مقالات شبلیؒ جلدچہارم مرتبہ مولانا سید سلیمان ندوی ؒ طبقات ابن سعد ہم نہایت فیاض دلی سے اس بات کو تسلیم کرتے ہیں،کہ یورپ کو آج کل ہمارے علوم وفنون کے ساتھ جو اعتنا ہے،اور جس طرح وہ ہمارے خزانوں کے بیش بہا نوادر ڈھونڈ ڈھونڈ کر جمع کر رہا ہے۔ہم خود نہیں کرتے، بلکہ نہیں کر سکتے۔مسلمانوں کو یہ بھی معلوم نہیں کہ آج تک یورپ نے عربی کی کون کون سی نا یاب کتابیں نہایت اہتمام کے ساتھ چھاپ کر شائع کی ہیں۔انشا اللہ ہم کسی آئندہ پرچہ میں اس کے متعلق ایک مفصل مضمون لکھیں گے۔ اس وقت ہم جس کتاب کا تذکرہ کرناچاہتے ہیں۔ وہ طبقات ابن سعد ہے ، جو ہمارے مضمون کا عنوان ہے۔ یہ کتاب مشہور محدث ابن سعد کی تصنیف ہے۔ابن سعد اگر چہ واقدی کے شاگرد تھے۔ لیکن تمام محدثین نے تصریح کی ہے کہ وہ اپنے استاد کے خلاف ثقہ اور صادق الروایہ تھے۔ اس کتاب میں انہوں آنحضرت صلی اللی علیہ وآلہ وسلم سے لے کر اپنے زمانے تک کے لوگوں کے تراجم اور حالات لکھے ہیں۔یہ کتاب 12 ضنخیم جلدوں میں ہے۔ لیکن قوم کی بد مذاقی سے اس کا کامل نسخہ کسی مقام پر نہیں پایا جاتا۔ ہم نے قسطنطنیہ اور مصر کے کتب خانے دیکھے ہیں،جرمنی کے ایک مشہور فاضل نے جس کا نام ۱؎مولانا کا اس پر کوئی مضمون نہیں نکلا ،لیکن اندوہ جلد ۲ نمبر ۸ میں مولانا ابو الکلام کا مضمون ’’مسلمانوں کا ذخیرہ علوم اور یورپ۔‘‘ اور اسی رسالہ کی جلد ۸ اور ۹ میں میرے مسلسل مضامین مستشرقین یورپ پر نکلے ہیں، جن سے مولانا کے مضمون کی غرض پوری ہو گئی ہے۔ ( سید سلیمان) پرو فیسر ساخو ہے۔اس کتاب کے چھاپنے کا ارادہ کیا اور اس کے نسخوں کو بہم پہنچانے کی فکر کی۔ شہشاہ جرمنی کو جب یہ حال معلوم ہوا تو انہوں نے پورے ایک لاکھ روپے اس کتاب کے مصارف کے لئے شاہی خزانے سے عطا کیے۔پروفیسر موصوف نے کتاب کی تلاش میں مصر اور یورپ کے تمام کتب خانوں کو چھان ڈالا۔چنانچہ بڑی جد وجہد سے اس نے متعدد نسخے پیدا کیے۔اور نسخوں کی تصحیح اور مقابلہ شروع کیا۔مدت کی محنت کے بعد اس نے ایک جلد چھاپ کر شائع کی۔جو اس وقت ہمارے سامنے ہے۔ باقی جلدیں وقتا فوقتا شائع ہو ں گی۔ یہ جلد تین سو صفحوں میں ہے۔اور ہر صفحے میں28 سطریں ہیں۔ٹائپ میں نہایت در آورد لیکن نہایت صاف اور پاکیزہ چھپی ہے۔اس جلد میں فقط ان صحابہؓ کے حالات ہیں جو جنگ بدر میں شریک تھے۔ ہمیں یہ دیکھ کر سخت حیرت ہوئی کہ صحابہؓ کے حالات میں متاخرین محد ثین نے بہت سی کتابیں لکھی ہیں، مثلا استعجاب ، اصابہ، اسد الغابہ، لیکن ابن سعد کی کتاب میں جو تفصیل ا ور جامعیت ہے،ان کتابوں کو اس سے کچھ نسبت نہیں،اس سے قیاس ہو تا ہے کہ شاید متاخرین کو یہ کتاب ہاتھ نہیں آئی یا شاید ان کا مذاق ہی ایسا تھا۔کہ اس قدر تفصیلی حالات کو وہ ضروری نہ سمجھے۔ اس کتاب میں ایک ایک جزئی واقعہ کو بہ سند متصل لکھا ہے۔اور چونکہ مصنف کا زمانہ عہد نبوت کے قریب ہے۔اس لیے سلسلہ روایت میں تین چار راوی سے زیادہ نہیں ہوتے۔ یہ کتاب ہمیں ایک انگریز دوست نے تحفۃ بھیجی ہے۔ اس لئے ہمیں اس کی قیمت معلوم نہیں۔البتہ اس قدر معلوم ہے کہ جرمنی میں بمقام بریل چھپی ہے،اور یورپ کے تاجروں سے مل سکتی ہے۔ مناقب عمر بن عبد العزیزؓ (از ابن جوزی) علامہ ابن جوزی جو مشہور محدث گزرے ہیں۔ حضرت عمر فاروقؓ اور حضرت عمر بن عبد العزیزؓ کے حالات میں ایک کتاب لکھی ہے،جس کا نام سیرۃ العمرین رکھا تھا۔ ہم نے یہ کتاب مصر میں کتب خانہ خدیویہ میں دیکھی تھی۔جس سے الفاروق کے لئے بہت سے مفید معلومات انتخاب کیے تھے۔لیکن اس وقت چونکہ حضرت عمر بن عبد العزیز ؓ کے متعلق کوئی خاص ضرورت پیش نہ تھی۔ہم نے دوسرے حصے کو نظر انداز کر دیا تھا۔جہاں تک ہمیں معلوم ہے اس کتاب کا کوئی نسخہ ہندوستان میں موجود نہیں،اس لحاظ سے بار بار افسوس آتا ہے کہ اب اس گنجینہ سے تمتع اٹھانے کی کوئی امید نہیں رہی۔لیکن ہم یورپ کے فضلا کے ممنون ہیں کہ ان کی بدولت اس نادر اور دل چسپ کتاب کو گو اصلی صورت میں نہیں لیکن اس کے قریب قریب دوسرے قالب میں دیکھ سکتے ہیں۔ سلطان صلاح الدین کے زمانہ میں اسامہ بن منقذ ایک عرب سپہ سالار تھا۔ جو فوجی قابلیت کے ساتھ علمی مذاق بھی رکھتا تھا۔اس نے متعدد دل چسپ کتابیں تصنیف کیں۔جن میں سے کتاب العصا اور ایک اور کتاب جس میں مصنف نے اپنے زمانہ کے دل چسپ اور نادر چشم دید واقعات لکھے ہیں۔یورپ میں چھپ کر شائع ہو چکی ہے۔ اسی مصنف نے علامہ ابن جوزی کی کتاب مذکورہ میں دوسرا ٹکڑا جو حضرت عمر بن عبد العزیزؓ کے متعلق تھا، جدا کر کے ایک علیحدہ کتاب کی شکل میں مرتب کیا،اس مصنف نے اصل کتاب میں جو کچھ تصرف کیا۔وہ صرف روایتوں کے اسناد کا خذف کرنا اور مکرر طرق روایات میں سے ایک کو انتخاب کر لینا تھا۔ اس کتاب کو یورپ کے ایک فاضل نے جس کا نام ہنری بیکر ہے، 1900 ء میں چھاپ کر شائع کیا۔ چونکہ یہ کتاب نہایت نایاب اور نہایت دل چسپ معلومات پر مشتمل ہے۔ اس لئے ہم اس پر ایک مختصر سا ریو یو کرنا مناسب سمجھتے ہیں۔ سوانح عمری اور بایوگرافی کا فن آج کل ترقی کی جس حد تک پہنچا ہے۔ اس کی نظیر اگلے زمانہ میں تلاش کرنا بے فائدہ ہے۔لیکن یہ امر تعجب سے دیکھا جا سکتا ہے کہ جس زمانہ میں یہ کتاب لکھی گئی،اس وقت مسلمانوں نے اس فن کو اس حد تک پہنچا دیا تھا کہ اس کتاب میں جو ابواب قائم کیے گئے ہیں۔ان کی تعداد 44 تک پہنچتی ہے۔ان میں سے بعض حسب ذیل ہیں۔ 1 ۔حضرت عمر بن عبد العزیزؓ کی ولادت ۲ ۔نسب ۳۔طلب علم ۴۔ حالات قبل خلافت ۵۔ خلفائے بنو امیہ کے سامنے ان کی حق گوئی۔ ۶۔ خلافت ۷۔ اخلاق وآداب ۸۔ عقائد و مذاہب ۹۔ عدل و انصاف ۱۰۔عمال کی نگرانی۔ ۱۱۔ بنو امیہ کا ان کے طریق عمل سے ناراض ہونا۔ ۱۲۔ لباس ۱۳۔ خظبے اور وعظ ۱۴۔ مسائل علمی کے متعلق ان کی رائے۔ غرض اس طرح اور بقیہ ابواب دل چسپ اور ضروری ہیں۔ سوانح نویسی کے فرائض میں جو بڑا فرض منصف سے رہ گیا ہے۔وہ تنقید ہے۔یعنی مصنف نے اپنے ہیرو کی صرف خوبیاں دکھائی ہیں۔اس کے قول وفعل پر کسی قسم کی نکتہ چینی نہیں کی ہے۔لیکن یہ اس زمانے کے تمام سوانح نگار کا انداز ہے۔مورخین اسلام نے جو کتابیں عام فن تاریخ یا رجال پر لکھی ہیں۔ ان میں محاسن و معائب میں سے ہر واقعہ کا استقصا کیا ہے۔ لیکن خاص خاص اشخاص اور خصوصا مقتدیان مذہب کے حالات میں جو کتابیں لکھی ہیں۔ ان میں معائب کر قلم انداز کر دیا ہے۔امام رازی نے امام شافعی کی جوسوانح عمری لکھی ہے۔ اس میں البتہ امام شافعی پر ہر قسم کے اعتراضات بھی نقل کیے ہیں۔ لیکن بیان واقعہ کی حیثیت سے نہیں ،بلکہ جواب دینے کی غرض سے۔ تاہم مصنفین اسلام آج کل کے فریب دہ طریقے سے بالکل آشنا نہ تھے۔آج کل کی سوانح نگاری کا یہ انداز ہے کہ حقیقت نگاری کے ظاہر کرنے کے لئے ہیرو پر بکتہ چینی کی جاتی ہے۔لیکن اس طرح کہ محاسن کو نہایت وسعت اور عمومیت کے ساتھ ہر پہلو سے دکھایا جاتا ہے۔اور پھر نہایت کمزور اور ضعیٖف الفاظ میں ایک آدھ اعتراض بھی بیان کر دیا جاتا ہے۔ جس سے دراصل مداحی کو اور قوت دینی مقصود ہوتی ہے، کیونکہ اس سے یہ ظاہر کرنا ہوتا ہے کہ مصنف نے واقعہ نگاری کے لحاظ سے کسی واقعہ کو چھپانا نہیں چاہا۔اور اس لئے ممدوح کی چھوٹی سے چھوٹی برائی کا بھی ذکر کر دیا ہے۔ ورنہ ایسے محاسن اور خوبیوں کے مقابلہ میں ایک ذرا سی برائی بالکل نظر انداز کر دینے کے قابل تھی۔یہ طریقہ ہماری زبان کے سوانح نگار نے یورپ سے سیکھا ہے۔ اردو کی اعلیٰ سے اعلیٰ سوانح عمری کا یہی انداز ہے۔لیکن یہ طریقہ قدیم طریقہ سے بہت زیادہ قابل اعتراض بلکہ خطرناک ہے۔ قدیم طریقہ صرف سکوت کا مجرم تھا۔ لیکن موجودہ طریقہ در حقیقت خیانت اور خداعی ہے۔ جو واقعہ نگاری سے بہ مراحل دور ہے۔ یہ ایک ضمنی بحث آگئی تھی۔ اب ہم اصل کتاب کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ اس کتاب میں ایک بڑا عیب یہ بھی ہے کہ صحیح اور ثابت شدہ واقعات کے ساتھ بعض لغو اور دور از کار قصے بھی نقل کیے ہیں۔ مثلا یہ کہ حضرت عمر بن عبدالعزیزؓکی خلافت کی پیشین گوئی حضرت خضر علیہ سلام نے کی تھی۔اور ہاتف نے ان کی خلافت کی خوش خبری دی۔اور ان کا نام اگلی آسمانی کتابوں میں مذکور ہے۔ یہ امر اس لئے زیادہ تعجب انگیز ہے کہ مصنف یعنی علامہ ابن جوزی ان محدثین میں سے ہیں،جو حدیث اور روایت کے بارے میں آزاد خیال اور محتاط تھے۔انہوں نے سینکڑوں حدیثوں کو جن کو لوگ مانتے چلے آتے تھے۔ضعیف اور موضوع ثابت کیا ہے۔اور ہزاروں حدیثوں کی صحت سے انکار کیا ہے۔چنانچہ ان کا شمار مشتدوین میں کیا جاتا ہے۔ علامہ مو صوف نے اس کتاب میں حضرت عمر بن عبدالعزیزؓ کے ان حالات کو جو خاص سلطنت سے تعلق رکھتے تھے۔ مثلا ملکی لڑائیاں ،فتوحات، بغاوتیں، عزل و نصب بالکل قلم انداز کر دیا ہے۔ صرف ان باتوں کو لیا ہے جو زیادہ تر ان کے اخلاق اور عدل وانصاف سے واسطہ رکھتی ہیں۔ چنانچہ ہم چند واقعات کواس موقع پر نقل کرتے ہیں۔ ان میں حضرت عمر بن عبدالعزیزؓ کے واقعات اور حالات میں سب سے زیادہ جو چیز قابل لحاظ ہے۔ وہ غیر مذہب والوں کے ساتھ ان کا طرز عمل ہے۔ حضرت عمر بن عبدالعزیزؓ مذہب کی مجسم تصویر تھے۔ مذہبی حیثیت سے ان کو عمر ثانی کا لقب دیا گیا ہے۔ اس لئے غیر مذہب والوں کے ساتھ ان کا جو طرز عمل تھا۔ وہ ان کی شخصی حالت نہیں، بلکہ مذہب اسلام کا اصلی طرز عمل ہے۔ ان واقعات میں سے ہم ایک واقعہ کا ذکر کرتے ہیں۔ ایک دن حضرت عمر بن عبدالعزیزؓ مسند خلافت پر متمکن تھے۔ ایک عیسائی نے جو حمص کا رہنے والا تھا، دربار میں آکر یہ شکایت کی کہ خلیفہ علید بن عبد الملک کے بیٹے عباس نے میری زمین پر زبر دستی قبضہ کر لیا ہے۔ حضرت عمر بن عبدالعزیزؓ نے عباس کی طرف دیکھا۔ اس نے کہا یہ زمین مجھ کو خلیفہ ولید نے بطور جاگیر عطا کی تھی۔ چنانچہ اس کی تحریری سند میرے پاس موجود ہے۔ حضرت عمر بن عبدالعزیزؓ نے عیسائی کی طرف مخا طب ہو کر کہا، تم کیا جواب دیتے ہو؟۔ اس نے کہا امیر المومنین میں خدا کی تحریر قرآن مجید کے مطابق فیصلہ چاہتا ہوں۔ حضرت عمر بن عبدالعزیزؓ نے عباس کی طرف مخاطب ہو کر کہا،خدا کی تحریر تیرے باپ (ولید بن عبد الملک) کی تحریر پر مقدم ہے۔ یہ کہہ کر وہ زمین عباس کے قبضہ سے نکال کر اس عیسائی کو دلا دی۔ ان کا ایک اور کار نامہ جو نہایت قابل قدر ہے۔سلاطین بنی امیہ کی ناجائز کاروائیوں کو مٹانا ہے۔ سلاطین بنی امیہ نے ملک کا بڑا حصہ جو زمین داری کی حیثیت سے رعایا کے قبضے میں تھا۔ اپنے خاندان کے ممبروں کو جاگیر میں دے دیا تھا۔ جس طرح سلاطین تیموریہ کے زمانے میں بڑے بڑے صوبے شاہزادوں کی جاگیر میں دے دیئے جاتے تھے۔ حضرت عمر بن عبدالعزیزؓ تخت خلافت پر بیٹھے تو سب سے پہلے ان کو اس کا خیال ہوا۔ لیکن ایسا کرنا تمام خاندان خلافت کو دشمن بنا لینا تھا۔ تاہم انہوں نے اس کی کچھ پرواہ نہ کی۔ اول اول جب انہوں نے یہ ارادہ کیا تو تمام خاندان نے ام عمر کو جو حضرت عمر بن عبدالعزیزؓ کی پھوپھی تھیں،سفیر مقرر کرکے بھیجا،انھوں نے حضرت عمر بن عبد العزیزؓ کو جا کر کہا۔ کہ تمام خاندان برہم ہے اور مجھ کو ڈر ہے کہ کہیں بغاوت نہ ہو جائے۔اور لوگ ہنگامہ نہ کر دیں۔ حضرت عمر بن عبدالعزیزؓ نے کہا میں قیامت کے سوا اور کسی دن سے نہیں ڈرتا۔ اور وہ مایوس ہو کر چلی آئیں۔ خود حضرت عمر بن عبدالعزیزؓ کے قبضہ میں بھی اسی قسم کی جاگیریں تھیں۔جو ان کے خاندان کو بنی امیہ کی طرف سے عنایت ہوئی تھیں۔ حضرت عمر بن عبدالعزیزؓ نے جب ان جاگیروں کا فیصلہ کرنا چاہا تو بڑے بڑے مذہبی علماء یعنی مکحول ،میمون بن مہران اور ابو قلابہ کو بلایا اور کہا کہ ان جاگیروں کی نسبت آپ کی کیا رائے ہے؟۔ مکحول نے دب کر جواب دیا۔ حضرت عمر بن عبدالعزیزؓ نے میمون کی طرف رخ کیا۔ کہ تم خدا لگتی کہو۔ اس نے کہا اپنے صاحبزادہ عبد الملک کو بلا لیجیئے۔ وہ آئے تو حضرت عمر بن عبدالعزیزؓ نے کہا کیوں عبد الملک تمہاری اس معاملے میں کیا رائے ہے؟۔ انہوں نے کہا سب واپس کر دینی چاہیں۔ورنہ آپ کا شمار بھی ان غاصبوں اور ظالموں میں ہو گا۔ حضرت عمر بن عبدالعزیزؓ نے اپنے غلام سے جن کا نام مزاحم تھا، اور جس کو وہ بہت مانتے تھے۔ کہا کہ لوگوں نے جو زمینیں ہم کو دیں،نہ وہ اس کو دینے کے مجاز تھے۔ اور نہ ہم کو لینے کا حق تھا۔ تمہاری کیا رائے ہے؟۔ مزاحم نے کہا امیر المومنین آپ کو یہ بھی معلوم ہے کہ آپ کے بال بچے کتنے ہیں؟۔یعنی ان کا گزر کیوں کر ہو گا؟۔ حضرت عمر بن عبدالعزیزؓ کی آنکھوں سے آنسو نکل آئے،اور کہا کہ ان کا خدا مالک ہے اور یہ کہا اور گھر میں چلے گئے۔ مزاحم وہاں سے اٹھ کر عبد الملک (فرزند عمر بن عبد العزیز) کے پاس گئے اور کہا بڑا غضب ہوا چاہتا ہے۔ حضرت عمر بن عبدالعزیزؓ تمام جاگیروں سے دست بردار ہونا چاہتے ہیں۔لیکن میں نے ان سے کہا ہے کہ اپنی اولاد کا لحاظ کیجیے۔ عبد الملک نے کہا، استغفراللہ تم نے بہت بری رائے دی۔ یہ کہہ کر عبد الملک حضرت عمر بن عبدالعزیزؓ کے پاس گئے،وہ اس وقت خواب راحت میں تھے۔ پہرہ والے نے کہا تم لوگ امیر المومنین پر رحم نہیں کرتے، دن بھر میں ایک لحظہ تو ان کو آرام لینے دو۔ عبد الملک نے کہا تیری ماں مر جائے تو جا کر ان کو کہہ تو سہی۔ حضرت عمر بن عبدالعزیزؓ کے کانوں میں یہ آواز پڑی۔ عبد الملک کواندر بلا لیا اور کہا جان پدر! یہ کون سا ملاقات کا وقت ہے؟۔ انہوں نے واقعہ بیان کیا۔ حضرت عمر بن عبدالعزیزؓ نے کہا میں نماز ظہر کے بعد منبر پر چڑھ کر اس کا اعلان کردوں گا، عبد الملک نے کہا اس کا کون ذمہ دار ہے کہ آپ اس وقت تک زندہ رہیں گے۔غرض اسی وقت عمر بن عبد العزیز باہر آئے، شہر میں منادی کرا دی گئی کہ لوگ مسجد میں جمع ہوں۔ حضرت عمر بن عبدالعزیزؓ نے منبر پر چڑھ کر کہا صاحبو! میں ان تمام زمینوں کو جو لوگوں نے ہمارے خان دان کو دی تھیں۔ کیونکہ دینے والوں کو نہ دینے کا حق تھا اور نہ ہم کو لینے کا ،یہ کہہ کر جاگیرات کی جو سندیں تھیں،صندوق سے نکلوائیں اور قینچی سے کتر کتر کر ان کو پھینکنا شروع کیا۔ یہ جاگیریںکچھ یمن میں تھیں،جن کا نام مکیدس ،حبل اور ورس تھا،کچھ یمامہ میں تھیں۔چنانچہ سب سے پہلے ان زمینوں سے دست برداری ظاہر کی۔ بنو امیہ نے یہ غضب کیا کہ باغ فدک کو جس کو حضرت فاطمہ زہراؓ کے تقاضے پر بھی حضرت ابو بکر نے اس بنا پر نہ دیا کہ وہ عام مسلمانوں کا حق ہے،اپنا خالصہ بنا لیا تھا۔ حضرت عمر بن عبدالعزیزؓ نے اس کو خاندان رسالت میں منتقل کر دیا۔ خاندان بنو امیہ میں اس کار وائی سے سخت برہمی پیدا ہوئی۔سب نے متفق ہو کر ہشام بن عبد الملک کو حضرت عمر بن عبدالعزیزؓ کے پاس بھیجا،کہ اس فیصلہ پر نظر ثانی کریں۔اور قدما ء جو فیصلہ کر گئے ہیں ،اس کو بحال رکھیں۔ حضرت عمر بن عبدالعزیزؓ نے کہا کہ اگر میرے سامنے ایک فرمان امیر معاویہ کا پیش کیا جائے اور ایک عبد الملک کا تو مجھ کو کس پر عمل کرنا چاہیئے؟۔ ہشام نے کہا جو مقدم ہو، حضرت عمر بن عبدالعزیزؓ نے کہا تو خدا کا فرمان (قرآن مجید) سب پر مقدم ہے۔ حضرت عمر بن عبدالعزیزؓ کو تمام خاندان میں ابن سلیمان سے بہت محبت تھی۔ وہ اپنی جاگیر کی سند لے کر آئے،کہ میری زمین آپ کیوں چیھنتے ہیں۔فرمایا کہ پہلے یہ زمین کس کے قبضے میں تھی، بولے کہ ’’حجاج کے‘‘ فرمایا تو حجاج کی اولاد کا حق ہے۔ تم کون ہوتے ہو؟۔ ابن سلیمان نے کہا،اصل میں یہ زمین عام مسلمانوں کی تھی، حضرت عمر بن عبدالعزیزؓ نے کہا تو عام مسلمانوں کو ملنی چاہیئے،ابن سلیمان رونے لگے۔ مزاحم نے کہا امیر المومنین آپ ابن سلیمان کے ساتھ یہ برتاؤ کرتے ہیں۔‘‘ فرمایا میں ابن سلیمان کو اپنے بیٹے کے برابر چاہتا ہوں، لیکن میں خود اپنے نفس کے ساتھ یہی برتاؤ کر تا ہوں۔ بنو امیہ کے دفتر اعمال میں سب سے زیادہ قوم کو بر باد کر نے والا یہ واقعہ ہے کہ انہوں نے آزادی اور حق گوئی کا استیصال کر دیا تھا۔ عبد الملک نے تخت پر بیٹھ کر حکم دیا تھا کہ کوئی شخص میری کسی بات پر روک ٹوک نہ کرنے پائے،اور جو شخص ایسا کرے گا سزا پائے گا۔اگر چہ اس پر بھی آزادی پسند عرب کی باتیں بند نہ ہوئیں، تاہم بہت کچھ فرق آگیا۔ حضرت عمر بن عبدالعزیزؓ نے اس بدعت کو بالکل مٹا دیا۔ دو نہایت متدین اور راست باز شخص اس کام پر مقرر کیے۔ کہ عدالت کے وقت ان کے پاس موجود رہیں۔اور ان سے جو غلطی سر زد ہو فورا ٹوک دیں۔ان کے اس طرز عمل سے عام لوگوں میں جرات پیدا ہو گئی تھی اور لوگ نہایت بے باکی سے ان کے اقوال وافعال پر نکتہ چینی کرتے تھے۔ آج کل مذہبی جوش اور مذہبی عصبیت کی یہ علامت خیال کی جاتی ہے کہ غیر مذہب کے لوگوں سے نفرت کی جائے۔اور جہاں تک ممکن ہو ان کی تحقیر و تذلیل کی جائے۔ یہاں تک کہ اکثر فقہی کتابوں میں لکھا ہے کہ عیسائی کو گھوڑے کی سواری کی اجازت نہیں دینی چاہیئے۔لیکن لوگوں کو حیرت ہو گی کہ حضرت عمر بن عبدالعزیزؓ جو ہمہ تن مذہب تھے۔ ان کا طرز عمل اس کے خلاف تھا۔ محدث ابن جوزی نے اسی کتاب میں بہ سند یہ واقعہ نقل کیا ہے کہ مسلمہ بن عبد الملک جو خاندان بنو امیہ کا دست وبازو تھا۔ اس نے ایک گرجا کے متوالیو کے بارے میں ایک دعویٰ دائر کیا،فریق مقدمہ جو عیسائی تھا، اجلاس میں حسب قاعدہ کھڑے تھے۔لیکن مسلمہ کو چونکہ خاندانی زعم تھا، اس لئے بیٹھ کر گفتگو کرتا تھا۔ حضرت عمر بن عبدالعزیزؓ نے کہا تمہارا فریق مقدمہ کھڑا ہے۔ اس لئے تم بیٹھ نہیں سکتے، تم بھی اس کے برابر کھڑے ہو جاؤ۔یا کسی اور کو مقرر کرو کہ تمہاری طرف سے مقدمہ کی پیروی کرے۔ مقدمہ کا فیصلہ بھی مسلمہ کے خلاف کیا،یعنی زمین متنازعہ گرجا کے متولیوں کو دلا دی۔ حضرت عمر بن عبدالعزیزؓ اکثر عیسائیوں اور یہودیوں کے مہمان ہوتے تھے۔ لیکن ان کے کھانے کی قیمت دے دیا کرتے تھے۔وفات کے وقت اپنے مقبرہ کے لئے جو زمین پسند فرمائی وہ ایک عیسائی کی تھی۔اس کو بلا کر خریدنا چاہا،اس نے کہا امیر المومنین! قیمت کی ضرورت نہیں ہے، ہمارے لئے تو یہ امر باعث برکت ہو گالیکن انہوں نے نہ مانا اور تیس دینار دے کر وہ زمین خرید لی۔ حضرت عمر بن عبدالعزیزؓ کی حکومت و سلطنت کا اصلی اصول مساوات وجمہوریت تھی۔ یعنی یہ کہ تمام لوگ یکساں حقوق رکھتے ہیں،اور بادشاہ کو کسی پر کسی قسم کی کوئی ترجیح نہیں ہے۔ صرف ملکی امور میں نہیں، بلکہ معاشرت اور ذاتی زندگی میں بھی وہ اس کا لحاظ رکھتے تھے۔ ان کے کھانے کا یہ طریقہ تھا کہ عام مسلمانوں کے لئے جو لنگر خانہ تھا، اس میں ایک درہم (پانچ) روز بھیج دیا کرتے تھے۔ اور وہیں جا کر عام مسلمانوں کے ساتھ کھا لیا کرتے تھے۔ ایک دفعہ رات کے وقت مسجد میں گئے،ایک شخص مسجد کے صحن میں لیٹا ہوا تھا۔ اتفاق سے عمر بن عبد العزیز ؓ کے پاؤں کی ٹھوکر اس کو لگی۔ اس نے جھلا کر کہا کیا تو پاگل ہے؟۔ عمر بن عبد العزیز ؓ نے کہا نہیں، پولیس کے آدمی موجود تھے۔ انہوں نے اس شخص کو گستاخی کی سزا دینا چاہی۔ عمر بن عبد العزیز ؓ نے کہا کیوں اس نے کیا گناہ کیا ہے؟۔ اس نے تو صرف استفسار کیا ہے کہ کیا تم پاگل ہو؟۔ میں نے کہا کہ نہیں۔ عمر بن عبد العزیز ؓ کے صاحب زادوں میں عبد الملک بالکل اپنے باپ کا نمونہ تھے،اور اس لئے یہ ان سے نہایت محبت رکھتے تھے۔ ایک دن عمر بن عبد العزیز ؓ نے میمون بن مہران کو بلا کر کہا کہ میں عبد الملک کو بہت اچھا سمجھتا ہوں۔لیکن غالبا یہ مہر پدری ہے۔ ذرا تم جا کو آزماؤ ،تمہاری کیا رائے قائم ہوتی ہے؟َ وہ عبد الملک کے پاس گئے۔ باتیں ہو رہی تھیں کہ عبد الملک کے غلام نے آکر کہا کہ میں نے انتظام کر دیا ہے۔ میمون نے کہا کیا؟۔ عبد الملک نے کہا میں نے اس کو حکم دیا تھا کہ حمام میرے نہانے کے لئے خالی کرادو۔ میمون نے کہا اللہ اکبر ،میرا خیال تمہاری نسبت بہت اچھا تھا۔ لیکن اب اس خیال میں فرق آگیا ہے۔ تم کو اس کا کیا حق پہنچتا ہے کہ حمام کو اپنے لئے خاص کرا لو اور عام لوگوں کو نہانے سے روک دو، عبد الملک نے کہا میں نے تمام دن کا کرایہ ادا کیا ہے۔ میمون نے کہا یہ تو مشخیت پناہی اور فضول خرچی ہے۔ تم عام مسلمانوں کے برابر ہو۔ انہوں نے کہا کیا کروں ؟۔ لوگ حمام میں ننگے نہاتے ہیں۔اس لئے میں ان کے ساتھ شریک نہیں ہو سکتا، میمون نے کہا تو رات کو نہایا کرو، عبد الملک نے کہا آئندہ ایسا ہی کرو ں گا۔ عمر بن عبد العزیز ؓ جب مرنے لگے تو مسلمہ بن عبد الملک نے کہا وصیت کر جایئے،کہا میرے پاس کیا ہے، جس کی وصیت کروں، مسلمہ نے کہا میں ابھی ایک لاکھ روپے بھیجے دیتا ہوں،جس کو چاہیئے اس میں سے وصیت کیجیئے۔ فرمایا کہ اس سے تو بہتر یہ ہے کہ یہ رقم جن لوگوں سے وصول کی ہے۔ ان کو واپس دے دو، مسلمہ یہ سن کر بے اختیار رو پڑے۔ اس سلسلہ میں یہ امر بیان کر نے کے قابل ہے کہ خلفائے بنی امیہ کی دولت مندی کا یہ حال تھا کہ جب ہشام بن عبد الملک نے وفات پائی تو اس کے ترکہ میں سے صرف اولاد مذکور کو جس قدر نقدی رقم وراثت میں ملی،اس کی تعداد ایک کروڑ دس لاکھ تھی۔لیکن عمر بن عبد العزیز ؓ نے جب وفات پائی تو کل 17 دینار چھوڑے ،جس میں تجہیز وتکفین کے مصارف ادا کرنے کے بعد دس دینار بچے جو ورثہ میں تقسیم ہوئے۔ غرض عمر بن عبد العزیز ؓ کی خلافت اور سلبنت ٹھیک اسی اصول کا نمونہ تھی، جو اسلام نے قائم کیا تھا۔ اور جس کو سلاطین بنی امیہ و عباسیہ میں تلاش کرنا بالکل بے فائدہ ہے۔ یہ لوگ درحقیقت خلیفہ نہ تھے، بلکہ کسریٰ و قیصر تھے۔ (الندوہ جلد ۱ نمبر ۸ ماہ ذی الحجہ ۱۳۲۲ ھجری) بلا غات النسا ء تیسری صدی ہجری کی ایک تصنیف ہے، جس میں عورتوں کی تقریریں اور خطبے جمع کیے گئے ہیں۔ قدما ء کی تصنیفات کی گم شدگی کی وجہ سے اسلامی تمدن، اسلامی اخلاق، بلکہ خود شریعت اسلام کی جو تصویر ہمارے پیش نظر ہے۔ اس قدر اصلیت سے دور ہے کہ اس کے صحیح خد وخال کا تصور کرنا بھی مشکل ہے۔ فرض کریں جو کتابیں ہمارے پیش نظر ہیں،جو روایتیں تم سنتے آئے ہو۔جو حالات آنکھوں کے سامنے ہیں،ان سے پتا لگاؤ کہ اسلام میں جنس اناث کا کیا درجہ ہے؟۔ تو یہ جواب نظر آئے گا کہ ملکی معاملات میں، نظم ونسق میں، شاہی درباروں میں، مناظروں کے معرکوں میں اس جنس لطیف کا گزر تک نہیں، اگر تم سے یہ کہا جائے کہ حضرت علی ؓ اور امیر معاویہ میں جو قیامت انگیز معرکے ہوئے، ان میں خاندانی عورتیں اونٹوں پر سوار میدان جنگ میں پر جوش لیکچر دیتی پھرتی تھیں۔اور ان کی پر اثر تقریریں دلوں میں آگ لگا دیتی تھیں۔ تو کس کویقین آئے آئے گا، لیکن واقعہ یہ ہے کہ اس معرکہ میں متعدد عورتیں تھیں جو رجز خوانوں مقرروں اور کڑکیتوں کا کام دیتی تھیں۔ اور جن کی وجہ سے معرکہ جنگ سرد ہو کر گرم ہو جاتا تھا۔ کس کو خیال تھا کہ عورتیں بھی کسی زمانے میں یہ پوزیشن (درجہ) رکھتی تھیں کہ ان کی تقریریں اور گفتگوئیں قلم بند اور مدون کی جائیں گی۔لیکن اس وقت ہمارے سامنے جو کتاب ہے۔ اور جو ہمارے مضمون کا عنوان ہے، وہ اسی خاص مو ضوع پر ہے۔ یہ کتاب قریبا گیارہ سو برس کی تصنیف ہے۔ مصنف کا نام احمد بن ابی طاہر بغدادی ہے جو 1204 ء میں پیدا ہوا۔ اور جس نے سب سے پہلے بغداد کی تاریخ لکھی۔ یہ کتاب مصر میں چھپ کر شائع ہوئی ہے۔ ضنحامت 200 صفحوں کی ہے،اور چونکہ عبارت بہت مشکل ہے۔ اس لئے کثرت سے حاشیے چڑھائے ہیں۔ قدماء کا طرز تھا کہ واقعہ کو مسلسل اور متصل روایت کے ذریعہ سے بیان کرتے تھے۔ اور یہ طرز حدیث کے ساتھ مخصوص نہ تھا۔ یہ کتاب بھی اسی التزام سے لکھی گئی ہے۔اس سے یہ فائدہ ہوا کہ کبھی روایت میں شک ہو تو اس کی کافی تحقیق ہو سکتی ہے۔ سب سے پہلے اس کتاب میں حضرت عائشہ ؓ کا وہ خطبہ (لیکچر) نقل کیا تھا،جو انہوں نے حضرت ابوبکرؓ کے فضائل میں دیا تھا۔ پھر حضرت فاطمہ زہرا ؓ اور حضرت حفصہ ؓ کے خطبے ہیں۔لیکن انصاف یہ ہے کہ یہ خطبے اعتبار کے قابل نہیں۔ خطبوں میں وہ الفاظ اور وہ خیالات اور وہ طرز ادا پایا جاتا ہے،جو اس زمانے میں سرے سے پیدا نہیں ہوا تھا۔ مثلا حضرت فاطمہ ؓ کے خطبے میں خدا کی نسبت یہ الفاظ ہیں کہ: الممتنع الا بصار رویۃ۔۔۔۔۔ ابتدع الاشیا ء لا من شیء قبلہ۔۔۔۔۔ اس کا آنکھوں سے دیکھا جانا ممتنع ہے۔اس نے تمام چیزوں کو عدم محض سے پیدا کیا۔ یہ ظاہر ہے کہ یہ معتزلہ اور اہل فلسفہ کے متنازع فیہ مسائل ہیں، معتزلہ کہتے ہیں کہ خدا کا دیکھا جانا محال ہے۔ بر خلاف اس کے اہل سنت والجماعت اس کے جواز کے قائل ہیں۔ اھل فلسفہ اس بات کے قائل ہیں کہ خدا نے عالم کو مادہ سے پیدا کیا،لیکن مسلمانوں کا عموما یہ مذہب ہے کہ خدا نے دنیا کو بغیر کسی سابق مادہ کے پیدا کیا۔ عجیب بات یہ ہے کہ حضرت فاطمہ ؓ کے اس قسم کے خطبے میں ہیولیٰ تک کا لفظ موجود ہے۔ شیعہ علما ء کی تمام مستند کتابوں میں منقول ہے۔ حضرت فاطمہ ؓ و حضرت زینب ؓ اور حضرت ام کلثوم ؓ کے خطبہ کے بعد مصنف نے ان عورتوں کے خطبے نقل کیے ہیں، جو حضرت علی ؓ اور امیر معاویہ کے معرکوں میں شریک تھیں۔ ان خطبوں کے ساتھ ان کے متعلق مزید حالات بھی بیان کیے ہیں، جن کو ہم دل چسپی کے لحاظ سے نقل کرتے ہیں۔ زرقا : ایک عورت تھی،جو معرکہ صفین میں شریک تھی، ایک دن امیر معاویہ نے قصہ خوانی کے وقت مصاحبین سے کہا کہ کسی کو زرقا کا خطبہ (لیکچر) بھی یاد ہے۔ حاضرین نے کہا ہم سب کو یاد ہے۔امیر معاویہ نے کہا اس کی نسبت تم لوگوں کی کیا رائے ہے؟۔ سب نے کہا قتل ، امیر معاویہ نے کہا کیا یہ مناسب ہے کہ ایک عورت کو قتل کر ڈالوں۔ یہ کہہ کر کوفہ کے عامل کو لکھا کہ زرقا کو اس کے عزیزوں کے ساتھ بھیج دو،چند سوار بھی اس کے جلوس میں اس کے ساتھ ساتھ آئیں۔عامل نے حکم کی تعمیل کی اور امیر معاویہ کا خط زرقا کو دیا۔ زرقا نے کہا اگر میری مر ضی پر مجھ کو چھوڑ دیا جائے تو مجھ کو جانا منظور نہیں،لیکن حکم ہے تو چلتی ہوں۔عا مل نے ایک اونٹ سواری کے لئے پیش کیا۔ جس کا محمل یمنی چادر سے منڈھا ہوا تھا۔ زرقا بڑی عزت اور احترام سے دربار میں آئی،امیر معاویہ نے مزاج پرسی کے بعد کہا ’’ کیوں وہ موقع یاد ہے،جب تو سرخ رنگ کے اونٹ پر چڑھ کر لوگوں کو لڑائی کے لئے آمادہ کرتی پھرتی تھی۔ زرقا نے کہا ، امیر المومنین! گئی گزری بات ہوئی، یہ زمانہ کا رنگ ہے۔ آج یہ حالت ہے۔ خدا جانے کل کیا ہو گا۔ امیر معاویہ نے کہا اپنا وہ خطبہ بھی یاد ہے۔ زرقا نے کہا نہیں۔ امیر معاویہ نے کہا لیکن مجھ کو یاد ہے اور وہ یہ ہے۔‘‘ اس کے بعد مصنف نے پورا خطبہ نقل کیا ہے۔ لیکن ہم نے اس لحاظ سے نقل نہیں کیا کہ افسوس ہے کہ ترجمہ میں زور قائم نہیں رہتا۔ اور بیچ بیچ میں سے اکثر جملے چھوڑ دیئے ہیں۔ کہ ناظرین عربی دان کتنے ہیں۔ اور ترجمہ میں خطبہ کا لطف نہیں قائم رہ سکتا۔ (الندوہ ج ۵ نمبر ۸ شعبان ۱۳۲۶ ئ) یورپ کا ایک اور علمی احسان عمر خیام ۱؎کا جبرو مقابلہ ـ عمر۱؎ خیام کو ہم جس حیثیت سے جانتے اور پہچانتے تھے، وہ یہ تھی کہ وہ شاعر ہے اور رباعی گو ہے۔ اور زیادہ سے زیادہ یہ کہ آج کل کے مذاق کے موافق آزاد خیال ہے۔تاریخوں اور تذکروں میں اس کی ریاضی دانی کا ذکر ضرور ہے۔ لیکن ہمارے خیال میں وہ اسی قسم کی بات تھی۔ کہ علامہ ابن الہمام شارح ہدایہ موسیقی بھی جانتے تھے۔لیکن یورپ کی بدولت آج ہم کو وہ کتاب ہا تھ آئی، جس سے اس کے ریاضی دان اعظم ہونے کا ثبوت ملتا ہے۔ مسلمانوں نے کبھی خود یہ دعویٰ نہیں کیا کہ وہ علم وجبر و مقابلہ کے موجد ہیں، لیکن اس فن میں ان کی اس قدر انکشافات (ڈسکوریز) ہیں کہ اس نام سے ان کی عام شہرت ہو گئی ہے۔ اس فن میں سب سے پہلے ابو موسیٰ خوارزمی نے ایک کتاب لکھی ہے۔ عربی دان تو اس سے آج بھی ناواقف ہیں۔ لیکن انگریزی میں مدت ہوئی اس کا ترجمہ ہو گیا۔ اور اصل عربی کے ساتھ چھپ کر شائع ہوا۔ چنانچہ ہماری نظر سے بھی گزر چکا ہے۔ابو موسیٰ کے بعد اور لوگوں نے بھی اس فن پر کتابیں لکھی ہیں۔ اور غالبا سب سے اخیر مجتہدانہ کتاب عمر خیام کا جبر ومقابلہ ہے، جو اس وقت ہمارے سامنے ہے۔عمر خیام کی تصنیف سے معلوم ہوتا ہے کہ قدماء کی کوئی تصنیف اس کو نہیں ملی تھی۔ ہندوستان کے ریاضی دانوں نے البتہ کچھ قاعدے لکھے تھے۔ لیکن وہ محض ابتدائی باتیں تھیں، چنانچہ دیباچہ میں لکھتا ہے : یہ کتاب فرانس کے دار السلطنت پیرس میں مع فرنچ ترجمہ کے چھاپی گئی ہے ،اور چھ روپے قیمت ہے۔ اما المتقدمین فلم یصل الینا منہم کلام لعلھم لم یتفطنوا لھا بعد الطلب والنظراو لم یضطر البحث ایا ھم اولم ینقل الی لسا ننا کلامھم فیھا۔۔۔۔۔ باقی قدما ء تو ان کا کوئی کلام ہم تک نہیں پہنچا۔شاید ان کا ذہن باوجود غور وفکر کے اس میں کام یاب نہیں ہوا ، یا ان کو اس کی ضرورت پیش نہیں آئی۔ یا ان کی تصنیفات کا ترجمہ ہماری زبان میں شائع نہیں ہوا ہے۔ ایک دوسرے موقعہ پر لکھتا ہے :۔ و للھند طرق فی استخراج اضلاع المربعات والمکعیات مبینۃ علی استقرا ء قلیل ۔ اور ہندیوں کے یہاں مربعات اور مکعبات کے اضلاع کے نکالنے کے طریقے ہیں جو تھوڑے سے استقرا پر مبنی ہیں۔ خیام نے ہندی قواعد کے اثبات پر ایک مستقل کتاب لکھی ہے۔ جس کا حوالہ اس کتاب میں دیا ہے۔ خیام اس فن کی ترقی کی جو تاریخ بیان کرتا ہے۔ وہ یہ ہے کہ سب سے پہلے ماہانی نے اس اصول کی تحلیل جبر و مقابلہ کے ذریعہ سے کی، جس کو ارشمیدس نے کتاب اکرہ والا سطوانہ کے مقالہ ثانیہ کی شکل رابع میں استعما ل کیا ہے۔ اس سے کعب ،مال، اعداد متعادلہ ، پیدا ہوئے ، لیکن وہ ان کو حل نہ کر سکا۔ اور بالاخر اس نے فیصلہ کیا کہ یہ نا ممکن ہے ۔ لیکن ابو جعفر خازن نے قطوع مخروطی کے ذریعہ سے اس کو حل کیا۔اس کے بعد اور ہندسہ دانوں نے اس پر توجہ کی،اور بعض مسائل حل کیے۔ خیام نے اس فن میں جو اضافہ کیا اس کی تفصیل دیباچہ میں کی ہے اور بتایا ہے کہ فلا ں فلاں قاعدے میں میں نے یہ اضافہ کیا ہے۔ اس کے ساتھ چھ اصول کی نسبت لکھا ہے کہ وہ سرے سے کسی قدیم تصنیف میںموجود ہی نہ تھے۔ وہ یہ ہیں:۔ (۱) وہ کعب اور جذر جو عدد کے معادل ہوں : (۲) وہ کعب اور عدد جو جذر کے معادل ہو۔ (۳) وہ کعب اور مال جو عدد کے معادل ہو ں (۴) وہ کعب اور عدد جو مال کے معادل ہو ں۔ (۵) وہ کعب اور عدد جو مال کے معادل ہو ں۔ (۳) وہ عدد اور مال جو کعب کے معادل ہو ۔ ان سب کو خیام نے قطوع مخروطی کے خواص سے ثابت کیا ہے۔ افسوس ہے کہ مجھ کو جبر و مقابلہ میں دخل نہیں ہے کہ میں اس کتاب پر ریو یو کر سکوں، فرنچ میں اس کتاب کا جو ترجمہ ہے ، اس کے دیباچہ میں تفصیلی ریو یو لکھا ہے۔ لیکن ہمارے ملک میں فرنچ کتنے آدمی جانتے ہیں۔ (الندوہ ج ۶، نمبر ۸ ،شعبان ۱۳۲۷ ھجری) تجارب الا مم ابن مسکویہ گب مموریل سیریز یورپ کی علمی فیاضیوں کا ذکر ہم نے بار بار کیا ہے، کہ اس کے عنوان پر ہم اگر کچھ اور کہنا چاہیں تو لوگ فورا بول اٹھیں گے کہ ع ایں آن فسانہ ایست کہ صد بار گفتہ ء لیکن اگر ہر نئے احسان کا نیا شکر واجب ہے تو یہ ذکر کرنا پڑے گا ،اور بار بار کرنا پڑے گا۔ انصاف کرو ،مسلمان دنیا کے ہر حصے میں پھیلے ہوئے ہیں۔ان کی بڑی بڑی سلطنتیں قائم ہیں۔ اپنے علوم وفنون کی قدر دانی کا جس قدر انکو دعویٰ ہے۔شاید کسی قوم کو نہ ہو گا۔ لیکن کیا یورپ نے عربی زبان کی جو خدمت کی ہے،اس کا ہزارواں حصہ بھی آج اسلام کی وسیع دنیا کر سکتی ہے۔یورپ نے جس قسم کی نادر اور نایاب عربی کتابیں ڈھونڈ ڈھونڈ کر پیدا کیں۔ کیا ایک بھی اس قسم کی کتاب مسلمانوں نے شائع کی؟۔معجم البلدان بلا ذری، طبری، یعقوبی، ابن بدیع ہمدانی، تاریخ الحکما ء قفطی، طبقات ابن سعد ، انساب الاشراف، معارف ، (اور اس قسم کی سینکڑوں کتابوں) کو کس نے دنیا میں روشناس کرایا؟۔ اور سچ تو یہ ہے کہ اب بھی کتنے مسلمان ان کتابوں سے واقف ہیں۔ یورپ کی علمی فیاضی کی داستان نہایت طویل ہے،یہاں ہم کو اس میں سے صرف گب سیریز کا تذکرہ ہوتا کرنا ہے، جو ہمارے مضمون کی دوسری سرخی ہے، گب ایک دولت مند انگریز تھا۔ جس نے کئی لاکھ روپے صرف اس لئے صرف کیے کہ اس سے عربی اور فارسی زبان کی نایاب تصنیفات ڈھونڈ کر شائع کی جائیں ، چنانچہ اس وقت تک جو کتابیں اس سلسلہ میں شائع ہوئیں ،وہ حسب ذیل ہیں:۔ بابر نامہ یعنی تزک بابری، جس میں بابر بادشاہ نے خود اپنے حالات لکھے۔ ترجمہ، تاریخ طبرستان ، از اسفند یار۔ تاریخ خاندان رسولیہ مبنی از خزرجی۔ سفر نامہ ابن جبیر اندلسی۔ معجم الادبا ء یاقوت حموی نہایت نایاب تھی ،قسطنطنیہ میں ایک نا تمام نسخہ تھا۔ اب تک اس کی دو جلدیں چھپ چکی ہیں۔ تجارب الامم ابن مسکویہ، اس کی مفصل کیفیت آگے آئے گی۔ یہ وہ کتابیں جو شائع ہو چکی ہیں،اور جو کتابیں اس سلسلہ میں زیر طبع ہیں یا جن کا چھا پنا زیر مقصود ہے، وہ حسب ذیل ہے۔ معجم فی اشعار العجم ، فن عروض میں ہے۔ اس کا مصنف شیخ سعدی کا معاصر تھا۔ کتاب کا سنہ تصنیف ۶۱۶ ھجری ہے۔ اس کا قلمی نسخہ ہمارے کتب خانے میں موجود ہے۔ تاریخ مغول از رشید الدین فضل اللہ۔ ترجمہ ء تاریخ سیستان حصہ جغرافیہ از کتاب نزہتہ القلوب حمد اللہ المستوفی۔ چہار مقالہ عروضی سمر قند ی۔ مر زبان نامہ۔ فتوح مصر وال مغرب الا ندلس ،ا ز ابو القاسم عبد الرحمنٰ تاریخ مصر از کندی نہایت قدیم تاریخ ہے۔ قابوس نامہ۔ انساب سمعانی، نہایت مستند اور نادر کتاب ہے۔ کتاب الرد علی اہل البدع والا ہوا ،ا للنسفی۔ ان کے علاوہ اور چند کتابیں ہیں جن کا ذکر چنداں ضروری نہیں۔ اس سلسلہ کا نام گب مموریل سیریز ہے۔ا ور اس میں سے ہم اس وقت تجارب الامم سے بحث کرنی چاہتے ہیں۔ جو ہمارے مضمون کا پہلا عنوان ہے:۔ اس کتاب کا مصنف علامہ ابن مسکویہ ہے۔ جو مشہور حکیم اور فلا سفر تھا۔ اس کی کتاب الطہارۃ جس سے امام غزالیؓ نے احیا العلوم میں اکثر موقعوں پر فائدہ اٹھایا ہے۔ چھپ کر شائع ہو چکی ہے۔ الہیات میں اس کی کتاب فوز الا صغر نہایت اعلیٰ درجہ کی تصنیف ہے۔ اور جس قدر اسلامی تصنیفات اس مو ضوع پر ہماری نظر سے گزر چکی ہیں،ان میں سے ایک بھی اس کی ہمسری کا دعویٰ نہیں کرسکتی۔ ابن مسکویہ عضد الدولہ اور اس کے جانشینوں کے دربار میں نہایت معزز منصب پر ممتاز تھا۔ اس نے ۴۲۱ ھجری میں وفات پائی۔ اس کتاب کا نسخہ جو یورپ نے بہم پہنچایا۔پندرہ سو پانچ (۱۵۰۵ئ) کا لکھا ہوا ہے۔مزید اعتبار کے لئے یورپ نے اصل نسخہ کو فوٹو کے ذریعہ سے شائع کیا ہے۔ چونکہ قدیم زمانے کا خط ہے۔ اس لئے کہیں کہیں پڑھا نہیں جاتا، جا بجا حرف بھی اڑ گئے ہیں۔ اور سیاہی مٹ چلی ہے۔ ایڈیٹر نے مختصر سا دیباچہ انگریزی میں لکھا ہے۔ اور ایک نہایت مفصل فہرست اسما ء اور مقامات کی شامل کی ہے۔ کتاب بہ مقام لیڈن انیس سو نو (۱۹۰۹ ئ) میں چھاپی گئی ہے۔ اس کتاب میں ہم مختلف حیثیتوں سے ریویو کرنا چاہتے ہیں۔ (۱)۔ ہمارے یہاں علوم کی جو دو قسمیں معقول و منقول قرار دی گئی ہیں،اس کے متعلق ایک سخت غلطی یہ ہوئی کہ بعض علوم جن میں دونوں حیثیتیں جمع تھیں ، صرف ان میں ایک حیثیت کا لحاظ ہوا ہے۔مثلا تاریخ وروایت کا فن محض منقولات میں شمار کیا گیا ہے۔ جس سے نتائج ذیل پیدا ہوتے ہیں۔ (۱) وہ لوگ جو صرف معقول کو اپنا مایہ ناز سمجھتے تھے۔ یعنی حکما ء اور فلاسفر انہوں نے اس فن کی طرف مطلق توجہ نہ کی، اس لیے یہ فن فلسفیانہ نکتہ آفرینیوں سے محروم رہ گیا۔ یہی وجہ ہے کہ بو علی سینا ،فارابی، محقق طوسی، امام رازی، قطب الدین شیرازی، جلال الدین دوانی کی کوئی تصنیف اس فن میں موجود نہیں ہے۔ (۲) چونکہ اس فن کی نسبت یہ خیال عام پیدا ہو گیا ہے کہ اس کو عقل وروایت سے تعلق نہیں،اس لئے مورخین اور اہل روایت نے خود بھی عقل اور درایت سے کام نہیں لیا۔ ان کو صرف اس سے غرض تھی کہ واقعہ کا بیان کرنے والا ثقہ ہے یا نہیں۔ اگر ثقہ ہے تو وہ جو واقعہ بیان کرتا ہے وہ ان کے نزدیک قابل اعتبار ہے۔ حالانکہ یہ بالکل ممکن ہے کہ راوی ثقہ ہو اور واقعہ کے بیاں میں اس سے غلطیاں وقوع میں آئیں، غرض اس خیال کی وجہ سے تاریخ کا فن اس رتبہ پر نہ پہنچا ،جس پر اس کو پہنچنا چاہیئے تھا۔ اس عالم میں ابن مسکوبہ ایک مستشنیٰ شخص نظر آتا ہے۔ جس نے فلسفی اور حکیم ہونے کے ساتھ ساتھ فن تاریخ پر بھی توجہ کی، ابن مسکویہ کے نام سے ہر شخص کو امید پیدا ہو سکتی ہے کہ تاریخ عام شاہراہ سے الگ ہو گی۔ اور ہم خوش ہیں کہ یہ امید نا کام یاب نہیں ہوئی۔ ابن مسکویہ نے کتاب کے دیباچہ میں تاریخ کے متعلق جو کچھ لکھا ہے۔ اس سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ وہ اس فن کو کس نظر سے دیکھتا ہے۔اور اس کو کس انداز سے لکھنا چاہتا ہے۔ یورپ میں آج کل فن تاریخ کو اس قدر ترقی ہوئی ہے کہ کبھی نہ ہوئی ہو گی۔ تاریخی واقعات کے ساتھ اس قدر اعتنا کیا جاتا ہے کہ ایک ایک جزئی واقعہ اور ہر واقعہ کی ہر قسم کی جزئی خصوصیات کے ساتھ استقرا ء کیا جاتا ہے۔ لیکن اہل فلسفہ کے نزدیک یہ ایک علمی بے اعتدالی ہے۔ تاریخ کا مقصد ان واقعات کا پتا لگانا ہے ،جن سے خاص نتائج پیدا ہوتے ہیں۔اور جن سے علت ومعلول کا اس طرح سلسلہ قائم ہوتا ہے کہ جب اسی قسم کے واقعات پیش آئیں تو فورا پیشین گوئی کی جا سکے۔کہ اسی قسم کے نتائج پیش آئیں گے۔ اس سے زیادہ جو کچھ ہے وہ قصہ ہے یا بے کار واقعات ہیں۔ چنانچہ ہر برٹ اسپنسر نے تفصیل کے ساتھ اس نکتہ کو لکھا ہے۔ ہمارا فلسفی مورخ ابن مسکویہ بھی تاریخ کو اسی نظر سے دیکھتا ہے۔ وہ دیباچہ میں لکھتا ہے کہ: انی لما تصفحت اخبار الا مم وسیر الملوک وقرآت اخبار البلدان و کتب التواریخ وجدت فیھا ما یستقاد منہ تجربۃ فی امور لا تزال تتکوں مثلھا وینتظر حدوث مثلھا، فان امور الدنیا متشا بھۃ و احوالھا متناسبۃ۔۔۔۔ میں نے جب قوموں کے حالات اور سلاطین کے تذکرے بغور دیکھے اور شہروں کے حالات اور تاریخ کی کتابیں پڑھیں تو میں نے ان میں سے وہ باتیں پائیں،جن سے ان امور کے متعلق تجربہ ہوتا ہے۔ جن کے ہم شکل واقعات عموما پیش آتے ہیں۔ اور ان کے پیش آنے کی توقع ہو تی ہے۔ کیونکہ دنیا کے واقعات ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں۔ اور اس کے واقعات میں باہم تناسب ہے۔ اس کے بعد لکھتا ہے کہ : ووجدت ھذا النمط من الاخبار معمورا بالا خبار اللتی تجری مجری الا سمار والخرافات اللتی لا فائدۃ فیھا غیر استجلاب النوم بھا والا سمتاع با نس المستطرف منھا اور میں نے دیکھا کہ اس قسم کے واقعات ان باتوں کے ساتھ رل مل گئے ہیں،جو محض قصہ اور خرافات کے کام کے ہیں۔ جن سے بجز اس کے کوئی فائدہ نہیں کہ ان کے سننے سے نیند آتی ہے۔ یا ان کے عجوبہ زد واقعات سے لطف آتا ہے۔ ابن مسکویہ نے اس بات کا سخت افسوس کیا ہے کہ تاریخ کا فن اپنے اصلی مرکز سے ہٹ گیا ہے۔اور لوگوں کی توجہ عموما ان واقعات کی طرف ہے۔ جو علت ومعلول کے سلسلہ قائم کرنے میں کچھ مدد نہیں دیتے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جو نتیجہ انگیز واقعات تھے،ان کی طرف خاص نگاہ نہیں پڑتی۔ اور وہ بھی ان ہی عام اور بے نتیجہ واقعات میں شامل ہو کر بے کار ہو جاتے ہیں، چنانچہ لکھتا ہے : حتی ضاع بینھا وابتدد فی اثنا ئھا فیطل الانتقاع بھا ولم یتصل لسامعہ وقاریہ اتصا لا یربط بعضہ بعضا۔۔۔ یہاں تک کہ یہ اصلی واقعات ان لغو واقعات میں رل مل کر بر باد ہو گئے،اوراس لئے ان سے فائدہ اٹھانا نہ ہو سکا۔ اور پڑھنے اور سننے والے کو ان واقعات میں ایسا سلسلہ نہیں ملتا،جس سے تمام واقعات ایک دوسرے سے مر بوط ہو جائیں۔ اس کے بعد لکھتا ہے کہ: فلذالک جمعت ھذا الکتاب واکثر الناس انتفا عا بہ واکبر ھم حظا منہ واوفرھم قسطا من الدنیا کا لوزرا ء واصحاب الجیوش و سواس المدن۔ اس لئے میں نے یہ کتاب مدون کی ہے،اور اس کتاب سے زیادہ تر فائدہ وہ لوگ اٹھا سکتے ہیں۔جن کو دینوی معاملات سے زیادہ تر تعلق ہے۔ مثلا وزرا ء اور فوجی افسر اور مدبرین ملک۔ مصنف نے تمام کتاب میں اس مقصد کو پیش نظر رکھا ہے،اور جو واقعات اس مقصد سے تعلق نہیں رکھتے، ان کو عموما نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ اس مقصد کو اس نے اس قدر پیش نظر رکھا ہے کہ انبیا ء کے حالات میں معجزات کا ذکر نہیں کرتا، کیونکہ اس کے نزدیک معجزات علت و معلول کے سلسلے سے الگ ہیں۔ چنانچہ کہتا ہے :۔ ولھذا لسبب بعینہ لم نتعرض لذکرہ معجزات الا نبیا ء صلوات اللہ علیھم لان اھل زماننا لا یستفیدون منھا تجربۃ فیما یستقیلونہ من امور ھم الا ما کان منھا تدبیرا بشریا لا یقترن بالا عجاز۔۔۔۔ اور اسی سبب سے میں نے انبیا علیہ سلام کے معجزات کا ذکر نہیں کیا۔کیونکہ آج کل کے لوگ ان سے آیندہ واقعات کی نسبت کوئی تجربہ نہیں حاصل نہیں کر سکتے۔ البتہ وہ واقعات میں نے لکھے ہیں جو انبیا ء سے انسانی تدبیر کی حیثیت سے وقوع میں آئے ہیں، جن میں معجزہ کی آمیزش نہیں ہے۔ (۱) ایران کی تاریخ میں دور از واقعات کثرت سے ہیں۔اور فردوسی کی شاعرانہ رنگ آمیزی نے تو تاریخ کو ناول بنا دیا ہے۔ابن مسکویہ ان وہمی افسانوں کی نسبت ہر جگہ تصریحات کر جاتا ہے۔کہ ایرانیوں کی خرافات ہیں اور بعض جگہ بتلاتا ہے کہ اصل واقعہ کیا تھا، اور الفاظ کے غلط استعمال اور لوگوں کی وہم پرستی سے اس کی صورت بدل گئی ہے۔ مثلا ایک موقع پر لکھتا ہے کہ: فللفرس ھٰھنا خرافات وتزعم ان الشیاطین کانت مسخرۃ لکیقا بوس۔۔۔ اور ایرانی ا س موقع پر بہت سی خرافات بیان کرتے ہیں ،اور خیال کرتے ہیں کہ شیاطین کیکاؤس کے مسخر تھے۔ ضحاک کی نسبت تمام ایرانی تواریخ میں مذکور ہے کہ اس کے کاندھے پر دو سانپ تھے۔ جن کی غذا آدمی کا دماغ تھا۔ ابن مسکویہ اس واقعہ کی نسبت لکھتا ہے کہ: و کان منکبہ سلعتان یحرکھما اذا شاء کما یحرک یدیہ فادعی انھا حیتان تھویلا علی ضعفا ء الناس و اغبیائھم ویسترھما بثیا بہ۔ اور اس کے شانوں پر دو غدود تھے جن کو وہ جب چاہتا تھا۔ حرکت دے سکتا تھا۔ جس طرح اپنے ہاتھوں کو حرکت دے سکتا تھا۔ ضحاک نے یہ ظاہر کیا کہ یہ دو سانپ ہیں،جس سے اس کا مقصد عوام اور احمقوں کو مرعوب کرنا تھا۔اور وہ ان کو لباس کے اندر چھپائے رکھتا تھا۔ طہمورث کی نسبت عام طور پر مشہور ہے کہ شیاطین اور جن اس کے مسخر تھے۔ اور اسی کے یہاں عمارت وغیرہ کا کام کرتے تھے۔ ابن مسکویہ نے اس واقعہ کی حقیقت اس طرح ظاہر کی ہے کہ:۔ وطلب الدعا رو نفی الشیطان اعنی الا شرار والذم من غلبہ من اھل الفساد والشیاطین الا عمال الصبعۃ واذ لھم بقطع الحجارۃ والصخورمن الجبال۔۔۔۔ اس نے بد چلن لوگوں کو بلایا اور شیاطین یعنی بد معاشوں کو ملک سے نکال دیا۔اور اس نے مفسدوں اور شیطانوں کو سخت کاموں پر ما مور کیا۔ اور ان کو سنگ تراشی کے کام پر لگایا۔ ایران کے لٹریچر میں بعض چیزیں ایسی تھیں کہ جو دنیا کی بہترین یاد گار سمجھی جاتی ہے۔ مثلا نوشیرواں کا کار نامہ جو اس نے خود لکھا ہے۔ یا ارد شیر کا عہد نامہ جس کو مورخین عرب منجملہ ان چار کتابوں کے شمار کرتے ہیں جو بے مثل تسلیم کی گئی ہیں۔ابن مسکویہ نے ان چیزوں کی پوری قدر دانی کی ہے۔ چنانچہ ان دونوں کا ایک ایک حرف (عربی ترجمہ کے ذریعہ سے نقل کیا ہے۔)نوشیرواں کا ایک لیکچر جو اس نے تمام امراء عوام وخواص کے مجمع میں دیا تھا۔اور جس میں انتظامات ملکی کے تمام نکتے بتائے ہیں۔اس کا بھی پورا ترجمہ کیا ہے۔ (۴) ابن مسکویہ نے اکثر واقعات شاہ نامہ کے خلاف لکھے ہیں۔ اور اکثر ان واقعات کا سرے سے ذکر نہیں کیا۔ جو شاہ نامہ کے مشہور معرکے ہیں، مثلا رستم وسہراب کی داستان، رستم و اسفند یار کی جنگ، مینزہ وبیژن کا واقعہ،شاہ نامہ میں لکھا ہے کہ کیکاؤس کو شاہ باژندران نے گرفتار کیا تھا۔ لیکن ابن مسکویہ نے اس واقعہ کی بجائے لکھا ہے کہ کیکاؤس جب یمن پر حملہ آور ہوا تو ذوالاہ غار بادشاہ یمن نے اس کو شکست دی،اور ایک کنویں میں قید کر دیا۔ بالاخر رستم گیا اور اس کو چھڑا لایا۔ ان واقعات کے متعلق یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ ابن مسکویہ اور فردوسی دونوں میں سے کس کا بیان صحیح ہے۔لیکن مجھ سے پوچھا جائے تو میں فردوسی کو ایران کی تاریخ کا زیادہ حق دار سمجھتا ہو ں۔ (۵) ابن مسکویہ کی کتاب میں بڑا نقص یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اور خلفائے راشدین کے حالات نہایت نا تمام اور جستہ جستہ لکھے ہیں۔اور اس کی معذرت یہ کی ہے کہ میری کتاب کا مقصد ایسے حالات بیان کرنا ہے، جو ظاہری اسباب سے تعلق رکھتے ہوں۔اور جن سے قواعد کلیہ قائم ہو سکے۔لیکن خلفا ء کی فتوحات محض تائید الہیٰ ہیں،اور ان کو سلسلہ علت و معلول سے تعلق نہیں، ابن مسکویہ کے خاص الفاظ یہ ہیں:۔ و لم اجد فی تلک الحروب والواقعات مع عظمھا وشدتھا موضع حیلۃ ولا موقع تدبیر یستفاد منہ تجربۃ الا الیسیر مما فسنذکر باقیہ کلہ جہاد من القوم ونصر من اللہ واجتھا من المسلمین و کان شرطنا فی اول الکتاب الا نثبت من الا خبار الا ما فیہ تدبیر نافع فی المستقبل الا، میں نے ان لڑائیوں میں باوجود اس کے کہ وہ عظیم الشان اور سخت لڑائیاں ہیں۔ کوئی حیلہ اور تدبیر کی بات نہیں پائی، جس سے کوئی تجربہ پیدا ہو، بجز چند مختصر واقعات کے جن کو میں آگے ذکر کروں گا،ورنہ یہ تمام لڑائیاں لڑائیاں نہیں، بلکہ قوم کا جہاد اور خدا کی تائید ہیں۔ اور ہم ابتدا ء کتاب میں درج کر چکے ہیں کہ صرف وہ واقعات لکھیں گے،جن سے آئندہ واقعات میں کوئی تجربہ حاصل ہو۔ لیکن یہ کس قدر غلط خیال ہے، بے شبہ عہد نبوت اور خلافت کے واقعات تائید الہیٰ ہیں۔ اور ہم ابتدا ء کتاب میں درج کر چکے ہیں۔ کہ صرف وہ واقعات لکھیں گے،جن سے آیندہ واقعات میں کوئی تجربہ حاصل ہو۔ لیکن یہ کس قدر غلط خیال ہے۔ بے شبہ عہد نبوت اور خلافت کے واقعات تائید الہیٰ ہیں۔ لیکن یہ کون کہہ سکتا ہے کہ سلسلہ ء اسباب سے الگ ہیں، جو سچائی ،جو جوش ،جو خلوص، جوراست کرداری ،جو عدل وانصاف ، جو حق پرستی ان معرکوں میں صرف کی گئی ہے، جب کبھی صرف کی جائے گی بعنیہ یہی نتیجے ظاہر ہو ں گے۔ اگر ان لڑائیوں میں اسباب و علل کو دخل نہ ہوتا تو جنگ احد میں شکست کیوں ہوتی۔ حنین میں اکثر لوگوں کے پاؤں کیوں اکھڑ جاتے؟۔ واقعہ جسر میں ہزاروں مسلمان کیوں شہید ہوتے؟۔ واقعہ یرموک میں مسلمانوں کو مفتوحہ مقامات سے ہٹ آنا کیوں پڑتا۔ خدا نے فرمایا اور سچ فرمایا، انا کل شئی خلقناہ بقدر ۔ (۳ جون ۱۹۰۹؁ ء از کلکتہ) (الندوہ ج ۶ نمبر ۵ جمادی الاولیٰ ۱۳۲۷ ؁ئ) لغت فرس از اسدی طوسی ہم یورپ کی علمی فیاضیوں کا شکریہ ادا کرتے کرتے تھک جاتے ہیں۔لیکن یورپ اپنی فیا ضیوں سے نہیں تھکتا ، عربی قدیم نادر تصنیفات کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر پیدا کرنے اور ان کے شائع کرنے کا ذکر الندوہ میں بار بار آچکا ہے۔ اب موقع ہے کہ فارسی سرمایا کے مہیا کرنے کے متعلق یورپ جو کچھ کر رہا ہے۔کبھی کبھی اس کے حالات بھی اس علمی پرچہ کے ذریعہ سے شائع کیے جائیں۔ اسدی کی نسبت عام تذکروں میں مذکور ہے کہ فردوسی کا استاد تھا۔ اگر چہ یہ غلط ہے۔ لیکن بہر حال وہ اسی زمانے کا مشہور شاعر ہے۔ اور مثنوی میں نظامی کی طرز پر بنیاد اسی نے قائم کی۔اسدی کو تمام دنیا صرف شاعر کی حیثیت سے جانتی ہے۔ یہ بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ وہ صرف شاعر نہیں ، بلکہ فارسی لغت کا سب سے بڑا مدون ہے۔ اس نے اپنی کتاب کا نام لغت فرس رکھا ہے، اور صرف نادر اور غریب الفاظ جمع کیے ہیں۔ یورپ کے ایک مشہور مستشرق پاول ہارن نے آٹھ برس کتاب کی تصحیح وتمشیہ میں صرف کیے،اور 1897 ئ؁ میں اس کو شائع کیا گیا۔ اس کے پاس جو قلمی نسخہ تھا۔ وہ محرم ۷۳۳ ئ؁ کا لکھا ہوا تھا۔ تصحیح وتحشیہ کے علاوہ اس نے ایک مطول دیباچہ بھی لکھا ہے۔ لیکن چونکہ وہ جرمن زبان میں ہے۔ اس لئے ہم اس سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے۔ اڈیٹر موصوف نے یہ کتاب پروفیسر نولد کے نام معنون کی ہے۔ جو یورپ میں آج تمام مستشرقین کا استاد انکل تسلیم کیا جاتا ہے۔ چونکہ اڈیٹر کو پروفیسر موصوف کی شاگردی کی عزت حاصل ہے۔ چند فارسی اشعار لکھ کر شامل کیے ہیں،جس میں اس انتساب کو ظاہر کیا ہے۔ وہ اشعار یہ ہیں:۔ چنین بودآئین ایرانیان چوں پیش آمدندے بہ گاہ کیان تو در دولت علم داری وھسیم شہشاہ عالی و ما بندہ ایم ولیکن بجز کے تو ہم مردمی کہ مہر مہتری را بزیبد ھمی بدین ھشت سال اندرین شہر تو طلب کردہ ام علم با جستجو کنون ایں کتاب تشکر اشعار ترا باشد از من یکے یاد گار اب ہم اصل کتاب پر مختلف حیثیتوں سے نظر ڈالتے ہیں۔ (۱) مصنف نے دیباچہ میں لکھا ہے کہ میں اس میں بلخ، ماورا النہر اور خراسان وغیرہ کے لغات لکھتا ہوں۔اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اس زمانے میں انہی ملکوں کے لوگ شاعر اور ناشر تھے ،اور انہی لوگوں کا کلام مستند سمجھا جاتا ہے۔اس سے یہ عقدہ بھی حل ہوتا ہے کہ قدماء کی زبان جو بالکل نا مانوس معلوم ہوتی ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ افغانستان اور ترکستان کے بہت سے الفاظ ان کے کلام میں آئے تھے۔ جو اس وقت بالکل متروک ہو گئے ہیں۔ جب شاعری منتقل ہو کر فارس کے صدر مقام میں آگئی۔ (۲) مصنف نے التزام کیا ہے کہ ہر لغت میں شعر کی سند لائے۔اس سے یہ فائدہ ہوا کہ چونکہ مصنف خود قدیم زمانے کا شاعر ہے۔ اس لئے ایسے بہت سے قدماء کا کلام اس ذریعہ سے محفوظ رہ گیا۔جو آج بالکل معدوم ہیں۔ مثلا لیبی ابو طاہر خسروانی، منجیک،طیان ،کسامی،آغا جی، شاکر بخاری، قریع الدہر، بو شکور بلخی، ابو الفتح لبتی، معروفی، بو المثل، عمارہ مروزی۔۔۔مرضعی نشناس ، مشہور ہے کہ مثنوی سب سے پہلے رودکی نے لکھی ہے۔یعنی کلیلہ دمنہ کو مثنوی کی بحر میں نظم کیا۔فردوسی نے شاہ نامہ میں اس مثنوی کا ذکر کیا ہے۔ لیکن آج کل یہ مثنوی نایاب ہے۔ کہ اس کے دوچار شعر بھی ہاتھ نہیں آتے۔اس کتاب سے معلوم ہوتا ہے کہ مثنوی مولانا روم کے وزن پر ہے۔ اس کے چند اشعار یہ ہیں:۔ دمنہ را گفتہ تا ایں بانگ چیست با نہیب وسہم ایں ادائے کیست دمنہ گفت اہ را جزین آداد گر کار تو نہ؟۔ ہست وسہمے بیشتر آب ہر چہ بیشتر نیرہ کند بندروغ ست بودہ بغل گند دل گستہ داری از بانگ بلند رتجکے باشدت و آواز گزند اس کتاب سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ رودکی نے شاہ نامہ کی بحر میں بھی ایک مثنوی لکھی تھی، جس کا ایک شعر یہ ہے۔ نکو گفت مزدور باآن خدیش مکن بد بہ کس گر نہ خواہی بہ خویش عنصری کے تذکرے میں اس کی مثنویوں کا بھی ذکر کرتے ہیں۔ مگر لکھتے ہیں کہ اب ناپید ہیں۔ اس کتاب سے معلوم ہوتا ہے کہ عنصری نے مختلف بحروں میں مثنویاں لکھی تھیں، شاہ نامہ کی بحر میں یہ اشعار ہیں :۔ (بہاریہ) چوں سرگشتہ غنچہ سرخ گل جہان جامہ پوشید ہمرنگ مل (رزمیہ) اگر بر سر مروزد در نبرد سر قامتش باز مین پست کرد ہفت پیکر کی بحر میں جو مثنوی ہے ،وہ زیادہ صاف اور شستہ ہے۔ نمونہ یہ ہے:۔ گفت کین مردمان بے باک اند ہمہ ہموارہ دز دو چالاک اند (۳)عام طور پر مشہور ہے کہ فردوسی نے یہ التزام کیا تھا۔ کہ عربی الفاظ نہ آئیں، لیکن اس کتاب سے معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانہ تک عربی الفاظ فارسی مثنویوں میں یوں بھی کم برتے جاتے تھے۔ عنصری رود کی، ابو شکور کی مثنویوں کے اشعار کثرت سے نقل کیے ہیں، ان میں بھی عربی الفاظ بہت ہی خال خال ہیں۔ (۴) ہمارا خیال تھا کہ ہزالی اور فحش گوئی، اس زمانے تک مطلق پیدا نہیں ہوئی تھی۔ فردوسی نے ہجو لکھی تو اس قدر مہذب اور شائستہ لکھی کہ مستورات کو اس کے پڑھنے میں تامل نہیں ہو سکتا،لیکن اس کتاب سے معلوم ہوا کہ یہ املا اسی زمانے میں پیدا ہو چکی تھی۔ لبیبی جو اس زمانے کا ممتاز شاعر تھا۔ جعفر زٹل سے ذرہ بھر کم نہیں۔بو شکور اور منجیک بھی اکثر فحش کہتے تھے۔ فردوسی اور فرخی وغیرہ اس زمانے کے عام شاعر نہیں ، بلکہ مہذب شاعر ہیں۔اگر چہ یہ یقینی ہے کہ یہ کتاب اسدی طوسی کی تصنیف ہے۔ مصنف نے خود ایک لغت کی سند میں اپنا نام لکھا ہے۔ اور اس کے ساتھ مصنف کے لفظ کا اضافہ کیا ہے۔ لیکن یہ سخت تعجب ہے کہ کتاب میں جا بجا معزی کے اشعار ہیں ،یعنیکسی نے بطور حاشیہ کے لکھے تھے۔ جو کتاب میں شامل ہو گئے۔ اڈیٹر نے دیباچہ میں کسی کتاب کی عبارت نقل کی ہے۔ جس کے الفاظ یہ ہیں:۔ تصنیف حکیم اسدی خواہر زادہ حکیم ابو القاسم منصور فردوسی رحمتہ اللہ علیہ، اگر یہ نقل صحیح ہو تو اسدی کی فہرست مفاخر میں یہ اضافہ ہو جاتا ہے کہ وہ فردوسی کا بھانجا تھا۔ یہ بھی کچھ کم تعجب کی بات نہیں کہ ایک ہی شہر اور ایک ہی خاندان میں دو شاعر اس رتبہ کے پیدا ہوں کہ اقلیم سخن ان ہی دونوں میں تقسیم ہو کر رہ جائے۔ دوبارہ ہم پاول ہارن صاحب کا شکریہ ادا کرتے جن کی بدولت ایسی نایاب اور گم شدہ کتاب بہم پہنچی اور شائع ہوئی۔ نام نیک رفتگان ضائع مکن تا بماند نام نیکت یاد گار (الندوہ ج ۸ نمبر ۳ ،ربیع الاول ۱۳۲۹؁) الملل والنحل اور ابن حزم ظاہری اسلام میں ایک مدت تک معقول ومنقول دو الگ الگ رہے۔امام غزالی نے دونوں کا تعارف کرایا۔اور رفتہ رفتہ اتحاد اس قدر بڑھا کہ آج دونوں کو الگ کرنا چاہیئں تو نہیں کر سکتے۔ لیکن محدثین کا گروہ اخیر تک اپنے انداز پر قائم رہا۔ چنانچہ اس مقدس فرقے میں کوئی ایسا شخص پیدا نہیں ہوا، جو فلسفی یامعقولی کے لقب سے ممتاز ہو۔صرف دو شخص اس کلیہ سے مستشنیٰ ہیں۔ ابن تیمیہ اور ابن حزم۔ ان دونوں بزرگوں کے معتقدات اور خیالات اس امر کے اندازہ کرنے کے لئے نہایت نتیجہ خیز ہیں۔ کہ حدیث کو فلسفہ سے کس حد تک ربط ہو سکتا ہے۔ یہ دونوں بزرگ بڑے محدث اور ٹھیٹ مذہبی آدمی تھے۔انہوں نے گو فلسفہ میں کمال پیدا کیا تھا، لیکن فلسفہ کو بالکل حقیر سمجھتے تھے۔اور اسی لئے فلسفہ کا ان پر کچھ اثر نہیں پڑ سکتا تھا۔ چنانچہ ابن تیمیہ نے فلسفہ کی رو میں ایک ضخیم کتاب چار جلدوں میں لکھی ہے۔ ابن حزم نے بھی متعدد کتابوں میں فلسفہ کے مسائل رد کئے ہیں۔ اہل سنت وجماعت میں عقائدکے اعتبار سے تین شاخیں ہیں، شاعرہ، ماتریدیہ ، محدثین ، لیکن ایک مدت سے تمام اسلامی دنیا میں صرف اشاعرہ کی کتابیں متداول اور زیر درس ہیں۔ ماتریدیہ کے اقوال کہیں کہیں ان ہی کتابوں میں آجاتے ہیں، لیکن محدثین کی تصنیفات سرے سے ناپید ہیں۔ اور ان کے اقوال بھی (بجز صفات باری کے) کسی مسئلہ کے متعلق نہیں پائے جاتے، حالانکہ اصول عقائد کے متعلق سب سے زیادہ ان ہی کی رائیں معتبر ہو سکتی ہیں۔اب خوش قسمتی سے اس مقدس گروہ کی تصنیفات کی طرف توجہ مبذول ہوئی ہے۔ چنانچہ ابن تیمیہ کی کتاب العقل والنقل ومنہاج السنہ اور ابن حزم کی کتاب الملل والنحل حال میں چھپ کر شائع ہوئی ہے۔ ہم اس وقت اسی کتاب (الملل والنحل) پر تفریط لکھنی چاہتے ہیں۔ لیکن اصل بحث سے پہلے ہم نہایت اختصار کے ساتھ ابن حزم کے حالات لکھتے ہیں۔ ان کا نام علی ابن احمد بن سعید بن حزم تھا۔ خاندان بنو امیہ میں سے تھے۔ قرطبہ میں ۳۸۴ ؁ ھ میں پیدا ہوئے۔اور ۴۵۶ ھ؁ میں وفات پائی۔ ۴۴۰ ھ؁ میں حدیث کی تحصیل شروع کی۔ علوم دینیہ کے ساتھ منطق و فلسفہ میں بھی کمال پیدا کیا۔ پہلے شافعی تھے، پھر ظاہری ہو گئے۔ یعنی ظواہر قرآ ن وحدیث کے سوا قیاس کو نہیں مانتے تھے۔ بہت سی کتابیں تصنیف کیں، جن میں سے محلی بڑے پایہ کی کتاب ہے۔ ان کی تصنیفات ۸۰ ہزار ورق میں ہے۔(اسی ہزار ورق) امام غزالی نے لکھا ہے کہ میں نے ان کی ایک تصنیف دیکھی ہے۔ جس سے ان کا کمال حفظ وذہانت ثابت ہوتا ہے۔ ابن ساعد اندلسی لکھتے ہیں کہ ابن حزم کو علوم اسلامیہ میں جو کمال تھا۔ تمام اندلس میں سے کسی کو نہ تھا۔حمیدی کا بیان ہے کہ ہم نے ان کا نظیر نہیں دیکھا۔ یہ تمام واقعات علامہ ذہبی نے تذکرۃ الحفاط میں لکھے ہیں۔ اور آخر میں لکھا ہے کہ ابن حزم علمائے کبائر میں ہیں۔ اور اجتہاد کے تمام شرائط ان میں پائے جاتے ہیں۔ کتاب الملل والنحل اس کتاب میں مصنف نے فلاسفہ، ملا حدہ، مادیین ،یہود ، نصاریٰ، غرض اکثر اہل مذاہب کے عقائد و خیالات نقل کیے ہیں۔اور ان کا رد لکھا ہے۔ غیر مذاہب کی رد میں علمائے اسلام کی بہت سی تصنیفات ہیں۔ لیکن اس کتاب میں یہ خصوصیت ہے کہ دوسروں کے عقائد و خیالات کو نہایت تحقیق سے لکھا ہے۔توریت اور انجیل کے جو محرف ہونے پر بحث کی ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ مصنف کو یہود ونصاریٰ کی کتابوں پر مجتہدانہ عبور تھا۔ غیر مذاہب کے ابطال کے بعد مصنف نے خود اسلامی عقائد سے بحث کی ہے۔اور ہر فرقہ کے ان مسائل کا رد کیا ہے ،جو اس کے نزدیک غلط اور باطل ہیں۔ہم کو صرف اسی حصہ سے بحث ہے۔سب سے پہلے انبیا کے مسئلے کو لکھا ہے۔ اور نہایت تفصیل سے لکھا ہے۔عقائد کی کتابوں میں اگر چہ عموما یہ مسئلہ مسلم قرار پایا گیا ہے کہ انبیا ء معصوم ہیں،لیکن اکثر تفسیر کی کتابوں میں جو روایتیں مذکور ہیں،اور وہی تمام مسلمانوں میں پھیل گئی ہیں۔ وہ بالکل اس کے خلاف ہیں۔ ابن حزم نے نہایت آزادی اور دلیری سے ان تمام روایتوں کی لغویت ثابت کی ہے۔ حضرت داؤد کی نسبت مشہور ہے کہ انہوں نے ایک دن اتفاق سے اوریا کی بیوی کو نہاتے دیکھ لیا۔چونکہ وہ نہایت حسین تھی، اس لیے اس سے شادی کا ارادہ کیا۔اور اسی غرض سے اس کے شوہر کو لڑائی پر بھیج دیا گیا۔ جب وہ مارا گیا تو اس کی بیوی سے شادی کر لی۔‘‘ قرآن مجید میں ایک موقع پر یہ واقعہ مذکور ہے کہ دوبھائی حضرت داؤد کے پاس لڑتے ہوئے آئے، کہ ہمارا مقدمہ فیصل کر دیجیئے۔ جھگڑا یہ تھا کہ ایک بھائی کے پاس99دنبے تھے۔اور دوسرے کے پاس صرف ایک، وہ اس سے کہتا تھا کہ اپنا دنبہ بھی مجھ کو دے ڈال، حضرت داؤد نے یہ سن کر کہا کہ یہ ظلم ہے، پھر ان کو خیال ہوا کہ خدا نے میرا امتحان لیا ہے۔‘‘ اکثر مفسرین لکھتے ہیں کہ یہ وہی حضرت داؤد کا قصہ ہے۔وہ دونوں آدمی نہ تھے، بلکہ فرشتہ تھے۔اور انہوں نے اس پیرایہ میں حضرت داؤد کو متنبہ کیا کہ تمہاری 99 بیویاں ہیں اور اوریا کی صرف ایک ،وہ بھی تم نے چھین لی۔ ابن حزم لکھتے ہیں کہ وہ فرشتے نہ تھے، بلکہ واقعی دو آدمیوں میں نزاع تھی، اور وہ درحقیقت انفصال مقدمہ کے لئے آئے تھے۔ان کے الفاظ یہ ہیں: وھذا قول صادق صحیح لا یدل علی شئی مما قالہ المستھزون الکاذبون المتعلقون بخرافات ولد ھا الیھود و انما کان ذالک الخصم قوما من بنی آ دم بلا شک مختصمین فی نعاج من الغنم علی الحقیقۃ۔۔۔۔۔۔ و من قال انھم کانوا ملٰلکۃ معرضین یامر النسا ء فقد کذب علی اللہ عز وجل وقالہ ما لم یقل وزاد فی القرآن ما لیس فیہ وکذب اللہ عزو جل۔ قرآن مجید کا بیان بالکل صحیح اور سچ ہے،دروغ گو مسخرے جو یہودیوں کی خرافات کی سند پکڑتے ہیں،ان کے اقوال کی طرف اس آیت میں کچھ بھی اشارہ نہیں پایا جاتا، وہ دونوں شخص واقعی آدمی تھے، اور ان میں درحقیقت دنبوں کے متعلق جھگڑا تھا۔ جو شخص یہ کہتا ہے کہ وہ فرشتے تھے، اور انہوں نے عورتوں کے قصوں کی طرف اشارہ کیا تھا،تو وہ خدا کو جھوٹ لگاتا ہے۔اور وہ بات کہتا ہے جو خدا نے نہیں کی،اور قرآن پر حاشیہ چڑھاتا ہے اور خدا کو جھوٹا بناتا ہے۔ اس کے بعد ابن حزم لکھتے ہیں کہ اس قسم کی باتیں بد معاش اور پاجیوں کی طرف منسوب کی جا سکتی ہیں نہ کہ (نعوذ باللہ) انبیائے کرام کی طرف۔ اسی طرح یہ واقعہ عام طور پر مشہور اور کتب تفسیر میں منقول ہے کہ حضرت سلیمان گھوڑوں کا جائزہ لے رہے تھے۔اس میں اس قدر مشغول تھے کہ عصر کی نماز جاتی رہی۔جب ان کو خیال آیا تو گھوڑوں کی پنڈلیاں کٹوا ڈالیں،اور جب ان کی دعا سے آفتاب دوبارہ طلوع ہوا تو نماز عصر ادا کی۔ابن حزم اس روایت کی نسبت لکھتے ہیں: و ھذا خرافۃ مو ضوعۃ مکذوبۃ سخیفۃ باردۃ والظاھر انھا من اختراع زندیق بلا شک۔۔۔۔۔۔ یہ خرافات جھوٹ، بے ہودہ،اور لغو روایت ہے۔ بہ ظاہر یہ روایت کسی زندیق نے ایجاد کی ہے۔ ایک بڑا مہتمم بالشان مسئلہ جس پر ابن حزم نے نہایت تفصیل سے بحث کی ہے۔سحر اور جادو کی حقیقت ہے۔یہ بحث اگر چہ درحقیقت سائنس سے تعلق رکھتی ہے۔ لیکن چونکہ سحر کا لفظ مذہبی کتابوں میں آگیا ہے۔ اس لئے یہ ایک مذہبی مسئلہ بن گیا ہے۔ اس سے کسی کو انکار نہیں کہ سحر اور جادو کوئی چیز ہے۔ لیکن بحث یہ ہے کہ سحر میں درحقیقت انقلاب ماہیت ہوتا ہے۔ یا صرف شعبدہ بازی اور نیرنگ سازی کو سحر کہتے ہیں۔ اکثر شعرا ء اس بات کے قائل ہیں کہ سحر کے ذریعہ سے تمام خرق عادات وجود میں آسکتے ہیں۔ اور افسوس ہے کہ عام طور پر یہی عقیدہ تمام مسلمانوں میں پھیلا ہوا ہے۔ابن حزم نے نہایت زور شور سے سحر کا انکار کیا ہے، اور حسب ذیل دلیلیں پیش کی ہیں۔ (۱) خدا نے کائنات کی جو ترتیب قرار دی ہے، وہ بدل نہیں سکتی، جیسا کہ خود قرآن مجید میں ہے کہ لا مبدل لکلماتہِ ،علامہ موصوف نے قرآن مجید کی متعدد آیتوں سے استدلال کر کے لکھا ہے۔ فصح ان کل ما فی العالم مما قد رتبہ اللہ عز وجل الترتیب الذی لا یتبدل۔۔۔۔۔ تو ثابت ہوا کہ جو کچھ عالم میں خدا نے ترتیب دیا ہے، وہ بدل نہیں سکتا۔ (۲) اگر سحر صحیح ہو تو معجزہ اور سحر میں کیا فرق ہو گا؟۔ ویقال لمن قال ان السحر یحیل الاعیان ویقلب الطبائع اخیر ونا اذا جاز ھذا فای فرق بین النبی والساحر ولعل جمیع الانبیا ء کانوا سحرۃ کما قال فرعون عن موسیٰ علیہ السلام انہ لکبیرکم الذی علمکم السحر۔۔۔۔۔۔ جو شخص یہ کہتا ہے کہ جادو قلب ماہیت کر دیتا ہے، اس سے کہنا چاہیئے کہ اگر یہ صحیح ہے تو پیغمبر اور جادو گر میں کیا فرق باقی رہے گا۔ اس صورت میں یہ احتمال پیدا ہو گا کہ تمام انبیاء جادو گر ہی تھے۔جیسا کہ فرعون نے حضرت موسیؑ کی نسبت کہا تھا کہ بڑا جادو گر ہے،اور اسی نے تم کو جادو سکھایا ہے۔ سحر کے ثبوت میں اکثر لوگ فرعون کے جادو گروں کا واقعہ پیش کرتے ہیں۔جو قرآن مجید میں مذکور ہے۔ علامہ ء موصوف نے قرآن مجید کی متعدد آیتوں سے ثابت کیا ہے کہ وہ صرف شعبدہ بازی تھی، وہ آیتیں یہ ہیں:۔ یخیل الیہ من سحرھم انھا تسعیٰ انما صنعو اکید ساحر۔۔۔ حضرت موسیٰ کو ان کے جادو کی وجہ سے خیال ہوتا تھا کہ ان کی رسیاں اور لاٹھیاں دوڑ رہی ہیں۔ ان لوگوں نے جادو گر کا کرتب کیا ہے۔ پہلی آیت سے ثابت ہوا کہ وہ صرف تخیل تھا۔ کوئی واقعی چیز نہ تھی۔دوسری آیت میں کید کا لفظ ہے۔ جس کے معنی فریب کے ہیں۔ قرآن مجید میں ہاروت اور ماروت کے متعلق مذکور تھا کہ لوگ ان سے جادو سیکھتے ہیں، اور ان کے ذریعے میاں بیوی میں جدائی کرا دیتے ہیں۔ اس آیت سے بھی سحر کی واقعیت پر استدلال کیا جاتا ہے۔ علامہ موصوف اس کے جواب میں لکھتے ہیں:۔ فھذا امر ممکن یفعلہ نمام۔۔۔۔ یہ ممکن بات ہے، چغل خور بھی کر سکتا ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر لبید بن عاصم نے جادو کر دیا تھا، جس کی وجہ سے آپ کی یہ حالت ہو گئی تھی کہ جو کام آپ نے نہیں کیا ہوتا تھا۔ اس کی نسبت آپ کو خیال ہوتا تھا کہ کر لیا ہے۔ اس حدیث کے جواب میں علامہ موصوف لکھتے ہیں کہ فلیس فی ھذا ایضا احالۃ الطبیعۃ ولا قلب عین و انما ھو تاثیر بقوۃ فلک الصناعۃ و نحن نجد الانسان یسب او یقابل بحرکۃ یغضب منھا فیستحیل من الحلم الی الطیش و عن السکون الی الحرکۃ۔۔۔۔ اس میں بھی طبیعت کا بدلنا یا قلب ماہیت نہیں ہے، ہم دیکھتے ہیں کہ جب آدمی کو کوئی شخص گالی دیتا ہے ،یا کوئی ایسی بات کرتا ہے، جس سے اس کو غصہ آجائے،تو اس کا حلم غصہ سے اور سکون حرکت سے بدل جاتا ہے۔ فلسفہ حال کے مسائل میں جو مسئلہ مسلم الثبوت مانا جاتا ہے۔قانون قدرت کا مسئلہ ہے۔ اور کچھ شبہ نہیں کہ اس سے زیادہ کوئی چیز قطعی اور یقینی نہیں ہے۔لیکن عام خیال یہ پھیلا ہوا ہے کہ یہ مسئلہ زمانہ حال کی تحقیقات میں سے ہے۔یا کم از کم یہ کہ پہلے اس مسئلہ کی طرف خیال رجوع نہیں ہوا تھا۔ اور اسی لیے قدیم لٹریچر میں یہ اصلاح موجود نہیں، لیکن یہ خیال تمام تر غلط ہے ، فلاسفہ اسلام تو اس کے قائل تھے ۔فقہا اور محدثین میں بھی اشاعرہ کے سوا کوئی اس کا منکر نہیں۔چنانچہ ابن تیمیہ نے اپنی تصنیفات میں نہایت تصریح سے اس کو لکھا ہے۔ علامہ ابن حزم نے اس بحث پر ایک مستقل عنوان قائم کیا ہے۔ جس کے الفاظ یہ ہیں: الکلام فی الطبائع،اس بحث میں پہلے اشاعرہ کا قول نقل کیا ہے۔ کہ وہ طبائع کے قائل نہیں، پھر نہایت تفصیل سے اس کا رد لکھا ہے۔ ان کی تقریر کا ماحصل یہ ہے کہ عرب میں متعدد الفاظ تھے،جو اس معنی میں استعمال کیے جاتے تھے۔ مثلا طبیعۃ، خلیفۃ ،عزیزہ، سجیہ، جبلت، حمید بن ثور ، کا شعر ہے۔ الکل امرء یا ام عمر وطبیعۃ وتفریق ما بین الرجال الطبائع۔۔۔ اے ام عمر ہر شخص کی ایک فطرت ہوتی ہے ۔اور آدمیوں میں جو فرق ہے ،وہ فطرتوں ہی کا ہے۔ یہ الفاظ آنحضرتؐ اور صحابہ کے سامنے استعمال کیے گئے۔اور کسی نے اس سے انکار نہیں کیا۔ بلکہ آنحضرت صلعم نے یہ الفاظ استعمال فرمائے، صحابہ ؓ میں سے ایک بزرگ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا کہ مجھ میں جو حلم اور برد باری پائی جاتی ہے، وہ میری جبلت ہے یا تربیت اور کسب سے حاصل ہوئی ہے۔آپ نے فرمایا نہیں ،بلکہ خدا نے تم کو اس پر مجبول کیا ہے۔ اس استدلال کے بعد علامہ موصوف لکھتے ہیں: و کل ھذا الطبائع والعادات مخلوقۃ خلقھا اللہ عز وجل فرتب الطبیعۃ علی انھا لا تستحیل ابدا ولا یمکن تبد لھا عند کل ذی عقل کطبیعۃ الانسان بان یکون ممکنا لہ التصریف فی العلوم والصناعات ان لم یعترضہ آفۃ وطبیعۃ الحمیر والبغال بانہ غیر ممکن منھا ذالک وکطبیعۃ البر ان لا ینبت شعیرا ولا جوزا و ھکذا کل ما فی العالم مقرون با لصفات وھی الطبیعۃ نفسھا۔۔۔۔۔ اور یہ تمام طبائع اور عادات خدا نے پیدا کیے ہیں۔اور طبائع کو اس طرح بنایا ہے ،کہ وہ کسی طرح بدل نہیں سکتیں۔اور اس کا بدلنا کسی عاقل کے نزدیک ممکن نہیں، مثلا انسان کی فطرت ایسی بنائی ہے کہ اگر کوئی آفت نہ آئے تو وہ علوم وہنر سیکھ سکتا ہے۔اور گدھے اور خچر کی فطرت ایسی بنائی ہے کہ ان سے یہ امور ممکن نہیں، اس طرح گہیوں سے جو یا اخروٹ نہیں پیدا ہو سکتا، غرض دنیا میں جتنی چیزیں ہیں،ان میں خاصیتیں پائی جاتی ہیں۔کہ وہی ان کی فطرت ہیں۔ اس کتاب میں بعض خیالات بالکل جدید ہیں، مثلا یہ بحث کی عورتیں پیغمبر ہو سکتی ہیں۔ یا نہیں، اس کے متعلق جہاں تک ہم کو معلوم ہے کسی نے اثبات کا پہلو نہیں لیا۔ لیکن علامہ ابن حزم کا دعویٰ ہے کہ عورتیں پیغمبر ہو سکتی ہیں۔چنانچہ اس بحث کو نہایت تفصیل سے لکھا ہے ،اور قرآن مجید کی متعدد آیتوں سے اس پر استدلال کیا ہے۔ عام خیال یہ ہے کہ عورتوں کا درجہ مردوں سے کم تر ہے۔ لیکن علامہ ابن حزم اس کے خلاف ہیں۔ صحابہ ؓ کی فضیلت پر جہاں بحث کی ہے، وہاں اس مسئلے کو تفصیل سے لکھا ہے۔ اور قرآن مجید کی جن آیتوں سے مردوں کی فضیلت ثابت ہوتی ہے، ان کا جواب دیا ہے،(دیکھو جزو چہارل صفحہ 130 ،)علامہ ابن حزم کا یہ خیال صحیح ہو یا نہ ہو ،لیکن اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ہمارے زمانہ کے تعلیم یافتہ حضرات کے ہم خیال پہلے بھی موجود تھے۔ (الندوہ ج ۲ نمبر ۸ شعبان ۱۳۲۳ ؁ ھ) تفسیر کبیر امام رازی پر ریویو اسلامی علوم میں سب سے زیادہ تصنیفیں جس فن میں لکھی گئی ہیں ،وہ تفسیر کا فن ہے۔تاریخی حوالوں اور سندوں سے ثابت ہے کہ کئی ہزار مستقل کتابیں اس فن میں تصنیف ہوئیں۔لیکن آج تمام اور فنون کی نسبت یہی فن سب سے زیادہ نادر ہے۔قدماء کی تصنیفیں تو سرے سے ناپید ہیں۔ یہاں تک کہ چوتھی صدی کی کوئی تفسیر موجود نہیں، زمانہ ما بعد کا جو سرمایا ہے، بظاہر بہت کچھ ہے۔ لیکن درحقیقت ایک ہی نغمہ ہے۔ جو مختلف سازوں سے ادا ہو تا ہے۔ آٹھ سوبرس کی وسیع مدت میں ہزاروں لاکھوں اہل فن پیدا ہوئے۔لیکن ان تمام قالبوں میں ایک ہی روح کام کر رہی ہے۔عام طریقے سے الگ کسی نے کچھ کہا تو اشاعرہ کے حسن ذوق پر اس کی قربانی چڑھا دی گئی۔ غرض آج جوکچھ موجود ہے، ادب اور لغت کی حیثیت سے زمحشری اور عقلیات کی حیثیت سے امام رازی کے نتائج افکار ہیں، تفسیر کبیر جو ہمارے مضون کا عنوان ہے۔امام موصوف ہی کا کار نامہ ہے۔اور ان کا سب سے بڑا کار نامہ ہے ۔کہ اس لئے ہم چار وناچار اسی کو شوق کی آنکھوں سے لگاتے ہیں اور جان کی طرح عزیز رکھتے ہیں۔ ہنوز درکفم از عمر رفتہ تارے ہست بدستم از سر زلف تو یادگارے ہست زمانہ تصنیف یہ تفسیر غالبا ۵۹۵ ھ؁ سے کچھ پہلے شروع ہوئی، امام رازی نے سورہ آل عمران کی تفسیر جہاں ختم کی ہے۔ خاتمہ میں لکھتے ہیں کہ میں نے اس سورۃ کی تفسیر جمعرات کے دن ربیع الثانی میں ختم کی۔ امام رازیاس کتاب کو پوری نہ کر سکے۔ ان کے بعد ایک اور فاضل نے بقیہ جلدیں تمام کیں۔ لیکن پوری تفسیر امام صاحب ہی کے نام سے مشہور ہے۔یہاں تک کہ اکثر لوگوں کو اس واقعہ کا سرے سے علم ہی نہیں ہے، اور ہے تو یہ معلوم نہیں کہ تکملہ لکھنے والے کون بزرگ تھے۔ابن خلقان نے اس قدر لکھ کر چھوڑ دیا کہ امام نے یہ کتاب پوری نہیں کی۔کشف الظنون میں لکھا ہے کہ شیخ نجم الدین احمد بن القمونی المتوفی ۷۷۷ھ؁ نے تکملہ لکھا اور قاضی القضاۃ شہاب الدین بن خلیل الخولی الدمشقی المتوفی ۶۳۹ھ؁ نے بھی تکملہ لکھا اور اس کا نام واضع رکھا،اس التباس اور گم شدگی کی بڑی وجہ یہ ہوئی کہ تکملہ لکھنے والوں نے امام رازی کے طرز کو اس قدر محفوظ رکھا کہ ذرہ برابر فرق نظر نہیں آتا، امام رازی کا یہ مخصوص وصف ہے کہ وہ مشکل سے مشکل مطلب کو اس قدر آسان اور سہل کر کے لکھتے کہ بچہ تک سمجھ سکتا ہے۔ اور اس خصوصیت میں تمام اہل اسلام میں کوئی ان کا ہم سر نہیں ہو سکا۔ لیکن تفسیر کبیر کے تکملہ نگاروں نے اس طرز کو اس کے کمال تک پہنچایا کہ خود گم ہو گئے۔ اور آج دنیا ان کی تحریر کو بھی امام رازی ہی کی تحریر سمجھ رہی ہے۔ یہ امر افسوس ناک ہے کہ یہ محقق نہیں معلوم ہوتا کہ کہاں تک اصل تفسیر ہے اور کہاں سے تکملہ شروع ہوا ہے۔ شہاب نے شفائے قاضی عیاض کی شرح میں لکھا ہے کہ امام نے صرف سورہء انبیا تک تفسیر لکھی تھی۔ لیکن یہ صحیح نہیں،سورہ فتح تک امام صاحب کی تفسیر کا لکھا جانا یقینی ہے۔ اس سورہ کی تفسیر کے خاتمہ میں لکھا ہے کہ ۶۰۳ ھ؁ میں تمام ہوئی۔ امام کی عام عادت ہے کہ ہر سورہ کی تفسیر کے بعد اس کے ختم ہونے کی تاریخ لکھ دیتے ہیں۔امام صاحب نے ۶۰۶ ھ؁ میں وفات پائی،اس لئے ۶۰۳ ھ؁ ان کی زندگی کا زمانہ ہے۔اس سورۃ کے بعد پھر کسی قسم کی تصریح نہیں ملتی ،جس سے ثابت ہوتا ہو کہ یہیں سے تکملہ نگاروں کا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔ غرض آٹھ جلدوں میں سات جلدیں خود امام صاحب کی تصنیف ہیں، کل زمانہ تصنیف کم وبیش آٹھ برس ہے۔تصنیف کا زمانہ جس پریشانی اور بے سرو سامانی میں گزرا ہے۔ اس کا اندازہ اس سے ہو گا کہ مختلف حصے مختلف ممالک میں لکھے گئے ہیں۔ مثلا سورہ ء ابراہیم کی تفسیر آخر شعبان ۶۰۱ ھ؁ میں بغداد کے صحرا میں تمام کی۔ سورہ ء بنی اسرائیل کی تفسیر ۶۰۱ ھ؁ میں غزنین میں ختم ہوئی، ایک موقع پر لکھا ہے کہ سلطنت کی برہمی اور طوائف الملوکی کی خانہ جنگیوں کی وجہ سے نہایت بے اطمینانی اور پریشانی ہے۔ ان سب سے بڑھ کر یہ کہ چوتھی جلد یعنی سورہ یونس کی تفسیر لکھنے کے زمانہ میں ۶۰۱ ھ؁ میں ان کے سب سے عزیز فرزند محمد نے انتقال کیا۔اس واقعہ نے ان کو سخت صدمہ پہنچایا، خود لکھتے ہیں:۔ ختمت تفسیر ھذا السورۃ یوم السبت من شھر اللہ الاصم رجب سنہ احدی وستمائۃ وکنت ضیق الصدر کثیر الحزن بسبب وفات الولد الصالح محمد۔۔۔ میں نے اس سورۃ کی تفسیر ہفتہ کے دن رجب ۶۰۱ ھ؁ میں ختم کی اور میں فرزند صالح محمد کی وفات کی وجہ سے سخت غمگین اور تنگ دل تھا۔ جوان اور صالح بیٹے کے مرنے کا یہ داغ تھا کہ متعدد سورتوں کے خاتمہ میں بار بار روتے ہیں اور دوسروں کو رلاتے ہیں، یہاں تک کہ سورہ ء یوسف کی تفسیر کے خاتمہ میں ایک پر درد مرثیہ لکھا ہے۔ اور تفسیر میں شامل کیا ہے۔ اس کے چند اشعار یہ ہیں۔ فلو کانت الا قدار منقادۃ لنا ولو کانت الا ملاک تا خذر شوۃ سابکی علیک العمر با لدم دائما سلام علی قبر دفنت بتربتہ وما صدنی عن جعل جفنی مدفنا حیاتی و موتی واحد بعد موتکم،فدنیا ک من حماک با لروح والجسم خضعنا لھا بالرق فی الحکم والا سم ولم انحرف عن ذاک فی الکیف والکم واتخفک الرحمٰن با لکرم الجسم لجسمک الا انہ ابدا ایھی بل الموت اولیٰ من مدا ومتہ انعم۔۔۔۔۔۔۔۔ ابتدائے تصنیف کے زمانہ سے کبھی ایک جگہ چین سے رہنا نصیب نہیں ہوا، عالم گیر خون ریزیوں جان اور مال کے لا لے ہیں۔جوان اور قابل بیٹا بے کسی اور غربت کی حالت میں مر چکا ہے۔یہ سب کچھ ہے، لیکن سلف کی یاد گار پہلو میں ایک دن ہے کہ جو ان تمام قیامت انگیز مصائب پر بھی نہیں دینا، جوان اور لائق بیٹے کی لاش سامنے ہے۔ لیکن مضامین اسی زور ،اسی بلندی اسی شان کے ساتھ قلم سے نکلتے آتے ہیں۔ گویا آسمان سے ملکوتی فوجیں اتر رہی ہیں۔ ذکرتک والخطی یخطر بیننا و قد نھلت منا المثقغۃ السمر میں تجھ کویاد کر رہا تھا،اور حالت یہ تھی کہ برچھیاں جسم سے پار ہو رہی تھیں۔اور نیزے میرے جسم سے خون پی رہے تھے۔ تصنیف کی روزانہ مقدار تصنیف کی روزانہ مقدار بھی حیرت انگیز ہے۔ اکثر سورتوں کے خاتمہ سے تصنیف کی مدت کا پتا چلتا ہے۔ مثلا سورۃ انفال کے اخیر میں لکھا ہے کہ رمضان 601ء میں تمام ہوئی۔ اس کے بعد سورۃ توبہ کی تفسیر شروع ہوتی ہے۔ اس کے خاتمہ میں لکھتے ہیں کہ 14رمضان میں تمام ہوئی۔یعنی زیادہ سے زیادہ دو ہفتے صرف ہوئے۔ سورہ توبہ کی تفسیر مصری چھاپے کے نسخہ میں 193 صفحوں میں آئی ہے۔ ہر صفحہ میں31 سطریں ہیں۔اور نہایت باریک خط اور در آورد کتابت ہے۔اس حساب سے روزانہ کم وبیش بیس صفحے ہوتے ہیں۔اس قدر آج کوئی شخص کتابت بھی نہیں کر سکتا۔یہ بھی ملحوظ رکھنا چاہیئے کہ تصنیف کے زمانہ میں اور بھی بہت سے کام یعنی درس وتدریس، افتا ء وعظ وپند روزانہ جاری رہتے تھے۔اور دن کا بڑا حصہ ان مشغلوں میں صرف ہو جاتا تھا۔ تفیسر کبیر کے متعلق علماء کی رائیں اس تفسیر کا انداز تمام تفسیروں سے الگ ہے۔ اس لئے بعض تقلید پسندوں نے نکتہ چینی کی نگاہ سے دیکھا ہے۔ ابو حیان کہتے ہیں کہ اس کتاب میں بہت سی فضول باتیں جمع کر دی گئی ہیں۔ جن سے فن تفسیر کا کوئی تعلق نہیں، اسی بنا پر بعض علماء نے کہا ہے کہ اس تفسیر میں سب کچھ ہے۔ مگر تفسیر نہیں۔ سراج الدین مغربی نے کشف الظنون ذکر فن تفسیر ایک کتاب دو جلدوں میں جس میں تفسیر کبیر کی غلطیاں اور بے اعتدالیاں بتائی ہیں۔امام رازی سے پہلے جس قدر تفسیریں لکھی گئی ہیں۔ خاص خاص موضوع پر تھیں۔بعض میں صرف احادیث اور آثار جمع کیے تھے۔بعض میں فن بلاغت اور عربیت سے بحث تھی۔ بعض میں صرف فقہی احکام کو طول دیا تھا۔بعض میں عقلی مباحث تھے۔تفسیر کبیر پہلی تفسیر ہے ،جس میں تمام حیثیتیں جمع کی ہیں۔اور اس لحاظ سے وہ گویا تمام تفسیروں کا مجموعہ ہے۔ تفسیر کبیر کے ماخذ سب سے پہلے ہماری نظر اس پر پڑتی ہے کہ امام صاحب نے جب تفسیر لکھنی چاہیئے تو قدماء کا کیا سرمایا ان کے پاس موجود تھا۔ اس زمانہ تک اگر چہ قدماء خصوصا معتزلہ کی نادر تصنیفات بر باد ہو چکی تھیں۔تاہم تفیسر کبیر کے حوالوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ امہات کتاب موجود تھیں۔ فن تفیسر کی سب سے کبیر کتاب جو عقلی مذاق پر لکھی گئی تھی۔ اور جس میں قرآن مجید کو عقل سے تطبیق دی گئی تھی۔ ابو مسلم اصفہانی المتوفی ۳۲۲ ھ؁ کی تفسیر ہے۔ یہ چودہ جلدوں میں ہے۔اور امام رازی سے پہلے وہی تفیسر کبیر کے نام سے پکاری جاتی تھی۔ یہ تفسیر آج اگر چہ بالکل ناپید ہے۔ لیکن امام رازی کے زمانہ تک موجود تھی۔ امام صاحب اکثر اس سے مدد لیتے ہیں۔ اور جا بجا بے اختیار اس کی تعریف کرتے ہیں۔چنانچہ سورہء آل عمران کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ و ابو مسلم حسن الکلام فی التفسیر کثیر علی الدقائق واللطائف۔۔۔۔۔ اسی انداز کی دوسری تفسیر کعبی کی تھی۔ جس نے ۳۰۹ء ؁ میں وفات پائی۔ یہ تفسیر بھی جیسا کہ کشف الظنون کا بیان ہے۔ 12جلدوں میں تھی، کعبی مشہور متکلم تھا۔ اور اسی انداز میں تفسیر لکھی تھی۔ابو مسلم اور کعبی دونوں متزلی تھے۔ اور گو امام رازی نے اپنی تفسیر میں معتزلہ کو خاص طور پر معرکہ آرائی کے لئے منتخب کیا ہے۔اور اس فرقہ کے مقابلہ میں اپنی تمام طاقت صرف کر دیتے ہیں۔ تاہم اس وقت تک مسلمانوں میں انصاف پسندی کا مادہ موجود تھا۔ اور اس فلسفہ سے واقف تھے۔ ع متاع خویش زہر دکان کہ باشد تعجب ہے کہ امام صاحب قرآن مجید کے متعلق جاہز اور عبد القاہر جر جانی کی کسی تصنیف کا حوالہ نہیں دیتے۔جس سے قیاس ہوتا ہے کہ یہ نوادر ان کے زمانہ تک ناپید ہو چکے تھے۔ افسوس ہے کہ قصص اور سیر کے متعلق امام صاحب کی معلومات کا سر چشمہ ’’مقاتل ،کلبی ضحاک کی تفسیریں ہیں۔‘‘ جو عموما نا معتبر ہیں۔ محدثین کی تفسیروں سے امام صاحب نے بہت کم فائدہ اٹھایا۔ قرآ ن مجید کی فصاحت اور بلاغت کے متعلق بھی قدماء کی کتابیں ان کے پیش نظر نہ تھیں۔ جا حظ نے خاص اس موضوع پر جو کتاب لکھی ہے۔ اس کا کہیں حوالہ نہیں۔ عبد القاہر جر جانی کی اعجاز القرآن کا کہیں ذکر نہیں۔ البتہ جا بجا خود اپنی کتاب اعجاز القرآن کا حوالہ دیتے ہیں۔افسوس ہے کہ آج یہ کتاب موجود نہیں ہے۔احکام القرآن کے نام سے جوتفسیریں لکھی گئی ہیں۔اور جن میں قرآن کے صرف فقہی احکام سے بحث ہے۔ان میں سے ابو بکر رازی کی کتاب کا اکثر ذکر ہے۔ اور چونکہ ابو بکر رازی حنفی ہیں۔اور شافعی فقہ کے خلاف آیتوں کی تفسیر کرتے ہیں۔اس لیے بڑے زور شور سے ان کا رد لکھتے ہیں۔ یہاں تک کہ بعض جگہ سخت کلامی سے بھی دریغ نہیں کرتے ۔ (۲۳ اپریل ۱۹۰۸ ئ؁ لکھنئو ) (الندوہ ج نمبر ۵، ربیع الثانی ۱۳۲۶ ھجری) یاد گار سلف کتاب الکافی فی الکحل یورپ میں جدید تحقیقات نے فن طب کو اس قدر وسیع کر دیا ہے کہ ایک شخص اس کے تمام ابواب کا احاطہ نہیں کر سکتا ہے۔اس لیے خصوصی اپیشلسٹ اطبا ء پیدا ہو گئے ہیں۔یعنی ایک طبیب صرف ایک مرض یا ایک عضو کے تمام امراض کا علاج کر سکتا ہے۔اور اس کو کمال تک پہنچاتا ہے۔اسی بناء پر تصنیفات میں بھی یہی حالت پیدا ہو گئی ہے۔ ایک ایک مرض یا ایک ایک عضو پر مستقل اور مخصوص کتابیں لکھی جاتی ہیں۔لیکن یہ ہم کو کبھی خیال تک نہیں آسکتا تھا کہ آج سے پہلے بھی دنیا اس حد تک ترقی کی حد تک پہنچ چکی ہو گی۔ اتفاق سے جناب حاذق الملک حکیم اجمل خاں صاحب کے کتب خانہ میں ایک کتاب عربی زبان میں نظر سے گزری۔ جو صرف آنکھ کی تشریح اور آنکھ کے تمام امراض کے متعلق ہے۔ ضنخامت 400 صفحوں سے زیادہ ہے۔مصنف کا نام ہارون بن حکیم موفق الدولہ بن ابی الحسن الحلبی ہے۔ دیباچہ سے معلوم ہوا کہ مصنف سے پہلے بھی خاص اس فن پر کثرت سے کتابیں لکھی جا چکی ہیں۔ چنانچہ تفصیل یہ ہے۔ نمبر شمار نام کتاب نام مصنف ۱ کتاب العین فی عشر مقالات حنین بن اسحاق ۲ کتاب العین فی ثلاثۃ مقالات حنین بن اسحاق ۳ کتاب تعریف امراض العین جیش بن اخت خنین ۴ تذکرہ علی بن عیسیٰ کحال ۵ شرح تذکرہ دانیال بن اشعیا ۶ مشجر ابو بکر رازی ۷ کتاب الکحل ایضا ۸ کتاب العین عکبری ۹ مقالۃ فی العین ابن ذہیل مقری کحال ۱۰ مقالہ فی نزول الماء ابن ذہیل ۱۱ کتاب العین عبدان کحال ۱۲ تذکرہ منصور ۱۳ نزہتہ الا فکار فی علاج الابصار ابو المطرق ذو الو زارتین ۱۴ اصلاح البا صرہ والبصیرہ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱۵ کتاب العین ہیجار الکحال ۱۶ ارجوزہ حصینی ۱۷ مقص ۲۔مقراض ۱۸ مقراض ۳۔ کازہ ایوں نامہ از گل بدن ایک طرف تو ہمارے مولوی مسلمانوں کو کافر بنانے میں مصروف ہیں۔ اور اس کام میں وہ کوششیں کرتے ہیں جو صحابہ ؓ کافروں کے مسلمان بنانے میں کرتے تھے۔دوسری طرف یورپ کی علمی فیاضیوں کا بادل عالم پر آب حیات برسا رہا ہے۔ دنیا کی تمام قوموں کے مردہ علوم، فنون تاریخ اور یاد گاریں زمین کے طبقے الٹ الٹ کر نکالے جا رہے ہیں۔اور دنیا کی نمائش گاہ ان گم شدہ جواہرات سے اس طرح سجا دی گئی ہے کہ گویا پچھلا زمانہ اسی سرو سامانی کے ساتھ دوبارہ سامنے آگیا ہے۔ ان ہی علمی کوششوں میں نہ صرف مردوں کوگروہ مصروف ہے۔ بلکہ طبقہ اناث بھی جو ہمارے ملک میں صرف ایوان عیش کے سجانے کی تصویریں ہیں۔اسی ہمت ،جوش اور استقلال سے مصروف ہیں۔ جو ازل سے آج تک مردوں کا خاصہ سمجھا جاتا تھا۔ مدت ہوئی جب میں علی گڑھ میں پروفیسر تھا۔ ایک بار پرنسپل نے مجھ سے کہا کہ گلبدن کا ہمایوں نامہ کہاں ملے گا؟۔ لندن سے ایک خاتون نے اس کا پتا پوچھا ہے۔ مجھ کو اپنی تاریخ دانی پر ناز تھا۔ میرا غرور توڑنے کے لیے یہ کچھ کم بات نہ تھی کہ میں ہمایوں نامہ ایک طرف ،سرے سے گل بدن کا نہیں جانتا تھا۔میں نے ہندوستان کے مشہور کتب خانوں کو خط لکھے۔ کہیں سے جواب نہ آیا۔ لیکن اب یہی نایاب چیز عام ہو کر بازاروں میں آگئی ہے۔ گلبدن بیگم بابر کی بیٹی تھیں۔ ہمایوں کی بہن اور شہنشاہ اکبر کی پھوپھی تھیں۔ اس نے بابر اور ہمایوں کے ھالات پر ایک کتاب لکھی اور ہمایوں نامہ نام رکھا۔ ہمایوں نامہ چونکہ ایک عورت کی تصنیف تھی۔یورپ کی خوش مذاقی نے اس کی اشاعت کے لئے ایک خاتون ہی کا انتخاب کیا۔ یعنی لیڈی انیٹ ایس بیورج کو اس کتاب کے بہم پہنچانے کا خیال ہوا۔ لیڈی موصوف نے اس کتاب کی تلاش میں بے انتہا جان فشانیاں کیں۔ اس سلسلہ میں یہ بات بیان کرنے کے قابل ہے کہ لیڈی صاحبہ نے شوق جستجو میں اردو تصنیفات پر بھی نظر ڈالی۔ اور چونکہ وہ نا امید ہو چکی تھیں۔ اس لیے جب ان کو مولوی محمد حسین آزاد کی دربار اکبری میں گلبدن بیگم کا نام ملا تو ان کی امیدیں دوبارہ تازہ ہو گئیں۔انہوں نے بمبئی میں اپنے ایک دوست کو خط لکھا کہ مولوی صاحب مو صوف سے مل کر ہمایوں نامہ کا پتا لگائیں۔ لیکن مولوی محمد حسین آزاد صاحب سے مل کر انہیں معلوم ہوا کہ آزاد نے جو کچھ لکھا تھا وہ خود لیڈی صاحبہ کی خوشہ چینی تھی۔ یعنی اس آرٹیکل سے ماخوذ تھا ۔جو لیڈی صاحبہ اس سے پہلے ایک انگریزی پرچہ میں گلبدن کے متعلق لکھ چکی تھیں۔ ع۔ آنکس کہ گفت قصہء ما ہم زما شنید فاعتبروا یا اولی الا بصار۔۔ بہر حال لیڈی صاحبہ کی تحقیقات کا سلسلہ جاری رہا۔یہاں تک کہ انہوں نے اس کتاب کے متعدد نسخے بہم پہنچائے۔اور نہ صرف کتاب کو چھاپا ،بلکہ حسب ذیل باتیں اضافہ کیں۔ ۱۔ گلبدن بیگم کی نہایت مفصل سوانح عمری لکھی۔ ۲۔ کتاب کا انگریزی ترجمہ کیا۔ ۳۔ترکی الفاظ نہایت کثرت سے تھے،ان کی تحقیق کی اور ان کو حل کیا۔ ۴۔ کتاب میں سینکڑوں شاہی بیگمات کے نام آگئے تھے۔ ان سب کے حالات لکھے۔ ۵۔ جس قدر نام کتاب میں آئے ،ان کی مفصل فہرست شامل کی،تاکہ جس شخص کے متعلق کچھ دیکھنا چاہیئں فورا اس کا پتہ لگ جائے۔ یہ کتاب ۱۹۰۲ ئ؁ میں چھپ کر بمقام لندن شائع ہوئی۔اور نو روپیہ (لعہ) قیمت پر بمئبی میں تھیکر کی دکان سے مل سکتی ہے۔ اب ہم اصل کتاب پر مختلف حیثیتوں سے نظر ڈالتے ہیں۔ انشا پردازی سب سے پہلے ہم کو اس بات پر حیرت ہوتی ہے کہ گلبدن بیگم کا زمانہ وہ زمانہ ہے۔ جب تیموری سلطنت کی بنیاد قائم ہو رہی تھی۔ایسے ابتدائی زمانہ میں مسلمانوں کی تہذیب وتمدن کی یہ حالت تھی کہ بیگمات ایسی تصنیفیں کرتی تھیں۔ جو آج مردوں سے بن نہیں آسکتیں۔ فارسی زبان میں سادہ اور صاف واقعہ نگاری کا عمدہ سے عمدہ نمونہ،تزک جہانگیری اور رقعات عالم گیری ہیں۔اوراس میں شبہ نہیں کہ یہ کتابیں سادگی اور لطافت کے لحاظ سے اس قابل ہیں کہ ہزاروں ظہوری اور وقائع نعمت خان ان پر نثار کر دی جائیں۔لیکن انصاف یہ ہے کہ ہمایوں نامہ کچھ ان سے بھی آگے بڑھا ہوا ہے۔ اس کے چھوٹے چھوٹے فقرے سادہ اور بے تکلف الفاظ، روز مرہ عام بول چال، طرز ادا کی بے ساختگی دل کو بے اختیار کر دیتی ہے۔ چند نمونے ملاحظہ ہوں ۔ بابر نے ایک چھوٹے بچے کو ایک اشرفی بھیجی تھی، کہ سوراخ کر کے اس کے گلے میں پہنا دینا۔ لیکن پہلے اس کی آنکھیں بند کر دینا کہ دیکھنے نہ پائے۔ بچہ نے گو دیکھا نہیں، لیکن اشرفی کو ہاتھ سے ٹٹولتا ہے اور خوش ہو کر اچھلتا ہے۔ ساتھ ہی دونوں ہاتھوں سے اشرفی کو مٹھی میں دبائے ہوئے ہے کہ کوئی چھین نہ لے۔ اس واقعہ کو یوں ادا کرتی ہیں۔ ’’ حکم بود کہ اشرفی را سوراخ کردہ و چشمش را بستہ درگردنش انداختہ۔ درون حرم فرستید یمحروے کہ اشرفی سوراخ کردہ در گردنش انداختند از گرانی، طرفہ بے طاقتی واضطراب وخوش حالی میکرد و بہ دودست اشرفی را گرفتہ طرفیگہا میکرد کہ کسی اشرفی مرا نگیرد ‘‘۔ ایک اور موقع حضرت بادشاہ فرمودند کہ آنکہ جانم (بیگم کا خطاب ہے)۔ اگر حکم شوند در حوض آب بمانند آکہ جانم گفتند، بسیار خوب، خود آمدہ بر سر زینہ نشستند و مردم غافل کہ یک بارگی شراس زدہ آب آمد(پانی میں اتریں) جوانان را طرفہ اضطرابے دست داد، حضرت بادشاہ فرمودند دخلے ندارد (کچھ مضائقہ نہیں)۔ حمیدہ بانو (اکبر شاہ کی ماں) سے جب ہمایوں نے شادی کرنا چاہی،تو وہ راضی نہیں ہوتی تھیں۔ ایک مہینہ سے زیادہ جھگڑا رہا۔ بالاخر بڑی مشکلوں سے راضی ہوئیں۔ اس واقعہ کو یوں ادا کیا ہے۔ ’’ غرض کہ تا چہل روز از جہتہ حمیدہ بانو مبالغہ ومناقشہ بود ،بیگم راضی نہ شدند، آخر حضرت والدہ (دلدار بیگم) نصیحت کر دند کہ آخر خود بہ کسے خواہی رسید،بہتر از بادشاہ کہ خواہد بود؟۔ بیگم گفتند کہ آرے بہ کسے خواہم رسید کہ دست من بگریبان اوبرسد۔ نہ آنکہ بہ کسے برسم کہ دست من میدانم بہ دامن اور نہ رسد۔‘‘ اس آزادی اور بلند حوصلگی کو دیکھو کہ ایک بادشاہ ذوی الاقتدار شادی کرنا چاہتا ہے۔ حمیدہ بانو نہیں مانتی،اور جب شاہ بیگم نے کہا کہ آخر کسی کے پلے تو بندھے گی ہی، تو کہتی ہے کہ ہاں اس کے پلے باندھوں گی۔ جس کے گریبان تک میرا ہاتھ پہنچے۔ نہ اس کے کہ میرا ہاتھ اس کے دامن تک بھی نہ پہنچے۔ قدیم تصنیفات میں روز مرہ کے محاورے بہت کم ملتے ہیں۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ ارباب قلم نے تصنیفی زبان علیحدہ قرار دے لی تھی۔اس میں عام بول چال اور روز مرہ کا لانا خلاف متانت سمجھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ آج سے تین سو سال پہلے کی زبان نہیں معلوم ہو سکتی۔ جس قدر کتابیں موجود ہیں۔ سب میں وہی مصنوعی اور ساختہ زبان مستعمل ہے۔ لیکن ہمایوں نامہ میں کثرت سے ایسے محاورے ملتے ہیں، مثال کے طور پر کچھ نمونے درج ہیں۔ ایستادہ دریافتم کھڑے کھڑے ملا پشواز آمدند استقبال کو آئے قلنگی شد محاصرہ ہوا طرفگیہا میکرد شوخیاں کرتا تھا بیائید تا یکدیگرم را دریا بیم آؤ گلے ملیں۔ ہندال مرزا چہ مقدار شدہ ہندال مرزا اب کتنا بڑا ہو گیا ہے۔ پائے میداد، ہار جاتا تھا۔ جان درازی طول عمر آب را تنگ نمی کردند پانی بند نہیں کرتے تھے۔ خفتن شد، سونے کا وقت آیا۔ نماز دیگرے بود عصر کی نماز کا وقت تھا۔ مرا بہ شمشیر گرفتند تلواریں لے کر مجھ پر آپڑے۔ سروپا ۔ لباس سر حضرت شوم آپ پر قربان ہوں۔ روستاے گری کنوار پن ساعتے معطل کردند ذرا دیر توقف کیا۔ اسپش اندک بلند رفت، اس کا گھوڑا ذرا اونچا اڑا۔ تاریخی مذاق ہم کو سب سے پہلے اس بات پر حیرت ہوتی ہے کہ شاہی خاندان کی ناز پروردہ خاتون تاریخ نویسی کے فرض اور ذمہ داری سے کس قدر واقف ہے۔ اس نے یہ کتاب اپنی مرضی سے نہیں لکھی، اور شاید لکھنا پسند بھی نہ کرتی،لیکن اکبر اعظم کی فرمائش ٹالی نہیں جا سکتی تھی۔ اس نے تعمیل حکم کی۔ تاہم فرائض تاریخ نویسی کے لحاظ سے سب سے پہلے یہ ظاہر کر دینا ضروری سمجھتی تھی:۔ وقتیکہ حضرت فردوس مکانی (بابر بادشاہ) از دار الفنا بہ ازدر البقا خرامیدند ایں حقیر ھشت سالہ بود۔وبیان واقع شایدکمترک بہ خاطر ماندہ بود، بنا بر حکم بادشاہی (اکبر بادشاہ) آنچہ شنیدہ و بخاطر بود نوشتہ می شود۔‘‘ یہ خاص عرب مورخین کا مذاق ہے کہ روایت کا سلسلہ اخیر تک پہنچا دیتے ہیں۔ گلبدن کی عمر بابر کی وفات کے وقت صرف آٹھ برس کی تھی۔اس لیے اس نے صاف اس کا اظہار کیا ہے۔اور اسی پر اکتفا نہیں کیا۔ بلکہ یہ بھی بہ تصریح کہہ دیا کہ اس عمر کے واقعات کم یاد رہتے ہیں۔ساتھ ہی مجبوری بھی ظاہر کی کہ بادشاہ کا حکم تھا۔آگے چل کر ہمایوں کے واقعات میں بھی جو واقعہ خود اس کی آنکھوں کے سامنے سے نہیں گزرا تھا۔ اس کے متعلق لکھ دیتی ہے کہ میں نے فلاں شخص سے سنا ہے۔ ایشیائی مورخین کی عادت کو لیتے ہیں۔اور واقعات میں سے صرف جنگ وجدل، بغاوت اور خون ریزیوں کے واقعات کو لیتے ہیں۔ اور ان کو خوب پھیلاتے ہیں۔ اس لئے یورپ والے ہماری تاریخ کو قصائی کی دکان کہتے ہیں۔اور واقعی ان تاریخوں سے اس عہد کے تمدن، شائستگی، پالٹیکس، معاشرت ،خانگی زندگی کا پتا لگانا چاہیئں،تو بہت کم کام یابی ہوتی ہے۔گلبدن بیگم یا تو اس نکتہ سے واقف تھیں۔ یا اس لیے کہ عورت تھیں۔ اور لڑائی بھڑائی کی باتوں میں اس کو لطف نہ آتا ہوگا۔ بہر حال وجہ کچھ ہو، لیکن کتاب اس مذاق میں لکھی ہے کہ اس عہد کی معاشرت اور زندگی کی تصویر آنکھوں کے سامنے آجاتی ہے۔کسی شادی یا جلسہ کی تقریب کا حال لکھتی ہے تو من و عن تصویر کھینچ دیتی ہے۔مثلا میرزا ہندال کی شادی کے ذکر میں لکھتی ہیں۔ ’’ ومردم دیگر بدست چپ بادشاہ نشستہ بودند پر توشک زر دوزی معصومہ سلطان بیگم و گل رنگ بیگم (اور بہت سی بیگمات کے نام گنوائے ہیں۔)و طرح خانہ طلسم بدین تفصیل: خانہ کلاں مثمن کہ دران جا طوی(جلسہ) دادند، خانہ خورد دیگر برابرآن ہم مثمن بود، تخت مر صع نہادہ در بالاد پایان تخت او شقہائے زر دوزی، انداختہ و شد ہائے مراد ارید آویختہ بہ مقدار یک نیم گز درازی، ہرارے دو کرہء آئینہ در پایان، در مثمن خورد چھپر کھٹ مرصع نہادہ و پاندان و صراحی و مشربہ (گلاس) دران خانہ، اسباب سپہ گری بود، مثل شمشیر مر صع، فور مرصع، کمر خنجر مر صع،و حمد ھر وکہپورہ مرصع وترکش (شادی میں بھی ہتھیار ساتھ ہیں۔) وخانہ دوم کہ آن را پر تلہ خانہ سعادت می گفتند، درآن خانہ جائے نماز وکتاب ہا وقلمدان ہائے مرصع وجزدانہائے خوش ومرقعہائے لطیف مع تصویر ہائے وخطہائے خوش نہادہ بودند ، در لب حوض تالارے بود (کمرہ) ودر تالا ء دریچہ ہا ابرک گرفتہ بودند کہ جوانان در تالار ،نشستند و بازی گراں بازی میکردند ، بازار زنانہ نیز کردہ بودند ساختہ بودند وپایان باغے ساختہ بودند از قسم قلغہ وتاج خروس و نافرمان ولالہ کاشتہ بودند۔‘‘ اس کتاب سے اس زمانہ کی تہذیب ومعاشرت کے جو حالات معلوم ہوتے ہیں، ان میں سے بعض قابل ذکر یہ ہیں۔ ۱۔ عورتیں لکھنے پڑھنے کے علاوہ فنون سپہ گری سے خوب واقف ہوتی تھیں۔اور سفر اور سیر وشکار میں عموما گھوڑے پر سوار ہوا کرتی تھیں۔ یہاں تک کہ بعض عورتیں لباس بھی مردانہ پہنتی تھیں۔ مہر انگیز بیگم کے حال میں لکھا ہے۔: لباس مردانہ پوشیدند وبہ انواع ہنر ہا آراستہ ہمچو زاہگیر تراشی وچوگان بازی وتیر اندازی واکثر ساز ہا (باجے) می نواختند۔ ایک موقع پر لکھا ہے:۔ ماہ چوچک بیگم نادانستہ اندک بلند رفت۔ ہمایوں جب ایران گیا تو حمیدہ بانو بیگم (اکبر کی ماں) بھی ساتھ تھی۔اور محافہ میں سفر کرتی تھیں۔ لیکن ہمایوں کہ بہن ہمیشہ گھوڑے پر سوار ہو کر بادشاہ کے عقب میں چلتی تھی۔ یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ عورتیں موسیقی میں بھی کمال رکھتی تھیں،اور خاندان کے لوگ جب ایک جگہ مل کر بیٹھتے تھے تو عورتیں خود بھی گانے میں شریک ہوتی تھیں۔ لیکن یہ احتیاط ہوتی تھی کہ اس وقت کوئی بے گانہ آدمی نہیں ہوتا تھا۔ ۲۔ عورتوں کا نہایت احترام کیا جاتا تھا۔ بابر کی بیوی جس کا نام ماہم بیگم تھا ،جب کابل سے ہندوستان میں آئیں تو بابر دوکوس تک پیدل استقبال کو گیا۔ اور جب بیگم کی سواری سامنے آئی اور اس نے بابر کو پیادہ دیکھ کر سواری سے اترنا چاہا تو بابر نہ مانا اور سواری کے ساتھ ساتھ پیدل مکان تک آیا۔ دل چسپ واقعات کو گلبدن ان الفاظ میں لکھتی ہیں:۔ حضرت بادشاہ (بابر) خیال داشتند کہ تاکول جلالی پیشو از (استقبال) روند، نماز شام بکے آمدہ ،گفت کہ حضرت (ماہم بیگم) دا ورود کردہے گزاشتہ آمدہ ام، حضرت بادشاہ بابام (بابر) تا اسپ آوردند، تحمل نہ کردند وپیادہ رواں شدند،ودرپیش خانہ تنچہ ماہم در خوردند اگام یعنی ماہم بیگم می خواستند کہ پیادہ شوند بادشاہ بابا نماند و خود در جلوے اگام تا خانہ خود پیادہ آمدند۔‘‘ ملکی معاملات میں عورتوں سے مشورہ اور رائے لی جاتی تھی۔اور ہر قسم کے امور میں ان کی شرکت ضروری سمجھتے تھے۔ ۳۔ آج یہ بات حیرت انگیز معلوم ہو گی کہ اس وقت عورتوں کو اپنی شادی اور نکاح کے معاملہ میں پوری پوری آزادی حاصل تھی۔ہمایوں نے جب حمیدہ بیگم سے شادی کرنا چاہی،تو اس نے صاف انکار کر دیا۔اور مدت تک اپنے ارادہ اور ضد پر قائم رہی۔ اور جب معزز بیگمات نے کہا کہ آخر کسی سے شادی کرنا ہی ہے، بادشاہ سے کیوں احتراز ہے۔ تو حمیدہ نے کہا کہ میں اس سے شادی کروں گی،جس سے برابری کا دعویٰ ہو سکے۔ بادشاہ کا اور میرا کیا جوڑ۔ ۴۔ لیکن ہمارے زمانہ کے پردہ شکن گروہ کو یہ سن کر مایوسی ہو گی کہ ان سب باتوں کے ساتھ عورتیں نا محرم سے پردہ کرتی تھیں۔ اور بغیر نقاب اور برقع کے باہر نہیں نکلتی تھیں۔ہمایوں نے جب نکاح سے پہلے حمیدہ بانو کو بلایا ہے۔ تو اس نے کہا آداب سلطنت کے لحاظ سے ایک دفعہ میں بادشاہ کے سلام کو جا چکی ہوں۔ دوبارہ جانا نا محرم کے سامنے جانا ہے۔ چنانچہ خود حمیدہ بانو کے یہ الفاظ ہیں:۔ ’’ دیدن بادشاہ یک مرتبہ جائز است در مرتبہ ء دیگر نا محرم است ہن، نمی آیم‘‘۔ ۱۔ آکاماں کو کہتے ہیں میم متکلم کی ہے، یعنی میری ماں،اسی طرح بابا میں میم متکلم لگا کر بابا م کر دیا ہے ،یعنی میرے والد چنانچہ جب تک شادی نہیں ہوئی،کبھی ہمایوں کے سامنے نہیں آئی۔ ۵۔ ایشیائی سلطنتوں میں بادشاہ نہ صرف تخت پر بلکہ خانگی زندگی میں بھی بادشاہ ہوتا ہے۔ بادشاہ کا خرد سال پیارا بچہ جب بھی اس کے سامنے جاتا ہے تو پیارے باپ کی گود میں نہیں ، بلکہ ا یک شہنشاہ کے دربار میں جاتا ہے۔یہ بادشاہ پرستی اور شخصیت پرستی کی اخیر حد ہے۔اور قومی زندگیکی یہ آخری علامت ہے۔ لیکن معلوم ہوتا ہے کہ ابتدا میں یہ حالت نہ تھی، بابر اور ہمایوں اسی طرح اپنے عزیز واقارب اور بھائی بہنوں سے ملتے تھے۔جیسے ایک عام آدمی اپنے عزیزوں سے ملتا ہے۔گلبدن بیگم اس قسم کے واقعات کو نہایت دل چسپی سے لکھتی ہیں۔ اور ان موقعوں پر اس کے قلم سے محبت کا آب حیات ٹپکتا ہے۔ہمایوں جب بیمار ہوا،اوراس کی بہنیں اس کی عیادت کو آئیں،اس موقع پر لکھتی ہے:۔ ’’ این حقیر ہمشیر ہا ملازمت آن حضرت فرشتہ خصال رفتہ کردم ہر گاہ کہ آن حضرت بے ہوش خویش می آمدند،از زبان در افشان خویش پرسش ،می فرمودند، خواہران ، خوش آمدید، بیائید تا یک دیگر را بیم کہ شما را در نیافتہ ایم‘‘۔ ایک اور موقع پر ہمایوں گلبدن بیگم سے کہتا ہے کہ: این حقیر را دیدند وفرمودند کہ اول ترانشنا ختم از برائے آنکہ تا وقتیکہ لشکر اثر ظفر بہ گور ہنگالہ کشیدہ بودم، طاقی پوش بودی (۱ؔ) الحال لچک قصا بہ دیدم نشناختم،گلبدن بیگم من ترا بسیار یاد می کردم وگاہے پشیمان شدہ می گفتم کہ کاسکے ہمراہ آوردم۔ بابر اپنے چھوٹے بیٹے ہندال کا حال ایک شخص سے پوچھتا ہے ۔ ہندال کجا است؟۔ کے خواہد آمد؟۔ چہ بلا انتظار داد، ہندال مرزا چہ مقدار شدہ است؟۔ و بہ کہ مانند است؟۔ چوں میر بردی بیگ جامہ میرزا پوشیدہ بود، نمود کہ این جامہ شہزادہ است کہ بر بندہ عنایت فرمودہ اند۔ حضرت ( بابر) پیشتر طلبید ند کہ بہ بینم قد و قامت ہندال چہ مقدار شدہ است؟۔ ۱ؔ۔۔طاقی یعنی توپی، شہزادیاں بچپن میں ٹوپیاں پہنا کرتی تھیں۔ ہندال سے گلبدن بیگم کو بھی بہت محبت تھی۔ جب وہ لڑائی میں مارا گیا تو گلبدن بیگم کو سخت صدمہ ہوا۔ اس موقع پر لکھتی ہے:۔ نمی دانم کدام ظالمے بے رحمے آن جوان کم آزار بہ تیغ ظلم بے جان کردہ کاشکے بدل ودیدہء من با بسعادت یار پسر من یا بہ خضر خواجہ خان (گلبدن بیگم کے شوہر کا نام ہے۔) آن تیغ بے دریغ رسید۔ (دیکھو بھتیجہ ،بیٹے اور شوہر سے بھی زیادہ عزیز ہے۔) اگر چہ ہم نے گلبدن بیگم کی کتاب سے وہی حالات انتخاب کیے ہیں،جن سے اس زمانہ کی معاشرت اور خانگی زندگی کا پتہ لگتا ہے۔ لیکن یہ نہیں سمجھنا چاہیئے کہ گلبدن بیگم ملکی اور سیاسی واقعات کو قلم انداز کرتی ہے۔ اس نے ہمایوں کے ایک ایک واقعہ کو تفصیل سے لکھا ہے۔اور اس میں بھی وہ اور مورخین سے ممتاز نظر آتی ہے۔ وہ اس بات سے بخوبی واقف ہے کہ کس واقعہ کو پھیلا کر اور کس کو سمیٹ کر لکھنا چاہیئے۔ وہ خوب جانتی ہے کہ کونسا واقعہ کیا اثر رکھتا ہے۔اور اس لیے اس کے اسباب وعلل سے کہاں تک بحث کرنی چاہیئے۔ مثلا ہمایوں نے اپنے بھائی میرزا کامران کی بار بار خون ریزی اور بد عہدی سے تنگ آکر اس کو اندھا کرا دیا تھا۔لیکن ہمایوں اس قدر نرم دل اور رحم مجسم تھا کہ یہ حرکت اس سے بہت بعید معلوم ہوتی تھی۔ بااین ہمہ بد ایونی اور فیاضی خان نے اس واقعہ کے متعلق صرف اس قدر کہا کہ ہمایوں کے حکم سے اس کی آنکھیں اندھی کر دی گئیں۔ لیکن گلبدن بیگم اس واقعہ کو تفصیل سے لکھتی ہیں۔ جس سے واقعہ کی اصلیت ذہن نشین ہوتی ہے۔چنانچہ اس کے الفاظ یہ ہیں:۔ عاقبۃ الامر خانان وسلاطین ووضیع وشریف وصغیر وکبیر وسپاہی ورعیت وغیرہ کہ از دست میرزا کامران داشتند در آن مجلس متفق شدہ بغرض حضرت بادشاہ رسانید ند کہ در بادشاہی وتحکم رسم برادری منظور نمی باشد، اگر خاطر برادری می خواہید،ترک بادشاہی بکنید واگر بادشاہی می خواہید،ترک برادری بکنید۔حضرت بادشاہ در جواب فرمودند اگر چہ ایں سخنان شما یان خاطر نشان می کنید اما دل من نمی شود ہمہ فریاد بر آوردند وگفتند آنچہ بہ عرض رسانیدہ شدہ است عین مصلحت است اخر الامر حضرت فرمودند کہ اگر مصلحت ورضا مندی ہمہ شمایان جمع شوید ومحضرے نویسید ازیمین ویسار امرا یان جمع شدہ نوشتہ دادند ہماں مصرع را ع رخنہ گر ملک سر افگندہ بہ۔ حضرت بادشاہ ہم ضرور شد‘‘ افسوس اور سخت افسوس یہ ہے کہ کتاب میں سینکڑوں،ہزاروں الفاظ ترکی کے ہیں،اور زیادہ تر وہی ہیں جو ساز وسامان،اسباب خانہ داری، ظروف وطعام، سامان سفر، وضع ولباس وغیرہ کے متعلق ہیں۔ہم ان کو سمجھ نہیں سکتے۔ورنہ سوشل لائف کی پوری تصویر اس سے تیار ہو سکتی تھی۔ اخیر میں ہم کو دوبارہ اس معزز خاتون کے علمی شوق کی داد دینی چاہیئے ،جس نے اس نایاب کتاب کے بہم پہنچانے میں اور تصحیح وتخشیہ میں وہ قابلیت اور محنت صرف کی جو ہماری قوم کے مردوں سے بھی بن نہیں آتی۔ (الندوہ ج ۵ نمبر ۳ ربیع الاول ۱۳۲۶ ھجری) مآثر رحیمی اور عبد الرحیم خان خانان اسلاف کی تصنیفات کا ذخیرہ بچا کھچا جو کچھ رہ گیا ہے۔ اس کی بناء پر ہم ایک رائے قائم کرتے ہیں۔ اس کو بار بار تحریر وتقریر میں دہراتے ہیں۔ سلسلہ بہ سلسلہ اس کی روایتیں چلتی ہیں۔ رفتہ رفتہ وہ ایک مسلمہ واقعہ بن جاتا ہے۔اور لوگوں کے دل ودماغ میں سرایت کر جاتا ہے۔ اتفاقا کہیں سے کوئی گلی سڑی کتاب یا کسی کتاب کے کچھ بوسیدہ اجزا ہاتھ آجاتے ہیں،جس سے دفعتہ وہ خیالات بدل جاتے ہیں۔اور ایک نئی تھیوری قائم ہو جاتی ہے۔ پروفیسر سید یو نے جوفرانس کا بہت بڑا مشہور عربی فاضل دان گزرا ہے۔ اپنی کتاب تاریخ عرب میں لکھا ہے۔کہ اہل یورپ نے بہت سی چیزوں کے متعلق رائے قائم کر لی تھی۔ کہ وہ حال کی ایجادات سے ہیں۔لیکن عربی نایاب کتابوں کے بہم پہنچنے نے ثابت کیا کہ ان کا خیال غلط تھا۔ آج سے پہلے اہل عرب نے ان چیزوں کے اختراع کی عزت حاصل کی تھی۔ پروفیسر مذکور نے اس بنا پے فضلائے یورپ سے خط وکتابت اور ایک خاص سوسائیٹی اس غرض سے قائم کی کہ عرب کے گم شدہ اسرار کاپتا لگایا جائے۔چنانچہ یہ تمام خط وکتابت اس نے کتاب مذکور میں درج کی ہے۔لیکن پروفیسر مذکور کا خیال اس کے ساتھ گیا۔اور پھر کہیں سے کوئی صدا نہ اٹھی۔پچھلے دنوں یورپ میں جو اورنٹیل کانفرنس قائم ہوئی تھی۔ اس میں یہ ریزولیشن پاس ہوا کہ ایک خاص کمیٹی اسلام کی انسائیکلو پیڈیا تیار کرنے کے لئے قائم کی جائے، جس میں مسلمانوں کے تمام علوم وفنون صنائع وایجادات وغیرہ وغیرہ درج کیے جائیں۔ہمارے محترم استاد مسٹر آرنلڈ بھی اس کمیٹی کے ممبر ہیں۔ لیکن پھر ہمیں کوئی اطلاع نہیں ملی کہ کمیٹی نے اب تک کیا کیا ہے؟۔ یہ ظاہر ہے کہ یہ کام یورپ کے فرائض میں داخل نہیں، تاہم اس وقت تک یورپ نے ہماری یادگاروں کے زندہ کرنے میں اور جو جو کام کیے ہیں وہ کیا کم ہیں۔ انہی کی بدولت فن حرب کی وہ کتاب شائع ہوئی۔جس سے معلوم ہوا کہ مسلمانوں نے اس فن کے علمی اصول مرتب کیے تھے۔اور ان کا فن جنگ موجودہ فن جنگ کا مکمل خاکہ تھا۔ یورپ ہی کی بدولت زہراوی کی کتاب فن تشریح کے متعلق چھپ کر شائع ہوئی۔جن میں کئی سوالات تشریح کی تصویریں اور ان کے استعمال کے طریقے درج کیے ہیں۔ پیٹ میں مرے ہوئے بچے کے نکالنے کے بیسیوں آلات کے نقشے دے کر ان کے استعمال کے طریقے بتائے ہیں، یورپ ہی کی بدولت تاریخ طبری، طبقات ابن سعد، اور تاریخ الحکماء وغیرہ کا پتا لگایا گیا۔ جو گویا دنیا سے ناپید ہو گئی تھی۔ اسلام آج دنیا کے تمام حصوں میں پھیلا ہوا ہے۔ کروڑوں مسلمان موجود ہیں۔ بڑی بڑی حکومتیں اور سلطنتیں قائم ہیں، عربی علوم وفنون اسی زور وشور کے ساتھ پڑھے،اور پڑھائے جا رہے ہیں۔اس بنا پر دنیا کو ہم سے اس کام کی توقع تھی۔لیکن ابھی ہم کو اور ضروری کاموں سے فرصت کہاں ہے؟۔حمد اللہ کے بعض ضروری مقامات ابھی تک نا حل شدہ ہیں۔ شرح ملا کی ایک ضمیر کا مرجع اب تک متعین نہیں ہوا۔میر زاہد کی بعدیت زمانی اور مکانی کا اب تک فیصلہ نہیں ہو سکا۔ اور خیر یہ سب کام تو اٹھا بھی رکھے جا سکتے ہیں۔لیکن شیعوں کی تکفیر تو بہر حال مقدم ہے۔ اور گو وہابیوں کا استیصال اس قدر ضروری نہ ہو۔ لیکن آخر اس کی اہمیت سے انکار تو نہیں کیا جا سکتا۔ افسوس ہے کہ درد دل نے ایک چھوٹی سی تمہید کو کس قدر لمبا اور خارج از بحث کر دیا، لیکن کیا کیا جائے۔ عاشق ست وشب افسانہ ء یار دہر بار قدرے گرید وپس بر سر افسانہ رود کہنا یہ تھا کہ اب بھی بہت سی علمی یاد گاریں ایسی موجود ہیں۔ جن سے مسلمانوں کی تصنیفات کے متعلق جو رائے قائم ہو چکی ہے۔ دفعتہ بدل جاتی ہے۔ ہمارا خیال تھا کہ فارسی مورخوں نے صرف سلاطین اور روساء کے حالات قلم بند کیے ہیں۔ وزرا ئ، امرائ، سپہ سالار اور فوجی افسروں کے حالات مستقل تصنیفوں میں اس طرح نہیں لکھے تھے۔ جس سے ظاہر ہو کہ انھوں نے کس طرح تعلیم وتربیت پائی۔کیا کیا فن حاصل کیے۔ کیا کیا کار نامے دکھائے ؟۔ رفاہ عامہ کے کیا کیا کام کیے۔ کن کن چیزوں کو رواج دیا ۔کون کون سی باتیں ایجاد کیں۔ ذاتی شوق کی کیا کیا چیزیں تھیں وغیرہ وغیرہ۔ لیکن دسمبر ۱۹۰۶ ئ؁ میں جب میں کلکتہ گیا۔تو ایشیا ٹک سو سائٹی میں مآثر رحیمی کا ایک نسخہ نظر سے گزرا۔یہ کتاب عبد الر حیم خان خانان کے حالات میں ہے،جو اکبر بادشاہ کا سپہ سالار تھا۔ مصنف کا نام عبد الباقی تھا۔ جو ایران کا باشندہ اور ایک معزز خاندان سے تعلق رکھتا تھا۔کتاب خود عبد الر حیم خان خانان کی زندگی میں لکھی گئی ہے۔اور سرمایہ معلومات زیادہ تر ذاتی مشاہدہ اور سر کاری کاغذات ہیں۔ یہ نسخہ مصنف کا اصلی مسودہ ہے۔جو کسی کاتب سے لکھوایا ہے۔ لیکن الحاقات اور اضافے مصنف نے اپنے ہاتھ سے لکھے ہیں۔ بعض جگہ صاف اور سادے صفحے چھوڑ دیے ہیں۔اور لکھا ہے کہ مزید اطلاع کے لئے صفحے خالی چھوڑ دیے گئے ہیں۔لیکن چونکہ حالات نہ مل سکے۔اس لیے جگہ سادی کی سادی رہ گئی۔ سر ورق پر امرائے شاہی کی مہریں ہیں۔ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ نسخہ اکثر امرا کے کتب خانوں میں رہ چکا ہے۔ مولوی غلام علی آزاد نے خزانہ عامرہ میں لکھا ہے کہ میں نے اس کتاب کا اصل مسودہ دکن میں دیکھا تھا۔جس پر الحاقات خود مصنف کے ہاتھ کے تھے۔غالبا یہ وہی نسخہ ہے جو دکن سے کلکتہ پہنچ گیا۔ کتاب کی ضنخامت دو ہزار صفحوں کی ہے۔ نصف کے قریب خان خانان کے اسلاف اور سلاطین تیموری کے حالات ہیں۔ باقی نصف خود عبد الر حیم خان خانان کے کارنامے ہیں۔ جس میں حسب ذیل معلومات ہیں۔ (۱) عبد الر حیم خان خانان کی ولادت اور تعلیم وتربیت، تعلیم کا حال تفصیل سے لکھا ہے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ بڑے بڑے کاملین فن سے تعلیم پائی تھی۔ (۲) دربار شاہی کے تعلقات اور فتوحات (۳) خان خانان کی علمی لیاقت،عربی، فارسی، ترکی میں انشا پردازی اور شاعری،نثر ونظم دونوں کے نمونے درج کیے ہیں۔ (۳) فضائل اخلاق (۴) فن سپہ گری اور تیغ بازی ونیزہ بازی کے کمالات۔ (۵) خان خانان کے رفاہ عامہ کے کام (۶) فن زراعت کی ترقی (۷)خان خانان کے دربار کے صناعوں اور کاری گروں کا ذکر اور ان کے ھالات وایجادات۔ (۸) خان خانان کا کتب خانہ (۹)علماء واطباء اور خوش نویس اتنی بڑی ضنحیم کتاب کا مختصر سے مختصر خلاصہ بھی اگر کیا جائے تو اچھا خاصا رسالہ بن جائے گا۔ اس کے علاوہ اردو کے مشہور جادو طراز مولوی محمد حسین آزاد نے دربار اکبری میں خان خانان کا تذکرہ دل کھول کر کیا ہے۔اور بہت سی کتابوں کو کھنگالا گیا ہے۔ گو یہ کتاب ان کے ہاتھ نہیں آئی۔ ان وجوہ سے ہم نہایت اختصار کے ساتھ کچھ کچھ مقتسبات اس غرض سے درج کرتے ہیں۔کہ ہمارے ملک کے ارباب دولت اس کی طبع واشاعت کی طرف متوجہ ہوں۔ہماری نگاہیں خلیفہ سید محمد حسین صاحب وزیر پٹیالہ، نواب علی حسن خاں صاحب بھوپال، نواب مزمل اللہ خان صاحب بھیکن پور اور حبیب صادق مولوی حبیب الرحمان خاں صاحب شروانی کی طرف بلند ہیں۔ خان خانان کی فتوحات اور معرکہ ہائے جنگ دراصل مرقع اکبری کے نقش ونگار ہیں۔اس لیے ان کو چھوڑ کر ہم اور قسم کے واقعات اور ھالات کو لیتے ہیں۔ شاعری اور انشا پردازی خان خانان مختلف زبانوں میں کمال رکھتا تھا۔ مصنف نے اس کے عربی، ترکی،فارسی کلام کا نمونہ دیا ہے۔ترکی اور فارسی تو اس کی مادری زبانیں تھیں۔ لیکن عربی کی تحریر بھی کم درجہ کی نہ تھی۔ البتہ چونکہ اس زمانہ میں عموما انشا پردازی، لفاظی اور قافیہ بندی کا نام تھا۔ البتہ چونکہاس زمانے میں انشا پردازی،لفاظی اور قافیہ بندی کا نام تھا۔ اس لیے خان خانان کا بھی یہی انداز تھا۔ افسوس اور سخت افسوس ہے کہ مصنف نے چونکہ ایرانی تھا۔ بھاشا زبان کے نمونے نہیں دیے۔ ورنہ اس بات کا سراغ لگتا کہ بھاشا زبان نے اردو پر کیا کیا تصرف کرنا شروع کر دیا تھا۔ خان خانان کو عربی زبان میں یہ مہارت تھی کہ کہیں سے کوئی عربی تحریرآتی تھی تو بغیر اس کے اصل عبارت پڑھے،اس طرح ترجمہ پڑھتا چلا جاتا تھا کہ گویا کوئی لکھی ہوئی تحریر ہاتھ میں ہے۔ جس کو دیکھ کر پڑھتا جاتا ہے۔ ایک دفعہ شریف مکہ نے اکبر کو خط لکھا۔اور عبارت آرائی کے لئے بڑے بڑے مقلق اور دقیق الفاظ بھر دیے۔ اکبر نے ابو الفضل، خان خانان کو اور فتح اللہ شیرازی کو حکم دیا کہ فارسی میں ترجمہ کر کے لائیں۔ ابو الفضل، اور فتح اللہ شیرازی تحریرکو ساتھ لے گئے کہ ترجمہ کرنے کے لئے لغت کی طرف رجوع کی ضرورت ہو گی ۔لیکن خان خانان نے وہیں روشنی کے سامنے لے جا کر خط پڑھنا شروع کیا،اور ساتھ کے ساتھ ترجمہ کرتا گیا۔ فارسی زبان میں آج بھی اس کی ایک تحریر موجود ہے۔ یعنی تزک بابری کا ترجمہ۔بابر بادشاہ نے اپنے حالات اور واقعات ترکی زبان میں قلم بند کیے تھے اور تزک بابری نام رکھا تھا۔ اکبر کی فرمائش پر خان خانان نے اس کا ترجمہ کیا۔ نہایت شستہ ،سادہ اور صاف فارسی زبان میں ہے۔ خان خانان نے فارسی کا پورا دیوان مرتب کیا تھا۔ لیکن یہ صرف مصنف مآثر رحیمی کی شہادت ہے۔ کہیں اس کا نسخہ نظروں سے نہیں گزرا۔ البتہ اشعار کثرت سے پائے جاتے ہیں۔مصنف نے بھی اکثر غزلیں اور رباعیاں درج کی ہیں۔ اکثر ایسا ہوتا تھا کہ خان خانان کوئی مصرع طرح کرتا تھا۔ اور تمام دربار کے شعراء اس پر طبع آزمائی کرتے تھے۔ لیکن جس معرکہ میں نظیرمی، عرفی، شکیبی جیسے شعراء کا سامنا ہو۔ کلام کا سر سبز ہونا آسان بات نہ تھی۔تاہم ہم دیکھتے ہیں کہ اکثر معرکوں میں خان خانان ہی کے ہاتھ میدان رہا۔چند است، بند است، فرزنداست، خان خانان کی دی ہوئی طرح ہے۔ جس پر تماما شعرائے اکبری نے غزلیں لکھی ہیں۔ لیکن کیا ان شعروں کا جواب ہو سکتا ہے۔ حدیث شوق نہ دانستہ ام کہ تا چند است جز ایں قدر کہ دلم سخت آرزو مند است نہ دام دانم ونہ دانہ این قدر دانم کہ پائے تا بسرم ہر چہ ہست دربند است مرا فروخت محبت ولے نہ دانستم کہ مشتری چہ کس ست وبہائی من چند است ازاں خوشم بہ سخنہائے دل کش تو رحیم کہ اند کہ بہ ادا ہائے دوست مانند است ترکی کلام جو مصنف نے نقل کیا ہے۔ چونکہ ہم اس کو سمجھ نہیں سکتے۔اور نہ ہی ناظرین میں کوئی ترکی دان ہے۔ اس لئے ہم نے اسے نظر انداز کر دیا ہے۔ مصنف نے لکھا ہے کہ فارسی میں جس قدر کہا ہے۔ اس سے کئی گنا ہندی میں کہا ہے۔(لیکن ان کا کھوج کون لگائے)ایک حیرت انگیز بات یہ ہے کہ خان خانان نے یورپ کی زبانوں میں بھی مہارت پیدا کی تھی۔اس کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ اکبر کو سلاطین یورپ سے مراسلت رہتی تھی۔ اس بنا پر اس نے خان خانان کو یورپین زبان سیکھنے کا حکم دیا۔ مصنف لکھتا ہے:۔ ’’ چوں اکثر بنا در ہندوستان در تصریف مسیحیہ است۔و مکاتبت ومراسلات درمیانہ سلاطین افرنجہ و خواتین ہندوستان بسیار واقع می شود، بادشاہ اکبر ظل اللہ اکبر شاہ این سپہ سالار ما بہ فراگرفتن زبان عیسوی و بہم رسانیدن،سوا دوخط این قوم فرمان داد، بہ اند کے اختلاط وصحبتے کہ بہ خاصان آن قوم کہ در پائے تخت بادشاہی بودند وتجارد مترددین ایشان نمود بہ دستورے تتبع آن خط وزبان آن قوم کرد۔ کہ بے شائبہ ریا بہترازان قوم می داند‘‘۔ خان خانان کی ہفت زبانی کا اور مورخین نے بھی اعتراف کیا ہے۔مآثر الامرا ء میں لکھا ہے کہ دنیا کی اکثر مروج زبانوں میں وہ بات چیت کر سکتا تھا۔ کتب خانہ خان خانان کی علمی فیاضیوں کی ایک بڑی مثال اس کا بے نظیر کتب خانہ تھا۔یہ کتب خانہ اس درجہ کا تھا۔ اور اس قدر علمی ذخیرے اس میں مہیا کیے گئے تھے کہ بجائے خود ایک اکیڈمی یا دار الحکمت کا کام دیتا تھا۔ عرفی، نظیری،ظہوری، شکیبی، غرض اکثر شعرائے اکبری نے دیوان اپنے ہاتھوں سے لکھ کر اس کتاب خانے میں داخل کیے تھے۔ دربار اکبری کے اکثر باکمال اسی کتب خانہ کے تربیت یافتہ ہیں۔اکثر شعراء خوش نویس، صناع جن کو خان خانان نے خود تربیت دینا چاہتا تھا۔ کتب خانے کے کام پر مقرر ہوتے تھے۔اور ترقی کرتے کرتے نادرء روز گار بن جاتے تھے کتب خانے کا جو اسٹاف تھا،اس کے مشہور ممبر ملا محمد امین جدولساز، ملا عبد الرحیم عنبرین قلم، ملا محمد مومن، محمد حسین کامی نمبر داری ،بقائی بہرابادی ، غنی ہمدانی، تھے، کتب خانے کی ترتیب وانتظام کے لئے اہل کمال کا ایک بڑا عملہ مقرر تھا۔ جو نا تمام نسخوں کی تکمیل کرتے تھے۔تصویریں اور شبہیں کھینچتے تھے۔ مرقعے تیار کرتے تھے۔ کتابوں کی لوح وغیرہ پر طلا کاری کا کام انجام دیتے تھے۔ان میں سے بعض کے مختصر حالات ہم درج کرتے ہیں۔ شیخ عبد الاسلام بہڑائچ کے رہنے والے تھے۔ ان کے والد بھاشا زبان کے مشہور شاعر تھے۔ اور برہمی تخلص کرتے تھے۔ وہ حج کو جانے لگے تو عبد الاسلام کو خان خانان کی خدمت میں دیتے گئے۔ خان خانان نے کتب خانے میں ان کی تعلیم وتربیت کرائی، رفتہ رفتہ اس قدر ترقی کی کہ کتب خانہ کے داراوغہ مقرر ہوئے۔ پھر مصائب خاص کا رتبہ ملا۔ ہندی زبان کی شاعری میں بے نظیر تھے۔ شجاع شیراز وطن تھا۔ خط نسخ وثلث میں نہایت کمال رکھتے تھے۔ ۹۹۹ء ؁ میں بمقام ٹھٹھہ خان خانان کے دربار میں آئے۔اور ترقی کرتے کرتے کتب خانے کی افسری حاصل کی۔ ملا عبد الرحیم عنبرین قلم ہرات کے باشندے تھے، خط نسخ ونستعلیق میں کمال حاصل کیا۔ اور ہرات سے خان خانان کے دربار میں آئے۔ خان خانان نے ان کی تربیت پر خاص توجہ کی۔رفتہ رفتہ اس قدر ترقی کی کہ محمد حسین کشمیری کے سوا اس زمانے میں خوش نویسی میں کوئی شخص ان کے مقابل نہ تھا۔ خان خانان کے کتب خانے میں اکثر کتابیں ان کے ہاتھ کی لکھی ہوئی ہیں۔بالاخر ان کا شہرہ اس قدر بڑھا کہ اکبر نے اپنے یہاں بلا لیا۔ ملا محمد امین خراسان کے رہنے والے تھے، طلا کاری میں استاد تھے۔ مشہد مقدس میں امام رضا کے نام سے جوکتب خانہ ہے۔مدت تک اس میں کام کرتے رہے۔جب ازبکون نے خراسان پر قبضہ کیا تو یہ وہاں سے نکلے اور خان خانان کے دربار میں آئے، چار ہزار روپیہ مشاہرہ مقرر ہوا۔کتب خانے کی اکثر کتابیں ان کی طلا کاری سے مزین تھیں۔ابری کا کاغذ ان ہی کی ایجاد ہے۔ ملا محمد حسین ملا محمد مومن کے بھائی تھے۔ جلد سازی کے فن میں کمال رکھتے تھے۔ عکس کا کام بھی اعلیٰ درجے کا کرتے تھے۔ ۳۵ برس کتب خانے کے ملازم رہے۔مصنف مآثر رحیمی کے زمانے میں کتب خانہ کا کارو بار ان ہی کے ہاتھ میں تھا۔ میر باقی ماورالنہری ترکستان کے رہنے والے تھے۔ ذات کے سید تھے۔ کتب خانے میں تربیت پائی۔ اور با لآخر افسری کی خدمت حاصل کی۔ میاں ندیم میاں فہیم جن کی نسبت یہ مشہور ہے کہ کمائیں خان خانان اور اڑائیں فہیم‘‘۔یہ ان کے بھائی تھے۔ نقاشی اور مصوری میں ان کا جواب نہ تھا۔کتب خانے میں ہی تربیت پائی۔ بہبود میرزا باقر ایک خوش نویس تھے،جو میر علی خوش نویس کے بھائی تھے، بہبود ان کا غلام تھا۔ نقاشی اور خوش نویسی میں کمال پیدا کیا۔ اور کتب خانے میں ملازم ہوا۔ مولانا مشفق فن نقاشی میں یکتائے روز گار تھے۔ اور کتب خانے میں اسی کام پر مقرر تھے۔ مادھو ہندو بچہ تھا۔تصویر، طراحی، شبہیہ سازی میں نادر روزگار تھا۔ کتب خانے کی اکثر کتابیں اس کے ہاتھ کی بنی ہوئی ہیں۔ دربار کے علما ء اور اطبا علما ء اور اطبا کے حالات ہم تطویل کے خوف سے قلم انداز کرتے ہیں۔ شعراء مصنف نے شعرائے دربار کا تذکرہ نہایت تفصیل کے ساتھ لکھا ہے۔ کلام کا انتخاب بھی کثرت سے کیا ہے۔ البتہ یہ خصوصیت ملحوظ رکھی ہے کہ صرف وہی قصائد یا قطعے نقل کیے ہیں۔جو شعراء نے خان خانان کی مدح میں لکھے ہیں۔ اس پر بھی کتاب کا بڑا حصہ صرف ہو گیا ہے۔ شخصی سلطنت کا اثر دیکھو، کہ تمام خان خانان شعراء اکبر کے دربار سے منسوب ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اس زمانے کے تمام شعرا ء جن کے نام سے ابوالفضل نے دربار اکبری کا مرقع سجایا ہے۔ بجز دو ایک کے کہ سب کے سب خان خانان ابوالفتح گیلانی کے پروردہ اور تربیت دادہ ہیں۔مصنف نے نہایت صحیح لکھا ہے۔ کہ مر کہ تازہ از ولایت آمدہ بندگی و مصاحبت ایشیان(ابو الفتح) اختیار می نمود چنانہ خواجہ حیسن ثنائی ومیرزا میلی وعرفی شیرازی وحیاتی گیلانی وسائر مستعدان درخدمت اوبودہ اند ۔‘‘ مصنف کا ایک بہت بڑا احسان ہے کہ خان خانان کے انتساب سے اس نے تمام شعرا ء مثلا شیکبی، حیاتی، ظہوری، ملک قمی، نظیری،نیشا پوری، محتشم، کاشی، رسمی، نوعی، شیرازی کے حالات تفصیل سے لکھ دیئے کہ جو تذکرے مخصوص تیموری شعراء کے حالات میں لکھے گئے ہیں، ان میں بھی یہ تفصیل نہیں مل سکتی۔ یہ موقع شعراء کے حالات لکھنے کا نہیں ہے۔ لیکن خان خانان شعرا ء کی جس طرح تربیت کرتا تھا۔ اور جس فیاضیو ں کا ان پر مینہ برساتا تھا۔اس کے متعلق بعض واقعات لکھنے ضروری ہیں۔ خان خانان کی فیاضیوں کا یہ حال تھا کہ ایک دفعہ نوعی شیرازی کو سونے میں تلوا دیا۔ نظیری نیشا پوری جب حج کر کے آیا تو ایک دفعہ کسی موقع پر اس کی زبان سے نکل گیا کہ میں نے لاکھ روپیہ کا ڈھیر نہیں دیکھا۔ خان خانان نے روپیہ منگوا کر ڈھیر لگوا دیا۔ نظیری نے شکریہ ادا کیا کہ آپ کی بدولت میں نے آنکھ سے لاکھ روپیہ کا ڈھیر دیکھ لیا۔ خان خانان سے زیادہ حسن طلب کا ادا شناس کون ہو سکتا تھا۔ حکم دیا کہ روپیہ نظیری کے گھر پہنچا دیئے جائیں۔ فیضی اگر چہ شاہی تقریب کے لحاظ سے خان خانان کا ہمسر تھا۔چنانچہ خود کہتا ہے۔مصرع ہم با امرا نظیر گشتم اور اسی وجہ سے اس نے عرفی وغیرہ کی طرح امرائے شاہی میں کسی کی مدح نہیں کی، تاہم اس کو کہنا پڑا کہ خان خانان عہد کا نعامش طبع را رخصت شگفتن داد داشت چون اعتماد بر شعرائ صلہ پیش از مویح گفتن داد فیضی پھر بھی شاعر تھا۔ اس لئے خان خانان جو بے وجہ بھی شعرا ء کو صلے اور انعام دیتا رہتا تھا۔فیضی نے اس کی وجہ یہ قرار دی کہ خان خانان کو شعراء پر اعتماد تھا۔ یعنی روپے لے کر مفت نہ کھا جائیں گے بلکہ مدح وثناء سے اس کا معاوضہ ادا کریں گے۔ لیکن فیضی کو یہ معلوم نہ تھا کہ خان خانان شعرا ء کے ساتھ جو فیاضی کرتا تھا۔اس سے ادب اور انشاء کی ترقی مقصود تھی۔ ان فیاضیوں کے چرچے عرب وعجم تک پھیلے ہوئے تھے۔ مصنف نے لکھا ہے کہ شیکبی اصفہانی جب حج کرنے کی غرض سے عدن پہنچا تو بچے گیت گا رہے تھے کہخان خانان آیا جس کی بدولت کنواریوں نے شوہر پائے، تاجروں نے اسباب بیچے، بادل برسے ،جل تھل بھر گئے، شکیبی بے ساختہ رو پڑا اور اس وقت یہ رباعی موزوں کی: زین دا نہ کہ ازنکو نام کاشتئہ از اختر سعد خرمن افراشتہ زان گونہ جہان بہ وجود اپنا شتہ کز مور کفاف دانہ برداشتہ انفیاضیوں کے قصے اگر چہ دل چسپ ہیں۔ لیکن سچ یہ ہے کہ ان سے مزہ اٹھانا گدا طبعی کی دلیل ہے۔ خدا بخشے عرفی کو کس قدر سچ کہا ہے۔ بیا بہ ملک قناعت کہ درد سر نہ کشی زقصہ ہا کہ بہ ہمت فروش طے بستند البتہ یہ نکتہ لکھنے کے قابل ہے کہ خان خانان اس کے ساتھ شعراء کی تربیت کرتا تھا۔ان کے کلام کی تنقید کرتا تھا۔ کبھی کبھی اصلاح دیتا تھا۔جس کا نتیجہ یہ تھا کہ شعرا ء کا کلام روز بروز ترقی کرتا جاتا تھا۔ زمین مدح توآن نغمہ سنج شیرازی رسید صیت کلامش بررم از خاور بہ طرز تازہ زمدح تو آشنا گردید چور وے خوب کہ یابد زما شطہ زیور اکثر شعراء کے دیوان خان خانان ہی کی توجہ سے مرتب اور شائع ہوئے۔عرفی جب مرنے لگا تو دیوان کا مسودہ خان خانان کے ہاں بھیج دیا۔ لیکن مسودہ نہایت ابتر تھا اور کاٹ پھانس کی وجہ سے نہایت بیکار ہو گیا تھا۔ خان خانان نے محمد قاسم مشہور بہ سراج خلف خواجہ محمد علی اصفہانی کو اس کی ترتیب پر مامور کیا۔سال بھر کی شبانہ روز محنت کے بعد مسودہ صاف ہوا۔ خان خانان کو نہایت مسرت ہوئی۔ محمد قاسم کو بہت انعام واکرام دیا۔ چنانچہ محمد قاسم نے ایک نظم میں یہ واقعات ادا کیے۔ چند شعر یہ ہیں۔ عرفی آن واضع سخن کہ براد رشک دارد دران شروانی بعد چندے چو جائے بودن نیست رفت ازین دیر ششدر فانی ماند ازدد رشاہوار چشد کش قرین نیست بحری وکانی لیک آں جملگی پراگندہ ہمہ از بے سری وسامانی آن قدر مہلتش نہ داد اجل کہ بہ ترتیب شان بود بانی گفت با دوستان بگاہ وراع کائے عزیزان جسمی وجانی برسانید زاد ھائے مرا بہ جناب معلم ثانی ہیچ دانی کہ چیست آن مرکز کہ تو عمان وکانیش خوانی صاحب حلم وعلم وسیف وقلم خان خانان سکندر ثانی دید چوں زاد ہائے عرفی را ہمہ محمود لعل پنگانی بعد یک چند بندہ را فر مود کہ دہم شان نظام دیوانی مدتے چند خون دل خوردم تاکہ جمع آمد از پریشانی از خرد خواستم جو تاریخش گفت ترتیب دادہ نادانی یہ نکتہ ملحوظ رکھنا چاہیئے کہ عرفی، نظیری، شیکبی وغیرہ نے اکبر اور جہانگیر اور مراد کی مدح میں اکثر قصیدے لکھے ہیں۔لیکن ان قصیدوں کو خان خانان کے مدحیہ قصیدوں میں ملاؤ تو زمین وآسمان کا فرق نظر آتا ہے۔خان خانان کے مدحیہ قصائد میں صاف نظر آتا ہے کہ شاعر جوش واخلاص سے لبریز اور بادہ ء کرم کے نشے میں چور ہے۔ یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ اس سر مستی میں اس سے بھی غافل نہیں کہ مخاطب کی نظر ایک ایک لفظ پر ہے۔اور اس لیے شاعری اور استادی کے اصول سے بال برابر بھی تجاوز نہیں کر سکتا۔ خان خانان کے بیٹا پیدا ہوا ہے۔ عرفی تہنیت کا قصیدہ لکھ کر لے جاتا ہے۔تمہید، جوش، زور طبیعت اور شاعرانہ معشوق پن کا ناز دیکھو، ؔ بود درکنم عدم، بکر طبیعت را جاے کہ خرد بر سرش استادہ ہمی گفت برائے عقل کی درخواست کے بعد دوشیزہ طبیعے جواب دیتی ہے۔ گوشہ گیر وجگر می خورد تلخی می کش تا بہ عہدے کہ شود صاحب تو ملک آرائے خلق از مژدہبرد مژدہ شنو جمع شوند ہمہ گوہر طلب وگوہری وگنج ستارے چرخ آمادہ شود،زہرہ مہیا گردند او کشد بند نقاب من ومن بند قبائے من بہ صد ناز وکرشمہ ہمہ رنگ وہمہ بوئے بر در حجلہ ارکان نہم از خلوت پائے رفاہ عامہ اورصنعت وزراعت کی ترقی کے کام ہندوتو آج یہ شکایت کر رہے ہیں کہ مسلمانوں نے ہندوستان میں آکر ملک کو تباہ کردیا،لیکن ان کوتاہ نظروں کو معلوم نہیں کہ مسلمانوں نے ہندوسان کی افتادہ زمین کو چمن زار بنا دیا۔دنیا جانتی ہے کہ ہندو پہلے پتوں پر رکھ کر کھانا کھاتے تھے،ننگے پاؤں رہتے تھے۔ زمین پر سوتے تھے،بن سلے کپڑے پہنتے تھے، تنگ مکانوں میں بسر کرتے تھے۔مسلمانوں نے آکر ان کو کھانے پینے، رہنے سہنے، وضع لباس،فرش ،فروش، زیب وزینت کا سلیقہ سکھایا۔ لیکن یہ موقع اس مضمو ن کے پھیلانے کا نہیں ہے۔ البتہ یہ بات یہاں جتانے کے قابل ہے کہ باوجود اس کے ہندوستان زراعتی ملک ہے۔جتنے عمدہ قسم کے پھل اور میوے ہیں، سب مسلمانوں کے لائے ہوئے ہیں۔سیب ، ناشپاتی، انگور، خرپزہ، سنترے وغیرہ وغیرہ کا پہلے یہاں نام ونشان تک نہ تھا۔ان چیزوں میں سے خر پزہ کی پیداوار کا فخر خان خانان کو حاصل ہے۔ مصنف مآثر رحیمی لکھتا ہے کہ ہندوستان میں خر پزہ نہیں ہوتا تھا۔ایران اور خراسان سے آتا تھا۔سب سے پہلے خان خانان نے عراق اور خراسان سے تخم منگوائے اور بلکورہ علاقہ گجرات میں آب وہوا کی مناسبت کے لحاظ سے ایک قطعہ انتخاب کر کے اس کی کاشت کرائی۔دو تین سال میں ایسے اچھے خرپزے پیدا ہوتے تھے کہ ولایت کی برابری کرتے تھے۔ عمارات خان خانان نے تمام مشہور مقامات دہلی، لاہور۔ آگرہ، گجرات میں باغ ،مکانات سرائیں تعمیر کرائیں۔ مصنف نے ان کا حال تفصیل سے لکھا ہے۔ حمام ہندوؤں کے حمام دریا کے گھاٹ ہیں جو آج تک موجود ہیں۔مسلمانوں کے عہد میںا مراء اور روساء اپنے گھروں میں حمام بنواتے تھے۔ لیکن پبلک حمام مطلق نہ تھا۔ سب سے پہلے خان خانان نے گجرات میں محمد علی معمار کے زیر اہتمام حمام بنوایا اور وقف عام کر دیا۔ اس وقت سے حمام کا عام رواج ہو گیا۔ جہازات خان خانان نے تین جہاز تیار کرائے تھے۔جن کا نام رحیمی، کریمی اور سالاری رکھا تھا۔یہ جہاز صرف اس غرض سے تھے کہ حج کے موسم میں غریب حاجیوں کو مفت حج کرنا نصیب ہو۔ ابری اور عکس کا کاغذ جلد بندی کے کام کے لئے ابری کا کاغذ خان خانان کے کاری گروں کی ایجاد ہے۔عکس کا کاغذ پہلے بھی تھا ،لیکن عکس ہفت رنگ اس کے عہد کی ایجاد ہے۔ ذاتی ہنر اور اخلاق وعادات خان خانان نے علم وہنر کے علاوہ سپہ گری کی نہایت اعلیٰ درجہ کی تعلیم پائی تھی۔اس کے جنگی کارنامے گجرات اور سندھ کی فتوحات ہیں۔ جن کے لیے تاریخی دفتر لکھنے چاہیئے۔یہاں روز مرہ کی باتیں لکھی جاتی ہیں۔ تیر اندازی میں قدر انداز تھا۔گجرات میں جب مظفر پر فتح حاصل کی تو ایک دفعہ میدان میں گیند کھیل رہا تھا کہ ایک کوا ہوا میں اڑتا جاتا تھا۔ خان خانان نے پے در پے اس کے گرد چاروں طرف تیروں کا دائرہ بنا دیا۔چنانچہ بارہ تیر مارے تھے۔ بالآ خر تیرھواں تیر مار کر گرا دیا۔ سنجر کشی مشہور شاعر موقعہ پر موجود تھا۔بر جستہ یہ رباعی موزوں کر کے پڑھی:۔ در عرصہ دست بروت این زرین چنگ بسیار چنان بود کہ یک جبعہ خذنگ از جلدی باز وے تو در روئے ہوا دنبالہ ہم گرفتہ چون خیل گلنگ یعنی تو اس تیزی سے تیر پھینکتا ہے،کہ ہوا میں تیروں کی اس طرح قطار قائم ہوجاتی ہے کہ جس طرح کلنگ قطار باندھ کر اڑتے ہیں۔ ایک دفعہ ایک شیر کی پیشانی پر تیر مارا کہ سوفار تک اتر گیا۔ اسی شاعر نے ایک قطعہ میں اس واقعہ کو ادا کیا ہے۔ جس کا ایک شعر یہ ہے:۔ نازک دلدوز بر پیشانی آن شیر زد کز سر سوفار آن بنمود زخم این دہان بارہا بھیڑیوں اور شیروں کو تلوار سے مارا ہے۔ چنانچہ مصنف نے متعدد واقعات نقل کیے ہیں۔ ورزش ورزش میں عجیب وغریب مشقیں پیدا کی تھیں۔ایک رومال چار آدمیوں کے ہاتھ میں دے دیتا تھا۔ کہ چاروں کونے تھام کر تانے کھڑے رہیں۔خود دور سے دوڑتا ہوا آیا،قریب پہنچ کر اچھلا اور رومال پر قدم رکھتا ہوا اس صفائی سے نکل گیا کہ رومال پر آسیب نہ آنے پایا۔مصنف نے لکھا ہے کہ یہ اس زمانے کا واقعہ ہے جب خان خانان کی عمر صرف سترہ برس تھی۔ ہم نے کرناٹک کے بازی گروں کو اکثر یہ تماشا کرتے دیکھا ہے۔خان خانان نے ان ہی لوگوں سے تعلیم پائی ہوگی۔ اخلاق، حلم،و عفو باوجود اس اقتدار اور عظمت کے حسن اخلاق کی مجسم تصویر تھا۔جس زمانے میں خان خانان کا خطاب ملا ہے۔چند نصیحت آمیز فقرے ایک کاغذ پر لکھ کر نوکروں کو دیئے۔کہ جب مجھے کسی بات پر یا کسی شخص پر غصہ آئے تو اس کو پیش کردینا۔ چنانچہ کتنا ہی غیض وغضب میں ہوتا، اس کاغذ کے پیش ہونے کے ساتھ ٹھنڈا ہو جاتا تھا۔ ایک دفعہ پاؤں میں زخم ہو گیا تھا۔ مدت تک دربار نہ کر سکا، زخم ابھی آلے تھے کہ کسی ضرورت کی وجہ سے باہر نکلا۔ہجوم عام میں ایک نوکر کا پاؤں اس کے پاؤں پر پڑ گیا۔ اور زخم پھٹ گیا۔ مصاحبوں نے نوکر کو سزا دینا چاہی۔خان خانان نے روکا کہ اس کا کیا قصور ہے۔ایک اتفاقیہ بات تھی۔ مصنف نے اور بہت سے واقعات نقل کیے ہیں۔ ہم اس لحاظ سے قلم انداز کرتے ہیں کہ خان خانان کو نظر نہ لگ جائے۔ اس کتاب (ماثر رحیمی) میں تمام خوبیوںکے ساتھ یہ بہت بڑا عیب ہے کہ خان خانان کی خوبیاں ہی خوبیاں گنائی ہیں۔ نکتہ چینی کا نام نہیں، حالانکہ آج کل کے مذاق کے موافق سوانح عمری اور لائف کی یہ ضروری شرط ہے۔لیکن اس طریقہ کو ہم آج کل کے پر فریب طریقے سے زیادہ پسند کرتے ہیں،جس میں راست نویسی اور تنقید کا بہت کچھ دعویٰ کر کے بھی سوانح عمری کی بجائے مناقب کی کتاب لکھی جاتی ہے۔ اور کوئی عیب اور وہ بھی خفیف کر کے لکھا جاتا ہے، تو اس غرض سے کہ محاسن کے یقین کرانے کے کام آئے۔یعنی جب عیب نہیں چھپایا ہے تو محاسن کیوں غلط لکھے ہو ں گے۔ بہتر سے بہتر سوانح عمری جو ہماری زبان میں لکھی گئی ہے۔اس طریقے کی عمدہ مثال ہے۔ اب ہم خان خانان سے رخصت ہوتے ہیں،خدا نے چاہا تو شعر العجم میں پھر نیاز حاصل ہو گا۔ یاد گار زمانہ ہیں ہم لوگ سن رکھو تم فسانہ ہیں ہم لوگ (۷ ،اپریل ۱۹۰۷ئ؁) (الندوہ ج ۴، نمبر۳ ،ربیع الاول ۱۳۲۵ ھجری) جہانگیر اور تزک جہانگیری بہ من چندان گنہ از بدگمانی میکند نسیت کہ من ہم در گمان افتادہ پندارم گنہگارم یورپ کے بے درد واقعہ نگاروں نے سلاطین اسلام کی غفلت شعاری، عیش پرستی، سیہ کاری، کے واقعات کو اس بلند آہنگی سے تمام عالم میں مشہور کیا ہے کہ خود ہم کو یقین آچلا ۔اور تقلید پرست تو بالکل یورپ کے ہم آہنگ بن گئے۔ ہندوستان کے سب سے بڑے انشا پرداز نے نیرنگ خیال میں جہانگیر کی یہ تصویر کھینچی ہے۔’’اس کے بعد ایک اور بادشاہ آیا جو اپنی وضع سے ہندو راجہ معلوم ہوتا تھا۔‘‘ وہ خود مخمور نشہ میں چور تھا۔ ایک عورت صاحب جمال (نور جہان) اس کا ہاتھ پکڑے آتی تھی۔ وہ جدہر چاہتی تھی ،پھراتی تھی۔ جو کچھ دیکھتا تھا۔ اس کے نور جمال سے دیکھتا تھا۔ اور جوکچھ کہتا تھا۔اس کی زبان سے کہتا تھا۔ اس پر بھی ہاتھ میں ایک جزو کاغذوں کا تھا۔ اور کان پر قلم دھرا تھا۔ یہ سوانگ دیکھ کر سب مسکرائے ،مگر چونکہ دولت اس کے ساتھ تھی۔اور اقبال آگے آگے اہتمام کرتا آتا تھا۔اس لیے بد مست بھی نہ ہوتا تھا۔ جب نشہ سے آنکھیں کھلتی تھیں تو کچھ لکھ بھی لیتا تھا۔ لیکن آؤ دیکھیں اس جھوٹ میں کچھ سچ بھی ہے۔ہمارے انشا پرداز نے جہانگیر کے کبھی کبھی ہوش میں آجانے کا جو کارنامہ بتایا ہے۔ وہ اس کی کتاب تزک جہانگیری میں ہے۔ اور سچ یہ ہے کہ جہانگیر کے طرز عمل اور ہر قسم کے خیالات دریافت کرنے کا اس سے زیادہ صحیح ذریعہ نہیں ہو سکتا۔ اس لیے ہم اس مضمون میں اسی کتاب پر مختلف حیثیتوں سے نظر ڈالنا چاہتے ہیں۔ اس کتاب کی سب سے بڑی خصوصیت (جس کو سب سے پہلے بیان کرنا چاہیئے) یہ ہے کہ وہ واقعات کا نہایت صحیح اور سچا مرقع ہے۔ اس کا ہر ہر لفظ شہادت دیتا ہے کہ جہانگیر کے طرز عمل اور ہر قسم کے کیالات دریافت کرنے کا اس سے زیادہ صحیح ذریعہ نہیں ہو سکتا۔ اس لیے ہم اس مضمون میں اسی کتاب پر مختلف حیثیتوں سے نظر ڈالنا چاہتے ہیں۔ اس کتاب کی سب سے بڑی خصوصیت ( جس کو سب سے پہلے بیان کرنا چاہیئے) یہ ہے کہ وہ واقعات کا نہایت صحیح اور سچا مرقع ہے۔ اس کا ہر ہر لفظ شہادت دیتا ہے کہ کتاب کا لکھنے والا کسی قسم کی رنگ آمیزی نہیں کرنا چاہتا۔ وہ حکمت عملی اور پالیٹیکس کے فلسفہ سے بالکل نا آشنا ہے۔ وہ بد نما واقعات پر ملمع سازی کا روغن نہیں چڑھا سکتا۔ وہ عیب بھی کرتا ہے تو ڈنکے کی چوٹ کہہ دیتا ہے۔ اور ہنر کا کوئی کام اس کے ہاتھ سے بن آتا ہے تو داد طلب اور خاموشی نہیں اختیار کرتا۔بلکہ علانیہ فخر کا اظہار کرتا ہے۔مورخین ک واپنے تجسس اور راز جوئی پر اعتماد ہے کہ انہوں نے ابو الفضل کے قتل کی سازش دریافت کر لی۔لیکن جہان گیر خود صاف صاف لکھتا ہے کہ راجہ نر سنگھ دیو از راجپوتانہ بندیلی۔۔۔ بہ منصب سہ ہزاری سر فرازی یافت و باعث ترقی ورعایت او آن شد ،کہ در اواخر عہد پدر بزرگوارم شیخ ابولافضل را کہ از شیخ زاد ہائے ہندوستان بہ مزیت فضل ودانائی امتیاز تمام داشت۔۔۔ طلب داشتند وچون خاطر اوبمن صاف نبود یقین بود کہ اگر دولت ملازمت دریا دب باعث زیادتی آن غبار خواہد گشت و مانع دولت مواصلت گرویدہ کار بجائے خواہد رسانید کہ بہ ضرورت از سعادت خدمت محروم باید گردید،چون ولایت نر سنگھ دیو سر راہ او واقع بود باد پیغام فرستادم کہ اگر سر راہ بر آں مفسد فتنہ انگیز گرفتہ اور را ینست ونابود سازورعایتہائے کلی از من خواہد یافت۔ اپنے بیٹے شاہ جہان کو شراب پلواتا ہے تو بے تکلف لکھتا ہے :۔ تا سال حال کہ سنش بہ بیست وچہار سالگی رسیدہ وکدخدائیہا کردہ وصاحب فرزندان شدہ اصلا خود را بخوردن شراب آلودہ نساختہ بود، این روز کہ مجلس وزن اوبود گفتم کہ بابا صاحب فرزندان شدہ وبادشاہان وبادشاہزادگان شراب خوردہ اند، امروز کہ جشن تست بتو ،شراب می خانم رخصت می دہم کہ درروز ہائے جشن وایام نو روز مجلسہائے بزرگ می خوردہ باشی اما طریقہ ء اعتدال مرعی داری۔ اس قسم کے سینکڑوں واقعات ہیں،جن سے بداہۃ ثابت ہوتا ہے کہ اس نے جہاں جو کچھ لکھا ہے۔سچائی کے جادہ سے بال برابر بھی نہیں ہٹا ہے۔ قدرت زبان ایک اور خصوصیت جو قوت تحریر سے متعلق ہے۔اور جس کو اصل مقصد سے پہلے بیان کرنا چاہیئے ،وہ یہ ہے کہ وہ ہر قسم کے واقعات کو جس خوبی، سادگی، صفائی اور بے تکلفی سے بیان کر سکتا ہے۔اور ساتھ ہی زبان کا لطف قائم رہتا ہے۔ فارسی انشا پردازوں میں کسی سے بن نہیں آسکتا۔ اختصار کے لحاظ سے ہم ایک دو مثالوں پر اکتفا کرتے ہیں۔ چونکہ اس کو علم الحیوانات کے ساتھ خاص شغف تھا۔دور دراز ممالک میں گماشتے مقرر کیے تھے۔کہ ہر قسم کے عجیب وغریب جانور جس قیمت پر بھی ہاتھ آئیں۔شاہی عجائب خانے کے لئے روانہ کیے جائیں۔چنانچہ ۱۰۲۱ ھجری میں مقرب خان،بندر کھمبات سے جو عجیب وغریب جانور ساتھ لایا ،ان میں پیرو بھی تھا۔جس کو آج انگریزی مرغی کہتے ہیں۔اس کی تصویر جہانگیر ان الفاظ میں کھینچتا ہے۔ یکے از جانوران در جثہ ازطاؤس مادہ کلان تر واز نر فی الجملہ خورد تر گاہے کہ در مستی جلوہ نماید دم خود را در دیگر پر ہا را طاؤس آسا پریشان می سازد ،وبر رقص در می آید۔ سر وگردن وزیر حلقوم او ہر ساعت برنگے ظاہر می گردد۔ وقتیکہ در مستی ست،سرخ سرخ است ،گویا کہ تمام را بہ مرجان مرصع ساختہ اند وبعد زمانے ہمیں جا ہا سفید می شود، وبطریق پنبہ بنظر درمی آید، بو قلمون آسا ہر زمان برنگے دیگر دیدہ می شود۔ وپارچہ گوشتی کہ بر سر دار بہ تاج خروس مشابہ است۔ غریب این استکہ درہنگام مستی پارچہ گوشت مذکور بطریق خرطوم از بالائے سر او تا یک وجب می آویزد وباز کہ آں را بالا می کشد چون شاخ کرگدن بر سر او مقدار دو انگشت نمایاں می گرد واطراف چشم اوہمیشہ فیروزہ گون ست۔‘‘ ایک اور پرند ہ کی تصویر یوں کھینچتا ہے کہ یکے از خصوصیت این جانور آن است کہ تمام شب پائے خود را بر شاخ درختے بند کردہ،خود را سر شیب مے سازد وبا خود زمزمہ می کند۔ وچون روز شد بالائے آن درخت می نشیند۔‘‘ اس طرح وہ جشنوں کی چہل پہل،لڑائیوں کی ہل چل، شکاروں کی دوڑ دھوپ،موسموں کی دل آویزی،باغوں کی ترو تازگی، آپس کی صحبتوں کی رنگینی کو ایسے بے تکلف، برجستہ اور دل آویز طریقہ سے ادا کرتا ہے کہ بڑے بڑے نام ور انشا پرداز نہیں کر سکتے۔ ان خصوصیتوں کے بیان کرنے کے بعد اب ہم ان حالات کی طرف متوجہ ہوتے ہیں،جن سے یہ اندازہ ہو سکتا ہے کہ یورپ کے مورخین اس کی زندگی کا جونقشہ کھینچتے ہیں۔ وہ کہاں تک صحیح ہے۔ تزک جہانگیری اس کا روز کا روز نامچہ ہے۔ اس میں وہ تاریخ وار تمام واقعات جو اس کو پیش آتے ہیں۔اور جن اشغال میں وہ مشغول رہتا ہے۔ تفصیل کے ساتھ بیان کرتا ہے۔اس کتاب سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کی عمر کابڑا حصہملک کے دورہ میں صرف ہوا ہے۔جس کے ذریعہ سے وہ ملک اور رعایا کے حالات سے اطلاعات حاصل کرتا تھا۔ اس خصوصیت میں وہ اپنے تمام پیشرواؤں اور جانشینوں سے بڑھا ہوا تھا۔ کہ اس کے سفر کی مدت اور سفر کی حدود سب سے زیادہ وسیع ہیں۔ دورہ کے رازانہ حالات جو وہ قلم بند کرتا ہے۔ اس میں عیش وعشرت کا حصہ بہت کم نظر آتا ہے۔یہ نہ سمجھنا چاہیئے کہ وہ ان واقعات کو نظر انداز کر جاتا تھا۔ شبستان عشرت میں بسر کرنا،شراب کے جلسے قائم کرنا، جشن آرائی کی دھوم دھام، نغمہ وسرود کی محفلیں، ان تمام واقعات کو وہ نہایت مزے لے کر بیان کرتا ہے۔لیکن جب اس قسم کے حالات کو اس کے ملکی اور عملی اشغال سے موازنہ کیا جاتا ہے تو صاف نظر آتا ہے کہ اس نے ان تفریحی اشغال کو اسی حد تک جائز رکھا تھا۔جس قدر آج یورپ نے باوجود کمال تہذیب کے جائز رکھا ہے۔ مہمات ملکی کی طرف توجہ ہم دیکھتے ہیں کہ کبھی وہ بڑی مہمات پر فوجیں بھیج رہا ہے۔ کبھی ایک بڑھیا کی ایک طاقت ور کے مقابلے میں داد رسی کر رہا ہے۔کبھی ایک علاقہ پیمائش میں مصروف ہے۔ کبھی صوبہ جات کے گورنروں کے نام احکام جاری کر رہا ہے۔ کبھی ملکی پیدا وار کی تحقیقات میں مصروف ہے، کبھی سرحدی حکمرانوں سے تعلقات پیدا کرنے کی کوشش میں مصروف ہے۔ کبھی علماء کی مجلس میں شریک ہے۔ کبھی غیر مذہب والوں سے علمی مباحثے کر رہا ہے۔اسی حالت میں کام کرتے کرتے تھک جاتا ہے تو ارباب نشاط اور نغمہ وسرود سے بھی دل بہلا لیتا ہے۔اگر یہ جرم ہے تو سب کو اس جرم کا مرتکب ہونا چاہیئے۔ سہ ماہ مے خور ونہ ماہ پارسا می باش اس نے تخت پر بیٹھنے کے ساتھ ہی پہلا حکم جوجاری کیا۔وہ زنجیر عدالت کا آویزاں کرنا تھا۔شخصی حکمتوں میں رعایا کی داد رسی میں جو امر سب سے بڑا دقت طلب ہوتا ہے۔وہ بادشاہ کے دربار کی رسائی ہے۔نقیب وچاؤش،حاجب ودربان، خدم وحشم کے ہجوم میں مظلوموں کا بادشاہ تک پہنچنا ایک طرف ان کی آواز بھی نہیں پہنچ سکتی۔ جہانگیر نے سب سے پہلے اس کی طرف توجہ کی اور حکم دیا کہ ایک زنجیر قلعہ کے برج سے دربار تک لٹکائی جائے تا کہ جو مظلوم شاہی دربار تک نہ پہنچ سکے۔ اس زنجیر کوہلا دے۔ جب کوئی شخص اس زنجیر کو ہلاتا تھا،تو قلعہ میں خبر ہو جاتی تھی۔اور جہانگیر اسی وقت باہر نکل آتا تھا،اور اس کی داد رسی کرتا تھا۔ جہانگیر کی نفاست پسندی نے یہاں بھی کام کیا۔یعنی زنجیر زر خالص سے تیار کی گئی۔ یہ زنجیر 30گز لمبی اور 4من وزن تھا۔اس میں ساٹھ گھنگرو تھے جو زنجیر ہلانے سے بجتے تھے۔ اس کے علاوہ تخت نشینی کے ساتھ ہی اس نے دوازدہ گانہ احکام صادر کیے ،جن کی تفصیل یہ ہے۔ (۱) تمغا اور میر بحری اور ہر وہ ٹیکس جو ہر صوبہ کے جاگیرداروں نے مقرر کیے تھے، قطعا موقوف کر دیئے۔ (۲) جن راستوں میں ڈاکے پڑتے تھے، حکم دیا کہ منزل بمنزل سرائیں ،کنویں، مسجدیں،تیار کرائی جائیں،تاکہ لوگ آباد ہو جائیں اور چوری وغیرہ نہ ہونے پائے۔اس کے ساتھ یہ بھی حکم دیا کہ سوداگروں کا مال ،واسباب ان کی مرضی کے خلاف کوئی نہ کھولنے پائے۔ (۳) اب تک یہ قاعدہ تھا کہ جو شخص مر جاتا تھا۔ اس کا مال ضبط ہو کر شاہی خزانہ میں داخل ہوتا تھا۔اگر چہ وہ اکثر وارثوں کو واپس ملتا تھا۔لیکن یہ شاہی احسان سمجھا جاتا ہے۔جہانگیر نے حکم دیا کہ جائداد ومال وارثوں کا حق ہے، کسی کو اس میں حق تصرف نہیں ہے۔البتہ جو شخص لاوارث مر جائے اس کا مال بیت المال میں داخل ہو۔لیکن وہ بھی صرف پبلک سروس یعنی سراؤں ،پلوں اور تالابوں کی تیاری میں صرف کیا جائے۔ (۴) تمام ممالک محروسہ میں شراب اور دیگر مسکرات بکنے نہ پائیں۔جہانگیر نے جہاں اس حکم کا ذکر کیا ہے۔انصاف پسندی کے ساتھ اپنے جرم کا اعتراف کیا ہے۔چنانچہ لکھتا ہے کہ : ’’باآنکہ خود بخوردن شراب ارتکاب می نمایم‘‘ (۵) کسی کے مکان میں سرکاری ملازمین اترنے نہ پائیں۔ (۶)ناک، کان کاٹنے کی جو سزائیں دی جاتی تھیں،یک قلم موقوف کردی جائیں۔ (۷)رعایا کی زمین زبردستی خالصہ میں شریک نہ کی جائے۔ (۸) ملازمین شاہی اپنے علاقوں میں بغیر اجازت کے شادی نہ کرنے پائیں۔ (۹) تمام بڑے بڑے شہروں میں شفا خانے قائم کیے جائیں۔اور طبیب وجراح مقرر ہوں،اور یہ تمام خرچ جیب خاص سے ادا کیا جائے۔ (۱۰) ۱۸ ربیع الاول (تاریخ ولادت جہانگیر ) اور جمعرات اور ہفتہ کو جانور ذبح نہ کیے جائیں۔ (۱۱) عام حکم دیا کہ والدہ ماجدہ (اکبر شاہ) کے زمانے کے تمام مناصب اور عہدے برقرار رکھے جائیں۔ (۱۲) جس قدر قیدی قلعوں میں اور جیل خانوں میں مقید تھے۔ سب آزاد کر دیئے۔۱ؔ جغرافیانہ اور محققانہ تحقیقات ہندوستان کی سینکڑوں تاریخیں لکھی گئی ہیں۔جن میں حکومت اور فتوحات کے حالات ہیں۔ لیکن کوئی کتاب جغرافیہ کے طرز پر نہیں لکھی گئی۔جس سے ایک ایک شہر اور قصبہ کے حالات معلوم ہوتے۔ اس انداز کی سب سے پہلی کتاب آئین اکبری ہے۔جس میں نہایت اجمالی حالات ہیں۔ آج کل گزیٹیر کا جو طریقہ ہے،یہ اس عہد میں بالکل نہ تھا۔ لیکن اس کا خاکہ در حقیقت جہانگیر نے قائم کر دیا تھا۔تزک جہانگیری میں وہ جس صوبہ یا جس شہر کا حال لکھتا ہے۔ اس کی ابتدائی تاریخ، مساحت، پیداوار کی اقسام، آب و ہوا، اثمار واشجار،رسوم وعادات، ایک ایک چیز کو نہایت تفصیل سے لکھتا ہے۔ مثلا کشمیر کے حال میں لکھتا ہے : کشمیر اقلیم چہارم میں شامل ہے۔اس کا عرض بلد خط استوا سے ۳۵ درجہ اور طول جزائر سفید سے ۱۰۵ درجہ ہے۔ مدت تک یہ ملک ہندو راجاؤں کے قبضے میں تھا۔چنانچہ ان کی کل مدت حکومت ۴۰۰۰۰ سال ہے۔جس کے تفصیلی حالات راجہ ترنگ کی تاریخ میں جس کا ترجمہ عرش آشیائی (اکبر) کے حکم سے فارسی میں ہو چکا ہے۔ یہ تفصیل مذکور ہیں۔ ۷۱۲؁ھ میں مسلمانوں کا قبضہ ہوا۔ ۳۲ حکمرانوں نے ۲۸۲ برس تک حکومت کی۔۹۹۴ھ؁ میں عرش آشیانی (اکبر) نے فتح کیا۔ کشمیر کا ملول بہلو لباس سے نشیبی حصہ تک ۵۶ کوس ہے۔اور عرض ۲۷ کوس ہے۔ابو الفضل نے اکبر نامہ میں یوں ہی قیاسا لکھ دیا کہ کشمیر کا طول دریائے کشن گنگا سے ۱۲۰ کوس ہے۔میں نے بنظر احتیاط ماہران فن کو مقرر کیا کہ طول اور عرض کی پیمائش کریں۔ابو الفضل نے جو ۱۲۰ کوس لکھے ،وہ کل ۲۷ ٹھہرے۔ قاعدہ یہ ہے کہ ہر ملک کی سرحد وہاں تک قرار دی جاتی ہے۔ جہاں تک اس ملک کی بولی بولی جاتی ہے۔ اس بنا پر بہلو لباس سے کشمیر کی سرحد مقرر کی گئی ہے ۔جو دریائے کشن گنگا سے ۱۱ میل اس طرف ہے۔ ۱ؔ۔۔دیکھو تزک جہانگیری صفحہ ۳ تا صفحہ ۵، شہر کا نام سری نگر ہے۔ دریائے بھٹ شہر کے بیچ ہی میں بہتا ہے۔ اس دریا کا مخرج ایک چشمہ ہے۔جس کا نام ویری ناگ ہے۔ جو سری نگر سے ۱۴ کوس ہے۔ میں نے اس چشمہ پر ایک باغ اور عمارت تیار کرائی ہے۔ شہر میں چار پل نہایت مستحکم اور مضبوط ہیں۔پل کو کشمیری زبان میں کدل کہتے ہیں۔ یہاں ایک نہایت عالی شان مسجد ہے ۔جس کو سلطان سکندر نے ۹۰۷ ھ؁ میں تیار کرائی تھی۔محراب سے شرقی دیوار تک ۱۴۵ گز طول اور ۱۴۴ گز عرض ہے۔میر سید علی ہمدانی کی ایک خانقاہ یہاں یاد گار ہے۔ یہاں آمدورفت کشتی کے ذریعہ سے ہے۔ 57000کشتیاں ہیں اور74000 ملاح ہیں۔ کشمیر میں28پرگنہ جات ہیں۔بالائی حصہ کو امراج اور نشیبی حصہ کو کامراج کہتے ہیں۔ یہاں مالگزاری میں نقدی دینے کا دستور نہیں بلکہ بٹائی کا طریقہ ہے۔ایک خردار تین من آٹھ سیر کا ہوتا ہے۔اس حساب سے کشمیر کی کل مالگزاری 30لاکھ تریسٹھ ہزار ہے۔جس کونقدی سے بدل دیں تو سات کروڑ ۶۶ لاکھ ستر ہزار درہم ہوتے ہیں۔ (درہم قریبا سوا پیسہ کا ہوتا ہے۔) کشمیر کا راستہ سخت دشوار گزار ہے۔ نسبتا سب سے آسان راستہ بھمیر اور پگلی کا ہے۔ لیکن کشمیر کی بہار دیکھنی ہو تو پگلی کے راستہ سے جانا چاہیئے۔ کشمیر ایک ہمیشہ بہار چمن زار ہے۔جہاں تک نگاہ کام کرتی ہے۔سبزہ، آب رواں، گلاب، بنفشہ،نرگس اور سینکڑوں قسم کے پھول ہی پھول نظر آتے ہیں۔بہار میں نہ صرف صحرا اور چمن،بلکہ درو دیوار صحن وبام،لالہ سے پٹ جاتے ہیں۔ کشمیر کے تمام مکانات چوبیں ہوتے ہیں ،جو دو منزلہ ،سہ منزلہ ہوتے ہیں۔ بالا خانے کو خاک پوش کر کے اس میں لالہ بوتے ہیں،جو بہار میں پھولتا ہے۔اور عجب عالم پیدا کرتا ہے۔ یہ خاص کشمیر کی ایجاد ہے۔ کشمیر کے مضافات میں پھولوں کاشمار نہیں ہو سکتا۔استاد منصور نقاش نے میرے حکم سے جتنے پھولوں کی تصویریں لیں۔ان کی تعداد سو سے متجاوز تھی۔ عرش آشیانی سے پہلے یہاں شاہ آلو مطلق پیدا نہیں ہوتا تھا۔ محمد قلی افشار نے کابل سے لا کر پیوند لگایا۔ اب تک دس پندرہ درخت تیار ہو چکے ہیں۔ اس کے بعد تمام میوہ جات اور پیدا وار اور حیوانات اور لوگوں کی معاشرت اور رہنے سہنے کا حال لکھا ہے۔اس مختصر مضمون میں اسکی گنجائش نہیں ہے۔ انصاف کرو ایک محقق جغرافیہ دان اور مورخ کسی ملک کا حال اس سے زیادہ کیا لکھ سکتا تھا۔ باوجود اس کے یورپین مورخوں کی نا انصافی اور ستم ظریفی دیکھو کہ جہانگیر کومست لایعقل کا خطاب دیتے ہیں۔اور افسوس کا مقام یہ ہے کہ ہمارا اردو کا انشاء پرداز بھی (مولوی محمد حسین آزاد) قاضی نور اللہ شوستری کے خون کا انتقام اسی پردہ میں لیتا ہے۔ جہانگیر کے دورہ کی حد ایک طرف آگرہ سے لے کر پنجاب اور کشمیر تک اور دوسری طرف مالوہ اور گجرات تک ہے۔ان ممالک کے اضلاع اور شہروں بلکہ قصبات تک کے تمام حالات اس نے جس تحقیق سے لکھے ہیں۔ اس پر اضافہ نہیں ہو سکتا۔ علم الحیوانات جہانگیر کے زمانہ میں کسی کو اس کا خیال بھی نہ ہوگا ۔لیکن تزک جہانگیری میں اس کے متعلق اس قدر معلومات ہیں،کہ اس علم کی ایک اچھی ابتدائی تصنیف اس سے تیار ہو سکتی ہے۔شکار کا شوق شاہی لوازم میں داخل ہے۔ اور گو خشک مزاج عالمگیر اس کو کار بے کاراں کے لقب سے یاد کرتا تھا۔لیکن خود بھی اکثر بے کار بن جاتا تھا۔تاہم آج تک کسی نے اس سے یہ کام نہیں لیا۔کہ علم الحیوانات کی تدوین میں کام آئے۔جہانگیر کو بھی شکار کا بے انتہا شوق تھا۔ ایک دفعہ اس نے اپنی شکار افگنی کا نقشہ تیار کرانا چاہا۔ چونکہ دفتر میں ایک ایک چیز قلم بند کی جاتی تھی۔اس لئے تحقیقات سے ثابت ہوا کہ بارہ برس کی عمر میں یعنی ۹۸۸ھ؁ میں پچاسویں سال تک ۲۸۵۳۲ جانور اس نے شکار میں مارے تھے۔جن میں ۸۶ شیر تھے۔ تزک میں ایک ایک جانور کی الگ الگ تفصیل لکھی ہے۔ وہ جس جانور کو مارتا تھا۔ فورا اس کا وزن اور تشریح کرتا تھا۔ اور یہ دیکھتا تھا کہ اس میں غیر معمولی کیا چیزیں ہیں۔ مثلا گرگ نرے میرزا رستم شکار کردہ بود۔آوردمی خواستم کہ ملاحظہ نمایم کہ زہرہ اوبطریق زہرہ شیر در درون جگر واقع است۔یا مانند جانوران دیگر در بردن جگر دارد بعد از تفحص ظاہر شد کہ زہرہ اوہم دردرون جگر می باشد۔ یکے از بز ہائے نر را کہ ازہمہ کلان تربود فرمود کہ بوزن درآورند،دومن وبست وچہار سیر ظاہر شد۔از گور خر ہائے شکاری یکے کہ بہ جثہ از ہمہ قوی تر بود۔ نہ من وشانزدہ دوسیر سنجیدہ شد۔ مگر مچھ دیدہ شد کہ ہشت گز طول ویک گزعرض داشت۔ نورجہاں بیگم قریشہ اینجا بہ بندوق زد کہ تا حال بہ آن کلانی وخوش رنگ دیدہ نہ شد بود،فرمودم وزن نمودند،نوزدہ تولہ وپنج ماشہ بوزن درامد۔ درین تاریخ امانت خاندو دندان فیل گزرایند بغایت کلان کہ یکے ازان سہ ذرع (گز) وہشت طسو طول وشانزدہ طسو ضخامت داشت ہمہ من دو سری بوزن درآمد ۔ چونکہ قدیم تصنیفات میں تصویر درج نہیں کرتے تھے۔ اس لیے علم الحیوانات کی تصانیف میں سب سے مقدم یہ ہے کہ جس جانور کا ذکر کیا جائے۔اس کی صورت ،شکل وصورت، ڈیل وڈول،خط وخال ،رنگ وروپ کا اس طرح بیان کیا جائے کہ آنکھوں میں تصویر ابھر آئے۔حیاۃ الحیوان دمیری میں جو اس فن کی سب سے عمدہ کتاب خیال کی جاتی ہے۔اکثر یہ نقص پایا جاتا ہے۔کہ دو جانور جوباہم ملتے جلتے ہیں، ان میں امتیاز نہیں ہو سکتا۔لیکن جہانگیر جس جانور کا ذکر کرتا ہے۔ تصویر کھینچ کر رکھ دیتا ہے۔ اس سے اس کی قوت تحریر اور قدرت زبان کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔ ولایتی مرغی کا ذکر اوپر گزر چکا ہے۔ اس کو ایک بار اور پڑھو۔ ایک اور موقع پر ایک قسم کے بندر کا ذکر کرتا ہے۔ میمونے آوردہ بود۔بہ ہیئات غریب وشکل عجیب،دست وپا وگوش وسر اوبعینہ میمون ست۔دردے اور بردے روباہ می ماند۔ رنگ چشمہائے او بہ رنگ چشم باز۔لیکن از چشم باز کلان تراست۔از سر اوتا سر دم یک درع معمول بودہ است۔ ازمیمون پست تر واز راباہ بلند تر است۔رنگ او خاکستری است۔از بناگوش ترنخ سرخ است، می گون،دم اونیم ذرع دو سہ انگشت واز ترغایۃ بخلاف دیگر میمون با دم این جانور افتادہ است۔‘‘ لیکن اس نے اسی پر اکتفا نہیں کیا۔ بلکہ تمام کمیاب جانوروں کی تصویریں کھنچوائیں اور تزک جہانگیری میں شامل کیں۔ چنانچہ اس کا ذکر مصوری کے بیان میں آئے گا۔ اکثر شکاروں میں جب کوئی غیر معمولی قد وقامت کا جانور شکار کرتا ،تو اس کی تصویر کھینچواتا تھا۔ ۱۸ ؁ جلوس میں ایک نہایت مہیب شیر کا شکار کیا۔تو اس کی تصویر کھینچوائی ۔ چنانچہ خود لکھتا ہے : از ایام شہزادگی تا حال این ہمہ شیر کہ شکار کردم، دربزرگی وشکوہ وتناسب اعضا مثل این شیرے بہ نظر نیامدہ بہ مصوران فرمود کہ شبیہ آن را موافق ترکیب بکشند بست ونیم من جہانگیری وزن شد (صفحہ ۳۷۵) علم الحیوانات کے نتائج میں اس سے بہت مدد ملتی ہے۔ کہ جانوروں کی نہایت غیر معمولی اقسام ڈھونڈ کر پیدا کیے جائیں۔ کیونکہ اس سے اکثر جانوروں کی ماہیئت اور جنس ونسل جوقرار پا چکی تھی۔ بدل جاتی ہے۔ جہانگیر اس کا خاص خیال رکھتا تھا۔ سفید رنگ کا چیتا بہت کم سنا گیا ہے۔راجہ نر سنگھ دیو نے جب ۳؁ جلوس میں پیش کیا تو نہایت خوش ہوا تزک میں جہاں اس کا ذکر کیا ہے۔ لکھتا ہے۔ میں نے حسب ذیل جانور بالکل سفید دیکھے ہیں،اور میرے چڑیا خانے میں موجود ہیں۔ شاہین، باشہ، کنجشک، کوا، بٹیر، تیتر، پودنہ،باز، طاؤس۔‘‘ جہانگیر کا جانور خانہ حقیقت میں ایک عجائب خانہ تھا۔اس میں ایسے بھی بہت سے جانور تھے ۔جن خلقت غیر معمولی خلقت تھی۔ ان میں ایک بکرا تھا۔ جوبقدر ایک پیالہ کے دودھ دیتا تھا۔ ۹ئ؁ جلوس میں ولایت زیر باد سے ایک پرند آیا جو طوطی کے مشابہ تھا۔ اس کی یہ عادت تھی کہ تمام رات الٹا لٹک کر چہچہے کرتا تھا۔ جہانگیر اس کا حال ان الفاظ میں لکھتا ہے۔ تزک جہانگیری صفحہ ۷۴ درین روزجانورے از ولایت زیر بادآوردہ بودند کہ رنگ اصل بدن اوموافق بہ رنگ طوطی ست۔لیکن در جثہ ازد کوچک ترست، یکے از خصوصیت این جانور آن است کہ تمام شب پائے خود را بر شاخ درختے یا چوبے کہ اورا بران نشانیدہ باشند۔ بند کردہ خود را سر شیب می سازد۔ وبا خود زمزمہ میکند وچون روز شد ،بر بالائے آن شاخ درخت می نشیند،آب مطلق نمی خورد۔دور طبیب اوکار زہر می کند۔ جہانگیر ان عجائبات کے بہم پہنچانے میں بے دریغ روپیہ خرچ کرتا تھا۔ان امراء سے بے حد خوش ہوتا تھا۔ جو اس قسم کی چیزیں بہم پہنچاتے تھے۔اور روپیہ کا مطلق خیال نہیں کرتے تھے، مقرب خان کو بندر کھمبات بھیجا تو تاکید کی کہ: بہ بندر گو وارفتہ نفایسے کہ دران جا بدست آید جہت سرکار خاصہ شریفہ خریداری نماید۔ حسب الحکم بہ استعداد او بہ تمام بہ گو وہ رفت ومدتے دران جا بودہ نفایسے کہ دران بندر بہ دست افتاد، اصلا روئے زر نہ دید، بہر قیمتے کہ فرنگیان خواستند زر دادہ گرفت، ازان جملہ جانورے چرند آوردہ بود ،بسیار عجیب وغریب، چنانچہ تا ھال نہ دیدہ بودم بلکہ نام او را کسے نمی دانست ۱؎۔ اس کے فیل خانہ میں ایک ہاتھی تھا۔ جس کا نام اس نے گجراج رکھا تھا۔ اس کا قد سات گز شرعی اور آٹھ انگل کا تھا۔ (شرعی گز جیسا کہ خود جہانگیر نے تصریح کی ہے،چوبیس انگل کا ہوتا ہے یعنی ایک ہاتھ سے کچھ کم۔) علم الحیوانات کا ایک اہم مسئلہ جانوروں کے خصائص طبعی کا علم ہے۔ یعنی کون سے افعال اور خصائص ان کی فطرت میں داخل ہیں۔اور کون سے ایسے ہیں جو تعلیم وتربیت سے بدل سکتے ہیں۔اس پر بہت سے عملی نتائج موقوف ہیں۔ مثلا ہاتھی ایک مفید اور قوی جانور ہے۔ لیکن اس کے خصائص میں ہے کہ آبادی میں جفت نہیں ہوتا۔ اس ضرورت سے ہمیشہ جنگل سے گرفتار کرنے پڑتے ہیں۔وگرنہ اگر ان کی نسل پھیل سکے تو نہایت آسانی ہو جائے،۔ جہانگیر اس امر پر خاص توجہ رکھتا تھا۔ اور اس نے تجربہ سے ثابت کر دیا کہ بہت سی باتیں جوبعض بعض جانوروں میں فطری سمجھی جاتی ہیں۔ تربیت کے اثر سے بدل سکتی ہیں۔ شیر کی نسبت عام طور سے مشہور ہے کہ وہ انسان سے رام نہیں ہوتا ۔لیکن جہانگیر لکھتا ہے کہ شیران بہ نوعے رام گشتہ اند کہ بے قید وبے زنجیر گلہ گلہ درمیان مردم گردند وضرر ایشان بہ مردم نمی رسد۔ یہ بھی مشہور ہے کہ شیر ،چیتے،ہاتھی، بندر آبادی میں بچے نہیں جنتے۔ اکبر نے ایک ہزار کے قریب چیتے جمع کیے تھے۔ اور ان کو ایک جگہ رکھتا تھا۔ کہ شاید جفت ہوں۔ لیکن کبھی نہ ہوئے۔ نر اور مادہ کھلے باغ میں چھڑ وادیئے ،جب بھی الگ رہے۔ لیکن جہانگیر کے جانور خانے میں شیر اور چیتے دونوں نے بچے جنے۔ جہانگیر لکھتا ہے کہ مادہ شیرے آبستن شد،وبعد از سہ ماہ سہ بچہ زائید ،واین ہرگز نہ شدہ کہ شیر جنگلی بعد از گرفتاری بہ جفت خود جمع شدہ باشد۔ (صفحہ ۱۱۷) ہاتھی کی نسبت لکھتا ہے : شب یک شنبہ مادہ فیلے ( از فیل خانہ خاصہ در حضور من زائید) مکرر فرمودہ بودم کہ تحقیق مدت حمل نمایند،آخر الامر ظاہر شد کہ بچہ مادہ یک سال وشش ماہ بچہ نر نوزدہ ماہ درشکم مادر مے ماند،بخلاف تولد آدمی کہ اکثر بچہ از شکم مادر بہ سر فرو می آئیند ،بچہ فیل اکثر بہ پا برمی آید ۔ (صفحہ ۳۰) اس طرح سارس تدور وغیرہ کے واقعات لکھے ہیں۔ایک شیر کی نسبت لکھا ہے کہ بکری سے اس قدر مانوس ہو گیا کہ بغیر اس کے بسر نہیں کر سکتا تھا۔ دونوں ایک پنجرے میں رہتے تھے۔ چنانچہ لکھتا ہے کہ: شاہزادہ داور بخش، شیر نر پیش کش کرد کہ بابز الفت گرفتہ در یک قفس می باشند وبہ آن بز نہایت محبت والفت ظاہری می سازد، بہ دستورے کہ حیوانات جفت می شوند بز را در آغوش گرفتہ حرکت می کند،حکم کردند کہ آن بز را مخفی داشتند فریاد واضطراب بسیار ظاہر ساخت (۳۳۹)۔ اس قسم کے بہت سے واقعات لکھے ہیں جو علم الحیوانات کے لئے کار آمد ہیں۔ مصوری عام خیال ہے کہ چونکہ اسلام نے تصویر کشی ک وحرام قرار دیا ہے۔ اس لئے مسلمان اس فن میں کچھ ترقی نہ کر سکے۔بلکہ ان کے عہد میں یہ لطیف فن گویا مٹ گیا۔ہم کو مذہبی مسئلہ سے بحث نہیں۔ لیکن تاریخی واقعہ یہ ہے کہ مسلمانوں نے اس فن میں کچھ کم ترقی نہیں کی،اور سلاطین اور امراء اسلام اس فن کے ساتھ خاص شغف رکھتے تھے۔اور جہانگیر تو گویا عاشق تھا۔ اس کی مہارت اس فن میں اس درجہ بڑھی ہوئی تھی کہ ایک تصویر اگر مختلف مصوروں کے ہاتھ کی بنی ہوئی ہوتی تو وہ بتا دیتا تھا۔ کہ کہاں تک کس کے ہاتھ کاکام ہے۔ خود تزک میں لکھتا ہے : اگر دریک صورت ، چشم وآبرو دیگرے کشیدہ باشد،در آن صورت می فہم کہ اصل چہرہ کار کیست؟۔ چشم وآبرو کے ساخت؟۔ اس کے دربار میں مشہور مصور ابو الحسن تھا۔ جس کو جہانگیر نے ۱۳ھ ؁ جلوس میں نادر الزمانی کا خطاب دیا تھا۔ خطاب دینے کی تقریب میں لکھتا ہے کہ: کارش بہ عیار کامل رسیدہ وتصویر واواز کار نامہائے روزگار است درین عصر نظیر وعدیل خود نداد، اگر درین روز گار استاد عبد الحئی واستاد بہزاد در صفحہ روز گار می بودند،انصاف کار او می دادند ۔الحق نادر الزمان خود بودہ وہم چنیں استاد منصور نقاش کہ بہ خطاب نادر العصری ممتاز است دور فن نقاشی یگانہ عصر خود ست (۲۳۵) جہانگیر نے نہایت نادر نادر تصویریں اور مرقعے تیار کروائے تھے۔ ۱۴ ؁جلوس میںخان عالم کو جب عراق بھیجا گیا تو بشن داس کو جوفن تصویر میں یکتائے روز گار تھا۔ ساتھ بھیجا۔ کہ شاہ عباس صفوی اور اس کے ارکان سلطنت کی تصویر کھینچ کر لائے۔ چنانچہ خود لکھتا ہے کہ : وقتے کہ خان عالم را بہ عراق فرستادم بشنداس نام مصورے کہ درشبیہ کشی ازیکتایان روزگارست ہمراہ دادہ بودم۔ کہ شبیہ شاہ وعمدہائے دولت ایشیان را کشیدہ بیار وشبیہ اکثرے را کشیدہ بود بہ نظر در آورد ۔ خصوصا شبیہ شاہ برادرم (یعنی عباس صفوی) را بسیار خوب کشیدہ، چنانچہ بہر کس از بند ہائے ایشیان نمودم، عرض کردند کہ بسیار خوب کشیدہ (ص ۲۸۵) تزک کے شاہی نسخہ میں اپنے جلوس ک امرقع ابو الحسن نادر الزمانی سے تیار کرایا تھا۔ جس کا ذکر اوپر گزر چکا ہے۔چنانچہ اس کے صلہ میں اس کو نادر الزمانی کا خطاب دیا۔جس قدر عجیب وغریب حیوانات اس کے عجائب خانے میں تھے۔ سب کی تصویریں کھینچوا کر جہانگیر نامہ میں شامل کی تھیں۔چنانچہ خود لکھتا ہے : حضرت فردوس مکانی (بابر بادشاہ) اگر چہ در واقعات خود صورت واشکال بعضے جانوران را نوشتہ اند لیکن غایۃ بہ مصوران نہ فرمودہ اند کہ صورت آن ہا را تصویر نمایند،چوں ایں جانوران در نظر من بہ غایت غریب در آمدہ ہم نوشتم دہم در جہانگیر نامہ فرمودم کہ مصوران، شبیہ آن ہا را کشیدند، تا حیرتے کہ از شنیدن دست دہد،از دیدن زیادہ گردد ۔(صفحہ ۱۰۵) قدیم مرقعوں اور تصویروں کا نہایت شائق تھا۔اور یہ شوق حد سے بڑھ گیا تھا۔ امیر تیمور کے جنگ کا مرقع ایک امیر نے ایران سے بہم پہنچایا تھا۔اس کا ذکر تزک میں جس طرح کیا ہے۔ اس سے اس کے شوق کا اندازہ ہو سکتا ہے۔یہ مرقع خلیل مرزا نے کھینچا تھا۔اس مرقع میں ۲۴۰ تصویریں تھیں۔اور یہ سب ان شہزادوں اور امراء کی تصویریں تھیں۔ جو اس معرکہ میں شریک جنگ تھے۔ ہر تصویر کے نیچے صاحب تصویر کا نام بھی لکھ دیا تھا۔ یہ مرقع شاہ اسماعیل صفوی کے کتب خانے سے شاہ عباس کے ہاتھ آیا تھا۔ شاہ عباس کے داروغہ کتب خانہ نے اس کو چوری سے بیچ ڈالا۔ اتفاق یہ کہ جہانگیر نے جب خان عالم کو ایران بھیجا تو اصفہان میں یہ مرقع بازار مین بک رہا تھا۔ خان عالم نے خرید لیا۔ شاہ عباس کو خبر ہوئی تو لکھ بھیجا کہ میں صرف دیکھنا چاہتا ہوں، بھیج دو۔ خان عالم نے بہت ٹالا ، لیکن بادشاہ کے اصرار سے مجبور ہو گیا اور آخر کار بھیج دیا۔شاہ عباس کو چونکہ جہانگیر کی تصویر دوستی کا حال معلوم تھا۔ چند روز اپنے پاس رکھ کر خان عالم کے پاس بھیج دیا۔ یہ تمام داستان جہانگیر نے تزک میں لکھی ہے۔اور عجیب جوش مسرت سے لکھی ہے۔ ایک جگہ لکھتا ہے: از نفایس ونوادر روز گار کہ خان عالم آوردہ الحق از تائیدات طالع او بود کہ چنین تحفہ مدست افتادہ مجلس جنگ صاحبقران است ،، اگر نام مصور نبودے گمان می شد کہ کار بہزاد باشد۔ چون توجہ خاطر مارا بہ امثال این نفائس می دانند کہ درچہ مرتبہ است از خوارستن نیز در کلی وجزوی بحمد اللہ کہ مضائقہ نیست۔ حقیقت را بہ خان عالم ظاہر ساختہ باز بر مشار الیہ لطف نمودند (صفحہ ۲۸۵) اپنے زمانے کے نامور آدمیوں کے بت (اسٹیچو) بھی تیار کرائے تھے۔ اور تعجب یہ ہے کہ ان میں ہندو راجاؤں کے بت بھی تھے۔ مہا رانا اودے پور،اور اس کے ولی عہد کا جو بت تیار کرایا تھا۔اس کے متعلق ۱۱ ؁ جلوس کے واقعات میں لکھتا ہے کہ : صورت رانا کرن پسر او را بہ سنگ تراشاں تیز چنگ، فرمودہ بودم کہ از سنگ مرمر بہ قدد وتر کیبے دارند بتراشند،درین تاریخ صورت اتمام یافت و بہ نظر درآمد،فرمودم کہ بہ آگرہ بردہ در باغ جھروکہ درشن نصب کنند ‘‘ (صفحہ ۱۶۲ ،۱۶۳) جہانگیر تسویر شناسی کا جو دعویٰ کرتا تھا۔ تذکروں اور تاریخوں سے اس کی تصدیق ہو جاتی ہے۔ سر خوش نے اپنے تذکرہ میں لکھا ہے کہ ایک شخص نے ایک تصویر جہانگیر کو لا کر دی۔جس میں ایک عورت کی تصویر اس حالت میں کھینچی تھی کہ اس کی کنزیں جھانویں سے اس کے تلوے مل رہی تھیں۔ جہانگیر نے پانچ ہزار روپے دے کر وہ تصویر مول لے لی۔ اس پر صاحب تصویر کو تعجب ہوا اور عرض کی کہ حضور! اس میں کیا بات ہے۔ جہانگیر نے کہا جب تلوے سہلائے جاتے ہیں تو خفیف سی گدگدی پیدا ہوتی ہے۔اس کا اثر چہرہ پر بھی ظاہر ہوتا ہے۔ اور یہ اثر تصویر میں موجود ہے۔ صناعی اور صنعت گری جہانگیر کی خوش مذاقی اور قدر دانی نے صناعی کو جس قدر ترقی دی اس کی تفصیل اس مضمون میں نہیں سما سکتی۔ہم صرف ایک مثال پر اکتفا کرتے ہیں۔ جس کا ذکر جہانگیر نے ۶ ؁ جلوس کے واقعات میں استعجاب کے ساتھ کیا ہے۔ یہ پستہ کے چھلکے کے برابر ہاتھی دانت کے چار مرقعے تھے۔ ایک میں چند پہلوان باہم لڑ رہے تھے۔ ایک ہاتھ میں نیزہ لیے کھڑا تھا۔ دوسرے کے ہاتھ میں پتھر کا ٹکڑا تھا۔ ایک اور پہلوان ہاتھ زمین پر ٹیکے ہوئے بیٹھا تھا۔سامنے ایک کمان ،ایک لکڑی اور ایک ظرف رکھا ہوا ہے۔دوسرے مرقع میں ایک تخت ہے ،جس پر شامیانہ تنا ہوا ہے۔تخت پر ایک بادشاہ پاؤں پر پاؤں رکھے ہوئے بیٹھا ہے۔پیٹھ تکیے سے لگی ہوئی ہے۔ پانچ خدمت گار گرد وپیش کھڑے ہیں۔ اوپر سے ایک درخت کی شاخ بادشاہ کے سر پر سایہ کر رہی ہے۔تیسرے مرقع میں نٹ تماشاد کھا رہے ہیں۔ ایک بلی کھڑی ہے۔اس میں طنابیں بندھی ہیں۔ایک نٹ اس طرح کھڑا ہے کہ بائیں ہاتھ کو سر کے پیچھے سے لا کر دائیں پاؤں کو پکڑ لیا ہے۔ایک ہاتھ میں ایک لکڑی ہے۔ جس کے سرے پر ایک بکری معلق ہے۔ایک اور نٹ گلے میں غھول ڈالے ہوئے بجا رہا ہے۔ ایک اور شخص ہاتھ اوپر اٹھائے ہوئے کھڑا ہ یاور طناب کی طرف دیکھ رہا ہے۔ پانچ شخص اور ادھر ادھر کھڑے ہیں۔چوتھے مرقع میں ایک درخت کے نیچے حضرت عیسیٰ علیہ سلام بیٹھے ہوئے ہیں۔ ایک آدمی انکے پاؤں چوم رہا ہے۔ وہ ایک پیر مرد سے باتیں کر رہے ہیں۔چار شخص اور آس پاس کھڑے ہیں۔ لطف یہ ہے کہ تمام تصویریں جو ہاتھی دانت کی تھیں۔صرف ایک پستے کے چھلکے میں آجاتی تھیں۔جہانگیر کو اس صنعت گری پر اس قدر حیرت ہوئی کہ ان الفاظ میں اس کا ذکر کرتا ہے۔ یکے از غلامان بادشاہی کہ در خاتم بند خانہ کار می کند۔ کار نامہ ساختہ از نذر گذرانید کہ تا امروز مثل این کارے نہ شد بود، بلکہ نشیندہ ام، چون نہایت غربت دارد وہ بہ تفصیل نوشتہ می شود ۔(تزک جہانگیری، صفحہ ۹۷،) عبرت تزک جہانگیر ی سر سید مرحوم نے علی گڑھ میں چھپوائی تھی۔اس موقع پر ایک حاشیہ میں لکھا ہے ،جس میں تحریر فرماتے ہیں:۔ ظاہر ایں کارنامہ از غلام خاتم بند خانہ شاہی معلوم نمی شود چہ درمجلس چہارم ساختن صورت حضرت عیسیٰ را وجہی معلوم نمی شود۔ غالبا این کار نامہ از کار نامہائے کاریگران فرنگ بودہ و بہ دستش افتادہ آن را از نام کا رنامہ خود نذر گزرانید۔ سید صاحب کو اس کا یقین نہیں آسکتا تھا کہ کوئی ہندوستانی شخص بھی ایسا کمال دکھا سکتا تھا۔ اس لیے فرماتے ہیں کہ کسی یورپین نے بنائی ہو گی۔ اور اس پر یہ قرینہ قائم کرتے ہیں کہ چوتھے مرقع میں حضرت عیسیٰ کی تصویر تھی۔ خوش اعتقادی کی یہ آخری حد ہے۔ جس زمانے کا یہ ذکر ہے۔ اس وقت یورپ یورپ نہ تھا۔ اور سچ یہ ہے کہ ہاتھوں کی صناعی میں آج بھی یورپ ایشیا سے بازی نہیں لے سکتا۔ مسلمان انبیا ئے بنی اسرائیل سے ایسے نا آشنا نہ تھے کہ حضرت عیسیٰ کی تصویر بنانا ان کے لئے کوئی تعجب انگیز بات ہوتی۔ خصوصا جب کہ اکبر نے عیسائیوں کو دربار میں داخل دیا تھا۔ اور حضرت عیسیٰ ومریم کی تصویریں بنانا عام ہو چکا تھا۔ تحقیقات اشیاء جہانگیر کو ہر چیز کی تحقیقات کا خاص شوق تھا۔ جس ملک اور جس صوبہ میں جاتا تھا۔ وہاں کی ایک ایک چیز کی تحقیق کرتا تھا۔ ہر جگہ پرچہ نویس اور واقعہ نویس مقرر تھے۔ کہ ملکی حالات کے ساتھ ہر چیز کی رپورٹ کرتے رہیں۔جو باتیں عام سے مشہور ہو گئی تھیں،اور لوگ ان کو مسلمات عامہ کی طرح تسلیم کرتے تھے۔ جہانگیر ان کی تحقیق کرتا تھا۔ اور اکثر غلط ثابت ہوتی تھیں۔مثلا عام طور پر مشہور ہے کہ مومیائی کے استعمال سے زخم فورا اچھا ہو جاتا ہے۔ جہانگیر نے اس کا تجربہ کیا اور تجربہ اور نتیجہ ان لفظوں میں لکھتا ہے۔ در باب اثر مومیائی از حکیمان سخنان شنیدہ بودم ،چوں تجربہ شد ظاہر نہ گشت۔ نمی دانم کہ اطبا در اثر آن مبالغہ از حد گزرایندہ بود یا لجہت گہنگی اثر ان گم شدہ باشد، بہر تقدیر بہ روشے کہ قرار داد اطبا بود، پائے مرغ را شکستہ زیادہ ازانچہ می گفتند خورانید پارہ بر محل شکستگی مالیدہ شد و تا سہ روز محافظت نمودند ۔ حالانکہ مذکور می شد کہ از صباح تا شام کافی ست۔بعد ازان دیدہ شد،ہیچ گونہ اثرے ظاہر نہ شد (صفحہ ۱۱۶،) زعفران کا خندہ زا ہونا مسلم ہے۔ چنانچہ ذخیرہ خوازم شاہی میں جو طب کی معتبر کتاب ہے،بہ تصریح مذکور ہے کہ جہانگیر نے قید خانہ سے ایک قیدی کو بلا کر پاؤ سپر زعفران کھلا دی۔کچھ اثر نہ ہوا۔دوسرے دن آدھ سیر تک کھلائی۔ حس تک نہ ہوئی ۱؎ ہما جس کا سایہ مشہور ہے۔جہانگیر نے اس کاپتا لگایا تو اس قدر معلوم ہوا کہ پیر پنجال کے پہاڑوں میں ایک پرندہ ہوتا ہے۔ جو ہڈیاں کھاتا ہے۔جہانگیر نے حکم دیا کہ جو شکار کر کے لائے گا۔ ہزار روپیہ انعام پائے گا۔چنانچہ جمال خان بندوق سے مار کر لایا۔ جہانگیر نے سینہ چاک کرا کر دیکھا تو چینہ دان میں ہڈی کے ریزے تھے۔اسی بنا پر شاعر نے کہا ہے کہ: ہمارے بر سر مر گان ازان شرف دارد کہ استخوان خورد وہیچ کس نیاز ارد چونکہ تمام ملک کو جہانگیر کے مذاق کا حال معلوم ہو گیا تھا۔ اس لیے ہرجگہ سے اس کو مفید اطلاعیں پہنچتی تھیں۔ آسمان سے جوستارے ٹوٹ کر گرتے ہیں،عوام تو ان کے متعلق خدا جانے کیا کہتے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ستارے کبھی کبھی باہم ٹکرا کر ٹوٹ جاتے ہیں۔جہانگیر کے زمانے میں ایک دفعہ جالندھر میں بڑے زور کی آواز آئی۔ساتھ ہی آسمان سے بجلی سی گری،یہ معلوم ہوتا تھا کہ آگ برس رہی ہے۔دس بارہ گز تک زمین بالکل جل کر سیاہ ہو گئی تھی۔ زمین کو کھودا گیا، تو لوہے کا ایک ٹکڑا نکلا جو سخت گرم تھا۔ جب ٹھنڈا ہوا تو پرگنہ کے حاکم نے خریطہ میں رکھ کر جہانگیر کے پاس بھیجا۔ جہانگیر نے استاد داؤد کو حکم دیا کہ اس کی تلوار بنا کر لائے۔ معلوم ہوا کہ گھٹن پڑنے سے چور ہوا جاتا ہے۔ جہانگیر نے حکم دیا کہ لوہا بھی اس میں ملا دیا جائے۔ چنانچہ چوتھائی حصہ لوہا ملا کر دو تلواریں اور خنجر وغیرہ تیار ہوئے،جن میں یمنی تلواروں کا سا دم خم تھا۔ جہانگیر نے سامنے تجربہ کرایا تو تلواروں نے خوب کاٹ کیا۔ بیدل خان نے اس پر رباعی لکھی ہے۔ ۱؎ ۔تزک جہانگیر ص ۳۹۶ ، ۲؎ ایضا ص ۳۹۸ از شاہ جہانگیر جہان یافت نظام افتاد بہ عہد او برق آمن خام زان آہن شد بہ حکم عالمگیرش یک خنجر وکارد باد وشمشیر تمام جہانگیر کی وقت نظری اور مو شگافی اس حد تک تھی کہ مصنوعی اور مشتبہ چیزیں خواہ کتنی ہی نظر فریب ہوں ،اس کو دھوکا نہیں دے سکتی تھیں۔بار بار لوگوں نے بڑے عجیب وغریب مرقعے اور تصویریں وغیرہ اس کے سامنے پیش کیں۔لیکن اس نے ظاہر فریبی پر اعتبار نہ کیا۔ ۳ ؁ جلوس میں مقرب خان نے ایک تصویر بھیجی جو یورپ سے آئی تھی۔اور جس کی نسبت یہ روایت تھی کہ یہ تیمور کی اس وقت کی تصویر ہے۔ جب اس نے سلطان بایزید یلدرم کو گرفتار کیا تھا۔ اس وقت قسطنطنیہ میں عیسائی حکومت تھی۔وہاں کے فرمانروا نے تیمور کے پاس سفارت بھیجی تھی۔تصویر کے ساتھ مصور بھی آیا تھا۔یہ تصویر اس نے کھینچی تھی۔ جہانگیر اس واقعہ کو لکھ کر کہتا ہے کہ اگر این دعویٰ صلے داشتہ باشد،ہیچ چیز تحفہ پیش من بہتر ازین نخواہد، چون بصورت وحلیہ اولاد وفرزندان سلسلہ آنحضرت مشابہتے ندادر و خاطر بہ راست بودن این سخن تسلی نمی شود۔ جہانگیر کو ان تحقیقات کا خاص شوق تھا کہ ہر چیز کس حد تک معمولی حالت سے زیادہ ہو سکتی ہے۔ چنانچہ اس نے اکثر درختوں، پھلوں ،جانوروں وغیرہ کے متعلق اس قسم کی تحقیقات کرائیں۔مثلا انار کی نسبت ثابت ہوا کہ ۴۰ تولہ تک ہوتا ہے۔بہی ۲۹ تولہ تک ہوتا ہے۔یہ دونوں پھل فراہ سے آئے تھے۔اور اس نے وزن کرا کر دیکھا تھا۔ فتح پور سے ایک تربوز آیا جو وزن کرنے پر ۳۳ سیر کا ٹھہرا۔ ۱۱؁جلوس میں جب شیخو پورہ پہنچا تو بڑ کا ایک درخت غیر معمولی قد کا نظر آیا۔اس کی پیمائش کرائی،معلوم ہوا کہ اس کا تنا کا دور اٹھارہ گز اور جڑ سے شاخ تک بلندی ۱۲۸ گز ہے۔ اور جٹائیں جو زمین دوز ہو کر درخت بن گئی ہیں۔۲۰۳ گز ہیں۔ ایک شاخ ج وہاتھی کے دانت کی طرح آگے نکلی ہوئی تھی۔ ۴۰ گز تھی۔اسی سنہ میں خرمے کا ایک عجیب وغریب درخت نظر سے گزرا۔ ۶۰۰ گز اونچا جا کر دوشاخیں ہو گئی تھیں۔اور ہر شاخ دس دس گز لمبی تھیں۔ جہانگیر نے اس کی تصویریں کھینچوا کر جہانگیر نامہ میں درج کرائیں۔ اس قسم کے سیکڑوں واقعات ہیں ،جن کی تفصیل نہیں ہو سکتی۔ سپہ گری کا مذاق تمام انگریزی مورخوں اور ان کے مقلدوں نے جہانگیر کو جس آنکھ سے دیکھا ہے۔ اس سے وہ ایک مست الست عیاش نظر آتا ہے۔لیکن تاریخی نگاہ پہلی نظر میں ہی پیچان سکتی ہے۔کہ یہ وہی تیمور کا پوتا اورا کبر اعظم کا بیٹا ہے۔وہ نور جہان بیگم سے اپنی بات پر برہم ہوگیا اور مدتوں اس سے بات نہ کی۔ کہ وہ دفعتہ شیر کے اپنے خیمے میں آنے سے بھاگ گئی تھی۔۲؎ مہابت خان سپہ سالار نے جب باغی ہو کر سات ہزار راجپوتوں کے ساتھ دفعتہ اس کا محاصرہ کر لیا تھا،اور وہ بالکل تنہا رہ گیا تھا تو بار بار تلوار کے قبضہ پر ہاتھ ڈالتا تھا۔ کہ اس کا سر اڑا دے۔ مشیر نے روکا کہ یہ تحمل اور بلند حوصلگی کا وقت ہے۔ایک دفعہ شیر کواس نے بندوق کے کنارے سے مار کر گرا دیا تھا۔چنانچہ اس کا حال خود لکھتا ہے۔ شیر از شدت غضب از جا بر خاستہ بہ قفائے فیل بر آمد وفرصت مقتضی نہ شد کہ بندوق را گزاشتہ ، شمشیر را کار فرمایم،سر بندوق را گردانیدہ بہ زانو درامدم و بہ دودست سر بندوق را چندان بر سر دروے او زدم کہ از آسیب آن بر زمین افتاد وجان داد ۳؎ بھیڑیا بیس ،بیس ،تیس، تیس تیر کھا کر بھی نہیں مرتا ۔جہانگیر نے ایک ایک تیر میں مارا ہے۔ چنانچہ اس کا تذکرہ فخریہ لہجہ میں کیا ہے۔ لیکن با لآخر شرما کر کہتا ہے کہ اپنے منہ سے اپنے واقعات کیا بیان کروں،اس لیے اسی ایک واقعہ پر اکتفا کرتا ہوں۔ گرگے از پیش بر آمد، تیرے نزدیدیک بہ بنا گوش زدم ، کہ قریب بہ یک وجب فرو نشبست وبہ ہمان تیر افتادہ جان داد ۔ وبسیارے بودہ کہ پیش من جوانان سخت کمان بیست تیر وسی تیر زدہ اند نہ مردہ، چون از خود نوشتن خوشنما نیست ،از زبان قلم را از عرض این وقائع کوتاہ میدارم ۴؎ ۱؎ تزک جہانگیر ی ص۱۷۴ ۔ ۲؎ اس واقعہ کو مآ ثر الامرا ء میں بہ تفصیل لکھا ہے۔ ۳؎ جہانگیر ی ص ۳۶۷ ۴؎ تزک جہانگیر ی ص ۳۶۷۔ باوجود اس کے اس کا زمانہ شاہانہ ناز ونعمت کا اوج شباب تھا۔اور زمین وآسمان راحت وآرام کے گہوارے بن گئے تھے۔ تاہم اس میں وہی سپاہیانہ جفا کشی اور محنت کے انداز موجود تھے۔ جو اس کے اسلاف کے جوہر تھے۔ دریا میں جال لے کر اترنا اور مچھلی کا شکار کرنا۔ ماہی گیروں کے سوا اور کون کر سکتا ہے۔ لیکن جہانگیر کو بہ ایں شاہنشاہی اس سے عار نہیں اور شوقیہ کرتا تھا۔ چنانچہ خود لکھتا ہے:۔ تا حال سفرہ دام کہ از دام ہائے مقرر ست وبہ زبان ہندی بھنور جال می گویند نہ انداختہ بودم۔ انداختن ان خالی ازاشکا نیست، بہ دست خود این دام را انداختہ و دوازدہ ماہی گرفتم، ومردارید دربینی آن کشیدہ بہ آب سر دادم۔ ایک دفعہ باغ میں مجلس آرا تھی۔ باغ میں ایک نہر تھی ۔جس کا پاٹ ۴ گز کا تھا۔سب کو حکم دیا کہ اس کو پھاندیں۔ اکثر لوگ بیچ میں رہ گئے ،لیکن جہانگیر نکل گیا۔ تاہم لکھتا ہے:۔ من ہم چہ اگر جستم، اما بہ آن چستی کہ در سن سی سالگی،جستہ بودم درین ایام کہ عمر من بہ چہل سالگی رسیدہ، بان قدرت وچالاکیتنواستم جست ۱؎ کابل میں سات باغ دور دور فاصلہ پر ہیں۔ ان سب کی ایک ہی دن پا پیادہ سیر کی۔درختوں پر خود چڑھ کر پھل توڑتا تھا اور لکھتا ہے کہ اس طرح پھل کھانے میں ایک خاص لطف ہے۔ شمشیر بازی کا فن مرتضیٰ خان دکنی سے سیکھا تھا۔ جو اس فن میں اپنا جواب نہیں رکھتا تھا۔ چنانچہ ۸ ؁ جلوس میں اس کو ورزش خان کا خطاب دیا۔ ایشیائی سلطنتوں کا عام قاعدہ ہے کہ بادشاہ کا مذاق تمام ملک میں سرایت کر جاتا ہے۔ اور تمام لوگوں میں وہی خصائل پیدا ہو جاتے ہیں ،جو بادشاہ میں ہوتے ہیں۔ جہانگیر کے زمانے میں سپہ گری اور بہادری کا مذاق اس قدر عام ہو گیا تھا کہ لوگ شیروں سے لپٹ جاتے تھے۔اور دست بدست لڑتے تھے۔ ۵ ؁ جلوس میں جب ایک شیر دفعتہ جہانگیر پر آ پڑا تو انوپ رائے بڑھ کر شیر سے مقابل ہوا، چنانچہ اس کی کیفیت جہانگیر ان الفاظ میں لکھتا ہے :۔ ۱؎ تزک جہانگیری ص ۵۱ ۔ ۳؎ ایضا ص ۱۲۴ ۔ انوپ رائے سپہ پایہ را از دست گزاشتہ بہ شیر متوجہ شد۔ شیر بہ ہمان چستی وچالاکی کہ حملہ آور گشتہ بود برد برگشت داد مردانہ بہ شیر رو برو شد۔آن چوب کہ دردست داشت بہ ہر دو دوست دو بار بر سر او محکم فرو کوفت۔ شیر دہن باز کردہ ،ہر دودوست انوپ رائے در دہن گرفت۔انوپ رائے زور کردہ ،دست ہائے خود را ازدہن شیر بر می آورد۔ دو وسہ مشتے بر کلئہ او میزند وبہ پہلو غلطیدہ ،بزور زانو راست می ایستد، در رنگ دو کشتی گیر بریک دیگر چسپیدہ غلطان شدند ۱؎ ع ۱۱ ؁ جلوس میں چوروں نے شاہی خزانہ پر چھاپا مارا۔چند روز بعد ان کا پتا لگا اور گرفتار ہو گئے۔جہانگیر نے ان کے سردار کی نسبت حکم دیا کہ ہاتھی کے پاؤں میں ڈال دیا جائے۔اس عرض کی کہ حکم ہو تو میں ہاتھی سے لڑ سکتا ہوں۔ جہانگیر نے اجازت دے دی۔ وہ خنجر لے کر آگے بڑھا۔ہاتھی نے چند دفعہ اسے اٹھا کر پٹک پٹک دیا۔ لیکن وہ ہر بار بڑھ کر ہاتھی پر حملہ آور ہوتا تھا۔ یہاں تک کہ ہاتھی کو پھر اس کی طرف بڑھنے کی ہمت نہ ہوئی۔ نوجہان بیگم کا شیر کو مارنا سب جانتے ہیں۔ لیکن اس نے یہ مشق جہانگیر کی ناراضگی کے بعد پیدا کی تھی۔ داد رسی، رعایا کی خبر گیری اور جفا کشی مخالفین تو کہتے ہیں کہ جہانگیر کا شراب وکباب کے سوا اور کچھ کام نہ تھا۔ لیکن واقعات بتاتے ہیں کہ رعایا کی داد رسی اور عدل وانصاف اور ملک کی خبر گیری میں اکبر کے سوا کوئی اس کا جواب نہ تھا۔ اس دعویٰ کا ثبوت تفصیل اور وسعت کے ساتھ تو اور اور تاریخوں سے ہو سکتا ہے۔ لیکن ہمارے مضمون کا عنوان تو تزک جہانگیری تک محدود ہے۔ یعنی جواقعات خود تزک جہانگیری سے ثابت ہوں،ان سے تجاوز نہ کیا جائے۔اس لئے ہم اس دایرہ سے باہر نہیں جانا چاہتے۔ جہانگیر اپنے نامور باپ کی طرح دن رات میں صرف تین گھنٹے سوتا تھا۔ چنانچہ خود لکھتا ہے کہ ۲؎ بہ کرم الہیٰ عادت چنان شدہ کہ درمیان شبانہ روزے بیش ازدوسہ ساعت نجومی نقد وقت بہ تاراج خواب نمی رود،ودرین ضمن دوفائدہ منظور است،یکے آگاہی از ملک ودوم بیدار دلی بہ یاد حق ۲؎۔ ۱؎ تزک جہانگیری ص ۹۰ ۲؎ ایضا س۱۶۷ ، ۳؎ ایضا ص ۲۳۲ احمد آباد گجرات کی آب وہوا اس کو ناموافق آئی۔تاہم جب تک رہا ،عین گرمی اور حدت کے وقت دوپہر کے وقت کھلے میدان میں عام دربار کرتا تھا۔ اور حکم تھا کہ نقیب اور چوبدار وغیرہ بالکل ہٹا دیے جائیں۔تاکہ کسی قسم کی روک ٹوک نہ ہو۔ چنانچہ لکھتا ہے کہ:۔ چون مردم این شہر بغایت ضعیف دل وعاجز اند بجہت احتیاط کہ مبادا بعضے از اہل اردو بہ تعدی وستم در خانہ ملکی آن فرود آیند و قاضی ومیر عدل بہ جہت رو دیدگی مداہنت نمایند از تاریخی کہ درین شہر نزول سعادت اتفاق افتاد باوجود حدت وحرارت ہوا ہر روز بعد ازفراغ عبادت دوپہر بہ جھروکہ در طرف دریا کہ ہیچ گونہ حائلے ومانعے از در دیوار ویساول وچوبدار نداراد بر آمدہ دستہ ،ساعت نجومی می نشینم وبمتضائے عدالت بہ فریاد داد خواہان رسیدہ ستم پیشہ یا را در خود جرایم وتقصیرات سیاست می فرمایم،حتیٰ در ایام ضعف با کمال درد والم بدستور معہود بہ جھروکہ کہ برآمدہ تن آسانی بر خود حرام داشتہ ام ۔ ۱؎ یہ امر تمام مورخین نے تسلیم کیا ہے کہ عدل وانصاف میں جہانگیر بالکل بے لاگ تھا۔ اس معاملہ میں اس کے نزدیک دربار کا ایک رکن اعظم اور ایک غریب مزدور دونوں برابر تھے۔اخیر اخیر میں نور جہان اس کے مزاج پر بالکل حاوی ہو گئی تھی۔تاہم جیسا کہ صاحب مآثر الامراء نے بھی تسلیم کیا ہے کہ اس نے نور جہان سے کہہ دیا تھا کہ سلطنت تمہاری ہے۔لیکن مظلوموں کے مقابلہ میں خبردار کسی کی سفارش نہ کرنا۔جو کبھی میرے سامنے پیش نہ کی جا سکے گی۔مقرب خان سے بڑھ کر کوئی معتمد نہ تھا۔اس کے ساتھ وہ دربار اور سلطنت کا رکن اعظم تھا۔تاہم جب ایک بڑھیا بیوہ نے شکایت کی تو بڑی سختی سے تحقیقات کی،اور مقرب خان کے نوکر کو جو جرم کامرتکب ہوا تھا ۔قتل کرا کر مقرب خان کا منصب گھٹا دیا ۲؎ ۔اس بارے میں اس کے واقعات تعجب انگیز داستان بن گئے۔اور گو ہم نے تزک جہانگیری کا التزام کیا ہے۔لیکن صرف ایک واقعہ دوسری کتاب کی سند سے لکھتے ہیں۔ ایک دفعہ نور جہان بیگم مہتابی پر ٹہل رہی تھیں۔ اتفاق سے کوئی راہ رو ادھر سے گزرا۔اور اس نے نظر اٹھا کر نور جہان کی طرف دیکھا۔ نور جہان نے اس کو گولی مار دی۔ جہانگیر کو خبر پہنچی ،فورا حکم دیا کہ تحقیقات کی جائے۔جرم ثابت ہوا اور قاضی نے قصاص کا فتویٰ دے دیا ۔قلما قنوں کو حکم ہوا کہ محل میں جا کر نور جہان کو پکڑ لائیں۔ اور جلاد کے حوالہ کر دیں۔نور جہان نے بہت کچھ روپیہ کا لالچ دیا۔ لیکن سب جہانگیر کی انصاف پرستی سے واقف تھے۔کسی نے کچھ نہ سنی۔ بالآخر نور جہان نے مقتول کے ورثہ کو راضی کیا کہ خون بہا لے لیں۔ چنانچہ دو لاکھ روپیہ خون بہا لے کر ان لوگوں نے دست برداری کی۔ اور جہانگیر سے کہہ دیا۔ کہ ہم کو کچھ دعویٰ نہیں ، جہانگیر نے کہا شاید بیگم کی طرف سے تم لوگوں پر کچھ دباؤ پڑا ہے۔ان لوگوں نے یقین دلایا کہ نہیں ،ہم نے بخوشی ایسا کیا ہے۔ جہانگیر نے رہائی کا حکم دے دیا۔ یہ سب کچھ ہو چکا تو محل میں گیا تو محل میں گیا اور (عشق کی ادا دیکھو) نور جہان کے پاؤں پر گر کر کہا۔ ہائے بیگم اگر ترا می کشند من چہ کردم ۱؎ جہانگیر کی پالیسی اکبر اور جہانگیر کی پالیسیاں اگر چہ متحد المقصد تھیں۔لیکن ایک نہایت اہم فرق تھا۔ اس امر میں دونوں متفق تھے۔ کہ ہندو اور مسلمانوں کے حقوق یکساں ہیں۔ اور دونوں پر یکساں حکومت کرنا فرض سلطنت ہے۔لیکن اکبر کا خیال تھا کہ اس میں مذہبی جوش اور اثر کا رنگ ہلکا کرنا ضروری ہے۔ اس لیے وہ ہندو، عیسائی ،پارسی تمام مذہبوں کا ظاہری قالب اختیار کرتا رہتا تھا۔ وہ صبح کو سورج پر پانی چڑھاتا تھا۔ شام کو چراغ جلے آگ کی تعظیم کرتا تھا۔ حضرت عیسیٰ اور حضرت مریم کی تصویروں کے آگے سر جھکاتا تھا۔ لیکن جہانگیر سمجھتا تھا کہ پکا مسلمان،پکا متعصب اور پکا دین دار رہ کر بھی غیر مذہب والوں کے مسلمانوں کے برابر حقوق دیئے جا سکتے ہیں۔ اس بنا پر وہ ایک طرف تو پنڈتوں سے مذہبی مباحثہ کر کے ان کو قائل کرتا ہے ۲؎ ایک ہندو راجہ روز افزون کو ہدایت وتلقین سے (نہ بہ جبر) مسلمان کرتا ہے۔۳؎ کوٹ کانگڑہ فتح کر کے اسلامی شعار جاری کراتا ہے۔اور اس پر ناز کرتا ہے۔ دوسری طرف راجہ مان سنگھ کو بنگالہ کا گورنر مقرر کر کے ۵۰ ہزار فوج کا افسر مقرر کرتا ہے۔راجہ جگن ناتھ کو پنج ہزاری منصب کے ساتھ خلعت اور مرصع تلوار عنایت کرتا ہے۔ ۱؎ اس واقعہ پر لوگوں کو یقین کرنا مشکل ہو گا۔ لیکن دالہ داغستانی نے بہ تفصیل تمام اس کو ریاض الشعراء حالات جہانگیر میں لکھا ہے۔ دالہ داغستانی شیعہ تھا۔ اور قاضی نور اللہ شوستری کے خون کا اس کو داغ تھا۔ اس لیے اس کی شہادت بے کار نہیں جا سکتی۔ ۲ ؎ تزک جہانگیری صفحہ ۱۴ ۳؎ ایضا ص ۱۴۵ ۔ رانا شنکر کو جو مہارانا اودے پور کا عم زاد تھا۔ خلعت دے کر اودے پور کی مہم پر بھیجتا ہے۔ ہر داس کو بکر ما جیت کا خطاب اور میر آتشی کاعہدہ دے کر ۵۰ ہزار توپچیوں کا افسر مقرر کرتا ہے۔ شیخ عبد الحق دہلوی کی جس طرح تعظیم وتکریم کرتا ہے۔ جد روپ گشائیں کے ساتھ بھی اعزاز وخلوص سے اور احترام کے ساتھ پیش آتا ہے۔ اس کی تمام تاریخ میں ایک بھی واقعہ منقول نہیں کہ اس نے مذہب کی بنا پر ملکی حقوق میں کوئی تفریق کی ہو۔ اس نے اکبر پالیسی کی ان لفظوں میں مداحی کی ہے۔ اور اس حد تک خود اس کا پیرو کار تھا۔ بہ مقتضائے آن کہ سایہ می باید کہ پرتو ذات باشد در ممالک محروسہ اش کہ ہر حدی بکنار دریائے شور منتی گشتہ۔ارباب ملتہائے مختلف وعقیدتہائے صحیح و ناقص راجا بودہ راہ تعرض بستہ گشتہ ،سنی شیعہ در یک مسجد وفرنگی با یہودی در یک کلیسا طریق عبادت می سپردند ۲؎ زیمن عشق بہ کونین صلح کل کردم ہندوؤں سے اصلی تعلقات اگر ہم یہ جاننا چاہیں کہ تیموریوں کے تعلقات دراصل ہندوؤں کے ساتھ کیا تھے؟۔تو ملکی تاریخوں سے لوگوں کی تسلی نہیں ہوتی۔ایک بدگمان متعرض کہہ سکتا ہے۔ بلکہ کہتا ہے کہ گو تیموریوں نے ہندوؤں کو تمام ملکی حقوق اورعہدے دیے ۔قتل وقصاص میں کوئی تفریق نہیں کی۔تاہم جو کچھ تھا ،مجبورا پالیسی تھی۔ تیموری جانتے تھے کہ مٹھی بھر مسلمانوں سے اتنے بڑے وسیع ملک پر حکمرانی نہیں کی ج اسکتی۔اس لیے وہ مصلحتا ہندوؤں سے دست وبازو کا کام لیتے تھے۔ لیکن تزک جہانگیری اس مشکل کو بھی حل کر سکتی ہے۔جہانگیر اکثر ملکی دربار چھوڑ کر گھر آ بیٹھتا تھا۔ اور اس وقت خانگی زندگی اور دلی جذبات کا آئینہ بن جاتا ہے۔ اس وقت وہ جو کچھ ہے اور جیسا کچھ ہے۔ بے پردہ نظر آتا ہے۔ ہندو رانیاں تیموریوں کے گھر میں آئیں اور حرم بنیں۔ ہم پتہ لگانا چاہتے ہیں کہ یہ بھی زور حکومت کی ایک شان تھی۔اور رانیاں درحقیقت لونڈیاں بن کت رہیں۔اور ان سے وہی ظاہری روا داری کا برتاؤ تھا۔یا یہ رانیاں تیموریوں کی عزیز تر بیویاں اور محبوب سے محبوب مائیں بن گئیں۔جہانگیر کی ایک بیوی راجہ مان سنگھ کی بہن تھی۔ خسرو اسی سے پیدا ہوا تھا۔ اور چونکہ اس کا ماموں راجہ مان سنگھ اور خسر خان اعظم کو کلتاش تھا۔اس لیے اس کو اکبر ہی کے زمانے میں خیال پیدا ہو گیا تھا کہ سلطنت مجھ کو ملنا چاہیئے۔چنانچہ باپ سے ہمیشہ آمادہ بغاوت رہتا تھا۔ لیکن اس کی ماں ہمیشہ اس خیال سے اس کو باز رکھتی تھی۔ خسرو نہیں مانتا تھا اور ماں کی کوفت بڑھتی جاتی تھی۔ یہاں تک کہ اس صدمہ سے اس نے افیون کھا کر جان دے دی۔ جہانگیر لکھتا ہے : از خوبی ہاوینک ذاتی اوچہ نویسم عقلے بہ کمال داشت واخلاص اور بہ من در درجہ بود کہ ہزار پسر وبرادر را قربان یک موئے من میکرد، مکرر بہ خسرو ومقدمات نوشت واو را دلالت بہ اخلاص ومحبت من میکرد،چون دید کہ ہیچ فائدہ ندارد از غیرتے کہ لازمہء طبیعتراجپوتانی است خاطر بر مرگ خود قرار دادہ ۔روز میت وششم ذلیہجہ ۱۰۱۳ ہحجری، افیون بسیار در عین سوزش دماغ خوردہ در اندک زمانے در گزشت ‘‘ ۱؎ رانی نے تو محبت شوہر کا یہ ثبوت دیا۔جہانگیر کا جو حال ہوا ،وہ اس کی زبان سے سنیے۔ از فوت او بنا بر تعلقے کہ داشتم ایام بر من گزشت کہ از حیات وزندگانی خود ہیچ گونہ لذتے نہ داشتم ۔چہار شبانہ روز کہ سی ودوپہر باشد از غایت کلفت واندوہ چیزے از ماکول ومشروب وارد طبیعت زگزشت۔ چون ایں قصہ بہ والد بزرگوارم رسید۔دلاسہ نامہ وغایت وشفقت ومرحمت بدین مرید فدوی صادر گزشت، وخلعت ودستار مبارک کہ از سر برداشتہ بودند ہماں طور بستہ بہ جہت من فرستادند، این عنایت آبے برآتش سوز وگداز من زدہ اضطراب واضطرار مرا فی الجملہ قرار وآرا مے بخشد ۲؎ غور کرو اس واقعہ میں چار شبانہ روز کا فاقہ، دل کا کسی طرح قرار نہ پانا، اکبر کا یہ حالت دیکھ کر نہایت درد آمیز تسلی نامہ لکھنا اور اپنے سر سے پگڑی اتار کربھیجنا،ایسی چیزیں ہیں جو بناوٹ سے پیدا ہو سکتی ہیں۔ بے شبہ تیموریوں نے ہندوؤں کے ملک کو نہیں بلکہ دل کو فتح کر لیا تھا۔اور ہندوؤں کے اخلاص ومحبت نے فاتح کو مفتوح بنا دیا تھا۔ تزک جہانگیر ی ص ۱۶، ۲؎ ایضا ص ۱۶۔ بہ لوح مشہد پروانہ ایں رقم دیدم کہ آتشے کہ مرا سوخت خویش را ہم سوخت علماء اور فقرا ء کی قدر دانی ایشیائی سلطنتوں میں علم وفضل کا رواج سلاطین کی قدر دانی پر موقوف ہے۔ اور اس باب میں سلاطین اسلام کو عموما تمام دنیا کے حکمرانوں پر ترجیح ہے۔جہانگیر بھی علمی قدر دانی میں اسلاف کی عمدہ مثال تھا۔وہ ہر مذہب کے علماء اور فقراء سے ملتا تھا۔اور ان کے ساتھ برتاؤ میں آداب شاہی کو بھول جاتا تھا۔اس کے ساتھ چونکہ نکتہ شناس تھا۔ اس لیے ہر شخص کی نسبت ایسی رائے ظاہر کرتا ہے جو ایک بڑے مدقق کا کام ہو سکتا ہے۔ شیخ عبد الحق محدث دہلوی کی نسبت لکھتا ہے۔ مدت ہا است کہ در گوشہ دہلی بہ وضع توکل وتجرید بسری برد، مرد گرامی است صحبتش بے ذوق نیست، بہ انواع مراحم دل نوازی کردہ رخصت فرمودم ۔۱؎ شیخ موصوف کی تصنیفات میں سے تذکرہ اولیائے ہند کا ذکر کیا ہے۔ اور اس کی نسبت لکھتا ہے ۔ الحق محنت بسیار کشیدہ ،خوب پیروی ساختہ،و جمیع التفات را از شعار علما ء قدما مستشہد آوردہ،درین فن کتاب بے مثل ایں نمی باشد، فیل خاصہ عنایت نمودم ۲؎ فارسی کا ایک محقق اس سے بڑھ کر اور کیا اس کتاب کی نسبت مدققانہ رائے دے سکتا ہے۔ فارسی لغت میں جس قدر کتابیں اس وقت تک لکھی گئی ہیں۔ کسی میں قدماء کے اشعار سے سند لانے کا التزام نہ تھا اور فرہنگ جہانگیر ی کا یہی وصف ہے۔ یاد ہو گا کہ فیضی جب اکبر کے دربار میں آیا تو جہانگیر اور مراد کی تعلیم پر مقرر ہوا۔ چنانچہ خود لکھتا ہے کہ یکے معلمی شاہزادہ ہائے عظام جہانگیر کی علمی قابلیت کی تصدیق کرتی ہے۔ کہ فیضی نے اپنا فرض نہایت کام یابی سے ادا کیا۔ خان خانان بھی جہانگیر کا اتالیق رہ چکا ہے۔ ایسے استادوں کے فیض تعلیم سے ہم ایسے ہی نتیجہ کی توقع رکھ سکتے تھے۔ جہانگیر کا استفادہ علمائے اسلام تک محدود نہ تھا۔وہ ہندوؤں ،پنڈتوں اور درویشوں کے ساتھ بھی اسی خلوص اور عقیدت سے پیش آتا تھا۔اس کے زمانے میں جد روپ سناسی ایک مرتاض درویش تھا۔ وہ پہاڑ کی کھوہ میں ایک دشوار گزار بھٹ میں رہتا تھا۔جہانگیر بار ہا اس کی خدمت میں گیا۔اور اس سے علمی صحبتیں رہیں۔وہ جد روپ کا جب ذکر کرتا تھا تو عقیدت مندی اور محبت سے لبریز نظر آتا تھا۔چونکہ اس کی جائے قیام تک سواری نہیں جا سکتی تھی۔ قریب تین میل کے پیدل چل کر وہاں پہنچا۔چھ گھنٹے تک اس کی صحبت میں رہا۔چنانچہ ملاقات کا حال تفصیل سے لکھتے ہوئے کہتا ہے کہ : علم بید انت کہ علم تصوف باشد خوب درزیدہ، تا شش گھڑی بہ او صحبت داشتم ،سخنان خوب مذکور ساخت، چنانچہ خیلے در من اثر کرد ۱؎ داستان عہد گل را از نظیری می شنو عندلیب آشفتہ تر گفت ست این فسانہ را (الندوہ ج ۷ ، نمبر ۲۔ فروری ۱۹۱۰ ئ؁) ۱؎ ۔ تزک جہانگیری ص ۱۷۶ ، النظر فی السفر الی الموتمر اسلام کی ان وسیع آبادیوں میں سے جو مشرق سے لے کر مغرب تک پھیلی ہوئی ہیں۔ اگر چہ قومیت کا ، نسل کا، شکل وصورت کا، رسم ورواج کا، عادات وخصائل کا سخت اختلاف پایا جاتا ہے۔ لیکن یہ تعجب اور سخت تعجب ہے کہ ترقی اور تنزل کی سطح ہر جگہ قریبا یکساں ہے۔ مثلا ہندوستان کی جو یہ حالت ہے۔ کہ چند برس پہلے تمام قوم پر ایک عام غفلت طاری تھی۔تقلید اور رسم ورواج نے قوم کا رواں رواں جکڑ رکھا تھا۔آزادی اور بلند خیالی کی روح فنا ہو گئی تھی۔پھر مغربی تعلیم کی کے اثر نے ایک خفیٖف جنبش پیدا کی۔ لوگ آہستہ آہستہ جاگنے لگے اور اپنی پستی اور تنزل کا روز بروز احساس ہوتا گیا۔ یہاں تک کہ اب ملک کے ہر حصے میں ترقی کی پکار ہے۔اور ہر طرف جوش کا ایک نیا عالم نظر آتا ہے۔تاہم اب تک جو کچھ ہوا ہے۔ وہ زیادہ تر زبانی باتیں ہیں۔ جو کچھ کہا جاتا ہے۔ کیا نہیں جاتا۔جس قدر زبان میں زور ہے ،ہاتھ میں نہیں ہے۔ علمی زندگی جو ترقی کی روح ہے۔ اس میں صرف اس قدر ہوا ہے کہ چند پرانے تعلیم یافتہ لوگوں پر نیا رنگ چڑھ گیا ہے۔ ان کی تصنیفات اور تالیفات میں یورپ کی جھلک آگئی ہے۔ کچھ لوگ یورپ ہو آئے ہیں ۔اور جو کچھ وہاں دیکھا ہے۔ قلم کے ذریعے اس کا نہایت ہلکا خاکہ کھینچ کر قوم کو دکھلایا ہے۔ چند نوجوانوں نے یونیورسٹی کی ڈگریاں لی ہیں۔اور اپنی محنت،لیاقت،قابلیت کو سرکاری ملازمت کی نذر کر دیا ہے۔ بعینہ یہی حالت مصر وشام اور خاص کر دار السطنت قسطنطنیہ کی ہے۔ اس سلسلہ مشابہت میں اس وقت ہم کو جس خاص حصہ سے بحث ہے۔ وہ یورپ کا سفر اور یورپ کے سفر ناموں کی تصنیف کا رواج ہے۔مصر وشام میں جس نے سب سے پہلے یورپ کا سفر کیا وہ علامہ رفاعہ بک ہیں۔مصر میں جب یورپ کی تہذیب کاچرچا ہوا تو سلطنت کی طرف سے چند نوجوان تعلیم پانے کے لئے یورپ بھیجے گئے۔ اور علامہ موصوف ان کا اتالیق مقرر ہو کر گیا۔ علامہ مذکور نے سفر سے واپس آکر حالات سفراور خاص پیرس دار السطنت فرانس) کے متعلق ایک مفصل کتاب لکھی۔جو ۱۲۶۵ ء ؁ میں بمقام مصر چھاپی گئی۔عربی زبان میں یہ پہلا سفر نامہ تھا۔ جو یورپ کے نئے تمدن کے زمانہ پر لکھا گیا۔اس کے بعد اور لوگوں نے یورپ کے سفر کیے۔وہاں کے حالات پر کتابیں لکھیں۔مثلا کشف المخبا ،رحلۃ حسین آفندی ، رحلۃ الشیخ السلیم ، ارشاد الالبا۔ اس سلسلہ میں سب سے اخیر تصنیف وہ کتاب ہے جس کا نام السفر الموتمر ہے۔ جو ہمارے اس آرٹیکل کا عنوان ہے۔اس سفر نامہ کا مصنف احمد زکی آفندی ہے۔ جو مصر کا ایک تعلیم یافتہ نوجوان مشہور مصنف اور خدیو کے محکمہ ترجمہ کا رئیس المترجمین ہے۔ یہ مصنف یورپ کی مشرقی کانفرنس کے نویں جلسہ میں جو ۱۸۹۳ء ؁ میں بمقام لندن منعقد ہوا تھا۔ خدیو کی طرف سے سفیر ہو کر گیا تھا۔ اس نے وقتا فوقتا حالات سفر کے متعلق اپنے دوستوں کو خطوط لکھے،اور سفر سے واپس آکر ان خطوط کومرتب کر کے سفر نامہ کی صورت میں شائع کیا۔ ملک کی قدر دانی سے پہلے اڈیشن کی جلدیں نہایت جلد نکل گئیں،اور مصنف نے دوبارہ اضافہ کر کے اس کو دوبارہ چھپوایا۔ مجھ کو فخر ہے کہ خود مصنف نے اس اڈیشن کا ایک نسخہ مجھ کو تحفہ کے طور پر بھیجا،جو اس وقت میرے سامنے رکھا ہوا ہے۔ سفر نامہ کا طرز عبارت سب سے پہلے اس سفر نامہ کے پڑھنے کے وقت جس چیز پر نگاہ پڑتی ہے۔ وہ کتاب کی طرز عبارت اور انداز بیان ہے۔ اس کتاب کی طرز تحریر میں یورپ کا اثر اس قدر زیادہ ہے کہ پہلی ہی نگاہ میں محسوس ہوتا ہے کہ اگر چہ اس عام قاعدے کے خیال سے کہ مغلوب قومیں ہمیشہ غالب قوموں کی ہر چیز میں پیروی کرتی ہیں۔مصنف معذور رکھا جا سکتا ہے۔ لیکن واقعہ یہ ہے کہ اس تقلید نے کتاب کی خوبی کامعیار گھٹا دیا ہے۔ بے شبہ بہت سی ایسی زبانیں ہیں۔جو یورپ کی تقلید کی وجہ سے ترقی کے سانچہ میں ڈھلی ہیں۔اور خصوصا ہماری اردو میں تو جو کچھ آب وتاب،رنگینی ولطافت، جوش واثر پیدا ہوا ہے۔ سب انگریزی کی بدولت ہے۔ لیکن عربی کی حالت مختلف ہے۔ عربی زبان تو اس قدر بلند رتبہ اور تمام خصوصیتوں میں کامل ہے۔ کہ دوسری کسی زبان کا اس سے جوڑ نہیں ملتا۔یا اس کا اسلوب بیان اور طرز ادا انگریزی سے اس قدر مختلف ہے۔ کہ دونوں کا پیوند بد نما ہو جاتا ہے۔ مصنف کے سفر کا اجمالی نقشہ یہ ہے کہ وہ اسکندریہ سے چل کر برنڈزی کی راہ سے نیپولی سے اٹلی، فلورنس،بیزا ،جینوا ہوتا ہوا فرانس پہنچتا ہے۔ فرانس کی سیر کر کے وہ لندن روانہ ہوا۔ اور مشرقی کانفرنس کے جلسہ میں شریک ہو کر انگلستان کے اکثر مقامات کی سیر کی۔پھر پرتگال پہنچا ،اور دوبارہ لندن واپس آگیا۔اور لندن سے فرانس اور فرانس سے سپین گیا اور یہ اس کے سفر کی آخری منزل تھی۔اگر چہ راہ میں جو مقامات آتے گئے ۔مصنف نے ہر ایک کے متعلق کچھ نہ کچھ لکھا۔لیکن لندن اور پیرس کے حالات میں نہایت تفصیل کی ہے۔ اسپین کا حال اگر چہ با ستشنا، لندن وفرانس زیادہ لکھا ہے۔لیکن مسلمانوں کو اس چھوڑے ہوئے دیس سے جو دل چسپی ہے۔ اس کے لحاظ سے گویا کچھ نہیں لکھا۔اس سے زیادہ تعجب یہ ہے کہ کتاب کے اصلی موضوع یعنی مشرقی کانفرنس پر بہت کم لکھا ہے۔ جلسہ کے حالات نہایت اختصار کے ساتھ لکھے ہیں۔ جو تحریریں خود پیش کیں،ان کا ایک نقشہ دیا،لیکن انصاف یہ ہیکہ وہ تحریریں کانفرنس کے رتبہ کی شایان نہیں۔ سفر نامہ کی خصوصیت ایک خاص بات جو اس کتاب میں ہے۔ وہ یہ ہے کہ مصنف اگر چہ یورپ کے ملکوںکا ذکر کرتا ہے۔ لیکن ساتھ ساتھ ہر موقعوں پر اسلامی معلومات کے دل چسپ نکتے ایسے تناسب اور موزونی سے اضافہ کرتا جاتا ہے۔ جس سے اس کے لٹریچر اور وسعت نظر دونوں کا کمال ثابت ہوتا ہے۔ یورپ کے جن مقامات کو عربی جغرافیہ میں پتا لگانا مشکل ہے۔ ہر موقع پر مصنف ان کے عربی ناموں کی تصریح کرتا ہے۔جس سے قطع نظر اس کے کہ عربی جغرافیہ نویسوں کا کمال معلوم ہوتا ہے۔ عربی تاریخوں کے سمجھنے میں بڑی مدد ملتی ہے۔ ایک خاص بات یہ ہے کہ اور وہ سفر نامہ کی جان ہے۔کہ مصنف ہر موقع پر ان اسباب کی تلاش کرتا ہے۔ جن کی وجہ سے یورپ کو آج ترقی نصیب ہوئی ہے۔ لندن کے ذکر میں وہ لکھتا ہے کہ یہاں تمام لوگ وقت کو اس قدر عزیز رکھتے ہیں کہ جب کسی شخص سے کوئی بات پوچھو تو وہ نہایت جلدی کے ساتھ ’’ہاں یا نہیں‘‘ کہہ کر فورا اس کام میںمشغول ہو جاتا ہے۔ جس میں پہلے سے مشغول تھا۔اگر زیادہ ضرورت ہوئی تو نہایت مختصر الفاظ میں جواب دے گا۔ اور ساتھ ہی جو کام کر رہا ہے۔ کرتا جائے گا۔کتب خانوں میں،کمپنیوں کے دفتروں میں، اور عام تجارتی کار خانوں میں ہر موقع پر یہ الفاظ اور جملے لکھے ہوئے ہوتے ہیں کہ ’’چپ رہو‘‘ کام کی بات کرو، ’’بولنا منع ہے‘‘ لندن کی ترقی کا اندازہ اس بات سے کرتا ہے کہ تمام شہر میں ایک عام حرکت پائی جاتی ہے۔سڑکوں اور گزرگاہوں پر یہ معلوم ہوتا ہے کہ گویا آدمیوں کا سیلاب آگیا ہے۔لیکن اس کے باوجود اس کے غل اور شور کا کیا ذکر؟۔ آواز تک نہیں آتی۔ہر شخص سر جھکائے تیز بھاگا جاتا ہے۔اور معلوم ہوتا ہے کہ اس کو کوئی بڑا ضروری کام درپیش ہے۔ حقیقت میں یورپ کی ترقی کا ایک بڑا راز یہ ہے کہ ہر شخص ہر وقت نہایت مستعدی کے ساتھ اپنے کام میں مشغول رہتا ہے۔اور یہ معلوم ہوتا ہے کہ کسی دھن میں لگا ہوا ہے۔بخلاف اس کے ہمارے ملک میں ایک بے نام افسردگی،کاہلی اور بے پرواہی پائی جاتی ہے۔ اٹلی اور انگلستان اور فرانس کی ترقیوں کے ذکر میں وہ لکھتا ہے کہ ان لوگوں کی ترقی کا ایک بڑا سبب یہ ہے کہ قومی خدمت کی نہایت قدر کی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ اگر کسی شخص نے قوم کے لئے کوئی بڑا کام کیا ہے،تو وہ گویا ذاتی افعال کے لحاظ سے کیسا ہی بد چلن، بدمعاش،کمینہ، دنی الطبیعتہ ہو ،تاہم تمام قوم اس کو اپنے سر کا تاج بنائے گی،ہر موقع پر اس کا نام فخر سے لیا جائے گا۔ اس کی یاد گاریں قائم کی جائیں گی۔اور اس کی برائیوں کا مطلق تذکرہ نہ ہوگا۔ اس کے مقابلہ میں ہمارے ملک کا حال دیکھو کہ اگر کسی شخص نے قوم کے لئے اپنے آپ کو فدا بھی کر دیا ہو۔تاہم قوم کو صرف اس کے عیوب پر نظر ہوگی۔ اور اس کی خوبیوں کا ذکر تک نہ آئے گا۔ ع بہ بین تفاوت رو از کجا ست تا بکجا مصنف نے یورپ کے تمام شہروں میں سے لندن کے حالات نہایت تفصیل سے لکھے ہیں،لیکن چونکہ ہمارے ملک کے اکثر تعلیم یافتہ لندن کے حالات سے خود واقفیت رکھتے ہیں۔اس لیے ہم اس حصہ کو بالکل چھوڑ دیتے ہیں۔البتہ فرانس کے جو حالات مصنف نے بیان کیے ہیں۔اس کا مختصر سا خاکہ کھینچنا ناموزوں نہ ہوگا۔ پیرس کا ذکر فرانس کے دار السطنت کا ذکر وہ ان الفاظ میں کرتا ہے۔یہ پیرس ہے ،جو دنیا کا انتخاب اور عالم کا سیر گا ہ ہے۔ یہ پیرس ہے جو عظمت و شان کی تصویری اور نزاکت ولطافت کا پیکر ہے۔ یہ پیرس ہے جو علوم کی کان اور دائرہ عرفان کا مرکز ہے۔ یہ پیرس ہے جس کی تعریف میں گو کتنا ہی مبالغہ کیا جائے،تاہم اس کی تعریف ادا نہیں ہو سکتی۔اس لئے مجھ کو صرف یہ کہنا چاہیئے کہ وہ بہشتوں کی بہشت ہی نہیں بلکہ وہ پیرس ہے ۔ اس عظیم ا لشان دار السطنت کی عجیب وغریب باتوں میں سے مصنف نے سب سے پہلے عورتوں کی حالت پر تعجب کیا ہے۔ وہ لکھتا ہے کہ نوع انسانی کا نصف حصہ (عورت) جو ہمارے ملک میں بالکل بیکار چیز ہے۔یہاں وہی تمام ترقیوں کی روح ہے۔ اور اس کی اس قدر عزت کی جاتی ہے کہ فرانس کا یہ مشہور مقولہ ہے کہ جو عورت کی مرضی ہے۔ وہ خدا کی مرضی ہے۔ مصنف نے اگر چہ عورتوں کی قابلیت کی نہایت تعریف لکھی ہے۔ اور لکھا ہے کہ وہ تمام علوم وفنون میں نہایت اعلیٰ درجہ کا کمال پیدا کرتی ہے۔یہاں تک کہ انشا ء پردازی، مضمون نگاری، شاعری ، مصوری، وکالت، طبابت، ایجاد، صنائع، ان تمام فنون میں اعلیٰ درجہ کی کامل عورتیں موجود ہیں۔ تاہم اس کو تسلیم کرنا پڑا ہے۔ کہ یورپ میں جو عورتوں کو آزادی حاصل ہے۔ وہ سخت اعتراض کے قابل ہے۔ اس کے بعد مصنف نے متعدد عنوان کو تفصیل سے لکھا ہے۔ مثلا عجائب خانہ کلین،کتب خانہ ، مذہبی عمارتیں، بناتات کا باغ، مدارس اور خیراتی کار خانے،تھیٹر وغیرہ۔ عجائب خانوں میں سے دوتین عجائب خانے ذکر کے قابل ہیں۔ایک عجائب خانہ خاص فنون وصناعیوں کا ہے۔اس میں بہت سے کمرے اور کتب خانہ ہے۔ جس میں تیس ہزار کتابیں ہیں۔اور یہ کل کتابیں فقط صنعت کے متعلق ہیں۔ رات کو فن صنعت پر لیکچر دیا جاتا ہے۔ اور ہر شخص کو بغیر کسی فیس کے اس میں شامل ہونے کی اجازت ہوتی ہے۔لیکچرار عموما وہ ہوتے ہیں جو صنعت میں اپنا جواب نہیں رکھتے۔ اس عجائب خانہ میں ہرقسم کے آلات اور کلیں جو قدیم زمانہ میں تھیں یا اب پیدا ہوئی ہیں۔ مہیا کی گئی ہیں۔ زراعت، رصد، نقاشی، تصویر کشی، رنگ سازی، جرثقیل وغیرہ کے نہایت قدیم اور جدید آلات نہایت کثرت سے موجود ہیں۔ ایک عجائب خانہ ہے،جس کا صرف مقصد یہ ہے کہ دنیا کے ہر حصے کے انسانوں کی طرز معاشرت اور طریقہ تمدن کو دیکھا جائے۔اس میں چالیس ہزار مجسم تصویریں ہیں۔قدیم زمانہ کے تمام وحشی اور مہذب قوموں کو اسی حالت اور وضع لباس میں دکھایا گیا ہے۔جس میں وہ زندگی بسر کرتے تھے۔ ایک عجائب خانہ فن تربیت کا ہے۔ اس میں تمام کتابیں ،رسالے، نقشے،تصویریں فن تربیت سے متعلق ہیں۔اس عجائب خانہ سے معلوم ہوتا ہے کہ قدیم زمانہ اور اس کے مختلف دوروں میں تعلیم وتربیت کے کیا طریقے تھے۔تربیت کے متعلق کس قسم کے آلات سے کام لیا جاتا تھا۔ خاص فن تربیت کے متعلق جس قدر کتابیں یہاں ہیں۔ان کی تعداد ۶۸۴۸ ہے۔ ایک عجائب خانہ خاص مذہبی ہے۔ یعنی دنیا کے تمام مذہبوں کو مخصوص صورت میں دکھایا ہے۔ اس عجائب خانہ کی بنیاد پروفیسر جیمسی نے ڈالی تھی۔جس نے تمام مشرقی ملکوں میں سفر کیا تھا۔ اور مختلف مذاہب کے متعلق دس لاکھ روپے کی قیمت کی کتابیں مہیا کی تھیں۔ یہ تمام کتابیں اس نے عجائب خانے میں وقف کر دیں۔چنانچہ خاص چین ،جاپان، اور مصر کے مذاہب کے متعلق ستر ہزار کتابیں ہیں۔ بہت سے ہیکل اور مندر ہیں۔ فرعون کے زمانہ میں قیامت کے متعلق جو خیالات تھے۔ ان کی تصویریں ہیں، عبادت اور پرستش کے جو جو طریقے جس جس زمانے میں رائج تھے۔ سب کے نمونے ہیں۔ غرض اس عجائب خانہ سے ایک سرسری نگاہ میں دنیا کے تمام قوموں کے مذہبی اعمال اور مذہبی خیالات معلوم ہو سکتے ہیں۔ اس کتب خانہ کے چار حصے ہیں۔پہلے حصہ میں مطبوعہ، نقشے، جغرافیہ کے مجموعے ہیں۔دوسرے میں قلمی کتابیں ہیں۔تیسرے میں پرانے کتبے اور پتھر ہیں۔کتابوں کے مطالعہ کرنے کا جو کمرہ ہے۔ اس میں ہر وقت پچیس ہزار کتابیں موجود رہتی ہیں۔جغرافیہ کے متعلق جس قدر کتابیں اور نقشے اس کتب خانے میں موجود ہیں۔تمام دنیا میں نہیں ہیں۔ صرف اٹلس اور نقشوں کی تعداد ڈھائی لاکھ ہے۔ قلمی کتابیں ۹۰۱۱۹ ہیں۔ جن میں آٹھ ہزار کتابیں مذہب ومطلا ہیں۔ مصنف نے حالات تفصیل کے بعد اس کے سالانہ مصارف کا نقشہ دیا ہے۔ اور لندن کے برٹش میوزیم سے موازنہ کیا ہے۔ اس کا خلاصہ یہ ہے:۔ سالانہ مصارف کتب خانہ پیرس تنخواہ ملازمین 400036 فرنک اسباب وغیرہ 200072 فرنک طیاری فہرست 80000 فرنک جلد بندی 25000 فرنک مختصر یہ کہ مجموعی مصارف 788000 ہیں ،لیکن برٹش میوزیم کا سالانہ صرف 1250000ہے۔ اندھوں کا مدرسہ تعلیم کو جو یہاں وسعت حاصل ہے۔ اس کے لحاظ سے مصنف کو بہت سے کالجوں اور اسکولوں کا ذکر کرنا چاہیئے تھا۔مگر اس نے صرف دو تین مدرسوں پر اکتفا کیا ہے۔ اور حقیقت میں جس جدت کی وجہ سے اسے انتخاب کیا ہے۔ وہ بے جا بھی نہیں،ان میں سے ایک مدرسہ آنکھوں کا ہے۔ہمارے ملک میں تو آنکھوں والوں کی تعلیم کا بھی رونا ہے۔لیکن وہاں اندھوں کی تعلیم کا بھی جو انتظام ہے،نہایت حیرت انگیز ہے۔ فرانس کو اس اولیت کا شرف بھی حاصل ہے۔ کہ اول اس نے اس قسم کی تعلیم کی بنا ڈالی۔ یعنی پروفیسر بادی نے ۱۸۸۴ ء میں اندھوں کی تعلیم کے لئے ایک مدرسہ کھولا۔اور تمام دنیا میں یہ اس قسم کا پہلا مدرسہ تھا۔یہ مدرسہ اب بھی موجود ہے۔ اس میں اس وقت ۱۵۵ لڑکے اور ۸۰ لڑکیاں تعلیم پاتی ہیں۔ مدت تعلیم دس برس ہے۔ اس میں ابتدائی اور اعلیٰ تعلیم ابھرے ہوئے حرفوں کے ذریعہ سے ہوتی ہے۔اور تمام کتابیں جو ان کو پڑھائی جاتی ہیں،اسی قسم کے حروف میں چھپی ہوئی ہوتی ہیں۔ اس کے سوا عملی تعلیم بھی ہوتی ہے۔ اور کاتنا ،پرونا، سینا، پرونا، بننا، خرادنا سکھایا جاتا ہے۔موسیقی کی تعلیم نہایت اعلیٰ درجہ کی ہوتی ہے۔مدرسہ کے کتب خانہ میں ڈھائی ہزار کتابیں ہیں جو ابھرے ہوئے حرفوں میں چھپی ہوئی ہیں۔ اس مدرسہ اور اس قسم کے دیگر مدارس سے اس درجہ کے لوگ تعلیم پاکر نکلے کہ آنکھ والے بھی ان کی قابلیت کا مقابلہ نہ کر سکے۔ ان میں سے بعض نہایت نامور پروفیسر گزرے ہیں۔ جن کی شہرت آج تک ضرب المثل ہے۔ ایک کمیٹی خاص اندھوں کی تعلیم اور ان کی اعانت کے لیے قائم ہے۔ ڈیڑھ لاکھ تک اس کا سرمایا ہے۔ اور قریبا 32ہزار فرنک سالانہ آمدنی ہے۔ یہ تمام رقم اندھوں کی تعلیم وتربیت ودیگر ضروری مصارف میں خرچ کی جاتی ہے۔ اس وقت اس کمیٹی کے 850 ممبر ہیں اور روز بروز ان ممبروں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔اندھوں کے لئے متعدد اخبارات بھی ہیں۔ جن میں سے ایک بالکل ابھرے ہوئے حرفوں میں چھپتا ہے۔ اس سے زیادہ تعجب انگیز گونگوں کا مدرسہ ہے۔ مصنف کا بیان ہے کہ میں نے جس وقت ان کی تعلیم کی کیفیت دیکھی تو حیرت زدہ رہ گیا۔پروفیسر یا شاگرد ہاتھ کے اشارے سے بالکل کام نہیں لیتے۔اور باوجود اس کے کہ ہر قسم کی مضامین کی تعلیم ہوتی ہے۔ مصنف نے سمجھا تھا کہ بلند آواز سے کام لیا جاتا ہوگا۔چنانچہ اس نے پکار پکار کر گونگوں سے باتیں شروع کیں۔ لیکن جس قدر وہ زیادہ چلاتا تھا۔ گونگے اور زیادہ سننے سے عاجز رہتے تھے۔آخر پروفیسر نے ان سے گفتگو کاطریقہ بتایا۔ اور اس وقت ان سے جو کچھ کہا جاتا تھا ،وہ صاف سمجھتے تھے۔اس میں زیادہ تر لحاظ ہونٹوں کی حرکت کا ہے۔گونگے ہونٹوں کی حرکت پر خیال کرتے ہیں اور بات سمجھ جاتے ہیں۔ تعجب یہ ہے کہ سالانہ جلسوں میں یہ گونگے لیکچر اور اسپیچیں دیتے ہیں۔اور ہر قسم کے مطالب کو صرف اشاروں سے ادا کرتے ہیں۔ چنانچہ جب 1892ء میں مسٹر دولوپی۱؎ کی سال گرہ کا جلسہ ہوا،تو صدر انجمن مسٹر کوشفر تھا۔ جو اسی مدرسہ کا تعلیم یافتہ انجئینر تھا ،اور بالکل گونگا تھا۔ کھانے کے بعد مسٹر کوشفر نے ایک لمبی اسپیچ دی ،جس میں دو لوپی کے تمام کار نامے بیان کیے ۔اس کے بعد اوروں نے اسپیچیں دیں۔یہ تمام اسپیچیں صرف اشاروں کے ذریعہ سے دی گئیں،اور تمام حاضرین بخوبی سمجھتے تھے۔ فیاضی اور خیرات کو جو عمدہ طریقہ یہاں اور یورپ کے تمام ممالک میں جاری ہے۔ وہ خاص کر لحاظ کے قابل ہے۔ ایشیائی ممالک فیاضی کے لیے مشہور ہیں۔ لیکن فیاضی کا طریقہ ایسا ابتر ہے۔ جس کی وجہ سے قوم کی قوم گدائی اور دریوزہ گری میں مبتلا ہو گئی ہے۔ اچھے خاصے توانا اور مضبوط آدمی بھیک مانگتے پھرتے تھے۔مولوی ،صوفی، درویش نذر ونیاز کے بہانے بے تکلف گدائی کرتے ہیں۔ لیکن یورپ کا طریقہ بالکل جدا ہے۔ کوئی شخص کسی شخص کے آگے دست طلب دراز نہیں کرتا۔نہ کوئی شخص کسی شخص کو کچھ دے سکتا ہے۔ جو کچھ جس کو دینا ہوتا ہے۔ خیراتی کارخانوں کے حوالے کرتا ہے۔ وہاں سے نہایت احتیاط کے ساتھ رقم لوگوں کو پہنچا دی جاتی ہے۔ جو در حقیقت مستحق ہوتے ہیں۔ فرانس میں اس قسم کی کمیٹیاں اور خیراتی کار خانے جس کثرت سے ہیں،ان کا شمار نہیں ہو سکتا۔مصنف نے بہت سی کمیٹیوں کے نام لیے ہیں۔جن کی غرضیں مختلف ہیں۔ مثلا یتیموں کی پرورش ،غریب حاملہ عورتوں کی مدد، بیکار پیشہ وروں کے لئے کام کی تلاش، کنواری عورتوں کے لیے شادی کا انتظام وغیرہ وغیرہ ۱؎ یہ شخص گونگوں کی تعلیم کا موجد ہے۔ سب کی مجموعی تعداد 245 ہے ۔ لیکن باوجود اس کے قوم میں گدا گری کا شائبہ تک نہیں پایا جاتا ۔ اسپین کا ذکر مصنف نے نہایت حسرت وافسوس کے ساتھ کیا ہے۔ سرحد میں داخل ہوتے ہی مصنف کے دل میں اس شان وشوکت کا خیال تازہ ہو گیا ،جو اس ملک کو اسلام کے عہد میں حاصل تھا۔اسلامی عہد کی ترقیاں، عظمت وشوکت، نزاکت وتکلف کے جلوے اب بھی جا بجا نظر آتے ہیں۔اور مصنف ان کو دیکھ کر بے تاب ہو جاتا ہے۔ غرناطہ کے قصر حمرا ء میں پہنچ کر اس پر بالکل حیرت طاری ہو جاتی ہے۔اور باوجود اس کے کہ وہ لندن اور پیرس کی عجیب وغریب عمارتیں دیکھ چکا ہے۔ تاہم حمرا ء نے دفعتہ ان سب کو دل سے بھلا دیا۔ اس موقع پر مصنف کے خاص الفاظ یہ ہیں۔ ویعلم اللہ اننی مارائیت فی طول سیاحتی شئیا ادق واتقن واجمل واکمل مما رآیتہ فی ھذا مدینۃ۔۔۔ یعنی خدا جانتا ہے کہ میں نے اس تمام سفر میں کہیں ایسی دقیق الصنعت، استادانہ، خوبصورت، عمدہ ترین چیزیں نہیں دیکھیں،جیسی اس شہر میں دیکھیں۔ اس کے مصنف نے فخر کے جوش میں آکر مسلمانوں کے عہد کی ترقی وتہذیب کی مختصر داستان لکھی ہے۔پھر اسلام کی بے تعصبی اورعیسائیوں کے تعصب کا موازنہ کیا ہے۔ وہ لکھتا ہے کہ مسلمانوں نے جب اس ملک کو فتح کیا،توعیسائیوں کے تمام حقوق اور مذہبی ارکان برقرار رہنے دیئے۔بر خلاف اس کے کہ جب وہ عیسائیوں کے قبضہ میں آیا تو یورپ کے حکم سے مذہبی مجلسیں قائم ہوئیں، جن کے فیصلوں کے مطابق ہزاروں ،لاکھو ں تصنفیات کو آگ میں جلا دیا گیا۔اس کے ساتھ ہزاروں مسلمان بھی زندہ جلا دیئے گئے۔اور اگر چہ غرناطہ کی فتح کے وقت صریح معاہدہ ہو چکا تھا ،کہ مسلمانوں کے مذہب سے تعرض نہ کیا جائے گا۔ تاہم جب جنرل شمنیس شہر میں داخل ہوا،تو اس نے شہر کے تمام مسلمانوں کو بزور عیسائی بنانا چاہا۔چنانچہ پچاس ہزار مسلمان عیسائی بنا دیے گئے۔ اس پر بھی اکتفا نہیں کیا گیا۔ بلکہ جنرل تر کمادا نے حکم دیا کہ چونکہ یہ دل سے عیسائی نہیں ہوئے،اس لیے ان کو بالکل برباد کر دینا چاہیئے۔ مصنف نے اس بات کو نہایت خوبی سے بیان کیا ہے۔کہ مسلمانوں کے عہد میں اس ملک کو جو رونق اور عروج حاصل تھا۔اب اس کا عشر عشیر بھی نہیں، مسلمانوں کے عہد میں اس کی مردم شماری چار کروڑ تھی۔اب صرف ایک کروڑ ستر لاکھ ہے۔زمینیں اکثر ویران پڑی ہیں اور معاش کے وسائل نہایت کم ہیں۔مصنف لکھتا ہے کہ قلت آبادی اور کثرت ویرانی کے اسباب میں صرف یہ سبب لکھنا کافی ہو گا کہ فلپ ثانی نے چھ لاکھ مسلمانوں کو ایک دم سے جلا وطن کر دیا،جو سب کے سب کاشت کار تھے۔اور جن کی بدولت زراعت کو نہایت ترقی تھی۔ آخر میں مصنف لکھتا ہے کہ اگر چہ عرب ملک اس میں نہیں رہے۔ لیکن ان کی یادگاریں ہر جگہ موجود ہیں۔ ملک میں جو قوانین اور انتظامات جاری ہیں۔ان میں اسلامی قوانین کے آثار موجود ہیں۔یہاں تک کہ لوگوں کے اخلاق وعادات میں عرب کے اخلاق وعادات کی جھلک پائی جاتی ہے۔تمام یورپ کے بر خلاف یہاں کے لوگ بیگانہ نواز اور مہمان نواز ہیں۔یہ لوگ اجنبی آدمیوں کے ساتھ نہایت اخلاق سے پیش آتے ہیں۔اور ہر کام میں اس کی اعانت کرتے ہیں۔ مختصر یہ کہ یورپ کے اور ملکوں میں اور اس ملک میں صریحی فرق محسوس ہوتا ہے۔اور وہ فرق انہی اخلاق کے لحاظ سے ہے۔جو خاص عرب کے اخلاق ہیں۔شعر ، عالم زما تہی وزا فعان ما پرست شد عندلیب خاک وچمن از نوا پرست از رسائل شبلی ، مطبوعہ ۱۸۹۸ئ؁ تلفیق الاخبار پر ریویو (یہ ایک ضنحیم خاص ترک وتاتار کی تاریخ میں ہے،جو ایک روسی مسلمان کی تصنیف ہے۔) مسلمان تمام دنیا کے مختلف حصوں میں پھیلے ہوئے ہیں۔لیکن باہمی روابط اس قدر کم ہیں کہ ترکی کے سوا باقی حالات کی ہم کو عموما خبر تک نہیں ہوتی۔ایران کے واقعات دھندلے دھندلے نظر آتے ہیں۔ مراکش کا خظ وخال صرف یورپین مصوروں کی رنگ آمیزی میں دکھائی دیتا ہے۔ اور تاتاری مسلمان جس حال میں بھی ہیں۔وہ تو دور بین سے بھی نظر نہیں آتا۔ اس حالت میں کتاب زیر ریویو پر اگر ہماری نظر شوق اور استعجاب سے اٹھی ہو تو کوئی تعجب کی بات نہیں۔ کتاب کا مصنف بلغار کا رہنے والا ہے۔ لوح پر مصنف کا نام ان حرفوں میں لکھا ہے۔ ’’م م ،رمزی‘‘ معلوم نہیں کہ یہ اصل نام ہے یا فرضی لقب ہے۔ چونکہ کتاب نہایت آزادی سے لکھی ہے۔اور روسی سلطنت کا جورو ظلم اور مذہبی تعصب نہایت تفصیل سے دکھایا ہے۔جس کو پڑھ کر حیرت ہوتی ہے کہ کیا انیسویں صدی بھی اس قسم کی وحشیانہ حرکت کی متحمل ہو سکتی ہے۔ اس لیے قیاس ہوتا ہے کہ مصنف اپنا اصلی نام نہ ظاہر کر سکا۔ لیکن مطبع اور شہر کا نام بہ تصریح ہے۔اس لیے یہ قیاس کس قدر ضعیف ہو جاتا ہے ۔اس کتاب کا ایک خاص اثر یہ ہے کہ گورنمنٹ انگریزی کی قدر وقیمت دل میں بڑھ جاتی ہے۔ الاشیا ء تعرف با ضدادھا ہر چیز اپنے مقابل سے پہچانی جاتی ہے۔ مصنف تاتاری ترک ہے۔اور قومیت کے نشہ میں چور ہے۔چنگیز خان کی برائی پر تمام دنیا کو متفق اللفظ سنتے آئے ہیں۔لیکن مصنف اس اجماع میں بھی شامل ہونا گوارا نہیں کرتا۔اور سلطان خوارزم شاہ کو مخاطب کرتا ہے کہ ’’ہمہ آوردہ تست‘‘مصنف کے خاص اجتہادات کی بحث تو آگے آئے گی۔ لیکن اس قدر اس موقع پر ظاہر کرنا ضروری ہے کہ ترک اور تاتار کی کوئی تاریخ اس قدر مفصل اور محققانہ نہیں لکھی گئی ہے۔ اس نے سینکڑوں کتابوں سے مدد لی ہے۔اور دیباچہ میں ان کی فہرست بھی دے دی ہے۔ لیکن وہ ان ماخذوں پر اس طرح حکومت کرتا ہے کہ گویا سب اس کے فرمانبردار ہیں۔ وہ تنقید کے زور سے جس کو جہاں چاہتا ہے۔ حکم دیتا ہے۔اور سب کو تسلیم کرنا پڑتا ہے۔ وہ نہایت مستند اور مسلم ایرانی تصنیفات کی غلطیوں کی ہنسی اڑاتا ہے۔ اور سچ یہ ہے کہ: انصاف شیوہ ایست کہ بالائے طاعت است شاہ نامہ کے امتیوں (اور میں بھی ان ہی میں ہوں) ک وفردوسی نے ہمیشہ یہ تلقین کی ہے کہ ایران کے مقابلہ میں ترک ہمیشہ مغلوب رہے۔اور ترک کا لفظ،ظالم، جاہل اور غارت گر کا مرادف ہے۔ خواجہ حافظ صاحب سے بھی ہم نے بچپن میں یہی سنا تھا کہ ع چنان بردند صبر از دل کہ ترکان خوان یغما را لیکن مصنف نے تمام ملمع کاری کی قلعی کھول دی ہے۔شروع سے اخیر تک تمام واقعات تفصیل سے لکھے ہیں۔ اور ہرجگہ مورخین ایران کے تعصب، غلط بیانی اور مبالغہ کو اس طرح واضع کر دیا ہے کہ ایک مجوسی آسانی سے مرتد ہو سکتا ہے۔ تمام کتاب میں ہمارے کام کی بات یہ ہے کہ یورپین مورخوں کی زبان سے یہ سنتے سنتے ہم تھک گئے ہیں کہ ترکوں نے دنیا کے تمدن کو بر باد کر دیا۔ ۔بے شبہ انہوں نے بڑی بڑی فتوحات حاصل کیں۔عرب نے جو تمدن دنیا میں پھیلا یا تھا۔ترکوں نے اس گلستان سدا بہار کو دفعتہ ویرانہ سے بد تر کر دیا۔ میسو لیبان نے تمدن عرب میں عرب کی تہذیب وتمدن کی تعریف اس حد تک کی ہے کہ خود ہم کو مشکل سے اعتبار آتا ہے۔لیکن یہ زیادہ تر اس غرض سے ہے کہ عرب کو جس قدر اونچا کریں ،ترکوں کو اتنی ہی بلندی سے گرائیں۔مسٹر بلنٹ نے فیوچر آف اسلام میں یہی پیش نظر رکھا ہے۔ ہمارے ایک دوست نے نہایت سچ کہا ہے کہ یورپ ہر مردہ قوم کا مرثیہ نہایت سوز گداز سے پڑھ سکتا ہے۔لیکن کسی زندہ قوم کواچھا نہیں کہہ سکتا۔عرب (من حیث الحکومت) آج موجود نہیں ہیں۔ اس لئے ان پر آنسو گرانا آسان ہے۔ لیکن زندہ حکومتوں کی تعریف وتحسین میں پالیٹکس کی نگاہ غضب کا ڈر ہے۔ بہر حال یورپ کا یہ فیصلہ کہ ترکوں نے اسلام لانے کے بعد بھی علم وفن کی کچھ خدمت نہیں کی، بلکہ عرب نے جوکچھ کیا تھا۔ اس کو بر باد کر دیا۔ میں مدت سے یورپ کی اس غلط بیانی پر حیرت زدہ تھا۔میرے سامنے ترکوں کے سینکڑوں علمی کار نامے موجود تھے۔ لیکن چونکہ مصنفین حال کے زمرہ میں مجھ کو کوئی اور ہم نوا نہیں ملتا تھا۔ اس لیے زبان کھولنے کی جرات نہیں ہوئی۔ لیکن کتاب کے زیر ریویو کے مصنف نے نہایت دلیری سے یورپ کی غلط بیانیوں کاپردہ فاش کیا۔ ہم اس کتاب سے چند مفید معلومات اقتباس کے طور پر ناظرین کی نذر کرتے ہیں۔ترکوں کے علمی احسانات کے لیے علیحدہ آرٹیکل درکار ہے۔ اس باب میں مصنف نے جو کچھ لکھا ہے۔ بہت مجمل ہے اور ضرورت ہے کہ یہ داستان پھیلا کر لکھی جائے۔ ترک وتاتار و مغل ترکمان ترکوں کے حالات سے عام ناواقفیت کا ایک بڑا ثبوت ہے کہ لوگ ان کو الگ الگ قومیں سمجھتے ہیں۔ حالانکہ یہ سب ایک ہی خاندان کے مختلف شخصوں کے نام ہیں۔چین میں ترکی قوموں کو ہیانگ تو کہتے تھے۔اور قدیم یونان اور روم میں ان کا نام سیتیا یا اس کا پتا تھا۔عبرانی زبان میں ان کو ماجوج کہتے ہیں۔چنانچہ کاتب چلپی نے جہاں نما میں اس کی تصریح کی ہے۔مصنف نے ان قوموں کی ابتدائ،، ان کی سکونت ان کی تشعب کا حال نہایت تفصیل سے لکھا ہے۔ لیکن غالبا ناظرین کو اس سے دل چسپی نہ ہو گی۔ اس لیے ہم ان کے ان واقعات کا اقتباس کرتے ہیں۔ جو اسلام کے عہد میں پیش آئے۔ سب سے پہلے ترکوں پر حضرت عمر ؓ کے زمانے میں ۲۱ ھ؁ میں فوج کشی ہوئی۔ یعنی عبد الرحمان بن ربیعہ بابلی نے باب الا بواب سے گزر کر خرز (عرب اس زمانے میں ترکوں کو خزر کہتے تھے۔) پر حملہ کیا۔ اس زمانہ سے ۱۸۳ھ؁ یعنی ۱۶۲ برس تک ترکوں پر حملے ہوتے رہے۔ لیکن فتح وشکست کا قطعی فیصلہ کبھی نہ ہوا۔ اس امر میں اختلاف ہے کہ یہ لوگ اسلام کب لائے،اور کیوں کر لائے۔ مصنف نے مسعودی سے نقل کیا ہے کہ سب سے پہلے بلغار کا بادشاہ ۳۱۰ ھ ؁ کے بعد خلیفہ مقتدر باللہ کے زمانہ میں اسلام لایا۔اسلام کی وجہ یہ تھی کہ اس نے ایک خواب دیکھا کہ جس سے اس کو اسلام کی طرف رغبت ہوئی۔ یہ بادشاہ نہایت صاحب اقتدار تھا۔ وہ قسطنطنیہ ، اٹلی، فرانس، اسپین پر اکثر حملے کیاکرتا تھا۔ اسلام لانے کے بعد اس کے بیٹے نے حج کیا اور بغداد میں آیا۔ خلیفہ مقتدر باللہ نے اس کو رایت علم وعنایت کیا۔ مصنف نے لکھا ہے کہ اس بادشاہ کا نام الماس خان بن سلکی خان تھا۔ اسلام لانے کے بعد اس نے مقتدر باللہ کے دربار میں سفیر بھیجا اور غائبانہ اس کے ہاتھ پر بیعت کی بھی درخواست کی۔کہ احکام اسلام کی تعلیم کے لئے فقہا اور علماء بھیجے جائیں ،ان کے ساتھ ریاضی دان بھی آئیں۔کہ ٹھیک ٹھیک قبلہ بتائیں۔ مقتدر نے متعدد علماء اور فضلا کو اس خدمت پر ما مور کیا۔جن میں سوسن الراسبی اور بدر خرمی بھی تھے۔ احمد بن فضلان کو بھی اس سفارت کے ساتھ بھیجا اور حکم دیا کہ بلغار کے ھالات اور سفر کے تمام واقعات کی رپورٹ لکھ کر لائیں۔احمد بن فضلان نے ایک نہایت مفصل رسالہ لکھا۔لیکن افسوس ہے کہ آج اس کا بالکل پتا نہیں لگتا ہے۔یاقوت حموی نے معجم البدان میں اس کی متعدد عبارت نقل کی ہے۔ اس کا خلاصہ حسب ذیل ہے۔ ’’ الماس بن سلکی بلطورا جو صقالبہ کا بادشاہ ہے۔ اس کی درخواست امیر المومنین مقتدر باللہ کی خدمت میں پہنچی کہ کسی کو بھیجا جائے جو مجھ کو اسلام کے احکام سکھائے،اور مسجد ومنبر بنائے،تاکہ تمام ملک میں اسلام کی اشاعت کی جائے۔اس کے ساتھ ایک قلعہ بنانے کی بھی اجازت دی جائے۔اس درخواست کے موافق ہم لوگ ۱۱ صفر ۳۰۹ ھ؁ کو روانہ ہوئے،‘‘۔اس کے بعد احمد بن فضلان نے راستے کے تمام واقعات نہایت تفصیل سے لکھے ہیں،جن کو میں قلم انداز کرتا ہوں۔ ’’ جب صقالبہ کے پایہ تخت سے ایک دن کا فاصلہ رہ گیا تو اس نے چار بادشاہوں کو جو اس کے زیر حکومت ہیں۔اور اپنے بھائی اور بیٹوں کو ہمارے استقبال کے لئے بھیجا، جب دو فرسنگ کا فاصلہ رہ گیا تو وہ خود استقبال کو آیا،جب اس نے ہم کودیکھا تو سواری سے اتر پڑا، اور اورزمین پر سجدہ کیا اور ہمارے اوپر روپے برسائے۔اور خیمے نصب کرائے ،جن میں ہم کو اتارا، ہمارے پہنچنے کی تاریخ بارہ محرم ۳۱۰ ھ ؁ تھی۔ جر جانیہ سے جو خوارزم کا پایہ تخت ہے۔ یہاں تک ستروں کی مسافت ہے۔ ہم بدھ کے دن یہاں مقیم رہے۔ اور اسی اثناء میں وہاں کے تمام روساء اور مقربین درگاہ ہر طرف سے آکر جمع ہوئے۔جمعرات کے دن ہم نے امیر المومنین کے دونوں فرمان نکال کر پیش کیے، بادشاہ کو دولت عباسیہ کا سیاہ ملبوس پہنایا اور پگڑی باندھی، پھر فرمان پڑھا،فرمان پڑھے جانے تک بادشاہ تعظیما کھڑا رہا۔ پھر وزیر اعظم کافرمان پڑھا، بادشاہ اگر چہ فربہ اندام تھا۔لیکن اب بھی برابر کھڑا رہا۔ پھر دربار خلافت سے جوہدیے لائے تھے۔اس کو دیئے گئے۔ اس کی خاتون بھی اس کے برابر بیٹھی تھی۔اس کو بھی خلعت دیا اور یہ ترکوں کا عام قاعدہ ہے کہ (یعنی ان میں پردہ کی رسم نہیں ہے۔) پھر ہم اس کے خیمے میں گئے۔وہ تخت پر بیٹھا اور سلاطین دائیں جانب اور ہم بائیں جانب بیٹھے تھے، پھر کھانا آیا۔ باری باری مختلف کھانے آتے تھے ، اور ہر شخص کے سامنے الگ الگ سینیا ں رکھی جاتی تھیں۔بادشاہ چھری سے کاٹ کر کھاتا تھا۔ سینی میں جوکھانا بچ جاتا وہ کھانے والے کے قیام گاہ میں پہنچا دیا جاتا تھا۔کھانے کے بعد شہد کی شراب آئی ،جس کوترکی میں سچو کہتے ہیں۔بادشاہ کی سواری جدھر سے نکتی،لوگ کھڑے ہو جاتے اور ٹوپیاں اتار کر بغل میں دبا لیتے۔پھر بادشاہ کی طرف اشارہ کر کے سر کو جھکا دیتے۔بادشاہ کے سامنے جب بیٹھتے ہیں تو ہمیشہ ٹوپی اتار کر بیٹھتے ہیں، مرد عورت ایک ساتھ کھلے میدان میں ننگے نہاتے ہیں۔لیکن بدکاری کا مطلق وجود نہیں۔کوئی شخص بد کاری کا مرتکب ہو تو ایک طرف کاجسم گردن سے ران تک کر کاٹ کر درخت پر لٹکا دیتے ہیں۔ بلغار کی رات عام طور سے مشہور ہے کہ بلغار میں رات اس قدر چھوٹی ہوتی ہے کہ آفتاب کے غروب اور طلوع میں صرف آدھ گھنٹہ کا فرق ہوتا ہے۔اس لئے وہاں عشاء کی نماز نہیں ہوتی۔ لیکن مصنف نے ثابت کیا ہے کہ یہ محض مبالغہ ہے۔آلات رصدیہ سے ثابت ہوتا ہے کہ ساڑھے چار گھنٹے سے رات کم نہیں ہوتی۔ (الندوہ ج ۸ نمبر ۱۲ ذی حجہ ۱۳۲۹ ئ؁) تمدن اسلام مصنفہ جرجی زیدان کی پردہ دری جر جی زیدان ایک عیسائی مصنف نے یہ کتاب چار حصوں میں لکھی ہے۔جس میں مسلمانوں کی تہذیب وتمدن لکھی ہے۔ اس کتاب میں مصنف نے درپردہ مسلمانوں پر نہایت سخت اور متعصبانہ حملے کیے ہیں۔ لیکن بظاہر مسلمانوں کی مدح سرائی کی ہے۔ جس کا یہ نتیجہ ہوا کہ لوگوں کی نظر اس کی فریب کاریوں پر نہیں پڑی۔اور کتاب گھ رگھر پھیل گئی۔ میں اس حالت کو دیکھ رہا تھا ۔لیکن قلت فرصت کے سبب اس کی طرف متوجہ نہ ہو سکتا تھا۔نوبت یہاں تک پہنچی کہ فاضل کے امتحان میں اس کے داخل نصاب کرنے کی رائے دی گئی۔اور ٹائمس نے حال میں ایک مضمون لکھا کہ حضرت عمر ؓ کا کتب خانہ اسکندریہ کو جلانا ثابت ہے۔ جیسا کہ جر جی زیدان نے اس کو تمدن اسلام میں جدید دلائل سے ثابت کر دیا ہے۔ ان واقعات نے مجبور کر دیا کہ میں ان کی فریب کاریاں تفصیل کے ساتھ ناظرین کے پیش نظر کروں،اصل مضمون عربی میں لکھا ہے۔اور اس کو نہایت وسعت دی ہے۔ اردو میں مختصر کر دیا ہے۔ اور طرز تحریر بھی معمولی ہے۔ مصنف کا اصل مقصود کیا ہے؟۔ آج کل یورپ میںتصنیف کا ایک طرز یہ ہے کہ مصنف کسی خاص قسم کے واقعات جب ملک میں پھیلانا چاہتا ہے تو اس پر مستقل حیثیت سے کوئی کتاب نہیں لکھتا، بلکہ کوئی ناول لکھتا ہے۔ جس میں ان واقعات کو جا بجا ضمنی طور پر موقعوں میں لایا جاتا ہے۔ اور اس طرح دل چسپی کے ساتھ ان تمام واقعات کو گوش آشنا کر دیا جاتا ہے۔اسی قسم کا طریقہ مصنف نے اختیار کیا ہے۔ اس کے اہم مقاصد جس کے لیے اس نے یہ کتاب لکھی ہے۔حسب ذیل ہے۔ (۱) عرب کی تحقیر اور ان کی مذمت (۲) خلفائے بنو امیہ وعباسیہ مذہب کی توہین کرتے تھے۔ جہاں تک کہ منصور نے کعبہ کی تحقیر کے لئے قبہ خضرا ء بنوایا۔اور معتصم نے سامرہ میں کعبہ وصفا مروہ تعمیر کیا۔ (۳) مسلمانوں پر عام اعتراضات ان مضامین پر مصنف اگر کوئی مستقل کتاب لکھتا،تو لوگ اس کی طرف نظر اٹھا کر بھی نہ دیکھتے۔اس لئے اس نے تاریخی واقعات کے پردہ میں ان مضامین کو ادا کیا۔ اور آہستہ آہستہ یہ زہر اس طرح سرایت کر گیا کہ لوگوں کو خبر بھی نہ ہونے پائی۔ مصنف نے ان اعتراض کے حاصل کرنے کے لئے جو طریقے اختیار کیے ان کی تفصیل ذیل میں ہے۔ (۱) صریح کذب ودروغ۔ (۲) روایات کی نقل میں خیانت اور تحریف (۳) کسی صحیح واقعہ میں اپنی طرف سے ایسا اضافہ کر دینا کہ واقعہ کی صورت بدل جائے (۴) غلط استنباط اور استدلال ہم پہلے مصنف کے مقاصد کو کسی قدر تفصیل سے دکھاتے ہیں، کتاب کا ایک بڑا مو جوع بنوامیہ کی برائی اور عیب گیری ہے۔ جس کے ضمن میں دراصل عرب پر حملہ کرنا مقصود ہے۔ کتاب کے چند اقتباسات حسب ذیل ہیں:۔ و کان من جملۃ نتائج تعصبی بنو امیہ للعرب واحتقار ھم البلاد الامم انھم اعتبرو ااھل البلاد التی فتحرھا و ما یملکون رزقا حلالا لھم (حصہ دوم ص ۱۹) و کان بنہ امیۃ یجورون علی اصحاب الارضین من اھل الذمۃ فی التحصیل ونحوہ۔ (حصہ دوم ص ۱۹)۔ ترجمہ :۔ بنو امیہ عرب کی طرف داری اور تمام دنیا کی تحقیر کرتے تھے۔ اس کا نتیجہ یہ تھا کہ تمام مفتوحہ شہروں کے لوگوں کو اور ان کے مال ودولت کو شیر مادر سمجھتے تھے۔ بنو امیہ کے عمال زمینداروں پر مال گزاری وغیرہ کے وصول کرنے میں ظلم کرتے تھے۔ و لم یکن عمال بنی امیۃ یاتون ھذا الاعمال من عند انفسھم دائما بل کثیرا ما کانو یفعلونہ با مر خلفائھم (حصہ دوم ص ۲۳) وکان بنو امیۃ قد انغمسو فی الترف واللھو والخمر (حصہ دوم ص ۲۶) وکان العمال لا یدرون حرجانی ابتذاز الاموال من اھل البلاد التی فتحوھا عنوۃ (حصہ چہارم ص ۷۸) الاستھانۃ بالقرآن والحرمین (حصہ چہارم ص ۷۸) فان اھل الذمۃ وغیر ھم من سکان البلاد الاملین قاسو من خلفا بنی امیہ و من اعمالھم الامور الصعاب حتی الذین اسلمو ا منھم فان العرب کانوا یعاملونھم معاملۃ العبید۔ اور بنو امیہ کے یہ عمال اپنی طرف سے نہیں بلکہ اکثر خلفاء کے حکم سے کرتے تھے۔ اور بنو امیہ عیش پرستی اور لہو ولعب اور شراب میں ڈوب گئے تھے۔ اور عمال بنو امیہ مفتوحہ قوموں کے مال چھین لینے میں کچھ برا نہیں سمجھتے تھے۔ قرآن مجید اور حرمین کی توہین۔ ذمی اور دیگر اصل باشندوں نے بنو امیہ اور ان کے ملازموں کے ہاتھ سے سخت مصیبتیں جھیلیں، حتیٰ کہ ان لوگوں نے بھی جو مسلمان ہو گئے۔کیونکہ عرب ان سے غلاموں کا سا برتاؤ کرتے تھے۔ وعظم امرالخلافۃ حتی فضلھا علی النبوۃ فکان یقول ما قامت السمٰو ت والارض الا با لخلافۃ وان الخلیفۃ عند اللہ افضل من ملائکۃ المقربین والانبیا ء المرسلین (حصہ چہارم ص ۷۹) اور حجاج نے خلیفہ کے رتبہ کو اس قدر بڑھایا کہ نبوت پر اس کو فضیلت دی ،چنانچہ کہتا تھا کہ آسمان اور زمین خلافت سے قائم ہوئے ہیں۔اور خلیفہ خدا کے نزدیک مقرب فرشتوں سے اور انبیا اور رسول سے بڑھ کر ہے۔ ان باتوں کے ثابت کرنے کے لئے مصنف نے بنو امیہ کے عجیب عجیب ظلم کے واقعات لکھے ہیں،جن کی تفصیل آگے آئے گی۔ بنو امیہ کی برائی اگر بنو امیہ کی خصوصیات کی بنا پر کی جائے تو ہم کواس سے بحث سے نہیں،،، بنو امیہ یا بنو عباسیہ اسلام کے نمونے نہیں ہیں۔وہ خلفا ء نہ تھے بلکہ بادشاہ تھے۔ اس لیے اور سلاطین کی طرح ہر قسم کے عیوب ان میں ہو سکتے تھے۔لیکن مصنف کی عنایت بنو امیہ پر اس لحاظ سے ہے کہ وہ اصل عرب اور عربی قومیت کے نمونے تھے۔ان کے اوصاف واخلاق،وعادات دراصل عرب کے اخلاق وعادات ہیں۔ چنانچہ مصنف عصر بنی امیہ کا ایک خاص عنوان قائم کر کے لکھتا ہے۔ وتمتاز عن الدولۃ العباسیۃ بانھا عربیۃ بحتۃ (حصہ ودم ص ۱۸) و جملۃ القول ان الدولتہ الامویۃ دولۃ عربیۃ (حصہ چہارم ص ۱۰۳)۔۔ مصنف نے جس قدر بنو امیہ کی مذمت اور برائی کی ہے۔ اسی قدر عباسیہ کی مدح اور تعریف کی ہے۔ لیکن نہ اس لحاظ سے کہ وہ کوئی عربی سلطنت تھی،بلکہ اس بنا پر کہ وہ ایرانی سلطنت تھی۔چنانچہ وہ عباسی حکومت کو ایرانی حکومت قرار دیتا ہے۔ حصہ چہارم میں اس نے عباسیوں کی سلطنت کا جہاں ذکر شروع کیا ہے ، اس کی سرخی یہ لکھی ہے ۔العصر الفارسی الاول ،اس کے نیچے لکھتا ہے :۔ دعونا ھذا العصر فارسیا مع انہ داخل فی عصر الدولۃ العباسیۃ لان تلک الدولۃ علی کونھا عربیۃ من حیث خلفائھا ولغتھا ودیانتھا فھی فارسیۃ من حیث سیاستھا وادارتھا لان الفرس نصروھا وایدوھا ثم ھم نظموا حکومتھا واداور شئونھا وامراء وھا و کتابھا وحجبا ئھا ۔ ہم نے اس زمانہ کو فارسی کہا حالانکہ وہ عباسی حکومت کا زمانہ ہے۔ یہ اس بنا پر کہ عباسی حکومت اگرچہ اپنے خلفا ء اور مذہب اور زبان کے لحاظ سے عربی تھی ،لیکن پالٹیکس کے لحاظ سے ایرانی تھی۔کیونکہ ایرانیوں نے اس کی اعانت کی تھی۔اور ان ہی نے اس کی حکومت کا انتظام کیا اور اس کے کاروبار چلائے،اور ایرانی ہی اس سلطنت کے وزیر اور افسرا ور کاتب اور دربان تھے۔ عام عرب کی نسبت مصنف لکھتا ہے کہ وہ نو مسلموں کو سخت حقیر سمجھتے تھے۔ان کے پیچھے نماز پڑھنا بھی گوارا نہ کرتے تھے۔ان کا قول تھا کہ نماز تین چیزوں کے سامنے گزر جانے سے ٹوٹ جاتی ہے۔ گدھا، کتا، اور نو مسلم۔ امیر معاویہ نے قصد کیا کہ تمام نو مسلموں کو یا ان میں سے ایک حصہ کو محض اس وجہ سے قتل کر دیں کہ وہ غیر قوم ہیں۔گویا وہ بھیڑ بکریاں تھیں۔ عرب کو یہ غرور اس وجہ سے ہو گیا تھا کہ وہ اونٹ چراتے چراتے تخت حکومت تک پہنچے تھے۔ خلفا ء کا کعبہ اور شعار اسلام کی توہین کرنا مصنف نے جا بجا اور ایک موقع پر خاص ایک عنوان قائم کر کے ثابت کیا ہے کہ خلفاء مذہبی شائع کی تحقیر کرتے تھے۔ ایک موقع پر لکھتا ہے کہ۔ فحجب بعضھم الی المنصور ان یستبدل الکعبۃ بما یقوم مقامھا فی العراق وتکون حجا للناس فنبی بناء اسماہ القبۃ الخضرا ء تصغیرا للکبعۃ وقطع المیرۃ عن المدینۃ (حصہ دوم ص۲۰) فا نشاء فیھا کعبۃ وجعل حولھا طوافا واتخذ منی وعرفات (حصہ دوم ص ۳۲) بعضوں نے منصور کو اس طرف مائل کیا کہ کعبہ کے بدلے عراق میں کوئی عمارت بنائے جس کا لوگ حج کیا کریں،چنانچہ اس نے ایک مکان بنایا جس کا نام قبہ خضرا ء رکھا،تاکہ کعبہ کی حقارت ہو اور مدینہ میں غلہ بھیجنا بند کر دیا۔ ایک اور موقع پر خلیفہ معتصم کے حال میں لکھتا ہے۔ معتصم نے سامرہ میں ایک کعبہ اور منا اور عرفات تیار کرایا۔ خلفائے بنو امیہ کی نسبت بہت سے واقعات نقل کیے ہیں۔لیکن ان کی تفصیل کی اس لیے ضرورت نہیں کہ بنو امیہ تو بہر ھال مصنف کے نزدیک قابل گردن زنی تھے۔ان کے کسی فعل کی کیا شکایت ہو سکتی ہے۔ لطف یہ ہے کہ اپنے ممدوحین یعنی خلفائے عباسیہ کی نسبت یہ ثابت کیا ہے کہ ان کے زمانے میں عرب اس قدر حقیر کر دیے گئے فصبح لفظ عربی مرا دفا الاحقر الاوصاف عند ھم ومن اقوالھم العربی منزلۃ الکلب اطرح لہ لسرۃ واضراب راسہ۔۔۔۔۔۔ تھے۔ کہ عرب کا لفظ سب سے بدتر خیال کیا جاتا تھا۔لوگ کیتے تھے کہ عرب کتے ہیں۔ان کے آگے روٹی کا ٹکڑا ڈال دو پھر ان کے سر پر مارو۔ اس موقع پر یہ خیال ہو سکتا ہے کہ اس میں مصنف کا کیا قصور ہے۔ یہ تاریخی واقعات ہیں۔ مصنف نے ان کونقل کر دیا ہے۔ اور سند بھی نقل کر دی ہے۔ لیکن واقعہ یہ ہے کہ مصنف نے ان عبارتوں کی نقل میں سخت تحریف اور خیانت سے کام لیا ہے۔ جیسا کہ آگے آتا ہے۔ مصنف نے اس تصنیف میں مختلف طریقوں سے کام لیا ہے۔ لیکن اعلانیہ جھوٹے حوالے دیتا ہے۔کہیں عطارت کو ادل بدل کردیتا ہے۔ کہیں ایک خاص واقعہ کو عام کر دیتا ہے۔اور اس سے عام نتیجہ نکالتا ہے۔ کہیں اپنے موافق ایک واقعہ کو نقل کرتا ہے۔ اور اس کے مخالف بہت سے صحیح واقعات کو چھوڑ جاتا ہے۔ کہیں استدلال اور استنباط میں غلطی کرتا ہے۔ صریح جھوٹ (۱)تمدن اسلام کے حصہ دوم میں ’’عصر بنو امیہ‘‘ کا ایک عنوان قائم کیا ہے۔جس کے ذیل میں بنو امیہ اور عمال بنو امیہ کے مظالم گنائے ہیں۔ان میں منجملہ ان مظالم کے ایک یہ لکھا ہے۔ واذا اتی احدھم بالدراھم لیودیھا فی خراجہ یقتطع الجابی منھا طائفۃ ویقول ھذا رواجھا وصرفھا۔۔۔۔۔ اور جب ان کے پاس کوئی شخص مال گزاری ادا کرنے کے لئے روپیہ لاتا تھا۔ تو تحصیل دار اس میں سے کچھ روپیہ نکال لیتا تھا اور کہتا تھا کہ روپیہ کا نرخ اور چلن اسی قدر ہے۔ ۱؎ ایک امر کا اظہار کرنا اس موقع پر ضروری ہے کہ مصنف نے جب اس کتاب کا پہلا حصہ مجھ کو بھیجا تو میں نے اجمالا کتاب کی تعریف کی، لیکن چونکہ میں مصنف کی عادت سے واقف تھا۔اس لئے میں نے اس کو خط لکھا کہ آپ کو واقعات میں کتابوں کا حوالہ دینا چاہیئے تھا۔ چنانچہ مصنف نے میرے اس خط کو تمدن اسلام کے دوسرے حصے میں نقل کیا ہے۔ اور میری تحریک کے مطابق پچھلے حصوں میں حوالے دیے ہیں۔لیکن اس میں یہ چالاکی کی کہ اس میں چھاپے کی تعین نہیں کرتا۔اکثر کتابیں مصر میں بار بار چھپی ہیں۔مصنف ان کے حوالے دیتا ہے۔ اور یہ نہیں بتاتا کہ کون سے چھاپے کے صفحے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ابن الاثیر، مسعودی وغیرہ کے جو کثرت سے مصنف نے حوالے دیے ہیں، میں نے مقابلہ کیا تو میرے پاس جو نسخے ہیں۔ان میں وہ عبارتیں نہیں ملتیں۔ لیکن مصنف یہ کہہ سکتا ہے کہ اس نے کسی اور نسخہ کا حوالہ دیا ہے۔ اس کاروائی کی وجہ سے مصنف کی بہت سی خیانتوں کا پردہ رہ گیا ہے۔ اور جن کتابوں میں اس کے حوالے میرے نسخہ سے مطابق نکلے ہیں،ان میں ایک موقع بھی مجھ کو ایسا نہیں ملا کہ مصنف نے سخت خیانت نہ کی ہو۔ اس عبارت کی نسبت حاشیہ میں کتاب الخراج قاضی ابو یوسف صفحہ ۶۲ کا حوالہ دیا ہے۔اس کی کیفیت یہ ہے کہ قاضی صاحب نے ہارون الرشید کی فرمائش سے مال گزاری اور جزیہ وغیرہ کے متعلق ایک دستور العمل لکھ کر پیش کیا تھا۔ اس میں ایک موقع پر ایک عنوان قائم کیا ہے۔ اور اس کے ذیل میں ہارون الرشید کو مخاطب کر کے لکھا ہے کہ فلان فلاں محصول نہ لیے جائیں۔ اس کے ذیل میں لکھتے ہیں ۔۔۔ فانہ بلغنی ان الرجل من ھم یاتی (الی ۱ٰخرہ) مجھ کو خبر لگی ہے کہ کوئی شخص جب ان کے (الی اخرہ) اس عبارت میں بلکہ اس موقع پر بنو امیہ کا مطلق ذکر نہیں، قاضی صاحب ہارون الرشید کو مخاطب کر کے اس کے عاملوں کے حال لکھتے ہیں۔ مصنف نے اس کو بنو امیہ کے زمانے سے منسو ب کر دیا ہے۔ (۲) مصنف اسی عنوان کے ذیل میں (صفحہ ۱۳) بنو امیہ کے بہت سے مظالم گنا کر لکھتا ہے۔ و فی کلام القاضی ابی یوسف فی عرض وصیتہٰ للرشید بشان عمال الخراج مایبین الطرق التی اولئک الصغار یجمعون الا موال بھا ۔(کتاب الخراج ص ۶۱،۶۲)۔۔۔۔ قاضی صاحب نے لکھ ہے کہ(مصنف نے وہ تمام عبارت نقل کی ہے۔) کہ یہ عمال رعایا کو دھوپ میں بٹھاتے تھے اور ان کے گلے میں مٹکے لٹکاتے تھے۔ اور اس طرح زنجیروں میں جکڑتے تھے کہ وہ نماز نہیں پڑھ سکتے تھے۔لیکن اس میں ایک حرف بھی بنو امیہ کے متعلق نہیںہے۔قاضی صاحب نے علانیہ ہارون الرشید کو مخاطب کر کے اس کے عاملوں کا حال لکھا ہے۔ اسی بنا پر اسی عنوان کے ذیل میں ہارون الرشید کو مخاطب کیا ہے۔کہ کاش تو مہینہ دومہینہ میں ایک دفعہ بھی دربار کرتا اور لوگوں کی فریاد سنتا،اس کے بعد لکھتے ہیں۔ ولعلک ل اتجلس الا مجلسا اومجلسین حتی یسیر ذالک فی المصار والمدن فیخاف الظالم وقوفک علی ظلمہ فلا یجتری علی الظلم ، اور غالبا تو ایک ہی دو اجلاس کرتا تو تمام ملک میں یہ خبر پھیل جاتی،اور ظالموں کو یہ ڈر ہوتا کہ تجھ تک خبر نہ پہنچ جائے۔اس بنا ء پر ظالم کو ظلم پر جرات نہ ہوتی۔ مصنف نے جا بجا عباسیوں کے عدل وانصاف کی بے انتہا تعریف کی ہے ۔لیکن عباسیوں کا سر تاج ہارون الرشید تھا،اور اس کے زمانے کے عمال کا یہ حال ہے، ہمارے مصنف نے ان سب کو بنو امیہ کے اعمال میں داخل کر دیا۔ کیا دنیا میں اس سے زیادہ کذب وافتراء کی مثال مل سکتی ہے۔ (۳) مصنف نے لکھا ہے کہ عباسیوں کے زمانے میں ایرانیوں نے یہ خیال کیا کہ جب تک عرب اور حرم کعبہ کا اثر کم نہ کیا جائے گا۔ ہم کو کام یابی نہ ہوگی۔اس لیے انہوں نے خلیفہ منصور کو آمادہ کیا کہ عراق میں کعبہ کا جواب بنائے۔اور لوگوں سے اس کا حج کرائے۔چنانچہ اس نے کعبہ کی تحقیر کے لئے ایک عمارت بنائی جس کا نام قبئہ خضرا ء تھا۔ مصنف کے اخیر الفاظ یہ ہیں۔ فحبب بعضھم الی المصوران یستبدل الکبعۃ بما یقوم مقامھا فی العراق وتکون حجا للناس فبنی بناء اسناء القبۃ الخضرا ء تصغیرا للکعبۃ (تمدن اسلام حصہ دوم ص ۳۰) اسی بناء پر بعضوں نے منصور کو اس طرف رغبت دلائی کہ وہ عراق میں کعبہ کا جواب بنائے اور لوگوں سے اس کا حج کرائے۔ چنانچہ اس نے کعبہ کی حقارت کے لئے قبئہ خضرا ء بنایا۔ اس عبارت کے خاتمہ پر حاشیہ میں طبری صفحہ (۱۹۷) کا حوالہ دیا ہے۔ اس واقعہ کی حقیقت یہ ہے کہ جب خلیفہ منصور کے مقابلہ میں محمد نفس زکیہ نے علم بغاوت بلند کیا تو ایک خطبہ دیا ،جس میں یہ الفاظ تھے۔ اما بعد ایھا الناس کان من امر ھذا الطاغیۃ عدواللہ ابی جعفر ما لم یخف علیکم من بنائہ القبۃ الخضرا ء التی بنا ھا معاندا للہ فی ملکی وتصغیرا للکعبۃ الحرام (طبری ص ۱۹۷) حمد خدا کے بعد اے صاحبو اس سرکش (منصور) دشمن خدا کا فعل آپ سے مخفی نہیں کہ اس نے قبئہ خضرا بنایا ہے۔ جس سے خدا کی دشمنی اور کعبہ کی حقارت مقصود ہے۔ یہی خطبہ ہے ،جس کا مصنف نے حوالہ دیا ہے۔لیکن یہ منصور کے ایک دشمن کے الفاظ ہیں۔ کیا اس سے کسی تاریخی واقعہ کا اثبات ہو سکتا ہے۔منصور کا زمانہ آئمہ مجتہدین، محدثین اور فقہا سے معمور تھا۔ کیا اس زمانے میں کسی کوجرات ہو سکتی تھی کہ کعبہ کا جواب بنائے۔ کیا ایسا خلاف امکان واقعہ صرف ایک مخالف کی شہادت سے ثابت کیا جا سکتا ہے۔لیکن فرض کر لو کہ مخالف کے الفاظ صحیح بھی ہیں،تو اس کا صرف یہ مطلب ہے کہ منصور نے یہ عمارت کعبہ کی تحقیر کے لئے بنائی ہے۔ اس میں یہ الفاظ کہاں ہیں کہ لوگوں نے منصور کو یہ تر غیب دی کہ عراق میں کعبہ کا جواب بنائے اور لوگوں سے حج کرائے، طبری میں اس عبارت کا ایک حرف بھی نہیں۔ (۴) حصہ دوم صفحہ ۳۰ میں لکھا ہے کہ خلیفہ منصور نے مدینہ منورہ میں دریا کی طرف سے غلہ وغیرہ جانا بند کر دیا تھا۔ جس سے غرض یہ تھی کہ حرمین کی وقعت کم ہو جائے،اسی بنا ء پر لوگوں نے منصور سے بغاوت کی،اور محمد بن عبد اللہ کے ہاتھ پر بیعت کی۔ منصور کو اس کاروائی سے جو مشکلیں اٹھانا پڑیں۔وہ اس کے جانشینوں کے لئے عبرت کا سبق تھیں۔اس لیے اس کے جانشین مہدی نے اس کی تلافی کی۔ اس واقعہ میں کس قدر فریب اور خدع سے کام لیا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ محمد بن عبد اللہ ایک مدت سے خلافت کا خیال پکا رہے تھے۔جب انہوں نے علانیہ علم بغاوت بلند کیا تو چونکہ وہ مدینہ منورہ میں مقیم تھے۔ اس لیے منصور نے وہاں رسد کا بھیجنا بند کرا دیا،طبری میں ہے کہ: فخبرہ بخروج محمد فقال المنصور نکتب الساعۃ الی مصر ان یقطع عن الحرمین المادۃ ثم قال انما ھم فی مثل حرجۃ اذا انقطعت عنھم المادۃ۔۔۔۔۔۔ جب منصور کو محمد کی بغاوت کی خبر دی گئی تو اس نے کہا کہ ابھی میں مصر کو خط لکھ دیتا ہوں کہ وہاں سے جو حرمین کو مدد آتی ہے۔ بند کردی جائے۔جب یہ مدد بند کر دی جائے گی تو وہ بے دست وپا ہو جائیں گے۔ یہی مورخ ایک دوسرے موقعہ پر لکھتا ہے کہ لما قتل محمد امر ابو جعفر بالبحر فاقفل علی اھل المدینۃ فلم یحمل الیھم من ناحیۃ الجار شئی۔۔۔ جب محمد قتل کر دیئے گئے تو ابو جعفر منصور نے حکم دیا کہ جار کی بندرگاہ سے مدینہ کوکوئی چیز نہ جانے پائے۔ ان تمام عبارتوں سے صاف ثابت ہے کہ منصور نے محمد کی بغاوت کو فرو کرنے کے لئے یہ حکم دیا تھا۔ مصنف کی یہ دروغ بیانی دیکھو کہ اس واقعہ کو مقدم قرار دے کر اسی کو محمد کی بغاوت کا سبب قرار دیا ہے۔ اور کہتا ہے کہ اہل عرب نے اسی بناء پر محمد سے بیعت کی۔اس کے علاوہ یہ بغاوت فرو کرنے کی ایک تدبیر تھی۔اس کو حرمین کی تحقیر سے کیا تعلق ہے؟۔ مصنف کے کذب وافترا،فریب واتدلیس، غلط استدلالی اگر چہ الگ الگ عنوان قائم کر کے تفصیل سے لکھے جا سکتے ہیں۔ لیکن ناظرین کو اس سے چنداں دل چسپی نہ ہوگی۔اس کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ مصنف نے مسلمانوں پر جو نکتہ چینیاں کی ہیں، ان کا اظہار کیا جائے اور اسی کے جواب کے ضمن میں مصنف نے یہ تمام کار نامے دکھائے ہیں۔مصنف کا اصل مقصد اس کتاب لکھنے سے امور ذیل کا ثابت کرنا ہے۔ کتاب کے چوتھے حصے صفحہ ۵۸ میں مصنف نے ایک عنوان قائم کیا ہے۔ عصبیۃ العرب علی العجم‘‘ اس میں ثابت کیا ہے۔کہ اہل عرب تمام قوموں کو نہایت حقیر سمجھتے تھے۔ان کا مقولہ تھا کہ نماز صرف تین چیزوں سے ٹوٹتی ہے۔ گدھا، کتا، اور غیر عرب‘‘۔غیر قوموں کے ساتھ ایک صف میں چلنا گوارا نہیں کرتے تھے۔ ان کا نام کنیت کے ساتھ نہیں لیتے تھے۔ان کو مذہبی عہدے نہیں دیتے تھے۔ خلفا کی جو اولاد عجمی عورت سے ہوتی تھی، ان کو منصب خلافت سے محروم کرتے تھے۔امیر معاویہ نے یہ قصد کیا تھا کہ تمام عجمیوں کو یا ایک حصہ کو قتل کر دیں،وغیرہ وغیرہ۔ مصنف نے ان واقعات میں حسب معمول ان سب ہتھیاروں سے کام لیا ہے۔ جو فطرت نے اس کو عنایت کیے ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ خلفائے بنو امیہ کے زمانے میں شعوبیہ ایک گروہ تھا جو اہل عرب کی سخت تحقیر کرتا تھا۔ ان کے مقابلے میں عرب میں بھی ایک جماعت تھی،جو عجم کو حقیر سمجھتی تھی،تاریخ سے یہ بالکل معلوم نہیں ہوتا کہ ان دونوں میں سے ابتدا کس نے کی؟۔ عرب وعجم دونوں مغرور تھے۔ عجم کواپنی قدیم عظمت اور شان وشوکت پر ناز تھا۔عرب اپنی شجاعت اور آزادی کا دم بھرتے تھے۔اسلام کے بعد دونوں کا اختلاط ہوا تو دونوں فرقے خود بخود پیدا ہو گئے۔ مصنف کا دعویٰ ہے کہ عرب اور بنو امیہ کے ظلم وتحقیر نے اس گروہ کو پیدا کیا تھا۔ لیکن عباسیہ تو مصنف کے نزدیک عدل اور انصاف کے معیار تھے۔ اور ان کے زمانے میں بقول مصنف (نقل کفر کفر نہ باشد) عرب کی عزت کتے کے برابر رہ گئی تھی۔ باوجود اس کے شعوبیہ کے مشاہیر اسی زمانہ میں پیدا ہوئے اور اسی زمانہ میں انہوں نے عرب کی برائیوں پر مفصل کتابیں لکھیں، ابو عبیدہ مثنیٰ جس نے عرب کے ایک ایک قبیلہ کے مطاعن پر الگ الگ کتابیں لکھیں،عباسیہ ہی کے زمانہ میں تھا۔ اعلان شعوبی، مامون الرشید کے دربار کا ملازم تھا۔ بنو امیہ کے جرم کا کفارہ عباسیہ کے عہد میں کیوں لیا گیا۔ ایک بات خاص لحاظ کے قابل ہے کہ جہاں تک پتہ لگتا ہے۔ اہل عرب میں سے کسی نے کوئی تصنیف ابتدا نہیں لکھی، بلکہ شعوبیہ کی تصنیفات کا جواب لکھا ہے۔بخلاف اس کے شعوبیہ کی بیسیوں کتابوں کے نام تاریخوں میں ملتے ہیں۔ ابو عبیدہ اور علان شعوبی کے علاوہ سہل بن ہارون جو مامون الرشید کے کتب خانہ پر ما مور تھا۔ اس کے تذکرہ میں لکھا ہے:۔ ۱؎ کتاب الفہرست میں ان سب تصنیفات کے نام لکھے ہیں۔ شعوبی المذھب شدید العصبیۃ علی العرب و لہ فی ذالک کتب کثیرۃ ۔(فہرست ص ۱۳۰)۔۔۔۔۔ وہ مذہبا شعوبی تھا۔اور عرب سے سخت تعصب رکھتا تھا۔اور اس مضمون میں اس کی بہت سی کتابیں ہیں۔۔ بہر حال مقصود یہ ہے کہ عرب میں جو لوگ قومی تعصب رکھتے تھے۔وہ چند افراد ہیں ،عام عرب نہ تھے۔ عقد الفرید میں ایک خاص باب قائم کیا گیا ہے۔ جس کی سرخی ’’معتصبین عرب ہے۔‘‘ اس کے تحت میں ان لوگوں کے اقوال لکھے ہیں۔ مصنف نے عربوں کے متعصبانہ اقوال وافعال جو نقل کیے ہیں۔قریبا کل یہیں سے لیے ہیں۔ لیکن عقد الفرید میں شروع ہی میں تصریح کر دی ہے کہ: قال اصحاب العصبیۃ من العرب۔۔۔۔ عرب میں جو متعصب عرب ہیں،انہوں نے یہ کہا ہے ۔ اس سے ظاہر ہوگا کہ یہ ایک گروہ خاص کے خیالات ہیں۔ مصنف نے خیانت اور ریاکاری سے ان باتوں کو عام عرب کی طرف منسوب کر دیا ہے، چنانچہ کہتا ہے:۔ وکان العرب فی ایام ھذا الدولۃ یترفعون عن سائر الامم من الموالی واھل الذمۃ ویعدون انفسھم فوقھم جبلۃ وخلقۃ وفضلا وکان العربی یعد نفسہ سید ۱ علی غیر العربی ویری انہ خلق للسیادۃ و ذالک لل خدمۃ و کان العرب سکروا الخمرۃ السیادۃ والنصر بارتقائھم من رعایۃ الابل الی سیاسۃ المل (حصہ چہارم ص ۵۹ ،۶۰)،،،، عرب اس سلطنت (بنو امیہ) کے زمانے میں تمام قوموں سے اپنے آپ کو دور کھینچتے تھے۔ اور اپنے آپ کو فطرت میں،خلقت میں، فضیلت میں سب سے فائق سمجھتے تھے۔ اور عربی اپنے آپ کو غیر عربی کا آقا سمجھتا تھا۔ اور جانتا تھا کہ میں سرداری کے لیے پیدا ہوا ہوں۔اور عجم خدمت گاری کے لیے عرب افسری اور فتح کے نشہ میں اس وجہ سے چور تھے کہ وہ اونٹ چراتے چراتے حکومت کے رتبہ کو پہنچے تھے۔مصنف نے جس قدر سندیں نقل کی ہیں،سب ایک خاص گروہ یا خاص اشخاص کے اقوال ہیں۔مصنف ان کو تحریف پسندی کی بنا پر عام کر لیتا ہے۔اور ان سے استدلال کرتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلام کو اس پر ناز ہے کہ اس نے عرب وعجم اور نسل وملک کی تمیز اٹھادی اور تمام انسانوں میں مساوات قائم کر دی۔اسلامی تاریخیں ان واقعات سے معمور ہیں ،لیکن افسوس کہ مصنف کی غلط نمائی ان کا ظاہر کرنا پسند نہیں کرتی۔ عربی زبان میں مولیٰ ایک لفظ ہے ،جس کے معنے وسیع ہیں۔یعنی غلام کو بھی کہتے ہیں۔آزاد کردہ غلام کو بھی کہتے ہیں۔اور عرب کے سوا اور قومیں جوایمان لائیں ،ان کو بھی کہتے ہیں۔ مصنف نے اس کی وسعت سے کام لیا ہے۔ یعنی جہاں یہ دعویٰ کیا ہے کہ اہل عرب تمام غیر قوموں کو حقیر سمجھتے تھے۔ اس کے ثبوت میں وہ اقوال بھی پیش کیے ہیں،جو غلاموں کے حق میں تھے۔ تاہم ہم اس دائرہ کی وسعت کو کم نہ کریں گے۔اور دکھائیں گے کہ عربوں میں غیر قوموں اور غلاموں کی کیا وقعت تھی؟َ۔۔ عرب میں اور عام مسلمانوں میں عزت کا اصلی معیار مذہبی عزت تھا۔ یعنی جن کومذہبی عزت حاصل ہے۔ ان کو ہر قسم کی عزت حاصل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام میں مجتہدین،فقہا اور علمائے مذہبی کو جو اعزاز حاصل تھا۔ کسی کو کبھی نہیں ہوا۔ مصنف نے نہایت زور شور سے اس بات کو ثابت کیا ہے کہ عرب کا غرور اور غیر قوموں کی تحقیر بنو امیہ کے زمانہ میں انتہا درجہ تک پہنچ گئی تھی۔ چنانچہ لکھتا ہے۔ فلما بلغ بنو امیۃ فی الاستخفاف بغیر العرب (حصہ چہارم ص ۶۰) پھر جب بنو امیہ نے عرب والوں کی تحقیر کی انتہا کر دی۔ اس بنا ء پر ہم اس زمانہ کو اس بحث کا معیار قرار دیتے ہیں۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ حدیث وفقہ کا شباب تھا۔ اور بڑے بڑے محدثین وآئمہ فن تمام صدر مقامات میں فقہ وحدیث کے درس وتدریس میں مشغول تھے۔ یہ لوگ ان مقامات میں پیشوا تسلیم کیے جاتے تھے۔ اور تمام قوم ان کا ادب کرتی تھی۔اور سلطنت کی طرح سے ان کا احترام کیا جاتا تھا۔اس زمانے میں جو مقامات مذہبی علوم کے تخت گاہ تھے۔ مکہ، یمن، شام، بصرہ، کوفہ، خراسان جزیرہ تھے۔ ان مقامات میں ج ولوگ مذہبی علوم کے تاج دار تھے۔ ان کے نام یہ ہیں۔ مکہ معظمہ عطا ء ابن ابی ریاح،یہ امام ابو حنیفہ کے استاد تھے، (معارف) یمن طاؤس،ہشام بن عبد الملک نے ان کے جنازہ کی نماز پڑھائی۔ شام مکحول،امام زہری کا قول ہے کہ امام صرف چار ہیں،ان میں سے ایک مکحول ہیں۔ مصر یزید بن ابی حبیب، مصر میں فقہ کے معلم اول یہی ہیں، عمر بن عبد العزیزؓ نے ان کو مصر میں فتوی دینے پر مقرر کیا تھا،۔ جزیرہ میمون بن مہران، عمر بن عبد العزیزؓ نے ان کو جزیرہ کا افسر خراج مقرر کیا تھا۔ (معارف) خراسان ضحاک بن مزاحم ، مشہور مفسر ہیں۔ بصرہ امام حسن بصری، مشہور امام ہیں۔ کوفہ ابراہیم نخفی ، ہمارے مصنف (جرجی زیدان) کو توجہ سے سننا چاہیئے کہ ابراہیم نخفی کے سوا یہ سب عجمی غلام تھے۔ اور یہ سب عبد الملک بن مروان کے زمانہ میں تھے۔ جو مصنف کے نزدیک بد ترین خلفا ء میں سے تھا، حج کے زمانہ میں مکہ معظمہ میں منادی پکارتا تھا کہ عطا بن ابی ریاح کے سوا کوئی فتویٰ دینے نہ پائے۔ ابن خلکان میں ہے ،(تذکرہ عطا ابن ابی ریاح) قال ابرھیم بن عمرو بن کیسان اذکر ھم فی زمان بنی امیۃ یامرون فی الحج صایحا یصیح لا یفتی الناس الاعطا بن ابی ریاح۔۔۔ ابراہیم کا بیان ہے کہ مجھ کو یاد ہے کہ حج کے زمانے میں ایک شخص کو مقرر کرتے تھے جو یہ پکار کر کہتا تھا کہ عطاء کے سوا کوئی شخص فتویٰ نہ دینے پائے۔ یزید بن عبد الملک جب خلیفہ ہوا تو عمر بن ہبیرہ کو عراق کی گورنری ملی، تو ۱۰۳ھ؁ میں اس نے امام حسن بصری، شبعی، اور ابن سیرین کو بلا بھیجا،اور ان سے کہا کہ یزید بن عبد الملک کے جو احکام آتے ہیں۔ مجھ کو ان کی تعمیل کرنی پڑتی ہے۔ آپ صاحبوں کی کیا رائے ہے؟۔ امام حسن بصری نے کہا،ابن ہبیرہ ،تجھ کو خدا سے ڈرنا چاہیئے۔ نہ کہ یزید بن عبد الملک سے۔ابن ہبیرہ نے اس پر حسن بصری کو صلہ دیا۔ (ابن خلکان تذکرہ حسن بصری)۔ ہمارے مصنف کو دوبارہ سننا چاہیئے کہ یہ تینوں شخص جو اس حیثیت سے بلائے گئے تھے۔ کہ ان کی آواز قوم کی مذہبی آواز ہے۔ان میں سے دو شخص یعنی حسن بصری اور ابن سیرین غلام تھے۔ ۱۰۶ ھ؁ میں جب طاؤس کا مکہ میں انتقال ہوا تو جنازہ میں لوگوں کی یہ کثرت ہوئی کہ جنازہ چل نہیں سکتا تھا۔ مجبورا ابراہیم بن ہشام گورنر مکہ نے پولیس سے کام لیا۔ عبد اللہ امام حسن علیہ سلام کے صاحب زادے جناز ہ کاندھے پر لے کر چلے۔ اور خلیفہ ہشام بن عبد الملک نے نماز جنازہ پڑھائی ۱؎ کیا اس سے زیادہ کسی کی عزت کی جا سکتی ہے؟۔ تابعین ۲؎ کاگروہ اسلام میں ایک خاص درجہ رکھتا ہے۔اس گروہ میں بڑے بڑے امام اور پیشوا گزرے ہیں۔ان سب میں سب سے عالی رتبہ حضرت سعید بن جبیر تھے۔ وہ حبشی غلام تھے، مصنف نے دعویٰ کیا ہے کہ اہل عرب غیر عرب کے پیچھے نماز نہیں پڑھتے تھے۔ اور یہ تعصب سب سے زیادہ بنو امیہ کے زمانے میں تھا۔لیکن خود حجاج بن یوسف نے سعید بن جبیر کو کوفہ میں نماز کا امام مقرر کیا تھا۔حالانکہ کوفہ عرب کی خاص آبادی تھی۔ علم ادب کا امام مطلق حماد راویہ تھا۔ سبہ معلقہ کے قصیدے اسی نے مدون کیے۔ علامہ ابن خلکان اس کی نسبت لکھتے ہیں:۔ و کانت ملوک بنی امیۃ تقدمہ وتوثرہ وتستزیرہ۔۔۔۔ سلاطین بنی امیہ اس کی عزت کرتے تھے۔اور اس کو اوروں پر ترجیح دیتے تھے۔ اور اس کی ملاقات کی خاہوش کرتے تھے۔ ہشام بن عبد الملک جب خلیفہ ہوا تو پانسو اشرفیاں زاد راہ بھیج کر اس کو دربار میں طلب کیا۔ چنانچہ ابن خلکان نے اس واقعہ کو تفصیل سے لکھا ہے۔ یہ معزز اور محترم فاضل ویلمی غلام تھا۔ سلیمان اعمش جو امام حدیث اور سفیان ثوری کے استاد تھے۔وہ بھی عجمی غلام تھے، اور ان کا رتبہ یہ تھا کہ جب خلیفہ ہشام بن عبد الملک نے ان کو خط لکھا کہ ’’حضرت عثمان کے مناقب اور حضرت علی علیہ سلام کے معائب لکھ کر میرے پاس بھیج دے۔‘‘ تو انہوں نے ہشام کے خط کو بکری کے منہ میں دے دیا اور وہ چبا گئی،اور قاصد سے کہا کہ ہشام سے کہنا اس خط کا یہ جواب ہے۔ (ابن خلکان تذکرہ سلیمان اعمش) حدیث وروایت کے جس قدر سلسلے ہیں،ان میں ایک سلسلہ یہ ہے کہ جس کو محدثین کی زبان میں سلسلہ زرین کہتے ہیں۔ اس سلسلہ کے راوی اول نافع ہیں جو ویلمی غلام تھے۔ امام مالک انہی کے شاگرد تھے۔ حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ سے جس قدر حدیثیں مروی ہیں۔ ان کا مدار اعظم یہی نافع ہیں۔امام مالک ان ہی کے شاگرد تھے۔ انہوں نے ۱۱۷ھجری میں وفات پائی یعنی ہشام بن عبد الملک کے زمانہ خلافت میں وفات پائی۔ غرض کہاں تک استقصا کیا جائے۔بنو امیہ کے زمانے کے سینکڑوں اہل عجم، اور غلام اور غلام زادوں کے نام گنا سکتے ہیں۔ جو عرب کے صدر مقامات یعنی مکہ ،یمن، مدینہ، بصرہ، کوفہ میں مرجع عام تھے۔ تمام عرب ان کی عزت کرتے تھے۔اور خود سلطنت ان کا احترام کرتی تھی۔ اس میں شبہ نہیں کہ عرب کو اس حالت پر غیرت آتی تھی لیکن یہ رشک وحسد نہ تھا۔ بلکہ غبطہ تھا اور وہ خود اعتراف کرتے تھے۔ع کہ درین راہ فلان بن فلان چیزے نیست ایک دفعہ ہشام بن عبد الملک نے امام زہری سے پوچھا کہ آج مکہ کارئیس کون ہے،زہری نے کہا عطا، اور یمن میں زہری نے کہا طاؤس۔اسی طرح ہشام نے مصر ،جزیرہ خراسان، بصرہ اور کوفہ کے متعلق پوچھا، زہری نے کہا مکحول، یزید، ہیمون بن مہران، ضحاک کا نام لیا۔ ہشام ہر ایک کے نام پر یہ بھی پوچھتا جاتا تھا کہ یہ عرب ہیں یا عجم، زہری کہتے جاتے تھے کہ عجم جب ابراہیم نخفی کا نام لیا اور کہا وہ عرب ہیں تو ہشام نے کہا اب دل کو تسکین ہوئی ہے۔پھر کہا خدا کی قسم موالی (عجمی) عرب کے سردار بن گئے ہیں۔ان کا خطبہ پڑھا جائے گا۔ زہری نے کہا امیر المومنین یہ دین ہے جو اس کی حفاظت کرے گا، پار ہو جائے گا اور جو اس کو ضائع کرے گا گر جائے گا۔ ۱؎ اسی واقعہ میں یہ بھی مذکور ہے کہ جب عطاء کا نام آیا تو ہشام نے پوچھا کہ عطاء کو یہ ریاست کیوں کر عطا ہوئی ؟۔ زہری نے کہا ،دیانت و روایت سے۔ہشام نے کہا ہاں جو شخص صاحب روایت اور دیانت ہوگا ،اس کو رئیس ہونا ہی چاہیئے۔ واقعات مذکورہ بالا سے ظاہر ہوتا ہے کہ خود بنو امیہ کے زمانے میں عجمیوں اور عجمی غلاموں کی کیا عزت تھی۔؟۔عرب ان کا وقار کرتے تھے۔حرم محترم میں ان کے سوا کسی کو فتویٰ کی اجازت نہ تھی۔کوفہ عرب کی خاص آبادی تھی۔ وہاں کا امام عجمی غلام تھا۔ خلفائے بنو امیہ ان کو دربار میں بلاتے تھے۔اور ان کی نہایت عزت کرتے تھے۔ حدیث وفقہ میں عرب ان کو اپنا پیشوا تسلیم کرتے تھے۔ اس کے مقابلہ میں ہمارے مصنف جرجی زیدان کے ان اقوال پر نظر ڈالو کہ عرب تمام موالیوں کو ذلیل کرتے تھے۔ ان کو گدھے اور کتے کے برابر سمجھتے تھے۔ ان کے پیچھے نماز پڑھنا گوارا نہیں کرتے تھے۔ان کا نام کنیت کے ساتھ نہیں لیتے تھے۔ راستہ میں ان کے برابر چلنا گوارا نہیں کرتے تھے۔ فتح المغیث شرح الفقیۃ الحدیث للسخاوی، مطبوعہ لکھنئو ص ۴۹۸،۴۹۹۔ مصنف کی خیانت اب ہم یہ دکھانا چاہتے ہیں کہ مصنف نے کن خیانتوں سے کام لیا ہے۔ ان کی تفصیل حسب ذیل ہے۔ مصنف نے لکھا ہے کہ:۔ منعوا غیر العرب من المناصب الدینیۃ المہمہۃ کالقضا ء فقالوا لا یصلح للقضا ء الا عربی۔۔۔۔۔۔ تمدن اسلام حصہ چہارم ص ۶۰ عرب کے سوا اور لوگوں کو مثلا قاضی ہونے سے روکتے تھے اور کہتے تھے کہ عہدہ قضا کے قابل صرف عرب ہیں۔ اس کی کیفیت یہ ہے کہ ابن خلکان نے سعید بن جبیر کے حال میں لکھا ہے کہ جب حجاج نے ان کو گرفتار کیا تو بلا کر یہ کہا کہ کیا یہ صحیح نہیں کہ میں نے تم کو کوفہ میں بلا کر امامت پر مقرر کیا۔اور وہاں ایک شخص بھی عرب کے سوا نہ تھا۔ سعید نے کہا بے شک،پھر حجاج نے کہا جب میں نے تم کو کوفہ کا قاضی مقرر کیا تھا تو سب لوگ چیخ اٹھے تھے کہ قضا پر صرف عرب مقرر کیا جا سکتا ہے۔ اسی بناء پر میں نے ابو بردہ کو قاضی مقرر کیا۔لیکن کہہ دیا کہ تمہارے مشورہ کے بغیر کوئی فیصلہ نہ کرے۔ یہ ظاہر ہے کہ جس شہر میں عربوں کے سوا کوئی آباد نہ ہو وہاں مقدمات کا فیصل کرنے کے لئے صرف وہی شخص موزوں ہو سکتا ہے۔جو وہاں کااہل زبان ہو۔ اور ان کے راہ رسم سے واقف ہو۔اسی بنا پر اہل کوفہ نے سعید بن جبیر کے قاضی ہونے سے انکار کیا تھا۔ورنہ اگر قومی تحقیر کی بنا پر انکار ہوتا تو نماز کی امامت پر اس سے زیادہ اعتراض کاموقع تھا۔ امام ابو حنیفہ خالص عجمی تھے۔ ان کو بنو امیہ کے زمانے میں گورنر عراق نے اصرار کر کے قاضی مقرر کرنا چاہا ۱؎ ،لیکن امام صاحب نے قبول نہ کیا۔ اگر عرب کے سوا اور کوئی قاضی نہیں ہو سکتا تو امام صاحب کے تقرر پر اصرار کیو ں کیا جاتا۔ مصنف کی خیانت دیکھو کوفہ کے خاص واقعہ کو جو خاص اسباب پر مبنی تھا۔ عام واقعہ قرار دیتا ہے۔اور عام عرب کی طرف منسوب کرتا ہے۔ مصنف نے لکھا ہے:۔ وحرمو منصب الخلافۃ علی ابن الامۃ ولو کان ابو ہ قرشیا (حصہ ۴ ،،ص ۶۰) اور لونڈی زادے کو گو اس کا باپ قریش سے ہو منصب خلافت سے محروم کرتے تھے۔ مصنف نے اس بات کے ثبوت میں ہشام بن عبد الملک کا قول پیش کیا ہے۔ کہ ہشام بن عبد الملک نے حضرت زید بن علی ؓ سے کہا کہ کیا تم خلافت کا خیال رکھتے ہو؟۔ لیکن تم اس کے اہل نہیں۔کیونکہ تم لونڈی کے پیٹ سے ہو۔ بے شبہ ہشام بن عبد الملک کا یہ قول ہے۔ لیکن اس کے جواب میں زید ؓ نے جو کہا اس کو مصنف نے قلم انداز کر دیا۔ زید نے کہا ہاں، لیکن حضرت اسماعیل علیہ سلام لونڈی کے پیٹ سے تھے۔ اور ان کے بھائی اسحاق نجیب الطرفین تھے۔ تاہم خدا نے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جو خیر البشر تھے۔ اسماعیلؑ ہی کی نسل سے پیدا کیا۔ غرض یہ دو حریفوں کے اقوال ہیں،ان میں سے کسی ایک سے کوئی عام خیال ثابت نہیں کیا جا سکتا۔ خاص خاص اشخاص سے بحث نہیں ہے۔ بلکہ بحث یہ ہے کہ عام عرب کا خیال تھا کہ ہشام بن عبد الملک اور زید ؑ دونوں میں سے کسی شخص کا بیان عرب کی عام زبان نہیں ہے۔ ہشام بن عبد الملک کا قول اگر سند کے قابل ہے تو اس سے زیادہ حضرت زید ؓ کا قول سند کے قابل ہے۔ جو خاندان نبوت سے تھے۔اور امام تھے۔ اور آج بھی یمن میں ہزاروں ،لاکھوں آدمی انہی کو امام مانتے ہیں۔ بعض مصنفوں نے لکھا ہے کہ خلفائے بنو امیہ لونڈیوں کو حقیر سمجھتے تھے۔ لیکن محقیقین نے قدیم زمانہ میں اس کی تغلیط کر دی ہے۔ اوراس غلط خیال کا منشا ء بتا دیا ہے۔ چنانچہ عقد الفرید میں مذکور ہے، قال الاصمی کانت بنو امیۃ لا تبایع لبنی امہات الاولاد فکان الناس یرون ان ذالک لا ستھانۃ بھم ولم یکن لذالک ولکن لما کانوا یرون ان زوال ملکھم علی ید ابن ام ولد (عقد الفرید ،ج ۳ سوم ص ۲۳۰ مطبوعہ مطبع شرفیہ مصر)۔۔۔۔۔۔ حقیقت یہ ہے کہ مقابل کے حریف خود غرضی کی بنا پر ہر قسم کے دلائل پیش کرتے ہیں۔ مدعیان سلطنت نے یہ استدلال بھی پیش کیا ،لیکن فریق مخالف نے جو جواب دیا وہ لا جواب رہا۔ خلیفہ منصور کے زمانہ میں جب نفس زکیہ نے بغاوت کی تو اپنے استحقاق کی یہ دلیل بھی پیش کی کہ میں لونڈی زادہ نہیں ہوں۔منصور نے جواب میں لکھا لیکن تمہارے خاندان میں جو لوگ شرف وفضل میں ممتاز تھے۔وہ وہی تھے جو کنیز زادے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد خاندان نبوت میں کوئی شخص زہد وعبادت میں علی بن الحسینؑ (امام زین العابدینؑ) سے بڑھ کر کوئی پیدا نہیں ہوا۔ ان کی والدہ کنیز تھیں۔ اور ان کے بعد امام محمد باقر اور امام جعفر صادق سے بڑھ کر کوئی نہیں ہوا۔ اور یہ سب علی زین العابدینؑ ہی کی اولاد ہیں۔ سالم بن عبد اللہ بن عمرؓ لونڈی کے پیٹ سے تھے،خلیفہ ہشام بن عبد الملک جب مدینہ گیا تو ان کو بلا بھیجا۔ وہ اس وقت معمولی لباس میں تھے کہلا بھیجا کہ میں نہیں آسکتا۔ ہشام بن عبد الملک خود گیا اور دس ہزار روپے نذر کیے۔ حج کر کے پھر مدینہ گیا تو سالم بیمار تھے۔ خود عیادت کو گیا ۔وہ مر گئے تو خود نماز جنازہ پڑھائی۔ اور کہا میں نہیں جانتا کہ کس بات پر زیادہ مسرت کروں حج کرنے پر یا سالم کے نماز جنازہ پڑھنے پر۔۱؎ ہمارا مصنف کہتا ہے کہ بنو امیہ کنیزوں کی اولاد کو حقیر سمجھتے تھے۔ لیکن ہشام بن عبد الملک جیسا ایک نامور خلیفہ ایک کنیز زادہ کے نماز جنازہ پڑھانے کو حج کے برابر سمجھتا ہے۔ بنو امیہ مصنف کا سب سے بڑا مرکز نظر بنو امیہ کی ہجو وتحقیر ہے۔ اس بحث میں میں نے جی کھول کر زور طبع صرف کیا ہے۔ اور جس قدر کذب ،تحریف، تمویہ اور فریب ابن الا ثیر حالات بغاوت نفس زکیہ ۔ تدلیس، خدع، غلط بیانی کی قوت فطرت نے اس کو عطا کی تھی۔ سب صرف کر دی ہے۔کتاب کے چوتھے حصے میں بنو امیہ کی سفاکی، مذہب کی توہین، غیر قوموں پر ظلم اور سختی کے مستقل عنوان قائم کیے ہیں۔ اور ان پر دفتر کا دفتر لکھا ہے۔ بنو امیہ کی حمایت اور ہم دردی ہمارا کوئی فرض نہیں،اموی یا عباسی خلفا ء نہ تھے ،بلکہ سلاطین تھے۔ شخصی سلطنتوں میں جس قسم کے سلاطین ہوتے آئے ہیں ۔یہ بھی تھے، بایں ہمہ ہم کو جن اسباب نے مصنف کی پردہ دری پر آمادہ کیا وہ حسب ذیل ہیں۔ (۱) مصنف یہ کتاب عیسائی بن کر نہیں،بلکہ مورخ بن کر لکھتا ہے۔ اور اس حیثیت سے اس تصنیف کو تمام دنیائے اسلام کے سامنے پیش کرتا ہے۔اس لیے سب سے پہلے ہم کو یہ دیکھنا ہے کہ وہ اس فرض کو کہاں تک ادا کر سکا ہے۔دنیا کی سب سے بڑی خدمت سچائی کا پھیلانا ہے۔ اس لیے اگر مصنف نے غلط بیانی سے کام لیا ہے تو اس نے بنو امیہ کے ساتھ نہیں ،بلکہ لٹریچر کے ساتھ،تاریخ کے ساتھ بلکہ کل دنیا کے ساتھ برائی کی ہے۔ (۲) مصنف کا اصل مقصد بنو امیہ کی برائیاں ثابت کرنا نہیں ہے۔ بلکہ اس کا روئے سخن عرب کی طرف ہے۔وہ بتصریح کہتا ہے کہ بنو امیہ کی سلطنت خالص عربی سلطنت تھی۔ جس کی بنیاد تعصب اور سخت گیری تھی۔وہ عباسی حکومت کی تعریف کرتا ہے۔ اس لئے نہیں کہ وہ عباسی ہے، بلکہ اس لئے کہ وہ درحقیقت ایرانی حکومت ہے۔چنانچہ چوتھے حصے میں جہاں سلطنت عباسیہ کا ذکر شروع کیا ہے۔ اس کا عنوان یہ قائم کیا ہے۔ العصر الفارسی الاول ایرانی حکومت کا پہلا دور اس کے بعد لکھتا ہے کہ گو یہ عباسی سلطنت کا دور ہے۔ لیکن ہم نے اس کو ایرانی اس لئے کہا کہ کہ نظام حکومت ، اور وزرا ء وامراء وغیرہ سب ایرانی تھے۔ شاید یہ کہا جائے کہ خلفائے راشدین کی حکومت بھی خالص عربی حکومت تھی، بایں ہمہ مصنف اس کی تعریف کرتا ہے۔ اس لیے عام عرب پر اس کا اعتراض نہیں ہے۔ لیکن واقعہ یہ ہے کہ وہ خلفائے راشدین کے دور کو اصول فطرت کے موافق نہیں سمجھتا،بلکہ اس کو مستشنیات عامہ میں دا خل کرتا ہے۔ چنانچہ اس کے خاص الفاظ یہ ہیں۔ علی ان سیاسیۃ الراشدین علی الاجمال لیست مما یلایم طبیعۃ العمران اوتقضیہ سیاسۃ الملک فا ھل العلم بطبائع العمر لان لا یرون ھذا السیاسۃ لصلح لتدبیر الملک فی غیر ذالک العصر العجیب وان انقلاب تلک الخلافۃ الدینیۃ الی الملک السیاسی لم یکن منہ بہ (جلد چہارم ص ۳۸ ،۳۹)۔۔۔ (۳) بنو امیہ کے پردہ میں مصنف نے قرن اول کے عام مسلمانوں کی ہر قسم کی برائیاں ثابت کی ہیں۔اس لئے ایسے اتہامات کا رفع کرنا ہر مسلمان کا فرض ہے۔ (۴) جن باتوں نے اس کتاب کو تاریخی پایہ سے بالکل گرا دیا ہے۔ یعنی تحریف ،تعصب، کذب و خدع، ان کا سب سے زیادہ استعمال بنو امیہ ہی کے واقعات میں کیا گیا ہے۔ اس لئے اس کے ساتھ زیادہ توجہ اور اعتنا کی ضرورت ہے۔ مذہب کی توہین مصنف نے بنو امیہ کے حالات میں اس کا ایک عنوان قائم کیا ہے۔ کہ بنو امیہ مذہب کی توہین کرتے تھے۔ چنانچہ عنوان کے الفاظ یہ ہیں۔ الاستھانۃ بالقرآن والحرمین (حصہ چہارم ص ۴۸)۔۔۔۔ قرآن وحرمین کی توہین اس واقعہ میں مصنف نے نہایت مغالطہ کاری اور ملمع سازی سے کام لیا ہے۔اس نے پہلے یہ واقعہ لکھا ہے۔ کہ عبد الملک کو جب خلافت کی خبر پہنچی تو اس کی گود میں قرآن تھا۔ اس نے قرآن کو بند کر کے کہا ’’ یہ آخری ملاقات ہے ‘‘۔ اس کے بعد لکھتا ہے : اس کے بعد اس نے اپنے عامل حجاج کو اجازت دی کہ کعبہ پر منجیق نصب کر دے،اور ابن زبیر کو قتل کر دے،اور اس کا سر عین کعبہ کے اندر اپنے ہاتھ سے کاٹے۔ حالانکہ کعبہ حرم ہے،جس کے اندر اور اس کے حوالی میں لڑائی جائز نہیں۔لیکن ان لوگوں نے اس کو جائز رکھا،اور تین دنوں تک لوگوں کو قتل کرتے رہے۔ اور کعبہ کو ڈھا دیا۔حالانکہ ان کے نزدیک وہ خدا کا گھر تھا۔ اور کعبہ کے پتھروں اور پردوں میں آگ لگا دی گئی۔ جو کبھی اسلام میں نہیں ہوا تھا۔ اور مدینہ پہنچے،اور وہ ایک حرم ہے۔ اور وہاں کے لوگوں سے لڑے اور ان کا خون بہایا‘‘، الخ (حصہ چہارم ص ۷۸،۷۹،) جس فریب دہ ترتیب سے مصنف نے ان واقعات کو لکھا ہے،اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عبد الملک نے خلافت پانے کے ساتھ ہی توہین اسلام کو اپنا مقصد قرار دیا،اور اسی بناء پر کعبہ پر چڑھائی کی،اور کعبہ کو آگ لگا دی۔ اور ابن زبیر کو کعبہ کے اندر قتل کر دیا، وغیرہ، وغیرہ۔۔ واقعات یہ ہیں کہ عبد اللہ بن زبیر اور عبد الملک دونوں خلافت کے دعویدار تھے۔ اور اپنے اپنے فتوحات بڑھاتے جاتے تھے۔ عبد الملک نے تخت نشینی کے آٹھ سال بعد حجاج کے ذریعہ سے عبد اللہ ابن زبیر پر چڑھائی کی،انہوں نے مکہ میں بیٹھ کر مقابلہ کی تیاری کی۔حجاج نے محاصرہ کیا اور منجیق سے سنگ باری کی۔اسی اثناء میں حج کا زمانہ آیا۔حجاج نے حج کرنا چاہا،لیکن عبد اللہ ابن زبیر نے روکا۔ سنگ باری کی وجہ سے حاجیوں کو تکلیف تھی۔ عبد اللہ بن عمر نے حجاج کو کہلا بھیجا کہ لوگ طواف نہیں کر سکتے۔ حجاج نے سنگ باری بند کرا دی۔ حج کے بعد حجاج نے منادی کرا دی کہ لوگ وطن کو واپس نہ جائیں میں عبد اللہ ابن زبیر ؓ پر سنگ باری کروں گا۔ فقہ کا ایک مسئلہ یہ ہے کہ اگر کوئی باغی کعبہ میں پناہ لے تو اس کو گرفتار کرنا یا اس پر حملہ کرنا نا جائز ہے۔ بلکہ حرام ہے۔ بہت سے فقہا اس کو جائز سمجھتے ہیں۔ بنو امیہ کے طرف دار عبد اللہ ابن زبیر ؓ کو باغی سمجھتے تھے۔ باین ہمہ حجاج نے کعبہ پر سنگ باری نہیں کی۔ بلکہ عبد اللہ ابن زبیر نے کعبہ کو گرا کر جو اس میں اضافہ کر لیا تھا۔اس کو نشانہ بنایا۔ اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ اسلام کے زمانہ سے پہلے سیلاب کی وجہ سے کعبہ جب گر گیا تو قریش نے دوبارہ تعمیر کی۔ لیکن چونکہ مالی حالت نے زیادہ اجازت نہ دی،تھوڑا سا حصہ تعمیر نہ ہو سکا۔قریش نے زمین کا اس قدر حصہ خالی چھوڑ دیا۔اور اس کے گرد دیوار کھچوا دی۔ جس کو آج حطیم کہتے ہیں۔ عبد اللہ ابن زبیر ؓ نے جب دوبارہ تعمیر کروائی تو یہ چھوڑی ہوئی زمین عمارت کے اندر داخل کر لی۔ اہل شام نے اس فعل کو نا جائز سمجھا کہ کعبہ پر اضافہ کیا گیا ہے۔ حجاج نے اسی اضافہ شدہ عمارت پر پتھر برسائے تھے۔ علامہ بشاری احسن التقاسیم (مطبوعہ یورپ صفحہ ۷۴ ) میں لکھتے ہیں:۔ فامر بوضع المنجیق علی ابی قبیس و قال ارمرا الزیادۃ التی ابتدعہا ھذا المکلف فرموا مرضع الحطیم واخرج ابن الزبیر وصلبہ ورد الھائط کما کان فی القدیم۔ حجاج نے حکم دیا کہ ابو قبیس پر منجیق نصب کی جائے اور کہا کہ اس پر حملہ کرو جس کو اس مکلف (ابن زبیرؓ) نے ایجاد کیا ہے۔ چنانچہ حطیم پر پتھر چلائے،اور ابن زبیر کو نکال کر پھانسی دی اور دیوار ویسی ہی بنا دی جائے جیسی پہلے تھی۔ حجاج نے اس کے بعد کعبہ کی عمارت نئے سرے سے بنائی اور آج وہی قبلہ اسلام ہے۔ باقی یہ واقعات کہ عبد اللہ ابن زبیر ؓ کو خود کعبہ کے اندر قتل کردیا ،اور کعبہ کے پردہ کو آگ لگا دی۔ تمام تر غلط ہیں۔ عبد الملک کا قرآن کو الوداع کہنا،اس کی یہ کیفیت ہے کہ عبد الملک خلافت سے پہلے سخت عابد وزاہد تھا۔ نافع کا بیان ہے کہ میں نے مدینہ منورہ میں عبد الملک سے بڑھ کر مستعد، فقیہ، اور قاری قرآن نہیں دیکھا تھا۔ حضرت عبد اللہ بن عمر سے لوگوں نے پوچھا کہ آپ کے بعد ہم لوگ مسئلے کس سے پوچھیں گے،فرمایا کہ مروان کے بیٹے سے، ابو الزناد کا قول ہے کہ مدینہ میں فقہا سات ہیں ۔ان میں سے ایک عبد الملک ہیں۔ ان حالات کے ساتھ جب خلافت کا بار اٹھانا پڑا تو ظاہر ہے کہ اب وہ زاہدانہ زندگی بسر نہیں ہو سکتی تھی۔ اور قرآ ن مجید کی تلاوت کا بہ التزام انجام دینا مشکل تھا۔ اس لیے عبد الملک نے وہ فقرہ بحسرت کہا،جس کے مخالفین نے یہ لیے کہ قرآن سے بے زاری مقصود تھی۔ غور کرو کہ ایک شخص جس نے تیس برس زہد وتقویٰ میں بسر کی ۔جس سے بڑھ کر مدینہ منورہ میں کوئی عابد وزاہد نہ تھا،اس کی نسبت شعبی جیسا امام کہتا ہے: ما جا لست احدا الا وجدت علیہ الفضل الا عبد الملک بن مروان۔۔۔۔ میں کسی کے ساتھ نہیں بیتھا، مگر یہ کہ میں اس سے بڑھ کر رہا، بجز عبد الملک کے،،،، جس سے بڑے بڑے محدثین یعنی عروہ، ارجاء بن حیٰوۃ ،امام زہری وغیرہ نے حدیث روایت کی، جو خلافت پانی سے ایک منٹ پہلے تلاوت قرآن مجید میں مصروف تھا۔ خلافت ملنے کے ساتھ دفعتہ مرتد ہو جائے۔اور قرآن سے ہمیشہ کے لئے دست بردار ہو کر کعبہ پر چڑھائی کر دے۔ مصنف کے سوا کس کے خیال میں آسکتا ہے۔ مصنف بظاہر عبد الملک کو بے دین ثابت کرنا چاہتا ہے۔ لیکن وہ دراصل تمام مسلمانوں کو بے دین ثابت کر رہا ہے۔کہ ان کے سامنے کعبہ پر چڑھائی ہوئی،کعبہ ڈھا دیا گیا۔ پردہء کعبہ میں آگ لگا دی گئی۔اور تمام ملک چپ بیٹھا دیکھا کیا۔ اس کے علاوہ قرآن کے بند کرنے اور اس فقرہ کو کہنے کی قدیم روایت قدیم مستند کتابوں یعنی طبری،ابن الا ثیر وغیرہ میں سرے سے ہے ہی نہیں۔بعض کتابوں میں جس میں ہر قسم کا رطب ویابس ہے ۔ یہ بھی ہے۔ مصنف نے لکھا ہے کہ بنو امیہ کے عمال خلفائے بنو امیہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ترجیح دیتے تھے۔چنانچہ حجاج بن یوسف اور خالد قسری کے اقوال نقل کیے ہیں، اگر چہ یہ روایتیں عقد الفرید اور اغانی وغیرہ سے لی ہیں۔جن کا شمار تاریخی کتابوں میں نہیں۔ لیکن گفتگو یہ ہے کہ بنو امیہ کے سینکڑوں ،ہزاروں عمال میں سے چند شخص ایسے تھے،تو اس سے عام استدلال کیا ہو سکتا تھا۔ حجاج بن یوسف اور خالد قسری کے اقوال اور افعال اس وقت بنو امیہ کے نامہ اعمال میں داخل سمجھے جا سکتے ہیں۔ جب خلفائے بنو امیہ نے ان کو جائز رکھا ہو۔ حجاج کو ولید اور عبد الملک کے سوا تمام خلفائے بنو امیہ نہایت برا سمجھتے تھے۔ خالد قسری کو ان ہی افعال کی بدولت ہشام نے گورنری سے معزول کر دیا تھا۔اور سخت سزا دی۔ ولید بن یزید کی نسبت کفر اور زندقہ کا جو الزام مصنف نے لگایا ہے۔ اس کی یہ کیفیت ہے کہ اس کے فیصلہ کرنے کا سب سے زیادہ حق محدثین کو ہے۔ اور وہ اس باب میںمطلق رو رعایت بھی نہیں کر سکتے۔ علامہ ذہبی جن سے بڑھ کر چھ سو برس کی مدت میں آج تک کوئی محدث اور مورخ نہیں پیدا ہوا ہے۔ لکھتے ہیں:۔ لم یصح عن الولید کفر ولا زندقہ بل اشتھرا با لخمر والتلوط فخرجوا علیہ ذالک (تاریخ الخلفا تذکرہ ولید بن یزید)۔۔۔۔۔ ولید سے کفر اور زندقہ ثابت نہیں ہے،بلکہ وہ شراب خوری اور امرودن کے ساتھ زیادہ بد نام ہوا۔ اس لئے لوگوں نے اس سے بغاوت کی۔ یہ ظاہر ہے کہ محدثین قرآن کی ذرا سی اہانت کو کفر سمجھتے ہیں۔ولید خدا نخواستہ اگر قرآ ن کوتیروں کا نشانہ بناتا ،جیسا کہ مصنف نے نقل کیا ہے تو کیا محدثین اس کے کفر سے انکار کر سکتے تھے۔ بنو امیہ کا ظلم مصنف نے سارا زور اس مضمون پر صرف کر دیا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ بنو امیہ کے ظلم سے تمام رعایا چیخ اٹھی تھی۔ ملک اجاڑ ہو گیا تھا۔ غیر مذہب والوں کو کسی صورت سے یعنی مسلمان ہو کر بھی ظلم سے نجات نہیں ملتی تھی۔ وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔۔ اصل عبارتوں ک انقل کرنا چونکہ طویل عمل ہے۔ اس لئے ہم ان کے ترجمہ پر اکتفا کرتے ہیں۔مصنف نے بنو امیہ کے جور وظلم کے گونا گوں طریقے بتائے ہیں جو اجمالا حسب ذیل ہیں۔ (۱) رعایا کا مال زبردستی چھین لیتے تھے۔ (۲)۔۔صوبوں کی گورنریاں رشوت لے کر فروخت کرتے تھے۔ (۳) بہت بڑے بڑے محصول اور ٹیکس لگاتے تھے۔ (۴) مذہب کی بالکل پرواہ نہیں کرتے تھے۔ (۵) چھوٹے چھوٹے بچوں کو قتل کرتے تھے۔ (۶) لوگوں کے سر کاٹ کر خزانہ میں رکھواتے تھے۔ چنانچہ ایک خاص خزانہ تھا ،جس کا نام تھا خزانہ الرؤس تھا۔ (۷) طرح طرح کی سخت اور نفرت انگیز سزائیں دیتے تھے۔ (۸) غیر قوموں کو عربوں سے شادی کرنے پر سزائیں دیتے تھے۔ ان واقعات کو اس طرح لکھا ہے کہ چنگیز خاں اور ہلاکو کی تصویر آنکھوں میں پھر جاتی تھی۔ بلکہ ان کے مقابلے میں چنگیز خان وغیرہ ہیچ نظر آتے تھے۔ ان واقعات کے بیان کرنے میں مصنف کہیں کہیں جزئی واقعہ عام کر دیتا ہے۔کہیں تاریخی حوالوں میں تحریف کرتا ہے۔ کہیں غلط استدلال سے کام لیتا ہے۔لیکن اگر اس کی ایک ایک جزئی خیانتوں کی تفصیل لکھی جائے تو ایک بہت بڑی کتاب تیار کرنا ہو گی۔ اس لیے ہم اختصار کے ساتھ اس کی فریب کاریوں کو دکھاتے ہیں۔ سب سے پہلے یہ دیکھنا چاہیئے کہ مصنف بنو امیہ کو عموما جو ظالم اور غارت گر بناتا ہے۔ یہ تعمیم خود اس کے تفحص اور استقصا کا نتیجہ ہے یا مورخین قدیم نے تصریح کی ہے۔ ایک اور نکتہ پیش نظر رکھنا چاہیئے کہ بنو امیہ کی جس قدر تاریخیں لکھی گئی ہیں۔ وہ سب کی سب دولت عباسیہ کے زمانے کی ہیں۔عباسیوں کو جو دشمنی بنو امیہ کے ساتھ تھی۔اس کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ انہوں نے تمام خلفائے بنو امیہ کی قبریں اکھڑوائیں اور ان کی ہڈیاں آگ میں جلا دیں۔ان کے زمانہ میں بنو امیہ کی مدح کرنا قریبا ناممکن تھا۔ بنو امیہ کی برائیوں کے بیان کرنے پر انعام ملتا تھا۔باوجود ان حالات کے ایک دو خلفا کے علاوہ مورخین نے کسی خلیفہ اموی کے ظلم اور جباری کی شکایت نہیں کی، بلکہ بخلاف اس کے متعدد خلفا ء کی تعریف کی ہے۔ امیر معاویہ کی نسبت علامہ مسعودی نے مروج الذہب میں لکھا ہے :۔ کان من اخلاق معاویہ انہ کان یا ذن فی الیوم واللیلۃ خمس مرات کان اذا صلی الفجر جلس للقاض حتیٰ یفرغ من قصصہ۔فیخرج الی المسجد،فیو ضع فیسند ظھرہ الی المقصورۃ ویجلس علی الکرسی ویقوم الاحدث فیقدم الیہ الضعیف والا عرابی والصبی والمن ء ۃ و من لا حد لہ فیقول ظلمت فیقول اعزوہ ویقول عدی فیقول ابعثو ا معہ فیقول ضع بی النظر وافی امرہ حتی اذا لم یبق احدا فحل فجلس علی السریر ثم یقول ایذانوا للناس علی قدر منازلھم فاذا ستوؤا جلوسا ،قال یا ھولاء انما سنمیتم اشرافا لا نکم شرفتم من دون بھذا المجلس ارفعو الینا حوائج من لا یصل الینا فیقوم الرجل فیقول استشھدوا فلان فیقول افر ضو الولدہ ویقول آخرہ غاب عن اھلہ فیقول تعاھدوھم اقضوا حوائجھم، اخد مو ھم ثم یوتی بالغداء والکاتب یقرء کتابہ فیامر فیہ حتی یاتی علی اصحاب الحوائج اربعون اونحوھم علی قدر الغدا ئ۔ معاویہ کی عادت تھی کہ دن رات میں پانچ دفعہ دربار عام کرتے تھے۔ فجر پڑھ کر اٹھتے تھے اور شکایتیں سنتے تھے۔ پھر مسجد میں آتے تھے اور مقصورہ کی طرف پشت کر کے کرسی پر بیٹھتے تھے۔پھر لوگ پیش ہوتے تھے۔اور کمزور ،گنوار، بچے ،عورتیں جن کا کوئی نہیں ہوتا تھا۔یہ لوگ آگے بڑھتے تھے ،ایک کہتا تھا ،مجھ پر ظلم ہوا ہے۔معاویہ کہتے تھے ،اس کو عزت دو۔دوسرا کہتا تھا ،مجھ پر تعدی ہوئی ہے۔ معاویہ کہتے تھے کہاس کے ساتھ کسی کو کردو۔ تیسرا کہتا تھا ،مجھ سے برا برتاؤ کیا گیا ہے۔ معاویہ کہتے تھے اس کے معاملہ کی تحقیق کرو۔یہاں تک کہ جب سب لوگ ہو چکتے تو اندر جا کر تخت پر بیٹھتے تھے۔اور حکم دیتے تھے کہ لوگوں کوترتیب کے ساتھ بٹھاؤ۔ پھر جب لوگ بیٹھ جاتے تھے تو کہتے تھے کہ صاحبو آپ لوگ اس لیے شریف کہلاتے ہیں کہ آپ کولوگوں پر شرف حاصل ہے۔ اس لیے ان لوگوں کی حاجتوں کو پیش کیجیئے جو مجھ تک نہیں پہنچ سکتے۔اس پر ایک شخص کھڑا ہوتا تھا اور کہتا تھا کہ فلان شخص لڑائی میں مارا گیا۔ معاویہ حکم دیتے تھے کہ اس کے لڑکوں کی تنخواہ مقرر کر دو۔دوسرا شخص کہتا تھا کہ فلاں شخص باہر چلا گیا۔ وہ حکم دیتے تھے کہ اس کے بی بی بچوں کی خبر گیری کی جائے۔ پھر کھانا آتا تھا۔یہاں تک کہ سب اہل حاجت ختم ہو جاتے تھے۔اکثر چالیس چالیس آدمیوں تک نوبت پہنچتی تھی۔ اس کے مسعودی نے نہایت تفصیل سے ان کا نظام اوقات لکھا ہے۔ کہ کوئی شخص ان کے برابر عادلانہ حکومت نہ کر سکا۔ علامہ سیوطی سلیمان بن عبد الملک کی نسبت لکھتے ہیں: کان فصیحا متفوحا موثر اللعدل ومن محاسنہ ان عمر بن عبد العزیزؓ کان لہ کالو زیر فکان یمتثل اوامرہ فی الخیر فغزل عمال الحجاج واخرج من کان فی سجن العراق قال ابن سیرین رحم اللہ سلیمان افتح خلافتہ، با حیائہ الصلواۃ مواقیتھا، واختتمھا با ستخلافۃ عمر بن عبد العزیز۔۔۔۔ فصیح زبان آور تھا۔ اور عدل پر عمل کرتا تھا۔ اس کی خوبیوں میں سے ایک یہ ہے کہ عمر بن عبد العزیز گویا اس کے وزیر تھے۔ اور وہ اچھے کاموں میں گویا ان کی ہدایتوں پر چلتا تھا۔ اس نے حجاج کے نوکروں کو موقوف کر دیا تھا۔اور عراق کے قیدیوں کو رہائی دی تھی۔ ابن سیرین کا قول ہے کہ خدا سلیمان پر رحمت کرے اس نے خلافت کا آغاز نماز کے اول وقت پر پڑھنے پر کیا۔اور خاتمہ عمر بن عبد العزیز کے جانشین کرنے پر کیا۔ محدث ابن عساکر ولید بن عبد الملک کے بارے میں لکھتے ہیں۔ کان اولید عن داھل الشام من افضل خلفائھم بنی المساجد بدمشق واعطی الناس وفرض للمخدومین و قال لا تساء لو الناس واعطی کل مقعد خادما وکل اعمی قائد وکان یبر حملۃ ویقضی عنھم دیونھم۔۔۔ ولید اہل شام کے نزدیک تمام خلفائے بنو امیہ سے افضل تھا۔اس نے دمشق میں مسجدیں بنوائیں اور لوگوں کی تنخواہیں مقرر کیں۔ مخدوموں کے روزینے مقرر کیے۔ اور کہا سوال نہ کرو۔ اور ہر اپا ہج کے لیے ایک خادم اور ہر اندھے کے لئے ایک رہبر مقرر کیا،اور حافظ قرآن کے ساتھ نیکی کرتا تھا۔ اور ان کے قرض ادا کرتا ہے۔ علامہ ابن الا ثیر ۸۸ ء ؁ کے واقعات میں لکھتے ہیں:۔ کتب الی البلدان جمیھا با صلاح الطرق و عمل الابار وضع المخدومین من الخروج علی الناس واجری لھم الا رازق۔۔ تمام شہروں میں خطوط بھیجے کہ سڑکیں درست کی جائیں،اور کنویں کھودے جائیں اور مخدوم با ہر نہ نکلیں اور ان کی تنخواہیں مقرر کی جائیں۔ علامہ سیوطی نے ولید کی نسبت اگر چہ ظالم اور جبار کا لفظ لکھ دیا ہے تاہم لکھتے ہیں:۔ و کان مع ذالک یختن الایتام ویرتبا لھم المئودبین ویرتب للزمنی من یخدھم وللا ضرا ء من یقود ھم وعمر المسجد النبوی وسعہ ورزق الفقھا والضعفا ء والفقرا ء و حرم علیھم سوال الناس وفرض لھم مایکضھم وضبط الا مور اتم ضبط ۔۔۔ باوجود اس کے کہ وہ یتیموں کے ختنہ کراتا تھا۔اور ان کے لئے معلم مقرر کرتا تھا۔ اور معذوروں کے لئے خادم اور اندھوں کے لئے رہبر مقرر کرتا تھا۔اور مسجد نبوی کی تعمیر کی اور اس کو وسعت دی۔ اور فقہا اور ضعفا اور فقرا ء کے لئے روزینے مقرر کیے۔ اور ان کو سوال کرنے سے منع کر دیا۔اور ان کے لئے سامان معاش مقرر کیا اور تمام کاموں کا کامل انتظام کیا۔ ہشام بن عبد الملک کی نسبت علامہ سیوطی لکھتے ہیں:۔ و کان ھشام حازما عاقلا لا ید خل بیت مالہ مالا حتی یشھد اربعون قسامۃ لقد اخذ من حقہ ولقد اعطی لکل ذی حق حقہ۔و قال سجیل بن محمد ما راٗ یت احد امن الخلفا ء اکرہ الیہ الدما ء ولا اشد علیہ بن ھشام۔۔۔ ہشام عقل مند اور باتدبیر تھا۔ خزانہ میں کوئی رقم اس وقت تک داخل نہیں کرتا تھا۔ جب تک چالیس آدمی بہ قسم یہ گواہی نہیں دیتے تھے۔ کہ جائز طور پر یہ رقم لی گئی ہے۔اور تمام مستحقین کو ان کے حق دیے گئے ہیں۔سجیل بن محمد کہتے ہیں کہ خلفاء میں سے میں نے کسی کو نہیں دیکھا،جس کو قتل اور خون اس قدر ناگوار ہو۔ جس قدر ہشام کو تھا۔ احکام شرعی کی پابندی کا یہ حال تھا کہ ایک دفعہ اس کے بیٹے نے جمعہ کی نماز نہیں پڑھی،تو اس سے وجہ پوچھی ،اس نے کہا میرے پاس سواری نہ تھی۔ ہشام نے کہا کیا پیادہ نہیں جا سکتا تھا۔پھر حکم دیا کہ سال بھر تک اس کو سواری نہ دی جائے۔ یزید بن عبد الملک کی نسبت علامہ دمیری لکھتے ہیں:۔ وکان مظھر اللنسک وقراء ۃ القرآن و اخلاق عمر بن عبد العزیز وکان ذادین وورع۔۔۔ عبادت اور قرات قرآن کرتا تھا۔ اور عمر بن عبد العزیز کے اخلاق کا اظہار کرتا تھا۔اور دین دار اور پرہیز گار تھا۔ اور حضرت عمر بن عبد العزیز کے متعلق کچھ لکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ مروان حمار کی نسبت کسی مورخ نے جور وظلم کی شکایت نہیںکی۔ ولید بن یزید البتہ فاسق وفاجر تھا۔ لیکن اسی بناء پر خود بنی امیہ نے اس کو قتل کر دیا تھا۔ واقعات مذکورہ سے معلوم ہوا ہو گا کہ خلفائے بنو امیہ میں سے زیادہ تر عادل اور انصاف پرور تھے۔ اور ان کے عہد میں ملک کے امن وامان اور غرباء کی آسائش وآرام کا کیا بندوبست تھا۔اس حالت میں مصنف نے عموما بنو امیہ کے ظلم اور سفاکی کی جو داستان بیان کی ہے۔ کہاں تک صحیح ہے۔ مصنف نے ظلم اور سفاکی کے جرم سے صرف عمر بن عبد العزیز کو مستشنیٰ کیا ہے۔ ہشام ،سلیمان وغیرہ اس کے نزدیک اسی عام فہرست میں شامل ہیں۔ بااین ہمہ ناظرین کو تعجب ہو گا کہ مصنف نے جو واقعات لکھے ہیں۔ان سے بڑھ کر ظلم کا کیا ثبوت ہو سکتا ہے۔اور ان کی صحت سے اس لئے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ہر واقعہ کے ساتھ سند موجود ہے۔لیکن واقعہ یہ ہے کہ مصنف نے ان تمام واقعات میں تحریف،تدلیس اور غلط بیانی کی ہیں۔افسوس ہے کہ اگر ان سب کی تشریح کی جائے تو تمدن اسلام کے برابر ایک کتاب بن جائے گی۔ اس لیے ہم نمونہ کے طور پر چند اہم باتیں لکھتے ہیں۔ رعایا پر ظلم مصنف نے حصہ دوم صفحہ ۱۹ میں لکھا ہے۔ ’’ بنو امیہ جس طرح عرب کی طرف داری میں تعصب برتتے تھے۔اور تمام قوموں کو حقیر سمجھتے تھے۔ اس کے نتائج میں ایک یہ ہے کہ وہ مفتوحہ مقامات کے آدمیوں کو اپنا رزق حلال جانتے تھے۔ چنانچہ اس کی تصدیق سعید بن العاص گورنر عراق کے اس قول سے ہوتی ہے کہ سواد (بغداد کا علاقہ) قریش کا باغ ہے۔ ہم جس قدر چاہیں لیں۔اور جس قدر چاہیں چھوڑ دیں۔ مصنف کا یہ دعویٰ ہے کہ بنو امیہ نہ صرف جائیداد اور زمین بلکہ وہاں کے لوگوں کو بھی اپنی ملک سمجھتے تھے۔لیکن عبارت منقولہ میں اس کا پتا نہیں۔اس میں صرف یہ مذکور ہے کہ سواد ہمارا باغ ہے۔ ہم جس قدر چاہیں لیں۔یہ ظاہر ہے کہ باغ اور آدمی دو مختلف چیزیں ہیں۔ یہ تو خیر ایک معمولی غلطی ہے۔ لیکن مصنف نے پورے واقعہ کو غلط طور سے دکھایا ہے۔ اصل یہ ہے کہ اس امر کے متعلق لوگوں میں اختلاف تھا کہ مفتوحہ زمینیں فوج کا حق ہیں یا سلطنت کا۔ حضرت عمر کے زمانے میں بعض اصحابہ نے اصرار کیا تھا کہ زمینیں اہل فوج کو تقسیم کر دی جائیں۔لیکن حضرت عمر نہیں مانے۔یہ واقعہ بھی اسی بناء پر ہے۔ یعنی بعض اشخاص کہتے تھے کہ ہم نے ان کو ہتھیاروں سے فتح کیا ہے۔ اس لئے ہم اس کے مالک ہیں سعید کا مقصد یہ تھا کہ وہ حکومت کا حق ہے۔ اور چونکہ حکومت قریش میں محدود ہے۔ اس لیے انہوں نے قریش کے لفظ سے اس کی تعبیر کی ہے۔بہر حال بحث دوفریقوں میں ہے۔اس کو اس مسئلہ سے کیا تعلق کہ بنی امیہ مفتوحہ قوموں کو اپنی ملک سمجھتے تھے۔ مصنف نے عمرو بن العاص کا قول نقل کیا ہے کہ انہوں نے قبطیوں سے کہا کہ تم ہمارا خزانہ ہو۔ زیادہ آمدنی ہو گی تو زیادہ لیں گے ،کم ہو گی تو کم لیں گے۔ اس مسلہ میں مصنف نے سخت خیانت کی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ خلفائے راشدینؓ نے مفتوحہ مقامات کی دو قسمیں قرار دی تھیں۔ایک وہ صلح اور معاہدہ کے ذریعے سے قبضہ میں آئے ان ممالک میں جزیہ یا خراج کی جو شرح معاہدہ میں مذکور ہو چکی تھی۔ اس پر اضافہ کرنا کسی حالت میں جا ئز نہ تھا۔دوسرے جو لڑ کر بغیر کسی معاہدہ کے فتح ہوئی ہو۔ اس میں جزیہ کی کمی بیشی کا اختیار تھا۔ یہ تفریق حضرت عمر نے خود کی تھی۔اور وہ زمانہ بعد میں بھی قائم رہی۔مصر اسی طرح فتح ہوا تھا۔ اسی بناء پر جب کوئی شخص عمر وبن العاص سے پوچھتا تھا کہ یہاں کامحصول اور جزیہ کیا ہے ؟۔ تو وہ کہتا تھا میں نہیں بتاؤں گا،تم ہمارا خزانہ ہو۔ مقریزی نے جہاں یہ بحث لکھی ہے۔ اور جس موقع سے مصنف نے یہ فقرہ نقل کیا ہے۔ وہاں یہ تصریح موجود ہے۔ چنانچہ لکھتے ہیں۔ وکان عمر بن الخطاب یاخذ ممن صالحہ من المعا ھدین ما سمی نفسہ لا یضع من ذالک شئیا ولا یزید علیہ ومن جزل من ھم علی الجزیۃ ولم یسم شیا یرویہ نظر فی امرہ فا ذاا حتاجوا خفف عنھم وان استغنو ا زاد علیھم بقدر استغنائھم۔ (مقریزی جلد اول ص ۷۷) عمر بن خطاب کا دستور تھا کہ جن لوگوں سے معاہدہ پر صلح ہوتی تھی۔ ان سے شرح مقرر پر نہ کچھ اضافہ کرتے تھے۔نہ اس سے کم کرتے تھے۔اور جو لوگ جزیہ پر راضی ہوتے تھے۔ اور جزیہ کی کوئی تعداد مقرر نہیں ہوتی تھی۔تو حضرت عمر یہ کرتے تھے کہ اگر وہ لوگ نادار ہو گئے تو جزیہ گھٹا دیتے تھے۔ اور اگر دولت مند ہوئے تو بقدر ان کی دولت جزیہ بڑھا دیتے تھے۔ یہی بات ہے جوعمرو بن العاص نے کہی تھی اور جس کو مصنف اس سند میں پیش کرتا ہے۔ کہ بنی امیہ مفتوحہ قوموں کو اپنا مملوکہ سمجھتے تھے۔ مصنف نے کتاب کے چوتھے حصے میں ایک کاص عنوان قائم کیا ہے۔ جس کے الفاظ یہ ہیں الفتک والبطش فی عصر المویین‘‘ یعنی بنو امیہ کے زمانہ کی سفاکی،اس میں دعویٰ کیا ہے کہ بنو امیہ بے دریغ لوگوں کو قتل کرتے تھے۔یہاں تک کہ امیر معاویہ نے واقعہ تحکیم کے بعد بسر کو بھیجا کہ ملک میں دورہ کرے اور جہاں شعیان علی ؑ ہوں انہیں بے دریغ قتل کرے۔اور عورتوں اور بچوں میں سے کسی کو نہ چھوڑے۔ ویقال انہ اوصاھم ان یسیروا فی الارض ویقتلوا کل من وجدوہ من شیعہ علی ولا یکفوا ایدیھم من النساء والصبیان (حصہ ۴ ، ص۸۲) اور کہتے ہیں کہ معاویہ نے ان لوگوں کو یہ حکم دیا کہ ملک میں جائیں اور جس شیعہ کو پائیں قتل کر دیں اور عورتوں اور بچوں کو بھی نہ چھوڑیں۔ اس کے بعد مصنف نے ثابت کیا ہے کہ یہ صرف حکم نہ تھا ،بلکہ مدینہ ،یمن وغیرہ میں اس کی بخوبی تعمیل ہوئی ۔اس میں شبہ نہیں کہ اگر یہ واقعات صحیح ہوں تو امیر معاویہ اور چنگیز خاں میں کچھ فرق نہ ہوگا۔ امیر معاویہ حلم اور عفو میں ضرب المثل تھے۔ تمام مستند تاریخیں ان کے حلم کی داستان سے معمور ہیں۔ ان کی سفاکی کے ثبوت کے لئے مصنف کو طبری، ابن الاثیر اور ابن الخلدون وغیرہ سے کوئی شہادت نہیں مل سکتی تھی۔اس لیے اس نے شیعی مصنف سے مدد چاہی اور وہ خوشی سے اس خدمت کو انجام دینے کے لئے موجود تھا۔مصنف نے واقعہ مذکورہ بالا الا غانی سے نقل کیا ہے۔ اس کتاب کا مصنف مشہور شیعی ہے۔اور ایک شیعہ مصنف سے امیر معاویہ کے متعلق یہی توقع ہو سکتی ہے۔اس پر مزید یہ کہ اغانی میں یہ روایت جن لوگوں سے منقول ہے۔ وہ نا معتبر، ضعیف الروایت اور مجہول الحال ہیں۔ علی بن محمد مدائنی جو اس روایت کا راوی اول ہے۔ اس کی نسبت میزان الاعتدال میں ابن عدی سے نقل کیا ہے کہ لیس بالقوی فی الحدیث،ایک اور راوی ابو مخنف ہیں جو مشہور نا معتبر ہیں۔باقی اور راوی اس درجہ کے ہیں کہ اسمائے رجال میں ان کا نام تک مذکور نہیں۔ ہم کو اس بات سے انکار نہیں کہ اغانی ادب اور محاضرات کی مشہور کتاب ہے۔ اور شعراء وغیرہ کے اکثر حالات اسی سے ما خوذ ہیں۔ لیکن یہ طے شدہ مسلہ ہے کہ وہ محا ضرات کی کتاب ہے۔تاریخ نہیں،اس بناء پر معمولی عام واقعات میں اس کی روایتیں لی جاسکتی ہیں۔لیکن کسی بحث طلب اور قابل تحقیق واقعہ کا ثبوت اس سے نہیں ہو سکتا۔یہ مسلم ہے کہ امیر معاویہ حلم اور عفو میں مشہور تھے۔یہ مسلم ہے کہ ان کی نسبت اس قسم کا کوئی واقعہ کسی تاریخ میں مذکور نہیں۔ اس کی نسبت اس قسم کا کوئی واقعہ کسی سفاکی کاتاریخ میں مذکور نہیں۔ یہ مسلم ہے کہ اغانی کا مصنف شیعہ تھا اور یہ بھی مسلم ہے کہ اس روایت کاراوی مداینی ہے ، جو ضعیف الحدیث ہے۔ان ھالات کے ساتھ اس روایت کا کیا اعتبار ہو سکتا ہے۔ اس کے بعد مصنف نے حجاج کی سفاکیوں کا ذکر کیا ہے۔ وہ ہم کو تسلیم ہے۔ لیکن ہم کو یہ دیکھنا ہے کہ مصنف نے عدل وانصاف کا معیارکیا قائم کیا ہے؟۔وہ جس قدر بنو امیہ کوبرا کہتا ہے۔ اسی قدر بنی عباسیہ کی تعریف کرتا ہے۔چنانچہ جہاں یہ ثابت کیا ہے کہ بنو امیہ کے ظلم کی وجہ سے ملک بر باد ہو گیا تھا۔ اور زمینیں ویران ہو گئی تھیں۔اس کے مقابلہ میں عباسیوں کے عہد کی خوش حالی اور آبادی کا ذکر کر کے ایک موقع پر لکھتا ہے۔ ولا غرابۃ فی ماتقدم من عمران البلاد فی ظل الدولۃ العباسیۃ فان العدالۃ تو طرت دعایم الامن واذا امن الناس علی ارواحھم وحقوقھم تفزغو اللعمل۔۔۔۔ اگر دولت عباسیہ کے سائے میں آبادی نے ترقی کی جیسا کہ اوپر گزرا ہے۔تو کچھ تعجب نہیں،کیونکہ انصاف امن کا ستون قائم کر دیتا ہے۔اور جب لوگوں کو اپنی اپنی جانوں کی نسبت اطمینان ہو جاتا ہے تو اطمینان سے کام میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ مصنف نے کشتگان حجاج کی تعداد ایک لاکھ بیس ہزار بیان کی ہے لیکن خلیفہ منصور عباسی جس کا مصنف نہایت مدح خوان ہے۔ اس کے وزیر اعظم ابو مسلم اصفہانی جو دولت عباسیہ کا بانی ہے۔اس کے کشتگان ناز کی تعداد چھ لاکھ ہے۔اور خود مصنف نے اس کا اعتراف کیا ہے۔چنانچہ لکھتا ہے:۔ فبلغ عدد الذین قتلھم فی سبیل ھذا الدعوۃ ۶۰۰۰۰۰ نفس قتلوا صبرا بدون حرب فی بضع سنین (صفحہ ۱۱۲)۔۔۔ تو ان لوگوں کی تعداد جن کو ابو مسلم نے عباسیوں کی خلافت تسلیم کرانے میں قتل کیا چھ لاکھ پہنچی،جو لڑائی میں نہیں بلکہ یوں ہی قید میں مارے گئے۔ اگر دولت عباسیہ کے دامن پر چھ لاکھ کے قتل سے ظلم کا داغ نہیں لگ سکتا،تو حکومت بنی امیہ تو سوا لاکھ ہی کی گنہگار ہے۔ حجاج کے ظلم گنا کر مصنف لکھتا ہے:۔ وکان عبد الملک اشد وطاء ۃ منہ واجرء علی الغدر والفتک۔۔۔۔ اور عبد الملک اس سے بڑھ کر سخت تھا اور قتل اور دغا بازی پر اس سے زیادہ دلیر تھا۔ اس جھوٹ کی کیا انتہا ہو سکتی ہے۔کہ عبد الملک کو حجاج سے بڑھ کر سفاک اور خون ریز کہا جائے۔ مصنف اس غلط دعویٰ کے ثبوت میں یہ واقعہ پیش کر سکا ہے۔ کہ عبد الملک نے ایک شخص کو جس نے دعویٰ سلطنت کرنا چاہا۔امان دے کر قتل کرا دیا۔ لیکن خلیفہ منصور نے تو اس کو قتل کرا دیا جس کی بدولت عباسی سلطنت قائم ہوئی تھی۔اور جو دولت عباسیہ کا اصل بانی تھا۔ مصنف کا دعویٰ ہے کہ حجاج وغیرہ جو مظالم کرتے تھے،خود خلیفہ وقت کے اشارے سے کرتے تھے۔لیکن علامہ مسعودی عبد الملک کے حال میں لکھتے ہیں:۔ و لما اسرف الحجاج فی قتل اساری دیر الجما جم عبد الملک فکتب الیہ اما بعد فقد بلغ امیر المومنین سرفک فی الدماء فی الخطا ء الدیہ وفی العمد القرد وفی الاموال ردھا الی مواضعھا ۔۔ جب حجاج نے دیر جما جم کے قیدیوں کے قتل کرنے میں حد سے زیادہ زیادتی کی اور مال کے صرف میں نہایت اسراف کیا۔اور یہ خبر عبد الملک کو پہنچی تو حجاج کو خط لکھا۔کہ امیر المومنین کو تمہاری خون ریزی اور فضول خرچی کا حال معلوم ہوا،امیر المومنین ان دونوں باتوں کو کسی کے لیے برداشت نہیں کر سکتے۔ ،امیر المومنین نے تم کو خون میں صرف یہ اختیار دیا ہے کہ لوگوں سے قتل خطا میں دیت لو۔ مال کی نسبت یہ حکم ہے کہ وہ اپنی اپنی جگہ پر صرف ہو۔(یہ خط بہت بڑا ہے اور سب پڑھنے کے قابل ہے۔) جزیہ کے متعلق ظلم مصنف نے کتاب کے چوتھے حصے میں ایک مستقل عنوان قائم کیا ہے۔اور حصہ دوم میں ’’عصر بنو امیہ‘‘ کے عنوان کے نیچے یہ ثابت کیا ہے کہ بنو امیہ‘‘ جزیہ لیتے تھے۔ اور وصول کرنے میں اس قدر ظلم کرتے تھے کہ غیر قوموں نے مجبور ہو کر مسلمان ہونا شروع کر دیا۔لیکن اس پر بھی ان کو نجات نہ ملتی تھی،اور مسلمان ہونے پر بھی ان سے جزیہ لیا جاتا تھا۔ آخر مجبور ہو کر انہوں نے راہب یعنی تارک الدنیا بننا چاہا، لیکن یہ تدبیر بھی کام نہ آئی اور راہبوں پر بھی جزیہ قائم کیا گیا ۱؎،۔جزیہ کے سوا اور طرح طرح کے محصول قائم کرتے تھے۔ اور ان کے وصول کرنے میں اس قدر ظلم سے کام لیتے تھے کہ ملک کے ملک ویران ہو گئے۔ فوجیں جب چلیتی تھیں تو جدھر سے گزرتی تھیں ،لوگوں کو لوٹ لیتی تھیں۔ اس بحث کو اس طرح لکھتا ہے کہ ظلم اور غارت گری کی تصویر کھینچ دی ہے۔ ایک اور موقعہ پر لکھتا ہے: فزادو االجزیۃ والخراج وشد دوا فی تحصیلھا وضیقوا علی الناس حتیٰ اخذو الجزیۃ ممن اسلم واما من یقی علی دینہ من اھل الکتاب فکانوا یسو مونھم سو ء العذاب (حصہ ۴ ص۷۶) پھر جزیہ وخراج میں اضافہ کر دیا اور اس کے وصول کرنے میں شدت کی،اور لوگوں کو سخت تنگ کیا،یہاں تک کہ جو لوگ مسلمان ہو جاتے تھے، ان سے بھی جزیہ لیا جاتا تھا، باقی جو اپنے مذاہب پر قائم رہتے تھے،ان کو بری طرح عذاب دیتے تھے۔ اس کی کیفیت یہ ہے کہ بنو امیہ کی سلطنت قریبا سو برس قائم رہی۔اس وسیع مدت میں تین چار واقعہ پیش آتے ہیں کہ مسلمان ہونے پر بھی جزیہ لیا گیا۔ان چند واقعات کو مصنف نے اس انداز سے بیان کیا ہے۔کہ بنو امیہ کایہ عام طرز عمل تھا۔ اس موقع پر لکھتا ہے۔ وخصوصا اھل الخراسان وماوراء النھر فانھم ظلموا علی اواخر ایام بنو امیہ لا یمتعلم عن السلام الاظلم العمال یطلب الجزیۃ من ھم بعد اسلامھم ۔(حصہ ۴ ص ۷۶) خصوصا اہل خراسان اور ماوراء النھر کہ یہ لوگ آخر زمانہ بنو امیہ تک صرف اس لئے اسلام پر ایمان نہیں لائے تھے کہ عمال اسلام کے بعد بھی ظلما جزیہ لیتے تھے۔ ان واقعات کو ہم کسی قدر تفصیل سے بیان کرتے ہیں۔جس سے ظاہر ہو گا کہ مصنف نے کس قدر جھوٹ بولا ہے۔ اور فریب اور رنگ آمیزیاں کی ہیں۔ ۱۰۱ ؁ میں حجاج کو اس کے عاملوں نے لکھا کہ غیر قومیں مسلمان ہو کر شہروں میں چلی آئیں۔اس لیے خراج کی آمدن گھٹ گئی۔ حجاج نے بصرہ وغیرہ میں حکم بھیج دیا کہ یہ نو مسلم مواضعات کو واپس بھیج دیئے جائیں،اور ان سے جزیہ لیا جائے۔ بصرہ میں جب یہ لوگ پہنچے تو ان سے جزیہ وصول کرنے لگے،تو یہ لوگ روتے تھے اور واہ محمدا پکارتے تھے۔ یہ دیکھ کر وہاں کے علماء روتے تھے۔ اسی حالت میں عبد الرحمان بن اشعث جنہوں نے حجاج سے بغاوت کی تھی، بصرہ میں پہنچے،علماء اور قرا ء نے حجاج کے فعل سے ناراضگی کی بنا پر ان کے ہاتھ پر بیعت کی۔ علامہ ابن الاثیر لکھتے ہیں کہ ۱۰۱ئ؁ کے اخیر واقعات میں نہایت تفصیل کے ساتھ ان واقعات کو لکھا ہے۔ ان واقعات میں حسب ذیل واقعات بتصریح مذکور ہیں۔ (۱)حجاج کے ظلم پر بصرہ کے علماء روئے۔ (۲) یہ علماء حجاج سے ناراض ہو کر عبد الرحمن بن اشعث سے مل گئے۔ مصنف نے بصرہ کے علماء کی ہمدردی اور رنج کا ذکر بالکل قلم انداز کر دیا۔ کیونکہ اس سے عام عربوں کی نیک دلی اور حجاج کے فعل سے آزردگی ثابت ہوتی تھی۔ عبارات مذکورہ سے ثابت ہوتا ہے کہ حجاج کا یہ فعل اس قدر غیر معمولی اور غیر شرعی تھا کہ علماء نے صرف حجاج سے بغاوت کی اور شریک جنگ ہوئے ،لیکن مصنف دکھاتا ہے کہ سلطنت بنو امیہ میں نو مسلموں سے جزیہ لینا عام معمول تھا۔ حضرت عمربن عبد العزیز ؓ کے زمانہ میں جراح نے حجاج کی تقلید کی تھی، حضرت عمربن عبد العزیز ؓ کو معلوم ہوا تو فورا جراح کو لکھ بھیجا کہ نو مسلموں کو جزیہ معاف کر دیا جائے۔ جزیہ معاف کر دیا گیا تو ہزاروں لوگ مسلمان ہو گئے۔اور خراج کی تعداد گھٹ گئی۔ جراح نے حضرت عمربن عبد العزیز ؓ کو لکھ بھیجا کہ یہ لوگ صدق دل سے اسلام نہیں لائے حکم ہو تو میں تحقیق کروں۔کہ ان لوگوں نے ختنہ بھی کرایا ہے یا نہیں،حضرت عمربن عبد العزیز ؓ نے لکھ بھیجا کہ خدا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دعوت اسلام کے لئے بھیجا تھا۔ نہ ختنہ کرنے کے لئے۔ یہ تمام واقعات ابن الاثیر نے ۱۰۰ ھ؁ کے واقعات میں تفصیل سے لکھے ہیں۔ مصنف نے اس واقعہ میں سے صرف جراح کا جزیہ لینا لکھا ہے۔ باقی تمام واقعات اور حضرت عمر ؓ کے حکم کو اڑا دیا۔ ۱۰۲ ھ؁ میں یزید ابن مسلم نے افریقہ میں حجاج کی تقلید کرنا چاہی،اس پر لوگوں نے اسے قتل کر دیا۔ اور یزید بن عبد الملک کو لکھ بھیجا جو کہ خلیفہ وقت تھا ۔کہ ہم نے اس کو اس وجہ سے قتل کیا ہے۔ یزید بن عبد الملک نے لکھ بھیجا کہ میں اس کے اس فعل کو خود نا پسند کرتا تھا۔ چنانچہ ان لوگوں سے کچھ باز پرس نہ کی۔ مصنف کی اس خیانت کو دیکھو کہ یزید بن عبد الملک کی کاروائی لکھ کر باقی تمام واقعات کو قلم انداز کر دیا ہے۔ ۲؎ ابن الاثیر واقعات اخیر ،۱۰۲ ھ ۲؎ تمدن اسلام حصہ دوم ص ۳۰ ۱۱۰ ھ؁ میں اشرس نے نو مسلموں پر جزیہ لگایا ۔اس پر لوگوں نے بغاوت کی،اور روسائے عرب نے ان کی حمایت کی، اس واقعہ میں بھی مصنف نے اہل عرب کی حمایت کا مطلق ذکر نہیں کیا۔ واقعات مذکورہ بالا کی نسبت امور ذیل پر لحاظ کرو۔ بنو امیہ کی صد سالہ حکومت میں چند دفعہ یہ واقعہ پیش آیا۔ حضرت عمر بن عبد العزیز ؓ نے اپنے زمانے میں اس کاروائی کو روکا، یزید بن عبد الملک کے زمانے میں جب یزید بن ابی مسلم نے ایسا کرنا چاہا تو بغاوت ہوئی اور اہل عرب نے باغیوں کا ساتھ دیا۔ غرض خلفائے بنو امیہ میں سے کسی نے اس فعل کوجائز نہیں رکھا۔ عمال نے ایسا کیا تو یا تو خود خلیفہ وقت نے روک دیا یا اہل عرب نے عمالوں کی مخالفت کی اور ان سے لڑے۔ مصنف نے خلفا ء کے روکنے یا عام مسلمانوں کی ناراضی اور مظلوموں کی حمایت کا مطلق ذکر نہیں کیا۔اور ان چند واقعات کو اس طرح ادا کیا ہے کہ بنو امیہ کے زمانہ سلطنت میں یہ عام رواج تھا۔ مصنف نے لکھا ہے کہ غیر قوموں پر چونکہ بنو امیہ ظلم کرتے تھے، اس لیے جب کبھی بغاوت ہوتی تو یہ اس میں شریک ہو جاتے تھے۔ اس کے بعد لکھتا ہے۔ وقام فی نفوس العرب ان الخلافۃ لاتشترط فیھا الشرقیۃ (حصہ ۲ ص ۲۹)۔۔۔۔ اور عرب کے ذہن میں یہ بات قائم ہوگئی کہ خلافت کے لیے قریشی ہونا ضروری نہیں۔ اس موقعہ پر مصنف نے سخت خیانت کی ہے۔اور اعلانیہ دروغ گوئی کی ہے۔اس عبارت کے ثبوت میں کتاب الا ستقصا ء کی جلد اول صفحہ ۶۰ کا حوالہ دیا ہے۔ اس کی کیفیت یہ ہے کہ مصنف استقصانے اہل بربر اور مغرب (تیونس) وغیرہ کے متعلق لکھا ہے کہ وہ لوگ پہلے مذہب حق پر تھے۔ اور پھر اہل بدعت نے ان کو گمراہ کیا،اس کے بعد لکھا ہے۔ کہ فلقنھم اھل البدعۃ ان الخلافۃ لا تشترط فیھا القرشیۃ ۔ پس ان کو اہل بدعت نے سکھلایا کہ خلافت میں قریشی ہونا مشروط نہیں۔ مصنف کتاب مذکور کے حوالہ سے لکھتا ہے۔ کہ اہل عرب کے دل میں یہ اعتقاد قائم ہو گیا، لیکن اس کتاب میں عرب نہیں ،بلکہ اہل مغرب کے متعلق یہ واقعہ مذکور ہے۔ اور وہ بھی اس حیثیت سے کہ بدعتیوں نے ان کو گمراہ کر کے یہ خیال ان کے دل میں ڈالا تھا۔ مصنف نے لکھا ہے کہ چونکہ بنو امیہ غیر مذہب والوں کو سخت عذاب دیتے تھے،اور انہوں نے دیکھا کہ مسلمان ہونے پر بھی جزیہ سے نجات نہیں ملتی تو بعضوں نے راہب جوگی بننا اختیار کیا۔ عمال نے جب یہ دیکھا تو راہبوں پر بھی جزیہ لگا دیا۔ (حصہ ۲ ، صفحہ ۲۰) اس واقعہ کے لئے مصنف نے مقریزی (صفحہ ۴۹۲) کا حوالہ دیا ہے۔ لیکن سخت خیانت کی ہے، مقریزی میں اس کے متعلق ایک ھرف بھی مذکور نہیں ہے۔کہ لوگوں نے جزیہ کے ڈر سے راہب ہونا اختیار کیا۔ صرف یہ لکھا ہے کہ عمر بن عبد العزیز بن مروان نے راہبوں کا خون کرایا اور ان پر جزیہ لگایا۔ دولت عباسیہ مصنف نے خلافت عباسیہ کا ذکر نہایت مدح کے ساتھ شروع کیا ہے۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ مصنف کے نزدیک یہ سلطنت دراصل عربی نہ تھی ،بلکہ ایرانی تھی، لیکن لطف یہ ہے کہ مدح دم سے بڑھ گئی ہے۔ عباسیوں کے خصائص حکومت میں ایک یہ شمار کیا ہے کہ ان کے زمانہ میں عرب یہا ں تک ذلیل ہو گئے تھے کہ کسی کو عرب کہنا بد تر سے بدتر لقب تھا۔ چنانچہ لکھتا ہے:۔ فاصبح لفظ العربی مراد فا حقرا الا وصاف عند ھم (حصہ ص ۳۲)۔۔۔۔۔ تو ان کے نزدیک لفظ عربی بد ترین لقب کا مرادف تھا، العربی بنمزلۃ الکلب اطرح لہ کسرۃ واضربہ اسہ ۔۔ عربی کتے کے برابر ہے۔ روٹی دے کر اس کو مارو۔ اس عبارت کے نقل کرنے میں سخت خیانت کی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ یہ افشین کا قول ہے جو ایک مجوسی تھا۔اور بظاہر مسلمان ہو گیا تھا۔ مصنف نے اس کو عام کر کے تمام ارباب حکومت کی طرف منسوب کیا ہے۔لیکن بہر حال اگر یہ صحیح بھی ہو تو کیا یہ عباسیوں کے مفاخر میں شمار ہونے کے قابل ہے۔ مصنف کے نزدیک عباسی اس وجہ سے قابل مدح ہیں کہ انہوں نے عرب کو فوج سے اور عہدہ ہائے ملکی سے نکال دیا۔ان کے زمانے میں عرب کتے کے برابر حقیر ہو گئے تھے۔ انہوں نے سلطنت کے تمام اختیارات مجوسیوں کو دے دیئے تھے۔ لیکن معلوم نہیں عباسی بھی ان باتوں کو اپنے مفاخر میں قبول کریں گے یا نہیں۔ (الندوہ جلد ۸ نمبر ۱۰ شوال ۱۳۲۹ ھجری) معرکہ مذہب وسائنس (مصنفہ ڈریپر) ترجمہ مسٹر ظفر علی خان بی اے، پر ریویو اردو زبان کم رتبہ تصنیفات اور تراجم سے جس طرح روز بروز معمور ہوتی جا رہی ہے۔ اس کے لحاظ سے اگر چہ اہل نظر پر مایوسی چھا گئی ہے۔ لیکن مدتوں میں ایک آدھ تصنیف یا ترجمہ ایسا بھی نکل آتا ہے،جو مایوسی کی تاریکی میں امید کی جھلک پیدا کرتا ہے۔ زیر ریویو ترجمہ بھی اسی قسم کا ایک ترجمہ ہے۔ ڈاکٹر ڈریپر امریکہ کا ایک مشہور عالم ہے۔وہ نیو یارک یونیورسٹی کاپروفیسر تھا۔ اس کی ابتدائی بہت سی تصنیفات علم الضو اور کیمیا پر ہیں۔ وہ ان فنون میں بہت سے اختراعات کا موجد ہے۔ چنانچہ مترجم صاحب نے اپنے دیباچہ میں بہ تفصیل لکھا ہے ۔اس سلسلہ سے الگ اس نے یورپ کی دماغی ترقی کی تاریخ لکھی جو ایک گراں قدر تصنیفات خیال کی جاتی ہے۔ اور تصنیف زیر ریویو اس کے دور آخر کی تصنیف ہے۔ مترجم صاحب مشہور مترجم صاحب ہیں۔ان کی کتاب خیابان فارس متداول ہو چکی ہے۔ دکن ریویو نے بھی ان کو کچھ کم روشناس نہیں کرایا ہے۔ترجمہ کی خوبی پر میں کچھ رائے نہیں دے سکتا۔ کیونکہ میں انگریزی نہیں جانتا،اس لئے ترجمہ کی صحت اور غلطی کا فیصلہ نہیں کر سکتا۔البتہ اس قدر کہہ سکتا ہوں کہ کسی علمی کتاب کا صحیح ترجمہ اس سے زیادہ صاف اور قریب الفہم نہیں ہو سکتا، مترجم صاحب نے مصطلحات علمی کے ترجمہ میں بہت سے الفاظ گویا خود پیدا کیے ہیں۔چنانچہ خاتمہ میں ایسے الفاظ کی جوفہرست دی ہے۔ اس میں بہت سے الفاظ ہم کوجدید النشا ء ۃ نظر آتے ہیں۔ مثلا اسد کہفی، نباتات خوار، دور ثالثہ، الوسطیٰ،دولاب تعدیل، توشیم، جماعت الاکثرین ، تقدیس الا موات وغیرہ وغیرہ ، مترجم صاحب اگر چہ بہت متین لکھنے والے ہیں، لیکن کہیں کہیں سخیف محارے آگئے ہیں، جو ایک علمی کتاب کے شایان نہیں، مثلا دم دبا کر، اڑنگے پر چڑھا کر وغیرہ وغیرہ،،، مترجم صاحب کا یہ خاص احسان ہے کہ مصنف نے جہاں کوئی بات اسلام کے خلاف لکھی ہے۔ انہوں نے نوٹ میں اس کی اچھی طرح پردہ دری کی ہے۔ اور اس وقت وہ مترجم صاحب نہیں بلکہ اچھے خاصے تند مزاج مولوی ہیں۔ کتاب کا موضوع نہایت دل چسپ اور نتیجہ خیز ہے۔ یعنی یہ کہ دنیا میں مذہب اور تحقیقات علمی کا باہمی تعلق کیا رہا ہے؟۔ کیونکہ یہ دونوں معرکہ آرا رہے ہیں۔مذہب نے کس طرح علم پر بے انتہا جور وظلم کیے ہیں۔اور بالاخر کس طرح ہر معرکہ میں شکست فاش کھائی ہے۔ لیکن اس کتاب کے متعلق سب باتوں سے پہلے یہ کہنا پڑتا ہے کہ مصنف نے یہ سخت غلطی کی ہے۔ کہ کتاب کا موضوع عام رکھا ہے۔اور بحث صرف عیسوی مذہب سے کی ہے۔ اس لیے اگر عیسوی مذہب نے علم پر زیادتیاں کی ہیں اور بالاخر شکست کھائی ہے تو اس سے عام مذہب کی نسبت کوئی نتیجہ کیوں کر پیدا ہو سکتا ہے۔اس امر پر ہم آئندہ مفصل گفتگو کریں گے۔ اس کتاب پر ہم مختلف حیثیتوں سے بحث کرتے ہیں۔۔ موضوع کتاب یورپ کے ایک مشہور مصنف سے نہایت تعجب ہے کہ وہ ایک ایسا وسیع مضمون اختیار کرتا ہے۔ جس کے دائرہ میں دنیا کے تمام مذاہب اور قومیں داخل ہیں۔ لیکن صرف عیسائی قوم اور عیسائی مذہب سے بحث کرتا ہے۔ اور ان ہی قوموں کے واقعات کو پیش کرتا ہے۔۔ مسلمانوں کی علمی اور ملکی تاریخ لکھی ہے۔ لیکن اس غلط بنا پر کہ مذہب اسلام نصرانیت کی ایک شاخ ہے۔ اس موضوع کے پیش نظر ہونے کے ساتھ ہر شخص کو بے ساختہ اس بات کے دریافت کرنے کا شوق ہو گا کہ بدہ ، برہمنی،جینی ،پارسی مذاہب کا علم کے ساتھ کیا طریق عمل رہا ہے۔؟۔ دونوں حریفوں میں کس نے بازی جیتی؟۔غالبا مصنف کے نزدیک دنیا صرف عیسائی دنیا کا نام ہے۔اس لیے اس کو دوسری قوموں اور دوسرے مذہبوں سے بحث کی ضرورت نہیں ہے۔ مصنف نے اس معرکہ کی تاریخ جس ترتیب سے بیان کی ہے۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ ’’ چوتھی صدی قبل مسیح یونان نے ایران پر حملہ کیا۔اور جدید معلومات سے بہرہ ور ہو کر سکندریہ میں دار العلوم کی بنیاد ڈالی۔ رومی سلطنت نے عیسائی مذہب قبول کیا،اور کچھ مدت بعد جمہوریت شخصیت سے بدل گئی۔چونکہ اس رومی سلطنت کے تحت تمام بت پرست قومیں آگئیں،اور ان کے معتقدات اور رسوم کا لحاظ رکھنا پڑا، اس لیے عیسائیت میں بت پرستی آگئی۔ساتھ ہی علم اور عیسائیت میں معرکہ آرائی شروع ہو گئی۔اور کتب خانہ اسکندریہ بر باد ہو گیا۔ جنوب میں اصلاح شروع ہوئی۔یعنی پادری نسطور کی تلقین وہدایت سے اسلام پیدا ہوا (نعوذ باللہ)( استغفراللہ) اس کے بعد مصنف نے ان اہم مسائل کو لیا ہے۔ جن میں مذہب اور علم مختلف ہیں،اور الگ الگ عنوانات کے تحت میں دکھایا گیا ہے کہ ان مسائل میں کیوں کر علم اور مذہب باہم جنگ آزما رہے۔اور کیونکہ علم نے فتح حاصل کی۔مسلمانوں کے تمام علمی کار ناموں اور اکتشافات کا ذکر کیا ہے۔اور دکھایا ہے کہ ان ہی کی کوششوں کا نتیجہ تھا کہ یورپ میں علم پھیلا اور عیسائی مذہب کے بے ہودہ عقائد کا تمام طلسم ٹوٹ گیا۔پہلے ہی دہلہ میں ہم کو مصنف کی اس رائے سے بحث کرنے کی ضرورت پیش آئی ہے۔ کہ اسلام کو نسطور سے کہاں تک تعلق ہے ،کیونکہ مصنف کے نزدیک علم کی فتح درحقیقت نسطور کا فیض تھا۔ جس نے گویا اسلام کی بنیاد رکھی۔ مصنف اس واقعہ کو ان الفاظ میں لکھتا ہے ۔ بحیرا راہب نیبصرے کی خانقاہ میں محمدؐ کو نسطوری عقائد کی تعلیم دی، اور اپنے مظالم کی داستان شروع سے آخر تک کہہ سنائی،آپ کی۔۔۔۔ نا تربیت یافتہ (استغفراللہ) لیکن مستعد اور اخاذ دماغ نے نہ صرف اپنے اتالیقوں کے مذہبی بلکہ فلسفیانہ خیالات کا نہایت گہرا اثر قبول کیا۔بعد میں آپ کے طرز عمل سے اس امر کی خاص شہادت ملتی ہے۔ کہ نسطوریوں کے مذہبی عقائد نے آپ پر کہاں تک قابو پا لیا تھا۔۔۔۔ آپ نے اپنی زندگی کونسطوریوں کے دینی عقائد کی توسیع واشاعت کے لیے وقف کر دیا۔اور جب یہ مقصد پورا ہو چکا تو آپ کے جانشینوں نے ان کے علمی ومشائی اصول اختیار کر لیے۔اور نہایت سر گرمی سے ان کی اشاعت میں حصہ لیا۔ سبحانک ھذا بھتان عظیم اگر چہ ڈریپر صاحب کے مقابلہ میں صرف اتنا کہنا کافی ہو گا کہ بحیرا کی ملاقات معتبر طریقے سے ثابت نہیں، لیکن چونکہ یہ روایت عام عربی کتابوں میں مذکور ہے۔ اس سے ڈریپر صاحب کے دعویٰ کو کچھ مدد نہیں مل سکتی۔یہ روایت ترمذی، حاکم، بہیقی ، ابو نعیم اور ابن عساکر نے روایت کی ہے۔ ترمذی کے الفاظ کا خلاصہ یہ ہے ۔ ’’ جناب ابو طالب شام کے سفر کو چلے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور چند سرداران قریش ساتھ تھے۔ جب راہب یعنی بحیرہ کے پاس آئے اور اسباب کھولنا شروع کیا تو راہب آیا اور اس نے آنحضرت صلعم کا ہاتھ پکڑ کر کہا کہ یہ تمام عالم کا سردار ہے اور خدا کا پیغمبر ہے۔خدا نے اس کو دنیا کی رحمت کے لئے بھیجا ہے۔سرداران قریش نے پو چھا کہ تم کو کیوں کر معلوم ہوا؟۔ اس نے کہا جب تم پہاڑ کی چوٹی پر سے اترے تو تمام پتھروں اور درختوں نے سجدہ کیا۔اور پتھر اور درخت پیغمبر کے سوا کسی کو سجدہ نہیں کرتے۔ میں ان کومہر نبوت کے ذریعے سے پہچانتا ہوں۔پھر اس نے خانقاہ میں جا کر کھانا تیار کیا ،اور لوگوں کو بلایا ،تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سر مبارک پر بادل سایہ کرتا آتا تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم درخت سے ذرا ہٹ کر بیٹھے،کیونکہ اور لوگوں نے پہلے سے پہنچ کر قبضہ کر لیا تھا۔ جب آپ بیٹھے تو درخت کا سایہ بڑھ کر آپ پر جھکا،راہب نے لوگوں سے کہا ،دیکھو سایہ کیوں کر ان پر جھکا آتا ہے۔اخیر میں یہ کہ اس سفر میں حضرت ابو بکرؓ اور حضرت بلالؓ بھی تھے۔ یہی روایت طرح طرح کے پیرائے بدل کر طبقات ابن سعد، تاریخ طبری، ابن ہشام وغیرہ میں منقول ہے۔اس حدیث کی یہ کیفیت ہے کہ ترمذی نے اس کی نسبت لکھا ہے کہ یہ حسن اور غریب ہے۔ اور صرف اسی طریقہ سے منقول ہے۔ علامہ ذہبی نے میزان الا عتدال میں عبد الرحمنٰ بن غزوان کے ذکر میں لکھا ہے کہ مما یدل علی انہ باطل قولہ وبعث معہ ابو بکر بلا لا وبلال لم یکن خلق وابوبکر کان صبیا۔ اس حدیث کے باطل ہونے کی یہ دلیل ہے کہ اس کے بیان میں یہ بیان ہے کہ حضرت ابو بکر ؓ نے حضرت بلالؓ کو ساتھ کر دیا۔ حالانکہ حضرت بلالؓ تو ابھی پیدا بھی نہیں ہوئے تھے۔ اور حضرت ابو بکر بچے تھے۔ مستدرک میں حاکم کی تلخیص میں لکھا ہے۔ اظنہ مو ضوعا فبعضہ باطل ۱؎ میں اس کو جعلی روایت سمجھتا ہوں کیونکہ اس کا کچھ ٹکڑا باطل ہے۔ حافظ ابن حجر کہتے ہیں اخیر کا ٹکڑا ہو سکتا ہے ، کسی نے ملا دیا ہو۔ باقی حدیث اس لئے صحیح ہے کہ راوی ثقہ ہے۔ لیکن اصل بحث یہ ہے کہ سب سے اخیر راوی یعنی ابو موسیٰ اشعریؓ خود واقعہ میں شریک نہ تھے۔اور یہ بیان نہیں کرتے کہ انہوں نے کس سے سنا ہے۔ اس لئے یہ حدیث منقطع ہے۔ ممکن ہے کسی غیر معتبر شخص نے ان سے بیان کی ہو۔ کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بچپن کے واقعات جس قدر منقول ہیں،اکثر محدثین کے نزدیک غیر معتبر اور غیر مستند ہیں۔ ۱؎ زرقانی شرح مواہب لدینہ ص ۲۳۶ مطبوعہ مصر جلد اول اب درایت کی حیثیت سے ڈریپر صاحب کے بیان پر نظر ڈالو، آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عمر مبارک اس وقت بارہ برس کی تھی۔ اسی سن میں بحیرا آپ کو عقائد کے حقائق اور فلسفہ سکھاتا ہے۔ اور آپ کے دل میں نقش ہو جاتا ہے۔ لیکن اس کے بعد پورے اٹھائیس برس تک ان عقائد اور فلسفہ کے متعلق ایک لفظ بھی آپ کی زبان سے منقول نہیں۔روایتوں سے ثابت ہے کہ کفار آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو طعنہ دیتے تھے۔ کہ آپ جو کچھ کہتے ہیں،اوروں سے سیکھ کر کہتے ہیں۔ لیکن یہ سکھانے والے (باعتقاد کفار) خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے ہی کے لوگ تھے۔یعنی سلیمان فارسی ؓ وغیرہ،بحیرا کا نام کافروں نے بھی نہیں لیا ،تا بہ مسلمان چہ رسد۔ ڈریپر صاحب ان ممتاز مورخوں میں سے ہیں ،جو اسلام سے تعصب نہیں رکھتے، انہوں نے مسلمانوں کی علمی ایجادات اور اکتشافات کا ذکر اس تفصیل سے کیا ہے کہ خود عربی تاریخوں میں کسی جگہ یک جا نہیں مل سکتا۔ لیکن افسوس ہے کہ صاحب مو صوف کی نسبت ہماری احسان مندی اس وجہ سے کم ہو جاتی ہے۔ کہ ان کی مہربانیاں اسلام پر اس لئے نہیں ہیں کہ وہ اسلام ہے۔ بلکہ اس لئے ہیں کہ وہ نسطوی مذہب کی ایک شاخ ہے۔ مسلمانوں کے علوم وفنون ان ہی مشافی اصولوں کے نتائج ہیں۔ جو بحیرا نے تعلیم دیے تھے۔ مسلمانوں کو اپنی کالص توحید پر بڑا ناز ہے۔لیکن ڈریپر صاحب کے بتانے سے معلوم ہوا ہے کہ وہ بھی بحیرا کا فیض تعلیم ہے۔ چنانچہ وہ فرماتے ہیں:۔ ’’ راہب بحیرہ نامی نے کوشش کی کہ جس طرح ہو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دل سے اس بت پرستی کے اثر کو جو اس کا آبائی مذہب ہے،زائل کیا جائے۔ بحیرا نے دیکھا کہ لڑکا نہایت ہونہار اور غیر معمولی طور پر ذہین ہے۔ اور مذہبی باتوں کو نہایت توجہ اور شوق سے سنتا ہے۔(نعوذ باللہ من ہذہ الہفوات)۔ ایک اور جگہ کہتا ہے کہ:۔ ’’ بحیرا راہب کی تعلیم کا اثر تھا کہ آپ نے اس عجیب وغریب زندگی کے دوران میں جس کے کار ناموں نے دنیا کو محو حیرت کردیا۔ حضرت مسیح کو کبھی خدا کا بیٹا کہہ کر نہ پکارا۔‘‘ اگر بت پرستی اور حضرت عیسیٰ کی الوہیت کا انکار دونوں چیزیں اسلام نے بحیرہ سے سیکھیں تو اسلام کے پاس کیا رہ جاتا ہے۔ خود بحیرہ نے کیوں نہ سیکھیں؟۔ مصنف نے اسلامی فتوحات کے ذکر میں کتب خانہ اسکندریہ جلانے کا ذکر بھی کیا ہے۔ اور وہاں پر اس طرح تعصب نے ان پر استیلا کیا ہے کہ بظاہر ان کا کلام خود متناقض ہو گیا ہے۔ چنانچہ مترجم صاحب نے نوٹ میں اس پر تعجب کا اظہار کیا ہے۔ لیکن حقیقت میں ان کے بیان میں تناقض نہیں۔ مصنف نے حسب ذیل دلیلوں سے ثابت کیا ہے کہ کتب خانہ کا جلایا جانا صحیح نہیں ہے۔ اور نہ ہو سکتا ہے۔ (۱) اس کتب خانے کو تھیا فلس نے پہلے ہی بر باد کر دیا تھا۔ چنانچہ اس واقعہ کے بیس برس بعد ارد سیوس نے جب کتب خانہ کو دیکھا تو ایک کتاب بھی باقی نہ تھی۔ (۲) اگر اس بر بادی کے بعد بھی کتب خانہ بچا ہو گا تو بہت کم کتابیں بچی ہو ں گی۔ حالانکہ الزام لگانے والے کہتے ہیں کہ پانچ لاکھ کتابیں تھیں جو حضرت عمر ؓ کے حکم سے جلائی گئیں۔ (۳) کتابیں اکثر جھلی پے لکھی ہوتی تھیں،اس لئے وہ حمام کے جلانے میں کام نہیں آسکتی تھیں۔ حضرت عمر ؓ جلائے جانے کا حکم ضرور دیا۔مترجم نے اسی بناء پر تناقض بیانی کا الزام قائم کیا ہے۔ لیکن اصل میں تنا قض نہیں ہے۔ اس کا مقصد ہے کہ حضرت عمر ؓ نے حکم ضرور دیا،لیکن اس کی تعمیل اس لئے نہیں ہو سکتی تھی کہ کتب خانہ پہلے ہی بر باد ہو چکا تھا۔مسلمانوں کامذہب ہے کہ کسی برے کام کی محض نیت کرنے سے گناہ نہیں ہوتا، جب تک وہ عمل میں نہ آئے۔اس لئے مصنف کے ممنون ہیں کہ اس نے درحقیقت حضرت عمر ؓ کو الزام سے بچا لیا۔ لیکن ہم یہ سننے کے مشتاق ہیں کہ ان کے پاس اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ حضرت عمر ؓ نے یہ حکم دیا بھی تھا کہ نہیں، ان کے الفاظ یہ ہیں۔ ’’ اگر چہاس واقعہ سے انکار کیا گیا ہے لیکن اس میں مطلق شک نہیں کہ حضرت عمر ؓ نے یہ حکم ضرور دیا۔ وہ نوشت وخواند سے عاری تھے۔ ان کے چاروں طرف تعصب اور جہالت کا بادل چھایا ہوا تھا۔ ایسی حالت میں اگر انہوں نے یہ حکم دیا تو یہ کون سی تعجب کی بات ہے۔ جو شخص حضرت عمر ؓ کو نوشت وخواند سے عاری سمجھتا ہے ،اس کی تاریخ دانی کے مقابلے میں ہماری کیا پیش جا سکتی ہے۔ ان باتوں کے ظاہر کرنے سے مقصود یہ ہے کہ یورپ میں جو لوگ ہم پر مہر بان ہیں، ان کی مہربانی کی بھی یہ حالت ہے۔ مصنف مسلمانوں کے عقائد ومسائل، علوم وفنون ،صنائع وہنر سے اچھی طرح واقف ہے۔اور اس کے متعلق جو تفصیلی بحث اس نے کی ہے۔ احسان مندی کے قابل ہے،تاہم جا بجا اس کی اصل فطرت کی جھلک بھی نظر آتی ہے۔فقرات ذیل ملاحظہ ہوں۔ ’’ تین چھوٹی چھوٹی لڑائیوں میں جو بدر، احد، اور احزاب کے نام سے مشہور ہوئیں۔آپ کو معلوم ہو گیا کہ آپ کے سب سے زبر دست دلیل تلوار ہے۔۔۔ اسلام کے خدا کی صورت شاید کفر آلود عسایئت کے خدا کی شکل کی بہ نسبت زیادہ مہیب اور با رعب ہے۔بات یہ ہے کہ خدا کو انسانی صفات سے متصف کرنے کا خیال ان لوگوں کے دلوں سے محو نہیں ہو سکتا ۔جو حکمت آشنا نہیں ہیں، ان کا خدا زیادہ سے زیادہ گویا ایک دیو ہیکل انسان ہے۔ جس کا سر آسمان سے لگا ہوا ہے، اور ٹانگیں زمین پر ہیں۔قرآن کی رو سے زمین ایک سطح مربع ہے جس کے کناروں پر بڑے بڑے پہاڑ واقع ہیں۔آسمان کے اوپر بہشت کی بنیاد ہے، جس کی سات منزلیں ہیں۔سب سے اونچی منزل خدا کا مسکن ہے، جہاں وہ دیو پیکر انسان کی شکل میں ایک تخت پر بیٹھا ہے۔ اور اس تخت کے دونوں طرف اسی طرح کے ذوالجناح بیل ہیں۔جیسے قدیم سریانی بادشاہوں کے محل میں ہوتے تھے۔ اب ہم اس صفحہ کو الٹ دیتے ہیں۔ کیونکہ ہم اپنے ریو یو کو زعفران زار کشمیر نہیں بنانا چاہتے۔ مصنف کی کتاب کا بہترین حصہ وہ ہے کہ جس میں ان تمام علمی مسائل کو الگ الگ کر کے بیان کیا ہے۔جو مذہب کے مخالف خیال کیے جاتے ہیں۔ ہم اس پر کسی قدت تفصیلی بحث کریں گے۔لیکن پہلے یہ دیکھنا ہے کہ یورپ نے ان مسائل کے ساتھ اپنے زمانے میں کیا کیا؟۔مصنف نے تفصیل سے لکھا ہے کہ علمی مسائل کیوں کر ابن رشد کے ذریعہ سے یورپ میں پھیلے تھے۔ان کے پھیلنے پر ایک محکمہ انکویزیشن کے نام سے قائم کیا گیا۔ جس کا مقصد یہ تھا کہ عقائد باطلہ کی سراغ رسانی اورتفتیش کی جائے۔۱۴۷۸ء ؁ میںیورپ کے حکم سے باقاعدہ ایک محکمہ قائم ہوا اور اس نے پہلے ہی سال یہ قابل فخرکار گزاری دکھائی،کہ دوہزار شخص اسپین میں زندہ جلا دیئے۔اٹھارہ سال کی مدت میں دس ہزار دو سوبیس شخص زندہ جلائے گئے۔اور ستانوے ہزار اکیس شخص اور مختلف سزائیں دی گئیں۔جو لوگ فلسفہ کی حمایت کی وجہ ملعون اور بے دین قرار دیئے گئے تھے۔ ان میں سب سے مقدم ابن رشد تھا۔اور اس لئے ۱۵۱۲ء ؁ میںلٹینرن کونسل نے فیصلہ صادر کیا کہ ان عقائد کا پیرو ملحد قرار دیا جائے گا۔ محکمہ انکو یزیشن کی داستان حقیقت میں عجیب وغریب ہے۔اور اس سے عجیب تر یہ ہے کہ جن مسائل پر لوگ زندہ جلائے جاتے یا اور طریقوں سے مار ڈالے جاتے تھے۔ وہ سب علم ہیئت وغیرہ کے مسائل تھے۔جن کو مذہب سے کوئی تعلق نہ تھا۔ اس واقعہ پر ہم کو مختلف حیثیتوں سے نظر ڈالنی چاہیئے۔ (۱) یورپ جو مسلمانوں کو تعصب اور مذہبی جنون کا الزام دیتا ہے۔ اس کے منہ سے یہ الزام کس قدر خوش نما معلوم ہوتا ہے۔ (۲)وہ یورپ جو کسی زمانہ میں فلسفہ کا اس قدر دشمن رہ چکا ہے۔ اور فلسفہ کے جرم میں لاکھوں آدمیوں کو قتل کر چکا تھا۔آج اس قدر فلسفہ کا حامی اور علم دوست ہے۔تو ہم کو اپنے مذہبی علماء سے اس بات کی کوئی نا امیدی نہیں ہے، کہ ان کو اجنبیت کی وجہ سے جو اجتناب ہے جاتا رہے گا۔ اور وہ یورپ کے فلسفہ اور علوم جدیدہ کو اس طرح اپنے نصاب تعلیم میں داخل کر لیں گے۔ جس طرح انہوں نے یونان کے علوم وفنون کو داخل کر لیا۔ یورپ نے جن علمی مسائل کو مذہب کے مخالف سمجھا تھا، جس پر سزائیں دی جاتی تھیں۔اور لوگ قتل کیے جاتے تھے،ان میں سے بعض یہ ہیں:۔ (۱) زمین گول ہے، عیسائی کہتے تھے کہمذہب کی رو سے زمین کروی نہیں ہو سکتی۔ (۲) زمین کے سوا اور ستاروں میں بھی آبادی ہو سکتی ہے۔برونو اسی جرم میں قتل کیا گیاکہ وہ تعدد عالم کا قائل تھا۔ (۳) زمین متحرک ہے اور آفتاب کے گرد گھومتی ہے۔ کوپر نیکس اسی مسلہ کی بنیاد پر ملحد قرار دیا گیا۔ اور گلیلو نے چونکہ اس کی تائید کی تھی۔اس لئے قید کیا گیا اور قید خانہ ہی میں مر گیا۔ (۴) روح جسم سے ا لگ ہو کر عقل کلمیں جا کر مل جاتی ہے۔اس عقیدہ کی بنا پر ہزاروں آدمی جلا وطن کیے گئے۔ اس قسم کے اور بہت سے مسائل ہیں، مصنف نے ان کے بیان میں اس تفصیل سے کام لیا ہے کہ گویا ان مسائل پرمستقل رسالے لکھ دیئے۔ جس سے ان کی حقیقت اور ان کی تحقیقات کی تدریجی تاریخ معلوم ہوتی ہے۔ ہم نہایت فخر اور خوشی سے یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اسلام نے کبھی حکماء اور فلاسفہ کا نقصان نہیں پہنچایا۔فارابی، کندی، بو علی سینا، نو بخت ،بہمن یار، ابن مسکویہ، بیرونی،ابو بکر رازی، خیام، ٹھیٹ حکیم اور فلسفی تھے۔لیکن ان میں سے کسی شخص کو انکویزیشن کی عدالت میں جانا پڑا ، نہ وہ زندہ جلائے گئے، نہ شکنجہ میں کسے گئے۔نہ ان کو کسی طرح کی تکلیف دی گئی۔خلفا ء اور سلاطین اسلام نے ان کا نہایت عزت اور احترام کیا۔ وہ جہاں جاتے تھے،لوگ ان کے لئے آنکھیں بچھاتے تھے۔ جہاں ان کا ذکر آتا تھا۔ ان کا نام نہایت عزت اورا حترام سے لیا جاتا تھا۔محدثین اور فقہا ان کا ذکر مدحیہ الفاظ میں کرتے تھے۔اور اس سے زیادہ فلسفہ کی کیا عزت کی جا سکتی ہے۔ لایعرف الفضل الاذو ولا۔۔ کمال کی قدر صاحب کمال ہی کرتا ہے۔ (الندوہ جلد ۷ نمبر ۸، شعبان المعظم ۱۳۲۸ ئ؁) ہومر کے الیڈ کاعربی ترجمہ اگر یہ سوال ہو کہ دنیا کا سب سے بڑا شاعر کون ہے؟۔تو مختلف قوموں کی زبان سے مختلف جواب ہوں گے۔عجم فردوسی کا نام لیں گے۔ انگریز شکسئپیر کو پیش کریں گے۔ رومی ورجل کے حق میںووٹ دیں گے۔عرب امرا ء القیس کو مقابلہ میں لائیں گے۔غرض کسی شخص پر اتفاق عام نہ ہو سکے گا۔تاہم وطن پرستی سے قطع نظری کر کے اگرکسی شخص پر اتفاق عام ہو سکتا ہے،تو وہ یونان کا شاعر ہو مرہے۔جس کو عربی کتابوں میں اومیر دس کہتے ہیں۔اور جس کی نسبت العلا ء مصری لکھتا ہے کہ : کانی امیرد س لدین محمد ہومر وہ شخص ہے کہ ارسطو نے اس کے مشکل اشعار کی شرح میں ایک مستقل کتاب لکھی ہے۔اور درحقیقت ارسطو نے فن بلاغت اور فن شاعری کے جو اصول اور آئین منضبط کیے ہیں۔وہ ہومر ہیکے کلام سے مستنبط تھے۔ سکندر ہومر کا کلام سفر وحضر میں ہمیشہ ساتھ رکھتا تھا۔فرانس کے مشہور فاضل رینان کا قول ہے کہ’’ ایک ہزار سال کے بعد دنیا کی تمام تصنیفات مٹ جائیں گی ۔لیکن صرف ہومر رہ جائے گا۔ یہ بات تعجب سے خالی نہیں کہ مسلمانوں نے یونان کا ایک ایک حرف عربی زبان میں ترجمہ کے ذریعہ سے لے لیا،لیکن ہومر کے ترجمہ کا پتا نہیں چلتا، اسکی وجہ بظاہر یہ ہے کہ عرب کو اپنے ادب اور شاعری پر اس قدر ناز تھا کہ وہ دوسری زبان کے ادب اور شاعری سے مستفید ہونے کو عار سمجھتے تھے۔ بے شبہ انہوں نے ارسطو کی کتاب الشعر اء اور کتاب الخطابہ کا ترجمہ کیا۔ لیکن اس کی وجہ یہ تھی ۔ کہ ارسطو نے یہ دونوں کتابیں منطق کے مجموعہ میں شامل کردی تھیں۔ اوران دونوں چیزوں کو وہ منطق ہی کا ایک حصہ خیال کرتا تھا۔ اس بنا پر مسلمانوں نے ان کا ترجمہ کیا۔ چنانچہ بوعلی سینا کی کتاب الشفاء میں یہ دونوں بات موجود ہیں۔ لیکن علمائے اسلام نے منطق پر جو خود مستقل کتابیں تضنیف کیں۔ تو یہ دونوں حصے نکال ڈالے ۔ علامہ ابن الاثیر نے مثل السائر میں لکھا ہے ۔ کہ میں نے اگرچہ فن بلاغت پر یہ کچھ لکھا ہے لیکن میں یونانی تصنیفات سے مطلق واقف نہیں ۔ غرض عربی زبان میں تو ہومر کا ترجمہ غالباً نہیں ہوا۔ لیکن مسلمانوں کے ترجمہ عربی پر محدود نہ تھے ۔ مترجمین اسلام نے اکثر کتابیں یونانی سے سریانی میں ترجمہ کیں۔ اور پھر سریانی سے عربی میں آئیں۔ چنانچہ ہو کا مر کا ترجمہ بھی خلیفہ مہدی کے زمانہ میں ثادفیلس نے سریانی زبان میں کیا۔ تاہم عربی زبان پر یہ بڑا داغ تھا۔ کہ اس کا دامن ایک ایسی کتاب کے ترجمہ سے خالی ہے ۔ ہم پروفیسر سلیمان بستانی کے ممنون ہیں ۔ جس نے ایک مدت کے بعد اس فرض کو اد ا کیا ہے ۔ پروفیسر مذکور شام کے مشہور فضلا میں سے ہے ۔ عربی زبان میںآج کل جو انسائیکو پیڈیا لکھی جارہی ہے ۔ یہی نامور اس کو پورا کررہا ہے ۔ یہ کتاب جب اس نے ترجمہ کی تو مصر و قاہرہ کے فضلائے نے قدردوانی کے لحاظ سے اس تعریف میں ایک دعوت دی جس میں ایک سو فضلا ء اور اکابر ملک شریک تھے۔ پروفیسر موصوف نے صرف ترجمہ نہیں کیا۔ بلکہ دو سو صفحوں میںکتاب کا دیباچہ لکھا ہے ۔ جس میں ہومر کے حالات اور ریویو کے علاوہ عرب کی شاعری پر ایک مبسوط محققانہ مضمون لکھا ہے ۔ لیکن سب سے بڑی بات جو اس ترجمہ میں ہے یہ ہے کہ مترجم نے ہرجگہ حاشیہ میں ہومر کے کلام کی بلاغت کا ایک ایک اسلوب بتایا ہے۔اور پھر اکثر جگہ عرب کے اشعار نقل کر کے دونوں کا مقابلہ کیا ہے۔حیرت ہوتی ہے کہ شعرائے جاہلیت جن کو یونان کا نام تک معلوم نہ تھا ،ان کے مضامین ہومر سے کس طرح لڑ جاتے ہیں،یہاں تک کہ بعض جگہ سرقہ کا گمان ہوتا ہے۔اور غسترہ کا کلام پڑھ کر تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ ہومر کو سامنے رکھ کر کہتا ہے۔ چنانچہ مترجم نے اس پر ایک خاص مضمون لکھا ہے۔اور دونوں کے بہت سے اشعار نقل کیے ہیں۔ آج اگر کوئی شخص یونانی اور عربی شاعری کا مقابلہ کرنا چاہے تو اس کو تفحص اور استقرا کی کوئی ضرورت نہ ہو گی، صرف یہ کتاب اس کے لئے کافی ہے۔ اس کتاب کو پڑھ کرمصر اور ہندوستان کی علمی حالت کا اندازہ ہو سکتا ہے۔ وہاں اس قسم کی بلند پایہ کتابیں یونانی زبان سے ترجمہ ہو رہی ہیں، جو آج متروک ہو چکی ہیں۔اور ہماری زبان میں انگریزی سے جو بھی سرمایا آتا ہے۔ وہ صرف بیہودہ ناول اور افسانے ہوتے ہیں۔اور جدید گروہ کا کل سرمایا افتخار یہی ہے۔ اختتام۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔The End