خطبات شبلیؒ مرتبہ مولانا سید سلیمان ندوی ؒ دیباچہ بسم اللہ الرحمن الرحیم تبلیغ دین، دعوت و ارشاد، تدبیر و سیاست، غرض پبلک زندگی کے ہر شعبہ کے متعلق خطابت و تقریر کی ضرورت ہے، اور جس شخص میں یہ ملکہ جس قدر قوی ہو گا اسی قدر وہ جمہور کی رہنمائی میں کامیاب ہو گا مولانا شبلی نعمانی جن اوصاف و خصوصیات کا مجموعہ تھے ان میں ایک خاص خصوصیت یہ تھی کہ ان میں زور تحریر کے ساتھ قوت تقریر کا خداد داد ملکہ پایا جاتا تھا۔ اگرچہ ان کی زندگی کے ابتدائی دور میں اس ملکہ کا اظہار نہیں ہونے پایا۔ چنانچہ ان کی زندگی کے ابتدائی دور کے خطوط میں کسی موقع پر تقریر کرنے کا تذکرہ انہوں نے نہیں کیا لیکن علی گڑھ جانے کے بعد جب ان کی پبلک زندگی کا آغاز ہوا تو اس ملکہ خدا داد نے پوری نشوونما حاصل کی اور وہ علی گڑھ کالج کی سوسائٹیوں اور کانفرنس کے جلسوں میں تقریریں کرنے لگے۔ اس کے بعد ندوۃ العلماء قائم ہوا تو اس کے جلسوں میں بھی ان کی تقریروں نے خاص طور پر اہمیت حاصل کی اور وہ ہندوستان کے بے مثل اور بے نظیر خطیب اور مقرر تسلیم کئے جانے لگے۔ خوش قسمتی سے تقریر و زور بیان کے لیے جس قدر لوازم و اوصاف ضروری ہیں وہ سب ان میں قدرتی طور پر موجود تھے قد نہایت بلند بالا تھا اس لیے جب اسٹیج پر تقریر کرنے کے لیے کھڑے ہوتے تھے تو ہر شخص کے سامنے ظاہری حیثیت سے بھی ایک نمایاں شخصیت آ جاتی تھی آواز بلند اور گونجنے والی تھی اور اول سے آخر تک یکساں حالت میں قائم رہتی تھی۔ مزاج میں نہایت اشتعال اور جوش و خروش پایا جاتا تھا اس لیے ان کی تقریروں میں قدرتی طور پر زور اور جوش بیان پیدا ہو جاتا تھا عام واعظوں اور پیشہ ور مقرروں کی طرح ہر موضوع پر محض تقریر کرنے کے لیے تقریر نہیں کرتے تھے بلکہ صرف اسی موضوع کا انتخاب کرتے تھے جس کو وہ خود محسوس کرتے تھے اور ملک و قوم کے لیے اس کو ضروری سمجھتے تھے اس لیے ان کے طبعی احساس اور ملک و قوم کی عام ضرورت کے لحاظ سے ان کی تقریروں میں خود بخود زور و اثر پیدا ہو جاتا تھا۔ تقریروں میں متبذل اشعار، قصہ و حکایت اور محض لفاظی سے بالکل اجتناب کرتے تھے، بلکہ ان کی تمام تقریریں تاریخی واقعات اور علمی معلومات کا مجموعہ ہوتی تھیں اور کوئی واقعہ ایسا نہیں بیان کرتے تھے جو دور از کار روایتوں پر مبنی ہو غرض ان کی تقریر و تحریر دونوں میں معلومات کے لحاظ سے کوئی فرق نہیں ہوتا تھا۔ ان کی تقریروں کے موضوع یا تو خالص علمی ہوتے تھے مثلاً اعجاز القرآن، علم کلام اور فارسی شاعری کی تاریخ یا مذہبی مثلاً ختم نبوت اور تکمیل دین، یا قومی جس میں زیادہ تر دین و دنیا کی آمیزش یا علوم قدیمہ و جدیدہ یا معقول و منقول کی تطبیق پر زیادہ زور دیتے تھے، اور یہ تمام موضوع قرآن و حدیث اور تاریخ کے ٹھوس معلومات سے لبریز ہوتے تھے تقریر کا ایک پر زور میدان ان کے لیے سیاست کا میدان تھا اور اس میں شبہہ نہیں کہ اگر سیاسی موضوع پر ان کو تقریر کرنے کا موقع ملتا تو ان کی آتش بیانی میں اور بھی بہت سے شرارے شامل ہو جاتے۔ لیکن وہ علانیہ اس میدان میں کبھی نہیں آئے اس لیے یہ شرارے ان کے دل ہی میں بجھ کر رہ گئے۔ افسوس ہے کہ ان کی تقریروں کا یہ نا مکمل مجموعہ جو چھپ کر شائع ہو رہا ہے اس سے ان کے زور بیان کا پورا اندازہ نہیں ہو سکتا۔ وہ تقریر خود کبھی لکھ کر نہیں کرتے تھے چند تقریریں جو لوگوں نے لکھی ہیں ان میں ان کے تمام الفاظ کا بعینہ احاطہ نہیں کیا گیا ہے۔ اس مجموعہ میں جو اخیر تقریریں ہیں وہ مختصر نویسوں نے لکھی ہیں جن میں ان کے الفاظ، جملے اور فقرے بعینہ اپنی جگہ پر باقی نہیں رہ سکے ہیں۔ اور وہ اسی طرح روداد میں چھپ گئے ہیں اور ہم نے بھی ان میں تغیر مناسب نہیں سمجھا اس کے علاوہ ان سے ان کا عام طرز خطابت بھی نہیں معلوم ہو سکتا تاہم ان سے ان کے طرز تقریر کا ایک اجمالی اندازہ ہو سکے گا۔ عبدالسلام ندوی دار المنفین 30اگست1941ء ٭٭٭٭٭٭٭ چھوٹے کم درجہ اسکولوں کا قیام (محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس کے دوسرے اجلاس لکھنو منعقدہ دسمبر1887ء میں تقریر سرسید کی اس تجویز پر کہ چھوٹے کم درجہ اسلامی اسکولوں کا قیام مسلمانوں کے لیے مضر ہے) میں اس امید پر کھڑا ہوا ہوں کہ اس بحث میں میری اسپیچ شاید سب سے پچھلی اور فیصلہ کرنے والی اسپیچ ہو گی۔ روز ولیوشن پر نہایت سرگرمی سے مباحثہ ہو چکا ہے۔ مگر افسوس ہے کہ اکثر تقریریں اصل مطلب سے دور پڑ گئی ہیں چھوٹے چھوٹے مدارس تین حالتیں رکھتے ہیں اور ہم کو دیکھنا ہے کہ رزولیوشن کا مقصد ہر ایک پر کیا جداگانہ اثر رکھتا ہے پہلی قسم کے وہ اسکول ہیں جن کے پہلو میں کوئی گورنمنٹ یا مشنری اسکول موجود نہیں ہے۔ میں اپنے حافظہ کے اعتماد پر کہتا ہوں کہ اس قسم کے اسکولوں کی ضرورت کو سید صاحب نے اپنی تقریر میں تسلیم کر لیا ہے۔ دوسری قسم کے وہ اسکول ہیں کہ جن مقاموں میں قائم کئے گئے ہیں وہاں ان سے عمدہ تر گورنمنٹ یا مشنری اسکول موجود ہیں۔ غالباً سید صاحب کے مخالفین بھی ان سکولوں کے قائم کرنے کے حامی نہ ہوں گے، کیونکہ اس حالت میں گویا یہ صراحتہً اقرار کرنا ہے کہ عمدہ تعلیم گاہ کے ہوتے ہوئے ہم ناقص تعلیم گاہ کو اختیار کرتے ہیں۔ تیسری قسم کے وہ اسلامی اسکول ہیں جو گورنمنٹ اور مشنری اسکولوں کے ہم پلہ ہیں، گو سید صاحب کی اصطلاح کی رو سے وہ کم رتبہ اور چھوٹے درجہ کے اسکولوں میں شامل ہیں۔ میرے نزدیک تمام بحث کا مرکز صرف یہ تیسری حالت ہے اور میں بے تکلف کہتا ہوں کہ اس خاص حالت کے اعتبار سے میرا فیصلہ رزولیوشن کے مخالف ہے۔ سید صاحب نے اپنی فصیح اور پر اثر اسپیچ میں ثابت کیا ہے کہ ’’ قوم کو تعلیم سے زیادہ قومیت کی طرف خیال دلانے کی ضرورت ہے‘‘ بے شبہہ ہماری کوششوں کا بڑا مقصد یہی ہونا چاہیے یہی بات ہے جس کی وجہ سے ہم مدرسۃ العلوم علی گڑھ کو تمام دوسرے کالجوں پر ترجیح دیتے ہیں اس کے بورڈنگ میں جو لڑکے تعلیم پاتے ہیں وہ اپنی جماعت کو ایک قومی جماعت کی صورت میں دیکھتے ہیں جب وہ کالج کا نام لیتے ہیں تو پر فخر لہجہ میں ’’ ہمارا کالج‘‘ کہہ کر پکارتے ہیں بے شبہہ ترقی کا اصلی زینہ یہی ہے کہ تعلیم ہی کے زمانہ سے جو آئندہ زندگی کی بنیاد ہے بچوں کے دل و دماغ میں قومیت کا نشہ سرایت کر جائے میرا خیال ہے کہ تیسری قسم کے اسکول اس مقصد کے لیے بہت کچھ مفید ہوں گے یہ تربیت نہایت موزوں ہو گی کہ قوم کے بچے لڑکپن سے ’’ ہمارا اسکول‘‘ کہنے کی مشق بڑھائیں اور نوجوانی کے آغاز میں وہ ایک ایسے با عظمت اور وسیع کالج کے احاطہ میں پہنچ جائیں جس کو ’’ قومی کالج‘‘ کے لقب یافتہ ہونے سے ان کے ابتدائی خیالات قومیت زیادہ قومی، پر جوش اور سر گرم ہو جائیں۔ ہم اس اصول سے کبھی در گزر کرنا نہیں چاہتے کہ ’’ قومی طاقت‘‘ متفرق نہ ہونے پائے لیکن میں بتانا چاہتا ہوں کہ ہمارے یہ اسکول اس مقصد میں خلل انداز نہیں ہیں۔ یہ خیال بالکل غلط ہے کہ جن رقموں سے یہ اسکول چلائے جاتے ہیں ان میں کوئی بڑی قومی طاقت صرف ہوتی ہے یا یہ کہ ان سے کوئی دوسرا کام لیا جا سکتا ہے ان اسکولوں میں آمدنی کا ایک بڑا حصہ گورنمنٹ ایڈ اور طالب علموں کی فیس سے حاصل ہوتا ہے، جو کسی طرح دوسرے موقع کے لیے منتقل نہیں کیا جا سکتا تھوڑی سی رقم چندہ اور ڈونیشن سے حاصل کی جاتی ہے لیکن وہ اکثر مقامی خصوصیت رکھتی ہے۔ اور اگر یہ خصوصیت اٹھا دی جائے تو شبہہ ہے کہ چندہ دینے والے اپنی رقموں کو واپس لے لیں گے یا قائم رکھیں گے پس یہ خیال غلط ہے کہ ان اسکولوں کی آمدنی سے کوئی بڑی تعلیم گاہ تیار ہو سکتی ہے یا یہ کہ اس سے کسی قومی کالج کو امداد پہنچ سکتی ہے۔ جب یہ ثابت ہے کہ ان اسکولوں سے قومی مجتمع طاقت کو کچھ گزند نہیں پہنچتا بلکہ بخلاف اس کے ایک اعتبار سے وہ قومیت پیدا کرنے کے لیے مفید آلہ ہیں تو میں ان اسکولوں کو فائدہ مند خیال کرتا ہوں نہ مضر اور اگر رزولیوشن کے مقصد کا ان پر کوئی مخالفانہ اثر پڑتا ہے تو میں رزولیشن کا کامیاب ہونا مطلقاً نہیں چاہتا۔ ٭٭٭٭٭٭ اسلامی علوم و فلسفہ کی تاریخ ترتیب (ایجوکیشنل کانفرنس کے جلسہ الہ آباد1891ء میں) جناب صدر انجمن! ہماری کانفرنس کا اصلی مقصد اگرچہ صرف مسلمانوں کی موجودہ تعلیم سے بحث کرنا ہے۔ لیکن ضمنی و استطراری طور پر مسلمانوں کی گزشتہ تعلیم بھی اس کی وسعت کے دائرہ میں داخل ہے اور اسی بناء پر کانفرنس کے پچھلے اجلاسوں میں اس موضوع پر متعدد مضامین پڑھے جا چکے ہیں۔ یورپ میں چند برس سے ایک کانفرنس قائم ہے جس کا مقصد مشرقی اقوام کے علوم کی تحقیق ہے۔ اس کانفرنس کے متعدد اجلاس یورپ کے مشہور شہروں میں بڑی شان و شوکت سے منعقد ہوئے اور السنہ مشرقیہ کے بڑے بڑے ماہروں نے جمع ہو کر نہایت نادر اور عجیب تحقیقاتیں پیش کیں ویانا کے اجلاس میں ایک فاضل نے ہارون الرشید کے دفتر خراج کا ایک کاغذ پیش کیا جو خود ہارون الرشید کے زمانہ کا لکھا ہوا تھا۔ کانفرنس نے اس عجیب یادگار کا فوٹو لیا جو رونداد کانفرنس کے ساتھ شامل کر کے شائع کیا گیا ہے۔ (خطبات شبلی) یورپ نے یہ مہتمم بالشان کام جو اپنے ذمہ لیا در حقیقت ہمارا فرض تھا اگر ہم اپنی کوششوں سے یورپ کو بالکل سبکدوش نہیں کر سکے تاہم کم از کم اس قدر تو ضرور ہے کہ ہم ان تحقیقات کے متعلق جو خود ہماری نسبت ہوں یورپ کا ہاتھ بٹائیں۔ یہی خیال ہے جس نے مجھ کو اس رزولیوشن کے پیش کرنے کی جرأت دلائی ہے۔ رزولیوشن کا مضمون بظاہر ایک پامال مضمون ہے اخبارات اور رسالوں میں متعدد تحریریں اس پر لکھی جا چکی ہیں لیفٹیننٹ گورنر بنگال نے انعام کا اشتہار دے کر اس قسم کے مضمون پر ’’ ایسے‘‘ لکھوائے تھے اور مولوی عبید اللہ اورمولوی کرامت علی نے اس پر نہایت مفید رسالے لکھے۔ اگرچہ اشتہار کا عنوان اسی قدر تھا کہ مسلمانوں نے یونان سے کیا کیا لیا اور یورپ میں مسلمانوں کے ذریعہ سے وہ علوم و فنون کیوں کر پہنچے لیکن ان رسالوں میں جستہ جستہ مسلمانوں کی خاص علمی ایجادات سے بھی بحث تھی۔ او رکچھ شبہہ نہیں کہ جس زمانہ میں یہ رسالے لکھے گئے اس وقت کے لحاظ سے نہایت قابل قدر اور جدید معلومات پر مشتمل تھے ان رسالوں کے بعد اس قسم کے سینکڑوں مضامین لکھے گئے ہیں جن میں اگرچہ علمی تحقیقات کا عنصر کم تھا لیکن چونکہ مدح و فخر کی چاشنی تھی اس لیے ان کو قبول عام حاصل ہوا۔ اور رفتہ رفتہ یہ دعویٰ کہ ہم نے یونانیوں پر یہ عوم اضافہ کیے ہمارے قومی لٹریچر کے علوم متعارفہ بن گئے۔ اس سے ایک سخت نقصان یہ ہوا کہ تحقیقات کی رغبت کم ہو گئی اور جو مسئلہ نہایت بحث، نہایت غور، نہایت کاوش کے قابل تھا۔ مقلدانہ طریق پر طے کر دیا گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ سوال نہایت غور طلب ہے کہ مسلمانوں نے علوم حکمیہ میں کوئی معقول اضافہ کیا یا نہیں ہمارے ہاں تو اس کی تحقیق کے وسائل مفقود ہیں لیکن یورپ جو ان تحقیقاتوں کا مرکز ہے وہ بھی اس بحث کا قطعی فیصلہ نہیں کر سکا ہے۔ یہ سچ ہے کہ یورپ کے بعض مصنفین مثلاً ڈریپر، گبن، جامعین انسائیکلو پیڈیا نے نہایت آب و تاب سے مسلمانوں کے کارنامے دکھائے ہیں لیکن ایجاد و اختراع کا ذکر ان کی تحریروں میں بھی کم آتا ہے اس کے علاوہ اکثر یہ مصنفین عربی زبان اور عربی تصنیفات سے واقفیت نہیں رکھتے اس لئے ان کی رائیں اجتہاد کا رتبہ نہیں رکھتیں اور یہی وجہ ہے کہ بعض موقعوں پر ان کی مدح تحسین نا شناس ہو جاتی ہے ایک صاحب لکھتے ہیں کہ ’’ علم ‘‘ الحیوانات پر و میری نے جس رتبہ کی کتاب لکھی ہے کئی سو برس کے بعد بھی بفن کو اس رتبہ کی کتاب لکھنی نصیب نہیں ہوئی ’’ ومیری کی کتاب الحیوانات ہمارے سامنے ہے اور جس رتبہ کی ہے ہم خود اس سے شرمندہ ہیں۔‘‘ دوسری طرف یورپ میں ایک گروہ کثیر کی رائے ہے کہ مسلمانوں نے علوم حکمیہ میں کچھ اضافہ نہیں کیا یہ معمولی لوگوں کا خیال نہیں ہے بلکہ بڑے بڑے مصنفین جو عربی زبان کے پورے ماہر ہیں ان کی رائے ہے رنیان فرانس کا ایک مشہور پروفیسر ہے جس نے حکیم ابن رشد کی لائف اس جامعیت اور تحقیق سے لکھی ہے کہ تعجب ہوتا ہے اس نے ایک بڑے مجمع میں لیکچر دیا تھا۔ جس کا عنوان تھا’’ اسلام اور سائنس‘‘ اس کے بعض فقرے یہ ہیں مسلمان ان تمام چیزوں سے جن کو علام عقلیہ کہا جا سکتا ہے کوئی سو میل دور ہیں مسلمان اپنے زمانہ کے مشہور فاتح تھے لیکن یقینا وہ فلاسفر نہ تھے۔ فلسفہ کو مسلمانوں سے صرف یہ تعلق تھا کہ وہ عربی زبان میں نقل ہو کر آ گیا ہے نہ یہ کہ وہ مسلمانوں کا ہے۔ ابو الفرج جو یورپ کا مشہور عربی دان مورخ ہے لکھتا ہے کہ عرب کا علم جس پر ان کو ناز ہے، علم اللسان، واقفیت اصطلاحات، سخن سنجی اور نثاری ہے لیکن اگر فلسفہ کی نسبت پوچھتیہو تو خدا نے ان کو یہ دماغ ہی نہیں دیا تھا۔ رنیان اس قول کو نقل کر کے کہتا ہے کہ کیا اس سے زیادہ سچ ہو سکتا ہے پروفیسر منک فرانس کا ایک مشہور عالم ہے جس نے فلسفہ عرب پر ایک مستقبل کتاب لکھی ہے اور چونکہ وہ عربی، عبرانی، لاطینی زبانوں ک ابہت بڑا ماہر تھا اور مسلمانوں کی تصنیفات اصلی اور ترجمہ شدہ دونوں پر اس کو کافی اطلاع حاصل تھی اس لیے اس نے جو کچھ لکھا ہے مجتہدانہ لکھا ہے وہ فارانی، بو علی سینا، ابن رشد کی تصنیفات پر ریو یو کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ یہ لوگ فلسفہ ارسطو کے نہایت عمدہ شارح ہیں۔ لیکن کود کسی فلسفہ کے موجد نہیں ہیں ہمارے علماء کے اقوال سے بھی اس خیال کی تائید ہوتی ہے عبدالکریم شرستانی نے ملل و نحل میں لکھا ہے کہ فارابی و ابن سینا نے جو کچھ کہا ہے وہ نہایت خفیف اختلاف کے ساتھ صرف ارسطو کا فلسفہ ہے۔ رنیان اور منک کے سوا اور بہت سے یورپ کے نامور مصنفوں کی یہی رائے ہے لیکن چونکہ ہم صدائے مدح کے زیادہ خوگر ہو گئے ہیں اس لیے ان کی آوازیں ہمارے کان میں نہیں پہنچ سکی ہیں میں خود ان لوگوں کے خیالات سے متفق نہیں ہوں لیکن اس قدر ضرور تسلیم کرتا ہوں کہ یہ مسئلہ جیسا کہ آج تک بدیہی سمجھا گیا ایسا بدیہی نہیں ہے، اور دو چار یورپین مصنفوں کی تقلید کی بناء پر طے نہیں کیا جا سکتا۔ اصل یہ ہے کہ اب تک یورپ میں اس بحث پر پوری توجہ نہیں کی گئی ۔ مخالف اور موافق دونوں فریق نے زیادہ استقراء اور تفتیش سے کام نہیں لیا اور در حقیقت ایک غیر قوم کو ہماری علمی ترقیوں پر اس سے زیادہ توجہ ہو بھی نہیں سکتی تھی۔ بے شبہہ یورپ میں مسلمانوں کی علمی ترقیوں پر بہت سی کتابیں لکھی گئی ہیں، لیکن افسوس یہ ہے کہ ان بے شمار تصنیفات میں صرف دو ہی چار کتابیں ہیں، جو مجتہدانہ اور اصل ماخذ کی واقفیت سے لکھی گئیں۔ اس خاص امر میں یورپ نہایت الزام کے قابل ہے کہ اگلے زمانہ میں جب یورپ مسلمانوں کی ہر بات کو رقابت اور مخالفت کی نگاہ سے دیکھتا تھا اس وقت مسلمانوں کے اخلاق، علوم، تمدن کی نسبت جو رائیں قائم ہو گئیں آج تک مختلف طریقوں میں انہی خیالات کا تتبع کیا جاتا ہے۔ زمانہ حال کے مصنفین میں بہت کم ہیں جنہوں نے عربی کے اصل ماخذ کی تلاش و جستجو کی ہو، اور اس بحث پر مجتہدانہ رائے قائم کرنے کا حق حاصل کیا ہو۔ یہ میری ذاتی رائے نہیں بلکہ انصاف پرست یورپین مصنفوں نے اس کا اعتراف کیا ہے۔ مسلمانوں کی عمدہ سے عمدہ تاریخ جو زمانہ میں لکھی گئی ہے موسیو سید یو فرانسیسی کی تاریخ ہے وہ اس بحث میں لکھتا ہے کہ: ’’ موجودہ زمانہ تک ایشیائی ہیئت اور ریاضی کی تاریخ بالکل تاریکی میں پڑی ہوئی ہے۔ علوم اور السنہ کے دوستوں نے اکثر یہ خواہش ظاہر کی کہ یہ رخنہ بھر دیا جائے، لیکن ان علماء نے جو قلمی کتابوں کی تحقیق اور جستجو میں شب بیدایاں کرتے ہیں۔ اس طرف بہت کم توجہ کی۔ ہم لوگ جب ان تصنیفات کو پڑھتے ہیں جو اس صدی کے آغاز میں عرب کی تحقیقات کے متعلق لکھی گئیں اور جب ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے اسلاف نے جو دستاویزیں ہمارے ہاتھ میں دیں وہ بالکل نا کافی ہیں تو ہم کو کس قدر رنج ہوتا ہے دو چار مختصر رسالے جو بعض بعض مقامات میں چھاپے گئے اور چندان ضروری نہیں ہیں چند کتابیں جو لیٹن زبان سے نہایت غلط ترجمہ کی گئیں جن کے مترجم اصطلاحی الفاظ کا بڑا حصہ نہیں سمجھتے تھے اور صرف آواز اور صورت کا ترجمہ کرنا چاہتے تھے چند مفروضات اور قیاسات جو شکوک سے لبریز ہیں چند عام نتیجے جن کی دلیلیں موجود نہیں صرف یہ سرمایہ ہے جس کی بناء پر ہم ان ترقیوں کا اندازہ کرنا چاہتے ہیں جو عہد اوسط (یعنی مسلمانوں کے زمانہ) میں علم ہیئت کے متعلق ظہور میں آئیں ایسے ادھورے اور نا تمام سامان پر یہ عجیب خفیف العقلی ہے کہ یورپ نے قطعاً ان مسائل کا فیصلہ کر دینا چاہا ہے جو علوم کی تاریخ میں نہایت امپارٹنٹ مسائل ہیں نہ تو عربی کے کمیاب نسخوں کی طرف رجوع کیا گیا نہ اطمینان اور یقین کے ضروری سامان بہم پہنچائے گئے تاہم یورپ چلا کر کہتا ہے کہ عرب کے ہیئت دان صرف یونانیوں کے قیاسات کے پیرو ہیں عرب نے یہ البتہ کیا ہے کہ حساب میں کارڈ کے بجائے سائن رکھ دیا ہے لیکن وہ اس سے آگے نہیں بڑھے۔‘‘ موسیو سیدیو نے ان کے بعد اپنے والد پروفیسر سید یو کی اس اتفاقی اطلاع کا ذکر کیا ہے جو ان کو ایک عربی کتاب سے ہوئی اور جس سے معلوم ہوا کہ بہت سی علمی ایجادات جن کو یورپ والے رنگواٹین اور تبکو راہی وغیرہ کی ایجاد سمجھتے تھے عرب کی ایجاد تھی موسیو سیدیو نے ایک تفصیلی بحث کے بعد یہ جملے لکھے ہیں’’ بہت سی وہ کتابیں جو ہم تک نہیں پہنچیں ممکن ہے کہ ان اطلاعوں پر شامل ہوں جو نئے نظام کی تکمیل میں کام آ سکیں۔ ممکن ہے کہ عرب وحشیوں کی یہ تصنیفات ہم کو سکھا دیں کہ وہ ایجادات جن کی ایجادات کا فخر ہم دور جدید کے علمائے یورپ کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ اہل عرب ان سے بے خبر نہ تھے۔‘‘ موسیو سیدیو کی یہ امید بے جا نہیں ہے یورپین مصنفین جنہوں نے مسلمانوں کی نسبت یہ قطعی فیصلہ کر لیا ہے کہ انہوں نے علوم و فنون قدیم میں کوئی اضافہ نہیں کیا یہ دعویٰ نہیں کر سکتے کہ انہوں نے اسلامی تصنیفات کا کافی استقصا کیا ہے ابن سینا نے جس کی نسبت پروفیسر منک کہتے ہیں کہ وہ صرف ارسطو کے فلسفہ کا شارح ہے تصریح کی ہے کہ کتاب الشفا میں میں نے ارسطو کے مسائل بیان کیے ہیں لیکن میرے نزدیک جو فلسفہ صحیح ہے اس کو میں دوسری کتاب حکمۃ مشرقیہ میں لکھ چکا ہوں ابن سینا کی یہ تصنیف پروفیسر منک کو نہیں ملی جیسا کہ انہوں نے خود اپنی کتاب میں اعتراف کیا ہے اسی طرح فارابی، امام غزالی، فخر رازی وغیرہ کی بہت سی تصنیفات ہیں جن سے یورپ آج تک بے خبر ہے۔ میری اس تمام تقریر کا حاصل یہ ہے کہ یہ مسئلہ نہایت غور طلب اور قابل بحث مسئلہ ہے اور اس قابل نہیں کہ مقلدانہ طور پر خوش اعتقادی کے ساتھ اس کا کوئی پہلو تسلیم کر لیا جائے ہماری کانفرنس میں ایسے نامور علماء شامل ہیں جو ایشیا اور یورپ کی مختلف زبانوں کے پورے ماہر ہیں ان کا فرض ہے کہ عرب کے اصل ماخذ اور یورپ کی تحقیقات ان دونوں کے موازنہ سے اس بحث کا تصفیہ کریں اور جو پہلو اختیار کریں، اس کو ایسے قوی اور مصرح دلائل سے ثابت کریں کہ شک و شبہہ کا موقع باقی نہ رہے، اسی بناء پر میں کانفرنس کے سامنے یہ رزولیوشن پیش کرتا ہوں اور چاہتا ہوں کہ اس مضمون پر ’’ ایسے ‘‘ لکھوائے جانے کے لیے وہ اپنی منظوری ظاہر کرے۔ ٭٭٭٭٭٭ ایجوکیشنل کانفرنس کی سالانہ رپورٹ پر ریمارک (کانفرنس کے جلسہ الہ آباد1891ء میں) جناب صدر انجمن صاحب! میں آپ سے اس بات کی اجازت چاہتا ہوں کہ گزشتہ سال کی ایجوکیشنل کانفرنس کی کارروائیوں کے متعلق آنریبل سیکرٹری نے جو رپورٹ پڑھ کر سنائی ہے اس پر کچھ ریمارک کروں۔ بے شبہہ یہ افسوس کی بات ہے کہ پار سال جو رزولیوشن پاس ہوئے ان کے متعلق عملی کارروائیاں بہت کم ہوئیں نہ اس کالر شپ فنڈ میں کوئی معقول اضافہ ہوا، نہ اعلیٰ تعلیم اور ادنیٰ تعلیم کے موازنہ پر مضامین لکھے گئے۔ تاہم میں سیکرٹری صاحب کے ان الفاظ سے کہ ’’ ہماری کانفرنس بے فائدہ چیز ہے اور مفت میں ہزاروں روپے برباد کرتی ہے۔‘‘ ہر گز اتفاق نہیں کر سکتا بلکہ اگر سیکرٹری صاحب معاف فرمائیں تو میں کہہ سکتا ہوں کہ ان کی یہ رائے غلط اور بالکل غلط ہے۔ بے شبہہ ایک ایسا شخص جو ایک عمر سے ان کوششوں میں مصروف ہے جس نے انہی افکار میں اپنے بال سفید کر دئیے۔ جس کو معمولی طور پر دنیا میں زیادہ رہنے کی توقع نہیں رہی ہے ضرور ہے کہ اس کا دل تھوڑی تھوڑی سی بات پر رنجیدہ ہو اور اس حالت میں وہ مجبورانہ نا امیدی کے الفاظ کہہ اٹھے۔ بے شبہہ وہ یہی چاہے گا کہ ہتھیلی پر سرسوں جمائے اور اپنی کوششوں کے تمام نتیجے اپنی آنکھوں سے دیکھ لے لیکن حقیقت یہ ہے کہ برسوں کے کام دو دن میں نہیں ہو سکتے قوم میں ایک مدت سے خاموشی چھائی ہوئی تھی تعصب، غفلت، جہالت کی کچھ حد نہیں رہی تھی۔ تمام روحانی قوتیں افسردہ ہو گئی تھیں دل و دماغ عموماً بیکار ہو گئے تھے کیا ایسی قوم صرف دو چار لیکچروں اور اسپیچوں سے سنبھل سکتی ہے؟ ایسی مردہ قوم کے لیے کم از کم پچاس برس کا زمانہ درکار ہے کہ اس کو ترقی کا خیال بھی آئے ہماری کانفرنس کی یہ کچھ کم کامیابی ہے کہ اتنے ہی دنوں میں اس نے تمام قوم میں ایک سرگرمی پیدا کر دی ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ اس وقت کانفرنس کا ہال قریباً ایک ہزار کرسیوں سے بھرا ہوا ہے کیا پانچ برس پہلے بھی آپ ایسے مجمع اور سرگرمی کی توقع کر سکتے تھے؟ ہندوستان میں آج تک مسلمانوں کا ایک بھی ایسا عظیم الشان مجمع ہوا ہے؟ اس سے پہلے کبھی کسی موقع کا نشان دیا جا سکتا ہے جس میں لوگ تعلیمی مقاصد پر غور کرنے کے لیے ڈیڑھ ڈیڑھ ہزار میل کی مسافت طے کر کے آئے ہوں۔ یہ جوش اور سرگرمی کس نے پیدا کی؟ کانفرنس کے انہی گزشتہ اجلاسوں نے جن کو ہمارے آنریبل سیکرٹری بے سود اور بے فائدہ بتاتے ہیں۔ یورپ جس کی ترقیوں پر آج تمام زمانہ رشک کر رہا ہے ایک دن میں اس حالت پر نہیں پہنچا تھا یہ کچھ مبالغہ نہیں ہے کہ یورپ نے جس تدریج سے ترقی کی تھی ہمارے ملک کی رفتار اس نسبت سے زیادہ تیز ہے۔ انسان کی یہ ظاہر بینی ہے کہ اس کی نگاہ صرف ان باتوں پر پڑتی ہے جو علانیہ ظاہر اور محسوس ہوں وہ ان وپشیدہ اثروں سے اکثر بے خبر ہوتا ہے جو اندر اندر اپنا کام کر رہے ہیں اور آنکھوں کو دکھائی نہیں دیتے۔ دنیا میں اس قسم کے جتنے کام ہوئے ہیں ایک مدت تک ان کامادہ بنتا رہا ہے پھر ان کی صورت ظہور میں آئی ہے۔ عباسیوں کی حکومت بظاہر ایک دن میں قائم ہو گئی لیکن اس کی بنیاد کی ریشہ دوانیاں ایک مدت سے ہو رہی تھیں جس پر کسی کی نگاہ ہی نہیں پڑی تھی ہماری کانفرنس کا اثر بظاہر کچھ زیادہ محسوس نہیں ہوا لیکن اس کی وجہ سے رفتہ رفتہ دلوں میں تعلیم کی طرف جو میلان پیدا ہو جاتا ہے وہ ذرا سے غور سے صاف معلوم ہو سکتا ہے بہت سے لوگ جو کانفرنس سے اٹھ کر جاتے ہیں ان کو خود نہیں محسوس ہوتا کہ وہ کانفرنس سے کیا چیز لے کر گئے لیکن ان جلسوں کا اثر چھپ کر ان کے ساتھ جاتا تھا۔ قوم کو آج جس چیز کی سخت ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ اس کی قوتیں متحد ہو کر کام کریں ترقی کا خیال لوگوں کو عموماً پیدا ہو گیا ہے لیکن تدبیریں مختلف اختیار کی جاتی ہیں اور اس وجہ سے کوئی معقول نتیجہ نہیں پیدا ہوتا کسی کی رائے ہے کہ ترقی کے لیے صنعت و حرفت کی ضرورت ہے کسی کا خیال ہے کہ ادنیٰ تعلیم کے بغیر ترقی نہیں ہو سکتی۔ ہر شخص کی الگ الگ رائے ہے اور وہ اپنی رائے کے موافق اس کام میں مصروف ہے لیکن جب تک سب کی رائے متفق ہو کر ایک طرف نہ مصروف ہو گی ہر گز ترقی نہیں ہو سکتی۔ اس کانفرنس کا بہت بڑا فائدہ یہ ہے کہ اس سے مبادلہ خیالات کاموقع ملتا ہے اور اسی سے اس نتیجہ کی امید کی جا سکتی ہے کہ ایک دن رایوں کے اختلافات رفع ہو کر سب ایک رستہ پر آ جائیں۔ ترقی کے لیے بڑی ضروری چیز یہ ہے کہ لوگوں میں قومی مذاق پید اکیا جائے جو صرف اس طریقہ سے حاصل ہو سکتا ہے کہ قوم کا ایک معتدبہ گروہ ایک جگہ جمع ہو اور سب کے خیال میں ہو کہ ہم صرف قومی کام کے لیے جمع ہوئے ہیں یہ غرض جس قدر اس کانفرنس سے حاصل ہو سکتی ہے ہر گز کسی دوسری چیز سے نہیں ہو سکتی۔ا س مجمع میں ہم جو کچھ دیکھتے ہیں جو باتیں سنتے ہیں جس طرف آنکھ اٹھاتے ہیں، جس سے ملتے ہیں، جہاں بیٹھتے ہیں، ہر لحظہ ہر وقت قومی ہی خیال ہمارے سامنے ہوتا ہے۔ کیا اس سے زیادہ کوئی عمدہ اثر ہو سکتا ہے حقیقت یہ ہے کہ ہم کو ایک قومی میلہ کی ضرورت ہے جہاں کہ جو کچھ ہو قومی لباس میں ہو ہماری یہ کانفرنس فرض کرو کچھ کام نہیں کرتی، بلا سے نہیں کرتی لیکن وہ ایک قومی میلہ تو ہے۔ ہندوستان کے بڑے بڑے میلے جہاں ہزاروں کوس کا سفر کر کے لوگ پہنچتے ہیں کیا اس سے زیادہ دلچسپی کے قابل ہیں اس ہال میں جس رتبہ کے لوگ جمع ہیں کیا ان کی صورتوں سے بڑھ کر کوئی چیز دیکھنے کے لائق ہے کون دل ہے، جس کو یہ آرزو نہیں ہے کہ اس مشہور مصنف اور مدبر ملک کے خیالات سے واقف ہو۔ جس کے زور قلم نے ہماری زبان کو یورپ کی زبانوں کا ہمسر بنا دیا ہے۔ کس کو یہ تمنا نہیں کہ اس نامور ماہر لغات کی صورت دیکھے جس نے یورپ کی متعدد زبانوں میں وہی کمال حاصل کیا ہے جو مشرقی زبانوں میں اس کو حاصل ہے کون ہے جس کی یہ خواہش نہیں ہے کہ اس بلند رتبہ شاعر کا کلام سنے جس نے اردو میں نیچرل نظم کی بنیاد ڈالی ہے کس کو یہ ہوش نہیں ہے کہ اس مشہور مصنف سے ملے جس کے قلم نے ایک لاکھ صفحے لکھ کر ڈال دئیے ہیں کیا ہندوستان میں اور کوئی مجمع ہے جو نواب محسن الدولہ مولانا سید علی بلگرامی جو امید ہے کہ آج ہی آنے والے ہیں مولوی الطاف حسین حالی، شمس العلمائ، مولوی ذکاء اللہ کو ایک جگہ مجتمع دکھا سکتا ہے۔ ہزاروں میل کا سفر، تکلیفات مسافرت، صرف زر ان سب کا یہ کافی معاوضہ ہے کہ ہم ان نامور شخصیتوں کی صورتیں دیکھ لیں غالباً یہ صرف میرا خیال نہیں ہے، بلکہ ان نو سو بزرگوں سے جو اس ہال میں جمع ہیں اگر پوچھا جائے تو سب یک زبان ہو کر میرا ساتھ دیں گے اور ایک شخص بھی آنریبل سیکرٹری کے اس قول سے متفق نہ ہو گا کہ ہماری کانفرنس بے فائدہ اور بے حاصل ہے۔ ٭٭٭٭٭٭ قدیم عربی نصاب کے نقائص (یہ تقریر ندوۃ العلماء کے اجلاس سالنہ1894ء میں کی گئی) جناب صدر انجمن و دیگر حضرات! قبل اس کے کہ میں اصل مضمون کے متعلق کچھ گفتگو کروں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ہم مسلمانوں کو علم کے ساتھ کیا تعلق ہے؟ مسلمانوں کی قوم کی حقیقت اور ماہیت جو کچھ کہو مذہب ہے۔ مسلمان کے لفظ کے اطلاق کے لیے کیا خصوصیت درکار ہے؟ سید ہونا؟ شیخ ہونا؟ مغل ہونا؟ عربی ہونا؟ عجمی ہونا؟ کچھ نہیں صرف کلمہ توحید کا دل سے ماننا اور زبان سے اقرار کرنا اس سے ظاہر ہے کہ مسلمانوں کی قومیت کی بنیاد، سیادت، مشخیت، غربیت، عجمیت نہیں ہے بلکہ اسلام ہے اور اسلام کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ اس امر کے ثابت ہونے کے بعد کہ ہماری قومیت اور اسلام، گویا مترادف الفاظ ہیں ہم کو یہ دیکھنا چاہیے کہ اسلام کو علم سے کیا تعلق ہے؟ کیونکہ جو تعلق علم کو اسلام کے ساتھ ہو گا وہی ہمارے ساتھ بھی ہو گا۔ اسلام کی بنیاد، اسلام کی ترکیب، اسلام کے نظام پر جب غور کیا جاتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ اسلام اور علم آپس میں متلازم ہیں، قرآن مجید میں جہاں جہاں اسلامی عقائد کا ذکر ہے اور ان کے تسلیم اور اذعان کا حکم ہے اجتہادی حیثیت سے ہے نہ کہ تقلیدی، یعنی خود سوچو، دیکھو، غور کرو اولم یتفکرو فی السموات والارض بلکہ خود دعوت اسلام اور تبلیغ اسلام میں استدلالی اور علمی حیثیت ملحوظ ہے ادع الی سبیل ربک بالحکمۃ والموعظہ الحسنہ وجادلھم بالتی ھی احسن کی تفسیریں امام غزالیؒ وغیرہ نے لکھا ہے کہ حکمت، موعظت جدال سے استدلال برہانی، خطابی، جدلی مراد ہے، اور یہ ظاہر ہے کہ تینوں طریقے علمی طریقے ہیں عیانی ثبوت اس امر کا کہ علم اسلام کے خمیر میں داخل ہے، یہ ہے کہ علم اور اسلام کا ہمیشہ ساتھ رہا ہے عرب کو دیکھو وہ ملک جس پر ابتدائے آفرینش سے علم کا سایہ تک نہیں پڑا تھا، اسلام کے ساتھ اس کا ذرہ ذرہ علم کی روشنی سے چمک اٹھا۔ سلجوق، ویلم، افغان، تاتار، ترک جو دنیا کے آغاز سے بے علم رہے، اسلام قبول کرنے کے ساتھ شاعر، نثار، ادیب، فلاسفر، حکیم بن گئے۔ دنیا کی وہ قومیں جو ابتدائے آفرینش سے صحرا نوروی اور غارت گری کے سوا اور کچھ نہ جانتی تھیں ان میں امام شافعی، امام مالک، یعقوب کندی، فارابی، ابن رشد کا پیدا ہو جانا کس کا اثر تھا؟ اسلام کا اس سے زیادہ اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ علم، اسلام کا مایہ خمیر ہے اور یہ کہ علم اسلام سے جدا نہیں ہو سکتا یا کم از کم وہ کبھی اس سے جدا نہیں ہوا۔ حضرات! جب ہم مسلمانوں کو علم سے اس درجہ تعلق ہے تو نہایت افسوس ہے اگر ہم ہمیشہ اس بات کا خیال نہ رکھیں کہ اب علم میں ہمارا کیا پایہ ہے؟ ہمارے علوم کس حالت میں ہیں مختلف زبانوں کے لحاظ سے اس کے نصاب میں کیا کیا اضافے اور اصلاحیں ہوتی رہنی چاہئیں؟ بزرگان سلف عموماً ہر زمانہ میں اس اصول کے پابند رہے اور یہی وجہ ہے کہ تعلیم کا طریقہ، کتابوں کا انتخاب، علوم ورسیہ کا تعین، یہ چیزیں ہمیشہ بدلتی رہیں۔ بنو امیہ کے دور تک کتابی درس کا مطلق رواج نہ تھا۔ بلکہ استاد زبانی تقریر کرتا تھا۔ اور طلبہ اس کو قلمبند کرتے جاتے تھے۔ یہ طریقہ دولت عباسیہ میں بھی مدت تک جاری رہا اس کے بعد کتابوں کا درس جاری ہوا لیکن پہلا طریقہ بھی مفقود نہیں ہوا۔ سب سے اخیر شخص جس نے اس طریقہ پر درس دیا علامہ جلال الدین سیوطی تھے۔ ایک زمانہ میں علوم عقلیہ نصاب تعلیم سے بالکل خارج تھے۔ بلکہ مقدس علماء اس سے نفرت رکھتے تھے۔ زمانہ ما بعد میں یہی علوم درس و تعلیم کے ضروری اجزاء بن گئے۔ یہاں تک کہ آج جس نے یہ علوم نہ پڑھے ہوں وہ پورا عالم شمارنہیں کیا جاتا۔ فارابی کے زمانہ تک یعقوب کندی کی تصنیفات درس معقولات میں داخل تھیں۔ فارابی کے زمانہ سے فارابی کی تصنیفات کا رواج ہوا پھر بو علی سینا کی کتابیں مقبول ہوئیں اور قدیم کتابیں گمنامی کے گوشہ میں چھپ گئیں اسی طرح ہرزمانہ کے سلسلہ ورس میں تبدیلیاں ہوتی رہیں یہاں تک کہ ملا نظام الدین کا عہد آیا اور نظام قدیم کی بالکل کایا پلٹ ہو گئی موجودہ نصاب ملا صاحب ہی کی طرف منسوب ہے اور اسی وجہ سے نظامیہ کہلاتا ہے بعض کتابیں مثلاً ملا حسن، غلام یحییٰ، حمد اللہ، قاضی مبارک آہستہ آہستہ بعد میں داخل ہوتی گئیں۔ اور غلطی سے یا تغلیباً وہ بھی سلسلہ نظامیہ کے شمار میں آ گئیں۔ یہ امر واقعی حیرت کے قابل تھا کہ جب مختلف ضرورتوں کے لحاظ سے یعقوب کندی، حکیم فارابی، ابن سینا، قطب الدین رازی کے نصابات بدلتے رہے۔ تو سلسلہ نظامیہ کا آج تک من غیر تغیر بحال رہنا کس لحاظ سے ہے، خدا کا شکر ہے کہ ہمارے علما نے اس مہتمم بالشان مسئلہ کی طرف توجہ کی اور آج یہ مسئلہ ایسی پر وقعت مجلس میں پیش ہے، جس میں چار دانگ ہند کے علماء تشریف فرما ہیں۔ اس مسئلہ کے متعلق دو حیثیت سے بحث کی جا سکتی ہے1طرز تعلیم کے لحاظ سے،2کتب ورسیہ کے تعین کے لحاظ سے میرے نزدیک طریقہ مروجہ کی نسبت جو نکتہ چینیاں کی جاتی ہیں وہ دوسری حیثیت پر محدود نہیں ہیں بلکہ پہلی حیثیت کو بھی اس میں بہت کچھ دخل ہے۔ ممکن ہے کہ یہی کتابیں جو درس میں داخل نہیں رہیں لیکن طرز تعلیم بدل دیا جائے جس سے بہت سی خرابیوں کی خود اصلاح ہو جائے۔ طرز تعلیم میں ایک بڑا نقص یہ ہے کہ اصل فن کے بجائے کتاب کے ساتھ زیادہ اعتنا کی جاتی ہے اصل مسئلہ کی تحقیق کے بجائے زیادہ وقت اس امر میں صرف کیا جاتا ہے کہ وہ مسئلہ کس عبارت میں بیان کیا گیا ہے اور اس عبارت سے کیا کیا احتمالات پیدا ہوتے ہیں وغیرہ وغیرہ ان مباحث میں اعتراضات اور جوابات کا ایک سلسلہ قائم ہو جاتا ہے جن کی بنیاد کسی خاص کتاب کی عبارت و الفاظ پر ہوتی ہے۔ یعنی وہی مسئلہ اگر دوسرے لفظوں میں بیان کر دیا جائے تو وہ سلسلہ خود بخود منقطع ہو جائے ان مباحث میں پڑ کر طالب علم کو اصل فن سے بعد ہو جاتا ہے اور تحقیق مسائل کے بجائے لفظی اعتراضات، احتمال آفرینی، توجیہات کی عادت ہو جاتی ہے آج کل جو یہ شکایت عام ہے کہ موجودہ طریقہ تعلیم سے فن میں کمال نہیں حاصل ہو سکتا ہے اس کی وجہ زیادہ تر یہی ہے کہ فن کی تعلیم ہی نہیں ہوتی، تو اس میں کمال کیوں کر پیدا ہو۔ البتہ کتابوں کی تعلیم ہوتی ہے اس لیے کتاب میں کمال پیدا ہوتا ہے عموماً سننے میں آتا ہے کہ فلاں عالم میر زاہد ایسا پڑھاتے ہیں کہ کوئی اور نہیں پڑھا سکتا، قاضی مبارک کے نکات کا حل کرنا فلاں صاحب کا حصہ ہے، فلاں طالب العلم نے حمد اللہ بڑی تحقیق سے پڑھی ہے، کسی مستعد طالب العلم کا اگر مطول یا حمد اللہ میں امتحان لیا جائے تو ممکن ہے کہ وہ ان کتابوں کا مطلب نہایت شرح و بسط اور ایراد و جواب کے ساتھ بیان کرے۔ لیکن اسی طالب العلم سے اگر یہ کہا جائے کہ قرآن مجید کے کسی رکوع یا آیت کو فصاحت و بلاغت کے قواعد و اصول پر منطبق کر کے دکھائے۔ یا کسی مسئلہ پر جب گفتگو کرے تو دلائل منطقی کو قیاسات کے پیرایہ میں بیان کرتا جائے تو شاید نہ کر سکے اس سے صاف ثابت ہے کہ کتاب کی تعلیم ہوتی ہے فن کی نہیں ہوتی ملا نظام الدین کا طریقہ درس یہ تھا کہ وہ کتابی خصوصیتوں کا چنداں لحاظ نہیں کرتے تھے بلکہ کتاب کو ایک ذریعہ قرار دے کر اصل فن کی تعلیم دیتے تھے اسی طرز تعلیم نے لا کمال لجر العلوم، حمد اللہ جیسے اہل کمال پیدا کیے۔ جب یہ طرز تعلیم نہ رہا تو اہل کمال بھی مفقود ہو گئے۔ یہ گفتگو جو میں نے کی طرز تعلیم پر تھی۔ نصاب تعلیم کے متعلق جو میرے خیالات ہیں ان کو بد فعات ذیل عرض کرتا ہوں 1تعلیم میں دو چیزوں کا لحاظ ضروری ہیں1تحصیل فن، 2امعان نظر اور قوت مطالعہ نصاب موجودہ میں دوسرے امر کا زیادہ خیال رکھا گیا ہے اور پہلے مقصد کی طرف کم توجہ دی گئی ہے اسی ک انتیجہ ہے کہ طلبہ میں (بشرطیکہ تحقیق کے ساتھ پڑھا ہو) قوت مطالعہ وقت نظر، احتمال آفرینی، یہ تمام صفتیں ضرور پیدا ہو جاتی ہیں۔ لیکن کسی فن میں کمال نہیں ہوتا جس قدر کتابیں درس میں ہیں اسی قسم کی ہیں، جن سے وقت نظر اور تشحیذ ذہن پیدا ہوتی ہے لیکن ایسی کتابیں بہت کم ہیں، جن میں مسائل فن کا کافی استیعاب ہو، نحو میں بڑی سے بڑی کتاب شرح لما ہے، لیکن اس میں نحو کا ایک مسئلہ بھی کافیہ سے زیادہ نہیں منطق میں دس پندرہ کتابیں ہیں، لیکن سب کی سب دوسرے مقصد کے لیے مفید ہیں مسائل منطق کا استیعاب ایک میں بھی نہیں شرح مطالع، ملحض امام رازی جو منطق کے فتادے ہیں بالکل متروک اور درس سے خارج ہیں۔ 2ایک بڑا نقص یہ ہے کہ منطق کی کتابیں جو درس میں داخل ہیں ان میں خلط مبحث بہت ہے ملا حسن، حمد اللہ، قاضی ہیں تو منطق میں لیکن ان میں منطق کے جس قدر مسائل ہیں اس سے کہیں زیادہ امور عامہ اور فلسفہ کے مسائل ہیں جعل بسیط اور جعل مرکب، علم باری کلی طبعی کا وجود فی الخارج وغیرہ ایسے اہم اور معرکۃ الآرا مسائل ہیں کہ ان میں مصروف ہو کر طالب العلم کو منطق کے خاص مسائل کی طرف بہت کم توجہ ہو سکتی ہے بے شبہہ مسائل بالا بڑے معرکہ کے مسائل ہیں اور ضرور ان کی تعلیم ہونی چاہیے لیکن وہ فلسفہ سے متعلق ہیں اور فلسفہ میں خود سینکڑوں کتابیں موجود ہیں ان مسائل کو مستقل و بالذات سیکھنا چاہیے اور انہی کتابوں کے ذریعہ سے سیکھنا چاہیے جن میں وہ بالا ستقلال مذکور ہیں قدماء کے زمانہ میں کبھی ایسی کتاب درس میں نہیں رکھی گئی جس میں مختلف فنون کے مسائل مخلوط ہوں۔ 3ایک بڑا نقص یہ ہے کہ موجودہ نصاب میں ادب و عربیت کا حصہ بہت کم ہے منطق کی بیسوں کتابیں درس میں ہیں اور ان میں ایک بھی اگر پڑھنے سے رہ جائے تو سمجھا جاتا ہے کہ تحصیل کی تکمیل میں کمی ہے لیکن اگر ایک طالب العلم ادب سرے سے نہ پڑھا ہو، عربی زبان میں دو سطریں نہ لکھ سکتا ہو، قرآن مجید کی فصاحت و بلاغت بھی نہ ثابت کر سکتا ہو، تو عام لوگوں کے نزدیک، طلبہ کے نزدیک، اساتذہ کے نزدیک، اس کے چہرہ کمال پر کوئی داغ نہیں، حالانکہ یہ امر یقینی ہے کہ ادب و عربیت کے بغیر تفسیر و حدیث کسی میں کمال نہیں پیدا ہو سکتا اس بنا پر ادب سے بے اعتنائی در حقیقت علوم دینیہ سے بے اعتنائی ہے۔ 4ایک بہت بڑا اور سب سے بڑا نقص یہ ہے کہ موجودہ تصاب میں قرآن مجید کے ساتھ بہت کم اعتنا کی گئی ہے، اور تفسیر اور ملحقات تفسیر کی بہت کم کتابیں رکھی گئی ہیں۔ کل دو کتابیں درس میں داخل ہیں، بیضاوی، جلالین بیضاوی کے صرف ڈھائی پارے پڑھائے جاتے ہیں جلالین پوری پڑھائی جاتی ہے لیکن اس کے اختصار کا یہ حال ہے کہ اس کے الفاظ اور حروف قرآن مجید کے الفاظ اور حروف کے برابر ہیں قرآن مجید کے ساتھ اس سے بہت زیادہ اعتنا درکار ہے اور اس کا یہ طریقہ ہے۔ اولاً تو کوئی کتاب ایسی درس میں رکھنی چاہئے جس سے قرآن مجید کے انداز بیان اور اس کے اقسام مضامین سے ایک اجمالی اطلاع حاصل ہو، مثلاً یہ کہ قرآن مجید کا اسلوب بیان جس کی وجہ سے وہ شعرائے عرب کے کلام سے بالکل الگ معلوم ہوتا ہے، کیا ہے؟ اس کے اساسی مضامین کیا کیا ہیں؟ کن مضامین کو بار بار فرمایا ہے؟ اور وجہ تکرار کیا ہے اخلاق، فقہ عقائد، سیر انبیاء جو قرآن مجید کے مضامین کے ارکان اربعہ ہیں ان کے متعلق جو کچھ قرآن مجید میں بیان کیا گیا ہے، اس کا احاطہ اور اس کی واقفیت، صحت اور خوبی کے دلائل، ثانیاً قرآن مجید کی فصاحت و بلاغت پر نہایت توجہ ہونی چاہیے یہ امر عموماً مسلم ہے کہ اسلام کا وہ معجزہ جو دائمی اور ابدی ہے قرآن مجید ہے یہ بھی مسلم ہے کہ قرآن مجید کا اعجاز فصاحت و بلاغت کے لحاظ سے ہے۔ لیکن کیا کوئی شخص یہ کہہ سکتا ہے کہ موجودہ نصاب کے تعلیم یافتہ اس اعجاز کو بد لائل ثابت کر سکتے ہیں۔ ان طلبہ کے سامنے اگر عرب جاہلیت کا کوئی عمدہ شعر اور قرآن مجید کی کوئی آیت پیش کی جائے تو کیا وہ دونوں کا موازنہ کر کے آیت قرآن کی فصاحت و بلاغت کے وجوہ ترجیح بتا سکتے ہیں؟ قرآن مجید کے اعجاز کے ثابت کرنے کا یہ طریقہ ہے کہ پہلے فصاحت و بلاغت کا کوئی ایسا اعلیٰ معیار قرار دیا جائے جس کی نسبت یہ دعویٰ کیا جا سکے کہ وہ طاقت بشریٰ کی حد سے باہر ہے، پھر امثلہ اور استدلال کے ساتھ ثابت کیا جائے کہ قرآن مجید بالکل اس معیار کے مطابق ہے، مثلاً فصاحت کی یہ تعریف کی گئی ہے کہ لفظ شریں ہو لطیف ہو، صاف و سادہ ہو، مبتذل اور عامیانہ نہ ہو، سبک اور کم وزن نہ ہو۔ بعض الفاظ ایسے بھی ہیں جو ایک موقع پر خوش نما اور فصیح معلوم ہوتے ہیں دوسرے موقع پر نہیں، مثلاً فواد اور قلب کے الفاظ ایک موقع پر فواد کا لفظ اپنے سابق و لاحق الفاظ کے لحاظ سے مناسب معلوم ہوتا ہے یعنی سابق و لاحق الفاظ کی نشست اور ترتیب ایسی ہے کہ وہاں فواد ہی کا لفظ استعمال کیا جائے تو وہ تناسب اور حسن صورت جو فصاحت کا سبب ہے۔ قائم رہتا ہے۔ ورنہ نہیں رہتا۔ کہیں ایسا موقع ہوتا ہے کہ ترتیب اور تناسب صورت کے لحاظ سے یہی فواد کا لفظ مخل فصاحت ہو جاتا ہے اور وہاں قلب کا لفظ خوش نما اور فصیح معلوم ہوتا ہے۔ علامہ ابن الاثیر نے اس نازک اور دقیق فرق کے لیے قرآن مجید کی یہ آیتیں پیش کیں۔ ما کذب الفواد مارای 2 لمن کان لہ قلب اوالقی السمع وھو شہید الفواد پہلی آیت میں فواد کے بجائے قلب کا لفظ ہوتا تو فصاحت میں فرق آ جاتا بخلاف اس کے دوسری آیت میں فواد کا لفظ ہو تو تناسب صورت میں فرق آ جائے۔ اب اگر یہ دعویٰ کیا جائے کہ کسی کلام میں جو معتدبہ معیار رکھتا ہوتا، فصاحت کا ایسا التزام کہ ہر لفظ فصیح ہو۔ اور نہ صرف فصیح بلکہ فصیح تر ہو۔ انسان کی قدرت سے باہر ہے۔ امراء القیس ، فردوسی سعدی جن کو تمام شعراء میں افصح اور ابلغ مانا جاتا ہے ان کے کلام میں ہزاروں الفاظ موجود ہیں جو فصاحت کے اعلیٰ رتبہ بلکہ معمولی رتبہ سے گرے ہوئے ہیں اس معیار کے قرار دینے کے بعد ثابت کرنا چاہیے کہ قرآن بالکل اس معیار کے مطابق ہے یعنی اس میں قدر الفاظ ہیں، عموماً اپنے تمام مرادف الفاظ سے فصیح تر اور خوش نما تر ہیں، یہاں تک کہ اگر ایک چیز کے لیے زبان عرب میں جس قدر الفاظ تھے۔ سب غیر فصیح تھے تو قرآن مجید میں سرے سے وہ الفاظ استعمال نہیں کئے گئے بلکہ اس چیز کو دوسرے طور سے تعبیر کیا گیا۔ مثلاً اینٹ کے لیے عربی میں تین لفظ ہیں، قرمد، آجر، طوب، اور یہ تینوں غیر فصیح ہیں۔ اس لیے قرآن مجید میں اس کو بیان کرنا پڑا۔ تو یوں تعبیر کیا کہ فاوقد لی یاھامان علی الطین بے شبہہ اس معیار کے مطابق قرآن مجید کی فصاحت کا اعجاز ثابت ہو سکتا ہے۔ لیکن موجودہ نصاب تعلیم میں کوئی کتاب ایسی داخل نہیں جس میں قرآن مجید کی فصاحت سے اس طرح بحث کی گئی ہو، اور ایسے الفاظ کا ایک معتدبہ ذخیرہ نمونہ کے طور پر پیش کیا گیا ہو۔ یہ نہیں خیال کرنا چاہیے کہ اس قسم کی کتابیں تصنیف ہی نہیں ہوئیں۔ ایسی کتابیں خود ہماری نگاہ سے گزری ہیں لیکن افسوس ہے کہ ان کو درس و تدریس کے دربار میں بار نہیں ملا۔ فصاحت کے بعد بلاغت کا مرحلہ ہے اور میں افسوس کے ساتھ کہتا ہوں کہ ہمارے مدارس کے اکثر تعلیم یافتہ وللاکثر حکم الکل بالکل اس قابل نہیں کہ اس مرحلہ میں قدم رکھ سکیں۔ بے شبہہ قرآن مجید بلاغت کے اعتبار سے معجزہ ہے لیکن اگر ہمارے طلبہ اس امر کو صرف تقلیدی طور پر جانتے اور تسلیم کرتے ہیں تو ان میں اور ایک عامی مسلمان میں کیا فرق ہے؟ میں اس موقع پر نہایت اختصار کے ساتھ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ قرآن مجید کا من حیث البلاغۃ ہونا کن طرق سے ثابت کیا جا سکتاہے۔ عرب میں جن شعراء کو اپنے ہمعصروں میں اشعر الشعراء ثابت کرنا چاہتے ہیں اس طرح ثابت کرتے ہیں کہ شعر کے چار عمود یا چار ارکان ہیں۔ فخر، مدح، نسیب، ہجو اور ان چاروں مضامین کو جس کمال کے ساتھ اس شاعر نے ادا کیا ہے، اس کے ہمعصروں میں سے کسی نے نہیں کیا۔ چنانچہ جریر کے اشعر العصر ہونے کے ثبوت میں یہ اشعار پیش کیے جاتے ہیں۔ اذا غصبت علیک بنو تمیم حسبت الناس کلھم غضابا الستم خیر من رکب المطایا واندی العلمین بطون راح ان العیون اللتی فی طرفھا ھور قتلتنا ثم لم یحیین قتلانا یصر عن ذاللب حتی لاحرال بہ وھو اضعف خلق اللہ ارکانا فغض الطرف انک من نمیر فلا کعبا بلغت ولا کلابا شعرا کی افضلیت ثابت کرنے کے لیے تو اسی قدر کافی ہے لیکن قرآن مجید کی شان بہت ارفع و اعلیٰ ہے اور قرآن مجید کی نسبت ہمارا دعویٰ بہت وسیع ہے، ہم اس بات کے مدعی نہیں ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں جس قدر شاعر اور خطیب تھے، وہ قرآن مجید کے معارضہ سے عاجز رہے، بلکہ ہمارا دعویٰ ہے کہ جاہلیت میں اسلام میں، عربی میں، فارسی میں، یورپ میں، ایشیا میں، کبھی کوئی کلام قرآن مجید کے مثل نہیں لکھا گیا۔ اور نہ آئندہ لکھا جا سکتا ہے یہ دعویٰ حقیقت میں وجدانی ہے جس شخص کو ادب اور عربیت میں پوری مہارت ہو اور مذاق بھی صحیح ہو، خود اس کا وجدان اس دعوے کی شہادت دے گا۔ لیکن وجدان ایک ایسی چیز ہے جو مخالف پر حجت نہیں ہو سکتی اس لیے اس دعوے کے اثبات کا یہ طریقہ ہے کہ اخلاق و موعظت، ترغیب و تہدید، لطف و قہر وغیرہ وغیرہ اس قسم کے بہت سے عنوان متعین کئے جائیں اور ان کے متعلق انسانی کلام میں اعلیٰ سے اعلیٰ اور بلند سے بلند جو اشعار یا تحریریں موجود ہیں انتخاب کی جائیں، پھر انہی مضامین کے متعلق قرآن مجید میں جو آیتیں ہیں، ان سے موازنہ کر کے دکھایا جائے کہ وہ تمام اشعار اور تحریریں قرآن مجید کی بلاغت سے کچھ نسبت نہیں رکھتیں اسی طرح بلاغت کے جو بڑے بڑے ارکان ہیں یعنی وہ اسالیب جو اعلیٰ درجہ کی بلاغت کے محل ہیں مثلاً ایجاز و اطناب، فصل و وصل، تشبیہ و استعارہ وغیرہ وغیرہ، ان کے متعلق عرب و عجم کے کلام سے وہ مثالیں انتخاب کی جائیں جو عموماً بے مثل خیال کی جاتی ہیں اور انہی اسالیب پر قرآن مجید میں جو آیتیں ہیں ان سے موازنہ کیا جائے۔ قرآن مجید کی بلاغت کے ثبوت کے یہ طریقے ہیں اور جب تک قرآن مجید کے وجوہ اعجاز پر توجہ نہ کی جائے، قرآن مجید کے ساتھ اعتنا کرنے کا دعویٰ صحیح نہیں ہو سکتا۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا موجودہ نصاب میں ایسی کوئی کتاب داخل ہے جس سے قرآن مجید کے وجوہ اعجاز معلوم ہو سکیں؟ کیا بیضاوی و جلالین اس مطلب کے لیے کافی ہیں؟ افسوس اور سخت افسوس ہے کہ منطق اور فلسفہ جس سے اسلام کو بہت کم تعلق ہے اس کے لیے تو صغریٰ، کبریٰ، ایسا غوجی، قال، اقول، میزان منطق، تہذیب، شرح تہذیب، قطبی، میر قطبی، یبندی، ملا حسن، ملا جلال، میر زاہد، غلام یحییٰ، حمد اللہ، قاضی مبارک، صدرا، شمس بازغہ، شرح تجرید، یہ تمام دفتر لازمی اور ضروری قرار دیا جائے اور قرآن مجید کے لیے جو مدار اسلام ہے، جلالین اور بیضاوی کے ڈھائی پارے کافی سمجھے جائیں۔ واللہ تلک قسمۃ منیزی 5ایک اور نقص طریقہ تعلیم میں یہ ہے کہ قدیم علم کلام جو فلسفہ یونانی کے مقابلہ میں ایجاد اور مدون ہوا تھا۔ آج تک بغیر کسی اضافہ اور ترمیم کے درس میں داخل ہے۔ حالانکہ یہ ظاہر ہے کہ جو اعتراضات حال کی تحقیقات سے پیدا ہوتے ہیں ان کے لیے وہ علم کلام کیونکر کافی ہو سکت اہے جو اس وقت ایجاد ہوا تھا، جب کہ یہ اعتراضات پیدا ہی نہیں ہوئے تھے، مثلاً یونانی آسمان کے وجود کے معترف تھے۔ صرف خرق والیتام سے ان کو انکار تھا، مسلمانوں کو نزول ملائکہ اور امکان معراج کے لیے خرق والیتام کے امکان کے ثبوت کی ضرورت تھی، چنانچہ علم کلام میں یہ امکان ثابت کر دیا گیا لیکن آج یورپ والوں کو سرے سے آسمان کے وجود سے انکار ہے، اس لیے اب ہم کو آسمان کا وجود ثابت کرنا ضرور ہے، کیوں کہ قرآن مجید میں سینکڑوں جگہ آسمان کا ذکر ہے۔ آسمان کے ثبوت کیلئے قدیم علم کلام کس کام آ سکتا ہے ۔ میں اس وقت اس بحث کو طول نہ دوں گا۔ مجھ کو معلوم ہے کہ نئے کلام کی ضرورت ہمارے علماء بھی تسلیم کرتے جاتے ہیں۔ کان پور کے ایک مدرسہ کا نصاب تعلیم جو حال میں شائق ہوا ہے اس میں فلسفہ جدیدہ اور اس کا رد بھی تعلیم میں داخل ہے، فلسفہ جدیدہ کا رد یہی نیا علم کلام ہے۔ 2ایک نقص نصاب تعلیم میں یہ ہے کہ وہ ایک خاص سلسلہ پر محدود ہے قدیم زمانہ میں بہت سے لوگ صرف ایک یا دو فن کی تحصیل کرتے تھے۔ اور تحصیل کا تمام زمانہ اسی خاص فن میں صرف کر دیتے تھے۔ فرائ، کسائی، سیبویہ، خلیل، امام بخاری، مسلم، طحاوی، بزدوی اور بہت سے اہل کمال اسی طرز کے تعلیم یافتہ ہیں۔ اور در حقیقت یہ طرز ایک خاص فن میں کمال پیدا کرنے کے لیے نہایت مفید تھا۔ آج یہ طریقہ بالکل متروک ہے اور اہل کمال کے نہ پیدا ہونے کا یہ بھی ایک بڑا سبب ہے۔ ان وجوہ مذکورہ بالا کی بنا پر میں اس تجویز کی جس کو جناب مولوی شاہ محمد حسین صاحب نے پیش کیا، تائید کرتا ہوں اور با صرار کہتا ہوں کہ موجودہ نصاب تعلیم ناقص ہے اور اس میں ضرور اصلاح اور اضافہ ہونا چاہیے۔ ٭٭٭٭٭٭٭ علما کے فرائض (اجلاس ندوۃ العلماء 1894ئ) بسم اللہ الرحمن الرحیم الحمد للہ والصلواۃ علی رسولہ والہ واصحابہ جناب صدر انجمن و دیگر بزرگان قوم! آج اس وقت مجھ کو جس مضمون پر تقریر کرنے کی اجازت دی گئی ہے وہ یہ ہے کہ ’’ زمانہ موجودہ کے لحاظ سے ہمارے علماء کے فرائض کیا ہیں؟‘‘ یعنی زمانہ موجودہ کی ضرورتوں کے لحاظ سے ہمارے علماء پر کیا ذمہ داریاں ہیں، ملک اور جماعت اسلامی کا ان پر کیا حق ہے قوم کے لیے ان کو کیا کرنا ہے؟ اور اس وقت تک انہوں نے قوم کے لیے کیا کیا ہے۔ یہ سوالات نہایت اہم ہیں، اور کچھ شبہہ نہیں کہ جماعت اسلام کی بہبودی کا بہت کچھ بلکہ تمام تر دارومدار انہی سوالات پر ہے۔ اے حضرات! جس زمانہ میں یہاں اسلامی حکومت قائم تھی اس وقت قوم کے دینی اور دنیوی دونوں قسم کے معاملات علماء کے ہاتھ میں تھے۔ نماز و روزہ وغیرہ کے احکام بتانے کے علاوہ علماء ہی ان کے مقدمے فصیل کرتے تھے۔ علماء ہی جرائم پر حدود و تغریر کی سزا دیتے تھے، علماء ہی قتل و قصاص کے احکام صادر کرتے تھے، غرض قوم کی دین و دنیا دونوں کی عنان اختیار علماء ہی کے ہاتھ میں تھی۔ اب جب کہ انقلاب حکومت ہو گیا۔ اور دنیوی معاملات گورنمنٹ کے قبضہ، اختیار میں آ گئے۔ تو ہم کو دیکھنا چاہئے کہ قوم سے علماء کا کیا تعلق باقی ہے یعنی گورنمنٹ نے کس قدر اختیارات اپنے ہاتھ میں لے لیے ہیں اور کس قدر باقی رہ گئے ہیں جو در حقیقت علماء کا حق ہے، اور جس میں دست اندازی کرنی خود گورنمنٹ کو مقصود نہیں ہے۔ علماء کی موجودہ حالت ان کی عزلت نشینی بلکہ بے پروائی نے عام طور پر یہ یقین دلا دیا ہے کہ ان کو جو تعلق قوم سے باقی رہ گیا ہے وہ صرف مذہبی تعلق ہے یعنی یہ کہ صرف نماز روزہ وغیرہ کے مسائل بتا دیا کریں۔ باقی معاملات ان کی دسترس سے باہر ہیں اور ان کو ان معاملات میں دست اندازی کا کوئی حق حاصل نہیں ہے۔ لیکن میرے نزدیک یہ خیال غلط اور بالکل غلط ہے گورنمنٹ نے جو حقوق اپنے لیے مخصوص کر لیے ہیں بے شبہہ علماء کو ان سے کچھ تعلق نہیں ہے لیکن وہ حقوق ہیں کیا، مالگزاری کا وصول کرنا، امن و امان کا قائم رکھنا، دنیوی معاملات کے فیصلہ کے لیے عدالتوں کا قائم کرنا، عہدہ داران ملکی کا مقرر کرنا، یہ اور خاص اسی قسم کے امور ہیں جو گورنمنٹ نے اپنے اختیار میں لیے ہیں لیکن قوم کی زندگی کے اجزا صرف اسی قدر نہیں ہیں۔ قوم کی اخلاقی زندگی جو تمام ترقیوں کی جڑ ہے، قوم کی علمی حالت جس پر ترقی و تنزل کا مدار ہے قومی مراسم و دستورات جن سے قوم بنتی یا بگڑتی ہے، اور سب سے زیادہ قوم کی دماغی زندگی یعنی خیالات کی وسعت، بلند حوصلگی، روشن ضمیری، آزاد خیالی، ان تمام اوصاف کے سر چشمہ ہمارے علماء اور علماء کی تلقین و ہدایت ہے۔ شادی بیاہ وغیرہ کی وہ مسرفانہ رسمیں جنہوں نے سینکڑوں ہزاروں خاندان تباہ کر دئیے ہیں، گورنمنٹ کا ان پر کچھ زور نہیں چل سکتا، لیکن الحمد للہ اس گئی گزری حالت میں بھی علماء کو قوم پر وہ اختیار حاصل ہے کہ آج اگر تمام علماء متفق ہو کر کمر بستہ ہو جائیں تو تمام ہندوستان میں اس سرے سے اس سرے تک یہ خانہ بر انداز رسمیں یک لخت معدوم ہو جائیں قوم کے اخلاق جو روز بروز تباہ ہو رہے ہیں، گورنمنٹ اور گورنمنٹ کی تعلیم مطلق اس کی اصلاح نہیں کر سکی، اور نہ کر سکے گی، لیکن اگر علماء آمادہ ہوں اور مناسب تدبیروں سے کام لیں، تو قوم میں پھر وہ اخلاقی خوبیاں پیدا ہو سکتی ہیں جو سو دو سو برس پہلے موجود تھیں۔ الحاد اور دہریت کی طرف میلان جو روز بروز عام ہوتا جاتا ہے، اس کا روکنا اگر گورنمنٹ کے لیے ممکن ہوتا تو وہ زیادہ نہیں تو مذہب عیسوی کو تو ا س سے محفوظ رکھ سکتی۔ لیکن ہمارے علماء اگر معقول طریقہ پر اس کو روکنا چاہیں تو اسی طرح اس کا قلع قمع کر سکتے ہیں جس طرح یونانی فلسفہ کے پھیلنے کے وقت امام غزالی، امام رازی، قاضی عضد، ابن رشد نے زندقہ و الحاد کا استیصال کر دیا تھا۔ ان باتوں سے ظاہر ہوا ہو گا کہ قوم کی زندگی کا بہت بڑا حصہ اب بھی علماء ہی کا حق ملکیت ہے اور وہی اس حصہ کی فرماں روائی کے کامل الاختیار ہیں یا ہو سکتے ہیں۔ غرض اس امر سے انکار نہیں ہو سکتا کہ علماء کو قوم پر اب بھی نہایت وسیع اختیارات حاصل ہو سکتے ہیں ان اختیارات کے حاصل ہونے کی شاید علماء کو ضرورت نہ ہو لیکن قوم کو اس کی ضرورت اور سخت ضرورت ہے کیوں کہ علماء جب تک قوم کے اخلاق، قوم کے خیالات، قوم کے دل و دماغ، قوم کی معاشرت، قوم کا تمدن، غرض قومی زندگی کے تمام بڑے بڑے حصوں کو اپنے قبضہ اختیار میں نہ لیں گے، قوم کی ہر گز ترقی نہیں ہو سکتی۔ لیکن ان اختیارات کے ہاتھ میں لینے کے وقت علماء پر کچھ ذمہ داریاں عائد ہوں گی۔ اور انہی ذمہ داریوں کو میں علمائے حال کے فرائض سے تعبیر کرتا ہوں جو میرے مضمون کا عنوان ہے۔ ان فرائض کو بدفعات ذیل بیان کرتا ہوں: علماء کا سب سے بڑا فرض یہ ہے کہ وہ ایک مجموعی قوت پیدا کریں۔ یعنی تمام ہندوستان کے علماء میں ایک خاص رشتہ اتحاد قائم ہو، تمام علماء ایک دوسرے کے نام سے، مقام سے، حالات سے واقف ہوں۔ آپس میں خط و کتابت ہو، مہتمم بالشان امور میں تمام علماء مشاورت اور استصواب سے کام لیں، کبھی کبھی وہ صرف اجتماع و اتحاد کی غرض سے ایک جگہ جمع ہو جایا کریں، اور اس مقصد کے لیے ندوۃالعلما سے زیادہ عمدہ موقع نہیں مل سکتا۔ اے حضرات! علماء کے باہمی اتفاق کی نسبت بار بار کہا جا چکا ہے اور اگر مجھ کو بھی یہی کہنا ہوتا تو کچھ ضرورت نہ تھی کہ جو مضمون سینکڑوں دفعہ بیان کیا جا چکا ہے، میں بھی اسی کا اعادہ کروں۔ لیکن مجھ کو ایک خاص پہلو کی طرف خیال دلانا ہے۔ اتفاق و اتحاد کا جو طریقہ اب تک لوگوں نے بیان کیا ہے وہ یہ ہے کہ تمام علماء مسائل فقیہہ میں ہم مذہب و ہم خیال ہو جائیں اور اس وقت نہایت اعلیٰ درجہ کا اتحاد و اتفاق قائم ہو جائے گا۔ لیکن میں پوچھتا ہوں کہ کیا ایسا اتفاق کسی زمانہ میں کبھی ہوا ہے، صحابہ رضوان اللہ علیہم کے مبارک زمانہ میں جب کہ تمام مسلمان کنفس واحدہ تھے، کیا مسائل میں اختلاف آرا نہ تھا جس شخص نے صحیح ترمذی مطالعہ کی ہے اور قریباً ہر مسئلہ کے متعلق اس کے تراجم ابواب دیکھے ہیں کیونکر اس مدیہی واقعہ سے انکار کر سکتا ہے۔ وضو، تیمم، قرأت اور دیگر واجبات و سنن کے متعلق کیا تمام صحابہ ہر مسئلہ میں فاطبۃً متفق الرائے تھے۔ کون ایسا غلط دعویٰ کر سکتا ہے؟ لیکن کیا ان اختلاف مسائل کی وجہ سے ان میں کسی قسم کی کدورت تھی؟ کسی طرح کا رنج تھا؟ کسی طرح کی اجنبیت تھی؟ حاشاء اللہ کبھی نہیں، ہر گز نہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ اتحاد و اتفاق کے لیے یہ ضرور نہیں کہ آپس میں کسی طرح کا اختلاف رائے نہ ہو اس لیے ہم کو اتفاق و اتحاد کے حدود متعین کر لینے چاہئیں یعنی اختلاف و اتفاق کے دائرے الگ الگ ہوں ایک عالم کو کسی مسئلہ میں دوسرے سے اختلاف ہے، تو اختلاف کا اثر اسی مسئلہ تک محدود رہے، یہ نہ ہو کہ اس اختلاف کی وجہ سے اور تمام تعلقات بھی منقطع ہو جائیں جو اختلاف سے کچھ تعلق نہیں رکھتے۔ اس کی نہایت عمدہ مثال امام بخاری و امام مسلم کا واقعہ ہے امام مسلم حدیث معنعن کے شرائط اتصال میں امام بخاری سے اختلاف رکھتے تھے۔ چنانچہ اپنی کتاب کے مقدمہ میں امام بخاری کا مذہب بیان کر کے کہا ہے کہ ’’ یہ مذہب محض لغو اور باطل ہے اور اس قابل نہیں کہ اس کے رد کی طرف توجہ کی جائے‘‘ لیکن باوجود اس کے جب امام بخاری سے ملنے گئے، تو نہایت محبت اور تعظیم سے ان کی پیشانی چومی اور کہا کہ دعنی اقبل رجلک1؎ قرون اولیٰ میں اسی اصول پر عمل ہوتا تھا، یعنی اختلاف و اتفاق کی جدا جدا جدیں تھیں اور یہی وجہ ہے کہ اس زمانہ میں باوجود اختلاف کے اتحاد و اتفاق کا زور پوری طرح قائم تھا۔ صحابہ بیسیوں مسائل میں مختلف الرائے تھے، لیکن عام اتحاد و اتفاق میں اختلاف کا پر تو تک نہ تھا، قرن ثانی اور اوائل قرن ثالث کا بھی یہی حال تھا آج جس چیز کی وجہ سے مسلمانوں کی ہوا کھڑ گئی ہے۔ جس نے ہماری طاقت کو بالکل گھٹا دیا ہے۔ جس کی وجہ سے گورنمنٹ کی نگاہ میں اس گروہ کی عظمت نہیں رہی جس کی وجہ سے مخالفین کو ہم پر شماتت کا موقع ملا ہے۔ وہ یہ ہے کہ ہم اختلاف و اتفاق کو اصلی حدود پر نہیں رہنے دیتے۔ ہم نے بار بار سنا ہے کہ کوئی مجمع عام جماعت اسلام کے فائدے کی غرض سے منعقد ہوا۔ مثلاً دستار بندی کا جلسہ، کسی مدرسہ عربی کا جلسہ،ا صلاح تعلیم کا جلسہ وغیرہ وغیرہ، تو وہ لوگ جلسہ میں شریک تک نہ ہوئے جن کو بانیان جلسہ سے مسائل مختلف ما فیہا کے بارے میں اختلاف تھا۔ اے حضرات! آپ کو معلوم ہے کہ یہی ندوۃ العلماء جس میں آپ اس وقت تشریف فرما ہیں، اگر اتفاق و اتحاد کے ٹھیک اصول پر قائم ہو جائے تو وہ کتنی بڑی عظیم الشان طاقتبن سکتا ہے۔ 1؎ یعنی اجازت دیجئے کہ آپ کے پاؤں چوموں، اس وقت ندوہ دعویٰ کر سکتا ہے کہ اوقاف کے لاکھوں روپے جو متولیوں کے ہاتھ سے نہایت بیدردی سے بربار ہو رہے ہیں ندوہ کے ہاتھ میں دے دئیے جائیں اور گورنمنٹ نہایت خوشی سے اس دعویٰ کو قبول کرے۔ ندوہ دعویٰ کر سکتا ہے کہ انگریزی مدارس میں عربی و فارسی کا نصاب تعلیم جو اس وقت ابتری کی حالت میں ہے اس کی اصلاح کر دی جائے اور گورنمنٹ کو اس دعویٰ پر بہت لحاظ ہو گا۔ ندوہ دعویٰ کر سکتا ہے کہ جس طرح قدیم زمانہ میں عدالت صدر میں فقہی مسائل کے لیے قاضی و مفتی مقرر کیے جاتے تھے وہ قاعدہ سر نو سے قائم کیا جائے۔ ندوہ کو اس وقت یہ قوت حاصل ہو گی کہ تمام جماعت اسلام اس کی ہدایتوں کی پابند ہو، اس کے فتوؤں کے آگے سر جھکائے۔ اس کے فیصلوں سے سرتابی نہ کر سکے، اس صورت میں ندوہ قوم کو تمام بیہودہ مراسم سے خلاف شرع باتوں سے، ناجائز امور سے بزور روک سکتا اور جماعت اسلام کو نماز کا، روزہ کا، حج کا، زکوۃ کا بزور پابند کر سکتا ہے، یہ زور تلوار کا نہیں ہو گا، بلکہ اتباع سنت کا اور اتفاق باہمی کا ہو گا۔ لیکن یہ قوت اس طرح نہیں حاصل ہو سکتی ہے کہ سال میں ایک دفعہ ندوہ نے اجلاس کر لیا اشتہارات کا ڈھنڈھورا پیٹ کر باہر والوں کو جو حقیقت سے نا واقف تھے، بلا لیا، علماء عاجزی سے، تقاضے سے، خوشامد سے، سفارش سے، مجلس میں شریک ہو گئے۔ ندوہ اگر یوں ہوا تو سمجھ لیجئے کہ اور انجمنوں کی طرح وہ بھی نثر کا ایک مشاعرہ ہے۔ ندوہ کو یہ قوت اس وقت حاصل ہو گی جب تمام علماء اس کو اپنا ذاتی کام سمجھیں، بغیر کسی درخواست کے، تقاضے کے، منت کے، دور دور سے سفر کر کے آئیں اور سال بھر اس کی اڈھیڑ بن میں رہیں۔ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ اہل حدیث اور احناف میں لڑائی ہو کر مقدمہ عدالت تک جائے تو بن بلائے، دونوں فریق کے علماء سینکڑوں کوس سے دوڑے ہوئے آئے، اور ندوہ میں بلایا جائے تو مہتموں کو وہ خوشامدیں کرنی پڑیں جو کسی تقریب میں میزبان کو مہمانوں کے بلانے میں کرنی پڑتی ہیں۔ جس قوم کو اختلاف کی باتوں میں وہ شیفتگی ہو۔ اور اتفاق میں یہ بے پروائی اور بے دلی اس کا خدا ہی حافظ ہے۔ حضرات! ندوہ کے قالب میں جو روح ہے آپ اس کا اندازہ بھی نہیں کر سکتے۔ یہ محض صرف ایک برس سے قائم ہے ابھی تک اس نے کوء عملی کارروائی نہیں کی ہے، اتفاق کا کوئی جلوہ علانیہ نمایاں نہیں ہوا، تاہم اس نے وہ اثر اور زور پیدا کر لیا ہے جو اور مجلسوں کے باوجود مدتہاے دراز اور دنیاوی وجاہتوں کے اب تک حاصل نہیں ہوا۔ اس کی ایک پکار پر کہاں کہاں سے لبیک کی صدائیں آئیں، کس قدر دور و دراز مسافتوں کو طے کر کے لوگ یہاں تک پہنچے، لوگوں کی نگاہیں کس ادب، کس جوش، کس محبت سے اس پر پڑ رہی ہیں۔ اب یہ امر علماء کے ہاتھ میں ہے کہ ندوہ کو اس بلند درجہ پر پہنچائیں جو اس کے رتبہ کے شایان ہے یا خدانخواستہ نا اتفاقی سے، غفلت سے، رشک سے، غلط فہمی سے اس کو اس طرح برباد کر دیں جس طرح قوم کی اور تمام کوششیں نا اتفاقی سے برباد ہوتی رہی ہیں۔ دوسرا بہت بڑا فرض جو علماء پر ہے وہ اس دہریت اور الحاد کے اثر کا روکنا ہے جو آج کل یورپ میں پھیل کر ہندوستان کی طرف بڑھتا آتا ہے۔ غالباً اس مرض کے پھیلنے سے کسی کو انکار نہیں ہے گفتگو جو کچھ ہے۔ وہ علاج کے طرز و طریقہ میں ہے لیکن میرے نزدیک ہم کو اس باب میں زیادہ خوض و فکر کی حاجت نہیں ہے، یہ بیماری پہلے بھی ایک دفعہ اسلامی ممالک میں پھیل چکی ہے، اور اطباے شریعت یعنی علماے سلف کا علاج اس کے دفع کرنے میں کارگر ثابت ہوا ہے۔ عباسیوں کا اول اول زمانہ تھا کہ فلسفہ یونانی کا ترجمہ ہوا۔ اور ساتھ ہی چاروں طرف الحاد کی ہوا چل گئی۔ اکثر فقہا اور بعض محدثین نے اس کا یہ علاج تجویز کیا کہ سرے سے فلسفہ پڑھایا نہ جائے۔ یہاں تک کہ علم کلام کو اس لحاظ سے ممنوع قرار دیا کہ اس میں عقلیات کی آمیزش تھی۔ امام شافعی کا قول ہے کہ حکمی فی اہل کلا ان یضلبو بالجرید و یطاف بھم فی القبائل یعنی اہل کلام کے بارے میں میرا یہ فیصلہ ہے کہ ان کو درے لگائے جائیں اور قبائل میں ان کی تشہیر کی جائے۔ اس علاج نے بلحاظ حالت موجودہ کسی قدر فائدہ دیا۔ یعنی بعض نیک دل فلسفہ پڑھنے سے رک گئے۔ لیکن پورا نفع نہہوا۔ کیونکہ سینکڑوں ہزاروں مسلمان منطق و فلسفہ پر ایسے فریفتہ ہو گئے تھے کہ اس کو بالکل چھوڑ نہ سکتے تھے، آخر علماء نے دوسرا علاج سوچا یعنی فلسفہ کے مسائل پر اطلاع حاصل کر کے فلسفہ کے روکے لیے علم کلام ایجاد کیا اس علاج کے مجوز امام غزالی، امام رازی، ابن رشد، قاضی عضد وغیرہ تھے، اور واقعی ان کی یہ تدبیر نہایت کارگر نکلی اسی کا اثر ہے کہ اگرچہ درس نظامیہ میں تمام علوم و فنون سے زیادہ منطق و فلسفہ کی کتابیں زیر درس ہیں۔ تاہم مذہبی عقائد کو ان سے کچھ ضرر نہیں پہنچتا۔ ہمارے زمانہ میں بھی اسی مرض نے ظہور کیا ہے اور پہلی قسم کا علاج بھی ہو چکا ہے اب اگر وہ علاج مفید ثابت ہو تو فبہا ورنہ دوسری قسم کا علاج شروع کیا جائے اور امام غزالی اور امام رازی کی روحیں تازہ کی جائیں۔ ترکی حکومت میں اس ضرورت کو تسلیم کر کے علامہ حسین جسر نے جو تمام روم و شام میں علوم دینیہ و عقلیہ کا استاد تسلیم کیا جاتا ہے، ایک کتاب تصنیف کی جس کا نام حمیدیہ ہے تمام مسلمانوں نے اس تصنیف کی نہایت قدر کی اور خود سلطان المعظم خلد اللہ دولتہ نے علامہ مذکور کو اس کتاب کے صلہ میں بہت کچھ انعامات اور عطیے عنایت کئے یہ کتاب ترکی زبان میں بھی ترجمہ کی گئی اور عام طور پر اس کا رواج ہو گیا۔ میں نے اس کتاب کو دیکھا ہے اور اگرچہ میرے نزدیک وہ موجودہ ضرورت کے لیے ناکافی ہے۔ تاہم اس بات سے مسرت ہوتی ہے کہ اس نے ایک عمدہ کام کی بنیاد ڈالی، یہ دوسروں کا فرض ہے کہ اس بنیاد پر مضبوط اور مستحکم عمارتیں بنائیں۔ تیسرا امر جس کی طرف میں علماء کی توجہ مائل کرانا چاہتا ہوں علوم اسلامیہ کے درس و تدریس میں وسعت پیدا کرتا ہے۔ اے حضرات!اس امر سے کسی کو انکار نہیں ہو سکتا کہ پچاس ساٹھ برس سے ہماری علمی حالت برابر تنزل کی طرف بڑھ رہی ہے، جس درجہ کے علماء پچاس برس پہلے موجود تھے اس زمانہ کے بعد اس درجہ کے علماء نہیں پیدا ہوئے اور زمانہ ما بعد میں جس رتبہ کے علماء پیدا ہوئے اس زمانہ کے بعد اس درجہ کے بھی پیدا نہیں ہوئے۔ حضرت شاہ عبدالعزیز صاحب، شاہ عبدالقادر صاحبؒ، مفتی محمد یوسف صاحب، مولوی فضل حق صاحب جیسے علماء کا پیدا ہونا اب گویا نا ممکن معلوم ہوتا ہے، بلکہ اب تو یہ بھی توقع نہیں کہ مولوی عبدالحئی صاحب مرحوم، مولوی ارشاد حسین صاحب مرحوم مولانا احمد علی صاحب مرحوم جیسے بزرگ بھی قوم میں پیدا ہوں۔ تصنیفات کا یہ حال ہے کہ عربی زبان میں اب بہت کم کتابیں لکھی جاتی ہیں اردو زبان میں جو کتابیں لکھی جاتی ہیں وہ بھی کچھ محققانہ نہیں ہوتیں بلکہ صرف چند نزاعی مسئلوں کے متعلق ادھر ادھر کی خوشہ چینی ہوتی ہے ، پھر کیا اس کی یہ وجہ ہے کہ اب علوم عربیہ کی قدر دانی نہیں رہی۔ اور ان علوم کے پڑھنے والوں کو مناصب اور عہدے نہیں ملتے۔ لیکن ذرا سے غور سے معلوم ہوتاہے کہ یہ اس بات کی وجہ نہیں ہو سکتی۔ خدا کا شکر ہے او رہم اس پر فخر کر تے ہیں کہ مسلمانوں نے علم کو کبھی تحصیل دولت کے لیے نہیں پڑھا۔ علماء کسی زمانہ میں بہت دولت مند یا صاحب جاہ و منصب نہ تھے۔ ملا نظام الدین، ملا حسن، ملا کمال، شاہ ولی اللہ صاحب، شاہ عبدالعزیز صاحب کو کون سی دولت و ثروت حاصل تھی۔ پھر کیا اس کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہع لوم کی تحصیل کے سامان کم ہیں، یہ بھی صحیح نہیں ، اب جس کثرت سے ہندوستان کے ہر گوشہ میں عربی مدارس موجود ہیں، پہلے کبھی نہ تھے جس قدر کتابیں اب چھپ کر شائع ہو گئیں، اگلے زمانہ میں کہاں دستیاب ہوتیں تھیں۔ سفر کے وسائل اور ذرائع جیسے اب آسان ہو گئے ہیں پہلے کب تھے؟ پھر کیا اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ اخیر زمانہ ہے، اور اس برے زمانہ کا اقتضا ہی یہ ہے کہ اگلی سی ہمتیں اور اگلی سی حوصلہ مندیاں زمانہ سے مفقود ہو جائیں لیکن اگر ایسا ہے تو زمانہ تمام دنیا پر محیط ہے، اس لیے دنیا کے ہر گوشہ میں ایسی ہی بستی اور ایسا ہی تنزل پایا جانا چاہئے، حالانکہ دنیا کے اور حصوں میں علوم و فنون کی بہار آ رہی ہے میں اس وقت اجمال کے ساتھ دکھانا چاہتا ہوں کہ دنیا کے حصوں میں انہی علوم و فنون کو کس قدر ترقی ہے اور ترقی کے کیا کیاوسائل پیدا ہو گئے ہیں۔ اے حضرات! اگرچہ ہندوستان کی موجودہ حالت دیکھ کر یہی قیاس ہوتا ہے کہ اب علمی ترقی کے میدان میں کوئی وسعت پیدا نہیں ہو سکتی، لیکن شام و مصر اور بالخصوص یورپ کی علمی رفتار کے لحاظ سے میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ اس زمانہ میں جو سامان پیدا ہو گئے ہیں اور علوم و فنون کے متعلق نظر و فکر کے جو طریقے اب ایجاد ہوئے ہیں، پہلے ان کا نام و نشان بھی نہ تھا۔ اگرچہ ممکن تھا کہ میں اس مضمون پر منطق، حکمت، تاریخ، جغرافیہ، طبیعات وغیرہ ہر ایک علم کے لحاظ سے بحث کرتا۔ لیکن اس قدر وقت اور فرصت نہیں ہے اس لیے صرف فن ادب کے متعلق کچھ عرض کرتا ہوں۔ اے حضرات! فن ادب کوئی معمولی فن نہیں ہے قرآن مجید اور احادیث کے سمجھنے اور اس کے نکات سے واقف ہونے کا اس سے بہتر کوئی ذریعہ نہیں، یہی وجہ ہے کہ تمام بڑے بڑے مفسرین اور محدثین ادب میں نہایت کمال رکھتے تھے، فن ادب میں ہمارے یہاں صرف مقامات حریری، متبنی، سبعہ معلقہ درس میں داخل تھا، اور بعض لوگ تاریخ تیموری و نفحۃ الیمن بھی پڑھتے تھے، صرف یہی نہیں تھا کہ درسی کتابیں انہی میں منحصر تھیں، بلکہ ادب کا کل سرمایہ جو ہمارے ملک میں دستیاب ہو سکتا تھا، وہ یہی کتابیں یا ان کی شرحیں اور حاشیے تھے۔ اب خیال فرمائیے کہ آج کل ادب کا کس قدر سرمایہ پیدا ہو گیا ہے، جاہلیت اور شروع اسلام کے اشعار کی نسبت مفسرین نے لکھا ہے کہ قرآن مجید کے مطالب سمجھنے کے لیے ان پر اطلاع حاصل ہونی ضرور ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ کا قول ہے۔ العرنب ناذا خلمے علینا الحرف من القران رجعنا الی دیوانھا انہی کا قول ہے اذا سالتمونی عن غریب القرآن فالتمسوۃ نی لشعر، جن اشعار کو حضرت عبداللہ بن عباسؓ نے فہم قرآن کے لیے ضروری سمجھا۔ ان میں سے ہمارے پاس صرف سبعہ معلقہ موجود تھا، لیکن اب شام و مصر وغیرہ میں اشعار عرب کا بے انتہا ذخیرہ موجود ہو گیا ہے۔ شعرائے جاہلیت و مخضر مین میں سے امراء القیس، زہیر بن ابی سلمیٰ، لبید بن ربیعۃ العامری، نابغہ ذبیانی، علقۃ الفحل، عروہ بن الورد، حاتم طائی، اوس بن حجر، خنسائ، غترہ بن شداد العبسی، طرفہ بن عبد بکرمی، حاورہ کے دیوان چھپ گئے ہیں۔ قبیلہ ہذیل جن کی نسبت تسلیم کیا گیا ہے کہ عرب کے تمام قبائل میں سب سے فصیح تر تھے۔ اس قبیلہ کے تمام شعراء کا کلام ایک مجموعہ میں چھاپا گیا ہے۔ خلیفہ منصور عباسی نے خلیفہ مہدی کی تعلیم کے لیے اشعار عرب کا جو مجموعہ تیار کرایا تھا اس جس کو علامہ مفضل ضبہی نے جمع کیا تھا، بیروت میں چھپ کر شائع ہوا ہے۔ 52 قصیدے جو مختارات اشعار العرب کہلاتے ہیں، پورے چھپ گئے ہیں۔ جمرۃ العرب شائع ہو چکا ہے۔ اسلامی شعراء میں سے جن کا کلام مستند مانا گیا ہے۔ ان میں خطیہ، عمرو بن ابی ربیعہ، اخطل، فرزوق، ابو مججن ثقفی کا دیوان چھپ چکا ہے، او رزمانہ ما بعد کے شعراء کا کلام تو نہایت کثرت سے شائع ہو چکا ہے عباس بن الاحنف حریع الغوانی، عبداللہ بن المعتز، ابو تمام، ابو عبادہ بحتری، ابو العتہیہہ، ابو فراس، ابو نواس کہ ان میں سے ہر ایک فن شعر کا امام تھا، سب کے دیوان چھپ چکے ہیں۔ ان کے سوا ادب کی وہ کتابیں جن میں کثرت سے اشعار عرب مذکور ہیں بکثرت شائع ہو چکی ہیں۔ یہ تو فقط اس سرمایہ کا بیان تھا کو فن ادب میں اب موجود ہے لیکن جب آپ یہ خیال فرمائیں گے کہ اس فن کے متعلق پہلے واقفیت اور تحقیقات کا کیا طرز تھا، اور اب کیا ہے؟ تو اور بھی تعجب ہو گا پہلے یہ طریقہ تھا کہ سبعہ معلقہ کے ساتوں قصیدے معمولی طور سے پڑھا دئیے جاتے تھے اور شوقین طالب علم لغات کو حفظ کر لیتے تھے اس کے سوا ان کو کچھ نہیں معلوم ہوتا تھا کہ یہ شعراء کون تھے۔ ان کو اور شاعروں سے کیا نسبت ہے ان کے کلام میں کیا کیا خوبیاں ہیں، کہاں کہاں ان میں بلاغت کی کمی ہے، لیکن اب ان امور کی تحقیقات کی جاتی ہے کہ عرب میں شاعری کب پیدا ہوئی؟ کن اسباب سے پیدا ہوئی، کس قبیلہ میں اول اس کا رواج ہوا؟ اقسام شعر میں سے کون کون سی قسمیں کس کس زمانہ میں ایجاد ہوئیں، شعرائے جاہلیت نے کن کن مضامین پر شعر لکھے، ان میں عہد بعہد کیاکیا ترقیاں ہوئیں، بلاغت کے کون کون سے اسلوب انہوں نے استعمال کیے۔ ان کی شاعری سے عرب پر کیا اثر پڑا، اسلامی شعراء نے فن میں کیا تصرفات کیے۔ زبان کیونکر صاف کیا، کتنے الفاظ چھوڑ دئیے، کن کن نئے مضامین پر اشعار لکھے، اسی طرح عہد بعہد اس فن میں کیا کیا ترقیاں ہوئیں، ادب کی طرح اور علوم و فنون میں بھی تحقیقات کا طرز بدل دیا ہے، لیکن اس کے بیان کرنے کے لیے وقت نہیں۔ اے حضرات! علماء کا ایک اور سب سے بڑا فرض بلند حوصلگی اور عالی ہمتی کا پیدا کرنا ہے۔ اس سے خدانخواستہ میری یہ مراد نہیں کہ وہ بڑی بڑی نوکریوں کی خواہش کریں۔ دولت کے جمع کرنے کی تدبیریں سوچیں، بلکہ میری مراد علمی اور مذہبی حوصلہ مندی ہے، وہ حوصلہ مندی جس کا یہ اثر تھا کہ محدثین ایک ایک حدیث کے لیے ہزاروں کوس کا سفر کرتے تھے، جس کا یہ اثر تھا کہ اندلس کے طلبہ ہندوستان میں تحصیل علم کے لیے آتے تھے، جس کا یہ اثر تھا کہ ابن بیطار نے نباتات کے دریافت کے لیے اندلس سے چل کر یونان اور بحر روم کے تمام جزائر کی خاک چھان ڈالی تھی، جس کا یہ اثر تھا کہ جغرافیہ کی تحقیقات کے لیے علامہ بشاری نے پورے 28 برس دنیا کے سفر میں صرف کر دئیے تھے، جس کا یہ اثر تھا کہ ابو الفرج اصفہانی نے پورے پچاس برس صرف کر کے کتاب الاغانی لکھی اور دنیا کو علم ادب کے بڑے بڑے کتب خانوں سے مستغنی کر دیا۔ جس کا یہ اثر تھا کہ اصمعی محاورات عرب کی تحقیقات کے لیے عرب کے بیابانوں کی خاک چھانتا پھرتا تھا۔ اے حضرات! کیا موجودہ زمانہ میں ان حوصلہ مندیوں کی ایک بھی مثال پائی جاتی ہے اور کیا ان حوصلہ مندیوں کے بغیر علماء اپنے فرض سے ادا ہو سکتے ہیں۔ افسوس اور سخت افسوس یہ ہے کہ علمی حوصلہ مندی اس قدر مفقود ہو گئی ہے کہ ہم اس کے امکان کا بھی تصور نہیں کر سکتے، حالانکہ وہ حوصلہ مندیاں دوسری قوموں میں موجود ہیں اور اگر آپ اجازت دیں تو میں مثال کے طور پر صرف ان عجیب و غریب کوششوں کا ذکر کروں جو دوسری قوموں نے خاص ہمارے علوم و فنون کے ترقی دینے میں کی ہے۔ 1سب سے بڑا احسان جو یورپ کا عربی زبان اور عربی علوم و فنون پر ہے، یہ ہے کہ عربی کی وہ کتابیں جو مسلمانوں کے لیے مایہ فخر ہیں اور باوجود اس کے اس قدر نایاب تھیں کہ کہیں ان کا پتہ بھی نہیں لگتا تھا، یورپ نے نہایت تلاش سے بہم پہنچائیں ان کی تصحیح کی، حاشیے چڑھائے اختلاف نسخ قلم بند کیے، مضامین و الفاظ کی فہرست مرتب کی، اور نہایت حسن و خوبی کے ساتھ چھاپ کر مشتہر کیا۔ ان محنتوں کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے، کہ جس جرمن پروفیسر نے کتاب الفہرست کی تصحیح و ترتیب کی اس کے پورے بیس سال اس کام میں صرف ہوئے، پروفیسر وایٹ18برس سے جریر کے دیوان کے مرتب کرنے میں مصروف ہے، برلن کی ایک کمیٹی نے لاکھ روپے صرف اس کام کے لیے وقف کر دئیے کہ طبقات ابن سعد کا پورا نسخہ جو بارہ جلدوں میں ہے چھاپ دیا جائے چنانچہ خاص اس غرض سے پروفیسر زاخو اپریل 1895ء میں مصر پہنچا، اور اب تک وہیں مقیم ہے۔ اس طرح کی اور بہت سی مثالیں ہیں اس وقت تک عربی کی جس قدر نایاب کتابیں یورپ نے چھاپ کر شائع کیں، ان سب کا نام تو میں گنا نہیں سکتالیکن تاریخ کی تصنیفات کی ایک فہرست ذیل میں لکھتا ہوں جن میں سے اکثر خود میری نظر سے گزری ہیں۔ یہ وہ کتابیں ہیں جو یورپ کے چھاپنے سے پہلے نا پید تھیں اور ہمارے ہندوستان کے علماء اب بھی ان کے ناموں سے بے خبر ہیں ان میں سے بعض مصر وغیرہ میں چھپی ہیں تو یورپ ہی کے نسخے سے منقول ہو کر چھپی ہیں۔ تاریخ ابو جعفر محمد بن جریر الطبری تمام و کمال 12جلد، اخبار2؎ الطوال ابو حنفیہ دنیوری، 3کتاب التنبیہ والا شراف للمسعودی،4انساب الاشراف للبلاذری،5 تاریخ یعقوبی، 6 فتوح البلدان بلا ذری، 7کتاب الفہرست ابن الندیم بغدادی، 8 رحلہ ابن جبیر، 9ا لمعجب،10ا لبیان المغرب فی اخبار المغرب للمراکشی،11سیرۃ صلاح الدین للقاضی بہاؤ الدین بن شداد، 12 الفتح القسی للعما والا صفہانی،13 مذیل للطبری، 14 المشتبہ للذہبی، 15 معجم ابن آباد، 16 اخبار کمتہ للازرقی، 17 المنتقی با خبارام القری، 18 اعلام با علام بیت اللہ الحرام، 19 استبصارفی عجائب الامصار، 20 الآثار الباقیہ عن القرون الخالیہ، 21 کتاب الاعتبار لا بن منقذ،22 المام للمقریزی، 23 البیان والاعراب بما بارض مصر من الاعراب، 24 کتاب الہند للبیرونی، 25 الجز عن اول وولۃ من دول الاشراف ایعلومین، 26 العیون والحدایق، 27 زبدۃ الحلب فی تاریخ حلب، 28 تاریخ آل سلجوق، 29 زبدۃ النصرہ فی اخبار الوزراء السلجوقیہ، 30 سلسلۃ التواریخ، 31 اخبار العصر، 32 اخبار مجموعہ فی فتح الاندلس، 33 تاج التراجم للقاسم بن قطلوبغا، 34 الفخری فی الادب السلطانیہ، 35 مروج الذہب للمسعودی، 36 کتاب الصلۃ لا بن بشکوال،37 تکملہ، 38 کتاب الصلۃ بغیۃ الملتمس فی تاریخ رجال اہل الاندلس،39 طبقات المفسرین للسیوطی، 40 اخبار ملوک مغرب والفاس للمقریزی، 41 عجائب الہند لیزوک بن شہریار، 42 کتبۃ صقلیہ، 43 تہذیب الاسماء للنودی، 44 کتاب الانساب للمقدیسی، 45 فتوح الشام للازری، 46 ملحض طبقات الحفاظ للسیوطی، 47 معارف ابن قیتبہ۔ ان کتابوں کے علاوہ یورپ نے جغرافیہ کی تصنیفات کا پورا سلسلہ مرتب کر کے چھاپا۔ ہمارے خیال میں بھی نہ تھا کہ جغرافیہ کے فن میں جو اس ملک میں خاص انگریزوں کی بدولت آیا ہے اور اسی وجہ سے ہمارے علماء اس سے بالکل نا آشنا ہیں۔ مسلمانوں نے کوئی خاص کمال پیدا کیا تھا لیکن ان تصنیفات کو دیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں سے پہلے اس فن کی کیا حالت تھی اور مسلمانوں نے اس کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا۔ کس کو خیال تھا کہ تیسری صدی ہجری میں عرب کا ایسا جغرافیہ تیار ہوا ہو گا جو بالکل آج کی تحقیقات کے موافق ہے جس میں عرب کے ایک ایک گاؤں کی تفصیل ہے اور ہر ہر گاؤں کی پیداوار، عمارات، معدنیات، اشجار، نباتات، جانور، تجارت وغیرہ کے حالات تفصیل سے مذکور ہیں۔ عرب کا یہ جغرافیہ ابن الحامک ہمدانی نے 334ھ میں لکھا جو یورپ میں بمقام لیڈن 1884ء میں چھاپا گیا۔ جغرافیہ کے سلسلہ میں جو نایاب کتابیں یورپ میں چھاپی گئیں ان کے نام حسب ذیل ہیں، معجم البلدان یاقوت حموی چار جلد، مشترک یاقوت حموی، مراصد الاطلاع، احسن التقاسیم فی معرفۃ الاقالیم، جغرافیہ ابن حوقل بغدادی، مختصر کتاب البلدان لا بن الفقیہ الہمدانی، کتاب البلدان للیعقوبی، تقویم البلدان، المسالک والممالک لابن خردازبہ، مسالک الممالک للاصطخزی، نزہۃ المشاق للشریف الادریسی۔ یہ سب بڑی ضخیم کتابیں ہیں، اور ان کے دیکھنے سے مسلمانوں کی علمی کوششوں کا اندازہ ہو سکتاہے۔ 2 دوسری تیسری صدی میں جو نئے الفاظ عربی تصنیفات خصوصاً تاریخ میں شامل ہوتے گئے لغت کی کتابوں میں کہیں ان کا پتہ نہیں لگتا، تاریخ طبری و بلاذری و مقریزی میں سینکڑوں ہزاروں الفاظ ایسے موجود ہیں جو قاموس، لسان العرب شرح قاموس وغیرہ بڑی بڑی کتابوں میں نہیں ملتے اور مجھ کو اس کا خاص تجربہ ہو چکا ہے یورپ نے اس مشکل کی عقدہ کشائی کی ، فرانس کے ایک پروفیسر نے جس کا نام دوزی ہے خاص اس قسم کے لغات پر ایک کتاب لکھی جو دو جلدوں پر چھپ کر شائع ہوئی ہے اور جس میں سترہ سو صفحے ہیں یہ کتاب میرے مطالعے میں ہے اور میں ہر دفعہ مصنف کی محنت اور تحقیق پر حیران رہ جاتا ہوں ہمارے ملک کے علماء شاید یورپ کی وسعت نظر اور کثرت معلومات کا اعتراف نہ کریں لیکن مصر و شام کے فضلاء ان تصنیفات کو پڑھ کر کیونکر انکار کر سکتے ہیں علامہ حمزہ فتح اللہ جو مصر میں فن ادب کا استاد الکل ہے اس نے اپنے رسالہ باکورۃ الکلام میں علانیہ تسلیم کیا ہے کہ نحن فی اللغۃ العربیہ کا الفائلۃ علیہم یعنی عربی زبان میں ہم یورپ کے دست نگر ہیں۔ 3 عربی زبان میں ایسی کوئی تصنیف موجود نہ تھی، اور نہ کبھی لکھی گئی جو مسلمان فلاسفروں کی تصنیفات کے ریویو کے طور پر ہوا۔ اور جس سے یہ ظاہر ہو کہ یونانیوں کے کیا مسائل تھے اور حکمائے اسلام نے اس پر کیا ترقی کی، یورپ میں اس قسم کی تصنیفات کثرت سے لکھی گئی ہیں اور برابر لکھی جا رہی ہیں۔ ارسطو کی قاطیغو ریاس جو کو حنین بن اسحق نے عربی زبان میں ترجمہ کیا تھا، اصل یونانی زبان میں مع عربی ترجمہ کے چھاپی گئی ہے اور اس کے دیباچہ میں اس امر پر بحث کی ہے کہ یہ ترجمہ کہاں تک صحیح اور اصل کے مطابق ہے۔ جرمنی کے ایک پروفیسر نے فارابی کی تمام تصنیفات اور مسائل پر تین سو صفحوں میں ایک کتاب لکھی ہے میں نے یہ دونوں کتابیں دیکھی ہیں اگرچہ افسوس ہے کہ جرمن زبان نہ جاننے کی وجہ سے ان سے متمتع نہیں ہو سکا۔ پروفیسر مونک نے فرنچ زبان میں خاص اس بحث پر کہ مسلمانوں نے یونانیوں کے علوم کی کیونکر تحصیل کی اور ان سے یہودیوں نے کیونکر سیکھا؟ ایک مستقل کتاب لکھی، چنانچہ میں نے اس کتاب کے بعض مقامات سبقاً سبقاً پڑھے ہیں، پروفیسر رینان نے حکیم ابن رشد کے فلسفہ پر چار سو صفحوں میں ایک عجیب و غریب کتاب لکھی، جس میں اس نے تفصیلاً بیان کیا ہے کہ جرمنی اور فرانس میں کئی سو برس تک خاص ابن رشد کا فلسفہ جاری رہا۔ا ور وہاں بہت سے فرقے پید اہو گئے تھے جو اپنے تئیں بجائے ارسطو و افلاطون کے ابن رشد کی طرف منسوب کرتے تھے۔ پار سال مقام جنیوا میں جو اورینٹل کانفرنس منعقد ہوئی اس میں ایک یہ تجویز منظور ہوئی کہ ایک کمیٹی قائم ہو جس میں عربی زبان کے بڑے بڑے کامل الفن ممبر مقرر کیے جائیں اس کمیٹی کا یہ کام ہو گا کہ مسلمانوں نے فلسفہ ہیئت، طب اور لٹریچر میں جو ترقی کی اس کی ایک مفصل انسائیکلو پیڈیا تیار کرے چنانچہ اسی کانفرس میں یہ کمیٹی قائم ہو گئی، اور بڑے بڑے عربی داں پروفیسر اس کے ممبر مقرر ہوئے۔ اے حضرات علمائ! جب کہ دوسری قومیں خود ہمارے علوم و فنون میں ایسی عجیب و غریب کوششیں کر رہی ہیں ، اور عربی زبان کے میدان میں اس قدر وسعت پیدا ہو گئی ہے، تو کیا ہم کو اسی پر قناعت کرنی چاہیے کہ ایک محدود کورس کی چند کتابیں پڑھائی جائیں اور تمام عمر اسی محدود دائرے میں بند پڑے رہیں؟ علمی حوصلہ مندی جس کو میں نے علماء کا فرض بتایا ہے اس کا یہ اقتضا ہے کہ اگلوں نے ہمارے لیے جو سرمایہ چھوڑا تھا دنیا سے ہم جائیں تو اس میں اضافہ کر کے جائیں، یہ خیال غلط اور بالکل غلط ہے کہ علمی کارخانے میں کام کرنے کے لیے اب کچھ باقی نہیں رہا، ابھی بہت کچھ وسعت ہے اور بہت کچھ کیا جا سکتا ہے۔ فیض روح القدس ارباز مدد فرما ید دیگراں نیز کنند انچہ مسیحامی کرو ٭٭٭٭٭٭٭٭ مجوزہ دار 1؎ا لعلوم ندوۃ العلماء ایک مدرسہ جس کا نام دار العلوم ہو گا قائم کرنا چاہتا ہے، اس پر عربی کے دوست اعتراض کریں گے کہ مدرسہ کی بنیاد ڈالی تو کیا انوکھی بات کی ، نئے تعلیم یافتہ کہیں گے کہ آج کل عربی کی کیا قدر ہے، وہ ہمارے کیا کام آ سکتی ہے، اصل یہ ہے کہ دو باتیں ہیں جس سے یہ مدرسہ دیر پا یادگار ہو سکتا ہے۔ اول ظاہری شان و شوکت سے اس کا مکان نہایت شاندار اور مضبوط ہو گا اور اس میں ہر ایک کام کے لیے جدا جدا کمرے ہوں گے، مثلاً پڑھنے کے کمرے، رہنے کے کمرے، کھانے کا کمرہ، جس میں سب ایک جا ہو کر اور مل کر کھانا کھائیں گے۔ مکان کو شاندار بنانے کی ضرورت اس طرح کی ہے، جیسے مسجد کے شاندار اور مستحکم کرنے کی یہ ظاہر ہے کہ مسجد اس لیے بنائی جاتی ہے کہ وہاں جا کر فرض ادا کریں وہ ہم ذرا سی جگہ میں بھی ادا کر سکتے ہیں، پھر کیا وجہ کہ وہ نہایت عظمت و استحکام سے تیار کی جاتی ہے۔ 1؎ مولانا نے اپنی تقریر ندوہ کی روداد میں قلمبند کر کے عنایت نہیں کی، لہٰذا روداد کے مرتب نے جتنا جلسہ کے وقت نوٹ کیا تھا وہی بمجبوری لکھا تھا۔ اصل مضمون کا غالباً بہت سا حصہ رہ گیا ہے۔ اس سے یہی غرض ہوتی ہے کہ اس سے شان اسلام نمایاں ہو اور عرصہ تک اس کیفیت کو وہ ظاہر کرے، پس جو امر خلاف شریعت نہ ہو اس کو جہاں تک ہو سکے باشان و با عظمت بنائیں۔ ہمارے اسلاف اکثر اسلامی چیز دس کو شان و شوکت سے ظاہر کرتے تھے۔ سلطنت تیموریہ کے لیے نہایت شرم کی بات ہے کہ اس نے اپنی یادگار میں کوئی شان دار مدرسہ نہیں چھوڑا، جو کام سلطنت سے باقی رہ گیا تھا ہم اس کو پورا کریں۔ دوسری حیثیت یہ ہے کہ اصلیت اس کی کہاں تک ہو گی؟ اس کو جواب یہ ہے کہ اصلیت زیادہ، ظاہری شان و شوکت بقدر ضرورت ہونا چاہیے۔ اس وقت کے مدارس سے اعلیٰ درجہ کی ترقی علمی نہیں ہو سکتی۔ اس مدرسہ میں ایک عالم کے سپرد ایک کام ہو گا۔ جس میں اس کو شہرت عام حاصل ہو۔ علمائے سلف کی یہ عادت تھی کہ وہ ایک ایک فن میں کمال حاصل کیا کرتے تھے، اور بقدر ضرورت اور علوم بھی جانتے تھے اسی وجہ سے ہم بھی چاہتے ہیں کہ ہمارے مدرسہ سے بھی ہر فن کے جدا جد عالم نکلیں یوں تو بعض صاحب ہر فن کامل ہوتے ہیں جیسے مولانا مولوی لطف اللہ صاحب کہ ہر فن میں جامعیت رکھتے ہیں لیکن یہ فضیلت ہر شخص کو حاصل نہیں ہو سکتی چونکہ ہر فن میں مشغول ہونے سے طبیعت ہر علم کی طرف متوجہ ہوتی ہے اس لیے ایک فنی ہونا مشکل ہوتا ہے۔ اس دار العلوم میں ایک کتب خانہ بھی ہو گا جس میں ہر طرح کی کتابیں موجود ہوں گی کہ جو طالب علم بعد تکمیل کے مطالعہ کتب سے اپنی لیاقت بڑھانا چاہے، وہاں رہ کر کتب بینی سے اپنے علم کو بڑھا سکے۔ نئی روشنی والے سمجھ لیں کہ اس مدرسہ کی صرف ہم ہی کو ضرورت نہیں ہے بلکہ وہ بھی اس کے مشتاق رہیں۔ کیوں کہ یہ نا ممکن ہے کہ وہ پانچ کروڑ مسلمانوں کو انگریزی داں بنا دیں۔ اگرایسا ہو گا تو ہندوستان میں اسلام سے ہاتھ دھو لینا چاہیے ہم کو ایسے گروہ کی بھی ضرورت ہے کہ جو ہمارے دین اور علم دین کو زندہ رکھے۔ علم عربی کی آج کل بڑی بے قدری ہے، یورپ کے ایک بادشاہ نے یہ اشتہار دیا کہ جو شخص عرب کی تاریخ قبل اسلام ایام جاہلیت کی لکھ دے تو دو ہزار روپے انعام اور ایک تمغہ ملے گا، لیکن تین برس ہوئے کسی نے نہیں لکھی۔ پورے علمی کمال کے بغیر کسی عالم اور علم کی پوری قدر نہیں ہو سکتی۔ ڈاکٹری اور یونانی کو دیکھئے، یونانی طب کی اس وجہ سے خرابی نہیں ہے کہ یہ علم ناقص ہے، بلکہ اس کی نگہداشت اور دواؤں کی پوری جانچ نہیں ہوتی ہے، دوا کا عالم بھی کامل ہو تو طب کو بھی ترقی ہو سکتی ہے، غیر قوم کے لوگ اس فن سے ایسی ترقی کر رہے ہیں کہ ہم کو معلوم ہوتا ہے کہ اس کا فن کوئی اور ہے۔ افسوس کہ غیر ہماری چیزوں سے منتفع ہوں اور ہم اپنی چیزوں سے محروم رہیں۔ بہت سے مدارس گو اس وقت قائم ہیں مگر ان میں یہ نقص ہے کہ سب علوم ایک شخص پڑھتا ہے، اس وجہ سے وہ کسی علم میںصاحب کمال نہیں ہوتا۔ اس واسطے اگر یہ مجمع علماء کا انتظام کرے تو اس کے لیے صرف زیبا ہی نہیں ہے بلکہ ضرور ہے اور اس کا انصرام اسی وقت ہو سکتا ہے جب کہ اس قسم کا دار العلوم قائم ہو جس میں ہر فن کی تعلیم کے واسطے جدا جدا ایسے شخص مقرر ہوں جو اس فن میں ممتاز ہوں۔ بعض کو شاید یہ خیال ہو کہ اور کسی بڑے مدرسے کو ترقی دے کر کیوں نہیں دار العلوم بنایا جاتا۔ بات یہ ہے کہ اس میں اور مدارس کو رشک و عناد ہو گا۔ اس لیے یہی مناسب ہے کہ ندوہ ایک دار العلوم خود علیحدہ ہی قائم کرے۔ ٭٭٭٭٭٭ شاہ امانت اللہ صاحب غازنیپوری کی وفات (اجلاس ندوۃ العلمائ1898ئ) قبل اس کے کہ آج اور کوئی کارروائی شروع کی جائے ایک افسوسناک لیکن نا گزیر اور ضروری کام ندوہ کے سامنے ہے آپ صاحبوں کو شاید معلوم ہو کہ مولانا شاہ امانت اللہ صاحب نے جو ایک مشہور اور معروف بزرگ اور ہماری مجلس ندوۃ العلماء کے بہت بڑے رکن اور معاون تھے۔ چند روز ہوئے دار فانی سے عالم جاودانی کو انتقال فرمایا۔ مولانائے مرحوم کے اوصاف و فضائل کی تفصیل اس وقت بیان نہیں کی جا سکتی، لیکن اس قدر کہنا ضروری ہے کہ مولانا میں ایسی بہت سی خصوصیات تھیں جن کی وجہ سے وہ تمام علماء کی جماعت میں ایک ممتاز اور جداگانہ حیثیت رکھتے تھے وہ جس عظمت و شان، خود داری اور پاس وضع، بلند نظری اور عالی حوصلگی سے بسر کرتے تھے۔ اس سے اسلامی شان کا جلوہ نظر آتا تھا۔ جب وہ وعظ و تبلیغ کی ضرورت سے سفر کرتے تھے تو جس طرف ان کا گزر ہوتا تھا ایک غلغلہ پڑ جاتا تھا اور غیر مذہب والوں پر اس کا اثر پڑتا تھا وہ ندوۃ العلماء کے بہت بڑے قوت بازو تھے اکثر جلسوں میں تشریف لاتے تھے ندوہ کے وفود کے ساتھ سفر کرتے تھے اور جب ندوہ نے غازیپور کا سفر کیا تو مولانا نے جس عظمت و شان سے ندوہ کی جماعت کا استقبال کیا، کسی بڑے سے بڑے حاکم یا افسر کو بھی کسی موقع پر یہ بات نصیب نہ ہو گی۔ مولانائے مرحوم کی ذات گرامی سے ندوہ کی بہت سی امیدیں وابستہ تھیں لیکن افسوس ہے کہ ہماری بد قسمتی سے موت نے سب کا خاتمہ کر دیا، لیکن جہاں ہم کو مولانا کے بے وقت انتقال کرنے سے سخت صدمہ پہنچا ہے یہ بات تسلی اور اطمینان کے قابل ہے کہ ان کے فرزند رشید مولوی شاہ ابو الخیر صاحب جو اس موقع پر تشریف رکھتے ہیں مولانائے مرحوم کے ایسے قائم مقام ہیں جن سے ہم کو وہی تمام امیدیں ہیں، جو مولانائے مرحوم کی ذات سے تھیں مولوی ابو الخیر صاحب کی وجاہت، فصاحت لسانی، صورت شکل، لب و لہجہ سے ہر شخص قیاس کر سکتا ہے کہ جس طرح ان ظاہری اور محسوس باتوں میں وہ اپنے بزرگوار کے نمونہ اور گویا ان کی تصویر ہیں اسی طرح تمام اور محاسن اور اخلاق میں بھی وہ سرتاپا مولانا مرحوم کے نظیر ہوں گے، یہی وجہ ہے کہ غاریپور میں جو مولانا کا محل اقامت تھا، مسلمانوں نے ان کو مولانائے مرحوم کا سجادہ نشین تسلیم کیا اور خاص غازیپور کے لوگوں سے زیادہ کوئی شخص قائم مقامی کے حق کا اندازہ نہیں کر سکتا ہے۔ مولوی ابو الخیر صاحب کو ندوہ کے اجلاس میں ہم اسی حیثیت سے دیکھتے ہیں جس طرح ان کے والد بزرگوار کو دیکھتے تھے اور ان کی ذات سے ہم کو وہی تمام امیدیں ہیں جو مولانائے مرحوم کی ذات سے تھیں آخر میں یہ تحریک پیش کرتا ہوں کہ ندوہ کی طرف سے اظہار تاسف کے ساتھ مولانائے مرحوم کے لیے دعا مغفرت کی جائے اور یہ امر درج کارروائی اجلاس ہذا کیا جائے۔ ٭٭٭٭٭٭ اسکولوں میں مذہبی تعلیم کا انتظام (اجلاس ندوۃ العلمائ1898ئ) انگریزی تعلیم کی وجہ سے مذہبی تعلیم میں جو وقت اور خرابی پیش آ گئی ہے اس کی اصلاح کے لیے اب تک جو تدبیریں اختیار کی گئی ہیں وہ سود مند نہیں ہوئیں ان مشکلات پر نظر کر کے امروہہ کے ایک مسلمان رئیس1؎ نے اپنی محنت و دقت صرف کر کے اس بات کی کوشش کی کہ انگریزی مدرسوں میں مذہبی تعلیم کا وقت دیا جائے اس کے واسطے وہ دو مہینے نینی تال میں جا کر رہے، اور آخر کو ایک حد تک کامیاب ہوئے۔ گورنمنٹ نے ہفتہ میں دو بار نصف نصف گھنٹہ مذہبی تعلیم کے واسطے دیا ہے، اور اس کا انتظام اور نصاب درس کا ردو بدل مسلمانوں کی تجویز پر رکھا ہے۔ مولوی مشتاق حسین رئیس امروہہ نے اس کے قواعد علیحدہ چھپوا لیے ہیں جو اس وقت میرے ہاتھ میں ہیں ان کی خواہش یہ ہے کہ ندوۃ العلماء اس کا انتظام اپنے ہاتھ میں لے، اس کو جس طریہ سے مناسب ہو جاری کرے، اور نصاب درس تجویز کرے۔ لہٰذا میں اس کو پیش کر کے یہ تحریک کرتا ہوں کہ اس رعایت کی بابت گورنمنٹ کا اور اس کوشش کے بارے میں مولوی مشتاق حسین صاحب کا شکر گزار ہونا چاہیے۔ 1؎ نواب وقار الملک مولوی مشتاق حسین صاحب’’ س‘‘ قدیم و جدید تعلیم (جلدہ دستار بندی دار العلوم ندوۃ العلماء 1907ئ) چو شمعم در گدازور دے مجلس بامن است مشب نجو اہم سوخت تا در استخوانم روغن است مشب حضرات! ہندوستان میں جو لٹریچر زمانہ حال میں پیدا کر دیا ہے اس کا سب سے پامال اور سب سے زیادہ متدل اول لفظ قومی ترقی ہے۔ تقریر، تحریر، اسپیچ، لیکچر، وعظ، پند، مکالمہ، مخاطبہ، مضامین، اخبارات، تصانیف، غرض کوئی چیز اس سے خالی نہیں ہو سکتی۔ لیکن یہ نہایت عجیب بات ہے کہ اس قدر بحث کے بعد بھی یہ لفظ ابھی تک ایک معما ہے۔ جو حل نہیں ہوا کم از کم تیس برس سے قومی ترقی کی کوششیں جاری ہیں اور ہندوستان کے ہر گوشہ میں، ہر قسم کی مختلف تدبیریں عمل میں آ رہی ہیں، ہر جگہ انجمنیں اور سوسائٹیاں قائم ہو رہی ہیں۔ یتیم خانوں کی بنیادیں پڑ رہی ہیں، اسلامی اسکول اور کالج کھل رہے ہیں تعلیمی کانفرنس کے جلسے ہوتے رہتے ہیں یہ سب ہوا لیکن اس سے زیادہ نہ ہو گا کہ نوکری پیشہ گروہ کے دائرہ میں کسی قدر تعلیم پھیل گئی اور چند لوگ معزز عہدوں پر ممتاز ہو گئے یہ امر مسلم ہے اور اب کسی کو اس سے انکار نہیں ہو سکتا کہ انگریزی تعلیم کے بغیر ہماری ترقی نہیں ہو سکتی، لیکن سوال یہ ہے کہ باوجود اس ہائے پکار، شور و غل اور جوش و خروش کے ملک میں انگریزی تعلیم نے کس قدر ترقی کی روسائے ملک میں کس نے تعلیم پائی، بڑے بڑے تعلقہ داروں اور زمینداروں میں کتنے تعلیم یافتہ ہیں، بمبئی اور رنگون کے مسلمان تاجر جو لاکھوں بلکہ کروڑوں کے مالک ہیں، ان میں سے کتنوں نے کوئی امتحان پاس کیا، عام دکان دار اور اہل حرفہ نے کس حد تک تعلیم پائی؟ سب سے بڑی وجہ اس عقدہ کے حل نہ ہونے کی یہ ہے کہ قومی ترقی کے مسئلہ پر آج تک صرف یک طرفہ بحث ہوئی ہے۔ ملک میں دو قسم کے تعلیم یافتہ ہیں۔ تعلیم قدیم، تعلیم جدید لیکن آج تک کسی صحبت، کسی مجلس، کسی کمیٹی میں ان دونوں گروہوں نے مل کر اس مسئلہ پر بحث نہیں کی، جس کا نتیجہ ہے کہ دونوں گروہوں کی کوششیں مختلف الجہتہ ہیں اور اسی وجہ سے قومی گاڑی کے دو پہیے دو مختلف سمتوں میں چل رہے ہیں جس کی وجہ سے منزل مقصود تک پہنچنا نا ممکن سا ہو گیا ہے یہ امر بدیہی ہے کہ دونوں گروہ ایک دوسرے سے بالکل الگ ہیں، ان میں کسی قسم کا رابطہ اور اشتراک نہیں ایک دوسرے سے اجنبی ، بیگانہ اور نا آشنا ئے محض ہے۔ تعلیم یافتہ گروہ، مولویوں کو ٹکڑ گدے، ملانے، قل اعوذیے کے لقب سے یاد کرتا ہے، اور سمجھتا ہے کہ وہ قوم کے غیر ضروری، بلکہ مضر اجزا ہیں، لیکن ان کو تسلی ہے کہ یہ مضر حصہ روز بروز فنا ہوتا جاتا ہے، اور وہ مبارک زمانہ جلد آنے والا ہے جب قوم کا دامن اس کے داغ سے بالکل پاک ہو جائے گا۔ مولوی اور پرانے تعلیم یافتہ نئے گروہ کو ابن الوقت، سگ دنیا اور دین بہ دنیا فروش سمجھتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ قومیت اور مذہب چھوڑ کر اگر دنیا، اور وہ بھی صرف چند نوکریاں ہاتھ آ گئیں تو یہ کون سی بڑی کامیابی ہے۔ ہم ابھی دونوں کے خیالات پر کوئی رائے نہیں دیتے بلکہ اس پر صرف نظر ڈالتے ہیں کہ قومی ترکیب کے لحاظ سے دونوں گروہ کو کیا حیثیت حاصل ہے؟ انگریزی خواں جو کچھ چاہیں سمجھیں، لیکن واقعہ یہ ہے کہ ملک میں عربی مدارس کثرت سے قائم ہوتے جاتے ہیں، اور عربی خوانوں کی تعداد میں کوئی کمی محسوس نہیں ہوتی۔ دیو بند، سہارنپور، دہلی، کان پور لکھنو کے عربی مدرسوں کی رپورٹ اٹھا کر دیکھو، طلبہ کی جو تعداد آج سے تیس برس پہلے تھی، آج بھی اسی قدر بلکہ اس سے زیادہ ہے۔ آج سے تیس چالیس برس پہلے تمام ہندوستان میں علماء کی تعداد سو تک بھی نہیں پہنچ سکتی تھی، لیکن آج صرف دیو بند کے مدرسہ کو 8 سو شخصوں کے سر پر دستار فضیلت بند ہونے کا دعویٰ ہے انگریزی خواں گروہ ان لوگوں کو بے اثر سمجھتا ہے، لیکن یہی حقیر گروہ ہے جس نے مسلمانوں میں انگریزی تعلیم کے پھیلنے کو اس طرح روک رکھا ہے کہ انگریزی حکومت، ضروریات زمانہ، رفامران قوم سب مل کر زور لگا رہے ہیں تاہم محدود دائرہ کے سوا انگریزی تعلیم کا ایک قدم آگے نہیں بڑھ سکتا۔ کیا کوئی شخص بتا سکتا ہے کہ رفارمروں کی پر زور تقریروں اور کانفرنس کے پر جوش جلسوں نے ایک رئیس، ایک تاجر، ایک تعلقہ دار ایک دکاندار کو بھی انگریزی پڑھنے پر آمادہ کیا ہے؟ لیکن وہی مولوی جن کو ٹکڑ گدے کا لقب حاصل ہے آج اگر چاہیں تو تمام ملک میں اس سرے سے اس سرے تک انگریزی تعلیم پھیل جائے۔ ان مولویوں کے وعظ و تلقین کا اثر ہے کہ بلحاظ اغلب عام مسلمانوں کا خیال ہے کہ انگریزی تعلیم صرف ملازمت اور نوکری کے لیے ضروری ہے اور اس لیے جو گروہ ملازمت کے بغیر بھی بسر کر سکتا ہے، وہ انگریزی تعلیم کی طرف متوجہ نہیں ہوتا۔ خوب یاد رکھنا چاہیے انگریزی تعلیم اس وقت تک ہر گز مسلمانوں میں عام نہیں ہو سکتی جب تک پرانے مولوی اس کو تعلیم کا ضروری جز نہ تسلیم کر لیں یہ کوئی قیاسی اور خیالی بات نہیں ہے بلکہ تاریخ اور تجربہ اس کی شہادت دے رہا ہے۔ خلفائے عباسیہ نے اپنے زمانہ میں فلسفہ یونان کا ترجمہ کرایا اور ہزاروں، لاکھوں روپے اس کی ترویج و اشاعت میں صرف کیے لیکن چونکہ مذہبی گروہ فلسفہ کا مخالف تھا اس لیے ہارون اور مامون کا شاہانہ اقتدار بھی کچھ کام نہ آ سکا، اور فلسفہ کی تعلیم دربار کے دائرہ میں محدود ہو کر رہ گئی دو سو برس تک یہی حال رہا یہاں تک کہ جب امام غزالی نے فلسفہ کے جواز کی سند دی تو دفعتہ تمام دنیائے اسلام میں اس سرے سے اس سرے تک ہر طرف فلسفہ ہی فلسفہ تھا۔ اسی کا اثر ہے کہ آج عربی تعلیم میں تفسیر، حدیث، فقہ، اصول کی جس قدر کتابیں درس میں داخل ہیں سب کی مجموعی تعداد بھی منطق و فلسفہ کی کتابوں کی تعداد کے برابر نہیں پہنچتی۔ اگر درس میں سے تفسیر یا حدیث کی ایک آدھ کتاب خارج کر دی جائے تو کسی کو چنداں خیال نہ ہو گا، لیکن اگر منطق و فلسفہ کی ایک کتاب بھی کم کر دی جائے تو تمام علماء لڑنے پر آمادہ ہو جائیں گے۔ اسی طرح ناگریزی تعلیم کا رواج عام بھی اسی وقت ہو سکے گا جب علماء کا گروہ اس کی ضرورت کو تسلیم کرے۔ جس طرح جدید تعلیم کے رواج اور توسیع میں علماء کی منظوری اور شرکت کی ضرورت ہے اسی طرح قدیم تعلیم بلکہ تمام مذہبی تحریکیں جدید تعلیم یافتہ لوگوں کی شرکت کے بغیر فروغ نہیں پا سکتیں۔ ہندوستان میں آج سینکڑوں ہزاروں عربی مدرسے ہیں لیکن ایک بھی ایسا نہیں جو سرمایہ، آمدنی، تعمیر، ظاہری شان و شوکت کے لحاظ سے ایک معمولی کالج کی بھی ہمسری کر سکے۔ بہت سے ایسے مذہبی مسائل ہیں جن کی تعبیر سرکاری عدالتوں میں نا واقفیت کی وجہ سے غلط کی گئی اور وہ غلطی اس وجہ سے قائم رہتی ہے کہ علماء کو ان کی خبر تک نہیں ہوتی اور ہوتی ہے تو ان کی آواز گورنمنٹ کے کانوں تک پہنچ نہیں سکتی۔ بمبئی کا قرنطینہ سب سے زیادہ علماء اور مذہبی گروہ کو ناگوار تھا لیکن اس وقت تک وہ موقوف نہ ہو سکا جب تک انگریزی خواں جماعت کی طرف سے اس کی موقوفی کی صدا بلند نہیں ہوئی۔ وقف اولاد فقہ کا ایک قطعی اور مسلمہ مسئلہ ہے لیکن پریوی کونسل نے اس کو (غلط فہمی کی بنا پر) باطل کر دیا او راس کے موافق یہاں کی عدالتوں نے سینکڑوں شرعی اوقاف مٹا دئیے لیکن علماء اب تک بے خبر ہیں اور خبر بھی ہو تو کیا کر سکتے ہیں؟ غرض یہ ایک بدیہی بات ہے کہ دونوں گروہوں میں سے ہر ایک خود اپنے کام میں بھی دوسرے گروہ کا محتاج ہے اور جب یہ مسلم ہے تو قومی ترقی کا عقدہ اس وقت تک کیونکر حل ہو سکتا ہے جب تک یہ دونوں گروہ باہم مل کر اس کے متعلق غور اور مشورہ نہ کریں۔ آج کا دن وہ مبارک دن ہے جس نے دونوں گروہوں کو یکجا جمع کر دیا ہے۔ آج کے جلسہ میں علما بھی ہیں، صوفی بھی ہیں، گریجویٹ بھی ہیں، بیرسٹر بھی ہیں، قانون دان بھی ہیں، غرض قومی مجموعہ کے تمام اجزاء موجود ہیں اس لیے اب موقع ہے کہ وہ عقدہ سر بستہ جو اب تک حل نہیں ہو اتھا حل کیا جائے موقع ہے کہ دونوں گروہ اپنے اپنے خیالات ظاہر کریں اور دونوں کی رایوں سے کسر و انکسار سے ایک متفق علیہ شاہراہ قرار پائے سب سے پہلے ہم کو ایک مفصل نقشہ تیار کرنا چاہیے جس سے ظاہر ہو کہ ہماری تمام قومی ضروریات کیا ہیں اور ان میں کون کون سے کام کس کس طریقے سے انجام پا رہے ہیں سب سے پہلے ہم کو یہ غور کرنا چاہئے کہ ہماری قومیت کیا ہے؟ دنیا کی اکثر قوموں کی قومیت، خاندان، نسل یا ملک کے اعتبار سے ہوتی ہے مثلاً یورپین قوموں کی قومیت، ملک اور سر زمین کے لحاظ سے ہوتی ہے ایشیا اور افریقہ کا کوئی آدمی اگر عیسائی مذہب قبول کرے تو باوجود اتحاد مذہب یورپین قوم کے حقوق نہیں حاصل کر سکتا یہاں تک کہ مذہبی حقوق میں بھی وہ یورپ کا ہمسر نہیں ہو سکتا۔ بر خلاف اس کے مسلمانوں کی قومیت میں نہ ملک کو دخل ہے، نہ نسل کو، نہ خاندان کو، نہ کسی اور چیز کو، ان کی قومیت صرف مذہب ہے، عجمی، ہندی، ترک، یورپین، ایشیائی، افریقی، کوئی ہو صرف اسلام قبول کرنے سے مسلمانوں کی قوم میں داخل ہو کر دفعتہ تمام حقوق میں برابر ہو جاتا ہے ایک چمار ’’ کلمہ توحید‘‘ پڑھ کر دفعۃً مسجد کی صف اول میں جا کر سلطان عبدالحمید خان کے برابر کھڑا ہو سکتا ہے او رسلطان اس وقت اس کو اپن جگہ سے ہٹانے کی جرأت نہیں کر سکتے۔ قومی ترقی ایک جملہ ہے جس کے دو جز ہیں، قوم اور ترقی اور چونکہ مسلمانوں کی قومیت صرف مذہب ہے اس لیے در حقیقت قوم کے بجائے مذہب کا لفظ استعمال کرنا صحیح ہے اس بناء پر قومی ترقی اس وقت ہو سکتی ہے جب ترقی کے ساتھ مذہب بھی قائم رہے، ورنہ اگر مذہبی حالت درست نہ رہے تو یہ ترقی کسی اور قوم کی ترقی ہو گی مسلمانوں کی نہ ہو گی۔ اس امر سے کسی کو انکار نہیں ہو سکتا کہ ترقی کی اصلی بنیاد تعلیم ہے لیکن مشکل یہ ہے کہ جدید تعلیم مذہب سے خالی ہے اور قدیم تعلیم دنیاوی ترقی کے لیے کارآمد نہیں جدید تعلیم میں مذہبی اثر نہ ہونے کا یہ نتیجہ ہے کہ سینکڑوں تعلیم یافتہ مذہبی مسائل کو تقویم پارنیہ سمجھتے ہیں، اخباروں میں آرٹیکل نکلتے ہیں کہ اسلام کا قانون وراثت خاندان کو تباہ کر دینے والا ہے اس لیے اس میں ترمیم ہونی چاہیے ایک صاحب نے مضمون لکھا کہ رسول اللہ صولی اللہ علیہ وسلم جب مکہ میں تھے پیغمبر تھے، مدینہ جا کر بادشاہ ہو گئے اور اس لیے قرآن مجید میں جو مدنی سورتیں ہیں، وہ خدائی احکام نہیں، بلکہ شاہانہ قوانین ہیں ایک موقع پر مجھ سے لوگوں نے لیکچر دینے کی درخواست کی، میں نے پوچھا کس مضمون پر لیکچر دوں ایک گریجویٹ مسلمان نے فرمایا کہ اور چاہے جس مضمون پر تقریر کیجئے لیکن مذہب پر نہ کیجئے ہم لوگوں کو مذہب کے نام سے گھن آتی ہے (نقل کفر کفر نہ باشد) یہ صر ف دو چار شخص کے خیالات نہیں مذہبی بے پروائی کی عام ہوا چل رہی ہے، فرق یہ ہے کہ اکثر لوگ دل کے خیالات دل ہی میں رکھتے ہیں اور بعض دلیر طبع لوگ ان کو ظاہر بھی کر دیتے ہیں قرآن مجید کا مطلب اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات جارج سیل اور سر ولیم میور سے اخذ کیے جاتے ہیں اور مجبوراً یا عمداً ان پر اعتبار کیا جاتا ہے یہی مشکل ہے جس کا حل کرنا قومی ترقی کے مسئلہ کا حل کنا ہے اور اسی مسئلہ کے طے نہ ہونے کا نتیجہ ہے کہ مذہبی اور دنیوی دونوں طرح کی تعلیم تمام ہندوستان میں پھیل رہی ہے لیکن نتیجہ خاطر خواہ نہیں۔ اس مسئلہ کے طے کرنے کے لیے ہم کو پچھلے تجربہ سے کام لینا چاہیے آج سے 40,50 برس پہلے ملک میں دو قسم کی تعلیم جاری تھی، دنیوی اور دینی، دنیوی تعلیم میں فارسی کی کتابیں اور فارسی کی انشا پردازی سکھائی جاتی تھی، اس طریقہ کے تعلیم یافتہ ہر قسم کے دنیاوی کاروبار اور سرکاری ملازمتوں کے انجام دینے کے قابل ہوتے تھے اس نصاب میں کوئی مذہبی کتاب داخل نہ تھی قرآن مجید البتہ تھا لیکن وہ صرف روانی پڑھایا جاتا تھا، معنی نہیں بتائے جاتے تھے، تاہم اس طریقہ کے تعلیم یافتہ مذہبی خیالات اور معتقدات میں نہایت پختہ اور پر جوش ہوتے تھے، اور ان کی نسبت مذہبی کمزوری کا وہم تک بھی نہیں پیدا ہو سکتا تھا۔ اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ ان کی تربیت طریقے سے ہوتی تھی، جو میانجی یا ملا ان کو تعلیم دیتا تھا وہ خود مذہب کا نہایت پابند ہوتا تھا اورلڑکوں کو بات بات پر حرام و حلال کے حوالہ سے ٹوکتا رہتا تھا۔ انگریزی خواں فرقہ اسی فارسی خواں گروہ کا قائم مقام ہے ان کی تعلیم کا مقصد دنیاوی ترقی تک محدود ہے ان کے نصاب تعلیم اور اوقات تعلیم میں اس کی گنجائش نہیں نکل سکتی کہ ان کو مذہبی علوم میں مہارت پیدا کرائی جائے اس لیے ان کی مذہبی حالت کے استحکام کا صرف یہ طریقہ ہے کہ ان کی تربیت مذہبی طریقہ سے کی جائے وہ ایسے بورڈنگ میں رکھے جائیں جہاں کے منتظم اور افسر مذہبی رنگ رکھتے ہوں ہر قسم کے شعائر اسلام کی ان سے پابندی کرائی جائے، اسلام کے محاسن اور فضائل پر ان کو لیکچر اور وعظ سنوائے جائیں جن سے معمولی فرائض اور احکام سے واقفیت حاصل ہو جائے۔ جن لوگوں کی رائے ہے کہ پہلے مذہبی علوم پڑھا کر تب انگریزی شروع کرائی جائے، یا انگریزی اور مذہبی علوم ساتھ ساتھ پڑھائے جائیں، یہ وہ لوگ ہیں جو کبھی مسجد کے گوشہ سے نہیں نکلے ہیں اور جن کو انگریزی تعلیم کی دقتوں کا مطلق تجربہ نہیں ہے۔ دوسری قسم کی تعلیم دینی تھی یہی تعلیم تھی جو مذہبی حالت کی محافظ تھی، اسی تعلیم سے وہ علماء و فضلا پیدا ہوتے تھے جن کی بدولت تمام ملک پر مذہبی اثر قائم رہتا تھا جمعہ و جماعت کی امامت مساجد کا انتظام، مسائل شرعیہ کا افتا، حرام و حلال کا نفاذ اسی فرقہ سے تعلق رکھتا تھا۔ اس کا وجود اس قدر ضروری ہے کہ اگر خدانخواستہ یہ فرقہ معدوم ہو جائے، تو اسلام کے آثار دفعۃً مٹ جائیں اور ہزاروں لاکھوں اسکول اور کالج سے ان کی تلافی نہ ہو سکے لیکن جس طرح ابتدائے اسلام سے لے کر آج تک ہر زمانہ میں ضرورت کے موافق مذہبی تعلیم کا نصاب بدلتا آیا ہے آج بھی ضرورت ہے کہ نصاب تعلیم اور طریقہ تعلیم موجودہ زمانہ کی ضرورت کے موافق بدلا جائے اور یہی چیز ہے جس کے نہ ہونے کا یہ نتیجہ ہے کہ آج ہندوستان میں سینکڑوں ہزاروں عربی مدرسے موجود ہیں لیکن ان سے قوم کی مذہبی ضرورتیں بالکل رفع نہیں ہوتیں۔ قوم کو آج کیا کیا مذہبی ضرورتیں ہیں ان کی تفصیل اجمالاً یہ ہے: 1موجودہ فلسفہ سے مذہب اسلام پر جو اعتراضات وارد ہوتے ہیں ان کا جواب دینا 2مخالفین، اسلام پر جو اعتراضات کرتے ہیں ان سے واقف ہونا 3 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور عام اسلام کی صحیح اور مفصل تاریخ جاننا 4اسلامی علوم و فنون یعنی تفسیر، حدیث، اصول، فقہ، ادب سے ماہر ہونا۔ 5 نئے مذاق کے موافق، واعظین اور مقررین کا موجود ہونا۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا موجودہ عربی مدارس سے یہ ضرورتیں رفع ہو سکتی ہیں ہم خدانخواستہ یہ نہیں کہتے کہ موجودہ مدارس بے فائدہ ہیں آج ملک میں نماز روزہ کا جو جو کچھ چرچا ہے، انہی کی بدولت ہے لیکن گفتگو یہ ہے کہ کیا یہ مدارس جدید ضرورتوں کے لیے بھی کافی ہیں؟ ان مدارس میں اب تک وہی قدیم نصاب ہے جو سو برس پہلے تیار ہوا تھا اور اس پر ایک حرف کا بھی اضافہ نہیں ہوا ہے۔ تاریخ اسلام کی ایک کتاب بھی درس میں داخل نہیں تمام ہندوستان میں ایک شخص نہیں جو کسی خاص علم یا فن میں کمال کا درجہ رکھتا ہو سینکڑوں ہزاروں علماء میں سے دو چار شخص بھی مشکل سے مل سکتے ہیں جو موجودہ انداز پر تحریر یا تقریر کر سکتے ہون۔ علماء اور پرانے تعلیم یافتہ لوگوں کو شکایت ہے کہ انگریزی خواں گروہ ان سے بیگانگی رکھتا ہے اور ان کی عزت نہیں کرتا، بے شبہہ یہ ایک بدیہی واقعہ ہے، غور طلب امر یہ ہے کہ یہ کس کا قصور ہے دو گروہوں میں اسی وقت اتحاد اور ارتباط پیدا ہو سکتا ہے جب ان میں کوئی قدر مشترک ہو ان میں سے ایک کی حاجتیں دوسرے سے وابستہ ہوں ایک دوسرے کے کام آ سکتا ہو، یہ ظاہر ہے کہ انگریزی خواں گروہ کو مذہبی مہمات کے انجام دینے کی فرصت نہیں مل سکتی اس لیے تقسیم عمل کی رو سے یہ خدمت علماء کے ذمہ ہے، لیکن علماء موجودہ زمانہ کے کون سے مذہبی مہمات انجام دے سکتے ہیں، کیا وہ فلسفہ حال کے اعتراضات سے، جو اسلام پر وارد ہوتے ہیں، واقف ہیں انہوں نے مخالفین اسلام کے خیالات سے واقف ہونے کے لیے کسی غیر زبان کی تعلیم حاصل کی ہے کیا وہ اسلامی تاریخ کے ماہر ہیں، کیا انہوں نے تبلیغ اسلام کے لیے کبھی گھر سے قدم نکالنا گوارا کیا ہے کیا سرکاری عدالتوں میں فقہ کے جو مسائل غلط تعبیر کر دئیے گئے ہیں ان کے متعلق انہوں نے کوئی محققانہ فتوی یا مضمون لکھا ہے؟ اگر ان میں سے ایک بات بھی نہیں کی تو کس بنا پر ہم انگریزی خواں گروہ کو علماء کی توقیر اور محبت پر مجبور کر سکتے ہیں؟ اس بنا پر مذہب کی سب سے مقدم اور ضروری خدمت یہ ہے کہ علماء کا ایسا گروہ تیار کیا جائے جو ضروریات مذکورہ بالا کے انجام دینے کے قابل ہو، اور یہی کام ہے جو ندوۃ العلماء کا اصلی مطمح نظر ہے۔ ندوہ نے ابتداء ہی سے ان ضرورتوں کو پیش نظر رکھا اور اس بناء پر ایک مدرسہ کی بنیاد ڈالی جس میں اغراض مذکورہ بالا کے لحاظ سے طریقہ تعلیم اور نصاب تعلیم میں اصلاح کی جائے۔ یہ عام اعتراض ہے کہ ندوہ کے مجوزہ مدرسہ نے اس وقت تک کوئی جد ید عملی کارروائی نہیں دکھائی، لیکن یہ اعتراض نہایت بیر حمی پر مبنی ہے، انصاف کرو، سرسید نے مسلمانوں کو انگریزی تعلیم کی ہدایت کی، انگریزی تعلیم کی ضرورت کی صدادر و دیوار دے رہے تھے، تمام سرکاری ملازمتیں اس پر موقوف تھیں، حکام کا تقرب اور رسائی بغیر اس کے ممکن نہ تھی، سرکار کی طرف سے ہر قسم کی ترغیبات دی جا رہی تھیں ان حالات کے ساتھ مسلمانوں نے تیس برس کے بعد انگریزی تعلیم کی طرف توجہ کی، اور سچ پوچھئے تو آج بھی قوم کا بڑا حصہ اس کی طرف سے بے پروا ہے، بر خلاف اس کے ندوہ نے جس کام کو اٹھایا ہے، گورنمنٹ سے اس کی طرف کسی قسم کی ترغیب نہیں، سرکاری نوکریوں کے لیے وہ بالکل مفید نہیں، قوم کا معزز اور ممتاز گروہ یعنی انگریزی تعلیم یافتہ اس کو بیکار چیز سمجھتا ہے، صرف علماء اور قدیم تعلیم یافتہ لوگوں سے ہمدردی کی امید ہو سکتی ہے چونکہ اس نے نصاب تعلیم کی اصلاح کا دعویٰ کیا اس لیے تقلید پسند جماعت بالکل الگ ہو گئی، یہاں تک کہ جب ندوہ میں انگریزی زبان کی تعلیم کا ایک ایک گھنٹہ رکھا گیا تو ایک صاحب نے جو پچاس روپیہ ماہوار کی جائیداد ندوہ پر با ضابطہ وقف کر چکے تھے فوراً اطلاع دی کہ وہ وقف واپس لیتے ہیں ان کے ساتھ ایک اور صاحب نے بھی جو وقف مذکور میں برابر کے شریک تھے، اپنی جائیداد واپس لے لی اس طرح ندوہ کو یک سو روپیہ ماہوار کی آمدنی کا نقصان ہوا۔ ان اسباب کی وجہ سے مالی حالت کو ترقی نہ ہو سی، اور طریقہ جدید کے لیے جو سامان درکار تھے ابھی تک مہیا نہ ہو سکے۔ باایں ہمہ ندوہ نے قدیم نصاب میں اصلاح کی، فلسفہ و منطق کی کتابوں کی تعداد گھٹا کر بجائے اس کے تفسیر اور ادب میں اضافہ کیا، علوم جدیدہ کی بعض کتابیں درس میں داخل کیں، حساب و جغرافیہ کے ساتھ انگریزی زبان لازمی قرار دی، تقریر و تحریر کے مشق کے طریقے جاری کیے چنانچہ اس سال جن طلبہ نے فراغ تحصیل کی سند حاصل کی وہ اس بات کے عملی ثبوت ہیں کہ ندوہ کی تعلیم میں کیا خصوصیات ہیں۔ انگریزی زبان اس مقدار تک درس میں داخل کی گئی ہے کہ اگر ابتداء سے آٹھ برس تک کوئی طالب علم تعلیم پائے، تو علوم عربی سے فارغ ہونے کے ساتھ انگریزی میں معمولی طور پر لکھنے پڑھنے کے قابل ہو جائے گا اس کے بعد دو برس کا جو زمانہ الگ الگ فنون کی تکمیل کے لیے مقرر کیا گیا ہے۔ اس میں اختیار دیا گیا ہے کہ جو طالب علم چاہے صرف انگریزی کی تحصیل کرے۔ ندوہ میں عربی تعلیم جس انداز سے ہوتی ہے اس کا یہ نتیجہ ہے کہ طلبہ استفتاؤن کے جواب لکھتے ہیں اور اس کے لیے خاص وقت مقرر ہے، علمی مسائل پر مضامین لکھتے ہیں جو ’’ الندوہ‘‘ میں شائع ہوتے رہتے ہیں، ندوہ کے مدرسہ کی عمر کل آٹھ نو برس ہے لیکن انصاف سے بتانا چاہیے کہ آج تک کسی مدرسہ نے ایسے طلبہ پیدا کیے جو عربی زبان میں برجستہ تقریر کر سکتے ہوں اور اس قسم کے علمی مضامین لکھ سکتے ہوں جیسے کہ مختلف وقتوں میں شائع ہو چکے ہیں۔ باایں ہمہ جو کچھ ہوا ہے کچھ بھی نہیں، ابھی درجہ تکمیل کے لیے سامان درکار ہے زیادہ قابل مدرسین کے بہم پہنچانے کی ضرورت ہے مدرسین کی تعداد میں اضافہ کرنا ضرور ہے، علوم جدیدہ کی تعلیم کے لیے آلات کے خریدنے کی ضرورت ہے، اور ان سب سے مقدم مدرسہ کی عمارت کی ضرورت ہے۔ مدرسہ اب تک جس مکان میں ہے وہ بالکل نا کافی ہے، کئی کئی مدرس ایک ہی کمرہ میں درس دیتے ہیں، طلبہ کے رہنے کے کمرے نہایت ناکافی اور بد حیثیت ہیں۔ حضرات! اس سے زیادہ کیا افسوس ناک اور حیرت انگیز بات ہو گی کہ آج ہندوستان میں اسکولوں اور کالجوں کی سینکڑوں بڑی بڑی شاندار اور پر عظمت عمارتیں موجود ہیں، لیکن بنگال سے لے کر پشاور تک، نیپال کی سرحد سے لے کر دکن تک ایک مذہبی مدرسہ بھی ایسا نہیں جس کی عمارت معمولی سے معمولی کالج کے بھی برابر ہو، کیا اس سے یہ نتیجہ نہیں نکلتا کہ قوم کا مذہبی احساس بالکل فنا ہو گیا ہے اور ان کو اس پر کچھ شرم نہیں آتی کہ ان کا دین (ظاہر حالت کے لحاظ سے) دوسروں کی دنیا کے بھی برابر نہیں۔ ٭٭٭٭٭٭٭ تعصب اور اسلام (ایجوکیشنل کانفرنس دہلی جنوری 1903ئ) حضرات! یہ موقع میرے لیے کسی قدر بد قسمتی کا موقع ہے اپنی ذاتی حالت کے لحاظ سے تو میں علیل ہوں، میرے سر میں درد ہے اور سامعین کی جماعت پر جب نظر کرتا ہوں تو تعداد کم اور بہت کم معلوم ہوتی ہے۔ 1؎ مولانا نے یہ تقریر مسلم ایجوکیشنل کانفرنس دہلی میں جوتا جپوشی کے زمانہ میں منعقد ہوئی تھی کی تھی اور مولوی بشیر الدین صاحب ایڈیٹر البشیر نے بر وقت اپنے ہاتھ سے لکھ لی تھی، اور بعد کو الگ چھاپ دی تھی، مگر چونکہ اس میں مولانا کے الفاظ و خیالات بعینہ قائم نہیں رہے تھے، اس لیے مولانا نے اس کی تمام تر صحت سے انکار فرمایا تھا، لیکن مرور زمانہ سے یہ ان کی تقریر کی غلط سلط رپورٹ بھی غنیمت ہے، اور وہ بھی بڑی مشکل سے ہمارے دوست مولوی محمد عمر صاحب نعمانی ایڈورڈ گنج شملہ نے مہیا کر کے بھیجی ہے۔ ’’ سلیمان‘‘ صاحبو! ہر لیکچرار کی یہ دلی خواہش ہوتی ہے اور وہ چاہتا ہے کہ میرے لیکچر کی داد ملے، تقریر کے وقت مجمع کافی ہو، پہلی تکلف کا تو کچھ علاج نہیں، البتہ دوسرے امر کے متعلق مجھے اس وقت ایک واقعہ یاد آ جانے سے تسکین ہو گئی ایک مرتبہ اورنگ زیب عالمگیر اور دار اشکوہ کا مقابلہ تھا فوجیں آمنے سامنے پڑی تھیں۔دار اشکوہ کے ساتھ قریب دو لاکھ کے آدمی تھے راجہ جسونت سنگھ بھی اسی کا شریک حال تھا۔ عالمگیر کے پاس صرف پچاس ہزار کی جمعیت تھی یا شاید اس سے بھی کم، رات کو عالمگیری فوج میں بھاگڑ پڑی، غل ہونا شروع ہوا کہ سپاہی بھاگے جاتے ہیں، اس واقعہ کی جب عالمگیر کو اطلاع ہوئی تو اٹھا اور جا کر دیکھا کہ واقعی لوگ چلے جاتے ہیں، بجائے اس کے کہ عالمگیر مضطرب ہوتا، اس نے نہایت استقلال سے کہا کہ جانے والوں کو جانے دو ان کو مت روکو۔ کل کو انشاء اللہ میری فتح ہو گی کیونکہ بھاگنے والے آج ہی لشکر سے علیحدہ ہو جائیں گے اور جو باقی رہیں گے وہ وفا دار جاں باز اور ثابت قدم ہوں گے چنانچہ اگلے دن پیشین گوئی پوری ہوئی دار اشکوہ کو شکست فاش ملی اور عالمگیر کو فتح نصیب ہوئی۔ اسی طرح میں امید کرتا ہوں کہ جو تعداد اب یہاں باقی رہ گئی ہے گو دیکھنے میں تھوڑی سہی۔ لیکن ثابت قدم ہو گی، جو میں کہوں گا دل سے اسے سنے گی اور یقینا میری فتح ہو گی۔ حضرات! آج کا سبجکٹ جس پر میں تقریر کرنا چاہتا ہوں ’’ تعصب اور اسلام‘‘ ہے آپ جانتے ہیں کہ ایک واقعہ کے دنیا میں مختلف اسباب ہوتے ہیں مسلمانوں کے تنزل پر مصلحان قوم عرصہ سے غور کر رہے ہیں جس کے بہت سے مختلف اسباب دریافت کئے گئے ہیں میرای رائے میں یہ دعویٰ کہ تنزل کے مختلف وجوہ ہیں صحیح نہیں، اور اگر ان چند در چند اسباب کو مان بھی لیا جائے جو تنزل کے باعث کہے جاتے ہیں، تاہم جیسا کہ میں بیان کروں گا سب سے بڑا سبب اسلام کے تنزل کا مسلمانوں کا تعصب ہے اور اس سے کسی شخص کو انکار نہیں ہو سکتا ۔ تعصب ایک ایسا لفظ ہے کہ جس کا ٹھیک اردو میں ترجمہ کرنا دشوار ہے اس لفظ کے استعمال سے خود اس کے معنی پیدا ہوتے ہیں اور آپ اس کا اندازہ کر سکتے ہیں، مسلمانوں کو جس امر کی ترغیب دی جاتی ہے وہ تحصیل علم ہے لیکن ہر ایک ایسی چیز سے آگے نہ بڑھنے کی وجہ ان کا تعصب ہے، علوم و فنون کی دنیا میں ترقی ہو رہی ہے مگر مسلمان ان علوم و فنون کی طرف اس لیے مائل نہیں کہ یہ غیروں کے علوم اور غیروں کے فنون ہیں غرض اخلاق میں، تمدن میں تعلیم میں، ہر ایک بات میں آگے چلنے سے مسلمان اس وجہ سے رکتے ہیں کہ انہیں تعصب ہے اب دیکھنے کی یہ بات ہے کہ آیا وہ مسلمان جو قرون اولیٰ میں تھے، اور جو اسلام کے اصلی اور سچے نمونے تھے، ان میں بھی تعصب تھا، اور یہ تعصب آیا اسلام کی حقیقت میں داخل ہے یا ہمارا خود پیدا کیا ہوا ہے۔ حضرات! علی گڑھ کی تھوڑی سی جماعت کو دیکھ کر آپ خیال نہ فرمائیے کہ تعصب قوم سے مٹ گیا، یا کم ہو گیا ہے۔ اولاً علی گڑھ والوں کی بہت تھوڑی تعداد ہے اور ان میں جس قدر ہیں وہ سب نوکری پیشہ اپنی اولاد کو مجبوراً انگریزی پڑھانے لگے ہیں، البتہ بڑے بڑے گھرانوں اور خاندانوں کو دیکھئے جن میں بڑے بڑے فقہائ، علماء اور صوفیہ گزرے ہیں اور جن کی اولاد ہماری گزشتہ عظمت کی یادگار اور پچھلی بزرگیوں کا نمونہ ہے کبھی آپ کو فرصت ملے اور آپ جا کر دیکھیں تو معلوم ہو کہ اس وقت تک وہاں کیا حالت ہے، اور ان کے کیا خیالات ہیں۔ مجھے ایک دفعہ خود یہ اتفاق ہوا ہے کہ میں ایک مرتبہ الہ آباد سے علی گڑھ آ رہا تھا ریل میں مجھ سے ایک دوست نے کہا کہ میرے ایک عزیز کا لڑکا اس لیے بھاگا جا رہا ہے کہ اس کو انگریزی پڑھانی تجویز کی گئی ہے اس کے اور عزیز قریب قریب اچھے عہدوں پر ہیں اگر یہ تعلیم سے رہ گیا تو کسی کام کا نہ رہے گا انگریزی تعلیم کو وہ مذہباً درست نہیں سمجھتا۔ آپ مہربانی کر کے اس کو سمجھا دیجئے کہ انگریزی پڑھنا حرام نہیں ہے میں نے کہا یہ تو کوئی بڑی بات نہیں، آپ اس کو میرے پاس بلائیے، میں ابھی سمجھائے دیتا ہوں لڑکے کو انہوں نے آواز دی اور وہ میرے پاس آ بیٹھا، یہ لڑکا الہ آباد کے ایک مشہور اور معزز خاندان دائرہ سادات بارہہ میں سے تھا۔ میرے دوست نے لڑکے سے مخاطب ہو کر میری طرف اشارہ کر کے کہا کہ یہ صاحب جن کے پاس تم بیٹھے ہو مولوی ہیں اور اچھے خاصے مولوی ہیں انگریزی پڑھنے کے متعلق جو تمہیں شکوک اور شبہات ہوں وہ ان سے دریافت کر کے رفع کر لو۔ میں نے اس لڑکے سے کہا کہ میاں انگریزی پڑھنی حرام نہیں ہے اگر حرام ہو گی تو انگریزی فلسفہ، انگریزی سائنس اتنی بات سن کر اس نے تعجب سے پوچھا کیا حقیقت میں آپ مولوی ہیں؟ کیا آپ واقعی عربی جانتے ہیں، تو کہاں تعلیم پائی ہے؟ اور کس سے پڑھا ہے؟ میں نے کہا ہاں میں نے عربی پڑھی ہے، اور فلاں فلاں استادوں سے پڑھی ہے، یہ معلوم کر کے بھی اسے تشفی نہ ہوئی لڑکے نے عربی میں شرح ملا پڑھی تھی س کا ایک مقام مجھ سے دریافت کیا، جواب پانے پر اور زیادہ حیرت ہوئی، حیرت کس بات کی ہو گی؟ا س بات کی کہ یہ کیسے مولوی ہیں کہ مولوی ہو کر انگریزی تعلیم کو جائز قرار دیتے ہیں، اسی طرح میں جس قصبہ میں رہتا ہوں وہاں بھی یہی حال ہے، ہر چند اصلاح کی کوشش کرتا ہوں مگر اثر نہیں ہوتا، دیکھنا یہ ہے کہ آج ہم میں کس قدر ایسے لوگ ہیں جو بغیر ضرورت کے انگریزی تعلیم پاتے ہیں اگر گورنمنٹ ملازمت سے انگریزی دانی کی قید اٹھا دے تو اس وقت معلوم ہو، اس وقت بہت سے آدمیوں نے انگریزی سے واقفیت حاصل کی ہے اور حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن کیا یہ کوشش علم کو علم اور زبان کو زبان سمجھ کر حاصل کرنے کی ہے، ہر گز نہیں، ہر گز نہیں، بلکہ مجبوری کی وجہ سے ہے، تعصب اب تک گیا نہیں، جو کچھ ہو رہا ہے وہ لاچاری اور بے بسی ہے اب اس امر پر غور کرنا باقی ہے کہ آیا اسلام اس کے متعلق کیا کہتا ہے۔ اس موقع پر بہت سے ایسے اصحاب تشریف رکھتے ہیں جو انگریزی بھی اچھی طرح جانتے ہیں میرا یہ دعویٰ ہے کہ کوئی قوم دنیا میں ایسی نہیں ہے جو مسلمانوں سے زیادہ غرے متعصب ہو۔ اخلاق میں پالیٹکس میں، معاشرت میں، تمدن میں، مذہب میں جنہوں نے انگریزی زبان حاصل کی ہے اور قدیم قوموں کی تاریخ سے واقفیت ہے، وہ اس کا اندازہ کر سکتے ہیں۔ صاحبو! تعصب کے جو عنوان قائم کئے جاتے ہیں اگر اس کی تفصیل کی جائے تو بہت سے اقسام بن جاتے ہیں، مذہبی تعصب، پولیٹکل تعصب، سوشل تعصب، قومی تعصب، یہ بالکل جداگانہ سرحدیں ہیں، جن پر میں تفصیل کے ساتھ بحث کروں گا۔ یہ امر لازمی نہیں ہے کہ جس کو ایک قسم کا تعصب ہو اس کو دوسرے اقسام کا بھی تعصب ضرور ہو۔ ہمارے ہندو بھائی موجود ہیں ان کو کبھی ملکی یا پولیٹکل تعصب نہیں رہا۔ گورنمنٹ کے وفادار ہیں جب یہاں مغل امپرر تھے اس وقت بھی انہوں نے اس تعصب کو نہیں برتا، البتہ قومی اور سوشل تعصب ان میں موجود ہے اگر آپ ان کے ایک گلاس کو ہاتھ لگا دیں تو وہ اس کو قطعی ناپاک سمجھتے ہیں اس قسم کے تعصب کو پولیٹکل تعصب سے کچھ علاقہ نہیں، اور ایک لحاظ سے نہ اس کو اخلاقی تعصب ہے نہ مذہبی نہ اور کسی قسم کا یہ معلوم کرنے کی بات ہے کہ مذہبی تعصب جو تمام تعصبوں کی جڑ ہے اس کا اثر اسلام میں کہاں تک پایا جاتا ہے، سب کو معلوم ہے کہ اسلام نے تمام مذاہب کے انبیاء اور پیغمبروں کو نبی تسلیم کیا اور ان کی عزت کی ہے، عزت بھی ایسی جو ان کے امتیوں اور پیروؤں سے بھی کبھی اور کسی وقت میں نہ بن پڑی، بنی اسرائیل میں حضرت نوح ؑ اور حضرت شیث ؑ کو دیکھو کہ ان کو ذکر کس عظمت اور احترام کے ساتھ قرآن شریف میں کیا گیا ہے آپ کو معلوم ہو گا یہودیوں نے نبیوں کے درجہ کی دو طرح پر تقسیم کی ہے، ایک نبی دوسرے ملا خیم جن کو بادشاہ کہنا چاہیے، چنانچہ یہود حضرت داؤد علیہ السلام کو نبی نہیں جانتے بلکہ ان کو ملا خیم کے درجہ میں شمار کرتے ہیں مگر اسلام ان کو بھی پیغمبر مانتا ہے، یہ ہے مذہبی آزادی۔ قرآن مجید چونکہ عربی زبان میں نازل ہوا۔ اس میں ایران اور ہندوستان کے نبیوں کا ذکر نہیں، تاہم بہت سی خصوصیات کا لحاظ رکھا گیا ہے، اور عام طور پر کہہ دیا گیا ہے ولکل قوم ھاد ہر قوم کے لیے ہادی اور رہنما ہوتا ہے، دوسری جگہ فرمایا وما ارسلنا من رسول الابلسان قومہ اور ہم جس قوم پر کوئی پیغمبر بھیجتے ہیں، تو اس کا ہم زبان اور ہم قوم بھیجتے ہیں غرض کہ عام طور پر انبیائے سابقین کو اسلام نے مانا اور ان کی عزت کی، یہ تھی پہلی مذہبی فیاضی اور مذہبی آزادی۔ دوسرا طریقہ مذہبی بے تعصبی کا یہ ہے کہ اسلام نے بے شک یہ دعویٰ تو کیا کہ تمام دنیا کے سامنے اس کو پیش کرنا چاہیے مگر اس طرح کہ مطلقاً اس میں تعصب کا شائبہ نہ ہو، صرف بحیثیت ایک سمجھانے والے واعظ کے اپنا فرض پورا کر دے۔ قرآن مجید میں خدا نے حکم دیا ہے۔ ادع الی سبیل ربک بالحکمۃ والموعظۃ الحسنۃ وجادلھم بالتی ھی احسن اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم بلاؤ تمام دنیا کو اسلام کی طرف معقول طرح سے سمجھا سمجھا کر اچھی طرف حکمت کے ساتھ اگر مناظرہ کرو کسی سے تو بطرز احسن کٹ حجتی سے نہیں جو آج کل مروج ہے مذہب ایسی چیز نہیں جو اکراہ کا متحمل ہو یہ بتایا تھا اسلام نے ہدایت کا طریقہ اور سکھا دیا تھا کہ اسلام میں جبر نہیں ہے چنانچہ خدا فرماتا ہے لا اکراہ فی الدین قدتبین الرشد من الغی مذہب میں زبردستی نہیں ہے، مذہب نام ہے عقیدہ کا، ہماری فیلنگ کا، ممکن ہے کہ آپ اپنی طاقت کے زور سے زبردستی کسی سے نماز پڑھوا لیں، زکوۃ دلوا لیں، مگر دل کایقین لانا اور خدا کا حکم سمجھ کر احکام کی تعمیل کرنا زبردستی سے ممکن نہیں، جیسا کہ خداوند تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس معاملہ میں حریص پایا تو فرمایا انا نت تکرہ الناس حتی یکونوا مومنین کیا محمد صلی اللہ علیہ وسلم تم لوگوں کو مجبور کر سکتے ہو تاکہ وہ سب ایمان لے آویں ایک اور مقام پر یہ ارشاد ہوا۔ نذکر انما انت مذکر لست علیھم بمصیطر یعنی اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) لوگوں کو سمجھا دو، تمہارا کام صرف سمجھا دینے کا ہے، تم کسی کے داروغہ یا گماشتے نہیں ہو، اسی طرح بہت سے ایسے احکام ہیں جن کی تاکید کی گئی ہے، میں ان سب کا اقتباس نہ کروں گا۔ پس جو طریقہ اشاعت اسلام کا بتایا گیا ہے اس میں کسی قسم کی سختی یا جبر کا شائبہ بھی نہیں پایا جا سکتا ہر شخص کی مرضی اور دلی خواہش پر اس کو چھوڑ دیا ہے میں پوچھتا ہوں کہ اسلام کے سوا کسی مذہب میں اس قسم کی سختی یا جبر پایا جائے تو اس کو پیش کیجئے ورنہ میں تو دنیا میں اور قوموں کا یہ حال بتا سکتا ہوں کہ اپنی مذہبی کتابوں کے احکام کو ادنیٰ قوموں کے کانوں تک پہنچانا بھی مذہبی گناہ سمجھتے ہیں۔ یہ ایک مذہب کا مسئلہ ہے کہ غیر قوموں کے کان میں وید مقدس کی آواز نہیں جانی چاہیے کیونکہ ان کے کان اس قابل نہیں کہ ایسی مقدس کتاب کے احکام سنیں جس کے معنی یہ ہیں کہ کوئی اگر ہمارے مذہب میں آنے کا ارادہ بھی کر لے تو بھی وہ شامل نہیں ہو سکتا۔ بجائے اس کے اسلام یہ سمجھاتا ہے کہ مذہب جبراً قبول نہیں کرایا جا سکتا اسلام تعصب سے بری ہے البتہ اس کی خوبیاں بتاؤ۔ اس کی حقیقت سے دنیا کو واقف کر کے اسلام پھیلاؤ، یہ دوسرا طریقہ ہے، اس امر کے دیکھنے کا کہ مذہب اسلام بالکل تعصب سے بری ہے۔ تیسری بات یہ ہے کہ دیگر اقوام جو اپنے ہمسایہ ہوں یا سلطنت اسلام کی رعایا ہوں، ان کو مذہبی آزادی دی جائے اور مذہبی ارکان کے ادا کرنے کے لیے کوئی روک ٹوک نہ کی جائے، بلکہ عام طور سے اجازت دی جائے اور ہر شخص بے خوف و خطر اس کے ادا کرنے میں دلیر ہو، یہ جتنی باتیں بیان کی گئیں مذہبی آزادی کے لیے بڑی باتیں ہیں اس بارے میں ہماری برٹش گورنمنٹ کا بھی بڑا احسان ہے، جیسا کہ خود آپ دیکھتے ہیں مسلمانوں کو، ہندوؤں کو، پارسیوں کو، غرضیکہ تمام مذاہب کے لوگوں کو مذہبی آزادی دے رکھی ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ اسلام نے اس کے متعلق کیا کیا؟ جس سے اس کی بے تعصبی کا اندازہ کیا جائے 9ھ یا 11ھ میں جب نجران کے عیسائی مدینہ منورہ میں آئے تو ان کو جناب رسالت پناہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنی مسجد میں اتارا اور خاطر داری کی، حالانکہ وہ عیسائی تھے، رومن کیتھلک، جب ان کی نماز کا وقت آیا اور انہوں نے نماز پڑھنے کا ارادہ کیا تو صحابہ کو تردد ہوا، اور بعض کو خیال آیاکہ ہماری مسجد سے باہر نماز پڑھیں، لیکن ہمارے سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے جن پر ہم کو فدا ہو جانا چاہئے یہ حکم دے دیا کہ اسی مسجد میں نماز ادا کر لو، یہ پورا واقعہ ابن قیم نے زاد المعاد میں نقل کیا ہے۔ اسلام کی تاریخ اٹھا کر کوئی دیکھے تو معلوم ہو کہ وہ کیسی مذہبی آزادیاں تھیں جو اسلام نے عطا کی تھیں دیکھو ایک یہ مذہبی آزادی تھی کہ جس وقت ایران، دمشق، مصر کے بڑے بڑے شہر فتح ہوئے، اور اسلامی حکومت وہاں پہنچی تو جو عہد نامے لکھے جاتے تھے، ان میں ہمیشہ حضرت ابو بکرؓ، حضرت عمرؓ، حضرت عثمانؓ، حضرت علیؓ تصریح کے ساتھ یہ شرط لکھتے تھے کہ تمام گرجے، تمام معابد، تمام خانقاہیں برقرار رکھی جائیں گی ان میں تمام مراسم مذہبی جس طرح ہوتے آئے ہیں ادا ہوتے رہیں گے، اور غیر مذہب والوں کا کوئی شخص اختلاف مذہب کی وجہ سے سرکاری عہدوں سے بر طرف نہ کیا جائے گا، ایک یہی واقعہ نہیں بلکہ دو ایک اور مثالیں آپ کو بتاتا ہوں، تاکہ آپ اسلام کی بے تعصبی کا پورے طور سے اندازہ کر سکیں۔ ولید بن عبدالملک کو جو بنی امیہ کا بڑا بادشاہ گزرا ہے، ایک مسجد بنوانے کا شوق ہوا اور ایک کروڑ روپیہ کی لاگت سے دمشق میں مسجد تیار ہوئی، مسلمانوں کو جب یہ حال معلوم ہوا کہ اس قدر روپیہ مسجد پر صرف ہوا ہے تو ان میں برہمی پھیلی زمانہ تھا مذہبی آزادی کا، مسلمانوں کا خیال تھا کہ نماز پڑھنے کے لیے ایک سادہ مسجد کافی ہے ولید گو بادشاہ سہی لیکن اس کو یہ حق نہیں کہ بے ضرورت کروڑوں روپیہ مسلمانوں کے بیت المال کا اپنی خواہش پوری کرنے کے لیے ضائع کر دے، روپیہ پبلک کا ہے، اور پبلک فنڈ اس لیے نہیں کہ یوں بے دریغ صرف کر دیا جائے، اور کسی کی بات تک نہ پوچھی جائے چونکہ عام طور پر برہمی پھیل گئی تھی کھلم کھلا لوگ اعتراض کرتے تھے ولید کے کانوں تک جب یہ خبر پہنچی تو ساری قوم کو بلایا اور بھرے دربار میں ایک اسپیچ دے کر اس بنا پر معافی چاہی کہ اب بھی پبلک فنڈ میں اس قدر روپیہ ہے کہ اگر میرے ملک میں متواتر دس برس تک قحط پڑے تو کافی ہو سکتا ہے، اور کسی متنفس کو ذرہ برابر نقصان یا تکلیف نہیں پہنچ سکتی۔ قصہ مختصر اسی مسجد کے پاس جس کو ولید نے اس شوق سے بنایا ایک گرجا یوحنا کا تھا مسجد میں زمین کی کمی تھی، ولید نے عیسائیوں سے گرجے کی زمین مانگی اور کہا کہ جس قدر قیمت چاہو لے لو، میں اس زمین کو مسجد میں شامل کروں گا۔ انہوں نے انکار کر دیا کہ رضا مندی سے تو دیں گے نہیں، اور اگر زبردستی سے لو گے تو ہمارے گرجے کو جو گرائے گا اسے کوڑھ ہو جائے گا ولید کو پادریوں کی بات ناگوار ہوئی اس نے کہا میں گراتا ہوں دیکھیں ہم کو کیسے کوڑھ ہوتا ہے، چنانچہ فوراً گرجے کے گرائے جانے کا حکم ہو گیا اور وہ زمین مسجد میں شامل کر لی گئی، ایک بات یہاں اور کہنے کے قابل ہے کہ ولید ان بادشاہوں میں سے نہ تھا جس کا کوئی فعل قابل تقلید سمجھا جائے اس کے بعد عمر بن عبدالعزیز خلیفہ ہوا حقیقت میں یہ شخص تھا رپزرنٹیٹو مسلمانوں کا، اس کے بادشاہ ہونے پر عیسائی آئے اور انہوں نے دربار خلافت میں شکایت کی کہ ولید نے ہماری بغیر مرضی ہمارے گرجے کو گرا کر فلاں مسجد میں شامل کر لیا جس کو سن کر عمرؓ ابن عبدالعزیز نے حکم دیا کہ گرجے کی زمین پر جو مسجد کا حصہ تعمیر ہوا ہے اس کو فوراً منہدم کر کے سرکاری خرچ سے دوبارہ گرجا پھر بنا دیا جائے اور مسجد اسی زمین میں محدود رہے، یہ تھی مذہبی بے تعصبی جس کی اسلام نے تعلیم دی تھی۔ ہماری تاریخوں میں یہ سب باتیں موجود ہیں اس سے بڑھ کر ایک دوسرا واقعہ اور آپ کو سناتا ہوں، مصر کے بشپ یوٹیکٹیس نے جس کو عربی میں سعید بن البطریق کہتے ہیں، مصر کی تاریخ عربی زبان میں لکھی ہے، جو یورپ میں چھپی ہے اور لٹین میں بھی جس کا ترجمہ ہوا ہے، یہ شخص48ہجری میں موجود تھا اس نے ایک یہ واقعہ نقل کیا ہے کہ جس وقت مسلمانوں نے اسکندریہ فتح کیا وہاں حضرت عیسیٰ کی تصویر تھی کسی صحابی یا کسی فوجی سپاہی نے ایک تیر مارا جس سے اس تصویر کی ایک آنکھ پھوٹ گئی، عیسائی جمع ہو کر مسلمانوں کے گورنر عمرو بن العاصؓ کے پاس شکایت لائے کہ تمہارے آدمیوں نے حضرت عیسیٰ کی آنکھ کو خراب کر دیا ہے ہم اس کا معاوضہ یہ چہاتے ہیں کہ تم اپنے پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تصویر بنا کر دو۔ تو ہم بھی اس کی آنکھ پھوڑ دیں اس پر عمرو بن العاصؓ نے جواب دیا کہ یہ فعل عبث ہے ہم لوگ موجود ہیں تم جس کی چاہو آنکھ پھوڑ ڈالو، ایک عیسائی راضی ہو گیا عمرو بن ؓ العاص نے اپنا خنجر اس کے ہاتھ میں دیا اور اپنی آنکھیں سامنے کر دیں جب اس نے دیکھا کہ خود گورنر عمروؓ بن العاص اپنی آنکھیں پھوڑوانے کو تیار ہے، تو تلوار ہاتھ سے گر پڑی،ا ور اس نے ارادہ سے باز ہو کر کہا، کہ ایسی قوم سے جو اس درجہ دلیر، فیاض اور بے تعصب ہو انتقام لینا سخت بے رحمی اور بے قدری ہے یہ تھی بے تعصبی۔ مذہب کے بعد دوسرا درجہ قومی تعصب کا ہے، اور قومی تعصب بے ڈھب چیز ہے تمام نیا میں جس طرح قومی تعصب رہا ہے وہ اس سے سمجھ میں آ سکتا ہے کہ کس نے کس کو وحشی کس نے کس کو شودر کس نے کس کر باربیرین اور کس نے کس کو ازول ترین بشر کا خطاب دیا دور کیوں جاؤ، دوسری اقوام پر کیوں نظر ڈالی جائے، خود عربوں کو دیکھو باوجودیکہ زمانہ جاہلیت میں خود جاہل تھے کھانے کوغذا اور پہننے کو کپڑا نصیب نہ تھا، ادنی درجہ کی غذا کھاتے پھرتے تھے، مگر قومی تعصب کی یہ کیفیت تھی کہ کل دنیا کے لوگوں کو عجم کہتے تھے عجم کے معنی ہیں گونگا، عجم کوئی لفظ موقر نہیں ہے انتہا یہ ہے کہ جس زمانہ میں نعمان بادشاہ عرب تھا تو نوشیرواں نے نعمان سے کہلا بھیجا کہ میں تمہارے خاندان میں شادی کرنی چاہتا ہوں با وصف اس کے کہ نعمان نوشیرواں کا محکوم تھا یہ پیغام سنتے ہی بہت برا فروختہ ہوا اور کہا کہ اب ایسا رتبہ عجم کا ہو گیا ہے کہ میرے یہاں قرابت اور وصلت کی خواہش کرنے لگا، آخر کار اس وجہ سے لڑائی ہوئی، اور نعمان مارا گیا لیکن وصلت گوارا نہ کی یہ دعویٰ تھا، عرب کو اپنی قومیت کا خود عرب میں جو قبائل تھے وہ اپنے سے چھوٹوں کو نہایت ذلیل اورحقیر سمجھتے تھے مثال کے طور پر ایک حکایت بیان کرتا ہوں سب سے پہلے لڑائی جو جنگ بندر کے نام سے ہوئی قریش کی طرف سے پہلے تین شخص عتبہ، ولید اور شیبہ میدان میں آئے اور کہا اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم تین آدمیوں کو ہمارے مقابلہ کے لیے بھیجو، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تین انصاریوں کو بھیج دیا انہوں نے پوچھا کہ تم کون ہو کہا ہم انصار ہیں تو عتبہ انصار کا نام سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مخاطب ہو کر کہتا ہے فرست اے محمد بہ پیکار ما کسے را کہ باشد سزا وار ما یعنی ہم ایسے ہٹیے اور ذلیل اشخاص سے لڑنا نہیں چاہتے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے عذر کو منظور کر کے حضرت علی کرم اللہ وجہہ، حضرت حمزہؓ اور حضرت خالدؓ کو بھیجا، اور فرمایا کہ یہ تو برابر کے ہیں اس وقت اس نے یہ کہا بگفتا کنوں رفت از رزم بیم کہ ہستیم ہم رزم مرد کریم غرض یہ تھے قومی تعصبات اب دیکھئے کہ اسلام نے اس قومی تعصب کے ساتھ کیا کیا، یہ کیا اس کی جڑ کھود کر پھینک دی، اور ایک اخوت تمام عالم میں قائم کر دی، جن لوگوں کو قریش اپنے پاس کھڑا کر ناگوار نہیں کرتے تھے، اسلام نے انہی کو ان کے سرکا سر تاج بنا دیا، سوچنے اور غور کرنے کی بات ہے حضرت بلالؓ اور سہیلؓ کون تھے؟ لیکن آج تک کس عزت اور احترام کے ساتھ ان کا نام لیا جاتا ہے جس دن حضرت بلالؓ کا انتقال ہوا ہے اس روز صحابہؓ نے رو کر کہا کہ آج ہمارا سید مر گیا، آج ہمارا سردار مر گیا، وہ غلام رہے تھے متعدد آدمیوں کے آخر میں حضرت ابو بکرؓ نے ان کو خرید کر آزاد کر دیا تھا ایک مرتبہ حضرت عمرؓ کے منہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کسی بات پر اچانک یہ جملہ نکل گیا یا بلال انت اسود یعنی ’’ اے بلال تم حبشی سیاہ ہو‘‘ یہ سن کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ عمرؓ تم میں اب تک جہالت کی بو باقی ہے اتنا سننا تھا کہ زمین پر گر پڑے اور زمین پر سر ٹیک دیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اٹھنے کے واسطے حکم دیا تو فرمایا کہ اب تو جب تک بلالؓ اپنی جوتی کی نوک کو ٹیک کر نہ اٹھائے گا میں نہ اٹھوں گا۔ بلال ؓ کو ادب مانع تھا، وہ کہتے تھے کہ گو اب میرے آقا نہ سہی، لیکن ایک وقت میں میں ان کا غلام بن کر رہ چکا ہوں، مجھ سے یہ گستاخی اور بے ادبی نہ ہو گی، آخر کار بہت دیر ہو گئی اور حضرت بلالؓ کو وہی کرنا پڑا جس کا عہد کر کے عمرؓ زمین پر گرے تھے۔ صاحبو! عربوں کی مشہور و مغرور قوم کے افسانے آج تک دنیا میں شہرت پذیر ہیں جن کے بڑے بڑے دعوؤں کی کوئی انتہا نہیں ہے، آپ نے دیکھ ااور سنا کہ کس طرح ان کے خیالات میں دفعۃً ایک تغیر عظیم پیدا ہو گیا، اور ایک صدیوں کی جنگجو، متعصب، جہالت میں ڈوبی ہوئی قوم دیکھتے ہی دیکھتے، زمانہ کی بہتر سے بہتر، شائستہ اور مذہب قوم بن گئی۔ ویلمی اور سلجوقی وغیرہ وغیرہ خاندانوں میں بادشاہتیں قائم ہوئیں عرب دوسری قوم تھی اور یہ دوسری بحیثیت ہم قومی کوئی آپس میں رابطہ اتحاد نہ تھا، لیکن اسلام نے اور عرب نے ان کو بادشاہ مانا اور کسی قسم کی بحث و تکرار کی نوبت نہ آئی۔ آپ صاحبوں کو شاید معلوم ہو یا نہ ہو کہ مصر میں ایک خاندان گزرا ہے جس کو عربی میں چراکسہ کے نام سے اور آج کل سرکیشین کے خطاب سے یاد کرتے ہیں یہ لوگ شروع سے لے کر اخیر تک غلام رہے تھے، قاعدہ تھا کہ غلام کا لڑکا بادشاہ نہیں ہو سکتا تھا لیکن نسلاً بعد نسل دو سو برس انہی غلاموں کے بیٹوں اور پوتوں نے مصر میں بادشاہ ہو کر حکومت کی اور عرب ان کی رعایا بن کر رہے۔ یورپ والوں کی طرف سے ہمارے مذہب پر یہ بھی اعتراض کیا جاتا ہے کہ مسلمانوں میں غلامی کا رواج تھا، اسلامی غلامی کی تعلیم دیتا ہے، تو اب میں کہوں گا اگر ہم چراکسہ، بلال، محمود جیسے غلام بناتے تھے تو مبارک تھی ایسی غلامی۔ اب رہا تیسری قسم کا تعصب ، وہ ملکی تعصب ہے آپ جانتے ہیں کہ اسلام کا نظام اور طرز ایسا واقع ہوا ہے کہ اس کو گورنمنٹ سے تعبیر کر سکتے ہیں پبلک کے تعلقات گورنمنٹ سے بحیثیت گورنمنٹ کے تین قسم کے تعلقات ہیں، ایک وہ جو بالکل دشمنی ہے، جیسے کہ ایک وقت میں برٹش اور بوئروں سے جنگ چھڑی ہوئی تھی ان کو حربی کہتے ہیں اسی طرح اگر اسلام کے مقابلہ میں لڑائی ہو تو اصطلاح شریعت میں ایسے فریق کو حربی کہتے ہیں، دوسری قسم کے وہ لوگ ہیں جن سے اسلام کے مقابلہ میں صلح کا کوئی عہد و پیمان ہو جائے، ان کو معاہد کہتے ہیں، تیسرے عام رعایا، وہ ذمی کے لقب سے پکاری جاتی ہے چنانچہ حربی، معاہد، ذمی یہ تین قسم کے لوگ بیان کئے گئے ہیں جو تعلقات ہیں وہ انہی سے ان کے سوا اور تعلقات کی کوئی صورت نیں۔ اب دیکھنے اور غور کرنے کی بات ہے کہ ان لوگوں کے ساتھ اسلام نے کیسا تعلق اور کیسا برتاؤ رکھا ہے۔ سب سے بڑا سخت برتاؤ حربیوں سے ہونا چاہیے تھا کہ جن سے ہمارا مقابلہ ہو رہا ہے مگر اسلام نے کس بے تعصبی کے ساتھ ان سے برتاؤ کیا۔ صاحبو! یہ کوئی پردے کی بات نہیں جو اسلام نے کہا ہے کہ اگر وہ یعنی حربی تمہارا مقابلہ کریں اور تم پر چڑھ کر آئیں تو پہلے مدافعت کرو اور اپنے آپ کو بچاؤ، اگر وہ ابتدا کریں تو تم بھی لڑو۔ اس پر یہ شرط اور لگا دی وقاتلو فی سبیل اللہ الدین یقاتلو نکم ولا تعتدوان اللہ لا یحب المقدین یعنی ان سے ایسے لڑو جیسے وہ تم سے لڑتے ہوں، حد سے بڑھنے کی کوشش مت کرو۔ حد سے بڑھنے والوں کو خدا پسند نہیں کرتا دوسری جگہ ارشاد فرمایا لایتھکم اللہ عن الذین لم یقاتلوکم فی الدین ولم یخرجوکم من دیارکم ان تبروھم و تقسطوا الیھم ان اللہ یحب المقسطین یعنی ’’ خدا تم کو منع نہیں کرتا احسان کرنے سے ان لوگوں کے ساتھ جو تم سے مذہبی لڑائی نہیں لڑتے، نہ یہ کہتا ہے کہ تم ان کے ساتھ انصاف نہ کرو، خدا انصاف کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔‘‘ البتہ خدا ان لوگوں کی نسبت منع کرتا ہے جن میں یہ تین باتیں پائی جاتی ہیں اول وہ جو مذہبی لڑائی تم سے لڑیں، دوسرے وہ جو تم کو تمہارے گھروں سے اور وطنوں سے نکال دیں، تیسرے وہ جو تم کو نکالتے ہوں ان کی تائید اور مدد کرنے والے ایسے لوگوں سے بے شک محبت نہ رکھو، کیونکہ یہ بے انصافی اور ظلم کی بات ہے یہاں تک تو کہہ دیا گیا کہ خاص حربیوں میں جو نہ نکالیں تم کو تمہارے گھروں سے اور نہ ستائیں تم کو ان کے ساتھ بھی محبت اور انصاف سے پیش آؤ۔ صاحبو! یہ صرف حکم ہی نہیں بلکہ ہمیشہ ان احکام پر عمل درآمد رہا ہے، فقط اسلام ہی ایک ایسی شے ہے جس نے حد فاصل مقرر کر دی اس سے کم و بیش نہ کوئی گھٹ سکتا ہے نہ بڑھ سکتا ہے۔ ماں باپ کی اطاعت اور فرماں برداری کا قرآن مجید میں حکم ہے لیکن وان جاھداک علی ان تشرک بی ما لیس لک بم علم فلا تطعھما وما جھان فی الدنیا معروف اور اگر وہ کافر ہیں اور تم کو بھی کافر بنانا چاہتے ہیں اور مجبور کرتے ہیں کہ ہمارے ساتھ مشترک بن جاؤ تو ایسی اطاعت فرض نہیں مگر اس کے ساتھ ہی سوشل اور اخلاقی برتاؤ کی ممانعت نہیں بلکہ تاکید کی لیکن غور سے دیکھو تو کہاں وہ تعلیم کہ مذہبی مخالفت پر بھی میل جول اور آپس کے سوچل مراسم رکھنے کی تاکید کی گئی، مگر اب موجودہ حالت کیا ہے؟ اگر ذرا سا بھی معمولی اختلاف ہو تو کہاں سے کہاں تک نوبت پہنچتی ہے ذرا ذرا سی شکر رنجیوں اور اختلاف رائے پر ایک دوسرے کی عزت لینے اور بدنام کرنے پر ہم کس قدر دلیر ہیں۔ ایک عرفی کی اگر مبالغہ سے تعریف کرتا ہے تو دوسرا فیضی پر ہزار ہا نکتہ چینیاں کر کے اس کا عمر بھر پیچھا نہیں چھوڑتا۔ انیس اور دبیر کو خاک میں ملے ہوئے مدت گزری، لیکن آج تک یہ کیفیت ہے کہ اگر کوئی دبیر کو مانتا ہے تو انیس کے پیرو صرف دبیر ہی کی ہمیچدانی کا اظہار نہیں کرتے بلکہ ان کی مخالفت اور ضد میں ان کے اسلاف کی گڑی ہڈیاں بھی اکھاڑ پھینکنے میں کوئی کسر باقی نہیں اٹھا رکھتے میں نے مثالاً یہ باتیں بیان کیں ورنہ آئے دن جو اس قسم کے واقعات پیش آتے ہیں اس سے زیادہ اور بہت زیادہ ہیں اب رہی دوسری قوم اور رعایا وہ ذمی کے نام سے پکاری جاتی تھی معاہد اور ذمیوں کے لیے ایک حکم ہے قبل اس کے کہ اور حالات بیان کئے جائیں پہلی بات جو میں کہتا چاہتا ہوں اور خیال کرنے کے لائق ہے، وہ یہ ہے کہ سب سے پہلے اس امر کو دیکھیں کہ ذمیوں کو کس خطاب سے یاد کیا گیا ہے، چنانچہ لفظ ذمی مشتق ہے ذمہ سے یعنی وہ لوگ جن کی جان و مال کے ہم ذمہ دار ہیں جناب امیر علیہ السلام سے مروی ہے کہ اموالھم اموالنا ودماء ھم دماء نا ذمیوں کا مال ہمارا مال اور ان کا خون ہمارا خون ہے۔ حضرات! یہ باتیں زبانی نہیں بلکہ ایسا ہی ہوتا بھی تھا اگر آپ اسلام کی تاریخ اٹھا کر دیکھیں تو آپ کو معلوم ہو کہ مساوات اور برابری کی بیسیوں مثالیں اس قسم کی موجود ہیں حضرت عمر رضی للہ عنہ نے وفات کے وقت تین وصیتیں فرمائی تھیں دو وصیتوں کو تو قلت وقت کی وجہ سے اس وقت بیان نہیں کر سکتا تیسری بات یہ تھی کہ دیگر اقوام مثل یہود وغیرہ جو رعایا ہیں ان کی حفاظت کا بے حد خیال رکھنا، کسی کو کسی قسم کی تکلیف نہ ہونے پائے کیونکہ یہ ہمارے ذمی ہیں اور ہم ان کے ذمہ دار ہیں۔ اس کے متعلق ایک چھوٹا سا واقعہ عرض کرنے کے قابل ہے جس زمانہ میں رومیوں کے ساتھ مقابلہ ہوا اور مختلف مقامات دمشق، حلب وغیرہ فتح ہو چکے تو بادشاہ روم نے مسلمانوں پر حملہ کرنا چاہا بڑے ساز و سامان سے تیاری کی حضرت ابو عبیدہؓ مسلمانوں کی فوج کے حاکم تھے فوج نے اس وقت مشورہ دیا کہ ہم لوگوں کو کیا کرنا چاہیے یہاں سے نکل جانا بہتر ہے یا رومیوں کا مقابلہ کرنا اچھا بعض کی رائے ہوئی کہ یہیں سے بیٹھے بیٹھے جواب دیا جائے، یہ سن کر اور لوگ بولے کہ تمام رعایا وہی مذہب رکھتی ہے جس کے روم والے پابند ہیں جب باہر سے حملہ ہو گا تو یہ بھی انہی میں مل جائیں گے، پس بہتر یہی ہے کہ ان کو شہروں سے نکال دیا جائے اس وقت ہم اپنی پورے طور سے حفاظت کر سکیں گے اور کوئی کھٹکا باقی نہ رہے گا جس قدر صحابی وہاں اس وقت موجود تھے یہ سنتے ہی کحڑے ہو گئے اور ابو عبیدہؓ سے کہا کہ اے ابو عبیدہؓ کیا حق ہے تم کو کسی کے نکالنے اور شہر بدر کرنے کا، اگر تم کو دوسرے لوگوں سے اندیشہ ہے تو بجائے اس کے کہ ہم ان کو نکالیں خود ہم کو شہر چھوڑ دینا چاہیے یہ کہہ کر یہودیوں اور عیسائیوں کو بلایا اور ان سے کہا کہ ہم نے تم سے جزیہ لیا تھا اس خدمت کے معاوضہ میں جزیہ لیا تھا کہ چوروں، اچکوں اور دشمنوں سے تمہاری حفاظت کریں گے، اب ہم یہاں سے جاتے ہیں اور نہیں چاہتے کہ جو خراج تم نے دیا تھا وہ اپنے پاس رکھیں، لہٰذا اس کو ہم سے واپس لو جس وقت ابو عبیدہؓ جزیہ کی رقم واپس دینے لگے، تو ان کو سخت حیرت ہوئی اور ہنے لگے کہ آج اگر مسلمانوں کی جگہ دوسرے آدمی ہوتے تو کبھی ایسا نہ کرتے بہت سی دعائیں دیں۔ اور کہا کہ خدا تم کو پھر واپس لائے یہ تھی اصلی بے تعصبی اور طبیعت کی فیاضی جو اسلام نے برتی اگر کوئی شخص حالات کی تحقیق کرے، تاریخوں کے ورق الٹے تب معلوم ہو کہ اسلام نے غیر قوموں کے ساتھ، غیر مذہب کے ساتھ، کیا کیا رعایتیں کی ہیں، کس قدر ان کی آبرو کا لحاظ رکھا ہے ایک اور مثال بیان کرتا ہوں، عمر بن سعدؓ ایک بڑے خدا پرست صحابی تھے، حضرت عمرؓ نے ان کو حمص کا عامل مقرر کر کے بھیجا تو انہوں نے یہ شرط کی کہ تنخواہ لے کر قوم کا کام نہ کروں گا ایک مرتبہ حضرت عمرؓ کے پاس آئے اور کہا کہ اب میں نوکری کرنی نہیں چاہتا یہ استعفا موجود ہے حضرت عمرؓ نے وجہ دریافت کی تو بولے ایک دن ایک عیسائی سے کسی گفتگو میں میری زبان سے یہ جملہ نکل گیا کہ ’’ خدا تم کو رسوا کرے‘‘ کہنے کو تو منہ سے یہ جملہ نکل گیا، لیکن بعد میں مجھے خیال آیا کہ آخر اس لفظ کے کہنے کا مجھ کو کس قدر حق حاصل تھا بہت سوچا لیکن کچھ بھی حق نہ پایا بجز اس کے کہ ملازمت کی وجہ سے مجھ کو کہنا پڑا، نہ نوکر ہوتا نہ یہ لفظ منہ سے نکلتا اور اس کا دل دکھتا، آخر کار نوکری چھوڑ دی۔ یہاں تک تعصب کی تین قسمیں بیان ہوئیں اب چوتھی چیز دنیا میں علمی تعصب کے نام سے مشہور ہے علمی تعصب یہ ہے کہ دوسری قوموں کے علم و فضل کو ہم کیوں اختیار کریں، علوم و فنون سے ہمیشہ بے وقوف لوگ محروم رہتے ہیں لیکن کیا مسلمانوں سے زیادہ کوئی قوم علمی بے تعصبی کی مثال پیش کر سکتی ہے۔ صاحبو! یہ بات محض کہنے کی نہیں ہے بلکہ واقعات موجود ہیں، اسلام کے پاس جس قدر لٹریچر اس وقت موجود ہے، وہ تمام دنیا کے علوم و فنون کا مجموعہ ہے اور کوئی قوم دنیا میں ایسی نہیں ہے جس کے علم کو مسلمانوں نے کمال بے تعصبی سے حاصل نہیں کیا ابو ریحان بیرونی نے چودہ برس اسی ہندوستان میں بیٹھ کر سنسکرت پڑھی۔ اور ہندوستان کے حالات میں ایک کتاب لکھی ہے اس نے خود لھا ہے کہ جس فرش زمین پر بیٹھا کرتا تھا اس کو ہندو دھلوا دیتے تھے لیکن علمی شوق کے مقابلہ میں سب ذلتیں گوارا تھیں اس کتاب کو جرمنی کے ایک عالم پروفیسر نے چھپوایا ہے پروفیسر مذکور لکھتا ہے کہ یہ شخص سنسکرت کا ایسا ماہر تھا کہ اس سے پہلے سنسکرت کا اتنا بڑا عالم نہیں پیدا ہوا ہمارے یہاں جو درسی کتابیں شامل ہیں ان میں غریب مذہب کے عالموں اور حکیموں کا نام مثل ارسطو اور جالینوس کے مقابلہ میں اسی عزت کے ساتھ لیا جاتا ہے جیسے غزالی اور رازی کا لیکن آج موجودہ حالت یہ ہے کہ چھ سو برس ہونے کو آئے شاعری کا سلسلہ یہاں موجود ہے خسرو دہلوی اور فیضی نے ایرانیوں کے چھکے چھڑا دئیے، مگر ایران والوں نے ہندوستان کو کبھی استاد نہ جانا، نہ مانا، لیکن یہ کوئی نہیں دکھا سکتا کہ عربی تاریخوں میں جہاں مجوسی یا یہودی یا عیسائی فضلاء کے نام آئے ہیں وہ حقارت یا نفرت سے لئے گئے ہوں یہ تھی ہماری علمی بے تعصبی۔ بغداد میں جس وقت عباسیوں کی سلطنت قائم ہوئی تو انہوں نے مجوسیوں کا لباس اختیار کیا، ٹوپی وہ پہنی جو مجوسی پہنتے تھے، غرض بادشاہ بن کر رعایا کی تقلید کرنا اس کا نام ہے بے تعصبی۔ صاحبو! میں سمجھتا ہوں کہ میں نے آپ کا وقت بہت لیا، میں نے اس تقریر کو مختصر کرنے کی کوشش کی مگر بلا اس تکلیف کے جو کہ مرثیہ خواں بیان کرتے ہیں کہ شب کو اوس میں سو گیا تھا، زکام ہو گیا ریزش کی سخت تکلیف ہے اس سے زیادہ سامعہ خراشی کرنی نہیں چاہتا۔ ٭٭٭٭٭٭٭٭ سنگ بنیاد دار العلوم (1908ئ) در کفے جام شریعت در کفے سندان عشق ہر ہو سنا کہ نہ داند جام و سنداں با ختن اگر کسی کے ایک ہاتھ میں شیشہ کا گلاس ہو اور دوسرے ہاتھ میں لوہے کا ہتھوڑا، اور وہ دونوں کو اچھالے اور ان کو آپس میں ٹکرانے نہ دے تو یہ کام نہایت مشکل ہے، کامل بازیگر کے سوا اور کوئی اس کام کو انجام نہیں دے سکتا، یہی حال دین اور دنیا کو باہم ملانے اور ان پر عمل کرنے اور ان کوایک دوسرے کی مزاحمت کرنے سے روکنے کا ہے، یہ کام بھی نہایت مشکل ہے اسلام کے سوا اور کسی مذہب نے دین اور دنیا کو باہم نہیں ملایا، عیسائی مذہب نے خدا کی بادشاہت میں انہی لوگوں کو داخل کیا ہے جو دنیا سے الگ تھلگ رہیں، اور رہبانیت کی زندگی بسر کریں۔ بدھ مذہب نے بھی ترک دنیا کی نصیحت کی ہے اسلام نے انسان کی دونوں ضرورتوں کا لحاظ رکھا ہے اور اپنے پیرووں کو نصیحت کی ہے کہ وہ دنیا سے بھی متمتع ہوں اور دین سے بھی، مگر ایک ضرورت کو دوسری ضرورت پر غالب نہ آنے دیں،اسلام کو خاتم الادیان کا پیغمبر اسلام ؐ کو خاتم الانبیاء کا خطاب دیا گیا ہے۔ خاتمیت کے دو معنی ہو سکتے ہیں، ایک یہ کہ کوئی چیز ناقص اور غیر مکمل ہو، اور وہ رفتہ رفتہ کامل ہو جائے، دوسرے یہ کہ وہ چیز نہ افراط کی حد پر ہو ، نہ تفریط کی حد پر، بلکہ دونوں کے درمیان ہو، جس کا نام اعتدال ہے۔ اسلام دونوں پہلوؤں سے خاتم الادیان ہے، اس میں کمال اور اعتدال دونوں پائے جاتے ہیں، رسول خدا (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ میں اس عالیشان عمارت کی آخری اینٹ ہوں، جس کو گزشتہ انبیاء تعمیر کرتے آئے ہیں یہ اسلام کے کمال کی طرف اشارہ ہے۔ اسی طرح قرآن مجید میں ہے کہ مذہب اسلام ایک معتدل اور متوسط طریقہ کا نام ہے اور مسلمانوں کی قوم ایک متوسط اور متعدل قوم پیدا کی گئی ہے، اس سے اسلام کے اعتدال کا ثبوت ہوتا ہے غرضیکہ مذہب اسلام بر خلاف تمام دیگر مذاہب کے دینی ودنیاوی خوبیوں کا جامع ہے اور اسلام کا مکمل نقشہ وہی ہے جس میں دینی یا دنیاوی پہلو سے اغماض نہ کیا گیا ہو اسلام نے مسلمانوں کو جو دعا سکھائی ہے وہ یہ ہے کہ ربنا اتنا فی الدنیا حسنۃ وفی الاخرۃ حسنۃ یعنی اے خدا ہم کو دنیا اور آخرت کی بھلائیاں اور خوبیاں عطا فرما۔ انسان دنیا میں تین خواہشیں رکھتا ہے، ایک اولاد کی، دوسری دولت کی، تیسری شہرت کی، ان میں سے کوئی خواہش ایسی نہیں ہے جس کو اسلام نے ناجائز قرار دیا ہو، بلکہ ا س نے تینوں باتوں کی ترغیب دی ہے قرآن مجید میں خدا نے اپنے نیک بندوں کی پہچان کی نشانیاں بتائی ہیں ان میں سے ایک نشانی یہ ہے کہ وہ خدا سے مانگتے ہیں کہ ہم کو ہماری بیویوں سے اولاد عطا کر، صاف ظاہر ہے کہ اگر اولاد کی خواہش کرنا اسلام میں ممنوع اور معیوب ہوتا تو قرآن مجید میں مسلمانوں کی مدح کے موقع پر یہ بات بیان کی جاتی حصول دولت کی ترغیب بھی قرآن مجید میں بہت سی آیتوں سے پائی جاتی ہے یہاں تک کہ خدا نے ہمارے پیغمبر (علیہ الصلوۃ والسلام) پر اس بات کا احسان جتایا ہے کہ تم پہلے مفلس تھے خدا نے تم کو غنی کر دیا۔ قرن اول کی تاریخ کا مطالعہ کرنے سے صاف طور پر ظاہر ہوتا ہے کہ اس زمانہ کے مقدس مسلمان دولت پیدا کرنے کو عیب نہیں جانتے تھے، علامہ مسعودی نے اپنی تاریخ میں ایک باب اغنیائے صحابہ کے عنوان سے لکھا ہے، اور اس میں ان صحابہؓ کا ذکر کیا ہے جو لکھ پتی نہیں بلکہ کروڑ پتی تھے۔ یہی حال شہرت کی خواہش کا ہے خدا نے اس باب میں بھی اپنے پیغمبر پر احسان جتایا ہے کہ ہم نے تم کو ناموری اور شہرت عطا کی ہے غرضیکہ اسلام نے انسان کی ان تینوں خواہشوں اور جذبوں کا لحاظ رکھا ہے جس کا پورا کرنا اس کو دنیا میں مطلوب ہے جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ اس نے دین کی برکتوں کے ساتھ دنیا کی خوبیوں کے حاصل کرنے پر بھی زور دیا ہے مگر اس کے ساتھ ہی یہ اصول مسلمانوں کو بتایا ہے کہ انسان کے تمام کاموں کا مدار اس کی نیت پر ہے اگر نیت درست ہے تو دنیا ہی دین بن جاتی ہے جس طرح ریگ کے ذرے کیمیا خانوں میں بلور بنا لیے جاتے ہیں لیکن اگر نیت درست نہیں ہے تو دینی کام بھی موجب ہلاکت ہو جاتے ہیں۔ اسلام پر کچھ زمانہ گزر جانے کے بعد غلطی سے یہ خیال لوگوں میں پھیل گیا کہ دین و دنیا دونوں جمع نہیں ہو سکتے یہاں تک کہ مولانا روم نے یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ اگر تم خدا سے ملنا چاہتے ہو اور دنیا کے حاصل کرنے کا خیال بھی دامنگیر ہے، تو یہ خواہش محض نا ممکن اور سراپا دیوانگی ہے اس غلط فہمی کا اثر ہے کہ آج کل مسلمانوں میں دو گروہ جدا جدا ہو گئے ہیں قدیم تعلیم یافتہ یہ خیال کر کے کہ دین میں مشعول ہونے سے وہ دنیا کو کسی طرح حاصل نہیں کر سکتے، محض دین میں منہمک ہو گئے ہیں، اور جدید تعلیم یافتہ یہ خیال کر کے کہ وہ دنیا کے درپے ہو کر دین میں کمال حاصل نہیں کر سکتے، محض دنیوی تعلیم میں سرگرم پائے جاتے ہیں سچ یہ ہے کہ دونوں گروہ غلط فہمی پر ہیں اور اس صراط مستقیم پر ان میں سے کوئی گروہ بھی قائم نہیں ہے جس کی ہدایت اسلام نے کی ہے جدید تعلیم یافتہ خیال کرتے ہیں کہ جب تک مسلمان یورپ کے علوہ جدیدہ سیکھ کر ان میں کمال حاصل نہ کریں گے مسلمانوں کی قوم ترقی نہیں کرے گی قدیم تعلیم یافتہ خیال کرتے ہیں کہ یورپ کا سائنس اور فلسفہ حاصل کرنے سے مسلمانوں کے مذہبی عقائد میں خلل آ جائے گا اور اگر مسلمان مسلمان نہ رہے تو ان کی دنیوی ترقی مسلمانوں کی قومی ترقی کسی طرح نہیں ہو سکتی، یہ خیالات ہیں جن کے سبب دونوں گروہ متحد نہیں ہو سکتے۔ اور ایک دوسرے کے ساتھ مصافحہ کرنا نہیں چاہتے، مگر دیکھنا چاہئے کہ زمانہ سابق کے مسلمانوں نے اس صورت میں کیا کیا تھا، عباسیوں کے زمانہ میں جب یونان کے علوم اور فلسفہ کا ترجمہ عربی زبان میں کیا گیا تو ان علوم نے مسلمانوں میں چار سو سال تک کوئی ترقی نہیں کی اس کا سبب یہ تھا کہ علماء ان علوم سے الگ تھلگ رہے، بلکہ ان کی مخالفت کرتے رہے، امام غزالی نے (خدا ان کی روح پر اپنی برکتیں نازل کرے) یونانی علوم پر توجہ کی اور نہایت محنت سے ان کو حاصل کیا پھر ا س بات پر غور کیا کہ یونانی مسائل میں سے کتنے مسائل ایسے ہیں جو اسلام کے بر خلاف ہیں اول انہوں نے بیس مسائل کا اندازہ کیا پھر ان کو گھٹا کر صرف تین مسائل ایسے بتائے جو اسلام کے بر خلاف تھے اور ان تینوں کو قوی دلائل سے رد کر دیا، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ یونانی علوم سے جو نفرت اور مخالفت مسلمانوں میں عام طور پر پھیلی ہوئی تھی وہ باقی نہیں رہی بے شمار مسلمان ان علوم کے حاصل کرنے پر جھک گئے اور ان میں کمال پیدا کیا، اور نئے نئے مسائل ان میں اضافہ کئے یہاں تک کہ یونانی علوم مسلمانی علوم ہو گئے، اسی کا اثر ہے کہ آج کوئی عالم عالم خیال نہیں کیا جاتا جب تک کہ وہ حدیث و فقہ کے ساتھ یونانی علوم یعنی منطق اور فلسفہ میں ماہر نہ ہو، زمانہ حال میں بھی علماء کو علوم عربیہ کے ساتھ علوم غربیہ بھی حاصل کرنا چاہئیں اور اس بات کی کوشش کرنی چاہئے کہ مذہبی مسائل اور جدید علمی مسائل میں مطابقت ثابت ہو جائے اور ان کو چاہیے کہ وہ ان علوم کو اپنے علوم بنا لیں اگر انہوں نے ایسا کیا تو مسلمانوں میں علوم جدیدہ کی اشاعت کا دائرہ اب کی نسبت بہت وسیع ہو جائے گا اور اس کے ساتھ ہی وہ مذہبی علوم سے بھی بے بہرہ نہ رہیں گے میری رائے میں جب تک علماء علوم جدیدہ کو اپنی سرپرستی اور حمایت میں نہیں لیں گے مسلمانوں میں ان کی طرف سے نفرت اور مخالفت باقی رہے گی اور ان کی کافی اشاعت ہماری قوم میں نہ ہو گی۔ علماء کو اس بات کا خوف مطلق نہیں کرنا چاہیے کہ علوم جدیدہ مذہب اسلام کے بر خلاف ہیں اور ان کی تعلیم سے عقائد مذہبی میں خلل آ جاتا ہے کیونکہ جب امام غزالی کی طرح وہ ان علوم کو خود حاصل کریں گے تو ان کو وہ مسائل معلوم ہو جائیں گے جن میں مذہبی مخالفت کا احتمال پیدا ہو سکتا ہے اس صورت میں وہ ان مسائل کی تردید یا اسلام سے ان کی مطابقت بخوبی کر سکیں گے اور جدید تعلیم یافتوں کو مذہبی شکوک و شبہات سے محفوظ رکھ سکیں گے صاف ظاہر ہے کہ جب تک ہماری قوم کے علماء جدید فلسفہ اور جدید علوم کو بذات خود حاصل نہ کریں نا ممکن ہے کہ وہ ان اعتراضات کا جواب دے سکیں جو یورپ کے ملاحدہ مذہب اسلام پر کرتے ہیں اور جن کا اثر ہماری قوم کے جدید تعلیم یافتوں پر پڑتا ہے علوم جدیدہ کے سامنے قدیم فلسفہ کی مثال ایسی ہی ہے، جیسے توپ کے سامنے غلیل کی مثال ہے۔ دار العلوم ندوہ اسی غرض سے قائم کیا گیا ہے کہ اس میں علوم دنیوی اور علوم دینی کی تعلیم ایک ساتھ دی جائے اور اس سے ایسے روشن خیال علماء پیدا ہوں جو دونوں قسم کے علوم کے جامع ہوں اور وہ جدید اور قدیم گرو ہوں کے درمیان رابطہ اتحاد کا کام دیں اور اسلام کا وہ مکمل نقشہ ان کے پیش نظر ہو، جس میں دین اور دناے دونوں جمع کئے گئے ہوں، مگر ان میں سے کوئی اپنی حد سے تجاوز کر کے دوسرے سے نہیں ٹکراتا، مسلمانوں نے چھ سو سال تک ہندوستان پر حکومت کی، مگر مسجدوں اور مقبروں کے سوا کوئی یادگا رنہیں چھوڑی، کس قدر افسوس کی بات ہے کہ اس عرصہ دراز میں انہوں نے کوئی عربی درسگاہ ہندوستان میں قائم نہیں کی ہم چاہتے ہیں کہ چھ سو برس کی اس کمی کو پورا کریں اور مکمل عربی درسگاہ ان لوگوں کے لیے مہیا کریں جو اسلام کی قدیم مذہبی اور علمی کوششوں کا نمونہ دیکھنا چاہتے ہیں اور جن کی خواہش یہ ہے کہ بغداد کے مدرسہ نظامیہ کی طرح ہندوستان میں بھی ایک شاندار عربی درسگاہ دیکھیں او راس سے ایسے روشن خیال طلبہ تعلیم پا کر نکلیں جو دینی اور دنیوی علوم پر حاوی ہوں اور جنہوں نے علم کو محض علم سمجھ کر حاصل کیا ہو، چونکہ تعلیم کے ساتھ تربیت کا مسئلہ بھی نہایت مہتمم بالشان ہے اس لیے سب سے پہلے اس بات کی ضرورت ہے کہ ہم دار الاقامہ کی بنیاد ڈالیں، جس میں دار العلوم کے طلبہ شب و روز ایک جگہ رہ کر تربیت حاصل کر سکیں جس کے سبب وہ قوم کے سامنے اپنے اخلاق و معاشرت کی عمدہ اور پاکیزہ مثال پیش کر سکتے ہیں۔ یہ حسن اتفاق ہے کہ دار العلوم کو سب سے پہلے ہندوستان کی مسلمان خواتین سے فیاضانہ امداد حاصل ہوئی، اور اب تک حاصل ہوتی رہی ہے، اس لحاظ سے اگر میں یہ خواہش کروں کہ دار الاقامہ کے تمام کمرے مسلمان خواتین کی فیاضی سے تعمیر ہوں، اور اس بناء پر یہ دار العلوم ام المدارس کہلانے کا مستحق ہو تو یہ کوئی بیجا خواہش نہیں ہے تاہم سہولت کی غرض سے میں تحریک کرتا ہوں کہ ہندوستان کا ہر متوسط آبادی کا قصبہ دار الاقامہ کے لیے ایک کمرہ وہاں کے مسلمانوں کے چندہ سے مہیا کر دے اور یہ ایسی تحریک ہے کہ اس پر آسانی سے عمل ہو سکتا ہے، ہر کمرہ کی پیشانی پر اس شہر کا نام کندہ کیا جائے گا جہاں کے مسلمانوں کے چندہ سے وہ کمرہ تعمیر ہوا ہے۔ ٭٭٭٭ ندوۃ العلماء کی ضرورت (اجلاس ندوۃ العلماء 1910ئ) حضرات! میں اس وقت جس عنوان پر تقریر کرنے کے لیے کھڑا ہوا ہوں، وہ اس سوال کا طے کرنا ہے کہ قوم کو ندوۃ العلماء یعنی ایک مجمع علماء کی ضرورت ہے یا نہیں؟ اس مسئلہ کے طے کرنے کے لیے پہلے یہ طے کرنا چاہیے کہ قوم کی کچھ مذہبی ضرورتیں ہیں یا نہیں؟ مذہبی ضرورت اور مذہبی ترقی کا لفظ گو، آج کل جدید گروہ میں چند ان گوش آشنا نہیں ہے لیکن قومی ضرورت اور قومی ترقی کے جملے اس قدر اور اس بلند آہنگی سے بار بار دہرائے گئے ہیں کہ تمام ملک اس صدا سے گونج اٹھا ہے اب سوال یہ ہے کہ مسلمانوں کی قومیت کیا ہے تمام قوموں کی قومیت ملک یا نسل یا خاندان کی بنا پر ہوتی ہے مثلاً یہودی وہ قوم ہے جو بنی اسرائیل کے خاندان سے ہو، اگر او رکوئی شخص یہودیوں کے تمام معتقدات پر ایمان لائے تو وہ یہودی نہیں ہو سکتا اور اس کو یہودیوں کے مذہبی اور ملکی حقوق نہیں حاصل ہو سکتے، یورپین قوموں کی قومیت ملک کی بنا پر ہے، کسی اور ملک کا آدمی اگر عیسائی ہو جائے تو اس کو وہ ملکی حقوق نہیں حاصل ہو سکتے، جویورپ کو حاصل ہیں ایک یورپین پادری جب افریقہ یا ایشیا میں عیسائیت کا وعظ کہتا ہے، تو لوگوں سے کہتا ہے کہ اگر تم عیسائی ہو جاؤ تو گو تم اس ذلیل دنیا میں یورپین حقوق میں ہمسر نہ ہو گے۔ لیکن قیامت میں تم کو اور یورپین کو ایک ہی رتبہ حاصل ہو گا، یعنی یسوع کے داہنے پہلو میں جگہ ملے گی۔ لیکن مسلمانوں کی قومیت، نہ ملک پر ہے، نہ خاندان پر، نہ رنگ پر بلکہ جو شخص لا الہ الا اللہ کہہ دے وہ دفعتہ مسلمان ہو کر تمام مذہبی اور ملکی حقوق میں کل مسلمانوں کا ہمسر ہو جاتا ہے، اگر ایک بھنگی یا چمار کلمہ توحید پڑھ کر قسطنطنیہ کی مسجد میں چلا جائے اور سلطان کے پہلو میں کھڑا ہو جائے تو سلطان کو اس سے یہ کہنے کی جرأت نہیں ہو سکتی کہ ’’ ہٹ جا ایک چمار شہنشاہ ترکی کے پہلو میں کھڑا نہیں ہو سکتا‘‘ کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اس سے بالاتر عدالت سے چمار نے یہ حکم صادر کرا لیا ہے کہ انما المومنون اخوۃ مسلمان سب بھائی بھائی ہیں یہ صرف قول نہیں ہے بلکہ اسلام کی ابتدائے تاریخ سے آج تک علانیۃً اس پر عمل رہا ہے اسی اصول کی بنا پر دنیائے اسلام کے سب سے بڑے تاجدار (عمرؓ فاروق) نے ایک حبشی غلام کے مرنے کے وقت کہا تھا الیوم مات سیدنا آج ہمارا آقا مر گیا،ا سی اصول نے ایک خواجہ سرا غلام (کانور) کو مصر و شام کا حکمران بنا دیا گے ااور حرمن میں اس کے نام کا خطبہ پڑھا جاتا تھا اور یہی اصول تھا جس نے عرب و عجم، غلام اور آقا، شریف اور رذیل، امیر اور غریب کا تفرقہ بالکل مٹا دیا تھا۔ کنادریں راہ فلاں ابن فلاں چیزے نیست اس بنا پر مسلمانوں کی ’’ قومی ترقی‘‘ اور ’’ قومی ضرورت‘‘ کا مسئلہ دراصل’’ مذہبی ترقی اور مذہبی ضرورت‘‘ کا مسئلہ ہے قوم کا لفظ جو نہایت بلند آہنگی سے ہزاروں دفعہ دہرایا گیا اور اس نے کوئی زندگی نہیں پیدا کی اس کی وجہ یہ ہے کہ لفظ خود غلط تھا، اس لفظ کو بدل کر ’’ اسلام ‘‘ کا لفظ اختیار کرنا چاہیے، ہماری قومیت ہمارا مذہب ہے اور ہم میں یہی لفظ اور صرف یہی لفظ زندگی پیدا کر سکتا ہے۔ قوم کے غلط لفظ کے استعمال سے صرف یہی نقصان نہیں ہوا کہ وہ کوئی زندگی نہیں پیدا کر سکا، بلکہ سخت نقصان یہ ہوا کہ قومی ترقی، قومی تعلیم، قومی زندگی میں مذہبی پابندی اور مذہبی شعائر کا احساس نہیں رہا یہی وجہ ہے کہ قومی ترقی کا سب سے زیادہ غل مچانے والے، مذہب میں سب سے زیادہ بے پروا ہیں۔ اس امر کے تسلیم کر لینے کے بعد کہ یہ قومی ضرورت کا مسئلہ ہے، سوال یہ ہے کہ آج مسلمانوں کی کچھ مذہبی ضروریات ہیں یا نہیں؟ اور زمانہ کی نئی حالت نے کچھ نئی ضرورتیں پیدا کر دی ہیں یا نہیں؟ حضرات! میں نے تمام ہندوستان کا درہ کیا ہے اور (سندھ کے سوا) تمام مسلمانان ہند کے حالات آنکھوں سے دیکھ چکا ہوں، مجھ کو ہر جگہ جو چیز سب سے زیادہ پر خطر نظر آئی وہ یہ ہے کہ مسلمانوں کا مذہبی احساس روز بروز کم ہوتا جاتا ہے، ان کوخبر نہیں ہوتی کہ کیا چیز ہاتھ سے نکلی جاتی ہے ہر جگہ آزادانہ بلکہ ملحدانہ خیالات پھیلتے جاتے ہیں آریہ ہر طرف چھائے جاتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) اور اسلام کی تاریخ کے متعلق نہایت غلط واقعات انگریزی لٹریچر کے ذریعہ سے پھیل رہے ہیں انگریزی تاریخوں میں اسلام کو بزور شمشیر پھیلانے والا مذہب لکھا ہے، یہ سب ہو رہا ہے، لیکن قوم کو احساس تک نہیں، انصاف کرو، جدید تعلیم پھیلانے کے لیے کس قدر شور و غل برپا ہے کس طرح تمام ملک میں ہنگامہ مچ رہا ہے، کس طرح ملک کے ایک ایک کونہ میں اس کی منادی ہو رہی ہے بے شبہہ یہ جو کچھ ہو رہا ہے بجا اور بالکل بجا ہے اور بھی اس سے بڑھ کر ہونا چاہیے لیکن سوال یہ ہے کہ ان باتوں کے ساتھ ہم مذہبی حفاظت کے لیے بھی کچھ کر رہے ہے؟ اس موقع پر مجھ کو تفصیل سے بتانا چاہئے کہ اس وقت کیا کیا مذہبی خطرات در پیش ہیں جس کی روک تھام کے لیے ہم کو تیار رہنا چاہیے اور وہی جوش، وہی سرگرمی، وہی جان نثاری ظاہر کرنی چاہیے جو دنیوی مقاصد کے لیے ہم کر رہے ہیں۔ 1سب سے پہلا اور سب سے بڑا خطرہ یہ ہے کہ یورپ کے افق سے ملحدانہ خیالات کی گھٹائیں اٹھ کر ہمارے ملک کی فضا میں چھائی جاتی ہیں ان خیالات سے نہ صر ف وہ لوگ متاثر ہوتے ہیں جو انگریزی پڑھتے ہیں بلکہ واسطہ در واسطہ چپکے چپکے تمام قوم میں ان کا زہر سرایت کرتا جاتا ہے۔ سینکڑوں ہزاروں دل ہیں جن میں مذہب کی طرف سے شکوک پیدا ہو گئے ہیں ہزاروں اشخاص کا خیال ہے کہ موجودہ علمی تحقیقات نے مذہب کے بڑے بڑے مسائل باطل کر دئیے، بہت سے لوگ جرأت سے کام لے کر علانیہ یہ کہنے لگے ہیں کہ مذہب اور سائنس ایک جگہ نہیں رہ سکتے، بہتوں کا خیال ہے کہ مذہب ایک اخلاقی قانون ہے اس کے لیے وحی یا الہام کی ضرورت نہیں۔ 2ایک دوسرا خطرہ یہ ہے کہ اسلامی احکام مثلاً تعداد ازواج، جوا، غلامی تغریرات، جرائم وغیرہ کی نسبت یورپ نے غلط تعبیری سے یہ خیالات پھیلا دئیے ہیں کہ وہ تمدن اور انصاف کے خلاف ہیں، اور چونکہ یہ احکام خود قرآن مجید میں مذکور ہیں اس لیے قرآن خدا کا کلام نہیں ہو سکتا۔ 3 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین کی تاریخ جس طرح یورپ نے لکھی ہے اس سے تقدس اور پاک باطنی کا خیال نہیں پیدا ہوتا، بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ایک فاتح، ایک جابر، ایک انتقام گیر، ایک دنیا طلب کی زندگی نظر آتی ہے، اور چونکہ انگریزی خوانوں کا سرمایہ معلومات یہی کتابیں ہیں اس لیے صرف دو صورتیں ہیں یا وہ ان کتابوں کے دیکھنے سے باز رکھے جائیں (لیکن یہ نا ممکن ہے) یا دیکھیں تو خواہ مخواہ ان خیالات سے آلودہ نہ ہو جائیں۔ 4 عدالتوں میں بعض فقہی مقدمات اس وجہ سے شریعت اسلام کے خلاف فیصل ہو جاتے ہیں (مثلاً وقف اولاد) کہ احکام قرآن اور حدیث سے واقف نہیں، اور مسلمان بیرسٹر اور وکلاء کا سرمایہ معلومات بھی یہی انگریزی کتابیں ہیں۔ 5 سینکڑوں اور ہزاروں قصبات اور دیہات کے مسلما ن مذہبی احکام سے اس قدر نا واقف ہیں کہ نماز روزہ تک نہیں جانتے، بلکہ بہت سے دیہات میں مسلمانوں کے نام رام بخش اور لچھمن سنگھ ہوتے ہیں یہ اور اس قسم کی بہت سی مذہبی ضرورتیں ہیں جن سے کوئی شخص انکار نہیں کر سکتا، یہ ظاہر ہے کہ ان ضرورتوں کے انجام دینے کے لیے کسی مجمع، کسی انجمن، کسی دار المشورہ کی ضرورت ہے، اسی مجمع یا انجمن کا نام ندوۃ العلماء ہے ندوۃ العلماء کسی خاص مدرسہ، یا کسی خاص تعلیم گاہ، کسی خاص فرقہ کا نام نہیں بلکہ تمام ہندوستان کے مسلمانوں کی ایک مشترکہ مذہبی انجمن ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ مسلمانوں کی جس قدر مشترکہ مذہبی ضروریات ہیں، ان کے انجام کی تدبیروں پر مشورہ اور غور و فکر کی جائے اور تمام ہندوستان کے علمائ، پیشوایان مذہب اور عام مسلمان ایک جگہ بیٹھ کر ان امور کا فیصلہ کریں۔ حضرات! ہندوستان کے مسلمانوں نے اپنی اور ہر قسم کی ضرورتوں کے لیے عام اسلامی انجمنوں کی بنیاد ڈالی ہے، ایجوکیشنل کانفرنس تمام مسلمانان ہندوستان کی تعلیمی انجمن ہے، مسلم لیگ تمام مسلمانان ہندوستان کی پولیٹکل انجمن ہے، لیکن کیا تمام مسلمانان ہندوستان کی کوئی مذہبی انجمن بھی ہے؟ کیا مسلمانوں کی مذہبی ضرورتیں نہیں ہیں؟ کیا یہ ضرورتیں مقدم اور مہتمم بالشان نہیں ہیں؟ کیا یہ ضرورتیں کسی اور طریقہ سے رفع ہو سکتی ہیں؟ اگر ان سب سوالوں کا جواب اثباتی ہے تو ندوۃ العلماء کی ضرورت ان سوالات کا لازمی نتیجہ ہے۔ ایک نہایت ضروری امر قابل لحاظ یہ ہے کہ مسلمانوں کو جو دنیوی اور مذہبی ضرورتیں در پیش ہیں وہ اس طرح ایک دوسرے سے وابستہ ہیں کہ ایک دوسرے سے جدا نہیں ہو سکتیں، مثلاً دنیوی تعلیم جو آج سب سے اہم الامور ہے، اس کی نسبت سب نے طے کر دیا ہے کہ اس کے ساتھ مذہبی تعلیم بھی لازمی ہے اسی کانتیجہ ہے کہ علی گڑھ کالج حمایت الاسلام کالج، بمبئی اسلامیہ سکول وغیرہ وغیرہ تمام اسلامی تعلیم گاہوں میں ایک حد تک مذہبی تعلیم لازمی ہے، اسی طرح مذہبی تعلیم کے ساتھ انگریزی تعلیم کی ضرورت ہے، موجودہ فلسفہ کا مقابلہ، علوم جدیدہ کی واقفیت کے بغیر کیونکر ہو سکتا ہے، یورپ میں اسلام کی اشاعت انگریزی دانی کے بغیر کیونکر ہو سکتی ہے؟ آریوں اور عیسائیوں کے مذہبی حملوں کا علم انگریزی دانی کے بغیر کیونکر ہو سکتا ہے۔ اس حالت کے ساتھ یہ کس قدر تعجب خیز اور افسوسناک بات ہے کہ تمام ہندوستان میں ایک بھی ایسی اسلامی انجمن نہیں ہے، جس میں دونوں قسم کے لوگ موجود ہوں۔ حضرات! آپ جو یہ دیکھ رہے ہیں کہ باوجود اس قدر جدوجہد، اس قدر شور و غل، اس قدر تگ و دو کے قوم کی تعلیمی حالت اب تک نہیں سنبھلی، اس کی یہی وجہ ہے کہ دونوں فریق الگ الگ ہیں اور دونوں کوششیں نہ صرف ایک دوسرے سے الگ بلکہ ایک دوسرے کے مخالف ہیں، مذہبی علماء انگریزی سے الگ ہیں، اور اس کو استحسان کی نظر سے نہیں دیکھتے، اس کا نتیجہ ہے کہ جو لوگ علما کے زیر اثر ہیں، مثلاً تاجر، صنعت پیشہ، عام روسا، وہ اب تک انگریزی تعلیم سے الگ ہیں صرف نوکری پیشہ گروہ جن کو دنیاوی ضرورتوں نے مجبور کر دیا ہے، اور جو علماء کے اثر سے آز اد ہیں وہ انگریزی تعلیم میں مصروف ہیں، دوسری طرف جدید گروہ قدیم عربی تعلیم کو بیکار اور غیر مفید سمجھتا ہے، اس کا یہ نتیجہ ہے کہ مذہبی مدارس مالی حالت کے اعتبار سے نہایت پست ہیں، اور کوئی بڑا کام انجام نہیں دے سکتے۔ ندوۃ العلماء نے اس ضرورت کا احساس کیا اور اسی لیے اس نے اپنے ارکان انتظامیہ میں دونوں قسم کے ممتاز لوگ داخل کئے ایک طرف اگر اس کے ممبر مساجد کے امام، اور منبروں کے خطیب ہیں، تو دوسری طرف اس کے ارکان ہائیکورٹ کے جج (مولوی شرف الدین) اور بہت سے گریجویٹ اور بیرسٹر ہیں۔ اگر مسلمانوں کی ترقی کے لیے قدیم اور جدید دونوں گروہ کی شرکت اور اعانت کی ضرورت ہے تو ندوۃ العلماء کی ضرورت سے کون انکار کر سکتا ہے۔ حضرات! تقریر مذکورہ بالا سے اس قدر بداہتہ ثابت ہو گیا کہ مسلمانوں کو ایک ایسی انجمن کی ضرورت ہے جس میں دونوں قسم کے لوگ شامل ہوں، لیکن مجھ کو اب تفصیل سے بتانا چاہیے کہ ندوہ نے عملی صورت میں جس کام کو سب سے پہلے شروع کیا، اور جس پر اب تک اس کی تمام قوت صرف ہوتی رہی ہے، یعنی ایک عربی مدرسہ (دار العلوم) اس کی کیا ضرورت ہے؟ مسلمانوں کی جو ضرورتیں پہلے میں نے بیان کی ہیں ان میں سب سے پہلی چیز فلسفہ اور علوم جدیدہ کے اثر کا روکنا ہے اس وقت تمام ہندوستان میں جس قدر اسلامی مدارس موجود ہیں دو قسم کے ہیں انگریزی اسکول اور کالج، قدیم عربی مدرسے، یہ ظاہر ہے کہ انگریزی مدرسوں میں مذہبی تعلیم کے لیے بہت سے بہت صرف اس قدر وقت مل سکتا ہے کہ نماز روزہ وغیرہ کے ضروری احکام اور سادہ عقائد بتا دئیے جائیں اس قسم کے تعلیم یافتہ مذہبی تحقیقات اور مذہبی مباحثہ اور مناظرہ کا کام کیونکر دے سکتے ہیں؟ اور یہی وجہ ہے کہ آج تک کوئی انگریزی تعلیم یافتہ اس قسم کی مذہبی خدمات میں مصروف نہیں ہوا، اور نہ ہو سکتا ہے۔ عربی قدیم مدارس کا یہ حال ہے کہ نہ ان میں انگریزی زبان کی تعلیم ہوتی ہے نہ جدید علوم و فنون پڑھائے جاتے ہیں، نہ نئے خیالات سے ان کو واقف کیا جاتا ہے یہاں تک کہ خود اسلام اور مسلمانوں کی کوئی کتاب نہیں پڑھائی جاتی، یہ ظاہر ہے کہ اس قسم کے تعلیم یافتہ جدید تعلیم یافتہ لوگوں کے خیالات پر کیا اثر ڈال سکتے ہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ دونوں گروہ ایک دوسرے کے خیالات سمجھ بھی نہیں سکتے۔ اس سے میرا مقصد خدانخواستہ قدیم عربی مدارس کی تنقیص اور تحقیر نہیں ہے وہ مدارس ایک بڑی خدمت انجام دے رہے ہیں، عام لوگوں میں نماز روزہ کا جو چرچا ہے، مساجد میں جو رونق نظر آتی ہے، دیہات اور قصبات میں جس قدر لوگ اسلام سے آشنا ہیں، سب انہی مدارس کا فیض ہے بلکہ میرا مقصد یہ ہے کہ ان قدیم مدارس نے جن کاموں کو لے رکھا ہے، ان کے سوا اور جدید ضروریات پیدا ہو گئی ہیں اور چونکہ ایک ہی جماعت ہر کام کو انجام نہیں دے سکتی اس لیے ایک ایسے گروہ کی بھی ضرورت ہے جو ان نئی ضرورتوں کو انجام دے۔ اسی بنا پر ندوہ نے قدیم نصاب تعلیم کو بدل دیا، یعنی قرآن مجید، حدیث، فقہ، اصول فقہ کے سوا باقی تمام نصاب میں ترمیم اور اضافہ کیا۔ بہت سی غیر ضروری کتابیں نکال دیں، قدیم فلسفہ کو بہت کچھ گھٹا دیا، اس سے اتنا وقت نکل آیا کہ جدید ضرورت کی چیزیں اضافہ کی جا سکیں، چنانچہ علم ادب کا نصاب بہت بڑھا دیا گیا انگریزی زبان لازمی کر دی گئی، علوم جدیدہ درس میں شامل کئے گئے علم کلام کی کتابوں میں اضافہ کیا گیا، اور ایک خاص درجہ علم کلام کی تکمیل کا کھولا گیا، جس میں مولویت کی سند حاصل کرنے کے بعد داخل کیا جاتا ہے اور جس میں قدیم اور جدید علم کلام اور انگریزی کی تعلیم ہوتی ہے۔ ابھی تک یہ صیغہ مکمل نہیں ہے، لیکن رفتہ رفتہ اس کی تکمیل ہوتی جائے گی، اور اسی شاخ سے اس قسم کے علماء پیدا ہوں گے جن کی زمانہ حال کو ضرورت ہے۔ ندوۃ العلماء کا یہ دار العلوم در حقیقت ایک ’’ جامعہ دینیہ‘‘ یعنی ایک مذہبی یونیورسٹی کا سنگ بنیاد ہے، اور در حقیقت ندوہ کا سب سے بڑا نصب العین یہی کام ہے، آج مسلمانوں کو سب سے زیادہ ایک ایسی مذہبی یونیورسٹی کی ضرورت ہے، جس میں اسلامی علوم اعلیٰ درجہ تک پڑھائے جائیں جس میں خاص خاص علوم و فنون کے ماہر (اسپیشلسٹ) تیار ہوں جس سے اسلامی مصنف اور مولف پیدا ہو سکیں جس میں یورپین علوم و فنون کی تعلیم کا کافی بندوبست کیا جائے، جو جدید علم کلام پیدا کر سکے، جس کے تعلیم یافتہ انگریزی زبان میں وعظ اور مذہبی لیکچر دے سکیں، اس قسم کی یونیورسٹی کی ضرورت اور اہمیت سے کون انکار کر سکتا ہے؟ ندوہ کا ایک دوسرا فرض’’ اشاعت اسلام ‘‘ ہے یہ مقصد اگرچہ مدت سے ندوہ کے مقاصد میں شامل کیاگیا تھا، اور اس کا ابتدائی دستور العمل مرتب ہو گیا تھا لیکن ندوہ نے قصداً اس کام کو نہیں شروع کیا اور مجھ کو تفصیل سے بتانا چاہیے کہ اس کے اسباب کیا تھے؟ اشاعت اسلام کی ضرورت آج کل در حقیقت اس وجہ سے بڑھ گئی ہے کہ آریوں نے تمام ملک میں اپنے سفیر اور واعظ پھیلا دئیے ہیں اور انہوں نے جاہل اور نو مسلم مسلمانوں پر مختلف تدبیروں سے اپنا اثر پھیلانا شروع کر دیا ہے یہ حالت نہایت اندیشہ ناک ہے اور خوشی کی بات ہے کہ مسلمانوں کو ہر جگہ اس خطرہ کا احساس ہو گیا ہے اور جا بجا اس کی مدافعت کے لیے انجمنیں اور مجلسیں قائم ہو گئی ہیں اور ہوتی جاتی ہیں لیکن ہم کو نہایت غور و فکر سے دیکھنا چاہیے کہ جو کوششیں کی جا رہی ہیں، کافی ہیں یا نہیں؟ آریوں نے جن اسباب سے اپنی تحریک میں کامیابی حاصل کی ہے اور کرتے جاتے ہیں وہ دو چیزیں ہیں۔ 1ایثار نفس یعنی ان کے واعظ نہایت ایثار نفسی، نہایت جاں نثاری، نہایت جفاکشی کے ساتھ اس کام میں مصروف ہیں ان کا اچھے سے اچھا واعظ تعلیم یافتہ ہوتا ہے، نہایت فقیرانہ زندگی کے ساتھ ایک ایک گاؤں میں پھرت اہے، چنے چبا کر بسر کر لیتا ہے راتوں کو درخت کے نیچے سور ہتا ہے، لووں کی لپیٹ میں سفرکرتا ہے۔ 2دیہات اور قصبات میں پیہم اور لگاتار کوشش جاری رکھنا۔ اس کے مقابلہ میں ہمارے علماء صرف شہروں پر اکتفا کرتے ہیں، اور دیہات میں جاتے بھی ہیں تو ایک آدھ دن سے زیادہ قیام نہیں کر سکتے، اس لیے وہ کوئی پائیدار اثر نہیں قائم کر سکتے۔ 3 آریہ واعظ اکثر انگریزی تعلیم یافتہ، اور جدید علوم و فنون سے واقف ہوتے ہیں اور ہمارے واعظ اکثر ان علوم سے واقف نہیں ہوتے۔ 4 آریوں نے اپنے مذہب کا مدار صرف وید پر رکھا ہے اور کہتے ہیں کہ وید کے معنی جو عام پنڈت بیان کرتے ہیں وہ صحیح نہیں، بلکہ وہ صحیح ہیں جو سوامی دیا نند نے بیان کیے ہیں اور چونکہ مسلمان ایک آدھ کے سوا سنسکرت سے واقف نہیں اس لیے وید کی صحت و غلطی کا کوئی قطعی فیصلہ نہیں کر سکتے۔ اسباب مذکورہ بالا کے لحاظ سے آریوں کے مقابلہ کے لیے اسباب ذیل کی ضرورت ہے 1ایسے لوگ پیدا کیے جائیں جن میں ایثار نفسی، سادگی، جفاکشی اور جاں نثاری کے اوصاف ہوں۔ 2اشاعت اسلام کا مستقل صیغہ قائم کیا جائے تمام اضلاع میں اس کی شاخیں قائم کی جائیں مستقل واعظ مقرر کئے جائیں، جو نو مسلم دیہات میں جا کر ایک ایک دو دو مہینے رہ کر اسلامی احکام و عقائد کی تعلیم دیں۔ 3عربی خوانوں کو سنسکرت اور انگریزی کی اعلیٰ درجہ تک تعلیم دی جائے۔ اسی بناء پر ندوہ نے دار العلوم میں انگریزی اور سنسکرت کی شاخیں کھولیں اور اشاعت اسلام کے مستقل صیغہ کے قائم کرنے کا انتظام کیا، جس کی عملی صورت چند دنوں کے بعد نمایاں ہو گی۔ ندوہ کا کام ہے کہ دار العلوم میں خاص مذہبی خدمات انجام دینے والوں کی ایک جماعت موسوم کرے ان کو مذہبی وظائف دے ان کو وقتاً فوقتاً ان اوصاف کے پیدا کرنے کی ترغیب دلائے تحصیل علم سے فارغ ہونے کے بعد ان کو ان کاموں پر لگائے اور یہ تدبیریں ندوہ نے پیش نظر رکھی ہیں اور ان کو عمل میں لانا شروع کر دیا ہے خدا اس کی کوششوں میں اسے کامیاب کرے۔ آخر میں لیکن سب سے مقدم ضرورت ندوہ کی یہ ہے کہ تمام مسلمانوں کا ایک مذہبی مرکز ہو یعنی تمام مسلمانوں کے مختلف فرقے، جن مذہبی کاموں میں اتفاق رکھتے ہوں مثلاً آریوں اور عیسائیوں کی مدافعت، فلسفہ و الحاد کا رو، اشاعت اسلام وغیرہ وغیرہ سب اس مذہبی مرکز سے مربوط ہوں اور ایک متفقہ قوت کے ساتھ اس کو انجام دیں ہندوستان میں سینکڑوں مذہبی کام چھڑے ہوئے ہیں، لیکن چونکہ پراگندہ، منتشر اور ایک دوسرے سے بے تعلق ہیں، اس لیے کوئی بڑا کام انجام نہیں پاتا نہ عام ملک پر اس کا کوئی اثر ہوتا ہے۔ ایک مذہبی مرکز کی سخت ضرورت اس وجہ سے بھی ہے کہ گورنمنٹ کو اگر تمام مسلمانوں کی مشترکہ مذہبی رائے کا اندازہ کرنا ہوتا ہے تو اس کا کوئی ذریعہ نہیں اور یہی وجہ ہے کہ ہماری بہت سی ضروری مذہبی تحریکیں بے اثر رہ جاتی ہیں، مثلاً وقف اولاد کا مسئلہ جو شیعہ، سنی، مقلد، غیر مقلد تمام فرقوں میں مسلم ہے، باوجود اس کے کہ پریوی کونسل نے فیصلہ کر دیا کہ وقف اولاد صحیح نہیں ہے اور شارع اسلام کا یہ منشا نہیں ہو سکتا تھا اگر مسلمانوں کا ایک مذہبی مرکز ہوتا، اور وہ گورنمنٹ کے سامنے ظاہر کرتا کہ یہ ہمارا متفق علیہ مسئلہ ہے تو گورنمنٹ کو اس کے قبول کرنے میں کیا انکار ہو سکتا تھا۔ ان تمام واقعات کے بیان کرنے کے بعد غالباً اب کوئی مسلمان اس سے انکار نہیں کر سکتا کہ مسلمانوں کو ندوۃ العلماء کی یا ایک ایسی انجمن کی ضرورت ہے جس کے مقاصد وہ ہوں جو ابھی ظاہر کئے گئے ہیں اور ہم اس کو ندوۃ العلماء کہتے ہیں۔ ٭٭٭٭٭٭٭٭٭ تحفظ اسلام (اجلاس ندوۃ العلماء 1912ئ) حضرات! میں نے اسلام کی تاریخ جہاں تک مجھ سے ہو سکا نہایت غور و فکر کے ساتھ پڑھی ہے، میں تیرہ سو برس کی وسیع مدت کا ایک حد تک واقف کار ہوں کہ تمام ممالک اسلامیہ میں مسلمانوں کی حالت، مختلف زمانوں میں، مختلف سلطنتوں میں، مختلف دوروں میں کیا رہی ہے، مگر میں آپ کو صحیح شہادت دیتا ہوں کہ مجھ کو نہیں معلوم ہے کہ مسلمانوں پر کوئی وقت اور کوئی زمانہ آج سے زیادہ مشکل، شاق اور آج سے زیادہ تباہ کنندہ گزرا ہے مجھے کو معلوم ہے ایک زمانہ ایسا مسلماموں پر گزرا ہے، چھٹی اور ساتویں صدی میں جب کہ تاتاری اٹھے اور وہ ایک طرف سے پامال کرتے ہوئے شام تک پہنچ گئے، مورخوں کا بیان ہے کہ نوے لاکھ مسلمان قتل کر دئیے گئے اور پیوند خاک کر دئیے گئے ایسا سخت زمانہ بھی گزرا ہے، سینکڑوں سلطنتیں تباہ ہو گئیں سینکڑوں خاندان برباد ہو گئے۔ بغداد جو کہ ام دین اور تمام دنیا کے مسلمان جس کو نبت العرب کہتے تھے اس کی یہ کیفیت ہو گئی کہ جو لوگ سفر میں گئے ہوئے تھے جب وہ واپس آئے تو ان کو اپنا محلہ نہیں ملتا تھا تو گھروں کا کیا ذکر ہے۔ یہ حالت گزری ہے ایسا زمانہ تھا جب کہ شیخ سعدی کو یہ کہنا پڑا کہ اے محمد گر قیامت سر بروں آری رخاک سربروں آر و قیامت درمیان خلق میں خون فرزندان احمد مصطفے شد ریختہ ایک یہ حالت گزری ہے، مگر میں اس حالت کو بھی آج کی حالت سے آسان تر اور سہل تر سمجھتا ہوں اس لیے کہ ان پر تو فقط ملکی مصیبت تھی، مذہب پر، اخلاق پر، قوم کی معاشرت پر کوئی حملہ نہیں تھا کوئی صدمہ نہیں تھا، تاتاری کسی مسلمان سے یہ نہیں کہتے تھے کہ تم اپنے عقائد اسلام سے برگشتہ ہو جاؤ اور کوئی ایسی ترغیبیں تاتاری نہیں دیتے تھے کہ جس سے مسلمانوں کے مذہبی اعتقادات و مذہبی خیالات میں کسی قسم کی کمزوری پیدا ہو۔ چنانچہ اس کا یہ اثر ہوا کہ خود وہی ہلاکو خاں کہ جو برباد کنندہ دین اسلام تھا اس کا پوتا مسلمان ہو گیا اور اسلام لایا، اس کی وجہ یہ تھی کہ بجز ملکی حالات کے مذہب سے تاتاریوں کو کئی غرض نہ تھی، مذہبی معاملات میں وہ نہایت فیاضی سے مسلمانوں کو آزادی دیتے تھے، یہاں تک کہ ان کے واعظ اور علماء جو دربار میں داخل تھے ان سے وہ واعظ اور پند سنتے تھے، محقق طوسی جو باعث فخر ہے بلحاظ اپنے علم کے اور کمالات کے وہ وزیر تھا ہلاکو خان کا، اس سے آپ قیاس کر سکتے ہیں، کہ یہ مصیبت یک طرفہ تھی، مگرآج کل مسلمانوں کی کیا حالت ہے کون سا پہلو ہے جس طرف سے زد نہیں ہے، وار نہیں ہے، ان سب کی تفصیل کا موقع نہیں ہے مسلمانوں کی پولیٹکل حالت کیا ہے، اس کو جانے دیجئے مسلمانوں کی تعلیمی حالت کا تناسب کیا ہے جس کے لیے یونیورسٹی قائم ہو رہی ہے یہ بھی ایک ضروری چیز ہے، لیکن خیر، سوال یہ ہے کہ یا تو یہ حالت تھی کہ ید خلون فی دین اللہ افواجا یا اب اس کے مقابلہ میں کیا لفظ سننے میں آتے ہیں، کہ ہندوستان میں (آپ لوگوں کے کبھی کبھی بطور خفیف آواز کے کانوں میں جو بھنگ پڑ جاتی ہے) فلاں مقام پر تو مسلم مائل بہ ارتداد کر دئیے گئے یا مرتد کر دئیے گئے آپ یہ کہہ کر اپنی تسلی کر لیتے ہیں کہ وہ پہلے ہی سے ایسے تھے یہ اتفاق کی بات ہے کسی لالچ سے، کسی طمع سے، کسی حرص سے اس نے قبول کر لیا۔ لیکن حضرات جیسا کچھ آج کل کئی مہینوں کی خط و کتابت سے معلوم ہوا ہے اشتہارات دینے کے بعد جو تحریرات جا بجا سے آئی ہیں اور جو کیفیتیں محقق طور سے معلوم ہوئیں جو ایجنٹ اور سفیروں کے بھیجنے سے دریافت کی گئیں خاص ایک شخص حسن شاہ مقرر کر کے بھیجا گیا، انہوں نے بہت سے مقامات میں جا کر خود دیکھا تو ایسی حیرت انگیز باتیں معلوم ہوئیں کہ جس کی بناء پر میں نہیں سمجھتا کہ اگر تمام مسلمان پوری قوت سے متحد نہ ہوں گے تو کیا ہو گا، حضرات اس بات کی شکایت کرنا عبث ہے، میرے نزدیک یہ بالکل بد نصیبی کی بات ہے کہ ہم آپ یہ شکایت کیا کریں کہ ہمارے فریق ثانی خواہ ہندو و پارسی ہوں خواہ مجوسی یا کوئی ہوں کیوں ہم کو ترغیب دیتے ہیں، نعوذ باللہ! اسلام سے مرتد ہو جانے کی، کیوں ہندو بنانا چاہتے ہیں، کیوں عیسائی بنانا چاہتے ہیں، مگر دنیا میدان مسابقت اور کشمش ہے، میدان رزم ہے، اس میں آپ کس کو روک سکتے ہیں، فرض کیجئے کہ ایک خاندان کے دو لڑکے ہیں، ان میں آپس میں رشتہ و ارتباط ہے، دونوں گریجویٹ ہیں، ایک عہدہ ڈپٹی کلکٹری کا خالی ہو تو کیا دونوں اس کے حاصل کرنے کی کوشش نہ کریں گے، کیا ایک یہ چاہے گا کہ میں فیل ہو جاؤں، اور میرا بھائی پاس ہو جائے اور نوکر ہو جائے ؟ نہیں بلکہ دونوں برابر درجہ کی قوت صرف کریں گے، اور کوشش کریں گے، اور دونوں حقیقتاً یہ چاہیں گے میرا بھائی کامیاب نہ ہو، اور میں ہو جاؤں، کیا یہ کسی قسم کی بد نفسی ہے، یہ دنیا کی حالت ہے، فطرت انسانی ہے کہ اپنے مقصد کے حاصل کرنے کے لیے جتنی ترکیبیں ممکن ہوں وہ کرے، اس لیے ہمارے مخالف اور ہمارے فریق ثانی بہت کچھ کوشش کر رہے ہیں تو ہم کو یہ اعتراض نہ کرنا چاہیے کہ وہ کیوں کرتے ہیں، ان کی شرارت ہے یا خدانخواستہ ان کی خباثت ہے، یہ نہیں ہے بلکہ ہم کو خود یہ دیکھنا ہے کہ ہم بجائے خود بھی ایسی ہی کوشش کرتے ہیں یا نہیں اگر نہیں کریں گے تو یہ میدان مسابقت ہے اس میں ہم ہار جائیں گے حضرات حالت یہ ہے کہ ہم تو فخر و ناز کرتے ہیں علی گڑھ کالج پر، ہم فخر و ناز کرتے ہیں دیوبند پر، ہم فخر و ناز کرتے ہیں ندوۃ العلماء پر، لیکن میں آپ کے سامنے ایک مختصر سی چیز جس نے کبھی اپنا نقارہ فخر نہیں بجایا ہے، اس کی حالت بیان کرتا ہوں، کیا کوئی ایسی مثال تمام دنیا میں اس وقت موجود ہے، کوئی دکھا سکتا ہے، میں آپ کے سامنے ایک خاص بات پیش کرتا ہوں کہ ہمارے جتنے کام اس وقت تمام ہندوستان میں ہیں، ان سب کے ہم نقارہ نواز ہیں۔ ثنائے خود بخود گفتن نمی زیبد اگر ندوہ ہے تو ہم کو اپنے ندوہ کے متعلق الندوہ میں لکھنا پڑتا ہے کہ یہ ایسی چیز ہے ویسی چیز ہے، رپورٹیں ہیں، رودادیں ہیں اگر علی گڑھ ہے تو اس کی ہر سال یہی نقارہ نوازی کی جاتی ہے، کانفرنسوں کے ذریعہ سے، لوگوں کے ذریعہ سے، مگر وہ لوگ آج بھی ہیں اس دنیا میں، ان کی طرف دیکھنا چاہیے کہ سب کچھ کر رہے ہیں مگر ان کے حالات، ان کی کوششیں، ان کی جدوجہد ان کی زبان سے سننے میں نہیں آتی، بلکہ زمین و آسمان بولتے ہیں، مجھ کو گروکل کا قصہ اس وقت بیان کرنا ہے کہنا پڑتا ہے کہ گروکل کے حالات کسی ہندو کے لکھے ہوئے مجھے نہیں ملے، میں نے گروکل کے حالات اس کے بانیوں سے سنے ہیں نہ تحریروں سے، اور نہ زبانی، بلکہ ان مسلمانوں سے جو وہاں گئے ہیں، ان انگریزوں سے جنہوں نے وہاں جا کر قیام کیا ہے، پانچ پانچ اور چھ چھ دن وہاں رہے ہیں انہوں نے پانیر میں اس پر متعدد آرٹیکل لکھے ہیں ان سے سنے ہیں، اور معلوم کیے ہیں وہ یہ حالات ہیں یہاں تو یہ حالت ہے کہ اگر ہم کسی غریب آدمی کو عربی پڑھوانا چاہیں تو ضرور ہے کہ ہم اس کو وظیفہ دیں، اسکالر شپ دیں، اگر کسی کو ہم انگریزی پڑھوانا چاہیں تو گو ہم اس کی دنیاوی معاش کے لیے بندوبست کر رہے ہیں لیکن ہم کوضرورت ہے کہ ہم اس کو رشوتیں دیں، وظیفہ اور اسکالر شپ دیں، رشوتیں بھی چھوٹی نہیں، دس دس، بیس بیس اور چالیس چالیس روپیہ کی برادران اسلام سوال یہ ہے کہ اگر آپ میں سے کوئی ایسا مدرسہ قائم کرے جس کی میں ابھی اس وقت تشریح کرتا ہوں تو آپ مجھ کو بتائیے کہ تمام ہندوستان میں سے ایک شخص بھی ایسا ہے جو ایسی تعلیم کے لیے مستعد ہو؟ اور ایسے مدرسہ میں جانے کے لیے تیار ہو، یعنی گروکل جو چیز ہے اس نے اپنے مقاصد اپنے اصول اور اپنے رول یہ قرار دئیے ہیں کہ یہ ایک درسگاہ ہم بناتے ہیں، جس میں وہ بچے لیے جائیں گے، جن کی عمر شاید آٹھ برس کی ہو، ایسے بچے اس میں داخل کئے جائیں گے، شرط یہ ہو گی کہ چوبیس برس کی عمر تک وہ گھروں پر جانے نہ پائیں، فقط وہاں تعلیم پائیِ اور وہ کسی مشغلہ میں نہ پڑیں گے 24-25 برس تک کی عمر کا جو زمانہ ہے نوکری کرنے کا، جس کے بعد سرکاری نوکری نہیں ملتی، اس زمانہ کو گویا وہ کھو دیں گے، مقصد یہ ہے کہ وہ ناکارہ ہو جائیں اور سرکاری ملازمت کی ترغیب کا ذرا بھی موقع باقی نہ رہے، ان کو وہاں پر زندگی کیونکر بسر کرنی ہو گی، یوں کہ ایک لکڑی کا تختہ سونے کو ملے گا، پلنگ نہیں، چارپائی نہیں، گدا نہیں، کمبل اوڑھنے کے لیے پاؤں تو ننگے یا کھڑاؤں پہننے کے لیے لے گی، یہ تو ان کی حالت ہو گی، لذا اندا طعمہ جو ہمارے یہاں سب سے بڑی چیز کالج میں بھی اور ہمارے غریب جھونپڑے (یعنی ندوہ) میں بھی رات دن رہتی ہے وہ یہ ہے کہ آج قورمے کا مزا، ذرا اترا ہوا تھا، پلاؤ کا رنگ اچھا نہیں تھا، زعفران کم تھی، طلبہ کی شکایت ہے کہ آج قورمہ میں کساؤ کم تھا مگر سیدھا سادہ بالکل غریبانہ کھانا ان کو دیا جائے گا، مگر یہ کن کے لڑکے ہیں، آپ کو خیال ہو گا کہ سڑک پر پڑے ہوئے بچے چن لیے گئے ہوں گے، ان کو تو اتنا بھی غنیمت ہے، مگر یہ وہ لڑکے ہیں جن کے والدین مصارف کے لیے 25روپے ماہوار دیتے ہیں 25روپے ماہوار فیس ہے ایسی سخت زندگی گزارنے کے لیے ایسی مصیبت سے بسر کرنے کے لیے ان کے والدین پچیس روپے ماہوار اپنے گھر بیٹھے بھیجتے ہیں 300 لڑکے تعلیم پا رہے ہیں، اور ان میں سے ایک بھی ایسا نہیں ہے کہ جو مفلس ہو، جس کو وہ اسکالر شپ دیتے ہوں یا رشوت دے کر پڑھاتے ہوں، پچیس روپے بھی دئیے جائیں اور کمبل اوڑھنے کے لیے فرش خاک سونے کو، کھانے کو ایسی سادی غذا جس پر ہم مسلمان مشکل سے راضی ہوں گے کام ان کا کیا؟ تعلیم وہ کیا پاتے ہیں ان کی تعلیم یہ ہے کہ ایک طرف تو نہایت اعلیٰ درجہ کی سنسکرت اور وید اور ان کے جو علوم دینی ہیں ان کی تکمیل، مگر معاف کیجئے گا، ہم لوگوں کی طرح نہیں کہ اتنے بڑے محقق بنے بیٹھے ہیں، پوچھو کہ حضرت ایک حرف انگریزی بھی پڑھ سکتے ہو، تو جواب ندارد، جب میں ترکی سے واپس آ رہا تھا تو اتفاق سے گھر میں علالت تھی، ایک رات کو 12بجے تار آیا، میں نے اس کو کھولا، دل میں دبدھا پیدا ہوا کہ کیا واقعہ ہے، خدا جانے کیسا تار ہے، خیر میں دوڑا ہوا سرسید مرحوم کے نواسے کے پاس گیا انہوں نے پڑھ کر سنایا یہ تار نواب علی حسن خان صاحب نے بھوپال سے بھیجا ہے، وہ آپ کو ترکی سے بخیر واپس آنے پر مبارک باد دیتے ہیں یہ حال ہم مولوی صاحبان کا ہے، اور ان کو دیکھیے کہ سنسکرت میں تو یہ کمال اور اپنے مذہب کی پوری واقفیت، اس کے ساتھ انگریزی میں نہایت اعلیٰ درجہ کی تعلیم، اس درجہ تک فیلپ جس نے پانیر میں ایک بڑا آرٹیکل لکھا ہے، کہتا ہے کہ میں نے وہاں کے لڑکوں کو جا کے دیکھا کہ انٹرنس کلاس میں جو لڑکے پڑھتے ہیں، وہ انگریزی میں سرکاری کالجوں کے بی اے کی برابری کرتے ہیں، آلات سائنس تمام جمع کئے گئے ہیں، بڑے بڑے لائق اور اعلیٰ درجہ کے پروفیسر ان کو موجودہ علوم و فنون سکھاتے ہیں، اور سائنس کی تعلیم دیتے ہیں، اور اس کے ساتھ ریاضت، محنت، جفاکشی ان کو سکھائی جاتی ہے ان کو دو وقت تالاب میں نہلایا جاتا ہے اور میلوں دوڑایا جاتا ہے، اور ان کو مجاہد بنایا جاتا ہے، کام ان کا کیا ہو گا؟ کام ان کا یہ ہو گا کہ نہ وہ سول سروس میں جگہ تلاش کریں گے، نہ وہ ہائیکورٹ کی ججی کے متوقع ہوں گے، نہ وہ کچہریوں میں جا کے خاک چھانیں گے، نہ وہ بیٹھ کر منبر پر وعظ کریں گے بلکہ ان کا کام یہ ہو گا کہ گلے میں کفنی ڈالے ہوئے ادنیٰ درجہ کے دیہاتوں میں جا کر جہاں زندگی بسر کرنا سخت مشکل ہے وہاں چنے چبا چبا کر بسر کریں گے اور اپنے مذہب کو پھیلائیں گے اور نعوذ باللہ مسلمانوں کو ہندو بنائیں گے یہ ان کا مقصد ہے اس کے اوپر ایک طرف تو ہماری فیلنگ یہ پیدا ہوتی ہے کہ ہماری ترقی ہو، دوسری طرف جب ہم دیکھتے ہیں کہ ایک شخص سر رندرو ناتھ یا مدن موہن مالوی اپنی قوم کے لیے کام کر رہا ہے تو ہم اس کی تحقیر کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ کیوں ایسا کر رہا ہے، اور مسلمانوں کو نقصان پہنچا رہا ہے؟ بلکہ ہم کو داد دینی چاہیے کہ اس کا جو فرض تھا، اپنی قوم کے لیے، اس کو وہ ادا کر رہا ہے اب اس کے مقابلہ میں ہم کو کیا کرنا چاہیے؟ ان کی (ہندوؤں کی) تو مختلف شاخیں قائم ہو چکی ہیں۔ مختلف شدھی سبھا ہیں قائم ہو چکی ہیں، کیفیت یہ ہے کہ میں نے ابھی کسی اخبار میں یہ اشتہار جو چھپوایا ہے، نہیں بھیجا ہے لیکن باایں ہمہ مسلم گزٹ نے اس کے پروف کو غلطی سے چھاپ دیا ہے اس کا یہ اثر ہوا کہ فوراً آریہ مسافر میں اور پرکاش میں اپیل کی گئی کہ اوہو مسلمان غضب ڈھائے دیتے ہیں، ہماری شدھی کو روکے دیتے ہیں، ہم جو نو مسلموں کو شدھ کرنا چاہتے ہیں، اس کو روکے دیتے ہیں، لہٰذا ہم کو فوراً قوت کے ساتھ آمادہ ہو جانا چاہیے اور اس مہینہ میں ہم کو دس ہزار روپیہ جمع کر دینا چاہیے جہاں ایک واعظ مسلمانوں کا جائے وہاں ہم کو دو بھیجنا چاہئیں یہ اعلان چار اخباروں میں جو یہاں آتے ہیں آریہ مسافر، ارجن، پرکاش اور لیڈر میں میں نے دیکھا تھا، یہاں تو کچھ بھی نہیں ہوا، اور وہاں یہ تیاریاں ہو گئی ہیں اس کی ایک شاخ فرخ آباد میں قائم ہوئی ہے، مجھ سے خود وہاں کے ایک تحصیلدار نے بیان کیا تھا کہ میں نے اپنی آنکھ سے دیکھا کہ وہاں کے نصاب تعلیم میں قرآن مجید کی تفسیر حسینی داخل ہے، کیا کسی نیک نیتی سے کیا اس لیے کہ قرآن مجید سے کوئی فائدہ حاصل کریں ، کیا اس لیے کہ ہدایت لینا چاہئے، کیا مقصد تفسیر حسینی کے رکھنے سے؟ مگر اس کے مقابلہ میں مسلمانوں میں کیا ہے؟ پورا سناٹا، پورا سناٹا اگر مقابلہ کیا جاتا ہے تو اس طرح سے کہ توپ کے مقابلہ میں مکھیاں یا اگر مقابلہ کے لیے آمادہ ہوتے ہیں تو ایسی صورت سے اور ایسی بے ترتیبی سے کہ کچھ بھی اثر نہیں ہوتا، آج ہندوستان میں پانچ یا سات کروڑ مسلمان ہیں مگر ان میں سے اہل عجم یا اہل عرب بہت کم ہیں، زیادہ تر وہ لوگ ہیں جو یہاں کے لوگ تھے اور وہ مسلمان ہو گئے، یا کئے گئے جیسا کہ لوگ کہتے ہیں کہ جبراً وہ مسلمان کئے گئے خیر یہ ایک تاریخی مسئلہ ہے لیکن جہاںتک میں نے تحقیق کی ہے، کوئی شخص یہاں تک کہ ایک متنفس بھی جبراً مسلمان نہیں کیاگیا، سخت جاہل ہے جس کا یہ دعویٰ ہے کہ لوگ جبراً مسلمان کئے گئے عالمگیر سے زیادہ لوگ کس کو متعصب کہہ سکتے ہیں مگر عالمگیر کے متعلق خود انفنسٹن نے یہ لکھا ہے کہ عالمگیر نے جتنا بھی ظلم کیا ہو مگر یہ مطلقاً ثابت نہیں ہے کہ تمام عمر میں ایک ہندو کو بھی جبراً مسلمان کیا ہو۔ واقعات اور حالات ایسے تھے، آج آپ اس زمانہ میں خیال فرمائیں کہ ہماری گورنمنٹ انگریزی میں کس قدر ٹالریشن اور کس قدر بے تعصبی ہے کس قدر ہماری مذہبی فیلنگ کا خیال کرتی ہے جس طرح ایک مسلمان پادری ہو کر اسلام کے خلاف کہہ سکتا ہے، اسی طرح اس سے زیادہ سختی کے ساتھ ایک مسلمان پادری پر اعتراض کر سکتا ہے، لیکن گورنمنٹ کبھی دخل نہیں دیتی، باوجود اس چشم پوشی اور باوجود فیاض دلی کے کیا نتیجہ ہے، کہ اس وقت 30لاکھ آدمی عیسائی ہو گئے جو مسلمان تھے یا ہندو تھے، کیا یہ جبراً عیسائء بنائے گئے ہیں؟ یورپ کا اور انگریزی خوانوں کا مذاق یہ ہے کہ جہاں دو واقعات کو انہوں نے ساتھ دیکھایہ منطق کی غلطی کرتے ہیں ایک کو علت اور دوسرے کو معلول قرار دیتے ہیں، انہوں نے دیکھا کہ مسلمان ہندوستان میں آئے، یہ ایک بات، ہندو بہت سے مسلمان ہو گئے، یہ دوسری بات، اب انہوں نے ایک کو علت اور دوسرے کو معلول قرار دے لیا اور یہ نتیجہ نکالا کہ مسلمانوں نے جبراً ہندوؤں کو مسلمان کیا، لیکن اگر یہ دلیل صحیح ہے، تو کہنا چاہیے کہ خدانخواستہ انگریزی گورنمنٹ نے بھی لوگوں کو جبراً عیسائی بنایا، لیکن حضرات اگر انگریزوں نے لوگوں کو جبراً عیسائی نہیں بنایا ہے تو غیروں کو کیا حق ہے کہ وہ کہیں کہ ہندو جبراً مسلمان بنائے گئے یہ ایک واقعہ ہے کہ جب حضرت معین الدین چشتی اجمیر شریف میں تشریف لائے تو راجپوتانہ بھر میں کہیں اسلامی سلطنت نہ تھی، کون جبر کرنے والا تھا، خواجہ صاحب کوئی تلوار نہیں رکھتے تھے کوئی لاؤ لشکر نہیں رکھتے تھے، ایک فقیر مسکین گوشہ نشین، وہ آ کر زمین میں پہاڑ کی کھو میں بیٹھ گیا، اور راجپوتانہ بھر کو روشن کر دیا (چیرز آج کیا حالت ہیں، میں اجمیر گیا ہوں آج اتنا تعصب اور اتنی منافرت ہندو مسلمانوں میں پیدا ہو گئی ہے ) مگر با ایں ہمہ میں نے سنا ہے کہ ایک ہندو جب آتا ہے تو پہلے جناب خواجہ معین الدین چشتی کے مقبرہ کا درشن کرتا ہے اس کے بعد اپنے شوالہ میں جاتا ہے ان لوگوں نے اسلام پھیلایا تھا آج ہزاروں، لاکھوں ہندوؤں کو ہم دیکھتے ہیں کہ ان کے مزار پر جاتے ہیں اور سجدہ کرتے ہیں جس کو ہم بھی جائز نہیں رکھتے، وہ اتنا اعتقاد اور محبت رکھتے ہیں، کیا اس پر بھی آپ یقین کر سکتے ہیں کہ اسلام جبراً پھیلایا گیا، انہوں نے اسلام کا ایسا نمونہ دکھلایا کہ دل ان کی طرف کھینچا جاتا ہے۔ جیسا کہ جناب صدر نے کل فرمایا تھا کیا نکتہ نفیس فرمایا تھا، میں برابر تاریخیں دیکھتا رہا ہمیشہ حالات پڑھتا رہا کبھی اس نکتہ کی طرف میری نظر بھی نہیں پڑی تھی، جیسا کہ صدر محترم نے فرمایا آپ نے فرمایا کہ صحابہ کرامؓ جب ایران میں گئے تو زبان سے بالکل نا آشنا تھے کوئی صاحب یہ نہیں کہہ سکتے تھے کہ وہاں فارسی زبان میں تقریریں کرتے تھے یا شام میں تو بالکل گونگے تھے وہاں کی زبان کے لحاظ سے مترجم کے ذریعہ بولتے تھے زبان کی ضرورت نہ تھی، ان کا جسم ، ان کی صورت، ان کے عادات، ان کے اخلاق، ان کے حالات، یہ چیزیں تھیں جو لوگوں کو موہے لیتی تھیں، اور لوگ مسلمان ہوتے جاتے تھے۔ ایک واقعہ یہ پیش آیا کہ سفیر روم آیا صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے مجمع میں پیغام لے کر جنگ کا، یہ واقعات ہیں، وہ شام کو وہاں آ کر ٹھہرا اور رات کا بڑا حصہ اس نے وہاں بسر کیا، دیکھتا ہے کہ ایک عجیب محویت طاری ہے، عجب لوگ ہیں، جن کے چہرے سے، جن کے ہاتھوں سے، جن کے نور سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ زمین منور ہوئی جاتی ہے، جہاں دیکھتا ہے، خاکساری پاتا ہے، پوچھتا ہے کہ امیر المومنین کہاں ہیں، رئیس عسا کر کہاں ہے؟ لوگ کہتے ہیں کہ کہیں زمین پر بیٹھا ہو گا ایک غریب آدمی فرش خاک پر بیٹھا ہوا ہے۔ نہ کوئی تعظیم ہے نہ تکریم، اس رنگ کو دیکھ کر اس کا یہ عالم ہوا کہ اس نے کہا کہ حضرت میں تو اب واپس نہیں جاؤں گا، یہیں رہوں گا انہوں نے کہا کہ یہ نقص عہد ہو گا، سفیر جب کہیں جایا کرتا ہے تو یہ بات بھی داخل عہد سمجھی جاتی ہے کہ وہ اسی طرح سے بخیر و عافیت واپس بھیج دیا جائے تاکہ یہ شکایت نہ ہو کہ وہ جبراً روک لیا گیا، اس واسطے اگر اسلام لاتے بھی ہو تو ایک دفعہ جاؤ اور پھر واپس آؤ، ان چیزوں نے مسلمان بنا دیا تمام دنیا کو، یہ چیز تھی مسلمان بنانے والی حضرت عمرو بن العاصؓ اسکندریہ کو فتح کرتے ہیں، مصر و قاہرہ فتح ہو جانے کے بعد حضرت عیسیٰ کا ایک اسٹیچو یا بت بنا ہوا تھا، اتفاقاً ایک تیر کسی نے مارا، وہ آنکھ میں لگ گیا، اس تصویر کی آنکھ پھوٹ گئی، اس واقعہ کو مسلمان تو الگ خود مصر و یورپ کے ایک مورخ نے جو عیسائی اور بشپ تھا، اس نے لکھا میں نے اس کی کتاب میں جو آکسفورڈ میں چھپی ہے خود دیکھاہے پروفیسر یقاق نے لکھا ہے کہ لوگوں نے جا کر عمرو بن العاصؓ سے شکایت کی کہ آپ کے ایک شخص نے ہمارے بزرگ کی تصویر کو توڑ ڈالا اور بے حرمتی کی، آپ نے واقعہ پوچھا، اس نے بیان کیا، تب آپ نے پوچھاکہ معاوضہ کیا چاہتے ہو، اس کا کیا کفارہ ہے، انہوں نے کہا ہم بھی جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم تمہارا نبی ہے اس کا ایک بت بنا کر اس کی آنکھ پھوڑ دینا چاہتے ہیں، آپ نے فرمایا کہ اس سے تو کچھ حاصل نہیں، ہم لوگ تو تصویر کی تعظیم نہیں کرتے، تصویر بنانا تو ہمارے نزدیک قابل تعظیم نہیں، کیا تم اس بات پر راضی ہو سکتے ہو کہ ہم میں سے جس شخص کو چاہو اس کی ایک آنکھ پھوڑ دو انہوں نے کہا کہ ہم آمادہ ہیں لیکن عیسیٰ ہمارا خدا ہے، سب سے بڑا شخص تھا، اس واسطے ہمارا ایک فوجی ادنیٰ درجہ کے شخص کے ساتھ یہ برتاؤ کرنا پورا انتقام نہیں ہے، اگر تمہارا رئیس عسکر یعنی سپہ سالار فوج اس بات پر آمادہ ہو تو البتہ ہم راضی ہو سکتے ہیں حضرت عمرو بن العاصؓ نے پوچھا کون آنکھ اس کی پھوٹی تھی؟ اس کے بعد تلوار لی اور اپنی آنکھ پیش کی، اور کہا کہ اس کو نکال لو، تلوار اس کے ہاتھ سے چھوٹ گئی، اور ا سنے کہا کہ حیف ہے تم لوگوں سے مقابلہ کرنا، غرض کہ ان باتوں نے مسلمان بنا دیا، بہر حال جو لوگ کہ برکات اولیاء سے اور حضرات صوفیہ کرام کی روشنی کے اثر سے مسلمان ہوئے تھے آج ان کی کیا حالت ہے؟ ہم نے جو تحقیقاتیں کی ہیں، ہم نے جو رپورٹیں حاصل کی ہیں، ہمارے پاس ایک پشتارہ ہے نہایت کثیر خطوط کا، جس میں سے چند نام ا س اشتہار میں شائع کر دئیے ہیں ان سے معلوم ہوا کہ وہاں کے نو مسلموں کی کیا حالت ہے، ان کے نام تو ہیں لچھمن سنگھ، دیال سنگھ، اگر ان سے پوچھا جائے کہ تم جانتے ہو کہ خدا ہے کوئی؟ر سول خدا کا کوئی شخص گزرا ہے؟ نہیں معلوم صحابہ کرام کوئی چیز، نہیں معلوم، نماز روزہ کبھی سنا ہے نہیں، کسی گاؤں میں مسجد ہے، مگر اس مسجد کو گوبر سے لیپتے ہیں بعض مسجدوں میں بت رکھے ہوئے ہیں جن کو وہ جا کر پوجتے ہیں یہ حالت ہے، اگر کسی کو شک ہو تو جا کر دیکھ آئے، یہ کس کا قصور ہے ان کا یا ہمارا، ہم مسلمانوں کا، ہم واعظین کا، ہم وعات کا، حضرات یہ بے شبہہ نہایت آسان بات ہے کہ ہم وعظ کہنے کے لیے ایسے مقامات پر جائیں کہ جہاں ہم آرام و آسائش سے کھا سکتے ہیں پی سکتے ہیں، ہماری دعوت ہو سکتی ہے ہمارا کھانا جو ہم گھر میں کھاتے ہیں وہ کم از کم ہم کو وہاں ضرور مل سکتا ہے، مگر ان مقامات میں جانے کی ضرورت ہی نہیں، ان مقامات میں جانا تو گفتن دعائے زلف تو تحصیل حاصل است جانا تو وہاں ہے جو قصبات اور شہروں سے پندرہ پندرہ بیس بیس میل پر مقامات ہیں، جہاں خود ہمارے ندوہ کا ایک طالب علم عبدالودود گیا ہے، اس نے خود بیان کیا ہے کہ میں تین وقت وہاں رہا ہوں کوئی چیز کھانے کو نہیں ملی وہاں نہ کوئی دکان تھی نہ بازار تین وقت متصل فاقہ کرنا پڑا، کسی نے مجھے روٹی نہیں دی چوتھے وقت شہر میں آ رک میں نے کھانا کھایا، اسی جگہ جانے والا تلاش کرنا چاہیے وہاں جانے کے لیے لوگ تیار نہیں ہیں، خطوط جو میرے پاس آتے ہیں، آپ ان کو پڑھیے اس میں یہ ہے کہ شہروں میں تو آپ واعظ بھیجتے ہیں شہروں میں آپ مناظرہ کرتے ہیں آپ ان مقامات میں علاج کرتے ہیں جہاں مریض ہی نہیں جہاں بیماری ہے موت ہے، وہاں کیا ہو رہا ہے۔ حضرات میرے اوپر ابتداء سے اس اثر کی یوں ہے کہ دو سال ہوئے کہ شاہجہاں پور سے ایک خط میرے پاس سفید خان سوداگر کا آیا تھا کہ شاہجہان پور سے آٹھ کوس پر ایک گاؤں ہے جمال پور، وہاں کے رئیس راجپوت جو مسلمان ہیں وہ ہندو ہونا چاہتے ہیں آپ جلد آئیے اور مدد کیجئے، انہوں نے اس کے ساتھ ہی دہلی کی انجمن حمایت الاسلام کے مولانا عبدالحق حقانی کو لکھا تھا، وہاں سے دو واعظ تشریف لائے تھے اور میں ندوہ سے گیا جس وقت میں یہاں سے چلا ہوں، میری جو حالت تھی، نہایت سخت، یہ طلبہ ندوہ کے جو یہاں بیٹھے ہیں وہ اس کے شاہد ہوں گے کہ میں نے اس وقت کوئی گالی، کوئی سب و شتم نہیں اٹھا رکھی تھی، جو میں نے ان ندوہ والوں کو نہ سنائی ہو گی کہ اے بے حیاؤ، اور اے کم بختو ! ڈوب مرو یہ واقعات پیش آئے ہیں ندوہ کو آگ لگا دو اور علی گڑھ کو بھی پھونک دو، یہی الفاظ میں نے اس وقت کہے تھے جو آج کہتا ہوں اس وقت نہایت افسوس میں میں یہاں سے گیا تھا، وہاں جا کر میں نے پوچھا کہ کیا واقعہ ہے؟ لوگوں نے یہ بیان کیا کہ آریہ اس گاؤں میں آئے ہوئے ہیں، ان کو ہندو بنانا چاہتے ہیں، مسلمان علماء کو بلوایا ہے، جمال پور سے ایک کوس پر خیمہ کھڑا کیا گیا ہے، تین سو روپیہ کھانے میں صرف ہوئے ہیں، چندہ وغیرہ کیا گیا ہے وہ مسلم بے چارے یہ کہتے تھے کہ مناظرہ ہم جانتے نہیں، پڑھے لکھے نہیں، آپ ہمارے اس گاؤں میں آئیے اور یہاں آ کر ہم کو سمجھائیے جو باتیں ہمارے دل میں ہوں گی ہم آپ سے کہیں گے ان کا جواب دیجئے، پھر جو کچھ بھی ہو یہ واقعہ ہے اس میں ذرا بھی غلط نہیں کہتا ہوں، اس کے شاہد سید وزیر حسن صاحب وکیل شاہجہاں پور ہیں وہ اس کی گواہی دے سکتے ہیں اس پر ایک شخص راجی نہ ہوا کہ گاؤں میں جائے، اس بات کا کوئی ڈر نہیں تھا کہ وہ لوگ خدانخواستہ فوجداری کریں گے یا ماریں گے، کیونکہ پولیس اور تحصیلدار وہاں موجود تھے کہ امن و امان قائم رہے۔ میں نے بالآخر یہ کہا کہ بھائیو! مجھے تو پالکی میں ڈال کر وہاں لے چلو، میں چلتا ہوں لیکن کوئی شخص نہیں لے گیا، غرض تین دن تک میں پڑا رہا بالآخر ان لوگوں نے اعلان کر دیا کہ ہم ہندو ہیں۔ کیا یہ واقعات آپ کے کانوں میں پڑتے ہیں، اگر نہیں پڑتے تو آپ کی بخیری کی داد دینی چاہیے اور اگر پڑتے ہیں تو آپ کا دل جل نہیں جاتا، پھک نہیں جاتا، کڑھ نہیں جاتا، اس سے زیادہ کیا بے حمیتی ہو گی؟ کیا یہ باتیں ایسی ہیں کہ جس سے چشم پوشی کی جائے لیکن اصل میں غور یہ کرنا ہے کہ جب انسان کسی مشکل میں گرفتار ہو جائے تو اس کو کیا کرنا چاہیے؟ یہ نہیں ہے کہ مسلمانوں کو احساس نہیں ہوتا خدا کے فضل سے اب بھی اولاً مسلمانوں میں علماء و فضلا ہیں، جو جا بجا جاتے ہیں دوسرے انجمنیں قائم ہو گئی ہیں مثلاً انجمن تبلیغ الاسلام، اور انجمن حمایت الاسلام دہلی اور انجمنیں ہیں، واعظ ہیں، مگر ایک بات مجھے یہ کہنا ہے جس کے لیے میں نے یہ اشتہار دیا تھا، اور آپ صاحبان سے خواہش کی تھی کہ ندوہ میں آئیے مجھے آپ سے مشورہ کرنا ہے اور باتیں پوچھنا ہے بعض صاحبان نے اس میں بہت دلچسپی لی ہے مثلاً مولوی علی احمد صاحب آگرہ۔ غور یہ کرنا ہے کہ آیا یہ تدبیریں کافی ہیں یا نہیں، اور یہ پراگندہ کوششیں حقیقت میں قوت بخش ہیں یا نہیں؟ جو تدابیر اس وقت اختیار کی گئی ہیں، ان کو اب غور سے سنئے، آپ کا کھانا کھانے کا وقت آتا جاتا ہے، خیر کچھ پروا نہیں آپ کو زحمت ہوتی ہے، اس کو تھوڑی دیر کے لیے برداشت کر لیجئے یہ مسئلہ حیات و ممات اسلام کا ہے، فقط اس وقت ہی نہیں بلکہ گھروں میں جائیے اور ان تدبیروں کا جو یہاں پیش کی جائیں ان کا لحاظ کیجئے اور سوچئے کہ اب کیا کرنا ہے ایک مرتبہ صحیح خاکہ بن جانا ہے تمام ملک میں اس کے لیے دورہ کرنا ہے، ایک تدبیر تو یہ کی گئی کہ علماء واعظین رکھے گئے اور شہروں میں بھیجے گئے اور انہوں نے مناظرے کئے، ایک لحاظ سے یہ تدبیر بہت مفید ہے، وجہ اس کی یہ ہے کہ ان کے حملے ہر پہلو سے ہیں، ایک پہلوان کا یہ ہے کہ قرآن مجید پر اعتراج اور مسائل اسلام پر اعتراض، قرآن شریف کے احکام پر اعتراض، شہروں میں جو بڑی بڑی انجمنیں قائم ہیں اور مناظرے ہوتے ہیں، ان کے لیے اکثر ایسے لوگ ہیں جیسے مولوی ثناء اللہ صاحب امرت سری اور اور لوگ ہیں جنہوں نے اس میں خاص مہارت پیدا کی ہے وہ جاتے ہیں اور مناظرے کرتے ہیں، یہ تدبیر ایک حد تک مفید ہے اور ایک حد تک کام کر رہی ہے لیکن وہ جو سوال ہے ان دیہات میں جانے کا، اور وہاں کام کرنے کا، اس کے متعلق میں نے جتنی رپورٹیں پڑھی تھیں وہ یہ ہیں کہ یا تو وہ ان ہی مقامات پر گئے ہیں جہاں کھانا آسانی سے مل سکتا ہے، یا کسی ایسے مقام پر گزر ہو گیا جہاں زیادہ مشکلات و دشواریاں تھیں انہوں نے جو خانہ پری کی ہے میں نے اس کو پڑھا تو معلوم ہوا کہ کسی جگہ ایسے گاؤں میں دس دن بھی کام نہیں کیا، کیونکہ ان تکلیفوں کے برداشت کرنے کے عادی نہیں ہیں آپ لوگوں نے جو ہم لوگوں پر نوازشیں کیں اب وہ ہمارے لیے ظلم ہو گئیں آپ نے ہمارے علماء کی اب تک جو خاطر داریاں کی ہیں پالا پوسا ہے اور تربیت دی ہے اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جب تک نرم گدے نہ ہوں، پلنگ و چارپائی نہ ہوں اس وقت تک ہم سے رہا نہیں جاتا، اسی وجہ سے دیہاتوں میں جانا سخت مشکل ہے، اب صرف دو تدبیریں نظر آتی ہیں ایک یہ کہ ایسے دیہات میں نو مسلموں کے لیے مسلمانوں کے لیے چھوٹے چھوٹے مکاتب قائم کئے جائیں6,7,8 گاؤں کا ایک حلقہ قرار دے کر ایک صدر مقام ہو جہاں سے آدھ آدھ کوس کے فاصلے پر دیہات ہوں وہاں ایک مکتب ہو جس میں نہ آپ کا یہ فلسفہ یونانی اور نہ انگریزی کا ایک لفظ ہو، بلکہ صرف قرآن شریف کا متن اور اردو اتنی کہ جس سے محض مسائل عبادت نماز، روزہ اور وہ بھی نہایت آسان آسان، مشکل اور دشوار مسائل فقہ بھی نہیں، یہ ان کو پڑھائے جائیں، بلکہ میں زور کے ساتھ اس بات کو کہتا ہوں، چاہے حامیان اردو بگڑیں یا بنیں، مگر ہم کو ناگری میں ان رسالوں کو شائع کرنا چاہیے وجہ ا س کی کیا ہے؟ ہم دیکھتے ہیں کہ ایک شخص مزدور اگر اردو پڑھنے بیٹھے تو اس کے چار برس صرف ہو جاتے ہیں بے چارہ کب تک پڑھے گا، لیکن ہندی کے لیے کیا مشکل ہے اگر یہ ایک حرف بھی روز سیکھے تو اٹھائیس تیس دن میں سیکھ لے گا، کیوں کہ اس میں مفرد حروف ہیں اگر سورہ قرآن شریف کے علاوہ جو اپنی عبارت میں مخصوص ہے، بقیہ مسئلہ مسائل کو ہم ناگری میں کر دیں تو اس میں کیا دشواری ہے کوئی ہرج نہیں، آپ جانتے ہیں کہ چین میں دو کروڑ مسلمان ہیں، ان کی تصنیفات چینی زبان میں ہیں، قرآن شریف کا ترجمہ تک زبان میں ہے یا تو اس قسم کے مکاتب جا بجا قائم کئے جائیں یا دوسری یہ تدبیر ہے کہ ایسے لوگ جو بڑے عالم نہ ہوں جو فارغ التحصیل نہ ہوں، جو بہت جید طالب علم نہ ہوں اس واسطے کہ اگر ایسے ہوں گے تو پانچ دس روپیہ میں وہ آپ کا کام نہیں کر سکتے، ان کی شان کے بھی خلاف ہے، بلکہ ایسے معمولی خواندہ آدمی ہوں کہ جو اردو فارسی معمولی پڑھ لیتے ہوں، ان کو ٹریننگ کے طور پر ندوہ میں یا مدرسہ الہیات کان پور میں سال بھر مزید تعلیم، وظیفے دے کر دلائی جائے، اس کے بعد دس دس بارہ بارہ روپیہ تنخواہیں مقرر کر کے ان کو دیہات میں بھیجا جائے، کہ دو دو تین تین مہینے قیام کریں اور وعظ کہیں، اور سمجھائیں مل جل کر نصیحت کریں اور زبانی باتوں میں تعلیم دیں، جب ایک گاؤں درست ہو جائے گا تو دوسرے گاؤں پر اثر ہو گا۔ یہ کام تدریج کا ہے صحیح خیالات اور تدبیروں سے کام کیجئے، ہزار نشانے مارئے اگر تیر نشانہ پر نہیں پڑتا تو سارا زور آپ کا بیکار جاتا ہے، ساری تیر اندازی فضول جاتی ہے۔ اگر آپ راستہ چلتے ہیں اور سیدھے راستہ پر پڑ گئے تو چاہے آپ چیونٹی کی بھی چال چلیں گے تو توقع ہے کہ ایک دن آپ منزل مقصود پر پہنچ جائیں گے لیکن اگر ریل کی چال چلتے ہیں اور الٹے چلتے ہیں تو آپ کی تمام کوششیں قومی اور ملکی خواہ کیسی ہی زور کے ساتھ ہوں حقیقت میں اگر وہ راستہ سے ہٹی ہوئی ہیں تو آپ منزل مقصود تک نہیں پہنچ سکتے۔ اب میں اس کے متعلق اس وقت آپ سے کچھ بھی تحریک نہیں کرتا، مگر میں کہتا ہوں کہ جتنے بزرگ یہاں بیٹھے ہوئے ہیں ان کو اپنی اپنی جگہوں پر جا کر ان باتوں پر غور کرنا چاہیے سوچنا چاہیے ہر شہر میں اس کے متعلق کمیٹیاں کرنا چاہیے شہر کے لوگوں کو ایسے کم درجہ کے واعظین اور مدرسین تلاش کرنا چاہیے۔ حضرات! میں کہہ سکتا ہوں کہ گو میں ندوۃ العلماء کا فدائی ہوں مگر اس کام کے لیے کاش میرے ایک پاؤں کے سوا تمام جسم بھی کام آ سکتا تو میں اور زیادہ مشکور ہوتا، کیونکہ میں سب سے زیادہ اس تحریک کو مقدم سمجھتا ہوں، اس میں کچھ چندہ جمع کرنا نہیں ہے بلکہ ایثار نفس والے آدمی پیدا کئے جائیں جہاں تک ہو سکے عملی آدمی پیدا کئے جائیں، شاید ایسا وقت آئے گا کہ ایسے لوگ پید اہو جائیں گے جو ماہوار کچھ رقم چار آنہ آٹھ آنہ ایک روپیہ خاص اس کام کے لیے مقرر کر دیں آپ کو معلوم ہے کہ میں نے کوئی نوٹس چندہ کا نہیں دیا، لیکن محض ایک ذرا سا نوٹس دینے سے کہاں کہاں نو مسلم پائے جاتے ہیں لوگوں نے میرے پاس خطوط بھیجنے شروع کر دئیے کسی نے لکھا کہ ایک روپیہ ماہوار میرا لکھ لیجئے (ایک صاحب ے ایک روپیہ پیش کیا بطور چندہ کے) میں جوش کا فوری اندازہ نہیں کیا کرتا، چندے دو قسم کے ہوتے ہیں ایک فوری جیسے کہ ندوہ کی عمارت کے لیے آج صبح دیا جا چکا ہے، اس کو ہم نہایت غنیمت سمجھیں گے اس وقت فوری جوش کی ضرورت ہوتی ہے، اس کے بعد اگر آپ کا جوش ٹھنڈا ہو جائے تو کچھ پروا نہیں، لیکن ایک وہ ضرورتیں ہوتی ہیں جو مستمر ہیں پائیدار ہیں ان کے لیے کوئی ٹیکس ہونا چاہیے آپ کے قلب پر اور دل پر ثبت ہونا چاہیے کہ وہ ٹیکس ہے اس وقت میں دیکھتا ہوں کہ اتنے صاحب یہاں جو تشریف فرما ہیں، پانچ چھ سو آدمی ہوں گے اگر یہاں سے جانے کے بعد جو کچھ بھی تجویز ہو اس کے متعلق مجھے خط لکھیں، کسی قسم کی رائے مجھے اس کے متعلق دیں، کوئی تدبیر بتلائیں، کمیٹی قائم کریں، اور مجھ کو اطلاع دیں، مجھ کو خود وہاں بلائیں، خود ایک روپیہ ماہوار کے لیے مجھے وہاں سے خط لکھیں اور اپنے دوستوں کو اس کے لیے آمادہ کریں تب میں سمجھوں گا کہ آپ کے قلب پر صحیح اثر ہوا ہے، اس سے ہم کو کام لینا ہے یہ ہے دلی جوش ورنہ سخن سازی سے کوئی نتیجہ نہیں۔ ٭٭٭٭٭٭٭٭ تحفظ مذہب (اجلاس ندوۃ العلماء 1912ئ) ندانم ایں کہ سر رشتہ در کجا بندست کہ آہ من بکشیدن نمی شود ااکڑ حضرات! میں اس موضوع پر کچھ کہنے کے لیے صرف آج ہی نہیں کھڑا ہوا ہوں بلکہ کہنے کو کئی بار کہہ چکا ہوں لیکن یا تو لوگوں کے پہلو میں دل نہیں تھا یا میری زبان میں اثر نہیں، اس لیے مجھے غالب کا یہ شعر پڑھنا پڑتا ہے۔ یا رب نہ وہ سمجھے ہیں نہ سمجھیں گے مری بات دے اور دل ان کو جو نہ دے مجھ کو زباں اور حضرات! مسئلہ اولین یہ ہے بلکہ مقدم مسئلہ یہ ہے کہ آپ اتنے دور دراز مقامات سے جو بلائے گئے ہیں اور آپ کو جو یہ تکلیف دی گئی ہے آیا کسی ضروری کام کے لیے، یا جس طرح ایک شخص کے گھر پر تقریر ہوتی ہے، اور وہ اپنے احباب اور دوستوں کو بلاتا ہے، اور لوگ اس کی خاطر سے چلے آتے ہیں، اس حیثیت سے آپ تشریف لائے ہیں۔ حضرات اس وقت قوم کو اتنی ضرورتیں پیش ہیں، اور اس قدر مختلف مصائب میں وہ گرفتار ہے کہ اگر وہ اپنا وقت، اپنا مال، اپنا روپیہ اسی طرح سے ہر ایک کام پر ضائع کیا کرے تو وہ بالکل برباد ہو جائے گی، کیونکہ اس میں اتنی قابلیت نہیں ہے کہ وہ اتنے مصارف کثیر کے لیے روپیہ لائے، نہ اس کا وقت اتنا ارزاں ہے کہ جسے وہ یوں ضائع کرے، ہمارے ایک شاعر نے کہا ہے فکر معاش، ذکر بتاں، یاد رفتگاں دو دن کی زندگی میں بھلا کیا کرے کوئی اس لئے سب سے پہلے ہمارے حاضرین کا یہ کام ہونا چاہیے کہ وہ ہم سے مطالبہ کریں کہ تم جو اتراتے ہو، اور تم دنیا کے لوگوں کے سامنے اعلان کرتے ہو کہ ندوہ ایک ضروری شے ہے ندوہ حقیقت میں ایک ضروری شے ہے بھی یا نہیں؟ اب حضرات! اس بات کا زمانہ نہیں رہا کہ لیڈر لوگ آپ کو احمق بنا لیں اور جو کچھ وہ کہہ دیں آپ اس کو تسلیم کر لیا کریں، وہ پہلا زمانہ اب نہیں رہا ہے، جب چند سر بر آوردگان قوم (خواہ کسی حیثیت سے وہ ممتاز ہو گئے ہوں) علانیہ تمام لوگوں سے کہتے تھے کہ آؤ آؤ یہ ایک بہت ضروری چیز ہے۔ اور غریب آنکھیں بند کئے ہوئے ان کے پیچھے پیچھے چلے آتے تھے اب زمانہ یہ ہے کہ قوم کے افراد اور عام پبلک خود اس بات کا تصفیہ کریں کہ ہم سے ہمارے لیڈر کیا کہتے ہیں، اور وہ ہمیں کس راستہ پر لیے جاتے ہیں، عمر فاروقؓ کے زمانہ سے بہتر کون سا زمانہ ہو سکتا ہے جب کہ انہوں نے ایک موقع پر کہا کہ ا گر میں تم کو خلاف شریعت حکم دوں تو تم میرا کیا کر لو گے؟ تو ایک بدو نے کھڑے ہو کر کہا کہ میں تجھے اس تلوار سے سیدھا کر دوں گا، حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ الحمدللہ ابھی ہم میں ایسے لوگ موجود ہیں جو عمرؓ کو سیدھا کر دیں گے، پھر کوئی وجہ نہیں کہ آپ خود اس بات کا فیصلہ نہ کریں، آپ کو خود فیصلہ کرنا چاہیے کہ ندوہ حقیقت میں ضروری شے ہے یا نہیں ہے اگر نہیں ہے تو یہاں اتنے احباب ہیں اتنے بزرگ ہیں، اتنے اہل رائے ہیں، آپ کو قطعی فیصلہ کرنا چاہیے حقیقت میں اس سے زیادہ افسوسناک اور کوئی بات نہیں ہم کو مسلم لیگ کا کام ہے ہم کو یونیورسٹی کا کام ہے ہم کو علی گڑھ کالج کا کام ہے، اور ہم کو پچاسوں کام ہیں اس لیے سب سے پہلے زیادہ مقدم کام یہ ہے کہ آپ ٹھنڈے دل سے نہایت صحیح منطق سے اور نہایت صحیح فلسفہ سے اور نہایت صحیح فیلنگ سے اس بات کا فیصلہ کریں کہ ندوہ حقیقت میں کوئی چیز قوم کے لیے ضروری ہے یا نہیں اگر نہیں ہے تو صاف علیحدہ ہو جانا چاہیے کسی کی پرواہ نہیں کرنا چاہیے کسی کا اجارہ نہیں ہے کوئی دوستانہ رشتہ نہیں ہے یہ قومی معاملہ ہے اور اگر حقیقت میں ضروری چیز ہے تو زیادہ توجہ اور زیادہ لطافت کے ساتھ آپ کا عمل ہونا چاہیے، نہ اس طرح کہ آپ بذریعہ دعوت اور با صرار اور بجر بلائے جائیں، اس فیصلہ کے لیے کہ ندوہ کوئی ضروری شے ہے یا نہیں، سب سے پہلے ہم کو یہ فیصلہ کرنا چاہیے کہ ہماری تمام نوعیت کا ہماری تمام ضرورتوں کا ہماری تمام زندگی کا اور ہمارے تمام خیالات کا محور اصلی کیا ہے کیا یہ محور ہے کہ جس کے گرد ہم گردش کر رہے ہیں؟ جب تک ایک مرکز یا مقصد نہ قائم کر لیا جائے کسی چیز کے ضروری یا غیر ضروری ہونے کا فیصلہ نہیں ہو سکتا ہے، ہر ایک قوم نے دنیا میں اپنا ایک محور قرار دیا ہے، اس کے گرد دورہ کرتے ہیں ایک نظام شمسی افعال میں بھی جاری ہے جس طرح نظام شمسی میں آفتاب ہے کہ اس کے گرد تمام سیارے حرکت کرتے ہیں اور اس کی طرف جذب ہوتے رہتے ہیں اور اس کی طرف مائل ہیں اسی طرح انسان کی حرکات ارادات جذبات اور تمام اغراض کا ہمیشہ ہر شخص میں ایک نظام ہوا کرتا ہے ایک محور ہوا کرتا ہے جس کے گرد اس کے تمام خواہشات اور جذبات پھرا کرتے ہیں اس وقت ہمارا محور قومیت قرار دیا ہے نیشن کو یعنی یورپین ہونے کو جو شخص یورپین ہے ان کے نزدیک اس کے حقوق دفعۃً بالاتر ہو جاتے ہیں بہ نسبت ان تمام لوگوں کے جو یورپین نہیں ہیں یورپ کا ایک جاہل گورا، ایک اجڈ ایک بد تر سے بدترفرد ان کے نزدیک ہم تمام شریف سے شریف شخصوں سے، اور ذات والے انسانوں سے اور اعلیٰ نسب والوں سے زیادہ رتبہ اور حق رکھتا ہے، کیوں؟ اس لیے کہ ان کا محور، ان کا مرکز خیال قومیت ہے، اس لیے جہاں یہ قومیت پائی جائے گی وہاں ان کی تمام محبت، ہمدردی، جوش اور سب چیزیں اس کے گرد پیدا ہو جائیں گی، اگر یہ محور نہیں ہے تو تمام چیزیں اس سے ہٹ جائیں گی۔ لیکن اب سوال یہ ہے کہ ہمارا محور کیا ہے؟ آیا جس طرح سے یورپ کا محور قومیت ہے یا جس طرح سے پارسیوں کا محور ان کی نسل اور ان کا مجوسی ہونا ہے؟ اور کسی اور قوم نے جس نے کہ جغرافیہ اور زمین کی رو سے اپنا محور قرار دیا ہے ، جو کسی خاص ملک کے رہنے والے ہیں، وہ سمجھتے ہیں کہ جو اس زمین سے پیدا ہوا ہے، وہ ہمارا ہے، اور ہم اس کے ہیں، اور ہمارے جذبات اس سے متعلق ہیں، آیا یہی ہمارا محور ہے؟ آپ فیصلہ کریں گے کہ ہماری قومیت، ہمارا نیشن، ہمارا وجود نہ نسل ہے، نہ ملک ہے، نہ زمین ہے، ہماری ہستی ہمارا وجود کل کا کل مذہب اور فقط مذہب ہے۔ (چیرز) آپ اس بات کا خیال فرما سکتے ہیں اور آپ جان سکتے ہیں کہ ایک شخص جو کہ آج اس وقت چمار ہے، اور جو بد ترین فرد ہے، ہندوستان میں خود ہمارے نزدیک نہیں خود ان کی قوم کے نزدیک یعنی ہندو لوگوں کے نزدیک وہ اچھوت ہے، شد ہے، اس کو مطلقاً اجازت نہیں ہے، اعلیٰ سوسائٹی میں بیٹھنے کی، اگر اس کے کان میں علم کی آواز پہنچے تو اس کے کان میں سیسہ پلا دینا چاہئے، اگر وہ چمار وہ ار ذل ترین خلق آپ لوگوں کے سامنے یہ کہہ دے کہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ تو کچھ فرق باقی نہیں رہتا ہم میں اور اس مے (چیرز) اگر مسجد میں نماز کی جماعت ہو اور وہ چمار صف میں جا کھڑا ہو تو کوئی حق پہنچ سکتا ہے، اس صدر کو یا کسی سلطان کو کہ وہ کہے کہ تو چمار ہے۔ اور میں سلطان ہوں (چیرز) تو جب ہماری قومیت، ہمارا وجود، ہماری نیشن کل کی کل مذہب ہے، تو ہمارا محور مرکز گردش فقط مذہب ہے، فقط دین ہے، اور کوئی چیز نہیں (مرحبا)جو شخص اس سے زیادہ کوئی چیز پیدا کرنا چاہتا ہے، وہ جاہل ہے، اس بات کے تسلیم کرنے کے بعد کہ ہمارا مرکز خیال، ہمارا مذہب ہے، اب ہم کو یہ غور کرنا چاہئے، کہ اس وقت ہم مذہب کے لیے ہندوستان میں کیا کر رہے ہیں، جس چیز پر ہماری تمام زندگی مو قوت ہے اس کے لیے ہم کیا کر رہے ہیں۔ حضرات غور کیجئے یہ خیال کرنے کی بات ہے، یہ معترضہ جملہ عرض کرتا ہوں، ہمیشہ کام لینے والوں کو دنیا کی اس بات کو تاکنا چاہئے، اور اس بات پر غور کرنا چاہئے، کہ اول کس چیز سے کام لینا چاہئے اور ان کو دیکھ لینا چاہئے کہ خود ایسی اشیاء میں کہاں تک مادہ اور گرمی اور قوت فاعلیہ موجود ہے، اس چیز کے محرکات کو اور اس کے جوش کو دیکھ لینا چاہئے، کہ وہ چیز فوراً ابل پڑے گی، اور فوراً مشتعل ہو جائے گی، تمام چیزوں میں ایک مخفی جوہر ہوتا ہے، لیکن ابھرا ہوا نہیں ہوتا، اس کو اگر ابھارا جائے تو ابھر جائے گا، لیکن اگر جوہر نہیں ہے، تو کتنی ہی تدبیریں کی جائیں، کتنا ہی زور ڈالا جائے وہ مشتعل نہیں ہو گا، اور نہ ابھرے گا، مسلمانوں میں غور کر کے دیکھ لو، ان میں بہت کچھ قومیت کے جذبات کو پیدا کیا گیا، تعلیم کے بہت کچھ جذبات پیدا کئے گئے، تمام چیزوںکی طرف ان کو مائل کیا گیا بلکہ بہت جگہ ہمارے مسلمان خود مصر میں جہاں سے ہمارے صدر صاحب تشریف لائے ہیں، وہاں وطنیت کی فیلنگ کو پیدا کرنا چاہتے ہیں، ایک گروہ یعنی نیشن پارٹی پیدا ہوا ہے، آیا یہ جذبات ہم میں آسانی سے مشتعل ہو سکتے ہیں، سخت ناکامی اس میں ہوئی ہے، اور ہو گی، ہمارا جو نیشن ہے، ہمارا جو وجود ہے اسی جذبہ کو حرکت میںلانے سے کام نکلے گا، اسی جذبہ سے کام لینا ہے، اسی کو گرمانے سے ہم کام دے سکیں گے اور ہمارے پرزے متحرک ہو جائیں گے۔ اب یہ غور کرنا ہے کہ بقائے مذہب کے متعلق ہم مسلمان اس موجودہ حالت میں کیا کر رہے ہیں؟ حضرات! اسلام پر ایک مدت مزید گزری ہے، اسلام نے ہر قسم کا زمانہ پایا ہے اور ہر قسم کے دور اس پر گزرے ہیں، ہماری پچھلی تاریخ ہمارے لیے ایک ایسا نمونہ ہے، کہ فقر و دولت میں، افلاس و غنا کی حالت میں، حکومت اور محکومیت میں ہر قسم کے تجربے ہمارے اسلاف کے موجود ہیں، ہم کسی حالت میں ہوں ہمارے لیے ایک شمع ہدایت موجود ہے، اگر ہم اس کو اختیار کریں تو بے شبہہ تمام کاموں میں کامیاب رہیں گے، ہمارے لیے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا دور نہیں گزرا ہے جو فقط محکومیت اور مغلوبیت کا دور ہے، جس کا جو کچھ مقتضیٰ تھا حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اس کی تلقین فرمائی وہ ایسے گروہ کے لیے مناسب ے، جوانہی حالات میں ہو لیکن حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے وہ زمانہ نہیں پایا جب کہ وہ خود بادشاہ ہوتے اور ان کی کوئیر عایا ہوتی، اس لیے انجیل کے احکام اس قسم کی ضروریات سے خالی ہیں۔ اب میں اصل مسئلہ کو چھیڑتا ہوں، عملاً دیکھتا ہوں کہ گزشتہ زمانہ میں دو قسم کا دور اسلام پر گزر چکا ہے۔ ایک وہ زمانہ ہے کہ 13 برس تک جناب رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وسلم) مکہ معظمہ میں تشریف رکھتے ہیں، ایسی مظلومیت کی حالت میں ہیں کہ نماز پڑھنا ممکن نہیں، گھر سے نکلنا ممکن نہیں، وعظ کے لیے کھڑے ہوتے تو کافر پتھر مارتے، ان کو زخمی کر دیتے ہے، جس جگہ آپ وعظ دیتے ہیں ایک شخص کھڑا ہو کر کہتا ہے، کہ جھوٹ کہہ رہا ہے، جو لوگ آپ پر ایمان لانا چاہتے ہیں ان کو گرم بالو پر لٹایا جاتا ہے، ان پر گرم پتھر رکھا جاتا ہے، اور سنگسار کیا جاتا ہے، اور ان سے فرمائش کی جاتی ہے کہ کہو لات، عزیٰ وہ کہتا ہے ، احد احد احد (خدا خدا خدا) اور ایک وہ زمانہ گزرا ہے کہ جناب رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وسلم) کی کی ہدایتیں ہمارے لیے اس دور کے مناسب موجود ہیں، اور ہم ا سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں، مگر اس کے ساتھ جناب رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وسلم) نے جو کچھ سکھلایا تھا، فقط تھیوری اور تخیلات نہ تھے بلکہ عملاً دنیا کو ایک نمونہ دکھلا دینا تھا۔ خود اسلام پر ایک زمانہ ایسا بھی خدا نے گزارا جو دوسرا پہلو ہے زندگی کا، یعنی حاکم ہو کر رہنا، غالب ہو کر، بادشاہ بن کر مدینہ منورہ میں واپس آئے فتح مکہ نصیب ہوئی، وہ سرکش جنہوں نے کیا کیا ستایا تھا مغلوب ہو گئے، دب گئے، وہ دور پیش آیا کہ یا تو انہوں نے سختی سے مجبور کیا تھا کہ آپ مکہ معظمہ سے تشریف لے جائیں مدینہ منورہ کو، یا وہ زمانہ آیا کہ دس ہزار اصحاب آپ کے ساتھ ہیں شان و شوکت سے مکہ معظمہ میں داخل ہوتے ہیں، اس وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھیں آبدیدہ ہو جاتی ہیں، کہ میں کس حالت سے نکلا تھا اور کس حالت میں واپس آیا، اس وقت آپ حرم محترم کی چوکھٹ پر کھڑے ہیں، اور انہی کافروں کو جنہوں نے جسم نبویؐ کو آزار پہنچایا تھا اور ستایا تھا آنحضرت (صلی اللہ علیہ وسلم) ان سے مخاطب ہو کر فرماتے ہیں کہ اے لوگو! تم جانتے ہو کہ میں آج تم سے کیا برتاؤ کروں گا اور ابھی تم سے کیا کرنے والا ہوں اب ان سے استفسار ہے کہ کچھ خبر ہے کہ آج میں تم سے کس طرح پیش آؤں گا، وہ لوگ بھی نباض تھے، سمجھتے تھے، کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے اخلاق و عادات سب پر ظاہر ہو چکے تھے، کسی نے کہا اے محمدؐ! تو شریف اور ہمارا بھائی ہے، جن کو رسول صلی اللہ علیہ وسلم، کے بھتیجے ہونے کا رشتہ تھا، انہوں نے کہا کہ اے محمد ؐ تو شریف بھتیجا ہے، کسی نے کہا کہ تو شریف بھائی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دوست ہو جاؤ، سب کو چھوڑا کسی کا مواخذہ نہیں۔ ایک یہ دور پیش آیا ہم کو اسلام نے ہر دور کے موافق نمونے اور مثالیں بتا دی ہیں اور ہم عمل کر سکتے ہیں۔ ہم ایسی تقلید جامد میں نہیں پڑ سکتے ہم کو اگر ایسی تقلید جامد میں رکھنا چاہتے ہیں، تو اب وہ زمانہ گزر گیا کہ خواہ آپ مذہبی لیڈر ہوں یا دنیاوی لیڈر ہوں، اب ہم ایسی تقلید جامد میں گرفتار نہیں ہو سکتے ہیں۔ سات سو برس کا جو دراز زمانہ پہلے تھا، اس کی جو ضروریات اور حالات تھے، اس پر بھی ہم قائم رہے ہیں اور اسی طرح سے ہم تمام باتوں کو ایسی سختی کے ساتھ پکڑے رہیں، اور ذرا بھی اپنے لیے تغیر اختیار نہ کریں، تو اس کے معنی یہ ہیں کہ ہم فنا ہو جائیں گے، اس کشمکش کے زمانہ میں ناممکن ہے کہ ہم کسی کا مقابلہ کر سکیں، اس وقت ہم کو یہ فیصلہ کرنا ہے، کہ زمانہ کہاں نکل آیا ہے ضروریات مذہب اب کیا پیدا ہو گئی ہیں، ان ضروریات مذہبی کے لیے ہمیں اب کیا سامان پیدا کرنے ہیں۔ حضرات! ناراض ہونے کی بات نہیں ہے، یہاں تو آپ کو یہ حق ہے کہ مجھے گردن پکڑوا کر نکلوا دیجئے، لیکن سچ کہنے پر مجھے سزا نہ دیجئے، میں کہتا ہوں کہ جب سو برس کے اندر کے زمانہ کی ضرورتیں خود ہمارے مذہبی امور کے متعلق اس قدر بدل گئی ہیں، کہ ایک قرن کثیر کا فرق پیدا ہو گیا ہے، اور اگر ہم لوگوں کو ہمارے تمام پیشوا اسی حالت میں جکڑ کر رکھنا چاہتے ہیں کہ جس حالت میں ہم دو سو برس سے پہلے تھے، ہماری تعلیم، ہمارا نصاب، ہماری تمام ترقیاں، ہماری تمام واقفیت السنہ اگر بالکل ابھی تک وہی قائم رکھی جاتی ہیں، جو آج سے دو سو برس قبل تھیں۔ تو کیوں کر ہم مقابلہ کر سکتے ہیں۔ آپ جانتے ہیں کہ کیا ضروریات مذہب پیدا ہو گئی ہیں؟ امریکہ میں ایک رملیجیس کانفرنس ہوتی ہے، وہ اعلان کرتی ہے کہ دنیا بھر میں جو مذہب حق ہو وہ آئے، ایک میدان مقابلہ ہے، اگر وہ اپنے سچے مذہب کو پیش کر لے جس کے مذہب میں سچائی ہو گی تو ہم اس کو تسلیم کریں گے۔ چند سال ہوئے ایک مذہبی کانفرنس امریکہ میں قائم ہوئی، اس نے بہت بڑی فیاضانہ مہمانی گوارا کر کے تمام لوگوں کو جمع کیا، حضرات! عبرت کی بات ہے کہ اس امتحان کے موقع پر، اس گھوڑ دوڑ میں، اس میدان مناظرہ میں، پارسی گئے، حالانکہ ان کا مذہب، مذہب دعوت نہیں ہے، انہوں نے اپنے مذہب کی حقانیت ثابت کی، ہندو گئے جو دوسرے مذہب والوں کو اپنے مذہب میں نہیں ملا سکتے بغیر آریہ لوگوں کے، ان میں ایک شخص تھا اس نے تقریر کی، اس کا لیکچر میں نے اردو میں ترجمہ کرا کر چھپوا دیا ہے، وہ گئے، یہودی گئے، غرض دنیا کا کوئی مذہب، اور دنیا کی کوئی قوم باقی نہیں رہی جو اس میدان مناظرہ میں نہیں گئی، اور جس نے اعلان کے ساتھ اپنے مذہب کی آزادی اور اپنے مذہب کی خوبی نہیں بیان کی، لیکن اس کلیہ عام سے جو میں نے ابھی بیان کیا ہے، اگر مستثنیٰ رہے تو صرف ہمارے مسلمان بھائی، ایک داعی اور ایک واعظ اسلام کا امریکہ نہیں گیا، نہ صرف ہندوستان سے بلکہ ایران سے، مصر سے، افریقہ سے، قسطنطنیہ سے، کسی جگہ سے کوئی شخص ایک مسلمان بھی نہیں گیا۔ کیا فائدہ ہے اس تمام تعلیم سے جو دنیا میں دی جا رہی ہے؟ کیا فخر کر سکتے ہیں ترکوں پر اس بات کا کہ وہ یورپ کے علوم و فنون جدیدہ سیکھ رہے ہیں؟ بھاڑ میں جائیں یہ علوم و فنون جدیدہ، جب انہوں نے یہ قابلیت پیدا نہیں کی کہ وہ ایک ترک کو امریکہ بھیج سکتے، جو امریکہ جا کر ان کی زبان میں مذہب اسلام کی تعلیم و تلقین کر سکتا، کیا ہمارے علماء سبکدوش ہو سکتے ہے، اپنے اس فرض سے، اپنی منطق سے، اپنے حیلہ سے، اپنی جہتوں سے، کیا ہم ان کو مجبور وزیر کر سکتے ہیں، گزر گیا وہ زمانہ اندھیر کھاتے کا، اب ممکن نہیں کہ دنیا ان ضرورتوں کو محسوس نہ کرے، اگر ہمارے پیشوایان دین ان ضرورتوں کو رفع نہ کریں گے، اور علوم و فنون جدیدہ کو نہ سیکھیں گے، اور اگر ان زبانوں کو نہ حاصل کریں گے۔ اور اب بھی یہ فتویٰ جاری رکھیں گے کہ ان زبانوں کا سیکھنا نا جائز ہے، تو ان کو منصب مقتدائی چھوڑ دینا چاہیے، اور علیحدہ ہو جانا چاہیے، میں نے ایک جزوی مثال اس بات کی پیش کی ہے کہ ہماری دنیوی ضرورتیں بدل گئی ہیں اور ہم کو کہاں تک زمانہ کے ساتھ منقلب ہونا چاہیے، کیا پہلو بدلنا ہے ہم کو دفعتہ زمانے کے ساتھ اور ان ضروریات کے ساتھ، اس لیے مختصراً یہ بتانا ہے اور دکھانا ہے ہم کو دفعتہ زمانہ کے ساتھ اور ان ضروریات کے ساتھ، اس لیے مختصراً یہ بتانا ہے اور دکھانا ہے کہ کیوں کر دو یا تین مذہبی ضرورتیں نئی پیدا ہو گئی ہیں، ایک یہ کہ اس بات پر تو ہم مجبور ہیں گورنمنٹ موجودہ کے طریقے نظام سے کہ عام تعلیم جو گورنمنٹ نے ملک میں پھیلائی ہے ہم اس کو حاصل کریں، اس سے گریز کرنا اپنے آپ کو برباد کرنا ہے، جن لوگوں نے ابھی تک اس سے گریز کیا وہ تمام میدان مقابلہ میں دوسرے لوگوں سے پیچھے رہ گئے ہیں، دیکھتے ہیں کہ وہ بنگال جہاں سرندرو ناتھ پیدا ہوتا ہے جو ہندوستان کا سب سے بڑا اسپیکر ہے، وہیں کے کسی مسلمان صاحب کو بھیجئے کہ اس کے سامنے بات تک نہیں کر سکتے ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ہمیشہ الگ رہے، تعلیم عامہ مجاریہ سے، جب ہم کو اس سے مفر اور گریز نہیں تو ہم کو اس کے مقابلہ میں کیا کرنا چاہیے۔ اب ایک گروہ ہم کو ایسا قائم اور زندہ رکھنا ملک میں ضروری ہے، یا نہیں جو مجبور نہ ہو گورنمنٹ کی ملازمت پر، گورنمنٹ کی نوکریوں پر، گورنمنٹ کی ملازمت اور نوکری کی وجہ سے جس تعلیم پر وہ مجبور ہے وہ مجبور نہ ہو، بلکہ آزاد اور حر ہو اور وہ ایسی تعلیم حاصل کرے جو ایک طرف تو مذہب اور اس کے تمام معلومات سے پر ہو اور کامل ہو، دوسری طرف وہ انگریزی زبان اور یورپ کے علوم و فنون کو حاصل کر سکے۔ آپ جانتے ہیں کہ تقسیم عمل کی بناء پر تمام دنیا کام کرتی ہے، اللہ پاک نے تقسیم عمل کا اصول ہر شے میں جاری کر رکھا ہے، تمام انتظام عالم اس پر مبنی ہے، ہم خود ایک جسم واحد ہیں، لیکن سننے کا کام کان کے سپرد ہے، بولنے کا کام زبان سے متعلق ہے، سب کے کام بٹے ہوئے ہے، اصول تقسیم عمل پر، یہ کہنا حماقت ہے کہ مختلف لوگوں کو مختلف کام حوالہ کرنا قوتوں کو پراگندہ کرنا ہے، آپ جانتے ہیں کہ تمام چیزوں کو ایک میں جمع کرنا سخت حماقت ہے ہمارے جسم میں بھی یہ تقسیم عمل جاری ہے، ہاتھ اور کام کرتا ہے، دماغ اورکام کرتا ہے، زبان اور کام کرتی ہے، پاؤں اور کام کرتے ہیں، بلکہ سب علیحدہ علیحدہ کام کرتے ہیں، یہ تقسیم عمل اللہ پاک نے خود ہم لوگوں کو قرآن مجید میں سکھائی تھی، اللہ تعالیٰ عالم الغیب ہے ہمیشہ کے حالات سے جو کچھ ہیں اور جو آئندہ ہونے والے ہیں، ان سب سے واقف ہے۔ آپ خیال فرمائیے کہ جب مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ میں ہمہ تن اسلام تھا، کوئی ضرورت صحابہؓ کو اور مسلمانوں کو نہ تھی، فقط دین و مذہب ہی ان کی دنیاوی ضرورتوں کے لیے کافی تھا، ان کو نہ نوکری کی حاجت تھی اور نہ ملازمت کی، اس وجہ سے کہ فتوحات ہوتی تھیں، ایک طرف تو ثواب جہاد، اور دوسری طرف مال غنیمت ہم خرماد ہم ثواب، مگرا س وقت بھی ہماری شریعت نے، ہماری غیرت نے، ہمارے اللہ پاک نے یہ حکم نہیں دیا کہ تمام جہان صحابہ ہو، سب فقیہ بن جائیں، سب مفسر بن جائیں، سب واعظ بن جائیں، سب مولوی ہو جائیں، یہ نہیں تھا اللہ پاک نے فرمایا تمام گروہ میں سے ایک گروہ تجویز ہونا چاہیے کہ جس کا کام ہے تفقہ حاصل کرنا مذہب میں، جس کی خدمت ہو امر بالمعروف کرنا ونہی عن المنکر، جو تمام قوم کے لیے بمنزلہ دل و بمنزلہ دماغ ہو۔ یہ فرقہ کہیں ہے آج، کیا آپ اس دعویٰ کے پیش کرنے سے کہ آپ بوجہ دنیوی ضرورتوں کے اور بوجہ فکر معاش کے انگریزی تعلیم اور گورنمنٹ کی تعلیم پر مجبور ہیں، اس لحاظ سے آپ اس فرض سے بھی سبکدوش ہونا چاہتے ہیں کہ 5 یا 7 کروڑ سے زائد مسلمانوں کی آبادی ہو، اس میں وہ فرقہ جس کا اللہ پاک نے ذکر کیا نہ موجود رہے، اور اگر وہ باقی نہ رہا تو کیا ہمارا محور آئندہ باقی رہ سکتا ہے؟ حضرات! جو لوگ جانتے ہیں وہ جانتے ہیں، اور جو نہیں جانتے ہیں ان کو جاننا چاہیے کہ ہمارے یہاں فرض کی اللہ پاک نے دو قسمیں بیان کی ہیں، ہماری شریعت میں فرض کی دو قسمیں ہیں، فرض عین و فرض کفایہ، فرض عین تو وہ ہے جو ہر شخص پر فرض ہے، اور آپ کے ادا کرنے سے میرا فرض ادا نہیں ہوتا اور میرے ادا کرنے سے آپ کا فرض ادا نہیں ہو سکتا، ظہر کی نماز کے لیے یہ بات نہیں ہو سکتی کہ آپ میری طرف سے پڑھ لیں، لیکن ایک فرض کفایہ ہوتا ہے فرض کفایہ وہ ہے کہ اگر محلہ بھر میں ایک شخص نے اس فرض کو ادا کر دیا، تو سب سبکدوش ہو سکتے ہیں، سبکدوشی میں یہ آسانی ہے لیکن مواخذہ میں سب کے سب دھرے جاتے ہیں، وہ تنہا ہی گنہگار نہیں ہے، بلکہ شہر کا ایک ایک فرد گنہگار، بلکہ شہر کے دس ہزار کے دس ہزار آدمی گنہگار ہیں، ثواب پانے میں وہ ایک شخص اور عذاب کے پانے میں وہ سب کے سب گرفتار ہیں، اب ایک فرقہ ایسا پیدا ہونا چاہیے جس کا ذکر قرآن شریف میں ہے، جو ہادی دین ہو، یہ ایک فرض عینی نہیں ہے کہ ہر ایک پر فرض ہو، ہر مسلمان پر واجب آئے، چاہے عالم ہو یا محدث، بلکہ فرض کفایہ ہے، یعنی 7 کروڑ مسلمانوں کا یہ فرض ہے کہ اپنی ہی قوت سے اپنی ہی ہر قسم کی اعانت سے، اپنی ہی ہر قسم کی جدوجہد سے اس ایک فرقہ کو ہندوستان میں اور جہاں جہاں مسلمان ہوں باقی رکھیں، جو اس خدمت کو انجام دیں۔ مجھ سے ہمیشہ یہ سوال کیا جاتا ہے، اور سب سے زیادہ مسئلہ لا ینحل طلبائے ندوہ کے متعلق یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہ لوگ جو ندوہ سے پڑھ کر نکلتے ہیں کہاں جائیں گے، اور کیا کریں گے؟ اور کہاں سے کھائیں گے؟ یہ ہمارے اوپر ایک بار ہے ایک بوجھ ہے، ہم اسے کیوں کر برداشت کریں گے، معاف کیجئے یہ ان سے پوچھنے کی بات ہے یا تم کم بختوں سے پوچھنے کی بات ہے، اب تم سے یہ سوال ہے کہ ایسے گروہ کا پیدا کرنا، اس کی اعانت اور اس کا زندہ رکھنا تمہارا فرض ہے یا نہیں؟ کیا یہی اصول تمام یورپ میں جاری نہیں ہے، اور فیلو شپ کے تمام اصول خود ان قوموں میں جاری نہیں ہیں جو بیدار ہیں، جو وعظ کہتے ہیں، اور تمام دنیا میں تعلیم پھیلاتے ہیں، قوم خود ان کی مدد کرتی ہے، کیا وہ گورنمنٹ سے روپیہ یا تنخواہ مانگتے ہیں؟ نہیں ہر گز نہیں، کوئی شخص نہیں بتا سکتا کہ گورنمنٹ ان باتوں میں مدد دیتی ہو، آپ کو معلوم ہے کہ مذہب کا جو فنڈ انگلستان میں ہے، اور جو مذہبی ضروریات میں خرچ کیا جاتا ہے، اس کی اقل سے اقل تعداد سالانہ دو کروڑ ہے جس میں ایک پیسہ بھی گورنمنٹ کا نہیں ہے، بلکہ قوم کا ہے، کیا تم کو دعویٰ ہے کہ تم دنیوی ترقی میں، آزادی خیال میں اور وسعت مشرب میں جرمنی اور انگلستان سے بڑھ گئے، یا بڑھ جانا چاہتے ہو، اگر یہ نہیں ہے تو یہ سوال معاً خود آپ کی طرف الٹتا ہے، کہ تم خود کتنے بخیل، کتنے شقی، اور کتنے کو دن ہو، یہ ہم سے سوال کرنے کی بات ہے، یا تم سے، اس لحاظ سے اس مسئلہ کو بالکل نظر انداز کرنا چاہیے، یہ کہنا غلط ہے کہ ہر شخص جو عضو معطل ہو، وہ اسی طرح فکر معاش کرے، جیسا کہ وہ گروہ جو کام کرنا چاہتا ہو، اس کو مطمئن کرنا، اور اس کو اپنی ضروریات سے آزاد کرنا، یہ تمہارا فرض ہے، ہندوؤں نے برہمنوں کے ساتھ کیا کیا؟ انہون نے برہمنوں کا ایک فرقہ بنایا، برہمن کوئی ذات نہیں تھی، ہندوؤں نے اس قدر عمدہ تقسیم کی تھی کہ میں نثار ہو جاتا ہوں ان کے اس مسلک پر، انہوں نے اپنے لیے ایک گروہ برہمنوں کا پیدا کیا، اسی اصول تقسیم عمل کی بناء پر ایک گروہ قوم میں وہ ہے جو نہ زمینداری کرے، نہ جائیداد پیدا کرے، نہ تجارت کرے، نہ صنعت و حرفت پیدا کرے، بلکہ ایک عضو معطل جو تمام کاموں سے رہا ہو، آزاد رہے، مگر وہ تمام علوم کی حفاظت کرے، تمام مراسم مذہبی کی حفاظت کرے، تمام اخلاق قوم کی حفاظت کرے، اس کا نام انہوں نے برہمن رکھا، مگر وہ اس بات کو جانتے تھے کہ ایسا گروہ یقینا باقی نہیں رہ سکتا، جب تک کہ قوم کی طرف سے کوئی احترام نہ کیا جائے، یہ تو آپ کو معلوم ہے کہ انہوں نے برہمنوں کا کہاں تک احترام کیا، ان کے یہاں حکم ہے کہ برہمن کسی شخص سے کہہ دے کہ مجھے کھانا دو اور وہ نہ دے تو پھر اس کی نجات کا کوئی طریقہ نہیں ہے، وہ پاپی ہے، وہ بخشا نہیں جا سکتا، ایک بڑے سے بڑا بادشاہ اور بڑے سے بڑا راجہ برہمن کے پاس آ کر اس کے پاؤں پر سر رکھتا ہے اور فخر کرتا ہے، اس بات پر کہ اس نے ایک برہمن کے پاؤں پر سر رکھا، کیونکہ اس وقت وہ ایک ایسی خدمت انجام دے رہا ہے جو محتاج ہے اس بات کی کہ وہ تمام فکار و مشاغل سے آزاد رہے،ا سی بناء پر یہ کچھ بڑی بات نہیں ہے کہ ایک چھوٹا سا گروہ قوم میں ہو، یہ نہیں کہا جاتا کہ ہزار دو ہزار چار ہزار پچاس ہزار، ایک کنول کا پھول پوری گڑھیا کو روشن کر سکتا ہے، ایک شخص واحد تمام دنیا کو زندہ کر سکتا ہے، اگر قوم میں دو چار دس شخص ایسے عالم موجود ہوں، بادیان دین زمانہ کی ٹھیک ضرورتوں کے موافق جیسا کہ وقت نے ہر زمانہ میں پیدا کئے ہیں، جیسی ضرورت ہوئی ایک زمانہ میں حضرت عبداللہ بن عباس اور عبداللہ بن عمرؓ پیدا ہوئے، جب ضرورت ہوئی ان کے قائم مقام امام غزالی، شاہ ولی اللہ پیدا ہوئے، ان لوگوںکی معلومات بھی ان لوگوں کے علوم بھی، ان کے خیالات بھی، اگر آپ دیکھیں گے تو ان میں بڑا فرق پائیں گے، امام رازی تمام فلسفہ چھانے بیٹھے ہیں، تمام فلاسفی کے نکات سے واقف ہیں، کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ تابعین ہمارے حضرت امام بخاری اور امام مسلم جو پیشوایان دین ہوئے ہیں، وہ فلسفہ اور منطق ان سے بہتر جانتے تھے، نہیں اس زمانہ میں اس کی ضرورت نہ تھی لیکن جب ضرورت پیش آئی تو انہی پیشوایان دین کو فلاسفی پڑھنی پڑی اور محقق بننا پڑا، غرض اس سوال کو ہمیشہ کے لیے قلب سے مٹا دینا چاہئے، لیکن اب دوسری ذمہ داری عائد ہوتی ہے اس دوسرے گروہ پر میں نے جی کھول کر آپ لوگوں کو گالیاں دی ہیں، لیکن مجھ کو اسی ٹالریشن اور فیاضی کے ساتھ اب خود بھی گالیاں کھانے کے لیے تیار ہو جانا چاہیے، سوال یہ ہے کہ ہمارا جو گروہ اس وقت ہادی دین ہے جو لیڈر ہے تمام قوم کا اور پیدا ہے ہمارے مذہب کا وہ اس وقت کی موجودہ دینی ضرورتوں کو کس قدر انجام دے رہا ہے۔ پہلا یہ سوال ہے کہ آیا یہ ضرورت ہے یا نہیں کہ اگر امریکہ ہم کو بلائے کہ آؤ ہماری زبان میں ہماری ہدایت کرو تو آیا ہم کو ان کی زبان سیکھنا ضرور ہے یا نہیں؟ اگر نہیں ہے تو کیا وجہ ہے ؟اللہ پاک نے انبیاء کو بھیجا ہے تو کہتا ہے کہ میں نبیوں کو بھیجا کرتا ہوں اسی قوم کی ز بان پر، کیا ضرورت ہے اس قوم کی زبان دانی کی پیغمبروں کو، وہ کوئی اور زبان بولے اور وہ کوئی اور؟ بلسان قومہ کی کاے ضرورت ہے یا نہیں؟ جاپان یہ کہے کہ میں تشنہ لب ہوں مذہب میں، سنتا ہوں کہ مذہب اسلام، نہایت اچھی چیز ہے، مگر یہ بتلائیے کہ مذہب اسلام ہے کیا؟ تو کیا ہم ان سے یہ فرمائش کریں گے کہ آپ پہلے اردو سیکھئے تب ہم بتائیں گے؟ حضرات میرا ذاتی علم ہے میں بمبئی میں ایک پارسی کو جانتا ہوں کہ جس نے سنی سنائی چند باتیں اسلام کی سنی تھیں کچھ انگریزی ترجمہ اس نے قرآن مجید کا دیکھا تھا، اس نے مسلمانوں سے کہا کہ مجھے اچھی طرح سے سمجھاؤ کہ اسلام کیا ہے، میں اردو نہیں جانتا، انگریزی زبان میں مجھ سے بولو تو میں سمجھ جاؤں گا، جب لوگ اس کو نہ سمجھا سکے تو اس نے قرآن مجید اپنے ہاتھ میں لیا اور کہا کہ اے خدا میں نہیں جانتا کہ اس میں تو نے کیا کہا ہے؟ مگر جو کچھ تو نے کہا ہے میں گول گول اس پر ایمان لاتا ہوں۔ اب کیا اس بات کی ضرورت نہیں ہے کہ ایسے عالم پیدا ہوں جو غیر زبانوں سے واقف ہوں، کیا ابھی تک یہ موقع باقی ہے کہ ہم نفرت کریں، اپنے یہاں انگریزی نہ آنے دیں۔ دوسری ضرورت یہ ہے کہ ہمارے مذہب پر سینکڑوں پہلوؤں سے سینکڑوں کروٹوں سے حملے ہو رہے ہیں ہمارا مذہب برباد کیا جا رہا ہے، کن کن طریقوں سے براہ راست نہیں (سامنے کا گھاؤ چنداں کاری نہیں ہوتا) پہلوؤ ںسے، کروٹوں سے، اگر کوئی عیسائی ایک کتاب مذہب کے رو میں لکھے تو مسلمان آسانی سے کہے گا کہ یہ مذہب کا رو ہے، اس کو عیسائی نے لکھا ہے میں اس کو نہیں پڑھوں گا، لیکن اگر وہ تاریخ لکھتا ہے تو کیا کوئی شخص اس بات پر بد گمانی کر سکتا ہے کہ وہ تاریخ ہے؟ تاریخ میں کوئی بات نہیں ہے، ہر زبان اور ہر قوم کی تاریخ پڑھنی چاہیے اب وہ تاریخ اسلام کو پڑھتا ہے وہ سر ولیم میور صاحب کی لائف آف محمد ؐ کو پڑھتا ہے اب اس کتاب میں اندر اندر جو زہر مخفی ہے جو سم قاتل سرایت کر رہا ہے اس کے پڑھنے والے کو خبر نہیں ہوتی اور زہر اندر اندر دوڑ جاتا ہے، اس کا کیا علاج ہے، آیا ہمارے علماء اس کو پڑھتے ہیں اور اس سے واقف ہیں یا نہیں؟ اگر واقف ہیں تو کسی سے انہوں نے فرمائش کی ہے کہ خیر تم ترجمہ ہی کر کے دو، ہم اس کا جواب لکھیں گے ایک عظیم الشان لٹریچر جو دوسری زبانوں میں پیدا ہو گیا ہے اسلام کو تباہ کرنے والا برباد کرنے والا آپ اس کو اچھی طرح مٹا سکتے ہیں، یعنی تاریخ اسلام کا ہم نے کیا مقابلہ کیا ہے، حضرات مجھے حیرت ہوتی ہے، اور عجیب طرح کا میرے دل میں قرحہ پیدا ہوتا ہے، آزردہ دہلوی کا شعر ہے، وہ کہتے ہیں۔ کامل اس فرقہ زہاد سے اٹھا نہ کوئی کچھ ہوئے گر تو یہی رند قدح خوار ہوئے حضرات! اس وقت تک جو کچھ اسلام کی خدمت کی ہے غیر قوموں کے سامنے وہ ہمارے علماء نے نہیں کی ہے، ہم نے نہیں کی ہے، مولویوں نے نہیں کی ہے، ہم دستار بندوں نے نہیں کی ہے، بلکہ ان لوگوں نے کی ہے جو داڑھی منڈواتے ہیں، امیر علی نے کی ہے، جو بالکل داڑھی منڈاتا ہے، جس کو میں صورۃ عیسائی سمجھتا ہوں، اس نے ایک کتاب ’’ اسپرٹ آف اسلام ‘‘ لکھی ہے، اس کتاب کو پڑھ کر عیسائیوں اور ایرانیوں نے اسلام کی وقعت اور تعریف کی ہے۔ سرسید احمد نے خطبات احمدیہ جو انہوں نے انگلستان میں رہ کر لکھی ہے، اس میں انہوں نے خاص خدمت انجام دی ہے اس کا اثر جو کچھ انگریزوں میں پھیلا وہ کیا اثر ہے؟ آپ خود اس کو سمجھ سکتے ہیں یہ کس قدر افسوسناک بات ہے کہ وہ فرائض اور خدمات جو ہمارے ہیں، ان کا ساغر ہم سے چھین کر یہ رندان قدح خوار پی لیں، ان کے مقابلہ میں میں آپ کو عملی باتیں دکھلاؤں گا کہ یہ ندوہ ہے جس پر ہم فخر کرتے ہیں اور جس کی ہم عزت کرتے ہیں، ہر جگہ اس کے پھیلانے والے اس کے داعی، اس کے مدد دینے والے، چندہ کر کے در پے ترقی ہونے والے تمام تحریکوں کے پیدا کرنے والے کون ہیں؟ یہی انگریزی خواں ہیں، ہم علماء کیا کرتے ہیں، ہم کفر کا فتویٰ دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جو شخص ندوہ میں شریک ہوتا ہے وہ کافر ہے ندوہ ایک لغو چیز ہے، اس میں شامل ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے کیا کوئی علماء میں ایسا باہمت ہے جو ندوہ میں کام کرنے کے لیے مصروف ہو، خدا سلامت رکھے ہمارے چند نفوس کو مثلاً مولانا عبدالحئی صاحب جو ندوہ میں خدمت مذہبی انجام دے رہے ہیں، مجھے بتاؤ کہ ہندوستان میں اور کون ایسے حضرات ہیں جو اس قسم کا کام کر رہے ہیں، عربی کے جو بیسیوں مدرسے کان پور میں قائم ہیں، وہ کس نے قائم کئے ہیں، سوداگروں نے، دنیا داروں نے، سود خواروں نے، خیر سود کھاتے ہیں یا نہیں انہوں نے قائم کیے ہیں، کسی عالم نے نہیں قائم کئے ہیں، سو اے مدرسہ دیو بند کے جس پر ہم فخر کرتے ہیں، اس کو مولانا قاسم مرحوم نے قائم کیا تھا، علاوہ اس کے کوئی مدرسی کسی عالم نے قائم نہیں کیا، انہی دنیا داروں نے قائم کیا۔ وہی کام کرتے ہیں اور کسی عالم کو بلا کر نوکر رکھ لیتے ہیں، خیر اب سوال یہ ہے کہ یہ خدمتیں اگر ضروری ہیں تو ہم ان کو کہاں تک انجام دے سکتے ہیں، اب اس پہلو کو چھوڑو، ایک دوسرا پہلو زبردست آپ کے لیے رہنے کا یہ ہے کہ ہماری گورنمنٹ انگریزی سے جو تعلقات مذہبی ہیں، جن مسائل کا گورنمنٹ سے تعلق ہے ان سے متعلق نہایت اشد ضرورت ہے کہ قوم کو یہ تمنا ہونی چاہیے کہ ہمارے پیشوایان دین اس کام میں ہاتھ ڈالیں، سوال یہ ہے کہ فرض کیجئے ایک اجماعی مسئلہ وقف علی الاولاد کا ہے، بہت سے مقدمات عدالت میں غلط فیصل ہو جاتے ہیں، ان کے متعلق نوٹس لینا ہمارے علماء کا کام ہے، کیا کوئی عالم جانتا ہے کہ کیا کیا نظائر ہائی کورٹ میں ہوتے ہیں، ان کو کچھ علم ہے کہ دنیا میں کیا ہوتا ہے؟ جس زمانہ میں کہ تعطیلیں مقرر ہوئی تھیں وہ گورنمنٹ کے تمام احکامات سے ایسے بے خبر تھے، ایسی عدم واقفیت، ایسی عدم اطلاع، ایسی گوشہ نشینی کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہم مذہبی خدمات انجام دے رہے ہیں، جو اس فرقہ خاص کا کام ہے، اب ان حالات کے لحاظ سے فقط یہ سوال ہے کہ آیا مذہبی پہلو کے اعتبار سے قوم کو ایک مذہبی مرکز کی ایک مذہبی سنٹر کی، ایک مذہبی مرجع عام کی ضرورت ہے یا نہیں؟ کوئی شخص اس سے انکار کر سکتا ہے؟ حضرات میں خود ہی اس بات کا اقرار کرتا ہوں کہ ندوہ نے بھی ان فرائض کو انجام نہیں دیا ہے، اگر دیا ہے تو نہایت کم، لیکن میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اگر اس وقت کوئی چیز مرجع ہو سکتی ہے، جو سنٹر قرار دیا جا سکتا ہے، تو وہ ندوہ ہے، اس میں آپ جلدی نہ کیجئے، غور سے سن لیجئے، ہر کام کے دو عمل ہیں، دو ڈگریاں ہیں، دو درجے ہیں، تھیوری اور پریکٹس، خیال یا ارادہ، اور عمل، اول ارادہ اس کے بعد عمل، یہ ایک مانی ہوئی اور بدیہی بات ہے کہ بجز جماعت علمائے ندوہ کے کسی جماعت نے یہ آواز دس یا سولہ برس پہلے نہیں بلند کی، کہ ہم کو ایک جدید نصاب کی ضرورت ہے، ہم کو ایک نئے کورس کی ضرورت ہے، ہم کو اصلاح کی ضرورت ہے، ان تمام طرائق تعلیم میں ندوہ کا جتنا لٹریچر ہے، ندوہ کی جتنی رودادیں ہیں، آپ ان کو اٹھا کر پڑھ لیجئے مولوی شاہ سلیمان صاحب پھلوار دی اور عبدالقادر صاحب دہلوی نے جو ہمارے علمائے ندوہ میں شریک ہیں انہوں نے شروع سے برابر ان ہی ضرورتوں کو تسلیم کر لیا ہے۔ حضرات! آپ کو معلوم ہے کہ انہی ضرورتوں کے احساس کی بناء پر انہوں نے انگریزی زبان کو نصاب تعلیم ندوہ میں داخل کیا اگرچہ اس کی سخت مخالفت ہوئی، اتنی شدید مخالفت ہوئی کہ ایک بزرگ جنہوں نے اپنی جائیداد ہے ماہوار کی ندوہ پر وقف کی تھی انہوں نے اس کے دینے سے انکار کر دیا۔ جب میں نے خط لکھا تو انہوں نے جواب دیا کہ اس میں انگریزی داخل کی گئی ہے، اس واسطے میں اس میں مدد نہیں دے سکتا، چنانچہ انہوں نے اپنے زمانہ اخیر تک نہیں دیا، لیکن اس قدر مخالفتیں پیش آئیں دنیا دار لوگوں کی طرف سے نہیں بلکہ خود دینداروں ہی کی طرف سے، مگر باوجود اس کے ہمارے علماء نے برداشت کیا، اور اس معاملہ کو قبول کیا، ان کو تعجب ہو گا کہ ہمارے مولانا خلیل الرحمن صاحب جو یہاں بیٹھے ہوئے ہیں، ایک متقشف زاہد ہیں مگر جس وقت انگریزی داخل کرنے کا مسئلہ در پیش ہوا تو آپ بھی تشریف رکھتے تھے، اگر میرا حافظہ غلط نہیں ہوا ہے،55 برس کی عمر کی وجہ سے تو مجھے یاد ہے کہ آپ نے ملا اس سے اتفاق کیا تھا اور کہا تھا کہ بے شک انگریزی زبان داخل ہونی چاہیے، صرف یہی نہیں بلکہ دوبارہ دوسرے جلسہ میں لکھنو میں یہ بات پیش ہوئی کہ بجائے غیر ضروری اور غیر لازمی ہونے کے انگریزی لازمی اور کمپلسری کر دینی چاہیے، تو اس وقت بھی آپ نے شرکت کی اور تائید کی۔ اب آپ دیکھ سکتے ہیں کہ جو ارادہ اور خیال ہے وہ قطعاً ندوہ میں پیدا ہو گیا، اس سے انکار نہیں ہو سکتا کہ ہمارے علماء جو انگریزی زبان اور انگریزی علوم و فنون پر آمادہ ہیں وہ بے تعصب ہیں، یعنی آپ کو معلوم ہے کہ دو سال قبل ہمارے ندوہ میں یہ تجویز پیش ہوئی تھی کہ اس بات کا انتظام کیا جائے کہ علوم و فنون جدیدہ بھی داخل کئے جائیں، اور ہمارے طلبہ خاص علوم و فنون کو سیکھیں۔ حضرات! آپ کو معلوم ہو کہ فزیکل سائنس جو ہے اس کی کئی ایک کتابیں مصر میں عربی میں ترجمہ ہوئی ہیں، اس میں ایک کتاب ہے دروس الاولیہ، وہ تصنیف ہے ایک عورت کی، وہ ہمارے ندوہ کے نصاب میں داخل کر دی گئی ہے، مگر رونا یہ ہے کہ آج پانچ برس سے داخل نصاب ہے، لیکن صاحبو ہم میں کوئی اس کا پڑھانے والا نہیں ہے، وہ عربی زبان میں ہے، اور عورت کی تصنیف ہے، مگر ہمارے رجال کبار اس کو پڑھا نہیں سکتے، اس بناء پر یہ رائے ہوئی کہ اب اس کو چھوڑ کر کیا طریقہ اختیار کیا جائے، دو سال ہوئے کہ ایک جلسہ قائم کیا گیا، اس میں بھی ہمارے بیشتر متقشتین شریک تھے اور وہ یہاں موجود بھی ہیں، انہوں نے یہ تجویز منظور کی، کہ پندرہ پندرہ بیس بیس روپیہ ماہوار کے وظیفے دئیے جائیں اور ہمارے یہاں کے طلبہ (ندوہ کے) علی گڑھ کالج میں جائیں اور وہاں قیام کر کے پروفیسر ضیاء الدین سے یا کسی شخص سے جو پڑھانے پر آمادہ ہو اس علم کو حاصل کریں، دیکھئے ہماری اس تعصبی کو اور داد دیجئے کہ کوئی گروہ، کوئی مدرسہ عربی کا اس بات پر راضی ہو سکتا ہے کہ وہ اپنے لڑکوں کو علی گڑھ بھیجتا، اور اپنے پاس سے وظیفہ دے کر علوم پڑھاتا، تو بہر حال ہم نے یہ دو رہ طے کر لیا ہے، ہمارے علماء خود مستعد اور آمادہ ہیں اس تجویز کے قبول کرنے پر، مگر بات یہ ہے کہ ہم نے یہ کام نہیں کیا، ہم لوگ طریقہ عمل سے واقف نہیں تھے، اس لیے ہم کامیابی کے ساتھ نہ کر سکے، مگر ہم ڈھونڈ رہے ہیں اور زمانہ ہم کو لے جا رہا ہے۔ دوسری خدمت آپ دیکھتے ہیں ان باتوں سے جو گورنمنٹ سے متعلق ہیں، ان کے متعلق نوٹس لینا اور ان کی خبر رکھنا اور ان سے واقفیت پیدا کرنا، اس کو ندوہ کس حد تک کر رہا ہے۔ آپ کو معلوم ہے کہ وقف علی الاولاد کا مسئلہ اس کو آپ ایک معمولی چیز سمجھتے ہیں، آپ نے ایک اڑتی سی بات سن لی ہو گی کہ ایک فقہ کا مسئلہ پریوی کونسل نے خراب کر دیا تھا، اس نے کی اب اصلاح ہو جائے گی، میں کہتا ہوں کہ وقف علی الاولاد کا مسئلہ وہ ہے کہ مسلمانوں کے ہزاروں لاکھوں خاندانوں کی بربادی اس سے ٹل سکتی ہے، اگر وہ کامیاب ہو جائے، ایک طرف سو کالجوں کا بنانا اور دوسری طرف وقف علی الاولاد کا مسئلہ مسئلہ وقف علی الاولاد کے یہ معنی ہیں کہ اگر ایک شخص اپنی جائیداد کی نسبت یہ کہلائے کہ یہ جائیداد میرے ہی خاندان میں تا قیامت باقی رہے، بجز اس کے کہ جب کوئی نسل باقی نہ رہے تو یہ وقف فقراء کو مل جائے تو یہ وقف صحیح ہو گا، مثلاً وہ جائیداد منتقل نہیں ہو سکتی، کوئی فروخت نہیں کر سکتا، اور کوئی خاندان کا آدمی اس کو گرو نہیں رکھ سکتا، ہمیشہ کے لیے وہ جائیداد محفوظ ہو جاتی ہے، ایسا عمدہ قانون ہے، ایسا مسئلہ ضروری ہے جس پر قوم کی بقا موقوف ہے، غلطی سے پریوی کونسل والوں نے نہیں سمجھا ہے، ہم کہتے ہیں کہ جیسا کہ ہمارے حضرت صدر نے فرمایا ہے کہ بہت سے مسئلوں پر یورپ کے لوگ اعتراض کرتے ہیں، وہ نیک نیتی سے کرتے ہیں، وہ بد نیتی سے نہیں کرتے، وقف ایک خیراتی چیز ہے، وقف کے معنی ہیں خیرات کرنے کے، اس کے کیا معنی ہیں کہ ایک شخص اپنے بیٹے کو خیرات دیتا ہے، اپنی اولاد کو خیرات کرتا ہے، پریوی کونسل نے اپنی نظیر میں یہ لکھا تھا کہ متفنن اعظم کی نسبت یہ قیاس کرنا بے جا ہو گا کہ وہ یہ حکم دیتے ہیں کہ ایک چیز ایک ہاتھ سے دے اور دوسرے ہاتھ سے لے لے، وقف کے یہ معنی قرار دینا غلط ہے، جو وہ دیتے ہیں کہ وقف گھر ہی میں رہا۔ گھی کہاں گیا کھچڑی میں، صدر صاحب نے یہ بھی فرمایا کہ یہ ہو نہیں سکتا کہ انگریزی قوم اس بات کے سمجھنے سے قاصر ہو کر خیرات اپنی اولاد، اپنے خاندان، اپنی قوم کو دی جا سکتی ہے، ابھی تک کوئی اس نقطہ کو نہیں سمجھا کہ خیرات کے ہم سب مستحق ہیں، ہماری ذات بھی ہے اور ہماری اولاد بھی، خیر یہ ایک مسئلہ دقیق ہے، لیکن عرض یہ ہے کہ اتنا بڑا عظیم الشان مسئلہ جس پر کسی جماعت نے، کسی سوسائٹی نے، کسی گروہ علماء نے توجہ نہیں کی، ہمارے ندوہ نے اس کام کو اٹھایا، اس طرح سے نہیں اٹھایا کہ جس طرح سے ہم دوسرے کاموں کو اٹھاتے۔ ہیں کہ بس ایک رولیوشن پاس کر دیا اور اس کو ٹچ کر دیا، اور چھومنتر کر کے مس کر دیا، اور وہ اکسیر بن گیا، اس طرح نہیں بلکہ ایک اسجٹیشن پیدا کر دیا، کوئی انجمن ہندوستان کی باقی نہیں رہی جس میں ریزولیوشن پاس نہیں ہوئے، اس امر کے متعلق وفود صوبہ کی گورنمنٹ اور وائسرائے کی خدمت میں نہ بھیجے گئے ہوں اور اس رپورٹ کا انگریزی میں بھی ترجمہ کر دیا گیا تھا، ہر جگہ سے دستخط کر لیے گئے، میموریل بھجوا دئیے گئے، ایک عام شور مچا دیا تمام ہندوستان میں، جس کا یہ نتیجہ ہوا کہ ایک قانون بنا اور مسٹر جناح نے اس کو پیش کیا، تمام ممبران کونسل نے باوجود اس کے کہ ہندو ممبر بھی تھے، نہایت زور کے ساتھ اس کی موافقت کی، اور مسٹر سنہا نے بھی اس کی تائید کی ، یہ وقف کا مسئلہ ہے۔ آپ نے ابھی میرے عزیز دوست سید سلیمان کو جس نے ابتدا سے آخر تک اسی ندوہ میں تعلیم پائی ہے، دیکھا ہے (لوگ کہتے ہیں کہ ندوہ نے کیا کیا؟ کچھ نہیں کیا، ایک سلیمان کو پیدا کیا تو یہی کافی ہے) اس نے ابھی جو رپورٹ تصحیح اغلاط پڑھی ہے، اس کو آپ نے سنا ہے، یہ ایک ضروری مسئلہ کے متعلق ہے، جس کی لوگوں کو کچھ پروا نہ تھی، حضرات! کیا آپ نے اس بات پر غور کیا ہے کہ آپ کے ہزاروں لاکھوں بچے ان الفاظ کو مدرسوں میں پڑھتے ہیں، جن کو آج آپ نے سنا، اور جن کے سننے سے آپ کے دل لرز گئے ہیں، اور جس پر آپ نے نفرت کے نعرے بلند کیے ہیں (ابھی اس سے پہلے آپ نے نعرے بلند کئے تھے) سوال یہ ہے کہ آپ کا لڑکا پڑھ کر گھر میں آتا تھا تو کیا کبھی اس نے شکایت کی کہ آیا ایسے ناگوار اور لغو الفاظ ہم کو اسکول میں پڑھائے جاتے ہیں؟ آپ کا احساس مذہبی زائل ہو رہا ہے، آپ کو اس پر رونا چاہیے کہ آپ کی فیلنگ، آپ کے احساس مذہبی بالکل فنا ہوتے جاتے ہیں، اگر جو کچھ آتا جائے آپ اس کو قبول کرتے جائیں تو نعوذ باللہ اسلام دنیا سے بالکل خارج ہو جائے گا، ندوہ کا یہی کام ہے کہ فیلنگ مذہبی زندہ کر دے، ندوہ کے سوا کون سی ایسی جگہ ہے، جہاں آپ ایسے روشن خیال لوگ اور انگریزی داں جمع ہوتے ہیں؟ مجھے یہ خوب معلوم ہے کہ یہ آپ کا قصور نہیں انگریزی داں تو ہر جگہ جانے کو تیار ہیں، میرے دوست آنریبل آفتاب احمد خان صاحب دیوبند گئے تھے، وہاں اس پر اعتراض ہو اکہ اس کو کیوں بولنے دیا، یہ خدمت کے لیے موجود ہیں، مگر آپ ان کو خدمت گار نہیں بناتے ہیں، اسی طرح آپس میں فیلنگ خراب ہوتی جاتی ہے اور تم مردہ ہوتے جاتے ہو، مذہبی فیلنگ کو زندہ رکھو، صرف ندوہ ہی اس فیلنگ کو زندہ رکھ سکتا ہے، کیونکہ اس نے اس کام کو کسی حد تک کیا ہے، وہ آپ کو نہایت فیاضی کے ساتھ مدعو کرتا ہے، اس اسٹیج پر جس پر علما ئے کبار بیٹھے ہیں، ایسے لوگ بھی بیٹھے ہیں جو ایک حرف نہیں جانتے، اس بناء پر آپ لوگ دیکھتے ہیں کہ ہر سال ہم کو موقع ملتا ہے کہ ہم آپ کے ان احساسات مذہبی کو جو مر گئے ہیں اور مرتے جاتے ہیں، ان پر جلا کر کے ان کو روشن کریں۔ حضرات یہ شاعری نہیں، میں بے شبہہ شاعر ہوں، لیکن ہر شخص اس بات کو تسلیم کر لے گا کہ میری کتابیں شاعری سے خالی ہیں، مجھ کو تمام عمر میں اگر کسی نے داد دی ہے، اور کسی کی صلاح پر اگر میں خوش ہوا ہوں اور ان کی باتوں سے اگر میرے دل میں جگہ ہوئی تو صرف یہی ہے کہ ایک شخص نے کہا کہ شبلی گو ایک شاعر طبع شخص ہے اور اس کی فیلنگ شاعرانہ ہے، مگر عالم تاریخ میں آن کر ا س نے ایک شعر نہیں باندھا، میں جو کچھ کہہ رہا ہوں، وہ سخن سازی نہیں ہے، لفاظی نہیں ہے، واقعات ہیں، حقیقت ہے،اس لیے میں آپ کے سامنے صرف کہنا چاہتا ہوں کہ اگر آپ چاہتے کہ ہندوستان میں مسلمانوں میں احساس مذہبی قائم رہے، اور قوم کو جو مذہبی ضرورتیں پیش آتی ہیں، ان کا کوئی پیش کرنے والا گروہ موجود رہے، گورنمنٹ کے سامنے رعایا کے لیے لڑنے والا اور گورنمنٹ کے ساتھ ساتھ چلنے والا ہو تو صرف یہی ندوہ ہو سکتا ہے اگر آج نہیں ہے تو کل ہو گا، اگر قابلیت ہے تو اسی میں ہے، اس بناء پر میں آپ صاحبان کے سامنے جہاں پہ پیش کرتا ہوں کہ ندوہ ایک ضروری چیز ہے، قوم کے لیے ایک لازمی چیز ہے اس کے ساتھ ہی یہ کہوں گ اکہ اس بات کی سب سے زیادہ ضرورت ہے کہ ہمارا ایک مرکز ایسا ہو کہ جس کی آواز تمام قوم کی آواز سمجھی جائے، جس طرح سے مسلم لگے انے ایک جلسہ بنایا کہ جس کا منشا یہ ہے کہ پولیٹکل باتوں میں اس جلسہ کی آواز تمام قوم کی آواز سمجھی جائے، اسی طرح سے ہم کو ضرورت ہے کہ ہماری ایک مذہبی کانفرنس ہو جس کی آواز تمام مسلمانوں کی آواز سمجھی جائے اگر یہ نہیں ہے تو مذہبی امور میں گورنمنٹ کے مقابلہ میں کامیاب نہیں ہو سکتے، بلکہ وہی بات پیش آئے گی جو ہمارے دوست عزیز مرزا مرحوم کو پیش آئی تھی، انہوں نے کہا تھا کہ گورنمنٹ کو چاہیے کہہ و قف کی نگرنای کرے اس لیے کہ اکثر وہ بے جا طور پر خرچ ہوتا ہے، گورنمنٹ پوچھتی ہے کہ پہلے آپ ثابت کیجئے کہ یہ صرف آپ کا (مرزا صاحب کا) خیال ہے یا اور تمام مسلمانوں کا، حالانکہ انہوں نے پرسنل حیثیت سے نہیں بھیجا تھا، مسلم لیگ کی طرف سے بھیجا تھا، مگر گورنمنٹ کو شبہہ ہے کہ آیا مسلم لیگ بھی مسلمانوں کی آواز ہے یا نہیں؟ (بحث ہونے لگی اور سلسلہ تقریر منقطع ہو گیا) میری یہ غرض ہے کہ اس وقت تک اگرچہ ندوہ نے کوئی ایسی قوت حاصل نہیں کی جیسا کہ میں نے آپ سے بیان کیا تھا، اور جس کی خواہش ہے لیکن پھر بھی اگر اس وقت گورنمنٹ یا گورنمنٹ کے افسران کسی جماعت کے مسلمانوں کی مذہبی آواز مانتے ہیں، تو وہ یہی ندوہ ہے، اس وقت اس کی دو تین مثالیں پیش کرتا ہوں۔ اولاً تو آپ کو معلوم ہے کہ مسٹر جناح نے جب وقف علی الاولاد کا قانون پریوی کونسل میں پیش کیا تو انہوں نے نہایت تشریح کے ساتھ کہا (میں نے ان کی اسپیچ خود پڑھی) کہ ندوۃ العلماء جو ایک ایجوکیٹڈ مولویوں کا جلسہ ہے، ان کی انجمن متفق ہے، اور اس نے اس مسئلہ کو نہایت زور سے دکھایا ہے، اور تمام مسلمانوں کو اس پر متفق کیا ہے۔ دوم میرے پاس ایک مجسٹریٹ صاحب کا سرکاری خط آیا کہ میرے یہاں ایک مقدمہ پیش ہے، جس میں عورت چاہتی ہے کہ لڑکی کو اپنے پاس رکھے اور شوہر چاہتا ہے کہ وہ اپنے پاس رکھے شاید دونوں میں طلاق ہو گئی تھی، ندوہ بتائے کہ وہ کیا فیصلہ کرتا ہے؟ جو کچھ میں نے اپنے ندوہ کے مولویوں سے لکھا کر بھیجا، مجسٹریٹ نے اسی کے مطابق فیصلہ کیا، اور شکریہ کا خط مجھے لکھا کہ وہ دونوں اس فیصلہ پر راضی ہو گئے۔ سویم میرے ہاتھ میں ڈپٹی کمشنر کا ایک لفافہ ہے، ان کی عدالت میں ایک بہت بڑا مہتمم بالشان جھگڑا پیش تھا، کسی مذہبی مسئلہ کے متعلق انہوں نے پوچھا اور یہاں سے جو جواب گیا۔ اس کے موافق فیصلہ کیا اور لکھا کہ میں اس پر اعتماد کرتا ہوں اگر آپ لوگ چاہتے ہیں کہ ہماری ایک مذہبی آواز ہو تو ایک چیز کو اختیار کیجئے۔ اگر ندوہ ابھی تک آپ کی مذہبی آواز نہیں ہے تو اس کو بنا سکتے ہیں، آخر آپ کو یہی بنانا ہے، اس سے بہتر کوئی چیز آپ کو مل جائے، تو آپ اس کو اختیار کیجئے، لیکن اگر ایک چیز ایک حد تک بن چکی ہے تو اس بناء پر اس کی قدر کیجئے، اور ا سکو قوم کی آواز سمجھئے، اس امر کے عرض کرنے کے بعد اب مجھے صرف یہ کہنا ہے کہ ندوہ نے اس اصول کی بناء پر ایک دار العلوم قائم کیا اور جس میں یہی ایک اصول اختیار کیا جس کی میں نے آپ کے سامنے تشریح بیان کی ہے، میں اس بات کو مانتا ہوں کہ ندوہ اب تک اس طریقہ تعلیم میں کامیاب نہیں ہوا۔ اس لیے کہ وہ مشکل طریقہ ہے، اگر ہم وہ طریقہ اختیار کرتے جو سرکاری اسکولوں میں جاری ہے، اور اپنے لڑکوں کو وہاں پر پڑھنے کے لیے بھیجتے یا وہ طریقہ اختیار کرتے جو قدیم سے مدارس عربیہ میں تھا، یہ دونوں طریقے نہایت آسان ہیں، مگر مشکل یہ ہے ، در کفے جام شریعت در کفے سندان عشق وغیرہ۔ ایک طرف تو شریعت کا پیالہ ہے شیشہ سے نازک اور دوسری طرف جنت ہے، ندوہ اسی خیال میں گرفتار ہے چار برس سے میں خود پڑا ہوا ہوں، سو سو طرح سے غور کرتا ہوں کہ کیا کیا تدابیر اختیار کی جائیں، جہاں تک بنا میں نے کوشش کی، یہ تو ممکن نہیں ہے کہ ایک برتن میں جس میں ایک سیر پانی رکھنے کی گنجائش ہو، اس میں دو سیر پانی بھر دیا جائے، اس میں تو صرف ایک سیر آئے گا، ہماری جو قدیم علوم و فنون کی کتابیں ہیں وہ اور انگریزی علوم اور زبان یہ دونوں ایک برتن میں کیونکر سما سکتے ہیں اس واسطے ہم کو یہ کرنا پڑا کہ ہم نے اپنے یہاں کی جو غیر ضروری چیزیں سمجھیں ان کو گھٹا دیا۔ بہت سی فلسفہ اور منطق کی کتابیں گھٹا دیں (جس پر ہمارے مولوی نقی صاحب راضی ہوں یا نہ ہوں ) ان کی جگہ انگریزی داخل کی ایم اے اور بی اے کی قابلیت کے اشخاص اپنے اسٹاف میں داخل کئے، تقریباً تین چار سو روپیہ خاص انگریزی پڑھانے پر صرف کئے جا رہے ہیں، یہ سب کچھ کیا جا رہا ہے، لیکن یہ ایسی چیز نہیں کہ اگر قوم پوچھے کہ ندوہ نے 10-15 برس میں کیا کیا؟ تو اس کے نتائج آسانی سے دکھلائے جا سکتے ہوں، کام کیا جا رہا ہے، اور قوم کے برتاؤ کی ہمارے ساتھ یہ حالت ہے، ہماری ایک اہم جرورت اس وقت یہ ہے کہ ہم کو ایک عمارت بنانا چاہیے ہم سے یہ خواہش ہے کہ لڑکے ایسے سلیقہ، ایسی پابندی اور ایسے قاعدے سے لے رہیں، جس طرح سے کہ اعلیٰ درجہ کے بورڈنگوں میں رہتے ہیں۔ لیکن ہماری یہ حالت ہے کہ ہم کو ایک کوٹھری نصیب ہے جس میں ہم پانچ لڑکوں کو بھرتے ہیں، جگہ نہیں ملتی، میرے پاس ہر روز نہیں تو ہفتہ میں دو تین دفعہ خطوط آتے ہیں کہ اپنا لڑکا ندوہ میں بھیجتا ہوں، مجھ کو لکھنا پڑتا ہے کہ جگہ نہیں ہے میں نے جب سنا ہے کہ ہمارے حضرت صدر ندوہ کی پرانی عمارت دیکھنے کے لیے جانے والے ہیں تو میں نے کہا کہ وہاں کہاں جاتے ہو، چند روز ہوئے ڈائریکٹر آف پبلک انسٹرکشن نے مجھ سے کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ میں ندوہ میں آ کر دیکھوں اور اکزا من کروں کیونکہ یہ میرا فرض ہے۔ میں نے کہا کہ تھوڑے دن اور معاف کیجئے۔ حضرات! کیا یہ افسوس کی بات نہیں ہے، کیا اس کی شرم بانیان ندوہ اور قوم کو نہیں ہے، اور سات کروڑ مسلمانوں کو نہیں ہے؟ ایک حاتم دوراں یعنی بہاول پور کی رئیسہ نے اگر ہم کو پچاس ہزار روپے دئیے جس سے یہ عمارت کھولی ہے تو کیا بس یہی فرض کفایہ ہے کہ سات کروڑ مسلمان سبکدوش ہو گئے؟ یہ مکان پچاس ہزار میں نہیں باسٹھ ہزار میں بنا ، پھر نا تمام ہے، اب ضرورت یہ ہے کہ اس کے لیے اپیل کرنا ہے، ملک سے، قوم سے، اس وقت تک ہم اس لیے چپ رہے کیوں کہ ہم جانتے تھے کہ ایک نہایت اہم اور نہایت ضروری اور عالمگیر کام ہندوستان میں ہو رہا ہے، یعنی یونیورسٹی کا، اس لیے ہم نے آواز بلند نہیں کی لیکن اب وقت آ گیا ہے کہ قوم کو واقف ہونا چاہیے اور تقسیم عمل کی بناء پر کام ہونا چاہیے تم ایسے مرے ہوئے نہیں ہو کہ یونیورسٹی کے بنانے کے بعد بس تم بالکل مر گئے، اور تم میں کسی قسم کی حالت باقی نہیں رہی، اور سینکڑوں برس تک تم کسی کام کے قابل نہیں رہے، یہ نہیں ہے۔ حضرات! ہمیں اس وقت صرف پندرہ بیس ہزار روپے مدرسہ کے کمروں، اور تیس چالیس ہزار روپے بورڈنگ کے لیے چاہیے، آپ تیس لاکھ چالیس لاکھ چہاتے ہیں تو ہم اتنا نہیں چاہتے ہیں آپ صاحبان سے اپیل کرنا چاہتا ہوں کہ آپ دوسرے وقت بھی غور کریں کہ ان چند سکوں کے جمع کرنے کی کیا تدابیر اختیار کریں؟ اور ہم کو کیاکرنا چاہئے؟ میرے ذہن میں بہت سی تدبیریں آئی ہیں، اجمالاً میں آپ کے سامنے پیش کرتا ہوںجو حضرات یہاں بیٹھے ہیں اور یہاں کے رہنے والے ہیں، اور جن کا اثر یہاں کے رئیسوں پر ہے، وہ ایک ڈیپوٹیشن بنائیں اور ہمارے راجہ صاحب محمود آباد اور راجہ صاحب جہانگیر آباد کے پاس جائیں، اگرچہ میں جانتا ہوں کہ ابھی وہ سخت زور ضرب اٹھا چکے ہیں، یعنی ایک ایک لاکھ روپیہ یونیورسٹی میں دے چکے ہیں، مگر حضرات واضح رہے کہ ہم ان لوگوں کی نسل ہیں، جنہوں نے دنیا میں فیاضی کے حیرت انگیز نمونے پیش کئے ہیں، مہلب بنو امیہ کے زمانہ میں ایک مشہور عرب امیر تھا، حجاج نے اس کو قید کر دیا۔ اور حکم دیا کہ وہ ہر روز ایک ہزار روپیہ جرمانہ داخل کرے، جس دن وہ ایک ہزار روپیہ داخل کرے گا اس دن قید سے چھوڑ دیا جائے گا، اور جس دن ایک ہزار روپیہ نہ داخل کرے گا اس دن پھر قید میں ڈال دیا جائے گا۔ چنانچہ وہ غریب روز ایک ہزار روپیہ نہ داخل کر لے گا اس دن پھر قید میں ڈال دیا جائے گا۔ چنانچہ وہ غریب روز ایک ہزار روپیہ کہیں نہ کہیں سے بہم پہنچاتا تھا، جس دن نہیں پہنچاتا تھا، قید میں رہتا تھا، ایک دن ایک شاعر اس کے پاس گیا، اور اپنی بڑی ضرورت بیان کی، اس نے اس دن کا وہ ہزار روپیہ اس شاعر کے حوالہ کر دیا، اور خود قید میں چلا گیا۔ جب کہ ہمارے قدماء نے ایسی مثالیں پیش کی ہیں کہ ایک شخص قید قبول کر لیتا ہے بمقابلہ اس کے کہ ایک شاعر کو ناکام واپس کرے، تو کیا ہمارے رئیس جو اگرچہ ابھی ایک بڑے چندہ کی زد کھا چکے ہیں، پانچ پانچ ہزار کی رقم اور نہیں دے سکتے ہیں؟ اس کے بعد میں ساری قوم کے سامنے اور سب سے پہلے خود ارکان ندوہ کے سامنے یہ تجویز پیش کرتا ہوں کہ ان میں سے ہر شخص کچھ نہ کچھ دار الاقامہ کی تعمیر کے لیے پیش کرے، گو مجھے خوف ہے کہ میرے احباب مجھ سے روٹھ جائیں گے تاہم اس خوف کی پروا کیے بغیر میں یہ کہوں گا کہ اراکین ندوہ میں ایسے اشخاص موجود ہیں جو کم سے کم پانچ پانچ سو روپیہ دے سکتے ہیں۔ ندوہ میں51 ممبر ہیں جن میں سے دس بارہ ایسے ہیں، جو پانچ پانچ سو روپیہ با آسانی دے سکتے ہیں۔ سب سے پہلے میں خود پانچ سو روپیہ کا چیک لکھتا ہوں، اس کے بعد میں یہ خواہش کرتاہوں کہ دس دس روپیہ کے دینے والے پانچ ہزار مہیا کئے جائیں، اور اس طرح پچاس ہزار جمع ہو جائیں گے، دس روپیہ دینا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ اگر آپ صاحبوں میں کوئی قوم کی ہمدردی ہے، اور مذہبی تعلیم کا کوئی خیال ہے، تو میرے بعد کوئی اور صاحب بھی اس کی تائید فرمائیں گے، مجھے جس قدر بکنا تھا اب بک چکا، اور جو کہنا تھا وہ کہہ چکا۔ ٭٭٭٭٭٭٭ اسلام بحیثیت ایک مکمل مذہب کے اسلام کی بہترین جمہوریت علامہ شبلی نعمانی کا لیکچر مدرسۃ العلوم علی گڑھ میں1913ء ’’ ہماری قوم کے قابل فخر فرد فرید اور زمانہ حال کے مورخ بے نظیر علامہ شبلی نعمانی وقتاً فوقتاً علی گڑھ میں رونق افروز ہو کر کالج کے طلبہ کو اپنے پاکیزہ خیالات اور اسلام کی اصلی تعلیمات سے آگاہ کرتے رہتے ہیں، چنانچہ آپ نے حال میں علی گڑھ تشریف لا کر 21 فروری 1913 ء کو نماز جمعہ کے بعد اسٹریچی ہال میں طلبہ کے روبرو ایک مبسوط تقریر فرمائی، جس کا خلاصہ یہ ہے (علی گڑھ گزٹ)‘‘ حضرات! گو مجھے ہندوستان کے ہر گوشہ میں تقریر کرنے کے موقعے ملے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ تقریر کا اصلی مقام علی گڑھ ہے، کیونکہ تمام ہندوستان میں جیسے سامعین، جیسے قدر شناس، جیسے اندازہ داں علی گڑھ میں ہیں، اور کہیں نہیں ہیںپھر یہ کہ علی گڑھ میں تقریر کرنا ہندوستان کے سات کروڑ مسلمانوں کے سامنے تقریر کرنے کے برابر ہے۔ اسی لیے میری ہمیشہ یہ خواہش رہی کہ سال میں کم از کم چھ مہینے کالج میں بسر کروں (اور نواب محسن الملک مرحوم اور مسٹر ماریسن کے زمانہ میں اس قسم کا ایک معاہدہ تک ہو گیا تھا) مگر بعض موانع علی الخصوص ندوہ کے کام نے مجھے اپنے اس ارادہ کی تکمیل سے باز رکھا، خدا کرے کہ یونیورسٹی اسکیم جلد عملی صورت میں آئے، تاکہ مجھے بھی اس کی خدمت کا موقع ملے، خوش قسمتی سے جیسے کارکن اور اولڈ بوئز اور طلبہ علی گڑھ کو ملے ہیں، اگر ندوہ کو ملیں تو اس کی ترقی کی فکروں سے بہت کچھ سبکدوشی حاصل ہو سکتی ہے۔ علی گڑھ میں تعلیم کی بنیاد نئی تعلیم کے ساتھ ساتھ مذہبی تعلیم پر قائم کی گئی تھی، لیکن افسوس ہے کہ حقیقی مذہب کی جانب سے مسلمان لا پروا ہیں، ورنہ جس طرح اس وقت جدیدہ علوم و فنون کے سیلاب میں ہمارے مذہبی علوم بہہ رہے ہیں، ٹھیک اسی طرح ایک زمانہ ہماری قوم پر عباسیوں کے زمانہ میں بھی آیا، لیکن اس وقت چونکہ قوم زندگی سے معمور تھی، اس لیے اپنے مذہبی علوم کے ساتھ ساتھ قدیم یونانی علوم کو بھی پہلو بہ پہلو جگہ دی، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان ہر دو قسم کے علوم کے مابین ایک حد فاصل قائم وہ گئی، اس کے بعد ایک گروہ پیدا ہوا، جس نے مذہب اور عقل کی تطبیق کی، جس کے گل سر سید امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ تھے، بعینہ یہی کیفیت مذہب کی اس جدید تمدن کے دور میں ہو گئی ہے، اور اسی خرابی کو دور کرنے کی غرض سے ندوۃ العلماء کی بنیا دڈالی گئی ہے، کہ ایک ایسا گروہ پیدا کیا جائے جو اس شعر کا مصداق ہو در کفے جام شریعت در کفے سندان عشق ہر ہو سنا کے نہ واند جام و سنداں باختن اسی قسم کی دقتیں دوسری قوموں کو در پیش ہیں، مگر وہ کس استقلال اور مضبوطی سے اپنے کام کو انجام دے رہی ہیں، اور نئی تعلیم کے ساتھ اپنی مذہبی و ملکی خدمات کو فراموش نہیں کر رہی ہیں۔ یورپ سے زیادہ نئی تعلیم کا نشہ تو ہمارے اندر چھایا نہیں مگر انہی کیمبرج اور آکسفورڈ کے انگریز تعلیم یافتوں میں سے پادری پیدا ہوتے ہیں، جو اپنے مذہب کی خاطر جنگل جنگل مارے مارے پھرتے ہیں، تاکہ جنگلی قوموں کو انجیل سے آشنا کریں ہندوؤں میں آریہ ہیں جو نئی تعلیم کے باوجود اپنے مذہب کا یہ جوش و خروش رکھتے ہیں کہ مسلمانوں کو بھی ہندو بنانے کے لیے تیار ہیں انہی نے گروکل قائم کیا ہے، جس میں انگریزی کے ساتھ سنسکرت کی تعلیم دیتے ہیں، اور آریہ مبلغ تیار کرتے ہیں، جس میں ایسے 300 لڑکے پڑھتے ہیں جنہوں نے یہ عہد کیا ہے کہ جب تک ان کی گروکل کی تعلیم پوری نہ ہو گی گھر کا رخ نہ کریں گے، زمین پر سوئیں گے، کمبل اوڑھیں گے اور پڑھنے کے بعد ملک میں پھر کروید کا پرچار کریں گے۔ مرہٹوں نے ہندو گریجوٹوں کے لیے پونہ میں سرونٹس آف انڈیا سوسائٹی کی قائم کی ہے، جس کے ممبر وہ ہندو گریجویٹ ہیں، جنہوں نے اپنی زندگی کو صرف تے سروپیہ ماہوار پر فروخت کر دیا ہے، لیکن افسوس ہے کہ ہم میں اس ایثار کا شائبہ بھی نہیں پایا جاتا مسلمانوں کی جانب سے اس سوال کا جواب یہ دیا جاتا ہے کہ جب ہماری قوم کو اس قدر ترقی حاصل ہو جائے گی کہ ہر قسم کے پیشوں میں اس کی تعداد کافی ہو جائے گی، تو فاضل بچنے والی تعداد اس قسم کا ایثار کر سکے گی، بحالیکہ ایثار والے پہلے ہی ہوا کرتے ہیں، نہ اس وقت جب کہ قوم کو اس قدر ترقی حاصل ہو جائے گی۔ دو واقعے جب ایک ساتھ ہوتے ہیں تو ان کو عام طور سے لازم و ملزوم یا ایک کو سبب اور دوسرے کو مسبب سمجھ لیا جاتا ہے، مسلمانوں میں اس وقت یہ دو واقعات پہلو بہ پہلو پائے جاتے ہیں، ایک یہ کہ مسلمان اپنی سلطنت میں یا غیر سلطنتوں میں غرض ہر جگہ ذلیل و خوار ہیں، اور دوسرا یہ کہ دنیا کے مسلمانوں کے اندر سوائے مذہب کے کوئی بات مشترک نہیں، اس بناء پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ مسلمانوں میں مذہب ہی کہاں ہے، اس کی پابندی اور اس کے احکام کی تعمیل کہاں کی جاتی ہے، عام مسلمان مذہبی حقائق کو گم کر کے اوہام میں مبتلا ہیں، مافوق العادۃ عقائد کے دلدادہ ، اور عورتوں کے حقوق سے نا آشنا ہیں، اور خواص سرے سے مذہب کی قید و بند سے آزادی کے طالب ہیں، اس لیے حقیقت میں تمام مسلمانوں میں آج مذہب اشتراک نہیں، بلکہ عدم مذہب کا اشتراک ہے، اسی خیال کو میں نے ایک نظم میں جس کا عنوان ہے ’’ تنزل اسلام کا سبب اصلی ‘‘ ادا کیا ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ یہ بات ہے اب امر صریح، کہ زمانہ میں کہیں عزت اسلام نہیں آپ جائیں گے جہاں قوم کو پائیں گے ذلیل اس میں تخصیص عراق و عرب و شام نہیں یہ بھی ظاہر ہے کہ ہیں مختلف الحال یہ لوگ کوئی چیز ان میں جو ہو مشترک عام نہیں ایشیائی ہے اگر یہ، تو وہ ہے افریقی اور کوئی رابطہ نامہ و پیغام نہیں لالہ رخ یہ ہے، توزنگی وسیہ فام ہے وہ یہ سمن بر ہے، وہ موزون و خوش اندام نہیں اس نے گہوارہ راحت میں بسر کی ہے عمر وہ کبھی خوگر آسائش و آرام نہیں وہ ازل سے ہے کمند افگن و شمشیر نواز اس کو جزعیش کسی چیز سے کچھ کام نہیں حور وایواں سے بھی سیری نہیں ہوتی اس کو اس کو گرنان جویں بھی ہو تو ابرام نہیں پس اگر غور سے دیکھو تو بجز مذہب و دین ہم مسلمانوں میں کوئی صفت عام نہیں ان اصولوں کی بنا پر یہ نتیجہ ہے، صریح سبب پستی اسلام جز اسلام نہیں ان مسائل میں ہے کچھ ژرف نگاہی درکار یہ حقائق ہیں تماشائے لب بام نہیں غور کرنے کے لیے فکر و تعمق ہے ضرور منزل خاص ہے یہ رہگزر عام نہیں بحث مافیہ میں پہلی غلطی یہ ہے کہ آپ جس کو اسلام سمھتے ہیں وہ اسلام نہیں آپ کھانے کو بنا دیتے ہیں پہلے مسموم پھر یہ کہتے ہیں غذا موجب اسقام نہیں اعتقادات میں ہے سب سے مقدم توحید آپ اس وصف کو ڈھونڈیں تو کہیں نام نہیں کون ہے شائبہ شرک سے خالی اس وقت کون ہے جس پہ فریب ہوس خام نہیں آستانوں کی زیارت کے لیے شدر حال اس میں کیا شان پرستاری اصنام نہیں کیجئے مسئلہ شرک نبوت پہ جو غور کفر میں بھی یہ جہانگیری اوہام نہیں اب عمل پر جو نظر کیجئے آئے گا نظر کہ کسی ملک میں پابندی احکام نہیں اغنیا کی ہے یہ حالت کہ نہیں ہے وہ رئیس جس کے چہرے پہ فروغ مے گلفام نہیں نص قرآں سے مسلمان ہیں بھائی بھائی اس اخوت میں خصوصیت اعمام نہیں یاں یہ حالت ہے کہ بھائی کا ہے بھائی دشمن کونسا گھر ہے جہاں یہ روش عام نہیں نہ کہیں صدق و دیانت ہے نہ پابندی عہد دل ہیں نا صاف زبانوں پہ جو شنام نہیں آیت فاعتبروا پڑھتے ہیں ہر روز مگر علما کو خبر گردش ایام نہیں الغرض عام ہے جو چیز وہ بے دینی ہے صاف یہ بات ہے یہ دھوکہ نہیں ابہام نہیں ان حقائق کی بنا پر سبب پستی قوم ترک پابندی اسلام ہے اسلام نہیں چونکہ اس وقت میری طبیعت ناساز ہے، اور سخت دوران سر ہے، اس لیے مجھے جو موضوع دیا گیا ہے، یعنی ’’ جمہوریت اسلام‘‘ اس پر کچھ مختصر ہی اظہار خیال کر سکوں گا۔ 1الیوم اکملت لکم دینکم و اتمت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دینا آج میں نے تمہارے لیے دین کو مکمل، اور اپنی نعمت کو تمہارے اوپر تمام کر دیا، اور تمہارے واسطے میں نے دین اسلام کو انتخاب کیا۔ 2وما ارسلناک الا رحمۃ للعالمین ہم نے تم کو کل عالم کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے 3ما کان محمد ابا احمد من رجالکم ولکن رسول اللہ و خاتم النبین تم لوگوں میں سے محمد ؐ کسی کے باپ نہیں ہیں، بلکہ خدا کے رسول اور خاتم الانبیاء ہیں۔ قرآن پاک کے اندر مندرجہ بالا تین مقامات پر تین دعوے کئے گئے ہیں1دین اسلام کا مکمل ہونا2آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کا کل عالم کے لیے عام ہونا، 3آپ کے بعد کسی اور نبی کی ضرورت نہ رہنا۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وسلم) کی بعثت سے قبل عرب میں کوئی اسباب تمدن موجود نہ تھے، جس کا ثبوت بدیہی یہ ہے کہ باوجود عربی زبان کی تمام تر وسعت کے خاص عربی زبان میں چراغ تک کے لیے کوئی عربی لفظ نہیں، اور ’’ سراج‘‘ فارسی سے آیا ہوا ہے، کوپ (بمعنی پیالہ کپ) ابریق (بمعنی لوٹا معرب آب ریز) درہم، لیرہ، (پونڈ) غرض تمدن کے متعلق جس قدر الفاظ ہیں، سب غیر زبان سے اخذ کیے ہوئے ہیں۔ جہالت کا یہ عالم تھا کہ عرب کا علم الاصنام یونان سے بھی زیادہ وسیع تھا، ان خیالات میں آپ کی تعلیم کے ذریعہ سے تمام ملک کی یک لخت کایا پلٹ جانا، آپ کے اخلاق و قویٰ کے فطری طور پر مکمل ہونے کی دلیل ہے۔ نگار ماکہ بمکتب نہ رفت و خط نہ نوشت بغمزہ مسئلہ آموز صد مدرس شد مذہب کا اصلی کام فلسفہ یا پالٹیکس یا سائنس کی تعلیم نہیں ہے، بلکہ ازردے تقسیم عمل یہ چیزیں اس کے اصل دائرہ سے خارج ہیں، مذہب کا کام تزکیہ نفس اور امراض روحانی کا علاج ہے، لیکن جس طرح کہ ایک گھانس کے تنکے کے پیدا ہونے اور نشوونما پانے کے لیے اس سارے عظیم الشان نظام عالم کی ضرورت ہے، اسی طرح مذہب کی بھی سیاست، تمدن، فلسفہ غرض زندگی کی ہر شاخ سے واسطہ پڑتا ہے، اور ان سب کی بنیاد اور اصل اصول اسلام کی تعلیم کے اندر موجود ہے، جمہوریت کی بنیاد مساوات پر ہے اور اسلام سے زیادہ مساوات کسی دوسری جگہ پائی نہیں جاتی، آنحضرت (صلی اللہ علیہ وسلم) کے اصحابؓ کی شان میں ہے کہ ام ھم مثوری بینھم وہ اپنے معاملات کے اندر باہم مشورہ کرتے ہیں آب کا طریق عمل یہ تھا کہ آپ اس کثرت سے مشورہ کیا کرتے تھے کہ اصحاب کو یہ شک رہا کرتا تھا کہ آپ جو کچھ فرما رہے ہیں یہ وحی ہے یا آپ کی ذاتی رائے ہے، اور جب یہ معلوم ہوتا تھا کہ یہ آپ کی ذاتی رائے ہے تو بے تکلف آپ سے گفتگو اور اس کی نسبت اپنی رائے کا اظہار کرتے تھے، آپ نے ایک بار اہل مدینہ کو مادہ کھجوروں کو نر کھجوروں سے گابھنے کے لیے منع فرمایا لیکن اس سال جب کھجوریں کم پھلیں اور یہ شکایت آپ ؐ تک پہنچی تو آپ ؐ نے ارشار فرمایا کہ انتم اعلم یا مور دینکم تم اپنی دنیا کے معاملات سے زیادہ واقف ہو بموجب ارشاد باری آپ ؐ نے اپنی قوم کو بتا دیا کہ انما انا بشر مثلکم یوحی الی میں تمہاری ہی طرح ایک انسان ہوں، صرف اتنا فرق ہے کہ مجھ پر وحی آتی ہے۔ اس کا یہ شرف ہے کہ اس نے تمام ظالمانہ تفرقوں کو مٹا دیا، ایک بار ایک صحابی نے اپنے بیٹے کو ہدایت کی کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو گھر میں بلا کر فلاں بات کہہ آؤ، جب بیٹے کو پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اس بے تکلفی کے برتے جانے پر تعجب ہوا اس کو بتایا گیا کہ ما محمد بجبار محمد صلی اللہ علیہ وسلم ظالم نہیں ہیں ایک بار آپ نے ایک شخص سے (جس پر آپ کو دیکھ کر ہیبت طاری ہو گئی تھی) فرمایا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم تو صرف قریش کی ایک عورت کا بیٹا ہے ’’ ایک موقع پر جب قیصر کے اور مسلمانوں کے سفیر کے باہم گفتگو ہوئی، اور قیصر کے سفیر نے اپنے بادشاہ کے عام انسانوں سے بر تر اور بالاتر ہونے پر فخر کیا تو معاذ بن جبلؓ نے (جو مسلمانوں کی جانب سے مامور تھے) اس سے کہا’’ ہمارا خلیفہ اور بادشاہ تو ایسا ہے کہ اگر ہم سے انچ بھر بھی اونچا بیٹھے تو ہم اسے ڈھکیل کر نیچے گرا دیں۔ ‘‘ ایک بار ایک بڑھیا سے معقول جواب پا کر حضرت عمرؓ نے فرمایا تھا کہ کل اعلم من عم حتی المخدرات سبھی تو عمر سے زیادہ داتا ہیں، یہاں تک کہ پردہ نشین عورتیں بھی اپنی خلافت کے زمانہ میں حضرت علیؓ جب ایک بار قاضی کی عدالت میں مدعا علیہ کی حیثیت سے حاضر ہوئے اور قاضی نے بمقابلہ آپ کے یہودی مدعی کے، آپ کو بیٹھنے کی اجازت دی تو آپ نے اس سے انکار کیا،ا ور فرمایا کہ ’’ پہلا ظلم تو تمہارا یہی ہے کہ دو فریقوں کے درمیان تم تفریق کرتے ہو، اور یہ مقدمہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے خلاف فیصل ہوا۔‘‘ اسلام کی اس مساوات کے مقابلہ میں اس وقت یہ کیفیت ہے کہ مسیحی نیچ قوموں سے یہ وعدہ تو کرتے ہیں کہ ’’ تم مذہب عیسوی اختیار کرنے سے قیامت میں مسیح کے پہلو میں بیٹھو گے‘‘ مگر ان کو اپنے پہلو میں جگہ نہیں دیتے، اسی طرح شدھی والے صرف اسی کو کافی سمجھتے ہیں کہ نو آت لوگوں کے ساتھ کچھ فاصلہ سے بیٹھ کر کھا لیں، بخلاف اس کے اسلام نے غلام اور آقا کو بھائی بھائی بتایا ہے، حجۃ الوداع کے موقع پر (یعنی وہ حج جو آپ کا آخری حج تھا، اور آپ اپنی قوم سے رخصت ہو رہے تھے) جب کہ آپ لوگوں کو گواہ بنانے کے لیے بار بار یہ سوال کرتے تھے کہ ’’ ھل بلغت‘‘ یعنی کیا میں نے اپنا پیغام پہنچا دیا؟ اور بالا تفاق جواب ملتا تھا کہ نعم بلغت یا رسول اللہ یعنی بے شک آپ نے اپنا پیغام پہنچا دیا، اس وقت آپ کا آخری پیغام یہی تھا کہ عرب کو عجم اور عجم کو عرب پر کوئی فوقیت نہیں،سب آدم کو اولاد ہیں، اور آدم مٹی سے بنے ہیں، اسلام نے صرف اخلاق کی بزرگی کو مقدم رکھا، چنانچہ ارشاد ہوا ہے کہ وجعلنا کم شعو یا و قبائل لتعارفو ان اکرمکم عنداللہ اتقاکم تم کو شعوب اور قبائل میں صرف شناخت کے لیے تقسیم کیا ہے، ورنہ خدا کے نزدیک تم میں بزرگ وہی ہیں جو پرہیز گار زیادہ ہیں۔ اسلام نے خدا کے ساتھ بندوں کا رشتہ قائم کرنے کے لیے کسی واسطہ کی ضرورت نہیں رکھی، بخلاف اس کے عیسائی اور ہندو اپنے عقائد کے بموجب بلا واسطہ خدا تک نہیں پہنچ سکتے۔ اب اسلام کے دوسرے دعویٰ کو لیجئے ، اسلام کے قبل دنیا میں جتنے مذاہب ہوئے ہیں، تمام کسی خاص قوم یا فرقہ یا خاص ملک یا حصہ ملک کے لیے ہوئے ہیں، یہاں تک کہ اسلام سے پہلے کا سب سے آخری مذہب یعنی عیسائیت اس کی نسبت خود حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا قول ہے کہ میں صرف بنی اسرائیل کی گم شدہ بھیڑوں کو راستہ بتانے کے لیے آیا ہوں، بمقابلہ اس کے اسلام نے کافہ انام کے لیے ہونے کا دعویٰ کیا ، اور عملاً اس کا ثبوت بھی دیا، کہ اذل خلالق قومیں اسلام کے وسیع حلقہ کے اندر داخل ہوتے ہی اسلامی اخوت میں شامل ہو جاتی ہیں، مثلاً ایک ذلیل سے ذلیل قومیت کا شخص جو مسلمان ہو جات اہے، اس سے عبدالحمید اور محمد خامس کو بھی یہ کہنے کا حق نہیں ہے کہ وہ مسجد میں داخل نہ ہو، یا فلاں مقام پر کھڑے ہو کر نماز نہ پڑھے، اسلام نے غلامان غلام تک کو سلطنت دلا دی، مثلاً محمود غزنوی جیسا با جبروت بادشاہ غلام در غلام تھا، بہت سے بڑے بڑے ائمہ حدیث و فقہ غلام تھے اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ اسلام نے انتہائی ترقی سے کسی کو محروم نہیں رکھا، اور جب مذکورہ بالا دونوں دعویٰ یعنی اسلام کا اکمل ادیان ہونا اور اس کی دعوت کا عام ہونا ثابت ہو گئے، تو آخری دعویٰ خود بخود ثابت ہو جاتا ہے کیونکہ اس کے بعد نبوت و رسالت کی کوئی حاجت باقی نہیں رہتی۔ ٭٭٭٭٭٭٭ ختم شد۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ The End