Darbar-E-Akbari دربار اکبری مصنف شمس العلماء مولانا محمد حسین آزاد حصہ اول پیش لفظ ’’ابتدا میں لفظ تھا۔ اورلفظ ہی خدا ہے‘‘ پہلے جمادات تھے۔ان میں نمو پیدا ہوئی تو نباتات آئے۔ نباتات میں جبلت پیدا ہوئی تو حیوانات پیدا ہوئے۔ ان میں شعور پیدا ہوا تو بنی نوع انسان کا وجود ہوا۔اس لیے فرمایا گیا ہے کہ کائنات میں جو سب سے اچھا ہے، اس سے انسان کی تخلیق ہوئی۔ انسان اور حیوان میں صرف نطق اور شعور کا فرق ہے۔ یہ شعور ایک جگہ پر ٹھہر نہیں سکتا۔ اگر ٹھہر جائے تو پھر ذہنی ترقی،روحانی ترقی اور انسانی ترقی رک جائے۔تحریر کی ایجاد سے پہلے انسان کو ہر بات یاد رکھنا پڑتی تھی۔علم سینہ بہ سینہ اگلی نسلوں کو پہنچتا تھا۔ بہت سا حصہ ضائع ہو جاتا تھا۔ تحریر سے لفظ اور علم کی عمر میں اضافہ ہوا۔ اور انھوں نے نہ صرف علم حاصل کیا بلکہ اس کے ذخیرے میں اضافہ بھی کیا۔ لفظ حقیقت اور صداقت کے اظہار کے لئے تھا۔ اس لئے مقدس تھا۔ لکھے ہوئے لفظ کی اور اس کی وجہ سے قلم اور کاغذ کی تقدیس ہوئی۔بولا ہوا لفظ آئندہ نسلوں کے لئے محفوظ ہوا تو علمو دانش کے خزانے محفوظ ہو گئے۔ جو کچھ نہ لکھا جا سکا وہ بالاخر ضائع ہو گیا۔ پہلے کتابیں ہاتھ سے نقل کی جاتی تھیں،اور علم سے صرف کچھ ہی لوگوں کے ذہن سیراب ہوتے تھے۔ علم حاصل کرنے کے لئے دور دور کا سفر کرنا پڑتا تھا۔ جہاں کتب خانے ہوں، اور ان کا درس دینے والے عالم ہوں۔ چھاپہ خانے کی ایجاد کے بعد علم میں وسعت آئی۔ کیونکہ وہ کتابیں جو نادر تھیں، وہ کتابیں جو مفید تھیں آسانی سے فراہم ہوئیں۔ قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کا بنیادی مقصد اچھی کتابیں کم سے کم قیمت پر مہیا کرنا ہے۔ تاکہ اردو کا دائرہ نہ صرف وسیع ہو بلکہ سارے ملک میں سمجھی جانے والی، بولی جانے والی،ا ور پڑھی جانے والی اس زبان کی ضرورتیں پوری کی جائیں۔ اور نصابی اور غیر نصابی کتابیں آسانی سے مناسب قیمت پر سب تک پہنچیں۔ زبان صرف ادب نہیں ،سماجی اور طبعی علوم کی کتابوں کی اہمیت ادبی کتابوں سے کم نہیں، کیونکہ ادب زندگی کا آئینہ ہے۔ زندگی سماج سے جڑی ہوئی ہے۔ اور سماجی ارتقا اور ذہن انسانی کی نشو ونما طبعی انسانی علوم اور ٹیکنا لوجی کے بغیر ممکن نہیں۔ اب تک بیورو نے اور اب تشکیل کے بعد قومی اردو کونسل نے مختلف علوم اور فنون کی کتابیں شائع کی ہیں۔اور ایک مرتب پروگرام کے تحت بنیادی اہمیت کی کتابیں چھاپنے کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ یہ کتاب اس سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ امید ہے کہ یہ اہم علمی ضرورت پورا کرے گی۔ میں ماہرین سے یہ گزارش بھی کرو ں گا کہ اگر کوئی بات ان کو نادرست نظر آئے،تو ہمیں لکھیں تاکہ اگلے ایڈیشن میں نظر ثانی کرتے وقت خامی دور کر دی جائے۔ ڈاکٹر محمد حمید اللہ بھٹ ڈائریکٹر قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان وزارات ترقی انسان وسائل، حکومت ہند نئی دہلی مقدمہ بسم اللہ الرحمن الرحیم حضرت قبلہ وکعبہ رحمتہ اللہ علیہ کی تصنیف ایسی نہیں جس پر میرے جیسا ہمیچدان کج مج بیان کسی مقدمہ لکھنے کی جرات کرتا، لیکن کتاب ھذا کا پہلا ایڈیشن جو مطبع رفاہ عامہ لاہور میں چھپا تھا۔ (جس کے مالک ومینجر میر ممتاز علی صاحب ہیں۔) اس کے آغاز میں مینجر صاحب موصوف نے ایک ایسا عجیب وغریب مقدمہ تحریر کیا ہے۔جس کی وجہ سے نہ صرف مجھے اس بات کی ضرورت محسوس ہوئی کہ دوسرا ایڈیشن اپنے اہتمام سے کسی دوسرے مطبع میں چھپواؤں، بلکہ مینجر صاحب مو صوف کے تحریر کردہ مقدمہ کی اصلی حقیقت ظاہر کرنے کے لئے مجھے اس امر کی جسارت کرنے پر مجبور ہونا پڑا کہ کتاب ہذا کے ساتھ ایک مختصر مقدمہ شامل کر دوں۔ میر ممتاز علی نے پہلے ایڈیشن کے ساتھ جو مقدمہ لکھا ہے۔ اس میں تحریر کا انداز ایسا رکھا ہے کہ گویا دربار اکبری کا کوئی ایسا مسودہ مرقومہ حضرت قبلہ مرحوم ان کو دستیاب نہیں ہوا، جو مسودہ سمجھا جانے کے قابل ہو۔بلکہ ایک ٹوٹا پھوٹا ، بے ربط ،بے ترتیب،بے سرو پا مجموعہ چند پرچوں اور پرزوں اور دیگر کا غذات کا ایسی مشکلات ومصائب طے کرنے کے بعد جو ہفت خوان رستم کی مشکلات سے مشابہ تھیں، میر صاحب موصوف کے ہاتھ آیا۔اور ایسی جستجوئیں اور تفتیشیں ان کاغذات کی بہم رسانی کے لئے ان کو کرنی پڑیں،جو بہت ہی قابل داد ہیں، سب سے زیادہ افسوس ناک غلط بیانی میر صاحب کے لکھے ہوئے مقدمہ میں یہ تھی کہ انہوں نے حضرت قبلہ مرحوم کی نسبت یہ تحریر کیا کہ ’’وہ یہ سن کر کہ میں ان کا مسودہ لینے کے درپے ہوںجوش جنون میں مسودات کا ایک بستہ لے کر دریائے راوی پر پہنچے اور پل پر کھڑے ہو کر اس کو دریا برد کر دیا۔یقین کیا جاتا ہے کہ اس میں دربار اکبری کا صاف شدہ مسودہ ہو گا۔‘‘اس فرضی دریا بردگی کے قصے پر (جس کا علم سوائے میر صاحب کے اور کسی کو نہیں جو غالبا اس وقت ہمراہ ہو ں گے۔)میر صاحب موصوف نے کمال اندوہ وقلق اور درد وسوز کے ساتھ یہ بھی ارقام فرمایا ہے۔ خدا جانے اس سخن ور نے نظم ونثر کے کیا کیا موتی پروئے ہوں گے جو ہماری بد قسمتی سے دریا میں غرق ہو گئے‘‘۔غرض کہ میر صاحب کے اس بیان کے ساتھ جب ان کے مزید ایسے بیانات کو شامل کیا جائے،جن کا ما حصل یہ ہے کہ جو مسودہ شاگردوں کا صاف کیا ہوا تھا، وہ غلطیوں کا مجموعہ تھا۔اور جو مسودہ مصنف نے اپنے ہاتھ سے لکھا تھا۔ وہ چھوٹے چھوٹے پرزوں پر تھا۔ جو علاوہ بہت کٹے ہوئے اور مشکوک ومشتبہ ہونے کے پڑھے جانے کے بھی قابل نہ تھے۔اور پینسل سے لکھی ہوئی تحریریں قریبا محو ہو چکی تھیں۔اور ان ہی وجوہات سے میر صاحب کو مسودہ میں جا بجاتصرفات کرنے پڑے۔(جس میں خذف، ایزاد اور تبدیلی غرض کہ ہر قسم کے تصرفات شامل ہیں۔) اور اوراق کے اوراق جو گم تھے،ان کی گم شدگی دیکھ کر بقول میر صاحب کے ’’ بجز اس کے اور کیا چارہ ہو سکتا تھا کہ اس حصہ ناقص کو میں خود لکھ کر پورا کروں۔ تو ان بیانات کے مطالعہ سے پڑھنے والے کے دل میں اس کے سوا اور کیا اثر پیدا ہو سکتا تھا۔ کہ بحٰثیت مجموعی کتاب دربار اکبری دراصل قریبا میر موصوف ہی کی عرق ریزی اور محنت کا نتیجہ ہے۔ ورنہ حضرت قبلہ مرحوم کے صاف کردہ مسودات تو دریائے راوی میں ہی غرق ہو چکے تھے۔علاوہ بریں بقول میر صاحب موصوف ضمیمہ دربار اکبری تو تمام وکمال ہی میر صاحب موصوف کا اپنا لکھا ہوا ہے۔۔ ایسے حالات میں دربار اکبری میں اسی قدر فرق آجانے کا احتمال ہے ،جس قدر حضرت قبلہ مرحوم اور میر صاحب کی وقعت میں تفاوت ہے۔ اس لئے اس امر کی سخت ضرورت محسوس ہوئی کہ اصلی واقعات کا پبلک پر انکشاف ہو جائے۔ حقیقت حال یوں ہے کہ جب میر ممتاز علی نے مطبع رفاہ عام کی مشینیں ولایت سے منگوائیں،قدرتی طور پر ان کو چھاپنے کے لئے کتابوں کی تلاش ہوئی۔چنانچہ انھوں نے مجھ سے بھی کتابوں کے چھپوانے کی درخواست کی، میں نے بغیر کسی شک کے دربار اکبری اور سخن دان فارس کے حصہ اول کا مسودہ میر صاحب کو دے دیا۔ اور معاہدہ یہ ہوا کہ دونوں کتابوں کیخرچ چھپوائی و آمدنی وفروخت میں میرا اور ان کا حصہ نصف نصف ہو گا۔ مسودوں کے لے جانے کے تقریبا چھ مہینے بعد انہوں نے مجھے ایک طویل خط لکھا، اس میں بہت پیچ در پیچ شرائط دربار اکبری کے چھاپنے کی نسبت پیش کیں، جن کو میں نے منظور نہ کیا اور صاف لکھ دیا کہ آپ دربار اکبری کا مسودہ واپس کر دیں۔جب میر صاحب نے دیکھا کہ میں کسی طرح راضی نہیں ہوتا تو انہوں نے پھر وہی شرط سابقہ نصف نصف حصہ خرچ و آمدنی کو منظور کر کے کتاب چھاپنی شروع کر دی۔ مقدمہ کے صفحہ اول پر جو میر صاحب نے دربار اکبری کے مسودہ حاصل کرنے کی کوشش کا ذکر کیا ہے۔ وہ بالکل صحیح نہیں ہے، وہ کبھی کتب خانہ مصنف مر حوم میں داخل ہو کر کسی کتاب کو چھونے کے مجاز نہیں ہو سکتے تھے۔صفحہ نمبر 2 پر جو میر صاحب نے مسودوں کا بستہ دریائے راوی میں ڈالنے کا ذکر کیا ہے۔ یہ بھی درست نہیں، میں نے جس وقت حضرت قبلہ وکعبہ مرحوم کی طبیعت میں مجذوبیت کا اثر دیکھا تو فورا تمام مسودے جو اب تک چھپوا چکا ہوں، کتب خانے میں سے خود نکال لیے۔جو مسودہ جو میں نے میر صاحب کو دیا تھا۔ وہ آخری مرتبہ صاف شدہ مسودہ تھا۔ لیکن چونکہ حضرت مرحوم کا قاعدہ تھا کہ ہر ایک مسودہ میں خواہ وہ کتنی ہی دفعہ دیکھا ہوا ہو، ہمیشہ ترمیم کرتے رہتے تھے۔اس لئے وہ جگہ جگہ سے ضرور کٹا ہوا تھا۔ حضرت مرحوم نے تمام حالات اعیان دربار اکبری کے علیحدہ علیحدہ کاغذوں میں ترتیب دے کر رکھ چھوڑے تھے۔اور غالبا اسی ترتیب سے ان کو کتاب میں درج کرنا منظور تھا، اگر چہ مسودہ مذکور کٹا ہوا تھا، اور کہیں کہیں چیپیاں بھی لگی ہوئی تھیں۔ مگر وہ ایسی حالت میں تھا کہ ایک سمجھ دار کاتب ایسے شخص کی نگرانی میں جو مصنف کی تحریر پڑھنے کا عادی ہو ،اچھی طرح سے نقل کر سکتا ہے۔ چنانچہ سخن دان فارس کا مسودہ جو میں نے ۱۹۰۷ ئ؁ میں چھپوایا تھا۔ اور مجھے اس کے چھپوانے میں کوئی دقت پیش نہ آئی تھی۔ صفحہ ۳ کے آخر میں جو میر صاحب نے لکھا ہے۔ کہ بعض ناقص حصوں کو میں نے خود لکھ کر پورا کیا ،درست نہیں ہے۔ تمام حالات بالکل مکمل تھے۔ اور حضرت مرحوم مصنف اپنے مختلف احباب سے بار ہا حالت صحت میں ذکر کر چکے تھے کہ مسودہ بالکل مکمل ہے۔ اور صرف چھپوانے کی دیر ہے۔مسودہ جو ں کاتوں میں نے مقفل کر رکھا تھا۔ کوئی کاغذ بھی اس کا ضائع نہیں ہوا تھا۔ سنین کی صحت کی نسبت جو میر صاحب نے لکھا ہے۔ کہ میں نے علی قلی خاں شیبانی کی جگہ علی قلی خان سیستانی کر دیا ہے۔ یہ صحیح کو غلط کر دیا ہے۔ کیونکہ اصل میں علی قلی خاں شیبانی درست ہے۔ علی قلی خاں شیبانی قبیلہ تھا۔جہاں جہاں کتابوں کے حوالے دیے ہوئے ہیں۔ وہاں اصل کتاب کے مضمون شاگردوں یا دوستوں کے نقل کیے ہوئے موجود ہیں۔ چنانچہ ایک خط حافظ ویران مرحوم کا اصل مسودہ میں رکھا ہے۔ کہ میں منتخب التواریخ میں سے فلاں حصہ نقل کروا کر بھیجتا ہوں اور وہ نقل مسودہ میں شامل تھی۔صفحہ ۴ کے آخر میں جو تتمہ خود لکھنے کا ذکر میر صاحب نے کیا ہے۔ یہ بھی صحیح نہیں ہے۔ چونکہ الحق یعلوا ولا یعلیٰ کا ارشاد بالکل صحیح ہے۔اس لئے تائید غیبی یہ ہوئی کہ میر صاحب موصوف نے دربار اکبری چھاپنے کے بعد کتاب مذکورہ کا مسودہ جو میں نے ان کو دیا تھا، مجھے واپس کر دیا ،اور دیتے وقت وہ تتمہ کا مسودہ دستخطی حضرت مرحوم بھی نکالنا بھول گئے۔ جس کی نسبت انہوں نے ایسی دلیری سے لکھ دیا تھا۔ کہ وہ قریبا تمام وکمال ہی ان کے رشحات قلم کا نتیجہ ہے۔ تتمہ کے اس مسودے میں مجھے خدا داد خان دکنی ، سکندر خان ازبک، مرزا شاہرخ، تردی بیگ ترکستانی، قاضی نظام بدخشی، ملا عالم کابلی، برہان نظام شاہ، حسین نظام الملک، اسمعیل نظام الملک، ابراہیم برہان الملک،چاند بی بی، میر عبد الطیف قزوینی، میر غیاث الدین علی، خواجہ مظہر علی تربتی، حکیم الملک گیلانی، شاہ ابو المعانی، مرزا شرف الدین حسین، ابراہیم حسین ، گل رخ بیگم، حکیم محد مرزا، تورہء چنگیزی، ملا شیری، حضرت شیخ سلیم چشتی رحمتہ اللہ علیہ، حضرت محمد غوث گوالیاری رحمتہ اللہ علیہ، شیخ گدائی کنبوہ، ہیمو بقال، سادات بارہہ، سلیمہ سلطان بیگم، شمس الدین محمد تکہ خان، شہاب خان، ناصر الملک، ملا پیر محمد خاں، محمد سعید بہادر خان، حسین قلی خاں جہاں، اسمعیل قلی خاں، خواجہ امینا، خواجہ منصور، آصف خاں، عبد اللہ خاں ازبک، شاہ عارف حسینی، میاں عبد اللہ نیازی، سھر ندی، شیخ علائی، سلیمان کرائی، سید محمد میر عادل، رن تھنبور، نظام احمد بخشی، سید محمد جون پوری، حکیم مصری، پیر روشنائی، خاندان سوری کے حالات مصنف کے اپنے قلم سے درست کیے ہوئے مل گئے ہیں۔ جو کتاب مطبوعہ میں حرف بحرف نقل کیے گئے ہیں۔ اصل کتاب میں مصنف نے جگہ جگہ تتمہ کا حوالہ دیا ہے۔ یہی ایک بدہی ثبوت اس امر کا ہے کہ مصنف نے تتمہ لکھ لیا تھا۔ مسودات مذکورہ جس کا جی چاہے میرے پاس دیکھ سکتا ہے۔ صفحہ ۵ کے دوسرے پیرا گراف میں میر صاحب نے تحریر کیا ہے کہ جو خیالات قبلہ مرحوم سے وہ سنا کرتے تھے۔ ان کو اپنے الفاظ میں لکھ کر انہوں نے مقولہ آزاد ظاہر کیا ہے۔چنانچہ میر صاحب کے اصلی فقرات نقل کر دیئے جاتے ہیں۔ مصنف کا قاعدہ ہے کہ کسی کسی واقعہ کے بیان میں اپنے تئیں بہ لفظ آزاد خطاب کر کے اپنے دلی خیالات ظاہر کیا کرتا ہے۔مجھے چونکہ اپنے معزز استاد کے ہمراہ تقریبا پندرہ سال رہنے کا اتفاق ہوا تھا۔ اس لیے جہاں تک مجھے ان کی معیت سے ان کے عادات وخیالات سے آگاہی ہو سکتی تھی۔ اس کے لحاظ سے میں نے اسی طرح بعض واقعات پر ان کے دلی خیالات ظاہر کیے ہیں، اور چونکہ وہ انہی کے خیالات ہیں۔ اس لئے میں نے وہاں آزاد کا لفظ لکھنا ہی مناسب جانا ہے۔ درحقیقت یہ کام کئی سال کا تھا، جس کو میں نے چند ماہ میں ختم کیا‘‘۔ اس کے بارے میں سوائے اس کے اور کیا عرض کر سکتا ہوں کہ جس کا دل چاہے وہ اصلی مسودات دستخطی حضرت قبلہ مرحوم میرے پاس دیکھ کر اس بیان کی صحت کا خود اندازہ کر لے، اس موقع پر اس لطیفہ کا ذکر کرنا خالی از لطف نہ ہوگا کہ صفحہ ۶۹۷ سطر ۹ میں یہ فقرات درج ہیں۔آج سے پندرہ سولہ برس پہلے تک میں نے خود دیکھا کہ تورہ چنگیزی کا اثر باقی چلا آتا ہے۔ ان فقرات کو کم ازکم اس تتمہ میں خذف کر دینا چاہیئے تھا۔ جس کو میر صاحب تمام و کمال اپنی تحریر ظاہر کرتے ہیں۔ کیونکہ حضرت قبلہ مرحوم کا سفر بخارا کرنا تو سب کو معلوم ہے۔ مگر میر صاحب کو خود اقبال کرنا پڑے گا کہ وہ کبھی حدود ہندوستان سے باہر کبھی تشریف نہیں لے گئے۔ اس سے بڑھ کر ایک اور واقعہ جو میری نظر سے گزرا ہے۔ جو قابل ذکر ہے، یعنی بعض بعض حاشیے جو اصلی مسودات دستخطی حضرت قبلہ مرحوم میں موجود ہیں۔ ان کے جناب میر صاحب نے کتاب مطبوعہ میں بجنسہ ِ نقل کر کے نیچے اپنا نام یعنی ممتاز علی لکھ دیا ہے۔جن سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ میر صاحب کے اپنے نتائج طبع ہیں۔ ان حالات کا انکشاف پبلک کی اطلاعات کے لیے اشد ضروری تھا۔تاکہ ان کو کتاب ہذا کی وقت میں کوئی شبہ نہ ہو۔ ورنہ منتخب مبصران زبان اور چیدہ سخن دان تو حضرت قبلہ مرحوم کی زبان وکلام اور ان کے لطف بیان کو خود پہچان سکتے ہیں۔ چنانچہ مولانا شبلی سے مجھے ایک دفعہ پٹیالہ میں جناب آنر ایبل خلیفہ صاحب مرحوم کے مکان پر نیاز حاصل ہوا۔تو انہوں نے تعجب سے ظاہر فرمایا کہ جو مضمون میر ممتاز علی نے مقدمہ دربار اکبری میں لکھا ہے۔ کہ تتمہ ان کی تحریر ہے،درست ہے۔میں نے تمام حالات عر ض کر دیئے۔ انہوں نے فرمایا کہ تتمہ کی عبارت پڑھ کر مجھے پہلے ہی خیال ہوا تھا کہ یہ زبان مولوی صاحب کے سوا کسی دوسرے کی نہیں ہو سکتی، امید ہے کہ جو لوگ زبان کے نبض شناس ہیں،انہوں نے میر صاحب کے ان بیانات کی حقیقت اور وقعت کو پہلے ہی سمجھ لیا ہو گا۔لیکن جن صاحبان کو کوئی مغالطہ یا شکوک پیدا ہوئے ہوں ،ان کو اب اس امر کا عین الیقین ہو جانا چاہیئے کہ دربار اکبری میں کوئی قابل تذکرہ تحریف یا تصرف نہیں کیا گیا۔ بلکہ بحیثیت مجموعی یہ حضرت قبلہ مرحوم کی اصلی تصنیف اور ان کے دستخطی مسودات کے مطابق ہے۔۔۔ خاکسار محمد ابراہیم مصنف امر تسر مورخہ ۳ اگست ۱۹۱۰ئ؁ دیباچہ دہلی کے آخری تاجدار میرزا ابو ظفر بہادر شاہ ثانی کے وقت میں زوال و انحطاط کی جو صورت پیدا ہو گئی تھی ، اس نے خصوصیت کے ساتھ مسلمانوں کو اپنے مستقبل کے بارے میں عموماً فکر مند کر دیا تھا ۔ ملک الشعرا شیخ محمد ابراہیم ذوق نے بھی ایک قصیدے میں بادشاہ سے خطاب کر کے کہا تھا ؎ سوتے سیرت سے ہیں مردان دلاور ممتاز ورنہ صورت میں تو کچھ نہیں شہباز سے چپل (سر) سید احمد خاں نے ’’ آثار الضادید ‘‘ میں مسلم سلاطین کے تواریخی نقوش کی عکاسی کی ۔ پھر مغلیہ خاندان کے ایک جلیل القدر بادشاہ کی فتوحات کی شاندار داستان کو حیات تازہ عطا کرنے کے لیے ’’ آئین اکبری ‘‘ کی تصحیح کا کام کیا۔ اس قسم کے کاموں کافائدہ یہ ہوا کہ نئی نسل کو اپنے ماضی سے دلچسپی پیدا ہوئی۔ محمد حسین آزاد نے جو بعد میں ’’ شمس العلما ‘‘ ہوئے ، اسی زمانے میں ’’ ہمایوں نامہ ‘‘ کا مطالعہ کیا۔ لکھتے ہیں : ’’ فقط ایک گلبدن بیگم ہمایوں کی بہن تھی کہ اس نے ہمایوں نامہ لکھا تھا وہ نسخہ اب میرے پاس نہیں۔ دلی میں بڑی کوشش سے بہم پہنچایا تھا۔ اس کے پہلے ورق پر چند عورتوں کے حال اور بھی کسی نے لکھ دیئے تھے۔ وہ بھی شاعرانہ طور سے اور شاعری کے سلسلے میں ۔‘‘ (مکتوبات آزاد ، ص 35) آزاد نے ’’ اکبر نامے ‘‘ کا بھی مطالعہ کیا تھا اور اس کتاب سے وہ بہت متاثر ہوئے تھے۔ ’’ دربار اکبری میں انہوں نے جگہ جگہ اس کے بیانوں کو دوسری کتابوں کے مندر جات پر ترجیح دی ہے۔ تواریخ سے آزاد کو جو شغف پیدا ہو گیا تھا اس کااندازہ ان کے ایک خط کے اس اقتباس سے بھی کیا جا سکتا ہے : ’’ یہ (چاند بی بی) بھی بڑی با لیاقت اور صاحب ہمت بی بی دکن میں ہوئی ہے۔ اسنے نادرۃ الزمانی کہتے تھے۔ آپ وہاں سے اس کی حالات دریافت فرمائیں اور مجھے بھی عنایت کریں۔ انشاء اللہ کبھی کام آئیں گے۔ اسی طرح مصالح (کذا) اکٹھا ہوا کرتا ہے۔ رفتہ رفتہ عمارت تیار ہو جاتی ہے۔ ‘‘ (مکتوب ص 40) صاحبان تصنیف و تالیف کا طریقہ یہی ہے ۔ وہ اپنی دلچسپی کے موضوعات سے متعلق مسالہ جمع کرتے رہتے ہیں۔ پھر جب حالات ساز گار ہوتے ہیں۔ اس ذخیرہ کو اپنے طور پر مرتب کر کے کتاب پوری کرلیتے ہیں۔ اس ذکر سے یہ ظاہر کرنا مقصود ہے کہ کسی تصنیف سے متعلق آغاز کا ر کے زمانے کا تعین کرنا بہت مشکل ہے۔ آزاد نے ’’ دربار اکبری ‘‘ بڑے نے ذوق وشوق سے لکھی تھی۔ ان کے اس ذوق و شوق کی وجہیں کئی تھیں۔ ایک یہ بھی تھی کہ وہ سلطان جلال الدین محمد اکبر کے بارے میں یہ رائے رکھتے تھے کہ : ’’ وہ لکھنا پڑھنا نہ جانتا تھا۔ پھر بھی اپنی نیک نامی کے کتابے ایسے قلم سے لکھ گیا ہے کہ دن رات کی آمدورفت اور فلک کی گردشیں انہیں گھس گھس کر مٹاتی ہیں مگر وہ جتنا گھستے ہی اتنا ہی چمکتے ہیں ۔ اگر جانشین بھی اس رستے پر چلتے تو ہندوستان کے رنگا رنگ فرقوں کو دریائے محبت پر ایک گھاٹ پانی پلا دیتے بلکہ وہی آئین ملک ملک کے لئے آئینہ ہوتے۔ اس کے حالات بلکہ بات بات کے نکتے اول سے آخر تک دیکھنے کے قابل ہیں ۔ ‘‘ (دربار اکبری ص 1) امکان ہے کہ آزاد نے یہ رائے ’’ اکبر نامے ‘‘ کے مطالعے کے بعد قایم کی ہو۔ اگر ایسا ہے تو خیال کیا جا سکتا ہے کہ آزاد کی کتاب اسی کا عکس ہے۔ جس زمانے میں آزاد نے ’’ آب حیات ‘ ‘ لکھنے کا منصوبہ بنایا ، کم و بیش اسی وقت انہوں نے ’’ دربار اکبری ‘‘ کے لکھنے کا بھی ارادہ کر لیا تھا۔ جن لوگوں کو ’’ آب حیات ‘‘ کے سلسلے میں خطوط لکھے تھے۔ ان میں سے بعض سے ’’ دربار اکبری کے لیے بھی مواد فراہم کرنے کی درخواست کی تھی ۔ مثال کے طور پر مولوی محمد عظیم اللہ رعمنی کے بارے میں ان کا کہنا ہے : ’’ آب حیات ، کی برکت سے بندہ آزاد کو بھی ان کی خدمت میں نیاز حاصل ہوا ۔ ‘‘ اور رعمنی نے ’’ دربار اکبری ‘‘ کے لیے بھی بعض اطلاعات فراہم کی تھیں۔ آزاد نے اعتراف کیا ہے کہ : ’’ انہوں نے شفقت فرما کر ریاست قدیم اور واقفیت خاندانی کی معلومات سے جو نپور اور غازی پور زمنیہ کے بہت سے حالات عنایت کیے ۔ ‘‘ (ایضاًص 252) مواد کے حصول کی کوششوں سے قطع نظر ، معلوم ہوتا ہے کہ 1882 میں آزاد نہ صرف یہ کتاب لکھنے کا ارادہ مصمم کر چکے تھے بلکہ انہوں نے اس کے نام کا تعین بھی کر لیا تھا۔ اس سال کے 15 اکتوبر کے ایک خط میں انہوں نے لکھا ہے : ’’ خدا اس ، دربار ، سے فارغ کر دے تو آپ سے سرخرو ہوؤں ۔ مجھے دل سے خیال ہے ۔ آپ کیوں شرمندہ کرتے ہیں ؟ ‘‘ (مکتوبات ص 37) ’’ دربار اکبری ‘‘ کا پہلا مسودہ 1883میں مکمل ہوگیا تھا۔ آزاد کے 10 اگست کے ایک خط میں اس کی کیفیت اس طرح مذکور ہے : ’’ ایک نسخہ ، آب حیات ، طبع جدید بذریعہ عریضہ نیاز ار سال خدمت کیا ہے … ’ دربار اکبری ‘ کو لپٹ رہا ہوں مگر دوہی دن جم کر بیٹھا تھا کہ آنکھوں نے رنگ بدلا اور دماغ جواب دینے لگا ۔ خیز میں نے ایک دن آرام دیا۔ تخفیف معلوم ہوئی ۔ اب آہستہ آہستہ چلا جاتا ہے۔ خیر ۔ کام خدا کے فضل سے ہوگیا … اب جو لکھنا تھا وہ میں نے لکھ لیا اور ہر ایک حال مسلسل بھی ہو گیا۔ جو کام باقی ہے وہ فقط اتنا ہے کہ کہیں کوئی فقرہ بڑھا دیا، کہیں دو کو ایک کر دیا۔ تصویروں کے باب میں اتنا لکھا ۔ جناب سید صاحب نے جواب بھی نہ دیا۔ میں نے آٹھ دس تصویریں بہم پہنچائی ہیں۔ جس طرح ہو گا ا نہیں سے اس گڑیا کو سنوار کر حاضر کر دوں گا۔ ‘‘(مکتوبات ص 61تا 62) ’’ دربار اکبری ‘‘ اپنی ابتدائی صورت میں لکھی جا چکی تھی لیکن ’’ اس گڑیا ‘‘ کی آرایش وزیبایش کا کام ابھی باقی تھا ، اس لیے اسے منظر عام پر نہیں لایا جا سکتا تھا اور بقول سید جالب دہلوی اب بھی: ’’ لوگوں کو امید تھی کہ … (آزاد ) ، دربار اکبری ، کوبڑی رونق و شان سے سجائیں گے اور اس کے مینا بازار کی زمانہ حال کے لوگوں کو سیر کرائیں گے ۔ ‘‘ (دیپاچۂ مکتوبات ص 29) آزاد کے حالات بہت سازگار نہیں رہ گئے تھے لیکن وہ پورے انہماک کے ساتھ اپنے کاموں میں مصروف تھے ۔ ان کا کہنا تھا : ’’ اچھا مجھے پنشن بھی دے دیں گے تو قناعت کروں گا اور تصنیفات کو پورا کروں گا۔ اپنے لخت جگہ بچوں کو نیج جاں تڑپتا نہ چھوڑونگا۔ چھپائی کا کام دس بارہ دن سے زیادہ نہیں رہا۔ ’ آب حیات ‘ نے مجھے ہلاک کر دیا۔ مجھ سے بے وقوفی ہوئی ہے۔ دس مہینے کا کام تھا جو ڈیڑھ مہینے میں کیا ہے ۔ اللہ آسان کرے۔ ‘‘ (مکتوبات ص 56تا 57) اس غیر معمولی مشقت کی وجہ یہی تھی کہ وہ چاہتے تھے کہ جلد از جلد ’ دربار اکبری ‘ کو مکمل کر دیں لیکن کاموں کا سلسلہ کسی طرح ختم نہیں ہو رہا تھا۔ ایک کے بعد ایک نیا کام سامنے آجاتا تھا ۔ یکم ستمبر 1888کو آزاد نے لکھا تھا: ’’ میں نے سخندان فارس ‘ کو نظرثانی کر کے رکھ دیا ہے ۔ چاہا کہ اب ’ دربار اکبری ‘ کو سنبھالوں مگر مروت اور حمیت نے اجازت نہ دی کیونکہ استاد مرحوم شیخ ابراہیم ذوق کی بہت سی غزلیں قصیدے بے ترتیب پڑے ہیں اور میں خوب جانتا ہوں کہ ان کا ترتیب دینے والا میرے سوا دنیا میں کوئی نہیں۔ ‘‘ (مکتوبات ص 80) اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ’’ دیوان ذوق ‘‘ کی ترتیب کے بعد آزاد ’’ دربار اکبری ‘‘ کی طرف متوجہ ہونا چاہتے تھے لیکن غالباًوہ ایسا نہیں کر سکے۔ دیوان کی ترتیب (1891)کے کوئی پندرہ سال کے بعد 26 ستمبر 1906ء کو انہوں نے ذکر کیا تھا : ’’ یہ تو آپ کو معلوم ہے جکہ ’ مآثر الامرا ، اور ’ سوانح اکبری ‘ کسی زمانے میں دیکھی تھیں ۔ یہاں تلاش تھی اور نہیں ملتی تھیں۔ چند مقاموں میں پرانی کتابوں کا پتا لگا تھا۔ چھ دن میں بھاگ گیا اور دوڑا دوڑا آیا۔ جو کچھ ہاتھ لگا اسے دیکھتان گیا اور یاد داشتیں لیتا گیا۔ ’ مآثر الامرا ، بھی مل گئی۔ شکر کا مقام ہے کہ جو کچھ میں نے دانہ دانہ اور قطرہ قطرہ کر کے جمع کیا ہے وہ ’ مآثر الامرا ‘ سے بہت زیادہ نکلا۔ پھر بھی حق سے گزرنا کفر ہے۔ ہر شخص کے حال میں تین تین چار چار نکتے مل گیے اور اچھے مل گئے۔ سب سے زیادہ یہ کہ اب جو ’ دربار اکبری ‘ کا مشاہدہ کرے گا یہ نہکہہ سکے گا کہ آزاد کو ’ مآثر‘ ہاتھ نہیں آئی۔ (مکتوبات ص 31تا 32) ’’ مآثرالامرا‘‘ کے دستیاب ہو جانے پر آزاد کا خوش ہونا بجا تھا لیکن علم کا بحرذ خار ناپیدا کنار ہے۔ ساری کوششوں کے باوجود بعض مآخذ ایسے رہ جاتے ہیں جن تک صاحبان تصنیف کی رسائی نہیں ہوتی۔ آزاد بھی اس صورت حال سے مستثنا نہیں تھے۔ بہر نوع ان کی جستجو اور تگ و دود قابل رشک تھی کہ انہوں نے اپنے موضوع سے متعلق بیشتر معروف کتابیں فراہم کر لی تھیں ۔ ’’ دربار اکبری ‘‘ کی سرسری ورق گردانی سے جن مآخذ کے نام سامنے آتے ہیں ، ان کی فہرست درج ذیل ہے : نمبر شمار نام کتاب مصنف کیفیت 1 ۔ آئین اکبری شیخ ابوالفضل علامی کشورداری و تاسیسات اکبرو (دفتر سوم اکبرنامہ) احوال مشاہیر آں زماں 2۔ اقبال نامۂ جہانگیری محمد شریف مخاطب بہ معتمد خاں احوال پادشاہان تیموری … درسہ جلد 3۔ اکبرنامہ شیخ ابوالفضل علامی درسہ دفتر … دفتر اول تا 17جلوس اکبری دفتر دوم 18تا 64جلوس اکبری دفتر سوم ۔ آئین اکبری 4۔ اکبر نامہ(مثنوی شیخ فیضی ابن مبارک 5۔ انشائے فیضی عرف مرتب : نور الدین محمد عبداللہ لطیفۂ فیاضی 6 ۔ تاریخ راجستھان ٹاڈ 7۔ تاریخ رشیدی مرزا حیدر دغلات کشمیری تاریخ مخول کا شغرو مخولستان…درسہ حصہ 8۔ تاریخ شیر شاہی عباس خاں بن شیخ علی شیروانی یہ عباس خاں کی تصنیف ’’ تحفہ اکبر شاہی ‘‘ کا تیسرا حصہ ہے ۔ یہ کتاب اکبر کے حکم سے لکھی گئی تھی …تین ابواب میں 9۔ تاریخ فرشتہ یہ گلشن ابراہیمی ملا محمد قاسم بن ہندوشاہ استرابادی معروف بہ فرشتہ ازدورۂ غزنویاں تا 1015ھ … دردو جلد 10۔ نذکرہ ہفت اقلیم ملا امین احمد رازی (زمانۂ تالیف 996ھ تا 1002ھ) عارفوں ، امیروں اور بادشاہوں کا تذکرہ 11۔ ترجمہ آئین اکبری (انگریزی ) بلاک مین (=بلا خمن) 12۔ توزک جہانگیری= جہانگیر نامہ جہانگیربادشاہ سرگذشت خوداز سال جلوس بہ بعد 13 ۔ خلاصتہ التواریخ سبحان سنگھ دھیر بٹالوی ازابتدا تاوفات عالمگیر پادشاہ 14 ۔ دیوان فیضی شیخ فیضی بن مبارک 15 ۔ ذخیرۃ الخوانین شیخ فرید بھکری 16 ۔ رقعات ابوالفضل ابوالفضل بن مبارک بقول آزاد یہ نج کی (پرائیویٹ) تحریری ہیں 17۔ زبدۃ التواریخ نورالحق المشرقی الدہلوی البخاری ابن شیخ عبدالحق مغرالدین محمد بن سام تادورۂ جہانگیر شاہ 1 ۔ ’’ درباراکبری ‘‘ تاریخ زیدتین ‘‘ کا بھی ذکر ہے ۔ وہ شاید یہی ہو ؟ نمبر شمار نام کتاب مصنف کیفیت 18۔ سفینۂ خوشگو بندرابن داس خوشگو درسہ حصص 19۔ سلیمانوبلقیس (مثنوی) شیخ فیضی 20۔ سیر العارفین شیخ گدای کنبو مقالات و حالات مشایخ 21۔ سیر المتاخرین نواب غلام حسین خاں طبا طبائی ازتیمور شاہ تا 1195ھ درسہ دفتر…کلکتہ سے 1248ھ میں چھپی 22 ۔ شاہجہاں نامہ ملا عبدالحمید لاہوری عہد شاہجہانی کی تاریخ 23 ۔ طبقات اکبری مولانا نظام الدین احمد بن محمد مقیم الہروی دریک مقدمہ و نہ طبقہ (یعنی دہلی ، دکن ، گجرات ، بنگالہ ، مالوہ ، جونپور ، سندھ ، کشمیر ، ملتان ) ویک خاتمہ ۔ تاسنہ الف 24۔ عالمگیر نامہ محمد کاظم بن منشی محمد امین قزدینی تاریخ حکومت دہ سال اول عالمگیر پادشاہ 25۔ فرہنگ جہانگیری میر جمال الدین انجو فرہنگ عربی و فارسی بہ زبان فارسی ۔ جہانگیر بادشاہ کے نام معنون۔ 26 ۔ کشکول ابوالفضل علامی آزاد کا دعوا کہ اس کا ایک نسخہ انہوں نے دیکھا۔ 27۔ کلمات الشعرا محمد افضل سر خوش 169شاعروں کا تذکرہ 28۔ مآثر الامرا نواب صمصام الدولہ شاہنواز خاں و عبدالحی 1500ء سے 1780ء تک کے کل 735امرا سے سلطنت کے حالات 2 ؎ اس کتاب کا نولکشوری ایڈیشن مطبوعہ 1875ء راقم کو جناب احسان آوارہ (باندہ) نے ازراہ علم نوازی عنایت کیا ہے۔ 3 ؎’’دربار اکبری ‘‘ میں ’’ تذکرۂ پر جوش ‘‘ کا بھی حوالہ ہے۔ شاید وہ یہی ہو۔ نمبر شمار نام کتاب مصنف کیفیت 29۔ مآثررحیمی مرتب : ملا عبدالباقی خانخاناں کے لیے کہے گئے قصیدوں کا مجموعہ ۔ شاعر کا حال اور قصیدے کی تقریب وغیرہ کا بیان بھی 30۔ مرکز ادوار (مثنوی) شیخ فیضی بن مبارک 31۔ مکاتبات ابوالفضل ابوالفضل بن مبارک درسہ دفتر… =انشاے ابوالفضل مرتب : عبدالصمدبن افضل محمد دفتر اول : بادشاہ کی طرف سے مراسلے دفتر دوم : اپنے خطوط وغیرہ دفتر سوم : اپنی کتابوں کے دیباچے 32۔ مکتوب شیخ عبدالحق محدث دہلوی ؟ 33۔ منتخب التواریخ ملا عبدالقادربن ملوک شاہ بدایونی غزنویوں سے اکبر کے عہد تک کی تاریخ 34۔ منتخب اللباب محمد ہاشم مخاطب بہ ہاشم علی خاں امیر تیمور تا محمد شاہ بادشاہ =تاریخ خانی خاں وبعدہ‘ خانی خان نظام الملک دردوحصہ ۔ یعنی ’’ برتاریخ فرشتہ ‘‘… کلکتہ میں چھپی 35۔ نفایس المآثر میر علاء الدین قزوینی کامی۔ (یہ نام تاریخی ہے) 36۔ نل دمن مثنوی شیخ فیضی 37۔ ہفت کشور مثنوی شیخ فیضی ’’ دربار اکبری ‘‘ میں ان چند کے علاوہ اور بھی کئی کتابوں کے ضمناً حوالے آتے ہیں بعض اقتباس اس طرح ہیں : ’’ ایک پرانی کتاب میرے ہاتھ آئی۔ اس کے دیباچے سے معلوم ہوا کہ اس وقت تک ہندوستان کے بادشاہی دفتروں کے کاغذ ہندو ملازم ہندی اصول کے بموجب رکھتے تھے۔ ‘‘ (دربار اکبری ص 361) ’’ ایک کتاب دیکھی جو زبان لاطینی (رومی) سے ترجمہ ہوئی تھی۔ ‘‘ (ایضاً ص 68) ’’ ڈیلیٹ ایک ڈچ سیاح کا بیان ۔ ‘‘(ایضا ص 485) ’’ خانی ، رقعات عالمگیری اور مشہور حکایتوں اور روایتوں سے عالمگیر اور نواب سعادت علی خاں مرحوم کے حالات انہیں سنوایئے اور ان کے لطایف و حکایات سے کان بھرتے رہیے۔ ‘‘(ایضاً ص 71) ایک مقام پر آزاد نے یہ ذکر بھی کیا ہے کہ ’’ اکبری اور جہانگیری سندیں ان کے پاس موجود ہیں۔ میں نے سیاحت بمبئی میں وہ کاغذات بچشم خود دیکھے ہیں۔ ‘‘ غرض اس کتاب کی کی تیاری میں آزاد نے کم و بیش ہر طرح کے مآخذ سے استفادہ کیا ہے۔ ’’ دربار اکبری ‘‘ میں سب سے زیادہ جس کتاب کا ذکر آیا ہے وہ ملا عبدالقادر بدایونی کی ’’ منتخب التواریخ ‘‘ ہے ۔ اس کی سرسری ورق گردانی سے بھی انداز ہو جائے گا کہ نصف سے زاید اوراق پر ’’ منتخب التواریخ ‘‘ کا ذکر موجود ہے ۔ معلوم ہوتا ہے کہ آزاد اس کتاب کے مندرجات کو مختلف معروف کتابوں کے مقابلے میں لایق ترجیح سمجھتے تھے۔ ایک مقام پر انہوں نے تحریر کیا ہے کہ : ’’ جو میں نے لکھا ہے یہ ملا صاحب کو قول ہے اور یہی ٹھیک معلوم ہوتا ہے ۔ دکن کے فرشتہ کو پنجاب کی کیا خبر ؟ ‘‘ (دربار اکبری ص 186) اسی طرح صفحہ 70 وغیرہ پر بھی ہے۔ ایک سے زاید مقاموں پر آزاد نے بدایونی کے حالات میں اپنے معاملات کے عکس کو بھی دیکھنے کی کوشش کی ہے مثلاً : ’’ ان کی تاریخ اپنے مضمون و مقصود کے اعتبار سے اس قابل ہے کہ الماری کے سر پر تاج کی جگہ رکھی جائے … باوجود ان باتوں کے جو کم نصیبی ان کی ترقی میں سنگ راہ ہوئی وہ یہ تھی کہ زمانے کے مزاج سے اپنا مزاج نہ ملا سکتے تھے … قباحت یہ تھی کہ جس طرح طبیعت میں جوش تھا ، اسی طرح زبان میں زور تھا۔ اس واسطے ایسے موقع پر کسی دربار اور کسی جلسے میں بغیر بولے رہا نہ جاتا تھا۔ اس عادت نے مجھ ناقابل کی طرح ان کے لیے بھی بہت سے دشمن بہم پہنچائے تھے۔ ‘‘ (ایضا ص 420) باوجود اس کے قاری کے ذہن میں بار بار یہ تاثر ابھرتا ہے کہ آزاد نے اپنی کتاب میں بدایونی کی کتاب کا جواب پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ بعض مقاموں پر یہ صورت زیادہ کھل گئی ہے مثال کے طور پر : ’’ لطیفہ ۔ ملا صاحب کے رونے کا مقام تو یہ ہے کہ 998ھ کے جشن میں … میر عبدالحئی صدر جہاں مفتی کل ممالک ہندوستان نے … جام طلب کر کے نوش جاں فرمایا۔ ‘‘ (ایضا ص 72) بیان واقعات میں زیب داستان کے لیے کچھ کچھ بڑھا لینا معمولات میں سے ہے ۔ ’’ دربار اکبری ‘‘ بھی اس معاملے میں کچھ مختلف نہیں ہے۔ خود آزاد کو بھی اس بات کا بخوبی احساس تھا ، چنانچہ ایک مقام پر لکھتے ہیں : ’’ استغفرالہ کدھر تھا اور کدھر آن پڑا ، مگر باتوں کے مصالحہ بغیر تاریخی حالات کا بھی مزہ نہیں آتا ۔ ‘‘ (ایضاً ص 596) اور آزاد نے بوجوہ شعوری طور پر مختلف طریقوں سے کتاب کو مزیدار بنا دینے کی کوشش کی ہے۔انہوں نے اسے محض تاریخی واقعات کا خشک مجموعہ نہیں رہنے دیا ہے۔ اکبر کی اصلاحات کی تائید میں انہوں نے اپنے وقت کی ایک دلچسپ صورت حال کا بیان کیا ہے : ’’ اس ملک پنجاب میں ایک عورت کا مقدمہ پیش ہوتا ہے۔ چار خاوند حاضرہیں۔ ہر شخص کے ساتھ ایک ملا صاحب منڈا ہوا سر ، ناف تک ڈاڑھی ، پاؤں تک کرتہ ، نیلالنگ ، ہلاس دانی ہاتھ میں ، بہ حلف شرعی فرماتے ہیں کہ میں نے بہ زبان خود نکاح پڑھا ، تو چار پانچ مسلمان باایمان گواہ کہ مجلس عام میں پڑھا گیا اور ماں باپ نے پڑھوایا ۔ ‘‘ (دربار ۔ ص 60 حاشیہ) اللہ جانتا ہے کہ اس قسم کے واقعات کتنے پیش آتے ہوں گے۔ اور کتنے آزاد کی زندہ دلی نے اختر کیے ہوں گے ۔ بہر نوع اتنی بات میں شبہ نہیں کہ ملا صاحب کی ہیئت کذائی کا یہ بیان مسلمانوں کے لیے نہایت افسوسناک ہے۔ ’’ دربار اکبری ‘‘ کو آزاد نے ایک مربوط و مسلسل کتاب کے طور پر نہیں لکھا تھا۔ انہوں نے مختلف اشخاص اور افراد نے حالات الگ الگ اور مختلف وقتوں میں لکھتے تھے۔ ان متفرق اجزا کو مرتب کرنے کا کام ان کی وفات کے بعد ان کے صاجزادے محمد ابراہیم مصنف امر تسر نے کیا تھا۔ مرتب نے بھی اس بارے میں لکھا ہے : ’’ حضرت مرحوم نے تمام حالات اعیان دربار اکبری کے علاحدہ علاحدہ کاغذوں میں ترتیب دے کر رکھ چھوڑے تھے اور غالباً اسی ترتیب سے ان کو کتاب میں درج کرنا منظور تھا۔‘‘ (مقدمۂ دربار ص 3 ) مرتب کا خیال بطور مجموعی صحیح معلوم ہوتا ہے لیکن بعض اجزا کے بارے میں صورت حال غالباً کچھ اور ہو سکتی تھی مثلا عبدالرحیم خانخاناں کے حالات میں جو تمہیدے ہے ، وہ اس بات کی زیادہ متقاضی ہے کہ اسے بیرم خاں کے ذکر سے ملحق کر دیا جائے۔ مکتوبات آزاد کے مطالعے سے بھی پتہ چلتا ہے کہ بعض حصوں کو لکھ لینے کے بعد آزاد نے اپنے قدرشناسوں کیپ اس ان کی رائے کے لیے بھیجا تھا ۔بخوبی امکان ہے کہ ان رایوں کی روشنی میں آزاد نے کچھ ردوبدل بھی کی ہو۔ ایک خط کا اقتباس یہ ہے : ’’ دربار اکبری ‘‘ کا تب سے بھی لکھواتا ہوں۔ آپ بھی لکھ رہا ہوں۔ خدا کرے کچھ ہو جائے۔ اب خدا کے فضل سے کئی حال آپ کے سنانے کے قابل ہو گئے ہیں۔ فیضی کے حال پر نظر ثانی کی تو مذہب کے سلسلے میں مجھے خیال آیا کہ دیکھیے آپ اور آپ کے بھائی صاحب اسے سن کر اور پڑھ کر کیا فرماتے ہیں ۔ خدا وہ وقت دکھائے ؎ وصل ان کا خدا نصیب کرے میر ، جی چاہتا ہے کیا کیا کچھ (مکتوبات ص 37 تا 38) اس میں شک نہیں کہ فکرو خیال کے آداب اور زبان و بیان کے اصول سے متعلق اپنی کتاب میں جا بجا آزاد نے بہت اچھی اچھی باتیں لکھی ہیں۔ مذہبی بحثوں کے بارے میں اصولوں کی حد تک تو ان کا موقف یہی تھا کہ : ’’ تم اپنی فکرو کرو ۔ وہاں تمھارا اعمال سے سوال ہو گا۔ یہ نہ پوچھیں گے کہ اکبر کے فلاں امیر نے کیا کیا لکھا۔ اس کا عقیدہ کیا تھا اور تم اس کو کیسا جانتے تھے ۔ ‘‘ (دربار ص 368) لیکن صحیح بات یہ ہے کہ آزاد بھی آخر انسان ہی تھے اور انسان کے معمولات میں ہے کہ : ’’ اپنے پیارے اور پیار کرنے والے کی ہر بات پیاری ہوتی ہے۔ ‘‘ قدرتی طور پر اپنے پیاروں کے قصور اور غیروں کی خوبیوں پر عموماً نگاہیں نہیں جمتیں۔ اکبر ، آزاد کو محبوب تھا۔ اس کے حالات میں اس کی اور اس کے مقربوں کی شعوری اور غیر شعوری تائید و حمایت میں کوئی روایت سامنے آتی تو دل اس کو نظر ان داز کرنے پر آمادہ نہیں ہوتا تھا۔ اپنے اس عمل کی کیفیت کا احساس آزاد کو رہا ہے چنانچہ ایک موقع پر انہوں نے اس کا اظہار اس طرح کیا ہے : ’’ لوگ کہیں گے کہ آزاد نے ’ دربار اکبری ‘ لکھنے کا وعدہ کیا تھا اور شاہنامہ لکنے لگا۔ ‘‘ (ایضاً ص 35 ) اس ’’ شاہنامے ‘‘ میں دوسرے بادشاہوں یا اکبری عہد کے ’’ قبطیوں ‘‘ کے بارے میں جو کچھ ہے اس پر کسی کا ناک بھوں چڑھانا بیکار ہے۔ اس باب میں اس حقیقت کو بھی انداز نہیں کیا جانا چاہیے کہ جس زمانے میں آزاد نے اس کتاب کو مکمل کیا ہے ، ان پر جذب کی کیفیت طاری تھی اور اس حال میں جو کچھ ان کے قلم سے نکلا ہے ، وہ فی الواقع ان کے دل کی گہرائیوں سے نکلا ہے اور اس میں آزاد خود اپنے احوال کا عکس دیکھتے تھے ۔ لکھتے ہیں : ’’ خدا حاسدوں کا منہ کالا کرے جنہوں نے دونوں بھائیوں کی سنہری سرخروئی کو روسیاہی کر دیا۔ آزاد بھی ایسے ہی بے لیاقت بدا صاحت حاسدوں کے ہاتھ سے داغ داغ بیٹھا ہے۔ پھر بھی شکر ہے کہ روسیاہی سے محفوظ ہے اور خدا محفوظ رکھے … الخ ۔ ‘‘ (ایضا ص 224) آزاد نے ایک اکبر کے مقابلے میں بعد کے بادشاہوں کے معاملات پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے : ’’ یہ یلغاریں بابری بلکہ تیموری و چنگیزی خون کے جوش تھے کہ اکبر پر ختم ہوگئے۔ اس کے بعد کسی بادشاہ کے دماغ میں ان باتوں کی بو نہ رہی۔ بنیے تھے کہ گدی پر بیٹھے تھے۔ ان کی قسمیں لڑتی تھیں۔ انہیں گویا خبر نہ تھی کہ ہمارے باپ دادا کون تھے اور انہوں نے کیونکر یہ قلعے ، یہ ایوان ، یہ تخت ، یہ درجے تیار کیے تھے جن پر ہم چڑھے بیٹھے ہیں۔ ‘‘ (دربار ص 27) عام ہے کہ اپنے کی ترقی کے ذکر سے جی خوش ہوتا ہے اور اس کی تکلیف کے بیان سے دل تڑپ جاتا ہے۔ اصولی طور پر مورخ کی ذمہ داریاں جو بھی ہوں لیکن اس کے سینے میں بھی دل دھڑکتا ہے۔ اصول اور آئین کی باتیں درست سہی لیکن وہ اپنے دل کو کہاں لے جائے ؟ ایک جنگی معرکے کا بیان کرتے ہوئے ایک سپاہی سے آزاد نے جو سوال کیا ہے اور پھر قارئین کو جو نصیحت کی ہے اس کی داد نہ دینا بھی ظلم ہے : ’’ اختیار الملک نے کہا : ’ من سید بخاریم ‘ مرابگذار ‘۔ سہراب بیگ نے کہا : ’ تو اختیار الملک ہستی … ‘ یہ کہا اور جھٹ سر کاٹ لیا لہو ٹپکتے سرکودامن میں لے کر دوڑا ۔ حضور میں نذر گزران کوانعام پایا۔ وہ آغا سہراب : اسی منہ سے کہو گے : ’ فدایت شوم یا مولیٰ ۔ ‘ میرے دوستو ! ایسے وقت پر خدا اور خدا کے پیاروں کا پاس رہے تو بات ہے ۔ نہیں تو یہ باتیں ہی باتیں ہیں۔ ‘‘ (دربار ص 34 ) میدان جنگ کی ہولناکیوں کے ذکر کے باوجود نیکیوں کی یہ تلقین بھی آزاد کا کارنامہ ہے ۔ آزاد نے عام مورخین کے عمل پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے : ’’ یہ برا کرتے ہیں کہ (غیر مسلموں کے لیے)ملعون ، کافر ، اورسگ بیدین وغیرہ الفاظ سے زبان کو آلودہ کرتے ہیں ۔ ‘‘ (ایضاً ص 308) بات بالکل صحیح ہے لیکن شاید مسلک کی گرمی میں ، زبان پر اپنی حاکمانہ قدرت دکھانے کے لیے یا ممکن ہے دل کے جذبے ، ایمان کے جوش اور بیان کے زور میں غیر مسلموں نہیں بلکہ ان لوگوں کے واسطے جن کو دنیا والے مسلمان کہتے آئے ہیں۔ اس قسم کے بہ کثرت توصیفی کلمات کے استعمال سے خود مولانا محمد حسین آزاد نے اسی ’’ دربار اکبری ‘‘ کو مزین اور آراستہ کیا ہے چنانچہ بعض ترکیبیں یہ ہیں : بدنیت ، سفلے ، شیطان طینت ، بے حیا بے شرم ، مسجدوں کے بھوکے ، جعلساز بزرگان عالم نما ، بے لیاقت شیطان ، نمکحرامی کا مصالح ، روٹی توڑ اور شروے چٹ ملانے ، سردار مردار وغیرہ وغیرہ۔ جہاں تک زبان وبیان کا تعلق ہے ، اس مقام پر اتنا کہنا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ’’ آب حیات ‘‘ کی عبارت میں بلاغت کا وصف نمایاں اور زبان اس کی فارسی کے رنگ ڈھنگ سے قریب تر ہے۔ اس کے برخلاف ’’ دربار اکبری ‘‘ کا طرز بیان واضح اور سلیس ہے اور اس کی زبان پر ہندوستانی روز مرہ کا اثر غالب معلوم ہوتا ہے۔ اس تبدیلی میں کتاب کے موضوع کو بھی کم و بیش دخل ہو سکتا ہے۔ اور خود آزاد کے مخصوص حالات کو بھی۔ اردو کے ایک عام قاری کے لیے ’’ دربار اکبری ‘‘ کی زبان سریع الفہم ہونے کے ساتھ ساتھ زیادہ پر کشش معلوم ہوتی ہے۔ محض نمونے کے طور پر دو اقتباس درج ذیل ہیں : ’’ نیی سلطنت کا بنانا اور اپنے حسب مطلب بنانا اور پرانی جڑوں کو زمین کی تہ میں سے نکالنا ، انہیں لوگوں کا کام تھا جو کر گئے۔ خو شامد کیا آسان بات ہے۔ پہلے کوئی کرنی تو سیکھی۔ ‘‘ اور : ’’ خدا تر نوالہ دے خواہ سو کھا ٹکڑا ، باپ کا ہاتھ بچوں کے رزق کا چمچہ بلکہ ان کی قسمت کا پیمانہ ہوتا ہے ۔ ‘‘ ’’ دربار اکبری ‘‘ کی تصنیف کے کام کی سرپرستی سالار جنگ کر رہے تھے۔ ابھی کام کا سلسلہ جاری تھا کہ ان کا انتقال ہو گیا۔ دو طالب علموں نے آکر اطلاع دی۔ اس کا ذکر آزاد نے اس طرح کیا ہے: ’’ دربار اکبری ‘ درست کر رہا ہوں۔ ان کے نام پر کردوں گا۔ دونوں (طالب علم) خوش ہو گیے اور کہا کہ: ’ ضرور کیجیے ۔ یہ عمارت عظیم الشان ان کے نام پر یادگار ہو گی جو کبھی منہدم نہ ہو گی ۔ میں نے کہا : ’ بلکہ دو تین اور بھی ‘ اب آپ کی خدمت میں عرض یہ ہے … پھر اسے سنبھالتا ہوں ۔ خدا و مولیٰ اسد اللہ الغالب سر انجام کو حد انجام پر پہنچانے والے ہیں مگر مشورت طلب یہ نکتہ ہے کہ آیا وہی ڈڈیکیشن کا مقرری خاکہ رنگ بھر کر سجادوں یااسے موقوف رکھ کر یہ لکھوں کہ ایسے شخص کے حادثہ جا نکاہ پر عالم نے نالہ وزاری کے معمولی حق ادا کیے اور یادگار کے لیے تاریخیں اور نظمیں لکھیں۔ فقیر آزاد سے اور کچھ نہ ہو سکا۔ یہ کتاب ان کے نام پر لکھتا ہوں کہ ان دنوں زیر قلم تھی ۔ چہ کند بینوا ہمیں دارد ۔ ‘‘ (مکتوبات ص 52تا 53) ’’ دربار کبری ‘‘ آزاد کی زندگی میں چھپ نہیں سکی اس لیے ڈڈیکیشن کی آرزو حسرت بن کر دل ہی میں رہ گئی۔ مطبوعہ کتاب میں دوسری بڑی کمی یہ پیدا ہو گئی کہ اس کے لیے آزاد نے بہت کوشش سے جو تصویریں حاصل کی تھیں ، ان میں سے ایک بھی اس میں شامل نہیں کی جا سکی ۔ تصویروں سے متعلق آزاد کے بعض بیان یہ ہیں : ’’ آپ نے تصویروں کا کچھ بندوبست نہ فرمایا۔ مجھے اکبر کی ایک تصویر ہاتھ آئی کہ تین چار ترک عورتیں بیٹھی ہیں اور وہ تین برس کا بچہ بیچ میں کھیلتا پھرتا ہے۔ رات کا وقت ہے۔ شمع روشن ہے۔ جھنجھنے وغیرہ سامنے پڑے ہیں ۔ یہ اکبر کے ابتدائی حالات میں لگائی واجب ہے۔ ایک ایسی ہی پرانی تصویر اور ملا دو پیازہ کی ہاٹھ آئی۔ بیربل کے ساتھ اسے بھی لگانا واجب ہے، اگرچہ کتاب سے ملا دوپیازہ کی اصل معلوم نہیں ہوتی مگر مسخروں اور بھانڈوں سے اس کا شملہ دستار بیربل کی دم میں مضبوط باندھا ہے۔ راجہ مان سنگھ کی تصویر بھی سندی ہے۔ سرکار الور سے منگائی ہے۔ ‘‘ (مکتوبات ص 59 تا 60) اور : ’’ میں نے بڑی کوشش سے چند تصویریں مہاراجہجے پور کے پوتھی خانہ سے حاصل کیں۔ ان میں جو اکبر کی تصویرملی وہ سب سے زیادہ معتبر سمجھتا ہوں اور اسی کی نقل سے اس موقع کا تاج سر کرتا ہوں۔ ‘‘ (دربار ص 144تا 145) لیکن مولانا کے دل کا یہ ارمان بھی دل ہی میں رہ گیا اور نہایت محنت اور کوشش سے جمع کی گئی سب تصویریں بہ گمان غالب ضایع ہو گئیں۔ ’’ دربار اکبری ‘‘ کو سب سے پہلے مصنف کے ایک عزیز شاگردمولوی میر ممتاز علی نے اپنے مطیع رفاہ عام لاہور میں اپنے مقدمہ کے ساتھ چھپوا کر شایع کیا تھا اس کے بعد مصنف کے صاجزادے محمد ابراہیم مصنف امرنسر نے 1910میں کتاب کو اس دعوے کے ساتھ چھپوایا کہ : ’’ بہ حیثیت مجموعی یہ حضرت قبلہ مرحوم کی اصلی تصنیف اور ان کے دستخطی مسودات کے مطابق ہے ۔ ‘‘ محمد ابراہیم نے اپنے مقدمے میں مولوی ممتاز علی کے بعض بیانوں کی تردید کی ہے اور کتاب کے متن میں ترتیب وغیرہ کی جو خرابیاں تھیں ان کو درست کیا ہے لیکن اب بھی تتمہ کے بعض اجزا کے بارے میں خیال ہوتا ہے کہ شاید ان کی جگہ کوئی اور تھی۔ ’’ دربار اکبری ‘‘ اپنے زمانے کی مقبول تصانیف میں سے ہے۔ اس کتاب کے کم سے کم دو ایڈیشن اور بھی نکلے اور یہ دونوں 1910کے مطبوعہ متن کی نقل تھے۔ 1937ء میں محمد باقر ، گجرات گورنمنٹ کالج نے اس کتاب کو شیخ مبارک علی کی عالمگیر الکڑک پریس لاہور سے چھپوا کرشایع کیا تھا۔ جیسا کہ مذکور ہوا ان میں سے کسی بھی ایڈیشن میں نہ تو تصویریں ہیں اور نہ وہ ڈڈیکیشن ہی ہے جس کا اوپر ذکر کیا گیا ہے۔ محمد باقر نے اتنا ضرور کیا ہے کہ بعض باتوں کے انتساب میں غلطی اور تکرار وغیرہ کی نشاندہی کر دی ہے مثال کے طور پر حکم ہمام اور حکیم ابوالفتح کے منسوب بعض مقولوں کے لیے حاشیہ پر لکھا ہے : ’’ یہی مقبولے صفحہ 665پر حکیم ابوالفتح کے نام سے لکھے ہیں۔ ان کو میراث میں ملے ہوں گے۔ 12۔ محمد باقر ۔ ‘‘ (دربار ص 672) ’’ دربار اکبری ‘‘ اب تقریباً نایاب ہو چلی ہے۔ اس لیے ’’ قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان ‘‘ نے فوری طور پر اس کے متن کو شایع کر دینے کا مثبت فیصلہ کیا ہے۔ امید ہے کہ کونسل کے اس اقدام کی عام طور سے پذایرائی ہو گی۔ فقط محمد انصار اللہ دوشنبہ 20ستمبر 1999ئ 4/1172سر سید روڈ سر سید نگر ، علی گڑھ 202002 جلال الید اکبر شہنشاہ ہندوستان امیر تیمور نے ہندوستان کو زور شمشیر سے فتح کیا۔ مگر وہ ایک بادل آیا تھا کہ گر جا باسا اور دیکھتے دیکھتے کھل گیا۔ بابر اس کا پوتا چوتھی پشت میں ہوتا تھا۔ سوا سو برس کے بعد آیا۔ اس نے سلطنت کی داغ بیل ڈالی تھی۔ کہ اسی رستے میک عدم کو روانہ ہوا۔ ہمایوں اس کے بیٹے نے قصر سلطنت کی بنیاد کھودی اور کچھ اینٹیں بھی رکھیں۔ مگر شیر شاہ کے اقبال نے اسے دم نہ لینے دیا۔ اخیر عمر میں اس کی طرف پھر ہوائے اقبال کا جھوکا آیا تو عمر نے وفانہ کی ۔ یہاں تک کہ 963ہجری میں یہ با اقبال بیٹا جانشیں ہوا۔ تیرہ برس کے لڑکے کی کیا بساط ۔ مگر خدا کی قدرت دیکھو۔ اس نے سلطنت کی عمارت کو انتہائے بلندی تک پہنچایا۔ اور بنیاد کو ایسا استوار کیا کہ پشتوں تک جنبش نہ ہوئی۔ وہ لکھنا پڑھنا نہ جانتا تھا۔ پھر بھی اپنی نیک نامی کے کتابے ایسے قلم سے لکھ گیا ہے کہ دن رات کی آمدورفت اورف لک کی گردشیں انہیں گھس گھس کر مٹاتی ہیں مگر وہ جتنا گھستے ہیں اتنا ہی چمکتے آتے ہیں۔ اگر جانشین بھی اسی راستے پر چلتے تو ہندوستان کے رنگا رنگ فرقوں کو دریائے محبت پر ایک گھاٹ پانی پلا دیتے۔ بلکہ دہی آئین ملک ملک کے لیے آئینہ ہوتے۔ اس کے حالات بلکہ بات بات کے نکتے اول سے آخر تک دیکھنے کے قابل ہیں ٭ جن دنوں ہمایوں شیر شاہ کے ہاتھ سے پریشان حال تھا۔ ایک دن ماں نے اس کی ضیافت کی۔ وہاں ایک نوجوان لڑکی نظر آئی۔ اور وہ دیکھتے ہی اس کے حسن و جمال کا عاشق شیدا ہو گیا۔ دریافت کیا تو 1 ؎ اکبر ولد ہمایوں ۔ ولد بابر ۔ ولد عمر شیخ مرزا ۔ ولد ابو سعید مرزا ۔ ولد سلطان محمد میرزا ۔ ولد میراں شاہ ۔ ولد امیر تیمور صاجقران ٭ لوگوں نے عرض کیا کہ حمید ہ بانو بیگم اس کا نام ہے ۔ ایک سید بزرگوار شیخ ژندہ پیل احمد جام کی اولاد میں ہیں۔ اور آپ کے بھائی مرزا ہندال کے استاد ہیں۔ یہ ان کے خاندان کی بیٹی ہے۔ ہمایوں نے چاہا کہ اسے عقد میں لائے۔ ہندال نے کہا۔ منانسب نہیں ۔ ایسا نہ ہو کہ میرے استاد کو ناگوار ہو۔ ہمایوں کا دل ایسا نہ آیا تھا۔ کہ کسی کے سمجھائے سمجھ جاتا۔ آخر محل میں داخل کر لیا ٭ لیکن حضرت عشق نے شادی کی تھی۔ اور محبت کے قاضی نے نکاح پڑھا تھا۔ ہمایوں کو دم بھر جدائی گوارانہ تھی۔ دن ایسے نحوست کے تھے کہ ایک جگہ قرار نہ ملتا تھا۔ ابھی پنجاب میں ہے ابھی سندھ میں ہے۔ ابھی بیکانیر جیسلمیر کے ریگستان میں سرگرداں چلا جاتا ہے۔ پانی ڈھونڈھتا ہے۔ تو منزلوں تک میسر نہیں۔ جو دھپور کا رخ ہے کہ ادھر سے امید کی آواز آئی ہے ۔ قریب پہنچ کر معلوم ہوتاہے۔ کہ وہ امید نہ تھی دغا آواز بدل کر بولی تھی۔ وہاں توموت منہ کھولے بیٹھی ہے۔ ناچار پھر الٹے پاؤں پھر آتاہے۔ یہ سب مصیبتیں ہیں۔ مگر پیاری بی بی دم کے ساتھ ہے ۔ کئی لڑائی کے مقاموں میں اس کے سبب سے خطر ناک خرابیاں اٹھانی پڑیں۔ مگر اسے تعویذ کی طرح گلے سے لگائے پھرا۔ جب وہ جو دھپور کے سفر میں تھے تو اکبر ماں کے پیٹ میں باپ کے رنج وراحت کا شریک تھا۔ اس سفر سے پھرے اور سندھ کی طرف آئے۔ ایام ولادت بہت نزدیک تھے۔ اس لیے بیگم کو امر کوٹ میں چھوڑا ۔ اور آپ آگے پرانی لڑائی کو تازہ کیا۔ اسی عالم میں ایک دن ملازم نے آکر خبر دی کہ مبارک ۔ اقبال کا تارا طلوع ہوا۔ یہ ستار ایسے ادبار کے وقت جھلملایا تھا۔ کہ کسی کی آنکھ ادھر نہ اٹھی۔ مگر تقدیر ضرور کہتی ہو گی کہ دیکھنا ! آفتاب ہو کر چمکے گا۔ اور سارے ستارے اس کی روشنی میں دھند لے ہو کر نظروں سے غائب ہو جائیں گے ٭ ترکوں میں رسم ہے کہ جب کوئی ایسی خوشخبری لاتا ہے تو اسے کچھ دیتے ہیں۔ ایک سفید پوش اشراف ہو گا تو اپنا چغہ ہی اتار کر دے دیگا۔ امیر ہے تو اپنی دستگاہ کے بموجب خلعت اور گھوڑا نقد و جنس جو جو کچھ ہو سکے گا دیگا۔ سب کی ضیافتیں کریگا۔ نوکروں کو انعام و اکرام سے خوش کریگا۔ ہمایوں کے پاس جب سوار یہ خبر لایا تو اس کی حالت ایسی ہو رہی تھی کہ دائیں بائیں دیکھا ۔ کچھ نہ پایا۔ آخر یاد آیا کہ کمر میں ایک مشک نافہ ہے۔ اسے نکال کر توڑ اور ذرا ذرا سامشک سب کو دے دیا کہ شگون خالی نہ جائے۔ اللہ اللہ تقدیر نے کہا ہو گا کہدل میلا نہ کیجو۔ اس بچے کی شمیم اقبال مشک کی طرح تمام عالم میں پھیلے گی۔ ولادت کی تاریخ ہوئی ع شب یکشنبہ وپنج رحب است 949ہجری ٭بے سامان بچے کو جس طرح خدا نے تمام سامان ملک و دولت کے دئے۔ اسی طرح ولادت کے دقت ستاروں کو بھی اس نظام کے ساتھ ہر ایک برج میں واقع کیا کہ آج تک نجومی حیران ہوتے ہیں۔ ہمایوں خود ہئیت اور نجوم کا ماہر تھا۔ وہ اس کے زائچے کو اکثر دیکھا کرتا تھا اور کہتا تھا کہ کئی باتوں میں امیر تیمور سے بھی زیادہ مبارک ہے۔ اکبر ابھی حمل میں تھا۔ اور میر شمس الدین محمدؐ کی بی بی بھی حاملہ تھیں ۔ بیگم نے ان سے وعدہ کیا تھا۔ کہ میرے ہاں بچہ ہو گا۔ تو تمہارا دود اسے دونگی۔ اتفاق یہ کہ جب اکبر پیدا ہوا۔ تو ان کے ہاں ابھی کچھ نہ ہو ا تھا۔ بیگم نے پہلے آپ دود پلایا ۔ پھر ان کے دود نہ رہا تو بعض بعض اور ربیبیاں بھی دود پلاتی رہیں ۔ چند روز کے بعد جب ان کے ہاتھ بچہ ہوا تو انہوں نے دود پلایا۔ اور زیادہ ترانہیں کا دود پیا سبب ہے کہ اکبر انہیں جیحی کہا کرتا تھا۔ اکبر میں بہت سی باتیں تھیں کہ دوربینی کی عینک اور دور اندیشی کی آنکھیں اسے دکھاتی تھیں ۔ بہت سے کارنامے تھے کہ اس کی جرأت اور ہمت کے جوش اٰنہیں سر انجام دیتے تھے۔ اکثر چغتائی مورخوں نے انہیں پیشین گوئی اور کرامات کے رنگ میں جلوہ دیا ہے۔ البتہ اتنی بات ہے کہ ایسے بااقبال اور نیک نیت لوگوں میں بعض باتیں ایسی ہوتی ہیں کہ عام لوگوں میں نہیں ہوتیں میں ان میں سے چند حکایتیں نقل کرتا ہوں۔ اس سے یہ مطلب نہیں کہ انہیں سچ سمجھو۔ جو بات واقعی ہے اور دل کو لگتی ہے ۔ خود معلوم ہو جاتی ہے۔ دکھانا یہ منظور ہے کہ اس زمانے میں ایسی ایسی باتیں بادشاہوں کی طرف منسوب کرتے اور فتخر سمجھتے تھے ۔ جیجی کا بیان ہے کہ ایک دفعہ اکبر نے کئی دن دور نہ پیا تھا ۔ لوگوں نے کہا کہ جیجی نے جادو کر دیا ہے۔ 1 ۔اکبر کے طابع وقت میں ہند کے جو تشی اور یونان کے منجم اختلاف کرتے ہیں۔ ایک کہتے ہیں اسد ہے۔ ایک کہتے ہیں سنبلہ ہے۔ جب میر فتح اللہ شیرازی آئے تو انہیں دونوں زائچے دکھائے وہ ہیئت اور منجوم میں مہارت کل رکھتے تھے۔ دونوں کو دیکھ کر کہا کہ منجمان ہند ، موجب تحقیق قدما کے فلک الروج کی حرکت کو نہیں مانتے۔ اہل یونان میں حکمائے متقدمین اور ارسطو نے متحرک مانا ہے۔ ااور جس حکیم متحرک مانتا ہے مگر مقدار حرکت نہیں نہیں لکھتا ۔ بطلمیوں نے لکھا ہے کہ سو برس میں دورہ پورا کرتا ہے بعض کہتے ہیں کہ 63ہزار سال میں دورہ تمام کرتا ہے۔ اکثر حکما ء کہتے ہیں کہ 70 برس میں ایک درچہ 25 ہزار دو سو برس میں دورہ پورا کرتا ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ 63برس میں ایک درجہ یعنی 22 ہزار 6 سو 80 برس میں دورہ کرتا ہے۔ ان حسابوں سے اس وقت تک 17درجے کا فرق ہو گیا۔ کیونکہ ہندی رسد 1190برس پہلے کی بنی ہوئی ہے۔ 1190کو 70 پرتقسیم کیا تو 17 نکلے پس معلوم ہوا کہ 17درجے کا فرق ہونا چاہئے۔ غرض میر موصوف نے بھی رسد جدید کے بموجب اسد ہی طابع قرار دیا اور کہا کہ سنبلہ 17 درجہ اپنی جگہ سے حرکت کر گیا ہو گا ۔ اور اسد طلوع ہو گیا ہوگا۔ ہمایوں کو علم ہیئت میں مہارت کامل تھی۔ بیٹے کا زائچہ سامنے دکھ کر اکثر دیکھا کرتا تھا اور سوچتا تھا۔ مصاحبان خاص کا بیان ہے بعض دفعہ ایسا ہوتا تھا کے دیکھتے دیتکھے اٹھ کھڑا ہوتا تھا۔ حجرے کا دروازہ بند کر دیتا۔ تالیاں بجا کر اچھلتا اور مارے خوشی کے چک پھیریاں لیا کرتا تھا۔ اور یہ تو اکثر کہا کرتا تھا کہ اس بچے کا زائچہ کئی باتوں میں امیر تیمور صاجقران کے زائچے پر فائق ہے ۔ 2 ؎ میر شمس الدین محمد ؐ کا مفصل حال دیکھو تمتے ہیں۔ یہ چاہتی ہے کہ اور کوئی دودنہ پلاے چیجی کو اس بات کا بڑا رنج تھا۔ ایک دن اکیلی اکبر کو گود میں لئے بیٹھی تھی۔ اور غم سے افسر تھی۔ بچہ چپکا اس کا منہ دیکھ رہا تھا۔ یکایک بو لا کہ جیجی ۔ غم نہ کھاؤ۔ دودھ تمہارا ہی پیونکا اور خبر دار اس بات کا کسی سے ذکر نہ کرنا ۔ جیجی حیران ہوئی۔ اور ڈر کے مارے کسی سے نہ کہا ۔ جب اکبر بادشاہ ہوا تو ایک دن شکار گاہ میں شکار کھیلتے تھک کر درخت کے نیچے اتر پڑا کہ آرام لے۔ اس وقت فقط کو کہ یوسف ؑ محمدؐ خاں پاس تھا۔ ایک بڑا ژدہا کہ جس کے دیکھنے سے ڈر لگتا تھا۔ نکلا ۔ اور ادھر ادھر دوڑنے لگا۔ اکبر بے خطر جھپٹا ۔ اس کی دم پکڑ کر کھینچی ۔ اور پٹخ پٹخ کر مار ڈالا۔ کو کہ حیرا ن ہوا۔ اور آکر یہ ماجراماں سے بیان کیا۔ اس وقت جیجی نے وہ راز سر بستہ بھی کھولا۔ جب اکبر کی ماں حاملہ تھی۔ تو ایک دن بیٹھی سی رہی تی۔ یکایک کچھی خیال آیا۔ سوئی سے پنڈلی کو گودا۔ اور اس میں سرمہ بھرنے لگی۔ ہمایوں بار سے آگیا۔ پوچھا۔ بیگم یہ کیا کرتی ہو ؟ اس نے کہا میرا جی چاہا کہ ایسا ہی گل میرے بچے کے پاؤں میں بھی ہو ۔ خدا کی قدرت دیکھو۔ اکبر پیدا ہوا تو اس کی پنڈلی میں بھی ویسا ہی سر مئی نشان تھا۔ ہمایوں سندھ کے ملک میں مدت تک لڑتا بھڑتا رہا کہ شائد قسمت یاوری کرے۔ اور ایسی صورت بن جائے کہ پھر ہندوستان پر فوج کشی کرنے کا سامان بہم پہنچان جائے۔ لیکن لیکن نہ تدبیر چلی نہ شمشیر ۔ اسی عرصے میں بیرم خاں آن پہنچے انہوں نے آکر سب حال سنے او ر صورت حال کو دیکھ کر دربار میں گفتگو اور خلوت میں صلاحیں ہوئی۔ بیرم خاں نے کہا کہ ان بے مروتوں سے ہرگز امید نہیں۔ اور مروت کریں تو اس ریگستان میں کیا خاک ہے۔ جو کچھ ہاتھ آئے ۔ ہمایوں نے کہا۔ بہتر ہے کہ اب ہندوستان کو خیر باد کہیں اورملک موروثی میں چلکر قسمت آزمائیں بیرم خاں نے کہا کہ اس ملک سے بادشاہ مغفور نے کیا پایا جو حضور کو حاصل ہو گا۔ ایران کو چلیں تو قرین مصلحت ہے۔ وہ میرا اور میرے بزرگوں کا ملک ہے۔ کیا شاہ کیا فقیر سب مہماں نواز ہیں۔ غلام وہاں کے رسم وارہ سے واقف ہے۔ اور حضور کے خاندان عالی نے بھی وہانسے ہمیشہ مبارک اور کامیابی کے شگون پائے ہیں۔ ہمایوں نے ملک سندھ سے ڈیرے اٹھائے۔ ایران کا ارادہ فسخ نہ کیا تھا مگر یہ خیال تھا کہ جیسا سفر دور کا ہے۔ ویسے ہی کامیابی کی امید بھی دور دراز ہے۔ فی الحال بولان کی گھاٹی سے نکل کر قندھار کو دیکھنا چاہئے کہ قریب ہے۔ وہاں سے مشہد کارستہ بھی روشن ہے۔ بلخ و بخارا کی راہ بھی جاری ہے۔ عسکری مرزا اسوقت قندھار میں حکومت کر رہا ہے۔ میں اس قدر حادثے اٹھا کر آیا ہوں۔ عیال کا ساتھ ہے۔ آخر بھائی ہے جتیا خون کب تک ٹھنڈا رہیگا۔ کچھ بھی حق نہ سمجھا تو مہمانی ترکانہ کہیں نہیں گئی۔ چند روزہ کراس کا اور نمکخوار ان قدیم کا رنگ دیکھوں گا بوئے وفا نہ پاؤ نگا تو جدھر منہ اٹھیگا چلا جاؤں گا کہ خلق خدا ملک خدا۔ 1 ۔ جس بچے کی ماں کا دود دیتے تھے۔ وہ بچہ شاہزادے یا امیر زادے کا کوکہ کہلاتا تھا۔ اس کی اور اسکے رشتہ داروں کی بڑی خاطر ہوا کرتی تھی اور ان کا حق سلطنت میں شریک ہوتا تھا۔ بچہ مذکور کو کوکلتاش خاں خطاب ملتا تھا۔ اکبر نے دود تو آٹھ دس بیبیوی کا پیا تھا مگر بڑی حقدار ان میں ماہم بیگم اور جیجی یعنی میر شمس الدین محمدؐ خاں کی بیوی شمار ہوتی تھیں ۔ شہر یار بے شہر اور بادشاہ بے لشکر ان خیالات میں غلطاں و پیچاں ۔ غم غلط کرتا کہ وہ و دشت کو دیکھتا چلا جاتا تھا۔ ایک منزل میں ڈیرے ڈالے پڑا تھا۔ کسی نے آکر خبر دی کہ فلاں شخص کامران کا وکیل سندھ جاتا ہے۔ شاہ حسین ؑ ارغون کی بیٹی سے کامران کے بیٹے کی نسبت کا پیام لیکر چلا ہے۔ اور اس وقت قلعہ سیوی میں اترا ہوا ہے۔ ہمایوں نے ایک ملازم ہے کہ اتھ شقہ بھیج کر اسے بلایا۔ وہ بے وفا قلعے کا استحکام کر کے بیٹھ رہا اور جواب میں کہلا بھیجا کہ اہل قلعہ مجھے آنے نہیں دیتے۔ ہمایوں کورنج ہوا۔ اس عالم میں شال ۱؎کے قریب پہنچا مرزا عسکری کوبھی خبر پہنچ گئی تھی۔ بے مروت بھائی نے خانہ برباد بھائی کی آمد سن کر ایک سردار کو بھیج دیا تھا کہ حالات معلوم کر کے لکھتا رہے۔ اور ادھر سے ہمایوں نے بھی دو ملازموں کو روانہ کیا تھا۔ وہ سردار مذکور کوررستے میں مل گئے۔ اس نا اہل نے فوراً دونوں کو گرفتار کر کے قندہار کو روانہ کیا اور جو احوال معلوم ہوا وہ لکھ بھیجا۔ ان میں سے ایک وفا دار نے موقع پایا۔ وہ بھاگ کر پھر ہمایوں کے پاس آیا۔ اور جو کچھ وہاں سنا تھا۔ اور دیکھ کر قرینوں سے سمجھا تھا سب بیان کیا۔ اس نے یہ بھی کہا کہ حضور کے آنے کی خبر سن کر مرزا عسکری بہت گھبرایا ہے۔ قلعہ قندھار کی مورچ بندی شروع کر دی ہے۔ بھائی کی بے مہری اور لوگوں کی بے حیائی اور بیوفائی دیکھ کر ہمایوں کی امید ٹوٹ گئی اور مشتنگ کی طرف باگیں پھیریں ۔ پھر بھی ایک محبت نامہ مفصل لکھا جس کا القاب یہ تھا : برادر بے مہر بے ارادت معلوم نمایند ۔ اس میں محبت اور اپنا بت کے لہو کو بھی بہت گرمایا تھا۔ اور نصیحتوں اور نیک صلاحوں کے خریطے بھرے تھے۔ مگر کان کہا جو سنیں ؟ اور دل کہاں جو مانے ؟ یہ خط دیکھ کر مرزا کے سر پر اور بھی شیطان چڑھا۔ رفیقوں کو لے کر چلا کر بے خبر پہنچ کر ہمایوں کو قید کرلے۔ موقع نہ پائے تو کہے کہ استقبلال کو آیا ہوں۔ غرض ن ور کا تڑکا تھا کہ سوار ہوا۔ اور پوچھا کہ ادھر دامن کوہ کا رستہ کون جانتا ہے۔ چی بہادر ایک اذبک پہلے ہمایوں کے وفا داروں کا نوکر تھا۔ تباہی کے عالم میں مرزا عسکری کے پاس نوکری کرلی تھی ۔ اس وقت نمک کی تاثیر چمک اٹھی اور ہمایوں کی حالت نے اس کے دل میں غائبانہ رحم پیدا کیا۔ اس نے عرض کی ۔ میں جانتا ہوں اور کئی دفعہ آیا گیا ہوں۔ مرزا نے کہا سچ کہتا ہے۔ ادھر اس کی جاگیر تھی۔ اچھا آگے آگے چل اس نے کا میرا یا بو کام نہیںدیتا۔ 1 ۔ یہ وہی مقام ہے جو آج کل سیبی کے نام سے مشہور ہے ۔ 2 ۔ یہ مقام قندھار سے گیا رہ کوس درے ہے۔ مرزا نے ایک نوکر سے گھوڑا دلوا دیا۔ چی بہادر نے تھوڑی دور آگے چل کر گھوڑا اڑایا اور سیدھا بیرم خاں کے خیمے میں آیا۔ کان میں کہا کہ مرزا آن پہنچا ہے۔ اب فرصت کا وقت نہیں۔ اور میں قدرتی اتفاق سے اس طرح پہنچا ہوں۔ بیرم خاں اسی وقت چپ چاپ اٹھ کر خبیمے کے پیچھے سے ہمایوں کے پاس آیا اور حال بیان کیا ۔ سوا اس کے اور کیا ہو سکتا تھا کہ ایران کا ارادہ مصمم کریں۔ تردی بیگ کے پاس آدمی بھیجا۔ کہ چند گھوڑے بھیج دو۔ اس نااہل بے مروت نے صاف جواب دیا۔ ہمایوں کو خدا یا د آیا کہ بھائیوں کا یہ حال۔ نمک خوارول اور ہمراہیوں کا یہ حال ۔ جو دھپور کے رستے کی بیوفائی اور بے حیائی بھی یاد آگئی۔ چاہا کہ اسی وقت خود جائے اور اس کو حد کو پہنچائے۔ بیرم خاں نے عرض کی کہ وقت تنگ ہے۔ بات کی بھی گنجائش نہیں۔ آپ ان کا فرنعمتوں کو قہرالہٰی کے حوالے کریں۔ اور جلد سوار ہوں ۔ اکبر اس وقت پورا برس دن کا بھی نہیں ہواتھا۔ اسے میر غزنوی اور خواجہ سرا وغیرہ اور ماہم اتکہ کے سپرد کر کے یہیں چھوڑا۔ بیگم تو جان کے ساتھ تھیں۔ وفا داروں سے کہا کہ مرزا کا خدانگہبان ہے۔ ہم آگے چلتے ہیں بیگم کو کسی طرح تم ہم تک پہنچا دو۔ آپ مخلصا ن جاں نثار کے ساتھ دشت غربت کو روانہ ہوا۔ پیچھے بیگم بھی آن ملیں۔ مورخ کہتے ہیں کہ اس شکستہ حال قافلہ میں نوکر چاکر مل کر 70آدمی سے زیادہ نہ تھے۔ تھوڑی ہی دور گئے تھے۔ کہ رات نے آنکھوں کے آگے سیاہ پر دہ تان دیا۔ خیال یہ تھا کہ ایسا نہ ہو بے مہر بھائی تعاقب کرے۔ بیرم خاں نے کہا مرزا عسکری اگرچہ شہزادہ ہے۔ مگر پیسے کا غلام ہے۔ اسوقت خاطر جمع سے بیٹھا ہو گا۔ دو منشی ادھر ادھر ہونگے اور اسباب اجناس کی فہرست لکھوا رہا ہو گا۔ اگر ہم خدا پر توکل کر کے اس وقت جاپڑیں تو باندھ ہی لیں جب مرزا بیچ میں نہرہا تو نوکر نمک خوار ہیں۔ سب حاضر ہو کر سلام کرینگے۔ بادشاہ نے کہا کہ صلاح تو بہت ٹھیک ہے مگر ایک ارادہ کر لیا۔ اور دور دراز عرصہ سامنے ہے چلے ہی چلو۔ اب ادھر کی سنو مرزا عسکری جب مشتنگ کے پاس پہنچے۔ تو اپنے صدر اعظم کا بھیجا ہمایوں کو جعلسازی کے پیغاموں سے باتوں میں لگائے۔ مگر مکاری کا میاب نہ ہوئی۔ ہمایوں روانہ ہو گیا تھا۔ ساتھ ہی ایک گروہ کثیر پہنچا۔ پھٹے پرانے خیمے کھڑے تھے۔ ٹوٹے پھوٹے نوکر چا کر پڑے تھے۔ انہیں آکر گھیر لیا کہ کوئی آدمی اردو سے نکلنے نہ پائے۔ پیچھے مرزا عسکری پہنچے۔ چی بہادر کا پہنچنا اور ہمایوں کی روانگی کا سال صدر اعظم سے مفصل سنا۔ بے وارثے قافلے کو پڑا دیکھ کر اپنی بد نیتی پر بہت پچتایا۔ تردی بیگ سب کو لیکر سلام کو حاضر ہوئے۔ مگر سب میں یہ بھی نظر بند ہو گئے۔ میر غزنوی سے پوچھا کہ مرزا (اکبر)کہاں ہیں۔ 1۔ وہ ہی میر غزنوی جو اکبر کی بادشاہت میں خان اعظم میر شمس الدین محمد ؐ اتکہ خاں ہوگئے۔ دیکھو تتمہ۔ عرض کی۔ گھر میں ہیں۔ چچا نے ایک اونٹ میوے کا بھتیجے کے لئے بھیجا۔ اتنے میں رات ہو گئی۔ مرزا عسکری بیٹھے اور جو بات خانخاناں نے وہاں کی تھی ،اس کی تصویر کھینچ گئی کہ ایک دو منشیوں کو لیکر اسباب ضبطی کی فہرست لکھوانے لگے۔ صبح کو سوار ہوئے۔ اور نقارہ بجاتے ہمایوں کے اردو میں داخل ہو کر چھوٹے بڑے سب کو گرفتار کر لیا۔ تردی بیگ صندوق دار تھے کفایت شعاری کے انعام میں شکنجہ پر سوار گئے گئے۔ بہت آدمی ان کے ماتحت ہوئے۔ اور جو جمع کیا تھا۔ دام دام ادا کر دیا۔ اکثر بے گناہ مارے گئے۔ بہت باندھے گئے۔ سب لوٹے گئے۔ ہمایوں کا غصہ اتنی سزا ہرگز نہ دے سکتا جو مرزا عسکری کے ہاتھوں سے مل گئی۔ بے رحم چچا ڈیوڑھی پر آیا کہ بھتیجے سے ملونگا۔ یہاں رات قیامت کی رات گزری تھی سب کے ول دھکڑ دھکڑ کرتے تھے۔ کہ ماں باپ اس حال سے گئے۔ ہم ان پہاڑوں میں بے سرو سامان پڑے ہیں۔ بے مروت چچا ہے۔ اور معصوم بچے کی جان ہے۔ اللہ ہی نگہبان بے میر غزنوی اور ماہم انکہ اکبر کو کندھے سے لگائے سامنے آئی۔ منافق چچا نے گود میں لے لیا۔ اور زہر خندہنسی سے بول چال کر چاہا کہ بچہ ہنسے بولے۔ مگر اکبر کے لبوں پر تبسم بھی نہ آیا۔ چپکا منہ دیکھا کیا۔ کینہ ور چچا نے مکدر ہو کر کہا ۔ میدانم فرزند کیست ۔ باما چگو نہ شگفتہ شود ۔ مرزا عسکری کے گلے میں ایک انگوٹھی سرخ ریشم کی ڈوری میں تھی۔ لال کچھا باہر نظر آتا تھا۔ اکبر نے اس پر ہاتھ بڑھایا۔ بارے چچا نے اپنے گلے سے اتار کر بھتیجے کے گلے میں ڈال دی۔ دل شکستہ ہوا خواہوں نے کہا ۔ کیا عجب ہے خدا ایک دن اسی طرح سلطنت کی انگوٹھی اس نونہال کی انگلی میں پہنا دے۔ غرض جو کچھ مرزا عسکری کے ہاتھ آیا۔ لوٹا گھسوٹا۔ اور اکبر کو بھی اپنے ساتھ قندھارلے گیا۔ قلعے کے اندر ایک بالا خانہ رہنے کو دیا۔ اور سلطان بیگم اپنی بی بی کے سپرد کیا۔ بیگم بڑی محبت و شفقت سے پیش آتی تھی۔ خدا کی شان دیکھو۔ باپ کے جانی دشمن بیٹے کے حق میں ماں باپ ہو گئے۔ ماہم اور جیجی اندر اور میر غزنوی باہر خدمت میں حاضر رہتے تھے۔ یا عنبر خواجہ سرا تھا کہ اکبری اقبال کے دور میں اعتماد خاں ہو کر بڑا صاحب اختیار ہوا۔ ترکوں میں رسم ہے کہ بچہ جب پاؤں چلنے لگتا ہے۔ تو باپ دادا چچا وغیرہ میں سے جو بزرگ موجود ہو۔ وہ اپنے سر سے عمامہ اتار کر بچے کو چلتے ہوئے مارتا ہے۔ اس طرح کہ بچہ گر پڑے اور اس کی بڑی خوشی سے شادی کرتے ہیں۔ جب اکبر سوابر س کا ہوا۔ اور پاؤں چلنے لگا۔ تو ماہم نے مرزا عسکری سے کہا۔ کہ یہاں تم ہی اس کی باپ کی جگہ ہو۔ اگر یہ رسم ادا ہو جائے۔ تو شفقت بزرگانہ سے بعید نہ ہو گا۔ اکبر کہا کرتا تھا کہ ماہم کا یہ کہنا اور مرزا عسکری کا عمامہ پھینکنا اور اپنا گرناوہ ساری صورت حال مجھے اب تک یاد ہے۔ انہیں دنوں میں سر کے بال بڑھانے کو بابا حسن ابدال کی درگاہ میں لے گئے تھے۔ کہ قندھار میں ہے۔ وہ بھی آج تک مجھے یاد ہے۔ جب ہمایوں ایران سے پھرا ۔ اور افغانستان میں آمد آمد کا غل ہوا۔ تو مرزا عسکری اور کامران گھبرائے۔ آپس میں دونوں کے نامہ و پیام دوڑنے لگے۔ کامران نے لکھا کہ اکبر کو ہمارے پاس کابل میں بھیج دو۔ مرزا عسکری نے یہاں مشورت کی بعض سرداروں نے کہا بھائی اب پاس آپہنچا ہے۔ اعزاز و اکرام سے بھتیجے کو بھیج دو۔ اور اسی کو عفو تقصیرات کا وسیلہ قرار دو۔ بعض نے کہا کہ اب صفائی کی گنجائش نہیں رہی۔ مرزا کامران ہی کا کہنا ماننا چاہئے۔ مرزا عسکری کو بھی یہی مناسب معلوم ہوا ۔ اکبر کو سب متعلقوں کے ساتھ کابل بھیج دیا۔ شب برات مرزاکامران نے انہیں خانزادہ بیگم اپنی پھوپھی کے گھر میں اتروایا۔ اور ان کے کاروبار بھی انہیں کے سپرد کئے۔ دوسرے دن باغ شہر آرا میں دربار کیا۔ اور اکبر کو بھی دیکھنے کو بلایا۔ اتفاقاً کا دن تھا ۔ دربار خوب آراستہ کیا تھا۔ وہاں رسم ہے کہ بچے اس دن چھوٹے چھوٹے نقاروں سے کھیلتے ہیں۔ مرزا ابراہیم اس کے بیٹے کے لئے رنگین و نگارین نقارہ آیا۔ اس نے لے لیا اکبر بچہ تھا۔ کیا سمجھتا تھا ۔ کہ میں کس حال میں ہوں اور یہ کیا وقت ہے۔ اس نے کہا کہ یہ نقارہ میں لونگا۔ مرزا کامران تو پورے حیادار تھے۔ انہوں نے بھتیجے کی دلداری کا ذرا خیال نہ کیا کہا کہ اچھا ۔ دونوں کشتی لڑو ۔ جو پچھاڑے اسی کا نقارہ ۔ یہی خیال کیا ہو گا کہ میرا بیٹا اس سے بڑا ہے۔ مارلیگا ۔ یہ شرمندہ بھی ہو گاور چوٹ بھی کھائیگا۔ ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات ہوتے ہیں۔ وہ نو نہال اقبالمندان باتوں کو ذرا خیال میں نہ لایا۔ جھٹ لڑنے کو آگے بڑھالپٹ کر گتھ مٹھ ہو گیا۔ اور ایسا بے لاگ اٹھا کر مارا کہ دربار سے غل اٹھا۔ اور اندر اندر آپس میں کہا کہ اسے کھیل نہ سمجھو۔ یہ باپ کا دمامہ دولت لیا ہے۔ جب ہمایوں نے کابل فتح کیا۔ تو اکبر دو برس دو مہینے آٹھ دن کا تھا۔ بیٹے کو دیکھ کر آنکھیں روشن کیں۔ اور خدا کا شکر بجا لایا۔ چند روز کے بعد تجویز ہوئی کہ ختنے کی کی رسم ادا کی جائے۔ بیگم وغیرہ حرم سرا کی بیبیاں قندھار میں تھیں وہ بھی آئیں۔ اس وقت عجب تماشا ہوا۔ ظاہر ہے کہ جب ہمایوں اور اس کے ساتھ بیگم ایران کو گئے تھے۔ اس وقت اکبر کی کیا بساط تھی ۔ دنوں اور مہینوں کا ہو گا۔ اتنی سی جانکیا جانے کہ ماں کون ہے۔ 1 ۔ انہیں بابا حسن ابدال کے نام سے راہ پیشاور میں ایک منزل مشہور : اب جو سواریاں آئیں تو ان سب کو لا کر محل میں بٹھایا ۔ اکبر کو بھی لائے۔ اور کہا کہ جاؤ مرزا۔ اماں کی گود میں جا بیٹھو ۔ بھولے بھولے بچے نے پہلے تو بیچ میں کھڑے ہو کر ادھر ادھر دیکھا پھر خواہ دانش خداداد کہو۔ خواہ دل کی کشش کہو۔ خواہ لہو کا جوش کہو۔ سیدھا ماں کی گود میں جا بیٹھا ماں برسوں سے بچھڑی ہوئی تھی۔ آنکھوں سے آنسو نکل پڑے۔ گلے سے لگایا اور پیشانی پر بوسہ دیا۔ اس عمر میں اس کی سمجھ اور پہچان پر سب کو بڑی بڑی امید یں ہوئیں۔ 954ھ میں جب کامران پھر باغی ہوا تو کابل کے اندر تھا۔ اور ہمایوں باہر گھیرے پڑا تھا۔ ایک دن دھاوے کا ارادہ تھا۔ باہر سے گوبے برسانے شروع کئے۔ اکثر اشخاص کے گھر اور گھر والے اندر تھے۔ وہ خود ہمایوں کے لشکر میں شامل تھے۔ بے درد کامران نے ان کے گھر لوٹ لئے۔ ننگ و ناموس برباد کئے۔ ان کے بچوں کو مار مار کر فصیل پر سے پھنکوایا۔ ان کی عورتوں کی چھاتیاں باندھ باندھ کر لٹکایا۔ غضب یہ کیا کہ جس مورچے پر لوگوں کا زور تھا۔ پونے پانچ برس کے معصوم بھتیجے کو وہاں بٹھا دیا۔ ماہم نے گود میں دبکا لیا۔ اور ادھر سے پیٹھ کر کے میٹھ گئی۔ کہ اگر گولا لگے تو بالا سے پہلے میں پیچھے بچہ ۔ ہمایوں کے لشکر میں کسی کو اس حال کی خبر نہ تھی۔ یکایک توپ چلتے چلتے بند ہو گئی۔ کبھی مہتاب دکھائی ۔ تو رنجک چاٹ گئی کبھی گولا اگل دیا۔ سنبل خاں میرآتش بڑا تیز نظر تھا۔ اس نے غور سے دیکھا تو سامنے آدمی بیٹھا معلوم ہوا ۔ دریافت کیا تو یہ حقیقت حال معلوم ہوئی۔ آزاد ۔ یہ کچھ بڑی بات نہیں جب اقبال رفیق حال ہوتا ہے۔ تو ایسا ہی ہوتا ہے۔ اور مجھے تو سردار عرب و عجم کا قول نہیں بھولتا۔ اجللک حافظک تیری اجل ہی محافظ ہے۔ جب تک اس کا وقت نہیں آیا۔ تب تک کسی حربۂ ہلاکت کو تجھ پر اثر نہ کرنے دے گی۔ موت خود اسے روکے گی اور کہے گی تو ابھی سے اسے کیونکہ ہلاک کرتا ہے۔ یہ تو فلاں وقت پر میرے حصہ میں آنے والا ہے۔ جب 961ہجری میں ہمایون نے ہندوستان کی طرف فتح کا نشان کھولا تو اقبال منڈبیٹا ساتھ تھا اور 12 برس آٹھ مہینے کی عمر تھی۔ ہمایوں نے لاہور میں مقام کیا۔ امرا کو آگے بڑھایا۔ افغانوں نے نواح جالندھر میں بڑی شکست اٹھائی۔ سکندر سورنے خواتین افغان اور دلاور پٹھانوں کا اتنی ہزار انبوہ درانبوہ لشکر جمع کیا اور سرہند پر جم کر سد سکندر ہو گیا۔ بیرم خاں فوج لے کر آگے بڑھا۔ شہزادے کو سپہ سالار قرار دیا۔ اور مورچے باندھ کر لڑائی ڈالی۔ اسی عرصے میں ہمایوں بھی لاہور سے جا پہنچا۔ ان میدانوں میں اکبر نے ہمت و جرأت کے خوب خوب نشان دکھائے اور آخر یہ معرکہ اسی کے نام پر فتح ہوا۔ بیرم خاں نے کلہ مینار یادگار بنایا۔ 1؎۔شاہان ایشیا کا قدیمی دستور ہے۔ کہ جب لڑائی کا میدان مارتے ہیں تو مقام جنگ میں ایک بلند اور نمودار مقام پر بڑا ساگڑ ھا کھودتے ہیں۔ باغیوں کے سرکاٹ کراس میں بھرتے ہیں اس پر ایک بلند عمارت شکل مینار بناتے ہیں کہ فتح کی یادگار رہے اور دیکھنے والوں کو عبرت ہو اس کو کلہ منار کہتے ہیں۔ اور اس مقام کا نام سر منزل رکھا۔ فتحیاب بادشاہ اور ظفر یاب شہزادہ کامیابی کے نشان لہراتے دلی ہیں داخل ہوئے۔ آپ وہاں بیٹھے۔ امرا کو اطراف ممالک میں ملک گیری کے لیے روانہ کیا۔ سکندر سورمان کوٹ کے قلعوں کو امن کا گنبد سمجھ کر پہاڑ کے دامنوں میں دبک بیٹھا تھا اور وقت کا منتظر تھا کہ جب ہوائے اقبال آئے۔ ابری کی طرح پہاڑ سے اٹھے۔ اور پنجاب پر چھا جائے۔ ہمایوں نے شاہ ابو المعالی کو صوبہ پنجاب دیا۔ اور چند امرا نے جنگ آزمودہ کو ساتھ کیا کہ فوجیں لیکر ہمراہ ہوں۔ وہ جب آئے تو سکندر افواج شاہی کی ٹکر نہ اٹھا سکا۔ اس لئے پہاڑوں میں گھس گیا۔ شاہ ابوالمعالی لاہور میں آئے ۔ کہ قدیم الایام سے شاہ نیشن شہر ہے۔ یہاں شاہی فرما نروائی کی شان دکھائی۔ جو امرا مدد کو آئے تھے۔ یا پہلے سے پنجاب میں تھے ان کے رتبے اور علاقے خاص بادشاہ کے دیئے ہوئے تھے۔ شاہ ابوالمعالی کے دماغ میں شاہی کی ہوا بھری ہوئی تھی۔ ان کی جاگیروں کو پھوڑا توڑا ۔ بلکہ پر گنات خالصہ میں تصرف کیا اور خزانے میں بھی ہاتھ ڈالا ۔ یہ شکایتیں دربار میں پہنچ ہی رہی تھیں۔ کہ سکندر نے بھی زور پکڑنا شروع کیا۔ اس وقت ہمایوں کو بندوبست مناسب کرنا واجب ہوا ۔ چنانچہ ملک پنجاب اکبر کے نام کر دیا اور بیرم خاں کو اس کا اتالیق کر کے ادھر رواد کیا۔ جب اکبر آیا تو شاہ ابوالمعالی نے سلطان پور کنار بیاس تک پیشوائی کی۔ اکبر نے بھی باپ کی آنکھ کا لحاظ کر کے بیٹھنے کی اجازت دی مگر شاہ جب اپنے ڈیروں میں گئے۔ تو شکایت سے لبریز گئے۔ اور اکبر کو کہلا بھیجا۔ کہ جو عنایت بادشاہ مجھ پر فرماتے ہیں سب کو معلوم ہے ۔ آپ کو بھی یاد ہو گا کہ جوئے شاہی کے شکار میں مجھے ساتھ کھانے کو بٹھایا ۔ اور تم کو الش بھیجا۔ اور ایسا اکثر ہوا ہے۔ پھر کیا بات ہے کہ آپ نے میرے بیٹھنے کو نمدتکیہ الگ بچھوایا۔ اور دستر خوان بھی الگ تجویز کیا۔ اکبر کی بارہ تیرہ برس کی عمر تھی۔ مگر رہانہ گیا اور کہا تعجب ہے ۔ میر کو ابتک نسبتوں کی کیفیت کا امتیاز نہیں۔ آئین سلطنت کا اور عالم ہے۔ اور شفقت و محبت کا رستور کچھ اور ہے۔ (شاہ کا حال دیکھو تتمہ میں) 1 ؎ اب اسے سلطان پور ڈھیریاں کہتے ہیں ویران پڑا ہے اور کوسوں تک عمارت عالیشان کے کھنڈر چلے جاتے ہیں۔ کپڑے کے رنگ میں مشہور ہے۔ وہاں کی آب و ہوا میں قدرتی تاثیر ہے۔ پرانی وضح کی چھینٹیں اب تک چھپتی ہیں۔ کوئی صاحب ہمت کاریگروں کی دستگیری کرنیوالا ہو تواب بھی دستکاری دکھانیکو حاضر ہیں ۔ تاریخ فرشتہ میں بھی اس کے مصنف نے اس شہر کا حال اور آبادی کی رونق دکھائی ہے۔ مصنف مذکور عہدمذکور و عہد جہانگیری میں عادل شاہ کیطرف سے خود وکیل ہو کر آیا تھا۔ جہانگیر اس وقت لاہور میں تھا۔ اور شہر مذکور شاہراہ کے سرے پر تھا۔ اور کثرت آبادی اور عمارات حالی سے گلزار ہو رہا تھا۔ ایک زمانے میں دولت خاں لودھی کا دارالحکومت تھا ۔ 2 ؎ جوئے شاہی و وہی مقام ہے جو راہ پشاور کابل میں اب حلال آباد کہلاتا ہے۔ ہمایوں نے علاقہ مذکور بچپن ہی میں اکبر کے نام کر دیا تھا اہل تاریخ کہتے ہیں کہ اسی سال سے اس کی سر سبزی اور پیداوار میں ترقی ہونے لگے۔ جب اکبر بادشاہ ہوا تو اس کی آبادی اور تعمیر بڑھا کر جلال آباد نام رکھا تھا۔ کتب قدیمہ میں اس علاقہ کا نام ننگ نہار لکھا ہوا نظر آتا ہے۔ خانخا ناں نے اکبر کو ساتھ لیا۔ اور دریائے لشکر کو پہاڑ پر چڑھا دیا۔ سکندر نے جب طوفان آتا دیکھا تو قلعہ بند ہو کر بیٹھ گیا۔ لڑائی جاری تھی۔ بہادروں کی تلواریں لہو سے کارناموں کی تصویریں کھینچتی تھیں کہ برسات آگئی۔ پہاڑ میں یہ موسم بہت دق کرتا ہے۔ اکبر پیچھے ہٹ کر ہوشیار پور کے میدانوں میں اتر آیا۔ اور ادھر ادھر شکار میں دل پہلانے لگا۔ ہمایوں دلی میں بیٹھا آرام اور ملک کے انتظام میں مصروف تھا۔ کہ دفعتہ کتاب بنانے کے کوٹھے پر سے گر پڑا۔ جاننے والے جان گئے کہ گھڑی ساعت کا مہمان ہے۔ نیم جاں کو اٹھا کر محل میں لے گئے۔ اسی وقت اکبر کو عرضی کی اور یہاں ظاہر کیا کہ چوٹ سخت آئی ہے اور ضعف زور پر ہے۔ اس لئے باہر نہیں نکلتے خاص خاص مصا جب اندرجاتے تھے۔ اور کوئی سلام کو بھی نہ جاتا تھا۔ باہر یہ صورت کہ کبھی دواخانے سے دوا جاتی ہے۔ کبھی باورچی خانے سے مرغ کا شوربا۔ دمبدم خبر آتی ہے۔ کہ اب طبیعت بحال ہے ۔ اور اس وقت ذرا ضعف زیادہ ہے۔ اور وہ اندر ہی اندر بہشت میں پہنچ گئے۔ حکمت عملی دربار میں شکیبی شاعر تھا کہ قدوقامت ۔ صورت شکل میں ہمایوں سے بہت مشابہ تھا۔ کئی دفعہ اسے بادشاہ کے کپڑے پہنا کر محل سرا کے کوٹھے پر سے اہل دربار کو دکھایا اور کہا کہ ابھی حضور کو باہر آنے کی طاقت نہیں۔ دیوان عام کے میدان سے مجرا کر کے رخصت ہو۔ جب اکبر تخت نشین ہوا اور سب طرف فرمان جاری ہو گئے۔ تب بادشاہ کے مر نے کا حال ظاہر کیا۔ سبب یہی تھا کہ اس زمانے میں بغاوت اور بدعملی کا ہو جانا ایک بات تھی۔ خصوص ایسے موقع پر کہ سلطنت کے قدم بھی نہ ٹکے تھے۔ اور ہندوستان افغانوں کی کثرت سے افغانستان ہو رہا تھا۔ کلانور دھر جس وقت ہر کارے نے آکے خبر دی۔ اکبر کے ڈیرے اس وقت بڈھانے کے مقام پر تھے۔ سپہ سالار نے آگے بڑھنا مناسب نہ سمجھا۔ کو پھرا جواب علاقہ گورداس پور میں ہے ساتھ ہی نذر شیخ چولی ہمایوں کا مراسلہ لے کر پہنچا۔ جس کا لفظی ترجمہ یہ ہے : ۔ 7 ۔ ربیع الاول کو ہم مسجد کے کوٹھے سے کہ دولت خانے کے پاس ہے۔ اترتے تھے۔ سیڑھیوں میں اذاں کی آواز میں آئی۔ بہ مقتضائے ادب زینے میں بیٹھ گئے۔ موذن نے اذان کو پورا کیا تو اٹھے کہ اتریں۔ اتفاقاً عصا کا سراقبا کے دامن میں اٹکا۔ ایسا بے طور پاؤں پڑا کہ نیچے گر پڑے۔ پتھر کی سیڑھیاں تھیں۔ کان کے نیچے کگر کی ٹکر لگی۔ کچھ لہو کی بوندیں ٹپکیں ۔ تھوڑی دیر بیہوشی رہی۔ ہوش بجا ہوئے تو ہم دولت خانہ میں گئے۔ الحمداللہ خیر ہے۔ اصلاً وہم کو دل میں راہ نہ دینا۔ فقط۔برابر ہی خبر پہنچی کہ 15 کو ہمارے ہمایوں نے عالم قدس کو پرواز کی۔ خانخاناں نے امرا کو جمع کر کے جلسہ کیا۔ اور بموجب اتفاق رائے کے جمعہ کے دن 2 ربیع الثانی 963ہجری نماز کے بعد تیموری تاج نے اکبری اقبال کے رنگ میں جلوہ دکھایا۔ اس وقت اس کی عمر شمسی حساب سے تیرہ برس نو مہینے کی اور قمری حساب سے 14 برس کئی مہینے کی تھی۔ بموجب آئین چنگیزی و تیموری کے تمام رسمیں جشن شاہانہ کی ادا ہوئیں۔ بہار نے پھول برسائے۔ آسمان نے تارے اتارے۔ اقبال نے خبر سن کر سر پر سایہ کیا۔ امرا کے منصب بڑھے۔ خلعت انعام جاگیریں تقسیم ہوئیں۔ فرمان جاری کئے۔ اکبر بموجب باپ کی وصیت کے خانخانان کی بہت عزت و عظمت کرتا تھا۔ اور حق یہ ہے کہ اس کی جاں نثاریاں جو سخت خطر ناک معرکوں میں خصوصا سفر ایران پر ظہور میں آئی تھیں وہ ہر وقت اس کی سفارش کرتی تھیں چنانچہ اب اتالیقی و سپہ سالار ی کے منصب پر وکیل مطلق کا عہدہ زیادہ کیا ۔ اس موقع پر کہ ہمایوں کا ہمائے روح دفعتہ کا ہمائے روح دفعتہ پرواز کر گیا۔ اور اکبر کے سر پر ہمائے سلطنت نے سایہ ڈالا شاہ ابو المعابی کی نیت بگڑی خانخانان جس کے دستر خوان پر 30 ہزار شمشری بہادر پلاؤ کی قابیں گھسیٹیں۔ اس کے نزدیک شاہ کا پکڑ لینا کیا بڑی بات تھی۔ ذرا اشارہ کرتا خیمے میں گھس کر باندھ لاتے۔ مگر تلوار ضرور چلتی ۔ خون بھی بہتے۔ اور یہاں ابھی معاملہ نازک تھا۔ لشکر میں ہل چل پڑ جاتی ۔ خدا جانے نزدیک و دور کیا کیا ہوائیاں اڑتیں۔ جوچوہے گمنامی کے بلوں میں جا بیٹھے تھے۔ پھر شیر بن بن کر نکل آتے۔ اس لئے سو چا اور بہت مناسب سوچا کہ حکمت عملی سے اسے قابومیں کرلینگے ۔ کشت و خون سے کیا حاصل۔ جب دربار تخت نشینی ہوا تھا۔ تو شاہ ابوالمعالی اس میں شامل نہ ہوئے تھے۔ اورپ ہلے بھی ان کی طرف سے کھٹکا تھا۔ ساتھ ہی یہ بھی معلوم ہوا کہ وہ اپنے خیمے میں بیٹھے فرزندی کے دعوؤں سے بلند پروازیاں کرتے ہیں۔ اور خوشامدی ہم جنس اور انہیں آسمان پر اڑاتے ہیں ۔ بیرم خان نے امراء سے مشورت کی اور تیسرے دن دربار سے پیغام بھیجا کہ بعض مہمات سلطنت میں مصلحت در پیش ہے۔ ارکان دولت حاضر ہے۔ بے تمہارے صلاح ناتمام ہے۔ تھوڑی دیر کیلئے تشریف لانا مناسب ہے۔ پھر حضرت سے رخصت ہو کر لاہور کو روانہ ہو جاؤ۔ وہ غرور کی شراب میں بد مست تھا۔ اور خدا جانے کیا کیا خیال باندھ رہا تھا۔ کہلا بھیجا کہ صاحب میں شاہ غفران پناہ کے غم میں ہوں۔ مجھے ان باتوں کا ہوش نہیں۔ میں نے ابھی سوگ بھی نہیں اتارا۔ اور بالفرض اگر میں آیا تو نئے بادشاہ مراتب اعزاز میں کس طرح پیش آئیں گے ؟ نشست کہاں قرار پائی ہے۔ 1 ؎ ہمایوں نے پہلے 10 برس دوسری دفعہ 10 مہینے سلطنت کی ۔ امرا مجھے سے کس طرح پیش آئیں گے ؟ وغیرہ وغیرہ طول طویل تقریریں اور حیلے حوالے کہلا بھیجے۔ خیر یہاں تو یہ مطلب تھا کہ ایک دفعہ وہ دربار تک آجائیں ۔ جو جو انہوں نے کہا۔ سب بے عذر منظور ہوا۔ اور وہ تشریف لائے اور بعض امورات سلطنت میں گفتگو ہوئی۔ اسی عرصے میں دستر خوان بچھا۔ شاہ صاحب نے سلابچی پر ہاتھ بڑھائے۔ تو لک خاں قوجیں افسر توپ خانہ ان دنوں خوب بھسنڈ بنا ہوا تھا۔ بے خبر پیچھے سے آیا اور شاہ کی مشکیں کس لیں۔ شاہ تڑپ کر اپنی تلوار کی طرف پھرے۔ جس سپاہی زادہ کے پاس تلوار رہتی تھی اسے پہلے ہی کھسکا دیا تھا غرض کہ شاہ قید ہو گئے بیرم خاں کا ارادہ قتل کا تھا۔ مگر پہلا رحم اکبر کا جو ظاہر ہوا۔ یہی تھا کہ اس نے کہا جان کھونی کیا ضرورت ۔ قید کر دو ۔ چنانچہ پہلوان گل گز کوتوال کے حوالے کیا۔ شاہ نے بڑی کرامات دکھائی۔ سب کی آنکھوں میں خاک ڈالی اور قید سے بھاگ گئے۔ پہلوان بچارا عزت کا مارا زہر کھا کر مر گیا۔ سال اول جلوس میں کل اشیائے سودا گری پر سے محصول کا بند کھول دیا۔ کئی برت تک سلطنت کے کاروبار اپنے ہاتھ میں نہیں لئے اس لئے پوری پوری تعمیل ہیں ہوئی مگر اس کی نیت نے جوہر دکھا دیا۔ جب اپنا کام آپ کرنے لگا۔ تو تجویز کو پورا کیا۔ اس وقت بھی اہل کاروں نے سمجھایا کہ ملک ہند ہے۔ اس کی یہ رقم ایک ولایت کا خرچ ہے۔ مگر اس دریا دل نے ایک نہ سنی اور کہا جب خلق خدا کی جب کترکر توڑے بھرے تو اس خزانے پر بھی حیف ہے۔ اکبری لشکر سکندر کو دبائے پہاڑوں میں لئے جاتا تھا۔ برسات کا موسم آہی گیا تھا۔ مینہ کی فوج با دلوں کے دگلے۔ اور شقق کی رنگا رنگ وردیاں پہن کر موجود ات دینے آئی۔ انہوں نے غنیم کو پتھروں کے حوالے کیا اور آپ جالندھر میں آکر چھاؤنی ڈالی۔ مینہ کی بہاریں دیکھ رہے تھے اور غنیم کا رستہ رد کے ہوئے تھے۔ کہ سر نکالنے نہ پائے۔ اکبر بھی شکار کھیلتے تھے۔ نیزہ بازی ۔ چوگان بازی ۔ تیر اندازی کرتے تھے۔ ہاتھی لڑاتے تھے۔ خان بابا سلطنت کے بندوبستوں میں تھے۔ جو یکایک خبر پہنچی کر ہیموں بقال نے آگرہ لے کر دلی مارلی۔ اور تردی بیگ وہاں کا حاکم بھاگا چلا آتا ہے۔ ہیموں بقال اس کی اصل و نسل اور ترقی کا مفصل حال تتمے میں دیکھو ۔ یہاں اتنا سمجھ لو کہ اس نے افغانی اقبال کی آندھیوں میں ترقی کی پرواز کی تھی۔ جو سردار بادشاہی کے دعویدار ۔ اور اس کے بڑھانے اور دھادوں کے میدان چڑھانے والے تھے۔ وہ آپس میں کٹ کر مر گئے۔ بنی بنائی فوج اوربادشاہی خزانے اس کے قبضے میں آگئے۔ ملک دل میں خیالات کی نسل پھیلنی شروع ہوئی اسی عرصے میں ہمایوں کو مرگ ناگہانی پیش آئی۔ ہیموں کے دماغ میں جو امید نے انڈے بچے دیئے تھے۔ انہوں نے کہا سلطنت کے پروبال نکالے۔ سمجھا کہ 14 برس کا لڑکا تخت پر ہے۔ وہ بھی سکندر سور کے ساتھ پہاڑوں میں الجھا ہوا ہے۔ صاحب ہمت بقال نے میدان خیال میں اپنے حال کی موجودات لی۔ افغانوں کے انبوہ بے حساب گرد نظر آئے۔ کئی بادشاہوں کی کمائی ۔ خزانے اور سلطنت کے کارخانے ہاتھ کے نیچے معلوم ہوئے تجربے نے کان میں کہا کہ اب تک جدھر ہاتھ ڈالا ہے۔ پورا پڑا ہے ۔ بابر کئے دن یہاں رہا ہمایوں کے رات یہاں رہا۔ اس لڑکے کی بنیاد کیا ہے۔ غرض جس لشکر کو ایسے قدرتی موقع کی امید پر تیار کر رہا تھا۔ اسے اپنی ذاتی لیاقت سے ترتیب دے کر روانہ ہوا۔ آگرے میں اکبر کیطرف سے سکندر خاں حاکم تھا۔ اس کے ہوش غنیم کی آمد آمد ہی میں اڑ گئے۔ آگرے جیسا مقام ۔ دستے میں ایک مقام پر دل شکستہ سکندر الٹ کر اڑا ۔مگر کئی ہزار سپاہیوں کوقتل قید اور دریا میں غرق کروایا اور پھر بھاگ نکلا۔ ہیموں کا حوصلہ اور زیادہ ہوا او ر طوفان کی طرح دلی کا رخ کیا۔ بڑے بڑے جتھے والے افغان ۔ جنگی تجربہ کار اور جنگ کے بھاری سامان 500ہزار فوج جرار پٹھان اور راجپوت میواتی وغیرہ کی ۔ ہزار ہاتھی ۔ 51توپ قلعہ شکن ۔ پانسو گھڑنال اور شتر نال زنبورک ساتھ تھے۔ اس دریا نے جگہ سے جنبش کی۔ اور جہاں جہاں چغتائی حاکم بیٹھے تھے۔ سب کو رولتا ہوا دلی پر آیا۔ اور خوش آیا کہ اس وقت وہاں تردی بیگ حاکم تھا۔ جس کی ضعف تدبیر اور بے ہمتی کے کارناموں کی اسے بھی خبر تھی۔ تردی بیگ کو جب یہ خبر پہنچی۔ تو ایک عرضی اکبر کو لکھی۔ اور امرائے بادشاہی جو نزدیک وہ دور تھے۔ انہیں خطوط روانہ کئے۔ کہ جلد حاضر اور جنگ میں شامل ہو۔ باوجود اس کے آپ کچھ بندوبست نہ کیا۔ جب غنیم کے لشکر کی شان اور سازو سامان کی خبر دھوم دھام سے اڑیں۔ تو مشورے کا جلسہ کر کے گفتگو شروع کی ۔ بعض کی صلاح ہوئی کہ قلعہ بند ہو کر بیٹھے رہو اور لشکر بادشاہی کا انتظار کرو۔ اس عرصے میں جب موقع پاؤنکل کر شب خون مارو۔ اور ترکانہ حملے بھی کرتے رہو۔ بعض کی صلا ح ہوئی کہ پیچھے ہٹو اور بادشاہی لشکر کے ساتھ آکر مقابلہ کرو۔ بعض کی صلاح ہوئی کہ علی قلی خاں بھی سنبھل سے آتا ہے۔ اس کا انتظار کرو کہ زبردست سپہ سالار ہے۔ دیکھیں وہ کیا کہتا ہے یہاں تک کہ غنیم لڑائی کے پلے پر آگیا اور کوئی پہلو نہ رہا مگر یہ کہ نکلیں اور لڑمریں۔ چنانچہ فوکیں لیکر بڑھے۔ اور تغلق آباد پر میدان جنگ قرار پایا۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ اکبری اقبال یہاں بھی کام کر گیا تھا۔ مگر خواہ تردی بیگ کی بے ہمتی نے ۔ خواہ اس کی قضا نے مارا ہوا میدان ہاتھ سے کھود یا۔ خان زمان برق کے گھوڑے پر سوار آیا تھا مگر میرٹھ میں پہنچا تھا کہ یہاں کام تمام ہو گیا۔ اس لڑائی کا تماشا دیکھنے کے قابل ہے۔ 1 ؎ تغلق آباد دہلی سے قریب ساتھ کوس کے ہے۔ جس وقت دونوں لشکر صفیں باندھ کر میدان می جمے۔ تو آئین جنگ کے بموجب امراے شاہی آگاہ پیچھا۔ دایاں ۔ بایاں سنبھال کر کھڑے ہوئے ۔ تردی بیگ قلب میں قائم ہوئے۔ ملا پیر محمد کہ لشکر بادشاہی سے ضروری احکام لے کر آئے تھے۔ پہلو میں جم گئے۔ ادھر ہیموں بھی لڑائی کا مشاق ہو گیا تھا۔ اور پرانے جنگ آزمودہ افغان اس کے ساتھ تھے۔ اس نے بھی اپنے گرد فوج کا قلعہ باندھا ۔ اور مقابل ہوا۔ لڑائی شروع ہوئی۔ پہلے توپ و تفنگ کے گولوں نے لڑائی کے پیغام پہنچائے۔ تیزوں کی زبانیں جنبش میں آئی۔ تھوڑی ہی دیر میں لشکرہی کا ہرا دل اور داہنا ہاتھ آگے بڑھا۔ اور اس زور سے ٹکر ماری کہ اپنے سامنے کے حریفوں کو الٹ کر پھینک دیا۔ وہ گڑ گانوے کی طرف بھاگے۔ اور یہ انہیں ریلتے دھکیلتے پیچھے ہوئے ۔ ہیموں اپنے فدائیوں کی فوج اور تین سو ہاٹھی کا حلقہ لئے کھڑا تھا کہ اسی کا اسے بڑا گھمنڈ تھا۔ اور دیکھ رہا تھا کہ اب ترک کیا کرتے ہیں۔ ادھر تردی بیگ بھی منتظر تھے کہ آدھا میدان تو مار لیا ہے۔ آگے کیا کرنا چاہئے۔ اس انتظار میں کئی گھنٹے گزر گئے۔ اور جو فوج فتحیاب ہوئی تھی۔ وہ مارا مارا کرتی ہو دل پلول تک جاپہنچی۔ آخر تردی بیگ سوچ میں رہے اور جو انہیں کرنا چاہئے تھے وہ اس نے کیا کہ ان پر دھاوا کر دیا۔ اور بڑے پیچ سے کیا۔ جو فوج شاہی اس کی فوج کو مارتی ہوئی گئی تھی۔ اس کے گردو پیش سوار دوڑا دئے۔ اور کہا ۔ کہتے چلے جاؤ کہ الور سے حاجی خاں افغان ہیموں کی مدد کو پہنچا ۔ اور تردی بیگ کو بھگا دیا۔ مگر حاجی خاں بھی اسی رستے پھر آتا ہے۔ کیونکہ جانتا ہے۔ ترک دغا باز ہوتے ہیں۔ مبادا بھاگ کر پلٹ پڑیں۔ ادھر تو وہ چکمہ چلا۔ ادھر تردی بیگ پر حملہ کیا جو بے وقوف باوجود کامیابی کے چپ چاپ کھڑا تھا۔ اور ہیموں اب حملہ نہ کرتا تو وہ احمق تھا۔ کہ حریف کی بے ہمتی کھلی نظر آتی تھی۔ اور آگا اور ایک بازو اس کا صاف میدان ۔ غضب یہ ہوا کہ تردی بیگ کے قدم اکھڑ گئے۔ اور ہزار غضب یہ کہ رفیقوں کی ہمت نے بھی دغا کی۔ خصوصأ ملا پیر محمد کہ حریف کی آمد کو دیکھتے ہی ایسے بھاگ نکلے۔ گویا ۔ اسی ساعت کے منتظر تھے۔ لڑائی کا قاعدہ ہے کہ ایک کے پاؤں اکھڑے اور سب کے اکھڑے ۔ خدا جانے اصل معاملہ کیا ہو کہتے ہیں کہ خانخاناں کی تردی بیگ سے کھٹکی ہوئی تھی۔ ملا ان دنوں میں خانخاناں کے رفیق خاص الخاص بنے ہوئے تھے اور اس نے اسی غرض سے انہیں بھیجا تھا ۔ خان خانان ! اگر ا یسا کیا تو حیف ہے تمہاری اس دانائی اور ذہن کی رسائی پر جو ایسی باریکیوں کی تلاش میں خرچ ہوئی۔ فتحیاب حملہ آور جو ہو ڈل پلول سے سرداروں کے سر اور لوٹ کے مال باندھے پھرے تو پریشان خبریں سنتے ۔ حیران چلے آتے تھے۔ شام کو مقام پہ پہنچے ۔ تو دیکھتے ہیں کہ جہاں تردی بیگ کو چھوڑا تھا۔ وہاں حریف کا لشکر اتر ا ہوا ہے۔ چپ رہ گئے کہ کیا ہوا ؟ فتح کی تھی ۔ شکست بن گئی۔ چپ چاپ دلی کے برابر سے آہستہ آہستہ نکل کو پنجاب کی طر ف چلے۔ ادھر فتح یاب جب تغلق آباد تک پہنچ گیا تو اس سے کب رہا جاتا تھا۔ دوسرے ہی دن ہیمول دلی میں داخل ہوئے۔ دلی عجب مقام ہے ! کون ساسر ہے کہ ہوائے حکومت رکھے اور وہاں پہنچ کر تخت پر بیٹھنے کی ہوس نہ کرے۔ اس ہمت والے نے فقط جشن اور راجہ مہاراجہ کے خطاب پر قناعت نہ کی بلکہ بکر ماجیت کے خطاب کو نام کا تاج کیا۔ اور سچ ہے ۔ دلی جیتی بکر ماجیت کیوں نہ ہوں۔ دلی لے کر اس کا دل ایک سے ہزار ہو گیا تھا۔ تردی بیگ کی بے ہمتی کو آیندہ کی روئداد کا نمونہ سمجھا۔ اور سامنے میدان کھلا نظر آیا۔ وہ جانتا تھا کہ خان خاناں نوجوان بادشاہ کو لئے سکندر کے ساتھ پہاڑوںمیں پھنسا ہوا ہے۔ اس لئے دلی میں ایک دم ٹھیرنا مناسب نہ سمجھا۔ بڑھے گھمنڈ کے ساتھ پانی پت پر فوج روانہ کی۔ اکبر جالندھر میں چھاؤنی ڈالے مینہ کے تماشے دیکھ رہا تھا۔ یکا یک خبر پہنچی۔ کہ ہیموں بقال عدلی کا سپہ سالار رامرائے شاہی کو سامنے سے ہٹاتا۔ منزلوں کے ورق الٹتا چلا آتا ہے۔ کہ آگرے سے سکندر خاں ازبک بھاگا۔ ساتھ ہی سنا کہ غنیم نے تردی بیگ کو توڑ کر دلی بھی مارلی۔ ابھی باپ کا سایہ سر پر سے اٹھا ۔ ابھی یہ شکست عظیم پیش آئی۔ اس پر ایسے سخت غنیم سے سامنا ! افسردہ ہو گیا۔ اور لشکر میں خبریں برابر پہنچ رہی ہیں۔ کہ فلاں امیر چلاآتا ہے۔ فلاں سردار بھی بھاگا آتا ہے۔ ساتھ ہی خبر آئی کہ علی قلی خاں میدان جنگ میں نہ پہنچ سکا تھا وہ جمنا پار تھا کہ دلی کی مہم طے ہو گئی۔ دو تخت گاہیں ہاتھ سے نکل گئیں۔ لشکر میں کھلبلی پڑ گئی۔ اور شیر شاہی معرکے یاد آگئے۔ امرا نے آپس میں کہا کہ موقع بیڈ ھب ان پڑا ہے۔ بہتر ہے کا بل کو اٹھ چلیں سال آیندہ میں سامان کر کے ائیں گے اور غنیم کو دفع کرینگے۔ خان خانان نے جب یہ رنگ دیکھا۔ تو خلوت میں اکبر سے سارا حال عرض کیا اور کہا کہ حضور کچھ فکر نہ کریں یہ بے مروت بے ہمت جان کو عزیز کر کے ناحق حوصلہ ہارتے ہیں۔ آپ کے اقبال سے سب سر انجام و انتظام ہوجائیگا۔ فدوی جلسۂ مشورت کر کے انہیں بلاتا ہے۔ فقط حضور کا دست اقبال میری پشت پر چاہئے۔ چنانچہ امرا بلائے گئے۔ انہوں نے وہی تقریریں ادا کیں۔ خان خانان نے کہا۔ ایک برس کا ذکر ہے۔ جو شاہ جنت مکان کی رکاب میں ہم تم آئے۔ اور اس ملک کو سر سواری مارلیا اس وقت لشکر ۔خزانہ ۔ سامان جس پہلو سے دیکھو پہلے سے زیادہ ہے۔ ہاں ! کمی ہے تو یہ ہے کہ وہ شاہ نہیں۔ پھر بھی خدا کا شکر کرو اگرچہ ہما نظر نہیں آتا مگر اس کا سایہ سر پر موجود ہے۔ یہ معاملہ کیا ہے ! جو ہم ہمت ہاریں ۔ کیا اس واسطے کہ اپنی جانیں پیار ی ہیں۔ کیا اس واسطے کہ بادشاہ ہمارا نوجوان لڑکا ہے ؟ افسوس ہے ہمارے حال پرکہ جس کے بزرگوں کا ہم نے اور ہمارے باپ دادا نے نمک کھایا ہے۔ ایسے نازک وقت میں اس سے جانیں عزیزکریں اوروہ ملک جس پر اس کے باپ اور دادا نے تلواریں مار کر ۔ہزار جان جو کھوں اٹھا کر قبضہ پایا تھا۔ اسے مفت غنیم کے حوالے کر کے چلے جائیں۔ جبکہ ہمارے پاس کچھ سامان نہ تھا اور سامنے دو پشت کے دعویدار افغان تھے۔ وہ تو کچھ نہ کر سکے۔ یہ 16سو برس کا مرا ہوا بکر ماجیت آج کیا کر ل گا۔ برائے خدا ہمت نہ ہارو اور ذرا خیال کرو۔ عزت اور آبرو کو تو یہاں چھوڑا۔ جانیں لے کر نکل گئے تو منہ کس ملک میں دکھائیں گے۔ سب کہیں گے کہ بادشاہ تو لڑکا تھا۔ تم کہنہ عمل۔ کہن سال سپاہیوں کو کیا ہوا تھا۔ مار نہ سکتے تھے تو مر ہی گئے ہوتے۔ یہ تقرپرسن کر سب چپ ہو گئے۔ اور اکبر نے امراے دربار کیطرف دیکھ کر کہا کہ دشمن سر پر آ پہنچا کابل بہت دور ہے۔ اڑ کر بھی جاؤ گے تو نہ پہنچ سکو گے۔ اور میرے دل کی بات تو یہ ہے کہ اب ہندوستان کے ساتھ سر لگا ہوا ہے۔ جو ہو سویہیں ہو۔ یا تخت یاتختہ ۔ دیکھو خان بابا ! شاہ مغفرت پناہ نے بھی سب کاروبار کا اختیار تمہیں دیا تھا۔ میں تمہیں اپنے سر کی اور ان کی روح کی قسم دے کر کہتاہوں۔ کہ جو مناسب وقت اور مصلحت دولت دیکھو۔ اسی طرح کرو۔ دشمنوں کی کچھ پرواہ نہ کرو ۔میں نے تمہیں اختیار دیا۔ یہ سن کر امرا چپ ہو گئے۔ خان بابا نے فوراً تقریر کا رنگبدلا۔ بڑی اولوالعزمی اور بلند نظری سے سب کے دل بڑھائے ۔ اور دو ستانہ مصلحتوں کے ساتھ نشیب و فراز دکھا کر متفق کیا۔ امرا ے اطراف کو اور جو شکستہ حال دلی سے شکست کھا کر آئے تھے۔ ان کے نام دل دہی اور دلاسے کے فرمان جاری کر کے لکھا کہ تم بہ اطمینان تھا نیسر کے مقام میں آکر ٹھیرو۔ ہم خود لشکر منصور کو لئے آتے ہیں غرض عید قربان کی نماز جالندھر کی عید گاہ میں پڑھی اور مبارک باد لیکر پیش خیمہ دلی کی طرف روانہ ہوا۔ فال مبارک سلاطین سلف میں بہت سے شغل تھے کہ شوق ہائے شاہانہ سمجھے جاتے تھے۔ ان ہی میں مصوری تھی۔ ہمایوں کو تصور کا بہت شوق تھا۔ اکبر کو حکم دیا تھا کہ تم بھی سیکھا کرو۔ جب سکندر کی مہم فتح ہو چکی (ہیموں کی بغاوت کا ابھی ذکر فکر بھی نہیں تھا) اکبر ایک دن تصویر خانے میں بیٹھا تھا۔ مرقع کھلے تھے۔ مصور حاضر تھے۔ ہر شخص اپنی دست کاری میں مصروف تھا۔ اکبر نے ایک تصویر کھینچی ۔ کہ گویا ایک شخص کاسر ہاتھ پاؤں الگ الگ کٹے پڑے ہیں۔ کسی نے عرض کی حضور یہ کس کی تصویر ہے ؟ کہا ہیموں کی ۔ لیکن اسے شہزادہ مزاجی کہتے ہیں ۔ کہ جب جالندھر سے چلنے لگے۔ تو میرا آتش نے چاہا کہ عید کی مبارک بادی میں آتش بازی کی سیر دکھائے۔ انہوں نے اس میں یہ بھی فرمائش کی کہ ہیموں کی مورت بناؤ اور راون کی طرف آگ دے کر اڑاؤ چنانچہ اس کی تعمیل ہوئی۔ اچھا۔ مبارک بود فال فرخ زدن نہ بر رخ بلکہ شہ رخ زون جب اقبال سامنے ہوتا ہے۔ تو وہی منہ سے نکلتا ہے۔ جو ہونا ہوتا ہے ! نہیں ! یہ ہی کہو کہ جو منہ سے نکلتا ہے۔ وہی ہوتا ہے۔ خان خانان کی لیاقت اور ہمت کی تعریف میں زبان قلم قاصر ہے مشرقی ہندوستان میں تو یہ تلا طم پڑا ہوا تھا۔ اور سکندر سور جو کہ پہاڑوں میں رکا بیٹھا تھا۔ دانا سپہ سالار نے اس کے لئے فوج کے بندوبست سے سد سکندر باندھی ۔ راجہ رام چندر کانگڑ سے کانگڑ ے کا راجہ بھی تیار ہو رہا تھا۔ اسے ایسا دبدبہ دکھا کر پیغام سلام کئے۔ کہ حسب دلخواہ عہد نامہ لکھ کر حضور میں حاضر ہو گیا۔ غرض دلاور سپہ سالار بادشاہ اور بادشاہی لشکر کو ہوا کے گھوڑوں پر اڑاتا بجلی اور بادل کی کڑک دمک دکھاتا دلی کو چلا۔ سر ہند کے مقام پر دیکھا کہ بھاگے بھٹکے امیر بھی حاضر ہیں۔ ان سے ملاقاتیں کر کے صالح و مشورت کے ساتھ بندوبست شروع کئے۔ لیکن خود مختاری کی تلوار نے اس موقع پر ایسی کاٹ دکھائی ۔ کہ تمام امراے بابری میں کھلبلی پڑ گئی۔ پھر بھی کوئی دم نہ مار سکا بلکہ ہر شخص تھرا کر اپنے اپنے کام پر متوجہ ہو گیا۔ آزاد وہ تردی بیگ حاکم دہلی کا قتل تھا۔ یہ ضرور ہے کہ دونوں امیروں کے دلوں میں عداوت کی پھانسیں کھٹک رہی تھیں مگر مورخ یہ بھی کہتے ہیں کہ مصلحت یہی تھی جو تجربہ کار سپہ سالار اس وقت کہ گزرا اور اس میں کچھ شک نہیں کہ اگر یہ قتل با لکل بے جا ہوتا تو بابری امیر (جن میں ایک ایک اس کا برابر کا دعوے دار تھا) اسی طرح دم بخود نہ رہ جاتے۔ فوراً بکڑ کھڑے ہوتے ۔ بادشاہ جواں سال تھا نیسر کے مقام پر تھا جو سنا کہ غنیم کا توپ خانہ 20 ہزار منچلے پٹھانوں کے ساتھ پانی پت کے مقام پر آگیا۔ خان خاناں نے بڑے استقلال کے ساتھ لشکر کے دو حصے کئے۔ ایک کو لیکر شکوہ شاہانہ کے ساتھ خود بادشاہ کی رکاب میں رہا۔ دوسرے میں چند دلاور اور جنگ آزمودہ امیر اپنی اپنی فوجوں کے ساتھ رکھے۔ ان پر علی قلی خاں شیبانی کو سپہ سالار کر کے دشمن کے مقابلے پر بطور ہراول روانہ کیا۔ اور اپنی فوج خاص بھی ساتھ کر دی۔ اس جواں ہمت ۔ اور پر جوش افسر نے برق و باد کو پیچھے چھوڑا ۔ کرنال پر جا کر مقام کیا۔ اور جاتے ہی ہاتھوں ہاتھ حریفوں سے آتش خانہ پھین لیا۔ جب ہیموں نے سنا کر آتش خانہ اس بے آبروئی کے ساتھ ہاتھ سے گیا تو دماغ رنجک کی طرح اڑ گیا۔ دلی سے دھواں دھار ہو کر اٹھا۔ بڑی بے پروائی سے پانی پت کے میدان میں آیا اور جتنی جنگی طاقت تھی۔ حوصلے سے نکال کر میدان میں ڈال دی۔ علی قلی خاں کچھ خطر خاطر میں نہ لایا۔ خان خانان سے مدد بھی نہ مانگی۔ جوف وج اپنے پاس تھی وہی لی اور آکر حریف سے دست و گریبان ہوگیا۔ پانی پت کے میدان میں رن پڑا۔ اور ایسا بھاری رن پڑا کہ خدا جانے کب تک کتابوں میں یادگار رہے گا۔ جس صبح کو یہ معرکہ ہوا۔ اکبری لشکر میں لڑائی کا کسی کو خیال نہ تھا ۔ وہ خاطر جمع سے پچھلی رات رہے کہ نال سے چلے اور کچھ دن چڑھا تھا جو ہنستے کھیلتے چند کوس زمین طے کر کے اتر پڑے رستے کی گرد چہروں سے نہ پونچھی تھی۔ اور میدان جنگ یہاں سے 5 کوس آگے تھا۔ جو ایک سوار تیر کی رفتار پر پہنچا۔ اور خبر دی کہ غنیم سے مقابلہ ہو گیا۔ 30 ہزار فوج اس کی ہے۔ اکبری جاں نثار فقط 10 ہزار ہیں خان زمان جرأت کر کے لڑبیٹھا ہے۔ مگر میدان کا طور بے طور ہے۔ خان خانان نے پھر لشکر کو تیاری کا حکم دیا۔ اور اکبر خود اسلحہ جنگ سجنے لگا مگر چہرے سے شگفتگی اور شوق جنگ پٹکتا تھا۔ فکر یا پریشانی کا اثر بھی معلوم نہ ہوتا تھا۔ وہ مصاحبوں کے ساتھ ہنستا ہوا سوار ہوا۔ ہر ایک امیر اپنی اپنی فوج کو لئے کھڑا تھا۔ اور خان خاناں گھوڑا مارے ایک ایک غول کو دیکھتا پھرتا تھا۔ اور سب کے دل بڑھاتا تھا۔ نقارچی کو اشارہ ہوا۔ ادھر نقارے پر چوٹ پڑی اکبر نے رکاب کو جنبش دی اور دریائے لشکر بہاؤ میں آیا۔ تھوڑی دور چل کر خدا جانے آدمی تھا یا فرشتہ سامنے سے گھوڑا مارے آیا۔ ایک شخص نے خبر دی کہ لڑائی فتح ہوگئی ۔ کسی کو یقین نہ آیا۔ ابھی میدان جنگ کی سیاسی نمودار نہ ہوئی کہ فتح کے نور اڑتے نظر آنے لگے۔ جو خبر دار آتا تھا مبارک مبارک کہتا ہوا خاک پر گر پڑتا تھا۔ اب کون تھم سکتا تھا ۔ پل کی پل میں گھوڑے اڑا کر پہنچے۔ اتنے میں میں ہیموں مجروح اور بدل سامنے حاضر کیا گیا۔ وہ ایسا چپ چاپ سر جھکائے کھڑا تھا کہ نوجوان بادشاہ کو ترس آیا۔ کچھ پوچھا۔ اس نے جواب نہ دیا کون کہہ سکے کہ عالم حیرت میں تھا یا مذامت تھی۔ یا ڈر چھا گیا تھا اس لئے بولا نہ جاتا تھا۔ شیخ گدائی کنبوہ کہ خاندان میں مسند معرفت کے بیٹھنے والے ۔ اور دربارمیں صدر الصدور تھے۔ اس وقت بولے۔ ’’ پہلا جہادہے۔ حضور دست مبارک سے تلوار ماریں کہ جہاں اکبر ہو۔ ‘‘ بادشاہ نوجوان کو آفرین ہے۔ رحم کھا کر کہا کہ یہ تو آپ مرتا ہے۔ اس کو کیا ماروں ! پھر کہا میں تو اسی دن کا م تمام کر چکا۔ جس دن تصور کھینچی تھی۔ مقام جنگ پر کلہ منار عظیم الشان بنوا دیا اور دلی کو روانہ ہوئے۔ ہیموں کی بی بی خزانے کے ہاتھی لے کر بھاگی۔ اکبری لشکر سے حسین خاں اور پیر محمد خاں فوج لیکر پیچھے دوڑے۔ وہ بیوہ بڑھیا کہاں بھاگتی ؟ بجواڑے کے جنگل پہاڑوں میں کو ادہ گاؤں پر جا کر پکڑا۔ جو دولت تھی۔ بہت تورستے کے گنواروں کے حصے کی تھی۔ باقی غازیوں کے ہاتھ آئی۔ وہ بھی اتنی تھی کہ اشرفیاں ڈھالوں میں بھر بھر کر بٹیں۔ جس رستے سے رانی گزر ی تھے۔ روپے اشرفیاں اور سونے کی اینٹیں گرتی چلی گئی تھیں۔ برسوں تک مسافر رستے میں پایا کرتے تھے۔ خدا کی شان وہی خزانے تھے جو شیر شاہ ۔ سلیم شاہ ۔ عدلی نے سالہا سال میں جمع کئے تھے۔ اور خدا جانے کن کن کلیجوں ہاتھ گھنگولے تھے۔ ایسے مال اسی طرح برباد ہوتے ہیں۔ ع بباد آمد و ہم ببادے رود ۔ خواجہ حافظ نے کیا خوب کہا ہے ؎ ہر چہ دل کرد فراہم ہمہ اش دیدہ بباخت اللہ اللہ کہ تبہ کردو کہ اندو ختہ بود بیرم خانی دور کا خاتمہ اور اکبر کی خود اختیاری تقریباً 4 برس تک اکبر کا یہ حال تھا۔ کہ شاہ شطرنج کی طرح مسند پر بیٹھا تھا۔ خان خاناں جس چال چاہتا تھا اسی چال چلتا تھا۔ اور اسے اس بات کی کچھ پروا بھی نہ تھی۔ نیزہ بازی و چوگان بازی کرتا تھا باز باشے اڑاتا تھا۔ ہاتھی لڑاتھا تھا۔ جاگیر ۔ انعام موقوفی بحالی کل کاروبار سلطنت خان خاناں کے ہاتھ میں تھے۔ اس کے رشتہ دار بلازم اورمتوسل عمدہ زرخیز اور سر سبز جاگیریں پاتے تھے۔ سامان والباس سے خوشحال نظر آتے تھے۔ بادشاہی نمک خوار جو باپ دادا کے عہد سے خدمتوں کے دعوے رکھتے تھے۔ ان کی جاگیریں ویران ۔ خود پریشان اور شکستہ حال تھے۔ بلکہ بادشاہ اپنے شوقوں کے لئے بھی خزانہ خالی پاتا تھا۔ اس لئے کبھی کبھی تنگ ہوتا تھا۔ پندرہ سوار برس کے لڑکے کی کیا بساط ہوتی ہے۔ علاوہ براں بچپ سے خان خاناں کی اتالیقی کے نیچے رہا تھا۔ لوگ اس کی شکایت کرتے تو چپ ہو رہتا تھا۔ 1 ؎ یہ وہ بجواڑ ہ نہیں جو ضلع ہوشیار پور پنجاب میں ہے۔ بلکہ ایک بجواڑہ بیانہ علاقہ آگرہ میں ہے اور یہاں وہی مراد ہے۔ خاں خاناں کے اختیارات اور تجویزیں کچھ نئی نہ تھیں۔ ہمایوں کے عہد سے جاری چلی آتی تھیں مگر اس وقت عرض معروض کے رستے سے ہوئی تھیں۔ اور بادشاہ کی زبان سے حکم کا لباس پہن کر نکلتی تھیں۔ البتہ اب وہ بلا واسطہ خان خانان کے احکام تھے۔ دوسرے یہ کہ اول اول سلطنت ملک گیری کی محتاج تھی۔ قدم قدم پر مشکلوں کے دریا اور پہاڑ سامنے تھے۔ اور اس کے سر انجام کا حوصلہ خان خاناں کے سوا ایک کو بھی نہ تھا۔ اب میدان صاف اور دریا یاب نظر آنے لگے۔ اس لئے ہر شخص کو اچھی جاگیر اور عمدہ خدمت مانگنے کا منہ ہو گیا ۔ اور اس کا اور اس کے متوسکوں کا فائدہ آنکھوں میں کھٹکنے لگا۔ خان خانان کی مخالفت میں کئی امیر تھے۔ مگر سب سے زیادہ ماہماتکہ اور اس کا بیٹا آدہم خاں اور چند رشتہ دار تھے۔ کیا دربار ۔ کیا محل ۔ ہر جگہ دخیل تھے۔ ان کا بڑا حق سمجھا جاتا تھا ۔ اور واقعی تھا بھی۔ ماہم نے ماں کی جگہ بیٹھ کر اسے پالا تھا۔ اور جب بے درد چچا نے معصوم بھتیجے کو توپ کے مہرے پر رکھا تو وہی تھی جو اسے گود میں لے کر بیٹھی تھی۔ اس کا بیٹا ہر وقت پاس رہتا تھا۔ اندر وہ لگاتی بجھاتی رہتی تھی۔ اور باہر بیٹا اور اس کے متوسل ۔ اور حق تو یہ ہے کہ اس عورت کے تعلقے اور حوصلے نے مردوں کو مات کر دیا تھا۔ تمام امراے دربار حد سے زیادہ اس کی عظمت کرتے تھے اور مادر مادر کہتے منہ سو کھتا تھا۔ وہ مہینوں اندر ہی اندر جوڑ توڑ کر تی رہی۔ پرانے خوانین و امرا کو اپنے ساتھ شامل کیا۔ تم خان خانخاں کے حال میں دیکھنا ! اس کا جھگڑا بھی مہینوں تک رہا۔ اس عرصے میں اور اس کے بعد بھی جو کام خان خاناں دربار میں بیٹھ کر لیا کرتا تھا۔ ملک داری کے معاملے امرا کے عہدے اورمنصب و جاگیر ۔ موقوفی ۔ بحالی کل کاروبار وہ اندر ہی اندر بیٹھے کرتی۔ قدرت الہٰی کا تماشا دیکھو۔ کہ سب دل کے ارمان دل ہی میں لے گئی۔ انا اور انا والوں نے سمجھا تھا کہ مکھی کو نکال کر پھینک دینگے اور گھونٹ گھونٹ پی کر ہم دود کے مزے لیں گے یعنی خان خاناں کو اڑا کر اکبر کے پردے میں ہم ہندوستان کی بادشاہت کرینگے۔ وہ بات نصیب نہ ہوئی۔ اکبر پردہ غیب سے ان لیاقتوں کا مجموعہ بن کر نکلا تھا۔ جو ہزاروں میں ایک بادشاہ کو نصیب نہ ہوئی ہونگی۔ اس نے چند روز میں ساری سلطنت کو انگوٹھی کے نگینے میں دھر لیا۔ دیکھنے والے دیکھتے رہ گئے۔ اور دیکھتا کون ؟ جو لوگ خان خانان کی بربادی پر چھریاں تیز کئے پھرتے تھے۔ برس دن کے اندر باہر اس طر ح نابود ہو گئے۔ گویا قضا نے جھاڑو دیکر کوڑا پھینک دیا۔ (خان خاناں کا معاملہ 967ھ میں فیصلہ) کہنا یہ چاہئے کہ 968ھ سے اکبر بادشاہ ہوا۔ کیونکہ اب اس نے خود اختیاری کے ساتھ ملک کے کاروبار سنبھالے ۔ یہ وقت اکبر کے لئے نہایت نازک موقع تھا اور مشکلیں اس کی چند ر چند تھیں۔ (1)وہ ایک بے علم اور بے تجربہ نوجوان تھا جس کی عمر 17 برس سے زیادہ نہ تھی۔ بچپن ان چچاؤں کے پاس بسر ہوا جو اس کے باپ کے نام کے دشمن تھے۔ لڑکپن کی حد میں آیا تو باز اڑاتا رہا گئے دوڑاتا رہا۔ پڑھنے سے دل کو سوں بھاگتا تھا (2)لڑکپن کی حد سے نہ بڑھا تھا کہ بادشاہ ہو گیا۔ شکار کھیلتا تھا ۔ شیر مارتا تھا۔ مست ہاتھیوں کو لڑاتا تھا۔ جنگلی دیوزادوں کو سد ھاتا تھا سلطنت کے کاروبار سب خان بابا کرتے تھے یہ مفت کے بادشاہ تھے۔ (3)ابھی سارا ہندوستان فتح بھی نہ ہوا تھا۔ پورب کا ملک شیرش اہی سر کشوں سے افغانستان ہو رہا تھا۔ اور ایک ایک راجہ بکر ماجیت اور راجہ بھوج بنا ہوا تھا۔ سلطنت کا پہاڑ اس کے سر پر آپڑ ااور اس نے ہاتھوں پر لیا۔(4)بیرم خان ایسا منتظم اور رعب داب والا امیر تھا کہ اسی کی لیاقت تھی جس نے ہمایوں کا بگڑا ہوا کام بنایا اور صلاحیت کے رستے پر لایا۔ اس کادفعتہ دربار سے نکل جانا کچھ آسان بات نہ تھی خصوصاً وہ حالت کہ تمام ملک باغیوں سے بھڑوں کا چھتہ ہو رہا تھا (5)سب سے زیادہ یہ کہ ان امیروں پر حکم کرنا اور ان سے کام لینا پڑا جن کی بے وفائی نے ہمایوں کو چھوٹے بھائیوں سے برباد کو واویلہ وہ دوغلے اور دورخے لوگ تھے۔ کبھی ادھر کبھی ادھر مشکل تر یہ کہ بیرم خاں کو نکال کر ہر ایک کا دماغ فرعون کا دارالخلافہ ہو گیا تھا ۔ نوجوان شہزادہ کسی کی نگاہ میں جچتا نہ تھا۔ ہر شخص اپنے تیئں خود مختار سمجھتا تھا۔ مگر آفرین ہے اس کی ہمت اور حوصلے کو کہ ایک مشکل کو مشکل نہ سمجھا سخاوت کے ہاتھ سے ہر گرہ کو کھولا۔ جو نہ کھلی اسے تیغ شجاعت سے کاٹا۔ نور نیک نیتی نے ہرا رادے کو پورا اتارا۔ اقبال کا یہ عالم تھا کہ فتح اور ظفر حکم کی منتظر رہتی تھی۔ جہاں جہاں لشکر جاتے تھے۔ فتح یاب ہوتے تھے اکثر مہموں میں خود اس کڑک دمک سے یلغار کر کے گیا اور کہ کہنہ عمل سپاہی اور پرانے پرانے سپہ سالار حیران تھے۔ اکبر کی پہلی یلغار ادہم خاں پر ملک مالوہ میں شیر شاہ کی طرف سے شجاعت خاں عزف شجادل خاں حکمرانی کرتا تھا۔ وہ 12برس ایک مہینے کی میعاد بسر کر کے دنیا سے رخصت ہوا۔ باپ کی ہمسند پر بازید خاں عرف باز بہادر نے جلوس کیا دو برس دو مہینے عیش و عشرت کے شکار کرتا رہا کہ دفعتہ اقبال اکبری کا شہباز ہوا ے ملک گیری میں بلند پرواز ہوا۔ بیرم خاں نے اس مہم پر بہادر خاں ۔ خان زماں کے بھائی کو بھیجا۔ انہیں دنوں میں اس کے اقبال نے رخ بدلا۔ بہادر خاں مہم کونا تمام چھوڑ کر طلب ہوا۔ بیرم خاں کی مہم کا فیصلہ کر کے اکبر نے ادھر کا قصد کیا۔ آؤ ہم خان اور ناصر الملک پیر محمد خاں کے لوہے تیز ہو رہے تھے ان ہی کو فوجیں دے کر روانہ کیا۔ بادشاہی لشکر فتح یاب ہوا۔ باز بہادر اس طرح اڑگیا جیسے آندھی کا کوا اس کے گھر میں پرانی سلطنت تھی اور دولت بے قیاس۔ دفینے ۔ خزینے ۔ توشہ خانے ، جواہر خانے تمام عجائب و نفائس سے مالا مال ہو رہے تھے۔ کئی ہزار ہاتھی تھے۔ عربی و ایرانی گھوڑوں سے اصطبل بھرے ہوئے وغیرہ وغیرہ وہ عیش کا بندہ تھا۔ عشرت و نشاط ۔ ناچ گانا ۔ رات دن رنگ رلیوں میں گزارتا تھا۔ سیکوڑوں کنچنیاں ۔ کلا نوت ۔ گائک ۔ ناٹک نوکر تھے۔ کئی سوگائنیں ڈومنیاں پاتریں حرم سرا میں داخل تھیں ۔ بے قیاس نعمتیں جو ہاتھ آئیں تو ادہم خاں مست ہو گئے۔ کچھ ہاتھی ایک عرضداشت کے ساتھ بادشاہ کو بھیج دیئے۔ اور آپ وہیں بیٹھ گئے ۔ ملک میں سے علاقے بھی آپ ہی امرا کو تقسیم کر دیئے۔ پیر محمد خاں نے بھی بہت سمجھایا ۔ مگر ہوش نہ آیا۔ آدم خاں کے ماتھے پر ایک پاتر (کنچنی) نے جو کالک کا ٹیکہ دیا۔ ماں کے دود سے منہ دھوئینگے تو بھی نہ مٹیگا باز بہادر پشتوں سے فرما نروائی کرتا تھا۔ مدتوں سے سلطنت جمی ہوئی تھی ۔ عیش کا بندہ تھا ۔ اور آرام و بے فکری میں زندگی بسر کرتا تھا۔ اس کا دربار اور حرم سرادن رات راجہ اندر کا اکھاڑا تھا۔ انہیں میں ایک پاترایسی پریزاد تھی۔ جس کے حسن کا باز بہادر دیوان بلکہ عالم میں افسانہ تھا رو پ متی اس کا نام تھا۔ اس حسن و جمال پر لطف یہ کہ لطیفہ گوئی۔ حاضر جوابی ۔ شاعری ۔ گانے بجانے میں بینظیر نہیں ۔ بدر منیر تھی۔ ان خوبیوں اور محبوبیوں کی دھوم سن کر ادہم خاں بھی لٹو ہو گئے ۔اور پیام بھیجا۔ اس نے بڑے سوگ اور بروگ کے ساتھ جواب دیا۔ ’’ جاؤ خانہ بربادوں کو نہ ستاؤ باز بہادر گیا۔ سب باتیں گئیں۔ اب اس کام سے جی بیزار ہو گیا۔ ‘‘ انہوں نے پھر کسی کو بھیجا۔ ادھر بھی اس کی سہیلیوں نے سمجھایا کہ دلاور۔ بہادر ۔ سجیلا جوان ہے۔ سردار ہے۔ سردار زادہ ہے۔ اور انا کا بیٹا ہے تو اکبر کا ہے کسی اکور کاتو نہیں۔ تمہارے حسن کا چاند چمکتا رہے۔ باز گیا تو گیا۔ اسے چکور بناؤ۔ عورت نے اچھے اچھے مردوں کی آنکھیں دیکھی تھیں۔ جیسی صورت کی وضع دار تھی ویسی ہی طبیعت کی بھی وضع دار تھی۔ دل نے گوارا نہکیا مگر سمجھ گئی کہ اس سے اس طرح چھٹکارا نہ ہو گا۔ قبول کیا۔ اور دو تین دن بیچ میں ڈال کر وصل کا وعدہ کیا ۔ جب وہ رات آئی تو سویرے سویرے ہنسی خوشی بن سنور۔ پھول پہن عطر لگا۔ چھپر کھٹ میں گئی۔ اور پاؤں پھیلا کر لیٹ رہی۔ وہ ٹپا تان لیا۔ محل اولیوں نے جانا کہ رانی جی سوتی ہیں۔ ادہم خان ادھر گھڑیاں گن رہے تھے۔ وعدے کا وقت نہ پہنچا تھا کہ جاپہنچے ۔ اسی وقت خلوت ہو گئی۔ لونڈیاں چیریاں یہ کہہ کہ سب باہر چلی آئیں کہ رانی جی سکھ کرتی ہیں۔ یہ خوشی خوشی چھپر کھٹ میں داخل ہوئے کہ اسے جگائیں۔ جاگے کون ؟ وہ تو زہر کھا کر سوئی تھی ۔ اور بات کے پیچھے جان کھوئی تھی۔ اکبر کو بھی خبر پہنچی۔ سمجھا کہ یہ انداز اچھے نہیں ۔ چند جاں نثاروں کو ساتھ لیکر گھوڑے اٹھائے رستے میں کا کرون کا قلعہ ملا کر ادہم خاں بھی اس پر فوج کشی کر کے آیا چاہتا تھا۔ قلعہ دار ادھر ادھر کی خبر داری میں تھا۔ یکایک دیکھا کہ ادھر سے بجلی آن گری ۔ کنجیاں لے کر حاضر ہوا۔ اکبر قلعے میں گیلہ جو کچھ حاضر تھا نوش فرمایا اور قلعہ دار کو خلعت دے کر منصب بڑھایا۔ پھر جور کاب میں قدم رکھا تو اس سناٹے سے گیا کہ ماہم نے بھی قاصد دوڑائے تھے مگر سب رستے ہی میں رہے۔ یہ دن رات مارا مار گئے۔ اور صبح کا وقت تھا کہ ادہم کے سر پر جا دھمکے اسے خبر بھی نہ تھی فوج لے کر کا کرون پر چلا تھا۔ چند عزیز مصاحب ہنستے بولتے آگے آگے جاتے تھے انہوں نے جو یکا یک اکبر کو سامنے سے آتے دیکھا۔ بے اختیار ہو کر گھوڑوں سے زمین پر گر پڑے۔ اور آداب بجا لائے آدہم خاں کو بادشاہ کے آنے کا سان گمان بھی نہ تھا۔ اس نے دور سے دیکھا حیران ہوا کہ کون آتا ہے جسے دیکھ کر میرے نوکر آداب بجا لائے۔ گھوڑے کو ٹھکرا کر آپ آگے بڑھا ۔ دیکھا حیران ہوا کہ کون آتا ہے جسے دیکھ کر میرے نوکر آداب بجا لائے۔گھوڑے کو ٹھکرا کر آپ آگے بڑھا ۔ دیکھ تو آفتاب سامنے ہے۔ ہوش جاتے رہے ۔ اتر کر رکاب پر سر رکھدیا۔ قدم چومے ۔ بادشاہ ٹھہر گئے۔ امرا اور خوانین قدیمی نمک خوار جو ادہم کے ساتھ آتے تھے۔ سب کے سلام لئے۔ ایک ایک کو پوچھ کر سب کا دل خوش کیا اگرچ ادہم ہی کے گھر میں جا کر اترے۔ مگر شگفتہ ہو کر بات نہ کی ۔ گرد سفر سے آلودہ تھے۔ توشہ خانے کا صندوق پیچھے تھا۔ کپڑے نہ بدلے۔ ادہم نے لباس کے بقچے حاضر کئے۔ منظور نہ فرمائے۔ ایک ایک امیر کے آگے روتا جھینکتا پھرا۔ خود بھی بہت ناک گھسنی کی ۔ بارے دن بھر کے بعد عرض قبول اور خطامعاف ہوئی۔ حرم سرا کی پشت پر جو مکان تھا ۔ رات کو اس کے کوٹھے پر آرام کیا۔ اکھڑ جوان(دہم خاں)کی سر شت میں بدی داخل تھی۔ بد گمانی نے اس کے کان میں پھونکا کہ بادشاہ جو یہاں اترے ہیں۔ اس سے میرے ننگ و ناموس پر نظر منظور ہے۔ سر شوری نے صلاح دی کہ جس وقت موقع پائے ۔ ماں کے دودھ میں نمک گھولے اوحق نمک کو آگ میں ڈال کر بادشاہ کا کام تمام کر دے۔ نیک نیت بادشاہ کا ادھر خیال بھی نہ تھا۔ خیر جس کا خدا نگہبان ہو اسے کون مار سکے۔ اس بے ہمت کی بھی ہمت نہ پڑی۔ دوسرے ہی دن ماہم جا پہنچی۔ بیٹے کو بہت لعنت ملامت کی ۔ بادشاہ کے سامنے بھی باتیں بنائیں ۔ تمام ضبطی کے نفائس تحائف حضور میں حاضر کئے۔ اور بگڑی ہوئی بات پھر بنا لی۔ بادشاہ نے یہاں چار دن مقام کیا۔ ملک کا بندوبست کرتے رہے۔ پانچویں دن روانہ ہوئے۔ شہر سے نکل کر باہر ڈیروں میں اترے۔ باز بہادر کی عورتوں میں سے کچھ عورتیں پسند آئی تھیں۔ وہ ساتھ لے لی تھیں۔ ان میں سے دو پر ادہم خان کی نیت بگڑ ی ہوئی تھی۔ ماں کی لونڈیاں ۔ مامائیں بادشاہ کی حرم سرا میں بھی خدمت کرتی تھیں۔ ان کی معرفت دونوں پریوں کواڑا لیا۔ جانا تھا کہ ہر شخص کوچ کے کاروبار اور اپنے اپنے حال میں گرفتار ہے۔ کون پوچھے گا۔ کون پیچھا کرے گا۔ اکبر کو جب خبر ہوئی تو سمجھ گیا۔ دل ہی دل میں دق ہوا۔ اسی وقت کوچ ملتوی کر دیا اور چاروں طرف آدمی دوڑائے ۔ وہ بھی ادھر ادھر سے جستجو کر کے پکڑ ہی لائے۔ ماہم نے سنا ۔ سمجھی کہ جب دونوں عورتیں سامنے آئیں۔ بھانڈا پھوٹ جائیگا۔ اوربیٹے کے ساتھ میرا بھی منہ کالا ہو گا۔ افسوس دونوں بے گناہوں کو اوپر ہی اوپر مرواڈالا۔ کٹے ہوئے گلے کیا بولتے۔ اکبر پر بھی راز کھل گیا تھا ۔ مگر لہو کا گھونٹ پی کر رہ گیا۔ اور آ گرے کو روانہ ہوا۔ اللہ اکبر ۔ پہلے ایسا حوصلہ پیدا کر لے جب کوئی اکبر سا بادشاہ کہلائے۔آگرے میں آئے اور چند روز کے بعد اوہم خاں کو بلا لیا۔ پیر محمدخاں کو علاقہ سپرد کیا۔ یہ اکبر کی پہلی یلغار تھی۔ کہ جس رستے کو شاہان سلف پورے ایک مہینے میں طے کرتے تھے۔ اس نے ہفتے بھر میں طے کیا۔ دوسری یلغار خان زمان پر خان زماں علی قلی خان نے جو نپور وغیرہ اضلاع شرقی میں فتوحات عظیم حاصل کر کے بہت سے خزانے اور سلطنت کے سامان سمیٹے تھے۔ اور حضور میں نہ بھیجے تھے۔ شاہم بیگ کے مقدمے میں ابھی اس کی خطا معاف ہو چکی تھی۔ اولو اعزم بادشاہاوہم خاں سے دل جمعی کر کے آگرے میں آیا۔ آتے ہی تو سن ہمت پر زین رکھا اور سورج مغرب سے مشرق کو چلا ؎ یک جاقرار ہمت عالی نمے کند گردش ضرورت اسد سپہر بلند را بڈھے بڈھے امرا کو رکاب میں لیا۔ وہ خان زمان کو جانتا تھا۔ کہ من چلا بہادر ہے۔ اور غیرت والا ہے اہل دربار نے اسے ناحق ناراض کر دیا ہے۔ شاید بگڑ بیٹھا۔ تو بہتر ہے۔ کہ تلوار درمیان نہ آئے۔ کہن سال نمک احلال بیچ میں آکر باتوں میں کام نکال لیں گے۔ چنانچہ کالپی کے رستے الہ آباد کا رخ کیا اور اس کڑک دمک سے کڑہ مانک پور جاکھڑا ہوا ۔ 1 ؎ مفصل حال دیکھو تتمہ میں ۔ کہ خان زماں اور بہادر خاں دونوں ہاتھ باندھ کر پاؤں میں آن پڑے وہاں سے بھی کامیابی اور کامرانی کے ساتھ پھرے۔ بہکانے والوں نے اس کی طرف سے بہت کان بھرے تھے۔ مگر نیک نیت بادشاہ کا قول تھا کہ آدمی ایک نسخہ معجون دواخانہ الہٰی کا ہے مستی وہوشیاری سے مرکب ہے۔ اسے بہت سوچ سمجھ کر استعمال کرنا چاہیے۔ یہ بھی کہا کرتا تھا ۔ کہ امرا ہرے بھر ے درخت ہیں۔ ہمارے لگائے ہوئے ہیں۔ انہیں سر سبز کرنا چاہیے ۔ نہ کاٹنا انسان میں برگزیدہ صفت معافی گناہ ہے۔ جو حضور میں چلا آئے اور ناکام پھر جائے۔ تو اس پر حیف نہیں ہم پر حیف ہے۔ (دیکھو اکبر نامہ کو اسی مقام پر شیخ ابوالفضل نے کیا لکھتا ہے)۔ تیر آسمانی اور غیب کی نگہبانی اکبر کی نیت اور علوہمت کی باتیں حد تحریر سے باہر ہیں 970ھ میں ولی پہنچے ۔ شکار گاہ سے پھرتے ہوئے سلطان نظام الدین اولیا کی زیارت کو گئے ۔ وہاں سے رخصت ہوئے۔ ماہم کے مدرسے کے پاس تھے۔ جو معلوم ہوا کہ کچھ شانے میں لگا ۔ دیکھا تو تیرا کہ پوست مال تھا ۔ مگر 2/3پار نکل گیا تھا۔ دریافت کیا۔ معلوم ہوا کہ کسی نے مدرسے کے کوٹھے پر سے مارا ہے۔ ابھی تیر نہ نکلا تھا۔ کہ مجرم کو پکڑ لائے۔ دیکھا کہ فولاد حبشی مرزا اشرف الدین حسین کا غلام ہے۔ آقا چند روز پہلے بغاوت کر کے بھاگا تھا ۔ جب شاہ ابوالمعالی سے سازش ہوئی تو تین سو آدمی جنہیں اپنی جاں نثاری کا بھروسہ تھا اس کے ساتھ گئے تھے۔ آپ مکہ کا بہانہ کر کے بھاگا پھرتا تھا۔ اس میں سے یہ شب سیاہ اس کام کا بیڑا اٹھا کر آیا تھا۔ لوگوں نے چاہا فولاد سنگ دل سے پوچھیں کہ یہ حرکت کس کے اشارے سے کی ہے ؟ اکبر نے کہا نہ پوچھو۔ غلام روسیاہ خدا جانے کیا کہے۔ اور کن کن جاں نثاروں کی طرف سے شبہے ڈال دے۔ بات نہ کرن دو کام تمام کردو۔ دریا دل بادشاہ کے چہرے پر کچھ اضطراب نہ ہوا اسی طرح گھوڑے پر سوار چلا آیا ۔ اور قلعہ دین پناہ میں داخل ہوا۔ چند روز میں زخم اچھا ہو گیا۔ اور اسی ہفتے میں سنگھا سن پر بیٹھ کر آگرے کو روانہ ہوئے۔ عجیب اتفاق اکبر کے کتوں میں ایک زرد رنگ کا کتا تھا۔ نہایت خوبصورت ۔ اسی واسطے مہوہ اس کا نام رکھا تھا ۔ وہ آگرے میں تھا۔ جس دن یہاں تیر لگا۔ اسی دن سے مہوے نے راتب کھانا چھوڑ دیا تھا۔ جب بادشاہ وہاں پہنچے ۔ تو میر شکار نے حال عرض کیا۔ اکبر نے اسے حضور میں منگا یا۔ آتے ہی پاؤں میں لوٹ گیا۔ اور نہایت خوشی کی حالتیں رکھائیں ۔ اپنے سامنے راتبہ منگا کر دیا جب اس نے کھایا۔ یہ یلغاریں بابری بلکہ تیموری و چنگیزی خون کے جوش تھے کہ اکبر پر ختم ہو گئے۔ اس کے بعد ہا کسی بادشاہ کے دماغ میں ان باتوں کو بوجھی نہ رہی۔ بنئے تھے کہ گدی پر بیٹھے تھے۔ ان کی قسمیں لڑتی تھیں۔ اور امرا فوجیں لے کر مرتے پھرتے تھے۔ اس کا کیا سبب سمجھنا چاہئے ؟ ہندوستان کی آرام طلب خاک ۔ اور باوجود گرمی کے سرو مہر بٹوا اور بزدل پانی۔ روپے کی بہتات ۔ سامانوں کی کثرت۔ یہاں جوان کی اولاد ہوئی۔ ایک نئی مخلوق ہوئی انہیں گویا خبر نہ تھی۔ کہ ہمارے باپ دادا کون تھ۔ اور انہوں نے کیوں کہ یہ قلعے ۔ یہ ایوان یہ تخت ۔ یہ درجے تیار کئے تھے۔ جن پر ہم چڑھے۔ بیٹھے ہیں۔ میرے دوستو ! تمہارے ملک کے اہل خاندان جب اپنے تئیں شکوہ وشان کے سامانوں میں پاتے ہیں۔ تویہ سمجھتے ہیں۔ کہ ہم خدا کے گھر سے ایسے ہی آئے ہیں۔ اور ایسے ہی رہیں گے۔ جس طرح ہم آنکھ ناک ہاتھ پاؤں لے کر پیدا ہوئے ہیں۔ اسی طرح یہ سب چیزوں ہمارے ساتھ پیدا ہوئی ہیں۔ ہائے غافل بد نصیبو! تمہیں خبر نہیں۔ کہ تمہارے بزرگوں نے پسینے کی جگہ خون بہار کر اس ڈھلتی پھرتی چھاؤں کو قابو کیا تھا اور اگر اور کچھ اور نہیں کر سکتے تو جو قبضے میں ہے۔ اسے تو ہاتھ سے جانے نہ دو۔ تیسری یلغار گجرات پر اکبر نے یلغاریں تو بہت کیں مگر عجیب یلغار وہ تھی ۔ جب کہ احمد آباد گجرات میں خان اعظم اسکا کو کہ گھر گیا۔ اور شتر سوار فوج کو اڑا کر پہنچا ۔ خدا جانے رفیقوں کے دلوں میں ریل کا زور بھر دیا تھا کہ تار برقی کی پھرتی۔ اس سمے کا تماشہ ۔ ایک عالم ہو گا دیکھنے کے قابل آزاد اس حالت کا فوٹو گراف الفاظ و عبارت کے رنگ و روغن سے کیوں کر کھینچ کر دکھائے۔ اکبر ایک دن فتح پور میں دربار کر رہا تھا۔ اور اکبری نورتن سے سلطنت کا بازو آرستہ تھا۔ دفعتہ پر چہ لگا کر حسین مرزا چغتائی شہزادہ ملک مالوہ میں باغی ہو گیا۔ اختیار الملک دکنی کواپنے ساتھ شریک کیا ہے۔ ملکی باغیوں کی بے شمار جمعیت ۔ اورحشری فوج جمع کی ہے۔ دور دور تک ملک مار لیا ہے۔ اور مرزا عزیز کو اس طرح قلعہ بند کیا ہے کہ نہ وہ اندر سے نکل سکے۔ نہ باہر سے کوئی جا سکے۔ مرزا عزیز نے بھی گھبرا کر ادھر اکبر کو عرضیاں ۔ ادھر ماں کو خط لکھنے شروع کئے۔ اکبر اسی فکر میں داخل محل سرا ہوا۔ وہاں جی جی نے رونا شروع کر دیا ۔ کہ جس طرح ہو۔ میرے بچے کو صحیح سلامت دکھاؤ ۔ بادشاہ نے سمجھا ۔ کہ سارا لشکر بھیرو بنگاہ سمیت ایسا جلدی کیوں کر جا سکے گا۔ اسی وقت محل سے باہر آیا۔ اور اقبال اپنے کام میں مصروف 1 ؎ جس کا دودھ پیتے ہیں اسے ترکوں کے بچے جی جی کہا کرتے ہیں ۔ ہوا۔ کئی ہزار کار آزمودہ اور من چلے بہار روانہ کئے۔ اور کہہ دیا۔ کہ ہر چند ہم تم سے پہلے پہنچیں گے۔ مگر جہاں تک ہو سکے تم بھی اڑے ہی جاؤ۔ ساتھ رستے کے حاکموں کو لکھا۔ کہ جتنی کو تل سواریاں موجود ہوں۔ تیار کر لیں۔ اور اپنی اپنی انتخابی فوج سے سرارہ حاضر ہوں۔ خود تین سو جاں نثاروں سے (خافی خاں نے چار پان سو لکھا ہے) کہ تمام نامی سردار اور درباری مصنب وار تھے۔ سانڈنیوں پر بیٹھ۔ کوتل گھوڑے۔ اور گھڑبہلیں لگا۔ نہ دن دیکھا نہ رات۔ جنگل اور پہاڑ کاٹتا چلا۔ غنیم کے تین سو سپاہی سر گنج سے پھرے ہوئے گجرات کو جاتے تھے۔ اکبر نے راجہ سالباہن ۔ قادر قلی ۔ رنجیت وغیرہ وغیرہ سداروں کو کہ بال باندھے نشانے اڑاتے تھے۔ آوا ز دی کہ لینا۔ اور نہ جانے دینا۔ یہ ہوا کی طرح گئے۔ اور اس صدمے سے حملہ کیا کہ طرح اڑا دیا۔ شگون مبارک اسی عالم میں شکار بھی ہوتے جاتے تھے۔ ایک جگہ ناشتے کو اترے کسی کے منہ سے نکلا۔ اوہو ! کیا ہرن کی ڈار درختوں کی چھاؤں میں بیٹھی ہے۔ بادشاہ نے کہا ۔ آؤ شکار کھیلیں ۔ ایک کالا ہرن سامنے نکلا۔ اس پر سمندر ٹانگ چیتا چھوڑا۔ او ر کہا کہ اگر اس نے یہ کالا مار لیا۔ تو جانو کو غنیم کو مار لیا۔ اقبال کا تماشا دیکھو۔ کہ ماہی لیا ۔بس پل ٹھہرے اور روانہ ۔ غرض ستائیس منزلوں کو لپیٹ (خافی خان نے لکھا ہے کہ 40 منزلیں شاہان سلف نے مہینوں میں طے کیا) نویں دن گجرات کے سامنے دریائے نرپتی کے کنارے پر جا کھڑا ہوا۔ جن امرا کو پہلے روانہ کیا تھا۔ رستے میں ملتے جاتے تھے۔ شرمندہ ہوتے تھے۔ سلام کرتے تھے اور ساتھ ہو لیتے تھے۔ پھر بھی اکثر نبھ نہ سکے۔ پیچھے پیچھے دوڑے آتے تھے۔ جب گجرات سامنے آیا تو موجودات لی۔ تین ہزار نامو ر نشان شاہی کے نیچے مرنے مارنے کو کمربستہ تھے۔ اس وقت کسی نے تو کہا کہ جو جاں نثار پیچھے رہے ہیں۔ آیا چاہتے ہیں۔ ان کا انتظار کرنا چاہیئے کسی نے کہا۔ شنجون مارنا چاہئے۔ بادشاہ نے کہا ۔ کہ انتظار بزدلی اور شنجون چوری ہے۔ سلاح خانے سے ہتیار بانٹ دیئے۔ دائیں بائیں آگے پیچھے فوج کی تقسیم کی ۔ مرزا عبدالرحیم یعنی خان خاناں کا بیٹا سولہ برس کا نوجوان تھا۔ اسے سپہ سالاروں کی طرح قلب میں قرار دیا۔ خود سو سوار سے الگ رہے کہ جدھر مدد کی ضرورت ہو ادھر ہی پہنچیں۔ اقبال کی مبارک فال بادشاہ جب خود مر پر رکھنے لگے۔ کہ دبلغہ نہیں رہتے ہیں دبلغہ اتار کر راجہ دیپ چند کو دیا تھا۔ 1 ؎ دبلغۃ خود کے آگے کی طرف پر چھجا لگاتے تھے کہ دھوپ اور چھوٹے موٹے صدموں سے بچائو رہے۔ کہ لئے آؤ ۔ وہ رستے میں اترتے چڑھتے کہیں رکھ کر بھول گیا۔ اس وقت جو مانگا تو وہ گھبرایا اور شرمندہ ہوا۔ فرمایا ۔ اوہو ! کیا خوب شگون ہوا ہے۔ اس کے مضحایہ کہ سامنا صاف ہے ۔بڑھو آگے ۔ خاصے کے گھوڑوں میں ایک باد رفتار تھا۔ سر سے پاؤں تک سفید براق ۔ جیسے نور کی تصویر اکبر نے اس کا نام نور بیضا رکھا تھا۔ جس وقت اس پر سوار ہوا۔ گھوڑا بیٹھ گیا۔ سب ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگے کہ شگون اچھا نہ ہوا۔ راجہ بھگوان داس (مان سنگھ کے باپ نے آگے بڑھ کر کہا۔ حضور فتح مبارک ۔ اکبر نے کہا۔ سلامت باشید ۔ کیوں کرنا اس نے کہا۔ اس رستے میں تین شگون برابر دیکھتا چلا آیا ہوں۔ (1)ہمارے شائستہ میں لکھا ہے کہ جب فوج مقابلے کو تیار ہو۔ اور سینا پتی کا گھوڑا سواری کے وقت بیٹھ جائے۔ تو فتح اسی کی ہوگی۔ (2)ہوا کا رخ حضور ملا حظہ فرمائیں۔ کہ کس طرح بدل گیا۔ بزرگوں نے لکھ دیا ہے۔ کہ جب ایسی صورت ہو۔ سمجھ لیجئے کہ مہم اپنی ہے۔ (3)رستے میں دیکھتا آیا ہوں کہ گد چیلیں۔ کوے برابر لشکر کے ساتھ چلے آتے ہیں۔ اسے بھی بزرگوں نے فتح کی نشانی لکھا ہے۔ محبت کے نازونیاز اکبر بادشاہ قوم کا ترگ۔ مذہب کا مسلمان تھا۔ راجہ یہاں کے ہندی وطن اور ہندو مذہب تھے۔ اتفاق اور اختلاف کے مقدمے تو ہزاروں تھے۔ مگر میں ان میں سے ایک نکتہ لکھتا ہوں ۔ ذرا آپس کے برتاؤ دیکھوں اور ان سے دلوں کے حال کا پتہ لگائو۔ اسی ہنگامے میں راجہ جے مل (۴اجہ روپسی کا بیٹا تھا) اکبر کے برابر نکلا۔ اس کا بکتر بہت بھاری تھا ۔اکبر نے سبب پوچھا۔ اس نے کہا کہ اس وقت یہی ہے۔ زرہ وہیں رہ گئی۔ درو خواہ بادشاہ نے اسی وقت بکتر اتروایا۔ اور اپنے خاصے کی زرہ پہنوا دی۔ وہ سلام کر کے خوش ہوتا ہوا اپنے رفیقوں میں گیا۔ اتنے میں راجہ کرن (مالدیو راجہ جووھپورکے پوتے) کو دیکھا۔ کہ اس کے پاس زرہ بکتر کچھ نہ تھا۔ بادشاہ نے وہی بکتر اسے دیدیا۔ جے مل اپنے باپ (روپسی) کے سامنے گیا۔ اس نے پوچھا۔ بکتر کہاں ہے ؟ جے مل نے سارا ماجرا سنایا۔ روپسی کی جودھپوریوں سے خاندانی عداوت چلی آتی تھی۔ اسی وقت بادشاہ کے پاس آدمی بھیجا کہ حضور میرا بکتر مرحمت ہو۔ وہ میرے بزرگوں سے چلا آتا ہے۔ اوربڑا مبارک اور فتح نصیب ہے۔ اس وقت یا کہ خیر ہم نے اسی واسطے خاصے کی زرہ تمہیں دے دی ہے۔ کہ فتح کا تعویذ اور اقبال کا گٹکا ہے۔ اسے اپنے پاس رکھو۔ روپسی کے دل نے نہ مانا۔ اور تو کچھ نہ ہو سکا۔ اسلحہ جنگ اتار کر پھینک دیئے۔ اور کہا خیر میں میدان جنگ میں یونہی جاؤں گا۔ اس نازک موقع پر اکبر کو بھی اور کچھ نہ بن آیا۔ کہا۔خیر ہمارے جاں نثار ننگے لڑیں تو ہم سے بھی نہیں ہو سکتا۔ کہ زرہ بکتر میں چھپ کر میدان میں لڑیں۔ ہم بھی برہنہ تیر وتلوار کے منہ پر جائینگے۔ راجہ بھگوان داس اسی وقت گھوڑا اڑا کر جے مل کے پاس گئے۔ اسے سمجھایا بہت لعنت ملامت کی اور سمجھا بجھا کر دنیا کے رستے کا نشیب و فراز دکھایا۔ یہ بڈھا خاندان کا ستون تھا۔ اس کا سب لحاظ کرتے تھے۔ اس نے شرمندہ ہو کر پھر ہتیار سجے۔ راجہ بھگوان داس نے آکر عرض کی کہ حضور ! روپسی نے بھنگ پی تھی۔ اس کی لہروں نے ترنگ دکھائی تھی۔ اور کچھ بات نہ تھی۔ اکبر سن کر ہنسنے لگا۔ اور ایسا نازک جھگڑا لطیفہ ہو کر اڑا گیا۔ ایسے ایسے منتروں نے محبت کا طلسم باندھا تھا جو ہر دل پر نقش ہو گیا تھا ،خاندان کی ریت رسوم ۔ مبارک نا مبارک بلکہ دین آئین ۔ سب برطرف ۔ اب جو اکبر کہے وہی ریت رسوم ۔ جو اکبر خوشی وہی مبارک جو اکبر کہہ دے وہی دین آئین۔اور اس سے بڑے مطلب نکلتے ھتے۔ کیونکہ اگر مذہب کے دلائل سے انہیں سمجھا کر کسی بات پر لانا چاہتے تو سر کٹواتے ۔ اور راجپوت کی ذات قیامت تک اپنی بات سے نہ ٹلتی ۔ اکبری آئین کا نام لیتے تو جان دینے کو بھی فخر سمجھتے تھے۔ غرض حکم ہوا کہ باگیں اٹھاؤ خان اعظم کے پاس آصف خاں کو بھیجا کہ ہم آپہنچے ۔ تم اندر سے زور دے کر نکلو۔ اس پر ایسا ڈر چھایا تھا کہ قاصد بھی پہنچے تھے ۔ ماں نے بھی خط لکھے تھے۔ اسے بادشاہ کے آنے کا یقین ہی نہ آتا تھا۔ یہی کہتا تھا کہ دشمن غالب ہے۔ کیوں کر نکلوں ۔ یہ امرائے اطراف میرا دل بڑھانے اور لڑانے کو ہوائیاں اڑاتے ہیں۔ احمد آباد تین کو س تھا۔ حکم ہوا کہ چند قراول آگے بڑھ کر ادھر ادھر بندوقیں سر کریں۔ ساتھ ہی نقارہ اکبری پر چوٹ پڑی۔ اور گورکھے کی گرج سے گجرات گونج اٹھا۔ اس وقت تک بھی غنیم کو اس یلغار کی خبر نہ تھی۔ بندوقوں کی کڑک اور ڈنکے کی آواز سے اس کی لشکر میں کھلبلی پڑی۔ کسی نے جانا کہ دکن سے ہماری مدد آئی ہے۔ کسی نے کہا۔ کہ کوئی بادشاہی سردار ہو گا۔ دورنزدیک سے خان اعظم کی کمک کو پہنچا ہے۔ حسین مرزا گھبرایا۔ خود گھوڑا مار کر نکلا۔ اور قراولی کرتا ہوا آیا ۔ کہ دیکھوں کون آتا ہے۔ دریا کے کنارے پر آکھڑا ہوا۔ ابھی نور کا تڑکا تھا۔ سبحان قلی ترکمان (بیرم خانی جوان تھا) یہ بھی پار اتر کر میدان دیکھتا پھرتا تھا۔ حسین مرزا نے اسے آواز دی۔ بہادر۱؎ دریا کے پار یہ کس کا لشکر ہے۔ ۱؎۔ اہل دکن کا محاورہ تھا۔ ایک دوسرے کو بہادر کہہ کر بات کرتے تھے ۔ اور سر لشکر کون ہے ؟ اور اس نے کہا ۔ ’’ لشکر بادشاہی اور شہنشاہ آپ سر لشکر ۔ ’’ پوچھا کون شہنشاہ ؟ وہ بولا اکبر شہنشاہ غازی ۔ جلدی جا ۔ ان ادبار زدہ گمراہوں کو راہ بتا کہ کسی طرف کو بھاگ جائیں۔ اور جانیں بچائیں۔ مرزا نے کہا ۔ بہادر ! ڈراتے ہو۔ چودہواں دن ہے ۔ میرے جاسوسوں نے بادشاہ کو آگرے میں چھوڑا ہے۔ سبحان قلی نے قہقہہ مارا ۔ مرزا نے کہا۔ مگر بادشاہ ہیں۔ تو وہ جنگی ہاتھیوں کا حلقہ کہا ہے جو رکاب سے جدا نہیں ہوتا ؟ اور بادشاہی لشکر کہاں ہے ؟ سردار مذکور نے کہا۔ آج نواں دن ہے رکاب میں قدم رکھا ہے۔ رستے میں سانس نہیں لیا۔ ہاتھی کیا ہاتھ میں اٹھا لاتے ؟ شیر جنگ ۔ فیل شکار ۔ بہادر جوان جو سات ہیں۔ یہ ہاتھیوں سے کچھ کم ہیں ؟ کس نیند سوتے ہو۔ اٹھو سر پر آفتاب آگیا۔ یہ سنتے ہی مرزا موج کی طرح کنار دریا سے الٹا پھرا۔ اختیار الملک کو محاصرے پر چھوڑا۔ اور خودسات ہزار فوج لے کر چلا کہ طوفان کو روکے ۔ ادھر بادشاہ کو انتظار تھا کہ خان اعظم ادھر قلعے سے ہمت کر کے نکلے۔ تو ہم ادھر سے دھاوا کریں۔ مگر جب وہ دروازے سے سر بھی نہ نکال سکا۔ تو اکبر سے رہانہ گیا۔ کشتی کا بھی انتظار نہ کیا۔ تو کل بخدا گھوڑے دریا میں ڈال دیئے۔ اقبال کی یاوری دیکھو کہ دریا پایاب تھا۔ لشکر اس پھرتی سے پار اتر گیا ۔ کہ جاسوس خبر لائے۔ غنیم کا لشکر ابھی کمر بندی میں ہے۔ میدان میں جا کر پرے جمائے۔ اکبر ایک بلندی پر کھڑا میدان جنگ کا انداز دیکھ رہا تھا۔ اتنے میں آصف خاں مرزا کو کہ کے پاس پھر کر آیا اور کہا کہ اسے حضور کے آنے کی خبر بھی نہ تھی۔ میں نے قسمیں کھا کھا کر کہا ہے۔ جب یقین آیا ہے۔ اب لشکر تیار کر کے کھڑا ہوا ہے وہ ابھی پوری بات نہ کہہ چکا تھا۔ کہ درختوں میں سے غنیم نمودار ہوا۔ حسین مرزا جمعیت قلیل دیکھ کر خود پندرہ سو فدائی مغلوں کو لے کر سامنے آیا۔ اور بھائی اس کا بائیں پر گرا۔ ساتھ ہی گجراتی اور حبشی فوج بازؤوں پر آئی۔ ادھر سے بھی ترک بہ ترکی کلہ بہ کلہ جواب ہونے لگے۔ اکبر الگ کھڑا تھا ۔ اورقدرت الہٰی کا تماشہ دیکھ رہا تھا۔ کہ پروہ غیب سے کیا ظاہر ہوتا ہے۔ اس نے دیکھا کہ ہر اول پر زو ر پڑا۔ اور طور بے طور ہوا ہے۔ راجہ بھگوان داس پہلو میں تھا۔ اس سے کہا کہ اپنی قوج تھوڑی ہے اور غنیم کا ہجوم بہت ہے۔ مگر تائید الہٰی پر اس سے بہت بھروسا ہے۔ چلو ہم تم مل کر جاپڑیں کہ پنجہ سے مشت کا صدمہ زبردست پڑتا ہے۔ اس فوج کی طرف چلو ۔ جدھر سر خ جھنڈیاں نظر آتی ہیں حسین مرزا نہیں میں ہے۔ اسے مارلیا تو میدان مار لیا۔ یہ کہہ کر گھوڑوں کو جگہ سے جنبش دی ۔ حسین خاں ٹکریہ نے کہا کہ ہاں ’’ دھاوے کا وقت ہے ‘ ‘ بادشاہ نے آواز دی۔ ابھی پلہ دور ہے۔ تھوڑے ہو۔ جتنا پاس پہنچ کر دھاوا کرو گے۔ تازہ دم پہنچو گے۔ اور خوب زور سے عریف پر گرو گے۔ مرزا بھی اپنے لشکر سے کٹ کر ایک دستے کے ساتھ ادھر آیا۔ وہ زور میں بھراآیا تھا۔ مگر اکبر اطمینان اور دلاسے کے ساتھ فوج کو لئے جاتا تھا۔ اور گن گن کر قدم رکھتا تھا ۔ کہ پاس جا پہنچے ۔ راجہ ہاپا چارن نے کہا ہاں دھاوے کا وقت ہے۔ ساتھ ہی اکبر کی زبان سے نعرہ نکلا۔ ۔ اللہ اکبر۔ ان دنوں میں خواجہ معین الدین چشتی سے بہت اعتقاد تھا۔ اور یا ہادی یا معین کا وظیفہ ہر وقت زبان پر تھا۔ للکار کر آواز دی۔ کہ ہاں (مر ن) سورن بیند ازید ۔ آپ اور سب سوار یا ہاوی معین کے نعرے مارتے جا پڑے۔ مرزا نے جب سنا کہ اکبر اسی غول میں ہے۔ نام سنتے ہی ہوش اڑ گئے فوج بکھر گئی اور خود بے سروپا بھاگا۔ رخسارے پر ایک زخم بھی آیا۔ گھوڑا مار سے چلا جاتا تھا۔ جو تھور کی باڑ سامنے آئی۔ گھوڑا جھجکا ۔ اس نے چاہا کہ اڑا جائے۔ مگر نہ ہو سکا۔ اور نہ بیچ میں پھنس گیا۔ گھوڑا بھی ہمت کرتا تھا۔ وہ خود بھی حوصلہ کرتا تھا۔ مگر نکل نہ سکتا تھا۔ کہ اتنے میں گدا علی ترکمان خاصے کے سواروں میں سے پہنچا۔ اور کہا ۔ آۂ میں تمہیں نکالوں ۔ وہ بھی عاجز ہو رہا تھا۔ جان حوالے کر دی ۔ گدا علی اسے اپنے آگے سوار کر رہا تھا۔ خان کلاں (مرزا کو کہ کے چچا) کا ایک نوکر بھی جا پہنچا۔ یہ لالچی بہادر بھی گدا علی کے ساتھ ہو گئے۔ فوج پھیلی ہوئی تھی۔ فتح یاب سپاہی بھگوڑوں کو مارتے باندھتے پھرتے تھے۔ سپہ سالار بادشاہ ۔ چند سرداروں اور جان نثاروں کے بیچ میں کھڑا تھا۔ ہر شخص اپنی خدمتیں عرض کر رہا تھا۔ وہ سن سن کر خوش ہوتا تھا کہ کم بخ تحسین مرزا کو مشکین بندھا سامنے حاضر کیا۔ بادشاہ کے آگے آکر دونوں میں جھگڑا ہونے لگا۔ یہ کہتا تھا میں نے پکڑا ہے۔ وہ کہتا تھا میں نے فوج لطائف کے سپہ سالار ملک تمسخر کے مہاراجہ پر برسور ما سپاہی بیٹھے ہوئے۔ کبھی اکبر کے آگے۔ کبھی پیچھے۔ خواہ مخواہ گھوڑا دوڑائے پھرتے تھے۔ انہوں نے کہا۔ مرزا ! تم آپ بتا دو۔ تمہیں کس نے پکڑا ہے۔ کم بخت مرزا نے کہا کہ مجھے کون پکڑسکتا تھا۔ حضور کے نمک نے پکڑا ہے۔ لوگوں کے دلوں سے تصدیق کے سانس نکلے۔ اکبر نے آسمان کو دیکھا۔ اور سر کو جھکا لیا پھر کہا مشکیں کھول دو۔ آگے ہاتھ باندھو! سزا تو دل کی تھی قابل بہت سی مار کھانے کے تری زلفوں نے مشکین باندھ کر مارا تو کیا مارا مرزا نے پانی پینے کو مانگا۔ ایک شخص پانی لینے کو چلا۔فرحت خاں چیلے نے دوڑ کر مرزا بد نصیب کے سر پر ایک دو تہر ماری اور کہا۔ کہ ایسے تمک حرام کو پانی ؟ رحم دل بادشاہ کو ترس آیا۔ اپنی چھاگل سے پانی پلوایا۔ اورفرحت خاں سے کہا۔ اب یہ کیا ضرور ہے۔ نوجوان بادشاہ نے اس میدان میں بڑا سا کھا کیا۔ وہ کیا کہ پرانے سپہ سالاروں سے بھی کہیں کہیں بن پڑتا ہے۔ بے شک اس کے ساتھ کہن سال ترک اور پر اتم راجپوت سائے کی طرح لگے تھے۔ مگر اس کی ہمت اور حوصلے کی تعریف نہ کرنی بے انصافی میں داخل ہے۔ وہ سفید براق گھوڑے پر سوار تھا۔ اور عام سپاہیوں کی طرح تلواریں مارتا پھرتا تھا۔ ایک موقعہ پر کسی دشمن نے اس کے گھوڑے کے سرپر ایسی تلوار ماری۔ کہ چراغ پا ہوگ یا۔ اکبر بائیں ہاتھ سے اس کے بال پکڑ کر سنبھلا۔ اور حریف کو برچھا مارا ۔ کہ زور کوتوڑ کر پار ہو گیا۔ چاہتا تھا کہ کھینچ کر پھر مارے۔ مگر پھل ٹوٹ کر زخم میں رہا۔ اور بھگوڑا بھاگ گیا۔ ایک نے آکر نیزہ مارا۔ چیتہ بڈگو جرنے بر چھا پھینگ کر اسکا کام تمام گیا۔ اکبر چاروں طرف لڑتا پھرتا تھا۔ سرخ بد خشی لہو میں لال زخمی ہو کر گھبرایا ہوا قلب میں آیا اور اکبر کی شمشیر زنی اور اپنے زخمی ہونے کے احوال اس اضطراب کے ساتھ بیان کئے کہ لوگوں نے جانا بادشاہ مارا گیا۔ لشکر میں میں تلا طم پڑ گیا۔ اکبر کو بھی خبر ہوئی۔ فورا فوج قلب کے برابر میں آیا۔ اور للکارنا شروع کیا کہ ہاں باگیں لئے ہوئے۔ ہاں قدم اٹھائے ہوئے۔ غنیم کے قدم اکھڑ گئے ہیں ایک حملے میں فیصلہ ہے۔ اس کی آواز سن کر سب کی جان میں جان آئی اور دل قوی ہو گئے۔ ایک ایک کی جاں بازی اور جاں فشانی کے حال عرض ہو رہے تھے۔ سپاہی جو گردوپیش حاضر تھے۔ دو سو کے قریب ہو نگے کہ ایک پہاڑ ی کے نیچے سے غبار کی آندھی اٹھی۔ کسی نے کہا خان اعظم نکلا ہے۔ کسی نے کہا اور غنیم آیا۔ ایک سوار حکم شاہی کے ساتھ دوڑا اور آواز کی طرح پہاڑ سے پھرا۔ معلوم ہوا کہ محاصرے کے چھوڑ کر اختیار الملک ادھر پلٹا ہے۔ لشکر میں کھلبلی پڑی۔ بادشاہ نے پھر بہادروں کو للکارا۔ نقارچی کے ایسے اوسان گئے کہنقارے پر چوٹ لگانے سے جی رہ گیا۔ یہاں تک کہ اکبر نے خود برچھی کی نوک سے ہشیار کیا۔ غرض سب کو سمیٹا اور پھر فوج کو لے کر دل بڑھاتا ہوا دشمن کی طرف متوجہ ہوا۔ چند سرداروں نے گھوڑے جھپٹائے۔ اور تیر اندادزی شروع کی۔ اکبر نے پھر آواز دی کہ نہ گھبراؤ۔ کیوں کھنڈے جاتے ہو۔ دلاور بادشاہ شیر مست کی طرح خراماں خراماں جاتا تھا۔ اور سب کو دلا سا دیتا جاتا تھا۔ غنیم طوفان کی طرح چڑھا چلا آتا تھا۔ مگر جوں جوں پاس آتا تھا۔ جمعیت کھنڈی جاتی تھیں۔ دور سے ایسا معلوم ہوا ۔ کہ اختیار الملک چند رفیقوں کے ساتھ جمعیت سے کٹ کر جدا ہوا ہے۔ اور جنگل کارخ کیا ہے۔ وہ فی الحقیقت حملہ کرنے نہیں آیا تھا۔ متواتر فتحوں کے سبب سے تمام ہندوستان میں دھاک بندھ گئی تھی۔ کہاکبر نے تسخیر آفتاب کاعمل پڑھا ہے۔ اب کوئی اس پر فت نہ پا سکے گا۔ محمد حسین مرزا کی قید اور تباہی لشکر کی خبر سنتے ہی اختیار الملک بے اختیارمحاصرہ چھوڑ کر بھا گا تھا۔ تمام لشکر اس کا جیسے چیونیٹوں کی قطار۔ برابر سے کترا کرنکل گیا۔ اس کا گھوڑا بگٹوٹ چلا جاتا تھا ۔ یہ کمبخت بھی تھور میں الجھا۔ اور خود زمین پر گرا۔ سہراب بیگ ترکمان ھی اس کے پیچھے گھوڑا ڈالے چلا جاتا تھا۔ دست و گریبان پہنچا اور تلوار کھینچ کر کودا۔ اختیار الملک نے کہا ۔ ’’ اے جو ان ! تو ترکمان مے نمائی ۔ و ترکماناں غلام مرتصے علی دو دستداران اومے باشند۔ من سید بخاریم ۔ مرا بگزار ‘‘ سہراب بیگ نے کہا ’’ اے دیوانہ ! چوں بگزار م ؟ تو اختیار الملک ہستی۔ تو اشناختہ و نبالت سر گرداں آمدہ ام ‘‘۔ یہ کہا اور جھٹ سر کاٹ لیا۔ پھر کر دیکھے تو کوئی اپنا گھوڑا لے بھاگا۔ لہو ٹپکتے سر کو دامن میں لے کر دوڑا۔ خوشی خوشی آیا۔ اور حضور میں نذر گزران کر انعام پایا۔ واہ آغا سہراب ! اسی منہ سے کہو گے۔ فدایت شوم یا مولیٰ۔ بابی انت و امی یا مولیٰ۔ میرے دوستو ایسے وقت پر خدا اور خدا کے پیاروں کا پاس رہے۔ تو بات ہے ۔ نہیں تو یہ باتیں ہی باتیں ہیں۔ حسین خان کا حال میں نے الگ لکھا ہے۔ اس بہار جاں نثار نے اس حملے میں اپنی جان کو جان نہیں سمجھا۔ اور ایسا کچھ کیا ۔ کہ بادشاہ دیکھ کر خوش ہو گیا۔ تحسین و آفرین کے طرے اسکے سر پر لٹکائے۔ خاصے کی تلواروں میں ایک تلوار تھی کہ اکبر نے اس کے گھاٹ اور کاٹ کے ساتھ مبارکی اور دشمن کشی دیکھ کر ہلا کی خطاب دیا تھا۔ اس وقت وہی ہاتھ میں علم تھی۔ وہی انعام فرما کر جان نثار کا دل بڑھایا۔ تھوڑا دن باقی رہ گیا تھا۔ اوربادشاہ اختیار الملک کی طرف سے خاطر جمع کر کے آگے بڑھا چاہتے تھے۔ کہ ایک اور فوج نمودار ہوئی۔ فتح یاب پساہ پھر سنبھلی اور قریب تھا باگیں اٹھا کر جا پڑیں کہ شیخ محمدؐ غزنوں (مرزا عزیز کو کہ کے بڑے چچا) فوج مذکور میں سے گھوڑا مار کر آگے آئے اور عرض کی کہ مرزا کو کہ حاضر ہوتا ہے۔ سب کی خاطر جمع ہوئی۔ بادشاہ خوش ہوئے۔ اتنے میں وہ بھی صحیح و سلامت آن پہنچے۔ اکبر نے گلے لگایا۔ ساتھیوں کے سلام لئے۔ قلعے میں گئے۔ میدان جنگ میں کلہ منار بنوانے کا حکم دیا۔ اور دو دن کے بعد دارا لخلافہ کو روانہ ہوئے۔ پاس پہنچے تو جو لوگ رکاب میں تھے۔ سب کو دیکھنی دردی سے سجایا۔ وہی چھوٹی چھوٹی برچھیاں ہاتھوں میں دیں۔ اور خود بھی اسی وردی کے ساتھ انکے کمان افسر ہو کر شہر میں داخل ہوئے۔ امرا وشر فادبزرگان شہر نکل کر استقبال کو آئے۔ فیضی نے غزل سنائی ؎ نسیم خوش دلی از فتخ پور مے آید کہ بادشاہ نمن ازراہ دور مے آید یہ مبارک مہم اول سے آخر تک خوشی کے ساتھ ختم ہوئی۔ البتہ ایک غم نے اکبر کو رنج دیا۔ اور سخت رنج دیا۔ وہ یہ کہ سیف خاں اس کا جاں نثار اور وفا دار کو کہ پہلے ہی حملے میں منہ پر دو زخم کھا کر سرخ رودنیا سے گیا۔ سر نال کا میدان جہاں سے فساد اٹھا تھا۔ اس میں وہ نہ پہنچ سکا تھا۔ اس ندامت میں اپنی موت کی دعا مانگا کرتا تھا۔ جب یہ دھاوا ہوا تو اسی نشے کے جوش میں خاص حسین مرزا اور اس کے ساتھیوں پر اکیلا جا پڑا۔ اور جاں نثاری کا حق ادا کر دیا۔ وہ کہا کرتا تھااور سچ کہتا تھا کہ مجھے حضور نے جان دی ہے۔ عجیب اتفاق اس کی ماں کے ہاں کئی دفعہ برابر بیٹیاں ہی ہوئیں۔ کابل کے مقام میں پھر حاملہ ہوئی۔ باپ نے اس کی ماں کو بہت دھمکایا۔ اور کہا۔ اب کے بیٹی ہوئی۔ تو تجھے چھوڑ دوں گا جب ولادت کے دن نزدیک ہوئے۔ تو بے بس بی بی مریم مکانی کے پاس آئی۔ حال بیان کیا۔ اور کہا کہ کیا کروں۔ اسقاط حمل کر دونگی۔ سبلا سے گھر سے بے گھر تو نہ ہوں۔ جب وہ رخصت ہو کر چلی تو اکبر رستے میں کھیلتا ہوا ملا۔ اگرچہ بچہ تھا۔ مگر اس نے بھی پوچھا۔ کہ جی جی کیا ہے ؟ افسر دہ معلوم ہوتی ہو۔ اس بچاری کا سینہ درد سے بھرا ہوا تھا۔ اس سے بھی کہہ دیا۔ اکبر نے کہا ۔ میری خاطر عزیز ہے۔ تو ایسا ہرگز نہ کرنا ۔ اور دیکھنا ! بیٹا ہی ہو گا۔ خدا کی قدرت سیف خاں پیدا ہوا۔ اس کے بعد زین خاں پیدا ہوا۔ مرتے وقت ۔ اجمیری اجمیری اس کی زبان سے نکلا۔ شاید خواجہ اجمیر کا نام درد زبان تھا۔ یا اکبر کو پکارتا تھا۔ کہ کمال عقیدت کے سبب سے اس درگاہ کے سات اسے نسبت خاص ہو گئی تھی ۔ حسین خان نے عرض کی ۔ کہ میں اس کے گرنے کی خبر سنتے ہی گھوڑا مار کر پہنچا تھا۔ اس وقت تک حواس قائم تھے۔ میں نے فتح کی مبارک باد دے کر کہا کہ تم تو سر خرو چلتے ہو دیکھیں ہم بھی تمہارے ساتھ ہی آتے ہیں یا پیچھے رہنا پڑے۔ عجیب تر یہ کہ لڑائی سے ایک دن پہلے اکبر چلتے اتر پڑا اور سب کو لے کر دستر خوان پر بیٹھا۔ ایک ہزارہ بھی اس سواری میں ساتھ تھا۔ معلوم ہوا کہ شانہ بینی کے فن میں باہر ہے۔ (قوم مذکور میں شانہ بینی کی فال سے حال معلوم کرنا ورثہ قدیم ہے کہ اب تک چلا آتا ہے) اکبر نے پوچھا ۔ ملا فتح ازکیست ؟ کہا قربانت شوم ۔ ازماست ۔ مگرامیرے ازیں لشکر بلا گردان حضور مے شور۔ پیچھے معلوم ہوا کہ سیف خاں ہی تھا۔ دیکھو تو زک جہانگیری صفحہ 20 لوگ کہیں گے۔ کہ آزاد نے دربار اکبری لکھنے کا وعدہ کیا۔ اور شاہنامہ لکھنے لگا۔ تو اب ایسی باتیں لکھتا ہوں کہ جن سے شہنشاہ موصوف کے مذہب ۔ اخلاق ۔عادت اور سلطنت کے دستور و آداب ۔ اور اس کے عہد کے رسم و رواج اور کاروبار کے آئین آئینہ ہوں۔ خدا کرے کہ دوستوں کو پسند آئیں۔ اکبر کے دین و اعتقاد کی ابتدا و انتہا اس طرح کی فتوحات سے کہ جن پر کبھی سکندر کا اقبال اور کبھی رستم کی دلاور ی قربان ہو۔ ہندوستان کے دل پر ملک گیری کا سکہ بٹھا دیا۔ اٹھارہ بیس برت تک اس کا یہ حال تھا کہ جس طرح سیدھے سادھے مسلمان خوش اعتقاد ہوتے ہیں ۔ اسی طرح احکام شرع کو ادب کے کانوں سے سنتا تھا۔ اور صدق دل سے بجا لاتا تھا۔ جماعت سے نماز پڑھتا تھا۔ آپ اذان کہتا تھا۔ مسجد میں اپنے ہاتھ سے جھاڑو دیتا تھا۔ علما وفضلا کی نہایت تعظیم کرتا تھا۔ ان کے گھر جاتا تھا۔ بعض کے سامنے کبھی کبھی جوتیاں سیدھی کر کے رکھ دیتا تھا۔ مقدمات سلطنت شریعت کے فتوے سے فیصلہ ہوتے تھے۔ جابجا قاضی و مفتی مقرر تھے۔ فقرا ومشائخ کے ساتھ کمال اعتقاد سے پیش آتا تھا۔ اور ان کے برکت انفاس سے اپنے کاروبار میں فیض حاصل کرتا تھا۔ اجمیر میں جہاں خواجہ معین الدین چشتی کی درگاہ ہے۔ سال بہ سال جاتا تھا۔ کوئی مہم یا مراد ہو۔ یا اتفاقاً پاس سے گزر ہو۔ تو برس کے بیچ میں بھی زیارت کرتا تھا۔ ایک منزل سے پیادہ ہوتا تھا۔ بعض منتیں ایسی بھی ہوئیں کہ فتح پور یا آگرے سے اجمیر تک پیادہ گیا۔ وہاں جا کر درگاہ میں طواف کرتا تھا۔ ہزاروں لاکھوں روپے کے چڑھا دے اور نذرمیں چڑھاتا تھا۔ پہروں صدق دل سے مراقبے میں بیٹھتا تھا۔ اور دل کی مرادیں مانگتا تھا ۔ فقرا اور اہل طریقت کے حلقے میں شامل ہوتا تھا۔ ان کی وعظ و نصیحت کی تقریریں گوش یقین سے سنتا تھا۔ قال اللہ و قال الرسول میں وقت گزارتا تھا۔ معرفت کی باتیں ۔ علمی تذکرے۔ حکمی اور الہٰی مسئلے اور دینی تحقیقاتیں ہوتی تھیں۔ مشائخ وعلماء فقراو غربا کو نقد ۔ جنس ۔ زمنیں ، جاگیرین دیتا تھا۔ جس وقت قوال معرفت کے نغمے گاتے تھے۔ تو رویپ اور اشرافیاں مینہ کی طرح برستے تھے۔ اور ایک عالم ہوتا تھا۔ کہ دردویوار پر حیرت چھا جاتی تھی۔ یا ہادی یا معین کے اسم وہیں سے عنایت ہوتے تھے۔ یہ وظیفہ ہر وقت زبان پر تھا۔ اور ہر شخص کو یہی ہدایت تھی۔ اسے سمرن کہتا تھا۔ لڑائیوں میں جب دھاوا ہوتا ۔ ایک نعرہ مار کر کہتا۔ ہاں سمر ن بیند ازید ۔ آپ بھی اور ساری فوج ہندو مسلمان یا ہادی یا معین للکارتے ہوئے دوڑپڑتے۔ ادھر اٹھائیں۔ ادھر غنیم بھاگا۔ اور میدان صاف ۔ لڑائی فتح۔ علماو مشائخ کا طلوع اقبال اورقدرتی زوال اس 20برس کے عرصے میں جو برابر فتوحات خدا داد ہوئیں۔ اور عجیب عجیب طور سے ہوئیں تدبیریں تمام تقدیر کے مطابق پڑیں۔ اور جدھر ارادہ کیا۔ اقبال استقبال کو دوڑا کہ دیکھنے والے جیران رہ گئے۔ چھہ برس میں دور دور تک کے ملک زیر قلم ہو گئے۔ جس طرح سلطنت کا دائرہ پھیلا ۔ ایسا ہی اعتقاد بھی روز بروز زیادہ ہوتا گیا۔ پروردگار کی عظمت دل پر چھا گئی۔ ان نعمتوں کے شکرانے میں اور آئندہ فضل و کرم کی دعاؤں میں نیک نیت بادشاہ ہر وقت تو جہ اور حضور قلب سے درگاہ الہی میں رجوع رکھتا تھا۔ شیخ سلیم چشتی کے سبب سے اکثر فتح پور میں رہتا تھا۔ محلوں کے پہلو میں سب سے الگ پرانا سا حجرہ تھا۔ پاس ایک پتھر کی سل پڑی تھی ۔ تاروں کی چھاؤں اکیلا وہاں جا بیٹھتا ۔ نور وں کے تڑکے ۔ صبحوں کے سویرے ۔ رحمت کے وقت مراقبوں میں خرچ ہوتے تھے۔ عاجزی اور نیاز مندی کے ساتھ وظیفے پڑھتا ۔ اپنے خدا سے دعائیں مانگتا۔ اور نور سحر کے فیض دل پر لیتا۔ عام صحبت میں بھی اکثر خدا شناسی معرفت شریعت اور طریقت ہی کی باتیں ہوتی تھیں۔ رات کو علما و فضلا کے مجمع ہوتے تھے۔ اس میں بھی یہی باتیں ۔ اور حدیث تفسیر ۔ اس میں علمی مسائل کی تحقیقیں ۔ اسی میں مباحثے بھی ہو جاتے تھے۔ اس ذوق شوق نے یہاں تک جوش مارا کہ 982ھ میں شیخ سلیم چشتی کی نئی خانقاہ کے پاس ایک عظیم الشان عمارت تعمیر ہوئی۔ اور اس کا نام عبادت خانہ رکھا۔ یہ اصل میں وہی حجرہ تھا۔ جہاں شیخ عبداللہ نیازی سر ہندی کسی زمانے میں خلوت نشین تھے۔ اس کے چاروں طرف چار بڑے ایوان بنا کر بہت بڑھایا۔ ہر جمعہ کی نماز کے بعد نئی خانقاہ یعنی شیخ الاسلام (شیخ سلیم چشتی) کی خانقاہ سے آکر یہاں دربار خاص ہوتا تھا۔ مشائخ وقت ۔ علماوفضلا اور فقط چند مصاحب و مقرب درگاہ ہوتے ۔ درباریوں میں اور کسی کو اجازت نہ تھی۔ خدا شناسی اور حق پرستی کی ہدائتیں اور حکائتیں ہوتی تھیں۔ رات کو بھی جلسے ہوتے تھے۔ دل نہایت گداز اور سرتا پا فقر کی خاک راہ ہو گیا تھا ۔ مگر علما کی جماعت ایک عجیب الخلقت فرقہ ہے۔ مباحثوں کے جھگڑے تو پیچھے ہونگے۔ پہلے نشست ہی پر معرکے ہونے لگے۔ کہ وہ مجھ سے اوپر کیوں بیٹھے۔ اور میں اس سے نیچے کیوں بیٹھوں۔ اس لئے اس کا یہ آئیں باندھا کہ امرا جانب شرقی میں سادات جانب غربی ہیں۔ علما و حکما جنوبی میں ۔ اہل طریقت شمالی میں بیٹھیں۔ دنیا کے لوگ طرفہ معجون ہیں ۔ عمارت مذکور کے پاس ہی انوپ تلاؤ دولت سے لبریز تھا۔ لوگ آتے تھے۔ اور اس طرح روپے اشرفیاں لے جاتے تھے ۔ جیسے گھاٹ سے پانی ۔ ملا شیری شاعر اس پر بھی خوش نہ ہوئے ۔ 1 ؎ شیخ عبداللہ نیازی بھی پہلے شیخ سلیم چشتی کے مرید تھے۔ ان کا حال دیکھو تتمہ میں 2 ؎ انوپ تلاؤ ۔ دیکھو تتمہ۔ چنانچہ اس ہیئت مجموعی پر ایک نہایت غمگین قطعہ نظم کیا جس کا ایک شعر یاد ہے۔ دریں ایام دیدم جمع با اموال قار ونی عبادتہاے فرعونی عمارتہائے شدادی ہر ایوان میں شب جمعہ کو بادشاہ آپ آتا تھا۔ وہاں کے اہل جلسہ سے باتیں کرتا تھا۔ اور تحقیقات مطالبہ سے معلوم کے ذخیرے بھرتا تھا۔ آرائش وزیبائش ان ایوانوں کو اپنے ہاتھ سے سجاتی تھی۔ گلدستے رکھتی تھیں۔ عطر چھڑکتی تھی ۔ پھول برساتی تھی۔ خوشبوئیاں جلاتی تھی۔ سخاوت روپوں اور اشرفیوں کی تھیلیاں لئے حاضر تھی۔ کہ دو اور حساب نہ پوچھو۔ کیونکہ انہیں لوگوں کی اوٹ میں اہل حاجت بھی آن پہنچے تھے۔ گجرات کی لوٹ میں عمدہ عمدہ کتابیں اعتماد خاں گجراتی کے کتب خانے کی آئی تھیں۔ اور خزانہ عامرہ میں جمع تھیں۔ انکے نسخے بھی علما کو بٹتے تھے۔ جمال خاں تو رچی نے ایک دن عرض کی کہ فدوی آگرے میں ایک دن شیخ ضیاء الدین ولد شیخ محمد ؐ غوث گوالیاری کی خدمت میں گیا تھا۔ ایسی مفلسی غالب ہوئی ہے۔ کہ میرے لئے کئی سیرچنے بھنائے تھے۔ کچھ آپ کھائے۔ کچھ مجھے دیئے۔ باقی خاتقاہ میں فقرا اور مریدوں کے لئے بھیج دیئے۔ یہ سن کر بادشاہ کے دل پر درد پر اثر ہوا۔ انہیں بلا بھیجا۔ اور اسی عبادت خانے میں رہنے کو جگہ دی۔ ان کے اوصاف بھی ملا صاحب سے سن لو۔ (دیکھو تتمہ) افسوس یہ کہ مسجدوں کے بھوکوں کو جب تر نوالے ملے۔ اور حوصلے سے زیادہ عزتیں ہوئیں ۔ تو گردنوں کی رگیں سخت تن گئیں۔ آپس میں جھگڑنے لگے۔ اور غل ہو کر شور سے شر اٹھے۔ ہر شخص یہ چاہتا تھا کہ میں اپنی فضیلت کے ساتھ دوسرے کی جہالت دکھاؤں۔ دغا بازیاں ۔ ان کے دھوکے بازیاں اور جھگڑے بادشاہ کو ناگوار ہوئے۔ ناچار حکم دیا۔ کہ جو نامعقول بے محل بات کرے اسے اٹھا دو۔ ملا صاحب سے کہا۔ آج سے جس شخص کو دیکھو کہ نامعلوم بات کہتا ہے۔ ہم سے کہدو ہم مجلس سے اٹھا دینگے۔ آصف خاں برابر حاضر تھے۔ ملا صاحب نے چپکے چپکے ان سے کہا کہ اگر یہی بات ہے تو بہتوں کو اٹھنا پڑیگا۔ پوچھا یہ کیا کہتا ہے ؟ جو انہوں نے کہا تھا۔ اس نے کہدیا۔ سن کربڑے خوش ہوئے۔ بلکہ اور مصاحبوں سے بیان کیا ملانے اپنی جنگ و جدل میں جو خود نمائی کی بیرقیں ہلاتے تھے۔ ایک نمونہ اس کا یہ ہے۔ لطیفہ حاجی ابراہیم سر ہندی مباحثوں میں بڑے جھگڑا اور مغالطوں میں چھلا دے کا تماشا تھے۔ ایک دن چار ایوان کے جلسے میں مرزا مفلس سے کہا۔ کہ موسیٰ کیا صیغہ ہے ۔ اور اس کا ماخذ استقاق کیا ؟ مرزا علوم عقلی کے سرمائے میں بہت مال دار تھے۔ مگر اس جواب میں مفلس ہی نکلے۔ شہر میں چرچا ہو گیا ۔ کہ حاجی نے مرزا کو لا جواب کر دیا۔ اور حاجی ہی بڑے فاضل ہیں۔ جاننے والے جانتے تھے۔ کہ یہ بھی تاثیر زمانہ کا ایک شعبدہ ہے۔ یہ رباعی ملا صاحب نے فرمائی : ازبہر فساد و جنگ بعضے مردم کروند بکوے گمرہی خود راکم درمدر سہ ہر علم کہ آموختہ آند فی القبر یضرہم ولا ینفعھم 1 ؎ شیری دیکھو تتمہ 2 ؎ ملا عبدالقادر بدایونی مراد ہے 3 ؎ دیکھو تتمہ لطیفہ تحصیل فوائد پر نظر کر کے بادشاہ خوش اعتقاد دل سے چاہتا تھا کہ یہ جلسے گرم رہیں ۔ چنانچہ ان ہی دنوں میں قاضی زادہ لشکر سے کہا۔ کہ تم رات کو بحث میں نہیں آتے ؟ عرض کی حضور آؤں تو سہی لکین حاجی وہاں مجھ سے پوچھیں۔ عیسیٰ کیا صیغہ ہے۔ تو کیا جواب دوں۔ لطیفہ اس کا بہت پسند آیا۔ غرض اختلاف رائے اور خود نمائی کی برکت سے عجب عجب مخالفتیں ظاہر ہونے لگیں۔ اور ہر عالم کا یہ عالم تھا ۔ کہ جو میں کہوں دہی آیت وحدیث مانو۔ جو ذرا چون و چرا کرے اس کے نئے کفر سے ادھر کوئی ٹھکانا ہی نہیں۔ دلیلیں سب کے پاس آیتوں اور روایتوں سے موجود بلکہ علمائے سلف کے جو فتوے اپنے مفیصد مطلب ہوں۔ وہ بھی آیت و حدیث سے کم درجے میں نہ تھے۔ 983ھ میں مرزا سلیمان والی بد خشاں شاہ رخ اپنے پوتے کے ہاتھ سے بھاگ کر ادھر آئے۔ صاحب حال شخص تھے۔ مرید بھی کرتے تھے۔ اور معرفت میں خیالات بلند رکھتے تھے۔ یہی بھی عبادت خانے میں آتے تھے۔ مشائخ و علماء سے گفتگوئیں ہوتی تھیں۔ اور ذکر قال اللہ وقالیٰ الرسول سے برکت حاصل کرتے تھے۔ ملا صاحب دو برس پہلے داخل دربار ہوئے تھے۔ انہوں نے وہ کتابیں ساری پڑھیں تھیں۔ جنہیں لوگ بڑھ کر عالم و فاضل ہو جاتے ہیں۔ اور جو کچھ استادوں نے بتا دیا تھا۔ وہ حرف بہ حرف یاد تھا۔ لیکن اس میں بھی کچھ شک نہیں کہ اجتہاد کچھ اور شے ہے۔ وہ مرتبہ نہ حاصل تھا۔ مجتمہد کا یہی کام نہیں کہ آیت یا حدیث یا کسی فقہ کی کتاب کے معنے تبادے۔ کام اس کا یہ ہے۔ کہ جہاں صراحتہ آیت یا حدیث موجود نہیں یا کسی طرح کا احتمال ہے۔ یا آیتیں یا حدیثیں بظاہر معنوں میں مختلف ہیں۔ یہ وہاں ذہن سلیم کی ہدایت سے استنباط کر کے فتونے دے ۔ جہاں دشواری پیش آئے۔ وہاں مصالح وقت کو مد نظر رکھ کر حکم لگائے۔ آیت و حدیث عین مصالح خلق اللہ میں ۔ ان کے کاموں کو بند کرنے والی یان ان کو حد سے زیادہ تکلیف میں ڈالنے والی نہیں ہیں۔ واہ رے اکبر تیری قیافہ شناسی ۔ ملا صاحب کو دیکھتے ہی کہہ دیا۔ کہ حاجی ابراہیم کسی کو سانس نہیں لینے دیتا۔ یہ اس کا کلہ توڑ یگا۔ چنانچہ علم کا زور۔ طبیعت بے باک ۔ جوانی کی امنگ ۔ بادشاہ ود مدد کو پشت پر ۔ اور بڈھوں کا اقبال بڈھا ہو چکا تھا۔ یہ حاجی سے بڑھ کر شیخ صدر کو ٹکریں مارنے لگے۔ ان ہی دنوں میں شیخ ابو الفضل بھی ان پہنچے۔ اس فضیلت کی جھولی میں دلائل کی کیا کمی تھی۔ اور اس طبع خدا داد کے سامنے کسی کی حقیقت کیا تھی ۔ جس دلیل کو چاہا۔ چٹکی میں اڑا دیا۔ بڑی بات یہ تھی کہ شیخ اور شیخ کے باپ نے مخدوم اور صدر وغیرہ کے ہاتھ سے برسوں تک زخم اٹھائے تھے۔ جو عمروں میں بھرنے والے نہ تھے ۔ علما میں خلاف و اختلاف کے رستے تو کھل ہی گئے تھے۔ چند روز میں یہ نوبت ہو گئی ۔ کہ فرد عی مسائل تو درکنار رہے۔ اصول عقاید میں بھی کلام ہونے لگے۔ اور ہر بات پر طرۂ یہ کہ دلیل لاؤ۔۔۔ اور اس کی وجہ کیا۔ رفتہ رفتہ غیر مذہب کے عالم بھی جلسوں میں شامل ہونے لگے۔ اور خیالات یہ ہوئے۔ کہ مذہب میں تقلید کچھ نہیں ۔ ہر بات کو تحقیق کر کے اختیار کرنا چاہئے۔ حق یہ ہے کہ نیک نیت بادشاہ سے جو کچھ ظہور میں آیا۔ مجبوری سے تھا۔ 986ھ تک بھی ملا صاحب لکھتے ہیں۔ کہ رات کو اکثر اوقات عبادت خانے میں علماو مشائخ کی صحبت میں گزرتے تھے۔ خصوصاً جمعہ کی راتیں ۔ کہ رات بھر جاگتے تھے۔ اور مسائل دین کے اصول و فروع کی تحقیقیں کرتے تھے۔ اور علما کا یہ عالم تھا۔ کہ زبانوں کی تلواریں کھینچ کر پل پڑتے تھے کٹے مرتے تھے۔ اور آپس میں تکفیر و تضلیل کر کے ایک دوسرے کو فناہ کئے ڈالتے تھے۔ (ملا صاحب کہتے ہیں) شیخ صدر اور مخدوم الملک کا یہ حال تھا۔ کہ ایک کا ہاتھ اور ایک کا گریبان ۔ دونوں طرف کے روٹی توڑا اور سردے چٹ ملانوں نے دو طرفہ دھڑے باندھ رکھے تھے۔ گویا فرعونی دوہ تھا۔ سبطی وقبطی دونوں گروہ حاضر تھے۔ ایک عالم ایک کام کو حلال کہتا تھا۔ دوسرا اسی کو حرام ثابت کر دیتا تھا۔ بادشاہ انہیں اپنے عہد کا امام غزالی اور امام رازی سمجھے ہوئے تھا۔ جب انکا یہ حال دیکھا تو حیران رہ گئے۔ ابوالفضل و فیضی بھی آگئے تھے۔ اور ان کے بھی طرفدار دربار میں پیدا ہو گئے تھے۔ یہ ومبدم اکساتے تھے۔ اور بات بات میں ان کے بے اعتباری دکھاتے تھے۔ آخر علمائے اسلام ہی کے ہاتھوں یہ خواری ہوئی۔ کہ اسلام اوہر عام مذہب یکساں ہوگئے۔ اس میں علماو مشائخ سب سے بڑھ کر بد نام ہو ئے۔ پھر بھی بادشاہ اپنے دل سے حق مطلق کا طالب تھا۔ بلکہ ہر نقطے کی تحقیق اور ہرامر کی دریافت کا شوق رکھتا تھا۔ اس لئے ہر ایک مذہب کے عالموں کو جمع کرتا تھا۔ اور حالات دریافت کرتا تھا۔ بے علم انسان تھا۔ مگر سمجھ والا تھا۔ کسی مذہب کا دعویدار اسے اپنی طرف کھینچ بھی نہ سکتا تھا۔ وہبھی ان سب کی سنتا تھا۔ اور اپنی من سمجھوتی کرلیتا تھا۔ اس کے پاک اعتقاد اور نیک نیت میں فرق نہ آیا تھا۔ جب 984ھ میں داؤد افغان کا سرکٹ کر بنگالہ سے فساد کی جڑا کھڑگئی۔ تووہ شکرانے کے لئے اجمیر میں گیا ۔ عین عرس کے دن پہنچا۔ موجب اپنے معمول کے طواف کیا۔ زیارات کی ۔ فاتحہ پڑھی۔ دعائیں مانگیں۔ دیر تک حضور قلب سے مراقبے میں بیٹھا رہا۔ حج کے لئے فاقلہ جانے والا تھا۔ خرچ راہ میں ہزار ہا آدمیوں کو روپے اور سامان سفر دیا۔ اور حکم عام دیا کہ جو چاہے حج کو جائے۔ خرچ راہ خزانے سے دو ۔ سلطان خواجہ خاندان خواجگان میں سے ایک خواجہ باعظمت کو میر واج مقرر کیا۔ چھ لاکھ روپے نقد ۔ 12 ہزار خلعت اور ہزاروں روپے کے تحفے تحائف ۔ جو اہرشرفائے مکہ کے لئے دیئے۔ کہ وہاں کے مستحق لوگوں کو دینا۔ یہ بھی حکم دیا۔ کہ مکے میں عظیم الشان مکان بنوا دینا ۔ تاکہ حاجی مسافروں کو تکلیف نہ ہوا کرے جس وقت میرحاج قافلے کو لے کر روانہ ہوئے۔ تو اس تمنا میں کہ میں خانہ خدا میں حاضر نہیں ہو سکتا۔ بادشاہ نے خود وہی وضح بنائی جو حالت حج میں ہوتی ہے۔ بال قصر کئے۔ ایک چادر آدھی کا لنگ ۔ آدھی کا جھرمٹ ۔ ننگے سر ننگے پاؤں نہایت رجوع قلب اور عجز کے ساتھ حاضر ہوا۔ کچھ دور تک پیادہ پا ساتھ چلا۔ اور زبان سے اسی طرح کہتا جاتا تھا۔ لبیک لبیک لاشریک لک لبیک الخ (حاضر ہوا۔ میں حاضر ہوا اے واحدہ لاشریک میں حاضر ہوا) جس وقت بادشاہ نے یہ الفاظ اس حالت کے ساتھ کہے۔ عجب عالم ہوا خلق خدا کے دلوں کے آہ و نالے بلند ہوئے۔ قریب تھا کہ درختوں اور پتھروں سے بھی آواز آنے لگے۔ اس عالم میں سلطان خواجہ کا ہاتھ پکڑ کر شرعی الفاظ کہے جن کے معنے یہ تھے کہ حج اور زیارت کے لئے ہم نے اپنی طرف سے تمہیں وکیل کیا۔ شعبان 984ھ کو قافلہ روانہ ہوا۔ میر حاج چھ سال متواتر ان ہی ساسے جاتے رہے۔ البتہ یہ بات پھر نہ ہوئی۔ شیخ ابوالفضل لکھتے ہیں۔ کہ بعض بھولے بھالے عالموں کے ساتھ اکثر غرض پرستوں نے ساجھا کر کے بادشاہ کو سمجھایا۔ کہ حضور کو بذات خود ثواب حج حاصل کرنا چاہیے اور حضور بھی تیار ہو گئے ۔ لیکن جب حقیقت پرست دانشمندوں نے حج کی حقیقت اور اس کا راز اصلی بیان کیا تو اس ارادے سے باز رہے۔ اور بموجب بیان مذکورہ بالا کے میر حاج کے ساتھ قافلہ روانہ کیا۔ سلطان خواجہ مع تحائف شاہی اور اہل حج کے جہاز الہٰی میں بیٹھے کہ اکبر شاہی جہاز تھا۔ اور بیگمات جہاز سلیمی میں بیٹھیں کہ رومی سوداگروں کا تھا۔ 1 ؎ 24شعبان 984ھ کو یہ قافلہ روانہ ہوا۔ قطب الدین خان کو کلتاش اور راجہ بھگوتی داس۔ رانا کی مہم پر گئے ہوئے تھے۔ انہیں حکم ہوا کہ ہمراہ ہو کر کنارۂ دریائے شور تک پہنچا دو۔ دیکھو عالمگیر نامہ۔ جلوۂ قدرت علماو مشائخ کی بد اقبالی کے اصلی اسباب ایسے عالی حوصلہ شہنشاہ کے لئے یہ حرکتیں علما کی ایسی نہ تھیں۔ جن پر وہ اس قدر بیزار ہو جاتا ۔ اصل معاملہ ایک تفصیل پر منحصر ہے۔ جسے میں مختصر بیان کرتا ہوں۔ وہ یہ ہے کہ جب سلطنت کا پھیلا ؤ ایک طرف افغانستان سے لے کر گجرات دکن بلکہ سمندر کے کنارے تک پھیلا۔ دوسری طرف مشرق میں بنگالے سے آگے نکل گیا۔ ادھر بھکر اور حد قند ھار تک جا پہنچا۔ اور اٹھارہ بیس برس کی ملک گیری لیں اس کی دلاوری نے دلوں پر سکہ بٹھا دیا۔ آمد کے رستے بھی خرچ سے بہت زیادہ کھل گئے۔ اور خزانوں کے ٹھکانے نہ رہے۔ ایسے آئین بند بادشاہ کو اس کی قانون بندی بھی واجب تھی۔ اس لئے ادھر متوجہ ہوا۔ سلطنت کا انتظام اب تک اس طرح تھا ۔ کہ دیوانی فوجداری کل قاضیوں اور مفتیوں کے ہاتھ میں تھی۔ اور یہ اختیار انہیں شریعت اسلام نے دیئے ہوئے تھے۔ جن کی بات پر کوئی دم نہ مار سکتا تھا۔ امرا پر ملک تقسیم تھا۔ وہ باشی بیستی سے لے کر ہزار ی و پنجہزاری تک جو امیر منصب دار ہوتا تھا۔ اس کی فوج اور اخراجات کے لئے ملک ملتا تھا۔ باقی خالصہ بادشاہی کہلاتا تھا۔ اکبر کے اقبال کو اس موقع پر دو کام درپیش تھے۔ پہلے چند با اختیاروں سے جگہ خالی کرنی دوسرے کا رواں صاحب ایجاد اشخاص کا پیدا کرنا ۔ پہلاکام کہ ظاہر میں فقط اپنے نوکروں کا موقوف کر دینا ہے۔ آج آسان معلوم ہوتا ہے۔ لیکن اس وقت ایک کٹھن منزل تھا۔ کیونکہ قدامت نے ان کے قدم گاڑ دیئے تھے۔ جس کا اگلے وقتوں میں ہلانا بھی محال تھا۔ اگرچہ لیاقت ان کے لئے بالکل سفارش نہ کرتی تھی۔ لیکن رحم اور حق شناسی جو ہر وقت اکبر کے ناصح مخفی تھے۔ ان کے ہونٹ برابر ہلے جاتے تھے۔ مضمون سفارش یہی کہ ان کے باپ دادا تمہارے باپ دادا کی خدمت میں رہے۔ انہوں نے تمہاری خدمت کی ہے۔ یہ اب کسی کام کے نہیں رہے۔ اور اس گھر کے سوا ان کا کہیں ٹھکانا نہیں۔ افسوس یہ ہے کہ اس زمانے میں خاص و عام اپنے خیالات پر ایسے جمے ہوئے تھے۔ کہ ان کے نزدیک کسی پہلے دستور کا بد لنا (اگرچہ قلم کی تراش ہی کیوں نہ ہو) ایسا تھا۔ جیسے نماز روزہ کو بدل دیا۔ وہ لوگ اعتقاد کئے بیٹھے تھے۔ کہ جو کچھ بزرگوں سے چلاآتا ہے۔ عین آیت و حدیث ہے۔ اس میں یہ بھی کہنے کی حاجت نہ تھی ۔ کہ جس نے یہ قاعدہ باندھا وہ کون تھا۔ یہ بھی پوچھنا ضرور نہیں ۔ کہ مذہبی طور پر ہوا تھا۔ یا عام کا روبار کے طور پر ۔ ان کے دل پر نقش تھا۔ کہ جو کچھ ہمارے بزرگوں سے چلا آتا ہے۔ اس کی برکت ہزاروں منافع کا چشمہ اور بے شمار برائیوں کے لئے مبارک سپر ہے۔ جس میں ہماری عقل کام نہیں کر سکتی ۔ ایسے لوگوں سے یہ کب ممکن تھا کہ وہ موجودہ باتوں پر غور کریں۔ اور آگے عقل دوڑائیں۔ کہ کیا صورت ہو۔ جو حالت موجودہ سے زیادہ فائدہ مند اور باعث آسانی ہو۔ یہ لوگ یا علما تھے۔ کہ شریعت کے سلسلے میں کارروائی کر رہے تھے۔ یا عام اہلکار اور اہل عمل تھے۔ اکبر کے اقبال نے ان دونو مشکل کو آسان کر دیا۔ علما کی مشکل تو اس طرح آسان ہوئی کہ تم سن چکے ۔ یعنی خدا پرستی اور حق جوئی کے جوش نے اسے علمائے دیندار کی طرف دیاوہ متوہ کیا۔ اور یہ توجہ اس درجے کو پہنچی۔ کہ ان عام و اکرام اور قدر دانی ان کی حد سے گزر گئی ۔ حسد اس فرقے کا جوہر ذاتی ہے۔ ان میں جھگڑے اور فساد شروع ہوئے۔ لڑائی میں انکی چلتی تلوار کیا ہے ؟ تکفیر اور لعنت۔ اس کی بوچھاڑ ہونے لگی۔ آخر لڑتے لڑتے آپ ہی گر پڑے۔ آپ ہی بے اعتبار ہو گئے۔ صاحب تدبیر کو فکرو تر دد کی ضرورت ہی نہ ہوئ۔ی آزاد ۔ وقت کی حالت دیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ ان لوگوں کے ادبار کا موسم آگیا تھا۔ ثواب کی نظر سے ایک معاملہ پیش ہوتا تھا۔ عذاب نکل آتا تھا۔ مہم بنگالہ جو کئی برس جا ری رہی۔ تو معلوم ہوا کہ اکثر علما و مشائخ کے عیال فقرو فاقے سے تباہ ہیں۔ خدا ترس بادشاہ کو رحم آیا۔ حکم دیا کہ سب جمعہ کو جمع ہوں بعد نماز ہم آپ روپے بانٹیں گے ایک لاکھ مرد عورت کا انبرہ تھا۔ میدان چوگان بازی میں جمع ہوئے۔ فقرا کا ہجوم ۔ دلوں کی بے صبری ۔ احتیاج کی مجبوری ۔ کارواروں کی بے دردی یا بے پروائی۔ اسی بندے خدا کے پامال ہو کر جان سے گئے۔ اور خدا جانے کتنے پس کر نیم جاں ہوئے۔ مگر کمروں سے اشرفیوں کی ہمیانیاں نکلیں۔ بادشاہ رحم کا پتلا تھا۔ جلد ترس آجاتا تھا۔ نہایت افسوس کیا۔ مگر اشرفیوں کو کیا کرے۔ بد گمان اور بے قدر بھی ہو گیا۔ شیخ صدر کی مسند بھی الٹ چکی تھی۔ اور بہت کچھ پردے کھل گئے تھے۔ کئی دن کے بعد 987ھ میں نئے صدر کو حکم دیا۔ کہ مسجدوں کے اماموں اور شہروں کے مشائخ وغیرہ کے لئے جو صدر سابق نے جاگیریں دی تھیں۔ ہزاری سے پانصدی تک کو پرتال کرو۔ تحقیقات میں بہت سے جاگیر خوار تحقیف میں آئے۔ اور اس قربانی میں کسی کو یاد تو گویا گائے میں سے غدود ۔ باقی ہضم۔ مسجدیں ویران۔ مدد سے کھنڈر ۔ بزرگان واکابر اور روشناس مشاہیر شہروں میں ذلیل ہو گئے۔ جلا وطن میں ہوگئے۔ تباہ ہو گئے۔ جو رہے۔ بد نام کرنے والے۔ آرام کے بندے ۔ باپ دادا کی ہڈیاں بیچنے والے۔ جب محتاج ہوئے۔ تو دھنیوں جلا ہوں سے بدتر ہو گئے۔ اور انہی میں مل گئے۔ بلکہ ہندوستان میں کسی فرقے کی اولاد ایسی ذلیل نہ تھی۔ جیسے شرفائے مشائخ کی ۔ خدمتگاری وسائیسی بھی نہ ملتی تھی۔ کیونکہ وہ بھی نہ ہو سکتی تھی۔ 1 ؎ ملا صاحب لکھتے ہیں کہ یہ قاضی علمی بغدادی ۔ ملا حسین واعظم کے پوتے تھے۔ انہیں کار گزار دیکھ کر شیخ صدر کی چوٹ پر صدر نشین کیا تھا۔ یہ بھی دربار الہی ے اپنے حق کو پہنچ گئے تھے۔ 1000ھ میں کشمیر کے دیوان تھے۔ وہاں لمبے چوڑے حساب اور ہزاروں وقتیں پھیلا رکھی تھیں سپاہ و رعیت کا ناک میں دم تھا ۔ خنجر زمانہ نے کان کاٹے۔ اور کٹے ہوئے کان پر قلم رکھا۔ گدھے پر چڑھا کہ تشہیر کیا ۔ کہ عدم سفر میں بھی پیادہ نبھائیں ملا صاحب سفر عنایت کیا ؎ چونکہ قاضی علی بغدادی حسرتے یادگار باخود برو خامہ منشی قضا بنوشت سال تاریخ اور کہ موذی مرد ان لوگوں سے بد اعتقادی و بیزاری کا سبب ایک نہ تھا۔ بڑے بڑے پیچ تھے۔ ان میں سے کھلی بات بنگالے کی بغاوت تھی۔ کہ بزرگان مذکور کی برکت سے اس طرح پھیل پڑی۔ جیسے بن میں آگ لگی۔ سبب اس کا یہ ہوا۔ کہ بعض مشائخ معافی دار اور مسجدوں کے امام اپنی جاگیروں کے باب میں ناراض ہوئے۔ ان کے دماغ پشتوں سے بلند چلے آتے تھے۔ اور اسلام کی سند سے سلطنت کو اپنی جاگیر سمجھے بیٹھے تھے۔ مشائخ عظام اور ایمہ مساجد نے (انہیں آج تم ایسی کنگال حالت میں دیکھتے ہو۔ ان دنوں میں یہ لوگ بادشاہ کی حقیقت کیا سمجھتے تھے) وعظ کی مجلسوں میں ہدایت شروع کر دی کہ بادشاہ وقت کے ایمان میں فرق آگیا۔ اور اس کے عقائد درست نہیں ہیں اتفاق یہ کہ کئی امراے فرمانروا دربار کے بعض احکام سے ۔ اور اپنی تنخواہ لشکر ۔ اور ملک کے حساب کتاب وغیرہ میں ناراض تھے۔ انہیں بہانہ ہاتھ آیا۔ دینی اور دنیاوی فرقے متفق ہو گئے۔ علما اور قاضیہ اور مفتیوں میں سے بھی جو ہو سکا۔ اسے ملا لیا۔ چنانچہ ملا خمد یزدی قاضی القضاۃ جو نپور تھے۔ انہوں نے فتوے دیا کہ بادشاہ وقت بد مذہب ہو گیا۔ اس پر جہاں واجب ہے۔ جب یہ سندیں ہاتھ میں آئیں تو کئی جلیل القدر ۔ عمروں کے جاں نثار ۔ صاحب لشکر امیر ۔ بنگالہ اور شرق رویہ ملکوں میں باغی ہوگئے۔ اور جہاں جہاں تھے تلواریں کھینچ کر نکل پڑ۔ وفا دار امیر اپنی اپنی جگہ سے اٹھ کر اس آگ کے بجھانے کو دوڑے۔ بادشاہ نے آگرے سے خزانے اورفوجیں کمک پر بھیجیں مگر فساد روز بروز بڑھتا جاتا تھا۔ المہ مساجد اور خانقاہوں کے مشائخ کہتے تھے۔ کہ بادشاہ نے ہماری معاش میں ہاتھ ڈالا۔ خدا نے اس کے ملک میں ہاتھ ڈالا۔ اس پر آیتیں اور حدیثیں پڑھتے تھے۔ اور خوش ہوتے تھے۔ وہ اکبر بادشاہ تھا۔ اسے ایک ایک بات کی خبر پہنچتی تھی۔ اور ہر بات کا تدارک کرنا واجب تھا۔ ملا محمد یزدی اور معزالملک وغیرہ کو ایک بہانے سے بلا بھیجا۔ جب وزیر آباد (آگرے سے دس کوس) پہنچے ۔ تو حکم بھیجا۔ کہ ان دونوں کو الگ کر کے دریائے جمن کے رستے گوالیار پہنچا دو (مجرمان سلطنت کو جیلخانہ تھا) پیچھے حکم پہنچا۔ کہ فیصلہ کر دو پہلے داروں نے دونوں کو ایک ٹوٹی کشتی میں ڈالا۔ اور تھوڑی دور آگے جا کر چادر آب کا کفن دیا۔ اور گرداب کو گور میں دفن کر دیا۔ اور مشائخ ملاؤں کو بھی جن جن پر شبہ تھا۔ ایک ایک کر کے عدم کے تہ خانے میں بھیج دیا۔ بہتیروں کو نقل مکان کے ساتھ پورب سے پچھم ۔ اور دکھن سے اتر میں پھینک دیا۔ وہ جانتا تھا۔ کہ ان کا اثر بہت تیز و تند اور سخت پرزور ہے۔ چنانچہ اس بد اعتقادی کا چرچا مکے مدینے اور روم اور بخارا و سمر قند تک پہنچا۔ عبداللہ خاں اذبک نے رسم کتابت بند کر دی ۔ مدت کے بعد جو مراسلہ لکھا۔ تو اس میں صاف لکھ دیا۔ کہ تم نے اسلام چھوڑا۔ ہم نے تمہیں چھوڑا۔ اور ادھر کا اکبر کو بڑا بچاؤ رہتا تھا۔ کیونکہ اذبک کی بلانے دادا کو وہاں سے نکالا تھا۔ اور اب بھی اس کا کنارہ قندھار ۔ کابل اور بد خشاں سے لگا ہوا تھا۔ باوجود ان تدبیروں کے بغاوت مذکور کئی برس میں دبی۔ کروڑوں روپے کا نقصان ہوا۔ لاکھوں جانیں گئیں۔ ملک تباہ ہوئے۔ بہت سے قاضی ۔ مفتی علما و مشائخ عہدہ دار تھے۔ ان کی رشوت خواریوں اور فتنہ کاریوں نے ننگ کر دیا۔ یہ بھی خیال تھا کہ شائد ان میں صاحب معرفت اور اہل دل بلکہ کشف و کرامات والے لوگ ہوں۔ ملک کی مصلحت نے حکم دیا کہ جو صاحب سلسلہ مشائخ ہیں۔ سب حاضر ہوں۔ اب دل میں ان لوگوں کو وہ عظمت نہ رہی ۔ جو ابتدا میں تھی۔ چنانچہ ملازمت کے وقت نئے آئینوں کے بموجب انہیں بھی تسلیم و کورنش وغیرہ بجا لانی پڑی۔ پھر بھی ہر ایک کی جاگیرو وظیفہ کو خود دیکھتا تھا۔ خلوت و جلوت میں باتیں بھی کرتا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ شائد اس گروہ میں کوئی سوار نکلے اور اس سے کچھ خدا کا رستہ معلوم ہو۔ مگر افسوس کہ وہ بات کے قابل بھی نہ تھے۔ ان سے کیا معلوم ہوتا۔ خیر جو مناسب دیکھے جاگیر وظیفے دیئے۔ جسے سنتا کہ مرید کرتا ہے۔ حال و قال کا جلسہ جماتا ہے۔ اسے کہیں کا کہیں پھینک دیتا۔ ان لوگوں کا نام دکاں دار رکھا تھا۔ اور سچ رکھا تھا ع بد نام کنندہ نکونامے چند روز انہیں کی جاگیروں کے مقدمے پیش رہتے تھے۔ کیونکہ یہی لوگ معافی دار بھی تھے۔ انقلاب زمانہ دیکھو ! جتنے بڈھے سن رسیدہ مشائخ تھے (واجب الرحم و قابل ادب نظر آتے تھے) انہیں پر فتنہ و فساد کا خیال زیادہ ہوتا تھا۔ کیونکہ وہی زیادہ ان صفتوں سے موصوف ہوتے تھے۔ اور انہی پر لوگ گرویدہ ہوتے تھے۔ آخر حکم ہوا کہ صوفیہ و مشائخ کے فرمانوں کی پرتال ہندو دیوان کریں۔ کہ رعایت منہ کریں گے۔ پرانے پرانے خاندانی مشائخ جلا وطن کئے گئے۔ گھروں میں چھپ رہے۔ گمنامہ ہو بیٹھے ۔ بدحالی نے حال و قال سب بھلا دیئے۔ ؎ چناں قحط سالے شد اندر دمشق کہ یاراں فراموش کردند عشق اے خدا تیری شان ۔ چوں آیم برسرقہر ۔ نہ خویش گزارم نہ بیگانہ ۔ سوکھوں کے ساتھ گیلے بروں کے ساتھ اچھے سب جل گئے۔ علمائے با اختیار میں کہ اراکین دربار تھے۔ بعض اشخاص فی الحقیقت صاحب دل اور کریم النفس تھے۔ مثلا میر سید محمد میر عدل کو خالص اسلام کے باخبر عالم تھے۔ اور عالم بھی باعمل تھے۔ علوم دینیہ کی سب کتابیں پڑھے تھے۔ مگر جتنے الفاظ کتاب میں لکھے تھے۔ ان سے بال بھر سرکنا کفر سمجھتے تھے۔ خاص سے لے کر عام تک سب ان کا ادب کرتے تھے۔ اور اکبر خود بھی لحاظ کرتا تھا۔ سلطنت کی مصلحتوں پر نظر کر کے انہیں دربار سے ٹالا۔ اور بھکر کا حاکم کر کے بھیج دیا۔ اور شیخ صدر کے حال میں نے علیحدہ لکھے ہیں۔ تم پڑھوں گے تو معلوم کرو گے۔ مخدوم نے کئی بادشاہوں کے دور اس طرح بسر کئے تھے۔ کہ شریعت کے پردے میں دربار کے ایوان ۔ امیروں کے دیوان بلکہ رعایا کے گھر گھر پر دھوآں دھار چھائے ہوئے تھے۔ شاہان بااقبال ان کا منہ دیکھتے رہتے تھے۔ اور انہیں اپنے ساتھ موافق رکھنا مصالح ملکی کا جز سمجھتے تھے۔ ان کے آگے یہ لڑکا بادشاہ کیا مال تھا۔ اللہ اللہ لڑکوں کے ہاتھوں بڑھاپے کی مٹی خراب ہوئی (ابو الفضل و فیضی کون تھے۔ ان کے آگے کے لڑکے ہی تھے ) شیخ صدر کے اختیار اگرچہ بادشاہ نے خود بڑھائے تھے۔ مگر ان کی کہن سالی اور جلالت خاندانی نے (کہ امام صاحب کی اولاد میں تھے) لوگوں میں دلوں میں بڑا اثر دوڑایا تھا۔ اور ابتدا میں انہی اوصاف کی سفارشوں نے دربار اکبری میں لا کر اس رتبہ عالی تک پہنچایا تھا۔ کہ ہندوستان میں ان سے پہلے یا پیچھے کسی کو نصیب نہ ہوا۔ علمائے عصران کے بچے عچے تھے۔ کہ قاضی و مفتی بن کر ملک ملک میں امیر و غریب کی گردن پر سوار تھے۔ شاید باتدبیر نے ان دونوں کو مکے بھیج کر داخل ثواب کیا۔ اور بہتیرے علما تھے۔ انہیں ادھر ادھر ٹال دیا۔ جو کچھ کیا مصلحت کی مجبوری سے کیا عہد قدیم میں ہر سلطنت کو شریعت کے ساتھ ذاتی پیوند رہا ہے۔ اول اول سلطنت شریعت کے زور سے کھڑی ہوئی ۔ پھر شریعت اس کے سائے میں بڑھتی گئی۔ مگر اس دربار کا رنگ کچھ اور ہونے لگا اول تو سلطنت کی جڑ مضبوط ہو کر دور تک پہنچ گئی تھی۔ دوسرے بادشاہ سمجھ گیا تھا۔ کہ ہندوستان میں ۔ اور توران و ایران کی حالت میں مشرق مغرب کا فرق ہے۔ وہاں بادشاہ اور رعایا کا ایک مذہب ہے۔ اس لئے جو کچھ علمائے دین حکم دیں۔ اسی پر سب کو ایمان لانا واجب ہوتا ہے۔ خواہ کسی کی ذات خاص یا ملکی امورات کے مواقف ہو۔ خواہ خالف ۔ برخلاف اس کے ہندوستان ہندوؤں کا گھر ہے۔ ان کا مذہب ۔ اور رسم و رواج اورمعاملات کا جداطور ہے۔ ملک گیری کے وقت جو باتیں ہوجائیں۔ وہ ہو جائیں۔ جب ملک داری منظور ہو۔ اور اس ملک میں رہنا ہو تو چاہئے۔ کہ جو کچھ کریں نہایت سوچ سمجھ کر اور اہل ملک کے مقاصد و اغراض کو مد نظر رکھ کر کریں۔ تم جانتے ہو کہ صاحب عزم بادشاہ کے لئے جس طرح ملک گیری کی تلوار میدان صاف کرتی ہے۔ اسی طرح ملک داری کا قلم تلوار کے کھیت کو سبز کرتا ہے۔ اب وہ وقت تھا کہ تلوار بہت سا کام کر چکی تھی۔ اورقلم کی عرق ریزی کا وقت آیا تھا۔ علما نے شریعت کے اسناد سے خدائی زور پھیلا رکھے تھے۔ کہ نہ ان کو کوئی دل برداشت کر سکتا تھا۔ نہ ملک کی مصلحت اس بنیاد پر بلند ہو سکتی تھی۔ بعض امر ا بھی اکبر کی رائے سے متفق تھے۔ کیونکہ جانیں لڑا کر ملک لینا انہیں کا کام تھا۔ اور پھر ملک داری کر کے حکومت جمانا بھی انہیں کا ذمہ تھا۔ وہ اپنے کام کی مصلحتوں کو خوب سمجھتے تھے۔ قاضی و مفتی انکے سر پر حاکم شرع تھے۔ بعض مقدموں میں لالچ سے بعض جگہ حماقت سے ۔ کہیں بے خبری۔ کہیں بے پروائی سے کہیں اپنے فتو ے کا زور دکھانے کو امرا کیساتھ اختلاف کرتے تھے۔ اور انہیں کی پیش جاتی تھی۔ اس صورت میں امرا کو ان سے تنگ ہونا واجب تھا۔ دربار میں اب ایسے عالم بھی آگئے تھے ۔ کہ قرابادین قدرت کے عجائب نسخے تھے۔ خوشامد اور حصول انعام کے لالچ نے انہیں ایسے ایسے مسائل بتا دیئے تھے۔ کہ بادشاہوں کے شوق مصلحت سے بھی بہت آگے نکل گئے تھے۔ اور نئی اصلاح و انتظام کے لئے رستہ کھلا۔ ابو الفضل وفیضی کا ناحق نام بد نام ہے کر گئے۔ داڑھی والے پکڑے گئے مونچھوں والے۔ غازی خان بد خشی نے کہا ۔ کہ بادشاہ کو سجدہ جائز ہے۔ علما نے کان کھڑے کیے۔ غل مچایا۔ گفتگو کے سلسلے پھیل کر الجھے۔ معترض ملانوں کے جوش نہ دم لیتے تھے۔ نہ لینے دیتے تھے۔ جواز کے طرف دار بڑی ملائمت سے نہیں روکتے اور اپنی بنیاد جمائے جاتے تھے۔ کہتے تھے کہ عہد سلف پر نظر کرو۔ امت ہائے قدیمہ کو دیکھو۔ وہ عموماً اپنے بزرگوں کے سامنے تحفہ عجز و نیاز سمجھ کر ادب سے پیشانی زمین پر رکھتے تھے۔ ملائک کا سجدہ حضرت آدم کو کیسا تھا ؟ ج ظاہر کہ تعظیمی ۔ باپ اور بھائیوں کا سجدہ حضرت یوسف کو کیوں تھا۔ ج تحفہ ادب پیش کیا تھا۔ نہ کہ پر سقش بندگی ۔ بس وہی سجدہ یہ ہے۔ پھر انکار کیوں ؟ اور تکرار کیا ؟ لطیفہ طرہ اس پر یہ ہے۔ کہ ملا عالم کا بلی ہمیشہ افسوس کیا کرتے تھے۔ کہ ہائے مجھے یہ نکتہ نہ سوجھا۔ حریف بازی لے گیا۔ لطیفہ حاجی ابراہیم سرہندی کے زعفرانی اور لال کپڑوں پر جو دھبہ لگا۔ دیکھو میر سید محمد میر عدل کے حال میں ۔ لطیفہ بادشاہ نے کہا کہ مہر کا سجمع اللہ اکبر کہیں تو کیسا ہو۔ باوجود اوصاف مذکورہ کے حاجی صاحب بولے۔ اس میں شبہ پڑتا ہے۔ اس لئے دلذکر اللہ اکبر ہو تو بہتر ہے۔ بادشاہ نے کہا کہ یہ شبہ نہیں وہم و وسوسہ ہے۔ بندہ ضعیف ۔ محتاج ۔ عاجز ۔ خدائی کا دعوے کیونکر کر سکتا ہے۔ ایک شاعرانہ مناسبت ہے۔ اس مطلب کو ادھر لے جانا کیا ضرور تھا۔ سب طرف سے اس کی تائید ہوئی۔ اور یہی لکھا گیا۔ غرض نوبت یہ ہوئی۔ کہ شریعت کے اکثر فتوے تجویزت ملکی سے ٹکرانے لگے۔ علما تو ہمیشہ سے زوروں پر چڑھے چلے آتے تھے۔ وہ اڑنے لگے۔ اورب ادشاہ بلکہ امرا بھی تنگ ہوئے۔ شیخ مبارک نے دربار میں کوئی منصب نہ لیا تھا۔ مگر برس میں ایک دو دفعہ کسی مبارک باد یا کچھ اور تقریب سے اکبر کے پاس آیا کرتے تھے۔ ان کی تعریف میں اول تو اتنا ہی کہنا کافی ہے۔ کہ ابوالفضل و فیضی کیب اپ تھے۔ اور جو فضل و کمال بیٹوں کو بہم پہنچا۔ اسی مبارک باپ کی کرامات تھی۔ وہ جیسا علم و فضل میں ہمہ داں عالم تھا۔ ویسا ہی عقل و دانش کاپتلا تھا۔ اس نے کئی سلطنتیں دیکھی تھیں۔ اور سوبرس کی عمرپ ائی۔ مگر دربار یا اہل دربار سے تعلق ہی نہ پیدا کیا۔ علمائے عہد درباروں اور سرکاروں میں دوڑتے پھرتے تھے۔ وہ اپنے گھر کے گوشہ میں علم کی دوربین لگائے بیٹھا تھا۔ اور ان شطرنج بازوں کی چالوں کو دور سے دیکھ رہا تھا ۔ کہ کہاں بڑھتے ہیں۔ اور کہا چوکتے ہیں۔ اور بے غرض دیکھنے والا تھا۔ اس لئے چالیں اسے خوب سوجھتی تھیں۔ اس نے ان لوگوں کو تیر ستم بھی اتنے کھائے تھے کہ دل چھلنی ہو رہا تھا۔ شیخ مبارک کی تجویز سے یہ صلاح ٹھیری ۔ کہ چند عالموں کو شامل کر کے آیتوں اور روایتوں کی اسناد سے ایک تحریر لکھی جائے۔ خلاصہ جس کا یہ کہ امام عادل کو جائز ہے۔ کہ اختلافی مسئلے میں اپنی رائے کے موجب وہ جانب اختیار کرے۔ جو اس کے نزدیک مناسب وقت ہو ۔ اور اس کی تجویز کو علماء و مجتمہدین کی رائے پر ترجیح ہو سکتی ہے۔ مسودہ شیخ مبارک نے کیا۔ قاضی جلال الدین ملتانی ۔ صدر جہاں مفتی کل ممالک ہندوستان خود شیخ موصوف ۔ غازی خاں بد خشی نے اول دستخط کئے۔ پھر اگرچہ مطلب تو جن سے تھا۔ انہیں سے تھا۔ مگر علما ۔ فضلا ۔ قضی ۔ ومفتی اور بڑے بڑے عمامہ بند جن کے فتوؤں کو لوگوں کے دلوں میں گہری تاثیریں تھیں۔ سب بلائے گئے اور مہریں ہوگئیں۔ اور 997ھ میں علما کی مہم عظیم فتح ہوئی۔ اس محضر کے بنتے ہی علمائے دولت پر ست کے گھروں میں ماتم پڑ گئے۔ مسجدوں میں بیٹھے تھے۔ تسبیحیں ہاتھ میں منہ سے نکلتا تھا۔ کہ بادشاہ کافر ہو گیااور حق بجانب تھا۔ کہ سلطنت ہاتھ سے نکل گئیں۔ اگلے وقتوں میں ایک حکمت عملی تھی کہ جن لوگوں کا کچھ لحاظ ہوتا تھا۔ اور ملک میں رکھنا مصلحت نہ ہوتا تھا۔ انہیں مکہ کو بھیج دیتے تھے۔ چنانچہ شیخ و مخدوم کو بھی ہدایت ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ ہم پر حج و اجب نہیں ۔ ہمارے پاس پیسہ کہاں ؟ غرض ریل دھکیل کر دونو کو روانہ کر ہی دیا۔ دیکھو دونو صاحبوں کے حال ۔ امام عادل کے لفظ پر بادشاہ کا خیال ہوا کہ خلفائے راشدین اور اکثر سلاطین بلکہ امیر تیمور اور مرزا الغ بیگ گورگاں بھی برسر منبر جمعہ و جماعت میں خطبہ پڑھا کرتے تھے۔ ہمیں بھی پڑھنا چاہیے ۔ چنانچہ مسجد فتح پور میں جو جمعہ کے دن جذماعت ہوئی۔ تو بادشاہ منبر پر گئے۔ لیکن عجب اتفاق ہوا کہ تھر تھر کا نپنے لگے۔ اور زبان سے کچھ نہ نکلا۔ آخر شیخ فیضی کے 3 شعر پڑھ کر اتر آئے۔ سوبھی اور کوئی برابر سے بتاتا گیا : ۔ خداوندے کہ مارا خسروی داد دل دانا ؤ باز وے قوی داد بعدل و داد مارا رہنموں کرد بجز عدل از خیال مابروں کرد بودو صفش زحر فہم برتر تعالیٰ شانہ ، اللہ اکبر دوسرا کام اہل عمل میں بھی دیوان اور منشی بڑے بڑے کار گزار امیر تھے۔ ان پرانے پاپیوں نے بادشاہی دفتر کو اختیار کے بستوں میں باندھ رکھا تھا۔ ا ن کی دفتر ی لیاقت ۔ پرانی و اقفیت اور حساب کتاب کی مہارت کسی کو خاطر میں نہ لاتی تھی۔ اور بادشاہ سمجھتا تھا کہ میں بے علم ہوں۔ اس مہم کو بھی اسکے اقبال نے بڑے اسلوب سے سر انجام کیا۔ کوئی مرگ یا۔ کسی کو گرد ش ایام نے پیچ میں ڈال کر مارا۔ ان کی جگہ با لیاقت ۔ باکمال صاحب ایجاد لوگوں کو گھر کے گوشوں سے نکال کر ۔ دور دور کے تنکوں سے کھینچ کر دربار میں حاضر کر دیا۔ ٹوڈر مل ۔ فیضی ۔ حکیم ابو الفتح ۔ حکیم ہمام ۔ میر فتح اللہ شیرازی نظا الدین بخشی و غیرہ اشخاص تھے۔ ان میں ایک ایک شخص ہر فنی تھا۔ اور جس فن میں دیکھو بجائے خود ایسی دستگار رکھتا تھا۔ کہ گویا یک فنی تھا۔ یہ لوگ اس وقت کے ارسطو و افلاطوں تھے۔ اگر اظہار فن کے موقع پاتے تو خا جانے کیا کیا کچھ لکھ جاتے۔ مگر وقت نہ پایا۔ دفتر کی ترتیب اور حساب کتاب کا انتظام ان کے رتبہ کمال کے لئے کمینہ کام تھا۔ دفتر مال اور اسکے حساب کتاب میں بھی ایسے تھے۔ کہ ایک ایک شخص کا نام گوشہ کا غذ میں موتی ہو کر ٹکے۔ مگر ٹوڈر مل اسی کام میں تھا۔ اس لئے پہلے اس کا نام لینا واجب ہے۔ 1 ؎ دیکھو خواجہ شاہ منصور ۔ خواجہ امنا مظفر خاں وغیرہ کے حال تتمہ میں ۔ اس وقت تک دفتر شاہی کہیں ہندی میں تھا۔ کہیں فارسی میں ۔ کہیں مہاجنی بہی کھاتہ ۔ کہیں ایرانی ترتیب۔ اس میں بھی پرزے پرزے کاغذ کے بے حساب تھے۔ سر رشتہ و انتظام نہ تھا۔ یہ مجسم عقلیں مل کر بیٹھیں ۔ کمیٹیاں کیں۔ گفتگو ئیں ہوئیں۔ مال دیوانی ۔ فوجداری وغیرہ وغیرہ کے الگ الگ سرشتے باندھے اور ہر ایک کو اصول و ضوابط کے رشتوں سے کس دیا کہ کل قلمر و اکبری میں ایک آئین اکبری جاری ہو۔ ہر بات میں جزوی جزوی نکتوں پر نظر کی گئی ۔ جس کا پہلا نقطہ یہ تھا ۔ کہ کل دفتروں میں ایک سنہ پر حساب کی بنیاد ہو۔ اوراسی کا نام سنہ فصلی ہو۔ ملا صاحب نے اس بات پر بڑی دادوبے داد کی ہے اور اسے بھی انہی فریاد وں میں داخل کیا ہے جن سے اکبر کے دل میں تنفر یا عداوت اسلام ثابت کرتے ہیں۔ لیکن معاملے کی اصلیت اس فرمان کے مطالعے سے کھلتی ہے جو اس باب میں جاری ہوا۔ فرمان مذکور سے یہ بھی آئینہ ہوتا ہے کہ معاملات سلطنت میں کیا کیا مشکلیں سد راہ تھیں۔ جس کے لئے بادشاہ ملک پرور کو یہ قانون باندھنا واجب ہوا تھا۔ میں بھی فضول فقروں کو چھوڑ کر ترجمہ لکھتا ہوں۔ مگر احتیاط رکھی ہے کہ جو مطلب کے فقرے ہیں ان کا مضمون نہ رہ جائے فرمان مذکور ابوالفضل کا لکھا ہوا تھا۔ دیکھو تتمہ ۔ بندوبست مالگزاری مالگزاری اور مالیات کا انتظام حقیقت میں ابھی تک تخمین پر تھا۔ جن دیہات کا جو رقبہ تھا۔ اور جو اسکی جمع تھی۔ وہی صد ہا سال سے بندھی چلی آتی تھیں ۔ بہتری باتیں منشیان دفتر کی زبان پر ہی تھیں۔ سلطنتوں کے انقلابوں نے انتظام کا موقع نہ آنے دیا تھا۔ دفتر مال میں بڑی خرابی یہ تھی کہ ایک امیر کو ملک دیتے تھے۔ اہل دفتر اسے 10 ہزار کا کہتے تھے۔ وہ حقیقت میں پندرہ ہزار کا ہوتا تھا۔ پھر بھی جسے دیتے تھے۔ وہ روتا تھا کہ 5 ہزار کا بھی نہیں۔ تجویز ہوئی کہ کل ممالک محروسہ کی پیمائش ہو جائے اور جمع تحقیقی قرار دی جائے۔ جریب رسی کی ہوتی تھی۔ اس سے تروخشک میں فرق ہو جاتا تھا۔ اس لئے بانس کے ٹوٹوں میں لوہے کے حلقے ڈال کر جریبیں تیار ہوئیں۔ رعایا کے فائدے کو مد نظر رکھ کر 50گز کی جگہ 60 گز کا طول قرار دیا۔ تمام اراضی خشک و ترمع اقسام زمین ریت کے میدان کوہستان بیابان جنگل شہر دریا نہر جھیل تلاو کواں وغیرہ وغیرہ سب کو ناپ ڈالا۔ اور کوئی چیز باقی نہ چھوڑی۔ ذرہ ذرا دفتر میں قلمبند کر لیا۔ یہ سمجھ لو کہ کاغذات مالگزاری میں جو جو تفصیلیں تم آج دیکھتے ہو۔ یہ اکبری عہد کی تحقیقیں ہیں کہ اب تک اسی طرح چلی آتی ہیں ۔ البتہ بعض اصلاحیں بھی ہوئی ہیں۔ اور ایسا ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے۔ بعد پیمائش کے جس قدر زمین کا محصول ایک کروڑ تنگہ ہو۔ وہ ایک معتبر آدمی کو دی گئی۔ اس کا نام کروری ہوا۔ اس پر کارکن فوطہ دار مقرر ہو ئے۔ وغیرہ وغیرہ۔ اقرار نامہ لکھا گیا کہ تین برس میں نامرزوعہ کو بھی مرزوعہ کردونگا۔ اور روپیہ خزانے میں داخل کردونگا۔وغیرہ وغیرہ ۔ بہت سے جزئیات س تحریر میں داخل تھے۔ سیکری گاؤں کو فتح پور شہر بنا کر مبارک سمجھا تھا۔ اور اس کی رونق اور آبادی وزیبائی اور اعزاز کا بڑا خیال تھا بلکہ چاہا تھام کہ یہ دارالخلافہ ہو جائے۔ اسی مرکز سے چاروں طرف پیمائش شروع ہوئی۔ پہلے موضع کا نام آوم پور۔ پھر شیث پور۔ ایوب پور وغیرہ وغیرہ ہو کر یہ ٹھیری کہ تمام موضع پیغمبروں کے نام پر ہو جائیں بنگ بہار ۔ گجرات دکن ۔ بدستور الگ رکھے گئے۔ اور اس وقت تک کا بول قندھار غزنیں ۔ کشمیر ۔ ٹھٹہ ۔ سواد بنیر ۔ بجور ۔ تیراہ ۔ بنگش ۔ سورٹھ ۔ اڑیسہ فتح نہ ہوئے تھے۔ باوجود اس کے 182عامل (کروری) مقرر ہوئے۔ جس طرح چاہا تھا اس طرح یہ کام نہ چلا کیونکہ لوگ اس میں اپنا نقصا ن سمجھتے تھے۔ معافی دار جانتے تھے کہ ہمارے پاس زمین زیادہ ہے۔ اور اس کی آمدنی بھی زیادہ ہے۔ پیمائش کے بعد جس قدر زیادتی ہو گی کترلینگے۔ جاگیر دار یعنی امرا کو بھی یہی خیال تھا۔ انسان کی طبیعت کو خدا نے ایسا بنایا ہے کہ وہ کسی پابندی کے نیچے آنا گوارا نہیں کرتا۔ اس لئے زمیندار بھی کچھ خوش تھے کچھ ناخوش ۔ اور ظاہر ہے کہ کوئی کام نہیں چل سکتا۔ جب تک کہ کل اشخاص جن جن کا قدم اسمیں ہے سب خوش اور یک دل ہو کر کوشش نہ کریں ۔ چہ جائیکہ نقصان سمجھ کر خارج ہوں افسوس یہ ہے کہ کروریوں نے آبادی پر اتنی کوشش نہ کی جتنی تحصیل پر ۔ کاشتکار ان کے ظلم سے برباد ہو گئے۔ بال بچوں کو بیچ ڈالا۔ خانہ ویران ہو گئے۔ بھاگ گئے۔ کروری بدنیت و بدعمل کہاں بچ سکتے تھے۔ 3 برس جو کھایا سو کھایا۔ پھر جو کھایا تھا۔ راجہ ٹوڈرمل کے شکنجے میں آکر اگلنا پڑا۔ غرض وہ فائدہ مند اور عمدہ بندوبست خلط ملط ہو کر سرمایہ نقصان ہو گیا اور جو مطلب تھا وہ حاصل نہ ہوا۔ شکریئے کی جگہ جا بجا شکائتیں اور گھر گھر میں اسی کا رونا پڑا۔ عاملوں کی ہجویں ۔ قواعد آئین کے مضحکے ہوئے۔ انہی میں سے جریب کے حق میں کسی مثنوی کا ایک شعر ہے ؎ در نظر عبرت مرد لبیب مار دو سر بہ کہ طناب جریب ملازمت اور نوکری شرفا کے گزارے کیلئے ان دنوں میں دورستے تھے ایک مد و معاش دوسرے نوکری۔ مدومعاش جاگیر تھی کہ علما و مشائخ اور ائمہ مساجد کیلئے ہوتی تھیں اس میں خدمت معاف تھی۔ نوکری میں خدمت بھی ہوتی تھی۔ یہ وہ باشی سے لیکرپنجہزاری تک جو ملاز م ہوتے تھے سب اہل سیف ہوتے تھے۔ وہ باشی کو 10 بیستی کو 20 وغیرہ وغیرہ سپاہی رکھنے ہوتے تھے۔ اسی طرح دو بیستی ۔ پنجہ باشی ۔ سہ بیستی چار بیستی ۔ یوز باشی وغیرہ وغیرہ پنجہزار ی تک تنخواہ کی صورت یہ کہ حساب کے بموجب اتنی زمین کا قطعہ یاد یہیہ یادیہات یا علاقہ یا ملک مل جاتا تھا۔ اس کے محاصل سے اپنے ذمہ واجب کی فوج رکھیں۔ اور اپنی حیثیت اور عزت امارت کو درست رکھیں۔ ایک بات اورس ن لو کہ یہاں اس زمانے میں اور ایشیائی ملکوں میں اب بھی یہی دستور ہے کہ جتنا کسی کا سامان اور خرچ و افر ۔ خصوصاً دستر خوان کا پھیلاؤ اور رفیقوں اور نوکروں کی جمعیت زیادہ ہوتی ہے۔ اتنا ہی وہ شخص با لیاقت عالی ہمت اور صاحب خانوادہ سمجھا جاتا ہے ۔ اور اتنا زیادہ اور جلد اس کا منصب بڑھاتے ہیں۔ ملازمان مذکور میں سے جس کو جیسی لیاقت دیکھتے تھے۔ ویسا کام اہل قلم میں بھی دیتے تھے۔ لڑائی کا موقع آتا تو جن جن کے نام تجویز میں آتے۔ کیا اہل سیف کیا اہل قلم ان کے نام حکم پہنچتے۔ وہ باشی سے لیکر صدی دو صدی تک وغیرہ وغیرہ ۔ کل منصب دار اپنے اپنے ذمے کی فوج ۔ پوشاک ہتیار اور سامان سے درست کرتے اور حاضر ہوتے۔ حکم ہوتا تو آپ بھی ساتھ ہوتے۔ نہیں تو اپنے آدمی لشکر میں شامل کر دیتے۔ بد نیت منصب داروں نے یہ طریقہ اختیار کیا کہ سپاہی تیار کر کے مہم پر جاتے۔ جب پھر کر آتے تو چند آدمی اپنی ضرورت کے بموجب رکھ لیتے۔ باقی موقوف ۔ ان کی تنخواہیں آپ ہضم ۔ روپے سے بہاریں اڑاتے یا گھر بھرتے۔ ب پھر مہم پیش آتی اور یہ اس بھروسے پر بلائے جاتے کہ آراستہ فوجیں جنگی سپاہی لے کر حاضر ہونگے۔ وہ کچھ اپنے دستر خوانوں کے پلاؤ۔ کچھ کنجڑے ۔ بھٹھیارے ۔ دھنئے جلا ہے۔ کچھ جنگلی مغل ۔ پٹھان ۔ ترک ۔ کہ ہزاروں بازاروں میں پھرتے تھے۔ اور سراؤں میں پڑے رہتے تھے۔ ان ہی کو پکڑ لاتے تھے۔ کچ اپنے خدمتگار ۔ کچھ سائیس ۔ شاگرد پیشہ وغیرہ لیتے۔ گھسیاروں کو گھوڑے اور بھٹیاروں کو ٹٹوؤں پر بٹھاتے ۔ کرائے کے ہتیار ۔ مانگے تانگے کے کپڑوں سے لفافہ چڑھاتے اور حاضر ہوتے۔ لیکن توپ تلوار کے منہ پر ان لوگوں سے کیا ہوتا تھا۔ عین لڑائی کیوقت بڑی خرابی ہوتی تھی۔ ایشیا کے فرما نر واؤں کا عہد قدیم سے یہی آئین تھا۔ کیا ہندوستان کے راجہ مہاراجہ ۔ کیا ایران تو رازن کے بادشاہ ۔ میں نے خود دیکھا افغانستان ۔ بد خشان ۔ سمرقند ۔ بخارا وغیرہ وغیرہ ملکوںمیں اب تک بھی یہی آئین چلا آتا تھا۔ ادھر کے ملکوں میں سب سے پہلے کابل میں یہ قانون بدلا۔ اور وجہ اسکی یہ ہوئی کہ جب امیر دوست محمد خاں نے احمد ؐ شاہ دورانی کے خاندان کو نکال کر بے مزا حم حکم حاصل کیا تو افواج انگلشیہ شاہ شجاع کو اس کا حق دلوانے گئیں۔ ادھر سے امیر بھی لشکر لیکر نکلا۔ تمام سردار صاحب فوج اسکے ساتھ ۔ محمد شاہ خاں غلزئی ۔ امین اللہ خان لوگری۔ عبداللہ خاں اچک زئی۔ خاں شیریں خاں قزلباش ۔ وغیرہ وہ خوانین تھے کہ ایک پہاڑی پر کھڑے ہو کر نقارہ بجائیں تو تیس تیس چالیس چالیس ہزار آدمی فوراً جمع ہو جائیں۔ امیر سب کو لیکر میدان جنگ میں آیا وہ نو لشکروں کے سپہ سالار منتظر کہ کدھر سے لڑائی شروع ہو۔ دفعتہ ایک افغان سردار امیر کی طرف سے گھوڑا اڑا کر چلا اس کی فوج اس کے پیچھے پیچھے ۔ جیسے چیونٹیوں کی قطار ۔ دیکھنے والے جانتے ہیں کہ یہ حملہ کرتا ہے۔ اس نے آتے ہی شاہ کو سلام کیا اور قبضہ شمشیر نذر گزرانا ۔ دوسرا آیا ۔ تیسرا آیا۔ امیر صاحب دیکھتے ہیں تو گرد میدان صاف ہوتا جاتا ہے۔ ایک مصاحب اور رفت بہ لشکر فرنگی ۔ امیر حیران ۔ اتنے میں ایک وفا دار گھوڑا مار کر آیا۔ اے امیر صاحب کر امے پر سید ۔ ہمہ لشکر نمک حرام شد۔ برابر سے ایک نے امیر کے گھوڑے کی باگ پکڑ کر کھینچی اور کہا۔ ہاں ۔ امیر صاحب چہ مے بینید و رق برگشت بیک کنار کشیدہ خودرا یہ سن کر امیر صاحب نے بھی باگ پھیری۔ وہ آگے آگے ۔ باقی پیچھے پیچھے ۔ گھر چھوڑ کر نکل گئے۔ جب دولت انگلشیہ نے پھر تاج بخشی کر کے انہیں ملک عنایت کیا تو سمجھا یا کہ اب امرا اور خوانین پر فوج کو نہ چھوڑنا اب فوج نوکر رکھنا۔ آپ تنخواہ دینا اور اپنے حکم میں فوج کو رکھنا۔ چونکہ نصیحت پا چکے تھے۔ جھٹ سمجھ گئے۔ جب کابل میں پہنچے تو بڑی حکمت عملی سے بندوبست کیا اور آہستہ آہستہ تمام خوانین اور سرکردگان افغانستان کو نیست و نابود کر دیا۔ جو رہے ان کے بازو اس طرح توڑے کے ہلنے کے قابل نہ رہے۔ دربار میں حاضر رہو۔ تنخواہ نقد لو ۔ گھروں میں بیٹھے تسبیحیں ہلایا کر و ۔ ع کجا بودا شہب کجاتا ختم۔ آئین داغ ہندوستان کے سلاطین سلف میں سب سے پہلے علاء الدین خلجی کے عہد میں داغ کا ضابطہ نکلا تھا۔ وہ اس نکتے کو سمجھ گیا تھا۔ اور کہا تھا کہ امرا کو اس طرح رکھنے میں خود سری کا زور پیدا ہوتا ہے۔ جب ناراض ہونگے۔ مل کر بغاوت پر کھڑے ہوجائینگے۔ اور جسے چاہینگے۔ بادشاہ بنالینگے۔ چنانچہ فوج نوکر رکھی اور داغ کا قانون قائم کیا۔ فیروز شاہ تغلق کے عہد میں جاگیریں ہو گئیں۔ شیر شاہ کے عہد میں پھر داغ کا آئین تازہ ہوا۔ مگر وہ مر گیا۔ داغ بھی مٹ گیا۔ اکبر جب 981ھ میں پٹنے کی مہم پر گیا۔ تو امرا کی فوجوں سے بہت تنگ ہوا کہ سپاہی بد حال اور سپاہ بے سامان تھی۔ شکائتیں پہلے سے بھی ہورہی تھیں۔ جب پھر کر آئے تو شہباز خاں کنبو نے تحریک کی اور آئین مذکور پر عمل درآمد شروع ہوا۔ شاہ باتدبیر سمجھا کہ اگر اس حکم کی تعمیل دفعتہ عام کرینگے تو تمام امرا گھبرا اٹھینگے کیونکہ پوری فوجیں کس کے پاس ہیں۔ ان کی آزردگی سے شاید کچھ قباحت رنگ نکالے۔ اس کے علاوہ تمام ملک میں یکبار گی نگہداشت شروع ہو جائیگی۔ اس میں اور خرابی ہو گیے جلا ہے۔ سائیس ۔ گھسیارے ۔ بھٹھیارے اور ان کے ٹٹو جو ہاتھ آئینگے۔ سب سمیٹ لینگے۔ اس لئے قرار پایا کہ وہ باشی اور بیستی منصف واروں سے موجودات شروع ہو۔ اپنے اپنے سواروں کو لیکر چھاؤنی میں حاضر ہوں اور فہرست کے ساتھ پیش کریں۔ ہر ایک کا نام ۔ وطن ۔ عمر ۔ قدوقامت ۔ خط و خال ۔ غرض تمام حلیہ لکھا جائے۔ موجودات کے وقت ہر نکتہ مطابق کرتے تھے اور فہرست پر نشان کرتے جاتے تھے۔ اس کو بھی داغ کہتے تھے۔ ساتھ اس کے گھوڑے پر لوہا گرم کے داغ لگاتے تھے اس عمل درآمد کا نام آئین داغ تھا ۔ استاد مرحوم نے اسی اصطلاح کا اشارہ کیا اور کیا خوب کہا ہے ؎ کہتی ہے ماہی بریاں کہ دبیران قضا داغ دیتے ہیں اسے جس کو درم دیتے ہیں جب درجہ مذکور کے ملازم جا بجا داغ ہو گئے۔ تو صدی دو صدی وغیرہ کی نوبت آئی بلکہ آدمی سے بڑھ کر منصبداروں کے اونٹ ہاتھی خچر ۔ گدھے ۔ بیل وغیرہ جو ان کے کاروبار سے متعلق تھے سب داغ کے نیچے آگئے۔ یہ بھی ہو گئے تو ہزاری پنجہزار تک نوبت پہنچی کہ معرج مراتب امرا کی تھی۔ حکم تھا کہ جو امیر داغ کی کسوٹی پر پورا نہ اترے اس کا منصب گر جائے۔ اصل وہی تھی کہ کم اصل ہے جب ہی کم حوصلہ ہے۔ اس قابل نہیں کہ اس کے مصارف کو اتنا خرچ اور اسے یہ منصب دیا جائے انکار داغ کی سزا میں بہت سے نامی امیر بنگالہ بھیجے گئے۔ اور منعم خاں خان خاناں کو لکھا گیا کہ ان کی جاگیریں وہیں کر دو۔ باوجود اس نرمی وآہستگی کے منصبدار بہت گھبرائے۔ مظفر خاں عتاب میں آئے۔ مرزا عزیز کو کلتاش ان کا لاڈلا امیر اور ضدڈی سپہ سالار اتنا جھگڑا کہ دربار سے بند ہو گیا اور حکم ہو گیا کہ اپنے گھر میں بیٹھے نہ یہ کسی کے پاس جانے پائے نہ کوئی اس کے پاس آنے پائے۔ 1 ؎ سلاطین چغتائیہ میں یہ آئین تھا کہ جس امیر پر خفا ہوتے تھے اسے بنگالہ میں پھینک دیتے تھے۔ کچھ اس سبب سے کہ گرم ملک تھا اس پر ہوا مرطوب ۔ بیمار ہو جاتے تھے۔ اور کچھ اس سبب سے کہ ولادیتی لوگ اپنے ملک سے دوری اور بعد مسافت سے بہت گھبراتے تھے۔ اور ناجنسی محض کے سبب سے اس ملک میں تنگ رہتے تھے۔ داغ کی صورت (ابوالفضل آئین اکبری میں لکھتے ہیں )ابتدا میں گھوڑے کی گردن پر سیدھی طرف سین کا سرا (3)لوہے سے داغ دیتے تھے۔ پھر ووالف متقاطع بہ قائمہ ہو گئے مگر چاروں سرے ذرا موٹے۔ یہ نشان سیدھی ران پر ہوتا تھا۔ پھر مدت تک چلہ اتری کمان ()کی شکل رہی ۔ پھر یہ بھی بدلا گیا۔ لوہے کے ہند سے بن گئے۔ یہ گھوڑے کے سیدھے پٹھے پر ہوتے تھے۔ پہلی دفعہ 1/3دوسری دفعہ 2/3وغیرہ ۔ پھر خاص طور پر کے ہندسے سرکار سے مل گئے۔ شہزادے ۔ سلاطین سپہ سالار وغیرہ سب انہی سے نشان لگاتے تھے۔ اس میں یہ فائدہ ہوا کہ اگر کسی کا گھوڑا مرجاتا اور وہ کورا گھوڑا داغ کے وقت حاضر کرتا تو بخشی فوج کہتا تھا کہ آج کی تاریخ سے حساب میں آئیگا۔ سوار کہتا تھا۔ میں نے اسی دن خریدلیا تھا۔ جس دن پہلا گھوڑا مرا تھا۔ کبھی یہ بھی ہوتا تھا کہ سوار کرا یہ کا گھوڑا لا کر دکھا دیتے تھے۔ کبھی پہلے گھوڑے کو بیچ کھاتے تھے۔ داغ کے وقت اس چہرے کا گھوڑا لا کر دکھا دیتے تھے۔ وغیرہ وغیرہ ۔ اس داغ سے دغا کے رستے بند ہو گئے۔ داغ مکرر میں یہی داغ دوبارہ تیسری دفعہ تبارہ ۔ ملا صاحب اس مقدمے کو بھی غصے کی وردی پہنا کر اپنی کتاب میں لائے ہیں چنانچہ فرماتے ہیں اگرچہ سب امرا ناراض ہوئے اور سزائںی بھی اٹھائیں لیکن آخری یہی آئین سب کو ماننا پڑا۔ اور غریب سپاہی کے طبق میں پھر بھی خاک ہی پڑی۔ ادھر امرا نے اپنا آئین یہ باندھا کہ داغ کے وقت کچھ اصلی کچھ نقلی ۔ وہی لفافلے کی فوج لا کر دکھا دی اور منصب پورا کر وا لیا۔ جاگیر پر جا کر سب رخصت ۔ وہ فرضی گھوڑے کیسے۔ او کرائے کے ہتیار کہاں ؟ پھر کام کا وقت ہو گا تو دیکھا جائیگا۔ مہم آن پڑی۔ تو فضیمت ورسوائی ۔ جو اصلی سپاہی ہے اسی کی تباہی ہے۔ دلاور ۔ بہادر معرکے مارنے والے مارے مارے پھرتے ہیں۔ تلواریں مارنے والے بھوکجوں مرتے ہیں۔ گھوڑا اتنی امید پر کون باندھے۔ کہ بادشاہ کو کبھی مہم پیش آئیگی تو کسی امیر کے نوکر ہو جائینگے۔ آج رکھیں تو کھلائیں کہاں سے بیچتے پھرتے ہیں۔ کوئی نہیں لیتا۔ تلوار گرو رکھتے ہیں بنیا آٹا نہیں دیتا۔ اس بربادی کا نتیجہ یہ ہے کہ وقت پر ڈھونڈیں تو جسے سپاہی کہتے ہیں وہ انسا ن پیدا نہیں۔ اسی سلسلے میں ملا صاحب عبارت آئندہ تمسخر کے رنگ میں لکھتے ہیں ۔ مگر مجھ سے پوچھو تو وہ غصہ بھی ناحق تھا اور یہ تمسخر بھی بے جاہے۔ حق یہ ہے کہ اکبر نے اس کام کو دلی شوق اورب ڑی کوشش سے جاری کیا تھا۔ کیونکہ وہ حقیقی اور تحقیقی بادشاہ مہمات و فتوحات کا عاشق تھا۔ آپ تلوار پکڑ کر لڑتا تھا۔ اور سپاہیانہ یلغاریں کرتا تھا۔ اس لئے بہادر سپاہی اور دیدار و جوان اسے بہت پیارا تھا۔ چنانچہ جب آئین مذکور جاری کیا۔ تو بعض وقت خود بھی دیوان خاص میں ان بیٹھتا تھا اور اس خیال سے کہ میرا سپاہی پھر بدلا نہ جائے اس کا چہر ہ لکھواتا تھا۔ پھر کپڑوں اور ہتھیاروں سمیت ترازو میں تلواتاتھا۔ حکم تھا کہ لکھ لو۔ یہ اڑھائی من سے کچھ زیادہ کا نکلا۔ وہ ساڑھے تین من سے کچھ کم ہے۔ پھر معلوم ہوتا تھا کہ ہتیار کرائے کے لئے تھے اور کپڑے مانگے کے تھے۔ ہنسکر کہہ دیتا تھا کہ ہم بھی جانتے ہیں مگر انہیں کچھ دینا چاہیئے۔ سب کا گزار ہ ہوتا رہے۔ سوار دو اسپہ ویک اسپہ تو تو عام بات تھی مگر پرورش کی نظر نے نیم اسپہ کا آئین نکالا مثلا اچھا سپاہی ہے مگر گھوڑے کی طاقت نہیں رکھتا۔ حکم دیتا تھا۔ کہ خیر دو مل کر ایک گھوڑا رکھیں ۔ باری باری سے کام دیں 6 روپے مہینہ گھوڑے کا ۔ اس میں بھی دو نو شریک یہ سب کچھ صحیح مگر اسے اقبال سمجھو خواہ نیک نیتی کا پھل۔ کہ جہاں جہاں غنیم تھے خود بخود نیست و نابود ہو گئے۔ نہ فوج کشی کی نوبت آتی تھیں۔ نہ سپاہی کی ضرورت ہوتی تھی۔ اچھا ہوا منصب دار بھی داغ کے دکھ سے بچ گئے۔ ملا صاحب اپنے جوش جذبہ میں خواہ مخواہ ہر بات کو بدی اور تعدی کا لباس پہناتے ہیں ۔ اس میں کچھ شبہ میں نہیں کہ وہنیک نیت تھا اور رعایا کہ دل سے پیار کرتا تھا ۔ سب کی آسائش کے لئے خالص نیت سے یہ اور صدہا ایسے ایسے آئین باندھے تھے۔ البتہ اس سے لاچار تھا کہ بد نیت اہل کار عمل درآمد میں خرابی کر کے بھلائی کوبرائی بنا دیتے تھے۔ داغ سے بھی دغا باز نہ باز آئئیں تو وہ کیا کرے۔ ابو الفضل نے آئین اکبری 1006ھ میں ختم کی ہے اس میں لکھتے ہیں کہ سپاہ بادشاہی فرمان روایان زمین خیز (راجگان وغیرہ )کی سپاہ مل کر 44 لاکھ سے زیادہ ہے۔ بہتوں کے لئے داغ اور چہر ہ نویسی نے ماتھے روشن کیے ہیں۔ اکثر بہادروں نے شرافت اطوار ۔ اور اعتبار کے جوہر سے منتخب ہو کہ حضوری رکاب میں عزت پائی ہے۔ یہ لوگ پہلے یکے کہلاتے تھے۔ اب احدی کا خطاب ملا (ملا صاحب کہتے ہیں کہ اس میں توحید الہٰی اکبر شاہی کا اشارہ بھی تھا) بعض کو داغ سے معاف بھی رکھتے ہیں۔ تنخواہ ایرانی ۔ تورانی کی 25روپے ۔ ہندی20۔ خالصہ 15۔ اس کو برآوردی کہتے تھے۔ منصب دار خود سوار اور گھوڑے بہم نہ پہنچا سکتے انہیں برآوردی سوار دیئے جاتے تھے۔ وہ ہزاری ہشت ہزاری ۔ ہفت ہزاری منصب تینوں شہزادوں کے لئے خاص تھے۔ امرا میں انتہائے ترقی پنجہزاری تھی۔ اور کم سے کم وہ باشی ۔ منصب داروں کی تعداد 66تھی کہ اللہ کے عدد ہیں۔ بعض متفرقات کے طور پر تھے کہ یاوری یا کمکی کہلاتے تھے جو داغ دار ہوتے تھے ان کی عزت زیادہ ہوتی۔ اکبر اس بات سے بہت خوش ہوتا تھا کہ دیدار و سپاہی ہو خود اسپہ ہو۔ منصبداروں کاسلسلہ اس تفصیل سے چلتا تھا۔ وہ باشی ۔ بیستی ۔ دوبیستی ۔ پنجاہی ۔ سہ بیستی ۔ چار بیستی ۔ صدی وغیرہ وغیرہ انہیں حسب تفصیل ذیل سامان رکھنے ہوتے تھے : ۔ سوارا گر طاقت رکھتا ہو تو ایک گھوڑے سے زیادہ بھی رکھ سکتا تھا۔ انتہا 25 گھوڑے تک اور چار پائے کا نصف خرچ خزانے سے ملتا تھا۔ پھر تین گھوڑے سے زیادہ کی اجازت نہ رہی۔ یک اسپہ سے زیادہ کو ایک اونٹ یا بیل بھی بار برداری کے لئے رکھنا ہوتا تھا۔ گھوڑے کے لحاظ سے بھی سوار کی تنخواہ میں فرق ہوتا تھا۔ چنانچہ عراقی والے کو : پیادے کی تنخواہ سے عہ ۔ مے۔ ے تک ہوتھی تھی ان میں مجلس والے کو : 12 ہزار بندوقچی تھے کہ حاضر رکاب رہتے تھے۔ بندوقچی کی ترکی : تنخواہ معہ 12 ۔ معہ ۔ ے 12 تک ہوتی تھی۔ یابو : تازی: جنگلہ : آئین صراف صرافوں اور جہاجنوں کی سیہ کاری اب بھی عالم میں روشن ہے۔ اس وقت بھی شاہان سلف کے سکوں پر جو چاہتے تھے بٹا لگاتے تھے۔ اور غریبوں کی ہڈیاں توڑتے تھے۔ حکم ہوا کہ پرانے روپے جمع کر کے سب گلا ڈالو ۔ ہماری قلمرو میں یک قلم ہمارا سکہ چلے۔ اور نیا پرانا ہر سنہ کا یکساں سمجھا جائے۔ جو گھس پس کر بہت کم ہو جائے اس کے لئے آئین و قواعد قائم ہوئے۔ شہر شہر میں فرماں جاری ہو گئے۔ قلیچ خاں کو انتظام سپرد ہوا کہ سب سے مچلکے لکھوالو۔ مگر یہ تو دلوں کے کھوٹے تھے۔ لکھ کر بھی باز نہ آئے ۔ پکڑے آتے تھے۔ باندھے جاتے تھے۔ ماریں کھاتے تھے۔ مارے بھی جاتے تھے۔ اور اپنی کرتوتوں سے باز نہ آتے تھے۔ احکام عام بنام کارکنان ممالک محروسہ جوں جوں اکبری سلطنت کا سکہ بیٹھتا گیا۔ اور سلطنت کی روشنی پھیلتی گئی۔ انتظام و احکام بھی پھیلتے گئے۔ چنانچہ ان میں سے ایک دستور العمل کا خلاصہ اور اکثر تاریخوں سے نکتہ نکتہ چن کو یکجا کرتا ہوں کہ شہزادوں امیروں حاکموں ۔ عاملوں کے نام فرماں کا خلعت پہن کر جاری ہوئے تھے۔ سب سے پہل یہ کہ رعایا کے حال سے با خبر رہو۔ خلوت پسند نہ ہو کہ کہ اس میں اکثر امور کی خبر نہ ہوگی جن کی تمہیں اطلاع واجب تھی۔ بزگران قوم سے بہ عزت پیش آؤ۔ شب بیداری کرو۔ صبح ۔ شام ۔ دوپہر ۔ آدھی رات کو خدا کی طرف متوجہ ہو۔ کتب اطلاق ۔ نصاٹح ۔ تاریخ کو زیر نظر رکھو۔ مسکین اور گوشہ نشین لوگ جو آمدورفت کا دروازہ بند کر بیٹھتے ہیں۔ ان کے ساتھ سلوک کرتے رہو۔ کہ ضروریات سے تنگ نہ ہونے پائیں۔ اہل اللہ نیک نیت صاحبدلوں کی خدمت میں حاضر ہوا کرو۔ اور دعا کے طلب گار رہو۔ مجرموں کے گنا ہوں پر بی غور کیا کرو کہ کس پر سزاواجب ہے کس سے چشم پوشی کیوں کہ بعض اشخاص ایسے بھی ہیں جن سے کبھی ایسی خطائیں ہو جاتی ہیں کہ زبان پر لانا بھی مصلحت نہیں ہوتا۔ مخبروں کا بڑا خیال رکھو۔ جو کچھ کر و خود دریافت کر کے کرو۔ داد خواہوں کی عرض خودسنو۔ ماتحت حاکموں کے بھروسے پر سب کام نہ چھوڑ دو۔ رعایا کو دلداری سے رکھو۔ زراعت کی فراوانی اور تقادی اور دیہات کی آبادی میں بڑی کوشش رہے ۔ ریزہ رعایا کے حال کی فردا فردا بڑی غورو پرداخت کرو۔ نذرانہ وغیرہ کچھ نہ لو۔ لوگوں کے گھروں میں سپاہی زبردستی نہ جا اتریں۔ ملک کے کاروبار ہمیشہ مشورت سے کیا کرو۔ لوگوں کے دین و آئین سے کبھی معترض نہ ہو۔ دیکھو دنیا چند روزہ ہے۔ اس میں نسان نقصان گوارا نہیں کرتا۔ دین کے معاملے میں کب گوارا کرے گا۔ کچھ تو سمجھا ہی ہو گا۔ اگر وہ حق پر ہے۔ … تو تم حق سے مخالفت کرتے ہو ؟ اور اگر تم حق پر ہوت و وہ بچارا بیمار نادانانی ہے۔ رحم کرو اور دستگیری نہ کر ترض و انکار ۔ ہر مذہب کے نکو کاروں اور خیر اندیشوں کو عزیز رکھو۔ ترویج دانش اور کسب کمال میں بڑی کوشش کرو۔ اہل کمال کی قدردانی کرتے رہو کہ استعدادیں ضائع نہ ہو جائیں۔ قدیمی خاندانوں کی پرورش کا خیال رکھو۔ سپاہی کی ضروریات و لوازمات سے غافل نہ رہو۔ خود تیر اندازی تفنگ ۔ اندازی وغیرہ سپاہ ہیانہ ورزشیں کرتے رہو۔ ہمیشہ شکار ہی میں نہ رہو۔ ہاں تفریح مشق سپاہ گری کی رعایت سے ہو۔ نیر نور بخش عالم کے طلوع پر اور آدھی رات کو کہ حقیقت میں طلوع وہیں سے شروع ہوتا ہے۔ نوبت بجا کرے جب نیر اعظم برج سے برج میں جاوے تو توپیں اور بندوقیں سرہوں کہ سب باخبر ہوں۔ اور شکراؤ الہٰی بجا لائیں۔ کو توال نہ ہو تو اس کے کاموں کو خود دیکھو اور سرانجام کرو۔ اس خدمت کو دیکھ کر شرماؤ نہیں عبادت الہٰی سمجھ کر بجا لاؤ کہ اس کے بندوں کی خدمت ہے۔ کو توال کو چاہئے کہ ہر شہر قصبہ گاؤں کل محلے ۔ گھر گھر والے سب لکھ لے۔ ہر شخص آپس کی ضمانت و حفاظت میں رہے۔ ہر محلہ پر میر محلہ ہو۔ جاسوس بھی لگے رکھو کہ ہر جگہ کا حال رات دن پہنچاتے رہیں شادی ۔ عمی ۔ نکاح ۔ پیدائش ہر قسم کے واقعتا کی خبر رکھو ۔ کوچہ ۔ بازر ۔ پلوں اور گھاٹوں پر بھی آدمی رہیں ۔ رستوں کا ایسا بندوبست رہے کہ کوئی بھاگے تو بے خبر نہ نکل جائے۔ چور آئے آگ لگ جائے۔ کوئی مصیبت پڑے تو ہمسایہ فورا مدد کرے۔ میر محلہ اور خبر دار بھی فوراً اٹھ دوڑیں۔ جان چھپا بیٹھیں تو مجرم ۔ ہمسایہ ۔ میر محلہ اور خبر دار کی اطلاع بغیر کوئی سفر میں نہ جائ۔ اور کوئی آکر اترنے بھی نہ پائے۔ سوداگر ۔ سپاہی ۔ مسافر ہر قسم کے آدمی کو یکھتے رہیں۔ جن کا کوئی ضامن نہ ہو ان کو الگ سر ا میں بساؤ۔ وہی با اعتبار لوگ سزا بھی تجویز کریں۔ رتسا و شرفائے محلہ بھی ان باتوں کے ذمہ دار ہیں۔ ہر شخص کی آمد و خرچ پر نظر رکھو۔ جس کا خرچ آمد سے زیادہ ہے ضرور دال میں کالا ہے۔ ان باتوں کو انتظام اور بہبودی خلائق سمجھا کرو ۔ روپیہ ۔ کھینچے کی نیت سے نہ کرو۔ بازاروں میں دلال مقرر کر دو۔ جو خرید و فروخت ہو۔ میر محلہ کی و خبر دار محلہ کی بے اطلاع نہ ہو۔ خریدنے اور بیچنے والے کا نام روزنامچہ میں درج ہو۔ جو چپ چپاتے لین دین کرے۔ اس پر جرمانہ ۔ محلہ محلہ اور نواح شہر میں بھی رات کے لئے چوکیدار رکھو۔ اجنبی آدمی کو ہر وقت تاڑتے رہو۔ چور ۔ جیب کترے اچکے۔ اٹھائی گیرے کا نام بھی نہ رہنے پائے۔ مجرم کو مال سمیت پیدا کرنا اس کا ذمہ ہے۔ جو لاوارث مر جائے یا کہیں چلا جائے۔ اس کے مال سے سرکاری قرضہ ہو تو پہلے وصول کرو۔ پھر وارثوں کو دو۔ وارث موجود نہ ہو تو امین کے سپرد کر دو اور دربار میں اطلاع لکھو۔ حق دار آجائے تو وہ پائے۔ اس میں بھی نیک نیتی سے کام کرو۔ روم کا دستور یہاں نہ ہو جائے کہ جو آیا ضبط ۔ ملا صاحب اس پر طرہ لگاتے ہیں ۔ کہ جب تک واروغہ بیت المال کا خطہ نہیں ہوتا تب تک اس کا مردہ بھی دفن نہیں ہوتا۔ اور قبرستان کو شہر کے باہر نیا ہے۔ وہ بھی روبہ مشرق ۔ کہ عظمت آفتاب نہ جانے پائے۔ شراب کے باب میں بڑی تاکید رہے۔ بوجھی نہ آنے پائے ۔ پینے والا ۔ بیچنے والا ۔ کھینچنے والا سب مجرم ۔ ایسی سزا دو کہ سب کی آنکھیں کھل جائیں۔ ہاں کوئی حکمت اور ہوش افزائی کے لئے کام میں لائے تو نہ بولو ۔ نرخوں کی ازرانی میں بڑی کوشش رکھو۔ مالدار ذخیروں سے گھر نہ بھرنے پائیں۔ عیدوں کے جشنوں کا لحاظ رہے۔ سب سے بڑی عید نو روز ہے۔ نیر نور بخش عالم برج حمل میں آتا ہے۔ یہ فروز دین کی پہلی تاریخ ہے۔ دوسری عید 19 اسی مہینے کی ۔ کہ شرف کا دن ہے۔ تیسری 3۔ اردی بہشت کی وغیرہ وغیرہ ۔ شب نوروز اور شب شرف کوشب برات کی طرح چراغاں ہوں۔ اول شب نقارے بحبیں۔ معمولی عیدیں بھی بدستور ہوا کریں۔ اور ہر شہر میں شادیانے بجا کریں۔ عورت بے ضرورت گھوڑے پر نہ چڑھے۔ دریاؤں اور نہروں پر مردوں اور عورتوں کے غسل کو اور پنہاریوں کے پانی بھرنے کو الگ الگ گھاٹ تیار ہوں۔ سودا گر بے حکم ملک سے گھوڑا نہ نکال لے جائے۔ ہندوستان کا بردہ کہیں اور نہ جانے پائے۔ نرخ ایشیا بادشاہی قیمت پر رہے۔ بے اطلاع کوئی شادی نہ ہوا کرے۔ عوام الناس کی شادی ہو تو دولہا دلہن کی کوکوتوالی میں دکھا دو عورت 12 برس مرد سے بڑی ہو تو مرداس سے تعلق نہ کرے کہ باعث ضعف و ناتوانائی ہے۔ لڑکا 16برس اور لڑکی 14برس سے پہلے نہ بیاہی جائے چچا اور ماموں وغیرہ کی بیٹی سے شادی نہ ہو کہ رغبت کم ہوتی ہے۔ اولاد ضعیف ہو گی۔ جو عورت بازاروں میں کھلم کھلا بے برقع ۔ بے گھونگٹ پھرتی نظر آیا کرے یا ہمیشہ خاوندے سے دنگہ فساد رکھے اسے شیطان پورہ میں داخل کرو۔ ضرورت مجبور کرے تو اولاد کو گرد رکھ سکتے ہیں جب روپیہ ہاتھ آئے چھڑا لیں۔ ہندو کا لڑکا بچپن میں جبراً مسلمان ہو گیا ہو تو بڑا ہو کر جو مذہب چاہے اختیار کرے ۔ جو شخص جس دین میں چاہے چلا جائے کوئی روکنے نہ پایئ۔ ہندنی عورت مسلمان کے گھر میں بیٹھ جائے تو وارثوں کے گھر پہنچا ۔ دو مندر ۔ شوالہ ۔ آتش خانہ ۔ گرجا جو چاہے بنائے روک ٹوک نہ ہو۔ 1 ؎ صاحب اس حکم پر بڑے خفا ہوتے ہیں اور کہتے ہیں۔ اہلکاروں اور ملازموں کی بن آئی۔ لوگوں کے کام بند کر دیئے۔ جب تک اپنی منہ بھرائی نہ ملے لیتے۔ شادی نہیں ہونے دیتے۔ آزاد ملا صاحب کا فرمانا ۔ سر آنکھوں پر مگر یہ ھی تو دیکھو کہ عوا م میں شادی کے دخوے آج تک بھی کیسے الجھے ہوئے پیش آتے ہیں۔ باوجودیکہ ایسا چست اور درت انگریزی قانون ہے۔ پھر بھی اس ملک پنجاب میں ایک عورت کا مقدمہ پیش ہوتا ہے۔ چار خاوند حاضر ہیں۔ ہر شخص کے ساتھ ایک ملا صاحب منڈا ہوا سر ۔ ناف تک داڑھی ۔ پاؤ تسک کرتہ ۔ نیلا لنگ ۔ ہلاس دانفی ہاتھ میں ۔ بحلف شرعی فرماتے ہیں کہ میں نے بہ زبان خود نکاح پڑھا تو 5-4مسلمان با ایمان گواہ کہ مجلس عام میں پڑھا گیا ، اور ماں باپ نے پڑھوایا۔ سرکار کو بھی سوار رجسٹری کے کچھ نہ بن آئی۔ اس کے علاوہ سینکڑوں ہزاروں احکام ملکی ۔ مالی ۔ داغ محلی ۔ ٹکسال ۔ فرد فرد رعایا۔ واقعہ نویسی چوکی نویسی ۔ بادشاہ کی تقسیم اوقات ۔ کھانا ۔ پینا ۔ سونا ۔ جاگنا ۔ اٹھنا ۔ بیٹھتا ۔ وغیرہ وغیرہ تھے۔ کہ آئین اکبری کا مجلد ضخیم اس سے آراستہ ہے کوئی بات آئین و قواعد و قانون سے بچی نہ تھی۔ ملا صاحب ان کا بھی خاکا اڑاتے ہیں۔ اور یہ ظاہر ہے کہ نئیایجاد تھے۔ جو بات نئی معلوم ہوتی ہے اس پر لوگوں کی نظر اٹکتی ہے۔ اس وقت بھی اہل دربار مل کر بیٹھے ہونگے تو ضرور ان باتوں کے چرچے کرتے ہوں گے۔ اورچونکہ صاحب علم و صاحب کمال تھے اس لئے ایک ایک بات لطائف و ظرائف کے ساتھ نقل مجلس ہوتی ہو گی۔ لطیفہ ایک موقع پر حکم ہوا کہ قلعہ لاہور میں دیوان عام کے سامنے چبوترہ ہے اس پر مختصر مسجد بنوا دو کہ بعض اشخاص بہ حالت حضوری کا ر ضروری میں مصروف ہوتے ہیں۔ نماز کاوقت ہو تو انہیں دور جانا نہ پڑے۔ ہمارے سامنے نماز پڑھیں اور پھر حاضر ہو جائیں ۔ حکیم مصری کے دہن ظرافت میں پانی بھر آیا اور فرمایا ۔ شاہ ماکرد مسجد ے بنیاد ایہا المومنوں مبارک باد وندریں نیز مصلحت دارد تانماز ان گزار بشما رد حکیم صاحب کی باتیں مصری کی ڈلیاں تھیں۔ جس قدر حال ان کا معلوم ہوا ۔ علیحدہ لکھا ہے تتمے کوپڑھ کر منہ میٹھا کر و۔ ہندؤں کے ساتھ اپنا یت اکبر اگرچہ ترک ماوراء النہری تھا۔ مگر اس نے ہندوستان میں آکر جس طرح ہندؤں اور ہندو ستائیوں سے اپنابت پیدا کی ۔ و ایک صنعت کیمیائی ہے کہ کتابوں میں لکھنے کے قابل ہے ۔ اور یہ بھی ایک تمہید پر منحصر ہے۔ واضح ہو کر جب ہمایوں ایران میں گیا اور شاہ طہما سپ سے ملاقات ہوئی تو ایک دن دونو بادشاہ شکار کو نکلے۔ کسی مقام پر تھک کر اترے پڑے۔ شاہی فراش نے اٹھ تہ غالیچہ ڈال دیا۔ شاہ بیٹھ گئے۔ ہمایوں کے ایک زانو کے نیچے فرش نہ تھا۔ اس عرصے میں کہ شاہ اٹھیں اور غالیچہ کھو ل کر بچھائیں۔ ہمایوں کے ایک جاں نثار نے جھٹ اپنے تیر دان کا کار چوبی غلاف چھری سے چاک کیا اور اپنے بادشاہ کے نیچے بچھا دیا۔ شاہ طہما سپ کو یہ پھرتی اور ہوا خواہی اس کی پسند آئی۔ اور کہا کہ برادر ہمایوں ! تمہارے ساتھ ایسے ایسے جاں نثار نمک حلال تھے۔ اور پھر ملک ہاتھ سے اس طرح نکل گیا۔ اس کا کیا سبب ہے ؟ بادشاہ نے کہا کہ بھائیوں کے حسد اور عداوت نے کام خراب کر دیانمک خوار نوکر ایک آقا کے بیٹے سمجھ کر کبھی ادھر ہو جاتے تھے کبھی ادھر ۔ شاہ نے کہا کہ ملک کے لوگوں نے رفاقت نہ کی ؟ ہمایوں نے کہا کہ کل رعایا غیر قوم غیر مذہب ہیں۔ اور خود ملک کے اصلی مالک ہیں۔ ان سے رفاقت ممکن نہیں ۔ شاہ نے کہا کہ ہندوستان میں دو فرقے کے لوگ بہت ہیں ایک افغان ۔ دوسرے راجپوت ۔ خدا کی مدد شامل حال ہو اب کی دفعہ وہاں پہنچو تو افغانوں کو تجارت میں ڈال دو۔ اور راجپوتوں کو دلا سا و محبت کے ساتھ شریک حال کر و (دیکھو مآثر الامرا) ہمایوں جب ہندوستان میں آیا تو اسے اجل نے اماں نہ دی۔ اور اس تدبیر کو عمل میں نہ لا سکا البتہ اکبر نے کیا۔ اور خوب طور سے کیا۔ وہ اس نکتے کو سمجھ گیا تھا کہ ہندوستان ہندؤں کا گھر ہے۔ مجھے اس ملک میں خدا نے بادشاہ کر کے بھیجا ہے ۔ ملک گیری اور تسخیر کی حالت میں ممکن ہے کہ ملک کوتلوار کے زور سے دیر کیا اور اہل ملک کو ویران کر دیا ۔ ملک والوں کو دبا لیا۔ لیکن جب کہ میں اسی گھر میں رہنا اختیار کروں تو یہ ممکن نہیں کہ ان کے ملک کے کل فوائد اور آرام ، میں اور میرے امرا اٹھائیں اورملک والے ویران و پریشان رہیں۔ اور پھر میں آرام سے بھی بیٹھ سکوں۔ اور یہ اس سے بھی زیادہ مشکل ہے کہ انہیں بالکل فنا کر کے نیست و نابود کر دوں۔ وہ یہ بھی جانتا تھا کہ میرے باپ صر چچاوں کے ہاتھ سے کیا گزری۔ چچاؤں کی اولاد اور انکے نمک خوار موجود ہیں۔ اور جو ہم قوم ترک اس وقت میرے ساتھ ہیں۔ یہ ہمیشہ دود ھاری تلوار ہیں۔ جدھر فائدہ دیکھا ادھر پھر گئے۔ غرض جب اس نے ملک کو آپ سنبھالا تو ایسا ڈھنگ ڈالا جس میں حاض و عام اہل ہندیہ نہ سمجھیں کہ غیر قوم ترک ۔ غیر مذہب مسلمان ۔ کہیں سے آکر ہم پر حاکم ہو گیا ہے۔ اس لئے ملک کے فوائد و منافع پر کوئی بند نہ رکھا۔ اس کی سلطنت ایک دریا تھا کہ جس کا کنارہ ہر جگہ سے گھاٹ تھا۔ آؤ۔ اور سیراب ہو جائے۔ دنیا میں کون ہے کہ جان رکھتا ہو اور دریا کے کنارے پر نہ آئے۔ جب ملک گیری نے بہت سے معرکے طے کر دیئے۔ اور رونق دزیبائی کو اس کے دربار سجانے کا موقع ملا۔ ہزاروں راجہ ۔ مہاراجہ ۔ ٹھاکر ۔ سردار حاضر ہونے لگے۔ دربار ان جو امر کی پتلیوں سے جگمگا اٹھا۔ عالی ہمت بادشاہ نے ان کے اعزاز اور مدارج کا بڑا لحاظ رکھا۔ اخلاق کا پتلا تھا۔ ملنساری اس کی طبیعت میں داخل تھی۔ ان سے اس طرح پیش آیا کہ سب کو آئندہ کے لئے بڑی بڑی امیدیں ہونیں بلکہ جو ان کا متوسل ہو کر آیا۔ اس سے اس طرح پیش آیا کہ ایک عالم ادھر کو جھک پڑا پنڈت کبیشر ۔ گنی گنوان ہندوستان کے جو آئے اس طرح خوش نکلے کہ شائد اپنے راجاؤں کے دربار سے بھی اسی طرح نکلتے ہوں گے۔ ساتھ یہ بھی سب کو معلوم ہو گیا ۔ کہ یہ برتاؤ اس کا ہمارے پھسلانے کے لئے نہیں ہے۔ اس کا مطلب یہی ہے کہ ہم کو اپنا کر ے اور ہمارا ہو رہے اور اس کی سخاوتیں اور دن رات کے کاروبار اوراپنایت کے برتاؤ اس خیال کی ہر دم تصدیق کرتے تھے۔ نوبت یہاں تک پہنچی کو ہمقوم اور غیر قوم کاف رق اصلانہ رہا۔ سپہ داری اور ملک داری کے جلیل القدر عہدے ترکوں کے برابر ہندؤں کو ملنے لگے۔ دربار کی صف میں ایک ہندو ایک مسلمان دو مسلمان ایک ہندو برابر نظر آنے لگے۔ راجپوتوں کی محبت ان کی ہر بات کو بلکہ ریت رسوم اور لباس کو بھی اس کی آنکھوں میں خو شنما دکھانے لگی۔ چغے اور عمامہ کو اتار کر جامہ اور کھڑکی دار پگڑی اختیار کر لی داڑھی کو رخصت کر دیا تخت و دیہیم کو چھوڑ کر سنگھا سن پر بیٹھنے اور ہاتھی پر چڑھنے لگا۔ فرش فروش سواریاں اور دربار کے سامان آرائش سب ہندوانے ہونے لگے۔ ہند و او ہندوستانی لوگ ہر وقت خدمت گز اری میں حاضر ۔ جب بادشاہ کا یہ رنگ ہوا تو اراکین و امرا ایرانی تو رانی سب کا وہی لباس ۔ دربار ۔ اور پان کی گلوری اس کا لازمی سنگار ہو گیا۔ ترکوں کا دربار اندر سبھا کا تماشا تھا۔ نوروز کا جشن ایران و توران کی رسم قدیم ہے۔ مگر اس نے ہندوانی ریت رسوم کا رنگ دیکر اسے بھی ہند و بنایا۔ ہر سالگرہ پر جشن ہوتا تھا۔ شمسی بھی قمری بھی ۔ ان میں تلا دان کرتے تھے۔ 7اناج 7دھات وغیرہ میں تلتے تھے۔ برہمن بیٹھ کر ہون کرتے تھے۔ اور سب کی گٹھریاں باندھ اسیسیں دیتے گھر کو چلے جاتے۔ دسہرہ کو آتے۔ اشیر بادیں دیتے۔ پوجا کرواتے ۔ ماتھے پر ٹیکہ لگاتے ۔ جواہر و مروارید سے مرصع راکھی ہاتھ میں باندھتے ۔ بادشاہ ہاتھ پر باز بٹھاتے قلعے کے برجوں پر شراب رکھی جاتی۔ بادشاہ کے ساتھ اہل دربار بھی اسی رنگ میں رنگے گئے۔ اور پان کے بیڑوں نے سب کے منہ لال کر دیئے ۔ گائے کا گوشت ۔ لسن پیاز بہت سی چیزیں حرام اور بہت سی حلال ہو گئیں۔ صبح کو روز جمنا کے کنارے شرق رویہ کھڑکیوں میں بیٹھتے تھے کہ پہلے آفتاب کے درشن ہوں۔ ہندوستان کے لوگ صبح کو بادشاہ کے دیدار کو بہت مبارک سمجھنے ہیں۔ جو لوگ دریا پر آشنا ن کو آتے تھے۔ مرد عورتیں بچے ہزار در ہزار سامنے آتے تھے۔ ڈنڈوتیں کرتے۔ مہابلی بادشاہ سلامت کہتے اور خوش ہوتے۔ وہ اپنے بچوں سے زیادہ انہیں دیکھ کر خوش ہوتا ۔ اور خوشی بھی بجا تھی جس کے دادا (بابر) کو اپنی قوم( ترک) اس تباہی کے ساتھ اس کے موروثی ملک سے نکالے۔ اور پانچ چھ پشت کی بندگی پر خاک ڈالتے یہ غیر قوم غیر جنس ہو کر اس محبت سے پیش آئیں ان سے زیادہ عزیز کون ہو گا۔ 1 ؎ ڈرا راجہ ٹورڈرمل کے حال میں دیکھو کہ جب راجہ موصوف کو کلی ممالک ہند کی وزارت اعظم کے اختیارات ملے تو لوگوں نے کیا شکایت کی اور نیک نیت بادشاہ نے کیا جواب دیا 2 ؎ دیکھو محلی قلی خاں کا سال اس کا سربریدہ کیونکر پہچانا گیا۔ 3 ؎ دیکھو تتمہ شاہزاہ گان تیموری کا حال اور وہ ان کے دیکھنے سے خوش نہ ہو گا تو کس سے ہو گا۔ اکبر نے سب کچھ کیا مگر راجپوتوں نے بھی جاں نثاری کو حد سے گزار دیا۔ سیکڑدنمیں سے ایک بات ہے کہ جہانگیر نے بھی تزک میں لکھی ہے۔ اکبر نے رسوم ہند کو ابتدا میں فقط اس طرح اختیار کیا گویا غیر ملک کا تازہ میوہ ہے۔ یا نئے ملک کا نیا سنگار ہے۔ یا یہ کہ اپنے پیاروں اور پیار کرنیوالوں کی ہر بات پیاری لگتی ہے۔ مگر ان باتوں نے اسے مذہب کے عالم میں بد نام کر دیا اور بد مذہبی کا دغ اس طرح دامن پر لگایا کہ آج تک بے خبر اور بے درد ملا اس کی بد نامی کا سبق ویسا ہی پڑھے جاتے ہیں۔ اس مقام پر سبب اصلی کا نہ لکھنا اور داد گو بادشاہ پر ظلم کا جاری رکھنا مجھ سے نہیں دیکھا جاتا میرے دوستو ! تم نے کچھ سمجھ لیا۔ اور آئندہ سمجھو گے کہ ان علمائے زر پرست کی سینہ سیاہی اور بد نفی نے کس قدر جلد انہیں اور ان کے ہاتھوں اسلام کو ذلیل و خوار کر دکھایا۔ ان نااہلوں کے کاروبار دیکھ کر نیک نیت بادشاہ کو ضرور خیال ہوا ہو گا کہ حسد اور کینہ وری علمائے کتابی کاخاصہ ہے۔ اچھا انہیں سلام کروں اورجو بزرگ اہل باطن اور صاحبدل کہلاتے ہیں ان میں ٹٹولوں شاید اندر سے کچھ نکلے ۔ چنانچہ اطراف ملک سے مشائخ نامداد بلائے۔ ہر ایک سے الگ الگ خلوت رہی اور بہت باتیں اور حکایاتیں ہوئیں لیکن جس کو دیکھا خاکستری جامہ کے اندر خاک نہ نہ تھا۔ مگر خوشامد ، اور وہ خود دو چار بیگھ مٹی کا سائل تھا۔ افسوس وہ آرزو مند اس بات کا کہ کوئی بات یا فقیرانہ کرامات یاراہ خدا کا رستہ ان سے ملے۔ انہیں دیکھا تو خود اس سے مانگنے آتے تھے۔ معجزہ کہاں ۔ کرامات یاراہ خدا کا رستہ ان سے ملے۔ انہیں دیکھا تو خود اس سے مانگنے آتے تھے۔ معجزہ کہا۔ کرامات کجا ۔ باقی رہے اخلاق ۔ توکل ۔ خوف الہی ۔ درد مندی ، سخاوت ۔ ہمت۔ ظاہری باتیں۔ اس سے بھی پاک صاف پایا۔ انجام یہ ہوا کہ بد گمانی خدا جانے کہاں کہاں دوڑ گئی۔ ملا صاحب ایک بزرگ کا نام لکھ کر کہتے ہیں۔ فلاں نامی صاحبدل اور مشہور مشائخ تشریف لائے۔ بڑی تعظیم سے بعاد تخانہ میں اتارا انہیں نے نماز معکوس دکھائی اور سکھائی ۔ اور بادشاہ کے ہاتھ بیچ بھی ڈالی ۔ محلمیں کوئی حرم حاملہ تھی ۔ کہاکہ بیٹا ہو گا۔ وہاں بیٹی ہوئی۔ اور بہت سی خشک اور بے نمک اور بد مزہ حرکتیں کیں ۔ کہ سوا افسوس کے کچھ زبان قلم پر نہیں آتا۔ آں نہ صوفی گری و آزاد یست بلکہ کیدی گری و قلا بیست دزدی ور اہ زنی بہتر ازیں کفن از مردہ کنی بہتر ازیں ایک شخص حسب الطلب حاضرہوئے۔ مگر اس طرح کہ تعمیل کی نظر سے حکم سنتے ہی خانقاہ سے 1 ؎ خلیفہ شیخ عبدالعزیز دہلوی کے تھے۔ اور سر ہند کے رہنے والے تھے۔ 2 ؎ شیخ متھی افغان پنجاب سے تشریف لے گئے ؟ اٹھ کھڑے ہوئے۔ سواری (ڈولا) پیچھے آئی۔ خود فرمان کے ادب سے پچیس تیس منزل بادشاہی پیادوں کے ساتھ پیادہ آئے۔ قنچور میں پہنچے ۔ تو ایک بزرگ کے گھر اترے اور کہلا بھیجا کہ حکم کی تعمیل کی ہے مگر میری ملاقات کسی بادشاہ کو مبارک نہیں ہوئی۔ بادشاہ نے فورا انعام و اکرام کے ساتھ حکم بھیجا کہ آپ کو تکلیف کرنی کیا ضرور تھی۔ بہت اشخاص دور ہی دور سے کنارہ کش ہو گئے خدا جانے کچھ اندر تھا بھی یا نہیں۔ ایک صاحبدل آئے۔ نہایت نامی اور عالی خاندان تھے ۔ بادشاہ نے ان کی کھڑے ہو کر تعظیم بھی کی۔ نہایت اعزاز و اکرام سے پیش آیا۔ مگر جو کچھ پوچھا۔ انہوںنے کانوں کی طرف اشارہ کیا اور جواب دیا کہ اونچا سنتا ہوں۔ علم ۔ معرفت ۔ طریقت ۔ شریعت جس معاملہ میں پوچھتا تھا۔ انجان اور بھولی بھالی صورت بنا کر کہتے تھے۔ اونچا سنتا ہوں ، غرض وہ بھی رخصت ہوئے۔ جس کو دیکھا یہی معلوم ہوا۔ کہ خانقاہ یا مسجد میں بیٹھے ہیں۔ دوکان داری کر رہے ہیں۔ اندر لامکان ؎ کرے کعبہ میں کیا جو سر بت خانہ سے آگہ ہے وہاں تو کوئی صورت میں بھی ۔ یہاں اللہ ہی اللہ ہے بعضے شیطان طینتوں نے کہا۔ کتابوں میں لکھا ہے ۔ کہ اختلاف مذاہب جو سلف سے چلا آتا ہے۔ ان کا دفع کرنے والا آئیگا۔ اور سب کو ایک کر دے گا۔ وہ اب آپ پیدا ہوئے ہیں۔ بعض نے کتب قدیم کے اشاروں سے ثابت کر دیا کہ 990ھ میں اس کا ثوبت نکلتا ہے۔ ایک عالم کعبتہ اللہ سے شریف مکہ کارسالہ لیکر تشریف لائے۔ اس میں اتنی بات کو پھیلا یا تھا کہ دنیا کی 7ہزار برس کی عمر ہے۔ وہ ہو چکی۔ اب حضرت امام مہدی کے ظہور کا وقت ہے۔ سو آپ ہیں۔ قاضی عبدالسمیع میا نکالی قاضی القضاہ تھے۔ ان کا خاندان تمام ماوراء النہر میں عظمت اور برکت سے نامور تھا۔ مگر یہاں یہ عالم تھا ۔ کہ بازی لگا کر شطرنج کھیلنا وظیفہ تھا۔ جلسہ میخواری ایک عالم تھا۔ جس کے آفرید گار وہ تھے۔ رشوت نذرانہ تھا جس کا لینا مثل ادائے نماز فرض عین تھا۔ تمسکوں میں سود پر حسب الحکم لکھتے تھے۔ اور صول کر لیتے تھے۔ (حیلہ شرعی بھی ضرور چاہئے) قاسم خاں فوجی نے کچھ اشعار لکھ کر ان کے احوال و افعال کی تصویر کھینچی تھی ۔ ایک شعر اس کای اد ہے ؎ پیرے ز قبیلہ ، معزز ریشے چوگل سفید یک گز نیک نیت بے علم بادشاہ طالب خیر اورجو یائے حق تھا۔ ایسی ایسی باتوں نے اس کے عقل و ہوش پر یشان کر دیئے ؎ 1 ؎ شیخ جمال بختیاری پوشیدہ مرفع اندریں خامے چند بگر فتہ بہ طامات الف لامے چند (لاالہ الااللہ) نارفتہ رہ صدق و صفا گامے چند بد نام کنندۂ نکونامے چند آتش پرست پارسی نوساری علاقہ گجرات دکن سے آئے۔ وہ دین زر دشت کی کتابیں بھی لائے۔ ملک دل کا بادشاہ ان سے بہت خوش ہو کرملا۔ شاہان کیانی کی رسم و رواج ۔ آگ کی عظمت کے آئین۔ اور اس کی اصطلاحیں معلوم کیں۔ ملا صاحب کہتے ہیں۔ آتشکدہ محل کے پاس بنوایا حکم تھا۔ ایک دم آگ بجھنے نہ پائے کی آیات عظیمۂ الہٰی اور اس کے نوروں میں سے ایک نور ہے۔25جلوس میں بے تکلف اگ کو سجدہ کی۔ جب پراغ یا شمع روشن ہوتی۔ صاحبان مقربین تعظیم کو اٹھ کھڑے ہوتے تھے۔ اہتمام اس کا شیخ ابوالفضل کے سپرد ہوا۔ آزاد پارسیان مذکور کو نوساری میں چار سو بیگھ زمین جاگیر دی۔ اب تک ان کے قبضے میں چلی آتی ہے۔ اکبری اور جہانگیر میں سندیں ان کے پاس موجود ہیں۔ میں نے سیاحت بمبئی میں وہ کاغذات بچشم خود دیکھے ہیں۔ اہل فرنگ کا آنا اور ان کی خاطرداری اکبر اگرچہ علوم و فنون کی کتابیں نہ پڑھا تھا۔ مگر اہل علم سے زیادہ علوم وفنون اور شائستگی اور تہذیب کا عاشق تھا۔ اور ہمیشہ ایجاد و ااختراع کے رستے ڈھونڈھتا تھا۔ اس کی دلی آرزو یہ تھی کہ جس طرح فتوحات ملکی اور شجاعت و سخاوت میں نامور ہوں۔ اور امیر ملک قدرتی پیداوار اور زرخیزی میں باغ زر ریز ہے۔ اسی طرح علوم و فنون میں نامور ہو۔ وہ یہ بھی جان گیا تھا کہ علم و کمال کے آفتاب نے یورپ میں صبح کی ہے۔ اس لئے اس ملک کے باکمالوں کی تلاش رکھتا تھا۔ یہ امر قانون قدرت میں داخل ہے۔ کہ جو ڈھونڈھیگا سو پائیگا۔ سامان اس کے خود بخود پیدا ہو جاتے ہیں۔ ان میں سے چند اتفاق لکھتا ہوں۔ 979ھ میں ابراہیم حسین مرزا نے بغاوت کر کے قلعہ بندر سورت پر قبضہ کر لیا۔ بادشاہ لشکر نے جاکر گھیرا۔ اورخود اکبر بھی یلغار کر کے پہنچا۔ سودا گران فرنگ کے جہاز ان دنوں میں آتے رہتے تھے ۔ مرزا نے انہیں لکھا کہ اگر تم آؤ۔ اور اس وقت میں میری مدد کرو تو قلعہ تمہیں دیدونگا۔ وہ لوگ آئے۔ مگر بڑی حکمت سے آئے۔ یعنی بہت سے عجائب و غرائب تحفے مختلف ممالک کے ساتھ لیتے آئے۔ جب لڑائی کے پلے پر پہنچے۔ تو دیکھا۔ کہ سامنے کا وزن بھاری ہے۔ مقابلہ میں کامیاب نہ ہو سکیںگے ۔ جھٹ رنگ بدل کر ایلچی بن گئے۔ اور کہا کہ ہم تو اپنی سلطنت کی سفارت پر آئے ہیں۔ دربار میں پہنچ کر تحفے تحائف گزرانے ۔ اور خلعت و انعام کے ساتھ مراسلہ کا جواب لیکر رخصت ہوئے۔ اکبر کی باد پسند طبیعت اپنے کام سے کبھی نچلی نہ رہتی تھی۔ جس طرح اب بمبئی اور کلکتہ ہے۔ ان دنوں اکثر یورپ اور ایشیا کے جہازوں کے لئے گودا اور سورت بندرگاہ تھے۔ معرکہ مذکور کے کئی برس بعد اس نے حاجی حبیب اللہ کا شی کو زرکثیر دیکر روانہ کیا۔ صنعتوں کے ماہر اور ہر فن کے مبصر ساتھ کئے کہ بندرگاہ گووا میں جا کر مقام کرو اور وہاں سے عجائب و نفائس دیار فرنگ کے لاؤ۔ اور جو صنعت گر اور دستکار ممالک مذکورہ کے وہاں سے آسکیں۔ انہیں بھی ساتھ لائے۔ جس وقت شہر میں داخل ہوئے تو عجائبات کی برات بن گئی۔ انبوہ کثیر جوان و پیر کا ساتھ تھا۔ بینچ میں بہت سے اہل فرنگ اپنا ملکی لباس پہنے۔ اور اپنے قانون موسیقی کے بموجب فرنگی باجے بجاتے شہر میں داخل اور دربار میں حاضر ہوئے۔ انہی کے نوادر و غرائب میں اول ارغنوں (آرگن) ہندوستان میں آیا۔ وقت کے مورخ لکھتے ہیں۔ مگر معلوم ہوتا ہے کہ اس باجے کو دیکھ کر عقل حیران اور ہوش سر گردان ہے۔ دانا یان مذکور نے دربار ۔ اکبری میں جو اعزاز پائے ہوں گے۔ بادبانوں نے اڑا کر یورپ کے ملک ملک میں پہنچائے ہوں گے۔ اور جابجا امیدوں کے دریا لہرائے ہوں گے ۔کسی موج نے بندر ہگلی کے کنارے پر بھی ٹکر کھائی ہو گی۔ امرا کی کارگزاری جدھر بادشاہ کا شوق دیکھتی ہے۔ ادھر پسینہ ٹپکاتی ہے۔ چنانچہ 23 جلوس میں شیخ ابوالفضل اکبر نامہ میں 986ھ لکھتے ہیں۔ کہ خان جہان حسین قلی خان نے کوچ بہار کے راجہ سے اطاعت نامہ اور تحائف و نفائس اس ملک کے لیکر دربار میں بھیجے تاب بار سو تاجر فرنگ بھی حاضر دربار ہوا۔ اور باسوبارن تو بادشاہ کے حسن اخلاق اور اوصاف طبع دیکھ کر حیران رہ گیا۔ اور اکبر نے بھی ان پر درستی عقل اور شائستگی حال کا صاد کیا۔ 35 جلوس میں لکھتے ہیں۔ پادری فریبتون بندر گووا اسے اتر کر حاضر دربار ہوئے۔ بہت سے عقلی اور نقلی مطالب سے آگاہ تھے۔ شہزاد گان تیز ہوش کو ان کا شاگرد کیا کہ یونانی کتابوں کے ترجمہ کا سامان فر اہم اور ہر رنگ کی باتوں سے آگاہی حاصل ہو۔ پادری موصوف کے علاوہ ایک گروہ انبوہ فرنگی۔ ارمنی ۔ حبشی وغیرہ کا تھا۔ کہ ممالک مذکور کی عمدہ اجناس لایا تھا۔ بادشاہ دیر تک سیر دیکھتے رہے۔ 40ج میں پھر ایک قافلہ بندر مذکور سے آیا۔ اشیائے عجیب و اجناس غریب لایا۔ ان میں چند دانشور صاحب ریاضت مذہب نصاری کے تھے۔ کہ پادری کہلاتے ہیں۔ نوازش بادشاہی سے کامیاب ہوئے۔ دیکھو اقبال نامہ 1003ھ۔ ملا صاحب فرماتے ہیں کہ پاپا یعنی پادری آئے۔ ملک افرنجہ کے دانایان مرتاض کو پادھری کہتے ہیں اور مجتہد کامل کو پاپا۔ وہ مصلحت وقت کی رعایت سے احکام کو تبدیل کر سکتا ہے۔ اور بادشاہ بھی اس کے حکم سے عدول نہیں کر سکتا۔ وہ انجیل لائے اور ثالث ثلثہ پر دلائل پیش کر کے نصرانیت کا اثبات کیا اور ملت عیسوی کو رواج دیا۔ ان کی بڑی خاطریں ہوئیں۔ بادشاہ اکثر دربار میں بلاتا تھا۔ اور دینی حالات اور دنیاوی معاملات میں گفتگو میں سنتا تھا۔ ان سے توریت و انجیل کے ترجمے کرنے چاہے۔ اور کام بھی شروع ہوا مگر ناتمام رہا اور شاہزادہ مراد کو ان کا شاگرد بھی کیا (ایک اور جگہ کہتے ہیں) جب تک یہ لوگ رہے۔ ان کے حال پر بہت توجہ رہی۔ وہ اپنی عبادت کے وقت ناقوس بجاتے تھے۔ اور باجوں سے نغمہ سرائی کرتے تھے۔ اور بادشاہ سنتا تھا۔ آزاد ۔ معلوم نہیں۔ کہ جو زبان شاہزادے سیکھتے تھے۔ وہ رومی تھی یا عبرانی تھی۔ ملا صاحب اگرچہ سنہ نہیں لکھتے مگر قرینے سے معلوم ہوتا ہے کہ مراد کی شاگردی کا تعلق بھی پادری فریبتون سے تھا۔ شاید وہ اپنی یونانی زبان سکھاتے ہونگے۔ جس کا ابوالفضل کے بیان سے اشارہ پایا جاتا ہے۔ یہ سب کچھ ہے۔ مگر ہماری کتابوں سے نہیں معلوم ہوتا کہ اس وقت کون کون سی کتابیں ان لوگوں کی معرفت ترجمہ ہوئیں۔ البتہ ایک کتاب میں نے خلیفہ سید محمدحسن صاحب کے کتب خانہ میں دیکھی۔ کہ زبان لاطینی (رومی) سے اسی عہد میں ترجمہ ہوئی تھی۔ ملا صاحب لکھتے ہیں۔ ایک موقع پر شیخ قطب الدین جالیسری کو کہ مجذوب خراباتی تھے۔ لوگوں نے پادریوں کے مقابلے میں مباحثے کے لئے پیش کیا۔ ۔ فقیر مذکور میدان مباحثہ میں جوش خروش سے صف آرا ہوئے۔ کہا کہ ایک بڑاڈھیر آگ کا دہکاؤ ۔ جس کو دعوی ہو میرے ساتھ آگ میں کود پڑے۔ جو صحیح سلامت نکل آئے وہ حق پر ہے۔ آگ دہکا کر تیار کی۔ انہوں نے ایک پاپا کی کمر میں ہاتھ ڈال کر کہا۔ ہاں بسم اللہ ۔ پاپاؤں نے کہا کہ یہ بات خلاف عقل ہے۔ اور اکبر کو بھی یہ حرکت ناگوار گزری آزاد ۔ بے شک ایسی بات کہنی گویا اقرار ہے اس بات کا کہ ہمارے پاس دلیل عقلی نہیں ۔ اور مہمانوں کا دل آزردہ کرنا نہ شریعت میں درست ہے نہ طریقت میں۔ تبت اور خطا کے لوگوں سے وہاں کے حالات سنتا تھا۔ جین مت کے لوگوں سے بودھ دھرم کی کتابیں سنا کرتا تھا۔ ہندؤں میں بھی صدہا فرقہ ہیں اور سیکٹروں میں ہی کتابیں ہیں۔ وہ سب کو سنتا تھا۔ اور ان پر گفتگو ئیں کرتا تھا۔ لطیفہ چند مسلمانوں بلکہ شیطانوں نے ایک فرقہ پیدا کیا کہ نماز روزہ وغیرہ عبادات و طاعات سب چھوڑ دیئے ۔ ناچ رنگ شراب کباب کو مشغل لازمی اختیار کیا۔ علما نے بلا کر ہدایت کی ۔ کہ اعمال ناشائستہ سے تو بہ کرو۔ جواب دیا کہ پہلے تو بہ کر لی ہے۔ جب یہ اختیار کیا ہے۔ انہیں دنوں میں اکثر سلسلوں کے مشائخ بھی حکومت سے اخراج کے لئے انتخاب ہوئے تھے۔ چنانچہ ان بے سلسلہ اور ان باسلسلہ اشخاص کو ایک قندھاری کا روان کے سلسلے میں رواں کر دیا۔ کارواں باشی کو کہا کہ انہیں وہاں چھوڑ آؤ۔ کاروان مذکور قندھار سے ولادیتی گھوڑے لے آیا کہ کار آمد تھے۔ انہیں چھوڑ آیا کہ نکمے تھے۔ بلکہ کام بگاڑنے وال۔ جب زمانہ بدلتا ہے۔ تو ایسے ہی مبادلے کیا کرتا ہے۔ تین سوبرس بعد استاد مرحوم نے اس انگوٹھی پر نگینہ جڑا ہے ؎ عجب نہ تھا کہ زمانے کے انقلاب سے ہم تمیم آب سے اور خاک سے وضو کرتے خلاصہ مطالب مذکورہ بالا کا یہ ہے۔ کہ مختلف اور متفرق معلومات کا ذخیرہ ایک ایسے بے تعلیم دماغ میں بھرا ۔ جن پر ابتدا سے اب تک کبھی اصول و قواعد کا عکس بھی نہ پڑا تھا۔ سمجھ لو کہ اس کے خیالات کا کیا حال ہو گا۔ اتنا رضور ہے کہ اس کی نیت بدی اور بد خواہی پر نہ تھی۔ اسے یہ بھی خیال تھا۔ کہ کل مذہبوں کے بانی نیک نیتی سے لوگوں کو حق پرستی اور نیک راہ پر لایا چاہتے تھے۔ اور انہوں نے اپنے اصول عقاید اور احکام و مسائل اپنے فہم اور اپنے عہد کے بموجب نیکی و اخلاق اور تہذیب و شائستگی کی بنیاد پر رکھے تھے۔ اسے یہ بھی یقین تھا۔ کہ ہر مذہب میں حق پرست اورص احب معرفت لوگ ہوئے ہیں۔ نیک نیت بادشاہ جو سب سے اعلیٰ رتبے کی بات سمجھتا تھا۔ وہ یہ تھی کہ پروردگار سب العالمین ہے۔ اور قادر مطلق ہے۔ اگر سارا حق ایک ہی مذہب کے حجرے میں بند ہوتا۔ اور وہی خدا کو پسند ہوتا تو اسی کو دنیا میں رکھتا۔ باقی سب کو نیست و نابود کر دیتا۔ لیکن جب ایسا نہ کیا تو معلوم ہوا کہ اس کا ایک مذہب نہیں۔ سب اسی کے مذہب ہیں۔ بادشاہ سایہ خدا ہے۔ اسے بھی ہی سمجھنا چاہئے۔ کہ سب مذہب میرے ہیں۔ استاد مرحوم نے کیا خوب کہا ہے ؎ ہم کو کیا یاں راہ پر ہے کوئی یا گمرا ہ ہے ، اپنی سب سے راہ ہے اور سب سے یاد اللہ ہے اسی واسطے اسے اس بات کا شوق نہ تھا کہ سارا جہان مسلمان ہو جائے۔ اور مسلمان کے سوا دوسرا آدمی نظر نہ آئے۔ چنانچہ اس کے دربار میں بہت سے مقدمے اس جھگڑے کے دائر ہوئے ۔ بلکہ ایک مقدمے نے ایسا طول کھینچا۔ کہ شیخ صدر کی بنیاد اکھڑ گئی ہے ؎ درحیر تم کہ دشمنی کفر و دیں چراست ازیک چراغ کعبہ و بتخانہ روشن است ہندو ہر وقت پہلو سے لگے تھے۔ ان سے ہر ایک بات پوچھنے کا موقع تھا۔ وہ بھی مدتوں سے دعائیں کر رہے تھے۔ کہ کوئی پوچھنے والا پیدا ہو۔ شوق تحقیق کو ان کی طرف جھکنے کا زیادہ موقع ملا۔ طالب تحقیق بادشاہ پر گھوتم برہمن کو (ابتدا میں سنگھا سن بتیسی کا ترجمہ لکھوایا کرتا تھا) بلا کر تحقیقاتیں کرتا تھا۔ ملا صاحب فرماتے ہیں ۔ ایک بالا خانہ خوابگاہ کہلا تا تھا۔ آپ اس کی کھڑکی میں بیٹھتے تھے۔ خلوت میں دیوی برہمن کو (جو مہا بھارت کا ترجمہ کرواتا تھا) چارپائی پر بٹھاتے تھے۔ اور رسیاں ڈال کر اوپر کھینچ لیتے تھے۔ وہ بیچ ہوا میں ہوتا تھا۔ کہ نہ زمین پر ہو نہ زمین پر ہو نہ آسمان پر۔ اس سے آگ کے سورج کے ۔ اور ہر ایک ستارہ کے ۔ اور ہر ایک دیوی ۔ دیوتا ۔ بڑھا ۔ مہادیو ۔ بشن ۔ کرشن ۔ رام ۔ مہامائی وغیرہ کی پوجا کے طریقے اور ان کے منتر سیکھتے تھے۔ اور ان کے مسائل اور افسانوں کو بڑے شوق سے سنتے تھے۔ اور چاہتے تھے کہ ان کی ساری کتابیں ترجمہ ہو جائیں۔ ملا صاحب فرماتے ہیں ۔ 30 جلوس کے بعد زمانہ کا رنگ بالکل بدل گیا۔ کیونکہ بعض دیں فروش ملا بھی شامل ہو کر ان کے ساتھ ہمداستان و گئے۔ نبوت میں کلام۔ وحی میں سکوت ہونے لگے۔ معجزے کرامت ۔ جن ۔ پری ۔ ملائک جو آنکھ سے غائب اس کا انکار۔ قرآن کا تواتر۔ اس کا کلام الہٰی ہونا۔ سب باتوں کے لئے ثبوت طلب ۔ تناسخ پر رسالے لکھے گئے۔ اور قرار یہ پایا کہ اگر مرنے کے بعد ثواب یا عذاب ہے تو تناسخ ہی سے ہو سکتا ہے اس کے سوا کوئی صورت ممکن نہیں۔ ایک فقرہ کتابوں میں لکھا چلا آتا ہے۔ مامن مذہب الاوفیہ قدم راسخ للتناسخ اتنی بات کو بڑھ کر بہت سے پھیلا وے پھیلائے ارباب زمانہ اس قسم کے اشعار پڑھتے تھے اور خوش ہوتے تھے ؎ درحقیقت بد ست کورے چند مصحفے ماند و کہنہ گورے چند گور باکس سخن نمے گوید ، سر قراں کسے نمے جوید لطیفہ خان اعظم جب کعبتہ اللہ سے پھرے تو جہان کو دیکھ کر ذرا عقل آگئی تھی۔ ڈاڑھی بڑھائی اور درگاہ اکبری میں چڑھائی ؎ اگر ابکے پھرے جیتے وہ کعبہ کے سفر سے تو جانو پھرے شیخ جی اللہ کے گھر سے سبحان اللہ ۔ وہی خان اعظم ۔ جن سے ڈاڑھی کے طول پر کیا کیا طول کلام ہوئے۔ دیکھو خان موصوف کا حال 990ھ میں ایک مہم پر سے فتحیات آئے۔ بادشاہ خوشی خوشی باتیں کر رہے تھے۔ اسی کے سلسلے میں فرمایا کہ ہم نے تناسخ کے لئے دلائل قطعی پیدا کئے ہیں ۔ شیخ ابوالفضل تمہیں سمجھا ئینگے ۔ تم قبول کرو گے۔ تسلیم کے سوا جواب کیا تھا ! ایک بڑے خاندانی مشائخ تھے۔ دیوی برہمن کو خوابگاہ پر جاتے ہوئے دیکھ کر انہیں بھی شوق 1 ؎ ملا صاحب فرماتے ہیں شیخ تاج الدین ولد ذکریا اجودھنی دہلوی تھے۔ (اجودھن اب پاک پٹن کہلاتا ہے) اور اکثر اشخاص شیخ ذکریا موصوف کو تاج العارفین کہتے ہیں۔ یہ حضرت شیخ مان پانی پتی کے شاگرد تھے۔ شیخ مان پانی پتی وہ شخص تھے ۔ کہ لوائح پر شرح لکھی تھی۔ اور نزہت الارواح پر بھی موٹی شرح فخر فرمائی تھی۔ اور صوف میں ایسی اسی یادگاریں چھوڑی تھیں کہ علم توحید کے دوسرے محی الدین عربی تھے۔ پیدا ہوا اور مکروحیلہ کی کمند پھینک کر خوابگاہ پر پہنچنے لگے۔ بہت مقاصد قرآن کے اور مطالب پران کے ملا کر ایک کر دیئے ۔ وحدت وجود کی بنیاد رکھ کر ہمہ اوست کا منارہ بلند کیا۔ اور فرعون کو بھی مومن ثابت کر کے کسی کو بھی ایمان سے محروم نہ رکھا۔ بلکہ منقوش خاطر کر دیا کہ مغفرت کی امید ہمیشہ خوف عذاب پر غالب ہے۔ کم سے کم اس کا پر تو ضرور ہے۔ پس قبلہ مرادات اور کعبہ حاجات وہی ہے۔ سجدہ اس کے لئے جائز ہے۔ کہ فلاں فلاں پیروں کو ان کے مرید کیا کرتے تھے۔ شیخ یعقوب کشمیری نے (کہ اپنی مشہور تصنیفوں سے مرشد اور مقتدائے وقت مشہور تھے) اس معاملہ میں بعض تمہیدیں عین القضات ہمدانی سے نقل کیں اور ایسی ایسی بہت سی گمراہیاں پھیلائیں۔ ملا صاحب خفا ہو کر کہتے ہیں۔ بیربر نے یہ روشنی ڈالی ۔ کہ آفتاب ذات الہٰی کا مظہر کامل ہے۔ سبزہ کا اگانا ۔ غلوں کا لانا۔ پھولوں کا کھلانا۔ عالم کا اجالا۔ اہل عالم کی زندگی اس سے وابستہ ہے۔ اس لئے تعظیم اور عبادت کے لائق ہے۔ اس کے طلوع کی طرف رخ کرنا چاہئے نہ کہ غروب کی طرف۔ اسی طرح آگ ۔ پانی ۔ پتھر اور پیپل کے ساتھ سب درخت مظاہر الہٰی ہوگئے۔ یہاں تک کہ گائے اور گوبر بھی مظاہر الہٰی ہوئے۔ ساتھ اس کے تلک اور جنیؤ کو بھی جلوہ دیا۔ مزا یہ کہ علما و فضلا مصاحبان خاص نے اس کی تقویت کی۔ اور کہا کہ فی الحقیقت آفتاب نیر اعظم ۔ اور عطیہ بخش تمام عالم ۔ اور مربی بادشاہوں کا ہے۔ اور جوبااقبال بادشاہ ہوئے ہیں۔ وہ اس کی عظمت کو رواج دیتے رہے ہیں۔ اس قسم کی رسمیں ہمایوں کے عہد میں بھی جاری تھیں۔ کیونکہ چنگیزی ترکوں کا تورہ تھا۔ وہ قدیم سے نوروز کو عید مناتے تھے۔ اور خوان یغما لگا کر لوٹتے لٹاتے تھے۔ اسلام میں بھی ہر بادشاہ نے کہیں کم کہیں زیادہ اسے عید کا دن سمجھا ہے۔ اور فی الحقیقت جس دن سے اکبر تخت پر بیٹھا تھا۔ اس مبارک دن کو عالم کی عید سمجھ کر جشن کرتا تھا۔ اس کے رنگ کے موافق سارا دربار رنگین ہوتا تھا۔ ہاں اب وہ ہندوستان میں تھا۔ اس لئے ہندوستان کی ریت رسمیں بھی برت لیتا تھا۔ برہمنوں سے تسخیر آفتاب کا منتر سیکھا۔ کہ نکلتے وقت اور اور آدھی رات کو اسے جپا کرتا تھا۔ ویپ چند راجہ مجہولہ نے ایک جلسہ میں کہا۔ کہ حضور اگر گائے خدا کے نزدیک واجب التعظیم نہ ہوتی تو قرآن میں سب سے پہلے اس کاسورہ کیوں ہوتا ۔ اس کے گوشت کو حرام کر دیا۔ اور تاکید سے کہ دیا کہ جو ماریگا ۔ مارا جائے گا۔ حکما طب کی کتابیں لے کر تائید کو حاضر ہوئے کہ اس کے گوشت سے رنگ کے مرض پید ہوتے ہیں۔ ردی اور دیر ہضم ہے۔ آزاد ملا صاحب اس کی باتوں کو جس طرح چاہیں۔ بدرنگ کر کے دکھائیں۔ وہ حقیقت میں اسلام کا منکر بھی نہ تھا۔ چنانچہ میرا بو تراب میر حاج ہو کر مکہ کو گئے تھے۔ وہ 987ھ میں پھر کر آئے۔ اور ایک ایسا بھاری پتھر لائے۔ کہ ہاتھی سے بھی نہ اٹھے جب قریب پہنچے ۔ تو لکھا کہ فیروز شاہ کے عہد میں قدم شریف آیا تھا۔ حضور کے عہد مقدس میں فدوی یہ پتھر لایا ہے۔ اکبر سمجھ گیا تھا۔ کہ سید سادہ لوح نے سودا گری کی ہے۔ مگر اس لئے کہ خاص و عام میں اس بیچارے کی ہنسی نہ ہو۔ اور جو لوگ مجھے انکار نبوت کی تمہتیں لگاتے ہیں۔ ان کے دانت ٹوٹ جائیں۔ اس لئے حکم دیا کہ آداب الہی کے ساتھ دربار آراستہ ہو۔ سید موصوف کو فرمان پہنچا کہ چار کوس پر توقف کر و۔ شہزادوں اور تمام امیروں کو لے کر پیشوائی کو گئے۔ دور سے پیادہ ہوئے۔ نہایت ادب اور عجز و نیاز سے خود اسے کندھا دیا۔ اور چند قدم چل کر فرمایا ۔ کہ امرائے خوش اعتقاد اسی طرح دربار تک لائیں۔ اور پتھر میرہی کے گھر پر رکھا جائے۔ ملا صاحب کہتے ہیں ۔ کہ 987ھ میں قیامت آگئی۔ اور یہ موقع وہ تھا کہ سب طرف سے خاصر جمع ہو گئی تھی۔ تجویز ہوئی کہ لا الٰہ الا اللہ کے ساتھ اکبر خلیفۃ اللہ کہا کریں۔ پھر بھی لوگوں کے شور شرابے کا خیال تھا۔ اس لئے کہتے تھے۔ کہ باہر نہیں۔ محل میں کہا کرو۔ عوام کا لا نعام کی زبانوں پر اللہ اکبر کے سوا وظیفہ نہ تھا۔ اکثر اشخاص سلام علیک کی جگہ اللہ اکبر۔ جواب میں جل جلالہ کہتے تھے۔ ہزاروں روپے اب تک موجود ہیں۔ جن کے دونوں طرف یہی سکہ منقوش ہے۔ گوکہ جاں نثار اور باوفا۔ با اعتبار گنے جاتے تھے۔ مگر صالح ہوئی کہ پہلے ان میں سے کوئی ابتدا کرے۔ چنانچہ قطب الدین خان کو کہ کو مذہب تقلیدی چھوڑنے کے لئے اشارہ ہوا۔ وہ سیدھا سپاہی تھا۔ اس نے خیر اندیشی و دلسوزی کے رنگ میں ظاہر کیا۔ کہ ولایتوں کے بادشاہ یعنی سلطان روم وغیرہ سن کر کیا کہیں گے۔ سب کا یہی دین ہے۔ خواہ تقلیدی ہے خواہ نہیں ہے۔ بادشاہ نے بگڑ کر کہا۔ ہاں ! تو سلطا روم کی طرف سے غائبانہ لڑتاہے۔ اپنے لئے جگہ پیدا کرتا ہے۔ کہ یہاں سے جائے تو وہاں عزت پائے۔ جاو ہیں چلاجا۔ شہباز خان کمبو نے بھی تیز و تند سوال جواب کئے بیربر موقع تاک کر کچھ بولے۔ انہیں تو اس نے اس سختی سے دھکایا کہ صحبت بدمزہ ہو گئی۔ اور امرا آپس میں کھسر پھسر کرنے لگے۔ بادشاہ نے شہباز خان کو خصوصا اور اوروں کو مگھم میں کہا کیا بکتے ہو۔ تمہارے منہ پر گو میں جوتیاں بھر کر لگواؤں گا۔ ملا شیری نے اس عالم میں ایک قصیدہ کہا کہ اس کے چند اشعار ان کے حال میں لکھے ہیں۔ انہی دنوں میں قرار پایا کہ جوشخص دین الہی اکبر شاہی میں داخل ہو۔ چاہئے کہ اخلاص چار گانہ رکھتا ہو۔ ترک مال ۔ ترک جان ۔ ترک ناموس ۔ ترک دین ۔ ان میں سے جو چاروں رکھتا ہے۔ وہ پورا ہے ۔ ورنہ پون ۔ آدھا ۔ چوتھائی۔ جیسا ہو گا ویسا اس کا اخلاص ہو گا۔ سب مخلص مرید درگاہ ہو گئے کہ ان کا دین دین الہٰی اکبر شاہی تھا۔ ہدایت اور ترویج مذہب اور تعلیم مسائل کے لئے خلیفہ بھی تھے ا ن میں سے خلیفہ اول شیخ ابوالفضل تھے۔ جو شخص دین الہٰی میں آتا تھا۔ وہ اقرار نامہ لکھ کر دیتا تھا۔ اس کا انداز یہ تھا۔ منکہ فلاں ابن فلاں باشم ۔ بطوع و رغبت و شوق قلبی از دین اسلام مجازی و نقلیدی کہ ازپدراں دیدہ و شنیدہ بودم ۔ ابراو تبراہ نمودم ۔ ودر ۔ دین الہٰی اکبر شاہی درآمدم ۔ و مراتب چہارگانہ اخلاص کہ ترک مال و جان و ناموس و دین باشد قبول نمودم ۔ اس دین میں بڑے بڑے عالیشان امیر اور صاحب ملک فرمانروا داخل ہوتے تھے۔ چنانچہ مرزا جانی حاکم ٹھٹہ بھی خلقہ ارادت میں آیا خطوط مذکورہ ابو الفضل کے سپرد ہوتے تھے۔ کہ جس جس کا جیسا اعتقاد ہو نمبر وار ترتیب دے رکھو۔ شیخ موصف مجتہد اور خلیفہ دین الہٰی کے تھے اس طریقے کا نام توحید الہی اکبر شاہی تھا۔ امر ا میں سے جو اشخاص دین الہی اکبر شاہی میں داخل ہوئے ان کی تفصیل کتابوں کے انتخاب سے حسب ذیل معلوم ہوتی ہے۔ 1 ۔ ابوالفضل خلیفہ 10۔ صدر جہاں مفتی کل ممالک ہندوستان اور 2 ۔ فیضی ملک الشعراے دربار 11۔ 3 ۔ شیخ مبارک ناگوری 12۔ ان کے دونو صاجزادے 4 ۔ جعفر بیگ آصف خاں مورخ اور شاعر 13۔ میر شریف املی 5 ۔قاسم کابلی شاعر 14 ۔ سلطان خواجہ صدر 6۔ عبدالصمد مصور دربار اور شاعر 15 ۔ مرزا جانی حاکم ٹھٹہ 7 ۔ اعظم خاں کو کہ مکہ سے آکر 16۔ نقی شوستری شاعر و دو صدی منصبدار 8 ۔ ملا شاہ محمد شاہ آبادی 17 ۔ شیخ زادہ گو سالہ بنارسی 9۔ صوفی احمد 18 ۔ بیربر اسی سلسلہ میں ملا صاحب کہتے ہیں ایک دن جلسہ مصاجت میں کہا کہ آج کے زمانہ میں بڑا عقلمند کون ہے ۔ بادشاہوں کو مسثتثنیٰ کروا اور تباؤ حکیم ہمام نے کہا ۔ میں تو یہ کہتا ہوں ۔ کہ سب سے زیادہ میں عقلمند ہوں۔ ابو الفضل نے کہا۔ میرا باپ بڑا عقلمند ہے۔ اس قسم کے کلمات سے ہر شخص نے اپنے عقلمندی ظاہر کی۔ اکبر کی ساری تاریخ میں یہ آئین آب زرے لکھنے کے قابل ہے۔ کہ باوجود ان سب اتوں کے اس سال میں اس نے صاف حکم دے دیا کہ ہندؤں کاجزیہ معاف کیا جائے۔ اور یہ کئی کروڑ روپیہ سالانہ کی آمدنی تھی۔ معافی جزیہ پہلے بھی بعض بعض بادشاہ ہندؤں سے جزیہ لیتے رہے تھے۔ سلطنت کے انقلابوں میں کبھی موقوف ہوتا تھا۔ کبھی مقرر ہو جاتا تھا۔ جب اکبر کی سلطنت نے استقلال پکڑا تو ملا نوں نے پھریاد دلایا چنانچہ ملا صاحب سنوں کے خلط ملط میں لکھتے ہیں ’’ انہی دنوں میں شیخ عبدالنبی اور مخدوم الملک کو فرمایا کہ تحقیق کر کے ہندؤں پر جزیہ لگاؤ۔ مگر پانی پر تحریر ہوا تھا۔ جھٹ ہٹ گیا۔ ‘‘ پھر 987ھ میں چوٹ کرتے ہیں۔ ’’ تمغایعنی محصول اور جزیہ کہ کوئی کروڑ کی آمدنی تھی۔ اس سال میں موقوف کر دیا۔ اور تاکید کے ساتھ فرمان جاری ہوئے۔ وہ اس تحریر سے لوگوں کے دلوں پر یہ پر تو ڈالتے ہیں کہ دین کی بے پروائی بلکہ اسلام کی دشمنی نے اس کے دل میں حرارت دینی کو ٹھنڈا کر دیا تھا ۔ اب حقیقت حال سنو کہ اول سنہ یکم جلوس میں اکبر کو معافی جزیہ کا خیال آیا تھا۔ نوجوانی کا عالم تھا۔ کچھ بے پروائی کچھ بے اختیاری حکم جاری نہ ہوا۔ 09جلوس میں پھر اس مقدمہ پر بحث ہوئی۔ علمائے دیندار کا زور پورا پورا تھا۔ اس لئے قیل و قال ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ شریعت اسلام کا حکم ہے۔ ضرور لینا چاہئے چنانچہ کہیں اس پر عمل ہوا۔ کہیں نہ ہوا 988ھ 25جلوس میں بادشاہ صلاح اندیش پھر اس عزم پر مستقل ہوا۔ اور کہا کہ عہد سلف میں جو یہ امر تجویز کیا گیا تھا۔ سبب یہ تھا کہ ان لوگوں نے اپنے مخالفوں کے قتل اور غارت کو مصلحت سمجھا تھا۔ چنانچہ اس نظر سے کہ ظاہری انتظام قائم رہے۔ یعنی جو ہاتھ آئے کچھ روپیہ قرار دیا اور اس کا نام جزیہ رکھا۔ اب کہ ہماری خیر اندیشی اور کرم بخشی اور مرحمت عام سے غیر مذہب اشخاص یک جہتان ہمدین کی طرح کمر باندھ کر رفاقت پر جان دیتے ہیں۔ اور خیر خواہی اور جانفشانی میں جاں نثاری کی حد سے گزر گئے ہیں۔ کیونکر ہو سکتا ہے اہل خلاف سمجھ کر انہیں بے عزت اور قتل و غارت کیا جائے۔ 1 ؎ غالباً 983ھ ہوں۔ اور ان جاں نثاروں کو مخالف قیاس کیا جائے۔ ان لوگوں پر کہ جن کی پہلی نسلوں میں اور ہماری اصلوں میں عداوت جانی تھی ۔ دبے ہوئے خون جو خدا جانے کس طرح خاک پر گرے تھے۔ مگر اب ٹھنڈے ہو گئے ہیں۔ انہیں و مبدم جگانا اور گرمانا کیا ضرور ہے اصل بات تو یہ ہے کہ بڑا سبب جزیہ لینے کے لئے یہ تھا کہ سلطنتوں کے منتظم اور معاون سامان اور اسباب دنیوی کے محتاج تھے۔ اس ذریعے سے معاش میں وسعت پیدا کرتے تھے۔ اب ہزاراں ہزار زرنقد خزانہ میں موجود ہے۔ بلکہ آستانہ اقبال کے ایک ایک ملازم کو بے ضرورتی سے بڑھ کر فارغ البالی حاصل ہے۔ پھر منصف دانا کوڑی کوڑی چننے کے لئے کیوں نیت بگاڑے اور نہیں چاہئے کہ موہوم فائدہ کے لئے نقد نقصان پر تیار ہو بیٹھے۔ آزاد ۔ اگرچہ دینے والوں کو پیسے آنے ۔ یا کچھ روپے دینے پڑتے تھے۔ مگر فرمان جاری ہوتے ہی گھر گھر خبرپ ہنچ گئی۔ اور زبان زبان پر شکرانے جاری ہو گئے۔ ذرا سی بات نے دلوں اور جانوں کومول لے لیا۔ یہ بات ہزاروں خون بہانے اور لاکھوں لونڈی یا غلام بنانے سے نہ حاصل ہوتی۔ ہاں مسجد نشین ملا نے جنہوں نے مسجدوں میں بیٹھ کر پیٹ پالے اور کتابوں کے لفظ یاد کر لئے تھے۔ ان کے کان میں آواز گئی کہ آتا ہو ا روپیہ بند ہوا۔ جان تڑپ گئی ایمان لوٹ گئے۔ لطیفہ ایک جلسہ میں کوئی ملا نے صاحب بھی آگئے ۔ گفتگو یہ تھی۔ کہ مولویوں کو (سیاق) حساب میں لیاقت کم ہوتی ہے ملانے صاحب الجھ پڑے۔ ایکشخص نے کہا۔ اچھا بتاؤ۔ دوا اور دو کے ملا گھبرا کے بولے چار روٹیاں ۔ پناہ بخدا ۔ یہ مسجدوں کے فرما نروا۔ دن کا کھانا دوپہر ڈھلے۔ اور رات کا کھانا آدھی بجے کھاتے ہیں کہ شائد کوئی اچھی چیز آجائے۔ اور اور اچھی چیز آجائے۔ اور اس سے بھی اچھی چیز آجائے۔ شائد کوئی بلانے ہی آجائے۔ آدھی بجے رات کے گھڑیاں گنتے ہیں اور بیٹھے رہتے ہیں۔ ہوا سے کنڈی ہلی اور دروازہ کودیکھنے لگے۔ کہ کوئی کچھ لایا۔ مسجد مںی بلی کی آہٹ ہوئی اور چوکنے ہوئے کہ دیکھیں کیا آیا ۔ اللھمہ احفظنا من کل بلاء الدنیا و عذاب الا خوۃ ایسے لوگ مصالح سلطنت کو کیا سمجھیں۔ انہیں کیا خبر کہ یہ معاملہ کیا ہے اور اس کا ثمرہ کیا ہے۔ ایک ایسے ہی مقام پر ابوالفضل نے کیا خوب لکھا ہے ؎ تو خود مے نشنوی بانگ دہل را رموز سر سلطان راچہ دانی ترا از کاف کفرت ہم خبر نیست حقایقہاے ایمان راچہ دانی پھر ملا صاحب فرماتے ہیں۔ ابھی 990ھ ہوئے تھے جو لوگوں نے ذمن نشین کیا 1000ھ ہو چکے مذہب اسلام کا دور ہو چکا۔ اب دین نیا ہو گا۔ چنانچہ دین الہٰی اکبر شاہی کو کہ احکام حکمت پر مشتمل تھا۔ جلوہ دینا شروع کیا۔ اسی سنہ میں حکم دیا کہ سکوں میں سنہ الف معقوش ہو۔ اور تاریخ الفی تصنیف ہوئی۔ زمین بوسی کے نام سے سجدہ قائم ہوا کہ بادشاہوں کے لئے لازم ہے۔ شراب کا بند کھل گیا مگر اس میں بھی ایک آئین تھا کہ بقدر فائدہ ہوا ۔ بیماری میں حکیم بتائے تو پیو اتنی نہ پیو کہ بد مستیاں کرتے پھرو اور ایسا ہو تو سزا بھی سخت تھی۔ دربار کے پاس ہی آبکاری کی دوکان تھی نرخ سرکار سے مقرر تھا۔ جسے درکار ہوئی وہاں گیا۔ رجسٹر میں اپنا ۔ باپ کا دادا کا نام ۔ قومیت وغیرہ وغیرہ لکھوائی ۔ اور لے آیا۔ مگر یار لوگ کسی گم نام کو بھیج دیتے تھے۔ فرضی نام لکھوا کر منگاتے تھے۔ اور شیر مادر کی طرح پیتے تھے۔ خواجہ خاتون دربان اس کا داروغہ تھا۔ یہ بھڑوا بھی اصل میں کلال ہی کی نسل تھا۔ اس احتیاط پر بھی شور شرابے ہوتے تھے۔ سر پھوٹتے تھے۔ دارالقضا سے سخت سزائیں۔ ملتی تھیں۔ مگر خاطر میں کون لاتا تھا۔ لطیفہ لشکر خان میر بخشی ایک دن شراب پی کر دربا میں آیا اور بد مستی کرنے لگا۔ اکبر بہت خفا ہوا۔ گھوڑے کی دم سے بند ھوایا۔ اور لشکر خاں کو لشکر میں تشہیر کیا۔ سب نشے ہرن ہو گئے۔ ان ہی لشکر خاں کو عسکر خاں خطاب ہوا۔ لوگوں نے استر خاں بنا دیا۔(واہ خچرخاں) لطیفہ ۔ ملا صاحب کے رونے کا مقام تو یہ ہے کہ 998ھ کے جشن میں دربار خاص تھا شراب کا دور چل رہا تھا۔ کہ میر عبدالحی صدر جہاں مفتی کل ممالک ہندوستان نے اپنے ولی شوق و ذوق سے جام طلب کر کے نوش جان فرمایا ۔ اکبر نے مسکرا کر خواجہ حافظ کا شعر پڑھا ؎ در عہد بادشاہ خطا بخش جرم پوش قاضی پیالہ کش شدو مفتی قرابہ نوش حضرت صدر جہاں کا حال دیکھو تتمے میں ۔ یہی بزرگوار ۔ حکیم ہمام کے ساتھ عبداللہ خاں ازبک کے دربار میں برسم سفارت بھیجے گئے۔ اور مراسلت میں جو فقرے ان کی شان میں نازل ہوئے تھے یہ ہیں۔ سیادت مآب ۔ نقابت نصاب میر صدر جہاں از جملہ اعاظم سادات کبار داجلہ /تقیاے ایں دیار ۔ زمانہ کی تاثیر کو دیکھو کہ اہل عالم کا کیا حال کر دیا تھا۔ اور اکبر کی اس میں کیا خطا تھی۔ سبحان اللہ کسی استاد نے کہا ہے اور کیا خواب کہاہے ؎ عشقت جزز عالم بیہوشی آورد اہل صلاح رابہ قدح نوشی آورد یاد تو اے نگار چہ معجون حکمت است کز ہر چہ خواندہ ایم فراموشی آورد بازاروں کے برآمدوں میں رنڈیاں اتنی نظر آنے لگیں کہ آسمان پر اتنے تارے بھی نہ ہونگے۔ خصوصا دارالخلافہ میں۔ ان سب کو شہر کے باہر ایک جگہ آباد کیا ۔ اور شیطان پورہ نام رکھا۔ اس کے لئے بھی آئین تھے۔ داروغہ ۔ منشی ۔ چوکیدار موجود ۔ جو کسی رنڈی کے پاس آکر رہتا۔ یا گھر لے جاتا نام کتاب میں لکھوا جاتا۔ بے اس کے کچھ نہ ہو سکتا تھا۔ رنڈیاں نئی نوچی کو نہ بٹھا سکتی تھیں ہاں کوئی امیر چاہے ۔ تو حضور میں اطلاع ہو پھر لے جائے۔ پھر بھی اندر ہی اندر کام ہو جاتے تھے۔ پتہ لگ جاتا تو اس رنڈی کو خود الگ بلاتے اور پوچھتے کہ یہ کام کس کا رگزار کا تھا۔ وہ بتا بھی دیتی تھیں معلوم ہوتا تھا تو اس امیر کو خلوت میں بلا کر خوب لعنت ملامت کرتے۔ بلکہ بعضوں کوقید بھی کر دیا آپس میں بھی بڑے شور و شر ہوتے تھے۔ سر پھوٹتے تھے۔ ہاتھ پاؤں ٹوٹتے تھے۔ مگر مانتا کون تھا۔ ایک دفعہ یہاں بیربرجی کی بھی چوری پکڑی گئی۔ جاگیر پر بھاگ گئے۔ داڑھی جو مسلمانوں میں نور الہٰی کہلاتی ہے۔ بڑی خوار ہوئی۔ سبزہ رخسار کی جڑپتال سے ڈھونڈ کر نکالی۔ جہاں سے اسے پانی پہنچتا ہے۔ لطیفہ ۔ علما میں ایک مشائخ تھے۔ اور خاص حضرت شیخ مان پانی پتی کے بھتیجے تھے۔ اپنے عم بزرگوار کیکتب خانہ میں سے ایک کرم خور دہ کتاب لے کر تشریف لائے۔ اس میں سے حدیث دکھائی کہ آنحضرت کی خدمت میں ایک صحابی تشریف لائے۔بیٹا ساتھ تھا اس کی ڈاڑھی منڈی ہوئی تھی۔ آنحضرت نے دیکھ کر فرمایا کہ اہل بہشت کی ایسی ہی صورت ہو گی۔ بعض جعلساز فقیہوں نے کتب فقہ میں سے ۔ یہ فقرہ جواز کی سند میں نکالا کما یفعلہ بعض القضات عصات کو ظالموں نے قضات پڑھ دکھایا۔ غرض تمام دربار منڈ کر صفاچٹ ہو گیا۔ اہل ایران و توران جن کی ڈاڑھیوں کی خوبصورتی تصویر کا عالم دکھاتی تھی۔ ان کے رخسارے میدان لق ودق نظر آنے لگے۔ ملا صاحب پھر چوٹ فرماتے ہیں۔ ہندؤں کے مذہب کا ایک مشہور مسئلہ ہے کہ 10جانور ہیں جن کی صورت میں خدانے ظہور کیا ہے۔ ایک ان میں سے شور ہے۔ بادشاہ نے بھی اس کا خیال کیا اور زیر جھرو کہ اور بعض مقامات میں جدھر یہ لوگ اشنان کو آتے تھے۔ سور پلوائے۔ کتے کے فضائل میں یہ دلیل پیش ہوئی کہ اس میں 10 خصلتیں ایسی ہیں کہ ایک بھی انسان میں ہو تو دلی ہو جائے۔ بعض مقربان درگاہ نے کہ خوش طبعی اور ہمہ دانی اور ملک الشعرائی سے ضرب المثل ہیں۔ چند کتے پالے۔ گوددنمیں بٹھاتے تھے۔ دستر خوان پر ساتھ کھلاتے تھے۔ منہ چومتے تھے اور بعض مردود شاعر ہندی و عراقی فخر سے ان کی زبانیں منہ میں لیتے تھے۔ سند کے لئے ایک صوفی شاعر کا یہ قول تھا ؎ بسکہ درچشم ودلم ہر لخط اے یارم توئی ہر کہ آید در نظر از دور پند ارم توئی شیخ فیضی کے کتوں پر ملا صاحب ہمیشہ تاک باندھے بیٹھے ہیں ۔ جہاں موقع پاتے ہیں ایک پتھر کھینچ مارتے ہیں۔ دیکھو یہاں بھی منہ مارا لیکن حقیقت یہ ہے کہ شکار کے ذوق شوق میں اکثر شاہان و امرا کتوں کا بھی شوق رکھتے تھے اور رکھتے ہیں۔۔ ترکستان اور خراسان میں رسم عام ہے۔ اکبر نے بھی کتے رکھے تھے اور رکھتے ہیں ۔ ترکستان اور خراسان میں رسم عام ہے اکبر نے بھی کتے رکھے تھے۔ قاعدہ ہے کہ جس بات کا بادشاہ کو شوق ہوتاہے۔ امرائے قربت پسند کو اس کا شوق واجب ہوتا ہے۔ اس لئے فیضی نے بھی رکھے ہونگے۔ ملا صاحب چاہتے ہیں ثابت کریں کہ وہ فرض مذہبی سمجھ کر کتے پالتا تھا۔ لطیفہ ۔ مطلع مذکورہ بالا لکھ کر مجھے یاد آیا کہ شاعر نے جب یہ مطلع جلسہ احباب میں پڑھا ۔ اورکہا ع ہر کہ آید در نظر از دور پندارم توئی۔ تو ایک شوخ طبع شخص نے کہا ۔ آنجا ۔ اگر سگ نبطر آید ؟ اس نے کہا۔ پندارم توئی۔ جب زبانیں کھل جاتی ہیں اور خیالات کے میدان وسیع ہو اتے ہیں تو ایک عقلی بات میں ہزار بے عقلی کی باتیں نکلنے لگتی ہیں ۔ چنانچہ ملا صاحب فرماتے ہیں اور بجا فرماتے ہیں۔ دربار میں تقریریں ہوئی تھیں کہ غسل جنابت کی کیا ضرورت ہے۔ اس سے تو انسان اشرف المخلوقات کی بنیاد قائم ہوتی ہے۔ جس سے اہل علم صاحب فضل ۔ پاک خیال نیک بنیاد لوگ پیدا ہوتے ہیں اس سے آدمی ناپاک ہو جائے ؟ اس کے کیا معنی بلکہ حق پوچھو تو غسل کر کے اس کی بنیاد رکھنی چاہئے۔ اور یہ کیا بات ہے کہ اتنی سی چیز کے نکلنے میں غسل واجب ہو جائے۔ اس سے دس بیس حصہ زیادہ کثافتیں دن بھر میں کئی کئی دفعہ نکل جائیں۔ اس پر کچھ بھی نہ ہو۔ کوئی کہتا تھا کہ شیر اور سور کا گوشت کھانا چاہئے کہ بہادر جانور ہیں۔ کھانے والے کی طبیعت میں ضرور بہادری پیدا کرتا ہو گا۔ کوئی کہتا تھا کہ چچا اور ماموں کی اولاد کے ساتھ قرابت نہ کرنی چاہئے کہ رغبت کم ہوتی ہے اس واسطے اولاد ضعیف ہو گی۔ آزاد ۔ دانایان فرنگ نے بھی لکھا ہے۔ انسان کی طبیعت میں داخل ہے کہ جس خون سے خود پیدا ہوا ہے اسی خون کی نسل پردہ شوق کا جوش اور رغبت کا دلولہ نہیں ہوتا جو غیر خون ہوتا ہے ۔ دیکھو خچر میں گھوڑی سے زیادہ زور ہوتا ہے۔ کوئی کہتا تھا کہ جب تک بیٹا 16 برس کا اور بیٹی 14 برس کی نہ ہو جائے۔ تب تک نکاح جائز نہیں ۔ اولاد کمزور ہو گی۔ شادی ابوالفضل آئین اکبری اکبری میں جو لکھتے ہیں اس کا خلاصہ یہ ہے ۔ کتخدائی میں نسل انسان کی بقا اور بزم دنیا کی زیبانش اور ڈانو اڈول دلوں کی بہرہ داری اور گھر کی آبادی ہے۔ اور بادشاہ نیک روز گار چھوٹے بڑوں کا پاسبان ہے اس لئے شادی کے معاملے میں نسبت معنوی اور ذات کی ہمسری کو نہیں چھوڑتا۔ چھوٹی عمر دولہا دلہن اسے پسند نہیں۔ عمدہ فائدہ نہیں۔ نقصان بڑا ہے۔ اکثر مزاج مختلف ہوتے ہیں ۔ گھر نہیں بستے ۔ ہندوستان شرمستان ہے۔ بیاہی ہوئی عورت دوسرا خاوند کر نہیں سکتی تو کام مشکل ہوتا ہے۔ دولہا دلہن اور دونوں کے ماں باپ کی خوشی لازم سمجھتا ہے قریب کے رشتہ داروں میں مناسب سمجھتا ہے۔ اور جب دلیل میں ابتدائے عالم کا حال بیان کرتا ہے کہ دیکھو جڑواں لڑکی اس کے ساتھ کے لڑکے سے نہ بیاہی جاتی تھی تو معترض لوگوں کی زبانیں بند ہو جاتی ہیں مہر کی زیادتی کو پسند نہیں کرتا۔ کہ جھوٹ اقرار کرنا پڑتا ہے۔ دتیا کون ہے۔ کہتا ہے کہ مہر کا بھانا پیوند کا توڑنا ہے۔ ایک جورو سے زیادہ پسند نہیں کرتا کہ طبیعت کی پریشانی اور گھر کی دیرانی ہوتی ہ۔ بڈھے کو جوان نہ کرنی چاہئے کہ بے حیائی سے دو آدمی بادیانت کم لالچ مقرر کئے تھے۔ ایک مردوں کی تحقیقات کرتا تھا۔ دوسرا عورتوں کی۔ توے بیگی کہلاتے تھے اور اکثر دونو خدمتیں ایک ہی کے سپرد ہوتی تھی۔ شکرانہ میں طرفین کو نذرانہ بھی دینا ہوتا تھا۔ پنجہزاری سے ہزاری تک 10اشرفی ترکش بند سے دہ باشی تک اور ہزاری سے پانصدی تک 4-4اشرفی اور منصبدار …… پانصدی سے دو صدی تک 2 اشرفی متوسط اشخاص ……یک روپیہ دو مصدی سے دو بیستی تک 1اشرفی عام ……… یک دام اب یہ عالم ہو گیا کہ امراے دربار تو بالائے طاق رہے۔ وہی صدر جہاں مفتی الممالک تھے۔ جنہوں نے جشن نور وزی میں بادہ گلرنگ کا جام لیکر پیا۔ حریر اطلس کے پکڑے پہننے لگے۔ ملا صاحب نے ایک دن ان کا لباس دیکھ کر پوچھا کہ کوئی روایت نظر سے گزری ہو گی ؟ فرمایا ہاں جس شہر میں رواج ہو جائے۔ جائز ہے میں نے کہا شائد اس روایت پر بنیاد ہو گی کہ حکم سلطان سے عدول مکر وہ ہے ۔ فرمایا اسکے علاوہ بھی ملا مبارک ایک عالم تھے۔ ان کا بیٹا شیخ ابوالفضل کا شاگرد تھا۔ اس نے بڑے تمسخر کے ساتھ ایک رسالہ لکھ کر پیش کیا کہ نماز روزہ حج وغیرہ عبادتیں سب بے حاصل ۔ ذرا انصاف کرو۔ جب عالموں کا یہ حال ہو تو بے علم بادشاہ کیا کرتے۔ مریم مکانی بادشاہ کی والدہ مر گئیں۔ امراے دربار وغیرہ 15 ہزار آدمیوں نے بادشاہ کے ساتھ بھدرہ کیا۔ انا یعنی خان اعظم مرزا عزیز کو کلتاش خاں کی ماں مر گئی۔ اس کا بڑا ادب تھا اور نہایت خاطر کرتے تھے۔ خود اور خان اعظم نے بھدرہ کیا۔ خبر پہنچی کہ لوگ بھی بھدرہ کروا رہے ہیں۔ کہلا بھیجا کہ اوروں کو کیا ضرور ہے۔ اتنی دیر میں بھی 4 سو سر اور منہ صفاچٹ ہو گئے۔ اصل یہہے کہ لوگوں کو یہ باتیں ایک کھیل تھیں۔ اور ہزاروں مسخراپن ہیں۔ یہ بھی ایک دل لگی سہی۔ اس میں دین و مذہب کا کیا علاقہ ۔ ملا صاحب خواجہ مخواہ خفا ہوتے ہیں۔ آپ نے جب بین بجانی سیکھی تھی تو نماز کی طرح واجب سمجھ کر سیکھی تھی ؟ ہر گز نہیں ایک دل کا بہلا وا تھا۔ ان لوگوں نے ایسی باتوں کو دربار کا مشغلہ سمجھ لیا تھا۔ ابکر کو اس کا لحاظ بھی ضرور تھا کہ یہ ملک ہندوستان ہے۔ ہندؤں کو یہ خیال نہ ہو کہ ہم پر ایک متعصب مسلمان حکومت کر رہا ہے۔ اس لئے سلطنت کے آئین اور مقدمات کے احکام میں بلکہ روز مرہ کاروبار میں اس مصلحت کی رعایت ضرور ہوتی ہو گی۔ اور ایسا ہی چاہئے تھا۔ خوشامدیوں سے کوئی زمانہ خالی نہیں۔ اسے بھی خوشامدیں کر کے بڑھاتے چڑھاتے ہونگے۔ اپنی بڑائی یاد انانی کی تعریف یا اس کا لحاظ کسے بھلا معلوم نہیں ہوتا۔ وہ بھی ان باتوں سے خوش ہوتا تھا۔ اور اعتدال سے بڑھ بھی جاتا تھا۔ اور وہ تو بے علم بادشاہ تھا علما و مشائخ کے حالات سن چکے ۔ ملا صاحب لکھتے ہیں ۔ تحریروں یں سنہ ہجری موقوف ہوگیا۔ سنہ الہٰی اکبر شاہی تحریر ہونے لگا۔ آفتاب کے حساب سے برس میں 14 عیدیں ہونے لگیں۔ نوروز کی دھوم دھام عید رمضان و عید قربان سے بھی زیادہ ہونے لگی اس کی تفصیل مکمل تو ضیح سن چکے مگر لطیفہ یہ ہے ملا صاحب لکھتے ہیں کہ بادشاہ حروف مختصہ عربی مثلا ث ح ع ص ض ط وغیرہ جن میں امتیاز ضرور ہوتا ہے ان سے بھی گھبراتے تھے۔ آزاد ۔ بزرگان عالم نما کو اکثر دیکھا ہو گا کہ باتوں میں بھی ع اور ح کو خواہ مخواہ حلق بلکہ پیٹ کے اندر سے نکالتے تھے۔ خصوصاً جو ایک دفعہ حج بھی کرآئے ہیں۔ دربار میں ایسوں کی گفتگو پر اشارہ ضرور ہوتے ہونگے۔ ملا صاحب اس پر خفا ہو کر فرماتے ہیں اگر عبداللہ کو ابداللہ اور احدی کو اہدی کہتے تھے تو بادشاہ خوش ہوتے تھے اور منشیان دفتر الہ آباد کو بھی الہٰ باس لکھتے تھے۔ آغاز اسلام میں جبکہ چاروں طرف فتوحات دین کی روشنی پھیلتی چلی جاتی تھی۔ ایران پر بھی فوج اسلام آئی ہوئی تھی۔ فارس کا ملک تسخیر ہوتا جاتا تھا۔ ہزاروں برس کی پرانی سلطنت تباہ ہو رہی تھی۔ فردوسی نے اس حالت کو نہایت خوبصورتی سے ادا کیا ہے۔ چنانچہ خسرو کی ماں کی زبانی جو اشعار لکھے ہیں ۔ ان میں سے دو شعر ہیں ؎ زشیہ شتر خوردن دسوسمار عرب رابجائے رسیداست کار کہ تخت کیاں راکند آرزو تفوبر تو اے چرغ گرداں تفو ملا صاحب فرماتے ہیں ان شعروں کو پڑھو اکر خوش ہوتے ہیں۔ اور جو مسائل کہ اسلام میں عقاید قرار اپا چکے ہیں ۔ ان کی تحقیقاتیں اور اس پر ردو قدح ہوتی ہے۔ عقلی دلائل سے گفتگو ہوتی ہے۔ علمی مجلس ہوتی ہے۔ اور مصاحبوں میں سے 40 آدمی منتخب ہوتے ہیں۔ حکم ہے۔ کہ جو شخص چاہے۔ سوال کرے اور ہر علم میں گفتگو ہو۔ اگر کسی مسئلے پر مذہب کی رو سے سوال ہو ۔ تو کہتے کہ اسے ملاؤں سے پوچھو۔ ہم سے وہ پوچھو ۔ جو عقل و حکمت سے متعلق ہو۔ اگر کسی بزرگ کے کلام سے سند دیں۔ تو صاف نا مقبول کہ وہ کون تھا ؟ وہ تو فلاں فلاں موقع پر خود ایسا تھا۔ اور ایسا تھا۔ اس نے خود فلاں مقام پر یوں کہا۔ اور ایسا کیا ۔ ویسا کیا ۔ انہی باتوں کے جا بجا مدرسوں اور مسجدوں میں چرچے ہیں۔ 999ھ کے جشن میں عجب عجب آئین ایجاد ہوئے۔ خود ماہ آبان میں اتوار کو پیدا ہوئے تھے۔ حکم ہوا کہ اتوار کو تمام قلمرو ںمیں جانور ذبح نہ ہونے پائے۔ آبان کے تمام مہینے میں اور جشن نو روز کے 18 دن تک ذبح بند ۔ جو کرے۔ سزا پائے۔ جرمانہ بھرے گھر لٹ جائے۔ آپ خاص خاص دنوں میں گوشت کھانا چھوڑ دیا۔ یہاں تک کہ کھانے کے دن برس میں 6 مہینے بلکہ اس سے بھی کم رہ گئے۔ اور ارادہ ہوا کہ گوشت کھانا ہی چھوڑ دیں۔ آفتاب کی عبادت کے وقت دن رات میں 4 تھے۔ صبح و شام ۔ دوپہر ۔ آدھی رات ۔ دوپہر کو اس کی طرف منہ کرتے تھے۔ اور نہایت رجوع قلب کے ساتھ ایک ہزار ایک نام کا وظیفہ پڑھتے تھے۔ دونو کان پکڑ کر چک پھیری لیتے تھے۔ کانوں پر مکمے مارتے جاتے تھے۔ اور کچھ حرکتیں اور بھی ایسی ہی کرتے تھے۔ تلک بھی لگاتے تھے۔ حکم ہوا کہ طلوع اور آدھی رات کو نقارہ بجا کرے۔ چند روزبعد حکم ہوا۔ کہ ایک عورت سے زیادہ نکاح نہ کرو۔ ہاں ۔ جو رو بانج ہو تو مضائقہ نہیں۔ جو عورت مایوس ہو جائے ۔ نکاح نہ کرے۔ بیوہ نکاح چاہے تو کوئی نہ روکے ۔ ہندو عورتیں لڑکپن میں بیوہ جاتی ہیں۔ وہ اور جس عورت نے مرد سے کچھ کامیابی نہ پائی۔ اور بیوہ ہو گئی ہو۔ اور بیوہ ہو گئی ہو ۔ وہ ستی نہ ہو۔ ہندو اس پر اس نے چنانچہ گفتگوئیں ہوئیں۔ ان سے کہا کہ بہت خوب اگر یہ ہے تو رنڈوے مرد بھی ستی ہوں۔ ضدی لوگ سوچ میں گئے۔ آخر ان سے کہا کہ خیر اگر ایسی ہی ضد پر قائم ہو تو ستی نہ ہو۔ مگر اتنا ضرور ہو کہ رنڈو اجورو نہ کرے اس کے اقرار نامے لکھ دو ۔ ہندؤں کے تہواروں کے لئے بھی حکم ہوا اور فرمان جاری ہوے شروع سال بکر ما جیت میں بھی تبدیلی چا ہی تھی۔ مگر نہ چلی۔ پواج داراذل کو علم نہ پڑھائیں۔ کہ سخت خرابیاں کرتے ہیں۔ ہندؤں کے مقدمے فیصل کرنے کے لئے برہمن مقرر ہوں۔ ان کے معاملے قاضی مفتیوں کے ہاتھ میں نہ پڑیں۔ قسم کو دیکھا۔ کہ گاجر مولی کی طرح لوگ کھائے جاتے ہیں۔ اس لئے حکم دیا کہ لوہا گرم کر کے رکھو۔ کھو لتے تیل میں ہاتھ ڈلواؤ۔ جل جائے تو جھوٹا ۔ یا وہ فوطہ مارے دوسرا آدمی تیر پھینکے۔ اس عرصے میں سر نکال دے تو جھوٹا ۔ مگر ایک دو برس بعد ستی کا آئین نہایت شدت سے جاری ہوا۔ اور حکم ہوا ۔ کہ اگر عورت خود ستی نہ ہو۔ تو پکڑ کر نہ جلا دیں۔ مسلمانوں کو تاکید ہوئی ۔ کہ بارہ برس تک ختنہ نہ کرو ۔ پھر لڑکے کو اختیار ہے۔ چاہے کرے۔ چاہے نہ کرے۔ جو قسائی کے ساتھ کھانا کھائے اس کا ہاتھ کاٹ ڈالو ۔ اس کے گھر والوں میں کوئی کھائے تو انگلی کترلو۔ اس سال میں شہر کے باہر دو عالیشان محل بنوائے۔ خیر پورہ ۔ دھرم پورہ۔ ایک میں فقرائے اسلام کے لئے کھانا پکتا تھا۔ ایک میں ہنود کے لئے شیخ ابوالفضل کے آدمیوں کا اہتمام تھا مگر جوگی غول کے غول آنے لگے۔ ان کے لئے ایک اور سر ابنی۔ اس کا نام جوی پورہ رکھا۔ رات کو چند خدمتگاروں کے ساتھ جاتے۔ خلوت میں باتیں کرتے تھے۔ اور ان کے عقائد مذہب ۔ جوگ کے اسرار و حقائق ۔ اور عبادت و اشتغال کے طریقے ۔ حرکات ۔ سکنات ۔ بیٹھنا ۔ اٹھنا ۔ سونا ۔ جاگنا ۔ کایاپلٹ وغیرہ کے کرتب ان سے حاصل کئے بلکہ کیمیا گری بھی سیکھی۔ اور سونا لوگوں کو دکھایا۔ شوراتری کی رات کو (جو گیوں کا بڑا میلہ ہوتا ہے) ان کے گرو اور مہنتوں کے ساتھ پرشاد کھائے۔ انہوں نے کہا۔ کہ اب آپ کی عمر معمولی عمر سے سہ چند چہار چند ہو گئی ہے۔ تماشایہ کہ حکمتیاں دربار نے بھی اس کی تائید کی اور کہا کہ دور قمر ہو چکا اس کے احکام بھی ہو چکے۔ اب دور زحل شروع ہوا۔ اس کا عمل اور اسکے احکام جاری ہونگے۔ عمریں بھی بڑھ جائیں گی۔ اتنی بات تو کتابوں سے بھی ثابت ہے کہ اگلے وقتوں میں سیکڑوں سے لے کر ہزار ہزار برس سے زیادہ جیتے تھے۔ اور ہندؤں کی کتابوں میں تو آدمیوں کی عمر 10 ۔ 10 ہزار برس کی لکھی ہے۔ اب بیھ نتبت کے پہاڑوں میں خطائیوں کے عابد لامہ ہیں۔ ان کی دو دو سو برس بلکہ اس سے بھی زیادہ عمر ہے۔ انہی کے خیال سے کھانے پینے کے باب میں اصلاحیں اور گوشت کے کھانے میں کمی کر دی۔ عورت کے پاس جانا چھوڑ دیا ۔ بلکہ جو کچھ ہوا اس پر بھی تاسف تھا ۔ تالوپر سے بال منڈوا ڈالے۔ ادھر ادھر رہنے دیئے۔ خیال یہ تھا کہ اہل صفا کی روح کھوپری کے رستے نکلتی ہے یہی وہم و خیال کی آمد کا رستہ ہے۔ اس وقت ایسی آواز آتی ہے۔ جیسے بجلی کڑکی اور یہ ہو تو جانو کہ مرنے والا بڑا نیک تھا۔ اور نیک انجام ہوا۔ اور اب اس کی روح کسی بادشاہ عالمگیر جہاں تسخیر کے قالب میں جائیگی۔ (جسے سنسکرت میں چکروتی راجہ کہتے ہیں) اپنے طریق کا نام توحید الہی رکھا۔ مریدان خاص جوگیوں کی اصطلاح کے بموجب چیلے کہلاتے تھے۔ پواج ۔ اراذل ۔ مکار ۔ رکابی مذہب جو قلعہ معلے میں قدم رکھنے کے قابل نہ تھے۔ روز صبح کو آفتاب پرستی کے وقت زیر جھرو کہ جمع ہوتے تھے۔ جب تک درشن نہ کر لیں۔ مسواک ۔ کھانا ۔ پینا ان پر حرام تھا۔ رات کو ہر محتاج ۔ مسکین ۔ ہندو ۔ مسلمان ۔ رنگ رنگ کے آدمی ۔ ہر مرد عورت ۔ اچھے ۔اپاہج سب کو اجازت تھی۔ عجب ہنگامہ ہوتا تھا۔ جب سورج کے نام جپ چکتے تھے۔ پروہ سے نکل آتے تھے۔ یہ لوگ دیکھتے ہی سجدہ میں جھک جاتے تھے۔ اس میں بارہ بارہ آدمی کی ایک ایک ٹولی باندھی تھی۔ (دیکھو اس میں بھی آئین و قانون قائم ہے) کہ جماعت جماعت مرید ہوتی تھی۔ شجرہ کی جگہ اپنی تصویردے دیتے تھے۔ کہ اس کاپ اس رکھنا اور زیر زیارت رکھنا باعث برکت و ترقی اقبال ہے۔ ایک زریں اور مرصع غلاف میں رکھتے تھے۔ اور اس سے سر کوتا جدار کرتے تھے۔ سلطان خواجہ امین میر حاج مریدان خاص الخاص میں سے تھا۔ ملا احمد ٹٹوی نے سلطان 991الخوارج اس کے مرنے کی تاریخ کہی تھی۔ مگر ایک کی کسر رہی۔ خواجہ کی قبر بھی نئے ایجاد سے تصنیف ہوئی۔ چہرے کے سامنے ایک جالی رکھی تھی۔ کہآفتاب گناہوں سے پاک کرنے والا ہے۔ روز صبح کو اس کی شعاع منہ پر پڑے۔ ہونٹوں کو آگ بھی دکھائی تھی۔ حکم تھا کہ قبر میں مریدوں کے سر مشرق کو پاؤں مغرب کو رہیں۔ خود بھی سونے میں اس کی پابندی کرتے تھے۔ برہمنوں نے حضور کے لئے بھی 101نام تراشے تھے۔ کہتے تھے کہ مایا کی لیلا ہے۔ بش ۔ کشن ۔ رامچند رجی وغیرہ اوتار گزرے ہیں۔ اب اس روپ میں پرکاش کیا ہے۔ اشلوک بنا بنا کر پڑھتے تھے۔ پرانے پرانے کاغذوں پر لکھے دکھاتے تھے۔ کہ پراتم پنڈت لکھ کر رکھ گئے ہیں۔ ’’ایک چکروتی راجہ اس دیس میں ہو گا۔ براہمنوں کا آور مان ۔ گو کی رکھیا کریگا۔ دنیا کو دنیاؤ سے بسائیگا۔ 1 ؎ ملا صاحب نے چیلوں کے آئین کو یہ لباس پہنایا ہے۔ ابوالفضل نے 991ھ کی تجویزوں میں لکھا ہے ۔ کہ اس سنہ میں لونڈی علاموں کو آزادی کا حکم ہوا۔ کیونکہ خدا کے بندوں پر انسان کی بندگی کا داغ سخت بے ادبی ہے۔ ہاں بادشاہی غلام جو حضور ی منظور کریں۔ وہ چیلے کہلائیں 985ھ تک 12 ہزار یکہ جوان تھے۔ (باڈی گارڈ) چند روز کے بعد ادری انکا خطاب ہوا۔ پھر یہ لوگ چیلے ہو گئے۔ آزاد ۔ ایسے آقا کی غلامی جان دیکر بھی ہاتھ آئے۔ تو سستی ہے۔ جاتا کون تھا۔ آزاد ہو کر بھی چیلے کہلاتے تھے۔ عیش کرتے تھے۔ اور بہاریں اڑاتے تھے۔ جانیں دے کر خدمتیں بچا لاتے تھے۔۔ دلی میں جو چیلوں کا کوچہ مشہو ر ہے۔ وہاں کی زمانہ میں سلاحین چغتائیہ کے اسی نسل کے خانہ زاد رہتے تھے۔ مکندبرہم چاری اکبر کے سامنے ایک پراچین پترا پیش ہوا کہ الہٰ آباس میں مکندر برہم چاری کے پاس تھا۔ جس نے اپنا سارا بدن کاٹ کاٹ کر ہون کر دیا تھا۔ وہ اپنے چیلوں کے لئے اشلوک لکھا کر رکھ گیا تھا۔ اس نے خلاصہ یہ تھا۔ کہ ہم عنقریب ایک بادشاہ بااقبال ہو کر آئینگے۔ اس وقت تم بھی حاضر ہونا ۔ بہت سے برہمن بھی اس پترے کے ساتھ حاضر ہوئے۔ اور عرض کی کہ جب سے آج تک مہاراج پر گیان دھیان جمائے بیٹھے ہیں۔ حساب کیا تو معلوم ہوا کہ اس کے مرنے اور اکبر کے پیدا ہونے میں صرف تین چار مہینے کا فرق تھا۔ بعض لوگوںنے یہ بھی کہا۔ کہ برہمن کا ملکش مسلمان کے گھر میں جنم لینا عقل میں نہیں آتا۔ عرض کی۔ کہ کرنے والے نے تدبیر میں کوتاہی نہیں کی۔ مگر تقدیر کو کیا کرے کہ اسے خبر نہ تھی۔ ہون کی جگہ کچھ ہڈیاں اور لوہا گڑا تھا۔جو کچھ پیش آیا اس کا اثر ہے۔ مسلمانوں نے کہا۔ کہ ایسا نہ ہو۔ ہم ہندوؤں سے پیچھے رہ جائیں۔ حاجی ابراہیم نے ایک گمنام۔ غیر مشہور ۔ کرم خودہ کتاب کبھی کی گڑی دبی نکالی۔ اس میں شیخ ابن عربی کے نام سے ایک عبارت منقول تھی۔ جس کا خلاصہ یہ ہے۔ کہ امام مہدی کی بہت ساری بیبیاں ہوں گی۔ اور ڈاڑھی منڈی ہو گی۔ اورچند ایسی ایسی باتیں اور تھیں۔ مطلب یہ کہ وہ آپ ہی ہیں۔ یکہ سپاہی تھے۔ انہی کا نام احدی رکھا تھا۔ اب مریدوں کا خطاب ہوا۔ اس امت کے باب میں خیال تھا۔ کہ یہ اصل احد ہی لوگ ہیں۔ کیونکہ عالم توحید میں پورا اخلاص رکھتے ہیں۔ کوئی وقت آن پڑیگا۔ تو دریا سے آب اور طوفان آتش سے بھی منہ نہ پھیرینگے۔ ملا صاحب جو چاہیں سو کہیں۔ میرے نزیک نیک نیت بادشاہ کا کچھ قصور نہیں۔ جب اہل دین خود اپنے دین و ایمان کو لا کر سامنے نثار کر یں تو فرمایئے وہ کیا کرے ؟ چنانچہ ملا شیری پنجاب میں صدالصدور تھے۔ وہی ملا شیری جنہوں نے بڑے جوش ایمان خروش یقین کے ساتھ بے دینی کی شکایت میں قطعہ کہا تھا۔ اب انہوچں نے آفتاب کی تعریف میں ایک ہزار ایک قطعہ کہہ کر ہزار شعاع نام رکھا۔ اس سے بڑھ کر سنئے۔ لطیفہ حضرت میر صدر جہاں کی پیاس بادہ گلرنگ سے نہ بجھی۔ چنانچہ 1004ھ میں مع دو فرزند پر خوردار مریدان خاص میں داخل ہوئے۔ ہاتھ چومے ۔ قدم لئے کرامات کی نعمت لی۔ اور خاتمہ تقریر پر عرض کی۔ ریش مراچہ حکم مے شوو۔ فرمودند ۔ باشد (رہے۔ ہرج کیا ہے ؟ ) پھرب ھی آفرین ہے ۔ اس حق شناس بادشاہ کو گہ جب سجدہ زمیں بوس آئین دربار میں داخل ہو ا تو ان بزرگوار کو اس سے مستثنے کیا۔ وہ خود اپنے دل میں شرماتا ہو گا۔کہ مفتی شریعت میں ۔ مسند پیغمبر پر بیٹھے ہیں۔ ان کی مہر سے چار دانگ ہندوستان میں فتولے اری ہوتا ہے۔ تخت کے سامنے ان کا سر جھکوانا مناسب نہیں۔ اس پر ان کی یہ کراماتیں۔ واہ ویلا۔ واہ مصیبتا۔ کوئی مجھے بتاؤ کہ وہ امر کیا تھا۔ جو اکبر کو کرنا چاہئے تھا۔ اور اس نے نہ کیا۔ بے دین خود اپنے ونیوں کو دنیا پر قربان کئے دیتے تھے۔ اس بے چارے کا کیا گناہ۔ ایک فاضل اجل کو حکم دیا۔ کہ شاہنامے کو نثر میں لکھو۔ انہوں نے لکھنا شروع کیا۔ جہاں نام آجاتا ۔ آفتاب کو غرشانہ ، اور جلتہ عزمتہ لکھتے تھے۔ جیسے خدا کے لئے۔ حضرت شیخ کمال بیابانی اکبر کو اس بات کا بڑا خیال رہا کہ کوئی شخص صاحب کرامات نظر آئے۔ مگر ایک بھی نہ ملا۔ 997ھ میں چند شیطان اسی شہر لاہور میں ایک بڈھے شیطانکو لائے کہ حضرت شیخ کمال بیابانی ہیں۔ انہیں دریاے راوی پر بٹھا دیا۔ کرامات یہ کہ کنارہ پر کھڑے ہو کر باتیں کرتے ہیں۔ اور پل کی پل میں ہوا کہ طرح پانی پر سے گزر کر پار جا کھڑے ہوتے ہیں۔ دیکھنے والوں نے تصدیق کی کہ ہم نے آپ دیکھ لیا ہے۔ اور سن لیا۔ انہوں نے پار کھڑے ہو کر صاف آواز دی ہے۔ کہ میاں فلانے بابس اب تم گھر جاؤ۔ بادشاہ خود اسے لے کر دریا کے کنارے گئے۔ اور چپکے سے یہ بھی کہا۔ کہ ہم ایسی چیزوں کے طلبگار ہیں اگر کوئی کرشمہ ہمیں دکھاؤ۔ تو مال مملکت جو کچھ ہے سب تمہارا بلکہ ہم بھی تمہارے ۔ وہ چپ دم بخود ۔ جواب کیا دے؟ کچھ ہو تو کہے۔ تب بادشاہ نے کہا کہ اچھا اس کے ہاتھ پاؤں باندھ کر قلعہ کے برج پر سے۔ دربا میں ڈال دو۔ اگر کچھ ہے تو صحیح سلامت نکل آئے گا۔ نہیں تو جائے جہنم کو یہ سن کر ڈر گیا اور پیٹ کی طرف اشارہ کر کے کہا۔ کہ یہ سب اس دوزخ کے لئے ہے۔ رموزتاریخ کے تاڑے والے تاڑ گئے ہوں گے کہ اس وقت دریائے راوی کی لہریں ثمن برج کے پاؤں میں لوٹتی تھیں۔ جوآج قلعے سے دو میل پر ے ہٹ گیا ہے۔ بات یہ تھی کہ وہ شخص لاہوری ہی تھا۔ اس کا یاک بیٹا ڈاڑھی منڈا بھی ساتھ تھا۔ باپ بیٹوں کی آواز بہت ملتی تھی۔ جس سے باپ کرامات دکھانے کا وعدہ کرتا ۔ بیٹا بھی نام سن لیتا۔ اور پل یا کشتی پر چڑھ کر پار چلاجاتا۔ جب موقع وقت ہوتا تو باپ یہاں کنارے پر گفتگو کرتا۔ ادھر ادھر باتیں کرتا پھرتا۔ بیٹا سامنے سے دیکھتا رہتا۔ یہ لوگوں کو جل دے کر کنارے سے نیچے اترتا کہ وضو کر کے عمل پڑھتا ہوں۔ وہیں ادھر ادھر کڑاڑوں میں چھپ جاتا۔ بیٹا بدذات چند لمحہ بعد ادھر سے آواز دیتا۔ میاں فلانے جاؤ گھر کو ۔ ع آخر ش گرگ زادہ گرگ شود یہ حال معلوم ہوا۔ تو بادشا بڑے خفا ہوئے۔ بھکر بھیج دیا۔ اس نے وہاں بھی جال مارا ۔ کہا کہ میں ابدال ہوں۔ جمعہ کی رات لوگوں کو دکھا دیا۔ سر الگ ہاتھ پاؤں الگ۔ خان خاناں ان دنوں مہم بھکر پر تھے۔ دولت خاں ان کا سپہ سالار (وکیل مطلق۔ اتالیق جو کہو سو بجا) اس کا معتقد ہو گیا۔ بھلا وہ بھی افغان وحشی تھا۔ خود خان خاناں نے اس دانائی و فرزانگی زیر کی و فیلسوفی کے ساتھ غوطہ کھایا۔ اس غول بیابانی نے کہا۔ حضرت خضر سے آپ کی ملاقات کروا دیتا ہوں۔ دریاے اٹک کے کنارے پر ڈیرے پڑے تھے۔ خان خاناں خود آکر کھڑے ہوئے۔ مصاحب اور رفقا ساتھ۔ اس دغا باز نے غوطہ مار کر سر نکالا۔ اور کہا کہ خضر علیہ السلام آپ کو دعا فرماتے تھے۔ خان خاناں کے ہاتھ میں ایک سونے کی گیند تھی۔ کہا کہ ذرا گیند دیکھنے کو مانگتے ہیں۔ انہوں نے دے دی ۔ اس نے وہ گیند پانی میں ڈال کر ایک اور غوطہ مارا ۔ غرض اول بدل کر پیتل کی گیند ہاتھ میں دے دی۔ باتوں باتوں اور ہاتھوں ہاتھوں میں سونے کی گیند اڑا لے گیا۔ اکبر پر حالت طاری ہو بادشاہ نیک نیت کوایک دن عجب واقعہ پیش آیا ۔ وہ پاک پٹن سے زیارت کرتا ہو نند نہ کے علاقہ میں پہنچااور دامن کوہ کے جانور گھیر کر شکار کھیلنے لگا۔ چار دن کے عرصہ میں بے حساب شکار مار کر گرا دیئے۔ حلقہ سمٹتے سمٹتے ملا چاہتا تھا۔ دفعتہ بادشاہ کا دل ایسا جوش و خروش میں آیا۔ کہ بیان میں نہیں آسکتا ۔ عجب جذبے کا عالم ہوا۔ کسی کو معلوم نہ ہوا۔ کہ کیا دکھائی دیا تھا۔ اسی وقت شکار بند کیا۔ جس درخت کے نیچے یہ حالت ہوئی تھی۔ وہاں زرکثیر فقیروں اور مسکینوں کو دیا۔ اس خلوۃ غیبی کی یاد گار میں ایک عمارت عالیشان بنوانے کا اور باغ لگانے کا حکم دیا۔ وہیں بیٹھ کر سر کے بال منڈوائے اور جو مصاحب بہت مقرب تھے۔ خو شامد کے استرے سے خود بخود منڈ گئے اس حالت نے عجیب و غریب رنگ سے شہروں میں شہرت پھیلائی بلکہ زندگی کے باب میں رنگ برنگ کی ہوائیاں اڑیں۔ بعضے مقاموں میں بد عملی بھی ہوگئی۔ خیال مذکور کا اعتقاد ایسا دل پر چھایا ۔ کہ اس دن سے شکار کھیلنا ہی چھوڑ دیا۔ جہاز رانی کا شوق ایشائی بادشاہوں کو دریائی ملک گیری کا خیال بالکل نہیں ہوا۔ اور راجگان ہند کا تو ذکر ہی نہ کرو۔ کہ پنڈتوں نے سفر دریا کو خلاف مذہب لکھ دیا تھا۔ اکبر کی طبیعت کو دیکھو۔ کہ باپ دادا کے ملک کو کبھی دریا سے تعلق نہ ہوا۔ خود ہند وستان ہی میں آکر آنکھیں کھولی تھیں۔ اور خشکی کے فساد دم نہ لینے دیتے تھے۔ باجوں اس کے دریا پر نظر لڑی ہوئی تھی۔ یہ شوق اسے دو سبب سے پیدا ہوا تھا۔ اول یہ کہ جو فاقلے سودا گروں یا حاجیوں کے جاتے اور آتے تھے۔ ان پر ڈچ اور پرتگالی جہاز دریا میں آن گرتے تھے۔ لوٹتے تھے مارتے تھے۔ آدمیوں کو پکڑ لے جاتے تھے۔ بالکل صلاحیت سے پیش آتے تو یہ تھا کہ اندازہ سے بہت زیادہ محصول وصول کرتے اور تکلیف بھی دیتے تھے۔ بادشاہی لشکر کا ہاتھ وہاں بالکل نہ پہنچ سکتا تھا۔ اس لئے اکبر دق ہوتا تھا۔ فیضی جب دکن کی سفارت پر گیا ہے اور وہاں سے رپورٹیں کر رہا ہے۔ ان میں روم اور ایران کی خبریں جہاز ی مسافروں کی زبانی اس خوبصورتی سے لکھتا ہے ۔ جس سے معلوم ہوتا ہے۔ کہ اکبر انہیں بڑے شوق سے سن رہا ہے۔ ان تحریروں میں بعض جگہ راہ دریا کی بے انتظامی کا بھی اثر پایا جاتا ہے۔ اس خیال سے وہ بندرگاہوں پر بڑے شوق سے قبضہ کر تا تھا۔ اس وقت ادھر کراچی کی جگہ ٹھٹہ اور دکن کی جانب میں بندرگووہ ۔ کمبائت اور سورت کا نام بہت کتابوں میں آتا ہے۔ دریا ے راوی بڑے زور شور سے بہہ رہا تھا۔ اکبر نے چاہا تھا کہ جہاز یہاں سے چھوڑے۔ اور ملتان کے نیچے سے نکال کر سکر سے ٹھٹے میں پہنچا دیے۔ چنانچہ اسی لاہور کے باہر ایک جہاز کا بچہ تیار ہوا۔ جس نے مستول کے رنگ میں 36 گز کا قد نکالا۔ جب بادبانوں کے کپڑے پہنا کر روانہ کیا۔ تو بعض مقاموں پر پانی کی کمی سے رک رک گیا۔ جب 1002ھ میں ایلچی ایرا ن کو رخصت کر کے خود ایلچی روانہ کیا۔ تو حکم دیا۔ کہ لاہور سے براہ دریا لاہری بندر میں جا اترو اور وہاں سے سوار ہو کر سرحد ایران میں داخل ہو۔ وہ زمانہ اور تھا ۔ ہوا اور تھی۔ پانی اور تھا۔ اس پر آئے دن کی لڑائیان اور فساد اور سب امیروں کے سینہ میں اکبر کا دل بھی نہ تھا۔ جو اپنے شوق سے اس کا م کو پورا کرتے۔ اور دریا کو ایسا بڑھاتے کہ جہاز رانی کے قابل ہو جاتا۔ اس لئے کام آگے نہ چلا۔ ملک موروثی کی یاد نہ بھولتی تھی ! اکبر کے درخت سلطنت نے ہندوستان میں جڑ پکڑی تھی۔ لیکن ملک موروثی یعنی سمر قند و بخارا کی ہوائیں۔ ہمیشہ آتی تھیں۔ اور اس کے دل کو سبزہ ترکی طرح لہراتی تھیں۔ یہ داغ اس کے بلکہ اس سے لیکر عالمگیر تک کے دل پر ہر وقت تازہ تھا۔ کہ بابر ہمارے دادا کو اذبک نے پانچ پشت کی سلطنت سے محروم کر کے نکالا۔ اور ہمارا گھر دشمن کے قبضہ میں ہے۔ لیکن عبداللہ خاں اذبک بھی بڑا بہادر ۔ صاحب عزم ۔ بااقبال بادشاہ تھا۔ ہٹانا تو درکنار اس کے حملہ سے کا بل اور بدخشان کے لالے پڑے رہتے تھے۔ دالئی کا شغر کے نام ایک مراسلہ اکبر کا دفتر ابوالفضل میں ہے۔ اسے تم پڑھو گے تو کہو گے کہ فی الحقیقت اکبر بادشاہ سلطنت کی شطرنج کا پورا شاطر تھا۔ ملک مذکور پر بھی اس کا خاندانی دعولیٰ تھا۔ مگر کجا کا شغر اور کجا ہندوستان پھر بھی جب کشمیر پر تسلط کر لیا توب زرگوں کا وطن یاد آیا۔ تم جانتے ہو کہ شطرنج باز جب حریف کے کسی مہرہ کو مارنا چاہتا ہے۔ یا حریف کے ایک مہرے کو اپنے کسی مہرے پر آتا دیکھتا ہے تو اسی مہرے سے سینہ بسینہ لڑکر نہیں مار سکتا۔ اسے واجب ہے کہ دائیں بائیں ۔ دور نزدیک تک کہیں کہیں کے مہروں سے اپنے مہرے کو زور اور حریف پر ضرب پہنچائے۔ اکبر دیکھتا تھا کہ میں ازبک پر کابل کے سوا اور کہیں سے چوٹ نہیں کر سکتا۔ کشمیر کی طرف سے ایک رستہ بد خشان کا نکلا ہے۔ اور اس کا ملک ترکستا ن و تاتار کی طرف دور دور تک پھیل گیا ہے۔ اور پھیلا چلا جاتا ہے۔ وہ یہ بھی سمجھا شمشیر ازبک کی چمک پر کاشغر خطا ختن سہمی ہوئی انکھوں سے دیکھ رہا ہو گا۔ اور ازبک اسی فکر میں ہے کہ کب موقع پائے اور اسے بھی نگل جائے۔ اکبر نے اسی بنیاد پر والئی نے شغر سے قرابت قدیمی کا رشتہ ملا کر رستہ نکالا۔ خط مذکور میں اگرچہ کھول کر نہیں لکھا۔ مگر پوچھتا ہے۔ کہ حکومت خطا کا حال مدت سے معلوم نہیں۔ تم لکھو کہ وہاں کا حاکم کون ہے اس کی کس سے محالفت ہے۔ کس سے موافقت ہے۔ صاحب علم و فضل اور اہل دانش کون کون اشخاص ہیں۔ مسند ہدایت پر کون کون لوگ مشہور ہیں۔ وغیرہ وغیرہ۔ ہندوستان کے عجائب و نفائس سے جو کچھ تمہیں مرغوب ہو ۔ بے تکلیف لکھو۔ وغیرہ وغیرہ ۔ ہم اپنا معتبر فلاں شخص روانہ کرتے ہیں۔ اسے آگے کو چلتا کر دو۔ وغیرہ وغیرہ۔ مصالح مملکت جو قافلہ سال بسال حج کو جاتا تھا۔ اور اکبر اپنی طرف سے میر حاج مقرر کر کے ساتھ کرتا تھا۔ اس کے ہاتھ ہزاروں روپے مکہ معظمہ ۔ مدینہ منورہ اور مختلف روضوں اور درگاہوں کے مجاوروں کو بھیجتا تھا۔ کہ ہر جگہ تقسیم ہو جائیں۔ اور ان میں بھی خاص خاص اشخاص کے لئے روپے اور تحفے الگ ہوتے تھے۔ کہ خفیہ دیئے جاتے تھے۔ شرفائے مکہ میں سے خاص خاص لوگوں کو جو خفیہ روپے پہنچتے تھے۔ آخر کس غرض سے ؟ یہ سلطان روم کے گھر میں سرنگ لگتی تھی۔ افسوس اس وقت کے مورخوں نے خوشامد کے انبار باندھے ۔ مگر ان باتوں کی پرواہ بھی نہ کی۔ نہ اس وقت کے دفتر رہے۔ جن سے یہ نکتے کھلتے۔ نقد و جنس تو لاکھوں روپے جاتے تھے۔ ایک رقم جس کا شیخ عبدالنبی صدر سے یہاں آکر مطالبہ ہوا ے ہزار کی تھی۔ اور کھلم کھلا جو کچھ جاتا تھا۔ اس کا کیا ٹھکانا ہے۔ اکبر نے اولاد سعادتمند نہ پائی بااقبال بادشاہ کی اولاد پر نظر کرتا ہوں۔ تو افسوس آتا ہے۔ کہ بڑھاپے میں ان سے دکھ بھی پائے۔ اور داغ بھی اٹھائے۔ بلکہ اخیر عمر میں ایک بیٹا رہا اس کی طرف سے بھی دل آزردہ اور ناکام ہو گیا۔ خدا نے اسے تین بیٹے دیئے تھے۔ اگر صاحب توفیق ہوتے۔ تو دست و بازو دولت واقبال کے ہوتے۔ اس کی تمنا تھی کہ یہ نو نہال میری ہی ہمت اور میرے ہی خیالات کی ہوا میں سر سبزہ سر فراز ہوں۔ کوئی ملک مقبوضہ کو سنبھالے اور مفتوحہ کو بڑھائے۔ کوئی دکن کو صاف کرے۔ کوئی افغانستان کو پاک کر کے آگے بڑھے۔ اور اذبک کے ہاتھ سے باپ دادا کا ملک چھڑائے ۔ مگر وہ شرابی کبابی ایسی ہوس رانی اورعیش پرستی کے بندے ہوئے کہ کچھ بھی نہ ہوئے دو ہو جہازباغ جوانی کے نونہال لہلہاتے گئے۔ تیسرا جہانگیر رہا۔ سلطنت کے مورخ دولت کے نمک خوار تھے۔ ہزار طرح باتیں بنائیں۔ مگر بات یہی ہے۔ کہ اکبر جیسا باپ اس سے ناراض اور اس کے افعال سے بیزار ہو گیا۔ جہانگیر سب سے پہلے 17 ربیع الاول 977ھ کو پیدا ہوا۔ اور یہراجہ بھارا مل کچھوا ہہ کا نواسہ تھا۔ یعنی راجہ بھگوانداس کا بھانجہ ۔ مان سنگھ کی پھوپھی کا بیٹا۔ مراد 977ھ میں 10 محرم کو فتچور کے پہاڑوں میں پیدا ہوا تھا۔ اور اسی واسطے اکبر پیار سے اسے پہاڑی راجہ کہا کرتا تھا۔ مہم دکن پر سپہ سالار ہو کر گیا۔ شراب مدت سے گھلا رہی تھی۔ اور ایسی منہ لگی تھی۔ کہ چھٹ نہ سکتی تھی۔ وہاں جا کر اور بڑھ گئی۔ اور بیماری بھی حد سے زیادہ گزر گئی۔ آخر 1007ھ میں 30 برس کی عمر میں مرا۔ اور نامراد و ناشاد جواں مرگ دنیا سے گیا۔ تاریخ ہوئی۔ ع ازگلشن اقبال نہالے گم شد جہانگیر اپنی توزک میں لکھتا ہے ۔ سبزہ رنگ ۔ باریک اندام ۔ خوش قد ۔ بلند بالا تھا۔ تمکین ووقار چہرہ سے نمودار تھا۔ اور سخاوت و مرد انگی اطوار سے آشکار ۔ باپ نے اس کے شکرانہ ولادت سمیں بھی اجمیر کی درگاہ کے گرد طواف کیا۔ شہر کے گرد فصیل بنوائی۔ عمارات عالی اور شاہانہ محل بلند کر کے قلعہ مرتب کیا۔ اور امرا کو بھی حکم دیا۔ کہ اپنے اپنے حسب مراتب عمارتیں بنوائیں۔ تین برس میں طلسمات کا شہر ہو گیا۔ دانیال اسی سال اجمیر میں پیدا ہوا۔ اس کی ماں جب حاملہ تھی۔ تو برکت کے لئے اجمیر میں ایک نیک مرو صالح مجاور درگاہ کے گھر میں اسے جگہ دی تھی۔ مجاور مذکور کا نام شیخ دانیال تھا۔ پیدا ہو تو اس کی مناسبت سے اس کا بھی نام دانیال رکھا۔ یہ وہی ہو نہار تھا۔ جس سے خان خاناں کی بیٹی بیاہی تھی۔ مراد کے بعد اس مہم دکن پر بھیجا۔ خان خاناں کو بھی ساتھ کیا۔ پیچھے پیچھے آپ فوج لے کر گیا۔ کچھ ملک اس نے لیا ۔ کچھ آپ فتح کیا سب اس کا دیا خاندیس کا نام دان دیس رکھا۔ کہ دانیال کا دیس ہے۔ اور دارالخلافہ کو پھر آیا۔ وہ جان رہا۔ بھی شراب میں غرق ہوا۔ بد نصیب باپ کا خبریں پہنچیں۔ خان خاناں پر فرمان دوڑنے شروع ہوئے ۔ وہ کیا کرے۔ سمجھایا ۔ تاکید کی ۔ نوکروں کو تنبیہ کی ۔ کہ شراب کی بوند اندر نہ جانے پائے۔ اسے لت لگ گئی تی۔ نوکروں کی منت خو شامد کی۔ کہ خدا کے واسطے جس طرح ہو کہیں سے لاؤ ۔ اور کسی طرح پلاؤ ؎ اے ذوق اتنا دختر رز کو نہ منہ لگا چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی بما نہار جوان کو بندوق کے شکار کا بھی بہت شوق تھا۔ ایک بندوق بہت عمدہ اور نہایت بے خطا تھی۔ اسے ہمیشہ ساتھ رکھتا تھا۔ اس کا نام رکھا تھا یکہ و جنازہ ۔ یہ بیت آپ کہہ کر اس پر لکھوائی تھی ؎ از شوق شکار تو شودجاں تروتازہ برہر کہ خورد تیر تو یکہ و جنازہ جن نوکرو ں و مصاحبوں سے بے نکلف تھا۔ انہیں کمال منت و زاری سے کہا۔ ایک نادان خیر خواہ لالچ کا مارا اسی بندوق کی نالی میں شراب بھر کر لے گیا۔ اس میں میل اور دھوآں جما ہوا تھا۔ کچھ تو وہ چھٹا کچھ شراب نے لوہے کو کاٹا۔ خلاصہ یہ کہ پیتے ہی لوٹ پوٹ ہو کر موت کا شکار ہو گیا۔ یہ بھی خوبصورت اور سجیلا جوان تھا۔ اچھے ہاتھی اور اچھے گھوڑے کا عاشق تھا۔ ممکن نہ تھا ۔ کہ کسی امیر کے پاس سنے اور لے نہ لے۔ گانے کا شوقین تھا۔ کبھی کبھی آپ بھی ہندی دوہرے کہتا تھا۔ اور اچھے کہتا تھا۔ اس جو انمرگ نے 33 برس کی عمر 1013ھ میں باپ کے جگر پر داغ دیا۔ اور سلیم کی جہانگیری کے لئے پاک صاف میدان چھوڑا۔ دیکھو تزک جہانگیری۔ جہانگیر بھی بھی شراب خواری میں کسر نہیں کی۔ اپنی سینہ صافی سے آپ تزک کے 10 میں لکھتے ہیں۔ خورم (شاہجہان ) کی 24 برس کی عمر ہوئی اورکئی شادیاں ہوئیں۔ اب تک شراب سے لب آلودہ نہیں کئے تھے۔ میں نے کہا۔ کہ بابا شراب تو وہ شے ہے۔ کہ بادشاہوں اور شاہزادوں نے پی ہے۔ تو بچوں والا ہو گیا۔ اور اب تک شراب نہیں پی۔ آج تیر بلا کا کا جشن ہے۔ ہم تمہیں شراب پلاتے ہیں۔ اور جازت دیتے ہیں ۔ کہ روزہائے جشن اور ایام نوروز اور بڑی بڑی مجلسوں میں شراب پیا کرو۔ لیکن اعتدال کی رعایت رکھو۔ کیونکہ اس قدر پینی کو جس میں عقل جاتی رہے۔ داناؤں نے ناروا سمجھی ہے ۔ چاہئے کہ اس کے پینے سے فائدہ مد نظر ہو۔ نہ کہ نقصان ۔ بو علی جسے تمام فلاسفہ و اطبا میں بزرگ دنیا سمجھتے ہیں ۔ رباعی کہہ گیا ہے ۔ رباعی مے دشمن مست و دوست ہشیارا ست اندک تریاق و بیش زہر ماراست ازبسیارش مضر تے اندگ نیست در اندک اور منفعتے بسیاراست غرض بڑی تاکید سے پلائی۔ اپنا حال لکھتا ہے ۔ میں نے 15 برس کی عمر تک شراب نہیں پی تھی۔ بچپن میں والدہ اور اناؤں نے بچوں کی دوا کی طرح کبھی والد بزرگوار سے عرق منگا لیا۔ اور وہ بھی تولہ بھر گلاب یا پانی ملایا۔ کھانسی کی دوا کہہ کر کھے پلا دیا۔ ایک دفعہ والد بزرگوار کا شکر اٹک کے کنارے پر پڑا ہوا تھا۔ میں شکار کو سوار ہوا۔ بہت پھرتا رہا۔ شام کو آیا تو ھکن معلوم ہوئی۔ استاشاہ قلی تو پچی اپنے فن میں بڑا صاحب کمال تھا۔ میرے غم بزرگوار ۔ مرزا حکیم کے نوکروں میں سے تھا۔ اس نے کہا۔ ایک پیالی نوش جان فرمائیں۔ تو ساری ماندگی جاتی رہے۔ جوانی دوانی تھی۔ ایسی باتوں پر دل مائل تھا۔ محمود آبدار سے کہا۔ حکیم علی کے پاس جا ۔ سرور کا شربت لے آ۔ حکیم نے ڈیڑھ پیالہ بھیج دیا۔ زرد بسنتی شیریں۔ سفید شیشہ میں ۔ میں نے پیا۔ عجب کیفیت معلوم ہوئی۔ اس دن سے شراب شروع کی۔ اور روز بروز بڑھاتا رہا۔ یہاں تک نوبت پہنچی۔ کہ شراب انگوری کچھ معلوم ہی نہ ہوتی تھی۔ عرق شروع کیا۔ 9برس میں یہ عالم ہوا۔ کہ عرق دو آتشہ کے 14 پیالے دن کو 7رات کو پیتا تھا۔ کل 6 سیرا کبری ہوئی۔ ان دنوں ایک مرغ کے کباب روٹی کے ساتھ اور مولیاں خوراک تھی۔ کوئی منع نہ کر سکتا تھا۔ نوبت یہ ہوئی کہ حالت خمار میں رعشہ کے مارے پیالہ ہاتھ میں نہ لے سکتا تھا اور لوگ پلاتے تھے۔ حکیم ہمام حکیم ابوالفتح کا بھائی والد کے مقربان خاص میں تھا۔ اسے بلا کر حال کہا۔ اس نے کمال اخلاص اور نہایت دلسوزی سے بے حجابانہ کہا۔ صاحب عالم ! جس طرح آپ عرق نوش جاں فرماتے ہیں۔ نعوذ باللہ ۔ چھ مہینے میں یہ حال ہو جائیگا۔ کہ علاج پذیر نہ رہیگا۔ اس نے چونکہ خیر اندیشی سے عرض کیا تھا۔ اور جان بھی عزیز ہے۔ میں نے فلو نیا کی عادت ڈالی۔ شراب گھٹاتا تھا۔ فلونیا بڑھاتا جاتا تھا۔ حکم دیا۔ کہ عرق شراب انگوری میں ملا کر دیا کرو۔ چنانچہ دو حصے شراب انگوری۔ ایک حصہ عرق دینے لگے۔ کھٹاتے 7 برس میں 6 پیالے پر آگیا۔ اب 15برس سے اسی طرح ہوں۔ نہ کم ہوتی ہے۔ نہ زیارہ ۔ رات کو پیاکرتا ہوں۔ مگر جمعرات کا دن مبارک ہے کہ میرا روز جلوس ہے ۔ اور شب جمعہ متبرک رات ہے۔ اور اس کے آگے بھی متبرک دن آتا ہے۔ اس لئے نہیں پیتا۔ جمعہ کادن آخر ہوتا ہے۔ تو پیتا ہوں۔ جی نہیں چاہتا کہ وہ رات غفلت میں گزرے ۔ اور منعم حقیقی کے شکر سے محروم رہوں ۔ جمعرات اور اتوار کو گوشت نہیں کھاتا۔ اتوار والد بزرگوار کی پیدائش کا دن ہے۔ وہ بھی اس دن کا بڑا ادب کرتے تھے۔ چند روز سے فلونیا کی جگہ افیون کر دی ہے۔ اب عمر 46برس 4مہینے شمسی پر پہنچی۔ 47 برس 9مہینے قمری ہوئے۔ 8 رتی 5 گھڑ ی دن چڑھے ۔ 6 رتی پہر رات گئے کھاتا ہوں۔ آزاد ! دیکھتے ہو سادہ لوح مسلمان آج حکومت اسلام اور عمل اسلام کہہ کر فداہوئے جاتے ہیں۔ عقل حیران ہے کہ وہ کیا اسلام تھے۔ اور کیا آئین اسلام تھے۔ جس کو دیکھو شیر مادر کی طرح شراب پئے جاتا ہے۔ ناموں کی فہرست لکھ کر اب کیوں انہیں بدنام کروں ۔ اور ایک شراب لوکیارویئے۔ سن چکے اور سن لوگے کہ کیا کیا کچھ ہوتا تھا ۔ ع غرض میں کیا کہوں۔ دنیا عجب تماشا ہے۔ اب شہزادوں کو سعادتمندی کے کارنامے سنو کہ اکبر کو ملک دکن کی تسخیر کا شوق تھا۔ ادھر کے حکام و امرا کو پرچاتا تھا۔ جو آتے تھے۔ انہیں دلداری و خاطر داری سے رکھتا تھا۔ خود سفارتیں بھیجتا تھا۔ 1003ھ میں معلوم ہوا۔ کہ برہان الملک کے مرنے اور اس کے نااہل بیٹوں کی کشا کشی سے گھر بے چراغ اور ملک میں اندھیر پڑ گیا۔ امرائے دکن کی غرضیاں بھی دربار اکبری میں پہنچیں۔ کہ حضور اس طرف کا قصد فرمائیں۔ تو عقیدتمند خدمت کر حاضر ہیں۔ اکبر نے جلسہ مشورۃ قائم کر کے ادھر کا عزم مصمم کیا۔ ملک کو امرا پر تقسیم کیا۔ ان کے عہدے بڑھائے۔ اس وقت تک دربار میں پنجہزاری منصب معراج مدارج تھا۔ اب شہزادوں کو وہ منصب عطا کئے جو آج تک نہ سنے تھے۔ بڑے شاہزادے یعنی سلیم (جو بادشاہ ہو کر جہانگیر ہوا) کوکہ ولیعہد دولت تھا۔ دوازدہ ہزاری (2)مراد کو دہ ہزاری (3)دانیال کو ہفت ہزاری۔ مراد کو سلطان روم کی چوٹ پر سلطان مراد بنا کر مہم دکن پر روانہ کیا۔ ناتجربہ کار شہزاد ہ اول سب کو بلند نظر نوجوان نظر آیا۔ مگر حقیقت میں پست ہمت اورکوتاہ عقل تھا۔ خان خاناں جیسے شخص کو اپنی عالی دماغی سے ایسا تنگ کیا۔ کہ وہ اپنی التجا کے ساتھ دربار میں واپس طلب ہوا۔ اور مراد دنیا سے ناشاد گیا۔ اکبر نے ایک ہاتھ جگر کے داغ پر رکھا۔ دوسرے ہاتھ سے سلطنت کو سنبھال رہا تھا۔ جو 1005ھ میں خبر آئی کہ عبداللہ خاں اذبک وائی ترکستان نے بیٹے کے ہاتھ سے قضا کا جام پیا اور ملک میں چھری کٹاری کا بازار گرم ہے۔ اس نے فوراً انتظام کا نقشہ بدلا۔ امرا کو لے کر بیٹھا۔ اور مشوۃ کی انجمن جمائی۔ صلاح یہی ٹھیری کہ پہلے دکن کا فیصلہ کر لینا واجب ہے ۔ گھر کے اندر کا معاملہ ہے۔ اور کام بھی قریب الاختتام ہے۔ ادھر سے خاطر جمع کر کے ادھر چلنا چاہیے۔ چنانچہ دانیال کے نام پر مہم نامزد کی۔ اور مرزا عبدالرحیم خان خاناں کو ساتھ کر کے خاندیس روانہ کیا۔ سلیم کو شہنشاہی خطاب اور بادشاہی لوازمات و اسباب دیکر ولیعہد قرار دیا۔ اجمیر کا صوبہ متبرک سمجھ کر اس کی جاگیر میں دیا۔ اور میواڑ (ادیپور) کی مہم پر نامزد کیا۔ راجہ مان سنگھ وغیرہ نامی مرا کو ساتھ کیا۔ تمن ۔ توغ ۔ علم ۔ نقارہ ۔ فراش خانہ وغیرہ تمام سامان سلطانی عنایت فرمائے۔ لاکھ اشرفی نقد دی۔ عماری دار ہاتھی سواری کو دیا۔ مان سنگھ کو بنگالہ کا صوبہ پھر عنایت فرمایا۔ اور حکم دیا کہ شہزادہ کی رکاب میں جاؤ۔ جگت سنگھ اپنے بڑے بیٹے کو ۔ یا جسے مناسب سمجھو نیابت بنگالہ پر بھیج دو۔ دانیال کی شادی خان خاناں کی بیٹی سے کر دی۔ ابوالفضل بھی مہم دکن پر گئے ہوئے تھے۔ انہوں نے اور خان خاناں نے اکبر کو لکھا کہ حضور خود تشریف لائیں ۔ تو یہ مشکل مہم ابھی آسان ہو جائے ۔ اکبر کا اسپ ہمت قچی کا محتاج نہ تھا۔ ایک اشارہ میں برہانپور پر جاپہنچا۔ اور اسیر کا محاصرہ کر لیا۔ خانخاناں دانیال کو لئے احمد نگر کو گھیرے پڑا تھا۔ کہ اکبر نے آسیر کا قلعہ بڑے دور شور سے فتح کیا۔ ادھر احمد نگر خانخاناں نے توڑا۔ 1601/1009ء اب ملک کے دروازے خود بخود کھلنے لگے۔ ابراہیم عادل شاہ کا ایلچی بیجا پور سے تحائف گراں بہالے کر حاضر ہوا۔ تحریر و تقریر میں اشارہ تھا۔ کہ بیگم سلطان اس کی بیٹی کو حضور شہزادۂ دانیا ل کی ہمنشینی کے لئے قبول فرمائیں۔ اکبر یہ عالم دیکھ کر باغ باغ ہو گیا۔ میر جمال الدین ابخو کو اس کے لین کے لیے بھیجا۔ بڈھے بادشاہ کا جوان اقبال ادائے خدمت میں طلسمات کا تماشا دکھا رہا تھا۔ جو خبر پہنچی کہ شاہزادہ ولیعہد رانا کی مہم کو چھوڑ کر بنگالہ کو چلا گیا۔ بات یہ تھی کہ اول تو وہ نوجوان عیش کا بندہ تھا۔ آپ اجمیر کے علاقہ میں شکار کھیل رہا تھا۔ امرا کو رانا پر روانہ کیا تھا۔ دوسرے وہ کوہستان ویران ۔ گرم ملک غنیم جان سے ہاتھ دھوئے ہوئے کبھی ادھر سے ان گرا ۔ کبھی ادھر سے شبخون مارا ۔ بادشاہی فوج بڑے حوصلہ سے حملے کرتی تھی۔ اور روکتی تھی۔ رانا جب دہتا تھا۔ پہاڑوں میں بھاگ جاتا تھا۔ شہزادہ کے پاس بد نیت اور بد اعمال مصاحب صحبت میں تھے۔ وہ ہر وقت دل کو اچاٹ اور طبیعت کو آوارہ کرتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ بادشاہ اس وقت مہم دکن میں ہیں۔ اور منصوبہ عظیم پیش نظر ہے۔ مدتوں کی منزلیں اور مسافت درمیان ہے۔ آپ راجہ مان سنگھ کو اس کے علاقہ پر رخصت کر دیں اور آگرہ کی طرف نشان دولت بڑھا کر کوئی سیر حاصل اور سر سبز علاقہ زیر قلم کر لیں۔ یہ امر کچھ معیوب نہیں۔ جو ہر ہمت اور غیر سلطنت کی بات ہے۔ 1 ؎ ابوالفضل کی دوراندیشی نے اکبر کو یہ سمجھایا۔ کہ جو کچھ ہوا مان سنگھ کے اغواء سے ہوا۔ مورکھ شہزادہ ان کی باتوں میں آگیا۔ اور ارادہ کیا کہ پنجاب میں جا کر باغی بن بیٹھے۔ اتنے میں خبر آئی کہ بنگالہ میں بغاوت ہو گئی۔ اور راجہ کی فوج نے شکست کھائی۔ اس کی مراد برآئی ۔ راجہ کو ادھر رخصت کیا۔ اور آپ مہم چھوڑ آگرہ کو روانہ ہوا۔ یہاں آکر باہر ڈیرے ڈال دیئے قلعہ میں مریم مکانی (والدہ اکبر) بھی موجود تھیں۔ قلیچ خاں پر انا خدمت گزار اور نامی سپہ سالار قلعدار اورتحویلدار تھا۔ اور کار سازی و منصوبہ بازی میں یکتا مشہور تھا۔ اس نے نکل کربڑی خوشی اور شگفتہ روئی سے مبارکباد دی۔ پیشکش اور نذرانہ شاہانہ گزران کر ایسی خیر خواہی کے ساتھ باتیں بنائیں۔ اور تدبیریں بتائیں ۔ کہ شاہزادہ کے دل پر اپنی ہوا خواہی پتھر کی لکیر کر دی۔ ہر چند نئے مصاحبوں نے کان میں کہا۔ کہ پرانا پاپی بڑا متفنی ہے۔ اس کا قید کر لینا مصلحت ہے۔ یہ آخر شہزادہ تھا۔ نہ مانا ۔ بلکہ رخصت کے وقت اسے کہہ دیا کہ ہر طرف سے ہشیار رہنا ۔ اور قلعہ کی خبر داری اور ملک کا بندوبست رکھنا۔ جہانگیر جمنا اتر کر شکار کھیلنے لگا۔ مریم مکانی پر یہ راز کھل گیا تھا۔ اور وہ بیٹے سے زیادہ اسے چاہتی تھیں۔ انہوں نے بلا بھیجا۔ نہ آیا۔ ناچار خود سوار ہوئیں۔ یہ آنے کی خبر سن کر شکار کی طرح بھاگے۔ اور جھٹ کشتی پر بیٹھ کر الہ آباد کو روانہ ہوئے۔وادی کہن سال افسردہ حال اپنا سامنہ لے کر چلی آئی۔ اس نے آلہ آباد پہنچ کر سب کی جاگیریں ضبط کر لیں۔ الہ آباد آصف خاں میر جعفر کے سپرد تھا۔ اس سے لے کر اپنی سرکار میں داخل کر لیا۔ بہار اودھ وغیرہ آس پاس کے صوبوں پر قبضہ کر لیا۔ ہر جگہ اپنے حاکم مقر ر کئے۔ وہ اکبری ملازم پرانے قدیم الخدمت ٹھوکر یں کھاتے ادھر آئے۔ بہار کا خزانہ 30 لاکھ سے زیادہ تھا۔ اس پر قبضہ کیا۔ صوبہ مذکور شیخ جیون اپنے کوکہ کو عنایت کیا۔ اور قطب الدین خاں خطاب دیا۔ تمام مصاحبوں کو منصب اور خانی و سلطانی کے خطاب دیئے گئے۔ جاگیریں دیں اور آپ بادشاہ بن گیا۔ 1600/ھ1009ء اکبر دکن کے کنارہ پر بیٹھا پورب پچھم کے خیال باندھ رہا تھا۔ یہ خبر پہنچی تو بہت گھیرایا۔ میر جمال الدین حسین کے آنے کا انتظار بھی نہ کیا۔ مہم کو امرا پر چھوڑا۔ اور آپ حسرت و افسوس کے ساتھ آگرہ کو روانہ ہوا۔ اس میں کچھ شک نہیں ۔ کہ اگر یہ ہلہلا چند روز اور نہ اٹھتا۔ تو دکن کے بہت سے قلعدار خود کنجیاں لے لے کر حاضر ہو جاتے۔ اور دشوار مہمیں آسان طور سے طے ہو جاتیں۔ پھر ملک موروثی یعنی تر کستان پر خاطر جمع سے دھاوے مارتے۔ مگر مقدر مقدم ہے۔ نااہل و ناخلف بیٹے نے جو حرکتیں وہاں کیں۔ باپ کو حرف حرف خبر پہنچی۔ اب اسے محبت پدری کہو خواہ مصلحت ملکی سمجھو۔ باجود ایسی بے اعتدالیوں کے باپ نے ایسی بات نہ کی جس سے بیٹا بھی باپ کی طرف سے ناامید ہو کر کھلم کھلا باغی ہو جاتا۔ بلکہ کمال محبت سے فرمان لکھا۔ اس نے جواب میں ایسے زمین آسمان کے افسانے سنائے ۔ گویا اسکی کچھ خطا ہی نہیں۔ بلا بھیجا ۔ تو ٹال گیا۔ اور ہر گز نہ آیا۔ اکبر آخر باپ تھا۔ اور آخری وقت تھا۔ دانیال بھی دنیا سے جانے والا تھا۔ یہی ایک نظر ایک نظر آتا تھا۔ اور اسے بڑی منتوںمرادوں سے پایا تھا۔ ایک اور فرمان لکھ کر محمدؐ شریف ولد خواجہ عبدالصمد شیریں قلم کے ہاتھ روانہ کیا۔ کہ وہ ان کا ہم سبق تھا۔ اور بچپن سے ساتھ کھیلا تھا۔ زبانی بھی بہت کچھ کہلا بھیجا۔ اور بڑی محبت اور اشتیاق دیدار کے پیام بھیجے۔ بہت بہلایا پھسلایا۔ خدا جانے وہ منا یا نہ مناا۔ باپ بچارا آپ ہی کہہ سن کر خوش ہو گیا۔ اور حکم بھیجا کہ ملک بنگال اور اڑیسہ تمہاری جاگیر ہے۔ اس کا انتظام کرو۔ مگر اس نے حکم کی تعمیل نہ کی اور آلے بالے بتاتا رہا۔ 1011ھ میں پھروہی روز سیاہ پیش آیا۔ الہ آباد میں بگڑ بیٹھے۔ اپنے نام کا خطبہ پڑھوایا۔ ٹکسال میں سکہ لگوایا۔ روپے اشرفیاں مہاجنوں کے لین دین میں آگرہ اور دلی پہنچائیں کہ باپ دیکھے اور جلے۔ اس کے پرانے وفا داروں اور قدیمی جاں نثاروں کو اپنا بدخواہ اور نمک حرام ٹھیرایا۔ کسی کو سخت قید ۔ کوئی قتل۔ یہاں تک کہ شیخ ابوالفضل کے خون ناحق سے فارغ ہوئے۔ اب یا تو اکبر بلاتا تھا۔ یہ آتے نہ تھے۔ یا مصاحبوں سے صلاح مشورہ کر کے تیس چالیس ہزار لشکر جرار کے ساتھ آگرہ کو چلے۔ رستے میں بہت سے امیروں کی جاگیریں لوٹتے آئے ۔ اٹاوہ میں آصف خاں کی جاگیر تھی۔ وہاں پہنچ کر مقام کیا۔ آصف خاں دربار میں تھا۔ اس کے وکیل نے آقا کی طرف سے لعل گراں بہانذر گزرانا۔ اور عرضی پیش کی (اکبر کے اشارے سے لکھی گئی تھی) اس پر بھی زر خطیر اس کی جاگیر سے وصول کیا۔ جن امرا کی جاگیریں صوبہ بہار میں تھیں۔ سب نالاں تھے۔ آصف بہت کہتے رہتے تھے۔ مگر سلیمان صلاح اندیش ایسے جواب دیتا تھا۔ جسے سن کر محبت کے سینے سے دودھ بہنے لگتا تھا۔ امرا چپ تھے۔ مگر آپس میں کہتے تھے۔ کہ بادشاہ کی سمجھ میں نہیں آتا۔ دیکھئے اس بے حد شفقت کا انجام کیا ہوتا ہے۔ جب نوبت حد سے گزر گئی۔ اور وہ اٹاوہ سے بھی کوچ کر کے آگے بڑھا تو انتظام سلطنت میں خلق عظیم نظر آیا۔ اب اکبر کا بھی یہ حال ہوا۔ کہ یا تو بیٹے کے ملنے کی آرزو اور ذوق شوق کے خیالات سنا سنا کر خوش ہوتا تھا۔ یا اپنے اور اس کے معاملے کے انجام کو سوچنے لگا۔ فرمان لکھا جس کا خلاصہ یہ ہے۔ خلاصہ فرمان ۔ اگرچہ اشتیاق دیدار فرزند کا مگار کا حد سے زیادہ ہے۔ بوڑھا باپ دیدار کا پیاسا ہے۔ لیکن پیار ے بیٹے کا ملنے کو آنا۔ اور اس جاہ و جلال سے آنا دل محبت منزل پر شاق اور ناگوار معلوم ہوتا ہے۔ اگر تجمل اور خوشنمائی لشکر کی اور موجودات سپاہ کی منظور نظر ہے۔ تو مجرا قبول ہو گیا۔ سب کو جاگیروں پر رخصت کر دو۔ اور معمول کے بموجب چھڑے چلے آؤ۔ باپ کی دکھتی آنکھوں کو روشن اور محروم دل کو خوش کرو۔ اگر لوگوں کی یا وہ گوئی سے کچھ وہم و وسواس تمہارے دل میں ہے جس کا ہمیں سان گمان بھی نہیں تو کچھ مضائقہ نہیں الہ آباد کی طرف مراجعت کرو اور کسی قسم کے وسو سے کو دل میں راہ نہ دو۔ جب وہم کا نقش تمہارے دل سے دھویا جائیگا۔ اس وقت ملازمت میں حاضر ہونا۔ اس فرمان کو دیکھ کر جہانگیر بھی بہت شرمایا کیونکہ کوئی بیٹا باپ کے سلام کو اس کروفر سے نہیں گیا۔ اور ایسے اختیارات نہیں دکھائے اور کسی بادشاہ نے بیٹے کی بے اعتدالیوں کا اس قدر تجمل بھی نہیں کیا۔ چنانچہ وہیں ٹھہر گیا۔ اور عرضی لکھی۔ کہ غلام خانہ زاد کو سوا آرزو ے ملازمت کے اور کچھ خیال نہیں ہے۔ وغیرہ وغیرہ ۔ اب حکم حضور کا اس طرح پہنچا ہے۔ اطاعت فرمان واجب جان کر چند روز اپنے خداوند و مرشد و قبلہ کی درگاہ سے جدا رہنا ضرور ہوا۔ وغیرہ وغیرہ ۔ یہ لکھا اور الہ آباد کو پھر گیا۔ اکبر کے حوصلے کو آفرین ہے کہ کل بنگالہ بیٹے کی جاگیر کر دیا۔ اور لکھ بھیجا کہ اپنے ہی آدمی تعینات کر دو۔ سفید و سیاہ کا تمہیں اختیار ہے۔ اور ہماری ناخوشی کا وسوسہ اور غدغہ دل سے نکال ڈالو۔ بیٹے نے شکریہ کی عرضداشت لکھی اور خود اختیاری کے ساتھ اپنے ہاتھوں کے احکام وہاں جاری کر دیئے۔ صحبت میں مصاحب اچھے نہ تھے۔ بے اعتدالیاں بڑھنے لگیں۔ اکبر پریشان رہتا تھا امرائے دربار میں نہ کسی کی عقل پر اعتماد تھا نہ دیانت کا اعتبار تھا۔ نا چار شیخ ابوالفضل کو دکن سے بلایا وہ اس طرح مارے گئے۔ خیال کرنا چاہئے کہ دل پر کیا صدمہ گزرا ہو گا۔ واہ رے اکبر زہر کا گھونٹ پی کر رہ گیا۔ جب کچھ بن نہ آئی تو خدیجۃ الزمانی سلیمہ سلطان بیگم کو کہ دانائی کاردانی اور سخن سنجی و حسن تقریر میں سحر آفرین تھیں۔ بیٹے کی تسلی اور دلا سے کے لئے روانہ کیا۔ خاصہ کے ہاتھیوں میں سے فتح لشکر ہاتھی۔ خلعت اور تحفے گراں بہا بھیجے لطیف میوے من بھاتے کھانے ۔ مٹھایاں پوشاک و لباس کی اکثر چیزیں برابر لی جاتی تھیں کہ کسی طرح بات بنی رہے اور ضدی لڑکا ہاتھوں سے نہ نکل جائے۔ وہ اکبر بادشاہ تھا۔ سمجھتا تھا کہ میں چراغ سحری ہوں ۔ اس وقت یہ تکرار بڑھی تو سلطنت کا عالم تہ و بالا ہو جائیگا۔ کارداں بیگم وہاں پہنچی۔ اپنی کاردانی سے وہ منتر پھونکے کہ مرغ و حشی دام میں آگیا۔ اور ایسا کچھ سمجھایا۔ کہ ہٹیلا لڑکا ساتھ چلا آیا۔ رستے میں سے پھر مرضی آئی کہ مریم مکانی مجھے لینے آئیں۔ اکبر نے جواب میں لکھا کہ مجھے تو اب ان سے کہنے کا منہ نہیں۔ تم آپ ہی لکھو۔ خیر ایک منزل آگرہ رہا تو مریم مکانی بھی گئیں۔ اپنے ہی گھر میں لا کر اتارا۔ دیدار کا بھوکا باپ وہاں آپ چلا گیا۔ بارے ایک ہاتھ مریم مکانی نے پڑکا۔ ایک سلیمہ سلطان بیگم نے سامنے لائے باپ کے قدموں پر ان کا سررکھا۔ باپ کو اس سے زیادہ اور دنیا میں تھا کیا ؟ اٹھاکر دیر تک سر چھاتی سے لگائے رہے اور روئے۔ اپنے سر سے دستاور اتار کر بیٹے کے سر پر رکھ دی۔ ولی عہدی کا خطاب تازہ کیا اور حکم دیا کہ شادیانے بجیں ۔ جشن کیا۔ مبارکبادیں ہوئیں۔ رانا کی مہم پر پھر نامزد کیا اور امرا فوجیں دے کر ساتھ کئے۔ یہ یہاں سے روانہ ہوئے۔ اورفتچور میں جا کر مقام کیا۔ بعض سامانوں اور خزانوں کے پہنچے میں دیر ہوئی۔ نازک مزاج پھر بگڑ گیا۔ اور لکھا کہ کفایت اندیش حضور کے سامان بھیجنے میں تامل کرتے ہیں۔ یہاں بیٹھے بیٹھے اوقات ضائع ہوتی ہے۔ اس مہم کے لئے لشکر و افر چاہئے۔ رانا پہاڑوں میں گھس گیا ہے وہاں سے نکلتا نہیں۔ اس لئے چاروں طرف سے فوج روانہ کرنی چاہئے۔ اور ہر جگہ اتنی فوج ہو کہ جہاں مقابلہ ہو پڑے۔ اس کاجواب دے سکے۔ امیدوار ہوں کہ فی الحال مجھے اجازت ہو کہ جہاں مقابلہ ہو پڑے۔ اس کا جواب دے سکے۔ امیدوار ہوں کہ فی الحال مجھے اجازت ہو کہ جاگیر پر جاؤں وہاں حسب دلخواہ خود کا فی ووافی سامان سر انجام کر کے حکم کو تعمیل کر دوں گا۔ اکبر نے دیکھا کہ لڑکا پھر مچلا۔ سوچ سمجھ کر اپنی بہن کر بھیجا۔ پھوپھی نے بھی جا کر بہتیرا سمجھایا۔ وہ کیا سمجھتا تھا۔ آخر باپ کو اجازت ہی دیتے بن آئی۔ یہ کوچ بہ کوچ شان شاہانہ سے الہٰ آباد کو روانہ ہوئے۔ کوتہ اندیش امیروں نے اکبر کو اشارہ کیا کہ موقع ہاتھ سے نہ دینا چاہیے( قید) اس نے ٹال دیا۔ جاڑے کا موسم تھا۔ دوسرے ہی دن ایک پوستین سمور سفید کا بھیجا کہ ہمیں اس وقت بہت پسند آیا ۔ جی چاہا کہ نور چشم اسے پہنے اور کچھ تحفے کشمیر کابل کے اور بھی ساتھ بھیجے۔ مطلب یہی تھا کہ اس کے دل میں شبہ نہ آئے۔ اس نے الہٰ آباد میں پہنچ کر پھر وہی اکھاڑ پچھاڑ شروع کر دی۔ جن امرا کو باپ نے پچاس برس کی محنت میں جانباز اور جان نثار دلاور فتحیاب تیار کیا تھا۔ اور اس کے بھی محرم راز تھے انہی کو برباد کرنے لگا۔ وہ اٹھ اٹھ کر دربار میں آنے لگے۔ خسرو اس کا بیٹا راجہ مان سنگھ کا بھانجا تھا۔ مگر بے عقل اور بد نیت تھا۔ وہ اپنے حال پر اکبر کی شفقت دیکھ کر سمجھتا تھا۔ کہ دادا مجھے ولیعہد کردیگا۔ باپ کے ساتھ بے ادبی و بے باکی سے پیش آتا تھا ۔ اور کبھی کبھی اکبر کی زبان سے بھی نکل گیا تھا کہ اس باپ سے تویہ لڑکا ہو نہار معلوم ہوتا ہے۔ ایسی ایسی باتوں پر نظر کر کے وہ کوتہ اندیش لڑکا اور بھی لگاتا بجھا تارہتا تھا۔ یہاں تک کہ اس کی ماں کو یہ حالات دیکھ کر تاب نہ رہی۔ کچھ تو جنون اس کا موروثی مرض تھا۔ کچھ ان باتوں کا غم و غصہ ۔ بیٹے کو سمجھایا۔ وہ باز نہ آیا۔ آخر راجپوت رانی تھی افیم کھا کر مر گئی کہ اس کی ان حرکتوں سے میرے دودھ پر حرف آئیگا۔ انہی دنوں میں بادشاہی واقعہ نویس ایک لڑکے کو لیکر بھاگ گیا۔ کہ نہایت صاحب جمال تھا۔ اور جہانگیر بھی اسے دربار میں دیکھ کر خوش ہوا کرتا تھا۔ حکم دیا کہ پکڑ لاؤ۔ وہ کئی منزل سے پکڑے آئے۔ اپنے سامنے دونوں کی زندہ کھال اتروا ڈالی۔ اکبر کو بھی دم دم کی خبرپہنچتی تھی۔ سن کر تڑپ گیا اور کہا۔ اللہ اللہ شیخو جی ہم تو بکری کی کھال بھی اترتے نہیں دیکھ سکے۔ تم نے یہ سنگدلی کہاں سے سیکھی ۔ شراب اس قدر پیتا تھا کہ نوکر چا کر ڈر کے مارے کونوں میں چھپ جاتے تھے۔ پاس جاتے ہوئے ڈرتے تھے۔ جو حضوری سے مجبور تھے وہ نقش دیوار کھڑے رہتے تھے۔ وہ ایسی حرکتیں کرتا تھا جن کے سننے سے رونگٹے کھڑے ہوں۔ ایسی ایسی باتیں سن کر عاشق باپ سے نہ رہا گیا۔ یہ بھی معلوم تھا کہ زیادہ تر شراب کی خانہ خرابی سے ۔ چاہا کہ خود جاؤں اور آپ سمجھا کر لے آؤں۔ کشتی پر سوار ہوا۔ ایک دن کشتی ریت میں رکی رہی ۔ دوسرے دن اور کشتی آئی۔ دو دن مینہ کا تار لگا رہا۔ اتنے میں خبر پہنچی کہ مریم مکانی کا براحال ہے۔ مختصر یہ کہ پھر آئے اور ایسے وقت پہنچے کہ لبوں پر دم تھا۔ ماں نے بیٹے کا آخری دیدار دیکھ کر 1012ھ میں دنیا سے سفر کیا۔ اکبر کوب ڑا رنج ہوا۔ بھدرا کیا کہ چنگیز خانی تو رہ اور ہندوستانی ریت کا حکم تھا۔ 14سونمک حلالوں نے ساتھ دیا۔ تھوڑی دور سعادت مند بیٹے نے ماں کا تابوت کو دلی روانہ کیا کہ شوہر کے پہلو میں دفن ہو۔ الہٰ آباد میں خبر پہنچی تو یہ بھی کچھ سمجھے۔ اور روتے بسورتے باپ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ عاشق باپ نے گلے لگایا بہت سمجھایا۔ معلوم ہوا۔ کہ کثرت شراب سے دماغ میں خلل آگیا ہے۔ نوبت یہ ہو گئی تھی کہ فقط شراب کا نشہ بس نہ تھا۔ اس میں افیون گھول کر پیتے تھے جب ذرا سرور معلوم ہوتا تھا۔ اکبر نے حکم دیا کہمحل سے نکلنے نہ پائیں۔ مگر پھر کب تک ۔ ناچار تفریحوں اور ترکیبوں سے طبیعت کی اصلاح کرتا تھا۔ اور حکمت عملی کے علاجوں سے دیوانہ کو قابو میں لاتا تھا۔ غائبانہ حاضر انہ شفتیں کر کے پھسلاتاتھا کہ ہٹیکے لڑکے کی ضدوں میں بڑوں کا نام نہ مٹ جائے اور فی الحقیقت وہ ملک و تدبیر کا بادشاہ سچ سمجھا تھا۔ ابھی مراد کے آنسوؤں سے پلکیں نہ سو کھی تھیں کہ اکبر کو پھرجوان بیٹے کے غم میں رونا پڑا یعنی 1013ھ میں دانیال نے بھی اسی شراب کے پیچھے اپنی جان عزیز کو ضائع کیا اور سلیم کے کے لئے میدان خالی چھوڑ گیا۔ باپ کو اب سوا سلیم کے دین و دنیا میں کوئی نہ تھا۔ بیٹا اور اکلوتا بیٹا ع داغ فرزندے کند فرزند دیگر راعزیز۔ اسی عرصہ میں ایک دن بعض سلاطین اور شہزادوں کی فرمائش سے صلاح ٹھہیری کی ہاتھیوں کی گڑائی دیکھیں۔ اکبر کا بھی قدیمی شوق تھا ۔ جوانی کی امنگ آگئی۔ ولیعہد دولت کے پاس ایک بڑا بلند اور تناور ہاتھی تھا۔ اسی گئے اس کا نام گرانبار رکھا تھا۔ وہ ہزاروں ہاتھیوں میں نمودار نظر آتا تھا۔ اور لڑائی میں ایسا بلونت تھا کہ ایک ہاتھی اس کی ٹکر نہ اٹھا سکتا تھا۔ خسرو (شاہزادہ ولیعہد کے بیٹے) کے پاس ایسا ہی نامور اور دھیں دھونکڑ ہاتھی تھا۔اس کا نام آپ روپ تھا دونوں کی لڑائی ٹھہیری ۔ خاصہ بادشاہی میں بھی ایک ایسا ہی جنگی ہاتھی تھا۔ اس کا نام رن تھمن تھا۔ تجویز ٹھیہری کہ جوان دونوں میں سے دب جائے اس کی مدد پر رن تھمن آئے۔ بادشاہ اور اکثر شہزادے جھروکوں میں بیٹھے۔ جہانگیر اور خسرو اجازت لیکر گھوڑے اڑاتے میدان میں آئے۔ ہاتھی آمنے سامنے ہوئے اور پہاڑ ٹکرانے لگے۔ اتفاقاً بیٹے (خسرو) کا ہاتھی بھاگا اور باپ کا (جہانگیر) ہاتھی اس کے پیچھے چلا۔ خاصہ کے فیلبان نے بموجب قرار داد کے رن تھمن کو آپ روپ کی مدد پر پہنچا۔ جہانگیری نمک خواروں کو خیال ہوا کہ ایسا نہ ہو۔ ہماری جیت ہار ہو جائے۔ اس لئے رن تھمن کو مدد سے روکا۔ چونکہ پہلے سے یہ بات ٹھہیری ہوئی تھی۔ فیلبان نہ رکا۔ جہانگیر نوکروں نے غل مچایا برچھوں کے کوچے اور پتھر مار نے شروع کئے۔ یہانتک کہ فیلبان شاہی کی پیشانی پر پتھر لگا اور کچھ لہو بھی منہ پر بہا۔ 1 ؎ خاندان چغتا یہ کی اصطلاع میں بادشاہ اور ولیعہد کے سوا جو خاندان کے بھائی بند ہوں۔ سلاطین کہلاتے ہیں بلکہ مجازاً ایک کو بھی سلاطین کہہ دیتے ہیں۔ اگرچہ لفظاً جمع کا صیغہ ہے۔ خسرو ہمیشہ دادا کو باپ کی طرف سے اکسایا کرتا تھا۔ اپنے ہاتھی کے بھاگنے سے گھسیانا ہو گیا ۔ اور جب مدد بھی نہ پہنچ سکی تو دادا کے پاس آیا۔ بسورتی صورت بنا کر باپ کے نوکروں کی زیادتی اورف یلبان خاصہ کی مجرو ہی کا حال برے رنگ سے دکھایا ۔ جہانگیر کے نوکروں کا شور شرابا اور اپنے فیلبان کے منہ پر لہو بہتا ہوا سامنے سے اکبر نے بھی دیکھا تھا۔ بہت برہم ہوا۔ خورم (شاہجہان) کہ 14برس کی عمر تھی اور دادا کی خدمت سے ایک دم جدا نہ ہوتا تھا۔ اس وقت بھی حاضر تھا۔ اکبر نے کہا۔ تم جاؤ اپنے شاہ بھائی (جہانگیر) سے کہو کہ شاہ بابا (اکبر) کہتے ہیں۔ دونو ہاتھی تمہارے ۔ دونوں فیلبان تمہارے ۔ جا نور کی طرفداری میں ہماری ادب کا بھول جانا یہ کیا بات ہے۔ خورم اس عمر میں بھی دانشمند اور نیک طبع تھا۔ ہمیشہ ایسی باتیں کیا کرتا تھا۔ جس میں باپ اور دادا میں صفائی رہے۔ وہ گیا اور خوشی خوشی پھر آیا۔ غرض کی ۔ شاہ بھائی کہتے ہیں ۔ حضور کے سر مبارک کی قسم ہے کہ فدوی کو اس بیہودہ حرکت کی ہرگز خبر نہیں اور غلام کبھی ایسی گستاخی گوارانہیں کر سکتا۔ غرض باپ کی طرف سے اس طرح تقریر کی کہ دادا خوش ہو گیا۔ اکبر اگرچہ جہانگیر کی حرکات ناشائستہ سے ناراض تھا اور اس عالم میں کبھی خسرو کی تعریف بھی کر دیا کرتا تھا مگر سمجھتا تھا کہ یہ اس سے بھی نالائق ہے۔ وہ یہ بھی سمجھ گیا تھا کہ خسرو ایک دفعہ ہاتھ پاؤں ہلائے بغیر نہ رہیگا کیونکہ اس کا پیچھا بھاری ہے۔ یعنی مان سنگھ کا بھانجا ہے۔ تمام سرداران کچھواہہ ساتھ دیں گے۔ خان اعظم کی بیٹی اس سے بیاہی ہے۔ وہ بھی سلطنت کارکن اعظم ہے۔ ان دونو کا ارادہ تھا کہ جہانگیر کو باغی قرار دے کر اندھا کر دیں اور قید رکھیں خسرو کے سر پر تاج اکبری رکھ دیں مگر دانا بادشاہ برسوں کی مدت اور کوسوں کی مسافت کو سامنے دیکھتا تھا۔ وہ یہ بھی سمجھتا تھا کہ جب اس طرح بگڑے گی تو گھر ہی بگڑ جائیگا ۔ اس لئے مصلحت یہی نظر آئی کہ سب کاروابار بدستور رہے اور جہانگیر ہی تخت نشین ہو۔ ان رنوں میں جو بڑے بڑے امیر تھے۔ وہ اضلاع دور دست میں بھیجے ہوئے تھے۔ اس لئے جہانگیر عت ہراساں تھا۔ چنانچہ جب اکبر کی حالت غیر ہوئی تو اس کے اشارے مے قلعہ سے نکل کر ایک مکان محفوظ میں جا بیٹھا۔ وہاں شیخ فرید بخشی وغیرہ پہنچے اور شیخ اپنے مکان میں لے گئے۔ 1 ؎ خورم۔ سلیم یعنی جہانگیر کا بیٹا تھا۔ یہ راجہ ادے سنگھ کی بیٹی۔ راجہ مالدیو فرمانروائے جودھ پور کی پوتی کے شکم سے 1000ھ اسی شہر لاہور میں پیدا ہوا تھا۔ اکبر نے اسے خود بیٹا کر لیا تھا۔ بہت پیار کرتا تھا۔ اور ہر وقت دادا کی خدمت میں حاضر رہتا تھا ۔ 2 ؎ اس نے اکثر معرکوں میں دلاوری کے کارنامے دکھا کر جہانگیر سے مرتضیٰ خاں خطاب حاصل کیا۔ سید صحیح النسب تھا ۔ کہتا تھا کہ میں رضوی سید ہوں مگر حقیقت میں نقوی سید تھا یعنی حضرت جعفر تو آب کی اولاد تھا ۔ جنہیں اکثر مصنف جعفر کذاب لکھتے ہیں اکبر کے عہد میں بھی بڑی جانقشانی اور نمک حلالی سے خدمتیں بجا لاتا رہا تھا یہاں تک کہ بخشیگری کے منصب تک پہنچا تھا۔ جب بیٹے کوکئی دن نہ دیکھا تو اکبر بھی سمجھ گیا اور اسی عالم میں بلایا گلے سے لگا کر بہت پیار کیا اور کہا کہ امراے دربار کو یہیں بلالو۔ پھر بیٹے سے کہا۔ اے فرزند ! جی نہیں قبول کر تا کہ تجھ میں اور میرے ان دو لتخواہوں میں بگاڑ ہو جنہوں نے برسوں میرے ساتھ یلغاروں اور شماروں میں محنتیں اٹھائیں اور تیغ و تفنگ کے منہ پر جان جو کھوں میں رہے۔ اور میرے جاہ و جلال اور ملک و دولت کی ترقی میں جانفشانی کرتے رہے۔ اتنے میں امرا بھی حاضر ہو گئے۔ سب کی طرف مخاطب ہو کر کہا کہاے میرے وفا دارو ۔ اے میرے عزیز و اگر بھولے سے بھی کوئی خطا تمہاری میں نے کی ہو تو معاف کر و۔ جہانگیر نے جب یہ بات سنی تو باپ کے قدموں پر گرا اور زار زار رونے لگا۔ باپ نے سرا ٹھا کر سینہ سے لگایا تو تلوار کی طرف اشارہ کر کے کہا اسے کمر سے باندھو ۔ اورمیرے سامنے بادشاہ بنو۔ اور پھر کہا کہ خاندان کی عورتوں اور حرم سرا کی بیبیوں کی غورو پر داخت سے غافل نہ رہنا۔ اورقدیمی نمک خواروں اور میرے پرانے ہوا خواہوں اور رفیقوں کو نہ بھولنا۔ سب کو رخصت کر دیا۔ اور مرض کو آرام ہوا مگر وہ طبیعت نے سنبھالا لیا تھا۔ غرض جہانگیر پھر شیخ فرید کے گھر میں جا بیٹھا۔ اکبر کی بیماری مں خورم اس کی خدمت میں حاضر تھا۔ اسے محبت دلی اور سعاد تمندی کہو یا باپ کی اور اپنی مصلحت وقت سمجھو ۔ اہل تاریخ یہ بھی لکھتے ہیں کہ باپ (جہانگیر) محبت پدری کے سبب سے بلا بلا بھیجتا اور کہتا تھا کہ چلے آؤ۔ دشمنوں کے نرغے میں رہنا کیا ضرور ہے۔ وہ نہ آتا تھا اور کہلا بھیجتا تھا کہ شاہ بابا کا یہ حال ہے۔ اس عالم میں انہیں چھوڑ کر کس طرح چلا آؤں۔ جب تک جان میں جان ہے۔ شاہ بابا کی خدمت سے ہاتھ نہ اٹھاؤ نگا۔ یہاں تک کہ ماں بیقرار ہو کر آپ اس کے لینے کو دوڑی گئی۔ اور بہت سمجھایا مگر اور ہرگز اپنے ارادے سے نہ ٹلا۔ دادا کے پاس رہا اور باپ کو بھی دم دم کی خبریں پہنچاتا رہا۔ اس وقت اس کا وہاں رہنا اور باہر نہ آنا ہی مصلحت ہوا۔ خان اعظم اور مان سنگھ کے آدمی ہتیار بند چاروں طرف پھیلے ہوئے تھے۔ اگر وہ نکلتا تو فوراً پکڑ ا جاتا۔ جہانگیر ہاتھ آجاتا تو وہ بھی گرفتار ہو جاتا۔ جہانگیر نے ان حالات کو خود بھی توزک میں لکھا ہے۔ اسے بڑا خطر اس واقعہ کے سبب سے تھا جو شاہ طہما سپ کے بعد ایران میں گزرا تھا۔ جب شاہ کا انتقال ہوا تو سلطان حیدر اپنے امرا ورفقا کی حمایت سے تخت نشین ہو گیا۔ بری جان خانم شاہ طہما سپ کی بہن پہلے سے سلطنت کے کاروبار اور انتظام مہمات میں دخل رکھتی تھی وہ اسکی تخت نشینی دل سے نہ چاہتی تھی۔ اس نے شفقت کے پیام بھیج کر بھتیجے کو قلعہ میں بلایا۔ بھتیجا نفاق سے بے خبر۔ وہ بے خبر پھوپھی کے پاس گیا۔ اور جاتے ہی قید ہو گیا۔ قلعہ کے دروازے بند ہو گئے۔ اس کے رفقا نے جب سنا تو اپنی اپنی فوجیں لے کر آئے اور قلعہ کو گھیر گیا۔ اندر والوں نے سلطان حیدر کو مار ڈالا اور اس کا سر کاٹ کر فصیل پر سے دکھایا اور کہا کہ جس کے لئے لڑتے ہو اس کا تو یہ حال ہے اب کس بھروسے پر مرتے ہو اور سر کو باہر پھینک دیا۔ جب ان لوگوں کو یہ حال معلوم ہوا تو دل شکستہ ہو کر پریشان ہو گئے اور شاہ اسمعیل ثانی تخت نشین ہو گیا ۔ غرض مرتضیٰ خاں (شیخ فرید بخشی) جہانگیر کا بھی خیر خواہ تھا ۔ اس نے آکر بندوبست کیا۔ وہ بخشی بادشاہی تھا اور امرا اور افواج کی طبیعت میں اثر عظیم رکھتا تھا۔ چنانچہ اس کے سبب سے خان اعظم کے نوکروں میں بھی تفرقہ پڑ گیا۔ خسرو کا یہ عالم تھا کہ کئی برس سے ہزار روپیہ روز (3 لاکھ 60ہزار سالانہ) ان لوگوں کو دے رہا تھا کہ وقت پر کام آتا۔ اخیر وقت میں بعض خیر خواہاں سلطنت نے مشورہ کر کے یہی مناسب دیکھا کہ مان سنگھ کو بنگالہ کے صوبہ پر ٹالنا چاہیئ۔ چنانچہ اسی دن اکبر سے اجازت لی اور فوراً خلعت دے روانہ کر دیا۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ اندر اندر مدت سے کھچڑی پک رہی تھی مصلحت اندیش بادشاہ نے اپنے علوحوصلہ سے گھر کا راز کھلنے نہ دیا تھا۔ اخیر میں جا کر یہ باتیں کھلیں۔ ملا صاحب تیرہ چودہ برس پہلے لکھتے ہیں (اس وقت دانیال اور مراد بھی زندہ تھے) ایک دن بادشاہ کے پیٹ میں درد ہوا اورشدت اس کی اس قدر ہوئی کہ بیقراری ضبط کی طاقت سے گزر گئی۔ اس وقت عالم اضطراب میں ایسی باتیں کرتے تھے۔ جس سے بڑے شہزادے پر بد گمانی ہوتی تھی کہ شائد اسی نے زہر دیا ہے۔ باریاد کہتے تھے۔ بابا شیخو حی ! ساری سلطنت تمہاری تھی۔ ہماری جان کیوں لی۔ بلکہ حکیم ہمام جیسے معتمد پر بھی سازش کا شبہ ہوا۔ پیچھے یہ بھی معلوم ہوا کہ اس وقت جہانگیر نے شاہزادہ مراد پر خفیہ پہرے بٹھا دیئے تھے۔ مگر جلد ہی صحت ہو گئی۔ پھر شاہزادہمراد اور بیگمات نے بادشاہ سے سب حال عرض کیا۔ اواخرعمر میں اکبر کو فقرا اور اہل کمال کی تلاش تھی اور غرض اس سے یہ تھی کہ کوئی ترکیب ایسی ہو جس سے اپنی عمر زیادہ ہو جائے۔ اس نے سنا۔ ملک خطا میں فقرا ہوتے ہیں کہ لامہ کہلاتے ہیں ۔ چنانچہ کا شغر اور خطا کو سفیر روانہ کئے۔اسے یہ بھی معلوم ہوا کہ صاحب ریاضت ہندوں میں بہت ہوتے ہیں۔ اور ان کے مختلف فرقوں میں سے جوگی حبس دم ۔ کا یا پلٹ اور اس قسم کے شغل و عمل بہت رکھتے ہیں اس لئے اس فرقہ کے فقیروں کو بہت جمع کرتا تھا۔ اور ان کے ساتھ صحبت رکھتا تھا لیکن افسوس یہی ہے کہ موت کا علاج کچھ نہیں ایک دن یہاں سے جانا ہے۔ دنیا کی ہر بات میں کلام کو جگہ ہے۔ لا کلام بات ہے تو یہی ہے کہ ایک دن جانا ہے۔ غرض 11 جمادی الاول کو طبیعت علیل ہوئی حکیم علی اپنے جملہ اوصاف کے ساتھ فن طبابت میں ایسا صاحب کمال تھا کہ اسی کو علاج کے لئے کہا۔ اس نے 8 دن تک دفع مرض کو مزاج پر چھوڑا کہ شائد اپنے وقت پر طبیعت آپ دفع کرے لیکن بیماری بڑھتی ہی گئی۔ نویں دن علاج پر ہاتھ ڈالا دس دن تک دوا کی۔ کچھ اثر نہ ہوا۔ بیماری بڑھتی جاتی تھی اور طاقت گھٹتی جاتی تھی ؎ مرض عشق پر رحمت خدا کی مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی باوجود اس کے اس ہمت والے نے ہمت نہ ہاری۔ دربار میں آبیٹھتا تھا۔ حکیم نے انیسویں دن پھر علاج چھوڑ دیا۔ اس وقت تک جہانگیر پاس موجود تھا مگر جب طور بے طور دیکھا تو چپکے سے نکل کر شیخ فرید بخاری کے گھر میں چلا گیا کہ اسے باپ کے نمک حلالوں میں اپنا بھی جان نثار سمجھتا تھا ۔ی ہاں وقت کا منتظر تھا اور دولت خواہ دم بدم خبر پہنچا رہے تھے کہ حضور ؐ اب فضل الہٰی ہوتا ہے اور اب اقبال کا ستارہ طلوع ہوتا ہے (یعنی باپ مرتا ہے اور تم تخت نشین ہوتے ہو) افسوس افسوس ۔ ع دنیا ہیچ است و کار دنیا ہمہ ہیچ اے غافل ! کئے دن کے لئے ؟ اور کس امیہ 9 اور اس بات کا ذرا خیال نہیں کہ 22 برس کے بعد مجھے بھی یہی دن آنے والا ہے۔ اور ذرا بھی شک نہیں کہ آنے والا ہے۔ آخر بدھ کے دن 12جمادی الآخر 1014ھ کو آگرے میں اکبر نے دنیا سے انتقال کیا۔ 64برس کی عمر پائی۔ آزاد ۔ ذرا اس دنیا کے رنگ دیکھو ! وہ کیا مبارک دن ہو گا ! اور دلوں کی شگفتگی کا کیا عالم ہو گا۔ جس میں کہنے والوں نے ولادت کی تاریخیں کہی تھیں۔ انہی میں سے ایک تاریخ ہے ع شب یکشبنہ و پنج رجب است 1 ؎ ایشیائی سلطنتوں میں اکثر ایسا ہوتا ہے کہ بادشاہ کے مرتے ہی بغاوت ہو جاتی ہے۔ سلطنت کے دعویدار مختلف امرا اور ارکان سلطنت کو ملا لیتے ہیں۔ ہزاروں واقعہ طلب لالچی ان کے ساتھ ہو جاتے ہیں۔ دعویدار سلطنت کے کبھی کشت و خون سے کبھی سازش سے ایک دوسرے کو مروا ڈالتے ہیں۔ تاریخ کیا ہے ! لطیفہ غیبی ہے۔ سنہ ۔ مہینا ۔ دن ۔ تاریخ ۔ وقت سب موجود ۔ ایسے بادشاہ کی تاریخ بھی ایسی ہی چاہئے تھی اور اس دن کی خوشی کا کیا کہنا کہ جمعہ 2 ربیع الثانی 963ھ کو تخت پر بیٹھا۔ کسی نے نصرت اکبر ۔ کسی نے کام بخش ۔ خدا جانے کیا کیا تاریخیں کہی ہو ں گی اللہ اللہ وہ گجرات کی یلغاریں وہ خان زمان کی لڑائیاں ۔ وہ جشنوں کی بہاریں ۔ اقبال کے نشان ۔ خدائی کی شان ؎ گیا حسن خوبان دلخواہ کا ہمیشہ رہے نام اللہ کا کہا وہ عالم ! کہاں آج کا عالم ! ذرا آنکھیں بند کر کے خیال کرو۔ اس کا مروہ ایک الگ مکان میں سفید چاردر اوڑھے پڑا ہے۔ ایک ملا صاح تسبیح ہلا رہے ہیں۔ چند حافظ قرآن شریف پڑھے جاتے ہیں۔ کچھ خدمت گزار بیٹھے ہیں۔ تہلا ئینگے۔ کفنا ئینگے ۔ نناویں دروازے سے چپ چپاتے لے کر چلے جائینگے۔ دفنا کر چلے آئینگے ؎ لائی حیات آئے۔ قضالے چلی ۔ چلے اپنی خوشی نہ آئے نہ اپنی خوشی چلے وہی ارکان دولت جو اس کی بدولت سونے روپے کے بادل اڑاتے تھے۔ موتی رولتے تھے۔ جھولیاں بھر بھرلے جاتے تھے۔ اور گھروں پر لٹاتے تھے۔ رزق برق پڑے پھرتے ہیں۔ نیا دربار سجاتے ہیں۔ نئے سنگار ۔ نئے نقشے تراشتے ہیں۔ نئے بادشاہ تراشتے ہیں۔ نئے بادشاہ کو نئی خدمتیں دکھائینگے ۔ بڑی بڑی ترقیاں پائینگے۔ جس کی جان گئی اس کی پروا بھی نہیں۔ آصف خاں کو آفرین ہے۔ اسی عالم میں ایک تاریخ تو کہہ دی ؎ فوت اکبر شد از قضاے الہٰی گشت تاریخ فوت اکبرشاہ اس میں ایک زیادہ ہے۔ کسی نے تخرجہ خوب کیا ہے ۔ ع الف کشیدہ ملائک زفوت اکبر شاہ یعنی ملائک نے اس کے غم میں فقیری و قلندری اختیار کی۔ اس لئے ماتھے پر الف اللہ کا کھینچا۔ وہاں آسمان پر انہوں نے وہ الف کھینچا۔ یہاں اعداد میں سے الف کا ایک شاعر نے کھینچ لی۔ 1014پورے رہ گئے۔ آزاد ۔ الف کشیدن بمعنی قلندری اختیار کر دن کے لئے فارسی میں کسی استاد کے کلام سے سند چاہئے۔ اور سکندرہ کے باغ میں کہ اکبر آباد سے کوس بھر ہے۔ دفن کیا۔ ایجاد ہائے اکبری اگرچہ علوم نے اس کی آنکھوں پر عینک نہ لگائی تھی۔ اور فنون نے دماغ پر دستکاری بھی خرچ نہ کی تھی۔ لیکن وہ ایجاد کا عاشق تھا۔ اور یہی فکر تھا کہ ر بات میں نئی بات پیدا کیجئے۔ اہل علم اور اہل کمال گھر بیٹھے تنخواہیں اور جاگیریں کھا رہے تھے۔ بادشاہ کے شوق ان کے آئینہ ایجاد کو اجالتے تھے۔ وہ نئی سے نئی بات نکالتے تھے۔ نام بادشاہ کا ہوتا تھا۔ شیر شکار اکبر ہاتھیوں کا شوقین تھا۔ ابتدا میں فیل شکاری کا شوق ہوا اور کہا کہ ہم خود ہاتھی پکڑینگے۔ اس میں بھی نئے نئے ایجاد نکالینگے۔ چنانچہ 971ھ میں مالوہ پر فوج کشی کی تھی۔ گوالیار سے ہوتے ہوئے نرور کے جنگلوںمیں گھس گئے۔ لشکر کو کئی فوجوں میں تقسیم کیا۔ ایک ایک فوج پر ایک ایک امیر کوفوجدار کیا۔ اور اپنے اپنے رخ کو چلے۔ بہت سر گردانی کے بعد پہلے ایک ہتنی نظر آئی۔ اس کی طرف ہاتھی لگایا وہ بھاگی یہ پیچھے پیچھے دوڑے اور اتنا دوڑے گئے کہ وہ تھک کر ڈھیلی ہو گئی۔ واہنے بائیں جو دو ہاتھی لگے ہوئے تھے۔ ایک نے رسا پھینکا دوسرے نے لپک لیا اور دونوں طرف سے لٹکا کر اتنا ڈھیلا چھوڑا کر ہتنی کی سونڈ کے نیچے ہو گیا۔ پھر جو تانا تو گلے سے جا لگا۔ ایک فیلبان نے اپنا سرا دوسرے کی طرف پھینک دیا۔ اس نے لپکر کے دونوں سروں میں گرہ دی یا بل دیا۔ اور اپنے ہاتھی کے گلے میں باندھ لیا۔ پھر جو ہاتھی کو دوڑایا تو ایسا دبائے چلا گیا کہ ہتنی ہاپن کر بے دم ہو گئی۔ ایک فیلبان اپنیا ہاتھی برابر لے گیا۔ اور جھٹ اس کی پت پر جا بیٹھا۔ آہستہ آہستہ رستے پر لگایا۔ ہری ہری گھانس امنے ڈالی۔ کچھ چاٹ دی کچھ کھلایا۔ وہ بھوکی پیاسی تھی۔ جو کچھ ملا غنیمت معلوم ہوا۔ پھو جہاں (انا تھالے آئے ملا ئے کتا بدار کا بیٹا بھی ساتھ ہو گیا ۔ اس کھینچا تانی میں ہاتھیوں کی روندن میں آگیا تھا۔ غنیمت ہوا کہ جان بچ گئی۔ گرتا پڑتا بھاگا۔ چلتے چلتے ایک کجلی بن میں جا نکلے۔ ایسا گھن کا بن تھا ۔ کہ دن بھی شام ہی نظر آتا تھا۔ اقبال اکبری خدا جانے کہاں سے گھیر لایا تھا کہ وہاں 70 ہاتھی کا گلہ چرتا نظر آیا۔ بادشاہ نہایت خوش ہوا ۔ اسی وقت آدمی دوڑائے۔ تمام فوجوں کے ہاتھی جمع کر لئے۔ اور لشکر سے شکاری رستے منگائے۔ اپنے ہاتھی پھیلا کر رستے روک لئے۔ اور بہت سے ہاتھیوں کو ان میں ملا دیا۔ پھر گھیر کر آہستہ آہستہ ایک کھلے جنگل میں لائے۔ چر کٹوں اور فیلبانوں کو ہزار آفرین کہ جنگلیوں کے پاؤں میں رستے ڈال کر درختوں سے باندھ دیا۔ بادشاہ اور ہمراہی و ہیں اتر پڑے۔ جس جنگل میں کبھی آدمی کا قدم نہ پڑا ہو گا قدرت کا گلزار نظر آنے لگا۔ رات وہیں کاٹی۔ دوسرے دن عید تھی۔ وہیں جشن منائے۔ گلے مل مل کر آپس میں مبارکبادیں دیں۔ اورسوار ہوئے۔ ایک ایک جنگلی کو دو دو اکبری ہاتھیوں کے بیچ میں رستوں سے جکڑ کر رواں کیا۔ حکمت عملی سے آہستہ آہستہ لیکر چلے۔ کئی دن کے بعد جہاں لشکر کو چھوڑ کر گئے تھے۔ آن شامل ہوئے۔ افسوس یہ ہے کہ جاتے ہوئے جبکہ ہاتھیوں کا حلقہ دریائے چنبل سے اترتا تھا۔ لکنہ ہاتھی دوب گیا۔ 971ھ میں اکبر ملک مالوہ سے خاندیس کی سرحد پر دورہ کر کے آگرہ کی طرف پھرا۔ رستے میں قصبہ سیری پر ڈیرے ہوئے اور ہاتھیوں کا شکار ہونے لگا۔ ایک دن بڑا گلہ ہاتھیوں کا جنگل میں ملا ۔ حکم دیا کہ بہادر سوار جنگل میں پھیل جائیں۔ گلہ پر گھیر ا ڈالا کر ایک طرف کا رستہ کھلا رکھیں۔ اور بیچ میں لے کر نقارے بجانے شروع کریں۔ چند فیلبانوں کو حکم دیا کہ اپنے سدھے سدھائے ہاتھیوں پر سوار ہو جاؤ۔ اور سیاہ شالیں اوڑھ کر ان کے پیٹ سے اس طرح وصل ہو جاؤ کہ جنگی ہاتھیوں کو ذرا نظر نہ آؤ ۔ اور ان کے آگے آگے ہو کر قلعہ سیری کی طرف لگالے چلو۔ سواروں کو سمجھا دیا کہ گرو گھیرے نقارے بجاتے چلے آؤ۔ منصوبہ درست بیٹھا اور سارے ہاتھی قلعہ مذکور میں فیل بند ہو گئے۔ فیلبان کو ٹھوں اور دیواروں پر چڑھ گئے۔ بڑے بڑے رسوں کی کمندیں اور پھاندیں ڈال کر سب کوباندھ لیا۔ ایک ہاتھی بڑا بلونتا ور مستی میں بپھرا ہوا تھا۔ کسی طرح قابو میں نہ آیا۔ حکم دیا کہ ہمارے کھنڈے رائے ہاتھی کو لیکر اس سے لڑاؤ ۔ وہ بڑا تناور اور جنگلی ہاتھی تھا۔ آتے ہی ریل دھکیل ہونے لگی۔ ایک پہر دو نوں پہاڑ ٹکرائے آخر جنگلی کے نشے ڈھیلے ہوگئے۔ قریب تھا کہ کھانڈے رائے اسے دبالے۔ حکم ہوا کہ منہ پر مشعلیں جلا جلا کر ماروتا کہ اس کا پیچھا چھوڑے بڑی مشکلوں سے دونو جدا ہوئے۔ مگر جنگلی دیوزادجب ادھر سے چھٹا تو بھاگا اور قلعے کی دیوار ٹکروں اور ٹھوکروں سے توڑ کر جنگل کو نکل گیا۔ یوسف خاں کو کلتاش (مرزا عزیز کو کہ کے بڑے بھائی) کو کئی ہاتھی اور ہاتھی بان دے کر اس کے پیھے بھیجا اور کہا کہ رن بھیروں ہاتھی کو (کہ حلقہ خاصہ کا ہاتھی اور بد مستی اور زبردستی میں بد نام عالم تھا) جا کر الجھا دو ۔ تھکا ہوا ہے۔ ہاتھ آجائیگا اس نے جا کر پھر لڑاء یڈالی۔ فیل بانوں نے رسوں میں پھانس کر ایک درخت سے جکڑ دیا اور دو تین دن میں چار پر لگا کر لے آئے۔ چند روز تعلیم پا کر فیلہائے خاصہ میں داخل ہو گیا۔ اور گج پتی خطاب پایا۔ گوئے آتشیں چوگان بازی کا بہت شوق تھا۔ اکثر ہوتا تھا کہ کھیلتے کھیلتے شام ہو گئی۔ بازی ابھی تمام نہ ہوئی۔ اندھیرا ہو گیا گیند نہیں دکھائی دیتی۔ نا چارہ کھیل بند کرنا پڑتا تھا۔ اس لئے 974ھ میں گوئے آتشیں نکالی کہ اندھیرے میں شعلے کی طرح جاتی معلوم ہوتی تھی۔ وہ ایک قسم کی لکڑی کی تراشی تھی۔ اوپر کچھ دوائیں مل دیتے تھے(فاس فورس ہو گا) جب ایک دفعہ اسے آگ دیتے تھے۔ تو چوگان کی چوٹ اور زمین پر چٹخنے میں یا لڑھکنے سے بجھتی نہ تھی۔ واہ ۔ رات کی بہار دن سے بھی زیادہ ہو گئی۔ چار ایوان یا عبادت خانہ 983ھ میں دولتخانہ فتچور میں تیار ہوا۔ یہ گویا ایک کونسل (انجمن) عقلا۔ علما کی تھی کہ مسائل مذہبی ۔ مہمات سلطنت مقدمات ملکی اس میں پیش ہوتے تھے۔ اور جو کتابی یا عقلی اختلاف ان میں ہوتے تھے وہ کھل جاتے تھے۔ جس وقت اسے قرار دیا تھا۔ تو خالص نیک نیتی کے ساتھ یہی غرض رکھی تھی دوسرا ایجاد قدرتی پیدا ہوگیا کہ آپس کے رشک اور اختلاف باہمی کے سبب سے ان میں پھوٹ پڑ گئی۔ اور اس سے شریعت جو سلطنت کو دبائے ہوئے تھے اس کا زور ٹوٹ گیا۔ تقسیم اوقات 986ھ میں تقسیم اوقات کی ہدایت فرمائی۔ جب سو کے اٹھیں تو سب کاموں سے ہاتھ روک کر باطن ہی کی طرح ظاہر کو بھی نیاز طلب کریں۔ (عبادت میں مصروف ہوں) اور دل کو جان آفریں کی یاد سے روشنی دیں۔ اس ضروری وقت میں یہ بھی چاہئے کہ نئی زندگی پائے۔ شروع وقت کو کسی اچھے کام سے سجائیں کہ سارا دن اچھی طرح گزرے ۔ اس کا م میں 5 گھڑی سے کم خرچ نہ ہو (دو گھنٹے ہوئے) اور اسے ابواب مقاصد کی کنجی سمجھے۔ بدن کا بھی تھوڑا سا خیال چاہئے۔ اس کی خبر گیری اور لباس پر توجہ کرنی چاہئے مگر اس میں 3 گھڑی سے زیادہ نہ لگے۔ پھر دربار عام میں عدل کے دروازے کھول کر ستم رسیدوں کی خبر گیری کریں۔ گواہ اور قسم حبلہ گروں کی دست آویز ہے۔ اس پر اعتماد نہ کرنا چاہئے۔ تقریروں کے اختلاف اور قیافوں کے انداز سے اور نئی جستجوؤں سے اور بڑی بڑی حکمتوں سے مطلب کا کھوج لگانا چاہئے۔ یہ کام ڈیڑھ پہر سے کم نہ ہو گا۔ دنیاعالم تعلق ہے۔ تھوڑا کھانے پینے میں بھی مصروف ہونا ضرور ہے۔ کہ کام اچھی طرح ہو سکے اس میں دو گھڑی سے زیادہ نہ لگا ئینگے۔ پھر عدالت کی بارگاہ کو بلندی بخشیں گے۔ جن بے زبانوں کے دل کا حال کوئی کہنے والا نہیں۔ ان کی خبر لیں۔ ہاتھی ۔ گھوڑے ۔ اونٹ خچر وغیرہ کو ملا حظہ کر لیں۔ اس بے تکلف مخلوق کے کھانے کھلانے کی بھی خبر لینی واجب ہے۔ 4گھڑی اس کیلیء جدا کرنی چاہئے۔ پھر محلوں میں جایا کریں۔ او جو پاکدامن بیبیاں وہاں حاضر ہوں ان کی عرض معروض سنیں کہ مرد عورت برابر اور انصاف سب پر شامل رہے۔ بد ن ہڈیوں کی عمارت ہے۔ نیند پر اس کی بنیاد رکھی ہے۔ اس نیت سے کہ طاقت اور شکرانہ مل کر کار گزاری کریں اڑھائی پہر نیند کو دینے چاہئیں۔ ان ہدایتوں سے اہل شرف نے سعادت کا سرمایہ سمیٹا ۔ اور سخت بیداری کا آئین ہاتھ آیا۔ معافی جزیہ و محصول تمام احکام اکبری میں جو حکم سنہری حرفوں سے لکھنے کے لائق ہے وہ یہ ہے 987ھ کے پس و پیش میں جزیہ اور چنگی کا محصول معاف کر دیا ۔ جس کا محاصل کئی کروڑ روپیہ ہوتا تھا۔ گنگ محل گفتگو ہوئی کہ انسان کی طبعی اور مار دی زبان کیا ہے ؟ خدا کے ہاں سے کیا مذہب لے کر آئے ہیں ؟ اور پہلے پہل کیا کلمہ اور ان کی زبان سے نکلتا ہے۔ 988ھ میں اس کی تحقیق کے لئے شہر سے الگ ایک وسیع عمارت بنوائی۔ تقریباً 20 بچے پیدا ہوتے ہی ماؤں سے لے لئے۔ اور وہاں لے جا کر رکھا۔ انائیں۔ پالنے والی۔ خدمت گزار کیا عورتیں کیا مرد ۔ سب گونگے ہی رکھے کہ گفتگو ے انسانی کی آواز تک کان میں نہ جائے آرام و آسائش کے سامان کمال فارغ البالی کے ساتھ موجود تھے۔ مقام کا نام گنگ محل تھا۔ چند سال کے بعد آپ وہاں گئے۔ خدمت گاروں نے بچوں کو لا کر آگے چھوڑا ۔ چھوٹے چھوٹے تھے۔ چلتے ۔ پھرتے ۔ کھیلتے ۔ کودتے ۔ بولتے بھی تھے مگر بات کا ایک لفظ سمجھ میں نہ آتا تھا۔ جانوروں کی طرح غائیں بائیں کرتے تھے۔ گنگ محل میں پلے تھے۔ گومگے نہ ہوتے تو کیا ہوتے۔ الاسماء تنزل من السماء التزام دوازدہ سالہ اکبر کے کاروبار کے عمل درآمد دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض ایجاد اسکے رفع قباحت یا باعث آسائش ۔ یافائدہ کی نظر سے ہوتے تھے۔ بعض فقط مضامین شاعرانہ تھے۔ بعض اس خیال سے تھے کہ مختلف بادشاہوں سے خاص خاص باتیں یادگار ہیں۔ یہ بات ہماری بھی یادگار رہے۔ چنانچہ 988ھ میں خیال آیا کہ ہمارے بزرگوں نے 12-12سال کا ایک ایک مجموعہ کر کے ہر سال کا ایک ایک نام رکھا ہے۔ آئین باندھنا چاہئے کہ ہم اور ہمارے جاں نثار ہر سال میں اس کے مناسب حال ایک خاص کام التزام رکھیں : ۔ سچقائیل چوہے کو نہ ستائیں (سچقان ۔ موش) اودئیل گائے بیل کو پرورش اور کسانوں کو دان پن کر کے مدد کریں (اود ۔ گاؤ) پارسن ئیل نہ خرگوش کھائیں نہ اس کا شکار کریں (پارس ۔ پلنگ) تو شقائیل نہ خرگوش کھائیں نہ اس کا شکار کریں (تو شقان ۔ خرگوش) لوئی ئیل مچھلی سے دہی معاملہ رہے (لوئی ۔ مگر مچھ) ییلا نیل سانپ کو نہ آزار دیں (ییلان ۔ مار) آیت ئیل نہ گھوڑوں کو ذبح کریں نہ کھائی ۔ خیرات میں دیں (آت ۔ گھوڑا) قوی ئیل بکری سے یہی سلو ک رہے (قوی ۔ بکری) پچی ئیل بندر کا شکار نہ کریں ۔ جس کے پاس ہو ۔ جنگل میں چھوڑ دے (پچی ۔ بندر) تخاقوئیل مرغا نہ ماریں ۔ نہ لڑائںی (تخاقو ۔ مرغا) ایت ئیل کتے کے شکار سے دل نہ بہلائی۔ اس و فا دار کو آرام دیں ۔ خصوصاً بازاری کو (ایت ۔ کتا) تنگوزی ئیل تنگز ۔ سور) چاند کے مہینوں میں امورات مفصلۂ ذیل کا لحاظ ررکھیں : ۔ محرم جاندار کو نہ ستاؤ ہم سال کے لئے دستگیری کرو صفر بندی آزاد کردو شعبان کسی پر سختی نہ کرو ربیع الاول 30نیک محتاج شخصوں کو بخشش کرو رمضان اپاہج کو کھلاؤ۔ پہناؤ ربیع الثانی غسل کر کے خوشحال ہو شوال ہزار دفعہ نام الہٰی ورد کرو جمادی الاول لباس فاخرہ اور ابریشمین کپڑے نہ پہنو ذیقعدہ اول شب جاگتے رہو۔ اور چند غیر مذہب آدمیوں جمادی الثانی چمڑا کام میں نہ لاؤ کو سلوک کر کے روز خوش کرتے رہو رجب 40 برس کی دستگاہ کے بموجب اپنے ذالحجہ آئش خلق کے لئے عمارت بناؤ مردم شماری 989ھ میں حکم ہوا کہ تمام جاگیردار ۔ عالم ۔ شقدار وغیرہ وغیرہ سب ملکرو دفتر مردم شماری ۔ نام بنام ۔ بہ قید پیشہ و حرفہ وغیرہ وغیرہ مرتب کریں۔ خیر پورہ ۔ دھرم پورہ شہروں اور منزلوں میں جا بجا دو دو مقام مقرر ہوئے کہ ہندو مسلمان وہاں کھانا کھائیں اور سامان آسائش سے آرام پائیں۔ مسلمانوں کے لئے خیر پور ہ ۔ ہندؤں کے لئے دھرم پورہ۔ شیطان پورہ 990ھ میں آباد ہوا اس کی سیر دیکھنی ہے تو دیکھو صفحہ 77 زنانہ بازار جشن سالانہ کے درباروں کا انداز تم نے دیکھ لیا ہے۔ اس کے بازاروں کا تماشا محلوں کی بیگمات کو بھی دکھایا ۔ 991ھ میں یہ آئین قرار پایا دیکھو صفحہ 153۔ ترقی اجناس مختلف اشیاء جو مہمات سلطنت میں اجزائے ضروری بلکہ ہمیشہ کاروبار کے لازمی اوزار ہوتے ہیں وقت پر تیار نہیں ملتیں اس لئے 990ھ میں حکم دیا کہ ایک ایک کی حفاظت اور ترقی اور عمدہ اقسام کا بہم پہنچانا ایک ایک امیر کے ذمہ ہو۔ اس سپرد گی میں مناسبت حال بلکہ ظرافت کا گرم مصالح بھی چھڑکا ۔۔ نمونہ کے طور پر چند نام اور نامداروں کے کام لکھتا ہوں : ۔ عبدالرحیم خانخاناں گھوڑے کی نگہداشت راجہ ٹوڈرمل ہاتھی اور غلہ مرزا یوسف خاں خان اعظم کے بڑے بھائی کو اونٹ کی نگہداشت سپردکی۔ شائد اس میں یہ اشارہ ہو کہ اس گھرانے کا ہر شخص عقل کا اونٹ ہے۔ شریف خاں بھیڑ ۔ بکری ۔ اعظم خاں کے چچا تھے۔ بھیڑ بکری کیا بلکہ دنیا کے جانور اس خاندان کی امت تھے۔ شیخ ابوالفضل پشمینہ نقیب خاں کتابت قاسم خاں میر بحرو میر بر پھول پتی۔ جڑی بوٹی وغیرہ نباتات ان کے سپردہوئی۔ مطلب یہ کہ جنگل اور دریا کے سامان خوب بہم پہنچیں گے۔ دونو میں انہیں کی بادشاہی ہے۔ حکیم ابوالفتح مسکرات ۔ مطلب ۔ یہ کہ حکیم ہیں اس میں بھی حکمتیں نکالیں۔ راجہ بیربر گائے بھینس ۔ اس میں اشارہ تھا کہ گائے کی رکھیا تمہارا دھرم ہے اور بھینس اس کی بہن ہے۔ لطف یہ ہے کہ صورت دیکھو تو خود ایک جاموش اکبری ہے۔ کشمیر میں کشتیوں کی عمدہ تراشیں 997ھ میں لشکر اور امراے لشکر اور بیگمات سمیت گلگشت کشمیر کو گئے دریا اور تالابوں میں ۔ 30ہزار کشتی سے زیادہ چلی جاتی تھی۔ مگر بادشاہی نشست کے لائق ایک بھی نہ تھی۔ بنگالے کی کشتیاں اور ان کے نشیمن اور مکانات اور بالا خانے اور کھڑکیوں کی عمدہ تراشیں دیکھی تھیں۔ ان کے نمونے پر ہزار کشتی چند روز میں تیار ہو گئی اور امرانے بھی اس طرح پانی گھر بنائے۔ دریا پر ایک آباد شہر چلنے لگا۔ جہاز 1002ھ میں دریائے راوی کے کنارے پر جہاز تیا ر ہوا ۔ 35گز الہٰی کا مستول تھا۔ 2936بڑھئی اور لوہار وغیرہ اس میں کام کرتے تھے۔ جب تیار ہوا تو جہاز سلطنت کا ناخدا کنارے آکر کھڑا ہوا۔ جر ثقیل کے عجیب و غریب اور زار لگائے۔ ہزار آدمی نے ہاتھ پاؤں کا زور لگایا۔ 10 دن میں بڑی مشکل سے پانی میں ڈال کر لاہری بندر کو روانہ کیا۔ جہاز کے بوجھ اور دریا کی کم آبی کے سب سے جا بجا رک رک گیا۔ اوربڑی مشکل سے بندر مقصود تک پہنچا۔ اس زمانہ میں ایسے روشن دماغ اور یہ سامان کہاں تھے جو دریا کا زور بڑھا کر گزر گاہ کو جہازرانی کے قابل کر لیتے اس لئے آمدورفت جاری نہ ہوئ۔ی اگر امرائے عہد اور اس کے جانشین بھی ویسے ہی ہوتے تو کام چل نکلتا۔ 1004ھ میںایک اورجہاز تیار ہوا۔ اس میں پانی کی کمی کا لحاظ رکھ کر جہاز کے بوجھ کی رعایت کی گئی۔ 15 ہزار من سے زیادہ بوجھ اٹھا سکتا تھا۔ یہ لاہور سے لاہری تک آسان جا پہنچا اس کا مستول 37گز کا تھا۔ 16338روپے کی لاگت میں تیار ہوا تھا (دیکھو اکبر نامہ) اکبر کی تحصیل علمی ۔ اور شوق علمی سلاطین و امرا کے بچوں کے لئے ایشیائی ملکوں میں پڑھنے لکھنے کی عمر چھ سات برس سے زیادہ نہیں۔ جہاں گھوڑے پر چڑھنے لگے۔ چوگان بازی شروع ہوئی۔ پھر شکار ہونے لگے۔ شکار کھیلتے ہی کھل کھیلے۔ اب پڑھنا کجا اور لکھنا کجا۔ چند روز میں ملک و دولت کے شکار پر گھوڑے دوڑنے لگے۔ اکبر جب 4 برس 4 مہینے 4 دن کا ہوا تو ہمایوں نے بیٹے کی۔ بسم اللہ کی۔ ملا عصام الدین ابراہیم کو آخوندی کا اعزاز ملا چند روز کے بعد سبق سنا تو معلوم ہوا کہ اللہ اللہ ۔ ہمایوںنے جانا کہ اس ملانے توجہ نہیں دی۔ لوگوں نے کہا کہ ملا کو کبوترب ازی کا بہت شوق ہے۔ شاگرد کا دل بھی کبوتروں میں ہوائی ہوگیا۔ ناچار ملا بایزید کو مقرر کیا ۔ مگر نتیجہ کچھ نہ حاصل ہوا۔ ان دونوں کے ساتھ مولانا عبدالقادر کا نام شامل کر کے قرعہ ڈالا۔ اس میں مولانا کا نام نکلا۔ چند روز وہ پڑھاتے رہے۔ غرض جب تک کابل میں رہا اپنے دلی شوق سے شہ سواری۔ شتر ووانی ۔ سگ تازی کبوتر بازی میں الجھا رہا۔ ہندوستان میں آکر بھی وہی شوق رہے۔ ملا پیر محمد ۔ بیرم خان خان خاناں کے وکیل تھے۔ جس وقت حضور کی طبیعت حاضر ہوتی اور خیال آتا۔ تو برائے نام ان کے سامنے بھی کتاب لے بیٹھتے۔ 963ھ میں میر عبداللطیف قزوینی سے دیوان حافظ وغیرہ پڑھنا شروع کیا۔ 987ھ میں علما کے جھگڑے سن سن کر زبان عربی کی بھی ہوس ہوئی۔ اور صرف ہوائی شروع کی ۔ شیخ مبارک استاد ہوئے۔ مگر اب بچپن کا مغز کہاں سے آئے۔ خیر یہ بھی ایک ہوا تھی چند روزمیں بدل گئی ایک لطیفہ اکثر اشخاص کی زبانی سنا مگر کتاب میں نہیں دیکھا۔ چونکہ مشہور ہے۔ آمد سخن کے طور پر لکھا جاتا ہے۔ ایک دن خلوت کا دربار ہوا۔ اور اراکین خاص موجود ۔ ایلچی توران مراسلت گزرا نتا ہے۔ اس نے ایک کاغذ پیش کر کے اکبر کی طرف بڑھایا کہ قبلہ عالم ملا حظہ فرمایند ۔ فیضی نے اس کے ہاتھ سے لے لیا کہ پڑھے۔ وہ ایک انداز سے مسکرایا۔ اور نگاہوں سے طنز بے علمی کے اشارے ٹپکتے تھے۔ فیضی فوراً بولے۔ در حضرت ماسخن مگوئید ۔ مگر نشنید ید کہ پیغمبر ماصلوٰۃ اللہ علیہ ہم امی بودہ۔ ہندوستان کے مورخ کہ تمام دولت چغتائی کے نمک خوار تھے۔ عجیب عبارتوں سر اسکی بے علمی کو جلوے دیتے ہیں۔ کبھی کہتے ہیں ۔ حقیقت معنوی پر عالم صورت کے علوم کا پردہ نہ ڈالا تھا۔ کبھی کہتے ہیں پروردگار کو ثابت کرنا تھا۔ کہ یہ برگزیدہ الہی بے تحصیل علوم ظاہری کے ہمارے فیوضات کا متناہی کا منبع ہے۔ کبھی کہتے ہیں۔ اس میں حکمت الہی یہ تھی کہ اہل علم پر روشن ہو جائے کہ اکبر بادشاہ خدا آگاہ کی عقل و دانش خدا داد ہے۔ بندہ سے حاصل کی ہوئی نہیں ہے۔ وغیرہ وغیرہ یہ سب کچھ تھا مگر علم کا مذاق بلکہ علوم و فنون کاشوق اورقدر دانی کا جوش جو اس کو تھا ۔ کوئی عالم بادشاہ بھی ہوتوشائد اتنا ہوا۔ ذرا عبادت خانہ چار ایوان کے جلسے یاد کرو۔ راتوں کو ہمیشہ کتابیں پڑھواتا تھا۔ اور سنتا تھا ۔ علمی تحقیقیں تھیں۔ علمی باتںی تھیں۔ اور علمی چچرچے تھے۔ کتب خانہ کئی جگہ تقسیم تھا۔ کچھ حرم سرا میں کچھ باہر ۔ اس میں دو تقسیمیں تھیں۔ کچھ قدر و قیمت ۔ کچھ علوم و فنون نثر نظم ۔ ہندی ۔ فارسی ۔کشمیری ۔ عربی الگ الگ تھیں۔ اسی انتظام سے سال یہ سال موجودات لی جاتی تھی۔ عربی کا لمبر سب سے اخیر تھا۔ اہل دانش وقت معمولی پر کتابیں سناتے تھے۔ اور وہ بھی جس کتاب کو سنتا تھا ۔ ایک صفحہ بھی نہ چھوڑتا تھا۔ پڑھتے جہاں پر ملتوی کرتے تھے۔ وہاں اپنے ہاتھ سے نشان کر دیتا تھا۔ اور جب کتاب ختم ہوتی تو پڑھنے والے کو بحساب صفحات جیب خاص سے انعام ملتا تھا۔ مشہور کتابوں میں سے شائد ہی کوئی کتاب ہو گی جو اس کے سامنے نہ پڑھی گئی ۔ کوئی تاریخی سر گزشت ۔ اکثر فقہی مسائل ۔ علوم کے عمدہ مباحثے ۔ فلسفہ و حکمت کے نکتے ایسے نہ تھے جن میں وہ خود بحث اور گفتگو نہ کر سکتا ہو۔ کتاب کے دوبارہ سننے سے اکتا تانہ تھا۔ بلکہ اور بھی دل لگا کر سنتا تھا۔ اور اس کے مطالب پر گفتگو کرتا تھا۔ اخلاق ناصری ۔ کیمیاے سعادت سینکڑوں مسئلے فقہ کے اور اس میں اختلاف علمائے کے زبانی یاد تھے۔ تاریخی معلومات میں ایک جامع الاخبار کتاب بلکہ کتب خانہ تھا۔ ملا صاحب منتخب التواریخ میں لکھتے ہیں۔ حکایت سلطنت شمس الدین التمش کے باب میں مشہور ہے کہ وہ بینر تھا۔ اور اصل اس کی یہ ہے کہ اس نے ایک دفعہ کسی خوبصورت صاحب جمال لونڈی سے صحبت کرنی چاہی۔ کچھ نہ ہو سکا۔ اور چند دفعہ ایسا ہی ارادہ کیا مگر خالی گیا۔ ایک دن وہی لونڈی اس کے سر میں تیل مل رہی تھی۔ معلوم ہوا کہ کئی بوندیں سر پر ٹپکی ہیں۔ بادشاہ نے سر اٹھا کر دیکھا اور رونے کا سبب پوچھا ۔ بڑے اصرار سے بتایا کہ مجھے یاد ہے بچپن میں میرا ایک بھائی تھا اور آپ کی طرح اس کے بھی سر کے بال اڑے ہوئے تھے۔ اسے یاد کر کے میرے ا ٓنسو نکل پڑے۔ جب تحقیق کیا کہ یہ تباہی زدہ کیونکر آئی تھی اور کہاں سے آئی تھی تو معلوم ہوا کہ بادشاہ کی حقیقی بہن تھی۔ خدا نے اس نیک نیت بادشاہ کو اس طرح گناہ سے بچایا۔ بعداس کے ملا صاحب لکھتے ہیں کہ راقم اوراق کو خلیفہ افاق اکبر بادشاہ اکثر خلوت گاہ میں رات کو بلالیتے تھے۔ اور گفتگوئے زبانی سے اعزاز بڑھایا کرتے تھے ایک دفعہ فتچور میں اور ایک دفعہ لاہور میں فرمایا کہ یہ نقل سلطان غیاث الدین بلبن کی ہے اور کچھ زیادہ نکتے بھی بیان فرمائے۔ قابوس نامہ ۔ ملفوظات شیخ شرف الدین منیری ۔ حدیقہ حکیم ثنائی مثنوی معنوی۔ جامع جم۔ شاہنامہ ۔ خمسہ نظامی ۔ کلیات امیر خسرو۔ کلیات جامی۔ دیوان خاقانی انوری وغیرہ وغیرہ اور ہر قوم کی تاریخیں اس کے سامنے بلانا غہ پڑھی جاتی تھیں۔ اور گلستان بوستان سب سے زیادہ ۔ ترجمہ کا سر شتہ خاص تھا۔ مختلف زبان داں نوکر تھے۔ سنسکرت ۔ یونانی ۔ عربی کی کتابیں فارسی اور بھاشا میں ترجمہ کرتے تھے۔ جہان یہ صاحب زبان بیٹھتے تھے۔ اس مقام کا نام مکتب خانہ تھا زیچ جلغ بیگ کا ترجمہ میر فتح اللہ شیرازی کے اہتمام سے ہوا۔ کشن جوتشی۔ گنگا دھر مہیش مہائند بھی اس میں شامل تھے۔ کہ سنسکرت سے مدد کرتے تھے۔ تفصیل کتابوں کی جو اکبر کی فرمائش سے یا اس کے عہد میں لکھی گئیں کتابیں جو اس کی فرمائش سے تصنیف ہوئیں۔ اب تک اہل نظر ان میں سے مطالب کے پھول اور فوائد کے میوے چن چن کروا من بھرتے ہیں استاد مرحوم نے کیا خوب فرمایا ؎ روز اس گلشن رخسار سے لے جاتے ہیں اپنے دامان نظر مر دم بینا بھر کر سنگھاسن بتیسی کی پتلیوں کو بادشاہ کی فرمائش سے 982ھ میں ملا عبدالقادر بدایونی نے فارس کے کپڑے پہنائے اور نامہ خردا افزا اس کا تاریخی نام ہوا۔ حیواۃ الحیوان عربی میں تھی۔ اکبر پڑھو ا کر اس کے معنی سنا کرتا تھا۔ 983میں ابوالفضل سے فرمایا کہ اس کا فارسی میں ترجمہ ہو چنانچہ شیخ مبارک نے لکھ دیا۔ دیکھو اس کا حال۔ اتھر بن بید 983ھ میں شیخ بہاون ایک برہمن دکن سے آکر اپنی خوشی سے مسلمان ہوا۔ اور خواصوں میں داخل ہوا۔ اسے حکم ہوا کہ اس کا ترجمہ کرواؤ ۔ یہ چوتھا بید ہے۔ فاضل بدایونی کو لکھنے کی خدمت سپرد ہوئی۔ اکثر عبارتیں ایسی مشکل تھیں کہ معنی بیان نہ کر سکتا تھا۔ انہوں نے عرض کی اول شیخ فیضی کو پھر حاجی ابراہیم کو یہ خدمت سپرد ہوئی۔ مگر وہ بھی نہ لکھ سکے آخر ملتوی رہا بلوک مین صاحب آئین اکبری کے ترجمے میں لکھتے ہیں ۔ ترجمہ ہو گیا تھا۔ کتاب الاحادیث ملا صاحب نے ثواب جہاد اور ثواب تیر اندازی میں لکھی۔ اور نام بھی تاریخی رکھا 986ھ میں اکبر کو نذر گزرانی ۔ معلوم ہوتا ہے کہ 976ھ میں ملازمت سے پہلے اپنے شوق سے لکھی تھی۔ ان کا قلم بھی نچلا نہ رہتا تھا۔ آزاد کی طرح کچھ نہ کچھ کئے جاتے تھے۔ لکھتے تھے۔ ڈال رکھتے تھے۔ تاریخ الفی 990ھ میں فرمایا کہ ہزار سال پورے ہو گئے۔ کاغذوں میں سنہ الف لکھے جاتے ہیں۔ وقائع عالم کاہزار سالہ حال لکھ کر اس کانام تاریخ الفی رکھنا چاہئے۔ تفصیل دیکھ عبدالقادر کا حال شیخ ابوالفضل لکھتے ہیں کہ دیباچہ میں نے لکھا۔ راما ئن 993 ھ میں ملا عبدالقادر بدایونی کو حکم دیا کہ اس کا ترجمہ کرو۔ چند پنڈت ساتھ کئے 997ھ میں ختم ہوئی۔ ضخامت 120جز ہوئی ۔ کل کتاب کے 25 ہزار اشلوک ہیں۔ فی اشلوک 65حرف۔ مہا بھارت کو بھی انہی پنڈتوں نے ترجمہ کروایا تھا۔ جامع رشیدی 993ھ میں ملا عبدالقادر کو حکم ہوا کہ شیخ ابوالفضل کی صلاح سے اس کا خلاصہ کرو۔ وہ ایک مجلد ضخیم ہے۔ توزک بابری کہ عقل عملی کا قانون ہے 997ھ میں عبدالرحیم خان خانان نے حسب الحکم ترکی سے فارسی میں ترجمہ کر کے نذر گزرانی اور بہت پسند آئی۔ تاریخ کشمیر راج ترنگنی کا ذکر آیا۔ وہ کشمیر کے عہد قدیم کی تاریخ زبان سنسکرت میں ہے۔ ملاشاہ محمدؐ شاہ آبادی ایک فاضل جامع معقول و منقول تھے۔ انہیں حکم دیا تھا کہ اس کا ترجمہ لے کر کشمیر کی تاریخ لکھو۔ تیار ہوئی تو عبارت پسند نہ آئی ۔ 999ھ میں ملا صاحب کو حکم دیا کہ سلیس اوربرجستہ عبارت میں لکھو۔ انہوں نے دو مہینے میں لکھ دی۔ معجم البلدان 999ھ میں حکیم ہمام نے کتاب مذکور کی بہت تعریف کی اور کہا کہ فوائد عجیب اور حکایات غریب پر مشتمل ہے ترجمہ ہو جائے تو خوب ہے۔ دو سوجز کی کتاب تھی دس بارہ شخص ایرانی و ہندوستانی جمع کئے۔ اور کتاب کے ٹکرے کرکے بانٹ دی۔ چند روز میں تیار ہو گئی۔ نجات الرشید 999ھ میں خواجہ نظام الدین بخشی کی فرمائش سے ملا عبدالقادر نے لکھی نام تاریخی ہے۔ مہا بھارت سنہ الف میں ترجمہ شروع ہوا۔ بہت سے مصنف اور مترجم مصروف رہے تیار ہو کر باتصویر لکھی گئی۔ اور مکرر لکھی گئی۔ رزمنامہ نام پایا۔ شیخ ابوالفضل نے اس پر دیباچہ لکھا۔ تقریبا دو چز ہو گے۔ طبقات اکبر شاہی سنہ الف تک لکھی گئی آگے نہ چلی۔ 1 ؎ یہ شاہ آباد علاقہ کشمیر میں ہے۔ سری نگر دارالحکومت سے 3 منزل ادھر۔ سواطع الالہام 1002ھ میں شیخ فیضی نے ایک تفسیر بے نقط لکھی 75جز ہیں۔ دیکھو فیضی کا حال۔ موارد الکم یہ بھی فیضی نے لکھی ۔ بے نقط ہے۔ نلدمن 1003ھ میں اکبر نے شیخ فیضی کو حکم دیا کہ پنج گنج نظامی پر پنج گنج لکھو۔ انہوں نے 4 مہینے میں اول نل دمن کہہ کر گزرانی دیکھو فیضی کا حال۔ لیلاوتی ایک حساب کی کتاب ہے فیضی نے سنسکرت سے فارسی کے قالب میں ڈھالی۔ دیکھو فیضی کا حال۔ بحر الاسماء 1004ھ میں ایک ہندی افسانے کو ملا عبدالقادر بدایونی سے درست کروایا جس نے بحرالا سماء نام پایا۔ اصل ترجمہ سلطان زین العابدین بادشاہ کشمیر کے حکم سے ہوا تھا۔ بڑی فربہ اور ضخیم کتاب ہے۔ اور اب نہیں ملتی۔ اکبر نامہ 40 برس کا حال اکبر کا ہے۔ اور آئین اکبری اس کا حصہ دوم ۔ کل ابوالفضل نے لکھا۔ دیکھو ابوالفضل کا حال۔ عیاردانش قصہ کلیلہ و دمنہ ابوالفضل نے لکھا۔ دیکھو ابوالفضل کا حال۔ کشکول شیخ ابوالفضل نے سیاحت نظر کے عالم میں جو جو کتابوں میں دیکھا ۔ اور پسند آیا۔ انتخاب کے طور پر لکھا ۔ اسی مجموعہ کا نام کشکول ہے۔ اکثر علمائے صاحب نظر کا قاعدہ ہے۔ کہ جب مختلف کتابوں کی سیر کرتے ہیں تو ان میں سے یاد داشتیں لکھتے جاتے ہیں۔ چنانچہ شیخ حرعا ملی۔ شیخ بہاؤ الدین ۔ سید نعمت اللہ جزائری ۔ شیخ بوسف بحرانی وغیرہ اکثر علما کے کشکول ہیں اور ایران میں چھپ گئے ہیں۔ ناجک علم ہیئت میں ایک کتاب تھی۔ مکمل خاں گجراتی نے حسب الحکم اس کا فارسی میں ترجمہ کیا ہرس بنس اس میں سری کرشن جی کا حال ہے۔ ملا شیری نے حسب الحکم فارسی میں ترجمہ کیا۔ جوتش خان خاناں نے جوتش میں ایک مثنوی لکھی۔ ہر بیت میں ایک مصرع فارسی ایک سنسکرت ثمرۃ الفلاسفہ عبدالستار ابن قاسم کی تصنیف ہے۔ اکبری تاریخ میں شہرت کی سرخی اس کے نام پر نہیں نظر آتی۔ مصنف خود دیباچہ میں لکھتا ہے کہ میں نے چھ مہینے کے عرصے میں زبان مذکور پادری جرونمو شوپرسے حاصل کر لی۔ بول نہیں سکتا۔ مگر مطلب خاصہ نکال لیتا ہوں۔ چنانچہ ادھر بادشاہ نے اس کتاب کے ترجمے کا حکم دیا۔ ادھر کتاب تیار ہو گئی۔ مصنف مذکور اور اس کی کتاب ابوالفضل کے اس فقرے کی تصدیق کرتے ہیں جو اس نے پادری فریتبون وغیرہ اہل فرنگ کے آنے کے ذکر میں لکھا ہے ’’ یونانی کتابوں کے ترجمے کا سامان بہم پہنچا۔ ‘‘ کتاب مذکور میں اول روما کی تاریخ قدیم کا مختصر بیان ہے پھر مشاہیر اہل کمال کے حالات ہیں۔ انداز عبارت ایسا ہے کہ اگر دیباچہ نہ پڑھو تو تم جانو کو ابوالفضل یا اس کے شاگرد کا مسودہ ہے۔ نظرثانی کی نوبت نہ پہنچی ہو گی۔ 48جلوس اکبری میں لکھی گئی۔ 1011ھ ہوئے۔ یہ کتاب خلیفہ سید محمد حسن صاحب وزیر پٹیالہ کے کتب خانہ میں میری نظر سے گزری۔ خیر لبیان ایک کتاب پیر تاریکی نے لکھی۔ یہ وہی پیر ہے جس نے اپنا نام پیر روشنائی رکھا تھا ۔ کوہستان پشاور میں جو وہابی پھیلے ہوئے ہیں وہ اسی کی امت چلے آتے ہیں۔ جو ادھر ادھر نئے پیدا ہوئے ہیں۔ انہیں میں جا ملتے ہیں۔ عمارات عہد اکبر شاہی 961ھ میںجب ہمایوں ہندوستان پر آیا تو لاہور میں پہنچ کر آپ یہاں ٹھہیرا اور اکبر کو باتالیقی خان خاناں آگے بڑھایا۔ سر ہند کے مقام پر سکندر سور پٹھانوں کا ٹڈی دل لئے پڑا تھا۔ خان خانان نے جا کر میدان میں صف آرائی کی اور ہمایوں کو عرضی لکھی۔ وہ بھی جا پہنچا۔ لڑائی بڑے معرکے سے شروع ہوئی اور کئی دن تک جاری رہی۔ جو پہلو اکبر اور بیرم خان کے سپرد تھا۔ ادھر سے خوب خوب کارنامے ہوئے۔ اور جس دن شاہزادے کے دھاوے کا دن تھا اسی دن معرکہ فتح ہوا چنانچہ اس فتح کے تہنیت نامے اس کے نام سے لکھے گئے۔ خان خاناں نے مقام مذکور کا نام سر منزل رکھا کہ شاہزادہ کے نام کی پہلی فتح تھی ۔ اور ایک کلہ منار یادگار تعمیر کیا۔ 929ھ میں خان اعظم شمس الدین محمد خان اتکہ آگرہ میں شہید ہوئے۔ ان کا جنازہ دلی میں بھجوایا اوراس پر مقبرہ بنوایا۔ اسی تاریخ ادہم خاں ان کے جرم قتل میں قتل ہوا۔ اسے بھی اسی رستے روانہ کیا۔ اس کے چالیسویں کے دن ماہم بیگم اس کی ماں کہ اکبر کی انا تھی بیٹے کے غم میں دنیا سے کوچ کر گئی۔ اس کا جنازہ بھی وہیں بھیجا کہ ماں بیٹے ساتھ رہیں اور ان کی قبر پر مقبرہ عالیشان بنوایا۔قطب صاحب کے پاس اب تک بھول بھلیاں مشہور ہے۔ 963ھ سال اول جلوس میں ہیمول کی مہم فتح ہوئی۔ پانی پت کے میدان میں جہاز لڑائی ہوئی تھی کلہ منار بنایا دیکھو صفحہ 9۔ نگر چین شہر آگرہ سے 3 کوس کے فاصلے پر کرائی ایک گاؤں تھا۔ اس دلکشا مقام کی سر سبزی اور سیرابی اکبر کو بہت پسند آئی۔ اکثر سیرو شکار کو وہیں آجاتے تھے۔ اور دل کو شگفت کرتے تھے۔ 971ھ میں خیال آیا کہ یہاں شہر آباد ہو۔ چند روز میں پھلے پھولے باغ ۔ عالیشان عمارتیں ۔ شاہانہ محل۔ پائین باغ ۔ دلچسپ مکانات چو پڑکے بازار۔ اونچی اونچی دکانیں۔ بلند بالا خانے تیار ہو گئے۔ امرائے دربار اور اراکین سلطنت نے بھی اپنی اپنی دسترس کے بموجب مکان حرم سرائیں۔ خانہ باغ تعمیر کئے۔ بادشاہ نے یہیں ایک میدان ہموار مرتب کیا تھا کہ اس میں چوگان کھیلا کرتے تھے۔ وہ میدان چوگان بازی کہلاتا تھا۔ شہر مذکور اپنی بینظیر لطافتوں اور عجیب و غریب ایجادوں کے ساتھ س قدر جلد تیار ہوا کہ دیکھنے والے حیران رہ گئے۔ (ملا صاحب کہتے ہیں) اور مٹا بھی ایسا جلد کہ دیکھتے دیکھتے نشان تک نہ رہا۔ میں نے خود آگرہ جا کر دیکھا اور لوگوں سے دریافت کیا۔ مقام مذکور اب شہر سے پانچ کوس سمجھا جاتا ہے۔ اس وقت کی کتابوں میں جو شہر سے تین کوس فاصلہ لکھا ہے۔ اس سے اور وہاں کے خرابوں سے دریافت کر سکتے ہیں کہ جب شہر آگرہ کہاں تک آباد تھا۔ اور اب کتنا رہ گیا ہے۔ مسجد و خانقاہ شیخ سلیم چشتی اکبر کی 27-28برس کی عمر ہو گئی تھی۔ اور اولاد نہ تھی ہوئی تو مر گئی۔ شیخ سلیم چشتی نے خبر دی کہ وارث تاج و تخت پیدا ہونے والا ہے۔ اتفاق یہ کہ انہی دنوں محل میں حمل کے آثار معلوم ہوئے۔ اس خیال سے کہ برکات انفاس قریب تر ہو جائے۔ حرم مذکور کو شیخ کی پہلی خانقاہ اور حویلی کے پاس کوہ سیکری پر ایک شاہانہ عمارت اور نئی خانقاہ اور نہایت عالیشان مسجد کی تعمیر شروع کی کہ کل سنگین ہے اور ایک پہاڑ ہے کہ پہاڑ پر دھرا ہے۔ مسافران عالم کہتے ہیں کہ ایسی عمارتیں عالم میں کم ہیں۔ تخمیناً 5 برس میں تیار ہوئی۔ اس کا بلند دروازہ کسی بنئے نے بنوایا تھا۔ فتح پور سیکری 979ھ میں حکم ہوا کہ دیوان دولت اور شبستان حشمت کے لئے قصر ہائے عالی تعمیر ہوں اور تمام امرا درجہ اعلیٰ سے لیکر ادنے تک سنلگین اور گچکاری کی عمارتوں سے محل اور مکان آراستہ کریں۔ سنگین اور چوڑے چوپڑ کے بازار۔ اوپر ہوا دار بالا خانے نیچے مدرسے خانقاہیں اور حمام گرم ہوں۔ شہر میں خانہ باغ ۔ باہر باغ لگیں۔ شرفا و غربا ہر پیشہ کے لوگ آباد ہو کر دلچسپ مکانوں اور دلکش و کانوں سے شہر کی آبادی بڑھائیں۔ گرو شہر کے پتھر اور چونے کی فصیل کا دائرہ کھینچیں۔ 4 کوس کے فاصلے پر مریم مکانی کے محل اور باغ دلکشا تھا۔ بابر نے بھی رانا پر یہیں فتح پائی تھی۔ اکبر نے مبارک شگون سمجھ کر فتح آباد نام رکھا تھا۔ پھر فتح پور مشہور ہو گیا اور بادشاہ کو بھی یہی منظور ہوگ یا۔ الاسماہ تنزل من السماء چاہا تھا کہ یہی دارالخلافہ ہو جائے۔ خدا نے 985میں حکم دیا کہ ٹکسال بھی یہیں جاری ہو۔ چنانچہ 4گوشہ روپے پہلے وہیں سے نکلے۔ بنگالی محل اور ایک اور محل اسی سنہ میں آگرہ میں تیار ہوا۔ قاسم ارسلان نے دونوں کی تاریخ کہی۔ تمام شد دو عمارت بسان خلد بریں بدور دولت صاحب قران ہفت اقلیم یکے بہ بلدۂ دارالخلافہ آگرہ دگر بہ خطہ سیکری مقام شیخ سلیم سپہرازپے تاریخ ایں دو عالی قصر رقمز دہ دو بہشت بریں بکلک قدیم قلعہ اکبر آباد آگرہ کو زیادہ تر سکندر لودی نے آباد کیا۔ اور ایسا بڑھایا چڑھایا کہ اینٹ پتھر چونے سے قلعہ تیار کر کے دارالسطنت بنادیا۔ اس وقت دونوں طرف شہر آباد تھا۔ بیچ میں جمنا بہتی تھی۔ قلعہ شہر کے مشرق پر تھا۔ 973ھ میں اکبر نے حکم دیا کہ قلعہ کو سنگین بنائیں۔ اور سنگ سرخ کی سلیں تراش تراش کر لگائیں دو طرفہ گچ اور قتر سے مستحکم عمارتیں بنیں۔ ملا صاحب فرماتے ہیں 3 سیر غلہ سر جریب تمام ولایت پر لگا دیا۔ محصل پہنچے اور امرائے جاگیردار کی معرفت وصول کر لائے۔ 5برس میں تیار ہو گیا ۔عرض دیوار 30 گز ۔ ارتقاع ۔ 60 گز ۔ 4 دروازے خندق عمیق پانی تک کہ 10 گز پر نکل آیا تھا۔ تین چار ہزار آدمی کی مدد روز لگتی تھی۔ اب بھی طول میں جمنا کے کنارے تک پھیلا ہوا نظر آتا ہے۔ دیکھنے والے کہتے ہیں کہ یہ قلعہ بھی اپنا نظیر نہیں رکھتا۔ شیخ فیضی نے دروازے کی تاریخ کہی بنائے دبہشت پھر ملا صاحب کہتے ہیں قریب 30 کروڑ کے لاگت ہے اور ہندوستان بھر کے روپے کو چھاتی پر لئے بیٹھا ہے۔ 1 ؎ بدایونی میں مدت تعمیر 5 برس اور اکبر نامہ میں 8 برس لکھتے ہیں اور مقدار عرض اور ارتفاع میں بھی فرق ہے کہ خانی خاں لکھتے ہیں 973میں شروع اور 980ھ میں تمام ہوا۔ 30 لاکھ روپیہ خرچ ہوا۔ انہی نے یہ بھی لکھا ہے کہ عوام میں یہ خیال ہے کہ اکبر کے عہد سے اس کا نام اکبر آباد ہوا۔ مگر مرزا امینا شاہجہاں نامہ میں لکھتا ہے کہ شاہجہان نے دادا کی محبت سے اکبر آباد نام رکھا۔ اس سے پہلے آگرہ ہی مشہور تھا۔ کاریگر معمار۔ سنگتراش نزاکت کار۔ مصور جادونگار۔ لہار مزدور وغیرہ وغیرہ 4 ہزار آدمی کی مدد روز جاری تھی۔ دولت خانہ خاص میں سنگتراشوں کی منبت اور پچی کاری اور مصوروں کی سحر نگاری نے آئندہ ایجاد کے لئے جگہ نہیں چھوڑی۔ اس لئے تاریخ ہوئی بنائے۔ قلعہ شد بہرزر ۔ اس کے عالیشان دروازے کے دونو طرف دو ہاتھی پتر کے تراش کر کھڑے کئے تھے کہ آمنے سامنے سونڈیں ملا کر محراب بناتے تھے۔ اور سب اس کے نیچے سے آتے جاتے تھے۔ اس کا نا ہتیاپول تھا (پول بمعنی دروازہ) اسی پر نقارہ خانہ دربار تھا۔ ملا شیری نے تاریخ کہی ؎ کلک شیری پے تاریخ نوشت بے مثال آمدہ دروازہ فیل اب نقارہ نہ رہا ۔ صاحب نقارہ نہ رہے۔ نقارخانہ بے فائدہ چیز تھی۔ سر کار نے اسے کرا کر پتھر بیچ ڈالے۔ دروازہ باقی ہے۔ ہاتھی بھی نہرہے۔ ہتیاپول کا نام باقی ہے۔ اور جامع مسجد اس کے محاذی واقع ہوئی ہے۔ فتح پور سیکری کے ہتیا پول میں ہاتھی موجود ہیں سونڈیں ٹوٹ گئیں۔ افسوس محراب کا لطف نہ رہا۔ ہمایوں کا مقبرہ 977ھ میں شہر دہلی میں دریائے جمن کے کنارے پر میرک مرزا غیاث کے اہتمام سے آٹھ نو برس کی محنت میں تیار ہوا۔ تمام سنگین۔ اس کے گلتراشی اور منبت کاری کے لئے پہاڑوں نے اپنے جگر کے ٹکڑے بھیجے۔ اور معماروں نے صنعت کاری کی جگہ جادو گری خرچ کی۔ اب تک دیکھنے والوں کی آنکھیں پتھرا چاتی ہیں۔ مگر حیرت کی نگاہیں نہیں تھکتیں۔ عمارات اجمیر 977ھ میں پہلے سلیم پیدا ہوا۔ پھر مراد پید ا ہوا۔ بادشاہ شکرانے اور منت بڑھانے کو اجمیر گئے۔ شہر کے گرد قلعہ باندھا امرا کو حکم ہوا کہ تم بھی عالیشان عمارتیں بناؤ۔ سب تعمیل کر کے شکوہ اقبال کی شہ نشینوں میں بیٹھے اور آفرین بادشاہی طرہ و ستار ہوئی۔ شرقی جانب میں بادشاہی دولت خانے تھے تین برس میں سب عمارتیں تیار ہو گئیں۔ کوکر تلاؤ کہ خسرو شیریں کار کی توجہ سے شکر تلاؤ ہو گیا۔ اس کا افسانہ سننے کے قابل ہے۔ جب 977ھ میں شاہزادہ مراد کی ولادت کے شکرانے ادا کر کے اجمیر سے پھرے تو ناگور کے رستے آئے اور اسی مقام پر ڈیرے ہوئے ۔ رعایاے شہر نے حاضر ہو کر عرض کی کہ خشک ملک ہے اور خلق خدا کی گزران دو تالابوں پر ہے۔ گیلانی تلاؤ شمس تلاؤ کہ کو کر تلاؤ کہلاتا ہے۔ اور بند پڑا ہے۔ بادشاہ نے اس کی پیمائش کروا کر صفائی امرا پر تقسیم کی اور وہیں مقام کر دیا۔ چند روز میں صاف ہو کر کٹورے کی طرح چھلکنے لگا۔ اور شکر تلاؤ نام پایا۔ کو کر تلاؤ اس لئے کہتے تھے۔ کہ کسی سودا گر کے پاس ایک وفا دار کتا تھا۔ اسے بہت عزیز رکھتا تھا مگر کچھ ضرورت ایسی پڑی کہ ایک شخص کے پاس گرو رکھ دیا۔ چند روز کے بعد اس پر خدا نے کرم کیا کہدولت و مال سے آسودہ حال ہو گیا۔ اور اپنی وفا کی گٹھری لینے چلا۔ اتفاقاً کتا بھی اپنی وفا کے جوش میں اس کی طرف چلا تھا۔ مقام مذکور پر ملاقات ہوئی۔ کتے نے دیکھتے ہی پہچان لیا اور دم ہلا کر اس کے پاؤں میں لوٹ گیا اور یہاں تک خوش ہوا کہ دم نکل گیا۔ سودا گر جتنا محبت والا تھا۔ اس سے زیادہ ہمت والا تھا۔ یہاں پکا تلاؤ بنایا کہ آج تک اس کی ہمت اورکتے کی محبت پر گواہی دیتا ہے۔ چاہ و منارہ اکبر نے عہد کیا تھا کہ ہر سال ایک دفعہ اجمیر میں زیارت کو حاضر ہوا کہ دنگا۔ 981ھ میں آگرہ سے وہاں تک ہر میل پر ایک کواں اور ایک منارہ تعمیر کیا۔ اس وقت تک جتنے ہرن شکار کئے تھے۔ ان کے سینگ جمع تھے۔ ہر منارہ پر لگا کر سراپا شاخ در شاخ کر دیا کہ یہ بھی یادگار رہے۔ ملا صاحب اس کی تاریخ میل شاخ کہہ کر فرماتے ہیں۔ کاش کہ ان کی جگہ باغ یا سرا بنواتے کہ فائدہ بھی ہوتا۔ آزاد کہتا ہے۔ کاش ملا صاحب کو دے دیتے۔ یونیورسٹی پنجاب ہوتی تو ڈپوٹیشن لے کر پہنچتی کہ ہمیں دے دو ۔ ع غرازیل گوید نصیبے برم۔ عبادتخانہ چار ایوان 981ھ میں بمقام فتح پور سیکری تعمیر ہوا دیکھو صفحہ 108۔ الہ آباد پراگ پر گنگا جمنا دونوں بہنیں گلے ملتی ہیں۔ اس پانی کے زور کا کیا کہنا جہاں دو محبت کے دریا ٹکر کھائیں۔ یہ ہندؤں کے تیر تھ کا مقام ہے۔ ہمیشہ سے یہاں منتیں مانتے ہیں اور نتاسخ کے خیالات میں جانیں دیتے ہیں۔ 981ھ میں اکبر پٹنے کی مہم پر جاتا تھا۔ مقام مذکور پر حکم دیا کہ ایک حصار عظیم الشان قلعہ آگرہ کے نقشے پر تعمیر ہو ۔ اور یہ ایجاد زیادہ ہو کر چار قلعوں میں تقسیم ہو۔ ہر قلعے میں محل ۔ مکانات ۔ بدلا خانے خوشنما طرزوں کے ساتھ مرتب ہوں۔ پہلا قلعہ وہاں ہو جہاں ٹھیک دو نو دریاؤں کی ٹکر ہے۔ اس میں 12خانہ باغ ہوں ہر باغ میں کئی کئی مکانات دلکشا۔ یہ خاص دولت خانہ بادشاہی ۔ (2)میں بیگمات اورشاہزادے (3)قرباے سلطانی ۔ ملازم اور اہل خدمت ۔ خاص و عام ۔ مہندسان تیز ہوش نے اس کے نقشوں کی تراشیں پیدا کرنے میں ذہن لڑا کر کار نامے دکھلائے اور ساتھ ہی ایک کوس طولانی۔ 40 گز عریض ۔ 40گز بلند بند مستحکم باندھ کر عمارتیں تیار کھڑی کر دیں۔ 28 جلوس میں عمارت کا کام ختم ہوا تھا۔ پھر وہ الہ آبناد سے الہ باس ہو گیا۔ ارادہ ہوا کہ اس میں دارالخلافہ قائم کریں۔ امر ا نے بھی عمارات عالی تعمیر کیں۔ شہر کی آبادانی اورف راوانی زیادہ ہوئی۔ ٹکسال کا سکہ بیٹھا۔ شریف سرمدی کا شعر مقبول ہو کر منقوش ہوا ؎ ہمیشہ چوں زر خورشید و ماہ روشن باد بہ شرق و غرب جہاں سکہ الہ آباد اسی عہد میں چوکی نویسی کا آئین مقرر ہوا تھا۔ چند معتبر منصبدار تھے۔ کہ باری باری سے حاضر ہوتے تھے۔ روز مرہ ساعت بساعت کے احکام لکھتے رہتے تھے۔ وہ چوکی نویس کہلاتے تھے۔ امیر منصبدار ۔ احدی جو خدمت پر حاضر ہوتے تھے۔ ان کی یہ حاضری لکھتے تھے۔ جو سندیں اور چٹھیاں ان کی تنخواہوں کی خزانہ پر ہوتی تھیں انہی کی تصدیق سے ہوتی تھیں۔ محمد شریف مذکور اور محمدؐ نفیس بھی انہیں میں تھے۔ ان کی لیاقت بھی بہت خوب تھی اور اکبر کی بھی نظر عنایت تھی۔ اس واسطے حاضر بھی زیادہ رہتے تھے۔ محمد شریف شیخ ابوالفضل کے جلسے کے بھی یار تھے۔ انشائے ابوالفضل کے دفتر دوم میں کئی خطہ ان کے نام ہیں اور مان سنگھ وغیرہ امرا کے خطوط میں ان کی سفارش بھی کی ہے۔ پھرتو ملا صاحب کو ان پر خفا ہونا واجب ہوا۔ چنانچہ سلسلہ تاریخ میں اس مقام پر فرماتے ہیں ۔ ان کے باب میں کسی نے شعر بھی کہا ہے ؎ دوچوکی نویس اندہر دوکثیف یکے نانفیس و دگرنا شریف قلعہ تارا گڑھ اسی سال میں زیارت اجمیر کو گئے اور حضرت سید حسین خنگ سواہ کی عمارات مزار اورفصیل کی تعمیر کی۔ 1 ؎ شیخ ابوالفضل نے اکبر نامہ میں اسے عنبر سر اور ملا صاحب نے عنبر لکھا ہے۔ فرماتے ہیں انبر کے پاس موضع ملتان پر خیمے ہوئے معلوم ہوا کہ یہ شہر قدیم ہے۔ خدا جانے کب سے ویران پڑا ہے اس کی آبادی کا سر انجام کر کے وہاں سے اٹھے۔ منوہر پور شہر انبر پر لشکر اترا۔ معلوم ہوا کہ قریب تر یہاں سے ملتھان نام ایک شہر قدیم کے ویرانے پڑے ہیں اور خاک کے ٹیلے اس کی تاریخ سنا رہے ہیں ۔ اکبر نے جا کر دیکھا۔ حکم دیا کہ فصیل دروازے باغ وغیرہ تیار ہوں۔ کام امرا کو تقسیم ہو گئے اور تعمیر میں بڑی تاکید کی ۔ انتھا ہے کہ 8 دن میں کچھ سے کچھ ہو گیا۔ اور رعایا آباد ہو گئی ۔ رائے منوہر ولدرائے لون کرن حاکم سانبھر کے نام پر منوہر پور اس کا نام رکھا۔ ملا صاحب کہتے ہیں کنور مذکور پر بڑی نظر عنایت تھی۔ سلیم کے ساتھ کھیل کر بڑا ہوا تھا۔ شعر بھی خوب کہتا تھا اور اس میں تو سنی تخلص کرتا تھا۔ جوان قابل اور ہر معاملہ میں منصف مزاج تھا۔ رائے مرزا منوہر کہلا تا تھا۔ قلعہ اٹک جب محمد ؐ حکیم مرزا کی اخیر مہم فتح کر کے کابل سے پھرے تو اٹک کے گھاٹ پر مقام ہوا۔ جاتے ہوئے تجویز ہو گئی تھی کہ یہاں جنگی قلعہ تعمیر ہو ۔ 990ھ 14خورداد دوپہر پر دو گھڑی بجے اپنے مبارک ہاتھ سے بنیاد کی اینٹ رکھی۔ بنگالہ میں کٹک بنارس ہے اس کا نا م اٹک بنارس رکھا۔ خواجہ شمس الدین خانی انہیں دنوں میں بنگالہ سے آئے تھے۔ ان کے اہتمام سے تعمیر ہوا۔ کنار اٹک پر جو دو پتھر جلالاہ ۔ کمالا کہلاتے ہیں۔ اسی صاحب تاثیر بادشاہ نے خطاب دیا ہے۔ عجب برکت والے لوگ تھے۔ جو موج دل میں آئی۔ عالم کی زبان پر جاری ہو گئی۔ حوض حکیم علی 1002ھ میں حکیم علی نے لاہور میں ایک حوض بنایا کہ پانی سے لبریز تھا۔ عرض وطول 20X20۔ گہرام 3 گز ۔ بییچ میں حجرہ سنگین ۔ اس کی چھت پر بلند منارہ حجرہ کے چاروں طرف 4 پل ۔ لطف یہ تھا کہ حجرہ کے دروازے کھلتے تھے۔ اور پانی اندر نہ جاتا تھا۔ 7 برس پہلے قتچور میں ایک حکیم نے اسی کمال کا دعوے کیا۔ یہی سب سامان بنوایا مگر بن نہ آیا۔ آخر کہیں غوطہ مار گیا۔ اس با کمال نے کہا اور کر دکھایا۔ میر حیدر معمائی نے تاریخ کہی ۔ حوض حکیم علی بادشاہ بھی سیر کو آئے۔ سنا کہ جو اندر جاتا ہے۔ رستہ ڈھونڈتا ہے۔ نہیں ملتا۔ دم گھٹ کر گھبراتا ہے۔ اور نکل آتا ہے۔ خود کپڑے اتار کر غوطہ مارا ۔ اور اندر جا کر سارا حال معلوم کیا۔ ہوا خواہ بہت گھبرائے ۔ جب نکلے تو سب کے دم میں دم آئے۔ جہانگیر نے 1016ھ میں لکھا ہے۔ آج آگرہ میں حکیم علی کے گھر اس حوض کا تماشا دیکھنے گیا۔ جیسا والد کے وقت میں لاہور میں بنایا تھا۔ چند مصاحبوں کو ساتھ لے گیا کہ انہوں نے نہیںدیکھا تھا۔ 6X6ہے۔ پہلو میں ایک حجرہ ہے نہایت روشن ۔ رستہ اسی حوض میں سے ہے۔ مگر پانی اسے راہ سے اندر نہیں آتا۔ 10۔ 12 ۔ آدمی اس میں جلسہ جما کر بیٹھ سکتے ہیں۔ انوپ تلاؤ 986ھ میں فتچور سے بھیرہ کی طرف شکار کو چلے۔ حکم دیا کہ ناتمام حوض کو صاف کر کے ہر قسم کے سکول سے لبریز کر دو کہ ہم اعلیٰ سے اونیٰ تک خلق اللہ کو اس کا فیض پہنچائینگے۔(ملا صاحب کہتے ہیں پیسوں سے بھروایا تھا) ۔ طول عرض 20X20۔ عمق دو قد آدم ۔ سنگ سرخ کی عمارت تھی۔ چند روز کے بعد رستے میں راجہ ٹوڈرمل نے عرض کی کہ 17کروڑ بھر چکے ہیں مگر بھرا نہیں ہے۔ فرمایا کہ جب تک ہم پہنچیں۔ لبا لب کر دو۔ جس دن تیار ہوا۔ آپ کنارے پر آئے ۔ شکر الہٰی بجا لائے۔ پہلے ایک اشرفی ایک روپیہ ۔ ایک پیسا آپ اٹھایا ۔ اسی طرح امرائے دربار کو عنایت فرمایا ۔ شیخ ابوالفضل لکھتے ہیں کہ راقم شگر فنامہ نے بھی کرم عام سے فیض خاص پایا۔ پھر مٹھیاں بھر بھر کر دیں اور دامن بھر بھر کر لوگ لے گئے۔ اور ہر شخص نے برکت کا تعویذ بنا کر رکھا۔ جس گھر میں رہا اور اس میں کبھی روپے کا توڑا نہ ہوا۔ ملا صاحب فرماتے ہیں ۔ شیخ منجھو قوال صوفیانہ وضع رکھتا تھا۔ شیخ ادہن جونپوری کے مریدوں میں سے تھا انہی دنوںمیں حوض مذکور کے کنارے پر اسے بلایا۔ اس کا گانا سن کر بہت خوش ہوئے۔ تان سین اور اچھے اچھے گویوں کو بلا کر سنوایا۔ اور فرمایا کہ اس کیفیت کو تم میں سے ایک نہیں پہنچتا۔ پھر اس سے کہا ۔ منجھو ۔ جاسب نقدی تو ہی اٹھا لے جا ۔ اس سے کیا اٹھ سکتی تھی! عرض کی ۔ حضور ! یہ حکم دیں کہ جتنی غلام اٹھا سکے اتنی لے جائے۔ منظور فرمایا۔ غریب ہزار روپے کی قریب ٹکے باندھ لے گیا۔ 3برس میں اسی طرح لٹا کر حوض خالی کر دیا۔ ملا صاحب کو بہت افسوس ہوا۔ آزاد میں نے ایک پرانی تصور دیکھی۔ اکبر اس تلاؤ کے کنارے پر بیٹھے ہیں۔ بیربل وغیرہ چند امرا حاضر ہیں۔ کچھ مرد ۔ کچھ عورتیں ۔ کچھ لڑکیاں پنہیاریوں کی طرح اس میں سے گھڑے بھر بھر کر لئے جاتے ہیں۔ اللہ اللہ جو سخاوت کی بہار دیکھنے والے ہیں انہیں یہ بھی ایک تماشا ہے۔ جہانگیر نے توزک میں لکھا ہے۔ کہ 36X36طول عرض ساڑھے 4 گز عمق تھا۔ 34 کروڑ 48 لاکھ 46 ہزار دام = 16لاکھ 79 ہزار 4 سو روپے کی نقدی اس میں آئی تھی۔ روپے اور پیسے ملے ہوئے تھے۔ ضرورت اور احتیاج کے پیا سے مدتوںتک آتے اور دلوں کی پیاس بجھاتے رہے۔ تعجب یہ ہے کہ اس میں کپور تلاؤ نام لکھا ہے۔ ٭……٭……٭ اکبر کی شاعری اور طبع موزوں وہ دربار قدرت سے اپنے ساتھ بہت سی نعمتیں لایا تھا۔ ان میں طبیعت بھی موزوں لایا تھا۔ اسی واسطے کبھی کبھی اشعار زبان سے نکل جاتے تھے۔ یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اشعار جو اس کے نام پر کتابوں میں لکھے ہیں اسی کے ہیں ۔ کیونکہ اگر وہ ملک شاعری میں شہرت چاہتا تو شاعر ہزار ول تھے۔ جلدیں کی جلدیں تیار کر دیتے۔ لیکن جب یہی چند شعر اس کے نام پر لکھے ہیں تو اپنی ہی طبیعت کی امنگ ہے۔ جو کبھی کبھی موقع پر ٹپک پڑی ہے۔ شائد لفظ یا لفظوں میں کسی نے اصلاح بھی کر دی ہو۔ خیر طبیعت کا انداز دیکھ لو۔ مطلع گریہ کر دم زغمت موجب خوشحالی شد ریختم خون دل از دیدہ دلم خالی شد رباعی مے ناز کہ دل خون شدہ ؟ ازدوری او من یار غمم زوست مہجوری او در آئینہ چرخ نہ قوس قزح است عکس است نمایاں شدہ از چوری او قطعہ دو شینہ بکوے مے فروشاں پیمانہ مے بزر خر یدم ! اکنوں زخمارسر گرا نم ! زر دادم و ورد سر خریدم مطلع من بنگ نمے خورم مے آرید میارید من چنگ نمے زنم نیا آرید رید 997ھ میں بہار کشمیر کی گلگشت کے لئے مع لشکر و امرائے لشکر تشریف لے گئے۔ اور بیگمات کو بھی ساتھ لیا کہ باغ قدرت کا تماشا دیکھ کر سب خوش ہوں۔ آپ امرائے خاص اور مصاحبوں کو لے کر آگے بڑھ گئے تھے۔ شہر سری نگر میں پہنچ کر خیال آیا کہ مریم مکانی کے دولت خیز قدم بھی ساتھ ہوں۔ تو نہایت مبارک بات ہے۔ شیخ کو حکم ہوا کہ عرضداشت لکھو۔ وہ تحریر میں مصروف تھے۔ خود فرمایا۔ اور یہ بھی عرضداشت میں درج ہو ؎ حاجی بسوے کعبہ روداز برائے حج یا رب بود کہ کعبہ بیاید بسوئے ما ٭……٭……٭ عہد اکبر کے عجیب واقعات مقام بکسر میں راوت ٹیکا نام موضع مذکور کا مقدم تھا۔ کسی دشمن نے قابو پا کر اسے مار ڈالا۔ مقتول نے دو زخم کھائے تھے۔ ایک پیٹھ پر ۔ دوسرا کان کے نیچے ۔ چند روز کے بعد اس کے رشتہ دار کے گھر بچہ پیدا ہوا کہ یہی دو زخم اس کے موجود تھے۔ لوگوں میں چرچا ہوا۔ اور جب وہ بڑا ہوا تو اس نے بھی یہی کہا۔ بلکہ اکثر اس کی باتیں ایسے ایسے نشان و مقام کے پتے سے بتائیں کہ سب حیران ہوئے۔ معاملہ اکبر نے بھی اس کا دوبارہ جنم لینا تسلیم کیا۔ مگر اکبر نامہ میں لکھا ہے کہ بادشاہ نے کہا۔ اگر زخم لگے تھے۔ تو راوت کے جسم پر لگے تھے۔ جان پر نہ تھے۔ اس جسم میں آئی ہے تو جان آئی ہے۔ پھر جان آئی ہے۔ پھر زخموں کا اس بدن پر ظاہر ہونا چہ معنی دارد۔ اس پر اپنی والدہ کا حال بیان کیا۔ دیکھو صفحہ 4 ۔ ایک اندھے کو لائے کہ جو کچھ بات اس سے کہتے تھے۔ وہ بغل میں ہاتھ دیکر جواب دیتا تھا۔ اور بغل سے شعر پڑھتا تھا۔ مشق اور ورزش سے یہ بات بہم پہنچائی تھی۔ نواح اکبر آباد میں ایک بغاوت کے دبانے کو فوج بادشاہی گئی۔ وہاں لڑائی ہوئی۔ لشکر بادشاہی میں دو بھائی تھے۔ قوم کھتری ۔ اکبر آباد کے رہنے والے کو جڑواں پیدا ہوئے تھے۔ اور باہم بالکل مشابہ تھے۔ ایک ان میں سے کام آیا۔ اور چونکہ لڑائی جا ری تھی۔ دوسرا وہاں موجود رہا۔ مقتول کی لاش گھر آئی۔ دو نو بھائیوں کی بیبیاں اس کے ساتھ ستی ہونے کو تیار ہوئیں۔ یہ کہتی تھی میرا شوہر ہے۔ وہ کہتی تھی میرا ہے۔ مقدمہ کو توال کے پاس اور وہاں سے دربار میں پہنچا۔ بڑے بھائی کی بی بی کہ جس کا خاوند چند ساعت پہلے پیدا ہوا تھا۔ آگے بڑھی۔ اور عرض کی ۔ حضور میرے والی کا 10برس کا بیٹا مر گیا تھا۔ اور اسے فرزند کے مرنے کا بڑا غم ہوا تھا۔ اس لاش کا سینہ چیر کر دیکھئے۔ اگر اس کے جگر میں داغ یا سوراخ ہوتو جانئے کہ وہی ہے نہیں ہے تو وہ نہیں ہے۔ اسی وقت جراح حاضر ہوئے۔ چھاتی چاک کر کے دیکھا تو زخم تیرکی طرح سوراخ موجود تھا۔ سب دیکھ کر حیران رہ گئے۔ اکبر نے کہا کہ بواتم سچی ہو۔ اورجلنے اور نہ جلنے کا تمہیں اختیار ہے۔ ایک شخص کو لوگ لائے کہ اس میں مرد عورت دونو کی علامتیں موجود تھیں۔ ملا صاحب لکھتے ہیں کہ اسے مکتب خانہ کے پاس لا کر بٹھایا تھا۔ یہیں ہم کتب علمی ترجمہ کیا کرتے تھے۔ جس وقت چرچا ہوا تو میں بھی گیا۔ وہ ایک حلال خور تھا۔ چادر اوڑھے گھونگھٹ نکالے شرمندہ صورت کچھ منہ سے نہ بولتا تھا۔ حضرت بن دیکھے قدرت الہٰی کے قائل ہو کر چلے آئے۔ 990ھ میں ایک آدمی کو لائے کہ نہ اس کے کان تھے۔ نہ کانوں کے چھید تھے۔ رخسارے اور تمام کنپٹیاں صفاً صفا ۔ مگر ہر بات برابر سنتا تھا۔ ایک شیر خوار بچے کا سر اعتدال بدن سے زیادہ بڑھنے لگا۔ اکبر کو اطلاع ہوئی اس نے بلا کر دیکھا اور کہا کہ چمڑے کی چست ٹوپی بناؤ اور اسے پہناؤ۔ رات دن ایک لمحہ سر سے نہ اتارو ایسا ہی کیا۔ چند روز میں بڑھاؤ تھم گیا۔ 1007ھ میں جب اکبر آسیر کی مہم پر خود لشکر لے کر چلا۔ فوج نربدا سے عبور کر رہی تھی۔ ہاتھیوں کا حلقہ کہ سواری کا جز اعظم تھا۔ دریا اترا۔ فیلبانوں نے دیکھا کہ خاصہ کے ہاتھی کی زنیجر سونے کی ہو گئی۔ داروغہ فیلخانہ کو خبر کی۔ اس نے خود جا کر دیکھا۔ بادشاہ کو خبر ہوئی۔ زنجیر منگا کر ملا حظہ کی۔ چاشنی لی۔ ہر طرح درست۔ گفتگو کے بعد یہ مضمون نکلا کہ دریا میں کسی مقام پر سنگ پارس ہو گا۔ اس خیال سے ہاتھیوں کو پھر اسی گھاٹ اور اسی رستے پر کئی بار وار اور پارلے گئے کچھ بھی نہ ہوا۔ ملا صاحب 963ھ کے حالات میں لکھتے ہیں کہ بادشاہ نے خان زمانہ کی اخیر مہم کے لئے نشان فتح بلند کئے۔۔ میں حسین خاں کے ساتھ ہمسفر تھا۔ وہ ہرال ول ہو کر تعمیل فرمان کے لئے روانہ ہوا۔ میں شمس آباد میں رہ گیا۔ عجائبات سے یہ بات معلوم ہوئی کہ ہمارے پہنچنے سے کئی دن پہلے رات کے وقت ایک دھوبی کا ننھا بچہ چبوترہ پر سوتا تھا۔ غفلت میں کروٹ لی۔ پانی میں جاپڑا۔ دریا کا بہاؤ اسے دس کوس تک صحیح سلامت لے گیا۔ اور بھو جپور پر جا کر کنارے سے لگا دیا۔ وہاں کسی دھوبی نے دیکھ کر نکالا وہ انہی کا بھائی بند تھا۔ اس نے پہچانا ۔ صبح کو ماں باپ کے پاس پہنچا دیا۔ خصائل و عادات اور تقسیم اوقات اس کی طبیعت کارنگ ہر عہد میں بدلتا رہا۔ بچپن کی عمر کہ پڑھنے کا وقت تھا کبوتروں میں اڑایا ۔ ذرا ہوش آیا تو کتے دوڑانے لگے۔ اور بڑے ہوئے۔ گھوڑے بھگانے اورباز اڑانے لگے۔ نوجوانی تاج شاہانی لے کر آتی۔ بیرم خاں وزیر صاحب تدبیر مل گیا تھا۔ یہ سیرو شکار اور شراب و کباب کے مزے لینے لگے۔ لیکن ہر حال میں مذہبی اعتقاد سے دل نورانی تھا۔ بزرگان دین سے اعتقاد رکھتا تھا۔ نیک نیتی اور خدا ترسی بچپن سے مصاحب تھی۔ طلوع جوانی میں آکر کچھ عرصہ تک ایسے پرہیز گار نماز گذار ہوئے کہ کبھی کبھی خود مسجد میں جھاڑو دیتے تھے۔ اور نماز کے لئے آپ اذان کہتے تھے۔ علم سے بے بہرہ رہے مگر مطالب علمی کی تحقیقات اور اہل علم کی صحبت کا شوق اتنا تھا کہ اس سے زیادہ نہیں ہو سکتا۔ باوجودیکہ ہمیشہ فوج کشی اور مہموں میں گرفتار تھا۔ اور انتظامی کاروبار کا ہجوم تھا۔ سواری شکاری بھی برابر جاری تھی۔ مگر وہ علم کا عاشق علم و حکمت کے مباحثوں اورکتابوں کے سننے کو وقت نکال ہی لیتا تھا۔ یہ شوق کسی خاص مذہب یا خاص فن میں محبوس نہ تھا۔ کل علوم اور کل فنون اس کے لئے یکساں تھے۔ 20برس تک دیوانی فوجداری بلکہ سلطنت کے مقدمات بھی علمائے شریعت کے ہاتھ میں رہے۔ جب دیکھا کہ ان کی بے لیاقتی اور جاہلانہ سینہ زوری ترقی سلطنت میں خلل انداز ہے تو آپ کام کو سنبھالا۔ اس عالم میں جو کچھ کرتا تھا ارائے تجربہ کار اور معاملہ فہم عالموں کی صلاح سے کرتا تھا۔ جب کوئی مہم پیش آتی یا اثنائے مہم میں کوئی نئی صورت واقع ہوتی یا کوئی انتظامی امر آئین سلطنت میں جاری یا ترمیم ہوتا تو پہلے امرائے دولت کو جمع کرتا۔ ہر شخص کی رائے کو بے روک سنتا اور سناتا اور اتفاق رائے اور صلاح اور اصلاح کے ساتھ عمل درآمد کرتا اور اس کا نام مجلس کنگاش تھا۔ شام کو تھوڑی دیر آرام لے کر علماو حکما کے جلسہ میں آتا تھا۔ یہاں مذہب کی خصوصیت نہ تھی۔ ہر طریق اور ہر قوم کے صاحب علم جمع ہوتے تھے۔ ان کے مباحثے سن کر معلومات کے خزانے کو آباد کرتا تھا۔ اس کے عہد میں عمدہ اور مفید اور عالی رتبے کی تکابیں تصنیف ہوئیں گھنٹے ڈیڑھ گھنٹے کے بعد جو عرضیاں حکام و عمال نے بھیجی تھیں انہیں سنتا تھا اور ہر نکتے پر خود حکم مناسب لکھواتا تھا۔ آدھی رات کوی اد الہی میں مصروف ہوتا۔ بعد اس کے شبستان راحت میں غروب ہوتا تھا کہ جسم و جان کو خواب کی خوراک دے لیکن بہت کم سوتا تھا بلکہ اکثر رات بھر جاگتا تھا۔ اس کی نیند عموماً 3 گھنٹے سے زیادہ نہ ہوتی تھی۔ صبح سے پہلے اس کا دل روشن ہوتا تھا۔ ضروریات سے فارغ ہوتا۔ نہا دھو کر بیٹھتا ۔ دو گھنٹے یاد خدا کرتا اور انوار سحر سے دل کو روشنی دیتا۔ آفتاب کے ساتھ دربار میں طلوع ہوتا تھا۔ اہالی موالی بھی اندھیرے منہ حاضر ہوتے تھے۔ ان کی عرض معروض سنتا تھا۔ بے زبان نمک خوار نہ دکھ کی شکایت کر سکتے نہ کسی آرام کی درخواست ۔ اس لئے خود اٹھ کر جاتا اور ان کی عرضیاں صورت حال سے پڑھتا اصطبل اور فیلخانہ شتر خانہ ۔ آہو خانہ وغیرہ وغیرہ جانوروں کو اول ۔ بعد ان کے اور کار خانوں کو دیکھتا تھا۔ اقسام صنعتگری کی کار گاہوں کا ملا حظہ کرتا تھا۔ ہر باب میں عمدہ ایجاد کرتا تھا۔ اور دلپذیر اصلاحیں دیتا تھا۔ اہل کمال کے ایجادوں کی قدر مقدار سے زیادہ کرتا تھا ۔ اور ہر فن میں اس توجہ سے شوق دکھاتا تھاکہ گویا اسی فن کا فریفتہ ہے ۔ توپ بندوق وغیرہ آلات جنگ کی صنعت اورفنون دستکاری میں دستگاہ رکھتا تھا۔ گھوڑے اور ہاتھی کا عاشق تھا۔ جہاں سنتا تھا لے لیتا تھا۔ شیر چیتے گینڈے نیل گائیں بارہ سنگے۔ ہرن وغیرہ وغیرہ ہزاروں جانور بڑی محبت سے پالے اور سدھائے تھے۔ جانوروں کے لڑانے کا بڑا شوق تھا۔ مست ہاتھی ۔ شیر اور ہاتھی۔ ارنے بھینسے۔ گینڈے ۔ ہرن لڑاتا تھا۔ چیتوں سے ہرن شکار کرتا تھا۔ باز ۔ بہری جرے۔ باشے اڑاتا تھا۔ اور یہ دل کہ بہلاوے ہر سفر میں ساتھ رہتے تھے۔ ہاتھی گھوڑے چیتے وغیرہ جانوروں میں بعضے بہت پیارے تھے۔ ان کے پیارے پیارے نام رکھے تھے۔ جن سے اس کی طبیعت کی موزونی اور ذہن کی مناسبت جھلکتی تھی۔ شکار کا دیوانہ تھا۔ شیر کو شمشیر سے مارتا تھا۔ ہاتھی کو زور سے زیر کرتا تھا۔ خود صاحب قوت تھا اور سخت محنت برداشت کر سکتا تھا۔ جتنی جفا کشی کرتا تھا اتنا ہی خوش ہوتا تھا۔ شکار کھیلتا ہوا بیس تیس کوس پیدا نکل جاتا تھا۔ آگرہ اور فتچور سیکری سے اجمیر تک کہ 7 منزل ہے اور ہر منزل 12 کوس کی ۔ کئی دفعہ پیادہ زیارت کو گیا۔ شیخ ابوالفضل لکھتے ہیں کہ ایک بار جرأت و جوانی کے جوش میں متھرا سے پیادہ پا شکار کھیلتا ہوا چلا۔ آگرہ اٹھارہ کوس ہے تیسرے پہر جا پہنچا۔ اس دن دو تین آدمیوں کے سوا کوئی ساتھ نہیں نبھ سکا۔ گجرات کے دھاوے کا تماشہ دیکھ ہی چکے ہو۔ دریا میں کبھی گھوڑا ڈال کرکبھی ہاتھی پر کبھی آپ پیر کر پار اتر جاتا تھا۔ ہاتھیوں کی سواری اور ان کے لڑانے میں عجیب و غریب کرتب دکھاتا تھا۔ دیکھو صفحہ 106 ، 138۔ غرض مصیبت کا اٹھانا اور جان جو کھوں میں پڑنا اسے مزا دیتا تھا۔ خطر کی حالت میں اس پر کبھی اضطراب نہ معلوم ہوتا تھا۔ باوجود اس جو انمردی و دلیری کے غصے کا نام نہ تھا اور ہمیشہ شگفتہ اور شاد نظر آتا تھا ۔ باوجود اس دولت وحشمت اور خدائی جاہ و جلال کے نمائش کا خیال نہ تھا۔ اکثر تخت کے آگے فرش پر ہو بیٹھتا۔سیدھا سادہ مزاج رکھتا۔ سب سے بے تکلف باتیں کرتا تھا۔ رعیت کی داد خواہی کو سنتا تھا اور فریادڈ رسی کرتا تھا۔ ان سے خلق و محبت کے ساتھ بولتا تھا اور نہایت درد خواہی سے حال پوچھتا اور جواب دیتا تھا۔ غریبوں کی خاطر داری بہت کرتا تھا۔ جہانتک ہو سکتا ان کی دل شکنی گوارا نہ کر سکتا تھا۔ ان کے غریبانہ نذرانوں کو امیروں کے پیشکشوں سے زیادہ عزیز رکھتا تھا۔ اس کی باتیں سن کر یہ معلوم ہوتا تھا۔ گویا اپنے تئیں کم تریں مخلوقات شمار کرتا ہے۔ اس کی ہربات سے خدا پر توکل معلوم ہوتا تھا۔ اس کی رعایا اس کے ساتھ دل سے محبت رکھتی تھی۔ ساتھ ہی اسکے دلوں پر اس کی ہیبت اور دہشت بھی چھائی ہوئی تھی۔ دشمنوں کے دلوں میں اس کے دلیرانہ دھادوں اور فتوحات کے کارناموں نے بڑا رعب ڈالا تھا۔ باوجود اس کے خواہ مخواہ لڑائی کا شوق نہ تھا۔ لڑائی کے معرکوں اور جنگ کے میدانوں میں دل اور جان تک کھپا دیتا تھا مگر ہمیشہ فہم و فراست سے کام لیتا تھا۔ دل میں ہمیشہ صلح مدنظررکھتا تھا۔ جب حریف اطاعت کے رستے پر آتا۔ فوراً عذر قبول اور ملک بحال۔ جب مہم ختم ہوتی دارالسطنت پھر کر آتا اور آبادانی و فراوانی کے شغلوں میں مصروف ہوتا۔ بنیاد سلطنت اس پر رکھی تھی کہ جہاں تک ہو سکے ملک کی خوشحالی اور لوگوں کی فارغ البالی میں خلل نہ آئے۔ سب آسودہ حال رہیں۔ فنج صاحب اس عہد میں ملکہ الزبتھ کے دربار سے سفیر ہو کر آئے تھے۔ انہوںنے جو حالات مشاہدہ کر کے لکھے ہیں اور ان مطالب کا آئینہ ہیں۔ خدا ترسی اور رحم و شفقت اس کے خمیر میں رچی ہوئی تھی۔ کسی کا دکھ دیکھ نہ سکتا تھا۔ گوشت بہت کم کھاتا تھا۔ جس تاریخ پیدا ہوا تھا۔ اس دن اور اس سے چند روز پہلے اور پیچھے بالکل نہ کھاتا تھا اور حکم تھا کہ ان دنوں کل ممالک محروسہ میں ذبح نہ ہو۔ جہاں ہوتا تھا چوری چھپے سے ہوتا تھا۔ پھر اس مہینے میں اور اس سے پہلے اور پیچھے ترک کر دیا۔ پھر جتنے برس عمر کے تھے اتنے دن پہلے اور پیچھے چھوڑ دیا۔ علی مرتضیٰ شیر خدا کا قول ہے کہ سینے کو حیوانات کا گورستان نہ بناؤ۔ یہ خزانہ اسرار الہٰی کا ہے۔ یہی مضمون ادا کرتا تھا اور کہتا تھا۔ گوشت آخر درخت میں نہیں لگتا۔ زمین سے نہیں اگتا جاندار کے بدن سے کٹ کر جدا ہوتا ہے۔ اسے کیسا دکھ ہوتا ہو گا کہ اگر انسان ہیں تو ہمیں بھی درد آنا چاہئے۔ ہزاروں نعمتیں خدانے دی ہیں۔ کھاؤ پیو اور مزے لو۔ ذرا سے چٹخارے کے لئے کہ پل بھر سے زیادہ نہیں رہتا جان کا ضائع کرنا بڑی بے عقلی و بیر حمی ہے۔ کہتا تھا کہ شکار نکموں کا کام ہے اور جلا دی کی مشق ہے۔ ناخداترسوں نے خدا کی جانو نکا مارنا تماشا ٹھہیرایا ہے۔ بے گناہ بے زبانوں کی جان لیتے ہیں انہیں سمجھتے کہ یہ پیاری صورتیں اور موہنی مورتیں خاص اس کی صنعت گری ہے۔ اس کا مٹانا سنگدلی اور اور شقادت ہے ؎ چہ خوش گفت فردوسی پاک زاد کہ رحمت براں تربت پاک باد میازار مورے کہ دانہ کش است کہ جان دارو و جان شیریں خوش است خاص دن اور بھی تھے کہ ان میں گوشت مطلق نہ کھتا تھا وسط عمر میں حساب کیا گیا تھا۔ تو ان دنوں کا مجموعہ 3 مہینے ہوتے تھے۔ رفتہ رفتہ برس میں چھ مہینے ہو گئے آخر عمر میں یہاں تک کہتا تھا کہ جی چاہتا ہے کہ گوشت کھانا ہی چھوڑ دیجئے۔ وہ کم خوراک تھا۔ اکثر ایک وقت کھانا کھاتا تھا۔ اور جتنا کم کھاتا تھا اس سے بہت زیادہ محنت اٹھاتا تھا۔ عورت سے بھی کنارہ کش ہو گیا تھا۔ بلکہ جو کچھ ہوا اس کے ضائع ہونے کا افسوس کرتا تھا۔ آداب کورنش شاہان دانش آرا نے اپنی اپنی رسائی کے بموجب اداے آداب کے آئین رکھے تھے۔ کسی ملک میں سرجھکاتے تھے۔ کہیں سینہ پر ہاتھ بھی رکھتے تھے۔ کہیں دوزانوبیٹھ کر جھکتے تھے (ترکوں کا آئین آداب تھا) اور اٹھ کھڑے ہوتے تھے۔ اکبر نے یہ آئین قرار دیا کہ ادب پرست دولت خواہ سامنے آکر آہستگی سے بیٹھے۔ سیدھے ہاتھ کو مٹھی کر کے پشت دست کو زمین پر ٹیکے اور آہستگی سے سیدھا اٹھے۔ دست راست تالو کو پکڑ کراتنا جھکے کہ دہر ا ہو جائے او ایک خوشنما انداز سے داہنی طرف کو جھوک دیتا ہوا اٹھے۔ اسی کو کورنش کہتے تھے۔ اس کے معنے یہ تھے کہ محسوس اور معقول زندگی اسی پر منحصر ہے ۔ اسے دست نیاز پر رکھ کر نذر کرتا ہے۔ خود فرمان پذیری پر آمادہ ہوتا ہے۔ اور جان و تن سپرد حضور کرتا ہے اس کو تسلیم بھی کہتے تھے۔ اکبر نے خود بیان کیا کہ وہ عالم طفولیت میں ایک دن ہمایوں کے پاس آکر بیٹھا۔ مہر پدری نے اپنے سر سے تاج اتار کر نور چشم کے سر پر رکھ دیا۔ تاج دولت فراخ تھا۔ پیشانی پر درست کر کے اور گدی کی طرف بڑھا کے رکھ دیا۔ عقل و اداب اتالیق ساتھ آئے تھے۔ ان کے اشارے سے اٹھا کر آداب بجا لائے۔ دست راست کی مٹھی کو پشت کی طرف سے زمین پر ٹیکا اور سینہ و گردن کو سیدھا کر کے آہستگی سے اٹھا کر مبارک تاج آنکھوں پر پردہ نہ ہو جائے۔ یا کان پر نہ ڈھلک جائے۔ کھڑے ہو کر پر ہما اور کلغی کو بچا کرتا لو پر ہاتھ رکھا کہ شگون سعادت گر نہ پڑے اور جتنا جھک سکتا تھا جھک کر آداب بجا لایا۔ بچپن کے عالم میں یہ جھک کر اٹھنا بھی ایک خوشنماانداز ہوا ۔ باپ کو پیارے فرزند کا ادائے آداب بہت اچھا معلوم ہوا۔ حکم دیا کہ کورنش و تسلیم اسی طرز پر ادا ہوا کرے۔ اکبر کے وقت میں ملازمت ۔ رخصت ۔ عطائے جاگیر ۔ عنایت منصب۔ انعام خلعت ہاتھی اور گھوڑا مرحمت ہوتا تھا تو تھوڑے تھوڑے فاصلے پر تین تسلیمیں ادا کرتے ہوئے پاس آکر نذر دیتے تھے۔ اور عنایتوں پر ایک ۔ بندگان با ارادت جنہیں جلوت میں بھی بار ملتے تھے جب بیٹھنے کی اجازت پاتے تھے تو سجدہ نیاز کرتے تھے۔ حکم تھا کہ دل میں سجدہ الہٰی کی نیت رہے۔ کج فہم ۔ ظاہر ہیں اسے مردم پرستی سمجھتے تھے اس واسطے ایسی سعادت کے لئے عام اجازت نہ تھی۔ دربار عام میں بندگان خاص کو بھی حکم نہ تھا ۔ کوئی باارادت اس طرح چہرہ نورانی کرنا چاہتا تو بادشاہ خفا ہوتا۔ جہانگیر کے وقت میں کسی بات کی پروانہ تھی یہی رسم عموماً جاری رہی۔ شاہجہاں کے عہد میں پہلا حکم یہی جاری ہوا کہ سجدہ موقوف ہو۔ ذات الہٰی کے سوا دوسرے کے لئے روا نہیں۔ فہایت خان سپہ سالار نے کہا کہ کہ بادشاہ کے سلام میں اور عام اہل دولت کے سلام میں کچھ امتیاز واجب ہے۔ سجدہ کی جگہ زمین بوس ہو تو مناسب ہے کہ خادم و مخدوم اور بادشاہ و رعیت کا سرشتہ باقاعدہ رہے۔ قرار پایا کہ اہل آداب دونو ہاتھ زمین پر ٹیک کر اپنے پشت دست کو بوسہ دیا کریں۔ اہل احتیاط نے کہا کہ اس میں بھی سجدہ کی صورت نکلتی ہے ۔ سال وہم جلوس میں یہ بھی موقوف ہوا۔ اس کی جگہ چوتھی تسلیم اور بڑھا دی سادات ۔ علما ۔ مشائخ ملازمت کے وقت سلام شرعی ادا کرتے تھے۔ اور رخصت کے وقت فاتحہ پڑھ کر دعا کرتے تھے۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ قدیمی دستور ترکستان کا ہے کیونکہ وہاں بھی یہی رسم ہے بلکہ عموماً ہر صحبت اور ہر ملاقات میں یہی عمل درآمد عام تام ہے ۔ لطائف اقبال دنیا میں دیکھا جاتا ہے کہ جب دولت و اقبال کسی کی طرف جھک جاتے ہیں تو عالم طلسمات کو مات دیتے ہیں ۔ جو چاہے وہی ہو۔ جو منہ سے نکل جائے وہی ہو۔ اکبر کی فرمانروائی میں ایسی باتوں کا ظہور بہت نظر آتا ہے۔ مہمات سلطنت اورفتوحات ملکی کے علاوہ اسکے تہور اور ہمت و جرأت کے معاملے کل تائید اقبال کا اثر تھے۔ اکثر معاملات میں جو کچھ اس نے ابتدا میں کہہ دیا اسی انتہا پر خاتمہ ہوا۔ اگر اس کی فہرست لکھوں تو بہت طولانی ہو چند باتیں بطور تمثیل لکھتا ہوں۔ 37 جلو س میں اکبر نے قاضی نور اللہ شستری کو محالات کشمیر کی جمع بندی کے لئے بھیجا۔ یہ باوجود کمال علم وفضل کے نہایت دقیقہ رس اور دیانت دار شخص تھے عاملان کشمیری کو ڈر ہوا کہ ہمارے بیچ کھل جائینگے۔ انہوں نے باہم مشورت کی۔ بادشاہ بھی لاہور سے اسی طرف جانے والے تھے۔ مرزا یوسف خاں صوبہ دار کشمیر استقبال کوادھر آیا۔ مرزا یادگار اس کا رشتہ دار نائب رہا۔ کشمیریوں نے سازش کر کے اسے بغاوت پر آمادہ کر دیا۔ اور کہا کہ رستے دشوار ۔ملک ٹھنڈا سامان جنگ بہت کچھ موجود ہے۔ کشمیر ایسی جگہ نہیں کہ ہندوستان کا لشکر آئے اور سر سواری اسے مار لے۔ وہ بھی انکی باتوں میں آگیا اور خود سر ہو کر تاج شاہی سر پر رکھا۔ دربار میں ا ن باتوں کا سان گمان بھی نہیں تھا۔ اکبر نے لاہور سے کوچ کیا اور دریائے راوی سے اترتے ہوئے کسی مصاحب سے پوچھاکہ یہ بیت شاعر نے کونسے گنجے کے حق میں کہی تھی۔ کلاہ خسروی و تاج شاہی بہر کل کے رسد حاشاو کلا تماشایہ ہوا کہ مرزا یادگار سر سے گنجہ نکلا لشکر دریائے چناب کے کنارے پہنچا تھا کہ اس فساد کی خبر پہنچی۔ اکبر کی زبان سے نکلا ؎ دلد الزناست حاسد منم آنکہ طالع من ولد الزنا کش آمد چوستارہ یمانی لطف یہ ہے کہ یادگار تقرہ نام ایک کچٹی کے پیٹ سے تھا جس کے نطفے کی بھی تحقیق نہ تھی۔ اکبر نے یہ بھی کہا کہاین لولی بچہ بمجرد برآمدن سہیل کشتہ خواہد شد ۔ شیخ ابوالفضل نے دیوان حافظ میں فال دیکھی۔ یہ شغر نکلا ؎ آں خوش خبر کجاست کزیں فتح مژدہ داد تاجاں فشانمش چوزروسیم درقدم عجیب بات یہ کہ جب یادگار کا خطبہ پڑھا گیا تو اسے ایسی تھر تھری چڑی جیسے بخار چڑھا اور مہر کن سکہ کی مہر کھودنے لگا۔ فولاد کی کنی اس کی آنکھ میں جا پڑی۔ آنکھ بیکار ہو گئی ۔ اکبر نے یہ بھی کہا کہ دیکھنا جو لوگ اس کی بغاوت میں شامل ہیں انہی میں سے کوئی شخص ہو گا۔ کہ اس کا گنجہ سرکاٹ لائیگا۔ خدا کی قدرت کہ انجام کا اسی طرح وقوع میں آیا۔ دنیامیں کوئی مشغل اور کوئی شوق ایسا نہ تھا جس کے یہ عاشق نہ ہوں۔ اس عشقبازی سے کبوتر چھٹ جاتے تو سخت دشواری تھی۔ انواع و اقسام کے کبوتر شہر شہر بلکہ ولایتوں سے منگائے تھے۔ عبداللہ خاں اذبک کو لکھا اس نے کبوتران گرہ باز اور ان کے کبوتر باز ملک توران سے بھیجے۔ یہاں ان کی بڑی قدر ہوئی۔ مرزا عبدالرحیم خانخانان کو انہی دنوں میں فرمان لکھا ہے۔ اس میں بھی مضامین رنگین کے بہت کبوتر اڑائے ہیں اورایک ایک کبوتر کا نام بنام حال لکھا ہے۔ آئین اکبری میں جہاں اور کارخانوں کے آئین و ضوابط لکھے ہیں ۔ اس کے بھی لکھے ہیں۔ اور ایک کبوتر نامہ بھی لکھا گیا۔ شیخ ابوالفضل اکبر نامہ میں لکھتے ہیں ۔ ایک دن کبوتر اڑ رہے تھے۔ وہ بازیاں کرتے تھے۔ آپ تماشا شادیکھتے تھے۔ کہ ایک خاصہ کے کبوترپر بہری گری۔ انہوں نے للکار کر آواز دی خبر دار۔ بہری جھپٹا مارتے مارتے رک کر ہٹ گئی۔ اس کا قاعدہ ہے کہ اگر کبوتر کنوٹ کر کے نکل جاتا ہے۔ تو چکر مارتی ہے اور پھر آتی ہے۔ بار بار جھپٹے مارتی ہے اور آخر لے جاتی ہے مگر وہ پھر نہ آئی۔ اکبر کی شجاعت ذاتی اور بے حد دلاوری یہ بات راجگان ہند کے اصول سلطنت میں داخل تھی کہ راج کا فرمانروا اکثر خطر ناک اور جان جو کھوں کے کام کر کے خاص و عام کے دلوں میں ایک تاثیر پھیلائے جس سے وہ سمجھیں کر بے شک تائید غیبی اس کے ساتھ ہے اور اقبال اس طرح مددگار ہے کہ ہم میں سے یہ بات کسی کو نصیب نہیں۔ اور اسی واسطے اس کی عظمت خدا کی عظمت اور اس کی اطاعت اطاعت الہٰی کی پہلی سیڑھی ہے۔ اور یہی بات ہے کہ ہند و راجہ کو بھگو ان کا اوتارا اورمسلمان ظل اللہ (سایہ خدا) کہتے ہیں ۔ اکبر اس بات کو خوب سمجھ گیا تھا ۔ تیموری و چنگیزی لہو کی گرمی سے ہمت ۔ جرات ۔ جذبہ و جوش اور شوق ملک گیری جو اس کے لہو میں باقی تھا وہ خیالات کو اور بھی گرماتا رہتا تھا۔ بلکہ یہ جوش یا بابر کی طبیعت میں تھا یا اس میں کہ جب دریا کے کنارے پر پہنچتا تھا۔ خواہ مخواہ گھوڑا پانی میں ڈال دیتا تھا۔ جب وہ اس طرح دریا اترے تو نمک حلالوں میں کون ہے کہ جان نثاری کا دعوے رکھے اور اس سے آگے نہ ہو جائے۔ ہمایوں راحت پسند تھا۔ کہیں ایسا ہی بوجھ پڑا ہے جب وہ اس طرح جان پر کھیلا ہے۔ یلغاریں کر کے مہمیں کرنی۔ ہمت کے گھوڑے پر چڑھ کر آپ تلوار مار نی۔ قلعوں کے محاصرے کرنے ۔ سر نگیں لگانی۔ ادنے سپاہیوں کی طرح مورچے مورچے پر آپ پھرنا اکبری کا کام تھا۔ اس کے بعد جو ہوئے عیش و آرام کے بندے تھے۔ بندگان خدا سے عبادت وصول کرنے والے دربار بادشاہی کے رکھوالے اور پیٹ کے ماروں کے سرکٹوانے والے بنئے مہاجن تھے کہ باپ دادا کی گدی پر بیٹھے ہیں۔ یا پیرزادے کہ بزرگوں کی ہڈیاں بیچتے ہیں اور آرام سے زندگی کرتے ہیں۔ اکبر جب تک کابل میں تھا تو اونٹ سے بڑا کوئی جانو ر نظر نہ آتا تھا۔ اس لئے اسی پر چڑھتا تھا۔ دوڑاتا تھا لڑاتا تھا۔ کبھی کتوں سے کبھی تیرو کمان سے شکار کھیلتا تھا۔ اور نشانے لگاتا تھا۔ باز باشے اڑاتا تھا۔ جب ہمایوں ایران سے ہندوستان کو پھر ا اور کابل میں آرام سے بیٹھا۔ تو اکبر کی عمر پانچ برس سے کچھ زیادہ ہو گی۔ یہ بھی چچا کی قید سے چھٹا۔ اور سیرو شکار جو شاہزادوں کے شغل ہیں ان میں دل خوش کرنے لگا۔ ایک دن کتے لے کر شکار کو گیا۔ کوہستان کا ملک ہے ایک پہاڑ میں ہرن خرگوش وغیرہ شکار کے جانور بہت تھے۔ چاروں طرف نوکروں کو جما دیا کہ رستہ روکے کھڑے رہو۔ کوئی جانور نکلنے نہ پائے۔ اسے لڑکا سمجھ کر نوکروں نے بے پروائی کی ایک طرف سے جانور نکل گئے۔ اکبر بہت خفا ہوا۔ الٹا پھرا اور جن نوکروں نے غفل تکی تھی۔ انہیں سوائی کیساتھ تمام اردو میں تشہیر کیا (پھرایا) ہمایوں سن کر خوش ہوا۔ اور کہا شکر خدا کہ ابھی سے اس نونہال کی طبیعت میں سیاست شاہانہ اور ایجاد آئین کے اصول ہیں۔ جب 962ھ میں ہمایوں نے اکبر کو صوبہ پنجاب کا انتظام سپرد کر کے دلی سے روانہ کیا تو سرہند کے مقام میں حصار فیروزہ کی فوج آکر شامل ہوئی ان میں استاد عزیز سیستانی بھی تھا۔ اسے توپ اوربندوق کے کام میں کمال تھا۔ اور بادشاہ سے رومی خان کا خطاب حاصل کیا۔ 1 ؎ اس عہد میں اکثر توپ انداز روم سے آتے تھے۔ اسی واسطے بادشاہوں کے دربار سے رومی خاں خطاب پایاکرتے ۔ توپ وتفنگ کے کاروبار ممالک یورپ سے اول دکن میں آئے پھر ہندوستان میں پھیلے۔ تھا وہ بھی اکبر کے سلام کو آیا۔ اپنی نشانہ بازی اور تفنگ اندازی کے کمال میں اس خوبی سے دکھائے کہ اکبر کو بھی شوق ہو گیا۔ اور شکار کا عشق تو پہلے ہی تھا۔ یہ اس کا جزاعظم ہوا۔ چند روز میں ایسا مشاق ہو گیا۔ کہ بڑے بڑے گل چلے استاد کان پکڑنے لگے۔ چیتوں کا شوق جس طرح ہندوستان میں چیتوں سے شکار کھیلتے ہیں ۔ ایران و ترکستان میں اس کا رواج نہیں ۔ جب ہمایوں دوبارہ ہندوستان پر آیا۔ اکبر ساتھ تھا بارہ برس کی عمر تھی۔ سر ہند کے مقام پر سکندر خان افغان انبوہ درانبوہ افغانوں کی فوج کو لئے پڑا تھا۔ جنگ عظیم ہوئی اور ہزاروں کا کھیت پڑا۔ افغان بھاگے ۔ خزانے ہزار در ہزار اور اموال بے شمار فوج بادشاہی کے ہاتھ آئے۔ دلی بیگ ذوالقدر (بیرم خاں کا بہنوئی حسین قلی خاں خان جہاں کا باپ ) سکندر کے چیتا خانے میں سے ایک چیتا لایا۔ اس کا نام فتح باز تھا۔ دوندو اس کا چیتا بان تھا۔ دوندو نے اپنے کرتب اور چیتے کے ہنر اس خوبی سے دکھائے کہ اکبر عاشق ہو گیا۔ اور اسی دن سے چیتوں کا شوق ہوا۔ سیکڑوں چیتے جمع کئے۔ ایسے سدھے ہوئے تھے کہ استاروں پر کام دیتے تھے۔ اور دیکھنے والے حیران رہتے تھے۔ کمخواب و مخمل کی جھولیں اوڑھے ۔ گلے میں سونے کی زنجیریں ۔ آنکھوں پر زر دوزی چشمے چڑھے۔ بہلوں میں سوار چلتے تھے۔ بیلوں کا سنگار بھی ان سے کچھ کم نہ تھا۔ سنہری روپہلی سنگوٹیاں چڑھی۔ زر دوزی تاج سر پر۔ زریں و زرتار جھولیں جھم جھم کرتی ۔ غرض کہ عجب بہار کا عالم تھا۔ ایک دفعہ سفر پنجاب میں چلے جاتے تھے۔ کہ ایک ہر ن نمودار ہوا۔ حکم ہوا کہ اس پر چیتا چھوڑو ۔ چھوڑا ۔ ہرن بھاگا۔ ایک گڑھا بیچ میں آگیا۔ ہرن نے چاروں پتلیاں جھاڑ کر جست کی اور صاف اڑ گیا۔ چیتا بھی ساتھ ہی اڑا۔ اور ہوا میں جادبو چا۔ جیسے کبوتر اور شہباز عجب طرح سے اوپر تلے گتھ متھ ہوتے ہوئے گرے۔ سواری کا انبوہ تھا۔ دلوں سے واہ واکا ولولہ نکلا۔ عمدہ عمدہ چیتے آتے تھے۔ ان میں سے انتخاب ہوتے تھے اور اعلیٰ سے اعلیٰ خاصہ میں داخل ہوتے تھے۔ عجیب اتفاق یہ ہے کہ ان کی تعداد کبھی ہزار تک نہ پہنچی۔ جب ایک دو کی کسر رہتی کچھ نہ کچھ عارضہ ایسا ہوتا تھا کہ چند چیتے مر جاتے تھے۔ سب حیران تھے۔ اوراکبر بھی ہمیشہ متعجب رہتا تھا۔ ہاتھی ہاتھی کا بڑا شوق تھا۔ اور یہ شوق فقط شاہوں اور شہزادوں کا شوق نہ تھا۔ ہاتھیوں کے سبب سے اکثر مہمیں قائم ہوگئیں۔ جن میں لاکھوں کروڑوں روپے صرف ہوئے اورہزاروں سر کٹ گئے۔ خود ہاتھی پر بہت خوب بیٹھتا تھا۔ سر شور ۔ مست ۔ آدم کش ہاتھی کہ بڑے بڑے مہاوت ان کے پاس جاتے ہویء ڈریں۔ وہ بے لاگ جاتا ۔ برابر گیا ۔ کبھی دانت ۔ کبھی کا ن پکڑا اور گردن پر نظر آتا۔ ہاتھی سے ہاتھی پر اچھل جاتا تھا۔ اور اس کی گردن پر بیٹھ کر بے تکلف ہنستا کھیلتا لڑاتا ۔ بھگاتا ۔ گدی ۔ جھول کچھ نہیں ۔ فقط کلاوہ میں پاؤں ہے اور گردن پر جما ہوا ہے۔ کبھی درخست پر بیٹھ جاتا ۔ جب ہاتھی برابر آیا۔ جھٹ اچھلا اور گردن یا پشت پر پھر وہ بہتری جھر جھریاں لیتا ہے۔ سر دھنتا ہے۔کان پھٹ پھٹاتا ہے۔ یہ کب ہلتے ہیں۔ ایک دفعہ اس کا پیارا ہاتھی مستی کے عالم میں جھپٹا اور فیلخانہ سے نکل کر بازاروں میں ہتیائی کرنے لگا۔ شہر میں کہرام مچ گیا۔ اکبر سنتے ہی قلعہ سے نکلا اور پتا لیتا ہوا چلا کہ کدھر ہے۔ ایک بازار میں پہنچ کر غل سنا کہ وہ سامنے سے آتا ہے۔ اور خلقت خدا کی بھاگی چلی آتی ہے۔ یہ ادھر ادھر دیکھ کر ایک کوٹھے پر چڑھ گیا ۔ اور اس کے چھجے پر آکر کھڑا ہوا۔ جونہی ہاتھی برابر آیا جھٹ لک کر اس کی گردن پر ۔ دیکھنے والے بے اختیار چلائے۔ آہا ہا ہا ۔ پھر کیا تھا ۔ دیو قابو میں آگیا۔ یہ باتیں چودہ پندرہ برس کی عمر کی ہیں۔ لکنہ ہاتھی بد مستی و بدخونی میں بد نام عالم تھا۔ ایک دن (دہلی میں) اس پر سوار ہوا اور ایک جنگجو خونریز اسی کے جوڑ کا ہاتھی منگا کر میدان میں لڑانے لگا۔ لکنہ نے بھگا دیا۔ اور بھاگتے کے پیچھے دوڑا۔ ایک تو مست دوسرے فتحیابی کا جوش ۔ لکنہ اپنے حریف کے پیچھے دوڑا جاتا تھا۔ ایک تنگ اورگرے گڑھے میں پاؤں جا پڑا۔ پاؤں بھی ایک ستون کا ستون تھا۔ مستی کی جھونجھل میں بپھر بپھر کر جو حملے کئے تو بہنیہ بھی پٹھے پر سے گر پڑا۔ اکبر اول سنبھلا ۔ اخیر کو اس کے آسن بھی گردن سے اکھڑے ۔ مگر پاؤں کلاں وہ میں اٹکارہ گیا۔ جاں نثار نمک حلال گھبرا گئے۔ اور عجب غلغلہ پڑا گای۔ یہ اس پر سے اترے اور جب ہاتھی نے اپنا پاؤں باہر نکال لیا تو پھر اسی پر سوار ہو کرہنستے کھیلتے چلے گئے۔ وہ زمانہ ہی اور تھا۔ خان خاناں زندہ تھے۔ انہوں نے صدقے اتارے ۔ روپے اشرفیاں نثار کیں۔ اور خدا جانے کیا کیا کچھ کیا۔ خاصہ کے ہاتھیوں میں ایک ہاتھی کا ہوائی نام تھا کہ بد ہوائی اور شرارت میں باردت کا ڈھیر تھا۔ ایک موقع پر کہ وہ مست ہو رہا تھا۔ میدان چوگان بازی میں اسے منگایا۔ آپ سوار ہوئے۔ ادھر ادھر دوڑاتے پھرے۔ بٹھایا اٹھایا سلام کروایا۔ رن باگھ ایک اور ہاتھی تھا اسکی بد مستی اور سر شوری کا بھی بڑا غل تھا۔ اسے بھی وہیں طلب فرمایاں ۔ اور آپ ہوائی کو لے کر سامنے ہوئے۔ ہوا خواہوں کے دل بیقرار ہو گئے۔ جب دو نو دیو ٹکر مارتے تھے پہاڑ ٹکراتے تھے۔ اور دریا جھکولے کھاتے تھے۔ آپ شیر کی طرح اوپر بیٹھے ہوئے تھے۔ کبھی سر پر تھے اور کبھی پشت پر ۔ جاں نثاروں میں کوئی بول نہ سکتا تھا۔ آخر اتکہ خاں کو بلا کر لائے کہ سب کا بزرگ تھا۔ بڈھا بچارہ ہانپتا دوڑا آیا۔ حالت دیکھ کر حیران رہ گیا۔ داد خواہوں کی طرح سر ننگا کر لیا پاس گیا اور مظلوم فریاد یوں کی طرح دونو ہاتھ اٹھا کر چیخیں مارنے لگا۔ شاہم ابرائے خدا بنجشیہ للہ پر حال مردم رحم آرید ۔ بادشاہم ! جان بندگاں مے رود۔ چاروں طرف خلقت کا ہجوم تھا ۔ اکبر کی نظر اتکہ خاں پر پڑی۔ اسی عالم میں آواز دی۔ چرا بیقراری مے کنید۔ اگر شمار آرام نے نشنید ماخود را ازپشت فیل مے اندازیم ۔ وہ محبت کا مارا ہٹ گیا۔ آخر رن باگھ بھاگا۔ اور ہوائی آگ بگولا ہو کر پیچھے پڑا۔ دونوں ہاتھی آگادیکھتے تھے۔ نہ پیچھا۔ گڑھا نہ ٹیلا۔ جو سامنے آتا لہ نگھتے پھلانگتے چلا جاتے تھے۔ جمنا کا پل سامنے آیا۔ اس کی بھی پروانہ کی۔ دو پہاڑوں کا بوجھ کشتیاں دیتی تھیں اور اچھلتی تھیں۔ خلقت کناروں پر جمع تھی اور دلوں کا عجب عالم تھا۔ جان نثار وریال میں کود پڑے۔ پل کے دونو طرف تیرتے چلے جاتے تھے۔ خدا خدا کر کے ہاتھی پار ہوئے۔ بارے رن باگھ ذرا تھما۔ ہوائی کے زور شور بھی ڈھیلے پڑے اس وقت سب کے دل ٹھکانے ہوئے جہانگیر نے اس سر گذشت کو اپنی تو زوک میں درج کرکے اتنا زیادہ لکھا ہے۔ ’’ میرے والد سے مجھ سے خود فرمایا کہ ایک دن ہوائی پر سوار ہو کر میں نے ایسی حالت بنائی۔ گویانشے میں ہوں گا پھر یہی سارا ماجرا تحریر کیا۔ اور اکبر کی زبانی یہ بھی لکھا ہے کہ ’’ اگر میں چاہتا تو ہوائی کو ذرا سے اشارے میں روک لیتا مگر اول سر خوشی کا عالم ظاہر کر چکا تھا۔ اس لئے پل پر آکر سنبھلنا مناسب نہ سمجھا کہ لوگ کہینگے بناوٹ تھی۔ یا یہ سمجھیں گے۔ کہ سر خوشی تو تھی مگر پل اور دریا دیکھ کر نشے ہرن ہو ئے اور ایسی باتیں بادشاہوں کے باب میں نازیباں ہیں‘‘۔ اکثر شیر ببر شکار گاہوں یا عالم سفر میں اس کے سامنے آئے۔ اور اس نے تنہا مارے۔ کبھی تیر ۔ کبھی تفنگ ۔ کبھی تلوار سے۔ بلکہ اکثر آواز دے دی ہے۔ کہ خبردار کوئی اور آگے نہ بڑھے۔ ایک دن فوج کی موجودات لے رہا تھا۔ دوراجپوت نوکری کے لئے سامنے آئے۔ اکبر کی زبان سے نکلا ۔ کچھ بہادری دکھاؤ گے ؟ ان میں سے ایک نے اپنی بوچھی کی بوڑی اتار کر پھینک دی اور دوسرے کی برچھی کی بھال اس پر چڑھائی ۔ تلواریں سونت لیں۔ برچھی کی ایناں سینوں پر لیں اورگ ھوڑوں کو ایڑیں لگائیں۔ بے خبر گھوڑے چمک کر آگے بڑھے۔ دونو بہادر چھد کر بیچ میں آن ملے۔ اس نے اس کے تلوار کا ہاتھ مارا ۔ اس نے اس کے ۔ دونو وہیں کٹ کر ڈھیر ہو گئے۔ اور دیکھنے والے حیران رہ گئے۔ اکبر کو بھی جوش آیا مگر کسی کو اپنے سامنے رکھنا مناسب نہ سمجھا ۔ حکم دیا کہ تلوار کا قبضہ دیوار میں خوب مضبوط گاڑو۔ پھل باہر نکلا رہے ۔ پھر تلوار کی نوک پر سینہ رکھ کر چاہتا تھا کہ آگے کو حملہ کرے۔ مان سنگھ دوڑ کر لپٹ گیا۔ اکبر بڑے جھنجھلاے۔ اسے اٹھا کر زمین پر دے مارا کہ جوش خدا داد کو ظاہر نہ ہونے دیا۔ انگوٹھے کی گھاٹی میں زخم بھی آگیا تھا۔ مظفر سلطان نے زخمی ہاتھ مروڑ کر مان سنگھ کو چھڑایا۔ اس کشتم کشتا میں زخم زیادہ ہو گیا تھا۔ مگر علاج سے جلد اچھا ہوگیا۔ ان ہی دنوں میں ایک دفعہ کسی خلاف طبع بات پر غصے ہو کر سواری کو گھوڑا مانگا ۔ اور حکم دیا کہ سائیس خدمتگار کوئی ساتھ نہ رہے۔ خاصہ کے گھوڑوں میں ایک سرنگ گھوڑا تھا ایرانی کہ خضر خواجہ خاں نے پیش کیاتھا (خالو تھے) گھوڑا نہایت خوبصورت اور خوش ادا تھا مگرجیسا ان اوصاف میں بے نظیر تھا۔ ویسا ہی سر کش سر شور اور شر یر تھا۔ چھٹ جاتا تھا تو کسی کو پاس نہ آتے دیتا تھا۔ کوئی چابکسوار اس پر سواری کی جرات نہ کر سکتا تھا۔ بادشاہ خود ہی اس پر سوار ہوتے تھے۔ اس دن غصے میں بھرے ہوئے تھے۔ اسی پر سوار ہو کر نکل گئے۔ رستے میں خدا جانے کیا خیال آیا کہ اتر پڑے اور درگاہ الہی کی طرف متوجہ ہوئے۔ گھوڑا اپنی عادت کے بموجب بھاگا۔ اورخدا جانے کہاں سے کہاں نکل گیا۔ یہ اپنے عالم میں غرق۔ اس کا خیال بھی نہیں۔ جب حالت سے ہوش میں آئے۔ تو دائیں بائیں دیکھا۔ وہ کہاں ! نہ کوئی اہل خدمت پاس نہ اور گھوڑا ساتھ ۔ کھڑے سوچ رہے تھے۔ اتنے میں دیکھتے ہیں۔ وہی وفا دار گھوڑا سامنے سے دوڑا چلا آتا ہے۔ پاس آیا اور سامنے سر جھکا کر کھڑا ہو گیا۔ جیسے کوئی کہتا ہے کہ خانہ زاد حاضر ہے۔ سوار ہو جایئے۔ اکبر بھی حیران رہ گیا۔ اور سوار ہو کر لشکر میں آیا۔ اگرچہ بادشاہوں کو ہرملک میں اور ہر وقت میں جان کا ڈر لگا رہتا ہے۔ مگر ایشائی ملکوں میں جہاں شخصی سلطنت کا سکہ چلتا ہے۔ وہاں زیادہ تر خطر ہوتا ہے۔ خصوصاً اگلے وقتوں میں کہ نہ سلطنت کا کوئی اصول یا قانون تھا۔ نہ لوگوں کے خیالات کا کوئی قاعدہ تھا۔ باوجود اس کے اکبر کسی بات کی پروانہ کرتا تھا۔ اسے ملک کے حال سے باخبر رہنے اور لوگوں کو آرام و آسائش سے رکھنے کا بڑا خیال تھا۔ ہمیشہ اسی فکر میں لگا رہتا تھا۔ ابوالفضل سے خود ایک دن بیان کیا کہ ایک رات آگرہ کے باہر چھڑیوں کا میلہ تھا۔ میں بھیس بدل کر وہاں گیا کہدیکھوں لوگ کس حال میں ہیں ۔ اور کیا کرتے ہیں ۔ ایک بازاری سا آدمی تھا۔ اس نے مجھے پہچان کر اپنے ساتھیوں سے کہا دیکھنا بادشاہ جاتا ہے ۔ وہ برابر ہی تھا میں نے بھی سن لیا ۔ جھٹ آنکھ کو بھینگا کر کے منہ ٹیڑھا کر لیا۔ اور اسی طرح بے پروائی سے چلا گیا ان میں سے ایک نے بڑھ کر دیکھا اور غور کر کے کہا۔ وہ نہیں۔ بھلا اکبر بادشاہ کہاں اس کی وہ صورت کہا ں ! یہ تو کوئی ٹڑھموا ہے۔ اور بھینگا بھی ہے۔ میں آہستہ آہستہ اس بھیڑ سے نکلا۔ اور اپنے تکلیف کو برطرف کر کے قلعہ کی راہ لی۔ اژدہا مارنے کا حال آگے آئیگا۔ اکبر نے اپنے غنیموں پر بڑے زور شور کی یلغاریں اور جان جو کھوں کے ساتھ دھاوے کئے اور تھوڑی جمعیت سے ہزاروں کے لشکر گردباد کر دیئے لیکن ایک دھاوا اس نے ایسے موقع پر کیا جس کا اس سلسلہ میں لکھنا بھی ناموزوں نہیں ہے۔ موٹہ راجہ کی بیٹی راجہ جیمل سے بیاہی تھی۔ وہ جان نثار اکبر کا مزاج شناس تھا۔ 991ھ میں کسی کا ر ضروری کے لئے اسے بنگالہ بھیجا تھا۔ حکم کا بندہ گھوڑے کی ڈاک پر بیٹھ کردوڑا۔ تقدیر کی بات کہ جو سا کے گھاٹ پر تھکن بٹھایا ۔ اور تھوڑی ہی دیر میں لٹا کر بستر مرگ پر سلا دیا ۔ بادشاہ کو خبر ہوئی سن کر بہت افسوس ہوا محل میں آئے تو معلوم ہوا کہ اس کا بیٹا اور چند اور جاہل راجپوت اپنی جہالت کے زور سے رانی کو زبردستی ستی کرتے ہیں۔ خدا ترس بادشاہ کو ترس آیا۔ اور تڑپ کر اٹھ کھڑا ہوا۔ سمجھ اکہ ممکن ہے کسی اور امیر کو بھیج دوں ۔ مگر اس کے سینے میں اپنا دل اور دل میں یہ درد کیونکر ڈال دوں ۔ فوراً گھوڑے پر بیٹھا اور ہوا کہ پر لگا کر اڑا۔ اکبر بادشاہ کادفعتہ تختگاہ سے غائب ہو جانا آسان بات نہ تھی۔ شہر میں شور اور عالم میں شور ش مچ گئی۔ جا بجا ہتیار بتدی ہونے لگی۔ اور اس دوڑا دوڑ میں اعرا اور اہل خدمت میں سے کوئی ساتھ نبھ سکے ؟ چند جاں نثار اور کئی خدمتگاررکاب میں رہے اور دفعتہ محل واردات پر جا کر کھڑے ہوئے ۔ اکبر کو شہر کے قریب کسی جگہ ٹھیرایا۔ راجہ جگناتھ اور راجہ رائسال گھوڑے مار کر آگے بڑھ گئے تھے ۔انہوں نے جا کر خبر دی کہ مہابلی آگئے۔ ضدی جاہلوں کو روکا اورحضور میں لا کر حاضر کر دیا۔ بادشاہ نے دیکھا کہ اپنے کئے پرپشیمان ہیں۔ اس لئے جاں بخشی کی لیکن حکم دیا کہ چند روز ادبخانہ زندان میں رہیں۔ رانی کی جان کے ساتھ ان کی بھی جان بچ گئی۔ اسی دن وہاں سے پھرا۔ جب فتح پور میں پہنچا تو سب کے دم میں دم آیا۔ 974ھ میں تیغ آفتاب مشرق پر چمک رہی تھی۔ اکبر خان زماں کی مہم میں مصروف تھا۔ محمد حکیم مرزا کو بد صلاح مصاحبوں نے صلاح بتائی کہ آپ بھی آخر ہمایوں بادشاہ کے بیٹے ہیں اور ملک کے وارث ہیں پنجاب تک ملک آپ کار ہے۔ وہ بھولا بھالا سادہ شہزادہ ان کے کہنے میں آکر لاہور میں آگیا۔ اکبر نے ادھر کی حرارت کو عفو تقصیر کے شربت اور نذرانہ جرمانہ کی سکنجبین سے فرو کیا۔ امرا کو فوجیں دے کر ادھر بھیجا اور فوراً سمند ہمت پر سوار ہوا۔ محمد حکیم آمد آمد کی ہوا میں اڑ کر کابل پہنچے۔ اکبر نے لاہور میں آکر مقام کیا اور شکار قمر غہ کا حکم دیا۔ سردار منصبدار قراول اور شکاری دوڑے اور جلد حکم کی تعمیل کی۔ قمر غہ یہ ایران و توران کے بادشاہوں کا قدیمی شوق تھا۔ ایک فراخ جنگل کے گرد بڑے بڑے لکڑوں کو دیوار سے احاطہ باندھتے تھے۔ کہیں ٹیلوں کی قدرتی قطاروں سے ۔ کہیں بنائی ہوئی دیواروں سے مدد لیتے تھے۔ تیس تیس چالیس چالیس کوس سے جانوروں کو گھیر کر لاتے تھے۔ رنگ برنگ کے جانور درندے چرندے۔ پرندے ان میں آجاتے تھے۔ اور نکاس کے رستے بالکل بند کر دیتے تھے۔ بیچ میں کئی بلند مقام بادشاہ اور شہزادوں کے بیٹھنے کے لئے بناتے تھے۔ بادشاہ سوار ہو کر خود شکار مارتا تھا۔ پھر شہزادے ۔ پھر اجازت ہو جاتی تھی۔ خاص خاص امیر بھی شامل سوار ہو کر خود شکار مارتا تھا۔ پھر شہزادے ۔ پھر اجازت ہو جاتی تھی خاص خاص امیر بھی شامل ہو جاتے تھے۔ روز بروز دائرے کو سیکٹر تے اورجانوروں کو سمیٹتے لاتے تھے۔ اخیر دن جبکہ تھوڑی جگہ میں جانوروں کی بہتات ہو جاتی تھی۔ تو ان کی دھکا پیل اور ریل دھکیل۔ گھبراہٹ اور اضطراب سے بولانا اور دوڑنا ۔ چلانا ۔ بھاگنا ۔ کودنا ۔ ترارے بھرنا ۔ اچھلنا اور گرپڑنا۔ شکار بازوں کو طرفہ تماشا اور اہل درد کے دلوں کا عجب عالم ہوتا تھا۔ اسی کو شکار قمر غہ اور شکار جرگہ بھی کہتے تھے۔ اس موقع پر 40 کوس کے دورے سے جانور گھیر کر لائے اور لاہور سے 5 کوس پر شکار مذکور کا گھیرا ڈالا۔ خوب شکار ہوئے۔ اور نیک شگون نظر آئے۔ یہاں کی صید افگنی سے دل خوش کر کے کابل کے شکار پر گھوڑے اٹھائے۔ راوی کے کنارے پر آکر اپنے لباس اور ترکیوں تازیوں کے منہ سے لگا میں اتار ڈالیں ۔ خود امرا اور مصاحبوں سمیت دریا سے پیر کر پار ہوئے۔ اقبال اکبری کی دستگیری سے سب صحیح سلامت اتر گئے۔ الا خوشخبر خاں کہ جس طرح خوشخبری کے لانے میں پیش قدم تھا۔ یہاں پیش روی کر کے کنارہ عدم پر جانکلا۔ اس عجیب شکار گاہ کی ایک پرانی تصویر ہاتھ آئی۔ ناظرین کے معائنہ کے لئے آئینہ دکھاتا ہوں۔ سواری کی سیر سلطنت کی شکوہ اور دولت وحشمت کے انبوہ ۔ جشن سالگرہ اور جشن جلوس پر بہار دکھاتے تھے۔ بارگاہ جلال آراستہ ۔ تخت مرصع زریں وسیمیں چبوترے پر جلوہ گر۔ تاج اقبال میں ہما کا پر۔ چتر جواہر نگار سر پر ۔ زربفت کا شامیانہ موتیوں کے جھار ۔ سونے روپے کے استادوں پرتنا۔ ابر یشمیں قالینوں کے فرش۔ درو دیوار پر شالہائے کشمیری ۔ مخملہائے رومی ۔ اطلسمائے چینی لہراتے۔ امرادست بستہ دو طرفہ حاضر چوبدار۔ خاص بردار اہتمام کرتے پھرتے ہیں۔ ان کے زرق برق لباس۔ سونے روپے کے نیزوں اور عصاؤں پر باناقی اور سقر لاطی غلاف طلسمات کی پتلیاں تھیں خدمت کرتی پھرتی تھیں۔ شادی و مبارکبادی کی چہل پہل اور عیش و عشرت کی ریل پیل ہوتی تھی۔ بارگاہ کے دونو طرف شہزادوں اور امیروں کے خیمے۔ باہر دونو طرف سواروں اور پیادوں کی قطار ۔ بادشاہ دو منزل راوٹی (جھرو کے) میں آبیٹھتے۔ اس کا زرد وزی خیمہ۔ سایہ اقبال کا شامیانہ ۔ شہزادے سامرا ۔ سلاطین آتے۔ انہیں خلعت و انعام ملتے۔ منصب بڑھتے۔ روپے اشرفیاں سونے چاندی کے پھول اولوں کی طرح برستے۔ یکایک حکم ہوتا کہ ہاں نور بہتے۔ فراشوں اور خواصوں نے منوں بادلا اور مقیش کتر کر جھولیوں میں بھر لیا ہے اور صندلیوں پر چڑھ کر اڑا رہے ہیں۔ نقار خانے میں نوبت جھڑ رہی ہے۔ ہندوستان ۔ عربی ۔ ایرانی ۔ تورانی ۔فرنگی باجے بجتے ہیں ۔ غرض گھما گھمی تھی اور ناز و نعمت کے لئے صلائے عام تھا۔ اب دولھا کے سامنے سے عروس دولت کی برات گزرتی ہے۔ نشان کا ہاتھی آگے۔ اس کے بعد اور ہاتھیوں کی قطار ۔ پھر ماہی مراتب اور اور نشانوں کے ہاتھی جنگی ہاتھیوں پر فولادی پاکھریں۔ پیشانیوں پر ڈھالیں۔ بعض کی مستکوں اور دیوزادی نقش و نگار۔ بعض کے چہروں پر گینڈوں ۔ ارنے بھینسوں اور شیروں کی کھالیں کلوں سمیت چڑھی ہوئی۔ ہیبت ناک صورت ڈراونی مورت۔ سونڈوں میں گرز ۔ برچھیاں تلواریں لئے ۔ سانڈنیوں کا سلسلہ جن کے سوسوکوں کے دم ۔ گردن کھچی ۔ سینے تنے۔ جیسے لقا کبوتر۔ پھر گھوڑوں کی قطاریں ۔ عربی ۔ ایرانی ۔ ترکی ۔ ہندوستانی آرستہ پیراستہ ساز ویراق میں غرق۔ چالاکی میں برق۔ اچھلتے ۔ مچلتے ۔ کھیلتے ۔ کودتے ۔ شوخیاں کرتے چلے جاتے تھے۔ پھر شیر ۔ پلنگ ۔ چیتے ۔ گینڈے بہتیرے جنگل کے جانور سدھے سدھائے شائستہ ۔ چیتوں کے چھکڑوں پر نقش و نگار ۔ گل گلزار ۔ آنکھوں پر زر دوزی غلاف وہ اور ان کے بیل کشمیری شالیں ۔ مخمل و زربفت کی جھولیں اوڑھے۔ بیلوں کی سروں پر کلغیاں اور تاج ۔ سینگ مصوروں کی قلمکاری سے قلمدان کشمیر ۔پاؤں میں جھانجن ۔ گلے میں گھنگرو ۔ چھم چھم کرتے چلے جاتے تھے۔ شکاری کتے کو شیر سے منہ نہ پھرائیں۔ شکار کی بوپر تپال سے پتا نکال لائیں۔ پھر خاصے کے ہاتھی آتے۔ ان کی زرق و برق کا عالم اللہ اللہ ۔ آنکھوں کو چکا چوندی آتی تھی۔ یہ خاص الخاص چاہیتے تھے۔ ان کی جھلا بور جھولیں۔ موتی اور جواہرٹنکے۔ زیوروں میں لدے پھندے۔ قوی ہیکل سینوں پر سونے کی ہیکلیں لٹکتی۔ سونے چاندی کی زنجیریں سونڈوں میں ہلاتے۔ جھومتے جھامتے ۔ خوش مستیاں کرتے چلے جاتے تھے۔ سواروں کے دستے پیادوں کے قشون (پلٹنیں) سپاہ ترک کے ترکی و تاتاری لباس۔ وہی جنگ کے سلاح ۔ ہندوستانی فوجوں کا اپنا اپنا بانا۔ کیسری دگلے۔ سورما راجپوت ہتیاروں میں اوپچی بنے۔ وکھنیوں کے دکھنی سامان ۔ت و نچانے آتشخانے ان کی فرنگی و رومی وردیاں سب اپنے اپنے باجے بجاتے۔ راجپوت شہنائیوں میں کڑکے گاتے۔ اپنے نشان لہراتے چلے جاتے ھتے۔ امراو سردار اپنی اپنی سپاہ کو انتظام سے لئے جاتے تھے۔ جب سامنے پہنچتے۔ سلامی بجا لاتے۔ دمامے پر ڈنکا پڑتا۔ سینوں میں دل ہل جاتے۔ اس میں حکمت یہ تھی ۔ کہ فوج اور لوازمات فوج اور ہرشے کی موجودات ہو جائے۔ کوتاہی ہو تو پوری ہو جائے۔ قباحت ہو تو اصلاع میں آئے۔ ایجاد مناسب اپنی جگہ پائے۔ اکبر کی تصویر اکبرکی تصویریں جا بجا موجود ہیں مگر چونکہ سب میں اختلاف ہے اس لئے کسی پر اعتبار نہیں میں نے بڑی کوشش سے چند تصویریں مہاراجہ جے پور کے پوتھی خانہ سے حاصل کیں۔ ان میں جو اکبر کی تصویر ملی۔ وہ سب سے زیادہ معتبر سمجھتا ہوں۔ اور اسی کی نقل سے اس مرقع کا تاج سر کرتا ہوں۔ لیکن یہاں اس تصویر کو جلوہ دیتا ہوں ۔ جو کہ جہانگیر نے اپنی توزک میں عبارت و الفاظ سے کھینچی ہے۔ حلیہ مبارک ان کا یہ تھا کہ بلند بالا۔ میانہ قد ۔ گندمی رنگ ۔ آنکھیں اور بھویں سیاہ ۔ گورہ پن نے صورت کو خنک نہیں کیا تھا۔ نمکینی زیادہ تھی۔ شیر اندام ۔ سینہ کشادہ چھاتا ابھرا ہوا۔ دست و بازو لمبے۔ اسے بڑی دولت و اقبال کا نشان سمجھتے تھے۔ آواز بلند تھی۔ گفتگو میں لذت اور قدرتی نمکینی تھی۔ اور سج دھج میں عام لوگوں کو ان سے کچھ مناسبت نہ تھی۔ شکوہ خداداد ان کے صورت حال سے نمودار تھی۔ سفر میں بارگاہ کا کیا نقشہ تھا جب دورہ کا سفر یا شکار کا لطف منظور ہوتا تھا تو مختصر لشکر اور ضروری شکوہ سلطنت کے اسباب ساتھ لئے جاتے تھے۔ لیکن چار دانگ ہندوستان کا شہنشاہ 44 لاکھ سپہ کا سپہ سالار اس کا اختصار بھی ایک عالم کا بہلاؤ تھا۔ آئین اکبری میں جو کچھ لکھا ہے۔ آ ج کے لوگوں کو مبالغہ نظر آتا ہے۔ مگر یورپ کے سیاح ہوا جو اس وقت یہاں آئے۔ ان کے بیان سے بھی حالات مذکور ہ کی تصدیق ہوتی ہے۔ بارگاہ کی شان و شکوہ کا غذی سجاوٹ میں کب آسکتی ہے۔ شکار میں اور پاس کے سفر میں جو انتظام ہوتا تھا۔ اس کا نقشہ کھینچتا ہوں۔ گلال بار۔ یہ چوبی سرا پردہ خرگاہ کی وضع کا ہوتا تھا۔ تسموں سے مضبوطی کی جاتی تھی۔ سرخ مخمل ۔ بانات ۔ قالینوں سے سجاتے تھے۔ گرد عمدہ احاطہ ایک قلعہ تھا۔ اس میں مضبوط دروازہ ۔ قفل کنجی سے کھلتا تھا ۔ سو گز سے سو گز یا زیادہ ۔ حضور کا ایجاد ہے۔ اس کے شرقی کنارے پر بارگاہ ۔ بیچ کے استادوں پر دو کڑیاں ۔ 54 کمروں میں تقسیم ۔ ہر ایک کا 24 گز طول۔ 14 گز عرض ۔ 10 ہزار آدمی پر سایہ ڈالتی تھی۔ ہزار پھر تیلے قراش ایک ہفتے میں سجاتے تھے۔ چرخیاں ۔ پہئے وغیرہ جرثقیل کے اوزار زور لگاتے تھے۔ لوہے کی چادریں اسے مضبوط کرتی تھیں۔ فقط سادی بارگاہ جس میں مخمل زرباف ۔ کمخواب ۔ زربفت کچھ نہ لگائیں۔ 10 ہزار کی لاگت میں کھڑی ہوتی تھی۔ اور کبھی اس سے بھی زیادہ بوجھ دیتی تھی۔ بیچ میں چوبیس راوٹی 10ستونوں پر کھڑی ہوتی تھی۔ ستون تھوڑے تھوڑے زمین میں گڑے ہوئے۔ سب باہم برابر مگر دو اونچے۔ ان پر ایک کڑی۔ اوپر اور نیچے داسہ مضبوطی کرتا تھا۔ اس پر کئی کڑیاں ۔ ان پر لوہے کی چادریں۔ کہ نرمادگی انہیں وصل کرتی تھی۔ دیواریں اور چھتیں نرسلوں اورب انس کی کھپچیوں سے بنی ہوئںی۔ دروازے دویا ایک ۔ نیچے کے داسہ کے برابر چبوترہ۔ اندر زربفت و مخمل سجاتے تھے۔ باہر بانات سلطانی ۔ ابریشمین نواڑیں اس کی کمر مضبوط کرتی تھیں گرد اور سرا پردے۔ اس سے ملا ہوا ایک چوبیں محل دو منزل 18 ستون اسے سر پر لئے کھڑے رہتے تھے ۔ چھ چھ گز بلند ۔ چھت تختہ پوش۔ اس پر چوگزے ستون ۔ نرمادگیوں سے وصل ہو کر بالا خانہ سجاتے تھے۔ اندر باہر اسی طرح سے سنگار کرتے تھے۔ لڑائیوں میں اس کا پہلو شبستان اقبال سے ملا رہتا تھا۔ اسی میں عبادت الہٰی کرتے تھے۔ یہ پاک مکان ایک صاحبدل تھا۔ ادھر کا رخ خلوتخانہ وحدت پر ۔ ادھر کانگار خانہ کثرت پر ۔ آفتاب کی عظمت بھی اسی پر بیٹھ کر ہوتی تھی۔ پھر اول حرم سرا کی بیبیاں دولت دیدار حاصل کرتی تھیں۔ پھر باہر والے حاضر ہو کر سعادت کے ذخیرہ سمیٹتے تھے۔ دوروں کے سفر میں ملازمت بھی یہیں تھی۔ اس کا نام دوآشیانہ منزل تھا اور اسی کو جھرکہ بھی کہتے تھے۔ زمیں دوز طرح طرح کے انداز پر ہوتے تھے۔ ایک کڑی بیچ میں یادو۔ بیچ میں پردے ڈال کر الگ الگ گھر کر دیتے تھے۔ عجائبی 9شامیا نے چار چار ستونوں پر ملا کر کھڑے کرتے تھے۔ 5 چوگوشے ۔ 4 مخروطی اور یک لخت بھی ہوتے تھے۔ ایک ایک کڑی بیچ میں۔ منڈل 5 شامیا نے ملے ہوئے چار چار ستو نوں پر تانتے تھے۔ کبھی گرد کے چار کو لٹکا دیتے تھے تو خلوتخانہ ہو جاتا تھا۔ کبھی ایک طرف کبھی چاروں طرفیں کھول کر جی توش کرتے تھے۔ اٹھ کھنبہ 17شامیا نے جدا اور ملے ہوئے سجاتے تھے۔ آٹھ آٹھ ستونوں پر۔ خرگاہ شیخ ابوالفضل کہتے ہیں مختلف وضع کی ہوتی ہیں یک دری اور دودری۔ بندہ آزاد کہتاہے۔ اب تک بھی تمام تر کستان میں صحرا نشینوں کے گھر یہی ہیں۔ بیدہ وغیرہ لچکدار درختوں کی موٹی اور پتلی پتلی ٹہنیاں سکھاتے ہیں ۔ اور چھوٹی بڑی موقع موقع سے کاٹ کر ایک مدور ٹٹی کھڑی کرتے ہیں۔ بلند قدم آدم ۔ اس پر ویسی ہی موزوں اور متناسب لکڑیوں سے بنگلہ چھاتے ہیں۔ اوپر موٹے موٹے صاف۔ عمدہ اور خوشرنگ نمدے منڈھتے ہیں۔ اندر بھی دیواروں پر گلکاری کے نمدے اور قالین سجاتے ہیں اور ان کی پٹیوں سے خاشئے چڑھاتے ہیں۔ یہ سب انہی کی دستکاری ہوتی ہے۔ چوٹی پر گز بھر مدور روشندان کھلا رکھتے ہیں۔ اس پر ایک نمدہ ڈال دیتے ہیں۔ برف پڑنے لگی تو یہ نمدہ پھیلا رہا۔ ورنہ کھلا رکھتے ہیں ۔ جب چاہا لکڑی سے کونا الٹ دیا۔ لطف یہ ہے ۔ کہ اس میں لوہا بالکل نہیںلگاتے۔ لکڑیاں آپس میں پھنس جاتی ہیں جب چاہا کھول ڈالا۔ گٹھے باندھے ۔ اونٹ ۔ گھوڑوں ۔ گدھوں پر لادا اور چل کھڑے ہوئے۔ حرم سرا بارگاہ کے باہر موزوں مناسب 24 چوبین راوٹیاں 10گز طول 6 گز عرض۔ بیچ میں قناتوں کی دیواریں۔ اس میں بیگمات اترتی تھیں۔ کئی خیمے اور خرگاہ اور کھڑے ہوتے تھے۔ اس میں خواصیں اترتی تھیں۔ آگے سائبان زردوزی ۔ زربفتی ۔ مخملی بہار دیتے تھے۔ اس سے ملا ہوا اسراپر دہ گلیمی کھڑا کرتے تھے۔ یہ ایسا دل بادل تھا کہ اس کے اندر کئی خیمے اور لگاتے تھے۔ اردو بیگنیاں اور اور عورتیں ان میں رہتی تھیں۔ اس کے باہر دولتخانہ خاص تک سو گز عرض کا ایک صحن سجاتے تھے کہ مہتابی کہلا تا تھا۔ اس کے دونوطرف بھی پہلی طرح سراچہ سماں باندھتا تھا۔ دو دوگز پر چھ گزی چوب ، کھڑی گز بھر زمین میں گڑی۔ سروں پر برنجی قبے۔ اسے اندر باہر 2 طنابیں تانے رہتی تھیں ۔ چوکیدار برابر برابر پہرے پر حاضر۔ اس خوشی خانہ کے بیچ میں میں ایک صفہ (چبوترہ) اس پر چار چو بہ شامیانہ اس پر رات کو جلوس فرماتے تھے۔ خاصان درگاہ کے سوا کسی کو اجازت نہ تھی۔ گلال بار سے ملا ہوا۔ 30 گز قطر کا دائرہ کھینچتے تھے۔ 12حصوں میں تقسیم کرتے تھے۔ گلاں بار کا دروازہ ادھر نکالتے تھے۔ 12 شامیانہ 12گزے اس پر سائبانی کرتے تھے۔ اور قناتیں انہیں خوشنما تر اش کے تقسیم کرتی تھیں۔ اس خلوتخانہ کی ایچکی خانہ کہتے تھے۔ مناسب انداز سے ہر مقام پر ایک صحت خانہ ہوتا تھا۔ یہ پانحانہ کو خطاب عطا ہوا تھا اس سے ملا ہوا ایک گلیمی پردہ سرا۔ 150گز مربع۔ اس کی چوبیں بھی اسی طرح قبوں سے تاجدار بیچ میں بارگاہ وسیع۔ ہزا فراش اسے سجاتے تھے۔ 72کمروں میں تقسیم اوپر 15 گز کا شہتیر اس کے اوپر قلندری کھڑی کرتے تھے۔ خیمے کی وضع ہوتی تھی۔ اوپر مومجامہ وغیرہ اس کے 50 شامیانے 12 گزے دامن پھیلائے کھڑے تھے۔ یہ دولتخانہ خاص تھا۔ اس کا دروازہ بھی زنجیر فقل کنجی سے محفوظ ہوتا تھا۔ بڑے بڑے امیر سپہ سالار بخشی بے اجازت نہ جا سکتے تھے۔ ہر مہینے اس بار گاہ کو نیا سنگار ملتا تھا۔ اندر باہر رنگین ۔ نقشی بوقلموں میں فرش اور پردے چمن کھلا دیتے تھے۔ اس کیگ رد 350گز کے فاصلے پر طنابیں کھنچتی تھیں۔ تین تین گز پر ایک ایک چوب کھڑی ہوئی۔ جا بجا پاسبان ہشیار ۔ یہ دیوانخانہ عام کہلاتا تھا۔ ہر جگہ پہرہ وار ۔ اخیر میں جا کر 12طناب کے فاصلے پر ایک طناب 60 گز کی نقار خانہ۔ اس میدان کے بیچ میں اکاس دیا روشن ہوتا تھا۔ اکاس دئے کئی ہوتے تھے۔ ایک یہاں اور ایک سرا پردہ کے آگے کھڑا کرتے تھے۔ 40 گز کا طولانی ستون ہوتا تھا۔ اسے 15 طنابیں تانے کھڑی رہتی تھیں۔ دور تک روشنی دکھاتا تھا۔ اور بھولے بھٹکے وفا داروں کو اندھیرے میں در دولت کا رستہ بتاتا تھا۔ اور اس کیدائیں بائیں کا حساب لگا کر اور امر کے خیموں کے پتے لگا لیتے تھے۔ 100ہاتھی 500اونٹ 400چھکڑے 100کہار 500منصبدار اور احدی ۔ ہزار فراش ایرانی و تورانی وہندوستانی 500بیلدار ۔ 100سقے ۔ 50نجا۔ بہت سے خیمہ دوز مشعلچی ۔ 30چرم دوز150حلال خور (خاکروب کو خطاب عطا ہوا تھا) اس آباد شہر کے ساتھ چلتے تھے۔ پیادے کا مہینہ 6 روپے سے 3 روپے تک تھا۔ 1500کے ہموار خوشنما قطعہ زمین پر بارگاہ خاص کا سامان پھیلتا تھا۔ 300گز گول فاصلہ دے کر دائیں بائیں پیچھے پہرہ وار کھڑے ہوتے تھے۔ پشت پر بیچوں بیچ میں سو گز کے فاصلے پر مریم کانی۔ گلبدن بیگم اور اور بیگمات اور شہزادہ دانیال۔ دائیں پر شاہزادہ سلطان سلیم ۔ (جہانگیر) بائیں پر شاہ مراد ۔ پھر ذرا بڑھ کر توشہ خانہ ۔ آبدار خانہ ۔ خوشبو خانہ وغیرہ تمام کارخانے ہر گوشے پر خوشنما چوک ۔ پھر اپنے اپنے رتبے سے امرا دونوں طرف غرض لشکر اقبال اور بارگاہ جلال ایک چلتا ہوا شہر تھا۔ جہاں جا کر اترتا تھا۔ عیش و عشرت کا میلا ہوتا تھا۔ جنگل میں جنگل ہو جاتا تھا۔ چار چار پانچ پانچ میل تک دو طرفہ بازار لگ جاتے تھے۔ سارا لاؤ لشکر اور سامان مذکور ایک طلسمات کا شہر آباد ہو جاتا تھا۔ اور گلال بار بیچ میں قلعہ نظر آتا تھا۔ شکوہ سلطنت جب دربار آراستہ ہوتا تھا۔ بادشاہ با اقبال اورنگ سلطنت پر جلہ گر ہوتا تھا۔ اورنگ ہشت پہلو موزوں اور خوشنما تخت تھا۔ گنگا جمنی یعنی سونے چاندی کے عنصروں سے ڈھلا ہوا۔ دریا نے دل ۔ پہاڑ کے جگو نکال کو پیش کیا۔ لوگ سمجھے کہ الماس ۔ لعل ۔ یاقوت اور موتیوں سے مرصع ہے ؎ بائستے انجم ازپے ترصیع تاج و تخت نازم فروتنی کہ جواہر قرار یافت سر پر چتر زرکار و زرتار جواہر نگار۔ جھالروں میں مروار ید و جواہرات جھلمل جھلمل کرتے ۔ سواری کے وقت 7 چتر سے کم نہ ہوتے تھے۔ کوتل ہاتھیوں پر چلتے تھے۔ سایہ بان ہیضوی تراش۔ گز بھر بلند۔ دستہ چتر کے برابر ۔ اور اسی طرح زربفت اور مخمل زرباف سے سنگار تے تھے۔ جواہرات اور مروارید ٹکے ہوئے۔ چالاک خاص بردار رکاب کے برابر لئے چلتے تھے۔ دھوپ ہو تو سایہ کر لیتے تھے۔ اور اسے آفتاب گیر بھی کہتے تھے۔ کوکبہ چند سونے کے گولے صیقل اور جلا سے مبارک ستاروں کی طرح و غد غاتے پیشگاہ دربار میں آویزاں ہوتے تھے۔ اور یہ چاروں بادشاہ کے سوا کوئی شاہزادہ یا امیر نہ رکھ سکتا تھا۔ علم سواری کے وقت لشکر کے ساتھ کم سے کم 5 علم ہوتے تھے۔ ان پر بانات کے غلاف رہتے تھے۔ میدان جنگ میں کھل کر ہوا میں لہراتے تھے۔ چترتوغ ایک قسم کا علم تھا مگر علم سے چھوٹا۔ کئی قطاس کے گپھے اس پر طرہ (قطاس سرا گائے یعنی پہاڑی گائے کی دم) تمن توغ اسے بھی چتر توغ ہی سمجھو ۔ اس سے ذرا اونچا ہوتا تھا۔ یہ دونو رتبے میں اونچے تھے اور شہزادوں کے لئے خاص تھے۔ جھنڈہ وہی علم۔ پلٹن پلٹن اور رسالے رسالے کا الگ ہوتا تھا۔ بڑا معرکہ ہو تو تعداد بڑھا دیتے تھے۔ نقارے کے ساتھ الگ ہوتا تھا۔ گورکہ عربی میں دمامہ کہتے ہیں۔ ایک نقار خانہ میں کم و بیش 18 جوڑیاں ہوتی تھیں۔ نقارہ کم و بیش 20 جوڑیاں۔ دہل کئی ہوتے تھے۔ کم سے کم 4 بجتے تھے۔ کرنا۔ سونے چاندی اور پیتل وغیرہ سے ڈھالتے تھے۔ چار سے کم نہ بجتی تھیں۔ سرنا ایرانی و ہندوستانی کم سے کم 9 نغمہ سرائی کراتی تھیں۔ نفیر ایرانی و ہندوستانی فرنگی ہر قسم کی کئی نفیریاں نغمہ ریزی کرتی تھیں سینگ گائے کے سینگ کی وضع پر تانبے کا سینگ ڈھال لیتے تھے۔ اور دوبجتے تھے۔ سنج (جھانج) تین جوڑیاں بجتی تھیں۔ پہلے 4 گھڑی رات رہے۔ اور 4 گھڑی دن رہے نوبت بجا کرتی تھیں۔ اکبری عہد میں ایک آدھی ڈھلے بجنے لگی کہ آفتاب چڑھاؤ کے درجہ میں قدم رکھتا ہے۔ دوسری طلوع کے وقت۔ جشن نور وزی نوروز ایک عالم افروز دن ہے کہ ایشیا کے ہر ملک اور ہر قوم کے لوگ اسے عید مانتے ہیں۔ اور بالفرض کوئی بھی نہ مانے تو بھی موسم بہار ایک قدرتی جوش ہے۔ کہ اپنے وقت پر خود بخود ہر دل میں ذوق شوق پیدا کرتا ہے۔ یہ امر کچھ انسان یا حیوان پر منحصر نہیں بلکہ اس کا اثر ہر شے میں جان ڈال دیتا ہے۔ انتہا ہے کہ مٹی میں سر سبزی اور سبزی میں گلکاری کرتا ہے۔ بس اسی کا نام عید ہے۔ ترک چنگیزی کہ کچھ مذہب نہ رکھتے تھے۔ اور جاہل محض تھے۔ باوجود اس کے ادنے صاحب مقدور سے لے کر امرا و بادشاہ تک اس دن گھروں کو سجاتے تھے۔ خوان یغما لگاتے تھے۔ سب مل کر لوٹتے لٹاتے تھے۔ اور اسے سال بھر کے لئے مبارک شگون سمجھتے تھے۔ ایرانی پہلے بھی مانتے زرتشت نے آکر اس پر مذہبی سکہ لگایا۔ کبونکہ اس کے خیالات کے بموجب آفتاب سب سے روشن دلیل خدا شناسی سکہ لگایا۔ کیونکہ اس کے خیالات میں ان سے متفق ہیں۔ خصوصاً اس جہت سے کہ ان کے بعض مہاراجگان جلیل القدر کے جلوس اور اکثر بری بڑی کامیابیاں اسی دن ہوئی ہیں۔ اکبر کو انہیں فرقوں سے تعلق تھا۔ اس لئے وہ بھی نوروز کے دن جشن شاہانہ کے سامان میں فصل بہار کے شان دکھاتھا۔ اور سلطنت کا نوروز مناتا تھا۔ چونکہ وہ ہندوستان میں تھا۔ اور ہندؤں میں ایس رہنا سہنا اور گزارہ کرنا تھا۔ اس لئے ان کی ریت رسوم کی بھی بہت باتیں داخل کر لی تھیں۔ تمہیں یاد ہے : اس بے علم بادشاہ کو علمائے زر پرست نے ذہن نشین کر دیا تھا کہ سنہ ہزار میں ملک و ملت بدل جائیگا اور اس کے صاحب فرمان آپ ہی ہوں گے وہ اس خوشی میں ایسا بیقرار ہوا کہ جوب اتیں سنہ الف پر کرنی تھیں۔ پہلے ہی کر گزرا۔ یہاں تک کہ 990ھ میں ہی سنہ الف کا سکہ لگادیا۔ اور جشن نور وزی کی شان و شکوہ میں بھی عمدہ عمدہ ترقیاں اور فائدہ مند اصلاحوں سے جاہ و جلال کو جلوہ دیا۔ جشن کے قواعد و آئین نے اسل بسال کی ترقیوں سے پرورش پائی مگر آزاد سب کو ایک جگہ سجاتا ہے کہ دلچسپ تماشا ہے۔ دیوان عام و خاص کے گرد 12ایوان عالیشان تھے ۔ جن کی عمارت کو خوشنما اور بیش بہا پتھروں نے سنگین اور رنگین کیا تھا۔ ایک ایک ایوان ایک ایک امیر باتد بیر کر عنایت ہوا۔ کہ ہر عالی حوصلہ اسے آراستہ کر کے اپنی قابلیت اور علوہمت کا نمونہ دکھائ۔ ایک طرف دولت خانہ خاص تھا۔ وہ خدمتگاران خاص کے سپرد ہوا کہ آئین بندی کریں سبھا منڈل کہجلوہ گاہ خاص تھا۔ سجایا گیا اور تمام مکانات کے درو دیوار کو پرتگالی بانات رومی دکاشانی مخمل ۔ بنارسی زربفت و کمخواب ۔ سییل دوپٹے۔ تاش تمامی۔ گوٹے ٹھپے ۔ پنیمک ۔ مقیش کے خلعت پہنائے۔ کشمیری کی شالیں اڑھائیں۔ ایران و ترکستان کی قالین پا انداز میں بچھا دیئے۔ ملک فرنگ اور چین اور ماچین کے رنگا رنگ پردے ۔ نادر تصویریں عجیب و غریب آئینے سجائے شیشہ اور بلور کے کنول ۔ مردنگ ۔ قندیلیں۔ جھاڑ ۔ فانوسیں ۔ قمقمے لٹکائے۔ شامیا نے تانے آسمانی خیمے بلند کئے۔ مکانات کے صحنوں میں بہار نے آکر گلکاری کی اور کشمیری کے گزاروں کو تراش کرفتچور اور آگرہ میں رکھ دیا۔ اسے مبالغہ نہ سمجھنا۔ جو اس وقت ہوا۔ اس سے بہت کم ہے۔ یہ جو کہ آج آزاد لکھتا ہے۔ جب عالم ہی اور تھا ۔ وہ اصل حال تھا۔ آج خواب و خیال ہے۔ وہ وہ سامان جمع تھے کہ عقل دیکھتی تھی۔ اور حیران تھی۔ اگلے وقتوں کے امرا کو بھی ہر قسم کی عجیب غریب اور عزیز اور الوجود چیزوں کا شوق ہوتا تھا۔ اور جس قدر یہ سامان زیادہ ہوتا تھا۔ اس سے ان کے سلیقہ اور ہمت و حوصلے کا اندازہ کیا جاتا تھا۔ اگرچہ یہ اوصاف عموماً امیری کے لازمے تھے۔ مگر قاعدہ ہے کہ ہر شخص کو بمقتضائے طبیعت خاص خاص قسم کی چیزوں کا یا مختلف صنائع و بدائع میں سے ایک دو کا دلی شوق ہوتا ہے بلکہ بعضوں کے عہدے اور منصب اشیائے خاص کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں۔ چنانچہ خان خاناں اور خان اعظم کے ایوان ملک ملک کے صنائع و بدائع سے ایک کامل نمائش گاہ بنے ہوئے تھے۔ جن کے درو دیوار۔ فصل بہار کی چادر کو ہاتھوں پر پھیلائے کھڑے تھے۔ اور ہر ستون ایک باغ کو بغل میں دبائے تھے۔ اکثر امرا نے اسلحہ حرب کے عمدہ نمونے دکھائے تھے۔ کہ ہندوستان سے جمع کئے تھے۔ اور اور ملکوں سے منگائے تھے۔ شاہ فتح اللہ نے اپنے ایوان میں علوم و فنون کا طلسم باندھ کر ہر بات میں نکتہ اور نکتہ میں باریکی پیدا کی تھی۔ گھڑیاں اورگھنٹے چل رہے تھے۔ علم ہیئت کے آلات۔ کرے۔ ربع محیب اسطرلاب نظام فلکی کے نقشے۔ اور ان کی مجسم مورتوں میں سیارے اور افلاک چکر مار رہے تھے۔ جر اثقال کی کلیں اپنا کام کر رہی تھیں۔ علم کیمیا اور علم نیر نجات کے شعبدے ساعت بساعت رنگ بدل رہے تھے۔ دانایان فرنگ موجود تھے۔ بیلان (بیلون)کا خیمہ کھڑا تھا۔ ارغنوں (آرگن) کا صندوق رنگا رنگ کی آوازیں سناتا تھا۔ ممالک روم و فرنگ کی عمدہ صنعتیں اور انوکھی دستکاریاں جادو کا کام اور اچنبھے کا تماشا تھیں۔ انہوں نے تھیئٹر کا ہی سما باندھا تھا۔ جس وقت بادشاہ آکر بیٹھے۔ موسیقی فرنگ نے مبارکباد کی نغمہ سرائی شروع کی۔ باجے بج رہے تھے۔ فرنگی ساعت بسا عت رنگ برنگ کے برن بدل کر آتے تھے۔ اور غائب ہو جاتے تھے۔ پرستان کا عالم نظر آتا تھا۔ ف ۔ اکبر بادشاہ فقط ملک کا بادشاہ نہ تھا۔ ہر فن اور ہر کام کا بادشاہ تھا۔ ہمیشہ علوم و فنون کی پرورش اور ترقی کی فکر میں رہتا تھا۔ اس کی قدر دانی نے دانا یان فرنگ کو بندر گووہ سورت اور ہگلی سے بلا کر اس طرح رخصت کیا۔ کہ یورپ کے ممالک مختلفہ سے لوگ اٹھ اٹھ کر دوڑے۔ اپنے اور ملک ملک کے صنائع و بدائع لا کر پیش کش کئے۔ اس موقع پر ان سب کے نمونے سجائے گئے۔ اور ہندوستان کے صنعت گروں نے بھی اپنی دستکاریاں دکھا کر شاباش و آفرین کے پھول سمیٹے۔ نوروز سے لے کر 18 دن تک ہر ایک امیر نے اپنے اپنے ایوان میں ضیافت کی حضور رونق افروز ہوئے اور بے تکلف اور دوستانہ ملاقات سے محبت و اتحاد کی بنیاد دلوں میں استوار کی۔ امرانے اپنے رتبے کے بموجب پیشکش گزرانی۔ ارباب طرب اور اہل نشاط کے طوائف کشمیری۔ ایرانی ۔ تورانی ۔ ہندوستانی گویئے۔ ڈوم ۔ ڈھاڑی۔ میراثی ۔ کلاؤنت ۔ گائک نانک ۔ سپروائی۔ ڈومنیاں۔ پاتر کنچنیاں ہزار ۔ درہزار جمع ہوئںی۔ دیوان خاص اور دیوان عام سے لے کر بازؤں کے نقار خانوں تک جا بجا مقامات تقسیم ہو گئے تھے۔ جدھر دیکھو راجہ اندر کا اکھاڑ تھا ۔ جنش کی ریت سوم کی بھی سیر دیکھو۔ روز جشن سے ایک دن پہلے مبارک ساعت سبھ لگن میں ایک سہاگن بی بی اپنے ہاتھ سے دال دلتی۔ اسے گنگا جل میں بھگوتی۔ پیٹھی پیس کر رکھتی۔ جشن کی ساعت قریب آئی۔ 1 ؎ ملا صاحب 988ھ میں لکھتے ہیں۔ ارغنوں باجا آیا۔ کہعجائب مخلوقات سے ہے۔ حاجی حبیب اللہ فرنگستان سے لایا تھا۔ بادشاہ محظوظ ہوئے۔ اہل دربار کو بھی دکھایا۔ ایک بڑا صندوق تھا قد آدم۔ ایک فرنگی اندر بیٹھ کر تا ربجاتا تھا۔ دو باہر بیٹھتے تھے۔ صندوق میں مور کے پرلگے تھے۔ ان کی جڑوں پر انگلیاں مارتے تھے۔ کیا کیا آوازیں نکلتی تھیں ! کہ روح پر اثر ہوتا تھا فرنگی دم بدم کبھی سرخ کبھی زرد۔ بوقلموں ہو ہو کر نکلتے تھے۔ اور ساعت بساعت رنگ بدلتے تھے۔ عجب عالم تھا اہل مجلس حیران تھے۔ کیفیت اس کی ٹھیک ٹھیک ادا نہیں ہو سکتی۔ بادشاہ اشنان کو گئے۔ رنگین جوڑا۔ ساعت اور ستاروں کے موافق حاضر۔ جامہ پہنا ۔ کھڑکی دار پگڑی راجپوتی انداز سے باندھی۔ مکٹ سر پر رکھا۔ کچھ اپنا خاندانی کچھ ہنددانی گہنا پہنا۔ جو تشی اور نجومی اسطر لاب لگائے بیٹھے ہیں۔ جشن کی ساعت آئی برہمن نے ماتھے پر ٹیکا لگایا۔ جواہر نگار کنگن ہاتھ میں باندھا کولے دہک رہے ہیں۔ خوشبوئیاں تیار ہیں۔ ادھر ہون ہونے لگا۔ چوکے میں کڑھائی چڑھی ہے۔ یہاڈں اس میں بڑا پڑا وہاں بادشاہ نے تخت پر قدم رکھا۔ نقارہ دولت پرچوٹ پڑی۔ نوبت خانہ میں نوبت بجنے لگی کہ گنبد گردوں گونج اٹھا۔ خوانوں اور کشتیوں پر زرنگار طورہ پوش پڑے۔ موتیوں کے جھالر لٹکتے۔ امرا لئے کھڑے ہیں۔ سونے روپے کے بادام پستے وغیرہ میوہ جات۔ روپے اشرفیاں ۔ جواہراس طرح نچھاور ہوئے جیسے اولے برستے ہیں۔ دربار ایک مرقع قدرت الہٰی کا تھا۔ راجوں کے راجہ مہاراجہ اور بڑے بڑے ٹھاکر کہ فلک سے سر نہ جھکائیں۔ ایرانی تورانی سردار کہ رستم وا سفندیار کو خاطر میں نہ لائیں۔ خود زرہ۔ بکتر ۔ چار آئینہ سر سے پاؤں تک لوہے میں غرق۔ تصویر کا عالم کھڑے ہیں۔ خاص شہزادوں کے سوا کسی کوب یٹھنے کی اجازت نہیں۔ اول شہزادوںنے پھرامرائے درجہ بدرجہ نذریں دیں۔ سلام گاہ پر گئے۔ وہاں سے تخت گاہ تک تین جگہ آداب وکورنش بجا لائے۔ جب چوتھا سجدہ کہ آداب زمین بوس کہلا تھا ادا کیا تو نقیب نے آواز دی کہ آداب بجالا جہاں پناہ بادشاہ سلامت ۔ مہابلی بادشاہ سلامت ۔ ملک الشعرانے سامنے آکر قصیدہ مبارکباد کا پڑھا۔ خلعت و انعام سے سر بلند ہوا۔ برس میں دودفعہ تلادان ہوتا تھا(1)نوروز۔ سونے کی ترازو کھڑی ہوتی۔ بادشاہ 12 چیزوں میں تلتا تھا۔ سونا چاندی ۔ ابریشم ۔ خوشبوئیاں ۔ لوہا۔ تانبا ۔ جست توتیا۔گھی دودھ۔ چاول ست نجا۔ (2)جشن ولادت ۔ قمری حساب سے 5 رجب کو ہوتا تھا۔ اس میں چاندی قلعی کپڑا ۔ 12 میوے ۔ شیرینی تلوں کا تیل۔ سبزی سب کھ برہمنوں اور عام فقیروں غریبوں کو بٹ جاتا تھا۔ اسی حساب سے شمسی تاریخ کو۔ مینا بزار۔ زنامہ بازار ترکستان میں دستور ہے کہ ہفتے میں دو دفعہ یا ایک دفعہ ہر شہر میں اور اکثر دیہات میں بازار لگتے ہیں۔ اس آبادی کے اور اکثر پانچ پانچ چھ چھ کوس سے آس پاس کے لوگ پچھلی رات سے گھروں سے نکلتے ہیں۔ دن نکلے مقام پر آکر جمع ہوتے ہیں عورتیں برقع سروں پر نقاہیں سنہ پر ۔ ابریشم ۔ سوت ۔ ٹوپیاں۔ رومال پھلکاری اپنی دستکاری ۔ یا ضرورت کی ماری جو کچھ ہو بیچنے کو لاتی ہیں۔ مرد ہر قسم کے پیشہ ور اپنی اپنی جنس سے بازار کو گرم کرتے ہیں۔ مرغی اور انڈے سے لیکر گراں بہا گھوڑوں تک اور گڑی گاڑھے سے لیکر قیمتی قالین تک ۔ میوہ جات سے لیکر اقسام غلہ بھس اور گھانس تک ۔ تیل گھی۔ مسگری۔ بخاری۔ لہاری کے کام یہاں تک کہ مٹی کے باسن تک سب موجود ہوتے اور دوپہر میں سب بک جاتے ہیں۔ اکثر لین دین مبارلے میں ہوتے ہیں۔ بادشاہ نیک آئین نے اسے اصلاح و تہذیب کے ساتھ رونق دی۔ آئین اکبری میں لکھا ہے کہ ہر مہینے معمولی بازار کے تیسرے دن قلعہ میں زنانہ بازار لگتا تھا۔ غالبا یہ امرآئین میں داخل ہو گا۔ عمل اس پر کبھی کبھی ہوتا ہو گا۔ جب جشن کے آداب و آئین شان و شکوہ میں اپنے خزانے خالی کو لیتے۔ اور آرائش اور زیبائش کی بھی ساری دستکاری خرچ ہو چکتی تو ان ایوانوں میں جو درحقیقت ایجاد اور عقل و شعور کے بازار تھے۔ زنانہ ہو جاتا۔ وہاں محل کی بیگمات آتی تھیں کہ ذرا ان کی آنکھیں کھلیں اور سلیقے کی آنکھیں میں سگھڑا پے کا سرمہ لگائیں۔ امراو شرفا کی بیلبیلوں کو بھی اجازت تھی جو چاہے آئے اور تماشا دیکھے ۔ دکانوں پر تمام عورتیں بیٹھ جاتی تھیں۔ سودا گری اورس ودا زیادہ تر زنانہ رکھا جاتا تھا۔ خواجہ سرا قلما قتیاں ۔ اردہ بیگنیاں اسلحہ جنگ سجے۔ انتظام کے گھوڑے دوڑاتی پھرتی تھیں۔ عورتیں ہی پہروں پر ہوتی تھیں۔ مالیوں کی جگہ مانیں چمن آرائی کوتی تھیں اس کا نام خوش روز تھا۔ نیک نیت بادشاہ آپ بھی آتا تھا۔ اور اپنی رعیت کی بہو بیٹیوں کی دیکھ کر ایسا خوش ہوتا تھا کہ ماں باپ بھی اتنا ہی خوش ہوتے ہونگے۔ جہاں مناسب جگہ دیکھتے تھے بیٹھ جاتے تھے۔ بادشاہ بیگم ۔ بہنیں ۔ بیٹیاں پاس بیٹھتی تھیں۔ امرا کی بیبیاں آکر سلام کرتیں۔ نذریں دیتیں بچوں کو سامنے حاضر کرتیں۔ ان کی نسبتیں حضور میں قرار پاتی تھیں۔ اور حقیقت میں یہ بھی آئین سلطنت کا ایک جز تھا۔ کیونکہ یہی لوگ اجزائے سلطنت تھے۔ شطرنج کے مہروں کی طرح باہم تعلق رکھتے تھ۔ اور آپس میں ایک ایک کا زور ایک ایک کو پہنچ رہا تھا ۔ ان کے باہمی محبت و عداوت ۔ اتفاق و اختلاف اور ذاتی نفع و نقصان کے اثر بادشاہ کے کاروبار تک پہنچے تھے۔ ان کی نسبتوں کے معاملے خواہ اس جشن پر خواہ کسی اور موقع پر ایک مبارک تماشا دکھاتے تھے۔ کبھی دو امیروں میں ایسا بگاڑ ہوتا تھا کہ دونوں یا ایک ان میں سے راضی نہ ہوتا تھا۔ اور بادشاہ چاہتے تھے کہ ا ن میں بگاڑ نہ رہے بلکہ اتحاد ہو جائے۔ اس کا یہی علاج تھا کہ دونو گھر ایک ہو جائیں۔ جب وہ کسی رطح نہ مانتے تو بادشاہ کہتے تھے کہ اچھا یہ لڑکا یا لڑکی ہماری تمہیں اس سے کچھ کام نہیں دہ یا اس کی بی بی خانہ زادی سے کہتے۔ حضور ! لونڈی بھی اس بچے سے دستبردار ۔ آخر حضور ہی کے لئے پالا تھا۔ محنت بھر پائی۔ باپ کہتا ۔ کرامات ! بہت مبارک ۔ مگر خانہ زاد کو اب اس سے کچھ واسطہ نہیں۔ غلام حق سے ادا ہوا۔ بادشاہ کہتے بہت خوب ہم نے بھی وصول پایا۔ کبھی بیگم بیاہ کا ذمہ لے لیتیی۔ کبھی بادشاہ لے لیتے اور شادی کا سر انجام اس طرح ہوتا کہ ماں باپ سے بھی نہ ہو سکتا۔ دنیا کے معاملات سخت نازک ہیں۔ کوئی بات ایسی نہیں جس کے فوائد کے ساتھ نقصان کا کھٹکا نہ لگا ہو۔ اسی آمدورفت میں سلیم (جہانگیر) کا دل زین خاں کو کہ کی بیٹی پر آیا اور ایسا آیا کہ قابو ہی میں نہ رہا۔ غنیمت ہوا کہ اس کی ابھی شادی نہ ہوئی تھی۔ اکبر نے خود شادی کر دی لیکن قابل عبرت وہ معاملہ ہے جو کہن سال بزرگوں سے سنا ہے یعنی یہی مینا بازار لگا ہوا تھا ۔ بیگمات پڑی پھرتی تھیں۔ جیسے باغ میں قمر یاں یا ہر یاول میں ہرنیاں ۔ جہانگیر ان دنوں نوجوان لڑکا تھا۔ بازار میں پھرتا ہوا چمن میں آنکلا۔ ہاتھ میں کبوتر کا جوڑا تھا۔ سامنے کوئی پھول کھلا ہوا نظر آیا کہ عالم سرور میں بہت بھایا۔ چاہا کہ توڑے ۔ دونوں ہاتھ رکے ہوئے تھے وہیں ٹھیر گیا۔ سامنے سے ایک لڑکی آئی شہزادہ نے کہا کہ بوا ذرا ہمارے کبوتر تم لے لو ہم وہ پھول توڑ لیں۔ لڑکی نے دو نوکبوتر لے لئے۔ شہزادہ نے کیا ری میں جا کر چند پھول توڑے۔ پھر کر آیا تو دیکھا کہ لڑکی کے ہاتھ میں ایک 1 ؎ عبدالرحیم خان خاناں کو دیکھا کہ بن باپ کا لڑکا ب اور بیرم خاں کا بیٹا ہے بعض امرا ابتک دربار میں ہیں جن کے دلوں میں کانٹا ساکھٹک رہا ہے۔ چنانچہ شمس الدین محمد خاں اتکہ کی بیٹی یعنی خان اعظم مرزا عزیز کو کہ کی بہن سے اس کی شادی کر دی اب بھلا مرزا عزیز کو کہ کب چاہیگا کہ عبدالرحیم کو کچھ صدمہ پہنچے اور بہن کا گھر برباد ہو۔ اور عبدالرحیم جس کے گھر میں اتکہ کی بیٹی خان اعظم کی بہن ہے۔ اس کے دل میں وہ خیال کب باقی رہ سکتا ہے۔ کہ اس کا باپ میرے باپ پر تلوار کھینچ کر سامنے ہوا تھا۔ اور لشکر خونریز کے ساتھ مقابلہ کیا تھا۔ خان خاناں کی بیٹی سے دانیال نے اپنے بیٹے کی شادی کر دی۔ قلیچ خاں کہ سپہ سالار تھا اور 4 ہزاری منصب رکھتا تھا۔ اس کی بیٹی سے مراد کی شادی کر دی۔ سلیم (جہانگیر) سے مان سنگھ کی بہن بیاہی تھی اور اس کے بیٹے خسرو سے خان اعظم کی بیٹی کی شادی کی تھی وغیرہ وغیرہ مصلحت اسی میں یہی تھی کہ ہر شاہزادہ اور امیر کو اس طرح آپس میں مسلسل اور وابستہ کر دیں کہ ایک کازور دوسرے کو نقصان نہ پہنچا سکے۔ کبوتر ہے۔ پوچھا دوسرا کبوتر کیا ہوا ؟ عرض کی۔ صاحب عالم ! وہ تو اڑ گیا۔ پوچھا ہیں ! کیونکر اڑ گیا۔ اس نے ہاتھ بڑھا کر دوسری مٹھی بھی کھول دی کہ حضوریوں اڑ گیا۔ اگرچہ دوسرا کبوتر بھی ہاتھ سے گر گیا مگر شہزادے کا دل اس انداز پر لوٹ گیا۔ پوچھا تمہارا کیا نام ہے ؟ عرض کی مہر نسا خانم پوچھا تمہارے باپ کا کیا نام ہے ؟ عرض کی مرزا غیاث ۔ حضور کا ناظم بیوتات ہے۔ کہا اور امرا کی لڑکیاں محل میں آیا کرتی ہیں ۔ تم ہمارے ہاں نہیں آتیں ؟ عرض کی میری اماں جان تو آتی ہیں۔ مجھے نہیں لاتیں۔ ہمارے ہاں لڑکیاں گھر سے باہر نہیں نکلا کرتیں۔ آج بھی بڑی منتوں سے یہاں لائی ہیں۔ کہا تم ضرور آیا کرو۔ ہمارے ہاں بڑی احتیاط سے پردہ رہتا ہے۔ کوئی غیر نہیں آتا۔ وہ سلام کر کے رخصت ہوئی۔ جہانگیر باہر آگیا۔ مگر دونوں کو خیال رہا۔ تقدیر کی بات ہے۔ کہ پھر جو مرزا غیاث کی بی بی بیگم کے سلام کو محل میں جانے لگی تو بیٹی کے کہنے سے اسے بھی ساتھ لے لیا بیگم نے دیکھا بچپن کی عمر۔ اس میں ادب قاعدے کا لحاظ ۔ سلیقہ اور تمیز اس کی بہت بھلی معلوم ہوئی باتیں چیتیں پیاری لگیں بیگم نے بھی کہا اسے تم ضرور لایا کرو۔آہستہ آہستہ آمدورفت زیادہ ہوئی ۔ شہزادے کا یہ عالم کو جب وہ ماں کے پاس آئے تو وہاں موجود۔ وہ دادی کے سلام کو جائے تو یہ وہاں حاضر ۔ کسی نہ کسی بہانے سے خواہ مخواہ اس سے بولتا۔ بات چیت کرتا تو اس کا طور ہی کچھ اور نگاہوں کو دیکھو تو انداز ہی کچھ اور غرض بیگم تاڑ گئی اور خلوۃ میں بادشاہ سے عرض کی۔ اکبر نے کہا۔ مرزا غیاث کی بی بی کو سمجھا دو چند روز لڑکی کو یہاں نہ لائے۔ اور مرزا غیاث سے کہا کہ لڑکی کی شادی کردو۔ جب خان خاناں بھکر مہم پر تھا تو طہما سپ قلی بیگ ایک بہادر نوجوان شریف زادہ ایران سے آیا تھا اور مہم مذکور میں کار نمایاں کر کے اس کے مصاحبوں میں داخل ہو گیا تھا۔ وہ شریف نواز شرافت پرست اسے ساتھ لایا تھا۔ اور حضور میں اس کی خدمتیں عرض کر کے دربار میں داخل کیا تھا۔ اس نے شجاعت اور دلآوری کے دربار سے شیرافگن اں خطاب حاصل کیا تھا۔ بادشاہ نے اس کے ساتھ نسبت ٹھیرا دی۔ اور جلدی ہی شادی کر دی۔ یہی شادی اس جواں نامراد کی بربادی تھی۔ تدبیر میں کوتاہی نہیں ہوئی۔ تقدیر سے کس کا زور چل سکتا ہے ؟ انجام کا اس کا یہ ہوا کہ جو نہ ہونا تھا سو ہوا۔ شیرافگن خاں موت کا شکار ہو کر جو انمرگ دنیا سے گیا۔ مہر نسا بیوہ ہوئی۔ چند روز کے بعد جہانگیری محلوں میں آکر نور جہاں بیگم ہو گئی۔ افسوس نہ جہانگیر رہے نہ نور جہاں رہیں ناموں پر دھبا رہ گیا۔ اختتام۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔حصہ اول Darbar-E-Akbari دربار اکبری مصنف شمس العلماء مولانا محمد حسین آزاد حصہ دوئم بیرم خان خان خانان جس وقت شہنشاہ اکبر خود اختیار صاحب دربار ہوا اس وقت یہ امیر ملک گیر دربار میں نہ رہا تھا۔ لیکن اس میں کسی کو انکار نہیں کہ اکبر بلکہ ہمایوں کی بنیاد سلطنت بھی اس نے دوبارہ ہندوستان میں قائم کی۔ پھر بھی میں سوچتا تھا کہ اسے دربار اکبری میں لاؤں یا نہ لاؤں ۔ یکایک اس کی جانفشاں خدمتیں اور بے خطا تدبیریں سفارش کو آئیں۔ ساتھ ہی شیرا نہ حملے اور رستمانہ کا ر نامے مدد کو آپہنچے۔ وہ شاہانہ جاہ جلال کے ساتھ اسے لائے۔ دربار اکبری میں درجہ اول پر جگہ دی اور نعرہ شیر ا نہ کی آواز میں کہا۔ یہ وہی سپہ سالار رہے جو ایک ہاتھ پر نشان شاہی لئے تھا کہ خوش نصیبی اس کی جس کے پہلو میں چاہے۔ سایہ کر کے قائم ہو جائے۔ دوسرے ہاتھ میں تدابیر و زارت کا ذخیرہ تھا کہ جس کی طرف چاہے نظام سلطنت کا رخ پھیر دے۔ نیک نیتی کے ساتھ نیکو کاری اس کو مصاحب تھی اور اقبال خدا داد مددگار تھا کہ وہ فیروز مند جس کا م پر ہاتھ ڈالتا تھا پورا پڑتا تھا۔ یہی سبب ہے کہ تمام مورخوں کی زبانیں اس کی تعریفوں میں خشک ہوتی ہیں۔ اور کسی نے برائی کے ساتھ ذکر نہیں کیا۔ ملا صاحب نے تاریخی حالات کے ذیل میں بہت جگہ اس کے ذکر کئے ہیں۔ آخر کتاب میں شعرا کے ساتھ بھی شامل کیا ہے وہاں ایک سنجیدہ اور مختصر عبارت میں اس کا برگزیدہ حال لکھا ہے۔ جس سے بہتر کوئی کیفیت خان خاناں کے خصلائل و اطوار کی۔ اور سند اس کے اوصاف کمالات کی نہیں ہو سکتی ہیں ۔ بعینہ اس کا ترجمہ لکھتا ہوں دیکھنے والے دیکھیں گے۔ کہ یہ اجمالی الفاظ اس کے تفصیلی حالات سے کیسی مطابقت کھاتے ہیں ۔ اور سمجھیں گے کہ ملا صاحب بھی حقیقت شناسی میں کس رتبہ کے شخص تھے عبارت مذکور ہ کا ترجمہ یہ ہے۔ وہ مرزا جہاں شاہ کی اولاد میں تھا۔ رموز دانش ۔ سخاوت ۔ راستی حسن خلق ۔ نیاز و خاکساری میں سب سے سبقت لے گیا تھا ۔ ابتدائے حال میں بابر بادشاہ کی خدمت میں بیچ میں ہمایوں بادشاہ کے حضور میں رہ کر بڑھا چڑھا اور خانخانان کے خطاب سے سرفراز ہوا۔ پھر اکبر نے وقت بوقت القاب میں ترقیاں دیں۔ نہایت فقیر دوست۔ صاحب حال اور نیک اندیش تھا۔ ہندوستان جو دوبارہ فتح بھی ہوا اور آباد بھی ہوا۔ یہ اس کی کوشش اور بہادری اور حسن تدبیر کی برکت سے ہوا۔ دنیا کے فاضل اطراف و جوانب سے اسکی درگاہ کی طرف رخ کرتے تھے۔ اور دریا مثال ہاتھ سے شاداب ہو کر جاتے تھے۔ اس کی بارگاہ آسمان جاہ ارباب فضل و کمال کے لئے قبلہ تھی۔ اور زمانہ اس کے وجود شریف سے فخر کرتا تھا۔ اخیر عمر میں بسبب اہل نفاق کی عداوت کے بادشاہ کا دل اس سے پھر گیا۔ اور وہاں تک نوبت پہنچی ۔ جس کا ذکر حالات سالانہ میں لکھا گیا۔ شیخ داود جہنی وال کے ذکر میں لکھتے ہیں : ۔ درعہد بیرم خاں کہ بہترین عہد ہابود و ہند حکم عروس داشت جامع اوراق درآگرہ طالب علمی میکرد۔ محمد قاسم فرشتہ نے نسب نامہ کو زیادہ تفصیل دی ہے اور ہفت اقلیم میں اس سے بھی زیادہ ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ایران کے قرا قوئیلو تر کمانوں میں بہار لو قبیلہ سے علی شکر بیگ ترکمان ایک سردار نامی گرامی خاندان تیموری سے وابستہ تھا۔ ولایت ہمدان ۔ دینور ۔ کردستان ۔ اور اس کے متعلقات وغیرہ کا حاکم تھا۔ کتاب ہفت اقلیم اکبر کے عہد میں تصنیف ہوئی ہے اس میں لکھا ہے۔ کہ اب تک وہ علاقہ قلمرو علی شکر مشہور ہے۔ علی شکر کی اولاد میں شیر علی بیگ ایک سردار تھا۔ جب سلطان حسین بالقیرا کے بعد سلطانت برباد ہوئی تو شیر علی بیگ کابل کی طرف آیا ۔ اور سیستان وغیرہ سے جمعیت پیدا کر کے شیراز پر چڑھ گیا۔ وہاں سے شکست کھا کر پھرا۔ پھر بھی ہمت نہ ہارا۔ ادھر ادھر سے سامان سمیٹنے لگا۔ آخر بادشاہی لشکر آیا اور انجام کو شیر علی میدان میں قضا کا شکار ہو گیا۔ اس کا بیٹا اورپ وتا یار علی بیگ اور سیف علی بیگ پھر افغانستان میں آئے ۔ یار علی بیگ بابر کی یاوری میں پہنچ کر غزنی کا حاکم ہو گیا مگر چند روز بعد مر گیا۔ سیف علی بیگ باپ کاقائم مقام ہوا۔ مگر عمر نے وفا نہ کی۔ اس کا بیٹا ۔ خرد سال با اقبال تھا جو بیرم خاں کے نام سے نامی ہوا۔ سیف علی بیگ کی موت نے عیال کے ایسے دل توڑ دیئے کہ کچھ نہ کر سکے۔ چھوٹے سے بچے کو لیکر بلخ میں چلے آئے۔ یہاں اس کے خاندان کے کچھ لوگ رہتے تھے۔ چند روز ان میں رہا۔ کچھ پڑھا لکھا اور ذرا ہوش سنبھالا۔ جب بیرم خاں نوکری کے قابل ہوا۔ ہمایوں ان دنوں میں شہزادہ تھا ۔ خدمت میں آکر نوکر ہوا۔ علوم معمولی سے تھوڑا تھوڑا بہرہ حاصل تھا۔ ملنساری ۔ حسن اخلاق ۔ آداب محفل ۔ طبع کی موزونی اور موسیقی میں بھی اچھی آگاہی رکھتا تھا۔ خلوت میں خود بھی گاتا بجا تا تھا۔ اس لئے ہم عمر آقا کے مصاحبوں میں داخل ہو گیا ۔ ایک لڑائی میں اس سے ایسا کار نمایاں بن پڑا کہ دفعتہ شہرہ ہو گیا۔ اس وقت 16برس کی عمر تھی۔ بابر بادشاہ نے بلایا خود باتیں کر کے حال پوچھا اور چھوٹے سے بہادر کا بہت سادل بڑھا یا ۔وضع ہونہار پیشانی پر اقبال کے آثار دیکھ کر قدر دانی کی اور کہا کہ شہزادہ کے ساتھ دربار میں حاضر ہوا کرو۔ پھر اپنی خدمت میں لے لیا۔ سعادتمند لڑکا کار گزاری اور جاں نثاری کے بموجب ترقی پانے لگا۔ ہمایوں بادشاہ ہوا توپھر اسکی حضور ی میں رہنے لگا۔ اس شفیق آقا اور وفا دار نوکر کے حالات و معاملات دیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ دونوں ہے کہ دونوں میں فقط محبت نہ تھی بلکہ ایک قدرتی اتحاد تھا۔ جس کی کیفیت بیان میں نہیں آسکتی ۔ ہمایوں دکن کی مہم میں جانپانیر کے قلعہ کو گھیرے پڑا تھا۔ یہ قلعہ ایسی کڈھب جگہ پر تھا کہ ہاتھ آاا بہت مشکل تھا۔ نبانیوالوں نے ایسے ہی وقت کیلئے عمودی پہاڑوں کی چوٹی پر بنایا تھا۔ اور گرد اس کے جنگل اور درختوں کا بن رکھا تھا۔ اسو قت دشمن بہت ساکھانا دانا بھر کر خاطر جمع سے اندر بیٹھ رہے تھے۔ ہمایوں قلعہ کو گھیرے باہر پڑا تھا عرصہ کے بعد پتہ لگا کر ایک طرف سے جنگل کے لوگ رسد کی ضروری چیزیں لیکر آتے ہیں۔ قلعہ والے اوپر سے رسے ڈال کر کھینچ لیتے ہیں۔ ہمایوں نے بہت سی فولادی اور چوبی میخیں بنوائیں ایک رات اسی چوراستہ کی طرف گیا۔ پہاڑ میں اور قلعہ کی دیوار میں گڑوا کر رسے ڈلوائے ۔ سیڑھیاں لگوائیں اور اور طرف سے۔ لڑائی شروع کی۔ قلعہ والے تو ادھر جھکے ۔ ادھر سے پہلے 39بہادر جانوں پر کھیل کر رسوں اور سیڑھیوں پر چڑھے جن میں چالیسواں دلاور خود بیرم خاں تھا۔ لطیفہ ۔ اس نے کمندکے پیچ میں عجیب لطیفہ سر کیا۔ ایک رسی کی گرہ پر ہمایوں نے قدیم رکھا کہ اوپر چڑھے۔ بیرم خاں نے کہا ٹھیریئے ذرا میں اس پر زور دیکر دیکھلوں رسی مضبوط ہے۔ ہمایوں پیچھے ہٹا ۔ اس نے جھٹ حلقہ میں پاؤں رکھا اور چارق دم مار کر دیوار قلعہ نظر آیا۔ غرض صبح ہوتے ہوتے تین سو جانباز اور پہنچ گئے اورخود بادشاہ بھی جا پہنچا۔ صبح کا دروازہ ابھی بند تھا جو قلعہ فتح ہو کر کھل گیا۔ 946ھ میں جو سہ کے مقام پر شیر شاہ کی پہلی لڑائی میں بیرم خاں نے سب سے پہیل ہمت دکھائی اپنی فوج لیکر بڑھ گیا دشمن پر جا پڑا۔ حملہ ہائے مردانہ اور چپقلش ہائے ترکانہ سے غنیم کی صف کو تہ و بالا کر دیا۔ اور اس کے لشکر کو الٹ کر پھینک دیا۔ مگر امرئاے ہمراہی کوتاہی کر گئے اس لئے کامیاب نہ ہوا اور لڑائی نے طول کھینچا۔ انجام یہ ہوا کہ غنیم نے فتح پائی اور ہمایوں شکست کھا کر آگرہ بھاگ آیا یہ وفا دار کبھی تلوار بن کر آقا کے آگے ہوا کبھی سپر بن کر پشت پر رہا۔ دوسری لڑائی نواح قنوج میں ہوئی ہمایوں کی قسمت نے یہاں بھی وفا نہ کی بدحالی سے شکست کھائی۔ امرااور فوج اس طرح پر یشان ہوئی کہ ایک کو ایک کا ہوش نہ رہا۔ مارے گئے باندھے گئے۔ ڈوب گئے۔ اور بیابان مرگ ہوئے ؎ بیاباں مرگ ہے مجنوں خاک آلودہ تن کس کا؟ سئے ہے سوزن خارمغیلاں تو کفن کس کا؟ انہی میں وہ جاں نثار بھی بھاگا اور سنبھل کی طرف جانکلا۔ میاں عبدالوہاب رئیس سنبھل سے اس کا 1 ؎ دیکھو تاریخ شیر شاہی جو اکبر کے حکم سے لکھی گئی تھی ۔ پہلے کا اتحاد تھا اور انہوں نے اپنے گھر میں رکھا مگر ایسا نامی آدمی چھپے کہاں ۔ اس لئے مترسین لکھنو کے راجہ پاس بھیج دیا کہ علاقہ جنگل میں ہی چند روز تم رکھو مدت تک وہاں رہا۔ نصیر خاں ساکم سنبھل کو حکم ہو گئی۔ اس نے مترسین کے پاس آدمی بھیجا ۔ مترسین کی کیا تاب تھی کہ شیر شاہی امیر کے آدمیو نکو ٹال دے۔ ناچار بھیج دیا۔ نصیر خاں نے قتل کرنا چاہا یہاں مسند عالی جیسے خاں کہ کہن سال امیر زادہ افغانوں کو تھا شیر شاہ کا بھیجا ہوا آیا تھا۔ اس کی اور میاں عبدالوہاب کی سکندر لودی کے وقت سے دوستی تھی میاں نے عیسی خاں سے کہا کہ نصیر خاں ظالم اییس نامور اور عالی ہمت سردار کو قتل کرنا چاہتا ہے ہو سکے تو کچھ مدد کرو۔ میاں کا اور ان کے خاندان کی بزرگی کا سب لحاظ کرتے تھے۔ عیسیٰ خان گئے اور قید سے چھڑا کر اپنے گھر لے آئے۔ شیر شاہ نے عیسے خاں کو ایک مہم پر بلا بھیجا۔ یہ مالوہ کے رستہمیں جا کر ملے۔ بیرم خاں کو ساتھ لیگئے تھے۔ اس کا بھی ذکر کیا۔ اس نے منہ بنا کر پوچھا ابتک کہاں تھا۔ مسند عالی نے کہا شیخ مہن قتال کے ہاں پناہ لی تھی۔ شیر شاہ نے کہا بخشیدم ۔ عیسی خاں نے کہا خون تو ان کی خاطر سے بخشا اسپ و خلعت میری سفارش سے دیجئے۔ اور ابو القاسم گوالیار سے آیا ہے۔ حکیم دیجئے۔ کہ اس کے پاس اترے ۔ شیر شیاہ نے کہا قبول ۔ شیر شاہ وقت پر لگاوٹ بھی ایسے کرتے تھے کہ بلی کو مات کر دیتے تھے۔ بیرم خاں کی سرداری کی اب بھی ہوا بندھی ہوئی تھی۔ شیر شاہ بھی جانتے تھے کہ صاحب جو ہر ہے اور کام کا آدمی ہے ۔ ایسے آدمیوں کے یہ خود تابعدار ہو جاتے تھے اور کام لیتے تھے ۔ چنانچہ جس وقت وہ سامنے آیا تو شیر شاہ کھڑے ہو کر گلے ملا اور دیر تک باتیں کیں۔ وفا اور اخلاص کے باب میں گفتگو تھی۔ شیر شاہ دیر تک دلجوئی کی غرض سے باتیں کرتا رہا اسی سلسلہ میں اس کی زبان سے یہ فقرہ نکلا ’’ ہر کہ اخلاص دارد خطا نمکیند ‘‘ خیر وہ جلسہ بر خاست ہوا۔ شیر شاہ نے اس منزل سے کوچ کیا۔ یہ اور ابوالقاسم بھاگے رستہ میں شیر شاہ کا ایلچی ملاوہ گجرات سے آتا تھا۔ اور ان کے بھاگنے کی خبر سن چکا تھا مگر کبھی ملاقات نہ ہوئی تھی دیکھ کر شبہ ہوا۔ ابوالقاسم قدوقامت میں بلند بالا اور خوش اندام تھا جا ناکہ یہی بیرم خاں ہے اسے پکڑ لیا۔ بیرم خاں کی نیک ذاتی و جوانمردی اور نیک نیتی پر ہزار آفرین ہے کہ خود آگے بڑھا اور کہا کہ اسے کیوں پکڑا ہے بیرم خاں تو میں ہوں۔ ابوالقاسم کو دس ہزار آفرین ۔ کہا کہ یہ میرا غلام ہے مگر وفا دار ہے۔ اپنی جان کو حق نمک پر فدا کرنا چاہتا ہے اسے چھوڑ دو۔ خیر ۔ بے قضانہ کوئی مر سکے نہ بچ سکے۔ وہ بے چارہ شیر شاہ کے سامنے آکر مارا گیا۔ اور بیرم خاں موت کامنہ چڑا کر صاف نکل گئے۔ شیر شاہ کو بھی خبر ہوئی اس ماجرے کو سنکر افسوس کیا او ر کہا۔ جب اس نے ہمارے جواب میں کہا تھا کہ چنیں است ہر کہ جو ہر اخلاص دارد خطا نمیکند ۔ ہمیں اسی وقت کھٹکا ہوا کہ یہ اٹکنے والا نہیں۔ جب خدا نے پھر اپنی خدائی کی شان دکھائی اکبر کا زمانہ تھا اور وہ ہندوستان نے سفید و سیاہ کا مالک تھا تو ایک دن کسی مصاحب نے پوچھا کہ مسند عالی عیسیٰ خاں اس وقت آپ سے کس طرح پیش آئے تھے ۔ خان خاناں نے کہا جان انہوں نے بچائی تھی۔ وہ ادھر آئے نہیں اور تو کیا کروں اگر آئیں تو کم سے کم چندیری کا علاقہ نذر کروں۔ بیرم خاں وہاں سے گجرات پہنچا سلطان محمود سے ملا۔ وہ بھی بہت چاہتا تھا کہ میرے پاس رہے اس سے حج کے بہانے رخصت لے کر بندر سورت میں آیا اور وہاں سے آقا پیارے کا پتا لیتا ہوا سندھ کی سرحد میں جا پہنچا۔ ہمایوں کا حال سن ہی چکے ہو ۔ کہ قنوج کے میدان سے بھاگ کر آگرہ میں آیا۔ قسمت برگشتہ ۔ بھائیوں کے دل میں دغا۔ امرا بے وفا ۔ سب نے یہی کہا کہ اب یہاں کچھ نہیں ہو سکتا۔ لاہور میں بیٹھ کر صلاح ہو گی۔ یہاں آکر کیا ہونا تھا۔ کچھ نہ ہوا۔ یہ ہوا کہ غنیم شیر ہو کر دبائے چلا آیا ۔ ناکام بادشاہ نے جب دیکھا کہ دغا باز بھائی وقت ٹال رہے ہیں اور پھنسانے کی نیت ہے۔ اور غنیم ہندوستان پر چھتا ہوا سلطان پور کنار بیاس تک آپہنچا ہے ناچار ہند کو خدا حافظ کہہ کر سندھ کا رخ کیا اور 3 برس تک وہاں قسمت آزماتا رہا۔ جب بیرم خاں وہاں پہنچا ہمایوں مقام جون کنارہ دریائے سندھ پر ارغونیوں سے لڑتا تھا۔ روز معرکے ہو رہے تھے اگر چہ شکست دیتا تھا مگر رفیق مارے جاتے تھے جوتھے ان سے وفا کی امید نہ تھی ۔ خانخاناں جس دن پہنچا 7محرم 950ھ تھی۔ لڑائی ہو رہی تھی اس نے آتے ہی دور سے یہ لطیفہ نذر کیا کہ ملازمت بھی نہ کی سیدھا میدان جنگ میں پہنچا اپنے ٹوٹے پھوٹے نوکروں اور خدمت گاروں کو ترتیب دیا اور ایک طرف سے موقع دیکھ کر حملہ ہائے مردانہ اور نعرہ ہائے شیرانہ شروع کر دیئے۔ لوگ حیران ہوئے کہ یہ غیبی فرشتہ کون اور کہاں سے آیا۔ دیکھیں تو بیرم خاں ساری فوج خوشی کے مارے غل مچانے لگی۔ ہمایوں اس وقت ایک بلندی سے دیکھ رہا تھا۔ حیران ہوا کہ معاملہ کیا ہے۔ چند نوکر پاس حاضر تھے ایک آدمی دوڑ کرآگے بڑھا اور خبر لایا کہ خانخاناں آپہنچا۔ یہ وہ وقت تھا کہ ہمایوں ہندوستان کی کامیابی سے مایوس ہو کر چلنے کو تیار تھا ۔ کلایا ہوا دل شگفتہ ہو گیا اور ایسے جاں نثار با اقبال کے آنے کو سب مبارک شگون سمجھے۔ حب حاضر ہوا تو ہمایوں نے اٹھ کر گلے لگا لیا۔ دونو مل کر بیٹھے۔ مدتوں کی مصیبتیں تھیں اپنی اپنی کہانیاں سنائیں۔ بیرم خاں نے کہا کہ یہ جگہ امید کا مقام نہیں۔ ہمایوں نے کہا چلو جس خاک سے باپ دادا ٹھے تھے اسی پر چل کر بیٹھیں ۔ بیرم خاں نے کہا کہ جس زمین سے حضور کے والد نے پھل نہ پایا حضور کیا لینگے۔ ایران کو چلئے وہ لوگ مہمان پر ور اور مسافر نواز ہیں ملا حضہ فرمایئے کہ امیر تیمور جدا اعلیٰ حضور کے تھے۔ ان کے ساتھ شاہ صفی نے کیا کچھ کیا۔ اور ان کی اولاد نے دودفعہ آپ کے ولد کو مدد دی۔ ملک ماوراء النہر پر قبضہ دلایا۔ تھمنا و تھمنا خدا کے اختیار ہے۔ رہایا نہ رہا۔ اور ایران فدوی اور فدوی کے بزرگوں کا وطن ہے۔ وہاں کے کاروبار سے غلام خوب واقف ہے۔ ہمایوں کی بھی سمجھ میں آگیا اور ایران کا رخ کیا۔ اس وقت بادشاہ اور امرائے ہمراہی کی حالت ایک لٹے قافلہ کی تصویر تھی یا کاروان وفا کی فہرست جس میں سب نوکر چا کر مل کر 70آدمی سے زیادہ نہ تھے لیکن جس کتاب میں دیکھا اول نمبر پر بیرم خاں کا نام نظر آتا ہے۔ اور حق پوچھو تو اس کے نام سے فہرست کی پیشانی کو چمکانا چاہیے تھا۔ وہ رزم کا بہادر اور بزم کا مصاحب سایہ کی طرح پیارے آقا کے ساتھ تھا۔ جب کوئی شہر پاس آتا تو آگے جاتا اور اس خوبصورتی سے مطالب ادا کرتتا کہ جا بجا شاہانہ شانہ شان سے استقبال اور نہایت دھوم دھام سے ضیافتیں ہوتی گئیں۔ قزوین کے مقام سے شاہ کی خدمت میں نامہ لیکر پہنچا اور اس خوبی سے وکات کا حق ادا کیا کہ شاہ مہماں نوازآبدیدہ ہوا بیرم خاں کی بھی بہت خاطر کی۔ اور بڑی عزت سے مہمانداری کی۔ جو مراسلہ جواب میں لکھا اس میں عزت و احترام کے ساتھ کمال شوق ظاہر کیا اور یہ شعر بھی لکھا ؎ ہمائے اوج سعادت بدام ما افتد اگر تر ا گذرے بر مقام ما افتد جب تک ایران میں رہے وہ ہما کا سایہ ہمایوں کے ساتھ تھا ہر ایک کام اور پیغام اسی کے ذریعے سے طے ہوتا تھا بلکہ شاہ اکثر خود بلا بھیجتا تھا کیونکہ عقل و دانش کے ساتھ اس کی مزہ مزہ کی باتیں اور حکایاتیں اور شعر و سخن ۔ لطائف و ظرائف سن کر وہبھی بہت خوش ہوتا تھا۔ شاہ یہ بھی سمجھ گیا کہ یہ خاندانی سردار نمک حلالی اور وفا داری کاجوہر رکھتا ہے اسی واسطے طبل و علم کے ساتھ خانی کا خطاب عطا کیا تھا اور شکار جرگہ میں بھی جو رتبہ بھائی بند شہزادوں کا ہوتا ہے وہ بیرم خاں کا تھا۔ جب ہمایوں ایران سے فوج لیکر پھر ادھر آیا تو قندھار کو گھیرے پڑا تھا۔ بیرم خاں کو ایلچی کر کے کامران مرزا اپنے بھائی کے پاس کا بل بھیجا کہ اسے بھیجا کہ اسے سمجھ کر راہ پر لائے۔ اور یہنازک کام حقیقت میں اسی کے قابل تھا رستہ میں ہزارے کی قوم نے روکا اور سخت لڑائی ہوئی۔ بہادر نے ہزاروں کو مارا اور سیکڑوں کو باندھا اور بھگایا۔ میدان صاف کر کے کابل پہنچا۔ وہاں کامران سے ملا اور اس انداز سے مطلب ادا کئے کہ اسوقت اس کا پتھر دل بھی نرم ہوا۔ کامران سے کچھ کام نہ نکلا۔ البتہ اتنا فائدہ ہوا کہ بعض شہزادے اور اکثر سردار کچھ اس کی رفاقت میں اور کچھ اسکی قید میں تھے اور سب سے جدا جدا ملا۔ ہمایوں کی طرف سے بعض کوتحفے دیئے۔ بعض کو مراسلوں کے ساتھ بہت سے محبت کے پیام پہنچائے۔ اور سب کو دلوں کو پر چایا۔ کامران نے اتنا پردہ کیا کہ ڈیڑھ مہینے کے بعد خانہ زاد بیگم بڑی پھوپھی کو بیرم خاں کے ساتھ مرزا عسکری کی طرف روانہ کیا کہ اسے سمجھائے۔اور ہمایوں کو عذر معذرت کے ساتھ صلح کا پیغام بھیجا۔ جب ہمایوں نے قندھار فتح کیا تو جس طرح شاہ سے اقرار کر آیا تھا وہ علاقہ ایرانی سپر سالار کے حوالے کر دیا اور آپ کا بل کو چلا جسے کا مران دبائے بیٹھا تھا۔ امرانے کہا جاڑے کا موسم سر پر ہے۔ رستہ کڈھب ہے ، عیاں اور اسباب کا ساتھ لے چلنا مشکل ہے ۔ بہتر ہے کہ قندھار سے بداغ خاں کو رخصت کیا جائے حرم بادشاہی بھی یہاں آرام پائینگے۔ اور خانہ زادوں کے عیال بھی ان کے سایہ میں رہینگے۔ ہمایوں کو بھی یہ صلاح پسند آئی اور بداغ خاں کو پیغام بھیجا۔ ایرانی فوج نے کہا کہ جب تک ہمارے شاہ کا حکم نہ آئے۔ ہم یہاں سے نہ جائیں گے۔ ہمایوں لشکر سمیت باہر پڑا تھا۔ ملک برفانی اس پر بے سامانی غرض سخت تکلیف میں تھے۔ امرا نے سپاہیانہ منصوبہ کھیلا ۔ پہلے کئی دن ولایتی اور ہندی سپاہی بھیس بدل کر شہر میں جاتے رہے۔ گھاس اور لکڑیوں کی گٹھریوں میں ہتھیار پہنچاتے رہے۔ ایک دن صبح نور کے تڑکے گھاس کے اونٹ لدے ہوئے شہر کو جاتے تھے کئی سردار اپنے اپنے بہادر سپاہیوں کو ساتھ لئے انہیں کی آڑ میں دبکے دبکے شہر کے دروازے پر جا پہنچے۔ یہ جانباز مختلف دروازوں سے گئے تھے۔ چنانچہ گندگان دروازہ سے بیرم خاں نے بھی حملہ کیا تھا۔ پہرے والوں کو کاٹ کر ڈال دیا اور دم کے دم میں اس طرح پھیل گیا کہ ایرانی حیرانی میں آگئے۔ ہمایوں مع لشکر شہر میں داخل ہوا۔ اور جاڑ اآرام سے بسر کیا۔ لطیفہ یہ ہے کہ شاہ کو بھی خالی نہ چھوڑا ۔ ہمایوں نے مراسلہ لکھا کہ بداغ خاں نے تعمیل احکام میں کوتاہی کی اور ہمراہی سے انکار کیا اس لئے مناسب معلوم ہوا کہ ا سے ملک قندھار لیا جائے۔ اور بیرم خاں کے سپرد کیا جائے کہ بیرم خاں دامن دولت سے وابستہ ہے۔ اور خاک ایران کا پتلا ہے۔ یقین ہے کہ اب بھی ملک مذکور کو آپ دربار ایران سے متعلق سمجھیں گے۔ خاص اس معرکہ میں بیرم خاں کی ہمت یا حسن تدبیر پر اہل نظر بہت سوچ کر رائے لگائیں کہ قابل تعریف ہے ، یا محل اعتراض کیونکہ اسے جس زور سے اپنے آقا کی خدمت کیلئے جانفشانی کرنی واجب تھی۔ اسی طرح آقا کو یہ بھی سمجھانا واجب تھا کہ برف کا موسم گزر جائیگا۔ مگر بات رہ جائیگی۔ اور دربار ایران بلکہ ملک ایران اس معاملہ کو سن کر کیا کہیگا۔ جس لشکر اور سر کی بدولت ہم کو یہ دن نصیب ہوئے۔ اس یکو ہم تلوار سے کاٹیں اور اس برف و باران میں تلوار کی آنچ دکھا کر گھروں سے نکالیں کب مناسب ہے۔ افسوس باوفابیرم یہاس شاہ کی فوج اور سردار فوج ہے ۔ جس سے خلوت و جلوت میں تم کیا کیا باتیں کرتے تھے اور اب اگر کوئی موقع آن پڑے۔ تمہیں وہاں جانے کا منہ ہے یا نہیں بیرم خاں کے طرفدار ضرور کہیں گے۔ کہ وہ نوکر تھا ۔ اور اس اکیلے آدمی کی رائے جلسہ مشورہ کو کیونکر دبا سکتی تھی۔ اسے یہ بھی خطر ہو گا کہ امرائے ماوراء النہری آقا کے دل میں میری طرف سے یہ شک نہ ڈالیں کہ بیرم خاں ایرانی ہے۔ ایرانیوں کی طرفداری کرتا ہے۔ دوسرے برس ہمایوں نے پھر کابل پر فوج کشی کی اور فتح پائی۔ بیرم خاں کو قندھار کا حاکم کر کے چھوڑ آیا تھا۔ کابل کا فتحنامہ جو ہمایوں نے لکھا تو یہ شعر خود کہے اور اپنے ہاتھ سے اس پر لکھے اور فتحنامے کو محبت نامہ بنا کر بیرم خاں کو بھیجا۔ مثنوی شکر للہ کو بازشادانیم بررخ یاردوست خند انیم دشمناں رابکام دل دیدیم میوہ باغ فتح راچیدیم روز نور وزبیرم است امروز دل احباب بے غم است امروز شاد بادا ہمیشہ خاطر یار غم نگزر دبگر دیار و دیار ہمدا سباب عیش آماداست دل فکر و صالت افتاداست کہ جمال حبیب کے بنیم گل زباغ و صال کے چینم گوش خرم شودز گفتارت دیدروشن شودزدیدارت درحریم حضور شادبہم بنشینیم خرم و بے غم بعدزاں فکر کار ہند کنیم عزم تسخیر ملک سند کنیم ہردرے بستہ کشادہ شود ہرچہ خواہیم ازاں زیادہ شود انچہ خواہیم اززمان وزمیں گوید آمین جبرئیل امین یا الہٰی میرم گرداں دوجہاں رامسخرم گرداں۔ اور خط کے حاشیہ پر یہ رباعی لکھی رباعی اے آنکہ انیس خاطر مخرونی چوطبع لطیف خویش موزونی بے یاد توام نیست زمانے ہرگز آیا تو بیاد من مخروں چونی بیرم خاں نے اس کے جواب میں اس طرح عقیدت ظاہر کی ۔ رباعی اے آنکہ بذات سایہ بیچونی ازہر چہ تر اوصف کنم افرذنی چوں میدانی کہ بے توچوں میگرزد چوں مے پرسی کہ در فراقم چونی بیرم خاں قندھار میں تھا وہاں کے انتظام کرتا تھا اور جو جو حکم پہنچتے تھے نہایت گرمجوشی اور عرقریزی سے تعمیل کرتا تھا باغیوں اور نمک حراموں کو کبھی مار کر بھگاتا تھا کبھی تابع کر کے دربار کو روانہ کرتا تھا۔ تاریخ کے جاننے والے جانتے ہیں کہ وطن کے امراو شرفانے بابر سے کیسی بیوفائی اور نمک حرامی کی تھی مگر اس کی مروت نے بے وفاؤں سے کبھی آنکھ نہ چرائی تھی۔ اسی باپ کی آنکھ سے ہمایوں نے سر مہ مروت کا نسخہ لیا تھا۔ اس لئے بخارا و سمر قند اور فرغانہ کے بہت لوگ آن موجود ہوئے تھے۔ اول تو قدیم الایام سے توران کی خاک ایران کی دشمن ہے۔ اس کے علاوہ تورانیوں کا مذہب بھی سنت و جماعت ہے۔ ایرانی تمام شیعہ ۔ غرض 961ھ میں ہمایوں کو شبہ ڈالا کر بیرم خاں قندھار میں خود سری کا ارادہ رکھتا ہے۔ اور شاہ ایران سے سازش رکھتا ہے۔ صورت احوال کے ساان ایسے تھے کہ ہمایوں کی نظرم میں اس شبہ کا سایہ یقین کا پتلا بن گیا چوں مضامین مجمع گردو شاعری دشوار منیست ۔ کابل کے جھگڑے ہزاروں اور افغانوں کی سر شوریاں ۔ سب اسی طرح چھوڑیں اور چند سواروں کے ساتھ گھوڑے مار کر خود قندھار پر جا کھڑا ہوا۔ بیرم خاں بڑا رمز شناس اور معاملہ فہم تھا اس نے بدگویوں کی بدی اور ہمایوں کی بد گمانی پر ذرا دل میلانہ کیا۔ اور اس عقیدت اور عجزو نیاز سے خدمت بجا لایا کہ خود بخود چغل خوروں کے منہ کالے ہوگئے۔ دو مہینے ہمایوں وہاں ٹھیرا۔ ہندوستان کی مہم سامنے تھی خاصر جمع سے کابل کو پھرا۔ بیرم خاں کو بھی حال معلوم ہو گیا تھا۔ چلتے ہوئے عرض کی ۔ غلام کو حضور اپنی خدمت میں لے چلیں۔ منعم خاں یا جس جان نثار کو مناسب سمجھیں یہاں چھوڑیں۔ ہمایوں بھی اسکے جوہروں کو پرکھ چکا تھا اسکے علاوہ قندھار ایک ایسے نازیک موقع پر واقع ہوا تھا کہ ادھر ایران کا پہلو تھا ادھر ترکان اذبک کا۔ ادھر سرکش افغانوں کا اس لئے وہاں سے اس کا سر کانا مصلحت نہ سمجھا۔ بیرم خان نے عرض کی کہ اگر یہی مرضی ہے تو ایک اور سردار میری اعانت کو مرحمت ہو چنانچہ بہادر خاں علی قلیخاں شیبانی کے بھائی کو زمین و اور کا حاکم کر کے چھوڑا۔ ایک دفعہ کسی ضرورت کے سبب سے بیرم خاں کا بل میں حاضر ہوا۔ انفاقاً عید رمضان کی دوسری تاریخ تھی ہمایوں بہت خوش ہوا۔ اور بیرم خاں کی خاطر سے باسی عید کو تازہ کر کے دوبارہ جشن شاہانہ کے ساتھ دربار گیا۔ دوبارہ نذریں گزریں اور سب کو خلعت اور انعام و اکرام دیئے۔ قبق اندازی اور چوگان بازی کے ہنگامے گرم ہوئے۔ بیرم خاں اکبر کو لیکر میدان میں آیا ۔ اسی 10 برس کے لڑکے نے جاتے ہی کدو پر تیر مارا اور ایسا صاف اڑایا کہ غل مچ گیا۔ بیرم خاں نے مبارکباد میں قصیدہ کہا مطلع عقد قبق ۔ بود خدنگ تو ازکجک کرداز ہلال صورت پر دیں شہباب حک اکبر کے عہد میں بھی کئی سال قند ھارا س کے نام پر رہا شاہ محمدقندھاری اس کی طرف سے نائب تھا وہی انتظام کرتا تھا۔ ہمایوں نے آکر کابل کا انتظام کیا اور لشکر لیکر ہندوستان کو روانہ ہوا۔ بیرم خاں سے کب بیٹھا جاتا تھا قندھار سے برابر عرضیاں شروع کر دیں کہ اس مہم میں غلام خدمت سے محروم نہ رہے۔ ہمایوں نے فرمان طلب بھیجا۔ وہ اپنے پرانے پرانے کا رآزمودہ دلاوروں کو لیکر دوڑا اور پشاور کے ڈیروں لشکر میں شامل ہوا۔ سپہ سالاری کا خطاب ملا اور صوبہ قندھار جاگیر میں عنایت ہو کر ہندوستان کو روانہ ہوئے۔ یہاں بھی امرا کی فہرست میں سب سے پہلے بیرم خاں کا نام نظر آتا ہے۔ جس وقت پنجاب میں داخل ہوئے ادھر ادھر کے ضلعوں میں بڑے بڑے لشکر افغانوں کے پھیلے ہوئے تھے مگر ادبار آچکا تھا کہ انہوں نے کچھ بھی ہمت نہ کی لاہور تک بے جنگ ہمایوں کے ہاتھ آیا۔ ہمایوں لاہور میں ٹھیرا اور امرا کوآگے روانہ کیا۔ افغان کہیں کہیں تھے۔ مگر جہاں تھے گھبرائے ہوئے تھے۔ اور آگے کو بھاگے جاتے تھے۔ جالندھر پر لشکر شاہی کا مقام تھا۔ خبر آئی کہ تھوڑی دور آگے افغانوں کا انبوہ کثیر جمع ہو گیا ہے۔ خزانہ ومال بھی سب ساتھ ہے اور آگے کو جایا چاہتا ہے تردی بیگ مال کے عاشق تھے ۔ انہوں نے چاہعا کہ بڑھ کرہاتھ ماریں خان خاناں سپہ سالار نے کہلا بھیجا کہ مصلحت نہیں۔ بادشاہی جمعیت تھوڑی ہے غنیم کا انبوہ ہے اور خزانہ و مال اس کے پاس ہے مباداکہ پلٹ پڑے اور مال کے لئے جان پر کھیل جائے اکثر امرا کی رائے خانخاناں کے ساتھ تھی۔ یہ اس نے نہمانا اور چاہا کہ اپنی جمعیت کے ساتھ دشمن پر جا پڑے۔ دوستوں میں تلوار چل گئی۔ طرفین سے بادشاہ کو عرضیاں گئیں ۔ وہاں سے ایک امیر فرمان لیکر آیا اپنوں کو آپس میں ملایا اور لشکر آگے روانہ ہوا۔ ستلج پر آکر پھر اختلاف ہوا خبر لگی کہ ماچھی واڑہ کے مقام پر 30 ہزار افغان ستلج پار پڑے ہیں ۔ خانخاناں اسی وقت اپنی فوج لیکر روانہ ہوا کسی کو خبر نہ کی اور مارا مار دریا پار اتر گیا شام قریب تھی کہ دشمن کے قریب جا پہنچا۔ جاڑے کا موسم تھا خبردار نے خبر دی کہ افغان ایک آبادی کے پاس پڑے ہیں۔ اور خیموں کے آگے لکڑیاں اور گھاس جلا جلا کر سینک رہے ہیں تاکہ اگتے رہیں اور روشنی میں رات کی بھی حفاظت رہے۔ اور اس نے اور بھی غنیمت سمجھا۔ دشمن کی کثرت کا ذرا خیال نہ کیا ایک ہزار سوار سے کہ خاص جاں نثار تھے۔ گھوڑے اٹھائے اور فوج دشمن کے پہلو پر جا کھڑا ہوا وہ بجواڑہ کے مقام میں پانی کے کنارے پر پڑے تھے سر اٹھا یا تو موت چھاتی پر نظر آئی۔ گھبرا گئے۔ احمقوں نے جتنی لکڑیاں اور گھاس کے ڈھیر تھے۔ سب میں بلکہ ان کے ساتھ آبادی کے چھپروں میں بھی آگ لگا دی کہ خوب روشنی ہو جائیگی تو دشمن کو اچھی طرح دیکھیں گے ترکوں کو اور بھی موقع ہاتھ آیا خوب تاک تاک کر نشانے مارنے لگے۔ افغانوں کے لشکر میں کھلبلی پڑ گئی۔ علی قلی خاں شیبانی کہ خانخاناں کی دستگیری سے ہمیشہ قوی بازو تھا سنتے ہی دوڑا اور اور سرداروں کو خبر ہوئی وہ بھی اپنی اپنی فوجیں لیکر دوڑا دوڑ آن پہنچے۔ افغان بد حواس ہو گئے۔ لڑائی کا بہانہ کر کے سوار ہوئے۔ خیمے ڈیرے اسباب اسی طرح چھوڑا۔ اورس یدھے دلی کو بھاگ گئے۔ بیرم خاں نے فورا خزانوں کا بندوبست کر لیا جو عجائب و نفائس گھوڑے ہاتھی ہاتھ آئے عرضی کے ساتھ لاہور کو روانہ کئے۔ ہمایوں نے عہد کیا تھا کہ جب تک جئے گا۔ ہندوستان میں کسی بندے کو بردہ نہ سمجھیگا چنانچہ جو عورت لڑکا لڑکی گرفتار ہوئے تھے سب کو چھوڑ دیا اور ترقی اقبال کی دعائیں لیں اس وقت ماچھی واڑے میں بڑی آبادی تھی۔ بیرم خاں آپ وہاں رہا اور سرداروں کو جا بجا افغانوں کے پیچھے روانہ کیا۔ دربار میں جب عرضی پیش ہوئی اور اجناس و اموال نظر سے گزرے سب خدمتیں مقبول ہوئیں۔ اور القاب میں خانخاناں کے خطاب پر یار و فا دار اور ہمدم غمگسار کے الفاظ بڑھائے۔ اس کے نوکروں کے لئے کیا اشراف کیا پاجی ۔ کیا ترک۔ کیا تاجیک ۔ سقہ ۔ فراش باورچی۔ ساربان تک سب کے نام بادشاہی دفتر میں داخل ہو گئے۔ اور خانی و سلطانی کے خطابوں سے زمانہ میں نامدار ہوئے۔ اور سنبھل کی سرکار اس کی جاگیر لکھی گئی۔ سکندر سور 80ہزار افغان کا لشکر جرار لئے سرہند پر پڑا تھا اکبر بیرم خاں کے سایہ اتالیقی میں اس پر فوج لیکر گیا۔ مہم مذکور بھی خوش اسلوبی سے طے ہوئی۔ اس کے فتحنامے اکبر کے نام سے جاری ہوئے۔ بارہ تیرہ برس کے لڑکے کو گھوڑا کدانے کے سوا اور کیا آتا ہے مگر وہی بات ع اے باوصبا ایں ہمہ آوردہ تست۔ جب ہمایوں نے دلی پر قبضہ کر لیا تو جشن شاہانہ ہوئے۔ امرا کو علاقے خلعت انعام و اکرام ملے۔ سب انتظام خانخاناں کی تجویز اور اہتمام سے تھے۔ سر ہند کا صوبہ اس کے نام پر ہوا کہ ابھی وہاں فتح عظیم حاصل کی تھی۔ سنبھل علی قلی خاں شیبانی کو ملا۔ پٹھان پنجاب کے پہاڑوں میں پھیلے ہوئے تھے۔ 963ھ میں ان کی جڑاکھاڑنے کے لئے اکبر کوفوج دیکر بھیجا۔ اس مہم کے بھی کل کاروبار خانخاناں کے ہاتھ میں دیئے۔ اتالیقی و سپہ سالاری کا عہدہ تھا ۔ اور اکبر اسے خان باباکہتا تھا ۔ ہونہار شہزادہ پہاڑوں میں دشمن شکاری کی مشق کرتا پھرتا تھا کہ دفعتہ ہمایوں کے مرنے کی خبرپہنچی۔ خانخاناں نے اس خبر کو بڑی احتیاط سے چھپا رکھا۔ لشکر کے امزا کو نزدیک دور سے جمع کر لیا۔ وہ سلطنت کے آئیں و آداب سے خوب واقف تھا۔ شاہانہ دربار کیا۔ اور تاج شاہی اکبر کے سر پر رکھا۔ اکبر باپ کے عہد سے اس کی خدمتیں اور عظمتیں دیکھ رہا تھا اور جانتا تھا کہ برابر تین پشت کا خدمت گزار ہے۔ چنانچہ اتالیقی و سپہ سالاری پر وکیل مطلق کا منصب زیادہ کیا۔ عنایات و اختیارات کے علاوہ خطاب خان بابا القاب میں داخل کیا۔ اور خود زبان سے کہا کہ خان بابا ! حکومت و امارت کے بندوبست۔ موقوفی و بحالی کے اختیار۔ سلطنت کے بد خواہوں او خیر خواہوں اور خیر خواہوں کا باندھنا ۔ مارنا ۔ بخشنا ۔ سب تمہیں اختایر ہے۔ کسی طرح کے دسواس کو دل میں راہ نہ دو۔ اور اسے اپنا ذممہ سمجھو۔ یہ سب اس کے معمولی کام تھے۔ فرمان جاری کر دیئے۔ اور سب کاروبار بدستور کرتا رہا۔ بعض سرداروں پر خود سری کا خیال تھا۔ ان میں سے ابو المعالی تھے۔ انہیں فورا باندھ لیا۔ اس نازک کام کو اس خوبصورتی سے طے کر دینا خان خاناں ہی کا کام تھا۔ اکبر دربار و لشکر سمیت جالندھر میں تھا ۔ جو خبر پہنچی کر ہیموڈ ھو سر نے آگرہ لیکر دلی مارلی۔ تردی بیگ حاکم وہاں کا بھاگا چلا آتا ہے۔ سب حیران رہ گئے۔ اور اکبر بھی بچپن کے سبب سے گھبرایا۔ وہ اسی امر میں جان گیا۔ تھا کہ ہر ایک سردار کتنے کتنے پانی میں ہے۔ بیرم خاں سے کہا کہ خان بابا تمام ملکی ومالی کا روبار کا تمہیں اختیار ہے۔ جس طرح مناسب دیکھو کرو۔ میری اجازت پر نہ رکھو۔ تم عموے مہربان ہو۔ تمہیں والد بزرگوار کی روح مبارک کی اور میرے سر کی قسم ہے کہ جو مناسب دیکھنا سو کرنا۔ دشمنوں کی کچھ پروانہ کرنا ۔ خان خاناں نے اسی وقت امرا کو بلا کر مشورت کی ۔ ہیموں کا لشکر لاکھ سے زیادہ سنا گیا تھا۔ اور بادشاہی فوج 20 ہزار تھی۔ سب نے بالاتفاق کہا کہدشمن کی طاقت اور اپنی حالت ظاہر ہے۔ ملک بیگانہ ۔ اپنے تئیں ہاتھیوں سے کچلوانا اور چیل کوؤں کو گوشت کھلانا کونسی بہادری ہے ؟ اس وقت مقابلہ مناسب نہیں کابل کو چلنا چاہیے وہاں سے فوج لیکر آئینگے۔ اور سال آئندہ میں افغانوں کا بخوبی علاج کرینگے۔ خانخاناں نے کہاکہ جس ملک کو دو دفعہ لاکھوں جانیں دیکر لیا۔ اس کو بے تلوار ہلائے چھوڑ جانا۔ ڈوب مرنے کی جگہ ہے۔ بادشاہ تو ابھی بچہ ہے۔ اسے کوئی الزام نہ دیگا۔ اس کے باپ نے عزتیں بڑھا کر ایران تو ران تک ہمارا نام روشن کیا۔ وہاں کے سلاطین و امرا کیا کہیں گے۔ اور سفید ڈاڑھیوں پر یہ رو سیاہی کا وسمہ کیسا زیب دیگا۔ اس وقت اکبر تلوار ٹیک کر بیٹھ گیا اور کہا خان بابا درست کہتے ہیں ۔ اب کہاں جانا اور کہاں آنا بن مرے مارے ہندوتان نہیں چھوڑا جا سکتا یا تخت یا تختہ ۔ بچہ کی اس تقریر سے بڈھوں کی خشک رگوں میں جرات کا خون سر سرایا۔ اور کوچ کا حکم ہو گیا ۔ دلی کی طرف فتح کے نشان کھول دیئے۔ رستہ میں بھاگے بھٹکے سردار اورس پاہی بھی آکر ملنے شروع ہوئے۔ خانخاناں ۔ فرزانگی۔ سخاوت ۔ شجاعت کے لحاظ سے یکتا تھے مگر جوہری زمانہ کی دکان میں ایک عجب رقم تھے کسی کو بھائی کسی کوبھتیجا بنا لیتے تھے۔ تردی بیگ کو بھی تقان تردی کہا کرتے تھے۔ مگر بات یہ ہے کہ دلوں سے دونو امیر آپس میں کھٹکے ہوئے ھتے۔ اورص ورتیں درباروں کی معمولی امر اتفاقی ہیں دونو ایک آقا کے نوکر تھے۔ خان خاناں کو اپنے بہت سے حقوق و اوصاف کے دعوے تھے۔ اسے جو کچھ تھا قدامت کا دعوے تھا۔ منصبوں کے رشک اور خدمتوں کی رقابت سے دونوں کے دل بھرے ہوئے تھے۔ اب ایسا موقع آیا کہ خان خاناں کا تیر تدبیر نشانے پر بیٹھا۔ چنانچہ اسکی بے ہمتی اور نمک حرامی کے حالات کیا نئے کیا پرانے حضور میں عرض کر دیئے تھے۔ جس سے کچھ قتل کی بھی اجازت پائی جاتی تھی۔ اب جو وہ شکست کھا کر شکستہ حال شرمندہ صورت لشکر میں پہنچا تو انہوں نے موقع غنیمت سمجھا۔ ان دنوں باہم شکر رنجی بھی تھی چنانچہ پہلے ملا پیر محمد نے جا کر وکالت کی کرامات دکھائی کہ ان دنوں خان خاناں کے خیر خواہ خاص تھے۔ پھر شام کو خاں خاناں سیر کرتے ہوئے نکلے۔ پہلے آپ اس کے خمیے میں گئے پھر وہ ان کے خیمہ میں آیا بڑی گر مجوشی سے ملے۔ تو قان بھائی کو بڑی تعظیم اور محبت سے بٹھایا خود ضرورت کے بہانے دوسرے خیمہ میں گئے۔ نوکروں کو اشارہ کر دیا تھا۔ انہوں نے بیچارے کا کام تمام کردیا۔ اور کئی سرداروں کو قید کر لیا۔ اکبر تیرہ چودہ برس کا تھا شکرے کا شکار کھیلنے گیا ہوا تھا۔ جب آیا تو خلوۃ میں ملا پیر محمد کو بھیجا۔ انہوں نے جا کر پھر اس سردار مردار کی طرف سے اگلی پچھلی نمک حرامیوں کے نقش بٹھائے۔ اور یہ بھی عرض کی فدوی خود تغلق آباد کے میدان میں دیکھ رہا تھا اس کی بے ہمتی سے فتح کی ہوئی لڑائی شکست ہو گئی ۔ خان خاناں نے عرض کی ہے کہ حضور دریائے کرم ہیں فدوی کو خیال ہوا کہ اگر آپ نے آکر اس کی خطا معاف کر دیا پھر تدارک نہ ہو سکے گا۔ مصلحت وقت پر نظر کر کے غلام نے اسے مارا تو سخت گستاخی ہے۔ اور موقع نہایت نازک ہے اگر اس وقت چشم پوشی کی تو سب کام بگڑ جائیگا۔ اور حضور کے بڑے بڑے ارادے ہیں۔ نمک خوار ایسا کرینگے۔ تو مہمات کا سر انجام کیونکر ہو گا۔ اس لئے یہی مصلحت سمجھی۔ اگرچہ گستاخانہ جرات ہے مگر اس وقت حضور معاف فرمائیں۔ اکبر نے ملا کی بھی خاطر جمع کی اور جب خان خاناں نے حضور ی کے وقت عرض کی تو اس وقت بھی اسے گلے لگایا اور اس کی تجویز پر آفرین و تحسین کر کے فرمایا کہ میں تو مکرر کہہ چکا ہوں کہ اختیارتمہارا ہے۔ کسی کی پروا اور کسی کا لحاظ نہ کرو۔ اور حاسدوں اور خود مطلبوں کی ایک بات نہ سنو جو مناسب دیکھو وہ کرو۔ ساتھ یہ مصرع پڑھا ع دوست گردوست شود ہر دو جہاں دشمن گیر ۔ باوجود اس کے اکثر مورخ یہی لکھتے ہیں کہ اس وقت اگر ایسا نہ ہوتا تو چغتائی امیر ہرگز قابو میں نہ آتے۔ اور وہی شیر شاہی شکست کا معاملہ پھر ہو جاتا۔ یہ انتظام دیکھ کر ایک ایک مغل سردار کہ اپنے تئیں کیکاؤس اور کیقباد سمجھے ہوئے تھا ہوشیار ہو گیا۔ اور خود سری اور نفاق کا خیال بھلا کر سب ادائے خدمت پر متوجہ ہو گئے یہ سب کچھ ہوا۔ اور اس وقت سب حریف دبک بھی گئے مگر دلوں میں زہر کے گھونٹ پی پی کر رہ گئے۔ غرض پانی پت کے میدان میں ہیموں سے مقابلہ ہوا۔ اور ایسی گھمسان کی لڑائی ہوئی کہ اکبری سکہ کا نقش فتوحات کے تمغوں پر بیٹھ گیا۔مگر اس معرکہ میں جتنی بیرم خاں کی ہمت اور تدبیر تھی اس سے زیادہ علی قلی خاں کی شمشیر تھی ۔ غرض ہیموں زخمی شکستہ بستہ اکبر کے سامنے لا کر کھڑا کیا گیا۔ شیخ گدائی کنبوہ نے اکبر کو کہا کہ جہاں اکبر کیجئے۔ ہمت اکبر نے گوارا نہ کیا آخر بیرم خاں نے بادشاہ کی مرضی دیکھ کر یہ شعر پڑھا ؎ چہ حاجت تیغ شاہی رانجون ہرکس لٓودن تو بنشیں داشارت کن بچشمے یا با بروئے اور بیٹھے بیٹھے ایک ہاتھ جھاڑا۔ پھر حضرت شیخ نے خود ایک ہاتھ پھینکا۔ مرے کو ماریں شاہ مدار اہل اللہ لوگ حال و قال کی مجلسوں کو رونق دینے والے تھے۔ انہیں یہ ثواب کی نعمت کہاں ملتی ع اچھا ہوا کہ دل کا یہ ارماں نکل گیا۔ آزاد ۔ دیکھنا قسمت والے ایسے ہوتے ہیں جہاد اکبر کا ثواب کیسا سستا ہاتھ آیا ہے۔ یہ سب تودرست ۔ مگر خان خاناں ! تمہارے لوہے کہ زمانے نے مانا ۔ کون تھا جو تمہاری بہادری تسلیم نہ کرتا ۔ میدان جنگ میں مقابلہ ہو جاتا تو بھی تمہارے لئے بنئے بچارے کا مار لینا فخر نہ تھا۔ چہ جائیکہ اس حالت میں نیمجاں مردے کو مار کر اپنی دلاوری اور عالی ہمتی کے دامن پر کیوں داغ لگایا ؎ کسی بیکس کو اے بیداد گر مارا تو کیا مارا جو آپ ہی مر رہا ہوا اس کو گرمارا توکیا مارا بڑے موذی کو مارانفس امارہ کو گرمارا نہنگ و اژدھا ؤ شیر نرمارا تو کیا مارا لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ خانخانان نے اسے زندہ کیوں نہ رکھا۔ منتظم آدمی تھا۔ رہتا تو بڑے بڑے کام کرتا۔ آزاد سب کہنے کی باتیں ہیں جب معرکہ کا وقت ہوتا ہے عقل چرخ میں آجاتی ہے۔ موقع نکل جاتا ہے۔ تو صلاحیں بتاتے ہیں۔ انصاف شرط ہے۔ اس وقت کوت و دیکھو کہ کیا عالم تھا۔ شیر شاہ کا سایہ ابھی آنکھوں کے سامنے سے نہ ہٹا تھا۔ بلکہ افغانوں کے شور سے تمام کشور ہندوستان طوفان آتش ہو رہا تھا۔ ایسے زبردست اور فتحیاب غنیم پر فتح پائی۔ گرداب فنا سے کشتی نکل آئی۔ اور وہ بندھ کر سامنے حاضر ہوا ہے دل کا جوش اس وقت کس کے قابو میں رہتا ہے اور کسے سوجھتا ہے کہ یہ رہے گاتو اس سے فلاں کار خانہ کا انتظام خوب ہو گا۔ غرض فیروزی کے ساتھ دلی پہنچے اور ادھر ادھر فوجیں بھیج کر انتظام شروع کر دیئے۔ اکبر کی بادشاہی تھی۔ اور بیرم خاں کی سربراہی ۔ دوسرے کا دخل نہ تھا۔ شکار کو جانا شکار گاہوں میں رہنا۔ محل میں کم جانا اور جو کچھ ہو باجازت خان خانان۔ اگرچہ امرائے دربار اور بابری سردار اس کے با لیاقت اختیاروں کو دیکھ نہ سکتے تھے۔ مگر کام ایسے پیچیدہ پیش آتے تھے۔ کہ اس کے سوا کوئی ہاتھ نہ ڈال سکتا تھا۔ سب کو اس کے پیچھے پیچھے چلنا ہی پڑتا تھا۔ اسی عرصہ میں کچھ جزوی جزوی باتوں پر بادشاہ اور وزیر میں اختلاف پڑا۔ اس پر یاروں کا چمکانا غضب خدا جانے نازک مزاج وزیر کئی دن تک سوار نہ ہوا۔ یا قدرتی بات ہوئی کہ کچھ بیمار ہوا۔ اس لئے کئی دن حضور میں نہ گیا۔ موقع وہ کہ سنہ دوم جلوس میں سکندر کوہستان جالندھر میں محصور ہوا ہے۔ اکبری لشکر قلعہ مانکوٹ کو گھیرے ہوئے تھے۔ خانخانان کے دنبل نکلا تھا کہ سوار بھی نہ ہو سکتا تھا۔ اکبر نے فتوحا اور لکھنہ ہاتھی سامنے منگائے اور لڑائی کا تماشہ دیکھنے لگا۔ یہ بڑے دھاوے کے ہاتھی تھے۔ دیر تک آپس میں ریلتے دھکیلتے رہے اور لڑتے لڑتے بیرم خان کے خیموں میں آن پڑے۔ تماشائیوں کا ہجوم ۔ عوام کا شوروغوغا۔ بازار کی دکانیں پامال ہوگ ئیں۔ اور ایسا غل مچا کر بیرم خاں گھبرا کر باہر نکل آیا۔ خان خانان کو شمس الدین محمد خاں اتکہ کی طرف خیا ل ہوا کہ اس نے کچھ بادشاہ کے کان بھرے ہونگے۔ اور ہاتھی بھی بادشاہ کے اشارے سے ادھر ہو لے گئے ہیں۔ تاہم اتکہ لیاقت کی پتلی اور بڑی حوصلے والی بی بی تھی۔ خان خانان کے اس کی زبانی کہلا بھیجا کہ اپنی دانست میں کوئی خطا خیال میں نہیں آئی کہ خانہ زاد سے ظہور میں آئی ہو پھر اس قدربے اعتنائی کا سبب کیاہے۔ اگر اس خیر اندیش کی طرف سے کوئی بات خلاف واقع حضور تک پہنچ ہے تو ارشاد ہو کہ فدوی اس کا عذر کرے۔ یہاں تک نوبت پہنچی کہ فددی کے خیمہ پر ہاتھی ہول دیئے۔ اسی عرض و معروض کے ساتھ ایک بی بی محل میں مریم مکانی کی بندمت میں پہنچی۔ ماہم نے جو حال تھا وہ خود ہی بیان کر دیا اور کہا کہ ہاتھی اتفاقاً ادھر آن پڑے بلکہ قسمیہ کہا نہ کسی نے تمہاری طرف سے کہا ہے نہ حضور کو کچھ خیال ہے ۔ لاہور میں پہنچے تو اتکہ خاں اپنے بیٹوں کو لیکر خان خانان کے پاس آئے۔ اور قرآن پر ہاتھ رکھ کر قسم کھائی کہ میں نے خلوت یا جلوت میں ہرگز تمہارے باب میں حضور سے کچھ نہیں کہا۔ اور نہ کہوں گا۔ سورخ یہی کہتے ہیں ۔ کہ خان خانان کی خاطر جمع اب بھی نہ ہوئی۔ اکبر کی دانائی کا نمونہ اس عمر میں اتنی بات سے معلوم ہوتا ہے کہ سلیمہ سلطان بیگم ہمایوں کی پھوپھی کی بیٹی بہن تھی۔ اور اپنے مرنے سے چند روز پہلے اس کی نسبت بیرم خاں سے ٹھیرادی تھی۔ اس موقع پر 964ھ اور سنہ 2 جلوسی تھے اور لاہور سے آگرہ کو جاتے تھے جالندھر یادلی کے مقام میں اکبر نے اس کا عقد کر دیا کہ اتحاد کا رشتہ اور مضبوط ہو گیا۔ بڑی دھوم دھام ہوئی۔ خان خانان نے بھی جشن شاہانہ کے سامان کئے۔ اکبر بموجب اس کی تمنا کے مع امرا کے خود اس کے گھر گیا۔ خانخانان نے بادشاہی نثاروں اور لوگوں کے انعام و اکرام میں وہ دریا بہائے کہ جو سخاوت کی شہرتیں زبانوں پر تھیں و انہوں میں آن پڑیں۔ اس شادی میں بیگمات نے بڑی تاکید سے صلاح دی۔ مگر بخاری و ما وراء النہری ترک کہ اپنے تئیں امرا کہہ کہہ کر فخر کرتے تھے۔ اس قرابت سے سخت ناراض ہوئے۔ اور کہا کہ ایرانی ترکمان اور وہ بھی نوکر۔ اس کے گھرمیں ہماری شہزادی جائے۔ یہ ہمیں زنہار گوارا نہیں۔ تعجب یہ ہے کہ پیر محمد خان نے اس آگ پر اور بھی تیل ٹپکا یا۔ آزاد ایرانی تورانی کا بہانہ تھا ۔ اور شیعہ سنی کا افسانہ ۔ رشک دہی منصب اور اس کے اختیارات کا تھا۔ آل تیمور اور آل بابر کی انہیں کیا پرواہ تھی ۔ خود نمک حرامیاں کر کے بابر کا چھ پشت کا ملک برباد کیا۔ ہندوستان میں آکر پوتے کے ایسے خیر خواہ بن گئے۔ اور بیرم خان بھی کچھ نیا امیر نہ تھا۔ پشتوں کا امیر زادہ تھا۔ اس کے علاوہ اس کی ننھیال کا خاندان تیموری سے رشتہ بھی تھا۔ خواجہ عطار خواجہ احسن مشہور بہ خواجہ زادہ چغانیاں مرز علائوالدین…… ان کی بی بی شاہ بیگم دختر محمود مرزا ۔ ابن سلطان ابو سعید مرزا تھی۔ دستر مذکور چوتھی پشت مرزا نورالدین میں علی شکر بیگ کی نواسی تھی کیونکہ علی شکر بیگ کی بیٹی شاہ بیگم شاہزادہ محمود مرزا سے منسوب تھی۔ اس سابقہ رشتے کے خیال سے بابر نے اپنی بیٹی گلرنگ بیگم کو مرزا انورالدین سے منسوب کیا۔ علی شکر کون ؟ خان خانان کے جد سوئمی اس سلسلے سے خدا جانے خانخانان کا خاندان تیموری سے کیا رشتہ ہوا۔ مگر ضرور کچھ نہ کچھ ہوا(دیکھو اکبر نامہ جلد دوم صفحہ 8اور مآثر الامرا میں بیرم خاں کا حال ) گگھڑ کی قوم کو قدیم سے دعوی ہے کہ ہم نوشیرداں کی اولاد ہیں۔ جہلم پار سے اٹک تک کی پہاڑیوں میں یہ لوگ پھیلے ہوئے تھے۔ ہمیشہ کے سر شور تھے۔ اور حکومت کے دعوے رکھتے تھے۔ اس وقت بھی ایسے ایسے ہمت والے سردار ان میں موجود تھے۔ کہ شیر شاہ ان کے ہاتھوں سے تھک گیا تھا۔ بابر اور ہمایوں کے معاملات میں بھی ان کے اثر پہنچتے تھے۔ ان دنوں میں سلطان آدم گھڑا اور اس کے بھائی بڑے دعوے کے سردار تھے۔ اورہمیشہ لڑتے بھڑتے رہتے تھے۔ خان خانان نے سلطان آدم کو حکمت عملی سے بلایا۔ وہ مخدوم الملک ملا عبداللہ سلطان پوری کی معرفت آیا۔ دربار میں پیش کیا اور خانخانان نے اسے رسم ہندوستان کے بموجب دستار بدل بھائی بنایا۔ ذرا اس کے ملک داری کے انداز تو دیکھو۔ خواجہ کلاں بیگ ایک پرانا سردار بابر کے عہد کا تھا۔ اس کا بیٹا مصاحب بیگ کہ شرارت اور فتنہ انگیزی میں بے اختیار تھا خانخانا ن نے ایک مفسدانہ جرم پر اسے مروا ڈالا۔ اس میں بھی قتل کے بانی ملا پیر محمد تھے۔ مگر دشمنوں کو تو بہانہ چاہئے تھے۔ بد نامی کا شیشہ خانخاں کے سینے پر توڑا۔ اور تمام امرائے شاہی میں غل مچ گیا بادشاہ کو بھی اس کے مرنے کا افسوس ہوا۔ ہمایوں اسے مصاحب منافق کہا کرتا تھا ۔ اور اس کی بداعمالیوں سے نہایت تنگ تھا۔ جب کابل میں کامران سے لڑائیاں ہو رہی تھیں ۔ تو یہ نمک حرام ایک موقع پر ہمایوں کے پاس تھا اور کامران کی خیر خواہی کے منصوبے باندھ رہا تھا۔ اندر اندر اسے پرچے بھی دوڑا رہا تھا۔ یہانتک کہ میدان جنگ میں ہمایوں کو زخمی کروا دیا۔ فوج نے شکست کھائ۔ی انجام یہ ہوا کہکابل ہاتھ سے نکل گیا۔ اکبر خرد سال ۔ پھر بے حرحم چچا کے کے پنجے میں پھنس گیا۔ اس کاق اعدہ تھا کہ کبھی ادھر ہوتا تھا کبھی ادھر چلا جاتا تھا۔ اور یہ اس کا ادنی کمال تھا ہمایوں ایک دفعہ نواح کابل میں کامران سے لڑ رہا تھا۔ اس موقع پر یہ اور اس کا بھائی مبار زبیگ ہمایوں کے ساتھ تھے۔ ایک دن میدان جنگ میں کسی نے آکر خبر دی کہ مبارزبیگ مارا گیا۔ ہمایوں نے بہت افسوس کیا اور کہا اس کی جگہ مصاحب مارا جاتا۔ ہمایوں کے بعد اکبری دور ہوا تو شا ابو المعالی جا بجا فساد کرتا پھرتا تھا یہ اس کے مصاحب بن گئے اور مدت تک اس کے ساتھ خاک اڑاتے پھرے۔ خانزمان باغی ہو گیا تو اس کے پاس جاموجود ہوئے بیٹے کو مہر دار کروا دیا۔ آپ عہدہ دار بن گئے۔ چند در چند بندوبستوں کے بعد دلی میں آئے خان خانان نے اس کے باب میں اصلاح مزاج کی تدبیریں کی تھیں مگر ایک کار گرنہ ہوئی اور دہ راہ پر نہ آیا۔ ان دنوں دارلخلافہ میں فساد کی تحمریزی کرنے لگا۔ بیرم خاں نے قید کر لیا۔ اور تجویز کی کہ مکہ گوروانہ کر دے۔ ملا پیر محمد اس وقت خانخانان کے مصاحب تھے اور یہ خون کے عاشق تھے اور انہوں نے کہا قتل پھر بھی قیل و قال کے بعد یہ ٹھیہری کہ ایک پرزہ پر قتل ایک پر نجات لکھ کر نمدتکیہ کے نیچے رکھ دو پھر ایکر پرچہ نکالو ۔ وہی حکم غیب ہے تقدیر الہٰی یہ کہ پیر کی کرامات سچی نکلی اور مصاحب دلی میں قتل ہوا۔ امرائے بادشاہی میں اغل مچ گیا کہ قدمی الخدمتوں کی اولاد اور خاص خانہ زاد مارے جاتے ہیں کوئی نہیں پوچھتا۔ تیموری خاندان کا آئین ہے کہ خاندانی نوکروں کو بہت عزیز رکھتے ہیں۔ بادشاہ کو بھی اس امر کا خیال ہوا۔ مصاحب بیگ کی آگ ابھی ٹھنڈی نہ ہوئی تھی کہایک شعلہ اور اٹھا۔ ملاپیر محمد اب بڑھتے بڑھتے امیر الامرا کے درجہ کو پہنچ کر وکیل مطلق ہو گئے تھے۔ سنہ 3 جلوس میں بادشاہ مع لشکر دلی سے آگرہ کو چلے خانخانان اور پیر محمد خاں ایک دن صبح کے وقت شکار کھیلتے چلے جاتے تھے۔ خانخانان نے اپنے رکابداروں سے پوچھا کہ بھوک لگی ہے ۔ ناشتے کے لئے رکاب خانہ میں کچھ موجود ہے ؟ پیر محمد خاں بول اٹھے کہ اگر ذرا ٹھیر جایئے تو جو کچھ حاضر ہے۔ وہ حاضر ہو۔ خان خاناں نوکروں سمیت ایک درخت کے نیچے اتر پڑا۔ دستر خوان بچھ گیا۔ 3سو پیالی شربت کی اور 7سو غوریاں کھانے کی موجود تھیں خانخانان کو تعجب ہو امنہ سے کچھ نہ کہا پردل میں خیال رہا ؎ مگر توب ے خبری کاندریں مقام ترا۔ چہ دشمنان حسودند دوستان غیور ۔ اس کے علاوہ چونکہ ملا اب وکیل مطلق تھا ہر وقت حضور میں حاضر رہتا تھا۔ سب کی عرضیاں اس کے ہاتھ پڑتی تھیں۔ تمام امرا اور اہل دربار بھی اسی کے پاس حاضر ہوتے البتہ پر ضرور تھا کہ وہ کم حوصلہ مغرور ۔ بیرحم اور کمینہ مزاج تھا۔ اہالی و اشراف وہاں جاتے تھے اور ذلت اٹھاتے تھے اسپر بھی بہتوں کو بات نصیب نہ ہوتی تھی۔ آگرہ پہنچ کر ملا کچھ بیمار ہوئے۔ خان خانان خبر کو گئے۔ کوئی ازبک غلام دروازہ پر تھا اسے کیا خبر تھی کہ ملا اصل میں کیا ہے ۔ اور خان خاناں کا رتبہ کیا ہے اور وہ دونوں قدیمی علاقہ کیا ہے وہ دن بھر میں بہت سے بڑے بڑوں کو روک دیا کرتا تھا۔ اپنی عادت کے بموجب انہیں بھی روکا اور کہا کہ جب تک دعا پہنچے آپ ٹھیریں۔ جب بلائیں گے تب جایئے گا۔ ملا آخر خان خانان کا چالیس برس کا نوکر تھا۔ تعجب پر تعجب ہوا۔ جزبز ہو کر رہ گیا اور زبان سے نکلاع بلے خود کر دہ راد ماں نہ باشد لیکن یہ آنا بھی آخر خانخاناں کا آنا تھا۔ یا قیامت کا آنا تھا۔ ملا سنتے ہی خود دوڑے آئے او کہتے جاتے تھے۔ معذور فرمایئے دربان آپ کو پہچانتا نہ تھا یہ بولے کر بلکہ تم بھی ! اس پر بھی یہ ہوا کہ خانخانان تواندر گئے خانی ملازموں میں سے کوئی اندر نہ جا سکا فقط طاہر محمد سلطان ۔ میر فراغت نے بڑی دھکاپیل سے اپنے تئیں اندر پہنچایا۔ خان خانان دم بھر بیٹے اور گھر چلے آئے۔ دو تین دن کے بعد خواجہ امینا (جواخیر میں خواجہ جہاں ہوگئے) اور میر عبداللہ بخشی کو ملا کے پاس بھیجا او ر کہا کہ تمہیں یاد ہو گا کتاب بغل میںمارے طالب العلمی اور نامرادی کی وضع سے تم قندھار میں آئے تھے۔ ہم نے تم میں قابلیت دیکھی اور اخلاص کی صفتیں پائیں۔ اور کوئی کوئی خدمت بھی تم سے اچھی بن آئی ۔ چنانچہ بدترین درجہ فقر طالب علمی سے عرش المراتب خانی وسلطانی اور درجہ امیر الامرائی تک پہنچایا۔ مگر تمہارا حوصلہ دولت و جاہ کی گنجائش نہیں رکھتا ۔ خطر ہے کہ کچھ ایسا فساد نہ اٹھاؤ جس کا تدارک مشکل ہو جائے۔ ان مصلحتوں پر نظر کر کے چند روز یہ غرور کا اسباب تم سے الگ کر لیتے ہیں تاکہ بگڑا ہوا مزاج اور معزور دماغ ٹھیک ہو جائے۔ مناسب ہے کہ علم و نقارہ اور اسباب حشمت سب سپرد کر دو۔ ملا کی کیا مجال تھی جو دم مار سکے۔ وہ غرور کا مواد جس نے بہت سی انسان صورتوں کوب ے عقل اور خبطی کر رکھا ہے ۔ بلکہ انسانیت 1 ؎ مفصل حالات کے لئے دیکھو صفحہ 722 اور آدمیت کے رستے سے گرایا ہے ۔ جنگل کے بھتوں میں ملایا اور ملاتا ہے۔ اسی وقت سب حوالہ کر دیا۔ اور وہی ملا پیر محمد رہ گئے جو کہ تھے۔ پہلے قلعہ بیانہ کے قید خانہ میں بھیج دیا۔ ملانے ایک رسالہ خان خانان کے نام پر تصنیف کیا اس میں فقط برہان تمانع کو طول و تفصیل کے ساتھ بیان کیا۔ اور یہ ایک مشہور مباحثہ علما میں ہے۔ گویا تفسیر ہے اس آیت کی وکان فیہما اطۃ الاللہ لفسدتا اس میں ایک لطیف اشارہ تھا اس بات کا کہ میری غلط فہمی تھی جو آپ کی بارگاہ اختیار کے سامنے اپنا خیمہ لگاتا تھا۔ اور اب میں آپ پر ایمان لا کر توبہ کرتا ہوں یہ رسالہ بھی بھیجا اور بہت سے عذر و معذرت کے خط لکھے۔ عجز و انکسار نے پہنچ کر شفاعت کی مگر قبول نہ ہوئی کہ بے وقت تھی۔ چند روز کے بعد براہ گجرات مکہ کو روانہ کردیا۔ اس کی جگہ حاجی محمد سیستانی کو بادشاہ کا استاد اور وکیل مطلق کر دیا کہ وہ بھی اپنا ہی دامن گرفتہ تھا۔ جب بادشاہ کو یہ حال معلوم ہوا۔ کچھ نہ کہا مگرر نج ہوا۔ شیخ گدائی کنبوہ شیخ جمالی کے بیٹے تھے اور مشائخوں میں داخل ہو گئے تھے۔ جس وقت ہمایوں کی 1 ؎ ملا پیر محمد یہاں سے چلے۔ گجرات کے پاس رادھن پور میں پہنچ کر مقام کیا۔ وہاں فتح خاں بلوچ نے بہت خاطر داری کی یہاں سے ادہم وغیرہ امرا کے خط پہنچے کہ جہاں ہو وہیں ٹھیر جاؤ۔ اور انتظار کر و کہ پر وہ غیب سے کیا ظاہر ہوتا ہے بیرم خاں کو خبر ہوئی کہ ملا وہاں بیٹھے ہیں۔ انہوں نے کئی سرداروں کوفوج کیس اتھ روانہ کیا۔ ملا ایک پہاڑ کی گھاٹی میں گھس کر اڑے اور دن بھر لڑے رات کو نکل گئے۔ مال اسباب ان کا سب بیرم خانی سپاہ کے ہاتھ آیا اہلکار دیکھتے تھے مگر پیش کس کی جائے۔ بادشاہ دیکھتے تھے اور شربت کے گھونٹ پیتے جاتے تھے۔ آزاد تماشہ دیکھنے والے ان بناتوں کو سن کر جوچاہیں باتیں بنائیں لیکن تم غور کرو۔ ایک شخص پر کل سلطنت کا بوجھ ہے۔ درستی و خرابی کا ذمہ دار وہ ہے جب ارکان سلطنت اییس گردن کش اور خود سرہوں اور سینہ زہ رہوں تو وہ ان سے سلطنت کا کام کیونکر چلا سکتا ہے حقیقت میں یہ لوگ اس کے ہا تھ پاؤں ہیں۔ جب ہاتھ پاؤں بجائے کام کرنے کے کام بگاڑنے والے ہوں تو اسے واجب سہے کہ اور ہاتھ پاؤں پیدا کرے یا کام سے دست بردار ہو جائے ۔ 2 ؎ مجھے اب تک نہیں کھلا کر شیخ گدائی کی ذات یا صفات میں کیا داغ تھا۔ ہر صاحب تاریخ ان کے باب میں گول گول باتیں کرتا ہے مگر کھول کر نہیں کہتا جو کچھ حال ان کا اور ان کے خاندان کا مختلف مقاموں سے معلوم ہوا ہے اس کے لئے دیکھو تتمہ ۔ خان خانان نے جو انہیں صدارت کا منصب دیا بادشاہی فرمان میں جہاں اور اعتراض کیا ہے خان خانان نے ضرور کہا ہو گا کہ شیخ نے میرے ساتھ جو رفاقت کی تھ۔ی شاہ جنت مکان کا ملازم سمجھ کر کی تھی۔ اور بادشاہی امید پر کی تھی۔ اب جو کچھ اس کے ساتھ کیا گیا خدمت بادشاہی کا صلہ ہے ۔ کوئی اپنا حق قرابت نہیں ہے۔ جو لوگ باپ دادا کا نام لیکر آج حاضر خدمت ہیں۔ اس وقت کہاں گئے تھے ؟ حریفوں کے ساتھ تھے یا جان بچا گئے تھے جنہوں نے رفاقت کی ان کاحق بہر صورت مقدم ہے۔ اور حضور حق شناسی سے قطع نظر کر کے دیکھیں آئین مملکت کیا فتوی دیتا ہے ؟ ظاہر ہے کہ جولوگ برے وقت میں رفاقت کرتے ہیں اگر بھلے وقت میں ان سے سلوک نہ کیا جائے تو آئندہ کسی کو کیا امید ہو گی اور کس بھر وسے پر کوئی رفاقت کریگا۔ مسجد نیشن ملانے یا خود غرض لوگ جو چاہیں سو کہیں۔ یہ مسجد و مدرسہ کا وظیفہ ملیں کہ حضرت پیر صاحب کی اولاد میں یا مولوی صاحب کے بیٹے ہیں انہیں کودے دو یہ مہمات سلطنت ہیں ذرا سی اونچ نیچ میں بات بگڑ جاتی ہے اور اس سے ایسا طوفان اٹھ کھڑا ہوتا ہے کہ ملک و مملکت تہ و بالا ہو جاتے ہیں اور ذرا ہی سی بات میں بن بھی جاتے ہیں۔ پھر کسی کو معلوم بھی نہیں ہوتا کہ یہ کیا تھا۔ آزاد جن مشائخ اور اماموں سے اونچا بٹھایا تھا۔ غور تو کرو۔ وہ کون تھے ؟ وہی بزرگوار جن کا حال چند سال کے بعد کھل گیا۔ اگر ایسے لوگوں سے اونچا بٹھا دیا تو کیا کفر ہو گیا ؟ سلطنت بگڑی اور خان خاناں پر وقت پڑا تو انہوں نے گجرات میں کچھ رفاقت کی تھی۔ اب انہیں صدارت کا منصب دیکر کل اکابر و مشائخ بند سے اونچا بٹھایا۔ خود ان کے گھر جاتے تھے۔ بلکہ بادشاہ بھی کئی دفعہ گئے تھے اور اس پر لوگوں نے بہت چرچا کیا تھا او کہتے تھے ع سگ نشیند بہ جائے گیپائی۔ اب وہ وقت آیا کہ یا تو خان خانان کی ہر تجویز عین تدبیر تھی۔ یا ہر بات نظروں میں کھٹکنے لگی اور حکموں پر پر ناراضیاں بلکہ شوروغل ہونے لگے ۔ خیر وہ برائے نام وزیر تھا مگر عقل و تدبیر کا بادشاہ تھا ۔ جب لوگوں کے کے چرچے سنے اورب ادشاہ کو بھی کھٹکتے دیھکا تو گوالیار کا علاقہ مدت سے خود سر تھا۔ بادشاہی فوج بھی گئی تھی۔ کچھ بندوست نہ ہو سکتا تھا۔ اب اس نے بادشاہ سے کچھ مدد نہ لی۔ خاص اپنی ذاتی فوج سے گیا۔ اور اپنے جیب خرچ سے لشکر کشی کی۔ آپ جا کر قلعہ کے نیچے ڈیرے ڈال دیئے۔ مورچے باندھے اور حملہ ہائے شیرانہ اور شمشیر دلیرانہ سے قلعہ توڑا۔ اور ملک فتح کر دیا۔ بادشاہ بھی خوش ہوگئے اور اور لوگوں کی زبانیں بھی قلم ہو گئیں۔ ملک مشرقی میں افغانوں نے ایسا سکہ بٹھایا تھا کہ کوئی امیر ادھر جانے کا حوصلہ نہ کرتا تھا۔ خان زمان کہ بریم خان کا داہنا ہاتھ تھا۔ اور اس پر بھی دشمنوں کا دانت تھا۔ اس نے ادھر کی مہم کا ذمہ لیا اور ایسے ایسے کارمے کئے کہ رستم کے نام کو پھر زندہ کر دیا۔ چندیری اور کالپی کا بھی وہی حال تھا۔ خان خاناں نے اس پر بھی ہمت کی مگر امیروں نے بجائے مدد کے بد مددی کی ۔ بنانے کے عوض کا م خراب کیا ۔ غنیموں سے سازشیں کر لیں۔ اس لئے کامیاب نہ ہوا فوج ضائع ہوئی روپیہ برباد ہوا اور ناکام چلا آیا۔ مالوہ کی مہم کا چرچا ہورہا تھا۔ عرض کی۔ فدوی بذات خود جائے گا۔ اور اپنے خرچ خاص سے اس مہم کو سر کرے گا۔ چنانچہ خود لشکر لیکر گیا۔ امرائے دربار مدد کی جگہ بد خواہی پر کمر بستہ ہو گئے۔ اطراف کے زمینداروں میں مشہور کیا کہ خان خانان پر بادشاہ کا غضب ہے ۔ اور بادشاہ کی طرف سے خفیہ حکم لکھ لکھ کر بھیجے کہ جہاں موقع پاؤ اس کا کام تمام کردو اب اس کا رعب داب کیا رہا۔ اس حالت میں اگر وہ کسی سردار یا زمیندار کوت وڑ کر موافق کرے اور انعام یا اعزاز کے وعدے کرے تو کون مانتا ہے۔ انجام یہ ہوا کہ وہاں سے بھی ناکام پھرا۔ بنگالہ کی مہم کا بیڑا اٹھایا۔ وہاں بھی دوغلے دغا بازدوستوں نے دونوں طرف مل کرکام خراب کر دیئے بلکہ نیکنامی تودڈرکنار پہلے الزاموں طرہ زیادہ ہوا کہ خان خاناں جہاں جاتا ہے جان بوجھ کر کام خراب کرتا ہے بات وہی ہے کہ اقبال کا ذخیرہ ہو چکا ۔ جس کاگم پر ہاتھ ڈالتا تھا۔ بنا ہوا بگڑ جاتا تھا ۔ اللہ اللہ یا تو وہ عالم کو جو بات ہے۔ پوچھو خان بابا سے ۔ جو مقدمہ ہے۔ کہو خان خانان سے سلطنت کے سفید و سیاہ کا کل اختیار۔ آفتاب اقبال اس اوج پر کہ جس سے اونچا ہونا ممکن نہیں(مشکل یہ ہے کہ اس نقطہ پر پہنچ کر ٹھہرنے کا حکم نہیں) افسوس اب اس کے ڈھلنے کا وقت آگیا۔ ظاہری صورتیں یہ ہوئیں کہ بادشاہی ہاتھیوں میں ایک مست ہاتھی فیلبان کے قابو سے نکل گیا۔ اور بیرم خاں کے ہاتھی سے جالڑا۔ ہر چند بادشاہی فیلبان نے روکا مگر ایک تو ہاتھی اس پر مست نہ دب سکا۔ اور ایسی بے جگہ ٹکر ماری کہ بیرم خاں کے ہاتھی کی انتڑیاں نکل پڑیں۔ خان بڑے خفا ہوئے اور فیلبان شاہی کوقتل کیا۔ انہی دنوں میں ایک خاصہ کا ہاتھی مستی میں آکر جمنا میں اتر گیا۔ اور بد مستیاں کرنے لگا۔ بیرم خاں بھی کشتی میںسوار سیر کرتے پھرتے تھے کہ ہاتھی اپنی ہتیائی کرنے لگا۔ اور ٹکر کو دریائی ہاتھی پر آیا۔ یہ حال دیکھ کر کناروں سے غل اور دریا میں شوراٹھا۔ ملاح بھی گھبراگئے ۔ ہاتھ پاؤں مارتے تھے۔ اور دل ڈوبے جاتے تھے۔ خان پر عجب حالت گزری بارے مہاوت نے ہاتھی کو دبا لیا۔ اور بیرم خاں اس آفت سے بچ گئے اکبر کو خبر پہنچی۔ مہاوت کوب اندھ کر بھیج دیا مگر یہ پھر چال چوکے کہ اسے بھی وہی سزا دی۔ اکبر کوب ڑا رنج ہوا۔ اور تھوڑا بھی ہوا ہو گا۔ تو بڑھانے والے موجود تھے۔ قطرہ کو دریا بنادیا ہو گا۔ غلطی پر غلطی یہ ہوئی کہ بادشاہ کے خاصہ کے ہاتھی امرا کو تقسیم کر دیئے کہ اپنے اپنے طور پر انہیں تیار کرتے رہیں۔ اس کا عذر یہی ہو گا۔ کہ نوجوان بادشاہ کے خیالات انہی کے سبب سے پریشان ہوتے ہیں۔ نہ یہ ہونگے۔ نہ یہ خرابیاں ہونگی اور اس کا ہر وقت کا مشغلہ یہی تھا ۔ وہ بہت گھبرایا اور دق ہوا۔ خانخانان کے دشمن توبہتیرے تھے مگر ماہم بیگم ادھر خاں اس کا بیٹا۔ شہاب خاں اس کا رشتہ کا داماد اور اکثر رشتہ دار ایسے تھے کہ اندر باہر ہر طرح کی عرض کا موقع ملتا تھا۔ اکبر اس کا اور اس کے لواحقوں کا حق بھی بہت مانتا تھا۔ یہ علامہ بڑھیا ہر دم لگاتی بجھاتی رہتی تھی اور جوان میں سے موقع پاتا تھا۔ بات بات پر اکساتا تھا کبھی کہتے تھے کہ یہ حضور کو بچہ سمجھتا ہے اور خاطر میں نہیں لاتا۔ بلکہ کہتا ہے کہ میں نے تخت پر بٹھایا۔ جب چاہوں اٹھادوں اور جسے چاہوں بٹھادوں۔ کبھی کہتے کہ شاہ ایران کے مراسلے اس کے پاس آتے ہیں۔ اور اس کی عرضیاں جاتی ہیں فلاں سوداگر کے ہاتھ تحائف بھیجے تھے۔ درباری رقیب جانتے تھے کہ بابر اور ہمایوں کے وقت کے پرانے پرانے خدمت گزار کہاں کہاں ہیں اور کون اشخاص ہیں جن کے دل میں خان خانان کی رقابت یا مخالفت کی آگ سلگ سکتی ہے۔ ان کے پاس آدمی بھیجے تمہیں یاد ہے شیخ محمد غوث گوالیاری کا دربار سے کیونکر سلسلہ ٹوٹا اور وہ ان سب باتوں کو خانخانان کے اختیارات کا پھل سمجھے تھے۔ ان کے پاس بھی خطوط بھیجے۔ اور مقدمات کے ایچ پیچ سے آگاہ کر کے برکت انفاس کے طلبگار ہوئے۔ وہ مرشد کامل تھے۔ نیت خالص سے شریک ہوئے۔ اگرچہ سلسلہ کلام پھیلتا جاتا ہے مگر اتنی بات کہے۔ بغیر آزاد آگے نہیں چل سکتا کہ باوجود تمام اوصاف و کمالات اور دانائی و فرزانگی کے بیرم خاں میں چند باتیں تھیں جو زیادہ تر اس کی برہمی کا سبب ہوئیں۔ (1)اولو اعلزم صاحب جرات شخص تھا۔ جو مناسب تدبیر دیکھتا تھا۔ کر گزرتا تھا ۔ اس میں کسی کا لحاظ نہ کرتا تھا۔ اور اس وقت تک زمانہ ایسا پایا تھا کہ سلطنت کی نازک حالتوں اور بھاری مہموں میں دوسرا شخص ہاتھ بھی نہ ڈال سکتا تھا۔ اب وہ وقت نکل گئے تھے۔ پہاڑکٹ گئے تھے۔ دریا پایا ب ہو گئے تھے کام ایسے پیش آتے تھے کہ اور بھی کر سکتے تھے۔ مگر یہ بھی جانتے تھے کہ خانخاناں کے ہوتے ہمارا چراغ نہ جل سکیگا۔ (2) وہ اپنے اوپر کسی اور کو دیکھ بھی نہ سکتا تھا۔ پہلے وہ ایسے مقام میں تھا کہ اس سے اوپر جانے کو رستہ بھی نہ تھا۔ اب سرٹک صاف بن گئی تھی اور ہر شصخ کے ہونٹ بادشاہ کے کان تک پہنچ سکتے تھے۔ پھر بھی اس کے ہوتے بات کا پیش جانا مشکل تھا۔ (3) عظیم الشان مہموں اور پیچیدہ معرکوں کے لئے اسے ایسے بالیاقت شخصوں اور سامانوں کا تیار رکھنا واجب تھا۔ جن سے وہ اپنی برجستہ تدبیروں اوربلند ارادوں کو پورا کر سکے۔ اس کے لئے روپوں کی نہریں اور چشمے جاگیریں اورعلاقے قابو میں ہونے چاہئیں۔ ابتک وہ اس کے ہاتھ میں تھے۔ اب ان پراوروں کو بھی قابض ہونے کی ہوس ہوئی۔ لیکن یہ خطر ضروری تھجا۔ کہ اس کے سامنے قدم جمنے مشکل ہونگے(4) اس کی سخاوت اورق در دانی ہر وقت با لیاقت اشخاص کا مجمع اور بہادر سپاہیوں کا انبوہ اس دقر فراہم رکھتی تھی کہ تیس ہزار ہاتھ اس کے دستر خوان پر پڑتا تھا۔ اسی واسطے جس مہم پر چاہتا فورا ہاتھ ڈالدیتا تھا۔ اس کی تدبیر کا ہاتھ ہرملک و مملکت میں پہنچ سکتا تھا اور سخاوت اس کی رسائی کو بڑھاتی رہتی تھی۔ اس لئے جو الزام لگاتے وہ اس پر لگ سکتا تھا۔ (5)اسے یہ خیال ضرور ہو گا کہ اکبری وہی بچہ ہے جو یمیر گود میں کھیلا ہے اور یہاں بچے کے لہو میں خود مختاری کی گرمی سر سرانے لگی تھی۔ اس پر حریفوں کی اشتعالک براقت کر مائے جاتی تھی۔ یہ سب کچھ تھا مگر جو جو خدمتیں اس نے عقیدت و اخلاص سے کی تھیں ۔ ان کے نقش اکبر کے دل میں بیٹھے ہوئے تھے۔ ساتھ ہی اس کے یہ بھی تھا کہ کسی کو نوکر نہ رکھ سکتا تھا۔ کسی کو کچھ نہ سکتا تھا۔ خانخاناں کے متوسل اچھے اچھے علاقوں میں تعینات تھے وہ باسامان اور خوش لباس نظر آتے تھے۔ جو خاص بادشاہی نو کر کہلاتے تھے۔ وہ ویران جاگیریں پاتے تھے اور ٹوٹے پھوٹے حال سے پھرتے تھے۔ بھانڈا یہاں سے پھوٹتا ہے کہ 967ھ سنہ 5 جلوس میں اکبر اور بیرم خاں مع اہل دربار آگرہ میں تھے۔ مریم نکانی ولی میں تھیں۔ حریف ساتھ لگے ہوئے تھے۔ اور ہر دم فساد کے منتر اس پر دم کرتے چلے آتے تھے۔ بیانہ کے مقام میں یہی ذکر ایک جلسہ میں چھڑا۔ مرزا اشرف الدین اکبر کے بہنوئی بھی موجود تھے۔ انہوں نے صاف کہدیا کہاس نے بندوبست کر لیا ہے۔ آپ کو تخت سے اٹھا وے اور کامران کے بیٹے کو بٹھا دیے۔ خود غرضوں کی صلاحیں مطابق ہوئیں اور اکبر شکار کواٹھا۔ آگرہ سے جالیسر اور سکندرہ ہوتے ہوئے خورجہ ہو کر سرائے بگھل میں آن اترے ۔ ماہم نے رستہ میں دیکھا کہ اس وقت بیرم خاں سے میدان خالی ہے۔ بسورتی صورت بنا کر اکبر کے سامنے آئی۔ اور کہ بیگم کا ضعیفی او ناطاقتی سے عجب حال ہے۔ کئی خط میرے پاس آئے ہیں ۔ حضور کے دیکھنے کو ترستی ہیں۔ بادشاہ کو بھی اس بات کا خیال ہو گیا۔ ادہم خاں اور اکثر رشتہ دار کہ صاحب رتبہ امیر تھے۔ دلی ہی میں تھے اسی عرصہ میں ان کی عرضیاں پہنچیں۔ آخر لہو کاجوش تھا۔ بادشاہ کا دل کڑھ گیا۔ اوردلی کو چلے شہاب خاںپنجہزاری امیر تھا۔ اور ماہم کا رشتہ دار تھا۔ اس کی بی بی پایا آغا مریم مکانی کی رشتہ دار تھی اس وقت وہی دلی کا حاکم تھا۔ دلی پچیس تیس کوس رہی ہوگی کہ وہ بڑھ کر استقبال کو پہنچا اورہ بہت سے نذرانے پیشکش گزرانے اور شہاب الدین حمد خاں گیا۔ بعد اس کے خلوت میں گیا۔ کانپتی ہانپتی صورت بنا کر بولا کہ حضور کے قدم دیکھے ۔ زہے طالع مگر اب جانثاروں کی جانوں کی خیر نہیں خانخاناں سمجھیں گا کہ حضور کا دلی میں آنا ہمارے اشارہ سے ہوا ہے ۔ پس جو مصاحب بیگ کا حال ہوا سو ہمارا ہو گا۔ محل میں ماہم نے یہی رونا رویا بلکہ اس کے اختیارات اور انجام کی قباحتیں دکھا کر تنکے کو پہاڑ کر دکھایا ۔ اورکہا کہ اگر بیرم خاں ہے تو حضور کی سلطنت نہیں۔ اور سلطنت تو اب بھی وہی کرتا ہے سردست تو یہی مشکل ہے کہوہ کہیگا کہ آپ میری بے اجازت گئے۔ ان کی اشارت سے گئے۔ اتنی طاقت کس میں ہے کہاس کا مقابلہ کر سکے یا اس کے غصہ کو سنبھال سکے۔ اب شفقت شاہانہ یہی ہے کہ اجازت ہو جائے۔ یہ قدیمی خانہ زاد خانہ خدا کو چلے جائیں۔ وہاں غائبانہ دعائوں سے خدمت بجا لائیں گے۔ 1 ؎ مرزا اشرف الدین ایک کا شغری خواجہ زاد تھے۔ جب ئے تو ایسے گربہ مسکین تھے کہ اکبر نے خانخاناں کی صلاح سے اپنی بہن کی شادی کر دی۔ خانخاناں کے بعد باغی ہوگئے۔ وہ ملک کو تباہ کرتے پھرتے تھے اور امرا فوجیں لئے پھرتے تھے۔ خانخانان ہی کار عب واب تھا کہایسوں کو دبا رکھا تھا۔ ان سرکش گردنوں نے جو کچھ کیا اس کی سزا پائی بعض کے حالات تتمے میں دیکھو گے۔ دیکھو صفحہ 747۔ (2) اہل تاریخ کہتے ہیں کہبادشاہ آگرہ سے شکار کو نکلے تھے۔ رستے میں یہ کار سازیاں ہوئیں۔ ابوالفضل کہتے ہیں کہ اکبر نے ان لوگوں کے ساتھ اندر اندر بندوبست کر لئے تھے شکار کا بہانہ کر کے دلی میں آئے اور خانخاناں کی مہم کو طے کیا۔ اکبر نے کہا میں خان بابا کو تمہاری عفو تقصیر کے لئے لکھتا ہوں۔ چنانچہ شقہ لکھا کہ ہم آپ مریم مکانی کی عیادت کویہاں آئے ہیں۔ ان لوگوں کو اس میں کچھ دخل نہیں ہے۔ اس خیال سے ان کے دل بہت پریشان ہیں۔ تم ایک حظ اپنی مہرو دستخط سے انہیں لکھ بھیجو کہ ان کی تشفی خاطر ہو جائے اور اطمینان سے ادائے خدمت میں مصروف رہیں وغیرہ وغیرہ ۔ اتنی گنجائش دیکھتے ہی سب پھوٹ بہ۔ شکایتوں کے دفتر کھولدیئے۔ شہاب الدین احمد خاں نے اصلی اور وصلی کئی مقدمے اور مثلییں تیار رکھی تھیں۔ ان کے حالات عرض کئے۔ دو تین رفیق گواہی کے لئے تیار کر رکھے تھے۔ اننہوں نے گواہیاں دیں۔ غرض اس کہ بد اندیشی اور بغاوات کے ارادے ایسے بادشاہ کے دل پر نقش کردیئے کہ اس کا دل پھر گیا۔ اور سوا اس کے چارہ نہ دیکھا کہ اپنی حالت کو ان کی صلاح و تدبیر کے حوالے کر دے۔ ادھر خان خاناں کے پاس جب شقہ پہنچا اور ساتھ ہی ہوا خواہوں کے خطوط پہنچے کہ دربار کارنگ بے رنگ ہے تو کچھ حیران ہوا۔ کچھ پریشان ہوا ۔ کمال عجزو انکساری کے سات عرضی لکھی اور قسم ہائے شرعی کے ساتھ لکھا ۔جس کا خلاصہ یہ کہ جو خانہ زاد اس درگاہ کی خدمت وفا واخلاص سے کرتے ہیںغلام کے دل میں ہرگز ان کیطرف سے برائی نہیں وغیرہ وغیرہ ۔ یہ عرضی خواجہ امین الدین محمود کی پھر خواجہ جہاں ہوئے اور حاجی محمد خاں سیتانی اور رسول محمد خاں اپنے معتبر سرداروں کے ہاتھ روانہ کی ۔ اور کلام اللہ ساتھ بھیجا کہ قسموں کا وزن زیادہ ہو۔ یہاں کام حد سے گزر چکا تھا۔ تحریر کا اثر کچھ نہ ہوا۔ کلام بالائے طاق اورعجز ونیاز کے امانت دارق ید ہو گئ۔ شہاب الدین احمد خاں باہر وکیل مطلق ہو گئے ماہم اندر ہی اندر بیٹھی حکم احکام جاری کرنے لگی۔ اور مشہور کر دیا کہ خان خانان حضور کی غضبی میں آیا بات منہ سے نکلتے ہی دور پہنچ گئی۔ امرا اور ملازم دربار جو آگرہ میں خان خاناں کے پاس تھے۔ اٹھ اٹھ کر دلی کو دوڑے۔ دامن گرفتہ لوگ اپنے ہاتھ کے رکھے ہوئے نوکر الگ ہو ہو کر چلنے شروع ہوئے یہاں جو آتا ماہم اور شہاب الدین احمد خاں اس کامنصب بڑھاتے۔ جاگیریں اور خدمتیں دلواتے۔ صوبجات اور اطراف و اجوانب میں جو امرا تھے ان کے نام احکام ہماری کئے۔ شمس الدین خاں اتکہ کو بھیرہ علاقہ پنجاب میں حکم پہنچا کہ اپنے علاقہ کا بندوبست کر کے لاہور کو دیکھتے ہوئے جلد دلی میں حاضر حضور ہو۔ منعم خاں بھی احکام و ہدایات کے ساتھ کابل سے طلب ہوئے۔ یہ پرانے سردار کہنہ عمل سپاہی تھے کہ ہمیشہ بیرم خاں کی آنکھیں دیکھتے رہے۔ ساتھ ہی شہر پناہ اور قلعہ دہلی کی مرمت اور مورچہ بندی شروع کر دی۔ واہ رے بیرم تیری ہیبت۔ یہاں خانخانان نے اپنے مصاحبوں سے مشورہ کیا۔ شیخ گدائی اور چند اور شخصوں کی یہ رائے تھی کہ ابھی حریفوں کا پلہ بھاری نہیں ہوا۔ آپ یہاں سے جریدہ سکوار ہوں ۔ اور نشیب و فراز سمجھا کہ بادشاہ کو پھر قابو میں لائیں کہ فتنہ انگیزوں کو فساد کا موقع نہ ملے۔ بعض کی رائے تھی کہ بہادر خاں کو فوج دیکر ماوہ پر بھیجا ہے۔ خود وہاں چلو اور ملک تسخیر کر کے بیٹھ جاؤ۔ پھر جیسا موقع ہو گا۔ دیکھا جائیگا۔ بعض کی صلاح تھی کہ خانزمان کے پاس چلو ۔ پورب کا علاقہ افغانوں سے بھرا ہوا ہے۔ صاف کرو اور چند روز وہاں بسر کرو۔ خانخاناں ہر شخص کا بلکہ زمانے کا مزاج پہچانے ہوئے تھا۔ اس نے کہا کہ اب حضور کا دل مجھ سے پھر گیا۔ کسی طرح نبھنے کی نہیں۔ تمام عمر دولت خواہی میں گزاری ۔ بڑھاپے میں بد خواہی کا داغ پیشانی پر لگانا ہمیشہ کے لئے منہ کا لا کرنا ہے۔ ان خیالوں کو بھول جاؤ۔ مجھے حج اور زیارات کا مدت سے شوق تھا۔ خدا نے خود سامان کر دیا ہے۔ ادھر کا ارادہ کرنا چاہئے۔ امرا اور رفقا جو ساتھ تھے انہیں خو د دربار کو رخصت کر دیا۔ وہ سمجھا اور خوب سمجھا کہ یہ سب بادشاہی نوکر ہیں۔ انہوں نے اگرچہ مجھ سے بہت فائدے اٹھائے ہیں۔ بلکہاکثر میرے ہاتھ کے بنائے ہوئے ہیں۔ لیکن ادھر بادشاہ ہے۔ اگر میرے پاس رہے تو بھی عجب نہیں کہ ادھر خبریں دے رہے ہوں یا دینے لگیں اور اخیر کو اٹھ بھاگیں بہتر ہے کہ میں خود انہیں رخصت کر دوں۔ وہاں جا کر شائد کچھ اصلاح کی صورت نکالیں کیونکہ آخرمجھ سے نقصان نہیں پایا۔ پایا ہے تو فائدہ ہی پایا ہے۔ بیرم خاں نے خانزمان کے بھائی بہادر خاں کو فوج دیکر مالوہ کی مہم پر بھیجا تھا۔ دربار کا یہ حال دیکھ کر بلا بھیجا کہ اس کی ضروریات کو دربار سے کون خبر لیگا۔ دربار سے اس کے نام بھی حکم طلب پہنچا۔ اس میں کئی مطلب ہونگے۔ اول یہ کہ وہ دونوں بھائی خان خاناں کے دوبازو تھے مبادا کہ بے اختیار ہو کر اٹھ کھڑے ہوں دوسرے یہ کہ ذاتی فائدہ کی امید پر اس سے پھریں اور ادھر مڑیں۔ اگر نہ مڑیں تو منحرف تو نہ ہوں۔ مگر بہادر بچپن میں اکبر کے ساتھ کھیلا ہوا تھا اور اکبر اسے بھائی کہتا تھا اس لئے ہر بات میں اس سے بے تکلف تھا۔ غالباً ان کے ڈھب کا نہ نکلا ہو گا۔ اور خان خاناں کی طرف سے صفائی کے نقش بٹھاتا ہو گا۔ اس لئے بہت جلد اسے اٹاوہ کا حاکم کر کے مغرب سے مشرق میں پھینک دیا۔ شیخ گدائی وغیرہ رفقانے صلاحیں دیں اور خاں خاناں نے بھی چاہا تھا کہ آپ حضور میں حاضر ہواور باتیں جرم و گناہ قرار دی گئیہیں۔ انکی عذر معذرت کر کے صفائی کرے۔ بعد اس کے رخصت ہو ۔ یا جیسا وقت کا موقع دیکھے ویسا کرے۔ لیکن حریفوں نے وہ بھی نہ چلنے دی انہیں یہ ڈر ہوا جب یہ اکبر کے سامنے آیا۔ اپنے مقاصد کو پر اثر تقریر کے ساتھ اس طرح ذہن نشین کریگا کہ جو نقش ہم نے اتنے دنوں میں بٹھائے ہیں ۔ سب مٹ جائینگے۔ اور بنی بنائی عمارت کو چند باتوں میں ڈھاوے گا۔ اکبر کو یہ ڈرایا کہ وہ خود صاحب فوج و لشکر ہے۔ امرا سب اس سے ملے ہوئے ہیں نمک حلالوں کی تعداد بھی بہت کم ہے۔ اگر وہ یہاں آیا تو خداجانے کیا صورت ہو۔ بادشاہ بھی لڑکا ہی تھا۔ ڈر گیا اور صاف لکھ بھیجا کہ ادھر آنے کا ارادہ نہ کرنا۔ ملازمت نہ ہوگی۔ اب تم حج کو جاؤ۔ پھر آؤ گے تو پہلے سے بھی زیادہ خدمت پاؤ گے۔ بڈھا خدمت گزار اپنے مصاحبوں کی طرف دیکھ کر رہ گیا کہ تم کیا کہتے تھے اور میں کیا کہتا تھا اور اب کیا کہتے ہو۔ غرض حج کا ارادہ مصمم کیا۔ اکبر کی خوبیوں کی تعریف نہیں ہو سکتی۔ میر عبداللطیف قزوینی کہ اب ملا پیر محمد کی جگہ استاد تھے اور دیوان حافظ پڑھایا کرتے تھے۔ انہیں فہمائش کر کے بھیجا اور زبانی پیغام دیا کہ تمہارے حقوق خدمت اور اخلاص عقیدت عالم پر روشن ہیں۔ ابھی تک ہماری طبیعت سیرو شکار کی طرف مائل تھی کاروبار ملکی تم پر چھوڑ دیئے تھے۔ اب مرضی ہے کہ مہمات خلائق کو بذات خود سرانجام فرمائیں تم مدت سے ترک دنیا کا ارادہ رکھتے ہو۔ اور سفر حجاز کا شوق ہے۔ یہ نیک ارادہ مبارک ہو۔ پر گنات ہندوستان سے جو علاقہ پسند ہو وہ لکھو۔ تمہاری جاگیر ہو جائیگا۔ گماشتے تمہارے اس کا محاصل جہل تم کہو گے وہاں پہنچا دینگے۔ یہ پیغام بھیجا اور فوراً خود بھی اسی طرف کوچ کیا۔ چند امرا کو آگے بڑھا دیا کہ خان خانان کو سرحد کے باہر نکال دو۔ جب یہ لوگ قریب پہنچے تو اس نے انہیں لکھا کہ میں نے دنیا کا بہت کچھ دیکھ لیا اور کر لیا۔ اب سب سے ہاتھ اٹھا چکا۔ مدت سے ارادہ تھا کہ خانہ خدا اور روضہ ہائے مقدسہ پر جا کر بیٹھوں اور یاد الہٰی میں مصروف ہوں۔ الحمد اللہ کہ اب اس کا سلسلہ ہاتھ آیا ہے۔ اس دریا دل نے سر چشم کہ کر قبول کیا اور بہت خوشی سے تعمیل کی۔ ناگور سے طوغ و علم نقارہ ۔ فیلخانہ تمام اسباب امیرانہ اور شوکت شاہانہ کا سامان حسین قلی بیگ اپنے بھانجے کے ساتھ روانہ کر دیا۔ جھجر کے مقام میں پہنچا۔ اس کی عرضی جو مضامین نیاز اور صدق دل کی دعاؤں سے سہرائی ہوئی تھی۔ درگاہ میں پڑھی گئی۔ اور حضورخوش ہو گئے۔ اب وہ وقت آیا کہ خانخاں کے لشکر کی چھاؤنی پہچانی نہ جاتی تھی۔ جو رفیق دونوں وقت ایک قاب میں کھانے پر ہاتھ ڈالتے تھے۔ بہت ان میں سے چلے گئے۔ انتہا ہے کہ شیخ گدائی بھی الگ ہو گئے۔ فقط چند رشتہ دار اور وفا کے بندے تھے۔ وہی ساتھ رہے۔ (ایک ان میں حسین خان افغان بھی تھے ان کا حال الگ لکھا جائیگا) ابوالفضل اکبر نامہ میں کئی ورق کا ایک فرمان لکھتے ہیں کہ دربار سے اس محروم القسمت کے نام جاری ہوا تھا۔ اسے پڑھ کر بے درد بے خبر لوگ تو نمک حرامی کا جرم لگائینگے۔ لیکن قابل اعتبار دو شخصوں کا حال ہو گا۔ ایک وہ کہ جس نے اس کے جزوی جزوی حالات کو نظر انصاف سے دیکھا ہو گا وہ آئندہ ہمدردی اور رفاقت سے توبہ کرے گا دوسرے جس نے کسی ہونہار امیدوار کے ساتھ جانفشانی اور کانبازی کا حق ادا کیا ہو گا۔ اس کی آنکھوں میں خون اتر آئے گا بلکہ آتش غضب سے جگر جلے گا اور دھواں منہ سے نکلے گا۔ 1 ؎ دیکھو صفحہ 283 فرمان مذکور میں اس کی تمام خدمتوں کو مٹایا ہے ۔ اس کے اقربا کی جانفشانیوں کو خاک میں ملایا ہے اس پر خود پروری۔ خویش پردری اور ملازم پروری کے الزام لگائے ہیں۔ اس پر جرم لگائے ہیں کہ پٹھان سرداروں کو بغاوت کی ترغیب دی۔ خود فلاں فلاں طریقوں سے بغاوت کے منصوبے باندھے ۔ اس میں علی قلی خاں اور بہادر خاں کو بھی لپیٹ لیا ہے۔ بڑھاپے کی نمک حرامی و بیوفائی سے خبیث خیالات اور کثیف الفاظ اس کے حق میں صرف کر کے کاغذ کو سیاہ کیا ہے ان دردوں کو کون جائے ؟ بد نصیب بیرم خاں جانے یا جس ناکام کی بیرم خاں جیسی خدمتیں برباد ہوئی ہوں اس کا دل جانے ۔ خصوصاً جب یقین ہو کہ یہ ساری باتیں دشمن کر رہے ہیں۔ اور گودوں کا پالا ہوا آقا ان کے ہاتھوں میں کاٹ کی پتلی ہے ع یا رب مبادکس رامخدوم بے عنایت۔ کمظرف دشمن کسی طرح اس کا پیچھانہ چھوڑتے تھے۔ اس کے پیچھے چند امیروں کو فوج دے کر روانہ کیا تھا کہ جائیں اور سرحد ہندوستان سے نکال دیں جب وہ نزدیک پہنچے تو بیرم خاں نے انہیں لکھا کہ میں نے دنیا کا بہت کچھ دیکھ لیا اور اس سلطنت میں سب کچھ کر لیا۔ کوئی ہوس دل میں نہیں۔ میں سب سے ہاتھ اٹھا چکا ۔ مدت سے دل میں شوق تھا کہ خانہ خدا اور روضہ ہائے مقدسہ کی ان آنکھوں سے زیارت کر وں الحمد اللہ کہ اب اس کا سلسلہ ہاتھ آیا ہے۔ تم کیوں تکلیف کرتے ہو وہ سب چلے آئے ۔ ملا پیر محمد جس کو خان خاناں نے حج کو روانہ کر دیا تھا۔ انہیں اسی وقت حریفوں نے پیغام بھیج دیئے۔ تھے کہ یہاں گل کھلنے والا ہے۔ جہاں پہنچے ہو۔ وہیں ٹھہیر جانا۔ وہ گجرات میں بلی کی طرح تاک لگائے بیٹھے تھے۔ اب حریفوں کے پرچے پیام پہنچے کہ بڈھا شیر ادھ مواہو گیا۔ آؤ شکار کرو۔ یہ سنتے ہی دوڑے جھجر کے مقام میں ہی ملازمت ہوئی۔ یاروں نے علم نقارہ دلوا کر فوج کا سردار کیا کہ خانخاناں کے پیچھے پیچھے جائیں ۔ اور ہندوستان سے مکہ کو نکال دی۔ ادہم خاں ماہم کا بیٹا اور بڑے بڑے سرداران کے ساتھ ہویئ۔ ادھر خان خاناں نے ناگور پہنچ کر خبر پائی کہ مار واڑ کے راجہ مال دیو نے گجرات دکن کا رستہ روک رکھا ہے۔ سلطنت کے نمک حلال سے اسے صدمے پہنچے ہوئے تھے۔ دور اندیشی کر کے ناگور سے خیمہ کا رخ پھیر ا کہ بیکانیر سے ہوتا ہوا پنجاب سے نکل کر قندھار کے رستے مشہد مقدس کی راہ لے ۔ مگر دربار سے جو احکام جاری ہو رہے تھے۔ انہیں دیکھ کر دل ہی دل میں گھٹ رہا تھا۔ حریفوں نے زمینداران اطراف کو لکھا کہ یہ زندہ نہ جانے پائے جہاں پاؤ کا م تمام کردو۔ ساتھ ہی ہوائی اڑائی کہ خانخانا ں پنجاب کو بغاوت کے ارادے سے چلا ہے۔ وہاں ہر قسم کے سامان آسانی سے بہم پہنچ سکتے ہیں ۔ایسا دق ہوا کہ رائے بدل گئی۔ ان سفلوں کو کیا خاطر میں لاتا تھا۔ صاف کہ دیا کہ جن مفسدوں اور بد کر داروں نے حضور کو مجھ سے ناراض کیا ہے۔ اب انہیں سزا دے کر بادشاہ سے رخصت ہو کر حج کو جاؤنگا۔ فوج بھی جمع کرنی شروع کی۔ اور امرائے اطراف کو مضامین وحالات مذکورہ سے اطلاع دی ۔ ناگور سے بیکا نیر آیا۔ راجہ کلیان مل اس کا دوست تھا۔ اور حق پوچھو تو حریفوں کے سوا کون تھا جو اس کا دوست نہ تھا۔ وہاں آئے دھوم دھام کی ضیافتیں ہوئیں۔ کئی دن آرام لیا۔ اتنے میں خبر آئی کہ ملا پیر محمد تمہیں ہندوستان سے جلا وطن کرنے آتے ہیں۔ دل جل کر خاک ہو گیا ۔ ملا کا اس طرح آنا کچھ چھوٹا سا زخم نہ تھا۔ مگر انہوں نے قناعت نہ کی۔ اس پر داغ بھی دیا۔ یعنی ناگور میں ٹھہیر کر خانخانان کو ایک خط لکھا۔ اس میں طنز کی چنگاریاں تو بہت سی تھیں۔ مگر ایک شعر بھی درج تھا ؎ آمدم دردل اساس عشق محکم ہم چناں باغمت جان بلا فرسودہ ہمدم ہم چناں خانخانان نے بھی ترکی کا جواب ترکی لکھا۔ مگر یہ فقرہ اس میں بہت برجستہ واقع ہوا تھا۔ آمدن مردانہ امارسیدہ توقف کردن زنامہ ۔ ہر چند چوٹیں پہلے سے بھی کر رہا تھا اور اس سے بھی کر رہا تھا اور اس نے یہ فقرہ بھی لکھا۔مگر مسجد کے ٹکڑ گدا کو 40 برس نمک کھلا کر امیر الامرا بنایا تھا۔ آج اس سے یہ باتیں سننی پڑیں۔ عجب صدمہ دل پر گزرا۔ چنانچہ اسی دل شکستگی کے عالم میں ایک عریضہ حضور میں لکھا۔ جس کے کچھ فقرے ہاتھ آئے ہیں۔ وہ خون کے قطرے ہیں جو دل فگار سے ٹپکے ہیں۔ ان کا رنگ دکھلانا بھی واجب ہے ۔ چوں بموجب اظہار وآرزوئے حاسداں ۔ حقوق خدمت ۔ دیرینہ سہ واسطہ آں دودماں پامال تہمت کفران نعمت درخدمت ولی نعمت گرویدہ ۔ و معاندان در حلال دانستن خون رافضی فتولے واوہ اند۔ برائے محافظت جاں کہ درہمہ مذہب واجب است مے خواہم بمددرفاقت خودرا ازیں بلیہ نجات دہم ۔ بدیں ہنیت (کہ باظہار اہل غرض اسباب بغنی آمادہ میدانند) در خدمت آں خداوند (ہر چند نفس الامرازادہ بیت اللہ باشد) آمدن کفر میدانم و بر عالمے ظاہر است کہ در خاندان ماتر کاں نمک حرامی بظہور نیا مدہ لہذاراہ مشہد اختیار نمودہ ام کہ بعد طواف روضہ امام علیہ السلام و عتبات نجٹ اشرف و کر بلائے معلی و خواندن فاتحہ دراں مکانہائے شریف برائے بقائے سلطنت و عمر آن دلی نعمت از سر نو احرام کعبتہ اللہ بندھم ۔ التماس آنست کہ اگر بندہ راہ جرگہ نمک حراماں واجب القتل میدانند۔ یکے ازبندہ ہائے بے نام ونشانں راتعین فرمانید کہ سر بیرم بریدہ برسناں جلوہ وہاں براے تنبیہ و عبرت دیگر بد خواہان دولت بحضور بیارو د ع گر قبول افتد رہے۔ عزو شرف ۔ والا سردار ئے فوج سوائے ملاے خارجی کہ از نمک پر وردہ ہاے نمک بحرام و اخراجی فدوی است بد یگر یکے از بندہ ہائے درگاہ والا مقرر شود۔ اس نازک موقع پر کہ بدنصیبی کا سچ تھا اس وفا دار جاں نثار نے چاہا تھا کہ اپنی اور بادشاہ کی ناراضی کا پردہ رہ جائے اور عزت کی پگڑی کو دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر ملک سے نکل جائے مگر قسمت نے بڈھے کی داڑھی لونڈوں یا طفل مزاج بڈھوں کے ہاتھ میں دیدی تھی۔ بد نیت بداندیش نہ چاہتے تھے۔ کہ وہ سلامت جانے پائے غرض جب بات بگڑ جائے اور دل پھر جانیں تو الفاظ و عبارت کا زور کیا کر سکتا ہے۔ البتہ اتنا ہوا کہ جب بادشاہ نے یہ عرض پڑھی تو آبدیدہ ہوئے اور دل کو رنج ہوا ملا پیر محمد کو بلا لیا اور آپ دلی کو پھرے۔ مگر حریفوں نے اکبر کو سمجھایا کہ خان خاناں پنجاب کو چلا ہے۔ اگر یہ پنجاب میں جا پہنچا اور وہاں بغاوت کی تو مشکل ہو گی۔ پنجاب ایسا ملک ہے کہ جس قدر فوج اور سامان فوج چاہیں ہر وقت بہم پہنچ سکتا ہے۔ کابل کو چلا گیا تو قند ھار تک قبضہ کر لینا اس کے آگے کچھ دشوار نہیں اور خود نہ کر سکا تو دربار ایران سے مدد لانی بھی اسے آسان ہے ان مصلحتوں پر نظر کر کے فوج کی سرداری شمس الدین محمد خاں اتکہ کے نام کی اورپنجاب کو روانہ کیا۔ سچ پوچھو تو آگے جو کچھ ہوا۔ اکبر کے لڑکپن اور ناتجربہ کاری سے ہوا۔ سب مورخ بالا تفاق لکھتے ہیں کہ بیرم خاں کی نیت میں فساد نہ تھا۔ اگر اکبر شکار کھیلتا ہوا خود اس کے خیمے پر جا کھڑا ہوتا تو وہ قدموں پر آہی پڑتا ۔ بات بنی بنائی تھی یہانتک طول نہ کھچتا ہوا خود اس کے خمیے پر جا کھڑا ہوتا تو وہ قدموں پر آہی پڑتا ۔ بات بنی بنائی تھی ۔ یہاں تک طول نہ کھچتا نوجوان بادشاہ کچھ بھی نہ کرتا تھا۔ جو کچھ تھے بڑھیا اور بڑھیا والوں کے کرتوت تھے ان کا مطلب یہ تھا کہ اسے آقا سے لڑا کر نمک حرامی کا داغ لگائیں۔ اسے گھبرا کر بھالڑ کی صورت میں دوڑائیں اور اگر جل کر اسی حالت موجودہ کے ساتھ پلٹ پڑا تو شکار ہمارا مارا ہوا ہے۔ اس غرض سے وہ آتش کے پرکالے نئی ہوائیاں اڑاتے تھے اور کبھی اس کے ارادوں کی کبھی اکبر کے حکموں کی رنگا رنگ پھل چھڑیاں چھوڑتے تھے۔ کہن سال سپہ سالار سنتا تھا۔ پیچ و تاب کھاتا تھا اور رہ جاتا تھا۔ اس بغاوت کے شوشہ سے وہ نیک نیت نیک رائے دنیا سے بے آس اہل دنیا سے بیزار بیکا نیر سے پنجاب کی حد میں داخل ہوا۔ امراے اجناب کو لکھا کہ میں حج کو جاتا تھا۔ مگر سنتا ہوں کہ چند اشخاص نے خدا جانے کیا کیا کہ کہ مزاج اشرف بادشاہی کو میری طرف سے متغیر کر دیا ہے۔ خصوصاً ماہم اتکہ کہ استقلال کے گھمنڈ کرتی ہے۔ اورکہتی ہے کہ میں نے بیرم خاں کو نکالا۔ اب ہمت یہی چاہتی ہے کہ ایک دفعہ آکر بدکرداروں کو سزا دینی چاہئے پھر مئے سرے سے رخصت لیکر سفر مقدس پر متوجہ ہونا چاہئے۔ اس نے اہل و عیال اور مرزا عبدالرحیم 3 برس کے بیٹے کو جو بڑا ہو کر خانخاناں اور اکبری سپہ سالار ہوا تھا۔ تمام نقد و جنس مال و دولت اور اسباب کے ساتھ بھٹنڈہ کے قلعہ میں چھڑوا شیر محمد دیوانہ اس کا خاص الخاص ملاز م اور قدیم الخدمت اور ایسا باعتبار تھا کہ بیٹا کہلاتا تھا وہ بھٹنڈہ کا حاکم تھا۔ اور اس پر کیا منحصر ہے۔ جو اس وقت کے امرا اور سردار تھے۔ سب اس کے عیال تھے۔ اس کے بھروسے پر خاطرجمع کر کے آپ دیپالپور کو روانہ ہوا۔ دیوانہ نے مال اسباب سب ضبط کر لیا اور آدمیوں کی بڑی بیغرتی کی۔ خانخاناں کو جب خبر پہنچی تو خواجہ مظفر علی اپنے دیوان کو اور درویش محمد اذبک کو بھیجا کہ شیر محمد دیوانہ کو سمجھائیں۔ دیوانہ کو کتے نے کاٹا تھا۔ وہ کب سمجھتا تھا ع اے عاقلاں کنارہ کہ دیوانہ مست شد۔ ان دونوں کو بھی مفسد ٹھہرایا اورق ید کر کے حضور میں بھیج دیا۔ خانخاناں کا مطلب ان انتظاموں سے یہ تھا۔ کہ جو کچھ میرا مال و متاع ہے۔ وہ ستوں کے پاس رہے کہ ضرورت کے وقت مجھے مل جائے گا۔ میرے پاس ہو تو خدا جانے کیا اتفاق ہے۔ دشمنوں اور لٹیروں کے ہاتھ تو نہ آئے۔ میرے کام نہ آئے میرے دوستوں کے کام آئے۔ انہی دوستوں نے وہ نوبت پہنچائی۔ یہ رنج کچھ تھوڑا نہ تھا۔ اس پر عیال کا قید ہونا۔ اور دشمنوں کے ہاتھ میں جانا۔ غرض نہایت دق ہوا۔ اور زمانہ کا یہ حال تھا ۔ کہ اگر کسی سے مصلحت بھی چاہتا۔ تو وہاں اسے مایوسی کی خاک آنکھوں میں پڑتی تھی۔ اور وہ وہ باتیں پیش آتی تھیں۔ جن کا عشر عشیر بھی تحریر میں نہیں آسکتا ۔ حیران پریشان ۔ غیرت و غصہ میں بھرا ہوا ۔تھاڑہ کے گھاٹ سے ستلج اترا۔ اور جالندھر پر آیا۔ دربار دہلی میں بعض کی رائے ہوئی کہ بادشاہ خود جائیں۔ بعض نے کہا کہ فوج جائے۔ اکبر نے کہا۔ دونوں رایوں کو جمع کرنا چاہئے۔ آگے فوج جائے۔ پیچھے ہم ہوں۔ چنانچہ شمس الدین محمد خان اتکہ بھیرہ سے پہنچ لئے تھے۔ انہیں فوج دیکر آگے بھیجا۔ اتکہ خان بھی کوئی جنگ آزمودہ سپہ سالار نہ تھا۔ سلطنت کے کاروبار دیکھے تھے۔ مگر برتے نہ تھے۔ البتہ نیک طبع ۔ متحمل مزاج ۔ سن رسیدہ شخص تھا ۔ اہل دربار نے انہی کو غنیمت سمجھا۔ بیرم خان کو اول خیال یہ تھا کہ اتکہ خاں پرانا رفیق ہے۔ وہ اس آگ کو بجھائے گا۔ مگر خانخانان کا منصب ملتا نظر آتا تھا۔ وہ بھی آتے ہی ہمدمان حضور میں داخل ہو گئے۔ اور خوشی خوشی فوج لے کر روانہ ہوئے۔ ماہم کی عقل کا کیا کہنا ہے۔ صاف پہلو بچا لیا۔ اور بیٹے کو کسی بہانہ سے دلی میں چھوڑ دیا۔ خانخانان جالندھر پر قبضہ کر رہا تھا کہ خان اعظم ستلج اتر آئے اور گناچور کے میدان پر ڈیرے ڈال دیئے۔ خانخانان کے لئے اس وقت تھے تو دو ہی پہلو تھے۔ یا لڑنا اور مرنا۔ یادشمنوں کے ہاتھوں قید ہونا اور مشکیں بندھو اکر دربار میں کھڑے ہونا۔ خیر وہ خان اعظم کو سمجھتا کیا تھا جالندھر کو چھوڑ کر پلٹا۔ اب مقابلہ تو پھر ہو گا۔ مگر پہلے اتنی بات کہنی ضرور ہے کہ خانخانان نے اپنے آقا پر تلوار کھینچی ۔ بہت برا کیا۔ لیکن ذرا چھاتی پر ہاتھ رکھ کر دیکھو۔ جو جو خیال اور رنج و ملال اس وقت اس کے مایوس دل پر چھائے ہوئے تھے۔ ان پر نظر نہ کرنی بھی بے انصافی ہے۔ اس میں شک نہیں کہ جو جو خدمتیں اس نے بابر اور ہمایوں سے لیکر اس وقت تک کی تھیں۔ وہ ضرور اس کی آنکھوں کے سامنے ہوں گی۔ آقا کی وفا داری کا نباہنا۔ اودھ کے جنگلوں میں چھپنا۔ گجرات کے دشتوں میں پھرنا۔ شیر شاہ کے دربار میں پکڑے جانا اور ان نازک وقتوں کی دشواریاں سب اسے یاد ہوں گی۔ ایران کا سفر اور قدم قدم کی کٹھن منزلیں اور شاہ کی دربار داریاں بھی پیش نظر ہوں گی۔ اسے یہ بھی خیال ہو گا۔ کہ کیسی جان بازی اور جان جو کھوں سے ان مہموں کو اس نے سر انجام دیا۔ سب سے زیادہ یہ کہ جو گروہ مقابل میں نظر آتا ہے۔ ان میں اکثر وہ بڈھے دکھائی دیتے ہیں۔ جو ان وقتوں میں اس کے منہ کوتکتے تھے۔ اور ہاتھوں کو دیکھتے تھے ۔ یا کل کے لڑکے ہیں کہ جنہوں نے ایک بڑھیا کی بدولت نوجوان بادشاہ کو پھسلا رکھا ہے۔ یہ باتیں دیکھ کر اسے ضرور خیال ہوا ہو گا۔ کہ جو ہو سو ہو۔ ان سفلوں اور نا اہلوں کو جنہوں نے کچھ نہیں دیکھا۔ ایک دفعہ تماشا تو دیکھا دو کہ حقیقت انکی بادشاہ کو بھی معلوم ہو جائے۔ پرگنہ دگدار نواح گناچور میں کہ جنوب مشرق جالندھر پر تھا دونوں چھاؤنیوں کے دھوئیں طرفین کو دکھائی دینے لگے۔ بڈھے سپہ سالارنے پہاڑ اور لکھی جنگل کو پشت پر رکھ کر ڈیرے ڈال دیئے۔ اور فوج کے دو حصے کئے۔ ولی بیگ ذوالقدر ۔ شاہ قلی محرم ۔ حسین خان ٹکریہ وغیرہ کو فوجیں دے کر آگے بڑھایا دوسرے حصے کے چاروں پرے باندھ کر آپ بیچ میں قائم ہوا۔ اس کے رفیق تعداد میں تھوڑے تھے۔ مگر مروت اور مردانگی کے جوش نے ان کی کمی کو بہت بڑھا دیا تھا۔ ہزاروں دلاوروں نے اس کی قدر دانی کے ہاتھ سے فیض پائے تھے ۔ ان سب کا مول یہ گنتی کے آدمی تھے۔ جو رفاقت کے نام پر جان قربان کرنے نکلے تھے۔ وہ خوب جانتے تھے کہ بڈھا جوان مرد ہے ۔ اور مرد کا ساتھ مرد ہی دیتا ہے۔ 1 ؎ بلوک مین صاحب لکھتے ہیں کہ کنور پھلور ۔ گونا چور کے جنوب مغرب میں تھا۔ فرشتہ کہتا ہے کہ یہ لڑائی ماچھی واڑہ کے باہر ہوئی۔ جو میں نے لکھا ہے یہ ملا صاحب کا قول ہے اور یہی ٹھیک معلوم ہوتا ہے ۔ دکن کے فرشتہ کو پنجاب کی کیا خبر۔ وہ اس غصہ میں آگ ہو رہے تھے کہ مقابل میں وہ لوگ تھے۔ جنہیں بوالہوسی نے مرد بنایا ہے۔ جب تلوار مارنے کے وقت تھے۔ تو کچھ نہ کر سکے۔ اب میدان صاف ہے تو نوجوان بادشاہ کو پھنسلا کر چاہتے ہیں ۔ کہ بڈھے خانہ زاد کی محنتیں برباد کریں۔ سو وہ بھی ایک بھیا کے بھروسے پر۔ وہ نہو تو اتنا بھی نہیں۔ ادھربڈھے سید یعنی خان اعظم نے بھی فوجوں کی تقسیم کر کے صفیں باندھیں ۔ قرآن سامنے لا کر سب سے عہد و پیمان لئے۔ بادشاہی عنایتوں کا امیدوار کیا۔ سوا تنی ہی اس بچارے کی کرامات تھی۔ جس وقت سامنا ہوا تو بیرم خانی فوج نہایت جوش و خروش سے لیکن بالکل بے باکی اور بے پرواہی سے آگے بڑھی کہ آؤ۔ دیکھیں تو سہی تم ہو کیا چیز جب قریب پہنچے تو یکدلی نے ان کی جانوں کو اٹھا کر اس طرح فوج بادشاہی پر دے مارا گویا بیرم کے گوشت کا ایک مچا تھا کہ اچھل کر حریف کی تلواروں میں جا پڑا۔ جو مرنے تھے مرے۔ جو بچے۔ آپس میں ہنستے کھیلتے اور دشمنوں کو ریلتے دھکیلتے چلے۔ کیا تڑپنا دل مضطر کا بھلا لگتا ہے کہ جب اجھلے ہے ترے سینہ سے جالگتا ہے ہائے۔ ان کے دلوں میں ارمان ہو گا کہ اس وقت نوجوان بادشاہ آئے۔ اور باتیں بنانے والوں کی بگڑی حالت دیکھے ع ببیں کہ از کہ شکستی و باکہ پیوستی ۔ خان اعظم ہٹے۔ مگر اپنے رفیقوں سمیت کنارہ ہو کر ایک ٹیلہ کی آڑ میں تھم گئے ۔ پرانے فتحیاب نے جب میدان کا نقشہ حسب مراد دیکھا تو ہنس کر اپنی فوج کو جنبش دی۔ ہاتھیوں کی صف کو آگے بڑھایا۔ جس کے بیچ میں فتح کا نشان۔ اس کا تخت رواں ہاتھی تھا۔ اور اس پردہ آپ سوار تھا۔ یہ فوج سیلاب کی طرح اتکہ خان پر چلی۔ یہاں تک تمام مورخ بیرم خان کے ساتھ ہیں۔ آگے ان میں پھوٹ پڑتی ہے۔ اکبری اور جہانگیری عہد کے مصنف کوئی مردانہ کوئی نیم زنانہ ہو کر کہتے ہیں کہ اخیر میں بیرم خاں نے شکست کھائی خانی خاں کہیت ہیں کہ ان مصنفوں نے رعایت سے بات کو چھپایا ہے۔ ورنہ شکست اتکہ خان پر پڑی۔ اور بادشاہی لشکر پریشان ہو گیا۔ بادشاہ خود بھی لودیانہ سے آگے بھ چکا تھا۔ اب خواہ شکست کے سبب سے ۔ خواہ اس لحاظ سے کہ ولی نعمت کے سامنے کھڑے ہو کر اسے لڑنا منظور نہ تھا۔ بیرم خاں اپنے لشکر کو لیکر لکھی جنگل کی طرف پیچھے ہٹا۔ منعم خاں کابل سے بلائے ہوئے آئے تھے۔ لودیانہ کی منزل پر آداب بجا لائے۔ کئی سردار ساتھ تھے۔ ان میں تردی بیگ کا بھانجا مقیم بیگ بھی موجود تھا۔ اس کی ملازمت ہوئی۔ دیکھو ! لوگ کیسے کیسے مصالح کہاں کہاں سے سمیٹ کر لاتے ہیں ۔ ملا صاحب فرماتے ہیں۔ منعم خاں کو خانخاناں کا خطاب اور وکیل مطلق کا عہدہ ملا۔ دخل الولی و خرج الولی کا نکتہ کھل گیا۔ اکثر امرا کو اپنی اپنی حیثیت بموجب منصب اور انعام دیئے۔ اسی منزل میں قیدی اور زخمی ملا حظہ سے گزرے۔ جو لڑائی میں گرفتار ہوئے تھے۔ نامی سرداروں میں دلی بیگ ذوالقدر خانخاناں کا بہنوئی حسین قلی خان کا باپ تھا ۔ کہ گنوں کے کھیت میں زخمی پڑا پایا تھا۔ یہ بھی ترکمان تھا۔ اسمعیل قلی خاں حسین قلی خان کا بڑا بھائی تھا۔ حسین خاں ٹکر یہ کہ آنکھ پر زخم آیا تھا۔ کہ اس کے جمال شجاعت پر چشم زخم ہوا تھا۔ ولی بیگ بہت زخمی تھا۔ چنانچہ زندان میں زندگانی کی قید سے چھٹ گیا۔ اس کا سرکاٹ کر ممالک مشرقی میں بھیجا کہ شہر بشہر تشہیر ہو ۔ مشہور یہ تھا کہ دلی بیگ ذوالقدر خانخاناں کو زیادہ تر برہم کرتا ہے۔ پورب میں خانزماں اور بہادر خاں تھے۔ کہ بیرم خانی ذیلدار کہلاتے تھے۔ اور اس کا سر بھیجنے سے حریفوں کا یہی مطلب ہو گا کہ دیکھو تمہارے حمایتیوں کا یہ حال ہے۔ لے جانے والا بھی چوبدار چھوٹی امت کاآدمی تھا۔ اور حریفوں کا آدمی تھا کہ دربار کے فتحیات تھے۔ خدا جانے اس نے کیا کہا ہو گا اور کس طرح پیش آیا ہو گا بہادر خاں کو برداشت کہاں۔ رنج نے اس کی آتش غضب کو بھڑکایا اور اس نے چوبدار کو مرواڈالا۔ یہ گستاخی اس کے حق میں بہت خرابی پیدا کرتی مگر اس کے مصاحبوں اور دوستوں نے اسے پاگل بنا دیا۔ چند روز ایک مکان میں بند رکھا اور حکیم علاج کرتے رہے ۔ اور جھوٹ شہرت انہوں نے بھی نہیں دی۔ یار پرستی اور فوا داری بھی تو ایک مرض ہے۔ اہل دربار نے بھی اس وقت پروہ ہی رکھنا مصلحت سمجھا اور ٹال گئے کیونکہ وہ دونوں بھائی میدان جنگ میں طوفان آتش تھے۔ چند سال بعد ان سے بھی کسر نکالی۔ اتکہ خاں بھی دربار میں پہنچے۔ اکبر نے خلعت و انعام سے امرا کے دل بڑھائے۔ لشکر کو ماچھی واڑہ پر چھوڑا اور آپ لاہور پہنچے۔ کہ دارالسطینت ہے۔ ایسا نہ ہو کہ واقعہ طلب لوگ اٹھ کھڑے ہوں۔ یہاں خاص و عام کو اقبال کی تصویر دکھا کر تشفی دی۔ اور پھر لشکر میں پہنچے۔ دامن کوہ میں بیاس کے کنارہ پر تلواڑہ ان دنوں میں مضبوط مقام تھا۔ اور راجہ گنیش وہاں راج کرتا تھا۔ خانخاناں پیچھے ہٹ کر وہاں آیا۔ راجہ نے بہت خاطر کی اور سب سامانوں کا ذمہ لیا۔ اسی کے میدان میں لڑائی جا ری ہوئی پرانا سپہ سالار تجویز و تدبیر میں اپنا نظیر نہ رکھتا تھا۔ چاہتا تو چٹیل میدان میں لے لشکر اگا دیتا۔ پہاڑ کو اسی لئے پشت پر رکھا تھا کہ مقابلہ پر بادشاہ کا نام ہے۔اگر پیچھے ہٹنا پڑے تو پھیلنے کو بڑے بڑے ٹھکانے تھے۔ غرض لڑائی برابر جا ری تھی۔ اس کی فوج مورچوں سے نکلتی تھی اور لشکر بادشاہی سے لڑتی تھی۔ ملا صاحب کہتے ہیں۔ ایک موقع پر لڑائی ہو رہی تھی۔ اکبری لشکر میں سے سلطان حسین جلا ٹر کہ نہایت سجیلا جوان اور دلاور اور دیدارو امیر زادہ تھا۔ میدان میں زخمی ہو کر گرا۔ بیرم خانی جوان اس کا سرکاٹ کر مبارکباد کہتے لائے۔ اور خانخاناں کے سامنے ڈال دیا۔ دیکھ کر افسوس کیا۔ رومال آنکھوں پر رکھ کر رونے لگا اور کہا۔ سولعنت ہے اس زندگی پر ۔ میری شامت نفس سے ایسے ایسے جوان ضائع ہوتے ہیں ! باوجودیکہ پہاڑ کے راجہ اور رانا برابر چلے آتے تھے۔ فوج اور ہر طرح کے سامان سے مدد دیتے تھے۔ اور آیندہ کے لئے وعدے کرتے تھے مگر اس نیک نیت نے ایک کی نہ سنی انجام کا خیال کر کے آخرت کا رستہ صاف کر لیا۔ اسی وقت جمال خاں اپنے غلام کو حضور میں بھیجا۔ کہ اجازت ہو فدوی حاضر ہوا چاہتا ہے۔ ادھر سے مخدوم الملک ملا عبداللہ سلطان پوری فوراً چند سرواروں کو لیکر روانہ ہوئے کہ دلجوئی کریں اور لے آئیں۔ ابھی لڑائی جاری تھی۔ وکیل دونوں طرف سے آتے اور جاتے تھے۔ خدا جانے تکرار کس بات پر تھی۔ منعم خاں سے نہ رہا گیا۔ چند امراو مقربان بارگاہ کے ساتھ بے تحاشا تھا خانخانان کے پاس چلا گیا۔ کہن سال سردار تھے۔ کہنہ عمل سپاہی تھے قدیمی رفاتیں تھیں۔ مدتوں ایک جگہ رنج و راحت کے شریک رہے تھے۔ دیر تک دل کے درد کہتے رہے۔ ایک نے دوسرے کے بات کی داد دی۔ منعم خاں کی باتوں سے اسے یقین آیا کہ جو کچھ پیام آئے ہیں۔ واقعی ہیں۔ فقط سخن سازی نہیںہے۔ غرض خانخاناں چلنے کو تیار ہوا۔ جب وہ کھڑا ہوا بابا زنبور اور شاہ قلمی محرم دامن کپڑ کر رونے لگے۔ کہ ایسا نہو جان جائے۔ یا عزت پر حرف آئے۔ منعم خاں نے کہا اگر زگیادہ ڈرہے تو ہمیں یرغمال میں یہاں رہنے دو ۔ خیر یہ پرانی محبت کی شوخیاں تھیں۔ ان لوگوں سے کہا کہ تم نہ چلو۔ انہیں جانے دو اگر انہوں نے اعزاز و اکرام پایا تو تم بھی چلے آنا ورنہ نہ آنا۔ اس بات کو انہوں نے مانا اور وہیں رہ گئے۔ اور رفیقوں نے بھی روکا۔ پہاڑ کے راجہ اور رانا مرنے مارنے کے عہد و پیماں باندھے موجود تھے۔ وہ بھی کہتے رہے اور امداد فوج اور سامان جنگ کی تیاریاں دکھاتے رہے۔ مگر وہ نیکی کا پتلا اپنے نیک ارادہ ہے۔ نہ ٹلا ۔ اورس وار ہو کر چلا۔جو فوج اس کے مقابلے پر دامن کوہ میں پڑی تھی۔ اس میں ہزاروں ہوائیاں اڑ رہی تھیں۔ کوئی کہتا تھا کہ امرائے شاہی جو یہاں سے گئے ہیں انہیں بیرم خاں نے پکڑ رکھا ہے۔ کوئی کہتا تھا ہرگز نہ آئیگا وقت ٹالتا ہے اور سامان بہم پہنچاتا ہے۔ پہاڑ کے راجہ مدد کو آئے ہیں۔ کوئی کہتا تھا پہاڑ کے رستے علی قلی خاں اور شاہ قلی محرم 1 ؎ یاد کرو یہ وہی شاہ قلی محرم ہیں جو میدان جنگ سے ہوئی ہاتھی کو ہیموسمیت پکڑ کر لے آئے تھے۔ خانخانان نے اسے بچہ ماہالا تھا ۔ محرم ترکوں میں ایک درباری عہدہ ہے۔ آتے ہیں۔ کوئی کہتا تھا۔ صلح کا پیچ مارا ہے۔ رات کو شنجون ماریگا۔ غرض جتنے منہ تھے اتنی ہی باتیں ہو رہی تھیں۔ کہ جوجریدہ لشکر میں داخل ہو گیا۔ تمام فوج نے خوشی کا غل مچایا۔ اور نقاروں نے دور دور خبر پہنچائی۔ کچھ میل فاصلہ پر حاجی پور دامن کوہ میں بادشاہ کے خیمے تھے۔ سنتے ہی حکم دیا کہ تمام امرائے دربار استقبال کو جائیں۔ اور قدیمی عزت و احترام سے لائںی۔ ہرشخص جاتا تھا۔ سلام کرتا تھا پیچھے ہو لیتا تھا۔ وہ شاہ نشان سپہ سالار جس کی سواری کا غل نقارہ کی آواز کو سوں تک جاتی تھی۔ اس کا گورا گورا چہرہ اس پر سفید ڈاڑھی۔ ایک نور کاپتلا تھا کہ گھوڑے پر دھرا تھا۔ چہرے پر مایوسی برستی تھی۔ اور نگاہوں سے ندامت ٹپکتی تھی۔ تمام انبوہ چپ چاپ پیچھے تھے۔ سنا ٹے کا سماں بندھا تھا۔ جب بادشاہی خیمہ کا کلس نظر آیا تو گھوڑے سے اتر پڑا۔ ترک جس طرح گنہگار کو بادشاہ کے حضور میں لاتے ہیں۔ اس نے آپ بکتر سے تلوار کھول کر گلے میں ڈالی ۔ پٹکے سے اپنے ہاتھ باندھے ۔ عمامہ سرسے اتار کر گلے میں لپیٹا۔ اور آگے بڑھا ۔ خیمہ کے پاس پہنچا۔ تو خبر سن کر اکبر بھی اٹھ کھڑا ہوا۔ لب فرش تک آیا۔ خانخانان نے دوڑ کر سر پاؤں پر رکھ دیا۔ اور ڈاڑ ھیں مار مار کر رونے لگا۔ بادشاہ بھی اس کی گودوں میں کھیل کر پلا تھا۔ آنسو نکل پڑے۔ اٹھا کر گلے سے لگایا اور اس کی قدمی جگہ یعنی دست راست پر پہلو میں بٹھایا۔ آپ اس کے ہاتھ کھولے۔ دستار سر پر رکھی ۔ خانخاناں نے کہا۔ آرزو تھی کہ حضور کی نمک حلالی میں جان کو قربان کروں۔ اور شمشیر بند بھاٹی جنازہ کا ساتھ دیں۔ حیف کہ تمام عمر کی جانفشانی اور جاں نثاری خاک میں مل گئی۔ اور خدا جانے ابھی قسمت میں کیا لکھا ہے۔ یہی شکر ہے ۔ کہ اخیر وقت میں حضور کے قدم دیکھنے نصیب ہو گئے۔ یہ سن کر دشمنوں کے پتھر دل بھی پانی ہو گئے۔ دیر تک تمام دربار مرقع تصویر کی طرح خاموش رہا۔ کوئی دم نہ مار سکتا تھا۔ ایک ساعت کے بعد اکبر نے کہا۔ کہ خان بابا اب صورتیں تین ہیں۔ جس میں تمہاری خوشی ہو۔ کہدو (1)حکومت کو جی چاہتا ہے تو چند یری دکالپی کا ضلع لے لو۔ وہاں جاؤ اور بادشاہی کرو (2)مصاحبت پسند ہے ۔ تو میرے پاس رہو۔ جو عزت و توقیر تمہاری تھی اور اس میں فرق نہ آئیگا۔ (3)حج کا ارادہ ہو تو بسم اللہ ۔ روانگی کا سامان خاطر خواہ ہو جائیگا۔ چند یری تمہاری ہو چکی۔ محاصل تمہارے گماشتے جہاں کہو گے پہنچا دیا کریں گے ۔ خانخانان نے عرض کی کہ قواعد اخلاص و اعتقاد میں اب تک کسی طرح کا تصور اورفتور نہیں آیا۔ یہ سارا تردد فقط اس لئے تھا۔ کہ حضور میں پہنچ کر کر رنج و ملال کی بنیاد کو آپ دھوؤں ۔ الحمد اللہ جو آرزو تھی پوری ہو گئی۔ اب عمر آخر ہوئ۔ی کوئی ہوس باقی نہیں ۔ تمنا ہے تو یہی ہے کہ آستانہ الہٰی پر جاپڑوں۔ اور حضور کی عمر و دولت کی دعا کیا کروں۔ اور یہ معاملہ جو پیش آیا۔ اس سے بھی مطلب فقط یہ تھا کہ فتنہ انگیزوں نے جو اوپر سے اوپر مجھے باغی بنا دیا تھا۔ اس شبہ کو خود حضور میں پہنچ کر رفع کروں۔ غرض حج کی بات قائم ہو گئی۔ حضور نے خلعت خاص اور خاصہ کا گھوڑا عنایت کیا۔ منعم خاں دربار سے اپنے خیمے میں لے گیا۔ خیمے ڈیرے اسباب خزانے سے لیکر باورچی خانہ تھا جو تھا سب حوالہ کر کے آپ نکل آیا۔ بادشاہ نے پانچہزار روپیہ نقد اور بہت کچھ اسباب دیا۔ ماہم اور ماہم والوں کے سوا کوئی شخص نہ تھا۔ جس کے دل میں اس کی محبت نہ ہو۔ اپنے اپنے منصب کے بموجب نقد و جنس جمع کیا۔ کہ ترکوں کی رسم تھی۔ اور اسنے چند وغ کہتے ہیں چنانچہ ناگور کے رستہ گجرات دکن کو روانہ ہوا۔ حاجی محمد خاں سیستانی 3 ہزاری امیر کہ انکا مصاحب اورقدیمی رفیق تھا۔ بادشاہ نے اسے فوج دیکر رستہ کی حفاظت کے لئے ساتھ کیا۔ رستہ میں ایک دن کسی بن میں سے گزر ہوا۔ پگڑی کا کنارہ کسی ٹہنی میں اس طرح الجھا کہ پگڑی گر پڑی۔ لوگ اسے براشگون سمجھتے ہیں ۔ اس کے چہرے پر بھی ملال معلوم ہوا۔ حاجی محمد خان سیستانی نے خواجہ حافظ کا شعر پڑھا ؎ دربیاباں چوں بہ شوق کعبہ خواہی زد قدم سر زنش ہاگر کندخار مغیلاں غم مخور یہ سن کر وہ ملال خوشی کاخیا ل ہو گیا ۔ پٹن گجراتمیں پہنچا۔ یہیں سے گجرات کی سرحد شروع ہوتی ہے۔ عہد قدیم میں اسے نہروالہ کہتے تھے۔ موسی خاں فولادی وہاں کا حاکم۔ اور حاجی خاں الوری بڑی تعظیم سے پیش آیا۔ اور دھوم سے ضیافتیں کیں۔ اس سفر میں کچھ کام تو تھا نہیں۔ کیونکہ کاروبار کی عمر تمام ہولی تھی۔ اس لئے جہاں خانخاناں جاتا تھا۔ دریا ۔ باغ ۔ عمارت کی سیر کر کے دل بہلاتا تھا۔ سلیم شاہ کے محلوں میں ایک کشمیر ن بی بی تھی۔ اس سے سلیم شاہ کی ایک بیٹی تھی۔ وہ خانخاناں کے لشکر کے ساتھ حج کو چلی تھی۔ وہ خانحانان کے بیٹے مرزا عبدالرحیم کوبہت چاہتی تھی۔ اور وہ لڑکا بھی اس سے بہت ہلا ہوا تھا۔ اور خانخانان اپنے فرزند یعنی مرزا عبدالرحیم سے لڑکی کی شادی کرنی چاہتا تھا۔ اس بات کا افغانوں کو بہت خارتھا (دیکھو خانی خاں اور ماثر) ایک دن شام کے وقت سہس لنگ وہاں کے تلاؤ میں تواڑے پر بیٹھا۔ پانی پر ہوا کھاتا پھرتا تھا۔ مغرب کے وقت کشتی سے نماز کے لئے اترا مبارک خاں لوہالی۔ ان میں تیس چالیس افغانوں کو لیکر سامنے آیا۔ ظاہر یہ کیا کہ ہم ملاقات کو آئے ہیں۔ بیرم خان نے مروت و اخلاص سے پاس بلالیا۔ اس نامبارک نے مصافحہ کے بہانے پاس آکر پشت پر ایک خنجر مارا کہ سینہ کے پار نکل آیا۔ ایک اور ظالم نے سر پر تلوار ماری۔ کہ کام تمام ہو گیا اس وقت کلمہ اللہ اکبر زبان سے نکلا۔ غرض جس شربت شہادت کی وہ خدا سے التجا مانگتا تھا اور دعائے سحری میں التجا کیا کرتا تھا۔ اور مردان خدا سے تمنا کیا کرتا تھا۔ خدا نے اسے نصیب کیا۔ لوگوں نے نامبارک سے پوچھا کہ کیا سبب تھا۔ جو یہ غضب کیا کہا کہ ماچھی واڑہ کی لڑائی میں ہمارا باپ مارا گیا تھا۔ ہم نے اسکا بدلہ لیا۔ 1 ؎ وہاں کی مشور سیر گاہ تھی۔ سہس ہندی میں ہزار کہتے ہیں اور لنک گھر اس تالاب کے گرد ہزار مندر تھے۔ شام جب اس کے گنبدوں پر دھوپ ہوتی تھی تو ان کی روشنی۔ اور کلسوں کی چمک کا پانی میں عکس ۔ اور کناروں کا سبزہ عجب بہار دیتا تھا۔ اور جب چراغ جلے۔ ان میں روشنی ہوتی تھی۔ اس کے عکس جو پانی میں پڑتے تھے تو ساراتلاؤ جگمگ جگمگ کرتا تھا۔ نوکر چاکر یہ حال دیکھ کر تتر بتر ہو گئے۔ اللہ اللہ کبھی وہ دولت وصولت اور کجا یہ حالت کہ اس کی لاش سے خون پڑا بہتا تھا اور کوئی نہ تھا کہ آخر خبر بھی لے۔ اس بیکس کے کپڑے تک اتار لئے گئے۔ آب رحمت ہو ہوا پر کہ خاک کی چادر اڑھا کر پردہ کیا۔ آخر وہیں کے فقراومساکین نے شیخ حسام الدین کے مقبرہ میں کہ مشائخ کبار میں مشہور تھے۔ اور سلطان الاولیاء کے خلفا میں تھے۔ دفن کر دیا۔ قاسم ارسلاں نے تاریخ کہی۔ ماثر میں لکھا ہے کہ ایک رات اسے خوب میں یہ تاریخ معلوم ہوئی تھی ؎ بیرم بہ طواف کعبہ چوں بست احرام درراہ شد از شہادتش کا ر تمام در واقعہ ہاتفے پے تاریخش گفتہ کہ شہید شد محمدؐ بیرام لاش دلی میں لا کر دفن کی۔ حسین قلی خاں خان جہاں نے 985ھ میں مشہد مقدس میں پہنچائی۔ لاوارث قافلہ پر جو مصیبت گزری۔ عبدالرحیم خانخاناں کے حال میں پڑھو۔ عبرت خدا کی شان دیکھو ! جن جن لوگوں نے اس کی برائی میں اپنی بھلائی سمجھی تھی۔ ایک برس کے پس و پیش میں دنیا سے گئے۔ اور ناکام و بدنام ہو گئے۔ سب سے پہلے میر شمس الدین محمد خان اتکہ ۔ اور گھنٹہ بھر نہ گزرا کرا دہم خاں 40دن نہ ہوئے تھے۔ کہ ماہم ۔ دوسرے ہی برس پیر محمد خاں۔ خرابی خانخاناں کا اصلی سبب اس مہم کا سبب خواہ بیرم خاں کی سینہ زوری کہو۔ خواہ یہ کہو کہ اس کے زبردست اختیارات اور احکام کی امرا کو برداشت نہ ہوئی۔ خواہ یہ سمجھو کہاکبر کی طبیعت میں خود حکمرانی کاجوش پیدا ہو گیا تھا۔ ان باتوں سے کوئی بھی نہو۔ خواہ سب کی سب ہوں۔ حق پوچھو تو سب کے دلوں میں فتیلہ لگانے والی وہی مردانی عورت تھی۔ جو مردوں کو چالاکی اورمردانگی کا سبق پڑھاتی تھی۔ یعنی ماہم اتکہ ۔ وہ اور اس کا بیٹا یہ چاہتے تھے۔ کہ سارے دربار کو نگل جائیں۔ میر شمس الدین محمد خاں اتکہ جس کے نام پر مہم مذکور کی فتح لکھی گئی انہوں نے جب خاتمہ مہم کے بعد دیکھا کہ ساری محنت برباد گئی۔ اور ماہم والے سلطنت کے مالک بن گئے۔ تو اکبر کو ایک عرضی لکھی۔ باوجودیکہ اپنی شرافت اور متانت کے جوہر کی ہر حرف میں رعایت رکھی ہے۔ پھر بھی یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس کے ہاتھ سے داغ داغ ہور ہے ہیں۔ عرضی مذکور اکبرنامہ میں درج ہے ۔ میںنے اس کا ترجمہ ان کے حال میںلکھا ہ ۔ اس سے بہت سی رمزیں مہم مذکور۔ اور ماہم کی کینہ وری کی عیاں ہونگی دیکھو ؎۱ اس کا حال 1 ؎ دیکھو صفحہ 567۔ 2 ؎دیکھو صفحہ 749دودھ پلانے والی کو آتکہ کہتے تھے۔ 12 بیرم خاں کا مذہب ملا صاحب فرماتے ہیں، اس کا دل پر گذار تھا ۔ اکابر اور مشایخ کے کلام پر بہت اعتقاد رکھتا تھا ۔ ذرا سی معرفت کے نکتہ پر آنسوبھر لاتاتھا۔ صحبت میںہمیشہ قال اللہ وقالل الرسول کاذکر تھا۔ اور خود باخبر انسان تھا۔ حکایت سیکری میںکسی فقیر گوشہ نشین سے ملنے گیا۔ اہل جلسہ میں سے ایک شخص نے شاہ صاحب سے پوچھا تعز من تشاء وتزل من تشاء بالسرآل لیکن عقیدہ تفصیل کی طرف مایل تھا ۔ حافظ محمد امین جو خاص بادشاہی اور خاندانی طبیب تھے ان سے کہا کرتا تھا کہ جناب علی مرتضیٰ کے القاب میںچند کلمے اور اصحابوں سے زیادہ پڑھا کرو۔ تباہی سے پہلے ایک عہم او رپرچم مرصع مشہد مقدس میں چڑھانے کو تیار کیا تھا ۔ اس پر کروڑ روپیہ لاگت آئی تھی اور قاسم ارسلاں نے علم امام ہشتم اس کی تاریخ کہی تھی ۔ پرچم پر مولوی جامی کی یہ غزل بھی لکھی تھی ۔ سلام علی آل طہ و یس سلام علی روضہ حل فیہا سلام علی الخیر النبین امام یباہی بہ الملک والدین اما بحق شاہ مطلق کہ آمد شہ کاخ عرفان گل باغ احسان علی ابن موسے رضا کز خدایش حریم درش قبلہ گاہ سلاطیں در درج امکان مسہ برج تمکین رضا شد لقب چوں رضا بودش آئین یہ علم بھی ضبطی میں گیا۔ اور خیر خواہان دولت نے خزانہ میںداخل کیا۔ اخلاق کل مورخ نئے اور پرانے بیرم کے حق میںسو ا تعریف کے کچھ نہیں لکھتے ۔ فاضل بداؤنی تو کسی سے نہیں چوکہتے اور وہ بھی جہاں ا س کا ذکر کرتے ہیں خوبی اور شگفتگی کے ساتھ لکھتے ہیں۔ پھر بھی خالی تو نہ چھوڑنا چاہیے تھا ۔ جس سال اس کا خاتمہ بالخیر کرتا ہے ۔ وہاں کہتا ہے۔ اس سال میں خان خاناں نے ہاشمی قندھاری کی ایک غزل دست برو ترکانہ میںاڑا کر اپنے نام سے مشہور کی ۔ صلہ میں ۶۰ ہزار روپیہ نقد دیکر پوچھا۔ آرزو پوری ہوئی ۔ اس نے کہا ۔ پوری تو جب ہوکہ پوری ہو (یعنی آرزو ؎۱ دیکھو صفحہ نمبر ۷۵ جب پوری ہو کہ لاکھ روپیہ کی رقم پوری ہو۔ یہ لطیفہ بہت پسند آیا ۔ ۴۰ ہزار بڑھا کر پورے لکھا کر دیے خدا جانے کیا ۔ ساعت تھی ۔ چند ہی روز میں غزل کا مضمون اور ادبار کا اثر ظاہر ہو گیا غزل: من کیستم عنان دل ازدست داوؤ دیوانہ وار در کمر کرد گشتہ گاہے چو شمع ز آتش دل درگرفتہ بیرم ز فکر اندک و بسیار فارغیم وزدست دل براہ غم از پافتا دہ بے اختیار سر بگر یباںنہادہ گرچوں فتیلہ بادل آتش فتادہ ہرگز نہ گفتہ ایم کے یا زیادہ آزاد دیکھو ملا صاحب نے ظرافت کا نشتر مار اتھا وہاں سے سخاوت کا چشمہ بہ نکلا ۔ یہ وہی نیت کا پھل نمبر ۲ سخاوت رام داس لکھنوی ۔ سلیم شاہی زمانہ کا گویا تھا کہ موسیقی میں دوسرا تان سین کہلاتا تھا وہ اس کے دربار میں آیا اور گایا۔ خزانہ میں ا س وقت کچھ نہ تھا ۔ ا س پر لاکھ روپیہ دیا۔ اس کا گانا کی آنکھوں میںآنسو بھر آتے تھے۔ ایک جلسہ میںنقد جنس جو اسباب موجود تھا سب دیدیا اور آپ الگ اٹھ گیا۔ نمبر ۳۔ سخاوت )جہجار خاں ایک سردار افغان امیروں سے باقی تھا ۔ علم طو غ اور نقارہ سے اس کی سواری چلتی تھی ۔ ملا صاحب کیامزہ سے لکھتے ہیں ۔ اخیر عمر میںسپاہگری چھوڑ کر تھوڑی سی مدد معاش پر بیٹھ رہا تھا کہ زہد اور عبادت کی برکت سے قناعت کی دولت پائی تھی ۔ اس نے قصیدہ کہہ کر سنایا۔ خان خاناں نے لاکھ روپیہ دیکر کل سرکار سر ہند کا امین کر دیا ۔ چوں مرہ نگیں سما شد بزیر آب پر گار تمش بز میں داد لعل ناب خواجہ کلاں بیگ کا لطیفہ ٹھیک ہوا کہ سخن فہمی عالم بالا ہم معلوم شد۔ حاصل کلام یہ ہے کہ اس کی اہمیت عالی کی نظر میں لک بھی کک (خس ۔ تنکا) تھا۔ یہ گھاس پھوس کہ پانی سوار نظر آتے ہیں۔ نمبر ۴۔ ایک اور لطیفہ )امیر علاء الدولہ اپنے تذکرہ میںفہمی قزوینی کے حال میں لکھتے ہیں کہ خاندان وزارت سے تھا ۔ لیکن بے قید اور تکلفات سے آزاد رہتا تھا۔ رنگ سرخ اور آنکھیں کیری تھیں۔ ایک جلسہ میں بیرم خاں نے اسے دیکھ کر کہا۔ مرزا ، خر مہرہ چرا بر وے۔ وہ ختہ ۔ مرزا نے کہا برائے چشم ز خم۔ خاں خاناں بہت خوش ہوئے۔ ہزار روپے ۔ خلعت ۔ گھوڑا اور ایک لاکھ کی جاگیر عنایت کی۔فہمی اکبر کی تعریف میں اکثر قصا ید کہا کر تھا۔ ایک قصیدہ کے دو شعر تذکرہ مذکور سے مجھے پہنچے ؎ منم ہمیشہ ثنا خوان کہ بادشاہ سلامت دعا ہمے کنم از جاں کہ بادشاہ سلامت بریں کتابہ نیلی رواق کاتب قدرت خطے نوشتہ زا فشاں کہ بادشاہ سلامت نمبر ۵۔ سخاوت، ۳۰ ہزار شریف شمیشر زن ان کے دستر خوان پر کھانا کھاتاتھا۔ اور ۲۵ امیر بالیاقت صاحب تدبیر اس کے ملازم تھے ۔کہ برکت خدمت سے پنج ہزاری منصب ۱ اور صاحب طبل و علم ہوئے۔ دیکھو ماثر۔ غیرت مردانہ جب میدان جنگ کے لئے ہتھیار سجنے لگتا تو دستار کا سرا ہاتھ میںاٹھاتا اور کہتا۔ الہی یا فتح یاشہادت ۔ بد ھ کے دن معمول تھا کہ ہمیشہ شہادت کی نیت دے حجامت اور غسل کیا کرتاتھا ۔ ماثر الامرا۔ علو حوصلہ اس آفتاب کا اقبال عین اوج پر تھا ۔ دربار لگا ہوا تھا ۔ ایک سید سادہ لوح کسی بات پر خوش ہوئے۔ کھڑے ہو کر کہا۔ نواب کی حصول شہادت کے لیے سب فاتحہ اور دعا کریں سب اہل دربار سید صاحب کا منہ دیکھنے لگے۔ اس عالی حوصلہ نے مسکر کر کہا ۔ جناب سید ! بایں اضطراب غمخواری نکنید ۔ شہادت عین تمنا است مگرنہ بایں زودی۔ دیکھو اقبال نامہ اور ماثر الامرا ۔ انہی کتابوں میںہے کہ ہمیشہ بد ھ کے دن خط بنواتاتھا غسل کرتا تھا ۔ اس نیت سے کہ میںشہادت کے لیے مستعد اور مہیا رہوں ۔ ہمیشہ اس نعمت کے لیے دعا کرتا رہتا تھا اور اہل اللہ سے دعا چاہتا تھا ۔ نقل ایک شب دربار میںہمایوں بادشاہ بیرم خاں سے کچھ کہہ رہے تھے۔ رات زیادہ گنی تھی ۔ نیند کے مارے بیرم خاں کی آنکھیں بند ہونے لگیں۔ بادشاہ کی بھی نگاہ پڑ گئی۔ فرمایا بیرم ! من بشما میگویم ۔ شما خواب میکنید۔ بیر م نے کہا قر بانت شوم از بزرگان شنیدہ ام کہ درسہ مقام حفاظت سہ چیز واجب است ۔ در حضرت بادشاہان حفظ چشم۔ در خدمت دروپشیان نگہدار ی دل۔ در پیش علما پاسبانی زبان۔ در ذات حضور صفات سہ گانہ جمع مے بینم ۔ فکر مے کنم کدام کدام شاں را نگہدارم ۔ اس جواب سے بادشاہ بہت خوش ہوئے (ماثر الامرا) آزاد اس برگزیدہ انسا ن کے کل حالات پڑھ کر صاحب نظر صاف کہہ دینگے کہ اس کا مذہب شیعہ ہوگا۔ لیکن اس کہنے سے کیا حاصل ۔ ہمیں چاہیے کہ اس کی چالل ڈھا ل دیکھیں۔ اور گذر گاہ دنیا میںآپ چلنا سیکھیں۔ اس عالی حوصلہ دریا دل نے دوست و دشمن کے انبوہ میںکسی ملنساری اور سلامت روی سے اور بے تعصبی اور خوش اعتدالی سے گذارہ کیا ہوگا۔ وہ شاہانہ اختیار تھا۔ کل سلطنت کے کاروبار اس کے ہاتھ میں تھے ۔ اور شیعہ سنی جن کے شمار ہزاروں اور لاکھوں سے بڑھے ہوئے تھے۔ سب کی غرضیں او ر امیدیں اس کے دامن کھینچی تھے۔ با وجود اس کے کیسا دونوں فرقوں کو دونوں ہاتھوں پر برابر لئے گیا گیا کہ مورخاں وقت میں کوئی اسکے تشیع کا ثبوت تک نہ کر سکا۔ملا صاحب جیسے نظر باز نے بہت تاڑا تو یہ کہا کہ تفضیل پر ما ئل تھا ۔ اہل اسلام میں ایک فرقہ وہ ہے کہ خلافت میںحضرت علی کو چوتھے درجہ میںرکھتے ہیں مگر کہتے ہیں کہ فضال و اوصاف میںپہلے تینوں خلفا سے افضل تھے۔ جن سنت جماعت لوگوں کو اس سے کام پڑتا ان پر اس قدر اخلاق اور سخاوت مبذول کرتا تھا کہ امرائے اہل سنت نہ کرتے تھے۔ دیکھو مخدوم؎۱ الملک کا حال تصفیف ہر تزکرہ و تاریخ میںلکھتے ہیں کہ شعر کا نکتہ شناس تھا اور خود بھی خوب کہتا تھا ۔ ماثر الامراء میں ہے کہ استادوں کے شعروں میں ایسی صلاحیں کیں کہ اہل سخن نے انہیںتسلیم کیا۔ ان سب کا مجموعہ مرتب کیا تھا۔ اور اس کا نام و خلیہ رکھا تھا ۔ فارسی اور ترکی زبان میںتمام کمال دیوان لکھے اور قصآید بلیغ نظم کیے ۔ ملا صاحب اکبر کے زمانہ میںلکھتے ہیں کہ آج کل اس کے دیوان زبانوں اور ہاتھوں پر رواں ہیں محوی شاعر کے حال میںلکھا ہے کہ ۔ اس کی یہ رباعی بیرم خاں کے دیوان میںلوح دیباچہ پر درج ہے ؎ ز کون و مکان نخست آثار نبود آمد چو ہمیں و وحرف مفتاح وجود کاشیا ہمہ از دو حرف کن شد موجود شد مطلع دیباچہ دیوان شہود افسوس کا دن آج ہے ۔ جس میں اس کی ایک غزل بھی پوری نہیںملتی ۔ تاریخوں ۱ اور تذکروں میں متفرق اشعار رہیں۔ ہفت اقلیم ملا امین رازی میں ایک قصیدے کے بھی بہت شعر لکھتے ہیں۔ جس کا مطلع ہے ؎ شہے کہ بگذ رواز زپہرا افسراو اگر غلام علی نیست خاک برسراو؎ ؎صفحہ ۳۱۳ امیر الامرا خان زماں علی قلی خاں شیبانی علی قلی خان او راسکے بھائی بہادر خاں۱؎ نے خاک سیستان سے اٹھ کر رستم کا نام روشن کر دیا ملا صاحب سچ کہتے ہیں جس بہادری اور بے جگری سے انہوں نے تلواریں ماریں۔ لکھتے ہوئے فلم کا سینہ پھٹا جاتا ہے ۔ یہ شاہ نشان سپہ سالار دولت اکبری میں بڑے بڑے کارنامے دکھاتے اور خدا جانے ملک کو کہاں سے کہا ں پہنچاتے ۔ حاسدوں کی ناائقی اور کینہ دری ان کی جانفشانیوں اور جانبازوں کو دیکھ نہ سکی۔ آزاد میں اس معاملے میں انہیں اعتراض سے پاک نہیںرکھ سکتا ۔ وہ آخر دربار میں سب کو جانتے تھے۔ اور سب کچھ جانتے تھے۔ خصوصا بیرم خاں کی بربادی اور جانفشانی دیکھ کر چاہیے تھا کہ ہشیار ہوجاتے اور قدم قدم پر سوچ سمجھ کر پاؤں رکھتے ۔ افسوس کہ پھر بھی نہ سمجھے اور وہ جانبازیاں جن سے دربار دلاوری میںرستم و اسفند یار کے برابر جگہ پاتے ۔ سب اپنی بربادی میںخرچ کیں۔ یہاں تک کہ نمک حرامی کا داغ لے کر دنیا سے گئے۔ حیدر سلطان ان کاباپ قوم کا اذبک تھا ۔ اور شیبانی ؎۲ خاں کے خاندان میںسے تھا ۔ اس ؎۳ نے ایک اصفہا نی عورت سے شادی کی تھی۔ شاہ طہماسپ نے جو فوج ہمایوں کے ساتھ کی اس میں بہت سے سردار بااعتبار تھے۔ انہی میں حیدر سلطان اور اس کے دونوں بیٹے بھی تھے ۔ قندھار کے حملوں میںباپ بیٹے ہمت مردانہ کے جوہر دکھاتے رہے۔ ایران کا لشکر رخصت ہوا تو حیدر سلطان ہمایوں کے ساتھ رہا۔ بلکہ ایسی خصوصیت حاصل کی کہ ایرانی سپہ سالار اس کی معرفت حاضر ہوکر رخصت ہوااور خطا داروں کی خطا اس کی سفارش سے معاف ہوئی۔ اس کی خدمتوں نے ہمایوں کے دل میں ایسا گھر کیا تھا کہ اس وقت قندھار کے سوا کچھ پاس نہ تھا ۔ پھر بھی شال کا علاقہ اس کی جاگیر میںدیا تھا ۔ بادشاہ ابھی اسی طرف تھا کہ لشکر میںوبا پڑی اس میں حیدر سلطان نے قضا کی ۔ چند روز بعد ہمایوں نے کابل کی طرف علم کا پرچم کھولا۔ شہر آدھ کو س رہاتو مقام کیا ۔ امرا کی تقسیم اورفوج کی ترتیب کی۔ دونوںبھائیوں کو خلعت دیکر سوگ سے نکالا اور بہت دلا سا دیا۔ اس وقت بکا ول بیگی (کھانا کھلانے کا دروغہ تھا ) جب کامران طالیقان پر قلعہ بند ہو کر ہمایوں سے لڑ رہا تھا ۔ روز جنگ کے میدان گر م ہوتے تھے۔ ؎۱ بہادر خاں کے حالات کے لیے دیکھو صفحہ ۷۵۷ ۲؎ وہی شیبانی خاں جس نے بابر کو ملک فرغانہ سے نکالا اور تیمور کا نام ترکستان سے مٹایا ۔ ۳؎ یہ قول فرشتہ دخانی خاں وغیر ہ کا ہے مگر بعض مورخ کہتے ہیں کہ جام پر قزلباش اور اذبک میںسخت لڑائی ہوئی ۔ اس میں حیدر سلطان قزلباشوں کی شمول سر سرخرو ہو اور انہی میںسکونت اختیار کر کے ایک اصفہائی عورت سے شادی کر لی ۔ دونوںبھائی دلوں میں دلاوری کے جوش،۔ اور فوجیں رکاب میںلئے تلواریں مارتے پھرتے تھے ۔ اس میںعلی قلی خان کے لباس نوجوانی کو زخموں سے گلرنگ کیا۔ ہندوستان پر ہمایوں نے فوج کشی کی ۔ اس میں بھی دونوں بھائی شمشیر و دوم کی طرح میدان میں چلتے تھے۔ اور دشمنوں کو کاٹتے تھے۔ ہمایوں نے لاہور میںآکر دم لیا۔ ہر چند پیشاور سے یہاں تک افغان ایک میدان میںنہ لڑے مگر ان کے مختلف سردار جا بجا جمعیتوں کے انبوہ لئے دیکھ رہے تھے کہ کیا ہوتا ہے خبر لگی کہ ایک سردار دیپال پور ۱؎ پر فوج فراہم کر رہا ہے ۔ بادشاہ نے چند امراء کو سپاہ و سامان دے کر روانہ کیا۔ اور شاہ ابوالمعالی کو سپہ سالار کیا۔ وہاں مقابلہ ہو ااور افغانوں نے میدان جنگ یں حد سے بڑھ کر حوصلہ دکھایا۔ شاہ ملک حسن کے سپہ سالا رتھے لیکن وہاں نگاہوںکی تلواریں ناز کے خنجر نہیں چلتے ۔ فوج کا میدان میں لڑانا اور خود شمشیر کا جوہر دکھانا اور بات ہے ۔ جب میدان کار زار گرم ہوا تو ایک جگہ افغانوں نے شاہ کو گھیر لیا ۔ سیستانی شیر اپنے رفیقوں کے ساتھ دھاڑتا اور للکارتاپہنچا۔ اور وہ ہاتھ مارے کہ میدان ما ر لیا بلکہ شہرت و ناموری کا نشان یہیں سے ہاتھ آیا۔ ستلج پار کی لڑائی میںجو خانخاناں کی فوج نے میدان مارا یہ سایہ کی طرح پیچھے پیچھے فوج لئے پہنچے۔ لشکر بادشاہی میںایک آوارہ گمنام ۔ بے سر و پا سپاہی قنبر نام تھا ۔ اور اپنی سادہ مزاجی کیسبب سے قنبر دیوانہ مشہور تھا۔ لیکن کھانے کھلانے والا تھا ۔ اس لئے جہاں کھڑا ہو جاتاتھا۔ کچھ نہ کچھ لو گ ا س کے ساتھ ہوجاتے تھے۔ جب ہمایوں نے سر ہند پر فتح پائی تو وہ لشکر سے جد اہو کر لوٹتا مارتا چلا گیا۔ گاؤں اور قصبوں پر گرتا تھا ۔ جو پاتا تھا لوٹتا تھا اور لوگوں کو دیتا تھا ۔ خدائی لشکر ساتھ ہوتا جاتا تھا ۔ قنبر دیوا نہ تھا مگر اپنے کام کا ہوشیار تھا۔ کچھ قیمتی چیزیں ہاتھی گھوڑے جو ہاتھ آتے ۔ عرایض بندگی کے ساتھ حضور میں پہنچاتا جاتاتھا۔ یہاں تک کہ سنبھل میںجا پہنچا۔ ایک نامی افغان بہادر سردار وہاں کا حاکم تھا اس نے مقابلہ کیا۔ تقدیر کی بات ہے کہ باوجود جمعیت و سامان کے بے جنگ ویران ہوگیا۔ ۱؎ دیپالپور لاہور سے جنوب مغرب کی جانب واقع ہے ۔ جب قنبر نے جمعیت امیرانہ بہم پہنچائی ۔ تو دماغ میںخیالات شاہانہ سمائے کہ میںمالک ملک اور کھانے پکواتا تھا ۔ یہ دیوانہ عجب مزے کی باتیںکر تاتھا۔ اس کا دستر خوان وسیع تھا ۔اچھے کھانے پکواتا تھا ۔ سب کو بٹھاتا اور کہتا بخورید مال مال خدا، جان جانِ خدا۔ قنبر دیوانہ بکاول خدا ۔ ہاں بخورید ، اس کا دل دستر خوان سے بھی زیادہ وسیع تھا۔ اس سخاوت نے یہاں تک جوش خروش دکھایا کہ کئی دفعہ گھر کا گھر لٹا دیا۔ آپ باہر نکل ہو اور کہا مال خدا ئیست ہان بند ہائے خد بیا ئید ۔ بگیرید ۔ بردارید۔ ونگزارید۔ انسان کا یہ بھی قاعدہ ہے کہ ترقی کے وقت جب اونچا ہوتا ہے تو خیالات اس سے بھی بہت اونچے ہوجاتے ہیں ؎ جتنے نشے ہیں یاں روش نشئہ شراب ہوجاتے بد مزہ ہیں جو بڑھ جاتے حد سے ہیں ادب آداب بھول گیا ۔ اور حقیقت میںیا دہی کب کئے تھے جو بھولتا ۔ ایک لشکر ی آدمی بلکہ صحرائی جانور تھا۔ بہرحال جو لوگ اس کا رکاب میں جانفشا نیا ں کرتے تھے ۔ انہیںآپ ہی بادشاہ خطاب دینے لگا۔ آپ ہی علم و نقارے بخشنے لگا۔ انہی بھولی بھالی باتوں میںیہ بھی ضرور تھا کہ رعایا کیساتھ بعض بعض بے اعتدالیاں کرتا تھا ۔ جب آدمی کا ستارہ بہت چمکتا ہے ۔ تو اس پر نگاہ بھی زیادہ پڑنے لگتی ہے لوگوں نے حضور میںایک ایک بات چن کر پہنچائی ۔ بادشا ہ نے علی قلی خاں کو خاں زمان کا خطاب دیکر روانہ کیا کہ سنبھل قنبر سے لے لو۔ بداؤں اس کے پاس رہے ۔ اسے بھی خبر پہنچی اور ساتھ ہی علی قلی خاں کا وکیل پہنچا کہ فرمان آیا ہے ۔ چل کر تعمیل کر۔ و ہ کب خاطر میں لاتا تھا۔ جاہل سپاہی تھا سنبھل کر سنبھر کہتا تھا ۔ دربار میں بیٹھتا اور کہتا۔ سنبھر ۔ قنبر و علی قلی خاں چہ ؟ مثل ہماں است کہ وہ کسے درختانِ کسے ۔ علی قلی خاں کو کیا واسطہ ۔ ملک میں نے مارا کہ تونے ؟ خان نے پہنچ کر بدایوں کے پاس لشکر ڈالا او اسے بلا بھیجا ۔ قنبر کب آتے تھے یہ کہتے تھے کہ تو میرے پاس کیوں نہیںآتا۔ تو بادشا ہی بندہ ے تو میں بھی حضرت کا غلام ہوں۔ مجھے بادشاہ کیساتھ تجھ سے زیادہ قرب ہے ۔ اپنے سر کی طرف انگلی اٹھاتا اور کہتا کہ یہ سرتارج شاہی سمیت پیدا ہوا ہے ۔ خان نے فہمایش کے لئے اپنے معتبر بھیجے انہیں قید کر لیا ۔ بھلا خان زمان اس پاگل کو کیا خاطر میںلاتا تھا ۔ آگے بڑھ کر شہر کا محاصرہ کر لیا ۔ دیوانہ نے یہ بر کیا کہ ان دنوں میںرعایا کو زیادہ ناراض کر نے لگا۔ کسی کا مال لے لیا ۔ کسی کے عیال کے لئے ۔ لوگوں کی بے اعتباری کے سبب سے رات کو آپ مورچے مورچے پر قلعداری کا اہتمام کرنا پھرتا تھا ۔ باوجود اس دیوانہ پن کے سیانہ بھی ایسا تھا ۔ کہ ایک دفعہ آدھی رات کو پھرتے پھرتے ایک بنئے کے گھر میںپہنچا جھک کر زمینک سے کان لگائے۔ چند قدم آگے پیچھے بڑھ کر ہٹ کر پھر دیکھا پھر پہلی جگہ آکر بیلداروں کو آواز دی اور کہا کہ ہاں۔ آہٹ معلوم ہوتی ہے۔ یہیں کھو دو۔ دیکھا تو وہیںنقب کا سر انکلا کہ علی قلی خان باہر سے سرنگ لگا رہا تھا ۔ یہ بھی معلوم ہو اکہ قلعہ خدا جانے کن وقتوں کا بنا ہوا تھا ۔ باہر والوں نے جس طرف سے سرنگ لگائی ۔ فصیل میںسال کے شہتیر اور لوہے کی سلاخیں پائی تھیں۔ بنانے والے نے آثار بھی پانی تک پہنچا دیا تھا ۔ خانزماں کونسی حکمت عملی سے پتا لگ گیا ۔ وہی ایک جگہ تھی جہاں سے اندر سرنگ جاسکتی تھی ۔ بہر حال اگر قنبر تاڑ نہ جاتا تو اسی دن علی قلی خاں کی فوج سرنگ کی راہ سر توڑا ندر چلی آتی ۔ خاں بھی یہ زیر کی دیکھ کر حیران رہ گیا ۔ خیر شہر کے لو گ ا س سے تنگ تھے۔ خان کے معتبر جو قلعے میں قید تھے ۔ انہوں نے اندر اندر شہر کے لوگوں کو ملا لیا۔ جب رعایا پھر گئی ۔ پھر کیا ٹھکانا ، باہر والوں کو پیغام بھیجا کہ رات کو اس برج پر فلا نے وقت اس مورچے سے حملہ کرو۔ ہم کمندیں ڈالکر اور زینے لگا کر چڑھا لینگے ۔ شیخ حبیب اللہ وہاں کے روسائے سر گروہ میںسے تھے اور شیخ سلیم چشتی کے رشتہ داروں میں سے تھے۔ وہ خود اس معاملے میںشریک تھے۔ چنانچہ رات کے وقت شیخ زادہ کے برج کی طرف سے چڑھا ہی لیا اور ایک طرف آگ بھی لگا دی ۔ شب اپنی سیاہ چادر تانے سوتی تھی اور دنیا غافل پڑی تھی۔ قنبر سیاہ بخت نے وقت کو غنیمت سمجھا اور ایک کالا کمبل اوڑھ کر بھا گ گیا۔ مگر اسی دن علی قلی خاں کے شکاری خرگوش کی طرح جنگل سے پکڑ لاے۔ بامروت سپہ سالار نے ہر چند کہا کہ فرمان شاہی کی بے ادبی کی ہے ۔ تو بہ اور معذرت کر۔ دیوانہ کس کی سنتا تھا کہا کہ معذرت چہ معنی دارد۔ آخر جان کھوئی اور مدت تک اس کی قبر درگاہ بنکر شہر بداؤں کو روشن کرتی رہی ۔ لوگ پھول چڑھاتے اور مرادیں پاتے تھے۔ علی قلی خاں نے اس کا سر کاٹ کر عرضی کے ساتھ دربار میں بھیج دیا۔ رحم دل بادشاہ ہمایوں کو یہ بات پسند نہ آئی بلکہ ناراضی کے ساتھ فرمان لکھا کہ جب وہ اظہار بندگی کرتا تھا۔ اور چاہتاتھا کہ معذرت کو حضور میںحاضر ہو تو پھر یہاں تک کیوں نوبت پہنچائی۔ اورجب گرفتار ہوکر آیا تو قتل کیوں کیا۔ انہیںدنوں میںہمایوں کے ہمائے حیات نے پروانہ کی۔اقبال چتر بنا اور اکبر کے سر پر قربان ہوا۔ ہیمو ڈھو سر افغانوں کے گھر کا نمک خوار ممالک مشرقی میںحق نمک ادا کرتے کرتے بہت قوت پکڑ گیا تھا۔ اور روز بروز زوروں پر چڑھتا جاتاتھا۔ جب اس نے دیکھا کہ ۱۳ برس کا شہزادہ بادشاہ ہندوستان ہوا ہے تو فوج لے کر چلا۔ بڑے بڑے امرائے افغانب اور جنگ کے بے شمار سامان لئے طوفان کی طرح پنجاب پر آیا تغلق آباد پر تردی بیگ کو شکست دی۔ دلی میں جس کا تخت بادشاہوں کی ہوس کا تاج ہے ۔ جشن شاہانہ کیا۔ اور دلی جیت کر بکر ما جیت بن گیا۔ شادی خاں ایک پرانا افغان شیر شاہی پٹھانوں میں سے ادھر کے علاقے دبائے ہوئے تھا خان زماں اس سے لڑرہا تھا ۔ جب ہیموں کا غلغلہ اٹھا تو بہادر نے مناسب سمجھا کہ پرانے خاک تو وہ پر تیر اندازی کرنے سے بہتر ہے کہ نئے دشمن پر جا کر تلوار کے جوہر دکھا ؤں۔ اس لئے ادھر کا معاملہ ملتوی کر کے دلی کا رخ کیا۔ مگر لڑائی کے وقت تک میدان میںنہ پہنچ سکا میرٹھ میںتھا کہ سنا۔ امرا بھاگے ۔ یہ دلی سے اوپر اوپر جمنا پار ۱؎ ہوا اور کرنال سے ہوتا ہو اپنجاب ہی کی طرف چلا۔ دلی کے بھگوڑے سر ہند میںجمع ہور ہے تھے۔ یہ بھی انہیں میںشامل ہوا ۔ اکبر آئے سب کی ملازمت ہوئی۔تردی بیگ باہر سے باہر ہی مر چکے تھے۔ اکبر نے عنایت و مرحمت بلکہ انعام و اکرام سے شکستہ دلوں کی مرہم پٹی کی ۔ یہ سب خان خاناں کی تدبیریں تھیں۔ رستہ میںخبر پہنچی کہ ہیموں دلی سے چلا۔ خان خاناں نے لشکر کے دو حصے کئے۔ پہلے حصے کے لئے چند جنگ آزمودہ امیروں کو انتخاب کیا۔ خانزماں کے سرپر امیر الامرائی کلگی تھی۔ اس پر سپہ سالاری کا چتر لگایا ۔ سکندر وغیرہ امرا کو ساتھ کیا۔ اپنی بھی فوج ساتھ کی اور اسے ہر اول کر کے آگے روانہ کیا۔ دوسری فوج کو اکبر کی رکاب میںلیا۔ اور شکوہ شاہانہ کے ساتھ آہستہ آہستہ چلا۔پیش قدم سپہ سالار اگرچہ نوجوان تھامگر فنون جنگ میں قدرتی لیاقت رکھتا تھا۔ میدان کا اندازہ دیکھتا تھا ۔ فوج کا بڑھانا ۔ لڑانا موقع وقت کا سمجھنا ۔ حریف کے حملہ کا سنبھالنا۔ عین موقع پر خو دھا وے سے نہ چوکنا وغیر ہ وغیرہ ۔ غرض ان مقدموں میںاسے ایک استعداد خداداد تھی کہ جس انجام کو سوچ کر ہاتھ ڈالتا تھا ۔ وہی شکار پکڑلاتا تھا ادھر ہیموں کو اس انتظام کی خبر پہنچی ۔ خاطر میںنہ لایا ۔ دلی مار کر دل بہت بڑ ھ گیا تھا۔ ترکی کا جواب ترکی دیا۔ افغانوں کے دو عالی جاہ سردار انتخاب کیا کہ ان دنوں میدان جنگ میںچلتی تلوار بنے ہوئے تھے۔ انہیں ۲۰ ہزار فوج دی اور توپخانہ کہ دریا ئے آتش کا دہانہ تھا ساتھ روانہ کیا کہ پانی پت پر جاکر ٹھیرو۔ ہم بھی آتے ہیں۔ نوجوان سپہ سالار کے دل میں دلاوری کی امنگ بھری ہوئی کہ اس بکر ماجیت سے مقابلہ سے جس کے سامنے سے پرانا سپاہی اور نامور سپہ دار بھاگ نکلا۔ اور جوان بخت نوجوان تخت پر بیٹھا تماشہ دیکھ رہا ہے اتنے میں سناکہ حریف کا توپخانہ پانی پت پر آگیا۔ چند سرداروں کو آگے بھیجا کہ جا کر چھینا جھپٹ کریں۔ انہوں نے پہنچ کر لکھا کہ غنیم کا وزن بہت بھاری ہے۔ سیستانی شیر خود جھپٹا اور اس صدمے سے جاکر گرا کہ ٹھنڈے لوہے سے گرم لوہے کو دبا لیا او رہاتھوں ہاتھ توپخانہ چھین لیا ۔ صد ہاگھوڑے ہاتھی شیروں کے ہاتھ آئے۔ ہیموں کو توپخانہ ہی پر بڑا گھمنڈ تھا۔ جب یہ خبر سنی تو ایسا جھنجلا کر اٹھا جیسے دال میںبگھار لگا اور سارا لشکر لیکر روانہ ہوا۔ ۳۰ ہزار جوشن پوش ۔ ۱۵ سو ہاتھی جن میں پانسو جنگی فیل مست ان کے چہروں کو کالے پیلے رنگ پھیر کر ہیبت ناک بنایا تھا ۔ اور سر وں پر ڈراؤنے جانوروں کی کھالیں ڈالی تھیں لوہے کی پاکھریں پیٹ پر پڑی ۔ مستکوں پر ڈھالیں۔ گرد چھریاں کٹاریں کھڑی۔ سونڈوں میںزنجیریں اور تلواریں ہلاتے ۔ ہر ہاتی پر ایک ایک سورما سپاہی ۔ اور مہنت مہاوت بٹھایا تھا کہ دیوزاد لڑائی کے وقت خاطر خواہ کام دیں۔ ادھر بادشاہی فو ج میں کل ۱۰ ہزار کی جمعیت تھی جن میں ۵ ہزار جنگی دلاور تھے ۔ ؎۱ باغپت کے گھاٹ اترا ہوگا۔ ؎؎ سیستانی رستم نے جب حریف کی آمد آمد سنی تو جا سوس دوڑائے لیکن بادشاہ کے آنے یا کمک منگانے کا کچھ خیال نہ کیا۔فوج کی تیاری کا حکم سنایا اور امر اء کو جمع کر کے مجلس مشورت آراستہ کی ۔ میدان نگ کے پہلو تقسیم کئے ۔ پہلے یہی خبر آئی کہ ہیموں پیچھے آتا ہے۔ شادی خاں سپہ سالاری کرتا ہوا فوج کو لاتا ہے دفعتہ پرچہ لگا کہ ہیموں خود ہی ساتھ آیا ہے پانی پت سے ایک پڑاؤ آگے بڑھ کر گھڑونڈہ پر مورچے باندھے ہیں۔ خانزماں کا آگے بڑھنے کا ارادہ تھا ۔ مگر تھم گیا ۔ اور شہر سے ہٹ کر مقابلے پر لشکر جمایا ۔ چاروں پہلو امرا پر تقسیم کر کے فوجوں کا قلعہ باندھا۔ بیچ میںآپ اقبال کا نشان علم کیا ۔ ایک بڑا ساچتر تیار کیا اسے اپنے سر پر لگایا ۔ اور سپہ سالاری کی شان بڑھا کر قلب میںجا کھڑا ہوا۔ لڑائی شروع ہوئی اور میدان کا رزار گرم ہوا۔ طرفین کے بہادر بڑھ بڑھ کر تلواریں مارنے لگے ۔ خانزمانی جاں نثار بے جگر ہو کر حملے کرتے تھے ۔ اور تلوار کی آنچ پر اپنی جان کو دے دے مارتے تھے ۔ مگر باوجود اس کے کامیاب نہ ہو سکتے ۔ دھاوا کرتے تھے اور بکھر جاتے تھے کیونکہ کم تھے۔لیکن سیستانی شیر کا جوش سب کے دلو نپر چھایا ہوا تھا۔ کسی طرح باز نہ آتے تھے۔ لڑتے تھے مرتے تھے اور شیروں کی طرح بپھر بپھر کر جا پڑتے تھے ۔ ہیموں ۱؎ ہوائی ہاتھی پر سوار قلب لشکر کو سنبھالے کھڑا تھا ۔ اور فوج کو لڑا رہا تھا ۔ آخر میدان کا اندازہ دیکھ کر اس نے ہاتھی ہول دئے ۔ کالے پہاڑوں نے اپنی جگہ سے جنبش کی اور کالی گھٹا کی طرح آئے اکبر نمک خوار خاطر میںنہ لائے۔ بھاگے مگر ہوش و حواس سے کلے پانی کے سیلاب کو رستہ دیا۔ اور لڑتے بھڑتے ہٹتے چلے گئے۔ لڑائی کے وقت لشکر کا رخ اور دریا کا بہاؤ ایک حکم رکھتا ہے جدھر کو پھر گیا پھر گیا غنیم کے ہاتھیوں کی صف بادشاہی فوج کے ایک پہلو کو ریتتی ہوئی لے گئی ۔ خانزمان اپنی جگہ کھڑا تھا ۔ اور سپہ سالاری کی دور بین سے چاروں طرف نظر دوڑا رہا تھا ۔ اس نے دیکھا کہ سیاہ آندھی جو سامنے سے اٹھی برابر کو نکل گئی ۔ اب ہیموں قلب لشکر کو لئے کھڑا ہے۔ یکبار گی فوج کو للکا ر کر حملہ کیا۔ ترک تیر وں کی بوچھاڑ کرتے ہوئے بڑھے ۔ ادھر سے ہاتھی تلواریں سونڈوں میںپھراتے اور زنجیریںجھلاتے آگے آئے اس وقت علی قلی خان کے آگے بیرم خانی جوان جانفشانی کر رہے تھے ۔ جن میں حسین قلی خان اس کا بھانجا سپہ سالار تھا ۱؎ ہیموں کے ہاتھی کا نام ہوائی تھا ۔ اور شاہ قلی محرم وغیرہ صاحب سردار تھ ۔ سچ یہ ہے کہ بڑا ساکھاگیا ۔ اور ہاتھیوں کے حملے کو حوصلے اور ہمت سے روکا وہ سینہ سپر ہو کر آگے بڑھے۔ اور جب دیکھا کہ گھوڑے ہاتھیوں سے بدکتے ہیں تو کو دپڑے اور تلواریں کھینچ کر صفوں میںگھس گئے ۔ انہوں نے تیروں کی بوچھاڑ سے سیاہ دیوزادوں کے منہ پھیروئے او رکالے پہاڑوں کو خاک تو وہ سا بنا دیا عجب گھمسان کا رن پڑا۔ ہیموں کی بہادری تعریف کے قابل ہے ۔ وہ ترازو باٹ کا اٹھانے والا۔ دال چپاتی کا کھانے والا ۔ ہووے کے بیچ میں ننگے سر کھڑا تھا ۔ فوج کا دل بڑھا تا تھا ۔ اور فتح کا منتر جو کسی گیانی گنوان یا پنڈت بدیا وان نے بتایا تھا ۔ جپے جاتا تھا فتح شکست خدا کے اختیار ہے ۔ سپا کا پتھراؤ ہوگیا ۔ شادی خاں افغان اس کے سرداروں کی ناک تھا ۔ کٹ کر خاک پر گر پڑا۔ فوج اناج کے دانوں کی طرح کھنڈگئی ۔ پھر بھی اس نے ہمت نہ ہاری ہاتھی پر سوار ۔ چاروں طرف پھرتا تھا۔ سرداروں کے نام لے لے کر پکارتا تھا ۔ کہ سمیٹ کر پھر جمع کرلے اتنے میںایک قضا کا تیراسکی بھینگی آنکھ میں اسیا لگا کہ باہر نکل گیا ۔ اس نے اپنے ہاتھ سے تیر کھینچکر نکالا۔ اور آنکھ پر رومال باندھ لیا۔ مگرزخم سے ایسا بے قرار اور بیچو اس ہوا کہ ہووے میں گر پڑا۔ یہ دیکھ کر اس کے ہوا خواہوں کے جی چھوٹ گئے۔ سب تتر بتر ہوگئے ۔ اکبر کے اقبال اور خانزماں کی تلوار پر اس مہم کا فتح نامہ لکھا گیا ۔ ہیموں کی گرفتاری اور قتل کی کیفیت دیکھو صفحہ ۱۳ اس کے صلے میں سرکار سنبھل اور میان دواب کا علاقہ اس کی جاگیر ہوگیا ۔ اور خود امیر الامرا خانزما ن ہوئے بلکہ حق پوچھو تو بقول بلوک میں صاحب ، خانزمان نے ہندوستان میںتیموری سلطنت کی بنیاد رکھنے میں بیرم خاں سے دوسر انمبر حاصل کیا ۔ سنبھل کی سرحد سے تمام جانب مشرق میں افغان چھائے ہوئے تھے ۔ رکن خاں روحانی ایک پرانا پٹھا ن ان کا سردار تھا۔ خان زمان فوج لے کر چڑھا۔ لکھنو تک تمام شمالی ملک صاف کردیا ۔ اور ان ملکوں میں ایسا لڑاکہ ایک ایک میدان اس کا کا رنامہ تھا دفتر روزگار پر ۔اکبر قلعہ مانکوٹ کا محاصرہ کئے پڑا تھا کہ حسن کاں پچکوئی نے سرکار سنبھل پر ہاتھ مارنا شرو ع کیا ۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ اس فساد کی خبر سن کر یا اکبر ادھر آئے گا یا خانزمان جو آگے بڑھ جاتا ہے وہ اس طرف الجھیگا ۔ خانزماں لکھنو کے مقام میں تھا کہ حسن خاں ۲۰ ہزار آدمی سے آیا ۔ اورخانزماں کے پاس کل تین چار ہزار فوج افغان دریاے سرد ہی اتر آئے ۔ بہادر خاں کی فوج نے گھاٹ پر روکا ۔ خانزماں کھانا کھاتاتھا۔ خبر آئی کہ غنیم آن پہنچا۔ یہ ہنسکر کہتے ہیں کہ ایک بازی شطرنج تو کھیل لو۔ مزے سے بیٹھے ہیں اور چالیس چل رہے ہیں۔ پھر خبر دار نے خبر دی کہ غنیم نے ہماری فوج کو ہٹا دیا۔ آوازدی کہ ہتیار لانا۔ بیٹھے بیٹھے ہتیار سجے جب خیمے ڈیرے لٹنے لگے اورلشکر میں بھاگڑ پڑگئی ۔ تب بہادر خاں سے کہا کہ اب تم جاؤوہ آگے گیا ۔ دیکھیے تو دشمن دست و گریبان ہے۔ جاتے ہی چھری کٹاری ہوگیا۔ پھر آپ تھوڑے سے رفیق کہ رکاب میںتھے لے کر چلا۔ نقارہ پر چوٹ ما رکر جو گھوڑے اٹھائے تو اس کڑک دمک سے پہنچا کہ غنیم کے قدم اٹھ گئے اور ہوش اڑ گئے ۔ ان کے انبوہ کو گٹھری کر کے پھینک دیا۔ افغان اس طرح بھاگے جاتے تھے۔ جیسے گلہ ہائے گوسپند۔ سات کوس تک فرش کر تا چلا گیا ۔ کشتے کٹے پڑے تھے اور زخمی لوٹتے تھے ۔ سبد لیا اور دل سنگار اس لڑائی کے ہاتھیوں میں ہاتھ آئے تھے۔ ۹۶۴ھ میں جو نپور پر قبضہ کر کے سکندر عدلی کا قائم مقام ہوگیا۔ ۳ جلوس میںہی ا کے باغ عیش میںنحوست کے کویک نے گھونسلا بنایا ۔ تم پہلے سن چکے ہو اس کا باپ اذبک تھا اور اس لئے قومی حماقتوکا بھی ظہور ضرور تھا ۔ احمق نے شا ہم بیگ ایک خوبصورت خوش اوا نوجوان کو نوکر رکھ الیا کہ پہلے ہمایوں بادشاہ کے پیش خدمتوں میںتھا ۔ فتحیاب حدود لکھنو میں تھا ۔ اور شا ہم بھی اس کے پا س تھا ۔ جس طرح امرائے دنیا کا دستور ہے ہنستے کھیلتے عیش کرتے تھے۔ اور سرکاری خدمتیں بھی اس طرح بجا لاتے تھے کہ ترقی منصب کے ساتھ تحسین و آفرین کے خلعت حاصل کرتے تھے اور دیکھ نے والے دیکھتے رہ جاتے تھے۔ اگرچہ وہ شیبانی خان کی نسل میںتھا اور اسکا باپ خاص ازبک تھا لیکن ماں ایرانی تھی ۔ اور اس نے ایران میں پرورش پائی تھی ۔ اس لئے مذہب شیعہ تھا ۔ قابل افسوس یہ بات ہے کہ اس کی دلاوری اور تیزی طبع نے اسے حد سے زیادہ بے باک کر دیاتھا ۔ اس کی صحبتوں میں خواہ خلوۃ ہو خواہ جلوت بدکلام اور بے لگام جہلا جمع ہوتے تھے۔ ان سے کھلم کھلا بے تہذیب گفتگوئیں ہوتی تھیں ۔ کہ جو کسی طرح مناسب نہیں اہل سنت جن کا دورہ اس وقت آفتاب کا دورہ تھا ۔ لہو ک گھونٹ پیتے تھے ۔ لیکن اکبر کے دل پر اس کی خدمتیں نقش پر نقش بٹھاتی تھیں۔ او ر دونوں بھائی خانخا ناں کے دونوں ہاتھ تھے اس لئے کوئی بول نہ سکتا تھا ۔ ۱؎ عجب زمانہ تھا۔ شاہ قلی محرم ایک بہادر اور نامی امیر تھے ۔ انہی دنوں میںانہوں نے بھی عاشق مزاجی کے میدان میں جولا نی دکھائی قبول خاں ایک مقبول نوجوان کہ رقص میں مور اور آواز میں کومل تھا ۔ اس پر شاہ قلی دیوانے تھے۔ اکبر باوجود یکہ ترک تھا مگر اتفاقہے کہ اس شوق سے نفرت تھی ۔ جب سنا تو قبول خاں کو بلا کر پہرے میں دیدیا۔ امیر مذکور کو بڑ ارنج ہوا ۔ گھر کو آگ لگادی اور جرگیون کو جو ن بدل کر جنگل میں جا بیٹھے ۔ خان خاناں کے ذیلدارہ نمیں تھے۔ خان خاناں نے ان کی دلدادی کے لئے ایک غزل بھی کہی اور جوگی جی کو جا کر سنائی۔ ادھر انہیں سمجھایا ۔ ادھر حضور ہیں عرض کی اور جوگی سے امیر بناکر پھر دریا میں داخل کیا۔ کیا کہوں، سمر قند و بخارا میںجو تماشے اس شوق کے اپنی آنکھوں سے دیکھے ۔ جی چاہتا ہے کہ لکھوں مگر قانون وقت قلم کو جنبش نہیں کرنے دیتا ۔ یہ وہی شاہ قلی محرم ہیں جو ہیمو کا ہاتھی گھیر لائے تھے اور انہی چار امیروں میں سے ایک ہیںجنہوں نے بیرم خاں کی رفاقت سے برے وقت میںبھی منہ نہ موڑا تھا ۔ بادشاہی خدمتیں بھی ہمیشہ جانفشانی سے بجا لاتے رہے ۔ محرم اب بھی ترکستان میںمعتبر او رمعزز عہدہ اہل دربار کاہے ۔ غنیم کے لشکر میں سے ایک شخص بھاگا۔ اور ملا پیر محمد کے پاس آکر کہا کہ آپ کی پناہ میں آیا ہوں اب شرم آپ کے ہاتھ ہے۔ ملا صاحب نے سفارش کرنی چاہی ۔ مگر جانتے تھے کہ وہ ایک بے پرواہ سینہ رو آدمی ہے۔ اس لئے ادھر کچھ سلسلہ نہ ہلایا ۔ مذہبی حالات سن سن کر یہ بھی آگ بگولا ہورہے تے۔ اس لئے اس کی عیاشی کے معاملات کو بری آب و تاب سے حضور میں عرض کیا ۔ اور ایسا چمکایا کہ نوجوان بادشاہ خلاف عادت آ پے سے باہر ہوگیا ۔ پھر بھی خان خاناں موجود تھے۔ انہوں نے ادھر جلتی آگ پر تقریروں کے چھینٹے دئے۔ ادھر خانزماں کی طرف پرچے اڑائے ۔ اپنے معتبر دوڑائے۔ اسے بلا بھیجا ۔ اپنے اوپر جو حریف اندر اندر وار کر رہے تھے ان کے نشیب و فراز سمجھائے۔ اور رخصت کر دیا۔ اس وقت آگ دب گئی ۔ ۴ جلو س میںحکم پہنچا کہ شاہم کوبھیج دو یانکال دو اور خود لکھنو کو چھوڑ کر جو نپور پر فوج کشی کرو کہ افغانوں کے سردار وہاں جمع ہیںتمہاری جاگیر اور امراء کو عنایت ہوئی یہ مہم جونپور میںتمہاری کمک ہونگے ۔ امرا ئے مذکور جو فوجیں جرار لیکر روانہ ہوئے انہیں حکم ہوا کہ اگر خانزماں فرمان کی تعمیل کرے تو کمک کرو ورنہ کالپی وغیرہ کے حاکموں کو ساتھ لے کر اسے صاف کرو۔ خان زماں سن کر حیران رہ گیا کہ ذرا سی بات جس پر اس قدر قہر و عتاب ۔ وہ اپنے حریفوں کو خوب جانتا تھا ۔ سمجھا کہ نوجوان شہزادہ بادشاہ ہوگیا ہے ۔ بد اندیشوں نے بیچ مارا۔ شاہم کو روانہ دربار نہ کیا ۔ کہ مبادا جان سے ماراجائے۔ لیکن اپنے علاقے سے نکال دیا۔ برج علی اپنے معتبر ملازم اور مصاحب کو حضور میںبھیجا کہ مخالفوں نے جو الٹے نقش بٹھا ئے ہیںانہیں عجز و انکسار کے ہاتھ جوڑ کر اچھی طرح مٹائے۔ بادشاہ دلی میں تھے۔ قلعہ فیروز آباد میں اترے ہوئے تھے کمبخت بر ج علی جب حضور میںپہنچا تو پہلے ملا پیر محمد سے ملنا واجب تھا کہ وکیل مطلق ہوگئے تھے ۔ ملا قلعے کے برج پر اتریے ہوئے تھے برج علی سید ھا برج پر چڑھ گیا ۔ اور خلاص و نیاز کے پیغام پہنچائے انکا دماغ برج آتشبازی کی طرح اڑا جاتاتھا ۔ بڑے خفا ہوئے ۔ وہ بھی آخر جاں نثارو نمک حلال کا وکیل تھا ۔ شایدکچھ جواب دیا ہوگا یہ ایسے جامے سے باہر نہ ہوئے کہ حکم دیا۔ باندھ کر ڈال دو۔ اور مار کر تھیلا کر دو۔ اس پربھی دل کا بخار نہ نکلا ۔ کہا کہ برج پر سے گرادو۔ اسی وقت گرایاگیا ۔ اور دم کے دم میں جسم کی عمارت زمین سے ہموار ہوگئی ۔ قسائی پیر محمد نے قہقہہ ما رکر کہا۔ آج نام کا اثر پورا ہوا۔ خانزمان نے شاہم کا تو پھرنام بھی نہ لیا۔ مگربرج علی کی جان اوراپنی بے عز تی کا سخت رنج ہوا۔ خصوصا اس سبب سے جو رقیبوں نے جو ڑ ما را وہ چل گیا۔ اور اس بات بھی بادشاہ تک نہ پہنچی۔ خان خاناں موجود تھے۔ انکو ابھی خبر نہ ہوئی تھی کہ اوپر ہی اوپر کام تمام ہوگیا ۔ پھر سنا تو سوا افسوس کے کیا ہوسکتا تھا۔ اور حقیقت میںاینٹیں خان خاناں کی بنیاد کی بھی نکل رہی تھیں۔ چند ہی روز میں بادشاہ نے آگرہ کو کوچ کیا۔ رستے میںخانخاناں اور پیر محمد خاں کی بگڑی اور ایک کے بعد ایک پر آفت آئی۔ اگرچہ دریار کے رنگ بد رنگ ہورہے تھے مگر دریا دل سپہ سالار ان نا اہلوں کو کا خاطر میںلاتے تھے۔ خانزماں او خانخا ناں کی صلاح ہوئی کہ ان کی زبانیں تلواروں سے کاٹنی چاہئیں۔ چنانچہ ایک طرف خانخانان نے فتوحات پر کمر باندھی ۔ دوسری طرف خانزماں نے نشان کھولا کہ آب تیغ سے داغ بدنامی کہ دھوئے۔ کوڑ یہ افغان نے آپ ہی سلطان بہادر اپنا خط اب رکھا۔ بنگالہ میںاپنا سکی و خطبہ جاری کر دیا۔ خانزماں جونپور میںتھا ۔ کہ وہ تیس چالیس ہزار سوار سے چڑھ آیا۔ یہ اس وقت بھی دستر خوان پر تھے کہ اس نے آن لیا۔ جب خدمتگاروں کے ڈیرے سے اور اپنے سر اپر دے لٹوائے ۔ تو خاطر جمع سے اٹھے۔ اور رفیقوں اور جاں نثاروں کو لیکر چلے بلکہ حریف انکے ڈیرے میںجا پہنچا تو دستر خوان اسی طرح بچھایا پاے۔ خیر یہ باہر نکل کر سوار ہوئے۔ نقارہ بجا کر ادھر ادھر گھوڑا مارا۔ نقارہ کی آواز سنتے ہی کھنڈے ہوئے نمک کوار سمٹے۔ ان گنتی کے سواروں سے جو تلوار لیکر پلے تو افغانوں کے دھوئیں اڑا دئے بہادر خاں نے اس مہم میںوہ بہادری دکھائی کہ رستم و اسفند یار کے نام کو مٹا دیا ۔ جو افغان بہادری کے دعووں سے ہزار ہزر سوار کے وزن میںتلتے تھے۔ انہیں کاٹ کاٹ کر خاک ہلاک پر ڈال دیا۔ انکی فوج میدان جنگ میںکم رہی تھی۔ لوٹ کے لالچ پر سب خیموں میںگھس گئے تھے ۔ توشتہ دان بھر رہے تھے اور گھٹریاں باندھ رہے تھے۔ جس وقت نقارہ بجا ۔ اور ترک تلواریں لیکر پل پڑے۔ وہ اس طرح بھاگے جیسے مہال سے مکھیاں اڑیں۔ ایک نے پلٹ کر تلوار نہ کھینچی۔ خزائے اور مالخانے سامان جنگ بلکہ سامان سلطنت گھوڑے ہاتھی سب چھوڑ گئے اور اتنی لوٹ ہاتھ آئی کہ پھر فوج کو بھی ہوس نہ رہی میوات کے مفسد کہ سرشوری کے بانے باندھے بیٹھے تھے اور ہزاروں سرکش پٹھان دہلی و آگرہ کو گھڑ دوڑ کے میدان بنائے پھرتے تھے۔ جنکی گردن کی رگیں کسی تدبیر سے ڈھیلی نہ ہوتی تھیں۔ اس نے سب کو آب شمشیر سے ٹھیک کر دیا۔ ان خدمتوں کا اتنااثر ہوا کہ پھر چاروں طرف سے اس کی واہ ہونے لگی بادشاہ بھی خوش ہو گئے۔ بدگویوں کو زبانیں قلم ہوگئیں اور حاسدوں کے منہ ووات ک طرح کھلے رہ گئے ۔ اکبرجو چند رو ز بیرم خاں کی مہم میںمصروف رہا تو ممالک مشرقی کے افغانوں نے فرصت کو غنیمت سمجھا۔ اور سمٹ کر اتفاق کیا۔ انہوں نے کہا کہ ادھر کے علاقہ میں جو کچھ ہے خانزماں ہے۔ اسے اڑا دیں تو میدان صاف ہے ۔ عدلیٰ افغانوں کا بیٹا کہ قلعہ چنار کا مالک ہوکر بہت بڑھ چڑھ چکا تھا اسے شیر خاں بنا کر نکالا۔ وہ بڑی جمعیت اور دعوے کے ساتھ لشکر لیکر آیا۔ خانزماں جو نپور میںتھا ۔ اگرچہ وہ کود ل شکستہ تھا اور خانخانان کی تباہی نے اسکی کمر توڑ دی تھی۔ لیکن سنتے ہی تمام امرائے اطراف کو جمع کر لیا ۔ اور چاہا کہ علیم کو روکے ۔ لیکن ادھر اک پلہ بھاری پایا۔کہ ۲۰ ہزار ۔ ۵۰ ہزار پیادے ۔ پانسو ہاتھ اسکے ساتھ تھے۔ خانزماں نے چڑھ کر جانا مناسب نہ سمجھا۔ غنیم اور بھی شیر ہوکر آیا۔ اور دریائے کودی پر ان پڑا جسکے کنارے پر جونپور آباد ہے ۔خانزماں اندر اندر تیاری کرتا رہا اور کچھ نہ بولا۔وہ تیسرے دن دریا اترا اور بڑے گھمنڈ سے بڑھا۔خود چند سرداروں کے ساتھ فوج سے موج مارتا پرانے پٹھانوں کو لئے سلطان حسین شرقی کی مسجد کی طر ف آیا ۔ اور چند نامور سرداروں کے زور سے داہنے کو دبایا کہ لعل دروازہ پر حملہ کریں کئی تلورئے افغانوں کو بائیںپر ڈالا کہ شیخ پھول کے بند کا مورچہ توڑیں اکبری دلاور بھی آگے بڑھے اور لڑائی شروع ہوئی ۔ میدان جنگ میں خانزمان کا پہلا اصول قواعد غنیم کے حملے کا سنبھالنا تھا۔ اسے دائیں بائیں ادھر ادھر کے سرداروں پر ڈالتاتھا۔ او رآپ بڑے ہوش و حواس سے مستعد کھڑا رہتاتھا۔ جب دیکھتا کہ حریف کا زور ہو چکا۔ تب تازہ دم آپ ا س پر حملہ کرتا تھا اور اس طرح ٹوٹ کر گرتا تھا کہ امان نہ دیتا تھا اور دشمن کے دھوئیں اڑا دیتا تھا ۔ چنانچہ یہ بازی بھی اسی چال سے جیتا ۔ حریف ایسے لشکر کثیر اور جم غفیر او رسامان و افر کو برباد کرکے ناکام بھاگا۔ اور ہاتھی گھوڑے سے جواہر نفائس لاکھوں روپے کے خزانے اور مال خانزمان کو گھر بیٹھے دے گیا ۔ خدا دے تو بندہ اس کامزہ کیوں نہ لے ۔ انہوں نے امرا کو بانٹا سپا کو انعام بے شمار دیا۔ آپ سامان عیش آرام درست کر کے بہاریں اڑائیں۔ یہ ضرور ہے کہ جو کچھ اس مہم میںہاتھ آیا اس کی فہرست حضور میں نہ عرض کی۔ا وریہ دوسری فتح تھی جو نپور میں۔ خانزماں پر اکبر کی پہلی یلغار چغلخوروں کی طبیعت بند رکی خلصت کا چھاپا ہے۔ ان سے نچلا نہیںبیٹھا جاتا۔ کوئی نہ کوئی شے نوچنے کریدنے کے لئے ضرور چاہیے۔ فتوھات مذکورہ کی خبریں سنکر پھر بادشاہ کو بہکانا شروع کیا۔ وہ جانتے تھے کہ اکبر ہاتھیوں کا عاشق ہے ۔ اس لئے خزانوں او رعجائب و نفائس کے بیانوں کے ساتھ یہ بھی کہا کہ اس لڑائی میںخانزماں کو وہ وہ ہاتھی ہاتھ آئیں ہیں کہ دیکھنے والے دیکھتے ہیں اور جھومتے ہیں۔ چنانچہ جب بادشاہ اوہم خاں کا بندوبست کر کے مالوہ سے پھرے تو آتے ہی پھر تو سن ہمت پرسوار ہوئے منعم خاں و خواجہ جہاں وغیرہ امرائے قدیم کو ساتھ لیا۔ اورکالپی کے رستے یکایک کڑہ مانکپور پر جا اترے دونوں بھائیوں کو بھی خبر ہوگئی تھی ۔ وہ بھی جونپور سے یلغار کئے چلے آتے تھے کنارہ مقام کڑہ پر سجدہ بندگی میںجھک کر سر بلند ہوئے۔ جان مال سب حاضر کروئے۔ ہاتھیوں پر سارا جھگڑا اٹھا تھا۔ انہوں نے بہت سے مست ہاتھی لو ٹ کے۔ بلکہ اپنے فیلخانہ کے بھی نذر گزارنے ۔ ان میں سے وبستکان۔ پلتہ۔ ولیل ۔ سبدلیا ۔جگموہن بادشاہ کو ایسے پسندآئے کہ خلقہ خاصہ میں داخل ہوئے۔ اکبر عفو و کرم کادریا تھا۔ اس کے علاوہ بہادر خاں کے ساتھ کھیلا ہوا تھا۔ اس لئے اسے بھائی کہا کرتاتھا۔ خانزمان کی دلاوری اور جاں نثاری نے اسے اپنا عاشق بنا رکھا تھا۔ اس لئے دونوں بھائیوں کی طرف سے دل میںگھر تھا۔ ہنسی خوشی ملا۔ اعزاز و اکرام بڑھائے ۔ خلعت پہنائے ۔ زین زریں اور ساز مرصع کے ساتھ گھوڑوں پر چڑھاکر رخصت کیا۔ چغلخوروں کو بڑے بھروسے تھے۔ مگر جو جو باتیں انہیں نے کان میںپھوکی تھی۔ ان کا ذکر زبان تک نہ آیا۔ اس صلح کی تاریخیں بھی شاعروں نے کہیںایک مجھے بھی پسند ہے ؎منہی اقبال دریں کہنہ دیر غلغلہ اند اخت کہ الصتلح خیر دونوںبھائی ملک گیری کے میدان میں کارنامے دکھاتے تھے۔ او رملک داری کے معاملوں میں پانی پر سنگین نقش جماتے تھے ۔ مگردربار کی طرف سے بے دلی اور آرزودگی اٹھاتے تھے۔ اکبر جیسے بادشاہ کو ایسے جاں بازوں کی قدر دانی واجب تھی اور جانبار بھی قدیم الخدمت ، چنانچہ ۹۷۱ ھ میںملا عبداللہ سلطان پوری۔مولانا علاء الدین لاری ۔ شہاب الدین احمد خاں اور وزیر خاں کو بھیجا کہ انہیں سمجھاؤ اورنصیحت کرو۔ توبہ کراؤ اور کہو کہ ناامید نہ ہونا رحمت بادشاہی کا دریا تمہارے واسطے لہریں مار رہا ہے ۔ فتح خاں اور حسن خاں افغان لشکر کثیر افغانوں کا لے کر قلعہ رہتاسے گھٹا کی طرح اٹھے اور سلیم شاہ کے بیٹے کو بادشاہ بنا کر مہم کا منصوبہ جمایا ۔ ولایت بہار کو تسخیر کیا اور بجلیوں کی طرح ادھر ادھر کو ندنے لگے ۔ بعض علاقے خانزماں کے بھی دبالئے۔ دونوںبھائیوں نے ابراہیم خاں اذبک اور مجنون خان قاقشاں کو آگے بڑھایا مگر دیکھا کہ افغانوں کا ٹڈی دل زور میںبھر آتا ہے ۔ میدان میں مقابلہ نہ ہو سکے گا۔ اس لیے دریائے سون کے کنارے اندر باری پر قلعے کو اور مورچوں سے استحکام دیاتھا ۔ اور مقابلے کو تیار بیٹھا تھا ۔ ایک دن ارکان بادشاہی بیٹھے گفتگو کر رہے تھے اور مورچوں سے استحکام دیا تھا ۔ اور مقابلے کو تیار بیٹھا تھا۔ ایک دن ارکان بادشاہی بیٹھے گفتگو کر رہے تھے جو غنیم آن پہنچا او رآتے ہی خانزمان کی فوج کو لپیٹا شہر کی طر آیا۔ خانزمان کا لشکر بھاگا اور افغان خیموں ڈیروں کو بلکہ آس پاس کے گھروں کو لوٹنے لگے ۔ یہ اسی وقت اٹھ کھڑا ہو اور سوار ہو کرنکلا۔ جو ہمراہی ساتھ ہوسکے انہیںلے کر دیوار قلعہ کے نیچے آیا ۔ ایک پہلو میںکھڑا قدرت الہی کا تماشہ دیکھتا ہے ۔ اور لطیفہ غیبی کا منتظر ہے کہ حسن خاں تبتی کو دیکھتا ہے ۔ بخت بلند نام ہاتھی پر سوار چلا آتا ہ ۔ یہ فوج لیکر سامنے ہوا اور حملے کے لیے آواز دی۔ دشمن کی فوج بہت تھی ۔ حملہ کی ضرب کمزور پڑی اور فوج کھنڈ گئی۔یہ چند آدمیوں کے ساتھ مر نے پر مصمہ ہو کر برج کی طرف دوڑا ۔ توپ تیار دھری تھی۔غنیم ہاتھی پر سوار ہتیائی کرتا چلاآتا تھا۔ خانزماں نے اپنے ہاتھ سے شست باندھ کر جھٹ توپ داغ دی خدا کی شان گولہ جو توپ سے نکلا۔ قضا کا گولہ تھا۔ ہاتھی اس طرح الٹ کر گرا جیسے برج گرا۔ اس کے گرتے ہی پٹھانوں کے اوسان خطا ہوئے۔ جب بیرم خاں نے بہادر خاں کو مالوہ کی مہم پر بھیجا تھا تو کوہ پارا نام ہاتھی دیا تھا ۔ وہ دیو مست کہیں اسی طرف زنجیروں سے جکڑا کھڑا تھا اوربدمستی کررہا تھا ۔ افغانی مہاوتوں کو اسکے کرتوتوں کی خبر نہ تھی ۔ آتے ہی زنجیریں کھول دیںک چڑھ کر قبضہ کریں۔ وہ ابھی زنجیروں سے نہ نکلا تھا کہ قابو سے نکل گیا ۔ ایک فیلبان کو وہیںچیر ڈالا اور زنجیر کر چکراتا اس طرح چلا گویا آندھی اوربھونچال ساتھ ہی آئے۔ لشکر میںقیامت مچ گئی ۔ غنیم نے جانا کہ خانزماں نے گھات سے نکل کر پہلو مارا۔جو پٹھان لوٹ پر پڑے ہوئے تھے۔ بد حواس ہو کر بھاگے ۔ خان زمان کی فوج اس امداد الہی کو دیکھ کر پلتی اور افغانوں کے پیچھے دوڑی۔ مارے ۔ باندھے ۔ لاکھوں روپیہ کے مال اور اسباب گراں بہا، نامی ہاتھی ۔عمدہ گھوڑے اور بے شمار عجائب و نفائس ہاتھ آئے۔ اس نے اس خداد فتح کے شکرانے میں بادشاہ کے لئے تحائف خسروانہ بھیجے اورامر ا کو گراں بہادر رخصتا نوں سے گرا نبار کر دیا۔ دوسری فوج کشی خان زمان کا گھوڑا ہوائے اقبال میںاڑا جاتا تھا کہ پھر نحوست کی ٹھوکر لگی۔اسمیں کچھ کلام نہیں کہ دشمن ہر وقت دونوں بھائیوں کے درپے تھے وہ بھی کچھ اپنے نشتہ دلاوری سے کچھ غفلت عیاشی سے دشمنوں کو چغلخوری کے لئے موقع دیتے تھے ۔ شکایتیں پیش ہوئیں کہ لڑائیوں میںجو خزانے او راشیائے عجیب و نفیس ہاتھ آئی ہیں۔ سب لئے بیٹھا ہے ۔ بھیجتا کچھ نہیں۔ ان میں صف شکن اور کوہ پارہ وہ ہاتھیونکی ایسی تعریف کی کہ اکبر سن کر مست ہوگئے۔ تو وہ انہیں خاطر میں نہ لاتے ہونگے ۔ فتوحات کی مستی او راقبال کے نشے میں اپنے کارناموں کو خاندان کے فخر سے چمکاتے تھے۔ اور حریفوں کے خاکے اڑاتے تھے۔ حریف ان باتوں کو اکبر کے سامنے ایسے پیرائے میں اداکرتے تھے۔ جس سے کناروں کی نشتر بادشاہ کی طرف چبھتے تھے اور اس بغاوت کے شبہے پڑتے تھے۔ یہ شبہے اس سے زیادہ ترخطرناک نظر آتے ہونگے کہ اسکی رکاب میں ۳۰ ہزار جرار لشکر ایرانی تورانی افغان راجپوت کا تھا کہ جدھر خود گھوڑا اٹھاتا تھا۔ آندھی او ربھونچال ساتھ آتا تھا۔ یہاں تک کہ بعض صحبتوں میںاکبر کی زبان پر یہ بات آئی کہ شیبانی خاں کے خاندان پر یہ کیا ناز کیا کرتے ہیں۔ جانتے نہیں کہ اس کی بدولت فردوس مکانی نے کیا کیا مصیبتیں اٹھائیں اور آزارپائے۔ میں اذبک کا تخم ہندوستان میںنہ چھوڑ و ںگا ۔ بدترین اتفاقات یہ کہ انہی دنوں میں عبداللہ خاں اذبک وغیرہ کئی سرداروں سے برابر اعمالیاں ظہور میںآئیں۔ وہ بھی جب دربار کی طرف سے مایوس ہوئے خانزماں کے پاس پہنچے اور سب نے مل کر بغاوت کی۔ باغیوں نے ملک بغاوت کی تقسیم اس نقشے پر کی کہ سکندر خاں اذبک اور ابراہیم خاں (خانزماں کا ماموں) لکھنو میں رہیں۔ خانزماں ، بہادر خاں دونوںبھائی کڑہ مانکپور میں قائم ہوں۔ جب یہ خبریں مشہور ہوئیں اور بدنظروں نے صورت حال کو دور دور سے دیکھا تو ادھر ادھر سے جمع ہوکر خان زمان پر آئے کہ وہی آنکھوں میں کھٹکتا تھا۔ اور حقیقت میں جو کچھ تھا وہی تھای۔ نمک حلالی کے سوداگروں میں مجنوں خاں اور باقی خاں قاق شال جمعیت اور جتھے والے لوگ تھے جو بہادری اور جانفشانی دکھا کر چاہتے تھے کہ بد نصیب خانزماں کی دو پشت کی محنت مٹائین اور اپنے نقش بادشادہ کے د ل پر بٹھائین۔ وہ ان کی کیا حقیقت سمجھتا تھا ۔ مارما ر کر بھگا دیا ۔ مجنوں خاں بھاگ بھی نہ سکے۔ مانکپور میں گھر گئے انکے رفیق محمد امین دیوانہ پکڑے گئے۔ دربارشاہی میں ابھی آصف خاں صاف اور جرم بغاوت سے پاک تھے۔ وہ مجنوں خاں کی مدد کو آئے۔ محاصرہ سے نکالا۔ اپنے خزانے کھول دئیے ۔ سپاہ کی کمر بندھوائی۔ مجنوں خاں کو بھی بہت س روپیہ دیا۔ انہی کی بدولت اس نے پھر پر وبال درست کئے او ردونوں مل کر خان زمان کے سانے بیٹھے گئے۔ دربا ر کی طرف عرضیاں پرچے دوڑائے۔ رونے اڑائے بڈھے باقی خاں نے اپنی عرضی میںایک شعر بھی لکھا۔ مطلب یہ تھا کہ حضور خود آئیں اور بہت جلد آئیں؎ اے شہ سوار مصرکہ آرائے روز رزم از دست رفتہ معرکہ پادر رکاب کن اکبر مالوہ کی یلغار مار کر آیا تھا۔ یہ حال دیکھ کر سمجھا کہ معرکہ بے ڈھب ہے فور امنعم خاں کو روانہ کیا فوج لے کر قنوج کے گھاٹ اتر جاؤ۔ وہ یہ بھی جانتا تھا کہ مقابلہ کس سے ہے اور یہ جو لوگ آگ لگاتے ہیں اور سپہ سالاری کا دم بھرتے ہیں ان کا وزن کیا ہے ۔ چنانچہ کئی دن تک خودلشکر کشی کے سامانوں میں صبح وشام تک غرق رہا۔ آس پاس کے امرا اور فوج کو فراہم کیا ۔ جو موجود تھے ۔ انہیں پورا سپاہی بنایا ۔ اس لشکر میں ۱۰ ہزار فقط ہاتھی تھے۔ باقی تم آپ سمجھ لو۔ باوجود اسکے شکار کی شہرت دی اور نہایت پھرتی کے ساتھ روانہ ہوئے۔ یہاں تک کہ جو مختصر خاص اپنی رکاب میںتھی ۔ وہ قابل شمار بھی نہ تھی ۔ منعم خاں کہ ہراول ہو کرروانہ ہواتھا ۔ ابھی قنوج میں تھا کہ اکبر بھی جاپہنچے ۔ مگر وہ کہن سال عجب سلیم الطبع صلح جو سردار تھا۔ وہ بے شک بادشاہ بادشاہ کانمک حلال جاں نثار تھا۔ مگر مقدمے کی تہ کو سمجھا ہو اتھا اسے کسی طرح منظور نہ تھا کہ لڑائی ہو۔ اور خدمتگذار موروثی اپنے دشمنوں کے ہاتھوں مفت بربار ہو۔ چنانچہ اس وقت خانزمان محمد آباد یں بیخیر بیٹھا تھا ۔ اگریہ گھوڑے کر جا پڑتا تو وہ آسان گرفتار ہوجاتا۔ منعم خاں نے ادھر تو اسے ہشیار کر دیا۔ ادھر لشکر کو روک تھام سے لے چلا کہ ابھی سامان ناتمام ہے سارے لوازمات جنگ فراہم کر کے چلنا چاہیے۔ اس عرصے میںخانزماں کہیںکے کہیں پہنچے ۔ باوجود ان باتوں کے اس کی طرف سے کئی سرداروں کو پیغام سلام کر کے توڑ لیا تھا ۔ انہیں حضور میںپیش کرکے خطائیں معاف کروائیں۔ بادشاہ نے اسے وہیں چھوڑا اور یلغار کر کے لکھنو پہنچے ۔ سکندر خاں پیچھے ہٹا ۔ اور بھاگا بھاگ جو نپور پہنچا کہ سب مل کر بچاؤ کی صور ت نکالیں۔ بادشاہ بھی ان کے منصوبے کوتاڑ گئے۔ انہوں نے بھی ادھر ہی کا رخ کیا۔ اور منعم خان کو حکم بھیجا کہ لشکر کو لے کر جونپور کی طرف چلو۔ خانزماں آخر پرانے سپاہی تھی ۔ یہ بھی بادشاہ کو سامنے سے آتے دیکھ کر متفرق رہنا مصلحت نہ سمجھتے تھے۔ آصف خان و مجنون خان کامقابلہ چھوڑا اور جونپور پہنچے ۔ رفیقوں سے جا کر حال بیان کیا۔ انہوں نے جب سنا کہ بادشاہ ادھر آتے ہیں۔ سب اکٹھے ہو کر عیال سمیت جو نپور سے نکلے ۔ اور پیچھے ہٹ کر دریا پار اتر گئے۔ اکبر اگرچہ بادشاہ تھا ۔ مگر وقت اس پر اس طرح کے جوڑ توڑ مارتا تھا۔ جیسے عمدہ اہلکار اور پرانے سپہ سالار اسے معلوم تھا کہ خان زمان نے امراء راجگان بنگالہ سے موافقت کرلی ۔ راجہ اڑیسہ جو مشرقی راجاؤں میںسپاہ سامان کے باب میں نامور ہے۔ سلیمان کرارانی اس کے ملک پر کئی دفعہ گیا ہے اور قابو نہیں پایا مہا پاتر بھاٹ کہ سلیم شاہ کے مصاحبوں سے تھا اور فن موسیقی او ر ہندی شاعری میں اپنا نظیر نہ رکھتا تھا اسے اور حسن خاں خزانچی کو راجہ اڑیسہ کے پا س بھیجا اور فرمان لکھا ۔ سلیمان کرارانی علی قلی خاں کی مدد کوآئے تو تم آکر ا سکے ملک کو تہ و بالا کر دیان۔ اورکہے کہ جب خانزماں لشکرشاہی کی طرف متوجہ ہو تورہتاس سے اتر کر ا سکے ملک میں بغاوت برپا کرے۔ اس نے پہلی دفعہ اطاعت کے وعدے کر کے فیل بخت بلند کو تحائف پیشکش سے گرانبار کیا ۔ اب دوبارہ پھر بھیجا ۔ اس نے وعدہ و عید میںقلیچ خاں کو رکھا ۔ اسے جب قرائن سے حال معلوم ہوا تو رخصت ہوکر ناکام واپس آیا۔ اکبر خود جونپور میںجا پہنچے ۔ آصف خاں جنہوں نے نمک حلا ل بن کر مجنوں خاں کو قلعہ بندی سے نکالا تھا پانچ ہزار سوار سے حضور میں حاضر ہوئے۔ انہیں سپہ سالاری ملی کہ باغیوں پر فوج لے کر جاؤ۔ ساتھ ہی بعض امراء کو سرداران افغان اور راجگان اطراف کے پاس بھیجا کہ اگر خان زماںبھاگ کر تمہارے علاقے میںآئے۔ تو روک لو۔ چنانچہ حاجی محمد خاں سیستانی۔ بیرم خانی بڈھوں میں سے باقی تھا۔ اسے سلیمان گرارانی کے پاس بھیجا تھا۔ کہ کل بنگالہ کا حاکم تھا ۔ اورپرانے افغانوں میں سے وہی کھرچن رہ گیا تھا ۔ خانزماں کئی برس سے یہاں تھا اور اس عرصے میںبڑی رسائی سے س ملک میں کاروائی کی تھی ۔سلیمان گرارانی کی اس سے بڑی رفاقت تھی۔ اس نے جھٹ حاجی محمد خاں کو پکڑ کر خانزماں کے پاس بھیج دیا ۔ وہ اول تو ہموطن سیستانی۔ دوسرے بیرم کانی پرانا رفیق ۔ جب بڈھے کہن سال کو جوان دولت جوان اقبال کے سامنے لائے۔ ایک دوسرے کو دیکھ کر بہت ہنسے ۔ ہاتھ پھیلا پھیلا کر گلے ملے۔ بیٹھ کر صلاحیں ہوئیں۔ بڈھے نے تجویز نکالی کہ دل میںنمک حرامی یا دغا نہیں۔ کسی غیر بادشاہ سے معاملہ نہیں۔ تم یہیںحاضر رہو۔ ماںکومیرے ساتھ روانہ کردو۔ وہ محل میں جائینگی ۔ بیگم کی معرفت عرض کرینگی ۔ باہرمیں موجود ہوں بگڑی بات بن جائیگی ۔ دشمنوں کی کچھ پیش نہ جائیگی۔ اب ذرا خیال کرو۔ اکبرتو جونپور میںہیں۔ آصف خاں او رمجنون خاں خانزماں کے سامنے کڑہ مانک پو رمیںفوجیں لئے پڑے ہیں۔ درباری نمک حراموں نے آصف خاں کو پیغام بیجھا کہ رانی درگاوتی کے خزانوں کا حساب سمجھانا ہوگا کہد و دوستوں کو کیا کھلواؤگے ؟ اور چورا گڈھ کے مال میں سے کیا تحفے دلواؤگے اسے کھٹکا تو پہلے بھی تھا۔ اب گھبر ا گیا ۔ لوگوں نے اس یہ بھی شبہ ڈالا کہ خان زمان کے مقابلے پر بھیجنا۔ فقط تمہارا سر کٹوانا ہے ۔ آخر ایک دن سوچ سمجھ کر آدھی رات کے وقت اس نے خیمے ڈیرے اکھیڑے اور میدان سے اٹھ گیا۔ اس کے ساتھ زیر خاں اس کا بھائی او رسرداران ہمراہی بھی اٹھ گئے ۔ بادشاہ نے سنتے ہی اسکی جگہ تو منعم خاں کو بیجا کہ مورچہ قائم رہے اور شجاعت خاںکو اس کے پیچھے دوڑایا شجاعت خاں مانکپور پر پہنچ کر چاہتے تھے کہ دریا اتریں۔ آصف خاں تھوڑی دور بڑھاتھا جو خیر پائی کہ مقیم بیگ پیچھے آتا ہے ۔ جاتے جاتے پلٹ پڑا ۔ اور دن بھر اس طرح جان توڑ کر لڑا کہ مقیم بیگ کا شجاعت خانی خطاب خاک میں مل گیا ۔ آصف رات کو اپنی جمعیت اور سامان سمیت فتح کا ڈنکا بجا تا چلاگیا۔ صبح کو انہیں خبرہوئی وریا اتر کر اپنی شجاعت کے روئے سیاہ کو دھویا اور پیچھے پیچھے دوڑے ترک تھے مگر ترکوں کاقول بھول گئے تھے کہ جو حریف کمان بھر نکل گیا۔ تیروں کے پلے نکل گیا ۔ خیر جیسے گئے ویسے ہی دربار میںآن حاضر ہوگئے۔ خانزماں عرصہ جنگ کا پکا شطرنج باز تھا ۔ منعم خاں ابھی اس کے مقابلے پر نہ پہنچا تھا جو اس نے دیکھا کہ بادشاہ بھی ادھر ہی چلے آئے۔ اودھ کا علاقہ خالی ہے ۔ اپنے بھائی بہادر خاں کو سپہ سالار کر کے اودھ کو فوج روانہ کی۔ اور سکندر خاں کو اس کی فوج سمیت ساتھ گیا ۔ کہ جاؤ اور ادھر کی طرف ملک میںبد عملی پھیلاؤ۔ بادشاہ نے سننے ہی چند کہنہ عمل سرداروں کو فوجیں دیکر ادھر کی طرف روانہ کیا۔ میر مغر الملک مشہدی کو ان کا سردار مقرر کیا ۔ مگر یہ خلعت ان کے قد پر کسی طرح ٹھیک نہ تھا۔ انہیںحکم یہ دیا کہ بہادر کو روک لو۔بھلا ان سے بہادر کب رکتاتھا۔ ادھر منعم خاں خان دماں کے مقابل پہنچے ۔ دونوں قدیم یار اور دلی دوت تھے۔ پیغام سلا م ہوئے بی بی سروقد ایک پراتم بڑھیا۔ بابر بادشاہ کے محلوں کا تبرک باقی تھیں۔ انہیں منعم خاں کو حرم سرا میں بھیجا۔ باہر چند معتبر اور کارواں اشخاص بھیجے۔ حاجی محمد خاںبھی جاکر شامل ہوئے۔ انہیں دنوں میں یہ بھی ہوائی اڑی تھی کہ چند اکبری جانباز اس تاک میں ہیں کہ موقع پاکر خانزماں اور بہادر خاں کا کام تمام کردیںاس لیے علی قلی خاں کو آنے میں تائل ہوا۔ آخر یہ ٹھیری کہ بوسہ پیغام سے کام نہیںچلتا ۔ خانزماں او رمنعم خاں مل کر گفتگو کریں اور بات قرار پایا جائے۔ باوجود شہرت مذکور کے اس بات کو علی قلی خاں نے نہایت خوشی سے منظور کیا ۔ دونوں کی فوجیں دریائے جوسا کے کناروں پر آکر کھڑی ہوئیں۔ ادھر سے خانزماں ، شہر یار گل ۔سلطان محمد میر آب آہوئے حرم اپنے غلام کو لیکر کشتی میں سوارہوئے۔ ادھر سے منعم خاں خانخا ناں،مرزاغیاث الدین علی۔ بایزید بیگ ، میر خاں گلام ،سلطان محمد قبیق (کدہ) کے ساتھ کشتی میں بیٹھ کر چلے۔ سماں دیکھنے کے قابل تھا۔ فوج در فوج اور صف در صف ہزاروں آدمی تھے ۔ وارپار گنگا کے کناروں پر کھڑے تماشہ دیکھ رہے تھے۔ کہ دیکھیے کیا ہوتا ہے ۔مزا ہے جو پانی میں بجلیاں چمکتی نظرآئیں۔ غرض بیچ دریامیں ملاقات ہوئی۔ دل میںجوش سینہ صاف تھا ۔ خان زماں سامنے سے دیکھتے ہی کھڑے ہوگئے۔ ہنسے او ر ترکی میںکہا۔ کفت لیق سلام علیم ، جوں ہی کشی برابر آئی۔ بے باک دلاور کو وکر خاں خاناں کی کشتی میںآگئے۔ جھک کر گلے ملے۔ اور بیٹھے ۔ پہلے خدمت فروشیاں کیں۔ پھر رفیقوں کے ظلم و ستم ۔ بادشاہ کی بے پروائی۔ اپنی بے یاری و بے مددگاری پرروئے۔ خانخا ناں عمر میںبھی بڑے تھے۔ کچھ داد دیتے رہے ، کچھ سمجھاتے رہے۔ آخر یہ ٹھیری کہ ابراہیم خاں اذبک ہم سب کا بزرگ ہے ۔ اور خزانہ اور اجناس گراں بہا اور ہاتھی جو کہ ہر جگہ فساد کی جڑ ہیں۔ لیکر جائیں ۔ مال حرم میں جا کر عفو تقصیر کی دعا کرے ۔ اور تم میری طرف سے حضور میںیہ عرض کرو کہ اس رو سیاہ سے بہت گناہ ہوئے ہیں۔ منہ دکھانے کے قابل نہیں رہا۔ ہاں چند جانفشانی اور جاں نثاری کی خدمتیں بجا لا کر اس سیاہی کو دھولوں۔ اس وقت خود حاضر ہونگا۔ دوسرے دن منعم خاں چندا امرا کے ساتھ کشتی میںبیٹھ کر خان زماں کے خیموں میں گئے۔ اس نے آداب بزرگانہ کے ساتھ پیشوائی کی ۔ جشن شاہانہ کا ساما ن کیا۔ دھوم دھام سے مہمانداری کی۔ خواجہ غیاث الدین وہی پیغام لے کر دربار میں گیے ۔ وہاں سے خواجہ ۱؎ جہاں۔ کہ مہمات سلطنت انکے ہاتھوں پر طے ہوتے تھے ۔خانزماں کی تسلی خاطر کے لئے آئے۔ منعم خان نے کہا کہ اب کچھ بات نہیں رہی۔ خانزماں کے ڈیر ے پر چل کر گفتگو ہوجائے۔ خواجہ جہاں نے کہا کہ وہ بے باک ہے۔اور مزاج کا تیز ہے ۔ اور وہ پہلے بھی مجھ سے خوش نہیں، مبادا کوئی بات ایسی ہوجائے کہ پیچھے افسوس کرنا پڑے ۔ جب منعم خاں نے بہت اطمینان دیا تو کہا کہ اچھا اس سے کوئی آدمی یرغما میں لیلو۔ خانخا ناں نے یہی کہلا بھیجا ۔ وہ دل کا دریا تھا ۔ اس نے فورا ابراہیم خاں اذبک اپنے ماموں کو بھیج دیا۔ غرض منعم خان اور صدر جہاں خان زماں کے لشکر میںگئے۔ سب نشیب و فراز دیکھ کر بندوبست پختہ ہوئے۔ دوسرے دن جہاں کابھی ڈر نکل گیا ۔ پھر گئے اور ابراہیم خاں اذبک کے ڈیرے پربیٹھ کر باتیں ہوئیں۔ مجنون خاں قاقشاں وغیرہ سرداروں کوبھی خان زماں سے گلے ملوادیا خاں دماں کے دربار میںچلنے پر بہت گفتگوئیں ہوئیں۔ اس نے نہ مانا اور کہا کہ ابراہیم خاں ہم سب کا بزرگ ہے۔ اور ریش سفید ہے ۔ باہر ہے ۔ اندر والدہ جائے اور فی الحال خطا معاف ہوجائے پھر آبدیدہ ہوکر کہا کہ مجھ سے سخت گناہ اور کمال روسیاہی ظہور میںآئی ہے ۔ سامنے نہیں جاتا خدمت لائقہ بجا لاؤنگا ۔ اور سیاہی کو دھونگا ۔ جبھی حاضر دربار ہونگا۔ دوسرے دن یہ امر تمام اجناس گراں بہااور اچھے اچھے ہاتھی۔ جنمیں بال سندر اوراچپلہ وغیرہ بھی تھے لیکر دربار کوروانہ ہوئے۔ خانخاناں نے چادر کی جگہ تیغ وکفن ابراہیم خاں کے گلے میں ڈالا ۔ وہ سرننگا پاؤں ننگے طورہ چنگیز خانی کے بموجب بائیں طرف سے سامنے لا کر کھڑا کیا۔ اور دونوں ہاتھ اٹھا کر عرض کی خواہی بدار خواہی بکش رائے رائے تست ، خاں خاناں نے عفو تقصیر کی دعائیں کیں ، خواجہ جہان آمیںآمین کہتے گئے۔ اکبر نے کہا کہ خاں خاناں تمہاری خاطر عزیز ہے۔ ہم نے ان کے گناہ سے در گزر کی مگردیکھیے کہ یہ راہ عقیدت پرہتے ہیں یا نہیں۔ خاں خاناں نے دوبارہ عرض کی کہ انکی جاگیر کے باب میںکیا حکم ہے۔ فرمایا تقصیر یں معاف کر دیں تو جاگیریں کیا حقیقت ہیں۔ تمہاری خاطر سے وہ بھی بحال کیں۔شرط یہ ہے کہ جب تک لشکر اقبال ہمارا ان حدود میںہے ۔ خانزماں دریا پار رہے جب ہم دارلخلافہ میںپہنچیں۔ تو اسکے وکیل حاضر ہوکر ایوان اعلیٰ سے سندیں ترتیب کروالیں۔ اور انکے بموجب عمل کریں۔ خانخاناں شکر کے سجدے بجا لایا ۔ اور پھر کھڑے ہو کر کہا ، دوپشت کے قدیم الخدمت ہونہار جوانوں کی جانیں حضور کے عفو و کرم سے بچ گئیں یہ کام کرنے والے ہیں اور کام کرکے دکھا ئینگے ۔ حکم ہوا کہ ابراہیم خاں کے گلے سے تیغ و کفن اتاریں۔ بادشاہ حرام سرا میں گئے تو وہ عمر نوح سامنے آئی ۱؎ وہی خواجہ امینا دیکھو صفحہ نمبر ۷۲۲ جس کا سان فقط بیٹوں کی آس پر چلتا تھا۔ قدموں پر گر پڑی۔ ہزاروں دعائیں دیں۔ بیٹوں کی نااہلیاں بھی کہتی جاتی تھی۔ عفو قصور کی سفارشیں بھی کرتی جاتی تھے۔ روتی تھی اور دعائیں دیتی تھی اسکی حالت دیکھ کر اکبر کو رحم آیا جو کچھ دربار میں کہہ کر آیا تھا ۔ اور بہت دلا سا دیا ۔ خان زماں کو باہر سے خانخا ناں نے لکھا ۔ اند رسے ماں نے بیٹوں کو خوشخبری دی۔ اور لکھا کہ وہ پارہ اور صف شکن وغیرہ ہاتھی اور تحفے تحائف جلد روانہ کر دو۔ ان کی خاطر جمع ہوئی او رسب چیزیں بڑے تحمل کے ساتھ بھیجدیں۔ امرائے شاہی اور بہادر خاں کی لڑائی ادھر تومہم طے ہوئی۔ اب ادھر کا حال سنو۔ یہ تو تم سن چکے کہ بہادر اور سکندر خاں کو خانزماں نے اودھ کی طرف بھیج دیا تھا ۔ کہ ملک میںخرابی کر کے خاک اڑاو۔ بہادر نے جاتے ہی خیر آباد پر قبضہ کر لیا اور ملک میںپھیل گیا۔ یہ بھی دیکھ چکے کہ ادھر سے انکے روکنے کے لیے اکبرنے میر معز الملک وغیرہ امرا کو فوج دے کر بھیجا اب ذرا تماشا دیکھو۔ دربار میںتو یہ معاملے ہو رہیں ہیَ وہاں جب بادشاہی لشکر پاس پہنچا تو بہادر خاں جہاںتھا وہیں تھم گیا ۔ معز الملک کے پاس وکیل بھیجا ۔ حرم سرا میں ا سکی بہن کے پاس عورتیں بھیجیں اور یہ پیغام دیا کہ خانزماں کی منعم خاں کے ذریعے سے عرض و معروض ہورہی ہیَ ہمارے لئے تم درگاہ بادشاہی میںسفارش کرو۔ کہ خطائیں معاف ہوجائین ۔فی الحال ہاتھی وغیرہ جو کچھ ہیں کیل لے جائیگا۔ جب ہم خطاؤں سے پاک، اور تقصیریں معاف ہوجائینگی تو خود حاضر دربار ہونگے۔ معز الملک مصر غرور کا فرعون اور شداد بنا ہوا تھا۔ وہ کہتا تھا کہ جو میں ہوں سو ہے کون؟ آسمان پر چڑھ گیا اور کا نمک حرامو ! تم آب تیغ کے سواپاک نہیں ہو سکتے ۔ تمہار ے داغ کو میںآب شمشیر سے دھوؤنگا اتنے میں لشکر خاں میر بخشی (بادشاہ نے عسکر خاں خطاب دیا ۔ لوگوں نے استر خان بنا دیا ) اورراجہ ٹورڈرمل جا پہنچے کہ صلح یا جنگ جو کچھ مناسب سمجھیں فیصلہ کر دیں۔ بہادر خاںپھربادشاہی لشکر کے کنارے پرآیا ۔ معز الملک کو بلایا ۔ او ر سمجھایا کہ بھائی والدہ اور ابراہیم خاں کو درگاہ میںبھیجا چاہتے ہیں۔ بلکہ ابتک بھیجدیا ہوگا اور عفو تقصیر کی امید قوی ہے ۔ جب تک وہاں سے جواب نہ مل جائے۔ تب تک ہم بھی تلوار پر ہاتھ نہیںڈالتے ۔ تم بھی اس عرصے میں صبر کرو۔ معز الملک تو آگ تھے۔ روجہ رنجک پہنچے ۔ جوںجوں بہادر اور سکندر دھیمے ہوتے تھے ۔ یہ آگ بگولا ہوئے جاتے تھے ۔ اور سوا حرف سخت کے کچھ کہتے ہی نہ تھے ۔ وہ بھی آخر بہادر خاں تھے ۔ جب ناکام پھرے تو ناچار مرتا کیا و کرتا ، اپنے لشکر میں جاکر کام کی فکر میںلگے ۔ وقت ضرورت چو نماند گریز دست بگیرو سرشمشیر تیز نواح خیرآباد میںفوج تیار کر کے سامنے ہوئے۔ ادھر سے معز الملک بادشاہی لشکر کو لے کر بڑے گھمنڈ سے آگے بڑھے۔ بہادر خاں اگرچہ اس موقع پر بہت دل شکستہ اور پریشان تھا۔ مگر وہ سینے میں شیر کا دل اور ہاتھی کا کلیجہ لے کر پیدا ہوا تھا۔ فوج جما کر سامنے ہوا۔ دھاوا ادھر ادھر سے برابر ہوا اور دو نو لشکر اس صدمے سے ٹکرائے جیسے دو پہاڑوں نے ٹکرکھائی ۔میدان میںمحشر برپا ہوگیا۔ بادشاہی فوج نے سکندر کو ایسا ریلا کہ بھاگا۔ پشت پر ایک جھیل تھی۔ کود پھاند کر پار اتر گیا ۔ بہت ڈوبے ۔ بہت مارے گے۔ اور امرائے شاہی اپنی اپنی فوجوں کو لے کر سب انہیں کے پیچھے دوڑے ۔ سکندر تو بھاگا مگر بہادر خاں سد سکندر ہو کر کھڑا رہا۔ اس نے دیکھا کہ معز الملک تھوڑی سی فوج کے ساتھ سامنے ہے۔ باز کی طرجھپٹ کر گرا۔ معز الملک دبان کے بہاؤ تھے نہ کہ میدان کے میدان کے۔ بہادر نے پہلے ہی حملے میں الٹ کر پھینک دیا۔ شاہ بداغ خاںجمے تھے۔ انہیں گھوڑے نے پھینکا ۔ بیٹے نے زور کیا کہ اٹھا ئے۔ نہ ہوسکا۔ اپنی جان لے کر نکل گیا ۔باپ کو ازبکوں کے حوالے کر گیا۔ ٹوڈر مل اورلشکرخاں مدد کے لئے جار ہے تھے۔ شام تک الگ الگ لڑتے رہے۔ رات کو سیاہ چادر کے پردے میںوہ بھی سرک گئے۔ قنوج میںپہنچے ۔ اور بھاگے بھٹکے بھی آکر جمع ہوئے۔ بادشاہ کو عرضی لکھی اس میںحریفوں کے ظلم و ستم کو بڑی آب و تاب سے ادا کیا ۔ التجا یہ ہے کہ ایسے نمک حراموں کو قرار واقعی سزا دینی چاہیے۔ حق یہ ہے کہ معز الملک کی تلخ مزاجی اور کج اخلاقی ۔اور ٹورڈرمل کی سختیوں نے امرائے ہمراہی کو بہت جلا رکھا تھا۔ وہ بھی وقت پر جان بوجھکر پہلو دیگئے۔ ورنہ رسوائی کی نوبت یہاں تک نہ پہنچتی ۔ پرانے پرانے جانبازجن میں حسین حاں بھی شامل تھے۔ میدان سے ٹلنے والے نہ تھے ۔ مرنے اور ٹِنے والے تھے۔ دربار میں ابراہیم خاںتیغ و کفن اتار کر خلعت اور ہار پہن چکے تھے۔ علی قلی خاں کے وکیل بھی نقد و جنس ، تحفہ تحائف ۔ کوہ پارہ اور صف شکن روانہ دربار کر چکے تھے کہ یہ عرضی پہنچی ۔ بادشاہ نے کہا، خیر اب توہم خانخاناں کی خاطر سے خانزماں کے اور اسکے ساتھ اوروں کے گناہ بھی بخش چکے۔ معز الملک اورٹودرمل چپ چپاتے چلے آئے۔ اور نفاق پیشہ مدت تک آداب و کورنش سے محروم رہے ۔ لشکرخاں بخشی گری سے معزول خواجہ جہاں سے مہر کلاں کہ مہر مقدس کہلاتی تھی چھن گئی ۔ اور سفر حجاز کو رخصت کیا۔ کم بخت خانزماں پر نحوست کی چپل نے پھر جھپٹا مارا۔ بادشاہ ا س مہم سے فارغ ہو کر چنار گڈھ کا قلعہ دیکھنے گئے ( اسے قلعہ نہ سمجھنا ۔ جنگل کا جنگل بلکہ کوہستان ہے کہ فصیل کے حلقے میںگھرا ہوا ہے ) وہاں شکارکھیلے ۔ ہاتھی پکڑے ۔ اس میں دیر لگی ۔ ملک مذکور کئی برس سے خانزماں کی حکومت میںرہ چکا تھا ۔ یا تو بے انتظامی اس کی نہ دیکھ سکا۔ یا بادشاہی اہلکاروں کی بد عملی نہ برداشت کر سکا۔ غرض گنگا اتر کو جونپور ۔ غازی پور ہ وغیرہ کا انتظام شروع کر دیا اس ارادہ پر کچھ سکندر خاں اذبک نے اکسایا تھا۔ کچھ اس کے دل میںیہ آصف خاں کا معاملہ سن لو۔ ایک وقت تو وہ تھا کہ اس نے مجنون خاں کو خانزماں کی قید سے چھڑایا اور دو نوں فوج لے کر خانزماں کے مقا بل ہوگے ۔ جب اہل دربار کے لالچ نے اسے بھی میدان وفاداری سے دھکیل کر نکال دیا۔ل تو وہ جونا گڈھ میں جا بیٹھا ۔ اب جو خانزماں کی مہم سے بادشاہ کی خاطر جمع ہوئی تو مہدی قاسم خاں کو اس کی گوشمالی کے لئے بھیجا۔ حسین خاں وغیر ہ چند امرائے نامی کو حکم دیا ۔ کہ فوجیں لے کر اس کے ساتھ ہوان۔ آصف کو ہر گزاپنے سلیمان سے لڑنا منظور نہ تھا۔ درگاہ بادشاہی میںعفو تقصیر کی عرضی لکھی۔ مگر دعا قبول نہ ہوئی۔ ناچار خانزماں کو خط لکھا ۔ اور آپ بھی جلد جا پہنچا خانزماں کے زخم دل ابھی ہرے پرے تھے۔ جب ملا تو نہایت غرور اور بے پروائی سے ملا۔ آصف خاں دل میں پچتایا۔ کہ ہائے یہاں کیوں آیا ۔ ادھر سے جب مہدی خاں پہنچے ۔ تو میدان صاف دیکھ کر جو نا گڈو پر قبضہ کر لیا ۔ اور آصف خاں کو خانزماں کے ساتھ دیکھ کر پہلو بچا لیا۔ یہاں خانزماں آپ تو فرما آخر مان کر بیٹھے ۔ آصف خان کو کہا کہ پورب میں جا کر پٹھانوں سے لڑو بہاد رخاں کو اس کے ساتھ کیا۔ وزیر خان آصف کے بھائی کو اپنے پاس رکھا۔ گویا دونوں کو نظر بند کر لیا۔ اور نگاہ ان کی دولت پر ۔ وہ بھی مطلب تاڑ گئے تھے۔ دونوں بھائیوں نے اندر اندر پرچے دوڑا کر صلاح موافق کی۔ یہ ادھر سے بھاگا ۔ وہ ادھر سے ۔ کہ دونوں ملک کر مانک پور پر آجائیں۔ بہادر خاں آصف کے پیچھے دوڑا ۔ جونپور ا ور مانکپورکے بیچ میںسخت لڑائی ہوئی ۔ آخر آصف خان پکڑے گئے ۔ بہاد رخاں اسے ہاتھی کی عما ر ی میں ڈال کر روانہ ہوئے۔ ادھر وزیر خاں جونپور سے آتا تھا ۔ خبر سنتے ہی دوڑ ا۔ بہادر خاں کے آدمی تھورے تھے ۔ اور تھکے ہوئے تھے ۔ جو کچھ تھے لو ٹ میں لگے ہوئے تھے ۔ اس لئے حملے کو روک نہ سکا ۔ بھاگ نکلا اورلوگوں سے کہا کہ عماری میںآصف کا فیصلہ کردیں۔ وزیر خاں پیش دستی کر کے جا پہنچا ۔ اور بھائی کو نکال لے گیا ۔ پھر بھی آصف کی انگلیاں کٹیں اور ناک پر زخم آیا ۔ انجام یہ ہوا کہ پہلے وزیر خاں حاضر حضور ہوا۔ پھر آصف خاں کی خطا معاف ہوگئی۔ میر مرتضی شریفی میر سید شریف جر جانی کی اولاد میںتھے۔ ان کی تحقیقات و تصنیفات نے انہیںعلم کے دربار سے فخر نوع بشر ثانی عقل ہادی عشر کا خطاب دلوایا تھا ۔ یہ نہایت مقدس اور صاحب فضل و کمال تھے۔ ملا صاحب سال آئیندہ کے حال میںلکھتے ہیں۔ کہ دلی میں فو ت ہوئے۔ اور امیر خسرو علیہ الرحمتہ کے ہمسایہ میں دفن ہوئے۔ قاضیوں نے اور شیخ الاسلام نے حضور میں عرض کی کہ امیر خسرو ہندی اور سنی ۔ میر مرتضی ایرانی ہیں اور رافضیج ۔ کچھ شک نہیں کہ انہیں اس ہمسائے سے تکلیف ہوگی حکم دیا کہ وہاں سے نکال کر اور جگہ دفن کر دو ۔ سبحان اللہ ۔ زمانہ کا اور خیالات کا انقلاب دیکھو دعوی بھی ہوگا آخر ملک حضور کا مال ہے ۔ میں بھی حضور کا مال ہوں۔ قدیمی جاں نثار ہوں ۔ اور انتظام ہی کرتا ہوں۔ تباہ تونہیں کرتا ۔ یاروں نے بادشاہ کو پھر چمکا دیا ۔ کہ دیکھیے حضور کے حکم کو خاطر میںنہیں لاتا انہوںنے فورا اشرف خاں میر منشی کو بھیجا کہ جونپور میں جا کر انتظام کرلو۔ خانزماں کی بڑھیا ماں کو قلعہ میں لا کر قید کر دو۔یہاںمظفر خاں کو لشکر اور چھاؤنی کا انتظام سپر د کیا۔ آپ یلغار کر کے خانزماں کی طرف دوڑے اور سر سوار غازی پور میں جا پہنچے ۔ وہ اددھ کے کنارے پر تھا۔ اور بے فکر کاروبار میں مصروف تھا۔ دفعتہ بادشاہ کی آمد آمد کا غل سنا۔ خزانہ ومال کی کشتیاں بھری چھوڑیں اور آپ پہاڑوں میں گھس گیا۔ ادھر بہادر خاں اپنے بہادر دلاوروں کو جونپور پر لے کر آیا کمندیں ڈال کر قلعے میں کود گیا ۔ ماں کو نکالا۔ اور میر منشی صاحب کو مضمون کی طرح باندھا اور لے گیا ۔ وہ چاہتا تھا ۔ کہ لشکر بادشاہی پر گر کر مظفر کو ظفر کی گردن پڑھائے۔ مگر سنا کہ بادشاہ اودھ سے پھرے آتے تھے ۔ اس لئے پھر سکندر سمیت دریا پار اتر گیا ۔ خانزماں نے اپنے معتبر یعنی میرزا میرک رضوی کے ساتھ پھر خانخاناں کے پاس بھیجا۔ معافی کے دروازہ کی زنجیر ہلائی۔ اور عجز و نیار کے ہاتھوں سے قدم لئے۔ جو عرضی لکھی اس میںیہ شعر بھی تھا ؎ بدیں امید ہائے شاخ در شاخ کرم ہائے تومارا گرد گستاخ خانخاناں صلاح و اصلاح کے ٹھیکہ دار تھے۔ انہوں نے میر عبدالطیف قزوینی ۔ مخدوم ملک ۔ شیخ عبدا لنبی صدر کو بھی شامل کیا۔ سب کو ساتھ لے کر حضور میں حاضرہوا۔ انہوں نے حال عرض کیا۔ آخر قدیمی نمک پر وردہ اور خدمت گزار تھے ۔ اگلی پچھلی جاں نثاریوں نے شفاعت کی۔ اکبر نے کہا خطا معاف جاگیر بحال مگرحضور میںآکر حاضر رہیں۔ یہ حکم لے کر روانہ ہوئے۔ جبل لشکر کے پاس پہنچے ۔ تو خانزماں استقبال کو آیا ۔ بڑی تعظیم و تکریم سے لے گیا ۔ ضیافتیں کھلائیں۔ جواب میںعرض کیا کہ حضور بدولت و اقبال دارلخلافہ کو تشریف لیجائیں۔ دو تین منزل آگے بڑھ کر دونوں غلام حاضر حضور ہوتے ہیں۔ برسوں سے یہاںملک داری اور ملک گیری کر رہے ہیں۔ حساب کتاب کا فیصلہ کو دیں۔ بزرگان مذکور کو بڑے اعزاز و احترام سے رخصت کیا ۔ بہت سے تحائف دئے۔ انہوں نے پھر جاکر حضور میں عرض کی۔ یہ بھی قبول ہوئی اور عہدہ و پیمان کو قسموں کی زنجیروں سے مضبو ط کیا ۔ بادشاہ دارلخلافہ میں داخل ہوگئے۔ آذاد تدبیر کے بندے ضرور کہے گے کہ حاضر باشی دربار کا مورچہ بہت خوب ہاتھ آیا تھا ۔ سپاہی تھے اہلکار نہ تھے ۔ اس لئے چالل چوکے۔ یہ کہو کہ دور رہنے میں جو آزاد حکومت کا مزا پڑ گیا تھا۔ اس نے جونپور مانک پور سے الگ نہ ہونے دیا۔ ورنہ موقع یہ تھا کہ جس بادشاہ کے حکموں سے وہ انہیں خراب کر رہے تے ۔ اب یہ پہلو میںبیٹھتے اور اسکی تلوار سے حریفوں کے ناک کان کاٹتے ۔ چند ہی روز بعد یہ عالم ہوا کہ علمائے سینہ زور میںسے ایک نہ رہا۔ اکبری دربار کا رنگ ہی اور ہو گیا میر فتح اللہ شیرازی ، حکیم ابو الفتح ، حکیم ہمام وغیر ہ وغیرہ صد ہا ایرانی تھے۔ اورسلطنت کے کاروبار تھے۔ جو لوگ ایک زمانے میں دب کر نہایت سختی اٹھاتے ہیں۔ کچھ عرصے کے بعد زمانہ ضرور انہیں اٹھا کر بلند کر تا ہے ۔ اکبر یہاں اس جھگڑے میںتھا۔ جو خبر پہنچی کہ کابل میں فساد عظیم برپا ہوا۔ اور مرز احکیم فوج لے کر کابل سے پنجاب کی طر ف آتا ہے۔ سن کر بہت تردد ہوا۔ امرائے پنجاب اس کے سینے پر خاطر خواہ ٹکر مار کر ہٹا سکتے تھے۔ مگر اکبر کو بڑا خیال یہ تھا ۔ کہ اگر وہ ادھر سے بھاگا اور ہماری طرف سے مایوس ہوا تو ایسا نہ ہو کہ بخارا میں اذبک کے پاس چلا جائے۔ اس میں خاندان کی بدنامی بھی ہے ۔ اور یہ قباحت بھی ہے کہ اگر اذبک اسے ساتھ لیکر ادھر رخ کرے ۔ اور کہے کہ ہم فقط حقدار کو حق دلوانے آئے ہیں۔ قندھار کابل ۔ بدخشاں کالے لینا اسے سہل ہے۔ اس لے تمام امرائے پنجاب کو لکھا کہ کوئی حکیم مرزا کا مقابلہ نہ کرے۔ جہاں تک آئے آنے دو۔ مطلب یہ کہ شکار ایسے موقع پر آجائے۔ جہاں سے بآسانی ہاتھ آجائے ادھر خانزماں سے عفو تقصیرپر فیصلہ کر کے آگرہ کی طرف ہٹا ۔ حکیم مرزا کا حال دیکھو تتمہ کے حالات میں اور یہ بھی دیکھو کہ اس کی بغاوت نے کتنی دور جا کر گل کھلایا ہے ۔ خانزماں نے جب سنا کہ حکیم مرزا پنجاب پر آتا ہے ۔ تو بہت خوش ہوا۔ اس واقعہ کو اپنے حق میںتائید آسمانی سمجھا اور کہا ع خدا شرے بر انگیزو کہ خیر ما درال باشد جو نپور میں ا س کے نام کا خطبہ پڑھا اور عرضی لکھی ۔ جس کا خلاصہ یہ تھا کہ ۴۰ ہزار نمک خوار موروثی حضور کے حکم کا منتظر بیٹھا ہے ۔ آپ جلد تشریف لائیں۔ غزالی مشہدی خانزماں کے حضور میں ایک شاعر باکمال تھا اس نے سکہ کاسجع بھی کہہ دیا ؎ بسم اللہ الرحمن الرحیم وارث ملک است محمد حکیم اتنی بات پر صبر نہ کیا جہاں جہاں امرائے بادشاہی تھے۔ فوجیں بھیج کر انہیں گھیر لیا ۔ ابراہیم حسین مرزا وغیرہ کو لکھا کہ تم اٹھ کھڑے ہو۔ یہ وقت پھر نہ آئے گا ۔ اور خود فوج لے کر قنوج پرآیا۔ اکبر کا اقبال تو سکندر کے اقبال سے شرط باندھے ہوئے تھا۔ پنجاب اور کابل کی مہم کا فیصلہ اس آسانی سے ہوگیا کہ خیال میںبھی نہ تھا ۔ چندروز پنجاب میں شکار کھیلتا رہا ۔ ایک دن شکار گاہک میں وزیر خاں آصف خا ں کا بھائی آیا۔ اور بھائی کی طرف سے بہت عذر معذرت کی۔ اکبر نے اس کی خطا معاف کر کے پھر پنجہزاری کی خدمت دی۔ تیسری فوج کشی مہم کابل کی تحقیقات سے اکبر کو یقینل ہو گیا تھا ۔ کہ یہ منصوبہ خانزماں کا پورا پڑاتا تو تمام ہندوستان ایک آتشبازی کا میدان ہوجاتا۔ اس صورت میں واجب ہے کہ ان دونو ں بھائیوں کا پورا تدارک کیا جائے چنانچہ آصف خاں وزیر خاں کو حکم دیا کہ جاؤ اور کڑہ مانکپور کا ایسا کڑا انتظام رکھو کہ خانزماں اور بہادر خان جنبش نہ کر سکیں۔ ۱۲ رمضان ۹۷۴ ھ کو لاہور سے کوچ کیا۔ اور خود بھی جھٹ پٹ تلغار کر کے آگرہ پہنچا جنگ آزمودہ امیروں کو فوجوں کے ساتھ روانہ کیا۔ ہراولی حسین خاں کے نام پر ہوئی۔ اس کی سخاوت اسے سدا مفلس رکھتی تھی ۔ اب جو ستواس کا صدمہ اٹھا کر آیا تھا تو بہت شکستہ حال ہو رہاتھا ۔ معلوم ہوا کہ شمس آباد اپنے علاقے پر گیا ہوا ہے۔ اس لئے قباخاں گنگ ہراول ہوا۔ ۲۶ شوال کو آگرہ سے نکلا۔ سکیٹ مشرق آگرہ میں خبر لگی کی خانزماں نے قنوج سے ڈیرے اٹھائے اور رائے بریلی کو چلا جاتا ہے ۔ محمد قلی برلاس اور ٹورڈرمل کو ۶ ہزار فوج دیکر سکندر خاں اذبک کے روکنے کو بھیجا۔ او رآپ مانکپور کو مڑے اور چاروں طرف تیاری اور خبرداری کے فرمان بھیج دے۔ رائے بریلی میںپہنچ کر سنا کہ خانزماں نے سلطان مرزا کی اولاد سے سازش کر لی اور مالوہ کو جاتا ہے کہ ادھر کے علاقے فتح کرے اور کچھ نہ ہو تو شاہان دکن کی پناہ میںجا بیٹھے۔ علی قلی خاں کو یہ خیا ل تھا کہ جن جھگڑوں میں میں نے اکبر کو ڈالا ہے۔ ان کا برسوں میں فیصلہ ہوگا ۔ چنانچہ ایک قلعے پر کسی بادشاہی سردار کو گھیرے پڑ اتھا ۔ خبر پہنچی کہ اکبر آگرہ میںآن پہنچے ۔ اور تمہاری طرف کو نشان لشکر لہراتا چلا آتا ہے۔ ہنس کر یہ شعر پڑھا ؎ سمندر تند زریں لعل اور خورشید راماند کہ از مشرق بمغرب رفت ایک شب درمیاں ماند پھر بھی وہ ہمت کا پہاڑ اور تدبیر کا دریا تھا ۔ شیر گڈھ (قنوج) اسے مانک پور کو چلا کہ بہادر خاں بھی وہی تا۔ یہ کسی اور سردار کو گھیرے پرا تھا ۔ دونوں بھائی گنگا کے کنارے کنارے چل کر سنگروڑ (مانک پور اورآلہ آباد کے بیچ میںہے شاہ نواب گنج کہلاتا ہے ) کے پاس پل باندھ کر گنگا اتر گئے۔ اکبر نے جب یہ خبریں سنیں۔ تو یلغار کر کے چلا مگر رستے دو تھے۔ ایک عام شاہ راہ کہ طولانی تھا۔ دوسر ا نزدیک تھا ۔ مگربیج میںپانی نہ ملتاتھا ۔ لوگوں نے حال عرض کیا۔ اور شاہ کو شاہ راہ چلنے کی صلاح دی۔ بلند نظر بادشاہ نے کہا۔ کہ جو ہو۔ سو ہو۔ جلد پہنچنا چاہیے ۔ توکل بخدا ادھر ہی سے روانہ ہوا۔ اقبال کا زور دیکھو کہ رستے میں مینھ برسا ہوا تھا۔ جابجا تلاؤ کے تلاؤ بھرے ملے۔ اور فوج اس آرام سے گئی کہ آدمی یا جانور کسی کو تکلیف نہ ہوئی۔ غرض شب و روز مارا مارا چلاگیا ۔رات کا وقت تھا کہ گنگا کے کنارے پر پہنچا ۔ جس کے پار کڑھ مانک پور آباد ہے ۔ کشتی ناؤ کچھ نہ تھی ۔ سب کی صلاح یہی تھی کہ یہاں ٹھیر کر اور امرا کا انتظار کریں ، خاطر خواہ سامان سے آگے بڑھنا چاہیے کہ علی قلی خاں کا سامنا ہے ۔ مگر اکبر نے ایک نہ سنی ۔ بال سندر پر سوار تھا ۔ آپ آگے بڑھا اور دریا میں ہاتھی ڈال دیا۔ خدا کی قدرت کا زور ۔ گھاٹ بھی ایسا مل گیا ۔ کہ دریا پایاب تھا گنگا جیسا دریا اور ہاتھی کو کہیں تیرنا نہ پڑا۔ غرض بہت سے نامی اورجنگی ہاتھی ساتھ تھے اور فقط سو سواروں کے ساتھ پار ہوا۔ اور پچھلی رات چپ چاپ گنگا کے کنارے پر سو کر گذار دی۔ خانزماں کے لشکر میںبہت تھوڑا فاصلہ تھا ۔ کہ نواب گنج سے پر کر کڑہ کو دریا کے داہنے کنارے پر گنہ سنگروڑ میںآگیا تھا۔ صبح ہوئی ۔ تو علی قلی خان کی فوج کے سرپر تھا۔ اس وقت آصف خان بھی مسلح اور تیا رفوج لئے آن پہنچا ۔ مجنون خاں اور آصف خان و مبدم خانزماں اور اس کے لشکر کی خبریں اکبر کو پہنچا رہے تھے۔ اور حکم یہ تھا کہ پہر میں دو دفعہ قاصد بھیجو ۔ اور احتیاط رکھو کہ خانزماں کو خبر نہ و۔ ایسا نہ ہو کہ نکل جائے ۔ علی قلی خاں اور بہادر خاں کو بادشاہ کے اس طرح پہنچنے کا سامان گمان بھی نہ تھا ۔ یہاں تمام رات ناچ گانا تھا ۔ اور شراب عشرت کا دور تھا ۔ رنڈیا چھم چھم ناچتی ہیں اور کہتی ہیں۔ بشکن بشکن۔ مست مغل خماری آنکھیں کھولتے اور کہتے ہاں۔ بشکن بشکن کہ مبارک شگو نیست ، شکستیم دشمن راع زویم بر صف رنداں دہرچہ بادا باد غرض رات نے صبح کی کروٹ لی ستارہ نے آنکھ ماری۔ اور شفق خونی پیالہ بھر کر مشرق سے نمودار ہوئی۔ نور کے تڑکے ۔ بادشاہی فوج کاایک آدمی ان کے خیمے ک پیچھے جاکر بہ آواز بلند چلایا کہ مستو بیخبرو! کچھ خبر بھی ہے ، بادشاہ خود لشکر سمیت آن پہنچے اور دریا بھی اتر لئے ۔ اس وقت خانزماں کے کان کھڑے ہوئے۔ مگر جانا کہ آصف خاں کی چالاکی ہے ۔ مجنون خاں قاقشال کو پھونس پتا بھی نہ سمجھتا تھا۔ کچھ پروا نہ کی ۔ خبر دینے والا بھی کوئی بادشاہی ہو خواہ تھا۔ چونکہ فوج بادشاہی بہت کم تھی ۔ یعنی تین چار ہزار فوج مرا کی تھی ۔ پانسو سوار بادشاہ کے ہمراہ آئے تھے۔ پیچھے پانسو ہاتھی بھی آن پہنچے تھے۔ بہر حال اکثر سردار نہ چاہتے تھے کہ اس میدان میں تلوار چل جائے۔ اس شخص کا مطلب یہ تھا ۔ کہ بادشاہ کے آنے کی خبر سن کر خانزماں بھاگ جائے۔ غرض نور کا تڑکا تھا۔ کہ بادشاہی نقارہ پر چوٹ پڑی۔ یہ آواز سن کر اٹھ کھڑے ہوئے اور لشکر کا بندوبست کرنے لگے۔ ۹۷۴ھ نو بجے پیر کا دن۔ عید قربان کی پہلی تاریخ تھی۔ منکر وال ۱؎ (سنگر وال) علاقہ الہر آباد پر مقام تھا کہ میدان جنگ میںتلوار میان سے نکلی۔ ۱؎بلو ک مین صاحب کہتے ہیں سنکر حال کو اس فتح کے سبب سے اب فتح پور کہتے ہیں ایک چھوٹا سا گاؤں کرہ کے جنوب مشرق میں ہے ۔ ۱۰۔ ۱۱ میل پر اور دریا سے بہت دور نہیں۔ دونوں بھائی شیر ببر کی طرح آئے اور اپنے اپنے پرے جما کر پہاڑ کی طرح ڈٹ گئے ۔ قلب میںخان زمان قائم ہوا۔ ادھر سے اکبر نے ہاتھیوں کی صف باندھ کر فوج کے پرے باندھے۔ پہلے ہی بادشاہی فوج سے بابا خاں قاقشاں ہر اول کی فوج لے کر آگے بڑھا اور دشمن کی طرف سے جوہر اول اس کے سامنے آیا اسے ایسا دبا کر ریلا کہ وہ علی قلی خان کی فوج میں جا پڑا ۔ بہادر خاں دیکھ کر جھپٹا ۔ اور اس صدمے سے آکر گرا کہ بابا خاں کو اٹھا کر مجنو ن خان کی فوج پر دے مارا۔ اور باوجودیکہ اپنی فوج بے ترتیب ہو رہی تھی ۔ دونو کو الٹتا پلٹتا آگے بڑھا۔ دم کے دم میں صفوں کو تہ و بالا کر دیا ۔ ادھر ادھر چاروں طر ف لشکر میں قیامت برپا ہوئی۔ اور ساتھ ہی قلب کا رخ کیا۔ کہ اکبر امر ا کے غول میں وہیں موجود تھا۔ بڑے بڑے سردار اور بہادر جان نثار آگے تھے۔ انہوںنے سینہ سپر ہو کر سامنا روکا مگر کھلبلی پڑ گئی۔ بادشاہ بال سندر ہاتھی پر سوار تھے ۔ اور مرزا عزیز کو کہ خواصی میں بیٹھے تھے۔ ان کا خاندان گردو پیش جما ہوا تھا۔ اکبر نے دیکھا۔ کہ میدان کا رنگ بدلا نظر احتیاط ہاتھی سے کود کر گھوڑے پر سوار ہوا۔ اور بہادروں کو للکارا ۔اب دونوں بھائیوں نے پہچانا کہ ضرور بادشاہ اس لشکر میںہے ۔ کیونکہ سرداروں میں کوئی ایسا نہ تھا ۔ جو ا سکے سامنے اس طرح جم کر ٹھہرے ۔ اور بندوبست سے جابجا مدد پہنچائے۔ ساتھ ہی ہاتھیوں کا حلقہ نظر آیا ۔ اب انہوں نے مرنا دل میںٹھان لیا ۔ اور جہاں جہاں تھے وہیں قائم ہو گئے ۔ کیونکہ بادشاہ کا مقابلہ ایک غور طلب امر تھا ۔ اسے وہ بھی نہ چاہتے تھے۔ ان بدنصیبوں نے بھی خوب لاگ ڈانٹ سے لڑائی جاری کر رکھی تھی ۔ مگرنمک کی مار کا حربہ کچھ اور ہی ضرب رکھتا ہے۔ بہادر خاں کے گھوڑے کے سینے میں ایک تیر لگا کہ چراغ پار ہو کر گر پڑا او روہ پیادہ ہوگیا۔ بادشاہ کو ابھی تک اس کی خبر نہ ہوئی تھی ۔ سب کو بدحواس دیکھ کر خو د آگے بڑھا اور فوجداروں کو آواز دی کہ ہاتھیوں کی صف کو علی قلی خاں اپنی جگہ جما کھڑا تھا۔ بار بار بہا در خاں کا حال پوچھتا تھا ۔ او ر مدد بھیجتا تھا ۔ ابھی کچھ خبرنہ تھی کہ دونوں بھائیوں پر کیا گذری کہ اکبری بہادروں کو فتح کی رگ پھڑکتی معلوم ہوئی اور کامیابی کے آثار ظاہر ہونے لگے ۔ بات یہ ہوئی کہ ادھر سے پہلے ہیر انند ہاتھی علی قلی خاں کی فوج پر جھکا۔ ادھر سے مقابلے میں رودیانہ ہاتھی تھا ۔ ہیر انند نے قدم کاٹ کر اس طرح کلہ کی ٹکر ماری کی درویا نہ سینہ ٹیک کر بیٹھ گیا۔اتفاقا ایک تیر فضا کے تیر کی طرح علی قلی خاں کے لگا۔ دلاور بڑی بے پرواہی سے نکال رہاتھا کہ دوسرا تیر گھوڑے کے لگا ۔ اور ایسا بیڈھب لگا کہ ہر گز سنبھل نہ سکا۔ گرا اور سوار کو بھی لے کر گرا۔ ہمراہیوں نے دوسر ا گھوڑا سامنے کیا ۔ اتنے عرصے میں کہ وہ سوار ہو ایک بادشاہی ہاتھی باغیوں کو پامالل کرتا ہوا بلا کی طرح اس پر پہنچا ۔ خانزماں نے آوا ز دی ۔ فوجدار ہاتھی کو روکنا ۔ میںسپہ سالار ہوںزندہ حضور میں لیجا۔ بہت انعام پائے گا ۔ اس کم بخت نے نہ سنا ہاتھی کو ہو ل ہی دیا۔ افسوس وہ خانزماں جس کے گھوڑے کی جھپٹ سے فوجوں کے دھوئیں اڑتے تھے۔ اسے ہاتھی روند کر ہوا کی طرح اور طرف نکل گیا ۔ اور وہ خاک پر سسکتا رہ گیا۔ اللہ اللہ جس بہادر کو فتح و اقبال ہو اکے گھوڑوں پر چڑھاتے تھے ۔ جس عیش کے بندے کو ناز و نعمت مخملوں کے فرش پر لٹاتے تھے۔ وہ خاک پر پڑا دم توڑتا تھا۔ جوانی سرہانے کھڑی سر پیٹتی تھی۔ او دلاوری زار زار روتی تھی ۔ سارے ارادے اور حوصلے خواب و خیال ہوگئے تھے۔ ہاں خانزماں یہ یہاں کا معمولی قانون ہے ۔ تم نے ہزاروں کو خاک و خون میںلٹایا ۔ آؤ بھائی اب تمہاری باری ہے۔ اسی خاک پر تمہیں سونا ہوگا۔ سر لشکر کے مرتے ہی لشکر پریشان ہوگیا۔ فوج شاہی میں فتح کا نقارہ بج گیا۔ اکبر ادھر ادھر کمک دوڑاتا رہا تھا کہ اتنے میں نظر بہادر بہادر خاں کو اپنے آگے گھوڑے پرسوار کرکے لایا۔ اور حضور میںپیش کیا ۔ اکبر نے پوچھا ، بہادر چونی ، کچھ جواب نہ دیا ۔ اکبر نے پھر کہا ۔ اس نے کہا ۔ الحمد اللہ علی کل حال ۔بادشاہ کا دل بھر آیا بچپن کا عالم اور ساتھ کاکھیلنا یاد آیا ۔ پھر کہا بہادر مابشماچہ بد ی کر دہ بوویم کہ شمشیر برروئے ماکشیدید۔ وہ شرمندہ شرمسار سرجھکائے کھڑا تھا ۔ مارے خجالت کے کچھ جواب نہ دے سکا ۔ کہا تو یہ کہا کہ الحمد اللہ علی کلی خاں کہ ور آخر عمر دیدار حضرت بادشاہ کہ ماحی گناہاں است نصیب شد۔ آفرین ہے اکبر کے حوصلے کو گنہ بخش کا لفظ سنتے ہی آنکھیں نیچے کر لیں۔ اورکہا بحفاظت نگہدارید ۔ اس نے پانی مانگا ۔ اپنی چھا گل میںسے پانی دیا۔ اس وقت تک کچھ خبر نہ ہوئی تھی کہ علی قلی خان کا کیا حال ہوا۔ دولت خواہوں نے سمجھا کہ ایسے شیر بھائی کا قید ہونا علی قلی خاں نہ دیکھ سکیگا ۔ قیامت برپا کر یگا ۔ اپنی جان پر کھیلے گا ۔مگر اسے چھڑالے جائے گا ۔ اس لئے کوئی کہتا ہے بے اطلاع۔ کوئی کہتا ہے اکبرکے اشارے سے شہباز خاں کمبو نے بے نظیر بہادر کا نقش صفحہ ہستی سے مٹا دیا ۔ مگر ملا صاحب کہتے ہیں، کہ شہنشاہ اس کے قتل پر راضی نہ تھے۔ بادشاہ میدان میںکھڑے تھے ۔ نمک حرام پکڑے آتے تھے۔ اور مارے جاتے تھے ۔ بادشاہ کو بڑا خیال خانزماں کاتھا ۔ جوآتا اس سے پوچھتے تھے۔ اتنے میںبابو فوجدار ۱؎ پکڑ آیا ۔ اس نے عرج کی کہ میں دیکھتا تھا۔ حضور کے ایکدنت ہاتھی نے اسے مارا ہے ہاتھی اور مہاوت کے پتے بھی بتائے بہت سے ہاتھی دکھائے ۔ چنانچہ اس نے نین سکھ ہاتھی کو پہنچانا اور حقیقت میں اس کے ایک دانت تھا۔ اکبر ابتک شبہ ہی میںتھا۔ کہ جو نمک حراموں کے سر کاٹ کر لائے۔ انعام پائے ۔ ولایتی کے سر کے لئے اشرفی ۔ ہندوستانی کے سر کے لئے روپیہ ۔ ہائے کمبخت ہندوستانیو ! تمہارے سرکٹ بھی سستے ہی رہے ۔ لشکر کے لوگ بے سرو پا اٹھ دوڑے ۔ ۱؎؎فوجداری خلیبان کو کہتے ہیں گوویں بھر بھر کر سر لاتے تھے ۔ اور منھیاں بھر بھر کر روپے اشرفیاں لیتے تھے ۔ ہر سر کو دیکھتے تھے ۔ دکھاتے تھے۔ اورپہچانتے تھے۔ افسوس انہی سروں میں سے خانزماں کا سر بھی ملا کہ اوبار کا سر ہوگیا۔ سبحان اللہ ۔ جس سر سے فتح کا نشان جد انہ ہوتا تھا ۔ جس سے اقبال کا خود اترتا نہ تھا ۔ جس چہرے کو کامیابیوں کی سرخی شگفتہ رکھتی تھی۔ اس پر خوں نے سیاہ دھاریاں کھینچی تھیں۔ نحوست نے خاک ڈالی تھی ۔ کون پہچانے ، سب کو تردد تھا۔ ارزانی مل اس کا خاص اور معتبر دیوان بھی قیدیوں میں حاضر تھا۔ بلایا اور دکھا کر پوچھا ۔ اس نے سر کو اٹھا لیا۔ اپنے سر پر دے مارا اور ڈاڑھیں مار مار کر رونے لگا۔ خواجہ دولت کہ پہلے اس کے حرم سرا کا خواجہ سرا تھا ۔ وہاں سے آکر حضور میںملازم او رپھر دولت خان ہوگیا تھا ۔ اس نے دیکھا اور کہا مرنے والے کو عادت تھی کہ ہمیشہ پان بائین طرف سے کھایا کرتا تھا ۔ اسی لئے ادھر کے دانت رنگین ہوگئے تھے ۔ دیکھا تو ایسا ہی تھا۔ اس بدنصیب پر وہاں یہ گذری تھی کہ نین سکھ تو روند کر چلا گیا۔ وہ نیم جاں پڑ ادم توڑتا تھا۔ کوئی گمنام چھاؤنی کا چکر یا وہاں جانکلا۔ او رمغل کو سسکتے دیکھ کر سر کاٹ لیا۔ اتنے میں ایک بادشاہی چیلا پہنچا۔ اس نے ا س سے چھین لیا۔ اور دھکے دیکر دھتکا ر دیا۔ آپ آکر اشرفی انعام لے لی ۔ ہائے زمانے کی گردش دیکھتے ہو، یہ اسی سیستانی رستم ثانی کا سر ہے ۔ اس پر کتے لڑ رہے ہیں الی کتوں کا شکار نہ کروائے۔ شکار بھی کروائے تو شیرہی کا کروائے ۔ نہیںنہیں تیرے ہاں کیا کمی ہے ۔ شیر کا پنجہ قدرت دیجو۔ اور دنیا کے کتوں پر شیر رکھیو۔ جب اکبر کو یقین ہو اکہ خانزماں کا بھی کام تمام ہوا۔تو گھوڑے سے اتر کا خاک پر پیشانی کورکھ دیا ۔ اور سجدہ شکر بجا لایا۔ تمام اہل تاریخ اس مہم کے خاتمے پر عبارتوں کا زور دکھا تے ہیں۔ اور کہتے ہیں ۔ یہ فتح کارنامہائے جہاں ستانی سے تھی ۔ کہ فقط تائید حضرت زوالجلال۔ک اور تقویت دولت و اقبال سے ظہور میںآئی وغیرہ وغیرہ۔ اگرچہ گرمی بشدت تھی ۔ مگر اسی دن بادشاہ الہ آباد میں چلے آئے۔ خانزماں ، بل بے تری ہیبت اور واہ رے تیرا دبدبہ ، مرد ہو تو ایسا ہو۔ آزاد کو تیرے مرنے کا افسوس نہیں، مرتا تو ایک دن سب کو ہے ۔ ہاں اس بات کا افسوس ہے کہ خاتمہ اچھا نہ ہو۔ تو اس سے بھی زیادہ تباہی و بدحالی سے مرتا ۔ تیری لاش اس سے بھی سو اخراب و خوارہوتی مگر آقا کی جاں نثاری میںہوتی تو آب زر سے لکھی جاتی ۔ خدا حاسدوں کا منہ کالا کرے جنہوں نے دونون بھائیو نکی سنہری سرخرونی کو روسیاہی کردیا۔ آزاد بھی ایسے ہی بے لیاقت بد اصالت حاسدوں کے ہاتھ سے داغ داغ بیٹھا ہے ۔ پھر بھی شکر ہے کہ روسیاہی سے محفوظ ہے اور خدا محفوظ رکھے۔یہ نااہل خود کچھ نہیں کر سکتے ۔ اوروں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر لاتے ہیں اور مورچے باندھتے ہیں۔ موقع پاتے ہیں تو افسروں سے لڑاتے ہیں۔ خیر آزاد بھی پروا نہیں کرتا اپنے تئیں خدا کے اور انہیں زمانے کے حوالے کر دیتا ہے ۔ ان کے اعمال ہی ان سے سمجھ لیتے ہیں ؎ تو بندکنندہ خود را بروزگار گذار کہ روزگار ترا چاکر پست کینہ گذار اتفاق خواجہ نظام الدین بخشی نے طبقات اکبری میںلکھا ہے کہ میں ان دنوں آگرہ میں تھا۔ ادھر تو مقابلے ہورہے تھے ۔ ادھر لوگ رات دن نئی نئی ہوائیاں اڑا رہے تھے ۔ اورپوستیوں افیمیوں کا تو کام یہ ہے۔ ایک دن دو چار دوست بیٹھے ہوئے تھے۔ جی میںآیا کہ لاؤ ہم بھی ایک پھلجھڑی چھوڑیں مضمون یہ تراشا کہ خانزماں او ربہادر خان مارے گئے ۔ بادشاہ نے ان کے سر کٹواکر بھیجے ہیں۔ دارلخلافہ کو چلے آتے ہیں۔ چند شخصوں سے ذکر کیا۔ شہر میں یہی چرچا فورا پھیل ہوگیا۔ خدا کی قدرت کہ تیسرے دن ان کے سر آگرہ میںپہنچ گئے۔ اور وہاں سے دلی اور لاہور ہوتے ہوئے کابل پہنچے ملا صاحب لکھتے ہیںکہ میں بھی اس تجویز میں شامل تھا ؎ بسا فالے کہ ازبا یچہ برخاست چو اختر در گذشت آں فال شد است جن کو ان سے فائدے تھے انہوں نے پردرد اور غمناک تاریخیں کیں ؎ چوں خان جہاں ازیںجہاں رفت بباد بنیاد فلک سر سرا ز پافتاد تاریخ وفانش از خرد جستم گفت فریاد زدست فلک بے بنیاد دوسری طرف والوں نے کہا۔ فتح اکبر مبارک۔ ایک تاریخ کا مصرع ہے ع قتل دو نمک حرام بے دیں اور اس میں ایک کی کمی ہے قاسم ارسلان نے کہی تھی ۔ لفظ اور اخیر کو دیکھنا ۔ وہی مذہب کا اشارہ ہے آزاد کہتا ہے کہ شیعہ بیر م خاں بھی تھے ۔ ان کے لئے ہر شاعر اور ہر مورخ نے سوا تعریف کے زبان نہیں ہلائی۔ یہ انعام ہے اسی بد زبانی کا کہ غیر مذہب کے لئے جو منہ میں آتا تھا کہہ اٹھتے تھے۔ ایک شخص سے محبت رکھنی کچھ اور شے ہے اور بدکلامی اور بے تہذیبی کچھ اور شے ہے ۔ اچھا جیسا تم نے کہا تھا ویسا سن لو استاد مرحوم نے کیا خواب کہا ہے ؎ بد نہ بولے زیر گردوں گر کوئی میری سنے ہے یہ گنبد کی صدا جیسی کہے ویسی سنے برج علی بچارا ۔ اس طرھ سے کیوں گرا۔ اسی بنیاد پر اپنے سر پر آسمان کیوں ٹوٹا ۔ اسی بنیاد پر ۔ خیر آزاد کو ان جھگڑوں سے کیا غرض ہے بات میںبات نکل آئی تھی کہہ دی ؎ اگر دریافتی بردانشت بوس دگر غافل شدی افسوس افسوس بے لاگ تاریخ تو یہ ہوئی ہے۔ کہ دوخون شدہ۔ مگر اس کی بنیاد یہ ہوئی کہ پانچ برس پہلے جب اتکہ خاں کو اوہم خاں نے مارا۔ اور ماراگیا ۔ تو کہنے والوںنے کہا تھا کہ دونوں شد ب یہ دونوں مارے گئے ھ۔ ۵ ملا صاحب نے کہا ۔ دونوں شدہ۔ خانزماں سخی تھا ۔ عالی ہمت تھا ۔ اور امیرانہ مزاج رکھتا تھا۔ فکر کا تیز اور مزاج کا ذکی تھا علما و شعرا اور اہل کمال کا بڑا قدر دان تھا۔ شہر زمانیہ اسی کا آباد کیا ہو اشہر ہے۔ اور ریلوے کا سٹیشن بھی ہے ۔ ۶ کوس غازی پوری سے ہے۔ غزالی مشہدی اپنی بداعمالی و بداطواری کے سبب سے وطن کو بھاگ گیا۔ اورپھر کر دکن میںآیا ۔ وہاں تنگ تھا۔ خانزماں نے ہزار روپیہ خرچ بھیجا اور بلا بھیجا ۔ ساتھ اس کے رباعی لکھی۔ دیکھنا ہزار کا اشارہ کس خوبصورتی سے کیا ہے ؎ اے غزالی بحق شاہ نجف کہ سوئے بندگان بیچوں آئی چونکہ بے قدر بودہ آنجا سر خود راہگیر و بیروں آئی الفتی یزدی کہ شاعر تھا اور علم ریاضی میں صاحب کمال تھا۔ خانزماں کے پاس نہایت خوشحالی کے ساتھ رہتا تھا۔ وہ آپ بھی شعر کہتا تھا کہ عاشق مزاجی کا مصالح ہے۔ سلطان تخلص کرتاتھا اور شعرو شاعری کے جلسے رکتھا تھا۔ جب خانزماں نے غزل کہی جس کا مطلع ذیل میںلکھا جاتا ہے تو ادھر کے اضلاع میںبہت شاعروں نے اس پر غزلیں کہیں؎ خان زمان کسی اور صاحب طبع نے کہا وہ صاحب فرماتے ہیںکہ میںنے بھی کہا باریک چو موئیست میانے کہ تو واری گفتم کہ گمانیست دہانے کہ تو واری سر چشمہ خضر است دہانے کے تو واری گویا سر آں موست دہانے کہ تو داری گفتا کہ یقین است گمانے کہ تو داری ماہی ست دراں چشمہ زبانے کہ تو واری ملا صاحب کو طرز قدما پسند ہے اس لئے اس زمانے کی شاعری پر طنز کر کے کہتے ہیں ایسی شاعری جس کا زمانہ جاہلیت میں رواج تھا اور اب غنیمت معلوم ہوتی ہے ۔ ان دنوں میںاس سے تو بہ نصوح کرنی اچھی ہے خانزماں کے چند شعر لکھ کر اس کا مذاق طبع دکھاتا ہوں۔ لہ فغان و نالہ بسان جرس مکن اے دل دلہ صبا بحضرت جاناں بآں زماں کو تودانی دلہ دلبر ے دارم کہ رویش چوں گل و موسنبل است دلہ جانا نہ بود مثل تو جان نہ دیگر اے مغچہ از دست تو پیمانہ نہ نوشم زجور یار شکایت بکس مک اے دل نیاز مندی من عرض کن چناں کہ تودانی سنبل پر چین اور افتادہ برروئے گل است مانند من دل شدہ دیوانہ دیگر مامست الستیم ز پیمانہ دیگر شعراء عصر کے سلسلے میںجو ملا صاحب نے سلطان سبکلی کا حال لکھا ہے اس میںلکھتے ہیںکہ قندھار کے علاقہ مین سبکل ایک گاؤں ہے ۔ سلطان وہاں کا رہنے والا ہے ۔ لوگ اسے چھپکلی کہتے تھے۔ وہ شرماتا تھا اور کہتا تھا کہ کیاکروں لوگوں نے کیسا کثیف اور مردار نام رکھ دیا ہے خانزماں کا تخلص بھی سلطان تھا اس نے سبکلی کو خلعت گراں بہا کے ساتھ ہزار روپیہ بھیجا اور کہا کہ ملا یہ تخلص ہماری خاطر سے چھوڑ دو ۔ اس نے وہ ہدیہ پھیر دیا اور کہا کہ واہ میرے باپ نے سلطان محمد میرانام رکھا ہے ۔ میں اس تخلص کو کیونکر چھوڑ سکتا ہوں۔ میںتم سے برسوں پہلے اس تخلص سے شعر کہتا رہا اور شہرت تمام حاصل کی ہے ۔خانزماں نے بلا کر سمجھایا ۔ آخر کہا کہ نہیںچھوڑتے تو ہاتھی کے پاؤں میںکچھواتا ہوں اور غصہ ہوکر ہاتھی بھی منگا لیا اس نے کہا زہے سعادت کہ شہادت نصیب ہو جب خانزماں نے بہت دھمکایا تو مولینا علاؤ الدین لاری خان زماں کے استاد موجود تھے انہوں نے کہا کہ مولینا جامی کی ایک غزل دوا گرفی البدیہہ جواب کہدے تو معاف کر دو اور نہ کہہ سکے تو تمہیں اختیار ہے دیوان موجود تھا۔ یہ مطلع نکلا؎ دل خطت را رقم صنع الہی دارنست بر سر سا دہ رخاں حجت شاہی دانست محمد سلطان نے اسی وقت غزل لکھی اس کا مطلع ہے ۔ ہر کہ دل را صدف سر الہی دانست قیمت گوہر خود را بکماہی دانست باوجویکہ کچھ بھی نہیں ۔ پھر خانزماں بہت خوش ہوا تحسین و آفرین کی اور اس سے چند رو چند زیادہ انعام دے کر اعزاز سے رخصت کیا ۔ پھر سلطان وہاں نہ رہ سکا ۔ خانزماں سے رخصت بھی ہو ا اور نکل گیا ملا صاحب کہتے ہیں۔ حق یہ ہے کہ بے مروتی اسی کی تھی ۔ خانزماں جیسا امیر اس انسانیت کے ساتھ تخلص مانگے اوروہ ایسے بزرگوں سے قیل وقال کرے مناسب نہ تھا۔ آزاد ملا صاحب سے دونوں بھائیوں سے خفا بھی ہیں۔ تاریخ قتل میںنمک حرام بھی کہا۔ بے دین بھی کہا۔ پھر بھی جہاں خانزماں اور بہادر خاں کا ذکر آیا ہے ان کے کارنامے بیان کرتے ہیں اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ لکھتے ہیں اور باغ باغ ہوتے ہیں۔ اور جہاں بغاوت کا ذکر کیا ہے وہاں بھی حاسدوں کی فتنہ پروازی کااشارہ ضرور کیا ہے ۔ اس کا سبب کیا ہے ان کے اوصاف ذاتی ، نیکی فیض رسانی ، کما ل کی قدر دانی ، دلاوری ، شمشیر زنی میں نے خوب دیکھا وصف اصلی میں ایک پر زور تاثیر ہے ۔ خواہ اپنا ہو خواہ بیگانہ ۔ اپنے حق کو اس کے منہ سے اس طرح کھینچ کر نکالتی ہے جیسے سنار جنتری میں سے تار نکالتا ہے ۔ بہادر خاں بھی موزوں طبیعت تھا ۔ ملا آصفی کی زمین میں اسکی غزل کا مطلع ہے ؎ آصفی برما شب غم کار بے تنگ گرفتہ کو صبح کہ آئینہ مازنگ گرفتہ بہادر آں شوخ جفا پیشہ بکف سنگ گرفتہ گویا بمن خستہ رہ جنگ۱؎گرفتہ بہ نشستہ مہ من بہ سر سند خوبی شا ہے کہ جابر سر اورنگ گرفتہ از نالہ دے بس نکند بے تو بہادر زینساں کہ نے زعم ز تو در جنگ گرفتہ یہ لکھ کر ملا صاحب فرماتے ہیں۔ ان کا اتنا ہی بہت سے کلام الملوک ملوک الکلام ۔ اس کا اصلی نام محمد سعید خاں تھا ۔ ہمایوں کے عہد میںبیرم خاں کی مصلحت سے زمینداور کا حاکم رہا۔ اکبری عہد میں خطا معاف ہوئی بیرم خاں کا دور تھا ملتان کا حاکم ہوگیا ۔ ۲ جلوس میںمانکوٹ کی مہم میںبلایا گیا ۔ نام کی بہادری کو کام کی بہادری سے ثابت کیا ۔ پھرملتان گیا اور بلوچوں کی مہم ماری ۔ ۳ جلوس میںمالوہ کی مہم پر گیا ۔ بیرم خاں کی مہم میں اہل دربار نے اسے لیا اور وکیل مطلق کر دیا ۔ چند ہی روز کے بعد اتا وہ کا حاکم کرکے بھیجدیا جس پھرتی کے ساتھ اس نے اپنے بھائی کے کارناموں میں حصہ لیا اس کا تماشا ابھی دیکھ چکے ۔ اخیر وقت کا حال بھی دیکھ لیا کہ شہباز خاں کمبوکی کی بے دردی سے کبوتر کی طرح شکار ہوگیا۔ اٹاوہ میںتھے جب ولی بیگ ذوالقدر کا سر بادشاہی قورچی لیکر پہنچا۔ انہوں نے اسے مروا ڈالا۔ خیر خواہوں نے اس خیال سے کہ مبادا بادشاہ کے دل پر ملال آئے انہیں دیوانہ بنا دیا ۔ اور اس بہانہ سے بلا ٹل گئی ۱؎ جنگی آدمی تھا شعر میں بھی جنگ ہے۔ منعم خان خان خانان اس نامور سپہ سالار اور پنج ہزاری امیر کا سلسلہ کسی خاندان امارت سے نہیں ملتا ۔ لیکن یہ بات اس سے بھی زیادہ فخر کی ہے۔ کیونکہ وہ اپنی ذات سے خاندان امارت کا بانی اور امرائے اکبر ی میں وہ رتبہ پیدا کیا کہ ۹۷۸ ھ میں جو عبداللہ خاں ازبک فرمانروائے ترکستان کی طرف سے سفارت آئی۔ اس میں خاص منعم خاں کے نام سے علیحدہ تحائف کی فہرست تھی ۔ وہ قوم کا ترک اور اسکا اصلی نام منعم بیگ تھا۔ بزرگوں کا حال فقط اتنا معلوم ہے کہ باپ کا نام بیرم بیگ تھا۔ ہمایو ں کی خدمت سے منعم خاں ہو کر ان کا اور فضیل بیگ ان کے بھائی کانام بھی سلسلہ تاریخ میںمسلسل ہوا۔ مگر ابتدائی حال میںفقط اتنا ہی معلوم ہوتا ہے ۔ کہ کوئی عمدہ نوکر ہے۔ اور جو حکم آقا دیتا ہے۔ اسے پورا کرتا ہے شیر شاہی معرکوں میںساتھ تھا ۔ تباہی کی حالت میںشریک حال تھا ۔ وہ مصیبت کا سفر جو سندھ سے جودھ پور تک ہوا۔ اس میں اور اس کی واپسی میں شامل ادبار تھا جب اکبرتخت نشین ہوا تو منعم خاں کی عمر ۵۰ سال سے زیادہ تھی ۔ اس عرصے میں جو اس نے ترقی نہ کی اس کاسبب یہ معلوم ہوتا ہے ، کہ وہ سنجیدہ مزاج دور اندیش احتیاط کا پابند تھا ۔ اور آگے بڑھنے میںہمیشہ حکم کا محتاج تھا۔ سلاطین سلف کے زمانے ملک گیری ۔ شمشیر زنی اور ہمت کے عہد تھے۔ ان میں وہی شخص ترقی کر سکتا تھا۔ جو ہمت حوصلہ اور دلاوری رکھتا ہو۔ اور اسکی سخاوت رفیقوں کا مجمع اس کے گرد رکھتی ہو۔ ہر کام میںبڑھ کر قدم رکھے اور آگ نکل کر تلوار مارے ۔ وہ بھی ان اوصاف کا استعمال خوب جانتا تھا ۔ مگر جو کچھ کرتا تھا۔ اپنی جیب سے پوچھ کر اور اعتدال سے اجازت لیکر کرتاتھا ۔ اکثر باتوں سے معلوم ہوتا ہے ۔ کہ عزت کو بہت عزیر رکھتا تھا۔ وہاں قدم نہ رکھتا تھا۔ جہاں سے اٹھانا پڑے کسی کے تنزل میںترقی نہ چاہتاتھا ۔ اور تنازع کے مقام میںنہ ٹھیرتا تھا۔ وہاں قدم نہ رکھتا تھا۔ جہاں سے اٹھانا پڑے ۔ کسی کے تنزل میںترقی نہ چاہتا تھا۔ اور تنازع کے مقام میں نہ ٹھیرتا تھا۔ یاد کرو جب بد گویوں کی چغلخوری سے ہمایوں کابل سے یلغار کر کے قندھار پرگئے۔ تو بیرم خاں نے خو د چاہا۔ کہ منعم خاں کو اس کی جگہ قندھار میں چھوڑیں لیکن جس طرح ہمایوں نے نہ مانا ۔ اسی طرح منعم خان نے بھی منظور نہ کیا۔ کسی کے وقت میںرفاقت کرنی بڑے مردوں کا کام ہے جبکہ ہمایوں سندھ میں شاہ حسین ارغون کے ساتھ لڑ رہا تھا ۔ اور لشکر ادبار اور فوج بدنصیبی کے سوا کوئی اس کا ساتھ نہ دیتا تھا ۔ افسوس اس وقت منعم خاںنے بھی ایک بدنامی کا داغ پیشانی پر اٹھایا ۔ لشکر کے لوگ بھاگ بھاگ کر جانے لگے ۔ خبرلگی۔ کہ منعم خاں کا بھائی یقینا اور منعم خاںبھی بھاگئے پر تیار ہیں۔ ہمایوں نے قید کر لیا ۔افسوس کہ یہ شک بہت علد یقین بن گیا ۔ اور منعم خاںبھی بھاگ گئے ۔ اس عرصے میںبیرم خاں آن پہنچے ۔ بادشاہ کو ایران لے گئے ادھر سے پھرے ۔ توافغانستان میں یہ بھی پھر آن ملے۔ خیر صبح کو بھولا شام کو گھر آئے تو وہ بھولا نہیں کہلاتا ۔ یہ علو حوصلہ اس کا قال تعریف ہے کہ چغل خوروں کی بدگوئی نے ہمایوں کو بدگمان کیا۔ اس نے چاہا کہ قندھار بیرم کاں سے لے کر منعم خاں کے سپر کر دیں۔ منعم خاں نے خود انکار کیا او رکہا کہ ہندوستان کی مہم سامنے ہے۔ اس وقت حکالم اور احکام کا الٹ پلٹ کر نامناسب مصلحت نہیں ہے۔ ۹۶۱ میں ہمایوں افغانستان کا بندوبست کر رہاتھا ۔ بیرم خاں قندھار کا حاکم تھا ۔ اکبر کی عمر دس گیارہ برس کی تھی ۔ ہمایوں نے منعم خان کو اکبر کا اتالیق مقرر کیا ۔ اس نے شکرئیے میں جشن شاہانہ ترتیب دیا۔ معہ ہل دربار بادشاہ کی ضیافت کی اور پیش کش ہائے شائیستہ نذر گذارے ۔ جیسی اس قوت بادشاہی تھی ویسا ہی جشن شاہانہ ہو گا ویسے ہی پیش کش ہونگے ۔ اسی سنہ میں ہمایوں ہندوستان پر فوج لیکر چلا۔ محمد حکیم مرزا ایک برس کا بچہ تھا ۔ اس ستارہ کو ماہ جو جک بیگم ا سکی ماں کے دامن میںلٹا کر کابل کی حکومت اس کے نام کی بیگمات کوبھی یہیں چھوڑا۔ اور کل کاروبار کا انتظام منعم خاں کے سپر دکیا۔ جب اکبر تخت نشین ہوا۔ تو شاہ الوالمعالی کابھائی میر ہاشم ادھر تھا ۔ کھمرو ۔ ضحاک ۔ غور بند اسکی جاگیر تھے۔ یہاں شاہ نے بد نیتی کے آثار دکھلائے۔ اس باتدبیر سردار نے وہاںمیر ہاشم کو لطائف الجبل سے بلا کر قید کر لیا ۔ ادھر بادشاہ خوش ہوگئے۔ ادھر اپنے پہلو سے کانٹا نکل گیا ۔ تمام افغانستان تھا اور یہ تھے حکومت کے نقار سے بجاتے پھرتے تھے۔ جب ہمایوں ہندوستان کو چلا تھا ۔ تو بدخشاں کا ملک مرزا سلیمان کو دے آیا تھا ۔ اور ابراہیم مرزا اس کے بیٹے سے بخشی بیگم اپنی بیٹی کی شادی کر دی تھی جب یہاں ہمایوں مر گیا ۔ تو مرزا سلیمان اور اس کی بیگم کی نیت بگڑی بیگم ہمایوں کے پر سے کا بہانہ کر کے کابل میں آئی وہ نام کو حرم بیگم تھی ۔ لیکن اپنے طنطنے سے سلیمان بلکہ سارے خاندان کو جو رو بناکر ولی نعمت بیگم کا لقب پیدا کیا تھا ۔ ہندوستان میں جو کچھ ہو رہا تھا۔ وہ سنا ۔ کابل میںدیکھا کہ منعم خاں ہیں یا بیگمات ہیںتب حالات معلوم کر کے گئی پھر ادھر سے مرزا سلیمان فوج لے کر آئے۔ مرزا ابراہیم اپنے بیٹھ کے ساتھ لائے کہ اس سے ہمایوں کی بیٹی منسوب تھی غرض مرزا نے آکر کابل کو گھیر لیا منعم خاں نے آمد آمد کی خبر سنتے ہی اکبر کو عرضی کی اور خندق فصیل کی مرمت کر کے قلعہ بند ہو بیٹھا ۔ مقتضائے احتیاط لڑائی میدان میںڈالی۔ ادھر سے اطمینان کا فرمان گیا ۔ بدخشی حملے کرتے تھے اند روالے توپ و تفنگ سے جواب دیتے اتفاقا بیگمات کے لینے کو اکبر نے چند امیر کچھ فوج کیساتھ بھیجے تھے ۔ یہ ابھی اٹک بھی نہ اتر ے تھے وہاں خبر مشہور ہوگئی کہ ہندوستان سے مدد آگئی ۔ اس زمانے میں علمائے شریعت سے بڑے کام نکلتے تھے مرزا سلیمان گھبر ا گیا ۔ اس نے قاضی نظام بدخشی کو قاضی خان بنایا تھا۔ بہت سے پیغام سلام سمجھا کر منعم خاں کے پاس بھیجا ۔ قاضی صاحب کے پا س مطالب و دلائل کا سرمایہ ا س سے زیادہ نہ تھا کہ مرزا سلیمان بڑا دیندار ۔ پرہیز گار ، خدا پرست بادشاہ ہے ۔ طریقت و شریعت کی برکتوں سے فیض یافتہ ہے۔ وہ بھی خاندان تیمور یہ کا چراغ ہے بہتر ہ کہ اسکی اطاعت اختیار کرو۔ اور ملک سپرد کر دو۔ لڑائی کی قباحتیں بند گان خدا کی خونریزی اور خونریزی کے گناہ دکھا کر بہشت و دوزخ کے نقشے کھینچ دے۔ من قتل نفسا فکانما قتل لناس جمیعا منعم خان بھی پراتم بڈھے تھے۔ انہوں نے باتوں کے جواب باتوں ہی سے دئے۔ اور باوجود بے سامانی اور تنگدستی کے مہمانداروں اور ضیافتوں اور روشنی میں اس قدر جمعیت اور سامان کے دبدبے دکھائے۔ کہ قاضی خان کی آنکھیں کھل گئیں۔ او راصلیت حال اصلا نہ کھلی ۔ ساتھی ہی یہ بھی کہا کہ سامان قلعہ داری کافی ووانی ہے۔ ذخیرے برسو ں کے لیے بھرے پڑے ہیں لیکن جو باتیں آپ نے فرمائیں۔ انہی خیالوں سے اب تک اندر بیٹھاہوں۔ ورنہ جنگ میدان میںکلہ شکن جواب دیتا ۔ احتیاط کا سر رشتہ ہاتھ سے دینا سپاہی کا کام نہیں دریا سے بھی کمک روانہ ہوئی ۔ اور پیچھے سامان برابر چلا آتا ہے ۔ لیکن آپ بھی مرزا کو سمجھائین۔ کہ ابھی تو ہمایوں بادشاہ کا کفن بھی میلا نہیں ہوا۔ ان کی عنایتوں کو خیال کرو۔ کفران نعمت کا داغ نہ اٹھاؤ۔محاصرہ اٹھاؤ ۔ اہل عالم کیا کہے گئے ۔ قاضی صاحب ناامید ہو کر صلح کی طرف پھرے ۔منعم خاں بھی مصلحتا راضی ہوگئے ۔ مگرایلچی کارواںتھا۔ پہلے شرط یہ کی ۔ کہ مرزا کے نام کا خطبہ پڑھا جاوے ۔ دوسرے ہماری سر حد بڑھائی جائے۔ منعم خاں نے برائے نام ایک گمنام مسجد میں چند آدمی جمع کروا کر خطبہ پڑھوا دیا مرزا سلیمان اسی دن محاصرہ اٹھا کر چلے گئے ۔ نئے علاقے میںاپنا معتبر چھوڑ گئے مکر وہ بھی بدخشاں نہ پہنچے تھے کہ ان کا معتبر ایک ناک دو کان سلامت لیکر پہنچ گیا ۔ غرض منعم خاں نے فقط حکمت عملی کے زور سے کابل کو بربادی سے بچا لیا۔ افسوس جب بڈھے شیر نے (منعم خاں) دور تک میدان صاف دیکھا ۔ تو پہلے حملے میں گھر کی بلی کو شکار کیا۔ دولت بابری کے خدمت گذاروں میں خواجہ جلا ل الدین محمود ایک مصاحب دربار تھے ۔ کہ انکی خوش طبعی کو یاوہگوئی نے بد مزہ کر دیا تھا۔ باوجود اس کے خود نیز طبع ۔ آتش دماغ ۔ بڑا فخر اس بات کاتھا ۔ کہ ہم شاہ قلی ہیں اس گھمنڈ کی سختیوں اور تمسخر کی تیزیوں نے تمام اہل دربا کا ناک میں دم کر دیا تھا ۔ خصوصا منعم خاں کہ جلکر کوئلہ ہورہاتھا ۔ اور دربار کاحال بھی معلوم تھا کہ بیرم خاں ناراض ہے۔ ہمایوں کے وقت میں منعم خان کو اتنی طاقت کہاں تھی جو خواجہ سے انتقال لیتے ۔ مگر اب کہ کابل میں حاکم بااختیار ہوئے اور جھاڑو گھر کے مالک ہوگئے کچھ آپ سمٹے کچھ فتنہ سازوں نے کمر بندھوائی۔ خواجہ غزالی کے حاکم تھے۔ خان نے انہیں عہد و پیمان کر کے غزنی میں بلایا اور قید کر لیا۔ اسی عالم میں چند نشتر ان کی آنکھ میںلگوائے او رسمجھے کہ بینائی سے معذور ہوگئے ۔ انہیں تو اس خیال میں کچھ پرواہ نہ رہی۔ خواجہ بڑے کر امات والے تھے۔ کوئی دم چراتا ہے وہ آنکھیں چر ا گئے تھے چند روز کے بعد جلال الدین اپنے بھائی کے پاس بھاگ گئے کہ بنگش کے رستے سے قلات اورکرنٹے سے ہو کر دربار اکبری میں جاپہنچے منعم خاں نے سنتے ہی آدمی دوڑائے ۔ پھر بیچا رے کو پکڑوا منگایا ۔ بظاہر قید کیا ۔ چند روز کے بعد اندر ہی کا م تمام کر دیا۔ ایس سلیم الطبع آدمی سے خون ہونا وہ بھی اس بے عزتی و بے مروتی سے کمال افسوس کا مقام ہے ۔ جب دربار میںبیرم خاں کی بربادی کی تدبیریں ہورہی تھیں۔ تو اہل مشورہ نے اکبر سے کہا کہ جو پرانے پرانے نمک خوار دور نزدیک ہیں انہیں اس مہم میں شامل کر نا ضرور ہے ۔ چنانچہ منعم خاں کو بھی کابل سے بلایا تھا ۔ اس نے وہاں غنی خان اپنے بیٹے کو چھوڑا ۔ اور خیزا خیز لدھیانے کے مقام میں اکبر کو سلام کیا۔ اکبر اس وقت خانخاناں کے تعاقب میںتھا ۔ شمس الدین محمد خاں تکہ آگے آگے تھے حضور سے خانخا ناں کے خطاب کے ساتھ وکالت کا منصب حاصل کیا ۔ لیکن اس کی نیک نیتی کا ثبوت اس روئداد سے ہو سکتا ہے جو بیرم خاں کے حال میں لکھی گئی ۔ کہ جب لڑائی کے بعد بیرم خاں سے پیغام سلام ہونے لگے ۔ تو کس بیتابی سے اس سے پاس دوڑا چلا گیا۔ جب خان خاناں کا قصہ فیصل ہوگیا۔ تو منعم خاں خان خاناں تھے اکبر مہم سے فارغ ہو کر آگرہ میں گئے بیرم خاں کا علیشان محل جس ک پاؤں میںدریا کا پانی لوٹ لوٹ کر لہریں مارتا تھا ۔ منعم خاں کو انعام فرمایا ۔ اسے خیال تھا کہ خان خاناں کا عہدہ اور کل اختیارات مجھے ملے گے ۔ لیکن پانسا پلٹ گیا ۔ اکبر کی آنکھیں کھلنے لگی تھیں۔ وہ سلطنت کے کاروبار اپنی رائے پر کرنے لگا ۔ ماہم سے وکالت کے کاروبار چھن گئے ۔ میرا تکہ وکیل مطلق ہوگئے۔ ماہم اور ہام والونکی بھی سخت ناگوار ہوا۔ ادہم خان ماہم کے بیٹے کے دلیں آگ لگیں ہوئی تھی منعم خاں نے اسے بھڑکایا ۔ او ر شہاب خاں نے تیل ڈالا۔ نوجوان بھڑک اٹھا ۔ کوتہ اندیش نے برسر دیوان جلسہ امراء میں آکر میراتکہ کو قتل کر دیا۔ لیکن جب و ہ قصاص میں قتل ہوا تو جو جو اس فتنہ پردازی میںشریک تھے۔ انہیں سخت خطرہ ہوا۔ شہاب خاں کا رنگ زرد ہوگیا ۔ منعم خاں بھی گھبرائے ۔ اور سنہ ۷ جلوس تھے کہ بھاگے ۔ اکبر نے اشرف خاں میر منشی کو بھیجا وہ فہمائش سے مطمئن کر کے لے آئے مگر چند روز کے بعد قاسم خاں میربحر کے ساتھ پھر آگرہ سے بھاگے ۔ دوتین آدمی ساتھ لئے ۔ بوسہ کے گھاٹ پر کشتی کی سیر کا بہانہ کیا وہاں جا کر مغرب کی نماز پڑھی اور رستے سے کٹ کر الگ ہونے کا بل کا ارادہ کیا۔ رو پڑے ہو کر بجواڑہ میں آئے ۔ علاقہ ہوشیار پور میں آکر کوہ کا دامن پکڑا۔ پہاڑوں پر چڑھتے ۔ اور کھڈوں میں اترتے قسمت کی مصیبت بھرتے سروت علاقہ میان دوآب میں جاپہنچے ۔ کہ میر محمو د منشی کی جاگیر تھا۔ جنگل میں اترے ہوئے تھے ۔ وہاں کا شقدر قاسم علی اسپ خلاب۔ سیستانی گشت کرتا ہوا ادھر نکلا۔ وہ انہیں پہنچا نتا نہ تھا ۔مگر وضع سے معلوم کیا کہ سردار ہیں کہیں روپوش بھاگے جاتے ہیں۔ اسی وقت علاقے کو پھرا۔ چند سپاہی اور کچھ گاؤں کے زمیندار ساتھ لیکر گیا اور انہیں گرفتار کر کے لے آیا ۔ سید محمود یہار اورعالی ہمت اور سردار عالی شان لشکراکبری کے تھے ۔ اس علاقے میں ان کی جاگیر تھی ۔ کسی سبب سے اس نواح میں تھے ۔ انہیں خبر کی۔ کہ دو شخص امرائے بادشاہی سے نظر آتے ہیں۔ ادھر سے جاتے ہیں۔ اور آثار و اطوار سے کوف زدہ معلوم ہوتے ہیں۔ آپ دیکھیے یہ کون صاحب ہیںیہ آٹھ پہر کے ساتھ رہنے سہنے والے انہوں نے پہچا نا۔ بڑے تپاک سے ملاقاتیں ہوئیَ موقع کو غنیمت سمجھا اپنے گھر لائے ۔ تعظیم و تکریم سے رکھا۔ مہمانداری کے حق ادا کئے اور اعزازو کرام سے اپنے فرزندوں او ربھائی بندوں کے ساتھ خود لے کر حضور میں حاضر ہوئے۔ یہاں لوگوں نے اکبر کو بہت کچھ لگایا بجھایا تھا ۔ بلکہ یہ بھی اشارہ کیا تھا ۔ کہ اس کا گھر ضبط کرنا چاہیے۔ اکبر نے کہا کہ فقط وہم سے منعم خاں نے ایسا کیا ہے ۔ وہ نہ جائیگا ۔ اور اگر گیابھی و کہاں گیا ؟ کابل ہمارا ہی ملک ہے ۔ کوئی ان کے گھر کے گرد پھٹکنے نہ پائے۔ وہ بندہ قدیم الخدمت ا س خاندان کا ہے ۔ ہم اسکا سب اسباب وہیں بھجوا دیںگے ۔ جب یہ آئے تو سب کے منہ بندہوگئے۔ بادشاہ نے بہت دلجوئی کی۔ اور وہی مرحمت اس کے حال پر مبذول فرمائی جو کچھ چاہیے تھی۔ وکالت کا منصب او ر خان خاناں کا خطاب بحال رکھا۔ ۹۷۰ ھ میں منعم خاں نے ایک ہمت دلاورانہ کی اور افسوس کہ اس میںٹھوکر کھائی ۔ محمل تہمید اس کی یہ ہے کہ وہ یہاں تھا۔ اور غنی خاں اس کا بیٹا کابل میں قائم مقام تھا ۔ اس نااہل لڑکے نے وہاں رعایا کو اپنی سختی سے امرا کو نااہلی سے ایسا تنگ کیا کہ حکیم مرزا کی ماں چوچک بیگم ابھی دق ہوگئی ۔ فضیل بیگ منعم خاں کابھائی آنکھیں ۱؎ نہ رکھتا تھا ۔ مگرفتنہ و فساد کی تاک میں سر تا پا آنکھیں تھا۔ وہ بھی نااہل بھتیجے کی خود سری سے تنگ تھا۔ اس نے اور اہل خد مت نے بیگم کو بھڑکایا ۔ اس کی اور ابو الفتح ا سکے بیٹے کی صلاحوں سے نوبت یہ ہوئی ۔ کہ ایک دن غنی خاں فالیز کی سیر سے پھر کرآیا ۔ لوگوں نے شہر کا دروازہ بند کر لیا ۔ وہ کئی دروازوں پر دور آخر دیکھا کہ ہمت کا موقع نہیں۔ اب قید کا وقت ہے ۔ اس لئے کابل سے ہاتھ اٹھا کر ہندوستان کی طرف پاؤں بڑھایا ۔ وہاں فضیل بیگ کو بیگم نے مرزا کا اتالیق کردیا ۔اندھے سے سوا بے ایمانی کے کیا ہوتا تھا اس نے اچھی اچھی جاگیریں آپ لیں اور اپنے وابستوں کو دیں۔ بری بری مرزا کے متعلقین کو دیں۔ ابو الفتح تحریر وغیرہ کے کام کرتا تھا۔ یہ عقل کا اندھا تھا۔ باپ خود غرضی ۔ بد اعمالی ۔شراب خوری کے حاشئے چڑھاتا تھا۔ لوگ پہلے سے بھی زیادہ تنگ ہو گئے ۔ آخر ابوالفتح دختر رزکی بدولت بزم دغا میںمارے گئے ۱؎ جب ہمایوں کے بھائیوں نے بغاوت کی تو منعم خاں ہمایوں کے ساتھ تھا ۔ فضیل بیگ کامران کے ہاتھ آگیا ۔ وہ مردم آزادی کا مشتاق تھا ۔ اسے فضیل کو اندھا کر دیا۔ سر کٹ کر نیزے پر چڑھگیا۔ اندھ بھاگا مگر پکڑا آیا۔ اور اتے ہی بیٹے کے پاس پہنچا۔ اب ولی بے کابل کے صاحب اختیار ہوئے ۔ یہ پورے ولی تھے۔ انہوں نے اکبر کوبھی لڑکا سمجھا۔ اور خود بھی ہوشاہی کی ہوامیں اڑنے لگے۔ وہاں کے شور شر دیکھ کر اکبر کو یہاں تک خطر ہوا کہ کابل ہاتھ سے نکل نہ جائے ۔ منعم خاں کچھ خوبی آب و ہوا سے کچھ جسمانی آسائشوں کی طفیل سے کچھ آزاد انہ حکمرانی کے مزے سے ہمیشہ کابل کی آرزو رکھتا تھا ۔ اس لئے اکبر نے حکیم مرزا ک اتالیقی اور حکومت کابل اس کے نام پر کر کے ادھر روانہ کیا ۔اور کئی امیر اسکی مدد کے لیے فوج دیکر ساتھ کئے منعم خاں کابل کے نام پر جان دے رہے تھے۔ کابلیوں کی سرشوری و سینہ زوری کو ذراخاطر میں نہ لائے۔ دولت حضوری کی بھی قدر نہ سمجھے ۔ حکم ہوتے ہی روانہ ہوگئے اورکوچ بہ کوچ منزلیں لپیٹ کر جلا ل آباد کے قریب جا پہنچے ۔ امراکا اور فوج کمک کا بھی انتظار نہ کیا ۔ بیگم اور اس کے مشورہ کا روں کو جب یہ خبر پہنچی ۔ تو خیال کیا کہ منعم خاں کے بیٹے نے یہاں بہ ذلت اٹھائی ہے ۔ بھائی بھتیجے اس خواری سے مارے گئے ہیں۔ خدا جانے آخر کس کس سے کیا سلوک کرے اس لئے باسمان جمعیت بہم پہنچائی ۔ اہل فساد نے مرزا کو بھی فوج کے ساتھ لیا۔ اور مقابلے پر آئے پہلو یہ سوچا کہ اگر ہم نے فتح پائی۔ تو سبحانب اللہ اور شکست پائی تو یہاں نہ رہے گے ۔ بادشاہ کے پاس چلے جا ئے گے غرض بیگم نے ایک سردار کو فوج دے کر آگے بڑھایا ۔ کہ قلعہ جلال آباد کا استحکام کرے۔ منعم خاں کو جب یہ خبر پہنچی تو ایک جنگ آزمودہ سردار کو اسکے روکنے کے لیے بھیجا ۔ وہ اس عرص میں قلعے کا بندوبست کر چکا تھا اس نے جلال آباد کے میدان میں لڑائی ڈال دی۔ اتنے میں خبر لگی ۔ کہ بیگم اور مرزا بھی آن پہنچے۔ منعم خاں کیسے ہی جوش و خروش میں ہوں۔ مگر اپنی سلامت روی کی چال نہ چھوڑتے تھے جبار بردی ایک سردار بابر کے عہدہ کا تھا۔ کہ اب لباس فقیری میں امیری کرتا تھا۔ وہ بھی سوائے کابل میں منعم خاں کے ساتھ اڑا اجاتا تھا ۔ اسے بھیجا ۔ کہ مرزا سے جا کر گفتگو کر ۔ کشت و خون کی نوبت نہ پہنچے ۔ باتوں میںکام نکل آئے۔ اور یہ منتر نہ چلے ۔ تولڑائی کل پرڈالے آج ملتوی رکھے کہ ستارہ۱؎ سامنے ہے۔ فوج ہر اول میں ثمر یکہ ۱؎ گھورآ دوڑائے آیا اور کہا کہ غنیم بہت کم ہے۔ ایسی حالت میں لڑائی کل پر نہ ڈالو۔ ایسا نہ ہو وہ ہراساں ہو کر نکل جائے اور بات بڑھ جائے ۔ منعم خاں اور حیدر خاں دونوں کابل کے عاشق تھے۔ اور سپاہگری پر مغرور ۔ رکابی فوج کی ہمت اور اپنے حوصلے پر گھوڑے بڑھائے چلے گئے ۔ اور چار باغ کے پاچ خواجہ رستم کی منزل پر میدا ن جنگ قائم ہوا۔ خان خاناں جب اپنے اصول سے باہر قدم رکھتے تھے جبھی خط پاتے تھے۔ انکا سردار جو اہر اول بنکر گیاتھا ۔ مارا گیا ۔ ۱؎ترکوں میںمشہور ہے کہ یلدوز ایک ستارہ ہے ۔ لڑائی کے میدان میں جس فریق کے سامنے ہوتا ہے۔ اس کی شکست ہوتی ہے ۔ ۲؎ یکہ ایک قسم کے انتخابی اور بہادر سواروں کا رسالہ ہوتا تھا کہ اسے یکہ سواروں کا رسالہ کہتے تھے ۔ اکبر کے عہد خوش اعتقادی اور دین الہی وغیر ہ کی قیدیں لگا کہ یکونکواحدی کہنے لگے۔ اس میں توحید خاص کا اشارہ تھا۔ اور ایسا سکت کشت و خون ہو اکہ فوج بربا دہوگئی ۔ او رانہوں نے شکست کھائی بہت سے ہمراہی کابلیوں سے جاملے۔ نقد جنس ۳۰ لاکھ کا خزانہ او ر توشہ خانہ سب کا بلی لٹیروں کو دیکر آپ بحال بنا ہ وہاں سے بھاگے ۔ اور غنیمت ہو اکہ وہ لوٹ پر گر پڑے ورنہ خود بھی شکار ہوجاتے۔ منعم خاں بے ہوش۔ بدحواس پر جھڑے دم نچے پشاور میںپہنچے ۔ مدت تک سوچتے رہے۔ آخر اکبر کو سار احال لکھا ۔ اور عرض کی کہ بندہ منعم نے نعمت حضوری او رمرحمت بادشاہی کی قدر نہ جانی ۔ اس بد اعمالی کی یہ سزا تھی ۔ اب منہ دکھانے کے قابل نہیں رہا۔ حکم ہو تو مکے کو چلا جائے ۔ گناہوں سے پاک ہوگا ۔ جب حضور میں حاضر ہونے کے قابل ہوگا۔ یہ التجا قبول نہیں ۔ تو کچھ جاگیر سرکار پنجاب میں مرحمت ہوجائے کہ صورت حال درست کر کے شرف زمین بوس حاصل کروں۔ منعم خاں کچھ مارے ڈرکے کچھ مارے شرم کے پشاور میںبھی نہ ٹھیر سکا۔ اٹک اتر کر گکھڑوں کے علاقے میں چلاآیا ۔ سلطان آدم گکھڑ بڑی آدمیت اور حوصلے سے پیش آیا۔ اور شان کے لائق مہمانداری کی حیران بیٹھ تھا کہ کیا کرے۔ نہ چلنے کورستہ نہ بیٹھنے کو جگہ نہ دکھانے کو منہ ہارے اکبر نے اپنے قدیم الخدمت ملازم کو بڑی تسلی اور دلاسے کے ساتھ جواب لکھا ۔ کہ کچھ خیال نہ کرو تمہاری جاگیر سابق بحال ہے اپنے ملازم بدستور علاقوں پر بھیج دو۔ آپ چلے آؤ۔ عنایات الطاف اسقدر ہونگے کے سب نقصان پورے ہو جائے گے ۔ اور یہ رنج کا مقام نہیں۔ عالم سپا ہگری میں اکثر ایسی صورتیں پیش آتی ہیں۔ انشا ء اللہ جو ہرج ہوئے ہیں۔ سب کا تدارک ہوجائیگا منعم خاں کی خاطر جمع ہوئی۔ دربار میں حاضر ہوئے۔ اور جلد آگرہ کے قلعدار ہوگئے۔ اور کئی سال تک خدمت انہی کے نام پر رہی۔ ۹۷۳ھ؁ میں جب کہ اکبر نے علی قلی خاں سیستانی پر فوج کشی کی۔ تو چند رو زپہلے منعم خاں کو فوج دے کر آگے روانہ کیا ۔ اور اس نے اپنی سلامت روی اور دونو طرف کی دلسوزی دخیر اندیشی سے کارنمایاں کئے کہ بادشاہ بھی خوش ہوگئے ۔ اگرچہ آگ لگانے والے بہت تھے لیکن اس کی کوشش اسی میں عرق ریزی کر ر ہی تھی کہ سلطنت کا قدیم الخدمت بربار نہ ہو۔ آخر نیک نیتی کامیاب ہوئی او رمہم کا خاتمہ صلح و صفائی پر ہوا۔ دشمنوں نے اس کی طرف سے بادشاہ کو شبہے بھی ڈالے۔ مگر کچھ اثر نہ ہوا۔ ۹۷۵ھ؁ میںجب خانزماں او ربہادر خاں کے خون سے خاک رنگین ہوئی۔ اور مشرقی فساد کا خاتمہ ہوا۔ تو منعم خاں کو دارلخلافہ آگرہ میںچھوڑ گئے تھے ۔ اسے بلا بھیجا۔ بڑھاپے میں اقبال کا ستارہ طلوع ہو اتمام علاقہ علی قلی خان کا ۔ تمام جونپور ۔ بنارس ۔ غازی پور ۔ چنار گڈھ ۔ زمانیہ سے سیکر دریاے جو ساکے گھاٹ تک عطا فرمایا ۔ او رخلعت شاہانہ اورگھوڑا دے کر رخصت کیا ۔ وہ بڑے حوصلہ اور تدبیر کے ساتھ وہاں حکومت کرتا رہا ۔ او ر سلیمان کرارانی اور لودی وغیرہ افغانوں کے سردار کو ملک بنگالہ اوراضلاع مشرقی میں افغانوں کے عہد سے حاکم مستقل اور صاحب لشکر تھے۔ انہیں بھی کچھ صلح او ر کچھ جنگ کے سامان دکھا کر دباتا رہا اور حق پوچھو ۔ تویہی آخری تین برس اس کی عمر درا ز کا نچوڑ تھے۔ جسے خانخاناں کے خطاب سے اسکے نام کو تاج دار کر سکتے ہیں۔ اور یہ بنگالہ کی مہم ہے جس کی بدولت وہ دربار اکبری میں آنے کے قابل ہواہے ۔ اور سلیمان سے عہد نامہ کر کے اکبر کا سکہ خطبہ جار ی کردیا۔ اکبر چتوڑ کی مہم تھا ۔ خانخاناں کو خبر پہنچی کہ زمانیہ پر جو اسد اللہ خاں نمک خوار بادشاہی حکومت کررہا ہے اس نے سلیمان کرارانی کے پاس آدمی بھیجا ہے ۔ کہ تم اس علاقے پر قبضہ کر لو ۔ خانخاناں نے فورا فہمائش کے لیے معتبر بھیجے ۔ وہ بھی سمجھ گیا ۔ اور قاسم موشکی خان خانان کے گماشے کو علاقہ سپرد کر کے خدمت میںحاضر ہوا افغانوں کا لشکر جو قبضہ کرنے آیا تھا۔ ناکام پھر گیا۔ سلیمان کا وزیر لودھی تھا۔ کہ دریائے سون وکیل مطلق کے اختیار کام کرتا تھا۔ اس نے جب اکبری فتوحات پے در پے لکھیں ۔ اور خانخاناں کو سلیم الطبع صلح جو سنجیدہ مزاج پایا تو دوستی کے رنگ جمائے تاکہ ملک سلیمان آسیب میںنہ آئے۔ چنانچہ نا مہ و پیام اور دوستی کی بنیاد اورتحفے تحائف ان پر عمارتیں چننے لگے ۔ چتوڑ کے محاصرہ نے طول کھینچا ۔ سرنگوں کے اڑنے میںفوج بادشاہی بہت برباد ہوئی۔ سلیمان کے خیالات بدلے۔ یہ خبریں سنکر اپنے آصف کے ذریعے سے منعم خاں کوبلا بھیجا ۔ کہ محبت سے ملاقات کر کے بنیاد اتحادکو محکم کریں۔ خیر خواہوں نے احتیاط پر نظر کرکے روکا۔ مگرنیت دلاور بے تکلف چلاگیا۔ ساتھ چند امرا اور فوج میںکل تین سو آدمی ہونگے ۔ لودی لینے آیا ۔ بایزید سلیمان کا بڑا بٹیا کئی منزل پیشوائی کو آیا ۔ جب پننہ پانچ چھ کوس رہا تو خود استقبال کو آیا ۔ بڑ اعزازو احترام سے ملا۔ پہلے کاخانخاناں نے جشن کرکے اسے بلایا ۔ دوسرے دن اس نے مہمانی سلیمانی کر کے انہیںبلایا بڑ ے اعزاز و احترام کئے ۔ گراں بہار تحفے پیشکش کئے ۔ مسجدوں میںاکبری خطبہ پڑھا گیا۔ سکے نے سنہری روہری لباس پہنا۔ سلیمان کے دربار میںدیو سیر ت مصاحب بھی تھے۔ انہوں نے کہا کہ اکبر تومہم میں مصروف ہے ادھر جو کچھ ہے۔ منعم خان ہے۔ اسے مار لیں تویہاں سے وہاں تک ملک خالی ہے۔ لودھی کو بھی خبر ہوگئی ۔ وہی اس صلح و صفائی کا سفیر تھا۔ اس نے سمجھایا کہ ایسا نہ چاہیے۔ مہمان بلا کر دغاکروگے ۔ تو خاص و عام ہمیںکیا کہے گے ۔ اوراکبر جیسے با اقبال بادشاہ سے بگاڑنا خلاف مصلحت ہے۔ یہ خانخاناں نہ ہوگا اور خانخاناں بنا کر بھیج دے گا ۔ ان گنتی کے آدمیوں کو مار کر ہمارے ہاتھ کیا آئے گا ۔ اور ہمارے سر پر خود دشمن قوی موجود ہیں۔ جن کے روکنے کے لیے ہم نے یہ سد سکندر اٹھائی ہے ۔ اسے آپ کو گرانا ۔ عقل دور اندیش کے خلاف ہے ۔ وہ یہ کہتا ہے ۔ مگر افغان غل مچائے جاتے تھے ۔ منعم خاں کو بھی خبر پہنچی ۔ اس نے لودھی کو بلا کر صلاح کی لشکر کو وہیںچھوڑا ۔ اور چند آدمیوں کے ساتھ وہاں سے اڑ نکلے۔ جب بڑھیا پری شیشے سے نکل گئی ۔ تو دیوزادوں کی خبر ہوئی ۔ اپنی بد نے تی پر پچتائے۔ جلسے بیٹھے ۔ صلاحیں ہوئیں۔ آخر بایزید اور لودھی جریدہ خان خاناں کے پاس آئے۔ او ر اعزازو احترام کے مراتب طے کر کے چلے گئے۔ خانخاناں گنگا اتر کر تین منزل آئے تھے ۔ جو چتوڑ کا فتحنامہ پہنچا۔ پھرتو ان کا ایک زور دہ چند ہوگیا۔ لیکن ان کی سلامت روی نے سلیمان کو مطمئن کر رکھاتھا ۔ وہ اپنے حریفوں کے پیچھے پڑا ۔ اور سب کو دغا و جفا سے فنا کر دیا ۔ مگرچند ہی روز میں خود لقمہ فنا ہوگیا۔ جب کہ داؤد ملک سلیمان پر قابض ہوا۔ اور تخت پر بیٹھا ۔ باپ کا ایک خیال دماغ میں نہ رہا ۔ تاج شاہی سر پر رکھا ۔ بادشاہی کی ہوا میں اڑنے لگا۔ اپنے نام کا خطبہ پڑھوایا ۔ سکہ جاری کیا ۔ اکبر کو عرضی تک بھی نہ لکھ ی ۔ اور جو دربار اکبر ی کے لیے آئین عمل میںلانے تھے ۔ سب بھول گیا اکبر گجرات کو مار کر قلعہ سورت پر تھے ۔ کہ پھر خبریں پہنچیں۔ منعم خاں کو حکم پہنچا کہ داؤد کو دست کرو یا ملک بہارفورا فتح کر لو۔ سپہ سالار لشکر جرار لے کر گیا ۔ اور داؤد کو ایسا دبایا کہ اس نے لودھی ان کے قدیم دوست کو بیچ میںڈال کر دو لاکھ روپیہ نقد اور بہت سی اشیائے گراں بہا پیش کش گذرایں یہ جنگ کے نقارے بجائے گئے تھے۔ صلح کے شادیانے گاتے چلے آئے ۔ اکبر جب بندر سورت کا قلعہ فتح کر کے پھرا ۔ تو ہمت میں جوانی کا جوش و خروش ۔ اقبال کا سمندر طوفان اٹھا رہا تھا ۔ فتوحات موجوں کی طرح ٹکراتی تھیں۔ ٹورڈر مل کر منعم خاں کے پاس بھیجا۔ کہ خود جاکر ملک اور اہل ملک کی حالت دیکھو ۔ اور ان کے ارادوں پر غور کرو۔ منعم خاں سے بھی دریافت کرو کہ اس صورت حال کو دیکھ کر تمہاری کیا رائے ہے۔ وہ گیا اور جلد واپس آیا اور جو حالات معلوم کئے تھے سب بیان کئے یہاں فورا منعم خاں کے نام آغاز جنگ اور امرا کے لیے روانگی بنگالہ کے فرما ن جاری ہوئے۔ داؤد کی بد نصیبی سے اس کے منافق سرداروں کے ساتھ اس قدر جلد بگاڑ ہوا ۔ جس کی امید نہ تھی پیچ تو ہمیشہ سے چلتے تھے۔ اب چند ہاتھیوں پر داؤد کو لودی سے لڑ ادیا ۔ لودی نے ایسے ہی وقتوں کے لئے ادھر راہ نکال رکھی تھے ۔ منعم خاں سے مدد مانگی ۔ انہوں نے فورا چند سردار اور ایک فوج معقول روانہ کی۔چند روز کے بعد ان کی تحریریں آئیں۔ کہ وہ تو داؤد سے مل گیا ۔ اور ہمیں رخصت کر دیا۔ خاںخاناں بڑھاپے کے گریبان میںگردن جھکاے سوچ رہے تھے کہ اب کیا ہوگا۔ اور کرنا کیا چاہیے۔ ساتھ ہی ان کے مخبر خبر لائے کہ لودی کو داؤد نھے مروا ڈالا۔ یہ ایسے ہی موقع کی تاک میںتھے۔ فوج کشی کرنے میںتھا تو اسی کا کھٹکا تھا۔ فورا لشکر لے کر پٹنہ اور حاجی پور آئے۔ اب نوجوان کو آنکھیں کھلیں ۔ اور لودھی کی یاد آئی مگر اب کیا ہو سکتا تھا ۔ اسپ دولت بزیران تو بود مہرہ عیش بر مراد تو بود چوں تو کم تاختی کسے چہ کند لیک بد یافتی کسے چہ کند فصیل اور قلعہ پٹنہ کی مرمت شروع کر دی ۔ یہاں غلطی بہ کھائی۔ کہ تلوار میان سے نہیں نکلی۔ گولی بندوق میںنہیںپڑی۔ اور قلعہک بند ہو کر بیٹھ گیا خانخاناں نے محاصرہ ڈالا۔ اور بادشاہ کوعرضی کی کہ اس ملک میںلڑائی بے سامان دریائی کے نہیں ہوسکتی ۔ ادھر سے جھٹ جنگی کشتیاں ۔ جنگ دریائی کے سامان اور رسد فرواں سے بھر کرروانہ ہوئیں۔ بڈھا سپہ سالار خود بھی مدت سے تیار ی کررہاتھا ۔ اور ادھر ادھر فوجیں دوڑائیں۔ مگرنہایت احتیاط سے کام کرتا تھا ۔ جہاں کچھ بھی خطرہ دیکھتا تھا۔ جرات نہ کرتا تھا فورا پہلو بچاجاتاتھا ۔ روپیہ کی بھی کفایت کرتا تھا ۔ ہاں سامان جنگ اور رسد وغیر ہ کی ضرورت دیکھتا تو لاکھوں لٹاتاتھا۔ چنانچہ گورکھپور فتح کیا ۔ افغانوں کا یہ حال تھا ۔ کہ ایک جگہ سے پریشان ہوکر بھاگتے تھے ۔ دوسری جگہ اس سے زیادہ جمعیت اور استقلال کے ساتھ جم جاتے تھے۔ وہ سرداروں کو فوج دے کر مقابلے پر بھیجتا تھا او ر وقت پر خود بھی پہنچتا ت تھا مگر ساتھ ملا لینے کی تاک میں رہتا تھا۔ پٹنہ کے محاصرہ نے طو ل کھینچا ۔ خان خاناں نے عرضی کی ۔ کہ اگرچہ لڑائی جاری ہے ۔ اور جاں نثار حق نمک ادا کر رہے ہیں۔ مگر برسات نزدیک ہے ۔ جتنا جلد فیصلہ ہو اتنا ہی مناسب ہے اور جب تک حضور نہ آئیں یہ آرزو نہ بر آئے گی ۔ بادشاہ نے اسی وقت ٹوڈرمل کو روانہ کیا ۔ اور مہمات اطراف کا بندوبست کر کے حکم دیا کہ لشکر تیار ہو۔اور اس سفر کی مسافت دریا میں طے ہو۔ لشکر آگرہ سے خشکی کے رستے روانہ ہوا۔ اور آپ معہ بیگمات اور شہزادے ہائے کا مگا را اور امراے باوقار کشیتوں پر سوار ہوئے۔ بادشاہ جوان اقبال جو ان ارکان دولت جوان ابو الفضل فیضی ملا صاحب انہی دنوں دربار میںپہنچے تھے فتح و اقبال اشارے کے منتظر ۔ عجب شان و شکوہ سے چلے ۔ دریا میں عیش کا دریا بہا جاتاتھا ۔ اس سواری کاتماشہ دیکھنا ہو توملا صاحب ۱؎ کے حال میں دیکھو۔ کہ اکبر بلکہ خاندان چغتائی میں کسی کو ایسا موقع نصیب نہ ہوا ہوگا۔ منعم خاں ہر طرف تدبیر کے گھوڑے دوڑاتے تھے۔ اورافغانوں کو ملاتے تھے ۔ جو قابو میںنہ آتے تھے انہیں دباتے تھے۔ ان کے لشکر کو بڑی مصیبت پڑتی ۔ مگر حسین خاں پنی جو ادھر سے آکر ملا تھا۔ ا س سے یہ نکتہ ہاتھ آیا ۔ کہ برسات میں دریا بہت چڑھے گا ۔ اس لئے پن پن کا بند توڑ دینا چاہیے۔ کہ پانی گنگا میںجا گرے۔ یہ بند استاد نے اسی غرض سے باندھا تھا ۔ کہ پانی قلعے کے گرد آجائے غنیم آئے یہاں تو ٹھیرے نہ سکے ۔پٹنہ میںحاجی پور سے رسد برابر پہنچ رہی تھی ۔ چاہا کہ پہلے حاجی پور کو فتح کرلیں۔مگر فوج ایسی وافر نہ تھی ۔ اس لیے ارادہ رہے گا۔ دیکھو صفحہ نمبر۴۳۴ داؤد نے بھی بند کی حفاظت کے لئے بڑی احتیاط سے فوج رکھی تھی ۔ مگر مجنون خاں رات کی سیاہ چادر اوڑھ کر اس پھرتی سے کام کر آیا کہ نیند کے مستوں کو خبر نہ ہوئی ۔ وہ شرم کے مارے ایسے بھاگے کہ داؤد کے پا س تک نہ جاسکے ۔ آوارہ و سر گرداں گھوڑا گھات پہنچے۔ بادشاہ منزل بمنزل خشکی و تری کی سیر کرتے ۔ شکار کھیلتے چلے جاتے تھے ۔ ایک دن داس پور کنار گنگا پر سرسول تھی ۔ کہ اعتما د خاں خواجہ سرا لشکر گاہ سے پہنچا۔ لڑائی کا حال عرض کیا ۔ اور اس کا بیان سے غنیم کا نہایت زور ظاہر ہوا۔ میر عبد الکریم اصفہانی کوبلا کر سوال کیا ۔ انہو ںنے حساب کر کے کہا ؎ بزودی اکبر ازبخت ہمایوںن برد ملک از کف داؤد بیروں بلکہ جب بادشاہ فتح پور سے آگرہ میں آکر سامان روانگی کر رہے تھے۔ اسی وقت میرنے یہ حکم لگایا تھا؎ گرچہ باشد لشکر جرار بے حدو شمار لیک باشد فتح و نصرت در قدوم شہریار شیر پور پر ٹورڈرمل بھی حاضر ہوئے ۔ اور مہر مورچے کا حا ل مفصل بیان کیا۔، منعم خان کی طرف سے حضوری کے باب میںعرض کی ۔ فرمایا کہ س سے زیادہ استقبال نہ کریں۔ کہ محاصرے کا مدا ر انہی پر ہے ۔ سب امرا اپنے اپنے مورچے پر قائم رہیں۔ ٹورڈرمل رات ہی رات رخصت ہوئے۔ یہ سفر دو مہینے دس دن میںختم ہوا۔ کوئی نقصان ایسانہیں ہوا۔ کہ قابل تحریر ہو۔ البتہ چند کشتیاں طوفان گرداب میں آکر بتا سہ کی طرح بیٹھ گئیں۔ جب بادشاہ چھاؤنی کے سامنے پہنچے ۔ توخانخاناں نے بہت سی کشتیاں اور نواڑے سامان آرائش کے ساتھ جنگی آتش بازی سے سجائیں خود استقبال کو چلا ۔ توپ خانوں پر گولہ انداز قواعد او رنظام کے ساتھ بیٹھے ۔ رنگ رنگ کی بیرقیں لہرا تی بڑی شکوہ شان سے آیا ۔ اور رکا ب کو بوسہ دیا حکم ہوا تمام توپوں کو مہتاب دکھا دو۔ توپوپخانوں نے بھی اس زمانے سے سلامی تاری۔ کہ زمین میںبھونچال آگیا۔ اور کوسوں تک دریا دھواں دھا ر ہوگیا ۔ نقاروں کاغل۔ دماموں کی گرف ۔ کرناکی کڑک۔ قلعے والے حریان ہو کر دیکھنے لگے کہ قیامت آگئی ۔ چھاؤنی پنچ پہاڑی پر تھی ۔ کہ دریا سے اس طرف ہے ۔ بادشاہ منعم خاں ہی کے ڈیروں میں آئے ۔ اس نے بڑی طمطراق سے آرائش کی تھی ۔ سونے کے طبق جواہر اور موتیوں سے بھر کر کھڑا ہوا۔ لپ بھر بھر کر نچھاور کرتا تھا اور کہتاتھا ؎ کلاہ گوشئہ دہقان بہ آسمان رسید کہ سایہ برسرش افگند چوں تو سلطانے نفیس تحائف ۔ گراںبہا جواہر نذر گذرانے۔ کہ حدو حساب سے باہر تھے پرانے پرانے امیر خدمتگار بابر ی نئے نئے نوجوان جاں نثار اکبر ی کہ مہینوں ہوئے خدمت سے محروم تھے ۔ سلینوں میں جوش وفا ۔ دلوں میں شوق ۔ منہ میں دعا ۔ بچوں کی طرح دوڑے آئے۔ جھک جھک کر سلام کرتے تھے۔ اور دل شوق بندگی کے مارے قدموں میںلوٹے جاتے تھے ؎ کیا تڑپنا دل مضطر کا بھلا لگتا ہے جب اچھلتا ہے ترے سینے سے جا لگتا ہے اکبر ایک ایک کو دیکھتا تھا۔ نام لے لے کر حال پوچھتا تھا ۔ اور نگاہیں کہتی تھیں کہ دل میں وہی محبت لہراتی ہے ۔ جو ماں کے سینے سے دودھ بن کر پیار ے بچوں کے منہ پر ٹپکتی ہے۔ غرض سب اپنے اپنے خیموں اور مورچوں کو رخصت ہوئے۔ دوسرے دن بادشاہ سوار ہوئے۔ اور مورچوں پر پھر کو قلعے کا ڈھنگ اور لڑائی کا رنگ دیکھا یہی صلاح ہوئی ۔ کہ پہلے حاجی پور کا فیصلہ کیاجائے پھر پٹنہ کا فتح کر لینا آسان ہے ۔ چنانچہ خان عالم کو چند سرداروں کے ساتھ تعینات کیا۔ خان خانان نے ا یک ایلچی داؤد کے پاس بھیجا تھا۔ اور بہت سی نصیحتیں وصیعتیں کہلا بھیجی تھیںجن کا خلاصہ ہے کہ خان فرزند ابھی تک اختیار تمہارے ہاتھ میں ہے ۔ اپنی صورت حل کو دیکھا ۔ اکبری اقبال کو سمجھو۔ اتنی جانتیں برباد ہوئیں بہتر ہے کہ اور خون نہ ہوں۔ مال و ناموس خلائق پر رحم کرو۔ جوانی اور سرخوشی کی بھی حد ہوتی ہے۔ بہت کچھ ہوچکا اب بس کرو کہ عالم کی تباہی حد سے گزر چکی ہے ۔ اس دولت خداداد کے دامن سے اپنی گردنیں کیوں نہیں باندھ دیتے کہ سب مصلحتیں پوری ہوجائیں۔ لڑکا سرتا تھا ۔ اس نے بہت سوچ سوچ کر ایلچی کورخصت کیا۔ اور اپنا معتبر ساتھ کیا۔ چنانچہ وہ بھی اسی دن حاضر حضور ہوا۔ خلاصہ جواب یہ کہ حاشاوکلا سرداری کا بار اپنے سر پر لینے کی خوشی نہیں۔ مجھے لودی نے اس بلا میں ڈالا۔ اور وہ اس کی سزا کو پہنچا ۔ اب عقیدت بادشاہی میرے دل پر چھا گئی ہے ۔ جتنی جگہ جس جگہ ملے قناعت اور سرمایا سعادت ہے ۔ خورد سالی اور مستی جوانی میں یہ حرکت ہوگی ۔ کہ منہ نہیں دکھا سکتا ۔ اور جب تک کوئی خاطر خواہ خدمت کر کے سر خرو نہ ہوں۔ حاضر نہیں ہوا جاتا۔ بادشاہ سمجھ گئے کہ لڑکا چالاک ہے اور نیت درست نہیں۔ ایلچی سے کہا کہ اگر داؤد صدق دل عقید ت رکھتا ہے توابھی چلائے۔ یہاں انتقام کا کبھی خیال نہیں ہوا۔ اگر نہیںآنا تو تین صورتیں ہیں (۱) یاتو وہ ادھر سے آئے۔ ہم ادھر سے آتے ہیں ایک ادھر کا سردار ادھر آجائے۔ اور ایک ادھر کا سردار ادھر جائے۔ دونوں لشکروں کو روکے رہیں کہ کوئی اور دلاور باہر نہ جائے پائے۔ ہم دونوں بخت آزمائی کے میدان میںکھڑے ہیں۔ اور جس حربہ سے وہ کہے قسمت کے ہاتھوں سے لڑائی کا فیصلہ کرلیں (۲) یہ نہیں تو ایک سردار جس کی قوت اور دلاوری پر اسے پورا بھروسا ہو۔ ادھر سے اور ایک ادھر سے نکلے۔ جو فتح پائے اس کے لشکر کی فتح (۳) اگر اس فوج میںایسا کوئی نہ ہو۔ تو ایک ہاتھی ادھر کالو اور ایک ادھر کا لو اور لڑا دو۔ جس کا ہاتھی جیتے اس کی فتح۔ وہ ایک بات پر راضی نہ ہوا۔ بادشاہ نے ۳ ہزار سوار جرار عین طوفان آب میںکشتیوں پر سوار کئے۔ قلعہ گیری کے اسباب ز بنورک ۔ رہکلے ۔ بان ۔ جزائل ۔ توپ تفنگ۔ عجیب و غریب حربے اور بہت سا میگزین دیا۔ اور یہ سب سامان اس دھوم دھامک اور آرائش و نمائش سے روم و فرنگ کے باجوں کے ساتھ روانہ ہوا۔ کہ کان گونجتے تھے اور دل سینوں میں جوش مارتے تھے۔ بادشاہ خود پہاڑی پر چڑھ گئے اور دوربین لگائی ۔ میدان جنگ گرم تھا ۔ اکبری بہادر قلعہ شکن حملے کر رہے تھے۔ اور قلعہ والے جواب دے رہے تھے۔ قلعے کی توپوں کے گولے اس زور سے آتے تھے ۔ کہ تین کوس پر سرا پردہ تھا۔ بیچ میں دریا بہتا تھا اور وہ دوسروں پر سے جاتے تھے ۔ جاں نثاروں نے سن لیا تھا ۔ کہ جوہر شناس ہمار ا چشم دور بیں سے دیکھ رہا ہے ۔ اسی طرح جان توڑ کر دھاوے کرتے تھے ۔ کہ بس ہو۔ تو گولا بنیں اورقلعے میں جاپڑیں۔ یہاں سے لشکروں کے ریلے دکھائی دیتے تھے۔ آدمی نہ پہنچا نے جاتے تھے ۔ بات یہ تھی کہ چڑھاؤکے مقابل سے پانی کا سینہ توڑ کر کشتیوں کو لے جانا سخت محنت اور دیر چاہتا تھا ۔ مگرپرانے ملاحوں نے خان عالم کی رہنمائی کی ۔ بڑے بڑے دلاور سردار ، سورما سپاہی چن کر کشتیوں پر سوار کئے۔ کچھ دن باقی تھا ۔ کہ ملاحوں نے چڑھاؤ کے سینے پر کشتیوں کو چڑھانا شروع کیا ۔ پانی کی چادر اوڑھ لی اور منہ پر دریا کا پاٹ لپیٹا ۔ راتوں رات ایک ایسی نہر میں لے گئے ۔ کہ عین حاجی پور کے نیچے آکر گرتی تھی پچھلی رات باقی تھی ۔ کہ بیڑا یہاں سے چھوٹا ۔ صبح ہوتے جس غل سے قلعہ والے اٹھے ۔ وہ شور قیامت تھا۔ سب گرداب حیرت میں ڈوب گئے۔ کہ اتنی فوج کدھر سے آئی اور کیونکر آئی ۔ انہوں نے بھی گھبرا کر کشتیاں تیا رکیں ۔ اور مقابلے پر پہنچے کہ طوفان کوآگے بڑھنے دیں۔ پہلے افسرپوں اور بندوقوں نے پانی پر آگ برسائی ۔ لڑائی بہت زور پر تھی ۔ اور فی الحقیقت اس سے زیادہ جان لڑانے کا وقت کونسا ہوگا۔ عصر کا وقت تھا ۔ کہ اکبری شفقت کا دریا چڑھاؤ پر آیا ۔ بہت سے بہادر انتخاب کئے۔ کہ کشتیوں پر سوار ہو کر جائیں۔ او رمیدان جنگ کی خبرلائیں قلعہ والوں نے دیکھ کر اوپر سے گولے برسانے شروع کئے۔ اور اٹھارہ کشتیاں ان کے روکنے کو بھیجدیں بیچ منجدھار میںٹکرہوئی۔دیکھ گئے تھے ۔ کہ بادشاہ ہمار ا دیکھ رہا ہے ۔ دریاکے دھوئیں اڑائے اور آگ برساتے پانی پر سے ہوا کی طرح گزر گئے ۔ حریف دیکھتے ہی رہ گئے پھر بھی چڑھاؤ کی چھاتی توڑ کر جانا کچھ آسان نہ تھا ۔ اور کمک کو غنیم نے دریا میں روک رکھا تھا ۔ دور ہی سے مقام جنگ پر گولے مارنے شروع کئے۔ ان کے گولوں نے غنیم کی ہمت کا لنگر توڑ دیا۔ اورکشتیاں ہٹانی شروع کیں۔ اب کمک کے ملاح پہلو کاٹ کر چلے ۔ اگرچہ قلعے سے گولے پڑنے شروع ہوئے۔ مگر یہ بھاگا بھاگ ایک موقع کے گھاٹ پر جا پہنچے ۔ اور وہاں سے کشتیوں کو چھوڑا کہ تیر کی طرح سیدھی معرکہ جنگ پر آئیں۔ بادشاہی فوج کناروں پر اتری ہوئی تھی اور سینہ بہ سینہ لڑائی ہورہی تھی ۔ افغانی سرداروں نے کوچہ بندہ کر کے بھی لڑائی ڈالی ۔ مگرتقدیر سے کون لڑسکے ۔ خلاصہ یہ کہ حاجی پور فتح ہوگیا ۔ اور بادشاہی فوج قلعے پر قابض ہوگئی ۔ اس فتح سے داؤد کا لوہاٹھنڈا ہوگیا۔ باوجودیکہ بیس ہزار جرار اور جنگی ہاتھی مست بے شمار اور توپ خانہ آتش بار ساتھ تھا ۔ رات ہی کو کشتی میںبیٹھا اور پٹنی سے نکل کر لوگوں کوبھاگ گیا۔ سر ہر بنگالی جس کی صلاح سے لودھی کو مار کر بکر ماجیت خطاب دیاتھا ۔ اس نے کشتیوں میںخزانہ ڈالا اور پیچھے پیچھے روانہ ہوا۔ گوجر خاں کرارانی جس کا رکن الدولہ خطاب تھا۔ جو کچھ اٹھا سکا اٹھایا ۔ وہ ہاتھیوں کو آگے ڈال کرخشکی کے رستے بھاگ گیا ۔ ہزاروں آدمی کی بھیڑ دریا میں کود کو دپڑی اور طوفان اجل کے ایک جھکولے میں ادھرسے ادھر پہنچی ۔ ہزار در ہزار آدمی گھبرا گھبرا کر برجوں اورفصیلوں پر چڑھ گئے ۔ اور وہاں سے کود کر گہری خندق کابھراؤ ہوگئے ۔ بہتیرے سے کوچہ و بازار میںہاتھی گھوڑوں کے نیچے پاما ل ہوگئے ۔ ویران طیران جب دریائے پن پن پر پہنچے توگوجر خاں نے ہاتھیوں کو آگے ڈالا اور پل سے اتر گیا۔ بھیڑ کایہ عالم تھا ۔ کہ پل بھی بوجھ نہ اٹھا سکا۔ آخر ٹوٹ گیا ۔ بہتیر سے نامی گرامی افغان تھے ۔ کہ اسباب اور ہتھیار پھینک ننگے پانی میں گرے اور گرداب اجل میں چکر مارکر بیٹھ گئے۔ سر تک نہ نکالا۔ پچھلا پہر تھا کہ خانخاناں نے آکر خبردی ۔ بہادر بادشاہ اسی وقت تلوار پکڑ کر اٹھ کھڑا ہوا ۔ خانخاناں نے عرض کی۔ کہ صبح کو حضور اقبال کا قدم شہر میںرکھیں ۔ کہ خبر بھی تحقیق ہوجائے اور احتیار کی باگ بھی ہاتھ میںرہے اکبر شعاع آفتاب کے ساتھ دہلی دروازے کے رستے پٹنہ میں داخل ہوا۔ اور نظر عبرت سے داؤد کے محلوں کو دیکھا ۔ تاریخ ہوئی ۔ فتح بلا پٹنہ ۔ مگر دوسرا نگینہ نگیں سلیمان ہے ۔ع کہ ملک سلیماں زاوؤد رفت خلوت کے چمن میں حکم ہوا۔ مشورت کی بلبلیں آئیں کہ بنگالہ کے لئے کیا صلاح ہے۔ بعض کا زمرد ہواکہ برسات میںملک مقبوضہ کا بندوبست ہو۔ جاڑے کی آمد میں بنگالی پر خونریزی سے گلزار کا خاکہ ڈالا جائے۔ بعض نے نغمہ سرائی کی کہ غنیم کو دم نہ لینے دو۔ اڑجائیں اورچھری کٹاری ہوجائیں کہ یہی بہار ہے۔ فتح کے گلچین اور سلطنت کے باغبان نے کہا کہ ہاں یہی ہانک سچی ہے ۔ ساتھ ہی خاں خاناں نے التجا کی۔ اس واسطے اسی کو مہم سپر د ہوئی ۔ چنانچہ دس ہزار لشکر خونخوار ۔ امرا ۔ بیگ اور بیگچے سب کمک کے لئے ساتھ دینے ۔ او ر سپہ سالاری منعم خاں کے نام پر قرار پائی ۔ کشتیاں اورآتش خانے جو ساتھ آئے تھے ۔ سب عطا ہوئے ۔بہار کا ملک اسکی جاگیر ہوا۔ بعد اس کے جاں نثاروں اور وفاداروں کو جاگیریں اور انعام خلعت و خطاب ہر ایک کی خدمت درجے کے لائق دیکر آپ دریا کے رستے آئے تھے ۔ اسی رستے شادیانے بجائے فتح کے بادبان اڑتے خوشی کی لہریں بہاتے دارلخلافہ کو روانہ ہوئے۔ سالہا سال سے وہ ملک افغانستان ہورہا تھا۔ داؤد سراسیمر ہو کر بنگالہ کے رخ بھاگا ۔ خان خاناں اور ٹورڈرمل چھاؤنی ڈال کر ٹانڈہ میں بیٹھے ۔ ٹانڈہ گورکے مقابل میں گنگا کے داہنے کنارے پر ہے اور بنگالہ کا مرکز ہے۔ ادھر ادھر سرداروں کو پھیلا دیا اور وہ جابجا لڑتے تھے ۔ افغان شکستیں کھاتے تھے۔ مضبوط اور مستحکم مقاموں کو چھوڑتے تھے اور جنگلوں میں گھس جاتے تھے ۔ پہاڑوں پر چڑھ جاتے تھے ۔ ایک جگہ سے بھاگ جاتے تھے ۔ دوسری جگہ جم جاتے تھے ۔ کہیں بھاگتے تھے ۔ کہیں بھگا تے تھے ۔چنانچہ اول سورج گڈھ فتح ہوا ۔ پھر منگیر مارا۔ ساتھ ہی بھاگل پور اور پھر کھل گاؤں لیا۔ گڑھی باوجود قدرتی استحکام کے لیے جنگ ہاتھ آئی ۔ وہ ملک بنگالہ کا دروازہ ہے۔ اس کے ایک پہلو کو پہاڑ نے دوسرے کو پانی نے مضبوط کیا ہے ۔ انہوں نے دو طرف سے دبا کر ایسا تنگ کیا کہ بے جنگ ہاتھ آگیا ۔ خان خاناں کی جاگیر پہلے بہار میںتھی اب بنگالہ میں کردی ۔ اس نے خواجہ شاہ منصور اپنے دیوان کو وہاں بھیجدیا خبرآئی کہ داؤد ٹاندہ پہنچا ہے۔ وہاں بیٹھے گا ۔ اور ادھر کے مقامات کا استحکام کر رہا ہے ۔ محمد قلی خاں بر لاس کو کہ پرانا امیر اور کہنہ عمل سپاہی تھا۔ فوج دیکر ادھر روانہ کیا ۔ اور آپ ٹانڈہ میں بیٹھ کر ملک کے بندوبست میں مصروف ہو اکہ مرکز ملک کاتھا۔ افغانوں کو جو خرابی نصیب ہوئی فقط آپس کی پھوٹ سے ہوئی ۔ لودی کو داؤد نے مروا ڈالا تھا اور گوجر سے بگاڑ تھا ۔ ایک موقع ایسا پڑا کہ اتفاق کے فائدے کو دونوں نے سمجھا۔ اور آپس میں صفائی ہوگئی صلاح یہ ٹھیری کہ دونوں مل جائیں او رفوجیں ملا کر لشکر شاہی سے مقا بلہ کریں۔ شائد نصیبہ یاوری کرنے داؤد نے کٹک بنارس کو مضبوط کر کے اہل و عیال کو وہاں چھوڑا۔ اوردونوں سردار لشکر خونخوار درست کرکے مقابلہ کو چلے۔ خانخاناں سنتے ہی ٹانڈہ سے روانہ ہوا۔ اور ٹورڈر مل کے لشکر کے ساتھ شامل ہوکر کٹک بنارس کارخ کیا ۔ رستے میں دونوںلشکروں کا مقابلہ ہوا۔ افغانوں کو شیر شاہ کا پڑھایا ہوا سبق یاد تھا ۔ لشکر کے گرد خندق کھود کر قلعہ باندھ لیا۔ اس طرح کئی دن تک لڑائی جاری رہی ۔ طرفین کے بہادر نکلتے تھے ۔ افغان ہمت مردانہ کرتے تھے ۔ ۱؎ تاثر الامراء میں ۲۰ ہزار لشکر ہے ترک ترکتاز دکھاتے تھے۔ لڑائی کی انتہا نظر نہ آتی تھی ۔ دونوں حریف تنگ ہو گئے ۔ ایک دن میدان میں صفیں جماکر فیصلہ کے لئے آمادہ ہوئے۔ ہاتھی بنگالہ کی ہری گھاسیں کھا کر افغانوں سے سو امست ہورہے تھے۔ پہلے وہی بڑھے۔ خانخاناں بھی اکبری امرا کو دائیںبائیں اور پس و پیش جمائے بیچ میںآپ کھڑا تھا۔ لیکن ستارہ اس دن سامنے تھا۔ اور انہیں پہلے ستارہ آنکھیں دکھا چکاتھا ۔ اس لئے لڑائی کا ارادہ نہ تھا حکم دیا کہ آج حریف کے حملے کودور دور سے سنبھالو۔ ہاتھیوں تو توپوں اور زنبوروں سے روکو۔ آگ کی مار خدا کی پناہ ۔ حریف کے کئے نامی ہاتھی آگے بڑھے تھے الٹے ہی پھر گئے ۔ اور اکثر اڑ گئے ۔ بہت سے نامور افغان ان پر سوار ہو گئے ۔ گوجر خاں داؤد کی فوج پیش قدم کا سردار تھا۔ وہ حملہ کر کے ہر اول پر آیا ۔ خان عالم سردار ہر اول نوجوان سردار تھا ۔ اس کی جرات دیکھ کر نہ رہ سکا اور حملہ کیا ۔ لیکن دلاوری کے جوش میںبہت تیزی کر گیا اس کی فوج بندوقیں خالی کرتی جاتی تھی ۔ خانخاناں روک تھام کے انتظام میں تھے ۔ یہ حال دیکھ کر آدمی بھیجا کہ فوج کو روکو۔ یہاں اس کے دلاور غنیم پر جا پڑے تھے۔ بڈھے سپہ سالار نے جھنجھلا کر پھر سوار دوڑایا اور بتا کید کہلا بھیجا کہ کیا لڑکپن کرتے ہو۔ جلد فوج کو پھیر لاؤ۔ وہاں لڑائی دست و گریبان ہوگئی تھی ۔ اور صورت یہ تھی کہ گوجر خاں نے بہت سے ہاتھیوں کو سامنے رکھ کر حملہ کیا تھا ۔ سراگائے کی دمیں ، چیتوں شیروں ، اورپہاڑی بکرونکی کھالیں جن کے چہروں پر سینگ اور دانت تک بھی موجود تھے۔ ہاتھیوں کے چہروں پر چڑھائے تھے ۔ترکوں کے گھوڑوں نے نہ یہ صورتیں دیکھی تھیں ۔ نہ یہ بھیانک آوازیں سنی تھیں ۔ بد ک بدک کر بھاگے اور کسی طرح نہ تھم سکے ۔ فوج ہر اول ہٹ کر اور سمٹ کر مقدمہ لشکر میں جا گھسی ۔ سردار ہر اول (خان عالم )ثابت قدمی سے کھڑا رہا مگر ایسا گرا کہ قیامت ہی کو اٹھے گا ۔ کیونکہ حریف کا ہاتھی آیا اور اسے پامال کر گیا ۔ افغانوں نے خوشی کا شور و فغان کیا او رگوجر خاں نے انہیں لے کر اس زور سے حملہ کیا کہ سامنے کی فوج کور ولتا ہوا ۔ قلب میں جا پڑا۔ یہاں خود خانخاناں امرائے عالی شان کو لئے کھڑا تھا بڈھوں نے جوانوں کو بہت سنبھالا ، مگر سنبھلے کو ن؟ گوجر مارا مارا بگ ٹوٹ چلا آتا تھا سیدھ اآیا اور اتفاق یہ کہ خانخاناں ہی سے مٹ بھیڑ ہوگئی ۔ بے وفا پلا ؤ خور بھاگ گئے۔ اور گوجر نے برابر آکر کئی ہاتھ تلوار کے مارے ۔ یہاں خان خا ناں کمر میںدیکھتے ہیں تو تلوار بھی نہیں۔ غلام جو تلوار لئے رہتا تھا ۔ خدا جانے کہاں کا کہاں جا پڑا۔ کوڑا ہاتھ میںتھا وہ تلواریں مارتا تھا ۔ یہ کوڑے سے پیش آتے تھے ۔ سرد گردن اور بازو پر بھی زخم کھائے ۔ اور زخم بھی کاری کھائے ۔ اچھے ہونے پر بھی کہا کرتا تھا ۔ کہ سرکا زخم اچھا ہوگیا ہے ۔ مگر بینائی بگڑ گئی۔ گردن کا گھاؤ بھر گیا ہے ۔ مگر مڑ کر نہیںدیکھ سکتا ۔ کندھے کے زخم نے ہاتھ نکما کر دیا۔ اچھی طرح سر تک نہیں جاسکتا ۔ باوجود اس کے پھرنے کا خیال تک نہ تھا ۔ کئی امرا رفاقت میںتھے وہ بھی زخمی ہوگئے۔ اس عرصے میں حریف کے ہاتھی بھی آپہنچے ۔ اور خانخاناں کاگھوڑا ہاتھیوں سے بدکنے لگا۔ روکا مگر بے قابو ہوگیا ۔ آخر ٹھوکر بھی کھائی۔ کچھ نمک حلال نوکروں نے باگ پکڑ کر کھیچنی کہ ٹھیر نیکا موقوع نہیں: ا س بچارہ کو فکر یہ کہ میںسپہ سالار ہوکر بھاگو نگا۔ تو سفید ڈاڑھی لیکر کسے منہ دکھاؤنگا ۔ خیر اس وقت انکی درد خواہی غنیمت ہوئی۔ اس طرح بھاگے کے گویافوج والوں کو فراہم کرنے گئے ہیں۔ گھوڑا دوڑائے تین چار کوس بھاگے گئے ۔ اور افغان بھی ارووے بادشاہی تک دبا ئے چلے آئے۔ تمام خیمے اور سارا بازار لٹ گیا ۔ مگربادشا ہی سردار کو بھاگ کر چاروں طرف کھنڈ گئے تھے ۔ کچھ دو ر جاکر ہوش میں آئے پھر پٹنے اور افغان جو مارا مارا چیونٹیوں کی قطار چلے جاتے تھے ۔ ان کے دونوں طرف لپٹ گئے ۔ برابر تیروں سے چھیدتے چلے جاتے تھے ۔ اور اس لمبے تاتنے کی گنڈیریاں کترتے جاتے تھے ۔ نوبت یہ ہوئی کہ اپنے بیگانے کسی میں سکت نہ رہی۔ اور افغان خود تھک کر رہ گئے ۔ گوجر پٹھا نو نکو ہکارتا اور للکارتا تھا کہ مار لو مار لو۔ خانجہاں کو تو مار لیا ہے ۔ اب تردد کیا ہے ۔ باوجود اس کے مصاحب جو برابر میںتھے۔ ان سے کہتا تھا کہ فتح ہوگئی مگر دل کا کنول نہیں کھلتا تھا۔ کہ اتنے میں اسے مدد غیبی کہو خواہ اکبری اقبال سمجھو کہ کسی کمان سے ایک تیر چلا جو گوجر خاں کی جان کے لئے قضا کا تیر تھا اس نے فتح یاب بہادر کو گھوڑے سے گرا دیا ۔ ساتھیوں نے سر پر سردار نہ دیکھا تو بے سرو پا بھاگے ۔ یا تو افغان مار امارا چلے جاتے تھے یا خود مرنے لگے ۔ اس الٹ پلٹ میںخان خاناں کو ذرا سی فرصت نصیب ہوئی تو ٹھیر کر سوچنے لگا کہ کچھ کرنا چاہیے ۔ اور کیا کرنا چاہیے؟ اتنے میں ا سکا نشا نچی بھی نشان لئے ۔آن پہنچا۔ ساتھ ہی غل ہو اکہ گوجر خاں مارا گیا ۔ خانخاناں نے گھوڑا پھیرا ۔ اور ادھر ادھر جو دلاور تھے ۔ وہ بھی اکٹھے ہوگئے ۔ جو افغان تیر کے پلے پر نظر آیا ا سے رونا شروع کیا۔ قلب پر جو گذری سو گزری ۔ مگر لشکر بادشاہی ٹورڈرمل اپنے لشکر کو لئے دائیں پر کھڑے تھے ۔ اور شاہم خاں جلائر بائیں پر ۔ یہاںخان عالم کے ساتھ خانخاناں کے بھی مرنے کی اڑ گئی تھھی ۔ لشکر کے دل اڑے جاتے تھے۔اور یہ رنگ جمائے جاتے تھے ۔ ادھر گوجر کی کامیابی دیکھ کر داؤد کا دل بڑھ گیا ۔ اور فوج کو جنبش دی۔ تاکہ دائیں سے دہکا دیکرگوجر سے جاملے۔ راجہ اور شاہم نے جب یہ طور دیکھا تو اس طرح کھڑے ہونا اپنا بھی مناسب نہ دیکھا گھوڑے اٹھائے اور توکل بخدا افغانوں کے دائیںبائیں پر جاگرے ۔ جس وقت ٹورڈرمل اور داؤد میںلڑائی ترازو ہورہی تھی ۔ سادات بارہہ کے سردار حریف کے دائیں بازو پر ٹوٹ پڑے۔ اور اسے برباد کر کے اپنے دائیں کی مد د کو پہنچے ۔ یہ حملہ اس زور کا ہوا۔ کہ غنیم کے دونوں بازوؤں کو توڑ کر قلب میںپھینک دیا ۔جہاں داؤد سپہ سالاری کا چتر چمکا رہا تھا ۔ اسکے جنگی اور نامی ہاتھی صف باندھے کھڑے تھے انہیں ترکوں نے تیروں سے چھلنی کر دیا ۔ اور اس کی جمعیت میںہل چل پڑ گئی ۔ اتنے میں نقارہ کی آواز آئی۔ اورخان خاناں کا علم کہ فتح کا نمودار نمونہ تھا۔ دور سے آشکار ہوا ۔ امرا اور افواج شاہی کے گئے ہوئے ہوش ٹھکانے آگئے۔ داؤد کو جب خیر پہنچی کہ گوجر خاں مارا گیا ہے۔ رہے سہے حواس بھی اڑ گئے اور لشکر کے قدم اٹھ گئے ۔ تمام اسباب اور سامان اور بڑے بڑے دل بادل ہاتھی برباد کر کے سیدھا کٹک بنارس کو بھاگ گیا۔ خانخاناں نے خدا کی درگاہ میںشکر کے سجدے کئے کہ بگڑی بات کا بنانے والا وہی ہے ۔ ٹورڈرمل کو کئی سرداروں کے ساتھ اس کے پیچھے روانہ کیا ۔ اور خود اسی منزل میں مقام کر کے زخمیوں کے اور اپنے علاج میںمصروف ہوا۔ ہزاروں افغان تتر بتر ہو گئے۔ سرداروں کو پھیلا دیا او ر تاکید کیکہ ایک کو جانے نہ دیں۔ میدان جنگ میں ان کے سروں سے مدکلہ مینار بلند کئے کہ فتح کی خبر آسمانکل تک پہنچائیں۔ داؤد کٹک ۱؎ بنارس میںپہنچ کر قلعے کے استحکام میں مصروف ہوا۔ مفسد پھر فراہم ہوکر اس کے ساتھ ہوگئے ۔ یہ بھی گفتگو ہوئی ۔ کہ جو شکست پڑی بعض بے احتیاطیوں سے پڑی ہے ۔ مفسد پھر فراہم ہوکر اس کے ساتھ ہوگئے ۔ یہ گفتگو ہوئی ۔ جو شکست پڑی بعض بے احتیاطیوں سے پڑی ہے۔ اب کے بندوبست سے کام کرنا چاہیے۔ اس نے دل میں ٹھان لی ۔ کہ مرجانا ہے ۔ یہاں بھاگنا نہیں۔ لیکن خان خاناں کو گھر میںمہم پیش آئی۔ اول تو مدت سے بادشاہی لشکر سفر میں خانہ بربار پھرتاتھا۔ دوسرے بنگالہ کی بیماری اور مرطوب ہوا سے تنگ تھے۔ اس لئے سپاہی سے لیکر سردار تک سب گھبراگ ئے ۔ راجہ ٹورڈرمل نے ہر چند تسلی اور دلاسے کے منتر پھونکے ۔ اور دلاوری کے نسخوں سے مرد بھی بنایا ۔ مگرکچھ اثر نہ ہوا خانخاناں کو سب حال لکھا اور کہلا بھیجا کہ تمہارے آئے بغیر کچھ نہیں ہو سکتا۔ اقبال شہنشاہی سے کام بن چکا ہے ۔ لیکن کام چوروں کی بے ہمتی سے پھر مشکل ہوجائے گا ۔ ان لوگوں سے کچھ امید نہیں خانخاناں کے زخم ابھی ہرے تھے ۔سنگھاسن پر بیٹھ کر روانہ ہوا۔ سامنے جاکر ڈیرے ڈال دئیے۔ لالچ کے بھوکوں کو روپے اشرفی سے پر چایا ۔ غیرت والوں کو اونچ نیچ دکھا کر سمجھایا ۔ اور وہی اپنا الصلح خیر کا ختم شروع کیا ۔ غنیم کو بھی بے سامانی اور سرگردانی نے تنگ کر دیا تھا ۔ پیغام سلام دوڑنے لگے کئی دن وکیلوں کی آمد ورفت اور گفتگوؤں کی ردو بدل ہوئی۔ یہاں بھی امراکے ساتھ مشورے ہوتے رہے ۔ اکثر امرا راضی تھے کہ جلد فیصلہ ہو او ر صحیح سلامت گھروں کو پھریں۔ ہال ٹورڈرمل نہ مانتے تھے۔ وہ کہتے تھے کہ غنیم کی جڑ اکھڑ گئی ہے۔ ۱؎ ماثر الامرا میںکٹک اڑیسہ لکھا ہے ۔ خرگوش کی طرح چاروں طرف بھاگا پھرتا ہے ۔ اب اس کا پیچھا چھوڑنا نہ چاہیے۔ داؤد حیران کہ قلعہ داری کا سامان نہیں میدان جنگ کی طاقت نہیں۔ بھاگنے کا رستہ نہیں۔ ساتھ ہی خبرآئی کہ جو فوج بادشاہی گھوڑا گھاٹ پر گئی تھی ۔ وہ بھی فتح کر کے گھوڑوں پرسوار ہوگئی ۔ اس خبر سے داؤد کی زرہ ڈھیلی ہوئی۔ ناچار جھکا ۔ بڈھے سرداروں کو بھیجا ۔ وہ خان خاناں او رامرائے بادشاہی کے پاس آئے۔ یہ خود ہی تیار بیٹھے تھے ۔ پھر بھی تمام امرائے بادشاہی کو جمع کر کے جلسہ مشورۃ جمایا ۔ سب نے اتفاق کیا۔ مگر راجہ ٹورڈرمل ناراض تھے ۔ لیکن غلبہ رائے کا صلح پر تھا ۔ راجہ نے بہتیر سے ہاتھ پاؤں مارے مگر کثرت رائے کے سامنے کچھ پیش نہ گئی ۔ اور چندشرطوں پر صلح ٹھیری۔ داؤد ایسے اضطراب میںتھا ۔ کہ جو کچھ کہا گیا چارنا چار قبول کیا اور احسا نمند ہو کر قبول کیا۔ خانخاناں نے بڑے توزک و احتشام سے جشن جمشیدی ترتیب دیا ۔ لشکرکے باہر ایک بڑا اور بلند چبوترہ تیار کر اکر سرا پردہ شاہانہ قائم کیا۔ بہت دور تک سڑک کی داغ بیل ڈالی۔ دونوں طرف صفیں باندھ کر بادشاہی فوجیں بڑے جاہ و تجمل سے کھڑی ہوئیں۔ اندر سرا پروہ کے بہادر سپاہی خلعت زرتیں اور لباس فاخرہ پہنچے ۔ دائیں بائیں اور پس و پیش کھڑے ۔ امرا اور سردار کمال جاہ چشم سے اپنے اپنے رتبے پر قائم ۔ وہ امیر داؤدکو لینے گئے ۔ اور وہ افغان بچہ۔ نوجوان رعنا اور صاحب جمال زیباتھا ۔ بڑی کرو فرسے بزرگان افغان کو ساتھ لے کر آیا ۔ اور اردو خان خاناں کے بیچ میں ہوکر دربار میں داخل ہوا۔ سپہ سالار کہن سال گرمجوشی کے ساتھ عزت و احترام سے پیش آیا۔ مگرجس طرح بزرگ خوردوں سے ۔ آدھی دور تک سراپردہ میں استقبال کیا۔ داؤد نے بیٹھتے ہی تلوار کمرے سے کھول کر خانخاناں کے سامنے دھری دی او رکہا۔ چوں بمثل شماعزیزاں ز خمے و آزارے رسد من از سپاہگری بیزارم۔ حالا داخل دعا گویان درگاہ شدم۔ خانخاناں نے تلوار اٹھا کر اپنے نوکر کو دیدی اس کا ہاتھ پکڑا برابر تکنے سے لگا کر بٹھایا ۔ بزرگانہ اور مشفقانہ طور سے مزاج پرسی اور باتیں کرنے لگا ۔ دسترخوان آیا ۔ انواع و اقسام کے کھانے ۔ رنگا رنگ کے شربت ۔ مزے مزے کی مٹھایاں چنی گئیں۔ خانخاناں خود ایک ایک چیز پرا س کی صلح کرتا تھا ۔ میووں کی تشتریاں اور مربوں کی پیالیاں آگے بڑھاتا تھا ۔ نور چشم ، بابا جان اور فرزند کہہ کر باتیں کرتا تھا ۔ دسترخون اٹھا۔ پان کھائے ۔ میر منشی قلمدان لیکر حاضر ہوا۔ عمہد نامہ لکھا گیا ۔ خانخاناں نے خلعت گراں بہا اور شمیشیر مرصع جس کے قبضہ او سازمیں جواہرات گراں بہا جڑے ہوئے تھے۔ خزانہ شاہی سے منگا کر دی۔ اور کہا حالا ما کمر شمارا بنوکری بادشاہ بندیم ۔ اسے جس وقت تلوار باندھنے کو پیش کی۔ تو اس نے آگرہ کی طر منہ کیا رجھک جھک کرتسیمیں و آداب بجا لایا ۔ خانخاناں نے کہا ۔ شمار طریقہ دولت خواہی اختیار کرو اید ۔ایں شمشیر از جانب شہنشاہ بر بندید۔ ولایت بنگالہ را چنانچہ التماس خواہم کرد۔ موافق آں فرمان عالی شان کواہد آمد ۔ اس نے تلوار کا قبضہ آنکھوں سے لگایا او ربار گاہ خلافت کی طرف رخ کر کے سجدہ تسلیم کیا یعنی نوکر ان حضور میں داخل ہوتاہوں۔ غرض بہت سے تکلف بجا لا کر اور بہت سے نفا ئس اور عجائب تحفے دیکر اور لیکر اسے رخصت کیا۔ اور یہ دربار بڑی گرمی اور شگفتگی سے برخاست ہوا۔ یاد رکھنے کے قابل یہ بات ہے کہ ایسا عالی شان دربار آراستہ ہوا اور وہی بات کا پورا ٹورڈرمل تھا کہ اس میں شامل نہ ہو ابلکہ صلحنامہ پر بھی مہر نہ کی ۔ سپہ سالار اس مہم کو طے کرکے گور میںآیا ۔ مصلحت اسمیںیہ تھی ۔ کہ گھوڑا گھاٹ جو ان بھڑوں کاچھتہ تھا ۔ وہ یہاں سے پا س ہے ۔ بادشاہی چھاؤنی چھاتی پر دیکھ کر افغان خود دب جائے گے ۔ کور عہد قدیم میں دارلخلافہ تھا۔ اوراب بھی اپنی دلکشائی و سر سبزی سے آنکھوں میں کھبا ہو اہے ۔ اس کا نادر قلعہ اور بے نظیر عمارتیں گرتی چلی جاتی ہیں۔ سب نئی ہوکر اٹھ کھڑی ہونگی۔ ملا صاحب لکھتے ہیں خانخاناں ان جھگڑوں سے فارغ ہو کر عین برسات کے دنو ں میں ٹانڈہ کو چھوڑ کر گور میںآیا ۔ وہ بھی خوب جانتاتھا۔کہ ٹانڈہ کی آب و ہوا معتدل او ر صحت بخش ہے۔ گور کی ہوا خراب ۔ پانی بدبو اور کمزور ہے مگر ع صید راچوں اجل آید سوئے صیا درود امرا نے بھی کہا مگر اس کے خیال میں نہ آیا ۔ اور ارادہ یہ کہ گور کو نئے سرے سے آباد کیجئے ۔ تمام امرا اور اہل لشکر کو حکم دیا ۔ کہ یہیں چلے آؤ۔ افسوس کہ گور آباد نہ ہوا۔ البتہ گوریں بہت سی آباد ہوگئیں۔ بہت سے امرا او ر سپاہی کہ میدان مردی میںتلواریں مارتے تھے ۔ بسترمرگ پر عورتوں کی طرح پڑے پڑے مر گئے ۱؎۔ عجیب عجیب مرض ۔ انوکھی بیماریاں جن کے نام جاننے بھی مشکل ہیں۔ بے چاروں کے گلو گیر ہوئیں۔ فوج در فوج بندے خدا کے رو ز آپس میں رخصت ہتے تھے ۔ اورجان دیتے تھے ۔ ہزاروں کالشکر گیا تھا ۔ شایدسو آدمی جیتے گھر پھرسے ہونگے ۔ نوبت یہ ہوئی کہ زندے مردوں کے دفن سے عاجز ہوگئے۔ جو مرتا پانی میںبہا دیتے ۔ ہردم اور ہر ساعت خانخاناں کو خبریں پہنچتی تھیں۔ ابھی وہ امیر مر گیا۔ ابھی وہ امیر سرد ہوگیا ۔ پھر بھی سمجھتا نہ تھا ۔ بڑھاپے میںمزاج چڑ چڑا ہوجاتاہے ۔ اس کی نازک مزاجی کے سبب سے کوئی کھلم کھلا جتا بھی نہ سکتا تھا۔ کہ یہاں سے نکل جانا مصلحت ہے ۱؎ حاجی محمد خاں سیستانی ۔ اور خان زمانی بڈھے۔ اشرف خاں میر منشی قدیمی بھی انہی میںرخصت ہوئے۔ اتفاق یہ کہ اتنی مدت ایک وہی شخص تھا ۔ کہ بیمار نہ ہوا۔ دفعتہ خبر لگی کہ جنید افغان نے صوبہ بہار میںبغاوت کی انہیںبھی گور سے نکلنے کو بہانہ ملا۔ اور تو سب ادھر روانہ ہوئے ٹانڈہ میںآکر جس کی ہوا لوگ اچھی سمجھتے تھے ان کی طبیعت علیل ہوگئی ۔ دس دن بیمار رہے۔ گیارھویں دن روانہ ہوگئے ۔ اسی برس سے زیادہ عمرتھی ۔ ۹۸۳ میں موت کے فرشتہ نے پکارا۔ خدا جانے مالک کو جاکر حساب سمجھایا یا رضوان کو۔ وہ جاہ و جلال ۔ عزو کمال خواب تھا یا کہ خیال ۔ وارث کوئی نہ تھا برسوں کی جمع کی ہوئی کمائی کا بادشاہی خزانچیوں نے آکر میزان مستوفی ملالیا۔ غالبا اس کی کفایت شعاری سے خفا ہو کر ملا صاحب نے یہ فقرے فرمائے ہیں۔ کچھ اور گناہ تونہیں معلوم ہوتا ۔ خیر یہ مرنے کے بعدا س غریب کو جو چاہیں سوفرمایں۔ ان کی زبان اور قلم سے کون بچا ہے۔ اور ایک دن یہ بھی ہے۔ کہ وہ آنکھوںل سے دیکھ رہے تھے۔ آج سینکڑوں برس کی بات ہے۔ ہمارا قیاس آج ایک بات کا جواب بھی نہیں دے سکتا اصلیت پر کیا پہنچ سکتا ہے منعم خاں کے اخلاق و عادات اکثر معاملات سے ثابت ہوا ہے کہ ان کے مزاج میں رفاقت کا جو ش بہت تھا۔ اور دل اس کادوستوں کی درد مندی سے بہت جلد اثر پذیر ہوتا تھا ۔ تمہیں یاد ہے ۔ بیرم خاں کا حال۔ کہ لڑتے لڑتے دفعتہ اس کے خیالات خلو ص عقیدت پر لائل ہوئے۔ اور اکبر کی خدمت میں حاضر ہونے کے لیے پیغام بھیجا ۔ یہاں حریفوں نے اکبر کے دل میں پھر شک شبہے ڈالے۔ ادھر سے بھی خطر تھا ۔ گفتگو نے وکیلوں کی آمد ورفت میںطول کھینچا۔ ملا صاحب فرماتے ہیں ہنوز معرکہ جنگ پر پابود و آمد ورفت وکیلاں پر جاکر منعم خاں با معدودے بے تحاشا اور ابخا رفت خانخاناں را آورد۔ یہ اس کی صفائی دل کا جوش اور نیت کی نیکی تھی۔ ورنہ خانخا ناں کا منصب دار خطاب بھی اسے مل چکاتھا ۔ اس کے دل میں رقابت کے خیا ل اور منصب چھن جانے کا خطر پڑ جاتا توعجب نہ تھا۔ علی قلی خان ک معرکے یاد کرو ۔ کس کس طرح اس کی معافی تفصیرات میں کوششیں کرتارہا ۔ اور بار بار کرتا رہا۔ پہلی ہی معانی پر ٹورڈرمل نے عرضی لکھی ۔ کہ بہادر خاں بھائی خان زماں کا اپنی حرکت سے بلائے نہیںآتا ۔ بادشاہ نے عرضی سن کر کہا کہ منعم خان کی خاطر سے ہم اس کی خطا معاف کر چکے ہیںلکھ دو کر فوجیں لئے چلے آئیں خان زماں دربار بگڑا اور منعم خاں سے ملتجی ہوا۔ اس نے دیکھا ۔ کہ اب میری عرض کی گنجائش نہیں۔ اسے بھی لکھا۔ اور شیخ عبد النبی صدر میر مرتضیٰ شر یفی ۔ ملا عبدا للہ سلطانپوری کی وساطت سے پھر حضور میںعرض کی ۔ آپ دست بستہ ۔ آنکھیں بند۔ سر جھکائے کھڑا تھا۔ آخر گناہ معاف ہی کر وادیا وہ جانتا تھا کہ بعض امراے حسد پیشہ کی چالاکی نے ا ن دونوں بھائیوں کو بلاے اوبار میںگرفتار کیا ہے ۔ یہ اورو وہ پرانے جاں نثار سلطنت کے تھے۔ اس لئے بیچ میں بھی خاں زماں کو اکثر دربار کی ایسی باتوں کی خبریں اور تدارک کی صلاحیں دیتا رہتا تھا۔ جس میںحریفوں کے صدمے سے بچ کر سعادت مندی کی راہ پر آجائے کہ نمک حرام نہ کہلائے چغل خوروں نے عرض بھی کی کہ منعم خان ا س سے ملا ہوا ہے ۔ وہ اپنی نیک نیتی سے ایک قدم بھی نہ ہٹا ۔ تمہیںیاد ہوگا ۔ کہ بیرم خاں کی مہم در پیش تھی ۔ جو منعم خاں کا بل سے بلایا ہوا آیا ۔اور لدھیانے کے مقام پر حاضر دربار ہوا۔ اس نے مقیم خاں کو بھی پیش کیا۔ ک ترددی بیگ کابھانجا تھا اور ایسے موقع پر اسکا پیش کرنا گویا منارہ ترقی پراٹھا کر پھینک دینا تھا ۔ وہ تو تردی بیگ کا بھانجا تھا جب دربار میںرتبہ ہم زبانی حاصل ہوا اور شجاعت خاں خطاب ہوگیا ۔ تو ایک دن دربار خلوت میںمنعم خان کو ایسے الفاظ کہے تو تورہ ترکانہ اور دربار شاہانہ کے خلا ف تھے ۔ اکبر خفا ہوا۔ منعم خاں ن دونوںبنگالہ میںتھے ۔شجاعت خاں کو اس کے پاس بھجوا دیا ۔ یعنی اس نے تمہارے حق میں یہ یہ کہا ہے تم ہی اس سے سمجھ لو ۔ آفرین ہے منعم خاں کے حوصلے کو کہ بڑی عزت اور توقیر سے پیش آیا ۔ اس کی دلجوئی و خاطر داری کی۔ اور لائق حال جاگیر اپنے پاس تجویز کر دی ۔ وہ بھی بلند نظر امیر زادہ تھا ۔ نہ رہنے کوراضی ہو نہ جاگیر قبول کی خانخاناں نے یہ بھی قبول کیا۔ حضور مین اس کی معافی کے لئے عرض داشت لکھنی او رسامان اعزاز کے ساتھ رخصت کیا ۔ ا نہیں حکام نجوم اور تاثیر شگون وغیر ہ کا بھی خیال ضرور تھا۔ یاد کر د کابل میںجب انکے بھائی بندوں کا فساد ہو اور یہ یہاں سے گئے قلعہ اٹک پر معرکہ ہوا ا س دن انہوں نے لڑائی کو روکنا چاہا۔ کہ منحوس ستارہ سامنے ہے۔ گوجر خاں کی لڑائی جس میںخود زخمی ہوئے وہاں بھی جام میںیہی شربت تھا۔ لطف یہ کہ دونوں جگہ پینا پڑا ؎ جو قسمت میں لکھا ہے جان ہو دیگا وہی پھر عبث کا ہے کو طالع آزمائی کیجئے اگرچہ ہمدردی اور حم وکرم ان کے اصلی مصاحب تھے۔ مگر خواجہ جلال الدین محمود کے ساتھ کابل میںجو سلوک کیا۔ نہایت بد نما داغ اس کے دامن نیک نامی پر رہا۔ اضلاع مشرقی میں اس نے مسجدیں اور عالی شان عمارتیں اپنی عالی ہمتی کی یادگار چھوڑ دی جونپور میںبھی کئی عمارتیں تھیں۔ مگر ۹۷۵ ھ میںدریائے گومتی پر پل باندھا ہے ۔ وہ اب تک جوں کا توں موجود ہے۔ تین سو برس گزر چکے زمانے کے صدمے او ردریا کے چڑھاؤ ایک کنکر کو جنبش نہیں دے سکتے اس کی طر ز عمارت اور تراش کی خوبیاں ہندوستان کی قدیمی تعمیروں کی شان و شکوہل بڑھاتی ہیں۔ اور سیا حان عالم سے دادلیتی ہیں ۔ یہ پل ہے جسے لو گ کہتے ہیں ۔ کہ ان کے غلام کانام فہیم تھا۔ اور پل مذکور بھی اسی فہیم غلام کے اہتمام سے بنا تھا ۔ بہر حال پل مذکور کی جانب مشرق حمام کے پاس ایک محراب پر یہ اشعار کندہ ہیں ؎ خان خاناں خان منعم اقتدار نام او منعم از آں آمد کہ ہست از صراط المستقیمش ظاہر است رہ بتاریخش بری گرافگنی! بستہ ایں پل رابہ توفیق کریم برخلائق ہم کریم وہم رحیم شاہ راہے سوئے جنات النعیم لفظ بدر ا از صراط مستقیم منعم خاں جس طرح آپ اپنے خاندان کے بانی تھے۔ اسی طرح اپنی ذات پر خاتمہ کر گئے۔ اولاد میں فقط غنی خاں ایک بیٹا تھا۔ مگر جیسا باپ لائق تھا ۔ ویسا ہی وہ ناخلف نالائق ہوا۔ بالیاقت باپ سے پاس بھی نہ رکھ سکا۔ کابل کے مفسدے کے بعد چند رو ز خراب و خوار ۔ پھر دکن کو چلا گیا ۔ وہاں ابراہیم عادل شاہ کی سرکار میںنوکر ہوگیا۔ پھر خدا جانے کیا ہوگیا ۔ دیکھو تاثر الامرا۔ زنان باد دار اے مرد ہشیار ازاں بہتر نزدیک خرد مند اگر وقت ولادت مار زایند کہ فرزندان ناہموار زایند ملاصاحب کہتے ہیں۔ کہ جونپور کے علاقے میں جھک مارتا پھرتا تھا اسی عالم میں زندگی رسوائی سے مخلصی پائی ۔ بزرگان قدیم کی عمدہ یادگار مولوی عظیم اللہ صاحب غنی ایک عاشق فضل و کمال غازی پور زمینہ میں رئیس خاندانی ہیں۔ ان کے والدین علوم فنون خصوصا شعر و سخن کے شیفتہ و شید ا تھے ۔ اور اسی ذوق و شوق میں خصوصا شیخ امام بخش ناسخ کی محبت کے سبب سے ہمیشہ گھر چھوڑ کر لکھنو جاتے تھے اور مہینوں وہیںرہتے تھے ۔ مولانا رغمی سلہم اللہ کا پانچ برس کا سن تھا۔ اسی عمر سے یہ والد کے ساتھ جایا کرتے تھے۔ عالم طفولیت سے شیخ مرحوم کی خدمت میںرہے ۔ اور سالہا سال فیض حضوری سے بہرہ یاب ہوئے۔ انہی سے شعر کی اصلاح لی ۔ بلکہ رغمی تخلص بھی انہی نے عنایت فرمایا کہ تاریخ تلمذ پر مشتمل ہے۔ رغمی موصوف اردو فارسی میںصاحب تصنیفات ہیں۔ا ور نظم و نثر میںمجلدات ضخیم مرتب کی ہیں۔ چونکہ سرکار انگریزی میںبھی عمدہ اور بااعتبار عہدوں کا سرانجام کر کے پنشن پائی ہے۔ اس لئے علاقہ مذکور میں تاریخی اور جغرافیائی حالات کی تحقیقات کامل رکھتے ہیں۔ آب حیات کی برکت سے بندہ آزاد کوبھی ان کی خدمت میں نیاز حاصل ہوا۔ انہوں نے شفقت فرما کر ریاست قدیم اور واقفیت خاندانی کی معلومات سے جونپور اور غازی پور زمینہ کے بہت سے حالات عنایت کئے ۔ وہ فرماتے ہیں کہ اکبر بادشاہ ۹۷۲ میں یہا ں آئے۔ اور جس مقام پر پل مذکور رہے۔ یہیں کھڑے ہوکر تعمیر کی فرمائش فرمائی ، خانخاناں نے معماروں کو بلا کر کہا۔ انہوں نے عرضک کی یہاںپانی بہت گہرا ہے اور ہمیشہ رہتا ہے ۔ ابراہیم لودھی نے بھی ارادہ کیا تھا اس وقت یہاں سے آدھ کوس جانب مشرق بدیع منزل کے پاس جگہ تجویز ہوئی تھی ۔ کہ گرمی میںوہاں پانی کم ہوجاتا ہے ۔ خانخاناں نے کہا۔ بادشاہ نے اسی مقام کو پسند کیا ہے ۔ کہ قریب قلعہ ہے بہتر ہے ۔ کہ یہیں پل بنے چنانچہ انہوں نے اول دکن کی جانب میں نہایت مستحکم اور عالی شان پانچ محراب کاایک پل بنایا ۔ اس کی تاریخ بھی کسی شخص نے کہی تھی ۔ اگرچہ اب عبور زبانہ سے حروف مٹ گئے ہیں مگر مولوی صاحب موصوف نے اسی نظر عنایت سے جو آزاد کے حال پر مبذول ہے ۔ پڑھ کر سب نکالے اور یہ قطعہ تحریر فرمایا ؎ مقامے ساخت سلطان السلاطین سرشتہ آب و خاکش ا زمسرت بعثرت کامران باداکہ آمد دراوقبلہ ارباب حاجت الہی تاقیامت باد معمور ازیں بانی بنائے عمر و دولت چو از پیر خرد تاریخ آں جست حکیم پر خر دگفتار بہ عشرت خان اعظم مرزا عزیز کوکلتاش خان تما م تاریخیں اور تذکرے خان اعظم کی عظمت امیرانہ اور شجاعت رستمانہ اور لیاقت اور قابلیت کی تعریفوںسے مرصع ہیں۔ لیکن اس قسم کے حالات کم ہیں جن سے یہ نگینے ا س کی انگوٹھی پر ٹھیک آجائیں ہاں اکبر کے ہم سن تھے۔ساتھ کھیلتے کر بڑے ہوئے تھے ۔ یہ ضرور معلوم ہوتا ہے کہ اکبر کی عنایتوں اور شفقتوں نے رتبے اور قدر منزلت بہت بڑھائی تھی۔ بلکہ ان کی سپاہیانہ طبیعت ۔ اور بادشاہ کی ناز برداریوں نے لاڈلے بچوں کی طرح ضدی اور بد مزاج کر دیا تھا ۔ خیر میں حالات دیکھتا ہوں۔ ناظرین ان سے آپ ہی نتیجے نکال لینگے ۔ اس میںکچھ شک نہیں۔ کہ جو کچھ ہیں۔نہایت دلکش اور دلچسپ ہیں۔ اس کے والد میر شمس الدین محمد خاں تھے ۔ کہ اکبری عہد میں خان اعظم اور اتکہ خان کہلاتے تھے۔ اکبر ابھی پیدا نہ ہواتھا ۔ جو بادشاہ بیگم نے میرزا عزیز کی ماں سے کہہ دیا تھا کہ میرے ہاں لڑکا ہوگا ۔ تو اسے تم دودھ پلانا۔ اکبرپیدا ہوا۔ ان کے ہاں ابھی بچہ پیدا نہ ہوا تھا ۔ اس عرصہ میں اور بیبیان او ربعض خواصیں دودھ پلاتی رہیں پھر ان کے ہاں بچہ پیدا ہوا تو انہوں نے دودھ پلایا ۔ اور زیادہ تر انہی نے یہ خدمت ادا کی۔ جب ہمایوں ہندوستان سے بالکل مایوس ہوا ۔ا ور راہ قندھار سے ایران کوروانہ ہوا۔ تو ان میاں بیوی کو اکبر کے پاس چھوڑ گیا۔ خدا کے آسرے پر دو نو ں دکھ بھرتے رہے یہاں تک کہ ہمایوں وہاں سے پھرکر آیا ۔ کابل کو فتح کیا۔ اور اکبر کے اقبال کیساتھ ان کا ستارہ بھی نحوست سے نکلا۔ اکبر ان کے سبب سے انکے سارے خاندان کی رعایت بدرجہ غایت کرتا تھا ۔ اورعزت کے مدارج پر جگہ دیتا تھا ۔ یہ بھی ہمیشہ خطرناک موقع پر جاں نثاری کا قدم آگے رکھتے تھے ۔ اکبر خان اعظم کی ماں کو جی جی کہتاتھا۔ اور بڑا ادب بلکہ ماں سے زیادہ خاطر کرتا تھا ۔ حالات آئندہ سے واضح ہوگا۔ ۹۶۹ ھ میںخان اعظم شمس الدین محمد خان تکہ شہیدہوئے تو اکبر مرزا عزیز کی کہ چھوٹے بیٹھے تھے بہت دلداری کی ۔ تمام خاندان کو تسلی دی ۔ چند روز کے بعد خان اعظم خطاب دیا۔ مگر ہمیشہ پیار سے مرزا عزیز اور مرزا کو کہ کہتاتھا ۔ ہر وقت مصاحبت میںرہتے تھے ۔ جب ہاتھی پر سوار ہوتے تھے تو اکثر انہی کو خواصی میںبٹھاتے تھے ۔ ان کی گستاخی اور بے اعتدالی کو بھائی بیٹوں کا ناز سمجھتے تھے خوش ہوتے تھے اورکہتے تھے کہ جب اس پر غصہ آتا ہے تو دیکھتا ہوں۔ کہ میرے اور اسکے بیچ میںودود کا دریا بہہ رہا ہے ۔میں چپ رہ جاتاہوں۔ اکثر کہا کرتے تھے کہ اگر میرزا عزیز مجھ پر تلوار کھینچ کر آئے تو آج تک یہ وارانہ کرلے۔ میرے ہاتھ اس پر نہ پھینکا ۔ ۱؎ دیکھو تمتہ میں صفحہ ۷۴۹ خان اعظم کو بھی اس بات کا بڑ اناز تھا ۔ کہ ہم اکبر بادشاہ کے عزیز بلکہ بھائی ہیں۔ اخبار قربت ان کے اس قدر دور دور پہنچے تھے ۔ کہ ۹۷۸ میںجو عبداللہ خان اذبک کی طرف سے سفارشات آئی اس میں تحائف سلطنت کے ساتھ انکے او رمنعم خاں خانخاناں کے نام علیحدہ تحائف آئے۔ آزاد ۔ باوجود ان محبتو نکے نہ سمجھنا کہ اکبر کسی کے حال سے نافل تھا ۔ جب محمد حکیم مرزا کابل سے بغاوت کر کے آیا تھا اور بعد اس کے ۹۷۴ میں چتوڑ کی مہم م یں اسے خبریں پہنچی تھیں کہ اتکہ خیل یک رخ نہیں۔ اور یہ آئین سلطنت تھا کہ جب ایک حاکم مدت تک ایک مقام پر رہتا تھا ۔ تو اسکی جاگیر تبدیل کر دیتے تھے۔ چنانچہ ۹۷۵ ھ میںتمام اتکہ خیل کو پنجاب سے بلا لیا۔ پنجاب حسین قلی خاں کو مل گیا ۔ مرزا عزیز ہمیشہ حضور میںرہتے تھے۔ اس لئے دیپالپور ان کی جاگیر میں بدستور رہا۔ اوروں کو چند روز کے بعد سنبھل ۔ قنوج وغیرہ کے علاقے مل گئے ۔ دیپالپور کا علاقہ خاص انکی جاگیر تھا۔ ۹۷۸ ھ میں بادشاہ پاک پٹن سے زیارت کر کے ادھر آئے انہوں نے عرض کی کہ لشکر شاہی مدت سے برابر تکلیف سفر اٹھا رہا ہے۔ چند روز حضور یہاں آرام فرمائیں۔ بادشاہ نے کئی مقام کئے اور مع شہزادوں او رامرائے دربار انکے گھر گئے ۔ خان اعظم نے ضیافتوں اور مہمانداریوں میںبڑی بری عالی ہمتی دکھائی۔ رخصت کے دن گرانبہا نذرانے پیشکش گزرانے عربی اور ایرانی گھوڑے جن پر سو نے روپے کے زین کو ہ پیکر ہاتھی نقرئی اور طلائی زنجریں سونڈ ھونمیں جھلاتے مخمل زر بفت کی جھولیں سونے چاندی کے آنکس ۔ موتی ۔جواہرات گراں بہار سے مر صع کرسیاں پلنگ ، سونے چاندی کی چوکیاں ،سیکڑوں باسن طلائی و نقرئی ، جواہرات قیمتی بڑے عجائب اجناس ملک فرنگ ۔ روم ۔ خطا یزد کے نفائس تحائف خارج از حدو قیاس حاضر کئے ۔ شہزادوں اور بیگماتوں کو لباس اور زیور ہائے گراں مایہ پیش کئے تمام ارکان دولت اور اراکین سلطنت کل ارباب منصب اہل فضل اہل کمال جو ملازم رکاب تھے ۔ بلکہ تمام لشکر کو کوان انعام سے فیض پہچا ئے اور سخاوت کے در یا میںپانی کی جگہ دود کے طوفان اٹھائے ۔ اسکے نمک خوار مظفر حسین کو دیکھنا ۔ کیا مزے کی تاریخ کہی ہے ۔ ع مہمان عزیز اندشہ و شہزادہ آزاد۔ ہاں۔ بادشاہ کا دود بھائی ایسا ہی دریا دل ہونا چاہیے۔ ملا صاحب نے اس ضیافت میںفقط اتنا لکھا ہے ۔ ایسی ضیافت کی کہ کم کسی نے کی ہوگی۔ خود سمجھ لو کہ اتنا ہی کچھ کیا ہوگا۔ جو حضرت کا قلم اتنا رسا ہے ۔ آزاد۔ اکبر اگرچہ ناخواندہ بادشاہ تھا ۔مگر ملک داری اور ملک گیری کے علم میں ماہر کامل تھا۔ وہ اپنے امیر زا دو نکو اس طرح حکمرانی کشور ستانی کی تعلیم کرتاتھا ۔ جیسے کوئی کامل مولوی اپنے شاگردوں کو کتاب کے سبق یاد کرواتا ہے ان میں سے ٹورڈرمل ، خانخاناں ، مان سنگھ خان اعظم بااستعداد شاگرد نکلے۔ ۹۷۹ ھ میں جو صوبہ گجرات فتح کیا تھا ۔ انہیں جاگیر میںعنایت ہوا۔ کہ انتظام کرو۔ لیکن اکبر تو ادھر آیا ۔ وہاں محمد حسین مرزا او ر شاہ مرزا نے فولاد خاں دکنی اور سرشور افغان نو وغیرہ سے موافقت کرکے لشکر فراہم کیا اور مقام پٹن پر آکر ڈیرے ڈال دئے ۔ تاثرا لامرا میں لکھا ہے کہ حسین مرزا کی جرات و شجاعت کا یہ عالم تھا کہ جنگ کے معرکوں میں دلا وران زمانہ کے حوصلے سے بڑھ کر قدم مارتا تھا ۔ خان اعظم نے امراے شاہی کی اطراف سے جمع کیا ۔ بعض امراے اکبر ی جو حسب الحکم اپنی خدمتوں پر جاتے تھے خود دوڑ کر آئے اور شامل ہوئے ۔ غرض لشکر آراستہی ہو کر باہر نکلا ۔ غنیم بھی ادھر سے اپنی جمعیت سنبھال کر آگے بڑھا ۔ جب پلہ جنگ پر پہنچے ۔ تو طرفین نے اپنے اپنے لشکروں کے پرے باندھکر بازی شطرنچ کی طرح ایک دوسرے کو قوی پشت کیا۔ اتنے میں خبر لگی ۔ کہ غنیم کا ارادہ ہے پیچھے سے حملہ کرے انہوں نے چند امرا کو الگ کر کے فوج دی۔ اور اس کے بندوبست سے خاطر جمع کی ۔ جب خان اعظم نے میدان میں آکر فوج کو قائم کیا۔ تو غنیم نے لشکر شاہی کی جمعیت او رسرداروںل کا بندوبست دیکھ کر لڑائی کو ٹالنا چاہا اور صلح کا پیغام دیکر ایک سردار کو بھیجا ۔ امرائے شاہی صلح پر راضی ہوگئے ۔مگر ایک امیر گھوڑا مار کر خان اعظم کے پا س پہنچا اورکہا کہ زنہار صلح منظور نہ فرمائیے کہ دغا ہے جب آپ کی فوجیں اپنے اپنے مقاموں پر چلی جائینگی ۔ یہ پھر سر اٹھائینگے ۔ خان اعظم نے اس کی دو راندیشی پر تحسین کی۔ اور غنیم کو جواب میںکہلا بھیجا کہ صلح منظور ہے لیکن تمہاری نیت صاف ہے تو پیچھے ہٹ جاؤ کہ ہم تمہارے مقام پر آن اتریں۔ انہوں نے یہ بات نہ مانی ۔ خان اعظم نے فوج کو آگے بڑھایا ۔ غنیم کی دائیں فوج نے بائیں پر حملہ کیا او ر اس کڑک دمک سے آیا ۔ خان کی فوج کا بازو اکھڑ گیا ۔ قطب الدین قدیم الخدمت سردار تھا ۔ وہ اپنے ہمراہیوں کے ساتھ رہیں گڑ کر کھڑا ہو گیا ۔ آفرین ہے ہمت مردانہ پر کہ جب غنیم کے ہاتھی نے حملہ کیا ۔ تو بڑھکر اسکی مستک پر ایک ایسا ہاتھ تلوار کا رمار ا کہ مستک کا پیٹ کھول دیا۔ تعجب یہ کہ فوج ہر اول پر زور پڑا تو وہ بھی مقابلہ میں ٹھیر نہ سکی۔ اور آگے کی فوج بھی درہم برہم ہوکرپیچھے ہٹی۔ بھاگنے والے بھاگتے بھی ہیں۔ لڑتے بھی تھے۔ حریف ان کے پیچھے گھوڑے مارے چلے جاتے تھے۔ خان اعظم کو لئے کھڑا تھا ۔ اور تقدیر الہی کا منتظر تھا۔ اتنے میں پانسو سوار کا پر اس پر بھی آیا مگر ٹکر کھا کر پیچھے ہٹا۔ غنیم نے جب دیکھا کہ میدان ہمارے ہاتھ رہا۔ اور دائیں میں اتنی طاقت نہیں کہ بائیں کو مدد کوآئے۔ بادشاہی سردار دور سے تماشا دیکھ رہے ہیں۔ تووہ مطمئن ہو کر ٹھیرا کہ اب کیا کرنا چاہیے۔ اس عرصہ میںفوج ا سکی لوٹ پر گر پڑی لیکن بائیں فوج میں قطب الدین خاں پر سخت بنی ہوئی تھی ۔ خان اعظم اپنی فوج کو لیکر ادھر پہنچا اور اسکے بہادر گھوڑے اٹھا کر باز کی طرح جا پڑے ۔ غنیم کی فوج ادھر سے تتر بتر ہوگئی ۔ کیونکہ اور فوجوں کے لوگ کچھ تو بھاگتو نکے پیچھے بھاگے جاتے تھے ۔ کچھ لوٹ پر گرے ہوئے تھے۔ سرداروں سے نہ ہو سکا کہ پھیلاؤ کو پھر سمیٹ لیں۔ یہ اقبال اکبر ی کا طلسمات تھا کہ شکست سے فتح ہوگئی اور بگڑی ہوئی بات بن گئی ۔ خان اعظم اپنی فوج لیکر ایک بلندی پر آن کھڑا ہوا۔ اتنے میںغل ہو اکہ مرزا پھر ادھر پلٹے ۔ خان اعظم کی فوج بھی سنبھل کر کھڑی ہوئی ۔ غنیم سے اول غلطی یہ ہوئی کہ اس نے بھاگتوں کا پیچھا کیا ۔جیسا پہلے حملے میں کامیاب ہو ا تھا ۔ ساتھ ہی خان اعظم پرآتا تو میدان مار لیا تھا۔ یا جس طرح باگیں اٹھا کر گیا تھا ۔ اسی طرح سیدھا شہر گجرات میںجا داخل ہوتا تو خان اعظم کو اور بھی مشکل ہوئی ۔ اب جو دوبارہ اس کے غبار لشکر نے نشان دکھایا توادھر سب سنبھل گئے تھے کچھ بھاگے ہوئے پلٹ کر پھرے تھے۔ وہ بھی آن ملے ۔ایک امیر نے کہا۔ کہ بس یہی موقع حملہ کاہے ۔ خان اعظم چاہتا تھا کہ باگ اٹھائے ۔ جو ایک سردار نے کہا۔ اتنے امیر موجود ہیں۔ سپہ سالار کو حملہ پر جانا کہاں کا آئین ہے ابھی حملہ کی نوبت نہ آئی تھی کہ معلوم ہوا غنیم خو د ہی ہٹا ۔ اورفوج اسکی گھونگٹ کھا کر میدان سے نکل گئی ۔ دشمن کی فوج میںایک مست ہاتھی تھا ۔ کہ اس کا فیلبان تیر قضا کا شکار ہوا تھا۔ وہ شتر بے مہاراپنے بیگانہ سب کو روندتا اورکھندلتا پھرتاتھا۔ جدھر نقارہ کی آواز سنتا ادھر ہی دوڑتا ۔ لشکر بادشاہی میںجو فتح کے نقارے جابجا بجنے لگے ۔ وہ بولا گیا ۔ خان اعظم نے حکم بھیج کر نقارے موقوف کر وائے او ر دیوانہ دیوکو گھیر کر گرفتار کر لیا ۔ خان اعظم فتح کے نشان لہراتا گجرات میں داخل ہوا۔ مگر غنیم کا پیچھا چھوڑنا مناسب نہ سمجھا۔ پھر فوج لیکر چلا۔ جب یہ خبر دربار میںپہنچی اکبرکوبڑی خوشی ہوئی ۔ ایک امیر کے ہاتھ آفرین کا فرمان بھیج کر انہیں بلا بھیجا یہ سن کر پھولے نہ سمائے۔ اورمارے خوشی کے بے سرو پادربار کی طرف دوڑے۔ ۹۸۰ ھ؁ میںبے ڈھب مصیبت کے پھندے میںپڑگئے تھے اگراکبر کی تلوار اورہمت کی پھرتی مدد نہ کرتی ۔ تو خدا جانے کیا ہوجاتا ۔ خان اعظم گجرات میں بیٹھے تھے ۔ کبھی شاہانہ حکومت کے ۔ کبھی امیرانہ سخاوت کے مزے لیتے تھے کہ وہی محمد حسین مرزا اختیار الملک دکنی کے ساتھ مل گیا۔ دکن کے کئی سردار اور بھی آن ملے ۔ اور تمام احمد نگر وغیرہ کی اطراف پر پھیل گئے انجام یہ ہو ا کہ خان اعظم بھاگ کر احمدآباد میںگھس بیٹھے ۔ اور اسی کو غنیمت سمجھا۔ کہ شہر توہاتھ میںہے ۔ غنیم ۱۴ ہزار لشکر جمع کرکے گجرات پر آیا اورخان اعظم کو ایسا محاصرہ میں دبوچ لیا کہ تڑپ نہ سکے۔ ایک دن فضل خاں فوج لیکر خانپور دروازہ سے نکلے اور لڑنے لگے ۔ غنیم ایسے امنڈکر آئے کہ سب کو سمیٹ کر قلعہ میںگھسیر دیا۔ فاضل خاں سخت زخمی ہوئی اور غنیمت سمجہو کہ جان لے کر بھاگے ۔ سلطان خواجہ گھوڑے سے گر کر خندق میںجا پڑے ۔ فصیل پر سے رسا ڈالا۔ ٹوکرا لٹکایا۔ جب نکلے سب کے جی چھوٹ گئے ۔ اور کہہ دیا کہ اس غنیم کا مقابلہ ہماری طاقت سے باہر ہے ۔ عرضیاں اور خطوط دوڑانے شروع کئے ۔ یہی عرائض کی تحریر تھی اور یہی پیام کی تقریر کی اگرحضور تشریف لائیں توجانیں پھینگی ۔ ورنہ کام تمام ہے ۔ محل میںجی جی آتی تھی ۔ اور روتی تھی کہ واریمیرے بچے کو جاکر لے آؤ ۔ اکبر عمدہ عمدہ سرداروں اور سپاہیوں کو لے کر سوار ہوا۔ اور اس طح گیا کہ ۲۷ دن کا راستہ ، دن میں لپیٹ کر ساتویں دن گجرات سے تین کوس پر دم لیا ۔ فیضی نے جو سکندر نامہ کے جواب میں اکبر نامہ لکھنا چاہا تھا۔ اس میں معرکہ کا خوب سماں باندھا ہے ؎ بہ یک ہفتہ تااحمد آباد رفت توگوئی کہ برمرکب آباد رفت یلاں بر شتر ترکش اندر کمر شتر چوں شتر مرغ درزیر بر لڑائی کا بیان ہفت خوان ستم کی داستان ہے اکبرکے حال میںدیکھ لو۔ علاء الدولہ نے تذکرہ میںلکھا ہے ۔ کہ جب اکبر نے گجرات فتح کی تو شاہزادہ سلیم کی وکالت اور نیابت کیساتھ دوکروڑ ساٹھ لاکھ کا علوفہ کرکے دارلملک احمد آباد سے پایہ تخت گجرات میںممتاز کیا ۔اس دن ایک تقریب خاص کے سبب سے میںبھی حاضر تھا اور میںمرزا کا ملازم بھی تھا۔ شب برات کی ۱۵ تاریخ تھی۔ میںنے اسی وقت تاریخ کہی ع گفتار کہ بہ شب برات دادند ہدو دوسرے سال فتوحات بنگالہ کے شکران میںبادشاہ فتح پور سے اجمیر گئے ۔ دو بڑ ے بڑے نقارے جو لوٹ میںآئے تھے ۔ وہاں نذ رچڑھائے ، خان اعظم پہلے سے اشتیاق حضوری میںعرضیان دوڑا رہے تھے ۔ یلغار کر کے احمد آباد سے پہنچے بادشاہ بہت خوش ہوئے ۔اٹھے اورچند قدم بڑھ کر گلے لگالیا۔ ۹۸۲ ھ میں مرزا سلیمان کی آمد آمد تھی ۔ اور ضیافت کے وہ سامان ہورہے تھے کہ جس سے جشن جمشید کی شان شکوہ گرد تھی ۔ انہیں حکم پہنچا کہ تم بھی حاضر دربار ہونا کہ زمرہ امرا میں پیش ہو۔ خاں اعظم ڈاک بٹھا کر فتح پور میں حاضر ہوئے۔ نکتہ اکبر ہندوستان کے لوگوں کو عمدہ عہدے اور بااعتبار خدمتیں بہت دینے لگا تھا ۔ اور اسکے کئی سبب تھے کچھ تو اس لیے کہ اس کے باپ داد نے ہمیشہ بخارا اور سمر قند کے لوگوں سے خطا پائی تھی ۔ اور اس سے بھی اکثر ترکوں نے بغاوت کی تھی ۔ کچھ اس سبب سے کہ یہاں کے لوگ۔ صاحب علم ۔ بالیاقت با تدبیر اپنے ملک کے حا ل سے باخبر ہوتے تھے۔ اوراطاعت بھی صدق دل سے کرتے تھے ۔ کچھ ا س سبب سے کہ ان کا ملک تھا۔ اس لئے اس سے فائدہ اٹھانا بھی پہلے انکا حق تھا۔ بہرحال ترک اس بات سے جلتے تھے۔ اور اکثر طرح طرح سے بدنام کرتے تھے کبھی کہتے تھے بد مذہب ہوگیا ۔ کبھی یہی کہتے تھے کہ بزرگوں کے خدمتگاروں اور حق داروں کے حق بھول گیا ۔ اس موقع پر کہ مرزا سلیمان آنے والا تھا ۔ بادشاہ با تدبیر نے اسے یہ بات دکھائی مصلحت سمجھی کہ دیکھو جو لوگ باوفا اور جاں نثار ہیں وہ انکو انکی اولاد کو کتنا بڑھاتا ہوں۔ اورکس قدر عزیز رکھتا ہوں۔ اور مرزا عزیز کو دیکھے ۔ کس رتبہ عالی پر پہنچایا ہے ۔ کہ میری انکہ لڑکاہے۔ اور اس کے علاوہ بھی بہت سے قدیم الخدمت اور کبنہ عمل اہل سیف واہل قلم موجود تھے انہیں پیش کیا۔ انہی دنوں میں داغ کا آئین جاری ہواتھا ۔ امرا کو یہ قانون ناگوار تھا۔ بادشاہ نے مرزا عزیر کو اپنا سمجھ کر فرمایا کہ پہلے خان اعظم اپنے لشکر کی موجودات دے گا۔ ہٹیلے نواب کی آنکھوں پر ان دنوں جوش جوانی نے پردہ ڈالا تھا ۔ ایک میاں باؤ لے اوپر سے پی بھنگ ہمیشہ کے لاڈلے تھے۔ یہ اپنی ہت پر آکر اڑگئے ا ور نئے قانون کی قباحتیں صاف صاف کہنی شروع کیں۔ بادشاہ نے کچھ فہمائش کی۔ اور ارکان دولت نے تائید میں تقریریں کیں۔ یہ جواب میں کس سے رکتیتھے ۔ بادشاہ نے تنگ آکرکہا۔ ہمارے سامنے نہ آؤ کئی دن کے بعد آگرہ بھیج دیا ۔ کہ اپنے باغ میں رہیں اور آمد ورفت کا دروازہ بند۔ نہ یہ کہیں جائیں۔ نہ کوئی انکے پاس آئے۔ باغ مذکور کا نام باغ جہاں آرا تھا کہ خود ذوق و شوق کی نہروں سے سر سبز کیا تھا۔ ۹۸۳ ھ؁ میں بادشاہ کو خود خیال آیا۔ اور تفصیر معاف کر کے پھر صوبہ گجرات میں رخصت کرنا چاہا۔ یہ تو پورے ضدی تھے زمانہ ۔ بادشاہ نے پھر کہلا بھیجا کہ وہ ملک سلاطین عالی جاہ کا تخت گاہ ہے۔ اس نعمت اور حضور کی عنایت کا شکرانہ بجا لاؤ اور جاؤ۔ انہوں نے کہلا بھیجا کہن سال بڈھے نے بہت سے نشیب وفراز دکھلا کر سمجھایا ۔ ماںنے بھی کہا ۔ جھنجھلا ئی اور خفا بھی ہوئی۔ مگر یہ کسی کی سنتے تھے۔ ادھر مرزا خاں کی قسمت زور کر رہی تھی ۔ اور خان خاناںہونا تھا ۔ بادشاہ نے اسے بھیج دیا۔ وہ شکرانے بجا لایا ۔ اور سجدے کرتا ہوا روانہ ہوا۔ ان کی خطا توہر وقت معاف تھی۔ مگر یہ کہو ۹۸۶ ھ میںانہوں نے بھی معافی خطا کو منظور کیا۔ ۹۸۷ ھ؁ میںمرزا پر سے بڑی کل بل بلی۔ بادشاہ خلوت میں تھے۔ دفعتہ دولت خانہ اقبال سے غوغای عظیم کی آوازیں بلند ہوئیں ۔ معلوم ہوا کہ مرزا کو کہ زخمی ہوئے۔ حقیقت حال یہ تھی کہ بھوپت چوہان اٹاوہ کا راجہ باغی ہوکر ملک بنگالہ میںچلاگیاتھا۔ بنگالہ تسخیر ہو گیا وہ پھر اپنے علاقہ میںآیااور رعیت کو پرچاتے ۔ چوروں اور رہزنوں کودبانے لگا ۔ حکام بادشاہی نے اسے دبایا اور دربار میںعرضی کی ۔حکم ہوا کہ ملک مذکور مرزا کی جاگیر ہے۔ یہ جاکر اس کا بندوبست کریں۔ وہ بھاگ کر راجہ ٹورڈرمل او ربیربر کے پاس آیا ۔ اور جرم بخشی کارستہ نکالا۔ مرزا کو یہ حال معلوم ہوا۔ حضور میں عرض کی حکم ہوا کہ شیخ ابراہیم ، شیخ سلیم چشتی کے خلیفہ اسے بلائیں۔ اور حال دریافت کریں ۔ وہ ظاہر میں بندگی اور دل سے مرزا کی گھات میں تھا ۔ راجپوتوں کی جمعیت سے لشکر میںآیا ۔اور شیخ سے کہا کہ مرزا مجھے اپنی پناہ میںلیں۔ اور جرم بخشی کا ذمہ لیکر حضور میںلے چلیں۔ ورنہ میں اپنی جان کھودونگا۔ شیخ اسے اور مرزا کو لیکر حضور میںحاضرہوئے۔ آئین تھا کہ بارگاہ میںبے اجازت کسی کوہتھیار بند نہ آنے دیتے تھے ۔ اس کی کمر میں جمدھر تھا۔ ایک پہر ہ والے نے جدھر پر ہاتھ رکھا ۔ وہ بدگمان ہوا۔ اور جھٹ جمدھر کھینچ لیا۔ مرزا نے ہاتھ پکڑ لیا۔ اس نے انہیں زخمی کیا۔ ،پالکی میں پڑ کر گھر گئے۔ دوسرے دن حضور نے جا کر آنسو پونچھے اور دم دلاسوں کی مرہم پٹی چڑھائی ۔ ۹۸۸ ھ؁ میںپھر نحوست آئی ۔ اسکی کہانی بھی سننے کے قابل ہے ۔ ان کا دیوان کچھ روپیہ کھا گیا تھا ۔ انہوں نے اسے طالب اپنے غلام کے سپر د کیا کہ روپیہ وصول کرے۔ اس نے دیوان جی کو باندھ کر لٹکادیا۔ چوبکار ہی شروع کر دی اور ایسا مارا کہ مار ہی ڈالا۔ دیوان کا باپ روتا پیٹتا حضور میں حاضر ہوا بڈھے کی حالت دیکھ کر بادشاہ کو بہت رنج ہوا۔ قاضی لشکر کو حکم ہوا کہ تحقیقات کرے۔ خان اعظم نے کہا کہ غلام کو میںنے سزا دیدی ۔ میر امقدمہ حضور قاضی کے ہاتھ میں نہ ڈالیں ۔ اس میں میری بے عزتی ہے۔ بادشاہ نے یہ عرض منظور نہ کی۔ یہ خفا ہو کر پھر گھر جابیٹھے ۔ کئی مہینے کے بعد بادشاہ نے خطا معاف کی ۔ ۹۸۸ ھ؁ میں بنگالہ میں فساد ہوا۔ مظفر خاں سپہ سالار مارا گیا توان کی پنج ہزاری منصب عنایت کیا۔ ابھی تک خان اعظم انکے باپ کا خطاب بھی امانت رکھا تھا۔ وہ عنایت فرما کر راجہ ٹورڈرمل کی جگہ بنگالہ کی مہم پر سپہ سالار کر دیا۔ کئی امیر کہنہ عمل سپاہی اور پرانے تیغ زن فوجوں سمیت ساتھ کئے۔ انہیں بھی بھاری بھاری خلعت او ر عمدہ گھوڑے سے دیکر اعزاز بڑھایا ۔ مشرقی امر ا کے نام فرمان جاری ہوئے کہ یہ آتے ہیں۔سب ان کی اطاعت کرنا اور حکم سے باہر نہ ہونا۔ منعم خاں خان خاناں او رحسین قلی خان خانجہاں اس ملک میں برسوں تک رہے ۔ تلواروں نے خون آور تدبیروں نے پسینے بہائے۔ مگر ملک مزکور کا برا حال ہو رہا تھا ۔ ایک طرف توافغان جو اپنا ملک سمجھتے تھے۔ جا بجا فساد کرتے تھے ۔ دوسری طرف بادشاہی امرا جو نمک حرام ہورہے تھے ۔ وہ کبھی آپ کبھی افغانوں کے ساتھ مل کر یار دھاڑ کرتے پھرتے تھے۔ خان اعظم فوجیں بھیج کر ان کا بندوبست کرتے تھے۔ ان پر بس نہ چلتا تھا ۔ امراے ہمراہی پر خفا ہوتے تھے ۔ بہت غصے ہوتے تو ایک چھاؤنی چھو ڑ دوسری چھاؤنی میںچلے جاتے تھے ۔ امرا بہت چاہتے تھے کہ انہیں خوش رکھیں۔ مگر وہ خوش ہی نہ ہوتے تھے ۔ ٹورڈر مل بھی ساتھ تھے۔ کمر باندھے پھرتے تھے۔ کبھی ادھر کبھی ادھر ۔ ایک برس سے زیادہ یہ دوبرس تک ادھر رہے اور رات دن انہیں میں غلطان و پیچاں پڑے رہے ۔ امارت بھی خرچ کی۔ روپیہ دے کر بھی باغیوں کو پرچایا۔ پر اس ملک کے معاملے ایسے نہ تھے کہ پاک و صاف ہوجائیں۔ ۹۹۰ ھ میں جب بادشاہ کابل کی مہم فتح کر کے فتح پور میںآئے۔ تو ۹۹۱ ھ کے جشن میںآکر شامل دربار ہوئے اور وہاں بغاوت ہوگئی ۔ اوربنگالہ سے لے کر حاجی پور تک باغیوں نے لے لیا خان اعظم مہم بنگالہ کے لئے دوبارہ خلعت اور فوج لے کر روانہ ہوئے ۔ اور اس کا بندوبست کیا۔ ۹۹۲ ھ میں عرضی کی کہ اس کی ہوا مجھے موافق نہیں۔ چند روز رہا تو زندگی میںشبہ ہے ۔ بادشاہ نے بلا لیا۔ اکبر کا دل مدت سے دکن کی ہوا میں لہرا رہا تھا ۔ ۹۹۳ ھ میں ادھر کے اضلاع سے ملک مذکور میں فتنہ و فساد کی خبریں آئیں ۔میر مرتضے اور خداوند خاں امراے دکن برار سے احمد نگر پر چڑھ گئے ۔ کہ نظام الملک کاپایہ تخت تھا۔ وہاں سے شکست کھا کر راجہ علی خاں حاکم خاندیس کے پاس آئے۔ کہ اکبر کے پاس جاتے ہیں۔مرتضے نظام شاہ نے راجہ علی خاں کے پاس آدمی بھیجے ۔ کہ فہمائش کر کے روک لو۔ وہ روان ہ ہوگئے تھے۔ اس لئے آدمی بھیجے کہ خوا نین کو روکے۔ وہ نہ رکے اورنوبت تلوار و تفنگ کی پہنچی ۔ انجام یہ کہ انہیں لوٹ کھسوٹ کر ذخیرہ وافر جمع کیا ۔ اور وہ آگرہ پہنے ۔ راجہ علی خاں بڑا دو ر اندیش او رصاحب حکمت تھا۔ خیال ہوا کہ بہادر اکبر کو یہ امر نگوار نہ گذرا ہو وہ جانتا تھا کہ اکبرہاتھی کاعاشق ہے۔ ۱۵۰ ہاتھی بیٹے کے ہاتھ روانہ دربار کئے بزم نو روزی میںاس نے اور بہت سے نفائس اور اسباب و اجناس پیشکش گذارے ۔ ساتھی ہی تسخیر دکن کے رستے دکھائے ۔ خانخاناں تو احمدآباد میںپہلے ہی سے موجود تھے۔ تمام امرا اور سرداروں کے نام فرمان جاری ہوئے۔ چند امرا کو ادھر روانہ کیا ۔ اور خان اعظم کوفرزندی کا خطاب اور سپہ سالار قرار دے کر حکم دیا کہ برارلیتے ہوئے احمد نگر کوجا مارو ۔انہوں نے ہنڈیا میںجاکر مقام کیا۔ اور فوج بھیج کر سالوں گڑھ پر قبضہ کیا۔ ناہراراؤ اطاعت میں حاضر ہوا۔ اور راجہ بھی کمربستہ خدمت میں حاضر ہونے لگے ۔ اور ملک گیری کا ہنگامہ گرم ہوا۔ بادشاہ نے ملک مالودکے عمدہ عمدہ مقام پیارے کو کہ کی جاگیر کر دیے ۔ جب امرا کو ان کی ہمراہی کے فرمان پہنچے تو سب فراہم ہوئے۔ تقدیر کے اتفاق سے نا اتفاقی کی آندھی اٹھی اور اندھیرا پھیلنا شروع ہوا۔ سپہ سالار پر بدگمانی غالب آئی او ر ایسا گھبرایا کہ انتظام کا رشتہ تباہ ہوگیا۔ ماہم بیگم کی نشانی شہا ب الدین احمد خاں موجود تھے ۔ ان کی صورت دیکھ کر باپ کا خوںآنکھوں میںاترآیا ۔ خان اعظم اکثر صحبتوں میں اس بڈھے کہن سال کو ذلیل کرنے لگے۔ شاہ فتح اللہ شیرازی کو بادشاہ نے اصلاح و تدبیر کے لئے ساتھ کر دیا تھا۔ کہ یہ ادھر کے ملک اور ملک داروں سے واقف تھے ۔ اور ان کی تدبیروں کو وہاں کے لوگوں میںبڑا اثر تھا۔ یہ نفاق کے حرفوں کو مٹاتے تھے ۔ کینہ ورسی کی آگ کو دباتے تھے اور کہتے تھے کہ دیکھو یہ موقع آپس کی عداوت کا نہیں ہے ۔ مہم خراب ہوجائے گی۔ باپ سب کا اکبر بادشاہ ہے اس کی بات میںفرق آئے گا۔ ملک ملک میں رسوائی ہوگی خان اعظم ان سے بھی خفا ہوگئے ۔ باوجودیکہ بادشاہ شاہ فتح اللہ استادبھی تھے ۔ مگر رقیب کا خیر خواہ ٹھرا کر بزرگی کو طاق پر رکھا۔ خود خان اعظم اور ان کے مصارحب سر مجلس تمسخر اور تضحیک سے شاہ موصوف کوآزروہ کرنے لگے۔ شاہ تدبیر کے ارسطو اور عقل کے افلاطون تھے۔ لطائف الحیل سے ان باتوں کوٹالتے اور وقت گزارتے تھے۔ اور شہاب الدین بڈھے سردار کی تو اس قدر خواری ہوئی کہ وہ خفا ہو کر فوج سمیت رایسین دو اجین اپنے علاقے کو اٹھ گیا ۔ انہوں نے بجائے دلداری اور دلجوئی کے اس پر جرم قائم کیا۔ کہ میںایک بادشاہ کابھائی دوسرے سپہ سالار میری اجازت بغیر جانا چہ معنی وارد۔ فوج لیکر اس کے پیچھے دوڑے ۔ تو لک خان قوچی کہ شجاعت اور ہمت میں نظیر نہ رکھتا تھا۔ اور دست راست کی فوج کا سپہ سالار تھا ۔ اسے بھی کچھ تہمت لگائی اور غافل قیدکر لیا دشمن دل میںڈر رہا تھا کہ خدا جانے بادشاہی لشکر کب اور کن کن پہلوؤں سے حملہ کر بیتھے ۔ جب اس نے دیکھا کہ دیر ہوتی چلی جاتی ہے۔ اور پھر خبریں پہنچیں کہ امرا اپنے گھر میںلڑ جھگڑ رہے ہیں۔ تووہ شیر ہوگیا۔ چند امرا کے ساتھ ۲۰ ہزار فوج کی ۔جن میں محمد تقی کو سپہ سالار کیا۔