مقالات شبلیؒ جلددوئم مرتبہ مولانا سید سلیمان ندوی ؒ دیباچہ بسم اللہ الرحمن الرحیم ’’ مقالات شبلی‘‘ کی دوسری جلد جس میں مولانا مرحوم کے دس ادبی مضامین شامل ہیں پیش خدمت ہیں۔ ان میں سے صرف دو مضمون ’’ سرسید مرحوم اور اردو لٹریچر‘‘ اور ’’ املا اور صحت الفاظ‘‘ علی گڑھ کالج منتھلی میگزین بابت1898ء سے لئے گئے ہیں اور اردو ہندی معارف میں چھپا تھا۔ بقیہ کل مضامین الہند سے لیے گئے ہیں۔ فن بلاغت والے مضمون کا کچھ حصہ موازنہ انیس دو بیرین داخل ہے۔ مگر کسی قدر تغیر کے بعد، ’’ شعر العرب‘‘ پر مولانا پوری کتاب لکھنا چاہتے تھے، مگر دو نمبروں سے زیادہ نہ لکھ سکے، دوسری جلدی بھی بتدریج شائع ہوں گی۔ سید سلیمان ندوی 13اگست1981ء ٭٭٭٭٭٭ بسم اللہ الرحمن الرحیم عربی زبان دنیا میں یوں تو سینکڑوں ہزاروں زبانیں مروج اور مستعمل ہیں۔ لیکن سب کی اصل الاصول صرف تین زبانیں ہیں۔ ایک ساسمی جو سام بن نوح کی طرف منسوب ہے۔ اس زبان سے جو زبانیں پیدا ہوئیں وہ عربی، عبرانی، سریانی، کلدانی، خبطی وغیرہ ہیں۔ ان زبانوں میں بعض اوصاف ایسے پائے جاتے ہیں جو انہی کے ساتھ مخصوص ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ ان میں بعض حرف ایسے پائے جاتے ہیں جن کا تلفظ اور کوئی قوم نہیں کر سکتی۔ مثلاً ح، ع، ق، ص، ض، ط، ظ، دوسرے یہ کہ ان زبانوں میں مذکر اور مونث کے لیے ضمیریں اور افعال جدا جدا ہیں۔ تیسرے یہ کہ ان زبانوں میں اسم، فعل، حرف ہر ایک کے ساتھ ضمیر لاحق ہو سکتی ہے اس امر میں اختلاف ہے کہ ان سامی زبانوں میں نسبتاً قدیم کون سی زبان ہے قدما کا عام خیال یہ تھا کہ عبرانی سب سے زیادہ قدیم ہے۔ یورپ کے اکثر متاخرین سریانی کو قدم تر بتاتے ہیں لیکن حق یہ ہے کہ یہ شرف عربی زبان کو حاصل ہے۔ اس کے دلائل حسب ذیل ہیں۔ عربی ، سریانی اور عبرانی میں سب سے قدیم زبان کون ہے، 1عبرانی اور سریانی زبان میں جس قدر الفاظ کے مادے ہیں عربی میں سب موجود ہیں بخلاف اس کے عربی زبان میں بہت سے مادے ہیں جو عبرانی اور سریانی زبانوں میں نہیں اس سے ثابت ہوتا ہے کہ عربی زبان اصل تھی۔ اس لیے تمام مادے اس میں موجود تھے۔ عبرانی اور سریانی زبانیں چونکہ زمانہ ما بعد کی زبانیں تھیں اس لیے بہت سے مادے متروک ہو گئے۔ 2عربی زبان میں جس قدر افعال ہیں سب قیاس کے موافق ہیں بہت کم الفاظ ہیں جن میں خلاف قاعدگی اور شذ وذ پایا جاتا ہے۔ بخلاف اس کے سریانی اور عبرانی میں جس قدر الفاظ قیاس کے موافق ہیں اس سے زیادہ اسی کے مخالف ہیں اور یہ ظاہر ہے کہ جو زبانیں جس قدر زیادہ قدیم ہوتی ہیں۔ اسی قدر ان میں اصول اور قاعدہ کی پابندی پائی جاتی ہے۔ 3 عبرانی اور سریانی زبانوں میں بہت سے ایسے الفاظ ہیں جن کی اصل معلوم نہیں اور یہ پتہ نہیں لگتا کہ یہ کن الفاظ سے مشتق ہیں لیکن عربی زبان میں ان الفاظ کی اصلیں اور مشتق منہ موجود ہیں۔ 4 عبرانی اور سریانی میں اکثر الفاظ کے اجزائے اصلیہ جاتے رہے ہیں لیکن عربی زبان میں موجود ہیں مثلاً انت اور انتم کانون، الف لام، تعریف کالام، جمع متکلم، مضارع کا نون 5 عربی زبان میں جن الفاظ میں ضاد کا حرف تھا، عبرانی اور سریانی میں ص اور ع سے بدل دیا ہے۔ مثلاً ارض، ضان، قبض کو عبرانی میں ارص، صان قبض کہتے ہیں اور سریانی میں انہی الفاظ کو ارع عان، قبع کہتے ہیں۔ یہ الفاظ اگر اصل میں عبرانی ہوتے تو عربی میں صاد اور سریانی میں ع سے بدلنے کی کچھ ضرورت نہ تھی کیونکہ ان دونوں زبانوں میں خود ص کا حرف موجود ہے، اسی طرح اگر یہ الفاظ اصل میں سریانی ہوتے، تو عربی میں ض اور عبرانی میں ص سے بدلنے کی کوئی ضرورت نہ تھی کیونکہ عین کا حرف دونوں زبانوں میں پہلے سے موجود ہے۔ اس سے ثابت ہوا کہ یہ الفاظ دراصل عربی ہیں اور چونکہ ض عربی کے سوا او رکسی زبان میں موجود نہیں، اس لیے عبرانی نے اس کو ص سے بدل دیا او رسریانی نے غ سے اسی طرح جن عربی الفاظ میں ذ ہے وہ عبرانی میں ز سے اور سریانی میں د سے بدل دئیے گئے۔ مثلاً ذکر، عذر، ذراع کو عبرانی میں ذکر عزر زرع کہتے ہیں اور سریانی میں دکر، عدر، دراع، اسی طرح جن الفاظ میں عربی میں ث ہے وہ عبرانی میں ش سے اور سریانی میں ت سے بدل جاتے ہیں مثلاً تلح، ثعلب، ثقل، ثور، میراث، وثب، اثنان، ثلاثہ کہ یہ سب الفاظ عبری میں ش سے اور سریانی میں د سے لکھے جاتے ہیں۔ دلائل مذکورہ بالا کے سوا ایک بڑی دلیل عربی زبان کے قدیم ہونے کی یہ ہے کہ عبری زبان کی سب سے قدیم تصنیف سفر ایوب تسلیم کی جاتی ہے۔ اس کتاب میں نہایت کثرت سے عربی الفاظ بھرے ہوئے ہیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ عربی زبان عبری سے پہلے موجود تھی۔ یہاں ایک شبہہ پیدا ہوتا ہے وہ یہ کہ عبری اور سریانی زبان میں نہایت قدیم زمانے سے تصنیفات پائی جاتی ہیں بخلاف اس کے عربی زبان کی قدیم سے قدیم تصنیف کا اسلام کے زمانے سے کچھ ہی پہلے پتہ چلتا ہے۔ لیکن اس سے صرف یہ ثابت ہوتا ہے کہ تصنیفات کی حیثیت سے عربی زبان عبری اور سریانی سے متاخر ہے اور یہ سچ ہے کیونکہ عرب میں علوم و فنون کا رواج بہت پیچھے ہوا ہے، لیکن اس سے یہ نہیں ثابت ہوتا کہ عربی زبان سرے سے موجود ہی نہ تھی کسی زبان کا وجود اور اس زبان میں تصنیفات کا وجود دو مختلف امر ہیں اور دونوں زبانوں میں کوئی لزوم نہیں۔ ٭٭٭٭٭٭٭ فن بلاغت مسلمانوں نے جو علوم و فنون خود ایجاد کیے اور جن میں وہ کسی کے مرہون منت نہیں ان میں ایک یہ فن بھی ہے عام خیال یہ ہے اور خود ہم کو بھی ایک مدت تک یہ گمان تھا، کہ یہ فن بھی مسلمانوں نے یونانیوں سے لیا۔ ابن اثیر نے مثل السائر میں ایک جگہ لکھا ہے کہ ’’ یونانیوں نے فن بلاغت پر جو کچھ لکھا ہے اگرچہ اس کا ترجمہ عربی میں ہو چکا ہے لیکن میں اس سے واقف نہیں اور اس لیے فن میں میں نے جو نکتے اضافہ کئے ہیں ان میں سے کسی کا میں مقلد نہیں بلکہ خود مجتہد ہوں۔‘‘ ابن اثیر نے گو اپنے آپ کو یونان کی خوشہ چینی کے الزام سے بچایا ہے لیکن فحوای عبارت سے اس قدر ثابت ہوتا ہے کہ اصل فن یونان ہی سے آیا تھا لیکن اب اس خیال کی غلطی علانیہ ثابت ہو گئی۔ اصل یہ ہے کہ ارسطو نے ایک کتاب ریطوریقا کے نام سے لکھی تھی جس کو اس نے منطق کا ایک حصہ قرار دیا تھا ریطوریقا وہی لفظ ہے جس کو انگریزی میں ریٹارک کہتے ہیں اردو میں اس لفظ کا ترجمہ خطابت یا فن تقریر ہو سکتا ہے یہی کتاب ہے جس کی نسبت لوگوں کو دھوکا ہوا کہ مسلمانوں کا فن بلاغت اسی سے ماخوذ ہے، اس کتاب کو شیخ بو علی سینا نے اپنی کتاب منطقیات شفا میں پورا پورا لے لیا ہے، یعنی اس کے مطالب اپنے الفاظ میں ادا کر دئیے ہیں۔ ابن رشد نے اس کتاب کے اصل ترجمہ کی جو اصلاح کی تھی، اس کا بڑا حصہ بیروت میں چھپ گیا ہے، یہ ذخیرے ہمارے سامنے ہے اور ان سے ثابت ہوتا ہے کہ مسلمانوں کا فن بلاغت ارسطو کی کتاب سے چھو بھی نہیں گیا ہے۔ ارسطو کی کتاب کا موضوع یہ ہے کہ جب کوئی تقریر کسی موقع پر کی جائے،تو امور ذیل قابل لحاظ ہوں گے۔ 1مضمون تقریر کیا ہے 2مضمون کے مخاطب کون لوگ ہیں 3 تقریر کرنے والا کون ہے ان مختلف حیثیتوں کے لحاظ سے تقریر کے مقدمات کس قسم کے ہونے چاہئیں؟ چنانچہ ارسطو نے اس کتاب میں بتایا ہے کہ واعظ، وکیل، حکیم، فریق مقدمہ وغیرہ وغیرہ کی تقریر کے اصول کیا ہیں؟ اور ہر ایک کے طریقہ استدلال کو کس طرح ایک دوسرے سے مختلف ہونا چاہیے۔ اگرچہ اس میں شبہہ نہیں کہ ارسطو کی یہ کتاب نہایت دقیق اور لطیف مباحث پر مشتمل ہے، اور اگرچہ اس کا بھی سخت افسوس ہے کہ مسلمانوں نے اس کتاب سے کچھ فائدہ نہیں اٹھایا، لیکن بہر حال مسلمانوں کا فن بلاغت ایک جداگانہ چیز ہے اور اس کے وہ خود موجد ہیں۔ فن بلاغت پر جہاں تک ہم کو معلوم ہے، سب سے پہلی جو کتاب لکھی گئی ہے وہ دلائل الاعجاز عبدالقاہر الجرجانی ہے، اس سے پہلے کی تصنیفیں بھی ہم نے دیکھی ہیں، لیکن در حقیقت ان کو اس فن کی تصنیف نہیں کہہ سکتے، دلائل الاعجاز کے بعد اور بہت سی کتابیں لکھی گئیں۔ یہاں تک کہ مطلول اور مختصر معانی پر گویا خاتمہ ہوا ۔ آج کل یہ فن جس طریقہ سے پڑھا اور پڑھایا جا رہا ہے، اس سے زیادہ کسی فن کی مٹی خوار نہیں، طلبہ اور علماء ان لفظوں اور عبارتوں کو جو مختصر معانی وغیرہ میں مذکور ہیں، بار بار دہراتے ہیں، لیکن خود نہیں جانتے کہ ہم کیا کہہ رہے ہیں، یہ ایک عام قاعدہ ہے کہ جب انسان کسی فن کے مسائل کو سمجھ لیتا ہے اور اس پر عادی ہو جاتا ہے تو جہاں کہیں ان مسائل کا موقع آتا ہے، انسان اس کو استعمال کر سکتا ہے، اور کرتا ہے، مثلاً اگر تم نے عربی فن نحو میں مہارت حاصل کر لی ہے تو جب کوئی عربی عبارت تمہارے سامنے آ جائے گی، تم اس کو بے تکلف پڑھتے جاؤ گے، لیکن فن بلاغت کی درس و تدریس کی یہ حالت ہے، کہ مختصر معانی اور مطلول سو سو بار دہرا چکے ہیں، لیکن اگر قرآن مجید کی کوئی عبارت یا عربی کا کوئی شعر دے دیا جائے تو ہر گز نہ بتا سکیں گے کہ اس میں کیا کیا بلاغت کے اصول پائے جاتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان درسی کتابوں میں مسائل بلاغت کو اس طرح صاف اور سلجھا کر نہیں لکھا ہے کہ طالب علم کے ذہن میں اصل مسئلہ کی تصویر اتر جائے مسئلہ ابھی پورا بیان بھی نہیں ہوا ہے کہ اس کے ساتھ لفظی جھگڑے شروع ہو جاتے ہیں، اور طالب علم کا ذہن ان بیہودہ بحثوں میں پریشان ہو جاتا ہے۔ ایک بہت بڑی وجہ یہ ہے کہ ان مسائل کے لیے کثرت سے مثالیں نہیں پیش کیجاتیں عبدالقاہر جرجانی نے جو مثالیں لکھ دی تھیں وہی آج تک چلی آتی ہیں، بلکہ اس میں سے بھی بہت سی چھوٹ گئیں۔ مسائل بلاغت کے ذہن نشین کرنے کا سب سے بہتر طریقہ یہ ہے کہ اپنی زبان میں اس کی مثالیں سمجھائی جائیں، لیکن ہمارے علماء عربی مثالوں میں اس قدر محدود ہیں کہ کسی اور زبان سے ان مسائل کی مثالیں پیش ہی نہیں کر سکتے۔ ان وجوہ کی بناء پر ہم نے ارادہ کیا ہے کہ وقتاً فوقتاً فن بلاغت کے مہمات مسائل اس رسالہ میں اس طرح ادا کئے جائیں کہ مسئلہ کی تصویر دل میں اتر جائے اور اس غرض کے لیے تمام مثالیں اردو کے کلام سے دی جائیں، چنانچہ اس پرچہ میں ہم فصاحت کے مسئلہ پر بحث کرتے ہیں، جو بلاغت کا پہلا زینہ ہے۔ فصاحت کی تعریف علمائے ادب نے یہ کی ہے کہ لفظ تنافر الحروف نہ ہوتا مانوس نہ ہو، قواعد صرفی کے خلاف نہ ہو، اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ لفظ در حقیقت ایک قسم کی آواز ہے اور چونکہ آوازیں بعض شیریں دلآویز اور لطیف ہوتی ہیں مثلاً طوطی و بلبل کی آواز اور بعض مکروہ و ناگوار مثلاً کولے اور گدہے کی آواز اس بنا پر الفاظ بھی دو قسم کے ہوتے ہیں بعض شستہ، سبک، شیریں، اور بعض ثقیل، بھدے ناگوار، پہلی قسم کے الفاظ کو فصیح کہتے ہیں اور دوسرے کو غیر فصیح بعض الفاظ ایسے ہوتے ہیں کہ فی نفسہ ثقیل اور مکروہ نہیں ہوتے لیکن تحریر و تقریر میں ان کااستعمال نہیں ہوا ہے، یا بہت کم ہوا ہے اس قسم کے الفاظ بھی جب ابتداء استعمال کئے جاتے ہیں، تو کانوں کو ناگوار معلوم ہوتے ہیں، ان کو فن بلاغت کی اصطلاح میں غریب کہتے ہیں اس قسم کے الفاظ بھی فضاحت میں خلل انداز خیال کئے جاتے ہیں، لیکن یہ نکتہ یہاں لحاظ کے قابل ہے کہ بعض موقعوں پر غریب لفظ کی غرابت اس وجہ سے کم ہو جاتی ہے کہ اس کے ساتھ کے الفاظ بھی اسی قسم کے ہوتے ہیں، مثلاً ایک شاعر کہتا ہے ع ذریت رسول کی خاطر جلائی نار نار کا لفظ اس موقع پر نہایت نا مانوس اور بیگانہ ہے لیکن یہی لفظ جب فارسی ترکیبوں کے ساتھ اردو میں مستعمل ہوتا ہے، مثلاً نار دوزخ، نار جہنم، تو وہ غرابت نہیں رہتی۔ فصاحت کے مدارج میں اختلاف ہے یعنی بعض الفاظ فصیح ہیں، بعض فصیح تر، بعض اس سے بھی بڑھ کر فصیح، مثال کے طور پر ہم دو چار مثالیں نقل کرتے ہیں جن سے فصاحت اور فصاحت کے اختلاف مراتب کا انرازہ ہو سکے گا (ان مثالوں میں ایک ہی مضمون مختلف الفاظ میں ادا کیا گیا ہے) کس نے نہ دی انگوٹھی رکوع و سجود میں سائل کو کس نے دی ہے انگوٹھی نماز میں آنکھوں میں پھرے اور نہ مردم کو خبر ہو آنکھوں میں یوں پھرے کہ مژہ کو خبر نہ ہو رویا میں بھی حسین کو رویا ہی کرتے ہیں حسرت ہے کہ خواب میں بھی رویا کیجئے جیسے مکاں سے زلزلہ میں صاحب مکان جیسے کوئی بھونچال میں گھر چھوڑ کے بھاگے معافی و الفاظ کی مناسبت حسن کلام کا ایک بڑا نکتہ یہ ہے کہ مضامین کی نوعیت کے لحاظ سے الفاظ استعمال کئے جائیں لفظ چونکہ الفاظ کی ایک قسم ہے اور آواز کی مختلف اقسام ہیں، مہیب پر رعب ، سخت، نرم، شیریں، لطیف، اسی طرح الفاظ بھی صورت اور وزن کے لحاظ سے مختلف طرح کے ہوتے ہیں، بعض نرم، شیریں اور لطیف ہوتے ہیں، بعض سے جلالت اور شان ٹپکتی ہے، بعض سے درد اور غمگینی ظاہر ہوتی ہے اسی بنا پر غزل میں سادہ، شیریں، سہل اور لطیف الفاظ استعمال کئے جاتے ہیں، قصیدے میں پر زور شاندار الفاظ کا استعمال پسندیدہ سمجھا جاتا ہے اسی طرح رزم و بزم، مدح و ذم، فخر و ادعا، وعظ و پند، ہر ایک کے لیے جدا جدا الفاظ ہیں شعراء میں سے جو اس نکتہ سے آشنا ہیں وہ ان مراتب کا لحاظ رکھتے ہیں، اور یہ ان کے کلام کی تاثیر کا بڑا راز ہے لیکن جو اس فرق مراتب سے واقف نہیں یا ہیں، لیکن ایک خاص رنگ ان پر اس قدر چڑھ گیا ہے کہ ہر قسم کے مضامین میں ایک ہی قسم کے لفظ ان کی زبان سے ادا ہوتے ہیں ان کا کلام بجز ایک خاص رنگ کے بالکل بے اثر ہوتا ہے یہی نکتہ ہے کہ سعدی سے رزم اور فردوسی سے بزم نہیں نبھ سکتی فردوسی نے جہاں حضرت یوسف کی نار و زاری کو اپنی کتاب یوسف زلیخاں میں لکھا ہے، لکھتا ہے، بعزید یوسف و گر بارہ زار رزم، بزم، فخر، حسرت، شوق، ہر ایک مضمون کے لیے خاص خاص قسم کے الفاظ موزوں ہیں، اور ان مضامین کے لیے انہی الفاظ کو استعمال کرنا چاہیے، مثلاً ایک شاعر نے جلال اور غیظ کو ان الفاظ میں ادا کیا ہے۔ کم تھانہ ہمہمہ اسد کردگار سے نکلا ڈکارتا ہوا ضیغم کچھار سے کیا جانے کس نے ٹوک دیا ہے دلیر کو سب دہشت گونجتا ہے یہ غصہ ہے شیر کو تھا یہ بپھرا ہوا عباس مرا شیر جواں سینہ حرپہ رکھے دیتا تھا نیزہ کی سنان لرزہ تھا رعب حق سے ہر ایک نابکار کو روکے تھا ایک شیر جرسی دس ہزار کو ان اشعار میں جو الفاظ آئے ہیں، جس طرح ان کے معنی غیظ و غضب کے ہیں، اسی طرح ان الفاظ کی آواز اور لہجہ سے بھی ہیبت اور غیظ و غضب کا اظہار ہوتا ہے۔ کلام کی فصاحت یہ مکث مفرد الفاظ سے متعلق تھی، لیکن کلام کی فصاحت میں صرف لفظ کا فصیح ہونا کافی نہیں، بلکہ یہ بھی ضرور ہے کہ جن الفاظ کے ساتھ وہ ترکیب میں آئے، ان کی ساخت، ہیئت، نشست، سبکی اور گرانی کے ساتھ اس کو خاص تناسب اور توازن ہو، ورنہ فصاحت قائم نہ رہے گی، قرآن مجید میں ہے ماکذب الفوادما رای فواد اور قلب دو ہم معنی الفاظ ہیں اور دونوں فصیح ہیں لیکن اگر اس آیت میں فواد کے بجائے قلب کا لفظ آئے تو خود یہی لفظ غیر فصیح ہو جائے گا جس کی وجہ یہ ہے کہ گو قلب کا لفظ بجائے خود فصیح ہے لیکن ما قبل اور ما بعد کے جو الفاظ ہیں ان کی آواز کا تناسب قلب کے لفظ کے ساتھ نہیں ہے۔ میرا انیس کا مصرع ہے فرمایا آدمی ہے کہ صحرا کا جانور صحرا اور جنگل ہم معنی ہیں اور دونوں فصیح ہیں، انیس نے مختلف موقعوں پر ان دونوں لفظوں کا استعمال کیا ہے اور ہم معنی ہونے کی حیثیت سے کیا ہے لیکن اگر مصرعہ میں صحرا کے بجائے جنگل کا لفظ آ جائے تو یہی لفظ غیر فصیح ہو جائے گا، ذیل کے شعر میں: طائر ہوا میں مست ہرن سبزہ زار میں جنگل کے شیر گونج رہے تھے کچھار میں اگر جنگل کے بجائے صحرا لاؤ تو مصرع پھس پھسا ہو جاتا ہے۔ شبنم اور اوس ہم معنی ہے اور برابر درجہ کے فصیح ہیں لیکن اس شعر میں: کھا کھا کے اوس اور بھی سبزہ ہرا ہوا تھا موتیوں سے دامن صحرا بھرا ہوا اگر اوس کے بجائے شبنم کا لفظ لایا جائے تو فضاحت خاک میں مل جائے گی ’’ اوس کا لفظ جو اس موقع پر اس قدر فصیح ہے، اس مصرع میں:‘‘ شبنم نے بھر دئیے کٹورے گلاب کے شبنم کے بجائے لایا جائے تو فصاحت بالکل ہوا ہو جائے گی۔ اس میں نکتہ یہ ہے کہ ہر لفظ چونکہ ایک قسم کا سر ہے اس لیے یہ ضرور ہے کہ جن الفاظ کے سلسلہ میں وہ ترکیب دیا جائے ان آوازوں سے اس کو خاص تناسب بھی ہو وگرنہ گویا دو مخالف سروں کو ترتیب دینا ہو گا۔ نغمہ اور راگ منفرد آوازوں یا سروں کا نام ہے۔ ہر سر بجائے خود دلکش اور دلآویز ہے، لیکن اگر دو مخالف سروں کو باہم ترکیب دے دیا جائے تو دونوں مکروہ ہو جائیں گے، راگ کے دلکش اور موثر ہونے کا یہی گر ہے کہ جن سروں سے اس کی ترکیب ہو ان میں نہایت تناسب اور توازن ہو۔ الفاظ میں چونکہ ایک قسم کی صورت اور سر ہیں، اس لئے ان کی لطافت، شیرینی اور روانی اسی وقت تک قائم رہتی ہے جب گرد و پیش کے الفاظ بھی لے میں ان کے مناسب ہوں۔ دبیر کا مشہر مصرع ہے زیر قدم والدہ فردوس بریں ہے اس میں جتنے الفاظ ہیں یعنی زیر، قدم، والدہ، فردوس، بریں، سب بجائے خود فصیح ہیں، لیکن ان کے باہم ترکیب دینے سے جو مصرع پیدا ہو، وہ اس قدر بھدا اور گراں ہے کہ زبان اس کا تحمل نہیں کر سکتی۔ شاید تم کو خیال ہو کہ مصرع کی ترکیب چونکہ فارسی ہو گئی ہے اس لیے ثقل پیدا ہو گیا ہے لیکن یہ صحیح نہیں، سینکڑوں شعروں میں اس قسم کی فارسی ترکیبیں ہیں، لیکن یہ ثقل نہیں پایا جاتا مثلاً میر انیس کہتے ہیں: میں ہوں سردار شباب چمن خلد بریں میں ہوں خالق کی قسم دوش محمدؐ کا میں پہلے مصرع میں فارسی ترکیب کے علاوہ توالی اضافات بھی موجود ہے لیکن یہ بھدا پن اور ثقل نہیں ہے۔ جب کسی مصرعہ یا شعر کے تمام الفاظ میں ایک خاص قسم کا تناسب، توازن اور توافق پاتا جاتا ہے اور اس کے ساتھ وہ تمام الفاظ بجائے خود بھی فصیح ہوتے ہیں، تو وہ پورا مصرعہ یا شعر فصیح کہا جاتاہے یہی چیز ہے جس کو بندش کی صفائی، نشست کی خوبی، ترکیب کی دلآویزی، برجستگی، سلاست اور روانی سے تعبیر کرتے ہیں، یہی چیز ہے جس کی نسبت خواجہ حافظ فرماتے ہیں۔ آں را کہ خوانی استاد اگر بنگری تحقیق صنعت گراست امآ شعر رواں ندارو الفاظ کے توازن و تناسب سے کلام میں جو فرق پیدا ہو جاتا ہے وہ ایک خاص مثال میں آسانی سے سمجھ میں آ سکتا ہے میر انیس حضرت علی اکبر کی اذان دینے کی تعریف ایک موقع پر اس طرح کرتے ہیں، ع تھا بلبل حق گو کہ چہکتا تھا چمن میں اسی مضمون کو دوسرے موقع پر اسی طرح ادا کرتے ہیں، ع بلبل چہک رہا ہے ریاض رسولؐ میں وہی مضمون ہے، وہی الفاظ ہیں لیکن ترکیب کی ساخت نے دونوں مصرعوں میں کس قدر فرق پیدا کر دیا ہے۔ ایتلاف الوزن مع المعنی ترکیب الفاظ کے لحاظ سے شعر کی بڑی خوبی یہ ہے کہ کلام کے اجزاء کی جو اصلی ترتیب ہے وہ بحال خود قائم رہے، مثلاً غافل مفعول، مبتدائ، خبر، متعلقات، فعل جس ترتیب کے ساتھ ہر وقت بول چال میں آتے ہیں، یہی ترتیب شعر میں باقی رہے، اگرچہ اس میں شبہہ نہیں کہ اس ترتیب کا بعینہ قائم رہنا قریب قریب نا ممکن ہے، صرف ایک آدھ شعر یا بہت سے بہت شعر دو شعر میں اتفاقیہ یہ بات پیدا ہو جاتی ہے، مثلاً سعدیؒ کے یہ اشعار بدو گفتم کہ مشکی یا عبیری کہ از بوے دلآویز تو مستم بگفتامن گلے نا چیز بودم ولیکن مدتے باگل نشستم جمال ہم نشین در من اثر کرد وگرنہ ہم ہماں خاکم کہ ہستم لیکن چونکہ نظم کا در حقیقت سب سے بڑا کمال یہی ہے کہ اگر اس کو نثر کرنا چاہیں تو نہ ہو سکے، اور یہ اسی وقت ہو سکتا ہے، جب شعر میں الفاظ کی وہی ترتیب باقی ہے جو نثر میں معمولاً ہوا کرتی ہے۔ اس بنا پر شاعر کو کوشش کرنی چاہیے کہ اگر اصلی ترتیب پوری پوری قائم نہیں رہ سکتی، تو بہر حال اس کے قریب قریب پہنچ جائے، جس قدر اس کا لحاظ رکھا جائے گا اسی قدر شعر زیادہ صاف، برجستہ، روان، اور ڈھلا ہوا ہو گا، مثلاً یہ اشعار: کچھ تو ہوتے بھی ہیں وحشت میں جنون کے آثار اور کچھ لوگ بھی دیوانہ بنا دیتے ہیں دل نہیں مانتا جہاں جاؤں ہائے میں کیا کروں کہاں جاؤں (الندوہ جد4ن5 رمضان1323ھ) ٭٭٭٭٭٭٭٭ نظم القرآن و جمہرۃ البلاغۃ عام قیاس یہ ہے کہ صاحب کمال کسی حالت میں گنام نہیں رہ سکتا، تجربہ اور تاریخ بھی اسی کی شہادت دیتے آئے ہیں، لیکن کوئی کلیہ مستثنیٰ سے خالی نہیں مولوی حمید الدین جن کی ایک عجیب و غریب تصنیف کا اس وقت ہم ذکر کرنا چاہتے ہیں اس اسثناء کی ایک عمدہ مثال ہیں، مولوی صاحب موصوف نے پہلے قدیم طریقہ کے موافق تعلیم پائی، یعنی درس نظامیہ کے مطابق فارغ التحصیل ہوئے پھر مولانا فیض الحسن صاحب شارح حماسہ سے جو میرے بھی استاد ہیں، آداب کی تکمیل کی اس کے بعد انگریزی شروع کی، اور مدرسۃ العلوم میں رہ کر ’’ بی اے‘‘ کی سند حاصل کی زمانہ طالب علمی ہی میں سرسید مرحوم کے حکم سے انہوں نے سیرت نبوی کے متعلق دو کتابیں عربی سے فارسی میں ترجمہ کیں جو مدرسۃ العلوم کے نصاب دینیات میں شامل ہیں، اور چھپ کر شائع ہو چکی ہیں، مدرسہ سے نکل کر کراچی کے مدرسۃ الاسلام میں عربی کے پروفیسر مقرر ہوئے اور اب تک اسی عہدہ پر ہیں ان کا فارسی دیوان چھپ کر شائع ہو چکا ہے لارڈ کرزن جب سواحل عرب کی مہم پر گئے تھے، تو یہ بھی ساتھ تھے، اور سردار ان عرب کے سامنے عربی زبان میں لارڈ کرزن کی طرف سے جو تقریر پڑھی گئی وہ انہی کی لکھی ہوئی تھی اس قسم کے واقعات میں سے ایک واقعہ بھی انسان کی شہرت کے لیے کافی ہو سکتا ہے۔ لیکن مولوی صاحب اب بھی گمنام ہیں، ان کی یہی خواہش ہے اور اگر وہ اس خواہش میں ہمیشہ کامیاب رہیں تو ہمیں کوئی ہرج نہیں۔ لیکن ان کی جس تصنیف پر ہم ریویو کرنا چاہتے ہیں اس کے متعلق ہم ان کی خواہش کی پیروی نہیں کر سکتے۔ یہ تصنیف خصوصاً اس زمانہ میں اسلامی جماعت کے لئے اسی قدر مفید اور ضروری ہے جس قدر ایک تشنہ لب اور سوختہ جاں کے لئے آب زلاں اس لئے ہم اس کتاب پر مفصل ریویو لکھنا چاہتے ہیں افسوس ہے کہ مصنف نے یہ کتاب عربی زبان میں لکھی ہے، اور اس لئے عام لوگ اس سے متمتع نہیں ہو سکتے، ہم نے ان سے بار ہا کہا کہ اس زمانہ میں جو کچھ لکھنا چاہئے، ملکی زبان میں لکھنا چاہئے، لیکن ان کی قدامت پرستی اردو کی طرف ان کو مائل نہیں ہونے دیتی (اور سچ یہ ہے کہ وہ اردو لکھ بھی نہیں سکتے) عربی ہونے کی وجہ سے ہم ان کی عبارت کے اصلی اقتباسات نہیں دے سکتے بلکہ اس کے مطالب پر اکتفا کریں گے۔ نظم قرآن: یہ امر صاف نظر آتا ہے کہ قرآن مجید کی اکثر آیات میں کوئی خاص ترتیب نہیں ہے ایک آیت میں کسی فقہی حکم کا بیان ہے کہ اس کے بعدہی کوئی اخلاقی بات شروع ہو جاتی ہے پھر کوئی قصہ چھڑ جاتا ہے ساتھ ہی کافروں سے خطاب شروع ہو جاتاہے پھر کوئی اور بات نکل آتی ہے غرض یہ کہ عام تصنیفات کا جو طرز ہے کہ ایک قسم کے مطالب یک جا بیان کئے جائیں، قرآن پاک کا یہ طرز نہیں۔ اس کے متعلق قدما کی مختلف رائیں ہیں۔ شاہ ولی اللہ صاحب نے لکھا ہے کہ چونکہ قرآن مجید میں عرب کے خطبات کا انداز ملحوظ ہے، اور ان کے خطبے اسی طرح کے ہوتے تھے، یعنی مختلف مضامین بلا ترتیب بیان کرتے تھے، اس لئے قرآن پاک میں بھی وہی طرز ملحوظ رکھا ہے، اکثر علماء کی یہ رائے ہے کہ قرآن مجید کی آیتیں مختلف وقتوں میں مختلف ضرورتوں کے پیش آنے پر نازل ہوتی رہیں۔ اس لئے ان میں کوئی ترتیب کیونکر قائم ہو سکتی ہے مثلاً کسی شخص کی مختلف تقریروں کو جو اس نے مختلف وقتوں میں کیں، اگر یک جا قلمبند کر دیا جائے تو ان میں ترتیب کیونکر پیدا ہو سکتی ہے؟ یہ رائے ظاہر بالکل صحیح معلوم ہوتی ہے کیونکہ یہ مسلم ہے کہ قرآن مجید نجماً نجماً یعنی جستہ جستہ نازل ہوا ہے اور ہر سورہ اور ہر ٹکڑے کا شان نزول مختلف ہے اس لئے ان میں ترتیب کیونکر قائم رہ سکتی ہے بعض علماء نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ قرآن مجید کی تمام آیتوں میں ابتدا سے لے کر انتہا تک ترتیب اور تناسب ہے۔ بقاعی نے اس کے ثبوت میں مستقل تفسیر لکھی ہے جس کا نام نظم الدررنی تناسب آلایات والسور رکھا ہے لیکن اس کے مطالب جو تفسیروں میں نقل کئے ہیں، ان کے دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ زبردستی تناسب پیدا کیا ہے اور اس قسم کا تناسب دنیا کی نہایت مختلف بلکہ متناقص چیزوں میں بھی پیدا ہو سکتا ہے۔ مولوی حمید الدین صاحب نے اسی مسئلہ پر یہ کتاب لکھی ہے وہ اسی خیر رائے کے مدعی ہیں یعنی یہ کہ ایک سورہ میں جس قدر آیتیں ہیں، ان میں ضرور کوئی قدر مشترک ہے اور اس لحاظ سے وہ سب آیتیں باہم متناسب ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ جس طرح ہر کتاب کا کوئی خاص موضوع (بجکٹ) ہوتا ہے اسی طرح ہر سورہ کا ایک خاص موضوع ہے، اور تمام آیتیں بالذات بالواسطہ اسی موضوع سے متعلق ہوتی ہیں۔ ان کا عام استدلال یہ ہے کہ اگر ایک سورۃ کی آیتوں میں باہم اس قسم کا تناسب نہیں ہے تو اس کی کیا وجہ ہے کہ جب کوئی سورہ نازل ہونی شروع ہوتی تھی اور مختلف وقتوں میں مختلف آیتیں نازل ہوتی تھیں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حکم دیتے تھے کہ ان آیتوں کو اس سورۃ میں داخل کرتے جاؤ، پھر ایک حد تک پہنچ کر آپ فرماتے تھے کہ اب یہ سورہ ختم ہو گئی، اور اس کے بعد دوسری آیت شروع ہوتی تھی اگر یہ آیتیں اسی سورہ سے کوئی خاص مناسبت نہیں رکھتی تھیں، تو ان آیتوں کو انہی سورتوں میں داخل کرنے کی کیا ضرورت تھی، بلکہ سورتوں کی تحدید اور تخصیص بھی بے کار تھی۔ اس سے بڑھ کر یہ کہ روایات سے یہ ثابت ہے کہ بارہا ایسا ہوتا تھا کہ دو سورتیں ساتھ ساتھ نازل ہو رہی ہیں، اور جب کوئی آیت ناز ل ہوتی تھی تو آپ فرماتے تھے کہ اس آیت کو فلاں سورۃ میں داخل کرو۔ پھر دوسری آیت نازل ہوتی تھی۔ تو فرماتے تھے کہ اس کو دوسری سورۃ میں شامل کرو۔ اگر اس آیت کو اس سورہ کے ساتھ کوئی خصوصیت نہیں تھی، تو جس آیت کو جس سورہ کے ساتھ چاہتے شامل کر دیتے۔ اس بناء پر مصنف نے تمام سورتوں میں تناسب کا دعویٰ کیا ہے اور نہایت وقت نظر سے ہر جگہ اس کو ثابت کیا ہے۔ کتاب کا اصلی موضوع اسی قدر تھا لیکن اس بحث کے ضمن میں قرآن مجید کی فصاحت و بلاغت کی بحث بھی آ گئی۔ مصنف ان کتابوں سے واقف تھا جو قرآن مجید کی فصاحت و بلاغت پر لکھی گئی ہیں لیکن اس کو نظر آیا کہ یہ تمام کتابیں نا تمام ہیں، اور اس کی وجہ یہ ہے کہ فصاحت و بلاغت کا جو فن مرتب کیا گیا تھا وہ خود نا تمام تھا، اور تمام لوگوں نے اسی فن کے موافق قرآن مجید کی فصاحت و بلاغت ثابت کی تھی۔ اس بنا پر مصنف نے اصل فن پر توجہ کی اور اس کو ایک نہایت وسیع پیمانہ پر نئے سرے سے ترتیب دیا، اور فصاحت و بلاغت کے بہت سے جدید اصول قائم کئے اس طرح ایک اور مستقل کتاب تیار ہو گئی جس کا نام انہوں نے جمرۃ البلاغۃ رکھا۔ اس کتاب کی تمہید مصنف نے اس طرح شروع کی ہے۔ فن بلاغت علمائے اسلام نے جب یہ ثابت کرنا چاہا کہ قرآن مجید بلاغت کے لحاظ سے معجز ہے تو اس بات کی ضرورت پیش آئی کہ پہلے بلاغت کے اصول اور قواعد مرتب کر دئیے جائیں اس کا اصلی طریقہ یہ تھا کہ خود کلام عرب کا تبع کیا جاتا، اور بلاغت کی جزئیات کا استقصا کر کے اس کے اصول اور ضوابط منضبط کئے جاتے لیکن جس زمانہ میں یہ کوشش کی گئی، اس وقت عجم کے علوم و فنون کا اثر مسلمانوں پر غالب آ گیا تھا اس لئے مسلمانوں نے جس طرح اور علوم و فنون، یونان اور فارس سے اخذ کئے، اس فن کے مسائل بھی اسی کی تحقیقات کے موافق مرتب کئے، عجم کے نزدیک بلاغت کے اصلی ارکان تشبیہہ او ربدیع ہیں، اس لئے علمائے اسلام نے بھی انہی چیزوں کو مہتم بالشان قرا ردیا۔ حالانکہ اہل عرب کے نزدیک بدیع ایک لغو چیز ہے، اور تشبیعہ چنداں قابل اعتنا نہیں۔ علمائے اسلام نے فن شعر اور بلاغت کی بنیاد، ارسطو کی کتاب پر قائم کی۔ ارسطو اگر عرب میں پیدا ہو ا ہوتا، اور کلام عرب کے متبع اور استقراء کی بناء پر اس فن کی بنیاد قائم کرتا تو یقینا اس مقصد میں کامیاب ہوتا، لیکن وہ یونان میں پیدا ہوا، وہیں تربیت پائی، یونانیوں ہی کا کلام اس کے پیش نظر رہا، اس لئے شاعری اور فن بلاغت کے جو اصول اس نے قائم کئے۔ یونانی شعراء کے کلام سے مستنبط کر کے قائم کئے، یونان میں شعر کا جو بہتر سے بہتر نمونہ سمجھا جاتا تھا، وہ ہومر اور سونگلیں کی شاعری تھی۔ ان دونوں نے شاعری کی بنیاد مصنوعی قصوں اور حکایتوں پر رکھی تھی۔ فنون لطیفہ کی تدوین کا عام قاعدہ یہ ہے کہ جس چیز کا حسن عام طور پر مسلم الثبوت ہوتا ہے اس پر نظر ڈالتے ہیں، اور اس کے اجزاء کی تحلیل کرتے ہیں یعنی یہ کہ اس میں کیا کیا باتیں پائی جاتی ہیں، پھر انہی چیزوں کو محاسن قرار دے کر کلیات قائم کر لیتے ہیں۔ یونان میں ہومر اور سوفکلیں کا کلام، فصاحت و بلاغت میں بے نظیر تسلیم کیا جاتا تھا ارسطو نے تحلیل کر کے دیکھا تو ان کا کلام تمام تر حکایتیں اور افسانے تھے، اس نے یہ بھی دیکھا کہ یہ حکایتیں واقعی نہیں بلکہ اکثر مصنوعی اور فرضی واقعات ہیں اس سے اس کو خیال پیدا ہو اکہ کلام کی اصلی خوبی صرف یہ ہے کہ کسی واقعہ کی تصویر کھینچی جائے، واقعہ فی نفسہ صحیح ہو یا نہ ہو اس سے غرض نہیں۔ ارسطو نے یہ بھی دیکھا کہ دو چیزیں فی نفسہ بد صورت اور کریہ المنظر ہیں۔ ان کی بھی اگر بعینہ تصویر کھینچ دی جائے تو طبیعت کو مزہ آتا ہے، اس سے اس نے یہ فیصلہ کیا کہ واقعہ صحیح ہو یا غلط، لیکن اگر اس طرح ادا کر دیا جائے کہ اس کی تصویر آنکھوں میں پھر جائے تو حسن کلام حاصل ہو جائے گا اس خیال کی امور ذیل سے اور بھی تائید ہوتی ہے۔ انسان میں محاکات کا مادہ تمام اور حیوانات سے زیادہ پایا جاتا ہے بچہ وہی کام کرتا ہے جو اوروں کو کرتے دیکھتا ہے اس بنا پر کسی واقعہ کی تصویر کھینچنا انسان کی اصلی فطرت کا اقتضاء ہے۔ علم فی نفسہ ایک مرغوب چیز ہے اور کسی واقعہ کا بیان کرنا بھی ایک طرح کا علم ہے۔ اس پر واقعہ نگاری مرغوب عام ہے۔ ان وجوہ کی بنا پر ارسطو نے محاسن کلام کی تمام تر بنیاد انہی دو اصولوں پر رکھی اور ان کے خلاف جو باتیں نظر آئیں ان کو رد کر دیا۔ سوفاکلیس پر لوگوں نے اعتراض کیا تھا کہ تم نے لوگوں کے اخلاق و عادات کی جو تصویر کھینچی وہ اصل کے مطابق نہیں سوفا کلیس نے کہا کہ میں نے اس کا ویسا حلیہ بیان کیا جیسا ہونا چاہیے نہ کہ جیسا ان کا واقعی حلیہ ہے۔ سوفا کلیس کا یہ جواب اگرچہ غلط ہے لیکن ارسطو کو اپنے اصول کے موافق پسند کرتا ہے یونان میں شاعری سے جو کام لیا جاتا تھا، وہ صرف نداقیہ جلسوں کا گرم کرنا ہوتا تھا، شعرا عموماً مذاقیہ مصنوعی قصے نظم کرتے تھے۔ یہاں تک کہ شاعر سخن ساز اور دروغ باز کے لقب سے پکارا جاتا تھا اس بنا پر ارسطو نے یہ اصول قائم کیا کہ شاعری کا اصلی مقصد لطف انگیزی ہے اور اسی بنا پر اس کی رائے ہے کہ اگر راست گوئی سے یہ مقصد حاصل نہ ہو تو شاعر کو واقعہ کا گھٹا یا بڑھا دینا جائز ہے۔ علمائے اسلام نے چونکہ بنیاد فن ارسطو کے اصول پر قائم کی اس لئے تمام مسائل میں وہیا رسطو کے خیالات کا اثر پایا جاتا ہے ارسطو نے جھوٹے طلسم باندھنے کو کمال شاعری قرار دیا تھا علمائے اسلام نے بھی یہ اصول قرار دیا کہ احسن الشعر اکذبہ یعنی اچھا شعر وہ ہے کہ جس میں زیادہ جھوٹ ہو ارسطو کے نزدیک بلاغت مصوری کانام ہے اس لئے علمائے اسلام کے نزدیک بھی بلاغت کی اصلی روح درد ان تشبیہ و تمثیل ہے کیونکہ تشبیہ بھی در حقیقت ایک قسم کی مصوری ہے چنانچہ عبدالقاہر جرجانی نے اسرار البلاغۃ میں لکھا ہے کہ بلاغت کے مہمات مسائل تشبیہ ہی سے متفرع ہیں۔ ایک اور امر نے علمائے اسلام کو خیال دلایا کہ بلاغت اور شاعری میں جھوٹ کو سچ پر ترجیح ہے انہوں نے دیکھا کہ استعارہ تشبیہ سے زیادہ لذیذ اورلطیف ہوتا ہے مثلاً ان دونوں فقروں میں زید شیر کے مشابہ ہے زید شیر ہے۔ پہلا تشبیہہ اور دوسرا استعارہ ہے اور یہی دوسرا فقرہ زیادہ پر زور اور بلیغ ہے اب ان دونوں فقروں کو دیکھا تو نظر آیا کہ پہلا فقرہ واقعیت کا پہلا رکھتا ہے۔ کیونکہ ایک شجاع شخص، دلیری اور بہادری میں شیر کا مشابہ کہا جا سکتا ہے لیکن دوسرا فقرہ تمام تر مبالغہ اور جھوٹ ہے اس بنا پر یہ رائے قائم ہوئی کہ بلاغت اور شاعری میں جو زور یا لطف پیدا ہوتا ہے وہ مبالغہ اور جھوٹ سے پیدا ہوتا ہے ان خیالات نے تمام لٹریچر کو مبالغہ اور کذب سے بھر دیا۔ ارسطو کے دونوں مذکورہ بالا اصول غلط ہیں ارسطو کا یہ خیال کہ انسان میں محاکات1؎ کا مادہ تمام جانوروں سے زیادہ ہے محض غلط ہے 1؎ محاکات کا لفظ ارسطو کی تحریر میں بار بار آیا ہے اس لئے اس کے معنی اچھی طرح ذہن نشین کر لینے چاہیں محاکات کے معنی کسی چیز کی نقل اتارنا یا صورت کھینچنا ہے۔ اگر فرض بھی کر لیا جائے کہ جانور اور انسان دونوں میں محاکات کا عادہ ہے تاہم یہ فرق ہو گا کہ انسان صرف انسانوں کی محاکات کرتا ہے۔ بخلاف اس کے بندر تمام حیوانات اور انسانوں کی محاکات کرتا ہے۔ آدمی کا بچہ جانوروںکو بھی بولتے دیکھتا ہے لیکن ان کی بولی کی مطلق نقل نہیں کرتا بخلاف اس کے ہزار داستان یا میناہر جانور کی بولی بولنے لگتی ہے آدمی کا بچہ جو اپنے ماں باپ کے اقوال و افعال کی نقل کرتا ہے وہ اس بنا پر نہیں کہ اس کی فطرت میں محاکات کی قوت ہے بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو اس میں تمام خصائل انسانی بالقوہ موجود ہوتے ہیں یہ خصائل نمونہ اور مثال کے دیکھنے سے ابھرتے اور ظہور کرتے ہیں بچہ پیدا ہونے کے ساتھ دودھ پینا شروع کرتا ہے اس نے پہلے کسی کو دودھ پیتے نہیں دیکھا ہے، لیکن چونکہ خدا تعالیٰ نے اس کی فطرت میں ایک قوت ودیعت رکھی ہے اس لئے توقعت معین پر خود بخود اس کا ظہور ہوتا ہے اسی طرح انسان کو جو قوتیں عطا ہوئی ہیں وقتاً فوقتاً خود ان کا ظہور ہوتا ہے نمونہ اور مثال سے اس قوت کو صرف تحریک ہوتی ہے نہ یہ کہ یہ افعال محاکات کی فطرت کی وجہ سے وجود میں آتے ہیں۔ ارسطو کا یہ خیال بھی غلط ہے کہ بلاغت کا مدار کذب، سخن سازی اور مبالغہ پر ہے چنانچہ اس کی حقیقت آگے چل کر واضح ہو گی۔ ارسطو کے خیالات کے رد کرنے کے بعد مصنف نے خود اس مسئلہ پر نہایت تفصیل سے بحث کی ہے کہ نطق اور بلاغت کس چیز کا نام ہے؟ اور اس کیا کیا اصول و شرائط ہیں۔ ان کی تقریر کا خلاصہ حسب ذیل ہے۔ انسان فطرتاً ناطق پیدا کیا گیا ہے انسان اور دیگر تمام جانوروں میں جو چیز اصلی مابہ الامتیاز ہے اور جس کو منطق کی اصطلاح میں فصل کہتے ہیں یہی نطق ہے لیکن نطق سے آواز یا لہجہ یا راگ مقصود نہیں یہ چیزیں بلبل اور طوطی میں بھی پائی جاتی ہیں اور انسان سے بڑھ کر پائی جاتی ہیں بلکہ نطق سے یہ مراد ہے کہ دل میں جو خیالات آئیں ان کا اظہار کر سکتے عقل کا کام سوچنا اور غور و فکر کرنا ہے غور و فکر سے جو خیال پیدا ہوتا ہے عقل جب اس کو ظاہر کرنا چہاتی ہے تو نطق ہی کے ذریعے سے کر سکتی ہے اس لئے نطق عقل کا آلہ ہے۔ ارسطو کی پہلی غلطی یہ ہے کہ وہ انسان کی اصلی فضیلت اور اس کا اصلی خاصہ محاکات قرار دیتا ہے حالانکہ یہ خاصہ محاکات نہیں ، بلکہ نطق ہے محاکات بھی نطق ہی کا ایک نتیجہ ہے انسان میں قوت نطق نہ ہوتی تو محاکات بھی نہ ہوتی۔ نطق کا کمال دو چیزوں پر منحصر ہے خیالات اور مطالب صحت او رخوبی سے ادا کئے جائیں جو مطالب ادا کئے جائیں خود بھی عمدہ اور صحیح ہوں۔ ارسطو پر پیروان ارسطو کے نزدیک یہ دوسری شرط ضروری نہیں ان کے نزدیک نطق کا کام صرف یہ ہے کہ وہ مضمون کو بعینہ ادا کرے۔ مضمون فی نفسہ برا ہو یا بھلا اس سے غرض نہیں۔ ابو جعفر قدامہ لقد ابشعر میں لکھتاہے کہ ’’ اگر کسی شعر میں کوئی بیہودہ اور لغو مطلب ادا کیا گیا تو اس سے شعر کی خوبی پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔‘‘ شعر کی خوبی کے لئے اسی قدر کافی ہے کہ جو مضمون ادا کیا گیا کس خوبی اور لطافت سے ادا کیا گیا۔ لیکن یہ خیال تمام تر غلط ہے اور چونکہ یہ ایک اہم بحث ہے اس لئے اس کو ہم کسی قدر تفصیل سے بیان کرتے ہیں۔ یہ مسلم ہے کہ نطق صرف آواز اور صورت کا نام نہیں ہے بلکہ دو چیزوں کے مجموعہ کا نام ہے آواز اور معنی اور جب تک ان دونوں میں حسن نہ پایا جائے نطق کا کمال نہیں ہو سکتا۔ خوش چشم آدمی اگر ایک آنکھ کا کانڑا ہو تو حسین نہیں کہا جا سکتا۔ حسن کلام کی بھی یہی حالت ہے اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ایک عمدہ اور پر اثر مضمون بخود صرف کی معمولی پابندیوں میں مقید رہ کر ادا نہیں ہو سکتا۔ اس حالت میں الفاظ مضمون کا حجاب بن جاتے ہیں اور ا س وجہ سے مضمون اس حجاب کو چاک کر کے دل میں اترتا ہے اس کی یہ مثال ہے کہ کوئی بادشاہ ضرورت کے وقت آداب سلطنت چھوڑ کر خود سفیر بن کر جائے اور اپنا پیغام خود پہنچا آئے اس بیان سے ثابت ہوا کہ حسن کلام الفاظ کا پابند نہیں اور یہ کہ بلیغ دراصل مضمون ہوتا ہے، نہ الفاظ لغت میں بلیغ کے معنی پہنچنے والے کے ہیں اور جو چیزوں میں پہنچتی ہے وہ دراصل معانی ہیں، نہ الفاظ ۔ اس تمہید کے بعد اس بات پر لحاظ کرو کہ جب کوئی مضمون فی نفسہ بیہودہ اور لغو ہوتا ہے تو گو کیسے ہی فصیح اور شستہ الفاظ میں ادا کیا جائے دل میں جگہ نہیں کرتا، بلکہ اچٹ جاتا ہے۔ ممکن ہے کہ اس قسم کے مضمون سے کسی احمق اور بد مذاق کو مزہ آئے، لیکن کلام کی حسن و خوبی کا فیصلہ احمقوں کے مذاق کی رو سے نہیں ہو سکتا۔ غرض ان اسباب سے کلام میں جب تک مضمون اور معنی کی خوبی نہ ہو دل میں نہیں اتر سکتا۔ اور اس بنا پر اس کو بلیغ بھی نہیں کہہ سکتے یہی وجہ ہے کہ شعرائے عرب کلام کی تعریف حسن مضمون کے لحاظ سے کرتے ہیں۔ زہیر بن ابی سلمی کہتا ہے وذی نغمۃ ممتھا و شکرتھا وخصم بکاد الحق یغلب باطلہ وفعت بمعروف من القول صائب اذا ما اضل الناطقین مفاعبلہ وذی احظل فی القول یحسب وانہ مصیب فما یلمھم بہ فھو قائلہ عبات لہ حلماً و کرامت غیرہ واعرضت عنہ وھو بار مقایلہ قرآن مجید میں جہاں بلیغ کا لفظ آیا ہے اس معنی میں آیا ہے مثلاً قل لھم فی انفسہم یعنی اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان لوگوں سے ایسی بات کہہ جو بلیغ ہو یعنی ان کے دل میں اتر جائے اسی طرح اس آیت میں بھی وللہ الحجۃ البالغۃ یہی معنی مراد ہیں حاصل یہ کہ جو مضمون جس قدر زیادہ دلنشین اور دلپذیر ہو گا اسی قدر زیادہ بلیغ ہو گا۔ ایک اور واضح مثال سے یہ نکتہ ذہن نشین ہو سکتا ہے فرض کرو ایک شخص کسی آدمی کو گالیاں دے رہا ہے اور گالیوں میں ہر قسم کی سخن آرائی، لفاظی، جدت پسندی، استعارہ بندی صرف کرتا ہے الفاظ بھی نہایت شستہ با محاورہ اور فصیح ہیں تو کیا تم اس شخص کو فصیح اور بلیغ کہو گے۔ اس تمام تقریر سے امور ذیل ثابت ہوئے۔ کلام کی خوبی، صرف محاکات کا نام نہیں کلام کی غرض و غایت صرف سامعین کو محظوظ کرنا نہیں بلکہ عقل کی سفارت اور پیغامبری ہے کلام سے جو لذت داخل ہوتی ہے وہ اس لئے نہیں کہ کلام ایک قسم کی محاکات ہے اور محاکات انسان کی فطرت میں داخل ہے بلکہ اس وجہ سے ہے کہ نطق ایک قوت ہے اور ہر قوت کے استعمال میں انسان کو خواہ مخواہ مزہ آتا ہے۔ انسان کا اصلی خاصہ محاکات نہیں بلکہ نطق ہے کلام کی خوبی سچائی پر موقوف ہے۔ ان مقدمات سے معلوم ہو گا کہ بلاغت جس چیز کا نام ہے، وہ عقل کی دست و بازو، انسانیت کا عنصر راستی کی مترجم اور فخر کا تاج ہے۔ وہ اس رتبہ کی چیز ہے کہ ایک پیغمبر اولو العزم کا معجزہ قرار پائے اسی کا اثر تھا کہ قرآن مجید کے اعجاز نے اعجاز موسوی کو بے حقیقت کر دیا۔ عصائے موسوی کا معجزہ، یہودیوں یا قبطیوں کو غلامی کی حد سے آگے نہ بڑھا سکا، لیکن اعجاز قرآنی نے لوگوں کو حفیض خاک سے اٹھا کر آسمان تک پہنچا دیا۔ لیکن اگر بلاغت کی وہ حقیقت ہو جو ارسطو نے بیان کی، تو نعوذ باللہ وہ کسی پیغمبر کا معجزہ کیا قرار پا سکتی ہے؟ بلاغت کی ماہیت اور حقیقت بیان کرنے کے بعد اب ہم اس کے اصول اور آئین مرتب کرنا چاہتے ہیں لیکن چونکہ بلاغت کا بہت بڑا مظہر شاعری اور خطبہ پردازی ہے، اس لئے پہلے ہم ان دونوں کی حقیقت سے بحث کرتے ہیں۔ شاعری اور خطابت اگرچہ بلاغت کی حیثیت سے برابر کے شریک ہیں تاہم ان دونوں میں بہت بڑا فرق ہے شاعری کی حقیقت، خود شاعری کے لفظ سے اچھی طرح سمجھ میں آ سکتی ہے۔ اہل عرب چوں کہ شاعری کی حقیقت کو خوب سمجھتے تھے اس لئے انہون نے اس کا نام ایسا رکھا جو خود شعر کی حقیقت پر دلالت کرتا ہے۔ شاعری کے لفظی معنی صاحب شعور کے ہیں شعور احساس (Feeling) کو کہتے ہیں یعنی شاعر وہ شخص ہے جس کا احساس قوی ہو انسان پر خاص خاص حالتیں طاری ہوتی ہیں مثلاً رونا، ہنسنا، انگڑائی لینا یہ حالتیں جب انسان پر غالب ہوتی ہیں تو اس سے خاص خاص حرکات صادر ہوتی ہیں مثلاً رونے کی حالت میں آنسو جاری ہوتے ہیں ہنسنے کے وقت میں ایک خاص آواز پیدا ہوتی ہے۔ انگڑائی کی حالت میں اعضاء تن جاتے ہیں۔ اسی طرح شعر بھی ایک خاص احساس کا نام ہے شاعر کی طبیعت پر رنج یا خوشی یا غصہ یا استعجاب کے طاری ہوتے ہی ایک خاص اثر پڑتا ہے۔ یہ اثر الفاظ کے ذریعہ سے ظاہر ہوتا ہے اسی کا نام شاعری ہے شاعر کا احساس اوروں کے احساس سے قوی ہوتا ہے لیکن اس کے یہ معنی نہیں کہ اس کو اوروں کی بہ نسبت زیادہ رنج یا زیادہ خوشی ہوتی ہے بلکہ اس کے یہ معنی ہیں کہ احساس کے وقت اس کی تمام قوتیں جوش میں آ جاتی ہیں احساس اس کی قوت متخیلہ کو نطق کو آواز کو لہجہ کو سب کو یکبارگی مشتعل کر دیتا ہے شاعر گویا نودمیدہ سبزہ ہے کہ جب اس پر پانی پڑتا ہے تو رگ رگ میں سرایت کر جاتا ہے اور وہ لہلہانے لگتا ہے۔ خطیب (لیکچرار) کا احساس بھی شاعر کے احساس سے کم نہیں ہوتا لیکن خطیب اس احساس سے مغلوب نہیں ہوتا۔ اس کی غرض دوسروں پر اثر ڈالنا ہوتا ہے وہ اپنے احساس کو قابو میں رکھ سکتا ہے اور اس سے اسی حد تک اور اسی ترتیب اور مناسب سے کام لیتا ہے جہاں تک اوروں کے متاثر کرنے میں کام آئے شاعر کو صرف موجودہ حالت سے کام ہوتا ہے۔ لیکن خطیب یہ بھی دیکھتا ہے کہ آئندہ کیا ہو گا اس بنا پر خطیب، شاعر کی بہ نسبت زیادہ عقل ، زیادہ ذکی النفس، زیادہ عالی منزلت ہوتا ہے اور اسی بنا پر اہل عرب شعر کو جادوگری اور خطبہ کو حکمت کہتے ہیں۔ عام لوگوں کا خیال ہے کہ شاعری کے اصلی عنصر تشبیہات اور استعارات ہیں چنانچہ وہ حضرت عیسیٰ کے مواعظ کو اس بنا پر ایک قسم کی شاعری سمجھتے ہیں کہ وہ تشبیہات سے مملوہیں لیکن یہ خیال بالکل غلط ہے شاعر کی اصلی خصوصیت یہ ہے کہ وہ نہایت شریع الانفعال اور موسیقی الطبع ہوتا ہے جب اس پر کوئی خاص اثر طاری ہوتا ہے تو نغمہ، وزن، رقص کی قوتیں جواس میں فطری ہوتی ہیں دفعۃً تحریک میں آ جاتی ہیں۔ حضرت داؤد ؑ پر جب خدا تعالیٰ کے احسانات کا اثر غالب آتا تھا تو بے ساختہ وجد میں آ کر رقص کرنے لگتے تھے ان کا کلام جس قدر ہے، سر تاپا شعر ہے جو ان کے پر جوش دل سے بے ساختہ نکلتا تھا اسی بنا پر ان کے اشعار کو مزا میر کہتے ہیں بخلاف ان کے حضرت عیسیٰ ؑ پر شاعرانہ احساس غالب نہ تھا اس لئے ان کے کلام میں شاعری کے بجائے حکمت اور فلسفہ ہوتا تھا۔ ارسطو نے اس بحث میں بھی سخت غلطی کی ہے وہ کہتا ہے کہ شاعری کے جذبہ کے وقت انسان جو گانے یا ناچنے لگتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ نغمہ اور رقص ایک قسم کی محاکات ہے یعنی انسان کے دل میں جو جذبات پیدا ہوتے ہیں آواز اور حرکات کے ذریعہ سے وہ ان کی تصویر کھینچتا ہے۔ چنانچہ رقاص جو کچھ گاتے ہیں حرکات رقص کے ذریعے سے اس کو بتاتے بھی جاتے ہیں۔ لیکن یہ خیال غلط ہے اصل حقیقت یہ ہے کہ جذبات انسانی مثلاً رنج، خوشی، خوف، تعجب، شوق، نفرت یہ چیزیں انسان کے دل میں ایک نہایت پر زور حرکت پیدا کر دیتے ہیں۔۔۔ یہی حرکت آواز یا راگ یا رقص یا تڑپ بن جاتی ہے۔ مثلاً انسان کو جب ہنسی آتی ہے تو دل میں ایک قسم کی حرکت پید اہوتی ہے یہی حرکت ہنسی بن جاتی ہے اور چونکہ یہ آثارات حرکات نفسانی کے مشابہ ہوتے ہیں اس لئے وہ حرکات نفسانی پر اسی طرح دلالت کرتے ہیں جس طرح الفاظ معانی پر دلالت کرتے ہیں۔ غرض جس طرح نطق ایک فطری چیز ہے اسی طرح یہ حرکات و اشارات بھی فطری ہیں جو بے اختیار سر زد ہوتے ہیں وہ محاکات کی غرض سے نہیں کئے جاتے گو یہ ممکن ہے کہ محاکات کا مقصد اس سے حاصل ہو جائے اس موقع پر پہنچ کر ایک اور عام غلطی کا رفع کر دینا بھی ضرور ہے اکثر لوگ شعر اور نثر بلیغ کو ایک سمجھتے ہیں چنانچہ قدماء میں ارسطو اور متاخرین میں جان مل کا یہی مذہب ہے۔ ارسطو کا خیال ہے کہ محاکات کے مختلف طریقے ہیں اور خود کلام جو محاکات کا ایک خاص طریقہ ہے اس میں محاکات کے تین ذریعہ پائے جاتے ہیں وزن، الفاظ، نغمہ، یہ چیزیں تنہا اور کبھی مل کر واردات قلبی کی تصویر کھینچتی ہیں یہی محاکات شعر ہیں یہ محاکات صرف کبھی الفاظ کے ذریعہ سے ہوتی ہے جس طرح سقراط کا مکالمہ اور کبھی الفاظ اور نظم دونوں کے ذریعہ سے وزن شعر کے لئے کوئی ضروری چیز نہیں لیکن عام لوگوں نے اس کو شاعری کا ضروری جز قرار دیا ہے۔ ارسطو کا خیال اس حد تک صحیح ہے کہہ و زن پر شعر کا مدار نہیں لیکن اس کے یہ معنی نہیں کہ وزن شعر کے اجزاء میں داخل نہیں وزن شعر کا جزو ہے لیکن چونکہ کل کے لئے محض ایک جزو کافی نہیں ہوتا اس لئے تنہا وزن سے شعر نہیں بن سکتا، لیکن ارسطو کی یہ غلطی ہے کہ وہ سقراط کے مکالمہ اور ہومر کے کلام دونوں کو شعر قرار دیتا ہے۔ جان مل کی رائے اس حد تک صحیح ہے کہ شاعری جذبات کے اظہار کا نام ہے اور یہ کہ شاعر دوسروں کو نہیں بلکہ صرف اپنے آپ کو مخاطب کرتا ہے اس تشریح سے جان مل نے شاعر کو خطیب سے الگ کر دیا اور اس بنا پر وہ سقراط کے مکالمہ کو شاعری نہیں کہتا لیکن جان مل نے بھی غلطی کی کہ وہ وزن کو شعر کا کوئی ضروری جزو نہیں قرار دیتا۔ اب دوبارہ غور کرو کہ شعر کس چیز کا نام ہے انسان پر جب کوئی جذبہ طاری ہوتا ہے تو کسی نہ کسی ذریعہ سے ظاہر ہونا چاہتا ہے اور چونکہ انسان کی تمام قوتوں میں سے نطق سب سے زیادہ قوی اور اس کی مخصوص قوت ہے اس لئے یہ جذبہ نطق ہی کے ذریعہ سے ظاہر ہوتا ہے جس طرح کہ حیوانات کے جذبات مختلف قسم کی آوازیں سے ظاہر ہوتے ہیں۔ مثلاً شیر کا ہمہمہ طاؤس کی جھنکار، کوئل کی کوک وغیرہ وغیرہ۔ بعض وقت یہ جذبہ موزوں حرکات کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے مثلاً طاؤس اور کبوتر کا رقص یا راگ سننے کے وقت سانپ کا لہرانا۔ قدرت نے جن اشخاص کو نطق اور نطق کے ساتھ نغمہ کی بھی قوت دی ہے ان سے جذبات کی حالت میں شعر ادا ہوتے ہیں اور ساتھ ہی وہ گنگنانے بھی لگتے ہیں اور جب جذبہ زیادہ قوی ہتا ہے تو رقص کے حرکات بھی سر زد ہونے لگتے ہیں اس بنا ء پر شعر وزن نغمہ اور رقص کے مجموعہ کا نام ہے لیکن چونکہ یہ چیزیں جذبات کے کمال شدت کے وقت پیدا ہوتی ہیں اس لئے ہر شعر میں ان چیزوں کا پایا جانا ضروری نہیں تاہم کوئی شعر نغمہ اور راگ سے بالکل خالی نہیں ہو سکتا خود وزن جو شعر کا ایک ضروری جزو ہے، راگ کی ایک قسم ہے اور یہی وجہ ہے کہ اہل عرب ہمیشہ شعر کو گا کر پڑھتے تھے اور یہی وجہ ہے کہ شعر پڑھنے کو اہل عرب انشاد کہتے ہیں جس کے معنی گانے کے ہیں اب تم نے سمجھا ہو گا کہ شعر کو وزن سے نغمہ سے رقص سے کیا تعلق ہے در حقیقت یہ سب ایک ہی مخرج سے نکلے ہیں البتہ وزن کو شعر سے بہ نسبت نغمہ اور رقص کے زیادہ قوی تعلق ہے اور اسی وجہ سے ہمیشہ لوگ وزن اور شعر کو ایک چیز سمجھتے آئے ہیں ۔ اس بحث کے بعد مصنف نے بلاغت کے اصول اور قواعد اور جزئیات بیان کئے ہیں اس کو ہم آئندہ پرچے کے لئے اکٹھا رکھتے ہیں۔ ٭٭٭٭٭٭٭ شعر العرب رحجاب طبع کی اور بات ہے ورنہ یہ ظاہر ہے کہ اقتضائے حالات کے لحاظ سے مجھ کو شعر العجم سے پہلے شعر العرب لکھنا چاہئے تھا بلکہ سچ یہ ہے کہ قوی ضروریات کی فہرست میں شعر العجم کا نام سینکڑوں نمبروں کے بعد آنے کی چیز ہے لیکن کیا کیا جائے شعر العرب لکھتا تو سمجھنے والے کہاں سے آتے؟ مدرسوں میں فن ادب کا مذاق نہیں اور کالج والے عربی خود نہیں پڑھتے، بلکہ یہ لقمہ زبردستی ان کے منہ میں ڈالا جاتا ہے جس کو امتحان کے بعد وہ اگل دیتے ہیں۔ یہ سب کچھ سہی لیکن یہ کانٹا مرتے دم تک دل سے نہیں نکل سکتا۔ کہ عربی شاعری اس قدر وسیع، پر اثر اور قومی جذبات سے لبریز اور اس کے متعلق ہماری زبان میں ایک حرف بھی نہیں زیادہ افسوس یہ کہ شعر العرب کے لئے کچھ بہت زیادہ کدو کاوش کی ضرورت نہیں کسی قدیم تصنیف کو سامنے رکھ لیا جائے اور انہی عنوانوں کو کچھ پھیلا کر، کچھ نئے مذاق کا رنگ چڑھا کر لکھ دیا جائے۔ تو اچھی خاصی تالیف ہو جائے گی۔ ا س قسم کی قدیم تصنیفوں میں سب سے بہتر اور سب سے جامع ابن رشیق قیر وانی کی کتاب العمدہ ہے اس کا نسخہ ہندوستان میں موجود نہ تھا مدت ہوئی میں نے بہ صرف کثیر مصر کے کتب خانہ سے لکھوا کر منگوایا تھا، لیکن وہ ایک دوست کی نذر ہوا اور شاید ایشیاء سے یورپ میں پہنچ گیا۔ اتفاق سے اب کی ڈاک میں جو مصری کتابیں آئیں ان میں کتاب العمدہ کا بھی ایک نسخہ آیا تھا یار گم گشتہ کے ملنے سے جو خوشی ہوئی اس کا بیان نہیں ہو سکتا، شعر العرب کی یاد پھر تازہ ہو گئی کتاب تو جب لکھی جائے گی، لکھی جائے گی۔ لیکن سر دست اس کتاب کا ریویو لکھتا ہوں جس سے شعر العرب کی داغ بیل پڑ جائے گی اس پر کبھی عمارت بھی بن جائے گی اور میں اس کام کو نہ کر سکوں گا تو کوئی اور خدا کا بندہ پیدا ہو جائے گا۔ مردے از غیب بروں آبدو کارے بکند ابن رشیق افریقہ کا رہنے والا تھا، اس کا باپ ایک رومی غلام تھا اور زرگری کا پیشہ کرتا تھا۔ باپ نے ابتدا میں خاندانی پیشہ سکھلایا، لیکن اس نے اسی کے ساتھ علوم ادبیہ کی بھی تحصیل کی اور یہ مذاق غالب آیا کہ 406ھ میں قیروان گیا جو افریقہ کا دار العلم تھا۔ یہاں اس نے ان علوم کی تکمیل کی لیکن جب وحشی عربوں نے اس شہر کو برباد کر دیا تو وہ سسلی چلا آیا۔ اور ماذر میں قیام کیا۔ 463ھ میں وفات پائی۔ ادب میں اس کی بہت سی تصنیفات ہیں لیکن سب کی سرتاج کتاب کتاب العمدہ ہے۔ جو ہمارے مضمون کا عنوان ہے۔ علامہ ابن خلدون نے اس کتاب کی نسبت لکھا ہے کہ اس فن میں کوئی کتاب اس درجہ کی نہیں لکھی گئی۔ اس کتاب کا موضوع اگرچہ عرب کی شاعری اور اس کے اصول اور آئین ہیں لیکن چونکہ اس وقت تک زبان یا شاعری کی تاریخ اور اصول و آئین کا منضبط کرنا کوئی فن نہیں قرار پایا تھا۔ اس لئے مصنف نے شاعری کے اصول پر کم اور صنائع و بدائع پر زیادہ لکھا۔ تاہم جو کچھ لکھا ہے کسی قدر ترتیب بدل دینے سے مذاق حال کے سانچے میں ڈھل سکتا ہے اور ہم اس وقت ریویو میں یہی مقصد پیش نظر رکھتے ہیں۔ شاعری کی ابتداء عرب کا ملک ہزاروں برس سے موجود ہے اس کا تمدن بھی کچھ نو عمر نہیں۔ تاہم تعجب ہے کہ شاعری کا پتہ اسلام سے سو ڈیڑھ سو برس آگے نہیں چلتا، سب سے پہلا شاعری جس سے قصیدہ کی ابتداء ہوئی مہلہل بن ربیعہ ہے جو امراء لقیس کا ماموں تھا فرزوق کہتا ہے۔ ومھلھل الشعراء ذاک الاول امراء لقیس آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے تقریباً40 برس پہلے تھا۔ اس لئے مہلہل کا زمانہ بھی اس کے قریب قریب سمجھ لینا چاہیے۔ یہ بات عرب کی تاریخ کا طغرائے زرین ہے کہ وہاں شاعری کی ابتداء شریفانہ اور مردانہ جذبات سے ہوئی۔ ایران کی طرح مداحی اور خوشامد گوئی میں اس کی زبان نہیں کھلی۔ عرب ہمیشہ سے جنگ جو، بہادر، مہمان نواز، سیر چشم، غیور اور بلند ہمت تھے۔ انہی باتوں کو نظم میں ادا کرتے تھے اور یہی ان کی شاعری تھی۔ کوئی قبیلہ کسی شاعر کی خانہ جنگیوں میں کسی قسم کی مدد کرتا تھا۔ تو شکریہ کے اشعار کہہ دے اس نے یہ قطعہ لکھا۔ اذا ہبت ریاح ابی عقیل دعونا عند ہبتھا الولیدا اعزا الوجہ ابیض عبیشمیا اعان علی مروتہ لبیدا ابا وھب جزاک اللہ خیرا نحرناھا واطعمنا الثریدا اخیر شعر یہ تھا فعد ان الکریمہ لد معاد وظنی بابن اووی ان یعود دوبارہ بھی ایسی ہی فیاضی کر کیونکہ شریعت بار بار فیاضی کرتے ہیں۔ اور میرا گمان ہے کہ تو ایسا ہی کرے گا۔ چونکہ اس شعر میں اظہار حاجت تھا، لبید نے بیٹی سے کہا کہ اور شعر بہت اچھے ہیں لیکن اخیر شعر غیرت کے خلاف ہے۔ عمر بن ابی ربیعہ قریش کا مشہور شاعر تھا۔ عبدالملک نے اس سے مدح کی فرمائش کی اس نے کہا کہ میں صرف عورتوں کی مدح کیا کرتا ہوں یعنی غزل لکھتا ہوں۔ ابن میادہ نے خلیفہ منصور کی مدح میں قصیدہ لکھا اور قصد کیا کہ بغداد جا کر دربار میں سنائے۔ سوار ہو رہا تھا کہ اس کا نوکر حسب معمول اونٹنی کا دودھ لے کر آیا۔ ابن میادہ نے پی کر پیٹ پر ہاتھ پھیرا اور کہا کہ استغفراللہ اس کے ہوتے میں امیر المومنین کی مدح لکھتا ہوں اور بغداد جاتا ہوں۔ یزید ثقفی حجاج کا ہم وطن شاعر تھا۔ حجاج نے اس کو فارس کا گورنر مقرر کیا۔ جب وہ رخصت ہونے کے لئے آیا تو حجاج نے کہا کچھ شعر سناتے جاؤ، حجاج سمجھتا تھا کہ اس کی مدح پڑھے گا۔ یزید نے برجستہ کہا۔ وابی الذی سلب ابن کسری رایۃ بیضاء تخفق کالعقاب الطائر (میرا باپ وہ ہے جس نے نوشیروان کے بیٹے سے علم چھین لیا تھا، جو عقاب کی طرح لہراتا جاتا تھا) حجاج نے عرض بیگی سے کہاکہ جب یزید باہر نکلے تو سند حکومت چھین لینا اور کہنا کہ تیرے باپ نے یہ چیز تجھ کو وراثت میں دی تھی۔ یزید نے کہا حجاج سے کہہ دینا کہ: وورثت جدی مجدہ و فعالہ وورثت جدک اغزابا لطائف (میں نے اپنے باپ کا شرف اور کارنامے وراثت میں پائے اور تیرے باپ نے وراثت میں بکریاں چھوڑیں) فرزوق بنی امیہ کے دربار کا شاعر تھا، تاہم جب سلیمان بن عبدالملک نے اس سے شعر پڑھنے کی فرمائش کی تو بجائے اس کے کہ وہ سلیمان کی مدح میں کچھ پڑھتا، اپنے خاندان کی مدح میں فخریہ اشعار پڑھے۔ سلیمان سخت برہم ہوا اتفاق سے دربار کا ایک اور شاعر جس کا نام نصیب تھا، موجود تھا، اس نے برجستہ یہ اشعار پڑھے۔ اقول لرکب قافلین رایتھم قفاذات اوشام ومرلاک قارب تفو اخیرو نی عن سلیمان اننی لمعروفہ من اہل ودان طالب فعاجوا واثنوا باالذی انت اہلہ والو سکتو اثنت علیک الحقائب سلیمان نے نصیب کو پانچ سو اشرفیاں دلوائیں اور کہا کہ فرزوق سے کہہ دے کہ اپنے باپ کی آگ کے پاس جائے۔ فرزوق غصہ میں آ کر یہ شعر پڑھتا ہوا دربار سے اٹھا۔ وخیر الشعرا کرمہ رجالا وشرا الشعر ما قال العبید اچھے شرفاء کہتے ہیں اور سب سے برا شعر وہ ہے جو غلاموں نے کہا ہو غیر قوموں کے میل جول اور شخصی حکومت کی بد اثری سے عرب میں مداحی کا رواج ہوا۔ تاہم شروع شروع میں اتنی آن قائم رہی کہ خلفاء اور سلاطین اور امراء کے سوا اور کسی کی مدح نہیں کرتے تھے اور نہ صلہ لیتے تھے مروان بن ابی حقصہ کہتا ہے۔ ولقد جیت بالف الف لم تکن الا بکف خلیفہ و وزیر میں نے لاکھوں روپے حاصل کئے لیکن صرف خلیفہ یا وزیر سے مازلت انف ان اولف مدحۃ الانصاحب منبر او سریر میں ہمیشہ اس بات کو عار سمجھتا رہا کہ بجز صاحب تخت و منبر کے اور کسی کی مدح کروں ذوق سخن میں یہ بحث زیادہ پھیل گئی۔ اصل مضمون یہ تھا کہ عرب میں شاعری کی ابتداء کیونکر ہوئی اور کب ہوئی۔ ابن رشیق نے شاعری کی ابتداء اور رفتہ رفتہ مختلف قبیلوں میں پھیلنے کا ایک سلسلہ بیان کیا ہے جو مختصرا حسب ذیل ہے۔ قبیلہ ربیعہ: اس قبیلے کے مشہور شعراء یہ ہیں مہلہل بن ربیعہ، مرقش اصغر و اکبر، طرفہ بن عبد حارث بن حلزہ، متلمس، اعشی ان میں سے دو شاعر سبعہ معلقہ والے ہیں۔ بنو قیس: اس قبیلہ میں نابغہ ذبیانی، نابغہ جعدی، زہیر بن ابی سلمیٰ، کعب بن زہیر، لبید بن ربیعہ، حطیہ، شماخ مشہور شعراء گزرے ہیں ان میں بھی دو سبعہ معلقہ والے ہیں۔ تمیم: اس قبیلہ میں مدت تک شاعری قائم رہی اوس بن حجراسی قبیلہ کا شاعر تھا۔ ابتداء میں صرف قصیدے کہتے تھے رجز دو تین شعر زیادہ نہیں ہوتے تھے جو معرکہ جنگ یا مفاخرت وغیرہ کے موقع پر بے اختیار شاعر کی زبان سے نکل جاتے تھے۔ سب سے پہلے عجاج نے رجز کو وسعت دی اور تمام وہ خیالات ادا کئے جو قصائد میں ادا کئے جاتے تھے۔ روبہ بن عجاج نے اس کو اور بھی ترقی دی یہ دونوں بنی امیہ کے زمانہ میں تھے۔ افسوس یہ کہ رجز ان ہی دونوں پر ختم ہو گیا، ورنہ اگر صنف کو ترقی ہوتی تو عرب میں بھی مثنوی کا رواج ہو جاتا۔ جو شاعری کی سب سے بڑی شاخ ہے اور جس کی بدولت عجم نے اس میدان میں عرب سے اعلانیہ بازی جیتی تاہم یہ صنف بالکل معدوم نہیں ہوئی۔ ابن المعتز وغیرہ نے چھوٹی چھوٹی مثنویاں لکھیں اور ایضہ بن مالک وغیرہ بھی گویا اسی کے پر تو ہیں گو وہ شعر نہیں بلکہ نظم ہیں۔ زمانہ کے اعتبار سے شعرائے عرب کے چار دور ہیں جاہلی: اسلام سے قبل کے شعراء مخضرمی: یعنی جنہوں نے دونوں زمانے پائے مثلاً لبید، حساں، نابغہ اسلامی: یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ سے لے کر بنو امیہ تک محدث: یعنی دولت عباسیہ کے شعراء اور ان کے ما بعد ایران میں شاعر کے لئے مختلف علوم و فنون میں کامل ہونا ضروری تھا چنانچہ تمام مشاہیر شعرائ، نامور علماء اور فضلا تھے۔ لیکن عرب میں اس کے بر خلاف وہی شعراء فن شعر کے امام اور پیشوا خیال کئے جاتے ہیں جو جاہل مطلق تھے اور ایک حرف لکھ پڑھ نہیں سکتے تھے۔ یہاں تک کہ کسی اسلامی شاعر کی بے انتہا تعریف کرنا چاہتے ہیں تو کہتے ہیں کہ اگر اس نے زمانہ جاہلیت کا ایک دن بھی پایا ہوتا، تو سب سے بڑا شاعر ہوتا، اس کی وجہ یہی ہے کہ شاعری دراصل خالص فطری جذبات کے اظہار کا نام ہے اور تمدن کے زمانے میں کوئی فطری حالت باقی نہیں رہتی۔ بلکہ تصنع اور آورد کا اثر آ جاتا ہے۔ اس کے علاوہ تمدن کے زمانہ میں جذبات کا جوش و خروش نہیں رہتا۔ جو شاعری کی جان ہے غور کرو ایک بہت بڑا متمدن شاعر فخریہ میں کہتا ہے اور یہ فخریہ شاعری کا بہترین نمونہ خیال کیا جاتا ہے۔ اذا مضر الحمراء کانت ارومتی وقام بمجدی حازم وابن حازم جب کہ قبیلہ مضر میر امورث اعلیٰ ہے اور میری شرافت کے بانی حازم اور ابن حازم ہیں عطست بانفی شافحا و تناولت یدیٰ الثریا قاعداً غیر قائم تو غرور سے ناک چڑھاتا ہوں اور میرے ہاتھ بیٹھے بیٹھے ثریا کو چھو لیتے ہیں لیکن ایک جاہلی شاعر یوں فخر کرتا ہے الا الا یجھلن احد علینا فنجھل فوق جھل الجاہلینا ہاں دیکھو! کوئی ہم سے جہالت نہ کرے ورنہ ہم جاہلوں سے بڑھ کر جاہل ہیں اذا بلغ الفطام لناحبی تخولہ الجبار ساجد بتا جب ہمارا کوئی بچہ دودھ چھوڑتا ہے تو بڑے بڑے جبار اس کے سامنے سجدہ میں گر پڑتے ہیں شاعری کا رتبہ اور شاعری کا اثر ایران بلکہ تمام ایشیا میں شاعری تفریح طبع کی چیز تھی۔ اس لئے انوری نے ایک قطعہ میں ثابت کیا ہے کہ انسانی جماعت میں شاعر کی اتنی بھی ضرورت نہیں جس قدر بھنگی اور خاکروب کی ہے۔ لیکن عرب میں شاعر ایک جنرل ایک فاتح، ایک سردار اعظم کا رتبہ رکھتا تھا۔ ایک شاعر صرف اپنے کلام کے اثر سے قبیلہ کے قبیلہ کو برباد اور گمنام کر دیتا تھا۔ عرب میں ایک نہایت معزز قبیلہ بنو نمیر تھا۔ کسی مجمع میں اس قبیلہ کا کوئی آدمی بیٹھا ہوتا تھا اور کوئی اس کا نام و نسب پوچھتا تھا۔ تو نمیر کا نام لیتے وقت اس کی آواز میں غرور کا لہجہ پیدا ہو جاتا تھا۔ جریر اس قبیلہ سے ناراض ہوا۔ رات کو ان کی ہجو لکھنے بیٹھا تو اپنے بیٹے سے کہا کہ ذرا چراغ میں تیل زیادہ ڈال دینا آج دیر تک جاگوں گا، یہ کہہ کر ہجو لکھنی شروع کی، جب یہ شعر کہا فغض الطرف انک من نمیر فلا کعبا بلغت ولا کلایا تو زور سے اچھلا اور پکارا واللہ احزینۃ لا یفلح ابداً یعنی خدا کی قسم میں نے اس قبیلہ کو برباد کر دیا، اب یہ قیامت تک ابھر نہیں سکتے۔ اسی وقت یہ شعر تمام عرب میں پھیل گیا۔ اور یہ حالت ہو گئی کہ اس قبیلہ کا کوئی آدمی کہیں جا نکلتا تھا۔ اور کوئی اس کا نام و نشان پوچھتا تھا تو قبیلہ کا نام بدل کر بتاتا تھا۔ یہاں تک کہ رفتہ رفتہ اس قبیلہ کا نام ہی مٹ گیا۔ اسی طرح وہ قبیلے جن کو کوئی پوچھتا بھی نہ تھا صرف ایک شاعر کی بدولت نامور ہو گئے اور بڑے معزز قدیم قبیلوں نے ان کو اپنا ہمسر مان لیا۔ یہی وجہ ہے کہ جب کسی گھرانے میں کوئی شاعر پیدا ہوتا تھا تو تمام قبیلوں کی طرف سے مبارک باد کے پیام آتے تھے، دعوتیں ہوتی تھیں۔ عورتیں جمع ہو کر مبارک باد کے گیت گاتی تھیں۔ قربانیاں کی جاتی تھیں۔ بخلاف اس کے ایران میں کوئی شخص شاعری میں در آتا تھا، تو قوم سمجھتی تھی کہ گدا گروں کی فہرست میں ایک نام کا اور اضافہ ہوا۔ ایشیا میں شاعری نے کبھی کوئی ملکی یا قومی انقلاب نہیں پیدا کیا بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ شخصی حالتوں پر بھی اس کا کوئی نمایاں اثر نہیں ہوا۔ تم کہو گے کہ خواجہ حافظ کی شاعری نے تمام ایران کو رند بنا دیا۔ لیکن یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ خواجہ حافظ پر موجودہ سوسائٹی کا اثر تھا، یا خواجہ صاحب نے سوسائٹی کو متاثر کیا۔ یعنی خواجہ صاحب نے اس وقت کی موجودہ معاشرت کی تصویر کھینچی، یا انہوں نے وہ حالت اپنے کلام سے پیدا کر دی۔ لیکن عرب میں شاعری ایک قوت تھی اور شاعر کا ایک شعر بھی کسی نمایاں نتیجہ سے خالی نہیں جا سکتا تھا۔ عمرو بن کلثوم کے ایک قصیدہ نے قبیلہ تغلب کو دو سو برس تک غیرت اور شجاعت کے نشہ میں چور رکھا۔ اس قبیلہ کے ایک ایک بچہ کو پورا قصیدہ یاد ہوتا تھا اور وہ مجامع عام میں پڑھتا تھا۔ امیر معاویہؓ لیلۃ الہریر کے دن حضرت علی ؓ کے مقابلہ میں بھاگ نکلنے کے لئے بالکل تیار ہو چکے تھے۔ محض ان اشعار نے ان کو روک دیا۔ وقولی کلما جشات و جاشت مکانک نحمدی والستریحی لادفع کلما ماثر صالحات واحمی بعد عن عرض صحیح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقابلہ کے لئے کفار جو بار بار مدینہ پر چڑھائیاں کرتے تھے ان میں متعدد لڑائیاں شعراء ہی نے برپا کرائی تھیں۔ اسی بناء پر شعراء سلاطین اور روسا تک سے نہیں دیتے تھے۔ عرب کے مشہور بادشاہ عمرو بن ہند نے جب سلطنت کے نشہ میں آ کر کہا کہ اب کوئی عرب میں رہ گیا ہے جس کو میرے سامنے گردن جھکانے سے انکار ہو تو درباریوں نے کہا کہ ہاں عمرو کلثوم شاعر بادشاہ نے اس کو اور اس کی ماں کو بلا بھیجا۔ ماں شاہی محل میں گئی تو بادشاہ کی ماں نے اس سے کسی چیز کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ ذرا اٹھا دینا، اس نے کہا اپنا کام خود کرنا چاہئے۔ بادشاہ کی ماں نے دوبارہ کہا، اس پر غصہ میں آ کر اس نے نعرہ مارا کہ واذلاہ یعنی ہائے ذلت، عمرو کلثوم نے باہر سے سنا، سمجھا کہ میری ماں کی توہین کی گئی اسی وقت تلوار میان سے کھینچ کر جھپٹا اور بادشاہ کا سر اڑا دیا، پھر بہت سخت رن پڑے۔ دونوں طرف کے ہزاروں آدمی کٹ گئے۔ عمرو کلثوم نے یہ تمام واقعہ قصیدہ میں لکھا ہے اور سالانہ دنگل کے موقع پر عکاظ میں پڑھا۔ الا لایجھلن احد علینا فنجھل فوق جھل الجاھلینا ہاں ہم سے کوئی جہالت نہ کرے ورنہ ہم جاہلوں سے بڑھ کر جاہل ہیں فانا نور دالرایات بیضا و نصدرھن حمر اقدروینا ہم اپنی برچھیاں میدان جنگ میں سفید لے جاتے ہیں اور سرخ واپس لاتے ہیں 2مدح مدح اگرچہ عرب کی اصلی شاعری میں داخل نہیں، لیکن اسلام کے بعد تمدن کی وسعت اور شخصی حکومتوں کے قائم ہونے کی وجہ سے شاعری کے چار ارکان میں سے مدح بھی ایک رکن قرار پا گئی۔ اب چار ارکان یہ ہیں۔ مدح، ذم، عشقیہ، فخریہ، اس بناء پر اہل ادب نے مدحیہ شاعری کے اصول اور ضابطے مقرر کئے۔ جن کو ابن رشیق نے نہایت تفصیل اور توضیح سے کتاب العمدہ میں لکھا ہے۔ ایران میں مدحیہ بلکہ ہر قسم کی انواع سخن کے لئے مبالغہ اور غلوسب سے مقدم شرط تھی۔ ممدوح کے وصف میں جس قدر زیادہ نا ممکن باتیں جمع کی جائیں، اسی قدر شاعری کا کمال خیال کیا جائے گا۔ مثلاً نہ کرسی فلک نہدا ندیشہ زیر پائے تابوسہ بر رکاب قزل ارسلان وھد لیکن عرب نے اس کے لئے جو اصول قرار دئیے حسب ذیل ہیں۔ 1 الفاظ گزیدہ اور شستہ ہوں سوقیانہ الفاظ اور محاورے نہ آنے پائیں۔ 2 زیادہ اشعار نہ ہوں، چنانچہ بحتری سلاطین کی جب مدح لکھتا تھا تو بہت کم شعر لکھتا تھا جریر مشہور شاعر کہا کرتا تھا۔ اذا مدحتم فلا تطلوا ایک دفعہ فرزوق، عبدالرحمن بن ام الحکیم کے پاس گیا اور اس کی مدح پڑھنی چاہی، عبدالرحمن نے کہا مجھ کو ایسی مدح سے معاف رکھو کہ اخیر اشعار تک پہنچتے پہنچتے پہلے مضامین بھول جائیں صرف دو شعر پر اکتفا کرو تو میں تم کو اس قدر انعام دوں گا کہ کسی نے تم کو نہ دیا ہو گا۔ صرف دو شعر میں مدح ادا کی اور عبدالرحمن نے دس ہزار درہم عطا کئے۔ 3 مدح میں تفاوت مراتب کا لحاظ رکھا جائے۔ یعنی بادشاہ، وزیر، دبیر، افسر فوج، حاکم عدالت ہر ایک کی مدح میں اس کے خاص اوصاف کا خیال رکھا جائے۔ مثلاً دبیر کی مدح میں اگر دلیری اور شجاعت کا وصف بیان کیا جائے یا قاضی کو صاحب ہیبت و جلال کہاجائے تو ناموزوں ہو گا۔ لیکن ایرانی شاعری میں ایک قلی کی مدح میں بھی تمام شاہانہ اوصاف ثابت کر دئیے جاتے ہیں۔ علامہ ابن رشیق نے اس بحث میں لکھا ہے کہ جب ممدوح بادشاہ ہو تو شاعر کو خیال رکھنا چاہئے کہ ایسے اوصاف نہ بیان کرے جو عام رئیسوں میں بھی پائے جاتے ہیں۔ مثلاً اخطل کے اس شعر وقد جعل اللہ الخلافۃ منہم لا بیض لا عادی الخوان ولا جذب یعنی خلافت خدا نے ایسے شخص کو جس کا دسترخوان تنگ نہیں پر لوگوں نے اعتراض کیا ہے کہ یہ وصف تو بادشاہ کے ایک ادنیٰ نوکر میں بھی پایا جا سکتا ہے اسی طرح احوص کے اس شعر پر، واذک تفعل ما نقول وبعضھو مذق الحدیث یقول مالا یفعل آپ جو کہتے ہیں کرتے ہیں اور لوگ صرف باتیں بناتے ہیں کچھ کرتے نہیں لوگوں نے یہ نکتہ چینی کی کہ یہ ایک معمولی بات ہے۔ بادشاہوں کی تعریف میں اغراق اور مبالغہ ہونا چاہیے یعنی وہ اوصاف لکھنے چاہئیں۔ جو عام انسانوں کے رتبہ سے بالاتر ہوں۔ علامہ ابن رشیق پانچویں صدی ہجری میں تھے جب کہ عرب کا مذاق عجم کے اختلاط سے بالکل بدل گیا تھا، ورنہ وہ جانتے کہ عرب کی شاعری کی یہی خوبی تھی کہ کسی موقع پر اصلیت اور واقعہ سے تجاوز نہیں ہو سکتا تھا۔ شعرائے عرب سلاطین کی مدح میں بھی وہی باتیں لکھتے تھے۔ جو واقعی ہوتی تھیں یاد ہو گا کہ جب عرب کے ایک بادشاہ نے ایک شاعر سے کہا کہ میری مدح کرو، تو اس نے کہا پہلے تم کچھ کر کے دکھاؤ تو میں کہوں۔ 2ممدوح جب بادشاہ ہو تو اس کے اوصاف ذیل کا ذکر کرنا چاہیے یعنی عقل، عدل، شجاعت چنانچہ شعرائے متقدمین انہی اوصاف کا بیان کرتے تھے لیکن متاخرین نے وسعت دے کر ان اوصاف کی شاخوں اور شاخ در شاخ اوصاف کو لیا اور اس میں وسعت پیدا کی۔ مثلاً وہ ممدوح کی نکتہ رسی، شرم و لحاظ قوت تقریر، سیاست، حلم وغیرہ کا بھی بیان کرتے ہیں اور ان سب اوصاف کو عقل کے نتائج قرار دیتے ہیں۔ 5 زیادہ اتر اصلی اور ذاتی اوصاف بیان کرنے چاہئیں جو اوصاف عارضی ہیں مثلاً حسن، دولت مندی، جاہ و مال وغیرہ ان چیزوں کے ذکر کی ضرورت نہیں، کیونکہ یہ سب چیزیں چلتی چھاؤں ہیں۔ آج ہیں کل نہیں، بخلاف ذاتی اوصاف کے جو مرتے دم تک انسان کے ساتھ ہیں۔ یہ قدامہ کی رائے ہے لیکن علامہ ابن رشیق کا خیال ہے کہ عارضی اوصاف کو سرے سے ترک نہیں کرنا چاہئے البتہ ذاتی اوصاف کو مقدم رکھنا چاہئے۔ اہل ادب میں یہ مسئلہ بحث طلب ہے کہ مدح سب سے بڑھ کر کون سا شعر ہے ہم اس موقع پر علامہ ابن رشیق کی کتاب سے مختلف اقوال نقل کرتے ہیں جس سے عرب کے مذاق کا اندازہ ہو گا۔ ایک دفعہ خلیفہ معتصم باللہ کے دربار میں شعراء کا مجمع ہوا۔ معتصم باللہ نے کہا کہ تم میں کوئی شخص ایسے شعر کہہ سکتا ہے، یہ کہہ کر منصور نمیری کے یہ اشعار پڑھے جو اس نے ہارون الرشید کی مدح میں لکھے تھے۔ ان المکارم والمعروف اودیۃ احلک اللہ منھا حیث تجتمع شریفانہ خصائل نہریں ہیں اور یہ نہریں جہاں جا کر مل گئی ہیں وہ تیری جگہ ہے اذا رفعت امراء فاللہ رافعہ ومن وضعت من الاقوام ستضع تو جس شخص کو اونچا کرے خدا بھی اس کو اونچا کر دیتا ہے اور تو جس کو گرا دے وہ گر جاتا ہے ان اخلف الغیث لم تخلف انا ملہ اوضاق امر ذکرناہ فیستع بادل رک جائیں تو اسکا دست کرم نہیں رکتا جب کوئی مشکل آ پڑتی ہے تو ہم ممدوح کا نام لیتے ہیں اور وہ حل ہو جاتی ہے محمد بن وہب نے بڑھ کر کہا کہ ہم اس سے بڑھ کر کہہ سکتے ہیں پھر یہ شعر پڑھے: ثلاثہ تشرق الدنیا بمھجتم شمس الضحی وابو اسحاق والقمر تین چیزیں ہیں جنہوں نے دنیا کو روشن رکھا آفتاب، چاند اور متعصم باللہ نحلی افاعلہ فی کل نابلۃ الغیث واللیث والصمعامۃ الذکر بادل شیر اور تلواراس کے کارناموں کی نقل اتارتے ہیں حطیہ ایک مشہور شاعر تھا، جب مرنے لگا تو کہا کہ انصاف کو یہ پیغام پہنچا دینا کہ تمہارا بھائی سب سے بڑا مدح گو ہے، جس کا یہ شعر ہے۔ یغشون حتی ماتھر کلابھم لا یسئلون عن السوادا القبل عرب میں عموماً لوگ کتے پالتے تھے، یہ کتے اجنبی کو دیکھ کر بھونکتے تھے۔ شاعر کہتا ہے کہ ممدوح کے پاس اس کثرت سے مہمان اور آئید ورند آتے جاتے رہتے ہیں کہ اس کے کتے کسی کو دیکھ کر بھونکتے نہیں کیونکہ تمام لوگوں سے مانوس ہو گئے ہیں۔ یہ ایک سچی مدح تھی، لیکن ثعلب نے جب حطیہ کا یہ قول سنا تو کہا یہ غلط ہے سب سے عمدہ شعر مدح کا یہ ہے: فنی لویباری الشمس القت قناعھا او القمر الساری لا لقی المقالدا وہ اگر آفتاب و ماہتاب کا مقابلہ کرے تو آفتاب اپنے اوپر نقاب ڈال لے اور چاند سپر ڈال دے۔ ثعلب اس زمانہ کا آدمی ہے جب عرب کا صحیح مذاق خراب ہو چکا تھا اس لئے اس نے تکلف اور مبالغہ کی واقعیت پر ترجیح دی۔ عرب میں مدحیہ شاعری کے جو عمدہ نمونے خیال کئے جاتے ہیں، ان میں سے بعض ہم نقل کرتے ہیں ان سے اندازہ ہو گا کہ عرب کی شاعری کس قدر صحیح اور سچے خیالات کا آئینہ ہے۔ اخی ثقۃ لا یھلک الخمر مالہ ولکنہ قد یھلک الما نایلہ قابل اعتماد ہے شراب اس کی دولت کو ضائع نہیں کر سکتی، البتہ فیاضی اس کی دولت کو برباد کر دیتی ہے۔ تراہ اذا ما جئتہ متھلا کانک تعطیہ الذی انت سابلہ اس کے پاس کچھ مانگنے جاؤ تو اس کا چہرہ ایسا شگفتہ ہو جائے گا کہ گویا تم ہی اس کو وہ چیز دیتے ہو۔ فمن مثل حصن فی الحرب ومثلہ لافنکار ضیلم او لخصم یجادلہ لڑائی کے وقت یا دشمن کے مقابلہ میں یا عزت کی پاسداری میں ممدوح کا ہمسر کہاں مل سکتا ہے۔ وفیھم مقامات حسان و جوھھا واندیۃ ینتا بھا القول والفعل ان لوگوں کے کارنامے روشن ہیں ان کی مجالس میں قول اور فعل ساتھ ساتھ آتے ہیں وان جئتھم الفیت حول بیرقھم مجالس قد یشفی با حلامہا الجھل ان سے ملنے جاؤ تو وہاں ایسے لوگ نظر آئیں گے جن کی دانش مندی جہالت کی دوا ہے علی مکثریھم حق من یعتریھم ونعد المقلمین السماحۃ والبذل ان میں سے جو دولت مند ہیں وہ مفلسوں کی حاجت روائی کرتے ہیں اور جو نادار ہیں وہ سائلوں سے خندہ پیشانی سے پیش آتے ہیں سعی حجدھم قوم لکی یدر کرھم فلو یفعلو اولم یلا موولم یالم اوروں نے بھی چاہا کہ ان کا رتبہ حاصل کریں لیکن نہ کر سکے اور اس پر ان کو الزام نہیں دیا جا سکتا فما کان من خیرا توہ فانما توثہ آباء اباء ھم قبل یہ جو کچھ کرتے ہیں ان کے باپ دادا سے ان کو وراثت میں پہنچا ہے۔ یہ اشعار زہیر کے ہیں جو اسلام سے پہلے زمانہ کا شاعر ہے اور جو بالکل لکھا پڑھا نہ تھا۔ اس لئے اس کے خیالات نہایت سادہ اور بے تکلف ہیں لیکن جب اسلام کے بعد آورد اور تکلف آ گیا، اس وقت بھی اصلیت اور واقعیت کا عنصر موجود تھا۔ متبنی، ابو تمام بحتری نے اکثر جگہ بالکل عجمیوں کی طرح مبالغہ، غلو اور دوراز کار خیالات سے کام لیا ہے لیکن ان کے کلام ک ابھی بہترین حصہ وہی خیال کیا جاتا ہے۔ جس میں واقعیت کی جھلک موجود ہوتی ہے۔ متبنی جب شام، مصر اور بغداد ہر جگہ پھر کر عضد الدولہ کے دربار میں گیا ہے تو اس کو مخاطب کر کے کہتا ہیـ: وقد رایت الملوک قاطبۃ وسرت حتی رایت مولاہ میں نے سب بادشاہوں کو دیکھا اور اب آ کر بادشاہوں کے آقا کو دیکھا ابا شجاع بفارس عضد الدولۃ نناخسرو شہنشاہا جس کا نام ابو شجاع عضد الدولہ فناخسر و شہنشاہ ہے! اسامالم تزوہ معرفۃ وانما الذۃ ذکرناہا یہ سب نام اور لقب میں نے اس لئے نہیں گنائے کہ لوگ ایک لقب سے نہ پہچانیں تو دوسرے سے پہچان لیں۔ بلکہ اس لئے کہ بار بار اس کے لینے میں مجھ کو مزہ آتا ہے۔ برخلاف اس کے ایران کی شاعری میں ایک شعر بھی مدحیہ ایسا نہیں مل سکتا، جو عمدہ خیال کیا جاتا ہو اور اس کو واقعیت سے بھی کچھ علاقہ ہو۔ فخریہ: عرب کی شاعری کا ایک رکن اعظم فخریہ شاعری ہے۔ ایرانی شعراء نے بھی فخریہ شعر لکھے ہیں لیکن وہ صرف شاعری یا علم و فضل کا فخر ہوتا ہے۔ یعنی میری شاعری اس درجہ کی ہے یا علم و فضل میں میرا کوئی ہمسر نہیں، مثلاً فیضی کہتا ہے: امروز نہ شاعرم حکیم دانندہ حادث و قدیمم آنم کہ بہ سحر کارے ژرف از شعلہ تراش کردہ ام حرف بانگ قلمم وریں شب تار بس معنے خفتہ کرد بیدار اسراف معانیم نظر کن زیں گنج بہ مفلساں خبر کن آناں کہ بمن نظر فگند ند ور معرکہ ام سپر فگند ند گر عشق چنیں بسوزدم پاک مہتاب برون بریزم از خاک بگدا اختہ آبگینہ دل آئینہ وہم بدست محفل عرفی نے یہ جدت پیدا کی کہ علم و فضل کے ساتھ اپنے حسن و جمال کی بھی تعریف کرتا ہے۔ اور چونکہ وہ واقعی خوبصورت بھی تھا، اس لئے یہ ناز بے جا نہ تھا، لیکن فخر کا پہلو نہایت برا اختیار کیا ہے چنانچہ کہتا ہے: سر بر زودہ ام بامہ کنعان زیکی جیب معشوق تماشا طلب و آئینہ گیرم میگویم و اندیشہ ندارم زظریفاں من زہرہ، رامشگرومن بدر منیرم مہ کنعان کے مقابلہ اور معشوقیت کے مضائقہ نہیں، لیکن زہرہ رقاص کون سی آدمیت ہے لیکن عرب کی فخریہ شاعری بالکل مختلف حیثیت رکھتی ہے۔ عرب میں سینکڑوں مختلف قبیلے تھے۔ ان میں جنگ و جدل رہتی تھی اور ہر ایک کو اپنی مدد کے لئے اور قبیلوں سے کام لینا پڑتا تھا۔ اس غرض کے لئے شاعری سب سے بڑا کارگر آلہ تھا۔ اشعار میں وہ اپنے رتبہ اور شان کو اس حقیقت سے دکھاتے تھے کہ دوسروں پر اثر ہوتا تھا۔ اور لوگ خواہ مخواہ ان کے حلقہ بگوش یا یار وفادار بن جاتے تھے اس طرح فخریہ شاعری کی بنیاد پڑی۔ رفتہ رفتہ اس کو وسعت ہوتی گئی اور فخریہ شاعری کے بہت موقعے نکل آئے جن کی تفصیل یہ ہے۔ 1قبائل کے مقابلہ میں فخر کا اظہار 2معرکہ جنگ میں فخر کا اظہار 3شعراء میں باہم مفاخرت، لیکن یہ عجیب بات ہے کہ ان میں کہیں شاعری کا فخر نہیں ہوتا تھا۔ بلکہ ایک شاعر شاعر کے مقابلہ میں بھی جب فخر اور ترجیح کا دعویٰ کرتا تھا تو علونسب جود وکرم، رزم آرائی کے معرکوں کی بناء پر کرتا تھا۔ جاہلیت اور ابتدائے اسلام کے فخریہ میں نسب کا فخر سب سے ضروری عنصر تھا۔ لیکن متاخرین میں یہ عنصر م ہوتا گیا۔ متنبی کہتا ہے: ما بقومی شرفت بل شرفوابی وبنفسی فخرت لا یجدودی میرا شرف خاندان کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ خاندان کو مجھ سے شرف ہے مجھ کو اپنے باپ دادا پر ناز نہیں بلکہ اپنے آپ پر ناز ہے۔ یہ وہی خیال ہے جس کو مرزا غالب نے ثبوت کے ساتھ ادا کیا ہے۔ گوہر نہ بہ کان کان بہ گہر روی شناس ست بر فرخی ذات و لیلم اب و عم را متنبی نے اگرچہ فخر کا صحیح مفہوم سمجھا، لیکن طرز ادا سے شبہ پیدا ہوتا ہے کہ نسب کا ہٹیا ہو گا۔ اس لئے دوسرے شعراء نے اس پہلو کا بھی لحاظ رکھا۔ عامر بن طفیل کہتا ہے: فانی وان کنت ابن سید عامر وفا رسھا المشہور فی کل موکب میں اگرچہ قبیلہ عامر کے سردار کا بیٹا ہوں جو ہر معرکہ میں نامور رہا تھا فما سود تنی عامر عن وراثۃ ابی اللہ ان اسمو بامر ولا اب تاہم مجھ کو عامر کی وراثت نے سردار نہیں بنایا خدایہ نہیں چاہتا کہ میری عزت ماں باپ کی ممنون ہو اب ہم فخریہ شاعری کے چند عمدہ نمونے نقل کرتے ہیں، جو حقیقی جوش کی تصویریں ہیں: ما ینکر الناس طراحین انملکھم کانو اعبید او کنا نحن اربابا لوگوں کو اس سے انکار نہیں کہ وہ غلام اور ہم آقا ہیں (امراء القیس) تری الناس ان سرنا یسیرون خلفنا وان نحن اوماما الیٰ الناس وتفوا لوگ ہمارے پیچھے پیچھے چلتے ہیں اور جب ہم رکنے کا اشارہ کر دیتے ہیں تو سب ٹھہر جاتے ہیں (فرزوق) اذا ما عضبنا غضبۃ مضریۃ ھتکنا حجاب الشمس او امطرت دما جب ہم کو مضری1؎ غصہ آتا ہے تو ہم آفتاب کو چاک کر دیتے ہیں کہ اس سے خون ٹپکنے لگتا ہے (بشار) اذا ما اعرنا سید امن قبیلۃ ذری منیر صلی علینا و سلما جب کسی قبیلہ کا سردار منبر پر چڑھتا ہے تو ہم پر درود اور سلام پڑھتا ہے ومن یفتقر منا یعش یحسامہ ومن یفتقرمن سائر الناس سائل ہمارے خاندان کا آدمی مفلس ہو جاتا ہے تو تلوار سے معاش پیدا کرتا ہے اور دوسرے خاندان کے آدمی بھیک مانگنے لگتے ہیں۔ وانا للھوبا لحروب کمالھت فتاۃ بعقد اوسخاب و نقل ہم لڑائیوں کو اس طرح کھیل سمجھتے ہیں جس طرح چھوکری ہار سے کھیلتی ہے (از الندوہ جلد1نمبر11ماہ دسمبر1909ئ) ٭٭٭٭٭٭٭ 1؎ یعنی اس قسم کا غصہ جو قبیلہ مضر کا خاصہ ہے۔ عربی1؎ اور فارسی شاعری کا موازنہ اوپر کے بیانات سے اس قدر تم کو معلوم ہو گا کہ فارسی شاعری عرب کی دست پرور ہے لیکن یہ سوال پیدا ہو گا کہ استاد و شاگرد میں کیا فرق ہے شاگرد نے استاد پر کیا اضافہ کیا اور کن باتوں میں اب بھی وہ استاد کا ہمسر نہیں ہو سکتا؟ حقیقت یہ ہے کہ فارس کی شاعری اگرچہ بالکل عرب کا سایہ ہے لیکن دونوں ملکوں کے تمدن، معاشرت اور مقامی حالات میں اس قدر اختلاف ہے کہ ہر طرح کے تعلقات کے ساتھ بھی دونوں شاعر یوں میں زمین و آسمان کا فرق پیدا ہو گیا ہے۔ عرب کا تمدن یہ تھا کہ بڑے بڑے جتھے پہاڑوں اور میدانوں میں رہتے تھے۔ کسی بادشاہ یا فرماں روا کے محکوم نہیں تھے۔ آزادی اور خود سری کے خیالات ساتھ لے کر پیدا ہوتے تھے اور ساتھ لے کر جاتے تھے طبیعت جنگجو اور شوریدہ سر تھی۔ اس لئے آپس میں لڑتے بھڑتے رہتے تھے۔ اور ذرا ذرا سی بات پر قبیلے کے قبیلے لڑ کر فنا ہو جاتے تھے۔ فصاحت و بلاغت کا ملکہ فطرتی تھا اس لئے جو حالت 1؎ عربی شاعری سے مراد اسلام کے ما قابل کی شاعری ہے یا زیادہ سے زیادہ بنو امیہ کے عہد تک اس کے بعد کی شاعری عربی نہیں بلکہ عجمی ہے صرف زبان کا فرق ہے جس طرح حکومت کہ برائے نام عباسیہ کی تھی۔ اصلی حکمران فارس اور ترک تھے۔ پیش آتی اور جو خیالات پیدا ہوتے، ان کو اسی اصلیب اور جوش و خروش کے ساتھ ادا کر دیتے تھے۔ رزمیہ شاعری ان باتوں کا اثر یہ تھا کہ ان کے اشعار میں شجاعت، جانبازی، مخاطرہ نفس اندھا دھند دلیری کے جو خیالات پائے جاتے ہیں، فارس بلکہ دنیا کی کسی قوم کو نصیب نہیں ہو سکتی۔ اس قسم کے اشعار کو حماسیات کہتے ہیں۔ ان حماسیات کو پڑھو تو یہ عالم نظر آتا ہے کہ جنگل میں شیر گونج رہا ہے۔ فردوسی نے بھی شاہنامہ میں بڑے بڑے زور کے معرکے لکھے ہیں لیکن وہ اوروں کے افسانے میں فردوسی داستان گوبن گران کو بیان کرتا ہے۔ لیکن عرب کا شاعر جو کہتا ہے اپنی سر گزشت کہتا ہے اس لئے اس کا جو اثر ہوتا ہے۔ شاہنامہ کا نہیں ہو سکتا۔ عرب میں جو مشہور شاعر گزرے ہیں وہی مشہور بہادر اور جنگ آور تھے۔ مثلاً امراء القیس، عمرو بن کلثوم، عمر ومعدی کرب اس لئے وہ زبان سے وہی کہتے تھے جو ہاتھ سے کرتے تھے۔ اس کے مقابلہ میں عجم کے شعراء کی یہ حالت تھی کہ انوری ایک دفعہ ڈاکوؤں میں گھر گیا۔ ایک حکیم صاحب اور ایک درزی بھی ساتھ تھا۔ سب جان بچا کر بھاگ نکلے۔ انوری بطور علوم متعارفہ کے کہتا ہے۔ حکیم و شاعر درزی چکو نہ جنگ کنند آزادانہ خیالات اسباب مذکورہ بالا نے عرب کی شاعری کو آزادانہ خیالات سے لبریز کر دیا تھا فارسی شاعری ہم کو یہ سکھاتی ہے۔ اگرشہ روز را گوید شب ست ایں بیاید گفت اینک ماہ و پرویں بخلاف اس کے عرب کا شاعر اتفاق سے فلاکت میں پڑ جاتا ہے۔ ایک فرمانروا رئیس جو نسب میں اس سے کم رتبہ ہے۔ ان کو حاجت مند دیکھ کر چاہتا ہے کہ اس سے قرابت پیدا کرے۔ شاعر کو خبر ہوتی ہے وہ یہ اشعار جواب میں بھیجتا ہے۔ بغی ابن کرزو السفاھۃ کاسمھا لیستاد منا ان شتونا لیالیا ابن کوز (رئیس کا نام ہے) نے جس کا نام بھی ویسا ہی کمینہ ہے جیسا وہ خود کمینہ ہے یہ خواہش ظاہر کی کہ ہمارے ہاں قرابت کر کے شریف بن جائے اور یہ اس بنا پر کہ ہم نے چند روز فاقہ سے گزارے۔ رانا علی عض الزمان الذی تری لغالج من کرہ المخاذی الدواھیا ہاں زمانہ نے ہم کو ستایا تاہم ہم ذلت کر کے مقابلہ میں مصائب کو برداشت کرتے ہیں۔ فلا تصبلنھا یا ابن کوز فانہ غد الناس مذ قام النبی الجواریا ابن کوز اس خیال سے درگذر جب سے رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پیدا ہوئے لڑکیاں ہی لڑکیاں ہیں (اور کہیں شادی کر لو) متبنی کے زمانہ میں عرب کی تمام خصوصیات مٹ چکی تھیں تاہم جب سیف الدولہ نے متبنی کی ناز برداریوں میں کمی کی اور شعراء کو اس کا ہم رتبہ قرار دیا تو اس نے ایک قصیدہ لکھ کر دربار میں پڑھا جس کا ایک شعر یہ ہے۔ وما انتفاع اخی الدنیا بناظرۃ اذا استوت عندہ الا نوارو الظلم یعنی جب انسان کو روشنی اور تاریکی یکساں معلوم ہو تو آنکھ سے کیا تمام قصیدہ میں اسی قسم کے آزادانہ خیالات ظاہر کئے اور بگڑ کر دربار سے چلا آیا۔ مفاخرت اسی بناء پر عرب کی شاعری کا ایک بڑا میدان مفاخرت ہے جس میں شاعر اپنے کارناموں کو بڑے جوش و خروش سے فخریہ بیان کرتا ہے اور وہ اس کو زیب دیتا ہے عرب کا ایک مشہور بادشاہ عمرو بن ہند گزرا ہے۔ اس کا اثر و اقتدار جب زیادہ بڑھا تو اس نے ایک دن درباریوں سے کہا کہ کیا اب عرب میں کوئی ایسا شخص بھی ہے، جس کی ماں کو میری ماں کے سامنے گردن جھکانے سے عار ہو۔ انہوں نے کہا ہاں عمرو بن کلثوم (قبیلہ تغلب کا مشہور شاعر تھا) بادشاہ نے اس کا دعوت دے کر بلایا اور لکھا کہ مستورات بھی ساتھ آئیں۔ عمرو بن کلثوم دربار میں آیا، اور عورتیں شاہی حرم میں گئیں ادھر ادھر کی باتیں ہو رہی تھیں کہ بادشاہ کی والدہ نے عمرو بن کلثوم کی ماں سے کسی چیز کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ بی ذرا اس کو اٹھا دینا۔ اس نے کہا’’ آدمی کو اپنا کام آپ کرنا چاہیے‘‘ بادشاہ کی ماں نے دوبارہ کہا وہ چیخ کر پکاری واتغلباہ وانلاہ یعنی ہائے تغلب کی ذلت، عمرو بن کلثوم نے باہر سے آواز سنی اور سمجھا کہ ماں کے ساتھ کوئی نا مناسب برتاؤ ہوا۔ اسی وقت تلوار سے بادشاہ کا سر اڑا دیا۔ اور خود بچ کر نکل آیا۔ پھر دونوں قبیلوں میں بڑے زور کا رن پڑا۔ اور ہزاروں سر کٹ گئے عمرو بن کلثوم نے اس پر ایک قصیدہ لکھا اور جب عکاظ کا مشہور میلا قائم ہوا تو مجمع عام میں جوش و خروش کے ساتھ پڑھا۔ ایک مدت تک یہ حالت رہی کہ قبیلہ تغلب کا بچہ بچہ اس قصیدہ کو زبانی یاد رکھتا تھا۔ بالآخر یہ قصیدہ آب زر سے لکھ کر در کعبہ پر آویزاں کیا گیا۔ اسی بناء پر اس کو معلقہ کہتے ہیں اور آج وہ سبعہ معلقہ میں داخل ہے۔ اسی قصیدہ کا ایک ایک شعر جوش و غیرت جمعیت و آزادی، دلیری و فخر کے صاعقہ کی گرج ہے۔ بادشاہ کو مخاطب کر کے کہتا ہے۔ اباھند فلا تجعل علینا وانظرنا نخرک ایفینا اے ابو ہند! جلدی نہ کر ہم تجھ کو سچے واقعات بتاتے ہیں بانا نور الوالوبات بیضاء ونصدرھن حمرا قدروینا ہم معرکہ جنگ میں سفید جھنڈے لے کر جاتے ہیں لیکن ان کو سرخ کر کے لاتے ہیں الا لا یجھلنا احد علینا ننجھل فوق جھل الجاھلینا ہاں ہم سے کوئی جہالت نہ کرے ورنہ ہم جاہلوں سے بڑھ کر جاہل ہیں تھددنا توعد نارویدا متی کنالا مک مقتوینا تو ہم کو دھمکاتا اور ڈراتا ہے لیکن ہم کیا تیرے ان کے غلام ہیں فان قناتنا یا عمرو اعلیت علی الاعداء قبلک ان تلینا اے عمر! تجھ سے پہلے بھی، ہمارے نیزوں کو لوگوں نے بچانا چاہا لیکن تھک کر رہ گئے۔ وان المانعون لما اردنا وانا النازلون بحیث شیلنا ہم جس کو چاہتے ہیں روک دیتے ہیں اور خود جہاں چاہیں پڑاؤ ڈال دیتے ہیں اذا بلغ الفطام لنا حیی نخرلہ الجبار برسا جدینا ہماری قوم کا بچہ جب دودھ چھوڑتا ہے تو بڑے بڑے جبار اس کے آگے سجدہ میں گر پڑتے ہیں۔ غور کرو، شعرائے فارس اس کے مقابلہ میں کس چیز پر فخر کر سکتے ہیں۔ نظامی اور عرفی نے بڑے زور کے فخریہ لکھے ہیں۔ لیکن فخر کی ساری کائنات یہ ہے کہ ہم اقلیم سخن کے بادشاہ ہیں۔ الفاظ اور حروف ہمارے باجگذار ہیں مضامین ہمارے سامنے دست بستہ کھڑے رہتے ہیں اس سے آگے بڑھے تو یہ کہ ہم پری پیکر ہیں چنانچہ عرفی فرماتے ہیں: سر برزدہ ام بامہ کنعان زیکے جیب معشوق تماشا طلب و آئینہ گیرم میگویم و اندیشہ ندارم ز ظریفان من زہرہ رامشکرومن بدر منیرم مناظر قدرت مناظر قدرت مثلاً پہاڑ، صحرا، جنگل، سبزہ زار، آب رواں، ان چیزوں کی تصویر بھی جس طرح عرب کا شاعر کھینچ سکتا ہے ایران کے شاعر سے نہیں کھنچ سکتی۔ اول تو اس قسم کی شاعری ایران میں کم ہے اور ہے تو وہ اصلیت اور مرقع نگاری نہیں۔ جو عرب کا خاصہ ہے۔ البتہ باغ و بہار کے مضامین نہایت بہتات کے ساتھ ہیں اور عرب اس بات میں ایران کا مقابلہ نہیں کر سکتا اور یہ بھی عرب کی واقعیت پسندی کی دلیل ہے۔ وہ جو کچھ دیکھتا ہے وہی کہتا ہے اور یہ ظاہر ہے کہ عرب کو باغ و بہار کہاں نصیب تھے۔ یہ ہمارے ہندوستان کا جوہر ہے کہ نرگس، یاسمین، سنبل، بنفشہ، کبھی خواب میں بھی نہیں دیکھا، لیکن بہاریہ قصائد، ایران میں بیٹھ کر لکھتے ہیں یہاں کی کوئی چیز گو یاد یکھی ہی نہیں ۔ جذبات انسانی یہ شاعری بھی عرب کے ساتھ مخصوص ہے جذبات انسانی میں سب سے بڑھ کر رنج و غم کا جذبہ ہے جو مرثیہ کی بنیاد ہے لیکن ایران کے مرثیے بھی دراصل قصائد ہیں فرق یہ ہے کہ قصائد میں زندہ ممدوح کی مدح ہوتی ہے اور مرثیوں میں مردہ کے اوصاف بیاں ہوتے ہیں۔ بخلاف اس کے عرب اپنی اولاد، عزیز دوست، احباب بلکہ اونٹ اور گھوڑے کا مرثیہ لکھتا ہے اور اس جوش و خروش کے ساتھ لکھتا ہے کہ دل پانی ہو جاتے ہیں۔ مرثیہ پر ختم نہیں، ایران کے تمام جذبات کا یہی حال ہے فارسی میں چند شعر ایسے نہیں ملتے جن میں کسی شاعر نے خاص اپنے غیظ و غضب کے جذبہ کا اظہار کیا ہو۔ بخلاف اس کے چونکہ عرب کے تمام جذبات نہایت سخت اور مشتعل ہوتے ہیں اس لئے اس کو غصہ آتا ہے تو منہ سے شرر چھڑنے لگتے ہیں۔ ایران میں غزل کو بہت ترقی ہوئی جو ایک خاص جذبہ عشق کا اثر ہے لیکن یہاں بھی جس قدر آورد ہے آمد نہیں۔ تمدن و معاشرت کی خصوصیات عرب کی شاعری اس بات میں بھی ایران سے ممتاز ہے کہ عرب کا شاعر معاشرت اور خانگی زندگی کی خصوصیات اس قدر بیان کرتا ہے کہ اس سے اس زمانہ کی رفتار و گفتار نشست و برخاست وضع و قطع رہنے سہنے کے طریقے، زندگی کی ضرورتیں اسباب خانہ داری، ایک ایک چیز کا حال معلوم ہو سکتا ہے۔ بخلاف اس کے فارسی شاعری میں یہ بھی نہیں معلوم ہو سکتا کہ لوگ زمین پر رہتے تھے یا آسمان پر بسر کرتے تھے۔ معشوق عرب کا معشوق بھی ایران سے جد اہے یعنی ایران میں بجائے عورت کے مرد کو معشوق قرار دیتے ہیں اور اس نے ایرانی شاعری پر سخت بُرا اثر ڈالا ہے تفصیل اس کی آگے آئے گی۔ ٭٭٭٭٭٭٭٭ فارسی شاعری کی ترجیحی خصوصیات عیب می جملہ بگفتی ہنرش نیز بگو بے شبہہ عرب کی شاعری میں ایسی بہت سی باتیں پائی جاتی ہیں، جو ایران کو نصیب نہیں لیکن فارسی شاعری کو بھی بہت سی خصوصیتیں حاصل ہیں، جن میں وہ عرب سے علانیہ ممتاز ہے۔ مثنوی فارسی شاری ک ایک بڑی صنف مثنوی ہے جس میں سینکڑوں واقعات اور ہزاروں خیالات مسلسل بیان کئے جا سکتے ہیں، عربی اس سے محروم ہے۔ فلسفہ عربی شاعری میں فلسفہ بہت کم ہے، بخلاف اس کے فارسی میں ناصر، خسرو، عمرو خیام، سحابی نجفی، مولانا روم، عرفی وغیرہ نے ہر قسم کے فلسفہ کے مسائل اور خیالات ادا کر دئیے ہیں۔ اخلاق اخلاقی شاعری عرب میں تھی، لیکن فارسی کی طرح مستقل حیثیت نہیں رکھتی تھی، قصائد میں اخلاقی خیالات ادا کر دیتے تھے، بخلاف اس کے فارسی میں سینکڑوں مثنویاں اخلاق میں لکھی گئیں جن میں مسائل اخلاق مثلاً عفت، شجاعت، ہمت، توکل، استغناء کے عنوان قائم کئے گئے، اور ہر عنوان کو نہایت تفصیل کے ساتھ لکھا۔ تصوف تصوف میں بھی عربی کم مایہ ہے، لے دے کر ابن فارض اور محی الدین عربی کا دیوان ہے، لیکن فارسی نے تصوف کے دربا بہا دئیے۔ غزل غزل کو بھی ایران نے بے انتہا ترقی دی، چنانچہ ان تمام خصوصیتوں کی تفصیل الگ الگ مستقل عنوانوں کے ذیل میں آئے گی۔ تنوع خیالات فارسی شاعری عمر میں عرب کی شاعری سے بہت زیادہ ہے اس کے ساتھ اس کے حدود حکومت بہت وسیع ہیں، جس کے مقابلہ میں عرب کی وسعت نقطہ سے بھی کم ہے اس بنا پر گوناگوں اور رنگ برنگ کے خیالات جو فارسی میں پائے جاتے ہیں عرب میں نہیں مل سکتے۔ جدت تشبیہات ایران آب و ہوا اور زمین کی شادابی کی وجہ سے بہشت کا چمن زار ہے۔ اس لیے ایرانی شاعری کے لیے تشبیہات کا جو سرمایہ ہاتھ آ سکتا ہے، عرب کو نصیب نہیں ہو سکتا تھا، مثلاً عرب کا شاعر ذہن کی تعریف میں بڑی قوت تخیل صرف کرتا ہے تو انگوٹھی کے حلقہ سے تشبیہہ دے کر رہ جاتا ہے، لیکن ایران کا خیال، بند درج گوہر، چشمہ نوش، پستہ، غنچہ، ذرہ جوہر فرد سب کچھ دے جاتا ہے اور پھر اس کی تشبیہہ کا خزانہ خالی نہیں ہوتا۔ امر اور القیس عرب کا سب سے بڑا شاعر معشوق کی انگلی کو مسواک اور سروع سے تشبیہہ دیتا ہے جو جنگل کا ایک کیڑا ہوتا ہے۔ لیکن فارسی کا شاعر اس کو دم قاقم سے تشبیہہ دیتا ہے۔ آں دلآویز دار داز نرمی سر انگشت چوں دم قاقم غرض تشبیہات کی لطافت اور استعارات کی نزاکت جو فارس میں پائی جاتی ہے، عرب میں اس کا پتہ نہیں لگ سکتا، بے شبہہ متاخرین عرب کے کلام میں بھی ہر قسم کے لطیف استعارے و تشبیہات پائے جاتے ہیں، لیکن یہ شعراء یا تو خود عجمی ہیں، یا عجم میں نشوونما پایا ہے، اس لیے ان کی شاعری در حقیقت فارسی شاعری ہے، صرف زبان کا فرق ہے۔ (الندوہ، ج5نمبر3اپریل1908ئ) ٭٭٭٭٭٭٭ سرسید مرحوم اور اردو لٹریچر سرسید کے جس قدر کارنامے ہیں اگرچہ رفارمیشن اور اصلاح کی حیثیت ہر جگہ نظر آتی ہے لیکن جو چیزیں خصوصیت کے ساتھ ان کی اصلاح کی بدولت ذرہ سے آفتاب بن گئیں، ان میں ایک اردو لٹریچر بھی ہے سرسید ہی کی بدولت اردو اس قابل ہوئی کہ عشق و عاشقی کے دائرہ سے نکل کر ملکی، سیاسی، اخلاقی، تاریخی ہر قسم کے مضامین اس زور اور اثر، وسعت و جامعیت، سادگی اور صفائی سے ادا کر سکتی ہے، کہ خود اس کے استاد یعنی فارسی زبان کو آج تک یہ بات نصیب نہیں۔ ملک میں آج بڑے بڑے انشا پرداز موجود ہیں، جو اپنے اپنے مخصوص دائرہ مضمون کے حکمران ہیں، لیکن ان میں سے ایک شخص بھی نہیں، جو سرسید کے بار احسان سے گردن اٹھا سکتا ہو۔ بعض بالکل ان کے دامن تربیت میں پلے ہیں، بعضوں نے دور سے فیض اٹھایا ہے، بعض نے مدعیانہ اپنا الگ رستہ نکالا، تاہم سرسید کی فیض پذیری سے بالکل آزاد کیونکر رہ سکتے تھے۔ سرسید کی جس زمانہ میں نشوونما ہوئی دلی میں اہل کمال کا مجمع تھا، اور امراء اور روسا سے لے کر ادنیٰ طبقہ تک میں علمی مذاق پھیلا ہوا تھا۔ سرسید جس سوسائٹی کے ممبر تھے اس کے بڑے ارکان مفتی صدر الدین خان آزودہ، مرزا غالب اور مولانا صہبائی تھے۔ ان میں سے ہر شخص تصنیف و تالیف کا مالک تھا، اور ان ہی بزرگوں کی صحبت کا اثر تھا، کہ سرسید نے ابتداء ہی میں جو مشغلہ علمی اختیار کیا، وہ تصنیف و تالیف کا مشغلہ تھا۔ نمبر1 اول وہ رواج عام کے اقتضا سے شاعری کے میدان میں آئے، آہی تخلص اختیار کیا اور اردو میں ایک چھوٹی سی مثنوی لکھی، جس کا ایک مصرعہ انہی کی زبانی سنا ہوا مجھے یاد ہے ، ع نام میرا تھا کام ان کا تھا لیکن حقیقت ہے یہ کہ ان کو شاعری سے مناسبت نہ تھی، اس لئے وہ بہت جلد اس کوچہ سے نکل آئے، اور نثر کی طرف توجہ کی چونکہ حقائق اور واقعات کی طرف ابتداء سے میلان تھا اس لیے دلی کی عمارتوں اور یادگاروں کی تحقیقات شروع کی، اور نہایت محنت و کوشش سے اس کام کو انجام دے کر 1847ء میں ایک مبسوط کتاب لکھی جو آثار الصناوید کے نام سے مشہور ہے۔ اس وقت اگرچہ سرسید کے سامنے اردو نثر کے بعض عمدہ نمونے موجود تھے، خصوصاً میرا من صاحب کی چہار درویش جو 1802ء میں تالیف ہوئی تھی، اور جس کی سادگی، صفائی اور واقعہ طرازی آج بھی موجودہ تصنیفات کی ہمسری کا دعویٰ کر سکتی ہے، اس کے ساتھ مضمون جو اختیار کیا گیا تھا، یعنی عمارات اور انبیہ کی تاریخ وہ تکلف اور آورد سے اہا کرتا تھا، تاہم آثار الصناوید میں اکثر جگہ بیدل اور ظہوری کا رنگ نظر آتا ہے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ سرسید کی رات دن کی صحبت مولانا امام بخش صہبائی سے رہتی تھی، اور مولانا موصوف بیدل کے ایسے دلدادہ تھے، کہ ان کا کلمہ پڑھتے تھے، اور جو کچھ لکھتے تھے، اسی طرز میں لکھتے تھے۔ سرسید نے مجھ سے خود بیان کیا کہ آثار الصناوید کے بعض بعض مقامات بالکل مولانا امام بخش صہبائی کے لکھے ہوئے ہیں، جو انہوں نے میری طرف سے اور میرے نام سے لکھ دئیے تھے۔ بہر حال اس کتاب میں جہاں جہاں انشا پردازی کا زور دکھایا ہے اس کا نمونہ یہ ہے: ’’ ان حضرت کی طبع رسا شکل رابع سے پہلے اس سے نتیجہ حاصل کرتی ہے کہ بدیہی الانتاج سے ارباب فہم وذکا، اور ناخن فکر عقدہ لانیحل کو پہلے اس سے ادا کرتا ہے کہ گرہ جناب کو انگشت موج دریا معنی افہمی اس درجہ کہ راست و درست سمجھ لیا، کہ زبان سوسن نے کیا کہا، اور رمز شناسی اس مرتبہ کہ واقعی معلوم ہو گیا، کہ نگاہ نرگس نے کیا اشارہ کیا، اگر ان کی رائے روشن معجز نما ہو تو نقطہ موہوم کو انگشت سے تقسیم کرے اور جزولاتیخبری کو دونیم۔‘‘ اگرچہ اس سے بہت پہلے یعنی1836ء میں مولوی محمد حسین آزادی کے والد بزرگوار مولوی محمد باقر نے اردو اخبار کے نام سے اردو کا ایک پرچہ نکالا تھا، اور خود سرسید نے ایک پرچہ جاری کیا تھا، جس کا نام سید الاخبار تھا، اور دونوں پرچوں کی زبان، ضرورت کے اقتضاء سے سادہ اور صاف ہوتی تھی، تاہم اس وقت تک یہ زبان علمی زبان نہیں سمجھی جاتی تھی، اس لیے جب کوئی شخص علمی حیثیت سے کچھ لکھتا تھا، تو اسی فارسی نما طرز میں لکھتا تھا۔ سرسید نے بھی اسی وجہ سے آثار الصناوید میں جہاں انشا پردازی سے کام لیا، اسی طرز کو برتا۔ آثار الصناوید جس زمانہ میں نکلی، اس کے تھوڑے ہی دنوں کے بعد تقریباً1850ء میں دلی کے مشہور شاعر مرزا غالب نے اردو کی طرف توجہ کی، یعنی مکاتبات وغیرہ اردو میں لکھنے شروع کئے، اور چونکہ وہ جس طرف متوجہ ہوتے تھے، اپنا کوچہ الگ نکال کر رہتے تھے، اس لئے انہوں نے تمام ہم عصروں کے بر خلاف مکاتبہ کو مکالمہ کر دیا، مکاتبات میں وہ بالکل اس طرح ادائے مطلب کرتے تھے، جیسے دو آدمی آمنے سامنے بیٹھے باتیں کر رہے ہیں، اس کے ساتھ بہت سے خطوط میں انسانی جذبات، مثلاً رنج و غم، مسرت و خوشی، حسرت و بیکسی کو نہایت خوبی سے ادا کیا ہے، اکثر جگہ واقعات کو اس بے ساختگی سے ظاہر کیا ہے، کہ واقعہ کی تصویر آنکھوں کے سامنے پھر جاتی ہے، اس لحاظ سے یہ کہنا بے جا نہیں، کہ اردو انشا پردازی کا آج جو انداز ہے اور جس کے مجدد اور امام سرسید مرحوم تھے، اس کا سنگ بنیاد دراصل مرزا غالب نے رکھا تھا۔ سرسید کو مرزا سے جو تعلق تھا، وہ ظاہر ہے، اس لیے کچھ شبہہ نہیں ہو سکتا کہ سرسید ضرور مرزا کی طرز سے مستفید ہوئے۔ اسی زمانہ میں ہندوستان کے ہر حصہ میں کثرت سے اردو اخبارات جاری ہو گئے، اور انشا پردازی کو روز بروز ترقی ہوتی گئی، اخبارات کو ہر قسم کے اخلاقی، تمدنی، ملکی، مذہبی، تاریخی مسائل سے کام پڑتا تھا، اس لیے ہر قسم کے مضامین لکھے گئے، تاہم انشا پردازی کا کوئی خاص اسٹائل متعین نہیں ہوا تھا، اس کے علاوہ جو کچھ تھا، ابتدائی حالت میں تھا۔ 1386ھ میں جس کو آج کم و بیش27 برس ہوئے، سرسید نے قوم کی حالت کی اصلاح کے لیے تہذیب الاخلاق کا پرچہ نکالا، اور اردو انشا پردازی کو اس رتبہ پر پہنچا دیا جس کے آگے اب ایک قدم بڑھنا بھی ممکن نہیں۔ سرسید نے اردو میں جو باتیں پیدا کیں، اس کو مختصراً تہذیب الاخلاق میں خود ایک مقام پر لکھتے ہیں، ان کی خاص عبارت ہے: جہاں تک ہم سے ہو سکا ہم نے اردو زبان کی علم و ادب کی ترقی میں اپنے ان نا چیز پرچوں کے ذریعہ سے کوشش کی، مضمون کے اداکار ایک سیدھا اور صاف طریقہ اختیار کیا، رنگین عبارت سے جو تشبیہات اور استعارات خیالی سے بھری ہوئی ہے اور جس کی شوکت صرف لفظوں ہی لفظوں میں رہتی ہے، اور دل پر اس کا کچھ اثر نہیں ہوتا، پرہیز کیا، اس میں کوشش کی کہ جو کچھ لطف ہو، مضمون کے ادا میں ہو، جو4؎ اپنے دل میں ہو، وہی دوسرے کے دل میں پڑے تاکہ دل سے نکلے، اور دل میں بیٹھے 11؎ اس 1؎ آرٹیکل میں سرسید نے انشا پردازی کے اور بہت سے اصول بتائے ہیں جن کو اس موقع پر ہم اختصار کی وجہ سے قلم انداز کرتے ہیں۔ سرسید کی انشا پردازی کا سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ ہر قسم کے مختلف مضامین پر کچھ نہ کچھ بلکہ بہت کچھ لکھا ہے، اور جس مضمون کو لکھا ہے اس درجہ پر پہنچادیا ہے کہ اس سے بڑھ کر نا ممکن ہے۔ فارسی اور اردو میں بڑے بڑے شعراء اور نثار گزرے ہیں، لیکن ان میں ایک بھی ایسا نہ تھا، جو تمام قسم کے مضامین کا حق ادا کر سکتا۔ فردوسی بزم میں رہ جاتا ہے، سعدی رزم کے مرد میدان نہیں، نظامی رزم و بزم دونوں کے استاد ہیں، لیکن اخلاق کے کوچہ سے آشنا نہیں، ظہوری صرف مدحیہ نثر لکھ سکتا ہے، بر خلاف اس کے سرسید نے اخلاق، معاشرت، پالیٹکس2؎ مناظر قدرت وغیرہ وغیرہ سب پر لکھا ہے، اور جو کچھ لکھا ہے، لا جواب لکھا ہے، مثال کے طور پر بعض بعض مضامین کے جستہ جستہ فقرے نقل کرتے ہیں امید کی خوشی پر ایک مضمون لکھا ہے، جس میں امید کو مخاطب کیا ہے، اس کے چند فقرے یہ ہیں: ’’ دیکھ نادان بے بس بچہ گہوارہ میں سوتا ہے، اس کی مصیبت زدہ ماں اپنے دھندے میں لگی ہوئی ہے، اور اس گہوارہ کی ڈوری بھی ہلاتی جاتی ہے، ہاتھ کام میں اور دل بچہ میں ہے، اور زبان سے اس کو یوں لوری دیتی ہے، سورہ میرے بچے سورہ اے اپنے باپ کی مورت اور میرے دل کی ٹھنڈک سو رہ، اے میرے دل کی کونپل سو رہ، بڑھ، اور پھل پھول، تجھ پر کبھی خزاں نہ آئے، تیری ٹہنی میں کبھی کوئی خار نہ پھوٹے، کوئی کٹھن گھڑی تجھ کو نہ آئے، سورہ میرے بچے سو رہ، میری آنکھوں کے نور اور میرے دل کے سرور میرے بچے سو رہ، تیرا مکھڑا چاند سے بھی زیادہ روشن ہو گا، تیری خصلت تیرے باپ سے بھی اچھی ہو گی، تیری لیاقت، تیری محبت جو تو تم سے کر لے گا، ہمارے دل کو تسلی دیں گی، سورہ میرے بچے سو رہ، سورہ میرے بالے سو رہ۔‘‘ ’’ یہ امید کی خوشیاں ماں کو اس وقت تھیں جب کہ بچہ غوں غاں بھی نہیں کر سکتا تھا، مگر جب وہ ذرا اور بڑا ہوا، اور معصوم ہنسی سے ماں کے دل کو شاد کرنے لگا، اور اماں اماں کہنا سیکھا، اس کی پیاری آواز ادھورے لفظوں میں اس کی ماں کے کان میں پہنچنے لگی، آنسوؤں سے اپنی ماں کی آتش محبت کے بھڑکانے کے قابل ہوا، پھر مکتب سے اس کو سروکار پڑا، رات کو ماں کے سامنے ون کا پڑھا ہوا۔ سبق غمزدہ دل سے سنانے لگا، اور جب کہ وہ تاروں کی چھاؤں میں اٹھ کر منہ ہاتھ دھو کر اپنے ماں باپ کے ساتھ صبح کی نماز میں کھڑا ہونے لگا، اور اپنے بے گناہ دل بے گناہ زبان سے، بے ریا خیال سے خدا کا نام پکارنے لگا، تو امید کی خوشیاں اور کس قدر زیادہ ہو گئیں، اور ہماری پیاری امید! تو ہی ہے جو مہد سے لحد تک ہمارے ساتھ ہے۔‘‘ ’’ وہ دلاور سپاہی لڑائی کے میدان میں کھڑا ہے، کوچ پر کوچ کرتے تھک گیا ہے، لڑائی کے میدان میں جب کہ بہادروں کی صفیں کی صفیں چپ چاپ کھڑی ہوتی ہیں، اور لڑائی کا میدان ایک سنسان کا عالم ہوتا ہے، دلوں میں عجیب قسم کی خوف ملی ہوئی جرات ہوتی ہے، اور جب کہ لڑائی کا وقت آتا ہے اور وہ آنکھ اٹھا کر نہایت بہادری سے بالکل بے خوف ہو کر لڑائی کے میدان کو دیکھتا ہے اور جب کہ بجلی سی چمکنے والی تلواریں اور سنگنیں اس کی نظر کے سامنے ہوتی ہیں، اور بادل کی سی کڑکنے والی اور آتشیں پہاڑ کی سی آگ برسانے والی توپوں کی آواز سنتا ہے اور جب کہ اپنے ساتھی کو خون میں لتھڑا ہوا زمین پر پڑا ہوا دیکھت اہے تو اے بہادروں کی قوت بازو! اور اے بہادروں کی ماں! تیرے ہی سبب سے فتح مندی کا خیال اس کا کان فقارہ میں سے تیرے ہی نغمہ کی آواز سنتا ہے۔‘‘ تم دیکھ سکتے ہو کہ ان چند سطروں میں کس طرح نیچر کی تصویر کھینچی ہے، اور اس میں کس قدر درد اور اثر پیدا کیا ہے۔ نمبر1 پالیٹکس کا راستہ اس سے بالکل الگ ہے۔ پنجاب میں جب یونیورسٹی قائم ہو رہی تھی جس میں اورینٹل تعلیم پر بہت زور دیا گیا تھا، سرسید کو یہ خیال پیدا ہوا کہ اس سے پالیٹکس کی بناء پر ہم کو اعلیٰ تعلیم سے روکنا مقصود ہے۔ اس وقت سرسید نے پے در پے تین آرٹیکل لکھے، ان آرٹیکلوں کے بانیوں کو اس قدر گھبرا دیا کہ خاص ان آرٹیکلوں کے جواب میں سینکڑوں مضامین لکھے گئے، اور ان کا مجموعہ یکجا کر کے ایک مستقل کتاب تیار کی افسوس ہے کہ اختصار کی وجہ سے ہم ان آرٹیکلوں کا کوئی حصہ نقل نہیں کر سکتے۔ سرسید نے انشا پردازی کی ترقی کے جو طریقے ایجاد کئے، ان میں ایک یہ تھا کہ بہت سے اعلیٰ درجہ کے انگریزی مضامین کو اردو زبان کا قالب پہنچایا، لیکن ترجمہ کے ذریعہ سے نہیں، کیونکہ یہ طریقہ اب تک بے سود ثابت ہوا ہے، بلکہ اس طرح کے انگریزی خیالات اردو میں اردو کی خصوصیات کے ساتھ ادا کئے۔ امید کی خوشی کا مضمون جس کے ہم نے بعض فقرات اوپر نقل کئے دراصل ایک انگریزی مضمون سے ماخوذ ہے، انگریزی میں اڈیسن، اور اسنیل بڑے مضمون نگار گزرے ہیں، سرسید نے ان کے متعدد مضامین کو اپنی زبان میں ادا کیا۔ سرسید کی انشا پردازی کا بڑا کمال اس موقع پر معلوم ہوتا ہے جب وہ کسی علمی مسئلہ پر بحث کرتے ہیں، اردو زبان چونکہ کبھی علمی زبان کی حیثیت سے کام میں نہیں لائی گئی، اس میں علمی اصطلاحات، علمی الفاظ اور علمی تلمیحات بہت کم ہیں، اس لیے اگر کسی علمی مسئلہ کو اردو میں لکھنا چاہو تو الفاظ مساعدت نہیں کرتے، لیکن سرسید نے مشکل سے مشکل مسائل کو اس وضاحت ، صفائی اور دلاویزی سے ادا کیا ہے، کہ پڑھنے والا جانتا ہے کہ وہ کوئی دلچسپ قصہ پڑھ رہا ہے۔ پروفیسر رینان نے جو فرانس کا ایک بڑا مشہور مصنف گزرا ہے، اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ ’’ عربی زبان میں یہ صلاحیت نہیں کہ وہ فلسفی مسائل کو ادا کر سکے ‘‘ رینان جن مسائل کے ادا کرنے کے لیے عربی زبان کو نا قابل سمجھتا ہے (گو اس کا یہ خیال محض غلط ہے) سرسید نے اردو جیسی کم مایہ زبان میں وہ مسائل ادا کر دئیے ہیں سرسید نے فلسفہ الہیات پر جو کچھ اپنی مختلف تحریروں میں لکھا ہے، وہ فلسفہ کے اعلیٰ درجہ کے مسائل ہیں۔ زمانہ جانتا ہے کہ مجھ کو سرسید کے مذہبی مسائل سے سخت اختلاف تھا، اور میں ان کے بہت سے عقائد و خیالات کو بالکل غلط سمجھتا تھا، تاہم اس سے مجھ کو کبھی انکار نہ ہو سکا کہ ان مسائل کو سرسید نے جس طرح اردو زبان میں ادا کیا ہے کوئی اور شخص کبھی ادا نہیں کر سکتا۔ سرسید کی تحریروں میں جا بجا ظرافت اور شوخی بھی ہوتی ہے، لیکن نہایت تہذیب اور لطافت کے ساتھ مولوی علی بخش خان صاحب مرحوم جو سرسید کے رو میں رسالے لکھا کرتے تھے، حرمین شریفین گئے، اور وہاں سے سرسید کی تکفیر کا فتویٰ لائے۔ اس پر سرسید ایک موقع پر تہذیب الاخلاق میں لکھتے ہیں۔ ’’ جو صاحب ہماری تکفیر کے فتوے لینے کو مکہ معظمہ تشریف لے گئے تھے، اور ہماری کفر کی بدولت ان کو حج اکبر نصیب ہوا، ان کے لائے ہوئے فتوؤں کے دیکھنے کے ہم بھی مشتاق ہیں۔‘‘ بہ بین کرامت تبخانہ مرا اے شیخ کہ چون خراب شود خانہ خدا گردو سبحان اللہ ہمارا کفر بھی کیا کفر ہے، کہ کسی کو حاجی اور کسی کو ہاجی، اور کسی کو کافر اور کسی کو مسلمان بناتا ہے۔ یاران کہ در لطافت طبعش خلافت نیست در باغ لالہ روید ور رشورہ لوم خس تہذیب الاخلاق جب بند ہوا ہے، تو سرسید نے خاتمہ پر جو مضمون لکھا ہے اس کے ابتدائی فقرے یہ ہیں:ـ ’’ سوتوں کو جھنجھوڑتے ہیں، کہ جاگ اٹھیں، اگر اٹھ کھڑے ہوئے تو مطلب پورا ہو گیا، اور اگر نیند میں اٹھانے سے کچھ بڑبڑائے، کچھ جھنجھلائے، ادھر ہاتھ جھٹک دیا، ادھر پیر جھٹک دیا، اور اینڈے پڑے سوتے رہے، تو بھی توقع ہوئی، کہ تھوڑی دیر بعد جاگ اٹھیں گے، شاید ہمارے بھائیوں کی اس اخیر درجہ تک نوبت آ گئی ہے۔ اگر یہ خیال ٹھیک ہو تو ہم کو بھی زیادہ نہ چھیڑنا چاہیے، بچے اٹھاتے وقت کہہ اٹھتے ہیں کہ ہم کو اٹھائے جاؤ گے، تو ہم اور پڑے رہیں گے، تم ٹھہر جاؤ ہم آپ ہی اٹھ کھڑے ہوں گے، بچہ کڑوی دوا پیتے وقت بسور کر ماں سے کہتا ہے کہ بی ابیہ مت کہے جاؤ کہ شاباش بیٹا پی لے پی لے، تم چپ رہو، میں آپ ہی پی لوں گا، لو بھائیو! اب ہم نہیں کہتے کہ اٹھو پی لو پی لو،‘‘ حقیقت یہ ہے کہ سرسید نے اردو انشا پردازی پر جو اثر ڈالا ہے اس کی تفصیل کے لیے دو چار صفحے کافی نہیں ہو سکتے، یہ کام در حقیقت مولانا حالی کا ہے، وہ لکھیں گے اور خوب لکھیں گے بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ لکھ چکے ہیںاور خوب لکھا ہو گا میں کالج کی طرف سے مجبور کیا گیا تھا کہ اس وقت جب کہ تمام ملک میں سرسید کا آوازہ ماتم گونج رہا ہے، اور ہر شخص ان کے کارناموں کے سننے کا شائق ہے، کچھ نہ کچھ مختصر طور پر فوراً لکھنا چاہے، میں نے اسی کی تعمیل کی، ورنہ میں مولانا حالی کی مقبوضہ سر زمین میں مداخلت کا کوئی حق نہیں رکھتا، اور اس شعر کا مصداق بننا نہیں چاہتا۔ بھلا ترود بیجا سے اس میں کیا حاصل اٹھا چکے ہیں زمیندار جن زمینوں کو (محمڈن اینگلو اورینٹل کالج میگزین علی گڑھ مئی 1898ئ) ٭٭٭٭٭٭٭٭ املا اور صحت الفاظ ایک معزز اور محترم بزرگ نے جو ہندوستان کے مشہور صاحب قلم اور معاملات ملکی میں بڑے اہل الرائے ہیں ہم کو ایک نہایت طولالی خط لکھا ہے جس میں سخت افسوس کے ساتھ اس بات کی شکایت کی ہے کہ نا اہلوں کی وجہ سے اردو زبان روز بروز بگڑتی جاتی ہے اور اگر اس کا تدارک نہیں کیا جاتا تو ہماری قومی زبان برباد ہوئی جاتی ہے، ان کے خاص الفاظ یہ ہیںـ: ’’ آج کل میں دیکھتا ہوں کہ اردو کے اخبار اور رسالے جو انگریزی پڑھے ہوئے مضامین نگار لوگ نکال رہے ہیں یا اخباروں وغیرہ میں مضامین لکھتے ہیں ان غریبوں کے ہاتھ سے بیچاری اردو کی ایسی مٹی خراب ہونی شروع ہوئی ہے کہ توبہ! مضامین کا عمدہ ہونا دوسری بات ہے، مگر زبان، یعنی الفاظ اور املا کی غلطیاں ایسی ہوتی ہیں کہ میرا تو اکثر ان کے پڑھنے تک سے دل نفرت کرتا ہے یہ حالت خود انہی کے لیے قابل افسوس نہیں ہے، بلکہ ایسی غلط عبارتوں اور لفظوں کے شیوع سے آئندہ بہت ہی برے نتائج پیدا ہوں گے، لاہور کے ایک غیر انگریزی دان پرانے اخبار نویس نے جو بے چارہ سوائے عربی کے صرف معمولی سی فارسی پڑھا ہوا تھا، لفظ جناب کا مونث جنابہ بنایا، اب میں دیکھتا ہوں کہ ان کی بدولت بہ جنابت ایسی بری طرح پھیلتی جاتی ہے کہ توبہ، لفظ نذر اور نظر میں فرق نہیں کیا جاتا، بجائے نافیہ کے منفی، میرے خیال میں غلط ہے اس کا استعمال برابر ہو رہا ہے، موانقت کے مقابلہ میں نفظ نفاق لکھا جا رہا ہے اور جو کوئی کسی امر میں رائے مخالف رکھتا ہو، اس کو اس طرح پر خواہ مخواہ منافق کہا جاتا ہے‘‘ آپ فلاں امر کے لیے مجاز نہیں ہیں، اس کی جگہ لکھتے ہیں، کہ آپ کو اس بات کا کیا مجاز ہے، مجازی کی جگہ محاذ اور ایک بڑی ضخیم کتاب کے نو پسندہ صاحب نے بجائے لفظ منادی یعنی واعظ کے منا وزن قنا دو شداد اختراع کیا ہے وغیرہ وغیرہ، آپ کی خدمت میں یہ شکایت اس لئے لکھتا ہوں کہ آپ کے اہتمام سے (جو شاید برائے نام ہے) رسالہ کالج میگزین شائع ہوتا ہے، اس میں ایسی ایسی فاش غلطیاں ہوتی ہیں، کہ جن کو دیکھ کر بہت رنج ہوتا ہے، اور غضب یہ ہے کہ جب کہ اس پر لکھا جاتا ہے کہ مولانا محمد شبلی صاحب کے اہتمام سے شائع ہوا، تو غور فرمائیے کہ بے چارے انگریزی خواں اردو نویسوں کے لیے تو گمراہ ہو جانے کے لیے ایک بڑی دلیل ہو جائے گی، جب کوئی ان کو سمجھانا چاہے گا تو وہ یہی جواب دیں گے کہ فلاں مقام پر ہم نے ایسا ہی لکھا دیکھا ہے اور چونکہ وہ رسالہ جناب مولانا جیسے مستند شخص کے اہتمام سے شائع ہوتا ہے، تو یہ لفظ یا املا وغیرہ کس طرح غلط ہو سکتا ہے اسی طرح ہمارے ایک عالی کرم فرما مصنف و مضمون نگار نے کہیں ہمارے عرنی کا یہ شعر پڑھ لیا ہو گا۔ از نقش ذنگار در و دیوار شکستہ آثار پدیر است صنادید عجم را یا جناب سید صاحب کی کتاب کا نام آثار الصناویدسن لیا ہو گا، اب بے تکلف آثار قدیمہ کی نسبت لفظ صناوید لکھنا شروع کر دیا، اور ان کی دیکھا دیکھی اور لو گ بھی غلطی میں پڑتے جاتے ہیں، ایک رسالہ آج کل بہار سے بنام اصلاح جاری ہوا ہے، اس کے ٹائٹل پیج پر جو ایک عربی کا حصہ ہے وہ قابل ملاحظہ ہے۔ اگر آپ اخبار علی گڑھ کا ایک حصہ واسطے اصلاح ایسے اغلاط کے مخصوص فرما کر الفاظ و املا ہائے غلط و محاورات غیر صحیح کی تصحیح فرمایا کریں تو دنیا پر خصوصاً ہماری زبان اردو پر بڑا احسان ہو، ورنہ چند ہی سال میں ایک ایسی گڈ ڈامی اردو پیدا ہو گی کہ باید و شاید ’’ نا نظر الی الابل کیف خلقت ‘‘ یہ ضرور نہیں کہ کاتب مضمون کا نام لے کر اخبار میں نکتہ چینی کی جائے، بلکہ صرف اشارہ کے طور پر لکھا جا سکتا ہے اور جب کہ ایک آدھ کالم اسی کام کے لیے وقف کیا جائے گا، تو لوگ خواہ مخواہ ناراض بھی نہ ہوں گے کیونکہ اس عام طریق سے کسی کی تضحیک اور توہین مقصود نہ ہو گی بلکہ محض اصلاح زبان، زیادہ کہاں تک شمع خراشی کروں۔ سب سے پہلے میں اپنے محترم بزرگ کی خدمت میں یہ گزارش کرتا ہوں کہ میں سال بھر سے کالج میگزین کا ایڈیٹر نہیں ہوں، اس لیے اس کی غلطیوں کا اگر واقعی میں ہیں میں ذمہ دار نہیں۔ اصل بحث کی نسبت اس امر سے انکار نہیں ہو سکتا کہ اردو زبان میں بہت سے ایسے الفاظ داخل ہو گئے اور ہوتے جاتے ہیں، جو لغت اور ترکیب کے لحاظ سے غلط ہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ آیا یہ عام قاعدہ قرار پا سکتا ہے یا نہیں کہ جو لفظ اصل لغت کے لحاظ سے غلط ہے اس کا استعمال بھی عموماً غلط ہے، فارسی زبان میں جب عربی کا اختلاط ہوا۔ تو عربی کے سینکڑوں الفاظ اور جملے شامل ہو گئے، فارسی کے شعر اور نثار عموماً علوم عربیہ میں نہایت مہارت رکھتے تھے لیکن عربی الفاظ جو انہوں نے برتے، اس قدر غلط برتے، کہ آج کم مایہ اردو دان اس سے زیادہ غلطی نہیں کر سکتے، تاہم وہی فارسی آج تک مستند اور فصیح اور شیریں سمجھی جاتی ہے۔ چند مثالیں میں اس موقع پر نقل کرتا ہوں، ع بہ سخنہائے دروخ تو تسلی شد درفت میلی ع بنشست و قرآن خواند و بجنیا ندہمیسر قاانی ع حمام شریف شد مزیب والہ ع شاخ بنفشہ چون بروز لفین دوست گشت منوچری ع قوم اشرب الصبوح یا ابہا النائمین ع درد بسیرو بیندیش کاین نجسۃ نہاد عرنی ع سروسن طرح نوانداختہ یعنیچہ خرین اصل حقیقت یہ ہے کہ زبان کی ابتدا عوام سے ہوتی ہے، اور یہ گر وہ صحت الفاظ سے بالکل بے خبر ہوتا ہے خواص اسی زبان کو لے کر کاٹ چھانٹ کر اصلاح کرتے ہیں، اصلاح میں وہ بہت سے الفاظ کو اسی طرح چھوڑ دیتے ہیں، جس کی وجہ کبھی تو یہ ہوتی ہے کہ وہ غلط الفاظ اس قدر عام استعمال میں رواج پا چکے ہوتے ہیں کہ صحت کے ساتھ بولے جائیں، تو عام لوگوں کی سمجھ میں نہ آئیں، اور کبھی یہ کہ یہ امر زبان کی عزت اور خود مختاری کی دلیل سمجھی جاتی ہے، کہ دوسری زبان کے الفاظ اس میں آئیں تو اسی کے قالب میں ڈھل کر آئیں۔ فارسی اور اردو پر موقوف نہیں ہر زبان میں دوسری زبان کے الفاظ آ کر اصلی حالت پر نہیں رہتے، البتہ چونکہ اردو کوئی مستقل زبان نہیں، بلکہ عربی، فارسی، ہندی کا مجموعہ ہے اس لیے اس کو عربی فارسی وغیرہ کے الفاظ پر تصرف کا بہت کم حق حاصل ہے، اس لیے جہاں تک ہو سکے اس بات کا الزام زیادہ موزوں ہے، کہ غیر زبانوں کے الفاظ صحیح تلفظ اور ترکیب کے ساتھ قائم رکھے جائیں، لیکن اس سے بھی انکار نہیں ہو سکتا کہ اساتذہ قدیم و جدید نے عربی و فارسی کے بہت سے الفاظ کو اردو زبان میں غلط طور سے برتا، اور آج وہی غلط استعمالات فصیح اور با محاورہ خیال کئے جاتے ہیں۔ بہر حال اس قسم کے الفاظ کے استعمال و عدم استعمال کے لیے جو قاعدہ کلیہ قرار پا سکتا ہے۔ وہ یہ ہے کہ جو الفاظ فصی اور مسلم الثبوت اہل زبان کے عام استعمال میں آ جائیں وہ صحیح الاستعمال ہیں اور جن کو اہل زبان نے عموماً قبول کر لیا ہو، ان کا استعمال صحیح نہیں، اسی بنا پر جب مشہور اساتذہ مثلاً انیس و دبیر و آتش وغیرہ نے غلط الفاظ استعمال کئے، تو لوگوں نے اسی وقت اعتراض کیا، کیونکہ وہ الفاظ فصحاء کے نزدیک استعمال عام کی سند نہیں پا چکے تھے۔ اس لیے صرف ایک دو بزرگوں کا استعمال گو وہ کیسے ہی مسلم الثبوت اسناد ہوں صحت کی دلیل نہیں قرار پا سکتا تھا۔ ہمارے محترم بزرگ نے جن الفاظ کا ذکر کیا ہے وہ یقینا فصحائے اہل زبان کے ہاں مستعمل نہیں ہیں، اس لیے ان کے غلط ہونے میں کچھ کلام نہیں ہو سکتا، بے شبہہ ایسے الفاظ کو بہت سختی سے روکنا چاہیے، ورنہ زبان پر بہت بُرا اثر پڑے گا، کیونکہ اگر اس قسم کے الفاظ تحریر و تقریر میں کثرت سے پھیل گئے، تو ہر شخص کہاں تک یہ تحقیق کرتا پھرے گا، کہ ان میں سے کون سے فصحا کے نزدیک مقبول ہو چکے ہیں، اور کون غیر مقبول (محمڈن اینگلو اورینٹل کالج میگزین علی گڑھ مارچ1898ئ) ٭٭٭٭٭٭٭٭٭ اردو ہندی 1912ء میں الہ آباد گورنمنٹ نے ایک ورنیکولر اسکیم کمیٹی قائم کی تھی جس کا مقصد یہ تھا کہ اسکولوں اور کالجوں میں دیسی زبان کا کورس ایسی زبان میں مرتب کیا جائے، جو اردو ہندی دونوں زبانوں میں ایک ہی عبارت و الفاظ کے ساتھ پڑھا جا سکے، نیز اردو کے کورس میں بھاشا لٹریچر بھی ضروری قرار دیا جائے، مسٹر برن چیف سیکرٹری نے اس کے متعلق ایک اسکیم مرتب کی مولانا نے مرحوم اس کمیٹی کے ممبر تھے، اس اسکیم کے متعلق انہوں نے جو خیالات ظاہر کئے تھے وہ حسب ذیل تحریر ہے۔ یہ تحریر اس درجہ موثر رہی کہ مسئلہ کا فیصلہ خود ہندو ممبروں کی تائید سے مولانا ہی کی رائے پر ہوا، اور اس طرح اردو ہندی بن جانے سے بال بال بچ گئی۔ مسٹر برن نے اپنی یاد داشت میں جو تجویزیں پیش کی ہیں، ان میں اصلی اور مہتمم بالشان مسائل دفعہ 3,4 ہیں ان دفعات کا ورناکیولر پر نہایت وسیع اور دیر پا اثر پڑ سکتا ہے اس لیے ہم کو نہایت غور اور توجہ سے ان پر نظر ڈالنی چاہیے۔ دفعات3,4 کا ماحصل یہ ہے، ’’ اردو زبان اور ہندی زبان ، دراصل ایک ہی زبانیں ہیں کیونکہ ان کی گرامر متحد ہے اور جن دو زبانوں کی گرامر متحد ہوتی ہے، وہ زبانیں دراصل ایک ہی ہوتی ہیں، اس بنا پر پرورنیکولر کورس ایسی مشترک زبان میں بننا چاہیے کہ صرف رسم خط (کیرکٹر) کے فرق سے وہ اردو اور ہندی دونوں بن جائے۔‘‘ ’’ لیکن ہندی زبان کی ایک یہ خصوصیت ہے کہ اس کی نظم و نثر کی گرامر مختلف ہے اس لیے ہندی نظم کی گرامر کی واقفیت اور مہارت کے لیے راما بن ملسی واس میں داخل ہونی چاہیے۔ ہندوؤں کے لیے وہ لازمی کر دی جائے، اور مسلمانوں کے لیے بھی اس کا پڑھنا مناسب ہو گا۔‘‘ اس تجویز پر بحث کرنے کے لیے ہم کو پہلے یہ فیصلہ کر لینا چاہیے کہ ہندی کے لفظ سے مسٹر برن کی کیا مراد ہے؟ ہندی دو قسم کی ہے، ایک جو دیہات میں بولی جاتی ہے، اور گنوار بولتے ہیں، دوسری جو شہر میں تعلیم یافتہ ہندو روزمرہ استعمال کرتے ہیں۔ پہلی قسم کی ہندی تو کسی طرح کورس کی صلاحیت نہیں رکھتی، جس کے دلائل حسب ذیل ہیں۔ 1یہ ہندی ہر ضلع کی الگ ہے، اور ان میں باہم ا س قدر اختلاف ہے کہ ایک ضلع کا آدمی دوسرے ضلع کی ہندی کو مشکل سے سمجھ سکتا ہے اس لیے یہ فیصلہ کرنا نا ممکن ہوگا کہ کس ضلع کے دیہات کی زبان کورس میں داخل کی جائے۔ 2دیہات اور گنواروں کی زبان کسی ملک میں داخل نصاب نہیں کی جا سکتی، اور نہ ہی وہ علمی زبان قرار پاتی ہے، انگلستان میں دیہات کی انگریزی کسی نصاب تعلیم میں داخل نہیں ہے ایران اور عرب وغیرہ کا بھی یہی حال ہے۔ 3 یہ زبان معمولی روز مرہ کے مطالب کے ادا کرنے کے لیے کافی ہو سکتی ہے، لیکن وہ کوئی علمی زبان نہیں بن سکتی، حالانکہ ور نیکولر کو اس حد تک ترقی دینا مقصود ہے کہ کالج کی Chracter کلاسوں میں اخیر تک اس کا سلسلہ قائم رہے۔ اب جو کچھ بحث ہو سکتی ہے، وہ دوسری قسم کی ہندی کے متعلق ہو سکتی ہے۔ اس میں شبہہ نہیں کہ شہروں میں عموماً ہندو جو زبان بولتے ہیں وہ اور اردو زبان ایک ہی زبانیں ہیں یعنی ان کے افعال اور اکثر مفرد الفاظ اور گرامر ایک ہی ہیں فرق یہ ہے کہ عام ہندو جو بالکل تعلیم یافتہ نہیں ہوتے، یا جو پنڈت بھاشا اور سنسکرت میں زیادہ تو غل رکھتے ہیں، وہ فارسی عربی الفاظ کے بجائے زیادہ تر برج بھاشا یا سنسکرت کے الفاظ استعمال کرتے ہیں، لیکن عام تعلیم یافتہ ہندو جو ہندوستانی زبان میں مضامین اور آرٹیکل اور رسالے لکھتے ہیں ان کی اردو اور مسلمانوں کی اردو میں مطلق فرق نہیں ہوتا۔ متعدد علمی میگزین جن کے مالگ و ایڈیٹر ہندو ہیں، مثلاً زمانہ کانپور، ادیب آلہ آباد، زبان دہلی، ان میں ہندو انشا پرداز جو مضامین لکھتے ہیں ان کی زبان اور اعلیٰ درجہ کے مسلمان انشا پردازوں کی زبان میں کچھ فرق نہیں ہوتا وہ عموماً عربی اور فارسی علمی الفاظ کثرت سے استعمال کرتے ہیں، کیونکہ علمی خیالات کے لیے معمولی ہندی کے الفاظ کافی نہیں ہو سکتے، اور سنسکرت کے الفاظ کی نسبت وہ جانتے ہیں، کہ اگر استعمال کیے جائیں، تو سمجھنے والوں کی تعداد تھوڑی رہ جائے گی۔ مسٹر برن کی غالباً یہ مراد ہو گی کہ ان دونوں زبانوں کا ایک ہی نصاب بننا چاہئے، اس کی مثال بھی موجود ہے، کیونکہ پرائمری اسکولوں میں پانچویں درجہ تک جو کورس پڑھایا جاتا ہے، اور جس میں سے جنرل ریڈراس سلسلہ کی اخیر کتاب ہے، دونوں زبانوں کے کورس میں داخل ہے لیکن اس کے متعلق حسب ذیل امور قابل لحاظ ہیں۔ اس قسم کی مشترک زبان، صرف اس حد تک کے لٹریچر کے لیے کافی ہو سکتی ہے جو مہایث معمولی مطالب اور خیالات کے ادا کرنے کے لیے کفی ہو، جیسے کہ جنرل ریڈر کی زبان ہے۔ لیکن جب کہ یہ مقصود کہ ورنیکولر کا سلسلہ کالج کے اخیر کلاسوں تک قائم رہے تو ایسے نصاب کے بنانے کی ضرورت ہو گی، جس میں ہر طرح کے علمی مضامین اور علمی خیالات ادا کیے جائیں۔ اس حالت میں ان مضامین اور خیالات اور اصطلاحات کے ادا کرنے کے لیے عام روز مرہ کے الفاظ کافی نہ ہوں گے، بلکہ کسی علمی زبان سے مستعار لینے پڑیں گے، یہ علمی زبان عربی یا سنسکرت ہو گی، اور یہاں سخت کشمکش پیدا ہو گی۔ مسلمان ہر گز اس بات پر رضا مند نہ ہوں گے کہ بجائے ان عربی الفاظ کے جن کو ہر تعلیم یافتہ مسلمان نہایت آسانی سے فوراً سمجھ سکتا ہے، سنسکرت کے الفاظ سیکھیں جو ان کے لیے بالکل گوش نا آشنا ہیں، ہندو بھی اگرچہ ان الفاظ سے در حقیقت گوش آشنا نہیں ہوں گے لیکن وہ بطور ایثار کے اس محنت کو برداشت کریں گے۔ بہر حال جنرل ریڈر، مروجنہ حال سے آگے چل کر صاف فیصلہ کر دینا ہو گا کہ ہندی اور اردو کے کورس الگ الگ ہو جائیں، ورنہ ان دونوں زبانوں کے مخلوط کرنے سے حسب ذیل نقصانات ہوں گے: 1ہمیشہ ایک کشمکش رہے گی نصاب بنانے میں ہندو اور مسلمان دونوں اپنی اپنی قومی زبان یعنی عربی اور سنسکرت کی طرفداری کریں گے اور کبھی کوئی اور کبھی کوئی فریق کامیاب ہو گا۔ 2 دونوں سے مل کر ایک نئی زبان پیدا ہو گی، جو نہ اردو ہو گی، نہ ہندی، اردو اور ہندی دونوں زبانوں کو اس حد تک ترقی دینا چاہئے کہ وہ علمی زبانیں بن جائیں، اور ان میں ہر قسم کے خیالات اور مضامین ادا کیے جا سکیں، اور یہ اسی وقت ہو سکتا ہے جب دونوں کو علیحدہ علیحدہ آزادی کے ساتھ ترقی کا موقع دیا جائے، اور ایک دوسرے کی راہ میں حائل نہ ہو۔ ہم کو اس بات پر بھی سب سے زیادہ نظر رکھنی چاہیے کہ زبان کو اس حد تک ترقی دینی چاہیے کہ اس کی تصنیفات ہمارے صوبہ تک محدود نہ رہیں، بلکہ ہندوستان کے تمام تعلیم یافتہ لوگوں میں رواج پا سکیں، یہ امر بالکل بدیہی ہے کہ ہندوستان کے تمام تعلیم یافتہ مسلمانوں کی زبان اردو ہے۔ پنجاب، بنگال، مدراس، بمبئی میں قابل اور لائق مسلمان جو تصنیفات انگریزی زبان کے علاوہ کرتے ہیں، وہ اردو میں ہوتی ہیں، اور یہ وہی اردو ہے جو سنسکرت الفاظ سے بالکل خالی ہے۔ اس لیے اگر اس زبان کو سنسکرت الفاظ میں لا کر ہندی اور اردو کی ایک زبان بنائی جائے گی تو ایک زبان جو تمام ہندوستان کی اور کم از کم یہ کہ تمام مسلمانوں کی لینگو افرنکا ہے گھٹ کر ایک صوبہ بلکہ ایک ضلع کی زبان رہ جائے گی۔ اب میں مسٹر برن کی اس منطق کی طرف متوجہ ہوتا ہوں جو ان کی تمام تجویزوں کا سنگ بنیاد ہے، یعنی یہ کہ ہندی اور اردو کی گرامر ایک ہیں۔ دو زبانوں کی گرامر کے متحد ہو جانے سے صرف یہ ثابت ہو سکتا ہے کہ دونوں ایک ہی خاندان کی زبان ہیں یا ایک دوسرے سے نکلی ہیں، اسیرین زبانوں میں گرامر کے اعتبار سے ایک عام اتحاد پایا جاتا ہے، اور یہ اتحاد بعض زبانوں میں بہت زیادہ ہوتا ہے، تاہم وہ زبانیں مختلف رہتی ہیں، اور ان سے مشترک کورس نہیں تیار ہو سکتا، عبری زبان کی جوگرامر آج کل بیروت میں شائع ہوئی ہے، اور جو ایک قدیم مستند تصنیف ہے، وہ عربی کے نہایت قریب ہے اور اس اتحاد سے کسی طرح کم نہیں جس قدر کہ ہندی اور اردو میں اتحاد ہے، تاہم عبری اور عربی زبان کا کوئی مشترک کورس نہیں بن سکتا۔ اس کے علاوہ اگر دو زبانوں کی گرامر ایک ہو، لیکن الفاظ بالکل مختلف ہوں تو ان کو ایک زبان نہیں کہہ سکتے مشرقی ہندوستان کی زبانوں کی گرامر قریباً بالکل متحد ہے باوجود اس کے نہ وہ ایک زبانیں کہی جا سکتی ہیں، نہ ان کا کوئی مشترک کورس بن سکتا ہے۔ مسٹر برن کا یہ دعویٰ اور سخت حیرت انگیز ہے کہ ہندی کی نظم کی ایک یہ خصوصیت ہے کہ اس کی گرامر نثر کی گرامر سے مختلف ہے۔ نظم و نثر میں گرامر کا ایک خفیف فرق تمام زبانوں میں اس لحاظ سے ہوتا ہے، کہ نظم میں وزن کی ضروت سے الفاظ آگے پیچھے کر دئیے جاتے ہیں لیکن اس کے لیے علیحدہ گرامر بنانے کی ضرورت نہیں ہوتی، متعلم خود سمجھ لیتا ہے کہ وزن کی ضرورت نے یہ تغیر کر دیا ہے ہندی زبان کی نظم کی گرامر نثر سے مختلف ہو گی، تو اسی قدر ہو گی اس سے زیادہ اختلاف کی کوئی وجہ نہیں ہو سکتی۔ نظم کی گرامر کے مختلف ہونے سے جو استدلال کیا گیا ہے، اس میں سخت منطقی مغالطہ ہے۔ رامائن کی گرائمر مختلف ہے، لیکن اس کی یہ وجہ ہے کہ آج سے تین سو برس پہلے کی زبان ہے اس زمانہ کی اگر کوئی نثر ملے گی تو آج کی نثر کی گرامر سے اسی قدر مختلف ہو گی جس قدر کہ نظم کی گرامر مختلف ہے۔ راماین کی زبان آج کل کی ہندی نہیں ہے، اس لئے اس کا کورس میں داخل کرنا اگر اس لحاظ سے ہے کہ زبان کی وسیع واقفیت کے لیے اس کی ابتدائی حالت اور عہد بعید کی تبدیلیوں سے واقفیت ضروری ہے، تو یہ رائے بالکل بجا ہے لیکن اس غرض کے لیے دو امر کا لحاظ ضروری ہے۔ ایک یہ کہ ایسا کورس اسکول کے لیے موزوں نہیں، بلکہ کالج کلاسوں میں داخل ہونا چاہیے جس طرح کہ قدیم انگریزی زبان کی کوئی کتاب انٹرنس تک داخل نہیں ہے۔ دوسرے یہ کہ اس قسم کا کورس خالص ہندی زبان کے لیے ہونا چاہئے، جو صرف ان لوگوں کے لیے بنایا جائے، جو ہندی بھاشا اور سنسکرت کی تحصیل کرنا چاہتے ہیں ایسا کورس عام ورنیکولر کے لیے بالکل موزوں نہیں ہو سکتا۔ اخیر میں میں نہایت زور سے کہتا ہوں کہ نہایت ابتدائی درجوں تک ایک سادہ زبان جو عربی اور سنسکرت دونوں سے تقریباً آزاد ہو، اختیار کی جا سکتی ہے لیکن ہائر کلاسوں کے لیے اردو اور ہندی زبانوں کو بالکل الگ الگ قائم کرنا چاہئے، اور اسی صورت میں دونوں اعلیٰ درجہ تک ترقی کر سکتی ہیں۔ گرامروں کے معمولی اشتراک سے دونوں زبانوں کو ایک قرار دینا اور اس کی بناء پر آخر درجہ تک دونوں کا ایک نصاب بنانا سخت غلطی ہے، جس سے دونوں زبانیں برباد ہو جائیں گی۔ (معارف اکتوبر1912ئ) ٭٭٭٭٭٭٭٭٭ بھاشا زبان اور مسلمان ناظرین کو یاد ہو گا کہ ایک سر بر آوردہ ہندو ایڈیٹر نے ایک مضمون لکھا تھا جس میں دعویٰ کیا تھا کہ مسلمانوں نے تعصب مذہبی کی وجہ سے ہندی علم ادب پر کبھی توجہ نہیں کی، اور اگر اتفاقیہ کسی نے کچھ کی تو اس کو مسلمانوں نے کافر کہہ کے پکارا۔ اس کا جواب الندوہ کے پرچہ میں ’’ مسلمانوں کی بے تعصبی‘‘ کے عنوان سے لکھا گیا تھا جس میں مسلمانوں کی ان کی فیاضیوں کو بہ تفصیل دکھایا گیا تھا جو سنسکرت اور بھاشا کی تفصیلات کی حفاظت اور ترجمہ اور اشاعت کے متعلق ان سے ظہور میں آئیں۔ یہ مضمون اسی کا دوسرا حصہ ہے اس میں یہ دکھایا ہے کہ ترجمہ اور اشاعت کے علاوہ مسلمانوں نے خود بھاشا زبان میں کیا کیا تصنیفات کیں اور بھاشا کی شاعری میں کس درجہ کا کمال پیدا کیا۔ یہ امر بھی اس موقع پر لحاظ کے قابل ہے کہ سنسکرت زبان ایک مدت سے متروک ہے یعنی ایک زمانہ دراز سے خود ہندو بھی اس زبان میں تصنیف و تالیف نہیں کرتے اور اسلام کے زمانہ سے تو غالباً کوئی کتاب اس زبان میں نہیں لکھی گئی، ہندوؤں کی تصنیفات یا شاعری جو کچھ ہے، بھاکھا زبان میں ہے۔ اس لئے مسلمانوں نے بھی جو کچھ لکھا اسی بھاشا زبان میں لکھا۔ عام طور پر مشہور ہے کہ سب سے پہلے جس شخص نے بھاکھا زبان میں شعر و شاعری کی وہ حضرت امیر خسرو ہیںلیکن حقیقت یہ ہے کہ اس سلسلہ کا پتہ آگے چلتا ہے مسعود سعد سلمان جو سلطنت غزنویہ کا مشہور شاعر گذرا ہے اور جو امیر خسرو سے تقریباً دو سو برس پہلے تھا۔ اس کی نسبت تمام تذکرے متفق اللفظ ہیں کہ ہندی زبان میں بھی اس نے ایک دیوان لکھا تھا، تذکرہ مجمع الفصحا میں لکھا ہے۔ ’’ الحاصل دے راسہ دیوان بود تازی، ہندی و پارسی‘‘ اس واقعہ سے صرف والہ واغتانی نے اس بنا پر انکار کیا ہے کہ کوئی شخص کسی دوسرے ملک کی زبان میں اس قدر کمال نہیں پیدا کر سکتاکہ اس میں شاعری کر سکے، لیکن مولوی غلام علی آزاد نے اس شبہہ کو اس طرح رفع کر دیا کہ مسعود سعد سلمان، گو خاندان کے لحاظ سے ایرانی تھا لیکن پیدا لاہور میں ہوا تھا۔ اس لئے ایک ہندوستان زا کا ہندی میں اس درجہ کا کمال پیدا کرنا کچھ بعید نہیں۔ حضرت امیر خسرو نے سنسکرت اور بھاکھا میں جو کمال پیدا کیا، وہ محتاج اظہار نہیں، مثنوی نہ سپہر میں انہوں نے خود اپنی سنسکرت دانی کا ذکر کیا ہے افسوس ہے کہ ان کے بھاکھا کے خالص اشعار آج ناپید ہیں، عام زبانوں پر صرف وہ اشعار ہیں جن میں انہوں نے فارسی اور بھاکھا کو پیوند دیا ہے مثلاً۔ چون شمع سوزاں، چو ذرہ حیراں زمہر آن بگشتم آکر نہ نیند نیناں نہ انگ چیناں نہ آپ آویں نہ بھیجیں پتیاں اس طرز کے ان کے اشعار عام طور پر مشہور ہیں اس لئے ہم ان کو قلم انداز کرتے ہیں۔ امیر خسرو کے بعد شیر شاہی عہد میں ملک محمد جالیسی پیدا ہوئے وہ بھاکھا زبان کے ایسے بڑے زبردست شاعر تھے کہ خود ہندوؤں میں آج تک کوئی ان کا ہمسر نہیں پیدا ہوا۔ پد ماوت ان کی مثنوی آج موجود ہے اور گھر گھرپھیلی ہوئی ہے۔ ہندوؤں میں سب سے بڑا شاعر آخر زمانہ کا کالیداس گذرا ہے۔ 1نیناں: آنکھ 2 انگ: بدن 3 چیناں: آرام جس نے راماین کا بھاکھا میں ترجمہ کیا ہے نکتہ شناسوں کا بیان ہے کہ قدرت زبان کے لحاظ سے پدماوت کی طرح رامائن سے کم نہیں اور اس قدر تو ہر شخص دیکھ سکتا ہے کہ پدماوت کے صفحہ کے صفحہ پڑھتے چلے جاؤ، عربی فارسی کے الفاظ مطلق نہیں آتے اور یوں شاذو نادر تو رامائن بھی ایسے الفاظ سے خالی نہیں ملاحظہ ہو: رامائن کے بعض اشعار: رام اینک گریب1؎ نواجے لوگ بر بر برد براجے گنی2؎، گریب3، گرام، نرناگر پنڈت موٹے ملین اوجاگر ملک میں جائیسی نے پدماوت کے سوا بھاکا میں اور بھی دو مثنویاں لکھیں، جو ان کے خاندان میں اب بھی موجود ہیں لیکن افسوس کہ ان کے چھپنے کی نوبت نہیں آئی۔ اکبر کے زمانہ میں ہندی زبان کو اور بھی قبول عام حاصل ہوا۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ امراء اور شہزادے تک ہندی زبان میں شاعری کرتے تھے۔ شہزادہ دانیال (پسر اکبر شاہ) کے ضمنی تذکرہ میں جہانگیر اپنی نزک میں لکھتاہے: ’’ یہ نغمہ ہندی مائل بود، گاہے، بہ زبان اہل ہندو با صطلاح ایشاں شعرے می گفت، بد نبودے‘‘ عبدالرحیم خان خانان جو دربار اکبری کا گل سرسید تھا ہندی شاعری میں کمال کا درجہ رکھتا تھا، اسی کتاب میں خان خاناں کے وفات کے ذکر میں لکھا ہے: ’’ خان خاناں در قابلیت و استعداد یکتاے روزگار بود و زبان عربی و ترکی و فارسی و ہندی می دانست و از اقسام دانش عقلی و نقلی حتی علوم ہندی بہرہ دانی داشت و زبان فارسی و ہندی شعر نیکو گفتے‘‘ جہانگیر کے زمانہ میں غواصی نام کا ایک شاعر تھا اس نے طوطی نامہ کو جو نثر میں تھا، اس طرح نظم کیا۔ 1غریب نواز،2غنی،3غریب کہ ایک مصرعہ فارسی اور ایک ہندی میں تھا۔ اس سے اس کی قدرت زبان کا اندازہ ہو سکتا ہے میر حسن صاحب1؎ اپنے تذکرہ شعراء میں لکھتے ہیں: ’’ غواصی تخلص در وقت جہانگیر بادشاہ بود، طوطی نامہ بخشی را نظم نمودہ است بزبان قدیم نصفے فارسی و نصفے ہندی بطور بکٹ کہانی، سرسری دیدہ بودم شعر آن نظم بہ باد نیست۔‘‘ اسی زمانہ میں ملا نوری ایک بزرگ تھے جو قصبہ اعظم پور کے قاضی زادوں میں تھے اور فیضی سے نہایت اتحاد رکھتے تھے وہ اگرچہ فارسی کہتے تھے لیکن کبھی کبھی ہندی میں بھی طبع آزمائی کرتے تھے ریختہ یعنی اردو زبان کی ترکیبیں بھی ان کے کلام میں پائی جاتی ہیں چنانچہ میر حسن صاحب نے اپنے تذکرہ میں ان کا ایک شعر نقل کیا ہے، ہر کس کہ خیانت کند البتہ بترسد بیچارہ نوری نہ کرے ہے نہ ڈرے ہے اکبری اور جہانگیری دور میں سب سے زیادہ جس نے اس فن میں نام پیدا کیا وہ شیخ شاہ محمد بن شیخ معروف فربلی تھے۔ یہ بلگرام کے رہنے والے تھے اور حصار کی حکومت پر ممتاز تھے۔ ایک دفعہ سفر میں ایک ہندو لڑکی کی حاضر جوابی ان کو بہت پسند آئی اس کو ساتھ لائے اور تربیت کی چنانچہ ان کے اکثر دو ہے اور کبت اسی کے ساتھ سوال و جواب میں ہیں۔ ایک دفعہ سفر سے آئے اس نے ان کو مدت کے بعد دیکھا تو جوش محبت سے اس کی آنکھوں سے آنسو نکل آئے، انہوں نے کہا: کم درگ دھری سنار مم آیو بھایو نہیں اس نے برجستہ کہا: کیوں تیری آنکھ آبدیدہ ہوئی اے نازنین، کیا میرا آنا پسند نہیں آیا لیتھن نین پکھار ملن ہتی تو کو ورس بن آنکھ صاف کرنا گرد آلود تیرے دیدار کے بغیر یعنی چونکہ میری آنکھیں تمہاری جدائی میں گرد آلود ہو رہی تھیں۔ اس لئے میں نے ان کو آنسوؤں 1۔ میر جن مصنف بد منیر کا تذکرہ شعراء ہمارے کتب خانے میں موجود ہے۔ سے دھو لیا۔ شیخ محمد کے اشعار نہایت کثرت سے سرد آزاد کے دوسرے 1؎ حصہ میں نقل کئے ہیں۔ تیموری سلاطین بھاشا زبان کی شاعری کی اسی طرح قدر دانی کرتے تھے، جس طرح وہ اپنی شاہی زبان (فارسی) کے قدر دان تھے، اور یہ اس بات کا بڑا سبب ہے کہ ہندی شاعری بھی روز بروز ترقی کرتی جاتی تھی راجہ سورن سنگھ نے جب ایک ہندو شاعر کو جہانگیر کے دربار میں پیش کیا اور اس نے ایک اچھوتے مضمون کی نظم پڑھی تو جہانگیر نے ایک ہاتھی انعام میں دیا۔ چنانچہ خود تزک میں لکھتا ہے۔ ’’ بایں تازگی مضمونے از شعرائے ہند کم بگوش رسیدہ یہ جلد دے ایں مدح فیلے او مرحمت کر دم ‘‘ جہانگیر کے حکم سے ان اشعار کا فارسی میں ترجمہ بھی کیا گیا۔ گر پسر داشتے جہان افروز شب نہ گشتے ہمیشہ بودے روز زان کہ چون او نہفت افسر زر نبہ نمودے کلاہ گوشہ پسر شکر کز بعد او چناں پدرے جانشین گشت ایں چنیں پسرے کہ زشفتار گشتن آن شاہ کس بہ ماتم نہ کرو جامہ سیاہ ان اشعار کا حاصل یہ ہے کہ اگر آفتاب کے کوئی بیٹا ہوتا تو کبھی رات نہ ہوتی کیونکہ جب آفتاب چھپ جاتا، تو اس کا بیٹا اس کے بجائے عالم افروزی کرتا، خدا تعالیٰ کا شکر ہے کہ آپ کے والد (اکبر شاہ) 1؎ یہ بات جتا دینے کے قابل ہے کہ مولوی غلام علی آزاد نے سرد آزاد میں جو تذکرہ لکھا اس کے دو حصے کئے ایک فارسی شعراء کے ذکر میں اور دوسرا ہندی یعنی بھاشا کہنے والوں کے حالات میں اس دوسرے حصہ کی تمہید میں لکھتے ہیں۔ فصل ثانی در ذکر قافیہ سنجان ہندی جزاہم اللہ بجائزۃ الخیر سن، ہیچدان بازبان عربی و فارسی و ہندی آشنائیم و ازہر سہ میکدہ بقدر حوصلہ قدحے می چایم، مشق سخن ہندی ہر چند اتفاق یفقاد، اما سامعہ راز نواے طوطیان ہند خطے وافراست و ذائقہ را از چاشنی شکر فروشان ایں گل زمیں نصیبے متکاثر، افسوں خوانان ہندیم دریں دادی پائے کی ندارند بلکہ در فن نایکا بید قدم سحر سازی پیش می گذارند، موزونان زبان ہندی اور بلگرام فراوان جلوہ نمود اند، لہٰذا فصل ایں جماعہ علیحدہ بہ تجریر رسید و شمامہ معطرے بدست بو شناساں حوالہ گردیدہ پھر اس حصۃ کے خاتمہ میں لکھتے ہیں۔ کو خدا تعالیٰ نے ایسا بٹیا دیا کہ لوگوں نے ان کے انتقال کا غم نہ کیا ہندی تصنیفات کے ساتھ مسلمانوں کی توجہ کی یہ نوبت پہنچی، کہ لوگ ہندی کی مشہور کتابوں کو زبانی یاد کرتے تھے، امین رازی تذکرہ ہفت اقلیم میں میر ہاشم محترم کے حال میں لکھتے ہیں: ’’ امروز در ہندست، تمام کتاب مہا بھارت را کہ مستجمع اسامی غریبہ و حکایات عجیب است در ذکر وارد‘‘ اس مسئلہ میں حیرت انگیز بات یہ ہے کہ عالمگیر کو نہایت متعصب کہا جاتا ہے اور عام خیال ہے کہ وہ ہندوؤں کے علوم اور زبان سے نہایت نفرت رکھتا تھا، لیکن مسلمانوں نے بھاشا زبان پر جس قدر اس کے زمانہ میں توجہ کی پہلے کبھی نہیں کی تھی، ضمیر ایران کا ایک مشہور شاعر تھا وہ عالمگیر کے زمانہ میں ایران سے آیا اور شاہی منصب داروں میں مقرر ہوا۔ اس نے بھاشا زبان میں انتہا درجہ کا کمال پیدا کیا۔ اگرچہ بھاشا و سنسکرت کے الفاظ کا وہ صحیح تلفظ نہیں کر سکتا تھا، تاہم اس زبان میں نہایت برجستہ اشعار کہتا تھا ہندی میں اس کا تخلص پتھی تھا، یار جاتک جو موسیقی میں ہندی زبان کی ہندی ہے۔ اس کا ترجمہ اسی نے فارسی زبان میں کیا۔ مولوی غلام علی آزاد بلگرامی ید بیضا میں اس کے حالات کے ذیل میں لکھتے ہیں۔ ’’ در عہد عالمگیر بادشاہ از ولایت ایران بہ ہند آمدہ دور سلک منصبداران شاہی انتظام واشت و باوجود آنکہ بہ ہند آمدہ زبان ایں ولایت آموخت اقابواسطہ حدت ذہن و نظم ہندی طبع او آن قدر دخیل شد کہ از جملہ استادان فن بر آرز بانش بہ تلقظ ایں زبان خوب نمی گروید، اما نظم بسیار پختہ واقع می شدود در ہندی پتھی تخلص میکرد ترجمہ یار جا تک درفن رقص‘‘ بہ اقتضائے تربیتے کہ درین تالیف اختیار افتادہ ختم کتاب بر نظم ہندی دست بہم دادہ، چہ مضائقہ بعض الفاظ ہندی جزو فرقان عظیم است۔ سرد آزاد کا یہ حصہ ہمارے دوست نواب نور الحسن خان خلف اکبر جناب نواب صدیق الحسن خان مرحوم نے اپنی تذکرہ طور کلیم میں بتمامہ شامل کر لیا، چنانچہ فروغ دوم میں جہاں سے ہندی شعراء کا تذکرہ ہے عبادت تمہیدی بھی وہی سرد آزاد کی ہے میں اس مضمون میں بلگرامی شعراء بھاکا کا جو تذکرہ لکھوں گا اور ان کے اشعار نقل کرونگا وہ طور کلیم سے منقول ہونگے لیکن طور کلیم کا یہ حصہ دراصل سرد آزاد ہے طور کلیم چھپ گیا ہے اور ہر جگہ ملتا ہے اس لئے ناظرین کو وہ با آسانی ہاتھ آ سکتا ہے 1؎ تزک جہانگیری مطبوعہ علی گڑھ ص67 و نغمات ہندی از دست عالمگیر ہی کے متوسلین میں ایک اور شاعر دانا تخلص تھا، اس کی نسبت مولوی غلام علی آزاد بلگرامی ید بیضا میں لکھتے ہیں۔ ’’ نظم بندی بسیار خوب گفتہ‘‘ بھاشا کی زباں دانی اور شاعری کا ذوق اس زمانہ میں اس قدر عام ہوا کہ بڑے بڑے علماء اور حضرات صوفیہ اس میں کمال پیدا کرتے تھے۔ شیخ غلام مصطفیٰ امتخلص بہ انسان بہت بڑے پایہ کے شخص گذرے ہیں وہ قوم کے کنبو اور مراد آباد کے رہنے والے تھے۔ معقولات کی تحصیل حضرت ملا قطب الدین شہید سہالوی (جد مولانا بحر العلوم) کی خدمت میں کی حدیث کا فن محدث دہلوی کے خاندان سے حاصل کیا۔ تصوف میں شیخ جان محمد شاہجہان آبادی کے مرید تھے۔ طب، نجوم، خوشنویسی، فن جنگ ان تمام چیزوں میں کمال رکھتے تھے۔ عالمگیر کے زمانہ میں منصبداری کے عہدہ پر مامور ہو کر دکن گئے لیکن چند روز کے بعد استعفا دے کر چلے آئے 142ھ میں بمقام ایمپچور وفات پائی۔ ہندی زبان اور بھاشا کی شاعری میں ان کا جو درجہ تھا اس کا اندازہ مولوی غلام علی آزاد کی عبارت ذیل سے ہو سکتا ہے۔ ’’ علم ہندی بحیثیتے کہ اکثر برہمہ (برہمن ) حل غوامض از خدمت شیخ میکرد و ندو شعر ہندی نیز خوب می گفت۔ صناوید شعرائے ہندی در حضور او سر فردومی آوردند و اصلاح کتب و دوھ جی گرفتند ‘‘ (سرد آزاد) عبدالجلیل بلگرامی: (مولوی غلام علی آزاد کے نانا) جو عالمگیر کے درباری تھے، ہندی زبان کے ممتاز شاعر تھے فارسی قصیدوں میں بھی کہیں کہیں بھاشا بول جاتے ہیں۔ چنانچہ ایک قصیدے میں لکھتے ہیں۔ اسیس دیکے، کہے ہندوی میں یوں سمت رہے جگت میں اچل باس یہ وزیر سدا یہ ذوق اس قدر ترقی کرتا گیا کہ محمد شاہ کے زمانہ میں جب راجہ جے سنگھ والی جے پور نے بیس لاکھ کے صرف سے رسد خانہ قائم کیا اور فن ریاضی کے ساتھ نہایت اہتمام کیا تو علمائے اسلام نے اس کے حکم سے شرحح چغمنی اور ہیئت کی اور کتابوں کا ترجمہ بھاشا زبان میں کیا چنانچہ آزاد سجۃ المرجان میں لکھتے ہیں: وقد نقل العلما الا ھاند بامرجی شگھ شرح الچمغنی وغیرہ من کتب الھیئۃ والہندسۃ من العربیۃ الی الندیۃ (ستجلمرجان ص135) ہندوستان کے علماء نے جے سنگھ کے حکم سے شرح چغمنی وغیرہ کتابوں کا جو علم ہیئت اور ہندسہ میں تھی عربی زبان میں ہندی زبان میں ترجمہ کیا۔ شرح چغمنی اس درجہ کی مشکل کتاب ہے کہ اردو میں اس کا ترجمہ نہیں کیا جا سکتا، اس سے قیاس کرنا چاہئے کہ جو علماء بھاشا زبان میں اس کا ترجمہ کر سکے، ان کی بھاشا دانی کا کیا رتبہ ہو گا۔ اسی زمانہ میں سید نظام الدین بلگرامی نے سنسکرت اور بھاشا کے علم ادب میں نہایت شہرت حاصل کی۔ سنسکرت کے حاصل کرنے کے لئے بنارس کا سفر کیا اور وہاں رہ کر اس علم کی تکمیل کی۔ ہندی موسیقی میں اس درجہ کا کمال حاصل کیا کہ لوگ ان کو نایک کہتے تھے ۔ چنانچہ اس فن کے متعلق بھاشا میں دو کتابیں تصنیف کیں ناؤ چندر کا، اور مدھنایک سنگار، بھاشا میں مدھنایک تخلص کرتے تھے 1009ھ میں وفات پائی کلام کا نمونہ یہ ہے۔ جو چترانن چت چڈھے، نہ بڈھے بدھ بیدن، گرنتھ نہ گائے فرشتہ دل دل ترکیب و صورت کتب آسمانی قدیم کتابیں بھارتی، بھوری کری، بھرین، جب، جوگن، جوگ اتھیہ، گنائے گویائی سجہ گردانی ریاضت مرتاض جو مکھ جوت جگی، نہ تھگی مدھنایک گھونگھت چنچل تائے چہرہ روشنی نام شاعر شوخی جھنیں، دو کول چھے جھلکی ابجھ، براجت، اچھ رچھائے باریک دوپٹہ زیب دنیا بے مثل فریفتہ کرنا مطلب یہ ہے کہ تیری آنکھیں نقاب کے اندر جس قدر خوش نما ہیں۔ اس کی خوبی فرشتوں کے خیال میں بھی نہیں آ سکتی۔ اور نہ آسمان کی کتابوں میں ان کی توصیف پائی جاتی ہے۔ قوت نطق خود محو حیرت ہے اور زاہد مرتاض سجہ گردانی سے بھی زیادہ اس کا مداح ہے۔ نقاب ان آنکھوں کی خوبی کو چھپا نہیں سکتی۔ بلکہ باریک دوپٹہ اس کی خوبی اور بھی دوبالا کر دیتا ہے۔ ان کا اور بہت سا کلام سرد آزاد میں نقل کیا ہے، لیکن چونکہ ناظرین کے لئے وہ نا مانوس صدا ہو گی اس لئے ہم اس کو قلم انداز کرتے ہیں۔ سید رحمت اللہ پسر سید خیر الدین بلگرامی بھاشا زبان کے مشہور استاد تھے سلطنت کی طرف سے دو صدی منصب اور جاگیر مقرر تھے۔ اس زمانہ میں بھاشا کا مشہور شاعر چنتامن ایک ہندو تھا۔ اس کا ایک شاگرد رحمت اللہ کا شہرہ سن کر ان کی خدمت میں حاضر ہوا اور چنتامن کا دوہا انکے سامنے پڑھا۔ ہیو حرت ار کرت ات چنتامن چت چین وامرگ نیتے کی لکھی داہی کی سی نین سید رحمت اللہ نے اس دوہہ میں غلطی نکالی اور چنتا من نے سنا تو غلطی تسلیم کر کے اس کی اصلاح کر دی۔ چنتامن نے سید رحمت اللہ کی مدح میں ایک دوہہ بھی لکھا جس کا مطلع یہ ہے۔ گرب گھ سنگ، جیون، سبل گل گاج من پرابل گج باج، دل، ساج، دھایو غرور شیر بطور اظہار دلیری زبردست ہاتھی گھوڑا فوج آراستہ حملہ کیا بجت اک جمک گھن گھمک دند بھن کی ترنگ، کھر، دھمک، بھوتل ہلایو ایک طرح گردن شگاف نقارہ گھوڑے کا سم زمین سید رحمت اللہ نے 13 ربیع الاول1118ھ میں وفات پائی ان کے بہت سے دوہے سرو آزاد میں نقل کے ہیں ہم صرف ایک پر اکتفا کرتے ہیں۔ کراچائے جمحائے تیر دھاری بھیج یہ بھائے ہاتھ بلند کرنا انگڑائی بازو خوشنما معلوم ہوتے موچیلا دولی چمک ہوئے گری بھوم پر آئے گویا بجلی زمین یعنی محبوب نے جمہائی لیتے ہوئے جب دونوں ہاتھ اٹھا کر نیچے کر لئے تو یہ معلوم ہوا کہ گویا دو بجلیاں چمک کر زمین پر گر پڑیں۔ سید غلام نبی پسر سید محمد باقر، سید عبدالجلیل بلگرامی کے بھانجے تھے،2محرم1111ھ میں پیدا ہوئے سید عبدالجلیل اس زمانہ میں عالمگیر کے ساتھ دکن کی مہم پر تھے۔ بھانجے کے پیدا ہونے کی خبر سنی تو سال تاریخ کی فکر ہوئی۔ اسی حالت میں سو گئے اور خواب میں یہ مادہ ہاتھ آیا،ع نور چشم باقر عبدالحمید م تفاول کے طور پر پیشین گوئی کی کہ یہ لڑکا شاعر ہو گا۔ خدا تعالیٰ کی قدرت، پیشین گوئی صحیح اتری اگرچہ عربی و فارسی میں مہارت رکھتے تھے لیکن بھاشا کی شاعری میں نہایت کمال پیدا کیا1163ھ میں نواب وزیر اور افاغنہ کی لڑائی میں نواب کے ہمرکاب تھے اور عین معرکہ جنگ میں مارے گئے مولوی غلام آزاد سے نہایت درجہ کا اتحاد تھا۔ چنانچہ آزاد نے تاریخ کہی۔ رقم کر دے ہے غلام نبی بھاشا زبان میں ایک دیوان لکھا جس میں177دوہے ہیں۔ اسی کا نام انگ درپن رکھا۔ بھاشا میں ان کا تخلص درس لین ہے۔ درس کے معنی بھاشا میں دیدار کے ہیں اور لین کے معنی محو کے ہیں اور سلین کا لفظی ترجمہ محو دیدار ہے ان کے کلام کا نمونہ یہ ہے۔ توحید تیری منورتھ کو ہوت ہے سین لوک تون ہی ہوئی اکاش، کرت نکہت ادوت ہے مطلب اشارہ دینا آسمان ستارہ روشنی تون ہی چاروتتو، سیل، تزپس، پچھی، ہوت تون ہی میگھ پوچی، کوت اور اکوت ہے اربو عناصر پہاڑ درخت چرند پرند بادل دیتا ہے حساب بے حساب تون ہی بن ناری بھرتا، کی رسلین ہوت تون ہی ہوئی کی سترلب این تن لوت ہے عورت شوہر دشمن جاگ پڑین جھونٹون جیون سین، لوگ ہوت تیو نہین اتما بچاری لوک جاگت کو موت ہے بیداری خواب روح یعنی تیرے ہی اشارہ سے دنیا پیدا ہوتی ہے تو ہی آسمان بن کر ستاروں کو روشن کرتا ہے تو ہی اربعہ عناصر اور پہاڑ، درخت، چرند اور پرند بن جاتا ہے تو ہی بادل بن کر بے حساب بارش کرتا ہے تو ہی عورت کے قالب میں آ کر مرد کا راحت رساں ہے تو ہی بالآخر موت کی صورت میں جان کا دشمن ہے تو جس طرح کہ جاگنے کے بعد خواب بالکل وہم معلوم ہوتا ہے۔ اسی طرح خدا شناسوں کے نزدیک یہ دنیا نما متر خواب ہے۔ سید برکت علی بہت بڑے فقیہ تھے۔ بھاشا میں شعر کہتیت ھے اور پیمی تخلص کرتے تھے بھاشا میں جو ان کی نظموں کا مجموعہ ہے اس کا نام خود پیہم پر کاس رکھا تھا۔ سرو آزاد میں ان کا بہت سا کلام نقل کیا ہے ہم صرف ایک دوہے پر نقل ہیں۔ چکہ جوگی کنتھا گرین، ارن سیام اور سیت آنکھ گلا سرخ سیاہ سفید آنسو بوند سیمرن لین درسن بھی ہیت قطرہ تسبیح دیدار خیرات یعنی آنکھیں ایک ریاضت کش جوگی ہیں۔ جو سرخ سیاہ اور سفید دانوں کا مالا پہنے ہوئے اور آنسوؤں کی تسبیح لئے ہوئے دیدار کی بھیک کی طالب ہیں۔ ان بزرگوں کے سوا اور بہت سے اہل کمال گذرے ہیں جنہوں نے بھاشا زبان کی انشا پردازی اور شاعری میں نام وری حاصل کی اور جن کے حالات مختلف تذکروں میں مل سکتے ہیں۔ کیا ان واقعات کے بعد بھی ہمارے ہندو دوست کا یہ بیان قابل تسلیم ہے کہ مسلمانوں نے کبھی ہندو لٹریچر پر توجہ نہیں کی اور جو کرنا چاہتا تھا، وہ کافر قرار پاتا تھا۔ ہمارے ہندو دوستوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ مسلمانوں سے زیادہ بے تعصب قوم نہ صرف دنیا کی پچھلی تاریخ بلکہ موجودہ اور آئندہ زمانہ بھی قیامت تک نہ پیش کر سکے گا۔ (الندوہ اکتوبر1906ئ) ٭٭٭٭٭٭ تحفۃ الہند مسلمانوں کی توجہ برج بھاشا پر، برج بھاشا کا فن معانی و بیان یاد ہو گا کہ ہمارے ایک معزز ہندو دوست نے اردوئے معلی میں ایک مضمون لکھا تھا جس میں اس پر معترضانہ افسوس ظاہر کیا تھا کہ مسلمانوں نے چھ سو برس تک اس ملک میں حاکم رہ کر کبھی ملکی زبان کی طرف توجہ نہ کی۔ ہم نے اس کا جواب الندوہ میں بہ تفصیل دو نمبروں میں لکھا تھا۔ جس میں بتایا تھا کہ مسلمانوں نے ہندوؤں کی زبان کے ساتھ کس قدر اعتنا کیا اور خود برج بھاشا میں کس درجہ کی قابلیت پیدا کی۔ یہ مضمون بھی اس سلسلہ کا گویا تتمہ ہے۔ تحفۃ الہند جو ہمارے مضمون کا عنوان ہے ایک کتاب کا نام ہے جو اورنگ زیب عالمگیر کے زمانہ میں تصنیف ہوئی مصنف کا نام میرزا خان بن فخر الدین محمد ہے۔ دیباچہ میں لکھا ہے کہ میں نے یہ کتاب شہنشاہ عالمگیر کے زمانہ میں شہزادہ اعظم شاہ کے مطالعہ کے لئے تصنیف کی۔ کتاب کا موضوع ہندوؤں کا فن بلاغت اور عروض و قافیہ وغیرہ ہے اس میں7باب ہیں۔ 1پنگل: یعنی علم عروض 2تک: یعنی قافیہ 3النکار: یعنی علم بدیع 4 سر نگار رس: یعنی عشق و محبت 5 سامدک: یعنی علم قافیہ 6 کوک : یعنی علم النساء 7لغات ہندی: اس میں برج بھاشا کے ضروری کثیر الاستعمال الفاظ لکھے ہیں اور ان کے معنی بتائے ہیں۔ یہ کتاب عالمگیر کے زمانہ میں تصنیف ہوئی ہے اور اس کے سب سے چہیتے اور منظور نظر فرزند کے مطالعہ کے لئے تصنیف ہوئی ہے عالمگیر کی نسبت اس کے مخالفوں کا دعویٰ ہے کہ وہ تعصب کا دیوتا تھا اور وہ ہندوؤں کی نہ صرف عمارات بلکہ ان کے لٹریچر کو مٹا دینا چاہتا تھا اور اس نے ان کی تمام درسگاہیں اور پاٹ شالے بند کرا دئیے تھے۔ یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ یہ تاریخ کا مسلمہ مسئلہ ہے کہ عالمگیر ملک کے ایک ایک جزئی واقعہ سے اس قدر واقفیت رکھتا تھا کہ کسی حصہ ملک کا ادنیٰ سا واقعہ بھی اس کی نگاہ تجسس سے مخفی نہیں رہ سکتا تھا۔ باوجود اس کے کہ برج بھاشا کو جس قدر اس کے زمانہ میں ترقی ہوئی مسلمانوں نے جس قدر اس کے زمانہ میں ہندی کتابوں کے ترجمے کئے اور جس قدر برج بھاشا میں نظم و نثر لکھی کسی زمانہ میں اس قدر ہندی کی طرف التفات نہیں ظاہر کیا گیا تھا چنانچہ اس کی تفصیل ہم ایک مستقل مضمون میں لکھ چکے ہیں یہ کتاب تحفۃ الہند اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے۔ یہ نا ممکن ہے کہ عالمگیر جو اپنے بیٹوں کی ایک ایک حرکت کی خبر رکھتا تھا اس کی نظر سے ایک ایسی کتاب جو اس کے محبوب ترین شہزادہ کے لئے لکھی جائے، مخفی رہ جائے۔ نعمت خان عالی نے وقائع لکھی ور عالمگیر سے چھپانے کی بے انتہا کوشش کی لیکن چھپ نہ سکی۔ اس کتاب میں سے ہم صرف ضائع و بدائع کے حصہ کا اقتباس درج کرتے ہیں جس سے اندازہ ہو گا کہ ہندی زبان کے فن بدیع کو عربی سے کیا نسبت ہے؟ اس موقع پر یہ بات بھی اظہار کے قابل ہے کہ مصنف نے ہندی صنائع و بدائع کی تفصیل لکھ کر چند صنعتیں خود اضافہ کی ہیں ان کے خود نام رکھے ہیں اور ان صنعتوں میں خود ہندی اشعار کہہ کر، درج کتاب کئے ہیں جس سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ مصنف کو خود اس زبان میں کہاں تک قدرت تھی یہ صنائع اکثر بلکہ قریباً کل عربی سے لئے ہیں اور عربی ناموں کا ترجمہ بھاشا میں کر دیا ہے۔ بھاشا میں علم بدیع کو النکار کہتے ہیں چونکہ بلاغت کا اصلی کام جذبات اور احساسات پر اثر ڈالنا ہے۔ اس لئے النکار کی تین قسمیں قرار دی ہیں۔ 1نورس: اس میں تمام احساسات کا استقصاء کیا ہے۔ اور ان کی نو قسمیں قرار دی ہیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہیں سر نگاررس: اس کی دو قسمیں ہیں، سنجوک بیوک، سنجوک یعنی وصال و فراق، ہاسیہ رس: مسرت و خوشی کرنارس: رحم و ہمدردی دیر رس:شجاعت و بہادری رودررس: غیظ و غضب بھے رس: خوف و بیم بی بھیس رس: نفرت و کراہت شانت رس: سکون و اطمینان اوبھت رس: استعجاب عربی اور فارسی زبان میں اس قسم کی سائنٹفک تقسیم نہیں ہے اور اس لحاظ سے ہندی کو فارسی اور عربی پر ترجیح ہے۔ 2مے نیگ کسی مضمون کو لطیف، نازک اور شوخ پیرایہ نیں ادا کرنے کو کہتے ہیں مثلاً عورت اپنے شوہر سے جو کسی اور عورت پر عاشق ہے کہتی ہے کہ پیارے! تیری پیشانی پر جو سرخی ہے یہ تیری سرخ ٹوپی کا عکس ے یا رقیبہ کی حنا کا اثر ہے۔ سوال سے بظاہر صرف اس قدر مفہوم ہوتا ہے کہ عورت کو اپنے محبوب شوہر سے رقیبہ کے پاس جانے او را س سے ملنے کی شکایت ہے لیکن در پردہ وہ یہ بات ثابت کرنا چاہتی ہے کہ شوہر نے رقیبہ کے پاؤں پر پیشانی رگڑی ہے جس سے پیشانی میں سرخی آ گئی ہے۔ یہ وہ صنعت ہے جس کو عربی میں تعریض کہتے ہیں۔ سنسکرت کا انشا پرداز اس صنعت کو اس قدر وسعت دیتا ہے کہ الفاظ اور عبارت کی ضرورت نہیں، صرف حالت کا دکھا دینا بھی اس صنعت میں داخل ہے۔ مثلاً محبوب رات بھر کا جاگا ہوا کسی صحبت سے آیا ہے جس کی وجہ سے بال پریشان ہیں، آنکھیں مخمور ہیں، انگڑائیوں پر انگڑائیاں آ رہی ہیں، عاشق زبان سے کچھ نہیں کہتا۔ صرف آئینہ لا کر سامنے رکھ دیتا ہے کہ یہ سب کچھ کہہ دے گا۔ یہ بھی اسی صنعت میں داخل ہے۔ 3اپمان، اس کے معنی تشبیہہ کے ہیں تشبیہہ ایک نہایت لطیف صنعت ہے۔ عربی میں اس کو نہایت وسعت دی ہے اور اس کی بہت سی قسمیں کی ہیں بھاشا میں بعض باتیں تو مشترک ہیں مثلاً مکہ اپمان یعنی جب تشبیہہ کے الفاظ مذکور ہوں مثل چون مثل وغیرہ۔ پست اپمان، حرف تشبیہہ مذکور نہیں، لیکن مقدر ہے جیسے ’’ قند لب ‘‘ یعنی لب چون قند اس کو عربی میں استعارہ کہتے ہیں لیکن بعض باتوں میں جدت ہے، مثلاً مالو اپمان تشبیہ کا یہ طریقہ عربی اور فارسی میں نہیں آیا تو اس کا کوئی خاص نام نہیں یہ وہ صورت ہے کہ مشتبہ کے اجزاء اور عوارض سے تشبیہہ دیتے ہیں مثلاً چاند کی تشبیہہ میں کہا جائے کہ وہ ایک باغ ہے اس میں جو سیاہی ہے وہ درختوں کی چھاؤں ہے اس کی کرنیں درختوں کی ٹہنیاں ہیں اس کو تشبیہہ مرکب کہہ سکتے ہیں لیکن کسی قدر اس سے مختلف الصورۃ ہے۔ شرنکھلا اپمان، اس میں سلسلہ بہ سلسلہ تشبیہہ دیتے جاتے ہیں یعنی ایک چیز کو ایک چیز سے تشبیہہ دی پھر اس کو کسی اور چیز سے تشبیہہ دی پھر اس کو بھی کسی اور چیز سے تشبیہہ دی۔ اتیتی اپمان، یہ وہ صورت ہے جس کو فارسی میں تشبیہ الشی بنفسہ کہتے ہیں یعنی کسی شے کو خود اسی شے سے تشبیہہ دینا، مثلاً فارسی میں چو توگر کے باشد آن ہم توئی اردو میں آج کل کہتے ہیں، وہ شخص آپ اپنی نظیر ہے۔ حقیقت میں یہ مبالغہ کی ایک صورت ہے یعنی جب یہ کہنا ہوتا ہے کہ اس شخص کی نظیر نہیں تو یوں کہتے ہیں کہ وہ اپنا آپ ہی نظیر ہے اور کوئی اس کا نظیر نہیں اس صنعت کو فارسی میں اور بھی ترقی دی ہے یعنی یوں کہتے ہیں کہ وہ خود بھی اپنا نظیر نہیں اردو میں کسی کا مصرع ہے، ع تم سے جب تم ہی نہیں پھر کوئی تم سا کیا ہو النکار، یہ ایک عام لفظ ہے جس کے معنی صنعت و بدیع کے ہیں سنسکرت میں اس کی بہت سی انواع ہیں ان میں سے 17زیادہ متد اول ہیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے۔ اترکتار النکار، یہ وہ صورت ہے کہ جس چیز سے ممدوح کو تشبیہہ دیتے آئے ہو۔ اس میں عیب ثابت کیا جائے تاکہ محبوب کی ترجیح ثابت ہو مثلاً سخاوت اور فیاضی میں ممدوح کو بادل سے تشبیہہ دیتے ہیں، لیکن عنصری کہتا ہے ع اوہمی بخشد وہمی گرید توہمی بخشی وہمی خندی یعنی بادل برستا ہے تو روتا جا ہے اور تو برستا ہے تو ہنستا ہے۔ درود ہا بھاس النکار، یعنی عبارت کے معنی واقع ہیں صحیح ہوں، لیکن بظاہر غلط معلوم ہوں۔ جب ایک لفظ کے معنی مختلف ہوتے ہیں تو اس صنعت سے کام لیتے ہیں، مثلاً بھاشا میں سیام سیاہ کو بھی کہتے ہیں اور معشوق کو بھی، اسی طرح لال سرخ کو بھی کہتے ہیں اور محبوب کو بھی اب اگر یہ کہا جائے کہ ’’ سیام زرد‘‘ ہے تو بظاہر غلط ہو گا۔ کیونکہ سیاہ چیز زرد نہیں ہو سکتی لیکن اگر سیام کے معنی محبوب کے لئے جائیں تو یہ جملہ صحیح ہو سکتا ہے۔ عربی میں اس صنعت کو نہایت وسعت دی گئی ہے۔ مقامات حریری میں سو فقہی سوال اور جواب ہیں جواب تمام تر غلط معلوم ہوتے ہیں لیکن واقع میں صحیح ہیں مثلاً ایک سوال یہ ہے کہ اگر کوئی شخص وضو کے بعد نعل کو چھوئے تو کیا حکم ہے؟ جواب دیا ہے کہ ’’ وضو ٹوٹ جائے گا نعل عربی میں جوتے کو کہتے ہیں اور یہ معنی زیادہ متد اول ہیں، لیکن نعل عورت کو بھی کہتے ہیں اور شافعیوں کے نزدیک عورت کو چھونے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے۔‘‘ سکارن ات بریچھا، حسن کو کہتے ہیں یہ صنعت عربی اور فارسی میں بہت مستعمل ہے بھاشا میں اس کے نہایت لطیف نئے نئے پیرایے ملتے ہیں۔ مثلاً چاند معشوق کا حسن چرا کر آسمان پر بھاگ گیا۔ اسی وجہ سے ہمیشہ چوروں کی طرح رات کو نکلتا ہے فارسی کا شاعر کہتا ہے۔ از شرم ابر وان بلند تو ماہ نو خود را چناں نمود کہ کس دیدو کس نہ دید یعنی معشوق کے ابرو کی شرم سے ماہ نو اس طرح چھپ کر نکلا کہ کسی نے دیکھا، کسی نے نہیں دیکھا۔ اکارن ات بریچھا، مبالغہ اور اغراق کو کہتے ہیں۔ انکرن النکار، لف و نشر کو کہتے ہیں سند بہا النکار، یعنی دو چیزوں میں جان بوجھ کر شک کرنا، مثلاً یوں کہیں کہ یہ چہرہ ہے یا چاند زلف ہے یا سانپ، عربی میں اس کو تجاہل عارفانہ کہتے ہیں۔ سچہمان النکار: یعنی الفاظ و عبارت کے بغیر کسی مطلب کو محض اشارے و کنایے سے ادا کرنا مثلاً عاشق معشوق سے سوال کرتا ہے کہ میں کب آؤں؟ معشوق کچھ جواب نہیں دیتابلکہ اس کی بجائے گورے چٹے آدمی کو نیلگوں برقع پہنا کربھیجتا ہے جس سے یہ اشارہ ہوتا ہے کہ جب چاند ڈوب جائے اور تاریکی چھا جائے، تب آنا۔ اینا اید یسار النکار: کسی پر بات ڈھال کے کہنا، مثلاً ایک وفا کیش معشوقہ کا عاشق آیا ہے۔ وہ دوسرے شخص کی طرف مخاطب ہو کر کہتی ہے کہ آہ آج میرا شوہر ایک کام کو گیا ہے، ساس بھی کہیں گئی ہے گائے بھینس کا باندھنا مجھ پر کس قدر شاق ہوتا ہے اور اندھیری رات میں مجھ کو سخت ڈر معلوم ہوتا ہے لیکن ان باتوں کا اصلی مخاطب در حقیقت عاشق ہے۔ اردو فارسی میں اس کی مثالیں نہایت کثرت سے مل سکتی ہیں لیکن مصنف نے جو مثال دی ہے اس سے ہندوستان کی قدیم طرز معاشرت کا اندازہ ہوتا ہے۔ ات سیوکت النکار: اس کی چار قسمیں ہیں یعنی نگر جاد ہوسان: یعنی مشبہ بہ کو ذکر کر کے مشبہ مرا دلیتے ہیں، مثلاً یہ کہ چاند، سانپ، ہرن، چیتا میرا دل اڑا لے گئے، رخسار زلف، آنکھ، کمر کو چاند، سانپ، ہرن اور چیتے سے تشبیہہ دیتے ہیں لیکن اس جگہ خود ان چیزوں کو بول کر رخسار وغیرہ مراد لیا ہے۔ برکتیسا نتھا بھان، اس میں تشبیہہ کا شائبہ بھی باقی نہیں رہتا اور نہ مشبہ و مشبہ کا ذکر ہوتا، بلکہ مشبہ کی نفی کر کے اس کو عین مشبہ بہ فرض کر لیتے ہیں، مثلاً کہتے ہیں کہ اب تم وہ نہیں رہے بلکہ دوسری چیز ہو گئے ہو۔ کارن کارج پر جی اس صنعت میں مسبب سبب سے پہلے واقع ہوتا ہے مثلاً جرم مواخذہ کا سبب ہے، لیکن یوں کہتے ہیں، اس شہر میں عجیب رسم ہے کہ گناہ کرنے سے پہلے مواخذہ کرتے ہیں۔ جدیارتہ، اس میں مشبہ کو مشبہ بہہ پر ترجیح دیتے ہیں، مثلاً چاند سے معشوق کو تشبیہہ دیتے ہیں لیکن اگر یوں کہیں کہ چاند معشوق کے برابر اس وقت ہو سکتا ہے کہ اس کے یاقوت کے مثل لب، موتی کی طرح دانت، سانپ کی طرح زلف اور ہرن جیسی آنکھیں ہوں۔ عربی و فارسی میں اس کی مثالیں کثرت سے ہیں اچھر چتھکار النکار، یعنی صنعت سوال و جواب، فارسی میں یہ صنعت نہایت کثرت سے مستعمل ہے لیکن بھاشا میں یہ جدت ہے کہ مسلسل سوالات کئے جاتے ہیں اس کے بعد صرف ایک ایسا مفرد لفظ بولتے ہیں جو کل سوالوں کا جواب ہوتا ہے مثلاً ان سوالوں کے جواب میں کہ ’’ زمین و زمان کی روشنی، بینائی، انسان کی معاش کا سبب یا ہے؟‘‘ صرف عین کا لفظ کافی ہو گی کیونکہ عین آفتاب، آنکھ سونا کو کہتے ہیں اور وہ ان سوالات پر حاوی ہے۔ بھر مان النکار، مغالطہ میں پڑنا، مثلاً یہ کہ میرا دل معشوق کے تل کو دانہ سمجھ کر اس کی زلف کے جال میں جا پھنسا، ایک ہندی شاعر نے اس مضمون کو عجیب لطیف پیرایے میں ادا کیا ہے وہ کہتا ہے کہ ایک بھونرا طوطے کی چونچ کو ڈھاک کا پھول سمجھ کر رس چوسنے کے لئے اس پر جا بیٹھا، طوطے نے اس کو جامن کا پھل سمجھا اور نگل گیا۔ ان صنائع میں سے ہم نے بہت سے چھوڑ دئیے جس کی وجہ یہ ہے کہ اولاً تو ان میں سے بہت سے فارسی اور عربی میں بہ کثرت مستعمل ہیں دوسرے سنسکرت الفاظ کا تلفظ ہم سے صحیح ادا نہیں ہوتا۔ اس موقع پر یہ نکتہ خاص لحاظ کے قابل ہے کہ اگرچہ ہمارے انشاء پردازوں نے سنسکرت اور برج بھاشا کے علم ادب کے نکتہ نکتہ کو سمجھا اور اس سے بہت فائدہ اٹھایا، لیکن اس کے فیض سے وہی محروم رہ گیا، جو سب سے زیادہ حقدار تھا۔ یہ ظاہر ہے کہ اردو بھاشا سے نکلی اور اس کے دامن میں پلی، لیکن بھاشا سے جو سرمایہ اس کو ملا صرف الفاظ تھے مضامین اور خیالات سے اس کا دامن خالی رہا بخلاف اس کے عربی زبان جس کو بھاشا سے کسی قسم کا تعارف نہ تھا۔ وہ سنسکرت اور بھاشا دونوں سے مستفید ہوئی (تفصیل اس کے آگے آئے گی) اس کی وجہ یہ ہوئی کہ آج سے 50برس پہلے مسلمان اردو کو کوئی علمی زبان نہیں سمجھتے تھے۔ خط کتابت تک فارسی میں تھی اردو شعراء جس قدر گذرے، ان میں سے ایک بھی عربی کا فاضل نہ تھا یا یوں کہو کہ کوئی عالم اردو کو اس قابل نہیں سمجھتا تھا کہ اس میں انشا پردازی یا شاعری کا کمال دکھائے علمی زبان اس وقت عربی تھی اس لئے جہاں سے جو سرمایہ ملتا تھا اسی کے خزانہ میں جمع کیا جاتا تھا۔ بہر حال ہندی شاعری کے مضامین، عربی زبان میں بعینہ نقل ہوئے۔ یعنی علمائے ادب نے سنسکرت اور بھاشا کی نظموں کا بعینہ عربی میں ترجمہ کیا۔ ہم چند مثالیں ذیل میں لکھتے ہیں۔ یہ مثالیں سجۃ المرجان سے لی گئی ہیں مولوی غلام علی آزاد نے ہر جگہ تصریح کر دی ہے کہ وہ ہندی سے ترجمہ کی گئی ہیں۔ لقد نحلت فی یوم راج جیبھا الی ان ھوی من ساعدیھا نصارھا ولما اتارھا مخبرعن قد مہا علی ساعلد الملان ضاق سوارھا (یہ یاد رکھنا چاہئے کہ ہندی میں عاشق عورت ہے اور مرد معشوق ہے) یعنی جس دن معشوق نے سفر کیا میں اس قدر دبلی ہو گئی کہ ہاتھ کے کڑے ڈھیلے ہو کر گر پڑے، لیکن جس دن قاصدنے آ کر معشوق کے آنے کی خبر دی اور میں نے کڑوں کو پہننا چاہا تو اب وہ تنگ ہو گئے اور چڑھتے نہ تھے۔ مالاح فی شفتیک کحل راق انی ابینہ بحسن بیان ختمت علی شفتیک ذات تدلل کیلا تکلھنی علی الا حیات واقعہ یہ ہے کہ شوہر کسی اور محبوبہ سے مل کر آیا ہے اور چونکہ اس نے اس کی سرمگیں آنکھوں کو چوما تھا۔ا س لئے اس کے ہونٹوں پر سیاہی لگ گئی ہے اب عوت شوہر سے کہنے آئی ہے کہ تیرے ہونٹوں پر جو سیاہی ہے میں بتاؤں کیوں ہے اور کہاں سے آئی ہے، کسی کافر ادا نے تیرے ہونٹوں پر مہر کر دی ہے کہ تو کبھی مجھ سے بات نہ کرے۔ رات المھاۃ العامریۃ صدرہ بالظفر مکلوما نقالت مرحبا ھذا اھلال تبغیہ طبیعتی روحی فداعک لا لعبار ایک بھولی کمسن عورت نے اپنے شوہر کے سینہ پر ناخن کا خراش دیکھا، جو ناخن کے مشابہ تھا۔ بھولے پن سے شوہر سے کہتی ہے کہ یہ تو نئی رات کا چاند ہے۔ مجھ کو بہت پیارا معلوم ہوتا ہے مجھ کو دیدو میں اس سے کھیلوں گی۔ بات المحب مع الحناء بارحۃ حتی یدی حاجب من اعظم بشھب وزار زوجۃ فی الصبح فانقبضت لمارات طرفہ الحمر کالسکب قالت نتاۃ لھا فی العین منعکس یاقوت سیمک النقرعن لھب تبسمت من سماع القول واضعۃ فضل الخمار علی ضوء من التانب فصار یغضب للصھباء کیف عذت تحلی رضا بک واز ورت عن الاذب قالت لہ لا تکن غضبات مرحمۃ فھمت طرفک محمد عن الغضب شوخی ادائ، عارفانہ تجاہل اور نزاکت خیال کی اس سے بہتر مثال نہیں مل سکتی اور صرف ان اشعار سے اندازہ ہوتا ہے کہ بھاشا کی شاعری کس قدر لطیف اور نازک ہے۔ صورت حال یہ ہے کہ شوہر رات بھر کا جاگا ہوا کہیں سے آیا ہے اور اس کی سرخ آنکھیں ہیں عورت کو بد گمانی ہوتی ہے کہ کسی محبوبہ کے ہاں رات گذاری ہے اس لئے سرخ آنکھیں ہیں ایک سہیلی بد گمانی کو مٹانا چاہتی ہے اور کہتی ہے کہ نہیں یہ تمہارے ہونٹوں کی سرخی کا کس ہے، عورت شرما کر آنچل کا گوشہ منہ پر رکھ لیتی ہے (ا س سے اصل میں یہ غرض ہے کہ اگر ہونٹوں کی سرخی تھی۔ تو وہ آنچل میں چھپ گئی، اب کیوں سرخی نظر آتی ہے) شوہر غصہ کی صورت بنا کر کہتا ہے کہ شراب کو کیا حق ہے جو تیرے آب دہن کا مقابلہ کرے عورت کہتی ہے آپ غصہ نہ ہوں، میں سمجھی آپ کی آنکھیں غصہ کی وجہ سے سرخ ہیں۔ اردو زبان میں اگر اس لطافت کی کوئی نظیر ہے تو یہ شعر ہے۔ نہ میں سمجھا نہ آپ آئے کہیں سے پسینہ پونچھیے اپنی جبیں سے جس زمانہ میں مولوی غلام علی آزاد بلگرامی اورنگ آباد دکن میں تھے، ان کے ماموں مولانا طفیل احمد نے بلگرام سے ایک ہندی نظم عربی میں ترجمہ کرنے کے لئے بھیجی آزاد نے حسب ذیل اس کا ترجمہ کیا(سجۃ المرجان ص250) نلارت سعاد بلا رعد فقلت لھا یا مرحبا بک من القاک فی التعب قالت لقد باء فی غیم و کلفنی انی اجوب الید الارض بالھذب نقلت کیف طوبت الارض ما شیئہ وقت الدجی و سکوب الدمع من نحب قالت ھدا نی شعاع البرق مرحمۃ فمثلہ سرت فی القیعات والکتب نقلت سیرک فی حنج الدجی غلط بلا رفیق شریک فی خطی الطلب قالت خیالک طول السیر کان معی فی حالۃ عن تجاہ العین لم لغیب یعنی معشوقہ میرے پاس اچانک آئی میں نے کہا خیر ہے؟ اس وقت کیونکر تکلیف کی، بولی کہ بادل آ گئے۔ انہوں نے مجھ کو آمادہ کیا کہ تیرے پاس آؤں میں نے کہا رات اور بادل کی تاریکی میں راستہ کیوں کر نظر پڑا بولی کہ بجلی نے رہنما ساتھ کر دیا تھا۔ میں نے کہا لیکن رات کو اکیلے سفر کرنا۔ کسی طرح مناسب نہیں بولی کہ میں تنہا نہیں آئی تیرا خیال برابر میرے ساتھ رہا اور ساتھ آیا۔ واقعات مذکورہ بالا کو پڑھ کر ایک دفعہ اور ہمارے ہندو دوست کے وہ الفاظ یاد کرو کہ مسلمانوں ہیچ گہ ذوق طلب از جستجو بازم نہ داشت دانہ می چیدم من آں روزے کہ خرمن داشتم (الندوہ، فروری1911ئ) ٭٭٭٭٭٭٭٭ ختم شد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔The End