مقالات شبلیؒ جلداول مرتبہ مولانا سید سلیمان ندوی ؒ بسم اللہ الرحمن الرحیم الحمد للہ رب العالمین والصلوۃ والسلام علی سید الرمسلین وعلیٰ الہ الطاہرین مولانا شبلی مرحوم نے مستقل تصنیفات کے علاوہ مختلف عنوانات پر سینکڑوں علمی و تاریخی و ادبی و سیاسی مضامین لکھے تھے‘ جو ہنو ز اخبارات و رسائل کے صفحات میں منتشر تھے علم دوست اصحاب کا تقاضا تھا کہ ان پراگندہ موتیوں کو ایک سلک میں منسلک کر دیا جائے کہ وہ ہر شخص کو یکجا میسر آ سکیں‘ اور اہل علم ان سے پوری طرح فائدہ اٹھا سکیں۔ اگرچہ مولانا مرحوم کے چند مضامین ’’رسائل شبلی‘‘ اور ’’مقالات شبلی‘‘ کے ناموں سے الگ الگ دو حصوں میں ان کی زندگی ہی میں شائع ہو چکے تھے لیکن یہ دونوں مجموعے ناتمام ہیں ‘ اور صرف چند تاریخی و علمی مضامین پر مشتمل ہیں‘ اس بنا پر یہ ارادہ کیا گیا کہ مختلف عنوانات کے تحت ہر ہر عنوان سے متعلق ان کے تما م مضامین ایک ایک مستقل جلد میں جمع کر دیے جائیں تاکہ ان کے مضامین جس جس موضوع پر ہوں وہ الگ الگ مرقع میں نظر آئیں‘ اس خیال کو پیش نظر رکھ کر ملک کے مختلف رسائل و اخبارات مثلاً معارف علی گڑھ‘ دکن ریویو‘ انسٹی ٹیوٹ گزٹ‘ تہذیب الاخلاق‘ الندوہ ‘ مسلم گزٹ وغیرہ وغیرہ سے ان کے تمام مضامین استقصاء کے ساتھ نہایت تلاش و محنت سے جمع کیے گئے اور مختلف موضوع کے لحاظ سے الگ الگ ان کی تقسیم کی گئی اور ان کی اشاعت کا انتظام کیا گیا۔ یہ تمام مضامین غالباً ۹ جلدوں میں سما سکیں‘ جن کے علیحدہ علیحدہ عنوانات حسب ذیل ہوں گے۔ مذہبی‘ تاریخی‘ علمی‘ ادبی‘ تنقیدی‘ تعلیمی‘ قومی‘ سیاسی اور آخری جلد ان کے خطبات اور تقریروں کے مجموعہ پر مشتمل ہو گی۔ پیش نظر جلد اس سلسلہ کی پہلی کڑی ہے ۔ بقیہ جلدیں آئندہ بہ ترتیب شائع ہوتی رہیں گی۔ وما توفیقی الا باللہ۔ سید سلیمان ندوی ناظم دارالمصنفین اعظم گڑھ ۲۷ ۔ شعبان سنہ ۱۳۴۹ھ ٭٭٭ تاریخ ترتیب قرآن قرآن مجید کا نزول اور جمع و ترتیب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عر جس قدر زیادہ ہو تی جاتی تھی اسی قدر دنیوی تعلقات سے آپ کا جی ہٹتا جاتا تھا اور جستجوئے حق آپ کو بے تاب کیے دیتی تھی۔ یہاں تک کہ آپ آبادی چھوڑ کر پہاڑ اور صحرا میں پھرنے لگے۔ مکہ سے منا کو جاتے ہوئے بائیں ہاتھ تین میل کے فاصلہ پر ایک پہاڑ ہے جس کو حرا کہتے ہیں‘ اس میں ایک غار تھا ‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے معمول کر لیا کہ کئی کئی دن تک متصل اس میں رہتے اور مراقبہ و مجاہدہ کرتے ‘ کھانا گھر سے پکوا کر ساتھ لاتے جب ختم ہو جاتا تو گھر کو واپس جاتے‘ دو تین دن وہاں ٹھہرتے اور پھر واپس آ جاتے‘ اسس طرح پورا ایک مہینہ ۱؎ گزر گیا اور اتفاق یہ کہ رمضان کا مہینہ اور آ پ کی عمر کا چالیسواں سال تھا‘ اخیر دفعہ آپ اسی غار میں تشریف رکھتے تھے کہ آپ کو فرشتہ یزدانی نظر آیا‘ اس نے آپ سے کہا کہ ’’پڑھ‘‘ آپ نے فرمایا کہ میںپڑھا ہوا نہیں ہوں‘ فرشتہ نے آپ کو زور سے بغل میں بھینچا‘ پھر چھوڑ کر کہا ’’پڑھ‘‘ آپ نے پھر وہی جواب دیا ‘ اسی طرح تین باراتفاق ہوا۔ تیسری دفعہ کے بعد فرشتہ نے یہ آیتیں خود پڑھیں اور آپ سے پڑھنے کی فرمائش کی ۔ اقرا باسم ربک الذی خلق خلق الانسان من علق اقرا وربک الاکرام ’’خدا کے نام سے پڑھ جس نے خلقت پیدا کی‘ جس نے انسا ن کو لوتھڑے سے پیداکیا اور تیرا خدا بڑا کریم ہے۔‘‘ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱؎ عینی جلد اول (صفحہ ۶۷) بہ حوالہ سیرۃ ابن اسحاق ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ابن اسحٰق ۱؎ کی روایت میں ہے کہ یہ واقعہ خواب میں واقع ہوا‘ یعنی فرشتہ کا آنا اور آپ کو دبانا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خواب میں دیکھا۔ آپؐ اس واقعہ کے بعد گھر میں آئے‘ آپؐ کا دل دھڑک رہا تھا۔ حضرت خدیجہؓ سے کہا کہ مجھ کو کچھ اڑھا دو‘ دیر کے بعدجب سکون ہوا تو آپؐ نے تمام واقعات حضرت خدیجہؓ سے بیان فرمائے ارو کہا کہ مجھ کو ڈر ہے (دیکھیے کیا ہوتا ہے) خدیجہؓ نے کہا آپؐ مطمئن رہیے خدا ہرگزآپ کو خوار نہ کرے گا۔ آپؐ صلہ رحم فرماتے ہیں ‘ ناداروں کی خبر لیتے ہیں‘ مہمانوں کی مہمان نوازی کرتے ہیں۔ یہ کہہ کر خدیجہؓ آپ کو ورقہ بن نوافل کے پاس لے گئیںَ ورقہ حضرت خدیجہؓ کے چچیرے بھائی تھے ۔ جاہلیت میں عیسائی ہو گئے تھے۔ اور چونکہ عبرانی زبان جانتے تھے۔ عربی میں انجیل کا ترجمہ کیا کرتے تھے ۔ آپؐ نے ورقہ کے سامنے سب ماجرا بیان کیا۔ ورقہ نے کہا یہ وہی ناموس (رازدار) ہے جو موسیٰ پر نازل ہوا تھا ۔ کاش میں جوان ہوتا کہ جب قوم آپ کو نکالنا چاہتی تو میں آپ کے کام آ سکتا۔ آپ نے پوچھا کہ کیا یہ بھی ہو گا۔ ورقہ نے کہا ہمیشہ ایسی حالتوں میں لوگ دشمن بن جاتے ہیں۔ اس کے بعد تین برس تک آپ پر کوئی وحی نہیں آئی۲؎ ۔ ایک دن آپ نے آسمان کی طر ف سے ایک آواز سنی اور آنکھ اٹھا کر دیکھا تو وہی فرشتہ جو حرا میں نظر آیا تھا ‘ آسمان اور زمین کے بیچ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱؎ عینی شرح بخاری مطبوعہ قسطنطنیہ جلد اول ص ۷۳ سطر ۳ ۲؎ یہ پوری تفصیل تقریباً حرف بہ حرف بخاری کے پہلے ہی صفحہ میں ہے محدثانہ طریقہ سے اس حدیث میں لحاظ کے قابل یہ بات ہے کہ حضرت عائشہؓ اس وقت تک آنحضرت صلعم کے عقد نکاح میں نہیں آئی تھیں بلکہ پیدا ہی نہیں ہوئی تھیں ‘ اس لیے یہ حدیث کسی اور سے سنی ہو گی۔ لیکن انہوں نے راوی کا نام نہیں بتایا اس قسم کی حدیث کو محدثین کی اصطلاح میں مرسل کہتے ہیں۔ لیکن محدثین کا یہ مذہب ہے کہ صحابی جب کوئی حدیث بے سند بیان کرتاہے تو وہ معتبر ہوتی ہے کیونکہ ا سنے آخر کسی صحابی سے سنا ہو گا اور صحابہ سب ثقہ ہیں۔ ۳؎ عینی جلد اول صفحہ ۷۳ بہ حوالہ ابن اسحاق و تاریخ احمد بن حنبل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں ایک کرسی پر بیٹھا ہو انظر آیا۔ آپ پر رعب طاری ہو گیا اسی حالت میں گھر واپس آئے‘ اور فرمایا کہ مجھ کو کچھ اوڑھا دو اس وقت یہ آیتیں آپ پر نازل ہوئیں۔ یاایھا الذین المدثر قم فانذر وربک فکبر وشیا بک فطھر و الرجز فاھجر (مدثر ۔ ۱) ’’اے کپڑوں میں لپٹے ہوئے اٹھ لوگوں کو ڈرا خدا کی بڑائی کر کپڑے پاک ڈال اور ناپاکی سے الگ ہو جا‘‘۔ اس کے بعد وحی کا سلسلہ برابر جاری رہا ۔ وحی کا نزول اکثر تو کسی خاص واقعہ اور ضرورت کے پیش آنے پر ہوتا تھا۔ اور کبھی یوں بھی ہوتا تھا کہ اکثر تین تین چار چار آیتیں ایک ساتھ اترتی تھیں۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہوا کہ دس دس آیتیں ایک ساتھ اتریں۱؎ ۔ جب کوئی آیت اترتی تھی تو آپؐ کسی پڑھے لکھے صحابی کو بلوا کر وہ آیت لکھوا دیتے تھے ۲؎ ۔ اس زمانہ میں جن چیزوں سے کاغذ کا کام لیا جاتا تھا وہ حسب ذیل تھیں۔ عسیب ‘ کھجور کی شاخ جس سے پتے کو الگ کر لیتے تھے۔ لحفہ‘ پتھر کی پتلی تختیاں۔ کتف‘ اونٹ یا بکری کی چوڑی ہڈیاں۔ اویم ‘ چمڑا۔ قتب ‘ پالان کی لکڑی۔ چنانچہ کاغذ کے علاوہ ان تمام چیزوں پر قرآن مجیدلکھا جاتاتھا۔ قرآن مجید کی جمع و ترتیب کے متعلق جو روایتیں منقول ہیں‘ ان سے یہ شبہ پیدا ہوتا ہے ک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ تک قرآن مجید کی سورتوں اور آیتوں کی کوئی ترتیب نہ تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱؎ اتقان نوع ا دس ۱۶ عشر ۲؎ اتقان نوع ۱۸ بحوالہ ترمذی و نسائی وغیرہ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وجوہ ذیل سے اس شبہ کی تائید ہوتی ہے۔ ۱۔ عموماً روایتوں میں ہے کہ حضرت ابوبکرؓ کے زمانہ میں جب قرآن جمع کیا جانے لگا تو کھجور کے تختوں‘ ٹھیکروں اور ہڈیوں پر قرآن کی جو آیتیں لکھی ہو ئی ملتی تھیں ان کوجمع کر لیتے تھے اور ان سے نقل کر لیتے تھے۔ اگر سورتیں مرتب ہو چکی ہوتیں تو اس ریزہ چینی کی کیا ضرورت تھی۔ ترمذی اور نسائی وغیرہ میں روایت ہے کہ عبداللہ بن عباسؓ نے حضرت عثمانؓ سے پوچھا کہ آپ نے سورہ براۃ کو انفال کے بعد کیوں رکھا اور دونوں میں بسم اللہ کے ذریعہ سے حد بندی فاصل کیوں نہیں قائم کی ؟ حضرت عثمانؓ نے کہا ’’سورہ انفال مدینہ میں سب سے پہلے اتری تھی اور سورہ براۃ سب سے اخیر سورہ ہے لیکن دونوں کے واقعات ملتے جلتے ہیں ‘ اس لیے میں سمجھا کہ دونوںایک ہی سورہ ہیں‘ لیکن چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق کوئی تصریح نہیں فرمائی تھی اس لیے میں نے دونوں کو پاس پا س لکھا ارو بیچ میں بسم اللہ نہیں لکھی۔ ا س روایت سے اس قدر قطعی ثابت ہے کہ سورہ براۃ اور سورۃ انفال کا الگ الگ مستقل سورہ ہونا مشتبہ اور مشکوک ہے۔ ابودائود نے روایت کی ہے کہ حارث بن حزیمہ نے دو آیتیں پیش کیں کہ میں نے ا ن کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے سنا تھا۔ حضرت عمرؓ نے تصدیق کی اور کہا کہ اگر تین آیتیں ہوتیں تو ایک مستقل سورہ ہو جاتی۔ اس لیے اب یہ کرنا چاہیے کہ جو سورہ سب سے اخیر میںاتری ہو اس کے آخر میں یہ آیتیں شامل کر دی جائیں ۱؎ اس روایت سے صاف ظاہر ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ تک سورتیں مرتب نہیں ہو چکی تھیں۔ چونکہ یہ ایک مہتم بالشان بحث ہے اس لیے ہم کسی قدر تفصیل سے اس کو لکھنا چاہتے ہیں۔ واقعہ یہ ہے ہ جب کوئی سورہ ناز ل ہوتی تھی تو دو دو چار چار آیتیں موقع بہ موقع ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱؎ اتقان ذکر جمع و ترتیب قرآن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اترتی تھیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی سورہ میں داخل کراتے جاتے تھے جب ایک سورہ ختم ہو جاتی تو علیحدہ نام سے موسوم ہو جاتی تھی۔ اور دوسر ی سورہ شروع ہو جاتی تھی کبھی ایک ساتھ دو سورتیں نازل ہونا شروع ہو جاتیں‘ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دونوں سورتوں کو الگ الگ لکھواتے جاتے اس طرح سے آپ کے زمانہ ہی میں سورتیں مدون ہو چکی تھیں‘ لیکن باہم سورتوں میں کوئی ترتیب نہ تھی۔ یہی کام تھا کہ جو حضرت ابوبکرؓ کے زمانہ میں انجام پایا۔ یہ امر کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں سورتیں مرتب ہو چکی تھیں اور ان کے نام قرار پا چکے تھے عموماً حدیثوں سے ثابت ہے ‘ حذیفہ کی حدیث میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز میں بقرہ‘ آل عمران اور نساء پڑھی۔ صحیح بخاری میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مغرب میں سورہ اعراف پڑھی۔ اسی طرح اور حدیثوں میں بہ تصریح آیا ہے کہ فلاں فلاں سورتیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نماز میںپڑھتے تھے۔ یہ امر بھی قطعی ہے کہ قرآن مجید کا بڑا حصہ ایک مجموعہ کی شکل میں مدون ہو چکا تھا‘ حاکم نے مستدرک میں لکھا ہے کہ قرآن مجید تین مرتبہ مدون کیاگیا‘ اور سب سے پہلی تدوین خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ہوئی۔ حاکم نے زید بن ثابتؓ سے ایک حدیث نقل کی ہے جس کی سند بخاری ور مسلم کی شرط کے موافق ہے اور جس کے الفاظ یہ ہیں: کنا عند رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نولف القرآن من الرقاع ’’یعنی ہم لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس قرآن مجید کو پرزوں اورٹکڑوں سے لے کر جمع کرتے تھے ۔ ۱؎‘‘ یہی مجموعہ ہے جس کی نسبت قرآ ن مجید میں جابجا صحیفہ ‘ کتا ب اور لوح کا لفظ آتا ہے۔ رسول من اللہ یتلو اصحفا مطھرۃ فیھا کتب قیمۃ (بینہ ۔ ۱) ’’خدا کا پیغمبر جو پاک صحیفے پڑھتا ہے جن میں معقول احکام ہیں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱؎ اتقان ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وکتاب مسطور فی رق منشور ؎۱(طور۔۱) ’’اور قسم کے اس کتا ب کی جو کھلے ہوئے کاغذ پر لکھی ہوئی ہے‘‘۔ انھا تذکرۃ فمن شاء ذکرہ فی صحف مکرمۃ مرفوعۃ مطھرۃ بایدی سفرۃ کرام بررۃ۔ (سورۃ عبس) ’’قرآن مجید نصیحت نامہ ہے سو جس کا جی چاہے اس کو پڑھے وہ ایسے صحیفوں میں لکھا ہوا ہے جو محترم ہیں‘ بلند پایہ ہیں‘ پاک ہیں اور ایسے کاتبوں کے ہاتھ میں ہیں جو بزرگ اور نیک کردار ہیں‘‘۔ خوش اعتقادوں کا خیال ہے کہ صحیفہ سے لوح محفوظ اور سفرہ سے فرشتے مراد ہیں یعنی قرآن مجید لوح محفوظ میں ہے‘ اور لوح محفوظ فرشتوں کے ہاتھ میں ہے‘ لیکن یہ صحیح نہیں اس قدر تمام مفسروں کے نزدیک مسلم ہے کہ سفرہ کے معنی کاتب یا سفیر کے ہیں ۔ یہ ظاہر ہے کہ لوح محفوظ فرشتوں کا لکھا ہوا نہیں ہے ۔ بلکہ اس پر جو لکھا ہے خود دست قدرت نے لکھا ہے۔ اس لیے یہ تو مراد نہیں ہو سکتا کہ لوح محفوظ ان فرشتوں کے ہاتھ میں ہے جنہوں نے اس کو لکھا ہے ۔ یہ ہو سکتا ہے کہ لوح محفوظ کے حامل جو فرشتے ہیں ان کو لکھنا آتا ہے لیکن کسی روایت میں کہیں آسمانی فرشتوں کے لکھنے کا ذکر نہیں آیا ہے۔ نہ کسی چیز کے حامل ہونے کے لیے فن کتابت کی ضرورت ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱؎ رق چمڑے کو کہتے ہیں جس کو قدیم زمانہ میں کاغذ کے طورپر استعمال کرتے تھے منشورکے معنی پھیلے ہوئے کے ہیں جس سے مستفاد ہے کہ کتاب ملاطفہ کی صورت میں نہیں لکھی گئی ہے۔ جو لپیٹ کر رکھی جاتی ہے۔ بلکہ کتاب کی صورت میں ہے ۔ حیرت ہے کہ ان تصریحات کے ساتھ بھی اکثر مفسروں نے یہاں کتاب سے لوح محفوظ اور نامہ اعمال مراد لیا ہے لیکن کیا لوح محفوظ اور نامہ اعمال میں چمڑے کا کاغذ استعمال کیا گیا ہے تاہم غنیمت ہے کہ بعض مفسرین نے صحیح معنی یہی لکھے ہیں ۔ تفسیر ابو السعود میں ہے الم ادبہ القرآن امام رازی نے بھی یہی معنی نقل کیے ہیں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سفرہ کے معنی اگر سفیر کے لیے جائیں تو یہ ظاہر ہے کہ جو ملائکہ سفراے وحی میں حضرت جبرائیل وغیرہ لوحمحفوظ ان کے ہاتھ میں نہیں ہے ۔ نہ وہ لوح محفوظ کے حامل ہیں نہ وہ انبیاء کو زبانی وحی پہنچاتے ہیں۔ لوح محفوظ کے اوراق لے کر نہیں آتے۔ غرض یہ ہے اور صاف معنی یہی ہیں کہ قرآن مجید صحیفوں میں لکھا ہوا ہے اور یہ صحیفے برگزیدہ اور پاک لوگوں یعنی صحابہ کے ہاتھ میں ہیں تفسیر کبیر میں ہے: والسفرۃ الکرام البررۃ ہم اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم و قیل ھم القرائ۔ ’’سفراے کرام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ ہیں اور بعض لوگوں نے کہا ہے کہ حفاظ قرآن مراد ہیں۔‘‘ خوش اعتقادی کی وجہ سے اگرچہ عام لوگوں کا ذہن لوح محفوظ کی طرف جاتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ آیتوں کے سباق و سیاق سے صاف معلو م ہوتا ہے کہ صحیفہ سے یہی قرآن مراد ہے۔ حافظ ابن حجر صحیح بخاری کی شرح میںلکھتے ہیں (جلد ۹ صفحہ ۱۰) وقد اعلم اللہ تعالیٰ فی القرآن بانہ مجموع فی اصحف فی قولہ یتلو صحفا مطھرۃ الایۃ وکان القرآن مکتوبا فی الصحف لکن کانت مفرقۃ فجمعھا ابوبکر۔ ’’خدا نے قرآن مجید میں بتا دیا کہ قرآن صحیفوں میں جمع ہے (یعنی اس آیت میں یتلو صفحا الخ) اور قرآن صحیفوںمیں لکھا ہوا موجود ہے لیکن یک جا نہ تھا۔ حضرت ابوبکرؓ نے یک جا کر دیا‘‘۔ خدا نے جا بجا قرآن مجید کے مدون اور محفوظ رہنے کو اہتمام کے ساتھ بیا ن کیا ہے۔ انا انزلنا بالحق وانا لہ لحافظون ان علینا جمعہ وقرآنہ ’’ہم نے قرآن کو برحق اتار ا ہے اور ہم اس کی حفاظت کریں گے‘ ہم پرہے قرآن کا جمع کرنا اور اس کا پڑھ کر سنانا‘‘۔ یہ ظاہر ہے کہ جس چیز کی حفاظت اور تدوین کا ذکر ہے وہ لوح محفوظ نہیں ہے بلکہ وہ قرآن مجید ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے قید کتابت میں آیا تھا اور کاغذ وغیرہ پر لکھا گیا تھا۔ خدا نے جب قرآن مجید کی حفاظت اور تدوین کا اہتمام سے ذکر کیا‘ تو حفاظت اور تدوین ک اسباب ظاہر ی بھی ذکر کیے۔ یعنی یہ وہ محفوظ اوراق میں ہے ہر کس و ناکس اس کو چھونے نہیں پاتا‘ جن لوگوں کے ہاتھ میں ہے وہ معزز اور مقدس لوگ ہیں۔ انہ لقرآن کریم فی کتاب مکنون ؎۱ لا یمستہ الا المطھرون (واقعہ) ’’وہ بزرگ قرآن ہے ‘ محفوظ کتاب میں ہے اس کو صرف پاک لوگ چھونے پاتے ہیں‘‘۔ فی صحف مکرمۃ مرفوعۃ مطھرۃ بایدی سفرۃ کرام بررہ (عبس) ’’وہ ایسے اوراق میں لکھا ہوا ہے جو بلند پایہ ہیں پاک ہیں‘ نیکو کار بزرگ لوگوں کے ہاتھ میں ہیں‘‘۔ آیات مذکورہ بالا سے ثابت ہوتا ہے کہ : ۱۔ قرآن مجید کے اجزا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں قلم بند کیے گئے تھے۔ ۲۔ یہ اجزا چمڑے یا اور کسی قسم کے کاغذ پر لکھے گئے تھے۔ ۳۔ ان کی حفاظت کا خاص اہتمام تھا۔ اور بغیر طہارت کے لوگ ان کو ہاتھ نہیں لگانے پاتے تھے۔ بااینہمہ یہ نہیں ہوا کہ یہ اجزا اس طرح مرتب ہو گئے تھے کہ ایک آیت بھی چھوٹنے نہ پائی ہو‘ چونکہ وحی کا سلسلہ وفات تک جاری رہا ‘ اور یہ اجزا ہر وقت ساتھ نہیں رہتے تھے ۔ اس لیے یہ بھی ہوا کہ بعض آیتیں جو اتریں وہ کسی پرچہ یا ہڈی وغیرہ پر لکھ لی گئیں اور اس مجموعہ میں شامل نہ ہو سکیں۔ الگ کسی پرچہ یا ہڈی وغیرہ پر لکھی رہ گئیں۔ حضرت ابوبکرؓ نے اپنے زمانہ میں ایک ایک پرچہ اورہڈی وغیرہ جو جمع کیں استقصاء ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱؎ مکنون کے معنی تمام مفسرین نے محفوظ کے لکھے ہیں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور احتیاط کی عرض سے کیں اس کا مطلب یہ نہیںہے کہ قرآن مجید اس وقت تک صرف ان ہی پرزوں پر تحریرتھا۔ حارث محاسبی لکھتے ہیں : کتابۃ القرآن لیست بمحدثۃ فانہ صلی اللہ علیہ وسلم کان یا مرکتابۃ ولکنہ کان مفرقا فی الرقاع والاکتاف والعسب فانما امرا الصدیق بنسنحامن مکان الی مکان مجتمعا ۔ (اتقان) ’’قرآن مجید کی کتابت کچھ نئی بات نہ تھی خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن مجید کے قلم بند کرنے کا حکم دیا تھا‘ لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں مختلف چیزوں یعنی کاغذ‘ شانہ کی ہڈی‘ کھجور کے تختہ پر لکھا ہوا تھا‘ حضرت ابوبکرؓ نے حکم دیا کہ سب ایک جا جمع کر دیا جائے۔‘‘ غرض آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں جس حد تک تدوین ہو چکی تھی اسی قدر تھی‘ حضرت ابوبکرؓ نے اپنے زمانہ خلافت میںحضرت عمرؓ کی تحریک سے قرآن کے تمام اجزا ایک جا لکھوائے جس کی تفصیلی کیفیت حسب ذیل ہے: سنہ ۵ ھ نبوت میں جو حضرت ابوبکرؓ کی خلافت کا پہلا سال تھا حضرت عمرؓ حضرت ابوبکرؓ کے پاس آئے اور کہا کہ یمامہ کی لڑائی میں اکثر حفاظ قرآن شہید ہوئے۔ اگر اور لڑائیوں میں اسی طرح حفاظ شہید ہوئے تو قرآن کا بہت سا حصہ جاتا رہے گا۔ حضرت ابوبکرؓ نے کہا کہ میں وہ کام کیوں کروں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا۔ حضرت عمرؓ نے کہا لیکن یہ اچھا کام ہے ‘ غرض حضرت عمرؓ کے بار بار کہنے سے حضرت ابوبکرؓ کے ذہن میں بھی اس کی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱؎ بخاری کی روایت میں یہی لفظ ہے لیکن یہ امر تمام محدثین اور مورخین کے نزدیک مسلم ہے کہ قرآن مجید کا کل کا کل قلم بند ہو چکا تھا‘ بعض روایتیں اس کے خلاف ہیں ان میں صرف دو آیتوں کا ذکر ہے کہ وہ لکھنے سے رہ گئی تھیںاور بعض صحابہ کو زبانی یاد تھیں اس لیے اگر تمام حفاظ قرآن شہید ہو جاتے تب تھی اس کی کوئی وجہ نہ تھی کہ قرآن مجید کا بڑا حصہ ضائع ہو جاتا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مصلحت آ گئی ۔ انہوں نے زید بن ثابتؓ جو کاتب وحی تھے ‘ بلا کر اس کام پر مامور کیا۔ انہوں نے بھی پہلے عذ ر کیا لیکن بالآخر وہ بھی متفق ہو گئے اور جہاں جہاں قرآن مجید کسی چیز پر لکھا ملتا تھا سب کو یکجا کرنا شروع کیا۔ ٭٭٭ اختلاف مصاحف اور قرات حضرت عثمانؓ نے جس طرح قرآن مجید کو ترتیب دیا‘ بعض صحابہ اس کے خلاف ترتیب دی تھی۔ اور وہ اپنی اسی ترتیب پر قائم رہے۔ یہاں تک کہ جب حضرت عثمانؓ کو حکم پہنچا کہ ان کی ترتیب کے خلاف جو نسخے پائے جائیں ضائع کر دیے جائیں تو ان لوگوں نے اس حکم کی اطاعت نہیں کی اوربڑے استقلال سے ان کے حکم کو روکا ان مصاحف کی تفصیل حسب ذیل ہے: مصحف عبداللہ بن مسعودؓ ‘ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ ان چار صحابہ میں ہیں جن کی نسبت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تھا کہ لوگ ان سے قرآن مجید سیکھیں‘ انہوں نے اپنے اجتہاد کے موافق سورتوں کی ترتیب دی تھی‘ جو حضرت عثمانؓ کی ترتیب کے مخالف تھی فتح الباری شرح بخاری میں ہے : ان فیہ ولالۃ علی ان تالیف ابن مسعود علی غیر تالیف العثمانی (جلد ۹ صفحہ ۳۸) نسائی اور ابودائود میں روایت ہے کہ عبداللہ بن مسعودؓ نے منبر پر چڑھ کر کہا ’’تم لوگ مجھ کو یہ کیونکر حکم دیتے ہو کہ میں زید بن ثابتؓ کی قرات کے موافق قرآن پڑھوں‘ میں نے تو خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے سیکھا ہے‘‘۔ حافظ ابن حجر نے لکھا ہے کہ اس کی ترتیب بھی ترتیب نزول کے موافق نہ تھی ۱؎۔ ابن الندیم نے اس کی ترتیب حسب ذیل بیان کی ہے: ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱؎ فتح الباری جلد ۹ ص ۳۸ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بقرہ ‘ نساء ‘ آل عمران‘ المص‘ انعام‘ مائدہ ‘یونس ‘ براہ‘ نحل ‘ ہود ‘ یوسف‘ بنی اسرائیل‘ ابنیاء ‘ مومنون ‘ شعراء ‘ صافات‘ احزاب ‘ قصص‘ نور‘ انفال‘ مریم ‘ عنکبوت‘ روم ‘ الخ کتاب الفہرست میں اخیر تک کی تمام سورتیں لکھ دی ہیں۔ ابن الندیم نے لکھا ہے کہ میں نے عبداللہ بن مسعودؓ کے متعدد قرآن دیکھے لیکن ان میں دو بھی اہم متفق نہ تھے ۔ ۱؎ مصحف علی‘ یہ مصحف حضرت علیؓ نے ترتیب دیا تھا اوراس میں نزول کی ترتیب ملحوظ رکھی تھی یعنی جو آیتیں اور سورتیں جس ترتیب سے اتری تھیں وہی ترتیب قائم رکھی گئی تھی حافظ ابن حجر فتح الباری میں لکھتے ہیں: ویقال ان مصحف علی کان علی ترتیب النزول اولہ اقرثم المدثر ثم ن والقلم ‘ ثم المزمل ثم تبت ثم التکویر ثم سبح وھلذا الی اخرالمکی ثمہ المدفی (جلد ۹ صفحہ ۳۸) ابن الندیم کتاب الفہرست میں لکھتے ہیں کہ میں نے ابو یعلی حمزہ الحسنی کے پاس ایک قرآن دیکھا تھا‘ جو ان کے خاندان میں متوارث چلا آتا تھا۔ اور حضرت علیؓ کے ہاتھ کا لکھا ہوا تھا ۲؎۔ ابن الندیم کا زمانہ چوتھی صدی ہے اس لیے اس زمانہ تک اس نسخہ کا موجود ہونا ثابت ہے… مصحف ابی کعب ‘ اس مصحف کا ذکر بھی حافظ ابن حجر اور سیوطی نے جا بجا کیا ہے۔ ابن الندیم نے کتا ب الفہرست میں لکھا ہے کہ ’’بصرہ سے دو فرسنگ کے فاصلہ پر ایک گائوں تھا جس کو قریۃ الانصار کہتے تھے ‘ ابن ابی کعب نے یہیں بیٹھ کر قرآن کی ترتیب کی تھی ‘‘ اس کے بعد ابن الندیم نے تمام سورتوں کا نام ان کی ترتیب کے موافق لکھا ہے‘ اورلکھا ہے کہ ان کے قرآن میں کل آیتیں ۶۲۱۰ ہیں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱؎ کتاب الفہرست صفحہ ۲۶ ۲؎ کتاب الفہرست ص ۲۸ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مصحف عائشہ۔ صحیح بخاری میں باب تالیف القرآن میں ہے کہ عراق سے ایک شخص حضرت عائشہؓ کے پاس آیا اور کہا کہ ام المومنینؓ! آپ اپنا قرآن لائیے تو میں اپنا نسخہ درست کر لوں کیونکہ لوگ قرآن کو بے ترتیب پڑھتے ہیں۔ حضرت عائشہؓ نے کہا کہ وہ کسی سورہ کے پہلے پیچھے پڑھنے میں کیاحرج ہے (یعنی سورتوں میں کوئی خاص ترتیب ضروری نہیں)۔ اس کے بعد حضرت عائشہؓ نے اپنا نسخہ نکالا اور عراقی نے اس کے موافق آیتیں درست کر لیں (صحیح بخاری) ممکن ہے یہ وہی قرآن ہو جو حضرت ابوبکرؓ نے مرتب کرایا تھا۔ مصاحف کے اس اختلاف اور بعض غیر مستند روایتوں سے جو بڑی بڑی کتابوں میں مذکور ہیں ۔لوگوں کو یہ شبہ ہواہے کہ قرآن مجید بھی توریت اور انجیل کی طرح بہت کچھ اول بدل گیا ہے ان شبہ کرنے والوں کے دلائل یہ ہیں: ۱۔ حضرت ابوبکرؓ ‘ عبداللہ بن مسعودؓ ‘ ابیؓ وغیرہ کے مصاحف ہیں جو اختلاف تھا وہ صرف ترتیب سور کی بنا پر نہیں ہو سکتا تھا سورتوں کی ترتیب کوئی امر اہم نہ تھا‘ جس کی بنا پر عبداللہ بن مسعودؓ اس قدر جاں بازی پرآمادہ ہو جاتے۔ ۲۔ تمام اہل روایت متفقاً لکھتے ہیں کہ عبداللہ بن مسعود کے قرآن میں دو سورتیں (معوذتین) نہ تھیں۔ حافظ ابن حجر شرح بخاری میں لکھتے ہیں: قد صح عن ابن مسعود وانکار ذلک فاخرج احمد وابن حبان عنہ انہ کان لا یکتب المعوذتین فی مصحفہ۔ (احمد بزار ‘ طبرانی وغیرہ محدثین نے پسند صحیح روایت کی ہے کہ عبداللہ بن مسعودؓ جس قرآن میں یہ دونوں سورتیں پاتے تھے مٹا دیتے تھے ) ۱؎ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱؎ اتقان معرفتہ متواتر و مشہور الخ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۳۔ طبری اور بیہقی نے بعض ایسی سورتیں روایت کی ہیں جو موجودہ قرآن میں مطلق نہیں ہیں مثلا : اللھم انا نستعینک و نستغفرک و نثنی علیک ولا نکفرک و نخلع و نترک من یفجرک اللھم نعبد ولک نصلی و نسجد والیل نسعی و نحفذ و نرجو رحمتک و نخشی نقمتک ان عذابک بالکافرین ملحق ۔ ؎۱ ۴۔ شیعہ جو مسلمانوں میں ایک گروہ اعظم ہے ۔ اس بات کا قائل ہے کہ قرآن میں بہت کچھ حذف و اسقاط ہوا ہے۔ ۵۔ قراتوں کے اختلافات جو منقول ہیں۔ ان میں ایسے ایسے اختلافات ہیں جو معمولی اختلاف نہیں بلکہ لفظ لفظ کے لفظ اور بعض جگہ جملے کے جملے بدل گئے ہیں۔۔ ان واقعات نے عیسائیوں کو موقع دیا ہے کہ وہ تحریک انجیل کی ندامت اس الزامی جواب سے مٹائیں۔ سب سے پہلے ہم سب کوشیعوں کے الزام کی طرف متوجہ ہونا چاہیے۔ حقیقت یہ ہے کہ شیعوں کی حالت اور ان کی روایت قرآن مجید کے محفوظ رہنے کی سب سے بڑی دلیل ہے ۔ شیعہ وہ فرقہ ہے جو خلفائے ثلثہ کو سرے سے (نعوذ باللہ) کافر سمجھتاہے۔ اور ان لوگوں کے ہاتھ سے جو کام انجام پایا ہو‘ اس پر کبھی اعتبار نہیں کر سکتا ۔ یہ مسلم ہے کہ جامع قرآن حضرت ابوبکرؓ اور عمرؓ اوراس کو بزور حکومت شائع کرنے والے حضرت عثمانؓ تھے۔ یہ ھبی مسلم ہے کہ حضرت علیؓ نے قرآن مجید مرتب کیاتھا جس کی ترتیب بالکل مختلف تھی۔ خود سنیوں میں سے طبرانی اور بیہقی وغیرہ محدثین نے یہ روایتیں نقل کیں (جیسا کہ ابھی اوپر نقل ہو چکیں) کہ بعض سورتیں قرآن مجید سے نکل گئیں اور بعض سورتوں کی بہت سی آیتیں جاتی رہیں۔ بانیہمہ شیعوںنے کیا کہا ؟ علامہ طبری جو مشہور اور مستند شیعی مفسر ہیں تفسیر مجمع البیان میں لکھتے ہیں : ومن ذلک الکلام فی زیادۃ القرآن ونقصانہ فانہ لا یلیق بالتفسیر فاما الزیادۃ فمجمع علیٰ بطلانہ واما النقصان منہ فقد روی جماعۃ من اصحابنا وقوم من حشویۃ العامۃ ان فی القرآن تغیرا ونقصانا والصحیح من مذھب اصحابنا خلافہ وھو الذی نصرہ المرتضیٰ قدس اللہ روحہ واسترفی الکلام فیہ غایۃ الاستیفاء فی جواب المسائل الطبرسیات وذکر فی مواضع ان العلم بصحۃ نقل القرآن کالعلم بالبلدان والحوادث الکبار والو قائع العظام والکتب المشھورۃ واشعارالعرب المسطورۃ فان العنایۃ اشتدق والدواعی توفرت علی نقلہ وحراستہ وبلغت الی حدلم یبلغہ فیماذکرنا ہ لان القرآن معجزۃ النبوۃ وما خذ الالعلوم الشرعیۃ و الاحکام الدینیۃ وعلماء المسلمین قد بلغو ا فی حفظہ وحمایتہ الغایۃ حتی عرفوا کل شئی اختلف فیہ من اعرابہ وقراتہ و حروفہ وآیاتہ فکیف یجوزان یکون مغیراً ومنقو صامع العنایۃ الصادقۃ والضبط الشدید وقال ایضاران القرآن کان علی عہد رسول اللہ مجموعاً مولفاً علی ماھو علیہ الان واستدل علی ذلک بان القرآن کان یدرس ی یحفظ جمیعہ فی ذلک الزمان حتی عین علی جماعۃ من الصحابۃ فی حفظھم لہ وانہ کان یعوض علی النبی و یتلیٰ علیہ وان جماعۃ من الصحابۃ مثل عبداللہ بن مسعود و ابی بن کعب وغیرھما ختمو القرآن علی النبیؐ عدۃ ختمات وکل ذلک یدل بادنی تامل علی انہ کان مجموعاً مرتباً غیر متبورو لامبثوث وذکران من خالف فی ذلک من الامامیۃ والحشویۃ لا یعتد بخلافھم فان الخلاف فی ذلک مضاف الی قوم من اصحاب الحدیث نقلوا اخباراً ضعیفہ ۔ ؎۱ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱؎ اتقان معرفتہ مواترومشہور صفحہ ۶۷ مطبوعہ مصر میمینہ سنہ ۱۳۱۷ھ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ’’ان ہی میں سے ایک بحث یہ ہے کہ قرآن مجید میں حذف یا اضافہ ہوا ہے یا نہیں؟ یہ بحث فن تفسیر کے متعلق نہیں۔ یہ امر کہ قرآن میں کچھ اضافہ ہو گیا ہے سب کے نزدیک باطل ہے۔ باقی نقصان تو ہمارے فرقہ میں ہے ایک گروہ نے اورسنیوں میں خشویہ ۱؎ نے روایت کی ہے کہ قرآن میں تغیر اورنقصان ہو گیا ہے لیکن ہمارے فرقہ کا صحیح مذہب اس کے خلاف ہے اور سید مرتضیٰ نے اسی کی تائید کی ہے ۔ اور مسائل طبرسیات کے جواب میں اس پر نہایت مفصل بحث کی ہے‘ سید مرتضیٰ نے متعدد موقعوں پر لکھا ہے کہ قرآن کی صحت کا علم ایسا ہی ہے جیسا شہروں کا علم اور بڑے بڑے واقعات اور مشہور کتابوں او ر عرب کے مدون اشعار کا علم کیونکرقرآن کی نقل اور حفاظت کے اسباب نہایت کثرت سے تھے اور اس حد تک پہنچے تھے کہ اور کسی چیز کے سنے نہیں گئے اس لیے کہ قرآن نبوت کا معجزہ اور علوم شرعیہ اور احکام دینیہ کا ماخذ ہے۔ اور علمائے اسلام نے اس کی حفاظت اور حمایت میں انتہا درجہ کی کوشش کی یہاں تک کہ قرآن کے اعراب قرات حروف آیات کے اختلافات تک انہوں نے محفوظ رکھے‘ اس لیے کیونکر قیاس ہو سکتاہے کہ اس احتیاط شدید کے ہوتے اس میں نقصان یا تقصیر ہونے پائے ۔ سید مرتضیٰ نے یہ بھی کہا ہے کہ قرآن مجید آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایسا ہی مکتوب او ر مرتب تھا جیسا کہ اب ہے اور اس پر دلیل یہ ہے کہ قرآن اس زمانہ میں پڑھا جاتا تھا اورلوگ اس کو حفظ کرتے تھے۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو سناتے تھے اور متعدد صحابہ مثلاً عبداللہ بن مسعودؓ ‘ اور ابن ابی کعبؓ وغیرہ نے قرآن مجید کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے چند بار ختم کیا تھا ۔ سید مرتضیٰ نے یہ بھی لکھا ہے کہ جو امامیہ یا حشویہ ا س کے مخالف ہیں ان کی مخالفت قابل اعتبار نہیں کیونکہ اس میں جن لوگوں نے خلاف کیا ہے وہ اہل حدیث میں سے ایک گروہ ہے اورانہوں نے ضعیف روایتیں نقل کی ہیں۔‘‘ طبرانی اور بیہقی وغیرہ نے جو روایتیں نقل کی ہیںجن میں دعائے قنوت کو قرآن کی سورتوں میں داخل کیا ہے۔ سرتاپا خرافات اور لغو ہیں۔ حیرت ہے کہ ایسے معز ز محدثین اس قسم کی جھوٹی حدیثیں کیونکر اپنی کتابوں میں نقل کرتے تھے اورجلال الدین سیوطی تو حاطب اللیل ہیں ہی ان کو کسی قسم کی روایت سے کیا دریغ ہے۔ طبرانی کی روایت میں ۵ راوی ہیں عباد بن یعقوب الاسدی‘یحییٰ بن یعلیٰ اسلمی‘ ابن لھیعہ ابوبیرہ‘ عبداللہ بن زریر الغافقی ان کی کیفیت یہ ہے کہ عباد بن یعقوب گورواۃ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱؎ تفسیر مجمع البیان طبع ایران جلد اول صفحہ ۴ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بخاری میں ہیں لیکن جیسا کہ میزان الاعتدال ذہبی میں ہے ’’غالی شیعہ‘‘ اور رئو س بدعت سے ہیں اور یہ اصول حدیث میں طے ہو چکا ہے کہ بد مذہب شخص جب کوئی ایسی روایت کرے جس سے اس کے مذہب کو تقویت پہنچتی ہو۔ تو نامعتبر ہو گی۔ یہ ظاہر ہے کہ اس روایت سے ان غالی شیعوں کے دعویٰ کی تائید ہوتی ہے ۔ جو قرآن میں حذف و اضافہ کے قائل ہیں۔ یحییٰ بن اسلمی ‘ مضطرب الحدیث ہیں اور حاتم نے ان کو ضعیف کہا ہے ۲؎ ۔ ابن لھیعہ بھی ضعیف الحدیث ہیں۔ اور حاتم نے ان کو ضعیف کہا ہے ۲؎ ۔ ابن لھیعہ بھی ضعیف الحدیث ہیں۔ بیہقی کی روایت میں عبدالملک بن جریح ہیں‘ ان کو ذہبی نے اگرچہ نامور ثقات میں لکھا ہے لیکن ساتھ ہی لکھا ہے کہ مدلس تھے اور مدل کی روایت عنعنہ کے ذریعہ سے ناقابل اعتبار ہوتی ہے ۔ ذہبی کی تصریح سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ حضرت بھی شیعہ تھے کیونکہ آپ نے ۹۰ عورتوں سے متعہ کیا ہے ۔ امام احمد حنبل کہتے ہیں کہ ابن جریح نے جو مرسل روایتیں کی ہیں ان میں بعض محض جعلی ہیں۔ بیہقی کے دوسرے راوی عبید عمیرر ہیں ۔ اور ان کو میزان الاعتدال میں مجہول لکھا ہے۔ اسی طرح مستدرک وغیرہ کی یہ روایتیں کہ سورہ براۃ پہلے سورہ بقر کے برابر تھی۔ سب جھوٹ اور افترا ہیں مستدرک کیک مصنف نیم شیعہ تھے ۔ اس لیے اس قسم کی روایتوں میں ان کو مزہ آتا ہو گا ۔ علامہ ذہبی اور ان کی نسبت میزان الاعتدال میں لکھتے ہیں کہ یصح فی مستدرکہ احادیث ساقطۃ دیکثرمن ذلک ثم شیعی مشھور یعنی وہ اکثر ساقط الاعتبار حدیثیں نقل کرتے ہیں اور مشہور شیعی ہیں۔ عبداللہ بن مسعودؓ کا معوذتین سے انکار کرنا اگرچہ شہرت پکڑ گیا ہے اور حافظ ابن حجر کو روایت پرستی کی بنا پر اس کی صحت پر اصرار ہے۔ لیکن اور تمام محققین اس کو افترا ے محض سمجھتے ہیں امام نووی نے شرح مذہب میںلکھا ہے کہ عبداللہ بن مسعودؓ کی طرف ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱؎ تفسیر مجمع البیان طبع ایران جلد اول صفحہ ۴ ۲؎ میزان الاعتدال ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس قول کی نسبت یہ صحیح نہیں ہے ۔ علامہ ابن حزم نے لکھا ہے کہ عبداللہ بن مسعودؓ کی نسبت یہ اتہام ہے کہ چنانچہ یہ تمام اقوال سیوطی نے اتقان بحث متواتر و مشہور نقل کیے ہیں لیکن اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ یہ سورتیں ان کے نزدیک قرآن میں داخل نہ تھیں تو اس سے قرآن مجید کے تواتر اور قطیت پر کیا اثر پڑ سکتا ہے؟ اس سے صرف اس قدر نتیجہ نکل سکتا ہے کہ انہوںنے یہ سورتیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے نہں سنی تھیں اور اپنے سماع کے سوا وہ اوروں کے سماع کو قطعی نہیں سمجھتے ھتے ان کو بڑی شکایت یہ بھی تھی کہ ان کے ہوتے قرآن مجید زید بن ثابتؓ سے کیوں لکھوایا گیا‘ چنانچہ صحیح ترمذی میں ہے کہ مسلمانو! میں تو قرآن کی کتابت سے معزول کر دیا گیا اور وہ شخص (زید بن ثابتؓ) مقرر کیا گیا جب میں اسلام لایا تو وہ ایک کافر کے صلب میں تھا‘‘ ابن ابی دائود میں ہے کہ عبداللہ بن مسعود ؓ کہتے ہیں کہ ’’’میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے ستر سورتیں سیکھیں اور زید بن ثابتؓ بچے تھے لیکن جب خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زید بن ثابتؓ کو کاتب وحی مقرر فرمایا تھا تو کسی کو ان کی قابلیت سے انکار کاکیا حق ہے۔ اس تمام بحث میں یہ مسئلہ البتہ مہتم بالشان ہے کہ اختلاف قراۃ کیا چیز ہے؟ اور ان میں جو اختلافات ہیں وہ کس حد تک ہیں‘ اور ان کا اثر کہاں تک پہنچتا ہے۔ عربکے مختلف قبائل میں الفاظ مخارج‘ حروف‘ اعراب‘ اوزان میں اختلاف تھا‘ مثلاً ایک قبیلہ حتی کہ عتی کہتا تھا کوئی علامت مضارع کو فتحہ کی بجائے کسر ہ سے پڑھتا تھا کسی قبیلہ میں مالک کو ملک کہتے تھے اس طرح کے کثرت سے اختلافات تھے اورچونکہ ہر قبیلہ اپنے لب و لہجہ پر مجبور تھا اس لیے وہ اپنی ہی بان کے موافق الفاظ استعمال کر سکتے تھے۔ اسی بنا پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ نزل القرآن علی سبعۃ احرف یعنی ’’قرآن سات حرفوں پر اترا ہے‘‘۔ محدثین نے تصریح کی ہے کہ سات سے عدد مخصوص مراد نہیں بلکہ کثرت مراد ہے۔ یہ اختلافات قرات میں جس کو نوع کے تھے۔ ان کا انداز تفصیل سے ہو گا۔ چند اختلافات متعلق سورہ فرقان نزل الفرقان انزل الفرقان علی عبدہ علی عبیدہ تکون جنۃ یکون لہ جنۃ ضیقا ضیقا مقرنین مقرنون مایعبدون من دون اللہ ما یعبدون من دوننا سراجا سرجا قرات اعین قرات اعین سجدا سجودا لماتا مرنا لماتا مرنابہ یجزون الغرفۃ یجزون الجنۃ فقد کذبتم فقد کذب الکافرون حافظ ابن حجر نے فتح الباری (جلد ۹ صفحہ ۳۰) میں اس قسم کے تمام اختلافات کا استقصا کیا ہے ان میں سے زیادہ تر بلکہ قریب کل صرف اعراب یا اختلاف لغت کا فرق ہے۔ شاذو نادر مترادت الفاظ کا اختلاف ہے۔ لیکن یہ ظاہر ہے ہ ان اختلافات سے اصل معنی پر کیا اثر پڑسکتا ہے۔ عرب میں سینکڑوں قبیلے تھے اور ان کا لب و لہجہ مختلف تھا۔ صحابہ نے قرآن زبانی سیکھا تھا لکھے ہوئے اجزا بہت کم تھے عجم کے اختلاط سے لب و لہجہ میں اور تغیر ہوا۔ ان سب حالات کے ساتھ اس قدر اختلاف کا ہونا ضروری تھا۔ اور شارع نے خود اس میں مسامحت کی لیکن اس سے اس دعوی ٰ کا زور مطلق نہیںگھٹ سکتا کہ قرآن مجید کا ایک ایک حرف محفوظ ہے اور آج تک دنیا میں کوئی کتاب اس طرح محفوظ اور غیر محرف نہیںرہی۔ اعلان عام کیا گیا کہ جس شخص کے پاس قرآن کا کوئی ٹکڑا ہو لے کر آئے اس بات کا التزام کیا گیا کہ جو شخص آیت پیش کرتا تھا۔ اس پر اوروں سے بھی شہادت لی جاتی تھی ۔ کہ انہوںنے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے شمانہ میں ان کو قلم بند کیا تھا ۱؎ ۔ ایسے صحابہ جن کو قرآن مجید کے اکثر حصے زبانی یاد تھے نہایت کثرت سے تھے۔ وہ زبانی قرآن مجید کی آیتیں سناتے تھے لیکن وہ اسی وقت قلم بند کی جاتی تھیں۔ جب وہ ان کے پاس یا کسی اور صحابی کے پاس قلم بند ملتی تھیں اتقان میں حافظ ابوشامہ کا قول نقل ہے کہ وکان ان لا یکتب الامن عین ماکتب بین یدی النبی لا من مجرد الحفظ ان کا مقصد یہ تھا کہ قرآن صرف حفظ کی بنا پر نہ لکھا جائے بلک اس کی نقل کی جائے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے قلم بند ہوا تھا۔ غرض ایک ایک پرزہ ایک ایک ٹھیکری تک جس پر قرآن کی ایک آیت بھی لکھی گئی تھی‘ جمع کیے گئے اور سب کو سامنے رکھ کر حافظوں کی مدد سے حضرت عمرؓ اور زیدبن ثابتؓ نے قرآن مجید کا ایک مکمل نسخہ تیار کیا۔ زید بن ثابتؓ کہتے ہیں کہ صرف سورہ توبہ کی دو آیتیں ایسی ملتی ہین جو خزیمہ بن ثابتؓ کے سوا اور کسی کے پاس نہ تھیں یہ بیان کسی قدر تشریح طلب ہے کہ زید بن ثابتؓ کہتے ہیں کہ صرف سورہ توبہ کی دو آیتیں ایسی ملیںجو خزیمہ بن ثابتؓ کے سوا اور کسی کے پاس نہ تھیں۔ واقعہ یہ ہے کہ ان دونوں آیتوں کے جزو قرآن ہونے میں کسی کو کلام نہ تھا۔ بات صرف اتنی تھی کہ اس وقت کی تفتیش میںیہ آیتیں ابوخزیمہ کے علاوہ اورکسی کے قرآن میں لکھی ہوئی نہیں ملیں۔ ورنہ خود زید بن ثابتؓ و ابو خزیمہ و حضرت عمر ؓ کو یہ آیتیں یاد تھیں۔ اور ان کے آیت قرآنی ہونے پر سب کو اتفاق تھا۔۱؎ یہ جو نسخہ تیار ہوا ھضرت ابوبکرؓ کے خزانہ میںرہا اور ان کے بعد حضرت عمرؓ کے قبضہ میںآیا حضرت عمرؓ کے بعد ان کی صاحبزادی حضرت حفصہؓ کے پاس آیا۔ مروان بن حکم جب مدینہ منورہ کا حاکم مقرر ہو کر آیاتوا س نے حضرت حفصہ ؓ سے یہ نسخہ مانگ بھیجا۔ انہوں نے انکار کیا۔ ان کی وفات کے بعد مروان نے عبداللہ بن عمرؓ سے یہ جبر منگو ا کر اس کو چاک کر ڈالا۔ چنانچہ فتح الباری (جلد ۹ صفحہ ۱۷) میں بہ سند صحیح یہ واقعہ نقل کیا ہے بنو امیہ کے جو احسانات اسلام پر ہیں ان میں ایک یہ بھی احسان عظیم ہے۔ حضرت عمرؓ نے اپنے زمانہ خلافت میں قرآن مجید کے حفظ و اشاعت کا نہایت اہتمام کیا۔ تمام ممالک مفتوحہ میں قرآن مجید کا درس جاری کیا‘ اور معلموں اور قاریون کی تنخواہیں مقرر کیں ۲؎۔ خانہ بدوش بدویوں میں قرآن کی جبری تعلیم جاری تھی۔ پرھ ایک شخص کو جس کا نام ابو سفیان تھا چند آدمیوںکے ساتھ مامور کیاکہ قبائل میں پھر کر ایک ایک شخص کا امتحان لے۔ اور جس کو قرآن مجید کی کوئی آیت یاد نہ ہو اس کو سز دے ۳؎ ۔ صھابہ میں سے پانچ بزرگ مشہور تھے جو حفاظ قرآن تھے۔ معاذ بن جبلؓ ‘ عبادہ بن صامتؓ ‘ ابی بن کعبؓ ۔ ابوایوبؓ ‘ ابوالدرداؓ‘ حضرت عمرؓ نے اس سب کو بلا کر کہاکہ شام کے مسلمانوں کو جا کر قرآن کی تعلیم دیجیے۔ ابوایوب اور ابی بن کعب نے بیماری اور ضعف کی وجہ سے معذوری ظاہر کی باقی تین صاحبوں نے خوشی سے منظور کیا۔ یہ لوگ پہلے حمص گئے اور وہاں تعلیم جاری ہو گئی تو عبادہؓ نے وہیں قیام کیا اور ابو درداؓ دمشق کو اور معاذ بن جبلؓ بیت المقدس کو روانہ ہو گئے۔ ۴؎ علامہ ذہبی نے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱؎ فتح الباری جلد ۹ صفحہ ۱۳ ۲؎ سیرۃ العمر بن لا بن جوزی ۳؎ آغا نی جزو ۱۶ صفحۃ ۵۸ اصابہ میں بھی یہ واقعہ منقول ہے ۔ ۴؎ یہ پوری تفصیل طبقات ابن سعد میں ہے کنز الایمان جلد اول صفحہ ۲۸۱ میں ابن سعد کی یہ روایت مذکور ہے ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ طبقات القراء میں لکھا ہے کہ ابودرداؓ کی تعلیم کا طریقہ یہ تھا کہ نماز صبح کے بعد جامع مسجد میںبیٹھ جاتے تھے قرآن پڑھنے والے کثرت سے جمع ہوتے تھے۔ دس دس آدمیوں کی ٹکڑیاں کر دی جاتی تھیں اورہر ٹکڑی پر ایک قاری مقرر کیا جاتا تھا جو شخص پورے قرآن کا حافظ ہو جاتا تھا۔ ابودرداؓ اس کو اپنا شاگرد خاص بناتے تھے۔ ایک دن شمار کرایا گیا تو معلوم ہوا کہ سولہ سو طالب علم اس وقت حلقہ در س میں حاضر ہیں۔ حضرت عمرؓ نے اشاعت قرآن کے لیے اور بہت سی تدبیریں اختیار کیں۔ عمال کو لکھ بھیجا کہ جو لوگ قرآن سیکھیں ان کی تنخواہیں مقرر کر دی جائیں۔ ۱؎ ناظرہ خانوں کا تو شمار نہ تھا حفاظ کی تعداد بھی ہزاروں سے تجاوز ہو گئی۔ حضرت عمرؓ نے جب فوجی افسروں کو خط لکھا کہ حفاظ قرآن کو میرے پاس بھیج دو کہ میں ان کو تعلیم قرآن کے لیے بھیجا کروں تو سعد وقاصؓ نے جواب میں لکھا کہ صرف میری فوج میں تین سو حفاظ موجود ہیں۔ ۲؎ باایہمنہ چونکہ قرآن کے نسخے شائع نہیں کیے گئے تھے ادھر اسلام روز بروز دراز ممالک میں پھیلتا جا رہاتھا اورنئی نئی قومیںاسلام میں داخل ہوتی جاتی تھیں۔ اس لیے الفاظ کے اعراب‘ تلفظ ‘ وجوہ قرات میں اختلاف ہوتا گیا۔ اور یہ اختلاف برابر بڑھتا گیا۔ یہاں تک کہ حضرت عثمانؓ کے زمانہ میں لوگوںنے ان سے آ کر شکایت کی کہ قرآن کی خبر لیجیے۔ ورنہ اس کی حالت بھی توریت اور انجیل جیسی ہوجائے گی۔ حضرت ابوبکر ؓ کے زمانہ کا مرتب شدہ قرآن حضرت حفصہؓ (حضرت عمرؓ کی صاحبزادی) کے پاس تھا۔ حضرت عثمانؓ نے ان ک یہاں سے منگوا بھیجا اور زین بن ثابتؓ عبداللہ بن زبیرؓ، سعید بن العاصؓ، عبدالرحمن بن حارثؓ سے چار نسخے نقل کرائے اور مختلف صوبوں میں بھیجے ۔۳؎ یہ کام سنہ ۵ ھ میں انجام پذیر ہوا۔ ابن ابی دائود ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱؎ کنزالعمال ۲؎ ایضاً جلد اول صفحہ ۲۱۷ ۳؎ بعض حدیث کی کتابوں میںہے کہ سات نسخے نقل کرائے تھے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کی روایت ہے کہ ۱۲ شخص کتابت کے کام پر مقرر کیے گئے تھے۔ یہ عجیب بات ہے کہ حضرت عثماؓ کا نا جامع القرآن مشہور ہو گیا ہے حالانکہ ان کو قرآن مجید کے جمع و ترتیب میں کوئی دخل نہیں ہے۔ انہوںنے جو کچھ کیا وہ صرف یہ تھا کہ حضرت ابوبکرؓ کے نسخہ کی چند نقلیںکرائیں اور مختلف صوبوں میں بھیج دیں کہ ان کے موافق قرآن پڑھا جائے۔ اتنا البتہ کیا کہ اس وقت تک قرآن مجید مختلف قراتوں میں پڑھا جاتا تھا۔ (اس کی تفصیل آگے آئے گی) حضرت عثمانؓ نے قرات مشہورہ کے موافق قرآن لکھو ا کر باقی قراتوں کے موافق جہاں کہیںجو اجزا ملے وہ چاک کر دیے یا جلا ڈالے۔ حضرت عثمانؓ کی نسبت یہ روایت تو مشہور ہے کہ قرآن کے متفرق و مختلف اجزا ان کے حکم سے جلا دیے گئے۔ رویات کے الفاظ میں لحیرق (حاے حطی) سے بیان کیا جاتا ہے مگر حافظ ابن حجر عسقلانی بڑ ے وثوق اور تصریح کے ساتھ لکھتے ہیں کہ فی رروایۃ الاکثر ان یخترق بائخا المعجمۃ و ہواثبت (یعنی اکثر روایتوں میں ’’یخرق‘‘ کی جگہ جس سے جلانے کا ثبوت دیا جاتا ہے ’’یخرق‘‘ خائے شخذ سے وارد ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ حضرت عثمانؓ نے حکم دیا کہ قرآن کے غیر مرتب نسخے خرقہ کی طرح لپیٹ کر رکھ دیے جائیں یعنی اب ان سے کام نہ لیا جائے۔ (ملاحظہ ہو فتح الباری جلد ۹ صفحہ ۱۶)۔ اس کے ساتھ یہ بھی کیا کہ حضرت ابوبکرؓ کے زمانہ میں سورتوں میں باہم کوئی ترتیب نہ تھی بلکہ بلا خیال تقدیم و تخیر تمام سورتیںالگ الگ لکھو کر یکجا رکھوا دی گئی تھیں حضرت عثمانؓ نے سورتوں کے مطول و مختصر ہونے کی بنا پر ترتیب دے دی کہ وہی آج موجود ہے اتفاق میں ہے ۔ قال الحارث المحاسبی المشھور عند الناس ان جامع القرآن عثمان ولیس کذلک انما حمل عثمان علی القراۃ بوجہ واحد ’’حارث محاسبی کہتے ہیں کہ لوگوںمیںمشہور ہے کہ حضرت عثمان جامع قرآن ہیں لیکن ایسا نہیں ہے حضرت عثمانؓ نے صرف یہ کیا کہ لوگوں کو ایک خاص قراۃ پر مجبور کیا۔‘‘ عینی شرح بخاری میں ہے (جلد ۹ صفحہ ۳۰۶) ان الصحف ھی الاوراق المحررۃ التی جمع فیھا القرآن فی عھد ابی بکروکانت سور مفرقہ کل سورۃ مرتبۃ بایتھا علی حدۃ لکن لم یرتب بعضھا اثر بعض فلما نسخت ورتب بعضھا اثر بعض صارت مصحفا ولم یکن مصحفا الا فی عھد عثمان ’’صحیفہ ان اوراق کا نام ہے جو حضرت ابوبکرؓ کے زمانہ میں لکھے گئے تھے یہ متفرق سورتیں تھیں جن کی آیتیں مرتب تھیںلیکن خود سورتوں میں باہم کوئی ترتیب نہ تھی پھر جب ان کی نقل لی گئی اور سورتیں آگے پیچھے رکھی گئیں تو اس کا نام مصحف ہو اور یہ حضرت عثمانؓ کے زمانہ میں ہوا‘‘۔ حضرت عثمانؓ نے جو مصاحف نقل کر ا کے مکہ معظمہ ‘ مدینہ منورہ‘ بصہ‘ کوفہ ‘ دمشق میں بھجوائے تھے مدت تک موجود تھے ۔ چنانچہ ان کی تفصیل جیسا کہ مقری نے نفح الطیب میں لکھی ہے (جلد اول صفحہ ۲۸۳ مطبوعہ مصر) حسب ذیل ہے۔ دمشق اس مصحف کو ابوالقاسم سبتی نے سنہ ۶۵۷ھ میںجامع دمشت کے مقصورہ میں دیکھا۔ عبدالملک کا بیان ہے کہ میں نے اس کو سنہ ۷۳۵ھ میں دیکھا یہ مصحف میرے سفر قسطنطنیہ کے زمانہ تک دمشق میں موجود تھا۔ کئی برس ہوئے جب سلطان عبدالحمید کے زمانہ میں مسجد جل گئی تو مصحف بھی جل گیا۔ مدینہ منورہ اس مصحف کا بھی سنہ ۷۳۵ ھ تک پتہ چلتاہے اس نسخہ کی پشت پر یہ عبارت لکھی ہوئی تھی ھذا ما اجمع علیہ جماعتہ من اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منھم زید بن ثابت و عبداللہ بن زبیر و سعید بن العاص (اس کے بعد اورصحابہ کا نام تھا) مکہ معظمہ یہ بھی سنہ ۷۳۵ھ تک موجود تھا۔ بصرہ یا کوفہ۔ یہ قرآن معلوم نہیں کس زمانہ میں قرطبہ پہنچا۔ پھر عبدالمومن اس کو قرطبہ سے اپنے دارالسلطنت میں بڑ ے تزک و احتشام سے لایا۔ سنہ ۴۵ ھ میں وہ معتضد کے قبضہ میں آیا اس کے بعد ابوالھسن نے جس تلمسان فتح کیا تو یہ نسخہ اس کے قبضہ میں آیا۔ اس کے مرنے پر یہ چنگیز میںپہنچا وہاں سے ایک تاجر نے کسی طرح اس کو حاصل کیا۔ اور سنہ ۷۴۵ھ میں شہر فاس میں لایا چنانچہ مدت تک خزانہ شاہی میں موجو د تھا۔ علامہ مقریزی نے کتاب الخطط میںجہاں قاضی فاضل (سلطان صلاح الدین ا وزیر) تھا کے مدرسہ کا ذکر کیا تھا۔ لکھا ہے کہ اس کے کتب خانہ میں مصحف عثمانی کا نسخہ موجود تھا جس کو قاضی فاضل نے تیس ہزار اشرفی میں خریدا تھا۔ حضرت عثمانؓ نے اگرچہ قرآن مجید کی متعدد نقلیںشائع کیں۔ لیکن اس وقت تک قراان میں اعراب (زیر و زبر) اور نقطے نہیںہوتے تھے۔ اور قریباً ۴۰ برس تک یہی حال رہا۔ اہل عرب کو تو اس کی کچھ ضرورت نہ تھی۔ ان کی زبان تھی۔ وہ ہر حالت میں صحیح پڑھ سکتے تھے اورپڑھتے تھے لیکن عجم کے لیے یہ بڑی دقت تھی۔ وہ ہر حالت میں صحیح پڑھ سکتے تھے نتیجہ یہ نکلا کہ قرٓن کا اعراب سے کچھ سے کچھ ہو چلا یہ دیکھ کر حجاج بن یوسف نے اپنے کاتبوں کو حکم دیا کہ اعراب اور نقطے لگائیں چنانچہ نصر بن عامر یا یحییٰ بن عمیر نے یہ خدمت انجام دی ۱؎ ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱؎ ابن خلکان تذکرہ حجاج بن یوسف کتاب الاو ایل میں یہ ہے کہ نقطے ابو الاسود وئلی نے لگائے تھے جو حضرت علی ؓ کے شاگرد رشید تھے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ٭٭٭ علوم القرآن ا س امر سے زیادہ کیا چیز حیرت انگیز ہو سکتی ہے کہ مذہب اسلام کی روح و رواں جو کچھ کہو قرآن ہے تاہم آج کل مسلمانوں کو جس قدر قرآن کے ساتھ بے اعتنائی ہے‘ کسی چیز سے نہیں۔ عربی میں موجود درس میں ہر علم و فن کی کتابیں کثرت سے داخل ہیں لیکن فن تفسیر کی صرف دو کتابیں پڑھائی جاتی ہیں۔ جلالین اور بیضاوی جن میں سے پہلی اس قدر مختصر ہے کہ اس کے الفاظ و حروف قرآن مجید کے الفاظ و حروف کے برابر برابر ہیں اوردوسری گوچنداں مختصر نہیں لیکن اس کے صرف ڈھائی پارے در س میں داخل ہیں جو کتاب کا پانچواں حصہ بھی نہیں۔ منطق و فلسفہ کی مدت تحصیل پانچ برس ہے اور دیگر علوم پر بھی ایک معتد بہ زمانہ صرف ہوتا ہے لیکن قرآن مجید اور تفسیر کی تحصیل کے لیے پورا سال بھر گوارا نہیںکیاجاتا عربی علوم فنون کی کتابیں کثرت سے چھپ چھپ کر شائع ہو رہی ہیں۔ اور خسوصاً فن حدیث کا سرمایہ تو اس قدر وجود میں آ گیا ہے کہ اگلوں کے وہم و گمان میں بھی نہ تھاللیکن قرآن مجید کے معتلق دو ایک معمولی درسی تفسیروں کے سوا آج تک کوء کتاب شائع نہیں ہوئی۔ یہ تو ظاہری بے پروائی کی کیفیت ہے۔ معنوی حیثیت سے دیکھو تو اس سے بھی زیادہ افسوسناک حالت ہے تما م مسلمانوں کے نزدیک قرآن مجید کا معجزہ ہونا اس کی فصاحت و بلاغت کے لحاظ سے ہے لیکن کیا ہمارے علماء اس دعویٰ کو ثابت کر سکتے ہیں اگر ان سے پوچھا جائے کہ قرآن مجید کی انشاء پردازی کی کیا خصوصیات ہیں۔ قرآن مجید نے بلاغت کے کیاکیا نئے اسلوب پیدا کیے۔ شعرائے جاہلیت نے مدح و ذم ‘ فخر و ثنائ‘ شادی و غم‘ عزم و استقلال‘ نیکی و رحم دلی‘ جوش و اثر کے مضامین کو جس پایہ تکمیل تک پہنچا یا تھا۔ قرآن مجید نے ان ہی مضامین کو کس رتبہ تک پہنچا دیا؟ تو کیا ہزاروں علماء مں سے ایک بھی ان سوالوں کا معقو ل جواب دے سکے گا ؟ ادب و بلاغت پر موقوف نہیں‘ فقہ‘ اصول‘ علم کلام‘ سب کا ماخذ قرآن مجید ہے۔ لیکن ہمارے علماء خود فیصلہ کر سکتے ہیں کہ علوم مذکورہ کے مسائل کو انہوںنے قرآن مجید سے سیکھا ہے یا ہدایہ و تلویح و عقائد نسفی سے ۔ یہ شکایت نئی نہیں قریباً چھ سو برس سے یہی حالت ہے اس سے صرف یہی نہیں ہوا کہ قرآن مجید کے متعلق نئی تالیفات کا سلسلہ بند ہو گیا بلکہ افسوس یہ ہے کہ قدما کی ناد ر اور بیش بہا تصنیفات ناپیدا ہو گئیں خاص قرآن مجید کے اعجاز پرفرمانے نے بہت سی کتابیں لکھی تھیں۔ جن میںسے آٹھ یا نو کتابوں کا تذکرہ جلال الدین سیوطی نے اتقان میں کیا ہے۔ لیکن لوگوں کی بد مذاقی سے انمیں سے صرف ایک کتاب رہ گئی ہے۔ جو اس باب میں معمولی درجہ کی تصنیف ہے۔ اگرچہ ابوبکر عربی کو اسی کو اھسن الکتب کا خطاب دیتے ہیں۔ ا س موقع پر مناسب معلوم ہوتا ہے ہ شروع اسلام سے آج تک قرآن مجید کے متعلق جو کچھ علمی سرمایہ مہیا کیا گیا ہے ان پر ایک مختصر ریویو کیا جائے جس سے ایک طرف تو یہ ثابت ہو گا کہ ہمارے اسلاف نے اور علوم کی طرح اس فن کو کس قدر وسیع کیا تھا اور کیا کیا نکتہ آفرینیاں کی تھیں۔ دوسری طرف یہ ظاہر ہو گا کہ قدما نے گو اپنے زمانہ کے موافق تحقیقات و تدقیقات کا حق ادا کر دیا ہے۔ تاہم آج بہت سے نئے پہلوئوں سے ان مسائل پر بحث کی ضرورت ہے۔ قرآن مجید ج وقت نازل ہو رہا تھا۔ اس وقت جو لوگ موجود تھے وہ اگرچہ اس کے مطالب و معانی کے سمجھنے میں کسی معلم یا استاد کے محتا ج نہ تھے۔ تاہم بعض بعض مقامات میں جہاں زیادہ احتمال ہوتا ہے یا کوئی قصہ طلب بات ہوتی تھی لوگ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کر لیا کرتے تھے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ک بعد فتوحات کی ترقی اور تمدن کی وسعت کی وجہ سے احکام میں نئی نئی صورتیں پیش آنے لگیں۔ اور اس ضرورت سے قرآن مجید کی آیات احکامیہ پر غور و فکر کرنے کی ضرورت پڑی۔ صحابہ میں سے جو لوگ علم و فضل میںزیادہ ممتاز تھے۔ انہوںنے اس طرف زیادہ توجہ کی۔ ان بزرگوں میں سے حضرت علیؓ سب کے پیشرو تھے۔ ان کے بعد حضرت عبداللہ بن عباسؓ، عبداللہ بن مسعودؓ، ابی بن کعبؓ، زید بن ثابتؓ، ابو موسیٰ اشعریؓ کا درجہ ہے ۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ کے حلقہ درس نے نہایت وسعت حاصل کی اور سینکڑوں ہزاروں شاگرد پیدا ہو گئے۔ ان مین سے مجاہد ‘ عطاء بن رباح عکرمہ، سعید بن جبیر سب سے ممتاز تھے۔ ان بزرگوں کے سوا جن لوگوںنے فن تفسیر پر توجہ کی وہ حسن بصری عطا بن سلمہ خراسانی محمد بن کعب الفراظی ، بو العالیہ، ضحاک بن مزاحم، قتادہ ، زید بن اسلم ابومالک وغیرہ تھیء غالباً سب سے پہلے اس فن کی جس نے ابتدا کی وہ سعید بن جبیر تھے۔ عبدالملک بن مروان نے ان سے تفسیر لکھنے کی درخاست کی چنانچہ انہوں نے اس کی فرمائش کے موافق تفسیر لکھ کر دربار خلافت میں بھیجی اور اس کا نسخہ دفتر شاہی میں داخل کیا گیا۔ عطاء بن دینار کے نام سے جو تفسیر مشہور ہے وہ درحقیقت یہی تفسیر ہے۔ ۱؎ ا س طبقہ کے بعد آئمہ مجتہدین اور ان کے ہمعصروں نے مثلاً سفیان بن عینہ ، شعبہ۔ یزید بن ہارون، عبدالرزاق، ابوبکر بن ابی شیبہ وغیرہ نے تفسیریں لکھیں اس کے بعد عام رواج ہو گیا اور سینکڑوں ہزاروں تفسیریں تصنیف ہو گئیں اور ہوتی رہیں۔ تفسیر کے علاوہ قرآن مجید کے خاص خاص مباحث پر جداگانہ اور مستقل تصنیفات کا سلسلہ شروع ہوا۔ اوریہ سلسلہ تفسیر سے بھی زیادہ مفید تھا۔ کسی نے نہ صر مسائل فقیہ پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱؎ بہ تفصیل میزان الاعتدال ذہبی تذکرہ عطار بن دینار سے ماخوذ ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پر بحث کی کسی نے اسباب کے نزول پر کتاب لکھی کسی نے صرف ان الفاط کو جع کیا جو غیر زبان کے الفاظ ہیں کسی نے امثال قرآنی کو یکجا کیا کسی نے آیات مکررہ کے نکات بیان کیے اس قسم کے مضامین کی تعداد ۸۰ کے قریب پہنچی اور قریباً ہر ایک پر الگ الگ مستقل تصنیفیں لکھی گئیں۔ ۱؎ ان مضامین میں سے بعض بعض پر بڑے بڑے آئمہ نے طبع آزمائیں کیں اورہزاروں کتابیں تیار ہو گئیں۔ یہ تصنیفات بے شمار ہیں‘ لیکن ان سب کو چھ قسموں پر تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ ۱۔ فقہی جس میں صر ف ان آیتوں کوجمع کیاگیا ہے جن سے کوئی فقہی مسئلہ مستبط ہوتا ہے مثلا احکام القرآن اسمعیل بن اسحق‘ احکام القرآن ابوبکر رازی‘ احکام القرآن قاضی یحییٰ بن اکثم۔ ۲۔ اوبی ان تصنیفات میں قرآن مجید کا فصاحت و بلاغت کے اعتبار سے معجز اور بے نظیر ہونا ثابت کیا ہے اسی سلسلہ میں وہ تصنیفات بھی داخل ہیںجو قرآن مجید کی حقیقت و مجاز ‘ تشبیہات و استعارات مکررات وجوہ ترتیب صنائع و بدائع وغیرہ وغیرہ پر لکھی گئیں۔ ۳۔ تاریخی قرآن مجید میں انبیائے سابقین اور بزرگوں کے جو قصے مذکور ہیں ان کی تفصیل اور مزید حالات۔ ۴۔ نحوی جس میں قرآن مجید کے نحوی مسائل سے بحث کی ہے مثلاً اعراب القرآن رازی وغیرہ۔ ۵۔ لغوی یعنی قرآن مجید کے الفاط مفروہ کے معانی اور ان کی تحقیق مثلاً لغات القرآن ابوعبیدہ وغیرہ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱؎ دیکھو اتقان فی علوم القرآن کا دیباچہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۶۔ کلامی جن آیتوں سے عقائد کے مسائل مستنبط ہوتے ہیں ان پر بحث۔ ان مضامین میںسے فقہی مباحث پر جو کچھ لکھا گیا اس پر اضافہ کی بہت کم گنجائش ہے۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ اس بحث پر بڑے بڑے ائمہ فن نے طبع آزمائیاں کیں اور چونکہ شروع ہی سے ان مسائل سیمتعلق الگ الگ فرقے بن گئے تھے کسی فریق نے تدقیق و تھقیق کا دقیقہ اٹھا نہیںرکھا تھا۔ امام شافعی ‘ قاضی یحییٰ بن اکثم‘ (استاد ترمذی) ابوبکر رازی جس پایہ کے لوگ ھتے سب کو معولم ہے کہ ابوبکر رازی کی تصنیف آج بھی موجود ہے اورہماری نظر سے گزر چکی ہے۔ اسی طرح لغات قرآن اور مسائل نحو یہ پر جو کچھ لکھا گیا ہے اس سے بڑھ کر نہیں لکھا جا سکتا۔ فصاحت و بلاغت کے متعلق نہایت کثرت سے یہ کتابیں لکھی گئیں۔ جو اعجاز القرآن کے نام سے مشہور ہیں۔ ان میں فصاحت و بلاغت کے تمام اقسام سے بحث کی ہے سب سے پہلے غالباً جو خط المتوفی سنہ ۲۵۵ نے اس موضوع پر لکھا ہے پھر محمد بن یزید واسطی‘ عبدالقادر جرجانی‘ رمانی ‘ خطابی‘ زملکانی‘ رازی‘ ابن سراقہ ‘ قاضی ابوبکر باقلانی نے بسیط اور مفصل کتابیں لکھیں معہ کتابیں آج بالکل ناپید ہیں۔ میں نے قسطنطنیہ اور مصر کے تما م کتب خانے دیکھے لیکن ایک کتاب کا بھی پتہ نہ لگا۔ البتہ قاضی باقلانی کی تصنیف موجود ہ۔ اس کا نسخہ میں نے حذیو کے کتب کانہ سے لکھوا کر منگوایا تھا۔ اور اب وہ چھپ بھی گئی ہے۔ اس کتاب کی نسبت ابن العربی ۱؎ کا قول ہے کہ اس بحث پر کوئی کتاب اس درجہ کی تصنیف نہیںہوئی۔ ابن العربی کی رائے پر اگر اعتراض کی جائے تو اسلاف کی علمی حالت پر سخت افسوس ہو گا۔ کیونکہ باقلانی کی کتاب گو انشائیہ پردازی کے لحاظ سے بلند رتبہ ہے۔ لیکن اصل مضمون کی حیثیت سے محض ایک ملابانہ تصنیف ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱؎ اتقان بحث اعجاز القرآن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عبدالقادر جرجانی جو فن بلاغت کا موجد ہے۔ اس کی اعجاز القرآن ہم نے نہیں دیکھی‘ لیکن اس کی دو کتبیں دلائل اعجا اور اسرار البلاغۃ جو خاص بن بلاغت میں ہیں ہمارے پیش نظر ہیں ان کتابوں میں اس نے جو نکتہ آفرینیاں کی ہیں وہ حیرت انگیز ہیں اور اس لیے قیاس ہو سکتا ہے کہ قرآن مید پر اس نے جو کچھ لکھا ہو گ بے مثل ہو گا۔ اسی طرح جاحظ کی تصنیف بھی بے نظیر ہو گی لیکن چونکہ پانچ چھ سو برس سے قوم کا علمی مذاق بالکل پست ہوگیا ہے۔ ا س لیے لوگ ابن العربی باقلانی ہی کی تصنیف کو بہترین تصانیف قرار دیتے ہیں۔ اعجاز القرآن کے سلسلہ کے علاوہ اور بہت سی تصنیفات ہیں جن میں انشاء پردازی کی خاص خاص قسموں سے بحث کی ہے مثلاً ابن ابی الاصبع نے قرآن مجید کے صنائع و بدائع پر مستقل کتاب لکھی عز الذین بن عبدالسلام نے قرآن کے مجازات کو یک جا کیا۔ ابوالحسن مادردی نے قرآن کی ضرب المثلین جمع کیں۔ اور انکی خوبیاں دکھائیں ۔ علامہ سیوطی نے سورتوں کے طریق ابتدا پر ایک رسالہ لکھا جس کا نام الکواطر السوانح فی اسرار الفواتح ہے ۔ ابن القیم نے کتاب البتیان اس بحث پر لکھی کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں کثرت سے قسمیں کیوں کھائی ہیں۔ قصص اور حقائق اشیاء کے متعلق تصنیفات کا جو سرمایہ ہے وہ درحقیقت شرم کا باعث ہے اور افسوس اور سخت افسوس ہے کہ تفسیر کے اجزا میں سے جو حصہ سب سے زیادہ عوام میں مقبول ہے اور متداول ہے اور سلسلہ بہ سلسلہ تمام اسلامی لٹریچر میں سرایت کر گیا ہے وہ یہی حصہ ہے انبیاؑ اور صلحائے سابقین کے افسانے جو یہودیوں میں پھیلے ہوئے تھے وہ نہایت مبالغہ آمیز اور دوراز کار تھے قرآن مجید میں نہایت اجمال کے ساتھ صرف ان واقعات کو بیان کیاگیا ہے جو فی نفسہ صحیح تھے اور جن سے طبائع پر کوئی اخلاقی عمدہ اثر پڑتا ہے ہمارے مفسروں نے قرآن مجید کو ایک مشن قرار دیا۔ اور اس کی شرح میں وہ تمام بیہودہ افسانے شامل کر دیے جن کے سامھے بوستان خیال کی بھی کچھ حقیقت نہیں ہے حقائق اشیاء کے متعلق جو کچھ قرآن مجید میں مذکور تھا۔ اس کے ساتھ بھی یہی سلوک کیا گیا چاہ بابل ‘ کوہ قاف‘ سکندر ذوالقرنین‘ یاجوج ماجوج وغیرہ وغیرہ کی نسبت جو روایتیںمسلمانوں میں پھیلی ہوئی ہیں وہ ان ہی تفسیروں کی بدولت ہیں۔ علامہ ابن خلدون نے اس کے متعلق مقدمہ تاریخ میںنہایت محققانہ مضمون لکھا ہے ہم اس کی عبادت اس موقع پر بقدر ضرورت نقل کرتے ہیں۔ وقد جمع المقتدمون فی ذلک واوعوا الا ان کتبھم منقولا تھم تشھل علی الغث والسمین والمقبول والمردودہ والسببفی ذلک ان العرب لم یکونو اھل کتاب ولا علم وانما غلبت علیھم البدواۃ والامیۃ واذا تشوقاالی معرفۃ شئی مماتشوق الیہ النفوس البشریۃ فی اسباب المکونات دبدء الخلیفۃ واسرار الوجو د فانما یسالون عنہ اھل الکتاب قبلھم ویستفیدونہ منھم وھم اہل التوراۃ من الیھود ومن تبع دینھم من النصاریٰ و اھل التوراۃ الذین بین العرب یومئذ بادیۃ مثلھم ولا عرفون من ذلک الا ما تعرفہ العامۃ من اہل الکتاب فلما اسلموا بقواعلی ماکان عندھم مالا تعاق لہ بالا حکام التی یحتاطرن لھامثل اخبار بدء الخلیقۃ وما یرجمع الی الحدثان والملاحم و امثال ذلک وھوالاء مچل کعب الاحبار ووھب بن منبہ وعبداللہ بن سلام و امثالھم فامتلات التاسیر من المنقولات عندھم دیتاھل المفسرون فی مثل ذلک و ملو اکتب التفسیر بھذہ المنقولات واصلھا کما قلنا عن اہل التوراۃ الذین لیکنون البادیۃ ولا تحقیق عندھم بمعرفۃ ماینقلونہ من ذلک الا انھم بعد صیتھم و عظمت اقدارھم لما کانو ا علیہ من المقامات فی الدین والملۃ فتلقت بالقبول من یومئذ ؎۱ ’’اور اس باب میںمتقدمین نے بڑا ذخیرہ جمع کیا لیکن ان کی تصنیفات اور روایتوں میںنیک و بد مقبول و مردود سب کچھ شامل ہے اس کی وجہ ہے کہ اہل عرب لکھے پڑھے نہ تھے اور ان پر بالکل بدویت اور جہالت غالب تھی اور جب ان کو ان اشیا کی دریافت کا شوق ہوتاتھا تو جو طبائع بشری کا اقتضا ہے مثلا آفرینش عالم کے اسبات دنیا کی ابتدا وجود کے اسرار توان باتوں کو وہ لوگ یہودیوں سے دریافت کرتے تھے یا ان عیسائیوں سے جو یہودیوں کے مقامد تھ اور اس زمانہ کے یہود ایسے ہی جاہل تھے جییس بادیہ نشین عرب‘ ان کو صرف وہی معلومات تھیں جو عوام اہل کتاب کو ہوتی ہیں پھر جب یہ لوگ اسلا م لائے تو ان امور کے متعلق جو احکام شرعی سے تعلق نہیں رکھتے تھے مثلاً دنیا کا آغاز واقعات قدیمہ اور قصص الانبیاء ان کے خیالات وہی رہے جو پہلے سے تھے ان اسلام لانے والوں میںکعب احبار و ہب بن منبہ‘ عبداللہ بن سلام وغیرہ تھے اس لیے تمام مفسرین ان کی روایتوں سے بھر گئیں اور اس قسم کے امور میں مفسرین سہل انکاری کرتے ہیں۔اس لیے ان لوگوں نے تفسیر کی کتابوں کو ان ہی روایتوں سے بھر دیا اورجیسا کہ ہم اوپر بیان کر آئے ہیں کہ ان روایتو ں کاماخذ وہی توراۃ والے تھے جو صحرا نشین تھے۔ اور ان کو ان روایتوں کے متعلق کچھ تحقیق حاصل نہ تھی۔ لیکن چونکہ مذہباً ان لوگوں کا پایہ بلند تھا اور قوم میں ان کو شہرت اور عظمت حاصل تھی۔ اس لیے وہ روایتیںقبول عام پاگئیں۔‘‘ علامہ ابن خلدون نے جو کچھ لکھا محدثا نہ تحقیق بھی تمام تر اسی کی تائید کرتی ہے۔ انبیاء سابقین اور زمین و آسمان وغیرہ کی آفرینش کے متعلق جو کچھ تفسیروں میں مذکور ہے وہ عموماً قدماء مسفسرین سے ماخوذ ہے۔ یعنی مجاہد‘ رسدی‘ ضحاک‘ مقاتل بن سلیمان‘ کلبی ان میں سے تین مقدم الذکر نے صحابہ کا زمانہ پایا تھا۔ اور ان سے روایتیں حاصل کی تھیں۔ مقاتل نے سنہ ۱۵۰ھ میں وفات پائی کلبی بھی اسی دور کے مفسر ہیں نقلی مضامین کے متعلق آج جس قدر تفسیریں ہیں سب ان ہی بزرگوں سے ماخوذ ہیں۔ امام شافعیؒ کا قول ہے ہ فن تفسیر میں وہ تمام لوگ مقاتل کے وظیفہ خوار ہیں ۲؎ سدی کی نسبت جلال الدین سیوطی نے کتاب الارشاد سے نقل کیا ہے کہ التفاسیر تفسیر السدی یعنی تمام تفسیروں میں سدی کی تفسیر سب سے اچھی ہے۔ امام طبری کی تفسیر کے متعلق ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱؎ مقدمہ ابن خلدون ۲؎ میزان الاعتدال ذہبی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تمام علماء کا اتفا ق ہے کہ صحت و تنقید میں لاجوابہے۔ لیکن یہ تفسیر بھی زیادہ تر سدی اور ضحاک سے ماخوذ ہے چنانچہ جلال الدین سیوطی نے اتقان باب ہشتا و دہم میں تصریح کی ہے۔ ان بزرگوں کا یہ حال ہ ے کہ مجاہد کی تفسیر کی نسبت جب لوگوںنے امام اعمش سے دریافت کیا کہ اس میں غلطیاںکیوں پائی جاتی ہیں تو انہوںنے جواب دیا کہ وہ کتاب سے ماخوذ ہے ضحاک کی نسبت محدثین نے تصریح کی ہے کہ ابن عباسؓ اور ابوہریرہؓ سے انہوں نے جو روایتیں کی ہیںسب مخدوش ہیں یعنی ان کی صحت میںکلام ہے۔ اس کے ساتھ یحییٰ بن سعید قطان نے جو اسماء الرجال کے امام ہیں صریح کی ہے کہ ضحاک میرے نزدیک ضعیف الراویہ ہیں سدی کا یہ حال ہے کہ امام شعبی سے کیس نے کہا کہ سدی کو قرآن کے علم کا حصہ ملا ہے تو انہوں نے کہا کہ قرآن کے جہل کا حصہ ملا ہے۔ مقاتل کی نسبت وکیع کا قول ہے کہ کذاب تھا۔ محدث نسائی فرماتے ہیں کہ مقاتل جھوٹ بولا کرتا تھا۔ عبداللہ بن المبارک فرماتے ہیںکہ مقاتل کی تفسیر بہت اچھی تھی۔ کاش وہ ثقہ بھی ہوتا۔ جو زجانی نے لکھا ہے کہ مقاتل نہایت دلیر دجال تھا محدث ابن حبان نے لکھا ہے کہ مقاتل قرآ ن مجید کے متعلق یہود و نصاریٰ سے وہ باتیں سیکھا کرتا تھا جو ان کی روایتوں کے مطابق ہوتی تھیں کلبی کی نسبت تو عام اتفاق ہے کہ ان کی تفسیر دیکھنے کے قابل نہیں امام احمد حنبل اور دار قطنی‘ امام بخاری‘ جوزجانی‘ ابن معین سب نے تصریح کی ہے کہ وہ ناقابل اعتبار تھا ابن حبان کا قول ہے ہ کلبی کا کذب و دروغ اس قدر ظاہر ہے کہ اس میں کچھ زیاد ہ کہنے کی ضرورت نہیں ۔ ۱؎ ایک ضمنی تذکرہ میں ان بزرگوں کی اس قدر پردہ دری شاید موزوں نہ تھی لیکن ان لوگوں نے اسلام کو جس قدر نقصان پہنچایا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱؎ ان لوگوں کے یہ اقوال میزان الاعتدال ذہنی سے ماخوذ ہیں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہے۔ اس کاکم سے کم یہی صلہ تھا‘ ان ہی حضرات کی روایتیںہیں جن سے تفسیر کبیر‘ کشاف ‘ بیضاوی‘ اور اور سینکڑوں ہزاروں کتابیںمالا مال ہیں۔مسلمانوں میں آج جو عجائب پرستی ‘ زود اعتقادی اور غلط خیالی ایک خاصہ بن گئی ہے ۔ ان ہی کی روایات اور منقولات کی بدولت ہے۔ ٭٭٭ اعجاز القرآن فاتو بسورۃ من مثلہ تیرہ سو برس سے دنیائے اسلا م میں یہ آواز گونج رہی ہے کہ قرآن کا جواب نہیں ہو سکتا۔ سنی شیعی معتزلی اشعری ماتریدی سب اس میں متفق ہیں جب یہ سوال ہوتا ہے کہ قرآ ن کا اعجاز کس وصف کے لحاظس ے ہے تو دفعتہ اختلاف پیدا ہو جاتا ہے ۔ کوئی کہتا ہے کہ قرآن میںپیشن گوئیاں ہیں اور یہ بشر کا کام نہٰں کوئی کہتا ہے کہ قرآن کا جواب تو ہو سکتاہے لیکن جب کوئی جواب لکھنے کا قصد کرتا ہے تو خدا اس کاہاتھ پکڑلیتا ہے ۔ کوئی کہتا ہے کہ قرآن لوگوں کے مخفی ارادوں کا حال بتا دیتا ہے۔ اور آخر اشاعرہ کی اس راز کشائی پر تمام عالم کا اتفاق ہو گیا چونکہ فصاحت و بلاغت میں قرآن کا جواب نہیں ہو سکتا۔ اس لیے وہ کلام الٰہی ہے۔ ابھی ہم کو اس سے بحث نہیں کہ کیا انشا پردازی اور زور تحریربھی ایسی چیز ہے جو خدا کا کارنامہ انجا پائے بلکہ جس پرتعجب اور سخت تعجب ہے وہ ی ہے کہ تیرہ سو برس تک یہ گفت و شنید‘ یہ بحث و نزاع‘ یہ اختلا ف آڑا ہوتا رہا۔ لیکن کسی کو یہ خیال نہ آیا کہ اس سوال کا جواب اسی سے پوچھنا تھا جس نے یہ دعویٰ کیا تھا۔ یہ دعویٰ خود قرآن ہی نے کیا ہے اور خود ہی اس سوال کا جواب دے سکتا تھا۔ ہم کویہ دیکھنا چاہیے کہ جب خدا قرآن کی نسبت یہ کہتا ہے کہ تمام عالم میں اس کی نظیر نہیںلا سکتا تو جا بجا قرآن ے مدحیہ اوصاف کیا بیان کرتا ہے ؟ قرآن مجید کی نسبت نہایت کثرت سے مختلف اوصاف بیان کیے ہیں مثلاً والقرآن الحکیم قسم ہے قرآن کی جو کہ حکیم ہے۔ والقرآن ذی الذکر اور قرآن کی جو ناصح ہ۔ کتاب احکمت آیاتہ ایسی کتاب ہے جس کی آیتیں مضبوط ہیں۔ کتاب ینطق بالحق ایسی کتاب جو سچ بولتی ہے۔ کتاب مبین روشن کتا ب ہے۔ بینات من الھدیٰ رہنمائی کے لیے دلائل ہیں۔ ھدی للمتقین پرہیزگاروں کی رہنما ہے۔ جعلنا نورالھدی بہ من ہم نے اس کا نور بنایا ہے جس کو چاہتے ہیں اس کے ذریعے راستہ دکھاتے ہیں۔ ہدی و رحمۃ اللمحسنین وہ نیک آدمیوں کے لیے ہدایت اور رحمت ہے تفشحعر منبر جلو والذین یخشون ربھم اس سے ان لوگوں کے رونگھٹے کھڑے ہو جاتے ہیں جو اپنے خدا سے ڈرتے ہیں۔ کتاب فضلت آیاتہ قرآنا عربیا لقوم یعلمون ایسی کتاب ہے ج کی آیتیںکھول کھول کر بیان کی گئی ہیں عربی کا قرآن ہے جاننے والوں کے لیے۔ بشیرا و نذیرا خوشخبری دینے والا ہے اور ڈرانے والا ہے یھدی الی الحق الی صراط مستقیم حق کی طرف اور سیدھے راستہ کی طرف راہ دکھاتا ہے۔ تذکرۃ لمن یخشیٰ ڈرنے والے کے لیے نصیحت ہے۔ غور کرو قرآن مجید کی فضیلت کے بیان میں اس کو ناصح‘ رہنما‘ بشیر نذیر‘ نور‘ حکیم‘ واضح سب کہا لیکن فصاحب و بلاغت کا کہیں نام نہیںآیا۔ اور وہی چیز چھوڑ دی گئی جو (لوگوں کے نزدیک) مدار اعجاز ہے کیا ہدایت اور حکمت کے لحاظ س کوئی کتاب قرآن کا جواب ہو سکتی ہے۔ اگر نہیںہو سکتی تو یہ اوصاف کیوں معجرزہ نہ ہوں اور وہ وصف معجزہ ہو جس کا ذکر قرآن میں نہیں۔ اس کے یہ معنی نہیں کہ فصاحب و بلاغت میں قرآن کا جواب ہو سکتاہے۔ بے شبہ نہیں ہو سکتا۔ اور قیامت تک نہیں ہو سکتا۔ لیکن کتاب آسمانی کا رہنمائے عالم معجزہ ہو سکتا ہے نہ کہ نثاری اور انشاء پردازی حضرت یوسفؑ بے شبہ جمال ظاہر ی میں اپنا جواب نہیں رکھتے تھے لیکن پیغمبر کی حیثیت سے اس کے اوصاف کمال میں ان کی نفس قدسی کا ذکر آئے گا نہ ان کے خط و خال کا لیکن ہم کو ان دلائل اور قیاسیات کی بھی ضرورت نہیں قرآن مجید میں صاف مذکور ہے کہ وہ ہدایت کے لحاظ سے معجزہ ہے یعنی اس وصف میں (بجز آسمانی کتاب کے)کوئی ایسی کتاب اس کی نظیر نہیں بن سکتی۔ قل فاتو ابکتاب من عنداللہ ہو اھدی منھما اتبعہ ان کنتم صادقین (قصص) ’’کہہ دو اے محمدؐ! کہ یہاں سے کوئی کتاب ان دونوں کتابوں (قرآن اور توریت) سے بڑھ کر ہدایت کرنے والی لا دو تو میںاس کا پیرو بنتا ہوں اگر تم سچے ہو‘‘۔ ایک نکتہ یہاں قابل لحاظ ہے اور وہ اس بحث کا فیصلہ قطعی ہے معجزہ دو قسم کا ہو سکتاہے۔ ایک جس سے براہ راست منصب نبوت کا تعلق ہو۔ ایک وہ جو بالذات نہیں بلکہ بالواسطہ دلیل نبوت قرار پائے مثلاً ایک پیغمبر دعویٰ کرتا ہے کہ میں پیغمبر ہوں یعنی مجھ کو خدا نے دنیا کی ہدایت کے لیے بھیجا ہے ۔ لوگ پوچھتے ہیںکہ پیغمبر ی کا ثبوت کیا ہے وہ فرماتے ہیں کہ میں لاٹھی کو سانپ بنا دیتاہوں اور میری ہتھیلی پر چاند کی طرح چمکتی ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ اس معجزہ کو ہدایت اور پیغمبر ی سے کیا تعلق ہے؟ وہ جواب دیتے ہیں کہ میں جو معجزہ دکھاتا ہوں خدا کے سوا کوئی شخص اس پر قادر نہیں ہے۔ اس لیے میں جو معجزہ پیش کرتاہوں تو خدا ہی کی طرف سے کرتا ہوں اس بنا پر میںخدا کی طرف سے آیا ہوں اورجو شخص خدا کی طرف سے آتا ہے وہ پیغمبر ہوتا ہے اور اس استدلال میںمعجزہ براہ راست نبوت سے تعلق نہیں رکھتا۔ ایک دوسرا شخص کہتا ہے کہ میں پیغمبر ہوں۔ لوگ پوچھتے ہیں کہ وہ کیوں؟ وہ فرماتے ہیں کہ میں جس قسم کی ہدایت اور لوگوں کا تزکیہ نفس کر سکتا ہوں کوئی بشر نہیںکر سکتا۔ اب اگر یہ دعویٰ صحیح ہے تو یہی دعویٰ براہ راست معجزہ بھی ہے۔ اور خاصہ نبوت بھی معجزہ ا لیی کہ جو چیز کوئی اور بشرپیش نہ کر ستکے وہ معجزہ ہو گی اور خاصہ نبوت اس لیے کہ تزکیہ نفس کا نام پیغمبری ہے ۔ اس کو ایک اور صاف مثال میں سمجھو۔ ایک شخص کہتا ہے کہ میں فارسی زبان جانتا ہوں اور دلیل پیش کرتا ہون کہ میں ایرانی ہوں اورایرانی ضرور فارسی جانتا ہوں گا۔اس کے مقابلہ میں ایک دوسرا شخص بھی یہی دعویٰ کرتا ہے۔ لیکن دعویٰ کو فارسی میں ہی ادا کرتا ہے کہ من فارسی راخیلے می دانم یہ دعویٰ دعویٰ بھی ہے اور دلیل بھی۔ قرآن مجید اگرچہ فصاحب و بلاغت کا لحاظ سے معجزہ قرار دیا جائے تو ایسا معجزہ ہو گا جو نبوت کا خاصہ نہیںکیونکہ انشاء پردازی لازمہ نبوت نہیںلیکن اگر قرآن مجید کو تزکیہ نفس اور موعظت و حکمت کے لحاظ سے معجزہ کہا جائے تو یہ معجزہ بھی ہوگا اور کاصہ نبوت بھی ۔ ہذا ہو الحق فماذا بعد الحق الا الضلال ٭٭٭ قرآن مجید میں خدا نے قسمیں کیوں کھائیں مخالفوں نے قرآن مجید پر جو نکتہ چیینیاں ی ہیںانمیں سے ایک یہ بھی ہے کہ اس اعتراض کے متعدد پہلو ہیں۔ ۱۔ سب سے پہلا یہ ہ خود قرآن میںقسم کھانے کی برائیاں ہیں ولا تجعلو اللہ عریضۃ لایمانکم خدا کو اپنی قسموں کا ہدف نہ بنائو۔ ولا تطع کل حلاف زیادہ قسمیں کھانے والوں کا کہا نہ مان۔ ۲۔ آدمی جن چیزوں کی قسم کھاتاہے یا اس کی عظمت و تعظیم کے لحاظ سے کھاتا ہے یا محبت اور شیفتگی کی وجہ سے۔ قرآن مجید میں خدا نے جو قسمیں کھائیں ہیں تعظیم اور عظمت کے لحاظ سے تو نہیں ہوسکتیں کیونکہ خدا سے بڑھ کر کون ہے۔ دوسرا احتمال ممکن تھا لیکن قرآن میں جن معمولی اورا دنیٰ چیزوں کی قسمیں کھائی ہیں ان کے لحاظ سے یہ احتمال بھی نہیں ہو سکتا۔ قرآن میں انجینر اور زیتون کی قسم موجود ہے کون کہہ سکتا ہے کہ خدا کو یہ میوے نہایت عزیز اور محبوب ہیں اس لیے ان کی قسم کھائی ہو۔ اس بحث سے قطع نظر کر کے قسم کھانا فی نفسہ ایک سبکی کی بات ہے۔ قسموہی کھاتا ہے جس کو اپنی نسبت بہ اطمینان نہیںہوتا کہ لوگ اس کی بات کو بے تکلف یقین کر لیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ بازاری آدمی بات بات پر قسم کھاتے ہیں خواص ان سے کم اور ثقاۃ تو مطلق قسم نہیں کھاتے۔ ایران میں مثل ہے کہ گفتی باور نمودم مر رگفتی درشک افتادم قسم خودری دوغ دانستم‘‘۔ مفسرین نے آں شبہ کے عجیب عجیب جواب دیے ہیں۔ ۱۔ قسم کھانا عرب کا عام طریقہ تھا اور جزو زبان بن گیا تھا اس لیے جو کلام عرب کی زبان مین نازل ہو گا وہ اس سے بری نہیںہو سکا۔ ۲۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب عقائد اسلام کی صحت پر قرآن مجید ک آیتیں پیش کرتے تھے تو کفار کہتے تھے کہ یہ باتیں غلط ہیں لیکن یہ قرآن کا عام فریب استدلال ار زور عبارت ہے کہ غلط کو صحیح ثابت کر دیتا ہے اس شبہ کے رفع کرنے کا اس کے سوا اورکوئی طریقہ نہ تھا کہ قسم کھا کر ان کو یقین دلایا جائے۔ ۳۔ جن چیزوں مثلاً انجیر اور زیتون وغیرہ کو تم بے حقیقت سمجھتے ہو۔ درحقیقت عظیم الشان چیزیں ہیں۔ چنانچہ امام رازی وغیرہ نے فلسفیانہ دلائل سے زیتون انجیر کی خوبیان ثابت کی ہیں۔ یہ اور اسی قسم کے جوابات مخالف کو بالکل مطمئن نہیںکر سکتے۔ اور موافق کے لیے اعتراض و جواب کی سرے سے ضرورت ہی نہیں اس کو کلام الٰہی کے آگے چوں چرا سے کیا غرض۔ مجھے تو خوہے کہ جو کچھ کہو بجا کہیے مولوی حمید الدین صاحب جن کا ذکر الندوہ کے ایک پرچہ میں ایک خاص تقریب سے آ چاک ہے۔ قرآن مجید کے حقائق واسرار پرجو کتاب عربی زبان میں لکھ رہے ہیں اس کے بعض اجزا آج کل ہم کوہاتھ آئے ۔ ان میں اس مسئلہ پر بحث تھی۔ انہوں نے جو کچھ لکھاہے نہایت محققانہ اور ادیبانہ لکھا ہے ۔ اس لیے ہم اس کا خلاصہ اس موقع پر درج کرتے ہیں۔ اس عقدہ کا حل کرنے کے لیے پہلے قسم کی حقیقت اور اس لفظ کی تاریخ پر غور کرنا چاہیے۔ قسم کا استعمال اصل میں اس طرح شروع ہوا کہ جب کسی واقعہ کو بیان کرتے تھے تو اس کی تصدیق و صحت کے لیے کسی شخص کی شہادت اور گواہی پیش کرتے تھے ۔ اس طریقہ کو جب زیادہ وسعت ہوئی تو انسان کے علاوہ حیوانات اور جمادات کی شہادت بھی استعمال میںآنے لگی۔ مثلاً ہم اپنی زبان میں کہتے ہیں ’’درودیوار‘‘ اس بات کے شاہد ہیں۔ فلاں شخص جس نے بہادر سے جنگ کی میدان جنگ اس کی شہادت دے سکتا ہے۔ عربی زبان میں اس کی سینکڑوں مثالیںہیں۔ الخیل تشھد یوم داھر ورماحنا ’’داہر کی لڑائی کے دن گھوڑے اور نیزے گواہ تھے‘‘۔ ان السماء فان الریح شاہدۃ والارض تشھد والایام والبلد ’’آسمان ہوا زمین زمانہ او ر شہر گواہ ہیں‘‘۔ لقد جزیت بنی بدربغیبتیھم یوم الھباء ۃ یاما مالہ قود ’’کہ میں نے قبیلہ بنی بدر کو ان کی بغاوت کی پاداش میں وہ سزا دی جس کا بدلہ نہیں ہو سکتا‘‘ نابغہ کہتا ہے۔ والخیل تعلم انا فی تجادلنا عند الطعان اولو بوس وانعام ’’گھوڑے جانتے ہیں کہ ہم لڑائی میں سزا بھی دیتے ہیں اور انعام بھی‘‘۔ عنترہ کا شعر ہے والخیل تعلم والفوارس اننی فرقت جمعھم بطعنۃ فیصل ’’گھوڑے اور سوار دونوں جانتے ہیں کہ میںنے ان کے جتھے کو ایک فیصلہ کرنے والے وار سے توڑ دیا۔‘‘ اس طرح کی ہزاروں مثالیںہیں۔ ان چیزوں کو شہادت پیش کرنے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ یہ چیزیں زبان حال سے شہادت دے رہی ہیں‘ یعنی اگر ان کو بولنے کی قوت ہوتی تو بول اٹھتیں کہ ہاںیہ واقعہ سچ ہے۔ چونکہ ا س طریقہ ادا سے واقعہ کا یقین دلانا مقصود ہوتا ہے۔ اس لیے یہ طریقہ ‘ رفتہ رفتہ قسم کے معنی میں مستعمل ہونے لگا۔ یعنی کسی کی گواہی پیش کرنی اور قسم کھانا ایک چیز ہو گئی۔ عمرو معدیکرب کا شعر ہے۔ اللہ یعلم ما ترکت قتالھم ’’خدا جانتا ہے کہ میں نے لڑنا نہیں چھوڑا۔‘‘ یہاں ’’خدا جانتا ہے‘‘کا لفظ قسم کے معنوں میں آیا ہے یعنی خدا کی قسم میں نے لڑنا نہیںچھوڑا۔ ہماری زبان میں عام طورپر قسم کے موقع پر کہتے ہیں۔ ’’اللہ جانتا ہے خدا شاہد ہے خدا گواہ ہے‘‘ خود قرآن مجید میں گواہی کا لفظ قسم کے معنی میں مستعمل ہوا ہے۔ مثلاً ویدر عنھا العذاب ان تشھداربع شھادات باللہ انہ من الکاذبین قالو انشھد انک لرسول اللہ واللہ یعلم انک لرسولہ واللہ یشھد ان المنافقین لکاذبون۔ اتخذوا ایمانھم جنۃ پچھلی آیت کا لفظی ترجمہ یہ ہے۔ ’’منافقین کہتے ہیں کہ ہم گواہی دیتے ہیں کہ بے شک تو خدا کا رسول ہ ۔ اور خدا جانتا ہے کہ بے شک تو خدا کا رسول ہے۔ لیکن خدا گواہی دیتا ہے کہ منافق جھوٹے ہیں منافقوں نے اپنی قسم کو سپر بنا لیا ہے۔ دیکھو اس آیت میں منافقین کی زبان سے جو لفظ نقل کیا ہے وہ صرف یہ تھا کہ ’’ہم تمہارے پیغمبر ہونے کی گواہی دیتے ہیں‘‘ پھر آگے چل کر فرمایاکہ منافقین اپنی قسم کو سپر بناتے ہیں حالانکہ منافقین نے قسم کا کوئی غلط استعمال نہیںکیا تھا بلکہ صرف گواہی دینے کا لفظ استعمال کیا تھا اس سے معلوم ہوا کہ گواہی کو خدا نے قسم قرار دیا۔ عربی زبان نے جب زیادہ وسعت حاصل کی تو بعض بعض حرف قسم کے لیے خاص ہو گئے مثلا داد ‘ ب ‘ ت‘ عام محاورہ ہے واللہ واللہ واللہ۔ اب قسم کے دو مفہوم ہیں۔ ایک یہ کہ جب کوئی واقعہ یا مسئلہ بیان کیاجائے تو اس پر کوئی شہادت پیش کی جائے چاہے یہ شہادت ذی روح کی ہو یا اشیاء کے زبان حال کی شہادت ہو۔ دوسرے یہ کہ صرف ایک بات کی توثیق اور یقین دلانے کے لیے کسی بڑے شخص یا کسی عزیز چیز کی قسم کھائی جائے۔ یہ دوسرا مفہوم قسم کا مجازی استعمال ہے جو رفتہ رفتہ پیدا ہو گیا۔ اسل میںقسم کے یہ معنی نہ تھے۔ قرآن مجید میں جہاں جہاں قسم کا لفظ آیا ہے پہلے معنی کے لحاظ سے آیا ہے۔ خدا جب اپنی قدرت و شان کا اظہار کرتاہے توآفتاب کی چاند کی‘ ستاروںکی دن رات کی قسم کھاتا ہے۔ جس کے یہ معنی ہیں کہ یہ تمام چیزیں اس کے وجود اور عظمت و شان کی گواہی دے رہی ہیں۔ قرآن مجید میں خود اس کی تصریح موجود ہے۔ کہ قسم کا استعمال اسی معنی میں ہے۔ والفجر ولیال عشروالشفع والوتر واللیل اذا یسر ھل فی ذالک وقسم لذی حجر ’’فجر‘ دس راتیں‘ جفت اور طاق اور رات جب چلنے پر ہو‘ ان باتوں میں صاحب عقل کے لیے قسم ہے‘‘۔ قسم کا لفظ یہاں صرف اسی معنی میں آیا ہے کہ خدانے پہلے چند چیزیں گنائیں پھر فرمایا کہ ان چیزوں میں صاحب عقل کے لیے قسم ہے ۔ یعنی یہ چیزیں عقل مند کے نزدیک خدا کے وجود اورقدرت کی شہادت دے رہی ہیں۔ خدا نے جا بجا مظاہر قدرت مثلاً آفتاب ‘ماہتاب‘ دریا‘ ہوا‘ بادل‘ چرند ‘ پرند کو آیت کے لفظ سے تعبیر کیاہے جس ے معنی نشانی کے ہیں یعنی یہ چیزیں خدا کی قدرت کی نشانیاں ہیں۔ ان فی خلق السموات والارض واختلاف اللیل والنھار والفلک التی تجری فی البحر بما ینمع الناس وما انزل اللہ من الماء من ماء فاحیی بہ الارض بعد موتھا وبث فیھا من کل دابۃ وتصریف الریاح واسحاب المسخربین السماء والارض لایات لقوم یعقلون (بقرہ ۔ ۲۰) ’’آسمان اور زمین کی پیدائش میں اور دن رات کے ادل بدل میں اور جہاز میں لوگوں کے فائدہ کی چیزوں کو لے کر دریا میں چلتے ہیں اور آسمان سے جو پانی اتارا ہے کہ جس سے مردہ زمین کو زندہ کر دیتا ہے اور تمام چارپائے جو پھیلا دیتے ہیں اس میں اور ہوائوں کے چلنے میں‘ اور بادل میں جو آسمان اور زمین کے بیچ میں مسخر ہے ۔ جاننے والوں کے لیے نشانیاں ہیں‘‘۔ اسی طرح قرآن میں نہایت کثرت سے تمام مظاہر قدرت کی نسبت نشانیوں کالفظ استعمال کیا گیا ہے۔ اب غور کرو یہی چیزیں جن کو اکثر موقعوں پر نشانیاں قرار دیا گیا ہے ان ہی چیزوں کی جابجا قسم کھائی ہے جس کے صاف معنی یہ ہیں کہ یہ چیزیں خدا کی قدرت کی گواہی دے رہی ہیں اور قسم کا صحیح استعمال یہی ہے۔ ایک بڑی غلطی اس وجہ سے پیدا ہوتی ہے کہ عربی زبان میں قسم کے قریب المعنی اور جو الفاظ ہیں ان میں لوگ امتیاز نہیں کرتے۔ عربی زبان میں اس قسم کے تین لفظ ہیں۔ قسم ‘ یمین ‘ حلف عام لوگ ان سب الفاط کو ہم معنی سمجھتے ہیں اور اس وجہ سے عظیم الشان غلطیاں پیدا ہوتی ہیں حالانکہ ان سب الفاظ کے مفہوم الگ الگ ہیں۔ قسم کے معنی تو وہی ہیں جو گزر چکے ہیں یعنی کسی واقعہ کی صحت کے لیے شہادت پیش کرنی قرآن میں جو قسمیںمذکور ہیں۔ سب کے یہی معنی ہیں کہ جن چیزوں کی قسم کھائی ہے۔ وہ خدا کے ثبوت پر اس کے عظمت و شان پر اس کی وسعت قدرت پر زبان حال سے گواہی دے رہی ہیں۔ چنانچہ سورہ فجر میں صاف تصریح ہے۔ ھل فی ذالک قسم لذی حجر یمین کے لفظی معنی ہاتھ کے ہیں یہ لفظ عموماً معاہدات کی توثیق کے لیے مستعمل ہوتا ہے۔ اورجس چیز پر یہ لفظ آتاہے اس کو ضامن دینا مقصود ہوتا ہے لغت کی کتابوں میں ہے۔ ان الیمین اصلھا ضرب الیمین من المتعاقدین ’’معاہدہ کرنے والے جو ہاتھ پر ہاتھ مارتے ہیں یہ لفظ اسی سے نکلا ہے‘‘۔ امراء القیس کہتا ہے۔ فقلت یمین اللہ برح قاحدا ولا قطعو ارسی لدیک و اوصالی ’’میں نے کہا خدا کا ذمہ کہ میں یہاں سے نہ ٹلوں گا گو یہ لوگ میرا سراور میرا منہ بند تیرے آگے کاٹ ڈالیں‘‘۔ یہ لفظ جب خدا کے ساتھ مستعمل ہوتا ہے تو قسم کے ہم معنی ہوتا ہے اس لیے یہ لفظ قرآن مجید خدا کی زبان سے کہیں نہیں مستعمل ہوا۔ حلف یہ لفظ دونوں پچھلے لفظوں سے زیادہ وسیع ہے لیکن اس کے مفہوم میں ذلت اور دنارت داخل ہے۔ اور اس کا استعمال بالکل اسی حیثیت سے ہوتا ہے جس طرح آج کل عوام قسم کھاتے ہیں۔ نابغہ ذیبائی ایک مشہور شاعر گزرا ہے اس کی نسبت لوگوں نے نعمان بن منذر سے کہہ دیا تھا کہ وہ آپ کی بیوی پر عاشق ہے بادشاہ سخت ناراض ہو گیا اور نابغہ کو سزا دینی چاہی‘ نابغہ کو خبر ہوئی تو متعدد قصیدے معذرت میں لکھے جن میں نہایت ذلیل اور عاجزانہ طریقہ سے اس جرام سے برات ظاہر کی اس قصیدہ کا ایک شعر ہے۔ حلفت فلم اترک لنفسک ربیہ ولیس وراء اللہ للمو مذہب ’’میں قسم کھا کر کہتا ہوں تاکہ تیرے دل میں کچھ شبہ نہ رہ جائے اور خدا سے بڑھ کر انسان کے لیے اور کیا ہے‘‘۔ اس شعر میں نابغہ نے حلفت کا لفظ استعمال کیا ہے اور اسی لیے وہ ذلیل الطبع اور پست ہمت شخص خیال کیا جاتا ہے ۔ اگر حلفت کی بجائے اقسمت کا لفظ ہوتا تو یہ بات نہ ہوتی۔ خدا نے قرآن مجید میں یہ لفظ اپنی نسبت کہیں نہیں استعمال کیا بلکہ حلاف کی ذلت بیان کی ہے چنانچہ فرمایا : ولا تطع کل حلاف مھین سورہ براۃ میں سات جگہ یہ لفظ آیا ہے لیکن ہرجگہ منافقوں کی زبان سے ہے۔ کیونکہ منافقین ہمیشہ اسی ذلیل طریقہ سے قسم کھاتے تھے۔ سورہ براۃ کے سوا اور جہاں یہ لفظ آیا ہے منافقین کی زبان سے آیا ہے۔ ٭٭٭ قضاو قدر اور قرآن مجید وہ مسائل جن کی گرہ فلسفہ اور مذہب دونوں میںسے ایک بھی نہیں کھول سکا ان میں سے ایک مسئلہ یہ بھی ہے فلسفہ کو مذہب پر تقدم کا دعویٰ ہے ۔ اس لیے ہم کو پہلے اس سے پوچھنا چاہیے کہ وہ اس عقدہ کو کہاں تک حل کر سکا لیکن پہلے مقدمات ذیل کو ذہن نشین کر لینا چاہیے۔ ۱۔ ہر چیز فطرت خدا یا قدرت نے جس کاص طرح سے پیدا کی ہے اس کے خلاف اس سے کوئی فعل سرزد نہیں ہو سکتا ۔ جماد حرکت نہیں کر سکتا‘ بناتات بات نہیں کر سکتے جانور فلسفہ و منطق نہیںسیکھ سکتے آدمی روح مجرد نہیں بن سکتا‘ انسان کے افراد کی بھی مختلف فطرتیں ہیں‘ جو شخص فطرتاً شریر ہے نیک نہیں ہو سکتا کودن ذہین نہیں بن سکا احمق عاقل نہیں کیا جا سکتا۔ شاید تم کو یہ خیا ل ہو کہ تعلیم و تربیت سے اکثر لوگوں کی حالتیں بدل جاتی ہیں شریر لڑکا نیک چلن ہو جاتا ہے۔ مسرف کفایت شعار بن جاتا ہے ۔ بدمزاج حلیم ہو جاتے ہیں لیکن یہ بھی ان کی فطرت ہی کا اثر ہے۔ یعنی ان کی فطرت ہی میں اصلاح اور ترقی کا مادہ ہوتا ہے‘ جس کی نسبت ے یہ مادہ ہوتا ہے اسی قدر وہ اصلاح پذیر ہو سکتے ہیں ۔ لیکن جن کی فطرت میں اصلاح کا مادہ نہیں یا اسے لیکن ایک خاس درجہ تک ہے وہ اصلاح پذیر نہیں ہو سکتے یا اس درجہ سے آگے نہیں بڑھ سکتے۔ ۲۔ جس چیز کو ہم ارادہ و اختیار کہتے ہیں یہ بھی مجبوری کی ایک صورت ہے فرض کرو ایک شخص فطرتاً نفس پرست ہے۔ اس کو یہ موقع ہاتھ آیا کہ تنہائی ہے ایک دل فریب صورت سامنے ہے اس کی طرف سے خود استدعا ہے اس حالت میں یہ شخص اگر بدی کا ارادہ رکھتا ہے تو یہ ارادہ اس کے اختیار کی چیز نہیں۔ عام طور پر لو گ کہا کرتے ہیں کہ خواہش اور ارادہ ہماری اختیاری باتیں ہیں لیکن یہ ایک دقیق غلطی ہے کسی کام کی خواہش کے جب اسباب جمع ہو جائیں تو ممکن نہیںکہ خواہش پیدا نہ ہو۔ اس لیے خواہش خود بھی ایک مجبوری کی بات ہے ہمارا کسی چیز کو اختیار کرنا بھی دراصل ہمارے اختیار میں نہیں۔ جو شخص کسی کام پر مجبور ہے یعنی وہ فعل اس سے مجبوراً سرزد ہوتا ہے۔ اس کی نسبت اس پر کچھ الزام عائد نہیں کیا جا سکتا کسی شخص کے ہاتھ میں اگر رعشہ ہو اور وہ لکھ نہ سکے تو کوئی شخص اس کو لکھنے پر ملامت نہیں کر سکتا۔ ان مقدمات کے ثابت ہونے کے بعد اب فلسفہ سے پوچھنا چاہیے کہ انسان مختار ہے یا مجبور یا دوسرے لفظوں میں یوں کہو کہ انسان جو نیکی یا بدی کرتا ہے تو یہ اس کااختیاری فعل ہے یا اضطراری؟ اگر انسان خود مختار ہے تو مذکرہ بالا مقدمات کا جن سے قطعاً ثابت ہوتا ہے کہ انسان کا کوئی فعل اختیار ی نہیں۔ کیا جواب ہے ارو اگر مجبور ہے تو پھر کسی شخص کو کسی قسم کا الزام کیونکر دیا جا سکتا ہے۔ بدچلن‘ شریر ‘ دنی الطبع‘ مفسدہ انگیز اشخاص کو ہم کس بنا پر برا کہہ سکتے ہیں۔ مذہب میں ہمیشہ دو فرقے ہوتے چلے آئے ہیں جبریہ ‘ قدریہ‘ عام خیال یہ ہے ‘ کہ یہ الفاظ اسلام نے پیدا کیے ہیں ۔ آج کل یورپین قومیں مسلمانوں کے تنزل کی بڑی وجہ یہ بتاتی ہیںکہ اسلام جبریہ عقیدہ کی تعلیم دیتا ہے۔ اسی بناپر مسلمانوں کی زبان رپ یہ الفاظ چڑھے ہوئے ہیں جو کچھ کرتا ہے خدا کرتا ہے۔ قسمت میں یہی لکھا تھا۔ نوشتہ تقدیر کو کون مٹا سکتا ہے؟ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں پر جو آفتیں آتی ہیں بجائے اس کے کہ وہ مستعد ہو کر اس کا مقابلہ کریں یہ کہہ کر رہ جاتے ہیں کہ تقدیر کا مقابلہ کون کر سکتا ہے۔ لیکن یہ ایک تاریخی غلطی ہے جس طرح اسلام میںقدریہ و جبریہ دو فرقے ہیں تما م مذاہب میں بھی ہمیشہ سے یہ دونوں فرقے موجود تھے ۔ اور جس طرھ مسلمان تقدیر کے قائل ہیں عیسائیوں میں بھی بڑے بڑے پیشوایان مذہب اس کے قائل رہتے آئے ہیں ۔ عیسائیوں میں یہ فرقے لو ‘ لولا اور ڈومینک کے نام سے موسوم تھے ۔ اور ان دونوںمیں باہم سخت اختلاف ارو نزع تھی۔ سنہ ۱۴۹۰ء سے لے کر سترھویں صدی کے اخیر تک دونوں فرقوں میں سخت لڑائیاں رہیں ۔ اور گو پوپ نے ا کی رو ک کے لیے بہت سے احکام صارد کیے۔ لیکن ان کا کچھ اثر بھی نہ ہوا۔ اخیر زمانہ میں بینس اور مولن میں جو اپنے اپنے فرقہ کے پیشوا تھے بڑی معرکہ آرائیاں ہوئیں۔ بینس سولویں صدی عیسوی میںتھا۔ اور علم کلام کا درس دیتاتھا ۔ اس نے ہیکل کے سامنے کھڑے ہو کر مولن کی کتاب کو مردود قرار دیا۔ اور ثابت کیا کہ یہ کتاب دراصل بیلاگ کے خیالات سے ماخوذ ہے۔ جو پانچویں صدی عیسوی میں تھا۔ اور جس کا یہ مذہب تھا کہ حضرت آدمؑ نے جو گناہ کیا وہ پہلے سے قضائے الٰہی میں تھا۔ اور اسی لیے وہ خود اس گناہ کے ذمہ دار تھے۔ مولن نے اس کے مقابلہ میں ثابت کیا کہ بینس ردحقیقت گلفن کا پیرو ہے۔ جس نے سولہویں صدی عیسوی میں پراٹسٹنٹ مذہب کی بنیاد قائم کی تھی۔ بالآخر یہ جھگڑے پوپ کے سامنے پیش کیے گئے لیکن پوپ کوئی فیصلہ نہ کر سکا۔ کلیمن ہشتم سے لے کر پولس پنجم تک یہ مقدمہ یوں ہی پڑا رہا اسپین کے سفیر نے ڈومینک فرقہ کی سفارش بھی کی لیکن پولس نے کچھ فیصلہ نہ کیا۔ اوریہ اجازت دی کہ دونوں فرقے آزادی سے اپنے اپنے خیالات شائع کریں۔ بینس بالکل جبر کا قائل تھا۔ وہ کہا کرتا تھا کہ خدا براہ راست تمام چیزوں کی علت ہے۔ اور جو کچھ ہوتا ہے اس کے حکم سے ہوتا ہے۔ لیکن چونکہ اس سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا تھا کہ انسان مٰں ایک قوت اختیاری پائی جاتی ہے۔ اس لیے بینس کے جانشینوں نے یہ قرار دیا کہ خدا انسان میں ارادہ پیدا کرتا ہے اور ارادہ خود مختار ہے۔ اس لیے انسان اپنے ارادہ میں بالکل آزاد ہے۔ بالآخر ایک تیسرا مذہب ایجاد ہوا یعنی یہ کہ خدا بھی فاعل مختار ہے۔ اور انسان بھی اس مذہب کا مدون بوسویہ تھا۔ اب تک اس مسئلہ کے متعلق صرف دو لفظ استعمال کیے جاتے ھتے تقدیر اور اختیار بوسویہ نے تیسرا لفظ معلق ایجاد کیا۔ بوسویہ نے اسس مسئلہ پر ایک مفصل کتاب لکھی جس میں اس نے انسان کا خود مختار ہونا ثابت کیا۔ ہو کہتا ہے کہ ایک سچی بات دوسری سچی بات کو مٹا نہیں کستی انسان کو بھی اپنے افعال کا اختیار حاصل ہے۔ بے شبہ ان دونوں باتوں میں تناقض نظر آتاہے لیکن اس میں عقل کو دخل نہیں دینا چاہیے کیونکہ یہ مسئلہ عقل انسانی کی حد سے باہر ہے۔ اس سلسلہ میں دونوں سرے ہاتھ میں لینے چاہئیں۔ لیکن جو کڑی ان دونوں سروں کو باہم ملاتی ہے۔ وہ ہماری سمجھ سے باہر ہے۱؎۔ (دیکھو رسالہ الاسلام مصنفہ پرفیسر ہنری دی کاسری فرانسیسی‘ مترجمہ زبان عربی مطبوعہ مصر فصل پنجم از صفحہ ۷۹ تا ۹۱) اسلام میں نہایت ابتدائی زمانہ سے یہ بحث شروع ہو گئی تھی کہ اگرچہ اس کی اصلی وجہ یہ تھی کہ قرآن مجید میں اس کے متعلق بظاہر دونوں قسم کی آیتیں آئی ہیں۔ لیکن اس کی طرف خیال رجوع ہونے کا سبب یہ ہوا کہ بنو امیہ کے زمانہ میں جو ظلم اور تعدی جاری تھی اہل عرب اپنی فطری آزادی کی وجہ سے اس پر اعتراض کرتے تھے اس کے جواب میں بنو امیہ کے طرف دار کہتے تھے کہ دنیا میں جو کچھ ہوتا ہے۔ خدا کی مرضٰ سے ہوتا ہے۔ اسی لیے کسی کو دم نہیں ہارناچاہیے۔ معبد جہنی نے حضرت حسن بصری سے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱؎ امام رازی نے مطالب عالیہ میںبالکل یہی تقریر کی ہے لیکن امام صاحب بوسویہ سے پہلے تھے اس لیے اس کو توارد سمجھنا چاہیے۔ اور اگر سرقہ ہو تو بوسویہ اس جرم کا مجرم ہو گا نہ امام رازی۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پوچھا کہ کیا بنو امیہ کا یہ عذر صحیح ہے انہوں نے کہا کہ یہ خدا کے دشمن جھوٹ کہتے ہیں ۱؎ ۔ معبد نے اس کے بعد اعلانیہ بغاوت کا علم بلند کیا اور جان سے مارا گیا۔ یہ پہلا دن تھا کہ اس مسئلہ کا اعلان ہوا۔ چوتھی صدی کے آغاز میں امام ابو الحسن اشعری نے جبروقدر کے درمیان میںایک تیسرا طریقہ ایجاد کیا ۔ اور اس کا نام کسب رکھا۔ یعنی یہ کہ انسان اپنے افعال کا کاسب ہے۔ فاعل نہیں۔ انسان کو اپنے فعال پر قدرت حاصل ہے لیکن یہ قدرت کچھ اثر نہیں رکھتی۔ قدرت کو تسلیم کرنا اور پھر یہ کہنا کہ قدرت کا کچھ اثر نہیں گویا یہ کہنا ہے کہ ایک چیز ہے اور پھر نہیںہے۔ اسی بنا پر یہ فقرہ مہور ہے کہ تین چیزیں علم لام کے عجائبات میں سے ہینَ ان میںسے ایک اما م اشعری کا کسب ہے اسی بنا پر امام الحرمین نے اس مذہب سے بالکل انکار کیا ہے۔ چنانچہ اس کی تفصیل ابن القیم کی کتاب شفا العلیل میں مذکور ہے۔ قرآن مجید میں اس مسئلہ کے متعلق دونوں قسم کی آئتیں آئی ہیں۔ امام ابوالھسن اشعری اور ان کے پیرو جن آئیتوں سے استدلال کرتے ہیں ھسب ذیل ہیں: جن آیتوں سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ انسان کو کچھ اختیار نہیں: لیس لک من او مرشئی تجھ کو کام میں کچھ اختیار نہیں۔ قل کل من عنداللہ کہہ دو کہ سب خدا کی طرف سے ہے۔ وما تشائون الا ان یشاء اللہ اورتم کسی بات کی خواہش نہیں کر سکتے جب تک خدا نہ چاہے۔ واللہ خلقکم وما تعملون اور خدا نے تم کو بھی پیدا کیا ہے اور تمہارے اعمال کو بھی۔ اللہ خالق کل شئی خدا ہی ہر چیز کا پیدا کرنے والا ہے۔ وان تصبھم حسنۃ یقولوا ھذہ من عند اللہ وان تصبھم سیۃ یقولو ا ھذہ من عندک ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱؎ مقریزی ج دوم ص ۳۵۶ مطبوعہ مصر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور ان کو کچھ بھلائی پہنچتی ہے تو کہتے ہیں کہ ی خدا کی طرف ہے اور برائی پہنچتی ہے تو کہتے ہیں کہ یہ تیری طرف سے ہے۔ قل کل من عنداللہ کہہ دے کہ یہ سب خدا کی طرف سے ہے۔ جن آیتوں سے ثابت ہوتا ہے کہ خدا ہی لوگوں کو گمراہ کرتا ہے اور ان کو برائی سے نکالتا ہے۔ یضل بہ کثیرا و یھدی بہ کثیرا خدا اس سے بہتوں کو گمراہ کرتاہے اور بہتوں کو ہدایت دیتا ہے۔ ویضل اللہ الظالمین اور خدا ظالموں کو گمراہ کرتا ہے۔ کذالک یضل اللہ من ہو مسرف مرتاب اسی طرح خدا اس شخص کو گمراہ کرتا ہے جو حد سے بڑھ جاتا ہے اور شکی ہوتا ہے۔ واذا ارونا ان نھلک قریۃ امرنا مترفیھا ففسقوا فیھا اور جب ہم کسی گائوں کو خراب کرنا چاہتے ہیں تو وہاں کے دولت مندوں کو حکم دیتے ہیں تب وہ گناہ کرتے ہیں۔ جن آئتوں سے ثابت ہوتا ہے کہ خدا کافروں اور فاسقوں کو ہدایت نہیںکرنا چاہتا یا ان کو ہدایت نہیںکرتا۔ اللہ لا یھدی القوم الکافرین خدا کافروں کو ہدایت نہیںکرتا۔ اللہ لا یھدی القوم الفاسقین خدا فاسقوں کو ہدایت نہیں کرتا۔ واللہ لا یھدی القوم الکافرین اور خدا کافروں کو ہدایت نہیںکرتا۔ ان اللہ لا یھدی القوم الظالمین بے شبہ خد ا ظالموں کو ہدایت نہیں کرتا۔ اس مضمون کی آئتیں نہایت کثرت سے ہیں۔ وہ آئتیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ خدا نے کافروں کو ایمان نہ لانے پر مجبور کر دیا ہے۔ ختم اللہ علی قلوبھم سمعھم وعلی ابصارھم غشاوۃ خدا نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگا دی ہے اور ان کی آنکھ پر پردہ ہے۔ وجعلنا قلوبھم قاسیۃ ونطبع علی قلوبھم فھم لا یسمعون وار ہم نے ان کے دلوں کو سخت بنا دیا اوران کے دلوں پر مہر کر دیتے ہیں اس لیے وہ نہیں سمجھتے ۔ کذالک یطبع اللہ علی قلوب الکافرین اسی طرح خدا کافروں کے دل پر مہر کر دیتا ہے۔ فطبع اللہ علی قلوبھم فھم لا یفقھون تو خدا نے ان کے دلوں پر مہر کر دی اس لیے وہ نہیں سمجھتے ۔ وطبع اللہ علی قلوبھم لا یعلمون اور خدا نے ان کے دلوںپر مہر کر دی اس لیے وہ نہیںجانتے۔ اولئک الذین طبع اللہ علی قلوبھم وسمعھم و ابصارھم یہ وہ لوگ ہیں کہ خدا نے ان کے دلوںپر کانوں پر اور آنکھوں پر مہر کر دی۔ اس مضمون کی اور بہت سی آئتیں ہیں۔ وہ آئتیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ خدا اگر چاہتا تو سب کو ہدایت کرتا لیکن اس نے یہ چاہا ہی نہیں۔ ولا شاء اللہ لجمعھم علی الھدی اگر خدا چاہتا تو ان سب کو ہدایت پر متفق کر دیتا۔ ولو شئنا لا یتنا کل نفس ھدھا اور اگر ہم چاہتے تو ہر شخص کو ہدایت دیتے۔ ولکن حق القول منی لا ملان جھنم من الجنۃ والناس اجمعین لیکن ہماری یہ بات طے ہو گئی ہے کہ ہم دوزخ کو آدمیوں اورجنوں سے بھریں گے۔ ولا شاء ربک لا من من فی الارض کلھم جمیعا اور اگر تیرا خدا چاہتا تو دنیا میں جس قدر آدمی ہیں سب ایمان لاتے۔ ولقد ذرانا لجھنم کثیرا من الجن والانس اور ہم نے بہت سے آدمی اور جن دوزخ کے لیے پیدا کیے۔ وہ آیتیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ خدا ہی نے شیاطین اور بدکاروں کو اس کام پر مقرر کیا ہے کہ وہ لوگوں کو گمرا ہ کریں۔ الم ترانا ارسلنا الشطین علی الکفرین تو نھم اذا تو نے یہ نہیں دیکھا کہ ہم نے شیطانوں کو کافروں پر مقرر کیا ہے؟ وجعلنا ھم ائمۃ یدعون الی النار اور ہم نے ان کو پیشوا بنایا ہے کہ لوگوں کوآگ (دوزخ ) کی طرف بلائیں۔ آیات مزکورہ بالا کے مقابلہ میں حسب ذیل آئتوں سے ثابت ہوتاہے کہ خدا کسی کو گمراہ نہیںکرتا گمراہ کرنا شیطان کا کام ہے انسان اپنے افعال کا آپ ذمہ دار ہے۔ یرید الشیطین ان یضلھم ضلالا بعیدا شیطان چاہتا یہ کہ ان کو بہت زیادہ گمراہ کر دے۔ من ضل فانما یضل علیھا جو شخص گمراہ ہوتا ہے تو اپنے کیے سے ہوتا ہے۔ ولقد اضل منکم جبلا کثیرا فلم تکونو تعقلون شیطان نے تم میںسے اکثروں کو گمراہ کیا تو کیا تم کو عقل نہ تھی۔ ان اللہ لا یظلم الناس شیئا ولکن الناس انفسھم یظلمون خدا لوگوں پر مطلق ظلم نہیں کرتا لیکن لوگ خود اپنے اوپر ظلم کرتے ہیں۔ لھا ما کسبت وعلیھا ما اکتسبت انسان کو جو کچھ نفع و ضرر پہنچتا ہے اپنے فعل کی بدولت پہنچتا ہے۔ اولما اصابتکم مصیبۃ قد اصبتم مثلیھا قلتم انی ھذا قل ہومن عند انفسکم ما اصابک من حسنۃ فمن اللہ ما اصابک من سییئۃ فمن نفسک کیا جب تم پر کوئی ایسی ہی مصیبت آتی ہے جیسے پہلے بھی آ چکی ہے تو تم کہتے ہو کہ یہ کہاں سے آئی ہے اور کہہ دو یہ تمہاری ذات سے ہے۔ ت کو جو بھلائی پہنچتی ہے وہ خدا کی طرف سے ہے۔ اور جو برائی پہنچتی ہے وہ تیر ے نفس کی وجہ سے ۔ ان اللہ لا یغین ما القوم حتی یغیر و اما بالنفسھم خدا کسی قوم کی حالت نہیںبدلتا جب تک کہ وہ خود اپنی حالت نہ بدلے۔ ما اصابکم من مصیبۃ فمھا کسبت ایدیکم تم پر جومصیبت آتی ہے تو تمہارے کیے کی وجہ سے آتی ہے۔ ظھر الفساد فی البر والبحر بما کسبت ایدی الناس خشکی اور تری میںفساد پھیل گیا لوگوں کے کرتوت کی وجہ سے۔ ولا یرضی بعبادہ الکفر اور خدا اپنے بندوں کے لیے کفر کو پسند نہیں کرتا۔ ان اللہ لایامربا لفحشاء خدا بری بات کا حکم نہیں دیتا۔ وقال الذین اشرکو الوشاء اللہ اور مشرکین کہتے ہیں کہ اگر خدا چاہتا تو ہم خدا کے سوا اورکسی کی عبادت نہ کرتے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بری بات کاحکم نہیںدیتا۔ دوسری آیت میں ہے کہ جب ہم کسی مقام کو برباد کرنا چاہتے ہیں تو وہاںکیدولت مندوں کو حکم دیتے ہیں کہ وہ گناہ کریں۔ ایک آیت میں ہے کہ جو مصیبت آتی ہے تمہاری وجہ سے آتی ہے ۔ دوسری آیت میں ہے کہ یہ نہ کہو بلکہ سب خدا کی طرف سے ہے ۔ ان آئتوں پر اچھی طرح غور نہ کرنے سے جبریہ و قدریہ دو فرقے پیدا کر دیے۔ اشاعرہ نے دونوں ڈانڈوں کو ملانا چاہا لیکن نتیجہ یہ ہوا کہ تیسرا طریقہ جو انہوں نے اختیار کیا وہ دونوں سے بدتر تھا۔ اسی بنا پر امام رازی نے صاف صاف جبر کا طریقہ اختیار کیا۔ چنانچہ تفسیر کبیر میں ان تمام آئتوں کی تاویل ہے جس سے انسان کا خود مختار ہونا ثابت ہوتا ہے۔ ایک نکتہ یہاں خاص طور پر یاد رکھنے کے قابل ہے تم نے دیکھ لیا کہ آیتیں دونوں قسم کی موجود ہیں ار ہر قسم کی آیت اپنے مفہو م پر گویا نص قطعی ہے۔ اس لیے اگر صرف نصوص قرآنی پر نظر ہو تو جبروقدر ‘ دونوں مذہب میں سے جیسا چاہے انسان اختیار کر سکتا ہے بلکہ سچ یہ ہے کہ دونوں قسم کی آیتیں بظاہر اس قدر مساوی الدرجہ ہیں کہ انسان کسی پہلو کو چھوڑ نہیں سکتا۔ باوجود اس کے کہ دو مخالف گروہ پیدا ہوء اور دونوں اپنے فریق مخالف کو کافر قرار دیا اس کی کیا وجہ ہو سکتی ہے؟ یہ دراصل اس اختلاف طبائع کا اثر ہے جو انسان کے مختلف افراد میں پایا جاتا ہے بعض آدمی بالطبع کاہل‘ پست ہمت ‘ ضعیف الارادہ ہوتے ہیں۔ اس لیے ان کا میلان طبع وہ سہارے ڈھونڈتا ہے جن سے انسان کا مجبور اور لاچار ہونا ثابت ہو بخلاف اس کے جو اشخاص فطرۃ عالی حوصلہ‘ بلند ہمت ‘ راسخ العزم ‘ قوی الارادہ ہوتے ہیں ان کی نگاہیں ان باتوں پر پڑتی ہیں جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ انسان تمام دنیا کا حکمران ہے اوراپنے عزم اور ارادہ سے چاہے تو تمام عالم کے مرقعہ کو دفعتہ الٹ پلٹ کر دے۔ سب سے پہلے اس پر غور کرنا چاہیے کہ قرآ ن مجید کی مختلف آیتوں میں بظاہر جو تعارض معلوم ہوتا ہے اس کی کیا حقیقت ہے۔ (۱) قرآن مجید میں جہاں جہاں خدا کی مشیت کا حکم یا اور ارادہ کا ذکر ہے اس کی دو قسمیں ہیں فطری اور شرعی‘ خدا نے جن چیزوں کی جو فطرت بنائی ہے اس کو بھی حکم اور ارادہ کے لفظ سے تعبیر کیا ہے۔ انما امرہ اذا ارادشئیا ان یقول لہ کن فیکون ’’اس کا حال یہ ہے کہ جب کسی چیز کا ارادہ ہوتا ہے تو اس سے کہتا ہے کہ ہو جا اور وہ ہو جاتی ہے‘‘۔ یہ ظاہر ہے کہ خلقت اشیاء کے وقت خدا یہ لفظ بولا نہیںکرتا۔ وکان امر اللہ مفعولا ’’اور خدا کا حکم ہو کر رہتا ہے‘‘۔ یہ وہی فطری حکم ہے جو خواہ مخواہ ہو کر رہتا ہے ورنہ خدا کے شرعی احکام تو اکثر لوگ بجا نہیں لاتے اور اس کی تعمیل کا واقع ہونا ضرور نہیں۔ واذ ااردنا ان نھلک قریۃ امرنا مترفیھا ففسقوا فیھا ’’جب ہم کسی گائوں کو برباد کرنا چاہتے ہیں تو وہاں کے لوگوں کو حکم دیتے ہیں کہ وہ فسق کریں‘‘۔ یہ وہی فطری حکم ہے‘ یعنی جب کوئی مقام تباہ ہو تا ہے تو وہاں کے لوگوں کی طبیعتوں میں بدکاری کا مادہ پیدا کیا جاتا ہے‘ اس لیے وہ گناہ کے مرتکب ہوتے ہیں‘ اور اسی کا نتیجہ تباہی ہوتا ہے۔ انا ارسلنا الشیطن علی الکافرین توزھم ازا ’’ہم نے شیطانوں کو کافروں پر مقرر کیا ہے کہ وہ ان کو برانگیختہ کریں‘‘۔ یہاں بھی یہ مراد نہیںہے کہ خدا شیطانوں کو حکم دیتا ہے کہ جائو اور کافروں کو گناہ کی ترغیب دو‘ بلکہ یہ مقصود ہے ہ خدا نے کافروں کی فطرت ایسی بنائی ہے کہ ان میں برائی کا مادہ شروع ہی سے موجود ہوتا ہے۔ ایک آیت میں ہے کہ ’’خدا نے آسمان اور زمین سے کہا کہ خوشی اور زبردستی جس طرح سے ہو حاضر ہو‘ دونوںنے کہا ک ہم خوشی سے حاضر ہیں یہ بھی اسی فطری حالت کا بیان ہے ۔ یعنی آسمان اور زمین کی فطرت ایسی بنائی گئی ہے کہ ان سے وہی حرکات سرزد ہوتی ہیں جو ان کی فطرت کا اقتضا ہے۔ محدث ابن القیم نے اپنی کتاب شفاء العلیل (مطبوعہ مصر صفحہ ۲۸۰) میں ایک خاص باب باندھا ہے جس کی سرخی یہ ہے ۔ الباب التاسع والعشرون فی انقسام القضاء والحکم ولاارادۃ والکتابۃ والامرو الاذن والجعل والکمات والبعث والا رنسال والتحریم والانشاء الی کوفی متعلق بخلفۃ والیٰ دینی متعلق بامرہ ’’انتیسواں باب اس بیان میں کہ خدا کا فیصلہ‘ حکم‘ ارادہ‘ کتابت‘امر ‘ اجازت ‘ کسی چیز کو مقرر کرنا‘ بات کرنا‘ سمجھنا‘ حرام کرنا‘ پیدا کرنا ان سب کی دو قسمیں ہیں‘ ایک کوفی (فطری) جو فطرت ہے اور دوسری شرعی جو احکام کے متعلق ہے‘‘۔ محدث موصوف نے اس بات میں قرآن مجید کی ان تمام آیتوں کا استقصاء کی اہے جن میں یہ الفاظ (ارادہ حکم وغیرہ) فطرت اور اصل خلقت کے معنی میں آئے ہیں چنانچہ ہم نے جو آیتیں اوپر نقل کیں بجز آخیر آیت کے باقی تمام محدث موصوف نے بھی نقل کی ہیں‘ اور بتایا ہے۔ کہ ان سے صرف فطری اور خلقی حالت مراد ہے۔ جن آیتوں میں یہ مذکور ہے کہ خدا بدکاروں کو برائی کا حکم دیتا ہے اس سے فطری حالت مراد ہے اور جن آیتوں میں یہ مضمون ہے کہ خدا کسی شخص کو برائی کا حک نہیں دیتا اس سے شرعی حکم مراد ہے‘ اس بناء پر ان دونوں آیتوں میں کسی طرح کا تعارض نہیں باقی یہ امر کہ خدا نے ایسی فطرت کیوں بنائی جس سے برائی سرزد ہو اس کا جواب آگے آئے گا۔ (۲) خدا نے تمام عالم میں علۃ و معلول کا سلسلہ قائم کیا ہے۔ اشاعرہ گو اس اصول کے منکر ہیں۔ لیکن ان کے سوا تمام حنفیہ اور محدثین وغیرہ اسی کے قائل ہیں‘ محدث ابن القیم نے شفا العلیل میں اس مضمون کو نہایت تفصیل سے لکھا ہے اور ثابت کیا ہے کہ اس سلسلہ کا انکار کرنا بداہت اور شریعت دونوں کا انکار کرنا ہے چنانچہ لکھتے ہیں۔ فانکارالاسباب والقوی والطبائع حجد للضروریات وقدح فی العقول والفطر ومکابرۃ للحس وحجد للشرح ’’تو سلسلہ اسباب اور اشیاء کی طبیعت کا انکار کرنا بداہت کا انکار ہے‘ اور عقل اور فطرت پر اعتراض کرنا اور محسوسات اور شریعت کا انکار کرنا ہے‘‘۔ ذرا آگے چل کر لکھتے ہیں: بل الموجودات کلھا اسباب و مسببات والشرع کلہ اسباب و مسببات والقرآن مملوء من اثبات الاسباب ’’بلکہ تمام موجودات اسباب اورمسببات ہیں‘ اور شریعت تمام تر اسبا ب اور مسبباب ہیں اور قرآن اسباب کے اثبات سے بھرا ہوا ہے‘‘۔ پھر آگے چل کر لکھتے ہیں: ولو تتبعنا ما یضید اثبات الاسباب من القرآن والسنۃ لزاد علی عشرۃ الاف موضع ولم نقل ذلک مبالغۃ بل حقیقۃ و یکفی الحسن و العقل والنظر؎۱ ’’اور اگر ہم ان تصریھات کا تفحص کریں جن سے قرآن مجید اور حدیث سے سلسلہ اسباب کا ثبوت ہوتا ہے ‘ تو دس ہزار سے زیادہ تصریحات نکلیں گی اور ہم نے یہ بات مبالغتہً نہیں کہی بلکہ واقعی کہی اور جس اور عقل اور نظر کی گواہی کافی ہے‘‘۔ لیکن یہ تمام سلسلہ اسباب خود قائم نہیں ہو گیا۔ بلکہ خدا نے قائم کیا ہے۔ اب ان متعارض آیتوں پر لحاظ کرو جن میں انسان کے افعال کو کہیں خود انسان کی طرف منسوب کیا ہے اور کہیں یہ کہا ہے کہ سب خدا کے افعال ہیں انسان کی طرف افعال کا منسوب کرنا اسی سلسلہ اسباب کے لحاظ سے ہے ‘ انسان میں خدا نے ارادہ اور خواہش کی قوت پیدا کی ہے یہ خواہش انسان کو کام کرنے پر آمادہ کرتی ہے اور اس کام کا سبب ہوتی ہے۔ لیکن چونکہ یہ تمام سلسلہ اسباب خود خدا کا قائم کیا ہوا ہے اس لیے یہ کہنا بھی صحیح ہے کہ افعال انسانی کی علت خدا ہی ہے۔اسی بنا پر قرآن مجید میں کہا ہے: لا تشاون الا ان یشاء اللہ ’’تم کسی چیز کی خواہش تو نہیںکر سکتے جب تک کہ خدا نہ چاہے‘‘۔ اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ اگر خدا نے انسان کی فطرت میں خواہش کی قوت نہ رکھی ہوتی اور خدا انسان کا صاحب ارادہ ہونا چاہتاتو انسان میں خواہش کا مادہ ہی نہ ہوتا‘ اس بنا پر یہ کہنا بالکل صحیح ہے کہ خدا نہ چاہتا تو انسان کسی چیز کو چاہ بھی نہیں سکتا۔ ان دونوں پہلوئوں کی تصریح کرنے کی ضرورت یہ تھی کہ اسلام سے پہلے افعال انسانی کی نسبت دو خیال تھے ایک یہ کہ خدا کوئی چیز نہیں۔ انسان کود بخود سلسلہ فطرت کے اقتضا سے پیدا ہوا ہے۔ اور ہر قسم کی قوتیں خود بخود اس کے ساتھ پیدا ہوئیں ان ہی قوتوں کی بنا پر اس سے افعال صادر ہوتے ہیں۔ اور ان کا وہ خود خالق ہے۔ اس کے مقابل میں دوسرا سرقہ تھا جس کا مذہب یہ تھا کہ انسان مجبور محض ہے‘ وہ خود کچھ نہیں کر تا اور نہ کر سکتا ہے بلکہ اس سے خدا کراتا ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱؎ شفا الیلل ص ۱۸۸ ‘ ۱۸۹ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسلا م نے ان دونوں خیالوں کو غلط ثابت کرنا چاہا اس لیے ضروری تھا کہ جہاں وہ یہ بتائے کہ انسان اپنے افعال کا خالق ہے ‘ اور اپنے ہر فعل کا ذمہ دار ہے ساتھ ہی یہ بھی بتائے کہ انسان خود بخود نہیںپیدا ہوا بلکہ اس کو ‘ اور اس میں جس قدر قوتیں موجود ہیں‘ سب خدا نے پیدا کیں‘ اس بناء پر یہ کہنا صحیح ہے کہ۔ کل من عنداللہ ’’یعنی سب خدا کی طر ف سے ہے‘‘۔ (۳) انسانوں کی فطرت خدا نے مختلف طور سے پیدا کی ہے۔ بعض فطرۃ شریر‘ بدکار‘ ضدی اور گردن کش ہوتے ہیں۔ اس فطرت کو قرآن مجید میں ان الفاظ میں بیان کیا ہے کہ خدا نے ان کے دلوں پر مہر کر دی ہے ان کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا ہے۔ ان کے آگے پیچھے دیواریں کھڑی کر دی ہیں وہ اندھے بہرے اور گونگے ہیں۔ بعض کی فطرت اس طرح بنائی ہے کہ ابتدا میں اگر وہ برائی سے بچنا چاہیں تو بچ جائیں لیکن جب وہ احتیاط نہیں کرتے اوراپنے آ پ کو بری صحبتوں میں ڈال دیتے ہیں تو برائی کا مادہ جڑ پکڑ جاتا ہے اور رفتہ رفتہ وہ پکے شریر اور بدکار بن جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ اب اگر وہ برائی سے اپنے آپ کو روکنا بھی چاہیں تو روک نہیں سکتے‘ اس قسم کی فطرت کو قرآن مجید میں ان الفاظ سے تعبیر کیا ہے: فی قلوبھم مرض فزادھم اللہ مرضا ’’ان کے دل میں بیماری تھی تو خدا نے ان کی بیماری کو اور بڑھا دیا‘‘۔ فلما زاغوا ازاغ اللہ قلوبھم ’’تو جب وہ ٹیڑھے ہوئے تو خدا نے بھی ان کو ٹیڑھا کر دیا‘‘۔ بل ران علی قلوبھم ما کانوا یکسبون ’’بلکہ جو کچھ انہوں نے کیا تھا وہ ان کے دل پر چھا گیا‘‘۔ بل طبع اللہ علیھا بکفرھم ’’بلکہ خدا نے ان کے کفر کی وجہ سے ان کے دل پر مہر کر دی‘‘۔ نیکی کی طرف کا بھی یہی حال ہے یعی بعض فطرۃ نیک اور ہمہ تن ہوتے ہیں بعض میں نیکی کا معمولی مادہ ہوتا ہے لیکن اچھی صحبت اور تعلیم و تربیت سے ترقی کرتا ہے‘ اس دوسری فطرت کو قرآن مجید میں اس طرح تعبیر کیا ہے۔ والذین اھتدواذادھم ھدی ’’اور جو لوگ ہدایت پر چلتے ہیں تو خدا ان کی ہدایت کو اور بڑھا دیتا ہے‘‘۔ قولو قولا سدیدا یصلح لکم اعمالکم ’’تم ٹھیک بات کہو تو خداتمہارے کام کو ٹھیک کر دے گا‘‘۔ (۴) خدا نے تمام اشیاء کو خاص خاص فطرت پر پیدا کیا ہے اور کوئی چیز اپنی فطرت سے بدل نہیں سکتی یعنی جس چیز کی جو فطرت ہے ضرور اس کے ظہور میں آئے گی۔ اس کو قرآن مجید میں مختلف طریقوں سے بیان کیا ہے: لا تبدیل لخلق اللہ ’’خدا کی خلقت میں تبدیلی نہیں۔‘‘ ماتری فی خلق الرحمن من تفاوت ’’تو خدا کی خلقت میں ناہمواری نہ دیکھے گا‘‘۔ ربنا الذی اعطیٰ کل شئی خلقہ ثم ھدی ’’ہمارا خدا وہ ہے جس نے ہر شے کو پیدا کیا پھر اس کو راستہ دکھایا‘‘۔ لن تجد لسنۃ اللہ تحویلا ’’تو خدا کے طریقہ اور عادت میں ادل بدل نہ پائے گا‘‘۔ لمن تجد لسنۃ اللہ تبدیلا ’’تو خدا کے طریقہ اور عادت میں تبدیلی نہ پائے گا‘‘۔ انا کل شئی خلقناہ بقدر ’’ہم نے ہر چیز کو ایک اندازہ خاص سے پیدا کیا۔ قرآن مجید میں جا بجا یہ جو بیان کیا ہے کہ اگر ہم چاہتے تو ہر شخص کو ہدایت دے دیتے ہم چاہتے تو تمام دنیا کا ایک ہی مذہب ہوتا۔ اس سے یہ مطلب نہیںکہ موجودہ فطرت کے ساتھ ہر شخص ہدایت پا سکتا۔ اور تمام دنیا کا ایک مذہب ہو جاتا۔ کیونکہ آیات مذکورہ بالا سے ثابت ہوا کہ خدانے جس چیز کی جو فطرت بنا دی ہے۔ اس کے خلاف نہیں ہو سکتا۔ اس لیے موجودہ حالت میں انسانی فطرت کا جو اقتضا ہے یعنی مختلف العقیدہ اور مختلف الافعال ہونا یہ بدل نہیںسکتا۔ بلکہ مطلب یہ ہے کہ ہم اگر چاہتے تو انسانوں کی جو فطرت ہے ا س کے خلاف دوسری فطرت پر اس کو بناتے اور اس حالت میں سب کا ایک مذہب پر ہونا ممکن تھا۔ غرض قرآن مجید میں یہ مسئلہ قطعی طور پر بیان کیا گیا ہے کہ تمام چیزیں اپنی اپنی فطرت کے موافق کام کر رہی ہیں۔ ارو جس کی فطرت کا جو اثر ہے ا س سے خواہ مخواہ ظہور میں آتا ہے اس کے ساتھ جیسا کہ اوپر گزر چکا ہے تمام عالم میں علہ و معلول اور سبب و مسبب کا سلسلہ بھی قائم ہے۔ ان دونوں اصولوں کی بنا پر انسان سے جو افعال سرزد ہوتے ہیں اور ان کی بناء پر انسان کو جو عذاب و ثواب ہو گا یہ سب خود فطرت کا اقتضا ہے۔ انسان سے نیک و بد افعال کا سر زد ہونا اس کی فطرت کا اقتضا ہے اور ان دونوں افعال کی بنا پر عذاب ثواب کا وقوع میں آنا بھی خود ان افعال کی فطرت کا نتیجہ ہے خدا نے فطرت کو پیدا کیا لیکن پھر فطرت اپنے اثرا کو پیدا کرتی ہے۔ اس کی مثال یہ ہے کہ خدا نے زہر پیدا کیا ہے اور زہر میں یہ خاصیت رکھی ہے کہ جو زہر کھاتا ہے مرجاتا ہے اب جو شخص زہر کھاتا ہے وہ خود زہر کے اثر سے مرتا ہے۔ امام غزالی عذاب و ثواب کی حقیقت کے متعلق مصنفوں بہ علی غیر اہلہ میں لکھتے ہیں۔ اماالعقاب علی ترک الامردارنکاب النھی فلیس العقاب من اللہ تعالیٰ غضبا و انتقاما ومثال ذل ان من غادرا الوقاع عاقبۃ اللہ تعالیٰ بعدم الولد ومن ترک الاکل والشرب عاقبہ بالحجوع واعطشن فکذالک نسبۃ الطاعات والمعاصی الی الام الاخرۃ ولذاتھا من غیر فرق فالسوال عن انہ لم تقضی المعصیۃ الی العقاب کالسوال فی انہ لم یھلک والحیوان عن الم ولم یودی السم الی الھلاک ’’احکام کے چھوڑنے اور منہیات کے کرنے پر عذاب کا ہونا‘ تو یہ اس بناء پر نہیں کہ خدا کو غصہ آتا ہے اور وہ انتقام لیتاہے بلکہ اس کی مثال یہ ہے کہ جو شخص عورت کے ساتھ ہم بستری نہ کرے گا خدا اس کو اولاد نہ دے گا اورجو شخص کھانا پینا چھوڑ دے گا‘ خدا اس کو بھوک اور پیاس کا عذاب دے گا۔ عبادت اور گناہ سے قیامت میں جو عذاب و ثواب ہو گا اس کی بعینہ یہی مثال ہے اس بنا پر یہ پوچھنا کہ گناہ پر عذاب کیوں ہوتا ہے۔ گویا یہ پوچھنا ہے کہ جاندار زہر سے کیوں مر جاتاہے اور زہر کیوں مار ڈالتا ہے‘‘۔ غرض یہ سب اسی قانون فطرت کے سلسلہ میں داخل ہیں انسان کی فطرت ایسی بنائی گئی ہے کہ وہ نیکی اور بدی کرتا ہے اورنیکی و بدی کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ اس سے انسان کی روح کو آڑام اور تکلیف پہنچتی ہے۔ اسی کا نام عذاب و ثواب ہے قرآن مجید میں اسی نکتہ کو یوں اداکیا ہے: ویستعجونک بالعذاب وان جھنم لمیطۃ بالکفرین ’’یعنی کفار تجھ سے کہتے ہیں کہ عذاب جلدی لائو حالانکہ دوزخ ان کے ہر طرف چھائے ہوئے ہے‘‘۔ (۵) اوپر کی تقریر سے اس بحث کے متعلق اگرچہ اور شبہات رفع ہو گئے‘ لیکن اصلی گرہ اب تک نہیںکھلی‘ تمام اعتراضات اس مرکز پر آ کر جمع ہوتے ہیں کہ پھر خدا نے ایسی فطرت ہی کیوں بنائی جس سے برائی سر زد ہو کیا یہ ممکن نہ تھا کہ انسان فطرۃ ایسا بنایا جاتا کہ اس سے برائی سرزد ہی نہ ہوتی۔ اس عقیدہ کے حل کرنے کے لیے اس بات پر غور کرو کہ اگر ایک چیز میں بہت سے فائدے ہوں اور کچھ نقصان بھی ہو تو تم کیا کرو گے؟ کیا اس کو بالکل چھوڑ دو گے یا اس بنا پر اختیار کرو گے کہ گو تھوڑا سا نقصان ہے۔ لیکن فائدے بہت زیادہ ہیں‘ تمام دنیا کا کاروبار اسی اصول پر چل رہا ہے اولاد سے زیادہ انسان کو کیا چیز عزیز ہے لیکن اولاد کی پرورش ار پرداخت میں کن کن مصیبتوں کا سامنا ہے خود انسان کی زندگی جو اس کو سب سے زیادہ عزیز ہے کس قدر مصائب سیبھری ہوئی ہے ۔ تاہم ان مسرتوں اور خوشیوں کے مقابلہ میں جو انسان کو زندگی کی وجہ سے یا اولاد سے حاصل ہوتی ہیں یہ تکلیفیں ناقابل اعتنا ہیں آگ سے ہمارے سینکڑوں کام نکلتے ہیں کیا ہم اس کو اس بنا پر چھوڑ سکتے ہیں کہ اس سے کبھی کبھی ہمارے کپڑوں میں آ گ بھی لگ جاتی ہے۔ انسان کی فطرت کے متعلق چار احتمال پیدا ہوسکتے تھے (۱) ایسا انسان بنایا جاتا جو ہمہ تن نیکی ہوتا (۲) ہم تن بدی ہوتا (۳) بدی کا مادہ زیادہ ہوتا (۴) نیکی کا مادہ اس میں زیادہ ہوتا دوسری اور چوتھی قسم حکمت اور انصاف کے کلاف تھی۔ اس لیے خدا نے اس قسم کی فطرت نہیں بنائی پہلی اور تیسری قسم عین حکمت تھی اس لیے انسان اسی فطرت کے موافق پیدا کیا گیا۔ شائد تم کو خیال ہو کہ بعض انسان ہمہ تن شرارت ہوتے ہیں۔ اس لیے ان کا پیدا کرنا خلاف حکمت ہے لیکن یہ غلطی ہے کہ ج کو تم ہمہ تن شرارت کہتے ہو اس کے ان تمام افعال و اقوال پر نظر ڈالو جو اس سے دن رات سرزد ہوتے ہیںان میں بہت سے بہت فی صدی دس کام برے ہوں گے جو شخص بے انتہا جھوٹ بولنے کا عادی ہے وہ بھی دن رات میں بہ مشکل دس پانچ جھوٹ بولتا ہو گا۔ غرض انسان بلک دنیا میں جتنی بھی چیزیں ہیں ان میں مضرت و نقصان فائدہ کے مقابلہ میں بہت کم ہے اس لیے اگر ان چیزوں کو سرے سے نہ پیدا کیا جاتا تو تھوڑے سے نقصان کے لیے بہت سے فائدوں کو ترک کرنا ہوتا۔ اور یہ حکمت و مصلحت کے بالکل خلاف ہے محدث ابن القیم نے اس بحث کو نہایت تفصیل سے لکھا ہے ان کے چند فقرے یہ ہیں۔ ومن تامل ھذا الوجود علم ان الخیرفیہ غالب وان الامراض وان کثرت فالصحۃ اکثر منھا واللذات اکثر من الام والعافیۃ اعظم من البلاء ومثال ذلک النار فان فی وجودھا منافع کثیرۃ وفیھا مفاسد لکن اذا قابلنا بین مصالھا ومفاسد ھالم تکن لمفاسدھا نسبۃ الی مصالحھا وکذالک المطروالریاح والحر والبرو وبالجملۃ فعنا صرھذا العالم السفلی خیر ھا مھتزج بشرھا ولکن الخیر غالب ؎۱ ’’اور جو شخص عالم موجودات پر غور کرے گا اس کو معلوم ہو گا کہ اس میں بھلائی کا پلہ بھاری ہے‘ بیماریاں گو بہت ہیں‘ لیکن صحت کے اعتبار سے کم ہیں تکلیفوں کے مقابلہ میں لذتیں زیادہ ہیں۔ آرام کے مقابلہ میں بلائیں کم ہیں اس کی مثال آگ ہے۔ آگ میں بہت سے فائدے ہیں ار نقصانات بھی ہیں لیکن فائدوں کے مقابلہ میں نقصانات کی کچھ حقیقت نہیں بارش ‘ ہوا ‘ گرمی‘ سردی‘ سب کا یہی حا ل ہے غرض عالم سفلی میں جس قدر عناصر ہیں ان میں نفع اور نقصان دونوں ملے ہوئے ہیں‘ لیکن نفع کا پلہ بھاری ہے ‘‘۔ تمام تقریر کا حاصل یہ ہے کہ عالم سلسلہ اسباب پر قائم ہے سبب کے ساتھ مسبب کا وجود ضروری ہے ۔ سلسلہ اسباب خدانے پیدا کیا ہے انسان کا ارادہ اور خواہش بھی منجملہ اسباب کے ہے ‘ اس بنا پر انسنا اپنے افعال کا سبب اور خالق ہے لیکن علۃ العلل ہونے کے لحاظ سے ان افعال کا خالق بھی خدا ہی ہے۔ انسان جوافعال کرتا ہے‘ اپنی فطرت کے لحاظ سے کرتا ہے‘ اور ان افعال کے جو لازمی نتائج ہیں یعنی عذاب و ثواب وہ خود بخود اسی سلسلہ کے اسباب کے بنا پر وجود میں آتے ہیں انسان کی فطرت میں خدا نے برائی کا مادہ بھی رکھا ہے ‘ اور ایسا کرنا حکمت کا اقضا تھا۔ ان اصول کے سمجھنے کے بعد تمام اعتراضات رفع ہو جاتے ہیں۔ اور یہ بھی ظاہر ہو جاتا ہے کہ قرآن مجید میں اس بحث کو ہر پہلو کے لحاظ سے فیصل کر دیا ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱؎ شفاء العلیل ص ۱۸۴ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ٭٭٭ یورپ اور قرآن کے عدیم الصحۃ ہونے کا دعویٰ لندن ٹائمز کے ایک آرٹیکل مورخہ ۲۵ اپریل ۱۴ء میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ قرآن مجید کے چند ایسے نہایت قدیم اجزاء ہاتھ میں آ گئے ہیں جو موجودہ قرآن شریف سے مختلف العبارۃ ہیں اور جن کی صحت پر موجودہ قرآن سے زیادہ اعتبار کیا جا سکتا ہے۔ قرآن مجید نے اہل کتاب کو جو سب سے بڑا طعنہ دیا تھا‘ وہ ان کا شیوہ تحریف تھا۔ جس کی بدولت توراۃ اور انجیل ہمیشہ تغیر و تبدیل کے مختلف قالب بدلتی رہیں اور جس کی بدولت آج یہ فیصلہ کرنا مشکل ہو گیا ہے کہ یہ آسمانی صحایف صحت کے لحاظ سے زمینی کتابوں کے ساتھ بھی برابری کا دعویٰ کر سکتے ہیں یا نہیں؟ دشمن کے لیے جواب کا سب سے آسان طریقہ برابر کا جوابہے۔ لیکن باوجود اس کے کہ عیسائیوں نے قرآن مجید پر ہر طرح کے اعتراضات کیے یہاں تک کہ یورپ کے بہت سے متشرقین کو قرآن مجید کے کمال بلاغت سے بھی انکار ہے تاہم آج تک یہ دعویٰ نہیں ہے کہ موجودہ قران مجید کے سوا قرآن مجید کا کوئی اور بھی نسخہ ہے جو اس قرآن سے مختلف ہے۔ مذکورہ الصدر آرٹیکل پر ابھی کچھ لکھنا قبل از وقت ہے۔ اس لیے کہ اس آرٹیکل میں ظاہر کیا گیا ہے کہ کیمبرج یونیورسٹی پریس چند روز میں یہ مسودات شائع کر دے گا۔ اس لیے جب تک وہ مسودات شائع نہ ہو جائیں تفصیلی طور پر اس کے متعلق بحث نہیں ہو سکتی۔ شائع ہونے کے بعد آسانی سے یہ فیصلہ ہو سکے گا کہ وہ مسودات کس زمانہ سے ہیں اور ان کی صحت پر کہاں تک اعتبار کیا جا سکتا ہے؟ اعتبار کے کیا وجوہ ہیں؟ قدامت کی کیا کیا شہادتیں ہیں؟ کس قسم کے اختلافات ہیں؟ ان مسودات پر عیسائیوں کا دست صرف کہاں تک پہنچا ہے؟ تاہم جس قدر اس آرٹیکل کے متعلق ابھی سے بحث کی جا سکتی ہے اس کے لیے سب سے پہلے اس مندرجہ ذیل بیانات کا خلاصہ لکھ دینا چاہیے اور وہ حسب ذیل ہیں۔ (۱) جو حصص قرآن مجید کے دستیاب ہوئے ہیں ان پر علاوہ قرآن کے اور تحریریں بھی ہیں جن کی تفصیل یہ ہے ہ قدیم زمانہ میں جب سامان نوشت و خواند کمیاب تھے ۔ تو اکثر پرانی قلمی کتابوں پر جو بے کار سمجھ للی جایا کرتی تھیں دوسری ضروری تحریروں کا اندراج ہو جایا یکرتا تھا۔ اور اس طور پر ایک ہی وقت میں مختلف کتابیںموجود ہوتی تھیں۔ ٹائمز کی عبارت اگرچہ صاف نہیں ہے۔ لیکن اس سے مترشح ہوتا ہے کہ کیمبرج کے مذکورہ اوراق میں تین مختلف کتابیں مختلف زمانہ کی لکھی ہوئی موجود ہیں ان میں سب سے قدیم تحریر جیسا کہ ٹائمز سے مسنبط ہوتا ہے پروتی پنجیلیم ورٹرنی ذیٹس میری کی عبارات ہیں جو سریانی زبان مٰں ہیں دوسری عبارت جو دراصل مذکورہ بالا تحریر کے بعد کی ہے وہ عیسائی مقدسین کی بعض تحریروں کا اقتباس ہے۔ اور یہ عبارت بھی عربی زبان میں ہے۔ اس طور پر گویا ایک سطح ُر تلے اوپر تین مختلف تحریریں موجو د ہییں۔جو ایک دوسرے کو کسی قدر ڈھکے ہوئے ہیں۔ اور اس طرح اوپر کی تحریر کی وجہ سے نیچے کی عبارت دھندلی پڑ گئی ہے۔ (۲) ان مسودات کو ٹائمز ساتویں صدی کے آخر یا آٹھویں صدی کی ابتدا کا بتاتا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ پہلی تحریر یعنی سریانی زبان کی دو کتابیں اسی زمانہ میں لکھی ہوئی ہیں۔ (۳) تیسری تحریر یعنی عیسائی مقدسین کی عربی عبارت کے طرز تحریر کے متعلق عیسائی برٹش میوزیم کے ماہرین کی رائے ہے کہ وہ نویں صدی کی لکھی ہوئی ہے۔ (۴) ڈاکٹر منگانا نے ثابت کیا ہے کہ اوراق مذکور تین یا زائد ماخذوں سے حاصل کیے گئے ہیں۔ جن میں سے بعض ماخذ اس وقت سے پہلے کے ہیں جب حضرت زید بن ثابتؓ نے مروجہ نسخہ قرآن کو ترتیب دیا تھا۔ (۵) ڈاکٹر منگانا نے ۳۵ صفحے مطالعہ کیے ہیں اور ان میں کم از کم موجود ہ قرآن یس ۵ ۳ اختلافات پائے ہیں اور چار ایسی آیتیں ہیں جو موجودہ قرآن میں نہیں لیکن ان صفحات میں ہیں۔ (۶) ڈاکٹر منگانا کے نزدیک ان صفحات کا بیشتر حصہ زیدؓ کے مرتب کردہ قرآن سے ترقی یافتہ ہے۔ مثلاً قرآن میں جو آیت ہے۔ (بارکنا حولہ) اس کے بجائے ان صفحات میں جو الفاظ ہیں ان کا ترجمہ ہے جب کہ حرم کے گرد ہم جھکے بیانات مذکورہ بالا میں چند امور قابل لحاظ ہیں۔ (۱) جن لوگوں نے یورپ کے پچھلے زمانہ کی تاریخ پرھی ہے ۔ اور عیسائیوں کی حیرت انگیز تصنیفات کے واقعات مطالعہ کیے ہیں جن کی تفصیلات پروفیسر ہنری وی کاستری ( فرنچ مصنف) کی کتاب میں موجود ہیں جس کا ترجمہ عربی زبان میں مصر سے شائع ہو چکا ہے۔ وہ آسانی سے سمجھ سکتے ہیں کہ مسلمانوں کی کوئی مذہبی کتاب عیسائیوں کے ہاتھ میں ہے آ کر ہر قسم کی ناجائز کوششوں سے کہاں تک محفوظ رہ سکتی ہے۔ ہم نے وہ تحریریںپڑھی ہیں ن کی نسبت یہ ظاہر کیا جاتا ہیکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عیسائیوں کے لیے لکھی ہیں اور بعینہ محفوظ ہیں ان تحریروں کے فوٹو شائع کیے گئے ہیں اور ان کا اصلی مخرج عیسائیوں کی قدیم خانقاہیں یا گرجا بیان کیے گئے ہیں۔ ان میں سے ایک تحریر ھبی اصلی اور واقعی نہیںہے۔ اورفن حدیث کا معمولی صاحب مذاق بھی ان کے جعلی ہونے کو بیک نظر معلوم کر سکتاہے۔۔ تاہم یورپ کے مستشرقین کو صحیح اور اصلی نوشتہ خیال کرتے ہیں۔ (۲) جو آیت اختلاف کے ثبتت میں پیش کی ہے ۔ افسوس ہے کہ اصلی عربی عبارت نقل نہیں کی ہے۔ بلکہ اس کا ترجمہ لکھا ہے یعنی جب حرم کے گرد ہم جھکے قرآن مجید میں جو الفاظ ہیں ان کا ترجمہ ہے کہ جس کو ہم نے برکت دی۔ اس بنا پر ڈاکتر منگانا یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ مفروضہ قرآن موجودہ قراان سے مختلف ہے۔ ڈاکتر منگانا صاحب اگر اصل عربی عبارت نقل کرتے تو ہم آسانی سے اس کی نسبت کوئی رائے قائم کر سکتے تھے تاہم یہ قیاس ہو سکتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے قرآن مجید میں ’’بارکنا‘‘ کا جو لفظ ہے ا س کا ترجمہ غلط کیا ہے۔ قرآن مجید کے رسم الخط میں ’’بارکنا‘‘ کا لفظ بغیر الف کے لکھا جاتا ہے۔ یعنی ’’برکنا‘‘ قدیم زمانہ میں قرآن مجید پر زیر و زبر و مد وغیرہ نہیں ہوتیتھے۔ زیر و زبر لکھنا حجاج بن یوسف کے زمانہ سے شروع ہوا ہے اس لیے ممکن ہے کہ کسی قدیم نسخے میں ’’بارکنا‘‘ کا لفظ اس طرح پر لکھا ہو کہ اس پر الف ممدوہ نہ ہوا اور اس لیے ڈاکٹر صاحب نے اس کو ’’برکنا‘‘ پڑھا ہو۔ جس کے معنے بیٹھنے اور لیٹنے اور جھکنے کے ہو سکتے ہیں‘ اور اس بنا پر بجائے برکت کے اسس کا ترجمہ جھکنا کر دیا ہو۔ (۳) جو شخص یہ دعویٰ کرتا ہے کہ اوراق مذکورہ کا ماخذ حضرت زید بن ثابتؓ کے زمانہ سے پہلے کا ہے وہ اس کے ثبوت میں کیا دلائل پیش کر سکتا ہے؟ کیا ان اوراق پرکتابت کی تاریخ لکھی ہے؟ کیا کاغذ کی کہنگی یا خط کی شان سے کتابت کا ٹھیک زمانہ متیعن ہو سکتا ہے؟ کیا ڈاکٹر منگانایا کوئی اور ان اصول شہادت کے معیار سے اپنے دعویٰ کو ثابت کرنے پر آمادہ ہے؟ ان تمام امور کو معلوم کرنے کے لیے ہمیں اوراق مذکور کی اشاعت کا انتظار کرنا چاہیے۔ ٭٭٭ قرآن مجید کی تدوین کی کیفیت اس موقع پر ہم مختصر اور سادہ طور پر قرآن کے مرتب و مدون ہونے کے واقعات درج کرتے ہیںججن سے ا سمسئلہ پر روشنی پڑ سکتی ہے کہ ڈاکتر منگانا کی تحقیق کہاں تک صحیح ہو سکتی ہے؟ جس زمانہ میں قرآن مجید نازل ہوا‘ تمام عرب میں اشعار اور خطبات کی زبان محفوظ رکھنے کا عام رواج تھا‘ آج شعرائے جاہلیت کے بیسیوںدیوان موجودہیں جو بنو امیہ کے ابتدائی عہد میں قلم بند نہیں ہوئے تھے۔ (مثلاً دیوان امرا ء القیس‘ دیوان سموئل بن عادیا‘ دیوان زبیر بن ابی سلمیٰ‘ دیوان تابغہ ذیبانی ‘ دیوان علقمۃ الفحل۔ دیوان حاتم طائی وغیرہ) یہ تمام دیوان اسلام کے پہلے کے ہیں اور اسلام کے بعد بھی یہ ایک مدت تک درج تحریر نہیںہوئے۔ لیکن سینکڑوں ہزاروں اشخاص ان کو زبانی محفوظ رکھتے تھے اور جب قلمبند ہوئے تو اس صحت کے ساتھ قلم بند ہوئے کہ بحر نشاد مثالوں کے اختلاف نسخ کی بھی نوبت نہیں آئی جو قومیں لکھی پڑھی نہیںہوتیں ان کے حافظے عموماً نہایت قوی ہوتے ہیں عرب اس خصوصیت میں تمام قوموں سے بھی زیادہ ممتاز ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر جب قرآن نازل ہونا شروع ہوا تو پہلے بہت چھوٹی چھوٹی سورتیںنازل ہوئیں جو لوگ اسلا م کے حلقہ میں داخل ہوتے تھے ان کا پہلا کام قرآن مجید کی نازل شدہ آیتوں اور سورتوں کا محفو ط رکھنا ہوتا تھا۔ کثرت سے ایسے صحابہ تھے جن کو پورا قرآن محفوظ تھا۔ جنگ یمامہ میں جو صحابہ شہید ہوئے ان میں ستر ایسے تھے جن کو پورا قرآن مجید یاد تھا۔ حضرت عبداللہ بن مسعود کا بیان ہے کہ میں نے ستر سورتیں خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سیکھی تھیں۔ قرآن مجید کا پڑھنا پڑھانا سب سے بڑھ کر ثواب کا کام ہے بخاری میں روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’تم میں سے وہ شخص رتبہ میں بڑھ کر ہے جو قرآن سیکھے یا سکھلائے‘‘ اس بنا پر ہر مسلمان نہایت اہتمام اور شوق سے قرآن مجید سیکھتا اورسکھاتا تھا۔ حضرت عبداللہ بن عباس نے دس برس کی عمر میں سورۃ حجرات سے لے کر آخیر قرآن تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں یاد کر لیا تھا۔ ایک غریب شخص نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک عورت سے شادی کرنا چاہی آپؐ نے دریافت فرمایا کہ تمہارے پاس مہر دینے کے لیے کیا ہے؟ انہوں نے کہا کچھ نہیں فرمایا تم کو کچھ قرآن زبانی یاد ہے بولے ہاں فلاں فلاں سورتیں یاد ہیں آپ نے فرمایا کہ تو یہی سورتیں بجائے مہر کے ہیں اور میں اسی پر تمہارا نکاح پڑھائے دیتا ہوں (صحیح بخاری میںیہواقعہ بہ تفصیل موجود ہے)۔ غرض عرب کی قوت حافظہ قرآن مجید کے یاد رکھنے کی فضیلت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ترغیب و تاکید قرآن مجید کی دلآویزی ‘ تعلیم قرآن کا اہتمام ‘ یہ سب اسباب ایسے تھے جن کی وجہ سے خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے زمانہ میں پورا قرآن مجید یا ا س کا بڑا حصہ سینکڑوں اشخاص کو دیا تھا۔ تحریر و کتابت باایں ہمہ صرف زبانی حفظ پر اکتفا نہیں کیا گیا بلکہ جب قرآن مجید نازل ہوتا تھا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم صحابہؓ کو حکم دیتے تھے اور وہ قلم بند کر لیتے تھے ۔ مکہ معظمہ میں گو لکھنے کا رواج اس وقت تک کم تھا تاہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پلے خاص مکہ میں اشخص اس فن کے ماہر تھے۔ان میں چار خلفائے راشدین بھی تھے جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ چلے آئے اور جنگ بدر مٰں قریش کے چند لکھے پڑھے آدمی (جو اس وقت تک کافر تھے) گرفتار ہوئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کو حکم دیا کہ مدینہ میں لوگوں کو لکھنا پڑھنا سکھا دیں اوریہی ان کا زر فدیہ ہو گا۔ یعنی اس کے بعد وہ رہا کر دیے جائیں گے۔ چنانچہ حضرت زید بن ثابتؓ نے جو مشہور کاتب وحی تھے اسی طریقہ سے لکھنا پڑھنا سیکھا تھا۔ بہرحال مدینہ منورہ میں لکھنا پڑھان عام طور پر رائج ہو گیا۔ یہاں تک کہ حضرت زیدؓ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد سے عبرانی اورلاطینی زبان بھی سیکھ لی۔ اب تحریر کا اس قدر رواج ہو گیا تھا کہ قرآن مجید کے علاوہ بعض صحابہ ( حضرت عبداللہ بن عمروؓ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات بھی قلم بند کر لیا کرتے تھے‘ حضرت ابوہریرہؓ تمام صحابہ میں سب سے کثیر الوایۃ ہیں لیکن بخاری میںا ن کا قول مزکور ہے کہ ’’عبداللہ بن عمروؓ مجھ سے بھی کثیر الروایتہ ہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ میں لکھتا نہ تھا اوروہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے جو سنتے تھے اسی وقت لکھ بھی لیتے تھے۔ غرض آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ہی میں پورا قرآن مجید قلم بند ہوچکا تھا۔ البتہ کسی ایک مجموعہ میں جمع نہیں ہوا تھا۔ اور سورتوں میں باہم کوئی ترتیب قرار نہیںپائی تھی۔ لیکن ہر سورۃ کی تمام آیتیں مرتب ہو چکی تھیں۔ قرآن مجید کے مدون اور مرتب ہونے کی تاریخ یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جب غزوہ یمامہ میں اکثر حفاظ قرآن نے شہادت پائی تو حضرت عمرؓ نے حضرت ابوبکرؓ سے کہا کہ قرآن جمع کرا دیجیے۔ حضرت ابوبکرؓ نے حضرت زید بن ثابت ؓ کو جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کتابت وحی کا کام کیا کرتے تھے۔ بلا کر یہ خدمت سپرد کی۔ حضرت زیدؓ نے نہایت اہتمام سے اس کام کو انجام دیا۔ جہاں جہاں تحریری اجزاء تھے ڈھونڈ ڈھونڈ کر مہیا کیے۔ یہاں تک کہ ہڈیوں پتھر کے ٹکڑوں اور کھجور کے تختوں پر لکے ہوئے اجزا بہم پہنچائے۔ یہ التزام کیا کہ تحریر کے ساتھ زبانی شہادت بھی لیتے تھے۔ یعنی وہ تحریر عبارت لوگوں کو زبانی بھی یاد ہے یا نہیں؟ اس طرح پورا قرآن مجید مرتب ہوا سورتوں کی ترتیب ان کے نزول ہونے کے زمانہ کے لحاظ سے نہیںرکھی گئی تھی۔ بلکہ زیادہ تر سورتوں کے مطول و مختصر ہونے کا لحاظ رکھا۔ یعنی بری سورتیںپہلے رکھی گئیں۔ متوسط ان کے بعد اور مختصر سب سے آخیر یہ نسخہ حضرت حفصہ ؓ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حرم محترم اور حضرت عمرؓ کی صاحبزادی) ک گھرمیں رکھوا دیا گیا ۔حضرت عثمانؓ کے زمانہ میں جب قرآن مجید کی کثرت سے نقلیں شائع ہونے لگیں تو اختلاف نسخ پیدا ہو گیا۔ اس بنا پر حضرت حفصہؓ کے مکان سے وہ نسخہ منگواکر متعد نقلیں کرائیں اور اسلام کے بڑے بڑے صوبوں میں بھجوا دیں۔ کہ تمام نسخے ان کے مطابق نقل کیے جائیں۔ حضرت عثمانؓ نے یہ بھی حکم دیا کہ جیسا کہ صحیح بخاری میں مذکور ہے کہ جو نسخے اس کے مطابق نہ ہوں وہ ضائع کر دیے جائیں صحیح بخاری کے الفاظ یہ ہیں۔ وارسل الی کل افق بمصحف مما نسخوا وامر بماسواہ من القرآن فی کل صحیفۃ او صحف ان یحرق (صحیح بخاری باب جمع القرآن) ’’اور جو نسخے تیار ہوئے وہ ہر افق (صدر مقات) میں بھجوا دیے اور حکم دیا کہ ان کے سوا کسی صحیفے میں جو ملے وہ جلا دیا جائے‘‘۔ واقعات مذکورہ سے جو اہم نتائج حاصل ہوتے ہیں حسب ذیل ہیں: (۱) قرآن مجید خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بہت سے صحابہؓ کو زبانی یاد تھا۔ (۲) قرآن مجید کا ایک جملہ بھی ایسا باقی نہیں رہا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں قلم بند نہ کیا گیا ہو۔ (۳) حضرت ابوبکرؓ نے حضرت زید بن ثابتؓ کے اہتمام سے قرآن مجید کا جو نسخہ مرتب کرایا وہ تحریری نوشتوںسے مرت ہوا تھا جس کی تصدیق ان لوگوں سے بھی کرائی جاتی تھی جو قرٓان مجید کے کلایا جزاً حافظ تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں تما م سورتیں مرتب ہو چکی تھیں اورا ن کے الگ الگ نام قائم ہو چکے تھے‘ البتہ سورتوں میں باہم تقدیم و تاخیر کے لحاظ سے ترتیب نہیں دی گئی یہ ترتیب حضرت زید بن ثابتؓ نے قائم کی۔ جو نسخے ایسے تھے جن میں کاتبوں کی غلطی سے کچھ تغیر ہو گیا تھا حضرت عثمان ؓ نے ان سب کو جلوا دیا۔ نتائج مذکور کے بعد اب یہ سوال ہے کہ ڈاکٹر منگانا جن ماخذوں کو حضرت زیدؓ اور حضرت عثمان سے پہلے کا بتاتے ہیں ان کی صحت کے کیا دلائل پیش کر سکتے ہیں؟ جب یہ ثابت ہے کہ حضرت زیدؓ نے انتہائے تفحص اہتمام و تلاش اور تمام صحابہؓ کی متفقہ کوشش سے مدون کیا تھا جب یہ ثابت ہے کہ حضرت عثمان نے وہ تمام مصاحف ضائع کر دیے تھے جو حضرت زیدؓ بن ثابت کے نسخوں کے مطابق نہ تھے جب کہ قرآن مجید کا ایک ایک حرف ابتداسے آج تک تواتر محفوظ چلا آیا تو کیا ایک ’’ڈاکٹر منگانا‘‘ کا بلا دلیل استنباط تمام عظیم الشان شہادتوں کے مقابلہ میں ایک ذرہ بھی وقعت رکھتا ہے۔ ہم نے اس مضمون کو نہایت اختصار کے ساتھ لکھا ہے۔ جب کیمبرج پریس نے اپنے کاغذات شائع کرے گا۔ اس وقت ہم اس کو بتا دیں گے کہ قرآن مجید ہزاروں دلائل سے بھی انجیل نہیں بن سکتا۔ ٭٭٭ مسائل فقیہہ پر زمانہ کی ضرورتوں کا اثر ہمار ے مخالفوں نے سینکڑوں بار کہا ہے اور اب بھی کہتے ہیں کہ اسلام کا قانون (مسائل فقیہہ) دست مثل ہے جس کو کسی طرح جنبش نہیںہو سکتی یعنی اس میں ترقی کی کوئی گنجائش نہیں اور اس وجہ سے وہ کسی طرح زمانہ کی ضرورتوں کا ساتھ نہیں دے سکتا۔ ہم اس کے متعلق کچھ کہنا چاہتے ہیں تو مخالفین کہتے ہیں کہ یہ آج کل کے خیالات کا اثر ہے۔ ورنہ قدمائے اسلام کے نزدیک مسائل فقیہہ میں کسی اصلاحاور تغیر کی گنجائش نہیں اس بناء پر ہم اس کے متعلق کچھ کہنا نہیں چاہتے بلکہ یہ دیکھتے ہیں کہ سلف نے خاص اس مضمون پر کیا لکھا ہے۔ فقہائے متاخرین میں سے علامہ شامی کو جو شہرت اور حسن قبول حاصل ہوا‘ کم کسی کو ہوا ہو گا انہوںنے خاص اس بحث پر ایک رسالہ لکھا ہے۔ جس کا نام نشر العرف فی بناء بعض الاحکام علی العرف ہے۔ یہ رسالہ اور بہت سے رسالوں کے ساتھ سنہ ۱۳۰۱ھ میں بمقام دمشق چھاپا گیا تھا۔ اس راسلہ میں علامہ موصوف نے نہایت تفصیل سے اس مسئلہ پر بھث کی ہے ہم اس کے جستہ جستہ مقامات اس موقع پر نقل رکتے ہیں۔ اعلم ان المسائل الفھیۃ اما ان عکون ثابتۃ بصریح نص وھی الفصل الاول واما تکون ثابتۃ یضر ب اجتھاد ورای و کثیر منھا ما بینہ المتھد عی ماان فی عرف زمانہ بحیث لووکان فی زمان العرف الحادث لقال بخلاف ماقالہ اولاد لھذا قالو انی شروط الاجتھاد انہ لا بد فیہ من معرفۃ عادان الناس فکثیر من الاحکام تخلف باختلاف الزمان لتغیر عرف اہلہ او لحدوث ضرورۃ او فساد اھل الزمان بحیث لوبقی الحکم علی ما کان علیہ اولا للزم منہ المشقہ والضور بالناس والخاف قواعد الشریعۃ المنیۃ علی التخفیف والتیسیرو رفع الضور والفساد لبقاء العالم علی اتم نظام و احسن احکام ولھذا تری مشائخ المذہب خالفواما نص علیہ المتھد فی مواضع کثیرۃ بناھا علی ما کان فی زمانہ بعلمھم بانہ لوکان فی زمنھم لقال بما قالو بہ ؎۱ ’’جاننا چاہیے کہ مسائل فقیہہ یا صریح نص سے ثابت ہوں گے۔ ان مسائل کو ہم نے پہلی فصل میں بیان کیا ہے۔ یا اجتہاد اور رائے سے ثابت ہوں گے‘ ان میں سے اکثر مسائل ایسے ہوتے ہیں جن کو مجتہد نے اپنے زمانے کے رواج کے موافق قائم یا تھا اس طرح کہ اگر وہ (یعنی مجتہد) آج کے زمانہ میں موجود ہوتا تو اپنے ہی قول کے خلاف کہتا تھا۔ اسی بناء پر اجتہاد کے شرائط میں لوگوں نے اس کو بھی داخل کیا ہے کہ مجتہد لوگوں کے رسم و رواج سے واقفی رکھتا ہو کیونکہ اکثر احکام زمانہ کے اکتلاف سے بد ل جاتے ہیں بوجہ اس کے کہ راج بدل گیا۔ یاکوئی نئی ضرورت پیداہوگیء یا زمانہ کے لوگ بدروش ہو گئے اس صورت میں اگر وہ پہلا حکم باقی رہے تو اس سے لوگوں کو تکلیف اور ضرر پہنچے اور شریعت کے ان قواعد کی مخالفت لازم آئے جن کی بنیاد آسانی اور دفع ضرر پر ہے تاکہ دنیا نہایت اعلیٰ درجہ کے نظم و نسق پر قائم رہے۔ اسی بناپر تم دیکھتے ہو کہ مشائخ فقہ نے اکثر موقعوں پر مجتہد کی منصوعات سے اختلاف کیا ہے جن کی بنیاد مجتہد کے زمانہ کے حالات کے موافق تھی کیونکہ مشائخ کو یہ معلوم ہے کہ اگر آج مجتہد موجود ہوتا تتو وہی کہتا جو اہوں نے کہاہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱؎ رسالہ مذکور صفحہ ۱۸ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کے بعد مصنف نے بہت سی مثالیںدی ہیں جن میں زمانہ کی رسم و عادت کی وجہ سے احکام بدل گئے ہیں ان میں سے چند یہ ہیں: پہلے مجتہدین کا یہ فتویٰ تھا کہ قرآن مجید کی تعلیم پر معاوضہ لینا جائز نہیں اب بقہا نے اس کے جواز کا فتویٰ دے دیا۔ امام ابو حنفیہ کا یہ مذہب تھا کہ گواہ کاظاہر میں ثقہ ہونا کافی ہے۔ اما ابویوسف اور امام محمد نے ظاہر عدالت کو ناکافی قرار دیا۔ کیونہ امام ابو حنیفہ کے زمانہ میں اکثر لوگ ثقہ اور عادل ہوتے تھے اس لیے ظاہری عدالت ہی کافی تھی لیکن پھر وہ حالت نہیں رہی۔ پہلے وصی کو یتیم کے مال میں مضاربت کا حق حاصل تھا۔ متاخرین نے اس کو جائز قرار دے دیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں عورتیں مسجد میں نماز کے لیے حاضر ہوتی تھیں۔ متاخرین نے منع کر دیا۔ مزارعت ‘ معاملت‘ وقف میں امام ابو حنیفہ کا قول معمول بہ نہیںہے بلکہ امام ابو یوسف اور امام محمد کے قول پر فتویٰ ہے۔ بیع بالوفاء پہلے ناجائز تھی پھر جائز قرا ر دے دی گئی ۔ اس قسم کی قریباً سو مثالیں مصنف نے پیش کی ہیں جن میں زمانہ کے اختلاف حالت کی وجہ سے ااحکام فقہی بدل گئے ہیں۔ اس کے بعد مصنف نے یہ سوال قائم کیا ہے کہ اب اس زمانہ میں احکام کا بدلنا جائز ہے یا نہیں چنانچہ لکھتے ہیں: فان قلت العرف یتغیر و یختلف باختلاف الزمان فلوطرہ عرف جدید ہل للمفتی فی زماننا ان یفتی علی وفقہ ویخالف المصوص و کذ اھل للحاکم لآں العمل بالقرائن قلت مبنی ھذہ الرسالۃ علی ہذہ المسئلۃ فاعلم ان المتاخرین الذین خالفوا المنصوص فی کتب المذہب فی المسائل السباقۃ لم یخالفوہ الا لتغیر الزمان والعرف وعلمھم ان صاحب المذہب لو کان فی زمنھم لقال بما قالوا۔ ’’اگر تم یہ کہو کہ رواج تو زمانہ کے اختلاف سے بدلتا رہتا ہے تو اب اگر کوئی نیا رواج پیدا ہو تو ہمارے زمانہ کے مفتی کو اس کے موافق فتویٰ دینا اور منصوصات کی مخالفت کرنا جائز ہے یا نہیں؟ اور اسی طرح آجکل کا حاک وقت کو قرائن پر عمل کرنا جائز ہے یا نہیں؟ تو میں کہتا ہوں کہ اس رسالہ کی بنیاد یہی مسئلہ ہے تتم کو جاننا چاہے کہ متاخرین نے ان تصریحات سے جو قدیم کتابوں میں تھیں اختلاف جو کیا اسی بناء پر کیا کہ اب زمانہ اور رواج بدل گیا ہے اور اگر آج خود قدما موجود ہوتے تو وہی کہتے جو ہم کہتے ہیں‘‘۔ علامہ موصوف نے ایک اور رسالہ جس کا نام شرح المنظومہ ہے اس مسئلہ کو ضمناً لکھا ہے اس میں لکھتے ہیں: وفی القنیۃ لیس للمفتی والاللقاضی ان یحکما علی ظاہرا المذہب ویتر کا العرف انتھی ونقلہ منھا فی خزانۃ الروایات وھذا صریح فیما قلنا من ان المفتی لا یفتی بخلاف عرف اہل زمانہ۔ ’’اور قینہ میں مذکور ہے کہ مفتی اور قاضی کو یہ جائز نہیںکہ ظاہر مذہب پر حکم دے‘ اور رواج کو چھوڑ دے‘ اور اسی کتاب سے خزانۃ الروایات میں یہ قول نقل کیا ہے اور یہ صریح ہمارے اس قول کے موافق ہے کہ مفتی کو اپنے زمانے کے رواج کے مخالف حکم نہیں دینا چاہیے‘‘۔ یہاں فوراً یہ شبہ پیدا ہو گا کہ اگر شریعت کے احکام زمانے کے اختلاف سے بد ل سکتے ہیں تو اس کی حد کیا قرار پائے گی یہ سلسلہ بڑھتے برھتے خود فرائض مذہبی تک پہنچ سکتا ہے کیا زمانے کے اختلاف سے فرائض اور ارکان بھی بدل سکتے ہیں۔ یہ شبہ علامہ شامی نے اپنے رسالے میں ذکر کر کے جواب دیا ہے۔ فنقول فی جواب ہذا الاشکال اعلم ان العرف نوعان خاص و عام و کل منھا ام ان یوافق الدلیل الشرعی و المنصوص علیہ فی کتب ظاہر الروایۃ اولا فان وافقھما فلا کلام الافانما ان یخالف الدلیل الشرعی او المنصوص علیہ فی المذہب فنذکرذالک فی بابین الباب الاول اذا خالف العرف الدلیل الشرعی فان خالفہ من کل وہ بان لزم منہ ترک النص فلا شک فی ردہ کتعارف الناس کثیر امن المحرمات من الرباء و شرب الخمر ولیس الحریں والذہب وگیر ذلک مما ورد تحریمہ نصاوان لم یخالفہ من کل وجہ بان ورد الدلیل عاما والعرف خالفہ فی بعض افرادہ اوکان الدلیل قیاسا فان العرف معتبر ان کان عاما فان العرف العام یصلح مخصصا کمام عن التحریر و یترک بہ القیاس الخ ’’تو ہم اس اعتراض کے جوا ب میں کہیں گے کہ عرف کی دو قسمیں ہیں۔ عم و خواص اور ان دونوں کی بھی دو صورتیں ہیں یا تصریحات ظاہر الروایہ (یعنی امام محمد کی تصانیف ستہ) کے موافق ہوں گی یا نہیں۔ اگر موافق ہوت و کچھ پوچھنا ہی نہیں اور اگر مخالف ہوں تو ہم اس کو دو بابوں میں لکھتے ہیں پہلا باب جب کہ رواج دلیل شرعی کے مخالف ہو اس صورت میں اگر ہر طرح سے دلیل شرعی کی مخلاف ہو جس سے نص شریعت کا ترک کرنا لازم آئے تو اس کے باطل ہونے میں کوئی شبہ نہیں۔ مثلاً اکثر لوگوں نے بہت سے محرمات کا معمول کر لیا ہے۔ مثلاً شراب‘ سود‘ حریر ار زری کا استعمال جن کی حرمت صاف نص میں آتی ہے۔ اور اگر کلیتہ نص صریح کا مخالف نہ ہو مثلاً یہ کہ دلیل عام ہو اور رواج ایک خاص صورت سے متعلق ہو یا یہ کہ دلیل کوئی نص نہ ہو بلکہ قیاس ہو تو اس صورت میں رواج کا اعتبار کیا جائے بشرطیکہ رواج عام ہو اور اس صورت میں رواج دلیل شرعی کا مخصص واقع ہو سکے گا۔ جیسا کہ تحریر (ایک کتاب کا نام ہے) کے حوالہ سے گزر چکا ہے۔ اور رواج عام کے مقابلہ میں قیاس ترک کر دیا جائے گا۔‘‘ علامہ موصاوف نے ا س مسئلہ کو ایک جزئی صورت میں سمجھایا ہے۔ ہو یہ کہ مثلاً حدیث میں وارد ہے کہ اگر کوئی شخص کسی کو اس شرط پرآٹا پیسنے کو دے کہ اجرت کے بدلے تہائی آٹا اس کا ہو گا تو ناجائز ہے۔ اس سے مستنبط ہوتا ہے مثلاً اگر کوئی شخص کسی جولاہے کو اس شرط پر سود دے کہ وہ اس کا کپرا بن دے اور اجرت کے معوضۃ میں ایک تہائی کپڑالے لے تو یہ معاملہ ناجائز ہو گا۔ لیکن چونکہ بلخ میں یہ طریقہ عموماً معمول ہے اس لیے بلخ کے فقہانے اس کے جواب کا فتویٰ دیا اور یہ قرار دیا کہ رواج کی بنا پر حدیث میں تخصیص کر دی جائے گی یعنی حدیث صرف آٹے کی صورت تک محدود رہے گی۔ علامہ کے خاص الفاظ ہیں۔ ومشائخ بلخ کنصیر بن یحییٰ و محمد بن سلمۃ وغیرھما کانوا یجیرون ہذہ الاجارۃ فی الشیاب لتعامل اہل بلدھم والتعامل حجۃ یترک بہ القیاس و یخص بہ الاثر ’’اور بلخ کے اکثر مشائخ مثلاً نصیر بن یحییٰ اور محمد بن سلمہ وغیرہ اس معاملہ کو کپڑے میں جائز قرار دیتے تھے۔ کیونکہ ان کے شہر میں رواج تھا اور رواج کے مقابلہ میں قیاس ترک کر دیا جاتا ہے‘ ارواس حدیث میں تخصیص کر لی جاتی ہے‘‘۔ ان تصریحات کے بعد کون کہہ سکتاہے ک فقہ اسلامی میں ترقی اور اقتضائے ضروریات کی موافقت کی قابلیت نہیں۔آج کل معاملات کے متعلق سینکروں ہزاروں جزئیات جو پیدا ہو گئے ہیں ان کو اگر جائز یا حرام کہا جاتا ہے تو اس بنا پر کہ ان کو کسی قدیم کلیہ کے تحت میں داخل کر لیا جاتا ہے۔ ورنہ یہ ظاہر ہے کہ یہ جزئیات اس زمانے میں موجود نہ تھے لیکن علامہ شامی نے سینکڑوں روایتوں کی اسناد سے ثابت کیا ہے کہ عام رواج کی بنا پر کلیات کا حکم خاص کر دیا جاتا ہے۔ ٭٭٭ وقف اولاد وقف اولاد کی تحریک جو اخباروں کے ذریعہ سے عام طور پر مشتہر ہو چکی ہے۔ اگرچہ اس کی نسبت تمام ملک میں نہایت سرگرمی اور جوش سے موافقت اور تائید کی صدا اتھی۔لیکن بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ اصل واقعہ کیاہے؟ شریعت اسلامی کا کیا مسئلہ تھا؟ حکام پر ییوی کونسل نے ا کو کیون کر باطل کر دیا؟ اورکس غلط فہمی کی بنا پر باطل کیا؟ ا س کے متعلق اب کیا کوشش ہو رہی ہے؟ اور کس حد تک ہو چکی ہے؟ اور آئندہ کیا کیا کرنا ہے؟ اصل یہ ہے کہ شریعت اسلام کا ایک یہ مسئلہ ہے کہ اگر کوئی شخص اپنی جائیدا دکو خدا کے راہ میں فقرا ارو غربا کے لیے اس طرح مخصوص کر دے کہ اصل جائداد ہمیشہ محفوظ رہے دی اور اس کا منافع فقراء و غرباء کو ملتا رہے گا تو اس معاملہ کا نام وقف ہے۔ اور وہ جائیداد ہمیشہ محفوظ رہے گی یعنی نہ فروخت ہو سکے گی نہ ہبہ ہو سکے گی۔ نہ وارثوں کو وراثت میں مل سکے گی البتہ ا س کا منافع فقراء کو ملتا رہے گا۔ وقف کی یہ صورت تمام اور مذہبوں میںبھی موجود ہے۔ لیکن تمام اور مذاہب نے وقف غیروں اور بیگانوں کے لیے محدود رکھاہے۔ لیکن اسلام نے ا س کو اور وسعت دی ہے اسلام نے یہ قرار دیا ہے کہ اپنی آپ مدد کرنا اپی آل اولاد کی پرورش کرنا‘ انسان کا اصلی فرض ہے۔ اور ایسا فرض ہے جس کے ادا کرنے پر انسان کو ثواب حاصل ہوتا ہے ا س بنا پر اسام نے وقف کو اولاد اور اعزہ تک وسعت دی یعنی اگر کوئی شخص صرف اپنی اولاد پر کوئی جائیداد وقف کر ے تو یہ وقف بھی جائز اور نافذ ہو گا۔ لیکن جب موقوفہ جائیدادوں کے متعلق وارثوں میں نزاعیں پیدا ہوئیں اورمقدما ت انگریزی عدالتوں میں گئے تو حکا انگریزی نے وقف کو ناجائز قرار دیا کیوں کہ انگریزی خیرات (چیرٹی)کا لفظ فقراء اور بیگانوں کے لیے مخصوص ہے۔ اپنی اولاد کو کچھ دینا خیرات میں داخل نہیں۔ حکا م انگریزی کے سامنے وکلا نے فقہ اسلام کی مستند روایتیں پیش کیں لیکن انہوںنے اس پر اصرار کیا۔ کہ خیرات کے معنی وہی لیے جائیں گیجو انگریزی قانون میں ہیں۔ چنانچہ جسٹس تڑیلویلین نے ایک مقدمہ ۱؎ کے فیصلہ میں یہ الفاظ لکھے : ’’میں لفظ خیرات کو انگریزی لفظ ہی کے مفہوم کے مطابق سمجھتا ہوں اور اس مفہوم کے موافق انگریزی عدالتوں میں اور انگریزی ترجموں میں اس کا استعمال ہوتا ہے مجھ سے چاہا جاتا ہے کہ میں لفظ خیرات کے مفہوم کو مسلمانوں کے مفہوم کے موافق سمجھوں یعنی ایک دوسری زبان کا لفظ استعمال کروں جس کا مفہوم اس زبان کے مفہوم کے خلاف ہو‘‘۔ اس کے بعد کثرت سے مقدمات دائر ہوئے‘ لیکن حکام نے اپنی رائے سے تجاوز نہ کیا۔ ایک مقدمہ میں جو از طرف میرمحمد اسمعیل خان بنام منشی چرن گھوش تھا۔ مولوی امیر علی صاحب جج بھ شریک فیصلہ تھے۔ انہوں نے نہایت مستند حوالوں سے اس مسئلہ کو ثابت کیا۔ اور مقدمہ پریوی کوسل تک گیا۔ لیکن حکام پریوی کونسل نے وقف کو تسلیم نہیںکیا۔ پھر متعدد مقدمات فیصہ میں اس با میں وہ ہے جو حکام نے مقدمہ ابوالفتح اسحاق بنام رسمیا چودھری ۲۳ نومبر سنہ ۱۸۹۴ کو صادر کیا اور جو انڈین لاء پورٹ جلد ۲۲ میں صفحۃ ۷۶ میں درج ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱؎ انڈین لا ء پورٹ جلد ۲ کلکتہ از صفحہ ۲۰۷ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس فیصلہ کا اقتباس ہم اس غرض سے لکھتے ہیں کہ یہ معلوم ہو گا کہ حکام پریوی کونسل نے کس بنا پر وقف اولاد کو ناجائز قرار دیا ہے۔ حکام کے نزدی وقف اولاد ناجائز ہونے کی وجوہ ذیل ہیں: ۱۔ اپنی اولاد پر وقف کرنا کوئی ایثارنفس اور فیاضی نہیںہے۔ اولاد کو دنیا گویا جائیدا د کو خود اپنے ہاتھ میںرکھنا اور حفاظت جائیدا د کا بندوبست ہے۔ چنانچہ حکام پریوی کونسل مقدمہ مذکور میں لکھتے ہیں: ’’یہ خیال کرنا مقنن اعظم (یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) کی نسبت بے جا ہو گا کہ مقنن موصوف نے اس کے ذریعہ سے ایسے ہبہ جات کو پسند کیا ہے جن کے ذریعے سے واہب نے کچھ نفس کشی نہ کی ہو۔ ج میں وہ ایک ہاتھ سے اس شے کو واپش لیتا ہے جو ظاہرا معلوم ہوتا ہے کہ اس نے دوسرے ہاتھ سے دی اور جو ذریعہ کرنے اور ازدیاد جائیداد خاندان تھا‘‘۔ (۲) شریعت اسلام میں ہبہ مشروط ناجائز ہے۔ مثلاً اگر کوئی شخص یوں ہبہ کرے کہ میر ی جائیداد فلاں شخص کو ملے اس طرط پر کہ وہ اس کو منتقل نہ کر سکے۔ پھر اس نے مرنے پر اس کی اولاد کو ملے گیل۔ لیکن اسی شرط پر کہ وہ ا س کو منتقل نہ کرسکے گا۔ اور اسی طر ح یہ حبہ اولاد در اولاد تک قائم رہے گا۔ تو ی ہبہ ناجائز ہو گا۔ جب اس قسم کا ہبہ ناجائز ہے تو وقف کی بھی یہی صورت ہے وہ کیوں کر جائز ہو گا۔ حکام پریوی کونل کے الفاظ یہ ہیں۔ ’’حکام ممدوح نے اثنائے بحث میںدریافت کیا کہ کیا وجہ ہے کہ ازروئے عام قانون اسلام کے اقل درجہ جیسا کہ ہند میںمعلو م ہوتا ہے سادہ ہبہ جات منجانب معمولی اشخاص کے بہ حق اولاد بعید جو ہنوز پیدا نہیں ہوئی یعنی متواتر ناقابل انتقال حقوق حین حیاتی ممنوع ہیں آیا یہ تصور کرنا چاہیے کہ وہی انتقالات جو اس صورت میں ناجائز ہیں جب کہ معمولی الفاظ ہبہ کے استعمال کیے جائیں جائز ہو جاتے ہیں۔ اگر ہبہ کنندہ صرف یہ کہہ دے کہ وہ بطور وقف کے خدا کے نام پر غربا کے لیے کیے گئے ان سوالات کا کوئی جواب نہیںدیا گیا نہ جاب دینے کی کوشش کی گئی ہے۔ نہ حکام عالی کو کوئی جواب معلوم ہوتا ہے‘‘۔(مقدمہ ابوالفتح محمد اسحاق صفحہ انگریزی ۶۳۲)۔ مولوی امیر علی صاحب جج نے نہایت مفصل اور مستند طریقہ سے وقف اولاد کو ثابت کیا۔ انہوں نے وہ تمام حدیثیں نقل کیں جن میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اپنی اولاد کو دینا بھی صدقہ اور خیرات کرنا ہے۔ لیکن حکام پیروی کونسل کہتے ہیں کہ اس قسم کی حدیثیں اخلاقی باتیں ہیں اور جو مناسب موقعوں پر کہی جاتی ہیں۔ لیکن یہ کوئی قانونی اور فقہی مسئلہ نہیں بن سکتا حکام موصوف کے اصلی الفاظ یہ ہیں: ’’حکام عالی مقام نے تاحد اپنی بہترین لیاقت کے متحقق اورمتعلق کرنے اس شرح محمدی کے کوشش کی جو ہند میں معلوم ہے اور جس پر وہاں عمل کیا جاتاہے ۔لیکن ممدوح کو یہ نہیںمعلوم ہوتا کہ قطعی اور (جیسا کہ حکام ممدوح کو معولم ہوتا ہے) بیجا متعلق کرنا حدیث ہائے اصولی کا جونبی کے منہ سے سنی گئیں مطابق اس قانون کے ہے ۔ ممکن ہے کہ یہ حدیثیں منابت موقعوں پر نہایت عمدہ ہوں (مقدمہ مذکور صفحہ انگریزی ۶۳۲) مولوی امیر علی صاحب نے وقف اولاد کی جو مثالیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے صحابہ کے زمانہ میں عمل میں آئی تھیں اپنے فیصلہ میں پیش کیں لیکن حکام پر یوی کونسل نے ان کو کافی نہ سمجھا حکام کے اصلی الفاظ یہ ہیں: ’’نسبت نظائر کے حکام عالی کو بہت زیادہ مفصل حالات معلو م ہونے قبل اس کے وہ تجویز کر سکیں کہ آیاوہ متعلق بھی ہوں گے یا نہیں حکام ممدوح سنتے ہیںکہ ہبہ ۱؎ کیا گیا۔ اور وہ بحال رکھا گیا ۔ لیکن بابت حالات جائیداد کے اس کے سوا ورکچھ انہوں نے نہیں سنا کہ مقدمہ محولہ میں یہ معلوم ہوتا ہے کہ مکان مذکور خاص طورپر مقدس سمجھا جاتا ہے۔ ان کو کچھ حال خداندان یا واقف کا معلوم نہیں‘‘۔ ( مقدمہ ابو الفتح صفحہ انگریزی ۶۳۱) حاصل یہ کہ حکام پریوی کونسل اور انلگش قوم کی کسی طرح سمجھ میں نہیں آتا کہ خود اپنی ہی اولا د کو دینا ثواب اور خیرات کا کام کیوں کر ہو سکتا ہے اور جب وہ خیرات نہیں تو وقف کیوں کر ہو سکتا ہے۔ خان بہادر مولوی محمد یوسف صاحب وکیل کلکتہ نے اس بارہ میںنہایت قابل قدرکوشش کی انہوں نے ایک مطول رسالہ انگریزی زبان میٰں لکھا اور بحیثیت پریسیٹنٹی محمڈن ایسوسی ایشن بنگال وائسرائے کی خدمت میں بھیجا تھا لیکن اولاً تو رسالہ نہایت طول طویل اور حشو زوائد پر مشتمل تھا اور ایک ہی مضمون کا بار بار اعادہ کیا گیا تھا۔ ثانیاً وہ رسالہ پیش ایسے طریقہ سے کیا گیا کہ بجز محدود برائے نام ایسوسی ایشن کے ہندوستان کی اسلامی جماعت اور اخبارات کو خبر تک نہ ہوئی۔ ثالثاً یہ قاعدہ مقررہ ہے کہ پریوی کونسل اپنے کسی فیصلہ کو منسوخ نہیںکرتی اس کے فیصلہ میں وائسرائے اور گورنمنٹ کوئی مداخلت کر سکتی۔ غرض وجوہ مذکورہ بالا سے ناکامی ہوئی۔ اب ہم کو کیا کرنا چاہیے (۱) ایک وقف ایسوسی ایشن یعنی وقف کی ایک کمیٹی قائم ہو جس کے ممبر تمام اضلاع ہندوستان کے سربرااوردہ مسلمان‘ تعلقہ دار‘ زمیندار‘ عہدہ داران سرکاری‘ وکلاء وغیرہ وغیرہ ہوں۔ (۲) ایک فتویٰ تمام ہندوستان کے علماء کے دستخط سے مزین ہو کر تیار کرایا جائے۔ (۳) ایک رسالہ لکھا جائے جس میں احادیث اور روایات فقیہہ سے وقف اولاد کو ثابت کیا جائے۔ (۴) ایک عرض داشت مرتب ہو کر تمام ہندوستان کے مسلمانوں سے اس پر دستخط کرائے جائیں اور وہ مع رسالہ و فتویٰ مذکورہ بالا کے حضور وائسرائے کی خدمت میں بھیجی جائے جس کامضمون یہ ہو کہ: تمام مسلمانان ہندوستان اس تعبیر کو خلاف قانون اسلام سمجھتے ہیں جو پریوی کونسل نے وقف اولاد کے مسئلہ میں کی ہے اس لیے۔ ہم مسلمانوں کی درخواست ہے کہ گورنمنٹ ایک جدید قانون وقف اولاد کے متعلق حسب شریعت اسلام بنا دے جیسا کہ ہندو بیوگان کی نسبت حضور وائسرائے نے ہندوئوں کی درخواست پر ایک قانون موسومہ قانون نکاح بیوگان بنا دیا ہے۔ غر ض جب تک تمام مسلمان کی متفقہ آواز سے گورنمنٹ پر یہ نہ ثابت ہو گا کہ پوری کونسل کا فیصہ مسلمانوں کے مذہب اور شریعت کے خلاف ہے اس بارے میں کچھ کامیابی نہیں ہو سکتی۔ رسالہ کا مسودہ الندوہ میں اطلاع عام کے لیے شائع کیا جاتاہے۔ اور اس پر جو حضرات اسی قسم کی رائے دینا چاہیں۔ خاکسار کو تحریر فرمائیں۔ یہ رسالہ تمام علماء کی خدمت میں منظوری کے لیے مرسل ہو گا۔ اور ان کے دستخط اس پر ثبت کرائے جائیں گے۔ چونکہ انگریزی عدالتوں نے بالعموم وقف علی الا دلاد کو جو شریعت اسلام کا ایک مسلمہ مسئلہ ہے متعدد فیصلوں کے ذریعہ سے ناجائزاور باطل قرار دیا ہے۔ اوریہ ظاہر کیا ہے کہ خود اسلامی شریعت میں یہ مسئلہ ناجائز ہے۔ اس لیے یہ رسالہ تحریر کیا جاتاہے۔ جس سے دو امر ظاہر کرنا مقصود ہے۔ (۱) اولادپر جائیداد کا وقف کرنا‘ حدیث اور فقہ دنوں سے ثابت ہے۔ اور مسلمانوں کے تمام فرقے اس میں متفق الرائے ہیں۔ (۲) حکام انگریزی نے بالخصوص پریوی کونسل نے کس بنا پر اس مسئلہ کے سمجھنے کی غلطی کی ہے وقف اولاد کا مسئلہ اصول مفصلہ ذیل پر مبنی ہے۔ پہلا اصول شریعت اسلا می میں خیرات اور صدقہ غیروں پر محدود نہیں بلکہ خود اپنے اہل و عیال کو دینا بھی صدقہ اور خیرات (چیرٹی) ہے۔ قرآن مجید میں ہے: لیس البر ان تولوا وجوھکم قبل المرشق والمغرب ولکن البر من امن باللہ والیوم الاخر والملکۃ والکتب وابنین واتی المال علی حبہ ذعی القربی والیتمی والمساکین و ابن السبیل والسائلین وفی الرقاب (سورہ بقر رکوع ۲۱) ’’یہی نیکی نہیں ہے کہ تم اپنے منہ مشرق اور مغر ب کی طرف پھیرو لیکن نیکی یہ ہے کہ جو شخص خدا پر اور قیامت پر اور فرشتوں پر اور کتاب پر اور انبیاء پر ایمان لائے اور خدا کی محبت میں اپنا مال رشتہ داروں کو اور یتیموں کو اور مسکینوں کو اور مسافروں کو اور سائل کو اور آزاد کرنے کے لیے دے‘‘۔ ایک اور آیت میں ہے: یسئلونک ماذا ینفقون قل ما انفقتم من خیر فللو الدین والقربین والیتامی والمسکین وابن السبیل ’’لوگ تجھ سے پوچھتے ہیں کہ کیا خیرات کریں‘ کہہ دے کہ جو خیرات کرو تو والدین کو دو‘ اور رشتہ داروں کو اور یتیموں کو اور مسکینوں کو اور مسافروں کو‘‘۔ قرآن مجید کی یہ آیت جب نازل ہوئی: لن تنالوا البر حتی تنفقوا مما تحبون ’’تم ثواب نہیں پا سکتے جب تک اس چیز سے خیرات نہ کرو جو تم کو محبوب ہے‘‘۔ تو ابوطلحہؓ آنحضرت کے پاس آئے اور کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خدا کہتا ہے کہ جب تک محبوب چیز خیرات نہ کرو گے نیکی نہ ملے گی تو مجھ کو اپنی تمام جائدادوں میںسے بیرحا ء بہت زیادہ محبوب ہے میں اس کو صدقہ دینا چاہتا ہوں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تو بہتر یہ ہے کہ اپنے عزیزوں پر صدقہ کرو۔ چنانچہ ابوطلحہؓ نے یہ جائداد اپنے اقارب اور خاص اپنے چچازاد بھائیوں پر صدقہ کی‘ یہ حدیث بخاری میں ہے اور جو قرآن مجید کے بعد سب سے زیادہ مستند کتاب ہے اصل الفاظ بخاری کے یہ ہیں: قال انس فلما لت لن تنالو البر حتی تنفقو مما تحبون قام ابو طلحہ فقال یا رسول اللہ ان اللہ یقول لن تنالوا البر حتی تنفقوا مما تحبون وان احب اموالی الی بیرحاء وانھا صدقہ اللہ ارجوبرھا وذخرھا عنداللہ فضعھا حیث اراک اللہ فقال نج ذلک مال رائج اور ایح شک ابن سلمۃ وقد سمعت ما قلت واتنی اری ان تجعلھا فی الاقربین۔ (بخاری باب الوقف) ’’انسؓ کا بیان ہے کہ جب قرآن کی یہ آیت نازل ہوئی کہ تم کو ثواب حاصل نہ ہو گا۔ جب تک تم اپنا محبوب مال خیرات نہ کرو گے تو ابو طلحہؓ کھڑے ہوئے اور کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خدا یہ کہتا ہے کہ مجھ کو سب سے عزیز میری بیرحاء کی جائیداد ہے تو وہ میں خدا کی راہ میں صدقہ ہے میں اس کے ثواب کا اور خدا کے ہاں ذخیرہ ہونے کا امیدوار ہوں تو آپؐ کو جس طرح چاہیے صرف کیجیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سبحان اللہ یہ توبکار آمد جائیداد ہے(یا چلتی ہوئی چیز ہے) ابن سلمہؓ کو شک ہے کہ ان کے دولفظوں میں سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا فرمایا تھا میں نے سنا جو تم نے کہا اور میری رائے ہے کہ تم اس جائیدا د کو عزیزوں پر وقف کر دو ۔ (بخاری باب الوقف)‘‘۔ صحیح مسلم میں ہے: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ودنیا دانفقتہ فی سبیل اللہ دینار انفقتہ فی رقبتہ دینار تصدقت بہ علی مسکین و دینار انفقتہ علی اھلک اعضمھا احر الذی الفقت علی اھلک (صحیح مسلم کتاب الزکوۃ والصدقہ)۔ ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو روپیہ تم نے خدا کی راہ میں صرف کیا اور کسی گرفتار کے چھڑانے میں صرف کیا اور جو مسکین پر صرف کیا اور جو اپنی بیوی بچہ پر صرف کیا ان میں خدا کا ہاں سب س زیادہ اجر ملے گا وہ وہ ہے جو بال بچہ پر تم نے صرف کیا ۔ (صحیح مسلم کتاب الزکوۃ)‘‘۔ صحیح بخاری میں ہے: خیر الصدقۃ ما کان من ظھروابد لمن تعول ۔ (مشکوۃ) ’’اچھی خیرات وہ ہے جو اہل و عیال کے خرچ سے فارغ ہو کر کی جائے اور شروع عیا ل سے کرو۔‘‘ بخاری و مسلم میں ہے: ’’عن ام سلمۃ ال قلت یا رسول اللہ لی اجر ان انفق علی نبی ابی سلمۃ انماھم بنی فقال انفقی علیھم فلک اجرما انفقت علیھم ’’ام سلمہؓ کہتی ہیں کہ میں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اگر میں ابو سلمہ کے بیٹوں پر صرف کروں تو کیا مجھ کو ثواب ملے گا وہ تو میرے بیٹے ہی ہیں‘ آپ ؐ نے فرمایا کہ ہاں ان پر صر ف کر دو تم کو اس کا ثواب ملے گا‘‘۔ بخاری اور مسلم میں ہے کہ عبداللہ بن مسعودؓ کی بیوی زینب کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے بیبیو! خیرات دو گو اپنے زیور ہی سہی یہ سن کر میں اپنے شوہر کے پا س گئی اور کہا کہ تم مفلس آدمی ہو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم لوگوں کو خیرات کرنے کا حکم دیا ہے تو تم جا کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھو کہ تم کو دنیا خیرات میں داخل ہے یا نہیں؟ اگر نہ ہو تو میں اوروں کو خیرات کر دوں۔ عبداللہ نے کہا کہ نہیں تم ہی جائو۔ زینب گئیں۔ اتفاق سے دروازہ پر ایک ار بیوی ملیں اور ان کو بھی یہی پوچھنا تھا۔ اتنے میں بلالؓ باہر نکلے۔ میں نے بلالؓ سے کہا کہ جا کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھو کہ دو عورتیں یہ پوچھ رہی ہیں کہ اگر وہ اپنے شوہر کو یتیموں کو جوان کرکے زیر تربیت ہیں خیرات کر دیں تو یہ خیرات میں داخل ہو گا یا نہیں ۔ زینب نے یہ بھی کہا کہ ہمارا نام نہ بتانا۔ بلالؓ نے جا کر پوچھا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کا نام پوچھا۔ بلالؓ نے کہا ایک زینب ہیں اور ایک انصاری عورت ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کون سی زینب؟ بلالؓ نے کہا عبداللہ کی بیوی آپ نے فرمایا ان کو دو ثواب ہوں گے۔ ایک رشتہ کا ارو ایک خیرات کا (یہ صحیح مسلم کے الفاظ کا ترجمہ ہے)۔ صحیح ترمذی اور ابن ماجہ اور نسئای میںہے۔ الصدقۃ المسکین صدقۃ وھی علی ذی الرحم ثنتان صدقۃ رصلۃ ’’مسکین کو صدقہ دینا صر ف صدقہ ہے اور قرابت دار کو دینا صدقہ بھی ہے اور صلہ رحم بھی‘‘۔ بخاری اور مسلم میں ہے: اذا انفق المسلم نفقۃ علی اھلہ وھو یحتسبھا کانت لسہ صدقۃ ’’جب مسلمان اپنے بال بچوں پر صرف کرتا ہے اور ثواب سمجھ کر کرتا ہے تو یہ خیرات ہے‘‘۔ ان تمام احادیث سے ثابت ہے کہ اسلام کا یہ اصول ہے کہ خیرات اور صدقہ جس طرح غیر لوگوں کو دینا ثواب ہے۔ اسی طرح اپنی اولاد عزیز و اقارب کو دینا بھی ثواب ہے۔ اسلام کا اصول یہ ہے کہ اپنے بال بچے بھی عام سوسائٹی کے افراد ہیں۔ اس لیے ان کی مدد کرنا بھی بنی نوع انسان کی مدد کرنا ہے اور اس لیے ثواب ہے انگریزی میں بھی مثل ہے کہ خیرات گھر سے شروع ہوتی ہے۔ دوسرااصول اسلام نے خیرات کے دو طریقے قرار دیے ہیں ایک یہ کہ اصل چیز خیرات میں دے دی جائے۔ دوسرے یہ کہ اصل چیز محفوظ رہے اور اس کا منافع یا آمدنی خیرات میں صرف ہوتی رہے اس دوسری قسم کا نام وقف ہے۔ وقف کا یہ حکم ہے کہ اصل شے نہ کسی کی ملک ہو سکتی ہے۔ نہ فروخت ہو سکتی ہے نہ منتقل ہو سکیتی ہے۔ وقف کی یہ حقیقت خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے متعین فرمادی تھی۔ حضرت عمرؓ کو خیبر میں ایک نخلستان ہاتھ آیا۔ انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی کہ میں خیرات کرنا چاہتا ہوں کس طریقہ سے کروں۔ آپؓ نے فرمایا اصل محفوظ رہے یعنی نہ بک سکے ہ ہبہ ہو سکے نہ اس میں وراثت جاری ہو۔ یہ واقعہ بخاری میں متعدد طریقوں سے بالتفصیل مذکور ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ یہ ہیں: تصدق باصلہ لا یباع ولا یوھب ولا یورث ولکن ینفق ثمرہ ’’اصل کو اس طرح خیرات میںدو کہ وہ نہ بک سکے نہ ہبہ کی جا سکے نہ اس میں وراثت جاری ہو بلکہ اس کا پھل لوگوں کو ملا کرے‘‘۔ اگرچہ یہ وقف غربا اور مسافروں اور مہمانوں وغیرہ کے لیے مخصوص تھا تاہم رشتہ دار اور قرابت دار بھی اس میں داخل تھے چنانچہ بخاری کے یہ الفاظ ہیں: فی الفقراء والقربیٰ وفی الرقاب وفی سبیل اللہ والصنیف وابن اسبیل تیسرا اصول فقہ اسلام کا تما م تر مدارنیت پر ہے۔ یعنی ایک ہی چیز کسی شخص کو دوستانہ یا ہبہ کی نیت سے دی جائے تو اس کے اور احکام ہوں گے اور اگر یہ نیت کر لی جائے کہ خدا کی راہ میں دی گئی ہے تو اس کے احکام بدل جائیں گے مثلاً ایسی چیز کا دینا سیدوں اور دولت مندوں کو ناجائز ہو گا حالانکہ ہبہ کرنا ہر شخص کے لیے جائز ہے۔ وقف کا مسئلہ ان ہی اصول مذکورہ بالا کی بنیا د پر ہے چنانچہ خود حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں اس قسم کے وقفوں کی بنیاد پڑی اور اس وقت سے آج تک یہ سلسلہ برابر قائم رہا۔ صحابہؓ نے اولاد پر وقف کیا تھا فتح القدیر حاشیہ ہدایہ میں یہ سند نقل کیا ہے۔ ان الزبیر بن العوام وقف دارلہ علی المردودۃ من بناتہ ’’زبیرؓ بن عوام نے اپنا ایک مکان اپنی مطلقہ لڑکیوں پر وقف کیا‘‘۔ فتح القدیر ۱؎ میں حاکم کی سند سے روایت ہے کہ ابتدائے اسلام میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جس مکان میں رہتے تھے اور جو صفاکے پاس تھا ۔ اس کو ا کے مالک ارقم نے اپنے بیٹوں پر وقف کر دیا تھا وقف نامہ کے الفاظ یہ تھے۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم ھذا ما قضی الارقم لا تباع ولا تورث ’’یہ وہ وقف ہے جو ارقم نے قائم کیا۔ وہ نہ بیجا لے گا نہ اس میں وراثت جاری ہو گی‘‘۔ اس فتح القدیر میں بیہقی کی کتاب الخلافیات سے نقل کیا ہے: تصدق ابوبکر بدارہ علی ولدۃ فھی الی الیوم وتصدق سعد بن ابی وقاص بدارہ بالمدینۃ وبدراہ بمصر علی والدہ فذالک الی الیوم… وعمر و بن العاص بربط من الطائف ددارہ بمکۃ والمدینۃ علی ولدہ فذالک الی الیوم ؎۱ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱؎ فتح القدیر ہدایہ کی شرح ہے اور نہایت معتبر کتاب ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ’’حضرت ابوبکر صدیقؓ نے اپنے مکان کو جو مکہ میں تھا‘ اپنی اولاد پر وقف کیا چنانچہ وہ اب تک قائم ہے۔ سعد بن ابی وقاصؓ نے اپنے مدینے کے مکان کو اور مصر کے مکان کو اپنے بیٹوں پر وقف کیا جو اب تک قائم ہے۔ عمرو بن العاصؓ نے طائف اور مکہ اور مدینہ کے مکانات کو وقف کیا چنانچہ وہ اب تک قائم ہے۔‘‘ عینی شرح ہدایہ میںہے: وفی الخلافیات بیھقی قال ابوبکر عبداللہ بن الذبیر الحمیدی تصدق ابوبکر بدارہ بمکۃ علی ولدہ فھی الی الیوم و تصدق عمر بربعۃ عند المروۃ بالاتہ علی ولدہ فھی الی الیوم و تصدق علی رضی اللہ عنہ بارضہ ددارہ بمصر و باموالہ بالمدینۃ علی ولدہ فذالک الی الیوم و تصدق سعد بن ابی وقاض رضی اللہ عنہ بربعۃ عنہ المروۃ و بدارہ بالمدینۃ بدراہ مبصر علی ولدہ فذالک الی الیوم (عینی جلد دوم ص ۹۹۳) ’’بیہقی کے خلافیات میں لکھا ہے کہ ابوبکر عبداللہ بن البیر حمیدی نے کہا کہ حضرت ابوبکر ؓ نے اپنے مکان کو جو مکہ میں تھا اپنے بیٹوں پر صدقہ کیا اور وہ اب تک ہے اورحضرت عمر نے ایک جائداد کو جو مردہ میںتھی مع آلات کے اپنے بیٹوں پر وقف کیا سو وہ اب تک ہے اور حضرت علیؓ نے مصر کے مکان اور اراضی ار مدینہ کی جائیدا د کو اپنی اولاد پر وقف کیا جو اب تک موجود ہے۔ اور سعد بن ابی وقاص ؓ نے مروہ کے پاس ایک جائیداد کو اور مدینہ اور مصر کے مکانات کو اپنے اوپر وقف کیا تو وہ اب تک قائم ہے ۔ (عینی شرح ہدایہ جلد دوم صفحہ ۹۹۳ مطبوعہ لکھنو)‘‘۔ صحیح بخاری میں باب الوقف میں ہے: وتصدق الذبیر بدروہ وقال للمردودۃ من بناتی ان تسکن وجعل ابن عمر نصیبہ من دار عمر رضی اللہ عنہ سکنی لذوی الحاجۃ من آل عبداللہ ’’اور حضرت زبیرؓ نے اپنے مکانات لڑکیوں پر وقف کیے جو مطلقہ ہوں۔ اور عبداللہ بن عمرؓ نے اپنا وہ حصہ جو حضرت عمر کی جائیداد سے ملا تھا اپنی محتاج اولاد پر وقف کیا‘‘۔ جن بزرگوں نے یہ وقف کیے تھے یعنی ارقمؓ ‘ حضرت ابوبکر صدیقؓ ، حضرت عمرؓ ، سعدبن ابی وقاصؓ ، عمرو بن العاصؓ ، زبیرؓ ، حضرت علیؓ ، حضرت عبداللہ بن عمرؓ یہ سب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مشہور اصحاب ہیں۔ تعجب ہے کہ باوجود اس کے حکام پریوی کونسسل کہتے ہیں کہ ’’جو نظائر پیش کیے گئے ہیں وہ مبہم اور زیادہ تسکین طلب ہیں اورہم کو ان وقف کرنے والوں کا حال معلوم نہیں‘‘ جن بزرگوں کے نام اوپر گزرے ہیں‘ اسلا م کی تاریخ میں ان یس زیادہ کوئی نام آور نہیں جو جائیدادیں وقف کیں ان کے موقعے اور پتے بتا دیے گئے ہیں اور چوتھی صدی ہجری تک کے محدثین نے لکھاہے کہ آج تک یہ اوقاف قائم ہیں۔ فقہ میں وقف اولاد اسی بناپر فقہ میں وقف اولاد کا خاص باب ہے اور اس کے متعلق ہر قسم کے تفصیلی احکام درج ہیں۔ فتاویٰ قاضی خان میں جو نہایت معتبر کتابہے فقہ حنفی کی ہے لکھا ہے: رجل قال ارضی ہذہ صدقۃ موقوفۃ علی ولدی کانت الغلۃ لولد صلبہ یستوی فیہ الذکر والانثیٰ واذا جاز ھذہ الوقف فھاد ام یوجد واحد من والدالصلب کانت الغلۃ لہ لا غیروان لم یبین واحد من البطن الاول تصرف الغلۃ الی الفقراء رقاضیحان فصل فی الوقف علی الاولاد ’’ایک شخص نے کہا کہ میری یہ زمین میری اولاد پر صدقہ اوروقف ہے۔ توزمین کا محاسل صلبی اولاد کو ملے گا۔ اس میں مرد عورت سب برابر ہوں گے۔ اور جب یہ وقف جائز ہو ا تو جب تک ایک شخص بھی صلبی اولاد سے موجود رہے گا منافع اسی کو ملے گا اور کسی کو نہیں اور اگر پہلی پشت کا کوئی شخص موجود نہ رہ جائے توفقیروں کو ملے گا‘‘۔ فتاویٰ عالمگیری باب الوقف میں ہے: وان قال علی ولدی وولد ولدی و ولد ولدی ذکر البطن الثالث فانہ تصرف الغلۃ الی اولادہ ابدا ماتناسلوا لاتصرف الی الفقراء مابقی احد یکون الوقف علیھم وعلی مابقی احد یکون الوقف علیھم وعلی من اسفل منھم الاقرب والا بعد فیھم سواء کتاب الوقف عالمگیری الفصل الثانی لی فی الوقف علی نفسہ واولادہ ونسلہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱؎ اس فیصلہ پر یوی کونسل کا حوالہ آگے آئے گا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ’’اوراگر کہا کہ جائیدا د میری اولاد اور اولاد اولاد اور ان کی اولاد اولاد یعنی تیسری پشت کا بھی ذکر کیا تو جائیدا کا منافع ہمیشہ خاندان کو ملتا رہے گا جب تک اولاد کی نسل چلتی رہے اور فقیروں کو کچھ نہیں ملے گا جب تک خاندان میں ایک شخص بھی باقی رہے گا اس کو اور اس کے نیچے والوں کو منافع ملے گا قریب اور بعید اس میںسب برابر ہوں گے‘‘۔ در مختار میں ہے: ونورادالبطن الثالث عم نسلہ و یستوی الاقرب والابعد۔ (در مختار فصل فیما یتعلق بوقف اولاد) ’’اور اگر تیسری پشت کو بھی اضافہ کیا تو تمام نسل کو عام ہو گا قریب و بعید سب شامل ہوں گے‘‘۔ چونکہ یہ مسئلہ بلا اختلاف تمام فقہا نے تصریحاً لکھا ہے اس لیے زیادہ عبارتیںہم نے نقل نہیں کیں۔ مفتی بہ قاضی ابو یوسف اور امام محمد کی رائے ہے اس موقع پر بطور ایک واقعہ کے یہ ظاہر کر دینابھی ضرور ہے کہ وقف کے احکام جو بیان ہوئے ہیں وہ قاضی ابو یوسف اورامام محمد اورتمام دیگر فقہا کی رائے کے موافق ہیں امام ابو حنیفہ سرے سے واف کے قائل نہیں یعنی ان کے نزدیک وقف میں واقف کی ملکیت ساقط نہیںہوتی اور واقف جب چاہے وقف سے رجوع کر سکتا ہ۔ لیکن تمام فقہاء نے تصریح کی ہے ہ امام ابو حنیفہ کے قول پر فتویٰ نہیں ہے بلکہ قاضی ابویوسف صاحب اور امام محمد صاحب کے قول پر فتویٰ ہے۔ فتاوائے عالمگیری میں ہے: وفی العیون والیتیمۃ الفتویٰ علی قولھا ’’اور عیون اور یتیمہ (کتابوں کا نام ہے) میں ہے کہ فتویٰ دونوں صاحبوں (قاضی ابو یووسف و امام محمد ؒ) کے قول پر ہے‘‘۔ فتاویٰ قاضی خان میں ہے: والناس لم یا خذ و ابقول ابی حنیفۃ فی ھذا اللآثار المشھورۃ عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم والصحابۃ ’’اور لوگوں نے اس بارہ میں ابو حنیفہؒ کے قول کو اختیار نہیںکیا بوجہ ان مشہور روایتوں کے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اورصحابہ سے مروی ہیں‘‘۔ در مختار میں ہے: فلا یجوزلہ ایطالہ ولا یورث عنہ وعلیہ الفتوی ’’تو وقف کرنے والے کو وقف کا باطل کرنا جائز نہیں‘ اورنہ شے موقوفہ میں وراثت جاری ہو سکتی ہے اور اسی پر فتویٰ ہے‘‘۔ فتح القدیر ۱؎ حاشیہ ہدیہ میں ہے: والحق ترجیح قول عامۃ العلماء بلزومہ الان الاحادیث والآثار منظافرۃ علی ذال قولا کما صح من قولہ علیہ الصلوۃ والسلام لایباع ولا یودث الخ وتکرر ہذا فی احادیث کثیرۃ واستم عمل الامۃ من الصحابۃ والتابعین ومن بعدھم علی ذلک اولھا صدقۃ رسول اللہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱؎ فتح القدیر مطبوعہ لکھنو جلد ۲ صفحہ ۸۳۷ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ’’اور حق یہ ہے کہ عام علماء جو وقف کے لازم ہونے کے قائل ہیں انہی کے قول کو ترجیح ہے کیونکہ حدیثیں اور روایتیں اس میں پے در پے ہیں جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ قول صحیح طور پر ثابت ہے کہ جائیداد موقوفہ نہ فروخت ہو سکے گی۔ نہ اس میں وراثت جاری ہوگی اور متعدد حدیثوں میں ایسا آیاہے کہ اورتمام امت محمدیہ کا صحابہ سے لے کر تابعین اور مابعد کے لوگوں کا اس پر عمل رہا ہے پہلا وقف خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ۔ ثم صدقۃ ابی بکر ثم عمر و عثمان وعلی و الذبیر ومعاذ بن جبل و زید ابن ثابت و عائشہ و اسماء اختھا و ام سلمہ و ام حبیبۃ و صفیہ بنت حی و سعد بن ابی وقاص و خالد بن الولید و جابر بن عبداللہ و عقبہ بن عامر ابی ارویٰ لدوسی و عبداللہ ابن الذبیر رضی اللہ عنھم کل ہولامن الصحابہ ثم التابعین بعد ہم کلھا بروایات و توراث الناس اجمون ذلک ’’پھر ابوبکرؓ، عثمانؓ، علیؓ۔ زبیرؓ ، معاذ بن جبلؓ، زید بن ثابتؓ عائشہؓ اور ان کی بہن اسمائؓ اور ام سلمہؓ اور ام حبیبہؓ اور صفیہؓ بنت حی اور سعدبن ابی وقاصؓ اور خالد بن ولید اور جابر بن عبداللہ اور عقبہ بن عامر اورابی اردی الدوسیؓ ، اور عبداللہ بن زبیرؓ ان سب سے وقف کیا یہ سب لوگ صحابہ میں ہیں اور ان کے مابعد کے لوگوں کا یہ عمل رہا ہے اور تما لوگ اس کو کرتے آئے ہیں‘‘۔ سبحر الرایق شرح کنز الدقائق مصفہ علامہ ابن نحیم میں ہے: وقد اکثر الخصاف من الاستدلال لھما بوقوف النبی صلی اللہ علیہ وسلم و اصحابہ رضی اللہ عنھم وقد کان ابویوسف مع الامام حتی حج مع الرشید ورای وقوف الصحابہ رضی اللہ عنھم بالمدینۃ ونواحٰھا فرجع وافتی بلزومہ ولقد استبعد محمد قول ابی حنیفہ فی الکتاب لھذا وسماہ تحکما علی الناس؎۱ ’’اور خصاف نے قاضی بو یوسف اورامام محمد کے مذہب کے موافق بہت سے وقفوں سے استدال کیا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اور صحابہ نے وقف کیے پہلے قاضٰ ابویوسف بھی امام ابو حنیفہ کے ہم خیال تھے لیکن جب انہوں نے ہارون الرشید کے ساتھ حج کیا اور مدینہ جا کر وہاں اور اس کے اطراف میں صحابہ کے اوقاف دیکھے تو ان کی رائے بدل گئی اور فتویٰ دے دیا کہ وقف لازم ہے اور امام محمد نے اپنی کتاب میں اما م ابو حنیفہؒ کے قول پر بہت تعجب کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ زبردستی ہے‘‘۔ پریوی کونسل کے شبہات کا جواب اصول ہائے مذکورہ بالا کے بیان کرنے کے بعد ہم پریوی کونسل کے ان شبہات کی طرف متوجہ ہوتے ہیں جن کی بنا پر انہوں نے وقف اولاد کو ناجائز سمجھا ہے۔ جناب مولوی امیر علی صاحب جسٹ نے اپنے فیصلہ مندرجہ انڈین لاء رپورٹ سلسلہ کلکتہ جلد ۲۰ صفحہ ۱۴۰ میں متعدد روائتیں وقف اولاد کے ہونے کے سلسلے میں نقل کی تھیں لیکن حکام پر یوی کونسل نے ان کے متعلق یہ لکھا ہے: ’’رائے اس مقنن ذی علم شرح محمدیؐ کی جیسا کہ حکام عالی مقام سمجھتے ہیں ایسے اقوال پر مبنی ہے جو اصول ذہنی تھے اورایسے نظائر پر جو بہت غیر مکمل طور پر بیان کیے گئے مثلا ً حاکم موصوف نے ایک حوالہ نصیحت خود پیغمبر یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا دیا ہے جس کا یہ مضمون ہے کہ نیکی کی راہ سے دنیا اپنے خاندان کو اس غرض سے کہ وہ محتاج نہ ہوں زیادہ تر کار ثواب بہ نسبت فقرا کے ہے نہایت اعلیٰ صدقہ ہے وہ ہے کہ جو کوئی شخص اپنے خاندان کو دے اور بطور نظیر کے حاکم موصوف نے ذکر ہبہ ایک مکان کا کیاہے جو وقف یا صدقہ میںدے دیا گیا تھا۔ اور جس کی آمدنی اولاد مسمی ارکان راہب کو عطا کی گئی تھی ۔ حاکم موصوف کی دیگر قدیم انسناد اسی قسم کی ہیں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱؎ بحر الرائق مطبوعہ مصر طبع اول مطبع علمیتہ صفحہ ۲۰۹ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نسبت نظائر کے حکام عالی مقام کو بہت زیادہ مفصل حالات معلو م ہونے چاہئیں قبل اس کے کہ وہ تجریز کر سکیں کہ آیا وہ متعلق بھی ہوں گے یا نہیں حکام ممدوح سنتے ہیں کہ ہبہ کیا گیا اور وہ بحال رکھا گیا۔ لیکن بابت حالات جائیداد کے سوا اس کے اور کچھ انہوں نے نہیں سنا کہ مقدمہ مخولہ میں یہ معلوم ہوتا ہے کہ مکان مذکورہ خاص طور پر مقدس سمجھا جاتا تھا ان کو کچھ حال خاندان یا واقف کا نہیں معلوم‘‘ نسبت ان حدیثوں کے جو بطور اصی اصول شرح محمدیؐ کے بیان کی گئی ہیں واح ہو کہ حکام عالی مقام نے یہ امر فراموش نہیں کیا کہ کس حد تک شرح اور مذہب فرقہ ہائے اہل اسلام میں باہم مخلوط ہیں۔ لیکن حکام ممدوح نے اثنائے بحث میں دریافت کیا ہے کہ کیا وجہ ہے ازروئے عام قانون اسلام کے اقل درجہ جیسا کہ ہند میں معلوم ہوتا ہے سادہ ہبہ جات منجانب معمولی اشخاص کے بحق بعید اولاد کے جو ہنوز پیدا نہیںہوئی یعنی متواتر ناقابل انتقال حقوق عین حیاتی ممنوع ہیں اور آیا یہ تصور کرنا چاہیے کہ وہی انتقالات جو اس صورت میں ناجائز ہیں جب کہ معمولی الفاظ ہبہ کے استعمال کیے جائیں جائز ہو جاتے ہیں اگر صرف ہبہ کنندہ یہ اجازت کہہ د ے کہ وہ بطور وقف کے خدا کے نام پر یاواسطے غربا کیے گئے ان سوالات کا کوئی جوب نہیںدیا گیا نہ جواب دینے کی کوشش کی گئی نہ حکام عالی مقام کو کوئی جواب معلوم ہوتا ہے۔ یہ صحیح ہے کہ واہب کا حق قطعی جائیداد مذکور میں کم ہو جاتا ہے ۔ اور حق عین حیاتی رہ جاتاہے۔ یعنی وقف نامہ کی وجہ سے وہ متولی یا مہتمم تصور کیاجاتا ہے۔ لیکن وہ اس حیثیت میں تاحضیات رہتا ہے۔ اس کو اختیار ہے کہ آمدنی کے مطابق اپنی مرضی کی صرف کرے اور کوئی اس سے حساب نہ طلب کرے۔ اس قدر تبدیلی حالت ملکیت میں باکل مطابق اس تدبیر کے ہے کہ خاندان میںمدار مت قائم کی جائے اور بلا شک واسطے فوراً تکمیل کے ایسے ارادہ کے ضروری ہے حکام عالی مقام نے تاحد اپنی بہترین لیاقت کے متحقق اور معلوم ہونے ا شرع محمدیؐ کی کوشش کی جو ہند میں معلوم ہے اور جس پر وہاں عمل کیا جاتاہے۔ لیکن حکام ممدوح کو یہ نہیں معلوم ہوتا کہ قطعی اور جیسا کہ حکام ممدوح کو معلوم ہوتا ہے بیحا تعلق کرنا حدیث ہائے اصولی کا جو بنی کے منہ سے سنی گئیں مطابق اس قانون کے ہے ممکن ہے کہ یہ حدیثیں مناسب موقع پر نہایت عمدہ ہوں جہاں تک کہ حکام عالی مقام کو معولم ہے ممکن ہے کہ ان حدیثوں کا یہ اثر ہو کہ ان سے قاعدہ اور دستور وقف کی ترمیم ہوئی جیسا کہ جج ذی علم نے تحریر کیا ہے کہ ان کی تاثیر یہ تھی۔ لیکن یہ خیال کرنا مقنن اعظم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت بے جا ہو گا کہ موصوف نے اس کے ذریعہ سے ایسے ہبہ جات کو پسند کیا ہے جن کے ذریعہ سے داہب نے کچھ نفس کشی نہ کی ہو جس میں وہ ایک ہاتھ سے اس شے کو واپس لیتا ہے جو ظاہرا معلوم ہوتا ہے۔ کہ اس نے دوسرے ہاتھ سے دی ہے اور جو ذریعہ جمع کرنے آمدنی اور رازیا دو جائیداد خاندان ہیں اور جن کی رو سے وہ اشخاص جو مہتمان ہوں موسو م کیے گئے مطالبہ حساب سے بہ اختیار محفوظ رکھے گئے ہیں ۔ ۱؎ ‘‘ عبارت مذکورہ بالا سے معلوم ہو سکتا ہے کہ پریوی کونسل نے وقف علی الاولاد کے مسئلہ کو ناجائز قرار دیا ہے حسب ذیل ہیں۔ (۱) اپنی اولاد کو دینا ثواب اور خیرات کا کام کیوں کر ہو سکتا ہے ‘‘ اس کے متعلق ہم پہلے اصول میں تفصیل سے لکھ آئے ہیں کہ اسلام نے اولاد اور خاندان کی پرورش کو ثواب کا کام قرار دیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱؎ دیکھو مقدمہ ابوالفتح محمد اسحاق وغیرہ مدعیان بنام راس مایا دھر چودھری وغیرہ مدعا علیہم مندرجہ جلد ۲۲ ترجمہ انڈین لاء رپورٹ مطبوعہ جولائی نہ ۱۸۹۵ ء مسلسلہ کلکتہ مطبع نظائر قانون ہند مندرجہ صفحہ کتاب انگرزی از صفحہ ۶۱۹ تا ۶۳۳ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہے اور عقل بھی اس کی مقتضی ہے ہ یہ ثواب کا کام ہے۔ (۲) وقف اولاد کے متعلق شارع اسلام سے جو روایتیں منقول ہیں اور جن کا تذکرہ مولوی امیر علی صاحب جسٹس نے اپنے فیصلہ میںکیا ہے ‘ وہ مبہم اور زیادہ توضیع اور ثبوت طلب ہیں لین ہم نے صحابہ کے وقف اولاد کے متعلق تفصیلی روایتں مع حوالوںکے نقل کر دی ہیں۔ (۳) شریعت اسلام نے ہبہ مشروط اورہبہ حین حیاتی‘ اور ہبہ ناقابل انتقال کو ناجائز قرار دیا ہے ۔ یعنی اگر کوئی شخص کوئی جائیداد اس طرح حبہ کرنا چاہے کہ موہوب لہ سرف اپنی زندگی تک اس سے متعمع ہو سکے۔ اس کے بعد اس کی اولاد اور اولاد اولاد کو اسی طرح حین حیاتی حق حاصل ہوتا رہے تو یہ ہبہ فقہ اسلام کی رو سے ناجائز ہو گا۔ جب ی مسلم ہے تو یہ کیوں کر ہو سکتا ہے کہ یہی طریقہ انتقال صرف اس وجہ سے جائز ہو جائے کہ ہبہ کی بجائے اس کو وقف کہہ دیا جائے کیا لفظ کے بدلنے سے ھقیقت بدل جاتی ہے۔ لیکن یہ شبہ بھی صحیح نہیں ہے ہبہ اور وقف بالکل مختلف چیزیں ہیں اور ان کے احکام بالکل مختلف ہیں ہم اوپر بیان کرآئے ہیں کہ شریعت اسلام میں احکام کا مدار نیت پر ہے اگر ایک شخص کوئی چیز کسی کو ہبہ دینا چاہے تو بلا کسی قید کے دے سکتاہے۔ لیکن اگر اسی کا نام وہ زکوۃ رکھ دے جو خیرات کی ایک قسم ہے تو بہت سی شرطیں لازم ہو جائیں گی۔ مثلاً یہ کہ جس کو وہ چیز دی جائے۔ وہ دولت مند نہ ہو پیغمبر کے خاندان سے نہ ہو کھانے کمانے کے قابل نہ ہو۔ فقہ اسلام میں ہبہ اس کا نام ہے کہ کوئی چیز کسی شخص کو قطعاً دے دی جاء کہ وہ جو چاہے کرے اس صورت میں چونکہ یہ احتما ل ہے کہ موہوب لہ اس کو جائز یا ناجائز طورپر بالل صرف کر ڈالے ارو اس سے کوئی مستقل اور مستمرہ مدد کسی کو حاصل نہ ہو۔ اس لیے یہ کوئی ثواب کا کام نہیںقرار دیا گیا بخلاف اس کے وقف کے یہ معنی ہیں کہ مستقل اور مستمر طور پر ایک گروہ کی پرورش اور بقائے زندگی کا سامان مہیا کیا جائے۔ اس طرح یہ ذریعہ معاش کوئی شخص منقطع نہ کرنے پائے اس لیے ایسی تدبیر جس سے ایک گروہ انسانی کی پرورش کا ایک مستقل اورپائیدا ر سلسلہ قائم ہو اور باقی رہے یقینا بنی نوع انسان کی بھلائی کا کام ہے اور داخل ثواب ہے۔ وقف میںموقوف لہ بہت سے شرائط کا پابند ہے۔ وہ جائیداد کو منتقل نہیں کر سکتا۔ جائیدا د کے منافع کو بے جا نہیں صرف کر سکتا۔ جو مصارف وقف میں معین ہو چکے ہیں ان میں ادل بدل اور تغیر نہیںکر سکتا۔ اگر موقوف لہ وقف کا بے جا استعمال کرے تو ہر مسلمان کو حق حاصل ہے کہ عدالت میں اس پر دعویٰ کرے اور قاضی اس کوتمام ایسے تصرفات سے باز رکھے گا۔ اس صورت میں یہ ظاہر ہے کہ ہبہ اور وقف بالکل مختلف چیزیں ہیں اور ان کے احکام میں فرق ہونا لازمی ہے۔ جب تمام مذکورہ بالا حدیثوں اور فقہی روایتوں سے ثابت ہو گیا کہ الام میں اولا د پر وقف کرنا جائز ہے اور واجب النفاذ ہے تو پریوی کونسل کو اسلام ہے کے مطابق وقف کے مسئلہ پر عمل کرنا چاہیے کیونہ گورنمنٹ انگریزی کا یہ اصول ہے کہ وہ کسی قوم کے مذہبی احکام میں کوئی مداخلت نہیںکرتی‘‘۔ پردہ اور اسلام یورپ ی عامیانہ تقلید نے ملک میں جو نئے مباحث پیدا کیے ہٰں ان میں ایک یہ مسئلہ بھی ہے کہ اگر اس مسئلہ پر صرف عقلی پہلو سے بحث کا جاتی تو ہم کو دخل در معقولات کی کوئی ضرورت نہ تھی لیکن ساتھ ہی یہ دعویٰ کیاجاتا ہے کہ خود مذہب اسلام میں پردہ کا حکم نہیں‘ اور اس سے بڑھ کر یہ کہ قرون اولیٰ میں پردہ کا رواج بھی نہتھا۔ نئے تعلیم یافتہ لوگ کے سب مشہور اور مستند مصنف (مولوی امیر علی) نے سنہ ۱۸۹۹ء میں رسالہ نائن ٹینتھ سنچری میں مسلمان عورتوں کے عنوان سے ایک مضمون لکھا تھا جس میں وہ تحریر فرماتے ہیں: ’’یہ لمبا برقع نقاب اور خمار سلجوقیوں کے آخری زمانہ میںشائع ہوا تھا۔ اور جس قسم کا پرد ہ آج کل مسلمانان ہند میں رائج ہے خلفا کے زمانہ میں اس کا کہیں نام و نشان نہ تھا بلکہ برعکس اس کے اعلیٰ طبقہ کی عورتیں بلا برقع کے مردوں کے سامنے آتی تھیں۔ ساتویں صدی ہجری کے وسط میں جب خلفاء ضعیف ہوئے اور تاتاریوں نے اسلامی حکومت کو درہم برہم یا تو اس وقت علماء میں اس رپ نزاع ہوئی کہ عورتیںاپنے ہاتھ منہ اور پائوں اجنبیوں کے سامنے کھول سکتی ہیں یا نہیں‘‘۔ اس موقع پر عبرت کے قابل یہ امر ہے کہ اسلام کی تاریخ اور اسلام کے مسائل کی تعبیر کرنے والے دو گروہ ہو سکتے تھے علمائے قدیم ار جدید تعلیم یافتہ علماء کا یہ حال ہے کہ ان کو زمانہ کی موجودہ زبان میں بولنا بھی نہیں آتا۔ جدید تعلیم یافتہ لوگوں کے مبلغ علم کا ا س عبارت سے اندازہ ہو سکتا ہے۔ جو ابھی اور گزر چکی ہے لیکن بدقسمتی سے یہی دوسرا گروہ قومی لٹریچر پر قبجہ کرتا جاتا ہے۔ اور چونکہ غیر قوموں کے کانوں میں صرف اسی گروہ کی آواز پہنچتی ہے۔ اس لیے مسائل اور تاریخ اسلام کے متعلق آئندہ زمانہ می اسی گروہ کی آواز اسلام کی آواز سمجھی جائے گی۔ ہم اس مضمون میں صرف تاریخی پہلو سے بحث کرتے ہیں ۔ ارو یہدکھانا چاہتے ہیںکہ عرب میں اسلام سے پہلے پردہ کی کیا حالت تھی اورھر تمام اسلامی دنیا میں پردہ کے متعلق کیا طریق عمل رہا۔ مدت ہوئی ہم نے اس مضمون کے پہلے حصے پر ایک بسیط مضمون لکھا تھا پہلے اس کو بعینہ اس مقام پر درج کرتے ہیں۔ اس سے انکار نہیں ہو سکتا کہ قدرت نے مرد اور عورت کو بعض خصوصیتوں میں ایک دوسرے سے ممتاز پیدا کیا ہے۔ لیکن تمدن نے اس قدرتی خصوصتیوں کے علاوہ بھی بہت سے امتیاز قائم کر دیے ہیں جو ہر قوم ‘ ہر فرقہ ‘ ہر ملک مٰں جدا جدا صورتوں میںنظر آتے ہیں ۔ دنیا کے نہایت ابتدائی زمانہ میں غالباً مردوں اور عورتو ں کے لباس وضع طور طریقے بالکل یکساں رہے ہوں گے اور بجز قدرتی خصوصیتوں کے کوئی چیز ان کو ایک دوسرے سے جدا نہ کر سکتی ہو گی لیکن تمدن کو جس قدر وسعت ہوتی گئی اسی قدر یہ باہمی امتیاات بڑھتے گئے رفتہ رفتہ یہاں تک نوبت آپہنچی کہ آج دونوںکے تمدن اور معاشرت میں بہت کم چیزیں رہ گئیں ہیں۔ جو مشترک کہی جا سکتی ہیں۔ دنیا کی ابتدائی تاریخ بالکل تاریکی کی حالت میں ہے۔ قدیم سے قدیم زمانہ جس کے تاریخی حالات معلوم ہو سکتے ہیں دو تین ہزار برس سے زیادہ نہٰں یہ وہ زمانہ ہے۔ جب موجودہ تفرقوں کیبنیاد پڑ چکی تھی اور دونوں فریق کے اصول زندگی میں بہت سی ممتاز خصوصیات پیدا ہو چکی تھیں۔ اس لیے آج یہ پتا لگانا قریبا ناممکن ہے کہ اول کن اسباب سے یہ فرقے قائم ہوئے اور جس زمانہ کو ہم اپنے علم تاریخ کی ابتدا قرار دیتے ہیں اس وقت تک کیوں کر ان فرقوںنے وسعت حاصل کر لی تھی۔ اگر ہم بتانا چاہیں کہ انسان کو ستر عورت کا خیال کیوںکر ہوا ار مردوں اور عورتوں میں اس کے مختلف حدود کس بنا پر قرار دیے گئے تو ہم کو ئی کافی وجہ نہیںبتا سکیںگے۔ اسی طرح اور خصوصیتوں کی نسبت بھی ہم کچھ جواب نہیں دے سکتے۔ اس لیے نہایت قدیم تفرقوں کی تاریخ قائم کرنی اوران کے وجوہ و اسباب پر غور کرا توبے فائدہ ہے۔ البتہ جوامور زمانہ مابعد میں پیداہوئے ان کے متعلق تحقیقات کی کوشش کرنا بے جا نہیں ہے۔ پردہ کی دو قسمیں قرار دی جا سکتی ہیں: (۱) چہرہ اور تمام اعضا کا ڈھکنا (۲) مردوں کی مجلسوں اور صحبتوں میں شریک ہونا پہلی قسم کا پردہ عرب مٰں اسلام سے پہلے موجود تھا۔ اور زیادہ تر قدرتی ضرورتیں ا س کے ایجاد کا باعث تھیں۔ اول اول اس رسم کی ابتدا ہوئی تو عورتوںکے ساتھ مخصوص نہ تھی۔ کیونکہ زیادہ تر ا س کو قدرتی ضرورتوںنے پیدا کیا تھا اور وہ مرد اور عورت سے یکساں متعلق تھیں غالباً سب سے پہلے قبیلہ حمیر میں جو یمن کے رہنے والے تھے اور وہاں کے حاکم تھے یہ طریقہ جاری ہوا اسپین میں حمیر کے ایک خدانان کی حکومت قائم ہو گئی جو ملثمین کہلاتے تھے۔ ا س خاندان نے نہایت زور اور قوت کے ساتھ حکومت کی اور بہت سی فتوحات حاصل کیں لیکن چہرہ پر ہمیشہ نقاب ڈالے رہتے تھے اور اس وجہ سے ملثمین کہلاتے تھے۔ اس می یوسف بن تاشفین بڑی ہیبت و جبروت کا بادشاہ ہوا ہے علامہ ابن خلکان نے اسی کے ترجمہ میں اس رسم کے قائم ہونے کی وجہ لکھی ہے: وسبب ذلک علی ما قیل ان حمیر کانت تتلثم لشدۃ الحرو البرد تفعلہ الخواص منم فکثر ذالک حتی تفعلہ عامتھم ’’یعنی اس کا سبب جیسا کہ کہا گیا ہ کہ قبیلہ حمیر گرمی اور سردی کی وجہ سے چہروں پر نقاب ڈالتے تھے۔ پہلے خواص ایساکرتے تھے پھر اس کو قدرتی ترقی ہوئی کہ تمام قبیلہ میں اس کا رواج ہو گیا‘‘۔ علامہ موصوف نے ایک اور سبب بھی لکھا ہے وہ یہ کہ قبیلہ حمیر کی مخالف ایک قوم تھی جس کا معمول تھا کہ حمیر والے کسی ضرورت سے باہر جاتے تھے تو یہ لوگ ان کے گھروں پر حملہ کر دیتے تھے اور عورتوں کو گرفتار کر کے لے جاتے تھے۔ مجبور ہو کر اہل حمیر نے یہ تدبیر سوچی کہ ایک دفعہ عورتیں مردانہ لباس پہن کر باہر چلی گئیں۔ اور مرد چہروں پر نقاب ڈال کر گھروں میں ہی رہے۔ دشمنوں نے معمول کے موافق حملہ کیا یہ لوگ نقاب ڈالے ہوئے نکلے تھے ۔ اور نہایت دلیری سے لڑ کر دشمنوں کو قتل کر ڈالا‘ چونکہ یہ فتح نقاب کے پردہ میں نصیب ہوئی تھی اس لیے یادگار کے طور پر یہ رسم قائم کر لی گئی۔ یہاں تک کہ اسلام کے بعد بھی اس قبیلہ کے مرد اور عورتیں یکساں نقاب پوش رہتیتھے۔ ایک شاعر نے لکھا ہے۔ لما حووا احراز کل قضیلۃ خلب الحیاء علیھم فتلثموا بعض اور اتفاقی امور سے یہ طریقہ اختیار کیا گیا مثلاً جو لوگ حسین اور خوش رو ہوتے تھے اس خیال سے کہ نظر بد سے محفوظ رہیں چہرہ پر نقاب ڈال کر باہر نکلا کرتے تھے۔ اس کی مثالیں زمانہ اسلام میں بھی ملتی ہیں۔ مقنع کندی جو دولت بنو امیہ کا مشہور شاعر ہے۔ اسی خیال سے ہمیشہ نقاب ڈال کر باہر نکلتا تھا۱؎ ۔ رفتہ رفتہ یہ طریقہ زیادہ تر مروج ہو گیا اور بڑے مجمعوں میں اکثر لوگ برقع پہن کر شریک ہوتے تھے ۔ چنانچہ بازار عکاظ میں جوعرب کی حوصلہ افزائیوں کا مشہور دنگل تھا اہل عرب عموماً چہروں پر نقاب ڈال کر آتے تھے۔ علامہ احم ابی یعقوب جو نہایت قدیم زمانہ کامورخ ہے اپنی تاریخ مٰں لکھتا ہے کہ: وکانت العرب تحضر سوق عکاظ وعلی وجوھھا البراقع فیقال ان اول ان اول عربی کشف قناعہ ظریف بن غنم الغبری ففعلت العرب مثل فعلہ؎۱۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱؎ کتاب الاخانی ترجمہ مقنع کندی ۲؎ تاریخ یعقوبی مطبوعہ یورپ جلد دوم صفحہ ۱۳۱۵ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ’’یعنی اہل عرب عکاظ کے بازار میں آتے تھے اور ان کے چہروں پر برقع پڑے ہوتے تھے کہت ہیں کہ اول جس عربی نے برقع اتارا وہ ظریف بن غنم تھا اور اس کے بعد اوروں نے بھی اس کی تقلید کی‘‘۔ گو بعض وقتوں میں خاص اسباب اس طریقہ کے اختیار کرنے کے باعث ہوئے لیکن اصل میں جس چیز نے اس طریقہ کی بنیاد قائم کی تھی وہ دو امر تھے۔ (۱) جسمانی حفاظت جس کا ذکر حمیر کے ذکر می ہو چکا ہے۔ حمیر میں تو عام و خاص سب اس طریقہ کو برتنے لگے تھے۔ لیکن اور قبائل میں یہ طریقہ امراء اور اعیان کے ساتھ مخصوص تھا۔ کیونکہ اس قسم کے تکلف اور آرام طلبی کی صرف امیروں ہی کو ہو سکتی تھی۔ رفتہ رفتہ ضرورت کی قید اٹھ گئی اور صرف اس خیال سے کہ نقاب اور برقع امرا کا امتیازی لباس ہے بے وجہ اور بے ضرورت بھی اس کا استعمال ہونے لگا۔ (۲) امتیا ز اور خصوصیت کا خیال ‘ یہ خیال عجیب تدریج کے ساتھ قائم ہوا اہل عرب محض ابتدائی زمانہ میں تو امیر و غریب سب ایک سی حالت میں رہتے تھے لیکن جس قدر تمدن کو ترقی ہوتی گئی اسی نسبت سے امتیازات قائم ہوتے گئے ان میں سے سب سے مقدم یہ تھا کہ امرا اور سرداران قوم کے دربار عام نہ ہونے چاہئیں ۔ چنانچہ جاہلیت ہی کے زمانہ میں دربان اور حاجب کے عہدے قائم ہو چکے تھے‘ اور سلاطین اور سرداران قبائل کے دروازوں پر اس قسم کی روک ٹوک ہوتی تھی رفتہ رفتہ یہ خیال یہاں تک بڑھا کہ بادشاہ دربار میں بھی بیٹھتے تو اس کے جمال کی دولت عام نہ ہونے پائے۔ چنانچہ بعض سلاطین عرب صرف اسی خیال سے برقع کا استعمال کرتے تھے۔ عباسیوں کی خلافت میں ایک زمانہ تک جو یہ طریقہ تھا کہ خلیفہ وقت ایک پردہ کی اوٹ میں بیٹھتا تھا ۔ اورتمام شاہی احکام پردہ کی اوٹ سے صادر ہوتے تھے‘ اس میں اسی خیال کا پرتو پایا جاتا ہے۔ جس زمانہ میں اس طریقہ کی ابتدا ہوئی اس وقت تو عورتیں اس رسم کے ساتھ مخصوص نہ تھیں لیکن مردوں سے یہ التزام مالایلزم نبھ نہ سکا‘ چنانچہ جب عکاظ میں ظریف بن غنم نے چہرہ سے نقاب ہٹائی تو تمام عرب اس کے مقلدین بن کر اس قید سے آزاد ہو گئے کبھی کبھی کسی نے شوقیہ یا فخر کے لحاظ سے استعمال کیا تو وہ رواج عا م کے خلاف سمجھا گیا ۔ البتہ عورتوں میں یہ رسم اسلام کے زمانہ تک باقی رہی‘ جس کو اسلام نے اور بھی باقاعدہ اور لازمی کر دیا‘ جس شخص نے عرب جاہلیت کے حالات غور سے پڑھے ہیں‘ وہ تو اس سے انکار نہیںکر سکتا ‘لیکن چونکہ عام خیا ل یہ ہے کہ پردہ کا رواج اسلا م کے زمانہ میں پیدا ہوا‘ اس لیے ہم متعدد قطعی شہادتیں پیش کرتے ہیں۔ جن سے پردہ ثابت ہو گا اس قسم کا پردہ اسلا م سے پہلے بھی موجو د تھا۔ عرب جاہلیت کے حالات معلوم کرنے کے لیے سب سے عمدہ اور مستند ذریعہ شعرائے جاہلیت کے اشعار ہیں‘ اس لیے اس دعوے کے ثبوت میں ہم جاہلیت کے متعدد اشعار نقل کرتے ہیں۔ ربیع بن زیادہ عبسی جو جاہلیت کا ایک مشہور شاعر ہے مالک بن زبیر کے مرثیہ میںکہتا ہے: من کان مسروراً بمقتل مالک فلیات نسوتنا بوجہ نھار ’’جو شخص مالک کے قتل سے خوش ہوا ہے وہ ہماری عورتوں کو دن میں آ گے دیکھے‘‘۔ یجد النساء حوا سراً یند بنہ یلطمن اوجھھن بالاسحار ’’وہ دیکھے گا کہ عورتیں برہنہ سر رو رہی ہیں اور اپنے چہروں پر صبح کو دہتڑ مار رہی ہیں‘‘۔ قدکن یخبان الوجوہ تستراً فالیوم حسین برزن للنظار ’’شرم اور ناموس سے ہمیشہ اپنا چہرہ چھپایا کرتی تھیں لیکن آج غیر معمولی طور سے دیکھنے والوںکے سامنے بے پردہ آئی ہیں‘‘۔ علامہ تبریزی نے تستراً کی شرح میں لکھا ہے عفۃ و حیائً یعنی وہ عفت اور شرم کی وجہ سے چہرہ چھپایا کرتی تھیں۔ عمر معد یکرب ایک سخت واقعہ جنگ کے ذکر میں لکھتا ہے: وبدت لمیس کانھا بدرالسماء اذا تبدا ’’اور لمیس کا چہرہ کھل گیا گویا چاند نکل آیا ہے‘‘۔ عمرو معد یکرب اگرچہ مخفری شاعر ہے یعنی اس نے اسلام کا زمانہ بھی پایا تھا ‘ لیکن یہ اشعار اسلام کے قبل کے ہیں۔ ایک اور جاہلی شاعر جس کا نام سیرۃ بن عمر قفعی ہے اپنے دشمنوں پر طعن کرتا ہے اورکہتا ہے: ونسوتکم فی الروع باد وجوھھا یخلن امائً والا ماء حرایر ؎۱ ’’یعنی لڑائی میں تمہاری عورتوں کے چہرے کھل گئے تھے اور اس وجہ سے وہ لونڈیاں معلوم ہوتی تھیں حالانکہ وہ بیویاں تھیں‘‘۔ نابغہ ذیبانی جو زمانہ جاہلیت کا مشہور شاعر ہے نعمان بن منذر کا بڑ ا مقرب اور درباری تھا‘ ایک دفعہ نعمان سے ملاقات کو گیا۔ اتفاق سے وہاں نعمان کی بیوی جس کا نام متجردہ تھا بیٹھی تھی‘ نابغہ دفعتہ جا پڑا تو وہ اٹھ کھڑی ہوئی اضطراب میں ڈوپٹہ گر گیا۔ متجردہ نے فوراً ہاتھوں سے چہرہ کو چھپا لیا نابغہ کو یہ ادا نہایت پسند آئی۔ اس پر اس نے ایک قصیدہ لکھا جس مٰں اس واقعہ کا اس طرح ذکر کیا ہے۔ ۲؎ مسقط النصیف ولم ترد اسقاطہ فتنا دلتہ واققتنا بالید ’’ڈوپٹہ گر گیا اور اس نے قصداً نہیں گرایا اس نے ڈوپٹہ کو سنبھالا اور ہاتھوں سے پردہ کیا‘‘۔ ایک اور شاعر عوف نامی یہ ذکر کر کے کہ بھوک کی شدت سے عورتیں نکل آئیں اور باہر جہاں کھانا پک رہا تھا چولھے کے پاس بیٹھ گئیں لکھتا ہے: وکانو ا قعودا حولھا یرقبونھا وکانت فتاۃ الحی ممن ینیرھا عبرزۃ لا یجعل الستردونھا اذا اخمد النیران لاح بشیرھا حقیقت یہ ہے کہ اہل عرب نے زمانہ جاہلیت میں لباس کے متعلق بہت ترقی کر لی تھی ۔ اگرچہ یہ ترقیاں صرف امراء اور سرداران قبائل تک محدود تھیں‘ لیکن جن لوگوںمیںتھیں پوری تہذیب و شائستگی کے ساتھ تھیں‘ عورتوں کے لیے لباس کے جو اقسام اس وقت تک ایجاد ہو چکے تھے ‘ وہ سم کے ہر حصہ کے لیے بخوبی پردہ پوش تھے‘ لباسوں کا یہ تنوع زیادہ تر فخر و امتیاز کی بنا پر تھا۔ اور یہی وجہ تھی کہ عوام کا طبقہ اس سے محروم تھا۔ جہاں تک ہماری تحقیق ہے ‘ عورتوں کے لباس کے متعلق ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱؎ یہ اور ماقبل کے اشعار حماسہ میںموجود ہیں ۲؎ ترجمہ نابغہ ذیبانی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دولت بنو امیہ اور عباسیہ کے عہد میں کوئی معتدبہ اضافہ نہیںہوا‘ یعنی زمانہ جاہلیت میں ج قدر لباس ایجاد ہو چکے تھے اس سے زیادہ اقسام پیدا نہیں ہو سکے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ پردہ اور ستر بدن کا خیال جاہلیہ ہی میں خو ب زور پکڑگیا تھا۔ عورتیں مختلف وضع کے کرتے استعمال کرتی تھیں۔ جن کی قسمیں سات آٹھ سے کم نہ تھیں‘ اور اسی اعتبار سے ان کے مختلف نام تھے۔ مثلا درع‘ اتب‘ قرقل‘ صدار‘ مجول‘ شوذر‘ خمیعل‘ ان میںباہ بہت خفیف سا فرق ہوتا تھا‘ ان کی وضع محرم ‘کمری ‘ فتوی اور قفیص سے ملتی جلتی تھی۔ اشعار جاہلیت میں قریبا یہ سب نام ملتے ہیں۔ لیکن بلحاظ تطویل ہم ان اشعار کو قلم انداز کرتے ہیں۔قصابہ‘ مقنع وغیرہ بھی استعال کیے جاتے ہیں۔ ان کپڑوں کی ترتیب یہ تھی کہ سب سے پہلے ایک رومال سر پر باندھا جاتا تھا‘ جس سے سر کے دونوں اگلے اور پچھلے حصے چھپ جاتے تھے۔لیکن بیچ کا حصہ کھلا رہتا تھا اس کو تجق کہتے تھے اس کے بعد ایک اور رومال باندھتے جس سے یہ مقصود ہوتا تھا کہ بالوںمٰںتیل لگا ہو تو اس میں جذب ہو کر رہ جائے اور ڈوپٹہ میں نہ لگنے پائے اس ک انام غفارہ تھا۔ غفارہ کے اوپر مختلف طول و عرض کے ڈوپٹے استعمال کیے جاتے تھے جن کے نام یہ ہیں : صدار خمار‘ نصیف‘ مقنعہ‘ معجر‘ روائ] خمار نہایت چھوٹا ہوتا تھا۔ اس سے بڑا نصیف اور نصیف سے بڑا مقنعہ و ہکذا خمار وغیرہ کو اکثر اس انداز سے اوڑھتی تھیں کہ چہرہ کا اکثر حصہ چھپ جاتا ھتا اسی بنا پر شاعر کا قول ہے: سقط النصیف ولم ترد اسقاطہ فتناولتہ والقتتنا بالید فخر علی الالاء ۃ لم یوسد وقد کان الدماء لہ خمار لیکن خاص چہرہ کی حفاظت کے لیے برقع ہوتا تھا‘ جس کی مختلف قسمیں تھیں‘ جو صرف آنکھ تک کا ہوتا تھا ‘ اس کو وصواص کہتے تھے۔ اس سے نیچا نقاب کہلاتا تھا۔ نقاب سے نیچا لگام‘ اور اس سے نیچا لثام کے نام سے موسوم تھا۔ لفام کی حد ہونٹوں سے متجاوز نہ تھی۔ سب سے بڑا نقاب جو سینہ کو بھی چھپاتا تھا اس کو جثہ کہتے تھے۔ نقاب کی یہ تمام اقسام جاہلیت میںپیدا ہو چکے تھے اور استعمال کیے جاتے تھے اشعار ذیل مٰں سے اس کی تصدیق ہوتی ہے۔ ارین محاسنا و کنن اخریٰ وثقین الوصادص للعیوفا یضی لنا کالبدر تخت عنامۃ وفدذل عن غرا الثنا یا لفامھا غرض لباس کا پردہ تمام عرب میں جاری تھا اوربجز عوام اور کنیزوں کے تمام عورتین اس کی پابند تھیں ۔ بعض بعض مثالیں اس رسم کے خلاف ملتی ہیں‘ مگر وہ نہایت شاذ ہیں لیکن دوسری قسم کا پردہ یعنی عورتوں کا مردوں کی سوسائٹیوں میںشریک نہ ہوسکنا زمانہ جاہلیت میں بالکل نہ تھا عورتیں عموماً مجلسوں ‘ بازاروں لڑائیوں میں شریک ہوتی تھیں بازار عکاظ میں جہاں شعراء طبع آزمائیں کرتے تھے شاعرہ عورتیں جاتی تھیں‘ اور ان کے مستقل دربار قائم ہوتے تھے وہ عام مجمع میں قصیدے پڑھتی تھیں اور تحسین و آفرین کے صلے حاصل کرتی تھیں۔ ایک بار خنسا جو مرثیہ کہنے میں تمام عرب میں اپنا نظیر نہیں رکھتی تھی عکاظ میں گئی اور نابظہ ذیبائی کے سامنے جو اس وقت استاد الشعراء تھا اپنا قصیدہ پڑھا۔ نابغہ نے کہا افسوس ابھی ایک شخص کو میں اشعر العرب کا خطاب دے شکا ہوں ورنہ تجھ کو یہ خطاب دیتا۔ تاہم کہتا ہوں کہ تو عورتوں میں سب سے بڑی شاعرہ ہے ۔ خنساء نے کہا نہیں بلکہ میں اشعر الرجال و النساء ہوں‘‘۔ عام قاعدہ تھا کہ کسی گائوں میں کسی شاعر کا گزر ہوتا تھا تووہاں کی تمام عورتیں اس کے پاس آتی تھی اور شعر پڑھنے کی فرمائش کرتی تھیں اور چونکہ وہ عموماً سخن فہم ہوتی تھیں شعرا بھی بڑے ذوق سے ان کو اپنے اشعار سناتے تھے غرض مشاعرہ‘ منافرہ‘ میلے‘ بازار ‘ دنگل ‘ میدان جنگ کوئی ایسا مجمع اور مجلس نہ تھی جس میں عورتیں بے تکلف شریک نہ ہوتی ہوں۔ یہ زمانہ جاہلیت کا حال تھا اسلام کے زمانہ میں نیا دور شروع ہوا اس عہد میں جو تغیرات اور اصلاحیں ہوئیں ان کی تفصیل حسب ذیل ہے۔ اسلام نے سب سے پہلے اصلاح یہ کی کہ جاہلیت میں کرتوں کے گریبان بہت چوڑے ہوتے تھے جس سے سینے نظر آتے تھے۔ اس پر ذوقعدہ سنہ ۵ ھ میں یہ آیت نازل ہوئی۔ والیضربن بخموھن علی جیوبھن ’’اور چاہیے کہ وہ اپنے ڈوپٹے اپنے گریبانوں پر ڈال لیا کریں‘‘۔ عینی بخاری کی شرح میں اس موقع پر لکھا ہے: وذلک لان جیوبھن کانت واسعۃ تبد و منھا نحورھن وصدور ھن وما حوالیھا وکن لیدلن الخمر من ورائھن فتبقی مکشوفۃ فامرن بان یدلنھا من قدامھن حتی یغطینھا ’’یہ آیت اس لیے نازل ہوئی کہ ان کے گریبان چوڑے ہوتے تھے اور جن سے ان کے سینے اور ان کے اطراف نظرا ٓتے تھے اور وہ ڈوپٹوں کو پشت کی طرف ڈالتی تھیں اس لیے سینے کھلے رہ جاتے تھے ۔اس لیے ان کو حکم ہوا کہ سامنے ڈالیںتاکہ سینہ چھپ جائے‘‘۔ نقاب اور برقع کا طریقہ گرچہ جیسا کہ ہم پہلے لکھ آئے ہیں‘ پہلے سے جاری تھا‘ لیکن مدینہ منسورہ میں یہود کے اختلاط کی وجہ سے اس کا رواج کم ہو چلا تھا‘ اکثر عورتیں کھلے منہ نکلتی تھیں‘ اس پر آیت اتری۔ یایھا النبی قل لازواجک وبنتک ونساء المومنین یدنین علیھن من جلا بیھن (سورہ احزاب رکوع) ’’اے پیغمبر! اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور مسلمانوں کی بیویوں سے کہہ دو کہ اپنے اوپر چادریں ڈال لیا کریں ۔ (یعنی چادروں سے اپنا منہ چھپالیا کریں)‘‘۔ اس آیت کے متعلق تین حیثیت سے بحث ہو سکتی ہے: آیت کا شان نزول کیا ہے‘ آیت کے معنی کیا ہیں؟ اس آیت کے نازل ہونے کے بعد صحابہ کا طریقہ عمل کیا رہا؟ شان نزول کے متعلق تفسیر ابن کثیر میں جو محدثانہ تفسیر ہے ‘ یہ تصریح ہے: کان ناس من فساق اھل المدینۃ یخرجون باللیل حین یختلط الظلام الی طریق المدینۃ فیعرضون اللنساء وکانت مساکن اہل المدینۃ ضیقۃ فان کان اللیل خرج النساء الی الطرق یقضین حاجتھن فکان اولائک الفساق یتبغون ذلک منھن فاذاراوالمرۃ علیھا جلباب قالو اھذہ حرۃ فکنوا عنھا و اذاراوالمرۃ لیس علیھم اجلباب قالو اھذہ امۃ فوثبو ا علیھا ’’مدینہ میں بدمعاشوں کا ایک گروہ تھا‘ جو رات کی تاریکی میں نکلتاتھا اور عورتوں کو چھیڑتا تھا مدینہ کے مکانا ت چھوٹے اور تنگ تھے رات کو جب عورتیں قضائے حاجت کے لیے گھروں سے نکلتی تھیں تو یہ بدمعاش ان سے برا ارادہ کرتے تھے جس عو رت کو دیکھتے کہ چادر میں چھپی ہوئی ہے اس کوشریف زادی سمجھ کر چھوڑ دیتے ورنہ یہ کہتے تھے کہ لونڈی ہے اور اس پر حملہ کر دیتے تھے‘‘۔ طبقات ابن سعد جو نہایت قدیم یعنی تیسری صدی کی تصنیف ہے۔ اس میں بھی یہی شان نزول لکھا ہے چنانچہ اس کے الفاظ یہ ہیں: کان رجل من المنافقین یتعرض لنساء المومنین یوذیھن اذا قیل لہ قال کنت احسبھا امۃ فامرھن اللہ ان یخالفن زی الماء ویدنین علیھن من جلابیھن تخمرو جھھا الااحدی عینھا ’’ایک منافق تھا جو مسلمان عورتوں کو چھیڑتا تھا تو جب اس سے کہا جات تھا کہ میں نے اس کو لونڈی سمجھا تھا‘ اس بنا پر خدا نے حکم دیا کہ لونڈیوں کی وضع نہ بنائیں اور اپنے اوپر چادریں ڈال لیں‘ اس طرح کی بجز ایک آنکھ کے باقی سب چہرہ چھپ جائے‘‘۔ تفسیر کشاف میںہے: فامرن ان یخالفن بزیھن عن زی الاماء یلبس الارویۃ والملاحف وستر الرئوس والوجوہ ’’اس لیے ان کو حکم ہوا کہ لونڈیوں کی وضع سے الگ وضع اختیار کریں‘ یعنی چادریں اور برقع استعمال کریں اور سر اور چہرہ چھپائیں‘‘۔ ان تصریحات میں ایک خاص امر یاد رکھنا چاہیے‘ وہ یہ کہ ابن کثیر کی تصریح سے معلوم ہوتا ہے کہ بیبیوں اور لونڈیوں کے لباس اور وضع میں فرق تھا‘ اور یہ وہ تھا کہ بیبیاں چادروں سے چہرہ چھپاتی تھیں اور لونڈیاں کھلے منہ نکلتی تھیں۔ اشعار جاہلیت سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے چنانچہ شاعر کہتاہے: ونسوتکم فی الروع بادو جوھھا یخلن اماء والاماء حرایر ’’تمہاری عورتوں کے چہرے لڑائی میں کھل گئے تھے اس لیے وہ لونڈیاں معلوم ہوتی تھیںحالانکہ وہ لونڈیاں نہ تھیں‘‘َ ابن کثیر کی عبارت سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ اسلام کے زمانہ میںیہ فرق قائم تھا کہ اور اسی وجہ سے جب کوئی بی بی کھلے منہ نکلتی تھی تو بدمعاشوں کو ان کے چھیڑنے کے لیے یہ عذر ہاتھ آتا تھا کہ ہم نے ان کو لونڈی سمجھا تھا۔ آیت کے معنی کے متعلق دو لفظ بحث طلب ہیں جلباب اور اونا ء جلباب کے معنی میں اگرچہ متاخرین نے بہت سے اقوال پیش کیے ہیں لیکن محقق یہ ہے کہ جلباب ایک قسم کا برقع یا چادر تھی جو تمام کپڑوں سے زیادہ وسیع ہوتی تھی اوراس لیے سب کے اوپر استعمال ہوتی تھی۔ جس طرح آج کل ترکی خاتونیں فراجہ استعمال کرتی ہیں تفسیر عماد ین کثیر میں ہے: والجلبات ھو الرداء فوق الخمار قالہ ان مسعود و عبیدۃ والحسن البصری و سعید بن جبیر و ابراہیم النخعی و عطا الخراسانی وغیرو احد ’’جلباب چادر کو کہتے ہیںجو خمار کے اوپر استعمال کی جاتی ہے۔ عبداللہ بن مسعودؓ ‘ عبیدہ، حسن بصریؒ، سعید بن جبیر، ابراہیم نخعی، عطائے خراسانی وغیرہ نے جلباب کے یہی معنی بیان کیے ہیں‘‘۔ دوسرا لفظ جو بحث طلب ہے وہ اونائ۔ اوناء جلباب ک معنی تمام مستند مفسرین نے جو فن لغت ک بھی امام ہیں منہ چھپانے کے لکھے ہیں حضرت عبداللہ بن عباس جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی اور تما م صحابہ میں فن تفسیر کے اعتبار سے ممتاز ہیں‘ ان کا قول تفسیر ابن کثیر میں علی ؓ بن طلحہؓ کی روایت سے نقل کیا ہے کہ: امر اللہ نساء المومنین اذا اخر جن من بیوتھن فی جاجۃ ان یغطین وجوھھن من فوق رئوسھن بالجلباب دیبدین عیناً واحدۃً ’’خدا نے مسلمان عورتوں کو حکم دیا کہ جب گھر سے کسی کام سے نکلیں تو سر سے چادر اوڑھ کر چہروں کو چھپا لیں اورایک آنکھ کھلی رکھیں۔‘‘ تفسیر معالم التنزیل میں اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے : قال ابن عباس والو عبیدۃ امرناء المومنین ان یغطین رئوسھن وجوھھن باللابیب الا عینا واحدۃ ’’ابن عباسؓ اورعبیدہ کا قول ہے کہ خدا نے مسلمان عورتوں کو حکم دیا کہ چادر سے اپنا سر اور چہرہ چھپا لیں بجز ایک آنکھ کے‘‘۔ طبقات ابن سعد میں ہے ۱؎ : محمد بن عمر عزابی یسرۃ عن ابی صخر حسن ابی کعب القرظی قال کان رجل من المنافقین یتعرض لنساء المومنین یوذیھن فاذا قیل لہ قال کنت احسبھا امۃ فامر ھن اللہ ان یخالفن زی الاماء ویدنین علیھن من جلا بیبھن تخمرو جھھا الا احدی حینیھا ’’محمد بن عمر نے ابویسرہ سے انہوںنے ابو صخر سے ‘ انہو ں نے ابن کعب قرظی سے روایت کی ہے کہ مدینہ میں ایک منافق تھا جو مسلمان خاتونوں کو چھیڑا کرتا تھا ۔ اور جب اس کو ٹوکا جاتا تھا تو کہتا تھا کہ میں نے لونڈی سمجھا تھا تو خدا نے حکم دیا کہ لونڈیوں کی وضع ترک کریں‘ اور اپنے اوپر اس طرح سے چادر ڈال لیں کہ چہرہ چھپ جائے بجز ایک آنکھ کے‘‘۔ تفسیر کشاف میں اونائے جلباب کی یہ تفسیر کی ہے: یرخنیھا علیھن و یعظین بھاوجوھھن ’’چادر کو اپنے اوپر ڈال لیں اورچہرہ کو چھپا لیں‘‘۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱؎ جلد ہشتم صفحہ ۱۲۷ مطبوعہ یورپ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ ، ابو عبیدہ ، ان کعب قرظی ، بغوی، بن کثیر اور زمخشری اس درجہ کے لوگ ہیں کہ ان کے مقابلہ میں اگر کسی مخالف کا قول ہوتا تو اس کی کیا وقعت ہو سکتی تھی لیکن جہاں تک ہم کو معلوم ہے شاذ و نادر ہی کے سوا تما م اہل لغت اور مفسرین نے یہی معنی بیان کیے ہیں۔ اس صورت میں صرف شاہ ولی اللہ صاحب کے مبہم ترجمہ سے ایسے معرکۃالارا مسئلہ میں استعدلال کرنا کس قدر تعجب انگیز ہے۔ پردہ کے متعلق تمام دنیا میں مسلمانوں کو جو طریق عمل رہا ہے‘ وہ یہ تھا کہ کبھی کسی زمانہ میں عورتیں بغیر برقع اور نقاب کے باہر نہیں نکلتی تھیں اور بجز کسی خاص حالت کے نامحرموں سے ہمیشہ منہ چھپاتی تھیں۔ یہاں تک کہ یہ امر معاشعرت کا سب سے بڑا مقدم مسئلہ بن گیا تھا۔ تصدیق اس کی واقعات ذیل سے ہو گی۔ ایک دفعہ مغیرہ بن شعبہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنا ارادہ ظاہر کیا کہ میں فلاں عورت سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔ آپ نے فرمایا کہ پہلے جا کر اس کو دیکھ آئو۔ انہوں نے جا کر اس عورت کے والدین سے اپنا ارادہ ظاہر کیا۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام سنایا۔ والدین کو ناگوار ہوا کہ لڑکی ان کے سامنے آئے ۔ اوریہ اس پر نظر ڈال سکیں۔ لڑکی پردہ میں سے یہ باتیں سن رہی تھی بولی کہ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہے تو تم مجھ کو آ کر دیکھ لو ورنہ میں تم کو خد اکی قسم دلاتی ہوں کہ ایسا نہ کرنا۔ یہ واققعہ سنن ابن ماجہ باب النکاح میں مذکورہے۔ محمد بن سلمہ ایک صحابی تھے ۔ انہوں نے ایک عورت سے شادی کرنی چاہی اور اس لیے چاہا کہ چوری چھپے کسی طرح عورت کو دیکھ لیں۔ لیکن موقع نہیںملتا تھا۔ یہاں تک کہ ایک دن وہ عورت اپنے باغ میں گئی۔ انہوں نے موقع پا کر اس کو دیکھ لیا۔ لوگوں کو معلوم ہوا تو نہاتی تعجب سے لوگوں نے ان سے کہا کہ آ پ صحابی ہو کر ایسا کام کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ جب کسی عورت سے شادی کا ارادہ ہو تو اس میں کچھ مضائقہ نہیں کہ پہلے اس کو دیکھ لیا جائے (سنن ابن ماجہ باب النکاح) صاحب اغانی نے اخطل کے تذکرہ میں لکھا ہے کہ ایک دفعہ احظل سعید بن ایاس کا مہمان ہوا سعید نے بڑے تپا ک سے مہمانداری کی۔ یہاں تک کہ ا س کی دونوں لڑکیاں جن کا نام زعو م و امامہ تھا اخطل کی خدمت گزاری میںمصروف رہیں دوسری دفعہ جب اخطل کو یہ موقع پیش آیا تو یہ لڑکیاں جوان ہو چکی تھیں۔ اس لیے اخطل کے سامنے نہ آئیں۔ اغانی کے خاص الفاظ یہ ہیں: ثم نزل علیہ ثانیۃ وقد کبرتا فجعتبا فمال عنھما وقال فاین ابنتای فاخبر یکبرھما۔ ’’اخط دوبارہ سعید کا مہمان ہوا تو لڑکیاں بری ہو چکی تھیں اس لیے انہوں نے پردہ کیا ۔ اخطل نے پوچھا کہ تیری لڑکیاں ہاں ہیں سعید نے کہا اب وہ بالغ ہو گئی ہیں‘‘۔ پردہ کا اس قدر عام رواج ہو گیا تھا کہ جب کبھی کوئی واقعہ اس کے خلاف پیش آیا ہے تو مورخین اور واقعہ نگاروں نے ایک مستشنیٰ واقعہ کی طرح اس کا ذکر کیا ہے۔ ابن بطوطہ نے سفر نامہ میں جہاں ترکوں کا ذکر کیا ہے ایک عورت کا ذکر کرکے لکھتا ہے۔ وھی بدیۃ الوجہ لان نساء الاتراک لا یحتجبن ’’اس کا چہرہ کھلا ہوا تھا‘ کیونکہ ترکی عورتیںپردہ نہیںکرتیں‘‘۔ صاحب اغانی نے اخطل کے تذکرہ میں ایک ضمنی موقع پر لکھا ہے: وکان اہل البدوا ذاک یحدث رجالھم الی النساء لایرون بذالک باسا ’’اس زمانہ میں صحرا نشین عربوں میں مرد عورتوں کی صحبتوں میں شریک ہوتے تھے اور ان سے بات چیت کرتے تھے‘ اور اس کو معیوب نہیںخیال کرتے تھے‘‘۔ اسی کتاب میںجمیل کے تذکرہ میں جو ایک بدوی شاعر تھا لکھا ہے: ان جمیل بن معمر خرج فی یوم عید والنساء از ذاک یتزین ویبدو بعضھن لبعض ویبدون للرجال فی کل عید ’’جمیل بن معمر ایک دفعہ عید کے دن نکلا۔ اس زمانہ میں عید کے دن عورتیں آراستہ ہو کر ایک دوسرے سے ملتی تھیں اور مردوں کے سامنے آتی تھیں‘‘۔ ان تمام واقعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ عورتوں کا پردہ کرنا اور منہ چھپانا مسلمانوں کی عام معاشرت تھی۔ ا س کے خلاف کوئی واقعہ ہے تو وہ کسی خاص قوم یا کسی خاص زمانہ سے تعلق رکھتا ہے اور کتابوں میں بطور ایک مستثنیٰ واقعہ کے ذکر کیا جاتا ہے۔ اس موقع پر ہم دوبارہ اپنے قومی نامور مصنف (مولوی امیر علی) کے ان الفاظ کی طرف توجہ دلاتے ہیں کہ خلفا کے زماہن تک اعلیٰ طبقہ کی عورتیں بلا برقع کے مردوں کے سامنے آتی تھیں۔ ذلک مبلغھم من العلم ٭٭٭ الاسلام یہ ایک کتاب کا نام ہے جو فرانس کے نامور فاضل کانٹ ہنری دی کاستری نے فرنچ زبان میں لکھی ہے۔ اور جس کا ترجمہ احمد فتحی بک زغلول مصر کے ایک مصنف نے ۱۸۹۸ء میں شائع کیا ہے۔ مصنف نے اس کتاب میں سبب تصنیف بیا ن کرنے کے بعد جناب رسالت پناہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مختصر سوانح عمری بھی لکھی ہے۔ اور اس کے بعد ان تمام مسائل سے بحث کی ہے جن پریورپ کے مصنفین ہمیشہ نکتہ چینی کرتے رہے ہیں۔مثلاً جنت کا جسمانی ہونا‘ غلامی کا جواز‘ تعدد ازواج وغیرہ‘ وغیرہ آخر میں ان روایتوں کو لکھا ہے جو عہد وسطی میں تمام یورپ میں مسلمانوں کی نسبت پھیلی ہوئی تھیں اور جن میں مسلمانوں کی نسبت عجیب و غریب افترا پردازیاں کی گئی تھیں؛۔ اس کتاب سے ایک بڑا مشکل حل ہوتاہے ہم کو ایک مدت تک یہ سخت استعجاب رہا کہ یورپ نے اگرچہ فن تاریخ میںیب انتہا ترقی کی ہے‘ اس کے ساتھ چونکہ اسلامی آبادیوں کابڑاحصہ ان کے قبضہ میں آ گیا ہے‘ اور عربی زبان کی سینکڑوں ہزاروں کتابیں یورپ کی زبانوںمیں ترجمہ ہو گئی ہیں۔ اسلیے مسلمانوں کے خیالات و عقائد سے ان وک مطلع ہونے کا پورا موقع حاصل ہے۔ باوجود ان تمام باتوں کے یور پ کے مورخین جب مسلمانوں کے متعلق کوئی کتاب یا کوئی رسالہ یا مضمون لکھتے ہیں تو ایسی بے سروپا باتیں لکھ جاتے ہیں کہ جن کو دیکھ کر انسان دفعتہ متحیر ہو جاتا ہے۔ اس کتاب میں مصنف نے نہایت تفصیل سے دکھلایا ہے کہ یورپ میں مسلمانوں کے متعلق کسطرح متعصبانہ خیالات پیدا ہوئے۔ یہ خیالات کس طرح بڑھتے اورپھیلتے گئے۔ پیشوایان مذہب نے کس طرح ان خیالات کو تما ملک میں مذہبی حیثیت سے پھیلا دیا اور یورپ کے تمام لٹریچر کا عنصر بنا دیا ۔ قومی گیتوں میںیہی خیالات گائے جاتے تھے۔ معرکہ جنگ میں یہ خیالات رجز کے طور پر ادا کے جاتیتھے۔ کسی شخص کے عیسائی بنانے کے وقت یہی خیالات عقائد کے طور پر سکھائے جاتے تھے۔ یہ ایک عام قاعدہ ہے کہ جو چیز قومی روایتوں اور مذہبی تلقینات کے ذرہع سے کسی قوم کے دل و دماغ میں سرایت کر جاتی ہے‘ اس کا نکلنا قریباً محال ہو جاتاہے۔ اگرچہ یورپ میںمذہب کا زور اب کم ہو گیا ہے اور اس لیے قیاس یہ تھا کہ یہ خیالات اب مٹ جاتے لیکن رحقیقت یہ ہے کہ بدقسمتی سے یورپ میں مذہب کی جگہ پالیٹکس نے لے لی ہے‘ اس لیے یہ خیالات اب مذہب نہٰںبلکہ پالٹکس کی ضرورت سے قائم رکھے جاتے ہیں۔ اس قدر فرق ہے کہ اب وہ اس رنگ سے ادا کیے جاتے ہیں کہ تعصب کا گمان نہ ہونے پائے۔ بہرحال کتاب فی نفسہ نہایت دلچسپ ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ اس کے ضروری حصے ہمارے پرچہ کے ذریعے سے اردو زبان میں آ جائیں۔ مصنف نے کتاب کا دیباچہ بھی نہایت دلچسپ لیکھا ہے اس لے پہلے ہم اسی سے ابتداکرتے ہیں۔ رسالہ ’’اسلام‘‘ کا ترجمہ ایک دن میں حوران کے صوبہ میں جو زرقوم اور سجیر کے بیچ واقع ہے دشت نورد تھا خاندان یعقوب کے تیس جوان گھوڑوں پر سوار میرے پیچھے پیچھے آ رہے تھے۔ ان سواروں کی متعدد ٹکڑیاں ہو گئی تھیں کیونکہ گھوڑوں کی تند مزاجی ان کو باقاعدہ اور منظم نہیںرہنے دیتی تھی۔ اگلی صف کا گھوڑا پچھلی صف سے ذراسا بھی چھو جاتا تو بپھر جاتا اورپیچھے مڑ کر بڑے زور سے دولتیاں جھاڑتا‘ لیکن تھوڑی دیر کے بعد اس کا غصہ فرو ہو جاتا‘ اور حسب معمول چلنے لگتا۔ سب کے آگے آگے ایک تند مزاج جوان ایک قوی ہیکل نقرہ گھوڑے پر سوار تھا جس کو دیکھ کر ایک سدہ منا گھوڑا بھی اپنی شوخی و ضبط نہ کر سکتا تھا۔ یہ جوان نہایت نیچے سروں میںکچھ اشعار گاتا جا رہا تھا جس سے تما م مجمع پر ایک کیفیت طاری تھی اور جو زیادہ تر میری ہی مدح میں تھے ۔ ان سب سے بیچ میں میں اس سلطان ذی اقتدار کے مانند تھا جس کے رکاب بوسوں میں سے ہر ایک یہ چاہتا تھا کہ ان آداب خدمات بجا لانے میں دوسرے سے آگے نکل جائے۔ جس نے مشرقی قوموں کو ان معاملات میں اخلاقی تنزل سے تھام رکھا ہے۔ میں ان اشعار کو گا لگا کر گھنٹوں سنتا رہا اور بعض اشعار میںنے یاد بھی کر لیے ۔ یہ تمام اشعار مسلسل رجز تھے جن کے معنی منفرداً سمجھ میں نہیںآتے تھے۔ کچھ نہیں معلوم ہوتاتھا کہ کون مادح ہے کون ممدوح کون مخاطب ہے کون متکلم غرض ہم یورپین لوگوں کو ان کا سمجھنا بالکل دشوا ر تھا۔ اس وقت میری عمر ۲۵ برس کی تھی جاڑوں کا زمانہ تھا اور نہایت خوش گوار دن تھا۔ جس کی گرمی سے بدن میں نشاط پیدا ہوتا تھا۔ اور روشنی نہایت تیز تھی۔ خوشبو راہ گیروں کو بدمست کیے دیتی تھی۔ اور سونگھنے والے کو معلوم ہوتا تھا کہ وہ لذائذ زندگی کے انتہائی درجہ سے متعمتع ہو رہاہے۔ اس حالت میں مجھ ر ایک اور احساس طاری تھا یعنی اس معشوق کا تصور جس کا نام ان سواروں کی زبانوں پر صبحو شام جاری رہتا تھا۔ ہ اسی حالت میں چلے جا رہے تھے کہ ہمارا شاعر دفتتہ چپ ہو گیا اور ذرا سخت آواز میں (میری طرف مخاطب ہو کر) بولا کہ جناب! اب نماز عصر کا وقت ہو گیا ہے اس آواز کے ساتھ ہی تمام سوار گھوڑوں سے اتر پڑے اور صف باندھ کر کھڑے ہو گئے۔ مسلمانوں میں باجماعت کی نماز کو تنہا نماز پر شرف حاصل ہے۔ جیسا کہ ہم عیسائیوں میں بھی ہے۔ میں جماعت سے ذرا ہٹ کر کھڑا ہو گیا اور دل میں کہتا تھا کہ زمین پھٹ جاتی تو میں سما جاتا‘ ان جوانوں کے شملے‘ نماز کی مختلف حرکتوں سے کبھی پیچ کھاتے اور کھبی کھل جاتے۔ وہ نہایت بلند آواز سے بار بار اللہ اکبر کہتے تھے ارویہ پر جلال آواز میرے دل میں وہ اثر کرتی تھی کہ موحدین اور متکلمین کی تحریروں نے کبھی نہیںکیا تھا‘ میرے دل میں شرم اورانفعال کا وہ اثر تھا کہ جس کے ادا کرنے کے لیے مجھ کو کوئی لفظ نہیںملتا‘ یہ گروہ جو ابھی میرے سامنے گردن جھکا رہا تھا‘ صاف محسو س ہونے لگا کہ نماز نے ان کو دفعتہ مجھ سے بہت زیادہ معزز اور بلند مرتبہ کر دیا ہے۔ اور اگ راس وقت میں اپنے دل کے کہنے پر چلتا تو بے ساختہ چلا اٹھتا کہ میں بھی خدا کا معترف ہوں مجھ کو بھی نماز ادا کرنا آتا ہے۔ حقیقت میں وہ عجیب دلفریب سما ں تھا وہ اپنے معمولی لباس کے ساتھ کس باقاعدگی سینماز ادا کر رہے تھے۔ اور ان کے پہلو میںگھوڑے اس طرح چپ چاپ کھڑے تھے گویا نماز کے ادب نے ان کو سرنگوں کر دیا ہے۔ گھوڑوں کا یہ درجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کمال محبت کی وجہسے جبریل کی ہدایت کے موافق ان کے منہ کو اپنی ردا سے پونچھتے تھے۔ اس وسیع میدان میں صرف ایک میںتھا جو تنگ فوجی لباس میں تھا اورانسان کو شکنجہ میں کس دیتا تھا اور جس سے کسی قسم کی شان کا اظہار نہیں ہوتا‘ میری حالت سے بے دینی ٹپک رہی تھی۔ حالانکہ میںاس وقت ایسے مقام میںتھا۔ جو مذہب کا مولد و نشاء ہے۔ ا عبادت گزار گروہ کے آگے جو اپنے خدا کے آگے بار بار نہایت خشوع سے نماز کے فرائض اس دل سے بجا لا رہا تھا جو سچائی اورایمان سے لبریز تھا میں بالکل جماد یا کتامعلوم ہوتا تھا۔ اس حالت میں مجھ کو تو راۃ کی وہ آیت یاد آئی کہ خدا سام کے خیمہ میں سکونت کرے گا اور یافث کی اولاد کو ترقی دے گا۔ یہ دونوں گروہ اس وقت یکجا تھے یعنی وہ نماز گزار جو سام کی اولاد سے تھے‘ اور جو اپنے مذہب اور اس خدا پر نثار تھے ۔ جو ابراہیم ے خیمہ میں داخل ہوا تھا۔ اور میں جویافث کی اولاد ہوں اور جس کا شہرہ صرف فتوحات اور لڑائیوں پر موقوف ہے۔ غرض جب منزل ختم ہو گئی اور میں فردوگاہ پر واپس آیا تو میرے خیالات میرے دل میں آئے تھے ان کو قلم بند کرنے لگا۔ اس وقت میںمحسوس کر رہا تھا کہ مجھ کو اسلام کی حلاوت اپنی طرف کھینچ رہی ہے۔ گویا میں نے اس سے پہلے کبھی صحرا میں کسی قوم کو عبادت بجا لاتے دیکھا ہی نہیںتھا۔ مجھ کو اس وقت عیسائیوں کے خیمے یا د آ گئے جہاں صرف عورتوں کی پرسسش کی جاتی تھی۔اور اس خیال پر مجھ کو عورت کی بددینی پر غصہ آ گیا۔ یہ میری عمر کا وہ زمانہ تھا جب عقل مشکلات کا حل کرنا نہایت آسان سمجھتی ہیُ‘ اورجب انسان تمام چیزوں کو سطحی نگاہ سے دیکھتا تھا جبکہ محض خیال نکتہ چینی اور تحقیق کا منصب حاصل کرتا ہے‘ اور جب کہ انسان کے اعتقادات بے قید ہو جاتے ہیں۔ یہ عمر ہے کہ اسگر اس عمر کے آدمی انصاف سے کام لیتیتو تصنیف و تالیف کو ہاتھ نہ لگاتے۔ میرا خیال تھا کہ مذہب کی شان مذہب کی سچائی کی خود ایک بہت بڑی دلیل ہے۔ میں اسلام کے متعلق کچھ لکھنے لگا۔ اور مجھ کو کچھ خبر نہ تھی کہ قلم اس وقت بالکل دل کے قابو میں ہے۔ کتاب کے شائع کرنے سے پہلے مجھے یہ بتانا ضروری ہے کہ مھ کو اسلام سے متعلق کچھ لکھنے کا کیا خاص حق حاصل ہے۔ میں نے مدت تک اہل عرب کے ساتھ زندگی بسر کی ہے۔ اور مشرقیوں کے مزاج اورطبیعت دریافت کرنے میں اکثر مصروف رہا ہوں میرا طریقہ وہی ہے جو الجزائر کے مستعربوں کا ہے اور اسی بنا پر میں سب سے پہلے معزز مستشرقوں سے بہ ادب و نیاز درخواست کرتا ہوں کہ مجھ کو ان لوگوں کی فہرست میں داخل نہ کریں جن کا یہ حال ہے کہ وہ عرب کا رخ کرتے ہیں اور چند روز کی سیاحت میں ادھر ادھر کی گپیں سن کر اسلام کے متعلق لکھنے بیٹھ جاتے ہیں اس لیے ان کی تحریرمحض شاعرانہ ہوتی ہے۔ یہاں تک ہ مانسیو لوازووں کی بھی اس قسم کی لغزش سے بچ نہسکا۔ اس کا قلم سبک سر ہو کر تخیلات کی کشش میں آ گیا۔ اس کو مشرق کی ہر چیز بھلی معلوم ہوتی ہے۔ اس کی رائیں اسلام کے متعلق ایک افسانہ گو کی رائیں ہیں نہ کہ حکیمانہ اور محققانہ ہیں اس کی طرح خواہ مخواہ اسلام کی شان برھانا نہیںچاہتا۔ لیکن چونکہ میں دیکھتا ہو کہ موجودہ زمانہ میں یہ ایک بہت بڑا مہتمم بالشان مسئلہ بن گیا ہے۔ یہاں تک کہ خاص ان مباحث کے لیے پیرس میں ایک علمی میگزین جاری ہوا جس کا یہ نتیجہ ہوا کہ صلیب پرست عیسائی مسجد بنانے کی غرض سے مسلمانوں کو مالی امداد دے رہے ہیں۔ اس بنا پر میں نے اس موقع کو غنیمت جانا کہ ہم لوگوں کے دماغ میںپیغمبر عرب اور مذہب اسلام کے متعلق جو غلط خیالات جم گئے ہیں‘ ان سے لوگوں کو متنبہ کر دوں۔ لیکن اگر مسلمانوں کو وہ قصے معلوم ہوں جو عیسائیوں میں قرون وسطیٰ کے زمانہ میں مشہور تھے۔ اور ان گیتوں سے اطلاع ہو جو عیسائیوں میں گائے جاتے تھے تو معلوم نہیںمسلمانوں کو کس قدر حیرت ہو گی بارہویں صدی عیسویں کے قبل تک جس قدر گیت ہم لوگوںمیںپھیلے ہوئے تھے گویا سب ایک دماغ کے نیچے تھے۔ یہی گیت ہیں جن کی بدولت کروسیڈ کی لڑائیاں برپا ہوئیںان سب کا موضوع مسلمانوں سے سخت تنفر پیدا کرنا تھا جس کی وجہ یہ تھی کہ مسلاموں کے مذہب سے لوگ بالکل جاہل تھے ان ہی گیتوں نے ان بے ہودہ باتوںکو دلوںمیںراسخ کر دیا۔ اور ان کی بدولت ہی یہ غلط فہمیاں قائم ہو گئیں جن میں سے آج بھی اکثر قائم ہیں۔ ان گیتوں کے گانے والے عموماً یقین رکھتے تھے کہ مسلمان مشرک اور بت پرست ہیں اور وہ تین خدا کے قائل ہیں۔ جن کے درجے مختلف ہیں۔ ایک کا نام ماہوم یا ماہون بابا فومیندایا یاموہو مید ہے ۔ دوسرا بلین۔ تیسرا ترفاجان ان لوگوںکا خیال تھا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) نے اپنے دین میں اپنے آ پ کو بھی خدا قرار دیا تھا۔ لطف یہ ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) جو درحقیقت بت کے دشمن اور بتوں کو برباد کرنے والے تھے نے اپنی صورت کا ایک رین بت بنایا تھا اور لوگوں س اس کی پوجا کرواتے تھے۔ جیسا کہ لوقنجیوں کا یہ اعتقا د تھا کہ یہ لوگ بیان کرتے ہیں کہ جب عیسائیوں نے مسلمانوں پر فتح پائی اور ان کو سرقوط کی دیوار تک ہٹا لے گئے تو مسلمانوںنے جا کر اپنے تمام بت جن کو وہ پوجتے تھے توڑ ڈالے چنانچہ عہد وسطی کے ایک منشد کا بیان ہے کہ مسلمانوں کا خدا بلین ایک غار میں تھا۔ مسلمانوں نے اس پر پتھر برسائے ۔ اور خوب دل کھول کر اس کو گالیاں دیں اور پھر سولی پر چڑھایا اور خوب پامال کیا اور مارے ڈنڈوں کے اس کے ریزے ریزے کر دیے۔ ماہومد کو جو دوسرا خدا تھا ایک گڑھے میں پھینک دیا۔ یہاں تک کہ سور اور کتے اس کو روندتے اور نوچتے رہے ۔ اس طرح اہانت کبھی کسی خدا کی نہیںہوئی تھی۔ لیکن مسلمانوں نے پھر توبہ کر لی اوراپنے خدائوں سے معافی چاہی اوران کی مرمت و اصلاح کی‘ اسی بناء پر امپر کارلوس جب سرقوط میں داخل ہوا تو اس نے حکم دیا کہ یہ سارے بت برباد کر دیے جائیں چنانچہ ایک شاعر کہتا ہے کہ امپرر نے فرنچ کو حکم دیا کہ وہ شہر کے تمام گلی کوچوں میںپھرے اور مسجدوں اور یہ ایک نہایت مشکل کام ہے کیونکہ یہ مسلم ہے کہ لما یرسخ فی الاعتقاد اکثر من خطاء الاعتقاد میرا یہی خیال ہے ہ عیسائیوں کی شائستہ قوموں کے لیے صرف یہی کافی نہیں کہ وہ اپنی مسلمان رعایا کے مذہب کی عزت کریں بلکہ ان کا فرض بھ ی ہے کہ اس مذہب کی حقیقت سے بخوبی واقف ہوں ہم کو ان قصوں کے سننے سے ہنسی آئی ہے۔ جن میں یہ بیان کیا جاتا ہیکہ مسلمان عیسائوں سے کس قدر عناد رکھتے ہیں۔ اس وقت ہم کہتے ہیں کہ مسلمان متعصب اور جاہل قو م ہیں۔ اور اس عناد پروری میں ان کو معذور سمجھنا چاہے۔ لیکن اسی طرح عیسائی بھی مسلمانوں سے نفرت رکھتے ہیں اور انصاف سے کا م نہیںلیتے۔ مذہب اسلام کے متعلق سب سے زیادہ غلط اوہام جو ہم لوگوں میںپھیل گئے ہیں وہ خا ص پیغمبر (صلی اللہ علیہ وسلم) کی ذات کی نسبت ہیں ۔ اس لیے میں نے ارادہ کیا ہے کہ پہلے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وسلم) کی ذات اور ان کی اخلاقی حالت کے متعلق بحث کروں۔ مجھ کو امید ہے کہ یہی بحث ان کی سچائی اور دیانت داری کی ایک عمدہ دلیل ثابت ہو گی۔ جس پر قریباً تمام مذاہب کے مورخین اور بڑے پکے عیسائی متفق اللفظ ہیں۔ پہلی فصل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سچائی تلمسان کے ایک طالب علم سے میں مذہبی مباحثات کیا کرتا تھا۔ وہ جب مناظرہ سے گریز کرنا چاہتا تھا تو کہتا تھا کہ عیسائی تو کہتے ہیں کہ خدا کی اولاد ہے۔ اور محمد جادوگر ہے۔ اس کے الفاظ حقارت سے لبریز ہوتے تھے۔ جس طرح کسی بت پرست سے اس کی حالت پر ترس کھا کر خطاب کیا جاتاہے ۔ حالانکہ یہ طالب علم میرا بہت ادب کرتا تھا اور مجھ سے بہت دوستانہ تعلقات رکھتا تھا کہ جس طرح محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ساحر ہونا۔ افترائے محض ہے۔ اسی طرح تثلیث کا اعتقاد بھی محض تہمت ہے اوریہ کہ ایسی قوم سے جو اس قسم کی لغو باتوں کی قائل ہو گفتگو کرنا بھی عبث ہے۔ جامع مسجدوں میںگھس کر آہنیں گرزوں سے ماہومد اور تمام بتوں کو توڑ ڈالے۔ ایسار نے بھی اپنے اشعار میں یہ روایت بیان کی ہے۔ یہ اشعار فی نفسہ بہت اچھے ہیں۔ لیکن سرتاپا تہمت ارو افترا ہیں۔ ان میں خدا سے یہ دعا مانگی ہے کہ ماہو م کی پرستش کرنے والے برباد ہوجائیں‘ پھر شرفائے ملک کو جنگ مقدس کی ترغیب دی ہے۔ اور ان کا ان الفاظ میں نصیحت کی ہے ’’اٹھو اور ماہومید‘ ترفاجان کو برباد کر دو ان کو آگ میں ڈال دو اور خدا کے آگے ۲۰ قربانی پیش کرو‘ ان شعرا کا خیال تھا کہ ماہوم کابت نہایت اعلیٰ درجہ کی کاری گری کے ساتھ قیمتی پتھروںاور جواہراتسے بنایا جاتا تھا۔ چنانچہ اگر کوئی شخص رولان کے اشعار پڑھے تو عجب نہیںکہ قسم کھانے پر تیار ہو جائے کہ شاعر چشم دید واقعت بیا ن کر رہا ہے۔ ان اشعار میںبیان کیا ہے کہ یہ بت خالص سونے چاندی کے تھے اور اگر تم ان کو دیکھتے تو یقین آ جاتا کہ ان سے بڑھ کر خوبصورت شاندار لطیف الصنعہ پر رعب ہونا عقل میںنہیں آ سکتا۔ ماہوم باکل خالص سونے چاندی کا بنا ہوا تھا اوراس کی چمک دمک سے آنکھیں خیرہ ہوئی جاتی تھیں۔ وہ ایک ہاتھی پر دھرا ہوا تھا جس کا ہووج اعلیٰ سے اعلیٰ کاریگری کا بنا ہوا تھا وہ اندر سے خالی تھا۔ اور اس وجہ سے اس کی چمک پھوٹ کر نکلتی تھی‘ اس میں نہایت قیمتی جوہرات جڑے ہوئے تھے اور ا س کا اندر کا حصہ چمک کی وجہ سے باہر آتا تھا۔ یہ ایک ایسی کاریگری تھی جو بالکل بے نظیر تھی چونکہ دیوتائوں کا قاعدہ ہیک مشکل کے وقت وحی بھیجتے تھے۔ اس لیے جب مسلمانوں نے ایک معرکہ میں شکست کھائی تو ان کے سردار نے مکہ مں دعا مانگنے کے لیے مکہ میں ایک قاص بھیجا اس وقت ان کا دیوتا ماہومد بڑی شان و سشوکت سے ومامہ و نقارہ کے ساتھ آیا۔ جس کی گونج دور دور تک جاتی تھی۔ بعض بانسری بجاتے آتے تھے اور بعضوں کے ہاتھ میں چاندی کی جھانجھ تھی۔ اور یہ سب کے سب ماہومد کے گرداگرد ناچتے تھے اوربڑے زور سے گاتے آتے تھے اس سازوسامان کے ساتھ فردوگاہ میںپہنچے۔ جہاں خلیفہ اسلام ان کا انتظار کر رہا تھا۔ جب خلیفہ نے ماہومد کو دیکھا تو نہایٹ خضوع اور ادب سے کھڑا ہو گیا اوربندگی بجا لایا۔ اس کے بعد ریشار نے بیان کیا ہیکہ یہ بت پرست کیوں کر اس مجوف بت سے جس کے کیچیزیںباہر سے نظر آتی تھیں دعائیں مانگتے تھے۔ ریشار کا بیان ہے کہ اس کے بت کے اندر جادو گروں نے ایک عفیرت کا بند کیاتھا۔ وہ اچھلتا کودتا تھا۔ اورپھر اس نے مسلمانوں سے مخاطب ہو کر باتیں کیں۔ عیسائی شعراء اس (فرضی) بت سے نہایت عداوت رکھتے تھے۔ چنانچہ جس طرح صلیب عیسائیوں کی مذہبی علامت ہے۔ ان لوگوںنے ان بتوں وک مسلمانوں کو علامت قرار دیا۔ چنانچہ بودوان نے یونیتو کے متعلق جو نظم لکھی ہے اس میں لکھا ہے کہ یونیتو نے سلطان صلاح الدین کے سامنے اسلام قبول کرنا چاہا تو کہا کہ اگر محمدؐ کا بت میرے سامنے لایا جائے تو میں اس کی عبادت بجا لائوں چنانچہ جب وہ لایا گیا تو یونیتو سجدہ میں گر پڑا۔ ایک اور نظم سے جو اسی نظم کا تتمہ ہے ظاہر ہوتا ہے کہ مسلمانوں کے دو خدا اور بھی ہیں۔ باراتون اور جوبین اتنا فرق ہیکہ وہ پہلے تین خدا بہ طور سردار کیے ہیں اس نظم میں بیان ہے کہ جب ایک عیسائی سردار نے مسلمانوں کی فوج کو جو مکہ سے چلی تھی شکست دی تو مسلمان نہایت بدحواس ہوئے وہ چیختے چلاتے شور مچاتے دوڑتے پھرتے اورنہایت زورسے پکارتے تھے کہ دہائی ترفا خان کی دہائی ماہوم کی۔ معہذا ایک اورنظم جو اسی زمانہ کی ہے اس سے ظاہر ہوتاہے کہ ماہومد کسی بتر کا نام نہ تھا یہ نظم بشپ الگزنڈر روویون کی ہے جو اس نے ۱۲۵۸ء میں لکھی تھی یہ نظم ایک مسلمان نے خیالات سے ماخوذ ہے۔ جو عیسائی ہو گیا تھا تمام لوگ اس نظم کو بالکل سچائی اور صحیح تاریخی واقعہ خیال کرتے تھے۔ اس کا مضمون یہ ہے کہ یہ امر طے شدہ ہے کہ ۱؎ کو فریب خیانت ‘ دھوکہ دینا خوب آتا تھا‘‘(نعوذ باللہ) اس کے بعد شاعر نے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو ایک ایسے سردار سے تشبیہہ دی ہے جس کے گرد اس کے پیرو جمع ہیں اور وہ انے مذہب کو سادہ طریقے سے تعلیم کر رہا ہے ۔ یہاں تک کہ لوگوں کو اس پر اس سے زیادہ اعتقاد ہو گیا ہے جتنا کہ روما کے امام پر ہوا تھا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱؎ جہاں جہاں اس طرح نکتے دے دیے گئے ہیں وہ نہایت بیہودہ الفاظ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت تھے اس لیے میں ان کو نقل نہ کروں گا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ان بیہودہ اقوال ک نقل کرنے میں میںنے زیادہ تطویل کی جس کی وجہ یہ ہے کہ الگزنڈر مذکور کی تاریخ ان بیہودہ روایتوں کو معدوم نہیںکیا بلکہ ان کا اثر دلو ں پر اب بھی موجود ہے۔ اور اسی وجہ سے پیغمبر اسلام اور قرآن کے متعلق آج بھی لوگوں کی نہایت مختل رائیں ہیں اگر کوئی شخص یہ پوچھے کہ یہ شعرا ان قصوں کو کیا درحقیقت سچ سمجھتے تھے تو میں نارمنڈ والوں کی طرح جواب میںہاں بھی کہوں گا اور نہیںبھی کیونکہ یہ قطعی ہے کہ چونکہ مسلمان اور عیسائی باہم ملتے جلتے ہٰں اس لیے مذہب اسلام کی حقیقت سے واقف ہونا مشکل نہ تھا لیکن وہ درحقیقت یہ چاہتے ہی نہ تھیکہ اپنے اشعار میں تاریخی سچے واقعات بیان کریں۔ ان کا مقصد صرف عیسائیوں اور بعض اور نفرت کی روح کی پھونکنا تھا۔ اس لیے ان کو ضرورت تھی کہ مسلمانوں اور ان کے پیغمبرؐ اور ان کے مذہب کے ایسے اوصاف بیان کریں جو ان لوگوں کے مذاق اورمعلومات کے موافق ہوں جن کے سامنے یہ اشعار پڑھے جاتے تھے ۔ ان شعرا ء سے قطع نظر کر کے جب ہم زمانہ مابعد کی ان متکلمین کی تصنیفات پڑھتے ہیں جن کی رائیں اعتدال کی طرف مائل ہوتی ہیں تویہ تصنیفات بھی خرافات اور سب و شتم سے مملو نظر آتی ہیں طرہ یہ کہ گروہ مصلح یعنی پروٹسٹنٹ کا تعصب اور زیادہ بڑھا ہواہے۔ چنانچہ بیلنڈر نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو (نعوذ باللہ) سے تشبیہہ دی ہے۔ اور قرآن و شریعت اسلام کو بھی ان ہی لفظوں سے یاد کیاہے۔ ہم کو اس دعوے پر دلیل لانے کی ضرورت ہے۔ بلکہ صرف یہ کہنا کافی ہے کہ ناظرین کو اپنی توجہ ریلان کی کتاب کے دیباچہ کی طرف مبذول کرنی چاہیے۔ یہ کتاب ۱۷۲۱ ء میں چھپی ہے اور اس کا موضوع یہ ہے کہ مذہب اسلا م کے متعلق لوگوں کو کیوں بہت کم واقفیت ہے‘‘۔ مصنف مذکور کہتا ہے کہ ارباب بحث کو اگر یہ مقصود ہو کہ کسی مذہب یا طریقہ پرذلت و عار کا داغ لگ جائیں تو ان کو صرف یہ کہنا چاہیے کہ وہ مذہب محمد ( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) کی طرف منسوب ہے بشب دون مارتینو الفانسو قیقالدو نے ایک کتاب لکھی ہے جس کا نام کلیسائے مقدس و زرین کا چراغ ہے‘‘ اس کتاب میں وہ لکھتا ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی کتاب کو پڑھنا نہیں چاہیے۔ بلکہ انسان کا یہ فرض ہے کہ اس کے ساتھ استہزا کرے اورآگ میں جلا دے اس کو محفوظ رکھنا جانوروں کا کام ہے‘‘ بعضوں کی یہ رائے ہے کہ جلانا نہیںچاہیے لیکن ایسے لغو مرحرقات کے یاد رنے میں انسان کو اپنا وقت صرف نہ کرنا چاہیے جو ایک …آدمی کے خیالا ت ہیں۔ یہ رائیں تو قرآن مجید اور ربانی اسلام کے متعلق ہیں۔ باقی مسلمان تو ان کو ان تصنیفات میں ان الفاظ سے یاد کیا گیا ہے۔ پلید سست‘ گدھے ‘ خر صحرائی‘ قابل نفرت‘ وہ لو گ جن کایہ کام ہے کہ رات کو اپنا گھر عورتوں سے بھر لیتے ہیں اور صبح کو ان کو طلاق دے دیتے ہیں‘‘ اور اگر تم کو گالیوں کا خزانہ دیکھنا ہ و تو ایک عیسائی کی کتاب دیکھو جس کا نام بردشار ہے اس کتاب کا نام رہنمائے سفر ہے مصنف نے یہ کتاب امیر فلپ روقالو کی خدمت میں ۱۳۳۳ء میں پیش کی تھی‘ اس میں اس نے بیان کیاہے کہ کروسیڈ کی لڑائیاں کن اسباب سے ظہور میں آئیں۔ چنانچہ کہتا ہے کہ کون ہے جو یہ دیکھ کر آنسو نہ بہائے گا کہ جو زمیں ہماری میراث نہیں اس پر ان قوم نے قبضہ کر لیا ہے جن کے نہ خدا ہے نہ مذہب‘ نہ شریعت ‘ نہ اقرار‘ نہ رحم‘ یہ لوگ دنی اور کمینہ ہیں اور سچائی اور صفائی نیکی اور عدل کے دشمن ہیں خدا کے منکر ہیں عیسائیوں پر جبر کرتے ہیں۔ نہایت کثرت سے شادیاں کرتے ہیںلڑکوں سے بدکاری کرتے ہیں۔ بے جانوروں پر ظلم کرتے ہیں۔ فطرت انسانی کے مخالف ہیں۔ فضائل کے قاتل ہیں اخلاق کے مار ڈالنے والے ہیں گناہوں اور برائیوں میں مستغرق ہیں شیطان کے دوست ہیں کمینہ باتوں کے حامی ہی‘ کمینہ ور ہین پست خیال ہیں۔ ا ن کے افعال متبدل زندگی پست‘ باتیںفحش‘ معاشرت حقیر اور جانورانہ ہیں۔ ان کے ارادے اور حوصلے جب مائل ہوتے ہیں۔ یہ وہ لوگ جنہوں نے ہم لوگوں کو ان مقامات سے نکال دیا ہے‘ اور چھوٹی سی جگہ میں جہاں بھی ہم رہتے ہیں۔ ہم کو ستاتے ہیں ہمارے ساتھ اورہمارے مذہب کے ساتھ مسخرا پن کرتے ہیں۔ ان ہی لوگوں نے خدا کے گھر کو بربادکیا۔ اور اس پاک شہر پا قابض ہو گئے۔ جوہماری شریعت کا فردوگاہ ہے۔ اور ان پاک مقامات کو نجس کر دیا‘‘۔ اس قسم کے خیالات عیسائیوں میں ایک مدت تک پھیلے رہے۔ یہاں تک کہ اور سیٹ پریڈو نے ۱۷۳۳ ء میںایک کتاب محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے حالات میں تصنیف کی اور اسکے دیباچہ میں اس تصنیف کا مقصد بیان کیا۔ اس کتاب کی تصنیف کا مقد اس آدمی کی سوانح عمری لکھنے کے ذریعہ سے عیسائی حکیمانہ مقصد کی خدمت گزاری ہے۔ ان مصنفوں نے درحقیقت اپنا مقصد تاریخ لکھنا نہیں قرار دیا ان کامقصد جیسا کہ خود ان کا بیان ہے عیسائی مذہب کی خدمت گزاری ہے۔ یہ لوگ اپنے متبدل دلائل کی تائید میں جو ہتھیار استعمال کرتے ہیں وہ محض دشنام دہی اور سخت کلامی تھی۔ اس کے ساتھ روایت اورنقل میں جس قدر تحریف ہو سکتی تھی کر سکتے تھے‘ صرف داماسین نے یہ قد کیا کہ ان عام تصنیفات کی مخالفت کرے۔ جس کی وجہ یہ تھی کہ وہ شام میںپلا تھا۔ اور خلفائے اسلام کا مقرب تھا‘ چنانچہ اس نے مذہب اسلام کی رو میں جو کچھ لکھا تھا بلا تعصب لکھا‘ اس نے یہ رائے ظاہر کی کہ اسلام عیسائی ہی مذہب کی بگڑی ہوئی صورت ہے جیسا کہ اریوی کا خیال تھا باایں ہمہ یورپ پر اس کی تصنیف کا کچھ اثر نہ ہوا۔ اور ان کے جو بیہودہ خیالات پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کی نسبت تھے اسی طرح قائم رہے۔ پیشوایان مذہب یعنی پادری اور بشپ وغیرہ بھی انہی خیالات کو قوت دیتے تھے۔ اور لوگوں کے ذہن میں بٹھاتے تھے۔ اسی پالٹکس کا نتیجہ یہ ہے کہ لوگوں الام کے ساتھ مسخرا پن کرتے ہیں۔ ان خیالات کی اشاعت نے پوپوں کو مذہبی لڑائیوں سے بے نیاز کر دیا۔ چنانچہ لاطینی امریکہ آٹھویںصدی اور کاموں میں مشغول تھا۔ کیونکہ شرقی چرچ دو ضرر رساں مصیبتوں میں گھرا ہو اتھا۔ ایک یہ کہ ایک ہی روح کے دوجسم بن گئے۔ دوسرے یہ کہ ایک روح تھی اور ایک ہی جسم بھی تھا۔ اسلام کے متعلق آزادانہ اور غیر متعصبانہ بحث ہمارے زمانہ سے آغاز ہوئی۔ کیونکہ انیسویں صدی میں لوگوں نے اس مسئلہ کو ایک محقق کی نگاہ سے دیکھنا شروع کیا‘ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ قرآن کے متعلق مختلف آرائیں قائم ہو گئیں۔ کچھ لوگ قرآن کے فریفتہ ہو گئے اور بعضوں نے نکتہ چینی کی تاہم اس دوسری قسم کے لوگوں میں اب بھی قدیم خیالات کی بو آتی ہے‘ مانسیو دوختی نے عرب کا سفر نامہ ۱۸۷۷ء میں شائع کیا۔ اس میں پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت لکھتا ہے کہ وہ …تھے لیکن ان کو یہ خیال نہیںرہا کہ اب یہ الفاظ کسی دعویٰ کی دلیل نہیںہو سکتے۔ پہلی بحث جو پیدا ہوئی وہ یہ تھی کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم اپنی رسالت میں سچے تھے۔ یا نہیں حالانکہ ہم کہہ چکے ہیں کہ یہ امر مستشرقین اور متکلمین سب کے نزدیک مسلم ہے۔ یہ بھی ظاہر ہے کہ ا س مسئلہ کو قرآن کے منزل من اللہ ہونے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ کیونکہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی سچائی ثابت کرنے کے لیے صرف اس قدر ثابت کرنا کافی ہے ک ان کو اپنی نبوت پر پورا یقنی تھا۔ اور وہ اپنے آپ کو سچا پیغمر صلی اللہ علیہ وسلم سمجھتے تھے۔ باقی آپ پیغمبری کا مقصد تو خدائے واحد کی پرستش پر قائم کرنا تھا۔ بجائے اس بت پرستی کے جو آپ کے قبیلہ میں ابتدا سے قائم تھی۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ حضرت اسماعیلؑ پر جب سارہ خفا ہوئیں اور اپنے گھر سے نکال دیا تو وہ عرب کو چلے آئے اور اپجے باپ ابراہیمؑ کو عرب میں میں شائع کیا۔ لیکن عرب میں اس مذہب کا اثر بالکل ایک خیال سا رہ گیا تھا۔ کیونکہ عرب میں ایسے لوگ نہ تھیجو یاد دلاتے رہتے کہ ابراہیمؑ کا خدا عالی رتبہ خدا ہے۔ اور شرک کو گوارا نہیںکرتا۔ بخلاف اس کے بنو اسرائیل میں ایسے لوگ ہمیشہ پیدا ہوتے رہے بہرحال وہ اسماعیلی مذہب روز بروز زائل ہو تاچلا گیا۔ اور بجائے اس کے ان خدائوں کی پرستش قائم ہوتی گئی جن کی پرستش اور قوموں میں بھی ہوتی تھی یہاں تک کہ اسماعیلی مذہب بالکل فنا ہو گیا۔ ا سکے بعد بعض قبائل میں جو شام کے ہمسایے تھے یہودیت کا رواج ہوا لیکن عیسوی مذہب نے ان مقامت پر ظہور نہیںکیا۔ چنانچہ تیث جو چوتھی صدی عیسوی میںبصرہ کا بشپ تھا خود اقرار کیا ہے کہ عرب کی خانہ بدوش زندگی عیسوی مذہب کو پھیلنے نہیں دیتی۔ عرب میں ساتویں صدی عیسویں تک مذہب کی یہ حالت رہی اس زمانہ کی نسبت مصنفوں نے اپنے اپنے مذاق کے موافق مختلف خیالات ظاہر کیے ہیں۔ اور جیسا کہ میرا اعتقاد ہے اسی بنا پر ان کے اقوال عرب اور اہل عرب کی حالت اور اعتبار کے متعلق باہم متناقض ہیں۔ مانسیورنیان کا بیان ہے کہ تمدن کی تمام تاریخ میں عرب جاہلیت کے زمانہ سے زیادہ کوئی خوبصورت منظر نہیں ہے اس کی یہ بھی رائے ہے کہ یہ قبائل یہودی یا عیسائی مذہب رکھتے تھے اورایک عظیم الشان مذہبی اشتعال کے لیے تیار تھے۔ لیکن مانسیوبارتیلی سینٹ بلیر کہتا ہے کہ اگر یہ صحیح ہے کہ ان لوگوں میں ایک کامل تمدن پایا جاتا تھا تو وہ اس قسم کی اخلاقی تعلیم کے کیوں محتاج ہوتے جس کے سننے سے بدن پر رونگھٹے کھڑے ہوتے مثلاً: حرمت علیکم امھاتکم وبناتکم و اخواتکم و خلاتکم وبنات الاخ وبنات الاخت ’’تم پر تمہاری مائیں حرام ہیں اور بیٹیاں اور بہنیں اور پھوپھیاں اورخالائیں اوربھتیجیاں اور بھانجیاں‘‘ اس مصنف کی یہ رائے ہے کہ اہل عرب ایک وحشی قوم تھی۔ اور ان کی حالت قریبا ویسی ہی تھی جیسی یہودیوں کی‘ اس زمانہ میں جب حضرت موسیٰ مبعوث ہوئے تھے اور اسی قسم کے احکام لائے تھے۔ ان دونوں راویوں میںمیں کسی کے ترجیح دینے پر غور نہیں کرتا لیکن میری رائے یہ ہے کہ دونوں میںافراط و تفریط ہیعرب کی قوم پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے عموماً بت پرست تھی۔ اور واحدانیت کا اعتقاد خال خال بعض طبیعتوں میں پیدا ہو چلا تھا۔ ا سکے اعتقاد والے حنیفی کہلاتے تھے‘ جو ابراہیمی مذہب کے پیرو تھے ۔ باقی عیسائی تو ان کے بہت کثرت سے فرقے تھے اورسب کے سب کسی خداکے قائل تھے‘ پیغمبر نے حنیفیوں ک مذہب کو ایک سطحی حالت میں پایا تھا لیکن چونکہ ان کی فطرت مذہب سے لبریز تھی اس لیے یہی خیال ان کے دل میں اعتقاد بن گیا اور ایسا اعتقاد کہ اس کی نظیر اس سے پہلے بہت کم پائی گئی تھی یہ وہی مضبوط اعتقاد تھا جس نے انسانی نوع میں ایک عظیم انقلاب عظیم پیدا کر دیا اوریہ بالکل غلطی ہے کہ ہم دین حنیفی کے سوا اور کسی مذہب میں اس مذہب کے عمیم الفیض مبدء کی جستجو کریں۔ کیونکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم پڑھے لکھے نہ تھے۔ بلکہ جیسا کہ انہوںنے بار بار اقرار کیا ہے بالکل ان پڑھ تھے اور اس وصف میں ان کے معاصڑین میں سے کسی نے ان سے معارضہ نہیں کیا‘ اور یہ ظاہر کیاہے کہ بلاد مشرقی میں یہ امر بالکل ناممکن ہے کہ کوئی شخص اس طرح علم حاصل کرے کہ کسی کو خبر نہ ہو‘ کیونکہ مشرقیوں کی زندگی پردہ خفا میں نہیں رہتی اس کے علاوہ اس زمانہ میں پڑھنا لکھنا ان ممالک میں بالکل معدوم تھا۔ اور ایک شخص کے سوا جس کا ذکر ڈی تاسے نے اپنی کتاب مطبوعہ ۱۸۷۴ء میں کیاہے۔ کوئی شخص مکہ میں پڑھا لکھا نہ تھا اسی طرح اس قرینہ کی بنا پر کہ حضرت خدیجہؓ کو تجارت کے کام کے لیے انتخاب کیاتھا ۔یہ نتیجہ نکالنتا کہ اگر آپ پڑھے لکھے نہ تھے تو وہ تجارت کا کام ان کو کیو ں سپرد کرتیں۔ صحیح نہیں عرب اور غیر عرب قوموں میں عموماً تجار کے ہاں ان کے ایجنٹ اور نائب ان پڑھ ہوتے ہیں۔ اور باوجود اس کے اوروں کی نسبت زیادہ دیانتدار ہوتے ہیں۔ غرض بیانات سابقہ سے ظاہر ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) نے نہ کوئی آسمانی کتاب پڑھی تھی اور نہ مذہب کے متعلق مذاہب سے سابقہ سے رہنمائی حاصل کی تھی‘ اگرچہ الگزنڈر دویون کا یہ بیان کہ وہ عیسوی مذہب سے فرات اور کتاب دونوں طریقہ پر واقف تھے۔ بے شبہ ان ماخذو ں کا پتہ لگانا جس سے یہ ثابت ہو کہ آپ نے عیسوی یہودی یا ستارہ پرستوں کے عقائد کو زبانی سیکھا تھا۔ نہایت مفید ہو گا۔ کیونیکہ قرآن اور تورات میں اکثر جگہ تو افق پایا جاتا ہے۔ تاہم یہ بحث دوسرے درجہ میں ہو گی ۔ کیونکہ اگر یہ فرض کر لیا جائے کہ قرآن مجید دیگر آسمانی کتابوں سے ماخوذ ہے تاہم یہ مشکل بحال خود باقی رہے گی کہ آپ میں یہ مذہبی روح کہاں سے آئی اور وحدانیت کاایسا مضبوط خیال کیوں کر دل میں آیا ان کے جسم و روح پر چھا گیا۔ ہم کو یہ بھی معلوم ہے کہ اظہار نبوت سے پہلے بڑی ان پر سختیاںگزریں۔ ارو ان کو بہت سے مصائب جھیلنے پڑے۔ کیونکہ خدا نے ان کی فطرت ہی مذہب کے لیے بنائی تھی۔ اور یہی وجہ تھی کہ سب کو چھوڑ کر انہوں نے غزلت اختیار کی تاکہ بت رستی اور تعدد آلہہ کی بدعت میں مبتلا نہ ہونا پڑے جس کو عیسائیوں نے خو د ایجاد کیا تھا ان دونوں مذہبوں کی نفرت ان کے دل میں بیٹھ گئی تھی۔ ان مذہبوں کا وجود کانٹے کی طرح ان کے دل میں کھٹکتا تھا ۔ ا گرض سے کہ جو عظیم الشان تفکر یعنی وحدانیت کا خیال ان کے دل میں اتر گیا تھا ۔ محض اسی سے سروکار رکھٰں کوہ حرا میں گوشہ نشینی اختیار کی۔ یہاں بیٹھ کر ان کے خیال نے دریائے فکر میں نہایت آزادی کے ساتھ جولانیاں شرو ع کیں۔ اس کے ساتھ وہ ہمیشہ عبادت اور تہجد میں مشغول رہتے تھے۔ اسی حالت میں کئی دن گزر گئے ان مقامات کی راتیں نہایت مفرح اور خوش گوار ہوتی ہیںیہاں تک کہ عوام میں مشہور ہے کہ ملائکہ خدا سے اجازت مانگتے ہیں کہ آسمان سے اتر کر دو ایک دن ان راتوں کے سماں کا لطف اٹھائیں ۔ اللہ اکبر ! معلوم نہیںیہ چہل سالہ شدید الذہن جوان جس کا شمار ان مشرقی لوگوں میں ہے جو قوت ادراک اور تخیل میں فرد ہیں ۔ اور جن کا یہ کام نہیں کہ منصوبے ہی گھڑا کریں اس وقت کیا سوچ رہا تھا‘ وہ ہر بار یہی کہتا تھا اوربرابر کہے جاتا تھا ’’خدا ایک ہے‘‘ ’’خدا ایک ہے‘‘َ یہ وہ الفاظ ہیں جن کو اس کے بعد تمام مسلمان ہمیشہ دہرایا کیے۔ اور جن کو ہم عیسائیوں نے اس وجہ سے فراموش کر دیا کہ توحید کے خیال سے ہم بہت دور پڑ گئے ہیں۔ پیغمبر کاخیال برابر اسی دہن میںمشغول رہا۔ یہاں تک کہ یہی خیال مختلف صورتوں میں جلوہ گر ہو کر اس کے سامنے آیا لم یلد ولم یولد ولم یکن لہ کفوا احد عربی زبان میں مترادف الفاظ کی کثرت نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بلند خیال پر باربار ادا کرنے میں بہت مدد دی جس کووہ ظاہر کرنا چاہتے تھے ۔ اوران ہی افکار اور اسی طرز پرستش سے اسلام کا یہ جملہ پیدا ہوا کہ لا الہ الا اللہ یہی اصل اعتقاد ہے۔ اس یکتا خدائے بے نیاز کا جو عیوب سے پاک ہے۔ عقل کا اس اعتقاد کو خیال میںلانا بآٓسانی ممکن ہے۔ یہ ایک ایسا قوی اعتقاد ہے۔ جس پر مسلمان ہمیشہ سے یقین کرتے آئے ہیں اور جس کی وجہ سے وہ تمام قبائل اوراقوام سے ممتاز ہیں۔ درحقیقت انہی کے ایمان کو ایمان کامل کہا جا سکتا ہے۔ جیسا کہ ان کا خود دعویٰ ہے کہ یہ بالکل ناممکن ہے ک یہ اعتقاد محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو تورات اور انجیل سے پہنچا ہو۔ کیونکہ وہ اگر ان کتابوں کو پڑھتے تو اٹھا کر پھینک دیتے۔ کیونکہ وہ دیکھتے کہ اس میں تثلیث موجود ہے جو ان کی فطرت اورا ن کے مذاق طبعی کے خلاف ہے۔ ایسے اعتقاد کا دفعتہ ان کی زبان سے ظاہر ہونا ان کی زندگی کا بڑا مظہر ہے۔ اور فی نفسہ یہی آپ کی پیغمبری اور آپ کی دیانت فی النبوت کی دلیل اعظم ہے۔ قرآن کی وحی کا مسئلہ اور بھی زیادہ مشکل اورپیچیدہ ہے۔ کیونکہ ارباب بحث اس کو معقول طور پر حل نہیںکر سکتے ۔ عقل بالکل حیرت زدہ ہے کہ اس قسم کا کلام اس شخص کی زبا ن سے کیونکر ادا ہوا جو بالکل ان پڑھ تھا۔ تما م مشرق نے اقرار کیا ہے کہ یہ وہ کلام ہے کہ نوع انسانی لفظا و معناً ہر اعتبار سے اس کی نظیر پیش کرنے سے عاجز ہے۔ یہ وہی کلام ہے کہ جب عتبہ بن ربیعہ نے اس کو سنا تو اس کے حسن پر حیرت زدہ رہ گیا۔ یہ وہی کلاب ہے جس کی بلند انشاء پردازی نے عمر بن خطابؓ کو مطمئن کر دیا اور وہ خدا کے معترف ہو گئے۔ یہ وہی کلام ہے کہ جب یحییٰ کی ولادت کے متعلق اس کے جملے جعفر بن ابی طالب نے نجاشی کے سامنے پڑھے تو اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔ اور بشپ چلا اٹھا کہ یہ کلام اسی سرچشمہ سے نکلا ہے جس سے عیسیٰؑ کا نکلا تھا۔ ٭٭٭ عربو ں کی صلح پسندی اور بے تعصبی جب عرب ایمان قبول کر چکا اور لوگوں کے دل اسلام سے منور ہو چکے تو اب اسلام دنیا کو ایک دوسرے لباس میں نظر آیا‘ یعنی نرمی‘ اور آزادی خیالات‘ یا تو قرآن میں تہدید آمیز آیتیں نازل ہوتی تھیں یا اب پے درپے اس قسم کے احکامات آنے لگے۔ لا اکراہ فی الدین قدتبین الرشد من الغنی ’’مذہب میں زبردستی نہیں‘ راستی گمراہی سے صاف الگ ہے‘‘۔ ولا تسبو الذین یدعون من دون اللہ فیسبو اللہ عدو ا بغیر علم ’’یہ لوگ خدا کے سوا جن لوگوں کو پکارتے ہیں۔ یعنی معبود ان باطل) ان کو گالی نہ دو‘ ورنہ جہالت میںوہ بھی خدا کو گالی دیں گے‘‘۔ واصبر علی ما یقولون وا ھجرھم ھجر اجمیلا ’’اے محمد! ان کی باتوں پر صبر کرو اوران سے کنارہ کرو معقول طریقہ سے‘‘۔ عرب کے اسلا م لانے کے بعد پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات اسی طرح کی تھیں اور آپ کے خلفاء بھی اسی کی تقلید کی ‘ اس بناء پر ہم کو رابنسن کے اس قول کے ساتھ متفق ہونا پڑتا ہے کہ صرف محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے پیروں میں یہ بات پائی جاتی ہے کہ انہوںنے جوش مذہب اور حسن سلوک کو ساتھ ساتھ رکھا۔ یہ جوش مذہب عرب کی فتوحات کا سبب ہوا لیکن اس قسم کے سبب میں کوئی حرج نہیں۔ جب اسلام کی کامیاب فوجوں نے شام پر چھاپا مارا اور بجلی کی طرح شمالی افریقہ پر بحر احمر سے لے کر اٹلانٹک تک چمکیں‘ تو قرآن اپنے دونوں شہپروں کو پھیلائے ہوئے ان کے پیچھے پیچھے تھا۔ اس بناء پر اسلامی فوج کے طریق عمل میںکہیں ظلم کا نشان نظر نہیں آتا ۔ بجز ان امور کے جن سے مفر نہیں ہو سکتا مسلمانوں نے کسی قوم کو اس بنا ء پر قتل نہیںکیا کہ وہ اسلام لانے سے انکار کرتے تھے‘ اگر ہم بربریوں اور مسلمانوں کی حملہ آوری کا مقابلہ کریں ‘ تو ہم مانیں گے کہ مسلمان نقصان کم پہنچاتے تھے۔اورنرمی زیادہ کرتے تھے۔ مسلمانوںکو جن قوتوں سے سابقہ پڑا انہوں نے ان کو تین باتوں کا اختیار دیا‘ اسلام یا جزیہ جنگ‘ ابوبکرصدیقؓ نے خالدؓ کو جب شام کی طرف بھیجا تو یہی ہدایت کی یہ احکام عموماً عمل میں آتے تھے لیکن بت پرست اس سے مستثنیٰ تھے کیونکہ ان کے ساتھ اور طرحکا برتائو کیا جاتا تھا جیسا کہ ہم اوپر لکھ آئے ہیں۔ ۱؎ بہتر ہو گا کہ اس موقع پر حضرت ابوبکر صدیقؓ کے احکام اور زبو ر کی پانچویں کتاب میں جو مدائن کے محاصرہ اور کلدانیوںکے معاملہ کے متعقل ہے موازنہ کریں زبو ر میں ہے: ’’جب تو کسی شہر کا محاصرہ کرے‘ تو ان پر امان پیش کرے‘ اگر وہ لو گ امان قبول کریں‘ تو سب لوگ محفوظ رہیں گے‘ لیکن اگر وہ لوگ انکار کریں اور دشمنی کا اظہار کریں تو ان کا سخت محاصرہ کر اور فتح حاصل ہونے کے بعد ہر شخص (مرد) کو قتل کر دے‘‘۔ مسلمانوں کو افریقہ اور ایشیا میں عیسائیوں کی طرف سے بہت مقابلہ پیش آیا۔ جس کے بعد وہ نئے مذہب کی طرف مائل ہو گئے۔ ایسے باعظمت کلیسائوں کا جیسے کہ کارتھج کے کلیسا تھے اسلام کے زیر اثر آ جانا ایک ایسا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱؎ یہ مصنف کی غلطی ہے ۔ اسلا م نے بت پرستوں کوبھی یہی اختیارات دیے ہیں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ واقعہ ہے جس کی وجہ سے ایک عرصہ دراز سے لوگ یہ بیان کرتے ہیں کہ اسلام نے تعصب اور سختی کا برتائو کیا‘ لیکن خود اس زمانہ کے معاصرین اس کی وجہ اقتضائے زمانہ کے موافق بیان کرتے ہیں‘ کہ عیسائی خدا کے غضب کے مستوجب تھے اس لیے خدا نے ان کی کجر دی کہ سز ا دی ۔ عیسائی عابدوں میں سے بعضوں نے اس خیال کی تائید میں لوگوں کو توبہ کی ترغیب دلانا چاہی ‘ انہوںنے نہایت مبالغہ ے کام لیا‘ اور عیسائیوں پر سخت داد گیر کی اورلوگوں کو یہ یقین دلانا چاہا کہ اسلامی فوجیں ایک آلہ ہیں جن کے ذریعہ سے خدا نے عیسائیوں پر عذاب نازل کیا ہے۔ چونکہ اسلامی فتوحات اور کلیسا کا باہمی اختلاف‘ دونوں واقعات ایک ہی زمانہ میں پیش آئے اس لیے اگرمورخوںنے دونوں کو ایک ساتھ ملا دیا‘ تو ان پر نکتہ چینی نہیں ہو سکتی خود فاتحین بھی قبول اسلام اورا طاعت و حکومت میں فرق نہیںکرتے تھے۔ لیکن یہ امر عموماً غلط مانا جاتا ہے کہ ان دونوں واقعات میں سے ایک کو دسرے کا معلول قرار دیا جاے۔ ان دنوں واقعات میں نہایت خفیف اثر پذیری کا تعلق ہے۔ جس طرح فتوحات اسلام نے عیسائیوں کو ترک مذہب پر آمادہ کیا‘ اسی طرح کلیسائوں کے باہمی اختلاف نے اسلامی فتوحات کے لیے راستے صاف کر دیے۔ بشپ آریوس نے حضرت عیسیٰ کے خدا ہونے سے انکار کیاتھا‘ اس بنا پر اس نے گویا پیغمبر عرب کے لیے فوج طلایہ کاکام دیا۔ کیونکہ اس سے اس کے لیے راستہ صاف ہو گیا کیونکہ اسلام بھی حضرت عیسی ٰ کے متعلق یہ کہتا ہے کہ وہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے قبل آخر الانبیاء تھے ۔ ۱؎ گویا یہ خرق عادت تھا کہ سکندریہ کا بشپ جس کا نام آریوس تھا۔ عیسائی مذہب کے مقابلہ کے لیے کھڑا ہوا یہاں تک کہ اس مذہب کی بنیادیں متزلزل ہو گئیں اور تمام عیسائیون پر ناامیدی سی چھا گئی‘ مقدس جیروم نے ٹھنڈی سانس بھر کر کہا کہ عالم کون اس بات سے حیرت زدہ ہے کہ تمام لوگ کافر ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱؎ یہاں دو تین سطروں کا ترجمہ چھوڑ دیا گیا ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے معنی میری سمجھ میں نہیں آئے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ گئے ہیں اور اب کسی کا یہ عقیدہ نہیں رہا کہ باپ (خدا) نے بیٹے کا جسم اختیار کر لیا تھا۔ اگرچہ ان عیسائیوں نے جو بنس کے پیرو تھے۔ اس مذہب کو جدید دبادیا تاہم افریقہ اور ایشیاء ے کلیسائوں میں سخت اختلاف پیدا ہو گیا اسلام جب لمبے لمبے قدم بڑھاتا آیا تو ان لوگوں (پیروان آریوس) نے ا سکو کوء ینیا مذہب نہیں سمجھا بلکہ عیسائی مذہب سمجھ کر اس کو قبول کر لیا۔ اسلام کی وسعت کا ایک اور بھی سبب ہے یعنی قسطنطنیہ کی جابرانہ حکومت یہ سلطنت انتہا درجہ کی ظالم تھی حکام کا ظلم اس حد تک پہنچ گیا تھا کہ لوگ جان سے عاجز آ گئے تھے جب اسلامکا قد م آیا تو لوگوں نے اسلام کے سایہ میں پناہ لی کیونکہ وہ شخص جو اسلام لاتا تھا وہ ٹیکسوں اور تاوان سے بچ جاتا تھا۔ اور مال مسلوبہ ا س کو واپس مل جاتا تھا۔ جو لو گ اسلام قبول نہیں کرتے تھے ان سے بھی یہی برتائو کیا جاتا تھا صرف جزی ان سے لیا جاتا تھا جس کی مقدار نہایت کم ہوتی تھی یعنی آمدنی کا دسواں یا بارہواں حصہ (یہ غلط ہے کہ جزیہ کی مقدار بڑے بڑے دولت مند کے لیے بھی کبھی ۴۸ درہم سے زیادہ نہیں ہو سکتی تھی ۔ جزیہ کی یہ انتہائی تعداد تھی‘ آمدنی کے حصہ سے اس کو کوئی نسبت نہ تھی (مترجم) اسلام کے سایہ میں عیسائی مطمئن ہو گئے۔ دعاۃ اسلام میں کوئی شخص ان کے مذہب سے معترض نہیںہوتاتھا۔ اور اصلی عیسائی اور مرتدوں میں کوئی فرق نہیںکیاجاتا تھا ۔ یہ برتائو وہ تھا کہ جس کا خود قرآن نے حکم دیا تھا۔ اور خلفائے اولیں اس پر کاربند تھے۔ یہودی اور عیسائی ذمہ کہلاتے تھے غیر مذہب والوں کی تین قسمیں تھیں ذمی مسامن ‘ حربی۔ ذمی اس کو کہتے ہیں جو اسلام کے زیر حکومت ہو اور جزیہ اداکرتا ہو اس کو یہ حقوق حاصل تھے کہ وہ اپنے مذہب کے مطابق اپنے خدا کی عبادت کر سکتا تھا۔ اس کو اسلام پر مجبور نہیں کیا جاتا تھا وہ قوانین سلطنت کا پابند ہوتا تھا۔ اور شخصی قانون مثلاً نکاح طلاق‘ وراثت میں اس کے مزہب کے مطابق عمل کیا جاتا تھا۔ البتہ جب کسی معاملہ میں اس کا فریق ثانی مسلمان ہوتا تھا تو مذہب اسلام کے مطابق عمل ہوتا تھا۔ یہ سخت غلطی ہے کہ ذمی کے لفظ سے دفی اور بزدل کے معنی مراد لیے جائیں درحقیقت اس کے مانی امان یافتہ کے ہیں۔ مسامن اس شخص کوکہتے ہیں جو سفر میں ہو اور احکام سلطنت و قوانین حکومت کے زیر حمایت زندگی بسر کرتا ہو۔ حربی وہ ہے جو اس ملک میں رہتا ہے جو علانیہ اسلام کا دشمن اور حریف جنگ ہے یا جہاں مسلمانوں کو امن نہیں‘ ایسا شخص جب اسلامی شہر میں آئے‘ اور آمادہ جنگ ہو تو وہ قتل کر دیا جائے گا مگر اس حالت میں کہ اسلام قبول کر لے‘ اس حالت کے سوا ‘ باقی سب مسامن ہیں۔ بشرطیکہ جزیہ ادا کریں۔ حضرت علیؓ کا قول ہے کہ جزیہ کے لیے کہ ذمی کی جان و مال مسلمانوں کے جان و مال کے برابر ہو جائے۔ ا س نرمی اور حسن معاملت کی وجہ سے اسلام کو ترقی ہوئی کیونکہ ممالک مشرق کے سلاطین کے ظلم نے تمام لوگوں کو بیزار کر دیا تھا‘ اور لوگ ان سے سخت نفرت کرنے لگے تھے۔ اب اگر ہم ابتدائے فتح کے زمانہ کو چھوڑ کر اس زمانہ کی طرف آئیں جب کہ اسلام کی حکومت نے استقلال حاصل کر لیا تو ہم کو صا ف نظر آئے گا کہ الام مشرقی عیسائیوں کے مقابلہ میں کہیں زیادہ نرم خو اور صلح جو تھا۔ عرب نے عیسائی رسول مذہبی کا کبھی معاوضہ نہیںکیا۔ اہل روما نہایت آزادی سے ان پیشوایان مذہبی سے خط و کتابت جاری رکھتے تھے جو ان کے ہی حاکم تھے ۱۰۵۳ ء میں پوپ نے جس کانام لیون تھا‘ افریقہ کے عیسائیوں کو ایک خط لکھا جس میں تاکید کی تھی کہ کار تھج کی بشپ کو لارڈ بشپ تسلیم کر لیں اس زمانہ میں مسلمانوں اور عیسائیوں میں کامل اتحاد تھا۔ یہاں تک کہ گریگیورس ہفتم نے ۵ ستمبر ۱۰۷۳ء میں عیسائیوں کو ایک خط لکھا جس میں انکو ملامت کی تھی کہ انہوں نے بشپ کے دربار میںمسلمانوںکی شکایت کیوں پیش کی۔ اس غیر معمولی صلح جوئی کے ساتھ بھی جو مسلمان فاتحوں کی طرف سے مفتوحین کے مقابلے میں عمل میں آئی تھی عیسائی مذہب نہایت کمزور ہوتا جاتا تھا ۔ یاہں تک کہ شمالی افریقہ میں یہ مذہب بالکل معدوم ہو گیا حالانکہ اسلام میں دعوت اسلام کے لیے کوئی فرقہ مخصوص نہ تھا۔ جیسا کہ عیسائیوں میں ہے اگر اسلام میں بھی داعیان ہوتے تو ہم کو اسلام کی ترقی کے اسباب کے دریافت کرنے میں کوئی مشکل پیش نہ آتی۔ کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ شارلمین اپنی لڑائیوں میں ہمیشہ پادریوں اور رہبانوں کا ایک گروہ ساتھ رکھتا تھا کہ جس طرح وہ خود اپنی فوجوں سے شہروں و فتح کرتا پھرتا تھا جو قیامت خیز لڑائیاں لڑتی تھی۔ اسی طرح پادری لوگوں کے قلوب اور طبای کو مسخر کر لیں۔ لیکن اسلام میں نہ کوئی مذہبی انجمن ہے نہ رسول ہیں نہ احیار ہیں نہ راہب ہیں جو فوجوں کے ساتھ ساتھ رہیں کوئی شخص تلوار یا زبان کے ذریعہ سے اسلام لانے پر مجبور نہیں کیا گیا بلکہ اسلام نے خود لوگوں کے دلوںمیں گھر کر لیا۔ اوریہ اس اثر کا نتیجہ تھا۔ جو قرآن کی دلآویزی اور فرنیبدگی کاخاصہ ہے۔ بے شبہ ان لوگوں نے بھی اسلام قبول کیا۔ جن کی گرض دنیاوی تمتع تھی۔ لیکن ان کی تعداد ان لوگوں کے مقابلہ میں بہت کم ہے جو دلی اور سچی خواہش سے اسلام لائے۔ قبول اسلام میں اس لے بڑی آسانی ہوئی کہ مذہب اسلام ایک سیدھا سادھا مذہب ہے جس کے ذریعے کلمہ توحید پڑھنا کافی ہے ان باتوں کے ساتھ بھی یہ نظر نہیںآتا کہ استقلال حکومت کے بعد عیسائیوں کے کسی گروہ نے دفعتہ واحدۃ اسلام قبول کیا ہو بلکہ یہ ضروری تھا کہ جو شخص اسلام لانا چاہے وہ قاضی کے ہاتھ پر اسلام لائے۔ اور ایک محضر لکھے کہ وہ سچے اعتقاد کے ساتھ بغیر کسی دبائو اور خو ف کے اسلا م قبول کر رہا ہے کیونکہ کوئی شخص تبدیل مذہب پر مجبور نہیںکیاجا سکتا۔ (یہ محضر ضمیمہ سوم میں درج ہے)۔ دولت بنو امیہ کے زمانے میں نہایت کثرت سے عیسائیوں نے اسلام قبول کرنا شروع کیا یہاں تک کہ خود خلفاء نے اس ترقی کو اس لحاظ سے پسند نہیںکیا کہ بیت المال کی آمدنی کو نقصان پہنچتا تھا۔ چنانچہ امیر معاویہؓ کے زمانہ میں مصر میں جزیہ کی آمدنی حضرت عثمانؓ کے زمانے کی نسبت آدھی رہی گئی۔ اس بنا پر خلفانے قبول اسلام کی وسعت کو اس طریقہ سے تنگ کر دینا چاہا کہ نومسلم بھی جزیہ سے معاف نہ کیے جائیں۔ چنانچہ حیان نے عمر بن عبدالعزیزؓ کو خط لکھا کہ اگر یہی حالت رہی تو اس ملک کے تمام عیسائی مسلمان ہو جائیں گے۔ اور نتیجہ یہ ہو گا کہ شاہی خزانہ کو سخت نقصان پہنچے گا۔ لیکن عمر بن عبدالعزیز نے خط پڑھ کر ایک شخص کو حکم دیا کہ حیان کے پاس جا کر اسے تیس درے لگائے اور اس کے یہ کہے کہ اس سے بڑھ کر کیا سعادت ہو گی کہ تمام عیسائی مسلمان ہو جائیں خدا نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اس لیے بھیجا تھا کہ وہ اسلام کی تبلیغ کریں نہ اس لیے کہ خراج اور ٹیکس لگائیں۔ مسلمان اگر بیت المال کے خالی ہو جانے سے خوف کرتے تھے تو یہ کچھ تعجب کی بات نہیں کہ الجزائر (مقبوضہ فرانس) میں ٹیکس کا بار زیادہ تر مسلمانوںپر ڈالا جاتا ہے۔ فرض کرو کہ تمام مسلمان عیسائی ہو جائیں اورن ان کو وہ تمام حقوق دے دیے جائیں جو عیسائیوں کو حاصل ہیں تو آمدنی کے گھٹ جانے سے ہم کو سخت پریشانی ہو گی۔ اسپین میں مسلمانوںنے عیسائیوں کے ساتھ اور بھی زیادہ نرمی کا برتائو کیا، یہاں تک کہ ان کی جو حالت قدیم جرمنیوں کی سلطنت کے زمانہ میں تھی ۔ اس سے کہیں بڑھ کر وہ خوش حال ہو گئے۔ پروفیسر دوزی کہتا ہے کہ مسلمانوں کی فتح سے اسپین کو کچھ نقصان نہیں پہنچایا۔ ابتدائے فتح کے زمانہ میں جو برہمی اور اضطراب پیدا ہوا تھا۔ وہ استقلال سلطنت کے بعد جاتا رہا۔ مسلمانوں نے تمام باشندوں کے مذہب شریعت اورعدالت کو قائم رکھا‘ ان کو ملکی عہدے دیے یہاں تک کہ بعض خود خلفاء کے دربار میں ملازم تھے۔ اکثروں کو فوجی عہدے دیے گئے اس رحیمانہ سیاست نے سپین کے عقلا کو مسلمانوں کی طرف مائل کر دیا۔ یہاں تک مسلمانوں اورعیسائیوں میں کثرت سے نکاح اور شادیاں ہو گئیں‘ سینکڑوں عیسائی اپنے مذہب پر قائم رہنے کے ساتھ عرب کی تہذیب و تمدن کے دلدادہ ہو گئے۔ یہاں تک کہ انہوںنے عربی زبان اور عربی علوم و فنون کی تحصیل شروع کی‘ بشپ اور پادری ان کو ملامت کرتے تھے کہ وہ گرجا کے گیت چھوڑتے جاتے اور مسلمانوں کا شعار اختیار کرتے جاتے ہیں۔ اس زمانہ میں مذہبی آزادی انتہا درجہ کو پہنچ گئی تھی۔ اسی بنا پر ب یورپ نے یہودیوں پر جبر کرنا چاہا تو انہوںنے خلفائے اندلس کے سایے میں پناہ لی ۔ بخلاف اس کے جب چارلس نے مرقومہ پر قبضہ کیا تو حکم دیا کہ یہودیوں اور مسلمانوں کی تمام عبادت گاہیںبرباد کر دی جائیں ہم کو معلوم ہے کہ سلیبی لڑائیوں کے زمانہ میں عیسائی جہاں پہنچے انہوں نے مسلمانوںاور یہودیوں کو ایک طرف سے قتل کر دیا۔ اس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ یہودیوں نے اگر کوئی ملجا ومادیٰ پایا تو مسلمانوں ہی کو پایا۔ اور آج جو یہودی موجود ہیں یہ مسلمانوںہی کی عنایت ہیں افیڈیکر شایلین نے اس کی وجہ بیا ن کی ہے کہ مسلمان اور یہودی نسب میں زبان میں مذہب میں متحد ہیں یہ غلط ہے۔ مسلمانوںنے اندلس کے عیسائیوں سے صرف جزیہ طلب کیا جو معمول عام تھا۔ اس موقع پر ایک لطیفہ کا بیان کرنا موزوں ہو گا جس کو ایک عرب نے لکھا ہے اور جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جزیہ کے بارے میں ان کا خیال تھا اوریہ کہ مسلمانوں اور عیسائیوں کے کیسے تعلقات تھے۔ دولت فرانس اور اسلام اسلا م اپنی پوری قوت اور زندگی پر یہ استدلال پیش کرتا ہے کہ اسنے وسط ایشیا افریقہ حبش کے شرقی حصہ سوڈان ‘ سرنیاق ‘ ان تمام مقامات میں بت پرست قوموں کو قراان کے نیچے مجتمع کر دیا۔ جو اس کی عجیب و غریب طاقت اور حیرت انگیز رفتار کی دلیل ہے پچاس برس ہوئے ان ممالک میں مہدی اورامام جنبوب کی سلطنتیں اس نمونہ کے موافق قائم ہو گئی ہیں کہ جو مذہبی حکومت کی تصویر ہے اور جس کو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے پیش نظر رکھا تھا۔ اسی طرح اس کے مقابل جانب ایک اور یتسری حکومت شمالی افریقہ میں قائم ہو ئی ہے۔ جو عیسوی مذہب کے حملوں کا کامیابی سے مقابلہ کر رہی ہے یعنی مراکو کی سلطنت گواس مل کی بعض قومیں اس سلطنت کی مطیع نہیں ہیں تاہم اگر کوی آفت آئی تو کویء شبہ نہیں کہ تمام مغرب میں یہ سلطنت حامی اسلام ثابت ہو گی۔ یہ وہ ممالک ہیں جہاں مذہب اور پالٹکس دونوں کی باگ ایک ایسے شخص کے ہاتھ میں ہے جیسا کہ قرآن کی تعلیم یہ وہ ممالک ہیں جن کے لیے اہل مکہ نے داراسلام کا لقب خاس کر دیا ہے ۔ اور یہ وہ لقب ہے جس کی ہوس مصر اور ٹرک؟ ے دل یں ہے لیکن بے فائدہ کیونکہ ان مقامات میں اصلی مذہب کو مغربی تمدن نے غبار آلود کر دیا ہے۔ لیکن ابھی ہم ان ممالک کی حالت سے بحث نہیں کر تے بلکہ ہم صرف الجیریا اور فرنچ افریقہ سے بحث کرتے ہیں جہاں عیسوی مذہب اور عیسوی سلطنت اسلام سے ٹکر لے رہی ہے یہ وہ ممالک ہیں جن کو مسلمان دارالحرب یعنی دارالجہاد کہتے ہیں یہاں اسلام کی جو حالت ہے ا سکے متعلق تین حیثیتوں سے بحث ہو سکتی ہے۔ کیا انجیل نے قرآن میں کوئی تبدیلی پیدا کی ہے؟ اور اگر یہ فرض کر لیا جائے کہ اسلام ہمیشہ اپنی اصلی حالت کو قائم رکھے گا تو سوال یہ ہے کہ آیا عیسائیوں اور مسلمانوں میں کسی قسم کا ربط پیدا ہوا ہے جس میں آئندہ یہ امیدہو کہ دونوں میں امتزاج نام پیداہو جائے۔ اور کیا یہ خوف ہمیشہ قائم رہے گا کہ مسلمان کسی دن جہاد پرآمادہ ہو کر ان ممالک پر غالب نہ آ جائیں۔ پہلے سوال کا جواب یہ ہے کہ کوئی مسلمان اپنا مذہب چھوڑ کر دوسرے مذہب کی طرف مائل نہی ہو سکتا مسلمانوں کے خیال میں بھی یہ بات نہیں آ سکتی ۔ یہاں تک کہ ان کو اپنی زبان میں کوئی لفظ نہیں ملتا جس کے ذریعہ سے وہ ایسے شخص کے اوصاف بیا ن کر سکیں جن مسلمانوں نے فرنچ وضع اختیار کر لی ہے۔ چونکہ ا س میں بھی اتداد کی بو ہے اس لیے مسلمان ان کی نسبت بھی متحیر ہیں کہ ان کو کس نا م سے پکاریں چنانچہ انہوں نے مجبوراً فرنچ زبان کا لفظ انتخاب کیا ہے۔ جس کو وہ ان لوگوں کے حق میں استعمال کرتے ہیں۔ یہ لفظ متورفی ہے جس کے معنی مرتد ہیں اگر کوئی عیسائی کسی مسلمان کو عیسائی بنانا چاہے تو اس وقت کی کیفیت کا بیان کرنا سخت مشکل ہے اس کا اندازہ کسی قدر اس حالت میں ہو سکتا ہے کہ جب کسی عیسائی کو وست بنانے کا ارادہ کیاجائے۔ لیکن یہ تشبیہہ بھی پوری نہیں مسلمان کا عیسائی ہونا اس وجہ سے سخت مشکل ہے کہ وہ عیسائیوں کو سخت ذلیل سمجھتا ہے اس کو اپنے موحد ہونے پر بے حد ناز ہے۔ مسلمانوں کو یہ یقین ہے کہ ان کا مذہب عیسائیت سے اس قدر افضل ہے کہ یہ ناممکن ہے کہ عیسائی اسلام کی صحت کا قائل ہ ہو یہاں تک کہ ہم عیسائی جو مسلمانوں سے بے تعصبانہ ملتے ہیۃں تو مسلمان سمجھتے ہیں کہ یہ اسی خیا ل کا اثر ہے مسلمان کو اس پر ناز ہے کہ وہ خدا کی عبادرت ذہنی طریقہ سے کرتا ہے ا س کے مذہب کو ظاہری علامتیں اور سروسامان درکار نہیں اس کو عیسائیون کے مذہبی جلسوںمیں بت پرستانہ عبادتیں نظر آتی ہیں ‘ مسلمان عیسائیوں کو اہل کتاب کہتے ہیں لیکن ان کو اپنا ہسر نہیں کہتے بلکہ اکثر توعیسائیوں کو بت پرستوں سے بد تر سمجھتے ہیں‘ کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ خدا نے جو مذہب ان پر اتارا تھا اس کو عیسائیوں نے جان بوجھ کر بدل دیا ہے۔ مذہب عیسوی کے متعلق سلمانوںکے یہ خیالات ہیں ظاہر ہے کہ یہ خیالات عیسائیت کی ترقی کے کس قدر سد راہ ہیں۔ پادریوں کو مختلف قوموں کے عیسائی بنانے میں ہر جگہ کلیسائی ہوئی وحشی قوموں میں بھی اور شائستہ قوموں میں بھی لیکن مسلمانوں میں ہو جہاں گئے ان کو کامیابی کا ہر درزاہ طر فسے بند ملا۔ بت پرست قومین جب مہذب ہوئیں تو انہوں نے اپنے وحشیانہ مذہب کو فوراً چھوڑ دیا۔ کیونکہ وہ ان کی عقل کے موافق نہ تھا۔ ان کی شائستگی نے ان کو آمادہ کر رکھا تھا کہ وہ خالص عقلیات کو قبول کریں۔ اس لیے جب پادریوں نے منطقی دلائل سے اپنامذہب ان کے سامنے پیش کیا تو انہوں نے فوراً قبو ل کر لیا۔ مقدس پولوس کو اکثر بہت سے بت پرستوں سے سابقہ پڑتا تھا جو اپنے خدا کو اس لیے چھوڑ دیتے تھے کہ اسکا جھوٹا ہونا ان پر ثابت ہو جاتا تھا۔ یونانی بھی اکثر دلیل اور برہان کی طرف مائل نظر آتے تھے‘ وحشی بت پرستوں کا عیسائی ہونا اس لیے آسان تھا کہ پادریون کو ان پر علمی تفوق حاصل تھا۔ لیکن یہ کس پادر ی کے مکان میں ہے کہ کسی مسلمان کو اس کے مذہب کی طرف سے متزلزل کر دے اوریاس چیز کی اسے اسے عبادت کرائے جس کو وہ حقیر سمجھ رہا ہے یا اصل مذہب کو اس کی نظر میں بے وقعت کر دے جس کو وہ تنہاے عزت خیال کرتا ہے۔ مسلمانوں کے دل میں عیسائیت کے خلاف جو خیال جم گیا ہے وہ ابدی ہے پادری اس کو کیوں کر اس کے دل سے دور کر سکتے ہیں۔ دوران حالیکہ مسلمان ا س مسئلہ کے متعلق گفتگو کرنا بھی پسند نہیں کرتا اور نہ کسی قسم کی بحث کو برداشت کرتا ہے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتاہے کہ اگر مسلمان استلال اور حجت سے عیسائیوں کے قبول کرنے پر آمادہ نہیںہوتا تو یہ کیا ممکن نہیں کہ زور شمشیر سے کام لیا جائے اس کا جواب یہ ہے کہ فرنچ میں فتح کے وقت بھی مسلمانون کو عیسائی نہیں بنا سکتے تھے۔ جیسا کہ شارلمین نے کیا تھا‘ ا سلیے مجبوراً کلیسا کو سکوت سے کام لینا پڑا۔ جیسا کہ آج تمام قوموں نے مسالمت کا پہلو اختیار کر لیا ہے لیکن کلیسا ا س مسالمت کو مذہب عیسوی کا کوئی مسلمہ مسئلہ نہیںقرار دیتا بلکہ ا س سے صریح انکار کرتا ہے۔ الجیریا میں جو معاہدہ ہوا اس کی رو سے کسی پر مذہبی بیر کرنا بالکل ممنوع ہے کیونکہ فرنچ گورنمنٹ نے جنرل بورمان کیتوسط سے معاہدہ کیاتھا ہ اہل عرب کے مذہب سے تعرض نہیں کیا جائے گا۔ اور اس کی عزت کی جائے گی‘ اس معاہدہ کے خلاف بطور استثناء کے ایک واقعہ پیش آنے کے قریب تھا‘ ا سکی تفصیل یہ ہے کہ ۱۸۶۸ء مٰ الجیریا کے بشپ کو مذہبی حمیت کا جوش پیدا ہوا۔ اور اس نے چاہا کہ بہت سے مسلمانوں کو عیسائی بنا لے چنانچہ الجیریا کے عظیم الشان قحط کے بعد اس نے بہت سے یتیموں کو اس غرض سے جمع یا۔ لیکن جنرل مکموہن نے جو الجیریا کا گورنر تھا بشپ کی مخالفت کی اور اس کوشش کو اس بنا پر چلنے نہ دیا کہ یہ معاہدہ کے خلاف ہے۔ ای عجیب متناقض بات یہ ہے کہ الجیریا میں آج ایسے لوگ بھی موجود ہیں جن کو اس پر افسوس ہے کہ یہ طریقہ کیوں نہیں اختیار کیا گیا لیکن یہی لوگ اگر پائے تخت (فرانس) میں ہوتے تو ان لوگوں کی صف میں کھڑے ہوتے جو بڑے زور سے اس بات کے حامی ہیں کہ تما م بڑے مذہبوں کو آزاد رہنا چاہیے۔ گویا کہ وہ ایسی سلطنت کے آرزو مند ہیں جو ایک طرف تو غیر مذہب کو زدومال کی دل فریبی سے منتشر کرنے کی کوشش کرے‘ اور دوسری طرف موحد مسلمانوں سے جنگ کی تیاری کرے۔ اگر کوئی چالاک پادری ہمت کر کے ابتدائے زمانہ فتح میں کھڑا ہوتا اور اس کے اس مشن کا امرائے سلطنت میں سے کوئی ایسا پرجوش ممبر حامی ہوتا جس کو خود بھی عیسائی مذہب کی اشاعت کی طرف توجہ ہوتی یا دلفریب عورتوں کے ذریعہ سے مذہبی اشاعت کی طرف سے اسے التفات دلایا جاتا اور ان سے جاہ و منزلت کا بھی اقرار کیا جاتا تو بہت آسانی سے ہزاروں عرب اپنے اپنے مذہب کو خیر باد کہہ کے فرانسیسی مذہب کے پیرو بن جاتے مسلمانوں کا کمیشن کے اشارہ سے عیسائی مذہب کی مخالفت اور کسی دبائو سے ان کا متاثر نہ ہونا یہی دوسبب ہیں جو عیسائیت کو اسلام میں قدم رکھنے کی اجازت نہیں دیتے‘ گو کہ کیتھلک مشنری نے پہلے ہی سمجھا دیا تھا کہ ا س وعظ و نصیحت سے مسلمانوں کے قلوب عیسائیوت کے طرف مائل نہیں ہو سکتے۔ مگر باوجود ان وقتوں کے انہوں نے اپنے مقصد سے کنارہ کشی نہ کی اور نہ انہوں نے جدوجہد سے ہمت ہاری اور نہ اسلام کے شکست دینے کی دشواریوں کا خیال کر کے ان کی ہمتیں پست ہوئیں جہاں پہنچے اپنے مقاصد میں کامیاب ہونے کی تدبیریں کیں فقرا اور مساکین کی مالی امدا د کی چھوٹے بچوں کی تعیلم پھلائی بیماروں کی خدمتیں کیں مسٹر سریفار یا لکھتا ہے کہ انہوں نے باوجود ان تمام احسانات کے ان کے مذہب میں کبھی دست اندازی نہیںکی۔ بلکہ انہوںنے اپنا مقصد ان کو مذہبی خیالات سے علیحدہ رکھنا قرار دیا۔ کیونکہ ان کا خیال تھا کہ اگر ہم انجیل کو عرب میں شائع نہ کر سکے تو ا میں کچھ شک نہیں کہ سلطنت فرانس کے اقتدار کو ان لوگوں کے اس بہانے سے عمدہ طریقہ سے پھیلا سکیں گے اور ان احسانات کے ذریعہ سے ان کے دلوں میں سلطنت سے ہمدردی کا بیج بو سکیں گے۔ تعداد ازواج قرون وسطیٰ میں عام خیال تھا کہ پیغمبر اسلام کی زندگی کا سب سے بڑا کام تعداد ازواج ہے کیونکہ انہوں نے اس کے ذریعہ سے لوگوں کو اسلام کی طرف مائل کیا ۔ بے ردن ستم ظریفی سے کہتا ہے کہ اسلام نے عورتوں کے لیے بھی متعدد شوہروں کا وعدہ کیا ہے‘‘۔ عیسائی واعظوں کی ان جھوٹی روایتوں پر اعتماد کر کے اسلا کو یہ خطاب دیے ہیں ’’چار پایوں اونٹوں اور جانوروں کا مذہب‘‘ دنیان نے ابن رشد کی جو سوانح عمری لکھی ہے اس میں کہتا ہے کہ ’’یہ مذہب… کا یا ان لوگوں کا ہے جو غریق شہوت ہیں۔‘‘ تعداد ازواج ہم تہذیب یافتہ لوگوں کے اخلاف اور بالخصوص ہماری مذہبی رسول پر نشتر کا کام دیتا ہے۔ شریعت موسوی میں تعداد ازواج موجود تھا۔ اور گو حضرت موسیٰ کی شریعت بھی حضرت عیسیٰ کی شریعت کی طرح الہامی شریعت ہے تاہم ہم اس مسئلہ کو ہیں سمجھ سکتے پادری برد غلی کہتا ہے کہ یہ ایک ایسا حکم ہے جس کا مقصد سمجھنا مشکل ہے۔ خدا نے خاص حالتوں میں اس کو جائز قرار دیا تھا۔ جس کو ہم نہیں سمجھ سکتے۔ میں سمجھتا ہوں کہ پادری مودب اور ان کے ہم خیالوں کو یہ ڈر پیدا ہوتا ہو گا کہ مذہب عیسوی کو ایسے و مذہبوں کے ہمسایہ میں رہ کر داغ نہ لگ جائے جو منزل من اللہ ہیں اور جس کے مسائل مذہب عیسوی کے مخالف ہیں لیکن اگر ہم یہ تسلیم کر لیں کہ شریعت الٰہی بھی ان مصلحتوں کو ملحوظ رکھتی ہے۔ یہ جو شریعت انسانی میں ہوتی ہیں تو کیا حرج ہے کہ انسانی قانون احکام میں نہایت احتیاط سے کام لیتا ہے۔ اوروقت اور موقع کی تمام ضرورتوں کا لحاظ رکھنا ہے تو پھر شریعت الٰہی میں اس قسم کی احتیاط اور مراعات نہ ہونے کی کیا وجہ ہے مانسیلو وولسٹ جو ایک بڑا متکلم شخص ہے۔ اس کی بھی یہی رائے ہے ہ سب سے پہلے جو اخلاقی شریعت خدا نے نازل کی وہ لوگوں کے حالات اخلاق اور زمانہ کی ضرورتوں کے موافق تھی۔ سٹمیک قوموں کے اخلاق میں ایک نقص پایا جاتا ہے جو ان کی اصل فطرت میں موجود ہے۔ اور جس کی تلافی ابد تک نہیں ہو سکتی یعنی کثرت شہوت بے شبہہ ایک اخلاقی عیب ہے۔ لیکن بہرحال جسم کی قوت ور صحت کی دلیل ہ۔ مشرق کے مردوں میں مغرب کی نسبت زیادہ قوت اور جوش پایا جاتاہے۔ اس لیے بعض علماء علم طبائع الامم کی رائے ہے کہ چونکہ مشرق کے لوگوں میں غائت درجہ کی قوت پائی جاتی ہے اس لیے تعداد ازواج ان قوموں کے لے ایک ضروری چیز ہے۔ عجائبات قدرت جن کے خیال سے عقل حیرت زدہ ہو جاتی ہے ان میں ایک یہ بھی ہے کہ مغرب میں خدا متعدد ہیں لیکن بیوی صرف ایک بخلاف اس کے مشرق میں ایک خدا ہے۔ اور بیویاں متعدد متعدد خدا اور جورو ایک اہل مغرب کے مناسب ہے‘ اور متعدد جورو اور ایک خد ااہل مشرق کے لیے موزوں ہے۔ چونکہ اہل مغرب و اہل مشرق کے مذہب ‘ تمدن اورنوعیت میں کلیتہ اختلاف ہے۔ ا سلیے ہم مغربی لوگ قرآن کے احکام کو جو تعداد ازواج کے متعلق ہیں اچھی طرح نہیںسمجھ سکتے ۔ ایک بڑا ضروری پہلو ہے کہ جس کو محققین نے ہمیشہ نظر انداز کر دیا ہے کہ تعداد ازواج عرب کی قدیم عادت ہے‘ جو اسلام سے پہلے بھی موجود تھی۔ عرب میں تعداد ازواج مساجد کے وجود پر مقدم ہے اس لیے پادری بروغلی کا یہ قول کلیتہ غلط ہیکہ تعداد ازواج اسلام کے ساتھ پیدا ہوا۔ یہ قطعی ہے کہ قبائل عرب جو اسلام لائے وہ اسلام سے پہلے بھی اسی طریقہ پر تھے جیساکہ آج حبشی قوموں کا حال ہے جو عموماً اسلام کی طرف مائل ہیںَ قرآن مجید میں جس حد تک تعداد ازواج ہے قبائل عرب اور سوڈان میں ا س سے کہیں زیادہ رواج تھا قرآن مجید میں صرف چار بیویوں کی اجازت ہے اسی بنا پر اہل عرب اور سوڈان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ آپ سختی پسند پیغمبر تھے اس میں بھی شبہ نہیںکہ ابتدا میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا میلان ایک ہی زوجہ کی طرف تھا۔ جیسا کہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ابتدائی زندگی شاہد ہے لیکن قریش کو اس کا پابند کرنا بہت مشکل تھا۔ ان میں اییس لوگ تھے جو دس دس بیویاں رکھتے تھے مثلا حارث و غلمان ان کو اگر یہ حکم دیا جاتاکہ صرف ایک بیوی پر اکتفا کریں تو ان کو سخت ناگوار گزرتا اوروہ اس کے متحمل نہ ہو سکتے۔ ممککن تھا کہ اس کا یہ اثر ہوتا کہ ان کے جدید عقائد متزلزل ہو جاتے۔ ا س لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو حکم دیا کہ د س بیویوں میں سے صرف چار کو ترجیح کے اعتبار سے انتخاب کر لیں باقی کو طلاق دے دیں۔ ذیل کی آیت سے پایا جاتاہے کہ اسلام ایک بیوی پر اکتفا کو ترجیح دیتا ہے۔ فان خفتم ان لا یقسطو فی الیتامیٰ فانکحوا ما طاب لکم من النساء مثنی وثلاث ورباع فان خفتم ان لا تعدلو افواحدۃ اوما ملکت ایمانکم ’’اور اگر تم کو ڈر ہو کہ تم یتیموں میں انصاف نہ کر سکو گے تو جو عورتیں پسند آئیں ان سے نکاح کر لو خواہ چار لیکن اگر تم کو یہ خوف ہو کہ تم عدل نہ کر سکو گے تو صرف ایک یا جو تمہاری مملوکہ ہو۔‘‘ اس آیت کے دوسرے ٹکڑے کے معنی جیساکہ علماء سے مروی ہیں یہ ہیں کہ اگر آدمی کو خوف ہو کہ وہ اپنی بیویوں میں عدل نہ کر سکے گا اور کسی بیوی کو اوروں پر ترجیح دے گا اس کے ساتھ اس کی حالت ا س کی مقتضی نہ ہو کہ دونوں کے حقوق ادا کر سکے تو اس پر فرض ہو گا کہ ایک ہی بیوی پر اکتفا کرے ۔ بعض علماء کی یہ بھی رائے ہے کہ انسان تعداد ازواج کی نسبت خود مختار نہیں ہے۔ بلکہ یہ قاضی کا کام ہے کہ ہر شخص کے حالات کے لحاظ سے مناسب حکم دے اگر اس کے نزدیک اس سے عدل نہیں ہو سکتا تو وہ اس کو تعداد ازواج کی اجازت نہ دے گا۔ ان علماء نے سند میں یہ روایت پیش کی ہے کہ خلیفہ منصور اپنی بیوی کو حد سے زیادہ چاہتا تھا اور اس بنا پر اس نے دوسری شادی کا ارادہ نہیں کیا۔ لیکن جب چند برس عیش و عشرت میں گزرے تو اس کو جدت کی ہوس ہوئی اوردوسری شادی کرنی چاہی۔ منصور کی بیوی کو یہ حال سن کر سخت رنج ہوا۔ اور اس نے کہا کہ ایک سے زیادہ شادی ناجائز ہے۔ منصور نے امام ابوحنیفہ کو بلا بھیجا۔ اور پوچھا کہ مسلمان کے لیے بیویاںجائز ہیں اما صاحب بول اٹھے کہ چار ‘ منصور نے اپنی بیوی کی طرف جو پردہ سے سن رہی تھی دیکھا اور بہ آواز کہا کہ یوں امام صاحب کی رائے سنی‘ امام صاحب نے یہ دیکھ کر فرمایا کہ لیکن منصور کو ایک سے زیادہ شادی جائز نہیں۔ منصور نے پوچھا کیوں؟ امام صاحب نے کہا کہ تمنے اپنی بیوی کی طرف جس انداز سے دیکھا اور جس طرح گفتگو کی ۔ اس سے میں قیاس کرتا ہوں کہ تم اس کے ساتھ عدل نہیںکرتے اس لیے میں حکم دیتا ہوں کہ اسی بناء پر قناعت کرو۔ مجھ کو معلوم نہیںمنصور نے امام ابو حنیفہ کے حکم کی اطاعت بھی کی یا نہیں‘ جو لوگ تعداد ازواج کی خواہش ظاہر کرتے ہیں ان کی حالت منصور سے مشابہ ہے۔ کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ ازواج میں عدل نہیںہو سکتا‘ اسی بنا پر بہت کم ایسا اتفاق ہوتا ہے کہ قضاۃ کے سامنے اس قسم کے مقدمات پیش ہوتے ہوں لیکن نان و نفقہ کے لحاظ سے یہ حالت نہیں ہے۔ تعداد ازواج کو جن چیزوں نے روک رکھا ہے ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ متعدد بیویوں کی کفالت نہیں ہو سکتی۔ مشرق میں تعداد ازواج امارت پسندی میں داخل ہے۔ اسی بنا پر اس سے صرف دولت مند لوگ متمتع ہوتے ہی اوریہ امر گویا دولت مندی کا ایک لازمہ خیال کیاجاتاہے۔ جیسا کہ قدیم جرمن لوگوں میں خیال تھا۔ اور چونکہ مسلمان اختلاف حالت کو نہایت رضامندی سے اور حسن اعتقا د سے قبول کر تے ہیں۔ اس لیے فقراء کے تعداد ازواج پر رشک نہیں پیدا ہوتا جس طرح وہ امراء کی اور امتیازی باتوں پر رشک نہیںکرتے وہ قرآن مجید کے تمام احکام کا جس طرح ادب کرتے ہیں اسی طرح اس حکم یعنی جو عدل کی طاقت نہ رکھتا ہو وہ متعدد شادیوں کا مجاز نہیں) کی بھی اطاعت کرتے ہیں اس کے علاوہ وہ ا سے ناواقف نہیںکہ کئی بیویوں والے کو کیا کیا مصائب اور رنج پیش آ تے ہیں اوریہ کہ عیش کامل انہیں کا حصہ ہے جو ایک بیوی پر قانع ہے۔ مانسیو کا روز کا یہ خیال غلط ہ کہ تعداد ازواج غرباء کے لیے حرام ہے اور امراء کے لیے قابل عفو گناہ ہے تعدادازواج کی نسبت مسلمانوں کا وہی خیال ہے جو پولوس مقدس اکثر کہا کرتا تھا کہ ہر مباح چیز لائق عمل نہیں۔ شریعت اسلامی نے گو تعداد ازواج کو جائز کہا ہے لیکن اکثر مسلمان ا اجازت سے فائدہ نہیںاٹھاتے۔ وہ جانتے ہیں کہ اسے سے تنگی معاش اور فقدان صحت کا ڈر ہے ۔ کثیر الازواج اشخاص کی بیویاں اکثر شاکی رہتی ہیں کہ ان کے ازواج ان سے قطع تعلق کر لیتے ہیں رات دن کے جھگڑوں سے گھر مصیبت کدہ بن جاتاہے۔ عربی زبان میں ایسے جملے پائے جاتے ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ کثرت ازواج ان کو پسند نہیں۔ مثلاً دو گھوڑوں پر سوار ہونے والے شخص کو گرنے سے ڈرنا چاہیے۔ محبت کے لیے دو بیویاں بہت ہیں اور اگر عافیت درکارہے تو صرف ایک جو قانون معاملات ازواج میں امیر و غریب کو یکساں حق نہیں دیتا۔ ہمارے موجودہ خیالات اسکی تائید نہیںکرتے۔ لیکن جو شخص مسلمانوں کے حالات سے واقف ہے وہ سمجھ سکتا ہے کہ مسلمانوں میں اس قسم کا قانون دہ نتائج نہیں پیدا کرتا جو ہم خیال کرتے ہیں۔ مسلمان غربا اپنی حالت پر قانع ہیں اور رضامند ہیں خدا نے ان کی قسمت میں جو کچھ لکھ دیاہے وہ دل سے اس پر راضی ہیں گومانسیو دوبر چلی اس امر کو تسلیم نہیں کرتے۔ قرآن مجید مفلس کے لیے حکم دیتا ہے کہ جب تک اس کو نکاح کا مقدور نہ ہو وہ انتظا رکرے ۔ دیکھو کتاب کا ضمیمہ ششم باایں ہمہ مسلمانوں میں ایسے بہت کم ہوتے ہیں جو شادی سے محروم ہوں عموماً لوگ ۱۸ برس کے سن میں شادی کر تے ہیں اہل مشرق مغرب (شادی نہ کرنا) سے بالکل ناواقف ہیں یہ مصیبت تمدن حال نے پیدا کی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ سے جب باتیں کرتے تھے تو یہ فقرہ اکثر فرماتے تھے کہ اسلام میں رہبانیت نہیں ہے ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جورو والے کی ایک سانس شادی نہ کرنے والوں کی نماز سے بہتر ہے یہ حدیث خداجانے کہاں سے نقل کر دی ہے)۔ ناظرین کو تقریر بالا سے معلوم ہو گا کہ جو لوگ تعداد ازواج کے نقصانات بیان کرتے ہیں انہوں نے اگرغلط بیانی نہیںکی ہے تو کم از کم مبالغہ ضرور کیا ہے۔ پادری برجلی کا یہ بیان بالکل غلط ہے کہ مشرق میںجو شرمناک برائیاں پھیلی ہیں وہ ازواج تعدار کی بدولت ہیں۔ بلکہ یہ سچ ہے کہ اس رسم نے ان برائیوں کو نرم کر دیا ہ۔ اس کے علاوہ یہ فیصلہ کرنا بھی مشکل ہے کہ مشرق میں یہ برائیاں مغرب سے زیادہ ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلام پر یہ داغ ان یورپین سیاحوں نے لگایا ہے کہ جن کی عادت ہے کہ بغیر تحقیق کیے جزئی واقعہ سے کلیات بنا لیتے ہیں۔ اگر یہ تعمیم نہ ہوتی تو ان کو اپنی تصنیفات کے لے کچھ سرمایہ ہاتھ نہ آتا۔ شرمناک برائیاں ہر قوم میں ہوتی ہیں پیرس‘ لندن‘ اور برلن میں یہ برائیاں مشرق سے زیادہ ہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو بڑی سختی سے حرام قرار دیا اور ان کو معمولی گناہ نہیںقرار دیا ہے جیسا کہ بعض لوگ ا س آیت سے استبناط کرتے ہیں: والذ ان یاتیانھا منکم فاذو ھما فان تابائو اصلحا فاعرضوا عنھما ان اللہ کان توابا رحیما آیت مذکورہ سے یہ استنباط کرنا کہ شارع اسلام نے بدکاری کو ایک معمولی گناہ قرار دیا ہے اس آیت کے معنی بدل دیتا ہے اس کے علاوہ ا س مضمون کے متعلق قرآن میں صرف یہی ایک آیت نہیں ہے بلکہ اور بہت سی آیتیں ہیں مثلاً سورہ اعراف کی یہ آیت: ولو طا اذ قال لقومہ اتاتون الفاحشۃ وما سبقکم بھا من احد من العالمین اسلا م کے احکام جو اس بدکاری کے متعلق ہیں خواہ قرآن سے ماخوذ ہوں یا حدیث سے تمام دنیا کی شریعتوں کے مقابلہ میںنہایت سخت ہیں شریعت اسلام نے خلاف وضع و فطری جرم کے لیے قتل کی سزا مقرر کی ہے‘ اگر مرتکبان جرم دونوں بالغ ہوں تو دونوں قتل کر دیے جائیں گے ایک ہو تو ایک اور دونوں نابالغ ہوں تو سو سو درے لگائے جائیں گے۔ اور بدکاریاں جو قریب البلوغ لوگوں میں پائی جاتی ہیں مشرق میں بجز استثنائی حالتوں کے ان کا وجود نہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ شادی کرنے میں نہایت آسانیاں ہیں۔ یہ خیال سخت غلط ہے کہ مسلمانوں کے مذہب میں نکاح ایک قمس کی خرید و فروخت کا معاملہ ہے جس کے ذریعہ عورت بیچ ڈالی جاتی ہے اور شوہر ا س پر مالکانہ قابض ہو جاتا ہے۔ شریعت اسلام میں نکاح کے ذریعہ عورت کو بہت سے اخلاقی اور عملی حقوق حاصل ہوتے ہیں‘ جو عورت کا درجہ سوسائٹی میں بلند کر دیتے ہیں‘ عورت کو اختیار ہے کہ وہ شوہر سے یہ شرطیں طے کرا لے کہ وہ کسی اورعورت سے شادی نہ کرے گا نہ لونڈی لائے گا۔ نہ بہت دنوں تک گھر سے غائب رہے گا۔ نہ اس کو کسی طرھ کی تکلیف دے گا۔ نہ اس کو گھر کے مشکل کاموں میںپھنسائے گا شوہر اگر شرائط کی پابندی نہ کرے گا تو عورت کو اختیار ہو گا کہ وہ طلاق لے لے‘ اگر وہ طلاق کو نہیںپسند کرتی تو اس کو اکتیار ہے کہ قاضی سے درخواست کرے کہ شوہر اس کی سوکن کو طلاق دے دے‘ اور لونڈی کو آزاد کر دے تاکہ وہ اس سے تمتمع نہ ہونے پائے۔ قرآن نے صرف یہی نہیںکیاکہ چار کی قید لگا کر دائرہ ازواج کو گھٹا دیا بلکہ اس نے اس طریقہ کو بھی مٹا دیا جو عرب میں عام طور پر مروج تھا یعنی چند روزہ نکاح (متعہ) مانسیوریفیل کہتے ہیں کہ اگر ہم پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کی طرف رجوع کریں تو معلمو ہو گا کہ عورتوں کے لے جو مفید احکام پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے صادر کیے ہیں کسی نے نہیں کیے عورتوں پر آپ کے بہت سے احسانات ہیں قرآن اور عورتوں کے حقوق کے متعلق بہت سی مہتمم بالشان آیتیں ہیں بعض آیتوں مٰں یہ بیان ہے کہ عورتوں سے کس قسم کے تمتعات ناجائز ہیں بعض میں یہ تفصیل ہے کہ کس حشمت و وقار سے ان سے معاملہ کرنا چاہیے۔ الیوم احک لکم الطیبات وطعام الذین اوتو الکتاب حل لکم وطعامکم حل لھم والمحصنات من المومنات والمحصنات من الذین اوتو الکتاب من قبلکم اذا ایتموھن اجورھن محصنین غیر مسافحین ولا متخذی اخدان قل للمومنین بعضوا من ابصارھم ویحفظو افروجھم ذلک ازکی لھم ان اللہ خبیر بما یصنعون قد افلح المومنون الذین ھم فی صلاتھم خاشعون والذین ھم عن اللغو معرضون والذین ھم للزکوۃ فاعلون والذین ھم لفرو جھم حافظون ’’آج تمہارے لیے پاک چیزیں حلال کر دی گئیں اور اہل کتاب کا کھانا تمہارے لیے حلال ہوا ہے اور تمہارا کھانا ان کے لیے اور مسلمان عفیفہ عورتیں اور اس قوم کی عفیفہ عورتیں جن پر تم سے پہلے کتاب نازل ہو چکی ہے جبکہ تم ان کے مہر ادا کر دو اور عفت مقصود ہو نہ عیاشی اور داشتہ بنانا مسلمانوں سے کہہ دو کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور فحش سے بچے رہیں یہ ان کے لیے پاکیزگی ہے اور خدا ان کے کاموں سے واقف ہے وہ مسلمان کامیاب ہیں جو نما ز میں خشوع کرتے ہیں ۔ اور بیہودہ باتوں سے بچتے ہیں اور زکوۃ دیتے ہیں اورپاک دامن رہتے ہیں۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہؓ کو بہت سے ایسے احکام تلقین کیے جن میں شہوت رانی سے روکا اور عفت اور عصمت کی تاکید کی آپ نے علم دیا کہ منگیتر کو بھی عورت کا صرف چہرہ اور ہاتھ دیکھنا جائز ہے اوربیگانہ عورت کو نظر اٹھا کر دیکھنا بھی حرام ہے انجیل میں ہے کہ ’’جو شخص کسی عورت کو نظر شہوت سے دیکھتا ہے وہ دل سے زنا کرتا ہے‘‘ مسلمانوںکا مقولہ ہے کہ آنکھ کا زنا ظاہری زنا سے زیادہ برا ہے ان احکام نے بدنظری کو زنا کے برابر قرار دیا ہے اورا س کی پابندی صرف مسلمان کر سکتے ہیں جن کی عورتیں پردہ میں رہتی ہیں۔ آیات مذکورہ قرآن سے معلوم ہو گا کہ پیغمبر کو ان خرابیوں کے روکنے کا کس قدر خیال تھا جو عشق و ہوس سے پیدا ہوتی ہیں یہ بندشیں اس غرض سے تھیں کہ اولاد و ازواج والے امن وراحت سے رہیں غالباً انجیل میں اس سے زیادہ سخت احکام ہیں لیکن ان پر صرف وہ لوگ عمل کرتے ہیں جن کو خدا نے کمالات اخلاقی میں ممتاز کیا ہے ۔ اور وہ بہت کم ہیں باقی عام لوگ تو اخلاقی حیثیت سے ان کو دوسری قوموں پر کچھ ترجیح نہیں بخلاف اس کے قرآن کے احکام نرم ہیں عام مسلمان ان کا لحاظ رکھتے ہیں اور اس پر عمل کرتے ہیں۔ قرآن میں صفائی اور صحت کی تاکید ہے‘ مسلمان اس پر کاربند ہیں اور اس وجہ سے ان کے اخلاق ممتاز ہیں ان باتوں نے ان کی طبیعتوں میں متانات اور وقار پیدا کر دیا ہے اگر اس قسم کے احکام نہ ہوتے تو ممکن تھا کہ مسلمان بھی شہوت پرست بن جاتے جیسا کہ آج کل تہذیب یافتہ قوموں کا حال ہے۔ مسلمانوں اور عیسائیون میں غیرت و حمیت کے لحاظ سے آسمان او ر زمین کا فرق ہے مسلمان جب یورپ کے اشتہارات پڑھتا ہے یورپین عورتوں کو ننگے لباس میں ناچتے دیکھتا ہے رقص کے جلسوں میںعورتون کو بے حیائی کے ساتھ بازو کھولے ہوئے گھومتے دیکھتا ہے اور اس قسم کے ہمارے اور تفریحی جلسوں میں شریک ہوتا ہے تو اس کی نظر پر زخم لگتا ہے۔ میں نے ایک دن وزیر مصطفی کے گھر شیوخ عرب کو دیکھا جن کے پاکیزہ اخلاق و عادات ان کے سر کے تاج اورتمغائے امتیاز تھے‘ وہ اس لیے بلائے گئے تھے کہ ان کی شرکت سے جلسہ کی شان بڑھے‘ ان کے سامنے عیسائی عورتیں مردوں کی بغل میں ہاتھ ڈالے اور سینے کھولے ہوئے ٹہلتی پھرتی تھیں یہ شیوخ ان کی طرف حقارت کی نظر سے دیکھتے تھے ان کو یہ خیال نہیں ہوتا تھا کہ وہ کسی تفریحی جلسہ میںشریک ہیں بلکہ وہ سمجھتے تھے کہ یہ ایک ایسا تماشا ہے جس میں شہوت پرستی کو بالکل آزادی دے دی گئی ہے۔ اور چہروں سے شرم کی نقاب اتار دی گئی ہے۔ اس لیے ہر شخص جو چاہتا ہے کرتا ہے جیسا کہ سال میں ایک دن حبشی اور بعض کمینہ قوموں میں اس قسم کی بیہودگیوں کا رواج ہے۔ لیکن جب وہ دیکھتے ہیں کہ جلسہ میں وہ معزز افسر شریک ہیں جن کے وہ ماتحت ہیں تو ان کو اپنے خیال سے باز آنا پڑا اور سمجھے کہ ہم جو کچھ دیکھ رہے ہیں یہ اصلی حالت ہے‘ اور اہل یورپ کا یہ عام معمول ہے اس وقت ان کو اپنی شریعت کے احکام یاد آئے اور جب انہوں نے اس شرمناک منظر کا ان احکام سے مقابلہ کیا تو دفعتہ قرآن مجید کی عظمت ان کے دلوں میں بڑھ گئی جس میں یہ احکام ہیں: قل للمومنات یغضضن من ابصارھن و یحفظن فروجھن ولا یبدین زینتھن الا ما ظھر منھا والیضربن بخمرھن علی جیوبھن ’’مسلمان عورتوں سے کہہ دو کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنے ناموس کی حفاظت کریں ۔ اور اپنی آرائش نہ دکھلائیں۔ بجز اس حصہ کے جو خود کھلا رہتا ہے اور اپنے ڈوپٹے اپنے گریبانوں پر ڈال لیں ۔ الی آخرہ ۱؎ ‘‘۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱؎ یہ پوری آیت نقل کرنے کے بعد مصنف نے اس مضمون کی اور بھی آیتیں نقل کی ہیں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ٭٭٭ مسلمانوں کو غیر مذہب حکومت کا محکوم ہو کر کیونکر رہنا چاہیے مسلمانوںنے چار دانگ عالم میں بارہ تیرہ سو برس تک حکومت کی حکومت کا آغاز عین بانی اسلام کے زمانہ میں ہوا ۔ اور آج تک جا بجا حکومتیں قائم ہیں۔سینکڑوں غیر قومیں اس کی محکوم ہوئیں۔ ان اسباب سے یہ بدیہی ہے کہ اسلام نے غیر مذہب والوں پر حکومت کرنے کے دستور اور آئین مفصل متصبط کیے ہوں گے۔ لیکن اسلام کو محکوم ہو کر بہت کم رہنا پڑا۔ اس لیے بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اس حالت کے متعلق حدیث سے ‘ فقہ سے‘ تاریخ سے‘ ہم کو کوئی ہدایت نہیں مل سکتی‘ اور فقہ کا یہ حصہ بالکل اچھوتا رہ گیا۔ چونکہ یہ نہایت سخت خطرناک غلطی ہے۔ اس لیے ہم تفصیل سے بتانا چاہتے ہیں کہ اسلام میں اس کے متعلق کافی قواعد اور احکام موجود ہیں ااور حدیث ‘ فقہ ‘ تاریخ سب اس قسم کے مسائل اور واقعات سے لبریز ہیں۔ اس مسئلہ کے متعلق اصل میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب کوئی غیر مذہب حکومت مسلمانوں کے ملک اور زمین پر قابض ہو جائے تو (۱) یہ قبضہ حقیقی ہوتاہے یا غاصبانہ (۲) مسلمانوں کو حکومت کی اطاعت فرض ہوتی ہے نہیں فقہ میں ا س کا ایک مستقل باب ہے جس کی سرخی یہ ہے باب استیلاء الکفار اس کے ذیل میں یہ حکم ہیں: وان غلبوا علی اموالنا واخر روھا بدارھم ملکو ھاریجب علینا ابتاعھم (درمختار) ’’اگر غیر مذہب والے ہمارے مال پر غالب آ جائیں اوراس کو اپنے گھر میںجمع کر لیںتو وہ اس کے مالک ہوں گے اور ہم پر ان کی اطاعت فرض ہو گی‘‘۔ چونکہ اسلامی احکام کی اصلی بنیاد قرآن اور حدیث ہے اس لیے فقہی روایتوں سے پہلے ہم قرآن و حدیث کی طرف متوجہ ہوتے ہیں ۔ قرآن مجید میں ان اصحابہؓ کو جو دولت مند تھے اور اپنی دولت چھوڑ کر ہجرت کرکے چلے آئے تھے اور ان کے مال و دولت پر اہل مکہ نے قبضہ کر لیا تھا۔ خدا نے انہیں فقیر فرمایا ہے للفقرا المھاجرین اس سے فقہانے یہ استدلال کیا ہے کہ جب اہل مکہ نے ان کے مال و اسباب پر قبضہ کر لیا تو وہ اس کے حقیقی مالک بن گئے۔ اس بناء پر صحابہؓ کو خدا نے فقیر فرمایا شاید کسی کو خیال ہو کہ چونکہ صحابہؓ کا قبضہ جاتا رہا تھا اس لیے خدا نے ان کو مفلس کیا لیکن ایسے شخص کے لیے جوگھر سے نکل آئے اور اس کے مال و اسباب پر اور لوگ قابض ہو جائین اور اصطلاح شرع میں ایک دوسرا لفظ موجود ہے۔ یعنی ابن السبیل۔ شامی شرح مختار میں جہاں یہ مسئلہ لکھا ہے کہ قبضہ کی حالت میں قابض لوگ حقیقی مالک ہو جاتے ہیں یہ استدلال کیا ہے۔ لقولہ تعالیٰ للفقراء المھاجرین سماھم فقراء فدل علی ان الکفار ملکو اموالھم لتی ھاجرو اعنھا ومن لا یصل الی مالہ لیس فقیر ابل ھو ابن السبیل ’’کیونکہ خدا نے فرمایا ہے للفقرا المھاجرین اس آیت میں خدا نے مہاجرین کو فقیر کہا ہے ‘ اس سے معلوم ہوا کہ کفار صحابہؓ کے مال کے حقیقی مالک ہو گئے تھے کیونکہ جو شخص اپنے مال کا مالک ہوتاہے اور صرف اس کا قبضہ اٹھ جاتا ہے تو اس کو فقیر نہیں بلکہ ابن السبیل کہتے ہیں‘‘۔ فقہا کے نازک اوردقیق استدلال کی ہم داد دیتے ہیں‘ لیکن ہمار ے نزدیک اس قدر موشگافی اور دقیقہ کی ضرورت نہیں جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں اس قسم کا واقعہ پیش آ چکا ہے اور اس طرز عمل سے صاف معلوم ہو سکتا ہے کہ مسلمانوں کو غیر مذہب کی حکومت میں کیوں کر رہنا چاہیے ؟ مکہ میںجب مخالفین نے مسلمانوں کو حد سے زیادہ ستانا شروع کیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ لوگ ہجرت کر کے حبش ابی سینا کو چلے جائیں چنانچہ بہت سے صحابہؓ جن میں حضرت عبدالرحمن ؓ بن عوف بھی تھے حبش میں چلے گئے۔ حبش کا بادشاہ عیسائی تھا جس ک اہل عرب نجاشی کہتے تھے صحابہؓ جب حبش میں آئے تو اتفاق سے چند روز بعد کسی بادشاہ نے اس ملک پر چڑھائی کر دی ۔ اور نجاشی نے اس کے مقابلہ کے لیے فوجیں بھیجیں ۔ صحابہؓ نے خود بلا کسی تحریک کے اپنی طرف سے ایک قاصد بھیجا کہ فوج کے اتھ جائے اور دم دم کی خبریں بھیجتا رہے تاکہ اگر ضرورت ہو تو خود ہم لوگ نجاشی کی مدد کو آئیں صحابہؓ نے اسی پر اکتفا نہیںکیا بلہ پانچ وقت نمازوں میں نجاشی کی فتح کی دعائیں مانگتے تھے چنانچہ یہ واقعہ محدث طبری نے اپنی تاریخ میں پوری تفصیل کے ساتھ لکھا ہے کوئی رعایا حکومت کے ساتھ اس سے زیادہ اور کیا وفاداری اور اطاعت شعاری کر سکتی ہے؟کیاآج گورنمنٹ کو اس سے زیادہ اور کچھ درکار ہے؟ اسلام کی تاریخ میںاکثر قومیں اسلامی ملکوں پر قابض ہو گئیں اس وقت ہزاروں فقہا اور علماء موجود تھے کیونکر ممکن تھا کہ وہ اس کے متعلق فقی احکام مرتب نہ کرتے‘ تاتاریوں نے جب تمام ایران اور عراق پر قبضہ کر لیا تو اس وقت جس قدر فقہ کی کتابیں تصنیف ہوئیں سب میں اس کے متعلق تفصیلی احکام موجود ہیں۔ اصل بحث یہ پیدا ہوئی کہ یہ ممالک دارالسلام ہوں گے یا دارالحرب‘ تمام فقہا نے با اتفاق لکھا کہ جب تک اسلامی احکام یعنی نماز روزہ وغیرہ جاری ہیں اس وقت تک دارالسلام باقی رہے گا۔ اور مسلمانوں کی وہی حالت ہو گی جو اسلامی ملک میں ہوتی ہے۔ فتاویٰ بزازیہ میں یہ ہے: واما البلاد اللتی علیھا ولاۃ کفار فیجور فیھا ایضا اقامۃ الجمع والا عیادو القاضی قاض بتراضی المسلمین وقد تقرران یتقاء شی من العلۃ یبقی الحکم وقد حکمنا خلاف بان ھذاہ لدیار قبل استیلاء التتارکان من دیار الاسلام بعد استیلاھم اعلان الاذان والجمع والجماعات والحکم بمقتضی الشرع والفتوی والتدریس شائع بلا نکیر من ملوکھم فالحکم بانھا من دار الحرب لاجھۃ لہ ’’باقی وہ مقامات جن کے حاکم کافر ہیں تو وہاں بھی جمعہ اور عیدین کا ادا کرنا جائز ہو گا اور قاضی مسلمانوں کی رضامندی سے قاضی ہو گا ‘ کیونکہ یہ طے ہو چکا ہے کہ جب تک علت باقی رہتی ہے حکم باقی رہتی ہے‘ اور یہ متفقاً ہم لوگ طے کر چکے ہیں کہ یہ مقامات تاتاریوں کے آنے سے پہلے دارالسلام تھے ااور ان کے قابض ہونے کے بعد اذان جمعہ اور جماعت بہ اعلان ہوتی تھی اور فیصلے شریعت کے موافق کیے جاتے ہیں اور درس و تدریس بغیر روک ٹوک کے جاری ہے تو ایسی حالت میں ان مقامات کو دارالحرب کہنے کی کوئی وجہ نہیں ہے‘‘۔ غور کرو فقہا نے تاتاریوں کے زمانہ میں فتویٰ دیا جوبت پرست تھے اور جن کو مسلمانوں کے ساتھ کسی قسم کی مناسبت نہ تھی ‘ آج جب کہ عیسائی حکومت ہے جو اہل کتاب ہیں مسلمانوں کے فرائض مذہبی میں کوئی تعرض نہیںکیا جاتا‘ مسلمان خود عیسائی مذہب کا زور شور سے سربازار رد کرتے ہیں تو ایسی حالت میںکیا شبہہ ہو سکتاہے کہ حکومت کی وہی پوزیشن ہو گی جو اکبر و جہانگیر کے زمانہ میں تھی‘ اور فقہاء کا یہ حکم واجب العمل ہو گا کہ : ویجب علینا اتیاعھم (درمختار) ’’اور ہم پر ان کی اطاعت واجب ہو گی‘‘۔ یہ نہ خیال کرنا چاہیے کہ محض تھیوری یعنی زبانی باتیں تھیں کثرت سے تاریخی واقعات شہادت دے رہے ہیں کہ مسلمانوں کا ہمیشہ طرز عمل یہی رہا ہے۔ وہ جو کچھ کہتے تھے کرتے بھی تھے۔ ساتویں صدی میں جزیرہ سسلی پر عیسائی حوکومت قابض ہو گئی تھی اور راجر تخت نشین حکومت تھا اس وقت تک وہاں کثرت سے مسلمان موجود تھے ان کا طرز عمل یہ تھا کہ بادشاہ کے نہایت مطیع اور وفادار تھے۔ یہاں تک کہ بادشاہ کو جس قدر ان پر اعتما د خود اپنی عیسائی رعایا پر نہ تھا علامہ ابن جبیر نے اسی زمانہ میں سسلی کا سفر کیا تھا وہ ان واقعات کو دیکھ کر لکھتا ہے کہ یہاں پر قائم بڑے بڑے عہدوں پر مسلمان مامور ہیں ۔ یہاں تک کہ شاہی باورچی خانہ کا اہتمام بھی مزید اعتماد کی وجہ سے مسلمانوں ہی کے ہاتھ میں ہے۔ تاتاری جس زمانہ میں ایران اور عراق پر قابض تھے ۔ اکثر بڑے بڑے عہدوں پر مسلمان ہی مامور تھے ہلاکو خان کی سفاکی اور اسلا م دشمنی مسلمہ عام ہے۔ بغداد جو مسلمانوں کے جاہ و جلال کا کعبہ تھا۔ اسی کے ہاتھوں برباد ہوا تھا تاہم اس کے حکومت کے دست و بازو خواجہ رشید الدین اور غلا الدین جوینی تھے۔ خواجہ رشید الدین وزیر اعظم تھے اور درحقیقت کاروبار حکومت ان کے ہی ہاتھ سے انجام پاتے تھے۔ ہلاکو خان کے بعد جب اس کا بیٹا باقا آں خان بادشاہ ہوا تو اس کے دور میں بھی ان دونوں بھائیوں کا وہی احترام رہا۔ علامہ شاکر کبتی نے فوات الوفیات میں جہاں علاء الدین جوینی کا تذکرہ لکھتے ہیں: صاحب الدیوان الحذاسانی مفوا الصاحب الکبیر شمس الدین کان لھم الحل والعقد فی دولتہ ابغاد من الجاہ والحشمۃ ما یجاوز الوصف ’’وزارت خراسان کے مالک اور وزیر اعظم شمس الدین کے بھائی تھے اور ابغا کی سلطنت میںیہی دونوں بھائی سیاہ و سفید کے مالک تھے۔ اور اس قدر دولت و حشمت ان لوگوں نے حاصل کی جو بیان سے باہر ہے‘‘۔ روضۃ الصفا میں جہاں خواجہ شمس الدین (وزیر ہلاکو خان) کا تذکرہ کیا ہے لکھا ہے : ’’چون باقا خان برسریر سلطنت قرار گرفت خواجہ مشارالیہ (خواجہ شمس الدین) زیادہ از معہود و منظور سیور غاتشی یافت و شعل خطیر وزارت برقرار سابق باد مفوض گشت و خدمتش بہ عزے صائب و رائے ثابت و اقبال مساعد در اتمام مہام مملکت و ترقیہ احوال سپاہی درعیت و اصلاح خلل و تدارک ذلل بہ نوع شروع نمود کہ مزیدے برآن متصور بنود‘ ملوک و سلاطین واکابر خراسان و عراق و بغداد و شام و روام و ارمن را ملجا و ماویٰ شد‘‘۔ یہ اعتما د‘ یہ رتبہ ان لوگوں نے اسی وجہ سے حاصل کیا تھا کہ جس وفاداری دیانت اور لیاقت سے یہ لوگ بادشاہی خدمات بجا لاتے تھے۔ خود ہلاکو خان کے ہم قدم اور عزیز بجا نہیں لا سکتے تھے۔ محقق طوسی جن کی شہرت محتاج بیان نہیں‘ وہ بھی ہلاکو خان کے معتمد خاص تھے اور اوقاف اسلامی کل ان ہی کے زیر اہتمام تھے فوات الوفیات میں لکھا ہے: کان ذاحرمہ وافرۃ ومنذلۃ عالیۃ عند ھلاکو و کان یطیعہ فیما یشیر بہ علیہ الاموال فی تصریفہ ’’ہلاکو کے دربار میں ان کی بڑی عزت اور نہایت قدر تھی‘ ہلاکو خان ان کے مشورو ں پر عمل کرتا تھا۔ اور مال ان کے تصرف میںتھا۔‘‘ گوہم پسند نہیں کرتے لیکن محقق طوسی نے ہلاکو خان کی وفاداری میں اسلام تک کو برباد کر دیا۔ یعنی بغداد کا حملہ اور اس کی بربادی صرف محقق طوسی کے اشارہ سے تھی۔ ورنہ ہلاکو خان اس پر آمادہ نہیں ہوتا تھا‘ چنانچہ قاضی نور اللہ شوستری نے مجالس المومنین میں اس واقعہ کو محقق طوسی کے مفاخر میں شمار کیا ہے۔ واقعات مذکورہ بالا سے تم کو معلوم ہو گا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد زرین سے لے کر آج تک مسلمانوں کو ہمیشہ یہ شعار رہا ہے کہ وہ جس حکومت کے زیر اثر رہتے ہیں اس کے وفادار اور اطاعت گزار رہتے ‘ یہ صرف ان کا طرز عمل نہ تھا۔ بلکہ ان کے مذہب کی تعلیم تھی جو قرآن مجید‘ حدیث ‘ فقہ سب میںکنایۃً اور صراحۃً مذکور ہے۔ ماقصد سکندر و دارانہ خواندہ ایم از من بجز حکایت مہر و وفا مپرس ٭٭٭ غیر قوموں کی مشابہت ہماری قوم میں نئے علوم و فنو ن اور نئے تمدن اورشائستگی کے نہ پھیلنے کا ایک بڑا سبب یہ ہے کہ بہت سے مسلمانوں کا اب تک خیال ہے کہ ہم کو غیر قوموں کا تشبہ ناجائز ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب تک قوم کے مقدس حضرات یورپین علوم و فنون ‘ یورپین زبان ‘ یورپین تمدن ‘ یورپین طرز معاشرت سے جہاں تک ہو سکتا ہے۔ اجتناب کرتے ہیں اور بضرورت کوئی بات اختیار کرنی پڑتی ہے تو ان کا دل ان کو ملامت کرتا رہتا ہے۔ ہمارا خیال ہے کہ اس قسم کی غلطیوںکے پیدا ہونے کی بڑی وجہ یہ ہے کہ قدیم تعلیم میں تاریخ کا حصہ شامل نہ تھا۔ اور اس وجہ سے اکثر مسلمان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدینؓ اور صحابہؓ طرز معاشرت کے تفصیلی حالات سے بالکل آشنا نہیں ۔ جس شخص نے سلف کی تاریخ سرسری نظر سے بھی پڑھی ہو گی وہ اس بات سے کیونکر انکار کر سکتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدینؓ نے تمدن اور معاشرت کے متعلق غیر قوموں کی بہت سی باتیں پسند فرمائیں۔ شاہ ولی اللہ صاحب نے حجۃ اللہ البلاغہ میںنہایت تفصیل کے ساتھ اصلاح رسومات پر ایک مضمون لکھا ہے اس میں ایک موقع پر وہ تحریر فرماتے ہیں کہ انبیاء اور پیغمبروں کا یہ طریقہ تھا کہ کھانے ‘ پینے‘ لباس‘ تعمیرات ‘ آرائش اور خرید و فروخت وغیر ہ کے متعلق وہ ان معمولات پر نظر ڈالتے تھے۔ جو ان کی قوم میں پہلے سے جاری تھے اگر وہ معقول ہوتے تھے تو بحال خود رہنے دیتے تھے اورجن باتوں میں کسی قسم کی برائی ہوتی تھی ان کی اصلاح کر دیتے تھے۔ اس کے بعد شاہ صاحب نے دیت ‘ خمس‘ قسامۃ وغیرہ کی نسبت لکھا ہے کہ یہ قاعدے زمانہ جاہلیت میں جاری تھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی طرح رہنے دیے پھر فرماتے ہیں: وکان قبادوانبہ نوشروان وضعا علیھم الخراج والعشر فجاء الشرع بنحومن ذلک یعنی قبا اور اس کے بیٹے نوشیروان نے لوگوں پر خراج اور عشر مقرر کیا تھا۔ پس شریعت بھی قریب قریب اسی کے مطابق آئی۔ شاہ صاحب نے تو چونکہ شریعت کا نام لیا ہے۔ اس لیے قریب قریب کا لفظ لکھا لیکن امام ابو جعفر طبری نے جو محدث اور مجتہد دونوں تھے جہاں نوشیرواں کے قانون خراج و جزیہ کا ذکر کیا ہے صاف یہ الفاظ لکھے ہیں: اقتدی بھا عمر بن الخطاب یعنی حضرت عمرؓ نے نوشیروان کے ان قاعدوں کی اقتداء اور پیروی کی ہے۔ یہ مسلم ہے کہ نوشیروان مذہباً مجوسی اور قوم کے لحاظ سے ایرانی تھا۔ پھر جب حضر ت عمرؓ کو تمدن اور امور ملکی کے متعلق ایک مجوسی اورایرانی کی اقتداء سے عار نہ تھا۔ تو آج ہم لوگوں کو یورپ کی عمدہ باتوں کے اختیار کرنے میں کیا مضائقہ ہو سکتا ہے؟ یہ بحث کلی طور پر تھی اب ہم اس مضمون میں ان باتوں کو کسی قدر تفصیل کے ساتھ لکھنا چاہتے ہیں جو قرن اول میں دوسری قوموں سے لی گئیں۔ لیکن قبل اس کے ان حدیثوں سے تعرض کرنا ضرور ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دوسری قوموں کی مشابہت سے منع فرماتے ہیں حقیقت یہ ہے کہ جب کوئی پیغمبر یا بانی مذہب کسی نئے مذہب کی بنیاد ڈالتا ہے تو اس کو خواہ مخواہ ایسی مخصوص علامتیں قائم کرنی پڑتی ہیں۔ جو اس کے پیروئوں اور عام لوگوں میں امتیاز اور شناخت کا ذریعہ ہوں اس قسم کی علامت کو ’’شعار‘‘ کہا جاتاہے اور اردو میں اس کا ترجمہ ’’دردی‘‘ یا ’’تمغہ کیا جا سکتاہے۔ بے شبہہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض بعض چیزوں میں اس قسم کا امتیاز قائم کیا تھا۔ اور ان کے متعلق فرمایا کرتے تھے کہ ان باتوں میں غیر مذہب والوں کی مشابہت نہ اختیار کرو‘ لیکناس سے یہ نتیجہ نکالنا دوسری قوموں اور دوسرے مذہب والوں کی ہر بات سے اجتناب کیا جائے سخت غلطی ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے طریق عمل اور متعصب علماء کی نافہمی کی ایک عمدہ مثال یہ ہے کہ غزوہ احزاب میںجب قریش نے بڑے سروسامان سے مسلمانوں پرچڑھائی کی تو سلمان فارسیؓ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عر ض کیا کہ ایران میں یہ دستور ہے کہ جب دشمن کی تعداد زیادہ ہو تو خندق کھود کر پناہ لیتے ہیں‘‘ ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے مشورہ کے مطابق خندق تیار کرائی اور عربی زبان میں خندق کا لفظ او ل اسی وقت استعمال ہوا ۔ ’’خندق‘‘ کا لفظ ’’کندہ‘‘ کا معرب ہے جس کے معنی کھودے گئے کے ہیںَ معرب کرنے کا عام قاعدہ ہے کہ اخیر کی ہائے ہو زکوق سے بدل لیتے ہیں۔ جس طرح پیادہ سے بیدق خورنگہ سے خورنق‘ اسی طرح منجنیق اور دبابہ جو لڑائی کے آلات ہیں‘ عرب میں مستعمل نہ تھے ‘ لیکن فارس اور یونان میں ا س کا عام رواج تھا۔ سب سے پہلے طائف کے محاصرہ میںجناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک رومی نژاد صحابیؓ کے اشارہ سے اس کا استعمال کیا ان واقعات کے مقابلہ میں جاں نثاری فوج کا واقعہ خیال کرو۔ یہ سلطنت ترکی کی ایک مشہور فوج تھی جس نے یورپ اور ایشیا میں بے شمار فتوحات حاصل کی تھیں سلطان محمود کے زمانہ میں جب یورپ نے فنون جنگ اور فوجی قواعد میں نئے نئے قاعدے ایجاد کیے تو سلطان موصوف نے اپنی فوج کو بھی ان ہی کے اصول کے موافق مرتب کرنا چاہا۔ لیکن ’’جانثاری‘‘ فوج نے اس بناء پر انکار کیا کہ ہم کافروں کی تقلید نہیںکرتے۔ یہ انکار دراصل فوج کی طرف سے نہ تھا۔ بلکہ درپردہ شیخ الاسلا م کی سازش تھی۔ اوروہ پیشوائے مذہب ہونے کے لحاظ سے اس تقلید کو ناجائز خیال کرتا تھا۔ سلطان محمود سمجھاتا تھا کہ نئے اصول کے اختیار کیے بغیر یورپ کی ہمسری نہیں ہو سکتی‘ ادھر شیخ الاسلام اور فوج کو اپنے تعصب پر اصرار تھا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ فوج نے بغاوت کی اور کل کی کل لڑکر تباہ ہو گئی۔ اسی قسم کی غلطی ہے جو آج کل ہمارے علماء اور متعصب مسلمان کر رہے ہیں اور جس کی وجہ صرف یہ ہے کہ وہ عہد نبوت اور خلافت کے حالات سے بہت کم واقف ہیں اور زیادہ سچ یہ ہے کہ بالکل واقف نہیں۔ اب ہم کسی قدر تفصیل کے ساتھ بتاتے ہیں کہ معاشرت اور تمدن کے متعلق کیا کیا باتیں غیر قوموں کی اختیار کی گئیں اور کب اورکس وقت اختیار کی گئیں اسی حیثیت سے یہ مضمون ایک تاریخی مضمون ہو گا اور عام ناظرین کو اس سے زیادہ دلچسپی ہو گی۔ لباس کے متعلق تو ظاہر ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی خاص لباس نہیںاختیار کیا تھا بلکہ جاہلیت میں جو لباس مستعمل تھا وہی اسلام میں بی باقی رہا ۔ لیکن زیادہ تفتیش سے ثابت ہوتاہے کہ مجوسیوں اورعیسائیوں کی بہت سی چیزیں اختیار کر لی گئیں۔ عرب میںپاجامہ کا مطلق وجود نہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ عربی زبان مٰں اس کے لیے کوئی لفظ نہ تھا۔ عرب میں جب ا س کا استعمال ہوا تو فارسی لفظ شلوار کو مغرب کر کے سردال بنا لیا اوروہی آج تک مستعمل ہے۔ حضرت عمرؓ نے اپنے عہد خلافت میں اگرچہ قومی خصوصیت قائم رکھنے کے لحاظ سے لوگوں کو عرب کے قدی لباس یعنی تہمد کا پابند رکھنا چاہا چنانچہ عتبہ بن فرقد کو فرمان لکھا کہ اس میں یہ صاف الفاظ لکھے کہ ’’پاجامہ پہننا چھوڑ دو‘‘ لیکن قبول عام پر کس کا زور ہے؟ پاجامہ کا رواج ہوا اور اس عمومیت کے ساتھ ہوا کہ تما م عرب میں تہمد کا نام بھی نہیں رہا۔ ۱؎ عینی شرح بخاری میںلکھا ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی پاجامہ پہنا تھا۔ برنس ایک قسم کی لبی ٹوپی تھی جس کو خاص عیسائی استعمال کرتے تھے صحابہؓ میں سے اکثر نے اس کا استعمال کیا اور خود حجرت عمر فاروقؓ ا سکو استعمال کرتے تھے۔ رفتہ رفتہ جب تعصب کی ابتدا ء ہوئی تو لوگوں کو اس کے استعمال میں تامل ہوا۔ لیکن بڑے بڑے ائمہ مذہب نے جواز کا فتویٰ دیا عینی شرح بخاری میں ہے کہ امام مالک نے لوگوں نے پوچھا کہ ’’کیا برنس کا پہننا اس بناء پر مکروہ ہے کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱؎ عینی جلد دہم صفحہ ۱۳۰ مطبوعہ قسطنطنیہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عیسائیوں کے لباس کے مشابہ ہے۔ انہوں نے جواب دیا کہ نہیں یہاں (یعنی مدینہ میں) لوگ عموماً اس کو استعمال کرتے تھے۔ لباس کے سوا‘ معاشرت کی اور بہت سی چیزوں میں غیر قوموں کی تقلید کی گئی۔ عرب میں پہلے تابوت کا طریقہ نہیںتھا۔ حضرت زینبؓ کا جب انتقال ہوا تو حضرت عمرؓ نے لوگوں سے کہا کہ جنازہ اٹھانے میں کافی پردہ پوشی نہیں ہوتی‘ کیا اس کی کوئی تدبیر ہو سکتی ہے؟ اسما بنت عمیسؓ بھی اس موقع پر تشریف رکھتی تھیں انہوںنے کہا کہ ’’میں نے حبش میں دیکھا ہے کہ مردوں کے لیے تابوت بنائے جاتے ہیں‘‘۔ چنانچہ اس رائے کے مطابق تابوت تیار ہوا حضرت عمرؓ نے دیکھا تو نہایت پسند فرمایا اور اس وقت سے یہ طریقہ جاری ہو گیا معاشرت کے متعلق غیر قوموں کی رسوم و عادات کے پھیلنے کا ایک بڑا سبب یہ ہوا کہ مسلمانو ںنے روم و فارس کی فتوحات کے ساتھ عیسائیوں اوریہودیوں کے ہاں رشتے ناتے شروع کر دیے۔ مدائن کی فتح کے بعد‘ سینکڑوں صحابہ نے عیسائی عورتوں کے ساتھ شادیاں کیں حضرت عمرؓ کو اطلاع ہوئی تو انہوںنے سپہ سالار کو لکھا اوراپنی ناراضگی کا اظہار کیا انہوںنے جواب میں لکھا کہ آپ کا یہ حکم آپ کی ذاتی رائے ہے یا منصب سے متعلق ہے؟ حضرت عمرؓ نے جواب میں لکھا کہ اس کو منصب خلافت سے کچھ تعلق نہیں۔ بلکہ میری ذاتی رائے ہے ۔ اور اس بنا پر ہے کہ تم لوگ اپنی عورتوں کو چھوڑ کر غیر قوم کے نہ ہو رہو۔ چونکہ اس وقت تمام مسلمانوںمیں آزادی کا جوہر موجود تھا‘ لوگوںنے حضرت عمرؓ کی ذاتی رائے کی کچھ پرواہ نہ کی اوراپنے ارادوں پر قائم رہے۔ رفتہ رفتہ ہزاروں عیسائی اور یہودی عورتیں مسلمانوں کے نکاح میں آ گئیں۔ اور قدرت کے قاعدے کے مطابق ان ی معاشرت اور رہنے سہنے کے طریقے مسلمانوںمیں پھیل گئے‘ اگرچہ اس سے قومی خصوصیتوں کو کچھ نقصان پہنچالیکن بڑا فائدہ یہ ہوا کہ رات دن کے ملنے جلنے سے اسلام کے عقیدے ان کے دلوں میں جگہ پکڑتے گئے۔ اور ان میں سے سینکڑوں مسلمان ہو گئیں۔ بلکہ سچ پوچھیے تو غیر قوموں میں اسلام کے پھینے کا ایک بڑا سبب یہ بھی تھا۔ ملکی نظم و نسق اور طریقہ جنگ تو گویا بالکل فارس اور یونان کے انداز پر قائم ہوا حضرت عمرؓ نے خراج اورجزیہ کے متعلق جو قاعدے جاری کیے وہ بالکل نوشیروان کے مرتب کردہ تھے۔ چنانچہ امام طبری اور ابن الاثیر وغیرہ نے صاف تصریح کی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکرؓ کے زمانہ تک خزانہ اور دفتر کا بالکل وجود نہ تھا‘ فتوحات سے جو روپیہ آتا تھا وہ اسی وقت تقسیم کر دیا جاتا تھا حضرت عمرؓ کے زمانہ میں جب روپیہ کی افراط ہوئی تو انہوںنے صحابہؓ کو جمع کر کے راائے لی کہ یہ زر کثیر کا کیا کیا جائے بعض صحابہؓ جو رومیوںکے دفتر اور حساب کے طریقے دیکھ آئے تھے‘ انہوںنے کہا کہ ہم نے شام میں رومیوں کے یہاں یہ دیکھا ہے کہ خزانہ اور فوج کا دفتر مرتب رہتا ہے‘‘۔ آج کل کا زمانہ ہوتا تو ہمارے علما من تشبہ بقوم کا مسئلہ پیش کرتے لیکن حضرت عمرؓ نے اسی وقت چند حساب دان شخص کو بلا کر دفتر کی تیاری کا حکم دیا اسی طرح عدالتوں کا انتظام پولیس کا محکمہ‘ صوبجات اور اضلاع کی تقسیم پبلک ورک‘ ڈاک کا بندوبست وغیرہ وغیرہ یہ تمام انتظامات خود خلفائے راشدینؓ کے عہد میں قائم ہوئے اور ٹھیک عجم اور یونان کے نمونہ کے موافق قائم ہوئے زمانہ بعد میں جب فلسفہ وغیرہ کی کتابوں کا ترجمہ ہوا تو عربی زبان بالکل غیر قوموں کے علوم و فنون سے بھر گئی یہاں تک کہ خود مذہبی علوم بھی ان کے اثر سے نہ بچ سکے۔ یونانی علوم و فنون کی تقلید اور اتباع کا اس سے بڑھ کر کیا ثبوت ہو گا کہ آج یونانی طب کو ہم مسلمانی طب سمجھتے ہیں حدیث کی کتابوں میں اکثر امراض کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے علاج مذکور ہیں‘ یہاں تکی کہ طب نبویؐ ایک مستقل مضمون بن گیا ہے ۔ لیکن تمام اسلامی دنیا میں بیماریوں کاجو علاج کیا جاتا ہے وہ ارسطو اور بقراط کے قاعدے کے مطابق کیا جاتاہے۔ اور طب نبویؐ کا ذکر تک نہیں آتا۔ ایک طرف تو یہ بے تعصبی اور آزاد خیالی‘ ایک طرف یہ تعصب اور ضد کہ یورپ کی کسی بات پر عمل نہ کیا جائے ورنہ غیر مذہب والوں کی مشابہت لازم آئے گی اور من تشبہ قوم کا صداق بننا پڑے گا۔ بہ بیں تفاوت رہ از کجاست تابکجا خلافت منجملہ ان الفاظ کے جو مسلمانوں میں مذہبی حیثیت سے مستعمل ہیں۔ ایک یہ لفظ بھی ہے لیکن چونکہ یہ لفظ پالٹکس سے بھی تعلق رکھتا ہے اور پولیٹکل اغراض نے اکثر ا س کے مفہوم اور حقیقت کو بدل کر تعبیر کرنا چاہا اس لیے بعض اوقات عوام میں اس کے متعلق غلط فہمیاں پھیل گئیں اور م سے کم یہ ہ اس کے معنی میں ابہام اور اشتباہ آ گیا۔ سال دو سال سے زیادہ نہیں گزرے کہ اردو اخبارات میں یہ بحث ایک اتفاقی واقعہ کی وجہ سے چھڑ گئی تھی اور اس نے کسی حد تک طول پکڑ لیا تھا‘ لیکن پھر بعض اسباب سے رک گئی اس زمانہ میں سرسید مرحوم نے ایک دلچسپ آرٹیکل لکھا تھا جو علی گڑھ گزٹ میں شائع ہوا تھا میں نے بھی ایک ضمنی موقع پر اپنے سفر نامہ میں اس بحث کی طرف اشارہ کیا تھا‘ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس بات کی ضرورت ہے کہ یہ مسئلہ نہایت تحقیق کے ساتھ بالکل صاف کر دیا جائے۔ اس مسئلہ پر دو حیثیتوں سے بحث ہو سکتی ہے۔ (۱) مذہب کی رو سے منصب خلافت کی کیا حقیقت ہے۔ (۲) شروع اسلام سے آج تک یہ لفط کس معنی میں اور کن لوگوں کے لیے استعمال کیا گیا ہے؟ خلافت یا امامت مرادف الفاظ ہیں اورالفاظ حدیث اور عقائد کی کتابوں میں ایک ہی معنی میں استعما ل کیے جاتے ہیں‘ خلافت یا امامت کی … جو تعریف عقائد کی کتابوں میں مذکور ہے وہ یہ ہے کہ ’’ایک عام تصرف کا اختیار جس کی اطاعت تمام مسلمانوں پر ہو ‘‘ شرح مواقف میں خلافت کی تعریف ان الفاظ میں کی گئی ہے کہ ’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قائم مقامی دین کے قائم رکھنے قوم کی حفاظت کرنے میں‘‘ شرح مقاص میں یہ الفاظ ہیں’’دین اور دنیا کی افسری بحیثیت ایک قائم مقامی جناب رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم‘‘ اس منصب کے حاصل ہونے کے لیے اسلام کے تما م فرقوں کے نزدیک جو شرطیں ہیں ان میں سیس ایک بڑی مقدم شرط یہ ہے کہ وہ شخص قریش کے خاندان سے ہو‘ اس شرط سے مسلمانوں کے فقط ایک گروہ یعنی معتزلہ نے انکار کیا ہے لیکن یہ گروہ کئی برس سے دنیا سے معدوم ہو گیا ہے اس لیے یہ کہنا صحیح ہے کہ آج تمام دنیا کے مسلمانوں کے مذہبی اعتقاد کے مطابق صرف وہ شخص خلیفہ یا امام ہو سکتا ہے جو قریش کے خاندان سیہو جس بنا پر خلافت کے لیے یہ شرط ضروری سمجھی گئی ہے۔ وہ وہ حدیثیں ہیں جو جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مختلف پیرایوں میںنہایت کثرت سے منقول ہیں۔ چنانچہ ان کو ہم اس موقع پر تفصیل سے نقل کرتے ہیں۔ (۱) الائمۃ من قریش امام قریش میں سے ہوں گے (مسند امام احمد بن حنبل) (۲) الملک من قریش حکومت قریش میں رہے گی۔ (ترمذی صحیح) (۳) الخلافۃ فی قریش خلافت قریش میں ہو گی۔ (مسند امام احمد بن حنبل) (اس کے تمام راوی ثقہ ہیں) (۴) یکون اثنا عشراسیرا کلھم من قریش بارہ امیر ہوں گے جو سب کے سب قریش سے ہوں گے ۔ صحیح البخاری (صحیح) (۵) الخلافۃ بعدی ثلاثون سنۃ ثم یکون ملکا خلافت تیس برس رہے گی پھر ا س کے بعد سلطنت ہو جائے گی ۔ ابودائود ‘ نسائی ‘ ابن ماجہ ‘ ترمذی‘ (ابن حبان نے بھی اس کو صحیح لکھا ہے) ۱؎ ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱؎ دیکھو عینی شرح بخاری جلد ۱۱ صفحہ ۳۴ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (۶) لا یزال امر الناس ما ضیاما ھم اثنا عشر رجلا لکھم من قریش لوگوں کا کام اس وقت تک ٹھیک رہے گا جب تک بارہ شخص حکمران ہوں گے جو سب کے سب قریش میں سے ہوں گے ۔ صحیح مسلم (صحیح) ان احادیث میں سے بعض کا تو مطلب یہ ہے کہ خلافت قریش کا حق ہے اور بعض میں بظاہر پیش گوئی کے طور پر بیان کیا گیا ہے کہ خلافت ہمیشہ قریش میں رہے گی۔ لیکن چونکہ کئی سو برس ہو چکے ہیں کہ دنیا میں کوی حکمران قریش کے خاندان میں سے نہیں ہے ۔ اس لیے ان احادیث کا یہ مطلب قرار دیا گیا ہے کہ خلافت کا حق درحقیقت صرف قریش کو ہے۔ اور خاندان کے لوگ جو حکمران ہیں وہ بادشاہ ہیں مگر خلیفہ نہیں ہیں لیکن جس حدیث میں یہ مذکور ہے کہ ’’خلافت صرف تیس برس رہے گی پھر سلطنت ہو جائے گی‘‘ اس سے یہ مستنبط ہوتا ہے کہ تیس برس کے بعد جو فرمانروا ہوئے وہ باوجود قریش ہونے کے خلیفہ نہ تھے بلکہ بادشاہ تھے۔ بہرحال تمام روایات کا قدر مشترک یہ ہے کہ خلافت کے لیے قریش ہونا ضرور ہے اور جو شخص قریش کے خاندان سے نہ ہو وہ کسی طرح بھی تمام مسلمانوں کے اعتقاد کے مطابق خلیفہ نہیں ہو سکتا۔ مسلمانوں نے کبھی اور کی زمانہ میں اس شخص کو خلیفہ نہیںمانا‘ جو قریش کے خاندان سے نہ ہو۔ سب سے اول جس موقع پر یہ مسئلہ زیر بحث آیا وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا دن تھا عین آپؐ کی وفات کے دن انصار نے یعنی جو لوگ مدینہ کے رہنے والے تھے یہ دعویٰ کیا کہ خلافت ہمارا حق ہے لیکن جب مہاجرین نے اس کے مقابلہ میں یہ استدلال پیش کیا کہ خلافت صرف قریش کا حق ہے تو انہوںنے سر تسلیم خم کر دیا۔ اور اپنے دعویٰ سے دست بردار ہو گئے۔ چنانچہ یہ واقعہ نہایت تفصیل کے ساتھ تاریخ طبری ‘ ابن اثیر‘ ابن خلدون میںموجود ہے۔ عباسیوں کی سلطنت میں جب ضعف آ گیا تو ہر طرف دعویداران حکومت پیدا ہو گئے۔ جن میں سے بعض خاندانوںنے وہ جبروت و اقتدار حاصل کر لیا اور ان کے حدود سلطنت اس قدر وسیع ہو گئے کہ خود دولت عباسیہ کے زمانہ میں کبھی نہیں ہوئے تھے۔ تاہم ان میں سے کبھی کسی نے خلافت کا دعویٰ نہیںکیا اورہمیشہ عباسی خلیفہ کے آگے باوجود اس کے کہ وہ دلی کے بہادر بادشاہ سے زیادہ رتہ نہیں رکھتے تھے سرجھکاتے رہے ۔ اور اس کی صرف یہ وجہ تھی کہ وہ خود قریش کے خاندا ن میںسے نہ تھے اور اس لیے اگر وہ خلافت کا دعویٰ کرتے تو مسلمانوں میں سے ایک شخص بھی ان کے دعویٰ کو تسلیم نہ کرتا۔ عضد الدولہ محمود غزنوی‘ ملک شاہ سلجوقی‘ دنیا کے بہت بڑے عظیم شاہنشاہ گزرے ہیں۔ لیکن یہ سب کے سب بغداد کے دربار سے لقب اور خطاب حاصل کرتے تھے۔ اور اس پر فخر و ناز کرتے تھے ۔ عضد الدولہ جس کو شاہنشاہ کا لقب حاصل تھا۔ اور جو بڑی سطوت اور اقتدار کا بادشاہ گزرا ہے سنہ ۳۶۹ ھ میں جب بغدار میں طائع اللہ خلیفہ عباسی کے دربار میں لقب لینے کے لیے حاضر ہوا تو سب سے پہلے اس نے زمین چومی اس طرح سات دفعہ زمین بوسی کی اور جب خلیفہ نے مہربانی کر کے اس کو زیادہ تقرب کی اجازت دی تو اس نے بڑھ کر خلیفہ کے پائوں چومے اس وقت خلیفہ نے اسے کرسی پر بیٹھنے کا حکم دیا لیکن اس نے بار بار معذرت کی اور جب خلیفہ نے اس کو مجبو ر کیا تو الامر فوق الادب کے لحاظ سے کرسی کو بوسہ دے کر اس پر بیٹھ گیا اور کہا کہ میں خدا سے دعا مانگتا ہوں کہ حضور کی اطاعت مجھ سے اچھی طرح بن آئے‘‘۔ ان تقریبات کے ادا کرنے کے اثنا میں عضد الدولہ کا افسرجو اس کے ساتھ تھا‘ اس بت پرستی سے گھبرا کر بول اٹھا کہ ’’کیا یہ خدا ہے ؟ جو ااپ اس طرح تعظیم بجا لاتے ہیں‘‘ عضد الدولہ نے کہا ’’ہاں یہ خدا کا خلیفہ ہے ‘‘۔ مصر میں جب فاطمیہ خاندان نے ایک وسیع سلطنت قائم کر لی اور خاندان عباس کو دبا نہہ سکا تو عباسیوں نے بجز ا کے کو کوئی تدبیر نہ بن آئی کہ ایک محضر لکھوایا جس میں فاطمیہ کے نسب کا انکار تھا اور اس پر تما م علما کے دستخط کرائے اس طرح لوگوں کو ان کی طرف سے برگشتہ کیا جس کا یہ اثر ہوا کہ ایک مدت مدید کے بعد فاطمیہ کے ایک افسر نے خلیفہ فاطی کو تخت سے اتار دیا اور عباسیہ کی سلطنت قائم کر دی۔ یہ افسر صلاح الدین ایوبی تھا۔ جو آج ’’فاتح بیت المقدس‘‘ کے نام سے تمام عالم میں مشہور ہے۔ سنہ ۶۵۶ ھ میں بغداد کی سلطنت جب ہلاکو کے ہاتھ سے تباہ ہو گئی اور خاندان بنی عباس برباد کر دیا گیا تو اس خاندانمیں ایک شخص کا نام احمد ابو القاسم تھا۔ اور جیل خانہ میں مقید تھا۔ بھاگ کر مصر پہنچایہاں اس وقت ملک ظاہر بیبرس کی حکومت تھی احمد کے پہنچنے کے ساتھ ہی ظاہر نے ایک بہت بڑا دربار کیا اور بڑے عجز و نیاز کے ساتھ احمد کے ہاتھ پر بیعت کی احمد کی وفات کے بعد چونہ اس کے کوئی اولاد نہ تھی۔ اس لیے ایک اور عباسی شہزادہ جو بغداد کی تباہی میں بچ گیا تھا خلیفہ کیا گیا اور ایک مدت تک اس کے خاندان میں بہ (برائے نام) خلافت رہی‘ یہ خلفاء اگرچہ اس قدر بے اخیتار اور بے حقیقت تھے کہ ان کو بجز مقررہ وظیفہ کے کسی قسم کی حکومت حاسل نہ تھی۔ تاہم مذہبی عظمت یہ تھی کہ بادشاہ وقت ہمیشہ ان کے آگے سر جھکاتا تھا ۔ ہندوستان کے مشہور بادشاہ تغلق نے اسی خاندن کی لطنت کا فرمان منگوایا تھا اور اس پر اس قدر خوشی کا اظہار کیا تھا کہ تمام شہر کی آئینہ بندی کرائی اور شعرا نے مبارک باد ی کے قصیدے لکھے بدرچاچ کے ایک قصیدے کا مطلع یہ ہے: جبرئیل از طاق گدوں ابشر وا گویاں رسید گز خلیفہ سوے سلطان خلعت و فرماں رسید غرض تیرہ سو برس سے آج تک کسی ایسے خاندان نے کبھی خلافت کا دعویٰ نہیںکیا جو قریش ک خاندان سے نہ رہا ہو۔ ناظرین کو حیرت ہو گی کہ اگر ایسا ہے تو ٹرکی خاندان کو کیوں خلافت کادعویٰ ہے حالانکہ یہ عموماً مسلم ہے کہ ترک قریش خاندان میں سے نہیں ہیں۔ یہ واقعہ در حقیقت تعجب انگیز ہے اورواقعہ کا سبب اس سے زیادہ تعجب انگیز ہے ترکوںمیںسلطان بایزید ثانی تک جو اس خاندان کا آٹھواں بادشاہ تھا کسی حکمران نے خلافت کا لقب اختیار نہیںکیا تھا چنانچہ آج بھی ترک مصنفین اس زمانہ تک کسی ترکی بادشاہ کو خلیفہ کے لقب سے یاد نہیںکرتے سلطان سلیم اول نے جو سنہ ۹۱۸ھ میں تخت سلطنت پر بیٹھا جب مصر فتحکیا تو اس وقت وہاں عباسی خاندان کا برائے نام خلیفہ موجود تھا۔ جب کا نام المتوکل تھا (یہ وہی خاندان تھا جس کا ابھی ہم ذکر کر چکے ہیں) سلطان سلیم اس کو بجز قسطنطنیہ لایا اور اس کو مجبو رکیا کہ خلافت کے لقب سے دست بردار ہو جائے اوریہ لقب سلیم کے نام منتقل کر دے متوکل اگرچہ اس پر راضی نہ تھا لیکن مجبوراً اس کو قبول کرنا پڑا چنانچہ مسجد ابا صوفیہ میںجا کر اس نے اس بات کا اعلان کیا اور یہ پہلا دن ہے کہ ٹرکی خاندان کے ساتھ یہ فرضی لقب اضافہ کیا گیا۔ یہ واقعہ اگرچہ بظاہر مضحکہ آمیز ہے لیکن خود ترک مورخین اسکے معترف ہیں۔ اور ترکی تاریخوں میں جہاں سلیم کا ذکر ہے یہ واقعہ بھی ساتھ ہی مذکور ہے۔ حقوق الذمیین یعنی اسلام میں غیر مذہب والوںکے حقوق دنیا کے عجیب سے عجیب واقعات کی اگر ایک فہرست تیار کی جائے تو یہ واقعہ ضرور اس میں درج کرنے کے قابل ہو گا کہ مسلمانوں کے متعلق اگرچہ یورپ کی واقفیت کے ذریعے نہایت وسیع ہو گئے ہیں اور ہوتے جاتے ہٰں۔ اسلامی آبادیوں کا ایک بہت بڑا حسہ اس کے قبضے میں آ گیا ہے سینکڑوں عربی دان علماء پیدا ہو گئے ہیں۔ عربی تصنیفات کثرت سے یورپین زبانوں میں ترجمہ ہو تی جا رہی ہیں۔ مسلمانوں کے نہایت نایات تاریخی ذخیرے اصلی زبان میں شائع ہوتے جاتے ہیں۔ اورنٹیل کانفرنس نے مشرق اور مغرب کا ڈانڈا ملا دیاہے تاہم غلط معلومات کا بادل جو آج سے ئی سو برس پہلے یورپ کے افق پر چھایا تھا۔ اب تک نہیں ہٹا۔ بہت سے بہت یہ ہوا ہے کہ وہ کسی قدر ہلکا ہو گیا ہے۔ لیکن فضا میں اب تک اس قدر تاریکی ہے کہ اذا اخرج یدہ لم یکدیراھا (ہاتھ کو ہاتھ دکھائی نہیںدیتا) یہ غلط معلومات اول اول مذہبی راستے سے آئے تھے۔ اور چونکہ یورپ میں مذہب کا زور خود گھٹ گیا ہے۔ اس لیے مذہبی حیثیت کے لحاظ سے اب ان کا اثر بھی چنداں قوی نہیںرہا تاہم جب کبھی پولیٹکل ہوا چلتی ہے تو یہ دبی چنگاریاں اس قدر جلد بھڑک اتھتی ہیں کہ تمام یورپ میںایک آگ سی لگ جاتی ہے۔ آرمینیا کے جھگڑے میں ترکوں پر جو مستبہ الزامات لگائے گئے تھے ابھی اس کی تحقیقق نہیں شروع ہوئی تھی کہ یورپ کے اہل قلم نے دنیا میں غلغلہ ڈال دیا تھا کہ خود مسلمانوں کے مذہب میں عیسائی رعایا سے ایسا سلوک کرنا جائز بلکہ ضروری قرار دیا گیا ہے۔ اور اس وجہ سے یہ یقین کرنا کہ ترکوں نے وہ تمام ظالمانہ کارروائیاں کی ہوںگی گویا اس بات کا یقین کرنا کہ ترک اپنے مذہب کے پابند ہیں اور پورے پابند ہیں۔ اسی سلسلہ میںٹائمس کے پرچہ مورخہ ۲ جنوری سنہ ۱۸۹۵ء میں پادری ملکم مکال نے بڑے دعوے کے ساتھ ایک آرٹیکل لکھا ہے کہ جس میں یہ ثابت کرنا چاہا ہے کہ مذہب اسلام عیسائیوں کے حق میں نہایت سخت ظالمانہ قانون ہے اور اسلامی حکومتوں میں ہمیشہ اس قانون پر عمل درآمد رہا ہے دلی کے مشنریوں نے اس آرٹیکل کا ترجمہ چھاپ کر شائع کیا۔ اور دیباچہ میں یہ تمہید لکھی کہ یہ آرٹیل اس قدر مدلل اورپرزور ہے کہ خود ٹائمس کا وہ مسلمانمضمون نگار جو مذہب اسلام کی حمایت میں مضامین لکھ رہا تھا اس آرٹیکل کے بعد بالکل بند ہو گیا اور کچھ جواب نہ دے سکا‘‘۔ آج کل کے مصنفین اسلام نے یور پ کی بہت سی غلط فہمیوںکو دور کیا ہے ۔ لیکن افسوس ہے کہ انہوں نے اس عظیم الشان مسئلہ پر توجہ نہیں کی کتب خانہ اسکندریہ عورتوں کے حقوق جزیہ یہ سب جزئی مباحث ہیں لیکن ذمیوں کے حقوق کا مسئلہ ایسا مہتم بالشان ہے اور وسیع ہے کہ اگر اس کا قطعی فیصلہ کر دیا جاے تو یورپ کی غلط فہمیوں کا سارا طلسم ٹوٹ جائے گا ۔ میں یہ مضمون اسی خیال سے لکھتا ہوں اور امید کرتاہوں کہ یہ بھی اسی طرح اپنے مقصد میں کامیاب ہو گیا جس طرح اسسے پہلے کتب خانہ سکندریہ اور جزیہ کو اپنے مقصد میں کامیابی ہو چکی ہے۔ اس رسالہ کا موضوع جس پر بحث کا تمام سلسلہ قائم ہے یہ ہے کہ اسلام میں ذمیوں کے کیا حقوق ہیں؟ یہ جملہ تین لفظوں پر مشتمل ہے اسلام ذمی حقوق۔ اسلام سے ہماری مراد قرآن یا وہ احادیث نبویؐ ہیں جن کی صحت اصول حدیث کی رو سے ثابت ہو چکی ہے۔ ذمی ان رعایا کو کہتے ہیںجو اسلامی حکومت میں آباد ہوں ۔ اور جن کا مذہب اسلام نہ ہو۔ لفظ حقوق کی تفسیر کی ضروت نہیں۔ موضوع کے جو الفاظ ہیں اگرچہ ان کی تشریح یہی ہے جو ہم نے کی لیکن ہمار ا دعویٰ اس سے زیادہ وسیع ہے جو موضوع سے مفہوم ہوتا ہے ۔ یعنی جس طرح ہمارا یہ دعویٰ ہے کہ مذہب اسلام نے ذمیوں کے حقوق نہایت فیاضٰ سے قائم کیے۔ اس طرح ہمارا یہ دعویٰ ہے کہ یہ صرف تحریری قانون نہ تھا بلکہ تیرہ سو برس کی وسیع مدت میں من حیث الاغلب طریق عمل بھی اسی کے مطابق رہا۔ یہ یاد رکھنا چاہیے کہ اسلام کے ابتدائی زمانہ میں یعنی آغاز نبوتؐ میں سے فتح مکہ تھ جو سنہ ۸ ھ میں واقع ہوئی لڑائیوں کا ایک ایسا متصل سلسلہ قائم رہا جس کی وجہ سے یہ موقع ہی نہیںنصیب ہوا کہ اسلام کی حکومت اور سلطنت کی حییثیت حاصل ہوتی اور رعایا کے ساتھ سلطنت کے جو تعلقات ہونے چاہئیں۔ اس کے متعلق قانون اور قاعدے منضبط ہوتے قرآن مجید اور احادیث نبویؐ سے اس باب میں جن احکام کا پتہ لگتا ہے وہ خاص مسلمانوں کے متعلق ہیں یعنی غیر مذہب والون سے ان کو واسطہ نہیں‘ اس وقت تک غیر مذہب والون سے جو تعلقات پیدا ہوئے تھے وہ اسی قدر تھے کہ کسی قوم سے کچھ معاہدہ ہو گیا کسی سے چند شرائط کے ساتھ صلح ہو گئی مختصر یہ کہ اس وت تک غیر مذہب والے اسلام کی رعایا نہیںکہلاتے تھے خیبر کی آبادی فتح ہو کر بھی صر ف اسی قدر ہوا کہ یہودیوں سے بٹائی پر معاملہ ہو گیا اور زمین ان کے قبضہ میں چھوڑ دی گئی۔ فتح مکہ کے بعد یمن ‘ بحرین ‘ عمان‘ عدن وغیرہ فتح ہوئے اور ان اضلاع میں کثرت سے دوسری قومیں یعنی یہود ‘ عیسائی‘ پارسی آباد تھے چونکہ اس وقت امن و امان قائم ہو چکاتھا اور اسلام کو پوری قوت حاصل ہو چکی تھی اسلام نے صاف صاف ان کو رعایا کے لقب سے پکارا اور خود ان کوبھی اس لقب سے عار نہیںرہا‘ لیکن ان کے متعلق کسی قسم کے مجموعہ احکام نافذ ہونے کے بجائے اس سے زیادہ کچھ نہیںہوا کہ ان پر جذیہ مقرر کیا گیا اور ان کے معاوضے میں ان کو چند حقوق دے گئے س بسے پہلے ۱؎ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں تقریباً سنہ ۸ ھ میں نجران کے عیسائیوں پر جزیہ مقرر ہوا ان کے بعد ایلہ زرح اذرعات وغیرہ وغیرہ بھی جزیہ لگایا گیا یہ ظاہر ہے کہ اس وقت تمدن سلطنت کا آغاز تھا اور اس وجہ سے تاریخوں میں مسلمان یا ذمی رعایا کے حقوق کی تفصیل نہیںمل سکتی تاہم اس معاملہ کے متعلق جس قدر سرمایہ مل سکے اس کو نہایت تلاش سے مہیا کرنا چاہیے کیونکہ گو وہ مختصر اور سادہ ہو ں لین ان سے حقوق الذمیین کے قانون کے اصول معلوم ہوتے ہیں اور اس کا فیصلہ ہو سکتا ہے کہ زمانہ مابعد میں ذمیوں کے متعلق جو مفصل قانون بنا اس مایہ خمیر کیا تھا۔ بانی اسلام یعنی جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جن قوموں پر جزیہ لگایا ان کو تحریر کے ذریعہ سے مفصلہ ذیل حقوق دیے: (۱) کوئی شخص ان پر حملہ کرے گا تو ان کی طرف سے مدافعت کی جائے گی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خاص الفاظ یہ ہیںں یمنعوا ۲؎ (۲) ان کو ان کے مذہب سے برگشتہ نہیںکیا جائے گا خاص الفاظ یہ ہیں لا یفتتو اعن دینھم (۳) جزیہ جو ان سے لیا جائے گا اس کے لیے محصل کے پاس خود جانا نہیںپڑے گا۔ (۴) ان کی جان محفوظ رہے گی۔ (۵) ان کا مال محفوظ رہے گا۔ (۶) ان کے قافلے اور کارواں (یعنی تجارت) محفوظ رہیں گے۔ (۷) ان کی زمین محفوظ رہے گی۔ (۸) تمام چیزیں جو ان کے قبضے میں تھیں بحال رہیں گی۔ (۹) پادری ‘ رہبان‘ گرجوں کے پجاری اپنے عہدوں سے برطرف نہیںکیے جائیں گے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱؎ فتوح العلدان صفحہ ۶۸ ۲؎ ایضاً ص ۵۹ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (۱۰) صلیبوں اور مورتیوںکو نقصان نہیںپہنچایا جائے گا۔ (۱۱) ان سے عشر نہیںلیا جائے گا۔ (۱۲) ان کے ملک میں فوج نہ بھیجی جائے گی۔ (۱۳) پہلے سے ان کا جو کچھ مذہب او ر عقیدہ تھا وہ بدلوایا نہیںجائے گا۔ (۱۴) ان کو کوئی حق جو ان کو پہلے سے حاصل تھا زائل نہیں ہو گا۔ (۱۵) جو لوگ اس وقت تک حاضر نہیں ہیں یہ احکام ان کو بھی شامل ہوں گے۔ پہلی اور دوسری دفعہ کے سوا باقی تمام حقوق جس معاہدے سے قائم ہوتے ہیں وہ ذیل میں بعینہ منقول ہیں۔ والنجران و حاشیتھا جوار اللہ و ذمۃ محمد النبی رسول اللہ علی ؎۱ انفسھم وما ملتھم ؎۲ وارضھم ؎۳ واموالھم ؎۴ و غابھم ؎۵ وشاھد ھم و غیرھم ۶؎ و بعثھم ؎۷ و امثلتھم ؎۸ لا یغیرما ؎۹ کا نواعلیھ ولا یغیر ؎۱۰ حق من حقوقھم مردوامثلتھم لا یفتن ؎۱۱ اسقف من اسقفیتہ ولا راھب من رہبانیۃ ولا وافہ من وفاھیۃ علی ؎۱۲ ما تحت ایدیھم من قلیل او کثیبر ولیس ؎۱۳ علیھم رحق ولا دم ؎۱۴ جاھلیۃ ولا ؎۱۵ یحشرون ولا یعشرون ؎۱۶ ولا یطاء ؎۱۷ ارضھم جیش ؎۱ لخ ذمیوں کے متعلق جو اسلام کا اصلی قانون ہے وہ ا س سے زیادہ نہیں کیونکہ اسلام صرف ان مسائل اور احکام کا نام ہے جو قرآن مجید یا احادیث صحیحہ سے ثابت ہوں اس کے سوا جو کچھ ہے گو اس نے قوم میں اور ملک میں کوئی اعتبار حاصل کر لیا ہو لیکن وہ اسلام کا اصلی قانون نہیں ہے۔ ذمیوں کے حقوق کے متعلق اگرچہ یہ مختصر قواعد ہیں اور اسلام کو ابتدائی زمانے میں غیر قوموں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱؎ فتوح البلدان صفحہ ۶۵ ‘ قاضی ابویوسف نے بھی اس معاہدہ کو کتاب الخراج میں نقل کیا ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کے ساتھ جس قدر کم تعلق پیدا ہوا تھا اس کے لحاظ سے اس سے زیادہ ضرورت بھی نہ تھی‘ تاہم ان ہی قواعد میںنایت مہتم الشان امور کا ماخذ موجود ہے اور حقیقت یہ ہے کہ ذمیوں کے حقوق کے متعلق گو کتنا ہی مفصل مجموعہ قوانین بنایا جاوے لیکن اس کی جزئیات ان اصولوں سے باہر نہیں جا سکتیں۔ اب ہم نہایت تفصیل کے ساتھ بتانا چاہتے ہیں کہ زمان مابعد میں جب کہ غیر قوموں سے نہایت وسیع اور قوی اختیارات قائم ہو گئے ذمیوں کے ساتھ اسلامی حکومتوں کے طرز عمل میں کیا رہا؟ سب سے زیادہ جس زمانے کے واقعات اس بحث کے تصفیہ کے لیے کام آ سکتے ہیں وہ خلافت فاروقی کے واقعات ہیں ان کی خلافت کا زمانہ ایک ممتد زمانہ ہے اول اول ان ہی کے وقت میںغیر قوموں کے ساتھ سلطنت و رعیت کے تعلقات قائم ہوئے۔ ان کی نست مخالفوں نے کہا ہے کہ وہ غیر مذہب والوںکے ساتھ نہایت سختی سے برتائو کرتے ہیں ان کے عہد میں رعایا کے جس قدر حقوق قائم ہو سکتے ہیں ہو چکے تھے ۔ اور ہر ایک حق کی نسبت صاف صاف فیصلہ کر دیا گیا تھا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ان کی حکومت اسلامی حکومت کی اصلی تصویر خیال کی جاتی ہے۔ حقوق میں سب سے مقدم قصاص کا حق ہے یعنی یہ کہ قتل و خون کے معاملے میں فاتح اور مفتوح کے حقوق برابر سمجھے جائیں۔ آج جن ملکوں میںتمدن اور تہذیب کی حکومت ہے ان کا یہ دعویٰ ہے کہ انہوں نے اس مساوات کو قائم رکھا ہے ۔ لیکن سوال یہ ہے کہ الفاظ کے ذریعہ سے باعمل کے ذریعہ سے ؟ میں اس کا فیسلہ ان لوگوں پر چھوڑتا ہوں جو رات دن اپنی آنکھوں سے اس کی مثالیں دیکھتے رہتے ہیں۔ اس کے مقابلہ میں دیکھو اسلام نے کیا کیا۔ قبیلہ بکر بن وائل کے ایک مسلمان نے حیرہ کے ایک عیسائی کو مار ڈالا تھا۔ حضرت عمرؓ کو اس کی اطلاع دی گیئ۔ انہوں نے لکھ بھیجا کہ قاتل مقتول کے وارثوں کے حوالے کر دیاجائے۔ چنانچہ حنین نام کے ایک شخص کو جو مقتول کے وارثوں میںتھا سپرد کر دیا گیا‘ اور اس نے اس کو قتل کر دیا ۱؎ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱؎ زیلعی تخریج ہدایہ مطبوعہ دہلی صفحہ ۳۳۸ء ۳۳۹ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جہاں تک ہم کو معلوم ہے حضرت عمرؓ کے اس طریق عمل سھے کسی زمانہ میںبھی اختلاف نہیںکیا گیا ۔ بلکہ حضرت علیؓ نے صاف صاف لفطوں میںفرمایا کہ من کان لہ ذمتنا فدمۃ کذمتنا و دینہ کدیتنا یعنی جو لوگ ذی ہو چکے ان کا خوان ہمارا خون ہے اور ان کا خوں بہا ہمارا خوں بہا ہے‘‘۔ حضرت علیؓ کو یہ موقع خود بھی پیش آیا اور انہوںنے صاف حکم دے دیا کہ قاتل جو مسلمان تھا قتل کر دیا جائے۔ اس سے بڑھ کر ی کہ جب مقتول کے وارثوں نے آ کر عرض کیا کہ ہم نے خون معاف کر دیا تو آپ نے فرمایا کہ تم پر کچھ دبائو نہیںڈالا گیا ۔ ۱؎ حضرت عمرؓ بن عبدالعزیز جن کو دوسرا عمر ؓ کہا جاتا ہے ان کے عہد میں بھی اس قسم کا واقعہ پیش آیا تھا اور انہوںنے بھی یہی حکم دیا کہ قاتل مقتول کے وارثوں کے حوالے کر دیا جائے چنانچہ وارثوں نے اس کو بے تکلف قتل کر دیا۔ ۲؎ حضرت عثمانؓ کے زمانہ میں ولیدؓ بن عقبہ جو صحابی تھے کوفہ کے گورنر تھے ایک دفعہ ایک یہودی نے ان کے سامنے شعبدہ بازی کے تماشے دکھائے اس وقت اور بہت سے تماشائی موجود تھے ان میں جندب بن کعب ازدیؒ بھی تھے جو بڑے مشہو ر تابعی ہیں اور صحیح ترمذی میں ان کی روائتیں منقول ہیں وہ ان شعبدوں کو شیطان کا اثر سمجھے اور یہودی کو قتل کر دیا۔ ولید نے اسی وقت ان کوگرفتر کر لیا اور یہودی کے قصاص میں قتل کر دینا چاہا لیکن چونکہ وہ بڑے جتھے کے آدمی تھے ان کے قبیلہ والے ان کی حمایت میں کھڑے ہو گئے ولید نے اس وقت دفع الوقتی کے لیے ان کو قید خانہ بھیج دیا۔ اورارادہ کیا کہ موقع پر کر قتل کر دیں گے داروغہ کو ان پر رحم آیا اور کہا کہ تم چپکے سے بھاگ جائو انہوںنے کہا کیوں؟ کیاد رحقیقت میں قتل کر دیا جائوں گا؟ داروغہ جیل نے کہا کہ خدا کی خوشنودی کے لیے تمہارا قتل کر دینا کچھ بڑی بات نہیں‘‘۔ غرض وہ بھاگ گئے صبح کو ولید نے جندب کو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱؎ زیلعی ص ۲۸ ۲؎ ایضاً ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قصاص کے لیے طلب کیا داروغہ نے کہا کہ وہ تو چھپ کر بھاگ گیا ہے۔ ولید نے اس کے بدلے داروغہ کی گردن ماری ۱؎ ۔ ہم کو اسامر سے بحث نہیں ہے کہ داروغہ جیل کا قتل کر دینا جائز تھا یا نہیں‘ بلکہ یہ دکھانا منظور تھا کہ باوجودیکہ جندب بڑے رتبہ کے آدمی تھے اوریہودی ایک معمولی بازیگر تھا تاہم ولید کو ایک حکم شرعی کی تعمیل کے لحاظ سے جندب کے قتل کر دینے میں کچھ تامل نہ ہوا۔ اسی سلسلہ میں حضرت عمر فاروقؓ کی شہادت کا واقعہ بھی سننے کے قابل ہیل حضرت عمرؓ کے قاتل کانام فیروز تھا جو مجوسی النسل تھا۔ اورعیسائی مذہب رکھتا تھا۔ حضرت عمرؓ ے بڑے بیٹے عبید اللہ سے لوگوںنے بیان کیا کہ اور لوگ بھی اس سازش میںشریک ہٰں چنانچہ حضرت ابوبکر ؓ کے بیٹے عبدالرحمنؓ نے چشم دید واقعہ بیان کیا عیبد اللہؓ تلوار ہاتھ میں لے کر نکلے۔ اور فیروز کے بیٹے اور جفنیتہ و ہرمز ان کو جن پر سازش کا شبہ تھا قتل کر دیا۔ ان میںسے ہرمز ان مسلمان ہو گیا تھا باقی عیسائی تھے۔ عبداللہؓ اسی وقت گرفتار کر لیے گئے اور حضڑت عثمانؓ جب مسند خلافت پر بیٹھے تو پہلا مسئلہ یہی پیش کیا گیا کہ عبید اللہؓ کی نسبت کیا کرنا چاہیے حضرت عثمانؓ نے صحابہ کو بلا کر رائے طلب کی ‘ تمام مہاجرین یعنی ان بزرگوں نے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ وطن چھوڑ کر آئے تھے اور تمام صحابہ کی نسبت افضل سمجھے جاتے تھے یک زبان ہو کر کہا عبیدا للہؓ کو قتل کر دینا چاہے۔ ۲؎ حضرت علیؓ بھی اس مجمع میں موجود تھے اور انہوںنے بھی یہی رائے دی۔ اگرچہ حضرت عثمانؓ بعض مصلحتوں کی وجہ سے اس فیصلہ کی تعمیل نہ کر سکے اور (جیسا کہ مورخین نے لکھا ہے) حضرت عثمانؓ کی خلافت کی یہ پہلی کمزوری تھی۔ تاہم انہوںنے تینوں مقتولوں کے بدلے بیت المال سے خون بہا دلایا شاید کسی کو یہ خیا ل ہو کہ لوگوںنے عبید اللہ کا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱؎ مسعودی ذکر خلافت عثمانؓ کتاب الاوائل میں اس واقعہ کو کسی قدر اختلاف کے نقل کیا ہے۔ ۲؎ مسعودی ذکر خلافت عثمانؓ کتاب الاوائل میں بھی اس واقعہ کو کسی قدر اختلاف کے ساتھ نقل کیا ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قتل کیا جانا جو تجویز کیا تھا وہ ہرمزان کے قصاص میں تھا اورہرمزان مسلمان ہو چکا تھا لیکن یہ قیاس صحیح نہیں اولاً تو روایتوں مٰں اس قسم کی تخصیص کا کوئی اشارہ نہیںپایا جاتا اس کے علاوہ حضرت عثمانؓ نے تینوں کا جو خوںبہا دلایا اسمیں کسی قسم کی تفریق نہیںکی۔ ہم کو جہاں تک معلوم ہے اسلام کی تمام تاریخ میں اس کے خلاف کوئی مثلا نہیں ہے بعض مورخوں نے لکھا ہے کہ ہارون الرشید کے زمانہ میں ایک مسلمان نے کسی ذمی کو مار ڈالا قصاص میں مسلمان ماخوذ ہوا لیکن کسی خاص وجہ سے ہارون الریشد کو اس کی رعایت منظور تھی اور اس لے اس ن چاہا کہ وہ قتل سے بچ جائے چنانچہ قاضی ابویوسفؒ صاحب کو بلا کر اس کی تدبیر پوچھی قاضی صاحب نے فرمایا کہ شہادت سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ وہ مارے جانے کے وقت بھی قانوناً زمی تھا‘‘ اگر ہمارے نزدیک یہ واقعہ ثابت نہٰں تاہم اگر اس کو مان لیا جائے تب بھی یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ذمی کے قصاص میںمسلمان کو قتل سے بچانا ایک ایسا عطیم واقعہ تھا۔ جس کے حلیہ یدا کرنے کے لیے قاجی ابویوسف جیسے شخص کی ضرورت پڑی۔ اور وہ بھی اس کے سوا کچھ حیلہ نہ بتا سکے کہ اس کا ذمی ہونا مشتبہ ٹھہرائیں۔ مال اور جائیداد کے حقوق جن کو انگریزی میں ’’رائٹ آف پراپرٹی‘‘ اور ’’رائٹ آف لینڈ‘‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔ ان میں بھی مسلمان اور ذ می برابر درجہ رکھتے ہیں۔ ذمیوں کے قبضہ میں جس قدر زمییں تھیں اسلام کے بعد عموما بحال رکھی گئیں یہاںتک کہ اگر خلیفہ وقت یا بادشاہ کو مسجد یا کسی اور عمارت کی غرض سے زمین لینے کی ضرورت ہوتی تھی تو معاوضہ دے کر لی جاتی تھی۔ حضرت عمرؓ کے زمانہ میں ایک شخص نے دجلہ ک کنارے گھوڑوں کے پالنے کے لیے ایک رمنہ بنانا چاہا۔ آپ نے ابو موسی ٰ اشعری کو جو بصرہ کے گورنر تھے لکھ بھیجا کہ اگر وہ زمین ذمیوں کی نہ ہو اور ان میں ذمیوںکی نہرو ں اور کنوئوں کا پانی نہ آتا ہو تو سائل کو زمین دے دی جائے ۔ ۱؎ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱؎ فتوح البلدان صفحہ ۳۵۱ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خلیفہ منظور عباسی نے جب بغداد کو دارالخلافہ بنانا چاہا تو آس پاس کی قومیں جو وہاں کی زمیندار تھیں انسے قیمت دے کر زمین مول لے لی۔ ۱؎ حیرہ میں قدیم زمانہ کے محل اور ایوان تھے جو اسلام کے زمانہ میں ویران ہو چکے تھے۔ حضرت عمرؓ کے عہد میں کوفہ میںجو جامع مسجد نبی اس میں کچھ ملبہ وہاںکے مکانات سے آیا تھا۔ اگرچہ ان کا کوئی قانونی وارث نہ تھا۔ تاہم چونکہ ذمیوں کی زمین میں سے تھا۔ اس لیے ذمیوں کو ان کی قیمت ان کے جزیہ میں مجرا دی گئی۔ ۲؎ اس کے سوا سینکڑوں واقعات ہیں جن سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ ذمیوں کے مال اور جائیدا د سے کبھی تعرض نہیںکیا گیا ۔ آغاز اسلام ہی میں یہ مسئلہ بڑے معرکہ کے ساتھ طے ہو گیا۔ تھا کہ غیر مزہب والے جو اسلا م کی رعایا بن گئے ہیں ان کی مقبوضہ زمینیںان کے قبضہ سینکالی نہیں جا سکتیں۔ حضرت عمرؓ کے عہد میں جب عراق فتح ہوا تو حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ اور حضرت بلال ؓ نے حضرت عمرؓ سے درخواست کی کہ جس قدرمفتوحہ زمین ہے اہل فوج کو تقسیم کر دی جائے۔ حضرت عمرؓ نے انکار کیا اور دیر تک بحث رہی آخر یہ دن ٹھہرا کہ تمام مہاجرین اور انصار سے مشورہ کیا جائے چنانچہ ایک بڑا مجمع ہوا اور انصٓر میںسے دس شخص جو اپنے اپنے قبیلہ کے وکیل اور قائم مقام تھے مجمع میں حاضر ہوئے ۔ تمام بڑے بڑے مہاجرین صحابہ یعنی حضڑت علیؓ حضرت عثمانؓ طلحہؓ ، عبداللہ بن عمرؓ ، وغیرہ بھی موجود تھے حضرت عمرؓ نے کھڑے ہو کر نہایت توضیح سے اس مسئلہ کوبیان کیا۔ حضرت بلالؓ اور عبدالرحمن بن عوفؓ اب بھی مخالف رہے لیکن عام رائے یہ ہوئی کہ ذمی اپنی زمینوں سے بے دخل نہیں کیے جا سکتے حضرت بلالؓ اس پر بھی قائل نہیںہوتے تھے لیکن حضرت عمرؓ نے جب قرآن مجید کی ایک آیت استدلال میں پیش کی تو ان کو مجبورہونا پڑا او ر بلا اختلاف تمام صحابہ کے اتفاق سے یہ مسئلہ طے ہو گیا۳؎۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱؎ ایضاً صفحہ ۳۹۵، ۲؎ ایضا صفحہ ۲۸۶، ۳؎ یہ پوری تفصیل کتاب الخراج صفحہ ۱۴ و ۱۵ میں ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسی بنا پر فقہ کا یہ مسئلہ مسلمہ ہے کہ اگر بادشاہ یا امام وقت کسی زمانہ میں زمین کو ذمیوں کے قبضہ میں سے نکالنا چاہے تو نہیں نکال سکتا قاضی ابویوسف کتاب الخراج میں لکھتے ہیں: ولیس لہ ان یانھذھا بعد ذالک منھم وھی ملک لھم یتوارثو نھا و یتبایعو۔ ’’یعنی امام وقت کو یہ اختیار نہیں کہ اس کے بعد ان سے زمین کو چھین لے‘ وہ زمین ان کی ملک ہے ‘ ان میں نسلاً بعد نسل منتقل ہوتی رہے گی او ر وہ اس کو خرید و فروخت کر سکتے ہیں۔‘‘ حضرت عمر ؓ نے انے عہد خلافت میں جاگیرات کا ایک صیغہ قائم کیاتھا۔ یعنی حقوق اسلامی کے لحاظ سے جس کو مناسب سمجھتے تھے اس کو جاگیر عطا کرتے تھے۔ لیکن چونکہ اراضیات بالکل ذمیوں کی مملوکہ تھیں اور حضرت عمرؓ کو ان میں کسی قسم کا تصرف کا اختیار نہ تھا۔ اس لیے ا س غرض سے لیے خاص وہ زمینیں مخصوس کی تھیںجو سکی کی ملک نہ تھیں چنانچہ اس قسم کی زمینیںحسب ذیل تھیں۔ جاگیرات خالصہ جو نوشیرواں نے خاندان شاہی کے لیے مخصوص کی تھیں‘ لاوارث اشخاص کی زمین دریا برآمد ڈاک خانہ کے متعلق زمین۔ اس کے ساتھ یہ اصول بھی قرار پایا کہ جو ملک بزور فتح کیا جائے وہاں کے باشندوں کی جائیداد فروخت کرنے پر بھی مسلمان کے ہاتھ منتقل نہی ہو سکتی۔ یہ قاعدہ اگرچہ ا س لحاظ سے مقرر ہوا تھا کہ مسلمان کے قبضہ میںآ جانے سے وہ زمین یکی ہو جاتی ہے اور خراج کو نقصان پہنچتا ہے تاہم اس قاعدے نے ذمیوں کو بہت بڑا فائدہ یہ پہنچایا کہ زمین کسی حالت میں ان کے خاندان اور ان کی قوم کے قبجہ سے باہر نہیں جا سکتی تھی چنانچہ اس کے خلاف اگر کبھی عمل ہو ا تو نکتہ چینی کی نگاہ سے دیکھا گیا امام لیث بن سعد نے مصڑ میں تھوڑی سی زمین مول لی تھی۔ اس پر وہاں کے برے بڑے علماء ابن لہیعہ اور نافع یزید سخت معترض ہوئے ۔ ۱؎ ۔ عقبہ بن عامرؓ ایک برے بزرگ صحابی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱؎ مقریری صفحہ ۲۹۵ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تھے اور امیر معاویہؓ نے ان کو مصر کا گورنرمقرر تھا۔ وہ مصر کے ایک گائون میں اپنی سکونت کے لیے مکان بنوانا چاہتے تھے۔ چنانچہ امیر معاویہؓ نے اس غرض سے ان کو ایک ہزار جریب زمین عطا کی ۔ انہوں نے خراب اور افتادہ زمین جو کسی کے قبضہ میں نہ تھی انتخاب کی اور جب ان کے نوکر نے کہا کہ کوئی عمدہ قطعہ لیجیے تو انہوں نے کہا یہ نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ معاہدہ میں جو شرطیں ہیں انمین ایک یہ بھی ہے کہ ذمیوں کے زمین ان کے قبضہ سے نکالی نہیںجائے گی۔ ۱؎ ان سب سے بڑ ھ کر یہ کہ اکثر ممالک میں جوخراج ذمیوں پر مقر ر کیا گیا‘ اس کے ساتھ یہ شرطیں بھی لکھا دی گئیں کہ آئندہ بھی اس پر اضافہ نہ کیا جائے گا ۔ خود مصر کے معاہدہ میں یہ شرط داخل تھی چنانچہ امیر معاویہؓ نے جب مصر کے عامل دروان کو لکھا کہ خراج کی مقدار میں اضافہ کیا جائے تواس نے صاف نکار کر دیا اور جواب میں لکھا کہ معاہدہ میں شرط ہو چکی ہے کہ خراج مقررہ پر اضافہ نہ ہوگا۔ اگرچہ اس میں شبہ نہیں ہو سکتا کہ زمانہ مابعد میںخراج کی مقدار بدلتی رہتی ہے لیکن اس بات کا کوئی ثبوت موجود نہیں کہ اسل جمع پر اضافہ ہوا بہت سی زمینیں نئی آباد ہو گئی تھیں اور ان پر اضافہ ہونا خو د مقتضائے انصاف تھا۔ سب سے مقدم اور ضروری بحث مذہبی حقوق کی ہے یورپ میں جس گروہ نے اسلام کو نکتہ چینیوں کا ہدف بنا رکھاتھا ان کی حوصلہ افزائی کا بڑا جولانگا ہ یہی ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ اسلام میں مذہبی آزادی بالکل ہیں ہے۔ اور قدیم اسلامی حکومتوں نے غیر قوموں کے مذہبی حقوق بالکل پامال رک دیے تھے لیکن ہم دکھانا چاہتے ہیں کہ اسلام نے دنیا کی تمام قوموں کوجس حد تک مذہبی آزادی دی کبھی کسی قوم نے نہیں دی۔ نہ اب دینے کا دعویٰ کرسکتی ہیل۔ یورپ دو سو برس پہلے تو مذہبی آزادی کا نام بھی نہیں لے سکتا تھا۔ آج بے شبہ اس کو یہ دعویٰ ہے مگر کیوں ہے؟ اس لیے کہ اس کو خود مذہب کی پروا نہیں رہی‘ بے شبہ یورپ گرجا اور مسجد کے جھگڑے میں انصاف ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱؎ ایضاً صفحہ ۲۰۸ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کا پلہ برابر رکھتا ہے ۔ لیکن اگر ایک سڑک اور مسجد کا معاملہ پیش آ جائے تو مسجدبے تکلف برباد کر دی جاتی ہے ا سے اندازہ ہو سکتاہے کہ جس فیاضی پر ناز ہے وہ مذہبی آزادی کا نہیں بلکہ مذہبی بے پروائی کا اثر ہے۔ مذہبی آزاد ی کے متعلق اسلام کا جو اصول ہے ان الفاظ سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نجرانیوںکے معاہدوں میں تحریر فرمائے تھے اورجس کو بتمامہا ا س مضمو ن کے پہلے حصہ میں نقل کر چکے ہیں یعنی یہ کہ پادری وغیرہ اپنے منصب پر بحال رہیں گے ‘ اورمذہب سے کچھ تعرض نہ کیا جائے گا۔ یہ خاص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام ہیں اور اس لیے دوسرے لفظوں میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ خاص اسلام کے احکام ہیں‘ اس سے یہ بھی قیاس ہو سکتا ہے کہ خلفائے راشدین ؓ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے افعال و اقوال کی یادگا ر تھے‘ اس باب میں ان کا طرز عمل کیا رہا ہو گا؟ لیکن ہم صرف قیا س پر قناعت نہیں کر سکتے تاریخ کی مستند کتابوں مثلاً بلاذری ‘ طبری‘ ازدی وغیرہ میں سینکڑوں معاہدے اصلی الفاظ میں مذکور ہیں جن کا قدر مشترک یہ ہے کہ کسی مذہب سے تعرض نہ کیا جائے گا۔ چنانچہ مزید اطمینان کے لیے ہم بعض معاہدوں کو اس مقام پر نقل کرتے ہیں‘ حضرت خالدؓ نے حضرت ابوبکرؓ کے زمانہ میں جب حیرہ فتح کیا تو یہ معاہدہ لکھ دیا۔ لا یھدم لھم بیعۃ ولا کنیسۃ ولا یمنعون من ضرب النواقین ولا من اخراج الصلبان فی یوم عیدھم ؎۱ ’’یعنی ان کے گرجے برباد نہ کیے جائیں گے نہ ان کو سنکھ بجانے سے منع کیا جائے گا ‘ نہ عید کے دن صلیب کے نکالنے سے روکا جائے گا‘‘۔ عانات پر جب حضرت خالدؓ کا گزر ہوا تو وہاں کا پادری ان کے پاس حاضر ہوا‘ اور انہوںنے اس شرط پر اس سے صلح کر لی۔ لا یھدم بیعۃ ولا کنسۃ وعملی ان یضربو انواقیھم فی ای ساعۃ شائو امن لیل اونھار الا فی اوقات الصلوۃ وعلی ان یخرجو الصلبان فی ایام عیدھم ؎۱ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱؎ کتاب الخراج صفحہ ۸۴ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ’’یعنی ان کے گرجے برباد نہ کیے جائیں گے وہ نماز کے وقتوں کے سواء رات دن جس وقت چاہیں ناقوس بجائیں اور تمام تیوہاروں میں صلیب نکالیں‘‘۔ قاضی ابویوسٖ صاحب نے کتاب الخراج میں ان احکام کو نقل کر کے لکھا ہے کہ خالدؓ نے ان معاہدوں پر حضرت ابوبکرؓ ‘ حضرت عمرؓ ، حضرت عثمانؓ ، حضرت علیؓ کسی نے بھی اعتراض نہ کیا ‘‘ اس لحاظ سے اگر فقہی اصطلاح کے موافق کہا جائے تو یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس مسئلہ پر صحابہؓ کا اجماع ہو گیا تھا اور یہی وجہ ہے کہ زمانہ مابعد میں جب کبھی کسی متعصب فرماں روا نے اس کے خلاف کرنا چاہا تو مذہبی پیشوائوں نے فوراً مخالفت کی ۔ اور اگر کسی مجبوری کی وجہ سے یہ جرات نہ کر سکے تو اس کے مرنے کے بعد اس کی تلافی کر دی گئی۔ ہارون الرشید جب نائس فورس قیصر روم کی بار بار بغاوت سے نہایت برہم ہو گیا تو عیسائیوں ی طرف سے اس کے خیالات بہت کچھ بدل گئے تھے غالباً یہ اسی کا اثر تھا کہ اس نے قاضی ابویوسف صاحب سے جو مذہبی صیغہ کے افسر کل تھے پوچھا کہ عیسائیوں کے گرجے اسلام میں کیوں کر محفوظ ہیں اور آج ان کو کیوں اجازت ہے کہ وہ اعلانیہ صلیب نکالتے ہیں؟ اس کا جواب قاضی صاحب نے لکھا اس کے خاص الفاظ یہ ہیں: انما کان الصلح جری بین المسلمین واھل الذمۃ فی اداء الجزیۃ وفتحت المدن علی ان لا تھدم ببعھم ولاکنا یسھم داخل المدینۃ ولا خار جھاوعلی ان قاتلوا من ممدوھم وعلی ان یجرجوا الصلبان فی اعیارھم فافتتحت الشام کلھاوالحیرۃ الا اقلھا ھذا فلذالک ترکب البیع والکنائس ولم یھدم ؎۱ یعنی مسلمانوں اور ذمیوں سے جزیہ کی بنا پر جو صلح ہوئی تھی ‘ اس شرط پر ہوئی تھی کہ ان کی خانقاہیں‘ اور گرجے شہر کے اندر ہوں یا باہر برباد نہ کیے جائیں گے اور یہ کہ ان کا کوئی دشمن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱؎ کتاب الخراج صفحہ ۸۶ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ان پر چڑھ آئے تو ان کی طرف سے مقابلہ کیا جائے گا اور یہ کہ وہ تیوہاروں میں صلیب نکالنے کے مجاز ہیں‘ چنانچہ تمام شام اور حیرہ( باستثناء بعض کے) ان ہی شرائط پر فتح ہوا‘ اوریہی وجہ ہے کہ خانقاہیں اور گرجے اسی طرح چھوڑ دیے گئے اور برباد نہیں کیے گئیں‘‘۔ خلیفہ ہادی کے زمانہ میں سنہ ۱۶۹ھ میں جب علی بن سلیمان مصر کا گورنر مقرر ہوا تو حضرت مریم کے گرجا اور چند گرجوں کو منہدم کرا دیا۔ ہادی نے ایک ال کی خلافت کے بعد وفات پائی اور ہارون الرشید تخت نشین ہوا۔ اس نے علی کو معزول کر کے سنہ ۱۷۱ھ میں موسیٰ بن عیسیٰ کو مصر کا گورنر مقرر کیا۔ موسیٰ نے گرجوں کے معاملہ میں علماء سے استفسار کیا‘ اس وقت مصر کے تمام علماء کے پیشوا لیث بن سعد تھے جو بڑے محدث اور نہایت مقدس اور بزرگ تھے ‘ انہوںنے اعلانیہ فتویٰ دیا کہ منہدشدہ گرجے نئے سرے سے تعمیر کرا دیے جائیں اور دلیل یہ پیش کی کہ مصر میں جس قدر گرجے ہیں خود صحابہ اور تابعین کے زمانہ میں تعمیر ہوئے تھے چنانچہ تمام گرجے سرکاری خزانہ سے تعمیر کرا دیے گئے ۱؎۔ علامہ مقریزی نے تاریخ مصر میں اس واقعہ کو ان الفاظ میں لکھا ہے: فبنیت کلھا بمشورۃ اللیث بن سعد و عبداللہ بن لھیعۃ وقالا ہو من عمارۃ البلادو احتجابان الکنایس التی بمعصرلم تین الا فی الاسلام فی زمن الصحابۃ والتابعین ؎۲ اسی طرح دمشق کا گرجا ایک رئیس کی بے جا فیاضی سے خاندان بنی نصر کے قبضہ میں آ گیا تھا حضرت عمر بن عبدالعزیز نے اپنے عہد خلافت میں ا س کو بنی نصر سے چھین کر عیسائیوں کے حوالے کر دیا۔ اس قسم کی اور بھی بہت سی مثالیں ملتی ہیں۔ لیکن اس موقع پر ہم ایک ایسا واقعہ نقل کرتے ہیں جو صرف ایک جزئی واقعہ کی حیثیت نہیںرکھتا بلکہ اس کے جانشینانؓ اسلام ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱؎ النجوم الزاہرہ واقعات سنہ ۱۷۱ھ ۲؎ مقریزی جلد دوم صفحہ ۵۱۱ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کے عام طرز عمل کا اندازہ ہو سکتاہے۔ دمشق کی جامع مجد ایک گرجے سے متصل تھی جس کا نام یوحنا کا گرجا تھا۔ امیر معاویہؓ نے اپنے عہد خلافت میں ضرورت کی وجہ سے چاہا کہ گرجا کو مسجد میں شامل کر لیں۔ لیکن عیسائیوں نے انکار کیا امیر معاویہؓ مجبور رہے ‘ عبدالملک بن مروان نے اپنے زمانہ میں عیسائیوں سے درخواست کی اور معاوضہ یپش کیا ۔ عیسائی پھر راضٰ نہ ہوئے اور عبداللک کو باز رہنا پڑا۔ ولید نے اپنے زمانہ خلافت میں عیسائیوں کے آگے ایک بڑی رقم پیس کی وہ اسی طرح انکار کرتے رہے ولید نے غصہ میں آ کر کہا تم خوشی سے نہیں دیتے تو میں جبراً لے لوں گا۔ عیسائیوںنے کہا کہ جو شخص کسی گرجے کو نقصان پہنچاتا ہے وہ پاگل یا کوڑھی ہو جاتا ہے ولید کو اس پر زیادہ غصہ آیا خود اپنے ہاتھ مٰں کدال لے کر گرجا کی دیوار ڈھانی شروع کی اور بالآخر گرجا مسجد میں شامل کر لیا گیا۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز کے زمانہ میں عیسائیوں نے اس تعدی کی شکایت کی حضرت عمر بن عبدالعزیز نے دمشق کے عامل کو لکھ بھیجا کہ گرجا کا جو حصہ مسجد میںملایا گیا ہے وہ عیسائیوں کو واپس کر دیا جائے اس پر مسلمانوں کو نہایت رنج ہوا کہ ہ جس مسجد میں نماز پڑھ چکے ہیں اور اذانیں دے چکے اسکو کیونکر ڈھائیں‘ آخر عیسائیوں کے پاس جا کر خوشامد کی اور کہا کہ ’’آغاز فتح میں غوطہ دمشقکے جس قدر گرجے مسلمانوں کے قبضہ میں رہ گئے تھے اور اب تک ہیں وہ سب واپس کر دیے جائیں گے اگر تم مسجد ڈھادینے سے باز آئو‘‘۔ عیسائی ا س پرراضی ہوئے اور عمر بن عبدالعزیزؓ کو اس کی اطلاع دی گئی ا ہنوں نے عیسائیوں کی خواہش کے مطابق مسجد کا منہدم کرنا روک دیا اور ان کو غوطہ اور دمشق کے تمام گرجے دلا دیے۔ ۲؎ اس واقعہ سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ غیر مذہب والوں کی کسی عبادت گاہ پر تصرف کرنا کس قدر پرخطر کام سمجھا جاتاتھا اورمقدس خلفاء کہاں تک گرجائوں وغیرہ کا لحاظ رکھتے تھے۔ یورپین مصنفوں کی طرف سے بڑا اعتراض پیش کیا جاتا ہے کہ ’’مسلمانوں کے عہد میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱؎ یہ پوری تفصیل فتو ح البلدان صفحہ ۱۲۵ میں مذکور ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نئے گرجائوں یا بت خانوں کے بننے کی اجازت نہت ھی لیکن یہ ان کی سرسری معلومات کا نتیجہ ہے یہ بحث خود صحابہؓ کے زمانہ میں پیش آ چکی تھی۔ اور اس کا فیصلہ کر دیا گیا تھا۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے یہ مسئلہ پوچھا گیا تو انہوں نے جواب دیا کہ شہر مسلمانوں کے خاص آباد کردہ ہیں وہاں غیر مذہب والوں کو یہ حق حاصل نہیںکہ گرجا اور بت خانہ بنائیں یا سنکھ بجائیں باقی جو قدیم شہر ہیں وہاں ذمیوں سے جو معاہدہ ہے مسلمانوں کو اس کا پورا کرنا ضروری ہو گا ۔ ۱؎ حضرت عبدالہ بن عباسؓ کا یہ فتویٰ اس لحاظ سے تھا کہ اس وقت تک مسلمان اور دوسری قومیں اچھی طرح ملے جلے نہیں تھے ۔ لیکن جب یہ حالت نہیں رہی تو وہ فیصلہ بھی نہیں رہا۔ چنانچہ خاص اسلامی شہروں میں اکثر سے گرجے بت خانے اور آتش کدے بنے کہ ان کا شمار بھی نہیں ہو سکتا۔ بغداد خاص مسلمانوں کا آباد کیا ہوا تھا وہاں کے گرجوں کے نام معجم البلدان میں کثرت سے ملتے ہیں۔ قاہرہ میں جو گرجے بنے وہ مسلمانون ہی کے عہد میں بنے یوٹیکس نے جو سنہ ۳۲۳ھ میں اسکندریہ کا لارڈ بشپ تھا ‘ اپنی کتاب میں جو عربی میں ہے اور جس کو پروفیسر پوکاک نے لاٹین ترجمہ کے ساتھ چھاپا ہے‘ اس قسم کے بہت سے گرجوں کے نام اور ان کے حالات لکھے ہیں۔ خالد بن عبداللہ قسری نے ہو ہشام بن عبدالملک کے زمانے میں عراقین کا گورنر تھا ‘ اور عرب کے نہایت نام آور لوگوں میںشمار کیا جاتا تھا اپنی ماں کے لیے جو عیسائی مذہب رکھتی تھی خود ایک گرجا تعمیر کروا دیا تھا۔عضد الدولہ نے جو بہت بڑا نامور شہنشاہ گزار ہے اور نہایت صاحب فضل وکمال تھا۔ اپنے وزیر نصر بن ہارون کو چرچ اورگرجائوں کے بنانے کی عام اجازت دی تھی ۲؎ ۔ چنانچہ اس نے سنہ ۳۶۹ھ میں نہایت کثرت سے تماممالک اسلامیہ میں چرچ اور گرجے تعمیر کرائے۔ مسلمانوں نے صرف یہی نہیں کیا کہ پرانے معبد قائم رکھے یا نئے معبدوں کی تعمیر کی اجازت دی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱؎ کتاب الخراج صفحہ ۸۸ ۲؎ ابن الاثیر واقعات سنہ ۳۶۹ھ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بلکہ انہوں نے نہایت انصاف سے معبدوں کے متعلق تمام عہدے اور تما م وہ جائدادیں بحال رہنے دیں جو ان معبدوں پر وقف تھیں‘ یہاں تک کہ پجاریوں اور مجاوروں کے جو روزینے پہلے سے مقرر تھے وہ بھی اپنے خزانے سے جاری رکھے ‘ عمرو بن العاص ؓ نے حضرت عمرؓ کے عہدمیں جب مصر فتح کیاتو جس قدر آراضیات گرجائوں پر وقف تھیں اسی طرح بحال رہنے دیں چنانچہ اس قسم کی جو آراضیات سنہ ۷۵۵ھ تک موجود تھیں ان کی مقدار ۲۵ ہزار قدان تھی۔ ۱؎ محمد بن قاسم نے جب سندھ فتح کیا توبرہمنوں کو بلا کر بت کانوں کے متعلق ان کو جو اختیار دیے اس کو مورخ علی بن حامد نے اپنی تاریخ سندھ میں ان الفاظ میں لکھا ہے۔ پس اکابر و مقدمان براہمہ رافرمودا کہ معبود خود را عبادت کنندہ فقرا ے برہمنان راباحان و تعہد دارند واعیاد و مراسم خود بر شرائط آبائو اجداد قیام نمائندہ وصدقاتے کہ پیش ازیں درحق براہی میدادند برقرار قدیم ہدہند۔ بنیامین جو مصر کا پیٹریارک تھا‘ اور ایرانیوں کے تسلط کے زمانے میں مصر سے بھاگ گیا تھا اسکو کود عمرو بن العاص سنہ ۲۰ ہھ میں امان کی تحریر بھیج کر مصر بھجوایا۔ اور پیٹر یارک کے عہدے پر مامور کیا ۲؎ محمد فاتح نے جب سنہ ۱۴۵۳ ء میں جب قسطنطنیہ فتح کیاتو یونانی کلیسا کا خود محافظ بنا اور تمام پادریوں کو ہر قسم کے قانون کے احکام سے بری کر دیا۔ اسلا م میں غیر مذہب والوں کے مذہبی احکام کا جو لحاظ کیا جاتا ہے اس کا ثبوت اس سے بڑھ کر اور کیا ہو گا کہ یہ فقہ کا مسئلہ ہے اور اگر کوئی عیسائی ایک گرجا بنانے کی وصیت کر جائے تو اسلامی عدالت اس وصیت کو جائز تسلیم کرے گی اورمسجد بنانے کی وصیت کر جائے تو ناجائز۔ چنانچہ صٓحب ہدایہ نے باب الوصیتہ میں امام ابو حنیفہؒ کا یہ مذہب نقل کر کے ان کی طرف سے یہ دلیل پیش کی ہے کہ نحن امرنا بان سرکھم وما یدینون یعنی ہم کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱؎ دیکھو مقریزی جلد دوم صفحہ ۴۰۰ ۲؎ مقریزی جلد دوم صفحہ ۴۹۲ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم غیر مذہب والوں کو ان کے احکام مذہبی پر چھوڑ دیں۔ ایک دفعہ جب حضرت ابوبکرؓ کے عہدمیں ایک عورت نے مسلمانوں کی ہجو کے شعر گائے اور ایک افسر نے اس جرم میں اس کے ہاتھ کاٹ ڈالے تو حضرت ابوبکرؓ نے اس افسر کو خط لکھا کہ اگر وہ عورت مسلمان تھی تو کوئی معمولی سزا دینی چاہیے تھی اور اگر ذمی تھی تو جب ہم نے اس کے شرک اور کفر سے درگزر کی تو ہجو تو شرک سے بہرحال کم ہے۔ ۱؎ عیسائی نکتہ چینیوں کی نسبت ہم کو صرف یہی شکایت نہیں کہ وہ اسلامی تاریخوں سے ناآشنا ہیں بلکہ افسوس یہ ہے کہ وہ خود اپنے قدیم عیسای بزرگوں کی روایت سے واقفیت نہیں رکھتے‘ حضرت عثمانؓ کے زمانہ میں مروکا جو پیٹر یارک تھا اور جس کا نام (JESUJAH) تھا اس نے ایران کے لارڈ بشپ (SIMEON) کو جو خط لکھا تھا‘ اس میں یہ الفاظ تھے عرب جن کو خدا نے اس وقت جہاں کی بادشاہت دی ہوء ہے عیساء مذہب پر حملہ نہیںکرتے بلکہ برخلاف اس کے ووہ ہمارے مذہب کی امداد کرتے ہیں ہمارے پادریوں اور خداوند کے مقدسوں کی عزت کرتے ہیں اور گرجوں اور خانقاہوں کے لیے عطیہ دیتے ہیں‘‘۔ مذہبی اور قانونی حقوق کے بعد جس کا ہم اوپر ذکر کر چکے ہیں۔ یہ امر قابل لحاظ ہے کہ ذمیوں کو رتبہ اور اعزاز کے لحاظ سے اسلامی گورنمنٹ اور اسلامی پبلک میں کیا درجہ حاصل تھا فاتح اور مفتوح کی تمیز ایک ایسا فطرتی اثڑ ہے جو کسی طرح کسی کے مٹائے نہیں مٹ سکتا۔ پچھلی دنیا مین تو یہ امتیاز اس حدتک پہنچا تھا کہ فاتح قوموںنے ہمیشہ مفتوحین کو جانوروں سے کچھ ہی زیادہ سمجھا ہندو آرین ہندوستان میں آئے تو یہاں کے اصلی باشندوں کو اس طرح خاک میں ملا دیا کہ ان کو شودر کے لقب سے خود عار نہیںرہا۔ رومن نے تمام مفتوحہ قموں کو گویا غلام بنا رکھا دنیا اسی حالت میںتھی کہ اسلام کا قدم آیا۔ اس کے گرد و پیش ہر طرف اسی قسم کی مثالیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱؎ طبری ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ موجود تھیں لیکن اس نے کیا کیا؟ یہ کیا کہ دنیا کے اس رواج یافتہ قاعدے کو دفعتہ مٹا دیا اور تقول و فعل دونوں سے بتا دیا کہ حقوق عامہ میں جس قدر آدمی آسمان کے نیچے ہیں سب برابر ہیں اسلام نے ہی یہ بات سکھلائی تھی کہ جب ایک یہودی نے حضرت علیؓ پر خود ان کی خلافت کے زمانہ میں ایک زرہ کا دعویٰ کیا تو جناب ؓ ممدوح کو اس کی جواب دہی کے لیے عدالت میں حاضر ہونا پڑا اور وہ بغیر کسی عذر کے معمولی فریق مقدمہ کی حیثیت سے عدالت میں حاضر ہوئے یہ اسلام کی کی تعلیم تھی کہ جب ایک عیسائی نے ہشام بن عبدالملک پر جو بڑی عظمت او ر اقتدار کا خلیفہ گزرا ہے ایک جائیداد کا دعویٰ کیا۔ اور حضرت عمر بن عبدالعزیز کے دربار مین مقدمہ پیش ہوا تو عمرؓ نے ہشا کو عدالت میں طلب کیا اور کہا کہ مدعی کے برار کھڑے ہو کر جواب دہی کرو۔ ہشام نے وکیل مقرر کرنا چاہا حضرت عمرؓ نے کہا کہ نہیں تم خود کھڑے ہو کر جواب دو۔ ہشام نے عیسائی کے ساتھ سخت کلامی شروع کی۔ حضرت عمرؓ نے نہایت سختی سے ڈانٹا اور کہا کہ دوبارہ یہ حرکت سرزد ہوئی تو بغیر سزا دیے نہ چھوڑوں گا۔ چونہ روداد سے عیسائی کا حق ثابت ھا اس کو ڈگری دلائی گئی اور حکم دیا کہ ہشام کی دستاویز جو اس نے پیش کی ھتی چاک کر دی جائے ۱؎ ۔ تاریخ اسلام میں اس قسم کے اور بہت سے واقعات ہیں لیکن ہم نے صرف ان بزرگوں کے نمونے پیش کیے ہیں جو خود اسلام کے نمونے تھے۔ اسلامی حکومتوں میں مسلمان اور ذمی عموماً برابر ی کی حیثیت سے رہتے تھے ۔ سرکاری مناصب میں مجالس عامہ میں ‘ عام معاشرت میں فاتح مفتوح کی کچھ تمیز نہ تھی لیکن قبل اس کے ہم س دعویٰ کو تفصیلی طور پر ثابت کریں ہم کو ان شبہات کا جواب دینا چاہیے جو اس مواقع پر خواہ مخواہ پیدا ہوں گے عیسائی مصنفین نے ہمیشہ نہایت زور کے ساتھ اسلام پر یہ الزم لگایا ہے کہ اس نے دوسری قوموں کو نہایت ذلت کی نگاہ سے دیکھا ہے اور ذلت کی محسوس علامتیں قائم کیں۔ اسلام نے یا اسلام کے جانشینوں نے یہ قاعدے بنائے کہ ذمی ایک خاص قسم کا لباس اختیار کریں جو ان ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱؎ عیون والحدایق صفحہ ۶۰ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کی محکومی اور ذلت کی علامت ہو گھوڑے پر سوار نہ ہوں ‘ راستے میں تادباً مسلمانوں سے بچ کر نکلیں‘ بڑے بڑے عہدے نہ پائیں‘ ان کے ساتھ مساویانہ برتائو نہ کیا جائے۔ ہم بے شبہ یہ تسلیم کرتے ہیں کہ ذمیوں کی نسبت پچھلی تصنیفات میں یہ احکام موجو د ہیں لیکن ہمارا دعویٰ ہے کہ یہ احکام خدا کے رسول کے ‘ صحابہ کے‘ ائمہ مجتہدین کے احکام نہیں ہیں‘ اسی کے ساتھ ہمارا یہ بھی دعویٰ ہے کہ یہ احکام کسی زمانے میں رواج نہیں پائے‘ کسی کسی ظالم بادشاہ نے جوش تعصب میں آکر اس قسم کی کارروائی کی ہو تو وہ اسی عہد تک رہی مورخین نے عام طورپر لکھا ہے کہ سب سے پہے جس نے ذمیوں کا لباس بدلا وہ المتوکل باللہ عباسی تھا۔ اس سے یہ امر تو علانیہ ثابت ہے کہ متوکل اللہ سے پہلے یہ لباس نہ تھا‘ متوکل نے ذمیوں پر اور بھی طرح طرح کی سختیاں کیں لیکن یہ یاد رکھنا چاہیے کہ یہ وہی متوکل ہے ج نے حضرت امام حسینؑ کے مزار مبارک کو کھدوا کر خاک کے برابر کر دیا اور منادی کرا دی کہ کوئی شخص زیارت کو نہ آنے پائے جس شخص نے خود جگر گوشہ رسولؐ کے ساتھ یہ برتائو کیا اس کے کسی فعل پر کیا استدلال ہو سکتا ہے۔ یہ سچ ہے کہ حضرت عمر فاروقؓ نے بھی ذمیوں کے یے ایک خاص لباس کی تعین کی تھی لیکن یہ وہی لباس تھا جو مدت سے ان کا قومی لباس چلا آتا تھا اور اس وجہ سے یہ خیال نہیں ہو سکتا کہ اس سے تحقیر اور ذلت مقصود تھی‘ اس بحث کو ہم نے مختصراً سیرۃ نعمان میںلکھا ہے‘ اور انشاء اللہ الفاروق میں اس بحث کا قطعی فیصلہ کر دیںگے‘ یہاں صرف یہ دیکھنا ہے ک حضرت عمر کا یہ حکم آیا کوئی مذہبی اور انتظامی حیثیت رکھتا تھا یا صرف ان کا مذاق طبیعت تھا‘ جس کے معنی صرف یہ تھے کہ یہ تمام قومیں اپنی قومی خصوصیتوں پر قائم رہیں۔ اس امر کے فیصلہ کے لیے یہ دیکھنا چاہیے کہ لباس کے بار ے میں حضرت عمرؓ کے احکام کس حد تک عمل میں آ سکتے ہیں۔ حضرت عمرؓ جہاں غیر قوموں کو عرب لباس کے اختیار کرن سے روکا تھا اہل عرب کو بھی عجم کی وضع سے پرہیز کرنے کی تاکید کی تھی۔ چنانچہ عتبہ بن فرقد کو جو فرمان لکھا تھا اس میں الفاظ تھے علیکم بلباس ابیکم اسمعیل وایاکم والتنعم وزی العجم والقوا انخفاف والفو ا السراویل یعنی تم کو اپنے باپ اسمعیل کا لباس پہننا چاہیے خبردار عیش طلبی اوراہل عجب کی وضع اختیار نہکرنا‘ موزہ اور اجامہ پہننا چھوڑ دو۔ لیک نتیجہ یہ ہوا کہ حضرت عمرؓ بیت المقدس کے معاہدہ کے لیے شام تشریف لے گئے تو تمام فوجی افسران فوجی رومیوں کے لباس میں تھے۔ اس پر ناراضی ظاہر فرمائی۔ لیکن جب ان لوگوں نے ا س کا سبب پوچھا تو چپ ہو گئے اس سے بڑھ کر یہ کہ جب مصرفتح کیا تو اہل فوج کی خوراک و لباس کا انتظام اس طرح کیا گیا کہ عیسائی ہر سال غلہ وار کپڑوں کی ایک تعداد مقررہ جزیہ کے ساتھ ادا کرتے تھے ان کپڑوں میں عمامہ اور جبہ کے ساتھ موزے اور پاجامے بھی شامل تھے ۱؎۔ حالانکہ موزہ اورپاجامہ کے استعمال سے حضرت عمرؓ کو اپنے سابق فرمانوں میں منع کر چکے تھے حضرت عمر کی ان دو مختلف کارروائیوں کی تاویل اس کے سوا اور کیا ہو سکتی ہے کہ اول اول ان کی رائے وہ تھی لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ طبائع کے میلان عام کو وہ روک نہیںسکتے ‘ تو انہوں نے اس خیال کو جانے دیا۔ غیر قوموں کو حضرت عمرؓ نے جو روک ٹوک کی تھی وہ بھی نہ چل سکی‘ عیسائیون اور یہودیوں نے مسلمانوں کی بہت سی خصوصیات اختیار کر لیں‘ یہاں تک کہ عمر بن عبدالعزیز نے جو حضرت عمرؓ کے قدم بہ قدم چلنا چاہتے تھے۔ اپنے ایک عامل کو کہا کہ وقد ذکر لی ان کثیرا ممن قبلک من النصاری قدراجعوا بس العماکم وتکو المناطق ؎۲ یعنی مجھ کو معلوم ہوا ہے کہ اکثر عیسائی عمامہ باندھنے لگے ہیں اور پیٹیاں لگانی چھوڑ دی ہیں۔ ایک خاص قابل لحاظ بات یہ ہے کہ مسلمان جہاں جہاں گئے اور جہاں جہاں ان کی حکومتیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱؎ فتوح البلدان صفحہ ۲۱۵ ۲؎ کتاب الخراج صفحہ ۷۳ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قائم ہوئی ہیں انہوں نے خود مفتوح قوموں کا لباس اختیار کر لیا ہے۔ اور یہ ظاہر ہے کہ اگر ان کا لباس ذلت اور تحقیر کی علامت ہوتا تو مسلمان ذلت اور تحقیر کو کیوں گوارا کر سکتے تھے‘ عباسیوں کی سلطنت کا آغاز درحقیقت منصور کے عہد سے سمجھا جاتا ہے۔ س نے دربار کے لیے جو ٹوپی اختیار کی وہی مجوسیوں کی ٹوپی تیھی جو خاص ان کی قومی علامت تھی۔ معتصم باللہ جس زمانے مٰں دولت عباسیہ پورے شباب پر پہنچ گئی تھی۔ اس نے بالکل شاہان عجم کی وضع اختیار کر لی تھی مورخ مسعودی نے لکھا ہے وغلب علیہ التشبہ بحلوک الا عاجم فی الالتہ ولبس القلانس اوالشاشیات فلبسھا الناس اقتداء بفعلہ وایتما ما فسمیت امعتصمیات ؎۱ یعنی وہ ٹوپی اوڑھنے‘ پگڑی باندھنے والے‘ اور سازو سامان رکھنے میں رئیسان عجم کی تقلید کا بہت شایق تھا۔ چنانچہ اس کو دیکھ کر سب نے یہ وضع اختیار کر لی اور اس وضع کا نام معتصمی پر گیا۔ سندھ وغیرہ میں جب عربوں کی حکومت قائم ہوئی اور اس کے مختلف حصوں میں خاص عرب کی نسل کے سلاطین فرماں رواہوئے تو تمام مسلمانوں نے ہندوئوں کی وضع اختیار کر لی۔ چنانچہ ابن حوقل بغدادی جس نے چوتھی صدی کے آغاز میں ان ممالک کا سفر کیا تھا‘ کھنبات کی نسبت اپنے جغرافیہ میں لکھتا ہے کہ وزی المسلمین والکفار بھا واحد فی اللباس و ارسال الشعر یعنی یہاں مسلمان اور کافروں کی ایک وضع ہے دونوں ایک سا لباس پہنتے ہیںاور بال بڑے بڑے رکھتے ہیں۔ وہی مورخ سندھ اور منصورہ کی نسبت لکھتا ہے وزیھم ری اہل العراق ان زی ملوکھم یقارب زی ملوک الھند یعنی یہاں کے مسلمانوں کا لباس عراق سا ہے لیکن یہاں کے بادشاہوں کی وضع ہندو راجائوں کے قریب قریب ہے۔ مخالفوں کی طرف سے بلکہ خود متعصب مسلمانوں کی طر ف سے بڑا ستدلال یہ پیش کیا گیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود یہ حکم دیا تھا کہ عیسائیوں اور یہودیوں کو سلام نہ کرو چنانچہ عبداللہ بن عمرؓ نے ایک دفعہ نادانستگی سے ایک عیسائی کو سلام کیا تو پھر اس سے جا کر کہہ آئے تو میرا سلام پھیر دے یہ اور اس قسم کی روایتیں بہت زیادہ شہرت پکڑ گئی ہیں اورہمارا فرض ہے کہ ہم اس راز سے بالکل پردہ اٹھا دیں۔ حقیقت یہ ہے کہ مدینہ منورہ اوراس کے اطراف میں جو یہود رہتے تھے۔ ان میں اس قدر تعصب تھا کہ بات بات پر اس کا اثر پایا جاتا تھا۔ وہ مسلمانوں کو سلام کرتے تھے تواسلام علیکم کے بجائے السام علیکم کہتے تھے جس کے معنی یہ ہیں کہ تم کو موت آئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے فرمایا کہ جب یہود ا سطرح سے سلام کریں تو تم صرف یہ کہہ دو کہ علکم یعنی تم پر ۱؎ یہی روایت جو مختلف پیرایوں میں ادا کی گئی ہے اور جس کا حاصل صرف یہ ہے کہ جس طرح لوگ تم سے پیش آئین تم بھی ان سے اسی طرح پیش آئو۔ بے شبہ عبداللہ بن عمر نے سلام کہہ کر واپس لے لیا تھا لیکن اولاً تو اس بات کا کوئی ثبوت نہیں کہ وہ عیسائی ذمی یعنی اسلام کی رعیت تھا اورہماری بحث یہاں صرف ذمیوں کے ساتھ مخصوص ہ۔ دوسرے اصلی بات یہ ہے کہ عبداللہ بن عمرؓ کی یہ ذاتی رائے تھی‘ اور دوسرے صحابہ جو علم و فضل تحقیق و اجتہاد میں ان سے بڑھ کر تھے‘ ان کی رائے ااس کے بالکل خلاف تھی ‘ حضرت عبداللہ بن عباسؓ جن کو بحر العلم کا خطاب ملا تھا۔ وہ فرمایا کرتے تھے کہ کوئی شخص یہودی ہو یا عیسائی‘ یا آتش پرست سب کے سلام کا جواب ایس طرح دینا چاہیے جس طرح وہ تم کو سلام کرتا ہے۔ کیونکہ خدا نے خود فرمایا ہے کہ اذا حیتیم تجیۃ فحیوا باحسن منھا اوردھا یعنی تم کو کوئی شخص سلام کرے تو تم اس سے زیادہ عمدہ طور پر ا س کا جواب دو نہیں تو برابر طور سے سہی۔ عبداللہ بن عباسؓ کا یہ قول امام بخاری نے ادب المفرو میں نقل کیا ہے ابوموسیٰ اشعریؓ جو بڑے رتبہ کے صحابی تھے انہوں نے ایک عیسائی رہب کو خط لکھا تھا تو سرنامہ پر سلام لکھا ‘ اس ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱؎ ادب المفرد امام بخاری صفحہ ۱۵۹ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پر ایک شخص نے اعتراض کیا انہوں نے جواب دیا کہ ا س نے مجھ کو خط میں سلام لکھا تھا تو میں نے بھی لکھا‘ امام بخاری نے ادب المفرد میں عبداللہ بن عباسؓ کا قول نقل کر کے لو قال لی فرعون بارک اللہ فیک قلت و فیک یعنی اگر فرعون بھی مجھ کو یہ الفاظ کہے کہ خدا تجھ کر برکت دے تو میں اس کے جوا ب میں کہوں گا کہ خدا تم کو برکت دے۔ حاصل یہ کہ اسلام کا یہ اصول تھا اور اسی پر ہمیشہ عمل درآمد رہا کہ جو قوم جس طرح اسلام کے ساتھ پیش آتی تھی اسلام بھی اس کے ساتھ اسی طر ح پیش آتا تھا۔ جو عیسائی یا یہودی وغیرہ دوستانہ اور مہذبانہ برتائو کرتے تھے ان کے ساتھ اسی طریقے سے برتائو کیا جاتا تھا البتہ اسلام میںعیسائیوں کی طرح یہ فیاضی نہیں ہے کہ کوئی شخص کسی کے ایک گال پر طمانچہ مارے اور تو وہ دوسرا گال بھ پھیر دے کہ لو یہ بھی حاضر ہے۔ ذمیوں کو معاشرت کے تمام امور میں جو مساویانہ درجہ حاصل ت ھا۔ اس کا ثبوت اس سے برھ کر اور کیا ہو گا کہ اسلامی تذکروں میں جہاں کسی صاحب علم عیسائی یا یہودی کا ذکر آتا ہے تو ا سکا نام اسی معزز اور مدح آمیز طریقہ سے لیا جاتاہے۔ جس طرح ایک مسلمان اہل کمال کا لیا جا سکتا ہے یہاں تک کہ اگر مذہب کی تصریح نہ ہو تو کسی طح امیتاز نہیں ہو سکتا کہ یہ کسی مسلمان کا تذکرہ ہے یا کسی غیر مذہب کے آدمی کا۔ نجتیشوع ‘ جبریل‘ سلمویہ‘ حنین بن اسحاق‘ یوحنا بن ماسویہ‘ ابواسحاق صابی کا تذکرہ اسلامی تاریخوں میں جس عظمت سے کیاگیا ہے ‘ ان کتابوں کی نسبت جو بغداد کا ایک معزز عیسائی تھا مورخان اسلام کے چند فقرے نقل کرتا ہوں۔ عماد کاتب نے جو سلطان صلاح الدین کا امیر منشی تھا اس کو سلطان الحکماء کے لقب سے مخاطب کر کے یہ الفاظ لکھے ہیں: ورایتہ وھو شیخ بھی المنظر حسن الرواء لطیف الروح بعید الھم ‘ عالی الحمۃ مصیب الفکر حازم الرای وکنت اعجب فی امرہ کیف حرم الاسلام مع کمال فھمہ وغزارۃ علمہ کیا کوئی قوم دوسری قوم کا ذکر اس سے زیادہ مدح اور تعریف کے ساتھ کر سکتی ہے۔ آج کل کے مقدس علماء کے آگے اگر دنیاوی حیثیت سے بھی کسی انگریز کا مدح کے ساتھ کیا جائے تو وہ اس کو اسلامی شان کے خلاف سمجھیں گے۔ مگر اس کی صرف یہ وجہ ہے کہ ان کو تاریخ پر نظر نہیں اور ان کو معلوم نہیں کہ وہ جن بزرگوں کے نام لیوا ہیں ان کا طریق عمل کیا تھا۔ خلفائے عباسیہ کے دربار میں غیر مذہب والوں کو جوا عزاز اور رتبہ حاصل تھا اس سے کون انکار کر سکتا ہے؟ عباسیوں کے دربار کا یہ خاص آئین تھا کہ کسی شخص کا نام دربار میں لقب یا کنیت کے ساتھ نہیں لیا جاتا۔ اس قاعدے سے کوئی ایسا ہی بڑی عزت اور مرتبے کا آدمی مستثنیٰ ہو سکتا تھا یہاںتکہ کہ اکثر بڑے بڑے علماء کو یہ عزت نصیب نہی ۃوتی تھی باوجود اسکے کہ مامون الرشید جبریل بن بختیشوع کا نام دربار میں کنیت کے ساتھ لیتا تھا۔ ہارون الرشید نے عام حکم دے دیا تھا کہ جس کو مجھ سے کچھ کہنا ہو یا کوئی عرض پیش کرنی ہو تو جبریل بن نختیشوع کے ذریعے سے کرے۔ چنانچہ بڑے بڑے افسران فوجی ہارون الرشیدسے جو کچھ عرض معروض کرتے تھے جبریل کے ذریعہ سے کرتے تھے متوکل باللہ نے باوجود اس کے کہ ذمیوں کی نسبت سخت احکام جاری کیے تے تاہم اس کے دربار میں ذمی اہل کمال کو یہ عزت حاصل تھی کہ بختیشوع دربار میں خود متوکل کا لباس پہن کر آتا تھا اور اکثر صحبتوں میں متوکل کے زانو سے زانو ملا کر بیٹھتا تھا یہاں تک کہ ایک دفعہ بختشوع متوکل کی دمت میں حاضر ہوا تو اتفاق سے وہ اس وقت دیوان خاص کی چوکھٹ پر بیٹھا ہوا تھا۔ بختیشوع بھی وہیں چوکھٹ پر اس کے برابر بیٹھ گیا۔ سلمویہ بن بنان کو جو عیسائی مذہب سے تعلق رکھتا تھا معتصم باللہ کے دربار میں یہ عزت حاصل ہوئی کہ معتصم نے جس قدر فرمان صادر ہوتے تھے لسمویہ کے دستخط سے ہوتے تھے۔ علامہ ابن ابی اصبیعہ نے طبقات الاطباء میںسلمویہ کی نسبت معتصم باللہ کا یہ فقرہ نقل کیا ہے: اکبر عندی من قاضی القضاۃ یعنی سلمویہ میرے نزدیک قاضی القضاۃ سے بڑھ کر ہے‘ سلمویہ جب بیمار ہوا تو معتصم خود عیادت کرنے کو گیا اور افسوس کے ساتھ رویا سلمویہ نے جب وفات کی تو اس رنج میں تمام دن کھانا نہیںکھایا اور حکم دیا کہ اس کا جنازہ ایوان شاہی میں لا کر رکھا جائے۔ اور عیسائی مذہب کے موافق شمع اور بخور جلا کر اس کے جناز ے ک نماز پڑھی جائے۔ خلیفہ المعتضد باللہ کے دربار میںجہاں تمام امرا و وزراء ادست بستہ ھڑے رہتے تھے۔ صرف وزیر اعظم اور ثابت بن قرہ کو بیٹھنے کی اجازت تھی۔ حالانہ ثابت بن قزہ مذہبا صابی تھا او ذمی تھا اور ایک دن متعضد ثابت بن قرۃ کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر ٹہل رہا تھ دفعتا معتضد نے اپنا ہاتھ کھینچ لیا ثابت خوف سے کانپ اٹھا معتضد نے کہا ڈرو نہیں میرا ہاتھ تمہارے ہاتھ کے اوپر تھا لیکن چونکہ تم علم و فضل میں مجھ سے بڑ ھ کر ہو اس لیے تمہارا ہاتھ اوپر ہونا چاہیے‘‘۔ سلطان صلا ح الدین فاتح بیت المقدس نہایت پابند شریعت اورمتقی و پرہیز گار تھا۔ اس کے دربار میں کثرت سے عیسائی تھے۔ اوروہ ان کی نہایت عزت و توقیر کرتا تھا ان ہی میں سے ابن المطران ایک عیسائی تھا اور صلاح الدین کی یہ عادت تھی کہ وہ لڑٓئی کے معرکوں میںایک سرخ خیمہ نصب کراتا تھا۔ اور جب لڑائی سے فارغ ہو کر بیٹھتا تو اس خیمے میں بیٹھتا تھا ۔ چونکہ یہ امتیاز کی علامت تھی اس لیے حکم تھا کہ کوئی اور شخص اس خیمہ کارخ نہ کرے۔ ابن المطرا چونکہ شان و شوکت اور تمام باتوں مٰں خود سلطان صلاح الدین کی ہمسری چاہتا تھا اس نے اپنا خیمہ بھی سرخ رنگ کا تیار کرایا اور اسی میں بیٹھا کرتا تھا۔ صلاح الدین نے دیکھا تو کہا کہ مجھ کو اس سے کوئی اعزاز مقصود نہیں تھا‘ صرف ضرورت کی وجہ سے ایسا کیا گیا کہ لوگ میرے خیمے کو آسانی سے پہچان سکیں۔ یہ کہہ کر اس کا خیمہ اکھڑوا دیا گیا۔ ابن المطران اس پر سخت برہم ہوا اور دو دن تک دربار میں نہ آیا۔ آخر صلاح الدین نے بڑی استمالت سے اس کو راضی کر لیا۔ اس قسم کی سینکروں مثالیں ہیں کوئی کہاں تک گنائے۔ یورپ والو! اگر اسلامی حکومتوں میں ذمیوں کی طرح ذلت اور تحقیر کی جاتی تو کش تم اپنی مفتوحہ قوموں کے ساتھ اسی ذلت اور تحقیر کا برتائو کرتے۔ اعزاز اور توقیر کی نسبت شاید کہا جاے کہ یہ پالٹکس کی بناپر تھا۔ اس لیے ہم یہ دکھانا چاہتے ہیں کہ اسلا م اور جانشینان اسلام ذمیوں کی نسبت دلی ہمدردی اور غم خواری کے کیاخیالات رکھتے تھے‘ ذمیوں کی نسبت اگرچہ ہر قسم کے معاملات حضرت عمرؓ کے عہدمیں منضبط ہوئے اور زمانہ مابعد میں بلحاظ اغلب ان کا ہی طرز عمل سچے مسلمانوں کو طرز عمل رہا۔ لیکن ابتدا خود جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمان مبارک میں ہوچکی تھی۔ اور اس وجہ سے ہم کو اس باب میں خود شریعت کا طرز عمل معلوم ہو سکتا ہے۔ قاضی ابو یوسف نے کتاب الخراجمیں یہ حدیث روایت کی ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن ارقمؓ کو جزیہ کے وصول کرنے پر مقرر کیا تو ان کو بلا کر فرمایا‘ الامن ظلم معاہدا وکلفہ فوق طاقتہ اوانتقصہ واخذمنہ شیئا بغیر طیب فانا ججیجہ یوم القیامۃ ؎۱ یعنی جان لو کہ جو شخص کسی معاہد (یعنی ذمی) پر ظلم کرے گا ‘ یا اس سے اس کی طاقت سے زیادہ کام لے گا یا اس کو ذلیل کرے گا ‘ یا اس سے کوئی چیز اس کی مرضی کے بغیر لے گا تو میں قیامت کے دن اس کا دشمن ہوں گا‘‘۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اس ہدایت کا یہ اثر تھا کہ صحابہ جہاں کہیں ذمیوں پر کسی قسم کی سختی ہوتی تھی دیکھتے تھے فوراً مواخذہ کرتے تھے‘ سعید بن زیدؓ نے ایک دفعہ دیکھا کہ ذمیوں کو مال گزاری وصول کرنے کے لیے دھوپ میں کھڑا کیا گیا ہے اسی وقت وہاں کے حاکم سے جا کر کہکا کہ میں نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ جو شخص لوگوں کو عذاب دیتا ہے خدا اس کو عذاب دے گا۔ ہشام بن حکیم کو بھی اس قسم کا واقعہ پیش آیا اور انہوںنے اسی وقت حاکم وقت یعنی عیاض ابن غنم کے پاس جا کر ملامت کی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی قول ۲؎ سند میں پیش کیا۔ ایک دفعہ حضرت عمر ؓ نے ایک بوڑھے شخص کو ایک دروازے پر بھیک مانگتے دیکھاا س سے پوچھا کہ تیرا کیا مذہب ہے اس نے کہا کہ یہودی‘ فرمایا بھیک کیوں مانگتا ہے بولا کہ تنگی اورمفلسی کی وجہ سے اورجزیہ کے ادا کرنے کے لیے ۔ حضرت عمرؓ اس کو اپنے ساتھ اپنے مکان پر لے گئے اور کچھ نقد اپنے پا س سے دے کر بیت المال کے افسر کے پاس کہلا بھیجا کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱؎ کتاب الخراج امام ابو یوسف صفحہ ۷۲ ۲؎ کتاب الخراج امام ابویوسف صفحہ ۷۱ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ انظر ھم ھذا و ضرباء فواللہ ما انصفناہ ان کلنا بشبیبۃ ثم تحذلہ عند الھم انما الصدقات للفقرا عو المساکین ھم المسلھون وھذا من المساکین من اہل الکتاب یعنی اس بوڑھے اور اس کے ساتھیوں پر خیال کرو‘ خدا کی قسم یہ انصاف کی بات نہین کہ اس کی جوانی کی کمائی ہم نے کھائی اور اب یہ بوڑھا ہو گیا ہے تو اس کو ہم نکال دیں‘ صدقے کی نسبت جو خدا نے کہا ہے کہ فقیروں اور مسکینوں کو دینا چاہیے تو فقیروں سے مسلمانوں اور مسکینوں سے اہل کتاب مراد ہیں۔ حضرت عمرؓ کی اس ہمدردی اور رحم کا جو ان کو ذمیوں کے ساتھ تھا اس سے بڑھ کر کیا ثبوت ہو گا کہ باوجود اس کے کہ وہ ایک ذمی کے ہاتھوں مارے گئے تھے تاہم ذمیوں کا ان کو خیال تھا کہ وفات کے وقت تین نہایت ضروری وصیتیں کیں ان میں سے ایک یہ تھی کہ ذمیوں کے ساتھ جو اقرار ہیں وہ پورے کیے جائیں‘ ان کی طاقت سے زیادہ کام ان سے نہ لیا جائے اور ان کے دشمنوں کے مقابلے میں ان سے لڑائی کی جائے ۱؎۔ عراق میں حضرت عمرؓ نے جو خراج مقرر کیا تھا۔ اگرچہ نہایت خفیف تھا تاہم ان کو ہمیشہ خیال رہا کہ تشخیص مال گزاری میں ذمیوں پر سختی تو نہیںکی گئی چنانچہ جن لوگوں نے زمین کی پیمائش کر کے جعم تشخیص کی تھی‘ ان کو اکثر بلا کر اس کی نسبت پوچھا کرتے تھے خراج جب آتا تھا تو دس شخص بصرے اور دس شخص کوفے سے طلب کیے جاتے تھے حضرت عمرؓ ان سے اظہار لیتے تھے اور جب وہ چار وں شرعی قسم کھا کر کہتے تھے کہ مال گزاری کے وصول کرنے میں ذمیوں پر سختی نہیں کی گئی ہے تب ان کو تلی ہوتی تھی۔ مسلمانوں کو ذمیوں کے ساتھ جو ہمدردی تھی۔ اس کے لیے اس قسم کے سینکڑوں جزوی مثالیں ملتی ہیں۔ لیکن ان سب کا استقصا نہیں کیا جا سکتا‘ اس لیے ہم ایک ایسے واقعہ پر اکتفا کرتے ہیں جس سے جماعت اسلامی کی عام رائے کا اندازہ ہو سکتا ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱؎ حضرت عمرؓ کے اس قول کو امام بخاری نے اپنی کتا ب میں نقل کیا ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جزیرہ سائپر میں جب سنہ ۲۹ھ میں فتح ہوا تو شر ط یہ ٹھہری کہ وہاں کے لوگ مسلمانوں اور رومیوں کے باہمی معرکوںمیں کسی کا ساتھ نہ دیں گے۔ لیکن سنہ ۳۲ھ میں انہوں نے مسلمانوں کے برخلاف رومیوں کو مدد دی ۔ امیر معاویہؓ نے ان پر چڑھائی کی اور شہر کو فتح کر کے پہلی شرط پر پھر صلح کر لی۔ لیکن وہ اپنی شرارت سے پھر باز نہ آئے اور اس پر ولید بن یزید نے ایک گروہ کو جلاوطنی کی سزا دی ‘ اگرچہ وہ اس سزاکے فی الحقیقت مستحق تھے لیکن ان کی سازش کا ثبوت قطعی نہ تھا تمام مسلمان اور علماء اور فقہا ولید کی اس حرکت پر سخت برہم ہوئے کہ ذمیوں کے ستھ ایسا سلوک کرنا جائز نہیں چنانچہ ولید کے بعد جب اس کا بیٹا تخت خلافت پر بیٹھا تو اس نے ان سب کو واپس بلا لیا اور تمام مسلمانوں نے ولید کی اس کارروائی کی تحسین کی۔ دولت عباسیہ کے زمانے میں وہاں کی رعایا نے پھر بغاوت کا ارادہ کیا اور اس وقت عبدالملک بن صالح گورنر تھا اور بڑے بڑے نامور آئمہ اور فقہا مثلا لیث بن سعد‘ امام مالک ‘ سفیان بن عینیہ ‘ موسیٰ بن اعین ‘ اسمعیل بن عیاش ‘ یحییٰ بن حمزہ ابو اسحق فزاری ‘ مخلد بن حسین وغیرہ موجود تھے۔ عبدالمالک نے ان سب کے پاس استقنا بھیجا اور پوچھا کہ قاعدہ شریعت کی رو سے ان سے کیا سلوک کرنا چاہیے۔ علامہ بلاذری نے فتوح البلدان میں ان آئمہ کے فتوے الگ الگ ان کے الفاظ میں نقل کیے۔ اکثروں کی تو یہی رائے دی کہ ان سے درگزر کرنا چاہیے‘ کیونکہ فقط ارادہ بغاوت سے وہ ذمیت کے حقوق سے محروم ہو گئے ہیں لیکن جن بعض بزرگوں نے سختی کی انکو بھی صرف یہ اجازت دی کہ ان کو سال بھر کی مہلت دی جائے اگر اس مدت میں پورے مطیع ہو جائیں تو بہتر ہے ورنہ ان کو کہہ دیا جائے کہ رومیوں کے ملک میں چلے جائیں۔ یحییٰ بن حمزہ اور ابو اسحاق فزاری و مخلد بن الحسین نے یہ فتویٰ دیا کہ ان لوگوں کے پاسس جس قدر مال و اسباب اور زمین وغیرہ ہے ایک ایک چیز کی دوگنی قیمت بیت المال سے ادا کی جائے اور ان کو کہہ دیا جائے کہ وہ اور کہیںجا کر آباد ہو جائیں۔ اسمعیل بن عیاش نے لکھا ہے کہ وہ بیچارے رومیوں کے مظلوم ہیں۔ اس لیے ہم کو ان کی مدد کرنی چاہیے۔ ان بزرگوں کے فتوئوں اور رایوں سے بہ آسانی قیاس کیا جا سکتا ہے کہ ذمیوں کے ساتھ اسلام کا کیا برتائو تھا۔ سب سے اخیر بحث ملکی حقوق کی ہے۔ یعنی یہ کہ ذمیوں کو انتظام سلطنت میں کہاں تک دخل تھا لیکن یہ یاد رکھنا چاہیے کہ شرو ع سے اس بحث میں ہمارے مخاطب عیسائی ہیں جن کا یہ دعویٰ ہے کہ اسلام غیر مذہب والوں کے ساتھ ظالمانہ برتائو کا حکم دیتا ہے اس لیے ہم ملکی حقوق کی بحث میں یورپ کے نظام سلطنت سے موازنہ کریں۔ کیونکہ عیائیوں کے نزدیک عدل و انصاف‘ تہذیب و شائستگی کا معیار یورپ کے اصول حکومت ہے۔ سب سے مقدم امر یہ ہے کہ ملکی حقوق کی نسبت یورپ کی مہذب سے مہذب حکومتوں نے فاتح و مفتوح میں جو حد فاصل قائم کی ہے وہ اسلامی حکومتوں نے کبھی نہیںکی۔اسلا م نے یا اسلامی حکومتوںنے کبھی یہ قاعدہ نہیں بنایا کہ جو شخص ولایت زانہ ہواس کو فلاں قسم کے حقوق نہیںمل سکتے یا فلاں فلاں عہدے فاتح قو م کے افراد کے ساتھ مخصوص ہیں۔ اسلام کے آغاز میں ملکی اور فوجی عہدے مختلف نہ تھے جو شخص صوبہ کا گورنر ہوتا تھا وہی سپہ سالار بھی ہوتا تھا۔ یہاں تک کہ جو لوگ منصب قضا پر مامور ہوتے تھے وہی ضرورت کے وقت فوج کے جنرل مقرر ہو کر بھیج دیے جاتے تھے تہذیب اور شائستگی کے تاریخ دان اس بات کو بخوبی جانتے ہیں کہ سلطنت جب اول اول قائم ہویت ہے تو اس کے مختلف صیغے مدت تک باہم مختط رہتے ہیں جس قدر تمدن زیادہ ترقی کرتا جاتاہے اسی قدر تقسیم عمل کا اصول زیادہ عمل میں آتا جاتا ہے ار ہر ہر صیغہ جدا جدا صورت پکڑتا جاتاہے اسی کلیہ کے موافق اسلام کے ابتدائی زمانہ میں بھی اس قسم کا اختلاط و التباس رہا اور اس کا یہ لازمی نتیجہ تھا کہ مفتوح قومیں ملکی انتظامات میں کم شامل ہو سکیں کیونکہ اس وقت تک جس قدر ملکی عہدے تھے ان میں فوجی مہمات بھی شامل تھیں اور اس وجہ سے غیر قومیں خود ان پرخطر خدمات کو گوارا نہیں کرتی تھیں۔ اس موقع پر یہ امر قابل استفسار ہ کہ اگر غیر قوموں نے خودفوجی خدمتوں کوقبول کرنا چاہا تو الام نے ان کی خواہش کا کہاں تک لحاظ رکھا۔ اور جواب یہ ہے کہ اسلام نے بے تکلف ان کی درخواست منظور کی حضرت عمرؓ کے وقت میں بار ہا یہ موقعے پیش آئے کہ عیسائیون اور آتش پرستوں نے باوجود اپنے مذہب پر قائم رہنے کے فوجی خدمتوں میں شامل ہونے کی درخواست کی اور حضرت عمرؓ نے نہایت خوشی سے ان کی درخواست منظور کر کے ان کو وہ تمام حقوق دیے جو مسلمانوں کو حاصل تھے لیکن ناظرین کو یہ توقع نہیں رکھنی چاہیے کہ ہم اس موقع پر ان واقعات کی تفصیل بھی بیان کر یں گے ورنہ الفاروق کے لیے کیا رہ جائے گا۔ بہرحال اسلام کے ابتدائی زمانے میں وہ خدمتیں اور عہدے جن میں فوجی حیثیت بھی شامل تھی ذمیوں کو کم ملے لیکن جس صیغے میں اس حیثیت کا لگائو نہ تھا وہ ذمیوں کے لیے کھلا رہا بلکہ حق یہ ہے کہ خاص ان ہی کے قبضہ اختیار میں رہا خراج اور مال گزاری کے محکموں اور دفتر پر عموماً عیسائی اور آتش پرست قابض تھے یہاں تک کہ اس دفتر کی زبان بھی لاطینی اور فارسی و قبطی رہی ۔ شام میں سنہ ۸۷ھ تک دفتر خراج لاطینی زبان میں تھا اور اس وقت انتسنسااس نامی ایک عیسائی اس محکمہ کا افسر تھا۔ عراق کا دفتر حجاج بن یوسف کے زمانے میں فارسی سے عربی میں منتقل ہوا اور وہ بھی ا وجہ سے کہ دفتر خراج کے امیر منشی نے جو آتش پرست تھا اور جس کا نام فرخ زاد تھا مغرورانہ یہ دعویٰ کیا تھا کہ عربی زبان اس قابل نہیں کہ حساب کے تمام جزئیات کو ادا کر سکے۔ رفتہ رفتہ جب تمدن نے زیادہ ترقی کی اور ملکی اور فوجی صیغے میں فی الجملہ امتیاز ہواتو ذمیوں کو ملکی صیغے میں بار بار ہونے لگا سب سے پہلے اس کی ابتدا امیر معاویہ ؓ کے عہد میں ہوئی یعنی ابن آثال ایک عیسائی حمص کا فنانشل کمشنر اوروہاں کا حاکم مقرر ہوا ۱؎۔ رفتہ رفتہ کوئی بڑے سے بڑا منصب اور عہدہ ایسا نہیں رہا جو غیر مذہب والوںکی دسترس سے باہر رہا ہو مذہبی صیگہ چھوڑ کر دربار میں سب سے برے عہدے دو تھے وزارت اور کتابت آج کل کی اصطلاح میں چیف سیکرٹری کے عہدے کے برابر تھی یعنی ہر قسم کے فرامین سلطن اور سلطنت غیر سے مراسلت کا کام اسی سے متعلق ہوتا تھا اور اسی وجہ سے وہ وزیر اعظم کے برابر یا اس سے دوسرے درجہ پر خیال کیا جاتا تھا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱؎ تاریخ یعقوبی ذکر حکومت معاویہؓ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ چنانچہ ابن خلدون نے مقدمہ تاریخ میں جہاں ا س عہدے کا ذکر کیا ہے لکھا ہے کہ انا صاحب ھذہ الخطۃ لابدان یخیر من ارفع طبقات الناس غرض یہ دونوں منصب جو اعلیٰ ترین مناصب تھے ذمیوں کو عطا کیے گئے ۔ عبدالملک بن مروان جو سلطنت بنو امیہ کا دوسرا تاجدا ر تھا اس کا کاتب ابن سرجون ایک عیسائی تھا۔ دولت عباسیہ کے عہدمیں ابواسحاق صابی جو اس منصب پر ممتاز تھا بڑے رتبے کا شخص گزرا ہے۔ اور ابن فلکان وگیرہ نے اس کے فضل و کمال کی بڑی تعریف کی ہے۔ سلطنت دیلم کاسرتاج عضدولہ جو شہنشاہ کے لقب سے پکارا جاتا تھا۔ اس کا وزیر اعظم ایک عیسائی تھا جس کا نام نصر بن ہارون تھا۔ یہ تمام خلفاء و سلاطین دنیاوی جاہ و جلال کے ساتھ مذہبی شان بھی رکھتے تھے۔ یورپ کو اس قسم کی بے تعصبی اور فیاضی تک پہنچنے کے لیے ابھی کئی سو برس درکار ہیں۔ ایک امر البہ قابل لحاظ ہے کہ اسلامی حکومتوں میں سول اورملٹری ڈپارٹمنٹ کسی زمانے میں صاف صاف الگ نہیںہوئے۔ اس واسطے جس حد تک ملکی صیغہ میں فوجی حیثیت کا لگائو رہتا تھا ذمی اس ے کم متمتع ہو سکتے تھے لیکن اس کے سوا اور ہر قسم کے مناصب اور عہدے تمام ذمیوں کے لیے کھلے رہتے تھے اورہر زمانے میں سینکڑوں اور ہزاروں عیسائی ‘ یہودی ‘ ہندو ُ آتش پرست سرکاری خدمتوں پر مامور رہے ۔ ہندوستان میں ایک اص تغیر ہوا یعنی یہ کہ ہندوئوں نے کثرت سے فوجی خدمتیںقبول کیں اورفوج میں بہت بڑا حصہ ان کا تھا اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہندوئوں نے ہر قسم کے بڑے بڑے ملکی عہدے حاصل کے ۔ ناواقف ہندو یہ خیال کرتے ہیں کہ یہ فیاضی صرف اکبر کے ساتھ مخصوص تھی اور یہاس کی مادری حیثیت کا اثر تھا لیکن یہ ان کی تاریخی جہالت کا نتیجہ ہے۔ جہانگیر ‘ شاہجہان یہاں تک کہ عالمگیر جس کو نہایت متعصب خیال کیا جاتا ہے سب نے ہندوئوں کو بڑے بڑے عہدے دیے شاہ جہان کے دربار میں سب سے بڑا منصب نہ ہزاری تھا یعنی وہ ارکان سلطنت جن کو نو ہزار سواروں کے رکھنے کی اجازت تھی اس سے اتر کر ہفت ہزاری اور اس عہدے پر مہاتخان خان خاناں ممتازتھا اس کے نیچے پنج ہزاری دچار ہزاری وغیرہ تھے۔ چنانچہ اس درجہ کے مناصب پر مسلمانوں اور ہندوئوں کی تعداد قریب قریب برابر تھی ہم نہایت اختصار کے ساتھ یہاں اس قسم کے ہندو عہدہ داروں کی فہرست لکھتے ہیں جس کو ہم نے شاہجہان کی سرکاری تاریخ شاہجہان نامہ سے انتخاب کیا ہے۔ راناجگت سنگھ پنج ہزاری راجہ پتھل داس چار ہزاری گج سنگھ پنج ہزاری بھارت بندیلہ چار ہزاری جے سنگھ پنج ہزاری راڈ سور چار ہزاری رائو رتن ہاد پنج ہزاری جگد یو رائے چار ہزاری جھجار سنگھ پنج ہزاری ہمیر رائے چار ہزاری مالوجی دکنی پنج ہزاری ادواجی رام پنج ہزاری بہادر جی پنج ہزاری ان کے علاوہ گیارہ ہندو افسر دو ہزاری ‘ بارہ ڈیڑھ ہزاری‘ سولہ ایک ہزاری ‘ آٹھ نہ صدی گیارہ ہشت صدی‘ آٹھ ہفت صدی تھے اور ان کے نیچے کے عہدہ دار تو بے شمار تھے۔ ان تمام واقعات کے ثابت ہونے کے بعد دنیا خود اس کا فیصلہ کر سکتی ہے کہ اسلام اور مسلمانوںنے غیر قوموں کے ساتھ کیا سلوک کیا تھا۔ ٭٭٭ الجزیہ غیر مذہب والوںنے ہمیشہ اس لفظ کو نہایت ناگواری سے سنا ہے ان کا خیال ہے کہ اسلام اس لفظ کا موجد ہے۔ اسلام ہی نے یہ اصول پیدا کیا جس سے اس کا مقصد مسلمانوں اور غیر مذہب والوں میں نہایت متعصبانہ اور نامناسب تفرقہ قائم کرنا تھا ان کا خیال ہے کہ جزیہ ایک ایسا جبر تھا جس سے بچنے کے لیے اسلام کا قبول کر لینا بھی گوارا کیا جا سکتا تھا اور اس وجہ سے وہ جبراً مسلمان کرنے کا ایک قوی ذریعہ تھا لیکن یہ تمام غلط خیالات ان ہی غلط فہمیوں سے پیدا ہوئے ہیں جو غیر قوموں کو اسلام کی نسبت ہیں ہم اس موقع پر تین حیثیتوں سے جزیہ پر بحث کرنی چاہتے ہیں۔ (۹۱ جزیہ میں کس زبان کالفظ ہے اور کن معنوں میں استعمال ہوتا ہے (۲) ایران اور عرب میں جزیہ کی بنیاد کب سے قائم ہوئی (۳) اسلام نے اس کو کس مقصد سے اختیار کیا۔ پہلی بحث جزیہ گو اب مصطلحہ معنی میں خاص ہو گیا ہے لیکن لغت کی رو سے وہ خراج اور جزیہ کے لیے یکساں موضوع ہے قاموس میں ہے الجزیۃ خراج کارض ومایوخذ من الزمی جوہری و صاحب قاموس نے اس لفظ سے اصل و اشتقاق سے چھ بحث نہیں کی صاحب کشاف نے اس کو جزی سے مشتق خیال کیا ہے اصل یہ ہے کہ غیر زبانوں کے جو الفاظ عربی میںمستعمل ہو گئے ہیں ان کی نسبت ہمارے مصنفین اکثر غلطی کرتے ہیں تعجب یہ ہے کہ خاص اس قسم کے الفاظ نہایت استیعاب سے جمع کیے گئے ہیں اور یہ فن لغت کی ایک مشہور شاخ بن گئی ہے تاہم جو کتابیں اس موضوع پر لکھی گئی ہیں مثلاً شفا العلیل وغیرہ ان سے صاف ظاہر ہوتاہے کہ ان کے مصنفین غیر زبانوں کے ماہر نہ تھے منجنیق اور صوفی صاف یونانی الفاظ ہیں جن کی اصل مکانک اور سوف ہے لیکن ہمارے علمائے لغت منجنیق کی اصل من چہ نیک بتاتے ہیں اور صوفی کو صوف س ماخوذ سمجھتے ہیں جو اصل میں ایک قسم کا کپڑا ہوتا ہے اس قسم کے اور سینکڑون الفاظ ہیں۔ غیر زبانوں کے الفاظ اور مصطلحات کے متعلق نہایت صحیح اور مستند کتاب جو عربی زبان میں لکھئی گئی ہے وہ مفاتیض العلوم ہے یہ کتاب صاحب کشف الظنون کا ماخذ ہے اورعلامہ مقریزی نے اس کی نسبت لکھا ہے کتب جلیل القدر ا س میں جزیہ کی نسبت لکھا ہے کہ وجزاء رئوس اہل الذمۃ جزیۃ وہو معرب گزیت وھو الخراج بالفارسیۃ؎۱ یعنی ذمیوںسے جو جزیہ لیا جاتا ہے یہ معرب لفظ ہے جس کی اصل گزیہ ہے اور اس کے معنی فارسی میں خراج کے ہیں۔ فارسی لغت نویسوںنے لغت میں تصریح کی ہے کہ جزیہ اسی کا معرب ہے برہان قاطع میں ہے گزیت اول و کسر ثانی زرے باشد کہ حکام ہر سالہ از رعایا گیر ندو آنر اخراج ہم گوئند وزرے رانیز گویند کہ از کفار ذمی ستاننا نظامی گوئید ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱؎ دیکھو کتاب مذکور مطبوعہ یورپ صفحہ ۵۹ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ گہشن خاقان خراج چیں فرستد گہش قیصر گزیت دیں فرستد دانچہ شہرت دروبہ کسر اول و فتح ثالث است و معرب آں جزیہ باشد‘ فرہنگ جہانگیری کے مصنف نے دوسرے معنی میں حکم سوزونی کا یہ شرع سندا نقل کیا ہے۔ کتاب خویش بخو اہم درد عمل نکنم کہ تا گزیت رسانند ناخوار اہل کتاب اور یہ بھی لکھا ہے کہ جزیہ اسی کا معرب ہے۔ ہم کو اس میں ذرا بھی شبہ نہیں ہے کہ جزیہ اصل میں فارسی کا لفظ ہے تصریحات لغتت کے علاوہ تاریخی قرینہ نہیات قوی مموجود ہے یہ مسلم ہے کہ اسلام سے پہلے عرب میں جزیہ کا لفظ مستعمل ہو چکا تھا یہ بھی مسلم ہے کہ فارسی میں گزیت کالغت اسی معنی میں قدیم سے شائع ہے تاریخی شہادتوں سے جیسا کہ ہم آئندہ بیا ن کریں گے ثابت ہے کہ نوشیروان نے جزیہ کے قواعد مقرر کیے تھے اور اس زمانہ میں نوشیروان کے عمال یمن اور مضافات یمن پر منسوب تھے ۔ اس طرح گزیت کا لفظ قانونی طور پر عرب میں پھیلا اور معرب ہو کر جزیہ ہو گیا۔ یہ عام قاعدہ ہے کہ محکوم ملک میں جب فرماں روا زبان کے الفاظ دخل پانے لگتے ہیں تو سب سے پہلے وہ الفاظ آتے ہیں جو سلطنت کے قانوی لفظ ہوتے ہیں زبان عرب میں جس قدر فارسی الفاظ معرب ہو کر شائع ہو گئے ہیں کسی اور زبان کے نہیں ہوئے اس پر طرہ یہ کہ جزیہ کا لفظ معرب ہونے کے لیے گویا پہلے ہی آمادہ تھا صرف ایک حرف کی تبدیل اور دوایک تغیر سے وہ عربی قالب میں پورا اتر گیا۔ دوسری بحث جہاں تک ہم کو معلوم ہے کہ ایران و عرب میں خراج و جزیہ کے وہ قواعد جو بادتی تغیر اسلام میں رائج ہیں نوشیروان کے عہد میں مرتب ہوئے امام ابو جعفر طبری جو بہت بڑے محدث اور مورض تھے نوشیروان کے انتظامات ملکی بیان میں لکھتے ہیں۔ والزم الناس الجزیۃ ماخلا اہل البیوتات والعظماء والمقاتک والھرابذہ والکتاب ومن کان فی خدمۃ الملک و صبروھا علی طبقات اثنی عشرو ھما واثمانیۃ و ستۃ واربعۃ ولم یلز مواالجزیۃ من کان اتی لہ من السن دون العشرین اوفوق الحسین ؎۱ ’’یعنی لوگوں پر جزیہ مقرر کیا گیا جس کی شرح ۱۲ درہم اور ۸‘۶‘ ۴ تھی لیکن خاندانی شرفا اور امرء اور اہل فوج اور پیشوایان مذہب اور اہل قلم اور عہدہ داران دربار جزیہ سے مستثنیٰ تھے اور وہ لوگ بھی جن کی عمر ۵۰ س زیادہ یا ۲۰ سے کم ہوتی تھی۔‘‘ امام موصوف اس واقعہ کو بیان کرنے کے بعد لکھتے ہیں۔ وھی الوضایع اللتی اقتدی بھا عمر بن الخطاب حسین افتتح بلاد الفرس ’’یعنی حضرت عمرؓ نے جب فارس کو فتح کیا تو ان ہی قاعدوں کی تقلید کی ‘‘۔ علامہ ابو حنیفہ دنیوری بھی کتاب الاخبار الطوال میں بیعنہ اس تفصیل کو نقل کیا ہے ۔۲؎ جس غرض سے نوشیروان نے جزیہ کا قاعدہ جاری کیا تھ ا اس کی وجہ علامہ طبری نے نوشیروان کے اقوال سے یہ نقل کی ہے کہ اہل فوج ملک کے محافظ ہیں اور ملک کے لیے اپنی جانیں خطرے میں ڈالتے ہیں‘ اس لیے لوگوں کی آمدنی سے ان کے لیے ایک خاص رقم مقر ر کی گئی کہ ان کی محنتوں کا معاوضہ ہو۔ خراج و جزی کے متعلق جو کچھ ان مورخوں نے لکھا ہے اس کی تائید فردوسی کے اشعار سے بھی ہوتی ہے اگرچہ بعض امور میں دونوں کا بیان مختلف ہے ہم ان اشعار کو اس موقع پر نقل کرتے ہیں: ہمہ پادشاہان شدند انجمن زمین رابسنجیدہ و برزو سن گزیتے نہادند بریک ورم گرایدون کہ دہقان بنودے وژم گزیت و زبار ورشش ورم بخرماستان برہمیں زد رقم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱؎ تاریخ کبیر طبری جلد ۲ ص ۹۶۲ ۲؎ دیکھو کتاب مذکور صفحہ ۷۷۳ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کسے کش ورم بود و دہقان نبود نبودے غم و رنج کشت دررود گزارندہ از دو در تا چہار بہ سالے از دبستدے کاردار دبیر پر ستندہ شہریار نہ بودے بہ دیوان کسے راشمار دونوں روائتوں کے فرق کو ناظرین خود سمجھ سکتے ہیں۔ تیسری بحث اسلام نے جو انتظام قائم کیا اس کی رو سے ہر مسلمان فوجی خدمت کے لیے مجبور کیا جا سکتا ہے یہ قاعدہ کچھ آصان قاعدہ نہ تھا اور لوگ اگر ذرا بھی اس سے بچنے کا حیلہ پا جاتے تھے تو اس سے فائدہ اٹھانا چاہتے تھے چنانچہ ایک بار جب جزیرہ سسلی میںمکتب کے معلم اس جبر سے بری کر دیے گئے تو سینکڑوں آدمیوں نے اور کام چھوڑ کر یہی پیشہ اختیار کر لیا ۱؎ اس لحاظ سے کل مسلمان فوجی خدمت رکھتے تھے اور ضرور تھا کہ وہ جزیہ سے اسی طرح بری رہیںجس طرح نوشیروان عادل نے عموماً اہل فوج کو اس جزیہ سے بری کر رکھا تھا۔ لیکن غیر مذہب والے جو اسلامی حکومت کے ماتحت تھے اور جن کی حفاظت مسلمان کو کرنی پڑتی تھی انکو فوجی خدمت پر مجبورکرنے کا اسلام کو کوئی حق نہ تھا نہ وہ لوگ ایسی پر خطر خدمات کے لیے راضی ہو سکتے تھے اس لیے ضرور تھا کہ وہ اپنی محافظت کے لیے کوئی معاوضۃ دیں اسی معاوضہ کا نام جزیہ تھا جو فارسی لغت سے معرب کیا گیا تھا لیکن اگر کسی موقع پر غیر قوموں نے فوج میں شریک ہونا یا شرکت کے لیے آمادہ ہونا گوراہ کیا تو وہ جزیہ سے بری کر دیے گئے جیسا آئندہ تاریخی شہادت سے ثابت کریں گے‘‘۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱؎ دیکھو معجم البلدان یاقوت حموی ذکر صفلیہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جزیہ کا معاوضہ حفاظت ہونا علمی و عملی طور سے ہمیشہ رہا ہے اور سچ ہے کہ کہ اسی خیال نے اکثر اہل لغت کو اس طرف متوجہ ہونے نہ دیا کہ جزیہ فارسی زبانکا لفظ ہے وہ سمجھتے کہ یہ لفظ جزا سے نکلا ہے جس کے معنی بدلے کے ہیں اور چونکہ یہ بھ ایک معاوضہ اور بدلہ ہے لہٰذا اس مناسبت سے اس کا نام جزیہ رکھا گیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم و خلفائے راشدین کے جو معاہدے تاریخوں میں منقو ل ہیں ان سے عموماً پایا جاتا ہے کہ جزیہ ان لوگوں کی محافظت کا معاوضہ تھا جو خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے والی ایلہ کو فرمان جزیہ کا تحریر فرمایا تھا اس میں یہ الفاظ مندرج فرمائے یحفظو اریمنعو یعنی ان لوگوں کی حفاظت کی جائے اور دشمنوں سے بچائے جائیں ۱؎ حضرت عمرؓ نے وفات کے قریب جو نہایت ضروری وصیتیں کی تھیں ان میں ایک یہ بھی تھی کہ غیر مذہب والے جو ہماری رعایا ہیں وہ خدا اور رسول کی ذمہ داری میں ہیں اور مسلمانوں کو ان کی طرف سے ان کے دشمنوں سے مقابلہ کرنا چاہیے اس موقع پر ہم بعض معاہدات اصلی الفاظ مٰں نقل کرتے ہیں جن سے نہایت صاف اور مصرح طور پر ثابت ہوتا ہے کہ جزیہ صرف حفاظت کا معاوضہ تھا اور غیر مذہب والے جو مسلمانوں کی رعایا تھے یہی سمجھ کر یہ معاوضہ ادا کرتے تھے۔ ھذا کتاب من خالد بن الولید لصلو ابن نسطو نا وقومہ ان عاھد تکم علی الجزیہ والمنعۃ فلک الذمۃ والمنعۃ مامنعنا کم فلنا الجزیۃ والا فلا کتب سنۃ اثنتی عشرۃ فی صفر ؎۲ ’’یہ خالد بن ولید کی تحریر ہے کہ صلوبا بن نسطونا اور اس کی قوم کے لیے میں تم سے معاہدہ کیا ہے جزیہ اور محافظت پر‘ پس تمہاری ذمہ داری او ر محافظت ہم پر ہے جب تک ہم تمہاری محافظت کریں ہم کو جزیہ کا حق ہے ورنہ نہیں سنہ ۷۲ ھ صفر میںلکھا گیا ہے۔‘‘ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱؎ دیکھو فتوح البلدان ہلاذری صفحہ ۵۹ ۲؎ تاریخ کبیر ابوجعفر جریر طبری مطبوعہ یورپ جزر خام صفحہ ۴۸ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عمالان اسلام نے عراق عرب کے اضلاع میں وہاں کے باشندوں کو جو عہد نامے لکھے اور جن پر بہت سے صحابہ کے دستخط تھے ان کے متقط الفاظ یہ ہیں: براۃ لمن کان من کذاوکذا من الجریبی اللتی صالحھم علیھا الامیر خالد بن الولید وقد قبضت اللذی صالحھم علیہ خالد والمسلمون لکم ید علی من بدل صلح خالد ما اقد رتم بالجزیۃ وکنتم امانکم امان وصلحکم صلح ونحن لکم علی الرفاء ؎۱ ’’ان لوگوں کے لیے جنہوں نے اس کی تعداد کا جزیہ دینا قبول کیا ہے جن پر خالد بن ولید نے ان سے مصالحت کی ہے۔ یہ برات نامہ ہے خالد اور مسمانوں نے جس کی تعداد پر صلح کی وہ ہم کو وصول ہوئی اور جو شخص خالد کی صلح کو بدلنا چاہے اس کو تم لوگ مجبور کر سکتے ہو۔ بشرطیکہ جزیہ ادا کرتے رہو تمہاری امان امان ہے اور تمہاری صلح صلح یعنی جس سے تم صلح کرو ہم بھی صلح کریںگے اور جس کو تم امان دو گے ہم بھی امان دیں گے۔‘‘ اس کے مقابلے میں عراق کی رعایا نے یہ تحریر لکھی۔ اذا قدا دینا الجزیۃ اللتی عاھدنا علیھا خالد علی ان یمنعونا و امیر ھم البغی من المسلمین وغیرھم (طبری صفحہ مذکور) ’’ہم نے وہ جزیہ ادا کر دیا جس پر خالد نے معاہدہ کیا تھا اس شرط پر کہ مسلمان اور نیز تمام قومیں اگر ہم کو گزند پہنچانا چاہیں تو جماعت اسلام اور ان کے افسر ہماری حفاظت کے ذمہ دار ہوں گے‘‘۔ ان تحریری معاہدوں کے علاوہ جہاں جہاں صحابہؓ نے دعوت اسلام کی جزیہ کی نسبت یہی خیال ظاہر کیا۔ مثلا سنہ ۱۴ ھ میں یزرگرد کے پاس جب صحابہؓ گئے تو نعمان بن مقرن نے جو سفارت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱؎ تاریخ طبری صفحہ ۵۴ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کے سردار تھے گفتگو کے خاتمہ پر کہا کہ وان اتقیمو نابالجزاء قبلنا و منعناکم یعنی اگر جزیہ ادا کرنے کے ذریعے سے جان بچائو گے ت وہم قبول کریں گے اورتم کو تمہارے دشمنوں سے بچائیں گے‘ یا جب سپہ سالار فارس سے گفتگو ہوئی تو حذیفہ بن مھن نے کہا او الجزاء وعنعکم ان احتجتم الی ذلک یعنی یا جزیہ دو اس صورت میں جب تم کو ضرورت ہو گی تو ہم تمہاری حفاظت کریں گے۔ یہ معاہدے اور تقریریں صرف زبانی باتیں نہ تھیں بلکہ ہمیشہ ان پر عمل کیا گیا۔ ابوعبیدہ جراحؓ نے شام میں جب متواتر فتوحات حاصل کیں تو ہرقل نے ایک عظیم الشان فوج مسلمانوں پر حملہ کرنے کے لیے تیار کی مسلمانوں کو اس کے مقابلے میں بڑی مستعدی سے بڑھنا پڑا ان کی تمام قوت و توجہ فوجوں کی ترتیب میں مصروف ہوئی اس وقت حضرت ابوعبیدہ امین افسر فوج نے اپنے تمام عمالوں کو جو شام کے مفتوحہ شہروں پر مامور تھے لکھ بھیجا کہ جزیہ و خراج جہا ں جہاں وصول کیا گیا ہے سب ان لوگوں کو واپس دے دو جن سے وصول ہوا تھا۔ اور ان سے کہہ دو کہ ہم نے تم سے جو کچھ لیا تھا اس شرط پر لیا تھا کہ تمہارے دشمنوں سے تمہاری حفاظت کر سکیں لیکن اب اس واقعہ کے پیش آنے کی وجہ سے ہم تمہاری حفاظت کا ذمہ نہیں اٹھا سکتے۔ حضرت ابوعبیدہؓ کے خاص الفاظ جن میں عیسائیوں سے خطاب ہے یہ ہیں: انما داد ناعلیکم اموالکم لانہ قد بلغنا ما جمع لنامن الجمو ع وانکم قد اشترطتم علینا نا نمنعکم وانا لا فقدر علی ذلک وقدر دونا علیکم مااخذنا منکم عیسائیوں نے مسلمانوں کو دل ہی دل میں دعا دی اور کہا کہ خدا پھر تم کو ہمارے شہروں کی حکومت دے رومی ہوتے تو اس موقع پر واپس دینا تو درکنار جو کچھ ہمارے پاس تھا وہ بھی لے لیتے چنانچہ سب سیپہلے اس حکم کی تعمیل حمص میں ہوئی جہاں حضرت ابوعبیدہؓ خود مقیم تھے انہوں نے حبیب بن مسلمہ کو بلا کر کہا کہ کچھ زمیوں سے وصول ہو ا ہے سب ان کو واپس کر دو‘ اس کے بعد ابوعبیدہ دمشق میں آئے اور سوید بن کلثوم کو اس کام پر مقرر کیاکہ ذمیوں سے جس قدر رقم وصول ہوئی ہے سب ان کو واپس کر دی جائے ۱؎ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱؎ دیکھو کتاب الخراج قاضی ابو یوسف صفحہ ۸ فتوح البلدان صفحہ ۱۳۷ و فتوح الشام ازدی صفحہ ۱۳ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ان سب باتوں کے علاوہ یہ امر اس دعویٰ کی دلیل میں ہے کہ اگر کسی غیر قوم نے فوجی خدمت پر رضامندی ظاہر کی تو اسی طرح جزیہ سے بری رہے جس طرح خود مسلمان۔ حضرت عثمانؓ کے زمانے میں جب حبیب بن مسلمہ نے قوم جراجمیہ ۱؎ پر فتحپائی تو ان لوگوں نے فوجی خدمتوں میں بوقت ضرورت شریک ہونا خودپسند کیا اوراس وجہ سے وہ تمام قوم جزیہ سے بری رہی۔ نہ صرف جراجمہ بلکہ بہت سے نبطیوں اور ان کے متصل کی آبادیوں نے یہ امر اختیار کیا اور جزیہ سے بری رہیں خلیفہ واثق باللہ عباسی کے زمانے میں وہاں کے عامل نے غلطی سے ان لوگوں پر جزیہ لگا دیا تو انہوںنے خلیفہ کو اطلاع دی اور دربار خلافت سے ان کی برات کا حکم صادر ہوا ۲؎ ۔ جزیہ کا معاوضۃ حفاظت ہونا ا قدر صاف صاف ظاہر کر دیا گیا تھا کہ معاہدوں میںیاہں تک تصریح کر دی جاتی تھی کہ ذمی اگر صرف ایک سال فوجی خدمت میں شریک ہوں گے تو اس سال کا جزیہ چھوڑ دیا جائے گا چنانچہ خود حضرت عمرؓ کے زمانے میںکثرت سے یہ معاملہ پیش آیا عتبہ بن فرقد نے جب آذر بائیجان فتح کیا تو معاہدے میں یہ الفاظ لکھے ۔ علی ان یودوالجزیۃ قدر طاقتھم ومن حشر منھم فی سنۃ عنہ جزاء تلک السنۃ یعنی صلح اس شرط پر ہوئی کہ جزیہ ادا کریں اور جو شخص کسی سال لڑائی میںبلایا جائے گاتو اس سال کا جزیہ معاف کر دی اجائے گا اسی طرح حضرت عمرؓ کے زمانے میں جب آرمینیہ کے بعض حصے فتح ہوئے تو سپہ سالار نے معاہدے میں یہ الفاظ لکھے۔ ان ینفرو لکل عازۃ و ینفز و الکل امر ناب اولم نیب راہ الوالی صلاحا علی ان توضع الجزاء عن اجاب الی ذلک ومن استغنیٰ عنہ منھم وقد فعلیہ مثل ما علی اھل آذر بائیجان من الجزاء یعنی صلح اس شرط پر ہوئی کہ یہ لوگ جب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱؎ ایک عیسائی قوم تھی او ر شہر جراجمہ اوراسکے مضافات میں آباد تھی معجم البلدان میں اس کا ذکر تفصیلا ً لکھا ہے ۲؎ فتوح البلدان بلاذری صفحہ ۵۹ ا و ۱۶۱ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لڑائی پیش آئے یا کوئی ضرورت پیش ہو تو مسلمانوں کے ساتھ شریک ہوں اس صورت میں ان پر جزیہ نہیں لگایا جائے گا۔ لیکن جس شخص کی ضرورت ہو اور وہ بیٹھ رہے تو اسکو آذر بائیجان والوں کی طرح جزیہ ادا کرنا پہو گا۔ اسی معاہدے میں یہ لفظ بھی ہے اور وہ صاف صاف ہمارے دعوئے کی توضیح ہے ۔ والحشر عوض من جزائھم یعنی لڑائی میں ذمیوں کا شریک ہونا جزیہ کا قائم مقام ہے۱؎ ۔ خود حضرت عمرؓ نے متعدد دفعہ یہ احکام بھیجے تھے کہ اگر کسی ذمی سے اتفاقیہ کسی مقعہ پر مد لو تو اس سال کا جزیہ چھوڑ دو حضرت عمرؓ کے زمانے میں جرجان وغیرہ ممالک میں جو معاہدہ ہوا اس میں یہ الفاظ تھے ومن استعنابہ منکم فلہ جزائہ فی معونتہ عوضا عن جزائہ یعنی ہم اگر کسی ذمی سے اعانت لیں گے تو اس اعانت کے بدلے جزیہ چھو ڑ دیا جائے گا۔ (۱) معاہدات میں تصریح کہ جزیہ کے عوض میں ہم تمہاری اندرونی و بیرونی حفاظت کے ذمہ دار ہیں (۲) جب حفاظت پر قدرت نہ ہو تو جزیہ واپس کر دینا (۳) جو قومیں فوجی خدمت پر آمادہ ہوں ان کو جزیہ سے بری رکھنا کیا ان واقعات کے ثابت ہونے کے بعد بھی شبہ رہ سکتاہے کہ جزیہ کا مقصد وہی تھا جو ہم نے تیسری بحث کے آغاز میں بتایا تھا۔ جزیہ کے مصارف یہ تھے کہ لشکر کی آراستگی سرحد کی حفاظت ‘ قلعوں کی تعمیر ان سے بچاتو سڑکوں اور پلوں کی تیاری سررشہ تعلیم بے شبہ اس طرح اس خاص رقم سے مسلمانوں کوبھی فائدہ پہنچتا تھا اور پہنچنا چاہیے تھا۔ مسلمان لڑائیوں میں شریک ہوتے جانیں لڑاتے ملک کو تمام خطروں سے بچاتے تھے پس جس طرح ان کے جسم و جان سے ذمی رعایا مستفید ہوتی تھی اگر ذمیوں کے مال سے مسلمانوں کو بھی فائدہ پہنچتا تھا تو کیا بے جا تھا اس کے علاوہ صدقہ کی رقم جو خاص مسلمانون سے وصول کی جاتی تھی اس میںذمی رعایا برابرکی شریک تھی حضرت عمرؓ فاروق ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱؎ تاریخ کبیر طبری ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نے بیت المال کے داروغہ کو کہلابھیجا تھا کہ خدا کے اس قول میں انما الصدقات للفقراء والمساکین (صدقات فقیروں اور مسکینوں کے لیے ہیں) مسکینوں سے عیسائی اوریہودی مراد ہیں ۱؎۔ جزیہ کی رقم زیادہ سے زیادہ بیس روپے سالانہ تھی کسی کے پا س لاکھوں روپے ہوں تواس س یزیادہ دینا نہیںپڑتا تھا عام شرح چھ روپے اور تین روپے سالانہ تھی بیس برس سے کم اور پچاس برس سے زیادہ عمر والے اور عورتیں مفلوج‘ معطل العضو نابینا‘مجنوں مفلس یعنی جس کے پاس دو سو درہم کم ہوں یہ لو گ عموماً جزیہ سے معاف تھے اب ہم پوچھتے ہیں کہ ایسا ہلکا ٹیکس جس کی تعداد اس قدر قلیل تھی ‘ جس کے ادا کرنے سے فوجی پر خطر خدمت سے نجات مل جاتی تھی جس کی بنیاد نوشیروان عادل نے ڈالی تھی کیا ایسی ناگوار چیز ہو سکتی ہے۔ جیسی کہ اہل یور نے خیال کی ہے کیا دنیا میں ایک شخص بھی اس سے بچنے کے لیے اپنا مذہب چھوڑا ہو گا کیا کسی نے اپنے مذہب کو ایسے ہلکے ٹیکس سے بھی کم قیمت سمجھا ہو گا؟ اگر کسی نے ایسا کیا سمجھا تو ہم کو اس کے مذہب کے ضائع ہونے کا رنج بھی نہ کرنا چاہیے جو لوگ جزیہ ادا کرتے تھے ان کو اسلام نے جس قدر حقوق دیے کون حکومت اس سے زیادہ دے سکتی ہے۔ لیکن چونکہ ہمارے مضمون کے عنوان سے یہ بحث کسی قدر دور پڑ جاتی ہے اس لیے ہم اس موقع پر یہ بحث نہیں چھیڑنی چاہتے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱؎ کتاب الخراج امام ابویوسفؒ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ٭٭٭ اختلاف اور مسامحت آج کل قوم کے تنزل اور ادبار کے مسئلہ پر جب بحث کی جاتی ہے توتنزل کا سبب سے بڑا سبب جو قرار دیاجاتا ہے وہ آپس کا اختلافہے ہر شخص کو نظر آتا ہے کہ مسلمانوں میں اس سرے سے اس سرے تک یہ عام مرض پھیلا ہوا ہیہ شیعہ ‘ سنی ‘ مقلد ‘ غیر مقلد‘ وہابی‘ بدعتی معتزلہ حال (نیچری) بیسیوں فرقے ہیں پھر ان میں الگ الگ جتھے ہیں جن میں سے ہر ایک دوسرے کو گمراہ اور بددین کہتا ہے ل۔ ارباب بریلی دیوبند ندوہ سب حنفی ہیں لیکن بریلی والوں کے نزدیک دیوبند اورندوہ دونون کافراس تفرق اس اختلاف اس بوقلمونی کے ساتھ کوئی قوم کیونکر زندہ رہ سکتی ہے؟ یہ حالت پیش آئے تو ایک کوہ گراں کی بھی دھجیاں اڑ جائیں چونکہ اس خیال کا اثر ایک بہت بڑے قومی اور تاریخی مسئلہ پر پڑتا ہے اس لیے ہم اس پر تفصیل سے بحث کرنا چاہتے ہیں۔ اس مسئلہ کے طے کرنے کے لیے امور ذیل کا فیصلہ کرنا چاہیے۔ (۱) کیا زمانہ سلف میں اختلاف نہ تھا؟ (۲) اختلاف کے ساتھ اتحاد ممکن ہے یا نہیں؟ پہلے امر کے لیے ہم کو اس زمانہ پر نظر ڈالنی چاہے جب آفتاب اسلام کی دوپہر تھی جب ایک طرف تیغ و سنان نے اسپین اور سندھ کے ڈانڈے ملا دے تھے اور دوسری طرف صریر قلم نے مصر و یونان کے خفہ علوم وفنون کو جگا دیا تھا اس وقت قدری جبری معتزلی جہمی وغیرہ وغیرہ اس قدر بے شمار فرقے تھے کہ بہ مشکل ان کو ۷۳ کے عدد میں محسور کیا گیا ان فرقوں مٰں جو اختلاف تھا اس کی کیفیت یہ ہے کہ ایک دوسر ے کا کافر بلکہ کافر سے بدتر کہتا تھا اورگمراہ و مرتد و زندیق کہناتو معمولی بات تھی۔ معتزلہ قرآن مجید کو مخلوق اور حادث کہتے تھے اس مسئلہ کی نسبت محدثین اہل سنت کے یہ اقوال ہیں جو امام بیہقی نے کتاب الاسماء و الصفات میںنقل کیے ہیں۔ وکیع بن الجراح من زعمران القرآن محدث فقر کفہ جس کا خیال ہے کہ قرآن مخلوق ہے وہ کافر ہے۔ یزید بن ہارون من زعمران کلام اللہ مخلوق نھو والذی لاالہ الا ھو زندیق جو یہ سمجھتا ہے کہ کلام الٰہی مخلوق ہے خدائے یکتا کی قسم وہ زندیق ہے۔ امام بخاری نظرت فی کلام الیھود والنصاری والمجوس فما رایت قوما اضل فی کفوھم من الجھمیۃ ؎۱ میںنے یہودیوں اور عیسائیوں مجوسیوں سب کا کلام دیکھا ہے کوئی کفر میں اس قدر گمراہ نہیں جس قدر جہمیہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱؎ کتاب مذکور مطبوعہ الہ آباد ص ۱۷۹۰ تا ۱۹۳ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اشعری ‘ ماتریدی ‘ حنبلی ‘ محدثین سب اہل سنت والجماعت ہیں اور سب ایک دوسرے کو برحق سمجھتے ہیں تاہم جب ان میں سے ایک اپنے عقائد کا ذکر دوسرے کے مقابلہ میں کرتاہے تو ا س کا نام اس طریقہ سے لیتا ہے تمہید ابو شکور سالمی ۱؎ حنفیوں کی علم عقائید کی مشہور و مستند کتاب ہے اس میںلکھا ہے : قال بعضھم بانا نعرف اللہ تعالیٰ بالرسول وھو قول الاشعری وقال اہل السنتۃ والمجماعۃ انا نعرف الرسول باللہ تعالیٰ (تمہید مطبوعہ دہلی صفحہ۸۰) ’’بعض کہتے ہیں کہ ہم خدا کو رسول کے ذریعہ سے جانتے ہیں اور یہی اشعری کا قول ہے اور اہل سنت والجماعہ کا یہ قول ہے کہ رسول کو خدا کے ذریعہ سے جانتے ہیں‘‘۔ امام بزودی نے علم کلام میں جو کتاب لکی ہے جس کا قلمی نسخہ ہمارے پیش نظر ہے اسمیں بھی یہی طریقہ اختیار کیا گیا ہے ۔ علامہ ذہبی مشہو رمحدث ہیں ان کے بعد کوئی ا ن کا ہمسر نہیں پیدا ہوا ان کی نسبت علامہ ابن السبکی طبقات میںلکھتے ہیں: ھذا شیخنا الذھبی لہ علم ودیانۃ وعندہ علی اہل السنۃ عحمل مفرط فلایجوز ان یعتمد علیہ وھد شیخنا و معلمنا غیران الحق احق بالاتباع ؎۱ ’’یہ ہمارے استاد ذہبی عالم ہیں متدین ہیں بااینہمہ اہل سنت سے نہایت تعصب برتتے ہیں‘ اس لیے ا ن پر اعتما دنہیں ہو سکتا اوروہ ہمارے شیخ اور معلم ہیں لیکن حق بات پیروی کیے جانے کی زیادہ مستحق ہے‘‘۔ علامہ ابن عبدالبر جو مشہور محدث گزرے ہیں اور جن کی شرح موطائے امام مالک پر شروح موطا میں سب سے بہتر ہے انہوں نے اپنی کتاب جامع بیان العلم میں جو سنہ ۱۳۲۰ھ میں قاہرہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱؎ کتاب حفنیوں کی علم کلام کی مشہور اور مسلم کتاب ہے ۲؎ الرفع و التکمیل مصنفہ مولانا عبدالحئی لکھنوی صفحہ ۱۲۰ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں چھاپی گئی ہے ایک خاص باب باندھا اس کا اقتباس ہم اس موقع پر نقل کرتے ہیں۔ فمن مغیرۃ عنحماد انہ ذکر اہل الحجان فقال سالتھم فلم یکن عندھم شئی واللہ یصانکم منھم بل صبیان صبیانکم وعن الزھری قال مارایت قوما انقض لمری الاسلام من اہل مکۃ وھذا بن الشھاب (ای الزھری) قد اطلق علی اھل مکۃ فی زمانہ انھم ینقضون عدی الاسلام ما استثنیٰ منھم احدائو فیھم من اجلۃ العلاماء من لا خفاء بجلالۃ فی الدین واظن ذالک واللہ اعلم لماروی عنھم فی الصرف ومتعۃ النساء وروی علی بن مسھر عن ہشام بن عروۃ عن ابیہ قال قالت عائشۃ ماعلم انس بن مالک و ابوسعید الحذری بحدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وانما کانا غلامین صغیر ین وعن ابن وھب مالک و ذکر عندہ اہل العراق فقال انزلوھم منزلۃ اہل الکتاب لا تصد قوھم ولا تکذبوھم ’’مغیرہ سے مروی ہے اور مغیرہ حمادسے روایت کرتے ہیں ہ انہوں نے اہل حجاز کا تذکرہکیا تو کہاکہ میں نے ان لوگوں سے سوالات کیے تو ان کے پاس کچھ نہ تھا‘ خدا کی قسم تمہارے بچے ان سے زیادہ علم رکھتے ہیں بلکہ تمہارے بچوں کے بچے بھی‘ زہر ی سے مروی ہے کہ میں نے کسی قوم کو اہل مکہ سے زیادہ شیراز ہ اسلام کو منتشر کرنے والا نہیںدیکھا ابن شہاب زہری نے اپنے زمانہ کے اہل مکہ کے متعلق کہاکہ وہ اسلام کے شیرازہ کو منتشر کرتے ہی‘ زہری نے ان میں سے کسی وک مستثنیٰ نہ کیا حالانکہ ان میں بڑے بڑے علماء موجود تھے جن کی مذہبی عظمت و جلالات مخفی نہیں میں گمان کرتا ہوں کہ زہری نے یہ اس لیے کہا کہ اہل مکہ سے مسئلہ صرف اور متعہ مروی ہے علمیی بن مسہر نے ہشام بن عروہ سے روایت کی ہے کہ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا کہ انا بن مالک اور ابو سعید خذری نے حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کو کچھ نہیں جانا‘ وہ دونوں چھوٹے بچے تھے اور ابن وہب سے مروی ہے کہ امام مالک کے سامنے اہل عراق کا تذکرہ ہوا تو انہوں نے فرمایا کہ اہل عراق کو اہل کتاب کی طرف سمجھو نہ ان کا تصدیق کرو نہ تکذیب‘‘۔ اختلاف کے ساتھ اتحاد اوپر کی آیتوں سے تم کو معلوم ہو گا کہ عین ترقی اسلام کے زمانہ میں اختلاف عقائد کی کیا حالت تھی لیکن اس وقت لوگ اس نکتہ کو سمجھ رہے تھے اور سمجھتے تھے کہ اختلاف کے ساتھ بھی مشترکہ اغراض میں اتحاد ممکن ہے۔ اس نکتہ کی تلقین خود قرآن مجید نے کی تھی۔ وان جاہداک علی ان تشرک بی مایس لک بہ علم فلا تطعھا اوجھما فی الدنیا معروفا ’’اگر وہ دونوں (ماں باپ) یہ کوشش کریں تو ہمارا شریک اس چیز کو بنائے جس کاتجھ کو علم نہیں تو ان کا کہنا نہ مان لیکن دنیا میں ان سے اچھی طرح پیش آئیں‘‘۔ اس آیت کا مفہوم یہ ہے کہ مثلاً ایک شخص مسلمان ہے اور اس کے ماں باپ مشرک اور کافر ہیں وہ چاہتے ہیں کہ اپنے بیٹے کو بھی مشرک اورکافر بنا لیں اس حالت میں خدا حکم دیتا ہے کہ کفر اور شرک میں ان کاکہنا نہیں تسلیم کرنا چاہیے لیکن اس سے ان کے حقوق پدری زائل نہیں ہو جاتے اس لیے دنیاوی معاملات میں ان کا ادب و لحاظ اسی طرح ملحوظ رکھنا چاہیے جو عموماً والدین کا حق ہے۔ ا س آیت نے بتا دیا کہ اختلاف اور اتفاق کے دو الگ الگ ہیں۔ یہ ممکن ہے کہ مذہب کے معاملہ میں اختلاف ہو اور دوسرے معاملات میں اتحاد ی اصول پر عمل کیا جائے قرون اولی میں اس اصول پر عمل رہا مثالیںہم ذیل میں لکھتے ہیں جن سے یہ مسئلہ اچھی طرح ذہن نشین ہو سکے گا۔ (۱) اوپر گزر چکا کہ محدثیں قدریہ‘ جبریہ‘ معتزلہ ‘ شیعہ وغیرہ کو اہل بدعت اور اہل ہوا کہتے تھے۔ ان کو گمراہ اور… سمجھتے تھے بااینہمہ دین کا نہایت اہم کام یعنی حدیث کا روایت کرنا ان سے جائز سمجھتے تھے فن حدیث کا یہ ایک مسئلہ ہے کہ فرقہائے باطلہ سے حدیث روایت کرنا جائز ہے یا نہیں یعنی مثلاً اگر ایک حدیث آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہو جس کے سلسلہ روایات میں معتزلی کیا شیعہ وغیرہ ہوں تو یہ حدیث معتبر ہو گی یا نہیں اس مسئلہ کے متعلق اکثر ائمہ حدیث کا یہی فتویٰ ہے کہ ان میں سے خطابیہ کے سوا جن کے مذہب میں جھوٹ بولنا جائز ہے باقی اور فرقوں سے روایت کرنا جائز ہے فتح المغیث شرح المفتیہ الحدیث میں ابن حبان کا قول نقل کیا ہے۔ لیس بین اہل الحدیث من ایمتنا خلان فی ان الصدوق المتقن اذا کانت فیہ بدعۃ ولم یکن یدعو الیھا ان الاحتجاج باخبارہ جائز ؎۱ ’’ہمارے آئمہ میں سے محدثین کے نزدیک اس امر میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ اگر راست گو صاحب حافظ بدعتی ہولیکن اپنی بدعت کی طرف لوگوں کو بلاتا نہیں تو اس کی روایت سے دلیل لانا جائز ہے ‘‘۔ اس کتاب میں حاکم نیشاپوری کی تاریخ نیشاپور سے نقل کیاہے۔ ان کتاب مسلم ملان من الشیعہ ؎۲ ’’امام مسلم کی کتاب شیعہ رواۃ سے بھری ہوئی ہے۔ علامہ ابن الصلاح کا قول ہے۔ فان کتبھمطافحۃ بالردایہ عن المتبدعۃ غیر الدعاۃ ؎۳ ’’محدثین کی تصنیفات غیر داعی بدعتیوں کی روایت سے پر ہیں‘‘۔ ابراہیم بن یحییٰ امام شافعی کے استاد تھے ان کا مذہب قدرمی تھا۔ اس لیے جب امام شافعی ان سے روایت کرتے تھے تو کہتے تھے کہ یہ حدیث مجھ سے ایسے شخص نے روایت کی جس کا دین ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱؎ کتاب مذکور طبع لکھنو صفحہ ۱۴۱ ۲؎ کتاب مذکور صفحہ ۱۴۲ ۳؎ ایضاً ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مشکوک ہے لیکن روایت صحیح کرتا ہے خطیب بغدادی اسی قول کو نقل کرکے لکھتے ہیں۔ ان ھذا مذہب بن ابی لیلیٰ و سفیان الثوری و نحوہ عن ابی حنیفہ بل حکاہ الحاکم فی المدخل عن اکثرایمۃ الحدیث ؎۱ ’’یہ ابن ابی لیلی اور سفیان ثوری کا مذہب ہے اور اس کے مثل ابوحنیفہ سے مروی ہے بلکہ یہی مذہب حاکم نے مدخل میں اکثر آئمہ حدیث کا نقل کیا ہے۔‘‘ امام شافعی کتاب الامام میں لکھتے ہیں: فلم نعلم من سلف الایمۃ من یقتدی بہ ولا من بعد ھم من التابعین رد شھادۃ احد بتاویل و ان خطاء و ضللۃ وراہ استحمل ماحرم اللہ علیہ (فتح المغیث صفحہ ۱۴۳) ’’ہم نہ گزشتہ آئمہ میں جن کی اقتدا کی جاتی ہے اورنہ ان کے بعد کے علمائے تابعین میں سے کسی کو جانتے ہیں جس نے کسی تاویل سے کسی کی شہادت رد کر دی ہے گو وہ اس کو گنہگار یا گمراہ کیوں نہ قرار دیتا ہوں یا اس کے متعلق یہ کیوں نہ سمجھتا ہو کہ اس نے خدا کی حرام کی ہوئی چیزوں کو حلال کر دی‘‘۔ علامہ ذہبی میزان الاعتدال میں ابن تغلب کے ذکر میں لکھتے ہیں : ان البدعۃ علی ضربین فبدعۃ صغریٰ کغلو التیشع او کا لتشیع بلا غلو و لا تحرف فھذا اکثر فی التابعین و تابعیھم مع الذین والدوع وا لصدق فلور و حدیث ھولاء لذھب جملۃ آثار النبویۃ وھذہ مفسدۃ بینۃ … فالشیعی الغالی فی زمان السلف و عرفھم ھو من تکلم فی عثمان والزبیر و طلحۃ ومعاویہ و طائفۃ ممن حارب علیا رضی اللہ عنھم و تعرض بسبھم والغالی فی زماننا و عرفنا ہو الذی یکفر ہولاء ویترا من الشیخین ایضاً فھد اضال مغرور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱؎ ایفۃ الحدیث صفحہ ۱۴۱ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ’’بدعت کی دو قسمیں ہیں بدعت صغیر جیسے شیعیت میں شدید ہونا یا شیعیت بغیر شدت… یہ شیعیت تابعین و تبع تابعین میں بہت سے باوجود اس کے ان میں مذہب تقویٰ اور صدق ہے اگر ان لوگوں کی حدیثیں رد کر دی جائیں تو آثار نبوی کا ایک حصہ جاتا رہے گا اوریہ خرابی ظاہر ہے شدید شیعی سلف کے زمانہ میں اور اصطلاح میں وہ شخص ہے جس کا حضرت عثمانؓ ‘ زبیر ‘ طلحہ‘ معاویہ میں اور اس گروہ میں جس نے حضرت علیؓ سے جنگ کی کلام ہو اوران کو برا کلہتا ہو اور ہمارے زمانہ میں اور ہماری اصطلاح میں شدید شیعی وہ ہے جو ان لوگوں کی تکفیر کرتا ہے اور نیز شیخین سے بیزاری ظاہر کرتا ہے یہ شخص گمراہ اور فریب خوردہ ہے‘‘۔ اس قسم کے سینکڑوں اقوال ہیں جن کا شمار نہیں ہو سکات یہ مسئلہ اس اصول کی بنا پر ہے ہک مذہبی اعتقاد اور راست گوئی الگ باتیں ہیں ممکن ہے کہ ایک شخص کے عقائد اچھے ہوں لیکن کاذب الروایت ہو اسی طرح یہ ممکن ہے کہ ایک شخص کے عقائد خرب ہوں لیکن دروغ گونہ ہو محدثین کی یہ انتہا کی مکتہ سنجی حقیقت شناسی اور بے تعصبی ہے کہ وہ عقیدہ کے لحاظ سے ایک شخص کو بدعقیدہ گمراہ سمجھتے ہیںلیکن اگر ان کے تجربہنے ثابت کر دیا کہ وہ جھوت نہیں بولتا تو اس سے بے تکلف حدیث سیکھتے ہیں۔ روایت کرتے ہیں۔ اور اس کی شاگردی کا اعتراف کرتے ہیں۔ قتادہ ایک مشہور محدث گزرے ہیں ۔ ان کی نسبت علامہ ذہبی نے میزان الاعتدال میں لکھا ہے کہ : ماکان قتادۃ یرضیٰ حتی یصبح بہ صیاحا یعنی القدر قال ابن عروبہ والد مستوائی قال قتادۃ کل شئی بقدرالا المعاصی قلت مع ھذا اعتقاد الردی ماتا خراحد ان الاحتجاج بحدیثہ اللہ یسامحھ (تذکرہ الحفاظ مطبوعہ حیدر آباد جلد اول صفحہ ۱۱۰) ’’قتادہ کو قدر کوز زور و شور کے ساتھ چلا کے کہے بغیر چین نہیںآتا تھا۔ ابن ابی عرویہ اور دستوائی کہتے ہیں کہ قتادہ کا قول تھا کہ ہر چیز کی تقدیر ہو چکی ہے لیکن گناہ میں کہتا ہوں کہ اس اعتقاد فاسد کے باوجود کوئی ان کی حدیث کے ساتھ حجت لانے سے با ز نہ رہا خدا ان کو معاف کرے‘‘۔ (۲) اسی اصول کا یہ نتیجہ تھا کہ نصاب تعلیم میں مخالف فرقہ کے لوگوں کی مذہبی کتابیں بھی داخل تھیںہر شخص جانتا ہے ک زمخشری معتزلی تھا اور اس نے قرآن شریف کی جو تفاسیر کشاف کے نام سے لکھی اس میں اپنے عقائد کہیں صریحاً اور کہیں اشارۃً داخل کیے تاہم یہ کتاب ابتدا سے آج تک جو ہمارے علماء کے درس اور مطالعہ میں رہی علماء کو یقین تھاکہ ادب عربیت معانی و بلاغت کے لحاظ سے یہ کتاب لاجواب ہے۔ اس لیے اس کی عام خوبی سے انکار نہیں کر سکتے تھے۔ البتہ جہاں جہاں زمحشری نے اپنے عقائد کا اظہار کیا ہے وہاں تنبیہ کر دیتے تھے کہ یہ معتزلہ کے عقائد ہیں۔ (۳) عقلی اورادبی علوم میں اختلاف عقائید کا مطلق اثر نہ تھا علوم عقلیہ میں جو لو گ امام فن مانے جاتے ہیں قریبا کل آج کل کے نقطہ نظر سے خارج المذہب ہیں اورکم از کم فاسد العقیدہ تھے فارابی اور بو علی سینا افلاک کو قدیم مانتے تھے محقق طوسی‘ غالی شیعہ تھے چنانچہ تجرید میں خلفائے راشدین کے مطاعن نہایت تفصیل سے لکھے ہیںفن بلاغت کے تمام ارکان یعنی جاحظ عبدالقادر جرجانی سکاکی ‘ معتزلی تھے نحو کاسب سے اعلیٰ درجہ مصنف رضی شیعہ ہے۔ فنون ریاضیہ یعنی اقلیدس اور حساب کا تمام تر مدار محقق طوسی کی تصنیفات پر ہے باایں ہمہ تمام علمائے اہل سنت و جماعت ان ہی کتابوں کوپرھتے پڑھاتے اوران ہی کو اپنا ماخذ اورمرجع قرار دیتے آئے اور ان کے نام کے بجائے‘ ان کو شیخ ‘ محقق ‘ معلم ثانی‘ امام کے لقب سے یاد کرتے ہیں ماتہ عامل کا مشہور شعر ہے۔ عامل اندر نحو صد باشد چنیں فرمودہ اند شیخ عبدالقادر جرجانی پیر ہدیٰ (۴) سب سے بڑھ کر یہ کہ اہل سنت و جماعت مخالفین مذہب کے پیچھے نما ز پڑھنا جائز نہیں سمجھتے تھے اورپڑھتے تھے گو بعض لوگو ں نے اس کی مخالفت بھی کی ہے لیکن عام فتویٰ یہی رہا کہ سب کے پیچھے نماز جائز ہے۔ امام نودی جو مشہور محدث تھے انہوں نے لکھا ہے ۔ ولم یزک السلک والخلف علی الصلوۃ خلف المعتزلۃ وغیرھم ؎۱ ’’اور سلف و خلف کا اس پر برابر اتفا ق رہا کہ معتزلہ وغیرہ کے پیچھے نما ز پڑھان جائز ہے‘‘۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱؎ فتح المغیث ص ۱۴۳ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عبدالعلی بحر العلوم ارکان اربعہ میں لکھتے ہیں: واما انہ لا یجوز الصلوۃ خلف منکو الشفاعۃ لا ھل الکبائر وامنکرا لردیۃ وعذاب القبر ومنکر اکرام کاتبی لانہ کافر لتوارث ھذہ الاموں من الشارع ولا یصلی خلف منکر المسح علی الحفین و المشبھۃ وامثالھا من تشویشات المتاخرین مخالفۃ لما علیہ القدما ء من الایمۃ المجتحدین فلا بلتفت الیھا فضلا عن ان یفتی بھا (ارکان اربعہ مطبوعہ مطبع سعیدی کلکتہ ص ۱۹۵ ‘ ۱۹۶) ’’باقی یہ امر کہ جو شخص شفاعت کبائر اور رویت اور عذاب قبر اور کراما کاتبین کامنکر ہو اس کے پیچھے اس وجہ سے نماز ناجائز ہے کہ یہ امور شارع سے بتواتر ثابت ہیں اس لیے ا کا منکر کافر ہے۔ اور یہ امر کہ مسح خفین کا جو منکر ہو اس کے پیچھے اور مشبہ کے پیچھے نماز ناجائز ہے تو یہ اور قسم کی باتیں متاخرین کی تشویشات میں سے ہیں اور ائمہ مجتہدین کے خلاف ہیں ان کی طرف التفات بھی نہیںکیا جا سکتا چہ جائیکہ ان پر فتویٰ دیا جائے‘‘۔ ٭٭٭ اختتام۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔The End