں بجلی کی برق چمکا رہی تھی۔ مینہ برس رہے تھے۔ دریا چڑھے تھے۔ ادھر سے قتلو آیا۔ اور ۲۵ کوس کے فاصلے پر ڈیرے ڈال کر میدان جنگ مانگا۔ مان سنگھ نے بڑے بیٹے کو مقابلے پر بھیجا۔ وہ باپ کا رشید فرزند تھا۔ مگر ابھی نوجوانی کا مصالحہ تیز تھا۔ ایسا گرم گیا۔ کہ انتظام کا سررشتہ ہاتھ سے نکل گیا۔ اور فتح نے شکست کی صورت بدلی۔ سپہ سالار نے خود آگے بڑھ کر بگڑے کام کو سنبھالا۔ سرداروں کی دلجوئی کی۔ اور پھر فوج کو سمیٹ کر سامنے کیا۔ غیبی مدد یہ ہوئی۔ کہ قتلو خاں مر گیا۔ افغانوں میں پھوٹ پڑ گئی۔ بہت سردار ٹوٹ کر آن ملے۔ جو باقی رہے ۔ وہ اس اقرار پر صلح کے خواہاں ہوئے۔ کہ اکبری خطبہ پڑھا جائے گا۔ خراج و تحائف سالانہ پیشکش کیا کریں گے۔ جب حکم ہو گا۔ ادائے خدمت کو حاضر ہوں گے۔ سپہ سالار نے بھی صلح ہی میں مصلحت دیکھی۔ ۱۵۰ ہاتھی اور تحائف گراں مایہ لے کر ارسال دربار کئے۔ جب تک عیسیٰ (قتلو کا وکیل) زندہ رہا۔ عہد و پیمان کا سلسلہ درست رہا۔ چند سال کے بعد نئے نوجوان افغانوں کی ہمت نے زور کیا۔ انہوں نے اول جگن ناتھ کا علاقہ مارا۔ پھر بادشاہی ملک پر ہاتھ ڈالنے لگے۔ مان سنگھ خدا سے چاہتا تھا۔ کہ عہد شکنی کے لیے کوئی بہانہ ہاتھ آئے۔ فوراً فوج جرار لے کر چلا۔ آپ دریا کے رستے بڑھا۔ سرداروں کو چار کھنڈ کی راہ سے بڑھایا۔ انہوں نے دشمن کے علاقہ میں ہو کر فتح و فیروزی کے نشاں لہرا دئیے۔ افغان ہر چند صلح کی جھنڈیاں ہلاتے رہے۔ مگر اب یہ کب سنتا تھا۔ لڑائی کا میدان مانگا۔ ناچار انہوں نے بھی ہاتھ پائوں سنبھالے۔ بڈھے اور جوان بڑے بڑے پٹھان جمع ہوئے۔ ہمسایہ کے راجائوں نے بھی رفاقت کی اور شاہانہ لڑائی آن پڑی۔ بہادروں نے ہمت کے کارنامے دکھائے۔ بڑے رن پڑے۔ ملک مذکور قدرت کا فیل خانہ ہے۔ ہاتھی میدان جنگ میں مینڈھوں کی طرح لڑتے اور دوڑتے پھرتے تھے۔ اور اکبری بہادر انہیں تیز دوز کر کے خاک تودہ بناتے تھے۔ آخر سورما سپہ سالار نے فتح پائی۔ اور ملک کو بڑھاتے بڑھاتے دریائے شور تک پہنچا دیا۔ شہر شہر میں اکبری خطبہ پڑھا گیا۔ جگن ناتھ جی نے بھی اکبر بادشاہ پر دیا کی۔ کہ اپنا مندر ملک سمیت دے دیا۔ مان سنگھ پھانی وغیرہ (مشرقی حصہ سندر بن ) میں پھیلتا جاتا تھا۔ مناسب معلوم ہوا۔ کہ ادھر ایک شہرحاکم نشین آباد کیا جائے۔ جہاں سے ہر طرف مدد پہنچ سکے۔ دریائی حملہ سے محفوظ ہو۔ اور غنیمان بدنیت کی چھاتی پر پتھر رہے۔ صلاحوں اور تلاشوں کے بعد آک محل کے مقام پر صلاح ٹھیری۔ مبارک ساعت دیکھ کر بنیاد کا پتھر رکھا اور اکبر نگر نام رہا (یہی راج محل مشہور ہے) اس گل زمین کو شیر شاہ نے اپنی گلگشت اور تفریح کے لئے نامور کیا تھا۔ اب تک بھی کوئی مسافر ادھر جا نکلتا ہے۔ تو بکاولی اور بدرمنیر کی خیالی داستانیں مٹی تصویروں کی طرح صفحہ خاک پر نظر آتی ہیں۔ اسی مقام پر قلعہ عظیم الشان تعمیر کر کے سلیم نگر نام رکھا۔ قلعہ شیر پور۔ مورچہ اکبر نگر بلند عمارتوں۔ سجے ہوئے گھروں۔ چلتے بازاروں سے چند روز میں طلسمات کا عالم دکھانے لگا۔ اور مان سنگھ کے دمامۂ دولت کی آواز برہم پتر کے کنارے کنارے تمام مشرقی علاقہ بنگال میں گونجنے لگی۔ راجہ کے کارنامے اور اس کی ہمتوں کے ہنگامے قلم تحریر کو سر اونچا نہیں کرنے دیتے۔ مگر اکبر کی خوبیاں بھی ایسے عالی درجہ پر ہیں۔ جنہیں لکھے بغیر رہا نہیں جاتا ۔ ملک اڑیسہ میں راجہ رام چند ایک فرماں روا تھا۔ وہ مان سنگھ کے دربار میں آپ نہ آیا۔ بیٹے کو بھیج دیا۔ راجہ نے کہا۔ کہ بیٹے کا آنا صحیح نہیں۔ راجہ کو خود آنا چاہیے۔ راجہ قتلو کی مہم میں ان کی مدد بھی کر چکا تھا۔ مگر آنے کی جرأت نہ کرتا تھا۔ کہ ملکی معاملے ہیں۔ خدا جانے۔ وہاں جا کر کیا ہو۔ مان سنگھ نے سب خدمتوں کو بالائے طاق رکھا اور بیٹے کو فوج دے کر بھیج دیا۔ اس نوجوان نے جاتے ہی لوٹ مار کر اس کے علاقہ کی خاک اڑا دی۔ کئی قلعے فتح کئے۔ راجہ قلعہ بند اور محاصرہ کا دائرہ تنگ ہوا۔ بادشاہ کو خبر پہنچی۔ مان سنگھ کے نام فرمان بھیجا۔ کہ اگر راجہ رام چند اس وقت نہیں آیا۔ تو پھر آ جائے گا۔ ایسا ہر گز نہ چاہیے۔ ملک و دولت کی ترقی ان باتوں سے نہیں ہوتی۔ جلد محاصرہ اٹھا لو۔ کہ آئین حق شناسی کے خلاف ہے۔ مان سنگھ نے فوراً حکم کی تعمیل کی۔ اور بیٹے کو واپس بلا لیا۔ ۱۰۰۱؁ھ میں بنگالہ اور اوڑیسہ کے ملک کو پاک صاف کر کے حسب الطلب حاضر دربار ہوا۔ نامی راجہ اور سردار اس ملک کے اپنے ساتھ لایا تھا۔ ان کی بھی ملازمت کروائی اور دولت کے ماتھے پر نور کا تلک لگایا۔ بنگالہ کی صفائی کا تمغہ مؤرخوں نے اس کے نام پر لکھا ہے۔ ۱۰۰۲؁ھ کے جشن سالانہ میں اکبر نے خسرو جہانگیر کے بیٹے کو باوجود خرد سالی کے پنج ہزاری منصب پر نامزد کر کے اڑیسہ اس کی جاگیر میں دیا۔ اور بعض سرداران راجپوت کے حقوق اس میں شامل کئے راجہ مان سنگھ کو اتالیقی کا اعزاز بخشا۔ اور اس کی سرکار کا انتظام بھی راجہ ہی کے سپر د کیا۔ راجہ کو ملک بنگالہ دے کر ادھر روانہ کر دیا۔ اور اسی ملک پر اس کی تنخواہ مجرا کر دی۔ نوجوان جگت سنگھ اب ایسا ہو گیا تھا۔ کہ بذات خود بادشاہی خدمتوں کا سرانجام کر سکے۔ ۱۰۰۲؁ء میں کوچ بہار کے راجہ نے سورما سپہ سالار کے دربار میں اکبری اطاعت کا سجدہ ادا کیا ملک مذکور کا طول ۱۰۰ کوس۔ عرض چالیس اور سو کے بیچ میں پھیلتا سمیٹتا چلا جاتا ہے۔ چار لاکھ سوار دو لاکھ پیادے۔ سات سو ہاتھی۔ ہزار جنگی کشتیاں جاں نثاری کو حاضر رہتی تھیں۔ اگرچہ اس کے بیٹے جگت سنگھ کو ۱۰۰۵؁ھ میں کوہستان پنجاب کا انتظام سپرد ہوا۔ مگر مان سنگھ پر یہ سال نہایت منحوس تھا۔ ہمت سنگھ اس کے بیٹے نے امتلا سے اسہال سے بدحال ہو کر انتقال کیا۔ ہچکی لگ گئی تھی۔ اسی میں جان نکل گئی۔ شیخ ابوالفضل کہتے ہیں۔ جوانمرد تھا۔ انتظام اور سربراہی کی لیاقت سرشت میں تھی۔ موقعہ وقت پر چوکتا نہ تھا۔ اس کے مرنے سے تمام قوم کچھواہہ میںکہرام مچ گیا۔ بادشاہ کی دلداری نے زخموں پر مرہم رکھا۔ سب کی تسلی ہو گئی۔ اسی زنہ میں عیسیٰ خاں افغان نے بغاوت کی۔ مان سنگھ نے درجن سنگھ اپنے بیٹے کو فوج دے کر بھیجا۔ سرداروں میں ایک نمک حرام غنیم سے ملا ہوا تھا۔ اور خبر پہنچا رہا تھا۔ دشمن ایک جگہ پر بے خبر آن پڑا۔ سخت لڑائی ہوئی۔ درجن سنگھ مارا گیا۔ اور بہت جانیں ضائع ہوئیں۔ تمام مال خانے لٹ گئے۔ پھر عیسیٰ خاں اپنے کئے پر پچھتایا۔ جو کچھ مال لیا تھا۔ ہزار ندامت اور عذر و معذرت کے ساتھ واپس کیا۔ انتہا ہے کہ بہن بھی دے دی۔ ہائے اور تو سب کچھ آ گیا۔ درجن سنگھ کہاں سے آئے۔ ۱۰۰۷؁ھ میں مان سنگھ کا اقبال پھر نحوست کی سیاہ چادر اوڑھ کر نکلا۔ صورت یہ ہوئی کہ اکبر کو جس طرح سمرقند و بخارا کے لینے کی آرزو تھی۔ اسی طرح رانائے میواڑ سے اطاعت لینے کا ارمان تھا۔ چنانچہ عبداللہ خاں اذبک والی توران کے مرنے سے بڑے بڑے ارادوں کے منصوبے باندھے اور شطرنج پر مہرے پھیلائے۔ ارادہ یہ تھا کہ ادھر کے منصوبے جیت کر خاطر جمع سے ملک موروثی پر چلئے۔ شہزادہ دانیال۔ عبدالرحیم خان خاناں۔ شیخ ابوالفضل کو دکن پر بھیجا تھا۔ اور پیچھے پیچھے آپ تھا۔ جہانگیر کو مہم رانا پر روانہ کیا۔ مان سنگھ کو پرانے پرانے امیروں کے ساتھ سپہ سالار کر کے ہمراہ کیا۔ اور بنگالہ اس کی جاگیر جگت سنگھ اس کے ولی عہد کو عنایت کی۔ نوجوان کنور خوشی خوشی روانہ ہوا۔ آگرہ میں جا کر سامان میں مصروف تھا۔ کہ ۱؎ دفعتہ مر گیا۔ قوم کچھواہہ کے گھر گھر میں ماتم پڑ گیا۔ اکبر کو بھی بہت رنج ہوا۔ مہان سنگھ اس کے بیٹے کو باپ کی جگہ دی۔ اور روانگی کا فرمان روانہ کیا۔ سرشور افغانوں نے اس موقع کو غنیمت سمجھا۔ طوفان ہو کر اٹھے۔ مہاں سنگھ جرأت کر کے آگے بڑھا۔ مگر نوجوانی کی دوڑ تھی ٹھوکر کھائی۔ باغیوں نے مقام بھدراک پر لشکر بادشاہی کو شکست دی۔ اور پانی کی طرح پھیل کر بڑا حصہ بنگالہ کا دبا لیا۔ ادھر سلیم (جہانگیر) اپنے عیش کا بندہ تھا۔ وہ نہ چاہتا تھا۔ کہ اودے پور کے پہاڑوں میں جائے اور پتھروں سے ٹکراتا پھرے۔ اس کی مراد بر آئی۔ رانا کی مہم ملتوی کر دی اور بنگالہ کی طرف کوچ کیا۔ باپ ادھر اسیر کا محاصرہ کئے پڑا ہے۔ اور قلعہ والے جان سے تنگ ہیں۔ خانخاناں احمد نگر فتح کیا چاہتا ہے۔ تمام دکن میں اقبال اکبری نے زلزلہ ڈال دیا ہے۔ ابراہیم عادل شاہ تحائف و پیشکش کے ساتھ بیٹی کو روانہ کرتا ہے۔ کہ دانیال محلوں میں شادی رچے مورکھ شہزادے نے باپ کی ایک مصلحت کا خیال نہ کیا۔ مان سنگھ کو بنگالہ روانہ کر دیا۔ آپ آگرہ پہنچا قلعہ میں جا کر دادی کو سلام بھی نہ کیا۔ اس نے چاہا کہ خود جا کر ملے تو اوپر سے اوپر کشتی میں بیٹھ کر الہ آباد کو روانہ ہو گیا۔ اور وہاں جا کر عیش کی بہاریں لوٹنے لگا۔ اکبر کو یہ بات پسند نہ آئی۔ بلکہ خیال ہوا کہ رانا کی طرف سے ہٹنا اور بنگالہ کی طفف جانا۔ مان سنگھ کی ترغیب سے ہوا ہے۔ زیادہ تر قباحت یہ ہوئی کہ شہزادہ کی طرف سے بغاوت کے آثار نظر آئے۔ اور امرائے نمک حلال کی عرضیاں آنی شروع ہوئیں۔ یہ وہم اگر اور امرا کی طرف ہوتا ۔ تو کچھ بات نہ تھی۔ کیونکہ جب بادشاہ بڈھا ہوتا ہے۔ تو اہل دربار کی امیدیں ہمیشہ ولی عہد کی طرف سجدہ کرتی ہیں۔ لیکن مان سنگھ کا تعلق خاص جو شہزادہ کے ساتھ تھا۔ اس نے ان وہموں کی بدنما تصویریں دکھائیں۔ اور (جھوٹ یا سچ) راجہ کے نام پر جو حرف آیا۔ اس کا اسے بہت رنج ہوا۔ خیر یہ تو گھر کی باتیں ہیں۔ راجہ بغاوت بنگالہ کی خبر سنتے ہی شیر کی طرح جھپٹا۔ جب وہاں پہنچا۔ تو پرنیہ۔ کہگر وال۔ بکرم پور وغیرہ مقامات مختلفہ میں غنیموں نے خود سری کے نشان کھڑے کر رکھے تھے۔ اس نے جا بجا فوجیں روانہ کیں۔ اور جہاں ضرورت دیکھی۔ وہاں خود یلغار کر کے پہنچا۔ اکبری اقبال کی برکت اور راجہ مان سنگھ کی ہمت اور نیک نیت نے ایک عرصہ کے بعد بغاوت کی آگ بجھائی۔ اور ڈھاکہ میں آکر خاطر جمع سے حکمرانی کر نے لگا۔ بادشاہوں کے دل کا حال تو کسے معلوم ہے۔ ظاہر یہی معلوم ہوا کہ اکبر اس کی طرف سے ۱؎۔ جگت سنگھ صاف ہو گیا۔ اس بغاوت کے معرکوں سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے۔ کہ باغیان بنگالہ کے ساتھ فرنگ کے سپاہی بھی شامل تھے۔ اور ان کی رفاقت میں جانیں دیتے تھے۔ غالباً ڈچ یا پرتگال کے لوگ تھے۔ ۱۰۰۲؁ھ میں ہندوستان کی صفائی اور توران کے بادشاہوں کی کشاکشی نے اکبر کے شوق کو پھر توران پر متوجہ کیا۔ سپہ سالار خان خاناں وغیرہ سرداروں کو مشورہ کے واسطے بلایا۔ مان سنگھ کو بھی فرمان طلب گیا اور لکھا گیا۔ کہ بعض مہمات ضروری میں مشورہ در پیش ہے۔ چونکہ وہ فدوی خاص بندہائے قدیم سے ہے۔ اور آق ۱؎ سقال بااخلاص اس دولت کا ہے۔ مناسب ہے۔ کہ وہ بھی متوجہ درگاہ ہو۔ اسی سنہ میں اسے پرگنہ جو ند رمرحمت ہوا۔ اور حکم ہوا کہ قلعہ رہتاس کی مرمت کرے۔ بھائو سنگھ اس کے بیٹے کو ہزاری ذات پانسو سوار کا منصب عنایت ہوا۔ ۱۰۱۳؁ھ میں خسرو اس کے بھانجے کو دہ ہزاری منصب ملا (جہانگیر کا بڑا بیٹا تھا) مان سنگھ اتالیق ہو کر ہفت ہزاری چھ ہزار سوار کے منصب پر سربلند ہوئے۔ اور بھائو سنگھ پوتا ہزاری منصب اور تین سو سوار پر معزز ہوا۔ اب تک کوئی امیر پنج ہزاری منصب سے آگے نہیں بڑھا تھا۔ یہ اعزاز اول اس نیک نیت راجہ کی وفاداری اور جاں نثاری نے لیا اور اکبر کی قدردانی نے اسے دیا۔ جب تک اکبر رہا ۔مان سنگھ کا ستارہ سعد اکبر (مشتری یعنی برہسپت ) رہا۔ جب وہ مرض الموت کے بستر پر لیٹا۔ اسی وقت سے اس کا ستارہ بھی ڈھلنا شروع ہوا۔ چنانچہ حکم ہوا۔ کہ اپنی جاگیر پر جائو۔ مطیع الفرمان نے کل آرزئوں کو اپنے پیارے آقا کی خوشی کے ہاتھ بیچ ڈالا تھا۔ باوجودیکہ بیس ہزار لشکر جرار اس کی ذات کا نوکر تھا۔ اور تمام قوم کچھواہہ کا سرگروہ تھا۔ وہ بگڑ بیٹھتا تو تمام قوم تلوار پکڑ کر کھڑی ہو جاتی۔ مگر فوراً بنگالہ کو روانہ ہوا۔ اور خسرو کو ساتھ لیا۔ جب نیا بادشاہ تخت پر بیٹھا۔ پرانے امرا سب حاضر دربار ہوئے۔ نوجوان بادشاہ مست الست تھا۔ مگر یہ بات اس کی بھی قابل تعریف ہے کہ پہلی باتوں کو بالکل بھول گیا۔ خود لکھتا ہے کہ اس نے بعض باتیں ایسی کی تھیں کہ اپنے حق میں اس عنایت کی امید نہ رکھتا تھا۔ پھر بھی خلعت چارقب۔ شمشیر مرصع۔ اسپ خاصہ بازین زریں دے کر اکرام و اعزاز بڑھایا۔ اور بنگالہ کا صوبہ دوبارہ اپنی طرف سے مرحمت کیا۔ مگر طالع کی گردش ۱؎ آق سقال۔ ترکی میں ریش سفید کو کہتے ہیں۔ اور مراد اس سے مرد بزرگ و محترم ہے۔ اب ترکستان کے عرف عام میں۔ چودھری یا میر محلہ آق سقال کہلاتا ہے۔ چنانچہ گائوں یا شہر کے محلہ میں ایک ایک آق سقال ہوتا ہے۔ پیشہ والوں کے ہر فرقہ کا آق سقال بھی الگ ہوتا ہے۔ کو کون سیدھا کر سکے۔ چند مہینے گذرے تھے۔ کہ خسرو باغی ہو گیا۔ آفرین ہے جہانگیر کے حوصلہ کو مان سنگھ کے کاروبار میں کوئی تغیر کا اثر ظاہر نہ کیا۔ مان سنگھ کو بھی آفرین کہنی چاہیے۔ کیونکہ بھانجے کا بھلا تو ضرور چاہتا ہو گا۔ مگر اس موقع پر کوئی ایسی بات بھی نہیں کی۔ جس سے بے وفائی کا الزام لگا سکیں۔ مست الست بادشاہ جلوس کے ایک برس آٹھ مہینے کے بعد خود لکھتا ہے۔ مگر درد آلود عبارت ہے۔ معلوم ہوتا ہے۔ کہ دردناک دل سے نکلتی ہے۔ راجہ مان سنگھ نے قلعہ رہتاس سے آ کر ملازمت کی کہ ملک پٹنہ میں واقع ہے۔ چھ سات فرمان گئے جب آیا ہے۔ وہ بھی خان اعظم کی طرح منافقوں اور اس سلطنت ۱؎ کے (پرانے پاپیوں میں سے )ہے۔ جو انہوں نے مجھ سے کیا۔ اور مجھ سے ان کے ساتھ ہوا خدائے رازداں جانتا ہے۔ کہ کوئی کسی سے اس طرح نہیں گذارہ کر سکتا۔ راجہ نے سو ہاتھی نر و مادہ پیشکش گذرانے۔ ایک میں بھی اتنی بات نہ تھی۔ کہ فیلان خاصہ میں داخل ہو سکے۔ یہ میرے باپ کے بنائے ہوئے نوجوانوں میں سے ہے۔ اس کی خطا میں اس کے منہ پر نہ لایا۔ اور عنایت بادشاہانہ سے سرفراز کیا۔ پونے دو مہینے کے بعد پھر لکھتا ہے۔ ایک گھوڑا میرے سارے گھوڑوں کا سردار تھا۔ عنایت کی نظر سے راجہ مان سنگھ کو مرحمت کیا۔ کئی اور گھوڑوں اور تحائف لائق کے ساتھ شاہ عباس نے منوچہر خاں کی ایلچی گری میں حضرت عرش آشیانی (اکبر) کو بھیجا تھا۔ منوچہر شاہ کا غلام معتبر ہے۔ جب یہ گھوڑا میں نے عنایت کیا۔ تو مان سنگھ مارے خوشی کے اس طرح لوٹا جاتا تھا۔ کہ اگر میں کوئی سلطنت اسے دے دیتا۔ تو معلوم نہیں کہ اتنا خوش ہوتا۔ یہ گھوڑا جب آیا تھا۔ تو تین چار برس کا تھا۔ ہندوستان میں آ کر بڑا ہوا۔ اور یہیں ساری خوبیاں نکالیں۔ تمام بندہائے درگاہ مغل اور راجپوت نے بالاتفاق عرض کی کہ ایسا گھوڑا کبھی ایران سے ہندوستان میں نہیں آیا۔ جب والد بزرگوار نے خاندیس اور صوبہ دکن بھائی دانیال کو مرحمت کیا۔ اور آگرہ کو پھرنے لگے۔ تو محبت کی نظر سے اسے کہا۔ کہ جو چیز تجھے بہت پسند ہو مجھ سے مانگ۔ اس نے موقع پا کر یہ گھوڑا مانگا۔ اس سبب سے اسے دیا تھا۔ آزاد بھلا بیس برس کے بڈھے گھوڑے پر خوش کیا ہونا تھا۔ یہ کہو کہ وقت کو دیکھتے تھے۔ آدمی کو پہچانتے تھے۔ اور تھے مسخرے۔ کیا یہ۔ کیا خانخاناں مست کو دیوانہ بناتے تھے۔ بڈھے ہوئے تو ہو جائیں۔ طبیعت کی شوخی تو نہیں جا سکتی۔ اکبر کے عہد میں دانش و داد۔ ہمت و حوصلہ۔ جرأت و جاں نثاری کا زمانہ تھا۔ اسے ان باتوں سے خوش کرتے تھے۔ اوراسے دیکھا کہ اس ڈھب کا نہیں۔ اسے اس ڈھب سے تسخیر کر لیا۔ ۱؎ ادہم مثل خان اعظم از کہنہ گرگاں ایں دولت است خانجہاں وغیرہ امرائے بادشاہی دکن میں کارنامے دکھا رہے تھے۔ ہمت اور لیاقت کو میدان میں جولانی کرنے کا ضرور شوق ہوا ہو گا۔ اور جاں نثاری کی عادت نے اس مصلحت کو جوش دیا ہو گا۔ لیکن خسرو کے سبب سے اس کا معاملہ ذرا نازک تھا۔ اس لئے وطن گیا۔ اپنے پرانے اہلکاروں سے صلاح کر کے جہانگیر سے عرض کی اور لشکر لے کر دکن پہنچا۔ دو برس تک وہاں رہا۔ اور ۱۰۲۳؁ھ میں وہیں سے ملک بقا کو کوچ کر گیا۔ بیٹوں میں سے ایک بھائو سنگھ جیتا تھا۔ جہانگیر نے اس موقع پر خود لکھا ہے۔ والد بزرگوار کے عمدہائے دولت میں سے میں نے اکثر بند ہائے درگاہ کو درجہ بدرجہ خدمت دکن پر بھیجا تھا۔ وہ بھی ان دنوں میں اس خدمت پر تھا۔ مر گیا۔ تو مرزا بھائو سنگھ اس کا خلف رشید تھا۔ میں نے بلا بھیجا۔ شاہزادگی میں میری خدمت زیادہ سے بھی زیادہ کرتا تھا۔ ہندوئوں کی ریت کے بموجب مہان سنگھ پسر جگت سنگھ کو ریاست پہنچتی تھی۔ کہ سب بھائیوں میں بڑا تھا۔ اور وہ راجہ کے جیتے جی مر گیا۔ میں نے اس بات کی رعایت نہ کی بھائو سنگھ کو مرزا راجا کا خطاب دے کر چار ہزاری ذات تین سو سوار کے منصب سے ممتاز کیا۔ آبنیر کا علاقہ مرحمت کیا۔ کہ اس کے باپ دادا کا وطن ہے اور اس نظر سے کہ مہان سنگھ بھی راضی ہے۔ اس کی دلداری کے لئے پہلے منصب پر پانصدی بڑھا کر گڈھ کا ملک اسے انعام دیا۔ اس کے حالات کو پڑھ کر بے خبر لوگ جھٹ بول اٹھیں گے۔ کہ اس نے جہانگیر کے عہد میں کچھ ترقی نہ کی۔ لیکن جاننے والے جانتے ہیں کہ اس کا معاملہ کیسا پیچیدہ تھا۔ بلکہ اس کی عقل سلیم اور سلامت روی کی چال ہزار تعریف کے قابل ہے۔ کہ مہمات کے ہنگامے ہو رہے تھے۔ کسی آفت کی جھپٹ میں نہ آگیا ۔ اور اپنی باعزت حالت کا عزت کے ساتھ خاتمہ کر گیا۔ خانخاناں اور مرزا عزیز کوکہ ابتدا سے میدان ترقی میں اس کے ساتھ گھوڑے دوڑائے تھے۔ ان کے حالات کو اس سے مقابلہ کر کے دیکھو۔ جہانگیری عہد میں انہوں نے کیسے سخت صدمے اٹھائے۔ اسی کی بااصول رفتار تھی۔ جس نے اسے امن و عافیت کے رستہ سے منزل آخر تک صحیح سلامت پہنچا دیا۔ جو اعزاز و اکرام کی دستار اکبر نے اپنے ہاتھ سے اس کے سر پر باندھی تھی۔ اس کو دونوں ہاتھ سے پکڑے امن و امان سے نکل گیا۔ اس نے ملک گیری اور ملک داری کے تمام اوصاف سے پورا پورا حصہ پایا تھا۔ جدھر لشکر لے کر گیا۔ کامیاب ہوا۔ کابل میں آج تک بچہ بچہ اس کا نام جانتا ہے۔ اور اس کی بابت کہاوتیں زبانوں پر ہیں۔ مشرق میں اکبری حکومت کا نقارہ دریائے شور کے کنارے تک جا بجایا۔ اور بنگالہ میں اپنی نیکی سے ایسے گلدار لگائے ہیں۔ جو آج تک سرسبز ہیں۔ اس کی عالی ہمتی اورع دریا دلی کے چشمے زبانوں پر جاری ہیں۔ اور زمانوں تک رہیں گے۔ اس کے بھاٹ کی سرکار میں سو ہاتھی فیل خانے میں جھومتے تھے۔ بیس ہزار لشکر جرار اس کی ذات کا نوکر تھا۔ جن میں معتبر سردار ٹھاکر اور امرائے عالیشان کی سواریاں امیرانہ جلوس سے نکلتی تھیں۔ تمام سپاہی بیش قرار تنخواہوں اور سامانوں سے آسودہ تھے۔ ہر فن کے صاحب کمال اس کے شاہانہ دربار میں حاضر رہتے تھے۔ اور عزت اور خوشحالی کے عالم میں رہتے تھے۔ باوجود اس کے خوش اخلاق۔ ملنسار۔ شگفتہ مزاج تھا۔ اور جلسہ میں تقریر کو انکسار و تواضع سے رنگ دیتا تھا۔ جب وہ مہم دکن پر گیا۔ تو خانجہاں لودھی سپہ سالار تھا۔ پندرہ پنج ہزاری صاحب علم و نقارہ موجود تھے۔ جن میں خانخاناں۔ خود راجہ مان سنگھ۔ آصف خاں۔ شریف خاں امیرالامرا وغیرہ شامل تھے۔ اور چار ہزاری سے پانصدی تک ایک ہزار منصبدار فوجیں لئے کمر بستہ موجود۔ بالاگھاٹ کے مقام پر لشکر شاہی کو سخت تکلیف پیش آئی۔ ملک میں قحط پڑ گیا۔ اور رستوں کی خرابی سے رسد بند ہونے لگی۔ امرا روز جمع ہو کر جلسۂ مشورہ جماتے تھے۔ کوئی نقشہ نہ جمتا تھا۔ ایک دن مان سنگھ سے سر دیوان اٹھ کر کہا کہ اگر میں مسلمان ہوتا۔ تو ایک وقت تم صاحبوں کے ساتھ کھانا کھایا کرتا۔ اب کے ڈاڑھی سفید ہو گئی ہے۔ کچھ کہنا مناسب نہیں۔ ایک پان ہے۔ آپ صاحب قبول فرمائیں۔ سب سے پہلے خانجہان نے دلداری کا ہاتھ سینہ پر رکھا۔ اور مان کا پان سمجھ کر سب نے قبول کیا۔ چنانچہ پنج ہزاری سے لے کر صدی کے منصبدار تک حسب حیثیت نقد اور جنس ۔ لوازم ضیافت برابر ہر شخص کی سرکار میں پہنچ جاتا تھا۔ ہر تھیلے اور خریطہ پر اس کا نام لکھا ہوتا تھا۔ تین چار مہینے تک یہ سلسلہ برابر جاری رہا۔ ایک دن ناغہ نہیںہوا۔ بنجاروں نے رسد کا تانتا لگا دیا۔ بازار لشکر میں ہر شے کے انبار پڑے تھے۔ اور جو آبنیر میں نرخ تھا۔ وہی یہاں نرخ تھا۔ ایک وقت کا کھانا بھی سب کو ملتا تھا۔ کنور اس کی رانی بڑی عقلمند اور منتظم بی بی تھی۔ گھر میں بیٹھی تھی۔ اور سب کاروبار کے انتظام برابر کرتی تھی۔ یہاں تک کہ لوچ و مقام کے موقع پر مسلمانوں کو حمام و مسجد کی وضع کے خیمے بھی تیار ملتے تھے۔ خوش اخلاق راجہ ہمیشہ شگفتہ مزاج اور خوش رہتا تھا۔ لطیفہ۔ دربار میں کوئی سید صاحب ایک برہمن سے الجھ پڑے۔ اور آخیر میں کہا ۔ کہ جو راجہ صاحب کہہ دیں۔ وہ صحیح ۔ راجہ نے کہا کہ مجھے علم نہیں۔ جو ایسے معاملے میں گفتگو کر سکوں۔ مگر ایک بات دیکھتا ہوں۔ کہ ہندوئوں میں کیسا ہی گنوان پنڈت یا گیانی دھیانی فقیر ۔ جب مر گیا۔ تو جل گیا۔ خاک اڑ گئی۔ رات کو وہاں جائو تو آسیب کا خطر ہے۔ اسلام میں جس شہر بلکہ گائوں میں گذرو۔ کئی بزرگ پڑے سوتے ہیں۔ چراغ جلتے ہیں۔ پھول مہک رہے ہیں۔ چڑھاوے چڑھتے ہیں۔ لوگ ان کی ذات سے فیض پاتے ہیں۔ لطیفہ ایک دن یہ اور خان خاناں شطرنج یا چوپڑ کھیل رہے تھے۔ شرط یہ ہوئی۔ کہ جو ہارے وہ جیتنے والے کی فرمائش کے بموجب ایک جانور کی بولی بولے۔ خان خاناں کی بازی دبنی شروع ہوئی۔ مان سنگھ نے ہنسنا شروع کیا۔ اور کہا کہ بلی کی بولی بلوائوں گا۔ خان خاناں ہمت کئے گئے۔ آخر چار پانچ چالوں کے بعد مایوس ہو گئے۔ مگر بڑے چالئے تھے۔ گھبرا کر اٹھنا چاہا۔ اور کہا۔ اے ہا۔ از خاطر رفتہ بود خوب شد کہ حالاہم بیاد آمد۔ مان سنگھ نے کہا۔ کجا کجا۔ انہوں نے کہا۔ جہانبانی چیزے فرمودہ بووند۔ حالا یا دم آمدہ۔ بروم کہ زود تر سرانجامش کنم اور اٹھ کھڑے ہوئے۔ راجہ نے کہا۔ نمی شود۔ خانخاناں نے کہا۔ حالامے آیم۔ راجہ نے دامن پکڑ لیا۔ اور کہا خوب است۔ صدائے پشک بکیندوبروید۔ انہوں نے کہا۔ شمادامنم بگزررید۔ مے آیم مے آیم مے آیم وہ بھی ہنس پڑے۔ یہ بھی ہنس پڑے۔ واہ کیا بات ہے۔ اپنی بات کہی اور حریف نے پوری کر دی۔ لطیفہ وہ ہمیشہ فقرا اور خاکساروں کی خدمت میں حاضر ہوا کرتا تھا۔ اور اس میں ہندو مسلمان کا امتیاز نہ کرتا تھا۔ بنگالہ کے سفر میں ایک مقام پر شاہ دولت کے اوصاف و کمالات سنے۔ خدمت میں حاضر ہوا۔ وہ بھی اس کی پاکیزہ اور سنجیدہ گفتگو سے بہت خوش ہوئے۔ اور کہا۔ مان سنگھ مسلمان کیوں نہیں ہو جاتے۔ اس نے مسکرا کر کہا۔ ختم اللہ علی قلوبھم خدا کی مہر ہے۔ بندہ کیونکر اٹھائے کہ گستاخی ہے۔ مان سنگھ کے حال میں یہ افسوس حقیقت میں نہیں بھولتا۔ کہ اس کی سپہ سالاری اور ملک گیری کی لیاقت جہانگیر کے عہد میں مرجھا کر رہ گئی۔ شرابی کبابی بادشاہ نے کچھ پرواہ نہ کی۔ بلکہ اس کی طرف سے کھٹکتا رہا۔ قدردان وہی مرنے والا تھا۔ جس نے اس کے جوہر قابل کولڑکپن سے پال کر اعلیٰ درجۂ کمال پر پہنچایا تھا۔ وہ جیتا تو خدا جانے اس کی تلوار سے ملک موروثی کے پہاڑوں کو ٹکراتا یا دریائے شور میں فرنگ کے زور کو توڑتا۔ اکبر خانخاناں کو مرزا خاں اور خان اعظم کو مرزا عزیز اور اسے مرزا راجا کہتا تھا۔ گھر کی ریت رسوم اور کل کاروبار میں اس کے ساتھ بیٹوں کی طرح برتائو ہوتا تھا۔ خصوصاً حرم سرا کے کاروبار اور سفر کے موقع پر کل اہتمام راجہ بھگوان دا س کے سپرد مریم مکانی تک کی سواری ہوتی۔ تو راجہ موصوف ساتھ ہوتے تھے۔ اس سے زیادہ اور کیا اعتبار ہو سکتا ہے۔ عجب پاک زمانہ تھا۔ اور عجب پاک دل تھے۔ دیکھو نتیجے بھی کیسے پاکیزہ نکلتے تھے۔ مان سنگھ کی تاریخ زندگی میں اس بیان پر پھول برسانے چاہئیں۔ کہ اس نے اور اس کے کل خاندان نے اپنی ساری باتوں کو اکبر کی خوشی پر قربان کر دیا۔ مگر مذہب کے معاملے میں بات کو ہاتھ سے نہ دیا۔ جن دنوں میں دین الٰہی اکبر شاہی کا زیادہ زور ہوا۔ اور ابوالفضل اس کے خلیفہ ہوئے۔ بیربل برہمن کہلاتے تھے۔ انہوںنے سلسلہ مریدی میںچوتھا نمبر حاصل کیا۔ لیکن مان سنگھ سنجیدگی اور عقل کے نقطہ سے بال بھر نہیں ہٹا۔ چنانچہ ایک شب بعض مہمات سلطنت کے باب میں جلسۂ مشورت تھا۔ ان کو حاجی پور پٹنہ جاگیر عنایت ہوا۔ بعد اس کے خلوت خاص تھی۔ خان خاناں بھی موجود تھے۔ اکبر مان سنگھ کو ٹٹولنے لگے۔ کہ دیکھوں یہ بھی مریدوں میں آتا ہے۔ یا نہیں۔ تقریر کا سلسلہ اس طرح چھیڑا۔ کہ جب تک دو چار باتیں نہیں ہوتیں۔ تب تک اخلاص کامل نہیں ہوتا۔ سپاہی راجپوت نے صاف اور بے تکلف جواب دیا۔ کہ حضور اگر مریدی سے مراد جاں نثاری ہے۔ تو آپ دیکھتے ہیں کہ جان ہتھیلی پر رکھے ہوئے ہیں۔ امتحان کی حاجت نہیں۔ اگر کچھ اور ہے۔ اور حضور کی مراد مذہب سے ہے۔ تو ہندو ہوں۔ فرمائیے مسلمان ہو جائوں۔ اور رستہ جانتا نہیں۔ کون سا ہے کہ اختیار کروں۔ اکبر بھی ٹال گئے۔ آزاد حق یہی ہے۔ کہ جو شخص مذہب میں پورا ہو گا۔ وہی وفا و اخلاص میں پورا ہو گا۔ اور وفا و اخلاص کا استقلال ہر مذہب کی اصل ہے۔ کون سا مذہب دنیا میں ہے ۔ جس نے وفا اور اخلاص کو برا سمجھا ہو گا۔ جو اچھی باتیں ہیں سب مذہبوں میں اچھی ہیں۔ اور ان کی تاکیف ہے۔ اہل مذہب عمل میں قصور کریں۔ تو مذہب کا قصور نہیں۔ بدمذہبوں کا قصور ہے۔ یہ چٹکلا لکھنے کے قابل ہے۔ کہ راجہ کی ۱۵ سو رانیاں تھیں۔ اور ہر ایک سے ایک ایک دو دو بچے تھے۔ ہاں! بہادر ایسے ہی ہوتے ہیں۔ مگر افسوس کہ وہ کوپلیں ٹہنی سے نکلتی گئیں۔ اور جلتی گئیں چند جانیں تھیں ۔ کہ جوانی کو پہنچیں۔ اور افسوس کہ وہ اس کے سامنے گئیں۔ بھائو سنگھ کو جیتا چھوڑ گیا۔ وہ شراب کی بھینٹ ہوئے۔ جب راجہ سرگباش ہوئے تو ساٹھ رانیوں نے ستی ہو کر ان کے ساتھ رفاقت کا حق ادا کیا۔ تحقیق جس قطعہ زمین پر تاج گنج کا روضہ ہے۔ یہ راجہ مان سنگھ کی تھی۔ میں نے آگرہ میں جا کر دریافت کیا۔ اب بھی کچھ بیگھے زمین اس قرب و جوار میں راجہ جے پور کے نام لکھی چلی آتی ہے۔ مہاراجہ سوائی فرماں فرمائے جے پور کے اہلکاراسے اعزاز کے ساتھ اپنا حق سمجھتے ہیں۔ نکتہ رسی ایک فقیر نے بیگھ بر زمین کے لئے دربار اکبری میں سوال کیا۔ وہاں سینکڑوں ہزاروں بیگھ کی حقیقت نہ تھی۔ عطا ہو گئی۔ سند اس کی سب امرا کے دفتروں میں سے دستخط ہوتی چلی آئی۔ مان سنگھ کے سامنے جب کاغذ آیا۔ تو ا س نے زعفران زار کشمیر کو مستثنیٰ کرد یا۔ فقیر نے جب دیکھا تو سند پھینک کر چلا گیا۔ کہ اب کیا کرنی ہے۔ اگر بیگھ بھر زمین لینی ہوتی تو جہاں چاہتا بیٹھ جاتا۔ خدائی میدان کھلا پڑا ہے۔ بعض اہل تحقیق سے معلوم ہوا ۔ کہ یہ ٹوڈرمل کی جزرسی تھی۔ آزاد میرے دوستو! اس زمانہ کے ہندو اور مسلمانوں کے لئے اگر کوئی عہد ہے۔ جس کی تقلید ملک کی بہتری اور خلق خدا کی آسودگی اور مختلف بلکہ متضاد مذہبوں میں محبت و یگانگت پیدا کرنے کے لئے ضرور ہے۔ تو وہ عہد اکبری ہے۔ اور اس بے نظیر مبارک عہد کے پیشرو اور مرد میدان مسلمانوں میں اکبر اور ہندوئوں میں راجہ مان سنگھ ہیں۔ کہاں ہیں وہ تنگ دل تیرہ خیال جنہوں نے اس زمانہ میں بڑی حب الوطنی یہ بات قرار دی ہے۔ کہ دونوں مذہبوں کو لڑایا کریں۔ اور بغض و کینہ کی آگ دلوں میں سلگایا کریں۔ اس زمانہ کی انجمنوں اور سبھائوں اور ان کی بے اثر تقریروں سے خاک حاصل نہیں ہوتا۔ جو بات دل سے نہیں نکلتی۔ وہ دل میں اثر نہیں کرتی۔ تم دور اکبری کے ان پاکیزہ نفسوں کے حالات پر غور کرو۔ اور ان کو اپنا پیشرو بنائو۔ اکبر اور مان سنگھ وہ شخص ہیں۔ کہ اگر ان کے بسٹ ۱؎ بنوا کر ہر قومی جلسے کو ان سے زینت دی جائے۔ تو دونوں فریق میں اتحاد بڑھانے کی اچھی تدبیر ہے۔ بڑے نور کی یہ بات ہے۔ کہ مان سنگھ نے یہ اتحاد اپنے دھرم کو پورے طور پر برقرار رکھ کر قائم کیا۔ یہ ہی خوبی ہے۔ جو راجہ مان سنگھ کی بے انتہا عزت اور عظمت ہمارے دلوں میں بٹھاتی ہے۔ آزاد وہ کیا دین داری ہے جو دوسری قوم کی دل آزاری ہو۔ مسلمانوں اور ہندوئوں کے مذہب میں ہزاروں امور ہیں۔ جن کو دونوں فریق نیکی سمجھتے ہیں۔ پس دیندار بننے کے لئے ایسی ہی نیکیوں پر عمل کرنا چاہیے۔ راجہ مان سنگھ! اخلاقی تاریخ میں تمہارا نام سنہری حروف میں قیامت تک روشن رہے گا۔ اخلاق اور بے تعصبی تمہارے مبارک نام پر ہمیشہ پھول اور موتی برسائے گی۔ تمہارا سر ایسے پھولوں کے ہاروں سے سجا ہے۔ جن کی مہک قیامت تک دماغ عالم کو معطر رکھے گی۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱؎ نصف فوٹو گراف۔ مرزا عبدالرحیم خان خاناں ۹۶۴؁ھ میں بیرم خاں کا بڑھاپا اقبال کی جوانی میں لہلہا رہا تھا۔ ہیمو کی مہم مار لی تھی۔ اکبر شکار کھیلتے لاہور کو چلے آتے تھے۔ جو نغمۂ بلبل کے سروں میں کسی نے آواز دی۔ کہ بڑھاپے کے باغ میں رنگین پھول مبارک ہو۔ فتح کی خوشی میںیہ خوشخبری نیک شگون معلوم ہوئی۔ اس لئے بادشاہ نے جشن کیا۔ وزیر نے خزانے لٹائے۔ اور اپنے بیگانوں کو انعام و اکرام سے مالا مال ک ردیا۔ بیرم خاں کو تو عالم جانتا ہے۔ ماں کا خاندان بھی معلوم کر لو۔ کہ جمال خاں میواتی کی بیٹی حسن خاں میواتی کی بھتیجی تھی۔ بڑی ۱؎ بہن بادشاہ کے محل میں تھی۔ چھوٹی وزیر کے حرم سرا میں۔ خالو بادشاہ نے خود عبدالرحیم نام رکھا۔ مبارک مولود کی ولادت خاص اسی شہر لاہور میں ہوئی۔ یہ پھول قریب تین سال کے نازو نعمت کی ہوا میں اقبال کے شبنم سے شاداب تھا۔ دفعتہ خزاں کی نحوست ایسی بگولا بن کر لپٹی۔ کہ اس کے گلبن کو جڑ سے اکھیڑ کر پھینک دیا۔ اور گھاس پھوس کی طرح مدت تک رواں دواں کرتی رہی۔ کوئی نہ جانتا تھا۔ کہ اس کا ٹھکانا بھی کہیں لگے گا یا نہیں۔ ہم کاغذوں کے دیکھنے والے ترس کھاتے ہیں۔ وائے برحال اس کے رشتہ داروں اور ہوا خواہ نمک خواروں کے۔ جب اس کی اور اپنی حالت کو یاد کرتے ہوں گے۔ تو چھاتی پر سانپ لوٹ جاتے ہوں گے۔ کہ کیا تھا اور کیا ہو گیا۔ مگر حق یہ ہے کہ ایسے ہی اونچے سے گرتے ہیں۔ جب اس قدر اونچے پہنچتے ہیں۔ کہ دیکھنے والے تعجب کر کے کہتے ہیں۔ یہ تارا کہاں سے نکل آیا۔ خدا تر نوالہ دے۔ خواہ سوکھا ٹکڑا۔ باپ کا ہاتھ بچوں کے رزق کا چمچہ بلکہ ان کی قسمت کا پیمانہ ہوتا ہے۔ جب بیرم خاں کے اقبال نے منہ پھیرا۔ اور اکبر رقیبوں کی باتوں میں آ کر دہلی میں آن بیٹھا۔ بیرم خاں آگرہ میں رہ گئے۔ یہیں سے نحوست کا آغاز سمجھنا چاہیے۔ حال یہ تھا کہ رفیق ساتھ چھوڑ چھوڑ کر دہلی چلے جاتے ہیں۔ عرضیاں جاتی ہیں۔ تو الٹے جواب آتے ہیں۔ عرض معروض کے لئے وکیل پہنچتا ہے۔ تو قید۔ دربار کے طور بے خبر۔ خبر آتی ہے تو وحشت ناک۔ بچہ معصوم ان رازوں کو نہ سمجھتا ہو گا۔ مگر اتنا تو ضرور دیکھتا ہو گا۔ کہ باپ کی مجلس میں رونق نہیں۔ وہ امرا اور درباریوں کی بھیڑ بھاڑ کیا ہو گئی۔ باپ کس فکر میں ہے۔ کہ میری طرف دیکھتا بھی نہیں۔ ۱؎۔ اکبر نامہ میں یہی ہے۔ تعجب ہے تاثر سے کہ کہتا ہے بڑی ہمایوں کے عقد میں تھی۔ بیرم خاں بیچار کیا کرے۔ کبھی بنگالہ کا ارادہ کرتا ہے۔ کبھی گجرات کا کہ حج کو چلا جائے۔ ادھر رستہ نہیںپاتا۔ راجپوتانہ کا رخ کرتا ہے۔ چند روز ادھر ادھر پھرتا ہے۔ آخر پنجاب کو آتا ہے۔ کچا ساتھ اپنے حال کو سنبھالے۔ کہ عیال و اطفال کو۔ آخر حرم سرا اور جواہر خانہ توشہ خانہ وغیرہ بہت سے لوازمات و اسباب کو بٹھنڈے میں چھوڑا ۔ اور آپ پنجاب میں آیا۔ بٹھنڈہ کا حاکم اپنا نمک پروردہ۔ خاک سے اٹھایا ہوا۔ ہاتھوں کا پالا ہوا۔ چھوٹے سے بڑا کر کے حکومت تک پہنچایا ہوا۔ اس نے امل و عیال کو ضبط کر کے روانہ دربار کر دیا۔ دہلی میں آکر سب قید۔ اسباب خزانہ میں داخل۔ وہ تین چار برس کا بچہ روز کی پریشانی اور بے سروسامانی اور گھر والوں کی سرگردانی۔ روز نئے شہر نئے جنگل دیکھ کر حیران ہو تا ہو گا۔ کہ یہ کیا عالم ہے۔ اور ہم کہاں ہیں۔ میری ہوا خوری کی سواریوں اور سب کی دلداریوں میں کیوں فرق آ گیا۔ جو لوگ ہاتھوں کی جگہ آنکھوں پر لیتے تھے۔ وہ کیا ہو گئے۔ اور اس حالت کی تصویر سے تو رونگٹے کھڑے ہوتے ہیں۔ کہ باپ دربار سے رخصت ہو کر حج کو لو چلا گیا۔ گجرات پٹن پر ڈیرے ہیں۔ ابھی سورج جھلکتا ہے۔ شام قریب ہے۔ خیال یہ کہ اب خانخاناں آتا ہے۔ خبر آئی۔ کہ وہ تو مارا گیا۔ اس کے مرتے ہی فوج میں طلاطم مچ گیا۔ پل کے پل میں گھر بار افغانوں نے لوٹ لیا۔ کوئی گٹھڑی لئے جاتا ہے۔ کوئی صندوقچہ۔ کسی نے مسند گھسیٹ لی۔ کوئی بچھونا لے چلا۔ اس بے کس مردے کے کپڑے تک اتار لئے۔ لاش بے جان کو کفن کون دے۔ کہ اپنی جان کا ہوش نہیں۔ وہ تین برس کی جان کیا کرتا ہو گا۔ سہم کر رہ جاتا ہو گا۔ ماں کی گود میں دبک جاتا ہو گا۔ ڈرتا ہو گا انا کے پاس چھپ جاتا ہو گا۔ افسوس وہ بے چاریاں کہاں چھپا لیں۔ کہ آپ ہی چھپنے کو جگہ نہیں ۔ الٰہی تیری پناہ۔ عجب وقت ہو گا۔ شام غریباں اسی شام کو کہتے ہیں۔ رات قیامت کی رات گذری ہو گی۔ دن ہوا تو روز محشر۔ محمد امین دیوانہ اور زنبور وغیرہ لشکروں کے لڑانے والے تھے۔ اس وقت کچھ نہ بن آتی تھی۔ پھر بھی ہزار رحمت ہے۔ کہ لئے قافلہ کو سمیٹتا ہے۔ اور احمد آباد کو اڑے جاتے ہیں۔ موقع پاتے ہیں۔ تو پلٹ کر ایک ہاتھ مار جاتے ہیں۔ اس وقت ان پا شکستہ عورتوں کو جن میں سلیمہ سلطان بیگم اور یہ تین برس کا بچہ بھی شامل ہے۔ لے نکلنا غنیمت ہے۔ لٹیرے اب بھی دست بردار نہیں ہوئے۔ پیچھے پیچھے لوٹتے مارتے چلے آتے ہیں۔ معصوم بچہ سہما ہوا ادھر ادھر دیکھتا ہے۔ اور رہ جاتا ہے۔ کون دلاسہ دے۔ اور دے تو ہوتا کیا ہے۔ الٰہی وہ وقت تو دشمن ہی کو نصیب کیجو۔ ان مصیبت زدوں نے لڑتے مرتے احمد آباد میں جا کر دم لیا۔ کئی دن میں گئے ہوئے حواس ٹھکانے آئے صلاح ہوئی۔ کہ دربار کے سوا پناہ نہیں ہے۔ پھر چلنا چاہیے۔ چنانچہ چار مہینے کے بعد ضروری سامان بہم پہنچا کر روانہ ہوئے۔ یہاں بھی خبر پہنچ گئی تھی۔ چغتائی دریا دلی اور اکبری عفو وکرم کے دریا میں لہر آئی۔ ان کے لئے فرمان بھیجا۔ خان خاناں کے مرنے کا رنج و الم اور ان کی تباہی کا افسوس تھا۔ ساتھ ہی بڑے دلاسے اور دلداری کے ساتھ لکھا تھا۔ کہ عبدالرحیم کو تسلی دو۔ اور بڑی خبرداری و ہوشیاری سے لے کر دربار میں حاضر ہو۔ یہ اطمینان کا تعویز انہیں جالور میں ملا۔ بڑا سہارا ہو گیا۔ ہمت بندھ گئی۔ اور حضور میں پہنچے۔ اس لئے قافلے کے واسطے وہ وقت عجب مایوسی اور حیرانی کا عالم ہو گا۔ جب کہ بابا زنبور سب تباہی زدوں کو لے کر آگرہ پہنچے ہوں گے۔ عورتوں کو محل میں اتارا ہو گا۔ اس یتیم بچے کو جس کا باپ ایک دن دربار کا مالک تھا۔ بادشاہ کے سامنے لا کر چھوڑ دیا ہو گا۔ اندر شکستہ پا عورتوں کے دل دھکڑ دھکڑ۔ ہر اس کے قدیمی نمک خوار دعائیں کرتے ہوں گے۔ کہ الٰہی باپ کی خدمتوں کو پیش نظر لائیو۔ آخری وقت کی باتوں کو دل سے بھلائیو۔ اس معصوم کے اور ہمارے حال پر مہربان رہیں۔ الٰہی سارا دربار دشمنوں سے ہی بھرا پڑا ہے۔ اس بن باپ کے بچہ کا کوئی نہیں۔ ہماری زندگی اور آئندہ کی بہبودی کا سہارا کون ہے۔ اگر ہے تو اسی بچہ کی جان ہے۔ تو ہی اسے پروان اور تو ہی اس بیل کو منڈھے چڑھائے گا۔ چغتائی سلسلہ میں ان چند بادشاہوں کا حال خط بخشی کے معاملے میں قابل تعریف ہے۔ دشمن بھی سامنے آتا تھا۔ تو آنکھ جھمک جاتی تھی۔ بلکہ اس کی جگہ خود شرمندہ ہو جاتے تھے۔ خطا کا ذکر نہ تھا۔ بھلا یہ تو بچہ معصوم تھا۔ وہ بھی بیرم کا بیٹا۔ جس وقت سامنے لائے۔ اکبر کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ گود میں اٹھا لیا۔ اس کے نوکروں کے لئے وظیفے اور تنخواہیں بیش قرار مقرر کیں۔ اور کہا کہ اس کے سامنے کوئی خان بابا کا ذکر نہ کیا کرو۔ بچہ ہے دل کڑھے گا۔ بابا زنبور نے رو کر کہا کہ حضور یہ بار بار پوچھتے ہیں۔ راتوں کو چونک اٹھتے ہیں کہ کہاں گئے۔ اب تک کیوں نہیں آئے۔ اکبر نے کہا کہ کہہ دیا کرو کہ حج کو گئے ہیں۔ خانۂ خدا میں پہنچ گئے۔ بچہ ہے۔ باتوں میں بہلا لیا کرو۔ دیکھو اسے ہر طرح خوش رکھو۔ اسے یہ نہ معلوم ہو کہ خان بابا سر پر نہیں۔ بابا زنبور! یہ ہمارا بیٹا ہے۔ اسے ہمارے پیش نظر رکھا کرو۔ ۹۶۹؁ھ میں یہ واجب الرحم بچہ دربار اکبری میں پہنچا تھا۔ اس کے باپ کے جانی دشمن اب ارکان دولت تھے۔ وہ یا ان کے خوشامدی ہر وقت حضور میں حاضر رہتے تھے۔ اکثر ایسے تذکرے کرتے تھے۔ جن سے بیرم خاں کی باتیں اکبر کو یاد آ جائیں۔ اور اس کی طرف سے دل کھٹک جائے۔ اکثر ان میں سے کھلم کھلا سمجھاتے تھے۔ لیکن اکبر کی نیک نیتی اور اس لڑکے کا اقبال تھا۔ کچھ بھی نہ ہوتا تھا۔ بلکہ غیروں کے دل میں ان باتوں سے رحم پیدا ہوتا تھا۔ اکبر اسے مرزا خاں کہا کرتا تھا۔ کہ ابتدائی ذکر میں اسے اہل تاریخ اکثر مرزا خاں ہی لکھتے ہیں۔ ہونہار لڑکا اکبری سایہ میں پرورش پانے لگا۔ اور بڑا ہو کر ایسا نکلا۔ کہ مؤرخ اس کی لیاقت علمی کی گواہی دیتے ہیں۔ بلکہ علمیت سے زیادہ تیزی فکر اور قوت حافظہ کی تعریف لکھتے ہیں۔ علوم و فنون کی کیفیت اور اثنائے تحصیل اور حد تحصیل کی شرح کسی نے نہیں کھولی۔ قرینہ سے معلوم ہوتا ہے۔ کہ اس نے ابتدائے عمر کو اور امیر زادوں کی طرح کھیل کود میں برباد نہیں کیا۔ کیونکہ جب وہ بڑا ہوا۔ نو علما کا قدردان تھا۔ اہل تصنیف اور شعرا کو عزیز رکھتا تھا۔ خود بھی شاعر تھا۔ زبان عربی سے واقف تھا۔ اور بے تکلف بولتا تھا۔ زبان ترکی اور فارسی جو اس کے باپ دادا کی میراث تھی۔ اسے جانے نہ دیا حاضر جواب۔ لطیفہ گو۔ بذلہ سنج ۔ بلبل ہزار داستان تھا۔ سنسکرت میں بھی اچھی لیاقت حاصل کی تھی۔ فن جنگ میں اعلیٰ درجہ کی لیاقت رکھتا تھا۔ اس کے باپ کے چند وفادار جاں نثار ساتھ تھے۔ جو محبت کی زنجیروں سے جکڑے ہوئے تھے۔ اور اپنی قسمتوں کو اس ہونہار بااقبال کے ہاتھ بیچے بیٹھے تھے۔ اس امید پر کہ اس کے ہاں مینہ برسے گا تو ہمارے گھر میںبھی پرنالے گریں گے۔ حرم سرا میں کچھ شریف زادیاں اور پرستاریں تھیں جو وفاداری کے ساتھ بیکسی اور بے بسی کی چادروں میں لپٹی بیٹھی تھیں۔ حسرت و ارمان امید و ناامیدی ان کے خیالوں میں ایک طلسمات بناتی تھی۔ ایک بگاڑتی تھی۔ بادشاہی دربار خدائی عجائب خانہ تھا۔ امیر اور سردار کہ وہاں سے جواہر کی پتلیاں بن کر نکلتے تھے۔ اس کے رفیق دیکھتے تھے۔ اور رہ جاتے تھے۔ دل میں کہتے تھے۔ کہ ایک دن اس کا باپ جس کو چاہتا تھا۔ اسے جواہرات اور موتیوں میں چھپا دیتا تھا۔ کاش بیٹا ایسے انعاموں میں ہی شامل ہو جائے۔ اس میں سب قدرت ہے۔ وہ چاہے تو پھر وہی تماشا دکھائے۔ دن ۔ رات۔ صبح۔ شام۔ آدھی رات آسمان کی طرف ہاتھ تھے۔ اور خدا کی طرف دھیان تھے۔ دل آمین آمین کہہ رہے تھے۔ مرزا خاں نہایت حسین تھا۔ باہر نکلتا تھا۔ تو رستہ کے لوگ دیکھتے رہ جاتے تھے۔ ناواقف خواہ مخواہ پوچھتے تھے۔ کہ یہ کون خانزادہ ہے۔ مصور اس کی تصویریں اتارتے تھے۔ امیر اپنے مکانوں اور دیوانخانوں کو سجاتے تھے۔ بادشاہ بھی اپنے دربار اور مجلس کا سنگار سمجھتے تھے۔ بیرم خاں کے خوان کرم کے سینکڑوں نہ تھے۔ ہزاروں کھانے والے تھے۔ کوئی وفا کا بندہ۔ کوئی زمانے کا مارا۔ کوئی عالم۔ کوئی شاعر۔ کوئی اہل کمال جو اسے دیکھتا۔ اور نام سنتا۔ آتا اور دعائیں دیتا ۔ بیٹھتا اور اس کا مختصر دیوانخانہ متوسط حالت دیکھ کر باپ کے جاہ و جلال اور نیکیاں یاد کرتا۔ اور آنکھوں میںآنسو بھر لاتا۔ ان لوگوں کی ایک ایک بات اس کے اور اس کے رفیقوں کے لئے مرثیوں کا کام کرتی تھی۔ اور خون کے آنسو کر کے بہاتی تھی۔ جب بادشاہ کے ساتھ دہلی۔ آگرہ۔ لاہور وغیرہ میں اس کا گذر ہوتا۔ بڈھے بڈھے دستکاروں کے تحفے۔ مصوروں کی تصویریں۔ مالیوں کی ڈالیوں سے اس کے حرم سرا میں دو کیفیتیں پیدا ہوتی تھیں۔ کبھی مایوسی اور تاسف کہ ہائے کیا لیں۔ جبکہ لانے والوں کو ان کے لائق نہ دے سکیں۔ کبھی ان کا لانا ایک مبارک شگون کا رنگ دکھاتا تھا۔ خیال آتا تھا کہ اس تحفے کی آب و تاب سے معلوم ہوتا ہے۔ کہ ہمارا بھی رنگ پلٹے گا۔ اور دلوں کی افسردگی پر شادابی شبنم چھڑکے گی۔ اکبر خوب جانتا تھا کہ ماہم خیل والے امرا اور دربار کے کون کون سے سردار ہیں جو اس سے اور اس کے باپ سے ذاتی عناد رکھتے ہیں۔ اس واسطے ماہ بانو بیگم خان اعظم مرزا عزیز کوکلتاش کی بہن سے مرزا خان کی شادی کر دی۔ تاکہ اس کی حمایت کے لئے بھی دربار میں تاثیر پھیلے۔ ۹۷۳؁ھ میں اس کے میدان خوش نصیبی میں ایک مبارک شگون کا جلوہ نظر آیا۔ اکبر خان زمان کی مہم پر تھا۔ اس نے عفو تقصیر کے لئے التجا کی۔ اور پنجاب سے خبر پہنچی تھی۔ کہ محمد حکیم مرزا کابل سے فوج لے کر آیا ہے۔ لاہور تک پہنچ گیا ہے۔ اکبر نے خان زمان کی خطا معاف کر کے ملک اس کا برقرار رکھا۔ اور آپ پنجاب کے بندوبست کے لئے چلا۔ مرزا خاں کو خلعت و منصب عطا کر کے منعم خاں خطاب دیا۔ (حالانکہ منعم خاں زندہ موجود) اور چند امرا صاحب تدبیر کے ساتھ آگرہ کو رخصت کیا۔ کہ دارالسلطنت کے انتظام اور حفاظت میں سرگرم رہیں۔ آزاد اس میں دو پہلو تھے۔ اول یہ کہ سننے والے صورت نہیں دیکھتے۔ جو کہیں کہ بڈھا منعم خاں نو برس کا کیونکر ہو گیا۔ ہاں رعب قائم ہو گیا۔ کہ کہن سال کاردار گھر پر موجود ہے۔ خان خاناں کا لفظ بھی خوب ہے۔ باپ اور بیٹے میں کچھ دور کا فرق نہیں۔ مصالح سلطنت کے لفظوں کو دیکھو۔ یہی پیچ ہیں۔ جنہیں آج کل کے لوگ ملکی پالیسی کہتے ہیں۔ اگر نیکی کی غرض اور نیک نیتی کی بنیاد پر ہو۔ تو مصلحت ملک اور دروغ مصلحت آمیز ہے۔ ہاں خود غرضی اور آزار خلائق نظر ہو۔ تو دغا اور فریب ہے۔ اس کے ستارہ طلوع یا جوہر مردانگی کی چمک تیرھویں صدی میں ہر خاص و عام کو نظر آئی جب کہ ۹۸۰؁ھ میں خان اعظم مرزا عزیز کو کہ احمد آباد گجرات میںمحصور ہوا۔ اور اکبر دو مہینے کی منزلیں سات دن میں طے کر کے گجرات پر جا کھڑا ہوا۔ بڑے بڑے کہنہ عمل سردار رہ گئے۔ ۱۳ برس کے لڑکے کی کیا بساط ہونی تھی۔ وہ قدم بقدم بادشاہ کے ہمرکاب تھا۔ اس کے دل کا جوش اور بہادری کی امنگ دیکھ کر اکبر نے اسے قل (قلب لشکر) میں قائم کیا۔ جو عمدہ سپہ سالاروں کی جگہ ہے۔ اب وہ اس قابل ہوا۔ کہ ہر وقت دربار میں رہنے لگا۔ اور کاروبار حضور کا سرانجام کرنے لگا۔ اکثر کاموں کے لئے بادشاہ کی زبان پر اسی کا نام آنے لگا۔ اور اسی کی جیب بھی ہاتھ ڈالنے کے قابل رہنے لگی۔ آزاد ۔ نوجوانو ناتجربہ کارو سنتے ہو۔ یہی موقع اس کے لئے نازک وقت تھا۔ یاد رہے۔ امیر زادے شریف زادے جو بدراہ ہوتے ہیں۔ ان کی خرابی کا پہلا مقام یہی ہے۔ ہاں اس کی خوش اقبالی کہو یا باپ کی نیک نیتی کہ یہی موقع اس کے لئے آغاز ترقی کا نقطہ ہوا۔ میں نے بزرگوں سے سنا۔ اور خود دیکھا۔ کہ باپ کا کیا بیٹے کے آگے آتا ہے۔ اور اس کی نیت کا پھل اسے ضرور ملتا ہے۔ چنانچہ جو روپیہ مرزا خاں کے پاس آتا تھا۔ یہ اس سے دستر خوان کو وسعت دیتا تھا۔ اپنی شان سواری اور رونق درباری کو بڑھاتا تھا۔ اہل علم و اہل کمال آتے تھے۔ بیرم خانی انعام تو نہ دے سکتا تھا۔ لیکن جو دیتا تھا۔ اس خوبصورتی سے دیتا تھا۔ کہ اس کے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں کا دیا دلوں پر بڑی بڑی بخششوں کا اثر پیدا کرتا تھا۔ اس بیان میں اس کے نمک خواروں اور وفاداروں کی تعریف کو نہ بھولنا چاہیے۔ کہ اس کے سلیقہ اور لیاقت کے امتحان کا وقت یہ تھا۔ جس کے وہ برسوں کے منتظر تھے۔ بیشک وہ امتحان میں پورے اترے۔ انہیں کی دانش و دانائی تھی۔ کہ ہر کام میں تھوڑی سی چیز میں بڑا پھیلائو دکھاتے تھے۔ روپیہ خرچتے تھے۔ اور اشرفیوں کے رنگ نظر آتے تھے۔ اور یہی باتیں اس زمانہ میں امرا کے واسطے دربار میں ترقی مناصب کے لئے سفارش کیا کرتی تھیں۔ ایشیائی حکومتوں کا قدیمی آئین تھا۔ کہ جس شخص کا سامان امیرانہ اور دستر خوان وسیع دیکھتے تھے۔ اسی کو زیادہ تر جلد ترقی دیتے تھے۔ ۹۸۳؁ھ میں اکبر نے احمد آباد کی حکومت مرزا کوکہ کو دینی چاہی۔ وہ ضدی امیر زادہ اڑ گیا۔ اور بگڑ بیٹھا۔ کہ مجھے ہر گز منظور نہیں۔ مقام مذکور سرحد کا موقع تھا۔ اور ہمیشہ بغاوتوں اور فسادوں کی گھڑ دوڑ سے پامال رہتا تھا۔ اکبر نے خدمت مذکور اس نوجوان کو عنایت کی۔ اور اس نے کمال شکریہ کے ساتھ قبول کی۔ اس وقت اس کی عمر انیس بیس برس کی ہو گی۔ بادشاہ نے حسب تفصیل ذیل چار امیر تجربہ کار کہ دولت اکبری کے نمک پروردۂ قدیم تھے۔ اس کے ساتھ کئے اور سمجھا دیا۔ کہ عنفوان شباب ہے۔ اور اول خدمت ہے۔ جو کام کرنا وزیر خاں کی صلاح سے کرنا۔ یہ اس خاندان کے بندہ ہائے قدیمی سے ہے۔ میر علاء الدولہ قزوینی کو آمینی۔ پیاکداس کوکہ حساب دانی میں فرو تھا۔ دیوانی سید مظفر بارہا کو بخشی گری فوج پر معزز کیا۔ ۹۸۶؁ھ میں شہباز خاں کو ملمیر علاقہ رانا پر فوج لے کر چڑھا۔ مرزا خاں بموجب اس کی درخواست کے مدد کو پہنچے۔ چنانچہ قلعہ مذکور اور قلعہ کوکندہ اور اودے پور افواج شاہی کے قبضہ میں آئے۔ رانا ایسا پہاڑوں میں بھاگ گیا۔ کہ شہباز خاں باز کی طرح اڑا۔ دو اسپہ سواروں کے لئے جریدہ اس کے پیچھے پیچھے پھرا۔ مگر وہ ہاتھ نہ آیا۔ البتہ دود اسپہ سالار اس کا حاضر دربار ہو کر گرفتار ہوا۔ اور خطا معاف ہوئی۔ خانخاناں کبھی اپنے علاقہ میں کبھی دربار میں کبھی متفرق خدمتیں بجا لاتا تھا۔ اور جوہر قابلیت دکھاتا تھا۔ ۹۸۸؁ھ میں اس کی سیر چشمی اور خدا ترسی اور اعتبار اور علو حوصلہ پر نظر کر کے عرض بیگی کی خدمت سپرد کی۔ کہ حاجتمندوں کی عرض معروض حضور میں اور حضور کے احکام انہیں پہنچائے۔ اسی سنہ میں صوبہ اجمیر کے علاقے میں فساد ہوا۔ رستم خان صوبہ دار اجمیر مارا گیا۔ اس میں راجگان کچھواہہ کی سر شوری بھی شامل تھی۔ کہ راجہ مان سنگھ کے بھائی بند تھے۔ اکبر کو ہر پہلو کا خیال رہتا تھا۔ چنانچہ رنتھنبور خان خاناں کی جاگیر میں دے کر حکم دیا کہ فتنہ کو فرو کرے۔ اور مفسدوں کو فساد کی سزا دے۔ ۹۹۰؁ ھ میں جبکہ شاہزادہ سلیم (یعنی جہانگیر) کی عمر بارہ تیرہ برس کی ہو گی۔ اور خانخاناں ۲۸ برس کا ہو گا۔ اسے شہزادہ کا اتالیق مقرر کیا۔ آزاد اکثر ریاستوں میں سنتا ہوں۔ کہ راجہ خورد سال ہے۔ فلاں شخص کو سرکار نے ٹیوٹر اتالیق مقرر کر کے بھیجا ہے۔ اس مقام پر ضرور چند منٹ ٹھیرنا چاہیے۔ اور اس زمانہ کے اتالیق اور آج کے ٹیوٹر صاحب کو مقابلہ کر کے دیکھ لینا چاہیے۔ کہ عہد سلف کے سلاطین اتالیق میں کیا کیا صفتیں دیکھ لیتے تھے۔ سرکار جو باتیں آج دیکھتی ہے۔ وہ تو سب ہی دیکھ رہے ہیں۔ وہ لوگ اول یہ دیکھتے تھے۔ کہ اتالیق خود رئیس ہو۔ اور خاندان شرافت و ریاست سے ہو۔ رئیس کا لفظ ہی آج تک سب کی زبان پر ہے۔ مگر میں دیکھتا ہوں۔ اس عہد میں تفصیل اس کی بہت شرح طلب ہے۔ ہمارے شاہان وقت تو اس سے اتنا ہی مطلب رکھتے ہیں۔ کہ ایک شخص نے مہم حبش یا کابل پر جا کر کبھی سڑک یا عمارت کا ٹھیکہ لے کر ۔ کبھی نہر کی نوکری کر کے بہت سا روپیہ کما لیا ہو۔ وہ اپنے گھر بیٹھا ہے۔ بگھی پر چڑھ کر ہوا کھاتا ہے۔ جب شاہزادہ عالم ولایت سے آتے ہیں۔ یا کوئی لاٹ صاحب جاتے ہیں۔ یا صاحب کمشنر ایک گنج بناتے ہیں۔ اس میں سب سے زیادہ چندہ دیتا ہے۔ یہ سرکار میں رئیس ہے۔ اور اسے دربار میں کرسی ملنے کا بھی حکم ہے۔ صاحب ڈپٹی کمشنر نے ایک موری ایسی نکالی۔ کہ جس میں تمام شہر کی کثافت نکل جائے۔ اس نے اس میں پہلے سے بھی زیادہ چندہ دیا۔ بس یہ بڑا صاحب ہمت رئیس ہے۔ اسے خان بہادر یا رائے بہادر کا خطاب بھی ملنا چاہیے۔ اور میونسپل ممبر بھی ہو۔ اور آنریری مجسٹریٹ بھی۔ اگر کوئی تحصیلدار یا سرشتہ دار جتاتا ہے۔ کہ خداوند اس میں اہل خاندان اور اہل ریاست کی دل شکنی ہو گی۔ صاحب کہتے ہیں۔ اول یہ ہمت والا لوگ ہے۔ یہ رئیس ہے۔ اگر وہ رئیس ہونا چاہتے ہیں۔ تو ہمت دکھائیں۔ ہم اسے ستارۂ ہند بنائیں گے۔ تب وہ دیکھیں گے۔ نئے رئیس کا یہ عالم ہے۔ کہ جب گھر سے نکلتے ہیں۔ تو چاروں طرف دیکھتے ہوئے کہ ہمیں کون کون سلام کرتا ہے۔ اور سب کیوں نہیں کرتے۔ خصوصاً جن لوگوں کو خاندانی سمجھتے ہیں۔ انہیں زیادہ تر دباتے ہیں۔ اور سمجھتے ہیں کہ ہماری ریاست جبھی ثابت ہو گی۔ جب یہ جھک کر سلام کریں گے۔ اب مجسٹریٹی شہر کا انتظام ان کے ہاتھ میں ہے۔ سب کو جھکنا واجب پڑا۔ نہ جھکیں تو رہیں کہاں۔ مگر ان کی شیخیوں اور نمودوں اور بار بار کے دبائو دکھانے سے فقط خاندانی ہی تنگ نہیں بلکہ اہل محلہ تنگ ہیں۔ جنہوں نے اصل خاندانیوں کے بزرگوں کو دیکھا ہے۔ وہ انہیں یاد کر کے روتے ہیں۔ اور جوبھول گئے تھے۔ ان کے دلوں میں محبت کے مٹے ہوئے چراغ روشن ہو جاتے ہیں۔ اہل نظر نے ایسے رئیسوں کا انگریزی رئیس اور انگریزی اشراف نام رکھا ہے۔ آج کل رئیس کا لفظ کبھی کبھی اپنے جلسوں میں بھی ہمارے کانوں تک پہنچتا ہے۔ یہ کیفیت بھی سننے کے قابل ہے۔ مثلاً دو بزرگ سفید پوش ایک جلسہ میں آئے۔ ایک میر صاحب ایک مرزا صاحب آئیے ۔ تشریف رکھئے۔ میر صاحب اہل جلسہ سے کہتے ہیں۔ جناب آپ نے ہمارے مرزا صاحب سے ملاقات کی؟ حضرت مجھے تعارف نہیں۔ جناب آپ دہلی کے رئیس ہیں۔ مرزا صاحب ایک طرف دیکھ کر کہتے ہیں۔ قبلہ ہمارے میر صاحب سے آپ کی ملاقات اب تک نہیں ہوئی؟ جناب بندہ تو محروم ہے۔ آپ لکھنؤ کے رئیس ہیں۔ اب لکھنؤ میں جا کر پوچھئے۔ میر صاحب کہاں رہتے ہیں۔ کچھ ہو ں تو پتا لگے۔ ماں ٹینی باپ کلنگ بچے دیکھو رنگ برنگ۔ لاحول ولا قوۃ الا باللہ۔ مرزا صاحب کو دہلی میں ڈھونڈئیے تو باپ دنیا ماں پدنیا۔ بیٹا مرزا نینا۔ نئی روشنی اصلیت کا اندھیر جو چاہے بن جائیے۔ اب وہ بھی سن لو کہ بزرگان سلف رئیس کسے کہتے تھے ۔ اور شاہان سلف رئیسوں پر کیوں جان دیتے تھے۔ (۱) میرے دوستو تمہارے بزرگ رئیس اسے کہتے تھے۔ کہ شریف نجیب الطرفین ہو۔ یہ داغ دامن پر نہ ہو۔ کہ ماں لونڈی تھی۔ یا دادا نے ڈومنی گھر میں ڈالی تھی۔ یاد رکھنا ہزار دولتمند صاحب دستگاہ ہو۔ دغیلے آدمی کا وقار لوگوں کی نظروں میں نہیں ہوتا۔ ذرا سی بات دیکھتے ہیں۔ صاف کہہ بیٹھتے ہیں۔ میاں کیا ہے۔ آخر ڈومنی بچہ ہی ہے نہ۔ ایک کہتا ہے۔ میاں نواب زادہ ہے۔ تو کیا ہے۔ ہونڈی کی یہی تو رگ ہے۔ اثر آوے ہی آوے۔ پرستار زادہ نیاید بکار اگرچہ بود زادۂ شہریار (۲) رئیس کے لئے یہ بھی واجب تھا۔ کہ وہ بھی اور اس کے بزرگ بھی صاحب دولت ہوں۔ ان کا ہاتھ سخاوت کا پیمانہ ہو۔ اور لوگوں کا ہاتھ ان کے دست فیض کے نیچے رہا ہو۔ اگر غریب کا بیٹا تھا۔ اب صاحب دولت ہو گیا تو اسے کوئی خاطر میں نہ لائے گا۔ وہ کسی موقع پر شادی و مہمانی میں کھلانے کھانے میں۔ لینے دینے میں۔ بلکہ ایک مکان کے بنانے میں اگر مصلحتاً بھی کفایت شعاری کرے گا۔ تو کہنے والے ضرور کہہ دیں گے۔ صاحب یہ کیا جانے۔ کبھی باپ دادا نے کیا ہوتا تو جانتا۔ کبھی کچھ دیکھا ہوتا تو جانتا۔ ہر کہنہ گدائے کہ تونگر باشد صد سال از و بوئے گدائی نہ رود (۳) اس کے لئے یہ بھی واجب تھا۔ کہ آپ سخی ہو۔ کھانے کھلانے والا ہو۔ فیض رساں اور لوگوں سے نیکی کرنے والا ہو۔ اگر بخیل ہے۔ اور باوجود اختیار کے لوگوں کو اس سے کوئی فائدہ نہیں پہنچتا۔ تو اسے بھی کوئی خاطر میں نہ لائے گا۔ صاف کہہ دیں گے۔ ع بے فیض اگر حاتم ثانی ہے تو کیا ہے دولت ہے تو اپنے گھر میں لئے بیٹھا رہے ہمیں کیا۔ ؎ سیراب نہ ہو جس سے کوئی تشنہ مقصود اے ذوق جو وہ آب بقا بھی ہے تو کیا ہے (۴)اس کے لئے یہ بھی واجب تھا۔ کہ نیک اطوار خوش اعمال ہو۔ بدچلن آدمی ہزار دولت والا ہو۔ لوگوں کی آنکھوں میں ذلیل ہی ہوتا ہے۔ اس کی دولت آنکھوںمیں نہیں جچتی۔ اس پر بھروسا نہیں کرتے۔ اچھا ان باتوں سے غرض کیا تھی۔ کہ شاہان سلف اور اہل شرف ان اوصاف کو ڈھونڈتے تھے۔ بات یہ ہے کہ جو شخص ان اوصاف کے ساتھ امیر ہو گا۔ اور اس کے باپ دادا بھی امیر ہوں گے اس کے کلام اور اس کے کام کو تمام لوگوں کی نگاہوں اور دلوں میں بھی وقعت اور وقار ہو گا۔ سب اس کا لحاظ کریں گے۔ اور اس کے کہنے سے عدول کرنے کو ان کے دل گوارا نہیں کریں گے۔ ایسے ایک شخص کو اپنا کر لینا گویا ایک انبوہ کثیر پر قبضہ کر لینا ہے۔ وہ جہاں جا کھڑا ہو گا۔ جماعت کثیر آ کھڑی ہو گی۔ وقت پر جو کار سلطنت کے اس سے نکلیں گے۔ کمینے دولت مند سے نہ نکلیں گے۔ کمینے کا ساتھ کون دیتا ہے۔ اور جب یہ بات نہیں۔ تو بادشاہ اسے لے کر کیا کرے۔ (۵) اس کے لئے یہ بھی واجب تھا کہ فضیلت علمی کے لحاظ سے عالم فاصل نہ ہو مگر ملک کی زبانہائے علمی سے واقف ہو۔ اگر ایشیائی ملکوں میں ہے۔ تو زبان عربی و فارسی کی معمولی کتابیں پڑھا ہو۔ علوم و فنون مشہورہ کی ہر ایک شاخ سے باخبر ہو۔ خود کمالات کا شائق ہو۔ اور ان کے ذکر و اذکار سے لطف اٹھاتا ہو۔ کیونکہ بے علم اور بے لکطف آدمی جس کا دل و دماغ اس نور سے روشن نہ ہو گا۔ وہ شاگرد کے دماغ کو کیا روشن کرے گا۔ جس کو ملک کا بادشاہ ہونا ہے۔ اور کشور اور اہل کشور کے دماغوں کو اس سے روشن کرنا ہے۔ اگر اتالیق کا دل علوم کے تذکروں سے لطف اٹھاتا ہو گا۔ اور علم کی بات سن کر دل چٹخارا بھرتا ہو گا۔ تو شاگرد کے دل میں بھی اس کی تاثیر دوڑا سکے گا۔ اور ہمیشہ اس کے دلچسپ چرچے رکھے گا۔ خود مزا نہ ہو گا۔ تو روکھی سوکھی خالی عبارتوں کی بک بک سے شاگرد کے دل کو کیا مائل کرے گا۔ اور وہ مائل ہی کب ہو گا۔ علمی مطالب اس کے سامنے ایسے ڈھب سے پیش کرے۔ کہ جس طرح مزے کی چیز کھا کر یا خوشبو سونگھ کر یا خوش رنگ پھول دیکھ کر مزا آتا ہے۔ اسی طرح علمی مسائل سن کر مزا آئے۔ اور تم خوب سمجھ لو۔ جب تک علم کا مزا نہیں تب تک کچھ آنا ممکن ہی نہیں۔ جسے یہ نہیں اسے علم کی قدر کیا ہو گی۔ اور اہل علم کی قدر کیا ہو گی۔ اور وہ اپنے ملک میں علم و کمال کب پھیلا سکے گا۔ اہل کمال اس کے دربار میں کیا جمع ہو سکیں گے۔ اور یہ نہیں تو سلطنت نہیں۔ اس زمانہ میں مذہبی اور علمی زبان عربی تھی۔ نیم علمی زبان یعنی درباری۔ دفتری اور مراسلات کی زبان فارسی تھی۔ ترکی کی بڑی عزت تھی۔ اور نہایت کارآمد تھی۔ جیسے آج انگریزی۔ کیونکہ بادشاہ وقت کی زبان تھی۔ تمام امرا… جو ماوراء النہری تھے۔ ان کی بھی اور اہل فوج کی ترکی زبان تھی۔ ایرانی بھی ترکی بولتے تھے۔ا ورسمجھتے تو سب تھے۔ اکبر خود بہت خوب ترکی بولتا تھا۔ خان خاناں اگرچہ یہاں پیدا ہوا اور یہیں پلا تھا۔ مگر ترکمان کی ہڈی تھی۔ اور باپ کے نمک حلال وفاداروں کی گود میں پرورش پائی تھی۔ اس لئے ترکی خوب بولتا تھا۔ یہ بھی سن لو کہ تمہارے بزرگ انسان کو کسی زبان کا زبان داں اسی وقت سمجھتے تھے۔ کہ جب وہ اہل زبان کے ساتھ تحریر تقریر رہنے سہنے، بیٹھنے اٹھنے میں فقط کارروائی نہ کر سکے۔ بلکہ اس فصاحت اور مہارت کے ساتھ گذران کرے۔ جس طرح خود صاحب زبان بولتے تھے۔ یہ نہیں کہ نواب صاحب عربی جانتے ہیں۔ مزاجکم طیب؟ الحمد للہ۔ کیف حالکم؟ وانت طیب؟ چند الٹے سیدھے فقرے یاد کر لئے۔ آئیں بائیں شائیں بتایا۔ اور زبان داں ہو گئے۔ صاحب آپ کے زبانیں جانتے ہیں۔ ول ۳۵۔ بات کرو تو ایک فقرہ صحیح نہیں بول سکتے لکھوائو تو ایک سطر ٹھیک نہیں لکھ سکتے۔ ایک صاحب نے ملتان کی زبان میں گفتگو کی کتاب بنائی۔ دو ہزار روپیہ انعام پائے۔ خود گفتگو سنو۔ تو دم بخود۔ ایک صاحب نے بلوچی زبان کی ایک کتاب بنائی۔ بات کرو تو دیدم ولے نہ گویم۔ اس زمانے کے لوگ اسے زبان دانی نہ سمجھتے تھے۔ میرے دوستو! اتالیق کی علمیت کے ساتھ اتنا اور یاد رکھو۔ کہ وہ فقط پڑھا ہی نہ ہو۔ پڑھا بھی ہو اور گنا بھی ہو۔ تم جانتے ہو! پڑھنا کیا ہے؟ اور گنا کیا ہے۔ پڑھنا تو یہی ہے۔ کتابوں کے پٹھوں میں جو کاغذ سفید ہیں۔ اور ان پر جو کچھ سیاہ لکھا ہے۔ وہ پڑھ لیا۔ گنا میں تمہیں کیا بتائوں؟ وہ تو ایک ایسی شے ہے۔ کہ اس کی کیفیت بیان میں نہیں آ سکتی۔ ع ملا شدن چہ آساں آدم شدن چہ مشکل اچھا۔ میں بے گنے لوگوں کے کچھ پتے دیتا ہوں۔ انہیں سمجھ لو۔ گنے کو تم آپ پہچان لو گے۔ دیکھ لو بے گنے لوگ یہی ہیں۔ جنہیں تم دیکھتے ہو۔ کہ کتابیں ورق کے ورق پڑھے جاتے ہیں۔ ایک بچارے کو چھینک آئی۔ کہہ دیا کافر۔ کھانا کھا کر ڈکار لی۔ کہہ دیا کافر۔ لاحول ولا قوۃ۔ ایمان کیا ہوا کچا سوت ہوا۔ کہ ٹھیس لگی ٹوٹ گیا۔ ایسا اتالیق ہو۔ تو ایک ہفتہ میں سارا ملک صاف ہے۔ استاد رہے شاگرد رہے۔ باقی اللہ اللہ۔ شاہان گذشتہ اور امرائے سلف علوم کے ذیل میں علم اخلاق۔ تاریخ دانی، ہیئت۔ نجوم۔ رمل۔ شاعری۔ انشا پردازی۔ خوشنویسی۔ مصوری وغیرہ وغیرہ فنون کے اجزا کامل سمجھ کر بڑی کوشش سے حاصل کرتے تھے۔ اور جو لوگ ان باتوں میں کمال رکھتے تھے۔ ان کی عزت و توقیر کرتے تھے۔ خود بھی ان باتوں میں کمال یا اچھی مداخلت پیدا کرتے تھے۔ تاکہ بھلے برے کو پرکھ سکیں۔ شہسواری۔ تیر اندازی۔ نیزہ بازی۔ شمشیر زنی وغیرہ وغیرہ فنون سپاہ گری میں اعلیٰ درجہ کی مشق پیدا کرتے تھے۔ صید افگنی کو ذریعۂ مشق رکھا تھا۔ مگر یہ ہنر اکبر ہی کے وقت تک کارآمد رہے۔ کیونکہ وہی تھا۔ جو یلغار کر کے فوج لے جاتا تھا۔ اور دفعتہ دشمن کی چھاتی پر جا کھڑا ہوتا تھا۔ میدان جنگ میں خود کھڑے ہو کر فوج کو لڑاتا تھا۔ اور آپ تلوار پکڑ کر حملہ کرتا تھا۔ گھوڑا دریا میں ڈالتا تھا۔ اور اتر جاتا تھا۔ پھر کوئی بادشاہ اس طرح نہیں لڑا۔ آرام طلب ہو گئے۔ خوشامدی کہتے ہیں۔ حضور آپ کا اقبال مارے گا۔ حضور بیٹھے وش ہو رہے ہیں۔ کچھ شق نہیں۔ کہ شکار اور فنون مذکورہ جب تک اس غرض سے ہیں تب تک ہنر یا کمال جو کہو درست۔ یہ نہ ہو تو وہی عالمگیر کا قول۔ شکار کار بیکار انست۔ علم مجلس کہ جزئیات مذکورہ کی معلومات کے بعد حاصل ہوتا ہے۔ اس کا جزو اعظم فصاحت کلام اور حسن تدبیر ہے۔ اور وہ ایک خداداد امر ہے۔ جسے خدا دے۔ ایک عالم فاضل آدمی ایک مطلب کو بیان کرتا ہے۔ کسی کو خبر بھی نہیں ہوتی۔ کہ کیا کہا۔ ایک معمولی پڑھا لکھا آدمی کسی دربار یا جلسہ میں اس طرح بات کہتا ہے۔ کہ بے علم نوکروں کے کان بھی ادھر ہی لگ جاتے ہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ وقت اور موقع کلام کو پہچانے۔ آنکھوں کے رستہ دل میں اتر جائے۔ ہر ایک کی طبیعت کا انداز پائے۔ اس کے بموجب اپنے مطالب کو لباس تقریر پہنائے۔ اور رنگ بیان چڑھائے۔ غلام ہوں ان صاحب کمال سحر بیانیوں کا کہ ایک بھرے جلسہ میں تقریر کر رہے ہیں۔ مختلف الرائے مختلف خیال مختلف مذہب کے لوگ بیٹھے ہیں۔ مگر ان کی تقریر کا ایک نقطہ بھی کسی دل پر ناگوار ہو کر نہیں کھٹکتا۔ ایک خوانچے والے کا لڑکا یا ایک جلاہے کا بیٹا مسجد میں رہ کر عالم فاضل ہو گیا۔ یا کالج میں پڑھ کر بی اے۔ ایم اے ہو گیا تو ہوا کرے۔ مقاصد مذکورۂ بالا اور علم مجلس اور آداب محفل کی اس غریب کو کیا خبر۔ وہ آپ ہی نہیں جانتا۔ شاگرد کو کیا سکھائے۔ درباروں سرکاروں کی ڈیوڑھی تک اس کے باپ دادا کو جانا نصیب نہیں ہوا۔ وہ بچارا وہاں کی باتیں کیا جانے۔ اور کہیں لکھا دیکھ کر یا سن سنا کر معلوم بھی کر لیا۔ تو کیا ہوتا ہے۔ یہ کہاں اور وہ لوگ کہاں! جو اسی دریا کی مچھلی تھے۔ بزرگوں کے ساتھ تیر کر بڑے ہوئے تھے۔ ان کا دل کھلا ہوا تھا۔ ان کو وقت پر قواعد و آداب کے سوچنے کی ضرورت نہ تھی۔ اپنے موقع پر خود بخود اعضا میں وہی حرکت پیدا ہو جاتی تھی۔ اب بھی نئے روشن ضمیر نو تعلیم یافتہ کہیں جا پہنچتے ہیں۔ تو سلام کرنا بھی نہیں آتا۔ میرے دوستو! ان کے ہوش بجا نہیں رہتے۔ چلتے ہیں۔ قدم ٹھکانے نہیں پڑتا۔ اور نظر باز بھی وہیں کنارے کھڑے ہیں۔ بات بات کو پرکھ رہے ہیںکہ یہاں چوکا وہاں بھولا۔ یہ ٹھوکر کھائی۔ وہ گر پڑا۔ پھر صاف کہہ دیتے ہیں کہ مولوی صاحب خواہ بابو صاحب ٹکسال باہر ہیں۔ خیر اب نہ وہ دربار نہ وہ سرکار ۔ جہاں ٹوٹا پھوٹا کارخانہ ہے۔ اس کا رنگ بدلتا جاتا ہے۔ خوب ہوا۔ خدا نے سب کا پردہ رکھ لیا۔ دیکھنے کے قابل یہ امر ہے۔ کہ ہونہار نوجوان نے اپنے علوم و فنون ۔ اوصاف کمالات۔ آداب و خلاق ۔ عادات و اطوار متانت و سخاوت سے ایسے ہی عمدہ نقش بادشاہ کے دل پر بٹھائے ہوں گے۔ کہ بڑے بڑے کہن سال کار گذار امیر موجود تھے۔ ان کے ہوتے ولی عہد کی اتالیقی کے لئے اس پر صاد کیا۔ غرض جب منصب جلیل عطا ہوا تو اس نے بہ ادائے شکرانہ جشن شاہانہ کا سامان کیا۔ اور رونق افروزی کے لئے بادشاہ کی خدمت میں التجا کی۔ بادشاہ تشریف لے گئے۔ مینہ کو برسنا ۔ دریا کو بہائو اور بیرم خاں کے بیٹے کو دریا دلی کون سکھائے۔ قلعہ سے لے کر اپنے گھر تک سونے چاندی کے پھول لٹائے۔ گھر قریب رہا۔ تو موتی برسائے۔ پا انداز میں مخمل و زربفت بچھائے۔ گھر میں سوا لاکھ روپیہ کا چبوترہ بنایا۔ اس پر بادشاہ کو بٹھا کر نذر دی۔ وہاں سے اٹھا کر دوسری بارگاہ میں لے گیا۔ چپوترہ لٹوا دیا۔ جواہر اور موتی نثار کئے۔ امرا نے لوٹے۔ پیشکش میں جواہرات ملبوسات اسلحہ کہ خزائن سلطانی نہیں رکھنے کے قابل تھے۔ عمدہ ہاتھی۔ اصیل گھوڑے کہ بادشاہی کارخانوں کی زینت تھے۔ پیشکش گذرانے اور امرائے دربار کو بھی حسب مراتب عجائب غرائب تحفوں سے خوش کیا۔ اور خوش ہوا۔ مگر اصل خوشی کی کیفیت ان بڈھے رفیقوں سے پوچھنی چاہیے۔ جو آج کی امید پر زندگی کا دامن پکڑے چلے آتے تھے۔ تلخ چائے کی پیالیاں اور پھیکے شربت پیتے تھے۔ اور دعائیں کر کے جیتے تھے۔ لیکن ان کہن سال بڑھیوں کی خوشی کسی عبارت میں ادا نہیں ہو سکتی۔ جنہیں نہ دن کو آرام تھا نہ رات کو نیند تھی۔ جب گھر میں اکبری دربار لگا ہو گا۔ تو ان کا کیا حال ہو اہو گا۔ شکر کے سجدے میں پڑی ہو ں گی۔ اور خوشی کے آنسو جاری ہوں گے۔ اور حق پوچھو تو اس سے زیادہ خوشی کی جگہ کیا ہو گی۔ سوکھی نہر میں پانی آیا۔ برباد چمن آباد ہوا۔ ویران کھیت ہرا ہوا۔ جس گھر میں دھندلے چراغ جلتے تھے۔ سورج نکل آیا۔ مرزا خاں کی جوہر لیاقت کا چشمہ جو مدت سے بند پڑا تھا۔ ۹۹۱؁ھ میں فوارہ ہو کر اچھلا صورت حالات یہ ہوئی۔ کہ اکبر کا جی یہ چاہتا تھا۔ کہ قلمرو ہندوستان میں اس سرے سے اس سرے تک میرا سکہ چلے فتح گجرات کے بعد اعتماد خاں ایک پرانا سردار سلطان محمود گجراتی کا نمک خوار اس سے الگ ہو کر اکبری امرا میں داخل ہو گیا تھا۔ وہ ہمیشہ بادشاہ کے خیالات کو ادھر متوجہ کرتا تھا۔ ان دنوں میں موقع دیکھ کر بعض امرا کو اپنے ساتھ ہمداستان کیا۔ اور بہت سی صورتیں بیان کیں۔ جس میں ملک مذکور کی آمدنی بڑھے۔ اخراجات میں کفایت ہو۔ اور سرحد آگے کو سرکے۔ ۹۹۱؁ھ میں اس نے موقع دیکھ کر پھر عرض معروض کی۔ اور بعض امرا کو اپنے ساتھ ہم داستان کیا۔ اکبر نے اسے ملک مذکور کا واقف حال دیکھ کر مناب سمجھا۔ کہ شہاب الدین احمد خاں کو گجرات سے بلا لے۔ اور اسے صوبہ کر کے بھیجے۔ وہاں کی حقیقت سنو کہ معاملہ پیچ در پیچ ہو رہا تھا۔ یاد کرو گجرات پر اکبر کی یلغار ابراہیم حسین مرزا وغیرہ تیموری شاہزادوں کی جڑ اکھیڑ چکی تھی۔ مگر گلے سڑے رگ و ریشے زمین میں باقی تھے۔ بہت سے بلخی بدخشی ہزاروں ماوراء النہری ترک ان کے نام لیوا جیتے تھے۔ جب اکبری انتظاموں کا استقلال دیکھا۔ تو تلواریں جنگلوں میں چھپا کر بیٹھ گئے تھے۔ جو سردارادھر سے جاتا۔ ہیر پھیر دے کر اس کے وابستوں کے ساتھ نوکری کر لیتے تھے۔ مگر فکر کے چوہے دوڑاتے تھے۔ اور دل میں دعائیں مانگتے تھے۔ ع خدا شرے بر انگیزد کہ خیر ماوراں باشد شہاب الدین احمد خاں جب پہنچا تھا۔ تو اسے معلوم ہو گیا تھا۔ کہ یہ مفسد حاکم سابق (وزیر خاں) کے انتظام کو بھی بگاڑ ا چاہتے تھے۔ اور اب بھی اسی تاک میں ہیں۔ یہ سردار پرانا سپاہی تھا۔ سرگروہوں کو دریافت کیا۔ اور فوج۔ تھانے۔ تحصیل میں بھر کر ہر ایک کو کام میں لگادیا۔ غرض اس حکمت عملی سے ان کے جتھے اور زور کو توڑ لیا تھا۔ جب بادشاہ کو خبر پہنچی۔ تو حکم بھیجا۔ کہ ان لوگوں کو ہر گز جمنے نہ دو۔ اور اپنے معتمد اور وفادار آدمیوں سے کام لو۔ بڈھے سردار نے اس انتظام کا موقع نہ پایا۔ وقت ٹالتا رہا۔ بلکہ ان کے منصب اور علاقے بڑھا کر دلاسے سے کام لیتا رہا۔ اعتماد خاں پہنچا تو اکبری ارادوں اور نئے انتظاموں کے سر ان کے کان میں پہنچ لئے تھے۔ فتنہ گروں نے ارادہ کیا کہ شہاب الدیں احمد خاں کا کام تمام کیجئے۔ اعتماد خاں تازہ وارد ہو گا۔ مظفر گجراتی سلطان محمود کا بیٹا جو گمنامی کے ویرانوں میں بیٹھا ہے۔ اسے بادشاہ بنائیں گے۔ انہیں میں سے ایک مفسد نے آ کر ادھر بھی خبر دی۔ شہاب کا رنگ اڑ گیا۔ مگر حکم بادشاہی سے وہ بھی دل شکستہ ہو رہا تھا۔ اس لئے نہ تحقیقات کی نہ بندوبست کیا۔ ان لوگوں کو کہلا بھیجا۔ کہ تم یہاں سے نکل جائو۔ ان کی عین مراد تھی۔ جھٹ نکلے۔ اور اپنے پرگنوں میں پہنچ کر اور مفسدوں کو جمع کرنے لگے۔ ساتھ ہی مظفر کو چٹھیاں دوڑائیں۔ بعض مفسد شہاب میں پانی کی طرح مل گئے۔ اور بڈھے سے قسمیں لیں۔ کہ دربار کو جائے۔ تو ہمیں ساتھ لیتا جائے۔ اندر اندر اوروں کو بہکاتے تھے۔ اور رقیبوں کو یہاں کی خبریں پہنچاتے تھے۔ سرگروہ ان کا میر عابد تھا۔ فلک کا قاعدہ ہے۔ کہ زمانہ میں جن لوگوں کو بڑھاتا ہے۔ اور جن باتوں کو ان کے بڑھنے کا سامان کرتا ہے۔ کچھ عرصہ کے بعد ایسا موقع لاتا ہے۔ کہ انہیں گھٹاتا ہے۔ اور جن باتوں کو اس وقت بڑھانے کی سیڑھی بنایا تھا۔ انہی باتوں کو نمونۂ بے دانشی کر کے گھٹاتا ہے۔ اور جن لوگوں کو اس وقت وہ پامال کر کے چڑھے بڑھے تھے۔ انہی کو یا ان کے بچوں کو ان سے آگے بڑھاتا ہے۔ تمہیں یاد ہے وہ وقت کہ بیرم خاں جیسے کوہ دانش کو ایک بڑھیا انا والوں کے ہاتھ سے کس طرح توڑا۔ وہ سب اسی سال میں فنا ہو گئے۔ یہی ایک رقم باقی رہی تھی۔ کہ شہاب خاں سے شہاب الدین احمد خاں ہو کر پنج ہزاری منصب تک پہنچ گئے۔ اور اکثر مہموں کی سپہ سالاری کر چکے۔ اب تماشے دیکھو۔ اسی بیرم خاں کے بیٹے کے سامنے شہاب کو کس طرح پانی پانی کرتا ہے۔ آزاد تو پرانی لکیروں کا فقیر ہے۔ بڈھوں کی باتیں یاد کرتا ہے۔ اور وجد کرتا ہے۔ کہا کرتے تھے۔ جا میاں جیسا کرے اپنی اولاد کے آگے پائے۔ خیر اب بیرم خاں کی نیک نیتی کہو۔ خواہ مرزا خاں کا زور اقبال۔ شہاب کی دانائی اسے لڑکوں کے سامنے بیوقوف بناتی ہے۔ اعتماد خاں اور خواجہ نظام الدین ۱؎ جو دربار سے گئے تھے۔ پٹن میں پہنچے۔ شہاب کا وکیل آیا ہوا تھا۔ انہوں نے اپنا وکیل ساتھ کیا۔ دربار سے اسپ و خلعت اور فرمان رخصت جو لے کر گئے تھے بھیجا۔ شہاب خاں استقبال کو کوئی کوس آگے گئے۔ فرمان کو سر پر رکھا۔ اٹھے بیٹھے۔ آداب بجا لائے۔ پڑھا۔ اور اسی وقت کنجیاں سپرد کر دیں۔ اپنے تھانے جو اطراف کے قلعوں پر بٹھائے تھے۔ اٹھوا منگائے۔ نئے اور پرانے تقریباً ۸۰ قلعے تھے۔ کہ اکثر خود تعمیر اور اکثر مرمت کر کے درست کئے تھے۔ فساد تو یہیں سے شروع ہو گیا۔ کہ تھانوں کے اٹھتے ہی کولی اور کراس ادھر کی وحشی قومیں اٹھ کھڑی ہوئیں۔ اور اکثر قلعوں کو ویران کر کے تمام ملک میں لوٹ مچا دی۔ شہاب پروان کے قلعہ سے نکل کر عثمان پور (ایک محلہ کنار شہر پر ہے) اس میں آ گئے۔ اعتماد خاں شاہ ابو تراب۔ خواجہ نظام الدین احمد خوشی خوشی قلعے میں داخل ہوئے۔ میر عابد نمک حرام کہ شہاب کے پاس ملازم تھا۔ پانسو کی جمعیت لے کر الگ جا پڑا۔ اعتماد خاں کو پیام بھیجا کہ ہم بے سامان ہیں۔ شہاب کے ساتھ نہیں جا سکتے۔ جو انہوںنے جاگیر ۲؎ دی تھی۔ وہ بحال رکھئے۔ تو خدمت کو حاضر ہیں۔ ورنہ خلق خدا ملک خدا ہم رخصت۔ اعتماد خاں کے کان کھڑے ہوئے۔ مگر نہ سوچا نہ سمجھا۔ کہلا بھیجا۔ کہ بے حکم وہ جاگیریں تنخواہ نہیں ہو سکتیں۔ ہاں میں اپنی طرف سے رعایت کروں گا۔ انہیں تو بہانہ چاہیے تھا۔ صاف اپنے یاروں میں جا ملے۔ ہنگامہ اور بھی گرم ہوا۔ اعتماد خاں کو جو فوج دربار سے ملی تھی۔ وہ ابھی نہ آئی تھی۔ سوچا کہ شہاب کو ان فتنہ انگیزوں سے لڑا کر رنگ جمائے۔ شاہ اور خواجہ کے ہاتھ پیغام بھیجا کہ تمہارے نوکروں نے فساد کیا ہے۔ تم ابھی جانے میں توقف کرو۔ اور ان کا بندوبست کرو۔ حضور میں اس کا جواب تمہیں لکھنا ہو گا۔ اس نے کہا کہ یہ مفسد تو اس دن کی دعائیں کر رہے تھے۔ اور میرے قتل کے درپے تھے۔ کام اصلاح سے گذر چکا ہے۔ مجھ سے کیا ہو سکتا ہے۔ تم جانو اور یہ۔ مگر اس طرح ملک داری کے کام نہیں چلتے۔ ان لوگوں کو جاگیر دے کر پرچائو۔ اور یہ نہیں تو ابھی مفسدوں کی جمعیت تھوڑی ہے۔ ۱؎۔ مصنف طبقات اکبری دیکھو صفحہ ۸۴۲ ۲؎۔ اس عہد میں علاقے جاگیر کے طور پر مل جایا کرتے تھے۔ کہ سردار اپنے اخراجات اور اپنی فوج کی تنخواہ وہاں سے وصول کر لیا کرتے تھے۔ بلوا عام نہیں ہوا۔ ملکی اور جنگلی لوگ ہیں۔ کوئی سردار معتبر بھی ابھی ان میں نہیں پہنچا۔ اپنے اور میرے آدمی بھیجو کہ دفعتہ جا پڑیں۔ اور تتر بتر کر دیں۔ اعتماد خاں نے کہا۔ کہ تم شہر میں آ جائو۔ پھر جو صلاح ہو گی۔ سو ہو گا۔ یہ بھی شہاب الدین احمد خاں تھے۔ بچہ نہ تھے۔ ماہم کے دودھ کی دھاریں دیکھی تھیں۔ کہا کہ میں نے خود قرض سے سامان سفر کیا ہے۔ فوج بدحال ہے۔ بدقت شہر سے نکلا ہوں۔ پھر کر آنا دقت پر دقت ہے۔ غرض حیلے حوالے بتا دئیے۔ اعتماد خاں نے کہا۔ کہ تم شہر میں چلے جائو۔ خزانہ سے مدد خرچ میں دوں گا۔ کئی دن مہم کی اونچ نیچ۔ جواب سوال اور رقم کی مقدار مشخص کرنے میں گذر گئے۔ شہاب تاڑ گئے۔ کہ یہ دکنی سردار پرانا سپاہی ہے۔ باتوں باتوں میں کام نکالتا ہے۔ چاہتا ہے۔ کہ جب تک اس کی فوج آئے۔ مجھے اور میرے آدمیوں کو یہاں روک کر اپنی جمعیت اور حیثیت بنائے رکھے۔ جب وہ آگئے۔ تو مجھے سر بصحرا چھوڑ دے گا۔ اس کی نیت نیک ہوتی۔ تو پہلے ہی دن روپیہ کا سرانجام کرتا۔ اور میرے لشکر کا سامان درست کر کے مہم کو سنبھال لیتا۔ غرض شہاب میدان احمد آباد سے کوچ کر کے کڑی میں جا پڑے۔ کہ بیس کوس ہے۔ مفسد ماتر میں پڑے تھے۔ فوراً کاٹھیواڑہ پر پہنچے۔ سلطان محمود گجراتی کا بیٹا مظفر کاٹھیواڑہ میں آ کر اپنی سسرال میں چھپا بیٹھا تھا۔ اس سے سب روئداد سنا کر باغ سبز دکھایا۔ اس کے باپ دادا کا ملک تھا۔ اسے اس سے زیادہ موقع کیا چاہئے تھا۔ فوراً اٹھ کھڑا ہوا۔ دیس کے چند مفسد گروہوں کو بھی ساتھ لیا۔ ۱۵ سو کے قریب کاٹھی لٹیرے ساتھ ہو گئے۔ اور اس طرح آئے۔ کہ دولقہ میں آ کر دم لیا۔ سوچ میں تھے۔ کہ شہاب جو دربار کو چلا ہے۔ اس پر شبخون ماریں۔ یا اور کسی آباد شہر کو جا لوٹیں۔ اعتماد خاں بڈھا سپاہی اور اسی ملک کا سردار تھا۔ مگر اس کی عقل پر پردہ پڑ گیا۔ اس نے جب سنا۔ کہ مظفر دولقہ میں آن پہنچا۔ تو ہوش اڑ گئے۔ بیٹے اور دو تین سرداروں کو احمد آباد میں چھوڑا۔ اور کہا کہ میں خود جا کر شہاب کو لاتا ہوں۔ ہر چند اہل صلاح نے کہا۔ کہ غنیم بارہ کوس پر پڑا ہے۔ اٹھارہ کوس جانا اور شہر کو اس طرح پر چھوڑ دینا مناسب نہیں۔ بڈھے نے نہ سنا۔ اور خواجہ نظام الدین کو لے کر روانہ ہوا۔ اس کے نکلتے ہی بدمعاشوں نے ادھر خبر پہنچائی۔ غنیم جو کہ خود حیران تھا۔ کہ کدھر جائے۔ جھٹ اٹھ کھڑا ہوا۔ اور سیدھا احمد آباد پر آیا۔ قدم قدم پر سینکڑوں لٹیرے ساتھ ہوتے گئے۔ سرگنج شہر سے تین کوس ہے۔ جب وہ یہاں پہنچا۔ تو چند مجاوروں نے سلاطین باطن کے درباروں سے اٹھ کر ایک پھولوں کا چتر سجایا۔ اور لے کر سامنے ہوئے۔ وہ نیک شگون نیک فال کے ساتھ ۱؎ گولی کی چوٹ شہر میں داخل ہوا۔ ۱؎۔ شہر میں رہ گر دروازہ سے داخل ہواتھا۔ جو اس زمانے میں کسی دروازے کا نام تھا۔ پہلوان علی سیستانی کوتوال تھا۔ آتے ہی اسے پچھاڑ کر قربانی کیا۔ شہر میں قیامت مچ گئی۔ بادشاہی سرداروں میں کیا دم تھا۔ جان کو لے کر بھاگنا فتح سمجھے۔ شہر لاوارث رہ گیا۔ اہل فساد نے لوٹ مار شروع کر دی۔ گھر اور بازار زر و جواہر اور مال دولت سے بھرے ہوئے تھے۔ پل کی پل میں لٹ کر صاف ہو گئے۔ ادھر اعتماد خاں نے شہاب کے پاس جا کر اس عہد کا رنگ جمایا۔ کہ دو لاکھ روپیہ نقد مجھ سے لو اور جو پرگنے جاگیر میں تھے۔ وہ جاگیر میں رکھو۔ اور احمد آباد کو چلو۔ وہ قسمت کا مارا راضی ہو گیا۔ اور دونوں بڈھے ساتھ ہی روانہ ہوئے۔ ؎ من و مربی من ہر دو آنچناں معذور کہ ہر دورا دو مربی خوب مے باید شہاب کو اپنے نوکروں کا حال معلوم تھا۔ رات کو قرآن بیچ میں رکھے۔ قول و قسم نے ایمانوں کو مضبوط کیا۔ اور روانہ ہوئے تھوڑی ہی دور آگے بڑھے تھے۔ کہ شہر کے بھگوڑے ملے۔ جو خاک وہاں اڑا کر آئے تھے۔ چہروں پر نمودار تھی۔ سنتے ہی دونوں بڈھوں کے رنگ ہوا ہو گئے۔ آگے پیچھے کے سردار اکٹھے ہوئے۔ خواجہ نظام الدین نے کہا۔ کہ گھوڑے اٹھائو۔ شہر پر جا پڑو۔ اور دم نہ لو۔ اگر غنیم نکل کر سامنے ہو ۔ تو لڑ مرو۔ یا قسمت یا نصیب قلعہ بند ہو کر بیٹھا تو محاصرہ ڈال دو۔ اعتماد خاں کی بھی فوج آتی ہے۔ جیسا ہو گا۔ دیکھا جائے گا۔ مگر شہاب تو گھر کو پھرا تھا۔ دل اچاٹ تھا۔ لشکر کے اہل و عیال ساتھ تھے۔ غلطی یہ تھی کہ ادھر مڑا تو بھی ان کے کچے ساتھ کو کڑی میں نہ چھوڑا۔ غرض مارا مار شہر کے پاس پہنچے۔ اور اہل لشکر عثمان پور پر آ کر ڈیرے ڈالنے لگے۔ کہ بال بچوں کو بٹھائیں۔ اس وقت بھی نظام الدین احمد وغیرہ ہمت والوں نے کہا۔ کہ باگیں اٹھائے شہر میں دھنس جائو۔ آسان کام کو دشوار نہ کرو۔ بڈھوں نے نہ مانا۔ غنیم کو ان کے آنے کی خبر لگ چکی تھی۔ خاطر جمع سے سامان جنگ کر کے باہر نکلا۔ اور دریا کے کنارے فوج کا قلعہ باندھ کر سد سکندر ہو گیا۔ فوج اہل و عیال اسباب و مال سنبھال رہی تھی۔ کہ لڑائی شروع ہو گئی۔ شہاب آٹھ سو سپاہی کو لے کر ایک بلندی پر جمے۔ اور فوج کو آگے بڑھایا۔ فوج نے حق نمک ادا کیا۔ مگر سرداروں نے نمک حرامی کی۔ جو نمک حلال تھے۔ وہ حلال ہو گئے شہاب کی نوبت آ گئی۔ ہمراہی بھاگے۔ ان کا گھوڑا گولی سے چھدا۔ فقط بھائی بند گرد رہ گئے۔ دشمن کا ہجوم دیکھ کر ایک جاں نثار نے باگ پکڑ کر کھینچی۔ انہوں نے بھی غنیمت سمجھا۔ اور بھاگے۔ اپنے ہی نوکروں میں سے ایک نمک حرام نے پشت پر تلوار ماری۔ الحمد للہ کے ہاتھ اوچھا پڑا۔ ایسے بھاگے کہ پٹن (نہر والا) پچاس کوس ہے۔ ایک دن میں پہنچ کر وہاں دم لیا۔ کاٹھی اور کولی اور جنگلی لٹیرے لوٹ کے واسطے غنیم کے ساتھ ہو ئے تھے۔ ٹڈیوں کی طرح امڈ پڑے اور تمام لشکر کو چاٹ کر ایک دم میں صاف کر دیا۔ نقد جنس ہاتھی گھوڑے اتنے لئے۔ کہ محاسب کے حساب سے باہر ہے۔ سپاہ کے عیال کی خرابی خود خیال کر لو۔ کہ بچاروں پر کیا گذری ہو گی۔ ظفر یاب مظفر فتح کے گھوڑے پر سوار موچھوں کو تائو دیتے شہر کو پھرے۔ شہاب کے نمک حرام سرخرو ہو کر اب ان کے دربار میں حاضر ہو گئے۔ انہوں نے سامان سلطانی موجود دیکھ کر دربار قائم کر دیا۔ اور سب کو بادشاہی خطاب عنایت کئے۔ جامع مسجد میں خطبہ پڑھا گیا۔ اور پرانے سردار جو نحوست کے گوشوں میں چھپے بیٹھے تھے۔ انہیں بلا بھیجا۔ سب سنتے ہی دوڑ پڑے۔ غرض جنگلوں کے لٹیرے مفلس محتاج۔ ملک کے پرانے سپاہی بخاری و ماوراء النہری کہ تیموری شہزادوں کی کھرچن تھے۔ دو ہفتہ کے اندر اندر چودہ ہزار فوج کی جمعیت گرد جمع ہو گئی۔ مگر مظفر کو باوجود اس فتح کے قطب الدین خاں کا کھٹکا لگا ہوا تھا۔ اس لئے کچھ سرداروں کو یہاں چھوڑا۔ اور آپ بڑودہ کی طرف فوج لے کر چلا کہ وہ وہیں تھا۔ ادھر دربار سے اعتماد خاں کی فوج بھی آن پہنچی۔ شہاب وغیرہ پٹن میں پٹے کٹے پڑے تھے۔ اب اور کیا ہو سکتا تھا۔ اسی کو مضبوط کر کے یہیں بیٹھ گئے۔ شہاب اور اعتماد قطب الدین خاں کو برابر لکھ رہے تھے۔ کہ تم ادھر سے آئو۔ ہم ادھر سے چلتے ہیں۔ بغاوت ہے اس کا دبا لینا کچھ بڑی بات نہیں۔ وہ پنج ہزاری سردار۔ پرانا سپہ سالار کہ دو نوں بڈھے بھی اسے یگانہ روزگار سمجھتے تھے۔ دور سے بیٹھا بیٹھا ٹال رہا تھا۔ جب دربار سے فرمان عتاب پہنچا۔ تو قطب جگہ سے ہلا۔ اور اب سپاہ کو تنخواہ دے کر دلداری کرنے لگا۔ جب کہ وقت گذر چکا تھا۔ چھائونی سے بڑودہ تک پہنچا تھا۔ کہ مظفر نے آن لیا۔ لڑائی ہوئی۔ نیم جان کی طرح ہاتھ پائوں مار کر قلعہ بڑودہ کے کھنڈر میں دبک گیا۔فوج اور سردار مظفر کے ساتھ ہو گئے۔ اب دولت و اموال کا تو کیا پوچھنا ہے۔ خد اکی قدرت دیکھو۔ یہ وہی مظفر ہے۔ کہ تیس روپیہ مہینہ پر آگرہ میں پڑا تھا۔ یہاں سے ایک ناک اور دو کان لے کر بھاگا۔ آج تیس ہزار لشکر لئے باپ کے ملک کا مالک ہے۔ اب ادھر کی سنو۔ کہ مظفر تو ادھر آ گیا۔ شیر خاں فولادی اس کے سردار نے کہا۔ مجھے بھی تو اپنا لوہا دکھانا چاہیے۔ وہ فوج لے کر پٹن کو چلا۔ کہ امرائے شاہی کو جوہر دکھائے۔ آپ پٹن پر آیا۔ اور کچھ فوج کڑی پر بھیجی۔ خواجہ نے دل کڑا کر کے بادشاہی فوج کو نکالا۔ اور جو فوج کڑی پر چڑھی آتی تھی۔ فوراً اسے جا مارا۔ اب شیر خاں کے مقابلے کا موقع آیا۔ بڈھے سرداروں پر ایسی نامردی چھائی تھی کہ گھبرا کر بولے بہتر ہے۔ کہ پٹن سے جالور کو ہٹ چلیں۔ خواجہ نظام الدین باوجودیکہ نوجوان سپاہی تھا۔ اس نے مردوا بنا کر روکا۔ اور آپ فوج لے کر مقابلہ پر ہوا۔ سامنے ہوتے ہی لڑائی دست و گریباں ہو گئی۔ دو ہی ہزار فوج تھی۔ مگر سب پرانے پرانے سپاہی تھے۔ پانچ ہزار کے مقابلہ پر بڑھ کر میانہ پہنچا۔ نوجوان سپاہی زادہ نے بڑا ساکھا کیا۔ کشت و خون عظیم ہوا۔ کھیت کاٹ کر ڈال دیا۔ اور لڑائی ماری۔ شیر خاں نوکدم گجرات کو بھاگا۔ بادشاہی فوج کو لوٹ اچھی ہاتھ آئی۔ ذرا آنسو پچھ گئے گٹھڑیاں باندھ باندھ کر دوڑے کہ پٹن میں رکھ آئیں۔ خواجہ ہر چند کہتا رہا کہ اب موقع ہے اور گجرات خالی ہے۔ باگیں اٹھائے چلے چلو۔ کسی نے نہ سنا۔ بچارہ ۱۲ دن وہیں پڑا رہا۔ اتنے میں سنا کہ مظفر نے بڑودہ مار لیا۔ وہاں کی بھی سنئے۔ کہ قلعہ بڑودہ جو قطب الدین کی عقل سے بھی بودا تھا۔ مظفر نے گھیر لیا اور توپیں مارنی شروع کر دیں۔ آج کی پرانی دیواریں مظفر کے عہد اور قطب کی ہمت سے سو بے بنیاد تھیں۔ فرش زمین ہو گئیں۔ مگر قطب کا قلعہ عمر اس سے بھی گیا گذرا تھا۔ اس بڈھے بے وقوف نے زین الدین اپنے معتبر کو قول و قرار کے لئے بھیجا۔ باوجودیکہ ایلچی کو کہیں زوال نہیں۔ مظفر نے اسے دیکھتے ہی ہزار سالہ مردوں میں ملا دیا۔ قطب کا ستارہ ایسا چکر میں آیا تھا۔ کہ اب بھی نہ سمجھا۔ پیغام سلام میں عہد و پیمان ہوا۔ کہ میں مکہ چلا جائوں گا۔ مجھے عیال و مال سمیت یہاں سے نکل جانے دو۔ اتنا بڑا سردار اس بدحالی اور بے ہمتی سے غنیم کے دربار میں حاضر ہوا۔ بعجز تمام جھک جھک کر تسلیمات بجا لایا۔ قضا شخصیت پنج انگشت دارد چو خواہد کزیکے کارے بر آرد دو بر چشمش نہد دیگر دو بر گوش یکے بر لب نہد گوید کہ خاموش آخر پنج ہزاری سردار بادشاہی تھا۔ پشتوں کا خدمت گذار تھا۔ شہزادوں کا اتالیق رہ چکا تھا۔ مظفر نے ملاقات کے وقت بڑی تعظیم کی۔ اٹھا اور استقبال کر کے مسند تکیہ پر جگہ دی۔ باتوں سے آنسو پونچھے۔ مگر ہاتھوں سے خون بہایا۔ کہ دامن خاک کے نیچے اپنے دفائن قارونی کا پیوند ہو گیا۔ ۱۴ لاکھ روپیہ اس کے ساتھ تھا۔ وہ لے لیا۔ خزانچی اس کی حکومت گاہ پر گیا۔ دس کروڑ سے زیادہ گڑے ہوئے تھے۔ وہ بھی نکال لائے۔ نقد و جنس۔ مال و دولت کا کیا ٹھکانا ہے۔ اور لطف یہ ہے۔ کہ چار ہزاری و پنج ہزاری بڑے بڑے سپہ سالار امرا مثلاً قلیچ خاں اور شریف خاں اپنا بھائی جاگیر دار مالوہ۔ خاص نورنگ خاں بیٹا سلطان پور ندر پار میں اور پاس پاس کے اضلاع میں بیٹھے تھے۔ دور سے تماشا دیکھا کئے۔ ہم بحر غم میں بہ گئے اور دوست آشنا سب دیکھتے رہے لب ساحل کھڑے ہوئے مظفر کے ساتھ ترک۔ افغان ۔ گجراتی ہزاروں کا لشکر ہو گیا۔ اور ایک تھے تو دس بلکہ دس ہزار ہو گئے۔ مگر علاقہ در علاقہ بھونچال پڑ گیا۔ خواجہ نظام الدین یہ سن کر پٹن کو پھرے۔ دربار میں آگے پیچھے خبر پہنچی۔ اور جو پہنچی۔ ایسی ہی پہنچی۔ سب چپ۔ بادشاہ کو بڑا رنج۔ دو دفعہ جس ملک کو آپ یلغار کر کے مارا۔ وہ اس رسوائی کے ساتھ ہاتھ سے گیا۔ اکبر بادشاہ تھا۔ اور صاحب اقبال تھا۔ کچھ پروا نہ کی۔ امرائے دربار میں سے سادات بارہہ اکثر ایرانی دلاور اور سورما راجپوت۔ راجہ اور ٹھاکر اس مہم کے لئے نامزد کر کے لشکر جرار آراستہ کیا۔ اس پر نوجوان مرزا خاں کو جس کا اقبال بھی جوانی پر تھا۔ سپہ سالار کیا۔ کار آزمودہ کہنہ عمل سردار فوجیں دے کر ساتھ کئے۔ قلیچ خاں کو فرمان ہو گیا ۔ کہ مالوہ پہنچو۔ اور وہاں سے امرا کو لے کر مہم میں شامل ہو۔ اضلاع دکن میں جو سردار تھے۔ انہیں بھی زور شور سے احکام پہنچے۔ کہ جلد میدان جنگ پر حاضر ہوں۔ مرزا خاں اپنے رفقاء کو لے کر مارا مار چلا۔ کوہ و بیابان۔ دریا اور میدان کو لپیٹتا لپیٹتا جالور کے رستے پٹن کو چلا جاتا تھا۔ مگر جو خبر پہنچتی تھی۔ پریشان پہنچتی تھی۔ اس لئے سوچ سمجھ کر اٹھاتا تھا۔ قطب الدین خاں کی خبر سنی۔ مگر فوج پر راز نہ کھولا۔ آزاد۔ خیال تو ضرور آیا ہو گا۔ کہ یہ وہی پٹن ہے۔ جہاں سے باپ نے ملک فنا کی منزل کو ایک قدم میں طے کیا تھا۔ حرم سرا پر کیا گذری ہو گی۔ میرا اس وقت کیا حال ہو گا۔ اور یہ رستہ احمد آباد تک کس مصیبت سے کٹا ہو گا۔ یہاں سب عید کے چاند کی طرح اسی کی طرف دیکھ رہے تھے۔ بعض سردار سروہی تک آگے آئے۔ اور سارے حالات سنائے۔ بڑی بڑی مبارک بادیں ہوئیں۔ وہ فقط دن بھر ٹھیرا۔ اور برق و باد کی طرح اڑ کر پٹن پر ڈیرے ڈال دئیے۔ امرا اور فوجیں استقبال کر کے لائے۔ مبارکبادیں ہوئیں۔ شادیانے بجے۔ ان کی اور شہاب الدین احمد خاں کی موروثی محبتیں تھیں۔ مگر اس وقت سب بھول گئے۔ معلوم ہوا کہ مظفر نے ظفر یاب ہو کر اور ہی دماغ پیدا کئے ہیں۔ پیچھے کا بندوبست محکم کئے بیٹھا ہے۔ اور خیمہ آگے ڈال کر لڑائی کو تیار ہے۔ نوجوان سپہ سالار نے سرداروں کو جمع کر کے جلسہ کیا۔ بعض کی صلاح ہوئی کہ اقبال اکبری پر تکیہ کر کے باگیں اٹھائو۔ تلواریں کھینچو اور شہر میں جا پڑو۔ بعض کی رائے ہوئی۔ کہ قلیچ خاں مالوہ سے لشکر لے کر آتا ہے۔ اور حضور سے فرمان بھی آ چکا ہے۔ کہ جب تک وہ نہ آئے۔ جنگ نہ کر بیٹھنا۔ اس کا انتظار واجب ہے۔ یہ گفتگو بھی آئی۔ کہ موقع نازک ہے۔ یہ وقت وہ ہے۔ کہ حضور خود یلغار کر کے آئیں۔ تو سب کی سپاہگری کا پردہ رہتا ہے۔ ورنہ خدا جانے کیا انجام ہو۔ دولت خاں ایک بڈھا سردار تھا۔ اور وہ مرزا خاں کا سپہ سالار کہلاتا تھا۔ اس نے کہا کہ حضور کو بلانا بہت نازیبا ہے۔ اور قلیچ خاں کا انتظار تمہارے لئے مصلحت نہیں۔ وہ پرانا سپہ سالار ہے۔ اس کے سامنے فتح ہوئی۔ تو تمہارے رفیق حصہ سے بھی محروم رہ جائیں گے۔ اگر چاہتے ہو۔ کہ فتح کا ڈنکہ تمہارے نام پر بجے۔ تو یا قسمت یا نصیب ۔ لڑ مرو اور یہ بھی سمجھ لو کہ بیرم خاں کے بیٹے ہو۔ جب تک آپ تلوار نہ مارو گے۔ خانخاناں نہ ہو گے۔ اکیلے ہی فتح کرنی چاہئے۔ اور گمنامی کے جینے سے ناموری کا مرنا ہزار درجہ بہتر ہے۔ پرانے پرانے سپہ سالار ساتھ ہیں۔ سپاہ تیار ہے۔ سامان حاضر ہے۔ اور چاہئے کیا ہے۔ مرزا خاں بھی ایک چلتے پرزے دربار اکبری کے تھے۔ ایک جھوٹ موٹ کی ہوائی اڑائی کہ دربار سے فرمان آتا ہے۔ اکبری آئین سے اس کا استقبال ہوا۔ اور جلسہ عام میں پڑھا گیا۔ مضمون یہ کہ ہم فلاں تاریخ یہاں سے سوار ہوئے۔ خود یلغار کر کے آتے ہیں۔ جب تک نہ پہنچیں لڑائی شروع نہ ہو۔ فرمان پڑھ کر مبارکباد کے شادیانے بجائے۔ اور تمام لشکر نے خوشیاں منائیں۔ دو دن تک توقف رہا۔ مگر دونوں طرف بہادر بڑھ بڑھ کر جوہر دکھاتے تھے۔ یہ دروغ مصلحت آمیز اگرچہ زبانی باتیں تھیں۔ مگر کم ہمتوں کی کمر بندھ گئی۔ اور ہمت والوں کے اور عالم ہو گئے۔ ادھر دشمنوں کے جی چھوٹ گئے۔ مرزا خاں کے ڈیرے احمد آباد سے تین کوس سر گیچ پر تھے۔ اور مظفر شاہ بھیکن کے مزار پر تھا۔ یعنی دو کوس پر۔ وہ فوج مالوہ کی آمد آمد سن کر چاہتا تھا۔ کہ پہلے ہی لڑ مرے شبخون مارا۔ مگر ناکام رہا۔ مرزا خاں نے پھر جلسہ کیا۔ اور صلاح یہی ٹھیری کہ جس طرح ہو لڑنا چاہیے۔ چنانچہ رات کو چٹھیاں تقسیم ہو گئیں۔ ہر سردار پچھلے پہرہ سے اپنی اپنی فوج کو لے کر تیار ہو گیا۔ اعتماد خاں کو پٹن کی حفاظت پر چھوڑا تھا۔ عثمان پور کے دہانہ پر میدان جنگ ہوا۔ اس وقت اس کی فوج دس ہزار تھی۔ اور مظفر کی چالیس ہزار۔ دو نوں لشکر صفیں باندھ کر سامنے ہوئے۔ مرزا خاں دائیں بائیں۔ پس وپیش سے لشکر کی تقسیم کی۔ وہ بچپن سے اکبر کی رکاب کے ساتھ لگا پھرتا تھا۔ ایسا میدان اس کے کچھ نئی جگہ نہ تھی۔ ہاتھیوں کی صف سامنے باندھی خواجہ نظام الدین کو دو سرداروں کے ساتھ فوج دے کر الگ کیا۔ کہ سر گیچ کو داہنے پر چھوڑ کر آگے بڑھ جائو۔ جب لڑائی ترازو ہو۔ تو غنیم کا پیچھا آن مارو۔ غرض کہ لڑائی شروع ہوئی اور مظفر نے پیش دستی کے قدم آگے بڑھائے۔ ادھر سے لڑائی کو ٹالتے تھے حریف سر پر آیا۔ تو قدم بڑھائے فوج ہراول نے باگیں بڑے حوصلہ سے اٹھائیں مگر بیچ میں کڑے اتار چڑھائو بہت تھے۔ آگے کی فوج جو ہراول کے پیچھے تھے۔ ایسی تیزی کے ساتھ پہنچی۔ کہ جو ترتیب باندھی تھی۔ وہ ٹوٹ گئی۔ اور لشکر میں گھبراہٹ پڑی۔ ہراول کے سردار تلواریں پکڑ کر خود آگے بڑھ گئے تھے۔ کئی پرانے نامور مارے گئے۔ اور فوج الٹ پلٹ ہو کر جدھر جس کا منہ اٹھا ادھر ہی جا پڑا۔ جا بجا میدان جنگ گرم ہوا۔ نیا سپہ سالار تین سو جوان اس کے گرد۔ سو ہاتھی کی صف سامنے لئے کھڑا تھا۔ اور نیرنگیٔ تقدیر کا تماشا دیکھ رہا تھا۔ دل میں کہتا تھا۔ کہ بیرم خاں کا بیٹا! جائے گا تو کہاں۔ مگر دیکھئے خدا اب کیا کرتا ہے۔ ایسے وقت میں حکم کیا چل سکے۔ کدھر سے روکے۔ اور کدھر کو بڑھائے۔ یا قسمت یا نصیب۔ مظفر بھی پانچ چھ ہزار کا پرا جمائے سامنے کھڑا تھا۔ مرزا خاں نے دیکھا۔ کہ غنیم کے غلبہ کے آثار ہونے لگے۔ ایک جاں نثار نے دوڑ کر اس کی باگ پر ہاتھ ڈالا۔ کہ گھسیٹ کر نکال لے جائے۔ یہ بے ہمتی کا ارادہ دیکھ کر مرزا خاں سے نہ رہا گیا۔ بے اختیار ہو کر گھوڑا اٹھایا۔ اور فیلبانوں کو بھی للکار کر کرنا میں آواز دی۔ اس کا گھوڑا اٹھانا تھا۔ کہ اقبال اکبری طلسمات دکھانے لگا۔ آواز کرنا سے دلوں میں جوش پیدا ہوئے۔ اور جا بجا لشکر غنیم کو دھکیل کر آگے بڑھے۔ تقدیر کی مدد یہ کہ ادھر سے انہوں نے حملہ کیا۔ ادھر خواجہ نظام الدین بھی ساتھ ہی مظفر کی پشت پر آن گرے۔ غل ہوا کہ اکبر یلغار کر کے آیا۔ کوئی سمجھا۔ کہ قلیچ خاں مالوہ کی فوج لے کر آن پہنچا۔ مظفر ایسا گھبرایا۔ کہ یکبار حواس جاتے رہے۔ بھاگا اور ہمراہی اس کے پیچھے پیچھے بھاگے۔ غنیم کی فوجیں تتر بتر ہو گئیں۔ ہزاروں کا کھیت ہوا۔ شمار کون کر سکتا تھا۔ شام قریب تھی۔ پیچھا کرنا مناسب نہ ہوا۔ وہ معمور آباد کے رستے دریائے مہندری ریگستانوں میں نکل گیا۔ اور تیس ہزار فوج کی بھیڑ بھاڑ گھڑیوں میں پریشان ہو گئی۔ غنیمت بیشمار کہ مفت ماری تھی۔ جن ہاتھوں کی تھی انہیں ہاتھوں دے گیا۔ مرزا خاں نے مفصل عرضی کی۔ بادشاہ سجدات شکر درگاہ الٰہی میں بجا لائے۔ کہ ایک تو خدا نے ایسے موقع پر فتح دی۔ دوسرے اپنے پالے ہوئے نوجوان کے ہاتھوں۔ وہ بھی اپنے خان بابا کا بیٹا۔ مرزا خان نے منت مانی تھی کہ خدا فتح دے گا۔ تو سارا نقد و جنس۔ مال متاع۔ خیمہ و خرگاہ ۔ اونٹ ۔ گھوڑے۔ ہاتھی۔ غریب سپاہیوں کو اور اہل لشکر کو بانٹ دوں گا۔ کہ انہی کی بدولت خدا نے یہ دولت دی ہے۔ چنانچہ اس نیک نیت نے ایسا ہی کیا۔ خاتمۂ سخاوت ایک سپاہی ایسے وقت آیا۔ کہ کاغذوں پر دستخط کر رہا تھا۔ اس وقت کچھ نہ رہا تھا۔ فقط قلمدان سامنے تھا۔ وہی اٹھا کر دے دیا۔ کہ لے بھائی یہ تیری قسمت ۔ خدا جانے چاندی کا تھا۔ سونے کا تھا۔ سادہ تھا یا مرصع۔ ملا صاحب پھر بھی خفا ہوتے ہیں۔ اور فرماتے ہیں کہ ایفائے وعدہ کے لئے چند ملازموں کو فرمایا۔ کہ ان کی قیمت لگا دو۔ روپیہ بانٹ دیں گے۔ مقومین ۱؎ ناامین حیلہ گران بے دین تھے۔ چوتھائی پانچواں بلکہ دسواں بھی مول نہ لگایا۔ اور کچھ کچھ تو آپ ہی ہضم کر گئے۔ پھر فرماتے ہیں اس کے بعض چپڑ قناتیوں نے مثلاً دولت خاں لودھی۔ ملا محمودی وغیرہ نے اس سے عرض کی کہ ہم آپ کے نوکر ہوئے ہیں۔ کچھ گناہ تو نہیں کیا ہے۔ کہ بادشاہی نوکروں کے نیچے ایسے دبے رہیں۔ اور وہ ہم سے اونچے۔ تلواروں کے سامنے یہ کچھ ہم سے آگے نہیں نکل جاتے۔ پھر تسلیم اور آئین و آداب کورنش جو آپ کے سامنے بجا لاتے ہیں۔ وہ کیوں نہ ادا کریں۔ یہ واہیات اور دلفریب باتیں مرزا خاں کو پسند آئیں (لیکن آخر بیرم خاں کابیٹا تھا) خلعت گھوڑے سامان انعام بہت کچھ ان کے دینے کو تیا رکیا۔ خود توشہ خانہ میں جا کر بیٹھا اور خواجہ نظام الدین (اب ان کی دانش و دانائی کی ہوا بندھ گئی تھی) کو بلا کر مشورۃً یہ راز کہا۔ ایک زمانہ میں خواجہ کی بہن بیرم خاں کے نکاح میں تھی۔ اس نے کہا۔ کہ میں جانتا ہوں یہ تمہارے نوکروں کی بدنفسی ہے۔ تمہارا خیال نہیں۔ مگر یہ کہو کہ حضور سنیں گے تو کیا کہیں گے۔ اور فرض کیا۔ کہ انہوں نے کچھ نہ کہا۔ لیکن شہاب الدین احمد خاں کا پنج ہزاری منصب ۔ عمر میں بڈھا۔ تم سے بڑا۔ وہ تمہارے سامنے تسلیم بجا لائے! اعتماد خاں ایک وہ وقت تھا۔ کہ اپنی ذات سے بیس ہزار لشکر کا مالک تھا۔ پرانا امیر اس کی طرف سے تمہارے لئے تسلیم۔ اس میں لطافت کیا تھی؟ پائندہ خاں مغل پراتم ترک۔ وہ تو تعجب نہیں کہ انکار بھی کر جائے۔ اور باقی تو خیر کسی حساب میں نہیں۔ بارے مرزا بھی سمجھ گئے اور اس ارادہ سے باز رہے۔ ۱؎۔ قیمت لگانے والے دنیا عجب مقام ہے۔ آخر لڑکا ہی تھا۔ تقدیر نے حد سے بڑھ کر یاوری کی۔ لاکھوں آدمیوں کی تعریفیں۔ چاروںطرف سے واہ وا۔ اور بات ہی واہ واہی کی تھی۔ دماغ بلند ہو گیا۔ تھا تو یہ خاک مگر کان میں کچھ غفلت نے ایسی پھونکی کہ ہوا میں یہ بشر آ ہی گیا صبح کو ابھی آفتاب نے نشان نہ کھولا تھا۔ کہ خان خاناں فتح کا نشان اڑاتا اس احمد آباد میں داخل ہوا۔ جہاں تین برس کی عمر میں خانہ برباد۔ تیرہ برس کی عمر میں اکبر کے ساتھ یلغار کر کے آیا تھا۔ شہر میں امان امان کی منادی کر دی۔ رعیت کو تسلی اور دلاسا دیا۔ بازار کھلوائے۔ شہر اور نواح شہر کا بندوبست کیا۔ تیسرے دن قلیچ خاں وغیرہ امرائے مالوہ بھی فوجیں لے کر آن پہنچے۔ مل کر صلاحیں ہوئیں۔ اور شہر کا بندوبست کر کے تازہ دم فوجوں کے ساتھ مظفر کے پیچھے روانہ ہوئے۔ ہر چند انہوں نے کہا۔ کہ اب سپہ سالار گجرات میں رہے۔ مگر کار طلبی اور خدمت گذاری کا خون جوش پر تھا۔ مرزا خاں بھی پیچھے روانہ ہوا۔ مظفر کہمبایت میں پہنچا۔ اور لوگوں کو پرچانا شروع کیا۔ قدیمی صاحبزادہ سمجھ کر لوگ بھی سمٹنے لگے۔ سوداگروں نے بھی روپیہ سے مدد کی۔ دو ہزار کے قریب فوج جمع ہو گئی۔ مرزا خاں بھی برق کی طرح پیچھے پیچھے دس کوس پر تھا۔ جو مظفر کو خبر پہنچی۔ وہ وہاں سے نکل کر بڑودہ میں آ گیا۔ مرزا خاں نے قلیچ خاں وغیرہ چند سرداروں کو فوج دے کر آگے بڑھایا۔ یہ پرانے سپاہی تھے۔ راہ کی خرابیاں سامنے دیکھ کر آگے بڑھنا مناسب نہ سمجھا۔ وہ وہاں سے بھی نکلا۔ فوج بادشاہی پیچھے تھی۔ امرا ملک میں بھی جہاں مفسد دیکھتے۔ دائیں بائیں کی خبر لیتے تھے۔ نادوت پر آئے تو مظفر وہاں سے اٹھ کر پہاڑ میں گھس گیا۔ کہ یہاں جم کر ایک میدان اور بھی قسمت آزمائے ا س وقت اس کی فوج تیس ہزار اور خان خاناں کی آٹھ نو ہزار تھی۔ یہ فتح نامہ بھی رستم اور اسفند یار کے فتح ناموں سے کم نہیں۔ مرزا خاں نے لشکر کی تقسیم کر کے فوج کے پرے جمائے۔ ہراول اور دائیں بائیں کو بڑھایا۔ پہلے ہی خواجہ نظام الدین کو آگے بھیجا۔ کہ پہاڑ کی لڑائی ہے دیکھو رستہ کا کیا حال ہے۔ اور فوج دشمن کا کیا انداز ہے؟ اسی طرح لڑائی ڈالو۔ یہ دامن کوہ میں پہنچے تھے۔ کہ اس کے پیادوں سے مقابلہ ہو گیا۔ مگر انہوں نے ایسا ریلا کہ سامنے جو بڑا پہاڑ تھا۔ اس میں گھس گئے۔ یہ بھی دبائے چلے گئے۔ وہاں دیکھا دشمن کا لشکر لمبی قطار میں رستہ روکے کھڑا ہے۔ تیر تفنگ کے پٹے پر تھے۔ مگر فوراً دست و گریبان ہو گئے۔ اور وہ دھواں دھار معرکہ ہوا۔ کہ نظر کام نہ کرتی تھی۔ خواجہ نے کرامات یہ کی۔ کہ سواروں کو پیادہ کر کے بڑھایا۔ اور جھٹ پہلو کی پہاڑی پر قبضہ کر لیا۔ ساتھ ہی قلیچ خاں کو آدمی بھیجے۔ وہ بائیں ہاتھ سے چلا آتا تھا۔ کہ غنیم سے ٹکر کھائی۔ مگر غنیم نے زور دے کر اسے پیچھے ہٹا دیا۔ اور دباتا ہوا چلا۔ اس دھکا پیل میں خواجہ کے سامنے رستہ کھل گیا۔ جس پیادہ فوج کو ابھی پہلو کی پہاڑی پر چڑھایا تھا۔ وہ آگے بڑھ کر پہاڑ پر چڑھ گئی۔ حریف جو قلیچ خاں پر گئے تھے۔ انہیں دیکھ کر ادھر پلٹے۔ اور دست بدست لڑائی ہو کر عجیب کشت و خون ہوا۔ قلیچ خاں بستی میں جا پڑتے تھے۔ اوٹ کا غنیمت سمجھے اور وقت کا انتظار کرتے تھے۔ تیز نظر سپہ سالار عقل کی دور بین لگائے دیکھ رہا تھا۔ اور جہاں موقع دیکھتا تھا۔ ویسی ہی مدد وہاں پہنچاتا تھا۔ فوراً فیلی توپ خانہ پہنچایا۔ کہ جس پہاڑی پر قبضہ کیا ہے۔ اس پر چڑھ جائو۔ ساتھ ہی اور فوج پہنچی۔ اس نے دشمن کا بایاں پہلو آن مارا۔ کئی جگہ لڑائی پڑ گئی۔ اور وہ گھمسان پڑا کہ پہلی لڑائی کو بھی گرد کر دیا۔ ہتھنالوں کی گولی ایسے موقع سے چلی کہ خاص قلب میں پہنچی۔ جہاں مظفر کھڑا تھا۔ اس کا دل ٹوٹ گیا۔ شکست کی بدنامی کو غنیمت سمجھا۔ اور نامظفر ہو کر بھاگ گیا۔ سپاہ کا بہت نقصان ہوا۔ بیشمار مال و اسباب چھوڑا۔ مرزا خاں نے امرا کو جن جن اطراف پر مناسب دیکھا۔ روانہ کیا۔ اور آپ احمد آباد میں آ کر ملک و رعیت کے انتظام میں مصروف ہوا۔ دربار میں جب عرضداشت اس کی پڑھی گئی۔ اکبر بہت خوش ہوا۔ فرمان بھیج کر سب کے دل بڑھائے۔ مرزا خاں کو خطاب خان خانی۔ خلعت بااسپ و کمر خنجر مرصع۔ تمن توغ۔ منصب پنج ہزاری کہ انتہائے معراج امرا کی ہے۔ عنایت ہوا۔ اور اوروں کے منصب بھی دس بیس اور اٹھارہ تیس کی نسبت سے جیسے مناسب دیکھے۔ بڑھائے۔ یہ لطیفہ غیبی ۹۹۱؁ھ میں واقع ہوا۔ بہت سے خطوط اور مراسلات کا ایک پرانا مجموعہ میرے ہاتھ آیا ہے۔ اسی فتح کے موقع پر خان خاناں نے ایرج اپنے بیٹے کے نام ایک خط۱؎ لکھا تھا۔ غور سے پڑھنے کے قابل ہے۔ بہت سے اصلی حالات معرکہ جنگ کے اس سے کھلتے ہیں۔ رفیقان منافق کی وفا یا بیوفائی آئینہ نظر آتی ہے۔ اس کے الفاظ سے ٹپکتا ہے۔ کہ دل درد بے کسی سے پانی پانی ہو رہا تھا۔ اور امید و یاس جو ساعت بساعت اس پر نقش بناتے اور مٹاتے ہیں سب نظر آتے ہیں۔ یہ رنگ ایسے ایسے قلم سے پھیرا ہے کہ بادشاہ کے ہاتھ میں بھی جا پڑے۔ تو بہت سے مطالب دل پر نقش کرے۔ اور ضرور بیٹے کو لکھا ہو گا کہ بطور خود حضور میں لئے چلے جانا۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے۔ کہ وہ قادر الکلام کامل انشاء پرداز تھا۔ ۱؎۔ یہ خط تتمے میں دیکھو۔ اور اپنے مطلب کو پوری تاثیر کے ساتھ ادا کرتا تھا۔ اقبال کی کامیابی۔ عہدے کی ترقی غرض اس وقت مرزا خاں کی عمر کم و بیش بیس برس کی ہو گی۔ کہ وہ دولت خدا نے دی۔ جو باپ کو بھی آخیر عمر میں جا کر نصیب ہوئی تھی۔ حکومت و فرمانروائی دولت و نعمت سامان امیری کا مزا بھی جوانی ہی میں ہے۔ کہ وہ بھی بڑی دولت ہے۔ اقبال مند لوگ ہیں۔ جنہیں ساری دولتیں خدا ساتھ دے۔ امیری اور امیری کے لوازمات۔ اچھے لباس۔ اچھی سواری۔ اچھے مکانات جوان ہی کے لئے زیبا ہیں۔ جوانی ہو تو اچھا کھانا بھی مزا دیتا ہے۔ اور انگ لگتا ہے۔ بڈھے بچارہ کے لئے ہو بھی۔ تو مزا نہیں۔ بڈھا اچھا لباس پہنتا ہے۔ ہتھیار سج کر گھوڑے پر چڑھتا ہے۔ کمر جھکی ہے۔ شانے ڈھلکے ہوئے ہیں۔ لوگ دیکھ کر ہنس دیتے ہیں۔ بلکہ اپنے تئیں دیکھ کر آپ شرم آتی ہے۔ ہاے ع جوانی کجائی کہ یادت بخیر لطیفہ شیر شاہ کو ترقی کی منزلیں طے کر نے میں اتنا عرصہ کھنچا کہ تاج شاہی سر تک آتے آتے خود بڑھاپا آ گیا۔ بادشاہ ہوا تو سر سفید۔ ڈاڑھی بگلا۔ منہ پر جھریاں۔ آنکھیں عینک کی محتاج۔ جب لباس پہنتا۔ اور زیور بادشاہی سجتا۔ تو آئینہ سامنے دھرا ہوتا تھا۔ کہتا تھا۔ عید تو ہوئی۔ مگر شام ہوتے ہوئے۔ لطیفہ۔ دلی کو خدا مغفرت کرے۔ ہر بادشاہ کو یہی شوق رہا ہے۔ کہ اس شہر میں شان و شکوہ کا جلوس دکھائوں۔ شیر شاہ بادشاہ ہوا۔ تو اس نے بھی وہاں آ کر جشن کیا۔ شام کے وقت مصاحبوں کے ساتھ جریدہ سوار ہوا۔ اور بازار میں نکلا کہ سب کو دیکھے۔ اور اپنے تئیں دکھائے۔ دو بڑھیاں اشراف زادی فلک کی ماری دن بھر چرخہ کاتا کرتی تھیں۔ شام کو جا کر سوت بیچ لایا کرتی تھیں۔ اس وقت وہ بھی برقعہ اوڑھ کر نکلی تھیں۔ سواری کی آمد آمد سن کر کنارے کھڑی ہو گئیں۔ کہ نئے بادشاہ کو دیکھیں۔ شیر شاہ گھوڑے پر سوار باگ ڈھیلی چھوڑے آہستہ آہستہ چلے جاتے تھے۔ ایک نے دوسری سے کہا بوا! تم نے دیکھا۔ دوسری بولی۔ ہاں بوا دیکھا پہلی بولی کہ دلہن کو دلہا ملا۔ مگر بوڑھا ملا۔ شیر شاہ بھی پاس پہنچ چکا تھا۔ اس نے سن لیا۔ جھٹ سینہ ابھارا اور باگ کھینچ کر گھوڑے کو گدگدایا۔ خدا جانے عربی تھا یا کاٹھیاواڑ۔ اچھلنے کودنے لگا۔ دوسری بڑھیا بولی۔ اے بوا۔ وہ تو بڈھا بھی ہے۔ اور مسخرا بھی ہے۔ اتفاق۔ اس عالم میں کہ بادشاہ کو بہت خبر ہائے پریشان پہنچتی تھیں۔ ہر وقت اس فکر میں رہتے تھے۔ میر فتح اللہ شیرازی سے سوال کیا۔ کہ لڑائی کا انجام کیا ہو گا۔ انہوں نے اصطرلاب لگا کر طالع وقت نکالا۔ ستاروں کے مقام اور حرکات آسمانی کو دیکھ کر حکم لگا دیا کہ دو جگہ میدان کارزار ہو گا اور دونوں جگہ فتح حضور کی ہو گی۔ اتفاق ہے۔ کہ ایسا ہی ہوا۔ کسی مورخ نے یہ کیفیت نہیں دکھائی۔ کہ جب مرزا خاں کے کارنامے وہاں کوہ خانخانی کے سامان تیار کر رہے تھے۔ا س وقت دربار اکبری میں کیا عالم ہو رہا تھا۔ البتہ ابوالفضل نے ایک خط مبارک باد میں خان خاناں کو لکھا ہے۔ وہی بشرے والا رقعہ ہے۔ جو آج تک اپنی بلندی مضامین اور دشواری عبارت اور فصاحت و بلاغت کے زور شور سے اہل کمال میں شہرۂ آفاق ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے۔ کہ چند روز جو گجرات سے خبر نہ پہنچی۔ تو دنیا کے لوگ ہزاروں ہوائیاں اڑا رہے تھے۔ اس کے اور اس کے باپ کے دشمن کمین گاہوں سے نکلے تھے۔ خوش ہوتے تھے۔ اور دوستوں سے چھیڑ چھیڑ کر حال پوچھتے تھے۔ اکبر پر بھی طنز کرتے تھے۔ کہ دکن کا ملک اور ملک بھی بگڑا ہوا۔ ایسے نازک موقع میں کہ دو بڈھے سپہ سالار مات کھا چکے۔ ایک نوجوان ناتجربہ کار کو بھیجنا چہ معنی دارد۔ بہلا یہ سپہ سالار ہے؟ یہ تو مجلس آرائی کا سنگار ہے۔ اسے معرکۂ جنگ سے کیا تعلق۔ بیرم خانی ہوا خواہ بھی دم بخود تھے۔ اور اکبر بھی چپ تھا۔ چنانچہ الہ آباد سے قلعہ کی بنیاد رکھ کر جلد پھرا کہ آگرہ سے سوار ہو کر پھر یلغار کرے۔ اور خود جا کر لڑائی کو سنبھالے۔ کوڑا گھاٹم پور میں پہنچا تھا جو فتح کی خبر پائی۔ نہایت خوش ہوا۔ اور شکر کے سجدے بجا لایا۔ دو رخے دو غلوں نے فوراً گفتار کی رفتار بدلی۔ جھک جھک کر کہنے لگے۔ حضور ہی کی جوہر شناس آنکھ تھی۔ کہ جوہر قابلیت کو تاڑ لیا۔ پرانے پرانے جاں نثار موجود تھے۔ مگر حضور نے اسی کو بھیجا۔ غرض اسی وقت حکم ہو گیا۔ کہ نقار خانہ سے تہنیت کی نوبت بجے۔ خط مذکور سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے۔ کہ اس زمانہ میں بنجارہ کے چودھریوں اور مہاجنوں کی معرفت بہت جلد خبر پہنچا کرتی تھی۔ پہلے کشنا چودھری نے خبر دی۔ پھر امرائے لشکر کے بھی عرائض پہنچے۔ اکبر نے بڑی آفرین کی بڑی تحسین کی اور کہا۔ کہ اس کے باپ کا خان خانی خطاب اسے دے دو۔ خوشی کی مقدار اس سے سمجھ لو۔ کہ خط مذکور میں شیخ صاحب لکھتے ہیں۔ جس وقت نقارہ خانہ سے نوبت کا غل ہوا۔ دوست اور دشمن خوشحالی میں برابر ہو رہے تھے۔ اور بات تو یہ ہے۔ کہ خطاب و منصب کچھ بھی نہ ملتا۔ تو بھی درحقیقت تم سے وہ بن آئی ہے۔ کہ اہل زمانہ اور دشمنوں کے دل داغ داغ ہو جائیں۔ ایسا عالی خطاب جس کی پنج ہزار امیر آرزوئیں کرتے تھے۔ پہلے ہی مل جانا خیال روزگار میں بھی نہ آتا تھا۔ چہ جائے کہ منصب بھی مل گیا۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے۔ کہ دو فتحوں کے بعد مرزا خاںنے ابوالفضل کو اور ساتھ ہی حکیم ہمام کو خط لکھا تھا۔ اس خط میں غالباً دل کی پریشانی ظاہر کی تھی۔ کہ امرا رفاقت سے جی چراتے ہیں۔ اور ابوالفضل کو خط کے آخر میں قسمیں دے کر لکھا تھا۔ کہ حضور سے عرض کرو۔ کہ مجھے بلا لیں جواب میں شیخ لکھتے ہیں۔ کہ میں نے غور کر کے دیکھا۔ کسی طرح مناسب نہ معلوم ہوا۔ پھر دوستوں کی صلاحیں ہوئیں۔ رائے اسی پر متفق ہوئی۔ کہ مضر نہیں ہے۔ کہہ دو امید ہے۔ تو فائدہ ہی کی ہے خیر افراط شوق پر ڈھال کر عرض کیا۔ اکبر نے نہایت حیران ہو کر کہا۔ کہ ہیں اس وقت میں آنا کیسا۔ حکیم نے اپنی لسانی اور سخن وری کی معجون تیار کر کے باتیں بنائیں۔ پھر بھی شیخ لکھتا ہے۔ میرے نزدیک جس طرح ان باتوں سے حضور کا تعجب رفع نہیں ہوا۔ اسی طرح کچھ ضرر بھی نہیں ہوا۔ خان خاناں نے بعد اس کے جو عرضداشت لکھی تو بہت سی معروضات کے ذیل میں ٹوڈرمل کے لئے بھی درخواست کی تھی۔ اور یہ بھی عرض کی تھی۔ کہ حضور خود اس ملک پر سایۂ اقبال ڈالیں۔ اکبر نے بھی ارادہ کیا تھا۔ کہ ماہ آیندہ میں نوروز ہے۔ جشن کر کے روانہ ہو ں۔ مگر خزانہ کی روانگی اور اور درخواستوں کے سرانجام کا حکم دے دیا۔ اور تعمیل بھی ہو گئی۔ خود نہیں گئے۔ خط مذکور میں ابوالفضل نے لکھا ہے۔ کہ تمہارے خط سے بڑا اضطراب پایا جاتا ہے۔ اور اس مضمون پر بزرگانہ اور دوستانہ بہت سے فقرے لکھے ہیں۔ شیخ نے ٹوڈرمل کے بلانے کو بھی اچھا نہیں سمجھا ہے۔ اور یہ بات شیخ کی درست تھی۔ لیکن نوجوان سپہ سالار پر جب مہم عظیم کا پہاڑ اور ذمہ داری کا آسمان ٹوٹ پڑا۔ اور ملک کو دیکھا۔ کہ اس سرے سے اس سرے تک آگ لگی ہوئی ہے۔ رفیقوں کو دیکھے۔ تو گرگان کہن ہیں۔ اور بادشاہ نے ماتحت کر دئیے ہیں۔ اور ایسا موقع آن پڑا ہے۔ کہ آنکھ سامنے نہیں کر سکتے۔ وہ ناچار مجلس مصلحت میں آتے تھے۔ لیکن گم سم بیٹھتے تھے۔ صلاح پوچھو۔ تو بات بات پر الگ ہوتے تھے۔ کہتے تھے تو یہ کہ ہم تو ماتحت ہیں۔ آپ خدمت فرمائیں ۔بسروچشم حاضر ہیں۔ اور اپنے رفقا کی خلوتوں میں بیٹھ کر خدا جانے کیا کیا کہتے تھے۔ نوجوان کو وہ خبریں پہنچتی تھیں۔ ایسی حالت میں ابوالفضل جیسے مستقل شخص کے سوا کون تھا۔ جو نہ گھبرائے۔ جن لوگوں کو انسان دلی دوست سمجھتا ہے۔ ان کے سامنے دل کھول کر بخار نکالتا ہے۔ اور صاف صاف جو حال ہوتا ہے۔ کہتا ہے۔ بیشک اس نوجوان نے دل کی جو حالت تھی۔ لکھ دی ہو گی۔ اور یہی وجہ راجہ ٹوڈرمل کو بلانے کی ہو گی۔ کیونکہ راجہ خان خاناں کا دوست صادق ہو یا نہ ہو۔ لیکن ایک کارگذار تجربہ کار اہل کار تھا۔ اور خالص نیت سے سلطنت کا خیر خواہ تھا۔ ایسا نہ تھا۔ کہ کسی کی دشمنی کے لئے بادشاہ کے کام کو خراب کر دے۔ اور بڑی بات یہ تھی۔ کہ اکبر کو اس پر پورا اعتبار تھا۔ بادشاہ کے خود تشریف لانے کی جو التجا کی تھی۔ بیشک نوجوان کا دل چاہتا ہو گا۔ کہ جس نے مجھے پالا ۔ جس نے مجھے تعلیم و تربیت کیا۔ اس کی آنکھوں کے سامنے جاں فشانیاں دکھائوں کہ میں کیا کرتا ہوں۔ اور یہ پرانے پاپی کیا کرتے ہیں۔ اور شاید یہ بھی ہو ۔ کہ یہ میرے رفقا و ملازم حق نمک پر جانیں قربان کر رہے ہیں۔ انہیں حسب دلخواہ انعام و اکرام دلوائوں۔ (اس وقت خان خاناں کا اور شیخ کا معاملہ کیونکر تھا) یہی تصور کرو۔ کہ ایک دربار کے دو ہم عمر ملازم ہیں۔ خانخاناں گویا ایک نوجوان۔ خوش اخلاق۔ خوش صحبت۔ پہلو سبز ۔ سخن فہم امیر زادہ ہے۔ خواہ دربار ہو۔ خواجہ جلسۂ علمی ہو۔ خواہ سواری۔ شکاری۔ ہر ایک جگہ پر خلوت و جلوت میں بلکہ محلوں میں بھی پہنچتا تھا۔ دل لگی کے کھیل تماشے ہوں۔ تو مصاحب موافق ہے ابوالفضل ایک عالم انشا پرداز۔ خوش اخلاق۔ خوش صحبت ہے۔ کہ دربار و خلوت اور بعض صحبتوں میں حاضر رہتا ہے۔ خانخاناں کو اس کے کمال اور دانائی اور خوبی تقریر اور تحریر نے اپنا عاشق کر رکھا ہے۔ اور ابوالفضل اس کے اخلاق اور خوش صحبتی کے سبب سے اور اس محبت سے کہ یہ نوجوان میرے کلام اور کمال کا قدردان ہے۔ اور اس مصلحت سے کہ بادشاہ کے پاس کا ہر دم حاضر باش ہے۔ اسے غنیمت سمجھتا ہے۔ اور بڑی بات یہ ہے۔ کہ جانتا ہے۔ جس امر میں میں ترقی کر سکتا ہوں۔ وہ اس کی راہ ترقی سے بالکل الگ ہے۔ نوجوان امیر زادہ سے کچھ خطر کا اندیشہ نہیں۔ اور یہ بھی تعجب نہیں کہ جب شیخ کے پرانے پرانے دشمن دربار پر ابر کی طرح چھائے ہوں گے۔ اس وقت یہ نوجوان دربار میں شیخ کی ہوا باندھتا ہو گا۔ اور خلوت میں بادشاہ کے دل پر اس کی طرف سے نیک خیالوں کے نقش بٹھاتا ہو گا۔ ابوالفضل۔ فیضی۔ خانخاناں۔ حکیم ابوالفتح۔ حکیم ہمام۔ میر فتح اللہ شیرازی وغیرہ وغیرہ مختلف اوقات میں ایک دوسرے کے گھر پر جمع ہوتے ہوں گے۔ فیضی اور ابوالفضل کا ایک مذہب تھا۔ اور جو کچھ تھا۔ سو معلوم ہے۔ باقی سب کے دل شیعہ۔ نام کے سنت جماعتہ مگر درحقیقت ایسے تھے۔ گویا سب مذہب انہیں کے تھے۔ اس لئے آپس میں سب رفیق اور معاون رہتے ہوں گے۔ ہاں جو یک پہلو مذہب رکھتے ہوں گے۔ وہ ان سے ضرور کھٹک رکھتے ہوں گے۔ اور یہ بھی ضرور ہے۔ کہ جوانوں کی جوانوں سے ملت ہوتی ہے۔ بڈھوں کی بڈھوں سے۔ جوانوں کی شگفتہ مزاجی اور خوشی طبعی کہ جو ش اصلی ہے۔ بڈھے بچارے کہاں سے لائیں۔ خوش طبعی کریں گے۔ تو بڈھے بھی ہوں گے۔ مسخرے بھی ہوں گے۔ صحبت پیر و جواں راست نیاید ہر گز تیر یک لحظہ بہ پہلوئے کماں ننیشند استغفراللہ کدھر تھا۔ اور کدھر آن پڑا۔ مگر باتوں کے مصالحہ بغیر تاریخی حالات کا بھی مزہ نہیں آتا۔ ۹۹۲؁ھ میں مظفر نے تیسری دفعہ سر اٹھایا۔ خانخاناں نے امرا کو فوجیں دے کر کئی طرف سے بھیجا۔ اور آپ جاں نثاروں کو لے کر الگ پہنچا۔ مظفر نے اپنی حالت میں مقابلہ کی طاقت نہ پائی۔ ا س لئے بھاگا۔ راجگان ملک اور زمینداران اطراف کے پاس وکیل دوڑاتا تھا۔ اور جا بجا بھاگا پھرتا تھا۔ لوٹ پر گذارہ کرتا تھا۔ تمام علاقے تباہ کر دئیے۔ بھلا اس طرح کہیں سلطنتیں قائم ہوتی ہیں۔ خانخاناں کو ایک موقع پر جام نے خبر دی۔ کہ اس وقت مظفر فلاں مقام پر ہے۔ مستعد سپاہی اور چالاک گھوڑے ہوں۔ تو ابھی گرفتار ہو جاتا ہے۔ خانخاناں خود سوار ہو کر دوڑا۔ وہ پھر بھی ہاتھ نہ آیا۔ معلوم ہوا کہ جام دونوں طرف کارسازی کر رہا تھا۔ ان ترکتازوں میں اتنا فائدہ ہوا۔ کہ جو لوگ مظفر کی رفاقت کر رہے تھے۔ وہ اپنی خوشامدوں کی سفارش لے کر رجوع ہو گئے۔ امین خاں غوری فرماں روائے جونا گڑھ نے اپنے بیٹے کو تحفے تحائف دے کر خانخاناں کی خدمت میں بھیجا۔ مظفر نے دیکھا ۔ کہ بہادر سپہ سالار تمام امرا سمیت ادھر ہے۔ جام کے پاس اسباب ضروری رکھا۔ اور بیٹے کو اس کے دامن میں چھپایا۔ آپ احمد آباد پر گھوڑے اٹھائے۔ تھانہ نیتی پر خانخاناں کے معتبر وفادار موجود تھے۔ وہاں سخت مقابلہ ہوا۔ اور مظفر چھاتی پر دھکا کھا کر الٹا پھرا۔ خانخاناں کو جب سازش کا حال معلوم ہوا۔ تو بڑے خفا ہوئے۔ اور کہا کہ جام کو پھوڑ کر ٹھیکرا کر دوں گا۔ فوج لے کر پہنچا۔ کہ دفعتہ نواگرائوں سے چار کوس پر جا کر جھنڈا گاڑا۔ (یہ جام کا دارالحکومت تھا) جام چکر میں آئے۔ کمال عجز و انکسار کے ساتھ عرضی لکھی۔ شرزہ ہاتھی اور عجائب و نفائس گراں بہا ساتھ لے کر بیٹے کو بھیجا۔ صلح جوئی۔ امن و امان ۔ تسلی و دلاسا اکبری آئین تھا۔ خانخاناں اکبر کے شاگرد رشید تھے۔ پھر آنا مصلحت سمجھے۔ اکبر نے حکیم عین الملک وغیرہ امرائے باتدبیر کو سرحد دکن پر جاگیریں دے کر لگا رکھا تھا۔ ان کی کارسازیوں میں ایک نتیجہ یہ حاصل ہوا تھا۔ کہ راجی علی خاں حاکم برہان پور دربار اکبری کی طرف رجوع ہو گیا تھا۔ اور اس نظر سے کہ رشتۂ اتحاد مضبوط ہو۔ خداوند جہاں اس کے بھائی سے ابوالفضل کی بہن کی شادی کر دی تھی۔ راجی علی خاں ایک کہن سال تجربہ کار نام کو برہان پور اور خاندیس کا حاکم تھا۔ مگر تمام خاندیس اور دکن میں اس کی تاثیر اثر برقی کی طرح دوڑی ہوئی تھی اور امور سلطنت کے ماہر اسے ملک دکن کی کنجی کہا کرتے تھے۔ ۹۹۳؁ھ میں خانخاناں احمد آباد میں بیٹھے اکبری سکہ بٹھا رہے تھے۔ کہ حکام دکن اور خاندیس آپس میں بگڑے۔ راجی علی خاں نے ایلچی بھیجا اور عرض کی دو ر بین سے دکھایا۔ کہ ملک دکن کا دستہ کھلا ہوا ہے۔ یہ اس آرزو پر مرادیں مانے بیٹھے تھے۔ انہوں نے امرا کو جمع کر کے جلسۂ مشورت قائم کیا۔ خانخاناں کو حکم پہنچا۔ وہ بھی یلغار کر کے احمد آباد سے فتح پور میں پہنچے۔ اور یہی صلاح ٹھیری کہ ملک مذکور کا تسخیر کر لینا قرین مصلحت ہے۔ خانخاناں پھر احمد آباد کو رخصت ہو گئے۔ اور خان اعظم مہم دکن کے سپہ سالار ہو کر روانہ ہوئے۔ خاں خاناں سے میدان خالی پا کر مظفر نے پھر احمد آباد کا ارادہ کیا۔ جام نے اس کی عقل گنوائی۔ اور یہ سمجھایا کہ پہلے جونا گڑھ کو لو پھر احمد آباد کو سمجھ لینا۔ وہ اس کے سرور میں مست ہو کر آپے سے باہر ہو گیا۔ اور پھر سنبھل کر بیٹھا۔ امرائے بادشاہی کو خبر لگی۔ یہ سنتے ہی دوڑے۔ وہ الٹے ہی پائوں بھاگا۔ اسی عرصہ میں خان خاناں بھی آن پہنچے۔ وہ تو نکل گیا تھا۔ اطراف و نواحی کے علاقے جو بچے ہوئے تھے۔ وہ بندوبست میں آ گئے۔ خان اعظم معہ امرائے شاہی کے ادھر گئے۔ اور لڑائیاں جاری ہوئیں۔ احمد آباد گجرات سر راہ تھا۔ اور دکن کی سرحد پر تھا۔ اس مہم میں بھی اکبر نے خان خاناں کو شامل کیا تھا۔ چنانچہ انشائے ابوالفضل میں جو فرمان خان خاناں کے نام ہے۔ اگرچہ برائے نام بیربر کے مرنے کا حال ہے۔ مگر اسی ضمن میں لکھا ہے۔ کہ تمہاری عرضداشت پہنچی۔ ملک کے حالات جو لکھے ہیں۔ اس سے خاطر جمع ہوئی۔ تسخیر دکن کی تجویز میں جو جو باتیں تم نے لکھی ہیں۔ پسندیدہ معلوم ہوئیں۔ تمہاری وفور دانش اور کمال شجاعت سے امید ہے۔ کہ عنقریب اسی طرح ظہور میں آئے گا۔ جیسا کہ تم نے لکھا ہے۔ اور ملک بہت آسانی سے تسخیر ہو جائے گا۔ مگر تاریخوں سے معلوم ہوتا ہے۔ کہ انہوں نے دل کھول کر خان اعظم کی مدد نہیں کی اور حق پوچھو تو خان اعظم بھی ایسے شخص نہ تھے۔ کہ کوئی سینہ صاف آدمی ان کی مدد کر سکے۔ اکبر کی دو آنکھیں نہ تھیں۔ ہزار آنکھیں تھیں۔ جن میں سے ایک کی نظر ملک موروثی پر تھی۔ چند روز کے بعد ادھر تو حکیم مرزا سوتیلا بھائی جس کے پاس ہمایوں کے وقت سے کابل کی حکومت تھی۔ وہ مر گیا۔ ادھر سنا۔ کہ عبداللہ خاں اذبک حاکم ماوراء النہر نے دریائے جیہوں سے اتر کر بدخشاں پر بھی قبضہ کر لیا۔ اور مرزا سلیمان کو نکال دیا۔ اس لئے بدخشاں پر لشکر بھیجنے کا ارادہ ہوا۔ یہ وہی موقع ہے کہ خان اعظم مہم دکن کو برباد کر کے خود سرگردان ان کے پاس پہنچے۔ خان خاناں نے لوازم ضیافت سرانجام کر کے رخصت کیا۔ اور خود فوج آراستہ لے کر روانہ ہوا۔ جب بڑودہ سے ہوتے ہوئے بھڑوچ میں پہنچے تو خان اعظم کے خط آئے۔ کہ اب تو برسات آ گئی۔ اس سال لڑائی موقوف۔ سال آئندہ میں ہم تم مل کر چلیں گے۔ خانخاناں احمد آباد کو پھر آئے۔ اور یہی وجہ ہے کہ میر فتح اللہ شیرازی بھی وہاں موجود ہیں اس معاملہ کو پانچ مہینے گذرے تھے کہ:۔ ان کے پرچہ نویس قیامت تھے۔ انہیں بھی خبر پہنچی۔ نوجوان صاحب ہمت کے دل میں امنگ آئی ہو گی۔ کہ جن پہاڑوں پر میرے باپ نے شاہ جنت نشان (ہمایوں) کی خدمت میں جاں نثاریاں کی ہیں۔ رات کو رات۔ دن کو دن نہیں سمجھا۔ وہیں چل کر میں بھی تلواریں ماروں دکن سے عرضداشت لکھی۔ کہ حضور نے مہم بدخشاں کا ارادہ مصمم فرما لیا ہے۔ مجھے بھی شوق پابوس بے قرار کرتا ہے۔ اور جی چاہتا ہے۔ کہ ان پہاڑوں میں فدوی بھی رکاب پکڑے ساتھ جاتا ہو۔ ۹۹۵؁ھ میں یہ اور میر فتح اللہ شیرازی طلب ہوئے۔ انہوں نے اونٹوں اور گھوڑوں کی ڈاک بٹھائی اور یلغار کر کے آئے۔ بادشاہ نے ملک خاندیس کے احوال سنے۔ فتوحات دکن کے باب میں مشورے ہوئے۔ اور کابل و بدخشاں کی مہم پر گفتگوئیں ہوئیں۔ بدخشاں کی مہم ملتوی رہی۔ مظفر نے بھی ہمت نہ ہاری۔ کبھی کھمبائت۔ کبھی نادوت۔ کبھی سورت۔ کبھی پوربی۔ اتھنیر۔ کچھ وغیرہ اضلاع میں سے کہیں نہ کہیں سر نکالتا تھا۔ ایک جگہ شکست کھاتا تھا۔ پھر ادھر ادھر سے حشری اور جنگلی لٹیرے سمیٹ کر دوسری جگہ آن موجود ہوتا تھا۔ کہیں خانخاناں کہیں اس کے ماتحت امرا اسے ریلتے دھکیلتے پھرتے تھے۔ اور ملک کے انتظام میں مصروف تھے۔ ان میں قلیچ خاں پرانا امیر تھا۔ اور بنوں میں خواجہ نظام الدین نے ایسے جوہر جانفشانی کے دکھائے۔ کہ دیکھنے والوں کو بڑی بڑی امیدیں ہوئیں۔ ۹۹۷؁ھ میں خان اعظم کو احمد آباد گجرات عنایت ہوئی۔ اور خان خاناں معہ امرائے فتحیاب بلائے گئے۔ باپ کے مراتب میں سے وکیل مطلق کا منصب برسوں ہوئے تھے کہ گھر سے نکل چکا تھا۔ ٹوڈر مل کے مرنے پر ۹۹۸؁ھ میں پھر قبضہ میں آیا۔ احمد آباد گجرات کے عوض جونپور عنایت ہوا۔ خان خاناں مہمات ملکی کے ساتھ علمی خیال سے خالی نہ رہتا تھا۔ اسی سنہ میں حسب الحکم واقعات بابری کا ترجمہ کر کے پیش کیا۔ پسند اور مقبول ہوا۔ ۹۹۹؁ھ / ۱۵۹۱؁ء میں بادشاہ نے ملتان اور بھکر کو خان خاناں کی جاگیر کیا۔ اور امرائے بادشاہی اور لشکر دے کر کوئی لکھتا ہے۔ قندھار کی مہم پر اور کوئی لکھتا ہے ٹھٹھہ کی مہم پر بھیجا۔ اکبر نامہ کی عبارت سے بو آئی۔ جس سے طبیعت میں تلاش پیدا ہوئی۔ ادھر ادھر دیکھا۔ کہیں پتہ نہ لگا۔ آخر میرے بچپن کے دوست مدد کو آئے۔ یعنی ابوالفضل کے رقعے جو اس نے خان خاناں کے نام لکھے تھے۔ اور میں نے دبستان طفلی میں بیٹھ کر یاد کئے تھے۔ انہوں نے یہ راز کھولا۔ قندھار کو اس وقت ایران تو اپنا حق سمجھتا تھا۔ کہ ہمایوں وعدہ کر آئے تھے۔ عبداللہ خاں کہتے تھے کہ قندھار کے ساتھ ایران کو بھی گھول کر پی جائیں۔ اکبر نے اس وقت دیکھا کہ شہزادگان صفوی جو سلطنت ایران کی طرف سے حاکم ہیں۔ وہ شاہ سے آزردہ ہیں۔ اور آپس میں لڑ رہے ہیں۔ اور رعایا ادھر رجوع ہے۔ دونوں بادشاہ اپنی اپنی مہمات میں مصروف ہیں۔ صلاحیں تو مدت سے ہو رہی تھیں اب تجویز ہوئی۔ کہ بیرم خاں نے مدت تک وہاں حکومت کی ہے۔ خانخاناں ملتا ن کے رستے فوج لے کر جائیں۔ انہوں نے کچھ تو اس سبب سے کہ وہاں کے معاملات جیسے اب دیکھتے ہو اس وقت اس سے بھی زیادہ پیچیدہ اور خطرناک تھے۔ دوسرے ہندوستانی لو گ برفانی ملکوں کے سفر سے بہت ڈرتے ہیں۔ اور یہاں کی فوج میں زیادہ تر ہندوستانی ہوتے ہیں۔ تیسرے اس سبب سے کہ وہاں کی مہموں میں روپیہ کا بڑا خرچ ہے۔ اور خان خاناں کے ہاتھ روپیہ کے دشمن تھے۔ ع چیل کے گھونسلے میں ماس کہاں غرض کچھ اپنی رائے رفیقوں کی صلاح سے عرض کی کہ پہلے ٹھٹھہ کا ملک میری جاگیر میں شامل کر دیا جائے۔ پھر قندھار پر فوج لے کر جائوں۔ اس کی رائے بھی مصلحت سے خالی نہ تھی۔ وہ دور بیں اور باخبر شخص تھا۔ ہزاروں تجربہ کار واقف حال افغان خراسانی ایرانی تورانی اس کے دستر خوان پر کھانے کھا رہے تھے۔ وہ جانتا تھا۔ کہ گجرات کے جنگل میں جا کر نقارے بجاتے پھرے۔ یہ بات اور ہے قندھار شہد کا چھتا ہے۔ ایران تو ران ہر ایک کا اس پر دانت ہے۔ دو شیروں کے منہ سے شکار جھپٹنا اور سامنے بیٹھ کر کھانا کچھ بچوں کا کھیل نہیں۔ معلوم ہوتا ہے۔ کہ بادشاہی مرضی یہی تھی۔ کہ سیدھے قندھار پر پہنچو۔ انہوں نے اور ان کے رفیقوں نے صلاح کو اس طرف پھیرا۔ کہ ٹھٹھہ رستہ میں سے صاف کرکے قبضہ کرنا چاہیے۔ ابوالفضل کی بھی یہی رائے تھی۔ کہ ٹھٹھہ کا خیال نہ کرنا چاہیے۔ چنانچہ ایک خط میں لکھتے ہیں کہ تمہارے فراق میں مجھے یہ یہ غم ہیں۔ از انجملہ یہ کہ تسخیر قندھار کو چھوڑ کر ٹھٹھہ کا رخ کیا۔ ان خطوں سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے۔ کہ ۹۹۹؁ھ کے اخیر میں فوج روانہ ہوئی۔ مگر اندر اندر خدا جانے کب سے تیاریاں ہو رہی تھیں۔ کیونکہ ۹۹۸؁ھ کے خط میں شیخ خا ن خاناں کو لکھتا ہے۔ ہزار ہزار شکر کہ فتح و فیروزی کی ہوائیں چلنے لگیں۔ امید ہے کہ عنقریب یہ ولایت فتح ہو جائے دیکھنا عزم قندھار اور فتح ٹھٹھہ کو اور زمانہ پر نہ ڈالنا کہ وقت و موقع گذرا جاتا ہے۔ بڑی بات یہی ہے۔ کہ چاہو تو جو لوگ اردو میں بیکار ہیں انہیں مانگ لو اور یہ خدمت لے کر ٹھٹھہ کی جاگیر میں قبول کرو۔ مجھے ہزار سالہ تجربہ کار سمجھ کر اگر یہ بات مان لو گے تو ممکن ہے کہ یہ کام ہو جائے گا۔ یہ خط اس وقت کا ہے۔ جبکہ خان خاناں کو جونپور کا علاقہ ملا ہوا تھا۔ اور قندھار کے لئے اندر اندر گفتگوئیں ہو رہی تھیں۔ اور سلطنت کے معاملے میں خدا جانے حکم احکام حساب کتاب کے کیا کیا الجھاوے ہوں گے۔ چنانچہ لکھتے ہیں۔ پیارے میری تلخ گوئیوں میں ہمیشہ خوش رہ کر غم کو ذرا دل میں راہ نہ دو۔ اگر بعض حسب الحکمی فرمانوں میں (کہ وہ بھی ایک ظاہری بات کے سوا اور کچھ نہیں) چند حرف سخت یا غم آور لکھوں تو گلشن خاطر کو عین بہار میں خزاں نہ کرو اور بدگمان نہ ہو۔ پرگنہ کے خالصہ کرنے میں اور معاملہ بقایا میں اور جو کچھ اس کے عوض جونپور سے لیا ہے۔ ان سب باتوں کو طول نہ دینا چاہیے۔ یہ طرز اور لوگوں کی ہے ۔ تم اور رستہ کے لوگ ہو۔ از جان و دل گوید کسے پیش چناں جانانہ از سیم و زر گوید کسے پیش چناں اسکندر یعنی تمارا اور بادشاہ کا اور معاملہ ہے۔ شکر ہے کہ تمہاری عبارتیں مفصل گوش گذار نہیں ہوئیں پھر بھی وقت و کلمہ مناسب میں ادا ہو گئیں۔ درگاہ الٰہی میں گریہ و زاری رات دن خلوت کی حالت میں لازم سمجھو۔ بہت خوشی حرام۔ شکستہ دلوں کے آگے گدائی۔ بے دلوں کی دلداری بہت کرتے رہو۔ وغیرہ وغیرہ دیکھو۔ موقع وقت ہے۔ ایک جگہ خان خاناں نے اپنے خط میں شائد لکھا ہے کہ فلاں فلاں کتاب تو جلسہ میں پڑھی جاتی ہے۔ اور کیا کہتے ہو۔ آپ فرماتے ہیں کہ شاہنامہ اور تیمور نامہ وغیرہ کتابیں تو اس لئے لکھی تھیں کہ بنائے گفتار اس اندار پر آئے۔ اصلاح نفس مطلوب ہے تو اس کے لئے اخلاق ناصری۔ جلالی۔ حدیقہ۔ مہولکات و منجیات ۔ کیمیا سے سعادت وغیرہ وغیرہ ہیں۔ خط مذکور میں لکھتے ہیں۔ شکر خدا کہ برادر گرامی حکیم ہمام کے آدمی کے ہاتھ جو خط بھیجا تھا۔ وہ پہنچا پہلے تو اس کے پہنچنے سے پھر دیکھنے سے پھر سمجھنے سے دل پھول سا کھل گیا۔ خصوصاً اس بات سے کہ ترکمان لوگ قندھار سے استقبال کو آئے ہیں۔ تمہارا مصمم ارادہ جو ایران کی طرف ہے سو طرح خوشی کا سرمایہ ہوا وغیرہ وغیرہ۔ میرے پیارے اس فوج کشی میں جو کہ پیش آئی ہے۔ اعزاز اور نام بلند روپیہ سے خریدا جاتا ہے۔ دس کے پندرہ ۔ اور دس کے بیس قرض لو اور خریداری میں بڑی کوشش کرو۔ روپیہ ناموری کا پچھ لگو ہے۔ اور اقبال کی طرح خواہ مخواہ دروازہ کی کنڈی ہو جاتا ہے۔ جیسے کسان کے کھیت میں گھاس اور سبزہ خود رو وغیرہ وغیرہ۔ ایک اور خط کی تمہید بھی اٹھائی ہے۔ کہ سفر کا ارادہ۔ بادشاہی رخصت ۔ فتح قندھار و ٹھٹھہ وغیرہ کی طرح مبارک ہو۔ ایک اور خط میں لکھتے ہیں۔ جو احکام بادشاہی تھے۔ ان کا فرمان مرتب کر کے (تمہارے نام) بھیج دیا ہے۔ تم نے لکھا تھا۔ کہ ایران و توران کو حضور سے مراسلات جاری ہوں۔ بے تکلف کہتا ہوں کہ بعینہٖ وہی مضمون ہیں۔ جو میں نے سوچے تھے۔ عبارت اور لفظ ہی کا فرق ہو گا۔ ایک اور خط میں لکھا ہے۔ میں نے عہد کر لیا ہے۔ کہ قندھار کی فتح (جو فتح ایران کا دیباچہ ہے) جب تک نہ سن لوں گا۔ نہ حکایت اشتیاق لکھوں گا نہ شکایت فراق۔ اب ساری ہمت اس کام کی برآمد میں صرف کرتا ہوں۔ جو بزرگ جہاں (اکبر) خیر اندیش زمان (خود) کی پیش نہاد خاطر ہے۔ اور سب دوست داروں کی مراد ہے۔ چند حرف لکھتا ہوں۔ امید ہے۔ کہ خرد دوربین تمہاری سماعت تک پہنچائے تم سوداگر زر طلب یا پرانے سپاہی دن کاٹنے والے نہیں۔ جو سمجھوں کہ مہم ٹھٹھہ کو قندھار پر ترجیح دو گئے اور کلام کو طول دوں۔ ڈر تو ہمراہیوں کا ہے۔ کہ کوتاہ اندیش عزت بیچ کر روپیہ کے خریدا ر ہیں۔ ایسا نہ ہو کہ میرے محبوب مزاج کے دل پر اشتعال کو ادھر ڈال دیں۔ قندھار اور قندھاریوں کا حال معتبر خبروں سے نیا معلوم ہوا ہو گا۔ لکھوں کیا؟ حاصل مطلب یہ ہے۔ کہ قندھار کو ہر وقت آسان نہیں لے سکتے۔ برخلاف ٹھٹھہ کے۔ درمیان کے زمیندار بلوچ افغانوں کو دلاسے کی زبان بخشش کے ہاتھ سے پہنا کر کے لشکر فیروزی میں لگا لو۔ اور وقت فرصت کو غنیمت سمجھو۔ تو کل الٰہی کے مضبوط بھرسے پر تکبیر کر کے چستی و چالاکی سے قندھار کا رخ کرو۔ کمکی لوگوں کی راہ بہت نہ دیکھو۔ اگرچہ لوگ بہت آن ملیں گے۔ مگر رستہ یہ ہے۔ کہ داد و دہش میں کوشش نہ کرو۔ کہ جاہ و عزت اسی میں ہے۔ ہشیاری اوربردباری کو دائیں بائیں کا مصاحب رکھو۔ مجلس میں چرچا ظفر نامہ۔ شاہنامہ۔ چنگیز نامہ کا چاہیے۔ اخلاق ناصری۔ مکتوبات شیخ ۔ شرف منیری اور حدیقہ کی سہی نہیں۔ وہ ملک فقر کی گفتگو ہے۔ وغیرہ وغیرہ ۔ پھر لکھتے ہیں۔ بے شک مرزا جانی حاکم ٹھٹھہ نے ہمایوں کے ساتھ عالم تباہی میں بڑی بے وفائی کی تھی۔ اور اکبر کے دل میں یہ کھٹک تھی۔ پھر بھی اکبر کی اور ساتھ اس کے ابوالفضل اور امرائے دربار کی رائے یہی تھی۔ کہ شاہان ایران و توران اپنے اپنے کام میں لگے ہوئے ہیں۔ قندھار کے لئے ایسا موقع پھر نہ ہاتھ آئے گا۔ ٹھٹھہ کو جب چاہیں لے سکتے ہیں۔ انہوں نے پھر کہا کہ قندھار فقط نام کا میٹھا ہے۔ ملک بھوکا ہے۔ حاصل خاک نہیں بکہ خرچ ہیں۔ کہ جن کا کچھ حساب نہیں۔اور میرے پاس اس وقت کچھ نہیں۔ میں بھوکا۔ سپاہ بھوکی۔ خالی کیسہ لے کر جائوں گا۔ تو کروں گا کیا؟ جب ملتان سے بھکر اور ٹھٹھہ تک تمام ملک سندھ میں اکبری نقارہ بجے گا۔ سمندر کا کنارہ اکبری تصرف میں ہو گا۔ تو قندھار خود بخود ہاتھ آ جائے گا۔ بہرحال قندھار کو روانہ ہوئے۔ مگر غزنی اور ہنگش پاس کا رستہ چھوڑ کر ملتان اور بھکر ہو کر چلے۔ ملتان ان کی جاگیر تھی۔ کچھ روپیہ کی تحصیل۔ کچھ فوج کی فراہمی۔ کچھ آگے کے بندوبستوں میں اور دیر لگی۔ انجام کو یہی ٹھیری۔ کہ ٹھٹھہ کا فیصلہ کر دو۔ مرزا جانی حاکم ٹھٹھہ کی اتنی خطا ضرور تھی۔ کہ ہمایوں سے عالم تباہی میں اچھی طرح پیش نہ آیا تھا۔ اور اکبر کے دربار میں بھی تحفے تحائف بھیجتا رہا۔ خود حاضر نہ ہوا۔ اس لئے اس پر اعتبار نہ تھا۔ چنانچہ نشان لشکر ادھر کی ہوا میں لہرایا۔ فیضی نے تاریخ کہی۔ قصد تتہ۔ ملتان سے نکلتے ہی بلوچوں کے سرداروں نے حاضر ہو کر عہد و پیمان تازہ کئے۔ مرزا جانی کے ایلچی حاضر ہوئے۔ کہ حضور کا لشکر قندھار پر جاتا ہے۔ مناسب ہے۔ کہ میں بھی اس مہم میں ساتھ ہوں۔ مگر ملک میں مفسدوں نے سر اٹھایا ہے۔ فوج خدمت گذاری کو بھیجتا ہوں انہوں نے ایلچی کو الگ اتارا۔ اور فوج کی رفتار تیز کی۔ خبر لگی۔ کہ قلعہ سیوان میں آ گ لگ گئی ہے۔ اور مدتوں کا جمع کیا ہوا غلہ جل کر خاک سیاہ ہو گیا ہے۔ مبارک شگون سمجھ کر اور بھی قدم بڑھائے۔ فوج نے دریا کے رستے قلعہ سیوان کے نیچے سے نکل کر لکی کو مار لیا۔ کسی کی نکسیر تک نہ پھوٹی۔ اور کنجی سندھ کی ہاتھ آ گئی۔ ملک سندھ کے لیے ایسا ہے۔ جیسا کہ بنگالہ کے لئے گڈھی۔ اور کشمیر کے لئے بارہ مولہ۔ سپہ سالار نے قلعہ سیوان کا محاصرہ کر لیا۔ اس وقت یہ حاکم نشین قلعہ تھا۔ بنانے والے نے ایک پہاڑی پر بنایا تھا۔ چالیس گز خندق سات گز کی چوڑائی گویا لوہے کی دیوار تھی۔ آٹھ کوس لمبا۔ چھ کوس چوڑا۔ تین شاخیں دریا کی وہاں ملتی ہیں۔ رعایا کچھ جزیرہ میں اور کچھ کشتیوں میں رہتی تھی۔ ایک سردار چند کشتیاں لے کر دفعتہ جا پڑا۔ بڑی دولت ہاتھ آئی۔ اور رعیت نے اطاعت کی۔ مرزا جانی سنتے ہی فوج ہی کر آیا۔ نصیر پور کے گھاٹ پر ڈیرے ڈال دیئے۔ اس کی ایک طرف بڑا دریا تھا۔ باقی طرفوں میں نہریں نالے۔ اور ان کے کیچڑ بھلے قدرتی بچائو تھے۔ وہ قلعہ بنا کر بیچ میں اترا (ریتے کا ملک ہے وہاں قلعہ بنا لینا کچھ مشکل نہیں) اور توپخانہ اور جنگی کشتیوں سے اسے استحکام دیا۔ خان خاناں بھی اٹھ کھڑا ہوا۔ اکبر نے جیسلمیر اور امر کوٹ کے رستے اور فوج بھیجی تھی۔ وہ بھی آن پہنچی۔ سپہ سالار نے ایک سردار کو اپنی جگہ چھوڑا۔ کہ قلعہ والوں کو روکے رہے۔ اور رسد کے لئے رستہ جاری رہے۔ دشمن نے چھ کوس پر جا کر چھائونی کی۔ گرد اگرد دیوار تیار کر خاطر جمع سے بیٹھ گیا۔ غنیم کی طرف سے خسرو چرکس اس کا غلام سپہ سالار تھا۔ وہ جنگی کشتیاں تیار کر کے چلا۔ کل کشتیاں ان کی دو سو تھیں۔ اور سو کشتی جنگی۔ خبر اڑی۔ کہ فرنگیوں نے بندر ہرمز سے اس کی مدد کو فوج بھیجی ہے۔ یہ بھی ادھر سے بڑھے۔ حریف کشتیاں چڑھائو پر لاتا تھا۔ مگر بہائو سے بھی تیز آتا تھا۔ شام قریب تھی۔ لڑائی دوسرے دن پر ملتوی رہی۔ خبر لگی۔ کہ مرزا جانی بھی خشکی سے آتا ہے۔ کئی سردار اسی وقت فوج لے کر سوار ہوئے۔ اور اندھیری رات میں ہوا کی طرح پانی پر سے گذر کر پار جا پہنچے۔ اور یہاں دریا میں صبح ہوتے ہی توپ چلنی شروع ہوئی۔ مگر عجیب و غریب لڑائی تھی۔ دشمن نے چاہا ۔ کہ چڑھ آئے۔ پانی کم تھا۔ اور سامنے سے پانی کا توڑ اس لئے نہ بڑھ سکا۔ جو بہادر رات کو پار اترے تھے۔ توپ کی آواز سنتے ہی سیل کی طرح دریا کی طرف دوڑ پڑے۔ کناروں پر آ کر چھا گئے۔ اور پانی پر آگ برسانے لگے۔ خان خاناں کے پاس جنگی کشتیاں کل پچیس تھیں۔ انہیں کو چھوڑ دیا۔ ادھر سے بہائو پر جانا تھا۔ وہ موج کی طرح چلیں اور دم میں تیر کے پلے پر جا پہنچیں۔ آگ کی برسات نے ایک چھینٹا گولیوں کا مارا اور پل کے پل میں برچھی اور جمدھر پر نوبت آ گئی۔ بہادروں کا یہ عالم تھا۔ کہ کھولتے پانی کی طرح ابلے پڑتے تھے۔ کود کو د کر دشمن کی کشتیوں میں جا پڑے۔ کشتیاں اور غراب مرغابیوں کی طرح تیرتی پھرتی تھیں ایک امیر کشتی کو دوڑا کر خسرو خاں پر پہنچا اور زخمی کیا۔ پکڑ ہی لیا تھا۔ مگر ایک توپ پھٹ گئی۔ اور کشتی ڈوب گئی۔ پروانہ حریف کا نامی سردار آگ کی جگہ پانی میں فنا ہوا۔ غنیم کے پاس فوج زیادہ۔ سامان پورا۔ مگر شکست پڑی۔ چار کشتیاں سپاہ اور اسباب جنگ سے بھری ہوئی قید ہوئیں۔ انہیں میں قیطور حرموز تھا۔ حاکم حرموز اپنا ایک معتبر ٹھٹھہ میں رکھتا تھا۔ ادھر کے تاجروں کے سب کاروبار میں امین (ایجنٹ ) کہلاتا تھا۔ جانی بیگ اسے ساتھ لے آیا تھا۔ اور اپنے بہت سے آدمیوں کو فرنگی فوج کی وردی پہنا دی تھی۔ اگر اس وقت گھوڑا اٹھائے مرزا جانی پر جا پڑتے۔ تو ابھی مہم تمام تھی۔ مگر بے ہمتوں کی صلاح نے روک لیا۔ کہ دشمن ڈوبتا ڈوبتا سنبھل گیا۔ بادشاہی فوج بہت تھی۔ خشکی میں امراء فوجیں لئے پھرتے تھے۔ اور جا بجا معرکے کرتے تھے۔ چنانچہ اکثر مقام قبضہ میں آئے۔ اور رعایا نے اطاعت کی۔ امر کوٹ کا راجہ اطاعت کر کے مدد کو تیار ہوا۔ اور اس کے سبب سے ادھر کا رستہ صاف ہو گیا۔ ایک مقام کی رعایا نے کوئوں میں زہر ڈال دیا۔ ملک ریگستان پانی نایاب جو فوج بادشاہی اس رستہ گئی تھی۔ عجب مصیبت میں گرفتار ہوئی۔ نگاہیں خا کی طرف تھیں۔ کہ اقبال اکبری نے یاوری کی۔ بے موسم بادل آیا۔ اور مینہ برس گیا۔ تالاب بھر گئے۔ خدا نے اپنے بندوں کی جانیں بچا لیں۔ مرزا جانی گھبرا گیا۔ مگر فوج کی بہتات اور لڑائی کے سامان پر خاطر جمع تھی۔ جگہ کی مضبوطی دل کو قوی کرتی تھی۔برسات کا بھی بھروسا تھا۔ وہ سمجھا ہوا تھا۔ کہ نہریں نالے دریا سے زیادہ چڑھ جائیں گے۔ بادشاہی لشکر آپ گھبرا کر اٹھ جائے گا۔ نہ جائے گا تو گھر جائے گا۔ ادھر بادشاہی فوج کو غلہ کی کمی نے بہت تنگ کیا۔ سپہ سالار کبھی چھائونی کے مقام بدلتا تھا۔ کبھی لشکر کو ادھر ادھر بانٹتا تھا۔ ساتھ ہی دربار کو عرضی کی۔ اکبر کا خیال دریائے مہمات کی مچھلی تھا۔ امر کوٹ کے رستہ ادھر سے بہت کشتیوں میں غلہ اور جنگی سامان توپ تفنگ تلوار اور لاکھ روپیہ نقد فوراً روانہ ہوا۔ چون بیچوں بیچ ولایت کا ہے۔ خانخاناں خود یہاں چھائونی ڈال کر بیٹھا۔ امراء کو مختلف مقاموں پر روانہ کیا۔ اور ایک لشکر قلعہ سیوان پردریا کے رستے بھیجا۔ مرزا جانی کو خیال تھا۔ کہ بادشاہی لشکر دریا کی لڑائی میں کمزور ہے۔ اس پر خود فوج لے کر چلا۔ کہ رستہ میں ہاتھ مارے۔ سپہ سالار بے خبر نہ تھا۔ دولت ۱؎ خاں ۔ خواجہ مقیم اور دھارا پسر ٹوڈرمل وغیرہ کو فوجوں کے ساتھ کمک کے لئے بھیجا۔ پہلی فوج گھبرا رہی تھی۔ کہ یہ دو دن میں چالیس کوس رستہ لپیٹ کر جا پہنچے۔ اور یہی معرکہ تھا۔ جس میں دولت خاں لودھی سپہ سالار خانخاناں ۱۰۰۸؁ھ میں احمد نگر کی فتح کے بعد درد قولنج سے مر گیا۔ خود مرزا جانی سے لشکر بادشاہی کا مقابلہ ہوا۔ امرا نے مشورت کا جلسہ کیا۔ پہلے صلاح ہوئی۔ کہ خان خاناں سے اور فوج منگائو۔ مگر دشمن کی فوج کا اندازہ کر کے غلبہ رائے کا اسی پر ہوا۔ کہ لڑ مرنا بہتر ہے۔ یہ دشمن سے چھ کوس پر پڑے تھے۔ چار کوس بڑھ کر استقبال کیا۔ اور بڑے استقلال اور سوچ سمجھ کے ساتھ لڑائی ڈالی۔ فتح کی خوش خبری ہوا پر آئی۔ کہ پہلے ادھر سے ادھر کو چل رہی تھی۔ لڑائی شروع ہوتے ہی رخ بدل گیا۔ امرا نے فوج کے چار پرے کر کے قلعہ باندھا۔ اور لڑائی شروع کی۔ غنیم کے ہراول اور دائیں کی فوج بڑے زور شور سے لڑی۔ امرائے شاہی نے جو کہ ان کے مقابل تھے۔ خوب مقابلہ کیا۔ نامی سرداروں نے زخم اٹھائے مگر اپنے سامنے کی فوجوں کو اٹھا کر کہیں کا کہیں پھینک دیا۔ بائیں کی فوج نے بھی اپنے سامنے کی فوج کو لپیٹ کر الٹ دیا۔ غنیم کی فوج ہراول میں خسرو چرکس تھا۔ اس نے ہراول کو دبا کر ایسا ریلا کہ بائیں کو بھی تہ و بالا کر دیا۔ بادشاہی ہروال شمشیر عرب تھا۔ خوب ڈٹا۔ اور زخمی ہو کر گرا۔ رفیق میدان سے نکال لے گئے۔ ہوا بھی مدد کو آئی۔ گرد اور آندھی کا یہ عالم ہوا۔ کہ دشمن کو آنکھ نہ کھولنے دیتی تھی۔ دایاں کہیں جا پڑا۔ بایاں کہیں۔ دولت خان نے فوج شاہی کے قلب سے نکل کر خوب خوب ہاتھ مارے۔ اس کا رفیق بہادر خاں حیران کھڑا تھا اور قدرت الٰہی کا تماشا دیکھ رہا تھا۔ کہ دونوں فوجوں کے انتظام درہم برہم ہیں۔ دیکھئے کیا ہوتا ہے۔ اسی ریل دھکیل میں دو تین سردار اس کے پاس پہنچے۔ ساتھ ہی خبر لگی کہ مرزا جانی چار پانچ سو سواروں سے الگ کھڑا ہے۔ انہوں نے خد اپر توکل کر کے باگیں اٹھائیں۔ اکبر کا اقبال دیکھو کہ کل سو آدمی تھے۔ انہی سے پائوں اکھڑ گئے۔ ایک میدان بھی نہ لڑا۔ نوک دم بھاگ گیا۔ اس وقت دشمن کے ایک ہاتھی نے دوستوں کی خوب مدد کی۔ مستی میں آ کر ہتھیائی کرنے لگا۔ اور اپنی ہی فوج کو برباد کردیا۔ دھارا رائے ٹوڈر مل کا بیٹا اس معرکہ میں خوب بڑھ بڑھ کر لڑا۔ وہ ہراول میں تھا۔ افسوس کہ پیشانی پر نیزہ کا زخم کھا کر گھوڑے سے گرا۔ خوشا نصیب کہ سرخرو دنیا سے گیا۔ پھر بھی کمبخت باپ کے حال پر افسوس کرنا چاہیے۔ کہ جوان بیٹے کا داغ بڑھاپے میں دیکھا۔ میدان میں فتح کی روشنی ہو گئی تھی۔ اتنے میں امرا کو خبر لگی۔ کہ دشمن کی فوج بادشاہی لشکر کے ڈیروں کو لوٹ رہی ہے۔ یہ پہلے سے گئے تھے۔ کہ لڑائی کے وقت پیچھا ماریں گے۔ خود پیچھے پہنچے۔ سنتے ہی سرداروں نے گھوڑے اڑائے۔ اور باز کی طرح شکار پر گئے۔ بھگوڑوںنے جان کو غنیمت سمجھا۔ جو مال لیا تھا۔ پھینک کر بھاگ گئے۔ ان کے تین سو۔ خان خاناں کے سو آدمی ضائع ہوئے۔ مرز اکئی جگہ پلٹ کر ٹھیرا۔ مگر خدائی سے کون لڑے۔ اس لڑائی کا کسی کو خیال بھی نہ تھا۔ چھائونی کہیں۔ میدان جنگ کہیں۔ سپہ سالار خود کہیں۔ سب کو تائید آسمانی کا یقین ہو گیا۔ پانچ ہزار کو بارہ سو نے بھگا دیا۔ یہاں تو یہ معرکہ ہوا۔ ادھر جس قلعہ کو مرزا جانی نے برے وقت کی پناہ سمجھا تھا۔ خانخاناں اس پر جا پہنچا۔ اور حملہ ہائے مردانہ سے مسمار کر دیا۔ مرزا جانی میدان جنگ سے بھاگ کر ادھر گیا تھا۔ کہ گھر میں بیٹھ کر کچھ تدبیر کرے۔ رستہ میں سنا ۔ کہ قلعہ میدان ہو گیا۔ اور وہاں خان خاناں کی خمیہ گاہ ہے۔ بہت حیران ہوا۔ غور و تامل کے بعد ہالہ کنڈی سے چار کوس۔ سیوان سے چالیس کوس دریائے سندھ کے کنارہ پر جا کر دم لیا۔ اور ایک قلعہ بنا کر بیٹھ گیا۔ بڑی گہری خندق گرد کھودی۔ خان خاناں بھی پیچھے پیچھے پہنچا۔ اور محاصرہ کر لیا۔ لڑائی دن رات جاری تھی۔ توپ و تفنگ جواب سوال کرتے تھے۔ کہ ملک میں وبا پڑی۔ اور اتفاق یہ کہ جو مرتا تھا سندھی مرتا تھا۔ فقرائے گوشہ نشین نے خواب دیکھے۔ کہ جب تک اکبری سکہ و خطبہ جاری نہ ہو گا۔ یہ بلا دفع نہ ہو گی۔ وبا ناشکری کی سزا ہے۔ سرکشی سے توبہ کرو تو دفع ہو۔ یہ خواب جلد مشہور ہوئے۔ اور بندگان شاہی اور بھی قوی دل ہو کر مستعد ہو گئے۔ ریگستان کا ملک ہے۔ خاک تودے بناتے تھے۔ اور ان کی اوٹ میں مورچے بڑھاتے جاتے تھے۔ رفتہ رفتہ قلعہ کے پاس جا پہنچے۔ محاصرہ ایسا تنگ ہوا ۔ کہ اہل قلعہ تنگ ہو کر زبان بزبان صلح کی کہانیاں سنانے لگے۔ بادشاہی لشکر بھی خوراک سے تنگ ہو گیا تھا۔ منظور کیا۔ عہد یہ ہوا کہ سیوستان کا علاقہ قلعہ سیوان سمیت اور بیس جنگی کشتیاں نذر کرے۔ مرزا ایرج یعنی سپہ سالار کے بیٹے کو اپنی بیٹی دے۔ اور برسات کے بعد حاضر دربار ہو۔ خان خاناں نے جنگی مورچے اٹھائے۔ اور لڑائی کے میدان میں شادی کے شامیانے تن گئے۔ مرزا نے برسات بسر کرنے کو قلعہ خالی کر دیا۔ لطیفہ۔ خان خاناں کے دربار میں جو شعرا لطائف و ظرایف کے چمن کھلایا کرتے تھے۔ ان میں ملا شکیبی شاعر تھے۔ انہوں نے اس لڑائی کی سرگذشت مثنوی میں ادا کی اور حقیقت میں طلسم کاری دکھائی۔ خانخاناں ایک شعر پر بہت خوش ہوا۔ اور اسی وقت ہزار اشرفی دی۔ ہمائے کہ بر عرش کر دے خرام گرفتی و آزاد کردی زدام لطف یہ ہے۔ کہ جس وقت اس نے خانخاناں کے دربار میں سنائی۔ مرزا جانی بھی موجود تھے۔ انہوں نے بھی ہزار ہی اشرفی دی اور کہا۔ رحمت خدا کہ مرا ہماگفتی اگر شغال میگفتی زبانت کہ میگرفت۔ بادشاہ نے اس مہم میں لاکھ روپیہ ایک دفعہ پچاس ہزار ایک دفعہ پھر لاکھ روپیہ لاکھ من غلہ پھر سو بڑی توپیں اور توپچی دریا کے رستہ بھیجے۔ اور امرا بھی اپنی اپنی فوجیں لے کر پہنچے۔ ۱۰۰۱؁ھ کے جشن نووزی میں بمقام لاہور خان خاناں اسے لے کر حاضر ہوئے۔ ملازمت کے لئے دربار خاص ہوا۔ بادشاہ مسند پر تھے۔ وہ کورنش اور آداب زمین بوس بجا لایا۔ تین ہزاری منصب اور ٹھٹھہ کا ملک عنایت ہوا۔ اور اس قدر عنائتیں فرمائیں۔ کہ اسے امید بھی نہ تھی۔ ہمارے مورخوں کو اس بات کا خیال نہیں ہوا کہ انسان کے کاروبار سے اس کے دلی ارادوں کے سراغ نکالتے۔ میں کئی جگہ لکھ چکا ہوں اور پھر کہتا ہوں۔ اکبر کو دریائی قوت بڑھانے کا بڑا خیال تھا۔ چنانچہ اس موقع پر تمام علاقہ اس کا اسی کو دے دیا۔ مگر بندرگاہ خالصہ ہو گئے۔ آزاد کی تائید کلام کے لئے اکبر کا مراسلہ جو کہ عبداللہ اوزبک کے نام لکھا ہے۔ دفتر اول ابوالفضل میں موجود ہے۔ ۱۰۰۳؁ھ میں خان خاناں کو پھر دکن کا سفر پیش آیا۔ مگر اس سفر مین اس نے کچھ کدورت اور نحوست بھی اٹھائی۔ بنیاد مہم کی یہ ہوئی۔ کہ اکبر کو ملک دکن کا خیال اور خان اعظم کی ناکامی کا حال بھولا نہ تھا۔ جو سفارتیں ادھر کے حاکموں کے پاس گئی تھیں۔ وہ بھی ناکام رہی تھیں۔ فیضی بھی برہان الملک کے دربار سے کامیاب نہ آیا تھا۔ کہ برہان الملک فرمانروائے احمد نگر مر گیا۔ ملک تو مدت سے تہ و بالا ہو رہا تھا۔ اب معلوم ہوا۔ کہ تیرہ چودہ برس کا لڑکا تخت نشین ہوا ہے۔ اور تختۂ حیات اس کا بھی کنارۂ عدم پر لگا چاہتا ہے۔ اکبر نے مراد کو (روم کی چوٹ پر) سلطان مراد بنا کر لشکر عظیم کے ساتھ دکن پر روانہ کیا۔ آپ پنجاب میں آ کر مقام کیا۔ کہ سرحد شمالی کا انتظام مضبوط رہے۔ مراد نے گجرات میں پہنچ کر چھائونی ڈالی اور مہم کا سامان کرنے لگا۔ کہ اکبری اقبال نے اپنی عملداری جاری کی۔ امرائے عادل شاہ فوج لے کر آئے۔ کہ ملک نظام کا انتظام کریں۔ ابراہیم لشکر لے کر اس کے مقابلہ کو گیا۔ احمد نگر سے چالیس کوس پر دونوں فوجوں کا مقابلہ ہوا۔ اور ابراہیم نے گلے پر تیر کھا کر میدان میں جان دی۔ سبحان اللہ۔ کل بھائی کو اندھا کر کے ہوش کی آنکھوں میں سرمہ دیا تھا۔ آج خود دنیا سے آنکھیں بند کر لیں۔ ملک میں طوائف الملوکی ہو کر عجب ہل چل پڑ گئی۔ میاں منجو نے مراد کو عرضی بھیجی۔ کہ یہ ملک لاوارث ہو گیا۔ مملکت برباد ہو رہی ہے۔ حضور تشریف لائیں۔ تو خانہ زاد خدمت کو حاضر ہیں۔ اکبر کو جب یہ خبر پہنچی۔ تو خان زمان کو روانگی کا حکم بھیجا ۔ اور شہزادہ کو لکھا۔ کہ تیار رہو۔ مگر حملہ میں تامل کرو۔ جس وقت خان خاناں پہنچے۔ اس وقت گھوڑے اٹھائو۔ اور احمد نگر میں جا پڑو۔ شہزادہ کو جب اول خطاب و اختیارات ملے تھے۔ تو صورت حال سے لوگ سمجھے تھے۔ کہ تیز ہے۔ اور عالی ہمت ہے۔ خوب بادشاہت کرے گا۔ مگر وہ تیزی فقط کوتاہ اندیشی اور خود پسندی اور سفلہ مزاجی نکلی۔ صادق محمد خاں وغیرہ اس کے سرداروں کو مزاج میں بہت دخل تھا۔ وہ سمجھے کہ جب خانخاناں آ گیا تو ہم بالائے طاق اور اس کی روشنی سے شاہزادہ کا چراغ بھی مدھم ہو جائے گا۔ پہلے تو انہوں نے بھی پھونکی ہو گی۔ کہ اس کے آنے سے حضور کے اختیارات میں فرق آ گیا۔ اور اب جو فتح ہو گی اس کے نام ہو گی۔ خان خاناں کے جاسوس بھی موکلوں اور جناتوں کی طرح جا بجا پھیلے رہتے تھے۔ اور جا بجا کی خبریں پہنچاتے تھے۔ رستہ میں خبر پائی۔ کہ برہان الملک مر گیا۔ اور عادل شاہ نے احمد نگر پر حملہ کیا۔ ساتھ خبر سنی۔ کہ امرائے احمد نگر نے شاہزادہ مراد کو عرضی لکھ کر بلا لیا ہے۔ اور وہ احمد آباد سے روانہ ہوا چاہتا ہے۔ یہ خوشی خوشی چلا۔ مگر تقدیر کو خوشی منظور نہ تھی۔ اول تو خانخاناں کا جانا کسی سردار سپاہی کا جانا نہ تھا۔ اسے تیاری سپاہ وغیرہ میں ضرور دیر لگی ہو گی۔ دوسرے مالوہ کے رستہ سفر کیا۔ تیسرے بھیلہ اس کی جاگیر رستہ میں آیا۔ وہاں خواہ مخواہ ٹھیرنا پڑا ہو گا۔ راستہ میں راجائوں اور فرماں روائوں سے ملاقاتیں بھی ہوتی ہوں گی۔ اور ظاہر ہے۔ کہ ان کی ملاقاتیں فائدہ سے خالی نہیں۔ سب سے بڑی بات یہ کہ برہان پور کے پاس پہنچا۔ تو راجی علی خاں حاکم خاندیس سے ملاقات ہو گئی۔ انہوں نے اپنی حکمت عملی اور حسن تقریر اور گرم جوشیوں کے جادو سے اسے رفاقت پر آمادہ کیا۔ لیکن ان جادوئوں کا اثر کچھ نہ کچھ وقت چاہتا ہے۔ اتنے میں شہزادہ کا فرمان آیا کہ مہم خراب ہوتی ہے۔ جلد حاضر ہو۔ اور ہرکاروں نے خبر پہنچائی۔ کہ شہزادہ نے لشکر کو آگے بڑھایا ہے۔ انہوں نے لکھا ۔ کہ راجی علی خاں آنے کو حاضر ہے۔ اور فدوی چلا آیا۔ تو اس مصلحت میں خلل آ جائے گا۔ شہزادہ کے دل میں کدورت تو ہوتی ہی جاتی تھی۔ اب بہت بڑھ گئی۔ خانخاناں کو بھی اس کے دربار کی خبریں برابر پہنچتی تھیں۔ اس عرضی نے جو وہاں رنگ دیا۔ اس کا حال سن کر اپنا لشکر فیل خانہ توپ خانہ وغیرہ وغیرہ اور اکثر امرا کو پیچھے چھوڑا۔ آپ راجی علی خان کو ساتھ لے کر دوڑے۔ شہزادے نے سن کر بیس ہزار لشکر رکاب میں لیا۔ اور آگے بڑھ گیا۔ انہوں نے مارا مار احمد نگر سے تیس کوس پر جا لیا۔ لگانے والوں نے ایسی نہیں لگائی تھی۔ جو بھی سکے۔ پہلے دن تو سلام ہی نصیب نہ ہوا۔ خان خاناں حیران کہ ہزار کارسازیوں سے میں ایسے شکص کو ساتھ لایا۔ جس کی رفاقت فتح و اقبال کی فوج ہے۔ یہ حسن خدمت کا انعام ملا۔ دوسرے دن ملازمت ہوئی تو شہزادہ تیوری چڑھائے منہ بنائے۔ یہ بھی خان خاناں تھے۔ رخصت ہو کر اپنے خمیوں میں آئے۔ مگر بہت رنج۔ اور فکر یہ کہ یہ عقل و تدبیر کا پتلا جو میرے ساتھ آیا ہے۔ اس حالت کو دیکھ کر کیا کہتا ہو گا اور جو جو کچھ میں نے سمجھایا تھا۔ اسے کیا سجھا ہو گا۔ امرا اور لشکر جو پیچھے تھا۔ وہ آئے مصلحت وقت یہ تھی کہ ان کے آنے کی شان و شوکت دکھاتے۔ انہیں خدمتیں سپرد ہوتیں۔ دل بڑھائے جاتے۔ یہاں دل داری کے بدلے دل شکنی اور دل آزاری۔ ہر دم آزردگیٔ غیر سبب را چہ علاج ما گذشتیم ز لطف تو غضب را چہ علاج وہ بھی آخر خان خاناں تھا۔ اٹھ کر اپنے لشکر میں چلا آیا۔ اس وقت سب کی آنکھیں کھلیں۔ امیروں کو دوڑایا۔ نامے لکھے۔ غرض جس طرح ہوا صفائی ہو گئی۔ مگر اس سے یہ قاعدہ معلوم ہو گیا۔ کہ ایک بالیاقت اور باسامان شخص جو سب کچھ کر سکتا ہے۔ وہ ماتحت ہو کر کچھ نہیں کر سکتا۔ بلکہ کام بھی خراب ہوتا ہے۔ اور وہ خود بھی خراب ہوتا ہے۔ جن لوگوں نے خان خاناں کا یہ حال کروایا۔ وہ اور امیروں کو کیا خاطر میں لاتے تھے۔ اوروں کو بھی بے عزت کرواتے تھے۔ اس لئے لشکر میں ناراضگیاں عام ہو رہی تھیں۔ راجی علی خاں کو بھی خان خاناں کا مہمان سمجھ کر دربار میں ایک آدھ چکمہ دے دیا۔ غرض مہم کا رنگ بگڑنا شروع ہوا۔ اب ادھر کی سنو۔ کہ چاند بی بی برہان الملک کی حقیقی بہن حسین نظام شاہ کی بیٹی۔ علی عادل شاہ کی بی بی علاوہ عظمت خاندانی اور عفت ذاتی کے اپنی عقل و تدبیر اور سخاوت و شجاعت۔ قدردانی کمال پروری کے جواہرات سے جڑائو پتلی تھی۔ اس واسطے نادرۃ الزمانی کہلاتی تھی۔ اور وہی ملک کی وارث رہ گئی تھی۔ جب اس نے دیکھا کہ ملک چلا۔ اور خاندان کا نام مٹتا ہے۔ تو چہرہ کی نقاب سے ہمت کی کمر باندھ کر کھڑی ہو گئی۔ اور امرا کو بلا کر تسلی اور دلاسے کے ساتھ سمجھایا۔ وہ بھی اکبری لشکر کو دریا کی طرح لہراتا دیکھ کر اپنے اور ملک کے انجام کو سوچے۔ جو عرضیاں شہزادہ کو اور اس کے خان خاناں کو بھیجی تھیں۔ ان پر بہت پچھتائے۔ سب نے مل کر مشورت کی۔ صلاح ٹھیری کہ چاند بی بی قلعہ احمد نگر میں سلطنت کی وارث بن کر تخت پر بیٹھے۔ ہم حق نمک ادا کریں۔ اور جہاں تک ہو سکے۔ احمد نگر کو بچائیں۔ اس شاہ مزاج بیگم نے جنگ کے سامان۔ غلوں کے ذخیرے جمع کرنے شروع کئے۔ دربار کے امیروں اور اطراف کے زمینداروں کی دلداری اور دلجوئی میں مصروف ہوئی۔ احمد نگر کو مضبوطی اور مورچہ بندی کر کے سد سکندر بنا لیا۔ بہادر شاہ بن ابراہیم شاہ کو برائے نام وارث ملک قرار دے کر تخت پر بٹھایا۔ ایک سراد کو بیجا پور بھیج کر ابراہیم عادل شاہ سے صلح کر لی۔ جمعیت و لشکر کو لے کر اپنی جگہ قائم ہو گئی۔ اور اس استقلال و انتظام سے مقابلہ کیا۔ کہ مردوں کے ہوش اڑ گئے۔ اور خاص و عام میں چاند بی بی سلطان کا نام ہو گیا۔ یہاں یہ بندوبست تھے۔ کہ شاہزادہ مراد امرائے کبار کے ساتھ پہنچا۔ اور فوج جرار کو لئے شمال احمد نگر سے اس طرح گرا جیسے پہاڑ سے سیل دریا بار گرے۔ یہ فوج میدان نماز گاہ میں ٹھیری۔ ایک دستہ دلاوروں کا۔ چبوترہ کے میدان کی طرف بڑھا۔ چاند بی بی نے قلعہ سے دکھنی بہادروں کو نکالا۔ انہوں نے تیر و تفنگ کے دہان و زبان سے جواب سوال کئے۔ قلعہ کے مورچوں سے گولے بھی مارے۔ اس لئے فوج شاہی آگے نہ بڑھ سکی۔ شام بھی قریب تھی۔ شاہزادہ اور تمام امیر باغ ہشت بہشت میں کہ برہان نظام شاہ نے سر سبز و سرفراز کیا تھا۔ اتر پڑے۔ دوسرے دن شہر کی حفاظت اور اہل شہر کی دلداری میں مصروف ہوئے۔ گلی کوچوں میں امان امان کی منادی کر دی۔ اور ایسا کچھ کیا کہ گھر گھر میں آمین آمین اور سوداگر۔ مہاجن سب کی خاطر جمع ہو گئی۔ دوسرے دن شاہزادہ ۔ مرزا شاہ رخ۔ خانخاناں شہباز خاں کمبو۔ محمد صادق خاں۔ سید مرتضیٰ سبزداری۔ راجی علی خاں حاکم برہانپور۔ راجہ جگن ناتھ مان سنگھ کا چچا وغیرہ امرا جمع ہوئے۔ کمیٹی کر کے محاصرہ کا انتظام کیا اور مورچے تقسیم ہو گئے۔ قلعہ گیری اور شہر داری کا کام نہایت اسلوب سے چل رہا تھا۔ کہ شہباز خاں کو شجاعت کا جوش آیا۔ شہزادے اور سپہ سالار کو خبر بھی نہ کی۔ جمعیت کثیر لے کر گشت کے بہانہ نکلا اور لشکر کو اشارہ کیا کہ امیر فقیر جو سامنے آئے لوٹ لو۔ دم کے دم میں کیا گھر کیا بازار تمام احمد نگر اور برہان آباد لٹ کر ستیا ناس ہو گیا۔ اور چونکہ اپنے مذہب میں نہایت تعصب رکھتا تھا۔ ایک مقام بارہ امام کا لنگر کہلاتا تھا۔ اور اس کے پاس تمام شیعہ آباد تھے۔ سب کوقتل و غارت کر کے دشت کربلا کا نقشہ کھینچ دیا۔ شہزادہ اور خان خاناں سن کر حیران ہو گئے۔ اسے بلا کر سخت ملامت کی۔ غارت گروں نے قتل ۔ قید۔ قصاص سے سزائیں پائیں۔ مگر کیا ہو سکتا تھا۔ جو ہونا تھا ہو چکا۔ غارت زدوں کے پاس کپڑا تک نہ تھا۔ رات کے پردہ میں جلا وطن ہو کر نکل گئے۔ اس موقعہ پر میاں منجھو تو احمد شاہ کو باشاہ بنائے عادل شاہ کے سر پر بیٹھے تھے۔ (۲) اخلاص حبشی موتی شاہ گمنام کو لئے دولت آباد کے علاقہ میں پڑے تھے۔ (۳) آہنگ خاں حبشی ستر برس کے بڈھے شاہ علی ابن برہان شاہ اول کے سرپر چتر لگائے کھڑے تھے۔ سب سے پہلے اخلاص خاں نے ہمت کی۔ دولت آباد کی طرف سے دس ہزار لشکر جمع کر کے احمد نگر کی طرف چلا۔ جب لشکر اکبر شاہی میں یہ خبر پہنچی تو سپہ سالار نے پانچ چھ ہزار دلاور انتخاب کئے۔ دولت خاں لودھی کو کہ ان کی سپاہ کا گذر سرہند تھا۔ اس پر سپہ سالار کر کے روانہ کیا۔ نہر گنگ کے کنارہ پر دونوں فوجوں کا مقابلہ ہوا۔ اور کشت و خون عظیم کے بعد اخلاص خاں بھاگے۔ لشکر بادشاہی نے لوٹ مار سے دل کا ارمان نکالا۔ وہیں پٹن کی طرف گھوڑے اٹھائے۔ شہر مذکور آبادی سے گلزار ہو رہا تھا۔ مگر اس طرح لٹا کہ کسی کے پاس پانی پینے کو پیالہ تک نہ رہا۔ ان باتوں نے اہل دکن کو ان لوگوں سے بیزار کر دیا اور جو ہوا موافق ہو ئی تھی۔ بگڑ گئی۔ میاں منجھو اگرچہ زور زر اور قوت لشکر رکھتا تھا۔ مگر ا س کی چالاکی غضب تھی۔ اس لئے چاند سلطان بیگم نے آہنگ خاں حبشی کو لکھا۔ کہ جس قدر ہو سکے۔ دکنی دلاوروں کی سپاہ فراہم کر کے حفاظت قلعہ کے لئے حاضر ہو۔ وہ سات ہزار سوار لے کر احمد نگر کو چلا۔ شاہ علی اور مرتضیٰ اس کے بیٹے کو ساتھ لیا۔ چھ کوس پر آ کر ٹھیرا۔ اور جاسوس کو بھیج کر حال دریافت کیا۔ کہ محاصرہ کا کیا طور ہے۔ اور کس پہلو پر زور زیادہ ہے۔ کس پہلو پر کم۔ اس نے دیکھ بھال کر خبر پہنچائی۔ کہ قلعہ کی شرقی جانب خالی ہے۔ ابھی تک کسی کو ادھر کا خیال نہیں۔ آہنگ خاں تیار ہوا۔ ادھر قدرت کا تماشا دیکھو کہ اسی دن شاہزادہ نے گشت کر کے یہ مقام دیکھا اور خانخاناں کو حکم دیا تھا۔ کہ ادھر بندوبست تم بذات خود کرو۔ اور وہ بھی اسی وقت ہشت بہشت سے اٹھ کر یہاں آن اترا اور جو مکانات پائے۔ ان پر قبضہ کر لیا۔ آہنگ خاں نے تین ہزار سوار انتخابی اور ہزار پیادہ توپچی ساتھ لئے اور اندھیری رات میں کالی چادر اوڑھ کر قلعہ کی طرف چلا۔ دونوں حریف ایک دوسرے سے بے خبر۔ خبر ہوئی تو اسی وقت کہ چھری کٹاری کے سوا بال بھر فرق نہ رہا۔ خانخاناں فوراً دو سو دلیروں کو لے کر عمارت عبادت خانہ کے کوٹھے پر چڑھ گیا اور تیر اندازی و تفنگ بازی شروع کر دی۔ ان کا میر شمشیر وہی دولت خاں لودھی سنتے ہی چار سو سواروں کو لے کر دوڑا۔ یہ اس کے ہم ذات اور ہم جان افغان تھے۔ جان توڑ کر اڑ گئے۔ پیر خاں دولت خاں کا بیٹا چھ سو بہادروں کو لے کر کمک کو پہنچا۔ اور اندھیرے ہی میں بزن بزن ہو نے لگی۔ آہنگ خاں نے دیکھا۔ کہ اس حالت کے ساتھ لڑنے میں سوا مرنے کے کچھ فائدہ نہیں۔ معلوم ہوا کہ خان خاناں کی تمام فوج مقابلہ میں مصروف ہے۔ خیمہ و خواب گاہ کی جانب خالی ہے۔ چار سو دکنی دلیر اور شاہ علی کے بیٹے کو لے کر گھوڑے مارے اور بھاگا بھاگ قلعہ میں گھس ہی گیا۔ شاہ علی ستر برس کا بڈھا تھا۔ اس کی ہمت نہ پڑی۔ دم کو غنیمت سمجھا۔ اور باقی فوج کو لے کر جس رستہ آیا تھا اسی رستہ بھاگا۔ دولت خاں نے اس کا پیچھا نہ چھوڑا مارا مار دوڑا دوڑ نو سو آدمی کاٹ کر الٹا پھرا۔ بادشاہی لشکر گرد پڑا تھا۔ مورچے امرا میں تقسیم تھے۔ سب زور مارتے تھے۔ اور کچھ نہ کر سکتے تھے۔ شہزادہ کی سرکار میں فتنہ انگیز کوتاہ اندیش جمع ہو گئے تھے۔ میدان میں دھاوا نہ مارتے تھے۔ ہاں دربار میں کھڑے ہو کر ایک دوسرے پر خوب پیچ مارتے تھے۔ شہزادہ کی تدبیر میں اتنا زور نہ تھا۔ کہ ان کی شرارتوں کو دبا سکے۔ اور آپ وہ کرے جو کہ مناسب ہو۔ یہ بات غنیم سے لے کر اس کی رعایا تک سب جان گئے تھے۔ بنجارے رستہ میں لٹتے تھے۔ رسد کی تنگی تھی۔ اندر سے گولے برستے تھے۔ مورچے خراب۔ دمدمہ ویران ہوتے تھے۔ رات کو شبخون مارتے تھے۔ نامی سردار مارے جاتے تھے۔ قلعہ کی اینٹ نہ ہلتی تھی۔ میدان میں بھی معرکے ہوتے تھے۔ کئی دفعہ غنیم نے شکست کھائی۔ پیچھا کرتے تو زیادہ کامیاب ہوتے۔ مگر اور سب کھڑے تماشا دیکھا کئے۔ ایک شب خان خاناں کے مورچے پر شبخون آیا۔ فوج ہشیار تھی۔ بڑی سختی سے مقابلہ کیا۔ دلاوروں کی سپاہ گری سرخرو ہوئی۔ حریف صبح ہوتے خاک اڑا کر قلعہ میں بھاگ گئے۔ اگر اور امرا تعاقب کرتے۔ حضور انور تازہ دم لشکر کو لے کر پہنچتے تو ساتھ ہی اندر گھس جاتے۔ نفاق و حسد کا منہ سیاہ کہ سب منہ دیکھا کئے۔ ہزار طرح کی کوششیں اور لاکھ جانکاہی سے موچے بڑھاتے بڑھاتے تین سرنگیں برجوں کے نیچے پہنچیں۔ روپیہ بھی بے حد ہی خرچ ہوا۔ مگر اس شیر بی بی نے اپنی ہمت اور جاسوسوں کی تلاش سے پتے لگا کر دو سرنگوں کے سرے نکال لئے۔ دھاوے سے ایک دن پہلے زمین کھود کر باروت کے تھیلے کھینچ لیے۔ طرہ اس پر یہ کہ مشکیں اور ٹہلیاں بھر بھر کر اتنا پانی ڈلوایا۔ کہ آگ کی جگہ پانی ابلنے لگا۔ قلعہ والے تیسری نقب کی فکر میں تھے۔ کہ ادھر سے شہزادہ اور خان خاناں فوجیں لے کر سوا ر ہوئے۔ اور بہادر دھاوے کے لئے تیار کھڑے۔ حکم ہوا کہ فتیلوں کو آگ دکھائو۔ واہ وا صادق محمد خاں فساد کی دیا سلائی۔ اورا نہی کی سرنگ پانی پانی پائی۔ جس سے طوفان نے کیا تھا ظہور ان کے فانی کے گھر کا تھا وہ تنور دوسری کو آگ دی وہ بھی فش۔ تیسری اڑی کہ یہی سب سے بڑی بھی تھی۔ پچاس گز دیوار گری۔ جب قیامت نموداری ہوئی۔ دنیا دھواں دھار ہو گئی۔ الٰہی تیری امان۔ پتھر اور آدمی کبوتروں کی طرح ہوا میں اڑے جاتے تھے۔ اور قلابازیاں کھاتے زمین پر آتے تھے۔ کہیں کے کہیں کوسوں پر جا پڑے۔ امرا میں سے کسی نے دھاوانہ کیا۔ حیران کھڑے تھے کہ اور سرنگیں کیوں نہیں اڑتیں۔ آگے نہ بڑھتے تھے۔ کہ مبادا چتوڑ والی آفت یہاں بھی نازل ہو۔ اور بات وہی تھی۔ کہ اپنی اپنی جگہ جی چرا گئے۔ ایک دوسرے کا منہ دیکھتا تھا۔ آپس کی پھوٹ سے بڑا وار خالی کھویا۔ قلعہ والوں کی خاطر جمع تھی۔ کہ امرائے شاہی یک دل نہیں ہیں۔ آہنگ خاں وغیرہ بڑے بڑے نامی گرامی امیروں نے جب یہ حال دیکھا تو سب پیچھے ہٹے۔ اور صلاح ٹھیرائی کہ قلعہ خالی کر کے نکل چلیں۔ مگر آفرین ہے۔ چاند بی بی کی ہمت مردانہ کو۔ اس شیر دل عورت نے اتنی ہی فرصت کو غنیمت سمجھا۔ برقع سر پر ڈالا۔ تلوار کمر سے لگائی۔ دوسری تلوار سونت کر ہاتھ میں لے بجلی کی طرح برج پر آئی۔ تختے۔ کڑیاں۔ بانس ۔ ٹوکرے گارے کے بھرے تیار تھے۔ بڑے بڑے تھیلے اور سارے مصالحہ لئے اتنے وقت کی منتظر بیٹھی تھی۔ گری ہوئی دیوار پر آپ کھڑی ہوئی ۔ میٹھی زبان۔ زر کا زور کچھ لالچ کچھ دھمکاوے سے۔ غرض ایسا کچھ کیا کہ عورت اور مرد سب آ کر لپٹ گئے۔ پل کے پل میں فصیل کو برابر اٹھا لیا۔ اور اس پر چھوٹی چھوٹی توپیں چڑھا دیں۔ جب بادشاہی لشکر ریلا دے کر جاتا ادھر سے گولے اس طرح آتے جیسے اولے برستے ہیں۔ اکبری فوج، موج کی طرح ٹکر کھا کر الٹی پھرتی تھی۔ ہزاروں آدمی کام آئے۔ اور کام کچھ نہ ہوا۔ شام کو ناکام ڈیروں کو پھر آئے۔ جب رات نے اپنی سیاہ چادر تانی ۔ شہزادہ مراد لشکر اور مصاحبوں سمیت نامراد اپنے ڈیروں پر چلے آئے۔ چاند بی بی چمک کر نکلی۔ بہت سے راج اور معمار جلد کار ہزاروں مزدور اور بیلدار تیار تھے۔ آپ گھوڑے پر سوار تھی۔ مشعلیں روشن تھیں۔ چونے گچ کے ساتھ چنائی شروع کر دی۔ روپے اور اشرفیاں مٹھیاں بھر کر دیتی جاتی تھی۔ راج مزدوروں کا بھی یہ عالم تھا۔ کہ پتھر اور اینٹ بالائے طاق۔ ملبہ ۔ لکڑ۔ بلکہ مردوں کی لاشیں تک جو ہاتھ میں آتا تھا۔ برابر چنتے جاتے تھے۔ بادشاہی لشکر صبح کو اٹھا۔ اور مورچوں پر نظر ڈالی۔ دیکھیں تو پچاس گز فصیل جس کا تین گز عرض تھا۔ راتوں رات سد سکندر۔ اس کے علاوہ جو جو تدبیریں اس ہمت والی بی بی نے کیں۔ اگر تفصیل لکھوں تو دربار اکبری میں چاندنی کھل جائے۔ کہتے ہیں۔ اخیر کو جب غلہ ہو چکا اور رسد بند ہو گئی۔ اور کہیں سے کمک نہ پہنچی تو اس نے لشکر بادشاہی پر چاندی سونے کے گولے ڈھال ڈھال کر مارنے شروع کر دئیے۔ اس عرصے میں خان خاناں کو خبر لگی۔ کہ سہیل خاں حبشی عادل شاہ کا نائب ستر ہزار فوج جرار لے کر آتا ہے۔ ساتھ ہی معلوم ہوا کہ رسد اور بنجارہ کا رستہ بھی بند ہو گیا۔ آس پاس کے میدانوں میں لکڑی بلکہ گھاس کا تنکہ تک نہ رہا۔ گرد کے زمیندار سب پھر گئے۔ لشکر کے جانور بھوکوں مرنے لگے۔ ادھر سے چاند بی بی نے صلح کا پیغام بھیجا۔ کہ برہان الملک کے پوتے کو حضور میں حاضر کرتی ہوں۔ احمد نگر اس کی جاگیر ہو جائے۔ ملک برار کی کنجیاں ۔ عمدہ ہاتھی جواہر گراں بہا۔ نفائس و عجائب شاہانہ پیش کرتی ہوں۔ آپ محاصرہ اٹھا لیں۔ باخبر اہلکاروں نے عرض کی کہ قلعہ میں ذخیرہ نہیں رہا اور غنیم نے ہمت ہار دی ہے۔ کام آسان ہو گیا۔ صلح کی کچھ حاجت نہیں۔ مگر روئے طمع سیاہ۔ کچھ رشوتوں نے پیچ مارا۔ کچھ حماقتوں نے آنکھوں میں خاک ڈالی۔ صلح پر راضی ہو گئے۔ باہر سے یہ خبر لگی تھی۔ کہ بیجا پور سے عال شاہی لشکر جمعیت کر کے چاند بی بی کی مدد کو آتا ہے۔ چارو ناچار ۔ سب الصلح خیر کا عقد پڑھ کر رخصت ہوئے۔ اور محاصرہ اٹھا لیا۔ شاہزادہ نے جب عادل شاہ کی فوج کی آمد سنی۔ دفعتہ دفعیہ کو چلا۔ چند منزل پر سنا کہ خبر ہوائی تھی۔ یہ ادھر سے برار کو مڑے۔ مگر بے لیاقت سردار محاصرہ سے ایسے بے طور اٹھے تھے کہ غنیم پیچھے پیچھے نقارے بجاتا آیا۔ اور جہاں قابو پایا۔ اسباب اور مال لوٹتا آیا۔ لشکر بدحال تھا۔ بے سامانی اور رسد کی کمی حد سے گزر گئی تھی۔ امرا میں پھوٹ پڑی ہوئی تھی۔ کوئی روک نہ سکا۔ سپہ سالار آزمودہ کار اور منتظم روزگار تھا۔ چاہتا ۔ تو سارے کاروبار باتوں باتوں میں درست کر لیتا۔ مگر شیطانوں نے شہزادے کے کان میں یہ پھوکی تھی کہ خان خاناں چاہتا ہے کہ فتح میرے نام ہو۔ غلام حضور کے جاں نثار ہیں۔ کہ حضور کا نام روشن ہو۔ مورکھ شہزادہ نہ سمجھا کہ ان نالائقوں سے کچھ نہ ہو سکے گا۔ خان خاناں خاموش۔ جو حکم ہو تا تھا۔ سو کرتا تھا۔ اور ان کی عقل و تدبیر کے تماشے دیکھتا تھا۔ کبھی ہنستا تھا۔ کبھی جلتا تھا۔ پھر بھی جہاں تک ممکن تھا۔ مہم کو سنبھالے جاتا تھا۔ کہ آقا کا کام نہ بگڑے۔ ملک دکن کی کنجی (راجی علی خاں) اس کی کمر میں تھی۔ وہ عجب جوڑ توڑ کے مضمون نکالتا تھا۔ خان مذکور کی بیٹی کو شاہزادہ مراد سے منسوب کر کے اکبر کا سمدھی بنا دیا۔ اب وہ خواہ مخواہ لشکر میں شامل تھا۔ کئی ہزار فوج اس کے ساتھ ۔ داماد کو چھوڑ کر خسر کہاں جا سکتا ہے۔ اسی عرصہ میں برار پر قبضہ ہو گیا۔ بادشاہی لشکر نے وہاں مقام کیا۔ شاہزادہ نے شاہ پور آباد کر کے اپنا پایہ تخت بنایا۔ علاقے امرا کی جاگیر میں تقسیم کئے۔ اونٹ۔ گھوڑے اطراف میں بھیج دئیے۔ مگر مشکل یہ تھی۔ کہ خود پسند اور خود رائے غضب کا تھا۔ باپ کے رکن دولت جاں نثاروں کو ناحق ناراض کرتا تھا۔ چنانچہ شہباز خاں کمبو ایسا تنگ ہوا۔ کہ بے اجازت اٹھ کر اپنے علاقے کو چلا گیا۔ وہ کہتا تھا۔ کہ صلح کرنی صلاح وقت نہیں۔ میں دھاوا کرتا ہوں۔ احمد نگر کی لوٹ میری فوج کو معاف ہو شاہزادہ نے نہ مانا۔ باوجود ان باتوں کے شہزادہ نے اطراف ملک پر قبضہ کے ہاتھ پھیلائے۔ چنانچہ پاتری وغیرہ علاقے لے لئے۔ سہیل خاں عادل شاہ کی طرف سے امرائے احمد نگر کے جھگڑے چکانے آیا تھا۔ وہ پھرا ہوا جاتا تھا۔ اس نے جب یہ خبریں سنیں۔ تو بہت برہم ہوا۔ اس کے علاوہ چاند سلطان نے بھی عادل شاہ کو جو رشتہ میں چھوٹا دیور ہوتا تھا لکھا اس پر فرمان روایان دکن نے اتفاق کر کے لشکر جمع کئے۔ اور سب متفق ہو کر ساٹھ ہزار جمعیت کے ساتھ فوج بادشاہی پر آئے۔ خان خاناں کا اقبال مدت سے خواب ناز میں پڑا سوتا تھا۔ اس نے انگڑائی لے کر کروٹ لی۔ چنانچہ یہ حال دیکھ کر اس نے شہزادہ اور صادق محمد خاں کو شاہ پور میں چھوڑا۔ اب شاہ رخ مرزا اور راجی علی خاں کو لے کر بیس ہزار فوج کے ساتھ بڑھا۔ اس معرکہ کی فتح خان خاناں کا وہ کارنامہ ہے۔ کہ افق مشرق پر شعاع آفتاب سے لکھا جائے۔ نہر گنگ کے کنارے سون پت کے پاس مقام کیا۔ اور یہاں چند روز ٹھیر کر ملک کا حال معلوم کیا۔ لوگوں سے واقفیت پیدا کی۔ ایک دن فوجیں آراستہ کر کے مقام اشتی پر فوجوں کی تقسیم کی۔ دریا میں پانی بہت کم تھا۔ پایاب اترگہ باتھری سے بارہ کوس ماندیر کے مقام پر میدان جنگ قرار پایا۔ ۱۷ جمادی الثانی ۱۰۰۵؁ھ / 1597ء تھی کہ سہیل خاں عادل شاہ کا سپہ سالار تمام فوجوں کو لے کر میدان میں آیا۔ دائیں پر امرائے نظام شاہی۔ بائیں پر قطب شاہی۔ آپ بڑے غروروں کی فوج لے کر نشان اڑاتا آیا۔ اور قلب میں قائم ہوا۔ لشکر کا شمار ہزاروں سے بڑھا ہوا تھا۔ وہ سارا ٹڈی دل بڑے گھمنڈ اور دھوم دھام سے جرأت کے قدم مارتا آغے بڑھا۔ چغتائی سپہ سالار بھی بڑے آن بان سے آیا۔ چاروں طرف پرے جما کر قلعہ باندھا۔ جن میں راجی علی خاں اور راجہ رام چندر راجپوت دائیں پر تھے۔ خود مرزا شاہ رخ اور مرزا علی بیگ اکبر شاہی کو لئے قلب میں کھڑا تھا۔ پہر دن چڑھا تھا۔ کہ توپ کی آواز میں لڑائی کا پیغام پہنچا۔ سہیل خاں کو اس معرکے میں بڑا گھمنڈ اپنے توپخانہ پر تھا۔ فی الحقیقت ہندوستان میں اول توپخانہ آیاتو دکن میں آیا۔ وہ ملک کئی بندرگاہوں سے ملا ہوا تھا۔ جو سامان اس کا وہاں تھا۔ اور کہیں نہیں تھا۔ اس کا آتش خانہ جیسا عمدہ تھا۔ ویسا ہی بہتات کے ساتھ تھا۔ پہلے ہی ہراول نے ہراول سے ٹکر کھائی۔ راجی علی خاں اور راجہ رام چندر نے توپ خالی کرنے کی فرصت ہی نہ دی۔ اور جا ہی پڑے۔ پھر بھی ہراول کی فوجیں غالب و مغلوب ہر کر کئی دفعہ بڑھیں اور ہٹیں۔ مگر بہادران مذکور کو اٹھا کر پھینک دیا۔ دکھنی پیچھے ہٹے مگر حکمت عملی کے ساتھ ۔ لشکر بادشاہی کو کھینچ کر ایک دشوار گذار مقام میں لے گئے۔ پھر جو پلٹے تو دست راست سے آئے۔ اور ادھر ادھر سے نکل کر چاروں طرف پھیل گئے۔ لڑائی کا دریا میدان میں موجیں مار رہا تھا۔ اور فوجیں ٹکرا کر بھنور کی طرح چکر مارتی تھیں۔ سردار حملے کرتے تھے۔ مگر اس دریا کا کنارہ نظر نہ آتا تھا۔ دن ڈھل گیا۔ اور لڑائی بدستور جاری۔ دفعتہ ایک لطیفہ غیبی نمودار ہوا۔ اسے تائید الٰہی کہو یا خان خاناں کی نیک نیت کا پھل سمجھو۔ تدبیر کو اصلا دخل نہیں۔ علی بیگ رومی توپخانہ غنیم کا افسر تھا۔ خود بخود ادھر سے پہلو بچا کر نکلا۔ گھوڑا مار کر خان خاناں کے پاس آ کھڑا ہوا۔ اور کہا۔ آپ کیا کر رہے ہیں۔ حریف نے تمام توپ خانہ ٹھیک آپ کے مقابل میں چن رکھا ہے۔ اور اب مہتاب دکھایا چاہتا ہے۔ جلد دائیں کو ہٹیے۔ خان خاناں کو اس کے قیافہ سے معلوم ہوا کہ جھوٹا نہیں۔ مقام اور انداز کا پورا حال پوچھا۔ اور بڑے بندوبست کے ساتھ فوج کو پہلو میں سرکایا۔ ساتھ ہی دو سوار راجی علی خاں کے پاس بھیجے کہ حال یہ ہے۔ تم بھی جگہ بدلو۔ خدا کی قدرت اس کی سمجھ الٹی پڑی۔ فوراً جگہ سے سرکا۔ اور جہاں سے خان خاناں ہٹا تھا۔ وہاں آن کھڑا ہوا۔ قضا کا گول انداز ساعت کا منتظر تھا۔ اس کا ادھر آنا تھا۔ کہ موت نے مہتاب دکھائی۔ عالم اندھیر ہو گیا۔ دیر تک تو کچھ دکھائی ہی نہ دیا۔ حریف نے سپہ سالار کو سامنے سمجھ کر آگ دیتے ہی حملہ کر دیا۔ یہاں راجی علی خاں اپنی فوج کو لئے کھڑا تھا۔ عجب گھمسان کا رن پڑا۔ اور افسو سکہ وہ ملک دکن کی کنجی اسی میدان کی خاک میں کھوئی گئی۔ کچھ شک نہیں۔ کہ اس نے اور راجہ رام چندر نے بڑی بہادری اور ثابت قدمی سے ڈٹ کر جان دی۔ اور تیس ہزار دلاور اس کے ساتھ کھیت رہے۔ اب دو گھڑی سے زیادہ دن نہیں رہا۔ سہیل خاں نے دیکھا کہ سامنے میدان صاف ہے۔ خیال یہ کہ خان خاناں کو اڑا دیا۔ اور فوج کو بھگا دیا۔ و ہ حملہ کر کے آگے بڑھا۔ شام قریب تھی۔ جہاں صبح کو بادشاہی لشکر میدان جما کر کھڑا ہوا تھا۔ وہاں آن پڑا۔ ادھر خان خاناں کو خبر نہیں۔ کہ راجی علی خان کا کیا حال ہے۔ جب اس نے دیکھا۔ کہ آگ کا بادل سامنے سے ہٹا ۔ گھوڑوں کی باگیں لیں۔ اور اپنے سامنے کی فوج پر جا پڑا۔ اس نے اپنے حریف کو تباہ کر دیا۔ سہیل خاں کی فوج نے سجے ہوئے خیمے خالی پائے۔ اونٹ اور خچر قطار در قطار اور بیل ٹٹو لدے ہوئے تیار۔ ان میں خان خاناں کے خاصہ اور کارخانوں کے صندوق سرخ و سبز باناتیں منڈھے ہوئے تھے۔ فوج دکن کے سپاہی اسی نواح کے رہنے والے تھے۔ جو باندھ سکے وہ باندھا۔ چھائونی کو چھوڑا۔ اور ان باربرداریوں کو آگے ڈال۔ خاطر جمع سے اپنے اپنے گھروں کی راہ لی۔ خود اپنی فوج کے بیوفائوں نے بھی مروت کے سر میں خاک ڈالی۔ یہ گھر کے بھیدی تھے۔ خزانوں اور بیش بہا کارخانوں پر گر پڑے۔ اور طمع کے تھیلے خوب دل کھول کر بھرے۔ اگرچہ سہیل خاں کی فوج قتل ہوئی تھی اور بھاگی بھی تھی۔ مگر اس کا دل شیر تھا۔ کہ سپہ سالار کو اڑا دیا ہے۔ جب شام ہوئی۔ تو سمجھا کہ اس وقت کھنڈے ہوئے لشکر کو سمیٹنا مشکل ہے۔ پاس ہی ایک گولی کے پٹے پر نالہ بہتا تھا۔ وہیں تھم گیا۔ تھوڑی سی فوج ساتھ تھی۔ اسے لے کر اتر پڑا کہ جس طرح ہو۔ رات کاٹ لے۔ خان خاناں نے بھی اپنے سامنے سے دشمن کو بھگا دیا تھا۔ وہ وہاں جا پہنچا۔ جہاں سہیل خاں کا آتش خانہ پڑا تھا۔ اندھیرے میں یہ بھی وہیں ٹھیر گیا۔ اس کی فوج بھی بھاگ گئی تھی۔ اور اکثر سپاہی تو ایسے بھاگے تھے۔ کہ شاہ پور تک دم نہ لیا۔ بہت لٹیرے وہیں جنگل میں دریا کے کنارے غاروں اور کڑاڑوں میں بیٹھ رہے تھے۔ کہ صبح کو حریف کی آنکھ بچا کر نکل جائیں گے۔ خان خاناں نے یہاں سے سرکنا مناسب نہ سمجھا۔ توپوں کے تخت اور میگزین کے چھکڑے آگے ڈال کر مورچے بنا لئے اور توکل بخدا وہیں ٹھیر گیا۔ وہی وفا کے بندے جو جان کے بات پر قربان کیا کرتے ہیں۔ اس کے گرد تھے۔ کوئی سوار نہ تھا۔ کوئی گھوڑے کی باگ پکڑے زین پر بیٹھا تھا۔ اس کی نگاہیں آسمان کی طرف تھیں۔ کہ دیکھئے صبح۔ صبح مراد ہوتی ہے۔ یا صبح قتل۔ لطف یہ کہ غنیم پہلو میں کھڑا ہے۔ ایک کی ایک کو خبر نہیں۔ اب اقبال اکبری کی طلسم کاری دیکھو۔ کہ سہیل خان کے غلام ہوا خواہ کوئی چراغ کوئی مشعل جلا کر اس کے سامنے لائے۔ خان خاناں اور اس کے رفیقوں کو روشنی نظر آئی۔ آدمی بھیجے کہ معلوم کریں۔ حال کیا ہے۔ وہاں دیکھیں تو سہیل خاں چمک رہے ہیں۔ کئی توپیں اور زنبورک دکنی توپ خانہ کے بھرے کھڑے تھے۔ جھٹ انہیں سیدھا کر کے نشانہ باندھا اور داغ دیا۔ گولے بھی ٹھیک موقع پر گرے۔ اور معلوم ہوا ۔ کہ حریف کے غول میں ولولہ پڑا۔ کیونکہ وہ گھبرا کر جگہ سے ہٹے۔ سہیل خاں حیران ہوا۔ کہ یہ غیبی گولے کدھر سے آئے۔ آدمی بھیج کر آس پاس کے رفیقوں کو بلایا۔ ادھر خان خاناں نے فتح کے نقارے ۰پر چوٹ دے کر حکم دیا کہ کرنا میں شادیانہ فتح بجائو۔ رات کا وقت جنگل میں آواز گونج کر پھیلی۔ بادشاہی سپاہی جو کھنڈے بکھرے تھے۔ انہوں نے اپنے لشکر کی کرنا پہچانی۔ اورسب نکل کر فتح کی آواز پر آئے۔ وہ پہنچے تو پھر مبارکباد کی کرنا پھونکی۔ اور جب کوئی سردار فوج لے کر پہنچتا تھا۔ اللہ اللہ کا نعرہ کرنا میں ادا کرتے تھے۔ رات بھر میں ۱۱ دفعہ کرنا بجی۔ سہیل خاں بھی آدمی دوڑا رہا تھا۔ اور اپنی جمعیت کو درست کرتا تھا۔ لیکن اس کی فوج کا یہ عالم تھا۔ کہ جوں جوں اکبری کرنا کی آواز سنتے تھے۔ ہوش اڑے جاتے تھے۔ سہیل خاں کے نقیب بھی بولتے اور بولاتے پھرتے تھے۔ مگر سپاہیوں کے دل ہارے جاتے تھے۔ گڑھوں اور گوشوں میں چھپتے تھے۔ اور درختوں پر چڑھتے تھے۔ کہ جان کس طرح بچائیں؟ صبح ہوتے خان خاناں کے سپاہی دریا پر پانی لینے گئے۔ خبر لائے کہ سہیل خاں بارہ ہزار فوج سے جما کھڑا ہے۔ اس وقت ادھر چار ہزار سے زیادہ جمعیت نہ تھی۔ مگر اکبری اقبال کے سپہ سالا رنے کہا۔ کہ اندھیرے کو غنیمت سمجھو۔ اس کے پردہ میں بات بن جائے گی۔ تھوڑی فوج ہے۔ دن نے پردہ کھول دیا تو مشکل ہو جائے گی۔ دھندلکے کا وقت تھا۔ صبح ہوا چاہتی تھی۔ اتنے میں سہیل خاں چمکا اور فوج کو ہوائے جنگ میں جنبش دی۔ توپیں سیدھی کیں اور ہاتھیوں کو سامنے کر کے ریلا دیا۔ ادھر سے اکبری سپہ دار نے دھاوے کا حکم دیا۔ فوج دن بھر رات بھر کی بھوکی پیاسی۔ سرداروں کی عقل حیران۔ دولت خاں ان کا ہراول تھا۔ گھوڑا مار کر آیا۔ اور کہا کہ اس حالت کے ساتھ فوج کثیر پر جانا جان کا گنوانا ہے۔ مگر میں اس پر بھی حاضر ہوں۔ چھ سو سوار ساتھ ہیں۔ غنیم کی کمر میں گھس جائوں گا۔ خانخاناں ۱؎ نے کہا۔ دلی کا نام برباد کرتے ہو۔ اس نے کہا (ہائے دلی خان خاناں کو بھی تو بہت پیاری تھی۔ کہا کرتا تھا کہ مروں گا تو دلی ہی میں مروں گا) اگر اس وقت دشمن کو دے مارا۔ تو سو دلیاں خود کھڑی کر دیں گے۔ مر گئے تو خدا کے حوالے۔ دولت خاں نے چاہا۔ کہ گھوڑے اٹھائے۔ سید قاسم بارہ بھی اپنے سید بھائیوں کو لئے کھڑے تھے۔ انہوں نے آواز دی۔ بھائی ہم تم تو ہندوستانی ہیں۔ مرنے کے سوا دوسری بات نہیں۔ نواب کا ارادہ تو معلوم کر لو۔ دولت خاں پھر پلٹے اور خان خاناں سے کہا۔ سامنے۲؎ یہ ازنبوہ ہے اور فتح آسمانی ہے۔ یہ تو بتا دیجئے۔ کہ اگر شکست ہوئی۔ تو آپ کو کہاں ڈھونڈ ملیں۔ خان خاناں نے کہا۔ سب لاشوں کے نیچے۔ یہ کہہ کر لودھی پٹھان نے سادات بارہ کے ساتھ باگیں لیں۔ میدان سے کٹ کر پہلے گھونغھٹ کھایا۔ اور چکر دے کر ایک مرتبہ غنیم کی کمر گاہ پر گرا۔ ان میں ہل چل پڑ گئی۔ اور یہ ٹھیک وہی وقت تھا۔ کہ خان خاناں سامنے سے حملہ کر کے پہنچا تھا۔ اور لڑائی دست و گریباں ہو رہی تھی۔ سہیل خاں کا لشکر بھی آٹھ پہر کا ہارا۔ بھوک پیاس کا مارا تھا۔ ایسا بھاگا۔ جس کی ہر گز امید نہ تھی۔ پھر بھی بڑا کشت و خون ہوا۔ سہیل خاں کئی زخم کھا کر گرا۔ قدیمی وفادار پروانوں کی طرح آن گرے۔ اٹھا کر گھوڑے پر بٹھایا۔ اور دونوں بازو پکڑ کر معرکہ سے نکال لے گئے۔ تھوڑی دیر میں میدان صاف ہو گیا۔ خانخانی لشکر ۱؎ خان خاناں نے کہا۔ نام دہلی برباد میدہی۔ دولت خاں نے کہا۔ اگر حریف را برداشتیم صد دہلی ایجاد کنیم۔ و اگر مردیم کا ر باخداست۔ ۲؎چنیں انبوہے در پیش است و فتح آسمانی۔ اگر شکست رو و بد۔ جائے نشان وہید کہ شمارا دریا بیم۔ خان خاناں نے کہا۔ در زیر لا شہا۔ میں لے لاگ فتح کے نقارے بجنے لگے۔ بہادروں نے میدان جنگ کو دیکھا۔ ستھرائو پڑا تھا۔ صحن فلک ز دیدۂ قربانیاں پر است یا آنکہ در کمان قضا یک خدنگ بود لوگوں نے مشہور کر دیا۔ کہ راجی علی خاں میدان سے بھاگ کر الگ ہو گیا۔ بعضوں نے ہوائی اڑائی تھی۔ کہ غنیم سے جا ملا۔ دیکھا تو بڈھا شیر ناموری کے میدان میں سرخرو پڑا سوتا ہے۔ ۳۵ سردار نامدار اور پانچ سو غلام وفادار گرد کٹے پڑے ہیں۔ اس کی لاش بڑی شان و شوکت سے اٹھا کر لائے۔ اور بدزبانوں کے منہ کالے ہو گئے۔ خان خاناں کو فتح کی بڑی خوشی ہوئی۔ مگر اس حادثہ نے سب مزا کرکرا کر دیا۔ فتح کے شکرانہ میں نقد و جنس ۷۵ لاکھ روپیہ کا مال ساتھ تھا۔ سب سپاہ کو بانٹ دیا۔ فقط ضروری اسباب کے دو اونٹ رکھ لئے۔ کہ اس بغیر چارہ نہ تھا۔ یہ معرکہ خان خاناں کے اقبال کا وہ کارنامہ تھا۔ جس کے دمامہ سے سارا ہندوستان گونج اٹھا۔ بادشاہ کو عرضی پہنچی۔ وہ بھی عبداللہ اوزبک کے مرنے کی خبر سن کر پنجاب سے پھرے تھے اس خوشخبری سے نہایت خوش ہوئے۔ خلعت گراں بہا اور تحسین و آفرین کا فرمان بھیجا۔ جہاں جہاں دشمن تھے۔ سناٹے میں آ کر دم بخود رہ گئے۔ یہ فتح کے نشان اڑاتے۔ شادیانے بجاتے شاہ پور میں آئے۔ شہزاد کو مجرا کیا۔ اور تلوار کھول کر اپنے خیمہ میں بیٹھ گئے۔ صادق محمد وغیرہ شہزادہ کے مصاحب و مختار مخالفت کی دیا سلائی سلگائے جاتے تھے۔ ادھر خان خاناں عرضیاں کر رہا تھا۔ ادھر شاہزادہ۔ شہزادہ نے باپ کو کہاں تک لکھا۔ کہ حضور ابوالفضل اور سید یوسف خاں مشہدی کو بھیج دیں۔ خان خاناں کو بلا لیں۔ خان خاناں بھی اسی کے لاڈلے تھے۔ انہوں نے لکھا کہ حضور شہزادہ کو بلا لیں۔ خانہ زاد اکیلا فتح کا ذمہ لیتا ہے۔ یہ بات بادشاہ کو ناگوار گذری۔ شیخ نے اکبر نامہ میں کیا مطلب کا عطر نکالا ہے۔ چنانچہ لکھتے ہیں۔ حضور کو معلوم ہوا۔ کہ شاہزادہ اکھڑے ہوئے دل کا جوڑنا آسان سمجھتا ہے۔ اور جس طرح چاہئے۔ اس طرح نہیں رہتا اور خان خاناں نے دیکھا کہ میری بات نہیں چلتی۔ اس لئے وہ اپنی جاگیر کو روانہ ہو گیا۔ راجہ سالباہن کو حکم ہوا۔ کہ تم شاہزادہ کو لے کر آئو۔ کہ نصائح مناسب سے رہنمائی کر کے پھر بھیجیں۔ اور روپسیہ خواص کو خان خاناں کے پاس بھیجا۔ کہ جس مقام پر ملو وہیں سے دھتکار کر الٹا پھیر دو اور کہو۔ کہ جب تک شہزادہ دربار سے رخصت ہو کر وہاں پہنچے۔ ملک و سپاہ کا انتظام کرو۔ اگرچہ شہزادہ شراب خوری اور اس کی بدحالیوں کے سبب سے آنے کے قابل نہ تھا۔ مگر حضوری دربار کا ارادہ کیا۔ اس کے مزاج دانوں نے خیر خواہی خرچ کر کے کہا۔ کہ اس وقت ملک سے حضور کا جانا مناسب نہیں۔ شہزادہ رک گیا۔ ادھر خان خاناں نے کہا۔ کہ جب تک شہزادہ وہاں ہے۔ میں نے جائوں گا۔ بادشاہ کو یہ باتیں پسند نہ آئیں۔ اور دل کو ناگوار گذریں۔ غرض ۱۰۰۶؁ھ/ 1598ء خانخاناں اپنے علاقہ پر گئے۔ وہاں سے دربار میں آئے۔ کئی دن تک عتاب و خطاب میں رہے۔ وہ بھی دو پشت کے مزاج دان تھے۔ اور جا دو بیان۔ جب عرض معروض کے موقعے پائے۔ شہزادہ کی بدصحبتی و بادہ خواری و بے خبری اور مصاحبوں کی بدذاتیوں کے سب حالات سنائے۔ غبار کدورت کو دھویا۔ چند روز میں جیسے تھے۔ ویسے ہی ہو گئے۔ شیخ ۱؎ اور سید دکن کو بھیجے گئے۔ شہزادہ کی نوبت حد سے گذر چکی تھی۔ شیخ کے پہنچنے تک بھی نہ ٹھہر سکا۔ یہ رستہ ہی میں تھے۔ کہ وہ ملک عدم کو روانہ ہو گیا۔ افسوس ہے اس نوجوانی دیوانی پر کہ بادہ کشی کی ہوا میں اپنی جان برباد کی۔ یعنی مراد تیس برس کی عمر ۱۰۰۷؁ھ / 1599ء میں نامراد ناشاد دنیا سے گیا۔ ۱۰۰۶؁ھ میں شاہ عباس نے یہ حال دیکھ کر بلاد خراساں پر مہم کی اور فتح یاب ہوا۔ انہی دنوں میں تحائف گراں بہا کے ساتھ ایلچی دربار اکبری میں بھیجا۔ اسی سال خان خاناں نے حیدر قلی نوجوان بیٹے کا داغ اٹھایا۔ اسے بہت چاہتا تھا۔ اور پیار سے حیدری کہا کرتا تھا۔ اسے بھی شراب کے شراروں نے کباب کیا۔ نشہ میں مست پڑا تھا۔ آگ لگ گئی۔ مستی کا مارا اٹھ بھی نہ سکا۔ اور جل کر مر گیا۔ اسی برس بادشاہ لاہور سے آگرہ جاتے تھے۔ سب امرا ساتھ تھے۔ ماہ بانو بیگم خان اعظم کی بہن خان خاناں کی بیگم مدت سے بیمار تھیں۔ انبالہ کے مقام میں ایسی طبیعت بگڑی۔ کہ وہیں چھوڑنا مناسب معلوم ہوا۔ بادشاہ ادھر روانہ ہوئے۔ بیگم نے ملک عدم کو کوچ کیا۔ اکبر بادشاہ کی کوکی۔ مرزا عزیز کوکہ کہ بہن۔ خان خاناں کی بیگم تھیں۔ دو امیر دربار سے آئے۔ اور رسوم سوگواری کو ادا کیا۔ اکبر بلکہ تمام سلاطین چغتائی ملک موروثی کہ کر سمر قند و بخارا کے نام پر جان دیتے تھے۔ ۱۰۰۵؁ھ میں عبداللہ اوزبک کے مرنے سے ترکستان میں ہل چل مچ رہی تھی۔ روز بادشاہ ہوتے تھے روز مارے جاتے تھے۔ دکن میں جو لڑائیاں پھیلی ہوئی تھیں۔ شیخ اور سید کی تدبیر اور شمشیر انہیں سمیٹ نہ سکتی تھی۔ اکبر نے امرا کو جمع کر کے صلاح کی کہ پہلے دکن کا فیصلہ کرنا چاہیے یا اسے ملتوی کر کے ادھر چلنا مناسب ہے۔ اس بات کا بھی رنج تھا۔ کہ وہان جوان بیٹا جان سے گیا۔ پھر بھی ملک فتح نہ ہوا۔ صلاح ٹھیری کہ پہلے گھر کیطرف سے خاطر جمع کرنی چاہئے۔ چنانچہ ۱۰۰۷؁ھ ۱؎ شیخ ابوالفضل۔ سید یوسف مشہدی۔ میں شاہزادہ دانیال کو لشکر عظیم اور سامان وافر کے ساتھ پھر روانہ کیا۔ اور خان خاناں کو اس کے ساتھ کیا۔ مراد کی نامرادی نے نصیحت کر دی تھی۔ اب کی روانگی بدوبست سے ہوئی۔ جانا بیگم خانخاناں کی بیٹی کے ساتھ شہزادی کی شادی کر دی۔ روز امرا جمع ہوتے تھے۔ خلوتوں میں گفتگوئیں ہوتی تھیں۔ سپہ سالار کو سب مافی الضمیر سمجھائے۔ جب روانہ ہوا۔ تو پہلی منزل میں خود اس کے خیمہ گاہ میں گئے۔ اس نے بھی وہ پیشکش پیش کئے۔ کہ عجائب خانوں میں رکھنے کے قابل تھے۔ گھوڑے تو بہتیرے تھے۔ مگر ایک گھوڑا تھا۔ کہ ہاتھی سے کشتی لڑتا تھا۔ سامنے سے مقابلہ کرتا تھا۔ پچھلے پائوں سے ہٹ کر حملہ کرتا تھا۔ اور دونوں پائوں پر کھڑا ہو کر ہاتھ ہاتھی کی مستک پر رکھ دیتا تھا۔ لوگ تماشے دیکھتے تھے۔ اور حیران ہوتے تھے۔ غرض خان خاناں شہزادہ کو لئے ملک دکن میں داخل ہوئے۔ واہ ہم سمجھتے تھے۔ کہ مدت کے بچھڑے دوست پردیس میں مل کر خوش ہوں گے۔ مگر تم دیکھو گے۔ کہ نقش الٹا پڑا۔ آئینے سیاہ ہو گئے۔ اور محبت کے لہو سفید ہو گئے۔ دونوں شطرنج باز کامل تھے۔ دغا کی چالیں چلتے تھے۔ خانخاناں شہزادہ کی آڑ میں چلتا تھا۔ اس لئے اس کی بات خوب چلتی تھی۔ ابھی میدان معرکہ تک پہنچنے بھی نہ پائے تھے۔ جو نشانہ مارا۔ شیخ اکبر نامہ میںلکھتے ہیں۔ اور معلوم ہوتا ہے۔ کہ قلم سے درد مجبوری بہ رہا ہے۔ ’’میں نے احمد نگر کے کام کا سب بندوبست کر لیا تھا۔ شہزادہ کا فرمان پہنچا کہ جب تک ہم نہ آئیں۔ قدم آگے نہ بڑھائو۔ سوا تعمیل کے اور کیا ہو سکتا ہے‘‘۔ خان خاناں کی لیاقت ذاتی میں کسے کلام ہے۔ انہوں نے اپنے کام اور نام کے الگ بندوبست باندھے۔ ادھر تو شیخ کو روک دیا۔ کہ احمد نگر پر حملہ نہ کرنا ہم آتے ہیں۔ ادھر رستہ میں آسیر پر اٹک رہے کہ صاف کر کے احمد نگر کو لیں گے۔ یہ بھی شیخ پر چوٹ تھی۔ کیونکہ آسیر شیخ کا سمدھیانہ تھا۔ شیخ نے بھی فطرت کا منصوبہ مارا۔ اوپر اوپر اکبر کو لکھا کہ شاہزادہ لڑکپن کرتا ہے۔ آسیر کا معاملہ صاف ہے۔ جس وقت حضور چاہیں گے۔ اور جس طرح چاہیں گے۔ اسی طرح ہو جائے گا۔ احمد نگر کی مہم بگڑی جاتی ہے۔ اکبر بادشاہ تدبیر کا بادشاہ تھا۔ اس نے شہزادہ کو لکھا کہ جلد احمد نگر کو روانہ ہو۔ کہ موقع وقت ہاتھ سے جاتا ہے۔ اور خود پہنچ کر اس پر محاصرہ ڈال دیا۔ ابوالفضل کو وہاں سے اپنے پاس بلا لیا۔ خان خاناں نے احمد نگر پر محاصرہ ڈالا۔ روز مورچے بناتے تھے۔ دمدمے بناتے تھے۔ سرنگیں کھدواتے تھے۔ دکنی بہادر اندر سے قلعداری کرتے تھے۔ اور باہر بھی چاروں طرف پھیلے ہوئے تھے۔ بنجاروں پر گرتے بہیر اور لشکر پر جھپٹے مارتے تھے۔ چاند بی بی سامان کی فراہمی امراے لشکر کی دلداری برج و فصیل کی مضبوطی میں بال بھر کمی نہ کرتی تھی۔ پھر بھی کہاں اکبری اقبال اور شاہنشاہی سامان کہاں ایک احمد نگر کا صوبہ اس کے علاقہ میں سرداروں کی بدنیتی اور نفاق بھی قائم تھا۔ بیگم نے یہ حال اپنے وزیر سے کہا۔ کہ قلعہ بچتا نظر نہیں آتا۔ بہتر ہے۔ کہ ننگ و ناموس کا بچائیں۔ اور قلعہ حوالہ کر دیں۔ چیتہ خاں نے اور سرداروں کو بیگم کے اس ارادہ سے آگاہ کیا۔ اور بہکایا۔ کہ بیگم امرائے اکبری سے سازش رکھتی ہے۔ دکنی سنتے ہی بگڑ کھڑے ہوئے۔ اور اس پاک دامن بی بی کو شہید کیا۔ امرائے اکبری نے سرنگیں اڑا کر دھاوا کیا۔ تیس گز دیوار اڑا دی۔ اور برج بابلی سے قلعہ میں داخل ہوئے۔ چیتہ خاں اور ہزاروں دکنی دلاور موت کا شکار ہوئے۔ چیتہ خاں اور تمام سپاہی قتل کئے گئے۔ جس لڑکے کو نظام الملک بہادر شاہ بنایا تھا۔ وہ گرفتا رہوا۔ خان خاناں اسے لے کر حاضر ہوئے۔ اورع مقام برہان پور میں پیش کیا۔ ۴۵؁ جلوس میں چار مہینے بیس دن کے محاصرہ میں قلعہ فتح ہوا۔ فتح کے کارنامہ پر سب نے لکھا کہ جو کچھ کیا خان خاناں نے کیا۔ اور بیشک سچ کہا۔ بادشاہ نے آسیر فتح کیا۔ اور آگرہ کی طرف مراجعت کی۔ لطیفہ۔ ملک شہزادہ کے نام پر نامزد کیا۔ اور دانیال کی مناسبت سے خاندیس کا نام داندیس رکھا۔ خان خاناں نے پھر پیچ مارا۔ شیخ کی لیاقت و کاردانی کی بہت تعریفیں لکھوائیں۔ اور انہیں بادشاہ سے مانگ لیا۔ اب صورت حال نہایت نازک۔ شاہزادہ صاحب ملک۔ خانخاناں خسر الدولہ اور سپہ سالار۔ شیخ ان کے ماتحت۔ خان خاناں کو اختیار ہے۔ جہاں چاہیں بھیجیں۔ جب بلا بھیجیں چلے آئیں۔ کسی اور کو بھیج دیں۔ شیخ لشکر میں بیٹھیں۔ مڑ مڑ منہ دیکھا کریں۔ اور جلا کریں۔ مہمات کے معاملات میں مشورے ہوئے تھے۔ تو شیخ کی رائے کبھی پسند آتی تھی۔ کبھی رد ہو جاتی تھی۔ شیخ دق ہوتے تھے۔ اور جس قلم سے خانخاناں پر دم و ہوش قربان ہوا کرتے تھے۔ اسی قلم سے اس کے حق میں بادشاہ کو وہ وہ باتیں لکھتے تھے۔ کہ ہم شیطان کو بھی نہیں لکھ سکتے۔ مگر سبحان اللہ اس کی شوخی طبع نے اس میں بھی ایسے ایسے کانٹے چبھوئے ہیں۔ کہ ہزاروں پھول اس پر قربان ہوں۔ زمانہ عجب نیرنگ ساز ہے۔ دیکھو جو دوست عاشقی و معشوقی کے دعوے رکھتے تھے۔ انہیں کیسا لڑا دیا۔ اب یہ عالم تھا۔ کہ ایک دوسرے پر دغا کے وار کرتا اور فخر کرتا تھا۔ ان کو بھی خیال کرنا چاہیے۔ کہ کیسے چلتے تھے۔ ابوالفضل بے شک کوہ دانش اور دریائے تدابیر تھے۔ اور خان خاناں ان کے آگے طفل مکتب۔ مگر آفت کے ٹکڑے تھے۔ ان کی نوجوانی کے نکتے اور چھوٹی چھوٹی چالیں ایسی ہوتی تھیں۔ کہ شیخ کی عقل متین سوچتی رہ جاتی تھی۔ تمہارا ذہن ضرور اس بات کا سبب ڈھونڈے گا۔ کہ پہلے وہ گرم جوش محبتیں۔ اور اب یہ عداوتیں یا بایں شورا شوری۔ یا بہ ایں بے نمکی۔ وصل کی شب تم نے کیوں مجھ سے لڑائی ڈال دی جل کے شاید کچھ کسی نے جل نوائی ڈال دی میرے دوستو بات یہ ہے۔ کہ پہلے دونوں کی ترقی کے رستے دو تھے۔ ایک امارت اور سپہ سالاری کے درجوں پر چڑھنا چاہتا تھا۔ مصاحبت اور حاضر باشی اس کی ابتدائی سیڑھیاں تھیں۔ دوسرا علم و فضل۔ تصنیف و تالیف۔ نظم و نثر ۔ مشورت اور مصاحبت کے مراتب کو عزت اور خدمت سمجھنے والا تھا۔ امارت اور اختیارات کو اس کے لوازمات سمجھو۔ بہر صورت ایک دوسرے کے کام کے لئے مددگار و معاون تھے۔ کیونکہ ایک کی ترقی دوسرے کے لئے ہارج نہ تھی۔ اب دونوں ایک مطلب کے طلب گار ہو گئے۔ جو دوستی تھی وہ رقابت ہو گئی۔ یہ تو تین سو برس کی باتیں ہیں۔ جن کے لئے ہم اندھیرے میں قیاس کے تیر پھینکتے ہیں۔ جگر اس وقت خون ہوتا ہے۔ جب اپنے زمانہ میں دیکھتا ہوں۔ کہ دو شخص برسوں کے رفیق بچپن کے دوست۔ ایک مدرسہ کے تعلیم یافتہ ۔ الگ الگ میدانوں میں چل رہے تھے۔ تو قوت بازو۔ درد خواہ ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ کر راہ ترقی پر لے چلتے تھے۔ اتفاقاً دونوں کے گھوڑے ایک گھڑ دوڑ کے میدان میں آن پڑے۔ پہلا فوراً دوسرے کے گرانے کو کمر بستہ ہو گیا۔ میرے اس کے بگاڑ پر مت جا اتفاقات ہیں زمانے کے اکبر کے لئے یہ مشکل موقع تھا۔ دونوں جاں نثار ۔ دونوں آنکھیں۔ اور دونوں کو اپنی اپنی جگہ دعوے۔ آفرین ہے۔ اس بادشاہ کو کہ دونوں کو۔ دونوں ہاتھوں میں کھلاتا رہا۔ اور اپنا کام لیتا رہا۔ ایک کے ہاتھ سے دوسرے کو گرنے نہ دیا۔ شیخ نے جو اپنی عرضیوں میں دل کے دھوئیں نکالے ہیں۔ وہ فقرے نہیں ہیں۔ جلے ہوئے کبابوں کو چٹنی میں ڈبو کر بھیج دیا ہے۔ ان سے اس تمسخر کا اندازہ بھی معلوم ہوتا ہے۔ کہ یہ لوگ کتنا ظرافت کا لون مرچ اور تمسخر کا گرم مصالحہ چھڑکتے تھے۔ جو اکبر کو بھاتا تھا۔ اور اس کے چٹخاروں میں ان کا کام نکل آتا تھا۔ میں نے شیخ کی بعض عرضیاں اس کے خاتمۂ احوال میں نقل کی ہیں۔ خان خاناں نے بھی خوب خوب گل پھول کترے ہوں گے۔ مگر افسوس کہ وہ میرے ہاتھ نہیں آئے۔ یہ رگڑے جھگڑے اسی طرح چلے جاتے تھے۔ ۱۰۰۹؁ھ میں خان خاناں کی حسن تدبیر نے تلنگانہ کے ملک میں فتوحات کا نشان جا گاڑا۔ شیخ ۱۰۱۱؁ھ میں طلب ہوئے۔ اور افسوس ہے۔ کہ راہ سے منزل بقا کو پہنچے۔ خان خاناں نے کئی برس کے عرصہ میں دکن کو بہت کچھ تسخیر کر لیا۔ جب بندوبست سے فارغ ہوئے۔ تو ۱۰۱۲؁ھ میں دربار میں طلب ہوئے۔ اس پر برہان پور احمد نگر برار کا ملک شہزادہ کے نام ہوا۔ اور انہیں اس کی اتالیقی کا منصب ملا۔ ۱۰۱۳؁ھ میں ان پر بڑی نحوست آئی۔ شہزادہ مدت سے بلائے بادہ خواری میں مبتلا تھا۔ بھائی کے مرنے نے بھی مطلق ہشیار نہ کیا۔ باپ کی طرف سے اسے بھی ۔ خان خاناں کو بھی برابر تاکیدیں پہنچتی تھیں۔ کوئی کارگر نہ ہوتی تھی۔ ضعف حد سے بڑھ گیا۔ جان پر نوبت آن پہنچی۔ خان خاناں اور خواجہ ابوالحسن کو حکم بھیجا کہ پردہ داری کر کے محافظت کرو۔ اس جانہار کا یہ حال کہ ذرا طبیعت بحال ہوئی۔ اور پھر پی گیا۔ سخت بندش ہوئی تو شکار کا بہانہ کرتا۔ اور نکل جاتا۔ وہاں بھی شیشہ نہ پہنچ سکتا تھا۔ تو قراول روپے کے لالچ سے کبھی بندوق کی نال میں کبھی ہرن کبھی بکری کی انتڑی میں بھرتے اور پگڑیوں کے پیچ میں لپیٹ کر لے جاتے تھے۔ بندوق کی شراب جس میں باروت کا دھواں لوہے کا میل بھی کٹ کر مل جاتا۔ زہر کا کام کر گئی۔ اور مختصر یہ کہ تینتیس برس چھ مہینے کی عمر میں خود موت کا شکار ہو گیا۔ اس صدمہ کو قلم کیا لکھ سکے گا۔ خان خاناں کے دل سے پوچھنا چاہئے۔ افسوس جانا ۱؎بیگم کا ہے۔ وہ پاکدامن بڑی عقلمند صاحب سلیقہ باتدبیر صاحبزادی تھی۔ حیف کہ عین نوجوانی کی بہار میں رنڈاپے کی سفید چادر اس کے سر پر ڈالی گئی۔ اس عفیفہ نے ایسا رنج کیا۔ کہ کوئی کم کرتا ہے۔ جہانگیری دور ہوا تو خان خاناں دکن میں تھے۔ ۱۰۱۶؁ھ میں جہانگیر اپنی توزک میں خود لکھتا ہے خان خاناں بڑی آرزو سے لکھ رہا تھا۔ اور قدم بوسی کی تمنا ظاہر کرتا تھا۔ میں نے اجازت دی۔ بچپن میں میرا اتالیق تھا۔ برہان پور سے آیا۔ جب سامنے حاضر ہوا۔ تو اس قدر شوق اور خوشحالی اس پر چھائی ہوئی تھی۔ کہ اسے خبر نہ تھی۔ کہ سر سے آیا ہے۔ یا پائوں سے ۔ بیقرار ہو کر میرے قدموں میں گر پڑا۔ میں نے بھی شفقت اور پیار کے ہاتھ سے ا سکا سر اٹھا کر مہر و محبت کے ساتھ سینہ سے لگایا۔ اور چہرہ پر بوسہ دیا۔ اس نے دو تسبیحیں موتیوں کی۔ چند قطعے لعل و زمرد کے پیشکش کئے۔ تین لاکھ کے تھے۔ اس کے علاوہ ہر جنس کے متاع بہت سے ملاحظہ میں گذرانے۔ پھر ایک جگہ ۱؎ دیکھو اس کا حال خان خاناں کی اولاد کے حال میں صفحہ ۶۴۵۔ لکھا ہے۔ شاہ عباس بادشاہ ایران نے جو گھوڑے بھیجے تھے۔ ان میں سے ایک سمند گھوڑا اسے دیا۔ ایسا خوش ہوا۔ کہ بیان نہیں ہو سکتا۔ حقیقت میں اتنا بلند گھوڑا۔ ان خوبیوں اور خوش اسلوبیوں کے ساتھ آج تک ہندوستان میں نہیں آیا۔ فتوح ہاتھی کہ لڑائی میں لاجواب ہے۔ اور بیس ہاتھی اور اسے عنایت کئے۔ چند روز کے بعد خلعت کمر شمشیر مرصع۔ فیل خاصہ عطا ہوا۔ اور دکن کو رخصت ہوئے۔ اور اقرار یہ کر گئے۔ کہ دو برس میں سب ملک سرانجام کر دوں گا۔ مگر علاوہ فوج سابق کے بارہ ہزار سوار اور دس لاکھ کا خزانہ اور مرحمت ہو (اسی مقام پر خافی خاں لکھتے ہیں) پہلے دیوان تھے۔ اب وزیر الملک خطاب دیا۔ اور پنج ہزار کا منصب عنایت کر کے مہم پر رخصت کیا۔ امرائے نامی بیس ہزار سوار کے ساتھ رفاقت میں دئیے۔ اور انعام و اکرام کی تفصیل کیا لکھی جائے۔ خان خاناں کے اقبال کا ستارہ عمر کے ساتھ عزت سے ڈھلتا جاتا تھا۔ وہ دکن کی مہموں میں مصروف تھا۔ کہ ۱۰۱۷؁ھ میں جہانگیر نے پرویز شاہزادہ کو دو لاکھ کا خزانہ۔ بہت سے جواہر بیش بہا دس ہاتھی۔ تین سو گھوڑے خاصہ کے عنایت فرمائے۔ سید سیف خاں بارہ کو اتالیق کر کے لشکر ساتھ کیا اور حکم دیا کہ خان خاناں کی مدد کو جائو۔ وہاں پھر مراد کا معاملہ ہوا۔ بڈھے سپہ سالار کی بوڑھی عقل۔ نوجوانوں کے دماغوں میں نئی روشنی۔ طبعیتیں موافق نہ آئیں۔ کام بگڑنے شروع ہوئے۔ عین برسات میں لشکر کشی کر دی۔ برسات بھی اس بہتات کی ہوئی۔ کہ طوفان نوح کا عالم دکھا دیا۔ دریائے اشک اپنا جب سر پر اوج مارے طوفان نوح بیٹھا گوشہ میں موج مارے تکلیف۔ نقصان۔ خرابیاں۔ ندامتیں۔ سب مینہ کے ساتھ ہی برسیں۔ انجام یہ ہوا۔ کہ جس خان خاناں نے آج تک شکست کا داغ نہ اٹھایا تھا۔ اس نے ۶۳ برس کی عمر میں شکست کھائی۔ فوج برباد۔ اپنے نہایت تباہ بڑھاپے کے بوجھ اور ذلت کی باربرداری کو گھسیٹ کر برہان پور میں پہنچایا۔ وہی احمد نگر جسے گولے مار مار کر فتح کیا تھا۔ قبضہ سے نکل گیا۔ تماشا یہ کہ باپ کو لکھا۔ جو کچھ ہوا۔ خان خاناں کی خود سری خود رائی اور نفاق سے ہوا۔ یا ہمیں حضور میں بلائیں یا انہیں۔ اور خان جہاں نے اقرار لکھ بھیجا۔ کہ فدوی اس مہم میں ذمہ لیتا ہے۔ تیس ہزار سوار مجھے اور ملیں۔ جو ملک بادشاہی غنیم کے تصرف میں ہے۔ اگر دو برس کے اندر نہ لے لوں۔ تو پھر حضور میں منہ نہ دکھائوں گا۔ آخر ۱۰۱۸؁ھ میں خان خاناں بلائے گئے۔ ۱۰۲۰؁ھ میں سرکار قنوج اور کالپی وغیرہ خان خاناں اور اس کی اولاد کی جاگیر میں عنایت ہوا۔ ۱۰۲۱؁ھ میں جب معلوم ہو اکہ دکن میں شہزادہ کا لشکر اور امرا سب سرگرداں پھرتے ہیں۔ اور روز روز اول ہے تو۔ جہانگیر کو پھر پرانا سپہ سالار یاد آیا۔ اور امرائے دربار نے بھی کہا۔ کہ وہاں کی مہمات کو جو خان خاناں سمجھتا ہے۔ وہ کوئی نہیں سمجھتا ۔ اس کو بھیجنا چاہئے۔ پھر دربار میں حاضر ہوئے شش ہزاری منصب ذات۔ خلعت فاخرہ۔ کمر شمشیر مرصع۔ فیل خاصلہ۔ اسپ ایرانی عنایت ہوا شاہ نواز خاں سہ ہزاری ذات و سوار۔ اور خلعت و اسپ وغیر۔ داراب کو پانسو ذات تین سو سوار اضافہ یعنی کل دو ہزاری ذات ایک ہزار پانسو سوار اور خلعت و منصب وغیرہ اور اس کے ہمراہیوں کو بھی خلعت و اسپ مرحمت ہوئے۔ اور خواجہ ابوالحسن کے ساتھ رخصت ہوئے۔ ۱۰۲۴؁ھ میں اس کے بیٹے ایسے ہو گئے۔ کہ باپ کو دربار سے ملک ملتا تھا۔ وہ بیٹھا بندوبست کر تا تھا۔ بیٹے ملک گیری کرتے تھے۔ چنانچہ شہنواز خاں بالا پور میں تھا کہ کئی سردار عنبر کی طرف سے اس کے ساتھ آن ملے۔ اس نے مبارکباد کے شادیانے بجوائے۔ بڑی مروت اور حوصلے سے ان کی دلجوئی اور خاطر داری کی۔ اور ہر ایک کے رتبہ کے بموجب نقد جنس گھوڑے ہاتھی دے کر تکلف خرچ کئے۔ لشکر توپ خانہ رکاب میں تیار تھا۔ ان کی صلاح سے عنبر کی طرف فوج لے کر چلا۔ عنبر کے سردار سپاہی دیہات میں تحصیل مال کے لئے پھیلے ہوئے تھے۔ وہ سن کر گائوں گائوں سے دوڑے اور ٹڈیوں کی طرح امنڈ پڑے۔ ابھی وہاں تک نہ پہنچا تھا۔ کہ کچھ ۱؎غنیم کے سردار فوج لے کر آن ہی پہنچنے۔ رستہ میں مقابلہ ہوا۔ وہ بھاگے اور شکستہ حال عنبر کے پاس پہنچے۔ عنبر سن کر جل گیا۔ عادل خانی اور قطب الملکی فوجیں لے کر بڑے زور و شور سے آیا۔ یہ بھی آگے بڑھے۔ جب دونوں لشکر لڑائی کے پلہ پر پہنچے تو بیچ میں نالہ تھا۔ ڈیرے ڈال دیئے۔ دوسرے دن پرے باندھ کر میدان داری ہونے لگی۔ غنیم کی جانب یاقوت خاں حبشی ان جنگلوں کا شیر تھا۔ پیش قدمی کر کے بڑھا۔ اور میدان جنگ ایسی جگہ ڈالا۔ کہ نالہ کا عرض کم تھا۔ لیکن کناروں پر دلدل دور دور تک تھی۔ اسی واسطے تیر اندازوں اور بانداروں کو گھاٹوں پر بٹھا کر رستہ روک لیا۔ پہر دن باقی تھا۔ جو لڑائی شروع ہوئی۔ پہلے توپیں اور بان اس زور شور سے چلے۔ کہ زمین آسمان اندھیر ہو گیا۔ عنبر کے غلامان اعتباری ہراول میں تھے۔ گھوڑے اٹھا کر لائے۔ نالہ کے اس کنارے سے اکبری ترک بھی تیر اندازی کر رہے تھے۔ جو ہمت کر کے آگے آتے تھے۔ یہ ان کے کجھے گھوڑوں کو چراغ پا کر کے الٹا دیتے تھے۔ بہت سے دلدل میں پھنس جاتے تھے۔ یہ حال ۱؎۔ محل دار خاں۔ یاقوت خاں۔ دانش خاں۔ دلاور خاں وغیرہ امرا سردار لشکر تھے۔ دیکھا تو ملک عنبر کی نامور شجاعت نے اسے کوئلے کی طرح لال کر دیا۔ اور چمک کر لشکر بادشاہی پر آیا۔ داراب اپنے ہراول کو لے کر ہوا کی طرح پانی پر سے گذر گیا۔ ادھر ادھر سے اور فوجیں بڑھیں۔ یہ اس کڑک دمک سے گیا۔ کہ غنیم کی فوج کو الٹتا پلٹتا اس کے قلب میں جا پڑا۔ جہاں عنبر خود کھڑا تھا۔ لڑائی دست و گریبان آن پڑی۔ اور دیر تک کشا کشی کا میدان گرم رہا۔ انجام یہ ہوا۔ کہ تلوار کی آنچ سے عنبر ہو کر اڑ گیا۔ اکبری بہادر تین کوس تک مارا مار چلے گئے۔ جب اندھیرا ہو گیا۔ تو بھگوڑوں کا پیچھا چھوڑا۔ اور ایسا بھاری رن پڑا۔ کہ دیکھنے والے حیران تھے۔ ۱۰۲۵؁ھ میں خورم کو شاہجہان کر کے رخصت کیا۔ اور شاہی کا خطاب دیا۔ کسی شاہزادے کو تیمور کے عہد سے آج تک عطا نہ ہوا تھا۔ ۱۰۲۶؁ھ میں خود بھی مالوہ میں جا کر چھائونی ڈالی۔ شاہجہان نے برہان پور میں جا کر مقام کیا۔ اور معاملہ فہم و صاحب تدبیر اشخاص کو بھیج کر امرائے اطراف کو موقوف کیا۔ ۱۰۲۶؁ھ میں جب کہ شاہزادہ شاہجہان کے حسن انتظام سے دکن میں بندوبست قابل اطمینان ہوا تو جہانگیر کو ملک موروثی کا پھر خیال آیا۔ شاہ ایران نے قندھار لے لیا تھا۔ چاہا کہ پہلے اسے لے۔ خاندیس برار احمد نگر کا علاقہ شاہجہان کو مرحمت ہوا۔ اس بیٹے کو اطاعت اور سعادت مندی اور نیک مزاجی کے سبب سے باپ بہت عزیز رکھتا تھا۔ اس نے راجپوتانہ اور دکن میں فتوحات نمایاں کیں۔ خصوصاً رانا کی مہم کو اس کامیابی سے سر کیا تھا۔ کہ جہانگیر نہایت خوش ہوا تھا۔ وہ اسے اقبال مند اور فتح نصیب بھی جانتا تھا۔ غرض کہ شاہجہان حضور میں طلب ہوئے۔ دربار میں بیٹھنے کی صلاح قرار پائی۔ صندلی (کرسی) کی جگہ دست راست پر تجویز ہوئی۔ خود جھروکوں میں بیٹھے۔ اور لشکر کا ملاحظہ فرمایا۔ جب وہ حضور میں داخل ہوا۔ تو اشتیاق کے مارے آپ جھروکوں کے رستے اتر گئے۔ بیٹے کو گلے لگایا۔ جواہر نچھاور ہوتے ہوئے آئے۔ خان خاناں کے بیٹوں نے دکن میں وہ جانفشانیاں کیں۔ کہ خاندانی سرخروئی شاداب ہو گئی۔ چنانچہ انہی دنوں میں شاہنواز کی بیٹی (خان خاناں کی پوتی) سے شاہجہان کی شادی کر دی۔ خلعت باچار قت زر بفت۔ ودر دامن من سلک مروارید کمر شمشیر مرصع۔ معہ پرولہ مرصع با کمر خنجر مرصع عنایت فرمایا۔ ۱۰۲۷؁ھ میں جہانگیر توزک میں لکھتے ہیں۔ اتالیق جاں نثار۔ خان خاناں سپہ سالار نے امراللہ اپنے بیٹے کے ماتحت ایک فوج جرار گوند دانہ بھیجی تھی۔ کہ کان الماس پر قبضہ کر لے۔ اب اس کی عرضی آئی۔ کہ زمیندار مذکور نے کان مذکور نذر حضور کر دی۔ اس کا الماس اصالت و نفاست میں بہت عمدہ اور جوہریوں میں معتبر ہوتا ہے۔ اور سب خوش اندام آبدار خوب ہوتے ہیں۔ اسی سنہ میں لکھتے ہیں۔ کہ اتالیق جاں سپار نے آستان بوسی کا فخر حاصل کیا۔ مدت ہائے مدید ہوئیں۔ کہ حضور سے دور تھا۔ لشکر منصور خاندیس اور برہان پور سے گذر رہا تھا۔ تو اس نے ملازمت کے لئے التماس کی تھی۔ حکم ہوا کہ سب طرح سے تمہاری خاطر جمع ہو۔ تو جریدہ آئو۔ اور چلے جائو۔ جس قدر جلد ممکن ہوا۔ حاضر حضور ہر کر قدم بوسی حاصل کی۔ انواع نوازش خسروانہ اور قسام عواطف شاہانہ سے سرعزت بلند ہوا۔ ہزار مہر ہزار روپیہ نذر کروایا۔ کئی دن کے بعد پھر لکھتا ہے۔ کہ میں نے ایک سمند گھوڑے کا سمیر نام رکھا تھا۔ وہ میرے خاصہ کے گھوڑوں میں اول درجہ پر تھا۔ خان خاناں کو عنایت کیا (اہل ہند کی اصطلاح میں سمیر سونے کا پہاڑ ہے)۔ میں نے رنگ اور قد آوری کے سبب سے یہ نام رکھا تھا۔ کئی دن کے بعد لکھتے ہیں۔ میں پوستین پہنے تھا۔ خان خاناں کو عنایت کیا۔ پھر کئی دن بعد لکھتے ہیں۔ آج خان خاناں کو خلعت خاصہ۔ کمر شمشیر مرصع۔ فیل خاصہ باتلائر طلائی۔ معہ مادہ فیل عنایت کر کے پھر صوبہ خاندیس و دکن کی سند مرحمت کی۔ منصب معہ اصل و اضافہ کے ہفت ہزاری ذات و ہفت ہزار سوار مرحمت ہوا۔ امرا میں یہ رتبہ اب تک کسی کو نہیں حاصل ہوا۔ لشکر خاں دیوان بیوتات سے اس کی صحبت موافق نہ آتی تھی۔ اس کی درخواست کے بموجب حامد خاں کو ساتھ کیا۔ اسے بھی ہزاری ذات کا منصب۔ چار سو سوار اور فیل و خلعت عنایت ہوا۔ آزاد۔ دنیا کے لوگ دولت مندی کی آرزو میں مرے جاتے ہیں۔ اور نہیں سمجھتے کہ دولت کیا شے ہے؟ سب سے بڑی تندرستی دولت ہے۔ اولاد بھی ایک دولت ہے۔ علم و کمال بھی ایک دولت ہے۔ حکومت اور امارت بھی ایک دولت ہے وغیرہ وغیرہ۔ انہی میں زر و مال بھی ایک دولت ہے۔ ان سب کے ساتھ خاطر جمع اور دل کا چین بھی ایک دولت ہے۔ اس دنیا میں ایسے بہت کم ہوں گے۔ جنہیں بے درد زمانہ ساری دولتیں دے۔ اور پھر ایک وقت پر دغا نہ کر جائے۔ ظالم ایک داغ ایسا دیتا ہے۔ کہ ساری نعمتیں خاک ہو جاتی ہیں۔ کمبخت خان خاناں کے ساتھ ایسا ہی کیا۔ کہ ۱۰۲۸؁ھ میں اس کے جگر پر جوان بیٹے کا داغ دیا۔ دیکھنے والوں کے جگر کانپ گئے۔ اس کے دل کو کوئی دیکھے۔ کہ کیا حال ہوا ہو گا۔ وہی مرزا ایرج جس کی دلداری نے اکبر سے بہادری کا خطاب لیا۔ جس کی جانفشانی نے جہانگیر سے شہنواز خانی کا خطاب پایا۔ جسے سب کہتے تھے کہ یہ دوسرا خان خاناں ہے۔ اس نے عین جوانی اور کامرانی میں شراب کے پیچھے اپنی جان کھوئی۔ ؎ اے ذوق اتنا دختر رز کر منہ منہ لگا چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی اور دوسرے برس میں ایک اور داغ ۔ وہ اگرچہ بخار سے گیا۔ لیکن ادائے خدمت کے جوش میں بے اعتدالی کر کے خدمت کے حق سے ادا ہوا (دیکھو اس کی اولاد کا حال) درد ناک لطیفہ۔ ایک شاعر کے پاس کوئی شخص آیا۔ اور آبدیدہ ہو کر کہا۔ کہ حضرت بیٹا مر گیا۔ تاریخ کہہ دیجئے۔ روشن دماغ شاعر نے اسی وقت سوچ کر کہا۔ ۱۲۲۸/ داغ جگر۔ دوسرے برس وہی جگر کباب پھر آیا۔ کہ حضرت تاریخ کہہ دیجئے۔ شاعر نے کہا چند روز ہوئے تم تاریخ لکھوا کر لے گئے تھے۔ اس نے کہا حضرت ایک اور تھا وہ بھی مر گیا۔ شاعر نے کہا۔ اچھا ۱۲۲۹/ داغ دگر۔ جہانگیر نے ان دونوں واقعوں کو اپنی توزک میں لکھا ہے۔ حرف حرف سے درد ٹپکتا ہے۔ (دیکھو تتمہ) خان خاناں کا ستارہ غروب ہوتا ہے افسوس جس خان خاناں نے بہار کامرانی کا پھول رہ کر عمر گذاری تھی۔ بڑھاپے میں وہ وقت آ یا۔ کہ زمانے کے حادثے اس پر بگولے باندھ باندھ کر حملے کرنے لگے۔ ۱۰۲۸؁ھ میں ایرج مرا تھا۔ دوسرے برس رحمن داد گیا۔ تیسرے برس تو ادبار نے ایک ایسا نحوست کا شبخون مارا۔ کہ اقبال میدان چھوڑ کر بھاگ گیا۔ اور ایسا بھاگا کہ پھر کر نہ دیکھا۔ میرے دوستو دنیا برا مقام ہے۔ بے مروت زمانہ یہاں انسان کو کبھی ایسے موقع پر لا ڈالتا ہے۔ کہ دو ہی پہلو نظر آتے ہیں۔ دونوں میں خطر ۔ اور انجام کی خدا کو خبر۔ عقل کام نہیں کرتی کہ کیا کرے۔ قسمت کے ہاتھ پانسہ ہوتا ہے۔ جس رخ چاہے ۔ پلٹ دے۔ سیدھا پڑا تو عقل مند ہیں۔ الٹا پڑا تو بچہ بچہ احمق بناتا ہے۔ اور جو نقصان۔ ندامت ۔ مصیبت اور غم و اندوہ اس پر گذرتا ہے۔ وہ تو دل ہی جانتا ہے۔ پہلے اتنی بات سن لو کہ جہانگیر کا بیٹا شاہجہان ایسا رشید اور سعادت مند بیٹا تھا۔ کہ تیغ و قلم کی بدولت اپنے جوہر قابلیت کی داد لیتا تھا۔ باوجود اس کے خوش اقبال جہانگیر بھی اس کے کارناموں پر باغ باغ ہوتا تھا۔ اور اپنی جانشینی کے لائق سمجھتا تھا۔ شاہجہان خطاب شاہانہ رتبے دئیے تھے۔ عالی منصب اس کے نوکروں کو عطا کئے تھے۔ اکبر بھی جب تک جیتا رہا ہمیشہ اپنے پاس رکھتا تھا۔ اور ایسے الفاظ اس کے حق میں کہتا تھا۔ جس سے بڑی بڑی امیدیں ہوتی تھیں۔ اپنی ذاتی لیاقت اور افواج کے علاوہ خان خاناں جیسا امیر اس کا ودیا سسرا تھا آصف خاں وزیر کل بھی اس کا خسر تھا۔ نور جہاں بیگم کا حال معلوم ہے۔ کہ کل سلطنت کی مالک تھیں۔ فقط خطبہ میں بیگم کا نام نہ تھا۔ سکہ پر ضرب۔ فرمانوں پر مہر بھی بیگم کی ہوتی تھی۔ وہ بھی بڑی دو ر اندیش اور باتدبیر بی بی تھی۔ جب دیکھا۔ کہ جہانگیر کی مستی اور مدہوشی سے مرض اس پر ہاتھ ڈالنے لگے ہیں۔ تو ایسی تدبیریں سوچنے لگی۔ جس سے جہانگیر کے بعد بھی حکومت میں فرق نہ آئے۔ اس کی ایک بیٹی شیر افگن خاں پہلے شوہر سے تھی۔ ۱۰۳۰؁ھ میں شاہزادے شہریار سے اس کی شادی کر دی۔ اور اس کی سلطنت کی بنیادیں ڈالنے لگی۔ بنیاد اس کی یہی تھی۔ کہ شاہجہان کی جڑ اکھیڑ دے۔ شہریار سب سے چھوٹا بیٹا جہانگیر کا تھا۔ مگر طبیعت عیش پسند تھی۔ اس واسطے خیالات پست رکھتا تھا۔ اور ساس کی بادشاہی نے رہا سہا کھو دیا تھا۔ ۱۰۳۱؁ھ میں شاہجہاں دربار میں طلب ہوئے کہ مہم قندھار پر جا ملک موروثی کو زیر نگیں کریں۔ وہ خان خاناں اور داراب کو لے کر حاضر ہوئے۔ اور مصلحت مشورت ہو کر مہم مذکور ان کے نام پر قرار پائی۔ ؎ ما در چہ خیال ایم و فلک در چہ خیال کار یکہ خدا کند فلک را چہ مجال آسمان نے اور ہی شطرنج بچھائی۔ بازی یہاں سے شروع ہوئی۔ کہ شاہجہان نے دھولپور کا علاقہ باپ سے مانگ لیا۔ جہانگیر نے عنایت کیا۔ بیگم نے وہی علاقہ شہریار کے لئے مانگا ہوا تھا۔ اور شریف الملک شہریار کی طرف سے اس پر حاکم تھا۔ شاہجہانی ملازم وہاں قبضہ لینے گئے۔ مختصر یہ ہے۔ کہ طرفین کے امیروں میں تلوار چل گئی۔ اور اس عالم میں شریف الملک کی آنکھ میں تیر لگا۔ کہ کانٹرا ہو گیا۔ یہ حال دیکھ کر شہریار کا سارا لشکر بپھر گیا۔ اور ہنگامۂ عظیم برپا ہوا۔ شاہجہان نے افضل خاں اپنے دیوان کو بھیجا۔ نہایت عجز و انکسار کے پیام زبانی دئیے اور عرضی لکھ کر عفو تقصیر کی التجا کی۔ کہ یہ آگ بجھ جائے۔ بیگم تو آگ اور کوئلہ ہو رہی تھیں۔ یہاں آتے ہی افضل خاں قید ہو گیا۔ اور بادشاہ کو بہت سا لگا بجھا کر کہا کہ شاہجہاں کا دماغ بہت بلند ہو گیا ہے۔ اسے قرار واقعی نصیحت دینی چاہیے۔ مست الست بادشاہ نے اپنے عالم میں خدا جانے کچھ ہوں ہاں کر دی ہو گی۔ فوراً فوج کو تیاری کا حکم پہنچا اور امرا کو حکم گیا کہ شاہجہاں کو گرفتار کر لائو۔ ادھر چند روز ہوئے تھے۔ کہ شاہ ایران نے قندھار لے لیا تھا۔ یہ مہم بھی شاہجہاں کے نام ہوئی تھی۔ اور کچھ شک نہیں۔ کہ اگر وہ بہادر اور بالیاقت شاہزادہ اپنے لوازم و سامان کے ساتھ جاتا تو قندھار کے علاوہ سمر قند و بخارا تک تلوار کی چمک پہنچاتا۔ وہ مہم بھی بیگم نے شہریار کے نام لے لی۔ بارہ ہزاری آٹھ ہزار سوار کا منصب دلوایا۔ جہانگیر کو بھی لاہور میں لے آئی۔ اور شہریار یہاں لشکر تیار کرنے لگا۔ شاہجہان کے دل پر چوٹیں پڑ رہی تھیں۔ مگر چپ۔ بڑے بڑے معتبر اور امیر سردار اس تہمت میں قید ہو گئے۔ کہ اس سے ملے ہوئے ہیں۔ بہت سے جان سے مارے گئے۔ آصف خاں بیگم کا حقیقی بھائی تھا۔ مگر اس لحاظ سے کہ اس کی بیٹی شاہجہان کی چاہیتی بیگم ہے۔ وہ بھی بے اعتبار ہو گیا۔ غرض یہاں تک آگ لگائی۔ کہ آخر شاہجہان جیسا سعادت مند فرماں بردار بااقبال بیٹا باپ سے باغی ہوا۔ مگر کچھ شک نہیں کہ مجبوراً باغی ہوا۔ بیگم جوڑ توڑ کی بادشاہ تھی۔ اسے خبر تھی۔ کہ آصف خاں کی مہابت خاں سے لاگ ہے۔ بادشاہ سے کہا۔ کہ جب تک مہابت خاں سپہ سالار نہ ہو گا۔ مہم کا بندوبست نہ ہو گا۔ ادھر اس نے کابل سے لکھا۔ اگر شاہجہان سے لڑنا ہے۔ تو پہلے آصف خاں کو نکالئے۔ جب تک وہ دربار میں ہیں۔ فدوی کچھ نہ کر سکے گا۔ آصف خاں فوراً بنگالہ بھیجے گئے۔ اور مہابت خاں سپہ سالاری تک نشان سے روانہ ہوئے۔ پیچھے پیچھے جہانگیر بھی لاہور سے آگرہ کی طرف چلے۔ امرا کی آپس میں عداوتیں تھیں۔ انہیں اب موقع ہاتھ آیا۔ جس کا جس پر وار چل گیا۔ نکلوایا۔ قید کروایا۔ مروا ڈالا۔ سازش کے جرم کے لئے ثبوت کی کچھ ضرورت ہی نہ تھی۔ دیکھو پرانا بڈھا جس میں دو پشت کے تجربے بھرے تھے ۔ نرا لالچی نہ تھا۔ جو ذرا سا فائدہ دیکھ کر پھسل پڑے۔ اس نے ہزاروں نشیب و فراز درباروں کے دیکھے تھے۔ اس نے عقل کے پہلو لڑانے میں کچھ کمی نہ کی ہو گی۔ اس نے ضرور خیال کیا ہو گا۔ کہ بادشاہ کی عقل کچھ تو شراب نے کھوئی۔ رہی سہی بیگم کی محبت میں گئی۔ میں قدیمی نمک خوار سلطنت کا ہوں مجھے کیا کرنا چاہیے۔ اس کے دل نے ضرور کہا ہو گا۔ کہ سلطنت کا مستحق کون؟ شاہجہان۔ متوالا باپ۔ سلطنت کو بیگم کی محبت میں قربان کر کے بیٹے کو برباد کیا چاہتا ہے۔ اور نمک خوار کو اس وقت سلطنت کی حمایت واجب ہے۔ اس کی رائے نے اس بات کا فیصلہ کر لیا ہو گا۔ شاہجہاں سے اس وقت بگڑنا جہانگیری طرفداری نہیں۔ بیگم کی طرف داری ہے۔ اور سلطنت موروثی کی بربادی ہے۔ کیا خان خاناں سے ممکن نہ تھا۔ کہ دونوں سے کنارہ کر جاتا؟ کیونکہ ممکن تھا۔ جہانگیر نے شاہجہان کی شادی شاہنواز خاں کی بیٹی سے کی تھی۔ اور آصف خاں نور جہاں کے بھائی کی بیٹی بھی شاہجہاں کے عقد میں تھی۔ اس سے اصل مطلب یہی تھا۔ کہ ایسے ایسے ارکان دولت ایسے تعلق اس کے ساتھ رکھتے ہوں گے۔ تو گھر کے جھگڑے اسے حق سے محروم نہ کریں گے۔ تقدیر کی بات ہے کہ جو دن اس نے اپنے بعد خیال کیا تھا۔ وہ جیتے جی سامنے آیا۔ [ جب شاہجہان نے ہمراہی کی فرمائش کی ہو گی۔ تو خان خاناں نے اپنے اور جہانگیری تعلقات کا ضرور خیال کیا ہو گا۔ وہ بیگم سے بھی رسائی رکھتا تھا۔ اور ہم مذہب تھا۔ وہ سمجھا ہو گا۔ کہ باپ بیٹے کی تو کچھ لڑائی ہی نہیں۔ جو کھٹک ہے سوتیلی ماں کی ہے۔ یہ کتنی بڑی بات ہے۔ میں صفائی کروا دوں گا۔ اور بے شک وہ کر سکتا تھا۔ لیکن جوں جوں آگے بڑھتا گیا۔ رنگ بیرنگ دیکھتا گیا۔ اور کسی بات کا موقع نہ پایا۔ بیگم نے کام کو ایسا نہ بگاڑا تھا۔ کہ افسون اصلاح کی کچھ گنجائش رہی ہو۔ جس کو شاہجہان نے عرضداشت دے کر دربار میں بھیجا تھا وہ قید ہو گیا۔ یہ بھی دیکھ لیا تھا۔ کہ خان اعظم جس کا اکبر بھی لحاظ کرتا تھا۔ اسے قلعہ گوالیار میں قید رہنا پڑا۔ ایسے نازک موقع پر اسے اپنے لئے کیا بھروسہ تھا۔ خان خاناں کے نمک خوار قدیم اور ملازم با اعتبار محمد معصوم نے جہانگیر کے پاس مخبری کی۔ کہ امرائے دکن سے اس کی سازش ہے۔ اور ملک عنبر کے خطوط جو اس کے نام تھے۔ وہ شیخ عبدالسلام لکھنوی کے پاس ہیں۔ جہانگیر نے مہابت خاں کو حکم دیا۔ اس نے شیخ کو گرفتار کر لیا۔ حال پوچھا تو اس نے بالکل انکار کیا۔ اس غریب کو اتنا مارا کہ مر گیا مگر حرف مطلب نہ ہارا۔ خدا جانے کچھ تھا ہی نہیں یا راز داری کی ۔ دونوں طرف سے آفرین۔ بہر صورت وہ اور داراب دکن سے شاہجہان کے ساتھ آئے۔ جہانگیر کو دیکھو کس درد سے لکھتا ہے۔ جب خان خاناں جیسے امیر نے کہ میری اتالیقی کے منصب عالی سے خصوصیت رکھتا تھا۔ ستر برس کی عمر میں بغاوت اور کافر نعمتی سے منہ کالا کیا۔ تو اوروں سے کیا گلہ۔ گو ایسی ہی زشت بغاوت اور کفران نعمت سے اس کے باپ نے آخر عمر میں میرے پدر بزرگوار سے بھی یہی شیوہ ناپسندیدہ برتا تھا۔ اس نے باپ کی پیروی کر کے اس عمر میں اپنے تئیں ازل سے ابد تک مطعون اور مردود کیا۔ عاقبت گرگ زادہ گرگ شود گرچہ با آدمی بزرگ شود بیگم نے شاہزادہ مراد کو سپاہ جرار دے کر بھائی کے مقابلے پر بھیجا۔ مہابت خاں کو سپہ سالار کیا۔ واہ ری بیگم تیری عقل دو ر اندیش۔ دونوں بھائیوں میں جو مارا جائے۔ شہریار کے لئے ایک پہلو صاف ہو سکے۔ غرض جب دونوں لشکر جرار قریب پہنچے۔ تو ایک ایک حصہ دونوں پہاڑوں میں سے الگ ہو کر ٹکرایا۔ بڑا کشت و خون ہوا۔ بڑے بڑے امیر مارے گئے۔ اور بہت سے غیرت والے ننگ و ناموس پر جان دے کر دنیا سے ناکام گئے۔ مگر شکست شاہجہان کی فوج کو نصیب ہوئی اور وہ اپنے لشکر کو لے کر کنارے ہٹا۔ کہ دکن کو چلا جائے۔ (اس موقعہ پر بدگمانی اور نیک نیتی کا مقابلہ ہے کہ) خان خاناں یا تو اپنی نیک نیتی سے صلح کی تدبیر کرتا تھا۔ یا انتہائے درجہ کی چالاکی تھی۔ کہ جہانگیر سے بھی سرخرو رہنا چاہتا تھا۔ مہابت خاں سپہ سالار سے اس نے پیغام سلام کئے عجب مشکل مقام ہے۔ ذرا خیال کرو۔ باپ بیٹوں کا بگاڑ۔ وہ بھی سوتیلی ماں کی غرض پرستی اور متوالے باپ کی مدہوشی سے سرداران لشکر آٹھ پہر ایک جگہ رہنے سہنے والے۔ ایک قاب میں کھانے والے۔ ایک جام میں پینے والے۔ ان میں پیغام کیونکہ بند ہو سکے۔ مشکل یہ ہوئی۔ کہ اس معاملہ میں چالاک سپہ سالار کے دریائے طبع نے انشا پردازی کی موج ماری۔ اپنے ہاتھ سے خط لکھا۔ اور بادشاہ کی ہوا خواہی کے مضمون لکھ کر اس میں یہ شعر بھی لکھا۔ ؎ صد کس بہ نظر نگاہ مے دارندم ورنہ ببرید مے ز بے آرامی یہ خط کسی نے پکڑ کر شاہجہان کو دے دیا۔ اس نے انہیں بلا کر خلوت میں دکھایا۔ جواب کیا تھا؟ چپ شرمندہ۔ آخر بیٹوں سمیت دولت خانہ کے پاس نظر بند ہوئے۔ اور اتفاق یہ کہ سو ہی منصب داروں کو ان کی حفاظت سپرد ہوئی۔ آسیر پہنچ کر سید مظفر بارہ کے سپرد کیا کہ قلعہ میں لے جا کر قید کرو۔ لیکن داراب بے گناہ تھا۔ اس لئے سوچ سمجھ کر دونوں کو رہا کر دیا۔ بادشاہ نے شاہزادہ پرویز کو بھی امرا کے ساتھ فوجیں دے کربھیجا تھا۔ وہ دریائے نربدا پر جا کر تھم گیا۔ کیونکہ شاہجہاں کے سرداروں نے گھاٹوں کا خوب بندوبست کر رکھا تھا۔ یہ بھی ساتھ تھے۔ اور یہ کوئی مجرم قیدی نہ تھے۔ عبدالرحیم خان خاناں تھے۔ دیکھنے کو نظر بند تھے۔ مگر صحبت میں بھی شامل ہوتے تھے۔ ہوا خواہی اور خیر اندیشی کی اصلاحیں کرتے تھے۔ جن کا خلاصہ ایسے مطالب تھے۔ جن سے فتنہ و فساد کی راہ بند ہو اور کامیابی کے ساتھ صلح کے رستے نکلیں۔ ادھر سے جب مہابت خاں اور پرویز دریا کے کنارے پہنچے۔ سامنے شاہجہاں کا لشکر نظر آیا۔ دیکھا کہ گھاٹوں کا انتظام بہت چست ہے۔ اور دریا کا چڑھائو اسے زور و شور سے مدد دے رہا ہے۔ کشتیاں سب پار کے کنارے پر کھینچ لے گئے۔ اور مورچے توپ و تفنگ سے سد سکندر کئے۔ لشکر کے ڈیرے ڈلوا دئیے۔ اور بندوبست میں مصروف ہوئے۔ مہابت خاں نے ایک جعلسازی اور دوست نمائی کا خط خان خاناں کے نام لکھا۔ اور اس طرح بھیجا کہ شاہجہان کے ہاتھ میں جا پہنچا۔ خلاصۂ خط مہابت خاں عالم جانتا ہے کہ شہزادہ جہاں و جہانیاں کو اطاعت حضور کے سوا اور کچھ بات منظور نہیں۔ فتنہ پرداز اور درانداز عنقریب اپنی سزا کو پہنچیں گے۔ میں مجبور ہوں۔ کہ آ نہیں سکتا۔ مگر ملک کی حالت دیکھ کر افسوس آتا ہے۔ کہ اس کی اصلاح اور خلق خدا کے امن و آسائش میں جان سے حاضر ہوں۔ اور اس بات کو اپنا اور کل مسلمانوں کا فرض سمجھتا ہوں۔اگر تم شہزادہ بلند اقبال کو یہ مطالب منقوش خاطر کر کے ایک دو معتبر معاملہ فہم شخصوں کو بھیج دو۔ تو عین مصلحت ہے۔ کہ باہم گفتگو کر کے ایسی تدبیر نکالیں جس میں یہ آگ بجھ جائے اور خونریزی موقوف ہو۔ باپ بیٹے پھر ایک کے ایک ہو جائیں۔ شہزادہ کی جاگیر کی کچھ ترقی ہو جائے۔ اور نور محل شرمندہ ہو کر ہماری تجویز پر راضی ہو جائے۔ وغیرہ وغیرہ۔ یہ اور ایسی ایسی چند اور باتیں قول و قسم اور عہد و پیمان کے ساتھ لکھیں۔ اس پر کلام الٰہی کو درمیان دیا۔ اور خط کو ملفوف کر کے ادھر کی ہوا میں اس طرح اڑایا۔ کہ شاہجہان کے دامن میں جا پڑا۔ وہ خود امن و امان کا عاشق تھا۔ مصاحبوں سے صلاح کی۔ خان خاناں سے بھی گفتگو ہوئی۔ یہ پہلے ہی ان مضامین کے شاعر تھے۔ شہزادہ کو اس کام کے لئے ان سے بہتر رسا اور معاملہ فہم کوئی نظر نہ آتا تھا۔ قرآن سامنے رکھ کر قسمیں لیں۔ داراب کو ساتھ اور عیال کو اپنے پاس رکھا۔ اور انہیں روانہ کیا۔ کہ جا کر دریا کا بہائو اور ہوا کا رخ پھیرو۔ دریا کے اس پار ہو۔ اور طرفین کی صلاحیت پر صلح قرار دو۔ خان خاناں شطرنج زمانہ کے پکے چالباز تھے۔ مگر خود بڈھے ہو گئے تھے۔ عقل بڑھیا ہو گئی تھی۔ مہابت خاں جوان ان کی عقل جوان ۔ جب یہ لشکر بادشاہی میں پہنچے۔ ان کے اعزاز و احترام میں بڑے مبالغے ہوئے۔ خلوت میں ایسی دلسوزی اور درد خواہی کی باتیں کیں۔ کہ انہوں نے خوشی خوشی کامیابی مقاصد کے پیام اور اطمینان کے مراسلے شاہجہان کو لکھنے شروع کئے اس کے امرا کو جب یہ خبر ہوئی۔ تو وہ بھی خوش ہوئے۔ اور غلطی یہ کی کہ گھاٹوں کے انتظام اور کناروں کے بندوبست ڈھیلے کر دئیے۔ مہابت خاں عجیب چلتا پرزہ نکلا۔ اس نے چپکے چپکے راتوں رات فوج پار اتار دی۔ اب خدا جانے اس نے درد خواہی اور نیک نیتی کا ہرا باغ دکھا کر انہیں غفلت کی دار وئے بیہوشی پلائی یا لالچ کا دستر خوان بچھا کر باتیں ایسی چکنی چپڑی کیں۔ کہ یہ قرآن کو نگل کر اس سے مل گئے۔ بہرحال شاہجہان کا کام بگڑ گیا۔ وہ دل شکستہ نہایت ناکامی کے عالم میں پیچھے ہٹا۔ اور اس اضطراب کے ساتھ دریائے تاپتی سے پار اترا کہ فوج اور سامان فوج کا بہت نقصان ہوا۔ اکثر امیر ساتھ چھوڑ کر چلے گئے۔ داراب اور بعض عیال شاہجہان کے پاس تھے۔ یہ لشکر بادشاہی میں ادھر پڑے تھے۔ اب مہابت خاں سے موافقت کرنے کے سوا چارہ کیا تھا۔ اس کے ساتھ برہان پور پہنچے۔ مگر سب ان کی طرف سے ہوشیار ہی رہتے تھے۔ صلاح ہوئی کہ نظر بند رکھو اور ان کا خیمہ پرویز کے ساتھ طناب بہ طناب رہے۔ اس سے مطلب یہ تھا۔ کہ جو کچھ کریں حال معلوم ہوتا رہے۔ مہابت خاں برہان پور میں پہنچ کر نہ ٹھیرا۔ دریائے تاپتی اتر کر تھوڑی دور تعاقب کیا۔ اور وہ دکن سے بنگالہ کی طرف روانہ ہوا۔ جانا بیگم باپ کے ساتھ تھیں۔ انہوں نے جو ہمت و حکمت کے سبق ان سے پڑھے تھے۔ حرف بحرف یاد کر رکھے تھے۔ اس نے کہا کہ میں باپ کو نہ چھوڑوں گی۔ جو اس کا حال سو میرا حال۔ وہ بھی دانیال شہزادہ کی بیوہ تھی۔ اس کے بچے ساتھ تھے۔ اسے کون روک سکے۔ آخر باپ کے پاس خیمہ میں رہی۔ فہیم ان کا غلام خاص کہ فی الحقیقت فہیم اور کاردان بے نظیر تھا۔ اسے دلاوری نے دودھ پلایا تھا۔ اور شجاعت کے نمک سے پلا تھا۔ جس طرح اس معرکہ میں مارا گیا۔ اس کا رنج خانخاناں ہی کے دل سے پوچھنا چاہئے۔ شاہجہان کو جب یہ خبریں پہنچیں۔ ان کے بال بچوں کو قید کر لیا۔ اور حفاظت راجہ بھیم کے سپرد کی (راجہ بھیم رانا کا بیٹا تھا)۔ ادھر خانخاناں کو یہ حال سن کر بہت رنج ہوا۔ اور راجہ کو پیغام بھیجا کہ میرے عیال کو چھوڑ دو۔ میں لشکر بادشاہی کو ادھر سے کچھ نہ کچھ حکمت عملی کر کے پھیر دیتا ہوں۔ اگر یہی حال ہے تو سمجھ لو کہ کام مشکل ہو گا۔ میں خود آ کر چھڑا لے جائوں گا۔ راجہ نے لکھا۔ کہ ابھی تک پانچ چھ ہزار جاں نثار رکاب میں موجود ہیں۔ اگر تم چڑھ کر آئے۔ تو پہلے تمہارے بال بچوں کو قتل کریں گے۔ پھر تم پر آن پڑیں گے۔ یا تم نہیں یا ہم نہیں۔ شاہجہان کے لشکر بادشاہی سے معرکے بھی ہوئے۔ اور بڑے بڑے کشت و خون ہوئے افسوس اپنی فوجیں آپس میں کٹ کر کھیت رہیں۔ اور دلاور سردار اور ہمت والے امیر مفت جانوں سے گئے۔ شاہجہان لڑتے بھڑتے کبھی کنارہ اور کبھی پیچھے ہٹتے اوپر اوپر بنگالہ میں جا نکلے۔ یہاں داراب سے قول و قسم لے کر بنگالہ کی حکومت دی۔ اس کی بی بی بیٹے۔ بیٹی اور ایک شاہ نواز خاں کے بیٹے کو یرغمال میں لے لیا۔ اور آپ بہار کو روانہ ہوئے۔ کچھ عرصہ کے بعد داراب کو بلا بھیجا۔ اس نے لکھا کہ زمینداروں نے مجھے گھیر رکھا ہے۔ حاضر نہیں ہو سکتا۔ شاہجہان کی فوج برباد ہو چکی تھی۔ وہ دل شکستہ جس رستے آیا تھا۔ اسی رستے دکن کو پھرا۔ خیال ہوا کہ یہ بھی بادشاہ سے مل گیا۔ ان کے جوان بیٹے اور بھتیجے کو مار ڈالا۔ داراب یہاں بے دست و پا ہو گیا تھا۔ بادشاہی لشکر نے آ کر ملک پر قبضہ کر لیا۔ داراب سلطان پرویز کے لشکر میں حاضر ہوا۔ جہانگیر کا حکم پہنچا۔ کہ داراب کا سر کاٹ کر بھیج دو۔ افسوس اس سر کو ایک خوان میں کھانے کی طرح کسوا کر بدنصیب باپ کے پاس بھیج دیا۔ اللہ اکبر جس خانخاناں کے سامنے کسی کو مجال نہ ہوتی تھی۔ کہ رحمن داد کے مرنے کا نام زبان سے نکالے چپ بیٹھا تھا۔ اور آسمان کو دیکھ رہا تھا۔ مہابت خاں کے یزیدیوں نے بموجب اس کے حکم کے کہا کہ حضور نے یہ تربوز بھیجا ہے۔ خونی جگر باپ نے آبدیدہ ہو کر کہا۔ درست! شہیدی ہے۔ کہنے والوںنے تاریخ کہی۔ ع شہید پاک شد داراب مسکیں افسوس کے قابل تو یہ بات ہے۔ کہ وہ جانباز دلاور جن کی عمریں اور کئی کئی پشتیں اس سلطنت میں جاں نثاری اور وفاداری کی مشق کر رہی تھیں۔ مفت ضائع ہوئیں۔ اگر شاہجہاں کے ساتھ قندھار پر جاتے تو کارنامے دکھاتے۔ اذبک پر جاتے تو ملک موروثی کو چھڑاتے۔ اور ہندوستان کا نام توران میں روشن کر کے آتے۔ اور حیف کہ اپنے ہاتھ اپنے ہاتھوں سے جد ا ہوئے۔ اور اپنے سر اپنے ہاتھوں سے کٹے۔ اپنی چھری سے اپنے پیٹ چاک ہوئے۔ یہ کیونکر؟ بیگم صاحبہ کی خود غرضی اور خود پرستی کی بدولت۔ بیشک کہ بیگم کو بھی ایک لعل بے بہا۔ تاج سلطنت کا کہنا زیبا ہے۔ عقل۔ تدبیر۔ ہمت ۔ سخاوت۔ قدردانی فیض رسانی میں ثانی نہ رکھتی تھیں۔ لیکن کیا کیجئے۔ جو بات ہوتی ہے۔ وہی کہی جاتی ہے۔ چند رو زکے بعد شاہ اور شاہزادہ دونوں باپ بیٹے جیسے تھے۔ ویسے ہی ہو گئے۔ امرا بچارے شرمندہ حیران کہ کہاں جائیں اور کیا منہ لے کر جائیں۔ مگر اس گھر کے سوا اور گھر کون سا تھا۔ ۱۰۳۶؁ھ میں خان خاناں حضور میں طلب ہوئے۔ مہابت خاں نے جب رخصت کیا۔ تو جو جو معاملے درمیان آئے تھے۔ ان کا بہت عذر کیا۔ اور سامان سفر اور لوازم ضروری کے سر انجام میں وہ ہمت عالی دکھائی۔ جو خان خاناں کی شان کے لائق تھی۔ مطلب یہ تھا۔ کہ آیندہ کے لئے صفائی ہو جائے۔ اور ان کے دل میں میری طرف سے غبار نہ رہے۔ یہ جب دربار میں آئے تو جہانگیر خود توزک میں لکھتا ہے۔ ’’ندامت کی پیشانی کو دیر تک زمین پر رکھے رہا۔ سر نہ اٹھایا۔ میں نے کہا۔ جو کچھ وقوع میں آیا تقدیر کی باتیں ہیں۔ نہ تمہارے اختیار کی باتیں ہیں۔ نہ ہمارے ۔ اس کے سبب سے ملامت اور خجالت دل پر نہ لائو۔ ہم اپنے تئیں تم سے زیادہ شرمندہ پاتے ہیں۔ جو کچھ ظہور میں آیا۔ تقدیر کے اتفاق ہیں۔ ہمارے تمہارے اختیار کی بات نہیں۔‘‘ ارکان دولت کو حکم ہوا کہ انہیں لے جا کر اتارو۔ کئی دن کے بعد لاکھ روپیہ انعام دیا۔ کہ اسے اپنی درستی احوال میں صرف کرو۔ چند روز کے بعد صوبہ قنوج عطا ہوا۔ اور خان خاناں کا خطاب جو اس سے چھین کر مہابت خاں کو ملا تھا پھر انہیں مل گیا۔ انہوں نے شکریہ میں یہ شعر کہہ کر مہر میں کھدوایا۔ ؎ مرا لطف جہانگیری بتائیدات یزدانی دوبارہ زندگی داد و دوبارہ خانخانانی دوسرے ہی برس میں پان پلٹا ؎ زال دنیا نے صلح کی کس دن یہ لڑاکا سدا سے لڑتی ہے بیگم کی مہابت خاں سے بگڑی۔ فرمان گیا کہ حاضر ہو۔ اور اپنی جاگیر اور فوج وغیرہ کا حساب کتاب سمجھا دو۔ بادشاہ لاہور سے گلگشت کشمیر کو چلے جاتے تھے۔ وہ ہندوستان کی طرف سے آیا۔ چھ ہزار تلوار مار راجپوت اس کے ساتھ ۔ لاہور ہوتا ہوا حضور میں چلا۔ مگر تیور بگڑے اور غصہ میں بھرا ہوا۔ خانخاناں یہیں موجود تھے۔ زمانہ کی نبض خوب پہنچانتے تھے۔ سمجھ گئے کہ آندھی آئی ہے۔ خوب خاک اڑے گی۔ ساتھ ہی یہ بھی جانتے تھے کہ چھ ہزار کی حقیقت کیا ہے۔ جس پر یہ جاہل افغان کودتا ہے (یہ جاں نثار اس کے ذاتی نوکر تھے)۔ یہ ضرور بگڑ بیٹھے گا۔ مگر آخر کو خود بگڑ جائے گا۔ کیونکہ بنیاد نہیں۔ آخر بازی بیگم کے ہاتھ رہے گی۔ خلاصہ یہ کہ ان کی ملاقات کو نہ گئے۔ بلکہ مزاج پرسی کو وکیل بھی نہ بھیجا۔ اس کا بھی سب کی طرف خیال تھا۔ سمجھ گیا کہ خان خاناں ہیں۔ اور کدورت بھی دکھا دی ہے۔ خدا جانے وہاں کے معرکے کا پہلو کس طرف آن پڑے۔ یہ پیچھے سے آ گرے تو اور مشکل ہو گی۔ چنانچہ جب کنارہ جہلم پر پہنچ کر بادشاہ کو قید کیا۔ اسی وقت آدمی بھیجے کہ خانخاناں کو حفاظت کے ساتھ دلی پہنچا دو۔ اطاعت کے سوا چارہ کیا تھا۔ چپ دلی چلے گئے۔ وہاں سے ارادہ کیا کہ اپنی جاگیر کو جائیں۔ وہ پھر بدگمان ہوا اور رستہ سے بلوا لیا۔ کہ لاہور میں بیٹھو۔ وہاں جا کر جو کچھ مہابت خاں نے کیا۔ خواہ نمک حرامی کہو خواہ یہ سمجھو کہ ایک مست مدہوش کے گھر کا انتظام کرنا چاہتا تھا۔ بہر حال جو حرکت اس نے کی۔ شاید کسی نمکخوار امیر سے ہوئی ہو۔ یہاں تک کہ بادشاہ اور بیگم دونوں کو الگ الگ قید کر لیا۔ بیگم کی دانائی اور حکمت عملی سے آہستہ آہستہ اس کا طوفان دھیما ہوا۔ آخر یہ کہ بھاگا۔ خان خاناں کا دل اس کے زخموں سے چھلنی ہو رہا تھا۔ بڑی التجا و تمنا سے عرضی بھیجی۔ کہ اس نمک حرام کے استیصال کی خدمت مجھے مرحمت ہو۔ بیگم نے اس کی جاگیر خان خاناں کی تنخواہ میں مرحمت کی۔ ہفت ہزاری ہفت ہزار سوار۔ دو اسپہ سہ اسپہ خلعت اور شمشیر مرصع۔ گھوڑا بازین مرصع۔ فیل خاصہ اور بارہ لاکھ روپیہ نقد اور گھوڑے۔ اونٹ۔ بہت سامان عنایت کیا۔ اجمیر کا صوبہ بھی مرحمت کیا۔ امرا فوجیں دے کر ساتھ کئے۔ بہتر برس کا بڈھا اس پر قیامت کے صدمے گذر چکے تھے۔ طاقت نے بے وفائی کی۔ لاہور میں ہی بیمار ہو گئے۔ دہلی میں پہنچ کر ضعف غالب ہوا۔ اواسط ۱۰۳۶؁ھ میں دنیا سے انتقال کیا۔ اور ہمایوں کے مقبرہ کے پاس دفن ہوئے۔ تاریخ ہوئی۔ خان سپہ سالار کو۔ تمام اہل تاریخ باپ کی طرح اس کا ذکر بھی خوبیوں سے لکھتے ہیں۔ اور محبوبیاں اس پر طرہ ہیں۔ جہانگیر نے اس کے واقعہ کے موقع پر توزک میں نہایت افسوس کے ساتھ خدمتوں کے بعض کارنامے مختصر اشاروں میں بیان کئے ہیں۔ اور شاہنواز کے جوہر شجاعت کو بھی ظاہر کیا ہے۔ اخیر میں لکھتا ہے۔ کہ خانخاناں قابلیت و استعداد میں یکتائے روزگار تھا۔ زبان عربی۔ ترکی۔ فارسی۔ ہندی جانتا تھا۔ اقسام دانش عقلی و نقلی یہاں تک کہ ہندی علوم سے بہرہ وافی رکھتا تھا۔ شجاعت اور شہامت اور سرداری میں نشان بلکہ نشان قدرت الٰہی کا تھا۔ فارسی و ہندی میں خوب شعر کہتا تھا۔ حضرت عرش آشیانی کے حکم سے واقعات بابری کا ترجمہ فارسی میں کیا۔ کبھی کوئی شعر اور کبھی کوئی رباعی اور غزل بھی کہتا تھا۔ اور نمونہ کے طور پر چند است۔ آرزو مند است کے قافیہ کی غزل اور ایک رباعی بھی لکھی ہے۔ نظام الدین بخشی نے طبقات ناصری کے آخر میں امرائے عہد کے حالات مختصر مختصر درج کئے ہیں۔ اس کا ترجمہ لکھتا ہوں۔ اس وقت خانخاناں کی ۳۷ برس کی عمر ہے۔ آج دس برس ہوئے۔ کہ منصب خانخانی اور سپہ سالاری کو پہنچا ہے۔ عالی خدمتیں اور عظیم فتحیں کی ہیں۔ فہم و دانش اور علم و کمالات اس بزرگ نہاد کے جتنے لکھیں۔ سو میں سے ایک اور بہت میں سے تھوڑے ہیں۔ شفقت عالم۔ علما و فضلا کی تربیت۔ فقرا کی محبت اور طبع نظم اس نے میراث میں پائی ہے۔ فضائل و کمالات انسانی میں آج اس کا نظیر امرائے دربار میں نہیں ہے۔ اکثر باتیں تھیں۔ کہ ان کے خاندان کے لئے خاص تھیں۔ ان میں سے اکثر خود ان کی طبیعت کے عمدہ ایجاد تھے۔ اور بعض بادشاہی خصوصیت کی مہر رکھتے تھے۔ دوسرے کو وہ رتبہ حاصل نہ تھا۔ مثلاً پر ہما کہ اس کی کلغی بادشاہ اور شہزادوں کے سوا کوئی امیر نہ لگا سکتا تھا۔ ان کو اور ان کے خاندان کو اجازت تھی۔ خان خاناں کا مذہب صاحب مآثر الامرا لکھتے ہیں۔ کہ وہ اپنا مذہب سنت و جماعت ظاہر کرتے تھے۔ لوگ کہتے تھے کہ شیعہ ہیں۔ تقیہ کرتے ہیں۔ مگر اس میں شک نہیں۔ کہ فیض ان کا شیعہ سنی سب کو برابر پہنچتا تھا۔ کسی مذہب کے لئے خاص نہ تھا۔ البتہ بیٹے ایسی تعصب کی باتیں کرتے تھے۔ جس سے ثابت ہوتا تھا۔ کہ سنت جماعت مذہب رکھتے ہیں۔ خان خاناں علی العموم احکام شریعت کو مانتے تھے۔ اور جہاں تک ممکن تھا ان کی پابندی بھی کرتے تھے۔ لیکن دربار کے دور میں گھر جاتے تو شراب بھی پی لیتے تھے۔ جس مقام پر کہ خان خاناں کو مہم دکن اور قندھار وغیرہ کے لئے خاندیس سے بلایا اور وہ یلغار (ڈاک کی چوکی بٹھا کر ) کر کے آیا۔ یہاں خلوتوں میں جلسہ ہائے مشورہ ہوئے۔ ایک شب کہ خانخاناں اور مان سنگھ وغیرہ امرائے خاص کو جمع کیا تھا۔ اس کے بیان میں ملا صاحب کیا مزے سے چٹکی لیتے ہیں۔ ’’اسی جلسہ میں کہ شب عاشوریٰ تھی۔ ساقی نے جام بادشاہ کے سامنے کیا۔ انہوں نے خان خاناں کو دیا۔ ملا صاحب جو چاہیں فرمائیں۔ مگر یہ تو کہیں کہ زمانہ کیا تھا۔ جن صحبتوں میں صدر الشریعت اور مفتی اسلام۔ کل ممالک محروسہ ہندوستان کا خود مانگ کر جام لے۔ وہاں خان خاناں بادشاہ کا دیا ہوا جام لے کر نہ پی جائے تو کیا کرے۔ یہ بیچارہ تو ایک ترک بچہ سپاہی زادہ تھا۔ اگر یار مے پلائے تو پھر کیوں نہ پیجئے زاہد نہیں میں شیخ نہیں کچھ ولی نہیں اور حق پوچھو تو اکبر بھی زاہدان پارسا سے بے جا بیزار نہ تھا۔ انہوں نے اس کے استیصال سلطنت میں کیا کسر رکھی تھی۔ اخلاق اور طبعی عادات آشنائی اور آشنا پرستی میں عجوبۂ روزگار تھے۔ خوش مزاج۔ خوش اخلاق اور صحبت میں نہایت گرم جوش۔ اپنے دلربا اور دلفریب کلام سے یگانہ و بیگانہ کو غلام بنا لیتے تھے۔ باتوں باتوں میں کانوں کے رستہ سے دل میں اتر جاتے تھے۔ شیریں کلام۔ لطیفہ گو۔ بذلہ سنج۔ اور نہایت طرار و فرار تھے۔ دربار اور عدالتہائے بادشاہی کی خبروں کا بڑا خیال تھا۔ مگر حق پوچھو تو علی العموم اخبار واقعات کے عاشق تھے۔ کئی شخص دارالخلافہ میں نوکر تھے۔ کہ دن رات کے حالات برابر ڈاک چوکی میں بھیجے جاتے تھے۔ عدالت خانے۔ کچہریاں۔ چوکی چبوترہ۔ یہاں تک کہ چوک اور کوچہ و بازار میں بھی جو کچھ سنتے تھے۔ لکھ بھیجتے تھے۔ خان خاناں رات کو بیٹھ کر سب پڑھتے تھے۔ اور جلا دیتے تھے۔ بادشاہی یا اپنے ذاتی معاملات میں کسی کی طرف رجوع کرنے میں اپنے عالی مرتبہ کا خیال نہ رکھتے تھے۔ وہ دشمنوں سے بھی بگاڑتے نہ تھے۔ مگر موقع پاتے تو چوکتے بھی نہ تھے۔ ایسا ہاتھ مارتے تھے کہ قلم ہی کر دیتے تھے۔ ان باتوں کے سبب سے لوگ کہتے ہیں کہ وہ ایک زمانہ ساز آدمی تھے۔ اور یہ مقولہ ان کا اصول تدبیر تھا۔ کہ دشمن ۱؎ کو دوست بن کر مارنا چاہیے۔ اور سبب اس کا یہ ہے۔ کہ وہ ترقی مدارج اور جاہ و دولت کے ہر وقت محتاج تھے۔ مآثر الامرا میں لکھا ہے۔ شجاعت۔ سخاوت۔ دانش و تدبیر بندوبست جنگی و ملکی میں افسر تھے۔ مختلف وقتوں میں تیس برس تک دکن میں بسر کئے۔ اور اس طرح کئے کہ سلاطین اور امراے دکن کو اپنی رسائی کے وسیلے اطاعت و اخلاص کے پھندوں میں پھانسے رکھا۔ جو شاہزادہ یا امیر دربار شاہی سے جاتا تھا۔ اس کے نام نامی نے صفحۂ شہرت پر نقش دوام پایا ہے۔ مطالب مذکورہ کے بعد مآثر الامرا میں ایک شعر بھی لکھا ہے۔ جو کسی حریف یا حریفوں کے خوشامدی نے کہا تھا۔ ؎ یک وجب قد و صد گرہ در دل مشتکے استخوان و صد مشکل آزاد۔ ہائے ہائے۔ بیرحم دنیا۔ اور حیف بے درد اہل دنیا۔ گڑھوں کے بسنے والے موریوں کے سڑنے والے بادشاہی محلوں کے رہنے والوں پر باتیں بناتے ہیں۔ انہیں کیا خبر ہے۔ کہ اس شاہ نشان امیر کو کیا کیا نازک موقع اور پیچیدہ معاملے پیش آتے تھے۔ اور وہ سلطنت کی مہموں کو حکمت کے ہاتھوں سے کس طرح سنبھالتا تھا۔ کمینی نجس اور ناپاک دنیا ۔ اس کی آبادی شور و شر کا میلا ہے۔ تمام بدنیت۔ بد اندیش ۔ بد کردار۔ ظاہر کچھ باطن کچھ۔ دل میں دغا۔ زبان پر قسمیں۔ اس پر بے لیاقت آپ کچھ بھی نہیں کر سکتے۔ بلکہ کچھ نہیں کر سکتے۔ اس پر لیاقت والوں اور کرنے والوں کو دیکھ نہیں سکتے۔ ان کی جانفشان محنتوں کو مٹا کر بھی صبر نہیں کرتے۔ بلکہ اس کی اجرت کے خود مستحق بنتے تھے۔ ایسے نااہلوں کے مقابل میں انسان ویسا ہی نہ بن جائے تو کیونکر بسر کر سکے۔ حکیم یونان نے کیا خوب کہا ہے (انسان کے نیک رہنے کے لئے ضرور ہے۔ کہ اس کے ہم معاملہ بھی ۱؎ با دشمن در لباس دوستی دشمنی نمودہ آید نیک ہوں۔ ورنہ اس کی نیکی نہیں نبھ سکتی) بیشک بالکل درست کہا۔ اگر یہ اپنی ذات سے نیک رہے۔ تو بد نیت شیطان اس کے کپڑے بلکہ کھال تک نوچ کر لے جائیں۔ اس لئے واجب ہے کہ بے ایمانوں کے ساتھ ان سے زیادہ بے ایمان بنے۔ خان خاناں نام کو ہفت ہزاری منصب دار تھا۔ مگر ملکوں میں خود اختیار سلطنت کرتا تھا۔ صدہا ہزاریوں سے اس کے معاملے پڑتے تھے۔ اس طرح کام نہ نکالتا تو ملک داری کیونکر چلتی۔ ایسے نامردوں سے اس طرح جان نہ بچاتا تو کیونکر بچتا۔ انبوہ در انبوہ منافقوں کواس پیچ سے نہ مارتا تو خود کیونکر جیتا۔ ضرور مارا جاتا۔ کاغذوں پر بیٹھ کر لکھنا اور بات ہے اور مہموں کا سر کرنا اور سلطنتوں کا عمل درآمد کرنا اور بات ہے۔ وہی تھا۔ کہ سب کچھ کر گیا اور نیکی لے گیا۔ اور نام نیک یادگار چھوڑ گیا۔ اس وقت بہتیرے امیر تھے۔ اور آج تک بہتیرے ہوئے۔ کسی کی تاریخ زندگی میں اس کے کارناموں کا پاسنگ تو دکھا دو۔ استعداد علمی اور تصنیفات استعداد علمی کے باب میں اتنا ہی کہہ سکتے ہیں۔ کہ عربی زبان بہت خوب سمجھتا تھا۔ اور بولتا تھا۔ فارسی اور ترکی اس کے گھر کی زبان تھی۔ گونان دیوہ ہندی ہوگر تھا۔ مگر سارا گھر بار اور ناکر چاکر ترک اور ایرانی تھے۔ خود ہمہ گیر طبیعت رکھتا تھا۔ میں نے اس کی اکثر عرضیاں بادشاہ اور شاہزادوں کے نام اکثر مراسلے احباب و امرا کے نام اکثر خط مرزا ایرج وغیرہ بیٹوں کے نام دیکھے۔ جس سے ثابت ہوتا ہے۔ کہ فارسی کا عمدہ انشا پرداز تھا۔ اس زمانہ کے لوگ اپنے بزرگوں کی ہر بات کی خصوصاً زبان کی بڑی حفاظت کرتے تھے اور بڑی بات یہ تھی کہ بادشاہ وقت ترک تھا۔ جہانگیر اپنے بچپن کے حال میں لکھتا ہے۔ میرے باپ کو بڑا خیال تھا۔ کہ مجھے ترکی زبان آئے۔ اس واسطے پھوپھی کے سپرد کیا تھا۔ کہ اس سے ترکی ہی بولا کرو اور ترکی ہی بلوایا کرو۔ مآثر الامرا میں لکھا ہے۔ کہ خان خاناں عربی فارسی ترکی میں رواں تھا۔ اور اکثر زبانیں جو عالم میں رائج ہیں۔ ان میں گفتگو کرتا تھا۔ (1) توزک بابری ترکی میں تھی۔ اکبر کے حکم سے ترجمہ کر کے ۹۹۷؁ھ میں نذر گزرانی۔ اور تحسین و آفرین کے بہت پھول سمیٹے۔ اس کی عبارت سلیس اور عام فہم ہے۔ اور بابر کے خیالوں کو نہایت صفائی سے ادا کیا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس عالی دماغ امیر الامرا نے نہ آنکھوں کا تیل نکالا ہو گا۔ نہ چراغ کا دھوں کھایا ہو گا۔ مفت خور ملانے بہت ساتھ رہتے تھے۔ کسی سے کہہ دیا ہو گا۔ ایک دو اذبک ساتھ کر دئیے ہوں گے۔ سب مل جل کر لکھتے ہوں گے۔ آپ سنا کرتا ہو گا۔ ہدائتیں کرتا جاتا ہو گا۔ جب اس خوبی اور خوش ادائی کے ساتھ یہ نسخہ تیار ہوا۔ مولوی ملانوں سے کیا ہوتا تھا۔ ؎ عشق۱؎ و جنوں کی راہیں اہل وفا سے پوچھو کیا جانیں شیخ صاحب ملانے آدمی ہیں! (2) اکبر کا عہد گویا نئی روشنی کا زمانہ تھا۔ اس نے علم سنسکرت بھی حاصل کیا۔ جوتش میں اس کی مثنوی ہے۔ ایک مصرع فارسی ایک سنسکرت۔ (3) فارسی میں دیوان نہیں ہے۔ متفرق غزلیں اور رباعیاں ہیں۔ مگر جو کچھ ہیں خوب ہیں۔ جو خود خوب ہیں۔ ان کی سب باتیںخوب ہیں۔ اولاد باپ مہموں پر رہتا تھا۔ بچوں نے اکثر اکبر کی حضوری میں پرورش پائی۔ خان خاناں بچوں کو بہت چاہتا تھا۔ چنانچہ اکبر بھی اکثر فرمانوں میں ایرج داراب کا نام کسی نہ کسی طرح لے دیتا تھا۔ ابوالفضل کو اس سے زیادہ لینے پڑتے تھے۔ کہ ان دنوں بڑی محبتیں تھیں۔ ۹۹۸؁ھ میں اکبر نامہ میں لکھتے ہیں۔ خان خاناں کو بیٹے کی بڑی آرزو تھی۔ تیسرا بیٹا ہوا حضور نے قارن نام رکھا۔ شادی کی دھوم دھام میں جشن کیا۔ اور حضور کو بھی بلایا۔ عرضی قبول ہوئی۔ اور اعزاز کے رتبے بلند ہوئے۔ تحریروں کے انداز سے معلوم ہوتا ہے۔ کہ جتنی بچوں سے محبت رکھتا تھا۔ اتنی ہی تعلیم و تربیت پر توجہ رکھتا تھا۔ مرزا ایرج سب میں بڑا تھا۔ اس کی تربیت و تعلیم کا حال معلوم نہیں۔ ابوالفضل نے عام اتحاد کی گرم جوشی میں ایک خط خان خاناں کو لکھا تھا۔ اس میں لکھتے ہیں۔ دربار میں ایرج کا بھیجا کیا ضرور ہے۔ تمہیں اس میں اصلاح عقیدہ کا خیال ہے۔ یہ امید بے حاصل ہے۔ آزاد۔ جو لوگ شیخ کو بے دین کہتے ہیں۔ اور اکبر کو بے دین کر دینے کا الزام لگاتے ہیں۔ وہ ان لفظوں کو دیکھیں۔ کہ اس کے دل میں دربار کی طرف سے ان معاملات میں کیا خیال تھا۔ جو یہ فقرے قلم سے نکلے ہیں۔ ۴۰؁جلوس اکبری میں خان خاناں دکن میں تھا۔ تو ایرج بھی اس کے ساتھ تھا۔ عنبر حبشی ۱؎ دست جنوں کی راہیں وحشت زدوں سے پوچھو۔ فوج لے کر تلنگانہ کو مارتا ہوا چپرے پر آیا۔ امر انے خان خاناں کو متواتر تحریریں بھیج کر کمک مانگی۔ خان خاناں نے ایرج کو بھیجا۔ وہاں بڑے معرکہ کا میدان ہوا۔ نوجوان دلاور نے اس بہادری سے تلواریں ماریں۔ کہ باپ دادا کا نام روشن ہو گیا۔ پرانے پرانے سپاہی آفرین کرتے تھے۔ ماں شمشیر کی سفارش نے اسے دربار سے بہادری کا خطاب دلوایا۔ ۱۰۱۲؁ھ میں جبکہ عادل شاہ نے شاہزادہ دانیال کے ساتھ اپنی بیٹی کی نسبت منظور کی۔ تو چند امرا کے ساتھ معہ پانچ ہزار سپاہ کے برات لے کر گیا۔ وہاں سے دلہن کی پالکی کے ساتھ جہیز کے سامان پیشکش لئے شادی کی شہنائیاں بجاتے آئے۔ قریب پہنچے۔ تو خان خاناں چودہ ہزار سوار سے دمامۂ دولت بجاتے گئے۔ اور برات لے کر لشکر میں داخل ہوئے۔ جہانگیری عہد میں بھی اس نے اور داراب اور اور بھائیوں نے ایسے ایسے کارنامے کئے کہ باپ کا دل اور دادا کی روح باغ باغ ہوتے تھے۔ خصوصاً ایرج ۔ اس کی شجاعت ۔ ہمت۔ عالی دماغی دیکھ کر سب لکھتے ہیں۔ کہ یہ دوسرا خان خاناں کہاں سے آ گیا۔ جہانگیر اپنی توزک میں جا بجا ا س کی تعریفیں لکھتا ہے۔ اور معلوم ہوتا ہے۔ کہ خوش ہو ہو کر لکھتا ہے۔ اور آئندہ کی جانفشانی کی امیدیں رکھتا ہے۔ سلاطین ایشیائی کے اصول و فروغ کو جب قوانین حال کے ساتھ مقابلہ کرتے ہیں۔ تو اختلاف بہت معلوم ہوتے ہیں۔ مگر یہ نکتہ دکھانے کے قابل ہے۔ کہ وہ لوگ اپنے نوکروں کی خوبی۔ خدمت گذاری اور خوش حالی دیکھ کر ایسے خوش ہوتے تھے۔ جیسے کوئی زمیندار اپنے زرخیز کھیت کو ہرا بھرا دیکھ رہا ہے۔ یا باغبان اپنے لگائے ہوئے درخت کے سایہ میں بیٹھتا ہے یا کوئی مالک ہے۔ کہ اپنے گھوڑے گایوں بکریوں کی شیر داری اور نسل داری پر خوش اور نازاں ہوتا ہے۔ یہ نعمت انہیں خوش نصیب جاں نثاروں کو حاصل تھی۔ جس کی ہم لوگوں کو ہر گز امید نہیں۔ اس کا سبب کیا ہے؟ ہاں وہ جاں نثار اپنے بادشاہ کے سامنے جانفشانی کر رہے تھے۔ اسے ان سے اور ان کی نسل سے اپنی بلکہ اپنی اولاد کے لئے ہزاروں امیدیں تھیں۔ اور ہم؟ ہمارا بادشاہ بھی حاکم جو چند روز کے بعد تبدیل ہو جائے گا۔ یا ولایت چلا جائے گا۔ پھر وہ کون۔ اور ہم کون۔ ۱۰۲۰؁ھ میں جہانگیر نے اسے شاہنواز خاں خطاب دیا۔ ۱۰۲۱؁ھ میں تین ہزاری ذات تین ہزاری منصب کا خطاب دیا۔ ۱۰۲۴؁ھ میں عنبر پر ایسی فتح نمایاں حاصل کی کہ خنجر و شمشیر کی زبان سے صدائے آفرین نکلی۔ اور داراب نے جانبازی کے رتبہ کو حسد سے گذار دیا۔ ۱۰۲۶؁ھ میں بارہ ہزار سوار جرار اسپہ عنایت ہوئے۔ اور اس نے بالا گھاٹ پر گھوڑے اٹھائے۔ اسی سنہ میں ان کی بیٹی کی شاہزادہ شاہجہاں سے شادی ہوئی۔ ۱۰۲۷؁ھ میں اسے پنج ہزاری منصب کے ساتھ دو ہزار سوار دو اسپہ سہ اسپہ عنایت ہوئے۔ ۱۰۲۸؁ھ میں لکھتا ہے۔ کہ جب وہ اتالیق رخصت ہونے لگا۔ تو میں نے بتاکید تمام کہہ دیا تھا کہ سنا ہے شاہ نواز خاں شراب کا عاشق ہو گیا ہے بہت پیتا ہے۔ اگر سچ ہے۔ تو بڑا افسوس ہے۔ کہ اس عمر میں جان کھو بیٹھے گا۔ اسے اس کے حال پر نہ چھوڑنا۔ خود اچھی طرح حفاظت نہ کر سکو تو صاف لکھو۔ ہم حضور میں بلا لیں گے۔ اور اس کی اصلاح حال پر توجہ کریں گے وہ جب برہان پور میں پہنچا تو بیٹے کو بڑا ضعیف و نحیف پایا۔ علاج کیا وہ کئی دن کے بعد بستر ناتوانی پر گر پڑا۔ طبیبوں نے بہت معالجے اور تدبیریں خرچ کیں۔ کچھ فائدہ نہ ہوا۔ عین جوانی اور دولت و اقبال کے عالم میں تینتیس برس کی عمر میں ہزاروں حسرت و ارمان لے کر رحمت اور مغفرت الٰہی میں داخل ہوا۔ یہ ناخوشخبری سن کر مجھے بڑا افسوس ہوا۔ حق یہ ہے۔ کہ بڑا بہادر خانہ زاد تھا۔ اس سلطنت میں عمدہ خدمتیں کرتا اور کارنامہ ہائے عظیم اس سے یادگار رہتے یہ راہ تو سب کو درپیش ہے۔ اور حکم قضا سے چارہ کسے ہے۔ مگر اس طرح جانا تو ناگوار ہی معلوم ہوتا ہے۔ امید ہے۔ کہ خدا مغفرت کرے۔ راجہ رنگ دیو خدمت گاران نزدیک میں سے ہے۔ اسے میں نے خان خاناں کے پاس پرسے کے لئے بھیجا۔ اور بہت نوازش اور دلجوئی کی اس کا منصب اس کے بھائی بیٹوں میں تقسیم کر دیا۔ داراب کو پنج ہزاری ذات اور سوار کر دیا۔ خلعت۔ ہاتھی۔ گھوڑا ۔ شمشیر مرصع۔ دے کر باپ کے پاس بھیج دیا کہ شاہ نواز خاں کی جگہ برار و احمد نگر کا صاحب صوبہ ہے رحمن داد۔ دوسرے بھائی کو دو ہزار آٹھ سو سوار۔ منوچر شاہ نواز کا بیٹا۔ دو ہزاری ہزار سوار۔ طغرل دوسرا بیٹا ہزاری ذات پانسو سوار۔ حقیقت یہ ہے کہ جوانمرگ امیر زادہ کی جانفشانی اور جاں نثاری نے جہانگیر کے دل پر داغ دیا تھا۔ اپنی توزک میں کئی جگہ اس کی دلاوری کا ذکر کیا ہے۔ اور ہر جگہ لکھتا ہے۔ کہ اگر عمر وفا کرتی تو اس سلطنت میں خوب خدمتیں بجا لاتا۔ داراب۔ ۱۰۲۹؁ھ میں خان خاناں کی عرضی آئی کہ برکی وغیرہ سرداران دکن نے جنگلی قوموں کو ساتھ لے کر ہجوم کیا ہے۔ تھانہ دار اٹھ کر داراب کے پاس چلے آئے ہیں۔ بادشاہ نے دو لاکھ روپیہ بھیجا۔ داراب نے کئی دفعہ امرا کو بھیجا تھا۔ سپاہ کٹوا کر چلے آئے تھے۔ آخر خود گیا۔ مارتا مارتا ان کے گھروں تک جا پہنچا۔ اور سب کو قتل و غارت کر کے پریشان کر دیا۔ اس کی درد ناک مصیبت باپ کے حال میں بیان ہو چکی۔ بار بار صبر کے سینہ میں خنجر مارنا کیا ضرور ہے۔ رحمن داد۔ جن پھولوں کو ہم جانتے ہیں۔ معمولی رنگ و بو رکھتے ہیں۔ یہ پھول رنگا رنگ کے اوصاف و کمال سے آراستہ تھا۔ کمبخت باپ اسی کو بہت پیار کرتا تھا۔ اس کی ماں قوم سوہیہ مقام امرکوٹ کی رہنے والی تھی۔ وہ فخر کیا کرتا تھا۔ کہ بادشاہ میرے ننہال میں پیدا ہوئے تھے۔ جب وہ مرا ہے کسی کی جرأت نہ پڑتی تھی۔ کہ خان خاناں سے جا کر کہہ سکے۔ حضرت شاہ عیسیٰ سندھی کوئی بزرگ تھے۔ انہیں اہل محل نے کہلا بھیجا کہ آپ جا کر کہئے۔ انہوں نے بھی اتنا کیا کہ لباس ماتمی پہن کر گئے فقط فاتحہ پڑھی کوئی آیت۔ کوئی حدیث۔ چند کلمے صبر کے ثواب میں ادا کئے اور اٹھ کر چلے آئے۔ جہانگیر توزک میں لکھتا ہے۔ ۱۰۲۹؁ھ میں پھر خان خاناں کو داغ جگر نصیب ہوا۔ کہ رحمن داد بیٹا بالا پور میں مر گیا۔ کئی دن بخار آیا تھا۔ نقاہت باقی تھی۔ ایک دن غنیم فوج کا دستہ باندھ کر نمودار ہوئے بڑا بھائی داراب فوج لے کر سوار ہوا۔ اسے جو خبر ہوئی۔ تو شجاعت کے جوش میں اٹھ کھڑا ہوا۔ اور سوار ہو کر گھوڑا دوڑائے بھائی کے پاس پہنچا۔ غنیم کو بھگا دیا۔ فتح کی خوشی میں موج کی طرح لہراتا ہوا پھرا گھر آ کر احتیاط نہ کی۔ کپڑے اتار ڈالے۔ ہوا لگ کر بدن اینٹھنے لگا زبان بند ہو گئی۔ دو دن یہ حال رہا تیسرے دن مر گیا۔ خوب بہادر جوان تھا۔ شمشیر زنی اور خدمت کا شوقین تھا۔ اس کا جی چاہتا تھا کہ اپنا جوہر تلوار میں دکھائے۔ آگ تو سوکھے گیلے کو برابر جلاتی ہے۔ مگر میرے دل کو سخت رنج ہوتا ہے۔ بڈھے باپ پر کیا گذری ہو گی۔ کہ دل شکستہ ہے۔ ابھی شاہنواز خاں کا زخم بھرا ہی نہیں۔ کہ اور زخم نصیب ہوا۔ خدا ایسا ہی صبر اور حوصلہ دے۔ امر اللہ ۔ ایک بیٹا لونڈی کے پیٹ سے تھا۔ یہ تعلیم اور تربیت سے بے بہرہ رہا۔ یہ بھی جوان ہی گیا اسی کے باب میں جہانگیر نے خوش ہو کر لکھا تھا۔ کہ گونڈانہ علاقہ خاندیس کان الماس پر جا کر قبضہ کیا۔ حیدر قلی۔ باپ اسے پیار سے حیدری کہتا تھا۔ کئی بھائیوں سے پیچھے آیا تھا۔ اور سب سے پہلے گیا۔ گل کچھ تو اس چمن کی ہوا کھا کے گر پڑے وہ کیا کرے کہ غنچہ بھی کملا کے گر پڑے ۱۰۰۴؁ھ میں اس کا حال لکھ چکا ہوں۔ وہاں سے دیکھ لو۔ خدا یہ داغ دشمن کو بھی نہ دکھائے۔ دو بیٹیوں کے حال بھی سیاہ نقابیں ڈالے کتابوں میں نظر آتے ہیں۔ ایک وہی جو دانیال سے منسوب تھی۔ جس کاذکر ہو لیا۔ افسوس جس جانا بیگم کے سر سے سہاگ کے عطر ٹپکتے تھے۔ بے رحم زمانہ نے اس میں بدنصیبی کے ہاتھوں سے رنڈاپے کی خاک ڈالی۔ اس عفیفہ نے ایسا غم کیا کہ کوئی نہیں کرتا۔ دہکتی آگ سے تن کو داغ داغ کیا۔ بڑھیا ہو کر مری۔ مگر جب تک جیتی رہی۔ سفید گزی گاڑھا پہنتی رہی۔ رنگین رومالی تک سر پر نہ ڈالی۔ اس کی کارروائی اور سلیقے مردوں کے لئے دستور العمل ہیں۔ جہانگیر دکن کے دورہ پر گیا۔ کل دربار اور لشکر سمیت بادشاہ کی ضیافت کی۔ اتفاق یہ کہ ان دنوں خزاں نے درختوں کے کپڑے اتار لئے تھے۔ پاک دامن بی بی نے انہیں بھی خلعت اور لباس سے آراستہ کیا۔ دور دور سے مصور اور نقاش جمع کئے۔ کاغذ اور کپڑے کے پھول و پتے کتروائے۔ موم اور لکڑے کے پھل ترشوائے۔ ان پر ایسا رنگ و روغن کیا۔ کہ نقل و اصل میں اصلا فرق نہ معلوم ہوتا تھا۔ جب بادشاہ آئے تو تمام درخت ہرے اور پھلوں سے دامن بھرے کھڑے تھے۔ حیران ہوئے۔ روش پر چلتے تھے۔ ایک پھل پر ہاتھ ڈالا۔ اس وقت معلوم ہوا کہ کل کارخانہ فقط سبز باغ ہے۔ بہت خوش ہوئے۔ دوسری بیٹی کا نام معلوم نہیں۔ میر جمال الدین انجو فرہنگ جہانگیری کے مصنف امرائے اکبری میں داخل تھے۔ ان کے دو بیٹے تھے۔ ایک ان میں سے میر امیر الدین تھے۔ کہ سعادت مندی انہیں باپ کی خدمت سے ایک دم جدا نہ ہونے دیتی تھی۔ دختر مذکور ان سے منسوب تھی۔ افسوس اس بیچاری کو بھی عین جوانی میں دنیا سے ناکامی نصیب ہوئی۔ میاں فہیم یہ وہی میں فہیم ہے۔ جس کے نام سے ہندوستان کے زن و مرد کی زبان پر کہاوت مشہور ہے کہ کمائیں خان خاناں اور لٹائیں میاں فہیم۔ خان خاناں کی بعض عرضیاں اور خطوط میں نے دیکھے وہ بھی میاں فہیم لکھتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ میاں ہی کہتے بھی ہوں گے۔ میاں ہی مشہور ہو گئے۔ لوگ انہیں خان خاناں کا غلام سمجھتے ہیں۔ حقیقت میں غلام نہ تھے۔ ایک راجپوت کے بیٹے تھے۔ خدا ترس بامروت جوہر شناس خان خاناں نے اپنے بچوں کی طرح پالا۔ اور بیٹوں کے ساتھ تعلیم و تربیت کیا تھا۔ انہیں ہمت و شجاعت سے دودھ پلوایا تھا۔ اور لیاقت و آداب سے سبق پڑھوایا تھا۔ آقا کی بدولت اس کا نام آسمان شہرت پر ایسا چمکا۔ جیسے چاند کے پہلو میں تارا۔ بیٹے کا کوئی نام بھی نہیں جانتا۔ فہیم باوجود اوصاف مذکورہ کے نہایت پرہیز گار۔ نیک نیت نیکو کار تھا۔ مرنے کے دن تک تہجد اور اشراق کی نماز نہیں چھٹی۔ فقیر دوست تھا۔ اور سپاہ کے ساتھ برادرانہ سلوک کرتا تھا۔ خان خاناں کی سرکار کے کاروبار اس کی ذات پر منحصر تھے۔ کھلاتا تھا۔ لٹا تا تھا۔ اپنا دل خوش اور آقا کا نام روشن کرتا تھا۔ وہ مہموں میں تیغ و تیر کی طرح اس کے دم کے ساتھ ہوتا تھا۔ میں نے خان خاناں کی ایک عرضی اکبر کے نام دیکھی۔ معلوم ہوتا ہے۔ کہ سہیل کی لڑائی میں وہ فوج ہراول میں حملہ آور تھا۔ مگر تند مزاج اور بلند نظر بھی حد سے زیادہ تھا۔ جب جائو اس کی ڈیوڑھی پر کوڑا ہی چٹختا سنائی دیتا تھا۔ نقل۔ ایک دن داراب اور بکرما جیت شاہجہانی ایک مسند پر بیٹھے باتیں کر رہے تھے۔ کہ فہیم بھی آیا۔ دیکھ کر آگ بگولا ہو گیا اور داراب سے کہا۔ کاش ایرج کے بدلے تو مر جاتا۔ یہ ڈکوت برہمن اور بیرم خاں کے پوتے کے برابر بیٹھے! (مآثر) آخر میں خان خاناں کی طبیعت مکدر ہو گئی۔ اسے بیجا پور کی فوجداری پر بھیج دیا تھا۔ چند روز بعد حساب کتاب مانگا۔ حافظ نصر اللہ خاں خاناں کے دیوان بااختیار نہایت معزز شخص تھے۔ حساب لینے لگے۔ کسی رقم پر تکرار ہوئی۔ سر دربار حافظ صاحب کے منہ پر طمانچہ مارا۔ اور اٹھ کر چلا گیا۔ آفرین ہے خان خاناں کے حوصلہ کو آدھی رات کو آپ گئے اور منا کر لائے۔ (مآثر) جب مہابت خاں نے خانخاناں کو قید کرنا چاہا ۔ تو فہیم کی طرف سے خیال تھا۔ کہ من چلا نوجوان ہے ایسا نہ ہو کہ زیادہ آگ بھڑک اٹھے۔ چاہا کہ منصب اور انعام و اکرام کے لالچ دے کر پہلے اسے بلا لے۔ فہیم نے نہ مانا۔ اور تیز تیز پیغام سلام بھیجے۔ آخر مہابت خاں نے کہلا بھیجا۔ کہ سپاہ گری کا گھمنڈ کب تک پیش جائے گا۔ جان کھو بیٹھو گے۔ فہیم نے کہا خان خاناں کا غلام ہے۔ ایسا سستا بھی نہ ہاتھ آئے گا۔ جب خان خاناں کو مہابت خاں نے بلایا۔ تو فہیم نے اسی وقت کہہ دیا تھا۔ کہ دغا معلوم ہوتی ہے۔ ایسا نہ ہو کہ ذلت و خواری تک نوبت پہنچے۔ مسلح و مستعد ہو کر حضور کی خدمت میں چلنا چاہئے خان خاناں نے کچھ خیال نہ کیا۔ مہابت نے انہیں نظر بند کرتے ہی فہیم کے ڈیرے پر آدمی بھیجے اس نے اپنے فرزند فیروز خاں سے کہا۔ کہ وقت آن لگا ہے۔ تھوڑی دیر انہیں روکو۔ کہ وضو تازہ کر کے سلامتی ایمان کا دوگانہ ادا کر لوں۔ چنانچہ نماز سے فارغ ہر کر آپ۔ بیٹا چالیس جاں نثاروں کے ساتھ تلوار پکڑ کر چلے۔ اور جان کو آبرو پر قربان کر دیا۔ خیال کرو خان خاناں کو اس کے مرنے کا کیسا رنج ہوا ہو گا۔ اس کی لاش بھی دلی میں بھجوائی۔ کہ وہاں کی خاک کو آرام گاہ سمجھتا تھا ۔ ہمایوں کے مقبرہ کے پاس مقبرہ بنوایا۔ اب تک نیلا گنبد اس کے غم میں رنگ سوگواری دکھا رہا ہے۔ (مآثر) باغ فتح۔ احمد آباد کے پاس جہاں مظفر پر فتح پائی تھی۔ وہاں خان خاناں نے ایک باغ آباد کیا۔ اور اس کا نام باغ فتح رکھا۔ دیکھو ہندوستان میں آ کر اتنا رنگ بدلا۔ بیرم خاں کے وقت تک جہاں فتح ہوئی کلہ منار بنتے رہے کہ ایران و توران کی رسم تھی۔ ہندوستان کی آب و ہوا نے باغ سرسبز کیا۔ دکن کے دورہ میں جہانگیر کا گذر گجرات میں ہوا۔ باغ مذکور میں بھی گئے۔ لکھتے ہیں۔ جو باغ خان خاناں نے میدان کا رزار پر بنایا۔ دریائے سامرتھی کے کنارہ پر ہے۔ عمارت عالی اور بالا دری موزوں و مناسب چبوترہ کے ساتھ دریا کے رخ پر تعمیر کی ہے۔ تمام باغ کے گرد پتھر اور چونے کی مضبوط دیوار کھینچی ہے۔ ۱۲۰ جریب کا رقبہ ہے۔ خوب سیر گاہ ہے۔ دو لاکھ روپے خرچ ہوئے ہوں گے۔ مجھے بہت پسند آیا۔ ایسا باغ تمام گجرات میں نہ ہو گا۔ دکن کے لوگ اسے فتح باڑی کہتے ہیں۔ امارت اور دریا دلی کے کارنامے جود و کرم کے باب میں بے اختیار تھا۔ ہمت اور حوصلہ کے جوش فوارہ کی طرح اچھلے پڑتے تھے اور عطا و انعام کے لئے بہانہ ڈھونڈتے تھے۔ اس کی امیرانہ طبیعت بلکہ شاہانہ مزاج کی تعریفوں میں شعرا اور مصنفوں کے لب خشک ہیں۔ علما۔ صلحا۔ فقرا۔ مشائخ وغیرہ وغیرہ ۔ سب کو ظاہر اور خفیہ ہزاروں روپے اشرفیاں اور دولت و مال دیتا تھا۔ اور شعرا اور اہل کمال کا تو مائی باپ تھا۔ جو آتا ان کی سرکار میں آ کر اس طرح اترتا۔ جیسے اپنے گھر میں آ گیا اور اتنا کچھ پاتا تھا کہ بادشاہ کے دربار میں جانے کی ضرورت نہ ہوتی تھی۔ مآثر الامرا میں لکھا ہے کہ اس کے وقت میں اہل کمال کا وہ مجمع تھا۔ جو سلطان حسین مرزا اور امیر علی شیر کے عہد میں گذرا ہے۔ مگر میں کہتا ہوں کہ ان کے دربار میں یہ لہر بہر دریائے سخاوت کی کجا۔ کئی شاعروں کو اشرفیوں میں تلوا دیا۔ اس کی سخاوتوں کے کارنامے اکثر لطیفوں اور حکایتوں کے رنگ و بو میں محفلوں اور جلسوں پر پھول برساتے ہیں۔ میں بھی اس کے گلدستوں سے دربار اکبری کو سجائوں گا۔ شعرا نے جتنے قصیدے اس کی تعریف میں کہے ہیں۔ اکبر ہی کی تعریف میں کہے ہوں تو کہے ہوں۔ اور اس نے بھی انہیں لاکھوں انعام دئیے گنوان پنڈت۔ کوئی کبیشور۔ بلکہ بھاٹ ہزاروں اشلوک۔ دہڑے۔ گیت کہہ کر لاتے تھے۔ اورہزاروں لے جاتے تھے۔ انعام میں بھی وہ وہ نزاکت و لطافت کے انداز دکھا گیا۔ کہ آیندہ دینے والوں کے ہاتھ کاٹ ڈالے ہیں۔ ملا عبدالباقی نے کل قصائد صحیح البیاض جمع کر کے ایک ضخیم کتاب بنا دی ہے۔ ا س میں ہر شاعر کا حال اس کے قصیدہ کے ساتھ لکھا ہے۔ اور یہ بھی لکھا ہے کہ کس تقریب میں یہ قصیدہ کہا گیا تھا۔ اور انعام کیا پایا تھا۔ اس سے اکثر جزیات تاریخی حالات کے معلوم ہوتے ہیں۔ ماثر رحیمی اس کا نام ہے۔ لطیفہ ۔ خان خاناں کا دستر خوان نہایت وسیع ہو تا تھا۔ کھانے رنگا رنگ کے تکلّفات سے رنگین اور اس کے فیض سخاوت کی طرح اہل عالم کے لئے عام تھے۔ جب دستر خوان پر بیٹھتا تھا۔ مکانوں میں درجہ بدرجہ صدہا بندگان خدا بیٹھتے تھے۔ اور لذت سے کامیاب ہوتے تھے۔ اکثر کھانوں کی رکابیوں میں کسی میں کچھ روپے۔ کسی میں اشرفیاں رکھ دیتے تھے۔ جو جس کے نوالے میں آئے۔ اس کی قسمت آج تک وہ مثل زبانوں پر ہے۔ خان خاناں جس کے کھانے میں بتانا۔ لطیفہ۔ ایک دفعہ پیش خدمتوں میں کوئی نیا شخص ملازم ہوا تھا۔ دستر خوان آراستہ ہوا۔ نعمت ہائے گوناگوں چنی گئیں۔ جب خان خاناں آ کر بیٹھا۔ سینکڑوں امرا اور صاحب کمال موجود تھے۔ کھانے میں مصروف ہوئے۔ اس وقت وہی پیش خدمت خان خاناں کے سر پر رومال ہلا رہا تھا۔ یکایک رونے لگا۔ سب حیران ہو گئے۔ خان خاناں نے حال پوچھا۔ عرض کی کہ میرے بزرگ صاحب امارت اور صاحب دستگاہ تھے۔ میرے باپ کو بھی مہمان نوازی کا بہت شوق تھا۔ مجھ پر زمانہ نے یہ وقت ڈالا۔ اس وقت ـآپ کا دستر خوان دیکھ کر وہ عالم یاد آ گیا۔ خان خاناں نے بھی افسوس کیا۔ ایک مرغ بریاں سامنے رکھا تھا۔ اس پر نظر جا پڑی۔ پوچھا۔ بتائو ۔ مرغ میں کیا چیز مزے کی ہوتی ہے۔ اس نے کہا پوست۔ خان خاناں نے کہا۔ سچ کہتا ہے۔ لطف و لذت سے باخبر ہے۔ مرغ کی کھال اتار کر پکائو۔ تو کیسا ہی تکلف سے پکائو۔ وہ لذت اور نمکینی نہیں رہتی۔ بہت خوش ہوا۔ دستر خوان پر بٹھا لیا۔ دل جوئی کی۔ اور مصاحبوں میں داخل کر دیا۔ دوسرے دن دستر خواں پر بیٹھے۔ تو ایک اور خدمتگار رونے لگا۔ خانخاناں نے اس سے بھی سبب پوچھا۔ اس نے جو سبق کل پڑھا تھا۔ وہی سنا دیا۔ خان خاناں ہنسا ۔ اور ایک اور جانور کا نام لے کر پوچھا۔ کہ بتائو اس میں کیا چیز مزے کی ہوتی ہے۔ اس نے کہا پوست۔ سب لعنت ملامت کرنے لگے۔ خان خاناں بہت ہنسا۔ اسے کچھ انعام دے کر کسی اور کارخانے میں بھیج دیا۔ کہ ایسا شخص حضور میں خدمت کے قابل نہیں۔ ایک دن ملازموں کی چٹھیاں دستخط کر رہے تھے۔ کسی پیادہ کی چٹھی پر ہزار دام کی جگہ ہزار روپے لکھ دئیے۔ دیوان نے عرض کی۔ کہا اب جو قلم سے نکل گیا۔ اس کی قسمت۔ ایک دن نظیری نیشا پوری نے کہا۔ کہ نواب میں نے لاکھ روپیہ کا ڈھیر کبھی نہیں دیکھا۔ کہ کتنا ہوتا ہے۔ انہوں نے خزانچی کو حکم دیا۔ اس نے سامنے انبار لگا دیا۔ نظیری نے کہا۔ شکر خدا کا آپ کی بدولت آج لاکھ روپے دیکھے۔ خان خاناں نے کہا۔ اللہ جیسے کریم کا اتنی بات پر کیا شکر کرنا۔ روپے اسی کو دے دئیے اور کہا خیر اب شکر الٰہی کرو تو ایک بات بھی ہے۔ جہانگیر بادشاہ ایک دن تیر اندازی کر رہا تھا۔ کسی بھاٹ کی یادہ گوئی پر خفا ہو کر حکم دیا۔ کہ اسے ہاتھی کے پائوں تلے پامال کریں۔ خان خاناں پاس کھڑا تھا۔ فرقہ مذکور کی حاضر جوابی اس کی زبان درازی سے بھی بڑھی ہوئی ہوتی ہے۔ ا س نے عرض کی۔ حضور ذرہ ناچیز کے لئے ہاتھی کیا کرے گا۔ ایک چوہے چڑے کا پانو بھی بہت ہے۔ ہاتھی کا پائوں خان خاناں کے لئے چاہئے۔ کہ بڑا آدمی ہے۔ جہانگیر نے ان کی طرف دیکھا۔ کہ اس لفظ نے دل پر کیا اثر کیا۔ پوچھا کیا کہتے ہو۔ انہوں نے کہا کچھ نہیں۔ داروغہ سے پوچھا کہ تو بتا دے۔ خان خاناں خود بولے۔ کہ حضور کے تصدق سے خدا نے مجھ ناچیز کو ایسا کیا۔ کہ یہ بڑا آدمی سمجھتا ہے۔ میں نے اس وقت شکر خدا کیا۔ اور کہا کہ جب اس کی خطا معاف ہو۔ تو پانچ ہزار روپے دے دینا۔ حضور کی جان و مال کو دعا دے گا۔ اہل ہند کا خیال ہے۔ کہ سورج ہر شام کو سمیر کے پیچھے چلا جاتا ہے۔ اور وہ ایک سونے کا پہاڑ ہے۔ انہوں نے یہ بھی فرض کیا ہے۔ کہ چکوا چکوی دن کو ساتھ رہتے ہیں۔ رات کو دربار کے وار پار الگ الگ جا بیٹھتے ہیں۔ اور رات بھر جاگ کر کاٹتے ہیں۔ ایک بھاٹ نے چکوا چکوی کی زبانی کہت کہا۔ جس کا خلاصہ یہ کہ خدا کرے خان خاناں کا سمند فتوحات سمیر پہاڑ تک جا پہنچے۔ وہ بڑا سخی ہے۔ سب بخش دے گا۔ پھر ہمیشہ دن رہے گا۔ اور ہم تم موج کریں گے۔ جب یہ کہت پڑھا گیا۔ تمام اہل دربار نے تعریف کی۔ کہ نیا مضمون ہے۔ خان خاناں نے پوچھا ۔ کہ پنڈت جی تمہاری عمر کیا ہے۔ عرض کی ۳۵ برس۔ کل سو برس کی عمر لگائی گئی۔ اور ۵ روپیہ روز کے حساب سے ۶۵ برس کا روپیہ جو کچھ ہوا۔ خزانہ سے دلوا دیا۔ ایک بھوکا برہمن خان خاناں کے دروازے پر آیا۔ دربا ن نے روکا ۔ اس نے کہا۔ کہہ دو آپ کا ہم زلف ملنے آیا ہے۔ اور اس کی بی بی ساتھ ہے۔ خدمت گار نے عرض کی۔ اسے بلایا۔ پاس بٹھایا۔ اور رشتہ کا سلسلہ کھولا۔ اس نے کہا۔ کہ بپتا اور سنپتا دو بہنیں ہیں۔ پہلی میرے گھر گئی۔ دوسری آپ کے گھر آئی ہے۔ آپ اور میں ہم زلف نہیں تو اور کیا ہیں؟ نواب بہت خوش ہوا۔ خلعت دیا۔ خاصہ کے گھوڑے پر طلائی ساز سجوا کر سوار کیا۔ اور بہت کچھ نقد و جنس دے کر رخصت کیا۔ ایک دن دربار میں بیٹھا تھا۔ پاس آتا گیا۔ قریب آیا تو ایک توپ کا گولہ بغل سے نکال کر لڑکایا کہ خان خاناں کے زانوسے آ کر لگا۔ نوکر اس کی طرف بڑھے۔ اس نے روکا اور حکم دیا۔ کہ گولے کے برابر سونا تول دو۔ مصاحبوں نے پوچھا۔ کہ یہ قول شاعر کو کسوٹی پر لگاتا ہے۔ آہن کہ بپارس آشنا شد فی الحال بہ صورت طلا شد ایک دفعہ دربار شاہی سے برہان پور کو رخصت ہوئے۔ پہلی ہی منزل پر ڈیرے تھے۔ قریب شام سرا پردہ کے سامنے شامیانہ لگا ہوا۔ فرش بچھا ہوا۔ آپ نکل کر کرسی پر بیٹھے۔ مصاحبوں ملازموں سے دربار آراستہ۔ ایک آزاد سامنے سے گذرا۔ اور پکار کر کہتا چلا۔ منعم بکوہ و دشت و بیاباں غریب نیست ہر جا کہ رفت خیمہ زد و بارگاہ ساخت منعم خاں ان کا خطاب ہو چکا تھا۔ اور پہلے منعم خاں کفایت شعار تھے۔ انہوں نے خزانچی کو حکم دیا کہ لاکھ روپے دے دو۔ فقیر دعائیں دیتا چلا گیا۔ دوسری منزل میں اسی وقت پھر باہر نکل کر بیٹھے۔ فقیر پھر سامنے سے نکلا۔ اور وہی شعر پڑھا۔ انہوں نے پھر کہہ دیا۔ کہ لاکھ روپیہ دے دو۔ غرض وہ سات دن برابر اس طرح آتا رہا۔ اور لیتا رہا۔ پھر آپ ہی دل میں سمجھا۔ کہ یہ انعام آج تک کسی سے نہیں پایا امیر ہے۔ خدا جانے کبھی طبیعت حاضر نہ ہو۔ خفا ہو کر کہے۔ کہ سب چھین لو۔ زیادہ طمع اچھی نہیں۔ اسی کو غنیمت سمجھنا چاہئے۔ آٹھویں دن خان خاناں پھر اسی طرح نکل کر بیٹھے۔ معمول سے زیادہ وقت گذرا۔ دربار برخاست نہ کیا۔ شام ہوئی تو کہنے لگے۔ کہ آج وہ ہمارا فقیر نہ آیا۔ خیر برہان پور آگرہ سے ۲۷ منزل ہے۔ ہم نے پہلے دن ۲۷ لاکھ روپیہ خزانہ سے منہا کر دیا تھا۔ تنگ حوصلہ تھا۔ خدا جانے دل میں کیا سمجھا۔ خان خاناں نہایت حسین تھا۔ اس کی خوبیاں اور محبوبیاں سن کر ایک عورت کو اشتیاق پیدا ہوا۔ وہ بھی حسین تھی۔ اس نے اپنی تصویر کھچوائی۔ اور ایک بڑھیا کے ہاتھ بھیجی۔ وہ خلوت میں آ کر خان خاناں سے ملی۔ اور مطلب کو اس پیرایہ میں ادا کیا۔ کہ ایک بیگم کی یہ تصویر ہے۔ انہوں نے پیغام دیا ہے کہ آپ کی تعریفیں سن سن کر میرا جی بہت خوش ہوتا ہے۔ ارمان یہ ہے کہ تمہیں جیسا ایک فرزند میرے ہاں ہو۔ تم بادشاہ کی آنکھیں ہو۔ زبان ہو ۔ دست و بازو ہو۔ نہیں یہ بات کچھ مشکل نہیں۔ خانخاناں نے سوچ کر کہا۔ کہ مائی۔ تم میری طرف سے انہیں کہنا۔ کہ یہ بات تو کچھ مشکل نہیں۔ مگر یہ مشکل ہے۔ کہ خدا جانے اولاد ہو یا نہ ہو۔ اور ہو تو کیا خبر ہے۔ بیٹا ہی ہو۔ اور وہ زندہ بھی رہے۔ پھر خدا جانے ایسی صورت ہو یا نہ ہو۔ یہ بھی ہو تو اقبال پر کس کا زور ہے۔ خدا چاہے دے خدا چاہے نہ دے اگر انہیں مجھ جیسے بیٹے کی آرزو ہے۔ تو کہنا کہ تم ماں میں بیٹا۔ خدا کا شکر کرو۔ جس نے پلا پلایا بیٹا تمہیں دیا۔ ماں کو اس قدر روپیہ مہینہ دیتا ہوں۔ وہی تمہیں بھیجا کروں گا۔ ایک شخص خان خاناں کے پاس آیا۔ اور یہ قطعہ لکھ کر دیا۔ اے خان جہاں خان خاناں دارم صنمے کہ رشک چین است گر جاں طلبہ مضایقہ نیست زر میطلبد سخن درین است پوچھا وہ کیا مانگتے ہیں۔ کہا لاکھ روپیہ۔ حکم دیا کہ سوا لاکھ دے دو۔ ایک دن خان خاناں کی سواری چلی جاتی تھی۔ ایک شکستہ حال غریب نے ایک شیشی میں بوند پانی ڈال کر دکھایا۔ اور اسے جھکایا۔ جب پانی گرنے کو ہوا۔ تو شیشی کو سیدھا کر دیا۔ اس کی صورت سے معلوم ہوتا تھا۔ کہ اشراف خاندانی ہے۔ خان خاناں اسے ساتھ لے آئے۔ اور انعام و اکرام دے کر رخصت کیا۔ لوگوں نے پوچھا ۔ کہا کہ تم نہیں سمجھے۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ ایک بوند آبرو رہی ہے اور اب یہ بھی گرا چاہتی ہے۔ ایک دن سواری میں کسی نے انہیں ایک ڈھیلا مارا۔ سپاہی دوڑ کر پکڑ لائے۔ انہوں نے کہا۔ ہزار روپیہ دے دو۔ سب حیران ہو گئے۔ اور عرض کی کہ جو نالائق قابل دشنام بھی نہ ہو۔ اسے انعام دینا آپ ہی کا کام ہے۔ انہوں نے کہا لوگ پھلے ہوئے درخت پر پتھر مارتے ہیں۔ جو میرا پھل ہے۔ وہ مجھے دینا واجب ہے۔ ایک دن سواری سے اترتے تھے۔ ایک بڑھیا برابر آئی۔ ایک توا اس کی بغل میں تھا۔ نکال کر ان کے بدن سے ملنے لگی۔ نوکر ہاں ہاں کر کے دوڑے۔ انہوں نے سب کو روکا۔ اور حکم دیا۔ کہ اسی کے برابر اسے سونا تول دو۔ مصاحبوں نے سبب پوچھا۔ کہا یہ دیکھتی تھی۔ کہ بزرگ جو کہا کرتے تھے۔ کہ بادشاہ اور ان کے امیر پارس ہوتے ہیں۔ یہ بات سچ ہے یا نہیں۔ اور اب بھی ویسے لوگ ہیں یا کوئی نہیں رہا۔ خان خاناں دربار چلے۔ ایک سوار سپاہ گری کے ہتھیار لگائے سامنے آیا۔ اور سلام کیا۔ انہوں نے حال پوچھا اس نے کہا۔ کہ نوکری چاہتا ہوں۔ بانکپن یہ کہ پگڑی میں دو میخیں بھی باندھی ہیں۔ پوچھا کہ ان میخوں کا کیا معاملہ ہے۔ اس نے عرض کی۔ کہ ایک میخ تو اس کے واسطے کہ نوکر رکھے۔ اور تنخواہ نہ دے۔ دوسری اس نوکر کے واسطے کہ تنخواہ لے اور کام چوری کرے۔ خان خاناں نے تنخواہ مقرر کی اور ساتھ لائے۔ وہ بھی دربار میں آیا۔ اس کے بانکپن کے انداز کو سب دیکھنے لگے۔ انہوں نے پوچھا کہ انسان کی بہت سے بہت عمر ہو تو کتنی ہو۔ اس نے کہا کہ عمر طبعی ۱۲۰ برس کی ہوتی ہے۔ انہوں نے خزانچی کو حکم دیا۔ کہ سپاہی کی عمر بھر کی تنخواہ بے باق کر دو۔ اور اس سے کہا لیجئے۔ حضرت ایک میخ کا بوجھ تو سر سے اتار دیجئے۔ دوسری کا آپ کو اختیار ہے۔ دربار جاتے تھے۔ مصور نے تصویر لا کر دی۔ کہ ایک صاحب جمال عورت ہے۔ نہا کر اٹھی ہے۔ کرسی پر بیٹھی ہے۔ ایک طرف کو جھکی ہوئی سر کے بال پھٹکار رہی ہے۔ لونڈی پائوں دھلاتی ہے۔ اور جھانوا کر رہی ہے۔ خان خاناں اسے دیکھتے ہوئے دربار چلے گئے۔ آ کر حکم دیا۔ کہ اس مصور کو بلائو۔ اور پانچ ہزار روپیہ دے دو۔ مصور نے عرض کی۔ انعام تو فدوی جبھی لے گا۔ کہ جو بات حضور قابل انعام خیال فرمائیں۔ وہ ارشاد فرمائیں۔ سب مصاحب متوجہ ہو گئے۔ انہوں نے کہا۔ کہ اس کے لبوں کی مسکراہٹ اور چہرہ کا انداز دیکھا۔ سب نے کہا۔ کہ دیکھا نہایت خوب اور بہت زیبا۔ خان خاناں نے کہا۔ پائوں کی طرف دیکھو۔ وہ گدگدیاں ہو رہی ہیں۔ اس نزاکت و لطافت پر ۵ ہزار روپیہ کیا حقیقت ہے۔ ۵ لاکھ بھی تھوڑا ہے۔ مصور نے کہا۔ کہ حضور بس انعام پا لیا۔ اور میں آپ کا غلام ہو گیا۔ تمام امیروں کے پاس لے کر پھرا۔ ایک نے یہ نکتہ نہیں پایا۔ ہم لوگ قدر شناس کے غلام ہیں۔ خان خاناں جب مظفر پر ظفر یاب ہو کر آئے۔ تو بادشاہ کے لئے بہت سے عجائب و نفائس خاندیس و دکن اور ممالک فرنگ کے لائے۔ ان میں عجیب تحفہ یہ تھا۔ کہ رائے سنگھ جھالا علاقہ گجرات کے راجہ کو حاضر کیا۔ معلوم ہوا۔ کہ یہ نوجوانی کے عالم میں برات لے کر بیاہنے گیا تھا۔ جب وہاں سے خوشی کے نقارے بجاتا پھرا۔ تو جسا راجہ کچھ کے چچیرے بھائی کے ملک میں سے گزرا۔ محلوں کے پاس برات پہنچی۔ تو پیام آیا کہ نقارے نہ بجائو۔ یا دور دور نکل جائو۔ اور مرد ہو تو تلوار نکالو۔ اور لڑو۔ اگرچہ سامان ساتھ نہ تھا۔ مگر رائے سنگھ دولہا کی رائے لڑائی پر جمی۔ اور جہاں تھا وہیں تلوار کھینچ کر کھڑا ہو گیا۔ جسا جھٹ فوج لے کر آئے۔ بڑا کشت و خون ہوا۔ اور جلد میدان جنگ سے نیستی خانہ میں داخل ہوئے۔ چھوٹا بھائی رائو صاحب آیا۔ وہ بھی بڑے بھائی کے پاس پہنچا۔ راجپوتوں میں رسم ہے۔ کہ جب جوش میں آتے ہیں۔ تو تلواریں سونت کر کود پڑتے ہیں۔ کہ شاید گھوڑا بے قابو ہر کر لے بھاگے۔ یا گھوڑا ران تلے دیکھ کر اپنی ہی نیت بگڑے اور جان لے کر نکل جائے۔ اس لڑائی میں طرفین کے بہادر اسی طرح جانوں سے ہاتھ اٹھا کر میدان میں اتر پڑے تھے۔ غرض دولہا اور اس کے رفیق فتح یاب ہو کر موچھوں کو تائو دیتے ۔ اپنے گھوڑوں پر آئے سپاہ مغلوب کے پیادے جو گھوڑے لئے کھڑے تھے۔ انہیں جوش آیا۔ گھوڑوں کو چھوڑ کر تلواریں لیں۔ اور پھر میدان کارزار گرم ہوا۔ ایسا بھاری رن پڑا۔ کہ دولہا زخمی ہو کر گر پڑا۔ ایک کو ایک کی خبر نہ تھی۔ کسی نے کسی کو نہ پہچانا۔ کہ کس کی لاش کہاں رہی۔ دولہا بہت زخمی ہوا تھا۔ سانس ہی آنس باقی تھا۔ رات کو کوئی جوگی ادھر آیا۔ اور اٹھا کر اپنی مڈھر میں لے گیا۔ مرہم پٹی کی۔ خدا نے بچا لیا۔ احسان کا بندہ اس کا چیلا ہو گیا۔ انیس برس اس کی خدمت کرتا اور جنگلوں میں پھرتا رہا۔ گھر اور گھرانے میں سب کو یہی خیال کہ میدان میں کام آیا۔ کئی رانیاں ستی ہو گئیں۔ دلہن رانی دل کے ست اور اس کے خیال میں خدا کو یاد کرتی تھی۔ کیونکہ مرنے کا بھی یقین نہ تھا۔ خان خاناں امیروں سے سوا فقیروں اور غریبوں کے یار تھے۔ ان کی سرکار میں فقیر امیر جوگی سب برابر تھے۔ جوگی جی کے بھی درشن ہوئے اور یہ حال معلوم ہوا۔ گورو اور چیلے کو دربار میں لے آئے۔ اکبر بھی ایسے معاملات کے مشتاق ہی رہتے تھے۔ اس عجیب واردات کو سن کر بہت خوش ہوئے۔ اور اتبت چیلا پھر رائے سنگھ راجہ بن کر اعزاز و اکرام کے ساتھ اپنے ملک کو رخصت ہوئے۔ جب وہاں گئے تو سب اقربا ملازم جمع ہوئے۔ اور دیکھ کر پہچانا۔ بڑی خوشیاں ہوئیں۔ سب سے سوا رانی کہ شرم بے زبانی سے کچھ کہہ نہ سکتی تھی۔ اور اپنے مالک کی یاد میں بیٹھی تھی۔ دیکھو رسم کا سب تو مار چکا تھا محبت کا ست کام کر گیا۔ راجہ نے راج سنبھالا۔ اور خیر خواہان دولت نے شکر الٰہی کے ساتھ خان خاناں کے شکرانے ادا کئے۔ موزونی طبع یہ عالی دماغ امیر ایک صندوقچہ کمالات انسانی کا تھا۔ ایسی ہم رنگ اور ہمہ گیر روحیں عالم بالا سے بہت کم عالم خاک میں آتی ہیں۔ جو کہ ہر وصف اور ہر خوبی کے لئے جوہر قابل ہوں۔ اگرچہ اس کا دماغ شاعری پر مر مٹنے والا نہ تھا۔ مگر پھول اپنا رنگ نہ دکھائے یا خوشبو نہ پھیلائے۔ یہ بھی تو نہیں ہو سکتا۔ اس کے دل کا کنول کبھی اپنے ذوق و شوق سے۔ کبھی بادشاہ یا دوستوں کی فرمائش کی تقریب سے ہوائے نظم سے کھیلتا تھا۔ اسے شاعرانہ دماغ سوزی کی فرصت نہ ہو گی۔ یا ایسا زیادہ شوق نہ ہو گا۔ کہ اپنی نظم سے بیاض یا دیوان مرتب کرتا۔ ایک غزل اور چند متفرق اشعار اور رباعیاں نظر سے گزریں۔ چنانچہ ہفت اقلیم اور تذکرہ پر جوش اور تزک جہانگیری وغیرہ سے لکھتا ہوں۔ دیکھ لو یہ بھی لطافت و نزاکت سے پھولوں کا طرہ ہو رہا ہے۔ غزل شمار شوق ندانستہ ام کہ تا چند است جز این قدر کہ دلم سخت آرزو مند است ادائے حق محبت عنایت است ز دوست وگرنہ خاطر عاشق بہیچ خور سند است نہ زلف دانم و نے دام اینقدر دانم ز پائے تابہ سرم ہر چہ ہست در بند است بد دستے کہ بجز دوستی نمے دانم خدائے واند وآں کو مرا خداوند است ازیں خوشم بہ سخنہاے عالیہاے رحیم کہ اند کے بادا ہائے دوست مانند است شعر نیم فضول کہ جویم وصال ہمچو توئی بس است ہمچومنے را خیال ہمچو توئی شعر پارہ پارہ گشت دل امانمے دارو بہم زانکہ پیکان تواش صد بار برہم ووختہ است شعر تمام مہر و محبت شدم نمیدانم کہ دل کدام۔ محبت کدام۔ و یار کدام رباعی خواہم زدرت روم مروت نگذاشت واں گرمی اختلاط و صحبت نگذاست اینہا ہمہ عذراست چہ پنہاں از تو قربان سرت روم محبت نگذاست ایضاً در قصۂ عشق مردنا گویا بہ اندیشۂ عشق و خون دل یکجا بہ تا تا قدر وصال دوست ظاہر گردد ہمچوں شب قدر وصل نا پیدا بہ ایضاً در راہ وفا نیاز مندی چہ خوش است دل سوختگی و درد مندی چہ خوش است زلف تو کہ دل شکارے لاغر اوست از دل صیدے از و کمندے چہ خوش است ایضاً اے آتش سینہ شعلہ باری بس کن اے اشک نیاز در شماری بس کن چوں وادہ و نا وادہ نہ امروز است داری بس کن و گرنہ داری بس کن ایضاً جاسوس ولم بسوے تو بوے تو بس دربان مجاز بان ہمیں خوے تو بس استاد پریشانئے من موے تو بس مشاطۂ روے من ہمیں روئے تو بس ایضاً سرمایۂ عمر جاودانی غم تو بہترز ہزار شادمانی غم تو گفتی کہ چنیں والہ و شیدات کہ کرد دانی غم تو وگرنہ دانی غم تو ایضاً آنم کہ حیات خود بہ سائل دہمے گر سر طلبی بہ تیغ قاتل دہمے از دست دل آنچناں بہ تنگم امروز گر خاک طلب کند ز من دل دہمے ایضاً زنہار رحیم از پیٔ دل نہ روی بیہودہ بہ آرزوے دل در گروی گفتم سخنے او باز ہم مے گویم خواہش کاری ہمیشہ خواہش دروی مسیح الدین حکیم ابو الفتح گیلانی ماثر الامرا میں لکھا ہے۔ کہ مولانا عبدالرزاق گیلان میں نامور فاضل اور فضائل صورت و معنی سے آراستہ تھے۔ خصوصاً حکمت نظری اور الٰہیات میں بلند نظر رکھتے تھے۔ مدت تک وہاں صدر الصدور رہے۔ ۹۷۴؁ھ میں شاہ طہماسپ بادشاہ ایران نے گیلان فتح کیا۔ اور خان احمد فرمانروا وہاں کا اپنی نادانی سے قید ہوا۔ صدر الصدور صدق دل سے اپنے آقا کے ہوا خواہ تھے۔ راستی و حق گزاری کے جرم پر قید ہوئے۔ اور شکنجۂ تکلیف میں جان دی۔ علم ان کا درس و تدریس میں اور کمال تصنیف و تالیف میں شہرۂ آفاق تھا۔ جس طرح اولاد روحانی عالم میں نامور ہوئی۔ ویسے ہی بیٹے بھی ہوئے۔ کہ صورت و معنی میں باپ کے خلف الرشید تھے۔ حکیم ابوالفتح۔ حکیم ہمام۔ تیسرے حکیم نور الدین کہ شعر بھی کہتے تھے۔ اور قراری تخلص کرتے تھے۔ یہ تینوں بھائی جودت طبع اور تیزی فہم اور علوم رسمی اور کمالات انسانی میں صاحب کمال تھے۔ چوتھے حکیم لطف اللہ کہ کچھ عرصے کے بعد ہندوستان آئے۔ اور صدی منصب دار ہو گئے۔ مگر چند سال کے بعد مر گئے۔ خاص و عام میں گیلانی مشہور ہیں۔ حقیقت میں لاہجان علاقہ گیلان کے رہنے والے تھے۔ کتب تاریخ میں ان کی ذات کی توضیح نہیں۔ البتہ عرفی نے جو حکیم ابوالفتح اور حکیم ہمام کی تعریف میں قصائد لکھے ہیں۔ ان میں حکیم ابوالفتح کو میر ابوالفتح لکھا ہے۔ خواجہ حسین ثنائی جب ایران سے ہندوستان آئے۔ اور شعرائے پایہ تخت میں نامور ہوئے تو بیان کرتے تھے۔ کہ میں مشہد میں سلطان ابراہیم مرزا سے ملا کرتا تھا۔ ان تینوں نوجوانوں نے فضل و کمال کا نقارہ بجا رکھا تھا۔ اور مرزا سے بھی ملا کرتے تھے۔ ایک دن میں نے مرزا سے پوچھا کہ ملا عبدالرزاق کے بیٹوں کو آپ نے کیسا پایا۔ فرمایا کہ حکیم ابو الفتح شایاں وزارت ہے۔ حکیم ہمام مصاحب خوب ہے۔ حکیم نور الدین جوان قابل ہے۔ مگر اس کے قیافہ سے خبط کے آثار معلوم ہوتے ہیں۔ آزاد ۔دربار اکبری جوہر انسان کے لئے عجب کسوٹی تھا۔ جب یہاں آئے تو ہر ایک ان میں سے ویسا ہی نکلا۔ جیسا مرزا نے پرکھا تھا۔ دنیا کے تمام کام نام پر چلتے ہیں۔ ادھر اکبر کا نام ملک ملک میں پہنچ چکا تھا۔ ادھر ان کا اور ان کے باپ کا نام یہاں پہنچا۔ ۸۳۔۹۸۲؁ھ میں تینوں بھائی یہاں آئے۔ زمانے کے مزاج سے واقف تھے اور اہل زمانہ کی نبض خوب پہچانتے تھے۔ ملا صاحب ان سے ایک برس پہلے آئے ہوئے تھے۔ دیکھنا کیا خفا ہو کر کہتے ہیں۔ بڑے بھائی نے مصاحبت کے زور سے مزاج بادشاہ میں عجب تصرف کیا۔ اور صریح خوشامدوں سے وادی دین و مذہب میں بھی ہمراہی کر کے آگے آگے چلنے لگا۔ اور اعلیٰ درجۂ تقرب حاصل کر لیا۔ کچھ آگے چل کر کمال دل شکستگی کے ساتھ فرماتے ہیں۔ کہ ناگاہ بیربر حرامزادہ اور شیخ ابوالفضل اور حکیم ابو الفتح نے آگے قدم بڑھا کر دین سے منحرف کر دیا۔ وحی۔ نبوت۔ اعجاز۔ کرامت۔ اور شرائع سے انکار مطلق کر کے کام نکال لے گئے۔ فقیر رفاقت نہ کر سکا۔ ہر ایک کا انجام حال بجائے خود لکھا جائے گا۔ انشاء اللہ ۔ بہر حال اتنا اس سے معلوم ہوتا ہے۔ کہ انہوں نے نہایت جلد ترقی کی۔ اور بہت ترقی کی۔ بنگالہ کی مہم جا رہی تھی۔ ایک تو افغان جا بجا فساد کر رہے تھے۔ طرہ یہ ہوا کہ امرائے ترک میں باہم نفاق ہوا۔ پرانے پرانے امیر اور پشتوں کے خدمتگار نمک حرام ہو کر باغی ہو گئے۔ بادشاہ نے منعم خاں کے مرنے سے چند روز پہلے مظفر خاں سردار کو وہاں بھیجا تھا۔ وہ بڑے زور شور سے فتوحات حاصل کر رہا تھا۔ اور جا بجا افغانوں کو دباتا پھرتا تھا۔ اس کی عقل پر ادبار نے ایسا پردہ ڈالا۔ کہ دماغ بلند ہو گیا۔ بے سوچے سمجھے ہر ایک پر جبر کر نے لگا۔ اور اس پر سپاہ کو خرچ سے تنگ رکھتا تھا۔ نتیجہ یہ ہوا۔ کہ قدیم الخدمت اور نمک خوار اسے چھوڑ چھوڑ کر باغیوں میں جانے لگے۔ بادشاہ نے ۹۸۷؁ھ میں رائے پتر داس کو دیوان مقرر کیا۔ اور حکیم ابوالفتح کو صدارت اور امینی کی خدمت عنایت کی کہ اعلیٰ رتبے کا بااختیار عہدہ تھا۔ ساتھ ان کے بہت سے امرا کو بھیجا۔ کہ جو دلدہی اور دلداری سے آ جائیں۔ انہیں سنبھالو۔ جو حقیقتاً سرکش ہیں انہیں اعمال کی سزا دو۔ دولت بابری کے قدیم الخدمتوں میں بابا خاں اور مجنوں خاں قاقشال وغیرہ کا بڑا بہادر خاندان تھا۔ وہ ابتدا سے مہم بنگالہ میں تلواریں مار رہے تھے۔ اور ان کا بڑا جتھا تھا۔ وہ مظفر خاں کے ہاتھ سے بہت تنگ تھے۔ اب تازہ بہانہ یہ ہوا کہ ان کی فوج میں داغ کا حکم پہنچا۔ یعنی گھوڑے اور سپاہی کی موجودات دو۔ ساتھ ہی ایک مفسد کابل سے بھاگ کر ان کے لشکر میں جا چھپا۔ مظفر خاں کے نام بادشاہی فرمان پہنچا کہ اسے سزائے اعمال کو پہنچائیو۔ اس کی سخت مزاجی کو بہانہ قوی ہاتھ آیا۔ اسے فوراً گرفتار کرا لیا۔ بابا خاں نے روکا۔ مظفر خاں نے اسے برا بھلا کہا۔ اور فرمان دکھا کر مفسد کو سر دربار مروا ڈالا۔ اس بات پر تمام قاقشال خیل بگڑ کر اٹھ کھڑا ہوا۔ وہ تیغ زن اور خونریز لوگ تھے۔ اسی وقت سر منڈا اپنے مغولی طاقے پہن سرکشی کا نشان باندھ الگ ہو گئے۔ مظفر خاں نے بہت سی کشتیاں جمع کیں۔ رائے پتر داس اور حکیم ابوالفتح کو کہ ۲۴؁ جلوس میں دربار سے تازہ زور پہنچے تھے۔ ان کے مقابلے پر بھیجا۔ مگر حکیم بزم کے یار تھے نہ رزم کے سپہدار۔ پترداس بیچارہ ہندی کا بانچنے والا اس سے کیا ہوتا تھا۔ قاقشالوں نے بھس کی طرح اڑا دیا۔ قاقشال خیل کا بڑا انبوہ تھا۔ مفسدوں کے ساتھ مل گئے تھے۔ اور جمع ہو کر لڑتے مارتے مظفر خاں پر چڑھ آئے اسے بداقبالی نے ایسا دبایا کہ قلعہ ٹانڈہ کے کھنڈر میں محصور ہو کر بیٹھ گیا۔ حکیم اور رائے اور کئی سردار بڑے دانا تھے۔ سمجھ گئے کہ مظفر کو ظفر کی طرف سے جواب ہے۔ آخر کار نوبت یہاں تک پہنچی ۔ کہ باغی دیواروں پر چڑھ کر قلعے میں گھس آئے۔ مظفر کو قید کر لیا۔ اور آخر کار مار ڈالا۔ مگر حکیم اور رائے مع اور سرداروں کے بھیس بدل کر غریب رعایا میں مل گئے۔ اس ہل چل میں کسی نے خیال نہ کیا۔ فصیل کود کر باہر آئے رستہ کھلا تھا۔ گائوں بہ گائوں زمینداروں سے راہبر لیتے۔ کہیں پیادہ کہیں سوار خاک پھانکتے ٹٹو ہانکتے حاجی پور کے قلعے میں جا پہنچے۔ مگر پائوں میں پھپھولے پڑ گئے۔ مخملی مسندیں اور ایرانی قالین سب بھول گئے۔ وہاں سے پھر ہنستے کھیلتے ہوئے دربار میں آن حاضر ہوئے۔ باتوں کے نسخے اور تدبیروں کی معجونیں ان کے پاس موجود رہتی تھیں۔ جزوی و کلی حالات چنانچہ صورت حال کے بموجب عمل میں آئیں۔ اور ان پر اور مرحمت زیادہ ہوئی۔ ملا صاحب فرماتے ہیں۔ کہ شیخ عبدالنبی صدر نے ائمہ مساجد اور بزرگان مشائخ کی عطائے جاگیر میں اس قدر سخاوت کی کہ جو معافیاں کئی کئی سلطنتوں میں ہوئی ہوں گی۔ وہ کئی برس میں کر دیں۔ علاوہ اس کے کئی باتوں میں بدنام بھی ہوئے۔ ۹۹۰؁ھ میں اسی شہر لاہور میں تجویز ہوئی۔ کہ کل ممالک محروسہ کی معافیوں کی تحقیقات ہو۔ کئی کئی صوبوں پر ایک با امانت عالی دماغ شخص مقرر ہوا۔ چنانچہ دہلی۔ مالوہ۔ گجرات کی صدارت ان کے نام ہوئی۔ ۹۹۳؁ھ میں ہشتصدی کا منصب ملا۔ مآثر الامرا میں لکھا ہے کہ اگرچہ منصب ہزاری سے کم رہا۔ مگر ہر وقت کی حضوری اور مصاحبت کے سبب سے ان کی وزیر اور وکیل مطلق کی طاقت بڑھتی گئی۔ حکیم نام کے ابوالفتح اور حکیموں کے بادشاہ تھے۔ مگر میدان جنگ میں حصہ لے کر نہ آئے تھے۔ سرحدی افغانوں کی مہم میں ترکی فوج کو ساتھ لے کر گئے۔ وہ اور بہت سے نامی شمشیر زن اور سردار کہ بادشاہی روشناس تھے مارے گئے۔ خیر غنیمت ہے کہ یہ تو جیتے پھر آئے۔ بادشاہ نے جس قدر بیربر کے مرنے کا غم کیا۔ تم نے دیکھ لیا۔ جو امرا زندہ پھر کر آئے وہ مدتوں دربار سے محروم رہے۔ چند روز ان کا مجرا بھی بند رہا۔ مگر فیضی۔ ابوالفضل۔ میر فتح اللہ شیرازی۔ خان خاناں جیسے اشخاص موجود تھے۔ چند روز میں پھر جیسے تھے ویسے ہی ہو گئے۔ ۹۹۷؁ھ میں جبکہ بادشاہ کشمیر سے پھرے۔ اور براہ مظفر آباد پگلی اور دمتور سے گزر کر حسن ابدال میں آن اترے۔ حکیم رستے میں درد شکم اور اسہال میں گرفتار ہوئے مآثر الامرا میں ہے کہ ان کے حال پر بادشاہ عنایت بے اندازہ و بے نہایت فرماتے تھے۔ منزلوں میں خود دو تین دفعہ عیادت کو گئے۔ اور دلدہی کی۔ کہ صاحب کمال تھے اور یکتائے وقت تھے۔ اور وفادار اور ہوا خواہ تھے۔ شیخ ابوالفضل لکھتے ہیں کہ شاہ عارف حسین کے لئے کچھ روپیہ بھیجا کہ تبت کے محتاجوں کو بھیج دو۔ ایک دن ان کے سبب سے مقام کیا کہ حکیم کو ضعف بہت ہے۔ سوار ہو کر چلنے کی طاقت نہیں۔ آخر حکمت پناہ مذکور نے کہ نبض شناس روزگار تھا دنیا سے انتقال کیا۔ اکبر کو بڑا رنج ہوا۔ حسن ابدال کا مقام بھی شادابی اور چشمہ ہائے جاری سے کشمیر کی تصویر ہے۔ وہاں خواجہ شمس الدین خافی نے ایک عمارت اور گنبد خوشنما اور چشمہ جاری کے دہانے پر حوض دلنشین بنایا تھا۔ بموجب بادشاہ کے حکم کے وہیں لا کر دفن کیا۔ میر فتح اللہ مرحوم کے زخم پر تازہ زخم لگا۔ حکیم ہمام توران کی سفارت پر گیا ہوا تھا۔ اس کے نام فرمان تعزیت بھیجا۔ جو کہ ابوالفضل کے دفتر اول میں موجود ہے۔ اس کا ایک ایک فقرہ ایک ایک مرثیہ و غمنامہ ہے۔ اور اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان لوگوں کے کمالات اور خدمات نے صدق اخلاص کے ساتھ اکبر کے دل میں کہاں جگہ پیدا کی تھی۔ اب ملا صاحب کو دیکھو۔ اس غریب کے جنازے پر کیا پھول برساتے ہیں۔ بادشاہ نے اس برس سیر کابل کا ارادہ کر کے پگلی سے اٹک کو باگ موڑی۔ اور اس مروڑ میں منزل و متور میں حکیم ابوالفتح نے تو سن زندگی کی باگ ملک آخرت کو پھیر دی۔ تاریخ ہوئی۔ خدایش سزادہاد ۹۹۷؁ھ۔ آزاد۔ اس مصیبت کا عالم دیکھنا چاہو۔ تو اکبر نامہ کی مختصر عبارت کا ترجمہ سن لو۔ حکیم بہت بیمار تھا۔ مقام کر دیا۔ نکتہ دانی کے باغبان۔ دقیقہ شناس ۔ دور بین ۔ شبستان ضمائر کے بیدار دل۔ انجمن نہفتہ دانی کے ہوشیار۔ زمانہ کے نبض شناس کا وقت پورا ہو گیا۔ جھمیلوں کے میلے سے الگ ہو گیا۔ اخیر سانس تک ہوش قائم تھے۔ کچھ خطرہ یا پریشانی نہ تھی۔ خاطر قدسی اکبر پر اس حادثۂ غم اندوز سے کیا کہوں کہ کیا گزری۔ جب خرد بزرگ پر سوگواری چھائی۔ تو اس قدر دان بزم آگہی کے غم کا کون اندازہ کر سکے۔ اتنا خلوص اتنی مزاج شناسی۔ خیر اندیشی عام۔ فصاحت زبان۔ حسن جمال قیافہ کی عالی علامتیں۔ ہر باب میں قدرتی نمکینی۔ ذاتی گرمی و گرمجوشی۔ عقل و دانش کہیں مدتوں ہی میں اکٹھی ہو حکم والا کے بموجب خواجہ شمس الدین اور جماعت امرا کو حسن ابدال میں لے گئے۔ اور خواجہ نے جو گنبد اپنے واسطے بنایا تھا۔ اس میں دفن کر دیا۔ دیکھو کس نے بنایا اور کس طرح سے بنایا۔ نگارندۂ اقبال نامہ (یعنی ابوالفضل) سمجھ بیٹھا تھا۔ کہ میں بے صبری سے تنگ گلی سے نکل گیا۔ اور فرحت گاہ خور سندی میں آرام گاہ حاصل کر لی۔ اب کوئی رنج مجھ پر اثر نہ کر سکے گا۔ مگر اس غم نے پردہ کھول دیا۔ قریب تھا کہ بیقراری سے تڑپ اٹھے۔ اس نے سعادت جاودانی حاصل کی۔ کہ مانگے کی جان اپنے خداوند کے قدموں میں دی۔ خدا سے امید ہے۔ کہ سب خدا پرست اس کے سامنے ہی جان دیں۔ ملک الشعرا شیخ فیضی نے عضدالدولہ اور حکیم کے مرثیے میں قصیدہ رشتہ نظم میں پرویا۔ ساوجی نے تاریخ بھی فوت کی اسی انداز میں کہی (دیکھو شاہ فتح اللہ شیرازی کا حال) حکیم ہمام سفارت توران سے واپس آئے تھے۔ باربک آب کی منزل پر آ کر سر عجز کو زمین پر رکھ دیا۔ اور فرق خوش نصیبی کو آسمان پر پہنچایا۔ انہیں دیکھ کر بادشاہ کو رنج تازہ ہوا۔ ابوالفضل اکبر نامہ میں لکھتے ہیں کہ فرمایا۔ تر ایک برا در بود از عالم برفت ؎ از حساب دو چشم یکتن کم و ز حساب خرد ہزاراں بیش بادشاہ کی برکت انفاس سے حکیم کا دل بے تاب ٹھکانے ہوا۔ دعا و ثنا بجا لایا۔ وغیرہ وغیرہ۔ ان لوگوں کی خوبیوں نے بادشاہ کے دل میں گھر کر لیا۔ جب پھر حسن ابدال کی منزل پر پہنچے تو قیام کیا۔ حکیم کو یاد کر کے افسوس کیا۔ اور ان کی قبر پر گئے۔ ہائے استاد مرحوم نے کیا خوب کہا ہے۔ ؎ مرے مزار پر کس طرح سے نہ برسے نور کہ جان دی ترے روے عرق فشاں کیلئے مآثر الامرا میں عبارب مذکور کے بعد شیخ لکھتا ہے۔ اہل ضرورت کا کام ایسی دی کوشش سے کرتے تھے۔ کہ گویا اسی واسطے نوکر ہوئے ہیں۔ اور اس خدمت سے کبھی اپنی جان کو معاف نہ کرتے تھے۔ کریم الصفات تھے۔ اور زمانہ کے محسن تھے۔ کمالات میں یگانے تھے۔ اورشعرائے زمانہ کے ممدوح تھے۔ حکیم صاحب کے علم و فضل اور جواہر کمالات کے باب میں کچھ کہنا فضول ہے۔ ابوالفضل جیسے شخص کو دیکھو کیا کہ گئے۔ ان کے ایک ایک لفظ میں صفحوں کا عطر کھچا ہوا ہے۔ البتہ چند موقع جو میں نے کتابوں میں دیکھے دکھانے چاہتا ہوں۔ کہ ان کی زیرکی۔ تیزی فہم۔ رمزشناسی۔ مصلحت بینی۔ نکتہ دانی پر اکبر کو کیسا بھروسہ تھا۔ اور کیسا تیز نسخہ خلوص عقیدت کا تھا۔ جس نے چند سالہ حضوری میں پشتوں کے نمکخواروں سے آگے بڑھا دیا۔ ۹۸۸؁ھ میں ایک بزرگ اہل معرفت کا لباس پہن آگرہ سے جالیسر میں آئے۔ اور معرفت کی دکان کھول دی۔ ہزاروں احمقوں کو گھیر لیا۔ یہاں تک کہ شیخ جمال بختیاری جو بنگالہ میں افغانوں کے پیر تھے۔ وہ بھی پھندے میں پھنس گئے۔ یہ سن کر بادشاہ کو خیال پیدا ہوا۔ چنانچہ حکیم صاحب اور میرزا خاں (عبدالرحیم خان خاناں) کو بھیجا کہ کھوٹے کھرے کو پرکھو۔ اور ارادہ معلوم کرو۔ کھرے ہوئے تو مسند ہدایت ان کا حق ہے۔ ورنہ خلق خدا کو خراب کریں گے دونوں رئیسوں کے مرشد تھے۔ جا کر صحبتیں گرم کیں۔ اور زبان کی نبض سے دل کا احوال معلوم کیا اندر کچھ بھی نہ تھا۔ تو حکمت عملی سے سارے حلقہ کو حضور میں لے آئے۔ شیخ جمال نے سجدہ عقیدت سے جمال بھی روشن کر لیا۔ فقیر کی جھولی میں سوا دغا کے کچھ نہ تھا۔ حکم ہوا۔ کہ خلوت خانۂ ندامت (قید) میں بیٹھے۔ وہ انسانیت کا صراف انہیں خوب تاڑ گیا۔ جب ایسے اشخاص کے حالات کی تحقیق کی ضرورت ہوتی تھی۔ تو ان کی معرفت دریافت کرتا تھا۔ کہ اہل معرفت کے۔ اہل اللہ کے بلکہ اللہ کے پہچاننے والے تھے۔ باتوں باتوں میں بات تو کیا ہے۔ پتال کا پتہ نکال لیتے تھے۔ لیکن ایک معاملہ ملا صاحب نے ایسا لکھا ہے۔ جسے پڑھ کر آزاد حیران و سرگردان ہے۔ فرماتے ہیں کہ ۹۹۷؁ھ میں بادشاہ کشمیر گئے۔ شاہ عارف حسینی سے ملاقات ہوئی۔ وہ منہ پر نقاب ڈالے رہتے تھے۔ بادشاہ نے کشمیر میں اسی غرض سے شیخ ابوالفضل اور حکیم کو ان کی خدمت میں بھیجا۔ انہوں نے سلسلہ تقریر میں کہا۔ شاہا کیا مضائقہ ہے اگر نقاب اٹھا دو۔ ہم بھی تمہارا جمال دیکھ لیں۔ نہ مانا اور کہا۔ ہم فقیر لوگ ہیں۔ جانے دو ۔ بہت نہ ستائو۔ حکیم کے مزاج میں شوخی اور بیباکی زیادہ تھی۔ ہاتھ بڑھا کر چاہا کہ نقاب بھینچ لے۔ شاہ خفا ہوئے ۔ اور کہا۔ معاذ اللہ۔ میں مجذوم یا معیوب نہیں۔ لے دیکھ میرا منہ۔ گریبان چاک کر ڈالا۔ اور نقاب زمین پر پھینک دیا۔ حکیم مرا منہ تو تو نے دیکھا مگر نتیجہ انشاء اللہ العزیز انہیں دو ہفتے میں دیکھے گا۔ پندرہ دن نہ گزرے تھے۔ کہ اسی راہ میں اسہال سے حکیم کا انتقال ہوا۔ یاد کرو۔ جس دن حکیم صاحب بیمار ہوئے۔ اسی دن بادشاہ نے کچھ روپیہ شاہ موصوف کو بھیجا۔ اس سے یہی غرض ہو گی کہ ان کا غصہ فرو ہو جائے۔ اور دعائے خیر کریں۔ ابوالفضل اس کوچہ کی خاک تھے۔ اور خاکساروں کی رسم و راہ سے واقف تھے۔ ان کے حالات فقیرا کے ساتھ تمام فرامین بادشاہی میں۔ اور جو مراسلات و عرائض خود امرا و شاہزادوں کو لکھے تھے۔ ان سے بھی کھلتا ہے۔ جہاں اور باتوں کی تاکید لکھتے ہیں۔ فقرا اور دل شکستوں کی دریوزہ گری پر بہت زور دیتے ہیں۔ دیکھو! بادشاہ کے حکم سے چلے گئے۔ مگر الگ رہے۔ ۹۹۵؁ھ میں مرزا سلیمان حاکم بدخشان عبداللہ اوزبک کے ہاتھ میں ملک چھوڑ کر دوبارہ ادھر آیا اور اکبر نے اس کی پیشوائی اور مہمانداری ایسی دھوم دھام سے دکھائی گویا ہندوستان نے اپنی ساری شان و شکوہ اگل دی۔ شہزادہ مراد پانچ چھ برس کا تھا۔ ٹوڈرمل۔ آصف خاں۔ ابوالفضل۔ حکیم ابوالفتح وغیرہ امرائے جلیل القدر اس کے ساتھ کر کے کئی منزل آگے پیشوائی کو بھیجا۔ شیخ ابوالفضل اور حکیم ابوالفتح کو حکم ہوا ۔کہ وقت ملاقات کے بہت پاس ہوں۔ اور کمین گاہ جواب میں لگے رہیں۔ دونوں کی طرز دانی۔ معالی فہمی۔ ادب شناسی نے ایسے ہی دل پر نقش بٹھائے ہوں گے۔ جو ایسے نازک موقع پر یہ خدمت ان کے سپرد ہوئی۔ ابوافضل ان سے ایک برس پہلے آئے تھے۔ ملا صاحب نے طبیبوں کے سلسلہ میں پھر ان کا حال لکھا ہے۔ اور وہاں جو عنایت کی ہے۔ وہ بھی لطف سے خالی نہیں ہے۔ فرماتے ہیں۔ ’’بادشاہ کی خدمت میں انتہا درجہ کا تقرب حاصل کیا تھا۔ اور ایسا تصرف مزاج میں پیدا کیا تھا کہ تمام اہل دخل رشک کرتے تھے۔ تیزی فہم۔ جودت طبع۔ کمالات انسانی اور نظم و نثر میں ممتاز کامل تھا۔ اسی طرح بے دینی اور اوصاف ذمیمہ میں بھی ضرب المثل تھا۔ جن دنوں حکیم نیا نیا آیا۔ ان دنوں میں نے سنا ایک دن بیٹھا کہ رہا تھا۔ خسرو ہے۔ اور وہی بارہ ۱۲ شعر ہیں۔ انوری انوریک مداح کہا کرتا تھا۔ میر بادنجان اس کا نام رکھا تھا۔ (کہ ایران میں ایک مشہور مسخرہ تھا) خاقانی کو کہا کرتا تھا کہ اگر اس زمانہ میں ہوتا تو خوب ترقی کرتا۔ میرے ہاں آتا میں ایک تھپڑ مارتا۔ طبیعت ذرا کاہلی کو چھوڑتی وہاں سے ذرا شیخ ابوالفضل کے ہاں جاتا وہ مارتا اسی طرح اصلاح دیتے ‘‘ جو شخص ملا صاحب کی تاریخ کو پڑھے گا۔ بلکہ دربار اکبری میں بھی کہیں کہیں ان کی باتیں سنے گا سمجھ جائے گا کہ ان کی طبیعت کا یہ حال تھا۔ کہ کسی کو ترقی کرتے نہ دیکھا جاتا تھا۔ جسے عزت کے کپڑے پہنے دیکھتے تھے۔ ضرور نوچتے تھے۔ اور اہل علم کے زیادہ کہ ہم پیشہ ہیں۔ ان میں سے اگر شیعہ ہے۔ تو کیا کہنا شکار ہاتھ آیا۔ اس کی کہیں داد فریاد نہیں۔ چند روز پہلے کوئی شخص شیعہ مذہب کو ظاہر ہی نہ کر سکتا تھا۔ ۸۴۔۹۸۳؁ھ کے بعد انہی چند اشخاص کے آنے سے اتنا حوصلہ پیدا ہوا۔ کہ شیعہ چپکے چپکے اپنے تئیں شیعہ کہنے لگے۔ اور اس کا بھی ملا صاحب کو بڑا داغ تھا۔ اور اگر شیعہ نہیں تو خیر۔ ان کی باتیں چنتے رہتے تھے۔ اور گرہ میں باندھتے جاتے تھے۔ جہاں موقع پاتے تھے۔ وہیں ایک سوئی چبھو دیتے تھے۔ حق سے نہ پھروں گا۔ تاریخ نویسی کے اوصاف میں پورے تھے۔ عبارت مذکورہ میں جو حکیم صاحب کے حق میں لکھی ہے۔ ہر چند غصے نے بہت زور کیا۔ مگر اوصاف علمی کے باب میں حق نویسی نے ہر گز نہ مانا جو لکھنا تھا وہی لکھا۔ بے دینی کا جو نشتر مارا۔ کچھ بجا۔ کچھ بے جا۔ تشیع کے سبب سے بے دین کہا تو اس کی شکایت نہیں۔ ہاں اس جرم پر کہ دربار میں جو ہوا چل رہی تھی۔ اس میں کیوں آ گئے۔ اس کے جواب میں انصاف خاموش نہیں رہ سکتا۔ دیکھو جس بادشاہ کے وہ نوکر تھے۔ جس کا وہ نمک کھاتے تھے۔ اس کے ہزاروں معاملے تھے۔ کوئی مصلحت ملکی تھی۔ کوئی خوشی دل کی تھی۔ اور یہ لوگ فقط آدمی کے طبیب نہ تھے۔ عالم۔ نبض شناس اور زمانہ کے طبیب تھے۔ جو ان کی راہ دیکھتے تھے۔ اسی راہ چلتے تھے۔ نہ چلتے تو کیا کرتے۔ جہاں جاتے وہاں اس سے بدتر حال تھا۔ یہاں علم و کمال کی قدر تو تھی۔ مگر اور جگہ یہ بھی نہ تھا یہاں تھے۔ اور اپنے عالی اختیارات کو بندگان خد اکی کارپردازی اور کارروائی میں اس طرح خرچ کرتے تھے۔ گویا اس کے نوکر ہیں یا اسی کے واسطے پیدا ہوئے ہیں۔ مآثر الامرا میں ایک فقرہ ان کے باب میں لکھا ہے۔ گویا انگوٹھی پر نگینہ اور نگینے پر نقش بیٹھا ہے۔ ’’در مہم سازی مردم خود را معاف نہ داشتے۔‘‘ جو کماتے تھے کھاتے تھے کھلاتے تھے۔لٹاتے تھے۔ نیک نامی کے باغ لگاتے تھے۔ ایسے تھے کہ ان کی بے دینی کے سائے میں سینکڑوں دیندار پرورش پاتے تھے۔ عالم فاضل باکمال عزت سے زندگی بسر کرتے تھے۔ ملا صاحب کے مرید ہوتے ان کی طرح بیٹھ رہتے۔ اور یہ خوش ہوتے جو اُن کا حال وہی ان کا۔ جو انہوں نے قوم کو فائدہ پہنچایا وہی ان سے پہنچتا۔ ان کی تاریخ بدائونی میں کل پانچ چھ شخص تھے۔ جن سے آپ خوش رہے۔ ورنہ سب پرلے دے مار دھاڑ ہے۔ بھلا یہ کیونکر ہو سکتا ہے۔ کہ تمام دنیا کے لوگ اہل معرفت اور اولیاء اللہ ہو جائیں۔ ایسا ہو تو دنیا کے کام بند ہو جائیں۔ سبحان اللہ مولانا روم کو دیکھیں کیا فرماتے ہیں ؎ ہر کسے را بہر کارے ساختند میل آنرا درویش انداختند ملا صاحب نے کئی جگہ بڑی بے دماغی سے فرمایا ہے۔ ’’میں اس واسطے حضوری سے الگ ہو گیا۔‘‘ آزاد کہتا ہے۔ الگ ہوئے تو کیا ہوا۔ کیسی کیسی کتابوں کے ترجمے کئے۔ کیوں کئے۔ کرنے پڑے۔ اور اخیر کو سجدہ بھی کیا۔ فرق اتنا رہا کہ یہ لکھتے گئے اور گالیاں دیتے گئے۔ وہ ہنستے گئے۔ کھیلتے گئے۔ آقا کا کام حسب دلخواہ کیا۔ عقیدہ اپنا دل کے ساتھ ہے۔ مصاحبت میں وزارت اور وکیل مطلق کی طاقت سے قوم کی کار پردازی کرتے تھے۔ جو بات ناگوار ہوتی ۔ اسی طرح تعمیل کرتے۔ گویا ان کا عین مذہب یہی ہے۔ جب گھر میں آتے۔ سب ہم مشرب مل کر ہنسی میں اڑا دیتے۔ مجھے نہیں ثابت ہوا کہ ان کے عقیدے میں کچھ بھی فرق ہوا۔ بات یہ ہے کہ جب وہ ہندوستان میں آئے۔ تو ایک حمام نظر آیا۔ جس میں مشائخ امیر غریب سب ننگے ہیں۔ انہوں نے بھی کپڑے اتار کر پھینک دئیے۔ تم جانتے ہو۔ اہل ایران کو جیسے نور کے چہرے خدا نے دئیے ہیں۔ ویسی ہی ڈاڑھیاں بھی دی ہیں۔ ان میں جو رکھنے والے ہیں وہی ان کی قدر دانی بھی کرتے ہیں۔ حکیم صاحب کی ڈاڑھی بھی قابل تصویر تھی۔ ملا صاحب فرماتے ہیں۔ ابتدائے ملازمت میں چوبیس پچیس برس کی عمر ہو گی۔ ایک دن میں میر ابوالغیث بخاری کی خدمت میں بیٹھا تھا۔ حکیم نے میری ڈاڑھی مقدار معمولی سے چھوٹی دیکھی کہا۔ تم بھی قصر کرتے ہو۔ (منڈاتے ہو) میں نے کہا حجام کی تقصیر ہے۔ فقیر کی نہیں ۔ حکیم نے کہا۔ پھر ایسا نہ کرنا بدنما اور نازیبا ہے۔ چند روز بعد لنڈ منڈ صفا چٹ رندوں لونڈوں سے بھی آگے نکل گیا۔ ایسی بال کی کھال اتارتا تھا۔ کہ نوجوان مردوں کو دیکھ کر رشک آئے۔ ملا صاحب جو چاہیں فرمائیں۔ انہیں آقا کی تعمیل حکم یا مصلحت ملکی یا خوشی کے لئے کوئی کام کرنا اور بات ہے۔ بے دینی اور بات ہے۔ بے دینی جب ہے کہ اسے حلال شرعی سمجھ کر اختیار کرے۔ آزاد بیکار روسیاہ کو ایسے معاملہ میں بولنا خود ناروا ہے۔ مگر بعض موقع ایسا آ جاتا ہے۔ کہ بولے بغیر رہا نہیں جاتا۔ اس زور شور کی دینداری اکبر بادشاہ کے امام۔ باوجود ا س کے ڈاڑھی کا شوق انہی فقیروں سے معلوم ہو گیا۔ ستار بجاتے تھے۔ بین بجاتے تھے۔ گلے سے بھی گاتے تھے۔ دو دو طرح شطرنج کھیلتے تھے۔ بس آگے نہیں کہا جاتا۔ اور نہ کہنا مناسب ہے۔ خدا ستار العیوب ہے۔ کیا ضرور ہے کہ ناحق کسی کا پردہ فاش کروں۔ اخلاق ذمیمہ کے لفظ پر اشتیاق منتظر تھا۔ کہ دیکھئے۔ کیا کیا شگوفے کھلائیں گے۔ مگر سند اس کی فقط وہی نکلی کہ انوری کو یہ کہتے تھے۔ اور خاقانی کو وہ کہتے تھے۔ ملا صاحب نے خود سینکڑوں کی خاک اڑا دی۔ عالم فاضل پیر فقیر غریب امیر کون ہے۔ جو آپ کے قلم سے سلامت نکل گیا۔ بات یہ ہے کہ ان لوگوں کے مزاج شگفتہ۔ طبیعتیں ۔ شرخ۔ خیالات بڑھے ہوئے تھے۔ خود صاحب کمال تھے۔ دل ایک دریا ہے۔ ہزاروں طرح کی موجیں مارتا ہے۔ کبھی یہ رنگ آ گیا۔ وہ خود اس فن کو لے کر بیٹھتے تو انوری و خاقانی سے ایک قدم بھی پیچھے نہ رہتے۔ بے شک میدانوں آگے نکل جاتے۔ ان کی انشا پردازی دیکھنی چاہو تو چار باغ دیکھو۔ خیالات شاعرانہ میں فلسفہ و حکمت کے پھول برس رہے ہیں۔ اوریہ گل افشانی جمع خرچ زبانی نہیں۔ فتاحی دیکھو۔ شیخ سینا کی روح کو آب حیات پلایا۔ قیاسہ دیکھو۔ حکمت اور شریعت کا یہ عالم ہے۔ کہ شربت و شیر کی دو نہریں برابر بہی جاتی ہیں۔ ملا صاحب کی تحریریں پڑھتے پڑھتے میری بھی رائے بدلنے لگی تھی۔ مگر ایک واردات میری نظر سے گزری۔ ان کی محبت قومی اور ہمدردی نے تین سو برس کی راہ سے آواز دی۔ اور میں اپنی جگہ تھم گیا۔ واردات۔ شہباز خاں کنبوہ مسائل شرعی کے بڑے پابند تھے۔ یہاں تک کہ موقع پر بر سر دربار بے لطفی ہو گئی۔ ایک دن شام کے قریب بادشاہ ٹہلتے تھے۔ چند مصاحب امرا ساتھ تھے۔ ان میں خان موصوف بھی تھے۔ عصر کا وقت تنگ ہو گیا۔ خان موصوف الگ ہوئے اور ایک طرف زمین پر اپنی شال بچھا کر نماز پڑھنے لگے۔ ان دنوں بادشاہ دینداروں سے تنگ تھے۔ اتفاق یہ کہ ٹہلتے ہوئے وہ بھی ادھر آ نکلے۔ اور دیکھتے ہوئے چلے گئے۔ جب شہباز خاں نماز پڑھ کر آئے۔ تو دیکھا کہ حکیم ابوالفتح اور پہلوئوں سے ان کی تعریف کر رہے تھے۔ مطلب اس سے یہی تھا۔ کہ ان کی طرف سے دل میں غبار نہ آئے۔ اگر حکیم صاحب حقیقت میں بے دین یا دشمن اہل دین ہوتے تو شہباز خاں پر چھینٹا مارنے کا پہلو اس سے بہتر کب ہاتھ آتا۔ تصنیفات۔ میں جو کہ نظر سے گزریں۔ فتاحی شرح قانونچہ تخمیناً ۴۵۰ صفحہ کی کتاب ہے۔ تھاسیہ۔ برائے نام اخلاق ناصری کی شرح ہے۔ حقیقت میں اس کے ایک ایک مسئلہ کو کہ براہین دینی ہے۔ دلائل نقلی سے ثابت کیا ہے۔ اور آیتوں اور حدیثوں سے مطابقت دی ہے۔ تخمیناً چودہ سو صفحہ کی کتاب ہو گی۔ چار باغ۔ اس میں خطوط اور نثریں ہیں۔ اکثر حکیم ہمام اپنے بھائی۔ شیخ فیضی۔ شیخ ابوالفضل۔ خان خاناں۔ میر شمس الدین خان خافی وغیرہ امرا اور اہل کمال کو لکھے ہیں۔ نثروں میں اکثر مسائل حکمت پر خیالات ہیں۔ یا بعض کتابوں کی سیر کر کے جو رائے قرار پائی۔ اسے عمدہ عبارت میں اد اکیا ہے۔ بزرگوں سے سنا ہے کہ اور تصنیفیں بھی تھیں۔ مگر نہیں ملتیں۔ ان کی شوخی طبعی نے بہت سے مقولے تجربوں کے ساتھ ترکیب دے کر ضرب المثل ۱؎ بنا رکھے ہیں۔ چنانچہ انہیں میں ہیں۔ (۱) جس پر ؎۱۔ یہی مقولے صفحہ ۶۷۲ پر قراری سے منسوب کئے ہیں۔ ۱۲ اعتبار کر لو وہی معتبر (اعتبار کسی کا نہیں) ۔ (۲) ہمت کا دکھانا طمع کا دکھانا ہے۔ (۳) بدمزاج بننا چاہو تو بازاری مرد کو نوکر رکھو۔ عرفی نے ان کی تعریف میں کئی قصیدے کہے۔ اور بڑی دھوم دھام کے کہے۔ حکیم صاحب نے بھی انہیں اس طرح رکھا کہ جب تک جئے اور کے پاس جانے کی ضرورت نہ ہوئی۔ اس کے بعد خان خاناں کے پاس گئے۔ اگلے وقتوں میں عام دستور تھا۔ کہ اگر اہل علم اور اہل کمال زمانے کی بے وفائی سے بے دست و پا ہو جاتے تھے تو اور صاحب دستگاہ انہیں سنبھال لیتے تھے۔ کہ پردہ فاش نہ ہوتا تھا۔ افسوس ہے آج کے زمانے کا کہ اپنا ہی سنبھالنا مشکل ہے۔ کوئی کسی کو کیا سنبھالے۔ حکیم موصوف کی تعریف میں ملا ظہوری نے دکن سے قصیدے لکھ لکھ کر بھیجے۔ اور وہیں صلے پہنچے۔ آزاد ۔ عرفی کیا کہیں گے اور ظہور کیا بھیجیں گے۔ انہیں کی مروتوں کے رس تھے۔ جو ان کی زبانوں سے ٹپکتے تھے۔ میں نے حکیم صاحب کی تحریر سے آنکھیں روشن کی ہیں۔ ایک پرانا نسخہ قاموس دیکھا۔ کہ جہانگیر اور شاہجہاں وغیرہ بادشاہوں کے کتب خانوں میں کرسی نشین ہوتا آیا تھا۔ کتب خانہائے شاہی کی ۱۴ مہریں اس کے رتبۂ عالی کے لے محضر بناتی تھیں۔ اس کے ابتدائی صفحوں میں ان کے ہاتھ کی ایک عربی عبارت لکھی ہوئی ہے۔ جس کا خلاصہ یہ ہے۔ یہ خزانہ فاخر بلکہ زیاے ذاخر مجھے اس شخص نے دیا۔ جسے خدا نے دونوں جہان کا کمال اور دونوں ملکوں کی ریاستیں دیں۔ مرزا خان خاناں۔ کہ نام کے نقطے بدل کر پڑھو تو فارسی میں جان جاناں ہے۔ کتبہ ابوالفتح الکیلانی اللاھجانی۔ ان کے بیٹے حکیم فتح اللہ تھے۔ جہانگیر کے عہد میں کابل کے مقام پر خسرو کی سازش کے الزام میں گرفتار ہوئے۔ مقدمہ کی تحقیقات شروع ہوئی۔ اور کئی شخصوں پر الزام ثابت ہوا۔ انہیں میں یہ بھی تھے۔ انہیں یہ سزا ملی کہ الٹے گدھے پر سوار تھے۔ اور منزل بمنزل پھراتے تھے۔ آخر اندھا کر دیا۔ شاہجہاں نامہ میں ایک جگہ نظر سے گزرا کہ حکیم ابوالفتح کا پوتا ضیاء اللہ نہ صدی منصب پر تھا۔ شاہ فتح اللہ شیرازی اور حکیم ابوالفتح گیلانی کے غم میں شیخ فیضی کا خون جگر ہے۔ کہ قصیدہ کے رنگ میں کاغذ پر ٹپکا ہے۔ حکیم ہمام حکیم ابوالفتح سے چھوٹے تھے۔ اور حق یہ ہے۔ کہ علم و فضل اور حسن لیاقت میں ان کے بھائی تھے۔ ساتھ ہی آئے۔ ساتھ ہی ملازمت ہوئی۔ اصلی نام ہمایوں تھا۔ اکبری دربار میں یہ نام لینا ترک ادب تھا۔ اس لئے چند روز ہمایوں قلی رہے۔ پھر اکبر ہی نے ہمام نام رکھا۔ انہیں باعتبار خدمتوں اور منصبوں کے اور فتوحات اور مہمات کے وہ ناموری حاصل نہیں ہوئی۔ جو دربار اکبری کے اور اراکین کو ہوئی۔ مگر جن لوگوں نے قربت حضوری اور وفا اور اعتبار سے دل میں جگہ پیدا کی تھی۔ ان میں کسی سے پیچھے نہ تھے۔ انتظام دفتر اور ضوابط و آئین کے لئے جو جلسہ مشورت ہوتے تھے۔ ان کے بھی رکن ہوتے تھے۔ مگر افسوس ہے کہ ان کمیٹیوں کی رائدادیں آج نہیں جو معلوم ہو کہ ہر شخص کی قوت ایجاد نے ان معرکوں میں کیا کیا کارنامے دکھائے تھے۔ ان کی تقریریں اور اختلاف رائے اور ایک کی رائے دوسرے کی رائے میں اصلاح اور اس میں لطائف اور ظرائف کی چہلیں قابل دیکھنے کے ہوں گی۔ ابوالفتح فیضی۔ میر فتح اللہ شیرازی اور یہ دونوں بھائی۔ راجہ ٹوڈرمل۔ نظام الدین بخشی وغیرہ اشخاص مہمات ملک اور معاملات دربار میں ایک جتھے کے لوگ تھے۔ فیضی کی انشا میں حکیم ہمام کے نام بہت خط ہیں۔ جن کے دیکھنے سے اس وقت کے جلسے آنکھوں میں پھر جاتے ہیں۔ معلوم ہوتا ہے۔ کہ بڑے زندہ دل اور عجیب شگفتہ مزاج لوگ تھے۔ اگرچہ منصب شش صدی سے زیادہ نہیں بڑھا مگر اعتبار اس سے زیادہ کیا ہو گا۔ کہ دستر خوان خاصہ ان کے سپرد تھا۔ حق پوچھو۔ تو ایک ہی نقطہ پوری کتاب کا حکم رکھتا ہے۔ کہ ملا صاحب نے اس کی خاک اڑا دی۔ اور ان کی برائی کا نکتہ نہیں چھوڑا۔ سب کچھ کہہ دیا ہے۔ مگر علم و فضل اور لیاقت اور قابلیت پر حرف نہیں لائے۔ صاف سمجھ لو۔ کہ نہ پایا۔ ورنہ وہ کس سے چوکنے والے تھے۔ مخدوم اور صدر کہن سال بڈھے اپنے ہم مذہب تھے۔ ان کی علمیت کی وہ مٹی خراب کی ہے۔ ان لوگوں کو ایسا ہی پایا تھا۔ جب اتنا کہا ہے۔ اور کچھ شک نہیں۔ یہ لوگ عجوبہ روزگار تھے۔ جس طرح اکبر جیسا بادشاہ بااقبال ہونا مشکل ہے۔ اسی طرح ایسے لوگ پیدا ہونے مشکل۔ یہ فقط بادشاہ کے نہیں۔ زمانہ کے مزاجدان اور عالم کے نبض شناس لوگ تھے۔ اہل علم اور اہل کمال کی کچھ اس وقت انتہا نہ تھی۔ بے شمار موجود تھے۔ آخر کچھ بات تھی۔ کہ بادشاہ انہیں کا نام لے کر ہر وقت پکارتا تھا۔ اور جو بات یا جو صلاح پوچھتا تھا۔ اس کا نتیجہ ایسا پاتا تھا۔ کہ مزاج زمانہ اور مصلحت وقت کے موافق ہوتا تھا۔ اور یہ سکہ نہ فقط شاہ بلکہ شاہزادوں تک کے دلوں پر نقش تھا۔ خصوصاً جبکہ اپنے قومی نمک خواروں سے بے وفائیاں دیکھتے تھے۔ اور بابر اور ہمایوں کے ساتھ ان کے معاملے یاد کرتے تھے۔ تو ان کے اسناد وفا کے حروف زیادہ روشن نظر آتے تھے۔ دل کا حال ایک بات میں کھل جاتا ہے۔ تزک میں دیکھو جہانگیر کس محبت سے لکھتا ہے۔ ان کی ملکی خدمتیں سوا اس کے کچھ نہیں۔ کہ جب عبداللہ خاں اوزبک نے مراسلہ اور ممالک ماوراء النہر کے تحائف دربار اکبری میں بھیجے تھے۔ اور میر قریش لے کر حاضر ہوا۔ تو ۹۹۴؁ھ میں اس نے اس کا جواب اور تحائف گراں بہا مرتب کئے۔ اور حکیم موصوف کو سفارت کی خدمت میں روانہ کیا۔ نامہ مذکورہ میں کہ شیخ ابوالفضل کا لکھا ہوا ہے۔ ان کے باب میں یہ الفاظ درج ہیں۔ ’’افاضت و حکمت پناہ زبدہ مقربان ہؤا خواہ۔ عمدہ محرمان کار آگاہ حکیم ہمام کہ مخلص راست گفتار۔ اور مرید درست کردار ہے۔ اور ابتدائے سلطنت سے بساط قرب کا ملازم رہا ہے۔ اس کی دوری اب تک کسی صورت سے تجویز نہیں ہوئی۔ اب بنیاد محبت اور قواعد مؤدت کے استحکام کے لئے روانہ کرتے ہیں۔ ہماری ملازمت میں اس کو وہ قرب حاصل ہے۔ کہ مقاصد و مطالب کو بے کسی واسطے کے مقام عرض میں پہنچاتا ہے۔ اگر آپ کی مجلس شریف میں بھی اسی اسلوب کی رعایت ہو گی۔ تو گویا آپس میں بے واسطہ باتیں ہو جائیں گی۔ جب تک یہ توران میں تھے۔ بادشاہ اکثر یاد کرتے تھے۔ حکیم ابوالفتح سے کہا کرتے تھے۔ حکیم یہ نہ سمجھنا کہ تمہارا بھائی ہے۔ اس لئے تمہارا دل اس کے لئے ہم سے زیادہ بے چین ہے۔ حکیم ہمام کہاں پیدا ہوتا ہے۔ دستر خوان پر بھی کہا کرتے تھے۔ جب سے حکیم ہمام گیا۔ کھانے کا مزا جاتا رہا۔ (مآثر) یہ ادھر سے آنے والے تھے۔ کہ ادھر حکیم ابوالفتح مر گئے۔ بڑی دلداری اور غمخواری سے فرمان تسلی ان کے نام روانہ کیا۔ اس میں میر فتح اللہ شیرازی کے مرنے کا بھی بہت افسوس کیا ہے۔ اس سفارت سے ۹۹۷؁ھ میں واپس آئے۔ اکبر اس وقت کابل کے دورے سے ہندوستان کو پھرا۔ چاہتا تھا۔ کہ یہ بھی قریب آن پہنچے۔ اشتیاق نے ایسا بیقرار کیا۔ کہ جو ایلچی وہاں سے ساتھ آیا تھا۔ اسے بھی اور اپنے ساتھیوں کو بھی رستے میں چھوڑا۔ شوق کے پر لگا کر اڑے اور دو منزلہ سہ منزلہ کرتے حضور میں آن پہنچے۔ پیارے آقا کی حضوری اور دوستوں کی ملاقاتیں جو تین برس کے بعد حاصل ہوئی تھی۔ بڑی خوشی کے ساتھ ہوتیں۔ مگر بھائی کی موت نے سب کو بے مزا کر دیا۔ یہ ملازمت بادشاہ کی اور گفتگوئیں احباب کی کہ ایک ایک ان میں ملک معنی کا بادشاہ تھا۔ سننے کے قابل ہوں گی۔ طالب آملی نے ایک رباعی کہہ کر سنائی۔ ؎ مہر دو برادرم کہ رمساز آمد او شد بسفر ویں ز سفر باز آمد او رفت بد نبالۂ او عمر برفت ویں آمد و عمر رفتہ ام باز آمد اکبر نے اسی وقت کہا کہ تیسرے مصرعہ کا دنبالہ بھدا ہے۔ یوں کہو ع او رفت و زرفتنش مرا عمر برفت مرتے کے ساتھ کون مر گیا ہے۔ چند روز کے بعد پھر وہی مصاحبت کے جلسے تھے۔ اور یہ تھے۔ ایک دن انہوں نے معجم البلدان حضور میں پیش کی۔ اور کہا کہ اس میں بہت مفید اور دلچست مطالب ہیں۔ اگر فارسی میں ترجمہ ہو جائے تو اس کے فوائد عام ہو جائیں۔ چنانچہ عرض قبول ہوئی۔ تاریخ الفی کی تاریخ میں بھی انہوں نے حصہ پایا۔ مقام لاہور ۱۰۰۳؁ھ کے اخیر میں دنیا سے انتقال کیا۔ اور حسن ابدال میں جا کر بھائی کے پاس سو رہے۔ شیخ کہتے ہیں۔ دو مہینے دق کی بیماری سے دق رہ کر قید ہستی سے چھٹ گئے۔ خوش قیافہ۔ بادشاہ گوہر۔ شگفتہ رو۔ فصیح زبان تھے بندگان خدا کی کارسازی میں بڑی کوشش کرتے تھے۔ دانش طبعی اور عقلی سے آشنا تھے۔ اور بکائول کی خدمت سے سربلند تھے۔ بادشاہ نے دعائے مغفرت کی اور گوناگوں عنایتوں سے پس ماندوں کے دل بڑھائے۔ اب ملا صاحب کو دیکھو۔ ان کی ہمدردی انسانیت کا حق کیونکر ادا کرتے ہیں ان کے مرنے کے باب میں فرماتے ہیں۔ حکیم حسن۔ شیخ فیضی۔ کمالاے صدر (وہی شاہ فتح اللہ شیرازی والے) حکیم ہمام بہ ترتیب مہینے کے اندر اندر عالم سے نکل گئے۔ اور وہ سارے جمع کئے ہوئے مال ایک دم میں اپنے ٹھکانے پہنچے۔ دریائے قلزم و عمان میں بہے۔ ان کے ہاتھوں میں باد حسرت کے سوا کچھ نہ رہا۔ اور یہ بات تمام اہل قربت زندوں اور مردوں کے لئے عام ہے۔ کہ باوجود خزائن قارونی و شدادی کے کفن سے محروم جاتے ہیں۔ وغیرہ وغیرہ۔ زمرہ اطبا میں پھر لکھا ہے۔ حکیم ہمام یہ ابوالفتح کا چھوٹا بھائی تھا۔ مگر اخلاق میں بڑے سے بہتر تھا۔ اگرچہ خیر محض نہ تھا۔ مگر شریر محض بھی نہ تھا۔ آزاد۔باوجودیکہ یہ لوگ شگفتہ مزاج تھے۔ مگر کسی کتاب میں ان کے اوضاع و اطوار کے باب میں کوئی اشارہ خلاف وضع نظر نہیں آیا۔ ملا صاحب مالک ہیں جو چاہیں فرمائیں۔ حکیم ہمام کے دو بیٹے تھے۔ اول حکیم حاذق۔ مآثرالامرا میں لکھا ہے۔ کہ فتح پور سیکری میں پیدا ہوئے۔ جب ان کے والد کا انتقال ہوا۔ تو لڑکے تھے۔ چونکہ خاندان علم و حکمت سے تھے۔ بزرگوں کی بزرگی نے تحصیل علم پر مائل کیا۔ چندر وز میں متعارف علموں میں دستگاہ پیدا کر کے شعر اور انشا پردازی میں شہرت حاصل کی۔ طب میں اس قدر مہارت نہ تھی۔ مگر اس میں بھی نام پیدا کیا۔ جہانگیر کے زمانہ میں بزرگی و اعتبار سے چہرے کو چمکایا۔ شاہجہاں کے عہد میں ہزار پانصدی شش صد سوار کا منصب پایا۔ جہانگیر کے عہد میں جب شاہ عباس نے قندھار لے لیا۔ تو امام قلی خان والئے توران نے سلسلہ دوستی کو جنبش دی۔ شاہ عبدالرحیم خواجہ جوئباری کو برسم سفارت بھیجا۔ اور لکھا کہ آپ ولی عہد دولت کو لشکر مناسب کے ساتھ بھیجئے۔ ادھر سے ہم بھی فوج لے کر پہنچیں گے۔ فتح خراسان کے بعد جو ملک آپ کو پسند ہو گا۔ آپ لیجئے گا جو چاہئے گا ہمیں دیجئے گا۔ ایلچی یہاں پہنچا تھا۔ اور گفتگو ہو رہی تھی۔ کہ جہانگیر جہان سے رخصت ہوئے۔ ابتدائے دولت شاہجہانی میں خواجہ موصوف لاہور سے آ کر بلا ئے گئے۔ اور چند ہی روز میں کسی بدترین امراض میں مبتلا ہو کر دربار دنیا سے رخصت ہوئے۔ ادھر سے مراسلت کا جواب اور ایلچی کا بھیجنا واجب تھا۔ چونکہ اکبر کے عہد میں عبداللہ خاں اوزبک کے دربار میں ان کے والد ایک لاکھ پچاس ہزار روپے کے تحائف مراسلہ محبت کے ساتھ لے کر گئے تھے۔ اور کمال خوبی و خوش اسلوبی سے خدمت بجا لائے تھے۔ اس لئے حکیم حاذق کو یہ خدمت سپرد ہوئی۔ وہاں سے آئے تو ۰۴؁جلوس میں جوہر فصاحت اور مزاج دانی کی قابلیت دیکھ کر عرض مکرر کی۔ خدمت سپر ہوئی۔ اور درجہ بدرجہ سہ ہزاری منصب پر اعزاز پایا۔ بدمزاج اور مغرور بہت تھے۔ رعونت اور خود بینی نے دماغ کو عجب بلندی پر پہنچایا۔ جب توران سے پھر کر آئے۔ اور کابل میں آ کر ٹھیرے۔ تو میر آلہی ہمدانی کہ خوش فکر سخن پرواز تھے۔ ان کی ملاقات کو گئے۔ صحبت موافق نہ ہوئی۔ انہوں نے یہ رباعی کہہ کر حق صحبت ادا کیا۔ ؎ دائم ز ادب سنگ و سبو نتواں شد در دیدۂ اختلاط مونتواں شد صحبت بحکیم حاذق از حکمت نیست بالشکر خبط رو برد نتواں شد ہر چند فن طب کی تکمیل نہ کی تھی۔ مگر نام کے اعتبار پر اکثر امرا انہیں کا علاج کیا کرتے تھے۔ چندر وز شاہجہاں کی تاریخ دولت لکھتے رہے۔ جب اور سخن دان ادھر متوجہ ہوئے تو انہوں نے قلم اٹھا لیا۔ شعر ان کے صاف اور پر حلاوت ہوتے تھے۔ طرز قدیم پر تازہ ایجادوں کا رنگ دیتے تھے۔ اور خوب کہتے تھے۔ مگر اپنے تئیں انوری پر فائق سمجھتے تھے۔ دیوان کو بڑے زرق و برق سے آراستہ کیا تھا۔ جب جلسے میں منگاتے تو ملازم کشتی مرصع میں رکھ کر لاتے تھے۔ سب تعظیم کو کھڑے ہو جاتے تھے۔ جو نہ اٹھتا اس سے ناراض ہوتے تھے۔ کوئی امیر بھی ہوتے تو اس سے بھی ناخوشی ظاہر کرتے تھے۔ سونے کی رحل پر رکھتے تھے۔ اور پڑھ کر سناتے تھے۔ (مآثر) پھر ترقی معکوس کی۔ چنانچہ اہل دعا کے لشکر میں ملازم ہو گئے۔ اور ۲۰ ہزار وظیفہ پایا۔ ۱۸؁ جلوس میں کوئی ایسا دعا کا تیر لگا۔ کہ ۲۰ کے ۴۰ ہزار ہو گئے۔ اکبر آباد کے گوشہ عزلت میں گزارہ کرتے تھے۔ مرآۃ العالم میں لکھا ہے۔ کہ ۱۰۸۰؁ھ میں ملک عدم کو نقل مکان کیا۔ شعر کا بہت شوق تھا۔ حاذق تخلص کرتے تھے۔ قدما کے قدم بقدم چلتے تھے۔ عمدہ دیوان تیار کیا تھا۔ شاعر شیریں کلام تھے۔ مگر خود پسندی نے بات کو بدمزہ کر دیا تھا۔ مرزا سر خوش اپنے تذکرے میں ان کا حال بیان کرتے ہیں۔ جب اشعار پر آتے ہیں تو فرماتے ہیں۔ ایک شعر بہت مشہور ہے۔ وہی سرقہ ہے ؎ ولم بہیچ تسلی نمے شود حاذق بہار دیدم و گل دیدم و خزاں دیدم ساتھ ہی اس کے یہ لکھتے ہیں کہ ۔ لطیفہ ملا شیدا ملاقات کو آئے۔ شعر خوانی ہونے لگی۔ حکیم صاحب کو مطلع فرمایا ؎ بلبل از گل بگذر دگر در چمن بیند مرا بت پرستی کے کند گر برہمن بیند مرا ملا پرانے مسخرے تھے۔ مسکرا کر بولے ابھی داڑھی نہ نکلی ہو گی۔ جب یہ شعر کہا ہو گا۔ حکیم صاحب بڑے خفا ہوئے۔ اور ملا صاحب کو پکڑ کر حوض میں غوطے دلوائے۔ شعر اس طرح پڑھا کرتے تھے۔ کہ معانی کی مورت بن جاتے تھے۔ دوم حکیم خوشحال شاہزادہ خرم کے ساتھ پرورش پائی تھی۔ جب وہ شاہجہان ہوئے تو یہ منصب ہزاری کو پہنچے اور فوج دکن کا بخشی بھی کر دیا تھا۔ مہابت خاں جب وہاں کا صوبہ دار ہوا تو ان کے حالات پر عنایت کرتا تھا۔ پھر حال معلوم نہیں۔ مطلب یہ ہے۔ کہ باپ کے رتبے کو ایک نہ پا سکا۔ کاش اولاد کو کمال بھی میراث میں پہنچا کرتا۔ حکیم نور الدین قراری سب سے چھوٹے بھائی شاعر دیوانہ مزاج تھے۔قراری تخلص کرتے تھے۔ ۹۸۳؁ھ میں بھائیوں کے ساتھ یہ بھی آئے تھے۔ انہیں دربار اکبری میں نہ فضل و کمال کے اعتبار سے آنے کا حق نہ رتبے کے لحاظ سے۔ اس دربار میں اسی طرح چلے آئے۔ ملا صاحب کہتے ہیں۔ کہ شعر خط اور کسب علمی میں انواع فضائل سے آراستہ اور صفت فقر اور انکساری سے متصف تھا۔ صاحب دیوان ہے۔ یہ کہا کرتے تھے کہ حکیم ابوالفتح ہمہ دیناست و ہمام ہمہ آخرت۔ اس واسطے دونوں سے الگ رہتے تھے (ماثر الامرا)۔ بادشاہ کا اصل مافی الضمیر یہ تھا۔ کہ ہمارے سب نوکر سب کچھ کر سکیں۔ اس نظر سے اوائل حال میں بھائیوں کے ساتھ بھی خدمت عطا کی۔ یہاں تلوار باندھنی بھی نہ آتی تھی۔ ایک دن آپ چوکی سپرد کرتے وقت ہتھیار باندھ کھڑے ہوئے۔ تلوار بے اسلوب باندھی تھی۔ نوجوانوں میں سے کسی نے ہنس کر ٹوکا۔ آپ نے کہا کہ صاحب ہم ملا لوگ ہیں۔ ہمیں سپاہ گری سے کیا تعلق۔ ہمیں تو امیر صاحب قران نے پہچانا تھا (امیر تیمور) انہوں نے لڑائی کے موقع پر لشکر جا کر اتارا۔ ہر ایک سردار اور ہر ایک زمرہ پیادہ اور سوار کے لئے خود مقام تجویز کرتے پھرتے تھے۔ بازار لشکر کو پیچھے جما کر فرمایا کہ بنجارے کے اونٹ اور خچروں کو ان سے بھی پیچھے رکھو۔ اور بیگمات کے خیمے ان کے پیچھے لگائو۔ اتنے میں علما بڑے بڑے پگڑ باندھے جبے اور عبائیں پہنے سامنے سے نمودار ہوئے۔ عرض بیگی نے دور سے دیکھتے ہی کہا کہ حضور ارباب العمایم کے لئے کون سا مکان؟ حضرت نے فرمایا۔ بیگمات کے پیچھے اور مسکرا کر گھوڑے کو مہمیز کر گئے۔ لوگوں نے یہ لطیفہ اکبر تک بھی پہنچا دیا۔ چونکہ تربیت مدنظر تھی کہا کہ اسے بنگالہ بھیج دو۔ وہاں چند روز رہا۔ مظفر خاں والی بدعملی میں جہاں حکیم ابوالفتح بھاگتے بھاگا بھاگ میں خدا جانے کہاں یہ بھی مارے گئے۔ وہ ایک آزاد طرح شہ مزاج شخص معلوم ہوتے ہیں۔ ماثر الامرا سے معلوم ہوتا ہے۔ کہ ان کے اکثر مقولے ۱؎ مشہور تھے۔ انہی میں سے ہے (۱) اظہار ہمت خود اظہار طمع است (۲) ملازم بازاری نگہداشتن خود را بہ جو گرفتن است (۳) بر ہر کہ اعتماد کنی معتمد است۔ اس کتاب میں ہے۔ کہ فاضل سخن طراز تھے۔ اور شعر خوب کہتے تھے۔ ٭٭٭٭٭٭٭ ۱؎۔ یہی مقولے صفحہ ۶۶۵ پر حکیم ابوالفتح کے نام سے لکھے ہیں۔ ان کو میراث میں ملے ہوں گے۔ ۱۲۔ محمد باقر شاہ فتح اللہ شیرازی تعجب ہے کہ ایسا جلیل القدر فاضل اس کا حال نہ علمائے ایران نے اپنے تذکروں میں لکھا نہ علمائے ہندوستان نے۔ بہت تذکرے دیکھے۔ کہیں نہ پایا۔ ناچار جس طرح کتابوں کے ورق ورق بلکہ سطر سطر دیکھ کر اور امیرائے اکبری کے حالات چنے۔ اسی طرح ان کے حالات بھی پھول پھول بلکہ پتی پتی چن کر ایک گلدستہ سجاتا ہوں۔ سید تھے اور وطن شیراز تھا۔ جب تحصیل سے فارغ ہوئے۔ تو شہرہ کمال کا نور صبح صاد ق کی طرح عالم میں پھیلا۔ کمال الدین شیروانی اور میر غیاث الدین منصور شیرازی کے شاگرد تھے۔ ملا امین احمد رازی نے ہفت اقلیم میں اتنا زیادہ لکھا ہے۔ ابتدا میں منائے دنیا کے خیالات دل پر چھائے تھے۔ ضروریات علمی حاصل کر کے اہل عبادت اور گوشہ نشینوں کی خدمت میں حاضر رہنے لگے۔ اور اکثر میر شاہ میر مکنہ کی صحبت کو سعادت سمجھتے تھے۔ اس عرصے میں اہل علم اور صاحبان فضل کی تقریروں پر راغب ہوئے۔ اس لئے درس و تدریس کے حلقے میں داخل ہوئے۔ رفتہ رفتہ خواجہ جمال الدین محمود کے درس میں گئے۔ پہلے ہی دن حاشیہ میر پڑھنے بیٹھے۔ پڑھتے جاتے تھے۔ اور خود بھی تقریر کرتے جاتے تھے۔ اس دن ایسے مطالب دقیق اور معانی لطیف ان سے ادا ہوئے کہ حاضرین حیران رہ گئے۔ اس ملک میں دستور ہے۔ کہ جب شاگرد سبق پڑھ چکتا ہے۔ تو اٹھ کر اپنے استاد کی خدمت میں تعظیم و تکریم بجا لاتا ہے۔ انہوں نے چاہا کہ کھڑے ہو کر لوازم تعظیم ادا کریں۔ خواجہ نے سبقت کر کے خود سینے پر ہاتھ رکھا۔ اور کہا کہ یہ آج تم نے ہمیں مستفیض کیا۔ چنانچہ چند روز میں مفتی ہو کر خود علم کے پیاسوں کو سیراب کرنے لگے۔ پھر دکن میں آ کر والی بیجا پور کے دربار میں منصب وکالت پایا۔ وہ مرگیا تو دربار اکبری میں آئے۔ اور عضدالدولہ خطاب ملا۔ وغیرہ وغیرہ۔ محمد قاسم فرشتہ فرماتے ہیں۔ کہ علی عادل شاہ بیجا پور نے جب ان کے اوصاف سنے۔ تو ہزار آرزوئوں سے لاکھوں روپے اور خلعت و انعام بھیج کر شیراز سے بلایا۔ بادشاہ مذکور نے امارت کے اعزاز سے رکھا۔ اور خلوت و جلوت میں مصاحبت کے ساتھ رہے۔ ۹۸۸؁ھ میں ابراہیم عادل شاہ کا دور ہوا۔ اس نے انہی کی سعی اور تدبیر سے تاج و تخت پایا۔ چنانچہ دربار میں اعزاز و احترام کے ساتھ ارکان دولت میں داخل تھے۔ مگر دل سے خوش نہ تھے۔ اور خوش کیا رہتے۔ وہاں کا حال اگر معلوم نہیں تو سہ نثر ظہوری ہی کو دیکھ لو۔ انتہا ہے۔ کہ حمد ہے تو راگ میں۔ نعت ہے تو اسی سہاگ میں کتاب ہے تو نورس۔ شہر ہے تو نورسپور۔ باغ ہے تو نورس بہشت۔ خدا رسول۔ دین ایمان۔ ذہن کی جودت طبیعت کی ایجاد سب اس میں خرچ ہوتے ہیں۔ لطیفہ۔ جس طرح ستار تنبورا۔ بین وغیرہ ساز ہوتے ہیں۔ اسی طرح کا ایک ساز ایجاد کیا تھا۔ اس کا نام رکھا تھا۔ موٹے خاں۔ اس کی بڑی تعظیم تھی۔ درگاہ کی طرح پجتا تھا۔ ہاتھی پر چڑھ کر عماری میں بیٹھتا تھا۔ ماہی مراتب۔ علم و نقارہ اس کے آگے چلتا تھا۔ غرض کیا دربار کیا محل آٹھ پہر ناچ رنگ گانے بجانے کے سوا کچھ کام نہ تھا۔ ڈوم ڈھارے۔ گایک نایک۔ سپروائی اس کی صحبت میں مصاحب تھے۔ شاہ فتح اللہ شیرازی کجا اور یہ باتیں کجا۔ ہندوستان میں اکبری اقبال کا نشان آفتاب کی طرح چمک رہا تھا۔ علما کے جلسے اور علوم کے چرچے ہوتے تھے۔ ایرانی اہل کمال آتے تھے۔ اور اعلیٰ اعلیٰ رتبے اعزاز کے حاصل کرتے تھے۔ خبریں سن سن کر ان کے دل میں بھی شوق لہریں مارتا تھا۔ مگر آ نہ سکتے تھے۔ کیونکہ ایشیائی حکومتوں میں ایسی باتوں کی روک ٹوک بہت ہوتی تھی۔ اور کبھی کبھی جان سے بھی ضائع کر دیتے تھے۔ اکبر کو جب یہ حال معلوم ہوا۔ تو انہیں فرمان بھیجا۔ ادھر خود ابراہیم عادل شاہ کو لکھا۔ راجہ علی خاں حاکم خاندیس سے بھی تحریک ہوئی۔ غرض کہ ۹۹۱؁ھ میں روانہ دربار ہوئے۔ اب دیکھئے ملا صاحب کے غصے حروف و الفاظ کے رنگ میں کیونکر پیچ و تاب کھا کر نکلتے ہیں۔ اور غصہ بجا ہے۔ غیر ملک کا عالم اس طرح بڑھ جائے اور چڑھ جائے اور ہم وہی ملا کے ملا۔ مگر ان کے واقعہ نگاری کو ہزار آفرین ہے۔ کہ میر موصوف کے علم و فضل سے انکار نہ کیا۔ البتہ اس پر خاک خوب ڈالی۔ خیر فرماتے ہیں۔ ربیع الاول ۹۹۰؁ھ میں سیادت پناہ میر فتح اللہ شیرازی کہ دادی الٰہیات ۔ ریاضت۔ طبیعات اور کل اقسام علوم عقلی و نقلی اور طلسمات و نیرنجات و جر اثقال میں اپنا نظیر زمانے میں نہیں رکھتا۔ فرمان طلب کے بموجب عادل خاں دکنی کے پاس سے فتح پور میں پہنچا۔ خان خاناں اور حکیم ابوالفتح حسب الحکم استقبال کے لئے گئے۔ اور لا کر ملازمت کروائی صدارت کے منصب پر کہ سیاہ نویسی سے زیادہ بات نہیں ہے۔ (گویا کچھ بڑی بات نہیں) اعزاز پایا۔ تاکہ غریبوں کی زمینیں کاٹے نہ کہ دیوے۔ اور پرگنہ بسا در بے داغ و محلی جاگیر میں ملا۔ سن چکے تھے۔ کہ میر غیاث الدین منصور شیرازی کا بے واسطہ شاگرد ہے۔ وہ نماز اور عبادت کے چنداں مقید نہ تھے۔ اس لئے خیال تھا کہ مذہبی باتوں میں ہمارے ساتھ ہو جائے گا۔ مگر اس نے اپنے مذہب کے میدان میں استقلال دکھایا۔ باوجود حب جاہ اور دنیا داری اور امرا پرستی کے تعصب مذہب کے نکتوں سے ایک دقیقہ نہ چھوڑا۔ عین دیوانہ خانہ خاص میں جہاں کسی کی مجال نہ تھی۔ کہ علانیہ نماز پڑھ سکے۔ وہ بہ فراغ بال و جمعیت خاطر باجماعت مذہب امامیہ کی نماز پڑھتا تھا۔ چنانچہ یہ بات سن کر زمرۂ اصحاب تقلید سے گننے لگے اور اس معاملے سے چشم پوشی کر کے علم و حکمت اور تدبیر اور مصلحت کی رعایت سے پرورش میں ایک دقیقہ فروگذاشت نہ کیا۔ مظفر خاں کی چھوٹی بیٹی سے اس کی شادی کر کے اپنا ہم زلف بنایا۔ اور منصب وزارت میں راجہ ٹوڈرمل کے ساتھ شریک کیا۔ وہ راجہ کے ساتھ خوب دلیری سے کام کرنے لگا۔ مگر دارومدار کے ساتھ کرتا تھا۔ آزاد۔ ملا صاحب خفا ہو تے ہیں۔ کہ مظفر خاں ادھر شاہ منصور کی طرح راجہ سے کیوں لڑتے جھگڑتے نہ رہے۔ اور یہ اس مدرسے کے مدرس تھے۔ جہاں اپنی رائے اور تجویز اتنا ہی اختیار دیتی ہے۔ کہ سلامت روی اور صلاحیت کے ورق کو ہوا بھی حرکت نہ دے۔ پھر فرماتے ہیں۔ امرا کے لڑکوں کی تعلیم کی پابندی اختیار کی تھی۔ ان کے گھروں پر روز جاتا تھا۔ سب سے پہلے حکیم ابوالفتح کے غلام کو کبھی شیخ ابوالفضل کے بیٹے کو اور اور امیرزادوں کو سات آٹھ برس کے بلکہ ان سے بھی چھوٹے چھوٹوں کو میاں جی بن کر پڑھاتا تھا۔ اور لفظ اور خط اور دائرہ ابجد بلکہ ابجد بھی سکھاتا تھا۔ مشت اطفال نو تعلم را لوح ادبار در بغل منہید مرکبے را کہ زادۂ عرب است داغ یونانش بر کفل منہید لاحول ولا قوۃ ایسے مشتبہ الفاظ کے شعر اس موقع پر افسوس۔ افسوس۔ اور کندھے پر بندوق ۔ کیسۂ دارو کمر سے باندھ کر قاصدوں کی طرح جنگل میں سواری کے ساتھ دوڑتا تھا۔ غرض جس علم کی شان جا چکی تھی۔ اسے خاک میں ملا دیا۔ اور باوجود ان سب باتوں کے اپنے اعتقاد کے استقلال میں وہ پہلوانی کی کہ کوئی رستم نہ کرے گا۔ آنے کی تاریخ ہوئی۔ ع شاہ فتح اللہ امام اولیا ایک شب اس کے سامنے بیربر سے کہہ رہے تھے۔ یہ بات عقل کیونکر مان لے۔ کہ کوئی شخص ایک پلک مارتے۔ باوجود اس گرانی جسم کے بستر سے آسمان پر جائے۔ اور نوے ہزار باتیں گومگو خدا سے کرے۔ اور بستر ابھی گرم ہو کہ پھر آئے اور لوگ اس دعوے کو مان لیں۔ اسی طرح شق قمر وغیرہ ایک پائوں اٹھا کر سب کو دکھاتے تھے۔ اور کہتے تھے۔ ممکن نہیں کہ جب تک ایک پائوں کا سہارا نہ رہے۔ ہم کھڑے رہ سکیں۔ یہ کیا بات ہے؟ وہ اور اور بدبخت گم نام آمناً و صدقناً کے دم بھرتے تھے۔ اور تائید کر کے تقویت دیتے تھے۔ مگر شاہ فتح اللہ باوجودیکہ بادشاہ دم بدم اس کی طرف دیکھتے تھے۔ اور مطلب بھی اسی سے تھا۔ کہ نیا آیا ہوا تھا۔ اور اسے پھانسنا منظور تھا۔ وہ سر جھکائے کھڑا تھا۔ چپ سنے جاتا تھا۔ ایک حرف نہ بولتا تھا۔ دربار اکبری کے دیکھنے والے ان کے حال سے اس عقیدت اور خدمت گذاری کا سبق پڑھیں۔ جس سے باوجود نئی ملازمت کے عظمت اور اعتباروں میں کسی پرانے نمک خوار سے پیچھے نہ رہے۔ ۹۹۳؁ھ میں عضدالدولہ میر فتح اللہ امین الملک ہو گئے۔ حکم ہوا کہ راجہ ٹوڈرمل مشرف دیوان کل مہمات مالی و ملکی ان کی صلاح و صواب دید سے فیصل کیا کریں۔ شاہ موصوف کو یہ بھی حکم ہوا۔ کہ مظفر خاں کے عہد دیوانی کے بہت سے معاملے ملتوی پڑے ہیں۔ انہیں فیصلہ کر کے آگے کے لئے رستہ صاف کر دور اور جو باتیں قابل اصلاح معلوم ہوں۔ عرض کرو۔ انہوں نے مثلہائے مقدمات کو نظر غور سے دیکھا۔ نہ دفتر و اہل دفتر کی رعایت کی۔ نہ اہل مقدمہ کا لحاظ کیا۔ دونوں سے بے لگائو ہو کر امور اصلاح طلب کی ایک فہرست تیار کی۔ اور آسانی کے لئے اپنی رائے بھی لکھی۔ وہ دفتری جھگڑے۔ تحصیل مالی۔ تنخواہ سپاہی اور مقدمات دیوانی کے جنجال ہیں۔ دربار اکبری میں سجانے کے قابل نہیں۔ آزاد انہیں یہاں نہیں لاتا۔ اتنا ضرور ہے کہ نکتہ رسی کی کھال اتاری ہے۔ اور خیر اندیشی کا تیل نکالا ہے۔ جو کچھ انہوں نے لکھا تھا۔ حرف بحرف منظور ہوا اور کاغذ مذکور اکبر نامے میں داخل ہوا۔ اسی سنہ میں تسخیر دکن کا ارادہ ہوا۔ خان اعظم کوکلتاش خاں کو سپہ سالار کیا۔ اور امرائے عظام کو لشکر و افواج کے ساتھ ادھر روانہ کیا۔ شاہ فتح اللہ مدت تک اس ملک میں رہے تھے اور ایک بادشاہ کے مصاحب خاص ہو کر رہے تھے۔ اس لئے صدارت کل ہندوستان کی ان کے نام ہو گئی۔ پانچ ہزار روپے۔ گھوڑا اور خلعت عطا فرما کر اعزاز بڑھایا۔ اور حکم دیا۔ کہ اس مہم میں جائیں۔ اور امرا میں اس طرح ہوں۔ جیسے نولکھے ہار میں بیچ کا آویزہ۔ ملا صاحب لکھتے لکھتے خفا ہو کر کہتے ہیں۔ کمالائے شیرازی اس کے نوکر کو اس کی نیابت پر رکھ لیا۔ کہ آئمہ مساجد جو خال خال مقطوع الاراضی رہ گئے ہیں۔ ان کا بھی کام تمام کر دے۔ اب صدارت کمال کو پہنچی۔ رفتہ رفتہ یہ ہو گیا۔ کہ شاہ فتح اللہ اس اختیار اور جاہ و جلال پر پانچ بیگھ زمین کے دینے کی طاقت نہ رکھتا تھا۔ بڑی بڑی زمینیں ضبط کرنے میں کفایت سرکار سمجھتا تھا۔ وہ زمینیں بھی ویران ہو کر ویسے ہی دام ودد کا مسکن ہو گئیں۔ نہ ان اماموں کی ہوئیں۔ رہ رعیت کی۔ ان کی مظلمی صدروں کے نامۂ عمل میں رہ گئی ۔ اور ان کا بھی نشان نہ رہا۔ ؎ از صدور عظام باقی نیست در دل خاک جز عظام صدور دکن کی داستان طویل ہے۔ مختصر کیفیت یہ ہے ۔ کہ راجی علی خاں خاندیس کا پرانا فرماں روا تھا۔ اور فوج و خزانہ۔ عقل و تدبیر اور بندوبست ملکی سے ایسا چست و درست تھا کہ تمام دکن اس کی آواز پر کان لگائے رہتا تھا۔ اور وہ سلاطین و امرا میں دکن کی کنجی کہلاتا تھا۔ شاہ فتح اللہ بھی اس ملک میں رہ کر آئے تھے۔ اور علاوہ علم وفضل کے امور ملکی میں قدرتی مہارت رکھتے تھے۔ اور حکام و امرا سے ہر طرح کی رسائی حاصل تھی۔ اکبر نے خان اعظم کو سپہ سالار کیا۔ بہت سے امرا صاحب طبل و علم بافوج و لشکر ساتھ کئے۔ میر موصوف کو ہمرا کیا کہ ہو سکے تو راجی علی خاں کو لے آئیں۔ یا راہ اطاعت پر لائیں۔ اور اس کے علاوہ اور امرائے سرحدی کو بھی موافقت پر مایل کریں۔ لیکن خان اعظم کی بے تدبیری اور سینہ زوری سے مہم بگڑ گئی۔ (دیکھو ان کا حال) شاہ فتح اللہ کی کوئی تدبیر کارگر نہ ہوئی۔ بڑی بات یہ ہوئی۔ کہ ناچاری اور ناکامی کے کارواں میں شامل ہو کر خان خاناں کے پاس چلے آئے۔ احمد آباد گجرات میں بیٹھے۔ اور اطراف و جوانب میں کاغذ کے گھوڑے دوڑانے لگے۔ مطلب یہ تھا۔ کہ جو کام خان اعظم کو ساتھ لے کر کرنا تھا۔ وہ ہم خان خاناں کو لے کر کر لیں گے۔ اور عجب نہ تھا۔ کہ وہ اس راہ میں منزل کو پہنچتے۔ ۹۹۳؁ھ میں اکبر نے توران کو ایلچی بھیج کر ادھر سے خاطر جمع کی اور احتیاطاً لاہور میں ٹھیرا۔ ساتھ ہی کشمیر پر مہم شروع ہو گئی۔ اس وقت اہل مشورہ میں یہ نکتہ تنقیح طلب تھا۔ کہ توران پر مہم کی جائے یا نہیں۔ مگر اصل میں معاملہ قندھار کا تھا۔ کہ اس پر فوج کشی کریں یا نہیں۔ اور کریں تو بھکر اور سندھ کو فتح کر کے آگے بڑھنا چاہئے۔ یا اسے کنارے چھوڑیں۔ اور قندھار پر چڑھ جائیں۔ چنانچہ خان خاناں اور شاہ فتح اللہ کو بلا بھیجا۔ کہ ان کی رائے پر بڑا بھروسہ تھا۔ وہ اونٹ اور گھوڑوں کی ڈاک بٹھا کر دوڑے اور مہینوں کی منزلیں پندرہ دن میں لپیٹ کر لاہور میں آن داخل ہوئے۔ پھر انہیں دربار سے جدا کیا۔ ۹۹۷؁ھ کے حالات میں ملا صاحب فرماتے ہیں۔ کہ جو رامائن کا ترجمہ کر رہا تھا۔ ایک دن (بادشاہ نے) ا س کا خیال کر کے حکیم ابوالفتح سے فرمایا۔ کہ یہ شال خاصہ اسے دے دو۔ کہ دو کہ گھوڑا اور خرچ بھی ملے گا۔ شاہ فتح اللہ عضدالدولہ کو حکم ہوا۔ کہ بساور درو بست تمہاری جاگیر رہی۔ آئمہ مساجد کی جاگیریں بھی تمہیں عنایت ہوئیں۔ اور میرا نام لے کر فرمایا۔ کہ اس بدائونی جوان کی مدد معاش ہم نے بساور سے بدائوں کو منتقل کر دی۔ شاہ فتح اللہ نے ہزار روپے کے قریب تھیلی میں پیش کئے۔ (اصل بات یہ تھی کہ ) اس کے شقدار (تحصیلدار) نے بطور تغلب کے بیوائوں اور یتیمان نامراد کے حق میں سے پرگنہ بساور میں ظلم و تعدی سے بچائے تھے۔ تہمت یہ کہ آئمہ حاضر نہیں۔ شاہ نے (مضمون رنگا رنگ بدل کر) کہا کہ میرے عاملوں نے آئمہ کے حساب میں یہ روپیہ بطور کفایت نکالا ہے۔ فرمایا۔ بشما بخشیدم ۔ غرض شاہ نے مجھے فرمان درست کر کے دے دیا۔ اور تین مہینے نہ گزرے تھے۔ کہ شاہ گزر گئے۔ ۹۹۷؁ھ میں بادشاہ کے ہم رکاب کشمیر کو گئے۔ اور جاتے ہی بیمار ہوئے۔ رفتہ رفتہ بیماری نے طول کھینچا۔ ان کی خلوص وفاداری اور فضائل و کمالات اور اکبر کی محنت و مرحمت کا وزن اکبر نامے کی عبارت سے معلوم ہو سکتا ہے۔ شیخ لکھتے ہیں۔ کہ بادشاہ خود عیادت کو گئے۔ اور بہت تسلی اور دلداری کی۔ چاہتے تھے کہ ساتھ لے کر چلیں۔ مگر ضعف قوی ہو گیا تھا۔ اس لئے خود کابل کو روانہ ہوئے۔ حکیم علی کی رائے میں خطا معلوم ہوئی۔ اس لئے حکیم حسن کو ان کے پاس چھوڑ آئے۔ اثنائے راہ میں حکیم مصری کو بھی بھیجا۔ کہ معالجے میں رائے شامل کریں۔ افسوس کہ ان کے پہنچنے سے پہلے ملک بقا کو روانہ ہو گئے۔ بادشاہ کو بہت رنج ہوا۔ اور زبان سے یہ الفاظ نکلے۔ کہ میر ہمارے وکیل تھے۔ طبیب تھے۔ منجم تھے۔ جو ہمارے دل کو صدمہ ہوا۔ ہم ہی جانتے ہیں۔ اس درد کا وزن کون کر سکتا ہے۔ اگر اہل فرنگ کے ہاتھ میں میر پڑ جاتے اور وہ قدر ناشناس اس کے عوض میں تمام خزائن بارگاہ سلطنت کے مانگتے تو ہم بڑی آرزو سے سودا کر لیتے۔ کہ بڑا نفع کمایا۔ اور جواہر بے بہا بہت ارزاں خریدا۔ یہ حیران انجمن ہستی (بندہ ابوالفضل) سمجھا ہوا تھا۔ کہ عقل تعلیمی کا کارواں لٹ کر رستہ بالکل بند ہو گیا ہے۔ اس معنوی بزرگ کو دیکھ کر رائے بدلی تھی۔ اس سرمایہ علم پر راستی ۔ درستی۔ معاملہ دانی میں گوہر نایاب تھا۔ حکم ہوا کہ سید علی ہمدانی کی خانقاہ سے اٹھا کر کوہ سلیمان کے دامن میں سلا دو۔ کہ دل کشا مقام ہے۔ ان دنوں میں بعض امرا کو امورات سلطنت کے باب میں جو فرمان جاری ہوئے ہیں۔ ان میں بھی شاہ کے مرنے کا حال بہت افسوس کے ساتھ لکھوایا ہے۔ ملا صاحب نے جس طرح ان کے مرنے کا حال لکھا ہے۔ میں اسے پڑھ کر سوچتا رہ گیا۔ کہ ایسے صاحب کمال کے مرنے کا افسوس کروں۔ یا ملا صاحب کی بے دردی کا ماتم کروں۔ جس خیال سے انہوں نے اس واقعہ کو لکھا ہے۔ فرماتے ہیں۔ ان دنوں میں علامہ عصر شاہ فتح اللہ شیرازی نے کشمیر میں تپ محرق پیدا کی۔ خود طبیب حاذق تھا۔ علاج یہ کیا کہ ہریسہ کھایا۔ ہر چند حکیم علی منع کرتا تھا۔ مانتا نہ تھا۔ آخر اجل کا متقاضی گریبان پکڑ کر کھینچتا کھینچتا دار بقا کو لے گیا۔ تخت سلیمان میں کہ شہر کشمیر کے پاس ہی ایک پہاڑ ہے۔ سید عبداللہ خاں چوگان بیگی کی قبر کے پاس دفن ہوا۔ تاریخ ہوئی۔ فرشتہ بود۔ خیر گزر گئی۔ کہ گول مول عبارت میں غصہ نکل گیا۔ ملا احمد اور میر شریف املی کو اور جہاں کوئی ان کے پالے پڑ گیا ہے۔ وہ صلواتیں سنائی ہیں۔ کہ خدا کی پناہ۔ فحش کے مشاہدے کی گواہی دے گئے ہیں۔ ان کی تیز طبیعت کا یہ عالم ہے کہ شیعہ کا نام سنتے ہی غصہ آ جاتا ہے۔ شکریہ بجا لائو کہ فضایل علمی اور اوصاف و کمالات کو خاک سیاہ نہ کر دیا۔ خیر تھوڑی خاک ڈال دی۔ اس کا تمہیں بھی خیال نہ کرنا چاہئے۔ جو کچھ عنایت ہوئی۔ اس کا سبب یہ معلوم ہوتا ہے۔ کہ میر علم و فضل میں یکتائے روزگار تھے۔ اس نے ملا صاحب کے علم دوست دل میں محبت کو گرمایا۔ اور شیعہ بھھی تھے۔ مگر جہاں جہاں ان کا ذکر آیاہے۔ اس سے بے تہذیبی یا کسی غیر مذہب کے باب میں بدکلامی نہیں پائی گئی۔ اپنے مذہب کو علم و فضل کی شاہی لئے آہستگی و شایستگی کے ساتھ نکل گئے۔ اس لئے با انصاف مورخ کا قلم بھی بدی کے الفاظ کو لے گیا۔ میرے شیعہ بھائی سلامت روی اور اہلیت کا رستہ ان لوگوں سے سیکھیں۔ لیکن ملا صاحب بھی زبردست ملا ہیں۔ جرم تشیع کی کچھ نہ کچھ سزا ضرور دینی چاہئے تھی۔ یہی کہہ دیا۔ کہ اتنا بڑا عالم ہو کر بادشاہ کے ساتھ شکار میں دوڑتا پھرتا ہے۔ امرا کے گھر جا کر ان کے لڑکوں کو پڑھاتا ہے۔ شاگردوں کو پڑھاتا ہے۔ تو برا بھلا کہتا جاتا ہے۔ کوئی شاگرد صاحب کمال اس کے دامن سے پل کر نہیں نکلا۔ اچھا حضرت یہ بھی غنیمت ہے۔ ؎ دو گالیاں کہ بوسہ۔ خوشی پر ہے آپ کی رکھتے فقیر کام نہیں رد و کد سے ہیں صرنی ساوجی نے ان کے رنج کو حکیم ابوالفتح کے غم سے ترکیب دے کر عمدہ مادہ تاریخ کا نکالا ہے۔ ؎ امروز دو علامہ ز عالم رفتند رفتند و موخر و مقدم رفتند چوں ہر دو موافقت نمودند بہم تاریخ بشد کہ ہر دو باہم رفتند بزرگان باخبر سے معلوم ہوا ہے۔ کہ شاہ مرحوم کاغذات پر جو دستخط کرتے تھے تو فقط فتحی یا فتی شیرازی لکھا کرتے تھے۔ فتح سے اختصار منظور تھا یا تخلص ہو گا۔ شاید شعر بھی کہتے ہوں گے۔ مگر کوئی شعر آنکھوں یا کانوں سے نہیں گزرا۔ ذات کا حال بس اتنا ہی معلوم ہے۔ کہ سید تھے۔ ملا صاحب نے بھی اتنا ہی لکھا کہ ’’سادات شیراز سے تھے‘‘۔ نہ معلوم ہوا کہ کس امام کی اولاد میں سے تھے۔ اور کس خاندان سے منسوب تھے۔ اور عمر کیا پائی۔ پہلے شاہ فتح اللہ مشہور تھے۔ اکبر میر فتح اللہ کہنے لگا۔ اس لئے تھوڑے مورخ میر فتح اللہ لکھتے ہیں۔ تعلیم و تربیت کا سلسلہ شیخ ابو الفضل اکبر نامہ میں لکھتے ہیں۔ کہ خواجہ جمال الدین عمود۔ مولانا کمال الدین شروانی۔ مولانا احمد کرد سے بہت علم حاصل کیا۔ مگر عقل و فہم کو ان سے بہت اونچے درجے پر جا رکھا۔ ملا صاحب نے مولانا غیاث الدین کاشاگرد لکھ کر جو کچھ کہا دیکھ ہی لیا۔ اور پھر زمرۂ علما میں درج کر کے فرماتے ہیں۔ اعلم علمائے زمان مدتوں حکام و اکابر فارس کا پیشوا رہا۔ تمام علوم عقلی و نقلی حکمت۔ ہیئت۔ ہندسہ ۔ نجوم۔ رمل۔ حساب۔ طلسمات۔ نیرنجات۔ جراثقال خوب جانتا تھا۔ اس فن میں وہ رتبہ رکھتا تھا۔ کہ اگر بادشاہ متوجہ ہوتے تو رصد باندھ سکتا تھا۔ (خصوصاً کلوں کے کام میں بہت خوب ذہن لگتا تھا) علوم عربیہ اور حدیث و تفسیر میں بھی نسبت سادات تھی۔ اور خوب خوب تصنیفات کی تھیں۔ مگر ملا مرزا ۱؎ جان شیرازی کے برابر نہیں جو ماوراء النہر میں مدرس یکتا پرہیز گار یگانۂ روزگار ہے۔ میر فتح اللہ اگرچہ مجلسوں میں نہایت خلیق۔ متواضع۔ نیک نفس تھا۔ مگر اس ساعت سے خدا کی پناہ ہے۔ کہ جب پڑھا رہا ہو۔ فحش الفاظ رکیک اور ہجو کے سوا شاگردوں کے لئے کوئی بات زبان پر آتی ہی نہ تھی۔ اسی واسطے لوگ اس کے درس میں کم جاتے تھے۔ اور کوئی شاگرد رشید بھی اس کے دامن سے نہ اٹھا۔ چند روز دکن میں رہا۔ عادل خاں وہاں کے حاکم کو میر سے عقیدت تھی۔ ملازمت بادشاہی میں آیا تو عضد الملک خطاب پایا۔ کشمیر میں ۹۹۷؁ھ مر گیا۔ آپ کی فضیلت و قابلیت کا نمبر ملا صاحب نے یہ لگایا ہے۔ شیخ ابوالفضل نے وہ فقرہ لکھا ہے۔ اور پھر ایک مقام پر اس سے بڑھ کر لکھا۔ اگر علوم عقلی کی پرانی کتابیں نابودی کی رونق پر جائیں۔ تو نئی بنیاد رکھ دیتے۔ اور جو جو کچھ گیا اس کی پروا نہ کرتے۔ جوہر عالی تھا۔ اور عالی ذات تھے۔ یا وہ حکمت رچی پچی ہوئی تھی۔ اور عقل مروجہ نے حق تلاشی کی آنکھ پر پردہ نہ ڈالا تھا۔ محمد شریف معتمد خاں بھی اقبال نامہ میں لکھتے ہیں۔ علمائے متاخرین میں میر فتح اللہ اور ملا مرزا جان کے برابر کوئی نہیں ہوا۔ مگر میر کی تیزی فہم اور قوت ادراک ملا پر فایق تھی۔ اگر آج تینوں صاحب موجود ہوتے تو آمنے سامنے بٹھا کر باتیں سنتے اور تماشا دیکھتے۔ یہ آرزو تھی تجھے گل کے روبرو کرتے ہم اور بلبل بیتاب گفتگو کرتے مگر ملا صاحب کے سامنے کس کا منہ تھا جو بول سکتا۔ سب طرف سے بند ہوتے تو کافر ہی بنا کر اڑا دیتے۔ یہ بھی فرماتے ہیں۔ کہ ’’ہر فن میں شاہ کی اچھی اچھی تصنیفات تھیں۔‘‘ مگر افسوس کہ آج کچھ بھی نہیں ملتا ۔ جو ہے وہ سند ہے۔ ایک رسالہ حالات کشمیر و عجائبات کشمیر میں لکھا تھا۔ وہ حسب الحکم اکبر نامہ میں داخل ہوا۔ خلاصتہ المنہج۔ ایک مشہور تفسیر فارسی زبان میں ہے۔ ملا فتح اللہ کی تفسیر کہلاتی ہے۔ ۱؎۔ ملا صاحب کی قدردانی پر قربان جائے۔ ملا مرزا جان کو آنکھوں سے دیکھا نہیں۔ کانوں سے بات سنی تھی۔ نمبر لگا دیا۔ انہیں تو شاہ فتح اللہ بیچارے کا گرانا تھا۔ ورنہ لکھنے کی ضرورت کیا تھی۔ مگر وجہ ترجیح کی بے اختیار قلم سے ٹپک گئی۔ وہی پرہیزگاری۔ مگر یہ بھی یاد رہے۔ وہ یہاں آئے نہیں ۔ آتے تو ان سے کئی حصے زیادہ ان کا خاکہ اڑاتے۔ میں نے کتابوں میں ان کے حالات بھی پڑھے ہیں۔ خدا آزاد کے قلم سے کسی کا پردہ فاش نہ کرے۔ منہج الصادقین۔ ایک مفصل دمبسوط تفسیر کمیاب بلکہ ہند میں نایاب ہے۔ شیخ ابوالفضل نے اکبر نامہ میں مجملاً اتنا لکھا ہے کہ علوم و فنون میں مفید تصنیفیں لکھی ہیں۔ اور ایک تفسیر بھی مفصل لکھی تھی۔ تاریک الفی کی تاریخ میں بھی شامل کئے گئے۔ اور سال دوم کی تحریر ان کے سپرد ہوئی (دیکھو ملا صاحب کا حال) تاریخ جدید۔ تاریخ الٰہی اکبر شاہی کا ایک حصہ ان کی زیر نگرانی لکھا گیا۔ دیکھو آئین اکبری۔ علمی یادفتری اصلاحیں جو ان کی رائے سے روشن ہوئیں ان میں سے:۔ ۱) سنہ الٰہی اکبر شاہی کو سال و ماہ اور ایام کی کمی بیشی کا حساب کر کے تاریخ قرار دی۔ یہ تبدیلی ۹۹۲؁ھ میں واقع ہوئی۔ مگر اس عہد کی کل تصنیفیں اور بادشاہی تحریریں اسی کی بنیاد پر ہیں۔ اور اسے مبارک سمجھ کر خاندان چغتائی کے تخت نشین اکثر اس کی پابندی کرتے رہے۔ ۲) اکبر کے زائچہ پر نظر ثانی کی۔ اور یونانی اور ہندی پر اس میں جو اختلاف تھا۔ اس کا سبب نکال کر دونوں میں مطابقت ثابت کی۔ ۳) دفتر مال اور دیوانی میں سب ایجادوں یا اصلاحوں کے پھول لوگوں نے راجہ ٹوڈرمل کی دستار پر سجائے ان میں کچھ پنکھڑیاں ان کا بھی حق ہے۔ ابوالفضل کی عبارت پر خیال کرو۔ جو شخص حکمت یونان کا نظام نیا باندھ سکتا ہو۔ جب دفتر حساب اور معاملات و مقدمات پر متوجہ ہو جائے۔ تو کان سا پیچ ہو گا کہ اس سے رہ جائے گا۔ اور اس میں جو نکتہ وہ عالی طبع نکالے گا۔ کیسا برجستہ ہو گا۔ آئین اکبری کا جزو اعظم ہو گا۔ ۴) ان کی ایجادوں کا طلسمات دیکھنا چاہو تو سنہ کے نوروز کا ینا بازار جا کر دیکھو۔ تمام امرا نے اپنے اپنے شکوہ و شان کی دکانیں سجائی ہیں۔ میر موصوف سامان مذکور کے ساتھ اپنی طبع رسا کی نمائش گاہ ترتیب دئیے بیٹھے ہیں۔ (۱) باد آسیا: یعنی ہوا کی چکی چل رہی ہے۔ (۲) آئینہ حیرت: نزدیک و دور کے عجائب غرائب تماشے دکھا رہا ہے۔ (۳) جر اثقال : کے اوزار چرخیاں پتے برابر چکر لگا رہے ہیں۔ (۴) علم نیرنجات: کیمیائی ترکیبوں سے جادو کر رہا ہے۔ (۵) توپ: ہے کہ تخت پر چڑھی ہے۔ جنسی (قلعہ شکن) توپ ہے۔ پہاڑ سامنے آ جائے۔ تو چوڑیوں کی طرح حلقہ حلقہ الگ ہاتھوں ہاتھ اٹھا کر چڑھ جائو۔ (۶) بندوق: کہ ایک فیر میں ۱۲ گولیاں مارتی ہے۔ ملا صاحب ان پر بہت خفا ہیں۔ کہ بادشاہ کی مصاحبت اور خوشامندوں میں علم کی شان کو بٹا لگایا ۔ یہ اعتراض بے جا نہیں۔ البتہ مکدر الفاظ اور غلیظ عبارت میں ادا ہوا۔ کیونکہ جس دل سے نکلا تھا۔ وہ بھی مکدر تھا۔ ملا صاحب تو یہ چاہتے ہیں۔ کہ جو صاحب علم ہو ۔ تارک الدنیا۔ جبہ پہنے۔ مصلا بچھائے۔ تسبیح لئے خانقاہ میں خلوت نشین ہو۔ مریدوں میں نکل کر بیٹھے۔ تو مثنوی شریف کا درس کہے اور زاہد زار روئے۔ کشف و کرامات کا دعویٰ نہ ہو۔ یہ لوگ وہ کہ یونان حکمت میں جائیں تو اس طور سے سمجھیں اور سمجھائیں منقولات میں دیکھو۔ تو مفسر۔ محدث۔ مجتہد۔ یہ سمجھ گئے تھے۔ کہ قوم ڈوبی جاتی ہے۔ بادشاہ بے علم ہے۔ اور بے قوت ہے۔ ہم اس کے دست و بازو بن کر شامل حال نہ ہوں گے تو ملک کو ڈبو دیں گے اور نہ فقط دنیا بلکہ دین بھی ڈوب جائے گا۔ اس لئے اپنے آرام اور ہر طرح کے ذوق و شوق کو اس کی خدمت اور مصلحت اور حق نمک پر فدا کر دیا تھا۔ اور بادشاہ بھی اکبر بادشاہ جیسا قدردان اور چاہنے والا۔ محبت است کہ دل را نمے دھد آرام وگرنہ کیست کہ آسودگی نمے خواھد طبیعتیں ایسی شگفتہ لائے تھے۔ کہ جس رنگ میں جا ملیں۔ ویسے ہی ہو جائیں۔ جس خیال میں اپنے آقا کو خوش دیکھتے تھے۔ اسی کے پتلے بن جاتے تھے۔ میرے دوستو! بھلا مچھلی دریا کے بغیر جی سکتی ہے؟ کبھی نہیں۔ ایسے عالم۔ تصنیف و تالیف اور درس و تدریس بغیر خوش رہ سکتے ہیں؟ ہر گز نہیں۔ لیکن کیا کریں کہ مصلحت وقت سے مجبور تھے۔ بحر العلوم مولانا عبدالعلی سے کسی نے کہا کہ آپ حج کو کیوں نہیں جاتے فرمایا۔ جو فیض ہماری ذات سے یہاں رہنے میں پہنچتے ہیں۔ وہ بند ہو جائیں گے۔ اور ان کا ثواب حج سے زیادہ ہے۔ غرض ۹۹۱؁ھ میں آئے اور ۹۹۷؁ھ میں چلے گئے۔ لائی حیات آئے قضا لے چلی چلے اپنی خوشی نہ آئے نہ اپنی خوشی چلے ۷ برس ہندوستان کی سیر کی اور اپنے کمالات کی بہاریں عالم کو دکھا گئے۔ فی الحقیقت مدت خدمت بہت کم تھی۔ مگر تاریخی بیان اور خود اکبر کی زبان کے جو الفاظ ہیں۔ ان پر خیال کرو معلوم ہوتا ہے کہ اعتبار اور محبت میں جو مصاحب خاص اور عمروں کے جاں نثار تھے۔ ان میں ان کا نمبر کسی سے نیچے نہ تھا۔ یہ خلاصہ روزگار ابوالفضل۔ فیضی۔ حکیم ابوالفتح۔ حکیم ہمام تھے۔ اور بیربر کا تو کیا کہنا ہے۔ وہ تو بادشاہ کی دل لگی۔ بلکہ زندگی کا کھلونا تھا۔ ٹوڈرمل نے کارگزاری و مزاج شاسی سے اعتبار کے ساتھ دل میں گھر کیا تھا۔ عبدالرحیم خانخاناں پہلے انہی چاروں میں پانچویں سوار تھے۔ اور مان سنگھ چھٹے پھر مہمات ملکی کے ہیر پھیر میں آ کر دور جا پڑے کوکلتاش خاں دودھ کے زور سے ہر مقام پر جگہ لیتے تھے زبان ایسی تھی۔ کہ ان لوگوں میں نہ رہ سکتے تھے۔ یہاں تک کہ فتوحات کی ہوا میں اڑ کر کہیں کے کہیں جا پڑے۔ میر فتح اللہ نے اپنی لیاقت اور مزاج دانی اور آداب و نیاز اور خالص وفاداری سے اول کے چار نمبروں میں جگہ لی۔ یہ اشخاص اکبر کی جزوزندگی ہو گئے تھے۔ اور ان کا یہ حال تھا۔ کہ باوجود فضل و کمال کے اپنی طبیعت کی خواہش اور ہر طرح کے ذوق و شوق کو اس کی خدمت گزاری اور مصالح ملکی اور دل کی خوشی پر فدا کر بیٹھے تھے۔ ایک باریک نکتہ اس میں یہ ہے۔ کہ مدت دراز سے چند عالموں نے شریعت کے زور سے سلطنت کی گردن کو دبا رکھا تھا۔ یہ لوگ گویا گھر کے غنیم تھے۔ اور ان کا توڑنا سب سے مہم عظیم۔ ان کا زور فوج و لشکر کے بس کا نہ تھا۔ اگر ٹوٹ سکتے تھے۔ تو اپنے وفاداروں کی تدابیر عقلی اور دلائل علمی کی فوج انہیں توڑ سکتی تھی۔ چنانچہ کچھ قدرتی اتفاقات نے کچھ ان لوگوں کی تدبیروں نے توڑ پھوڑ کر ستیاناس کر دیا۔ یہ لوگ اپنی لیاقت اور خدمت کے سوا کسی کو رفیق نہ پاتے تھے۔ اس لئے جان توڑ کر لپٹ جاتے تھے۔ اور سچے اخلاص و نیاز سے خدمت بجا لاتے تھے۔ ان کے وطن کی غربت اور قاضیان دربار کے ساتھ جو مذہب کا اختلاف تھا۔ وہ بادشاہ کے سامنے تائید کرتا تھا۔ کہ غنیموں سے مل کر سازش نہ کریں گے۔ اور یہ خاص ان کی ذات سے وابستہ ہیں۔ اور ایرانی امرا سے کوئی بے وفائی بھی ظاہر نہ ہوئی تھی۔ بلکہ حق پوچھو۔ تو جو خرابی ہوئی۔ ملک موروثی کے نمک خواروں سے ہوئی۔ بیرم خاں اور خاں زماں سے جو کچھ ہوا وہ ظاہر ہے۔ لڑنے والوں نے خواہ مخواہ لڑا دیا۔ اہل ایران نے کوئی مرتبہ جاں نثاری کا نہ چھوڑا تھا۔ اس لئے اکبر ان لوگوں کو عزیز رکھتا تھا۔ اور پورا اعتبار تھا بلکہ اس لطف کی محبت ان کے ساتھ رکھتا تھا۔ کہ الفاظ و عبارت اس کی کیفیت ادا نہیں کر سکتے ہیں۔ اس پھول کی مہک کا ایک نمونہ دکھاتا ہوں۔ ذرا خیال کرو۔ کہ قلم سے یہ الفاظ نکلے ہیں تو دل میں کیا کچھ ہو گا۔ اور صحبتوں میں کیا باتیں ہوتی ہوں گی۔ شیخ فیضی سفارت دکن کی عرائض میں سے ایک عرضی میں ایران کے حالات لکھتے لکھے کہتے ہیں۔ ترجمہ۔ آج کل سرآمد دانشمندان عراق و فارس میر ثقی الدین محمد ہے مشہور بہ تقیائے نسایہ۔ ولایت میں آج اس کی عقل و دانش کو کوئی نہیں پہنچتا۔ یہ میر فتح اللہ کے شاگردوں میں سے ہے جب میر فتح اللہ اور مولانا مرزا جان شیراز میں دانشمندی کا نقارہ بجا رہے تھے۔ تو یہ بھی شیراز کے مدرسوں میں سے تھا۔ فدوی مدتوں سے اس کے کمالات کا شہرہ سن رہا ہے۔ اور میر فتح اللہ سے مکرر تعریف سنی ہے۔ جس کا ایسا شاگرد یادگار ہو۔ اس کے کمال کی دلیل اہل عالم کے لئے کافی ہے۔ ملا محمد رضائے ہمدانی شیرازی یہاں آیا ہے۔ مدرسے کے دماغ سوختوں میں سے ہے۔ فضیلت اور اہلیت کا جوہر ظاہر ہے۔ وہ کہتا تھا۔ میر تقی الدین محمد کو حضور کے آستان بوسی کی آرزو ہے۔ زادراہ بہم نہ پہنچا۔ اور موقع ہاتھ نہ آیا۔ ورنہ اس قافلے میں آتا۔ عالم پناہا اگر فرمان عالیشان کچھ انعام کے ساتھ بھیجا جائے۔ تو اس کی سرفرازی ہے۔ میر فتح اللہ کی یادگار ہے۔ اور اس کا فرزند معنوی ہے۔ ع اے گل بتو خور سندم تو بوے کسی داری سمجھ لو کہ اکبر کے دل میں محبت کا کیا عالم ہو گا۔ جو اس مزاج دان کی تحریر سے یہ رنگ جھلکا ہے۔ طبع فیاضی کی مرثیہ خوانی شاہ فتح اللہ شیرازی کے غم میں ہے۔ ع دگر ہنگام آن آمد کہ عالم از نظام افتد فارغی۔ ملا صاحب لکھتے ہیں۔ کہ میر فتح اللہ کے بھائی تھے۔ اول بیرم خاں کے عہد میں یہاں آئے۔ خان موصوف نے کہا کہ یہ تخلص شیخ عبدالواحد خوانی کا ہے۔ اور مشہور ہو چکا ہے۔ مجھے ان سے ارتباط اور نہایت اعتقاد تھا۔ تم فایقی تخلص کر لو۔ چند روز ان کی فرمائش کی تعمیل کی۔ ایران میں جا کر پھر فارغی ہو گئے۔ دوبارہ ہندوستان میں آئے اور مر گئے۔ ان کے بیٹے میر تقی علم ہیئت اور نجوم میں شاہ فتح اللہ کے مسند نشین تھے۔ میں تھوڑا سا رسالہ بست بابی ان سے پڑھا تھا۔ اعلیٰ درجے کا فہم و ذکا اور ہمت عالی رکھتے تھے۔ ان کے بھائی میر شریف تھے۔ فضائل و کمالات کے اوصاف سے موصوف تھے۔ میر تقی کہتے تھے۔ کہ ہمارے کل خاندان میں ایک یہ بھائی سنت جماعت ہیں۔ یا شاہ فتح اللہ ۔ باقی سب شیعۂ خالی ہیں۔ آزاد۔ شاہ فتح اللہ کو تم جانتے ہو۔ ان سے زیادہ کوئی شیعہ کیا ہو گا۔ مگر ہنگامۂ عالم میں سے کیا بچ کر نکل گئے۔ تتمہ آصف خاں خواجہ عبدالحمید کو بعض کتابوں میں یزدی لکھا ہے اور بعض میں ہروی۔ خدا جانے یزد وطن تھا یا ہرات (سیر المتآخرین میں لکھا ہے کہ یہ حضرت زین الدین خوانی کی اولاد میں تھے) امیر تیمور ان سے کمال اعتقاد رکھتے تھے اور فی الحقیقت ان کی دعا سے انہیں بڑے فیض و برکات پہنچے تھے۔ مآثرالامرا میں ہے کہ آصف خاں شیخ ابوبکر کی اولاد میں تھے اور وہ امیر تیمور کے عہد میں ایک فقیر صاحب دل تھے۔ جب ۷۸۴؁ھ میں امیر تیمور ملک غیاث الدین حاکم ہرات پر فوج لے کر چلے تو نائباد میں مقام کیا۔ شیخ ابوبکر کے پاس آدمی بھیجا۔ اس نے جا کر کہا۔ کہ چرابہ تیمور ملاقات نمیکنی۔ انہوں نے کہا۔ امرا بااوچہ کار۔ امیر خود گیا۔ اور کہا کہ شیخ چرا بملک نصیحت نہ کردی۔ شیخ نے کہا۔ نصیحت کردم۔ نشنید ۔ خدا تعالیٰ شمارا بروگماشت۔ اکنوں شمارا نصیحت میکنم بعدل ۔ اگر نشنوید دیگرے برشماگمارد۔ تیمور کہا کرتا تھا۔ کہ سلطنت میں بہت فقرا سے صحبتیں ہوئیں ہر شخص کے دل میں میری طرف سے کھٹکا معلوم ہوتا تھا۔ مگر شیخ مذکور (میں دیکھتا تھا کہ میرے دل میں اس کی طرف سے لحاظ معلوم ہوتا تھا)قوم تاجیک تھے۔ مگر میدان جنگ میں ایسے کارہائے نمایاں کئے کہ ترکوں سے ایک قدم پیچھے نہیں رہے۔ اول ہمایوں کے پاس اہل قلم کے سلسلہ میں تھے۔ پھر اکبر کی خدمت میں آئے۔ جب بادشاہ دلی سے بیرم خاں کی مہم پر چلے تو انہیں آصف خاں خطاب دے کر دہلی کا حاکم کر گئے چند روز میں سہ ہزاری منصب سے سربلند ہوئے۔ فتو۔ عدلی کا غلام قلعۂ چنارگڑھ پر قابض تھا۔ ان کے نام حکم ہوا۔ یہ شیخ محمد غوث گوالیاری کو ساتھ لے کر گئے۔ اور صلح کے ساتھ قلعۂ مذکور پر قبضہ کیا۔ دربار سے گڑہ مانک پور بھی عنایت ہوا۔ ۹۷۱؁ھ میں غازی خاں تنور سے (امراے عدلی میں سے تھا) کڑہ پر میدان مار کر فتح یاب ہوئے جو ولایت بھنہ میں راجہ رام چند کے پاس بھاگ گیا انہوں نے ادھر گھوڑے اٹھائے۔ راجہ مقابلہ پر آیا۔ آصف خاں نے مارتے مارتے قلعۂ مانڈو میں ڈال کر محاصرہ کر لیا۔ راجگان ہند حاضر دربار ہونے لگے۔ ان کی سفارش سے اس کی خطا معاف ہوئی۔ ملک بھٹہ کے جنوب میں گڈھ کتنکہ کا ملک ہے (ملاصاحب کہتے ہیں) گڈھ کتنکہ کا ملک آبادانی و فراوانی سے مالا مال اور (جس میں قوم گونڈ آباد ہے) ۷۰ ہزار آباد گانو سے معمور ہے۔ چورا گڈھ اس کا دارالحکومت ہے پہلے قلعہ ہوشنگ آباد پایہ تخت تھا۔ وہ سلطان ہوشنگ غوری بادشاہ مالوہ نے تعمیر کیا تھا۔ ۹؁ جلوس میں ۱۰ ہزار لشکر لے کر آصف خاں ہوشنگ آباد پر گیا۔ رانی درگاوتی خرو سال بیٹے کو لئے فرمانروائی کر رہی تھی۔ اور شجاعت اور دانائی سے عورتوں میں نظیر نہ رکھتی تھی۔ سلطنت کے سارے کام مردان عالی فطرت کی طرح سرانجام کرتی تھی۔ گھوڑے پر چڑھتی تھی۔ شکار کھیلتی تھی۔ شیر مارتی تھی۔ میدان جنگ میں کارنامے دکھاتی تھی۔ دربار عام میں بیٹھ کر مہمات سلطنت طے کرتی تھی اور لوازم ملک داری کو تدابیر درست کے ساتھ عمل میں لاتی تھی۔ اس موقع پر ۲۰ ہزار سوار ۷ سو ہاتھی لے کر لڑنے کو نکلی۔ اور میدان ہمت میں قدم جما کر مردوں کے مقابل ہوئی۔ وہ ہاتھی پر سوار قلب لشکر میں کھڑی تھی فوج کو لڑاتی تھی اور آپ تیر مارتی تھی۔ اس نے خود بھی ایک تیر کھایا۔ جو حقیقت میں قضا کا تیر تھا اسے خیال ہوا کہ ایسا نہ ہو زندہ گرفتار ہو جائوں۔ فیلبان سے کہا کہ اخیر حق نمک یہی ہے۔ کہ خنجر سے میرا کام تمام کر دے تاکہ پردہ ناموس رہ جائے فیلبان نے کہا۔ مجھ سے یہ نمک حرامی نہ ہو گی۔ جوانمرد عورت نے خود خنجر پکڑ کر دریائے خون میں غوطہ مارا۔ اور ملک عدم میں جا کر سر نکالا۔ آصف خاں لشکر کی لوٹ مار سے تھیلے بھر کر ہوشنگ آباد پر گیا بن ماں باپ کا بچہ بھی سپوت نکلا۔ فوج لے کر میدان میں آیا۔ اور تڑپ دکھائے بغیر ہر گز جان نہ دی بہت پرانا راج تھا۔ اس گھر کو پیٹ بھر کر لوٹا۔ ایک سو ایک صندوق فقط اشرفیوں کا۔ رپوں کا شمار نہیں۔ چاندی اور سونے کے بے حساب ظروف و اسباب۔ صدہا مورتیں طلائی اور جڑائو۔ اجناس گراں بہا جن کی فہرست حد تحریر سے باہر تھی۔ ہزار ہاتھی گنیش مورت خوبصورت۔ لدو ہاتھیوں کا ذکر نہیں۔ گھوڑے بادرفتار سیکڑوں۔ ان میں سے کچھ کچھ چیزیں برائے نام بادشاہ کو بھیج دیں۔ باقی ہضم۔ یہ دولت و مال سمیٹ کر عبدالمجید جو ابھی آصف خاں ہوئے تھے۔ قارون و شداد بن گئے۔ مگر ساتھ ہی کھٹکا لگا تھا۔ کہ ہائے! دربار کے مفت خورے مفت پھنسوا دیں گے۔ اور قلم قسائی آدھوں آدھ بیچ میں کھا جائیں گے۔ دیوان اور اہل دفتر کے مراسلے آتے تھے۔ کہ حاضر دربار ہو کر حساب سمجھائو۔ اور یہ پہلو بچاتاتھا۔ خان زماں کی پہلی چڑھائی پر بادشاہ نے بلایا تو حاضر ہو گیا۔ جب اس نے سنا کہ دوبارہ خان زماں بگڑا ہے اور امرائے بادشاہی اس سے مکڑ کھا کر بکھر گئے۔ تو وہ بڑے سامان کے ساتھ ہوشنگ آباد سے چلا۔ یہاں مجنون خاں مانک پور میں گھرے ہوئے بیٹھے تھے۔ آصف خاں نے آ کر انہیں محاصرہ سے نکالا۔ اپنے خزانے کھول دئیے۔ ان کی سپاہ کی کمر بندھوائی اور مجنوں خاں کو بھی بہت ساروپیہ دیا۔ انہوں نے اپنے اپنے ہمراہیوں کے پروبال درست کئے۔ اور دونوں مل کر خان زماں کے سامنے بیٹھ گئے۔ چونکہ اکبر کی بھی آمد آمد تھی۔ اس لئے خان زماں سوچ رہا تھا۔ کہ ان کا فیصلہ کرے یا توقف۔ آصف خاں اس موقع کو غنیمت سمجھتا تھا۔ کہ یہ خدمت اگلی کدورت کو صاف کر دے گی مجنوں خاں وغیرہ امرا کے ساتھ اکبر کو عرضیاں لکھ رہا تھا۔ کہ وہ بھی آن پہنچے۔ آصف خاں اور مجنوں خاں حاضر حضور ہوئے۔ آصف خاں نے پیشکش نذر گزرانا۔ خطا معاف ہوئی۔ نذرانہ قبول ہوا۔ اور سپہ سالار ہو کر خانزماں کے مقابلہ کے لئے رخصت ہوئے وہ نرہن کے گھاٹ پر اس کے مقابل جا اترے۔ اب خیال کرو۔ اکبر تو جونپور میں ہیں۔ آصف خاں اور مجنوں خاں خانزماں کے سامنے کڑہ مانک پور پر فوجیں لئے پڑے ہیں۔ درباری نمک حراموں نے آصف خاں کو پیغام بھیجا۔ کہ رانی درگاوتی کے خزانوں کا حساب سمجھانا ہو گا۔ کہہ دو! دوستوں کو کیا کھلوائو گے اور چورا گڑھ کے مال میں سے کیا تحفے دلوائو گے اسے کھٹکا تو پہلے ہی تھا۔ اب گھبرا گیا۔ لوگوں نے اسے یہ بھی شبہ ڈالا۔ کہ خان زماں کے مقابلہ پر آنا فقط اپنا سر کٹوانا ہے۔ آخر ایک دن سوچ سمجھ کر آدھی رات کے وقت اس نے خیمے ڈیرے اکھیڑے اور میدان جنگ سے اٹھ گیا۔ اس کے ساتھ وزیر خاں اس کا بھائی اور سرداران ہمراہی بھی اٹھ گئے۔ بادشاہ نے سنتے ہی اس کی جگہ تو منعم خاں کو بھیجا۔ کہ مورچہ قائم رہے۔ اور شجاعت خاں کو آصف خاں کے پیچھے دوڑایا۔ شجاعت خاں (وہی تردی بیگ کا بھانجا مقیم بیگ) مانک پور پر پہنچ کر چاہتے تھے کہ دریا اتریں۔ آصف خاں تھوڑی دور بڑھا تھا۔ جو خبر پائی کہ مقیم بیگ پیچھے آ رہاہے۔ جاتے جاتے پلٹ پڑا۔ اور دن بھر اس طرح جان توڑ کر لڑا کہ مقیم بیگ کا شجاعت خانی خطاب خاک میں مل گیا۔ آصف اپنی جمعیت اور سامان سمیٹ ۔ فتح کا ڈنکا بجاتا چلا گیا۔ صبح کو انہیں خبر ہوئی دریا اتر کر اپنی شجاعت کے روئے سیاہ کو دھویا ۔ اور پیچھے پیچھے دوڑے۔ ترک تھے۔ مگر ترکوں کا قول بھول گئے تھے۔ کہ جو حریف کمان بھر نکل گیا۔ وہ نکل گیا۔ خیر جیسے گئے ویسے ہی دربار میں آن حاضر ہو گئے۔ جب اہل دربار کے لالچ نے اسے بھی میدان وفاداری سے دھکیل کر نکال دیا تو وہ جونا گڑھ میں جا بیٹھا اسی عرصہ میں خان زماں کی خطا بادشاہ نے معاف کر دی اور اس کی طرف سے خاطر جمع ہوئی تو مہدی قاسم خاں کو آصف خاں کی گوشمالی کے لئے بھیجا۔ حسین خاں کو (کہ اس کے داماد بھی تھے) اور چند امرائے نامی کو حکم دیا کہ فوجیں لے کر اس کے ساتھ ہوں۔ آصف کو ہر گز اپنے سلیمان سے لڑنا منظور نہ تھا۔ درگاہ میں عفو تقصیر کی عرضی لکھی۔ مگر یہاں دعا قبول نہ ہوئی۔ ناچار خان زماں کو خط لکھا اور آپ بھی چلا۔ حسرت و حرمان کی فوج کے ساتھ اس ملک سے خیمے اٹھائے جسے اپنے بازو کے زور سے زیر کیا تھا۔ چنانچہ کڑہ مانک پور میں جا پہنچا۔ خانزماں کے زخم دل ابھی ہرے پڑے تھے۔ جب ملا تو نہایت غرور اور بے پروائی سے ملا۔ آصف خاں دل میں پچھتایا کہ ہائے یہاں کیوں آیا۔ ادھر سے جب مہدی خاں پہنچے تو میدان صاف دیکھ کر جونا گڑھ پر قبضہ کر لیا اور آصف خاں کو خان زماں کے ساتھ دیکھ کر پہلو بچا لیا۔ وہیں سے حج کو چلے گئے۔ یہاں خان زماں آپ تو دارالحکومت میں بیٹھے آصف خاں سے کہا کہ پورب میں جا کر پٹھانوں سے لڑو بہادر خاں کو اس کے ساتھ کیا۔ وزیر خاں آصف خاں کے بھائی کو اپنے پاس رکھا۔ گویا دونوں کو نظر بند کر لیا۔ اور نگاہ ان کی دولت پر ۔ وہ بھی مطلب تاڑ گئے تھے۔ دونوں بھائیوں نے اندر اندر پرچے دوڑا کر صلاح موافق کی۔ یہ ادھر سے بھاگا وہ ادھر سے۔ کہ دونوں مل کر مانک پور پر آ جائیں۔ بہادر خاں آصف کے پیچھے دوڑا جونپور اور مانک پور کے بیچ میں ایک سخت لڑائی ہوئی۔ آخر آصف خاں پکڑے گئے۔ بہادر خاں اسے ہاتھی کی عماری میں ڈال کر روانہ ہوئے۔ ادھر وزیر خاں جونپور سے آتا تھا۔ بھائی کی گرفتاری کی خبر سنتے ہی دوڑا۔ بہادر خاں کے آدمی تھوڑے تھے۔ اور جو کچھ تھے لوٹ میں لگے ہوئے تھے اس لئے حریف کے حملہ کو روک نہ سکا۔ بھاگ نکلا اور لوگوں سے کہا کہ عماری میں آصف کا فیصلہ کر دو۔ وزیر خاں پیشدستی کر کے جا پہنچا۔ اور بھائی کو نکال لے گیا۔ پھر بھی آصف خاں کی دو تین انگلیاں اڑ گئیں اور ناک بھی کٹ گئی بادشاہ پنجاب میں دورہ کرتے تھے۔ انہوں نے آگرہ میں مظفر خاں نرینی کے پاس پیغام سلام دوڑائے۔ پھر وزیر خاں خود آن ملا۔ مظفر خاں نے حضور میں عرضی لکھی اور انجام یہ ہو اکہ پہلے وزیر خاں حاضر حضور ہوا۔ بادشاہ لاہور کے پاس شکار کھیل رہے تھے وہیں ملازمت ہوئی پھر آصف خاں کی خطا بھی معاف ہو گئی۔ خانزماں کی آخری مہم میں اس نے بڑی جانفشانی دکھائی ۹۷۵؁ھ میں پرگنہ پیاگ کہ حاجی محمد خاں سیستانی کے نام تھا۔ آصف خاں کو مرحمت ہوا۔ اسی سال میں بادشاہ نے رانا پر فوج کشی کی۔ اس نے قلعہ چتوڑ جمیل کے حوالے کیا۔ اور آپ پہاڑوں میں بھاگ گیا۔ آصف خاں نے اس محاصرہ میں بھی فدویت کے جواہر دکھائے۔ جب قلعہ مذکور فتح ہوا تو اسی کی جاگیر میں مرحمت ہوا۔ برہان نظام شاہ مرتضے نظام شاہ اور برہان نظام شاہ دو بھائی تھے،نظام شاہ بموجب باپ کی وصیت کے احمد نگر کے تخت پر بیٹھا، چند روز عدل وانصاف اور نظام وانتظام کے ساتھ سلطنت کی، عین جوانی میں کچھ ایسا خلل دماغ ہوا کہ باغ میں گوشہ نشین ہو کر بیٹھ رہا،تمام کاروبار ارکان دولت کے حوالے کر دیے۔مہینوں کسی امیر کو اپنے بادشاہ کی صورت دیکھنا نصیب نہ ہوتی تھی۔ایسا ہی ضروری امر ہوتا تو لکھ کر بھیج دیتے وہ اس کا جواب لکھ بھیجتا ،مگر جو جواب لکھتا نہایت معقول وبا صواب لکھتا، مہمات سلطنت کے معاملات ان کے سامنے پیش ہونے لگے۔ وی نیک نیت بی بی امراء اور رعایا سب کی غور وپرداخت کرتی تھی۔ چھ برس اسی طرح گزر گئے،بعض بدنیتوں نے بادشاہ کو شبہ ڈالا کہ بیگم آپ کو معزول کر کے برہان الملک آپ کے چھوٹے بھائی کو بادشاہ کرنا چاہتی ہے۔اس معاملہ نے طول کھینچا،مختصر یہ کہ ماں نے بیٹے کو قید کر دیا۔ اور برہان بھی ماں کی زیر نظر نظر بند ہوگیا۔کئی برس کے بعد نظام کے خلل دماغ اور شوق گوشہ نشینی نے زیادہ زور کیا۔نتیجہ اس کا یہ ہوا کہ امراء کی سینہ زوری حد سے زیادہ گزر گئی اور آپس میں کشا کشی رہنے لگی۔رفتہ رفتہ بے انتظامی نے اس قدر طول کھینچا کہ ملک نظام کے انتظام میں خلل پڑ گیا۔شرفاء کے ننگ وناموس بر باد ہونے لگے۔پوج واراذل حاکم با اختیار ہو گئے۔بادشاہ کے باب میں بھی رنگ برنگ کی خبریں اڑنے لگیں ،کبھی سنتے کہ مر گیا ہے۔ امرا ء مصلحت ملکی کے لئے چھپاتے ہیں۔ کبھی سنتے کہ دیوانہ جنونی ہو گیا ہے۔ اسی عالم میں ایک موقع پر برہان الملک قید سے نکلا اور بیجا پور بھاگ گیا۔کچھ مدت ابراہیم عادل شاہ کے پاس بسر کی۔احمد نگر میں نظام کی غفلت اور امراء با اختیار کے ظلم سے خاص وعام تنگ تھے۔یہ اپنے رفیقوں کے اشارہ سے آیا اور رعایا نے بھی غنیمت سمجھا۔ہزار بارہ سوکی جمعیت ساتھ ہو گئی۔ غلطی یہ کی کہ موقع لوگوں کی دل جوئی اور دلداری کا تھا،اس نے مردم آزاری اور سخت گیری شروع کر دی۔امرا ء اور رعایا اس سے بھی زیادہ گھبرائے۔نظام الملک نے ایک امیر کو فوج دے کر لشکرعادل شاہی کے مقابلہ پر بھیجا، جب برہان کے آنے کی خبر پہنچی تو برق کی طرح پلٹا،اور برہان ابھی احمد نگر نہ آیا تھا۔ کہ نظام الملک آپہنچا،ہاتھی پر سوار ہوا اور تمام شہرکا گشت کیا۔ تاکہ موت یا جنون کی جو خبریں مشہور ہوئی ہیں۔ان کے نقش دلوں سے مٹیں،دوسرے دن پھر نکلا، کالے چبوترے کے میدان میں کھڑا ہوا اور سب سے کہا کہ اے ارکان دولت تم سب جانتے ہو کہ مدت ہوئی میں ملک اور ملک رانی سے بیزار ہوں۔برہان میرا حقیقی بھائی ہے اور حکومت کا شوق رکھتا ہے۔ بہتر ہے کہ تم سب مجھ سے دست بردار ہو جاؤ اور اسے اپنا فرمانروا سمجھو۔ امراء نے کہا جو کچھ حضور فرماتے ہیں،درست ہے، لیکن یہی مرضی مبارک ہے،تو موقع اس کا یہ نہیں ہے۔اس وقت مصلحت یہی ہے کہ اس فتنہ کو فرو کیا جائے۔ نظام الملک سمجھا کہ ان کے دل میری طرف مائل ہیں۔بے وفائی نہ کریں گے۔چنانچہ برہان کے مقابلہ کے لئے لشکر اور توپ خانہ روانہ کیا۔اس کم بخت کی تقدیر یاور نہ تھی لوگ پہلے ہی بیزار ہوگئے تھے،مختصر یہ کہ برہان شکست کھا کر برہان پور کی طرف بھاگ گیا۔جولوگ اس کے ساتھ ہوئے تھے،نظام سے معافی تقصیر کے قول وقرار لے کر حاضر ہوگئے۔ برہان نے چند روز بیجا نگر کے پاس گزارے۔ چند روز اطراف دکن کے پاس گزارے۔کہیں قسمت نے یاوری نہ کی۔یہاں نظام کی بد نظمی سے پھر لوگ تنگ آگئے۔ اور اب کی دفعہ برہان کو لباس فقیری کا پردہ کر کے احمد نگر میں لے آئے۔قرار پایاتھا کہ کل کو نشان بغاوت کھڑا کریں۔رات کو امرائے با اختیار کو خبر ہو گئی۔انہوں نے فورا باغیوں کا بندو بست کر لیا۔ برہان اپنے لباس خاک ساری میں بھاگ گیا۔اسے کوئی پہچان نہ سکا۔ وہ ولایت کوکن کی طرف نکل گیا بھر جی راجہ بگلانہ کے پاس پہنچا،وہاں سے مایوس ہو کر ملک ندربار میں آیا۔قطب الدین خان کوکہ حکمرانی کرتے تھے۔ ۹۹۱ ھجری میں ان کی وساطت سے دربار اکبری میں پہنچا۔ یہاں دوبرس پہلے ایک شخص آیا تھا اور ظاہر کیا تھا کہ میں برہان الملک ہوں۔میر جمال الدین حسین آنجو کہ سلاطین دکن کے حالات سے جزوی وکلی خبر رکھتے تھے۔ اور برہان الملک کی حقیقی بہن خدیجہ بی بی ان کی بیوی تھیں۔وہ اسے اپنے گھر میں لے گئے۔ اس نے بہت سی نشان اور علامتیں بیان کیں۔بہن نے بھی کچھ پہچانا اور کچھ نہ پہچانا ،مگر بڑے تکلف اور تواضع سے ان کی مہمانیاں ہوئیں۔بادشاہ نے بھی اعزاز کے ساتھ رکھا۔ اب دفعتہ اصلی برہان الملک آموجود ہوئے تو جعل ساز ڈر کے مارے بھاگا۔اور ایک ہفتہ بعد جوگیوں میں سے پکڑا آیا۔اصلی اور نقلی کا مقابلہ ہوا۔ دغاباز نے بے حیائی کی آنکھیں بہت چمکائیںمگر جھوٹ کے پاؤں کہاں؟۔اس برہان کا دعویٰ بے برہان نکلا۔آخر اقرار کیا کہ فلان دکنی کا بیٹا ہوں،حکیم الملک اس کا خطاب تھا۔ بی بی خونزہ ہمایوں برہان الملک کی ماں نے مجھے بیٹا کر لیا تھا۔ اب وہاں کی سنو نظام الملک کا حال روز بروز ابتر ہوتا جاتا تھا۔ اور امراء کی سرکشی اور سر زوری آپس میں تلواریں چلا رہی تھی۔ اس کشا کشی کی خبریں سن کر ۹۹۳ئ؁ میں اکبر نے خان اعظم کو سپہ سالار کر کے فوج بھیجی اور برہان کو بھی ساتھ کیا۔لیکن وہ ناکام رہا۔پھر چند روز بعد نظام الملک کی بد نظمی اس حدکو پہنچی کہ اس کا بیٹا قید تھا امراء کے ایک فرقہ نے اسے نکال کر تخت نشینی پر آمادہ کیا۔وہ لڑکا تیرہ،چودہ برس کی عمر۔نمک حراموں نے جو سرشوری کا تیزاب اس پر ڈالا۔ وہ بہت تیز پڑا ،باپ کے بیماری کے سبب سے فقط دنوں اور راتوں کا مہمان تھا۔ناخلف بیٹا اس کے مرنے تک بھی صبر نہ کرسکا ۔حمام میں قید کیا اورحکم دیا کہ سب دروازے اور روشن دان بند کردو ۔آگ جلاؤ اور گرم پانی ڈالو۔چندساعت میںاس کی زندگی کا بلبلہ بیٹھ گیا۔ ۲۶ سال کئی مہینے سلطنت کرکے ۹۹۶ئ؁ میں خاتمہ ہوا۔ حسین نظام الملک یہ لڑکا امرائے کہن سال کے ہاتھ میں کپڑے کی گڑیا تھا ۔جو چاہتے تھے،سوکرتے تھے۔ وہ بازاروں میں اور باغوں میں اپنے ہم عمر یاروں کے ساتھ سیر کرتا۔ دومہینے تین دن میں اس کا بھی فیصلہ کیا۔شہر اور قلعہ میں قتل عام ہوئے ۔امراء اس طرح مارے گئے جس طرح آندھی میںآم گرتے ہیں۔مرزا محمد تقی نظیری کہ امیر اور شاعر بے نظیر تھے۔اسی فتنہ شہر آشوب میںمارے گئے۔ اسمعیل نظام الملک برہان الملک تو اکبر کے دربارمیں حاضر تھے۔ان کے دوبیٹے اسمعیل اور ابراہیم چچا کے پاس قید تھے ۔جب امراء نے اپنے آقا کا گھر صاف کردیا تو اسمعیل کو قید سے نکال کر تخت پر بٹھایا،لیکن فقط نمونے کے لئے سامنے رکھا۔ حکومت آپ کرتے تھے ۔شہر میں قتل عامکیے۔خاص وعام کے گھر لٹے۔جو جو انسان آنکھوںمیں کھٹکتے تھے،اور کسی موقعہ پر ان کے سرہلانے کا خیال تھا ۔انہیں خاک میں دبا دیا جو صاحب قوت امیر تھے۔ان کامذہب مہدوی تھا۔ اسمعیل خود لڑکا تھا۔ انہوں نے مہدوی کرلیا۔اور مسجدوں میں مہدویہ فرقوں کے خطبے جاری ہونے لگے۔مہدوی مذہب کے لوگوںکا زور شور پہلے ہی دیکھ چکے تھے۔ انہوں نے سب کو دبا لیا ، غریب مذہب کے لوگ شہر چھوڑ چھوڑکر نکل گئے ،یا اپنے گھروں میں چھپ کر بیٹھ گئے دربار اکبری کی روداد سنو کہ جب برہان الملک ۹۹۱ھ؁ میں آیا تو اول تین صدی کا منصب دے کر جاگیر عطا کی،اور ترقیاں دے کرہزاری تک پہنچایا،۹۹۳ھجری میںمالوہ میں بھیج دیا۔اور خان اعظم کو لشکر سلطانی کے ساتھ مہم دکن پر بھیجا،اس میں اسے بھی ساتھ کیا کہ بھائی سے اپنا حق حاصل کرے۔ اس وقت طالع یاور نہ تھے،ناکام پھرا ،چند روز بعد اکبر نے صادق محمد خان کو مہم بنگش پر بھیجا، برہان الملک کو اس کے ساتھ کیا ۔اور وہیں اسے جاگیر ملی ،جب ۹۹۸ئ؁ میں خبر آئی کہ اسمعیل برہان الملک کا بیٹا تخت نشین ہوا ہے اور احمد نگر میں پھر بغاوت ہوئی اور ملک درہم برہم ہو رہا ہے تو بادشاہ نے برہان الملک کو بلایا اور کہا کہ حق تمہارا ہے،جاؤ اور قبضہ کرو ۔جو کچھ خزانہ اور فوج درکار ہو ساتھ لو۔اس نے کہاکہ امرائے جغتائی اور فوج حضور کو دیکھ کر اہل دکن گھبرائیں گے۔اس لئے امراء اور فوج کا جانا مناسب نہیں ہے۔ میں حکمت عملی سے کام لوں گا یہ تجویز سب کو پسند آئی۔امرائے مالوہ،اور سرحد ودکن کے نام فرمان جاری ہوئے کہ جب ضرورت ہو سامان شائسۃ سے فوری مدد کریں۔راجہ علی خان اور راجہ خان دیش کے نام فرمان گیا کہ برہان الملک مدت سے اس درگاہ کی پناہ میں ہے۔ایسا انتظام کرو کہ نظام الملک ہو کر اپنے وطن کو پہنچ جائیں۔غرض برہان الملک کو بہت سی نصحیتیں،وصیتیں اور فرمائش فرما کر رخصت کیا۔نصحیتیں کیا ہوں گی یہی کہا ہوگا کہ ہماری خدا ترسی،دریا دلی،شوق آبادانی،لوگوں کے منقوش خاطر کرنا،جہاں تک آواز پہنچے ۔اکبری نقارہ کی آواز اور جہاں تک ہاتھ پہنچے اکبری سکہ پہنچانا۔ راجہ علی خان نے صدق دلی سے فرمان کی تعمیل کی ۔فوج لے کر برہان الملک کے ساتھ روانہ ہوا۔اور ادھر ابراہیم عادل شاہ بھی مدد کا بندوبست کر لیا۔اس نے اپنا لشکر سرحد پر بھیج دیا۔راجہ علی خان برہان الملک کو ساتھ لے کر گونڈوانہ کے راستے پہلے برار پر گیا۔اور ملک مذکور بے جنگ قبضہ میں آگیا۔احمد نگر سے ایک امیر فوج جرار لے کر آیا۔راجہ علی خان نے برہان الملک کو پیچھے ہٹایا،اور آپ فوج لے کر مقابلہ پر آگیا ۔لڑائی کا خاتمہ خان کی فتح پر ہوا ۔امراء ایک ایک کرکے برہان الملک کے حضور میں حاضر ہونے لگے۔آگے میدان صاف تھا۔یہاں سے برہان الملک کو احمد نگر کی طرف روانہ کیا۔اور خود اپنی فتح گاہ میں آکر فتح کا جشن منانے لگا۔نذر،نیاز ،ملازموں کے انعام واکرام پر ہزاروں روپے صرف کیے۔یہ معرکہ ۹۹۹ئ؁ میں ہوا۔ برہان الملک کی قسمت نے بڑھاپے میں یاوری کی،احمد نگر کا بادشاہ ہوا۔ مگر امراء کی سر شوری سے خاطر جمع نہ تھی ۔علاوہ برہان الملک خود بھی نیک نیت نہ تھا۔اس لئے جو کچھ کرتا ،ناکامی دیکھتا تھا۔ابراہیم عادل شاہ سے بگاڑ کر لیا۔فوج کشی کی۔اس میں شکست فاش کھائی،لاکھوں کی لوٹ اور ڈیڑھ سوہاتھی حریفوں کے مقابل کیے۔فوج قتل اور تباہ کروائی ۔اس سیخاص وعام کی نظر میں بے وفا اور بے وقار ہوگیا ۔لوگوں نے چاہا کہ پھر اسمعیل کو تخت پر بٹھائیں،اسے خبر ہو گئی اور اہل سازش کوسزائیں دیں ۔انہیں دنوں امین الدین اور شیخ فیضی اکبر کی طرف سے پیغام لے کر پہنچے ۔اس بے وفا نے دربار اکبری کے سارے سبق بھلا دیئے۔یہ بھی ناکام پھر آئے۔ اسد خان اور فرہادخان کی سپہ سالاری سے بندرنگ پر فوج بھیجی کہ پرتگالیوں کا زورتوڑے۔ وہ دونوں امیر وہاں گئے اور بزور شمشیر وتدبیر سے غنیم کو زیر کیا۔ سو پرتگالی اور دوسو دوغلے قتل ہوئے۔اور باقی جلا وطنی کے باد بان چڑھا رہے تھے کہ برہان الملک کوبڑھاپے میں جوانی کا شوق ہوا۔اور لوگوں کے ننگ و ناموس میں بدنیتی کی آگ لگانے لگا۔کسی سے سنا کہ فرہاد خان کی بی بی بڑی حسین ہے۔اسے محل میں بلایا اور اپنی بد نیتی کی خاک اس کے پاک دامن میں ڈالی۔اتنی بڑی بات اور بڑے آدمیوں کی بات۔چھپے کہاں۔جب فرہاد خان کو خبر ہوئی تو جل کر خاک ہو گیا ۔اور سب اہل فوج کے دل بیزار ہوگئے ۔فرہاد دشمن کے ساتھ جا کر شامل ہو گیا۔دشمن جو زیر ہو چکا تھا۔زبر ہو گیا۔ بڈھا برہان بوالہواسی کی دوائیں کھا کھا کرایسی پیچ در پیچ بیماریوں میں مبتلا ہوا کہ نہ کسی حکیم کی عقل کام کرتی تھی۔اور نہ ہی کوئی نسخہ کار گر ہوتا تھا۔جب مزاج کرسی اعتدال سے گر پڑا تو ابراہیم کو قید سے نکال کر تخت پر بٹھا دیا۔ امرا ء دلوں میں پھوٹے ہوئے تھے۔ انہوں نے اسمعیل کو باغی کرکے لڑا دیا۔ برہان الملک نے بمشکل بیماری سے اتنی اجازت لی کہ بمشکل سنگھاسن پر بیٹھ کرمیدان جنگ تک آیا۔ ناخلف بیٹا باپ کے مقابلے میں کامیاب کیا ہوتا،ملک تباہ ،نمک پروردہ لشکر تباہ،دولت برباد ۔غرض دونوں نقصان ایک ہی گھر پر پڑ رہے تھے۔ابراہیم عادل شاہ کا بھائی اس سے باغی ہو کر سرحد پر آیا۔انہوں نے اس کی مدد پر کمر باندھی،وہ قضائے الہیٰ سے مر گیا۔ ابراہیم عادل شاہ آتش غضب سے بھڑک اٹھا۔فوج لڑائی کو بھیجی،انہوں نے مقابلے میں اپنے امراء کو فوج دے کر بھیجا۔ یہاںبھی شکست نصیب ہوئی۔یہی حالات دیکھ کر اکبر نے مراد کو شاہ مراد بنا دیا۔ اور امراء کو ساتھ کر کے مالوہ وگجرات بھیج دیا۔ کہ جس وقت موقع پائے،اس طرف لشکر کے نشان لہرائے۔خلاصہ یہ کہ ۱۰۰۳ھ؁ میں برہان الملک مر گیا۔نور الدین ظہوری نے ساقی نامہ انہی کے نام پر لکھا ہے۔ ابراہیم برہان الملک ابراہیم برہان الملک کو باپ نے اپنے سامنے تخت پر بٹھا دیا تھا ۔اس نے اسمعیل بھائی کو اندھا کرکے قید خانہ میں بٹھا دیا ۔امراء اپنے اپنے گروہ باندھ کر باہم چھری کٹار ہونے لگے۔ابراہیم عیش وعشرت کی شراب سے نمرود ہوگیا۔یہ حال دیکھ کر ابراہیم عادل شاہ نے خیال کیا۔کہ اکبر بادشاہ مدت سے اس ملک پر نظر رکھتا ہے۔اور امراء اس کی سرحدوں پر فوجیں لیے پڑے ہیں۔شاہزادہ مراد کود مالوہ میں آن بیٹھا ہے،اب وہ احمد نگر کونہ چھوڑے گا۔اور ایسے بادشاہ جلیل القدر سے سرحد مل گئی،تو اپنے ملک کے لئے بھی خطرہ ہے۔ اس لئے یہ دیوار بیچ میں قائم رہے تو بہتر ہے۔اور یہ زیادہ تربہتر ہے کہ اس کی حفاظت بھی اپنے طور پر رہے۔غرض مصالح چند در چند مد نظر رکھے۔ اور امرائے باتدبیر کو فوجیں دے کر بھیجا۔کہ دولت نظام شاہی کا انتظام کردو۔یہاں سے ابراہیم فوج لے کر نکلا، امرائے ہمراہی جس حالت میں تھے ان سے فتح کی کیا امید ہو سکتی تھی۔ خلاصہ یہ کہ میدان جنگ میں مارا گیا۔اور چار مہینے کے اندر تخت پر بیٹھ کر خاک کے اندر چلا گیا۔اور بہادر نام ایک بیٹا شیر خوار چھوڑا۔ اس وقت دربار احمد نگر میں عجیب ہل چل مچ رہی تھی ۔(۱) چاند بی بی برہان الملک کی بہن نے برہان نظام شاہ کے طفل خرد سال کو بہادر شاہ کا خطاب دے کر تاج سر پر رکھا۔ وہ کہتی تھی کہ بہادر شاہ کے نام بادشاہی ہو۔ (۲) میاں منجھو وغیرہ امراء احمد شاہ نام ایک لڑکے کو لائے،اور تخت نشین کرکے بیٹھ گئے۔کہ نظام شاہی خاندان کا پھول ہے ۔بہادر شاہ کو قید کر دیا۔اخلاص خان حبشی نے ایک گمنام لڑکا نوجوان لا کر پیش کیا ۔کہ یہ نظام شاہی خاندان سے ہے۔موتی شاہ اس کا نام ہے۔ اور قومی فوج لے کر الگ ہو گیا۔ابہنگ خان حبشی ایک بڈھے فرتوت کو لے آئے۔ کہ یہ پیر کہن سال برہان شاہ اول کا بیٹا ہے۔ اور ۷۰ برس کی عمر رکھتا ہے۔اور یہ سب سے زیادہ سلطنت کے لئے زیبا ہے۔ ان فریقوں میں سے کبھی کوئی غالب ہوجاتا تھا،کبھی کوئی۔میا ں منجھو وغیرہ امراء جو قلعہ میں احمد شاہ کو لیے بیٹھے تھے،وہ محصور ہوگئے،اور انہوں نے گھبرا کر شہزادہ مراد کوعر ضی۔اور امرائے اکبری کو خطوط لکھے کہ آپ تشریف لائے اور ملک پر قبضہ فرمائیں۔ہم اطاعت کو حاضر ہیں ۔لشکر اکبر شاہی کے سپہ سالار عبد الرحیم خان خا نان تھے۔ شاہزادہ مراد کو لے کر احمد نگر کے گرد آن پڑے۔ چاند بی بی برہان الملک کی بہن تھی ،نہایت عفیفہ،پاک دامن ،دانش مند، باتدبیر،عالی ہمت، دریا دل اسی واسطے نادرۃ الزمانی اس کا خطاب تھا۔ علی عادل شاہ بادشاہ بیجا پور سے منسوب تھی۔ علی عادل شاہ، ابراہیم عادل شاہ کا بڑا بھائی تھا۔ وہ مر گیا تو ابراہیم عادل شاہ بادشاہ ہوا۔ بیگم مذکور نے جب دیکھا کہ خاندان بر باد ہوا اور خاندانی سلطنت گھر سے جاتی رہی۔ تو امراء کو جمع کیا۔سب کوفہمائش کی۔آپس کے نفاق کا انجام دکھایا،اور جب لشکر اکبری آیا تو بڑی ہمت اور حوصلے سے اس کا مقابلہ کیا۔ابراہیم عادل شاہ کو کہ ازروئے قرابت اس کا حقیقی دیور تھا۔ایک مراسلت روانہ کی۔اس نے سہیل خان خواجہ سرا کو کہ نہایت بہادر اور باتدبیر امیر تھا ۔ ۲۵ ہزار فوج دے کر روانہ کیا۔ اور فرمناروایان دکن نے بھی فوجیں روانہ کرنے کا بندوبست کیا۔کہ سب کو اپنے اپنے انجام نظر آنے لگے تھے ۔بیگم مذکور نے قلعہ کی حفاظت میں وہ ہمت عالی ظاہر کی کہ امرائے جنگ آزمودہ کہ جو رستمی دعوے رکھتے تھے ۔سب کی گردنیں خم ہو گئیں۔محاسن سلطانی کے اوصاف سے آراستہ دیکھ کر خاص وعام نے سلطان کا تاج اس کے سر پر رکھا ۔وہ چاند بی بی سلطان مشہور ہو گئی۔اور جب اکبری فوج نے احمد نگر فتح کیا تو مرگئی۔تعجب یہ کہ کسی کو تحقیق نہ ہوا کہ کس طرح مر گئی۔ پیر روشنائی ملا صاحب۹۹۴ھ؁ کے واقعات میں لکھتے ہیں،آج سے پچیس برس پہلے ایک ہندوستانی سپاہی پیشہ آدمی نے اپنے لئے پیر روشنائی خطاب تجویز کیا۔اور افغانوں میں جا کر بہت سے احمقوں کو مرید کرلیا۔اپنی بے دینی اور بد مذہبی کورونق دی۔اور ایک کتاب تصنیف کرکے اس کانام خیر البیان رکھا۔اس میں اپنے عقائد فاسدہ کو ترتیب دیا ۔وہ تو چند روز میں سر کے بل اپنے ٹھکانے پہنچا۔ایک چودہ سالہ لڑکا جلالہ نام چھوڑ گیا۔ ۹۸۹ ئ؁ میں جب کہ اکبر کابل سے آتا تھا۔جلالہ ملازمت میں حاضر ہو کر مرحمت شاہنشاہی سے مقرر ہوا۔ شقاوت ذاتیاور مورثی لڑکے کی پیدائش میں تھی۔اور خود بھی پیدا کی تھی۔ اس لئے کچھ عرصہ بعد بھاگ گیا۔انہی افغانوں میں جا کر پھر رہزنی شروع کر دی۔اور جم غفیر کو اپنے ساتھ متفق کر کے ہندوستان اور کابل کا راستہ بند کر دیا۔ ع اگر بیضہ زاغ ظلمت سرشت نہی زیر طاؤس باغ بہشت بہنگام آن بیضہ پروردنش زانجیر جنت دہی از زنش دہی آبشاز چشمہ ء سلسبیل دران بیضہ گردم ،مد جبرئیل شود عاقبت بیضہ ء زاغ زاغ کشد رنج بیہودہ طاؤس باغ (ملا صاحب کہتے ہیں) فرقہ روشنائی (جنگل کی کھائی) کہ حقیقت میں عین تاریکی تھی۔ اور ہم اپنی کتاب میں انہیں فرقہ تاریکی ہی لکھیں گے۔اس کیتدارک کے لئے بادشاہ نے مان کابل کو سنگھ کی جاگیر کر کے صوبہ دار کابل کیا ۔تاکہ ان سر شوروں کو تنبیہ کرے۔اسمعیل قلی خان،حسین قلی خان،خان جہان کے بھائی اور رائے سنگھ درباری کو بلوچوں میں بھیجا۔اور سعید خان گکھر اور بیر بر اور شیخ فیضی اور فتح اللہ شربتی کو اور امراء کے ساتھ زین خان کی کمک کے لئے بھیجا۔کہ لشکر لے کر گیا ہوا تھا ۔پھر حکیم ابوالفتح اور جماعت امراء کو روانہ کیا۔اس لڑائی کا انجام لشکر بادشاہی کی تباہی پر ہوا۔ (دیکھو بیر بر کا حال)۔بادشاہ کو بڑا رنج ہوا ۔ٹوڈرمل کوسپاہ کثیر کے ساتھ روانہ کیا۔راجہ نے بڑ یہوشیاری سے اور تدبیر سے اس مہم کا سر انجام کیا۔بندوبست کے ساتھ پہاڑوں میں داخل ہوا۔جا بجا قلعے بنواتا گیا۔اور ملک مذکور کو تاخت وتاراج کرتا ہوا اس طرح آگے بڑھا کہ غنیموں کو کھیتی کے سنبھالنے کی بھی فرصت نہ دی ۔اور افغان تنگ ہو کر پریشان ہو گئے۔ (۱۵۸۵ئ) ۹۹۴ھجری) گرمی کے موسم میں راجہ مان سنگھ بھی فوج لے کر چڑھا۔درہ خیبر کے نواح میں سخت لڑائی ہوئی۔فرقہ مذکورہ کے ہزاروں آدمی مارے گئے ۔بہت سے قید ہوئے۔اسمعیل قلی خان جہلم سے فوج لے کر پہنچا،جلالہ بنگش کی طرف بھاگ گیا۔عبد المطلب خان سید بارہا اس کے تعاقب میں گیا ۔وہاں جلالہ نے پھر فوج جمع کرلی ۔اور ایک خون ریز لڑائی ہوئی اور جلالہ پھر بھاگ گیا۔چند روز پہاڑوں میں مارا مارا پھرا ۔بدخشاں سے پھر عبد اللہ خان ازبک کے پاس پہنچا۔ مگر یہ کب ممکن تھا کہ وہ اس کی مدد کرے ۔اور اتنے دوردراز فاصلے سے اکبر جیسے بادشاہ کے خلاف فوج بھیجے ۔جلالہ توران سے ۱۰۰۱ئ؁ میں ناکام پھرا۔پھر آکر ملک میں رہزنی کے عمل سے خلل انداز ہوا۔کابل وہندوستان کاراستہ بند کردیا ۔بادشاہ نے آصف خان (مرزا جعفر قزوینی) کو سپہ سالار کرکے فوج روانہ کی۔ وہ بھاگ گیا۔ اس کا بھائی واجد علی اور اہل وعیال وخویش واقارب کہ تقریبا ۴۰۰ آدمی گرفتا رہوئے۔تقریبا بیس برس تک اسی کا فساد جاری رہا۔اور اس عرصہ میں امرائے بادشاہی نے اس کے فرقہ کو کہیں دم نہ لینے دیا۔زراعت کی بھی مہلت نہ تھی۔کھانے پینے کی قلت اور ضروریات کے نہ ملنے سے افغان تنگ ہو گئے۔اور جلالہ بھی ڈانو ڈول پھرتا رہا۔ باوجود اس کے ۱۶۰۰ئ؁ میں غزنی پر قبضہ کرلیا۔ اور یہی جلالہ کا آخری جاہ وجلال تھا۔ مگر چار دن کی چاندنی رہی تھی کہ پھر اندھیرا ہو گیا۔ اور خود بھاگتا ہوا گرفتار ہو کر مارا گیا۔ فرقہ روشنائی کے لوگ مدت تک اس کے نام کے چراغ جلاتے رہے۔ اب بھی کوہستان مذکور میں جو وہابی ہیں۔انہیں سنت وجماعت ملا ناراض ہو کر فرقہ روشنائی کا بقیہ کہتے ہیں۔ تروی بیگ خان ترکستانی اس امیر کا حال جا بجا حالات دربار مسلسل میں ہے۔اس مقام پر جو کچھ ماثر الامرا میں لکھا ہے۔اس کا ترجمہ لکھتا ہوں۔ وہ ہمایوں بادشاہ کی خدمت میں امارت کرتا تھا۔ملک گجرات کی فتح کے بعد چانپا نیر کا علاقہ اسے سپرد ہوا۔جب مرزا عسکری کو گجرات کا ملک ملا اور سلطان بہادر نیاسے شکست دی تو وہ بدنیت بادشاہی کے لالچ میںآگرہ کی طرف آیا۔سلطان بہادر دریائے مہندائی اتر کرچانپا نیر پر آیا۔ باوجودیکہ قلعہ ایسا مستحکم اور غلہ کا ذخیرہ بھرا ہوا۔ سامان جنگ کافی ووافی۔تردی بیگ ہمت کے سر پر خاک ڈال کر بھاگا،اور ہمایوں کے پاس پہنچا۔ عالم خدمت گزاری میں جوہر اخلاص سے بہتر کوئی متاع نہیں۔وہ باوجود ملازمت قدیمی اور اعتبار بادشاہی کے اس دولت سے تہی دست تھا۔ مصیبت کے وقت جس بات کوحقیقت پرست اور وفادار لوگ باعث ننگ وعار سمجھتے ہیں۔ بلکہ عام آدمی بھی آئین نمک خواری میں اپنے دامن پر داغ سمجھتے ہیں۔ وہ بے شرمی اور بے حیائی سے گورارا کرتا تھا۔ ہمایوں ریگستان سندھ سے جودھ پور کی طرف گیا تھا۔ اور راستہ میں خاص اس کی سواری کا گھوڑا نہ رہا تھا۔اس سے مانگا اور اس نے نہ دیا۔ آخر ندیم کوکہ نے اپنی بڑھیا ماں کو گھوڑے سے اتار کر ایک بار برداری کے اونٹ پر بٹھا دیا۔اور وہ گھوڑا بادشاہ کو دیا۔ پھر امر کوٹ میں آکر جب بادشاہ کی ٹوٹی پھوٹی فوج کی بد حالی شدت سے گزر گئی تو جو مال بادشاہ کی بدولت جمع کیا تھا۔ باوجودیکہ بادشاہ نے مانگا تھا اس نے نہ دیا، آخر ہمایوں نے رائے پرشاد وہاں کے حاکم کی مدد لے کر اس سے اور بعض امیروں سے دبا کر لیا۔ مگر اس قدر کہ اہل ضرورت کی کاروائی کو کافی ہوا۔ جب ایران کو چلنے لگے تو یہ اپنے رفقا اور ملازموں سمیت الگ ہو گیا۔اورمرزا عسکری سے مل گیا۔مرزا نے ایک ایک کو اپنے رفیقوں کے حوالہ کیا۔اور مال کے لالچ سے سب کو قندھار لے گیا۔بہتوں کو شکنجہ میں ڈال کر مارا،بہتوں کو قتل کیا۔ اور تردی بیگ خان سے مبالغ خطیر وصول کیے۔ جب ہمایوں ایران سے پھرا تو یہ ندامت اور شرم ساری کی چادر میں منہ لپیٹ کر حاضر ہوئے۔پھر اسی رتبہ امارت پر معزز ہوئے۔ ۹۵۵ھجری میں انہیں الخ بیگ ولد مرزا سلطان کے مرنے سے انہیں زمین دار کا حاکم کر دیا۔ہندوستان کی مہم میں اچھی خدمتیں کیں اور میوات کی جاگیر پائی۔ ۹۶۳؁ھجری میں جب ہمایوں نے عالم فنا سے انتقال کیا،تو یہ امیر الامرائی کے سودے دل میں کر رہے تھے۔ انہوں نے دربار کاانتظام کرکے اکبر کا خطبہ پڑھا۔اور لوازم واسباب سلطنت اکبر کے پاس روانہ کیے کہ پنجاب میں تھا۔اس خدمت کے صلہ میں دربار سے پنج ہزاری منصب عطا ہوا۔اس نے امراء کو جو دہلی میں موجود تھے۔ رفاقت میں لیا اور ملک کا بندوبست کرنے لگا۔ حاجی خان عدلی کا رشید خادم نار نول میں حاکم تھا۔ وہ ادھر ادھر ہاتھ مارتا رہا تھا۔تردی بیگ اس پر فوج لے کر پہنچا اور شکست دے کر بھگا دیا ،بلکہ میوات تک مارتا چلا گیا۔اور اکثر سرکشوں کی گردنیں رگڑ کر پھر دہلی میں آیا۔ اسی عرصہ میںہیمو بقال آیا۔اس کا حال الگ لکھا گیا ہے۔ دیکھو اکبر وبیرم خان کے حالات ۱؎ تورہ چنگیزی ترکوں کا تورہ (قانون شاہی تھا) کہ جس عورت پر بادشاہ خواہش سے نظر کرے وہ ،شوہر پر حرام ہو جاتی تھی۔اس قومی اور ملکی رسم کو اسلام بھی نہ توڑ سکا۔چنانچہ ابوسعید مرزا اور امیر چوپان کا معاملہ تاریخوں میں مذکور ہے۔سلاطین ترک میں بادشاہ سے عورتیں پردہ نہیں کرتی تھیں۔ اور حق یہ ہے کہ بادشاہ بھی اکثر نیک ہی ہوتے تھے۔اور جہاں کچھ تعلق واقع ہوتا تھا۔تو فحش کے طور پر نہ ہوتا تھا۔بلکہ نکاح کا لباس پہن کر ہوتا تھا۔اس کے خاوند کو جاگیر منصب،زرومال دے کر راضی کرتے تھے۔خدا کی خدائی کھلی ہے۔وہ بھی کہیں اپنا گھر بسا لیتا تھا۔آج سے پندرہ ،سولہ برس پہلے تک میں نے خود دیکھا ہے کہ تورہ چنگیزی کا اثر باقی چلا آتا تھا۔بخارا کے بادشاہان موجودہ نے پیری کی برکت سے میری پائی تھی۔لوگ ان کا بڑا ادب کرتے تھے،جس طرح ہندوستان میںجہان پناہ اور جناب عالی سے بادشاہ مراد رکھتے ہیں۔وہاں حضرت اور امیر المومنین کہا کرتے تھے۔اور اس سے بادشاہ مراد لیتے تھے۔وہ بھی جس عورت پر خواہش ظاہر کرتے تھے۔اس کا وارث اسے آراستہ کر کے حاضر کر دیتا تھا۔پسند آتی تو حرم سرا میں رہتی،ورنہ رخصت ہو جاتی۔اور جب تک زندہ رہتی ،ہم چشموں میں فخر کرتی کہ مجھے یہ برکت حاصل ہوئی ہے۔ روس کی عمل داری نے رنگ بدل دیا۔اب کچھ اور ہی عالم ہے ۔۔۔ ؎ کوئی عاشق نظر نہیں آتا ٹوپی والوں نے قتل عام کیا۔ میرے دوستو خوب سمجھ لو کہ جس طرح انسان کی طبیعت کے لئے بعض چیزیںموافق اور بعض ناموافق ہیںکہ کبھی بیمار اور کبھی ہلاک کر دیتی ہیں۔اس طرح سلطنت کا بھی مزاج ہے۔اور بہت نازک مزاج ہے۔ایسی باتیں اس کے لئے موافق نہیں۔ سلطان مرحوم عبد العزیز خاں مرحوم کا انجام سب کو معلوم ہے۔ اس کا کیا سبب تھا؟۔ سبب ظاہر ہے کہ دیکھ لو کہ مرنے کے بعد شبستان دولت سے ایک ہزار کشتی بیگمات اور ابال حرم کی بھری ہوئی نکل کر گئی تھی۔ اگر دریافتی بردانشت بوس اگر غافل شد ہے افسوس ،افسوس چتوڑ کی فتح قلعہ چتوڑ،رانا اودے پور کے ماتحت تھا۔ ۹۷۵ھجری میںاکبر خود قلعہ مذکور پر لشکر لے کر گیا۔اور قلعہ کا محاصرہ کیا۔ یہ قلعہ اگر چہ پہلے بھی دودفعہ سلاطین اسلام کے قبضہ میں آچکا تھا۔مگر میواڑ کے راجپوت اسے اپنے راج کامبارک اور مقدس مقام سمجھتے تھے۔ ۱؎ دیکھو صفحہ ۱۶۷۔ اور غیر کے قبضہ میں نہ دیکھتے تھے۔وہ آبادیوں سے الگ ایک پہاڑی پر واقع تھا۔ اور وہ ۱؎ زمین سے ایک کوس اونچی تھی۔ جن دنوں ابراہیم مرزا وغیرہ نے مالوہ میں خاک اڑائی ہوئی تھی۔جن دنوں ابراہیم مرزا وغیرہ نے بغاوت کی خاک اڑائی ہوئی تھی۔اکبر نے اس سمت توسن ہمت کی باگ اٹھائی ہوئی تھی۔دھول پورہ کی منزل میں لشکر پڑا تھا۔بادشاہ نے کہا کہ تمام راجہ ہندوستان کی ملازمت میں آئے۔ایک رانائے میواڑ ہے کہ نہیں آتا۔ پہلے اس کاا ستیصال کرنا چاہیئے۔مالوہ کو پھر دیکھا جائے گا۔ رانا اودے سنگھ کا بیٹا سکٹ سنگھ نام باپ سے خفا ہو کر آیا تھا۔اور رکاب میں حاضر تھا۔ اس سے کہا کہ سکٹ دیکھیں تم اس مہم میں کیسی خدمتیں بجا لاتے ہو؟۔اس نے زبان سے بہت کچھ اقرار کیے۔مگر فرصت پاکر لشکرسے بھاگا اور باپ کو جا کر اس حال کی خبر دی کہ قلعہ تین کوس لمبا اور آدھ کوس چوڑا تھا۔قدرتی چشمے اس کے اندر جاری تھے۔اور میواڑ کا علاقہ تھا جو انجام کوادیپور ہو گیا۔ سامان کھانے پینے اور لڑائی کا اس قدر تھا کہ مدتوں میں بھی ختم نہ ہوتا۔بادشاہی فوجوں نے دائرہ کی طرح قلعہ گھیر لیا۔ محاصرہ تنگ تھا۔ آمد ورفت بند کر دی گئی تھی۔بہادر ہر روز حملے کرتے تھے۔ زخمی ہوتے تھے۔ مارے جاتے تھے۔فائدہ کچھ نہ ہوتا تھا۔ صلاح ہوئی کہ سرنگیں لگاؤ اور برج اڑا کر قلعہ میں گھس جاؤ۔طرفین تقسیم ہوئیں اورتجربہ کار اور عرق ریز امیروں کے اہتمام میں کام جاری ہوا۔سنگتراش ،معمار، بیلدار مزدور ہزاروں لگے ہوئے تھے۔اور چوہوں کی طرح اندر ہی اندر زمین کے نیچے چلے جاتے تھے۔سونا چاندی خاک کی طرح اڑتا تھا۔قلعہ سے توپوں کا آنا دشوار تھا۔ وہیں توپیں تیار ہوئیں۔۲۰ سیر کا گولہ کھاتی تھیں۔یہ باتیں قلعہ والوں کے وہم وگمان میں بھی نہ تھیں۔دیکھ کر گھبرائے اور پیغام بھیجا کہ خراج ہر سالہ حضور میں ادا کریں گے۔خطا معاف ہو۔ ارکان دولت کی صلاح ہوئی۔مگر اکبر نے کہا کہ رانا خود آکر حاضر ہو۔ اکبر نے پہلی سرنگ خود اپنے اہتمام میں رکھی تھی۔ دوسری راجہ ٹوڈر مل اور قاسم خان میر بحر کے انتظام میں تھیں۔وغیرہ وغیرہ۔ قلعہ والوں نے بھی دیکھ لیا کہ وقت یہی ہے کہ اگر سرنگیں تمام ہو گئیں تو کام تمام ہے۔انہوں نے بھی فصیلوں پر آکر گولیوں کی بوچھاڑ کر دی۔اور توپچیوں نے برجوں سے آگ برسانا شروع کر دی۔ادہر امراء تو درکنار خود بادشاہ ایک ایک مورچہ اور دمدمہ پر دوڑے پھرتے تھے۔ ساباط ایسی چوڑی تھی۔ ۱؎ ماثر الامرا میں لکھا ہے کہ کوہ مذکور ایک ایسے میدان سطح میں واقع ہوا ہے کہ جس کے گرد بلندی وپستی کو راہ نہیں۔کوہ مذکور کا دور نیچے کو چھ کوس ہے۔جس بلندی پر دیوار قلعہ ہے۔وہ زمین سے تین کوس بلندہے۔ اور علاوہ تالابوں اور سنگیں حوضوں کے کہ برسات سے بھرتے ہیں،اوپر ایک چشمہ بھی جاری ہے۔ ساباط ۲؎ کی صورت یہ ہے کہ ایک ایسے موقع کا مقام دیکھتے ہیں کہ جہاں گولہ نہیں پہنچ سکتا۔وہاں سے کچھ زمین کھودتے ہیں،اور دونوں طرف تختوں اور لکڑیوں کی دیواریں اٹھاتے ہوئے قلعہ کی طرف بڑھاتے چلے جاتے ہیں۔اس کا رخ ایسا دیکھ لیتے ہیں کہ قلعہ سے گولی آئے۔تو ان دیواروں پر منہ توڑ صدمہ نہ پہنچائے۔آگے بڑھتے جاتے ہیں اور اوپر سے چھت پاٹتے جاتے ہیں۔اور اس چھتہ کو دیوار قلعہ تک پہنچا دیتے ہیں۔وہاں سے کسی برج کی بنیاد خالی کر کے بارود سے اڑا دیتے ہیں۔۔۔ کہ دسہزار سوار بفراغت اندر ہی چلے جاتے تھے۔بلند ایسی کہ فیل سوار نیزہ دار اوٹ میں چلا جائے،تو قلعہ والوں کو خبر نہ ہوتی تھی۔اور جان بازوں کا یہ عالم تھا کہ بھینسوں اور بیلوں کی کھالوں کی اوٹ بنا لی تھی۔ڈھالیں منہ پر لیتے تھے اور کام کیے جاتے تھے۔مرتے تھے، گرتے تھے، آدمیوں کے لاشے اینٹ،پتھروں کی جگہ چنتے چلے جاتے تھے۔مگر آگے بڑھتے چلے جاتے تھے۔قلعے والے آگ برسا رہے تھے۔ہزار گیارہ سوآدمی ہر روز توپوں کا لقمہ ہوتے تھے۔حکم تھا کہ جو ایک ٹوکری مٹی کی ڈالے۔دامن بھر کر روپیہ دے دو۔ سونا چاندی خاک کی طرح اڑتا تھا۔ ہر چند کہ اہل قلعہ کی آتش بازی نے دلاور حملہ آوروں کے نیست ونابود کرنے میں کسر نہ رکھی تھی۔مگر حملہ آوروں کا بھی وہ تانتا بندھا تھا کہ جس کے دونوں سرے ازل وابد سے ملے ہوئے تھے۔لڑائی کا میدان کیا تھا۔ میدان رست وخیز تھا۔ جہاں اگر سوگرتے تھے تو ہزار اٹھتے تھے۔توپوں کے ڈھلنے نے رہی سہی امیدوں کو بھی خاک میں ملا دیا تھا۔اور ملیا میٹ کر دیا تھا۔ اسی حال میں سرنگیں بھی اور مورچے اور دمدے بھی برابر بڑھتے چلے جاتے کہ دو سرنگیں پاس پاس قلعہ کی دیوار تک جا پہنچیں۔ برج اور دیوار کی بنیاد خالی کرکے ایک میں ۱۲۰ من اور دوسرے میں ۲۰۰ من باروت بھری،دو فتیلوں کو آگ دکھائی،بہادروں کا انتخاب کرکے تیار کھڑا کیا۔ کہ برج کے اڑتے ہی حملہ کریں اور قلعہ میں جا پڑیں۔ پہلے ایک سرنگ اڑی اور سامنے کا برج اڑا،قلعہ کے محافظ جو اس پر کھڑے تھے،سب اڑ گئے،اگرچہ زمین ہل گئی اور ہوا اندھیر ہو گئی،اور گڑ گڑاہٹ کے صدموں سے دل سینوں میں ہل گئے ۔مگر بہادر جو کمر بستہ گھات میں کھڑے تھے۔بے تحاشا دوڑ پڑے اور گڑ گڑاہٹ میں اور پیش قدمی کے ولو لو ں میں سردار اور سپاہی کوئی نہ سمجھا۔کہ ابھی دوسری سرنگ باقی ہے۔اس وقت غوغائے قیامت کا نمونہ آشکار ہوا۔ کہ شور محشر بھی گرد ہو گیا۔ہندو ،مسلمان یکساں دہائی دیتے تھے۔آدمی پتھر، چیلوں اور کوؤں کی طرح ہوا میں اڑتے نظر آتے تھے۔ تین۔ چار کوس پر جا گرے۔ہاتھ مشرق میں گرا ،پاؤں مغرب میں۔پچاس پچاس کوس سے زیادہ اس صدمہ کا اثر پہنچا۔پانسو نامی اور نام ور جوان جانوں سے گئے۔کہ بادشاہ شناس بہادر تھے۔اوروں کا کیا ٹھکانہ۔ہندو اور مسلمان سو،سو،اور دو دو سو من پتھروں کے نیچے دب کر رہ گئے۔ اول دونوں برجوں کو سامنے رکھ کر ایک سرنگ کھودنی شروع کی تھی۔ تھوڑی دور جا کرآگے اس کی دو شاخیں کیں۔ایک ایک کو ایک ایک بر ج کی طرف لے گئے۔ اس میں کام کی اور باروت کی کفایت سمجھتے تھے۔ اور یہ بھی خیال تھا کہ ایک جگہ سے دونوں کو آگ پہنچ جائے گی۔اکبر نے جب ہی کہا تھا کہ ایسا نہ ہو کہ ایک برج پہلے گرے،دوسرے میں دیر لگے۔ اس وقت اہل تدبیر نے زبانی باتوں سے اپنی تجویز کی ایسی خوش نما تصویر دکھائی تھی کہ وہی مصلحت اچھی معلوم ہوئی اور انجام وہ ہوا کہ جو نہ ہونا چاہیئے تھا۔ بہر صورت یہ بڑا وار تھا کہ خالی گیا۔ اس سے غنیم کا دل بڑھ گیا اور مقابلہ اور دفعیہ پربڑی ہمت سے کمر بستہ ہو گئے۔بہادر بھی ہمت نہ ہارتے تھے۔ بلکہ حملہ ہائے مردانہ وار کیے جاتے تھے اور مرتے رہتے تھے۔ساباط پر اور دمدموں پر کوٹھے ڈال لیے تھے۔ان میں بیٹھے تھے اور خاطر جمع سے نشانہ مارتے تھے۔ ایک دن بادشاہ کسی دمدمہ پر دیوار کی آڑ میں کھڑے گولیاں مار رہے تھے کہ جلال خان قور چی(دل لگی کا مصاحب) پاس کھڑا تھا۔وہ بھی دیوار کی سوراخ سے منہ لگائے قلعہ کی طرف دیکھ رہا تھا۔فصیل پر سے کسی نے ایسا تاک کر نشانہ لگایا کہ اس کا سر تو بچ گیا۔ مگر کان اڑ گیا۔اور معلوم ہوا کہ اس مورچہ سے ہمیشہ ہی ایسی گولی آتی ہے۔ کوئی بڑا گل چلا سپاہی یہاں ہے۔بادشاہ نے کہا کہ جلال خان اگر یہ نظر آجائے تو ابھی اس سے تیرا بدلہ لوں مگر کیا کروں کم بخت نظر نہیں آتا ہے۔اس بندوق کی نال سوراخ فصیل سے نکلی ہوئی تھی،اکبر نے اسی پر تاک کر گولی ماری،اور کہا کہ بندوق کی پھڑک سے معلوم ہوتا ہے کہ نشانہ کار گر ہوا ہے۔دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ اسمعیل اس مورچہ کا افسر تھا۔اور حقیقت میں بڑا نشانہ باز تھا۔ کہ مارا گیا۔ ایک دن اطراف وجوانب سے ایسے گولے برسائے کہ دیوار قلعہ میں شگاف ڈال دیا۔شام سے توپ وتفنگ کی آگ بر سانی شروع کر دی۔ آدھی رات کو دھاوا ہوا۔ اہل قلعہ نے جب یہ صورت دیکھی تو سوتے جاگتے،اٹھ اٹھ کر دوڑے، بوریاں تھیلے ،ٹوکرے مٹی سے بھر بھر کر ڈالنے شروع کر دیے۔مرتے تھے، گرتے تھے، اور امڈتے چلی آتے تھے۔کہ دیواریں اٹھا کر رستا بند کر دیں، لکڑیاں ،روئی کے ڈھیر،کپڑوں کی گٹھڑیاں لالا کر ڈالتے اور ان پر تیل بہاتے تھے۔کہ جب حملہ ہو تو انہیں آگ دکھا کر شعلوں کی دیوار بلند کر دیں۔ محاصرہ چھ مہینے جاری رہا۔ایک دن بادشاہ دمدمے پر کھڑے بندوق لگا رہے تھے ۔سنگرام نام بندوق ہاتھ میں تھی کہ ایک شخص سبز چلتہ پہنے قلعہ کے برج پر نظر آیا۔سرداروں کے نشان اس کے آس پاس نظر آتے تھے۔بادشاہ نے اسی کونشانہ میں باندھ کر بندوق ماری،دور سے معلوم نہ ہوا، مگر راجہ بھگوان داس راجہ مان سنگھ کا باپ پاس کھڑا تھا۔اس سے بادشاہ نے کہا کہ جب بندوق نشانہ پر لگتی ہے،تو ہاتھ کو ایک قسم کی لپک دیتی ہے۔ اور دل کو مزہ آتا ہے۔اس وقت مجھے وہی کیفیت معلوم ہوئی ہے۔ ضرور اسی چلتہ پوش پرنشانہ لگا ہے۔ خان جہاں حسین قلی خان نے عرض کیا کہ خانہ زاد ہر روز اس شخص کو دیکھتا ہے۔ کہ دن بھی میں کئی کئی دفعہ ادہر آتا ہے۔کل نہ آیا تو سمجھیں گے مارا گیا۔ چند قدم چلے تھے کہ جو جیتار قلی دیوانہ خبر لایا کہ برج مذکور خالی نظر آتا ہے۔ سب وہاں سے چلے گئے۔اتنے میں قلعہ کے محلوں سے آگ کے شعلے اٹھے۔راجہ بھگوان داس نے عرض کی۔فتح مبارک، وہ شخص خود جمیل سنگھ سردار قلعہ تھا جو مارا گیا۔اور رانیوں نے جوہر کیا۔یہ آگ کے شعلے وہی ہیں،راج پوتوں کی رسم عام ہے کہ جب مہم کا خاتمہ قریب دیکھتے ہیں تو عود اور صندل کا ڈھیر اور بہت سی لکڑیوں کا انبار اور گھی تیار رکھتے ہیں۔اہل وعیال پر اپنے معتمد آدمی مقرر کر دیتے ہیں کہ جب شکست کا یقین ہو جائے اور مرد مارے جائیں تو عورتوں کو بیچ میں ڈال کر آگ لگا دیتے ہیں۔ اس خود کشی کو جوہر کہتے ہیں۔خلاصہ یہ کہ چار مہینے سات دن کے محاصرہ میں قلعہ فتح ہو گیا۔تاریخ ہوئی۔ع دل گفت کہ بکشادبزودہی چتور ٹاڈصاحب کہتے ہیں کہ اکبر کی چھاونی کی نشانیاں ابھی تک وہاں موجود ہیں۔ پنڈولی سے بسی تک کہ شاہراہ ہے ، ۱۰ میل تک لشکر پڑا تھا۔کئی سنگ مرمر کے مینارے ہیں کہ ابھی تک کھڑے ہیں۔اور واقعات مذکورہ کی گواہی دیتے ہیں۔ایک ان میں سے اکبر کا دیوا کہلاتا ہے۔ اب تک جیسا تھا ،ویسا ہی کھڑا ہے۔ ۳۰ فٹ بلند ہے، بارہ فٹ مربع قاعدہ کی چوٹی کی سطح چار فٹ مربع،سر سے پاؤں تک سیڑھیاں ہیں۔ایک بڑا ساحوض ہے۔ جس میں آگ بھڑکتی رہتی ہے۔کہ رات کو لوگ راستہ بہ بھولیں۔اکبر ملک ملک کی باتوں اور تاریخی یادگاروں کا مجموعہ تھا۔اس کا دربار ہر ولایت کے معتبر اشخاص کا مجمع تھا۔ یہ سبق اہل عرب سے لیا ہوگا۔ جیمل اور فتانے اپنے ملک کے بچانے میں جو نام دکھائے۔ان کے گیت اور کبت اب تک لوگوں کی زبان پر ہیں۔ جب تک کہ کوئی راجپوت کی بڑھیا یا ان کے گھر کا بچہ زندہ ہے۔ تب تک قائم رہیں گے۔ٹاڈ صاحب کہتے ہیں کہ اکبر نے دوبڑے ہاتھی پتھر کے ترشوائے ان پر جیمل اور فتا کی مورتیں سوار کیں۔یہ ہاتھی قلعہ آگرہ کے دروازے پر سونڈیں ملا کر محراب بنائے کھڑے تھے۔لوگ نیچے سے آتے جاتے تھے۔(۲) قلعہ چتوڑ میں ایک بڑا نقارہ تھا۔۸ یا دس فٹ اس کا قطر تھا۔کوسوں تک اس کی آواز پہنچتی تھی۔جب راجہ سوار ہوتا تھا یا قلعہ میں داخل ہوتا تھا اس وقت بجتا تھا کہ کوسوں تک اس کی خبر ہو جاتی تھی ۔دروازہ مذکورہ کو وہاں سے اٹھا کر اجمیر کے دروازے میں رکھ دیا۔بڑی مائی جس نے اپنے مبارک ہاتھوں سے باپا راول کی کمر میں تلوار باندھی تھی۔ اور اس کی دیا سے وہ قلعہ چتوڑ مارا تھا۔اس کے شوالہ کے کواڑ بھی اکبر آباد لے گیا۔ اور شمشیر مذکور بھی لے لی۔ آصف خاں نے چتوڑ سے ۵۰ میل چڑھ کر رام پور بھی فتح کیا تھا۔ اور قلعہ انڈل بھی ہاتھ آگیا۔ حسین قلی خان نے اودے پور مارا۔اس کے شمال ومغرب کی جانب میں کونبل میر ہے۔ وہ بھی بزور شمشیر لیا تھا ۔باوجود اس کے اودھے سنگھ اپنی جنگل جھاڑیوں کی امان میں نچنت پھرتا رہا۔اس کے بعد اس کا رانا پرتاب سنگھ جانشین ہوا۔ اس سے پھر کوہ کند اور کونبل میر لیا۔وہ باپ کی طرح نامراد اور بودانہ تھا۔اس نے ہمت واستقلال کو ہاتھ سے نہ دیا۔اودیپور کو دار السلطنت ٹھہرایا اور کئی علاقے جو ہاتھ سے نکل گئے تھے۔پھر چھڑالیے۔راجپوتوں میں یہی ایک خاندان ہے۔جس نے مسلمان بادشاہوں کو بیٹی نہیں دی۔ حاجی ابراہیم سر ہند کے رہنے والے تھے،مگر بڑے جھگڑالو ملا تھے۔مباحثوں میں حریف کا دم بند کر دیتے تھے۔اور مغالطے کے بادشاہ تھے۔ابھی یہ بات ابھی وہ بات،ابھی یہاں ابھی وہاں، اکبر نے چاہا کہ دستی مہر پر اللہ اکبر کھدوائے۔حاجی صاحب مخالفت پر کھڑے ہو گئے۔اور یہ روکنا کچھ دین داری کی رعایت سے نہ تھا۔ فقط تقریر کی زور آزمائی تھی۔ پھربادشاہ کی رغبت دیکھ کر سرخ وزعفرانی رنگ کے لباس کے جواز کا فتویٰ بھی دے دیا۔مگر بچ گئے۔میر سید محمد میر عادل نے عصا تو اٹھایا تھا،لفظ کم بخت ملعون پر خیر گزری،بھاگ گئے ،ورنہ وہ مار بیٹھے تھے۔ آخر ۹۹۵ ھ؁ میں احمد آباد گجرات کے صدر ہو کر گئے۔چند روز کے بعد دربار میں پہنچے کہ خوب رشوتیں کھائی ہیں۔مشائخ اور آئمہ سے ہزاروں روپیہ لیا ہے۔جس نے نہیں دیا۔ اس کی مدد معاش میں سے وضع کر لیا۔اور جوروؤں سے گھر بھر لیا۔انہیں بھی خبر لگ گئی چاہتے تھے کہ دکن کو بھاگ جائیں۔دربار میں خبر جا پہنچی۔ بادشاہی پیادوں نے جا لیا۔ پکڑے گئے۔حکیم عین الملک کے حوالے ہوئے۔پھر بھی رات کے دربار میں بلائے جاتے تھے ۔مگر اب یہاں دربار کا عالم اور ہو گیا تھا۔انہوں نے رنگ دیکھ کر ایک دقیانوسی کرم خوردہ رسالہ نکالا۔ شیخ محی الدین عربی کی عبارت کے حوالے سے اس میں ایک عبارت لکھی یا لکھوا دی کہ حضرت امام مہدی کی بہت سی بیویاں ہو ں گی۔اور وہ داڑھی منڈے ہوئے ہو ں گے۔اور کئی اتے پتے اور بھی ایسے لکھے کہ اکبر میں موجود تھے۔ اس سے یہ ثابت کرتے تھے کہ اکبر امام مہدی ہیں (نعوذ باللہ) یہ نسخہ بھی نہ چلا، اور بادشاہ نے رنتھبور کے قلعہ میں بھیج کر قید کر دیا۔ملا صاحب اکبر کی شکایتوں کے ضمن میں لکھتے ہیں کہ وہاں اوج رفعت نے خواری کے گڑھے میں گرا دیا۔اور مطلب اپنا نکالا (یعنی مار ڈالا۔) ابو الفضل لکھتے ہیں کہ حاجی نے پہرے والوں سے سازش کر کے کپڑے کے تھان کھول کر لٹکائے کہ کمند کی طرح اس پر سے اتر جائیں۔قضا نے دھکا دیا ،اوپر سے گر پڑے اور صبح کو مرے ہوئے ملے۔ حسین قلی خان خانجہان بیرم خان کا بھانجا،ولی بیگ ذوالقدر کا بیٹا تھا۔(تر کمانوں میں ایک نام ور قبیلہ تھا)۔ ولی بیگ نے بیرم خاں کے ساتھ ہمایوں کی انتہا تک اور اکبر کی ابتدا میں بڑی بڑی جانفشاں خدمتیں کیں۔مگر جب بیرم خان کی اکبر سے بگڑی تواس نے بیرم خان کاساتھ دیا۔آخر اس کا بہنوئی تھا۔اور بڑی گرم جوشی اور دلاوری سے کار نامے کیے۔دشمنوں نے اکبر کے منقوش خاطر کر دیا ۔کہ بیرم خان کو یہی فساد پر آمادہ کرتا ہے۔ جب قصبہ دکدار علاقہ جالندھر میدان جنگ ہوا تو چار دلاور میدان سے زخمی ا ٹھائے گئے۔ایک ان میں سے ولی بیگ تھا ۔اس کی قسمت برگشتہ تھی ۔دشمن ایسے دربار میں چھائے ہوئے تھے۔کہ پہلی جان فشانیوں پر کچھ خیال نہ کیا گیا۔اور سر کاٹا گیا۔اور امرائے مشرق کے پاس دورہ دیا گیا ،تاکہ سب کو عبرت ہو۔ جب ہیمو سے مقابلہ ہوا تو خان خانان کی فوج آگے آگے سینہ سپر تھی۔اور نوجوان حسین قلی خان نے بڑھ بڑھ کر تلواریں ماریں۔عداوت کیا بری بلا ہے؟۔ جب بیرم خاں کی اکبر سے ناچاقی ہوئی۔اور اہل فساد نے اکبر خان سے خانخان کے نام فرمان لکھوایا تو اس میں اس کی بے اعتدالیوں کی تفصیل لکھی۔کہ تم نے اپنے بہنوئی ولی بیگ کودرجہ عالی پرپہنچایا اور حسین قلی خان جس نے کبھی ایک مرغ کے پنجہ نہیں مارا۔اسے اور اپنے تمام متوسلوں کو عمدہ جاگیریں دیں۔ حسین قلی خان وہی نوجوان تھا کہ جب بیرم خان نے میوات سے طوغ وعلم سامان عمارات اکبر کے حسب طلب بھیجا تھا،تو اس کے ہاتھ بھیجا تھا۔کیونکہ وہ باوجود جوانی کے سلیم الطبع اور مزاج کا متحمل تھا۔خان خانان سمجھا کہ شاید نیاز مندی اور ضعف مالی کے سبب بگڑا ہوا کام بن جائے۔یہاں دشمنوں نے اسے قید کروادیا۔مگر اکبر کے اوصاف کی کیا تعریف ہو سکے؟۔کہ جب مہم خان خاناں کے لئے دلی سے پنجاب کوچلا تو (عبد المجید) آصف خان کو وہاں کا صوبہ کیا اور جہاں اور ہدایتیں کیں ۔وہاں یہ بھی کہا کہ اسے احتیاط سے رکھنا، کوئی صدمہ نہ پہنچنے پائے۔کیونکہ وہ بھی جانتا تھا کہ خان خاناں کے دشمنوں کا زور ہے۔اور اس کی اور اس کے متوسلوں کی جان کے دشمن ہیں۔ جب بیرم خاں کی خطا معاف ہوئی،تو سب کی معاف ہوئی۔حسین قلی خان حضور میںحاضر رہتا تھا۔ دانائی اور رسائی اس کی قابل تعریف ہے۔کہ سلطنت کے تخت کا پایہ پکڑے چپ چاپ چلا آتا تھا۔ماموں کے دشمنوں سے اپنی حالت کو بچائے رکھتا تھا ۔اور جو خدمت اسے ملتی تھی۔اسے بجا لاتا تھا۔تاکہ حریفوں کو خبر نہ ہو اور نظر عنایت زیادہ ہوتی جاتی تھی۔ ۹۷۰ ھجری میںمرزااشرف الدین حسین آگرہ سے باغی ہو کر بھاگے ۔اب حسین قلی نے مزاج دانی اور خدمت گزاری کی سفارش سے اتنا اعتبار پیدا کر لیا تھا کہ بادشاہ نے اسے خانی کا خطاب دیا۔ اس کے بھائی اسمعیل قلی خان کو اس کے ساتھ کیا۔ اور سمجھا دیا کہ مرزا کو تسلی واطمینان دینا۔نہ مانے تو استیصال کرنا، امرائے معتبر کو فوجیں دے کر کمک پر بھیجا۔اور اجمیر وناگور اس کی جاگیر کر دی۔اس نے مرزا کو مارتے مارتے اجمیر سے ناگور اور وہاں سے میرٹھ پہنچایا۔ اور ریل دھکیل کر ممالک محروسہ کے باہر پھینک دیا۔ ملک کا عمدہ بندوبست کیا اورجودھپور پر فوج کشی کی۔ ذرا خدا کی شان دیکھو کہ مالدیو وہاں کے راجہ نے ہمایوں کو خود بلایا تھا۔اور عین مصیبت اور تباہی کی حالت میں مروت کی آنکھوں میں خاک ڈالی تھی۔ اب وہ مرگیا۔ اس کا بیٹا چندر سین مسند نشین تھا۔ اب ملک مذکور حسین قلی خان کی تلوار سے فتح ہو کر خاص جودھپور پر قبضہ ہوا۔اور چند روز کے بعد سلطنت سے راج کا رشتہ ہو گیا۔ ۹۷۴ ھ؁ میں اکبر نے رانا کی مہم پر بھیجا۔وہ اودھیپور تک مارتا چلا گیا۔رانا بھاگ کر پہاڑوں میں گھس گیا۔بھاگا بھاگ پھرتا تھا،جم کر نہ لڑتا تھا۔ لشکر بادشاہی سر گرداں ہوتا تھا۔اس لئے بادشاہ نے لشکر واپس بلوالیا۔ چتوڑ کے محاصرے میں پھر آکر شامل ہوا۔اور جان نثاری کے قدموں سے آگے آگے دوڑتا پھرتا تھا۔ ۹۷۵ھ ؁ میںمرزا عزیز کے خاندان سے پنجاب کا ملک لے کر تمام اتکہ خیل کوملک پنجاب سے اور کمال گکھڑ کو اس کے علاقہ سے بلوا لیا۔اور ملک مذکور اس کے اور اس کے بھائی کے نام کر دیا۔ مگر رنتبھور کی مہم سامنے تھی۔ اس کا رکاب سے جدا کرنا مناسب نہ سمجھا۔ جب قلعہ مذکور فتح ہوا تو بادشاہ آگرہ میں آئے،وہ اور اس کا بھائی لاہور میں آیا۔اور بہت خوبی سے پنجاب کا انتظام کیا۔ ۹۸۰ھ؁ میں بادشاہ نے کسی بات پر خفا ہو کر راجہ جے چند والی نگر کوٹ(کانگڑہ) کو قید کیا۔بدیس چند اس کا بیٹا سمجھا کہ باپ میں مارا گیا۔ وہ کانگڑہ میں باغی ہو کر بگڑ بیٹھا۔بادشاہ کو غصہ آگیا۔ میشداس کو کبر ائی سے راجہ بیر بر بنا کر ملک مذکور ان کی جاگیر کر دیا۔مصلحت اس میں یہ رکھی کہ ہندوؤں کا مقدس مقام ہے۔برہمن کا نام درمیان رہے۔حسین قلی خان کو حکم ملا کہ کانگڑہ کو فتح کر کے راجہ بیر بر کو قبضہ دلوا دو۔اس نے امرائے پنجاب کو جمع کیا،اور لشکر لے کر روانہ ہوا۔جب دہیمڑی پر پہنچے تو چنو وہاں کے حاکم نے رستہ سے ہٹ کر وکیل بھیجے کہ میری راجہ سے قرابت ہے۔حاضر نہیں ہو سکتا۔لیکن راہداری ذمہ میرا ہے۔ خان ملک گیر نے ماموں کی تدبیر کا دودھ پیا تھا۔وکیلوں کو خلعت دے کر رخصت کیا۔ اورا پنا تھانہ بٹھا کر آگے بڑھا۔ کوٹلہ کے حاکم سے مقابلہ کیا،یہ قلعہ حقیقت میں اتم چند راجہ گلیر کا تھا۔ رام چند کے دادا نے دبا لیا تھا۔سپہ سالار نے جا کر اطراف قلعہ پر نظر ڈالی اور ادھر ادھر پہاڑوں پر توپیں چلا دیں۔ دن بھر گولے مارے۔شام کو ڈیرے پر آیا۔رات کو اہل قلعہ نکل کر بھاگ گئے۔صبح کو قلعہ قبضہ میں آگیا۔اسے راجہ گلیر کے حوالے کر کے آگے چڑھ گیا۔جنگل کا یہ عالم تھا کہ درختوں کی کثرت سے تاروں نے زمین کا منہ نہیں دیکھا تھا۔سپاہ اور بہیر سب کو کلہاڑیاں دے دیں کہ کاٹو اور آگے بڑھوکوٹ کانگڑہ سامنے نظر آیا۔باغ اور گھوڑ دوڑ کا میدان راجگان قدیم کے وقت کا چلا آتا تھا۔ وہاں ڈیرے ڈال لیے اور قلعہ بھون کو گھیر لیا یہاں مہا مائی کا مندر ہے۔ وہ پہلے ہی حملے میں ہاتھ آگیا۔ہزاروں برہمن پجاری اور راجپوت دھرم کا پن سمجھ کر آگے بڑھے ،سینہ سپر ہوئے اور سرخرو دنیا سے گئے۔ (ملا صاحب فرماتے ہیں) کہ خان جہان آگے بڑھا اور ایسے راستوں سے کہ سانپ کاپیٹ اور چیونٹی کے پاؤں نہ ٹھہرتے تھے۔ہزار نشیب وفراز لانگ پھلانگ کر گھوڑے ،ہاتھی،اونٹ،لاؤ لشکر سمیت توپ خانے اور قلعہ شکن توپیں پہنچا دیں۔اور آبادی کوٹ کانگڑہ کو قلعہ سمیت گھیر لیا۔ یہ متبرک ومقدس مقام بزرگان ہنود کا ہے۔ یہاں لک در لک آدمی ہزاروں کوس ولایت ہائے دور دست سے عین موسم پر آکر جمع ہوتے ہیں۔اور ڈھیر کے ڈھیر سونا اشرفیاں،کپڑے ،شال دو شالے جواہرات انواع واقسام کے نفائس انبار در انبار عجائب وغرائب چڑھاتے ہیں۔ٖرض مقام مذکور کو پہلے ہی دھاوے میں فتح کر لیا۔پہاڑیوں نے بڑی ہمت سے مقابلہ کیا ،مگر وہ پہاڑی گھاس کی طرح تلوار سے کاٹے گئے تماشا یہ ہے کہ راجہ بیر بر خود موجود تھے۔پھر بھی مندر کے گنبد پر جو سونے کا چتر لگا تھا۔تمام تیر دوز ہو گیا۔اور مدتوں اسی طرح رہا۔ دو سو کے قریب کالی گائیں تھیں۔ہندو ان کی بہت تعظیم کرتے تھے۔اور پوجا کرتے تھے۔اس وقت دار الامان سمجھ کر سب کو اندر لے آئے تھے۔اور کمانوں کے تیر اور گولیوں کا مینہ بر سا رہے تھے۔تو بادشاہی لشکر کے سپاہی کیا ہندو کیا مسلمان ایسے جوش میں آئے کہ دین دھرم کا ہوش نہ رہا۔ گایوں کو کاٹ ڈالا۔ ان کا خون موزوں میں بھرتے تھے اور چاروں طرف مارتے تھے۔اے جہالت کے بہادرو،اگر جوش تھا تو حریفوں پر تھا۔ بے کس،بے بس ،بے زبان تمہاری دودھ پلانے والیوں نے کیا لیا تھا،جو یہ بے رحمی اور بد سلوکی ان کے ساتھ کی۔مندر کے پجاری اتنے مارے گئے کہ شمار نہیں (ملا صاحب کہتے ہیں) ان باتوں سے کیا اپنے کیا بیگانے جنہیں بیر بر کہتا تھا کہ میں تمہارا گرو ہوں۔وہی اس پر ہزار در ہزار لعنت وملامت کرتے تھے۔ حیسن قلی خان نے جب بھریلی کی آبادی پر قبضہ کر لیا تو وہاں دمدمہ بندھا تھا ۔اور ایک بڑی توپ چڑھا کر راجہ کے محلوں میں گولہ مارا۔راجہ اس وقت رسوئی جیم رہا تھا۔مکان گرا اور اسی آدمی دب کرضائع ہوئے۔راجہ کی جان بڑی مشکل سے بچی۔اور صلح کے دروازے پر آکھڑا ہوا۔قلعہ لیا ہی چاہتے تھے ،جو یہ خبر پہنچی کہ ابراہیم حسین مرزا گجرات دکن سے شکست کھا کرلوٹتا مارتا آگرہ اور دلی سے ہوتا چلا آتا ہے۔اور لاہور کا ارادہ ہے۔ حسین قلی خان یہ سن کر متردد ہوا۔جنگی نوجوان خوب جانتا تھا کہ سوا لیاقت اور جان فشانی کے دربار میں میرا کوئی نہیں (میرزا عبد الرحیم خان خانان ۱۶ برس کا لڑکا تھا) جو امرا ء ماتحت میں امن میں کچھ تو ماموں کے ورنہ عداوت سے نفاق کے تھیلے بنے ہوئے تھے۔ اکثر نہ دوست ہیں نہ دشمن اور جو دوست ہیں ،وہ بھی کہنہ عمل سپاہی ہیں۔یہ میرے ماتحت آجانا زمانے کا ایک اتفاق سمجھتے ہیں۔ان پہلوؤں کا لحاظ کر کے باوجود سپہ سالاری کے اور بااختیاری کے نہ آپ کچھ کرتا تھا۔اور جو کچھ کرتا تھا۔ امرائے لشکر کے شمول اور اتفاق رائے سے کرتا تھا۔چنانچہ سب کو جمع کر کے مصلحت کی صلاح ٹھہری۔کہ ادھر صلح کر کے پنجاب کی خبر لینی چاہیئے۔وہ بد بخت ابھی نہ آنے پائیں کہ ہم سامان درست کرلیں،مگر خاں صاحب اپنے رفقا سمیت کہتا تھا کہ یہاں کا نوالہ بھی ہونٹوں تک آگیا ہے، چھوڑنے کو جی نہیں چاہتا۔لیکن امراء نے زیادہ زور دیا تو بہت سی گفتگو کے بعد اس نے کہا کہ اچھا ،سب امرائے لشکر ایک کاغذ پر لکھ کر اپنی مہریں کر دیں۔ بادشاہ اس صلح سے خوش نہ ہوئے تو تمہیں صاحبوں کو جواب دینا پڑے گا۔سب نے کاغذ مرتب کر کے دیا۔ادھر راجہ نگر کوٹ نے بھی غنیمت سمجھا۔ اور جو جو شرطیں کیں سب منظور کرکے لکھ دیں۔ چوتھی شرط پر گفتگو ہوئی کہ یہ ولایت راجہ بیر بر کو مرحمت ہوئی تھی۔ان کے لئے کچھ خاطر خواہ ہونا چاہیئے،یہ بھی منظور ہوا اور جو کچھ ہوا اتنا ہوا کہ جس میں ترازو کی تول فقط ۵ من سونا بوزن اکبری رکھا گیا۔اسی روا روی میں قلعہ کے سامنے ایک نمودار مقام پر پیش طاق عالی شان تعمیر کروایا۔اس کے ممبر پر ملا محمد باقر نے کھڑے ہو کر اکبری خطبہ پڑھا،جب بادشاہ کا نام آیا ،اس پر اشرفیاں برسائیں اور مبارک بادیں دیں۔کہ سن کر ملک میدان کو روانہ ہوے۔ حسین قلی خان سیل کی طرح پہاڑ سے اترا۔معلوم ہوا کہ گانو گانو میں ہل چل پڑ رہی ہے۔لاہور والوں نے دروازے بند کر رکھے ہیں اور مرزا ملتان کی طرف چلا جاتا ہے۔ خان جہان نے اس کے پیچھے گھوڑے ڈال دیئے۔اورمارا مارا اپنے شکار کو جا لیا۔وہ مرزا سے چھری کٹار ہوا چاہتا تھا کہ حسین قلی خان بھی پیچھے پیچھے آن پہنچے۔اس وقت وہ خان جہان سے ایک پڑاؤ پیچھے تھے۔ خان جہان کو تلنبہ کئی کوس آگے نظر آتا تھا۔ جہاں مرزا لشکر ڈالے پڑا تھا۔ خان جہان نے انہیں خط لکھا کہ چار سو کوس سے یلغار مار کر یہاں تک آیا ہوں ،اگر اس فتح میں مجھ کو بھی شریک کر لو۔ اور لڑائی میں ایک دن دیر کردو تو آثار محبت سے دور نہ ہوگا۔ وہ بھی آخر ترک بچہ تھا۔ ولی بیگ ذوالقدر کا بیٹا اور بیرم خان کا بھانجا خط سن کر زبان سے کہا،خوش باشد۔اور گھوڑے کو ایڑ لگا کر ایک قمچی اور کر گیا۔اسی دن مارا مارا تلنبہ کے میدان میں (جہاں سے ملتان ۴۰ کوس رہتا ہے۔) تلواریں کھینچ کر جا پڑا۔ مرزا کو اس کے آنے کی بھی خبر نہ تھی۔ شکار کو گیا تھا۔ فوج کچھ کوچ کی تیاری میں تھی ۔ بعضے بے سامان پریشان تھے۔جنگ میدان کی لڑائی کا انتطام بھی نہ ہو سکا۔مرزا کا چھوٹا بھائی پیش دستی کر کے حسین قلی خان کی فوج پر آن پڑا۔زمین کی ناہمواری سے گھوڑا ٹھوکر کھا کر گرا۔وہ نوجوان لڑکا پکڑا گیا۔مرزا شکار سے پھرے اتنے میں کار ہاتھ سے جا چکا تھا۔ہر چند سپاہیانہ کوشش کی۔اور مردانہ حملے کیے،کچھ نہ ہو سکا، آخر بھاگ نکلا۔ فتح کے دوسرے دن حسین خان پہنچے۔حسین قلی خان نے میدان جنگ دکھایا،اور ہر ایک کی جان فشانی کا حال بیان کیا۔حسین خان نے کہا غنیم جیتا نکل گیا تمہیں پیچھا کرنا چاہیئے تھا۔(جیتا پکڑ لیتے ،کام ابھی نا تمام ہے۔)اس نے کہا نگر کوٹ یلغار کر کے آیا ہوں،لشکر نے وہاں بڑی محنتیں اٹھائیں۔ اب ان میں ھالت نہیں رہی۔یہی بڑی فتح تھی۔ اب اور دوستوں کی باری ہے، یعنی تمہاری۔ ۹۸۱؁ ھ میں اکبر گجرات کی مہم فتح کر کے آئے تھے۔اورا مراء بھی اطراف وجوانب سے ادائے تہنیت کے لئے حاضر ہوئے تھے۔کہ ادھر سے حسین قلی خان دربار میں پہنچے،مسعود حسین مرزا کی آنکھوں میں ٹانکے لگائے۔ باقیوں میں سے ہر ایک رتبہ کی موجب کسی کے منہ پر گدھے کی،کسی پر سور کی، کسی پر کتے کی ،کسی پر بیل کی کھال،کانوں اور سینگوں سمیت چڑھائے۔اور عجب سوانگ بنا کر دربار میں حاضر کیا۔ کل تین سوآدمیوں کے قریب تھے۔ مرزا کے کل سو آدمی ساتھی تھے۔کہ دعوے کے بہادر تھے اور خانی اور بہادری کے خطاب رکھتے تھے۔حسین خان سب کو پناہ دے کر اپنی جاگیر میں لے گئے۔وہاں خبر پائی کہ حضور میں ان کی خبر پہنچ گئی ہے۔ اس لئے سب کو رخصت کر دیا تھا۔حسین قلی خان کی ہمت اور حوصلے کو آفرین ہے۔جب مفصل لڑائی کا حال بیان کیا تو ان لوگوں کے نام بھی لیے۔مگر یہ کہہ دیا کہ قیدیوں کے باب میں حضور سے قتل کا حکم نہیں ہے۔ فدوی نے سب حضور کے صدقے میں چھوڑ دیے۔اکبر نے کچھ نہ کہا اور جو خبر پہنچی تھی۔ وہ بھی زبان پر نہ لائے۔حسین قلی خان کو نیک نیتی کا پھل ملا کہ خان جہان کا خطاب پایا۔ جب مرزا سلیمان بدخشاں سے تباہ ہو کر آیا تو اکبر کو بڑا خیال ہوا،کچھ تو اس جہت سے کہ بد خشان سرحد کی مضبوط دیوار ہے۔دوسرے ملک موروثی کا دستہ ہے۔ تیسرے خود نامور کوہستان ہے۔اور اذبک کے قبضہ میں آگیا۔ خان جہان کو حکم ہوا کہ پانچ ہزار سوار جرار لے کر جاؤ۔اور مرزا کو ان کے گھر میں بٹھا کر لاہور میں چلے آؤ۔ مگر ساتھ ہی خبر آئی کہ منعم خان کے مرنے سے بنگالہ میں پھر فساد ہوا ہے۔اور داؤد نے عہد نامہ توڑ ڈالا ہے۔ امرائے شاہی پہلے ہی سے گھبرا رہے تھے۔اور خرابی ہوا سے تنگ تھے۔ اس نازک موقع پر سب نے بنے بنائے گھر چھوڑ دیے۔ ملک مذکور سے نکل آئے۔ اکبر کو یہ بھی خیال تھا کہ مرزا سلیمان بد نیت اور لالچی آدمی ہے۔بہتر ہے کہ بدخشان کا کچھ اور بندوبست ہو جائے۔اس نے قبول نہ کیا۔ چنانچہ ۹۸۳؁ھ میں خاں جہاں کو بلا کر خان خانان کا قائم مقام کیا اور قبائے زر دوزی،چار قبہ طلا، کمر شمشیر مرصع،اسپ بازین طلائی دے کر روانہ کیا۔اور ٹورڈر مل کی رفاقت سے اس کا بازو قوی کیا۔ جب وہ بھاگل پور علاقہ بہار میں پہنچا تو امرائے بخاری وماوراء النہری،دولتوں سے خورجین بھرے گھروں کو پھرنے کو تیار تھے۔اسے دیکھ کر حیران رہ گئے کیونکہ زبردست اور کاروان افسر کے نیچے کام دینا کچھ آسان کام نہیں،بعضوں نے خرابی آب وہوا کا عذر کیا۔بعضوں نے کہا یہ قزلباش ہیں۔اس کے ماتحت ہم نہیں رہ سکتے۔بالیاقت دوستو پہلے کہہ چکا ہوں اور پھر کہتا ہوں۔ اور پھر کہتا ہوںکہ جب کم لیاقت دعوے دار اپنے حریف کو لیاقت سے نہیں دبا سکتا۔ تو مذہب کا جھگڑا بیچ میں ڈال دیتا ہے۔اور اکثر فتح یاب ہوتا ہے۔کیونکہ اس حکمت عملی سے احمقوںکی بہت سی فوج اس کے ساتھ ہو لیتی ہے۔ خاندانی تجربہ کاری نے خاموشی اختیار کی،اور علو حوصلہ کے ساتھ فراخ دلی دکھائی۔اسمعیل قلی خان اس کا بھائی پیش دستی کی تلوار ہاتھ میں اور پیش قدمی کی فوجیں رکاب میں لے کر چاروں طرف سے ترکتاز کرنے لگا۔ٹوڈر مل ہندو کی نیت کو ہزار آفرین ہے،کہیں دوستانہ فہمایش کی، کہیں ڈراوے دیئے،کہیں لالچ سے غرض سب کو پرچا لیا کہ لشکر بنے کا بنا رہے۔اور کام جاری ہو گیا۔ وہ دونوں باوفا مل جل کر بڑے حوصلے اور کھلے دل سے کام کرتے تھے۔ سپاہی کے دل اور سپاہ کی قوت بڑھاتے تھے۔پھر کوئی بے ہودہ گوئی کا کیا خیال کر سکتا تھا،جا بجا لڑائیاں صف آرائی کے ساتھ ہوتی تھیں۔اور کام یابی پر ختم ہوتی تھیں، چنانچہ گڑھی کوکہ بنگالہ کا دروازہ ہے، جاتے ہی کھول لیا۔ اور ٹانڈہ تک کا ملک پھر صاف کر لیا۔غرض بنگالہ کا بگڑا ہوا کام پھر بنا لیا۔ مشرقی مہم کا خاتمہ اخیر حملہ داؤد کا تھا۔ کہ قدیمی سرداروں کو لے کر آک محل پر عین موسم برسات میں لڑائی کو تیار ہوا۔ خانجہان کے لشکر میں غنیم کے ہجوم کی ایسی دھوم مچی کہ سب کے جی چھوٹ گئے،مگر خان جہان اور راجہ نے سب کو تسلی دے کر دل بڑھائے اور فوجیں لے کر فورا ٹانڈہ پر پہنچے۔داؤد وہاں سے ہٹ گیا۔ اور آک محل پر قیام کر کے قلعہ بنا لیا۔ مگر خان جہان بھی ساتھ ہی پہنچے اور سامنے چھاونیاں ڈال دیں،ساتھ ہی بادشاہ کو عرضیاں لکھیں۔اور امرائے اطراف کے پاس خط دوڑائے،مظفر خان بہار میں چھاونی ڈالے انتظام کر رہا تھا۔اسے بھی مدد کو بلایا، مظفر خان اصل میں بیرم خانی امت تھے۔ لیکن ایک تو اہل قلم کار دوسرے پرانی پاپی اور کہنہ عمل سپاہی تھے۔انہوں نے ٹالا،اور ادھر سے بادشاہ نے یساول دوڑائے کہ تمام امرائے اطراف کو واجب ہے کہ دل وجان سے حاضر ہو کر خان جہان کے ساتھ ہوں۔مظفر خان کے ساتھ بھی بڑے بڑے دلاور اور صاحب فوج امیر تھے۔اس نے ان سے مشورت کی، صاحب جلسہ نے کہا کہ برسات کا موسم ہے، ملک کا یہ حال ہے۔ سپاہی بے سامان،اس حالت میں سپاہ کرے جا کر ویران کرنا خود کشی میں داخل ہے۔ چند روز صبر کریں۔شروع زمستان طلوع سہیل پر تازہ زور لشکروںکے ساتھ چڑھائی کریں کہ دشمن کو فناہ کر دیں۔اتنے میں محب علی خان بگڑ کر بولا کہ حضور کا فرمان اس تاکید کے ساتھ پہنچا ہے کہ خان جہان نے بلایا ہے۔ تازہ اور آراستہ فوج پاس ہے۔جب یہاں تک آن پہنچے ہیں تو اٹکنا مردانگی سے بعید ہے۔اور وفا واخلاص بھی اجازت نہیں دیتی ، مناسب یہی ہے کہ سب یک دل ویک رائے ہو کر دشمن پر حملہ کریں،البتہ خان جہان سے یہ فیصلہ کرنا چاہیئے کہ اگر ہمارے آتے ہی لڑائی شروع کر دو توہمیں بلاؤ۔ اور ہمارے آنے پر بھی لشکر بادشاہی کا انتظارکھو۔ توہم اپنے لشکر اس موسم برسات میں کیوں برباد کریں۔ خان جہان نے دو امیروں کو بھیجا۔پیمان کے پیاموں اور عہد کے ناموں سے یہ ا قرار مضبوط ہوئے۔سب تقریریں طے ہو کر دونوں لشکر شامل ہوئے،جب مظفر خان وغیرہ قریب پہنچے تو خان جہان خود استقبال کو آیا۔اپنے ہی ڈیروں میں لے گیا۔ خوب ضیافتیں ہوئیں۔ اور صلاح مشورے ہو کر جھٹ پٹ آک محل کے سامنے میدان جنگ قائم کر دیا۔ دونوں سپہ سالار فوجیںلے کر میدان میں آئے،فوجوں نے قلعے باندھے،اور لڑائی شروع ہوئی۔مگر جب حملے ہونے شروع ہوئے تو سب بندوبست ٹوٹ گئے۔جو فوج مقابل کی فوج سے ٹکر کھاتی تھی،چکی کی طرح چکر مارتی نظر آتی تھی۔دن آخر ہو گیا۔ خان جہان حیران کھڑا تھا کہ لڑائی ترازو ہے،دیکھیے پلہ کدھر جھکتا ہے۔ دفعتہ کالا پہاڑ غنیم کے تیر لگا اور وہ بھی ایک ہی تیر سے نو قدم بھاگا۔اس کے بھاگتے ہی سارے پٹھان بھاگئے۔ کیچڑ پانی کے سبب سے زمین کا پتا نہ تھا۔ بادشاہی فوج وہیں تھمی رہی، شام قریب تھی۔غنیم نے بھی پیچھے ہٹ کر لشکر ڈال دیا۔اکبری اقبال کی طلسم کاری دیکھو کہ رات کو بادشاہی توپ خانے سے دشمن کی طرف توپیں مار رہے تھے۔ جنید افغان اپنے پلنگ پر پڑا سوتا تھا۔ایک گولہ ایسا جا کر لگا کہ ران شیشے کی طرح چور چور ہو گئی۔ وہ پرانا پٹھان ،داؤد کا عمو زاد بھائی اور افغانوں کا رکن خاندان تھا۔ پٹھانوں کی تلوار کہلاتا تھا۔اس میدان میں فوج کا بایاں بازو تھا۔اور لڑائی کے ہتھ کنڈے خوب جانتا تھا۔ اس کے مرنے سے سارے افغان چپ ہو گئے۔ ادھر اکبر کو امراء کی عرضیاں برابر پہنچ رہی تھیں کہ خانہ زاد بے ڈھب کیچڑ میں پھنسے ہیں۔ جب تک حضور اقبال کے گھوڑے پر سوار نہ ہوں گے۔ منزل مراد کا رستا بند ہے۔ برسات گندہ بہار موسم ہندوستان کا ہے۔ اس پر ملک بنگالہ، امراء کاہلی کرتے ہیں۔ادھر تو یہ حال تھا،ادھر راجہ مان سنگھ کوہستان اودے پور میں رانا سے رن جھوجھ رہے تھے۔اکبر کی چشم انتظار ایک ادھر تھی ایک ادھر، کہ سید عبد اللہ خان بارہہ مان سنگھ لے لشکر سے ڈاک میں فتح کی خوش خبری لے کر آئے۔ اکبر بہت خوش ہوا اور انہی کو سر سواری بنگالہ روانہ کیا۔ رخصت کے وقت یہ بھی کہا کہ امراء کے نام فرمان تاکید اہتمام میں تحریر کرنا اور کہنا کہ ہم آپ یلغار کر کے آتے ہیں۔پانچ لاکھ روپیہ کا خزانہ بھی سید کے ساتھ دوڑایا۔کہ خان جہان کے خرچ کا ہاتھ کشادہ ہو۔اور بہت سی کشتیاں رسد کی آگرہ سے چھٹیں،رخصت کے وقت یہ بھی کہا کہ سید: چنانچہ ایں مژدہ میبری۔ از انجام ہم بشارت فتح مے آری۔ پیچھے بنگالہ سے ایسی پریشان خبریں آنی شروع ہوئیں کہ سپاہی طبع بادشاہ نے تکلیف سفر اور خرابی موسم کی کچھ پرواہ نہ کی۔آپ اٹھ کھڑا ہوا۔ لشکر کی کچھ پرواہ نہ کی۔ اور خشکی کے راستے روانہ کیا۔ اور تجویز کی کہ آپ آبی گھوڑے پر بیٹھ کر ہوا کی طرح پانی پر جائے۔ اب ادھر کی سنو دونوں لشکر نواکھل گانو میں آمنے سامنے تھے۔سید عبداللہ بھی پہنچ کر انتاظام میں شامل ہوئے۔رات کو جنید کا کام تمام ہوا۔دوسرے دن خان جہان نے حملہ کر دیا۔اور کیچڑ پانی کو روند سوند کر جس طرح ہوا ، جا ہی پڑے۔ افغان بھی دل شکستہ تھے۔ جانوں سے ہاتھ دھو کراڑے۔اس وقت امرائے بادشاہ نے یہی مناسب سمجھا کہ دست برد کر کے ہٹیں۔اتنے میں پیچھے سے مدد آپہنچی، پھر بھی لڑتے تھے اور پیچھے ہٹتے آتے تھے۔اقبال اکبری کی کار سازی دیکھو کہ افغانوں کے سردار خان جہان نے پھر زخم کھایا اور مر گیا۔اس وقت غنیم بے اختیار ہوئے اور سب بھاگ نکلے۔لشکر بادشاہی نے بڑے زور شور سے تعاقب کیا۔ہزاروں کو مارا ،سینکڑوں کو باندھا۔ترک چاروں طرف مارے پھرتے تھے۔ داؤد شاہ بے چارے کا گھوڑا ایک چہلے میں پھنس گیا۔ اور گرفتار ہوا۔ ہمایوں کے بھائی بھی عجیب کینہ دار ارواحین لے کر دنیا میں آئے تھے۔ہندال کے ہم دموں میں خواجہ ابراہیم ایک شخص تھا۔ اس کا بیٹا طالب بد خشی اب اکبری نمک خواروں میں تھا۔ لیکن جو شور انگیز نمک باپ نے کھایا تھا۔اس کے فساد کو اکبری نمک ہر گز اعتدال پر نہ لا سکا۔ طالب کو کسی طرح معلوم ہو گیا کہ داؤد یہی ہے۔ پہنچا اور رفاقت کرنے لگا کہ نکل جائے ۔مراد سیستانی اور حسین بیگ کو خبر ہو گئی۔وہ باز کی طرح پہنچے اور شکار کو پکڑ لائے۔ باندھ کر لے آئے ،سپہ سالار ابھی میدان جنگ میں کھڑا تھا۔دلاور اپنے اپنے کار نامے سنا رہے تھے۔ داؤد سامنے حاضر کیا گیا۔ایک حسین صاحب جمال ودیدا رو جوان تھا۔ اس وقت خاموش کھڑا تھا۔ مگر چہرہ شگفتہ تھا۔ اور کسی طرح کا اضطراب نہ معلوم ہوتا تھا۔ چونکہ بہت پیاسا تھا۔ اس لئے پانی مانگا۔لشکر کے لوگ دکھ بھرتے بھرتے تھک گئے تھے۔ایک دل جلے نے جوتی میں بھر کر پانی پیش کیا۔ داؤد نے آسمان کی طرف دیکھا۔ دریا دل خان بہادر نے اپنی صراحی اور تھالی کٹورہ منگا کر پانی دیا۔اور پوچھا کہ عہد نامہ کے بعد بے وفائی کرنی،یہ کیسا رسم اور کیسا آئین ہے؟۔ اس نے بڑے استقلال سے کہا وہ عہد منعم خاں کے ساتھ تھا۔ اب اترو ،تھوڑی دیر آرام کر لو۔تمہارے ساتھ الگ عہد وپیمان ہو گا۔ خان جہان کا ارادہ ہر گز نہ تھا کہ اسے قتل کرے،امراء نے کہا اسے زندہ رکھنے میں فساد کا احتمال ہے۔ ناچار قتل کا حکم دے دیا۔ جلاد نے دو ہاتھ مارے ۔تلوار کار گر نہ ہوئی۔آخر لٹا کر ذبح کیا۔ سر کاٹ کر صاف کیا۔ بھس بھرا۔اور عطریات مل کر حضور میں بھیج دیا۔دھڑ ٹانڈہ کو روانہ کیا کہ اس کا دار الخلافہ تھا۔ بادشاہ فتح پور سے سوار ہوئے تھے،پہلی ہی منزل تھی پانچ کوس پر ڈیرے پڑے تھے کہ سید عبد اللہ اپنی رانگی کے گیارھویں دن آن پہنچے۔اور داؤد کا سر جلو خانہ اقبال پر لا کر ڈال دیا۔ لشکر بادشاہی میں عجب خوشی کا غلغلہ تھا۔ اکبر نے سجدہ شکر اداکیے اور فتح پور چلے گئے۔ سید میرک ایک مرد بزرگ کہ علم جعفر میں کمال رکھتے تھے۔ کئی دن پہلے بادشاہ نے ان سے سوال کیا تھا۔ جو حکم انہوں نے لگایا تھا۔ ٹھیک وہی ہوا۔ مژدہ ء فتح بنا گاہ رسد سر داؤد بدرگاہ رسد خان جہان نے راجہ کو رخصت کیا۔ آپ سات گام نواح ہگلی کی طرف لشکر لے کر گیا۔ داؤد کا اصل مقام وہی ہے۔ افغانوں نے جا بجا شکستیں کھائیں اور اکثر حاضر خدمت ہو گئے۔ جمشید اس کا خاصہ خیل بڑے جوش وخروش سے لڑا۔مگر بڑی ہی شکستیں کھائیں۔داؤد کی ماں بھی سب خان دان کو لے کر اس کے دربار میں آئی، اس سے تمام مفسدوں کی ہمت ٹوٹ گئی۔ کوچ بہار کا راجہ مال گوسائیں بھی رجوع ہوا۔ اس کے تحائف مع چون ہاتھیوں کے دربار میں بھیجے۔پہانی کے ملک میں بھی پٹھانوں کی بہت سی کھرچن باقی تھی۔ عیسیٰ خاں وغیرہ یہاں کے ملک میں ہمیشہ فساد کی آگ سلگاتے تھے۔ ان پر لشکر بھیجا،وہ بھاگ گئے۔ جو باقی رہے۔انہوں نے اطاعت اختیار کر لی۔اور بنگالہ بہار وغیرہ کہ فساد خانہ پٹھانوں کا تھا۔ (امرائے دربار اسے بلغاک خانہ فساد کہا کرتے تھے۔) فتنہ سے پاک ہو گیا،اور وہ فارغ ہو کر صحت پور میں آئے کہ آپ ٹانڈہ کے پاس آباد کیا تھا۔خیال تھا کہ یہاں آرام سے بیٹھیں گے۔ صحت پر الٹا اثر ہوا۔ چند روز کے بعد بیمار پڑگئے۔ نیکو نہ بود ہیچ مرادے بکمال چوں صفحہ تمام شد ورق بر گردد مرض نے چھ ہفتہ طول کھینچا،بیدوں کا علاج ہو تا تھا۔ صاحب ماثر الامرا کہتے ہیں کہ انہوں نے بے سمجھے علاج کیا۔ بھلا قضا کا علاج کس کے پاس ہے؟۔ آخر انیسویں شوال ۹۸۶ ؁ ھجری کو دنیا سے انتقال کیا۔ بادشاہ کو رنج ہوا، بہت افسوس ہوا۔ مغفرت کے لئے دعا کی۔ اور اسمعیل قلی خان کو بڑی تسلی وتشفی سے پیغام لکھا۔دو بیٹے رہے کہ رضا قلی خان جو ۳۵۰ کا منصب دار تھا۔ ۹۴۷ ھجری میں پانصد منصب تین سو سپاہی کا عہدہ دار ہوا۔ (۲) رحیم قلی ۲۵۰ کا منصب دار تھا۔ تاریخ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اسے تعمیل احکام اور ادائے خدمت کے سوا کسی بات کا شوق نہ تھا۔نہ آپ قدم بڑھا کر رکھتا تھا۔اور نہ کسی کے بڑھے ہوئے قدم ہٹاتا تھا۔ہمت کے ذوق شوق اور جان فشانی کے جوش وخروش میں سب خدمت بادشاہی میں نکال دیتا تھا۔وہ سلامت روی کے گوشہ میں سیاحت کرتا تھا۔ اسی واسطے اس کی کسی سے مخالفت بھی نہیں ہوئی۔اس نے فتوحات سلطنت کے سوا کوئی اور امیرانہ یاد گار بھی نہ چھوڑی۔ البتہ یہ ہمت کی کہ بیرم اپنے ماموں کی ہڈیاں اس کے مرنے کے اٹھارہ برس بعد مشہد مقدس بھجوا دیں۔ اسمعیل علی قلی خان اس کا چھوٹا بھائی اکثر مہموں میں بھائی کے ساتھ تھا۔ جب ۳۰ جلوس میں راجہ بیر بر مہم یوسف زئی میں مارے گئے۔ تو بادشاہ نے اسمعیل علی قلی خان کو جہلم سے لشکر جرار دے کر روانہ کیا۔وہ گیا۔ اور بڑے انتظام واہتمام سے اہل بغاوت کی گردنوں کو دبایا۔ اسمعیل علی قلی خان حسین قلی خان کا چھوٹا بھائی تھا۔ جب جنگ جالندھر میں بیرم خاں کا لشکر تباہ ہوا۔ تو یہ کسی طرح زندہ گرفتار ہو گیا۔ بیرم خان کے ساتھ سب کی خطا معاف ہوئی۔یہ بھی بھائی کے ساتھ رہا ہوا۔اور اس کے ساتھ خدمتیں بجا لاتا رہا۔ خان جہان مر گیا تو یہ بنگالہ سے اس کا اموال واسباب لے کر حضور میں حاضر ہوا۔ اکبر نے بہت دلداری کی۔ ۳۰؁ جلوس میں بلوچوں نے بغاوت کی۔ یہ سر شور فرقہ ہمیشہ امرائے اکبری کو تنگ کرتا تھا۔ اس لئے اسمعیل علی قلی خان کو فوج دے کر بھیجا۔کہ اچھی طرح ان کی گردنیں رگڑے۔ پہنچے تو اول سینہ زور سامنے ہوئے،مگر جلد اطاعت اختیار کی۔ ۳۱؁ میں راجہ بھگوان داس کابل میں دیوانے ہو گئے۔ انہیں ان کی خدمت سپرد ہوئی ۔لیکن ان کی بلند نظری نے ایسی درخواستیں پیش کیں کہ نظر پھر گئی۔ حکم ہوا کہ بھکر کے رستہ کشتی پر بٹھا کر مکہ بھیج دو۔۔ بارے عجز وانکسار کے سفارش سے دعا قبول ہوئی۔اور خطا معاف ہوکر حاضر خدمت ہوئے،جہلم کے علاقے میں خدمت بجا لاتے تھے۔ کہ راجہ بیر بر کوہستان سواد میں مارے گئے۔لشکر بادشاہی دوبارہ روانہ ہوا۔ جلالہ تاریکی نے اندھیر مچا رکھا تھا۔انہیں بھی حکم ہوا کہ آگے بڑھ کر تھانے قائم کریں۔ زین خان کوکہ نے مہم مذکور میں پہلے سخت ندامت اٹھائی تھی۔ اب پھر چاہا کہ جائے اوراس داغ کو آب شمشیر سے دھوئے۔ادھر وہ روانہ ہوا، ادھر بادشاہ نے صادق خان کو فوج دے کر بھیجا۔ کہ تم بھی جا بجا تھانے بٹھا دو کہ جلالہ جدھر کو جائے پکڑا جائے۔وہاں صادق خان اور ان کی نہ بنی۔ یہ اپنے تھانے اٹھا کر چلے آئے اور جلالہ راستہ پا کر بھاگ گیا۔پھر غضب میں آئے ۔ ۳۳؁ میں حاکم گجرات ہو گئے ،جب سن ۳۳ ؁ ء میں جب شہزادہ مراد مالوہ کے مالک ہوئے تو انہیں ان کی وکالت اور اتالیقی سپرد ہوئی۔مگر اس خدمت کا سے انجام نہ کر سکے۔ ۳۸ ؁ میں صادق خان ان کی جگہ بھیجے گئے۔ ۳۹ ؁ میں کالپی کو رخصت ہوئے کہ اپنی جاگیر جا کر آباد کریں۔ ۴۲ ؁ جلوس میں ۴ ہزاری منصب سے اعزاز پایا۔ عیش وعشرت کے عاشق تھے، کھانا پہننا، مکان کی آراستگی، ہر چیز میں لطافت اور لوازمات کا بڑا خیال رکھتے تھے۔محل میں بارہ سوعورتیں تھیں۔ دربار جاتے تھے۔ تو آزار بندوں پر مہریں کر جاتے تھے۔ سب جانوں سے تنگ آگئیں۔ مرتیں کیا نہ کرتیں۔آخر سب مل گئیں،انہیں زہر دے کر اپنی جانیں چھڑائیں۔ دیکھو ماثر الامرائ۔۔۔۔ حکیم مصری ایک طبیب بادشاہی تھے۔ بادشاہ نے دکن سے بلا کر حکمائے پایہ تخت میں داخل کیا تھا۔ شیخ فیضی جب سفارت دکن پر گئے تھے تو وہاں بھی حکیم موصوف کے اوصاف سنے تھے۔وہی اپنی عرائض میں بادشاہ کو لکھے۔ملا صاحب ان بیچارے کو بھی خاطر میں نہ لائے۔ فرماتے ہیں کہ اگر چہ بڑے بڑے رتبہ کے حکیم دربار میں موجود تھے۔مگر خدا نے انہیں ایسا دست شفا دیا تھا کہ اکثر علاج حکمائے حاذق کے کار ناموں میں لکھنے کے قابل ہیں۔ اہل فضل وکمال دیکھتے تھے اور حیران رہ جاتے تھے۔ایک سیدھے سادے بھولے بھالے آدمی تھے۔باوجود ان باتوں کے خوش مزاج، ظریف طبع،دربار کی اہل کاریوں اور امراء کی درباریوں سے کچھ غرض نہ رکھتے تھے۔اس لئے ان کی ظرافت اور بھی اچھی معلوم ہو تی تھی۔شعر بھی کہتے تھے۔مگر مسخرا پن کے۔شیخ ابوالفضل ۱۰۰۸ء ؁ میں ان کا ذکر خیر عبارت ذیل سے کرتے ہیں۔ عقل ظاہری اور معرفت معنوی میں ان پر یکتائی کا خیال تھا۔ طب کو ایسے جانتے تھے کہ اگر سارے طبابت نامے نہ رہتے تو یاد سے لکھ دیتے تھے۔صوفیوں کی دل آویز تقریریں اچھی حاصل کی تھیں۔چہرہ شگفتگی اور فرخندگی ظاہر کرتا تھا۔لطف ومحبت سے اپنے بیگانے کو خوش کرتے تھے۔کسی علاج میں بند نہ ہوتے تھے۔ اور کھلی پیشانی سے علاج کرتے تھے۔ ہو جو اس جیسا تو وصف اس کا لکھے آج اس جیسا مگر پیدا کہاں ۸۰ کو پہنچ گئے تھے۔ مگر طبیعت میں جوانی کی گرمی جوش مارتی تھی۔ دفعتہ ہوا زدگی ہوئی،قبض نے مزاج برہم کیا۔تپ نے سوزش بڑھائی۔آدھی رات تھی کہ دل نڈھال ہوا۔ دم بدم حواس میں فرق آنے لگا۔ ہوش آیا تو مجھے بلایا۔ اسی وقت پہنچا۔حال دیکھ کر دل بے قابو ہو گیا۔اور انہوں نے دل آگاہی سے یاد الہیٰ میں آنکھیں بند کر لیں۔ چھوٹے سے بڑے تک سب کو رنج ہوا۔ خیز تاد از آواز گریہ بر گیرم خوش بگریم ومویہ برگیرم نوحہ ہائے جگر خراش کنیم چوں بہ پایاں رسد زسر گیریم شہر یار پایہ شناس کا دل بھی بے اختیار ہو گیا۔اور آمرزش کی دعا کی۔ملا صاحب حکماء کے سلسلے میں ان کا حال لکھتے ہیں ،اور لکھتے ہیں کہ طب میں صاحب علم وعمل تھے۔ علوم عقلیہ میں ماہر ،علوم غریبہ میں مثلا دعوت اسما علم، حروف وتنکیر سے بھی آگاہ تھے۔شگفتہ، خوش صحبت ، مبارک قدم، شیخ فیضی کے علاج میں بہتیری جان لڑائی،کچھ بھی نہ ہوا۔کبھی فارسی میں شعر کہتا ہے ،مگر مسخرہ پن کے۔ خواجہ شمس الدین خانی کہ دیوان سلطنت تھے،کسی مقدمہ میں ان کا فیصلہ سن کر کہا۔ ع خواجہ شمس الدین چہ ظلمے مے کند در طبابت ماش ووفلی مے کند کنیر کے درخت کو عربی میں دفلی کہتے ہیں۔ایک دن باغ میں گل گشت کر رہے تھے کہ اس کے پھول کھلے ہوئے دیکھ کر فرمایا ع۔۔۔چو آتش جست کاکل ازسر دفلی۔۔۔ مسجد حضور کے لئے جو قطعہ لکھا ،دیکھو صفحہ ۵۶۱ ،،، برہان پور علاقہ خاندیش میں مر گیا۔ وہیں سپرد خاک کیا۔ ملا صاحب کے دل میں جو آتا تھا کہتے تھے۔ مگر تم یہ دیکھو کہ اکبر کی قدر دانی نے کیا کیا لوگ اور کہاں کہاں سے کھینچ کر جمع کیے تھے۔ابو الفضل نے آئیں اکبری میں جو طبیبوں کی فہرست لکھی ہے۔ اس میں انہیں اولیت کی مسند پر بٹھا یا ہے۔ خاندان سوری ہمایوں کے پیچھے افغانوں کا کیا حال تھا شیر شاہ اپنی ذات سے بانی سلطنت افغانی کا ہوا۔بابر کے بعد اس کے بیٹوں کو دیکھا کہ آپس میں نفاق رکھتے ہیں۔باوجود اس کے وہ اور اس کے امراء آرام طلب اور فراغت پسند ہیں۔ اس کے دل میں سلطنت کا شوق لہرایا۔ اسی میں ایک مضمون سوجھا کہ تدبیر کی موافقت اور تقدیر کی مطابقت نے اس کے سامان بھی جمع کر دیئے۔اور سلطنت کا شعر موزون ہو گیا۔ ع چون مضامین جمع گردد شاعری دشوار نیست مضمون بھی کچھ دور کا نہ تھا۔ فقط اتنی بات کہ اپنی فوج کے دل میں اتفاق کے ساتھ ترقی قومی اور ہمت وحوصلہ کا خون دوڑائے،اور بادشاہ ہو جائے۔یہ قدرتی اتفاق ہے کہ جدھر کا ارادہ کیا کام یابی نے کھلے میدان دکھائے۔ اور کہا خوش آمدید وصفا آوردید،دشمن مغلوب ہوا یا خود بخود اس کے دغا کے پھندے میں فنا ہو گیا۔ افغان کہ وحشی مزاج تھے۔اور لوٹ کے سوا کوئی پیشہ نہ جانتے تھے۔ سپاہی بن گئے۔ فتوحات نے ان کے دل بڑھائے۔ اور لوٹ مار نے چاٹ دے کر انہیں بتایا کہ اتفاق اور یک دلی میں کیا فائدے اور مزے ہیں؟۔وہ بھی ان کو ایسا عزیز رکھتا تھا کہ ایک سر کو ملک کے مول بھی نہ دیتا تھا۔ اس نے پندرہ برس کی کاشت کاری میں سلطنت کا کھیت ہرا کیا۔ اور ۵ برس سر سبزی کی بہار دیکھی۔ اس تھوڑے سے وقت میں بنگالہ سے لے کر رہتاس پنجاب تک اور آگرہ سے لے کر مندو تک کوس کوس بھر مسجد،پختہ کنوان اور ایک ایک سرا آباد کی۔ ایک دروازہ پر ہندو اور ایک دروازہ پر مسلمان تعینات تھا۔ کہ پانی پلاتا تھا۔ کھانا کھلاتا تھا۔ اور غریب مسافروں کے لئے دونوں وقت لنگر جاری کرتا تھا۔راستہ کے دونوں طرف آم اور کھرنی وغیرہ کے سایہ دار درخت جھومتے تھے۔مسافر گویا باغ کے خیابان میں چھانو چھانو چلے جاتے تھے۔ملا صاحب لکھتے ہیں کہ ۵۲ برس اسے گزرے ،مگر ابھی تک اس کے مٹے نشان جا بجا نظر آتے ہیں۔ اور انتظام کا یہ حال تھا کہ ایک بڑھیا ٹوکرے میں اشرفیاں بھر کر لے جاتی تھی۔ اور جہاں چاہتی سورہتی تھی۔ مجال نہ تھی کہ چور کی نیت میں فرق آئے۔ڈاک برابر بیٹھی تھی، بنگالہ میں بھی ہوتا تھا،تو دوسرے دن خبر پہنچتی تھی۔فوج کی موجودات ہوتی تھیں۔اور سپاہی کو نقد تنخواہ ملتی تھی۔ وہ ہمت عالی کے ساتھ شطرنج سلطنت کا پکا شاطر تھا۔ جب جودھپور کو فتح کر کے پھرا تو امیر سبا رفیع الدین محدث نے کہ یگانہ زمانہ تھے۔ اس سے کہا کہ مجھے رخصت عنایت ہو۔ تاکہ باقی عمر حرمین شریفین میں بیٹھ کر اپنے بزرگوں کی قبروں پر چراغ روشن کروں۔اس نے کہا میں نے آپ کو ایک مصلحت کے لئے روکا ہے۔ کئی قلعے رہ گئے ہیں کہ ابھی فتح نہیں ہوئے۔میرا رادہ ہے کہ چند روز میں ہندوستان کو پاک کر کے کنارہء دریائے شور پر پہنچوں،اور قزلباش جو حاجیوں کے سدراہ ہوتے ہیں۔ اور دین محمدی میں بدعتیں نکال رہے ہیں۔ان سے لڑوں،وہاں سے تم کوبطور سفارت سلطان روم کے پاس بھیجوں کہ اس سے میری برادری کی گرہ لگا دیجیے۔ اور حرمین شریفین میں سے ایک مقام کی خدمت مجھے لے دیجیے۔اور پھر ادھر سے میں اور ادھر سے سلطان روم آئیں اور قزلباشوں کو بیچ میں لے کر اڑا دیں۔اگر فقط سلطان روم آیا تو وہ بھاگ کر ادھر کے جنگلوں میں چلا جائے گا۔اور جب دونوں طرف سے گھیر لیں گے تو ظاہر ہے کہ یہ جمعیت اور کثرت کہ جو ہندوستان میں ہے۔اور وہ آتش بار توپ خانہ کہ روم میں ہے۔ اس کے آگے قزلباش کیا کر سکتا ہے۔ ان باتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمایوں ایران پر جا پڑا تھا۔ ہندوستان میں نام ونشان اس کا نہ رہا تھا۔ مگر شیر اپنے شکار میں یہیں سے تاک لگا رہا تھا۔ وہ یہ بھی جانتا تھا کہ اس خانہ بر باد کے لئے تین ٹھکانے ہیں۔ایران،ترکستان اور روم۔ایران میں اس نے قدم رکھنے کو جگہ پیدا کر لی ہے۔اگر یہاں سے بھاگے تو ترکستان جا ہی نہیں سکتا۔کیونکہ اذبک آل تیمور کے نام کا دشمن ہے۔ پھر اگر ہے تو روم کا گھر ہے۔ اس کا بندوبست کیا مگر افسوس ع مادر چہ خیالیم وفلک در چہ خیال کارے کہ خدا کند فلک را چہ مجال قلعہ کالنجر پر جا کر محاصرہ ڈالا،روز مورچے اور ساباط بناتے چلے جاتے تھے۔ افغان جان لڑاتے تھے۔ مرتے تھے، جلتے تھے، مگر جان فشانی سے باز نہ آتے تھے۔ایک دن ساباط کو بڑھا کر قلعہ کے برابر پہنچا دیا۔ شیر شاہ خود ایک مورچہ پرکھڑا تھا۔ اور باروت کے گولے (حقہ ہائے باروت) قلعہ میں پھینک رہے تھے۔ ایک گولہ دیوار قلعہ پر لگا، اور ٹکرا کر مورچے پر آیا۔پاس اور گولوں کا ڈھیر لگا تھا۔ دفعتہ سب بھڑک اٹھے۔ شیر شاہ کا یہ عالم ہوا کہ جھلس کر یلمہ (اولمہ) ہو گیا۔ بہت سپاہی اور سردار کباب ہو گئے۔مولانا نظام اس زمانہ میں مشہور عالم تھے۔اور شیخ خلیل اس کے پیر زادہ صاحب بھی اس کے دکھ میں شریک ہوئے،شیر شاہ نے ایک ہاتھ آگے رکھا اور ایک ہاتھ پیچھے اور بھاگ کر جان نیم سوختہ کو خیمہ میں ڈالا۔کہ مورچہ پر اس کے لگایا تھا۔ کبھی ہوش میں تھا۔کبھی بے ہوش ،مگر جب آنکھ کھولتا تو للکار للکار کر حملے کاحکم دیئے جاتا تھا۔اور جواسے دیکھنے کو آتا ،اسے بھی کہتا کہ یہاں کیوں آئے ہو۔قلعہ پر جا پڑو۔ گرمی بھی آگ بر سا رہی تھی۔ وہ تڑپتا تھا۔اور لوگ صندہ اور گلاب چھڑکتے تھے۔ مگر موت کی تپش تھی کہ کسی طرح نہ ٹھنڈی ہوتی تھی۔ قضا کا اتفاق دیکھو۔ادھر کسی نے فتح کی خوش خبری سنائی۔ادھر اس کی جان نکل گئی۔ تاریخ ہوئی ،ز آتش مرد ۹۵۳ ھجری۔ شیر شاہ کے بعد جلال خان تخت نشین ہوا۔ اور اسلام شاہ نام رکھ کر سونے چاندی پر سکہ لگایا۔ بڑے بھائی کو دغا دے کر بلایا۔ اس سے اور اس کے طرف داروں سے جنگ میدان کر کے اسے خانہ بر باد کیا۔ شیر شاہ کا لشکر جرار مرتب موجود تھا۔ جس میں بہت سے سردار صاحب طبل وعلم تھے۔ اور سپاہ کے حوصلے ایسے بڑھے ہوئے تھے کہ ایک ایک افغان سلطنت سنبھالنے کا دعویٰ کرتا تھا۔ ابتدا ء میں سلیم شاہ نے اس کے پرچانے کے واسطے خزانے کے منہ کھول دیئے تھے۔گھر گھر بلکہ کوچہ وبازار افغان جلسے جمائے بیٹھے تھے۔ اور راگ رنگ کر کے اور ناچ کر جشن مناتے تھے۔مگر چند ہی روز بعد خود گھبرا گیا،بعض کی سرکشی کو آپ دبایا،بہتوں کو لڑا لڑا کر مارا۔ خواص خان شیر شاہ کا بہادر اور نمک حلال غلام جسے وہ بیٹوں سے افضل سمجھتا تھا۔ اسے دغا سے مروا ڈالا۔ غرض ایک ایک کرکے ان کی سخت گردنوں کو توڑا۔اور چند روز آرام سے بیٹھا۔ پھر بھی ہر وقت ایک نہ ایک کھٹکا لگا رہتا تھا کیونکہ یہ ان سے بیزار تھے،اور یہ ان سے ہر وقت ہوشیار،انہیں ذلیل رکھتا تھا۔ اور ایسے کاموں میں لگائے رکھتا تھا۔ کہ سر کشوں کو سر کھجانے کا ہوش نہ آئے۔ایک دفعہ ہمایوں کے آنے کی ہوائی اڑی۔جس وقت خبر پہنچی ،سلیم شاہ جونکیں لگوائے بیٹھا تھا۔اسی وقت اٹھ کھڑا ہوا اور فوج کو روانگی کا حکم دے دیا۔ پہلی ہی منزل پر داروغہ نے عرض کی کہ بیل چرائی پر گئے ہوئے ہیں۔ حکم دیا کہ لگا دو افغانو ں کو یہ ہزاروں آدمی مفت کی تنخواہ کھا رہے ہیں۔اتنا کام بھی نہیں کر سکتے۔ایک ایک توپ میں سو،سو دو،دو سو،افغان جتا تھا اور کھینچے لیے جاتا تھا۔نیازی افغانوں کا فرقہ بڑے انبوہ کی جماعت رکھتا تھا۔ انہیں کئی دفعہ دبانا پڑا۔ چنانچہ اخیر میں خود پنجاب میں فوج لے کر آیا۔انہیں دنوں میں کہ شمالی پہاڑوں میں پھرتا تھا۔مانکوٹ کے علاقہ میں ایک مضبوط اور استوار مقام دیکھ کر ۵ پہاڑیوں پر قلعے مانکوٹ ،رشید کوٹ وغیرہ اسی ڈھب سے تعمیر کیے کہ دور سے ایک قلعہ نظر آتا ہے۔ اور خوبی یہ ہے کہ جب ایک قلعہ پر حریف حملہ کرے تو اور قلعوں کی توپوں سے ہمیشہ زد میں رہے۔ عمارت کو پتھر اور چونہ ،گچ سے مضبوط کیا ہے۔اور قلعوں کو پہاڑوں کے اتار چڑھاؤ اور پیچ وخم کے قلعوں کے اندر جا بجا خوشگوار چشمے جاری اور کھانے پینے کے سامان جس قدر درکار ہوں۔ بہت جلد جمع ہو سکتے ہیں۔ سلیم شاہ نے دو برس تک افغانوں سے چونا اور پتھر ڈھوائے۔ اور ایک پیسہ نہ دیا۔ قلعہ ہائے مذکورہ اب تک موجود ہیں۔ وہ ان کے بنوانے میں بذات خود کوشش کرتا تھا۔اور کہتا تھا کسی دن برے وقت میں کام آئیں گے۔ وقت وہ تھا کہ ہمایوں کی بیخ وبنیاد تک ہندوستان سے اکھڑ گئی۔وہ انتہا کی بر بادی اٹھا کر ہندوستان سے گیا تھا۔اور گیا بھی ایسے ملک میں تھا کہ خدا ہی لائے تو لائے۔بھائیوں کا نفاق اس کی کسی امید کو قائم نہ ہونے دیتا تھا۔وہ تینوں سد سکندری باندھے قندھار سے کابل تک گھیرے ہوئے تھے۔ خود سلیم شاہ بالا ستقلال بادشاہی کر رہا تھا۔ مگر مثل مشہور ہے کہ دل کی گواہی خدا کی گواہی ہوتی ہے۔ خدا کی شان دیکھو کہ برے ہی وقت میں کام آئے۔ سلیم شاہ کا اصلی ارادہ یہ تھا کہ لاہور کو ویران کر کے اس مقام کو آباد کرے۔ کیونکہ لاہور قدیم الایام سے کثرت آبادی، اور سواداگری کے وفود اور ہر قسم کی دست کاری،ہر مذہب کے آدمی،ہر ایک سامان کی بہتات سے ایک ایسا مقام ہے کہ جب کوئی چاہے تھوڑے سے عرصہ میں لشکروں کا سامان بہم پہنچائے۔اسے ہمایوں کا کھٹکا لگا رہتا تھا۔ اور مقام مذکور عین راہ پر تھا۔ اور اسے مٹھی بند کر کے قبضہ میں بھی رکھنے کی امید نہ رکھتا تھا۔ اس لئے چاہا کہ ویران کردے۔ اور مانکوٹ کو آباد کرے۔تاکہ اگر ہمایوں آ بھی جائے تو یہاں خاک نہ پائے۔ جب اس سے چھٹے تو ککھڑوں سے لڑنے بھیج دیا۔ دن کو لڑتے تھے۔رات کو چوروں کی طرح آتے تھے۔ عورت،مرد،لونڈی، غلام جو ہاتھ آتا پکڑ لے جاتے تھے۔ قید رکھتے تھے۔بیچ ڈالتے تھے۔ افغانوں کا دم ناک میں آگیا۔ اس پر یہ حال کہ سپاہی کی تنخواہ نہیں۔ لطیفہ: ایک سردار ذرا خوش مسخرہ تھا۔ اس نے ظرافت کے پیرایہ میں کہا کہ حضور میں نے رات کو خواب میں دیکھا کہ رات کو آسمان سے تین تھیلے نازل ہوئے ہیں۔ ایک میں اشرفیاں،ایک میں کاغذ اور ایک میں خاک ، اشرفیوں کا تھیلا تو ہندوؤں کے گھر چلا گیا۔ کاغذ کا تھیلا بادشاہی خزانہ میں داخل ہوا۔ خاک کا تھیلا سپاہیوں کے سر پر الٹ دیا گیا۔ سلیم شاہ کو یہ لطیفہ پسند آیا۔حکم دیا کہ گوالیار چل کر تنخواہ بانٹ دیں گے۔ وہاں پہنچا تھا کہ اجل کا پیام پہنچا۔ ۹۶۰ ھ ؁ میں اس کے خاتمہ سے خاندان کا خاتمہ ہوا۔کیونکہ سلطنت انہی باپ بیٹوں پر تمام ہوئی۔ پھر طوائف الملوکی تھی۔ انہی کی بابت دلی میں مثل مشہور تھی کہ کیا غرض شیر شاہ کی داڑھی بڑی یا سلیم شاہ کی۔ فیروز خان اس کا بارہ برس کا بیٹا تخت نشین ہوا۔مبازر سلیم شاہ کا چیچرا بھائی بھی تھا اورسالا بھی، سلیم شاہ نے کئی دفعہ اس کے قتل کا ارادہ کیا۔ اور بی بی بائی (فیروز خان کی ماں) سے کہا کہ اگر بیٹے کی جان پیاری ہے ۔تو بھائی کے سر سے ہاتھ اٹھا۔اور بھائی پیارا ہے تو بیٹے سے ہاتھ دھو۔ بے عقل عورت نے ہر دفعہ یہی کہا کہ میرا بھائی عیش کابندہ ہے۔ اسے ان باتوں کی پرواہ بھی نہیں۔اس سے سلطنت کب ہوئی؟۔آخر وہی ہوا۔ تیسرے ہی دن تلوار سونت کر گھر میں گھس آیا،بہن ہاتھ جوڑتی تھی اور پاؤں پر لوٹتی تھی۔ کہ بھائی بیوہ کا بچہ ہے۔ میں اسے لے کر کسی ایسی جگہ نکل جاتی ہوں کہ کوئی اس کا نام بھی نہ لے گا۔۔اور یہ سلطنت کا نام نہ لے گا۔ اس قسائی نے ایک نہ سنی اور ایک دم میں کم عمر بچے کی عمر تلوار سے تمام کر دی۔آپ محمد عادل شاہ بن کر تخت پر بیٹھا،عجب اتفاق ہے کہ نظام خان شیر شاہ کا چھوٹا بھائی تھا۔ اس کا ایک بیٹا ،یہی خون ریز عادل شاہ،تین بیٹیاں جن میں ایک خوش نصیب سلیم شاہ کے محلوں میںبادشاہ بیگم ہو کر بد نصیب ہو گئی۔دوسری بیٹی ابراہیم سور سے بیاہی گئی۔ تیسری سکندر سور سے،غرض تینوں کے شوہروں نے کچھ مدت یا برائے نام شاھی کا لقب ضرور پایا۔ عادل شاہ اپنی سبک حرکتوں دے عدلی اور اندھا دھند کاموں سے اندھلی مشہور ہو گیا۔ وہ نہایت خوش عیش وعشرت پسند تھا۔راگ رنگ کا عاشق۔شراب وکباب کا دیوانہ تھا۔ اور یا تو دیوانہ مزاجی سے اور یا اس غرض سے کہ لوگوں کو پرچائے،جب سلطنت کا مالک ہوا تو خزانوں کے منہ کھول کر سونے ،روپے کے بادل اڑانے لگا،کتہ باسی (ایک قسم کا تیر) کہ اس کا پیکان تولہ بھرسونے کا ہوتا تھا۔ سواری شکاری میں یا چلتے پھرتے ادھر ادھر پھینکتا تھا۔ جس کے گھر میں جا پڑتا یا کوئی پڑا ہوا پاتا ،اور لاتا تو دس روپے انعام پاتا تھا۔ اس کے اندھا دھند انعاموں کے سبب سے افغانوں نے عدلی کا اندھلی کر دیا۔ راگ رنگ کی باتوں میں ایسا گنی گنواں تھا کہ بڑے بڑے گائیک اور نائک اس کے آگے کان پکڑتے تھے۔ اکبری عہد میں میان تان سین اس کام کے جگت گرو تھے۔ وہ بھی اسی کو استاد مانتے تھے۔ دکن کا ایک سازندہ ہندوستان میں آیا۔اس نے استادی کا نقارہ بجایا،اور سب کو ماننا پڑا۔ اس نے ایک پکھاوج تیار کی کہ دونوں ہاتھ دونوں طرف نہ پہنچ سکتے تھے۔ ایک دن بڑے دعوے سے دربار میں آیا اور پکھاوج بھی لایا۔ کہ کوئی اسے بجائے جو گویئے اور کلاونت تھے ، اور اس وقت حاضر تھے۔ سب حیران رہ گئے، عدلی نے دیکھا اور قرینہ تاڑ گیا۔آپ تکیہ لگا کر لیٹ گیا،اور اسے برابر لٹا لیا۔ ایک طرف سے ہاتھ بجاتا گیا۔پانو سے تال دیتا گیا۔ تمام اہل دربار چلا اٹھے،اور جتنے گویئے حاضر تھے ،سب مان گئے۔ اس کی لطافت مزاج کی عجیب وغریب نقلیں مشہور ہیں۔ ایک دن بداؤں میں میدان چوگان بازی سے پھرتے ہوئے کہا۔آج خوب بھوک لگی ہے۔ غازی خان ایک امیر تھا۔ اس کا گھر سر راہ تھا۔ عرض کی جو ماحضر ،حاضر ہے یہیں نوش فرمایئے۔ عدلی گیا اور دستر خوان بچھا۔ اول پوتھی کے قلئے کا سالن سامنے آیا۔وہ گھبرا کر اٹھ کھڑا ہوا، اور ایسا جی متلایا کہ سوار ہو کر محل بھاگا،راستے میں کہیں دم نہ لیا۔ اس کے فراغت خانہ میں خوشبو کو پھیلانے اور بد بو کو دبانے کے لئے اتنا کافور بکھیرتے تھے کہ حلال خور روز ،دو،دو ،تین ،تین سیر کافور قسم اعلیٰ سمیٹ کر لے جاتے تھے۔ پھر بھی جب وہاں سے نکلتا تھا تو رنگ کبھی زرد اور کبھی سبز ہوتا تھا۔ بد بو کی برداشت نہ تھی۔ یہ سب درست ہے۔ مگر میرے دوستو پہلے بھی کہہ چکا ہوں،اب پھر کہتا ہوں کہ جس طرح انسان کا مزاج ہے۔ کہ کوئی چیز اسے موافق ہے اور کوئی ناموافق،اسی طرح سلطنت کا بھی مزاج ہے۔ بعض چیزیں ہیں کہ اس کے لئے سم قاتل کا حکم رکھتی ہیں۔انہی میں ناچ ،رنگ اور اس قسم کے عیش وعشرت ہیں۔انہیں غذائے ناموافق سمجھو ،خواہ شگون منحوس۔ جہاں گانا بجانا بادشاہ کے دست وزبان پر آیا ،جانو کہ الو بولا، اب اس گھر کی خیر نہیں۔۔۔ چند ہی روز میں عدلی کی ہوابگڑ گئی۔دربار میں تلوار چل گئی، کئی سردار مارے گئے۔ بھانجے کے خون ناحق سے لوگوں کے دل بیزار تھے۔ عیاشی اور ناچ ورنگ نے اور بھی بے وقار کر دیا۔ دوسرے ہی مہینے چاروں طرف طلاطم مچ گیا۔ وہ کرانی سرداروں کے دبانے کے لئے گوالیار سے بنگالہ گیا،چونکہ امرائے ہمراہی سے بھی بد گمان تھا۔ اس لئے ابراہیم سور سے بھی بد گمان ہوا ۔چاہاکہ قید کر لے ، بہن ابراہیم کی بی بی، اس نے خاوند کو خبر دی۔ابراہیم شیر شاہ سے قریبی رشتہ بھی رکھتا تھا۔ لشکر سے بھاگ کر آیا۔اور آگرہ وغیرہ میان ولایت میں قبضہ کر کے بادشاہی نشان بلند کیا، عدلی نے استیصال کے لئے لشکر جرار بھیجا، مگر ابراہیم نے شکست فاش دی۔عدلی نے پھر لشکر بھیجا اور ہیمو کو سپہ سالار کیا۔ کئی جگہ لڑائیاں ہوئیں اور بڑے بھاری رن پڑے۔ابراہیم نے دکھا دیا کہ افغان کی ہڈی کتنی مضبوط ہے۔ اور ہیمو نے بھی سمجھا دیا کہ دال میں کسی طرح گوشت سے زور کم نہیں۔مگر انجام کار شکست کھا کر بھاگا۔ اب چاروں طرف سلطنت کے دعویدار اٹھ کھڑے ہوئے۔ سکندر سور سکندر سور دلی سے پنجاب تک ملک دبا کر بیٹھ گیا۔اور ابراہیم سے صلح کر کے یہ عہد نامہ بھی کر لیا کہ بلکہ یہ بھی ذمہ لیا کہ کابل سے جو سیلاب آئے ،اس کا روکنا میرا ذمہ ہے۔ محمد خان کوڑ یہ بنگالہ کا ھاکم تھا کہ اپنا نقارہ سب سے الگ بجا رہا تھا۔چنانچہ وہ ہیمو کی لڑائی میں اس طرح مرا کہ کسی کو خبر ہی نہیں ہوئی۔بعد اس کے ادھر اکبر کی تیغ سے ہیمو بقال مارا گیا۔ ادھر اس کے بیٹے کے حملہ انتقامی میں عدلی کا کام تمام ہوا۔ کرانی سردار بنگالہ وبہار میں تھے۔اور چاروں طرف کشت وخون کر رہے تھے۔کہ ہمایوں کوہستان کابل سے لشکر لے کر سیلاب کی طرح گرا۔اور اقبال اکبری نے سب کو صفا صفا کر دیا۔ رات ہر اک مہ جبین محفل میں گرم لاف تھا صبح وہ خورشید نکلا تو مطلع صاف تھا خدا وند خان دکنی نظام شاہی امیروں میں تھا۔ باپ مشہدی اور ماں حبشن تھی۔ قوی ہیکل اور دیدنی جوان تھا۔ اور بہادری سے بہادروں میں بلند تھا۔ خواجہ میرک اصفہانی کہ جن کا خطاب چنگیز خان تھا۔ جب مرتضیٰ نظام شاہ کے وکیل مطلق ہو گئے تو خدا وند خان کو بڑی ترقی دی اور اس نے بھی اپنی لیاقت سے عروج حاصل کیا اور چند روز میں صاحب دست گاہ ہو گیا۔ برار میں کئی عمدہ ضلعے اس کی جاگیر میں تھے۔مسجد روسن کھیڑہ ایسی مضبوط بنائی تھی کہ کئی سوبرس تک زمانے کی گردش اس کو جنبش نہ دے سکی۔ ۹۹۳ ھجری میں جب مرتضیٰ سبز واری سپہ سالار لشکر برار صلابت خان چوکس کے مقابلہ میں دکن میں نہ ٹھہر سکے تو خان بھی میر کے ساتھ فتح پور جا پہنچا۔اکبر دونوں کے ساتھ اچھی طرح سے پیش آیا۔ خان کو ہزاری منصب دیا۔ پٹن گجرات اس کی جاگیر ہوا۔ اور دربار میں ترقی کی سیڑھیوں پر چلنے لگا۔ ابو الفضل کی بہن سے شادی ہو گئی۔لیکن نوکروں کو بے حد لڑائی سے ایسا تنگ کیا کہ آقا سے بر سر دربار گستاخانہ بولا۔ اس وجہ سے نظروں میں سبک ہو گیا۔دلاور جوان نہایت نازک مزاج تھا۔ایک دن ابو الفضل نے ضیافت کی۔ کھانوں کی بہتات اوت انواع و اقسام شیخ کی عادت تھی۔ اس کے ہر نوکر کے آگے نو قاب کھانے کے،ایک طباق کباب گوسپند ، سوروٹیاں رنگ برنگ کی تھیں۔ خود خان کے سامنے کبک ودراج ،مرغ وماہی کے کباب ہائے رنگا رنگ اور ساگ سالن وغیرہ وغیرہ کھانے چنے گئے۔ اس نے بہت برا مانا اور کھانے سے اٹھ گیا۔کہ میرے سامنے مرغ کے کباب کیوں رکھے ،میرے ساتھ مسخرہ کیا ہے۔ اکبر کو خبر ہوئی تو اسے سمجھایا کہ یہ چیزیں ہندوستان کے تکلفات ہیں۔ اور کھانے کو کہو تو تمہارے ایک ایک نوکر کے آگے نو نو طباق رکھے ہیں۔پھر بھی خان اپنے دل سے صاف نہ ہوئے،نہ یہ اس کے گھر گئے۔ ملا صاحب ۹۹۸ ھجری میں کہتے ہیں کہ خدا وند خان دکنی رافضی کہ شیخ ابولافضل کی بہن حسب الحکم بادشاہ اس کے نکاح میں آئی تھی۔ اور قصبہ کڑی ولایت جاگیر میں پائی۔دوزخ کی قرار گاہ کو بھاگا،تاریخ ہوئی ۔ع۔۔۔۔ کہ خداوند دکنی مردہ،،، طبقات اکبری میں ہے کہ ایک ہزار پانصدی منصب تھا۔ ۱۹۹۵ھ میں مر گیا۔ ماثر الامرا ۹۹۷ ھ ؁ میں لکھتے ہیں۔ خواجہ امینا خواجہ امین الدین تربیت، خواجہ امینا کے نام سے مشوہر تھے۔تربت علاقہ خراسان کے رہنے والے تھے۔ایران کے سفر میں ہمایوں کے حاضر خدمت رہے۔ عالم شہزادگی میں چند روز اکبر کی بخشی گرمی سے اعزاز پایا تھا۔ بیرم خاں کے معتمدان خاص الخاص میں تھے۔ یہ وہی ہیں کہ جب اس کا زوال شروع ہوا تو دو امیروں کے ساتھ انہیں دربار میں عرض ومعروض کرنے کے لئے بھیجا تھا۔دربار کے فتنہ انگیزوں نے انہیں بھی قید کروادیا۔پھر قید سے نکلے اور بڑھتے بڑھتے وکیل مطلق کے رتبہ عالی کو پہنچے۔اور خواجہ جہان کا خطاب پایا۔ان کی لیاقت نے ایسے ایسے کام اور انتظام کیے کہ ابو الفضل جیسے شخص نے ان کے باب میں لکھا ہے،قلمرو حساب میں شہسوار تھا۔ خط شکسۃ نہایت درست اور خوب لکھتا تھا۔مالیات کے بندو بست اور حساب کتاب کے معاملوں میں بال کی کھال اتارتا تھا۔ ہمایوں نے چند روز اکبر کے دربار میں بخشی بھی کر دیا تھا۔مدت تک مدار مہمات سلطنت کا ان کی رائے پر تھا۔جب خان زمان کے اصلاح معاملات کے لئے منعم خان اور مظفر خان کو بھیجا،تو انہیں بھی ساتھ ہی بھیجا۔مہم کا فیصلہ خان زمان کی عفو تقصیر پر ہوا۔ جب امراء واپس پھرے تو مظفر خاں یلغار کر کے حضور میں پہنچے،اور بادشاہ کے ذہن نشین کر دیا کہ امراء نے خان زمان کی رعایت کی۔خواجہ جہان عتاب میں آئے،طغرائے بادشاہی کی مہر اس کا زیور افتخار تھا۔چھن گئی اور حکم ہوا کہ حج پر جاؤ۔اور خدا سے گناہ معاف کرواؤ۔ پھر مقربان درگاہ نے سفارشیں کیں اور یہیں خطا معاف ہو گئی۔ملا صاحب کہتے ہیں کہ رشوت خوری کے نیستان کا شیر تھا۔ بلکہ اس کے اختیارات کے سبب لوگ اکبر سے بھی ناراض ہو گئے تھے۔ خواجہ کے عین جاہ وجلال میں صبوحی شاعر نے کہا ہے۔ ہر اہل ہنر سد سکندر در تست یاجوج کہ گویند صف لشکر تست اور دور تو آثار قیامت پیدا است دجال توئی خواجہ امینا خر تست بخیلی میں شہرہ عالم تھا، رات کو کھانا بچتا تو اٹھوا رکھتا تھا۔ صبح کو باسی کھاتا تھا۔لیکن غرض مندوں کی کار سازی میں بے نظیر تھا۔ اپنے بیگانے کی کوئی قید نہ تھی۔ جب ملازمان دربار میں کسی کو کام آن پڑتا تو وہ اس کی مدد کے لئے فورا تیار ہو جاتا تھا۔ سعی وکوشش تو پوری کرتا تھا۔ لیکن حق الخدمت کے لئے خواجہ اس سے اپنی رقم ٹھہرا لیتا تھا۔اور کام نکال دیتا تھا۔طوغ ،علم، نقارہ ، خانی وسلطانی، منصب فورا دلوا دیتا تھا۔ جو جاگیر چاہتا تھا وہی ہو جاتی تھی۔صاحب علم ،اہل فضل،ترکستان، خراسان ،ایران،ہندوستان کے ہزاروں آئے۔اور اس نے ہزاروں ہی دلوائے۔ملا صاحب کہتے ہیں کہ اس کی سعی سے بادشاہ مجھے بھی بہت روپے دیتے تھے۔ اور جس طرح اور امیر دیتے تھے۔آپ بھی ہر شخص سے سلوک کرتا تھا۔ملا عصام کے شاگرد کہ شاگرد فاضل تاش کندی کہ صدر نشین اہل فضیلت تھے۔ (سورہ محمد کی جو تفسیر انہوں نے لکھی ہے کافی ہے۔) انہیں بادشاہ اور امراء سے چالیس ہزار روپیہ دلوایا۔وہ خوب سامان شایان سے منعم خان کے پاس بنگالہ پہنچے ۔وہاں سے دولت بھری،مکے پہنچے،وہاں سے ایران کے راستے بار برداری گھر پہنچائی اور آپ قبر میں چلے گئے۔ جب شاہ مہم پٹنہ پر گئے تو یہ ہم رکاب تھے۔ رستہ میں بیمار ہو کر جون پور میں ٹھہر گئے۔مراجعت کے وقت بادشاہ اسی راہ سے آئے۔خواجہ ساتھ ہو گئے۔ اکبری لشکر ہاتھیوں کا کجلی بن تھا۔ ایک منزل میں فیل مست نے ان پر حملہ کیا۔ یہ بھاگے،ایک تو بڑھاپا ،دوسرا اضطراب۔خیمہ کی طناب میں الجھ کر گرے اور دفعتا بے حال ہو گئے۔ خوف کا ایسا صدمہ دل پر ہوا کہ پھر نہ اٹھے۔ ۹۸۳ ھجری میں ملا صاحب کیا مزے سے کہتے ہیں۔خواجہ امینا وزیر مستقل جس کا خطاب خواجہ جہان تھا پٹنے سے پھرتے ہوئے لکھئنو میں مر گیا۔اور بے شمار دولت چھوڑ گیا۔ سب خزانہ میں داخل۔ خواجہ شاہ منصور حساب کتاب معاملہ فہمی اور تحریر وتقریر میں کار گزار اہل کار تھا۔ خوشبوی خانہ کا داروغہ تھا۔اس کے حسن لیاقت اور تحریر وتقریر کے جوہر سے اکبر اسے بہت عزیز رکھتا تھا۔مظفر خان کی شدت اور سخت گیری سے تنگ رہتا تھا۔اور ہمیشہ پیچ مارتا تھا۔ ایک دن گفتگو میں بات بڑھ گئی۔ شاہ نے رہنا مناسب نہ سمجھا ،ناکامی میں دربار چھوڑا۔جون پور گئے اور قابلیت ذاتی کی بدولت خان زمان کے دیوان ہو گئے۔ وہ مارا گیا۔ اس کا کام برہم ہو گیا۔ منعم خان کے پاس بنگالہ گیا۔ اس کی سرکار کے تمام کاروبار کو سنبھال لیا۔ وہاں سے وکالت کے سلسلے میں آمدو رفت ہوئی،اس میں ایسی لیاقت دکھائی کہ اس کی کار وائی بادشاہ کی منقوش خاطر ہو گئی۔جن منعم خان مر گیا تو بادشاہی محاسبہ کے پھندے میں پھنس کر راجہ ٹوڈر مل کے شکنجے میں کسے گئے۔ آخر بے سفارش،خاص بادشاہ کی جو ہر شناسی سے پھر حضور میں پہنچے۔ ۹۸۳۔ ۹۸۴ ھ؁ میں دیوان کل ہو گئے۔اور امور ملکی میں راجہ ٹوڈر مل کے شریک غالب ہو کر کام کرنے لگے۔ کسی استاد کا شعر ہے ع نا قابل ست آنکہ بدولت نمے رسد ورنہ زمانہ در طلب مرد قابل ست ملا صاحب اس موقع پر شعر مذکور میں اصلاح فرماتے ہیں اور کہتے ہیں ؎ ناقابلان دہر بدولت رسیدہ اند پس چوں زمانہ در طلب مرد قابل ست اول حقق ست وثانی سم، سبحان اللہ ،پھر دونوں طرف نشتر مار گئے۔کوئی پوچھے پہلا شعر حق ہے یا پہلا مصرع؟۔ خیر ملا صاحب جو چاہیں سوکہیں۔ خواجہ صاحب کی خوبی لیاقت اور کار دانی میں کلام نہیں۔فراست اور دانائی سے دفتر حساب کو درست کیا۔ اور پرانے پرانے معاملے جو الجھے پڑے تھے۔ انہیں صاف کیا۔ پہلے دستور تھا کہ ہر سال معتبر اور کاروان اہل کار دیہات میں ضلع بہ ضلع جاتے تھے۔ اور جمع بندی بنا کر لاتے تھے۔ اس کے مو جب روپیہ وصول ہوتا تھا۔اب کہ ممالک محروسہ نے زیادہ دامن پھیلایا تو اس طرح کام چلنا مشکل ہوا۔ وہ کچھ لکھ کر لاتے ،زمیندار کچھ اور دینا چاہتے۔باقی فاضل کے بڑے جھگڑے پڑتے۔نرخ بھی ہر ایک علاقہ کا ٹھیک ٹھیک نہ معلوم ہوتا تھا۔ ۹۸۱، ۹۸۲ ؁ ھ میںکہ جب تک اڑیسہ کشمیر، ٹھٹھہ اور دکن ملک اکبری میں داخل نہ ہو ئے تھے ۔ تو ملک بارہ صوبوں میں تقسیم ہوا اور ملک کا بندوبست ۵۱ سال کا آئین مقرر ہوا۔ اس کا انتظام راجہ ٹوڈر مل اور ان کے سپرد ہوا تھا۔راجہ تو مہم بنگالہ پر بھیجے گئے۔انہوں نے کشت وکار کے کل مراتب اور نرخ وغیرہ کی تحقیقات کر کے گاؤں گاؤں کے لئے جمع بندی کی عمدہ کتابیں مرتب کیں۔اتنی بات ضرور ہے کہ ان کے مزاج میں دقتم جز رسی،کفایت اندوزی اور سخت گیری بشدت تھے۔ امرا ء سے سپاہی تک سب تنگ تھے۔ حساب میں ایسا پیچ مارتے تھے کہ کتاب کے شکنجہ میں کس دیتے تھے۔ جن دنوں ان کا ستارہ اقبال چمکا۔ ان ہی دنوں ایک دم دار ستارہ نکلا۔یہ شملہ کچھ لمبا چھوڑا کرتے تھے۔ لوگوں نے ان کا نام دم دار ستارہ رکھ دیا تھا۔جب کوچہ وبازار میں سواری نکلتی،اشارے ہوتے ،بلکہ ان کی سختیاں دیکھ کر لوگ مظفر خان کی کم بختیاں بھول گئے۔ انہیں پر لعنت اور نفرین کے ڈھیر لگا دیئے۔ کہ بسیار بد باشد ازبد تر یہ ادھر مال گزاری کے بندوبست میں تھے،ادھر مظفر خان مہم بہار وبنگالہ کا سر انجام کر رہے تھے۔خواجہ نے باوجود کاردانی اور سخن فہمی کے وقت کو نہ پہچانا کہ سپاہ ممالک دور دست میں جان فشانی کر رہی ہے۔ موقع دل جوئی اور دل داری کا ہے۔ نہ کہ سخت گیری اور خون خواری کا۔انعام واکرام کی جگہ کاغذ بنا کر بھیجا۔ کہ امرائے بنگالہ سے دہ ،پانزدہ ، اور بہار سے دہ؎ دوازدہ وصول کیا جائے۔سپہ سالار ہمیشہ سپہ کا طرف دار ہوتا ہے۔ وہاں مظفر خان سپہ سلار تھے کہ پہلے دیوان تھے کہ انہوں نے شروع سال رواں سے روپیہ طلب کیا۔ امراء سب بگڑ گئے۔بغاوت کی آگ بھڑک اٹھی۔نئے سرے سے فوج کشی ہوئی ۔ہزاروں آدمی مارے گئے۔ ملک تباہ ہوا۔ پشتوں کے نمک حلال ،جان باز باغی ہو کر قتل ہو گئے۔ ٹوڈر مل کی ان سے چشمک تھی۔ وہ بنگالہ میں شامل مہم تھے۔ انہوں نے وہاں سے رپورٹ کی اور مصلحت کے نشیب وفراز بادشاہ کے منقوش خاطر کیے۔ بادشاہ سمجھ گیا اور خواجہ کی جگہ شاہ قلی کو دیوان کر دیا۔ لیکن ان کی خیر خواہی۔ دماغ سوزی اور محنت دل پر نقش ہو چکی تھی۔چند روز بعد پھر وزارت کو خلعت مل گیا۔ مرزا حکیم اکبر کا سوتیلا بھائی حاکم کابل تھا۔اسی سال میں بغاوت کر کے ادھر آیا اور لاہور پہنچ گیا۔اکبر نے آگرہ سے فوج روانہ کی اور پیچھے آپ سوار ہوا اور پانی پت تک پہنچ ہی تھا کہ مرزا حکیم بموجب عادت کے بھاگ گیا۔ اکبر سرہند پر پہنچا۔ خواجہ اس وقت سر ہند کے صوبہ دار تھے۔ ان سے کیا امراء کیا اہل دربار مدت سے جلے ہوئے تھے۔ مرزا حکیم کے فرمان اور اس کے امراء کے جعلی خطوط خواجہ کے نام اور کچھ خواجہ کے خطوط اس کے نام پر بنا کر پیش کیے۔موقع ایسا تھا کہ اکبر کو بھی یقین آگیا اور سمجھا کہ حقیقتا ادھر ملا ہوا ہے۔ انہی خطوط میں ایک عرضی شرف بیگ ان کے عامل کی ان کے نام تھی۔اس کا خلاصہ یہ کہ میں فریدوں خان مرزا کے ماموں سے ملا، مجھے مرزا کے پاس لے گیا۔ باوجود کے تمام پرگنہ پر عامل تعینات کر آئے ہیں،ہمارے پرگنہ کو معاف کیا ہے۔ ملک نامی کہ مرزا کا قدیم نمک خوار اور دیوان تھا۔وزیر خان اس کا خطاب تھا۔ شروع مہم میں اس کے پاس آیا، ظاہر یہ کیا کہ میں مرزا سے ناراض ہو کر آیا ہوں۔اس لئے سونی پت کے مقام میں ملازمت حاصل کی۔ اور سابقہ شناسائی کے سبب سے خواجہ کے پاس اترا۔یہاں مشہور ہو گیا کہ جاسوسی کے لئے آیا ہے۔غرض پیچ پر پیچ برابر پڑتا گیا۔تعجب یہ ہے کہ راجہ مان سنگھ نے بھی اٹک سے ۳ خطوط گرفتار کر کے بھیجے،اور لکھا تھا کہ شاد مان کے بستر سے نکلے تھے۔ایک خط کا خلاصہ یہ تھا کہ تمہاری یک جہتی اور نیک اندیشی کی عرضیاں پہنچ کر توجہ کو بڑھا رہی ہیں۔ان کے نتیجوں سے کام یاب ہوگئے وغیرہ وغیرہ۔۔۔ آزاد لاعلمی کے اندھیرے میں بد گمانی کی تیر اندزای کیا ضرور ہے؟۔ جس طرح اکبر کو لوگوں نے دھوکا دیا۔مان سنگھ بے چارے کو بھی غوطہ لگا دیا ہو گا۔ بادشاہ بھی متردد تھے۔ قید کر کے ضامن مانگا۔ ان بے چارے کا ضامن کون ہو۔مسلمانوں نے ثواب اور ہندوؤں نے پن کمائے۔نواح انبالہ، منزک کچھ کوٹ پر بے جرم وبے خطا منصور کی میراث خواجہ شاہ منصور کے گلے باندھی۔تاریخ ہوئی۔ شاہ منصور حلاج ۹۸۹ ؁ ء میں شیخ ابو الفضل نے کئی جگہ اس کی لیاقت کو عمدہ سارٹیفکیٹ دیئے۔ قتل کے مقام پر لکھتے ہیں کہ اگرچہ فضیلت علمی نہ رکھتا تھا۔ مگر پکا محاسب،جانچ کر بات کہنے والا، نکتہ فہم ،خوردہ گیر،کاروبار کا بوجھ سنبھالنے والا،فصحیح بیان، کوش کلام، خوش وضع ،خوش نما انداز، نیک اطوار تھا۔ کچھ کوٹ کی منزل میں درخت سے لٹکا دیا۔ملا صاحب خطوں کی گرفتاری کا حال کس خوب صورتی سے لکھتے ہیں۔صبح کو خدمت رائے سے فرمایا۔اس نے منزل کچھ کوٹ میں پھانسی سے لٹکا دیا اور خدائی کا مظلمہ گلے میں پٹا رہا۔ کہ قیامت تک لٹکا کرے گا۔ ایاک رخدمتہ الملوک فانہم یستغطون عند السلام والجواب ویستحقرون عند العقاب ضرب الوقاب۔۔۔۔۔ خدمت سلاطین سے بچنا! یہ وہ ہیں کہ سلام دینا بھی بڑی بات سمجھتے ہیں۔اور خفا ہوں تو گردن مارنی کچھ بڑی بات نہیں۔ع۔ خوش باش کہ ظالم نبردہ بسلامت خیال کرو! شاہ منصور کا ذکر ہے اور نشتر کی نوکیں کہاں کہاں چبھوتے جاتے ہیں۔ہاں اصل نصیحت کا مضمون نقش کرنے کے قابل ہے۔ ؎ نباشی بکار جہاں سخت گیر کہ ہر سخت گیرے بود سخت میر بآسں گزاری دمے مے گزار کہ آساں زید مرد آساں گزارد جب مرزا حکیم کی مہم کا خاتمہ ہوا تو کابل میں پہنچ کر اکبر نے بہت تحقیقات کی۔ سازش کی بو بھی کہیں سے نہ نکلی۔یہ ہی معلوم ہوا کہ کرم اللہ، شہباز خان کمبو کے بھائی بعض امراء خصوصا راجہ ٹوڈر مل کی اشتعالک سے یہ قبیلے بنے تھے۔ اکبر نے اس کے خون ناحق سے اور اس نظر سے کہ ایسا کاروان اہل کار ہاتھ سے گیا۔ بہت افسوس کرتے تھے۔ اور کہا کرتے تھے کہ جس دن سے خواجہ مرا۔تمام حساب درہم برہم ہو رہے ہیں۔اور محاسبہ کا سررشتہ ٹوٹ گیا ہے۔ ایسا محا سب خوردہ گیر،نکتہ سنج شخص کم ملتا ہے۔ خواجہ ہزاری منصب تک پہنچے۔ چار برس وزارت کی اور استقلال اور استحقاق سے وزارت کی۔ خواجہ مظفر علی المخاطب بہ مظفر خان پہلے مظفر علی دیوانہ کہلاتے تھے۔ بیرم خان کے دیوان تھے۔تحریر ،تقریر، اور حساب کتاب میں عمدہ لیاقت رکھتے تھے۔ جب زمانہ نے خان خانان سے بے وفائی کی،تو یہ اس کی وفا داری میں ثابت قدم تھے۔ اس نے پنجاب کا رخ کیا اور اپنے عیال اور مال واسباب کو قلعہ بٹھنڈہ میں ذخیرہ کیا،یہاں اطمیان کی صورت یہ تھی کہ شیر محمد دیوانہ یہاں حاکم تھا۔خان خانان کے صد ہا پرورش یافتہ میں سے ایک دلاور یہ بھی تھا۔ مگر اس میں خصوصیت یہ تھی کہ بیٹا کہلا تا تھا۔ افسوس کہ بیٹا ناخلف نکلا، جب خانخانان نے وہاں سے کوچ کیا۔اور دیپال پور میں پہنچا تو دیوانہ نے تمام مال واسباب ضبط کر لیا۔ اور اہل وعیال کی بڑی بے عزتی اور اہانت کی۔ خان خانان کو جب یہ خبر پہنچی تو سخت رنج ہوا۔ خواجہ مظفر علی اور درویش محمد اذبک کو بھیجا کہ اسے درد مندی کی تدبیریں پلائے۔اور نصیحت کی معجونیں کھلائے۔ شاید کہ دیوانہ کا دماغ اصلاح پر آئے۔یہاں دیوانہ کو کتے نے کا ٹا تھا۔ ع۔۔ اے عاقلان کنارہ کہ دیوانہ مست شد۔ وہ کس کی سنتا تھا۔ اس نے اسے بھی قید کر کے دربار کو روانہ کر دیا۔ درویش دربار میں آئے تو یاروں نے چاہا کہ تلوار تلے دھر دیں۔مگر بادشاہ نے قید پر قناعت کی۔جب خان خانان کی خطا معاف ہوئی تو سب کے گناہ بخشے گئے۔ ان کی لیاقت نے اول خدمت سے منصب لیے۔ چند روز کے بعد پسرور کا علاقہ جاگیر ہو گیا۔لیاقت عمدہ ،مادہ قابل تھا۔ خان خانان جیسے شخص کے زیر دست دیوان رہے تھے۔ بہت جلد ترقی کی سیڑھیوں پر چڑھ گئے۔اول دیوان بیوتات ہوئے۔ ۹۷۱ ؁ ھ میں وکیل مطلق ہو کر مظفر خان ہو گئے۔ عمدۃ الملک سے خطاب کا وزن سنگین ہوا۔ اور امیر الامرائی نے اسے تاج دار کیا۔ انہیں کی تجویز سے شیخ عبد النبی صدر صدر الممالک دربار اکبری کے ہوئے۔ٹوڈر مل کے ساتھ شریک ہو کر کام کرتے تھے۔ ایسے دو بالیاقت اہل کاروں کا اتفاق اتفاقا ہوتا ہے۔ افسوس یہ ہے کہ ان دنوں میں جزئیات سے لے کر کلیات تک اختلاف ہی رہتا تھا۔ایک سے ایک دبتا نہ تھا۔ کیونکہ اکبر کی نظر دونوں پر برابر تھی۔دونوں کار گزاروں کو دو ہاتھ برابر لیے چلتا تھا۔ راجہ نے ایک دن سر دیوان خواجہ سے کہا کہ تم مسلمان بہت نوکر رکھتے ہو۔انہوں نے کہا اچھا تم ہندو نوکر رکھو اور اپناکام چلاؤ۔ ۹۸۰؁ ھ میں اکبر نے چاہا کہ سپاہ میں داغ اور دفتر مال گزاری میں خالصہ کا آئین جاری ہو۔ جلسہ مشورۃ بیٹھا اور امراء سے صلاح ہوئی۔ ٹوڈر مل نے عر ض کی بہت مناسب تجویز ہے۔ حالت موجودہ کی قباحتیں بھی دکھائیں۔اور عرض کی کہ مظفر خان اور منعم خان کو گوارا نہ ہو گا۔ مظفر خان سارنگ پور میں جا کر دم بھی نہ لینے پائے تھے کہ طلب ہوئے۔ جب ان سے کہا گیا کہ اس کا انتظام کرو ،تو انہوں نے بر خلاف رائے دی۔ اور اس بے ہودگی سے دلائل پیش کیے کہ بادشاہ ناراض ہو گئے۔ اور یہ عتاب میں آئے۔ اسے ان کی گستاخی یا سینہ زوری جو کہو درست۔ لیکن تجربہ کار اہل کار تھے۔ چنانچہ جو وہ سمجھے تھے ۔وہی ہوا۔ کہ دونوں تجویزوں میں سے ایک بھی پیش نہ گئی۔ آخر سب محنتیں بر باد گئیں اور دفتر گاؤ خورد ہو گئے۔ اسی سال میں منعم خان نے مہم پٹنہ سے بادشاہ کو لکھا کہ سامان جنگ وغیرہ وغیرہ مرحمت ہو۔اور حضور خود قدم اقبال کو ادھر جنبش دیں۔ تاکہ فتح کی موج میں جنبش ہو۔ بادشاہ نے ان کی خطا معاف فر ما کر سامان مذکورہ کا اہتمام ان کے سپرد کیا۔ تاکہ فتح کی موج میں جنبش پیدا ہو۔ یہ خدمت میں مصروف ہوئے ۔مگر اپنی اکڑ تکڑ کے پورے تھے۔پھر ایسی خود رائی اور بے پرواہی سے کام سر انجام کرنے لگے کہ دوبارہ نظروں سے گر گئے۔ خیر چند روز کے بعد پھر خطا معاف ہو گئی۔ ۹۷۸ ؁ ھ میں خان جہان حسین قلی خان مر گئے،تو بادشاہ نے ملک بنگالے کا انتظام ان کے سپرد کیا۔ وہاں ان کے سخت احکام اور سینہ زور بندوبست نے کام خراب کر دیا۔ تمام امراء باغی ہو گئے۔ اور یہ ترکان قاقشال کی سر شوری سے مارے گئے۔ خواجہ کی قابلیت اور کار وائی میں کچھ کلام نہیں۔ دربار میں اور باہر دربار میں سب انہیں عزیز رکھتے تھے۔مگر ان کی تجویزیں اور احکام اور حساب کتاب کی عمل در آمد ایسی سخت تھی کہ کوئی برداشت نہ کر سکتا تھا۔ جب دیوان کل ہوئے تو لوگوں نے تاریخ کہی۔ ظالم، ان کی کار وائی دیکھ کر لوگ راجہ کی روکھی سوکھی کو بھی بھول گئے۔اہل ظرافت میں ایک شعر مشہور تھا ع۔۔ سگ کاشی بہ از خراسانی گر چہ صد ہا بار سگ زکاشی بہ یاروں نے جل کر اس میں اصلاح کی اور یہ کہا ؎ سگ راجہ بہ از مظفر خان گر چہ صد بار سگ زراجہ بہ راجگان میواڑ یا ادیپور راجگان میواڑ یا ادیپور اپنے خاندان کا سلسلہ نوشیروان سے ملا دیتے ہیں۔ اس کے اثبات یا انکار کی ضرورت نہیں۔یہ ضرور ہے کہ کل ممالک ہندوستان کے راجہ اس خاندان کی عظمت پر ادب کے ہار چڑھاتے ہیں۔ اور راجگان میواڑ نے بھی اپنے اوصاف قومی کے لحاظ سے رتبہ مذکورہ کی خوب حفاظت کی۔ عہد سلف میں جو راجہ کسی راج میں گدی پر بیٹھتا تھا۔ اول وہاں حاضر ہوتا تھا۔ رانا اپنے پانو کے انگوٹھے سے ذرا سا لہو نکالتا تھا ۔اور اس کے ماتھے پر تلک دیتا تھا۔ پھر تخت نشینی کی رسمیں آگے چلتی تھیں۔ جہانگیر نے اپنے توزک کے ۸ ؁ جلوس میں رانا امر سنگھ کے حال میں لکھا ہے کہ رانا، زمینداران و راجہ ہائے معتبر ہندوستان میں سے ہے۔ اس کی اور اس کے ابا واجداد کی سروری وسرداری کو تمام رائے اور راجا اس ولایت کے تسلیم کرتے ہیں۔ مدت دراز سے دولت اور ریاست ان کے خاندان میں چلی آتی ہے۔ پہلے مدت دراز تک سمت مشرق میں حکومت کرتے رہے۔ ان دنوں راجہ کا لقب رکھا تھا۔ پھر کوہستان میوات میں آئے۔ اور رفتہ رفتہ قلعہ چتوڑ کو فتح کیا۔ اس وقت سے آج تک کہ میرے جلوس کا آٹھواں برس ہے۔ ۱۴۷۱ برس ہوتے ہیں۔ ۱۰۱ برس کے عرصہ میں ۲۶ فرمانروا اس خاندان کے راول کے لقب سے نام ور ہوئے۔اور راول سے رانا امر سنگھ تک کہ اب رانا ہے۔ ۴۶۰ برس میں ۲۶ فرمانروا ہوئے۔ جب بابر نے آگرہ تک قبضہ کر لیا تو اس وقت میواڑ کا فرمانروا سنگھرام (رانا سانگا) تھا۔ اس کا جاہ وجلال بھی دیکھنے کے قابل ہو گا۔ اسی ہزار سوار،سات راجہ مہاراجہ ، نورا ویک سوچار راول اور راوت، پانسو ہاتھی لے کر میدان جنگ میں آیا کرتا تھا۔ مارواڑ ،آمیر،جودھپور وغیرہ کے راجہ اس کا ادب کرتے تھے۔ گوالیار،اجمیر، رسائن بیکری،کالپی، چنا ، چندیری ، بوندی ، گگراواں،رام پور،الورر کے راجہ اس کے باج گزار تھے۔راج کی شمالی حد پر پیلا کھل (متصل بیانہ مشرق) مشرق میں دریائے سنائے،جنوب میں مالوہ، مغرب میں میواڑ کے پہاڑ تھے۔ یہ رانا ضرور چکر وتی راجہ ہندوستان کا ہوتا ۔اگر بابر اس کی موت کا فرشتہ ترکستان سے نہ آتا۔ اس نے بھی فتح وشکستکے سبق بابر سے یاد کیے تھے۔ خیال کرو کہ ایک دریائے سیحون کا پانی پینے والا ترک،دوسرا گنگا کا پانی پینے والا راجپوت اب سیحون کا پانی کنار رنگ کی سلطنتوں کو خاک میں ملاتا ہے۔(میواڑ کا راج) بابر اس وقت بابر اپنے واقعات میں لکھتا ہے کہ جب میں کابل میں تھا تو رانا نے رفیقانہ مراسلے لکھے۔ اور وکیل بھیجے کہ جب آپ دلی کی طرف کوچ کریں گے تو میں آگرہ آؤں گا۔ مگر جب میں نے ابراہیم کو شکست دی اور آگرہ کو فتح کر لیا تو اس نے میری بات بھی نہ پوچھی۔اور تھوڑے دنوں بعد کندھار کا محاصرہ کر لیا۔ کندھار حسن ابن مکن کے پاس تھا۔وہ اگر چہ خود میرے پاس نہیں آیا،مگر کئی دفعہ وکیل میرے پاس بھیجے۔ یہاں اٹا وہ ،دھول پور،گوالیار اور بیانہ میرے پاس نہ تھے۔ افغانوں نے پورب میں شور وشر مچا رکھا تھا۔ اس لئے اسے کمک نہ بھیج سکا۔حسن نے ناچار ہو کر قلعہ رانا سانگا کے حوالے کر دیا۔ قلعہ مذکور رن تھنبور سے چند میل مشرق کی جانب ہے۔ اور نہایت مستحکم ہے۔ مہدی خواجہ کے خط میرے پاس آگرہ میں آئے تھے۔ کہ رانا بڑھا چلا آتا ہے۔تمام راجہ ہنود اس کی رکاب میں ہیں۔ اور حسن خان میواتی بھی ساتھ ہے۔ یہ لڑائی بھی اس شان کی تھی کہ بابر اور اس کی اہل فوج کی جانوں پر بنی ہوئی تھی۔اور کسی کو بچنے کی امیدنہ تھی۔ سیکری پر میدان ہوا۔ (اکبر نے اس کا نام فتح پور ر کھا۔)تقدیری اتفاق تھا کہ نا امیدی کام یاب ہو گئی۔ہزاروں کا کھیت پڑا، بہت سے راجہ ٹھاکر اور مسلمان سردار اس کی رفاقت میں مارے گئے۔ رانا رن سے بھاگا ، چند روز کے بعد کوئی کہتا ہے کہ بی بی نے زہر دیا۔ غرض رانا مر گیا اور سلطنت چند بیٹوں میں چھوڑ گیا۔ جنہیں سوا گھر میں لڑنے کے کچھ لیاقت نہ تھی۔ نالائق اولاد نے آپس کی کشا کشی کے بعد گھر کی کثافت کو تخفیف دی۔ اور اودے سنگھ سب میں چھوٹا بیٹا گدی پر بیٹھا۔ اس کے عہد میں اکبر نے چتوڑ اور رنتھبور فتح کیا۔ نالائق اور بے ہمت اودے سنگھ پہاڑوں میں گھس گیا۔ اس کے عہد میں اکبر کے حکم سے اول مرزا شمس الدین نے قلعہ میرٹھ پر فوج کشی کی۔ جمیل رانا کی طرف سے وہاں کا حاکم تھا۔ اس نے بڑی دلاوری سے مقابلہ کیا ۔آخر بھاگ گیا۔ ۷ ؁ جلوس میں ۵۱۲ ء اور ۹۶۹ ھ میں قلعہ مذکور خالی ہوا۔یہ پہلی ٹکر تھی کہ اودے پور کے راجہ بھیل کو قوم کے لوگ پناہ نہ دیتے،تو خدا جانے کیا حال ہوتا؟۔ وہ بھی نہ دربار میں آیا نہ اطاعت پر راضی ہوا۔ اس نے پیچ در پیچ گھاٹیوں کے جال میں اپنے نام پر ادیپور کو آباد کیا۔ کہ راج نگری ملک مذکور کی ہے۔ وہیں ایک گھاٹی میں کئی اطراف سے بند باندھ کر ایک جھیل بنائی۔وہ اب بھی اودے ساگر مشہور ہے۔ عرصہ دراز تک بد نامی اور بے لیاقتی کے ساتھ زندگی کی۔ قوم کی عزت برباد اور بنیاد ممالک کو ذلیل کرتا رہا۔ ۴۲ برس کی عمر میں اودے سنگھ کی عمر پوری ہوئی اور پرتاب اس کا بیٹا جانشین ہوا۔ وہ بے شک خاندان کا نام روشن کرنے والا تھا۔ اگر پرتاب سنگھ کے بعد وہی گدی پر بیٹھتا تو بابر اور اس کی اولاد کو دم نہ لینے دیتا۔ اکبر نے بھی ہزار جتن کیے ۔مگر اس کی گردن نہ جھکی، دربار تک بھی نہ آیا۔ رن تھنبور شیر شاہ کے بعد اس قلعہ میں حاجی خان اس کا غلام حاکم تھا۔ اس نے اکبر کا اقبال طلوع دیکھ کر اپنی حالت پر نظر کی۔ ڈرا کہ مبدا شعا ع اقبال سے جل جائے۔ ۱۵۵۹ ء ؁ میں اور ۹۹۶ ھ میں راجہ سرجن کے ہاتھ بیچ ڈالا۔ سرجن رانا کے عزیزوں میں تھا۔ اس نے بہت سے محل اور مکانات بنوائے۔ باہر بھی دور دور تک عمل داری پھیلائی۔جب اکبر چتوڑ کی فتح سے فارغ ہوا۔ تو ۹۷۶ ھ ؁ میں اکبر نے رنتھنبور کے قلعہ پر فوج کشی کی۔اس وقت رائے سرجن ہارا راج کرتا تھا۔ یہ قلعہ راجگان سلف کی عالی ہمتی نے پہاڑوں کے بیچ میں جا کر کوہ رن کی چوٹی پر بنایا تھا۔ اس پہاڑ پر بڑے بڑے پتھر ہیں اور درختوں سے چھائے ہوئے ہیں۔رن پہاڑ کو کہتے ہیں اور تھنبور (جوشن پوش) یعنی جوشن پوش پہاڑ۔وہ برائے نام قلعہ تھا مگر حقیقت میں ملک خدائی تھا۔ جس کے گرد فصیلیں کھنچی ہوئی تھیں۔ کہیں فصیلیں تھیں۔ کہیں پہاڑوں کے دامن پر قدرتی فصیلیں تھیں۔اس کے محا صرہ میں بھی سخت دشواریاں پیش آئیں۔ بے دمدموں کے کام یابی ممکن نہ تھی۔ چنانچہ اس کا انتظام بھی ٹوڈر مل کو کہ وزیر مطلق ہو گیا تھا۔ اور قاسم خان میر بحر کو سپرد ہوا۔ اس نے کمال عرق ریزی اور بڑے انتظام سے اس کا بندوبست کیا۔ بہادروں نے دروں میں گھس کر اور پہاڑوں پر چڑھ کر اونچے اونچے مقام پیدا کیے۔ جس کی بلندی قلعہ کی عمارتوں کو قہر کی نظر سے گھورتی تھی۔ اور اس پر ساٹھ ساٹھ منی توپیں چڑھائیں،اور ایک ایک توپ کو دو دو سو بیل اور سات ،سات ،آٹھ آٹھ سو کہاروں نے کھینچا۔ اور ان پہاڑوں کی چوٹیوں اور دھاروں پر پہنچا دیا کہ جہاں چیونٹی کے پاؤں پھسلتے تھے۔ایک ایک توپ پانچ،پانچ،سات ،سات من کا گولہ اگلتی تھی۔ جب آگ کے بادل سے لوہا برسنا شروع ہوا تو پتھروں کے سینے پھٹ گئے اور پہاڑ تہہ وبالا۔قلعہ کے مکانات فرش زمین ہو گئے۔ اور مکان والے بلبلا اٹھے۔ راجہ چتوڑ کا حال دیکھ چکا تھا۔ گھبرا گیا۔ بعض ٹھاکروں اور زمین داروں کو بیچ میں ڈالا،دودھ ،بھوج اپنے دونوں بیٹوں کو دربارمیں بھیجا اور یہ بھی کہا کہ کوئی امیر آکر مجھے بھی لے جائے۔ تو میں بھی حاضر ہوں۔ بادشاہ نے حسین قلی خان کو بھیجا۔راجہ قلعہ کے باہر تک استقبال کو آیا۔ بہت تعظیم واحترام کیا اور قلعہ میں جا کر اتارا۔ خان نے راجہ کی بہت تشفی کی اور اپنے ساتھ دربار میں لا کر حضور میں پیش کیا۔ اس نے سونے کی کنجیاں اور گراں بہا پیشکش نذر کیے۔ اور تیسرے دن قلعہ فتح ہو گیا۔ تاریخ ہوئی فتح مثٰنے۔ جو وجہ تسمیہ اوپر لکھی ہے وہ اکبر نامہ سے لی ہے۔ جہانگیر نے ۱۰۲۷ ء ؁ کے واقعات میں اپنی توزک میں لکھا ہے۔ کہ سلطان علا ؤ الدین خلجی کے زمانہ میں رائے بتمبر دیو یہاں کا راجہ تھا۔ سلطان نے جب فوج کشی کی تو مدت ہائے مدید کے محاصرہ میں بڑی محنتوں اور کوششوں سے فتح پائی تھی۔میرے والد نے ایک مہینہ بارہ دن میں فتح کر لیا۔میں نے قلعہ مذکور کو دیکھا دو پہاڑ برابر ہیں۔ ایک کا نام رن ہے ،دوسرے کا تھنبور ہے۔ دونوں لفظ مل کر رن تھنبور ہو گیا۔ اگرچہ قلعہ نہایت مضبوط ہے اور پانی بھی بہت ہے۔ مگر رن بڑی مضبوط فصیل ہے۔ اور حصار کی فتح اسی پر منحصر ہے۔ چنانچہ والد بزرگوار نے فرمایا کہ تین توپیں رن پر چڑھا دو اور قلعہ کے اندر کی عمارت کو سامنے دھر لو۔ پہلی ہی توپ کو آگ دی تو رائے سرجن کی جوکنڈی پر گولہ لگا۔ اس کی ہمت کی بنیاد اکھڑ گئی۔ گھبرا گیا اور قلعہ حوالہ کر دیا۔قلعہ کی تمام عمارتیں ہندوانی طور پر بنی ہیں۔ اور مکان بے ہوا اور کم فضا بنائے ہیں۔ پسند نہ آئے اور دل نہ لگا ،جی نہ چاہا کہ ٹھہروں۔ایک حمام نظر آیا کہ قلعہ کے پاس رستم خان کے ایک ملازم نے بنایا تھا۔ باغیچہ اور بالا خانہ بھی ہے کہ صحرا کی طرف کھلا ہوا ہے۔ ہوا فضا کے لطف سے خالی نہیں۔ اور تمام قلعہ میں اس سے بہتر جگہ نہیں۔رستم خان میرے والد کے امراء میں سے تھا۔ اور بچپن سے بندگی میں تربیت پا کر محرمیت اور قرب خدمت ھاصل کی تھی۔اس اعتماد کے سبب سے قلعہ مذکور اس کے سپرد ہوا۔ قلعہ دیکھ کر میں نے حکم دیا کہ یہاںکے قیدیوں کو حاضر کرو۔سب کے حال سنے، خونی یا جس کے چھوڑنے سے فتنہ آشوب کا خطرہ ہو۔اسے تو قید رکھا ،باقی سب کو چھوڑ دیا۔ اور ہر ایک کو خرچ وخلعت بھی عطا کی۔ سادات بارہہ ضلع مظفر نگر میں کہ دوآبہ گنگ وجمن میں واقع ہے۔صد ہا سال سے بارہ گاؤں مشہور چلے آتے ہیں۔ ان میں سادات کی آبادی ہے۔یہاں کے سید بڑے صحیح النسب اور بڑے بہادر تھے۔ سلاطین سلف کے عہد میں انہوں نے بڑے بڑے کا رنامے کیے ہیں۔اکبری فوج میں بھی دلاوری کے چہرہ کو سرخ رو کرتے رہے۔اول ان میں سید محمود بارہہ تھے کہ پہلے سکندر سور کے ساتھ قلعہ مان کوٹ میں محصور تھے۔جب اکبری فوج نے محاصرہ کا دائرہ بہت تنگ کیا تو سردار ساتھ چھوڑ چھوڑ کر بھاگنے لگے۔یہ مع اپنے ہمراہیوں کے اکبری لشکر میں آئے اور ملازمت بادشاہی اختیار کی۔ان کی خدمات جان فشان نے منصب کا درجہ چار ہزاری تک بلند کیا۔ ان کے بیٹے سید ہاشم بارہہ برابری منصب تک پہنچے تھے کہ شہادت کا منصب نصیب ہوا۔ سید عبد المطلب، سید عبد اللہ خان بارہہ وغیرہ نامی سردار اسی خاندان کے تھے۔ اور ہر میدان میں ایسے بے جگر ہو کر لڑتے تھے کہ ان کی شجاعت آج تک ضرب المثل چلی آتی ہے۔ مرزا عزیز لوکلتاش کہا کرتے تھے کہ سادات بارہہ دولت اکبری کے فدا ہیں۔ سلیمان کرانی سلیمان کرانی چھوٹا بھائی تھا۔ تاج خان حاکم بنگالہ کا۔بنگالہ کی حکومت قدیم ایام سے پٹھانوں کے ہاتھ چلی آتی تھی، جو کہ کہنے کو سلطان دہلی کے تابع فرمان تھے۔لیکن در حقیقت خود مختار بادشاہ اپنے ملک کے تھے۔ اور شاہ دہلی کے مقابلہ میںکبھی کبھی وہ اپنے نام کا خطبہ بھی پڑھوا لیتے تھے۔ جب سلیم شاہ سوری مر گیا۔ اور مبارز خان اس کا سالا عادل شاہ بادشاہ ہوا۔تو کرانی افغانوں کے چند سردار اور بعض امراء دربار سلطنت کا رنگ برنگ دیکھ کر عدلی کے دربار سے الگ ہو گئے تھے۔ وہ بنگالہ کی طرف گئے۔اور ادہر کے ملکوں میں جا کر مختلف قطعات پر قبضہ کر لیا تھا۔ ان کا سر گروہ تاج خان تھا کہ جمعیت قوم سے طاقت والا۔ تدبیر میں لیاقت والا، اور دین ودیانت کی پابندی سے نظروں میں پورا وزن وقار رکھتا تھا۔ اس کا ذکر نہ کرو کہ سلیم شاہ کے اشارے سے خواص خان کو قول وقسم کر کے بلایا اور قتل ہی کر ڈالا۔کیونکہ سلطنت کے کار خانوں۔خصوصا افغانوں میں یہ معمولی باتیں ہیں۔ سبحان اللہ، آزاد وہی خواص خان،جسے شیر شاہ نے بچوں کی طرح پالا تھا۔ اور وفاداری اور جان نثاری کے جوہر سے سلطنت کا بازو اور اپنی آنکھوں کا نور سمجھتا رہا۔ ہاں،ہاں بلکہ خاص وعام اس کی دین داری اور خدا ترسی کے لحاظ سے مرنے کے بعد بھی خواص خان ولی کہتے رہے۔غرض عدلی، سکندر سور اور ابراہیم سور وغیرہ ہندوستان مین کٹتے مرتے رہے۔تاج خان الگ بنگالہ میں بیٹھے رہے۔ ان کا اقبال آس پاس کے سرداروں کو آہستہ آہستہ خاک میں دباتا گیا۔ان کو ابھارتا گیا۔ وہ ان کے علاقوں کو دباتا گیا۔ اور وہ زور پکڑتے گئے ۔یہاں تک کہ جلال خان بھی مر گیا۔ اور ملک بنک بہار پر قابض ہو گئے۔ چند روز کے بعد تاج تختے پر لیٹے،سلیمان کرانی تخت پر بیٹھے۔سلیمان نام کوچھوٹا بھائی تھا ۔مگر اوصاف مذکورہ میں اس سے بھی بڑا ہوا تھا۔ اس نے کٹک بنارس سے جگن ناتھ تک ملک فتح کیے۔اور کام روپ سے اڑیسہ تک تمام ملک سلیمان بنا دیا۔باوجود اس کے بادشاہی کا تاج اپنے نام پر نہ رکھا۔حضرت اعلیٰ لکھواتا تھا۔ جب تک وہ زندہ رہا،اکبر یا اس کے کسی سردار کا منہ نہ ہوا کہ آنکھ بھر کر ادھر دیکھ سکے۔ جب خان زمان علی قلی خان کے زور بازو سے اکبری سلطنت مشرق کی طرف پھیلتی ہوئی چلی،تو ادھر کی تمام سر زمین امرائے افغان سے پٹی پڑی تھی۔ خان زمان چھوٹی موٹی ریاستوں کو تلوار کی جھاڑو سے صاف کرتا تھا۔ گڈھ مانک پور اور جون پور تک جا پہنچا۔ اور زمانیہ اپنے نام پر آباد کیا۔ خان زمان ایک مجموعہ مختلف طلسمات کا تھا۔ ملک گیری اور ملک داری دو وصفوں کو دونوں ہاتھوں پر برابر لے کر چلتا تھا۔ اس نے حریف کے زور کو تولا۔اور وقت کی مصلحتوں کو دیکھا ،کیونکہ ابراہیم سور ملک مالوہ سے بھاگ کر ادہر آیا تھا۔اور راجہ جگن ناتھ کے پاس پناہ لے کر تاک لگائے بغل میں بیٹھا تھا۔بڈھے بہادر نے جوان دلاور سے بگاڑ کرنا مناسب نہ سمجھا۔ دوستانہ پیام سلام اور خط وکتابت جاری کر کے موافقت پیدا کی۔ خان زمان کی گرم جوشی اور تپاک عالم دوستی اور ارتباط میں قوت برقی کو مات کرتی تھی۔آپ خورد اور بڈھے کو بزرگ قرار دے کر اول تاج خان کو بعد اس کے سلیمان کو عمو بنایا۔ اور اکبر کا خطبہ اس کی مسجدوں میں پڑھوا کر اطاعت بادشاہی پر مائل کیا۔ اس کے بھی دشمن پرانے افغان اور قدیمی راجہ ادھر لگے ہوئے تھے۔کہن سال افغان نے بھی غنیمت جانا ہو گا اور سمجھا ہو گا کہ ایک با اقبال بادشاہ کا سپہ دار،عالی ہمت فتح یاب ہمسایہ میں آگیا۔ چھوٹا بن کر ملتا ہے کیا ضرور ہے کہ خواہ مخواہ محبت کو عداوت اور آرام کو خود تکلیف بتاؤں۔ وہ بھی زمانہ سازی کرتا رہا۔ اور وقت کو دیکھتا رہا۔ چنانچہ جب اکبر خان نے خان زمان پر فوج کشی کی تو اس نے عمو کی طرف بھی نکاس کا راستہ نکال رکھا تھا۔چنانچہ اکبر نے وہاں بھی ایلچی بھیج کر دیوار کھینچ دی۔ اور سلیمان نے اکبری فرمان کو فرماں برداری کے ساتھ آنکھوں پر رکھا۔ بڈھا افغان جیسا دنیاوی معاملات میں تجربہ کار تھا۔ ویسا ہی عاقبت کے لحاظ سے صاحب دل پرہیز گار تھا۔ڈیڑھ سو عالم اور مشائخ اس کی صحبت میں ہوتے تھے۔ اس کا قاعدہ تھا کہ ہمیشہ پچھلی رات سے اٹھتا تھا۔نماز تہجد جماعت سے پڑھتا تھا۔اور صبح تک قال اللہ و قال الرسولؐ سے صحبت نورانی رہتی تھی۔تفسیر اور حدیث اور ذکر الٰہی سنتا رہتا تھا۔ صبح کی نماز پڑھ کر مہمات ملکی،سپاہ ورعیت کے مقدمات،حساب کتاب ولین دین کے کاروبار میں رہتا تھا۔ تقسیم اوقات کا ایسا انتظام تھا کہ ایک ساعت ضائع نہ ہونے دیتا تھا۔ ۹۸ ؁ء میں وہ فوت ہوا۔اس کے مرتے ہی دیو زاد قابو سے نکلے۔ بایزید بڑا بیٹا تخت نشین ہوا اور اپنے نام کا سکہ وخطبہ جاری کیا۔ گوجر خان، قتلو خان وغیرہ پرانے پرانے افغان اور بڑے بڑے جتھے والے دربار سلیمانی کے رکن تھے۔ ان کی نیتیں نیک اور رائیں متفق نہ تھیں۔نوجوان مسند نشین کا دماغ بہت بلند تھا۔ مگر گھر کے فسادوں کو دبا نہ سکا۔یہاں تک کہ ۵ ،۶ مہینے کے اندر خود خاک کے نیچے دب گیا اور قتل کا خنجر کون؟۔ہانسو چیچرا بھائی کہ دامادبھی تھا۔ ملک کی جیتی جان لودھی خان تھ۔ اس کشت وخون کے بعد اس کی تجویز سے داؤد چھوٹے بھائی نے بڑے کی جگہ پائی۔ گوجر کہتا تھا کہ تلوار میرا ہی مال ہے۔ اس نے بہار میں با یزید کے بیٹے کو تخت پر بٹھا دیا۔ لودھی لشکر لے کر گیا۔ اور کچھ فہمائش اور کچھ نمائش سے روک تھام کر اسے بھی شامل کر لیا۔ داؤد نے ملک سلیمان پر قناعت نہ کی۔جوانی کے ارمان نکالنے لگا۔ تاج شاہی سر پر رکھا،لقب بادشاہی اختیار کیا۔ اپنے نام کا خطبہ پڑھوایا۔داودی سکہ جاری کروایا۔تاج سر پر آتے ہی غرور کی ہوا دماغ میں بھری۔صلاحیت کے خیالات اڑ گئے۔ باپ جن افغانوں سے بھائی بندی اور برادری کا زور ڈال کر جان نثاری کرواتا تھا۔ یہ ان سے نوکر کے طور نبٹنے لگا۔ اللہ اللہ باوجود ان کرامتوں کے ابراہیم سور کو عہد وپیمان کر کے جگن ناتھ سے بلایا اور بہشت میں پہنچا دیا۔ ؎ سبحہ در کف، تو بہ بر لب،دل پر از شوق گناہ معصیت را خندہ مے آید بر استغفار ما بادشاہت کی خبر سن کر اکبر کے سوئے ہوئے وہم جاگ اٹھے۔دوسری قباحت کا اثر سب سے زیادہ برا ہوا۔ کیونکہ افغان جن کے بھروسہ پر ساری طمطراق تھی۔ سب کے دل ٹوٹ گئے۔نوجوان لڑکے نے بڑی غلطی یہ کی کہ لودھی کو اپنا کر کے نہ رکھا۔ یہ پراتم پٹھان،سلیمان کا وزیر، تجربہ کار سپاہی،اس ملک کا رکن اعظم تھا۔ قتلو خان،گوجر خان وغیرہ بھی پرانے پٹھان تھے، مگر نہ اس درجہ کے ۔وہ ہمیشہ لودھی سے لڑتے تھے،اور اب انہوں نے موقع پا کر لڑکے کو بڈھے سے لڑا دیا۔ اور لڑایا کس بات پر؟۔ دس ہاتھیوں پر۔بڈھے نے ذرا بھی پرواہ نہ کی۔ داؤد حاجی پور پٹنہ میں سلطنت کا طنبور بجاتا تھا۔لودھی قلعہ رہتاس پر بیٹھا تھا۔ اور اپنے نقارے پر چوٹیں لگاتا تھا۔ ہمسایہ کے حق سے بڈھے نے بڈھے سے راہ رکھی تھی۔چنانچہ اب لودھی نے منعم خان سے مدد مانگی۔انہوں نے فورا چند امراء کے ساتھ فوج بھیجی ۔ ایک دن داؤد جریدہ چند سپاہیوں کے ساتھ شکار کو نکلا۔ لودھی دس ہزار سوار لے کر چڑھ آیا۔ داؤد شہر میں بھاگ گیا۔ لیکن سمجھا کہ معاملہ قابل تدارک کے ہے۔ لودھی کے ساتھ جو لوگ تھے، اکثر سلیمان کے نمک خوار تھے۔ لودھی نے آہستہ آہستہ انہیں توڑنا شروع کیا۔ لودھی کو بھی خالی نہ چھوڑا۔ مکر ودغا کے گلاب چھڑک کر بہت سے پیام وسلام بھیجے۔جن کا خلاصہ یہ تھا کہ میں تمہیں حضرت اعلیٰ کی جگہ سمجھتا ہو ں۔ اگر خاندان کا پاس کر کے تم نے بعض اہل خاندان کی رفاقت کی ،اور مجھ سے خفا ہوئے تو مجھے شکا یت نہیں۔ میں تمہیں ہر بات میں پشت پناہ جانتا ہوں ۔ اب کہ بادشاہی لشکر سر پر آگیا ہے۔ جس طرح ہمیشہ قوم کی خیر خواہی پر کمر بستہ رہے ہو۔ اسی جوش سے آؤ۔ لشکر، توپ خانہ ، خزانہ جو درکار ہو ،حاضر ہے۔ دیکھو بڈھا وزیر لڑکے سے دغا کھاتا ہے۔ لودھی جانے کو تیار ہوا۔ پیام سلام ہونے لگے۔ کالو اس کے وکیل نے سمجھایا کہ دغا ہے۔ جانا مناسب نہیں، اس کی موت گریبان کھینچے لیے لے جاتی تھی۔ہر گز نہ مانا، کالو نہ گیا۔ آخر جانے والا اور نہ جانے والا دونوں جان سے مارے گئے۔ پیچھے کالو بھی مارا گیا۔ بات رہ گئی اور بے وفائی کا داغ رہ گیا۔ اگر چہ اس وقت لودھی کے سر پر موت تلوار کھینچے کھڑی تھی۔مگر اس نیک نیت نے اس عالم میں بھی نصیحت سے دریغ نہ رکھی۔ اور کہا کہ خیر دشمنوں کی فتنہ سازی کا فسوں اس وقت چل گیا۔ مگر میاں صاحب زادے بہت پچھتائے گا اور کچھ فائدہ نہ پائے گا۔ اب بھی جو مصلحت ہے کہے دیتا ہوں ، عمل کرے گا تو فتح تیری ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ جو صلح میری معرفت دو لاکھ دے کر ہوئی ہے۔ اس پر نہ پھولنا۔ مغلیہ کی بلا اتنی بات میں سر سے نہ ٹلے گی۔ اگر بگاڑنی ہے تو پیش دستی کرو۔ اور فورا جا پڑو کہ ع۔۔۔۔ کہ ہر گز مشت پیشیں را بدل نیست۔نوجوان نے جانا کہ بڈھا بنی بات کو بگاڑتا ہے۔منعم خان کی صلح پر کہ جو چار دن کی چاندنی تھی، دھوکہ کھایا ،اپنے پاؤں پر کلہاڑی ماری۔ اور اپنے قدیم دولت خواہ کو مروا ڈالا۔ افغانوں کے لشکر میں اس واردات سے ہل چل مچ گئی،اور ایسا تفرقہ پڑا کہ اگر اس وقت منعم خان اپنی رکابی فوج لے کر جا پڑتا تو بنگالہ کا معاملہ طے تھا۔ مگر احتیاط نے اس کی باگ پکڑ لی۔ اور جو کام اس وقت ایک حملے میں ہوتا تھا۔ بہت سی مہموں کے بعد ہوا۔ سلیمہ سلطان بیگم گل رخ بیگم کی صاحب زادی تھیں۔ جو کہ ہمایوں کی حقیقی بہن تھی۔ باپ خواجگان کاشغر سے ایک خاندانی شخص تھے۔ سلیمہ سلطان رشتے سے ہمایوں کی بھانجی ہوئی۔ یہ پاک دامن بی بی محلوں کی بیٹھنے والی تھی۔ مگر نام ان کا امرائے نیک مرد کے ذ یل میں لکھا نظر آتا ہے۔اور اوصاف اور خوبی کی بر کت دیکھ کر تاریخوں اور تذکروں نے ان کے نام پر تعریفوں کے سہرے باندھے ہیں۔ وہ نیک طینتی کے ساتھ خوش کلام، شیریں بیان، حاضر جواب، با سلیقہ ، صاحب تدبیر تھیں۔جب خاندان سلطنت میں کوئی معاملہ الجھتا تھا تو ان کی دانائی اور عقل کی رسائی سے اور حسن تقریر کی وساطت سے سلجھتا تھا۔ پڑھی ،لکھی تھیں اور کتاب کے مطالعہ کا شوق رکھتی تھیں۔سخن فہم وسخن شناس تھیں۔ اور اہل سخن کی قدر دانی کرتی تھیں۔ ہمایوں نے مرنے سے چند روز پہلے انہیں بیرم خان خان خانان کے ساتھ نام زد کیا تھا۔اکبر نے ۹۹۵ ؁ ء میں اس تجویز کی تکمیل کی۔یہ شادی بھی تعجب سے خالی نہیں،کیونکہ جہانگیر نے تزک کے ۱۰۲۱ ؁ میں جہاں ان کے مرنے کا حال لکھا ہے۔ وہاں معلوم ہو تا ہے کہ ۹۶۱ ھ ؁ میں پیدا ہوئیں، شادی کے وقت تقریبا پانچ برس کی ہو ں گی۔ اس صورت میں سوا اس کے اور کیا کہہ سکتے ہیں کہ غرض اس وصلت سے فقط خان خانان کے ساتھ سلطنت سے رشتہ مضبوط کرنا اور اس کا اعزاز تھا۔ ملا صاحب ۹۸۲ ء کے حالات میں لکھتے ہیں کہ اس برس سلیمہ سلطان بیگم کہ پہلے بیرم خان کے حبالہ نکاح میں تھیں۔اور پھر حرم شہنشاہی میں داخل ہو گئیں۔سفر حجاز پر متوجہ ہوئیں۔آزاد حیران تھا کہ اس طنز کا سبب کیا ہو گا؟۔پھر حضرت ہی کتاب ۹۹۹ ء ؁ کے حالات میں لکھا ہے کہ نامہ خرد افزا ( سنگھاسن بیتی) آپ کی ترجمہ کی ہوئی کتاب تھی۔وہ بادشاہی کتب خانہ سے گم ہو گئی۔بیگم کو اس کی سیر کا شوق ہوا۔انہوں نے بادشاہ سے کہا۔ بادشاہ نے کیفیت حال سن کر کہا کہ ملا عبد القادر سے مسودہ لے لو۔یہ وطن گئے ہوئے تھے۔ رخصت سے بھی پانچ مہینے زیادہ ہو گئے تھے۔ بیگم نے بار بار عرض کی۔ بادشاہ ان کی عدول حکمیوں اور غیر حاضریوں سے پہلے بھی تنگ تھے۔اب تنگ تر ہوئے ۔آدمی بھیجا کہ جا کر گرفتار کر لاؤ۔اس عتاب وخطاب نے بہت طول کھینچا۔ حضرت نے اس کا غصہ بیگم پر نکالا اور ناحق اس کے دامن پاک پر ایک چھینٹا مرا۔ ۹۸۲ ھ؁ میں یہ اور گل بدن بیگم اکبر کی پھوپھی گجرات کے رستہ حج کو گئیں۔ چار حج متواتر کیے۔ آتے ہوئے جہاز تباہی میں آگیا۔ ایک برس اہل جہاز کو عدن میں ٹھہرنا پڑا۔ ۹۹۰ ھ ؁ میں داخل ہندوستان ہوئیں۔آخر عہد جہانگیری ۱۰۲۱ ھ ؁ میں ۶۰ برس کی عمر میں قضا کی۔ جہانگیر نے بھی ان کی لیاقت ،عفت اور عصمت کی تعریف کر کے مرنے کا افسوس کیا۔ سلیمہ سلطان بیگم، طبع سلیم کی لہر میں کبھی شعر بھی کہہ دیتی تھیں۔ ایک فرو مشہور ہے ع۔۔۔ کاکلت را من زمستی رشتہ ء جاں گفتہ ام مست بودم زیں سبب حرف پریشان گفتہ ام گل بدن بیگم بھی لکھنے پڑھنے کی استعداد رکھتی تھیں۔چنانچہ ہمایوں نامہ ان کا حسن قابلیت کی یاد گار ہے۔ سلطان مظفر گجراتی فرمانروائے گجرات واحمد آباد خاندان کا کچھ پتا نہیں ، اسی سے پہچان لو کہ نام اس کا تنو تھا۔چنانچہ ابو الفضل مظفر نہیں لکھتے تھے،اکثر تنو ہی لکھتے تھے۔ جب سلطان محمود گجراتی لا ولد مرا تو نمک حلال اعتماد خان نے آقا کا نام ونشان رکھنے کو دربار میں اسے پیش کیا۔ اور امراء کے سامنے قرآن پاک اٹھا کر کہا کہ ایک دن سلطان جنت آشیان نے ایک حرم پر خفا ہو کر قتل کا حکم فرمایا اور اسے میرے سپرد کیا۔ مجھے معلوم ہوا کہ اسے پانچ مہینے کا حمل ہے۔ اپنے گھر میں مخفی رکھا۔ اس سے یہ پچہ پیدا ہوا۔ اسے خدا وند زادہ سمجھ کر پرورش کرتا رہا۔اب تخت وتاج بے صاحب ہے۔ اس لئے مناسب ہے کہ صاحب تخت وتاج قرار دیا جائے۔ سب نے قبول کیا۔ چنانچہ تنو مظفر شاہ بن کر تخت پر بیٹھے اور اعتماد خان کا خطاب مسند عالی قرار پایا۔ مگر حال یہ تھا کہ اعتماد خان جب چاہتا دربار کرتا تھا۔ مظفر کو لا کر بٹھاتا تھا۔ آپ بیٹھتا تھا۔ اور جو جو مقدمے مناسب سمجھتا تھا پیش کرنے کا حکم دیتا تھا۔مظفر کی زبان سے کہلوا دیتا تھا۔ رفتہ رفتہ امرا ء میں بگاڑ پیدا ہوا۔ اور اسی بگاڑ میں سلطنت بگڑنی شروع ہوئی۔اعتماد خان نے دیکھا کہ میں اتنے بڑے بڑے سرداروں کی گردنوں کو دبا نہ سکوں گا۔ اکبر کو خفیہ عر ضیاں لکھنا شروع کیں۔ادھر سے فوج کشی ہوئی اور خون ریزلڑائیوں کے بعد مظفر ایک کھیت میں چھپا ہوا پکڑا گیا۔ ملک مذکور ۹۷۹ ھ ؁ میں دولت اکبری سے وابستہ ہو گیا۔ اکبر نے مظفر کو اول سلطانی اعزاز سے رکھا تھا۔ پھر اعتماد خان مذکور کی زبانی معلوم ہوا کہ بہل بان کا لڑکا ہے۔ جو کچھ کیا مصلحت وقت کے لئے کیا تھا۔بادشاہ نے خواصو ں اور خدمت گاروں میں ڈال دیا۔ اور اس کی عزت وعظمت کا وزن ۳۰ روپے قرار دیا۔ چند روز کرم علی داروغہ خوشبو خانہ کے سپرد رہا۔پھر منعم خان خانان کا زندانی رہا۔ وہ مر گیا تو حضور میں آیا۔ خواجہ شاہ منصور کی نگرانی میں رہا۔ ۲۳ ؁ جلوس میں بھاگ کر اپنے ملک میں پہنچا۔ قطب الدین خان پیچھے فوج لے کر پہنچے۔ یہ بھاگ کر لونبہ کاٹھی کی پناہ میں بیٹھ گیا۔ بے سرو سامان تھا۔اور پر شکستہ گزران کرتا تھا۔ اس لئے امراء نے کچھ خیال نہ کیا۔ یہا ں تک کہ بغاوت کر کے پھر صاحب فوج وعلم ہو گیا۔ سورت ۱؎ کے قلعہ کی فتح بندر سورت کا قلعہ سب سے کڈھب تھا، کہ سمندر کے کنارہ پر تھا۔ ۱؎ جن جہازوں کے لئے اب بندر بمبئی لنگر گاہ ہے،اس عہد میں سورت بندر تھا۔ اور نہایت محکم واستوار تھا۔سبب یہ تھا کہ فرنگیان پرتگال جہازوں پر آتے تھے۔رعایا کو لوٹتے تھے۔ پکڑتے اور مارتے تھے۔اور ملک کو بر باد کرتے تھے۔ خدا وند دکنی نے ان کو روکنے کے لئے یہ قلعہ بنوانا شروع کیا۔اہل فرنگ نے انواع واقسام کی تدبیروں سے تعمیر کو روکا۔جہازوں نے آگ برسائی ،مگر معمار اپنا کام کیے گئے۔ خدا جانے کیسے ریاضی دان مہندس تھے،فصیل کی بنیاد کو پانی تک پہنچا دیا۔ اور دو سو گز عرض کی خندق بھی اتنی ہی گہری کھودی۔ دوطرف خشکی تھی۔ ادھر کی دیوار میں پتھروں کو چونہ اور ماش ۱ ؎ سے وصل کر کے چنائی کی اور لوہے کے دو رخے کانٹے اس میں جڑے۔قلعہ کی دیوار کا ۱۵ گز عرض،۲۰ گز بلندی،دیوار دو تہی تھی۔کل کا عرض ۳۵ گز ،چار دیواری کا عرض پندرہ گز،بلندی عرض خندق کے برابر ، ۲۰ گز درزوں میں سیسہ پلایا تھا۔ فصیل کنگرہ اور سنگ انداز سے ایسی بلند اور خوش نما کہ جدھر دیکھو ،آنکھیں وہیں لگی رہ جائیں۔ دریا کی طرف ہر برجی پر چو کھنڈیاں بنا کر ان میں کھڑکیاں رکھی تھیں۔یہ پرتگال کی عمارت کا انداز تھا اور وہیں کا ایجاد تھا۔فرنگیوں نے اس کی تعمیر کو بہت روکا، جب جنگ وجدل سے کچھ نہ کر سکے تو آخر کار صلح پر آئے اور بہت ساروپیہ دینا کیا۔ کہ اس چوکھنڈی کو گرادو،خداوند خان کی عالی ہمتی نے کسی بات پر گردن نہ جھکائی۔اور تھوڑے ہی دنوں میں قلعہ بنا کر کھڑا کر دیا۔ ۹۷۵ ھ ؁ میں اکبر آپ بڑودہ میں ٹھہرا ،اور راجہ ٹوڈر مل کو بھیجا کہ آمد ورفت کا رستہ اور نشیب وفراز کے انداز جا کر دیکھو۔ یہ گئے اور دیکھ بھال کر ایک ہفتے کے بعد واپس آئے۔اور عرض کیا کہ کچھ بات نہیں ،ان ان ترکیبوں سے قلعہ آسان قبضہ میں آسکتا ہے۔اکبر لشکر لے کر گیا۔ ٹوڈر مل کا انتظام تھا۔ کوس بھر پر ڈیرے ڈال دیئے۔اور قلعہ کو اس طرح گھیر لیا کہ جیسے چاند کے گرد کنڈل، مور چال امراء کو تقسیم کر دیئے۔ قلعہ والے تنگ ہو گئے۔ دومہینے میں بڑے بڑے دمدمہ بلند کر کے اونچے ٹیلے بنا دیے۔ ان پر توپ خانے چڑھائے۔توپچی توپیں مارتے تھے۔سپاہی بندوقیں گولیاں برساتے تھے۔مورچے ایسے پاس پہنچا دیے کہ گولی سیدھی قلعہ کے اندر جاتی تھی۔کوئی سر اونچا نہ کر سکتا تھا۔ قلعہ کے پچھواڑے تالاب تھا۔ ادھر سر اپردہ اکبری قائم تھا۔مورچے بڑھاتے بڑھاتے اس پر قبضہ کر کے پانی بھی بند کر دیا۔ آخر اہل قلعہ عاجز آگئے۔اطاعت قبول کی اور قلعہ حوالہ کر دیا۔ دوسرے دن بادشاہ قلعہ میں گئے۔ سب جگہ پھر کر دیکھا۔ ٹوٹ پھوٹ کر مسمار ہو گیا تھا۔مرمت کا حکم دیا۔ ایک برج کے نیچے کئی عظیم الشان توپیں نظر آتی تھیں۔ یہ سلیمانی توپیں کہلا تی تھیں۔ معلوم ہوا کہ سلطان سلیمان خلیفہ روم نے چاہا تھا کہ ہندوستان کی بندر گائیں جو فرنگیوں کی لنگر گاہیں ہو گئی ہیں۔ ان پر فوج کشی کرے ،چنانچہ بہت بڑا لشکر اور قلعہ گیری کے سامان دریا کے راستے روانہ کیے تھے۔مگر حکام گجرات کی بد مددی اور رسد کی کوتاہی سے مہم خراب ہو گئی،اور اسباب مذکور جو ادھر آگئے تھے۔وہیں پڑے رہے۔اکبر نے دیکھ کر حکم دیا کہ اکبر آباد ہی میں رہیں۔ مورخ لکھتے ہیںکہ ایک ایک توپ صنعت اور ستم گاری کا کار خانہ تھی۔ سید محمد جون پوری جون پور کے رہنے والے تھے، حنفی مذہب تھا۔جب بادشاہوں کی اولاد بدلتی اور ملک کی بد انتظامی طول پکڑتی ہے تو خود سری کے مادے مختلف رنگوں سے ظہور کرتے ہیں۔ ان بزرگ کو آواز آئی کہ انت المھدی ( تو ہی مہدی ہے)۔ اس بنیاد پر مہدویت کا دعویٰ کیا۔انہوں نے جون پور کی تباہی کی تباہی کو آثار قیامت سمجھا۔اور جب کوئی نئی بات ظہور میں آتی تو کہتے کہ یہی قرب قیامت کی نشانی ہے۔ بہت سے واقعہ طلب اور اکثر جاہل کہ ضعیف الاعتقاد ہوتے ہیں، ان کے گرد جمع ہو گئے۔لیکن مخالف بھی بہت ہو گئے۔ چنانچہ جون پور سے تنگ ہو کر گجرات میں گئے۔سلطان محمد گجراتی ان کا معتقد ہو گیا۔لوگوں کی مخالفت سے وہاں بھی نہ ٹھہر سکے۔ عربستان میں سیاحی کی،حج کیا، مدینہ میں جا کر زیارت کی،ایران میں توقف کیا۔ لوگوں کا ہجوم ان کے گرد دیکھ کر شاہ اسمعیل نے نہایت سختی سے روکا۔ باوجود کہ فورا ایران سے چلے آئے۔ مگر مدت تک وہاں ان کا اثر باقی رہا۔ فرہ میں آکر ۹۱۱ ھ ؁ میں مر گئے اور قبر کی پرستش ہونے لگی۔ شیخ ابو الفضل آئین اکبری میں لکھتے ہیں کہ سید محمد جون پور بڈہ اویسی است،از فراوان روحانیہ فیض بر گرفتہ۔و بر صوری و معنوی علم چیرہ دست،از شوریدگی دعوئے مہدویت کرد، وبساری مردم برو گردیدند، وبسیار خارق ازو بر گزارند،وسر چشمہ مہدویت او از جون پور گجرات شد، وسلطان محمود کلان بہ نیایش بر خاست، واز تنگ چشمی زمانیایان بہ ہند نیارست بود،وبازش ایران زمین پیمود،دور رفرہ سر گزشت وہما جا آسود۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سید محمد جون پوری ضرور ایک زبر دست عالم تھا۔ جو علوم ظاہری وباطنی دونوں میں دست گاہ کامل رکھتا تھا۔ اور نہ صرف عامی اور جہلا نے اس کو مہدی برحق تسلیم کیا، بلکہ خووود سلطان محمودبادشاہ گجرات اس کے حلقہ عقیدت منداں میں داخل ہوا۔ سید محمد جون پوری کمالات علمی کے ساتھ اپنے میں کمال الوالعزمی بھی رکھتا تھا۔ جو اس کو ہند سے ایران زمین میں لے گیا۔ سید محمد جون پوری کے عقائد کا مفصل حال نہیں کھلتا۔ شیخ عبد الحق صاحب محدث دہلوی لکھتے ہیں( جو اس کے ہم عصر تھے) ایک مکتوب میں اتنا لکھتے ہیں کہ در اعتقاد سید محمد جون پوری ہر کمالیکہ محمد رسول اللہ داشت ، در سید محمد مہدی نیر بود فرق ہمیں است کہ آنجا بہ سالت بودوایں جا بہ تبعیت بود در تبعیت رسول بجائے رسیدہ کہ ہمچوں او شد ،فقط سید محمد میر عادل ملا صاحب لکھتے ہیں کہ امروہ علاقہ سنہبل کے رہنے والے تھے۔ دانش مند، عابد ، زاہد، متقی،پرہیز گار ۔اوائل حال میں وہ اور میرے والد سنبھل اور بداؤں کے بزرگوں اور استادوں کی خدمت میں تحصیل علم کرتے تھے۔میر سید جلال کے درس میں بھی ساتھ تھے۔حدیث میں میر سید رفیع الدین کے شاگرد تھے۔میر سید محمد صاحب تحصیل علوم کے بعد درس وافادہ میں مصروف ہوئے۔اکبر کے دربار میں میر عدل ہوئے۔اس منصب جلیل القدر کو نہایت عدالت ،انصاف ،راستی،اور امانت کے ساتھ سر انجام کیا۔اور حق ہے کہ یہ جامہ ان ہی کے قد پر ٹھیک آیا تھا۔پھر کسی کومیر عدل کہنا عقل کو رسوا کرنا ہے۔ بڑے بڑے قاضی ،مفتی ،بلکہ قاضی القضاۃ ان کی بزرگی اور سن وسال دیکھ کر ادب سے اپنی اپنی جگہ رک جاتے تھے۔ ھاجی ابراہیم سرہندی کی سر دربار فضیحت کی۔اور کوئی دم نہ مار سکا۔ اس کی مختصر حکایت یہ ہے کہ حاجی موصوف نے ایک دفعہ اکبر کا شوق دیکھ کر فتوٰی لکھا کہ سرخ اور زعفرانی لباس پہننا جائز ہے۔اور سند میں بھی کوئی ضعیف نحیف غیر مشہور سی حدیث لکھ دی۔ ملا نے پیچھے لپٹے اور جلسہ علماء میں وہ فتویٰ پیش ہوا۔ انہوں نے حدیث مذکور کی صحت میں سند دوڑائی۔میر عدل مو صوف اس پر بہت جھنجلائے اور عین مجلس بادشاہی میںبد بخت، ملعون اور دشنامی الفاظ ان کے حق میں صرف کر کے عصا مارنے کو اٹھے۔ یہ اٹھ کر بھاگ گئے۔ ٹھہرتے تو ضرور مار کھاتے۔ اور ان کا وقار و ادب اس قدر دلوں میں پھیلا ہوا تھا کہ سب ان کو بجا وبرحق سمجھتے ۔ ملا صاحب کہتے ہیں کہ تعلق موروثی اور شفقت قدیمی کے سبب سے میرے حال پر بہت توجہ تھی۔ میری ابتدائے ملازمت میں دربار کی رسائی اور بادشاہ کی شفقت دیکھ کر فرمایا کرتے تھے کہ زمین جاگیر کے درپے نہ ہو،صدور کی خواریاں اٹھانی پڑیں گی۔یہ لوگ مصر غرور کے فرعون ہیں،جو ہو سو ہو، داغ بادشاہی اختیار کر،ہائے میں نے ان کی نصیحت گوش قبول سے نہ سنی،ناچار جو دیکھا سو دیکھا، اور اٹھایا سو اٹھایا۔ ۹۹۵ ؁ ھ میں بادشاہ نے میر مو صوف کو بھکر بھیج دیا کہ ملک کا کنارہ ہے۔ اور قندھار بلکہ ایران سے پہلو لگتا ہے۔ بہانہ یہ کیا کہ آپ کے سوا دوسرے پر اعتماد نہیں،انہوں نے جا کر کچھ رسائی،کچھ چڑھائی کے ساتھ سیوی کو فتح بھی کیا۔ (یہی جواب سبی مشہور ہے۔)سید صاحب کی رخصت کے وقت جس حالت کے ساتھ ملا صاحب سے گفتگو ہوئی۔آہ، آہ ، مایوسی چپ کھڑی دیکھتی رہی۔حسرت سنتی تھی۔اور بولا نہ جاتا تھا۔۹۸۶ء ؁ میں وہیں دنیا سے انتقا ل کیا۔ سید فاضل اور اللہ بالفضل تاریخیں لکھی ہیں۔ملا صاحب کی ساری تاریخ میں ایک یہ اور پانچ ،چھ اشخاص شاید اور ہو نگے کہ ان کے نشتر قلم سے صاف نکل گئے۔ فرشتہ بھی آیا ہوگا تو ایک نہ ایک کوچا ضرور کھایا ہو گا۔ سید رفیع الدین صفوی سید رفیع الدین صفوی، ملا صاحب کہتے ہیں کہ انج میں ان کا خاندان بہت معظم اور محترم تھا۔اور یہ علماء اور محدثین عالی رتبہ میں شمار ہوتے تھے۔سکندر لودھی کے زمانہ میں جب آگرہ میں آکر آباد ہوئے تو یہاں بھی سب تعظیم وتکریم کرتے تھے۔اور سکندر لودھی نے حضرت مقدسہ خطاب دیا۔ باوجود کے دربار کی نوکری کبھی نہیں کی ، مگر کمال عظمت اور آسودہ حال میں زندگی بسر کرتے رہتے۔تمام اہل اسلام کے دلوں پر ان کا نیک اثر تھا۔اور بادشاہ کسی وقت بھی ان سے فتویٰ طلب کرتے تھے۔اور اکثر صلاح واصلاح سلطنت کے لئے ان کی طرف رجوع کرتے تھے۔بابر کے عہد میں بالکل نیا زمانہ تھا۔ دربار میں دخل رکھتے تھے۔ اور بعض علاقوں کے فرمانروا ان کی معرفت ملازمت میں آئے۔ ہمایوں نے جب شیر شاہ کے اقبال سے دوسرا صدمہ اٹھایا ،اور آگرہ میں آیا تو ان کے مکان پر گیا۔بھائیوں کی بد نفسی اور شیر شاہ کی سرشوری اور اپنی صورت حال بیان کر کے صلاح طلب کی۔انہوں نے کہا کہ جب بیگانہ ویگانہ کا یہ حال ہے تو بہتر ہے کہ آپ چند روز کے لئے اس ملک سے نکل جائیں۔ اور منتظر وقت رہیں کہ قدرت الہیٰ سے کیا ظہور ہوتا ہے۔وہ فورا آگرے سے لاہور اور یہاں سے سندھ پہنچا۔اور جو ہوا ، سو معلوم ہے، شیر شاہ کو بھی جب کوئی ایسی صورت پیش آئی ۔کہ اس میں رعایا کی نارضگی کا خیا ل ہوا، تو ان سے فتویٰ لیا اور جو کرنا ہوا سو کر گزرا۔ جب شیر شاہ جودھپور کی مہم فتح کر کے پھرا، تو سید مو صوف نے کہا کہ میرے آبا واجداد سے تصانیف بہترین معتبر یاد گار ہیں۔ سب صاحب فضل وکمال تھے اور حرمین شریفین میں درس کہتے تھے۔ سارے خاندان میں میں نا قابل ہوا۔ کہ ہندوستان کے زر ومال کا شہرہ سن کر لالچ کا مارا آوارہ ہوا۔ اور بے علم رہ گیا۔ اب مجھے رخصت فرمایئے۔ کہ اخیر عمر ہے جاؤں اور بزرگوں کی قبر پر چراغ جلاؤں۔شیر شاہ نے پھر روک لیا اور جو عذر تھا ،بیان کیا۔ سلیم شاہ کے دربار میں جب غلام نبی کا معرکہ ہوا۔ اور تمام علماء طلب ہوئے۔اس میں سید مو صوف بھی شامل تھے۔شیخ نے سید سے بھی ایک جھپٹ کی۔آگرہ میں پہنچتے ہی مبارک کا اور ان کا تعارف ہوا۔ اور اکثر نازک حالتوں میں یہ شیخ کے مدد گار رہے۔ شیخ ابوالفضل ان کا حال اس طرح لکھتے ہیں کہ میر مو صوف حسنی ،حسینی سید ہے۔ وطن فربہ آنکہ شیراز تھا،مگر مدت تک عرب میں سیاحی کرتے رہے، ہند میں آتے تھے تو آگرہ میں رہتے تھے۔ عرب میں جاتے تھے تو مکہ اور مدینہ میں سفر کرتے رہتے تھے۔اور درس وتدریس سے لوگوں کو فیض پہنچاتے تھے۔معقول ومنقول اپنے بزرگوں سے حاصل کرتے تھے۔مگر مولانا جلال الدین دوانی کی شاگردی سے نئی روشنی پائی تھی۔شیخ سخاوی کہ ابن حجر عسقلانی کے شاگرد تھے۔سید مو صوف نے علوم نقلی ان سے حاصل کیے تھے، چنانچہ شیخ نے اپنی مصنفات میں بھی ان کا کچھ کچھ حال لکھا ہے۔ شاہ عارف حسینی ایک بزرگ صاحب ریاضت تھے، پابند تقویٰ وطہارت ،شاہ اسماعیل کے پوتوں میں سے تھے۔ہمیشہ جو کی روٹی سے افطار کرتے تھے ،جلی ہوئی،اور اس میں جنگل کی گھاس ملی ہوئی،ایسی کڑوی ہوتی کہ کوئی نہ کھا سکے۔احکام شریعت پر ظاہر وباطن مستقل اور عامل تھے۔ ملا صاحب کہتے ہیں کہ شیخ ابو الفضل کے مکان پر قلعہ میں پانچوں وقت اذان کہہ کر نماز پڑھتے تھے۔ اور کسی کی پرواہ نہ کرتے تھے۔ یہ زمانہ وہ تھا کہ دربار سے نماز ،روزہ رخصت ہو چکا تھا۔ لوگ ان کی بہت سی کراماتیں خلاف قیاس بیان کرتے ہیں،مثلا ایک کاغذ کا گول گتا لکھ کر جلتی انگٹیھی میں ڈال دیتے تھے، اور اشرفیاں نکال کر بانٹنی شروع کرتے تھے۔جتنے لوگ مسجد میں ہوں ،سب کو نچا دیتے تھے، اور یہ بھی کہتے تھے کہ انہیں حجرے میں بند کر کے مقفل کر دیا، اس میں سے صاف نکل گئے۔ ایک دفعہ گجرات،دکن سے پھر کر لاہور میں آئے۔گجرات کے گرمی کے میوے جاڑے میں اور جاڑے کے گرمیوں میں منگائے۔اور لاہور میں لوگوں کو کھلائے۔ یہاں کے علماء جن کے سرگروہ مخدوم صاحب تھے۔ ان سے بھی اڑ گئے، صورت مسئلہ کی یہ قائم کی کہ آخر یہ میوے لوگوں کے باغوں کے ہیں اور انہوں نے بے اجازت تصرف کیا ہے، ان کا کھانا حرام ہے۔آخر بے چارے تنگ ہو کر کشمیر چلے گئے۔ علی خان حاکم کشمیر ان کا معتقد ہو گیا،اور کمال خلوص سے بیٹی نذر دی۔ لیکن صفوی خان دان کے شہزادے تھے،لوگوں نے ان کے دل میں شبہ ڈالا کہ ان کے دل میں ملک گیری کے ارادے موج مار رہے ہیں۔ اس نے بیٹی کا مہر مانگا ،یہ نہ دے سکے۔ اس لئے طلاق لے لی۔اور چند آدمی لگا دیے کہ جب میں ان کی ملاقات کو جاؤں تو تم معتقد بن کر جاؤ۔اور سید کو بہشت میں پہنچا دو۔ انہیں بھی معلوم ہو گیا۔ خفا ہو کر سر بصحرا نکلے۔ بے خبر نا حق شناسوں نے زبانی ازار دینے شروع کر دیے۔ آخر اس کے علاقہ سے نکل کر بھاگ گئے۔ تبت میں پہنچے۔ علی رائے حاکم تبت نے بہ کمال اعتقاد اپنی بہن سے شادی کر دی۔ وہاں بھی عجیب وغریب معاملات ظاہر ہوتے تھے۔ مثلا درخت کو ہلاتے تھے۔ اس میں سے روپے ،اشرفیاں جھڑتی تھیں۔لوگوں میں بانٹ دیتے تھے۔ غرض گجرات ،کشمیر، تبت میں ان کے عجیب وغریب تصرف مشہور ہیں،جہاں جاتے ،لوگ آکر گھیر لیتے تھے۔ساری دنیا کو خدا بھی خوش نہیں رکھ سکتا۔ کچھ معتقد ہوتے تھے، کچھ دشمن ہو جاتے تھے۔ وہ بیزار ہو کر وہاں سے نکل جاتے تھے۔ غرض شہر شہر بھاگے پھرتے تھے۔ ۹۹۷ھ؁ میں جو پہلی دفعہ بادشاہ کشمیر گئے،تو علی رائے مذکور کو ایلچی بھیجا تھا۔اور کہلا بھیجا تھا کہ بادشاہ موصوف کو بھیج دینا۔ وہ نہ بھیجتا تھا۔ مگر یہ اپنے دل کے بادشاہ تھے،خدا جانے کس وقت نکل کھڑے ہوئے،اور کہاں سے کہاں ہو کر کشمیر آن پہنچے۔سواری میں سر راہ آمنا ،سامنا ہوا۔ بادشاہ نے انہیں تعظیم سے اتروایا اور امرائے سے کہہ دیا کہ نظر میں رکھو ،جانے نہ پاہیں۔ کبھی کبھی بادشاہ سونے کے پیالے میں خوشبویاں ڈالتے اور پھول اور عطریات تحفے کے طور پر لے کر جاتے تھے، کئی دفعہ کہا کہ کچھ روپیہ کچھ جاگیر فرمائش کیجیئے۔ شاہ جواب میں کہتے تھے کہ روپے اپنے احدیوں کو دو کہ وہ بد حال ہیں۔ ایک دن بادشاہ نے کہا شاہ یو تو ہم جیسے ہو جاؤ یا ہم کو آپ جیسا کر لو، جواب دیا ،ہم نامراد تو تم جیسے کیوں کر ہو سکتے ہیں،تم چاہو تو آؤ ہمارے پاس بیٹھ جاؤ ،اور ہم جیسے ہو جاؤ۔ ملا صاحب لکھتے ہیں کہ شاہ عارف ان دنوں ابو الفضل کی نگرانی میں تھے، اور صحن دولت خانہ میں ایک طرف اترے ہوئے تھے، میں قلیچ خان کے ساتھ گیا۔ کوٹھے پر جالیاں تھیں۔ ان ہی میں سے ہم نے دیکھا،نیچے اپنے حجرے کے آگے بیٹھے تھے، منہ پر نقاب پڑا ہوا تھا۔اور کچھ لکھتے تھے،(شاید قلیچ خان نے کچھ کہا ہو گا۔) ایک شخص ان کے پاس تھا۔ اس سے بولے۔این قلیچ خان بود کہ مے گفت کہ منم قلیچ بندہ وخدمت گار شما شاید۔وہ قدیم سے نقاب ڈالے رہتے ہو ں گے۔دنیا کے لوگ اس میں بھی بد گمانی کی دمیں لگاتے تھے کہ یہ اس لئے ہے کہ یہ ایک جگہ سے دوسری جگہ چلے جائیں تو پہچانیں نہ جائیں۔ افسوس اسی نقاب کی بدولت حکیم ابو الفتح کی جان گئی۔ان کی ایسی کراماتیں لوگ حد تعداد وشمار سے زیادہ بیان کرتے ہیں۔ ۱۰۰۶ء ؁ کے اخیر میں شیخ ابو الفضل کہتے ہیں کہ میر عارف ارد بیلی نے آگرہ میں آکر نقد زندگی سپرد کر دی۔ سام میرزائی صفوی کے بیٹے تھے،صاحب ریاضت تھے اور دنیا سے الگ، لوگ ان کی عجیب وغریب کرامات بیان کرتے ہیں۔ شاہ ابو المعالی ایک خوب صورت اور دیدار ونوجوان خواجگان کاشغر کے گھرانے سے تھا۔ مگر نہایت بلند نظر، مغرور ، بد دماغ، بد نیت، جب ہمایوں ایران سے پھر کر قندھار پر آیا تو ان ہی دنوں یہ بھی ملازمت میں پہنچا۔ حسن خدا داد کی برکت سے بادشاہ بھی اس پر شفقت کرنے لگے۔ یہ شفقت ایسی بڑھی کہ حد سے بڑھ گئی۔ فرزندی کا خطاب عطا فرمایا ،بلکہ خود اس کی بے اعتدالیوں ۔ دیکھو صفحہ ۱۶۱۔۔۔ کو برداشت کرتے تھے۔ اور خوش ہوتے تھے، نوبت یہاں تک پہنچی تھی کہ بیرم خان جیسے عالی رتبہ امیر نے ایک قصیدہ ۲۴۰ شعر کا بادشاہ کی تعریف میں کہا، عظیم، قدیم، وغیرہ بنائے قافیہ تھی۔(۱) ہر مصرع اول کے پہلے حرف کو لیں تو حضرت ہمایوں ،بادشاہ غازی وغیرہ وغیرہ عبارت حاصل ہوتی ہے۔(۲) ہر مصرع کے اخیر حرفوں کو جمع کریں تو مرزا شاہ ابو المعالی وغیرہ (۳) ہر دوسرے مصرع کے اوائل حروف کو لیں تو شاہزادہ جلال الدین محمد اکبر۔(۴) ہر دوسرے مصرع کے مصرع اخیر سے ۲۴ میم نکلتے ہیں،جس کے اعداد ۹۶۰ ہوتے ہیں۔ یہ تصنیف قصیدہ کی تاریخ ہے۔ اس سے بڑھ کر یہ کہ جب بیرم خان قندھار کا حاکم تھا تو ہمایوں بھی وہیں تھے۔ شاہ طہماسپ کے میر شکار کا باپ شیر علی بیگ کسی سبب سے ہمایوں کے پاس آیا ہوا تھا۔ ظاہر ہے کہ ہمایوں کو اس کی کس قدر خاطر ہو گی کہ شاہ ابو المعالی اسے دیکھ دیکھ کر کہتا تھا کہ ،من این رافضیک را روزے خواہم کشت‘‘۔ ہمایوں اسے ہنسی اور ناز دلبرانہ سمجھتا تھا۔ آخر ایک روز شراب پی اور تیغ بے باقی سے اس کا کام تمام کیا۔ وارث حضور میں داد خواہ آئے۔ شاہ صاحب بلائے گئے، گوری گوری رنگت، مخمل رومی پر سیہ چغہ اور سرخ چہچہانی ا طلس کا استر ایک زرق برق کا عالم، وہی برق دم نیمچہ ،جس سے اس بے گناہ کا خون بہایا تھا۔چغہ کے نیچے کمر میں تھا۔ آنکھوں میں رات بھر کا خمار بھرا۔ عجب آن وانداز سے لڑکھراتے ہوئے مجلس میں آئے ،قتل کا نام آیا تو صاف انکار کیا۔ بیرم خان کو سب خبر تھی۔یہ شعر پڑھا ؎ نشان شب روان دارد، سر زلف پریشانش دلیل روشن است اینک چراغ زیر دامانش بادشاہ عالم حسن وجمال میں محو ہو گئے اور ہنس پڑے۔بے گناہ کا خون باتوں باتوں میں اڑ گیا کہ قاتل معلوم نہیں۔۔۔ معتمد خان اقبال نامہ میں لکھتے ہیں کہ خاندان بابری کے اندرونی وبیرونی اسرار اور معاملات کی معلومات،جو مرزا عزیز کو تھی ،کسی کو نہ تھی۔ شاہ کی گرفتاری کا راز جو مجھے ان کی زبانی معلوم ہوا، وہ یہ ہے کہ جن دنوں اکبر تخت نشین ہوا۔ ایک سپاہی زادی جیسا صورت میں حسین اور صاحب جمال تھا، ویسا ہی عادات واطوار میں نیک خصائل تھا۔ شاہ ابو المعالی نے اسے نوکر رکھا تھا۔ بیرم خان خزانہ تدبیر کی ایک بے بہا رقم تھے، جب شاہ کے باب میں کوئی تدبیر پیش نہ گئی تو آدمی لگا کر اندر اندر اس لڑکے کو وہاں سے ابھارا۔اور کئی دن غائب رکھا۔ شاہ بے قرار ہو گئے۔ دوتین بعد بیرم خان کو پیغام بھیجا کہ تمہارے خدمت گار کو بڑی تلاش سے پیدا کیا ہے۔ مگر ڈر کے مارے تمہارے پاس آنے کو راضی نہیں ہوتا۔یہ ٹھہرائی ہے کہ تم حضور میں آؤ۔ حضور خود اس کی سفارش فرمائیں۔اور تمہارے سپرد کر دیں۔ شاہ سنتے ہی خوش ہو گئے ۔تمام شرطیں اور عہد وپیمان بھول گئے۔ غرض جب آئے تو جس طرح قرار پا یا تھا۔ دست راست پر بیٹھنے کو جگہ قرار پائی۔ بیرم خان نے ادہر ادھر کی چند باتیں پیش کر کے اس سپاہی زادہ کو بلا لیا۔ بادشاہ نے اس کی خطا معاف فرمائی اور شاہ سے کہا کہ اب اس سے خفا نہ رہو۔ شاہ نے کہا ،نہیں خفگی کا کیا محل ہے؟۔اکبر نے کہا اچھا جس طرح پہلے تمہاری تلوار اس کے ہاتھ میں رہتی تھی۔ اسی طرح اب بھی رہا کرے۔ شاہ تو دل دیے بیٹھے تھے۔جو نوکر تلوار لیے تھا۔ اسے اشارہ کیا کہ اسے دے دو۔ اس نے دے دی،(ملا صاحب کیا مزے سے لکھتے ہیں)۔ اس عرصہ میں دستر خوان بچھا ،میر نے سیلا بچی پر ہاتھ بڑھائے۔ کہ دھوئیں۔ نومک خان فوجین افسر توپ خانہ ان دنوں خوب بھسنڈ بنا ہوا تھا۔( اب وہ بھی مکڑی کا تار ہو گیا ہے۔) اسے گھات میں لگا رکھا تھا۔ بے خبر پیچھے سے آیا،اور شاہ کی مشکیں باندھ لیں۔امراء نے اسی وقت چاہا تھا کہ نیست ونابود کر دیں۔بادشاہ نے اجازت نہ دی کہ تخت پر بیٹھتے ہی ایک بے گناہ کا خون کرنا حیف کی بات ہے۔لاہور میں بھیج دیا۔ پہلوان گل گز کوتوال نے ادب کیا۔کہ چوکی پہرے کی مضبوطی نہ رکھی۔ یہ نکل بھاگے ،وہ بے چارا غیرت کا مارا اپنی جان کھو بیٹھا۔ یہ بھاگ کر کمال خان گھگھڑ کے پاس گئے۔ (رہتاس اور راولپنڈی وغیرہ کی حکومت اس وقت آدم خان اس کے چچا کے پاس تھی۔)انہوں نے کمال خان کو ایسا اکسایا کہ اس نے ایک لشکر تیار کیا،اور کشمیر پر چڑھ گئے۔ راجوڑی پر بہت سے بھوکے کنگال اور بھی ساتھ ہوئے۔مگر انجام یہ ہوا کہ شکست کھا کر بھاگے۔اور دیپال پور میں آئے۔ یہاں اس وقت بہادر خان حاکم تھے۔نوک نام ایک شخص پہلے شاہ کا نوکر تھا۔ اب بہادرخان کا ملازم تھا۔ اس کے پاس آکر پناہ لی۔ اس نے خوف خدا کر کے جگہ دی۔ ایک شب اس نے لڑ کر اپنی بی بی کو خوب مارا۔اسے یہ راز معلوم تھا، صبح ہوتے ہی بہادر خان کے پاس گئی اور کہا کہ میرے خاوند نے شاہ کو چھپا رکھا ہے۔اور بغاوت کا ارادہ رکھتا ہے۔ جلد بندو بست کیجیئے۔ بہادر خان نے فورا گرفتار کیا اور باندھ کر بیرم خان کے پاس بھیج دیا۔ بیرم خان نے ولی بیگ ترکمان کے حوالے کیا۔کہ اس کو بلا کر مکہ بھیج دو، کہ خدا کے گھر کے سوا کوئی زمین اس کے بوجھ کو نہیں اٹھا سکتی۔ اس نے گجرات کو بھیج دیا کہ وہاں سے مکہ کو روانہ کر دیں۔شاہ نے وہاں ایک خون کیا اور بھاگ کر خان زمان کے پاس پہنچے۔بیرم خان کو بھی خبر لگی، انہوں نے خان زمان کو فرمان لکھا کہ آگرہ بھیج دو۔ جب یہاں آئے تو خان زمان کے کارو بار پر برہم ہونے لگے تھے۔ اس خیال سے کہ بادشاہ کو مجھ پر بغاوت کا شبہ قوی نہ ہو۔انہیں بیانہ کے قلعہ میں بھیج دیا۔چند روز وہاں رہے، جب بیرم خان خود حج کو چلے،تو انہیں بھی ساتھ لے چلے۔ یہ پھر راستہ سے بھاگے اور چاہا کہ بادشاہ کے سامنے ہو کر کچھ راہ نکالیں۔ چنانچہ سر سواری آکر ملے، غرور تو دم کے ساتھ تھا۔ سوار ہی سلام کیا۔ بادشاہ کو برا معلوم ہوا۔ اشارہ کیا قید۔پھر مکہ بھیج دیا۔ چند روز نہ گزرے تھے کہ پھر آن موجود ہوئے،اور خانہ خدا سے درگاہ اکبری کی طرف متوجہ ہوئے۔ حاجی کہ زخانہ خدا برگشتہ ماریست کہ رفت واژدہا بر گشتہ زنہار فریب چرب وگزش نخوری کیں خانہ خراب از خدا بر گشتہ یہاں مرزا شرف الدین حسین اکبر کے بہنوئی بھی مشائخ ماورالنہر کے خاندان سے تھے، ان دنوں باغی ہو کر نواح گجرات میں لوٹتے مارتے پھرتے تھے۔جانور میں دوہمدموں کی ملاقات ہوئی،اس نے شاہ سے کہا کہ حسین علی خان فوج لے کر مجھ پر آتا ہے۔ تم اسے مارتے ہوئے کابل کو نکل جاؤ۔ اور حکیم مرزا کو لاؤ۔ میں اتنے دنوں یہاں ہاتھ پاؤں مارتا رہوں گا۔ انہوں نے جمعیت بہم پہنچائی اور لوٹ مار کے گھوڑے دوڑاتے چلے۔ حسین علی خان کے لشکر سے اسماعیل خان وغیرہ یلغار کر کے ان کے پیچھے دوڑے۔اور یہ بھاگتے بھاگتے نار نول تک آئے۔ شاہ نے یہاں خزانہ شاہی لوٹ کر ہمراہیوں میں بانٹا،پیچھے پیچھے وہ بھی آئے۔لڑائی ہوئی۔ شاہ کے بھائی کا نام خانہ زاد تھا۔ شاہ لوندن کہلاتا تھا۔ وہ قید ہوا ۔شاہ سمجھے کہ ان ارمان کے درختوں کو ہند کی آب وہوا موافق نہیں،یہی غنیمت معلوم ہوا کہ سر سلامت لے کر ہندوستان سے کابل کو نکل جائے۔پنجاب کے گوشہ کا راستہ لیا۔ راہ میں دو منصب دار ملے۔ کہ امرائے شاہی کی جمعیت سے الگ ہو گئے تھے۔شاہ نے ان کے نوکروں سے مل کر بے گناہ بے چاروں کو قتل کیا۔اور لوٹ مار کر آگے نکل گیا۔ ۹۷۱ ھجری ۹ جلوس (۱۵۶۴ ئ)۔۔ ماہ کوچک بیگم حکیم مرزا کی ماں کو ایک عر ضی لکھی۔اس میں ہمایوں بادشاہ کے ساتھ اپنا بہت سا تعلق اور راز ونیاز جتایا۔ بیگم کی خدمت میں نہایت خلوص واعتقاد ظاہر کیا۔ عرضی کی پیشانی پر یہ شعر لکھا۔ ما بریں ورنہ پے عزت وجاہ آمدہ ایم ازید حادثہ اینجا بہ پناہ آمدہ ایم بیگم نے جواب مناسب سمجھا اور لکھا،اور یہ شعر بھی درج کیا۔ رواق منظر چشم من آشیانہ تست کرم نما فرودآکہ خان خدا تست مرزا وہاں پہنچے،ناقص العقل بیگم نے بہت عزت سے رکھا۔شاہ بد طینت افسوں وافسانہ کے ساتھ اول اول ایسی چالیں چلا،جس سے بیگم کویقین ہو گیا کہ یہ وزیر بے نظیر ہاتھ آیا ،اب یا تو بھولے پن سے یا اس سبب سے کہ اس کا بھی جی چاہتا تھا کہ دربار اکبری کے سامنے میرے بیٹے کا بھی دربار لگا ہو۔شاہ کو دلاور اور عالی ہمت جان کر اپنی بیٹی کی شادی کر دی۔ اکبر سے اجازت بھی نہ لی، گھر کا مالک داماد کر دیا۔ وہ بلند نظر ،بد دماغ اس نعمت کو غنیمت نہ سمجھا،حکیم مرزا کو بچہ پایا۔کئی بد راہبوں کو ساتھ لے کر دربار پر قبضہ کرنے لگا۔ اہل دربار ناراض ہوئے اور بیگم کو بھی برا لگا۔ شاہ سمجھا کہ مرزا تو لڑکا ہے۔ جس طرح چاہیں گے پر چا لیں گے۔ بیگم بس کا کانٹا ہے۔ اسے نکال دیں تو قصہ پاک ہو جائے۔یہ بد اعمال ایک دن تلوار لے کر محل میں گھس گیا،بیگم کو بے گناہ مار ڈالا، محمد حکیم مرزا بھاگ کر کہیں چھپ گیا۔ امرائے دربار خون پر دعوے دار کھڑے ہو گئے۔ شاہ کا زور غالب تھا ،بہت سے آدمی مارے گئے۔ قلعہ میں خون ریز معرکہ ہوا۔ بہت سے سردار بھاگ کر بد خشاں پہنچے،مرزا حکیم نے بھی عرضی لکھی۔ اور مرزا سلیمان کو نہایت التجا کے ساتھ بلایا۔ سلیمان ہوا کے گھوڑے پر سوار ہوئے۔شاہ ادھر سے فوج لے کر مقابل ہوئے۔اب غور بند کا کنارہ میدان جنگ ہوا۔آپ حکیم مرزا کو لے کر قلب میں کھڑے ہوئے۔لڑائی شروع ہوئی ۔تیر اور تلواریں آگ اچھالنے لگیں۔ دیکھا کہ بد خشیوں کے دائیں نے کابل کے بائیں کو دبا یا ہے۔ شاہ نے فورا مرزا حکیم کو قلب میں چھوڑا۔ اور آپ بائیں کی مدد کو چلے۔حکیم مرزا نے فرصت کو غنیمت سمجھا،ہمراہیوں سمیت نالہ اتر کر مرزا سلیمان کے ساتھ جا شامل ہوا۔ یہ حال دیکھ کر لشکر درہم برہم ہو گیا۔شاہ سراسیمہ اور بد حواس ہو کر میدان سے بھاگے۔سلیمان کے دیو پیچھے دوڑے اور چاری کار کے مقام سے گرفتار کر کے تخت کے سامنے حاضر کیا۔ اس نے اسی طرح طوق وزنجیر پہنے حکیم مرزا کے خیمہ میں بھیج دیا۔ مرزا نے فورا پھانسی دے کر زندگی کے پھندے سے چھڑا دیا۔ شجاعت اور شے ہے اور شورہ پشتی کچھ اور چیز ہے۔ شاہ پہلی وصف سے محروم تھا۔ پچھلی صفت کے بادشاہ تھے، قتل کے وقت بزرگی، سیادت اور برکت خاندان کو شفاعت کے لئے لائے ،اور رو رو کر اور ہاتھ جوڑ جوڑ کر عجز وانکسار کیے۔ مگر کیا ہوتا تھا ،،ع،،، تجھے لازم تھا اپنا کام کرنا سوچ کر پہلے غرض ۹۷۱ ھ میں پھانسی چڑھ کر اپنے بار گراں سے زمین کو ہلکا کیا۔ شرف الدین حسین مرزا مرزا کئی واسطہ سے خواجہ عبد اللہ احرار کے پوتے تھے، جو کہ سمر قند ،بخارا کے اہل اللہ میں خواجگان کہلاتے تھے۔ان کے باپ خواجہ معین الدین ابن خواجہ خدا وند ابن خواجہ یحیی ابن خواجہ احرار تھے۔ خواجہ معین الدین نے کاشغر سے آکر ایران وخراسان میں تحصیل علم کو تکمیل تک پہنچایا تھا۔ مرزا شرف الدین کا بیٹا ہندوستان میں آکر ابتدائے عہد اکبری میں حاضر دربار ہوا، اور شجاعت اور کار گزاری کے جوہر دکھا کر درجہ امارات کو پہنچا۔ چونکہ برکت خاندانی کا اعزاز حسن خدمات کی تائید کرتا تھا۔ اس لئے قدم بہ قدم عزت زیادہ ہوتی گئی۔ اور ۹۶۸ ؁ ھ میں شرف بہت بڑھ گیا۔ بخشی بیگم اکبر کی بہن سے شادی ہوئی۔ناگور اور متعلقات ناگوران کی جاگیر میں سے تھے۔ بادشاہ نے امیر الامراء کا رتبہ دے کر ان کے انتظام کے لئے رخصت کر دیا۔ دماغ پہلے بھی حد اعتدال سے بلند تھا۔ اب تو سلطنت کے داماد ہو گئے۔ وہاں حکومت کو اجمیر تک پھیلایا،مگر خود بھی پھیلے۔ باپ نے کاشغر میں سنا کہ اقبال نے بیٹے کی اس طرح یاوری کی ہے کہ اول تو حج کے ارادہ سے ادہر آئے۔ یہاں بڑی عزت وعظمت ہوئی۔ امراء پیشوائی کو گئے۔ بادشاہ خود بھی شہر سے باہر استقبال کو نکلے۔ تعظیم وتکریم کی صحبتوں میں ملاقاتیں ہوئیں۔اسی اثناء میں خدا جانے کیا معاملہ ہوا کہ جسے تمام مورخ اس اجمال کے معمے میں لکھ کر آگے بڑھ جاتے ہیں ،اور یہی کہتے ہیں کہ نفاق اس کی طبیعت میں دا خل تھا۔ کسی بات پر بد گمان ہو کر بھاگا اور اپنی جاگیر پر جا کر باغی ہو گیا۔بادشاہ نے حسین قلی بیگ کو خطاب خانی دے کر حسین قلی خان بنایا۔اور مرزا کی جاگیر اس کے نام کر کے روانہ کیا۔مرزا نے قلعہ اجمیر اپنے مصاحب معتبر تر خان دیوانہ کے حوالہ کیا۔ اور دکن کی طرف بڑھا۔ جالور میں شاہ ابو المعالی سے ملے، کہ خانہ خدا سے پھر کر آئے تھے۔ایک نے دوسرے کو تقویت کر کے دل بڑھایا۔ ایک اور ایک گیارہ ہو گئے۔(دیکھو ۱ ؎ شاہ ابو المعالی کا حال۔) یہی مرزا شرف الدین ہیں۔ جن کے غلام فولاد نے دلی میں مدرسہ کے کوٹھا پر سے اکبر کے تیر مارا تھا۔شاہ ابو المعالی کابل کو نکل گئے۔ مرزا قید ہو گئے۔ جب کہ بعض امرائے ترک ومغول بنگالہ میں باغی ہو گئے۔ اور علمائے مشائخ نے انہیں فتوؤں کے کارتوس بنا کر دیئے۔ تو بغاوت نے طول کھینچا اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ معصوم خان نے مظفر خان سپہ سالار کو ٹانڈہ میں قتل کر دیا۔ اس بغاوت سے چند روز پہلے بادشاہ نے مرزا کو مقید بنگالہ میں بھیج دیا تھا۔ اور مظفر خان کو لکھ دیا تھا کہ اگر اس کے خیالات درست ہو گئے ہوں ،تو اسی ملک میں جاگیر دے دو۔ ورنہ حج کو بھیج دو۔ مظفر خان نے دیکھا تو جس طرح تلوار کا خم اس کے دم کے ساتھ ہے۔اور میر اپنی بدی پر اسی طرح قائم ہے۔ اس نے قید رکھا کہ موسم حج آئے تو روانہ کر دے۔مرزا باغیوں سے سازش کر کے ایک دن بھاگا۔ قلعہ والوں کو خبر ہو گئی۔انہوں نے ادھر سے تیر مارے۔وہ زخمی ہوا مگر باغیوں میں جا ملا۔ اس بغاوت سے چند روز پہلے مرزا شرف الدین قاسم علی خان لعل کے پاس کانسی میں قید تھا۔ اہل بغاوت کو ایک ایسا شخص ساتھ رکھنا واجب ہو تا ہے۔ جسے خاندان سلطنت سے رشتہ تعلق ہو۔ اس میں راز یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے حق کا سلطنت سے دعویٰ دار ہے۔اور ہم اس کا حق دلواتے ہیں۔ بادشاہ کے باغی نہیں ہیں۔اور ایسی صورت میں جہلا اور عوام الناس بھی جلد اور بکثرت فراہم ہو جاتے ہیں۔ غرض معصوم خان نے انہیں قید سے نکالا،اور اپنا سر لشکر قرار دیا۔ راجہ ٹوڈر مل کو منگیر میں گھیر لیا۔ اور ۳۰ ہزار فوج باغی لے کر گور جم گئے۔ قلعہ میں رسد بندی ہو گئی۔اور بے سامانی نے سخت تکلیف دی۔اور اب اقبال اکبری کی شعبدہ بازی دیکھو کہ مرزا اور خان دونوں فساد اور نفاق کے رستم تھے۔ مگر یہاں معصوم خان کی پہلوانی غالب آئی۔اس نے ۹۸۸ ء ؁ میں مرزا کو مروا ڈالا،کم بخت مرزا کے پاس ایک ہندوستانی لڑکا نوکر تھا، اس سے بہت محبت تھی۔ دیکھو صفحہ ۷۶۴ ، اور نہایت اعتبار تھا۔ اور مرزا پوستی بھی تھے۔ وہی لڑکا پوست مل کر پلایا کرتا تھا۔معصوم خان نے اسے بہت سے روپوں کو لالچ دے کر پر چا لیا۔ پوست میں زہر دے دیا۔ مرزا ایسے پینک میں گئے کہ قبر میں جا پڑے۔ شمس الدین محمد اتکہ خان۔ خان اعظم اگلے زمانے کے لوگوں کا خیال تھا کہ بچے کے مزاج اور اخلاق میں دودھ کا اثر ضرور ہوتا ہے۔ اس لئے بادشاہ اور امراء دودھ پلانے کے لئے شریف خاندان کی بی بی تلاش کرتے تھے۔بادشاہ عالم طفولیت میں جس بی بی کا دودھ پیتا تھا۔ وہ اتکہ خان خطاب پاتا تھا۔ آما ترکی میں باپ کو کہتے ہیں۔اور آنکہ کہلاتی تھی۔ آئینہ ترکی میں ما کو کہتے ہیں۔ جو بچہ ان دنوں اس کا دودھ پیتا تھا۔ وہ شہزادہ کا کوکہ کہلا تا تھا۔ اور بڑا ہو کر کلتاش خان ہو جاتا تھا۔اس کی اور اس کے رشتے داروں کی بڑی عزت اور خاطر ہو تی تھی۔ شیخ ابو الفضل کہتے ہیں کہ اکبر نے سب سے پہلے دودھ تو کئی بیگموں کا پیا،مگر بہاول آنکہ نے سب سے پہلے دودھ پلایا، وہ جوگا بر ہار کی بیٹی تھی، جب آئی تو با بر نے ہمایوں کے حمل میں بھیج دی۔ چنانچہ اس کی خوش روئی نے خوش خوئی کی رفاقت سے ہمایوں کو لبھا لیا۔مریم مکانی آئیں تو سورج کی روشنی نے ستارہ کو مدہم کیا۔ اور بادشاہ نے اسے جلال کوکہ کو دے دیا۔پھر بھی وہ محل میں رہتی تھی۔ اول اس نے دودھ پلا یا۔ پھر موقع موقع پر اوروں نے، مگر صحیح روایت یہ ہے کہ پہلے مادر مکرمہ کے دودھ پینے پر رغبت فرمائی تھی۔آزاد، اگلے وقتوں کے لوگ اصلیت شے اور تاثیر ادویات سے بالکل بے خبر تھے۔اس لئے خواہ مخواہ کے تکلف گلے باندھتے تھے۔ عقل ہوتی تو گدھی کا دودھ پلاتے،دانایا ں فرنگ نے فرمایا ہے کہ اس دودھ سے بہتر بچے کے لئے کوئی دودھ نہیں ہے۔ خان اعظم ایک سیدھے سادے ،سید با مروت ،صاف دل آدمی تھے۔خاندان کا ذکر آئے تو کہہ دو کہ وہ آپ ہی اپنے خاندان کے بانی تھے، جب ہمایوں نے شیر شاہ سے دوبارہ شکست کھائی تو تمام لشکر پریشان ہو گیا۔ حتیٰ کہ شکست نصیب بادشاہ کو اس حال میں بیگمات کا خیال بھی نہ رہا۔ ننگ وناموس غنیم کے ہاتھ پڑا۔ہر شخص جان لے کر بھاگا۔ ہمایوں دریا کے کنارہ پر حیران کھڑا دیکھتا تھا کہ ایک ہاتھی آگیا۔ اس پر چڑھا۔ فیل بان سے کہا کہ ہاتھی دریا میں ڈال دے۔معلوم ہوا کہ اس کی نیت میں فساد ہے۔ چاہتا ہے کہ شیر شاہ کے پاس جا کر انعام حاصل کرے۔ایک خواجہ سرا بادشاہ کے ساتھ تھا۔ اس نے پیچھے سے تلوار ماری کہ فیلبان کا سر اڑ گیا۔اور ہاتھی کودریا میں ڈال دیا۔غرض ڈوبتے ابھرتے پار پہنچے،اتر کر دیکھا تو معلوم ہوا کہ کڑاڑاہ بہت بلند ہے، خدا وند کریم بہت کار ساز ہے۔ اوپر ایک سپاہی نظر آیا کہ کچھ رسی اور کچھ دستار اور کچھ پٹکا بٹکر لٹکا رہا ہے۔ اسے پکڑ کر اوپر چڑھے اور خدا کا شکر کیا۔ اس کا نام اور مقام پو چھا۔ عرض کی کہ غزنی کی پیدائش اور میرزا کامران کا نوکر ہوں، بادشاہ نے عنایتوں کا امید وار کیا۔ اس وقت تو بد حواسی کا عالم تھا۔ دونوں اپنی اپنی راہ کہیں کے کہیں چلے گئے، لاہور پہنچے تو وہ بھی حاضر خدمت ہوا۔ہمایوں نے ملازمان شاہی میں داخل کر کے ہم رکاب کر لیااور اس وقت سے اخیر تک جان نثاری میں رہا۔ کوش نصیبی سے اس نے اکبر کی پرورش اور بی بی نے دایگی کی عظمت پائی۔آخر خدمت یہ تھی جو بیرم خان کی مہم پر بن آئی۔ اس کی بدولت خان اعظم اتکہ خان ہو گئے۔ لیکن ماہم کی ماہتاب میں ان کا ستارہ نہ چمکا۔ بلکہ جان فشانی کا صلہ بھی پورا نہ ملا۔ اس وقت انہوں نے ایک عرضی لکھی ہے۔ جس سے اکثر رمزیں مہم خان خانان کی کھلتی ہیں۔ اور ان کی بے اختیاری اور محرومی وسینہ زوری بھی عیاں ہے۔ ترجمہ عرضداشت کم ترین بندگان دولت خواجہ شمس الدین اتکہ دعا اور بندگی کے بعد عرض کرتا ہے کہ جب اس دولت خواہ نے دلی میں آستانہ بوسی کی، اور حضور نے عنایت اور التفات بے دریغ فر ما کر بیرم خان کے علم ونقارہ وطوفان وطوغ سے سر فرازی دی اور حکومت وحفاظت سر کار پنجاب وغیرہ کی عنایت کی۔ تو اس دولت خواہ کو بھی واجب ہوا کہ اس عنایت وسر فرازی کے لائق خدمت بجا لائے۔ تاکہ حضور جب اس فدائی کے حق میں کچھ پرورش فر مائیں تو اور دولت خواہوں کو اس رعایت پر بولنے کی کچھ گنجائش نہ ہو۔ خبر پہنچی کہ فتنہ انگیز حرام خور بیرم خان کو خطوط اور خبریں بھیج بھیج کر فیروز پور پر لے آئے۔ حکم ہوا کہ ارکان دولت جمع ہو ں۔اور جو صلاح دولت ہو ،مصلحت قرار دے کر عر ض کریں۔اسی مجلس میں بیرم خان کا وہ خط پڑھا گیا۔ جو اس نے درویش محمد حاکم بھٹنڈہ کو لکھا تھا۔ اس میں درج تھا کہ میں غلام وبندہ آ ن حضرت کا ہوں۔ مگر یہ چاہتا ہو ں کہ اپنا انتقام آں حضرت کے وکلا سے لے لوں۔ سب دولت خواہ اس کے دفع کی تدبیرکے لئے جو جو خیال آتا تھا، کہتے تھے۔ چونکہ دو ہی دن ہوئے تھے کہ اسباب حشمت خان مذکور کا دولت خان کو عطا ہوا تھا۔دل نے کہا کہ کوئی لائق خدمت کرو ں۔ارکان دولت کے سامنے کہ خورد کلاں حاضر تھے ، میں بڑھ کر بولا،اور قول دے کر کہا کہ بیرم خان کی مہم خدا کی عنایت اور حضور کی توجہ سے میرے ذمہ ہو۔جہاں سامنا ہو جائے ،اگر ہٹوں تو فاحشہ اور لونڈیوں سے کم ہو ں۔ ارکان دولت نے کہا کہ بیرم خان کی مہم بڑی مہم ہے۔جب تک بندگان حضور خود متوجہ نہ ہو ں، کام کا بننا محال ہے۔جب ارکان دولت نے یہ مصلحت دیکھی ،زیادہ نہ بولا،بزرگوں کی خدمت میں عر ض کی کہ فلاں فلاں ارکان دولت ملتان ولاہور کو رخصت ہوتے ہیں۔ ایسا ہو سکتا ہے کہ بندہ ان کی خدمت میں قراولی کے طور پر آگے جائے،اور جو حال ہو ،رو زعرض کرتا رہے۔ بندہ دولت خواہ کی عرض قبول ہوئی۔ حکم ہوا کہ امرائے عظام کے ساتھ بیرم خان کی طرف روانہ ہو، اور ہزار آدمی کمک کا بھی حکم ہوا۔رخصت ہو کر چار پانچ دن نواح رہتک اور پرگنہ مہم میں ٹھہرا۔ کمک کا نشان بھی نظر آیا۔ امراء کو عرضی لکھی تو ہزار آدمی سے پچاس کی کمک ملی۔ اکثر پرانے ساتھی بھی ساتھ تھے، سپاہ گری کا معاملہ ہے۔ہر ایک کو چند در چند اندیشے گزرتے تھے۔کیچڑ ،پانی برسات کا موسم بھی تھا۔چند روز روانگی میں توقف ہوا۔ (معلوم ہوتا ہے کہ حضور میں عرض ومعروض) ماہم کی ہی معرفت ہوتی تھی۔اور اہل دربار اسے والدہ کہا کرتے تھے،لوگوں نے والدہ کے ذریعہ سے اس سے حضور میں ہزاروں باتیں بنائیں اور کہا کہ اتکہ خان روز دو کوس چلتا ہے۔ ڈر کے مارے آگے نہیں بڑھتا ،اس سے یہ کام نہیں ہو سکتا۔ اس کی جاگیر اور وظیفہ موقوف کرنا چاہیئے۔ والدہ نے ان کے کہنے پر عمل کیا۔ ملاحظہ ء خاطر ،اور بیس برس کی خدمت کا خیال نہ کیا۔جو کہنے والوں نے کہا اور والدہ نے عرض کیا وہ حضرت پر واضع ہے۔ فرزند عزیز محمد کو لوگوں کی باتوں اور اشاروں کی تاب نہ رہی۔ دولت خواہ کو لکھا کہ اے دادا! لوگوں کی باتوں نے ہلاک کر ڈالا، جو تمہاری قسمت میں ہونا ہے، سو ہو گا۔جس حال میں ہو، بیرم خان کی مہم پر چلے جاؤ۔ دولت خواہ مطلب سمجھ گیا۔ مدد الہیٰ پر توکل اور دولت بادشاہی پر تکیہ کر کے بیرم خان کی طرف چلا،اب کہ بیرم خان کی مہم حضرت کی بدولت سر انجام کی۔ اور نوکر اور سلطان جو اس کے ساتھ تھے، قتل کیے۔ اور رشتہ دار اس کے قید کر کے درگاہ میں لایا۔عیاذا باللہ اگر معاملات الٹ جاتے تو حضور کو معلوم ہے کہ کیا نوبت پہنچتی۔مہم کی حقیقت بیرم خان نے خود عرض کی ہو گی۔ فتح کے بعد جو لوگ دولت خواہوں میں سے معرکہ میں موجود نہ تھے، ہر ایک کی خدمت حضور کو معلوم ہے۔انہوں نے کیسی عنایت اور مرحمت بادشاہی سے سرفرازی پائی۔ اور جودولت خواہ مو جو د تھے ۔ایک کو بھی نہیں پوچھا۔ جان محمد بہسودی قلعہ جا لندھر میں بیٹھا رہا۔ اس کے لئے خانی کا خطاب دیا۔ اور بہتیروں نے خدمت سے دہ چند سر فرازیاں پائیں،اور وظیفے اور انعام لیے۔ جب سب کے بعد اس دولت خواہ اور فرزند یوسف محمدؐکی نوبت آئی کہ ایسے معرکہ عظیم میں تلوار ماری تھی کہ بڑی مہر بانی وہی تھی۔ جو پہلے دن فرمائی تھی۔ یعنی انکہ کا نام فرمان فتح پر لکھو۔ عالم پناہ ہا، دولت خواہ بیگم ماہم سے امید مادری رکھتا ہے۔ غیبت نہیں کرتا ،خدا قبول کرے۔دولت خواہ نے آن حضرت کی دولت خواہی میں جان کو ہتھیلی پر رکھ کر ۱۲ برس کی بیٹی کو ساتھ لے کر بیرم خان اور اس کے دس بیس اقرباؤں اور سلطانوں کے منہ پر تلواریں ماریں،اور امرائے عظام اپنے اپنے پرگنوں میں بیٹھے تھے، مدد کو نہ آئے۔اور جو ساتھ تھے۔ انہوں نے وہ حرکتیں کیں۔ بیرم خان نے عرض کیا ہو گا۔کہ اس غلام پیر کے ساتھ کیا سلوک کیا۔بیرم خاں نے جو سپاہی حضور کی ملازمت میں جاسوسی کے لئے چھوڑے تھے،وہ حضور کی بدولت خطاب پا کر دو کروڑ اور تین کروڑ کا وظیفہ لیں،اور یوسف محمد خان کہ بیرم خان اور ہیبت خان اور اس کے سلطانوں کے منہ پر آگے بڑھ کر تلواریں مارے۔ اسے آپ خانی کا خطاب دیں۔بزرگان دربار نے ایک کروڑ کے وظیفہ کا پروانہ جاری کیا۔وہ بھی ذاتی ہے۔ تنخواہ نہیں۔ بندہ کو خان اعظم کا خطاب دیا۔ ایک کروڑ انعام فرمایا۔ جس میں کل ایک لاکھ فیروز پر ملا، عالم پناہ عمر گزر گئی ہے کہ تمام آدمی اس دولت خواہ کے بھائیوں اور بیٹوں سمیت امید واری پر خدمت کر رہے ہیں۔ اب آن حضرت کی بدولت ہر شخص خانی اور سلطانی کے خطاب سے سرفراز ہو گیا ہے۔ جب علم ونقارہ وطومان وطوغ بیرم خان کا اس کمینہ کو مجھ کو عنایت فرمایا۔ اور فتح کے بعد جامہ ء واقو اورخلعت فتاحی اور اسباب حشمت بھی عنایت کر کے رتبہ بڑھایا۔امیدوار ہے کہ اس کا منصب بھی مجھ کمینے کو عطا ہو۔ اس عرضی پر انہیں وکیل مطلق کا منصب ملا، اور کارو بار سلطنت سپرد ہوئے۔ماہم اور ماہم والے جو اندر باہر ملک کے مالک بن رہے تھے۔ان کے اختیارات میں فرق آیا۔ان کے حوصلے حد سے بڑھ گئے۔ اودھم خان کا بیٹا شہاب خان جو رنگ نکال کر شہاب الدین احمد خان ہو گئے تھے۔ وہ بھی انا والوں میں چلتی تلوار تھے۔ انہوں نے انہیں اور بھی بھڑکایا۔۱۲ رمضان ۹۶۹ ؁ ھ کو میر اتکہ منعم خان شہاب خان وغیرہ چند امراء دیوان عام کے کسی مکان میں بیٹھے مہمات سلطنت پر گفتگو کر رہے تھے، میر اتکہ تلاوت قرآن پاک میں مصروف تھے۔کہ اودھم خان تقرب،بلکہ قرابت کے گھمنڈ میں بھرا رشک وحسد کی آگ میں بھڑ کا۔چند اوباشوں کو ساتھ لیے آیا۔سب تعظیم کو اٹھ کھڑے ہوئے۔ بڈھا بزرگ رمضان کا روزہ منہ میں۔کلام الہیٰ زبان پر نیم قد اٹھا۔اور قرآن کی طرف اشارہ کر کے کہا۔ وہ رانڈ کا سانڈ بادشاہ کا بھائی بنا ہوا تھا۔خنجر کھینچ کر بڑھا۔ نوکروں سے کہا ،یہیں کھڑے دیکھتے ہو۔ ؟۔ہاں خوشم اذبک۔اس کے ملازم نے بڑھ کر ایک خنجر اس کے سینہ پر مارا،خان اٹھ کر محل شاہی کی طرف بھاگے۔خدا بروہی نا خدا ترس نے پہنچ کر ایک تلوار کا ہاتھ مارا۔اور دولت خانہ کے میدان میں کہن سال جان نثار کا کام تمام کر دیا۔ دیوان عام میں غل مچ گیا۔اور وہ خون خوار شمشیر بکف ٹہلتا ہوا بادشاہی حرم سرائے کے دروازے پر آیا کہ محل میں داخل ہو، دربان کو اتنی عقل آئی۔اور ہوش نے بھی رفاقت کی کہ دروازے کو قفل لگا دیا۔ اس خونی نے بہت دھمکایا ،مگر نہ کھولا،ماہم اور اس کے بھائی بندوں کا سکہ ایسا بیٹھا تھا کہ ایک کو جرات نہ ہوئی جو دم مار سکے۔ دیوان میں غل اور محل میں کہرام مچ گیا۔ دوپہر کا وقت تھا۔ اکبر محل میں آرام کرتا تھا کہ چونک پڑا ،پوچھا کہ کیا ہوا ؟۔کسی کو معلوم نہ تھا کیا بتاتے؟۔ بادشاہ نے کوٹھے کی دیوار سے سر نکال کر دیکھا اور پوچھا کہ یہ کیا حالت ہے؟۔ایک رفیق چار منصب جان نثار نے ہاتھ اٹھایا۔اور جدھر خان اعظم کی لاش پڑی تھی۔اشارہ کیا۔ اور کچھ نہ کہہ سکا۔ بادشاہ نے دوبارہ پوچھا ،وہ ڈر کا مارا تھا۔ پھر ہاتھ اٹھا کر رہ گیا۔بادشاہ گھبرا کر باہر چلے۔ ایک حرم کو ہوش آیا کہ تلوار ہاتھ میں دے دی۔غنیمت یہ ہوا کہ بادشاہ دوسرے دروازے سے نکل آئے۔ اسے دیکھ کر کہا کہ اے بے ہودہ لڑکے میرے اتکہ کو کیوں مار ڈالا،اس نے بھاگ کر بادشاہ کے دونوں ہاتھ پکڑ لیے،اور کہا کہ تحقیق کیجیے اور غور فرمایئے۔ نا دولت خواہ کو سزا دی ہے۔اکبر اور اودھم میں دھکا پیل ہوتی ہے۔ سب کھڑے دیکھتے ہیں۔ اللہ رے ماہم تیرا رعب وداب۔۔۔ بادشاہ نے تلوار پھینک کر اس کی تلوار پر ہاتھ ڈالا،اس نے خود تلوار کھینچنا چاہی۔ بادشاہ نے ایک مکہ کلے پر مارا، اتفاقا ایسی ضرب بیٹھی کہ گر پڑا اور کبوتر کی طرح لوٹ گیا۔ آخر اکبر نے جھنجلا کر کہا، چہ تماشا می کنید بر بندید ایں دیوانہ را، اس دیوانہ کو اس وقت مشکیں کس لیں،حکم دیا کہ ابھی دولت خانہ کے کوٹھے سے پھینک دو۔ایوان مذکور ۱۲۰ گز بلند تھا۔اسی وقت ہاتھ پاؤں باندھ کر پھینکا، مگر ماہم سے بھی جان نکلتی تھی۔ اس طرح بچا کر بھاگا کہ پاؤ ں کے بل گرا۔اور بچ گیا۔ دوبارہ حکم دیا کہ پھینکو اور سر نگوں پھینکو، دوبارہ کوٹھے پر لے گئے۔اودھم خان دھم سے زمین پر آن پڑے۔ اب کے سر کے بل گرے، خود سری کی ہڈی ٹوٹ گئی۔اور سر پھوٹ گیا۔ اس کے ہوا خواہ لاش اٹھا کر لے گئے۔منعم خان اور شہاب خان موجود تھے، ڈرئے اور کھسک کر بھاگ گئے۔یوسف خان ،اتکہ کا بڑا بیٹا اور تمام اتکہ خیل یہ سنتے ہی مسلح ہوئے اور چڑھ کر ماہم کے سر راہ آن پہنچے،کہ ہم انا والوں سے انتقام لیں گے۔ اکبر نے خان کلاں یعنی خان اعظم کے بڑے بھائی کو بلا کر ادہم کی لاش دکھائی۔ اور فساد سے روک کر کہا کہ قصاص ہم نے لے لیا ہے۔ اور فساد کی کیا ضرورت ہے۔ دونوں لاشیں دلی کو روانہ کر دیں۔ عبرت تقدیر کا تماشا دیکھھو کہ قاتل ستم گار مقتول ظالم سے ایک دن پہلے زیر خاک پہنچا، خان اعظم دوسرے دن دفن ہوئے۔ تاریخ ہوئی ،دو خون شد، (ملا صاحب فرماتے ہیں۔) دوسری تاریخ ہوئی ع،،،، رفت از ظلم سر اعظم خان مگر پہلی میں ایک زیادہ ہے۔ دوسری ٹھیک ہے۔ ایک اور باکمال نے کہا۔ کاش سال دیگر شہید شدی کہ شدی سال فوت خان شہید میر اتکہ شعر بھی کہتے تھے، ان کی متانت اور بزرگی اور سلامتی طبع ان کے اشعار سے ہویدا ہوتی ہے۔ نمونہ کے لئے ایک شعر بھی لکھتا ہوں۔ منہ اے طفل اشک از خانہ چشمم قدم بیروں کہ مردم زاد ہا از خانہ مے آئیند کم بیروں ماہم کچھ بیمار تھیں،سنتے ہی دوڑیں کہ بیٹے کو چھڑاؤں۔انہیں یقین نہ تھا کہ یہ سزا ہو گی اور اتنی جلد ہو گی۔ مگر اب کیا ہو سکتا تھا، جو ہونا تھا۔ سو ہو گزرا۔ بادشاہ نے دیکھتے ہی کہا، ادہم اتکہ مارا کشتہ۔ ماہم او را کشتیم۔اور اسے تسلی بھی دی۔اس کا سینہ حوصلہ کا تنور تھا۔ دم نہ مارا، مگر رنگ فق ہو گیا۔ اور عرض کی۔ خوب کردید،کہ آئین انصاف ہمیں بود،پھر بھی یقین نہ آتا تھا۔ جب بی بی تختہ بیگی رستم خان کی ماں نے سارا حال بیان کیا،تو کلیجہ مسوس کر رہ گئیں۔اکبر نے بھی خدمتوں کا خیال کر کے تسلی اور دلاسے کے رومال سے آنسو پونچھے۔اس کے ہوش بجا نہ تھے، خاموش رخصت ہو کر گھر گئیں کہ ماتم داری اور سوگ واری کی رسمیں ادا کرے۔ بیٹے کا داغ تھا، مرض بڑھتا گیا۔ عین چالسویں کا دن تھا کہ ماں بھی بیٹے کے پاس پہنچ گئی۔ اکبر نے اس کے جنازہ کا چند قدم ساتھ دیا اور عزت واحترام سے روانہ کر دیا۔دونوں کی قبروں پر عالی شان مقبرہ بن گیا۔اب تک قطب صاحب کی درگاہ کے پاس موجود ہے۔ اور بھول بھلیاں کہلاتا ہے۔یاد کرو باز بہادر کی مہم، خان خانان کے مرتے ہی ماہم کے اقبال کو گھن لگا،اور دوسرے ہی سال گھرانا غروب ہو گیا۔ منعم خان سپہ سالار ہو کر لڑتے مرتے پھرا کریں، وکیل مطلق کا کام ہی نہ رہا۔ بادشاہ ہر بات آپ سننے لگے اور ہر کام آپ کرنے لگے۔ شہاب خان شہاب خان،شہاب الدین احمد خان تو ہو گئے،مگر جو رنگ چاہتے تھے۔ وہ نہ نکھرا،رنگ کیا نکھرتا ،رنگ والی ہی نہ رہی۔ دوہی ماہم بیگم ،ملا ساحب کی رنگینیوں کی کیا تعریف ہو سکے۔ جب شہاب خان مرے تو آپ فرماتے ہیں کہ شہاب خانم ،تاریخ ہوئی۔ ناصر الملک ملا پیر محمد خان ایک خوش فہم،عالی ادراک ملا تھے،حسن تقریر سے جلسہ کو شگفتہ کرتے تھے،باوجود اس کے کہ دل کے قسائی تھے، اور احکام شریعت کی بھی چنداں قید نہ رکھتے تھے،شروان سے آکر قندھار میں بیرم خان سے ملے، یہاں دربار کھلا تھا۔ اپنے کتب خانہ کا داروغہ کر دیا۔خان خانان ہی کی تجویز سے چند روز اکبر کو سبق پڑھاتے رہے۔ہندوستان کی مہم کے بعد خان ہو گئے اور ملا پیر محمد سے ناصر الملک بنے، ۳ ؁جلوس میں بیرم خان کے نائب ہو کر سفید وسیاہ کل مہمات مملکت کے مالک ہو گئے۔ سب اہل دربار اور سلطنت کے ملازم ان کے گھر پر حاضر ہو تے تھے،اور کم ہی بار پاتے تھے، تین چار برس نہایت ہی عالی رتبہ جاہ وجلال پر رہے، مگر ظلم کی عمر بہت نہیں ہوتی، اس لئے تھم نہ سکے۔ خان خانان کے بعد ان کے لئے میدان صاف تھا۔اودھم خان کی اور ان کی مرادیں پوری ہوئیں۔ہم پیالہ وہم نوالہ تھے، باز بہادر کی مہم پر مالوہ گئے۔ وہ شراب وعیش کا متوالا تھا۔ ہزار مصیبت کے ساتھ سیجوں سے اٹھایا۔سارنگ پور پر آیا۔ لڑائی لڑا تو شکست کھائی۔اس کے خیمے وخزانے اور کار خانے وغیرہ کہ حد وحساب سے باہر تھے،سب ان کے ہاتھ آئے۔ملا صاحب کہتے ہیں کہ جس دن یہ فتح ہوئی دونوں سردار خیمہ گاہ پر بیٹھے ہوئے تھے،قیدیوں کے ریوڑ کے ریوڑ پکڑے آتے تھے اور قتل ہوتے تھے۔لہو اس طرح بہتا تھا کہ جس طرح نہر کی نالیاں، پیر محمد دیکھتا تھا اور ہنس ہنس کر کہتا تھا۔اسے دیکھو کیا قوی گردن ہے؟۔ اور اس کے گلے سے فوارہ نکلتا ہے۔بنیان الھیٰ کہ جس سے انسان اشرف المخلوقات مراد ہے۔ میں نے آپ دیکھا کہ اس بے رحم کے آگے ،گاجر، مولی، لہسن ،پیاز تھے۔کہ برابر کٹ رہے تھے، کچھ پرواہ نہ تھی۔میں بے غرضانہ فکر میں گیا تھا۔یہ آشوب قیامت دیکھ کر نہ رہا گیا۔ مہر علی سلاورز یار قدیم تھا،اسے میں نے کہا کہ باغیوں نے سزا پائی۔زن وبچہ کے لئے قتل، قید کچھ نہیں آیا، انہیں تو چھوڑ دو۔وہ بھی دین ودیانت کا درد دل میں رکھتا تھا۔ پیر محمد خان سے جا کر کہا، جواب میں کہتا ہے ۔قید ہی ہے کیا بات ہے؟۔افسوس اسی رات لٹیرے گرے مسلمانوں کی عورتوں کو،مشائخ ،سادات،علماء ،شرفا ء امراء کے بال بچوں کو پکڑا، صندوقوں خورجیوں میں چھپا چھپا کر اجین اور اطراف میں لے گئے۔سادات اور مشائخ وہاں کے قرآن ہاتھوں میں لے کر نکلے،اس نے انہیں اور لٹیروں کو برابر ہی مارا اور ان کے قرآنوں کو جلایا۔ اودہم خان نے جو کچھ وہاں کیا ،ہو لیا، اکبر نے بلا لیا۔ پیر محمد خان مالک کل ہو گئے۔لشکر عظیم جمع کر کے برہان پور پہنچے بیجا گڑھ کو کہ بڑا مضبوط قلعہ تھا۔ امرائے اکبری نے بزور شمشیر فتح کیا۔ ملا نے خوب قتل عام کیا۔ اور خان دیس کی طرف پھر کر لوٹ مار، قتل، تاراج، غرض تورء ہ چنگیزی کے قوانین کا ایک دقیقہ بھی نہ چھوڑا۔گویا وہ خون ریزی کے سپہ سالار تھے،برہان پوری اور آسیری رعایا کہ مدتوں سے روپیوں،اشرفیوں میں کھیلتے تھے، اور ناز ونعمت میں لوٹتے تھے، یا وہ قید تھے ،یا وہ قتل، نربدا کے پار اتر کر خون کے دریا بہا دیئے۔اور اکثر قصبوں کو خاک در خاک صفا صفا کر دیا۔ اور دولت بھی اس قدر سمیٹی کہ ان کے فرشتوں کے خیال میں بھی نہ ہو گی۔ ایک موقع پر فوج کے لوگ اطراف و اضلاع میں بیٹھے ہوئے تھے، کچھ لوٹ کے مال باندھ رہے تھے کہ خبر آن پہنچی کہ باز بہادر ادھر ادھر سے فوج سمیٹ کر آن پہنچا ہے، انہوں نے امراء کو بلا کر مشاورت کی،صلاح ہوئی کہ جنگ میدان کا موقع نہیں،اس وقت پہلو بچا کو ہنڈیا میں چلے چلو۔ انہوں نے صلاح واصلاح کا سبق پڑھا ہی نہیں تھا۔جو ٹوٹی پھوٹی سپاہ تھی، اسے لے کر میدان میں جاکھڑے ہوئے۔سپاہی کا قاعدہ ہے کہ جب روپیہ پاس ہوتا ہے۔ جان عزیز ہوتی ہے۔اس کے علاوہ لوگ اس کی بد مزاجی سے جلے ہوئے تھے، ادھر باز بہادر کا یہ عالم کہ باز کی طرح جھپٹے مارتا تھا۔اور ہر حملہ میں ستھراؤ کرتا تھا۔ آخر ملا کی فوج بھاگی۔ اور انہیں خود بھی بھاگنا پڑا۔ دریائے نر بدا سامنے آیا۔اضطراب کے مار گھوڑا ڈال دیا۔تمام فوج بھاگی آتی تھی، ایک لدے ہوئے اونٹ کا ایسا دھکا لگا کہ گرے اور پانی کے راستے سیدھے آگ میں پہنچے۔ ساتھیوں میں سے کوئی چاہتا تو پکڑ لیتا،مگر حقیقت میں دھکا بھی اونٹ کا نہ تھا۔ اس کے اعمال بد نے دھکا دیا۔اور فرعونی وبد مزاجی نے آنکھیں دکھائیں،کوئی ہاتھ نہ پکڑ سکا، نربدا دریا ان کے لئے دریائے نیل ہو گیا۔ اور ایک غوطہ میں فرعون کے دربار میں جا پہنچے۔(ملا صاحب حالات مذکورہ لکھ کر کہتے ہیں کہ) میں نے اسے دور سے دیکھا تھا، الحمد للہ مجلس تک نہیں پہنچا۔ اتفاق عجیب مندو دار الخلافہ مالوہ میں بڑی جامع مسجد تھی۔اس کے دروازے میں ایک فقیر مجذوب رہتا تھا، کہ خاص وعام کو اس سے اعتقاد تھا۔ ملا پیر محمد نے جب باز بہادر کی آمد آمد سنی تو فوج لے کر نکلے، فقیر مذکور کے پاس بھی گئے۔ اور دعا کی التجا کی۔ اس نے کہا مصحف مجید ہے۔ انہوں نے قرآن حمائل منگوا کر دیا۔ اس نے ایک جگہ سے کھول کر انہی کو دیا۔ کہ پڑھو، سر صفحہ پہلی سطر میں تھا کہ واغرقنا آل فرعون وانتم تنظرون۔۔۔۔ اور ہم نے آل فرعون کو ڈوبا دیا اور تم دیکھتے رہ گئے۔ملا اپنی گھمنڈ میں خدا جانے کیا بن رہے تھے، فقیر کو دھکے مکے لگائے اور دو چار قمچیاں بھی رسید کیں۔وہ بے چارے سہلا کر رہ گئے مگر غیرت الہیٰ نہ رہ سکی۔ محمد سعید بہادر خان خان زمان علی خان شیبانی کا چھوٹا بھائی تھا۔ ماثر میں لکھا ہے کہ پنج ہزاری امیر تھا۔ خاندان کا حال خان زمان کے حال میں لکھ چکا ہوں۔ خورد سالی کے عالم میں اکبر کے ساتھ کھیل کر بڑا ہوا تھا۔اور اکبر اسے بھائی کہتا تھا۔ اس کے کار ناموں کو دیکھو! معلوم ہوتا ہے کہ چھاتی میں آدمی کا نہیں شیر کا جگر تھا۔ وہ ہر معرکہ میں بھائی کا داہنا ہاتھ،اور ہاتھ میں فتح کی تلوار تھا۔ ابتدائے حال بطور اجمال یہ ہے کہ جب بیرم خان قندھار اورمتعلقات خراسان کا حاکم تھا۔ تو اس کی خواہش سے ہمایوں نے محمد سعید خان کو بہادر خان خطاب دے کر زمین داور کا حاکم کر دیا۔ہمایوں ہندوستان آیا اور بیرم خان اس کے ساتھ سپہ سلار ہو کر آیا۔اپنی جگہ شاہ محمد خان قلاقی کو چھوڑ آیا۔ کہ اس کا قدیمی رفیق تھا۔ چونکہ سر حد ملی ہوئی تھی۔ بہادر خان کی اور اس کی، بعض مقدموں میں تکرار ہوئی۔بہادر جوان بڈھے کو کیا خاطر میں لاتے تھے۔نوبت یہا ں تک پہنچی کہ انہوں نے شاہ محمد کو شہر قندھار میں ڈال کر محاصرہ کیا۔ اور ایسا دبایا کہ بڈھا جان سے تنگ ہو گیا۔ اس نے بھی بیرم خان کی آنکھیں دیکھی تھیں۔بادشاہ ایران کو بایں مضمون عرضی بھیجی۔ کہ ہمایوں بادشاہ نے یہ تجویز کی تھی کہ ہندوستان فتح کر کے خاک ایران سے وابستہ کر دیں۔ دعا گو اسی بندوبست میں تھا۔اور ہندوستان سے اپنے عرائض کا منتظر تھا۔ کہ یہاں یہ صورت پیش آئی، اب حضور میں عر ض یہ ہے کہ امرائے معتبر میں سے کسی کو فوج مناسب کے ساتھ روانہ فرمائیں۔ کہ امانت اس کے سپرد کی جائے۔ اور یہ نا اہل کافر نعمت اپنی سزا کو پہنچے، کہ بیچ بیچ میں سے دست برد کرنی چاہتا ہے۔ شاہ نے یار علی بیگ کے ماتحت تین ہزار ترکمان روانہ کیے، بہادر خان کو ادھر کا خیال بھی نہ تھا۔ یکایک برق آسمانی سر پر آن پڑی۔ سخت لڑائی ہوئی ،بہادر نے بھی اپنے نام کے جوہر قرار واقعی دکھائے۔ دو دفعہ گھوڑا زخمی ہو کر گر گر پڑا۔ آخر بھاگ کر صاف نکل آیا۔اور اکبری اقبال کی رکاب پر بوسہ دیا۔ امرا ء نے مہرہ سزا پر رکھ دیا۔مگر خان خانان ان کے پلہ پر تھا۔ خطا معاف اور پھر ملتان کا صوبہ مل گیا۔ ۲ ؁ جلوس میں جب اکبر نے سکندر سور کا قلعہ مان کوٹ پر آن کر محاصرہ کیا۔تو یہ بھی ملتان سے بلائے گئے۔گھوڑے دوڑاتے ہوئے آئے اور جنگ میں شامل ہوئے۔ایک مورچہ ان کے نام ہوا۔اور انہوں نے اپنے نام کی بہادری کو کام کی بہادری سے ثابت کیا۔مہم مان کوٹ کا فیصلہ ہوا۔ بہادر خان پھر اپنے علاقے کو رخصت ہوئے۔کہ جا کر بندوبست کریں۔ملتان کا پہلو بلوچستان سے ملا ہوا ہے۔ یہ فوج لے کر دورہ کو نکلے،بلوچ زمانہ کے سر شور، ٹڈی ،دل باندھ کر پہاڑوں سے نکل پڑے۔بہادر بھی بہادر تھے،اڑ گئے۔ اور خوب خوب دھاوے کیے۔ایک مہینے میں سب کو دبا لیا۔اور سر حد کا مضبوط بندوبست کیا۔ چند روز کے بعد دربار میں آگئے۔ دیکھو صفحہ ۱۹۷ ،،، باز بہادر پسر سجاول خان، شیر شاہی سردار ملک مالوہ پر حکمرانی کرتا تھا۔بیرم خان نے ۳ ؁ جلوس میں بہادر خان کو فوج وعلم دے کر روانہ کیا۔یہ قصبہ بیری تک پہنچا تھا کہ خان خانان کے اقبال نے دغا کی، وہ دربار کی صورت حال سے مایوس ہوا اور سمجھا کہ دونوں بھائی میری محبت اور دوستی سے بد نام ہیں۔ اور یہ مہم پر میرا بھیجا ہوا گیا ہے۔ دربار سے اس کی مدد کون کرے گا۔اس نے طلب کیا اور حضوری دربار کی ہدایت کی، اہل دربار نے اکبر کی طرف سے خود ہی فرمان بھیج کر اوپر اوپر بلا لیا۔اور وکیل مطلق کر دیا۔ کہ بیرم خان کا منصب خاص تھا۔حکم احکام تو سب ماہم محل میں بیٹھے بیٹھے جاری کر رہی تھی۔انہیں فقط وزن شعر پورا کرنے کا خطاب دیا تھا۔ اور پیچ یہ مارا تھا کہ ادھر تو بیرم خان کے دل میں ،،،، ان بھائیوں کی کدورت پڑ جائے۔ ادھر امید ہائے چند در چند پر آکر یہ اس کی رفاقت کا ارادہ نہ کریں۔مگر معلوم ہوتا ہے کہ بہادر خان ان کے ساتھ رہ کر بھی راہ وفا کو نہیں بھولا۔ وہ اکبر کا بچپن سے راز دار تھا۔ اور ہر بات بے تکلف کہہ سکتا تھا۔ ضرور بیرم خان کی صفائی کے خیالات کانوں کے رستہ دل میں اتارتا ہو گا۔ حریفوں نے اسے مہم میں شامل نہ کیا۔ جب بادشاہ کو لے کر بیرم خان پنجاب میں لڑنے آئے تو اسے خان زمان کے پاس مغرب سے مشرق میں پھینک دیا۔ باقی حالات دونوں بھائیوں کے شیر وشکر ہیں۔ ان کے حال میں دیکھو (۱ ؎) شمس الدین حکیم الملک گیلانی ملا صاحب فرماتے ہیں کہ حکمت اور طب میں جالینوس زمان اور مسیح الناس تھا۔ اور علوم نقلی اور رسمی میں بھی سب سے نمودار وممتاز تھا۔ اگر چہ مجھے اس سے اصلا لگاؤ نہ تھا۔ مگر ابتدائے ملازمت میں جب کہ میں نے نامہ ء خرد افزا کا دیباچہ لکھ کر سنایا،تو خدا واسطے کو نیش زنی کی،بادشاہ نے پوچھا کہ ملا عبد القادر کی انشاء پردازی کیسی ہے۔ کہا عبارت تو فصیح ہے۔ مگر پڑھتا برا ہے۔پھر آپ فرماتے ہیں،مگر انصاف یہ ہے کہ سب کا کار ساز اور بندگان خدا کا خیر خواہ تھا،اور دین میں استوار اور ثابت قدم اور آشناء پرور تھا۔ اپنے طلباء کی تربیت اور پرورش کرتا تھا۔ انہیں درس دیتا تھا۔ اور ممکن نہ تھا کہ کبھی بے ان کے دستر خوان پر بیٹھے۔انہی کاموں کے سبب سے لوگوں کے گھروں پر آمدورفت بھی کم کرتا تھا۔ ایک دن شیخ سلیم چشتی کے جلسہ میں بیٹھا تھا کہ فقہ اور فقہا کی مذمت اور طریقہ حکماء کی تعریف وتحسین کر رہا تھا۔ اور علم وحکمت کی شکوہ وشان اور شیخ بو علی سینا کے مناقب بیان کر رہا تھا۔یہ ان دنوں کا ذکر ہے کہ علماء اور حکماء لڑ رہے تھے۔ اور روز مسائل مذہبی پر بک بک جھک جھک،رگڑے ،جھگڑے،غل غپاڑے کرتے تھے۔ میں ناواقف اور سرحدات سے نیا آیا تھا۔ اور اصل مباحثہ کی خبر نہ تھی۔ میں نے شیخ شہاب الدین سہروردی قدس اللہ روحہ کے شعر پڑھے ۔ ۱؎ دیکھو صفحہ ۱۹۷۔ سہر وردی قدس اللہ روحہ کے شعر پڑھے۔ وکم قلت للقوم انتم علے شفاحفرہ من کتاب الشفا فلمآا ستحانو بتوبیخنا فزعنا الی اللہ حسبی کفا فما توا علی رین رسا طاطللیس وعشنا علے ملۃ سللۃ المصطفے اور گواہی میں مولوی مخدومی عارف جامی قدس سرہ کی وہ ابیات لایا کہ تحفۃ الاحر میں کہیں ہیں۔ نور دل ازسئینہ سینا مجو روشن ازچشم نابینا مجو حکیم بگڑے۔شیخ سلیم چشتی نے کہا،وہ پہلے ہی جلے بیٹھے تھے، تونے آکر اور بھڑکا دیا۔ جب علماء ومشائخ کا معرکہ ویران ہو گیا،تو جہاں تک ہو سکا حکیم نے مخالفان دین سے مقابلے کیے۔آخر برداشت نہ کر سکا، مکہ کی رخصت مانگی۔ ۹۸۸ ؁ ء یا۹۸۹ ئ؁ میں زیارت حج کو گیا۔آخر وہیں مر گیا۔ شکر للہ سعیہ،اللہ اس کی سعی کو مشکور کرے۔بادشاہ نے اپنا فرمان بھیج کر بلایا بھی تھا۔ مگر وہ نہ آیا۔ از سرے کوئے تو جنبنم آسمان نیستم زمینم من عرضداشت خان اعظم مرز اعزیز کوکلتاش در جواب فرمان اکبر بادشاہ کہ از مکہ فرستادہ بود،کمینہ فراشان آستان کیوان مکان ملایک آشیان خاقان جمشید نشان فریدون شان کیخسرو دست گاہ کیومرث بارگاہ سکندر جاہ عالم پناہ،انجم سپاہ،آسمان خرگاہ ظل سبحانی عزیز کو بعرض می رساندکہ رائے انور بطلب ایں غلام کمینہ فایض وصادر گشتہ بود جان و دل را کہ خلا صہ آ ب و گل است،ماجمعی کثیر ازروسائے اخلاص وابتہاںبخدمت حجاب درگاہ گیہان پناہ کہ مبدائے سخا ومنشاء عظمت وکبریائیت فرستادن چوں عقل وفتوی قاضی گمان بلکہ یقین سجل سجر مان مہجوری کہ دردیست بے درمان نوشتہ دادہ بود، با نا قالبی فرسودہ دست ملالت در گردن کردہ ماند،چوں دانست بہ یقین کہ احادیث تحریک اعدا موثر وکارگر افتادہ مزاج اشرف را بعینیت وتہمتی چند کہ بمسامع جاہ جلال رسانیدہ ازکمینہ درگاہ منحرف ساختہ اندوہائی رائے عالم آرائے بساط بوسان آں درگاہ بہ قتل وقمح این بے گناہ را ہمنون گشتہ بی خاطر رسید کہ چشم خاکسار بے مقدار را کہ در خدمت قابلان آندر گاہ آسمان نشان پرورش یافتہ،بمرتبہ اعظم خانی کوکلی وحکومت گجرات سرفراز شدہ ،ہم بواسطہ این تشریفات بخاک مکہ معظمہ مقدسہ منورہ رسانیدہ کہ با کافران ہندوستان جسمی را کہ پروردہ خوان انوان انعام واحسان بادشاہ جہاں پناہ بادشاہ در یک خاک ودریک محل مدفون سازد، محض گستاخی وغایت بے ادبی است ولا جرم گجرات را کہ آنکہ معمورہء دار السلطنت بود بہ معتمدان واختلال خویش را از گوشہ خاطر خا کرد بان آستان ملائک آشیان شستہ دست از مطالبات آنجا وپائے ادب را کوتاہ ساختہ مواشی کہ از بسعی جانسپاری خود از معارک کفار جمع ساختہ بودہ ،بدست عدل بیرون آورد، از حلال ترین چیز ہائے دانستہ سفر گزیدہ آں قدر جمعیت از مکاسابات مذکور بدست آواردہ کہ اگر خواہند منصب اعظم خانے را در بار گاہ بادشاہ روم کہ اشرف مکان تبع مسکون بتصرف ایشانست میتواند خرید۔اما خلاصہ ہمت مصروف آنست، کہ وظیفہ بمردم مستحق صالح پاک دین آں ملک مقرر سازد ومدرسہ بنام نامی حجاب بار گاہ بندہ پرور حضرت خاقانی بہ تمام رساند کہ تا انقراض عالم ورد زبان مورخان جہان باشد و دعائے دولت روز افزوں اشتغال میداشتہ باشد۔امید آنست کہ ازرفتن این کمترین غلامان بر حاشیہ ضمیر خاک رو بان آستان غبارے نخواہد نشست ،بلکہ مطلب سخن چینان وعیب کنندگان کہ عدم بود ایں معدوم است بحصول خواہد پیوست ،کہ منصب اعظم خانی وحکومت گجرات وعشرت عزیز کو کگی را باین محروم نمے شمرند، بنا چار جمع مذکورات را پیش کش عیاں نمودہ، کہ ایشیان را میسر نیست،بدوں بندہ وتمکین ایں کمینہ را میسر باشد، بدوں ایشاں چوں آخر الامر نسیم لطف شامل حال بوستان مطالب ومقاصد دیگران شدہ نہال امید وحقوق خدمت بندہ را بسموم محرومی خشک سالی بخشیدند۔بندہ از فدوی کہ نہاد عاقبت اندیشے ہائے بسگان آن آستان چند کلمہ گستاخی نمودہ بعرض میرساند،کہ جمعی خاطر اشراف را از دین محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بے گانہ ومجتنب مے سازد وحاشا کہ دوست باشند وکمینہ کہ نیک نامی دنیا وعقبیٰ می طلبد، دشمن واجب الاخراج باشم والا کار دنیا بازیچہ ایست ناپائیدار حرف دو وسہہ خوش آمد گوئی آخرت بدنیا فروش اعتماد نباید کرد۔ ہمہ عالم را گوش ہوش است پیش ازیں سلاطین بودہ اند کہ ہمہ صاحب تمکین بودند،ہیچ بادشاہے را دغدغہ نہ شد، کہ دعویٰ پیغمبری ونسخ دین محمدی غاید ، بل مدامے کہ چوں مصحف اعجازی چوں چہار بار چند بار پسند دیدہ باشد وشق قمر با مثال ایں چیز ہا واقع نبود ،مردم میکند یا رب دغدغہ چہار یار بودن کدام جماعت را می شدہ باشد، قبیح خان کہ صفائی ظاہری وباطنی وعصمت جبلی دارد یا صادق خان کہ شرف رکا بداری از بیرام خان یافتہ یا ابو الفضل کہ شجاعت وحیائیش بجائے علیؓ وعثمانؓ مے تواند بود بخداوند بخاک پائے بادشاہے قسم جز عزیز کسی کہ نیک نامی ۱؎ باشد۔۔۔ خلاف پیمبر کسی را گزیدہ کہ ہر گز بمنزل نخواہد رسید فرقے کہ میان اکابر مجلس بہشت آئین وبندہ کم ترین است وہمیں است کہ ابو الغازی در فرمان بندہ اضافہ کردہ،دیگران کافر را بر مسلمانان ترجیح دارند کہ بر صحف لیل ونہار خو اہد ماند، آنچہ بر بندہ واجب است در آں تقصیر نرفت والدعا ۔۔۔ شہزادگان تیموری ابراہیم حسین وغیرہ محمد سلطان۔ابن سلطان دیس مرزا۔ابن بایقرا میرزا۔ ابن عمر شیخ میر زا۔ ابن امیر تیمور گان۔یہ محمد سلطان۔سلطان حسین میزا بادشاہ، ہرات وخراسان کا نواسہ تھا۔ باپ کی جانب سے امیر تیمور سے نسل ملتی تھی۔ وہ بابر کے پاس آیا۔یہ اپنائیت کا عاشق تھا، سب کو سمیٹتا تھا۔اور سب ہی اس سے دغا کرتے تھے،اسے بھی خاطر داری سے رکھا۔ مگر اس نے بھی دغا کی،پھر ہمایوں کے پاس آیا ،وہ بھی مروت کا پتلا تھا۔ عزت کے ساتھ رکھا۔ اور اس کے بچوں کی بڑی محبت کے ساتھ تربیت کرتا رہا۔ محمد زمان مرزا کہ سلطان حسین مرزا کا پوتا تھا۔اور ہمایوں کی رفاقت میں تھا۔ باغی ہو گیا ،اور چاہا کہ بعض شاہزادوں اور امیروں کو بلا کر ہمایوں کو درمیان سے اڑا دے۔ہمایوں نے سن کر بلایا اور سمجھایا۔اس نے عذر ومعذرت کی، قرآن سامنے رکھ کر قول وقسم ہوئے،اور خطا معاف ہوگئی، چند روز بعد شیطان اس پر پھر چڑھا۔ہمایوں نے قلعہ بیانہ میں قید کر دیا۔ محمد سلطان اور نخوت سلطان اس کے ساتھ شریک تھے، دونوں کے لئے حکم دیا کہ اندھا کر دو، جس کو حکم دیا تھا۔ اس نے نخوت کو اندھا کر دیا، محمد سلطان کے حق میں چشم پوشی کر کے پتلی کوبچا گیا، یہ اندھا بن کر قید میں بیٹھا رہا۔ چند روز بعد موقع پا کر محمد زمان مرزا گجرات کو بھاگ گیا۔پھر محمد سلطان بھی کسی ڈھب سے نکلا اور قنوج میں جا کر اپنے بیٹوں اور بہت سے مفسدوں کو لے کر خاک اڑانے لگا۔پانچ ،چھ ہزار مغل افغان کا لشکر جمع کر لیا۔ جب ہمایوں شیر شاہ کے جھگڑوں میں پھنسا ہوا تھا، خبر لگی کہ کامران وعسکری بغاوت کا بندوبست کر رہے ہیں۔ محمد سلطان اور اس کے بیٹوں نے اطراف دہلی میں لوٹ مچا رکھی تھی۔ اس نے ہندال کو بھیجا کہ اس کا انتظام کرے۔وہ یہاں آکر اپنی بادشاہی کا انتظام کرنے لگا۔ لیکن جب ہمایوں شیر شاہ سے شکست کھا کر آگرہ آیا ،تو تمام شاہزادوں اور امیر کو اپنی اپنی فکر پڑی، یہ باپ بیٹے بھی شرم ساری کا رنگ منہ پر مل کر حاضر ہوئے۔واسطے وسیلے بیچ میں ڈالے ،خطا معاف ہو گئی۔ دوسری دفعہ فوج کشی کی، نو لاکھ سوار کے لشکر سے قنوج کے میدان میں پڑا تھا۔ ادھر شیر شاہ ۵۰ ہزار فوج لیے سامنے پڑا تھا۔ پہلے یہ ہی بے وفا بھاگے اور تمام امرائے لشکر کو راستہ بتا گئے۔کہ وہ بھی ہمایوں کا ساتھ چھوڑ چھوڑ کر بھاگنے لگے۔ ہمایوں دوبارہ شکست کھا کر آگرے آگیا۔یہ بھی اور کئی امیر بے جنگ کیے اپنے علاقے چھوڑ کر چلے گئے، جب ہمایوں اور بھائی بند لاہور میں آئے کہ صلاح مناسب کے ساتھ اتفاق کریں،تو یہ بھی لاہور میں آئے ،مگر ملتان کو بھاگ گئے۔ جب کہ اکبر کی سلطنت ہندوستان میں جم رہی تھی، اور محمد سلطان بے وفائی کی خاک اڑاتے اڑاتے بڈھا ہو گیا تھا۔ بے حیائی کا خضاب لگا کر بیٹوں ،پوتوں سمیت دربار میں حاضر ہوا، دریا دل بادشاہ نے سرکار سنبھل میں اعظم پور،نہٹور وغیرہ کا علاقہ دیا کہ آرام سے بیٹھ رہے۔ بڈھے نے یہا ں بیٹھے بیٹھے پر نکالے، محمد حسین مرزا، ابراہیم حسین، مسعود حسین مرزا، عاقل مرزا۔یہ ابھی لڑکے ہی تھے کہ بادشاہ نے پرورش کر کے امارت کی سیڑھی پر چڑھا دیا۔ خان زمان کی دوسری مہم میں اکبر کی رکاب میں تھے، پھر رخصت ہو کر اپنی جاگیر میں چلے گئے۔ جب بادشاہ حکیم مرزا بغاوت کے سبب سے پنجاب میں آیا،تو ان کی نیت بگڑی۔الخ مرزا اور شاہ مرزا نے ابراہیم مرزا سے سازش کی،منعم خان کے پاس تھے، وہاں سے بھاگے اور سکندر سلطان اور محمود سلطان وغیرہ کے ساتھ ،یہ بھی تیموری شہزادے تھے۔مل کر باغی ہو گئے، سنبھل میں جا کر ملک کو تباہ کرنے لگے۔ سنبھل کے جاگیر دار سنبھل کر کھڑے ہو گئے۔اور انہیں مار مار کر نکال دیا، ادھر سے منعم خان آن پہنچا۔وسط ولایت سے گزر کے دہلی ہوتے ہوئے مالوہ کی طرف بھاگے، وہاں محمد قلی بر لاس سے بڑا کوئی سردار صاحب اقتدار نہ تھا۔یہ بڈھے کی کیا حقیقت سمجھتے تھے، پھونس ہٹا کر جگہ صاف کی، اور ملک پر قابض ہو گئے۔ منعم خان نے فورا بڈھے سلطان کو قید کر کے قلعہ بیاس میں بھیج دیا،کہ وہیں وبال زندگی سے سبک دوش ہوا۔ امرائے شاہی نے انہیں وہاں بھی دم نہ لینے دیا، یہ گجرات کو بھاگ گئے۔ وہاں بھی محمود شاہ گجراتی کے مرنے سے طوائف الملوکی ہو رہی تھی۔ چنگیز خان ،سورت ،بڑوج، بڑودہ ،جانپانیر پر حکومت کرتا تھا۔ یہ اس کے پاس گئے ۔اس نے ان کے آنے کو غنیمت سمجھا اور بڑوج میں انہیں جاگیر دی،وہ شاہزادوں کی شاہ خرچی کے لئے کافی نہ ہوئی۔ انہوں نے چنگیز خان کی بے اجازت اور جاگیر دواروں کی جاگیروں میں ہاتھ ڈالنے شروع کیے۔اور خواہ مخواہ حق جتا کر شیخیاں مارنے لگے۔ یہ باتیں چنگیز خان سے بھی نہ سنی گئیں، غرض یہاں بھی ایسے جھگڑے پڑے کہ مرزا خاندیس نکل گئے۔ان کے وسیع ارادے خاندیس کے ملک میں بھی نہ سمائے۔ ادھر امرائے گجرات میں بھی کشا کشی ہو رہی تھی۔اسی ہل چل میں چنگیز خان مارا گیا۔ یہ پھر مالوہ میں چلے آئے،ان کی سینہ زوری اور سر شوری نے زیادہ پاؤں پھیلایا،کسی جاگیر دار کا مارا ،کسی کو بھگایا، ملک کو لوٹ کر ستیا ناس کر دیا۔ سورت میں محمد حسین مرزا۔ جانپیر میں شاہ مرزا ،بڑوج میں ابراہیم ھسین مرزا مالک بن بیٹھے۔ ۹۷۹ ھ؁ میں اکبر نے یہ حال سنا تو خلق خدا کی تباہی نہ دیکھ سکا، اور ملک پر قبضہ کرنا واجب سمجھا، امرایت ملک کو فوج دے کربھیجا اور ساتھ ہی خود بھی روانہ ہوا، کچھ تدبیر سے کچھ شمشیر سے ملک تسخیر کیا۔شہزادے تتر بتر ہوگئے۔ بادشاہ نے خان اعظم کو احمد آباد میں حاکم کر دیا۔ آپ آگئے بڑھ کر اطراف کے فتنوں کو فرو کرنے لگا۔ شہزادوں کی جڑ زمین سے نکالے اور سمندر کے کنارہ کنارہ پھر کر بندروں کو حکومت کے پھندے میں لائے۔وہ کنبایت سے کہ احمد آباد سے تیس کوس ہے، ہوتا ہوا برودہ میں آیا تھا، اور یہاں چھاونی ڈال رکھی تھی۔ خبر لگی کہ ابراہیم مرزا نے رسم خان رومی کو (ایک قدیم امیر گجرات کا تھا) کو مار ڈالا ہے۔ بادشاہ کے آنے کی خبر سن کر بڑوج کو چھوڑ دیا۔ ارادہ یہ ہے کہ لشکر شاہی سے اوپر اوپر اتر کر وسط ولایت کو لوٹتا پنجاب میں جا نکلے،اس وقت یہاں سے آٹھ کوس پر ہے۔ یہ سن کر اکبر کا جوش ہمت پھوٹ پڑا۔ حکم دیا کہ فلاں فلاں وفادار،جان نثار،رکاب میں چلیں،شہباز خان کمبوہ کو بھیجا، کہ سید محمود بارہہ ، راجہ بھگوان داس ،راجہ کنسر مان سنگھ۔شاہ قلی محرم خان چند سردار جو انہی بھائیوں کے دفیعہ کو سورت کی طرف کل روانہ ہوئے ہیں، انہیں پھیر لاؤ۔ ہمارے ساتھ آن ملو۔ سلیم ڈھائی برس کا بچہ اور حرم سرا کے خیمے بھی ساتھ تھے، یہا ں دو امیع حفاظت کے لئے رکے، اور حکم دیا کہ کسی کو چھاؤنی سے نکلنے نہ دو۔ مطلب یہ تھا کہ جان نثار ہماری یلغار کی خبر پا کر پیچھے اٹھ دوڑیں،اور لشکر کی بہتات سے ڈر کر مرزا بھاگ نکلے، ہماری تھوڑی فوج ہو گی تو شیر ہو کر مقابلہ پر جم جائے گا۔ پہر رات رہے ،سوار ہو کر گھوڑے اٹھائے،صبح ہوتے ہی ایک ہرن نمودار ہوا، حکم ہوا کہ چیتا چھوڑ دو۔ مار لیا تو فتح ضرور ہے۔(اس زمانے میں ایسے شگون ضرور لیے جاتے تھے۔) اس نے چھٹتے ہی شکار کو دبوچ لیا۔ سب کے دل کھل گئے۔ پھر رات،دن بھر چلے، غنیم کا کچھ پتا نہ تھا۔ ۲ گھنٹے دن ہو گا کہ ایک برہمن سامنے آتا ہوا دکھائی دیا، اس نے خبر دی کہ مرزا دریا اتر کر سر نال پر آن پڑا ہے۔لشکر بھی بہت ساتھ ہے، اور قصبہ مذکور یہاں سے چار کوس کے فاصلہ پر ہے۔ اکبر نے وہیں باگیں روکیں اور باہم مشاورت ہوئی۔جلال خان قورچی نے کہا کہ دشمن کی جمعیت بہت بتاتے ہیں۔ ان ہمراہیوں کے ساتھ ان کو لڑائی ڈالنی سپہ گری کے حساب سے باہر ہے۔ مناسب ہے کہ شب خون کیا جائے،اکبر نے کہا جہاں بادشاہ موجود ہو، وہاں شب خون مارنا جائز نہیں، خدا نہ کرے کہ ہمیں شب خونی کی نوبت پہنچے، یہ مغلوبی کی نشانی ہے۔ دن کی بات کو رات پر نہ ڈالو، جو جان نثار ہیں ،انہی کو ساتھ لو اور لڑائی کے پل چل پڑو۔ اور آگے بڑھے،اتنے میں سر نال نظر آیا۔کہ ٹیلے پر واقع ہے۔ اتنے میں سر نال نظر آیا۔کہ ٹیلے پر واقع ہے۔ ۴۰۰ آدمیوں کے ساتھ دریائے مہندری کے کنارے رات بسر کی۔صبح ہوتے ہی حکم ہوا کہ ہتھیار سج لو۔اتنے میں خبر آئی کہ امراء بھی آن پہنچے ،بادشاہ راستے میں خفا ہو کر آن پہنچے تھے۔ حکم ہوا کہ جو دیر میں آئے جنگ میں شریک نہ ہو۔ بارے معلوم ہوا کہ ان کی کوتاہی نہ تھی۔ حکم ہی دیر سے پہنچا تھا۔ سلام کی اجازت ہوئی۔ان کے شامل ہونے پر بھی ڈیڑھ ،دوسو کے بیچ تھے۔ اکبر نے یہا ں روک کر سب کو سنبھالا، کنور مان سنگھ باپ کے ساتھ حاضر تھا۔ عرض کی ،ہراول غلام باشد، اکبر نے کہا بکدام لشکر تقسیم افواج تواں کرد،؟ وقت است کہ ہمہ یک دل ویک رو کار کنند‘‘ عرض کی کہ دو ہر صورت قدمے پیشتر جان نثار شدن قرض عقیدت واخلاص است۔ اس کی خاطر سے چند بہادر ساتھ کر کے روانہ کیا۔ ابراہیم حسن مرزا نے جب سیاہی لشکر پر نظر کی تو فوج کی آمد آمد اور رفتار کے جوش دیکھ کر کہا کہ ضرور اس لشکر میں بادشاہ خود موجود ہیں۔اس کی ہزار سوار کی جمعیت تھی، انہیں لے کر بلندی پر قائم ہوا، اکبری دلاور جب دریا اترے تو کڑ اڑے ٹوٹے پھوٹے تھے، بیچ میں جا بجا گڑھے تھے، پر جوش بہادر گھاٹ کے پابند نہ رہے۔ایک سے ایک آگے بڑھا، اور جس نے جدھر راہ پائی چڑھ گیا۔ابراہیم مرزا نے بابا خان قاقشال پر حملہ کیا کہ فوج پیش قدم کو لے جاتا تھا۔ بابا خان کو ہٹنا پڑا اور مرزا مارومار دور تک بھگائے چلا گیا۔ اکبر چند بہادروں کے ساتھ شہر کو چلا، کہ گھاٹ سے سیدھا راستہ ادھر کو جاتا تھا۔ راہ میں سخت مقابلہ ہوا ،مگر رکتا کون تھا؟۔ اور ہٹنا کب ممکن تھا۔ کچھ اور دلاور بھی آن پہنچے،جم تو گئے مگر بے ڈھب گھر گئے۔ مشکل یہ کہ بادشاہ بھی انہی میں ،اب سوائے لڑنے اور مرنے کے سوا کسی کو چارہ نہ تھا۔ یہاں اگر مدد الہیٰ شامل حال نہ ہوتی تو کام تمام تھا۔ بارے خیر گزری کہ غنیم لڑ بھڑ کر بھاگ گئے۔ اب اکبر کو شہر میں داخل ہونے کے سوا دوسری صورت نہ تھی۔ بازار تمام اسباب اور بھیڑ سے بھرے ہوئے تھے۔ بڑی دھکا پیل سے سب کو روند سوند کر نکل گئے۔ اور ٹھیک حریفوں کے پہلو میں جا پہنچے۔ وہاں کی سنو کہ بابا خان قاقشال نے سب سے آگے بڑھ کر حملہ کیا۔ غنیم نے ایک سینہ توڑ دھکا دے کر الٹ مارا۔اتنے میں اور دلاور آن پہنچے اور پھر جو دست وگریبان ہو کر تلوار چلی اور گھر کرلڑنا پڑا تو یہ عالم ہوا کہ خدا نظر آنے لگا۔ مشکل یہ تھی کہ وہ بہت تھے اور اکبری دلاور دلوں سے بہت بھاری تھے۔مگر شمار میں کچھ نہ تھے، اس لئے دشمن کی نگاہ میں ہلکے پڑتے تھے۔ وہ زور سے آتا تھا اور جا بجا ڈٹتا تھا۔ بارے رستے کی خرابی سے جو سردار کھنڈ گئے تھے۔ سب آگئے ،جا بجا لڑائی پڑ گئی۔ اور اس کا گھمسان کا رن پڑا کہ اقبال اکبری مدد نہ کرتا ،تو کام تمام ہو چکا تھا۔ بادشاہ ایک مقام پر گھر گیا۔ راجپوتوں کا یہ عالم تھا کہ اس کے گرد پھرتے تھے، اور وہ اس طرح مر مر کر گرتے تھے کہ جیسے پتنگے چراغ کے آس پاس تڑپتے ہیں اور نہیں ٹلتے۔ راجہ بھونت بھگوان داس کے بھتیجے مان سنگھ کے بھائی نے بڑا ساکھا کیا، کمال دلاوری سے لڑا اور مارا گیا۔ خاک پر پڑا تھا۔ اور جب تک رمق جان باقی تھی۔ تلوار کا ہاتھ ہلے جاتا تھا۔اور شیر کی طرح ڈروکتا تھا۔ اکبر ایک مقام پر کھڑا تیر مار رہا تھا۔ دوطرفہ تھوڑ کی باڑ تھی۔ مان سنگھ باپ کے ساتھ اکبر کے پہلو میں تھا۔ دیکھا کہ غنیم کے تین سپا ہی انہیں تاڑ کر آئے۔ ایک کا رخ راجہ بھگوان داس پر اور دو کا رخ اکبر پر، راجہ نے بھی گھوڑا اٹھایا۔ اس نے نیزہ مارا۔ راجہ نے وار بچا کر برچھا مارا۔ جو دو اکبر پر آتے تھے۔ ان کی طرف مان سنگھ چلا،اکبر نے کہا خبردار قدم نہ اٹھانا،اور باڑ پر سے آپ گھوڑا اڑا کر ان پر چلا، دور ونزدیک اور سوار بھی لڑ رہے تھے، کسی کو خیال نہ ہوا۔ راجہ بھگوان داس چلایا کنور جی کیا ہوا ؟ دیکھتے ہو؟۔ اور کھڑے ہو کر اس نے کہا کیا کروں مہابلی خفا ہوتے ہیں۔ راجہ نے کہا یہ وقت خفگی دیکھنے کا ہے۔ اتنے میں دیکھا کہ وہ دونوں جس جوش سے آئے تھے، اتنے ہی زور سے بھاگے چلے جاتے ہیں۔ ان سب باتوں کو دیکھ کر خیال آتا ہے کہ جب تک دل میں وفا نہیں ہوتی نہ یہ باتیں پان سے نکلتی ہیں نہ یہ رفاقتیں ہاتھ پاؤں سے بن آتی ہیں۔ ہم ہیں غلام ان کے جو ہیں وفا کے بندے اس کو یقین کرنا گر ہو خدا کے بندے نواحی پٹن میںپھر سارے مرزا جمع ہوئے ،صلاح ٹھہری کہ ابراہیم میرزا ،چھوٹے بھائی مسعود میرزا کو ساتھ لے کر ہندوستان سے گزرتا ہوا پنجاب پہنچے، اور وہاں بغاوت پھیلائے۔ محمد حسین میرزا اور شاہ مرزا ،شیر خان فولادی سے مل کر پٹن جائیں،اور ہاتھ پاؤں ہلائیں،تاکہ اکبر نے جو سورت کا محا صرہ کیا ہے۔ وہ مل جائے کہ یہی ان فتنہ گروں کا بغاوت خانہ تھا۔(انصاف یہ ہے کہ یہ سب اکبر کے ساتھ مخالف اور قدرتی بدنیت تھے۔)مگر ان کے صاحب ہمت ہونے میں کچھ شبہ نہیں ،ہمیشہ گرتے تھے،اور اٹھ کھڑے ہوتے تھے۔ کسی طرح ہمت نہ ہارتے تھے۔ اکبر اس مہم سے فارغ ہو کر احمد آباد آیا۔اور اطراف کے بندو بست میں مصروف ہوا، ابراہیم حسین مرزا وہاں سے بھاگ کر آبادیوں کو ویران کرتا،قافلوں کو لوٹتا ناگور میں آیا، رائے سنگھ ،رام سنگھ ،فرخ خان ،وغیرہ وفاداران اکبری کو خبر ہوئی،انہوں نے دم لینے کی فرصت نہ دی۔ سب طرف سے جمع ہوئے اور فوج لے کر آن پڑے۔ سخت لڑائی ہوئے ،رفیق وملازم سب یہا ں آکر جمع ہوئے۔لاہور جانا مناسب نہ سمجھا، پھر سنبھل کا چلا گیا۔ وہاں سنا ہے کہ حسین قلی خان کانگڑہ گیا ہوا ہے۔ طمع نے پھر بے قرار کیا اور دوڑا۔ارادہ یہ کیا کہ بادشاہ گجرات اور سورت کے علاقوں میں فوج لیے پھرتے ہیں۔ آگرہ ،دہلی،لاہور مشہور شہر ہیں۔دھاوے ماروں گا، بادشاہی خزانے ہیں،شہر آباد ہیں، لوٹ مار سے سامان لیتا جاؤں گا۔ جہاں قدم تھم گئے ،جم جاوں گا۔کچھ نہ ہوا تو ملتان سے سندھ آکر پھر گجرات میں آجاؤ ں گا۔ آگرہ میں راجہ باڑہ مل مان سنگھ کے دادا تھے، انہوں نے جب اس آندھی کی اندھیری دیکھی تو فورا دہلی وغیرہ مقامات میں فوجیں بھیجیں۔ اور امرائے اطراف کے بھی خطوط دوڑ گئے۔ مرزا جہاں پہنچا، نامرادی نے آگے سے نشان ہلایا، ناچار وحشت اور دہشت کے عالم میں پنجاب کا رخ کیا۔ سنپت، پانی پت، کرنال، انبالہ، دنبل پوروغیرہ شہروں کو لوٹتا لاہور کو آیا۔ یہاں بھی شہر کے دروازے بند پائے۔ معلوم ہوا کہ حسین قلی خان ۱؎ کوہ کانگڑہ سے سیلاب کی طرح چلا آتا ہے۔مرزا لاہور سے پانی کی طرح ملتان کو بہے۔اور راستہ ہی میں بلبلہ ہر کربیٹھ گئے۔مسعود حسین مرزا قید ہو کر دربار میں گئے اور قلعہ گوالیار میں پہنچ کر راہی ملک عدم ہوئے۔(قلعہ گوالیار سلاطین چغتائیہ کے عہد میں شہزادوں کا قید خانہ تھا۔) محمد حسین مرزا اور شاہ مرزا شیر خان فولادی کو ساتھ لے کر بڑے زور وشور سے آئے۔ اور پٹن میں سید محمود بارہہ کو گھیر لیا۔ خان اعظم احمد آباد سے مدد کو پہنچے، مرزا نے پانچ کوس آگے بڑھ کر میدان کیا، لڑے اور خوب لڑے ،آخر تیمور کی ہڈی تھی۔ دونوں شاہزادوں نے حملہ ہائے مردانہ سے بادشاہی فوجوں کو اٹھا اٹھا کر الٹ دیا۔امرائے شاہی بھی پہاڑ کا پتھر ہو کر میدان میں گڑ گئے۔اس وقت رستم خان اور عبد المطلب خان بارہہ مدد کو پہنچے۔اور ۱؎ دیکھو حسین قلی خان جہان کا حال۔یہ یلغار بھی دیکھنے کے قابل ہے ،صفحہ ۷۰۳ خان اعظم کی عظمت کو قائم رکھا،پھر بھی تقدیر سے لڑا نہیں جاتا،مرزا کا آراستہ لشکر کھنڈ گیا۔ اس کے گول کے غول اس طرح جنگل کو بھاگے چلے جاتے تھے، جس طرح بادل کے ٹکڑے اڑے جاتے ہیں۔ اور مرزا دکن بھاگ ئے۔ لیکن ۹۸۰ ء ؁ میں اختیار الملک کو لے کر پھر آئے۔اور اس کرو فر سے آئے کہ گجرات کے بہت سے علاقوں پر قبضہ کرلیا۔مرزا کو کہ کو احمد آباد میں گھیرا اور ایسا دبایا کہ اکبر خود یلغار کر کے نہ پہنچتا تو کوکہ جی کا کام تمام تھا،لیکن اس لڑائی میں مرزا کا کام تمام ہو گیا۔ گل رخ خان بیگم کامران کی بیٹی،ابراہیم حسین مرزا سے بیاہی تھی۔وہ نام کو عورت تھی ،مگر بڑی مردانی بی بی تھی۔جب مرزا کرنال کی لڑائی سے بھاگا تو وہ سورت سے بھاگ کر دکن کو چلی گئی،قلعہ سرداروں کے حوالہ کر گئی تھی، بیگم نے کامران کے خون سے کینہ کی سرخی پائی تھی۔ابراہیم مرزا کی فتنہ انگیزی خود ظاہر ہے۔مظفر مرزا دونوں سے ترکیب پا کر طرفہ معجون پیدا ہوئے۔مہر علی ایک نمک پروردہ ابراہیم مرزا کا اس کے ساتھ تھا۔ ماں کی مہر اور مہر علی کی تربیت دکن میں لڑکے کو فساد کی مشق اور فتنہ کی تعلیم دیتی رہی۔ ۹۸۵ ھ ؁ میں پندرہ،سولہ برس کی عمر ہوئی،تو اوباشوں کا انبوہ جمع کر کے اطراف گجرات میں آئے۔اور امرائے بادشاہی کو شکست دی۔ مظفر مرزا ظفر یاب ہو کر کمبایت میں گیا باوجودیکہ دوہزار سے کچھ زیادہ جمعیت تھی۔ اور وزیر خان کے پاس تین ہزار فوج تھی۔وزیر خان کو قلعہ میں ڈال کر گھیر لیا۔ اتفاقا راجہ ٹوڈر مل پٹن میں دیکھ رہے تھے۔اگر نہ پہنچتے تو لڑکے نے وزیر کا شاہ مات دے دی تھی۔ راجہ پہنچے تو وہ بھاگا،دونوں امیر پیچھے دوڑے،وہ دلقہ پر جا پہنچا اور ایک میدان لڑ کر دل کا ارمان اتارا۔ آخر جونا گڑھ کو بھاگ گیا۔ ٹوڈر مل دربار شاہی میں آن حاضر ہوئے۔وزیر خان احمد آباد میں آئے، وہ لڑکا پھر آیا۔ وزیر خان پھر قلعہ میں بیٹھ گئے۔ اس نے محا صرہ ڈال کر حملے شروع کیے۔ ایک دن سیڑھیاں لگا کر قلعہ کی دیواروں پر چڑھ گئے۔ قریب تھا کہ قلعہ ٹوٹ جائے۔ یکایک اقبال اکبری نے طلسمی دکھائی،مہر علی نے کہ مرزا کی تدبیروں کا صندوق تھا۔ سینہ پر بندوق کھائی اور صندوق اعمال میں پہنچ گیا۔ اس کے مرتے ہی مرزا بھاگے اور چند روز بعد راجہ قلی خان حاکم خان دیس کے پاس پہنچے۔ بادشاہ نے مقصود جوہری کو فرمان کے ساتھ بھیجا، راجہ علی خان خود دربار اکبری میں سرخروئی کے رنگ ڈھونڈتا تھا۔ اسے گوہر مقصود سمجھا اور تحائف اور پیش کش کے ساتھ ہمراہ روانہ دربار کیا۔چند روز بعد گل رخ بیگم اور اس کی حالت دیکھ کر بادشاہ نے شرف دامادی سے اعزاز بخشا،اور اس کی بہن سے سلیم کا عقد ہو گیا۔ اب تو سب دہلی رہیں گے، مرزاؤں کا فساد ۱۱ ؁ جلوس سے شروع ہوا اور ۲۳ ء ؁ میں تمام ہوا۔ابراہیم مرزا انتہا ئی درجہ کا بہادر تھا۔مگر تھوڑا مادہ جنون بھی رکھتا تھا۔سب بھائی ایک دن بیٹھے ہنس بول رہے تھے۔ کرنال کی شکست کا ذکر آگیا،ہنسی میں بات بڑھ گئی۔ ابراہیم ایسے بگڑے کہ خفا ہو کر اٹھ کھڑے ہوئے اور آگرہ کا رخ کیا۔ راستہ میں ناگور ملا۔اس پر دھاوا مارا،خاں کلال کا بیٹا ھاکم تھا، قلعہ بند ہو کر بیٹھا،مرزا نے شہر کو لوٹ کر خورجینیں بھریں۔اور محاصرہ کر کے بیٹھ گیا۔ امرا ء جو نواح جودھ پور میں پڑے تھے، اٹھ کر دوڑے،بعض امراء اکبر کے پاس چلے آئے۔کہ ملک گجرات میں تھا۔ وہ بھی ان کے ساتھ شریک ہوئے اور مرزا پر ہجوم کر کے چلے۔مرزا ان کی آمد آمد میں گھبرا گیا۔ جب یہ آئے تو اندر باہر والے شریک ہوئے۔ اور مرزا پر ہجوم کر کے چلے، مرزا ان کی آمد آمد میں گھبرا گیا۔جب یہ آئے تو اندر باہر والے شامل ہوئے،اور اس کے پیچھے گھوڑے دوڑائے۔وہ ایک مقام پر جما، فوج کے تین حصے کر کے مقابلہ ہوا، سخت لڑائی ہوئی، مرزا نہایت جوان مردی سے لڑا۔ لیکن نمک حرامی ضرور اثر دکھاتی ہے، مرزا بحال تباہ بھاگا۔اس کا گھوڑا تیر کھا کر گرا تھا۔ دور تک پا پیادہ جنگل پایا۔ بارے اسی کا نوکر مل گیا۔ اس نے گھوڑا دیا، سوار ہو کر دلی پہنچا۔ شیری ملا ملک پنجاب میں دریائے بیاس کے کنارے پر کو کو دال گاؤں ہے۔ ملا وہاں کے رہنے والے تھے، چنانچہ ایک قطعہ میں خود ارشاد فرماتے ہیں۔ اے خوش آں شب ہا کہ ہر دم در دعائے وصل ا سورہ ء والیل خوانم بر لب آب بیاہ فیل رفتاران آہو چشم کو کو وال را میکنم ہر لحظہ یادو مے کشم از سینہ آہ قوم کے ماچھی تھے، (ماہی گیر) اپنے والد ملا یحیٰے کی خدمت میں تعلیم وتربیت پائی تھی۔ یہ بھی کہا کرتے تھے ،کہ میری ماں سادات میں سے تھی، طبیعت ایسی شوخ لائے تھے جو کہ شاعری کے لئے نہایت مناسب تھی۔ اور زبان میں عجب لطف کا نمک تھا۔یہ قدرتی نعمتیں خدا داد ہیں۔ شرافت اور خان دان کا ان پر زور نہیں چلتا۔ طبیعت نہایت رواں تھی۔ کہتے تھے کہ ایک دفعہ رات کو ذہن لڑ گیا موقع بھی ضرورت کا تھا۔ ۳۰ غزلیں ایک قلم سے لکھی تھیں۔ لطیفہ : ایک دن جلسہ ء احباب میں اپنے اشعار سنا رہے تھے کہ کتاب انداختم، حساب انداختم، بر دوش احباب اندا ختم۔ ان میں مصرع تھا۔ ع، چار دفتر شعر در آب انداختم،دیوان ہاتھ میں تھا، مولانا اللہ داد (امروہہ) نے فورا کہا،کیا خوب ہوتا کہ یہ پرانی دیگچی بھی اس میں پھینک دیتے۔ لطیفہ۔جن دنوں اکبر نے مہا بھارت کے ترجمہ کی خدمت چند اشخاص کے سپرد کی تھی، ایک حصہ انہیں ملا، ایک دن دوستوں کے جلسہ میں بیٹھے تھے، ترجمہ کی دقتوں کی شکائتیں ہونے لگیں۔ایک شخص نے کہا ملا کیا حال ہے ؟۔تم بھی تو کچھ بولو، کہا کیا بولوں؟۔ایسے افسانے لکھنے پڑے ہیں جیسے کوئی بخار کی بے ہوشی میں خواب دیکھتا ہے۔ طبیعت میں بے نیازی،فقر اور درد مندی بہت تھی، ایک اور قطعہ کے دو شعر ہیں ؎ صاحب خوان فقرم وہرگز ہمت من نخواہد از جانان قرض ہندو بشرط دہ پنجاہ بہ کہ انعام ایں مسلماناں ملا صاحب بھی کہتے ہیں کہ ہم عصروں میں شکوہ یا شکایت کے مضامین اس سے بہتر کسی نے نہیں لکھے،دو شعر ایک اور قطعہ کے ہیں۔ گذشتگان ہمہ عشرت کنند کالو دید از آنکہ عیش بر افتادہ از زمانہ ء ما ایا کساں کہ پس از مار سید فاتحہ بشکر آنکہ نبودید در زمانہ ء ما اس وقت ملا صاحب مہر بان تھے، فرماتے ہیں کہ قصیدہ اور قطعہ گوئی کے میدان میں ہم قدم اشخاص سے آگے نکل گیا۔ اور ان کی فصا حت کی مشکیں باندھ کر گویائی کے منہ پر سکوت کی مہر لگا دی۔اسی قطعہ سے سمجھ لو۔ ؎ اگر از شعر شیریم پرسی گویم از درمیانہ انصاف است غزل ومثنوی جملہ سقط دین سخن نے ستیزہ نے لاف است نہ ہمہ شعر شاعرا ں سرہ است نہ ہمہ بادہ ء کساں صاف است لیک صیت قصیدہ وقطعہ رفتہ از وے زقاف تا قاف است شیری اراذل را مکن قدرے کہ مناسب بحال اشراف است اکبر کی تعریف میں اکثر قصائد لکھے ہیں،ان میں بھی صفائی کلام کے ساتھ ایجاد واختراع کی داد دی ہے۔ لیکن جب بد مذہبوں کی گرم بازاری ہوئی تو جل کر ایک قطعہ میں دل کا بخار بھی خوب نکالا، مجھے اس میں سے پانچ شعر ہاتھ آئے۔ تا بر اید۔ہر زیان کشور بر انداز آفتے فتنہ در کوئے حوادث کتخدا خواہد شدن فیلوسف کذب را خواہد گریبان پارہ شد خرقہ پوش زہد را تقٰوے روا خواہد شدن شورش مغز است اگر در خاطر آرد جاہلے کز خلائق مہر پیغمبر جدا خواہد شدن بادشاہ امسال دعویٰ نبوت کردہ است گر خدا خواہد پس از سالے خدا خواہد شدن اکبر نے مان سنگھ کو حکم بھیجا کہ کانگڑہ پر لشکر لے کر جاؤ۔وہ سامان میں مصروف ہوا، ملا شیری نے قطعہ کہا؎ مشہا فرماں فرستادی بہ راجہ کہ سازد ہندوان کوہ را دم چنان رونق گرفت از عدل تو دین کہ ہندو میزند شمشیر اسلام ۹۶۷ ھ؁ میں قلعہ رنتھنبور فتح ہوا تو انہوں نے تاریخ کہی،اسی کا شعر اخیر ہے۔ قلعہ کفر چوں ازدولت شہ یافت شکست شہ کفار شکن یافتہ شیری سالش اسی سال آگرہ کے نئے قلعہ کا دروازہ عظیم الشان تیار ہوا، اس کے دونوں پہلوؤں پر دو پتھر کے ہاتھی کھڑے تھے۔ اور اسی مناسبت سے اس کا نام ہتیا پول دروازہ رکھا تھا۔ پول سنسکرت میں دواز کو کہتے ہیں،ملا شیری نے تاریخ کہی،اسی کا شعر آخر ہے۔ کلک شیری پئے تاریخ نوشت بے مثال آمدہ دروازہ ء فیل میر علا الدولہ اپنے تذکرہ میں اکبر کے حالات لکھتے ہیں کہ ہاتھیوں کا بہت شوق اور ہاتھی کی سواری میں کمال تھا، طب فیل میں ایک رسالہ سنسکرت سے فارسی میں ترجمہ کروایا تھا۔ اور ملا شیری ہندی نے اسے نظم میں لکھا تھا۔ آخر ملا صاحب کو ان سے بھی خفا ہونا پڑا۔ کیونکہ زمانہ کا رنگ دیکھ کر ان کی طبیعت بھی بدلی،آفتاب کی تعریف میں ہزار قطعے کہے، اور اس کا نام ہزار شعاع رکھا۔نظام الدین بخشی طبقات اکبری میں اس مجموعہ کا نام شمع جہاں افروز لکھتے ہیں،اور ایک قطعہ بھی نمونہ کے طور پر لکھتے ہیں۔ در عشق کساں اسیر محنت بسیار شنیدہ ام کساں را معشوق دل آفتاب باید آمید بآرزو رساں را ۹۹۴ھ؁ میں یوسف زئی کی مہم میں جہاں راجہ بیر بر ہزاروں آدمیوں کے ساتھ رہے،وہیں یہ رہے۔ شیخ گدائی کنبو پہلے ان کے والد شیخ جمالی کا حال سننا چاہیئے،کہ سکندر لودھی کے عہد میں شعرائے با کمال میں شمار ہوتے تھے۔اور شیخ جمال کنبوہی دہلوی کہلاتے تھے، وہ شیخ سما الدین کے مرید تھے، کہ مشائخ کبار اور علماء روز گار میں تھے،شیخ جمالی سے سکندر لودھی بھی اصلاح لیا کرتا تھا۔ ملا صاحب لکھتے ہیں کہ ہیئت مجموعی ان کے چند ٖفضائل سے مرکب تھی۔سیاحی بھی بہت کی تھی، مولانا جامی کی خدمت میں پہنچ کر فیض نظر اور اشعار نے شرف قبولیت پایا۔آزاد بزرگوں سے سنا ہے کہ پہلی ملاقات میں اپنا حال کچھ ظاہر نہ کیا۔ اور پاس جا بیٹھے ،تن برہنہ،فقط لنگ باندھے تھے، فقیرانہ حالت تھی۔ انہوں نے کہا۔میاں خرد تو چند فرق است۔انہوں نے بالشت بیچ میں رکھ دی۔ انہوں نے تحمل کیا اور کہا کیستی۔انہوں نے کہا از خاکساران ہند، ان کا کلام وہاں تک پہنچ چکا تھا۔ پوچھا از سخنان جمالی چیزے یاد واری۔انہوں نے یہ شعر پڑھا۔ دو سہ گزے کہ بوریا وپوستکے دل کے پر زور دوستکے لنگیٰ زیرو لنگے بالا نے غم وزدو نے غم کالا ایں قدر بس بود جمالی را عاشق رند لا ابالی را انہوں نے کہا طبع شعر داری، کیا کچھ شعر بھی کہتے ہو؟۔انہوں نے مطلع پڑھا۔ ما از خاک کویت پیراہن است بر تن آں ہم زآب دیدہ صد چاک تا بد امن یہ کہا اور آنکھ سے آنسو ٹپک پڑے۔بدن پر تمام گرد پڑی تھی، سینہ پر جو آنسو گرے ،گرد چاک چاک ہو گئی۔مولانا جامی سمجھ گئے۔ اٹھ کر گلے ملے، اور تعظیم اور تواضع سے پیش آئے۔آخر ۹۴۳ ھ ؁ میں دلی میں مر گئے۔تاریخ ہوئی۔خسرو ہندو بودہ۔ ان کی ایک غزل اکبری عہد میں مشہور ہوئی۔ انہوں نے خود ہندوستانی راگ میں اس کی لتے رکھی تھی۔ طال شوقی الیٰ بقائکم ایھا الغائبون من نظری روز وشب مونسم خیال شماست فاسئلوا عن خیالکم خبری مقالات وحالات مشائخ میں ایک تذکرہ بھی لکھا ہے کہ یسیرا لعارفین اس کا نام ہے۔خواجہ معین الدین چشتی سے شروع کر کے شیخ سما الدین کنبو اپنے پیر پر ختم کیا ہے۔ ملا صاحب کہتے ہیں کہ تو وہ بھی بتناقض اور سقم سے خالی نہیں۔اس کے علاوہ اور تصنیفات بھی نظم ونثر میں یادگار چھوڑیں کہ آٹھ ،نو ہزار تو بیت ہو ں گے۔ ملا صاحب ۹۵۹ ء میں لکھتے ہیں کہ شیخ عبد الحی ولد شیخ جمالی کنبوہی،دہلوی نے کہ فضائل علمی وشعری سے آراستہ اور صاحب سجادہ اور ندیم مصاحب خاص الخاص سلیم شاہ کے تھے۔ اس ؎ سلطان بہلول لودھی م رگیا تو سکندر لودھی تخت نشین ہوا۔ اٹاوہ وغیرہ ملک شرقی کے انتظام کے لئے چلا، خیال تھا کہ مبادا دوسرا بھائی دعویدار ہو۔ اس لئے شیخ سماء الدین کی خدمت میں گیا اور برکت کے لئے کتاب صرف بہائی شروع کی، اس کی ابتدا بداں اسعدک اللہ تعالیٰ نے الدارین خیرا میں پڑھ کر کہا ،کہ اس کے معنی ارشاد ہو ں، انہوں نے فرمایا کہ نیک بخت،گردانا وترا خدا ئے تعالیٰ۔اس نے کہا آپ تین دفعہ یہی فرمائیں۔انہوں نے کہا تو یہ خوش ہوئے اور عر ض کی کہ میں اپنے مطلب کو پہنچ گیاغرض شیخ سے رخصت لے کر لشکر کو کوچ کا حکم دیا۔ سال میں امانت حیات سپرد کی۔سید شاہ میر نے تاریخ کہی۔ گفت نائم سمے شود تاریخ بندہ وقتے کہ درمیان نبود جب اکبر نے تاج شاہی سر پر رکھا تو دروازے کھلے تھے، دربانوں کی جگہ دل جوئی اور تالیف قلوب دونوں چوکیوں پر بیٹھے تھے، کہ جو آئے عزت سے لا کر حاضر کرو۔جب یہ خبر مشہور ہوئی کہ اکبر کی خدائی ہے۔ اور بیرم خان کی فرمانروائی،تو شیخ گدائی بھی گجرات سے پہنچے اور صدارت کا عہدہ مل گیا۔ ملا صاحب فرماتے ہیں کہ ہمایوں کی شکست دوم کے بعد شیخ گدائی پسر شیخ جمالی کنبوہ دہلوی نے خان خانان کے ساتھ آواز کی گجرات میں رفاقت پیدا کی تھی، اس نے اس حق پر تمام اکابر ہندوستان سے بڑھا کر صدارت کا منصب رفیع القدر اس کے لئے مسلم کیا۔ خان خانان بلکہ اکبر بھی اکثر اوقات اس کے ہاں حال و قال کی مجلس میں جس میں سرا سر ظاہر داری برستی تھی، جاتے تھے، جب سے ہندوستان میں بنائے اسلام واقع ہوئی۔خدا نے یہاں کے بزرگوں،شرفاء اور امراء کو ہمیشہ سے رعیت سرشت ،محکوم طبیعت ،پست فطرت پیدا کیا ہے، جاہ ودولت ان کی کبھی ضرب شمشیر سے حاصل نہیں ہوئی،مگر فریب ،دغا، نفاق ذاتی اور بد نامی سے سروری وسرداری کا جامہ ان کے قامت ہمت پر چھوٹا ہی آیا۔چنانچہ شیخ کی معراج سے جس کے نسب کو بھی اچھا نہ سمجھتے تھے،سب اکابر آئمہ گھبرائے۔اور گھر گھر کہرام مچ گیا۔ کبر فی موت الکبراء (بڑوں کی موت نے مجھے بڑھایا) کا بھید اب سمجھ میں آگیا۔ در تنگ نائے حیرتم از نخوت رقیب یا رب مباد آنکہ گدا معتبر شود اس نے خانوادہ ہائے قدیم کی اراضی،مدد املاک اور وقفی املاکوں پر قلم نسخ پھیر دیا۔جو اس کے دربار کی خواری اٹھاتا تھا،اس کو جاگیر ملتی تھی، نہیں تو نہیں،(آج تو ۵ بیگھہ کی جاگیر بلکہ اس سے کم میں بھی کلام ہے۔) اس حساب سے تو اسے عالم بخش کہنا چاہیئے۔) ولایت کے اعیان اور اشراف بھی جو آتے تھے، تو اس کی حکومت اور غرور کے سبب سے متردد رہتے تھے۔ گر فرو تر نشست خاقانی نہ درا عیب ونے تر الوب است مے نہ بینی کہ سورہء اخلاص زیر تبت یدا ابی لہب است پھر فرماتے ہیں کہ سید نعمت اللہ اسولی نے ایک قطعہ میں کہا کہ مساجد ومدارس مشہور ہیں۔بعض شیاطین شیخ گدائی کی مسجد اور دیوان خانہ میں جا کر دیواروں پر لکھ آئے۔آپ نے پڑھ کر مٹا دیا۔مگر کیا فائدہ۔اسی میں سے ایک بیت ہے ؎ نام گدائی مبر نان گدائی مخور زانکہ گدائی بدست روئے گدائی سیاہ بعض باتیں بے اخلاصی اور بے ادائی اور بد رائی کی بندگان شاہی کی نسبت بھی اس سے ظاہر ہوتی ہے۔ کہ بجائے خود لکھی گئیں۔ جہاں خان خانان کے اقبال نے بے وفائی کی ہے،اور رفیق اس کے جدا ہونے شروع ہوئے ہیں۔ وہیں ایک چٹکی لیتے ہیں۔آخر حدود بیکا نیر میں شیخ گدائی بھی الگ ہو گئے۔ اور اس شعر کا راز کھل گیا۔ و کل اخ یفارق رقہ اخوہ لعمرا بیک الافرقدان وہاں سے دلی آئے تب بھی معزز ومکرم تھے، مشائخ دہلی قدس اللہ اراواحم کے مزاروں پر عرسوں میں حاضر ہوتے تھے۔اور مجالس عالی میں بڑے کروفر سے بیٹھتے تھے، پھر ۹۶۷ ئ؁ میں لکھتے ہیں کہ اسی سال میں اترا شحنہ مردک نامی ،شیخ گدائی کنبوہ کہ زمانہ کا زنڈال،پکھال پیٹتا اور پندار وغیرہ کالات ومنات تھا۔تاریخ ہوئی مردہ خوک کلان۔ ایک اور مقام پر لکھتے ہیں کہ طبیعت موزوں تھی، ہندی گیتوں اور دہروںکی لے آپ رکھتے تھے، قوالوں سے گواتے تھے، اور آپ بھی گاتے تھے،اور اسی کے ذوق وشوق میں لٹو تھے۔اور دیوانے تھے، ملا صاحب کہتے ہیں کہ اس کی اولاد کا گھر بھی اور گھروں کی طرح خراب ہے۔اسی طرح زمانہ چلا آیا ہے۔ اور حکم الہیٰ اسی قانون پر چلتا ہے۔ یہ اس کی غزل ہے۔ گہے جان منزل غم شد گہے دل نعمت را می برم منزل بہ منزل مشو غافل ز حال درد مندی کہ از حال تو یک دم نیست غافل دل دیوانہ در زلف تو بستم گرفتارم بہ آں مشکیں سلاسل بجان دادن اگر اساں شدے کار نبودے عاشقاں را کار مشکل گدائی جان بہ ناکامی بر آید نشد کامم زلعل یار حاصل پھر ملا صاحب فرماتے ہیں کہ یہ غزل تذکرہ علاؤالدولہ سے نقل کی ہے، قابل اعتبار نہیں ہے، میرا خیال یہ ہے کہ شیخ گدائی کی نہ ہو گی،آزاد،میر علاؤ الدولہ کے تذکرہ کی بے اعتباری کا اور بھی کئی جگہ ملا صاحب نے اشارہ کیا ہے۔اس کاسبب جانتے ہو؟۔ یہ میر عبد الطیف قزوینی کے بھتیجے تھے، مگر انہوں نے مذہب شیعہ اختیار کر لیا تھا۔ آزاد حیران تھا کہ شیخ گدائی اور ان کے بزرگوں کی کوئی برائی اب تک نظر نہیں آئی۔ کیا سبب ہے کہ اکثر اہل تاریخ انہیں سبک الفاظ سے یاد کرتے ہیں۔ اور ملا حاحب کا تو کیا کہنا ہے کہ نظم، نثر،لطیفہ،تاریخ کے نیزوں سے خاک تودہ بنا دیا ہے۔مآثر الامراء سے یہ عقدہ حل ہوا کہ ان کے خان دان کا مذہب بھی شیعہ تھا۔ الہیٰ تیری امان،الہیٰ تیری امان بد نہ بولے زیر گردوں گر کوئی میری سنے ہے یہ گنبد کا کہا،جیسی کہے ،ویسی سنے فصیح فارس کیا خوب کہتا ہے۔ در حقیقت نسب عاشق ومعشوقی یکے است بوالفضولاں صنم وبرہمے ساختہ اند یک چراغ است دریں خانہ کہ ازپرتو آں ہر کسے مے نگری انجمنے ساختہ اند شیخ حسین اجمیری ملا عبد القادر بدایونی کہتے ہیں کہ مشہور تھا کہ خواجہ معین الدین چشتی کی اولاد میں ہیں۔مدت سے ان کی درگاہ کے متولی تھے۔ اس سبب سے اعزاز واکرام اور شان وشکوہ بادشاہانہ ہو گئی تھی، بزرگان سیکری وال (شیخ سلیم چشتی) اور ان کا خاندان بھی انہیں توڑنا چاہتا تھا۔ آخر بادشاہ بھی بر ہم ہو گئے، تحقیق ہونے لگی، کہ یہ خواجہ معین الدین چشتی کی اولاد ہیں یا نہیں،مشائخ اور علماء نے محضر لکھ دیا کہ ان کی اولاد ہی نہ تھی،متولی کاعہدہ چھن گیا، پھر بھی لوگوں کی طرف سے اعزاز واکرام قائم تھا۔ اس لئے بادشاہ نے حج کو بھج دیا۔ یہ حج اور زیارتیں کر کے پھر ہندوستان آئے،ملازمت ہوئی تو پرانے آدمی تھے، اپنے قدیمی طریقے سے ملے، اہل دربار کی طرح آداب بجا نہ لائے۔بادشاہ کو پھر بد گمانی تازہ ہوئی۔اس لئے ۱۰۰۲ء ؁ میں بھکر بھیج دیا۔ چند روز کے بعد جلا وطن خانہ خراب اور خانہ بر بادوں کی سفارشیں ہوئیں۔شیخ کمال بیا بانی اور بعض مشائخ قاضی ،عالم وغیرہ جو بھکر میں نکالے ہوئے تھے، طلب ہوئے ،سب آئے،کورنش بجا لائے،سجدے کئے۔ زمین چومی، شیخ حسین بے چارے سیدھے سادے آدمی تھے، ۷۸ برس کی عمر تھی۔ وہ آداب نہ ادا کیے نہ انہیں آتے تھے، حکم دیا کہ تین سوبیگھہ زمین جاگیر کر کے پھر وہیں بھیج دو۔لوگوں نے بھی عرض کی، مریم مکانی ( اکبر کی ماں نے محل میں سفارش کی) اور کہا بو تم او مادر پیر فرتوت دار دور جمیر دلش برائے دیدن فرزند کباب است چہ شد اگر او را از رخصت فرمانید۔او بیہیچ مدد معاشاز شما نمے خواہد، اکبر نے ہر گز نہ مانا۔ اور کہا کہ آچہ جیو در آنجا کہ می رود باز دکانے برائے خود وامیکندوفتوحات ونذر ونیاز بسیار برائے او می آرند،او جماعت را گمراہ می سازد غائتش اینکہ والدہ خود را از اجمیر ہما نجا للبد۔ یہ بات انہیں بھکر جانے سے بھی مشکل تھی، ملا حاحب کے اعتراض سب درست،مگر ان لفظوں کو خیال کرو کہ بادشاہ کو ان لوگوں کی طرف سے کیسا خطر تھا،اور کس قدر بچاؤ کرتا تھا۔ ملا حاحب فرماتے ہیں کہ بادشاہ نے خود ہی ایک دن تجویز فرمائی کہ مجھے اجمیر کا متولی کر دیں۔جب صدر جہاں نے مجھے اس مطلب سے پیش کیا،تو بعض خدمتوں کی ضرورت سے خود ہی اس تجویز کو ملتوی کر دیا۔ جب صدر جہاں نے اس مطلب سے مجھے پیش کیا،تو بعض خدمتوں کی ضرورت سے خود ہی اس تجویز کو ملتوی کر دیا۔ اور پوچھا کہ آن پیر بلوچ کجا است؟۔(وہی شیخ حسین اجمیری) میں پاس موجود تھا۔میں نے یاد دلایا کہ لاہور میں ہیں،اور صدر جہاں سے بڑے مبالغہ کے ساتھ کہا کہ میں تو اس سعادت کے لائق نہیں،اسی کو کردیں کہ حق مرکز پر ٹھہر جائے۔مگر ہندوستان کی اصالت میں داخل ہے کہ ہم جنس کو بڑھتے نہیں دیکھ سکتے،اور آپس میں سینہ صاف کبھی نہیں رہتے،اس نے ایسی سعی نہ کی، جس کا وہ یا میں شکر گزار ہوتا۔بڈھا مرحوم اب تک حیران پریشان گوشہ گم نامی میں تڑپتا ہے۔ نہ امراء کے گھروں پر جانے کی مجال ہے۔ نہ کوئی وسیلہ بہم پہچانے کی خواہش ہے۔اور آج کل عرض معروض کا راستا بنداور وسیلہ کا گھر بھی ویران ہے۔ہاں شیخ موصوف اپنی ذات سے زمانہ کی برکت ہیں۔اور دنیا میں غنیمت ہیں۔ میری ان سے جان پہچان بھی نہ تھی، جب سفر مکہ سے پھر کر اور قید کی مصیبت بھر کر آئے۔تو دیکھا تھا کہ نور کا ڈھیر ہے۔ اور فرشتہ مجسم ہے ،و غیرہ وغیرہ۔ شیخ محمد غوث گوالیاری شیخ حضور اور حاجی حضور عرف حاجی حمید کے مرید تھے۔ سلسلہ ان کا شطار تھا کہ سلطان العارفین شیخ با یزید بسطامی سے منسوب ہیں،کوہ چنار کے دامن اور جنگل میں ۱۲ برس تک بنا سپتی کھا کر یاد الہیٰ کرتے رہے۔غار میں بیٹھے رہے ،اور سخت ریا ضتیں کیں۔غار مذکور مدتوں تک ریا ضت ہائے شیخ کی نمائش گاہ کا ایک متبرک نمونہ تھا۔ کہ ان کے خویش واقارب،سیاحوں اور مسافروں کو دکھایا کرتے تھے۔ تسخیر کواکب اور عمل واعمال اور تصرفات ان کے تیر بہدف مشہور ہیں۔یہ کمال اپنے بڑے بھائی شیخ پھول سے حاصل کئے تھے،قال اللہ اور قال الرسول کے ذکر سے صحبت کبھی خالی نہ رہی۔خاص وعام ہندوستان کے شیخ کے ساتھ دلی ارادت اور اعتقاد رکھتے تھے۔اور ایک وقت ایسا ہوتا تھا کہ بادشاہ کو اپنی دنیا کے کاموں میں ان کی طرف رجوع کرنا پڑتا تھا۔ گجرات ،بنگالہ اور دہلی میں نامی مشائخ ان کے دامن وسیع کو پکڑے رہے۔ جب کہ بابر بادشاہ آگرہ تک پہنچ کر ملک گیری کر رہے تھے۔اس وقت تاتار خان والی گوالیار کو اپنی اطراف کے بعض سرداروں کی طرف سے کچھ خطر معلوم ہوا۔اس نے بابر کو عرضی بھیج کر اطاعت ظاہر کی۔بابر نے خواجہ رحیم داد اور شیخ گھورن کو فوج دے کر بھیجا۔ کہ قلعہ پر قبضہ کر لیں۔ جب یہ فوج لے کر پہنچے تو تاتار خان اپنے قول سے پھر گیا۔ دونوں سردار حیران پڑے تھے، شیخ محمد غوث ان دنوں قلعہ میں رہتے تھے، انہوں نے ایک با اقبال بادشاہ کی آمد آمد دیکھ کر اندر سے تدبیر بتائی۔اس کے بموجب ۱؎ ملا صاحب اس خیال سے لکھتے ہیں کہ اس وقت وہ مہربانی کے دم میں تھے، فرماتے ہیں۔ایں جماعت برہمنو ئی شیخ محمد غوث کہ یگانہ زمانہ و در دعوت السماء نشانہ بود،تدبیرصاحب در قلعہ در می آئیند۔ انہوں نے تاتار خان کو کہلا بھیجا کہ ہم جو یہاں آئے فقط اس لئے کہ تم کو تمہارے دشمنوں سے بچائیں اور آئے تو تمہارے بلانے سے آئے۔ اب کف دست میدان میں پڑے ہیں۔کوئی پناہ نہیں، اور دشمن فوجیں لیے انہی حدود میں پھرتے ہیں۔ دن کو ان کے چھاپے کا ڈر ہے۔ اور رات کو شب خون کا، اتنی اجازت دو کہ ہم چند خدمت گاروں کے ساتھ رات کو قلعہ میں آجائیں۔لشکر باہر رہے گا۔ تاتار خان بیچارہ سپاہی مزاج امیر تھا۔اس نے صاف دل سے اجازت دے دی۔ اور غضب یہ کیا کہ کچھ غفلت سے اور کچھ اپنے قلعہ اور سامان کے گھمنڈ سے بے پرواہ پڑا سویا کیا۔ سرداران مذکور نے راتوں رات اپنے بہت سے سپاہی قلعہ میں پہنچا دیئے۔ اور بہانہ یہ کیا کہ مزدور ہیں۔ضروری سامان اندر لے جاتے ہیں۔دروازہ پر پہرے دار شیخ کے مرید تھے، انہیں بھی شیخ کا حکم پہنچ چکا تھا۔غرض تاتار خان کو اس وقت خبر ہوئی کہ فوج بابری کی کثیر تعداد اندر پہنچ چکی تھی۔اور کام ہاتھ سے نکل چکا تھا۔ چار وناچار قلعہ حوالہ کرنا پڑا اور آپ دربار میں حاضر ہوئے۔ ہمایوں کو شیخ محمد غوث اور ان کے بڑے بھائی شیخ پھول کی تسخیر کواکب اور دعوات واعمال کا ایسا اعتقاد تھا کہ کسی کانہ تھا۔مصا حبان رو حانی میں شمار ہوتے تھے۔اور شیخ پھول کبھی خود بھی ہمایوں کے پیر بن کر کبھی مصاحب با عقیدت ہو کر فخر کیا کرتے تھے۔اور بادشاہ نے خود بھی عمل اعمال سیکھے تھے،جب ہمایوں بنگالہ میں تھا، اوراس کی سلطنت بگڑی ہوئی تھی تو مرزا ہندال نے آگرہ میں آکر بادشاہی دعوے کرنا چاہا۔ کہ تخت سلطنت پر جلوس کرے۔ہمایوں نے شیخ پھول کو بھیجا کہ بزرگ آدمی ہیں،سب ان کا ادب کرتے ہیں۔ان کی فہمایش سے اثر پذیر ہو گا۔ مرزا کو وہم یہ ہوا کہ ستاروں کی تاثیر سے میرا چراغ گل کرنے آئے ہیں۔افسوس کہ اس نے چار باغ میں کہ بابر نے آگرہ میں بنوایا تھا۔ شیخ پھول کو خون ہلاک سے گل گوں کیا۔محمد بخش کو ان سے بہت اعتقاد تھا۔ وہ لاش لے گیا۔ اور قلعہ سانبہ میں دفن کر کے مقبرہ بنوایا۔ ادھر شیر شاہ محمد غوث کے درپے ہوا۔یہ عیال واطفال،مریدوں اور متعلقوں اور سارے کارخانوں کو لے کر احمد آباد و گجرات میں چلے گئے۔ وہاں بھی بڑی عزت اور عظمت سے رہے۔مریدوں اور معتقدوں کی کیا کمی تھی؟۔خلق خدا کو ہدایت کرنے لگے، شیخ علی متقی کہ وہاں کے مشائخ کبار اور علمائے بزرگوار وصاحب اقتدار میں تھے، انہوں نے شیخ کے قتل پر فتویٰ لکھے۔وہاں میاں وحید الدین احمد آبادی ایک بزرگ تھے،کہ وہ بھی ان کے ہم رتبہ تھے۔ بادشاہ نے ان کے لئے مہر پر فتویٰ بھیجا۔اتفاق سے میاں پہلے ہی شیخ سے مل چکے تھے، اور صورت دیکھتے ہی عاشق ہو گئے تھے۔انہوں نے فتویٰ پھاڑ ڈالا۔شیخ علی بے اختیار میاں کے گھر دوڑے،اور کپڑے پھاڑ کر بولے،آپ کیوں کر پسند کرتے ہیں کہ بدعت پھیلے اور دین میں رخنہ پڑے۔میاں نے کہا ہم اہل قال ہیں۔اور شیخ اہل حال،ہمارا فہم ان کی باتو ں تک نہیں پہنچ سکتا۔اور طاہر شریعت میں کوئی اعتراض بھی ان پر نہیں آسکتا۔ خاص وعام دکن کے میاں کے ساتھ دل سے اعتقاد رکھتے ہیں۔میاں کی اتنی بات سنتے ہی سب لوگ شیخ کے معتقد ہو گئے۔اور یا تو جان پر نوبت پہنچی تھی،یا امراء واحکام تک مرید ومعتقد ہو گئے۔ فاضل بدایونی یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر چہ میاں اور گھرانے کے مرید تھے، مگر آداب طریقیت شیخ محمد غوث سے پائی،اور نا تمام کام کو انہوں نے تمام کیا۔ گجرات ،دکن میں شیخ کی ہدایت و ارشاد کا بازار گرم تھا۔کہ اکبر کے اقبال نے جہان کو روشن کیا اور فاضل موصوف لکھتے ہیں کہ یہ بھی اپنے مریدوں اور معقتدوں کے انبوہ کو لے کر چلے، اور بڑے کرو فر سے آگرہ پہنچے۔انواع واقسام کے وسیلے بیچ میں لائے۔اول اول ،پسند اور شوق کی خبریں دے کر مریدی کے جال میں بھی پھنسانا چاہا،شاہنشاہ اعتقاد درست کے ساتھ جا ملے۔اور اصل حال معلوم کر کے جلد ہی اچاٹ ہو گئے۔شیخ گدائی (شیخ جمالی دہلوی کنبوہ کے بیٹے) اس وقت صدر الصدور تھے۔اور دکان خوب جمی ہوئی تھی، انہیں یک چشمی ،نفاق اور حسد سے گوارہ نہ ہوا کہ اور دکان ان سے اونچی چنی جائے۔ حسد اور نفاق آئمہ ہندوستان کا لازمہ ہے۔بیرم خان خان خانان کا دوست تھا۔حضرت شیخ گدائی نے ان کے مزاج میں خوب تصرف کر رکھا تھا۔اور اس نے اپنے خلاف عادت وہ کیا جو اسے نہ کرنا چاہیئے تھا۔یعنی شیخ سے شیخ کے لائق مروت نہ کی۔کئی دفعہ علماء ومشائخ کے جلسے کیے۔ شیخ میں ان میں موجود تھے، انہیں جلسوں میں شیخ کا رسالہ معراجیہ سامنے دالا، اس میں انہوں نے اپنی معراج کا حال لکھا تھا۔ کہ جاگتے ہوئے خدا سے آمنے سامنے بیٹھ کر باتیں ہوئیں۔اور نعوذ باللہ آںحضرت سے میرا درجہ اوپر رہا۔ایسے ایسے اور بھی بہت سے خرافات تھے کہ عقلا اور نقلا قابل ملامت تھے۔ان باتوں پر شیخ کو سامنے رکھ کر تیر ملامت کا نشانہ بنایا۔شیخ اپنے دل آزردہ کو لے کر گوالیار چلے گئے۔ اور ایک کروڑ دام کی جاگیر پر قناعت کر کے بیٹھ رہے۔واہ سادہو لوگ ہیں، گڑ نہ ملا، پیڑے ہی کھائے۔ ملا صاحب فرماتے ہیں کہ ان کا دعویٰ تھا کہ خان خانان کی بر بادی ہمارا ہی کار نامہ ہے۔اور ہماری ہی کرامات ہیں۔ جن دنوں میں آگرہ میں علوم رسمی پڑھتا تھا۔شیخ اسی دھوم دھام اور شکوہ کلام کے ساتھ فقر کے لباس میں پہنچے کہ زمین وآسمان میں غلغلہ مچ گیا۔ ایک دن دور سے دیکھا کہ آگرہ کے بازار میں سامنے سے سوار چلے آتے ہیں۔خلقت انبوہ در انبوہ تھی ،کہ چاروں طرف سے گھیرے ہوئے تھی، اور وہ فرط تو اضع سے ان کے جواب سلام کے لئے ہر طرف اس طرح دم بدم جھکتے تھے کہ خانہ زین میں سیدھے نہ ہو سکتے تھے، ایک دوسرے کو آرام نہ تھا۔ اور پیٹ کا خم دم بدم زین کے ہرنے تک پہنچتا تھا۔مگر عجب طراوت اور روشنی چہرہ پر تھی۔ جی چاہا کہ جا کر ملازمت حاصل کر لوں۔مگر سنا کہ ہندوؤں کی تعظیم کو اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔چنانچہ اس ہوس سے دل اکھڑ گیا اور محروم رہا، خیر اب یہ کہو کہ گویا شیخ گدائی کی بدولت گوالیار گئے۔ وہاں ایک خانقاہ تعمیر کی۔سماع اورسروداور وجد کا شغل رہتا تھا۔اور خود بھی معرفت کے گیت بناتے اور گواتے تھے۔ آزاد ملا صاحب کے علاوہ اور اہل تاریخ بھی ان کی باتیں کچھ ظرافت ،کچھ کراہت سے لکھتے ہیں،چنانچہ معتمد خان اقبال نامہ میں لکھتے ہیں کہ ۹۶۶ ھ؁ میں کہ ابھی اکبر کو سلطنت سے تعلق نہ تھا۔شکار کھیلتے گوالیار کی طرف جا نکلے،گجرات میں گائے ،بیل بہت خوب ہوتے ہیں۔اثنائے شکار میں پلنگ بانوں اور آہو بانوں نے کہا کہ شیخ انہی دنوں میں گجرات سے آئے ہیں۔ ان کے قافلہ میں بہت اچھے بیل تھے۔اور شکار میں کار آمد ہیں۔بادشاہ نے کہا سوداگروں کو بلاؤ۔کوئی بول اٹھا کہ شیخ اور ان کے بھائی بند بھی لائے ہیں،سوداگروں کے پاس ویسے نہیں ہیں۔گوالیار کا قلعہ بہت مشہور تھا۔ ایک دن بادشاہ شکار کو اٹھے تو قلعہ دیکھا،اور پھرتے ہوئے شیخ موصوف کے گھر چلے گئے۔انہوں نے جس طرح کہ تحفے پیران اہل طریقیت دیا کرتے ہیں۔پیش کیا۔ مثلا دوتین تسبیحیں۔ایک کنگھا،کوئی سوکھی روٹی کا ٹکرا۔ہلا سدانی ،ایک پرانی ٹوپی، عصا وغیرہ۔اور چونکہ انہیں بھی پتا لگ گیا تھا۔ اس لئے تحائف گجرات اور دکن کے ساتھ عمدہ عمدہ گائیں اور بیل بھی نذر کیے، دسترخوان بھی چنا، مٹھائیاں کھلائیں۔عطر لگائے ،خاتمئہ صحبت میں کہا آپ کسی کے مرید ہوئے ہیں،اکبر نے کہا نہیں، ان کے آگے سولہ برس کے لڑکے کو پھسلانا کتنی بات تھی۔ خود بڑھ کر دونوں ہاتھ پکڑ لیے۔ اکبر مسکرا کر اٹھ کھڑا ہوا۔ واہ پیل دیئے۔ اور مہمان کو مریدی کی رسی میں باندھ دیا۔ اکبر مصاحبوں میں بیٹھتا تو اکثر کہا کرتا تھا کہ وہ شیخ کے ہاں سے آکر شراب کا جلسہ،شیخ کی دراز دستی اور ہمارا بیلوں کا لینا۔کیا ہنسی رہی ہے۔ ان تحفوں کی قیمت بھی نہ دی۔ خیر کوئی کچھ کہے، شیخ نے خان خانان کے لئے قلعہ خاصہ باندھ لیا۔ ان کے خاتمہ احوال میںملا صاحب لکھتے ہیں کہ لباس فقر میں بڑے جاہ وجلال سے بسر کرتے تھے۔اور جس کودیکھتے تھے،تعظیم کو اٹھ کھڑے ہوتے تھے۔مسلمان وغیر مسلمان کی خصوصیت نہ تھی۔ اس سبب سے بعض اہل فقراء انکار بلکہ ملامت بھی کرتے تھے۔ اصل حال اللہ جانتا ہے۔ خدا جانے ان کی نیت کیا تھی۔ چوں ردد وقبول ہمہ در پردہ غیب است زنہار کسی را نہ کنی عیب کہ عیب است ۹۷۰ ھ؁ میں اسی برس کی عمر میں آگرہ میں مرے اور گوالیار میں دفن ہوئے،ملا عطائی معمائی نے کہ معتقد مریدوں میں تھا۔ تاریخ کہی۔بندہ خدا شد، بڑے سخی تھے۔ اپنے لئے کبھی میں نہ کہتے تھے۔ہمیشہ فقیر کہہ کر تعبیر کرتے تھے۔کسی کو اناج دلواتے تھے تو اس میں بھی من نہ کہتے تھے۔اتنے م۔ن، اس شخص کو دے دو۔ جواہر خمسہ ایک رسالہ اعمال اور دعوت اسماء میں لکھا ہے۔ کہ فقرائے صوفیہ اور عالموں کے لئے دستور العمل چلا آتا ہے۔ اور ان کی زبانوں پر ان کا نام شیخ محمد غوث گوالیاری مشہور ہے۔ شیخ ضیا اللہ ان کے فرزند سجادہ نشین ر ہے۔ یہ وہی بزرگ ہیں کہ جن کی تنگ دستی کا حال جمال خان قورچی نے اکبر سے بیان کیا ہے۔ اور ان کے دل پر اثر ہوا۔ اور انہیں بلا کر مکان چار ایوان میں جگہ دی۔ دیکھو صاف معلوم ہوتا ہے کہ ملا صاحب ان سے بہت خفا ہیں۔ چنانچہ سلسلئہ فقرا ء میں فرماتے ہیں۔ شیخ ضیا اللہ آج کل تصوف کا چرچا جو وہ رکھتے ہیں،کہیں نہیں،کبھی ان کی مجلس بے کلام معرفت نہیں ہے۔اور مراتب توحید کے سوا اور کچھ گفتگو نہیں ہے۔ ظاہر تو یہ ہے کہ باطن کی کسی کو خبر نہیں کہ ارادہ کیا ہے ؟۔ابتدائے حال میں جب اطراف ہندوستان میں ان کا شہرہ ہوا،میں نے بھی سنا کہ شیخ فقر وارشاد کی مسند پر باپ کے قائم مقام ہوئے ہیں۔اور اکثر فضیلتوں میں ان پر فائز ہیں۔چنانچہ حافظ قرآن ہیں ۔اور ساتھ اس کے اس طرح تفسیر بیان کرتے ہیں کہ اصلا کتاب کی حاجت نہیں ہوتی، ۹۷۰ ھ ؁ میں سہسواں سے پھرتے ہوئے آگرہ میں میرا گزر ہوا۔ میں نے کسی کو ساتھ بھی نہ لیا۔ کہ ملاقات کروائے۔ وہی نا مردانہ اور بے تکلفانہ وضع کہ میری قدیمی عادت تھی۔ اور حقیقت میں مشائخ وفقراء کے پاس اسباب دنیا کے ساتھ جانے سے مطلب میں بھی خلل آتا ہے۔ غرض میں نے جاتے ہی کہا کہ سلام علیک اور مصافحہ کر کے بیٹھ گیا۔ غالبا شیخ کو ان تعظیموں کی عادت تھی جو شیخ زادوں کو ہوتی ہے۔اس طرح ملنے سے خوش نہ ہوئے۔اہل مجلس نے پوچھا کہاں سے آ تے ہو؟۔ میں نے کہا سہسوان سے۔پوچھا علوم سے بھی کچھ تحصیل کیا ہے۔ میں نے کہا ہر علم میں کچھ کچھ رسائل لکھے پڑھے تھے۔چونکہ سہسواں ایک چھوٹا سا قصبہ ہے۔قلچ خان چوگان بیگی وہاں کا جاگیر دار ہے۔ وہ ان کے والد کا مرید ہے۔میں ان کی نظر میں کچھ جچا نہیں،کچھ طنز ،کچھ تمسخر کرکے ایک مسخرہ کو اشارہ کیا کہ مجھے بنائے،اور گھبرائے۔وہ دفعتہ منہ بنا کر بولا کہ عطر کی بو آتی ہے۔اور میری طبیعت بگڑی ہے۔ سب صاحبان ہوشیار ہو جائیں۔ایسا نہ ہو کہ کسی کو مجھ سے کوئی تکلیف پہنچے۔یہ کہتے ہی کف اس کے منہ سے جاری ہوا۔ ان کے صوفی نما مصاحبون میں سے ایک نے مجھ سے پوچھا کہ عطر تم ملے ہو؟۔ میں سمجھ گیا تھا، مگر عمدا پوچھا کہ یہ معاملہ کیا ہے؟۔ وہ بولا کہ اس شخص کو کبھی کتے نے کا ٹا تھا۔ جب اس کے دماغ میں خوشبو پہنچتی ہے۔ بے ہو ش ہو جاتا ہے۔کف لاتا ہے۔ بھونکتا ہے اور لوگوں کو کا ٹنے کو دوڑتا ہے۔ تم بھی ہو شیار ہو جاؤ۔سب ادھر ادھر ہو گئے،شیخ سعدی نے فرمایا ہے کہ ع۔۔۔ سگ دیوانہ را دارد وکلوخ است سب حیران رہ گئے ،میں نے کہا کہ کلو خ ایک بوٹی کا بھی نام ہے۔ کہ ہڑ کانے کتے کی دوا ہے۔ یہ سن کر شیخ کڑوائے۔ جب دیکھا کہ یہ مکر کار گر نہ ہوا تو کہا آؤ ،قال اللہ وقال رسول اللہ میں مشغول ہو ں۔قرآن شریف کھولا،اور سورہ بقر میں سے ایک آیت پڑھ کر جو چاہا ،سو کہنا شروع کیا۔ رنگا رنگ کی بولیاں بولتے تھے۔اور جو اہیات بکتے تھے، کور مغزمرید آمنا وصدقنا کہتے تھے۔میں تو دل میں بھرا بیٹھا تھا۔ میں نے کہا کہ شیخ جو معنی فرماتے ہیں ،کسی تفسیر میں بھی ہو نگے۔فرمایا کہ میں تاویل واشارت کہتا ہوں۔یہ راستہ وسیع ہے،کسی سند کی حاجت نہیں ہے۔اور یہ کچھ میری ہی خصوصیت نہیں ہے، اوروں نے بھی یہی کیا ہے۔ میں نے کہا یہ معنی اس صورت میں حقیقت ہیں یا مجاز ہیں۔ میں نے کہا دونوں معنوں میں علاقہ بیان فرمایئے۔اور ساتھ ہی بحث کو علم معانی میں لے گیا۔کچھ درہم برہم باتیں کرتے تھے،اور تڑپتے تھے۔جب میں نے دبایا تو بے مزہ ہو گئے اور قرآن رکھ دیا اور کہا میں نے علم جدل نہیں پڑھا،میں نے کہا تو معانی قرآن وہ کہتے ہو کہ نقل اس کی تائید نہیں کرتی، پھر جورابطہ حقیقت اور مجاز میں ہے۔کیو ں کر نہ پو چھا جائے۔اس گفتگو نے طول پکڑا۔بات کو پھیر کر میرا حال احوال پوچھنے لگے۔انہی دنوں میں نے ایک شرح قصیدہ بردہ پر لکھی تھی۔اوراس کے حاشیے پر اور اس کے مطلع کی شرح میں بہت سے نکتے بیان کیے تھے۔وہ سنائے ،بہت تعریف کی اور آپ بھی کچھ لطائف بیان کیے۔ وہ صحبت اسی رنگ سے گزری،مدت کے بعد میں بادشاہی ملازمت میں پہنچا۔ شیخ کے ساتھ زمانہ نے بے وفائی کی اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ جلال خاں قورچی کی سفارش پر بادشاہ نے انہیں بلا بھیجا۔عبادت خانہ میں رکھا ،اکیلے تھے،اور نہایت شکتگی کے عالم میں جمعہ کا دن تھا۔بادشاہ دو،تین آدمیوں کو ساتھ لے کر خود تشریف لے گئے۔یہ پہلی ہی ملاقات تھی،مرزا غیاث الدین علی آخونداور مرزا غیاث الدین علی آصف خان کو اشارہ کیا کہ تصوف کے مطالب میں ذکر کریدنا، دیکھیں تو کیا ٹپکتا ہے۔ آصف خان نے لوائح کی یہ رباعی پڑھی۔ گر درد دل تو گل گزرد گل باشی ور بلبل بیقرار بلبل باشی تو جزوی واوکل است اگر روزے چند اندیشئہ کل پیشہ کنی۔کل باشی اور پوچھا کہ ذات پاک جزو کل سے پاک ہے۔ اسے کل کیوں کر کہہ سکتے ہیں۔شیخ بہت شکستیں کھا کر آئے تھے، گھمنڈ ،غرور سب ٹوٹ چکے تھے۔ مصیبتیں بہت اٹھائی تھیں۔شرمندہ صورت تھے۔ آہستہ آہستہ چند بے ربط باتیں ملائیں،کہ کسی کی سمجھ میں نہ آئیں۔ آخر میں نے جرات کر کے کہا کہ مولوی جامی نے ظاہر میں جزو اور کل اطلاق کیا ہے۔ اور ایک اور رباعی میں کہا ہے۔ ایں عشق کہ ہست جزو لانیفک ما حاشا کہ بد عقل ماشو ،مدرک ما خوش آنکہ دہد پر توے ازنور یقین مارا برہاند از ظلام وشک ما اس میں بھی ذات پاک پر کلیتاور جزئیت کا اطلاق مطلوب نہیں ہے۔جزو کل جو کچھ ہے۔ سب وہی ہے۔ غیر کا کچھ وجود ہی نہیں ہے۔ مشکل یہ ہے کہ زبانوں کے الفاظ وعبارات اصل مدعا کو ادا نہیں کر سکتے۔ناچار انہیں لفظوں میں بولتے ہیں،اور کبھی جزو کہتے ہیں اور کبھی کل کہتے ہیں۔ چند تقریریں وحدت وجود کی ان دنوں مجھے خوب رواں ہو رہی تھیں۔ شیخ کی تائید میں خرچ کیں۔حضور بھی خوش ہوئے اور شیخ بھی خوش ہو گئے۔ میں فتح پور میں خواجہ جہا ں کے محلہ میں رہتا تھا۔ شیخ کے علاقائی بھائی شیخ اسماعیل میرے ہمسایہ میں رہتے تھے۔ اور اکثر مالاقات ہوتی تھی، ان سے میں نے پہلی ملاقات کا حال بھی بیان کیا۔ایک شب مجھے شیخ ضیاء اللہ کی ملاقات کو لے گئے۔اوراس جلسہ کا ذکر بھی کیا ،شیخ حیران رہ گئے اور کہا مجھے یاد نہیں کہ ایسا ہوا ہو۔فاضل بدایونی ۱۰۰۰ ؁ ھ میں کہتے ہیں کہ باوجودیکہ ایک گوشہ دکانداری کا بھی سنبھالا ہوا تھا۔ مگر آگرہ میں باپ کی طرح اہل جاہ کے لباس میں ریا یا یہ کہو کہ عیش وفراغت میں مشغول ہیں۔اور اپنی وضع پر قائم ہیں۔اور ان کی بھولی بھالی باتیں عام فریب اکثر مشہور ہیں۔ کہ یہاں گنجائش ان کی تحریر کی نہیں ہے۔میر ابو الغیث بخاری رحمۃ اللہ لکھتے ہیں کہ لباس درویشانہ اور مجلس فقیرانہ رکھتا ہے۔تصوف کی باتیں کرتا ہے کہ ہم ان باتوں کے غلام ہیں،وہ جو ہو سو ہو،جس سال خان زمان کی فتح ہوئی،لشکر کے ساتھ شیخ ضیا اللہ بھی تھے۔امیٹہ میں سے گزرے۔ حضرت میاں شیخ نظام الدین قدس سرہ سے جا کر ملے۔وہ ایک آیت کی تفسیر کر رہے تھے ،انہوں نے اپنا خبث ظاہر کر کے کہا کہ اس آیت میں تناقض ہے۔ میاں کا مزاج برہم ہو گیا۔ بگڑ کر بولے ،سبحان اللہ باپ وہاں غوطے کھا رہا ہے۔اور کسی کامل کی شفاعت کا محتاج ہے اور بیٹا یہاں کلام الہیٰ میں تناقض ثابت کر تا ہے۔ شیخ ابو الفضل کی ان سے دوستانہ راہ رسم تھی۔انشاء میں بھی کئی خط ان کے نام ہیں۔اکبر نامہ میں لکھتے ہیں۔شیخ ضیاء اللہ ولد شیخ محمد غوث گوالیاری نے ۱۰۰۵ ء ؁ میں دنیا کو الوداع کہا،تھوڑا سانقد دانش جمع کیا تھا۔صوفیوں کی گفتار دل آویز سے آشنا تھے۔ اور نکتہ شناس آدمی تھے۔ آزاد ہر شخص قیاس کر سکتا ہے۔ کہ دونوں بھائی جہاں تک ممکن ہوتا تھا۔ہر شخص کو ہاتھ اور زبان سے نیکی پہنچاتے تھے۔اور کسی کی برائی سے قلم آلودہ نہیں کرتے تھے۔اور ایسی بات ہوتی تو مگھم کہہ جاتے تھے۔ خوبی کو جس قدر پاتے تھے، ظاہر کرتے تھے۔ شیخ علائی صوبہ بنگال میں شیخ حسن اور شیخ نصر اللہ دو بھائی ایک نامی خانوادہ مشائخ سے تھے۔چھوٹا بھائی بڑا عالم تھا۔ دونوں وطن چھوڑ کر حج کو گئے۔اور ۹۳۵ھ ؁ میں وہاں سے آکر شہر بیانہ میں سکونت اختیار کی۔خوش اعتقادوں نے ان صاحب دلوں کے آنے کو غنیمت سمجھا،اور اہل طبع نے جا ء نصر اللہ والفتح تاریخ لکھی۔ بڑا بھائی طریقیت میں ہدایت وارشاد کے مسند پر بیٹھا تھا۔ اور شریعت میں اجتہاد کا علم قائم کرتا تھا۔اس کا بیٹا شیخ علائی سب بچوں میں رشید اور ہو نہار تھا۔ بچپن سے اصلاح وتقویٰ اور عبادت وریاضت کی عبارتیں اس کے قیافہ میں پڑھی جاتی تھیں۔چند ہی روز میں باپ کے فیضان صحبت سے علوم عقلی ونقلی اور اخلاق وسلوک کی تحصیل سے فارغ ہو گیا اور مطالعہ کے ساتھ جودت طبع اور تیز فکری سے اسے زیادہ قوت دی، باپ کے بعد سجادہ نشین ہوا۔اس نے سخت ریا ضتیں اٹھائیں۔ اور تہذیب وشائستگی کے ساتھ درس وتدریس میں اور اہل طبیعت کی ہدایت میں مصروف ہوا۔مگر طبیعت ایسی تیز واقع ہوئی تھی کہ ناموافق بات کو دیکھ نہ سکتا تھا۔ایک دفعہ عید کا دن تھا کہ ایک نامی شیخ کو کہ صاحب خانوادہ اور خانقاہ وسجادہ کا مالک تھا،کسی بات پر روک لیا۔ سواری میں سے اتروایا،اور ایسا شرمندہ کیا کہ بے چارے کو جواب تک بن نہ آیا۔غرض ایسی ایسی باتوں سے شیخی اور شیخ زادگی کا نقارہ تن تنہا بجاتا تھا،اور کسی کو دم مارنے نہ دیتا تھا۔ اس کے خان دان کے لوگ کہ اکثر اس کے بھائی بند اور اکثر عمر اور درجہ میں اس سے بھی بلند تھے۔ سب جانتے تھے،بلکہ اس کے نام اور کام سے آپ فخر کرتے تھے۔ اسی عہد میں میاں عبد اللہ افغان نیازی مکہ پھر کر آئے،تو ان کا اعتقاد اور مہدوی طریقہ لے کر آئے۔بیانہ میں ایک باغ میں کنارہ حوض پر حجرہ ڈالا، اور دنیا سے کنارہ کش ہو کر بیٹھ گئے۔پانی بھر بھر کر اپنے سر پر لاتے اور حوض میں ڈالتے تھے۔ مختلف پیشہ ور، سقے،لکڑ ہارے جو ادھر سے گزرتے انہیں بلا لیتے،اور سب کو جماعت سے نماز پڑھاتے۔ کسی کامی آدمی کو رزق کی فکر میں نماز پر مائل نہ دیکھتے تو دوچار پیسے اپنے پاس سے دے دیتے،کہ غریب مسلمان ثواب جماعت سے محروم نہ رہے۔شیخ علائی نے جو یہ دیکھا تو انہیں یہ وضع بہت پسند آئی،اور اپنے رفیقوں اور صحابوں سے کہا کہ حقیقت میں خدا کی راہ یہ ہے ،جو ہم کر رہے ہیں،یہ نفس پرستی اور آدم پرستی ہے۔دفعتہ آبا واجداد کا طریقہ چھوڑ دیا،مشیخیت کی مسند الٹ دی،پیری وپیر زادگی کو رخصت کر کے خاکساری ونامرادی،فروتنی وخواری اختیار کی۔ یہاں تک کہ پہلے کبھی جن لوگوں کو آزردہ کیا۔ نہایت عجز وانکساری کے ساتھ ان کی جوتیاں اٹھا اٹھا کر ان کے سامنے رکھیں۔خانقاہ اور جاگیر اور لنگر بزرگوں سے چلا آتا تھا۔سب موقوف کر دیا۔اور تمام اسباب غرباء اور مساکین میں بانٹ دیا۔ یہاں تک کہ کتابیں بھی غرباء اور مساکین کو دے دیں۔لوگوں نے بھی تبرک سمجھ کر ان کی چیزیں لیں،اور گھروں میں رکھیں، بی بی سے کہا اپنا تو یہی حال ہے۔ تم سے فقر وفاقہ پر صبر ہو سکے تو میرے ساتھ رہو۔ بسم اللہ، نہیں تو اس مال میں سے اپنا حق لے لو۔پھر تم جانو تمہارا کام جانے۔بی بی راہ حق میں ان سے بھی زیادہ ثابت قدم تھیں۔ وہ ساتھ ہوئیں اور میاں عبد اللہ کے سایہ میں آکر بیٹھ گئے۔بزرگوں نے معمولی طریقے ترک کیے۔ اور نئے پیر کی برکت انفاس سے فیض پاکر مہدوی طریقے کے موجب اشغال وعبادات اختیار کیے۔ ان کی زبان میں خدا نے وہ اثر دیا کہ دوست احباب ، مرید اصحاب جو ان سے محبت یا عقیدت رکھتے تھے۔وہ بھی ساتھ رجوع ہو گئے۔ بعضے خانہ دار تھے، بعضے بے تعلق تھے، سب نے صدق دل سے ساتھ دیا ۔اور توکل کے پٹکے سے کمر باندھی۔نہ زراعت، نہ تجارت، نہ پیشہ نہ نوکری،سب خداکے توکل پر تھا۔ جو کچھ خدا بھیجتا تھا، برابر بٹ جاتا تھا۔ایک ایک ان میں سے ایسا ثابت قدم تھا کہ بھوک سے مر جاتا تھا۔ مگر عقیدہ سے بال بھر نہ ہٹتا تھا۔ کوئی شخص کوئی کام یا نوکری کر لیتا تھا،تو وہ یکی خدا کی راہ میں دے دیتا تھا۔ روز ایک دفعہ صبح کی نماز کے بعد اور ایک دفعہ عصر کے بعد سب چھوٹے بڑے دائرے کی صورت میں آکر حاضر ہوتے اور قرآن کی تفسیر سنتے تھے۔ وہ پر اثر کلام کہ جس میں فصاحت کا زور اور خدا کے نام کا پشت بان لگا تھا۔ ایسے گرم دلوں سے نکلتا تھا کہ فقط مٹھی سے روپیہ اور گھروں سے مال ودولت کو نہیں کھینچتا تھا، بلکہ آنکھوں سے آنسو اور دلوں سے دھواں بھی نکال لیتا تھا۔ صرف ایک دفعہ سننا شرط تھا۔ پھر ہر شخص اہل وعیال کو چھوڑ کر دنیا سے ہاتھ دھوتا اور ان ہی میں آن شامل ہوتا۔ مزے لے لے کر فاقے کرتا،اور دنیا کی لذتوں کا نام نہ لیتا۔ کچھ بھی نہ ہوتا تو ممنوعات سے توبہ ضرور کر لیتا تھا۔ ان کے توکل کا یہ حال تھا کہ رات کو کھانا بچ رہتا تو وہ بھی نہ رکھتے تھے، یہاں تک کہ نمک بھی باقی نہ چھوڑتے تھے۔ پانی تک بھی پھینک دیتے تھے۔ اور باسنوں کو اوندھا کر کے رکھ دیتے تھے۔ کہ صبح کا اللہ مالک ہے۔ ان کے ہاں روز نوروز تھا۔اس پر زندہ دلی اور خوش حالی کا یہ عالم تھا کہ جب تک کسی کو اصل حال کی خبر نہ ہو،تب تک ہر گز معلوم نہ کر سکتا تھا۔ کہ اندر ان پر کیا گزر رہی ہے۔ یہی جانتا تھا کہ بالکل حالت فارغ البالی میں ہیں۔ ان باتوں کے سات آٹھ پہر سب مسلح رہتے تھے اور دشمنوں کی طرف سے ہوشیار کوچہ وبازار میں کوئی نا مشروع بات دیکھتے تو جھٹ روک دیتے۔ حاکم کی ذرا پرواہ نہ کرتے تھے۔ اور اکثر غالب ہی رہتے تھے، جو حاکم ان کے رنگ میں ہوتا ،اس کی مدد کو جان بھی حاضر رہتی تھی۔اور لشکر کو تو مقابلہ کی طاقت ہی نہ تھی۔غرض تقریر کی تاثیر نے یہاں تک نوبت پہنچائی تھی کہ بیٹا ،باپ کو ،بھائی بھائی کو جورو خاوند کو چھوڑ کر الگ ہو گئے تھے۔اور ہزاروں آدمی فقر وفاقہ کی خاک کو تبرک سمجھ کر دائرہ مہدویت میں داخل ہو گئے تھے۔ میاں عبد اللہ ان کے پیر عاقبت اندیش بزرگ تھے۔انہوں نے جب دیکھا کہ شیخ علائی کی تیزی طبع اور زور کلام نے خاص وعام میں دھوم مچا دی ہے۔اور اپنے اوقات خاص میں بھی خلل آنے لگا ہے۔تو خلوت میں سمجھایا کہ زمانہ کا مزاج ان ہدایتوں کی سہار نہیں رکھتا،کلمہ حق لوگوں کی زبانوں پر کڑوا ہوتا ہے۔ یا تو یہ باتیں چھوڑ دو یا حج کو چلے جاؤ۔ آنکس کہ زغوغا نرہد وائے برو بر خلق جہاں دل ندہد وائے برو در دست فقیر نیست نقدی جز وقت آں نیز گر از دست دہد وائے برو آخر چھ یاسات سو گھر کے قریب جمعیت لے کر جس حال میں تھے،اسی حال میں دکن کے رستہ حج کو چلے۔ مشہور شہروں میں جہاں جہاں گزر ہوا، غل مچ گیا۔ علماء وفضلا سے لے کر صدہا آدمی گرویدہ ہو گئے۔جودھپور کے پاس خواص پور میں شیر شاہ کا غلام خواص خان اس سر حد کا حاکم تھا۔ استقبال کو آیا۔اور پہلی صحبت میں معتقد ہو کر دائرہ میں داخل ہوا۔ ان کے ہاں ہر شب جمعہ کو جلسہ وحال وقال کی محفل ہوتی تھی۔ شیخ راگ کے نام کا دشمن۔وہ احکام شریعت کا بہت پابند نہ تھا۔اور شیخ اس معاملہ میں جبر کرنا اپنا فرض سمجھتے تھے۔غرض صحبت موافق نہ آئی وہ سپاہیوں کے حقوق رکھ لیا کرتا تھا۔ اس پر بھی شیخ نے روکا۔آخر وہاں سے ناراض ہو کر نکلنا پڑا۔ رستہ میں بعض اور ایسے موانع پیش آئے کہ حج کو نہ گئے اور پھر کر بیانہ واپس چلے آئے۔ اب ہندوستان میں سلیم شاہ تخت نشین ہو گیا تھا۔اور اس موقع پر آگرہ میں ٹھہرا ہوا تھا۔شیخ کے علم وفضل اور تاثیر کلام کا نام تو سنا ہی تھا،اور روز خبریں پہنچتی تھیں۔کہ اس کا کاروبار ترقی کر رہا ہے۔ مخدوم الملک ملا عبد اللہ سلطان پوری نے کان بھرنے شروع کر دیئے۔ کہ یہ شخص صاحب عزم ہے،اگر بغاوت کر بیٹھا تو تدارک مشکل ہو گا۔سلیم شاہ نے کچھ سوچ کر بلا بھیجا۔وہ اپنے اصحابوں سمیت آگرہ میں آپہنچا، سب بکتر پوش تھے۔اور ہر وقت مسلح رہتے تھے، سلیم شاہ نے سید رفیع الدین محدث اور ابو الفتح تھانیسری وغیرہ علماء آگرہ کو بھی دربار میں بلایا۔جب شیخ علائی دربار میں آیا تو آداب رسوم کا ذرا خیال نہ کیا۔ سنت پیغمبر کے موجب اہل مجلس سے سلام علیک کی۔سلیم شاہ نے دل میں برا مانا،مگر جواب سلام دیا۔ مصاحبان شاہی کو بھی یہ بات ناگوار گزری،اور مخدوم الملک نے اسی وقت جھک کرکان میں پھونکی۔ آپ نے دیکھ لیا۔ مہدویت کا نام درمیان ہے۔ اور لوگ سمجھتے ہیں کہ مہدی بادشاہ روئے زمین ہو گا۔ یہ بغاوت کئے بغیر نہیں رہے گا۔ بادشاہ وقت کو اس کا قتل کرنا واجب ہے۔ عیسیٰ خاں دربار شاہی کا ناظم بہت منہ چڑھا تھا۔ اس نے اور امرائے دربار نے جو شیخ کو اور اس کے اصحابوں کو دیکھا۔ کہ پھٹے کپڑے ہیں۔ ٹوٹی جوتیاں ہیں۔ نامرادوں اور خاکساروں کی وضع ہے۔ تو بادشاہ سے کہا کہ اس حال اور اس وضع سے یہ شخص چاہتا ہے کہ ہم سے سلطنت چھین لے۔ کیا ہم افغان سب مر گئے۔ ابھی علما کا جلسہ جمع نہ ہوا تھا۔ کہ شیخ علائی نے تقریر شروع کی۔ چند آیات قرآنی کی تفسیر کی۔ ساتھ ہی دنیا کی بے بنیادی اور دولت کی بے حقیقی۔ اہل دنیا کا اس پر گرویدہ ہونا۔ علمائے زمانہ کی بدحالی۔ قیامت کی حالت اور اس پر افسوس اور اہل غفلت کی ملامت غرض ان مطالب کو ایسی فصاحت و بلاغت سے ادا کیا کہ تمام اہل دربار کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ اور درو دیوار پر حیرت برسنے لگی۔ دربار میں سناٹا ہو رہا تھا۔ اور لوگوں کے حیرت ناک چہرے کہہ رہے تھے کہ اﷲ اکبر ایک زبان کی طاقت نے سلطنت بھر کے زور کو دبا لیا۔ باوجود اس سنگدلی کے خود سلیم شاہ آبدیدہ ہو گیا۔ دربار سے اٹھ کر محل مین چلا گیا۔ اور اپنے خاصہ میں سے کھانا بھیجا۔ شیخ نے ہاتھ تک نہ لگایا۔ اصحابوں سے کہا کہ جس کا جی چاہے کھا لے۔ بادشاہ آیا تو پھر تعظیم نہ کی۔ اس نے پوچھا۔ کہ کھانا کیوں نہیں کھایا۔ اس نے کہا کہ تمہارا کھانا مسلمانوں کا حق ہے۔ جو کہ اپنے حق سے زیادہ حکم شرع کے برخلاف تم نے لیا ہے۔ سلیم شاہ کو غصہ تو آیا۔ مگر پی گیا۔ اور کہا کہ اچھا علماء سے اپنے مسائل میں گفتگو کرو۔ جلسہ کی تاریخ قرار پائی۔ دربار اور شہر کے عالم سب جمع ہوئے۔ شیخ مبارک بھی بلائے گئے۔ تقریریں شروع ہوئیں۔ آپس میں سب قیل قال کرتے تھے۔ اس سے کوئی خطاب کی جرأت نہ کر سکتا تھا۔ سید رفیع الدین نے مہدویت کے باب میں ایک حدیث پر گفتگو شروع کی۔ شیخ علائی نے کہا کہ تم شاعفتی ہم حنفی۔ تمہارے اصول حدیث اور ہمارے اور۔ تمہاری دلیلیں مجھ پر کب حجت ہو سکتی ہیں؟ وہ بیچارے چپ ہو رہے۔ غرض جو کوئی بولتا اسے باتوں باتوں میں اڑا دیتا۔ اور مخدوم الملک کو تو بات نہ کرنے دیتا تھا۔ اور کہتا تھا کہ تو دنیا کا عالم ہے۔ دین کا چور ہے۔ ایک نہیں بہت سی نامشروع باتیں ہیں کہ کھلم کھلا کرتا ہے۔ آج تک راگ زمگ کی آوازیں تیرے گھر سے سنتے ہیں۔ احادیث صحیح سے ثابت ہے۔ کہ جو عالم سلاطین اور دربار امرا کو اپنا قبلہ بنائے بیٹھے ہیں۔ اور دربدر پھرتے ہیں۔ ان سے وہ مکھی جو نجاست پر بیٹھے بدر جہا بہتر ہے۔ علم کز بہر کاخ و باغ بود ہمچو شب روز را چراغ بود غرض علمائے بے عمل کی ایسی خاک اڑا رہا تھا۔ اور بات بات پر برمحل سندیں آیتوں اور روایتوں سے پیش کرتا تھا۔ کہ مخدوم الملک دم نہ مار سکتا تھا۔ یہ جلسے کئی دن تک رہے۔ تیز طبع اولوالعزم لوگوں کا قاعدہ ہے۔ کہ جب ایک صاحب جوہر کو بے انصافی کے پہاڑ تلے دبتا دیکھتے ہیں۔ تو ہمدردی خواہ مخواہ اس کی رفاقت پر کھڑا کر دیتی ہے۔ چنانچہ شیخ مبارک کئی مسائل میں کہیں اشارہ کنایہ سے۔ کہیں ہاں میں ہاں ملانے سے رفاقت کا حق ادا کرتے تھے۔ ایک عالم کا نام ملا جلال تھا۔ انہوں نے کچھ تقریر شروع کی اور امام مہدی کے حلیہ میں سے چند الفاظ پڑھے۔ اس میں ان کی زبان سے نکلا۔ اجل الجبہ شیخ مبارک نے سامنے سے اشارہ کیا۔ شیخ علائی مسکرایا اور کہا۔ سبحان اﷲ لوگوں میں اعلم العما بنتے ہیں اور عبارت صحیح پڑھنی نہیں آتی۔ بھلا تم کنایات اور اشارات قرآن اور لطائف و وقائق احادیث کو کیا سمجھو گے۔ صاحب یہ اجلی الجبہ فعل التفصیل کا صیغہ ہے۔ اور جلاء سے مشق ہے۔ نہ جلال سے کہ تمہارا نام ہے۔ وہ بیچارہ شرمندہ ہو کر چپ ہو رہا۔ سلیم شاہ اُس کی تقریر کا عاشق ہو گیا۔ بار بار کہتا تھا۔ کہ قرآن کی تفسیر کہا کرو۔ شیخ اب تک تم نے بدعت کے زور سے لوگوں کو تاکید کی۔ اب میرے حکم کے زور سے ہدایت کرو۔ مگر اس عقیدہ سے باز آؤ۔ علماء نے تمہارے قتل پر فتوے دیا ہے۔ میں لحاظ کرتا ہوں۔ اور نہیں چاہتا کہ تمہاری جان جائے آخر پاس بلا کر چپکے سے کہا۔ کہ شیخ تو آئستہ سے میرے کان میں کہہ دے کہ اس دعوے سے میں نے توبہ کی۔ شیخ علائی کو کسی دربار اور صاحب دربار کی پروا نہ تھی۔ ذرا خیال نہ کیا۔ اور کہا کہ تمہارے کہنے سے میں اعتقاد کو کس طرح بدل دوں۔ یہ کہا اور اسی طرح اٹھ کر فرود گاء کو چلا گیا۔ اور تاثیر کلام کا یہ عالم ہو رہا تھا کہ بادشاہ کو روز خبر پہنچتی تھی۔ آج فلاں سردار حلقہ میں داخل ہوا۔ آج فلاں امیر نے نوکری چھوڑ دی۔ اور مخدوم الملک ساعت بہ ساعت ان باتوں کو اور بھی آب و تاب سے جلوہ دیتے تھے آخر بادشاہ نے دق ہو کر کہا کہ ان سے کہہ دو۔ اس ملک میں نہ رہو۔ دکن کو چلے جاؤ۔ وہ خود مدت سے دکن اور وہاں کے مہدویوں کے دیکھنے کا شوق رکھتے تھے۔ ان ارض اﷲ و اسعۃ کہہ کر اٹھ کھڑے ہوئے قاسم سخن کوتاہ کن برخیز و عزم راہ کن شکربر طوطی فگں مردار پیش کرگساں ہنڈیہ سرحد دکن پر اعظم ہمایوں شروانی حاکم تھا۔ وہاں پہنچے۔ وعظ سنتے ہی وہ بھی غلام ہو گیا۔ روز شیخ کے دائرہ میں آ کر شغل میں شامل اور وعظ میں حاضر ہوتا تھا۔ اور آدھا شکر بلکہ زیادہ اس کا مرید فدائی ہو گیا۔ سلیم شاہ کو جب یہ خبر پہنچی تو بہت خفا ہوا۔ مخدوم الملک نے اس آگ پر تیل ڈالا۔ اور وہ باتیں ذہین نشین کیں۔ جن کی اصل اصلاً نہ تھی۔ پھر شیخ علائی کی طلب میں فرمان جاری ہوا۔ اس عرصہ میں بادشاہ نیای افغانوں کی بغاوت کے دبانے کو آگرہ سے پنجاب کو چلا۔ بیانہ کے پاس پہنچا تو مخدوم الملک نے کہا کہ چھوٹے فتہ کا (یعنی شیخ علائی کا) چند روز کے لئے بندوبست میں نے کر لیا بڑے فتہ کی بھی تو خبر لیجئے۔ یعنی میاں عبد اﷲ شیخ علائی کا پیر کہ نیازیوں کی جڑ ہے اور ہمیشہ ۳۔ ۲ سو آدمی سلاح پوش ہتیار بند لئے بیانہ کے کوہستان میں فساد کو تیار بیٹھا رہتا ہے۔ سلیم شاہ نیازیوں کے لہو کا پیاسا تھا۔ اس پھونک سے شعلہ کی طرح بھڑک اٹھا۔ میاں بھوا حاکم بیانہ کو حکم لکھا کہ میاں عبد اﷲ کو معتقدوں سمیت حاضر کرو۔ وہ میاں عبد اﷲ کا معتقد تھا۔ اس نے جا کر ان سے سارا حال کہا اور عرض کی۔ بلا سے بچنا واجب ہے۔ چند روز آپ یہاں سے کنارے ہو جائیں شائد بادشاہ اس بات کو بھول جائے۔ یا خیال بدل جائے۔ جب تک آپ کسی اور طرف ٹل جائیں تو بہتر ہے میں جا کر ایک خوبصورتی کیساتھ بات کو ٹال دونگا۔ ع مترس از بلائے کہ شب درمیاں است شیخ عبد اﷲ نے کہا کہ سلیم شاہ جابر و قاہر بادشاہ ہے۔ اور مخدوم ہمیشہ تاک میں ہے۔ اب تو پاس ہے۔ کہیں دور جا کر کھینچ بلایا۔ تو بڑھاپے میں اور بھی مصیبت ہو گی۔ اس وقت دس کوس کا معاملہ ہے جو ہو سو ہو چلنا ہی چاہیے۔ مرضی الٰہی یہاں اور وہاں۔ حال اور استقبال میں برابر ہے۔ جو قسمت میں لکھا ہے سو ہو گا۔ بندہ کی تدبیر ہے۔ اﷲ کی تقدیر غالب ہے۔ عنانِ کار نہ در دستِ مصلحت بین است عناں بدستِ قضا وہ کہ مصلحت این است غرض میاں عبد اﷲ راتوں رات چل کر صبح ہوتے لشکر میں پہنچے۔ سلیم شاہ کوچ کے لئے سوار کھڑا تھا۔ کہ انہوں نے سامنے آ کر کہا۔ السلام علیک میاں بھوانے ان کی گردن پر ہاتھ رکھ کر جھکا دیا۔ اور کہا شیخابہ بادشاہاں ایں چنیں سلام میکنند۔ شیخ نے بگڑ کر دیکھا اور کہا سلامے کہ سنت است و یاراں بررسول صلی اﷲ علیہ وسلم و رسول برایشاں رضی اﷲ عنہم ھنتہ اندہمیں۔ من غیر ایں نمید انم۔ سلیم شاہ نے جان بوجھ کر پوچھا۔ پیر علائی ہمیں است؟ مخدوم الملک گھات میں موجود تھے کہا ہمیں سلیم شاہ نے اشارہ کیا۔ ساتھ ہی لات مکہ لاٹھیاں کوڑے برابر پڑنے لگے۔ جب تک اس مظلوم کو ہوش رہا۔ ایک دعائیہ۱ آیت پڑھتا رہا۔ بادشاہ نے پوچھا چہ میگوید؟ مخدوم نے کہا۔ شہمارا و مارا کافر میخواند۔ بادشاہ کو اور بھی غصہ آیا جوش میں آ کر اور شدت کا حکم دیا۔ سوار کھڑا رہا اور گھنٹہ بھر سے زیادہ پٹوائے گیا۔ جب جانا کہ دم نہیں رہا۔ ربا اغفرلنا ذنوبنا و اسرافنا فی امرنا و ثبت اقد امنا و انصرنا علی القوم الکافرین نفسے درمیاں میانجی بود آں مانجی ہم از میاں برخاست مردہ کو وہیں چھوڑ کر روانہ ہوا۔ رمق جان خدا جانے کہاں اٹکی تھی۔ لوگ دوڑے اور کھال میں لپیٹ کر گرم جگہ میں رکھا۔ دیر کے بعد ہوش آیا۔ یہ معاملہ ۹۹۵ء میں ہوا۔ اور وہ مظلوم بیانہ سے نکل کر کچھ عرصہ تک افغانستان کچھ مدت سرحد پنجاب میں۔ کہ کبھی بجواڑہ میں پھرتا تھا۔ کبھی نواح امبر سر وغیرہ میں نظر آتا تھا۔ اور کہتا تھا کہ صحبت اہل قال کا یہی ثمرہ ہے اے خداوندانِ حال الاعتبار وے خداوندان قال الاعتذارالاعتذار آخر سرہند پہنچے اور عقیدہ مہدویہ سے بالکل تائب ہو کر اوروں کو اس عقیدہ سے روکا۔ جب سلیم شاہ نیاز یوں کی مہم طے کر کے پھرا۔ تو مخدوم نے پھر اکسانا شروع کیا۔ کہ شیخ علائی کو ہنڈیہ سے بلانا چاہیے۔ اور اس پر حد جاری کرنی چاہیے۔ اور نہایت مضر خیالات کے ساتھ یہ ذہن نشین کیا۔ کہ حکم اس کے اخراج کا ہوا تھا۔ وہاں اعظم ہمایوں اس کا مرید معتقد ہو گیا۔ تمام لشکر اس کی طرف رجوع ہو گیا ہے۔ یہاں تک کہ اپنے اپنوں سے جدا ہو کر اس کے مذہب میں آ گئے۔ تمہارے اپنے خاندان کے لوگ بھی اس کے ساتھ ملے ہوئے ہیں۔ عجب نہیں کہ اس کا اثر ملک و مملکت میں ظاہر ہو۔ کیونکہ وہ مہدویت کا دعوے دار ہے۔ آخر اس بیچارے کو ہنڈیہ سے بھی پکڑ بلایا۔ سلیم شاہ جانتا تھا کہ مخدوم کو اس سے عداوت ہو گئی ہے۔ لیکن دہلی اور آگرہ میں کوئی عالم نظر نہ آتا تھا۔ کہ اس بحث کو تشخیص کرے۔ آخر بہار میں میاں بڈھ ایک فاضل جلیل القدر تھے۔ کہ شیر شاہ بھی کمال اعتقاد سے ان کے سامنے جوتیاں سیدھی کر کے رکھتا تھا۔ انہوں نے ارشاد قاضی پر شرح لکھی ہے۔ وہ معتبر اور مشہور ہے۔ مگر چونکہ بہت بڈھے تھے۔ اس لئے خانہ نشین تھے۔ ان کے پاس دریافت حال کے لئے بھیجا۔ شیخ علائی جب وہاں پہنچے۔ تو ان کے گھر میں سے گانے بجانے کی آواز آئی تھی۔ اور بعض مکروہات طبعی اور شرعی اور بھی ایسے تھے۔ کہ جن کا ذکر فاضل بداونی نے اپنی تاریخ میں مناسب نہین سمجھا۔ شیخ علائی نے انہیں بھی دبایا۔ میاں بڈھے بڑے ہی بڈھے ہو رہے تھے۔ ان سے تو بات بھی نہ کی جاتی تھی۔ ان کے لڑکوں نے کچھ عذر بان کئے۔ مگر گناہ سے بھی بدتر۔ شیخ علائی کے سامنے یہ باتیں کب پیش جاتی تھیں۔ شیخ بڈھے اپنے نام کے بموجب بڑے منصف تھے۔ انہوں نے بڑے عذر و معذرت کئے۔ اور شیخ علائی کی بہت تعریف کر کے عزت و احترام سے پیش آئے۔ سلیم شاہ کے نام خط لکھا۔ کہ یہ مسئلہ ایسا نہیں کہ ایمان اسی پر منحصر ہو۔ اور علامات مہدوی کے باب میں بہت سے اختلاف ہیں۔ اس لئے شیخ علائی کے کفر یا فسق پر حکم نہیں کر سکتے۔ ان کا شبہ رفع کرنا چاہیے۔ یہاں کتابیں موجود نہیں۔ وہاں علما کے کتب خانوں میں بہت کتابیں ہوں گی۔ وہیں تحقیقات اور ان کی فہمائش ہو جائے۔ تو بہتر ہے لڑکے زمانہ کی عقل خوب رکھتے تھے۔ وہ ڈرے۔ اور میاں بڈھے کو سمجھایا۔ کہ مخدوم الملک آچ صدر الصدور ہیں۔ تم ان کی مخالفت کرتے ہو۔ ادنے بات یہ ہے کہ ابھی تمہیں بلا بھیجیں گے۔ اس بڑھاپے میں یہ بعدالمشرقین کا سفر اور سفر کی مصیبتیں کون اٹھائے گا ایسا لکھنا ہر گز مناسب نہیں۔ ایک خط خفیہ میاں کی طرف سے سلیم شاہ کے نام لکھا۔ خلاصہ جس کا یہ کہ مخدوم الملک آچ محققین میں سے ہیں۔ بات ان کی بات ہے۔ اور فتوے ان کا فتوے ہے سلیم شاہ پنجاب ہی میں دورہ کر رہا تھا۔ بن کے مقام میں لوگ پہنچے۔ میاں کا سر بہ مہر خط پڑھ کر پھر شیخ علائی کو پاس بلایا۔ اس میں بات کرنے کی بھی طاقت نہ تھی۔ کیونکہ ان دنوں طاعاون کی وبا پھیلی ہوئی تھی۔ اس کے گلے میں اتنا بڑا ناسور تھا۔ کہ انگلی کے برابر فتیلہ جاتا تھا۔ اور یہ دور دراز کا سفر اور قید کی مصیبت اس کے علاوہ تھی۔ بادشاہ نے پاس بلا کر چپکے سے کہا کہ تو تنہا درگزش من بگو کہ ازیں دعویٰ تائب شدم و مطلق العنان و فارع البال باش۔ شیخ علائی نے جواب بھی نہ دیا۔ جب اس نے کسی طرح نہ مانا۔ تو مایوس ہو کر مخدوم سے کہا۔ تو دانی دایں۔ انہوں نے فوراً حکم دیا۔ کہ ہمارے سامنے کوڑے میں اس بے گناہ کا دم نکل گیا۔ اور قادر مطلق کے حضور میں ایسی نزہت گاہ میں جا کر آرام لیا۔ کہ نہ کسی آنکھ نے دیکھا۔ نہ کسی کان نے سنا۔ اس کے نازک بدن کو ہاتھی کے پاؤں میں باندھ کر بازار لشکر میں کھچوایا۔ اور حکم دیا کہ لاش دفن نہ ہونے پائے۔ تھوڑی ہی دیر میں ایسی آندھی چلنی شروع ہوئی۔ کہ لوگوں نے جانا۔ قیامت آئی۔ تمام لشکر میں اس واقعہ کے چرچا سے غلغلہ اور ماتم عظیم برپا ہوا۔ اور سب کہتے تھے کہ سلیم شاہ کی سلطنت گئی۔ راتوں رات میں ان کی لاش پر اتنے پھول چڑھے۔ کہ بے کس اور بے وارث لاش کے لئے وہی قبر ہو گئی۔ اور ذکر الہ تاریخ ہوئی۔ ۹۵۶ھ ملا صاحب کہتے ہیں کہ اس کے بعد سلیم شاہ کی سلطنت دو برس بھی نہ تھم سکی۔ جیسے جلال الدین خلیجی کی سلطنت سید مولہ کے قتل کے بعد۔ بلکہ سلیم شاہ کی سلطنت اس سے بھی جلد ختم ہو گئی۔ لوگ اس دل آزاری کا باعث ملا عبد اﷲ کو سمجھے کہ ہمیشہ دل آزاری کرتے تھے۔ اور حق یہ ہے کہ ایسے ہی تھے۔ شیخ سلیم چشتی کا حال اکبر کا سارا حال تم نے پڑھ لیا۔ تم سمجھ گئے ہو گے۔ کہ اس کے دل میں مذہب اور اعتقاد کی ہیئیت مجموعی کیا تھی۔ تم نے یہ بھی دیکھ لیا کہ ابتدا میں وہ صوفیانہ خیالات کے ساتھ ایک ایسا شخص تھا۔ جسے سنی مسلمان خوش اعتقاد کہہ سکتے ہیں۔ اور یہ عمارت حقیقت میں اسی معمولی بنیاد پر تھی۔ جو کہ خاص و عام اہل اسلام کے دلوں میں ان کے بزرگوں کی باتوں سے تہ بہ تہ چڑھتی چلی آتی ہیں۔ ترقی اس کی اس طرح ہوئی کہ ۹۶۸ھ میں ایک دن شکار کو نکلا۔ اسے ہندوستان کے گانے سننے کا بھی بہت شوق تھا۔ منڈاکر میں (آگرہ اور فتح پور کے بیچ میں ایک گاؤں ہے) گویوں نے خواجہ معین الدین چشتی علیہ الرحمۃ کے فضائل و کرامات میں گیت گائے۔ وہ پہلے بھی سنا کرتا تھا۔ کہ تمام ہندوستان میں ان کا نام اور عالی مقام روشن ہے۔ خصوصاً راجپوتانہ میں وہ درسگاہ سلاطین فرمانروا کا حکم رکھتی ہے اکبر کو ایسا ذوق و شوق طاری ہوا کہ وہیں سے اجمیر کو روانہ ہوا۔ زیارت کے مراتب ادا کئے دل کی مرادیں عرض کیں۔ اور تدرنیاز چڑھا کر رخصت ہوا۔ یہ خدا کی قدرت ہے کہ حسن اتفاق جو کچھ مانگا تھا۔ اس سے زیادہ پایا۔ اس لئے زیادہ اعتقاد بڑھا اور روز بروز بڑھتا چلا گیا۔ اکثر ایسے معاملے ہوئے۔ کہ آگرہ یا فتح پور سے وہاں تک پا پیادہ پا برہنہ گیا۔ اور یہ تو معمول تھا کہ ایک منزل سے پیادہ ہوتا تھا۔ روضہ کا طواف کرتا تھا۔ اندر جا کر گھنٹوں تک مراقبہ میں بیٹھتا تھا۔ عجز و نیاز سے مرادیں مانگتا تھا۔ پھر وہاں کے علما و مشائخ کی صحبت میں بڑے ادب آداب سے بیٹھتا تھا۔ ان کے کلاموں اور تقریروں کو ہدایت سمجھتا تھا۔ ہر ایک کو بہت کچھ دیتا تھا۔ جس وقت قوالی ہوتی تھی۔ اور قوال معرفت الٰہی کے اشعار یا گیت گاتے تھے۔ تو بزرگان و مشائخ پر حالت طاری ہوتی تھی۔ روپیہ اور اشرفیاں مینہ کی طرح برستی تھیں۔ انعام و اکرام بخشش و سخاوت کی کچھ حد نہ تھی۔ تم نے وہ بھی دیکھ لیا۔ کہ آخیر میں عقائد اسلامی کے باب میں اس کا کیسا خیال ہو گیا تھا۔ یہاں تک کہ معراج کے باب میں کیا کچھ کہتا تھا۔ اور معجزوں کو نہ مانتا تھا۔ لیکن اس درسگاہ کے ساتھ مرتے دم تک وہی اعتقاد رہا۔ ملا صاحب کہتے ہیں۔ اہل نظر دیکھ کر حیران ہوتے ہیں۔ کہ ان کے ساتھ تو یہ اعتقاد اور آنحضرت جن کے دامن کے سایہ سے ایسے ایسے ہزاروں اولیا اٹھ کھڑے ہوں۔ ان کے باب میں وہ گفتگو۔ لیکن اس عالم میں بھی وہ آدمی کو خوب پہچانتا تھا۔ تم شیخ محمد غوث گوالیاری کے حال میں دیکھو گے۔ انہوں نے اسے کیونکر دونوں ہاتھوں سے کھینچ کر مریدی کے پھندے میں پھانسا۔ وہ سمجھے کہ ہم نے ایک لڑکے بادشاہ کو بہلایا۔ اور حقیقت میں اس نے بڈھے پیر کو شکار کیا۔ خیر تم ابتدائی خوش اعتقادی کا حال سنو۔ عالم تصوف کی کیفیتوں میں ڈوبا ہوا تھا۔ جو ۹۷۱ھ میں شیخ سلیم چشتی حج کر کے دوبارہ ہندوستان کو پھرے۔ سیکری ایک گاؤں آگرہ سے ۱۲ کوس پر ہے۔ وہیں رہتے تھے۔ ان کے آنے کا بڑا غل ہوا۔ اور غل ہونا بھی بجا تھا۔ تم دیکھو گے صورت حال ایسی ہی تھی۔ کیسے مقدس اور نامور خاندان سے تھے۔ اور چشتیہ ہی سلسلہ مین تھے۔ غرض اکبر ان کے مرید ہوئے۔ اور ان کی ارادت اور اعتقاد نے مدت پھول پھل دئیے۔ اس لئے واجب ہے کہ ان کے حالات جو کچھ معلوم ہوں ۔مفصل لکھوں۔ وہ شیخ فرید الدین گنج شکرؒ کی اولاد تھے۔ اصل میں دلی کے رہنے والے تھے۔ خواجہ ابراہیم جو چھٹے واسطہ میں فضیل عیاض کے فرزند سجادہ نشین تھے۔ ان سے بھی انہوں نے فیض امانت پایا تھا۔ شیر شاہ کے عہد میں بھی ان کی پرہیز گاری اور نیکو کاری لوگوں کے دلوں میں اثر رکھتی تھی۔ ۹۵۲ھ میں اس کا بڑا بیٹا عادل خآں اپنے چھوٹے بھائی سلیم سے تخت نشینی کے معاملہ میں گفتگو کرنے آیا۔ سیکری میں عین شب برات کو پہنچا۔ وہ اور خواص خاں شیخ سلیم چشتی کے گھر میں رہے۔ اور تمام رات دعاؤں اور نمازوں میں گزاری۔ پھر سلیم شاہ کے عہد میں جو خآص اس کے دو امام تھے۔ ایک یہ تھے دوسرے حافظ نظام بداؤنی۔ بداؤں میں بھی ان کے بھائی بندوں کا خاندان نامور اور صاحب اثر تھا۔ چنانچہ ایک برج فصیل کا شیخ زادوں کا برج کہلاتا تھا۔ خشکی و تری کے رستہ دو دفعہ ہندوستان سے حرمین شریفین کی زیارت کو گئے۔ روم، بغداد۔ شام۔ نجف اشرف اور اَور ادھر کے ملکوں میں پھرتے رہے۔ تمام سال سفر مین سیاہی، حج کے وقت مکہ معظمہ آ جاتے تھے۔ پھر سیر کو نکل جاتے تھے۔ اس طرح بائیس حج کئے۔ چودہ پہلی دفعہ، آٹھ دوسری دفعہ، اخیر مرتبہ چآر برس مکہ معظمہ ہی میں رہے۔ چار برس مدینہ منورہ میں۔ مکہ والے چار برسوں میں بھی خاص خاص دنوں میں مدینہ طیبہ میں جا رہے تھے۔ حج کے موسم میں چلے آتے تھے۔ وہاں شیخ الہند کہلاتے تھے۔ اخیر حج میں شیخ یعقوب کشمیری بھی ساتھ تھے۔ (یہ وہی یعقوب ہیں۔ جنہوں نے تاریخی کہی) شکر خدا را کہ بہ مختص کرم منزل ماشد حرم محترم ہر کہ بپر سیدز تاریخ سال نحن اجبناہ دخلنا الحرا جب ساری منزلیں طے کیں۔ اور دعائیں قبول ہو گئیں تو ۹۷۱ھ میں پھر آ کر اپنے عبادت خانہ میں داخل ہوئے۔ زمانہ بہت خوب تھا۔ اکبر کا ابتدائی دور تھا۔ ہر جلسہ اور مسجد۔ مدرسہ میں خوبیوں کے ساتھ چرچا ہوا۔ ملا صاحب نے بھی تاریخیں لکھیں۔ شیخ اسلام ولی کام آں مسیحا نفس و خضر قدم لامع ازجبۂ اوسر ازل طالع از چہرۂ او نورِ قدم از مدینہ چوسوئے ہندشتافت آں مسیحا نفس و خضر قدم بشمر حرفے و مشمر حرفے بہر تاریخ زخیرا المقدم دوسری تاریخ شیخ اسلام مقتد اے انام رفع اﷲ قدرہ السامی از مدینہ چو سوئے ہند آمد آں ہدایت پناہی نامی گیر حرفے و ترک کن حرفے بہر سالش زشیخ اسلامی نئی خانقاہ کی بنیاد ڈالی۔ آٹھ برس میں تیار ہوئی تھی۔ اس عہد کے مورخ لکھتے تھے۔ کہ دنیا میں اس کا نظیر نہیں۔ ہشت بہشت سے پہلو مارتی ہے۔ اکبر کی ۲۷۔ ۲۸ برس کی عمر ہو گئی تھی۔ کئی بچے ہوئے۔ اور مر گئے۔ لاولد تھا۔ اس لئے اولاد کی بڑی آرزو تھی۔ شیخ محمد بخاری اور حکیم عین الملک نے شیخ موصوف کے بہت اوصاف بیان کئے۔ اکبر خود سیکری میں گیا۔ اور دعا کی التجا کی۔ جہانگیر اپنی توزک میں لکھتا ہے۔ جن دنوں والد بزرگوار کو فرزند کی بڑی آرزو تھی۔ ایک پہاڑ میں سیکری علاقہ آگرہ کے پاس شیخ سلیم نام ایک فقیر صاحب حالت تھے۔ کہ عمر کی بہت منزلیں طے کر چکے تھے۔ ادھر کے لوگوں کو ان کا بڑا اعتقاد تھا۔ میرے والد کہ فقرا کے نیاز مند تھے۔ ان کے پاس کئے۔ ایک اثنائے توجہ اور بیخودی کے عالم میں ان سے پوچھا۔ کہ حضرت! میرے ہاں کے فرزند ہونگے۔ فرمایا کہ تمہیں خدا تین فرزند دیگا۔ والد نے کہا۔ میں نے منت مانی کہ پہلے فرزند کو اپ کے دامن تربیت و توجہ میں ڈالونگا۔ اور آپ کی مہربانی کو اس کا حامی و حافظ کرونگا۔ شیخ کی زبان سے نکلا کہ مبارک باشد۔ میں نے بھی اسے اپنا بیٹا کیا۔ انہیں دنوں معلوم ہوا کہ حرم سرا میں کسی کو حمل ہے۔ بادشاہ سن کر بہت خوش ہوئے اس حرم کو حریم شیخ میں بھیج دیا۔ خود بھی گئے اور اس وعدہ کے انتظار میں چند روز شیخ کی ملازمت میں رہے۔ اسی سلسلہ میں ایک حرم سرا کی عالی شان عمارت شیخ کی حویلی اور خانقاہ کے پاس بنوانی شروع کی۔ اور شہر آباد کر کے سیکری کو فتح پور خطاب دیا۔ ملا صاحب فرماتے ہیں۔ مسجد و خانقاہ کی تاریخ میں نے اس طرح نکالی۔ شہر فتح پور کی تفصیل دیکھو فہرست عمارت میں ہذہ البقع قبہ الاسلام رفع اﷲ قدر باینھا قال روح الامین تاریخا لایری فی البلاد ثاینہا اور ایک اور بھی ہے۔ ع بیت معمور آمدہ از آسماں اور اشرف خاں میر منشی حضور نے کہی۔ ع ثانی مسجد الحرام آمد جب ۹۷۷ھ میں لڑکا پیدا ہوا۔ خوشی کے سامان تو بڑے بڑے ہوئے۔ مگر ایک نکتہ اس میں سے یہ ہے کہ کل ممالک محروسہ کے قیدی آزاد ہو گئے۔ اجمیر وہاں سے ۱۲۰ کوس ہے۔ پیادہ پا شکرانے کو گئے۔ برکت کے لئے حصرت شیخ نے بیٹی سے دودھ پلوایا۔ اپنے نام پر اس کا نام رکھا۔ یعنی سلیم۔ چونکہ شیخ کی دعا سے انہیں کے گھر میں پیدا ہوا تھا۔ اور وہیں پلا تھا اس لئے اکبر کچھ ادب سے اور کچھ پیار سے شیخو جی کہا کرتا تھا۔ نام نہ لیتا تھا۔ وہی بڑا ہو کر جہانگیر بادشاہ ہوا۔ آزاد۔ اکبر کو اس سے دلی محبت تھی۔ جن دنوں شکم مادر میں تھا۔ ایک دن چار پہر گزر گئے۔ معلوم ہوا۔ کہ بچہ نہیں پھرتا۔ سب گھبرا گئے۔ اکبر کو بھی تردد ہوا۔ اس دن جمعہ تھا۔ ان دنوں چیتے کے شکار کا بہت شوق تھا۔ عہد کیا کہ آج کے دن چیتے کا شکار نہ کھیلونگا۔ خدا اس بچے کو زندگی دے۔ اور اس کی بدولت بہت سے جانداروں کی جان بچ جائے۔ چنانچہ جب تک زندہ رہا۔ اس عہد کا پابند رہا۔ سبحان اﷲ ملا صاحب کی باتیں سن کر آدمی حیران رہ جاتا ہے کہ پہلے وجد کرے یا رقص کرے۔ یہ حالات و کمالات و کرامات لکھتے لکھتے فرماتے ہیں۔ بس یہیں سے حضرت شیخ کے کمالات کو نظر لگی۔ بادشاہ ان کے گھر میں محرموں کی طرح آنے جانے لگے۔ بیٹے پوتوں نے کہا۔ کہ اب بیبیاں ہماری نہ رہیں۔ فرمایا۔ دنیا کی عورتیں تھوڑی نہیں۔ نقصان کیا ہے۔ ارض اﷲ واسع ع خدائے جہاں را جہاں تنگ نیست دو اور عالیشان محل بادشاہ نے بنوائے۔ شہر بہشت بریں بنتا چلا جاتا تھا۔ کہ شیخ موصوف نے ۱۵ برس کی عمر میں دنیا سے انتقال کیا۔ ایک تاریخ ہوئی۔ شیخ ہندی۔ دوسری تاریخ وفات شیخ اسلام شیخ حکماؤ شیخ حکام ۹۷۹ھ آزاد۔ خدا جانے اس تاریخ میں بھی کچھ طنز ہے یا بے تکلفی کی ہے۔ باوجود اس کے سلسلۂ مشائخ میں جہاں ان کا حال لکھا ہے۔ فرماتے ہیں۔ شریعت کے بموجب عبادت کا بجا لانا۔ درد ناک ریاضتیں اور سخت مشقیں اٹھا کر منازل فقر کو طے کرنا ان کا عمل اور طریقہ کا اصول تھا اور یہ بات اس عہد کے مشائخ میں کسی کو کم حاصل ہوہی۔ نماز پنجگانہ غسل کر کے جماعت سے پڑھتے تھے۔ اور یہ وظیفہ تھا۔ کہ فوت نہیں ہوا۔ شیخ مان پانی پتی نے پوچھا۔ ’’طریق شما باستد لال است یا بکشف‘‘۔ جواب دیا۔ ’’در طو مار دل بردل است‘‘ بڑے بڑے مشائخ کباران سے فیض پا کر درجۂ تکمیل کو پہنچے۔ ان میں سے حاجی حسین خادم، بہترین خلفا، صدر نشین اور خانقاہ فتح پور کے صاحب اہتمام اور بااختیار تھے۔ جب شیخ سلیم چشتی دوبارہ ہندوستان میں آئے۔ تو ملا صاحب نے سنا کر عربیت میں بڑی دستگاہ ہے۔ ایک خط زبان عربی میں لکھ کر بھیجا۔ اس میں دو تاریخیں بھی ان کے آںے کی لکھیں چنانچہ وہ خط بجنسہ اپنی تاریخ میں نقل کیا ہے۔ مگر کاتبوں نے اس میں ایسی اصلاح دی ہے۔ کہ لکھنا نہ لکھنا برابر ہو گیا ہے۔ شیخ اعظم بداؤنی شیخ موصوف کے ہم جد بھائی بندوں میں تھے۔ اور داماد بھی تھے۔ ملا صاحب نے ۹۷۶ھ ان کے ساتھ جا کر شیخ سے ملات کی۔ باتیں ہوئیں اور بموجب ان کے فرمانے کے دو تین حجرۂ خانقاہ میں رہے۔ پھر ۹۸۷ھ میں تو بارہا ملتے رہتے تھے۔ ملا صاحب کہتے ہیں کہ میں نے جو ان کی کرامات دیکھی وہ یہ تھی کہ جاڑے کے موسم میں فتح پور جیسے ٹھنڈے مقام میں خاصے کا کرتا اور ململ کی چادر کے سوا کچھ اور لباس نہ ہوتا تھا۔ جلسہ کے دنوں میں دو دفعہ غسل ہوتا تھا۔ وصال کے روزے تھے۔ غذا آدھا تربوز بلکہ اس سے بھی کم۔ جہانگیر جو کچھ اپنی توزک میں ان کی کرامات کے باب میں لکھتے ہیں۔ میں اس کا ترجمہ کرتا ہوں۔ ایک دن کسی تقریب سے میرے والد نے پوچھا۔ کہ آپ کی کیا عمر ہو گی۔ اور آپ کب ملک بقا کو انتقال فرمائیں گے۔ فرمایا۔ عالم الغیب خدا ہے۔ بہت پوچھا تو مجھ نیازمند کیطرف اشارہ کر کے فرمایا۔ کہ جب شہزادہ اتنا بڑا ہو گا۔ کہ کسی کے یاد کروانے سے کچھ سیکھ لے۔ اور آپ کہے۔ جانتا کہ ہمارا وصال نزدیک ہے۔ والد بزرگوار نے یہ سن کر تاکید کر دی۔ کہ جو لوگ خدمت میں ہیں۔ نظم نثر کچھ سکھائیں نہیں۔ اس طرح دو برس سات مہینے گزرے۔ محلہ میں ایک عورت رہتی تھی۔ وہ نظر گزر کے لئے روز مجھے اسپند کر جاتی تھی۔ اسے کچھ صدقہ خیرات مل جاتی تھی۔ ایک دن اس نے مجھے اکیلا پایا۔ اور اس مقدمہ کی اسے خبر نہ تھی۔ مجھے یہ شعر یاد کروا دیا۔ الہی غنچۂ امید بکشا گلے از روضۂ جاوید بنما مجھے پہلے پہل یہ کلام موزوں ایک عجیب چیز معلوم ہوا۔ شیخ کے پاس گیا۔ تو انہیں بھی سنایا۔ وہ مارے خوشی کے اچھل پڑے۔ والد بزرگوار کے پاس گئے۔ اور یہ واقعہ بیان کیا۔ اتفاق یہ کہ اسی رات انہیں بخار ہوا۔ دوسرے دن آدمی بھیج کر تان سین کلانوت کو بلوا بھیجا۔ کہ بینظیر گویا تھا۔ اس نے جا کر گانا شروع کیا۔ پھر والد محروم کو بلوایا۔ وہ تشریف لائے۔ فرمایا کہ وعدہ وصال پہنچ گیا۔ تم سے رخصت ہوتے ہیں۔ اپنے سر سے دستار اتار کر میرے سر پر رکھ دی۔ اور کہا کہ سلطان سلیم کو ہم نے اپنا جانشین کیا۔ اور اسے خدا نے حافظ و ناصر کو سونپا۔ ومبدم ضعف بڑھتا جاتا تھا۔ اور مرنے کے آثار ہوتے جاتے تھے۔ یہاں تک کہ محبوب حقیقی کا وصال ہوا۔ اکبر کے دل میں ان کے ادب و اعتقاد پر کبھی ضعف نے اثر نہیں کیا۔ جب فاتحہ کو جاتا تھا۔ تو روپے اشرفیاں اس طرح نچھاور ہوتے تھے۔ گویا آسمان سے فرشتے برسا رہے ہیں۔ ملا صاحب بڑے درد کے ساتھ فرماتے ہیں شیخ بدر الدین ان کے بڑے بیٹے مکمہ معظمہ چلے گئے تھے۔ وہاں عبادتیں اور سخت ریاضتیں کرتے تھے۔ سات دن کاطی کا روزہ رکھا تھا۔ گرم موسم، روزہ طی کا طریقہ یہ ہے کہ دن بھر روزہ رکھا۔ شام کو فقط دو تین قطرے پانی سے افطار کیا۔ اور اسی وقت سے پھر روزہ رات بھر دن بھر فاقہ۔ شام کو پھر وہی دو تین قطرہ پانی اور پھر روزہ۔ دو تین قطرہ آب کا اندازہ استادوں نے یہ رکھا ہے کہ ہاتھ کے پنجہ کو خوب سختی سے کھول کر ہتھیلی زمین پر وصل کرو۔ انگوٹھے کی جڑ پر جو گڑھا سا پڑ جاتا ہے۔ اس پر پانی کے قطرے ڈالو۔ جس قدر ٹھہر جائے۔ وہ مقدار افطار کے لئے کافی ہے۔ وہ دو تین ہی قطرے ہوتے ہیں۔ مکہ کی گرم ہوا۔ اور وہ ننگے پاؤں طواف کعبہ کر رہے تھے۔ پاؤں میں آبلے پڑ گئے۔ تپ محرقہ ہو گئی۔ آخر ۹۹۰ھ میں ساقی لطفِ ازلی کے ہاتھ سے شہادت قتل فی سبیل اﷲ کا شربت پیا۔ جس دن یہ خبر پہنچی تھی۔ بادشاہ آگرہ سے الہ آباد کو کشتی سوار جاتے تھے۔ حاجی حسین خادم خانقاہ کو کہلا بھیجا۔ شیخ کے گھر میں کہرام مچ گیا۔ اور جو سلسلہ ہدایت و ارشاد کا باقی رہ گیا تھا۔ وہ بھی تمام ہو گیا۔ آزاد، سبحان اﷲ یہ کیسے شہید ہوئے۔ پھر ۹۹۹ھ میں فرماتے ہیں۔ شیخ ابراہیم چشتی اجل طبعی سے مر گئے۔ اور جہان جہاں زرو مال کو وداع کر کے خدا کو حساب دیا۔ پچیس کروڑ تو نقد روپیہ تھا۔ ہاتھی گھوڑے اور اجناس اس حساب پر پھیلا لو۔ سب بادشاہی خزانہ میں داخل ہوا۔ اور جس کا راز نہ کھلا۔ وہ نصیب عدا یہ کون؟ ان کی اولاد اور وکیل۔ خست کی حالت میں گرفتار تھا۔ شیخ لیئم اور ذمیم الاوصاف تاریخ ہوئی۔ اولاد۔ بڑے صاحبزادے شیخ ابراہیم تھے۔ جن کا حال سن چکے (۲) شیخ ابو الفضل اکبر نامہ میں لکھتے ہیں۔ شیخ احمد منجھلے بیٹے شیخ سلیم فتح پوری کے ہیں۔ دنیا داروں میں بہت سی عمدہ خصلتیں ان کے چہرے پر ابٹنہ ملتی تھیں۔ لوگوں کی شکایت سے زبان آلودہ نہ کرتے تھے۔ خلاف طبع بات پر غم سے مغلوب نہ ہوتے تھے۔ متانت و وقار سے مصاحبت رکھتے تھے۔ دستگیری عقیدت اور خوبی عبادت سے جرگہ امرا میں داخل ہوئے۔ ان کی بی بی کا سلیم (جہانگیر) نے دودھ پیا تھا۔ مالوہ کی مہم میں بے پرہیزی کی۔ سمجھایا تو نہ مانا۔ آخر دارالخلافہ میں آ کر فالج کی نوبت پہنچی۔ ۹۸۵ھ میں کہ بادشاہ اجمیر جاتے تھے۔ اسے حضور میں لائے۔ سجدہ عجز کر کے آخری رخصت حاصل کی گھر میں جا کر آخری سانس نے منزل گاہ نیستی کا رستہ دکھایا۔ جہانگیر نے جس عفیفہ کا دودھ پیا تھا۔ اس کی گود میں لڑکا تھا۔ اور نام اس کا شیخ جیون تھا۔ وہی صاحب زادہ بڑا ہو کر نواب قطب الدین خاں اور جہانگیر کے کو کلتاش خاں ہو گئے۔ انہی کو جہانگیر نے بھیجا تھا۔ کہ شیر افگن خاں کے پاس جاؤ۔ اور جس طرح ہو نورجہاں کو لے آؤ۔ نہ ہو سکے تو شیر افگن کو شکار کر لو۔ تقدیر الٰہی سے دونوں ایک ہی میدان میں کھیت رہے۔ ذیقعد ۱۰۱۴ھ میں مر گئے۔ جہانگیر نے ان کے جنازہ کو چند قدم کندھا دیا۔ اور دل کو رنج ہوا۔ کئی دن تک کھانا کھانے کو دل نہ چاہا۔ اور کپڑے نہ بدلے۔ آخر صبر کیا۔ ٭٭٭٭٭٭٭٭ سلسلہ صفویہ اور خاندان تیموری کا تعلق شاہ صفی ایک سید صحیح النسب، عابد، زاہد، پرہیزگار، اردبیل علاقہ آذربائیجان میں تھے۔ غزلت کا گوشہ ان کی صبر و قناعت سے روشن تھا۔ اور اوصاف و برکات نے اعتقاد کی گرمی خاص و عام کے دلوں میں اس طرح دوڑائی تھی۔ جیسے رگوں میں خون، نیت کی برکت تھی۔ کہ جو ظاہر میں ان کا جانشین ہوا۔ وہ معنی میں دلنشین ہوا۔ حکام اور شاہان وقت انہیں اپنی بیٹیاں نذر دیتے تھے۔ اور سعادت سمجھتے تھے۔ شاہ صفی کے بعد ان کے فرزند شیخ صدر الدین عبادت کے سجادہ نشین ہو کر بندگان خدا کو فیض پہنچاتے تھے۔ جب امیر تیمور روم کو فتح کر کے پھرا۔ تو لشکر کا اردبیل میں مقام ہوا۔ ان کے خاندان کے اوصاف پہلے بھی سنتا تھا۔ اور سادات و فقرا کے ساتھ صدق دل سے اعتقاد رکھتا تھا۔ خدمت میں حاضر ہوا۔ اور دعا چاہی۔ ساتھ ہی یہ بھی کہا۔ کہ مجھے کچھ خدمت فرمائیے۔ اور اس امر پر بہت اصرار کیا۔ شیخ نے فرمایا۔ کہ تمہارے لشکر میں ہزاروں بے گناہ بندے خدا کے بندی میں گرفتار ہیں۔ جن جانوں کو خدا نے آزاد پیدا کیا۔ انہیں غلامی کے بند میں دیکھ کر خوف آتا ہے۔ کہ خدا کا بندہ آدمی کا بندہ کیونکر ہو سکتا ہے۔ انہیں آزاد کر دو۔ امیر صاحب قرآن نے ’’بچشم‘‘ کہہ کر قبول کیا۔ ہزار در ہزار آدمی، امیر، غریب، شریف، عامی اور قبائل ترکوں کے تھے۔ اسجلو، تکلو، رُستاق، رُملو، ذوالقدر، افشار، قاجار، دغلو وغیرہ سب رہا ہو گئے۔ یہ شیخ کے بندۂ احسان ہوئے۔ اور عقیدت نے دلوں میں جگہ پکڑی۔ شیخ موصوف کے بعد شیخ جنید مسند ہدایت پر بیٹھے ان کے گرد اہل ارادت کی انبوہ دیکھ کر بادشاہ وقت کو خطر ہوا۔ اور اپنی قلمرو سے نکال دیا۔ وہ حلب میں چلے گئے۔ ازن حسن وہاں کا فرمانروا مقرر ہوا۔ اور اپنی بہن کو ان کے حرم میں داخل کر دیا۔ اس سے سلطان حیدر پیدا ہوئے۔ جب معرفت کا سلسلہ سلطنت میں مسلسل ہوا۔ تو خیالات کے رنگ بدلنے شروع ہوئے انہوں نے اہل ارادت کو سرخ بانات کی ٹوپیوں سے سربلند کیا۔ اس میں بارہ اماموں کے شمار سے بارہ کنگرے قرار دئے۔ اور یہی لوگ لقب قزلباش سے نامور ہوئے۔ قزل، سرخ، باش میر۔ بزرگانِ صفویہ کے ساتھ اہل عقیدت کا ہجوم دیکھ کر ہمیشہ سلاطین عہد کو ڈر رہتا تھا۔ اس لئے یہ مقدس لوگ تکلیفیں اٹھاتے تھے۔ مارے جاتے تھے۔ یہاں تک کہ کئی پشت کے بعد شاہ اسمعیل صفوی کو باپ کا انتقام لینا واجب ہوا۔ وہی ترکان خونریز کے قبیلے کہ دادا کے بندہ احسان تھے۔ اس کی فوج خدائی ہو گئی۔ وہ ننھیال کی طرف سے شمشیر سلطنت ہاتھ میں لے کر سمندِ دولت پر سوار ہوا۔ اور ذاتی ہمت اور قدرتی اقبال نے تاج کیانی سر پر رکھ کر تختِ پر بٹھا دیا۔ قزلباش ہمیشہ ان کے اور ان کی اولاد کے فدائی رہے۔ اور وہ اطاعت کی کہ کسی امت نے اپنے پیغمبر کی ایسی اطاعت نہ کی ہو گی۔ یہی زمانہ تھا کہ ادھر صفویہ کی تلار ایران میں اور ادھر شیبانی خآں کا اقبال توران میں اپنی اپنی سلطنت کی بنیاد ڈال رہے تھے۔ اذبک کی قومی دلاوری ایسی زور پر چڑھی تھی کہ آل تیمور کی چھ پشت کی جڑ اکھاڑ کر پھینک دی۔ بابر نے جب کسی طرح گھر میں گزارہ نہ دیکھا۔ پشتوں کے نمک خواروں نے بیوفائی کی۔ رشتہ دار جان کے لاگو ہو گئے۔ تو مایوس ہوا۔ اور جس خاک سے چھ پشت کی بیلیں اگ کر منڈھے چڑھے تھیں۔ اسے خدا حافظ کہہ کر رخصت ہوا۔ وہ بدخشاں میں آیا۔ خسرو شاہ ایک نمکحرام وہاں کا حاکم تھا۔ پہلے اس سے معاملہ پڑا تھا۔ تو بے حیائی کی سیاہی منہ پر مل لی تھی۔ اب کی دفعہ انسانیت خرچ کی۔ اور بن بلائے مہمان کو آرام کا سامان دیا۔ اس کمبخت کی رعایا اس سے ناراض تھی۔ بابر نے اندر ہی اندر سب کو پرچا لیا۔ اور چاہا کہ خسرو کو ضیافت میں بلا کر قید کر لے۔ اس فساد کی بو اس کو بھی پہنچ گئی۔ ضیافت کی نوبت بھی نہ آئی۔ چپ چپاتے ہی نکل کر بھاگ گیا۔ جب یہ لشکر، دولت خانہ، خزانہ اور بنا بنایا گھر ہاتھ آیا۔ تو بابر کے حواس دورست ہوئے چند روز بعد کابل میں آئے۔ یہاں ایک شخص الغ مرزا کا داماد بن کر حکومت کر رہا تھا۔ وہ پہلے قلعہ بند ہو کر سامنے ہوا۔ پھر کچھ سمجھا اور آخرکار ملک حوالے کر کے بھاگ گیا۔ برسوں کی مصیبتیں اور مدتوں کی آفتیں اٹھا کر ذرا نصیبہ نے کروٹ لی۔ جب بدخشاں اور کابل جیسے علاقے مفت ہاتھ آئے۔ تو بابر نے پروبال درست کئے۔ اور ملک افغانستان کا بندوبست کرنے لگے۔ اب ان کے وطن کی حققیت سنو۔ کہ جب یہ وہاں سے ادھر آئے۔ تو شیبانی خاں اس طرح پھیلا۔ جیسے بن میں آگ لگی۔ چند روز میں سمرقند و بخارا سے آلِ تیمور کا نام و نشان مٹا دیا۔ اور ایسا بڑھا کہ جیہوں اتر کر قندھار کو شربت کی طرح پی گیا۔ بلکہ ہرات لے کر ایران پر ہاتھ مارا۔ اس کے ادھر آنے کے دو سبب تھے۔ ایک تو جانتا تھا کہ چھ پشت کا حقدار یہاں پہلو میں بیٹھا ہے۔ جب بابر موقع پائے گا۔ بدخشاں سے اتر کر چھاتی پر چڑھ آئے گا۔ دوسرے ایران میں صفوی سلطنت کی بنیاد قائم ہونے لگی تھی۔ اسے گوانا اور اپنے ملک کا پھیلانا ایسے شخص کے لئے بہت آسان تھا۔ جس کے ساتھ لاکھوں اذبک قومی اور مذہبی جوش میں بھرے، شمشیر بکف حاضر ہوں۔ سلاطین صفویہ شعیہ تھے۔ اور اہل توران سنت جماعت۔ اور حق تو یہ ہے۔ کہ ایرج اور تورج کے خون خدا جانے آب جیحوں میں کس بلا کا زہر گھول گئے۔ کہ ایران و توران کی خاک ایک دوسرے کے لہو کی پیاسی ہو گئی۔ اور اب تک چلی آتی ہے۔ غرض شیبانی خاں نے جیہوں اتر کر اول چغتائی شہزادوں کو خانہ برباد کیا۔ اس کا دل بڑھا ہوا تھا۔ قدم بڑھا کر قزلباشوں پر ہاتھ مارنے لگا۔ اُس وقت ایران میں شاہ اسمعیل صفوی کی تلوار چمک رہی تھی۔ اصفہان کے جوہر سے اذبک کی ست درازی نہ دیکھی گئی۔ شاہِ جواں بخت نے تحمل اور وقار سے کام لیا۔ اور باوجود جوش جوانی اور حریف کی پیش قدمی کے نامہ لکھا۔ جس کے مطالب صلاحیت اور شائستگی کے سانچے میں ڈھلے ہوئے تھے۔ اس نے اپنے مراسلے کو آرام و عافیت کے فوائد سے نقش و نگار کر کے کمال متانت سے یہ دکھایا تھا۔ کہ لڑائی میں کیا کیا خرابیاں ہیں۔ اور ملاپ میں کس قدر فائدے اور آرام ہیں۔ خاتمہ کلام اس امر پر تھا۔ کہ ترکستان تمہارا قومی ملک ہے۔ وہ تمہیں مبارک رہے۔ لیکن عراق کے دامن میں پاؤں پھیلانا مناسب نہیں۔ اس میں یہ شعر بھی لکھا تھا۔ نہالِ دوستی بنشاں کہ کامِ دل ببار آرد درختِ دشمنی برکن کہ رنجِ بیشمار آرد شیبانی خاں کی فتوحات متواتر اور بلند نظری نے اس خط کی روشنائی کو خطِ غبار دکھایا۔ اور باجود کہن سالی اور تجربہ کاری کے جواب میں بڑے غرور سے لکھا۔ کہ ہم چنگیزی نسل ہیں۔ اور موروثی سلطنت کے مالک ہیں۔ ملک گیری ہمارا حق ہے۔ سلطنت کا دعویٰ اور پادشاہوں سے معاوضہ اسے زیبا ہے۔ جس کے باپ دادا نے پادشاہی کی ہو۔ تمہیں ہمارے مقابلہ میں دعویٰ جہانداری نہیں پہنچتا۔ اور ترکمانوں سے رشتہ کر کے سلطنت کا دعوے بے معنی ہے۔ اور یہ حق تمہیں اس وقت پہنچتا۔ کہ مجھ جیسا بادشاہ وارث ہفت اقلیم موجود نہ ہوتا۔ ہمارے سامنے تمہیں ان باتوں سے کیا تعلق؟ ع گدائے گوشہ نشینی تو حافظا مخروش اس تحریر پر بھی قناعت نہ کی۔ تجائف و نفائس کے مقابل میں ایک فقیروں کا چملا اور ایک عصا بھیجا۔ کہ یہ ہے میراث تمہارے باپ دادا کی۔ اسے لو اور مانگتے کھاتے پھرو۔ اور لکھا۔ نصیحت گوش کن جانا کہ از جاں دوست تردارند جوانانِ سعادت مند پندپیر دانا را خاتمہ میں یہ بھی لکھا۔ کہ ہم نے حج بیت اﷲ کا ارادہ مصمم کیا ہے۔ عنقریب عراق اور آذربائیجان کے رستے روانہ ہوں گے۔ مطلع کرو۔ کہ کس مقام پر ملاقات ہو گی۔ شاہ اسمعیل نے اس کا جواب طولانی لکھا۔ اور بہت جوش و خروش سے لکھا۔ مگر جو فقرہ فقیری کی طنز کرتا تھا۔ اس کے جواب میں یہ مضمون تھا۔ کہ ہم آلِ رسولؐ ہیں۔ فقر کی نعمت اور دنیا کی سلطنت، دونوں ہمارا حق ہیں۔ اور ہمارے اجداد کرام کا ورثہ ہیں۔ تمہیں ہمارے ساتھ ہمسری شایاں نہیں۔ اور سلطنت اگر میراث ہوئی تو پیشدادیوں سے کیانیوں کو اور اُن سے درجہ بدرجہ چنگیزیوں کو اور پھر تم تک کیونکر پہنچتی؟ اور یہ جو تم نے لکھا ہے کہ عروسِ ملک کسے درکنار گیر و چُست کہ بوسہ برومِ شمشیر آبدار زند درست ہے۔ مگر۔ ع جانا سخن از زبانِ مامے گوئی تلوار علی اسد اﷲ الغالب کی ہے۔ وہ ہمیں اپنے دادا سے میراث پہنچی ہے۔ یہ ہمارا حق ہے۔ اگر مرد ہو۔ اور جنگ کی ہمت ہے۔ تو میدان جنگ میں آؤ۔ کہ باقی باتیں ذوالفقار حیدر کرار کی زبان سے ادا ہوں گی۔ ع یہ بینیم از ما بلندی کراست اور نہیں آتے تو یہ چرخہ اور تکلا اور روئی پہنچتی ہے۔ اسے سامنے رکھ کر بڑھیوں میں بیٹھو۔ کہ اسی قابل ہو اور یاد رہے۔ بس تجربہ کردیم دریں دیر مکافات باآلِ نبی ہر کہ در افتاد بر افتاد دل عقیدت منزل کو زیارت مشہد مقدس کی تمنا ہے۔ ہم نے بھی عزم بالجزم کے ساتھ نیت کی ہے۔ مناسب ہے کہ لشکر نصرت و اقبال کے استقبال کو جلد روانہ ہو۔ کہ دوست نوازی اور دشمن گزاری کے آئین و قوانین سے تمہیں آگاہ کریں۔ قاصد ادھر روانہ کیا۔ اور ساتھ ہی قزلباش خونریز کے دستے لے کر گھوڑوں کی باگیں اٹھائیں ادھر شیبانی خاں بھی لشکر لے کر چلا۔ فرشتہ وغیرہ اذبک کی تعداد ایک لاکھ لکھتے ہیں۔ مگر مرزا حیدر و غلات صاحب رشیدی نے پچیس ہزار فوج لکھی ہے۔ غرض مرد پر دونوں فوجوں کا مقابلہ ہوا۔ اتفاق تقدیر کہ پہلے ہی حملہ میں شیبانی خاں کی فوج کے پاؤں اکھڑ گئے۔ اب شاہ کب رک سکتا تھا۔ قزلباش بزن بزن کرتے پیچھے دوڑے۔ ہزاروں ترک تھے۔ کہ کھیت کی طرح کٹتے اور گرتے چلے جاتے تھے۔ شیبانی خان پانسو ہمراہیوں کے ساتھ جن میں اکثر شہزادے اور خاندان زادے تھے۔ ایک احاطہ کی پناہ میں بیٹھ گئے۔ (ادھر کے دشتوں میں اکثر گلہ بان اپنے آرام اور گلہ کی حفاظت کے لئے بنا رکھتے ہیں) جب لشکر قزلباش نے گھیر کر زور دیا۔ تو وہ بھی تلواریں کھینچ کر نکل پڑے۔ مگر پھر ناکامی کے ساتھ ہٹے۔ بہت مارے گئے۔ اس میں شیبانی خاں نے بھی سرداری کا بوجھ سرے سے اتارا۔ باقی ہزاروں آدمی مع زن و فرزند قید ہوئے۔ اور انہی میں خانزاد بیگم بابر کی بہن بھی تھی۔ بیگم کا ماجرا بھی سننے کے قابل ہے۔ جب بابر شیبانی خاں کے ہاتھ سے سمرقند کی دیوار کود کر بھاگا تھا۔ تو اس بدحواسی کے ساتھ بھاگا تھا کہ اپنی مستورات کو بھی ساتھ نہ لے سکا تھا۔ اس میں یہ بدنصیب بیگم بھی رہ گئی تھی۔ پہلے اس کی خالہ شیبانی خاں کے نکاح میں تھی۔ اس وقت خالہ کو طلاق دے کر اسے نکاح میں لایا تھا۔ پھر اسے بھی طلاق دے کر سید ہادی نام ایک سید کے حوالے کر دیا تھا۔ اور یہ پاک دامن بی بی غریبی کی حالت میں گزارہ کر رہی تھی۔ شاہ کو جب معلوم ہوا۔ تو بیگم کو عزت کے ساتھ قیدیوں میں سے نکالا۔ اور بی بیوں کی معرفت عزا پرسی کی رسمیں ادا کیں۔ بابر اس وقت افغانستان میں آ گئے تھے۔ اور ملک کی تدبیر کے بادشاہ تھے۔ فتح کی خبر سن کر مبارک باد کا نامہ تیار کیا۔ اور شاہ کو ادھر آنے کا رستہ دکھایا۔ اتنے میں شاہ کا ایلچی مع مراسلہ کے پہنچا۔ اس میں لکھا تھا کہ ہم دونوں بھائیوں کو خدا فتح مبارک کرے۔ خصوصاً تم کو کہ امیر صاحب قرآن کی یادگار ہو۔ ایلچی کے ساتھ گراں بہا تحفے تھے۔ اور بیگم کو بھی عزت و احترام کے ساتھ بھیجا تھا۔ کہ دس برس ہو گئے تھے۔ خانہ برباد بھائی سے جدا تھی۔ بابر خود لکھتا ہے کہ میں قندز میں تھا۔ حرم سرا میں بہن سے ملنے کو گیا۔ محمدی کو کلتاش میرے ساتھ تھا۔ ایک زمانہ گزر گیا تھا۔ بہن نے مجھے بالکل نہ پہچانا۔ حیران دیکھتی تھیں۔ جتا کر کہا کچھ خبر نہ ہوئی۔ غرض بابر نے بھی شاہ کو مبارک باد کے ساتھ جواب لکھا۔ اور خان مرزا کہ ایک تیموری شاہزادہ تھا۔ ایلچی بنایا۔ اور کمک کے لئے درخواست کی۔ صاحب ہمت بابر جس حال میں تھا۔ اذبکوں کے ساتھ دھکا پیل کئے جاتا تھا۔ اور وہ بھی اس کا پیچھا نہ چھوڑتے تھے۔ بابر نے ایک موقع پر انہیں شکست دی تھی۔ مگر رفیقوں کی بد مددی سے پیچھے ہٹنا پڑا تھا۔ پہاڑوں کی گھاٹیوں میں بیٹھا آسمان کو دیکھ رہا تھا۔ مدد غیبی کا منتظر تھا۔ یکایک خبر پہنچی کہ خان مرزا آتا ہے۔ اور ساتھ اس کے تین ایرانی سردار قزلباش کا لشکر جوار لئے کمک کو آئے ہیں۔ شیر کی طرح پہاڑوں سے نکلا اور میدان کے شہروں کو تو آتے ہی اذبکوں سے صاف کر دیا۔ شیبانی خاں کے بعد عبد اﷲ خاں اذبک نے اپنی بہادری اور تدبیر کی رسائی سے سپہ داری کا رتبہ حاصل کیا تھا۔ اور ملک بخارا پر قابض ہو گیا تھا۔ اب جو بابر کو ساٹھ ہزار فوج کی جمعیت اپنے گرد نظر ائی۔ تو بادل کی طرح گرجتا گیا۔ وہ بھی برق کی طرح آیا۔ لیکن دھوئیں کی طرح اڑ گیا۔ بہت سے اذبک شمشیر قزلباش کا شکار ہوئے۔ جو بھاگ بھی نہ سکے۔ وہ قید ہوئے۔ الحمد اﷲ کہ تیمور کے پوتے نے پھر سمرقند و بخارا پر قبضہ پایا۔ اگر آں ترکِ شیرازی بدست آرد دل مارا بخال ہندوش بخشم سمرقند و بخارا دادا کے تخت پر جلوس کیا۔ اور منبروں اور مسجدوں پر نام کا خطبہ پڑھا گیا۔ نوبت خانہ سے دمامۂ دولت کی آواز بلند ہوئی۔ بابر نے درباروں کو حشمتہائے شاہانہ سے رونق دی۔ اور امرائے قزلباش کو اعلی لشکریوں کے ساتھ خلعت و انعام دے کر رخصت کیا۔ یہ معرکہ ۹۱۷ھ میں ہوا۔ بابر جیسے ہمت کے رستم تھے۔ ویسے ہی ذوق و شوق کے دیوانے تھے۔ آٹھ مہینے تک جس میں چھ مہینے جاڑے کے تھے۔ بہاریں اڑاتے رہے۔ دفعتاً خبر آئی۔ کہ خاندانِ تیموری کا قدیمی دشمن تیمور سلطان اذبکوں کا ٹڈی دل لئے چلا آتا ہے۔ کہ میں شیبانی خاں کا جانشین ہوں خون کا عوض لوں گا۔ بابر گرم بچھونوں سے اٹھ کر سوار ہوہے۔ اور پھر شاہ کو نامہ لکھا۔ اتفاق تقدیر کہ بخارا کے قریب انہوں نے پھر شکست کھائی اور بھاگ کر حصار شادمان میں آنا پڑا۔ شاہ کی طرف سے نجم خاں اصفہانی پھر ساٹھ ہزار فوج قزلباش لے کر مدد کو پہنچا۔ بابر اسے لے کر چلے۔ قلعہ افراس پر عبد اﷲ خاں اذبک سے مقابلہ ہو گیا۔ پندرہ ہزار سے زیادہ اذبک کی جمعیت تھی۔ خود عبد اﷲ خاں سپہ سالار تھا۔ طرفین کے دلاوروں نے بڑا ساکھا کیا۔ مگر اذبک شمشیر قزلباش کی خوراک ہوئے۔ اور کم بچے جو بھاگ گئے۔ باقی قید ہوئے۔ قلعہ فتح ہوا۔ انجم ثانی کہ اپنے تیئں رستم ثانی گنتا تھا۔ آگے چلا اور کہا۔ کہ جب تک اذبک کی قوم کا توران سے استیصال نہ کر لوں گا۔ ایران کو نہ پھروں گا۔ غجدیوان ایک منزل بخارا سے آگے ہے۔ اس کا محاصرہ کئے پڑا تھا۔ اور قزلباش کے سردار جابجا پھیلے ہوئے تھے۔ کچھ تو دونوں قوموں کی قومی برخلافی، کچھ جاہل قزلباشوں کی خود نمائی اور ؟؟؟؟؟؟ گوئی۔ غرض یہ تسلط ان کا تمام ترکستان کو ناگوار گزرا۔ خوانین و امرا شرفا و غربا اتفاق کر کے جمع ہوئے۔ اور خاص و عام کو بغاوت پر آمادہ کیا۔ کہ بابر رافضیوں کی مدد لایا ہے۔ اور آپ بھی رافضی ہو گیا ہے۔ اس تدبیر نے بڑا اثر کیا۔ بڈھے اور جوان شہری اور دہقان۔ سب تلواریں پکڑ کر اٹھ کھڑے ہوئے۔ اور چاروں طرف سے امنڈ کر آئے۔ نجم ثانی اور ایرانی حیران رہ گئے۔ اس بادل کو برقِ شمشیر سے نہ ہٹا سکے۔ لیکن اپنے ملک اور قوم کی عزت اس بات سے رکھی کہ نہ بھاگے۔ اور سوا چند آدمیوں کے ایک ایرانی میدان میں زندہ نہ رہا۔ یہ حملہ رات کو بے خبری کے عالم میں ہوا تھا۔ بابر کی یہ نوبت ہوئی کہ کفش پہننے کی مہلت بھی نہ پائی۔ ننگے پاؤں خیمہ سے نکل کر بھاگا۔ ۹۱۸ھ۔ مرزا حیدر وغلات نے تاریخ رشیدی میں لکھا ہے کہ شاہ کے متواتر احسانوں نے بابر کے دل میں بہت بڑا اثر کیا تھا۔ اظہار محبت کے لئے خود بھی انہی کا لباس پہنتا تھا۔ قزلباش کی سرخ تاجدار ٹوپی اپنی فوج کی وردی میں داخل کر دی تھی۔ مرزا حیدر موصوف نے اس مقام پر اہل ایران اور اہل تشیع کے با میں بہت سے فقرے اور فحش تشبیہیں ایسی لکھی ہیں کہ میں کسی کے حق میں بھی نہیں کہہ سکتا۔ اس میں کچھ شک نہیں۔ کہ بابر کی افراط ممتونی اور ایرانیوں کی زباں درازی نے کام خراب کر دیا۔ اسی سے مریضیوں کو سند ہاتھ آئی۔ کہ رفض کی تہمت لگائی۔ اور اس میں کامیاب نہ ہوئے۔ اس اخیر شکست نے بابر کا دل توڑ دیا۔ اور ایسا بیزار ہوا کہ پھر وطن کا رخ نہ کیا۔ پہلے بدخشان لیا۔ پھر افغانستان مارا۔ آب و دانہ وہاں سے ہندوستان میں لایا۔ اور ایسی مضبوطی سے جمایا کہ ۱۸۵۷ھ کے عذر نے آ کر خاندان کا نام صفحہ ہستی سے مرٹایا ہے۔ ہمایوں نے جب شیر شاہ کے زور اور بھائیوں کی بے مروتی سے کہیں گزارہ نہ دیکھا تو ایران کا رخ کیا۔ جس وقت سے خاک ایران پر قدم رکھا۔ شاہ طہما سپ نے بساط مہمان نوازی کو ایسے اوجِ رفعت پر بچھایا۔ کہ کسی بادشاہ کا ہاتھ وہاں تک نہ پہنچا ہو گا۔ مصاحبان باوفا و امرائے خاص کو دربار سے بھیجا۔ اور راہ میں جو بیٹے اور امرائے عظیم الشان شہروں میں حکومت آتے تھے۔ انہیں حکم آیا کہ ایسے اور ایسے احترام و اعزاز کے سامان اور اس مقدر فوج لے کر اس طرح کے توزک اور آداب سے استقبال کریں۔ چنانچہ چھوٹے چھوٹے نوکروں کی امیروں سے بڑھ کر اور امیروں کی بادشاہوں کے برابر عظمت اور خاطر داری ہوئی۔ اور جو تعظیم و تکریم خود بادشاہ کی ہوئی۔ اس سے ورق در ورق تاریخیں رنگین ہیں۔ جس منزل میں شاہ بے سپاہ پہنچتا تھا۔ وہاں کا حاکم زرق برق سپاہ لے کر سرحد پر استقبال کو آتا تھا۔ نذر دے کر لگام کو بوسہ دیتا تھا۔ رکاب پر سر رکھتا تھا۔ اور ہاتھ باندھ کر ساتھ ہو لیتا تھا۔ پیدل چلتا تھا جب بادشاہ اشارہ کرتا تھا تو سوار ہوتا تھا اور لشکر سمیت پیچھے پیچھے چلتا تھا۔ جو محل اترنے کے لئے تجویز ہوتا تھا۔ اس کی آرائش و زیبائش میں نہایت تکلف ہوتا تھا۔ کوسوں تک مخمل و زربفت کا فرش پا انداز ہوتا تھا۔ جشن جمشیدی کے شکوہ سے دربار ہوتا تھا۔ شاہ ایران کے تمام امرا اور ملازم نذریں دیتے تھے۔ سواری کے وقت زر و گوہر نثار ہوتے تھے۔ لباس اسلحہ اور دسترخوان کے تکلفات کا بیان بے تکلف نہیں ہو سکتا۔ تمام قلمرو ایران میں شاہ کا حکم پہنچ گیا تھا۔ کہ کسی کی زبان پر شکست کا لفظ نہ آنے پائے۔ کہ مہمان عزیز کا دل آرزدہ ہو۔ ہرات میں شاہ ایران کا بیٹا فرماں روا تھا۔ اس نے بڑی دھوم دھام سے دعوت کی۔ باغ میں جشن سلطانی کی۔ موسیقی کے ماہر جادوگری کر رہے تھے۔ ایک صاح کمال نے غزل گانی شروع کی۔ مبارک منزلے کاں خانہ راما ہے چنیں باشد ہمایوں کشورے کاں عرصہ راشا ہے چنیں باشد شاہ طہما سپ ابن شاہ اسمعیل ابن سلطان حیدر ابن سلطان جنید۔ ابن سلطان۔ شیخ صدر الدین ابن ابراہیم ابن شیخ علی خواجہ ابن شیخ صدر الدین۔ ابن شیخ صفی الدین ابو اسحاق جو کہ شاہ صفی مشہور ہیں۔ ساری مجلس اچھل پڑی۔ مگر جب اس نے دوسرا شعر گایا۔ زرنج و راحت گیتی مشو غمگین مرنجاں دل کہ آئین جہاں گاہے چناں گاہے چنیں باشد اس پر ہمایوں کے آنسو نکل پڑے۔ اور سب دم بخود رہ گئے۔ اہل نظر نے یہ بھی لکھا ہے کہ خاکِ ایران جیسی گل انگیز ہے۔ ویسی ہی دانش خیز اور نکتہ ریز ہے۔ چنانچہ شاہ نے ایک ہاتھ سے مدارج مہماں نوازی کو اعلیٰ درجہ رفعت پر پہنچایا۔ دوسرے ہاتھ سے حفاظت ملک کے آئین میں انتہائی دور اندیشی کو کام فرمایا۔ وہ ہشیار ہو کیا کہ پانچویں پشت میں تیمور کا پوتا ہے۔ مبادا اس ملک میں آ کر بغاوت برپا کرے۔ اس واسطے وہ کرنا چاہیے۔ کہ جس کی نیک نامی سے تاریخوں کے صفحے سنہری ہو جائیں۔ اور سلطنت خطر سے محفوظ رہے۔ ظاہر میں جابجا استقبال ہوتے تھے۔ اور حقیقت میں دیکھو تو ہمایوں برابر نظر بند ہوتا چلا آتا تھا۔ شاہ بے لشکر اور سالار بے سپاہ نے قزوین سے بیرم خاں کو مراسلہ لکھ کر دربار شاہ کی طرف روانہ کیا۔ اس میں ایک قطعہ سلمان سادھی کا بھی لکھا جس کا مطلع ہے۔ خسروا عمریست تا عنقائے عالی طبع من قلۂ قافِ قناعت رانشمین کردہ است وغیرہ وغیرہ اور مقطع تھا التجا از لطف شہ وارم کہ بامن آں کند ہرچہ با سلماں علی دردشت ارژن کردہ است بیرم خاں دربار میں پہنچا۔ اور اپنی حسن رسائی اور جوہر دانائی کے ساتھ جواب باصواب لے کر آیا۔ شاہ نے حسن قدوم اور مضامین اشتیاقیہ کے ذیل میں یہ شعر بھی لکھا۔ ہمارے اوجِ سعادت بدام ما افتد اگر ترا گزرے برمقام ما افتد اس مراسلہ کو دیکھ کر شاہ بے لشکر خوش ہو گیا۔ اور لشکر گاہ شاہ کی طرف روانہ ہوا۔ کیفیت ملاقات کا ادا کرنا دشوار ہے۔ جب شہزادوں امیروں نے وہ طلسمات کئے۔ تو اس دربار کے جاہ و جلال کا کیا کہنا۔ کہ بادشاہ ہی مہمان ہو اور بادشاہ ہی میزبان۔ کہنے کے قابل یہ نکتہ ہے۔ کہ ایک دن دونوں بادشاہ برابر بیٹھے تھے۔ مگر ہمایوں کا دامن ذرا مسند سے باہر تھا۔ ندیم کو کلتاش کو تاب نہ آئی۔ اپنے ترکش کا غلام کہ زریں و زرتار تھا۔ کمر سے کاٹا اور خنجر سے چیر کر اپنے بادشاہ کے زیر زانو بچھا دیا۔ شاہ طہماسپ کو بھی یہ جوشِ وفاداری پسند آیا۔ ہمایوں سے کہا کہ ایسے باوفا جاں نثار تمہارے ساتھ تھے۔ پھر کیا سبب ہوا۔ کہ یہاں تک نوبت پہنچی۔ ہمایوں نے کہا۔ کہ ان کی رائے پر عمل نہ کیا۔ بھائی جو قوت بازو تھے۔ وہ آستین کا سانپ نکلے۔ بعض مورخ اس امر کو بیرم خاں کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ ایک اور جلسہ میں پھر شاہ نے ہمایوں سے پوچھا۔ کہ ایسی شکست اور تباہی کا سبب کیا تھا۔ ہمایوں نے پھر وہی کہا۔ کہ نفاق برادران، شاہ نے کہا کہ اس ملک کے لوگوں نے رفاقت نہ کی۔ ہمایوں نے کہا کہ وہ لوگ غیر قوم، غیر مذہب، غیر جنس ہیں۔ ان سے اور ہم لوگوں سے اتفاق ممکن نہیں۔ شاہ نے کہا کہ جب بادشاہ غیر قوم کے ملک میں داخل ہو تو پہلا قدم مصلحت کا یہ ہے کہ ان سے اتحاد اور یگانگی پیدا کرے۔ اب کی دفعہ کریم و کارساز کرم کرے۔ تو ضرور اس بات کا لحاظ رکھنا۔ تھوڑی دیر میں دستر خوان بچھا۔ سام مرزشا طہما سپ کا بھائی کمربستہ کھڑا تھا۔ سلابچی و آفتابہ سامنے لایا۔ اور ہاتھ دھلوائے۔ شاہ نے ہمایوں کی طرف دیکھ کر کہا کہ بھائیوں کو اس طرح رکھتے ہیں۔ ان تقریروں میں کسی موقع پر بہرام مرزا۔ شاہ طہما سپ کا دوسرا بھائی بھی موجود تھا۔ اسے ہمایوں کی بعض باتیں ناگوار گزریں۔ اس لئے اندر ہی اندر ایسی تدبیریں شروع کیں کہ شاہ امداد کے ارادے سے رک گیا۔ بہرام مرزا نے یہ بھی کہا کہ یہ اسی باپ کا بیٹا ہے۔ جو کئی ہزار قزلباش کو کمک کے لئے لے گیا۔ اور اذبکوں سے قتل کروا کر بھاگ آیا۔ ایک ان میں سے جیتا نہ پھرا۔ یہ اسی فوج کا اشارہ تھا کہ شاہ اسمعیل سے بابر نے دوبارہ مدد مانگی۔ انہوں نے نجم ثانی کی سپہ سالاری سے لشکر روانہ کیا۔ اور وہ سارا لشکر سر لشکر سمیت وہیں فنا ہوا۔ اور حقیقت میں بابر نے بھی غضب کیا تھا۔ پہلی فتح میں جب ملک اس پر بغاوت کر کے اٹھ کھڑا ہوا تھا تو الزام یہی لگایا تھا کہ بابر رافضیوں کے لشکر کو چڑھا کر لایا ہے۔ اور خود بھی رافضی ہو گیا ہے۔ جب دوسری فوج کشی میں نجم ثانی مع فوج فنا ہوا۔ تو بابر نے اپنے مضمون کا رنگ بدلا۔ اور کہا کہ میں ان لوگوں کو تمہاری تلوار کا طعمہ کرنے کو لایا تھا۔ اس مضمون کی زبانی فہمائشیں کیں۔ مراسلے اور پیغام بھیجے۔ بلکہ قلعہ قرش کے محاصرہ میں ایک کاغذ کا پرچہ تیر میں باندھ کر اندر سے پھینکا۔ اس پر یہ شعر لکھ دیا تھا۔ صرفِ راہِ اذبکاں کردیم نجم شاہ را گر گنا ہے کر دۂ بودم پاک کر دم راہ را ہمایوں نے جب یہ حال سنا۔ تو متاسف اور متحیر ہوا۔ شاہ کی ایک بہن نہایت دانا تھی بلکہ امورات سلطنت میں اس کی رائے شریک ہوتی تھی۔ اس کی طرف رجوع کیا۔ نیک نیت بیگم نے اپنے بھائی شاہ طہماسپ کو سمجھایا۔ ہمایوں نے خود بھی اشعار لطیف کہہ کہہ کر شاہ کو شگفتہ کیا۔ چنانچہ ایک رباعی کی دوسری بیت ہے۔ کہ فی الحقیقت شاہ بیت ہے۔ شاہاں ہمہ سائیہ ہما میخوا ہند بنگر کہ ہما آمدہ در سائیہ تو ایک موقع پر ہمایوں کی رباعی بیگم نے شاہ کو سنائی اور اسی کو سفارش کا ذریعہ کیا ہستیم زجاں بند اولاد علی ہستیم ہمیشہ شاد با یاد علی چوں سر ولایت از علی ظاہر شد کر دیم ہمیشہ درد خود ناد علی شاہ پھر خوش ہو گیا۔ اور شکاروں کے جلسوں میں شامل کرنے لگا۔ کئی برس کے بعد رخصت کیا۔ دس ہزار فوج قزلباش، شاہزادہ مراد طفیل شیر خوار کے نامزد کی۔ بداغ خاں افشار کو شہزادہ کا اتالیق اور سپہ سالار کیا۔ باوجود اس کے آئین احتیاط کو بال بھر نہ سرکایا۔ فوج کو اور رستے بھیجا۔ اور ہمایوں کو اور رستے۔ کہہ دیا کہ سرحد پر لشکر مذکور تمہارے ساتھ شامل ہو گا۔ چنانچہ ہمایوں اردبیل سے شاہ صفی کے مزار پر فاتحہ پڑھتا۔ تبریز سے ہوتا۔ مشہد مقدس میں پہنچا اور سرحد پر فوج کو تیار پایا۔ (ملا صاحب بھی کسی سے نہیں چوکتے۔ ہمایوں کے حال میں فرمائے ہیں) ایک شبا روضہ مقدس کے صحن میں اکیلا ٹہلتا پھرتا تھا۔ سنا کہ ایک زائر دوسرے زائر سے کہتا ہے۔ (چپکے سے) باز دعویٰ خدائی مے کنی! یہ اشارہ تھا کہ جب ہمایوں بعالم جاہ و جلال ملک بنگالہ مین تھا۔ تو ایک سرا نقاب کا تاج پر ہوتا تھا۔ باقی چہرہ پر ہوتی تھی۔ نقاب جس وقت الٹتا تھا تو اران دولت کہتے تھے۔ بجلی شد اور ایسی بہت باتیں ہوتی تھیں۔ ایک دن تلوار کو دریا میں دھویا اور کہا تلوار کس پر باندھوں ہے کون؟ اہل تاریخ لکھتے ہیں کہ شاہ جو ہمایوں سے کشیدہ خآطر ہوا۔ اس میں ایک سبب یہ بھی شامل تھا۔ کہ ہمایوں سے مذہب شیعہ اختیار کرنے کی فرمائش کی گئی تھی۔ اور کہا گیا تھا کہ جہاں جہاں تمہاری عملداری ہو۔ وہاں مذہب مذکور کو رواج دو۔ ہمایوں نے اس میں عذر بیان کئے تھے۔ باوجود اس کے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے مذہب میں ایسا چست و درست نہ تھا جیسا کہ ایک پکے سنت جماعت کو ہوناچاہیے۔ چنانچہ فرشتہ اور خافی خاں لکھتے ہیں۔ لطیفہ۔ جب وہ اور منافق بھائی شیر شاہ کے مارے نکالے لاہور میں آئے۔ تو ایک دن ہمایوں اور کامران ساتھ ہاتھی پر سوار چلے جاتے تھے۔ رستہ میں دیکھا۔ کہ ایک کتے نے ٹانگ اٹھا کر ایک قبر پر موتا۔ کامران نے کہا (شاید طنز سے کہا ہو) معلوم ہے شود کہ ایں قبر رافضی است۔ ہمایوں نے کہا۔ البتہ سگ سنی باشد۔ یہ بھی عجب نہیں کہ کلام مذکور ایک لطیفہ کے طور پر زبان سے نکل گیا ہو۔ عقیدہ کو اس سے کچھ تعلق نہ ہو۔ مگر اس سے لطیف تر یہ نکتہ ہے۔ (لیکن اس سے بھی ہمایوں کا تشیع نہیں ثابت کر سکتے)۔ نکتہ تاریخی۔ جب ہمایوں نے ایران سے آ کر افغانستان کو تسخیر کیا۔ تو ابھی کابل ہی میں تھا۔ جو ہندوستان میں اس کی کامیابی اور فتوحات کے چرچے ہونے لگے۔ اسے علما و فضلا سے محبت تھی۔ اور اہل شریعت کے ساتھ بہت تعظیم و اداب کے ساتھ پیش آتا تھا۔ تمام علما و مشائخ آمد آمد کی خبریں سن کر خوش ہو گئے۔ نامے گئے۔ پیام پہنچے۔ مخدوم الملک نے موزے اور قمچی تحفہ بھیجے (یہ رمز تھی کہ موزے چڑھاؤ اور گھوڑے کو قمچی کرو) جو زیادہ دور اندیش تھے۔ وہ خود چلے کہ جتنی دور بڑھ چڑھ کر ملیں گے۔ اتنے ہی یہاں آ کر زیادہ حقدار ہوں گے۔ شیخ حمید سنبلی۔ ایک عالم۔صاحب تفسیر تھے۔ خود کابل میں جا کر ملے۔ بادشاہ کو ان سے اعتقاد تھا۔ انہوں نے ایک دن جوش جذبہ میں فرمایا۔ بادشاہم! تمام لشکر شمارا رافضی دیدم۔ بادشاہ نے کہا۔ شیخ چراہم چنیں میگوئید؟ وچہ قصہ است؟ شیخ نے فرمایا۔ در ہرجانام لشکریان شمادریں مرتبہ ہمہ یار علی مہر علی کفش علی و حیدر علی یافتم سے کس رامذیدم کہ بنام یاران دیگر باشد۔ ہمایوں اس وقت تصویر کھینچ رہا تھا۔ ایسا جھنجھلایا کہ مارے غصہ کے موقلم زمین پر پٹخ دیا۔ اور کہا نام پدر کلان من عمر شیخ است دیگر نمیدانم۔ اتنا کہہ کر حرم سرا میں چلا گیا۔ لیکن پھر آ کر ملائمت اور نرمی سے شیخ کو اپنے حسن عقیدہ پر آگاہ کیا۔ آزاد پہلے جب یہ نقل تاریخ بدایونی میں دیکھی تھی۔ تو میں حیران ہوا تھا کہ ہمایوں جیسا متحمل اور خوش اخلاق بادشاہ اور مقابل میں ایک عالم شرع اور مفسر اور خود بھی اس سے اعتقاد اس کی اتنی سی بات پر اتنا جھنجھلایا۔ اس کا سبب کیا؟ یہ تو ایک لطیفہ تھا۔ لیکن جب دو دفعہ ایران کی مدد سے بابر کا سمرقند و بخارا پر جانا۔ اور وہاں سے تشیع کی علمت میں نکالا جانا کتابوں میں دیکھا۔ اور تاریخ رشیدی وغیرہ سے اس کی زیادہ تفصیل معلوم ہوئی۔ اس وقت میں سمجھا۔ کہ جب یہ لفظ شیخ کی زبان سے نکلا ہو گا۔ تو ہمایوں کو باپ کی حالت اور علالت یاد کر کے خدا جانے کیا کیا خطرناک اندیشے پیدا ہوئے ہوں گے۔ وہ ڈرا ہو گا کہ اگر بھائیوں کو یہ مضمون سوجھ جائے۔ یا کسی سے سن پائیں۔ اور افغانوں کو بہکائیں تو بھی بنا بنایا کام بگڑ جائے۔ اس صورت میں جتنا جھنجھلاتا اور گھبراتا بجا تھا۔ اور یہی سبب تھا کہ پھر حرم سرا سے نکل کر شیخ موصوف کی دل جوہی و دلداری کی۔ اور اپنے عقائد اس کے ذہن نشین کئے۔ کہ مبادا یہ خفا ہوئے ہوں۔ اور مجھے بھی افضی سمجھ کر آرزدہ ہوں۔ یہی باتیں اور کسی کے سامنے ان کی زبان سے نکل جائیں۔ تو خدا کی پناہ۔ اس کی بھڑکائی ہوئی آگ کو کون بجھا سکے گا۔ اور شیخ موصوف نے بھی سچ کہا تھا۔ ہمایوں کے اکثر ہمراہیوں کے نام ایسے ہی تھے۔ بلکہ گدا علی، مسکین علی، زلف علی، پنجۂ علی، درویش علی، محب علی وغیرہ نام جو جابجا تاریخوں میں آتے ہیں۔ وہ انہوں نے نہیں لئے۔ یہ لوگ بابر کے ساتھ ایران سے آئے ہوں گے۔ یا ہمسائیوں کے ہمراہ ہوں گے۔ ہزارہ جات، ابل کے لوگ بھی تمام شیعہ ہیں۔ اور افغانوں کی اور ان کی ہمیشہ عداوت ہتی ہے۔ یہ بھی عجب نہین کہ افغانوں کو کامران کے ساتھ دیکھ کر ہزارے ہمایوں کے ساتھ گئے ہوں۔ ہمایوں جو ان لوگوں کو ساتھ رکھتا تھا۔ یہ بھی مصلحت سے خالی نہ تھا۔ کیونکہ بھائیوں سے مقابلہ تھا۔ اور افغان ان کے ساتھ تھے۔ ترکوں کا کچھ اعتبار نہ تھا۔ ابھی ادھر۔ ابھی ادھر۔ دونوں ان کے گذر تھے۔ ایرانیوں اور شیعہ مذہب کے لوگوں سے یہ امید نہ تھی۔ کیونکہ تورانیوں یا افغانوں سے ان کا اتفاق ناممکن تھا۔ اور ابتک یہی حال ہے۔ ہمایوں کی سلطنت کا زمانہ اہل تاریخ ۱۵۵۳ سے ۱۵۵۶ تک بیان رتے ہیں۔ لیکن حقیقت میں ہمایوں کی سلطنت صرف تقریباً گیارہ برس رہی۔ یعنی پہلی مرتبہ ۱۵۳۰ سے ۱۵۴۰ء تک اور دوسری مرتبہ چند مہینے ۱۵۵۶ء میں۔ ۱۵۴۰ء سے ۱۵۵۶ء تک کا کل زمانہ ہمایوں نے جلا وطنی میں گزارا۔ اس زمانہ میں ہندوستان کی حکومت شیر خان افغان اور اس کے جانشینوں کے ہاتھ میں رہی۔ ۱۵۵۶ء میں ہمایوں نے ایرانیوں کی مدد سے ہندوستان پر دوبارہ چڑھائی کی۔ اور لاہور تک آن پہنچا۔ اور سکندر لودھی کو کوہستان شمالی میں بھگا کر دہلی اور آگرہ پر متصرف ہو گیا۔ لیکن اسی سال میں کہ اس کی فتح کو چھ ماہ ہی گزرے تھے۔ وہ اپنے کتب خانہ کے زینہ سے گر کر جاں بحق ہوا اور ہمایوں بادشاہ ازبام افتاد تاریخ ہوئی۔ عبد اﷲ خاں اذبک عمدہ سردار تھا۔ اور ہمایوں کے عہد سے ملازمت میں تھا۔ اور خدمتیں بجا لاتا تھا۔ جب ۹۶۸ھ میں پیر محمد خآں پانی کے رستے ملک عدم کو روانہ ہوئے۔ اسے بلایا۔ تو باز بہادر وہاں کے فرماں روائے قدیم نے پھر آ کر مالوہ کو مار لیا۔ امرا اس کے مقابلے میں نہ ٹھہر سکے۔ دربار کو بھاگ آئے۔ یہاں علامت پھٹکار کی مار کھا کر قید ہوئے۔ چند روز بعد نکل ائے۔ بادشاہ نے عبد اﷲ خاں اذبک کو مع چند امرا کے فوج دے کر بھیجا۔ اس نے جنگ مردانہ کے ساتھ باز بہادر کو بھگا دیا۔ اور ملک پر قبضہ کر لیا۔ امرا اپنے اپنے علاقوں کو چلے گئے۔ ۹۷۱ھ میں اکبر ہاتھیوں کے شوق میں شکار کے لئے نرور کے جنگل میں گئے۔ کہ وہاں ان کی بہتات تھی۔ عجب عجب ایجادوں کے ساتھ بڑے بڑے دیوزاد پکڑے۔ اور سارنگ پور کے رستے سے مندو کے علاقہ میں آ کر قیام کیا۔ عبد اﷲ خاں اذبک کو یا تو یہ خیال ہوا کہ ملک مفتوحہ کے خزانوں اور اجناس خانوں کے انبار دربار میں نہیں پہنچے۔ یا ان کے حساب کتاب دینے سے گھبرایا۔ یا کچھ اور امر بادشاہ کی خلاف مرضی ہو گئے۔ غرض تمام اہل و عیال اور دولت و مال لے کر مندو سے نکلا۔ اور گجرات کو چلا۔ بادشاہ نے مقیم بیگ کو شجاعت خاں بنایا۔ اور فوج دے کر روانہ کیا کہ اسے سمجھا کر لے آؤ۔ (وہی تردی بیگ کے بھانجے) شجاعت خآں کیا تھا اور ان کا سمجھانا کیا تھا۔ بات بگڑ کر بڑھ گئی۔ اور ہر اول سے ایک جھپٹ بھی ہوئی لیکن اکبر کی یلغار کا ڈر تھا۔ کہ پاس ہی موجود ہے۔ اس لئے بھاگ کر گجرات میں گیا۔ اور چنگیز خاں ذائی گجرات کی پناہ میں جا بیٹھا۔ اکبر نے بہت چاہا۔ کہ پرانا خدمت گزار ہے آ جائے۔ لیکن کوشش کار گر نہ ہوئی۔ مقیم بیگ پیچھے پیچھے گجرات تک چلے گئے تھے۔ اس کے اہل و عیال پکڑ لئے۔ ہاتھی گھوڑے نقد و جنس جو ہاتھ آیا چھین لائے۔ جو رہا سو نصیب اعداد جنگلوں کے گنوار بھیل مینے۔ سکندر خاں اذبک اودھ میں اس کی جاگیر تھی۔ کہنے والوں نے اکبر سے کہا کہ یہ بھی افغانوں کے مال مار کر مال زادہ ہو گیآ ہے۔ اور طور بھی بے طور نظر آتے ہیں۔ چنانچہ بھائی کے ساتھ اس کا بھی اعتبار گیا۔ ادھر اس نے خآں زماں سے پیغام سلام کر کے اتفاق کر لیا۔ اکبر کو سب خبریں پہنچتی تھیں۔ اور اصلیت سے زیادہ گل پھول لگ کر پہنچتی تھیں۔ اتفاق یہ کہ عبد اﷲ خاں اذبک اس وقت توران میں کمال اولو العزمی سے سلطنت کر رہا تھا۔ اس لئے بادشاہ کو فرقہ مذکور کے نام سے بدگمانی اور بیزاری تھی۔ فہمائش کے لئے اشرف خاں میر منشی حضور کو بھیجا۔ کہ عفو تقصیر کی امید سے خاطر جمع کرو۔ اور سمجھا کر لے آؤ۔ وہ میر منشی کو بھی انشا پردازی سکھانے والا تھا۔ اس نے باتوں میں لگا لیا۔ اور کہا کہ ابراہیم خاں ہم سب کا بزرگ ہے۔ اس سے گفتگو کر لوں۔ تو جواب دوں۔ اس کی جاگیر ہر ہر پور میں تھی۔ اشرف خاں کو بھی وہاں لے گیا اور وہاں سے خاں زمان کے پاس جون پور پہنچا۔ کہ سب مل کر جواب دیں گے۔ میر منشی حضور ہیں کہ نظر بندوں کی طرح ساتھ ساتھ پڑے پھرتے ہیں۔ خان زمان نے جو بغاوت کا خاکہ ڈالا تھا۔ اس میں سکندر خاں ملک مالوہ کے لئے تجویز ہوا تھا۔ جب خان زمان مارا گیا۔ تو اکبر نے محمد قلی برلاس اور مظفر خاں کو فوج دے کر اس کے پیچھے بھیجا۔ وہ بہت مضطرب ہوا۔ اور سارے اذبک گھبرا گئے۔ صلح کا پیام بھیجا۔ دونوں امیروں سے ملاقات ہوئی۔ مگر گور کھپور کی طرف بھاگ کر عملداری بادشاہی سے نکل گیا۔ بادشاہ بھی چپکا ہو رہا۔ ۹۷۹ھ میں حاضر خدمت ہوا۔ اور خطا معاف ہو گئی۔ مگر اپنی جاگیر پر جاتے ہی مر گیا۔ عبد اﷲ نیازی سرہندی نیازی افغانوں میں ایک فرقہ ہے میاں عبد اﷲ پہلے شیخ سلیم چشتی کے مرید تھے۔ فتح پور میں جو شیخ کی نئی خانقاہ ہے۔ اس کے برابر ایک حجرہ میں اعتکاف سے بسر کرتے تھے۔ وہی حجرہ تھا۔ کہ ایک دن چار ایوان بن گیا۔ عبادت خانہ کہلایا۔ اس کے پاس محل بادشاہی بلند ہوئے۔ پہلی دفعہ جو شیخ سلیم چشتی خشکی کے رستے حج کو جا کر پھر آئے۔ تو میاں نے حج کی اجازت لی۔ شیخ عرب و عجم اور ہند مین جن جن مشائخ و اہل اﷲ سے ملے تھے۔ سب کے نام اور کچھ کچھ حال ایک طومار میں لکھ لائے تھے۔ میاں وہ فہرست لے کر اکثر شہروں میں پھرے بہت سے مشائخ سے ملاقات کی۔ اور پھر ہندوستان میں آئے۔ گجرات دکن پہنچے۔ تو دیکھا کہ میر سید محمد جنپوری کی مہدویت نے زور شور کر رکھا ہے۔ میان ان کے معتقدین سے ہے۔ اور وہی طریقہ اختیار کیا۔ سلیم شاہ کا زمانہ تھا۔ تو بیانہ میں گمنامی اور آزلوی اور بے پرواہی اور بے تکلفی کیساتھ بسر کرتے تھے۔ اور عام فقرا کی طرح گزارہ کرتے تھے۔ جب شیخ علانی کے معاملہ نے طول کھینچا۔ اور مخدوم الملک کے اغوا سے سلیم شاہ نے بہت ستایا۔ اور نہایت سخت مار دھاڑ کی تو وہاں سے نکل گئے۔ اور اطراف عالم میں سیاحی کرتے رہے۔ اخیر میں مہدویت سے توبہ کر کے سرہند میں گوشہ نشین ہو بیٹھے۔ مشائخ کی طرح رہتے تھے اور اﷲ اﷲ کرتے تھے۔ اکبر نے جب ان کے حجرہ پر چار ایوان تعمیر کر کے عبادت خانہ نام رکھا۔ اور علما کے مجمع ہونے لگے۔ تو ایک تقریب سے ان کا بھی وہاں ذکر آیا۔ بادشاہ نے بلا بھیجا۔ تنہائی میں ملاقات کی اور باتیں چیتیں پوچھیں۔ انہوں نے عقائد مہدویت سے انکار کیا۔ اور کہا کہ پہلے یہ لوگ مجھے بہت اچھے معلوم ہوئے۔ اس لئے مائل ہوا تھا۔ پھر حقیقت اصلی روشن ہوئی۔ اس لئے انکار کیا۔ بادشاہ نے عزت سے رخصت کر دیا۔ ۹۹۳ھ میں اٹک کو سواری جاتی تھی۔ سرہند میں اترے تو انہیں پھر بلایا اور مدد معاش میں زمین دینی چاہی۔ انہوں نے قناعت کی دستاویز دکھا کر قبول نہ کی۔ بادشاہ نے آپ ہی ان کے اور ان کے فرزندوں کے نام پر مقام سرہند میں ایک قطعہ زمین عنایت فرمایا۔ اور فرمان لکھوا کر حوالہ کر دیا۔ حکم شاہی کی اطاعت سمجھ کر لے لیا۔ مگر اپنے توکل کا شیوہ نہ چھوڑا۔ اور فرمان سے کچھ کام نہ لیا۔ آخر کام تمام ہو گیا۔ (ملا صاحب کہتے ہیں) جب ابراہیم مرزا احمد آباد گجرات سے بغاوت کر کے بھاگا۔ اور ہندوستان سے لوٹتا مارتا پنجاب کو چلا۔ حسین خاں پیچھے پیچھے دھاوا مارے آتا تھا۔ اور میں بھی ساتھ تھا۔ تب سرہند میں دیکھا۔ احیاء العلوم سامنے تھی۔ اور اسی پر ان کا مدار تھا۔ (ملا صاحب کا نشتر کہیں نہیں چوکتا۔ ایک کو چامار ہی جاتا ہے) کچھ فوائد بیان کر رہے تھے۔ محمود خاں ایک دوست کہ سلیم شاہ کے عہد سے میرا یار تھا۔ اور ان دونوں شیخ علائی کی برکت سے اس جوش کی دینداری اس میں سمائی تھی۔ کہ ہر مجمع و محفل میں ابلتا پھرتا تھا۔ اور جہاں شیخ کا ذکر آتا شمشیر برہنہ بن کر سامنے ہو جاتا تھا۔ شوخ طبع شیخ مبارک نے اسے سیف اﷲ خطاب دیا تھا۔ حسن اتفاق یہ کہ اس وقت بھی ہمراہ تھا۔ اس نے پوچھا۔ کہ حضرت دل کیا شے ہے؟ بولے کہ ہم اس سے ہزاروں منزلیں دور پڑے ہیں۔ کیا پوچھتے ہو۔ کوئی اخلاق کی بات کہو۔ پھر میر سید محمد جونپوری قدس اﷲ روحہ کے ذکر میں ایک بڈھے مغل کو حاضر کیا اور اس سے گواہی چاہی۔ اس نے کہا کہ جب میر سید موصوف نے فراہ میں رحلت کی تو میں خود حاضر تھا۔ انہوں نے دعوے مہدویت سے انکار کیا۔ اور کہا کہ میں امام مہدی نہیں ہوں۔ محمود خاں چپکے چپکے کہہ رہا تھا۔ واہ میاں عبد اﷲ عجب کام کیا۔ بچارے شیخ علائی کو مفت قتل کروایا۔ آپ الگ ہو گئے۔ آخر میاں عبد اﷲ نے بھی ۹۰ برس کی عمر ۱۰۰۰ھ میں رحلت فرمائی۔ عجب دنیا ہے اور عجب اہل دنیا۔ مگر کیا کیجئے۔ یہاں کبھی ایسی صورتیں پیش آتی ہیں کہ انسان کی عقل گم ہو جاتی ہے۔ ملا صاحب مہدویت کا ذکر ہر جگہ اور یہاں بھی سید محمد جونپوری اور میاں عبد اﷲ کا ذکر ایسے ادب اور تعظیم کے لفظوں سے کرتے ہیں۔ گویا ان کی حالت کو دل سے پسند کرتے ہیں۔ مگر اس میں کچھ شبہ نہیں کہ وہ مہدی نہ تھے۔ البتہ یہ لوگ اتقا اور پرہیز گاری میں حد سے گزرے ہوئے تھے۔ اور ملا صاحب ابتاع شریعت کے عاشق تھے۔ اس لئے ان کے باب میں اچھے لفظِ قلم سے ٹپک جاتے ہیں۔ اور لطف یہ ہے کہ جہاں موقع پاتے ہیں۔ چٹکی بھی لے جاتے ہیں۔ چوکتے کسی سے نہیں۔ فصلی سن کی بابت فرمان تاریخ سے اصل مطلب عہد مہمات کی آگاہی اور معاملات کی آسانی ہے۔ کہ حساب میں غلطی اور باہم تکرار نہ ہو۔ مثلا ایک شخص نے جائیداد بیچی یا گروی رکھی۔ یا کچھ قرض لیا۔ مدت اس میں چار سال چار مہینے قرار پائی ہے۔ اب ظاہر ہے۔ کہ جب تک تاریخ کی ابتدا نہ لکھی جاوے۔ تب تک معیاد کا گزرنا یا باقی رہنا بالکل معلوم نہیں ہوتا۔ اور جب معاملہ کو زیادہ مدت گزر جاتی ہے۔ اور شمار برسوں کا بہت ہو جاتا ہے۔ تو حساب بھی بڑھ جاتا ہے۔ پھر شمار سال کے نکالنے میں اور بھی دقت اٹھانی پڑتی ہے۔ بلکہ جس قدر نئے سال اور تھوڑے ہی سنہ ہوں کاروبار والوں کو آسانی ہوتی ہے۔ واقفان کتب تواریخ یہ بھی جانتے ہیں کہ عالم میں جو تاریخیں اور سنہ رائج ہیں۔ یہ سلاطین اور لوالعزم اور شاہان فتح یاب نے اپنے اپنے وقت میں قرار دئے ہیں۔ اور اہل معاملہ کے بار تکلیف کو ہلکا کیا ہے۔ غور کر کے دیکھو کہ تاریخ ہجری کیا شے ہے۔ یہ درحقیقت وہ سال ہے جس میں اعداے اسلام کے زور اور غلبہ نے حضرت سے وطن اور گھر چھڑوایا ہے۔ اب اسے ہزار برس کے قریب ہو گئے۔ ہندی تاریخ کو پندرہ سو سے زیادہ ہو چکے۔ سکندری و یزدجردی ہزاروں سے گزر گئے۔ معاملات اور مقدمات میں ان کا لکھنا اور کہنا بھی مشکل معلوم ہوتا ہے۔ خصوصاً عوام الناس کو کہ انہی کے کام بہت ہوتے ہیں۔ ہندوستان کے مختلف قطعوں میں مختلف سنہ رائج ہیں۔ بنک بہار میں آغاز حکومت لچھمن سے لیا ہے۔ جسے آج تک چار سو پندرہ برس گزرے۔ گجرات دکھن میں سالباہن سے لیا ہے۔ اسے ۱۵۰۶ برس ہوئے۔ مالوہ اور دلی وغیرہ میں سنہ بکر ماجیت ہے۔ اسے سنہ ۱۶۴۱ ہوئی۔ کانگڑہ کے پہاڑوں میں جو راجہ کوٹ کانگڑہ میں راج کرے۔ اسی کے جلوس کا سنہ سارے پہاڑ میں چلتا ہے۔ اور ان لوگوں کی حقیقت اور قدر و منزلت خود ظاہر ہے کہ کیا تھی اور کیا مرتبہ رکھتے تھے۔ اور یہی ظاہر ہے کہ تاریخ ہائے ہندی کا کوئی سنہ کسی واقعہ عظیم کی بنیاد پر نہیں ہے۔ اسی بنیاد پر حضور میں معروض ہوا۔ کہ اگر کوئی نیا سنہ قرار دیا جائے۔ تو عامہ خلائق کے لئے آسانی ہو جائے۔ اور جابجا جو اختلاف ہے۔ وہ بھی رفع ہو جائے۔ پرانی تاریخوں سے واضح ہوتا ہے۔ کہ نیا سنہ اکثر وقائع عظیم یا کسی ملت قویم کے قائم ہونے سے شروع ہوتا ہے۔ الحمد اﷲ اس سلطنت عالی میں وقائع عظیم اور مہمات جسیم اور استوار قلعے اس قدر فتح ہوئے ہیں۔ کہ ایک ایک بات کو آغاز سنہ کی بنیاد قرار دیں تو زیبا ہے۔ لیکن ہم نے اپنی تاریخ جلوس پر بنیاد رکھی۔ ملک شاہ کے زمانہ میں اعداد سال کچھ زیادہ نہیں ہوئے تھے۔ اس نے آسانی خلائق کا خیال کر کے تاریخ جلالی وضع کی۔ اور وہی سنہ ممالک عرب و عجم اور ترکستان اور خراسان اور ایران کی تقویموں میں جاری ہے۔ اور عالم کے دین دار اور اہل دیانت ہر عہد میں وہی لکھتے رہے۔ ان مراتب پر نظڑ کر کے اہل التجا کی عرض قبول ہوئی۔ اور سال جلوس کے پہلے نو روز سے سنہ شروع کیا گیا۔ اور تقویم اور پتری دانوں کو چاہیے کہ جس طرح عربی، رومی، فارسی جلالی سنہ اپنے کاغذوں میں لکھتے ہین۔ تاریخ جدید کو بھی لکھا کریں کہ آسانی کے دروازے کھل جائیں اور پتروں میں بجائے مختلف تاریخوں کے خصوصاً سمت بکر ماجیت کی جگہ یہی تاریخ لکھی جائے۔ رنگ برنگ کی تاریخیں کاغذات معاملات میں موقوف ہو جائیں۔ ہندوستان کی تقویموں میں سال شمسی ہوتے ہیں۔ اور مہینے قمری۔ اب مہینے بھی شمسی لکھا کریں۔ کہ حساب میں صفائی رہے۔ احتیاط اور اہتمام اور تسہیل اور مبارک شگون سمجھ کر ہر تقویم کو مہر اشرف سے مزین کر کے بھیجتے ہیں۔ اسی کے بموجب عمل درآمد ہو۔ آزاد ہندو مسلمان مین صدہا سال سے تلوار درمیان چلی آتی ہے۔ جو جو سنہ اس وقت ہندوستان میں اپنے اپنے مقام پر رائج تھے۔ اگر انہیں موقوف کر کے حکماً ہجری سنہ جاری کر دیتے تو ہنود کو سخت ناگوار گزرتا۔ مصلحت اندیش بادشاہ نے سب مذہبوں سے قطع نظر کیا۔ اپنے منہ کا نام سنہ الہی رکھ دیا۔ اﷲ کا نام کسے ناگوار ہو سکتا تھا۔ اس نے اپنی محبت، ہمدردی اور بے تعصبی سے دلوں میں گھر کر رکھا تھا۔ کوئی اصلا ناخوش نہ ہوا۔ اور دیکھو! ناخوش ہوئے تو کون ہوئے۔ جو اسی کی بدولت اسلام کے رشتہ دار بنے بیٹے تھے۔ اور پیغمبروں کی میراث کے دعوے رکھتے تھے۔ اور اسی کو کافر بناتے تھے۔ آفرین ہے۔ اس حوصلہ پر۔ اکبر سب کچھ سنتا تھا۔ ان قباحت فہموں کی باتوں پر کیا کہتا ہو گا۔ خون جگر پیتا ہو گا۔ اور رہ جاتا ہو گا۔ میرے دوستو! عامہ اہل عالم سے معاملہ اور رعایا کے ساتھ علاقہ رکھنا بڑا نازک مقدمہ ہے۔ تھوڑی تھوڑی باتیں ہوتی ہیں۔ کہ عام خیالات میں آ کر انسان کو محبوب الخلائق کر دیتی ہیں۔ ذرا ذرا سی باتیں ہوتی ہیں۔ جن سے سب کے دل متنفر ہو جاتے ہیں۔ انتہا ہے کہ بغاوت عام اٹھ کھڑی ہوتی ہے۔ جو لوگ جاننے والے ہیں۔ وہ باتوں کے ذریع توپوں اور تلواروں کے کام لیتے ہیں۔ ۹۹۳ھ میں سال الٰہی ایجاد ہوا۔ مگر شروع سال اردی بہشت سن جلوس سے رکھا گیا۔ اور آئندہ کا نوروز لیا کہ جلوس کے پچیس ہی دن بعد ہوا تھا۔ اسی حساب پر کاغذات دفتر اور تصنیفات میں تحریر جاری ہوئی۔ ریاضی داں اور ہئیت شناس جمع ہوئے۔ سنہ قمری کے مطابق دنوں کی کمی بیشی کے حساب پھیلائے۔ جس جلسہ کے دائرہ میں یہ مبارک کار گردش میں آئی۔ میر فتح اﷲ شیرازی اس کے مرکز میں صدر نشین تھے۔ قاضی نظام بدخشی مخاطب بہ غازی خاں پہلے مرزا سلیمان کے پاس بدخشاں مین تھے۔ اور امرا میں داخْ تھے۔ جس گاؤں میں رہتے تھے۔ اس کے پاس ہی کان لعل ہے۔ علوم متداولہ میں مولانا عصام الذین کے شاگرد تھے۔ ملا سعید سے علوم دینی حاصل کئے تھے۔ شیخ حسین خوارزمی ادھر کے ملکوں میں بڑے نامی مشائخ تھے۔ طریقت میں ان سے بیعت تھے۔ ۹۸۲ھ میں یہ اور فیروزہ کابلی دربار اکبری میں پہنچے۔ بادشاہ خان زماں کی مہم طے کر کے جونپور سے پھرے آتے تھے۔ خانپور کے مقام پر ملازمت ہوئی کہ ملا صاحب نے پہلی ہی نظر میں پرکھ لیا تھا طنز سے تاریخ کہی دانا سے بدخشی۔ لکھتے ہیں کہ اعلم علمائے ماوراء النہر و بدخشان تھے۔ علم تصوف سے بہرہ وافر رکھتے تھے۔ بدخشاں میں بھی صاحب عزت تھے۔ اور امرا میں شمار ہوتے تھے۔ یہاں آتے ہی کمر شمشیر مرصع، پانچ ہزار روپے نقد انعام پائے۔ مادہ قابل تھا۔ اور زمانہ کا مزاج پہچان لیا تھا۔ جلد رنگ چڑھ گیا۔ چار ایوان کے جلسوں میں علما سے اکثر معرکے مارے اور قاضی خاں ہو گئے۔ جہاد کی تلوار کمر سے باندھ کر میدان جنگ میں پہنچے۔ چند روز میں قاضی خاں سے غازی خاں ہو گئے۔ ہزاری منصب مل گیا۔ اور اس پر بڑے خوش ہوتے تھے۔ ملا صاحب کا یہ لکھنا بھی چوٹ سے خالی نہیں۔ کیونکہ ہزار بیگھہ جاگیر کی بدولت یہ بھی اپنا ہزاری کا وزن سمجھتے تھے۔ غازی خاں ہر قسم کی لیاقت رکھتے تھے۔ چھوٹے چھوٹے علاقوں کے انتظام بھی سنبھال لیتے تھے۔ اور سپہ سالاروں کے ماتحت میدانوں میں بھی بہادری دکھاتے تھے۔ فیروزہ کے باب میں ملا صاحب فرماتے ہیں۔ کچھ نہ کچھ طالب علمی کا وقوف رکھتا تھا۔ حسن خط میں ہاتھ ہلاتا تھا۔ موسیقی میں بھی آواز لگاتا تھا۔ غرض ہئیت مجموعی خاصی تھی۔ مگر یہ جوہر اس کے حق میں نگین فیروزہ کے جوہر نکلے۔ کہ چند روز میں نظروں سے گر گیا۔ اور مردہ ہو گیا۔ نظام بڑھتے چلے گئے۔ رانا کیکا کی مہم پر مان سنگھ کے ساتھ گئے تھے۔ وہاں بہادری کا جوہر دکھایا۔ سپاہی تو بھاگ گئے تھے۔ وہ سپاہ گری کو رفاقت میں لے کر شریک حال رہے۔ سورۂ زمین بوس انہی کی تصنیف میں تھا۔ اکبر کے محضر اجتہاد پر پہلے جن چار عالموں نے مہریں کیں۔ ان میں سے چوتھے نمبر پر یہ تھے۔ بڑے بڈھے ہو کر مرے۔ اخیر کو یہ نوبت ہوئی۔ کہ منہ مین دانت رہے۔ نہ پیٹ میں آنت۔ نہ ہاتھ پاؤں میں سکت۔ لطیفہ قالین پر بیٹھ جاتے تھے۔ نوکر چاروں کونے پکڑ کر اٹھاتے تھے۔ اور جہاں کہتے تھے۔ وہاں رکھ دیتے تھے۔ اسی طرح پالکی سے اتر کر دربار میں پہنچتے تھے۔ کوئی پوچھتا۔ چہ حال دارید؟ فرماتے۔ الحمد اﷲ بقوت حرص برپایم۔ لطیفہ، ایسے لوگوں کے نوکر بھی ڈھیٹ اور مگرے ہو جاتے ہیں۔ جب آپ ان پر خفا ہوتے تو کہتے الٰہی تو ہم ہزاری شوی، تاقدر مرا بدانی،ملا صاحب کہتے ہیں۔ لطیفہ مضان کا مہینہ تھا۔ قلیچ خاں کے دیوان خانے میں ضیافت افطار تھی۔ مشائخ، امرا، علماء کی جماعتِ کثیر جمع تھی۔ کہ میں پہنچا۔ دیکھتا ہوں آپ سورہ ان فتحنا کی تفسیر بیان کر رہے ہیں۔ میں نے ایک جگہ سوال کیا۔ انہوں نے کچھ توجیہ کی۔ میں نے پھر روکا۔ آپ جھنجھلانے لگے۔ میں نے کہا۔ سبحان اﷲ اہل ولایت کے اخلاق بھی آج معلوم ہو گئے۔ فرمایا تمہیں خیال ہو گآ کہ میں ہزاری منصب کے سبب سے زیادتی کرتا ہوں۔ میں نے کہا معلوم تو ایسا ہی ہوتا ہے اور بھی خفا ہوئے۔ خیر کچھ عرصہ کے بعد آصف خان بخشی نے پھر آیۂ الصلح خیر پڑھوایا۔ تکلف کا پردہ سا ہو گیا تھا۔ وہ اٹھ گیا۔ سال اول جلوس اکبر میں جبکہ مرزا سلیمان کابل پر فوج لے کر آیا۔ اور مرزا حکیم کو محاصرہ میں تنگ کیا۔ تو ان کی زبانی پیام و سلام ہوئے تھے۔ منعم خاں نے اپنی کارروائی ایسے کروفر سے دکھائی کہ ان کی بلکہ تمام بدخشیوں کی آنکھیں پھٹ گئیں۔ انہوں نے مرزا کو جا کر سمجھایا۔ کہ قلعہ کا ٹوٹنا محالا سے ہے مرزا کی ہمت پست ہو گئی۔ اور بدخشاں کو واپس گیا۔ دربار اکبری کی دھوم دھام سن کر چند روز بعد مرزا سے الگ ہوئے۔ اور کابل میں آئے۔ مرزا حکیم نے اعزاز و اکرام سے رکھا۔ ہمت کی نگاہ دور لڑی ہوئی تھی۔ یہ وہاں سے بھی بڑھے۔ ۲۱ء جلوس میں جب راجہ مان سنگھ رانا کی مہم پر لشکر لے کر گئے۔ تو یہ بھی ایک ہاتھ میں تسبیح اور دوسرے میں جہاد کی تلوار سونتے۔ دستِ راست پر سردار تھے۔ اس معرکہ میں ایسے گھوڑے دوڑائے۔ کہ ملائی کی حد کو پھلانگ گئے۔ جب صوبہ بہار میں امرا باغی ہوئے اور فاد کا بگولا اودھ تک پہنچا۔ یہ لشکر بادشاہی کے ساتھ اپنے پسینہ کو دشمنوں کے خون میں بہاتے تھے۔ ۹۸۹ھ میں انہین کوہستان تبت کا علاقہ ملا۔ وہاں بہادر خاں (سفید بدخشی کا بیٹا) تھا۔ وہ باغی ہو گیا۔ اور ایسا بگڑا کہ اپنا سکہ آپ کہ کر اشرفی روپے چلائے۔ بہادر دین سلطاں آنکہ بن اسفید شہ سلطان پدر سلطاں پسر سلطاں رہے سلطان بن سلطان غازی خآں کو فوج کشی کرنی پڑی۔ دربار کے لوگ ان کی ملانی کا خیال کر کے ہنستے تھے اور کہتے تھے دیکھیں آہن بہ آہن کو فتن چہ رنگ پیدا مے شود۔ بدخشی سے بدخشی کی ٹکر ہے اور لال سے لال لڑتا ہے۔ لیکن باپ کے نام نے کام بگاڑ دیا۔ بہادر خاں کا رنگ پھیکا پڑا غازی خاں نے کچھ تسبیح کا زور لگا کر کچھ فوج بنا کر جنگ کا سامان کیا۔ خان اعظم ان دنوں بہار میں تھے۔ کچھ ان سے مدد لی۔ اور پہاڑ میں جا کر خوب پتھر ٹکرائے۔ بہادر بالکل نامردہ نکلا مال اسباب ایک طرف عیال بھی چھوڑ کر بھاگا۔ بے غیرت نے ناموس کا بھی خیال نہ کیا۔ یہی سمجھا ہو گا کہ ہم بھی بدخشی۔ تم بھی بدخشی۔ جو ہمارے عیال سو تمہارے عیال۔ خیر انہوں نے بھی مسجدوں میں جھاڑو دی تھی۔ سب کوڑے کو سمیٹا اور گھر بھر لیا۔ لڑکا پھر بھی سرتا نکلا۔ چند روز بعد ہاتھ باندھ کر حاضر ہو گیا۔ شغال پیشۂ مازندراں را نگیر و جز سگِ ماژندرانی دیکھو راجہ مان سنگھ کا حال صفحہ ۵۴۱ ملا صاحب لکھتے ہیں۔ ۹۹۲ھ میں بادشاہ نے الہ آباد سے کوچ کیا۔ میرا ان کا ساتھ ہوا۔ دور تک علمی تذکرے اور مشائخ کبار کی باتیں ہوتی گئیں۔ یہی آخری ملاقات تھی۔ باہم رخصت ہوئے۔ وہ اور طرف، میں اور طرف۔ ان کی تصنیفات کچھ بہت نہیں۔ اور علما میں چنداں اعتبار نہیں رکھتیں۔ تفصیل یہ ہے۔ رسالہ اثبات کلام و بیان ایمان۔ تحقیق و تصدیق، حاشیہ شرح عقائد پر۔ تصوف میں کتنے ہی رسالے لکھے تھے۔ بہَتر برس کی عمر تھی۔ کہ دنیا سے انتقال کیا۔ شیخ ابو الفضل نے رخصت کے وقت سند کیا خوب دی ہے۔ جسے ظاہر و باطن کا حال سب کھل جاتا ہے۔ دانائی کے چہرہ کو سپاہگری سے روشن کرتا تھا۔ اور تلوار سے قلم کا رتبہ ابھارتا تھا۔ علوم رسمی میں ڈوب چکا تھا۔ مگر ارادت بادشاہی کی برکت سے اہل اشراق اور صوفیان صافی کے ساتھ زاری و نیاز میں حاضر تھا۔ صورت کی شائستگی میں معنی کی وارستگی سمیٹتا تھا۔ ظاہری لیاقت کے ساتھ آزادی کے منافع کمائے تھے۔ ہمیشہ چشم پر آب اور دلگداز رہتا تھا۔ قصبہ اودھ میں آخری سفر اختیار کیا۔ بہانہ یہ ہوا۔ کہ بی بی کے پاس بے وقت گیا تھا۔ اور صوفیان صافی کے ساتھ زاری و نیاز میں حاضر تھا۔ حسام الدین ان کا بیٹا تھا۔ اکبر نے اسے ہزاری منصب عطا کیا۔ اور خانِ خانان کے ساتھ دکن کو بھیج دیا۔ وہاں اس پر جذبہ غیبی طاری ہوا۔ خان خانان سے کہا کہ مجھے اجازت دیجئے۔ اس نے رخصت کیا۔ کپڑے پھینک دئیے۔ کیچڑ مٹی بدن کو ملی۔ اور حاضر دربار ہو کر استعفا پیش کیا۔ اکبر نے منظور کیا۔ اس نے دلی میں سکونت اختیار کی۔ اور دنیا سے الگ ہو کر بیٹھ رہا۔ ملا عالم کابلی ایک ملائے شیریں کلام خوش ادا خوش طبع موزونِ حرکات تھے۔ (چار ایوان عبادت خانے کے مباحثوں میں پیش قدم بن کر معرکہ آرائی کرتے تھے۔ جب وہ لطائف و ظرائف کی بوچھاڑ کرتے تھے۔ تو اہل جلسہ کو لٹا لٹا دیتے تھے اور حریف اپنا مباحثہ بھی بھول جاتا تھا۔ تصنیفات کا ایک ذخیرہ تھا۔ مگر وہ بھی مسخرا پن مثلاً ایک بیاض میں شرح مقاصد کے کسی مطلب پر تقریر لکھی ہے۔ اس کے اخیر میں آپ لکھتے ہیں۔ یہ عبارت کتاب قصد کی ہے۔ کہ راقم آثم کی تصنیفات میں سے ہے۔ کہیں لکھ دیتے ہیں۔ تجدید جو کہ میں نے شرح تجرید کے مقابل میں لکھی ہے۔ اس میں اس مطلب کو بہ تفصیل لکھا ہے۔ کہیں مطول کی عبارت پر ایک تقریر لکھتے ہیں۔ اور اس میں فرماتے ہیں کہ طول جو ایک مفید و مفصل کتاب فنِ بلاغت میں میں نے لکھی ہے۔ اور ضخامت میں مطول و اطول سے کم نہیں۔ اس کی عبارت نقل کرتا ہوں۔ ایک بھاری ذخیرہ مشائخ و اولیائے ہند کے حالات میں جمع کیا۔ کوئی مجاور، کوئی خآدم درگاہ، کوئی کنگال، کوئی بھیک منگا نہ چھوڑا۔ جس کا نام سنا۔ اس میں لکھ دیا۔ اور آخر میں تمتہ بھی لگا دیا۔ اس کا نام رکھا وفواتح الولا یہ لوگ پوچھتے کہ یہ واد عاطفہ کیسا۔ اور اس کا معطوف علیہ کہاں ہے۔ فرماتے مقدر ہے۔ ذہن بذاتہ انتقال کرتا ہے۔ ذکر کی کیا حاجت ہے۔ لوگ پوچھتے وہ کیا؟ تو کہتے وہ فوائح الولایہ بالفتح جیسا کہ معطوف ہے بالکسر۔ ملا صاحب فرماتے ہیں۔ ایک دن مجھے اور مرزا نظام الدین بخشی کو صبح بہت سویرے نہایت اصرار سے اپنے گھر لے گئے۔ وہی تصنیفات کہ ہاضمہ کا چورن اور بھوک کی معجون تھیں۔ نکال کر بیٹھے۔ بکتے بکتے اور سنتے سنتے دوپہر آ گئی۔ ہم میں مارے بھوک کے بات کرنے کی حالت نہ رہی۔ آخر مرزا نے بے طاقت ہو کر کہا۔ یہ تو کہو کچھ کھانے کو بھی ہے۔ ہنس کر بولے اوہو میں نے تو جانا تھا کہ تم کھا کر آئے ہو گئے۔ ٹھہر جاؤ ایک حلواں فربہ برہ شیر مست ہے میرے پاس طویلہ میں بندھا ہے کہو تو اسے ذبح کر لوں؟ ہم اٹھ کھڑے ہوئے اور ہنستے ہوئے گھر کو بھاگے۔ ان کی ایسی ایسی ہزاروں باتیں تھیں کوئی کہاں تک لکھے۔ غازی خاں بدخشی کی خوش نصیبی اور ترقی کا داغ تھا۔ جلسوں میں بیٹھ کر کہا کرتے تھے یہ بھی مسخرا پن۔ شیخ ابو الفضل اور غازی خاں وغیرہ ہم چشموں کو دیکھا۔ کہ ملائی کے گوشہ سے کود کر اعلیٰ درجۂ امارت میں جا کھڑے ہوئے۔ یہ وہی ملا کے ملا رہ گئے۔ جانتے تھے کہ جو لوگ عرق ریزی سے مہمات اور کاروبار میں خدمت بجا لاتے ہیں۔ بادشاہ ان سے بہت خوش ہوتا ہے۔ عرض کی میں بھی چاہتا ہوں کہ اہل سیف کے سلسلہ میں داخل ہوں۔ اور خدمت بجا لاؤں۔ اکبر نے کہا۔ بہت خوب۔ ایک دن شام کا وقت تھا چوکی بدلی جاتی تھی۔ آپ نے کہیں سے ایک تلوار مانگ لی۔ ایک بونگی بے ڈھنگی وضع کے ساتھ کمر سے باندھی اور بادشاہ کے سامنے آ کھڑے ہوئے۔ خلاف قاعدہ ہی آداب بجا لائے۔ آپ ہی عرض کی۔ ماپہلوے کدام منصبداد بالبستیم! واز کجا تسلیم کنیم! بادشاہ سمجھ گئے تھے۔ کہا از ہماں جائیکہ ہستید تسلیم نمائید۔ جب دیکھا کہ یہ داؤں بھی خالی گیا۔ تو شتربے مہار بن کر بے قید و بے تعلق پھرنے لگے۔ امارت اور اظہار تجمل کی بڑی آرزو تھی۔ اور چاہتے تھے کہ امرائے منصبدار میں شامل ہو جاؤں۔ لطیفہ، ایک دن گرمی کی دوپہر میں ایک روئی دارد گلہ پہن کر آموجود ہوئے۔ میلا کچیلا پسینوں میں چکٹا ہوا۔ وہ بھی اپنا نہ تھا۔ خدا جانے کسی امیر نے انعام میں دیا ہو گا۔ یا مانگ لائے تھے۔ مرزا کو کہ اس وقت موجودات دلوا رہے تھے۔ وہ بھی بیباک اور لاڈلے مصاحب تھے خوب خوب لطیفے اڑے۔ یہ بھی میٹھی میٹھی باتوں میں جواب دیتے تھے۔ کابل کے متعلقات میں گل بہار ایک گاؤں ہے۔ وہی ان کا وطن تھا۔ شاعر بھی تھے بہار تخلص کیا۔ پھر سمجھے کہ لونڈی کا نام ہوتا ہے۔ اس لئے ربیعی اختیار کیا۔ اپنا سجع بھی کہا تھا۔ افسوس کہ ہر کتاب میں اتنا ہی فقرہ لکھ کر سجع کی جگہ چھوڑ دی ہے۔ سجع بھی سجیلا ہی کہا ہو گا۔ سلسلۃ الذہب نہایت گراں بہار کتاب مولوی جامی کی تھی۔ آپ نے اس کی بحر میں کچھ مہملات بیتیں کہ لی تھیں۔ اکثر جلسوں میں پڑھا کرتے تھے۔ اور کہتے تھے کہ سلسلۃ الذہب کے جواب میں صلصل الجرس میری کتاب ہے۔ یہ اسی کے شعر ہیں۔ ان اشعار میں اپنی تصانیف موسومہ کے نام بھی مسلسل کئے تھے۔ دیدہ باشی بہ نسخۂ تجدید کہ مجددر سید فیض جدید کاندرو صد مواقف است نہاں و از بیانش مقاصد است عیاں متن تجدید پیش اولنگ است گلشن از قحط آب بے رنگ است لمعہ اش بے تکلف و اغراق حکمت عین و حکمت اشراق و انکہ و صفش نہ رتبۂ نقل است اسم و رسمش دلالۃ العقل است وآں درے کاں زبحر جود آمد لبحۃ الجود فے الوجود آمد جامع آں عوالم الآثار ! من تعالیم عالم الاخبار کاندرو نوع علم تاصد و بیست کردہ ام۔ ایں صفت بگر در کیست خاتمۂ احوال میں ملا صاحب کہتے ہیں۔ یہ سب کچھ صحیح مگر دوستِ با صفا۔ فاضل قابل دردمند۔ آزاد طبع۔ مقبول۔ مطبوع۔ دل لگی کا یار تھا۔ امید ہے کہ خدا نے اپنے فضل و کرم سے بہشت جاودانی نصیب کی ہو گی۔ آزاد باوجود ان عنایتوں کے سلسلہ تاریخ میں سال بہ سال کے حال لکھتے لکھتے جہاں ان کے مرنے کا واقعہ لکھا ہے۔ وہاں فرماتے ہیں۔ اس سال میں ملا عالم کابلی گزر گئے۔ عالم نہایت شیری ادا خوش تکلم گلدستہ شادمانی تھا۔ تاریخ ہوئی۔ اشعثِ طباع ۶۹۹ھ سبحان اﷲ ع خوشی پر تو یہ عالم ہے خفا ہو گے تو کیا ہو گا عرب میں ایک شخص تھا کہ جہاں شادی مہمانی سنتا۔ وہیں جا حاضر ہوتا۔ جہاں کسی کو مہمان جاتا دیکھتا۔ اس کے ساتھ ہو لیتا۔ اور دستر خوان پر بیٹھ جاتا۔ اسی واسطے اسے طفیل الاعراس کہتے تھے۔ یعنی جو شادی میں مہمان بلائے آئے ہیں۔ یہ ان کے طفیلیوں میں ہے اور چونکہ اشعث اس کا نام تھا۔ اس لئے اشعث طماع بھی کہتے تھے۔ قندھار امیر تیمور کے بعد وقت بوقت شہزادگان تیموری کے قبضہ میں چلا آتا تھا۔ جب بابر تباہ ہو کر کابل میں آیا۔ تو بدیع الزمان مرزا وغیرہ سلطان حسین بالیقرا کے بیٹوں کے ساتھ تھا۔ وہ بھی بھائی بند تھے۔ بابر نے چاہا کہ لے خود بھی گیا۔ مگر کچھ مطلب حاصل نہ ہوا۔ جب وہ شیبانی خاں کی تلوار سے برباد ہو کر پریشاں ہو گئے۔ تو بابر پہنچے۔ مگر ہندوستان کا سفر درپیش تھا۔ اپنی طرف سے قراچہ بیگ کو بٹھا آئے۔ شاہ اسمعیل اور شاہ طہماسپ اس عرصہ میں ایران پر پھیل گئے تھے۔ شیبانی خاں نے ادھر پھیلنے کے لئے رستہ نہ پایا۔ جب ہمایوں ہندوستان سے تباہ ہو کر ایران کو گیا۔ تو اس کے بھائی کامران نے آپ کابل لیا۔ اور قندھار قراچہ بیگ سے چھین کر عسکری مرزا دوسرے بھائی کو دیا۔ ایران میں شاہ طہماسپ نے جو کچھ مہمان نوازی اور رفاقت کے حق ادا کئے۔ مجمل بیان ہوئے۔ وہاں ہمایوں نے وعدہ کیا تھا۔ کہ قندھار فتح کر کے آپ کی فوج کے سپرد کراؤں گا۔ اور میں آگے بڑھ جاؤں گا۔ یہ علاقہ شاہزادہ مراد کی میوہ خوری کے لئے رہے۔ جب قندھار لیا۔ تو جو کچھ سپاہ اور سپہ سالار ایران کے ساتھ سلوک ہوا۔ وہ بیرم خاں کے حال میں لکھا گیا۔ شاہ طہماسپ سن کر چپ رہ گیا۔ یہی سمجھا ہو گا کہ ذرا سی بات کے لئے نئی اور پرانی نیکیوں کے نقش و نگار پر سیاہی پھیرنی کیا ضرور ہے۔ جب ہمایوں کابل میں آئے تو بیرم خاں کو وہاں چھوڑ آئے۔ ہندوستان کو چلے اور بیرم خاں سپہ سالار ہو کر ساتھ ہوئے۔ تو شاہ محمد قلاقی جو بیرم خاں کا پرانا رفیق تھا۔ ان کی طرف سے نائ% رہا۔ زمین داروں میں بہادر خآں علی قلی خاں کا بھائی حاکم تھا۔ چونکہ دونوں کی سرحد ملتی تھی۔ بعض مقدمات ایسے الجھے کہ بڈھے کی جوان کے ساتھ نہ نبھی۔ بڈھے نے اسے دبانا چاہا۔ وہ بھی بہادر خاں تھا۔ اس نے ۹۶۴ھ میں آ کر قندھار کو گھیر لیا۔ اور شاہ محمد کو ایسا تنگ کیا کہ دم لبوں پر آ گیا۔ بڈھے کہن سال نے بیرم خاں کی آنکھیں دیکھی تھیں۔ اندر ہی اندر شاہ ایران کو عریضہ لکھا اس میں درج کیا۔ کہ قندھار حضور کا ملک ہے۔ بادشاہ کا حکم تھا کہ فلاں فلاں امورات کے فیصلہ کے بعد بندگانِ دولت کو سپرد کر دینا۔ فدوی انہی انتظاموں میں مصروف تھا کہ یہ نااہل ناہنجار میرے در پے ہو گیا ہے۔ آپ فوج بھیج دیں۔ تو فدوی امانت سپرد کر کے سبکدوش ہو۔ شاہ نے فوراً تین ہزار فوج سیستان اور فرہ کے علاقہ سے یار علی بیگ افشار کے زیر حکم بھیجی۔ بہادر خآں کو اس وقت تک خبر نہ تھ۔ دفعۃً شاہ کی فوج کو سر پر دیکھ کر پلٹا۔ ان سے بھی مقابلہ کیا۔ دو دفعہ اس کا گھوڑا گرا۔ اور وہ پھر کپڑے جھاڑ کر کھڑا ہو گیا۔ آخر شکست کھا کر بھاگا۔ لطف تو یہ ہے کہ شاہ محمد نے لشکر ایران کو پھر دم دلاسا دے کر ٹال دیا۔ شاہ کو یہ امر ناگوار ہوا۔ ۹۶۶ھ میں سلطان حسین مرزا ولد بہرام مرزا ابن شاہ اسمعیل صفوی نے اپنے بھتیجے کے ماتحت قزلباش کا لشکر جرار بھیج کر محاصرہ کر لیا۔ شاہ محمد نے اکبر کو عرضیاں بھیجیں۔ یہاں نئی نئی تخت نشینی تھی۔ ایک جھگڑے میں کئی کئی جھگڑے تھے۔ انہوں نے اجازت لکھ بھیجی۔ اس نے قندھار حوالے کر دیا۔ شاہ نے یہ علاقہ سلطان حسین مرزا کو دے دیا۔ اس کے چار بیٹے تھے۔ مظفر حسین مرزا، رستم مرزا، ابو سعید مرزا، سنچر مرزا۔ اکبر کا شوق یہی چاہتا تھا کہ علاقہ مذکور پھر میرے قبضہ میں آئے۔ مگر منہ نہ پڑتا تھا۔ کہ شاہ سے کچھ کہہ سکے۔ پھر بھی بندوبست سے نہ چوکتا تھا۔ وہ یہی چاہتا تھا کہ کابل کی فوج سے حملہ ہوا۔ تو کچھ نہ ہو گا۔ اس لئے محب علی خاں اور محامد خاں کو فوج دے کر بھیجا۔ انہوں نے بھکر پر قبضہ کیا۔ سید محمد میر عدل کی معتدل تدبیروں سے سیوی فتح ہوا۔ جسے آج کل سیبی کہتے ہیں۔ اقبال اکبری زبردست تھا۔ شہزادگانِ مذکور نے اپنے علاقہ کو آزاد رکھنا چاہا۔ چند ہی روز میں شاہ عباس کے جاہ و جلال نے تمام ایران و خراسان میں زلزلہ ڈال دیا۔ انہیں اپنی حالت پر خطر ہوا۔ اور ان میں باہم بھی کشاکش ہونے لگی۔ اکبر نے خان خاناں کو فوج دے کر روانہ کیا۔ اس نے اوں ملک سندھ پر قبضہ کیا۔ پھر افغانستان اور خراسان زمین میں شہرت ہوئی۔ قلات تک کے لوگ ادھر جھک گئے۔ میر زاؤں کے خیالات بھی ادھر متوجہ ہوئے۔ ۱۰۰۱ھ میں رستم مرزا دربار اکبری میں حاضر ہوا۔ اس کی یہاں بڑی قدر و منزلت ہوئی رستہ ہی میں تھا کہ اثنائے راہ کے حکام و امرا کے نام فرمان جارے ہوئے کہ مہمانداری و خدمتگاری کرتے ہوئے لاؤ۔ جب لاہور ایک منزل رہاتو بادشاہ یہیں تھے۔ امرا کو استقبال کے لئے بھیجا۔ وہ چاروں بیٹوں سمیت حاضر دربار ہوا۔ چنانچہ اعزاز سے ملاقات کی۔ اور پنج ہزاری منصب عنایت کر کے ملتان جاگیر کر دیا۔ اس کے بعد ابو سعید مرزا اس کا بھائی، پھر بہرام مرزا ابن مظفر مرزا آیا۔ پھر امرائے اکبری کو قندھار سپرد کر کے ایک ہزار قزلباش کے ساتھ مظفر حسین مرزا بھی حضور میں آ گیا۔ اور ایران سے بالکل رشتہ توڑ دیا۔ سب کو حسب مراتب عہدے اور منصب ملے۔ شاہ بیگ خاں صوبہ دار کابل تھا۔ اس کو صوبہ داری قندھار بھی مل گئی۔جہانگیر کے عہد میں پھر شاہ عباس نے قندھار لے لیا۔ جہانگیر نے فوج کشی کا ارادہ کیا مگر ایسا منحوس ہوا کہ اسی پر خورم (شاہجہاں) اور نور جہاں کا فساد ہو گیا۔ ہزاروں آدمیوں کا خون پانی ہو کر بہ گیا۔ بڑے بڑے جان نثاروں کی جانیں مفت برباد گئیں۔ شاہجہان نے دو دفعہ عالمگیر اور داراشکوہ کو بھیجا۔ مگر ہر دفعہ ناکامی نصیب ہوئی۔ کوہستان بدخشان جب یہ نام کتابوں میں لکھا نظر آتا ہے۔ تو دل دولت سے مالا مال ہو جاتا ہے۔ مگر ملک کو جا کر دیکھو تو پیٹ کو پتھر باندھنا پڑتا ہے۔ عالم سیاحت میں میرا گزر اس ملک میں ہوا۔ فیض آباد اس کا حاکم نشیں شہر ہے۔ میں نے وہاں اور اس کے اطراف میں چار مہینے کامل سیر کی۔ علاقہ مذکور کے گرد خدائی پہاڑوں کی قطاریں حفاظت کو کھڑی ہیں۔ جنہیں آسمانی برف چادر اڑھائے رہتی ہے۔ کسی کاروان یا فوج بادشاہی کے قدم اس پر بے ادبی کی ٹھوکر نہیں لگا سکتے۔ تمام ملک مخملی پہاڑ، چشمے جابجا جاری۔ زمین سرسبز، وہ رنگ رنگ کے پھولوں سے بو قلموں اور قسم قسم کے میووں سے مالا مال۔ وسعت زمین کی بدولت ہر گھر مین ایک خانہ باغ ضرور ہے۔ خواہ امیر ہو۔ خواہ غریب، سیب، بہی، انگور، خوبانی، توت وغیرہ کے درخت خودرد۔ ان میں ہزاروں جانور خزش الحان بول رہے ہیں جن میں سے ایک کا نام میں بھی جانتا ہوں کہ اسے بلبل ہزار داستان کہتے ہیں۔ اس کے پہاڑ قسم قسم کی دھات اور جواہرات بغل میں دبائے بیٹھے ہیں جن میں سے ایک وہی ہے کہ جس کو تم لعل بدخشاں کہتے ہو۔ دریا کے کنارے پر لوگ خاک شوئی کرتے ہیں۔ اور سونا نکالتے ہیں۔ ایک آدمی دن بھر میں ۴؍۸؍ کما لیتا ہے جس پہاڑی سے اترو دامن کوہ میں کم سے کم ہزار گھوڑوں کے گلے دوڑتے پھرتے ہیں۔ اور ہزار در ہزار دمبوں اور بکریوں کے ریوڑ چلتے پھرتے ہیں۔ انسان تمام صاحب جمال، قوی ہیکل خوش عیش مگر بے ہمت اور آرام طلب۔ اس سرزمین پر قدرت نے اپنی دستکاری کا سارا تھیلا الٹ دیا ہے۔ لیکن انسانی دستکاری بالکل مفقود ہے۔ تعلیم، صنعت گری، زراعت، تجارت وغیرہ جو سامان تحصیل دولت کے ہیں۔ وہاں ایک بھی نہیں۔ تعلیم دیکھو تو کوئی کوئی آدمی شد بود ضروری لکھنا پڑھنا جانتا ہے۔ اور وہ عالم سمجھا جاتا ہے۔ دستکاری جب میں نے دیکھا تھا۔ تو سارے فیض آباد میں ایک دوکان قلعی گر کی تھی۔ اور وہ بھی کابلی تھا۔ وہی ٹوٹا پھوٹا باسن بھی جوڑ لیتا تھا۔ ورنہ تانبے کے باسن بھی بخارا اور کابل سے تاشقر خان اور قند زمین جاتے ہیں۔ وہاں سے بدخشاں میں پہنچتے ہیں۔ جلاہے فقط گاڑھا بن لیتے ہیں۔ یادسا، لوئی، نمدہ وغیرہ زراعت بقدر ضرورت کر لیتے ہیں۔ کہ اپنے سال بھر کو کافی ہو۔ زیادہ محنت کون کرے۔ اور کریں تو بے فائدہ۔ کیونکہ باہر نکاس نہیں۔ اگر کسی کو ضرورت پڑے اور چآہے کہ من بھر آٹا بازار سے لے آئٰ۔ تو فقط بنئے کی ایک یا دو دوکانیں۔ گھر گھر بھیک کی طرح مانگتا پھرے گا جب دن بھر میں جمع ہو گا۔ تجارت کو گھر سے باہر جانا پڑتا ہے۔ اس لئے نہیں کرتے۔ باہر کے سوداگر نہیں جاتے۔ اس لئے کہ آسمانی اور برفانی پہاڑ کاٹ کر جائیں۔ اور جا کر چیز کو بیچیں۔ تو وہاں سے روپیہ نہیں ملتا۔ خریداری جو کچھ کرے خود میر بدخشاں یا اس کا کوہی بھائی بند کرے۔ اور کوئی کر ہی نہیں سکتا۔ اس کا یہ حال ہے کہ سوداگر مال دے کر برس برس دن پڑا رہتا ہے۔ آخر کو قیمت میں پانسو دنبے، سات سو بکرے بکریاں، کچھ نقد، اس میں بھی پچاس روپیہ، سو ڈیڑھ سو روپیہ کے پیسے۔ ایک لڑکا دو لڑکیاں دو سو کا غلام۔ تین سو کی لونڈی ملتی ہے۔ انہیں باہر کے ملکوں میں جا کر بیچ لیتا ہے۔ لطیفہ شہر فیض آباد میں تقریباً سات سو گھر کی بستی ہو گی جن میں ایک نائی نہیں اور سچ ہے وہ بچارا سر مونڈے تو لے کیا؟ دل کا کیا مول بھلا زلف چلیپا ٹھیرے تیری کچھ گانٹھ گرہ میں ہو تو سودا ٹھیرے ہر شخص کی کمر میں ایک ایک چھری ایک ایک چاقو لٹکتا ہے۔ چھری سے گوشت کاٹتے ہیں۔ کچھ باریک کام ہو۔ تو چاقو سے کر لیتے ہیں۔ باپ بیٹے کو مونڈ لیتا ہے۔ بیٹا باپ کو مونڈ لیتا ہے۔ دوست بھی دوست کو مونڈ لیتے ہیں۔ اور یہ داخل ثواب سمجھا جاتا ہے۔ ایک آبِ رواں کے کنارے بیٹھ گئے۔ نرم سا پتھر وہیں سے اٹھا کر پاس رکھ لیا۔ اس پر چاقو رگڑتے جاتے ہیں۔ مونتے جاتے ہیں۔ ثواب کماتے جاتے ہیں (وہ لوگ ایک دوسرے کو ملا کہ کر بات کہتے ہیں) لطیفہ در لطیفہ۔ جب میری حجامت بڑھ جاتی تھی تو کسی سے کہتا تھا کہ ملا مادست دریں کارنداریم نیمتواں خدمت شما بکنیم۔ اگر زحمتے بکشید۔ مسافر نواویست۔ ایک دن ایک شخص نے حجامت بنانے میں بیان کیا۔ کہ شخصے از فیض آباد مابسفر رفت۔ چوں بشہرے آباداں رسید۔ چند روز اقامت کرو۔ مردم باد آشنا شدند۔ پر سیدند ملا! شہر شماچہ قدر آبادی دارد۔ ایں کس مردراست گفتار و پاک نہاد بود نخواست کہ زبان خود رابہ در وغ آلاید۔ گفت ہمیں بدانید کہ شہر مافقط ہفت صد خانہ و ملک دارد۔ محمد حکیم مرزا حسیف ہے کہ اکبر کا بھائی! اور ایسے بے اقبال، بدعقل ، کم ہمت جب تک جیا۔ نوکروں کے ہاتھوں میں چمچہ قلی بنا رہا۔ اگر وہ انسان ہوتا تو تمام خراسان زمین اس کا مال تھا۔ قندھار تو جیب کا شکار تھا۔ بلخ کو لاب، حصار، بدخشاں وغیرہ کناجیحوں تک پھیل کر عبد اﷲ خآں اذبک کو برسر حساب لیتا۔ اور اکبر کا داہنا ہاتھ بن کر ملک موروثی کو چھڑا لیتا۔ اور اکبر بھی وہ عالی ہمت بادشاہ تھا کہ اسے اپنے تاج کا لعل اور ہار کا موتی بناتا۔ مگر وہ بدنصیب اپنی بدنیتی اور نوکروں کی بدصلاحی سے جوؤں بھرا پوستین بنا رہا۔ کیفیت حال اُس کی یہ ہے کہ اُس کی ماں کا نام ماہ چوچک بیگم تھا۔ ۹۶۱ھ میں جبکہ ہمایوں ہندوستان پر فوج کشی کا سامان کر رہا ھا۔ یہ کابل میں پیدا ہوا۔ بادشاہ نے محمد حکیم نام رکھا۔ ابو المفاخر خطاب دیا۔ ابو الفضائل تاریخ ولادت تھی۔ اسی واسطے کنیت قرار دی گئی۔ اسے اور اہل حرم کو وہیں چھوڑا۔ اور ملک مذکور اس کے نام پر کر کے منعم خاں کو اتالیق کر دیا۔ آپ ہمت کے گھوڑے پر سوار ہو کر ہندوستان میں آیا۔ ۹۶۳ھ میں ہمایوں مر گیا۔ یہ معصوم بچہ دو برس کا بھی نہ تھا۔ جو مرزا سلیمان بدخشان سے فوج لے کر آیا۔ اور کابل کو گھیر لیا (دیکھو منعم خاں کا حال)۔ ۹۶۹ھ میں دس برس کی عمر ہو گی۔ جو امرا کا باہم فساد ہوا منعم خاں کا بیٹا بھاگ آیا۔ بھائی اور بھتیجا مارا گیا۔ امرائے دولت میں عجیب کشا کشی پڑی۔ اسی عرصہ مین شاہ ابوالمعالی بلائے آسمانی کی طرح پہنچے۔ چند روز بعد پھر فساد اٹھا۔ ماں قتل ہوئی۔ امرا ضائع ہوئے۔ اپنی جان خدا خدا کر کے بچی۔ مرزا سلیمان نے آ کر اس آفت کو رفع دفع کیا۔ اس کی بی بی حرم بیگم کی تجویز تھی۔ کہ مرزا کو بدخشاں لے چلو اور کابل میں بندوبست اپنا کر لو۔ مرزا سلیمان سمجھا کہ اکبر اس حرکت کی برداشت نہ کر سکے گا۔ اس لئے کابل ہی میں رکھا۔ بیٹی کے ساتھ اس کی شادی کر دی۔ امید علی اپنے ملازم کو اتالیق بنایا۔ اور آپ بدخشاں کی راہ لی۔ مرزا حکیم نے تنگ ہو کر امرائے مذکور کو بلایا۔ اور عذر معذرت کر کے ٹال دیا۔ جب وہ بدخشاں پہنچے تو مرزا سلیمان بہت خفا ہوا۔ اور لشکر بے شمار لے کر چڑھا۔ مرزا نے مقابلے کی طاقت نہ دیکھی۔ باقی خاں قاقشال کو کابل میں چھوڑا۔ اور آپ جلال آباد میں بھاگ آیا۔ جب سنا کہ مرزا سلیمان یہاں بھی آیا تو دریائے اٹک کے کنارے آن پڑا۔ اور اکبر کو حوضی لکھی۔ ادھر سے فرمان جاری ہوئے۔ چنانچہ تمام اتکہ خیل کہ پنجاب ان کی جاگیر تھا۔ اور کئی امیر صاحب فوج مرزا حکیم کے ساتھ جا کر شامل ہوئے۔ مرزا سلیمان پشاور تک آ کر کابل کو پھر گیا تھا۔ جلال آباد میں قنبر اپنے ملازم کو چھوڑ گیا تھا۔ امرائے اکبری باگیں اٹھائے جلال آباد پہنچے۔ بدخشیوں کے دھوئیں اڑا دئیے۔ اور قنبر کا سر کاٹ کر باقی خاں کے پاس کابل میں بھیج دیا۔ کہ ہم بھی آن پہنچے ہیں۔ سپاہ بدخشی ایسی تباہ ہوئی کہ ان میں سے فقط دو آدمی زندہ بچے۔ اور سلیمان کے پاس جا کر رفیقوں کا سارا مصیبت نامہ سنایا۔ مرزا سلیمان یہ خبریں سن کر بدخشاں کو بھاگ گیا۔ امرائے اکبری مرزا حکیم کو لے کر کابل پہنچے۔ انہیں مسندِ فرمان روائی پر بٹھایا۔ خان کلاں مرزا عزیز کے چچا اتالیق بن کر بیٹھے۔ اور غلطی یہ کی کہ باقی امرا کو دربار اکبری اور ان کے علاقوں کو رخصت کر دیا۔ سکینہ بانو بیگم مرزا حکیم کی چھوٹی بہن قطب الدین خاں کی حفاظت سے حضور میں پہنچی۔ مرزا سفلہ مزاج نوجوان تھا۔ اور سفلے ہی مصاحب رکھتا تھا۔ چند روز کے بعد پھر عقل پر پردہ پڑا۔ خواجہ حسن کوئی نوجوان خواجہ حسن نقشبندی کی اولاد سے وہاں آیا ہوا تھا۔ جس بہن کی شادی پہلے شاہ ابو المعالی سے کی تھی۔ اس کا عقد خواجہ حسن سے کر دیا۔ نہ بادشاہ کی اجازت لی نہ خان کلاں سے صلاح کی۔ اب خواجہ صاحب گھر والے بن کر بیٹھ گئے۔ مرزا لڑکا تھا۔ یہ انہیں کیا دبا سکتا تھا۔ انہوں نے تمام حکم احکام اپنے اختیارات میں لے لئے۔ خان کلاں جل کر اٹھ کھڑے ہوئے۔ اور بے اطلاع چلے آئے۔ مرزا سلیمان کی بیوی حرم بیگم سلیمان دیس کو لابی کی بیٹی تھی۔ وہ قوم قیخاق کا سردار تھا۔ بیگم مذکور نام کی عورت تھی مگر بیگموں اور خاتونوں کو چٹکیوں میں ملتی تھی۔ دیو کی طرح سلیمان پر سوار تھی۔ اور سلطنت کی مالک بنی ہوئی تھی۔ ولی نعمت بیگم اس کا خطاب تھا اور بالکل بجا تھا۔ ۹۷۴ھ میں مرزا سلیمان نے دیکھا کہ امرائے بادشاہی ناراض ہو کر کابل سے چلے گئے۔ اور میدان صاف ہے۔ ولی نعمت بیگم کو لے کر پھر آئے۔ اور کابل کو گھیر لیا۔ مرزا نے شہر معصوم خاں کوکہ کے سپرد کیا۔ اور آپ چند امرا کے ساتھ غور بند کو بھاگ گئے۔ مرزا سلیمان نے دیکھا کہ کابل زورِ شمشیر سے ہاتھ نہ آئے گا۔ اپنی ولی نعمت بی بی کو قراباغ میں کہ کابل سے دس کوس تھا۔ مرزا کے پاس بھیجا کہ صلح و صلاح کر کے لے آئے۔ اس نے آ کر مکر کے جال پھیلائے۔ ہزاروں قسمیں کھائیں۔ قرآن درمیان لائی۔ اور کہا کہ بیٹا تم میرے فرزند ہو۔ نور بصر لخت جگر ہو۔ داماد تو بیٹے سے زیادہ پیارا ہوتا ہے۔ میں فقط تم سے ملنے آئی ہوں۔ غرض ایسی چکنی چپڑی باتیں بنائیں کہ مرزا حکیم آنے کو تیار ہوئے۔ خواجہ حسن بھی اس صلح میں شریک تھے۔ مگر باقی خاں کہے جاتا تھا۔ کہ عورت چلتر باز ہے۔ از رہ مرد بعشوۂ دنیا کہ ایں عجوز مکارہ مے نشیند و محتالہ میرود بیگم سے چوک یہ ہوئی۔ کہ جھٹ خاوند کو بلا بھیجا۔ مرزا سلیمان فوراً فوج جرار لے کر دوڑے اور گذات لگائے کھڑے تھے۔ کہ جب موقع پائیں شکار پر جا گریں۔ مرزا حکیم کو کسی نے رستہ میں خبر دی۔ وہ سنتے ہی بھاگا۔ اور غور بند کی گھاٹیوں میں گھس کر کوہ ہندو کش کا رستہ لیا۔ خواجہ حسن کہتا تھا کہ پیر محمد خاں اذبک حاکم بلخ کے پاس چلو۔ وہاں سے مدد لائیں گے۔ باقی خاں قاقشال نے سمجھایا۔ اور روک کر پنج شیری کے رستہ اٹک کے کنارہ پر پہنچا دیا۔ اس نے دریا اتر کر اکبر کو عرضی لکھی۔ خواجہ حسن کو ادھر آںے کا منہ کہاں تھا۔ وہ اپنے رفیقوں کو لے کر بلخ پہنچا۔ اور وہاں سٹر سٹر کر زندگی سے بیزار ہو گیا۔ دل بشد جاں گریخت دیں گم شد اے حسن زیں تبرچء خواہد شد مرزا سلیمان تو ادھر آئے۔ معصوم خآں کابلی ایک سردار مرزا کا نمک خوار بڑا ہادر جانباز تھا۔ اس نے مرزا سلیمان کی چھاؤنی پر حملہ کیا۔ اور بدخشیوں کو بھگا کر ایک چار باغ میں گھیر لیا۔ مرزا سلیمان نے قاضی خاں (وہی غازی خاں) کو وکیل کر کے بھیجا۔ معصوم خاں اول صلح پر راضی نہ ہوتا تھا۔ مگر قاضی خاں کا شاگرد بھی تھا۔ اس کے کہنے سے عدول بھی نہ کر سکا۔ مرزا سلیمان برائے نام کچھ پیشکش لے کر بدخشاں کو تشریف لے گئے۔ مرزا حکیم کی عرضی سے پہلے ہی اکبر کو سب خبریں پہنچ گئی تھیں۔ اس نے گھوڑا زین مرصع سے سجا ہوا۔ اور اکثر تحایف ہندوستان کے اور بہت سا روپیہ سنجر خاں کے ساتھ روانہ کیا اور تسلی و دلداری کے ساتھ فرمان بھیجا۔ فریدوں خآں اس کا ماموں حضور میں حاضر تھا۔ اسے بھی رخصت کیا کہ جا کر پریشانیوں کی اصلاح کرے۔ امرائے پنجاب کو حکم بھیجا کہ فوجیں لے کر کمک کو پہنچیں۔ بدنیت فریدوں خآں سامان مذکور لے کر کنار اٹک پر مرزا سے ملا۔ وہ ادھر آنے کو تیار تھا۔ فریدوں نے آتے ہی ورق الٹ دیا۔ اس نے کہا کہ بادشاہ خان زمان کی مہم میں مصروف ہیں۔ اور خان زمان وغیرہ امرا تمہارے وجود کو غنیمت سمجھتے ہیں۔ تمہارے نام کا سکہ کہ کر روپیہ اشرفی پر لگایا ہے۔ تم بھی آخر ملک کے وارث ہو۔ مصلحتِ وقت اور نقاصائے ہمت یہ ہے کہ ہم بھی اس وقت ہمت کی کمر باندھیں۔ اور پنجاب پر قبضہ کر لیں۔ سرحد کو اپنی حد باندھیں۔ اور آئندہ سامانِ الٰہی کے منتظر رہیں۔ اور کابل میں تو تمہارا نال گڑا ہے۔ وہ کہیں گیا ہی نہیں۔ کئی مفسد اور بھی ادھر سے گئے تھے۔ انہوں نے اس مشکل امر کو زیادہ تر آسان کر کے دکھایا۔ ماموں کے ساتھ بھانجے کی بھی نیت بگڑی۔ اور اب الٹی نیت سے ہندوستان کا رخ کیا۔ مفسدوں نے چاہا تھا کہ جو سردار بادشاہی تحائف لے کر گئے تھے۔ انہیں قید کر لیں مگر مرزا کی طبیعت میں مروت ذاتی تھی۔ خلوت میں بلا کر خوشخبر خآں کو سمجھایا۔ اور چپکے سے رخصت کر دیا۔ مرزا حکیم اٹک اتر کر بھیرہ کو لوٹتے ہوئے لاہور پر آئے۔ راوی کے کنارے باغ مہدی قاسم خآں میں جہاں اب مقبرہ جہانگیر ہے۔ آن اترے۔ ان دنوں پنجاب میں اتکہ خیل کا عمل تھا۔ قلعہ داری کا پورا سامان لے کے قلعہ میں گھس بیٹھے۔ اور بڑی چستی سے مقابلہ کیا۔ مرزا نے قلع پر حملے کئے۔ مگر انہوں نے پاس نہ پھٹکنے دیا۔ بادشاہ بھی ادھر سے روانہ ہوئے۔ سرہند تک پہنچے تھے۔ کہ یہاں آمد آمد کا غلغلہ ہوا۔ ایک دن علی الصباح قلعہ سے شادیانہ کے نقارے بڑے زور شور سے بجنے شروع ہوئے مرزا سوتا اٹھا۔ سمجھا کہ بادشاہ آن پہنچے۔ اسی وقت سوار ہو کر بھاگا۔ اور جس رستہ آیا تھا اسی رستہ چلا گیا۔ جو امرا تعاقب میں گئے تھے۔ بھیرہ تک پہنچا کر چلے آئے۔ ۹۸۳ھ میں مرزا سلیمان کو شاہرخ ان کے پوتے نے بڑھاپے میں گھر سے نکال دیا۔ اور اسے مرزا حکیم کے پاس آنا پڑا۔ کہ اس بیکسی کے وقت میں میری مدد کرو۔ یہ زمانہ کا انقلاب قابل عبرت تھا۔ مگر مرزا نے باتوں میں ٹال دیا۔ بڈھے نے مایوس ہو کر دربار اکبری کا ارادہ کیا۔ اور مرزا سے کہا کہ افغانوں کا ملک ہے۔ تم یہاں سے پشاور تک پہنچا دو۔ مرزا نے چہل یا چالاکی سے کہن سال بڈھے کو اس وقت میں ایسا چکمہ دیا جو کسی طرح مناسب نہ تھا۔ معصوم خاں مرزا کا ملازم دربار اکبری میں آ کر درجۂ امارت کو پہنچا۔ اور بنگالہ کی مہمات میں شامل رہا۔ جب وہاں امرا باغی ہوئے۔ تو وہ بھی ان میں داخل ہو گیا۔ باغیوں نے ۹۸۹ھ میں مرزا کو عرضیاں بھیجیں۔ بھولا بھالا مرزا فوج تیار کر کے ادھر روانہ ہوا۔ اور لاہور تک آ کر پھر گیا۔ اب اکبر کو واجب ہوا کہ اس کا تدارک قرار واقعی کرے۔ مان سنگھ کو فوج دیکر آگے بھیجا۔ شاہزادہ مراد کو ساتھ کیا۔ پیچھے پیچھے آپ لشکر لے کر پہنچا۔ مان سنگھ نے کئی خونریز معرکے مار کر مرزا کو شکست دی۔ اور اکبر کابل میں داخل ہوئے۔ مرزا کی خطا معاف کی۔ اور دوبارہ ملک بخشی کر کے چلے آئے۔ ۹۹۳ھ میں ۳۲ برس کی عمر میں شراب کے شیشہ پر جان قربان کی۔ کیقباد اور افسر اسیاب دو بیٹے یادگار چھوڑے۔ (دیکھو مان سنگھ کا حال) مرزا سلیمان حاکم بدخشاں تین واسطہ سے امیر تیمور کا پوتا تھا۔ مرزا سلیمان ابن خآں مرزا، ابن سلطان محمود، مرزا ابن سلطان ابو سعید مرزا، ابن امیر تیمور گورگان، مرزا نے جس طرح ملک مذکور پایا۔ اس کی تمہید سننے کے قابل ہے۔ قدیم الایام سے بدخشاں میں ایک خاندان کی حکومت تھی۔ وہ دعویٰ کرتا تھا۔ کہ سکندر رومی کی اولاد ہیں۔ کچھ کوہستان کی دشوار گزاری سے کچھ سکندر کے نام کا پاس کر کے سلاطین اطراف سے کوہی ان کے ملک پر ہاتھ نہ ڈالتا تھا۔ بہت ہوتا تو نام کو تھوڑا سا خراج لے کر ماتحت بنا لیتے۔ امیر تیمور کے بیٹے سلطان ابو سعید مرزا نے وہاں کے اخیر بادشاہ سلطان محمد کو پکڑ کر ملک مذکور پر قبضہ کیا۔ اس کے بعد سلطان محمود اس کا بیٹا وہاں آیا۔ اور مر گیا۔ خسرو ایک سردار اسی کی پرورش سے امارت کے درجہ کو پہنچا تھا۔ اس نے سلطنت کا تاج مرزا بالقیرا اور مرزا مسعود اس کے بیٹوں کے نام پر رکھا۔ اور آپ سلطنت کرنے لگا۔ ۹۵۵ھ میں پہلے کو اندھا اور دوسرے کو مار کر آپ خسرو شاہ بن گیا۔ ۹۱۰ھ میں بابر نے آ کر خسرو کو نکال دیا۔ اور آپ ملک مذکور کو سنبھالا۔ جب۹۱۲ھ میں قندھار لے کر کابل میں آئے۔ تو ملک کو پھیلتا دیکھ کر خان مرزا کو بدخشاں کا حاکم کر کے بھیج دیا۔ اس نے بہت رگڑوں جھگڑوں کے بعد وہاں استقلال پیدا کیا۔ مگر ۹۱۷ھ میں مر گیا۔ مرزا سلیمان اس کا بیٹا اس وقت سات برس کا تھا۔ بابر نے اسے اپنے پاس رکھا۔ اور ہمایوں کو بدخشاں کا ملک دے دیا۔ ان کے معتمد معتبر وہاں انتظام کرتے رہے۔ باپ بیٹے ہندوستان میں آئے۔ جب رانا سانگا کی مہم فتح ہو چکی۔ تو ۹۳۳ھ میں ہمایوں کو پھر بدخشاں بھیج دیا کہ کابل کا اور بدخشاں کا بندوبست رہے۔ شاہزادہ ایک سال تک وہاں رہا۔ دفعۃً باپ کی حضوری کا شوق ایسا غالب ہوا۔ کہ دل بے اختیار ہو گیا۔ سلطان اویس سلیمان مرزا کا خسر ساتھ تھا۔ ملک اس کے سپرد کیا۔ اور چلا آیا۔ سلطان اویس کی اشارت اور بعض امرا کی شرارت سے سلطان سعید خاں نے کاشغر سے فوج کشی کی۔ ہندال مرزا اس سے پہلے پہنچ گیا تھا۔ اس نے قلعہ ظفر کی مضبوطی کر کے خوب مقابلہ کیا۔ سلطان سعید خاں تین مہینے کے بعد محاصرہ اٹھا کر کاشغر کو ناکام پھر گیا۔ لیکن ہندوستان میں ہوائی اڑ گئی تھی۔ کہ اس نے بدخشاں لے لیا۔ بابر نے ہمایوں کو پھر بدخشاں بھیجنا چاہا۔ اس نے کہا میں نے عہد کر لیا ہے کہ اپنے ارادہ سے آپ کی خدمت سے جدا نہ ہوں گا۔ اور حکم سے چارہ نہیں۔ ناچار بابر نے مرزا سلیمان پسر خان مرزا کو ادھر رخصت کیا۔ اور سلطان سعید خاں کو ایک خط لکھا۔ کہ باوجود حقوق چند درچند کے ہماری غیبت میں ایسے امر کا ظہور آنا کمال تعجب ہے۔ اب ہم نے مرزا ہندال کو بلا لیا مرزا سلیمان کو بھیجتے ہیں۔ مرزا سلیمان آپ سے نسبت فرزندی رکھتا ہے۔ اگر تعلقات مذکور کا خیال کر کے بدخشاں اسے دیجئے تو بجا ہو گا۔ ورنہ ہم نے وارث کو میراث دے کر اپنا حق ادا کر دیا۔ آگے آپ جانئے۔ مرزا جب وہاں پہنچا تو ملک میں پہلے ہی امن امان ہو چکا تھا۔ تمام علاقہ پر قبضہ کیا۔ ۹۶۴ھ میں جبکہ پہلی دفعہ کابل سے ناکام پھرا تو اس کی طمع یا بلند نظری نے ایسی بلندی سے پٹخا۔ کہ دل و جان کو صدمہ پہنچا۔ یعنی اطراف ملک سے فوج فراہم کی اور بلخ پر حملہ کیا۔ ہر چند خیر خواہوں نے سمجھایا کہ بڑے بڑے شاہزادے اور پرانے امیر قوم اذبک کے میر محمد خاں کے ساتھ ہیں۔ اس پر چڑھ کر جانا مصلحت سے بعید ہے۔ ایک نہ مانی۔ آپ گیا اور رشیدہ فرزند ابراہیم مرزا کو بھی ساتھ لے گیا۔ جب میدان میں مقابلہ ہوا تو دیکھا کہ لوہا ٹھنڈا ہے۔ اور تلوار کاٹ نہیں کرتی۔ آپ بدخشاں کو بھاگے۔ ابراہیم مرزا اپنی جگہ گرم کار زار تھا۔ اسے مصاحبوں نے کہا کہ ٹھیرنے کا وقت نہیں۔ باپ تمہارا میدان سے نکل گیا۔ اس جوانمرگ کی زبان سے نکلا کہ اب نکلنا دشوار ہے۔ یہیں لڑے جاتے ہیں۔ یا قسمت یا نصیب۔ محمد قلی شفا ولی نے زبردستی گھسیٹا۔ وہ بھی چلا۔ آخر پیادہ ہو کر بھاگا۔ رستہ میں تبدیل صورت کے لئے چار ابرو کی صفائی کر کے فقیر بنا۔ کہ کوئی نہ پہچانے۔ موت ہر رنگ میں تاڑ لیتی ہے۔ ایک مقام پر پہچانا گیا۔ لوگوں نے پکڑ کر پیر محمد خاں کے پاس پہنچایا۔ وہاں قید میں قتل ہوا۔ اس کا درد بخت باپ کے دل سے پوچھنا چاہیے۔ دیکھو جگر کا خون تاریخ ہو کر ٹپکا ہے۔ تخل امید پدر کو؟ بدفالی کا اثر اکثر خالی نہیں جاتا۔ چند روز پہلے مرنے والے نے خود ایک قصیدہ کہا مطلع تھا۔ رفتم بخاک حسرت چوں لالہ داغ بردل آرم بحشر بیروں باداغ دل سر از گل مگر ایک اور استاد نے رباعی خوب کہی ہے۔ رباعی اے لعل بدخشاں زبدخشاں رفتی از سایۂ خورشید درخشاں رفتی در دہر چو خاتم سلیماں بودی افسوس کہ از دست سلیمان رفتی جب ہمایوں کی بربادی کے بعد مرزا کامراں کابل میں مسلط ہوا۔ تو مرزا سلیمان کو کہا کہ میرا سکہ و خطبہ جاری کرو۔ اس نے نہ مانا۔ کامران نے فوج کشی کر کے اپنی ضد پوری کی اور کچھ علاقہ لے کر باقی ملک دے دیا۔ چند روز کے بعد سلیمان نے عہد شکنی کی۔ کامران پھر لشکر لے کر گیا۔ سلیمان چند روز کا محاصرہ اٹھا کر معہ عیال قید ہوا۔ جب ایران سے ہمایوں کی آمد ہوئی۔ تو یہ قید میں تھا۔ کامران نے اس باب میں مشورت کی۔ انہی دنوں میں سرداران بدخشاں نے بغاوت کر کے کامران کو لکھا تھا۔ کہ ہمارے سلیمان کو ہمیں دے دو۔ ورنہ تمہارے سرداروں کو قید خانے سے عدم کو روانہ کرتے ہیں۔ کامران نے اسے روانہ کر دیا۔ جب وہ چلا گیا تو پچھتایا۔ اور فوراً کہلا بھیجا کہ چند ضروری باتیں سمجھانی رہ گئی ہیں۔ مجھ سے مل جاؤ۔ وہ بھی سمجھ گیا تھا کہلا بھیجا کہ مبارک ساعت میں کوچ کیا تھا۔ ویسا وقت پھر نہ ہاتھ آئے گا۔ جو بات ہے لکھ بھیجو۔ اور جاتے ہی باغی ہو گیا۔ جب ہمایوں کابل میں فتح یاب ہو کر داخل ہوا۔ تو سلیمان نے عرضی بھیجی۔ آپ نہ آیا اور سکہ خطبہ اپنا جاری کر دیا۔ چند روز کے بعد ہمایوں نے فوج کشی کی۔ بڑے کشت و خون کے ساتھ لڑائی ہوئی۔ مرزا بھاگا اور چند روز سرگرداں پھر کر جیحوں پار اتر گیا۔ بدخشاں ہمایوں کے قبضہ میں آیا۔ مگر کچھ عرصہ کے بعد مرزا کو بلا کر پھر ملک سپرد کر دیا۔ کامران جب تباہ ہوا۔ تو بلخ سے پیر محمد خاں اذبک کی مدد لے کر بدخشاں پر آیا۔ ادھر سے سلیمان نکلا۔ ادھر سے ہمایوں پہنچا۔ حریف ناکام پھر گئے۔ مرزا سلیمان ہمایوں سے ملا رہتا تھا اور کبھی کبھی خود سری کے خیال بھی دوڑاتا تھا جب ہمایوں ہندوستان پر فوج لے کر چلا۔ تو مرزا سلیمان دربار میں تھا۔ اس سے بڑی محبت کی باتیں کر کے بدخشاں کو روانہ کیا۔ ابراہیم اس کے بیٹے کو رکھ لیا۔ اور بخشی بیگم اپنی بیٹی سے اس کی شادی کر کے بہت عزت سے رخصت کیا۔ ہمایوں کے بعد مرزا سلیمان کا لالچ اسے چار دفعہ کابل پر لایا۔ اور چار ہی دفعہ بدنیتی کے دامن میں آں پڑے۔ آخر ۹۸۲ھ میں مرزا شاہرخ اس کے پوتے نے جوش جوانی میں خودسری کے خیالات پیدا کئے۔ اور دادا کو ایسا تنگ کیا کہ بڈھا حج کا بہانا کر کے وہاںس ے بھاگا۔ اور کابل پہنچا۔ انقلاب زمانہ کو دیکھو۔ جس شیر خوار بچہ کو لاوارث یتیم دیکھ کر ۲۰ بس پہلے مرزا گھر چیننے آئے تھے۔ بڈھے ہو کر ہزار طرح کی ذلتیں اور خواریاں اٹھائیں۔ اور اسی کے پاس مدد کی التجا لائے۔ مرزا حکیم نے رخ نہ دیا۔ بڈھا۔ مایوس ہو کر ۹۸۳ھ میں ہندوستان کی طرف روانہ ہوا کہ دربار اکبری سے داد پائے۔ مرزا حکیم سے کہا کہ کچھ فوج بدرقہ کے لئے دو تاکہ منازل خطرناک سے نکال کر اٹک تک پہنچائے۔ نوجوان مرزا نے فوج دینے میں بھی ظرافت اور نزاکت کو کام فرمایا۔ ایسے لوگوں کو اس کے ساتھ کیا کہ پہلی ہی منزل میں چھوڑ کر چلے آئے۔ بڈھا بچارا حیران پھرے تو کس منہ سے پھرے۔ چھوٹے چھوٹے بیٹے بھی ساتھ تھے۔ تو کل بخدا۔ تنہا و بے سامان روانہ ہوا۔ رستہ میں کئی جگہ پہاڑوں کے دیوزاد سلیمان پر گرے۔ وہ بھی پتھر ہو کر گر گیا۔ خوب مردانگی سے مقابلے کئے۔ اور زخمی بھی ہوا۔ غرض لڑتا بھڑتا اٹک کے کنارہ تک آ پہنچا۔ اکبر کو عریضہ لکھا۔ اس میں ساری سرگزشت بیان کی۔ اور یہ بھی درج کیا کہ اس وقت تحفہ یا پیشکش کسی چیز تک ہاتھ نہیں پہنچتا۔ دو گھوڑے ساتھ رہ گئے ہیں کہ میرے خانہ زاد ہیں۔ یہی بھیجتا ہوں تاکہ عریضہ خشک خالی نہ ہو۔ اکبر کو اپنا سال جلوس اور مرزا کا کابل پر آنا بھولا نہ تھا۔ اس کے علاوہ مرزا نے آداب قرابت کا بھی کبھی خیال نہیں کیا تھا۔ لیکن کچھ مروت ذاتی اور کچھ اس مصلحت سے کہ مرزا کا ملک اذبک کے سامنے دیوار استوار ہے۔ اس کی اس قدر مہمان نوازی اور خاطر داری کی کہ نقاروں کی آواز بخارا اور سمرقند تک پہنچی۔ جب اس کا عریضہ پہنچا تو کئی طویلے گھوڑے کاٹھیا واڑ، ایرانی، بہت سے اجناس نفیس، خیمے اور بارگاہ اور حشمت شاہانہ کے سامان ۵۰ ہزار روپیہ نقد اور آغا خاں خزابچی وغیرہ امرا کو استقبال کے لئے بھیجا۔ مان سنگھ اس وقت سرحد پشاور پر تھے۔ اور راجہ بھگوان داس پنجاب میں تھے۔ ان مزاج دانوں نے اکبر کی مصالح ملکی اور اس کی مرضی پر جان و مال کو قربان کر دیا تھا۔ بلکہ آئین اکبری کے اجزاء یہی لوگ تھے۔ مان سنگھ فوراً پہنچے بڑے شان و شوکت سے استقبال کیا۔ اور دھوم دھام کی ضیافتیں کھلاتے لائے۔ راجہ بھگوان داس لاہور سے دریائے اٹک تک پہنچے۔ ضیافتیں کھلاتے لاتے تھے۔ اور جو جو حکام اور امرا رستہ کے آس پاس تھے۔ پرگنوں اور شہروں سے نکل نکل کر مہمانداری کے لوازمات ادا کرتے تھے۔ اسی طرح برابر لئے آئے۔ اکبر کو جب ان انتظاموں کے حالات معلوم ہوئے۔ تو بہت خوش ہوا۔ متھرا میں پہنچے۔ تو کئی امیر عالی رتبہ جن میں قاضی نظام بدخشی بھی شامل تھے۔ متھرا تک استقبال کو گئے۔ فتح پور کے پاس پہنچے۔ تو اول علما و شرفا وا کا برو مفتی و صدر الصور پھر امراء ارکان دولت، پھر خود باشاہ، ۵ کوس تک پیشوائی کو بڑھے۔ پانچ ہزار ہاتھی جن پر مخمل فرنگی اور زربفت کی جھولیں جھول رہی تھیں۔ چاندی سونے کی زنجیریں سونڈوں میں ہلاتے۔ سراگائے کی دمیں کالی اور سفید سرو گردن پر لٹکتی دو طرفہ برابر قطار باندھے تھے۔ ایرانی و عربی گھوڑے، طلائی و نقرئی زینوں سے سجے، مرصع ساز لگے، دو دو ہاتھیوں کے بیچ میں ایک ایک چیتا، گلے میں سونے کی زنجیر اور بھنور کلی، مخمل زرکار کی جھول، ایک ایک رنگین چکھڑے پر بیٹھا، ہر چکھڑے میں ناگوری بیلوں کی جوڑی، بیلوں پر شالہائے کشمیر اور کمخواب کی جھولیں سروں پر تاج زرکا، ۳ کوس تک تمام جنگل نگار خانہ بہار ہو رہا تھا۔ دیکھنے والے حیران تھے۔ کہ یہ کیا طلسمات ہے۔ کیونکہ آج تک اس انتظام کے ساتھ یہ سامان کسی نے نہین دیکھا تھا۔ سپاہی قدم قدم پر تعینات تھے۔ کہ سلسلہ راہ میں کہیں خلل راہ نہ پائے۔ شہر فتح پور کے بازار گلی کوچے صاف ہر جگہ چھڑکاؤ، دکانیں آئین بندی سے آراستہ تھیں۔ عید کا دن معلوم ہوتا تھا۔ شہر کے شرفاء کوٹھوں اور بالاخانوں میں بن سنور کر بیٹھے تھے۔ تماشائیوں کے ہجوم سے بازاروں میں رستے بند تھے۔ جس وقت بادشاہ نظر آئے۔ مرزا گھوڑے سے کود پڑا اور آگے دوڑا کہ تسلیم بجا لائے تو ردِ نرکانہ اور آداب شاہانہ کا آئین یہی تھا۔ مگر اکبر نے قرابت اور بزرگی عمر کی رعایت رکھی۔ جھٹ اتر پڑا۔ جھک کر سلام کیا۔ اور عمو عمو کہہ کر بغلگیری کے لئے ہاتھ بڑھائے۔ مرزا کو تسلیم و کورنش وغیرہ نہ کرنے دی۔ گلے ملے اور سوار ہو گئے۔ دولت خانہ انوپ تلاوکے درودیوار، صحن، طاق، محرابوں میں، پردے، سائبان زریں، گلدان گلدستے، سونے روپے کے جڑاؤ، ایوان و مکانات، فرشہائے مخملی و قالین ابریشمی سے آراستہ تھے۔ وہاں آ کر دربار کیا۔ مرزا کو اپنے پہلے میں جگہ دی۔ جہانگیر بچہ تھا۔ اسے بھی بلا کر ملایا۔ اور ہتیا پال دروازہ پر جہاں نقار خانہ تھا انہیں اتارا۔ ملا صاحب عجب شخص ہیں۔ یہاں بھی چٹکی لے گئے۔ فرماتے ہیں۔ ان دنوں میں تورۂ چنگیز خانی کو بھی زندہ کر دیا۔ مرزا کے دکھانے کو شیلان یعنی دسترخوانِ عام، دیوان خاص میں بچھتا تھا۔ اور بہ نسبت اور دلوں کے زیادہ وفور و وسعت کے ساتھ ہوتا تھا۔ معمولی وقت پر نقیب جاتے تھے۔ اور وہی چنگیزی تورہ پر سپاہیوں کو جمع کر کے لاتے تھے۔ کہ شیلان ترکانہ پر چل کر کھاؤ مرزا گئے۔ تورہ بھی گیا۔ اکبر کا ارادہ تھا کہ فوج دے کر اسے بھیجے۔ اور ملک پر قبضہ دلوا دے۔ اور حقیقت میں یہ مدد چند در چند مصلحتوں کی بنیاد تھی۔ خان جہاں حسین قلی خاں اس مہم کے لئے مقرر ہو چکا تھا۔ اسی عرصہ میں ملک بنگالہ سے بغاوت کی عرضیاں پہنچیں۔ اکبر نے مرزا سلیمان سے کہا کہ تم بنگالہ کو اپنا بدخشاں سمجھو۔ اور جا کر بندوبست کرو۔ مرزا نے انکار کیا۔ اکبر نے اس خدمت پر خان جہاں کو بھیج دیا۔ مرزا کو اپنی تمنا میں دیر پا مایوسی نظر آئی۔ اس لئے رخصت ہو کر حج کو چلا گیا۔ اکبر نے پچاس ہزار روپیہ خزانہ سے دیا۔ اور بیس ہزار کا فرمان خزانہ گجرات پر لکھ دیا۔ ۹۹۴ھ میں مرزا سلیمان حج کر کے ایران میں آئے۔ اور شاہ اسمعیل ثانی سے کمک کی التجا کی۔ شاہ نے بڑی عزت سے رکھا۔ اور چند روز کے بعد فوج قزلباش ہمراہ کر کے روانہ کیا۔ یہ ہرات میں آئے تھے کہ شاہ اسمعیل کا انتقال ہو گیا۔ منصوبہ بگڑ گیا۔ یہ مایوس ہو کر قندھار میں آئے۔ مظفر حسین مرزا شہزادہ ایرانی وہاں کا حاکم تھا۔ اسے نسبت قرابت پیدا کی۔ مگر کام نہ نکلا۔ کابل میں آئے مرزا حکیم سے مل کر چاہا کہ ہندوستان جائیں۔ اور پنجاب میں طوفان اٹھائیں۔ مرزا حکیم شامل نہ ہوا۔ مگر فوج ساتھ لے کر بدخشاں پر گیا۔ مرزا شاہرخ مقابلہ پر آیا۔ بہت سے بدخشی بدنیت پوتے کو چھوڑ کر دادا کی طرف چلے آئے۔ شاہرخ اوروں سے بھی بدگمان ہو گیا۔ اور کولاب کو چلا گیا۔ بہت سی قیل و قال کے بع دادا پوتے میں ملک تقسیم ہو گیا۔ مگر چند ہی روز میں پھر بگاڑ ہوا۔ اور یہ جھگڑے برابر جاری تھے۔ دادا اطراف سے مدد لیتے تھے۔ اور کبھی کام کبھی ناکام سرگردان ہوتے تھے۔ اسی حالت میں محرم بیکم مر گئی۔ جب تک وہ زندہ تھی۔ بگڑی بات بناتی تھی۔ اس کے بعد مرزا شاہرخ کی جوانی نے اسے زیادہ خود بین کر دیا۔ آخر بڈھے سلیمان تنگ ہو کر بخارا گئے۔ کہ عبد اﷲ خاں اذبک کے زور سے پوتے کو گوشمالی دیں۔ وہ تاشقند پر فوج لے کر گیا تھا۔ سکندر خاں اس کے باپ سے ملاقات ہوئی۔ اور صورت حال اچھی نظر آئی۔ باپ نے بیٹے کو روئیداد لکھی۔ وہ بھی ایک عجوبہ روزگار تھا۔ جواب میں لکھا کہ انہیں میرے آنے تک انتظار کرنا چاہیے۔ مگر خفیہ لکھا کہ قید کر لو۔ مرزا کو بھی خبر ہو گئی۔ یہ جس طرح دوڑ کر گئے تھے۔ اسی طرح بھاگ کر الٹے پھرے۔ اور حصار میں آ کر دم لیا۔ اور اپنے بندوبست سوچنے لگے۔ عبد اﷲ خاں تاشقند سے آئے۔ مرزا کا حال معلوم کیا۔ حاکم حصار کو لکھا کہ انہیں قید کر کے روانہ کرو۔ وہ ان کے ساتھ رسم و مروت کام میں لایا۔ یہ وہاں سے بھی بھاگے۔ عبد اﷲ خاں نے بدخشاں کی خبر لی۔ تو دیکھا کہ دستر خواں تیار ہے۔ اور کوئی مزاحم نہیں۔ فوراً قبضہ کر لیا۔ دادا پوتے جہاں جہاں تھے۔ جانیں لے کر کابل کی طرف بھاگے۔ رستہ میں ملاقاتیں ہوئیں۔ جس لقمہ پر جھگڑتے تھے۔ وہ لقمہ ہی نہ رہا۔ اب جھگڑا کیا تھا۔ دونوں مل کر صلاحیں کرتے تھے اور کچھ بن نہ آتی تھی۔ مرزا حکیم نے اس وقت بڑی انسانیت کی۔ کہ ایلچی بھیجا۔ بعض اشیائے ضروری بھیجیں۔ اور بلا بھیجا۔ مرزا سلیمان نے حج کر کے اس سے راہ نکال لی تھی۔ اور دربار اکبری سے شرمساری بھی تھی۔ وہ کابل کو چلے گئے شاہرخ سے انہیں کی بدولت چند روز پہلے بگاڑ ہوا تھا۔ وہ دربار اکبری کا راستہ ڈھونڈنے لگے۔ مرزا حکیم نے بڈھے مہمان کو لمغانات کے علاقے میں چند گاؤں دئیے۔ یہ چند روز وہاں بیٹھے۔ مگر بیٹھا کب جاتا تھا۔ پھر اس سے مدد لی اور ترک و افغان سے ایک جمعیت بنا کر اذبک سے دست و گریبان ہوئے۔ کئی معرکے کئے۔ کبھی غالب ہوئے۔ کبھی مغلوب۔ آخر مایوس ہو کر پھر کابل میں آئے۔ یہاں حکیم مرزا مر چکا تھا۔ مان سنگھ موجود تھے۔ انہوں نے بڑی عزت و احترام سے مہمانداری کی۔ اور دربار کو روانہ کر دیا۔ یہاں پر نئے سرے سے استقبال کی دھوم دھام ہوئی۔ شہزادہ مراد لینے گئے۔ جاگیر و وظیفہ مقرر ہو گیا۔ آخر ۷۷ برس کی عمر ۹۹۰ھ میں لاہور سے ملک عدم کو کوچ کر گئے۔ یخشی ان کی ولات کی تاریخ تھی۔ کہ ترکی میں بمعنی خوب ہے۔ مرزا شاہرخ مرزا سلیمان کی بی بی حرم بیگم کا حال مجملاً کہیں کہیں آیا ہے۔ کہ ولی نعمت بیگم کہلاتی تھی۔ اور حق یہ ہے کہ وہ مردانی بی بی دیو کی طرح سلیمان کو دبائے رکھتی تھی۔ خاوند برائے نام حاکم تھا۔ حکومت اس سینہ زور بی بی کے ہاتھ میں تھی۔ جس طرح چاہتی تھی حکم کرتی تھی۔ تمام امرا اور سرداروں کو اس کی گردن کشی اور خود رائی نے جان سے تنگ کر دیا تھا۔ آخر ان لوگوں کی دعائیں قبول ہوئیں۔ اور اس مرو مار بیگم پر آسمان سے نحوست نازل ہوئی۔ شاہ محمد سلطان کاشغری کی بیٹی محترمہ خانم کامران کے عقد میں تھی۔ اور کابل میں رہتی تھی۔ وہ کامران کی خانہ بربادی کے سب سے کاشغر کو چلی۔ بدخشاں سے اس کا گزر ہوا۔ قرابت خاندانی کے سبب سے یہاں ٹھیری۔ ع پیری و صد عیب ہمیں گفتہ اند مرزا سلیمان کا ارادہ ہوا کہ اس سے نکاح کرے۔ بڑھیا بیگم کو کسی طرح پتہ لگ گیا۔ وہ کب دیکھ سکتی تھی۔ کہ ایسی خاندانی شہزادی اس پر سوکن ہو کر بیٹھے۔ اندر ہی اندر ایچ پیچ کھیل کر اپنے نوجوان بیٹے مرزا ابراہیم کو اکسایا۔ اس نے محترمہ بیگم سے نکاح کر لیا۔ سلیمان بڈھے منہ دیکھتے رہ گئے۔ پری ہاتھ نہ آئی۔ خانم کو پیچھے معلوم ہوا کہ میں ملکہ زمانی ہوتے ہوتے رہ گئی۔ بہت ملال ہوا اور بیگم اور خانم کے دلوں میں گروہ پڑ گئی۔ بیگم کے کلہ توڑ حکموں سے امرائے بدخشاں کے دل ٹکڑے ٹکڑے ہو رہے تھے۔ اور ہمیشہ تاک میں رہتے تھے۔ مرزا حیدر علی ایک شخص بیگم کی سرکار میں مختار تھا۔ اور وہ اسے بھائی کہتی تھی۔ ان دنوں مین سب نے موقع پا کر بیگم کے دامن میں تہمت کی خاک ڈالی۔ اس بات کا چرچا مرزا ابراہیم تک پہنچا۔ نوجوان ناتجربہ کار، نہ سوچا نہ سمجھا، مرزا کو مار ڈالا۔ بیگم بڑی دانا و دور اندیش تھی۔ زہر کا گھونٹ پی کر رہ گئی۔ مگر امرا کے پیچھے پڑی۔ لوگوں کے دلوں میں پہلے بیگم کی طرف سے بیزاری تھی۔ اب نظروں میں بے عزتی بھی ہو گئی۔ ۹۶۸ھ میں اذبک کے خوانین نے جیجوں اتر کر بلخ اور ختلان تک قبضہ کر لیا تھا۔ اور بدخشاں کی حدود پر ہاتھ مارتے تھے۔ مرزا بھی انہیں کلہ شکن جواب دیتے تھے۔ انہی دنوں میں پیر محمد خاں اپنے لشکر لے کر آیا۔ باپ بیٹے فوجیں لے کر سامنے ہوئے۔ مرزا سلیمان تو پہلو بچا کر نکل آیا۔ مرزا ابراہیم لڑ مرا۔ اور گرفتار ہو کر اذبک کی قید میں مارا گیا۔ بیگم کو بڑا رنج ہوا۔ لباس ماتم پہنا۔ اور ایسا غم کیا کہ جب تک جیتی رہی۔ سوگ کے کپڑے نہ اتارے۔ مگر اس کا زور حکومت ٹوٹ گیا۔ مرزا ابراہیم نے ایک شیر خوار بچہ محترمہ خانم کے شکم سے چھوڑا۔ اس کا نام شاہرخ تھا بیگم ہمیشہ خانم کو طعنے دیا کرتی کہ اس بدشگون نحس نے گھر ویران کر دیا۔ اور رنگ برنگ سے دل آزاری کرتی تھی۔ مطلب یہ تھا کہ وہ تنگ ہو کر کاشغر چلی جائے۔ شاہرخ کو میں پالوں۔ اور اس کی حکومت میں حکم حاصل کروں خانم سنتی تھی۔ اور صبر کرتی تھی۔ اسی حال میں شاہرخ بڑا ہوا۔ خوانین دربار بیگم سے اور اس کی بدولت مرزا سلیمان سے ناراض تو پہلے ہی تھے۔ اب مرزا شاہرخ بڑا ہوا تو اسے زیادہ بڑھانے لگے۔ رفتہ رفتہ دادا کو پوتے سے برگشتہ کر کے تخت سلیمانی پر بٹھانا چاہا۔ بہت سی رد و بدل کے بعد یہ قرار پایا کہ جو علاقہ اس کے باپ کو دیا ہوا تھا ہو اس کے ملنا چآہیے یہ بھی ہو گیا۔ مگر مختلف مقدموں پر بگاڑ کی چقماق چمکتی رہتی تھی۔ اور بیگم اور خانم کے بگاڑ اس پر رنجک اڑاتے تھے۔ اسی عرصہ میں حرم بیگم مر گئی اور اب سلیمان کی بالکل ہوا بگڑ گئی۔ ناچار حج بیت اﷲ کا بہانہ کیا۔ اور سلطنت پوتے کو دے کر کابل میں آیا۔ کہ مرزا حکیم سے مدد لے کر مفسدوں سے ملک سلیمان کو پاک کرے وہاں وہ پیش آیا۔ جو تم نے سن لیا۔ اور انجام یہ ہوا کہ گھر برباد ہو گیا۔ اور بدخشاں جیسا ملک عبد اﷲ خاں اذبک نے مفت مار لیا۔ جب سے مرزا سلیمان ہندوستان کی طرف آئے تھے۔ مرزا شاہرخ اور ان کی والدہ اکبر کو عرائض و تحائف بھیج کر عقیدت کا رشتہ جوڑتے تھے۔ جب اذبک نے خانہ ویران کر کے نکالا۔ تو مرزا شاہرخ مدت تک کوہستان کابل میں سرگردان رہے۔ اور سخت آفتیں اٹھائیں۔ حسن، حسین اور بدیع الزمان مرزا تین بیٹے ساتھ تھے۔ حسن رستے میں بچھڑ گیا۔ مرزا کو بڑا رنج ہوا۔ زمان مرزا بیٹا ان کا وطن کے کناروں پر اڑ بیٹھا۔ اور جب موقع پاتا تھا۔ اذبک کو پہلو مارتا تھا۔ یہ بھی موقع ڈھونڈتے تھے۔ ایک دو دفعہ ہمت کر کے گئے۔ مگر مایوس ہو کر پھرے۔ اور پہلے سے زیادہ بدحالی اٹھائی۔ لشکر تباہ ہوا۔ سامان لٹ گیا۔ پہاڑ میں مرزا سلیمان کا گھوڑا ٹھوکر کھا کر گر پڑا۔ پوتے نے اپنا گھوڑا دیا۔ کہ اس پر سوار ہو۔ بڈھے بچارے سے یہ بھی نہ ہو سکا۔ گھوڑا بھاگ گیا۔ اسے ایک نوکر نے اپنے گھوڑے پر چڑھایا۔ مرزا شاہرخ باوجود یہ کہ بہت موٹے تھے۔ مگر دوڑ کر گھوڑے کو پکڑا اور سوار ہو کر بھاگے۔ آخر دادا نے ہندوستان کا رستہ بنا دیا تھا۔ ۹۹۳ھ میں انہوں نے بھی دربار اکبری کا رخ کیا۔ چنانچہ جب کنار اٹک پر پہنچے۔ تو راجہ مان سنگھ نے استقبال کیا۔ پانچ ہزار سو روپے نقد ہزاروں کے نفائس اور تحائف، آٹھ گھوڑے، پانچ ہاتھی پیشکش کئے۔ اسی کی رسائی تدبیر سے بچھڑا ہوا بیٹا بھی آ گیا۔ سب خدمتیں اور تجویزیں پسند اور مقبول ہوئیں۔ اکبر بھی بہت خوش ہوئے۔ جب لاہور سے راجہ بھگوان داس نے بیٹے سے زیادہ شوکت و حشمت دکھائی۔ مرزا سرہند تک پہنچ لئے۔ تو دربار سے فوراً قاضی علی بخشی کو استقبال کے لئے روانہ کیا۔ آگرہ کے پاس پہنچے۔ تو لاکھ روپیہ نقد، سامان فراشخانہ، تین ایرانی، نو ہندوستان کے گھوڑے، پانچ ہاتھی، چند قطاریں اونٹوں کی، کئی لونڈی غلام مرحمت ہوئے۔ مرزا شاہرخ بڑا نیک نیت اور صاف دل مرزا تھا۔ اس کی طبیعت میں اپنی طرف سے کسی قسم کی ترقی یا عروج کی ہوس کبھی نہیں آئی۔ جو کچھ ملا لے لیا۔ اس کی تعمیل کرتا رہا۔ اکبر کو بھی اس کی طرف سے نیک خیال اور نیک بھروسے تھے۔ ۱۰۰۱ھ میں اس سے شکرن بیگم بیٹی کی شادی کر دی۔ پنج ہزاری منصب عنایت فرمایا۔ مالوہ کا ملک دیا۔ اور شہباز خان کمبو اتالیق بنا کر ساتھ کیا بات وہی ہے کہ ڈرتا تھا یہ بھی باغی نہ ہو جائے۔ ورنہ اتنے بڑے موٹے تازے بہنڈ جوان کے لئے اتالیق کی کیا حاجت ہے۔ تم جانتے ہو کہ بابر کو اس کے اقربا نے خانہ برباد کیا۔ ہمایوں کا گھر بھائیوں نے ویران کیا۔ اکبر کو شہزادگان تیموری اور مرزا اشرف الدین وغیرہ نے تھوڑا دق نہیں کیا۔ اس لئے اکبر بلکہ سلاطین تیموریہ ہمیشہ رشتہ داروں سے ہشیار رہتے تھے۔ اسے مالوہ سمیت دکن میں جاگیر دی تھی۔ خان خاناں کے ساتھ سہیل خان کی لڑائی میں شامل تھا۔ ابو الفضل جب گئے تو انہوں نے بھی مدد کو بلایا۔ دانیال کی لشکر کشی میں بھیجے گئے۔ سب کو خوش رکھا۔ اور آپ سب سے خوش رہا۔ اخیر عہد اکبری میں ہفت ہزاری منصب عطا ہوا۔ جہانگیر نے بھی اپنی توزک میں اس کی خوش اطواری و سعادت مندی کی تعریف لکھی۔ لکھتا ہے کہ سیدھا سادہ ترک ہے اور اس نے مجھے کبھی نہیں ستایا۔ ایک اور جگہ لکھتا ہے۔ اگرچہ حسینی سے زیادہ عالم میں کوئی بے حقیقت نہیں۔ مگر مرزا شاہرخ گویا بدخشی نہیں۔ بیس برس ہوئے۔ ہندوستان میں آیا ہے۔ زبان ہندی بالکل نہیں جانتا۔ یاد رکھنا یہ وہی مرزا شاہرخ ہیں۔ جن کی بابت عبد اﷲ خان اذبک نے اکبر کو شکایت لکھی کہ مرزآ شاہرخ ہم سے گستاخی و بے ادبی کر کے گیا۔ اور تم نے اسے ایسے اعزاز و احترام کے ساتھ رکھ لیا۔ پھر اس کے جواب مین اکبر کی طرف سے ابو الفضل نے طبع آزمائی کی ہے۔ مرزا نے ۱۰۱۶ھ میں اجین میں قضا کی اور شہر کے باہر دفن ہوئے۔ کابلی بیگم مرزا حکیم کی ایک بیٹی ان سے بیاہی تھی۔ وہ ہڈیاں لے کر مدینہ منورہ کو گئے۔ بدوؤں نے رستہ بند کر رکھا تھا۔ آپ بصرہ سے ایران کو روانہ ہو گئے۔ جنازہ ادھر بھیج دیا۔ میر عبد الطیف قزوینی (ملا صاحب لکھتے ہیں) اعاظم سادات حسینی سبقی میں سے تھے۔ ان کا خاندان آبا و اجداد سے تاریخی مشہور چلا آتا ہے۔ والد ان کے قاضی میریحیے۔ یحیے معصوم کہلاتے تھے۔ حیرتی شاعر نے ایک مثنوی میں ان کی بھی مدح کی ہے۔ اور تاریخ دانی کے وصف کا اشارہ کیا ہے۔ قصۂ تاریخ ازو باید شنید کس دریں تاریخ مثل اوندید میر علاء الدودلہ صاحبِ تذکرہ ان کے چھوٹے بھائی تھے۔ میر عبد اللطیف مرحوم نے انہیں باپ کی طرح کنار شفقت میں پالا تھا۔ اور میر علاء الدولہ انہیں حضرت آقا کہا کرتے تھے۔ قزوین کے لوگ شاہ طہماسپ کی اطاعت نہ کرتے تھے۔ لوگوں نے عرض کی۔ کہ یہ سرکشی ان کی میر عبد اللطیف کی پشت گرمی سے ہے۔ کہ ان کا مذہب سنت و جماعت ہے۔ شاہ نے ان پر سختی کی۔ مختصر یہ کہ میر عبد اللطیف وہاں سے بھاگ کر گیلانات کے پہاڑوں میں چلے گئے۔ انہی دنوں میں ہمایوں بھی ایران پہنچا۔ کسی مقام پر ان کی ملاقات ہو گئی تھی۔ اور وعدہ ہوا تھا کہ اگر اقبال نے مدد کی تو ہم پھر ہندوستان میں پہنچے۔ تو تم بھی آنا۔ چنانچہ حسبِ وعدہ ۹۶۳ھ میں یہاں پہنچے کہ اکبر اسی برس تخت نشین ہوا۔ میر موصوف دربار بلکہ خاص و عام میں معزز و محترم رہے۔ ۵ رجب ۹۸۱ھ کو فتح پور سیکری میں دنیا سے انتقال کیا۔ اور قلعہ اجمیر میں سید حسین جنگ سلوار کی درگاہ میں دفن ہوئے۔ قاسم ارسلان نے تاریخ کہی۔ فخر آل یٰسین، تمام عالم کے علماء اور بزرگان دین میں سے پانچ چار شخص ہیں۔ جو ملا صاحب کی زبان قلم سے الفاظ تعریف کے ساتھ کامیاب ہوئے ہیں۔ ان میں سے میر موصوف اور ان کے بیٹے ہیں۔ ابو الفضل کی کیا تعریف کروں۔ ہر معاملہ میں ایک نئی بات نکالتے ہیں۔ اور ایک بات میں ہزار باتیں ملفوف ہوتی ہیں۔ اکبر نامہ میں ان کے آنے کا حال لکھتے ہیں۔ میر اقسام علوم اور فضل و کمال اور لطف کلام اور ملائمتِ قلب اور شرائف صفات میں اہل زمانہ میں سے نہایت ممتاز تھے۔ تعصب سے پاک تھے۔ سینہ کھلا ہوا تھا۔ اس لئے ایران میں تسنن اور ہندوستان میں تشیع سے نامزد تھے۔ بات یہ ہے کہ صلح کل کے امن خانہ کے رہنے والے تھے۔ اس لئے پرجوش متعصب بدنام کرتے تھے۔ میرزاغیاث الدین علی ان کے بیٹے بھی ساتھ آئے تھے۔ چنانچہ وہ ملا صاحب فیضی ابو الفضل سب ہم سبق تھے۔ کہ شیخ مبارک کے دامن تعلیم سے علم کے ساتھ اقبال کی نعمت لے کر اٹھے تھے۔ ملا صاحب اس کے باب میں کہتے ہیں۔ ان کا فرزند رشید کہ ملائک کے اخلاق اس کا ملکہ ہیں۔ حمیدہ اطوار ہے۔ اور مظہر اس حدیث کا ہے۔ کہ الولد الحربا بائہ العر شریف بیٹا اپنے روشن بزرگوں کا پیرو ہوتا ہے۔میر غیاث الدین ملقب بہ نقیب خاں علم سیر، تاریخ، اسمائ، الرجال اور عام حالاتِ سلاطین و ملوک و امرا و اہل کمال میں ایک آیت ہے۔ آیات روزگار سے اور ایک برکت ہے۔ برکاتِ زمانہ سے اور لوح محفوظ کی نقل ثانی ہے۔ بادشاہ کی ملازمت میں دن رات، تاریخ اور عام نظم و نثر سناتا ہے۔ ایک اور جگہ کہتے ہیں ان کا فرزند رشید نجیب سعادت مند مرزا غیاث الدین علی آخوند، فرشتوں کے اخلاق سے آراستہ کمالات علمی سے پیراستہ علم سیر، تاریخ، اسماء الرجال میں اس کا ثانی نہ عرب میں بتاتے ہیں۔ نہ عجم میں۔ فقیر کو کل مقربان شاہی میں اس کے ساتھ نسبت خاص ہے۔ اور لڑکپن سے ہم عہدی اور ہم درسی اور ہم سبقی اور برادری ایمانی کا عقد ہے۔ اب وہ بڑی عرق ریزی سے بادشاہ کی خدمت میں مصروف ہے۔ تیس برس سے زیادہ ہوئے کہ خلوۃ اور جلوۃ میں قصے، حکائتیں فارسی و ہندی افسانے کہ (ان دنوں میں ترجمہ ہوئے ہوئے ہیں) سنایا کرتا ہے۔ گویا بادشاہ کی زندگی کا جز ہو گیا ہے۔ ایک پل جدائی ممکن نہیں۔ آج کل ذرا بخار اس کے جسم مبارک کو عارض ہے۔ درگاہ الٰہی سے امید ہے کہ جلد صحت کامل اور شفائے عاجل حاصل ہو۔ چونکہ نیک سب جگہ عزیز ہیں۔ خدا اسے سلامت رکھے۔ بدانِ زمانہ کو دعا کی کیا ضرورت ہے۔ اس کی بدی ہی اپنا کام کر جائے گی۔ اس زبان پر حیف ہے۔ جو اس قوم بے نشان کے نام سے آلودہ ہو۔ (فیضی اور ابو الفضل بچارے مراد ہونگے) آزاد ۹۸۹ھ میں جبکہ بادشاہ محمد حکیم مرزا کی مہم پر کابل جاتے تھے۔ کاب خوانی کے جلسے تو ہر وقت گرم رہتے تھے۔ میر موصوف نے اٹک اتر کر ایک حال کی تحقیق بہت خوبی سے ادا کی۔ اکبر نے نقیب خاں خطاب دیا۔ اور خلعت فاخرہ، خاصہ کا گھوڑا ہزار روپے نقد مرحمت فرمائے۔ نقیب خاں کے باب میں جہانگیر نے اپنی تخت نشینی کے حالات میں لکھا ہے۔ اسے میں نے ہزار و پانصی منصب عطا کیا۔ میرے والد نے نقیب خاں کے خطاب سے ممتاز کیا تھا۔ اور ان کی خدمت میں مقرب اور صاحب منزلت تھا۔ ابتدائے جلوس میں اس سے ابتدائی کتابوں کے سبق پڑھے تھے۔ اس لئے آخوند کہا کرتے تھے۔ علم تاریخ اسماء الرجال یعنی وہ حالات اور معلومات جن سے اشخاص کے بااعتبار بے اعتبار ہونے کی تحقیق و تصحیح ہو۔ ان امور میں وہ اپنا نظیر نہیں رکھتا۔ آج ایسا مورخ معمورۂ عالم میں نہیں۔ دنیا بھر کا آج تک حال زبان پر ہے۔ ایسا حافظہ کسی کو خدا ہی دے۔ ۱۰۲۳ھ میں جہانگیر نے لکھا ہے۔ نقیب خاں رحمت الٰہی میں داخل ہوئے۔ دو مہینے پہلے بارہ دن کے بخار میں بی بی مر گئی تھی۔ اس سے نہایت محبت تھی۔ میر عبد اللطیف ان کا باپ بھی اجمیر میں مدفون ہے۔ میں نے کہا کہ انہیں بی بی کے پہلو میں رکھیں کہ خواجہ بزرگوار کے روضہ میں مدفون تھی۔ نقابت ملک عرب میں بڑا معزز رتبہ اور قومی عہدہ تھا۔ ظاہر ہے کہ عہد قدیم میں وہاں تحریر نہ تھی۔ اس واسطے حالات سلف کا رستہ بھی ریگستان بے نشان تھا۔ اور تاریخی حالات کی تدوین بھی نہ ہوئی تھی۔ جو کچھ تھا۔ زبان بہ زبان، سینہ بہ سینہ، بزرگوں اور کہن سال لوگوں میں چلا آتا ہے۔ جو شریف و نجیب قبیلہ کے ہوتے تھے۔ وہ اپنے اکثر قبیلوں کے جزوی و کل حالات سے بلکہ ان کے آباؤ اجداد سے۔ اور گھر گھر کے معاملات سے اور ان ے سلسلہ ہائے خاندان سے واقف ہوتے تھے۔ ان میں سے جس شخص کو ان معلومات میں مہارت کامل ہوتی تھی۔ اور صادق القول، نیک نیت، نیک اعمال صاحب دیانت و امانت، فصیح و بلیغ ہوتا تھا۔ اسے سب کی اتفاق رائے سے نقابت کا منصب ملتا تھا۔ جس دن یہ عہدہ اسے ملتا۔ بہت سے قبیلے جمع ہوتے تھے۔ وہ سب کو ضیافت دیتا تھا۔ شادمانی کے نشان ظاہر کرتا تھا۔ سب اس کو مبارک باد دیتے ھے۔ اور منصب مذکور پر منصوب کرتے تھے۔ یہ امر اس کے اور اس کے خاندان کے لئے فخر و اعزاز کا موجب ہوتا تھا۔ جب کوئی اختلاف ہوتا تو سب اس کی طرف رجوع کرتے جو وہ کہتا تھا۔ اسے سب تسلیم کرتے تھے۔ انہی تاریخی معلومات کے سبب سے کہ ان کے خاندان میں تاریخ دانی چلی آتی تھی اور انہیں بذات خود بھی یہ فضیلت حاصل تھی۔ اکبر نے انہیں نقیب خاں خطاب دیا تھا۔ نظام الدین احمد بخشی صاحب طبقات اکبری جن دو تین شخصوں سے ملا عبد القادر بداؤنی خوش ہیں۔ ان میں سے ایک یہ ہیں۔ اکثر مصنف ان کی تاریخ کی تعریف کرتے ہیں۔ اس لئے ان کا ابتدائی حال ماخرالامرا سے لکھتا ہوں۔ خواجہ مقیم ہروی ان کے باپ، بابری خد متگذاروں میں تھے۔ اخیر میں دیوان بیوتات ہو گئے تھے۔ بابر کے بعد مرزا عسکری کے پاس رہے۔ جب ہمایوں نے احمد نگر مرزا کو دیا تو خواجہ اس کے وزیر ہو گئے۔ ہمایوں نے جب جو ساہ کے کنارے شیر شاہ سے شکست کھائی۔ اور چند سواروں کے ساتھ آگرہ کو بھاگا تو یہ ہمرکاب تھے۔ اکبر کے عہد میں چند سال خدمت کر کے دربار عدم میں منتقل ہو گئے۔ نظام الدین احمد راستی و درستی اور معاملہ فہمی و کار دانی میں رشتہ عالی رکھتے تھے۔ اور رفاقت پرستی اور صفائی و آشنائی میں یگانہ زمانہ تھے۔ ذخیرہ الخوانین میں لکھا ہے کہ ابتدا میں اکبر کے دیوان رہے۔ یہ کسی کتاب سے ثابت نہیں۔ البتہ جب ۹۹۱ھ میں اعتماد خاں گجراتی کو صوبہ گجرات عنایت ہوا۔ تو اس صوبہ کی بخشی گری ان کے نام کر کے ساتھ کر دیا تھا وہاں باوجود جوانی کے ایسی حانفشانی اور سرگرمی سے خدمتیں کیں۔ کہ بڈھے بڈھے سردار دیکھتے رہ گئے۔ مرزا عبد الرحیم خان خاناں کی سپہ سالاری کو ان کی جرأت اور جانبازیوں نے بڑی قوت دی۔ اور وہاں بخشی گری مدت تک زیر قلم رہی۔ جب خان خاناں کو صوبہ جونپور عنایت ہوا۔ تو انہیں بھی بلا لیا۔ طلب موقع ضرورت پر تھی۔ اس لئے بارہ دن میں چذ سو کوس رستہ مار کر لاہور میں آ حاضر ہوئے۔ ۳۵ھ جشن جلوس کی تیاریاں ہو رہی تھیں۔ حضور میں عرض ہوئی کہ خواجہ اور جماعت کثیر ان کے ہمراہی سب شتر سوار آئے ہیں۔ عالم قابل تماشا ہے حکم ہوا کہ اسی طرح سوار سامنے حاضر ہوں۔ بادشاہ دیکھ کر خوش ہوئے۔ خواجہ بعد اس کے حاضر خدمت رہے۔ اور ترقی روز بروز قدم برانے لگی۔ ۳۷ جلوس میں آصف خاں مرزا جعفر جلالہ روشنائی کی مہم پر چلے۔ تو خواجہ میر بخشی لشکر ہوئے۔ ۴۵ برس کی عمر ۱۰۰۳ھ میں تپ محرقہ سے مر گئے۔ اجزائے حالات جو ماثر میں مختصر تھے۔ میں نے مختلف مقاموں میں تاریخوں سے بہ تفصیل لکھے ہیں۔ طبقات اکبری عمدہ تاریخ ہے۔ ۱۰۰۲ھ تک اکبر کا حال لکھا ہے۔ اگرچہ مفصل نہیں مگر مختصر بھی نہیں۔ عبارت صاف، بے تکلف، بے مبالغہ، حالات کی تحقیق، احوالات کی تنقیح، اخبار کے فراہم کرنے میں بڑی کوشش اور دقت اٹھانی پڑی۔ اور چونکہ میر معصوم بہکری وغیرہ باخبر اور معتبر اشخاص شریک تالیف تھے۔ اس لئے معتبر مانی جاتی ہے۔ یہی پہلی تاریخ ہے۔ کہ جو جو بادشاہ مختلف ممالک ہند میں ہوئے۔ ابتدا سے عہد تصنیف تک سب کے حال پر حاوی ہے۔ محمد قاسم فرشتہ اور ان کے بعد جو مورخ آئے اور اس سے زیادہ لکھ گئے۔ اصل سب کی یہی ہے۔ خاتمہ میں لکھتے ہیں کہ اگر عمر نے رفاقت کی تو آئندہ کے حالات بھی ترتیب دے کر ضمیمہ لگاؤں گا۔ نہیں تو جسے توفیق ہو کی لکھے گا۔ ہیمو بقال تمام مورخ ہیمو کے حال کو سب الفاظ اور سخت عبارتوں میں ادا کرتے ہیں۔ لیکن اس کی لیاقت اور ترقی کی رفتار میں قلم کو کھینچ کر تعریف کے میدان میں لاتے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ وہ ریواڑی کا غریب بنیا قوم کا ڈھوسر تھا۔ (جسے ابو الفضل نے لکھا ہے کہ بنیوں میں ایک رذیل فرقہ ہے) عام اہل تاریخ لکھتے ہیں کہ وہ گلیوں اور بازاروں میں لونوں! لونوں! کہتا پھرتا تھا۔ یہ بھی درست ہے کہ وہ بدن کا حقیر، صورت کا کم رو، آنکھ سے بھینگا یا کانڑاں تھا۔ لیکن اس کے چست انتظام، برجستہ تدبیریں اور جنگی فتوحات کو کون چھپا سکتا ہے۔ ہندوستان میں جو مورخ ہوئے۔ چغتائی نمک خوار تھے۔ اس لئے ان کے لکھنے پر پورا اعتبار نہیں۔ اس کے اوصاف کی باتیں اور فتوحات کی حکایاتیں ضرور سیاہی کے پردہ میں رہیں اور برائیوں نے حرف بحرف روشنائی کا لباس پہنا ہو گا۔ مورخاں مذکور کا یہ اعتراض درست ہے کہ اس ذات و صفات پر اس نے اکبر کے منہ پر تلوار کھینچی۔ جس کے سر پر سات پشت سے سلطنت کے نشان جھومتے تھے۔ لیکن اس کا کیا جواب ہے کہ سلطنت کسی کی میراث نہیں۔ اگر دو تین پشت بھی سلطنت اس کے خاندان میں رہ جاتی تو ہم دکھا دیتے کہ آزاد جیسے کتنے خوشامدی مورخ پیدا ہو جاتے۔ وہ اس کے کارناموں اور انتظاموں کو کہیں سے کہیں پہنچاتے۔ اور خاندان کے پست سلسلہ کو اوتاروں سے جا ملاتے۔ جن قدموں سے وہ ترقی کی سیڑھی چڑھا۔ قابل دیکھنے کے ہیں۔ قسمت کی زنجیر اس کے پاؤں کو گلی کوچوں سے کھینچ کر سلیم شاہ کے بازار لشکر میں لے گئی۔ رفتہ رفتہ وہاں دکان کھول لی۔ آدمی رسا تھا۔ بازار کا چودھری ہو گیا۔ سلیم شاہ باوجود جباری و قہاری کے کمینہ مزاج بھی بشدت تھا اور کم رتبہ لوگوں سے بہت گھل مل جاتا تھا۔ اسے ہمزبانی کا موقع ملنے لگا۔ بادشاہ نے ہر کام میں اس کی کار گزاری اور محنت دیکھ کر بازار لشکر کا کوتوال کر دیا۔ چند روز میں مقدمات فوجداری بھی اس کے حوالے ہو گئے۔ نمک حلال بالیاقت نے اور زیادہ ہمت اور محنت دکھائی۔ بادشاہ سر شور افغانوں سے بیزار تھا۔ اور ان کا توڑنا مدنظر رکھتا تھا۔ اسے کام کا بوجھ سہارتا دیکھتا تھا۔ اس لئے خدمتیں دیتا۔ اور منصب بڑھاتا جاتا تھا۔ غرض اپنی خدمت گزاری یا آقا کی خیر خواہی و خدمت گزاری خواہ اوروں کی چغل خوری کچھ ہی سمجھو۔ وہ روز بروز کار دار صاحب اعتبار ہوتا گیا۔ اور جو امرائے عالی وقار کے کام تھے۔ وہ اسے ملتے گئے۔ انتہا ہے کہ جب ہمایوں ایران سے کابل میں آ گیا اور کامران بھاگ کر ادھر آیا۔ تو دربار سلیم شاہی سے لالہ ہیمو رائے اس کے لینے کو گئے۔ یہ بات کامران کو ناگوار بھی گزری مگر کیا ہو سکتا تھا۔ سلیم شاہ کے بعد محمد عدلی بادشاہ ہوا۔ وہ عیش اور بے خبری کو لطف زندگی سمجھتا تھا۔ لطیفہ ہندوستان کے لوگ عجب آفت ہیں۔ عادل شاہ کو عدلی اور عدلی کو اندھلی کہتے تھے۔ اس نے ہیمو کو بسنت رائے بنایا۔ اور اس کے اختیاروں کو اور بھی مطلق العنان کر دیا۔ یہاں تک کہ وزیر اور وکیل مطلق ہو گیا۔ ہیمو نے بھی باوجود یہ کہ ایک بے علم بے حقیقت بنیا تھا۔ مگر لیاقت اور تدبیر کے ساتھ وہ دلاوری دکھائی کہ جس کی امید نہ تھی۔ چنانچہ جب کرانی سردار دربار سے کنارہ کش ہو کر بنگالہ میں جا بیٹھے۔ تو عدلی خود فوج لے کر چنار پر گیا۔ طرفین نے کنارہ دریا پر لشکر ڈالا۔ اور مقابل آن پڑے۔ ہیمو نے ایک دن کہا کہ اگر ایک حلقہ ہاتھیوں کا اور فوج مناسب مجھے مل جائے تو کرانیوں کے دھوئیں اڑا دوں۔ عدلی نے سب سامان دیا۔ اور ہیمو نے ان کے انبوہ کو تہ و بالا کر دیا۔ ابراہیم سور ہ عدلی کی بہن اس سے منسوب تھی۔ اور صاحب فوج و علم امیر تھا۔ عدلی نے چاہا کہ اسے گرفتار کر لے۔ عدلی کی بہن نے ابراہیم کو کہ اس کا شوہر تھا۔ خبر دی کہ میرا بھائی یہ ارادہ رکھتا ہے۔ وہ چنار سے بھاگا اور آگرہ وغیرہ مار کر میانۂ ولایت کو دبا کر نشان بادشاہی علم کیا۔ عدلی نے ہیمو کو فوج جرار اور ہاتھی بے شمار دے کر روانہ کیا۔ ابراہیم نے بڑی پامردی سے کالپی پر مقابلہ کیا۔ اور ایسا لڑاکہ شائد رستم ہوتا تو اتنا ہی کرتا ہیمو نے اسے شکست دی۔ ابراہیم بیانہ کی طرف آیا۔ اور لشکر جنگی جمع کر کے تیار ہوا۔ ہیمو پیچھے پیچھے آیا ابراہیم نے دس کوس آگے بڑھ کر میدان کیا۔ یہاں بھی خوب رن پڑا۔ مگر قسمت سے کون جیت سکے۔ ہیمو نے شکست دے کر قلعہ بیانہ میں قلعہ بند رکھا۔ اور اطراف و جوانب کو لوٹ مار دوڑ و پاڑ سے خاک در خاک کر دیا۔ اتنے میں عدلی کا فرمان پہنچا۔ کہ اسے بہت بھاری بلا کا سامنا ہے۔ محاصرہ اٹھاؤ اور چلے آؤ۔ وہاں محمود کوڑیہ ایک افغان نامی کے ساتھ عدلی کا مقابلہ تھا۔ اور مقام چرکتہ پر کہ کالپی سے پندرہ کوس ہے۔ دونوں لشکر آمنے سامنے پڑے تھے۔ کوڑیہ کے ساتھ افغانوں کی فوج آراستہ، ہاتھی دیو کو ہسار اور سامان بیحد و حساب حریف کے اور اپنے بیچ میں دریائے جمن جاری بے فکر پڑا تھا کہ ایک رات ہیمو و مدار تارہ کی طرح کہیں سے اٹھا۔ اور بے خبر اس پر جاپڑا۔ لطف یہ ہے کہ ہاتھیوں کے حلقے چمن پار اترے۔ اور کسی کو خبر نہ ہوئی۔ ہاتھ ہلانے کی مہلت نہ دی۔ افغانوں کا یہ عالم ہوا کہ سر کو پاؤں کا ہوش نہ جوتی کو پگڑی کا بھاگے ڈوبے قتل ہوئے اور کوڑیہ بچارا تو ایسا گیا کہ پھر پتہ ہی نہ لگا۔ ساتھ ہی اس کا بیٹا لشکر بے شمار جمع کر کے عدلی پر چڑھ آیا۔ اور میدان جنگ میں عدلی کو مار کر اپنے باپ کے پاس پہنچا دیا۔ اب ہیمو خود صاحب فوج و لشکر ہو گئے۔ چغتائی مورخ بنئے کی ذات کو غریب سمجھ کر جو چاہیں سو کہیں۔ مگر اس کے قواعدِ بندوبست درست اور احکام ایسے چست ہو گئے تھے۔ کہ پتلی دال نے گوشت کو دبا لیا۔ افغانوں میں جو باہم کشاکشی اور بے انتظامی رہی۔ اس میں وہ ایک جنگی اور بااقبال راجہ بن گیا۔ عدلی کی طرف سے لشکر جرار لئے پھرتا تھا۔ کہیں دھاوا مارتا تھا۔ کہیں محاصرہ کرتا تھا۔ اور قلعہ بند کر کے وہیں ڈیرے ڈال دیتا تھا۔ البتہ یہ قباحت ضرور ہوئی کہ بگڑے دل افغان اس کے احکام سے تنگ آ کر نہ فقط اس سے بلکہ عدلی سے بھی بیزار ہو گئے۔ بنئے کی خوش اقبالی دیکھو کہ ممالک مشرقی میں اس سال مینہ نہ برسا۔ عالم میں آفت بڑ گئی۔ دولت مند اپنے اپنے حال میں مبتلا ہو گئے۔ غریب غربا کنگال ہو کر ٹکڑے کے سہارے کو غنیمت سمجھنے لگے۔ اس سال کے حال میں ملا صاحب کی عبارت پڑھ کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ دہلی آگرہ اور اطراف کے شہروں میں قیامت آ رہی تھی۔ اڑھائی روپیہ سیر مکئی کا نرخ تھا اور وہ بھی ہاتن نہ آتی تھی۔ بہتیرے اشراف در دروازے بند کر کے بیٹھ رہے۔ دوسرے دن دس دس بیس بیس بلکہ زیادہ مردے گھر میں پڑے پائے۔ اور گاؤں اور جنگلوں میں تو کون دیکھتا تھا۔ کفن کون دے اور دفن کون کرے۔ غریب بیچارے آفت کے مارے جنگل سنسان میں بناسپتی سے گزارے کرتے تھے۔ امیر گائے بھینس کاٹ کر بیچتے تھے۔ اور لوگ کھالیں لے لیتے تھے۔ کاٹتے تھے۔ اور غنیمت سمجھ کر پکا کھاتے تھے۔ چند روز بعد ہاتھ پاؤں سوج کر مر جاتے تھے۔ آدمی آدمی کو کھائے جاتا تھا۔ اور صورتیں ایسی ڈراؤنی ہو گئی تھیں کہ ان کی طرف دیکھا نہ جاتا تھا۔ نان نان کہتے تھے اور جان دیتے تھے۔ جان عزیز جو کامول نہ تھی۔ جہاں ویرانہ میں کوئی اکیلا دکیلا آدمی مل جاتا تھا۔ جھٹ پٹ تکا بوٹی کاٹ کر کھا جاتے۔ الہی تری امان الہی تیری امان۔ اس پر حاکموں کی لڑائیاں، ایک ایک افغان بادشاہی کا دعویدار روز بادشاہ گردی، لوٹ مار، قتل، غارت تاراج، وہ کال اور اس آفت کا قحط سال پھر خدا نہ دکھائے۔ ایسے وقت میں لشکر اور لشکر کا سامان بہم پہنچانا اس با تدبیر آدمی کو بہت آسان تھا۔ جو اپنے قبضہ میں بادشاہی ذخیرہ اور ملکی خزانہ رکھتا تھا۔ لوگ یہ سمجھ رہے تھے کہ آخر مرنا اول مرنا بھوکے مرنے سے ہمت کرنا تو اچھا ہی کام ہے۔ آؤ اسی کی نوکری ر لو۔ ہیمو کی لیاقت اور حسنِ تدبیر اس حالت میں بھی ہزار تعریف کے قابل ہے کہ عالم میں یہ آفت آئی ہوئی تھی اور اس کے لشکر میں گویا خبر بھی نہ تھی۔ ہزاروں جنگی ہاتھی تھے اور سب چاول اور گھی شکر کے ملیدے کھاتے تھے۔ سپاہیوں کا تو کیا کہنا ہے۔ میرے دوستو! جب خدائی آفت آتی ہے تو فوجیں باندھ باندھ کر دھاوے کرتی ہے۔ عدلی افغان تو آگرہ سے لشکر لے کر نکل گیا۔ ادھر ادھر ہاتھ پاؤں مارتا اور اپنے رقیبوں کو دباتا پھرتا تھا۔ قلعہ میں ایک افغان سردار آیا کہ رسد اور سامان جنگ کے بندوبست کرے۔ مکانات میں جو اسباب بند پڑے تھے ان کی موجوددات لیتا تھا۔ اور سنبھالتا۔ ایک دن صبح کا وقت، چراغ لئے حجروں کو دیکھتا پھرتا تھا کہیں چراغ کا گل جھڑ پڑا۔ کوٹھے باروت کے تھے۔ یا پہلے ان میں باروت رہ چکی تھی۔ نہیں نہیں! موت نے قتل عام کی سرنگ لگا رکھی تھی۔ پل کے پل میں آدھا قلعہ ایک بقہ آگ کا ہو کر آسمان کو پہنچا۔ زمین پر وہ بھونچال آیا کہ شہر تہ و بالا ہو گیا۔ صبح کے سونے والے بیخبر پڑے سوتے تھے۔ کلمہ پڑھتے اٹھ بیٹھتے۔ کہ قیامت آئی۔ توبہ استغفار کرتے تھے۔ اور کچھ معلوم نہ تھا کہ کیا ہوا۔ اور کیا کیا نہ ہوا پتھروں کی سلیں، ستون، محرابیں اڑ اڑ کر دریا پار کہیں کی کہیں جا پڑیں۔ ہزاروں آدمی اور جانور اڑ گئے۔ پانچ پانچ چھ چھ کوس پر کسی کا ہاتھ کسی کا پاؤں پڑا ہوا ملا۔ اس ہی کے مبارک قدم پنجاب سے ہندوستان میں پہنچے۔ جب یہ بلائیں دفعہ ہوئیں۔ ترکوں میں چنگیزی آئین چلا آتا تھا۔ دونوں وقت بادشاہی دستر خوان بچھتا تھا۔ جو خوان یغما تھا۔ جس پر دوست دشمن کی تمیز نہ تھی۔ امرا سے سپاہی تک سب اپنایت اور بھائی بندی کے رشتہ سے بٹھائے جاتے تھے اور ہر ایک کو برابر کھانا کھلاتے تھے۔ شیر شاہ اگرچہ افغان تھا۔ لیکن چونکہ اسے بھی قومی اتفاق کے خون کو جوش دے کر مطلب حاصل کرنا تھا۔ اس لئے اس طریقہ کو جاری رکھا تھا۔ ہوشیار ہیمو ہندو دھرم تھا۔ خود مسلمانوں کی طرح امرا اور سپاہ کو دسترخوان پر لے کر نہ بیٹھ سکتا تھا۔ پھر بھی روز ایک وقت سب کو کھانا دیتا تھا۔ افغان سرداروں کو آپ دسترخوان پر بٹھاتا تھا۔ ان کے دل بڑھاتا تھا۔ اور کہتا تھا خوب کھاؤ۔ بڑے بڑے نوالے اٹھاؤ۔ کسی کو آہستہ آہستہ کھاتے دیکھتا۔ تو سینکڑوں بھوگ سناتا اور کہتا۔ عورتوں کی طرح نوالے اٹھاتا ہے۔ بھڑوے کھانا نہ کھائے گا۔ تو اپنے جوائیوں سے کیونکر لڑے گا۔ مغل تو چڑھے آتے ہیں۔ واہ رے اقبال وہ جاہل سرشور افغان کہ سیدھی بات پر لڑ مریں۔ سب سنتے تھے اور حلوے کی طرح نگل جاتے تھے۔ ہائے احتیاج اور ہائے پیٹ۔ ع مراناں دہ و کفش برسر بزن افسوس ہیمو کی ذات کچھ ہی ہو مگر اس کے کارنامے بآواز بلند نقارے بجاتے ہیں کہ وہ اپنی ذات سے عالی ہمت، حوصلہ والا اور آقا کے لئے مستعد خدمت گزار اور چست خدمتگار تھا۔ بندوبست اور انتظام اور چستی و چالاکی اس کی طبیعت میں داخل تھی اور محبت اور عرقریزی سے دلی شوق رکھتا تھا۔ افسوس کہ اکبر اس وقت لڑکپن کے عالم میں تھا اگر ہوش سنبھالا ہوتا تو ایسے شخص کو ہر گز اس طرح ہاتھ سے نہ کھوتا۔ اسے رکھتا اور دلاسے کے ساتھ کام لیتا۔ وہ جوہر نکالتا۔ اور عمدہ خدمتیں کر کے دکھاتا۔ جن سے ملک کو ترقی اور بنیاد ملک کو استحکام حاصل ہوتا۔ ہیمو کی ہمت کیوں ناکام رہی بادشاہی لشکر کی کمی اور کم سامانی اور اس کے مقابل میں ہیمو کے لشکر کی کثرت اور فراوانی دستگاہ پر نظر کر کے خان زمان کی اس فتح یابی پر لوگ حیرت کی نظر سے دیکھیں گے۔ لیکن جن لوگوں نے تجربے اور تحقیق کی نگاہ سے زمانے کو پہچانا ہے۔ وہ صورت حال کی نبض دیکھ کر استقبال کی کیفیت کو سمجھ جاتے ہیں۔ وہ صاف کہتے ہیں کہ ایسا ہی ہونا چاہیے تھا۔ کیونکہ ہیمو باوجود ساری باتوں کے ان کے بڑے نکتے سے غافل تھا۔ اسے سمجھنا چاہیے تھا۔ کہ میں کس لشکر اور کن لشکریوں سے کام لے رہا ہوں۔ یہ نہ میرے ہم قوم ہیں۔ نہ میرے ہم وطن ہیں۔ نہ ہم مذہب ہیں۔ جو کچھ کرتے ہیں یا کریں گے۔ پیٹ کی مجبوری یا امید انعام یا جان کے آرام کیلئے کرتے ہیں۔ اور میری میٹھی زبان، خوشنحوئی، درد خواہی اور محبت نمائی اس کا جز اعظم ہے۔ پھر بھی یہ ساری باتیں عارضی ہیں۔ یہ کوئی نہیں سمجھتا کہ اس کی فتح ہماری اور ہماری قوم کی فتح ہے۔ اور ہم مر بھی جائیں گے۔ تو ہماری اولاد اس کامیابی کی کمائی کھائے گی۔ فتوحات کے مشتاق اور ہمت والے مہاجن کو جن باتوں نے بھلاوے میں ڈالا وہ کیا تھیں؟ (۱) خزانہ وافر شیر شاہ و سلیم شاہ کاکہ اپنے قبضہ میں تھا۔ (۲) ہزاروں بھوکوں کا انبوہ کہ گرد رہتا تھا۔ (۳) بہت سے ضرورت مندوں اور پیٹ کے بھوکوں کی خوشامد اور جان نثاروں کے دعوے۔ یہ سب باتیں معمولی اتفاقات زمانے کے تھے کہ جن سے ہوا بندھ گئی تھی۔ اور دلوں پر رعب بیٹھ گیا تھا۔ وہ اس مہتابی کی روشنی کو اقبال کا روز روشن سمجھ کر بے نیاز ہو گیا۔ اور ایسے سخت حکم دینے لگا۔ جنہیں سرشور پٹھان دلوں سے برداشت نہ کر سکتے تھے۔ شیر شاہ و سلیم شاہ بھی سخت خدمتیں لیتے تھے۔ لیکن یہ تو سمجھو کہ وہ کون تھے۔ ان کی سلطنت اپنی قوم کی سلطنت تھی۔ ایک بنئے کی بد زبانیاں جسے چار دن پہلے بازار لشکر میں کوتوالی کرتے دیکھ چکے۔ کون اٹھائے۔ اور کیوں اٹھائے۔ خصوصاً جب کہ وہ بکر ماجیت بن جائے۔ وہ پیٹ کے مارے اگرچہ کچھ نہ کر سکتے تھے۔ مگر دل سے دعائیں کرتے تھے۔ خدا شرے برانگیز دکہ خیر مادراں باشد آخر وقت پر اس کا نتیجہ نکلا کہ سب پہلو بچا کر الگ ہو گئے۔ محمد باقر۔ گجرات گورنمنٹ کالج ۳ دسمبر ۳۷ئ؁ اختتام۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔The End