مقالات شبلیؒ جلدسوئم مرتبہ مولانا سید سلیمان ندوی ؒ بسم اللہ الرحمن الرحیم مسلمانوں کی گزشتہ تعلیم مسلمانوں کی گزشتہ تعلیم میر ے مضمون کا عنوان ہے ۔ یہ ایک ایسا وسیع مضمون ہے کہ اگراس کے ذیل میں مسلمانوں کے تمام علمی کارنامے بیان کیے جائیں تو شاید ناموزوں نہ ہو لیکن میں نے اپنے مضمون کے لیے ان میں سے صرف دو بحثیں انتخاب کی ہیں (۱) مسلمانوں نے علوم و فنون کس طرح حاصل کیے (۲) دنیا کی تمام قوموں کو ان علوم کی کیونکر تعلیم دی غالباً تعلیم کے خاص لفظ سے جو اس مضمون کا اصلی عنوان ہے یہی دو بحثیں قومی تعلق رکھتی ہیں۔ مسلمانوں نے جن علوم کی اشاعت کی ان میں سے کچھ ان کے ذاتی علو م ہیں جو خود انہوں ے ایجاد کیے یا خاص طر ح پر ان کو ترتیب دیا‘ کچھ ایسے ہیں جو دوسری قوموں سے حاصل کیے اور پھر ایسی ترقی دیکہ گویا انہی کے ایجادات سے ہیں‘ میرا مضمون گو ان دونوں قسم کے علوم سے تعلق رکھتا ہے۔ لیکن علوم کی ذاتی حیثیت سے نہیں بلکہ ان کی طرز تعلیم کے اعتبار سے ۔ میں افسوس کے ساتھ اس بات کا اعتراف کرتا ہون کہ ان دو بحثوں کی تفصیل کے لیے جس قسم کے ضروری حالات درکار ہیں یعنی فلسفہ یونانی وغیرہ کے ترجمے مترجموں اور تفصیلات کے نام اسلامی دارالعلوم اور مدرسوں کی تفصیل طریقہ درس نصاب تعلیم غرض اس قسم کے حالات مجھ کو کسی مستقل تصنیف سے نہیں ملے ۔ اور شاید لکھے بھی نہیں گئے۔ کشف الظنون ۱؎ جیسی بڑی فہرست میں صرف ایک کتاب کا نام ملتا ہے لیکن غالباً خود کشف الظنون کے مصنف کو بھی اس کا دیکھنا نصیب نہیں ہوا چنداجمالی حالات جو گبن کی رومن امپائر و ہسٹری آف فلاسفی مصنفہ ہنری لوئیس اور اقوام المسالک و چیمر انسائیکلو پیڈیا ‘ و برٹانیکا انسائیکلو پیڈیا وغیرہ میں ملتے ہیں وہ ا س غرض کے لیے بے شبہ مفید ہیں کہ جب مسلمانوں کی پچھلی ترقی کے عام ذکر میں کسی پر جوش خطیب کی زبان سے ادا ہوں تو متاثر دلوں کو ہلا دیں‘ لیکن ان سے ایک مفصل تاریخی آرٹیکل کیونکر مرتب ہو سکتا ہے میں نے مختلف تاریخوں اور دوسری قسم کی تصنیفوں کے جستہ جستہ مقامات سے کچھ حالات بہم پہنچائے ہیں اور غالباً پہلا تحریر ہے جس میں اس قدر واقعات جمع کیے گئے ہیں اصل مضمون شروع کرنے سے پہلے میں ایک اجمالی طریقہ پر مسلمانوں کے خاص علوم ان کی ابتدائی تاریخ اور سبب ایجاد کا تذکرہ کرنا مناسب خیال کرتا ہوں‘‘۔ اسلام سے پہلے گو عرب کی اقوام رسمی علوم و فنون سے بالکل بے بہرہ تھیں تاہم ان خانہ بدوش صحرائیوں میں علمی مذاق کی جان پائی جاتی تھی۔ نظم و نثر ان کا مایہ خمیر تھا لیکن وہ طوطی و بلبل کی طرح محض نیچرل فصیحاللسان نہ تھے بلکہ فصاحت و بلاغت کے دقیق نکتوں تک ان کی نگاہ پہنچتی تھی ‘ بازار عکاظ کے پر جوش مشاعرے اور ان کے باہمی مباحثے اورنکتہ چینیاں بتاتی ہیں کہ جو کچھ وہ کہتے تھے جانتے تھے کہ کیا کہتے ہیں اورکیا کہنا چاہیے امرا ایقس اور علمقمۃ الفحل کی شاعرانہ نزاع کا ایک عام عورت نے جس خوبی سے فیصلہ کیا ‘ آج فن ایشیاء کے بڑے ماہر بھی اس سے عمدہ ریمارک نہیں کر سکتے۔ اس کے سوا نسب کے فخر اور رشتہ و قرابت کی پابندیوں کی وجہ سے اہل عرب اگلے کارناموں کو ایک تاریخی ترتیب کے ساتھمحفوظ رکھتے تھے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱؎ یہ ایک نہایت ضخیم کتاب کئی جلدوں میں ہے جس میں قریباً پچاس ہزار اسلامی تصنیفوں کے نام اور ان کے حالات میں چھ ضخیم جلدوں بمقام لندن سنہ ۱۸۴۸ء میں چھاپی گئی ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسلام نے آ کر مذہب و معاشرت کے ساتھ ان کی علمی زندگی بھی بالکل بدل دی ‘ قرآن مجید کی پرتاثیر آیتوں نے شعراء اور خطیبوں کی زبانیں بند کر دیں‘ اور چونکہ دوستان یا مخالفانہ سرگرمی نے تمام عرب کی دماغی قوتوں کا رخ اسلام کی طرف پھری دیا تھا پچھلے قصے تھوڑے دنوں کے لیے بھلا دئے گئے اور علم الانساب اور ایام العرب کا زرو بھی گھٹ گیا۔ لیکن اسلا م نے جس قدر چھینا‘ اس سے بہت زیادہ عطا کیا۔ قرآن کی برابری کرنے کے حوصلے بہت جلد پست ہو گئے۔ اب شعراء اور خطیبوں نے قرآن خود رہنما بنا اور فصاحت و بلاغت کے بہت سے نئے اصول سکھا دیے۔ زبان نہایت شستہ ہو گئی اور اونٹ اور بکری کے قصوں کے علاوہ شعراء کو اخلاق اور تربیت کے بہت سے مضامین ہاتھ میں آئے یہی وجہ ہے کہ حسان حطیہ‘ ذوآلرمہ ‘ جریر‘ فرزوق ‘ احوص کے کلام میں جو ملاحت اور برجستگی ہے شعرائے جاہلیت کے رجز و قصائد میں اس کا سراغ نہیںملتا۔ ۱؎ تمام مذہبی علوم گویا اسلام کے ساتھ پیدا ہوئے زمانہ مابعد میں گو وہ کسی حد تک پہنچ گئے ہوں لیکن کچھ شبہ نہیں کہ ان کے ابتدائی اصول تمام تر قرآن پاک سے ماخوز ہیں اس کے اوامر و نواہی نے فقہ کی طرف رہبری کی آیت توریت نے فرائض کا ایک مستقل فن قائم کیا‘ انبیائے سابقین کے حالات سے قصص کی ترتیب ہوئی‘ اعتقادات اور معاد کے متعلق آیتوں سے علم کلام کا استنباط کیا گیا۔ اور گو ایک مدت تک کسی قسم کی تدوین و ترتیب نہیں ہوئی‘ لیکن پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ہی ان علوم کی بنیاد قائم ہو گئی‘ اور دوسری صدی کے آغاز تک ہزاروں مسائل کا رواج ہو چکا تھا۔ قرآن مجید میں فرائض اور اعمال کا بیان اجمالی طریقے پر تھا طریق عمل کی خصوصیتیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے طریق عمل پر منحصر تھیں‘ اس ضرورت سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و افعال کے متعلق روایتوں کے جمع کرنے کی طرف خیال مائل ہوا اور رفتہ رفتہ علم الحدیث واسما الرجال الدرایہ پیدا ہو گئے۔ ان تحقیقات میں گو کسی قدر نکتہ چینی کی جائے مگر عموماً ہر مصنف یہ فیصلہ کرے گا کہ جس بے انتہا کوشش اور تفتیش سے مسلمانوں نے پیغمبر صلعم کے اقوال و افعال محفوظ رکھے دنیا کی کسی قوم میں اس کی نظیر نہیں مل سکتی۔ اور یہ کہ انسانی سعی اور جستجو کی یہ آخری سرحدہے جہاں تک مسلمان پہنچ گئے تھے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱؎ دیکھا تاریخ ابن خلدون کا زمانہ فصل ۴۹ از فصل ۶۔۱۲ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ علم نحو اگرچہ کوئی مذہبی فن نہ تھا‘ لیکن مذہبی ہی ضرورت سے اس کی تدوین کی طرف خیال مائل ہوا‘ اسلام دور دراز ملکوں میں پھیلتا جاتا تھا اور سینکڑوں نئی قومیں اس میں شامل ہوتی جاتی تھیں‘ دوسری زبانوں میں الفاظ رعبی بزبان مٰں بہت جلد جگہ پا گئے تھے جس سے احتمال تھا کہ مشتقات اور اصول اعراب میں بھی فرق آ جائے‘ اس قسم کے تصرفات سے جو صدمہ زبان پر پڑتا‘ اس کا بہت بڑا اثر قرآن اور حدیث پر ہوتا‘ چند واقعات نے اس احتمال کو قوی کر دیا‘ اور بالآخر ابوالاسود وئلی المتوفی سنہ ۶۹ ھ میں جس ن خود اس قسم کے تجربے ھاصل کیے تھے ‘ مسائل نحو کی تدوین کی طرف مائل ہوا اس نے چند قاعدے منضبط کیے جو رفتہ رفتہ وسعت حاصل کرتے گئے ہارون رشید کے زمانہ مٰں خلیل بن احمد بصری المتوفی سنہ ۱۷۰ھ دسیبویہ و کسائی وغیرہ کی توجہ سے وہ ایک مستقل فن بن گیا‘ جس کو متاخرین نے بھی بہت کچھ ترقی دی۔ غرض مذہب کے متعلق جس قدر ضروری اور مہتم بالشان علوم تھے گویا مذہب کے ساتھ پیدا ہوئے اور مسجدوں کے صحن یا عام مجلسوں میںان کے مسائل رواج پانے لگے خود صحابہ کے عہد میں ایسے متعدد اشخاص ۱؎ موجود تھے جو کثرت معلومات کے ساتھ طرز استدلال طریق استبناط ‘ تخریج احکا م میں اجتہاد کا حق رکھتے تھے۔ اور زمانہ مابعد میں جب صحابہ کے حالات زندگی قلم بند ہوئے تو وہ مجتہدین کے لقب سے پکارے گئے اور کچھ لو گ ایسے تھے جو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱؎ ابن خرم نے ان کی تعداد بیس تک خیال کی ہے دیکھو فتح المغیث مطبوعہ لکھنو ص ۱۳۸ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جو حدیثوں کے یاد رکھنے میں مشہور تھے۔ چنانچہ حضرت ابوہریرہؓ سے ۵۳۶۴، ابن عمرؓ ے ۲۶۳۰، انسؓ سے ۲۲۸۶،ابن عباسؓ سے ۱۶۶۰ جابرؓ سے ۱۵۴۰ حدیثیں مروی ہیں ۱؎ چودہ صحابہ مفسر تھے جو قرآن پاک کی فقہی ارو تاریخی آیتوں کے متعلق کافی معلومات رکھتے تھے باوجودیکہ ایک مدت تک قدیم یونانیوں کی طرح تعیم و تعلم جو کچھ تھا زبانی تھا۔ تاہم سینکڑوں ہزاروں اشخاص ان مسائل کے سیکھنے سکھانے میں مصروف تھے اور تمام ممالک اسلامیہ میں حدیثیں اور فقہ کے مسائل اسی تیزی سے رواج پا رہے تھے جس طرح کود اسلام عالمگیر ہو رہا تھا‘ عرب کی بلند حوصلگی اورعظمت کے لیے حجاز و یمن کی وسعت کافی نہ تھی‘ اس لیے ہزاروں صحابہؓ سرزمین عرب سے نکل کر تمام نئے فتح کیے ہوئے ملکوں میں پھیل گئے ‘ اور بعضوںنے وہیں مستقل سکونت اختیار کر لی‘ ا طرح شام میں دس ہزار‘ کوفہ میں ایک ہرزار حمص میں پانسو‘ مصر میں کم و بیش تین سو صحابہ موجود تھے ۲؎ یہ لوگ جہاں گئے حدیثوں اور عام مذہبی مسائل کا ذخیرہ بھی اپنے ساتھ لیتے گئے ۔ جو ان کی عظمت اور قبول کا بہت بڑا قوی سبب ہوتا تھا‘ چنانچہ صرف ان صحابہ کی تعداد جن سے لوگوں نے حدیثیں سیکھیں یا روایت کی کم از کم ڈیڑھ ہزار بیان کی گئی ہے۔ ایک مدت تک کچھ اس تقلیدی خیال سے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیثوں کو قلم بند کرنے کی طرف خود توجہ نہیں فرمائی اور کچھ اس وجہ سے کہ اہل عرب کو اپنے حافظے پر بھروسہ تھا کہ امتداد ہوتا جاتا تھا ان روایتوں کے دفتر تیار ہو تے جاتے تھے جن کو زبانی محفوظ رکھنا‘ انسانی قوت کا کام نہ تھا غرض سنہ ۱۴۳ھ میں تالیف و تدوین شروع ہو گئی‘ ابن جریح نے مکہ میں امام مالک نے مدینہ میں اوزاعی نے شام مٰں ابن ابن ابی عروبۃ اور حماد نے بصرہ میں معمر نے یمن میں سفیان ثوری نے کوفہ میں حدیث اور تفسیر کی کتابیں لکھیں امام ابو حنیفہ نے دلائل کے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱؎ دیکھو فتح المغیث میں ۳۸۱ ۲؎ ایضاً ص ۳۸۲، مصر کے صحابہ کے نام و نسب اور ان کی تعداد سیوطی نے ایک مستقل رسالے میں لھی ہے ۔ جس کا نام دارالصحابہ ہے۔ دیکھو جن المحاضرۃ فی اخبار مصر و قاہرۃ مطبوعہ مصر سنہ ۱۳۹۹ ھ ص ۱۹۹ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ساتھ فقہ کو ترتیب دیا ابن اسحق نے مغازی و سیر کی تدوین ۱؎ یہاں تک کہ جب فضل بن یحییٰ برمکی ‘ کے اہتمام ارو توجہ سے کاغذ بنانے کا کارخانہ جاری ہو گیا ۲؎ تو یہ علوم و فنون گھر گھر پھیل گئے‘ جس کثرت کے ساتھ مذہبی تصنیفیں شائع ہوئیں اس کا اندازہ اس سے ہو سکتاہے کہ صرف تفسیر کے متعلق سو سے زیادہ ایسے مضامین پیدا ہو گئے جن کو الگ الگ علم کا لقب دیا گیا اور ہر ایک پر متعدد اور بعض سینکڑوں بلکہ ہزاروں کتابیں لکھی گئیں ۳؎ اس زمانہ میں دو علم مذہبی ضرورت سے ایجاد ہوئے علم البیان و کلام‘ اسلام کا جو بڑا معجزہ اور جو ہمیشہ استعمال کیا جاتا ہے قرآن تھا‘ اس کے معجزہ ہونے کا دعویٰ جب اہل عرب کے سامنے پیش کیا جاتا تھا تو کوئی دلیل لانے کی ضرورت نہیں پڑتی تھی کفار عرب گوا نکار کرتے تھے مگر ان کا مذاق زباندانی اس دعوی کے تسلیم کرنے پر ان کو مجبور کرتا تھا‘ وہ منہ سے انکار کرتے تھے مگر قرآن پڑھے جانے کے وقت ان کی بے اختیار ی حالت بے قصد تحسین بے تابانہ تاثران کے اظہار کے خلاف شہادت دیتے تھے۔ لیکن اس طرح پریہ دعویٰ صرف عرب کے سامنے چل سکتا تھا۔ اہل عجم اولا تو زبان عربی سے ناواقف اور واقف بھی ہوتے تو عرب کا سا قدرتی ذوق کہاں س لاتے‘ اس لیے ضرورت پڑی کہ فصاحت و بلاغت کے اصول مرتب کیے جائیں تاکہ دوسری قومیں اگر مذاق سے نہیں تو عملی طور پر اس دعویٰ کے تسلیم کرنے پر مجبور ہوں اول اول جعفر برمکی وزیر ہارون رشید اورحاحظ نے کچھ قاعدے ۴؎ لکھے پھر متاخرین نے کلام کے ہر ایک حصہ کے متعلق مسائل انستنباط کیے اور علامہ سکا کی منتاح پراس فن کا خاتمہ ہو گیا‘ علم البیان یونانیوں کے ہاں بھی تھا لیکن ہم کو معلوم ہے کہ ان کے خیالات سے مسلمانون کو بہت کم آگہی ہو گی۔ بلکہ بلکل نہیںہوئی تاہم ہم یقین کرتے ہیں کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱؎ تاریخ انخلاء سیوطی خلافت منصور واقعات سنہ ۱۴۳ھ ۲؎ مقدمہ ابن خلدون فصل ۳۱ ، از فصل ۴ ۳؎ اتقان فی علوم القرآن میں مختصراً ان علوم اور ان کے متعلق تصنیفات کا تذکرہ کیا گیا ہے ۴؎ مقدمہ ابن خلدون ذکر علم بیان۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر یونانی زندہ ہوتے تو ہمارے علماء کی وقت نظر اور قوت استبناط کی داد دیتے علم کلام ۱؎ اس وقت پیدا ہوا جب یونانی علم کے شائع ہونے سے مذہب اسلام فلسفہ سے ٹکرا گیا اور عام ظٓہر میں آنکھیں مذہبی اعتقادات کو بے پروائی سے دیکھنے لگیں۔ لیکن محققین اسلام کو پورا بھروسہ تھا کہ سچ کو کوئی چیز صدمہ نہیںپہنچا سکتی۔ انہوں نے غلط خیالات اور انسانی رایوں کو جو مذہب میں داخل ہو گئی تھیں۔ چھانٹ کر الگ کر دیا اور پر زور منطقی دلائل سے یہ ثابت کی کہ فلسفہ یونانی جس قدر کہ اسلام کے اصلی مسائل سے مختلف ہے خود غلط اور باطل ہے امام غزالی کی تہافۃ الفلاسفہ اس فن میں پہلی تصنیف ہے جس کا متبنع اما م رازی وغیرہ نے یا اوراس ترقی کو پہنچایا کہ تہافۃ تقسیم پائینہ کے برابر ہو گئی۔ اسلام اگرچہ فلسفہ سکھانے نہیں آیا تھا‘ تاہم ذات باری کے متعلق اس نے جو کچھ بتایا وہ وہ فلسفہ کے بڑے حصہ یعنی الہیات کی جان ہے گبن صاحب لکھتے ہیں: ’’محمدؐ کا مذہب شبہ اور ابہام سے آزاد یہ ۔ اور قرآن و حدانیت کا عمدہ ثبوت ہے خدا تعالیٰ کے باب میں آپ کا عقلی جوش مذہبی یہ تسلیم کرتا ہے کہ قابل عبادت ایک ذات غیر محدود اور قدیم بدون کسی صورت اور امکان اور بدون اولاد و مشابہت کے جو ہمارے نہایت پوشیدہ خیالات میں حاضر ہے اور خاص اپنی قوت کی ضرورت سے موجود ہے مسلمانوں کے ہر دل عزیز مذہب میں حکیم موحد شریک ہو سکتا ہے اور یہ دین زمانہ حال کے اور اکات سے شاید بہت عالی ہے کیونکہ ہم ماہیت غیر محسوس سے تمام خیالات زماں اور مکاں و حرکت و مادہ و حس و تامل کو علیحدہ کر دیں تو کون سی چیز تصور اور فہم کے لیے باقی رہے گی‘‘۔ مسلمانوں کے مذہبی علوم کا یہ ایک مختصر سا خاکہ ہے ان کے سوا مسلمانوں نے جن علوم و فنون ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱؎ ؎ یہ اس علم کلام کے علاوہ ہے جس کا اوپر ذکر ہو چکاہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پر کتابیں لھیں ان کی تعداد تقریباً دو سو سے زیادہ ہے۔ کشف الظنون اور مدینۃ العلوم میں ان کا بیان مع تصنیفات کی تفصیل سے مل سکتا ہے۔ مگر مجھ کو یہ بھولنا نہ چاہیے ہک میرے مضمون کا عنوان مسلمانوں کی گزشتہ تعلیم ہے نہ گزشتہ علوم مذہبی علوم جس طرز سے تعلیم دیے جاتے تھے ان کا تفصیلی بیان آگے آئے گا مسلمانوں نے جو کچھ دوسری قوموں سے سیکھا تھا ۔ وہ امنطق الٰہی ۱؎ ‘ ہندسہ ‘ طبعی و ہئتی تھے ۔ حساب و ملب میں بھی انہوں نے زیادہ تر دوسری قوموںکی شاگردی کی اس بات کی بہت کم مثالیں ہیں ک مسلمان عالموں نے خود یونانی و سریانی زبانوں کی تحصیل کی ہو۔ اور اصل کتابوں سے یہ علوم سیکھے ہوں بے شبہ خلفا کے درباروں میں مترجموں کا ایک گروہ موجود تھا مگر ہنری لوئیس صاحب کے چبھتے ہوئے اعتراض کا کچھ جواب نہیں ہے کہ ان میں اکثر عیسائی تھے ۔ حنین ‘ حیثین‘ مئی ‘ یوحنا‘ اسحق‘ یعقوب کندی وغیرہ جو بہت مترجم مہشور ہیں سب عیسائی تھے ۔ حکمائے اسلا م میں صرف فارابی ایسا شخص ہے جو ان زبانوں کا پورا ماہر تھا اور اس نے خود ایک عیسائی یوحنا بن خیلان سے یہ علوم اور زبانیں سیکھی تھیں ارسطو کی کتابوں کی شرح اور توضیح میں بو علی سینا ور ابن رشد بہت زیادہ نامور ہیں اور یورپ نے بھی اس کا اعتراف کیا ہے تاہم مجھ کو شبہ ہے کہ ان دونوںمیں سے ایک کو بھی یونانی یا سریانی زبان آتی ہو۔ ترجمے مختلف عہدوں کی کوششیں ترجموں کی صحت و غلطی عام رائے عام مورخین کا بیان ہے کہ اول جس نے ترجموں کی بنیاد ڈالی‘ وہ دولت عباسیہ کا دوسرا خلیفہ ابو جعفر منصور تھا‘ لیکن میرا خیال ہے کہ منصور کے حق میں مورخین کی یہ ایک بیجا فیاضی ہے ہم کو دولت بنی امیہ میں بھی فلسفہ کا پتہ ملتا ہے اور اس کو تو اور زیادہ مدت گزری کہ عرب پر فلسفہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱؎ خاص فلسفیوں کی الٰہی مراد ہے ورنہ مسلمانوں نے الٰہی کے عمدہ مسائل خود قرآن مجید سے حاصل کیے تھے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کا پرتو پڑنا شروع ہو چکا تھا ۔ امیر معاویہؓ کے دربار میں ابن آسال نامی ایک عیسایء طبیب تھا جس نے یونانی زبان کی بعض کتابیں عربی میں ترجمہ کیں ۱؎ اوران کا پوتا خالد بن یزید المتوفی سنہ ۵۸ھ تو درحقیقت حکیم بنی امیہ کے لقب کا مستحق تھا اس نے مریانس نام ایک رومی راہب سے کیمیا اورطب پڑھی تھی ۔ اس نے یونانی کتابوں کو جمع کیا‘ اور ترجمے کی اجازت دی۔ اس کے عہد کا مشہور مترجم اسطفن تھا جس نے چند اور مترجموں کی اعانت سے صنعت وغیرہ کی کتابیں ترجمہ کیں‘ جس اولیت کا تمغہ مورخوں نے منصور کے لیے تجویز کیاہے انصاف یہ ہے کہ اس کا مستحق خالد ۲؎ تھا۔ مروان بن الحکم کے زمانہ میںماسر جویہ ایک یہودی عالم جس کی مادری زبان سریانی تھی ۔ ہرون قس کی ایک کتاب کا ترجمہ عربہ زبان میں کیا۔ عبدالمالک کے بعد غالباً فلسفہ پر کچھ توجہ نہیں ہوتی تھی۔ یہاں تک کہ سنہ ۱۳۱ھ میں زمانہ نے بنو امیہ کی حکومت کا ورق الٹ دیا سنہ ۱۳۷ھ میں جب منصور عباسی بغداد کے تخت پر بیٹھا تو ترجمہ و تصنیفات پر حوصلہ شاہانہ سے توجہ کی‘ قیصر روم کو خط لکھ کر فلسفہ کی کتابیں منگوائیں اور چونکہ اس وقت تک دارالخلافہ میں ان زبانوں کے جاننے والے موجود نہ تھے یہ بھی فرمائش کی کہ جو کتابیں آئیں وہیں سے عربی میںترجمہ ہو کر آئیں چنانچہ اقلیدس اور کچھ طبیعیات کی کتابیں مع ترجمہ کے بغداد پہنچیں علمائے اسلام ان کو پڑھ کر اور بھی مشتاق ہوئے ۳؎ منصور کا شوق علمی دیکھ کر دوردور سے مترجمیں اور حکماء اس کے دربار میں آنا شروع ہو گئے ۔ جرجیورس‘ فرات بن سخاثا ‘ عیسٰی بطریق (یہ سب عیسائی عالم تھے) نو بٰخت منجم ‘ ابو سہل (مجوسی تھے) ابن المقفع اس کے دربار کے مشہور مترجم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱؎ دیکھو نامہ دانشور ان ناصری مطبوعہ ایران حالات ابن آثال ۲؎ دیکھو ابن خلقان حالات خالد اور کشف الظنون جلد سوم ص ۹۶ علامہ ابن خلدون نے اپنی تاریخ کے مقدمہ میں خالد کے علم و فضل و واقفیت فلسفہ سے متعجبانہ انکار کیا ہے مگر ابن خلدون کے خلاف بہت سی متعدد شہادتیں موجود ہیں ۳؎ مقدمہ ابن خلدون ص ۴۱۹ مطبوعہ بیروت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور حکیم تھے ۱؎ ۔ بطریق نے یونانی اور ابن المقفع نے فارسی زبان سے ترجمے کیے نہ ۱۵۶ھ میں ہندوستان کا ایک بڑا ریاضی دان ہندو عالم منصور کی پایہ شناسی کا شہرہ سن کر دارالخلافہ میں داخل ہوا‘ اگس نے ایک نہایت عمدہ زیچ جس کو اسنے ایک عمدہ اور جامع تصنیف سے جو ایک بادشاہ مسمی ہ بیگر کی طرف سے منسوب ہے خلاصہ کیا تھا‘ منصور کی خدمت میں پیش کی محمد بن ابراہیم فزاری نے منصور کے حکم سے عربی زبان میں اس کا ترجمہ کیا اور اس سے ایک کتا ب مرتب کی جو ریاضی دانوں میں سند ہند کے نام سے مشہور ہے۔ مامون الرشید کے زمانہ تک اعمال کواکب میں اسی زیچ پر اعتما د کیا جاتا تھا۔ ۲؎ منصور کے نامور فرزند مہدی نے اگرچہ اس طرف توجہ نہیں دی ایک محکمہ تحقیقات زناوقہ قائم کر کے آزادی رائے کو بالکل روک دیا لیکن خاندان برامکہ نے جو اس کے عہد میں سلطنت کا ایک بڑا رکن تھا اس باب میں بڑی ناموری حاصل ک ان کے اہتمام سے یونانی اور فارسی کی بہت سی کتابیں ترجمہ ہوئیں ابن ناعمہ ‘ سلام برش ۳؎ عبدالل ہوازی ان کے عہد کے نامور مترجم تھے ہارون الرشید اعظم نے جس کے نام سییورپ اور ایشیا دونوں واقف ہیں پچھلی کوششوں میں اور بہت کچھ اضافہ کر دیا اس نے ترجمہ اور تصنیفات کا ایک بڑا محکمہ قائم کیا جس میں ہر زبان کے بڑے بڑے ماہر تصنیف اور ترجمہ کے کام پر مامور ۴؎ تھے یوحنا بن ماسویہ ایک عیسائی عالم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱؎ دیکھو مختصر الدول حالات حکمائے عہد منصوریہ ایک مختصر اور مفید تاریخ ہے جو الفرج ملطی ایک عیسائی عالم کی تصنیف ہے ۔ اور عربی زبان میں ہے ۔ ڈاکٹر پوکاک پروفیسر آکسفورڈ کالج نے لیٹن میں اس کا ترجمہ کیا ہے اصل کتاب مع ترجمہ لیٹن سنہ ۱۶۶۳ھ میں بمقام لندن چھاپی گئی ہے جہاں کہیں اس آرٹیکل میںمختصر الدول کا نام آئے اس سے یہی تاریخ مراد ہے ابن البطریق و ابن المفع کے لیے دیکھو کشف الظنون حرف حاذکر حکمت ۲؎ تفصیل مع حالات زائد جامع القصص الہندیہ میں ہے جو ہندوستان کے حالت میں چند رسالوں کا ایک مجموعہ ہے اور فرانس میں بمقام بن سنہ ۱۸۳۸ھ میں چھپا ۳؎ ابن ناعمۃ اور سلام ابرش کا ذکر بحیثیت مترجمین برامکہ صٓحب کشف الظنون نے حکمۃ کے ذکر میں کیا ہے آگے فہرست میں چند کتابوں کے نام ملیں گے جو برامکہ کے لیے ترجمہ کی گئیں ۴؎ ان ترجموں کا ذکر پامر صاحب کی تاریخ ہارون الرشید ص ۲۲ و چیمبرس انسائیکلو پیڈیا جلد اول مطبوعہ لندن سنہ ۱۸۸۶ صفحہ ۱۳۴۷ اور کشف الظنون میں صراحتہ و ضمناً ملے گا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جس کی مادری زبان سریانی تھی قدیم یونانی طب کے تصنیفات کے ترجمے کے لیے انتخاب کیا گیا اس محکمہ سے جس کو بیت الحکمۃ کہتے تھے ژند یونانی شامی ‘ سنسکرت زبانوں کے ترجمے ہمیشہ تیار ہوتے تھے اور اشاعت پاتے تھے منکہ اور صالح دو ہندو حکی ا س کے دربار میں تھے جو ترجموں کے علاوہ صاحب تصنیف بھی تھے شاناق ہندی کی کتاب السموم منکہ ہی نے فارسی میں ترجمہ کرائیتھی رک اور ششرت کی تصانیف طبی جو عربی میں ترجمہ ہوئیں غالبا اسی عہد میں اور انہی دو حکیموں کے اہتمام سے ہوئیں۔ ۱؎ اب تک جو کچھ ہوا تھا بہت کچھ تھا مگر مامون الرشید کے فیاضانہ حوصلوں کے سامنے تمام پچھلی کوششیں گمنامی کے پردے میں چھپ گئیں مورخین نے مامون کے اس جوش التفات کی ایک دلچسپ حکایت لکھی ہے یعنی ایک رات اس نے خوا ب میں دیکھا کہ ایک محترم شخص تخت پر جلوہ فرما ہے مامون نے بڑھ کر پوچھا کہ آپ کون بزرگ ہیں تخت نشین نے کہا ارسطو مامون پھڑک اٹھا اورعرض کی اے حکیم اچھی چیز کیا ہے خیالی ارسطو نے جواب دیا جسے عقل اچھا کہے دوبارہ مامون نے درخواست کی کہ میرے لیے کچھ نصیحتیں ارشاد ہوں جوا ب ملا کہ توحید اور صحبت نیک کواب کا کچھ اثر ہو یا نہیں مگر اس واقعہ سے مامون کے شوق اور محویت کا اندازہ ضرور ہوتاہے۔ غرض سبب جو کچھ ہو مامون نے قیصر روم کو نامہ لکھاکہ ارسطو کی کل تصانیف بہم پہنچائی جائیں۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ خلفاء کے معمولی خطوط قیصر و فغفور پر فرمان کا اثر رکھتے تھے۔ قیصر تعمیل ارشاد کے لیے آمادہ ہوا مگر روم کے اطراف میں فلسفہ خود گمنام ہو چکا تھا بڑی تلاش سے ایک راہب ملا جس نے پتا دیا کہ یونان میں ایک مکان ہے جو قسطنطین کے زمانہ سے مقفل ہے اورجتنے تاجدار تخت نشین ہوتے گئے قفلوں کی تعداد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱؎ انفنسٹن صاحب نے تاریخ ہندوستان حصہ مسلمانان میں لکھا ہے کہ منکہ وسالی دو ہندی طبیگ ہارون الرشید کے دربار مٰں تھے انفنسٹن صاحب نے صالح کو سالی پڑھا ہے۔ اور غالباً یہی صحیح ہے شاناق کا اصلی نام شاید سنگھ ہو جو عربی خراو پر چڑھ کر شاناق ہو گیا ہے چرک حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے کئی دو برس پہلے ایک طبیب تھا ۱۲ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بڑھاتے گئے قسطنطین نے اس مکان میں اس غرض سے فلسفہ کی کتابیں بند کرا دی تھیں کہ اگر فلسفہ و حکمت کو آزاد ی ملی تو دین مسیحی کو سخت صدمے اٹھانا پڑیں گے قیصر روم کے حکم سے یہ پر خطر خزانہ کھولا گیا تاہم خیال ہوا کہ مسلمانوں کے ساتھ اس قسم کی فیاضی مذہباً ممنوع تو نہ ہو لیکن ارکان دولت نے قیصر کی تسکین کر دی کہ اچھا ہے مسلمانوں میں پہنچا دوتو ان کے مذہبی جوش کو بھی ٹھنڈا کر دو غرض پانچ اونٹ لاد کر فلسفہ کی کتابیں مامون کی خدمت میں روانہ کی گئیں ۱؎۔ مامون نے خو د بھی حجاج بن المطرو ابن البطریق جو یونانی و سریانی زبان کے بڑے ماہر تھے اس غرض سے بھیجا کہ اپنی پسند سے کتابیں انتخاب کر کے لائیں بیت الحکمۃ کا مینجر اور افسر جس کا نام سلماء تھا وہ بھی ان دونوں کے ساتھ گیا ۲؎ مامون نے اسی پر اکتفا نہیںکیا بلکہ جیسا کہ گبن ۳؎ صاحب لکھتے ہیں اس کے کارندوں نے آرمینہ شایم مصر میں فنون یونانی کی کتابیں جمع کیں جس کا ترجمہ اس کے حکم سے نہایت حاذق مترجم نے عربی زبان میں کیا اوراسی زمانہ میں قسطا بن لوقا بعلبکی ایک عیسائی فلاسفر اپنے شوق سے رو م گیا اور فلسفہ کی بہت سی کتابیں اپنے ساتھ لایا‘ مامون نے اس کی شہرت سے مطلع ہو کر بلا بھیجا اور بیت الحکمۃ میں ترجمہ کے کام پر مقرر کیا ۴؎ سہل بن ہرون کو جو ایک فارسی النسل حکیم تھا فارسی کتابوں کا ترجمہ کا ہتمام سپرد ہوا ۵؎ سب سے بڑا اور نامور حکیم اور مختلف زبانون کا ماہر اور مترجم یعقوب کندی تھا جو خاص تصنیفات ارسطوکے ترجمہ پر مامور تھا ۶؎ وہ ایک عیسائی امیر تھا اوراس کا باپ گورنر کوفہ رہا چکا تھا فارسی ہندی‘ یونانی ‘ زبان جانتا تھا اورمامون کا نہایت معتمد اور مقرب تھا غالباً مامون نے خود بھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱؎ یہ تمام تفصیل مختصر الدول عہد متوکل میں موجود ہے ۲؎ ناسخ التواریخ جلد اول ‘ حالات ارسطو ۳؎ مختصر الدول ۴؎ گبن صاحب لکھتے ہیں کہ حکمائے سوع جابر‘ رازی ‘ ابن سینا کے نام حکمائے یونانی کے ہم پلہ کیے گئے ہیں غالباً یہ یوروپین شہادت زیادہ قابل اعتبار ہو گی ۵؎ مختصر الدول ۶؎ ہسڑی آ ف فلاسفی مصنفہ ہنری لوئیس صاحب فلسفہ عرب حالات یعقوب کندی۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یونانی زبان سیکھ لی تھی چیمبرس انسائیکو پیڈیا میں ہے ۱؎ مامون نے یونان کے بادشاہ کو پانچ ٹن سونا دینا اور صلح دائمی کا اس شرط پر وعدہ یا کہ حکیم لیوکو کو اجازت دی جائے کہ وہ کچھ دنوں کے لیے آ کر مامون کو فلسفہ سکھا جائے‘‘۔ فلسفہ کے لیے اپنی قیمت صڑف کرنے کی مثال بہت کم ملتی ہے۔ شاکر منجم کے تینوں بیٹے محمد و احمد و حسن نے بھی ہندسہ و نجوم و موسیقی میں اپنا جواب نہیں رکھتے تھے۔ اور مامون کے خاص مقرب اور ندیم تھے اس کام پر بہت توجہ کی اور اپنے ذاتی شوق اور رو م کے اطراف میں قاصد بھیجے اور فلسفہ وغیرہ کی بہت سی کتابیں منگوائین دور دراز ملکوں میں قاصد بھیج کر مترجم بلوائے اور ان کتابوں کے ترجموں پر مامور کیا ۲؎ مامون کی نیت کا پھل تھا کہ ان نامور بھائیوں کی کوشش بھی مامون کے کارنامہ میں لکھی گئی اس عہد میں جن زبانوں کے ترجمے ہوئے وہ یونانی ‘ فارسی کالڈی قبطی شامی زبانیں تھیں۔ ہارون الرشید کا پوتا متوکل باللہ بھی اس قسم کی فیاضیوں میں نامور ہوا مترجموں میں جس نے کثرت اور عمدگی تراجم کے لحاظ سے سب سے زیادہ شہرت حاصل کی ہے وہ متوکل ہی کے عہد کا نامور حکیم حنین بن اسحاق تھا۔ حنین نے بلاد رومیہ میںدو برس مستقل رہ کر یونانی زبان اور فلسفہ کامل طور سے سیکھا۔ روم سے واپس آ کر بصرہ چلا گیا اور خلیل احمد بصری سے عربیت کی تحصیل کی اور چونکہ وہ دونوں زبانوں کا پورا ماہر ہو چکا تھا۔ اپنے شوق سے فلسفہ کی کتابیں عربی میں ترجمہ کرنی شروع کیں اس کی شہرت روز افزوں نے اس کو متوکل باللہ کے دربار میں پہنچایا متوکل نے بیش قرار تنخواہ اور جاگیریں مقرر کر دیں حنین کا ایک بیٹا اسحق اور اس کا بھانجا حبیش یہ دونوں بھی یونانی و سریانی زبان کے بڑے ماہر تھے اس لیے محکمہ ترجمہ مٰں مقرر ہوئے عربی میں جو ترجمے ہوئے اکثر اسی اسحاق و حنین کی طرف منسوب ہیں۔۳؎ حنین بن اسحاق و ثابت بن قرہ و حبیش بن الحسن اور دوسرے نامور مترجموں میں سے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱؎ کتاب مذکور ذکر عرب ۲؎ ابن خلکان ترجمہ محمد بن موسیٰ ۳؎ یہ تمام تفصیل مختصر الدول عہد متوکل میں موجود ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہر ایک کی ماہانہ تنخواہیں پانچ سو اشرفیاں تھیں ۱؎ ۔معتضد باللہ کے عہد کا مشہور مترجم ثابت بن قرہ حرانی ہے ثابت نے محمد بن موسیٰ کے گھر میں پرورش پائی اور اس کی سفارش سے معتضد باللہ کے دربار میں داخل ہوا‘ معتضد اس کی نہایت عزت کرتا تھا حتیٰ کہ وزراء اور خواض بھی اس کو رشک کی نگاہ سے دیکھتے تھے ۲؎ ترجموں کو اہتمام اور بیت الحکمۃ کا انتظام غالباً دو سو برس سے زیادہ قائم نہ رہا کیونکہ اتنی مدت کی پیہم تلاش اور جستجو میں روم و یونان کا کوئی علمی خزانہ ایسا باقی نہیں رہا جو اہل عرب کی آنکھوں سے چھپا رہ گیا ہو ۔ اس کے علاوہ اس مدت میں مسلمان فلاسفروں کا ایک بڑا گروہ تیار ہو چکا تھا اسحاق ابو معشر‘ محمد بن موسیٰ‘ احمد سرخسی‘ ابونصر فارابی وغیرہ حکماء کی تازہ اختراعات اور خاص تنیفات نے فلسفہ کو افلاطون اور ارسطو کی اطاعت سے آزاد کر دیا تھا ۳؎۔ تاہم خلفاء کا دربار ایک مدت تک ہر ملت ارو مذہب کے فلاسفرو ں سے بھرا رہا جو اپنے ذاتی شوق یا بعض اوقات خلفاء کی فرمائش سے تصنیفات کے علاوہ دوسری زبانوں سے ترجمہ بھی کرتے تھے راضی باللہ کے عہد خلافت قریباً سنہ ۳۲۰ھ میں متی بن یونس ‘ منطق کا بڑا عالم مشہور ہوا اور ارسطو کی بعض کتابیںترجمہ کیں ۴؎۔ ہنری لوئیس صاحب ہسٹری آف فلاسفی میں لکھتے ہیں کہ دسویں صدی عیسوی میں یحییٰ جوز جانی جو سنہ ۳۴۸ھ میں تھا اور ابوالفرح المتونیٰ سنہ ۳۳۵ھ وغیرہ ن سریانی وغیرہ سے ترجمے کیے اور شرحیں لکھیں ۵؎ ۔ ابوریحان بیرونی جو بوعلی سینا کا معاصڑ اور فلسفہ و ہئیت میں ایک اس کا حریف مقابل تھا ہندوئوں کے علوم کے شوق میں ہندوستان گیا اور برسوں فلسفہ وغیرہ کی تحصیل کی سنسکرت سے ایسی واقفیت حاصل کی تھی کہ ہندوئوں کو فلسفہ یونان کے مسائل ان کی زبان میں سکھائے اور اس ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱؎ ناسخ التواریخ جلد اول حالات ارسطو ۲؎ مختصر الدول ۳؎ گبن صاحب لکھتے ہیں کہ حکمائے سوع جابر روزی ابن سینا کے نانم حکمائے یونانی کے ہم پلہ کیے گئے ہیں غالباً یوروپین شہادت زیادہ قابل اعتبار ہو گی ۴؎ مختصر الدول ۵؎ مختصر الدول ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ طرح ہندوئوں کی شاگردی کے حق سے بھی ادا ہو گیا ۱؎ محمد بن اسمعیل تنوخی نے بھی ہیئت و نجوم سیکھنے کے لیے ہندوستان کاسفر اختیار کیا اور وہاں رہ کر علوم و فنون کی تحصیل کی۔ بعض اتفاقی طریقوں سے بھی مسلمانوں کی دوسری قوموں کے خیالات و مسائل معلوم ہوئے جس زمانہ میں فتوحات اسلامی ہندوستان کی سرحد کے اونچے اونچے مقامات سے گزر رہا تھا بنارس کا ایک سوفی عالم جس کا نا بھوجر برہمن تھا۔ مسلمانوں سے مذہبی مباحثہ کرنے کے لیے روانہ ہوا اور سلطان علی مرو کے زمانہ میں شہر اکفوت پہنچ کر قاضی رکن الدین سمرقندی سے ملاقات کی مباحثہ کا اردہ تو جاتا رہا بجائے اس کے علوم عربیہ سیکھنے شروع کیے اور اس نے قاجی صاحب کی خدمت میں ایک کتاب جس کا نام ابنرت کنڈتھا پیش کی اور اس کے مطابل بیان کیے قاضی صاحب اس کے مسائل سے پوری آگہی حاصل کرنے کے ایسے شائع ہوئے کہ اس سے سنسکرت پڑھنی شروع کی اور اصل زبان سے واقف ہو کر پہلے فارسی میں اور پھر عربی میں کتاب مذکور کا ترجمہ کیا تاہم اس کے مشکل مقامات ہنوز شرح کے محتاج تھے اتفاق سے بھوجر کا ایک شاگرد ابنہوانا تھ بلاد اسلامیہ میں پہنچا تو ایک سنسکرت دان عالم نے اس سے یہ کتاب پڑھی اور عربی میں اس کا نہایت عمدہ ترجمہ کیا جس کا نام مراۃ المعانی لادراک العالم ۲؎ الانسانی ہے۔ سلطان فیروز شاہ وائی ہندوستان قریباً سنہ ۷۷۲ ھ میں جب جوالا مکھی پہاڑ میں گیا تو لوگوں نے اطلاع کہ اس بتخانہ میں ۳؎ تیرہ سو کتابیں قدیم زمانہ کی موجود ہیں فیروز شاہ نے ان کے ترجمے کیے جانے کا حکم دیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱؎ دیکھو جامع القصص الہندیہ و مختصر الدول بیرونی کی ایک کتاب جس میں سفر ہندوستان اور یہاں کی معاشرت اور تمدن کا حال اس نے لکھا ہے لندن میں نہایت اہتمام سے چھاپی گئی ہے جس پر پروفیسر سی نے شو نے جو جرمن کا مشہور عالم ہے ایک دیباچہ لکھا بیرونی کے شوق علمی اور تحقیقات کا اندازہ اس دیباچہ سے ہو سکتا ہے ۲؎ پوری تفصیل جامع القصص الہندیہ میںمذکور ہے کہ یہ پہلی مثال ہے کہ ایک عربی دان مصنف نے سنسکرت بھاشا الفاظ کو صحیح اور پوراپورا ادا کیا ہے جس طرح مں نے یہ سب پورے نام لکھے ہیں اصل کتاب میں اسی طرح ہیں ۳؎ دیکھوتاریخ بدایونی حالات فیروز شاہ ان کتابوں میں سے بعض کے ترجمے مثلاً رزم نامہ وغیرہ لاہور میں بدایونی نے خود بھی دیکھے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دیا اور موسیقی اور نجوم وغیرہ کی تصنیفات ترجمہ کی گئیں‘ نجوم کی ایک کتاب عز الدین نے نظم میں ترجمہ کی۔ علوم و فنون کے تراجم کی ایک مختصر سی تاریخ ہے اب ہم کو دیکھنا ہے کہ کس قسم کی کتابیں ترجمہ ہوئیں اور اس انتخاب کے کیا اسباب تھے ان ترجموں کو اسلامی تصنیفات سے کیا متعلق ہے ان ترجموں کی صحت کہاں تک اعتبار ہو سکتا ہے۔ مسلمانوں نے اس کام میں دوسری قوموں کا احسان کیوں اٹھایا اور خود ترجمہ کرنے پر کیوں نہیںمائل ہوئے جہاں تک ہم کومعلوم ہے طب اور فلسفہ کے سوا جس میں منطق ‘ طبعی‘ الٰہی اور موسیقی فلکیات ہئیت ہندسہ حساب ‘ جبر مقابلہ وغیرہ شامل ہیں اورعلوم کی تصنیفات کم ترجمہ ہوئیں۔ اصل یہ ہے کہ عرب مسلمانوں کو اپنی زبان اور مذہب پر اس قد رناز تھا کہ وہ دوسری قوموں کی ان تصنیفات کو ہمیشہ بے پروائی کی نگاہ سے دیکھتے تھے اور واقعی جو شخص فصاحت و بلاغت کے متعلق جزئیات کے انضباط قواعد کی ترتیب ‘ مسائل کے استنباط میں اٹکی موشگافیاں دیکھے گا‘ مان جائے گا کہ ایسے نکتہ دانوں کو علم انشا ء میں کسی قوم کا زلہ ربا ہونا نہیں چاہیے علامہ ابن اثیر جس نے علم البیان کو بہت کچھ ترقی دی ہے فخر کے ساتھ کہتا ہے کہ میں یونانی زبان مطلق نہیں جانتا اور اس فن کے متعلق ان کے خیالات سے ناآشنا ہوں ۔ یونانی ورومی تصنیفات فلسفہ و طب کے سوا زباندانی یا مذہب سے متعلق تھیں مسلمانوں نے بے شبہ دانستہ ان دونون سے بے اعتنائی اور افسوس ہے کہ اس غیر معتدل فخر نے ان کو دوسری قوموں کے علم تاریخ سے بھی محروم رکھا۔ مسلمان فلسفہ و طب کے پہلے مرحلے میں بے شبہ یونان و روم کے احسا ن مند ہیں ان کی تصنیفات کے ہر صفحے سے اس احسان مندی کا اظہار ہوتا ہے اور سچ یہ ہے کہ افلاطون و ارسطو وغیرہ کے ناموں کو عموماً اسلامی ممالک نے جو عزت دی یونان میں ان کو نصیب نہ ہوگی لیکن مسلمانوں نے ایک ذرہ پایا تھا اور اس کو آفتاب بنا دیا ہئیت کو بہت کچھ ترقی دی طبیعیات کے متعلق ارسطو کی بہت سی غلطیاں دریافت کین منطق کو بالکل نے طرز سے ترتیب دیا اور چند اصول اضافہ کیے نئے نئے آلات رصد ایجاد کیے نورکی رفتار دریافت کی علم مناظر میں انعکاس کا قاعدہ معلوم کیا جبر و مقابلہ جو چند جزئی مسئلوں کا نام تھا۔ انہی کی طباعی سے ایک علم کے رتبہ پر پہنچ گیا۔ دوا سازی نسخوں کی ترتیب عر ق کھینچنے کے آلے موالید ثلاثہ کی تحلیل تیزابوں کے فرق باہمی اورمشابہت کا امتحان انہی کی ایجادات سے ہیں کیمسٹری کی انہی نے بنیاد ڈالی علم نباتات میں اپنے تجربوں سے دو ہزار پودے اور ۱؎ اضافہ کر دیے غرض آج یونانی و عربی تصنیفات کا کوئی شخص اگر موازنہ کرے و قطرہ و دریا کا فرق پائے گا۔ عیسائی مترجموں کو بے شبہ ترجمے کا فخر حاصل ہے لیکن مسلمان دعوی کے ساتھ یہ کہہ سکتے ہیں کہ ان کے مستقل مرتب جامع تصنیفات کے سامنے یہ ترجمے تقویم پارینہ سے کچھ زیادہ رتبہ نہیں رکھتے یہی وجہ ہے کہ چند دنوں کے بعد ترجموں کا کسی کو خیا ل ہی نہ رہا اوردنیا میں جس چیز نے علوم وفنون کو ناپید ہونے سے بچا لیا وہ خاص اسلامی تصنیفات تھیں آج مسلمانوں کی بڑی بڑی لائبریریوں میں ترجمہ کا پتہ بھی نہٰں ہے اور جن لوگوں کی قسمت میں یورپ کا استاد بننا لکھا تھا مثلا بوعلی سینا ابن طفیل‘ محقق طوسی‘ امام غزالی وہ ان ترجموں کے کبھی احسان مند نہیں ہوئے۔ ترجموں کی صحت و غلطی کی نسبت ہم کوئی خاص فیصلہ نہیںکر سکتے آج یورپ عربی و یونانی دونوں زبانوں پر قابض ہے قریباً دو سو برس تک اسی نے عربی کے ذریعہ سے فلسفہ کی تحصیل کی ہے اس وجہ سے اورنیز اس وجہ سے کہ بعض قدیم تصنیفات (مثلاً پانچویں اور چھٹی اور ساتویں جلدیں تر اشہائے مخروطی مصنفہ اپالونیس پرجیس (Apoloniuspergeous) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱؎ اگر زمانہ نے مساعدت کی تو ان تمام باتوں کی تفصیل اس طرح پر جس سے صاف ظاہر ہو جائے کہ مسلمانوں کو جب یہ علوم ملے تو کیا تھے اوران کی کوششوں نے ہر ایک علم کو کس قدر آگے بڑھا دیا ایک مستقل رسالے میں لکھوں گا اور شاید اسی انجمن کے کسی دوسرے جلسے میں اس کے پیش کرنے کا اتفاق ہو (ش) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وغیرہ ذالک) عربی ہی زبان کے ذریعہ سے محفوظ ہیں ورنہ ان کی اصل جاتی رہی ہے یورپ اسلامی کوششوں کا ممنون ہے اورامید ہے کہ ان ترجموں کی نسبت ان کا فیصلہ تعصب کی آلائش سے خالی ہو گا۔ گبن صاحب لکھتے ہیں کہ ان عربی ترجموں کی خوبی پر رناوٹ (Renaudol) نے خوب بحث کی ہے اور گسیرا (Gasira) نے دیانت داری سے اس کی حمایت کی ہے (ہسٹری آف فلاسفی مصنفہ ہنری لوئیس (G . Henery Lewes) میں ہے منک کہتا ہے کہ ’’بعض ترجمے نہایت خوبی سے کیے گئے لیکن ایک فرانسیسی مصنف کا بیان ہے کہ اکثر ترجمے اصل یونانی سے نہیں بلکہ شامی ترجموں سے کیے ہوئے اور ترجمہ در ترجمہ ہونے کی وجہ سے بہت غلطیاں رہ گئیں ‘‘ گو ہم اس امر کو کسی قدر تسلیم کرتے ہیں اورنہ صرف اسی بنا پر بلکہ اس وجہ سے بھی کہ ترجمہ گو کتنا ہی عمدہ ہو تاہم یہ دعویٰ نہیں ہو سکتا کہ ا سکا مطلب بالکل پورا پورا ادا ہو گیا لیکن ہمارا خیال ہے کہ اس قسم کی غلطیوں نے اسلامی تصنیفات پر کوئی محسوس اثر پیدا نہیں کیا مسلمان فلاسفر یونانی فلاسفروں کی اصلی غلطیوں کے درست کرنے والے تھے ان جزئی غلطیوں سے ان پر کچھ اثر نہیں ہو سکتا تھا۔ ۱؎ مسلمانوں کا خود ترجمہ رکرنے کی طرف مائل نہ ہونا گبن صاحب کے نزدیک اسی فخر و غرور اک اثر ہے جو عرب کااصلی خاصہ ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ’’اہل عرب اپنی ملکی زبان کی کثرت الفاظ پر بھروسہ کرکے غیر ملکی زبان کے محاورہ کو حقیر سمجھتے تھے انہوں نے اپنی عیسائی رعایا میں سے یونانی مترجم چھانٹے عرب کی پر فخر طبیعت کا خاصہ ہم کو بھی معلوم ہے۔ لیکن افسوس ہے کہ گبن صاحب کی بدگمانی نے اس کا اندازہ اعتدال سے زیادہ کیا ہے اصل یہ ہے کہ عرب میں فلسفہ کا چرچا منصور عباسی کے عہد سے اور اس کے ذاتی شوق سے شروع ہوا اور یہ وہ وقت تھا جب کہ مذہبی بے شمار روایتوں اور مسائل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱؎ طبیعیات میں ارسطو اور موسیقیات میں فیثا غورث پر بوعلی سینا و فارابی نے جو قابل قدر نکتہ چینیاں کی ہیں وہ عام طورپر مشہور ہیں۔ ہنری لوئیس صاحب نے بھی مانا ہے کہ فارابی نے فیثا غورث کی غلطیاں درست کر دیں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کے انبار کا لوگوں کی قوت حافظہ پر ایک بھاری بوجھ تھا اور سب کو یہ پڑی تھی کہ کاغذ کے حوالہ کر کے ذرا سبکدو ش ہو ں مذہبی علوم کے بہت سے مبادی اور مقدمات بھی مرتب کرتے تھے اسلا م کا جوش ابھی شباب پرتھا اور کم و بیش ہر مسلمان میں اس کا اثر پایا جاتا تھا یہ ظاہر ہے کہ ایک سرگرم مذہیب گروہ کو اپنے مذہبی علوم اور مسائل کے سامنے دوسری باتوں پر کس قدر توجہ ہو گی ا س وقت کی تعلیمیافتہ گروہ حدیث فقہ تفسیر اسماء الرجال وغیرہ کی تدوین و تربیت میں مصروف تھا۔ اس پر طرہ یہ ہوا کہ فلسفہ کا کچھ تھوڑا بہت رواج ہوا‘ ا س نے طبیعتوں میں آزادی پیدا کر دی‘ اور بڑے بڑے نامور امام و مجتہد اس خیال سے اس کے مخالف ہو گئے کہ فلسفہ و مذہب ایک ساتھ بسر نہیں کر سکتے تھے۔ خلفا (وہ بھی سب نہیں) بے شبہ فلسفہ کے حامی تھے لیکن گبن صاحب خود فیصلہ کر سکتے تھے کہ یونانی زبان سیکھنے سے ان کو مہمات ملکی مانع تھے یا دوسری قوموں کی زبانوں کی حقارت کئی صدیوں تک فلسفہ ایوان خلافت کا خاص مہمان رہا تیسری صدی کے بعد البتہ اس ن یقبول عام کی سند حاصل کی لیکن ا وقت جیسا کہ ہم لکھ آئے ہیں کہ بے شمار ترجمے اور اسلامی تصنیفیں موجود تھیں اور فلسفہ حاصل کرنے کے لیے یونانی و رومی زبانوں کا دریوزہ گر ہونا چندان ضروری نہ تھا یہ خیال بھی کلیتہ صحیح نہیں ہے کہ ترجمہ کے کام میں مسلمان سرے سے شریک ہی نہیں ہوئے عبدالکریم شہرستانی نے ملل و نحل میں جہاں مترجموں کے نام لیے ہیں ان میں ہم کومسلمانوں کے بھی نام ملتے ہیں مثلا ابو سلیمان بن بکر مقدسی‘ یوسف بن محمد نیشاپوری‘ ابوزید احمد بلخی‘ ابوالحارث ‘ حسن بن سہیل قمی‘ احمد بن محمد اسفرائی ‘ طلحتہ النفسی اور محمد بن ابراہیم فزاری‘ سہل بن ہراون‘ ابوریحان بیرونی ‘ محمد بن اسمعیل تنوخی قاضی رکن الدین وغیرہ بھی توآخر مسلمان ہی تھے بہت سے اولو العزم خلفاء اور امرا کی پیہم کوششوں نے ترجموں کی تعداد جس قدر کثیر کر دی ہے اس کا اندازہ کرنا بھی مشکل ہے تاہم نمونے کے طور پر میں چندترجموں کی ایک فہرست ناظرین کے سامنے پیش کرتا ہون میں نے ان ترجموں کو مطلقاً چھوڑ دیا ہے جن کے مترجموں کے نام یا ان کے زائد حالات میں نہیں معلوم کر سکا ہوں جن حکماء کی کتابوں کے ترجمے ہوئے ان میں سے بعض کے نام یہ ہیں: Ammouius, Themistius, Pyrianus, Supheius, Philoponus, Pythagoras, Diogene, Dimcretus Hippocrates, Socrates, Aristotle, Archumedes, Gelen, Plolemy, Appollouius, Pengacanis, Pluto ثاوذوسبوس۔ مانا لاوس، برقلس، ارسطیقوس، ویقوریدس، اوطوقولس، باربوتا، قسطوس، ابقلائوس، ابلینوس، بیقولائوس، بولوس الاحانطی، ویوقنطوس ٭٭٭ نام کتاب نام مصنف نام مترجم الہیات ارسطو یحییٰ بن عدی وغیرہ اسحاق بن حنین‘ ابن عدی‘ اسطاث‘ الکندی‘ ابوالبشر متی‘ ہر ایک نے اس کا پورا ترجمہ کیا اور بعض مقالوں کا حنین بن اسحاق نے بھی السماع الطبعی ارسطو آٹھ مقالوں میں ہے شیخ بو علی سینا اور دوسرے علمائے اسلام نے اس کی تفسیر کی ہے۔ کتاب السماء والعالم ارسطو متی یہ کتاب چار مقالوں میں ہے قاضی ابوالولید ابن الرشد نے اس کا خلاصلہ کیا (معجب) حنین بن کتاب النیازک ارسطو حنین بن اسحاق نے اس کی شرح لکھی اور خلاصہ کیا۔ کتاب جرمی الشمس والقمر و بعدھما ارسطو علامہ نصیر الدین طوسی نے اس کی اصلاح کی۔ کتاب النبات ارسطو اسحق دو مقالے ہیں ثابت بن قرہ نے اصلاح کی۔ کتاب المراۃ ارسطو حجاج بن مطر کتاب الحس و المحسوس ارسطو متی بن یونس قاضی ابوالولید نے اس کا خلاصلہ کیا ۔ اور شرح لکھی (معجب) ۳ مقالوں میںہے۔ سر الاسرار ارسطو مامون الرشید کے حکم سے ترجمہ ہوئی۔ اس میں سکندر کے لیے ارسطو کی وصیتیں کی ہیں۔ کتاب السیاست ارسطو سات مقالوں میں ہے اس کو ارسطو نے سکندر کے لیے لکھا تھا۔ کتاب الاخلاق ارسطو حنین بن اسحاق و یحییٰ بن عدی وغیرہ اس میں بارہ مقالے ہیں فرفوریوس نے اس کی تفسیر کی ہے۔ کتاب النفس ارسطو حنین نے پوری کتاب کا ترجمہ سریانی میں کیا ‘ اور بعض مقالوں کا اسحاق نے ثامسطیوس نے اس کتاب کی جو مبسوط شرح لکھی تھی اس کا ترجمہ اسحق نے ایک خراب نسخہ سے کیا اور پھر ایک عمدہ نسخہ سے مقابلہ کر کے صحیح کیا۔ قاطیغوریاس ارسطو حنین بن اسحاق یعنی معقولات عشر ابو نصر فارابی‘ ابوالبشر‘ متی ابن مقفع‘ و ابن بہرین ‘ کندی و اسحق ابن حنین‘ و احمد بن طبیب و رآزی نے شرحیں لکھیں۔ باریمیناس ارسطو و اسحق یعنی مباحث الفاظ حنین نے سریانی میں اور اسحق نے عربی میں ترجمہ کیا‘ اور یحییٰ نحوی و ابوالبشر متی و فارابی نے شرحیں لکھیں ‘ اسحق ابن مقفع کندی‘ ابن بہرین رازی ثابت بن قرہ‘ احمد بن طبیب نے ملحض اور مختصر کیا۔ انالوطیقا ارسطو ثیاوزوس یعنی تحلیل قیاس‘ حنین نے سریانی میں اور اسحاق نے عربی میں ا س کے بعض اجزا ترجمہ کیے‘ یحییٰ نحومی و کندی نے اس کی شرح لکھی‘ ابوالبشر متی نے دو مقالوں کی شرح لکھی۔ انولوبطیقا ے ثانی ارسطو اسحاق وغیرہ یعنی برہان ‘ حنین نے بعض اجزاء سریانی میں ترجمہ کیے اور متی نے اس ترجمہ کی عربی کی یحییٰ نحومی و الویحییٰ مروزی نے اصل کتاب پر نکتہ چینیاں کی ہیں منی کندی‘ فارابی نے شرحیں لکھیں۔ طوبیقا یحییٰ بن عدی یعنی جدل‘ اسحق نے سریانی میں ترجمہ کیا اور یحییٰ بن عدی نے اس ترجمہ کی عربی کی‘ دمشقی نے بھی سات مقالون کا ترجمہ کیا اور ابراہیم بن عبداللہ نے آٹھ مقالوں کا یحییٰ بن عدی نے اس کی جو تفسیر لکھی وہ ہزار طوق میں ہے‘ فارابی‘ متی نے شرحیں لکھیں‘ اسکندر اور ابلینوس نے جو شرحیں اس پر لکھی ہیں ان کا ترجمہ اسحاق نے عربی میں کیا۔ سو فسطیقا ارسطو ابن ناعمہ وغیرہ یعنی مغالطہ‘ ابن ناعمہ و ابوالبشر متی نے سریانی میں ترجمہ کیا اور یحییٰ بن عدی و قوبری و براہیم نے عربی میں نقل کیا اور شرح لکھی کندی کی بھی اس پر شرح ہے۔ ریطوریقا ارسطو اسحق و ابراہیم یعنی خطابیات ‘فارابی نے شرح لکھی جو سوورق میں ہے۔ انوطیقا ارسطو ابوالبشر متی یحییٰ ابن عدی یعنی شعر کندی نے اس کو مختصر کیا۔ سما ع طبعی مشہور بہ سمع الکیان ارسطو یہ کتاب آٹھ مقالوں میں ہے‘ مقالہ اولیٰ کی تفسیر اسکندر ا فردوسی نے کی جس کا ترجمہ ابوالرواح صابی نے عربی میں کیا اور یحییٰ بن عدی نے اس کی اصلاح کی ‘ دوسرا مقالہ حنین نے سریانی میں ترجمہ کیا‘ اور یحییٰ نے اس کو عربی میں نقل کیا‘ تیسرا مقالہ موجود نہیں ہے چوتھے مقالہ کی تفسیر اسکندرا فردوسی نے تین مقالوں میں کی ہے جن میں سے دو مقالے کامل اور تیسرے کا کچھ حصہ قسطا بن لوقانے ترجمہ کیا ‘ قسطانے پانچویں اور ساتویں مقالے کا ترجمہ کیا اور آٹھویں کی شرح لکھی … فرفوریوس یونانی نے اس کے چار مقالوں کی جو شرح لکھی ہے اس کا ترجمہ بسیل نے کیا اور ابوالبشر متی نے دوبارہ نقل کیا ثامسطیوس نے بھی اس پر شرح لکھی ہے جس کا ترجمہ متی نے سریانی میں کیا ابو احد نے مقالہ اولیٰ و چہارم کی شرح لکھی‘ ثابت بن قرہ نے مقالہ اولیٰ و ثانیہ پر حاشیہ لکھا‘ ابراہیم بن الصلت نے مقالہ اولیٰ کی شرح کی ابوالفرج بن قدامہ نے رومی زبان میں جو شرح لکھی ہے‘ عربی زبان میں اس کا بھی ترجمہ ہوا ہے اس کتاب پر علمائے اسلام نے بہت ی شرحیں اور حاشیے لکھے۔ سماع عالم ارسطو یحییٰ بن عدی وغیرہ چار مقالوں میں ہے ابن بطریق متی نے اس کے بعض حصے ترجمے کیے حنین بن اسحاق نے اس کے سولہ مسئلوں پر گفتگو کی ہے‘ ابو زید بلخی نے ابو جعفر خازن کے لیے اس کی شرح لکھی۔ ابوہاشم نے اصل کتاب پر ردو قدح کیا اور اعتراضات لکھے‘ جو تصفح کے نام سے مشہور ہیں۔ کتاب الکون ارسطو حنین وغیرہ حنین نے سریانی نے ترجمہ کیا اور اسحق و مشقی نے عربی میں‘ اسکندر نے اس کی شرح لکھی ہے جس کا ترجمہ متی نے کیا اور ابوزکریا یحییٰ بن عدی نے اس کی اصلاح کی یحییٰ نحومی نے بھی اس کی شرح لکھی مقالہ اولیٰ کا ترجمہ کیا قسطا نے بھی کیا ‘ لایندروس یونانی نے جو شرح لکھی ہے اس کا ترجمہ بھی عربی زبان میں کیا ۔ کتاب فی الآثار العلویۃ ارسطو یحییٰ بن بطریق وغیرہ الایندروس یونانی نے اس کی شرح لکھی ہے جو ابوالبشر متی نے عربی میںنقل کیا ہے اسکندرا فردوسی کی بھی شرح ہے جس کا ترجمہ عربی زبان میں کیا گیا ثامسیطوس کی شرح کا ترجمہ اسحاق نے عربی میں کیا یحییٰ بن عدی و حنین وغیرہ نے بھی اصل کتاب کے ترجمے سریانی و عبرانی میں کیے۔ کتاب الحیوان ارسطو ابن بطریق ۱۹ مقالوں میں ہی نیقولائوس نے اس کو مختصر کیا ہے جس کا ترجمہ ابو علی بن ذرہ نے عربی میں کیا۔ تقی الدین سپہر نے ناسخ التواریخ لکھا ہے کہ اس کتاب کی تصنیف کے وقت ارسطو کی کتابوں میںسے کتاب اثالو جیا و کتاب زبرجد کتاب الباقیات میری نظر سے گزریں۔ اقلیدس حجاج ابن یوسف کوفی نے دو ترجمے کیے پہلا ہارونی کے لقب سے مشہور ہے۔ اور دوسرا مامونی کے نام سے مگر یہ دوسر ا ترجہ عمدہ اور صحیح ہونے کی وجہ سے شائع نہیں ہوا حجاج کے نسخے میں کل شکلیں ۴۶۸ ہیں مگر ثابت کے نسخے میں ۱۰ شکلیں اور زیادہ ہیں کچھ مقالے ابوعثمان و مشقی نے بھی ترجمے کیے عبداللطیف طبیب نے جو رومی نسخہ دیکھا ا سکی چالیں شکلیں اور زائد تھین جن کا اس نے ترجمہ کرنا چاہا تھا علمائے اسلام نے نہایت کثرت سے اقلیدس پر شرحیں اور حواشی لکھے مثلاً یزیدی‘ جوہری ہامانی‘ ابوحفص الحرات الحراسانی‘ ابوالوفاء بوجانی‘ ابوالقاسم انطاکی‘ احمد بن مکر الکرابیسی‘ ابو یوسف الرازی ‘ قاضی ابو محمد عبدالباقی ‘ البغدادی المشہور بہ قاضی بیمار ستان (ہسپتال) ‘ ابو علی الحسن بن الحسین بن الہیثم البصری‘ ابو جعفر خازن ہوازی ابودائود‘ سلیمان بن عقبہ محقق طوسی ‘ ہامانی نے صر ف پانچویں مقالے کا ترجمہ کیا اورابو یوسف رازی نے صرف دسویں مقالہ کا قاضی عبدالباقی کی شرح نہایت بسیط ہے اس نے اشکال کی مثالیں عدد سے بھی دی ہیں ابن الہیثم نے اس کے مصادرات کی شرح لکھی ہے اور ایک کتاب اس پر اعتراض و جواب کی لکھی ابو جعفر خازن و اہوازی کی شرح صرف دسویں مقالے پر ہے ثابت بن قرہ نے ان علل کی تشریح کی جن پر اقلیدس نے شکلوں کی ترتیب رکھی ہے اس کتاب کی بہت سی اصلاحین بھی ہوئیں جن کو تحریر کا لقب ملا مثلاً تحریر تقی الدی اس تحریر کا نام تہذیب الاصول ہے اور تحریر محقق طوسی جو نہایت عمدہ تر اور شائع ہے اور اسی وجہ سے بہت سے علماء نے اس پر جو حواشی لکھے ہیں جن میں سے علامہ سید شریف قاضی زادہ رومی نامور ہیں۔ نام کتاب نام مصنف نام مترجم المعطیات اقلیدس اسحق اسحق نے عربی میںترجمہ کیا ثابت نے اصلاح کی علامہ طوسی نے اس کی تحریر کی ۹۵ شکلوں میں ہے۔ المناظر ظاہرات الفلک اقلیدس اسحق ۶۴ شکلوں میں ہے علامہ طوسی نے اس کی ۲۳ شکلیںہیں نصیر الدین طوسی نے تحریر کی تبریزی نے اس کی شرح لکھی۔ کناش ہراون القیس ماسر جویہ یہ حکیم ماسر جو یہ بصرہ کا رہنے والا اور یہودی المذہب تھا مروان کے زمانہ میں (غالباً اس کی فرمائش سے) یہ ترجمہ اس نے عربی میں کیا۔ کتاب الجبروالمقابلہ ایوقسطیوس ماسر جویہ محمد بن یحییٰ ابن ابی البقاء البوزجانی نے جو سنہ ۳۴۸ھ میں موجو د تھا اس کتاب کا تفسیر کی (مختصر) المطالع ابسقلاوس قسطا بن لوقا بعلبکی کندی نے اصلاح کی اور علامہ طوسی نے تحریر کی ۔ ۳ مقدمے اور ۲ شکلوں پر مشتمل ہے۔ المنی افلاطون موفق الدین نے اس کو مختصر کیا اور ترتیب دی۔ الفلاحۃ الرومیہ قسطوس بن اسکورالسکینہ سرحس بن ہلیا اس نے پہلا ترجمہ رومی سے عربی زبان میں کیا پھر قسطا بن لوقا بعلیکی ۔ ابوزکریا بن یحییٰ بن عدی اسطاس نے عربی میں الگ الگ ترجمے کیے فارسی میں بھی اس کا ترجمہ ہوا جس کانام ور زنامہ ہے۔ الکرۃ المتحرکہ اوطولوقس ثابت ثابت نے اصلاح کی اور محقق طوسی نے تحریر کی ایک مقالہ اور بارہ شکلیں ہیں۔ کتاب اللیل و النہار ثاودسیوس دو مقالے ہیں اور ۳۳ شکلیں علامہ طوسی نے تحریر کی۔ کتاب المساکن ۱؎ ثاودسیوس قسطا بن لوقا ۱۲ شکلیں ہیں علامہ طوسی نے تحریر کی۔ کتاب الحشایش ویسقوریدس اصطفن بن بسیل اس کتاب میں نباتات کی تصویریں لونانی قدی حرفوں میں بنی ہوئی تھیں۔ کتاب السموم باربوقانبطی من اہل بروسایہ ابوبکر احمد یہ کتاب نبطی زبان میں تھی ابوبکر احمد بن علی المعروف بابن وحشیہ نے عربی میں ترجمہ کیا ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱؎ اس کتاب کا ترجمہ میں نے خود دیکھا ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نام کتاب نام مصنف نام مترجم کتاب الادویہ دیسقوریدس ۵ مقالے ہیں ابن بیطار شیخ عبداللہ بن احمد مالقی نے اس کی تفسیر کی۔ کتاب تسطح الکرہ الفرق بطلیموس جالینوس ابوجعفر احمد بن محمد الطیف المتوفی سنہ ۳۶۰ھ نے اس کی شرح لکھی جو کہ رجب سنہ ۳۴۲ھ میں تمام ہوئی۔ کتاب القوی الطبیعہ جالینوس حنین بن اسحق ۳ مقالوںمیں ہے۔ کتاب الحمیات جالینوس ابوجعفر احمد بن محمد الطبیب نے اس پر شرح لکھی۔ کتاب الکرۃ والا سطواتہ ارشمیدس مصری ثابت بن قرہ نے اصلاح کی مگر چونہ اصل میں بھی بعض مصادرات چھوٹ گئے اور اوطوقیولس عسقلانی نے اس کے مشکلات کی شرح لکھی جس کا ترجمہ عربی میں اسحق بن حنین نے کیا علامہ طوسی نے اس کی تحریر کی ثابت کے نسخے میں اس کی ۴۸ شکلیں ہیں ‘ اور اسحق کے نسخے میں صرف ۴۳۔ الماخوذات فی الاصول ارشمیدس ثابت بن قرہ ابوالحسن علی بن احمد النسوی نے اس کی تفسیر کی۔ ۱۵ شکلیں ہیں علامہ طوسی نے اصلاح کی ابوسہل نے بھی کچھ اس کی اصلاح کی جس کا نام تزئین کتاب ارشمیدس ہے۔ المخروطات بی احوال انحطوط المخنیہ ابلینوس البخار احمد بن موسیٰ الحصمحی ثابت ابن قرہ مامون رشید نے روم سے جو کتابیں منگوا کر ترجمہ کرائیں ان میں سے اس کا ترجمہ بھی ہوا یہ سات مقالوں میں تھی مگر مقدمے کی عبادت سے معلوم ہوا کہ اصل کتاب آٹھ مقالوں میں ہے اور اس آٹھویں مقالہ میں سب سے پہلے مقالوں کے مطالب مع فوائد دیگر موجود ہیں لیکن آٹھویں مقالے کا باوجود تلاش کے پتہ نہ چلا ابو موسیٰ شاکر کا بیان ہے کہ اب جس قدر یہ کتاب موجود ہے اس میں سات مقالے اور کچھ حصہ آٹھویںمقالے کا موجود ہے جس میں صرف چار شکلیں ہیں چار پہلے مقالوں کا ترجمہ احمد بن موسیٰ نے کیا اور تین پچھلے مقالوں کا ترجمہ ثابت بن قرہ نے جس کو کہ حسن و احمد (دونوں ابن موسیٰ بن شاکر) نے اصلاح کر کے درست کیا اہل یورپ نے اس کتاب کو صرف مشرقی مترجموں کے ذریعہ سے پایا کیونکہ اس کی اصل بالکل جاتی رہی (گبن رومن امپائر) نسبتہ الجذور ابلینوس البخار دو مقالوں میں ہے پہلے مقالے کے ترجمہ کی تو ثابت نے اصلاح کی مگر دوسرے مقالے کا ترجمہ بے معنی ہے۔ مابعد الطبیعۃ ثاوفردیطوس یحییٰ بن عدی یہ مصنف ارسطو کابرادر زادہ تھا اصل کتاب سریانی میں تھی (مختصر الدول) کتاب الحس و المحسوس ثاوفردیطوس ابراہیم بن تکوین (از مختصر الدول) اسباب النباب ثاو فردیطوس ابراہیم بن تکوین (مختصر الدول) کتاب من حمل فلسفۃ ارسطو نیقلاوس حنین حنین نے پوری کتاب کا ترجمہ سریانی میں کیا (مختصر الدول) ثالوجیا لالحدود برقلس ارسطیقوس یونانی ابوعثمان و مشقی ابوالوفا ابو الوفا محمد بن محمد مماسب نے ترجمہ کیا اور اصلاح کی پھر اس پر شرح لکھی جس میں دلائل ہندسی قائم کیے۔ مجسطی اس کتاب کے ۳ ترجمے نہایت مقبول اور مشہور ہوئے پہلا حجاج بن مطر کا دوسرا اسحق کا جس کو ثابت نے صحیح کیا ‘ تیسرا خود ثابت کا اول اس کا ترجمہ یحییٰ بن خالد برمکی کے لیے کیا گیا جس کی بہت سے لوگوں نے تعلیقات اور تفسیریں لکھیںمگر وہ سب ترجمے اور تفسیریں مبہم اور مجمل تھیں ابوحسان و سلمان نے جن کو بیت الحکمۃ کا اہتمام سپردتھا ان ترجموں کی کوب توضیح و تصحیح کی چونکہ مامون الرشید کو اس کتاب کے ساتھ نہایت شیفتگی تھی تو اس کی فرمائش سے حنین بن اسحاق نے بھی ترجمہ کیا اور حجاج بن یوسف و ثابت بن قرہ نے زوائد سے پاک کر کے خلاصہ لکھا ابوالریحان بیرونی نے اس کا اختصار کیا اور عمرو بن فرخان و ابراہیم بن الصلب و فضل ابن حاتم و شمس الدین سمر قندی نظام الدین حسن بن محمد نیشا پوری و دیگر علمائے شرحیں لکھیں شیخ یحییٰ بن محمد بن ابی الشکر المغربی الاندلسی نے مجسطی کا ملحض ملطیہ کے پوپ ابوالفرج غریفورس بن ہارون کے اشارے سے لکھا۔ نام کتاب نام مصنف نام مترجم فصول بقراط بقراط ابو عثمان سعید ابن یعقوب یہ مترجم نہایت نامور حکیم اور مقتدر باللہ کے وزیر کا خاص طبیب تھا۔ نموذارنیٰ الاعمار و اسرار الموالید و القرآنات الکبیر والقرآنات الصغیر کنکہ ہندی ابو عثمان سعید ابن یعقوب یہ حکیم ہندوستان کا رہنے والا ہارون الرشید کے دربار میں داخل تھا اور علاوہ طباعت کے ترجمے کا کام بھی کرتا تھا انفنٹن نے تاریخ ہند میں اس کا نام منکا لکھا ہے۔ کتاب حساب العدد یہ کتاب سنسکرت زبان میں تھی جس کی توضیح و تفسیر ابوجعفر محمد بن موسیٰ خوارزمی نے کی (جامع القصص العربیہ) رسالۃ السرفی الکیمیا ہرمس بود شیر قسطانس بن ارامسس یہ رسالہ اخمیم مصر میں ایک قبہ میں پایا گیا اس قبہ میں ایک عورت کی ممی تھی اور اس کے بال پائوں تک لٹک رہے تھے سات نہایت عمدہ حلے اس کے بدن پر تھے اور اس کے اردگرد تخت تھے جن پر چھوٹی چھوٹی لڑکیوں کی ممیاں تھیں یہ رسالہ سونے کی تختی پر لکھا ہوا تھا اوراس عورت کے سر کے نیچے تھا مامون الرشید جب مصر گیا تواس نے اس رسالہ کا ترجمہ کرایا جس کو ایک حمیر کے شخص نے کیا تھا۔ کلیلہ و منہ عبداللہ بن المقفع یہ کتاب ہندی زبان سے نوشیروان کے لیے ترجمہ کی گئی تھی پھر اس فارسی کا ترجمہ عبداللہ ابن المقفع نے عربی میں کیا جو کہ ابوجعفر منصور کا منشی تھا دوسرا ترجمہ عربی میں عبداللہ ابن ہلال اہوازی نے یحییٰ بن خالد برمکی کے لیے کیا جو کہ سنہ ۱۶۵ھ میں تمام ہوا … پھر سہل بن نوبخت حکیم نے یحییٰ بن خالد کے لیے نظم کیا جس کا صلہ اس کو ایک ہزار دینار ملا کلیلہ دومنہ کے ڈھنگ پر سہل بن ہارون نے ایک کتاب مامون الرشید کے لیے لکھی جس میں ہر ایک باب و فصل کلیلہ دومنہ کے معاوضہ کے طور پر لکھی۔ کتاب الادویہ ویقوریدس عبداللہ مالقی نے اس کی شرح لکھی کتاب سبرک ہندی سبرک ہندی عبداللہ بن علی پہلے اس کتاب کا ترجمہ فارسی میں ہوا پھر عبداللہ ابن علی نے فارسی سے عربی میں ترجمہ کیا۔ کتاب الطلوع و المغروب اوطولوقس ثابت بن قرہ نے اصلاح کی اور محقق طوسی نے تحریر دو مقالے ہیں اور ۳۶ شکلیں۔ کتاب السموم شاناق ہندی ابو حاتم بلخی یحییٰ بن خالد برمکی کے حکم سے منکہ ہندی نے باعانت ابوحاتم بلخی فارسی میں ترجمہ کیا پھر مامون الرشید کے حکم سے علی بن العباس بن احمد نے عربی میں نقل کیا۔ الاکر المتحرکۃ اوطوقولس مامون الرشید کے عہد میں ترجمہ ہوا اور یعقوب کندی نے اصلاح کی۔ اکر ثاوذوسیوس قسطا بن لوقا یہ کتاب تین مقالوں میں ہے ثابت بن قیرہ نے اصلاح کی اور محقق طوسی و تقی الدین الراصد نے تحریر کی۔ اکر مانا لائوس اس کتاب کے بہت سے ترجمے ہوئے میانی و ابوالفضل احمد بن سعید ہروی نے اصلاح کی‘ اس میں تین تین مقالے ہیں۔ یہ فہرست زیادہ تر کشف الظنون سے مرتب کی گئی ہے خاص ارسطو کی تصانیف کے متعلق کسی قدر زائد تفصیل ناسخ التواریخ جلد اول حالات ارسطو سے لی گئی ہے۔ دیمارک یہ فہرست نہایت مختصرہے ہم نے خود اختصار کی غرض سے بہت سے مترجموں کے نام نہیں لکھے گو عام طور پر ان مفصل واقعات سے لوگ بہت کم واقف ہیں تاہم ترجموں کی اجمالی پر فخر ہے تاریخ آج قوم کے ایک ایک ممبر کو معلوم ہے کہ انہی واقعات پر خیال کرنے سے بانیان سائنٹفک سوسائٹی علی گڑھ کو دھوکا ہوا ہے۔ اور وہ سمجھے کہ جس طرح ہمارے مورثوں نے بذریعہ ترجموں کے علوم کو ترقی دی ہم بھی یورپ کے علوم و فنون کو اپنی زبان میں ترجمہ کر کے اپنے علوم اور اپنی قوم کوترزی کے رتبے پر پہنچائیں گے مگرر ان کا یہ قیاس غلط ارو قیاس مع الفاروق تھا اول تو ترجموں کا اہتمام اور لاکھوں روپے کا خرج جو خلفائے عباسیہ کے زمانے میں ہوا اب غیر ممکن ہے دوسرے اس زمانہ کے علوم محدود تھے اور ترقی رک چکی تھی جس قدر کتابیں جمع کر لی گئیں یونانیوں کے علوم پر گویا احاطہ کر لیا گیا اس زمانہ میں نہ علوم کی ترقی کی انتہا ہے نہ ان کتابوں کے شمار کی کوی حد ہے جس کی تصنیف کا سلسلہ برابر جاری رہا تیسری بڑی غلطی اس قیاس میں یہ تھی کہ اس زمانہ میں عربی زبان جس میں ترجمے ہوئے تمام اسلامی ممالک میں حکومت کرنے والی زبان تھی دنیا میں ایسی کوئی ثال نہیں ملتی کہ قوم نے اس زبان میں علوم و فنون کو ترقی دی ہو جو ان پر حکومت کرنے والی نہیںہے مگر ہم کو اس بات کے معلوم کرنے سے خوشی ہے کہ خود سید احمد خاں صاحب نے جو سائنٹفک سوسائٹی کے بانی ہیں متعدد تحریروں میں اپنی غلطی کا اعتراف کیا ہے۔ ٭٭٭ مدرسے اور دارالعلوم اگرچہ سنہ ۱۴۳ھ کے متصل ہی تمام ممالک اسلامی میں درس و تدریس کا ایک عظیم الشان سلسلہ قائم ہو گیا اور انہی دو تین صدیوں میں جس درجے کے سینکڑوں ہزاروں مجتہد قیقہ ‘ ادب ‘ شاعر فلاسفر اور مورخ پیدا ہو گئے زمانے کو نو سو برس کی وسیع مدت میں بھی اس پایہ کے لوگ نصیب نہی ہوئے ہیں لیکن تعجب ہے کہ تاریخ کے صفحوں میں چوتھی صدی کے اخیر تک بھی کسی کالج یا سکول کا نشان نہیں ملتا مسجدوں کے صحن‘ خانقاہوں کے حجرے علماء کے معمولی مکانات یہی ا س وقت کے مدرسے یا دارالعلوم تھے چیمبرس انسائیکلو پیڈیا میں لکھا ہے کہ مامون الرشید کے زمانہ میں عمدہ عمدہ مدرسے بغداد‘ بصرہ‘ کوفہ‘ بخارا میں قائم ہوئے ۱؎ اس سے بھی زیادہ واضح انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا کی شہادت ہے کہ مامون نے اپنی ولی عہدی کے زمانہ میں خراسان میں ایک کالج بنوایا جس میں مختلف ملکوں سے نہایت لائق لائق استاد بلا کر مقرر کیے اور میسوع ایک بڑے فاضل کو جو دمشق کا رہنے والا اورم ذہباً عیسائی تھا کالج کا پرنسپل مقرر کیا ۲؎ اگر یہ روایتیں صحیح ہوں تو مدرسوں کی ابتدائی تاریخ تصنیفات کے عہد سے بہت قریب ہو جاتی ہے لیکن ہم کو معلوم ہے کہ ایشیاء کا وسیع النظر مورخ ان شہادتوں کو بے پروائی سے دیکھے گا اوریہ کہہ کر ٹال دے گا کہ ’’اپنے گھر کا حال ہم تم سے زیادہ جانتے ہیں‘‘۔ عام خیا ل تو یہ ہے اورتعجب ہے کہ علامہ ابن خلکان بھی اس سے متفق ہیں کہ اسلامی دنیا میں اول جس نے مدرسوں کی بنیاد ڈالی وہ دولت سلجوقیہ کا وزیر اعظم نظام الملک طوسی تھا اولیت کی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱؎ کتاب مذکور ذکر عرب ۲؎ کتاب مذکور حالات مامون الرشید ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تعین تو ہم بھی نہیں کر سکتے مگر یہ بتا سکتے ہیں کہ نظام الملک سے پہلی علمی عمارتوں کے آچار موجود تھے سنہ ۴۰۰ھ میں حاکم مصر نے ایک بڑا شاندار مدرسہ بنوایا تھا بہت سی کتابیں اس پر وقف کیں اور فقہا و محدثین درس و تدریس کے لیے مقرر کیے ۔ ۱؎ سلطان محمود غزنوی نے بھی ہندوستان کی بے انتہا دولت کا ایک حصہ اس عمدہ کام میں صف کیا متھرا کی فتح سے واپس جا کر سنہ ۴۱۰ھ میں خاص دارالسلطنت غزنین میں ایک نہات عالی شان مدرسہ بنوایا اور ایک کتب خانہ بھی اس میں شامل تھا جس میں مختلف زبانوں کی کتابیں نہایت کثرت سے جمع کی گئی تھیں مدرسہ کے مصار ف کے لیے بہت سے دیہات اور مواضع وقف کیے گئے تھے محمد قاسم فرشتہ کا بیان ہے کہ اس عمدہ نظیر کی تقلید تمام ارکان دولت اور امرء نے بھی کی اور تھوڑے ہی دنوں میں غزلیں علمی یادگاروں سے معمور ہو گیا اور داراسلام بغداد اس فخر کے لیے ہنوز نظام الملک کا انتظار کر رہا تھا لیکن نیشاپور میں بڑے بٖڑے کالج و سکول قائم ہو چکے تھے سلطان محمود کے بھائی امیر نصر نے ایک مدرسہ بنوایا جو سعیدیہ کے نام سے مشہور ہوا۔ مدرسہ بیہقیہ کے مدرس اعظم ابوالقاسم اسکاف اسفراینی تھے۔ امام الحرمین نے جو امام غزالی کے استاد ہیں اسی مدرسے میں تعلیم پائی تھی استاد ابوبکر فورک کو لوگوں نے خطوط بھیج کر بلایا اور جب وہ تشریف لائے تو خاص ان کے درس کے لیے ایک مدرسہ تعمیر ہوا جس کی نسبت کہا جا سکتا ہے کہ تاریخ اسلام میں اگر کوئی مدرسہ عام قومی چندہ سے بنا تو شاید یہی تھا استاد ابوبکر نہ سنہ ۴۰۶ ھ میں وفات پائی تو ان کی تصنیفات کا اندازہ سو کے قریب کیا یگا ہے ۔ اسی طرح ایک اور مشہور مدرسہ علامہ ابو اسحق اسفراینی المتوفی سنہ ۶۱۸ھ کے لیے قائم ہوا ۳؎ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱؎ حسن المحاضرۃ علامہ سیوطی ذکر حوادث غریبہ مصر سنہ ۴۰۰ھ و تاریخ کامل واقعات سنہ ۴۰۰ ھ ۲؎ تاریخ فرشتہ فتح متھرا ۳؎ اس مدرسہ اور مدرسہ بیہقیہ و مدرسہ سعیدیہ کے لیے دیکھو حسن المحاضرہ علامہ سیوطی ذکر ’’امہات مدارس‘‘ باقی مدرسوں کے حالات ابن خلکان میں ان علماء کے تراجم میں ملیں گے جن کے لیے وہ قائم کیے گئے تھے ان خلکان میں امام الحرمین کے حالات بھی دیکھو۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حکیم ناصر خسرو سفر کرتا ہوا سنہ ۴۳۷ھ میں جب نیشاپور پہنچا تو اس نے ایک مدرسہ دیکھا جو طغرل بیگ سلجوقی کے حکم سے تعمیر ہو رہا تھا ۱؎ ۔ ایک اور مدرسہ تھا جو ابوسعد اسمعیل استر آبادی کی طرف سے منسوب ہے۔ اور شاید سب سے اخیر وہ مدرسہ تھا جو نظام الملک کی علمی فیاضی کا پہلا دیباچہ تھا یہ مدرسہ بھی نظامی کے نام سے مشہور تھا لیکن جب بغداد کا مشہور دارالعلوم قائم ہوا تو اس کی علمی شہرت دب گئی اور اب اگر ا کو نظامیہ کہتے ہیں تو ساتھ ہی نیشاپور کی قید لگانی پڑی ہے تاہم اس کا یہ فخر کوئی گھٹا نہیں سکتا کہ امام غزالی کے استاد علامہ ابو المعافی امام الحرمین اس کے مدرسے اعظم تھے اور امام غزالی سے فخرروزگار اسی مدرسہ کے ایک ستعد طالب العلم تھے ۲؎ حقیقت یہ ہے کہ نظامیہ کی عزت کچھ اس وجہ سے نہیں ہے کہ وہ دنیا میں سب سے پہلا مدرسہ تھا بلکہ ا س کے لیے کہ اس کی عالم گیر شہرت نے تمام پچھلی یادگاروں کو اس طرح دلوں سے بھلا دیا کہ گویا ا س سے پہلے کو ئی دارالعلو بنا ہی نہ تھا۔ خود بغداد میں بھی تو اس سے کچھ پہہلے الپ ارسلان سلجوقی کا ایک مدرسہ موجود تھا جو زر خطیر کے صرف سے تیار ہواتھا مگر آج کتنے آدمی ہیں جو اس کا نام بھی بتا سکیں۔ عرب کے سوا اسلامی ممالک میں جتنے خاندان فرمانروا ہوئے ان سب پر عظمت اور قومی ترآل سلجوق تھے الپ ارسلان و ملک شاہ جن کی شہرت نے یورپ اور ایشیا دونوں پر برابر قبجہ کیا ہے اسی خاندان کے یادگارتھے اورنظام الملک طوسی جس کے مبارک ہاتھوں نے نظامیہ بغداد کی بنیا د ڈالی انہی دو کے دربار میں وزیرا عظم تھا وہ صرف وزیر نہ تھا بلکہ سفید و سیاہ کا مالک تھا اس نے چھ لاکھ دینار کی رقم خاص اس فیاضانہ کام کے لیے شاہی خزانہ سے مقرر کی تھی اور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱؎ سفر نامہ ناصر خسرو مطبوعہ دہلی ص ۳۴ ۲؎ دیکھو ابن خلکان ترجمہ امام الحرمین و امام غزالی ۳؎ ملک شاہ کی سلطنت کاشغر سے بیت المقدس تک طو ل اور قسطنطنیہ س بلاد خزر تک پھیلی ہوئی تھی ا عہد میں گویا وہ تمام ممالک اسلامی کا مالک تھا سنہ ۴۴۷ ھ میں پیدا ہوا اور سنہ ۴۸۵ھ میں وفات پائی نظام الملک نے بی برس تک کے اس دربار میں وزارت کی (ابن خلکان ترجمہ ملک شاہ نظام الملک )۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تمام عمل داری میں مکتب اور مدرسے قائم کیے تھے خاص اپنی کل جاگیرات میں سے بھی دسواں حصہ مدرسوں کے لیے وقف کر دیا تھا ۱؎ لیکن سب سے بڑا کام اجو اس کے ہاتھوں سے پورا ہوا‘ نظامیہ کی تعمیر تھی گبن صاحب اس کی نسبت لکھتے ہیں ک ایک سلطان کے وزیر نے بغداد میں مدرسہ قائم کرنے کے لیے دو لاکھ دینار ۲؎ وقف کیے اور پندرہ ہزار دینار سالانہ اس کے صرف کے لیے مقرر کیے نتائج عملی سے چھ ہزار ہر درجہ کے طلبہ مختلف وقتوں میں بہرہ اندوز ہوئے۔ ان میں امراء کیلڑکے بھی تھے اور اہل حرفہ بھی‘ غریب طالب علموں کے لیے کافی آمدنی مقرر تھی اور مدرسوں اور محققوں کی تنخواہیں بیش قرار تھیں۔ سنہ ۴۵۷ھ میں اس کی تعمیر شروع ہوئی اور ۱۰ ذی قعدہ روز شنبہ سنہ ۴۵۹ھ کو بڑی شان وشوکت سے کھولا گیا‘ اگر مورخین کا یہ بیان صحیح ہے کہ ’’رسم افتتاح کے وقت سارا بغداد امنڈ آیات ھا اور دارالخلافہ کی کل عظمت اور قوت نظامیہ کے ہال میں مجتمع تھی‘‘ تو قوم کے علمی جوش اوار سلسلسہ عمارت کی وسعت کا اندازہ ہم صحیح کر سکتے ہیں۔ علامہ ابو اسحق شیرازی جوان ممالک میں استاد کل تسلیم کیے جاتے ہیں۔ مدرس اعظم منتخب ہوئے لیکن انہوں نے ایک شبہ کی بنا پر اس عہدہ کو ناپسند کیا اس لیے سر دست ابونصر مصنف شامل کو یہ خدمت سپرد ہوئی اور بیس دن کے بعد علامہ ابواسحق بڑے اصرار سے اس منصب کے قبول کرنے پر راضی کیے گئے نظامیہ کی عمر میں خدا نے بڑی برکت دی اورجب تک بغداد کی حکومت قائم رہی اس کی فیاضیاں بھی دور دراز ملکوں تک اپنا اثرپہنچاتی رہیں ہمارے مخدوم سعدی شیرازی اس کے اخیر زمانہ کے طالب العلم ہیں ۳؎ امام طبری بن الخطیب‘ تبریزی شارح حماسہ‘ ابوالحسن فصیحی شاگرد امام عبدالقادر ہر جیلانی وغیرہ‘ مدرس اعظم اور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱؎ آثار البلا د علامہ قزوینی ذکر طوس وردضتیں فی اخبار الدولتیں ۲؎ دینار کم از کم پانچ روپیہ کا ہوتا ہے اگر اسی شرح سے حساب لگائیں تو بھی دس لاکھ روپیہ ہوتے ہیں ۳؎ نظامیہ کے یہ حالات کامل بن الاثیر واقعات سنہ ۴۵۷ھ ، سنہ ۴۵۹ ھ داعلام تاریخ مطبوعہ جرمن سنہ ۱۸۵۷ھ ص ۷۵ و تاریخ الخلفاء سیوطی حالات نسہ ۴۵۹ھ و تاریخ ابن خلکان ترجمہ ابو اسحق شیرازی وا بو نصر و گبن صاحب کی رومن امپائر حصہ مسلمانان آغاز دولت عباسیہ و حسن المحاضرہ علامہ سیوطی ذکر مدارس مصر میں اجمالاً و تفصیلاً مل سکتے ہیں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ امام احمد غزالیؒ ابو المعالی قطب الدین شافعی کیا ہراسی وغیرہ وقتاً فوقتاً اس میں نائب مدرس رہ چک ہیں ہر زمانہ میں علماء کے لیے نظامیہ کی پروفیسری سے بڑھ کر کوئی بات اعزاز کی نہیں ہو سکتی تھی اور دو سوبرس کی مدت میں کوئی ایسا شخص ا س منصب پر مقرر نہیںہوا جو اپنے زمانے میں یکتائے فن ی یگانہ و ہرنہ دسمجھا جاتا ہو نظامیہ کے احاطہ یں ایک بڑا کتب کانہ بھی تھا جو خود نظام الملک کے عہد میں تیار ہوا تھا علامہ ابو ذکریا تبریزی جو ایک مشہور مصنف تھے کتب خانہ کے منتظم تھے (آثار البلاد قزوینی ذکر شہر قزوینی)۔ سنہ ۵۸۹ ھ میں ناصر الدین اللہ خلیفہ عباسی کے حکم سے ایک اور کتب خانہ اس کے احاطہ میں تعمیر ہوا اورہزاروں نایاب کتابیں شاہی کتب خانہ سے اس کے لیے عنایت ہوئیں ۱؎ نظامیہ کی مخصوص فیاضیوں میں یہ بات بھی شمار کی گئی ہے کہ اس نے طلبہ کے لیے وظیفے اور تنخواہیں مقرر کیں جس کا اس سے پہلے شاید کبھی رواج نہیں تھا۔ ۲؎۔ نظام الملک نے عام مدرسوں کے علاوہ نیشاپور‘ ہرات موصل اصفہان میں جو بڑے بڑے کالج قائم کیے تھے وہ بھی نظامیہ کہلاتے تھے اورم دت تک نہایت مشہور فائق علماء ان کے پروفیسر ہوتے رہے مثلاً نظامیہ ہرات کے مدرس ابو سعد محمد بن یحییٰ شاگرد امام غزالی تھے نظامیہ موصل میں ابو حامد محی الدین المتوی سنہ ۵۴۴ھ نے درس دیا۔ ارجان المتوفی سنہ ۵۴۴ھ نے نظامیہ اصفہان میں تحصیل کی لیکن نظامیہ بغداد اور گویا یونیورسٹی تھی اور ی تمام کالج اس کی شاخیں تھیں۔ نظام الملک نے جو صرف کثیر مدارس وغیرہ کے لیے شاہی خزانہ سے مقر ر کیا تھا ا س پر ملک شاہ کو بھی خیال ہوا اور اس نے نظام الملک کو بلا کر اپنے معمولی طریقے کے موافق کہا ’’پیارے باپ ا قدر زر کثیر سے تو ایک فوج مرتب ہو سکتی ہے جن لوگوں پر آپ یہ فیاضیاں کر رہے ہیں ان سے ایسا بڑا کام کیا نکل سکتا ہے‘‘ نظام الملک نے کہا ’’جان پدر میں تو بوڑھا ہوں لیکن تم تو ایک نوجوان ترک ہو۔ اگر بازار میں بیچنے کے لیے کھڑے کیے جائو تو امید نہیں کہ تیس دینار سے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱؎ کامل ابن الاثیر واقعات سنہ ۸۹ھ ۲؎ حسن المحاضرہ بحوالہ طبقات سبکی فصل امہات مدارس ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ زیادہ تمہاری قیمت اٹھے اس پر خدا نے تم کو ملک عنایت کیا کیا اس کا اتنا شکریہ بھی تم کو ادا نہیں کر سکتے تمہاری فوج کے چند قدم پر کام دے سکتے ہیں لیکن جو فوج میںتیار کر رہا ہوں اس کی دعائوں کے تیر آسمان کی سپر سے بھی نہیںرک سکتے‘‘ ملک شاہ بیساختہ بول اٹھا کہ ’’مرحبا پیارے باپ ایسی فوجیں جس قدر ممکن ہوں اور تیار کرنی چاہئیں‘‘ ۱؎ مسلمانوں کی علمی تاریخ میں یہ بات بھی نہایت عجیب اور یاد رکھنے کے قابل ہے کہ جب مادرا النہر کے علما کو نظامیہ کے قائل ہونے والے تما م حالات سے اطلاع ہوئی تو سب نے ایک مجل ماتم منعقد کی اور اس بات پر روئے کہ اب علم علم کے لیے نہیں بلکہ جاہ و ثروت حاصل کرنے کے لیے سیکھا جائے گا‘‘۔ اس روایت سے آئندہ ہم کو ایک رائے قائم کرنے میںمدد ملے گی نظامیہ نے اپنے اثر سے ایک عجیب گرم جوشی تمام ملک میں پیدا کر دی وہ پانچوین صدی میں قائم ہوا اور چھٹی صدی تک اسلامی دنیا کا کوئی کونہ (بجز اسپین کے) علمی عمارتوں سے کالی نہ رہا خراسان کے بڑے بڑے صوبہ مثلاً مرو‘ نیشاپور‘ ہرات ‘ بلخ‘ اور ایران کے علاقے گو پہلے سے علم و فضل کے مرکز تھے مگر نظامیہ کے اثر نے اور بھی مالا مال کر دیا‘ یاقوت حموی قریباً چھٹی صدی میںجب مرد پہنچا تووہاں بہت سے مدرسے اور کتب خانے موجود پائے جن مدرسوں کے متعلق بڑے بڑے کتب خانے تھے ان کے یہ نام ہیں مستوفیہ شرف الملک ابو سعد محمد بن منصور المتوفی نہ ۴۹۴ھ کا قائم کیا ہوا عمیدیہ خاتونیہ اس میں چند کتب خانے تھے نظامیہ نظام الملک حسن بن اسحق کا قائم کیا ہوا۔ یاقوت حموی‘ معجم البلدان ۲؎ جیسی عجیب اور جامع کتاب انہی کتب خانوں کی مدد سے لکھ سکا ۳؎ خاص شہر نیشاپور کی کثرت مدارس کا اندازہ اس بات سے ہو سکتا ہے کہ سنہ ۵۵۶ھ میں جب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱؎ اعلام تاریخ مکہ ذکر مدرسہ نظامیہ ۲؎ یہ عربی زبان میں ایک جغرافیہ کی کتاب ہے جو کم و بیش چار ہزار صفحوں میں ہے اور اس جامعیت سے لکھی گئی ہے کہ عقل حیران ہوتی ہے یورپ میں چھاپی گئی ہے ۳ ؎ دیکھو معجم البلدان حالات مرد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اندرونی فسادات نے اس کوغارت کیاتو عمارتوں کے ساتھ ۲۵ ںنفیہ اور شافعیہ مدرسے بھی برباد ہوئے ان کے علاوہ ۱۲ کتب خانے بھی جل گئے یا لوٹ لیے گئے یزد میں صرف علامہ حسین بن احمد ابوالفضل المتوفی سنہ ۵۹۱ھ کے اہتمام میں بارہ مدرسے تھے جن میں بارہ سو طلبہ تعلیم پاتے تھے ۱؎ خوارزم کا بڑا کالج امام فخر الدین رازی المتوفی سنہ ۶۷۶ھ کی پروفیسری سے ممتاز تھا مسٹر شارڈن سیاح فرانس جنہوںنے دولت مغویہ کے زمانہ میں ایران کے اکثر مقامات کی سیر کی اپنے سفر نامہ میں لکھت ہیں کہ ’’سلیمان صفویہ کے عہد میں خاص شہرا صفہان مٰں اڑتالیس ۴۸ مدرسے موجود تھے‘‘۔ (مرات البلدان ناصری جلد اول ص ۵۴ (مطبوعہ ایران ) خود بغداد میں نظامیہ کے ہوتے تیس بڑے بڑے کالج موجود تھے جن کے بلند ایوانات اور وسعت عمارت کی نسبت علامہ ابن جبیر کا بیان ہے کہ ہر ایک بجائے خود ایک مستقل شہر معلوم ہوتا ۲؎ ہے علامہ موصوف نے سنہ ۵۷۸ ھ میں بغداد کو دیکھا تھا۔ بغداد کے بعض مدرسوں کا ہم ایک مختصر سا نقشہ فہرست کے طور پر نقل کرتے ہیں۔ مدرسہ بانی کیفیت مدرسہ تاجیہ تاج الملک مستوفی السلطان غالباً سنہ ۴۸۲ھ میں تعمیر ہوا امام ابوبکر شاسی مدرس اعظم مقر ر ہوئے (کامل ابن الاثیر واقعات سنہ ۴۸۲ھ) مدرسہ مستوفیہ شرف الملک ابو سعد محمد بن منصور یہ سلطان ملک شاہ سلجوق کا مستوفی تھا۔ سنہ ۴۹۴ھ میں وفات پائی ۔ یہ مدرسہ باب الطاق کے پاس تھا (کامل واقعات سنہ ۴۹۴ھ ) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱؎ حسن المحاضرہ جلد اول ص ۲۶۴ مطبوعہ مصر سنہ ۱۲۹۹ھ ۲؎ سفر نامہ علامہ ابن جبیر حالات بغداد بمقام لیڈن سنہ ۱۸۵۲ء میں چھاپا گیا ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مدرسہ بانی کیفیت مدرسہ کمالیہ کمال الدین ابو الفتوح صاحب المخزن تھا یہ مدرسہ سنہ ۵۳۵ھ میں تیار ہوا ‘ رسم افتتاح میں بغداد کے تمام اعیان شریک تھے (کامل واقعات سنہ ۳۵۳ھ ) مدرسہ ابو المظفر ابو المظفر عون الدین سنہ ۵۴۴ھ میںخلیفۃ المتقی باہر اللہ کے دربار میں منصب وزارت پر ممتاز ہوا ۔ (ابن خلکان حالات وزیر مذکور)۔ مدرسہ ثقتہ لدولہ علی بن محمد معروف بہ ثقتہ الدولہ خلیفہ المقتفی کا مقرب تھا‘ یہ مدرسہ شافعیون کے لیے خاص تھا دجلہ کے کنارے پر اس کی عمارت تھی ثقتہ الدولہ نے سنہ ۵۹۴ھ میں وفات پائی (ابن خلکان ترجمہ شہدۃ فخر النسائ)۔ مدرسہ بہائیہ نظامیہ کے متصل تھا ابومنصور محمد ہردی جن کی عظمت و شان ان کے حالات کے پڑھنے سے معلوم ہوتی ہے قریبا سنہ ۵۶۷ھ میں پروفیسر مقرر ہوئے مدرسہ نظامیہ میں بھی وعظ کیا کرتے تھے‘ نظامیہ کی پروفیسر ی کے لیے بھی امیدوار کیے گئے تھے (ابن خلکان حالات ابو منصور مذکور ) مدرسہ فخریہ فخر الدولہ ان کا باپ وزیر تھا فخر الدولہ نے سنہ ۵۷۸ھ میں وفات پائی (کامل بن الاثیر واقعت سنہ ۵۷۸ھ )۔ مدرسہ والدہ ناصر الدین اللہ خلیفہ ناصر الدین اللہ کی والدہ مستنصریہ خلیفہ المستنصر باللہ اس مدرسہ کا کسی قدر تفصیلی حال ہم لکھتے ہیں ان مدرسوں کے علاوہ بغداد میں مشہد ابی حنیفہ وقفیہ زیرکیہ‘ معینیہ‘ عنایتہ‘ مدرسہ قدیمہ عباسیہ شہرت عام رکھتے تھے طبقات الحنیفہ وغیرہ میں ان کے مدرسین وغیرہ کے حالات مل سکتے ہیں بغداد کے اکثر مدرسے بغداد میں تباہ ہونے کے بعد بھی قائم رہے۔ دولت عباسیہ کی تاریخ میں یہ بات بڑے الزام کے قابل تھی کہ ان تمام علمی عمارتوں میں سے ایک بھی کسی عباسی خلیفہ کے نام سے نہ تھی اور دارالخلافہ بغدادمیںاس خاص حیثیت سے بالکل دوسری نسلوں کا ممنون تھا۔ خلیفہ المستنصر باللہ نے جو رجب سنہ ۶۲۳ھ میں تخت نشین ہوا اس الزام کو اٹھانا چاہا اتنی مدت کی غلطی کا کفارہ بھی اسی مقدار سے ہونا چاہیے تھا اور انصاف یہ ہے کہ ایسا ہی ہوا‘ باتفاق تسلیم کیا گیا ہے کہ جس عظمت و شان کایہ مدرسہ بنا اس کی نظیر سے گزشتہ اور موجودہ دونوں زمانے خالی ہیں سنہ ۶۲۵ھ میں دجلہ کے کنارے اس کی بنیاد کا مبارک پتھر رکھا گیا اورچھ برس کی مدت میں سلسلہ عمارات پورا تیار ہوا عمارات کا ایک حصہ عین دجلہ میں تھا (مستنصریہ کے آثار اب بھی موجود ہیں ناصر الدین بادشاہ ایران نے سفرنامہ ایشیاء میں اس کی گزشتہ شوکت یاددلانے والی ٹوٹی ہوئی عمارت کا ذکر کیا ہے) اسی سنہ میں ماہ رجب جمعرات کے دن اس کی رسم افتتاح بڑی شوکت و شان سے ادا ہوئی تھی جس میں بغداد کے تمام اعیان و امرا ء کو خلفیئن عنایت کیں اور موید الدین علقمی جس کے اہتمام میں عمارت تیار ہوئی تھی اس کی جاگیر مضاعف کر دی اربعہ کے فقہا اور شیخ الحدیث شیخ الخو‘ شیخ الفرائض ‘ شیخ الطب درس کے لیے مقرر ہوئے ایک و ساٹھ اونٹ لاد کر عمدہ عمدہ کتابیں کتب خانہ شاہی سے اس کے استعمال کے لیے آئیں مدرسہ سہ ماہی کے احاطہ میں ایک ہسپتال اور مزیلہ بھی تھا۔ جس سے گرمیوں میں پانی ٹھنڈا کرتے ہیں۔ دو سو اڑتالیس مستعد طلبہ مدرسہ کھلنے کے ساتھ بورڈنگ میں داخل ہوئے جن کو مکان‘ فرش ‘ خوراک ‘ روغن‘ کاغذ ‘ قلم وغیرہ مدرسہ کی طرف سے ملتا تھا ان کے دستر خوان پر معمولی کھانے کے علاوہ شیرینی اور میوے بھی چنے جاتے تھے ان سب کے علاوہ ایک اشرفی ماہوار الگ وظیفہ کے طورپر مقرر کی گئی تھی۔ سینکڑوں دیہات اور موضع مدرسہ کے سالانہ مصارف کے لیے وقف تھے جن کی مجموعی آمدنی ستر ہزار مثقال سونا یعنی آج کل کے حسات سے قریباً ساڑھے چار لاکھ سالانہ تھی ۱؎ (علامہ ذہبی نے تاریخ دول الاسلام میں ان مواضع کی پوری فہرست دی ہے ۔ ) حنفیوں کے مدرس اعظم شیخ عمر ملقب بہ رشید الدین فرغانی تھے۔ جو فقہ اصول حکہم کلام میں بڑے ماہر گنے جاتے تھے پہلے بخار کے مدرسہ میں مدرس تھے پھر مستنصر باللہ نے فرمان بھیک کر بلا لیا تھا مدرسے کے ایک دروازہ پر ایک ایوان تھا جس میں ایک نہایت عجیب و غریب بیش قیمت گھڑی رکھی تھی ۳؎ جس کو علی بن تغلب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱؎ دیکھو تاریخ الخلفاء سیوطی حالات مستنصر باللہ و علام تاریخ مکہ صفحہ ۷ اومرات البلدان ناصری مطبوعہ ایران جلد اول ص ۲۴۴ دوول الاسلام علامہ ذہبی و جواہر مفسیہ فی طبقات الخفیہ ترجمہ عمر بن محمد بن الحسین بن ابی عمر بن محمد ابو حفص‘ فرخانی مدرس اول مستنصر یہ جواہر مضیتہ میں مدرسین شافعیہ و مالکیہ وہ حبنلیہ کے نام بھی لکھے ہیں ۲؎ آثار البلاد قزوینی ذکر شہر فرغانہ ۳؎ شاید یہ دوسری گھڑی ہے جو دولت عباسیہ کے عہد میںتیار ہوئی اس سے پہلے ہارون الریشد نے جو گھڑی شاہ فرانس کو بھیجی تھی وہ یورپ میں تعجب کی نگاہ سے دیکھی گئی تھی فرانس کے مورخوں کا بیان ہے کہ ہمار ے ملک میں پہلی گھڑ ی وہ ظاہر ہوئی جو ہارون الرشید نے سنہ ۸۰۷ ھ میں شارل میں بادشاہ فرانس کو تحفہ کے طور پر بھیجی تھی ۔ یہ گھڑی ایسی عجیب و غریب تھی ہ تمام دربار فرانس حیرت میں رہ گیا اس گھڑی کے بارہ دروازہ تھے جب گھنٹہ پورا ہوتا تھا تو ایک دروازہ خود بخود کھل جاتاتھا اور ایک حونگری جو تانبے کی بنی ہوئی تھی وہ جرس پر پڑتی تھی یہ دروازے کھلے رہتے تھے اور جب ایک دروازہ پورا ہو جاتا تو دروازوں سے بارہ سوار نلتے تھے اور گھڑی کی پیشانی پر چکر لگاتے تھے (دیکھو کشف المخبہ عن فنون اوربلو مطبوعہ جوائب سنہ ۱۲۹۹ھ ص ۲۱۸ء ۲۱۹) ایک انگریزی تصنیف میں بھی قریب قریب یہی تفصیل مذکور ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بن ابی الضیاء بعلبکی ایک مشہور ہیتء دان و منجم ۱؎ نے تیار کیا تھا ۔ جو بعد کو الساعاتی یعنی گھڑی ساز کے نام سے مشہور ہوا۔ عبدالرزاق ابن الغوطی جو محقق طوسی کا شاگر د رشید تھا۔ اور دس برس تک مراغۃ کی رصد گاہ میں محقق صاحب کے ساتھ خزانۃ الرصد کا مہتمم رہ چکا تھا۔ واقعہ تتار کے بعد کتب خانے کا افسر مقرر ہوا جہاں رہ کر اس نے تاریخ کی ایک کتاب ۵۰ جلدوں میں لکھی ۲؎۔ چھٹی صدی میں جیسا کہ ہم اوپر لکھ آئے ہیں ممالک اسلامیہ کا کوئی حصہ علمی یادگاروں سے خالی نہ رہا اور مصر بھی جہاں اب تک اس قسم کی ایک عمارت بھی موجو د نہ تھی اس صدی میں کالج اور ااسکولوں سے معمور ہو گئے ۔ مصر میں خلیفہ عبیدی حاکم بامر اللہ نے ۴۰۰ھ میں جو دارالعلوم قائم کیا تھا سنہ ۴۰۳ھ میں خود اس کو برباد کر دیا اور اس وقت سے پھر کسی نے اس طرف توجہ نہیں کی چھٹی صدی میں دو خاندانوں نوریہ وصلاحیہ اسلامی عظمت و شوکت کے اصلی مرکز تھے نور الدین محمود زنگی المتوفی سنہ ۵۶۹ھ جو شوال سنہ ۵۴۱ھ میں تخت نشین ہوا دولت نوریہ کا بانی اور مصر و شام کا مستقل فرماں روا تھا۔ اس نے قریباً پچاس شہر و قلعے یورپ کے پنجہ غضب سے واپس لیے تھے۔ صلاح الدین المتوفی سنہ ۵۸۹ھ نے نورالدین ہی کے دامن سے فیض تربیت پائی تھی لیکن کروسیڈ کی لڑائیوں اور خصوصاً بیت المقدس کی فتح نے اس کو اپنے آقا سے بھی زیادہ شہرت اور عزت دی یہ دونوں خاندان اسی بات میں نام آور نہ تھے کہ انہوں نے مسلمانوں کی بھولی ہوئی عظمت ایک بار پھر یورپ کو یاد دلا دی تھی بلکہ اس بات میںبھی کہ ان کی وجہ سے ممالک مصر وشام میں علم کا آوازہ نہایت بلند ہو گیا۔ نور الدین نے حلب ‘ حماۃ حمص بعلبک منج‘ رحبہ میں بڑے بڑے مدرسے قائم کیے تھے خاص دمشق میں جو اس کے پایہ تخت تھا ایک ایسا عظیم الشان مدرسہ بنوایا تھا کہ مدت تک بے نظیر خیال کیا جاتا تھا یہ فخر بھی خاص نور الدین کی قسمت میں لکھا تھا کہ تمام دنیا میں جو پہلا دارالحدیث قائم ہوا ۔ اس کے نام سے ہوا ورنہ اس سے پہلے خاص ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱؎ دیکھو جواہر مضیہ فی طبقات الحنفیہ ترجمہ احمد بن علی بن تغلب بن ابی ایضاء المذکور کسی قدر اس گھڑی کے حالات آثار البلادد قزوینی میں بذیل عجائبات بغداد ملیں گے ۲؎ دیکھو تتمہ ابن خلکان ترجمہ ابن الغوطی۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ علم حدیث کے درس کے لیے کوئی مدرسہ تعمیر نہیںہوا تھا ۱؎ ۔ علامہ ابن جبیر نے سنہ ۵۷۸ ھ میںجب دمشق کو دیکھا تو خاص شہر میں ۲۰ کالج تھے عام حکم تھا کہ کوئی مدرسہ قائم کرے اس کو تمام مصارف خزانہ شاہی سے ملیں گے۔ مغربی طلبہ کے لیے خاصہ سات باغ اور کچھ زمین وقف تھی جس کی سالانہ آمدنی پانسو ۵۰۰ اشرفیاں تھیںجو لڑکے قرآن ختم نہیں کر سکتے تھے ان کو صرف سورۃ کوثرکے اخیر تک پڑھایا جاتا تھا ان میں سے پانسو لڑکوں کا وظیفہ شاہی خزانہ سے مقرر تھا ۲؎ نور الدین نے خاص اپنے ذاتی مال سے مدارس اور مکاتب وغیرہ پر جو جاگیریں وقف کی تھیں اورجو اس کی ووفات کے بعد سینکڑوں برس تک قائم رہیں۔ ان کی آمدنی نو ہزار صوریہ اشرفیاں تھیں ۳؎۔ اسی طرح سلطان صلاح الدین نے اسکندریہ ‘ قاہرہ‘ بیت المقدس‘ دمشق وغیرہ‘ میں مدرسے قائم کیے اور بے انتہا آمدنی ان پر وقف کی ۴؎ علامہ ابن جبیر لکھتے ہیں کہ اسکندریہ کے بورڈنگ مٰں اذن عام تھا کہ جو شخص کہیں سے بطلب علم آئے اس کو مکان خوراک حمام ہسپتال سب کچھ سلطنت کی طرف سے مہیا ملے گا ۵؎ صلاح الدین کے عہد میں علماء کی جو تنخواہیں مقرر تھیں ان کی تعداد تین لاکھ دینار سالانہ تھی جس کے آج کل کے حساب سے کم از کم ۱۵ لاکھ روپے ہوتے ہیں (روضتیں فی اخبار الدولتیں جلد ثانی صفحہ ۱۳۸ مطبوعہ مصر) صلاح الدین کا تمام خاندان اس قسم کی فیاضیوں میںنامور تھا عموماً امرا اور اعیان دولت بلکہ خواتین میں بھی یہ جوش پھیل گیا تھا‘ اور یہ بت نہایت ذلت سمجھی جاتی تھی یکہ کوئی دولت مند شخص مرے اور دنیا میں کوئی علمی یادگار نہ چھوڑ جائے۔ سلطان صلاح الدین کا نامور فرزند الملک الظاہر ابوالفتح غازی جس زمانہ میں حلب کا فرماں روا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱؎ ابن خلکان ترجمہ نور الدین و حسن المحاضرہ ذکر مدرسہ کاملیہ ۲؎ یہ تمام حالات سفر نامہ علامہ ابن جبیر دمشق کے ذکر میں ملیںگے ۳؎ روضتیں فی اخبار الدولتیں مطبوعہ مصر سنہ ۱۲۸۷ھ جلد اول ص ۱۰ روضتیں کے مصنف نے ایک عہدہ دار سے جو ان جاگیروں سے تعلق رکھتا تھا سنہ ۶۰۸ میں یہ تعداد تحقیق کی تھی ۴؎ ابن خلکان ترجمہ صلاح الدین ۵؎ سفر نامہ ابن جبیر صفحہ ۳۸ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تھا قاضی ابو المحاسن بہاء الدین شافعی جو مدرسہ نظامیہ میںنائب رہ چکے تھے اور نہایت مشہور فاضل تھے سنہ ۵۹۱ھ میں اسکی خدمت میں باریاب ہوئے۔ حلب میں اگرچہ اس وقت بھی چند مدرسے موجود تھے ۱ ؎ لیکن قاضی صاحب نے ان کو کافی نہیںسمجھا اورالملک الظاہر سے کہہ کر بہرت سی جاگیریں خاص ان مدارس کے لیے مقرر کیں خود بھی دو مدرسے شافعیہ و الحدیث قائم کیے علامہ ابن خلکان لکھتے ہیں کہ اس وقت سے حلب کے علمی شہرت نہایت عام ہو گئی اور دور دراز ملکوں سے اہل علم نے وہاں آنا شروع کر دیا تھوڑے ہی دنوں میںحلب بھی دمشق و مصر کی طرح علوم و فنون کا مرکز بن گیا ۲؎۔ اس زمانہ میں مصر قاہرہ دمشق حلب اربل کے تمام علاقوں میں جو بے انتہا مدارس قائم ہو گئے ان کو کون شمار کر سکتا ہے اگر کوئی شخص چاہے تو جواہر مضیہ بی طبقات الحنفیہ و حسن المحاضرہ فی طبقات الحنفیہ و حسن المحاضرۃ فی تاریخ مصر و قاہرہ دفیات الوفیات وابن خلکان وغیرہ سے ایک بڑی فہرست تیار کر سکتا ہے۔ لیکن ہم اس موقع پر صر ان بڑے بڑے مدرسوں کا ایک نقشہ دیتے ہیں ج وخالصتہ صلاحی و نوریہ خاندان سے تعلق رکھتے ہیں ۔ بعض مدرسین کے بھی ہم نام لکھیں گے جس سے معلوم ہو گا کہ جو علماء اس زمانہ میں عم و فضل کے مامن تھے۔ اکثر انہی مدرسوں کے منصب درس پر ممتاز تھے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱؎ سنہ ۵۷۸ھ میں جب علامہ ابن جبیر نے حلب کو دیکھا تو وہاں چند مدرسے موجود تھے۔ جن میں ایک مدرسہ نہایت عالیشان اور عمارت کی خوبی میںوہاں کی مشہور جامع مسجد کا ہمسر تھا ا س کے بورڈنگ اور عام مکانات پر انگور کی بیلیںچڑھا دی گئی تھیں اور طالب علم اپنی جگہ سے بے ہلے انگور کھا سکتے تھے۔ (سفر نامہ ابن جبیر ذکر حلب) ۲؎ ابن خلکان ترجمہ قاضی صاحب موصوف۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دولت صلاحیہ مدرسہ بانی مقام مدرسہ کیفیت شافعیہ یا صلاحیہ صلاح الدین المتوفی سنہ ۵۸۹ھ مصر علامہ نجم الدین خبوشانی بمشاہرہ صد دینار مدرس اعظم اور مہتمم مقرر ہوئے اور دس مدرس ان کے ماتحت تھے تقی الدین بن دقیق العید سراج بلقینی ‘ حافظ ابن حجر‘ بہا الدین قاضی القضاۃ وغیرہ وقتاً فوقتاً اس میں مدرس مقرر ہوئے نہایت کثیر آمدنی اس پر وقف تھی‘ علامہ ابن جبیر لکھتے ہیں کہ اس کے سلسلہ عمارات پر ایک مستقل آبادی کا گمان ہوتا ہے ۔ شافعیہ صلاح الدین المتوفی سنہ ۵۸۹ھ مصر شاید مصر میں صلاح الدین نے پہلامدرسہ سنہ ۵۶۶ھ میں یہی قائم کیا (روضتیں جلد اول صفحہ ۱۹۱)۔ مالکیہ یاقمحیہ صلاح الدین المتوفی سنہ ۵۸۹ھ مصر محرم سنہ ۵۶۶ھ میں قائم ہوا قریباً سنہ ۷۸۴ھ میں علامہ ابن خلدون نے بھی اس میں درس دیا (تاریخ ابن خلدون حالات مصنف و روضتیں فی اخبار الدولتین) زین التجاریا (یا) شریفیہ صلاح الدین المتوفی سنہ ۵۸۹ھ مصر عماد الدین عباسی اسراج الدین بلقینی (استاد جلال الدین طوسی) تقی الدین قاضی القضاۃ وغیرہ ہم اس میں درس دیتے تھے۔ مشہد صلاح الدین المتوفی سنہ ۵۸۹ھ قاہرہ یہ مدرسہ صلاح الدین کے نام سے مشہور نہیں ہے (ابن خلکان حالات صلاح الدین) سوفیہ صلاح الدین المتوفی سنہ ۵۸۹ھ قاہرہ حنفیوں کے لیے خاص تھا صلاحیہ صلاح الدین المتوفی سنہ ۵۸۹ھ بیت المقدس اس کے مدرستین کی تنخواہیں بیش قرار تھیں (انس الجلیل تاریخ بیت المقدس) صلاحیہ صلاح الدین المتوفی سنہ ۵۸۹ھ دمشق افضلیہ الملک الافضل بن صلاح الدین بیت المقدس مالکیہ کے لیے خاص تھا۔ ظاہریۃ الملک الظاہر بن صلاح الدین حلب ابوالحسن سیاح مدرس اعظم تھے۔ عزیزیہ الملک العزیز بن صلاح الدین دمشق نہایت مشہور اور عظیم الشان مدرسہ تھا ‘ علامہ سیف الدین آمدی المتوفی سنہ ۶۳۱ھ مدرس اعظم تھے۔ اسدیہ اسد الدین شیر کوہ عم صلاح الدین حلب علامہ ابن الصلاح کے والد مدرس اعظم تھے۔ ستیہ (یا) زمردیہ زمرد ہمشیرہ صلاح الدین دمشق زمرد اور اس کے شوہر ار بھائی کی قبریں اسی مدرسہ میں ہیں۔ منازل الغر (یا) تقویہ الملک المظفر تقی الدین المتوفی سنہ ۵۸۷ھ برادر زادہ صلاح الدین مصر جزیرہ روضہ کا کل خراج و حمام الذہب کی آمدنی اس پر وقف تھی (روضتیں جلد اول ص ۱۹۱) شافعیوں کے لیے خاص تھا سنہ ۵۶۶ھ میں قائم ہوا تھا۔ مالکیہ الملک المظفر تقی الدین المتوفی سنہ ۵۸۷ھ برادر زادہ صلاح الدین مصڑ مالکیوں کے لیے خاص تھا تقویہ رہا غدرائیۃ عذراء صلاح الدین کی بھتیجی تھی۔ دمشق دار الحدیث الملک الاشرف برادر زادہ صلاح الدین علامہ ابن الصلاح المتوفی سنہ ۶۴۳ھ مدرس اعظم تھے ‘ علامہ ابن خلکان نے ایک برس تک ان کی خدمت میں تحصیل علم کی۔ معظمیہ الملک اکمعظم برادر زادہ صلاح الدین الملک المعظم اور ان کے اکثر عزیز اسی مدرسہ میں مدفون ہیں ملک المعظم تصنیف اور فن ادب و فقہ میں نامور تھا اس نے عام حکم دیا تھا کہ جس کو زمخشری کی مفصل زبانی یاد ہو سو ۱۰۰ اشرفیاں اس کو انعام دی جائیں گی۔ اس تقریب سے اکثر وں نے یہ مفید کتاب حفظ کر لی تھی۔ معظمیہ الملک المعظم برادر زادہ صلاح الدین بیت المقدس اس مدرسہ پر بہت سے دیہات و مواضع وقف تھے سنہ ۶۶۰ھ میں قائم ہوا۔ دارالحدیث الکاملیہ الملک الکامل برادر زادہ صلاح الدین المتوفی سنہ ۶۳۵ھ یہ دوسرا دارالحدیث ہے جو ممالک اسلامی میں دارالحدیث نوریہ کے بعد قائم ہوا‘ حافظ ابن وحید‘ زکی الدین‘ منذری قطب قسطلانی ‘ ابن دقیق العید ابن سید الناس حافظ زین الدین عراقی استاد حافظ ابن حجر وقتاً فوقتاً اس کے مدرس مقرر ہوئے یہ سب علماء اپنے زمانہ میں بے مثل خیال کیے گئے ہیں۔ صالحیہ الملک الصالح نجم الدین ایوب ابن الملک الکامل یہ مدرسہ چار مدرسوں پر مشتمل تھا مقریزی کا بیان ہے کہ قاہرہ کے نامور اور عظیم الشان مدرسوں میں گنا جاتا ہے جب وہ کھولا گیا تو شعراء نے قصائد و قطعے لکھے۔ حسن المحاضرہ میں چند اشعار نقل کیے ہیں۔ سنہ ۶۳۹ھ میں قائم ہوا۔ معینیہ معین الدین خسر صلاح الدین دمشق شبیلتہ شبل الدولہ دمشق نہایت مشہور مدرسہ ہے شبل الدولہ زمرد خاتون (ہمشیرہ صلاح الدین )کا غلام تھا ۔ غریۃ غر الدین ایبک دمشق غر الدین الملک المعظم کا غلام اور صرخد کا حاک متھا یہ مدرسہ میدان اخضر میں واقع ہے۔ شہابیہ شہاب الدین طغریل حلب الملک العزیز اسی مدرسہ میں مدفون ہے۔ مجریہ مجیرالدین قاہرہ مجیر الدین مشہور عالم اور سلطان صلاح الدین کا وزیر تھا ۔ یہ مدرسہ درب ملوخیہ کے پاس ہے محرم سنہ ۸۰ھ میں قائم ہوا۔ بہائیۃ ابوالمحاسن یوسف بہاء الدین حلب علامہ ابن خلکان اسی مدرسہ کے بورڈنگ میں مدت تک رہے ہیں اورعلوم کی تحصیل کی ہے۔ دارالحدیث ابوالمحاسن بہاء الدین حلب فاضلیہ قاضی فاضل المتوفی سنہ ۵۹۶ھ قاہرہ قاہرہ کا مشہور مدرسہ ہے قاضی فاضل سلطان صلاح الدین کے دربار کا منشی اور نہایت نامور شخص تھا۔ فلکیۃ فلک الدین برادر الملک العادل دمشق خاندان نوریہ مدرسہ بانی مقام مدرسہ کیفیت نوریہ حنفیہ نور الدین محمود زنگی المتوفی سنہ ۵۶۹ھ دمشق نور الدین کی تربت اسی مدرسہ میں ہے عرقلۃ ایک شاعر نے اسی مدرسہ کی شان میں لکھا ہے کہ دمشق فی المدائن بیت ملک وہذی فی المدارس بیت ملک (روضتیں دارالحدیث نور الدین محمود زنگی المتوفی سنہ ۵۶۹ھ دمشق ممالک اسلامی میں حدیث کے درس کے لیے پہلا مدرسہ یہی تعمیر ہوا۔ نوریہ نوریہ شافعیہ نور الدین محمود زنگی المتوفی سنہ ۵۶۹ھ دمشق یہ مدرسہ خاص شافعیوں کے لیے بڑی عظمت و شان سے تعمیر ہونا شروع ہوا‘ مگر تیار ہونے سے پہلے نور الدین نے وفات کی پھر الملک العادل برادر صلاح الدین کے اہتمام سے اتمام کو پہنچا حافظ ابوشامہ لکھتے ہیں کہ تمام مدارس میں اس کا کوئی ہمسر نہیں ہے حافظ مذکور نے کتاب الروضتیں اسی مدرسہ میں رہ کر لکھی ہے۔ نوریہ نور الدین محمود زنگی المتوفی سنہ ۵۶۹ھ حلب قطب الدین شافعی جو مدرسہ نظامیہ بغداد میں نائب مدرس رہ چکے تھے اس مدرسہ کے مدرس اعظم مقرر ہوئے (ابن خلکان ترجمہ قطب الدین)۔ عمادیۃ نور الدین محممود زنگی المتوفی سنہ ۵۶۹ھ حلب نور الدین نے سنہ ۵۶۷ھ میں اعماد کاتب کو اس کا مہتم اور افسر مقرر کیا اس وجہ سے یہ مدرسہ انہی کے نام سے مشہور ہو گیا سنہ ۵۶۹ھ میں نور الدین نے عماد کاتب کے پاس مدرسہ کے دروازہ پر مینا کاری اور سنہری کام بنوانے کے لیے یاقوت وغیرہ اور سونا بھجوایا۔ (روضتیں) عزیۃ عز الدین نبیرہ نور الدین المتوفی سنہ ۵۸۹ھ موصل یہ مدرسہ ایوان شاہی کے مقابل واقع ہے شافعیہ و حنفیہ دونوں فرقوں کے لیے تھا عمدہ اور مشہور مدرسہ ہے عز الدین کی قبر بھی اسی کے احاطہ میں ہے۔ (ابن خلکان و روضتیں) سیفیہ عتیقیہ سیف الدین غازی برادر نور الدین المتوفی سنہ ۵۴۴ھ عالی شان اورمشہور مدرسہ ہے سیف الدین اسی کے احاطہ میںمدفون تھے ‘ حنفیہ و شافعیہ کے لیے تھا۔ ارسلانیۃ ارسلان نور الدین شاہ ابن عز الدین مذکور موصل عز الدین کے مدرسہ کے سامنے ہے علامہ ابن خلکان لکھتے ہیں کہ حسن و خوبی میں یہ مدرسہ لاجواب کہا جا سکتا ہے۔ مدرسہ الملک القاہر الملک القاہر ابن نور الدین ارسلان شاہ امتوفی سنہ ۶۱۵ھ مدرسہ ابوسعد ابو سعد شرف الدین المتوفی سنہ ۵۸۵ھ دمشق نور الدین نے مساجد کے اوقاف کا انتظام ان کے متعلق کیا تھا اور ان کے ایما سے بہت سے مدرسہ بنوائے۔ قائیمازیہ ابو منصور قائیماز موصل ابومنصور سیف الدین عازی کی طرف سے موصل کا حاکم تھا علامہ ابن اثیر مصنف مثل السائر اسی کے دربار میں منشی تھے سنہ ۵۵۹ میں قائم ہوا۔ قائمازیہ ابو منصور قائیماز اربل اس مدرسہ پر بہت سے مواضع وقف تھے۔ زینیہ زین الدین علی المتوفی سنہ ۵۶۳ھ اربل ابو منصور قائماز انہی کا آزاد کردہ غلام تھا زین الدین نے موصل اور بغداد میں بھی مدرسے بنوائے تھے (روضتیں) مجاہدیہ امیر مجاہد الدین المتوفی سنہ ۵۵۵ھ دمشق مجاہد الدین امراے نور الدین میں ایک نامور شخص تھا‘ یہ مدرسہ باب الفرادیس کے پاس ہے (روضتیں) مجاہدیہ امیر مجاہد الدین المتوفی سنہ ۵۵۵ھ یہ مدرسہ نور الدین کے مدرسہ کے پہلو میں ہے (روضتیں)۔ ان مدرسوں کے علاوہ اس زمانہ میں اور بہت سے نامور مدرسے شام و مصر میں موجود تھے جن کا تذکرہ اکثر طبقات اور تاریخوں میں پایا جاتا ہے۔ دمشق میں رواحیہ صادریہ‘ ریحانیۃ ‘ امینیہ حلب میں حلاویۃ ‘ قلبحیۃ ‘ طرخانیۃ‘ اربل میں مظفر یہ مدرسۃ القلعۃ ایسے مشہور مدرسے تھے جن کی شہرت عام کی وجہ سے مورخین ان کے تذکرہ میں صرف نام پر اکتفا کرتے تھے۔ یہ مختصر فہرست جو ہم نے نمونہ کے طور پر پیش کی ہے ابن خلکان ۱؎ حسن المحاضرۃ ۲؎ علامہ سیوطی روضتیں ۳؎ فی اخبار الدولتیں‘ جواہر ۴؎ مضیہ فی طبقات الحنفیہ وانس ۵؎ الجلیل فی تاریخ القدس والخلیل و ذیل ابن ۶؎ خلکان سے ماخوذ ہے ۔ لیکن یہ حالات ایسے متفرق موقعوں پر مذکور ہیں کہ خاص خاص حوالے نہیں دیے جا سکتے۔ خاندان صلاحیہ کا سلسلہ سنہ ۶۵۲ھ میں منقطع ہو گیا اور سنہ ۹۲۳ھ تک مصر و عرب کیی قسمت اتراک و چراکہ کے ہاتھ میں رہی اتراک نے سنہ ۷۸۳ تک حکومت کی پھر چراکسی قابض ہوئے اور یہ دونوں خاندان زر خرید غلام تھے جو ترقی کر کے منصب تک ہنچے تھے۔ ان خاندانوں میں بھی حکومت خاندان کے سلسلہ سے نہیں چلتی تھی ترک اور چرکس غلا م جو فوجوں میں بھرتی ہونے کے لیے ہمیشہ خریدے جاتے تھے ان میں سے اقبال نے جس کاساتھ دیاتخت نشین ہو گیا۔ ان میں سے بعض بڑے جاہ اقتدار کے حکمران ہوئے اور علم و فن کی نہایت قدردانی کی اس عہد میں مدرسوں کو اوربھی ترقی ہوئی اور جن کے چند اسباب تھے مدارس کے تمام اخراجات اوقاف میں داخل ہو چکے تھے اور اگر کوئی جانشین حکومت ان کو واپس لینا چاہتا تو گروہ علماء جن کا ملک پر بہت اثر تھا عموماً مخالف ہو جاتا جیسا کہ ایک بر سنہ ۷۸۰ھ میں واقع ہوا یہ ترکی غلام جن کو کل تک لوگ بازاروں میںبکتے ہوئے دیکھ چکے تھے اگر خود بھی اس قسم کی فیاضیاں نہ دکھاتے اور اہل علم ان کا ساتھ نہ دیتے تو ان کو تخت حکومت پر بیٹھنا نصیب نہیں ہو سکتا تھا خاص کر حرمین میں اس خاندان نے جو علمی فیاضیاں کیں ان کی نظیر پچھلے زمانوں میں نہیں مل سکتی۔ اس عہد سے پہلے مکہ معظمہ میں بہت کم مدرسے تھے سنہ ۵۷۹ھ میں امیر فخر الدین زنجیلی نے مکہ معظمہ میں ایک مدرسہ بنوایا سنہ ۵۸۰ھ میں خلیفہ المستضی باللہ کی کنیز خاص طاب الزمان نے ایک مدرسہ قائم کیا جس میں دس فقہا ئے شافعی مدرس تھے سنہ ۶۴۱ھ مٰں ایک اور مدرسہ تعمیر ہوا جس کا بانی الملک المنصور عمرو بن علی وائی یمن تھا ۔ مصر کے ترک بادشاہوں سے پہلے حرمین میںجو قابل اعتداد مدرسے موجو د تھے غالباً یہی دو تین تھے لیکن ان ترکوں کے عہد سے مکہ معظمہ بھی دوسرے شہروں کی طرح ایک بڑا دارا لعلم بن گیا تھا۔ عبدالباسط نے جو سلطان ظاہر ططر کی فوج میں ناظر تھا مکہ معظمہ میں تین عمدہ مدرسے بنوائے قاہرہ ‘ غزہ ‘ شام میں بھی اس نے بہت سے مدرسے قائم کیے تھے۔ ملک اشرف قاتیبائی نے جو خاندان چراکسہ میں سے تھا اور سنہ ۷۷۲ھ میں تخت نشین ہوا مکہ معظمہ میں چاروں مذہب کے لیے ایک عظیم الشان مدرسہ بنوایا جس میں بہتر ۷۲ کمرے تھے اور بیچ میں جو نہایت وسیع کمرہ تھا اس کی چھت سنگ مرمر کی تھی اور سونے کا کام کیا ہوا تھا قاتیبائی جب مکہ معظمہ گیا تو فوج و حشم کے ساتھ اسی مدرسے میں ٹھہرا اور طلبہ فراش‘ بواب‘ اہل مطبخ‘ مینجر‘ خزانچی وغیرہ کی تنخواہیںمقرر کیں قاتیبائی نے مدینہ منورہ میں بھی ایک عالی شان مدرسہ بنوایا ابن الناصر محمد بن قلاون نے مصر میں جو مدرسہ قائم کیا وہ رفعت و شان کے اعتبار سے تمام دنیا میں بے نظیر سمجھا گیا ہے سنہ ۷۵۸ھ میں اس کی تعمیر شروع ہوئی اور تین برس متصل ہر روز اس کی تعمیر میں بیس ہزار درہم صرف ہوئے جس کی کل تعداد آج کل کے حساب سے کم و بیش چون ۵۴ لاکھ روپے ہوتی ہے۔ اس کا بڑا کمرہ جس کو پرنسپل ہال کہنا چاہیے ۶۵ گز درگز تھا‘ خود سلطان ابن الناصر بھی زمانہ تعمیر مٰں کثر مصارف سے عاجز آ گیا تھا۔ مگر یہ خیال ہمیشہ غیر ت دلاتا رہا کہ مصر کا وسیع ملک کیا ایک مدرسہ کے صرف سے بھی عہدہ برا نہیں ہو سکتا‘ چاروں مذہب کے فقیہ درس کے لیے مقرر تھے ابن الناصر نے یہ بھی ارادہ کیا تھا کہ چار بڑے بڑے منار ے تعمیر کیے جائیں تین بن بھی چکے تھے مگر جب سنہ ۷۶۲ھ میں اتفاقاً ایک منارہ گرنے سے تین سو یتیم بچے جو مکتب السبیل میں پڑھ رہے تھے دب کر مر گئے تو یہ ارادہ ترک کر دیا گیا ۱؎۔ اس عہد میں یہ واقعہ بھی ایک عجیب یادگار ہے کہ ہندوستان کے حکمرانوں میں سے بھی ایک بلند حوصلہ بادشاہ یعنی سلطان غیاث الدین نے مکہ معظمہ میں مدرسہ قائم کرنے کے لیے شریف مکہ کے پاس زر خطیر روانہ کیا۔ ہندوسان کا یہ پہلا بادشاہ تھا جس کے نام سے ایک مدرسہ منسوب کیا گیا ہے ۔ ورنہ جیسا کہ ہم آگے چل کر لکھیں گے کہ اس سرزمین مٰں اس قس کے خیال کبھی نہیں پیدا ہوا۔ رمضان سنہ ۸۱۳ھ میں اس کی تعمیر شروع ہوئی اور صفر ۸۱۴ھ میں اتمام کو پہنچی زمین بارہ ہزار مثقال کو خریدی گئی اور مدرسے کے متعلق بہت سے ایوانات و مکانات تیار ہوئے ۱۷ محرم سنہ ۸۱۴ ھ میں بڑی شان و شوکت کے ساتھ کھولا گیا ساٹھ طالب علم اسی وقت مدرسہ میں داخل ہوئے اور سب کے لیے وظیفہ مقرر ہوا چاروں مذاہب کے مدرس مقرر ہوئے تھے اورہر ایک کے درس کا الگ الگ وقت مقرر تھا غیاث الدین نے اس کے سوا چارمدرسے اور وہاں قائم کیے ۔ ۲؎ نمونہ کے طور پر ہم اتراک و چراکسہ کے عہد کے چند مدرسوں کا ذکر کرتے ہیں جو خاص سکندریہ و قاہرہ میں موجود تھے اور یوں تو بلاد مصر و شام میںسینکڑوں ہزاروںمدرسے قائم ہو چکے تھے قاضی مجیر الدین حنبلی نے سنہ ۹۰۰ھ میں خاص شہربیت المقدس کی جو تاریخ لکھی اس میں وہاں کے ۱۳۸ ایسے مدرسوں کی فہرست مع تاریخ تعمیر و اسمائے بانیان درج کی ہے جو اس عہد میں موجود تھے یہ تاریخ جس کا نام انس الجلیل ہے سنہ ۱۲۸۳ھ میںمقام مصر مطبع و ہبیہ میں چھاپی گئی ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱؎ یہ پوری تفصیل حسن المحاضرۃ مدرسہ سلطان حسین کے ذکر میں ہے ۲؎ حرمین شریفین کے مدرسوں کا ذکر اعلام و شفاء الغرام تاریخ مکہ میں اجمالاً و تفصیلاً لکھا ہے ۳؎ مدرسہ عبدالباسط کے سوا باقی مدرسوں کا ذکر علامہ و سیوطی نے اجمالاً و تفصیلاً کیا ہے لیکن بہت سے زائد حالات میں نے تتمہ ابن خلکان و خود حسن المحاضرہ کے مختلف مقامات میں لکھے ہیں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نام مدرسہ سنہ تعمیر یا افتتاح بانی مدرسہ بعض مدرسوں کا نام کیفیت ظاہریہ قدیمیہ ۲؎ سنہ ۶۶۲ھ الملک الظاہر ببرس بند قداری المتوفی سنہ ۶۷۶ھ علامہ تقی الدین بن زرین للشافیعۃ محب الدین بن عبدالرحمن مدرس حنفی حافظ شرف الدین و مباطی‘ مدرس حدیث کمال الدین فرشی مدرس قرات ایک کتب خانہ بھی اس پر وقف تھا الملک الظاہر نے یورپ دتتار پر چند بار فتحیں حاصل کیں اس کی فتوحات اور بہت سی عالی شان تعمیرات و مصارف سلطنت کو تتمہ ابن ابن خلکان میں تفصیل کے ساتھ لکھاہے۔ منصوریہ ملک منصور قلائون المتوفی سنہ ۶۸۹ھ ابوحیان برہان الدین امین الدین شاگرد ابن الہمام یہ مدرسہ نہایت عظیم الشان تھا‘ علامہ کتبی مصنف تتمہ ابن خلکان نے لکھا ہے کہ یہ مدرسہ اور اس میں جو ہسپتال تھا بے نظیر خیال کیے گئے ہیں‘ ملک منصور بڑی سطوت و جبروت کا بادشاہ تھا اور اس کے خاندان نے اکثر یورپ میں فتحیں حاصل کیں۔ ناصریہ سنہ ۷۰۳ھ ناصر محمود ولد قلاون اس میں چاروں مذہب کا درس ہوتا تھا یہ مدرسہ نہایت پرشوکت تھا اوردروازے پر ہر وقت چوکی پہرہ رہتاتھا۔ خانقاہ برستیہ سنہ ۷۸۷ھ امیر رکن الدین ببرس قاہرہ میں اس سے بڑی کوئی خانقاہ نہیں ہے اس میں جو کٹگھرہ تھا وہ بغداد کے ایوان خلافت سے نکل کر آیا تھا اوربطور یادگار فتح اس میں لگایا گیا تھا۔ خانقہ شیخو سنہ ۷۵۷ھ امیر کبیر سیف الدین افسر امراے جمداریہ اکمل بن محمود بابرتی جن کا حاشیہ ہدایہ پر غنایہ کے نام سے مشہور ہے مدرس حنفی تھے شیخ بہاء الدین بن علامہ تقی الدین سبکی مدرس شافعی شیخ خلیل منصف مختصر مدرس مالکی‘ قاضی القضاۃ موفق الدین‘ مدرس حنبلی جمال الدین عبداللہ بن رولی مدر س حدیث علامہ سیوطی نے بہت سے مدرسین کے نام لکھے ہیں جو اس میں وقتاً فوقتاً فقہ و حدیث کے درس کے لیے مقرر ہوئے ۔ صرغتمشیہ سنہ ۷۵۷ھ صرغتمش افسر امرائے جمداریہ قوام اتقانی مدرس حنفی اس کی عمارت نہایت بلند اور پرتکلف تھی۔ ظاہریہ جدیدیہ سنہ ۷۸۸ھ علاء الدین مدرس حنفی اوحد الدین رومی مدرس شافعی‘ شمس الدین بن تکین مدرس مالکی‘ صلاح ابن الاعمی مدرس حنبلی‘ احمد زادہ عجمی ‘ مدرس حدیث‘ فخر الدین ضریر مدرس قرات ۱۲ رجب کو کھولا گیا شعرا نے اس کی شان میں قصیدے لکھے‘ بادشاہ نے نہایت تکلف سے ایک عام دعوت کی ‘ جس میں تمام علماء وغیرہ مدعو تھے ‘ علاء الدین سیرامی مدرس حنفی جب آئے تو بادشاہ نے ان کا فرش اپنے ہاتھ سے بچھایا‘ علامہ ابن حجر لکھتے ہیں کہ جتنے مدرس اس میں مقرر ہوئے کوئی شخص اس زمانہ میں ان کا ہمسر نہ تھا۔ مدرسہ عبدالباسط عبدالباسط یہ سلطان ظاہر ططرالمتوفی سنہ ۸۲۴ھ کا ناظر العسا کر تھا ۔ مویدیۃ سنہ ۸۱۹ھ الملک الموید اس کی عمارت پر چالیس ہزار اشرفیاں صرف ہوئیں اشرفیہ سنہ ۸۲۹ھ ملک اشرف سیف الدین ابونصر الدقماقی جس نے قبرس فتح کیا۔ یہ مدرسہ نہایت زر خطیر کے صرف سے تیار کرایا اور بہت سی آمدنی اس پر وقف کی۔ (اعلام ص ۲۰۷)۔ اسکندریہ و قاہرہ کے یہ و ہ مدرسے ہیں کہ ہر ایک کو کالج بلکہ یونیورسٹی کہنا چاہیے۔ علامہ سیوطی نے ان کو بخز اخیر مدرسہ کے اقہات مدارس میںلکھا ہے۔ اورمصر کے بہت سے مدرسوں مثلاً فخریہ و فاضلیہ‘ سیفیۃ ‘ مغریۃ‘ مشہد نعینسی‘ مدرسہ قایتیائی‘ جمالیہ دارالمامون‘ عاشوریہ‘ خشابتیہ‘ کہاریۃ وغیرہ کا ذکر چھوڑ دیا ہے حالانکہ ان کے مدرسین کے نام فقائے مصر کے ذیل میں لکھے گئے ہیں۔ تعلیم کے سلسلہ تاریخ میں سلاطین ترک کا زمانہ تمام پچھلے زمانوں سے زیادہ نمایاں اور تابندہ ہے ترکی مدارس بہت سے خصوصیات میں اولیت کا دعویٰ کر سکتے ہیں اور اس بات کا جائز حق رکھتے ہیں کہ تاریخ کے صفحوں میں تمام پچھلے مدرسوں کے سلسلے الگ لیکن ممتاز موقع پر جگہ لیں گزشتہ عہدوں میں سے آپ س میں کوئی انتظامی تعلق نہیں رکھتے تھے بلکہ بعض حالتوں میں یہ کہنا چاہیے کہ وہ باہمی اختلاف کی ایک تحریک دلانے والی مثال تھی لیکن ترکی مدارس ایک انتظامی رشتہ میں منسلک تھے اور یہ کہنا چاہیے کہ ایک ہی خاندان کی اولاد تھے پچھلے عہد میں تمام مدرسے محض مذہبی مدرسے تھے اگرچہ ان میں اور علوم بھی پڑھائے جاتے تھے لیکن ترکوں کا سر رشتہ تعلیم پولیٹکل حیثیت رکھتا تھا ۔ وہ سلطنت کے لیے لائق لائق عہدہ دار پیدا کرتے تھے بلکہ تمام مدرسے ایک یونیورسٹی کے تابع تھے اور طلبہ و مدرسین درجہ بدرجہ ترقی حاصل کرتے تھے مدرسین کے لیے پنشن کا حق جو ترکی کی حکومت میں نہایت فیاضانہ طور پر قائم کیا گیا تھا اسلامی دنیا میں غالباً پہلی ایجاد تھی۔ یہ تعجب ہے کہ اکثر حالتوں میں پنشن اصل تنخواہ کے برابر ہوتی ہے ترکوں کے عہد میں تنخواہین بھی اکثر بیش قرار تھیں ۱؎ بڑے بڑے مدرسوں میں مدرس کو اکثر ساٹھ ۶۰ یا اسی ۸۰ درہم روزانہ ملتے تھے۔ اور بعض حالتوں میں یہ تعداد سو ۱۰۰ بلکہ د و سو ۲۰۰ درہم یومیہ تک پہنچ جاتی تھی ہم اس موقع پر تاریخ اٹو میں کا کچھ انتخاب نقل کرتے ہیں۔ History of the olloman Turks By sir Edward Creasy M.A. letechief Justice ow eylonedondon Richard Benlly & son. جس سے ترکی مدرسوں کی نسبت ایک معقول رائے قائم کی جا سکتی ہے۔ یہ مورخ ترکی خاندان کے آئین ملکی اور عام انتظامات کے ذیل میں لکھتا ہے کہ محمد ثانی سے جو بادشاہ پہلے ہوئے وہ اور ان یں خاص کر ارخان کو مدرسے اور کالجوں کے قیام کا ازحد شوق تھا۔ لیکن محمد ثانی ان سب سیبڑھ کر نکلا اور اس کے زمانے میں تعلیم کا بڑا چرچا ہوا‘ اور بڑے عالم لوگ بڑے بڑے عہدے پالنے لگے قسطنطنیہ کا فاتح بخوبی جانتا تھا کہ سلطنت کے قیام اور وسعت کے علاوہ جوانمردی اور قواعد دانی کے کچھ اور بھی ضروری ہے چونکہ وہ خود پڑھا لکھا تھا اس لیے اس نے اپنی رعایا کی تعلیم میں کوئی دقیقہ اٹھا نہیں رکھا محمد نے علاوہ ابتدائی مدرسوں کے جو مکتب کے نام سے مشہور ہیں اورہر گائوں میں کثرت میں پائے جاتے ہیں بڑے بڑے مدرسوں کی بنیاد ڈالی طالب علموں کو دس مختلف مضامین میں تعلیم ہوتی تھی صرف نحو ‘ منطق ‘ اریخ ‘ زبان‘ طرز تحریر ‘ علم فصاحت و بلاغت ‘ اقلیدس ‘ ہئیت جو طالب العلم ان دسوں مضامین میں دست گاہ کامل حاصل کرتے تھے دانشمند کا خطاب پاتے تھے۔ یہی سب مضامین مثل اورمولوی فاضلوںکے جھوٹے لڑکوں کو پڑھاتے تھے دانشمندوں کو ابتدائی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱؎ ٹرکی کے سفر میں مجھ کو اس رائے سے رجوع کرنا پڑا درہم جس چیز کا نا م ہے ا س سے مراد وہ سکہ ہے کہ جس کوآج کل قرش کہتے ہیں اور یہ کل ۲ کا ہوتا ہے اس حساب سے یہ تنخواہیں بیش قرار نہیں رہتیں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مدرسوں کی اعلیٰ مدرسی ملتی تھی ۔ لیکن جماعت علماء میں داخل ہونے کے لیے ان کو کچھ قانون (فقہ سے مراد ہے) پڑھنا اور متواتر امتحان دینے ہوتے تھے اوردرجہ بدرجہ سند پاتے تھے یہ تعلیم بے شبہ ایسی تعلیم کے مطابق ہے جو پندرھویں صدی میںپیرس اور کیمبرج میں دی جاتی تھی اور اس بات کا بہت خیال کیا جاتا تھا کہ علماء میں صرف وہ لوگ داخل ہوںجو ذی علم اور ذی لیاقت ہوں‘ ان لوگوں کو بڑی عزت اور فیاضانہ مدد اور خاص حقوق ملتے تھے اسی جماعت علماء میں سے بڑے کالجوں کو اعلیٰ مدرس قاضی اور جج مقرر ہوتے تھے مسجدوں کے امام اور واعظ علماء کے بعد ہیں دنیا میں بجز ترکی کے کوئی ایسا ملک نہیں جہاں علمائے مذہب ایسے ذی اختیار اور حکم شرح ایسا قوی ہو ‘ عثمانی اس بات میں بڑے قابل عزت ہیں کہ وہ لوگ مدرسوں اور علماء کی بڑی عزت کرتے ہیں جس کا نشان بھی عیسائی قوموں میں نہیں پایا جاتا‘‘۔ ترکوں میں ارخان (بویع سنہ ۷۲۶ھ) پہلا فرمانروا تھا جس نے مدرسوں کی بنیاد ڈالی اس کا ازنیق کا مدرسہ نہایت نامور ہوا اور دائود قیصری جن کی شرح فصوص الحکم مشہور ہے اور علاء الدین ارح وقایہ وغیرہ مدرس تھے سلطان مراد کے زمانہ میں اس کے مدرس اعظم کی تنخواہ ما ۱۳۰ درہم یومیہ تھی ۔ ارخان کے جانشینوں نے اس سلسلہ کو بہت ترقی دی اور محمد خاں فاتح کے عہدمیں کمال کو پہنچ گیا محمد خان نے بچپن میں عمدہ تعلیم حاصل کی تھی لیکن اس کا علمی شوق اتنا بڑھا ہوا تھا کہ حکومت کے زمانے میں بھی وہ طالب العلمی کرتا رہا اور علامہ خواجہ زادہ علامہہ ابن الخطیب وغیرہ علما خاص اس ے پڑھانے پر مقررتھے۔ محمد فاتح نے سنہ ۸۷۵ھ میں بمقام قسطنطنیہ ایک بڑی یونیورسٹی کی بنیاد ڈالی جس کے ماتحت آٹھ کالج تھے اور سب کے ساتھ جداگانہ بورڈنگ تھ یہ عظیم الشان عمارت رجب سنہ ۸۷۵ھ میں تمام ہوئی علاء الدین طوسی خواجہ زادہ ملا عبدالکریم محمد بن مصطفیٰ اور بہت سے علماء مدرس مقرر ہوئے جن میں سے اکثر کی تنخواہ سو درہم یومیہ تھی محمد خان خود بھی ان مدرسوں میں درس کے وقت کبھی کبھی شریک ہوتا تھا ایک بار علامہ علاء الدین طوسی کے درس میں حاضر ہوا شرح عضدیہ سید شریف کا درس ہو رہا تھا علامہ کی حسن تقریر سے ایسا محظوظ ہوا کہ رہ رہ کر کھڑا ہو جاتا تھا سبق ختم ہوا تو دس ہزار ہم علامہ کو اور پان پانسو درہم طلبہ کو صلہ دیا علامہ علاء الدین قوشجی کو مدرسہ ایا صوفیہ کا مدرس اعظم کیا اور دو سو ۲۰۰ درہم یومیہ تنخواہ مقر ر کی علاوہ قوشنجی کی شرح تجرید و خواجہ زادہ کے محاکمہ تہافۃ الفلاسفہ امام غزالی نے شہرت حاصل کی ہے یہ محاکمہ بھی محمد خان کی فرمایش سے لکھا گیاتھا جس کے صلہ میں اس نے دس ہزار درہم عنایت کیے تھے۔ بایزید خان نے جو سنہ ۸۸۶ھ میں تخت نشین ہوا بہت سے مدرسے قائم کیے اس زمانہ میں مدرسین کے علاوہ جتنے نامور علماء تھے سب کی تنخواہیں بشرح دس ہزار عثمانی سالانہ مقرر کر دیں اور جو لوگ شرح مفتاح سکاکی کا درس دیتے تھے ان کی تنخواہ چار ہزار سالانہ مقرر کی حرمین شریف کے فقہاء کے لیی چودہ ہزار اشرفی سالانہ کا حکم دیا سلطان سلیمان نے جو سنہ ۹۲۶ھ میں سریر حکومت پر بیٹھا علاوہ اور مدارس کے سنہ ۹۷۲ھ میں مکہ معظمہ میں چار بڑے بڑے مدرسے تعمیر کرائے قاضی مکہ نے بنیاد کا پتھر رکھا اور تمام علماء نے ان کی متابعت کی ہر مدرس کی تنخواہ اس وقت ۵۰ عثمانی یومیہ پھر سو ۱۰۰ عثمانی مقرر ہوئی ان مدرسوں میں طب و حدیث کا بھی درس ہو تا تھا قسطنطنیہ میںبہت سے عمدہ مدرسے بنوائے اور چھ سو ۶۰۰ طلبہ کا وظیفہ مقرر کیا (عقد المنظوم فی فاضل الروم) سلطان سلیم نے پچھلی کوششوں میں بہت کچھ اضافہ کیا اور مراد نے جو سنہ ۹۸۲ھ میں تخت نشین ہوا مکہ معظمہ میں بہ مقام صفا ایک مدرسہ بنوایا جس میں ایک مدرس ایک معید اور بیس دانش مند ۱؎ تھے۔ ترکوں کی علمی تاریخ کا ہم نے نہایت چھوٹا سا حصہ اوروہ بھی نہایت اختصار کے ساتھ ناظرین کے سامنے پیش کیا ہے ترکوں کی حکومت کو کم و بیش آج چھ سو ۶۰۰ برس ہوئے اس وسیع مدت میں بیسیوں سلاطین سینکڑوں وزراء ہزاروں اہل منصب نے نہایت حوصلہ مندی سے فیاضیاں دکھائیں ایک مختصر سے آرٹیکل میں ان کی اجمالی صورت بھی نہیں دکھائی جا سکتی شقائق نعمانیہ فی علماء ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱؎ ترکی مدارس کے متعلق جو کچھ میں نے لکھا ہے آثار الدول فرمانی و اعلام و شفاء العزام ہر دو تاریخ مکہ و شقائق نعمانیہ فی علماء الدولۃ العثمانیہ و عقد المنظوم فی ذکر افاضل الروم سے لکھا ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ الدولۃالعثمانیہ و عقد منظوم فی ذکر الفاضل الروم ان دو تاریخوں میں ارخان کے عہد سے سنہ ۹۸۴ھ تک کے علماء مذکور ہیں ان کے حالات میں ترکی مدارس کا ذکر بھی ضمناً آ جاتا ہے اگر کوئی چاہے تو انہی دو کتابوں سے تقریباً دو سو ۲۰۰ کالجوں کی فہرست بنا سکتاہے ۔ جن میں تمام علوم مدرسہ پڑھائے جاتے ہیں اور جن کے بانیوں مدرسوں اور شرح تنخواہ کا حال ان تاریخوں میں کسی قدر تفصیل سے مل سکتا ہے اس موقع پر ہم جریاً للعادہ ایک مختصر سا نقشہ درج کرتے ہیں جس میں چند بڑے بڑے نامور کالجوں کا ذکر اور ان کے اجمالالی حالات ہیں۔ نام مدرسہ مقام مدرسہ بانی شرح تنخواہ مدرسین کیفیت مرادیہ بروسہ سلطان مراد بویع سنہ ۷۶۱ھ ۶۰؎ یومیہ یعنی ۱۸۰۰ ماہوار اسی طرح تمام مدرسین کی تنخواہیں جو لکھی ہیں یومیہ تھیں ترکوں میں تنخواہوں کا حساب یوم سے ہوتا ہے۔ سلطانیہ بروسہ سلطان با یزید خان ص ۵۰ قاسمیہ بروسہ قاسم پاشا ص ۵۰ مناستر بروسہ ص۵۰ محمدیہ بروسہ سلطان محمد خان اول ص۵۰ مرادیہ قبلوچہ سلطان مراد ابن محمد خان ص۶۰ مرادیہ بروسہ سلطان مراد ابن محمد خان ص ۵۰ الیٰ ۸۰؎ محمد نعت اللہ معروف بروشنی زادہ جلبیہ اورنہ ص۵۰ محمودیہ قسطنطنیہ محمود پاشا وزیر اعظم ص ۵۰ عرب زادہ مرادیہ قسطنطنیہ مراد پاشا قلندریہ قسطنطنیہ ص۵۰ مدرسہ ابی ایوب قسطنطنیہ ص ۸۰ یزیدیہ قسطنطنیہ بایزید خان مار بایزیدیہ امامیہ بایزید خان ص ۸۰ ابراہیمیہ قسطنطنیہ ابراہیم پاشا مدرسہ علی پاشا قسطنطنیہ علی پاشا ص ۵۰ مدرسہ مصطفی پاشا قسطنطنیہ مصطفی پاشا ص ۵۰ رستمیہ قسطنطنیہ رستم پاشا وزیر کبیر ص۵۰ شمس الدین خلف منشی ابوالسعود مفسر مدرس تھے یہ سترہ برس کے سن میں اس مدرسہ کے مدرس اعظم مقرر ہوئے نسہ ۹۰۷ ہجری میں وفات کی قاسمہ قسطنطنیہ قاسم پاشا ص ۵۰ ملا محمد خلف مفتی ابوالسعود متوفی سنہ ۹۷۱ھ سلیمانیہ قسطنطنیہ سلطان سلیمان بن السلیم ص ۶۰ سلیمانیہ قسطنطنیہ سلطان سلیمان بن السلیم ۶۰؎ دائودیہ قسطنطنیہ دائود پاشا ص ۵۰ پیریہ قسطنطنیہ پیری پاشا ص ۴۵ سنانیۃ قسطنطنیہ سنان کنپکچی ص ۵۰ سلیمیہ عتقیہ سلطان سلیم ابن السلیمان سلیمیہ جدیدہ قسطنطنیہ سلطان سلیم السلیمان ص ۵۰ و ص ۶۰ مدرسہ ست خاتون قسطنطنیہ ست خاتون ص ۴۰ خاصیکہ قسطنطنیہ زوجۃ السلیمان خان مدرسہ خانقاہ قسطنطنیہ زوجۃ السلیمان خان ص ۵۰ مدرسہ طرابزون طرابزون والدہ سلطان ص ۵۰ ملا نعمت اللہ معروف بروشنی زادہ سلیم خان مار ملاکو سج امین دارالحدیث قسطنطنیہ سلطان سلیمان خان مار ملاکو سج امین مدرسہ خسرویۃ قسطنطنیہ امیر الامراء خسرو ص ۵۰ سلیمانیہ دمشق سلیمان سلیمان خان ص ۸۰ مدرسہ اطنہ اطنہ پیری پاشا ص ۵۰ کیکوزہ مصطفی پاشا ص ۵۰ دار الحدیث ادرنہ ملاشمس الدین قاضی زادہ مدرس تھے احمدیہ چورلے احمد پاشا وزیر اعظم ملاکو سج امین سلیمانیہ ازنیق سلیمان پاشا مدرسہ ککیوزہ ککیوزہ مصطفی پاشا افضیلۃ قسطنطنیہ اخیر میں مجھ کو یہ بھی بتا دینا چاہیے کہ ترکی مدارس کو جو ترجیح ہے اور جس کا اعتراف میں کر چکا ہوں وہ زیادہ تر سلسلہ انتظام اصول ترقی انضباط قواعد‘ کثرت مصارف کی رو سے ہے اور سب سے زیادہ یہ کہ وہاں کے تعلیم یافتہ طلبہ کو باقاعدہ ملکی عہدے ملتے تھے۔ لیکن یہ یاد رکھنا چاہیے کہ جس قدر پولیٹکل پلہ بھاری ہوا کمال علمی کا وزن کم ہوتا گیا یہی بات ہے کہ چھ سو برس ۶۰۰ کی مدت میں ان مدارس سے ایسے بہت کم لوگ اٹھے جو حکیم یا محقق کا لقب حاصل کر سکتے تھے علامہ ابن خلدون نے تو کلیتہ نفی کی ہے لیکن اگر صاحب کشف الظنون کی فہرست حکماء تسلیم بھی کر لی جائے تاہم اس کااختصار ترکوں کے وسیع سلسلہ حکومت سے موزوں نسبت نہیںپیدا کر سکے گا حقیقت یہ ہے کہ ایشیا کی تاریخ میں کمال کو دنیوی جاہ و منصب کی خواہش سے کم تعلق رہا ہے۔ ہمارے آرٹیکل کا یہ حصہ جس میں خاص قسم کے مدارس اور دارالعلوم سے بحث ہے ختم کے قریب ہے اور صرف دو ناموں کی جگہ اس میں ہے یعنی اندلس (اسپین) و ہندوستان اس بات کو ہم کو بھی افسوس ہے کہ اسپین جو تیغ وقلم دونوں میں خلافت بغداد کا حریف مقابل تھا اس خاص سلسلہ میں سب سے اخیر نمبر پر ہے ہم قرطبہ (کارڈوا) غرناطہ (گرینڈا) کی شہرت اور عظمت کے منکر نہیں ہیں قرطبہ کے نقشہ میں ہم ۳۸۳۷ مسجدیں ۷۰۰ حمام ۱۳۰۰۰ عام رعایا کے مکانات دیکھتے ہیں۔ قصر الزہرا کامل‘ مجدد ‘ قصر الحائر ‘ روضہ مبارک‘ قصر السرور رشیق تاج ‘ بدیع ۱؎ کے بلند اور زیب و زینت سے معمور عمارتیں بھی ہماری آنکھوں کے سامنے ہیں لیکن اس تمام وسعت میں کسی کالج یا سکول کا ہم کو نشنا نہیں ملتا بے شبہ قرطبہ کی علمی شہرت بغداد سے کم درجہ پر نہیں ہے بے شبہ یورپ کی استادی کا فخر اسپین ہی کا خاص حصہ ہے لیکن اس وقت اصطلاحی مدارس سے بحث ہے جس کے معنی اتنے ہی تک محدود ہیں درس و تدریس کی غرض سے کوئی عمارت تیار کی گئی ہو‘ اسپین کی بجا طرفداری علامہ مقری سے زیادہ کوئی شخص نہیںکر سکتا جو اسپین کی ایک ایک خوبی کو تمام اور ممالک اسلامیہ کے سامنے ا س دعویٰ سے پیش کرتا ہے کہ تم ایک کا بھی جواب لا سکتے ہو تاہم ا س محقق اور وسیع النظر مورخ نے صاف صاف اقرار کیا ہے کہ تمام اسپین میں ایک بھی مدرسہ نہ تھا صرف مسجدوں کے صحن تھے جن میں تمام علوم و فنون پڑھائے جاتے تھے ۲؎۔ فوسٹر صاح کی تاریخ سپین و نظم المالک و چیمرس انسائیکلوپیڈیا یا وغیر ہ میں سپین کے مدرسوں کا جہاں اجمالاً ذکر کیا گیا ہے غالباً اس سے اسی قسم کی عام درس گاہیں مراد ہیں۔ ہندوستان کے تذکرے میں ہم کو بے خطر کہنا چاہیے ک اس سرزمین پر شاید ایک بھی علمی عمارت نہیں ۳؎ قائم ہوئی لیکن اس ملک کی عام علمی فیاضیوں سے انکار نہیں ہو سکتا۔ اکبر جہانگیر شاہجہاں عالمگیر کے خزانہ شاہی سے عموماً ان لوگوں کے لیے جاگیریں اور وظیفے مقرر تھے جو بطور خود درس و تدریس کرتے رہتے تھے۔ دولت ترکیہ بے انتہا صرف اور سعی و اہتمام کے ساتھ بھ اصل نتیجہ میں دولت تیموریہ سے کچھ فائق نہیں ہے۔ شمس الدین فتاری قاضی زادہ‘ خواجہ زادہ علام قوشجیابن الموید وغیرہ کے مقابلہ میں جن کو صاحب کشف الظنون حکما کا لقب دیتے ہیں ہم ملا محمسو جونپوری‘ ملا نظام الدی محب اللہ بہاری‘ حمد اللہ‘ بحر العلوم‘ شاہ ولی اللہ صاحب کو کسی قدرترجیح کے ساتھ پیش کر سکتے ہیں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱؎ یہ سب قرطبہ کے عالی شان ایوانات و باغات کے نام ہیں ۲؎ دیکھو نفح الطیب تاریخ اندلس مطبوعہ فرانس جلد اول ص ۱۳۶ ۳؎ میں اس بات کا اعتراف کرتا ہوں کہ میری یہ تحقیق صحیح نہیں ہے ہندوستا ن میں بہت سے مدارس تعمیر ہوئے تھے گو اب ان کا نام و نشان باقی نہیں رہا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جن مدرسوں کے حالات ہم لکھ آئے ہیں اکثر مذہبی یا عقلی علوم کے درس کے لیے تھے صنعتی مدارس کے متعلق ہماری واقعفیت نہایت محدود ہے اسلامی ملکوں میں عمدہ صنعتوں ے بہت سے آثار موجود ہیں مگر ان کی تعلیم کے کسی مرتب سلسل کو ہم نہیں معلوم کر سکے ہیں‘ فنون جنگ میں مسلمانوں کی ترقی اب بھی دنیا کی موجودہ حالت سے عیاں ہے اور مسٹر ایڈورڈ گری صاحب نے یورپ میں ترکوں کی فتوحات کو اسی امر سے منسوب کیا ہ لیکن ہم کو عبدالمومن خان مراکو کے مدرسہ حربیہ کے سوا اور کسی حربی تعلیم گاہ کے حالات سے نہیں واقف ہیں چراکسہ کے عہد میں جو عمدہ فوجیںتیار ہوئیں اس کا یہ طریقہ تھا کہ ترک اور چرکس غلام جو خرید کر کے آٹے تھے ان کو پہلے قرآن اور معمولی خط و کتابت اور کسی قدر حساب سکھایا جاتا تھا ۔ پھر فقہ کی تعلیم ہوتی تھی اور بعض تیز طبع نوجوانوں معتدبہ لیاقت تک پہنچ جاتے تھے۔ اس کے بعد نیزہ بازی اور تیر اندازی اورپھر شہ سووری سکھائی جاتی تھی۔ جو ان کی تعلیم کا انتہائی زینہ تھا ۔ لیکن یہ طریقہ بھی کسی باقاعدہ ہئیت اجتماعی کی صورت نہیں رکھتا تھا اور غالباً تمام ممال اسلامیہ میںحربی تعلیم کا یہی انداز تھا خلیفہ عبدالمومن ابن علی کا مدرسہ حربیۃ خاصتہ قابل ذکر ہے جس کی تفصیل ہسٹری آف ڈومنین آف اسپین مصنفہ کانڈی ۱؎ سے قریب قریب اس کے لفظوں میں نقل کرتے ہیں۔ اس (عبدالمومن) نے ایک سکول لڑکوں کے لیے بنایا جس میں صرف علوم نہیں بلکہ سپہ گری کے کام بھی سکھائے جاتے تھے کیونکہ وہ یہ نہیں چاہتا تھا کہ صرف پڑھے لکھے لوگ تیار ہوں بلکہ اس کی خواہش تھی کہ لائق لائق گورنر ملکوں کے لیے ارو فائق گروہ قضاۃ شہروں کے انتظام کے لیے پیدا ہوں اور بڑے بڑے جنزل اور اچھے جنگ آور اس کے اسکول سے تعلیم پا کر نکلیں اور کالج اور اسکولوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱؎ دیکھو تاریخ مذکور جلد ثانی ص ۴۷۵ مطبوعہ لندن سنہ ۱۸۲۰ء ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں وہ مصامدہ اور دوسری قوموں کے شریف خاندانون سے جوان کے ملک میں رہتے تھے لڑکے جمع کرتا تھا جن کی تعداد تین ہزار تھی اور جو قریب قریب ایک ہی عمر ہونے کی وجہ سے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گویا ایک ہی دن کے پیدا ہیں یہ لڑکے حافظ اور طالبین کہلاتے تھے کیونہ وہ موطایا اصول المہدی حفظ کرتے تھے اور ایک کتاب بھی پڑھتے تھے جس کا نام مایطلبہ القاضی تھا حافظین کو بادشاہ جمعہ کے دن الکوز رمیں جمع کیا کرتا تھا‘ جس دن کہ وہ ازالہ جایا کرتا تھا وہ ان کو حکم دیتا تھا کہ شہسواری کے کرتب‘ نیزہ بازی‘ گھوڑ دوڑ اور بہت سی مشقوں کا جو سپاہیوں کے لیے ضرور ہیں تماشا دکھائیں تیسرے دن ان کی تیر اندازی کی مشق دیکھتا تھا اور ایک اور دن ان کی شناوری کی استادیاں ملاحظہ کرتا تھا جس کے لیے اس نے اپنے باغ میں ایک بڑا وسیع تالاب بنوایا تھا جو تن سو قدم لمبا اور اتنا ہی چوڑا تھا تالاب میںمختلف قسمون کی کشتیاں اور اور قسم کی جو کہ خود اس نے ایجاد کی تھیں اور اس وجع کی اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھی گئی تھیں پڑی رہتی تھیں وہ ان کشتیوں پر حافظین کو سوار کراتا تھا جن مٰں بیٹھ کر ایک دوسرے پر حملہ کرنے اوراپنے آپ کو بچانے میں وہ بڑی پھرتی اور چالاکیاںدکھلاتے تھے عبدالمومن خود ان کشتیوں کے کھیلنے اور کسی خاص سمت لے جانے اور تمام ان اعمال کے طریقے بتاتا تھا جو سمندرمیں جہازوں کے استعمال کے لیے ضروری ہیں اس طرح پر ہفتہ کا ہر ایک دن کام میںلایا جاتا تھا اورہر کام کے لیے ایک خاص دن مقرر تھا۔یہ لڑکے بڑے جوش سے اپنا کام کرتے تھے بوجہ ان گراں قدر انعاموں کے جو کہ عبدالمومن کی طرف سے ان نوجوانوں کو دیے جاتے تھے جنہوں نے فتح حاصل کی ہے یا اپنے فرائض میں زیادہ تر مشتاق ہیں یہ سب خرچ عبدالمومن خود دیتا تھا‘ یہاں تک کہ ہتھیار اور گھوڑے بھی اسی کے عنایت کیے ہوئے تھے ان حافظین میں ۱۳ لڑکے خود عبدالمومن کی اولاد تھے جو ہتھیاروں کے کام اور دوسری قسم کی مشاقیوں میںنہایت چالاک تھے اس کے علاوہ وہ ذاتی اخلاق میں بھی نہایت برگزیدہ اور ممتاز تھے یہ سب مدرسے وہ تھے جو ممالک اسلامیہ میں قائم ہوئے لیکن مسلمانوں کی علمی فیاضی اس وسیع دائرے میں محدود نہ تھی انہوںنے یورپ کے خاص شہروں میں بھی رصد خانے صنعت گاہٰںمدرسے قائم کیے جن میں سے ایک کا ذکر گبن صاحب کی تاریخ سے انہی کے الفاظ میں کرتا ہوں وہ رومن امپائر حصہ مسلمانان فتح سلرنو کے ذیل میں لکھتے ہیں کہ افریقہ اورہسپانیہ اور سسلی میں جو عرب کی نوآبادیاں تھیں ان کو یونانی دوائوں سے واقفیت حاصل ہوئی اور بوجہ اجتماع جنگ و صلح علم کا پرتو سلر نو جیسے مشہور شہر میں چمکا ایک مدرسہ جو اول ہی اول فرنگستان کے زمانہ جہالت میں قائم ہوا وہ فن جراحی کے لیے مخصوص تھا اس مفید اور صحت بخش پیشہ کے لیے پادریوں اور راہبوں کی منظوری لے لی گئی تھی اور بہت سے نامی گرامی مریض دور دور مقامات کے سلرنو کے اطبا کے پاس رجوع کرتے تھے یاان کو طلب کرتے تھے یہ اطبا نارمنڈی کی فتح مندیوں کے ظل حمایت میں رہتے تھے قسطنطین نام افریقہ کا ایک عیسائی انتیس ۲۹ برس سفر حج میں رہ کر اور زبان علم عربی کی تحصیل کامل کر کے بغداد سے واپس آیا۔ اس طرح بو علی سینا کے شاگرد کے مطب اور ہدایات اور تحریرات سے سلرنو مالا مال ہو گیا۔ ٭٭٭ قدیم تعلیم ۱۴۵ھ اور تعلیم کی وسعت اور اس کے اسباب ‘طرز تعلیم انقلابات مختلف ملکوں کی خصوصیتیں ‘ تعلیم کا مذہبی و تمدنی اثر ۱۴۵ھ تک یعنی جب تک تصنیف و تالیف نہیں شروع ہوئی تھی جو تعلیم و تعلم تھی وہ عرب کے سادہ اور نیچرل طرز زندگی کے لیے موزوں تھی‘ علوم وہ تھے جن کو حافظہ سے زیادہ تر تعلق تھا بحث طلب مسائل بھی معمولی فہم کی دسترس سے باہر نہ تھے اور طرز تعلیم تو بالکل وہی تھا (یعنی سند و روایت) جو قدیم زمانے سے ان میں رائج تھا لیکن سو برس کی مدت میں تمدن بہت کچھ ترقی کر گیا تھا اور اسی نسبت سے تعلیم بھی زیادہ وسیع اور مرتب و باقاعدہ ہو چلی ا دور میں جن علوم کو رواج عام حاصل ہوا۔ وہ نحو‘ معانی ‘ لغت ‘ فقہ اصول فقہ‘ حدیث‘ تاریخ‘ اسماء الرجال ‘ طبقات اور ان کے متعلقات تھے عقلی علوم کا سرمایہ گو بہت کچھ جمع ہو گیا تھا۔ مگر رواج عام نہ حاصل کرسکا۔ جس کی وجہ یہ تھی کہ سلطنت نے اس کی اشاعت پر چنداں زور نہیں دیا اور عام ملک کو کچھ ناواقفیت کچھ مذہبی غلط فہمی کی وجہ سے فسلفہ منطق کے ساتھ ہمدردی نہ تھی۔ تعلیم کا یہ دوسرا دور عجیب دل چسپیوں سے بھرا ہے دیکھو ٹیکس سے دریائے سندھ کے کنارے تک اسلام حکومت کر رہا ہے ۔ حجازی فتوحات کا سیلاب اب رکتا چلا ہے۔ مفتوحہ ممالک میں امن و اتنظام کا عملہو تا جاتا ہے۔ سینکڑوں عرب قبیلے ریگستان عرب سے نکل کر دور دراز ملکوں میں آباد ہوتے جاتے ہیں۔ بہت سی نئی قومیں دلی ذوق سے اسلام کے حلقے میں داخل ہو رہی ہیں لیکن اب تک اس وسیع دنیا میں سلطنت کی طرف سے نہ کوئی سر رشتہ تعلیم ہے نہ یونی ورسٹیاں ہیں نہ مدرسے ہیں عرب کی نسلیں حکمران ہیں مگر حکومت ایسی بے تعلق اور اوپری ہے کہ ملک کے عام اخلاق‘ معاشرت ‘ تمدن پر فاتح قوم کی تہذیب کا اثر چنداں نہیںپڑ سکتا۔ تمام علوم پر عربہ زبان کی مہر لگی ہوئی ہے ان ب باتوں پر دیکھو تو علوم و فنون کس تیزی اور وسعت سے بڑھتے جاتے ہیں ماد‘ ہرات‘ نیشاپور‘ بخارا ‘ فارس‘ بغداد‘ مصر ‘ شام ‘اندلس کا ایک ایک شہر بلکہ ایک ایک گائوں علمی صدائوں سے گونج اٹھا ہے۔ عام تعلیم کے لیے ہزاروں مکتب قائم ہیں جن میں سلطنت کا کچھ بھی حصہ نہیں ہے اور جو آج کل کے تحصیلی مدارس سے زیادہ مفید اور فیاض ہیں اوسط اور اعلیٰ کے لیے مسجدوں کے صحن ‘ خانقاہون کے حجرے علماء کے ذاتی مکانات ہیں لیکن سادہ اوربے تکلف عمارتوں میں جس وسعت اور فیاضی کے ساتھ علم کی تربیت ہو رہی ہے بڑے بڑے عالی شان قصر و ایوان میں بھی جو پانچویں صدی کے آغاز میں اس غرض سے تعمیر ہوئے اس سے کچھ زیادہ نہ ہو سکی اگرچہ اس وقت اس زمانہ کا کوئی رجسٹر نہیںموجود ہے جس سے ہم حساب لگا سکیں کہ فیسدی کتنے آدمی تعلیم یافتہ تھے لیکن تذکرے تراجم‘ اسماء الرجال ‘ طبقات کی سینکڑوں ‘ ہزاروں کتابیں موجود ہیں جن سے ہم صحیح اندازہ کے قریب پہنچ سکتے ہیں۔ اگرچہ متواتر انقلابات ‘ تخت گاہوں کی بربادی‘ اسپین کی تباہی ‘ تاتار کی عام غارت گری کے بعد ہمارے پاس جو کچھ رہ گیا ہے وہ ہزار میں سے ایک بھی نہیں ہے۔ اور اس وجہ سے ہزاروں لاکھوں ناموروں کی صورتیں زمانہ کی تاریخ نگاہ سے چھپ گئی ہیں تاہم ہر عہد میں ہم سینکڑوں ماہرین و مجتہدین فن کا نشان دیکھتے ہیں۔ صرف ہم عصر وہم وطن اہل کمال کی فہرست تیار کی جائے تو بہت سی جلدیں تیار ہو سکتی ہیں۔ ڈاکٹر اسپرنگر صاحب تخمین کرتے ہیں (شاید حسن ظن ہو) کہ ’’مسلمان کے اسماء الرجال میںپانچ لاکھ عالموں کا حال مل سکتا ہے‘‘۔ اب اگر یہ قیاس لگایا جائے کہ تعلیم یافتہ گروہ میں کس قدر نسبت سے ایک صاحب کمال پیدا ہوتا ہے جو عام تعلیم کا ایک معقول اندازہ ہو سکتا ہے۔ مشہور علماء کے تعلیمی حالات پڑھو۔ ایک ایک استاد کے حلقہ درس میں سینکڑوں بلکہ ہزاروں‘ طالب العلم مشغول درس نظر آئیں گے علامہ ذہبی ‘ طبقات میں ابو التقی المتوفی ۱۲۵۱ھ کے ترجمے کے بعد لکھتے ہیں کہ ’’اس زمانے کے بعض حلقہ درس ایسے ہوتے تھے جن میں دس ہزار سے زیادہ دواتیںرکھی جاتی تھیں اور لوگ احادیث نبوی لکھتے تھے اس بڑے مجمع میں دو سوامام حاضر ہوتے تھے جو اجتہاد و فتوٰ دینے کی پوری قابلیت رکھتے تھے خطیب مورخ بغداد علامہ ابو حامد اسفراینی کے حلقے میں خود شریک تھا اس کا بیان ہے کہ سات سو طلبہ در س میں حاضر تھے فرار نحوی نے کتاب المعانی کا جب لیکچر دیا (جس کو عربی زبان میں املا کہتے ہیں ) تو حاضرین میں سے ۸۰ صرف قاضٰ تھے ۱؎ رضی الدین نیشاپوری کے حلقہ درس میں چار سو فارغ التحصیل اہل علم حاضر ہوتے تھے بصرہ کی جامع مسجد میں امام بخاری نے جب مجلس املا منعقد کی تو ہزار کے قریب محدثین ‘ فقہا‘ حفاظ‘ اہل مناظرہ شامل ہوئے خود امام بخاری سے جن لوگوں نے صحیح بخاری کی سند حاصل کی‘ ان کی تعداد تقریباً نوے ہزار ہے ۲؎۔ اس قسم کی سینکڑوں مثالیں ہیں جن کا ہم استقصا نہیں کر سکتے۔ ہر قوم‘ ہر فرقہ ‘ ہر طبقہ میں تعلیم کثرت سے جاری تھی مصنفین و اہل فن کے حالات پڑھو‘ سینکڑوں ہزاروں اہل کمال ملیں گے جن کے باپ دادا‘ خیاط اسکاف ‘ جولاہے ‘ حلوائی ‘ طباخ ‘ حداد و غیرہ تھے امراء کا عیش پسند گروہ تھی تعلیم سے مالا مال تھا لوگ تعجب سے سنیں گے کہ ابن المعتز عباسی سنہ ۲۹۶ھ جو علم بدیع کا موجد اور شاعری میں ابو نواس و بشارکا ہم سفر تھا اور ابو فراس جس پر عرب کی شاعری کا خاتمہ ہو گیا والیان ملک تھے اور حکیم بو علی سینا و محقق طوسی و زارت کے بلند منصب پر ممتاز تھے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱؎ ان لوگوں کے تراجم دیکھو ۲؎ دیکھو مقدمہ قسطلانی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس دور میں تعلیم کا مستند طریقہ وہی تھا جو آج مہذہب ملکوں میںجاری ہے یعنی املاء جس کو اردو میں لیکچر دینا کہتے ہیں استاد ایک بلندمقام مثلاً کرسی یا میز پر بیٹھ جاتا تھا‘ اور کسی فن کے مسائل زبانی بیان کرنا شروع کرتا تھا۔ طالب العلم جو ہمیشہ دوات و قلم لے کر بیٹھتے تھے۔ ان تحقیقات کو استاد کے خاص لفظوں میں لکھتے جاتے تھے۔ اس طرح پر ایک مستقل کتاب تیار ہوجاتی تھی اورامالی کے نام سے مشہور ہوتی تھی امالی ابن درید ثعلب وغیرہ اسی قسم کی تصنیفات ہیں۔ جب معمول سے زیادہ طلبہ حلقہ درس میںجمع ہوتے تھے تو استاد کے سامنے یا دائیں بائیں چند فاضل کھڑے ہوتے تھے جو دور والوں کو استادکے خاص الفاظ سنا سکتے تھے۔ یہ لوگ مستملی کہلاتے تھے یہ فطریقہ تعلیم منقولی علوم کے ساتھ مخصوص نہیں تھا ابوبشر متی جو بغداد میں ارسطو کی کتاب المنطق کا درس دیتا تھا اس کے لیکچر میں سینکڑوں طلبہ شریک ہوتے تھے جن میں فارابی بھی تھا۔ اوراس نے ئی سو صفحے خود نقل کیے تھے۔ اعلیٰ تعلیم کے لیے دور دراز مسافتوں کا طے کرنا اور متعدد اہل کمال کی خدمت میں پہنچ کر فائدہ اٹھانا نہایت ضروری خیال کیا جاتا تھا مشہور اہل فن کی لائف چھان ڈالو ایک شخص بھی ایسا نہیں ملے گا جس نے تکمیل تعلیم کے لیے دو چار سو میل کی مسافت نہ طے کی ہو‘ ا س زمانے میں ایک مشہور فاضل جو سفر کی زحمت اٹھائے بغیر اپنے فن میں نامور ہوا۔ اس زمانے کے لوگ ہمیشہ اس کو حیرت کی نگاہ سے دیکھتے تھے بغداد‘ نیشاپور‘ قرطبہ وغیرہ میں گوہر فن کے کامل موجود تھے۔ مگر ان شہروں کے رہنے والے بھی مشرق و مغرب کی خاک چھانے بغیر نہیںرہتے تھے۔ علامہ مقری کی تاریخ کا ایک بڑا حصہ انہی علماء کے حالات میں ہے جو اسپین سے مصر و شام و بغداد گئے یا ان مقامات سے چل کر اسپین میں داخل ہوئے‘ جس کثرت اور جوش و سرگرمی سے تعلیم کے لیے مسلمان ہمیشہ سفر کرتے رہے دنیا کی تاریخ میں اس کی نظیر موجود نہیں ہے دوسری چیز جو اعلیٰ تعلیم کے لیے گویا لازمی تھی مناظرہ کی مجلسوں میں شریک ہونا تھا مشہور شہروں میں بحث و مناظرہ کے لیے خاص وقت اور مقام مقرر تھے بعض امراء اس قسم کی مجلسیں اپنے مکانوں پر منعقد کرتے تھے فقہ و ادب نحو وغیرہ ہر ایک علم کے لیے جداگانہ مجلسیں تھیں ان میں علماء اور طلبہ دونوں شریک ہوتے تھے اور کوئی ممتاز عالم بحث کے تصفیہ کے لیے انتخاب کیا جاتاتھا۔ ی جلسے جن میں زیادہ تر انصاف اور حق پسندی کا استعمال ہوتا تھا معمولی نصاب تعلیم ختم کرنے کی بہ نسبت بہت زیادہ مفید اور پر اثر تھے تحصیل سے فارغ ہو نے کے بعد استاد ایک تحریری سند عنایت کرتا تھا جن میں اس کی تعلیم کی ایک اجمالی کیفیت اور درس دینے کی اجازت ہوتی تھی اس سند میں وہ طیلسان پہننے کی بھی اجازت دیتا تھا ۔ جو علماء کا مخصوص لباس تھا ۔ ۱؎ تعلیم کی وسعت کے متعدد و اسباب تھے (۱) تعیم مذہب کا ایک ضروری جز بن گئی تھی قرآن و حدیث (جس پر مذہب کی بنیاد تھی) عربی زبان کے ساتھ خصوصیت رکھتے تھے اتنے تعلق سے نحو صرف لغت معانی ‘ اسماء الرجال میں بھی گویا مذہبی تعلیم کے لیے ضروری اجزا تھے فلسفہ نے علم کلام کی صور ت میں مذہبی علم کی عزت حاصل کی تھی اس سلسلے نے بڑھتے بڑھتے قریباً ہر علم و فن کو اپنے دائرہ میں لے لیا تھا۔ اب خیال کرو کہ ایک قوم جس میں اسلام کا جوش بھی تازہ ہے جس کی رگوں میں ہنوز عرب کا لہو ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱؎ علامہ ابن خلکان لکھتے ہیں کہ اول جس شخص نے علماء کے لیے خاص لباس قرار دیا وہ قاضی ابو یوسف صاحب ہیں‘ وہی لباس اب بھی چلا آتا ہے۔ یہ لباس طیلسان کے علاوہ ایک جبہ ہوتا تھا جو آج کل کے ایم اے کے لوگوں سے مشابہ تھا۔ اس می ہڈ بھی لگا ہوتا تھا ۔ دیکھو حسن المحاضرہ جلد ثانی ص ۲۲۶ مطبوعہ مصر) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جس کی ہمتیں بلند اور ارادے مستقل حوصلے وسیع ہیں اورپیہم ملکی کامیابیوں نے اس کے جوش کو زیادہ تیز کر دیا ہے جب کی کام پر پوری توجہ سے مائل ہو گی تو کس حد تک پہنچا کر رہے گی عرب کے سوا دوسری قومیں جو اسلام قبول کر چکی ہیں مذہب نے بھی ان کو انہی سرگرم جذبات سے بھر دیا تھا جو عرب کے ذاتی خاصے تھے ۔ اور چونکہ وہ مدت سے تمدن و معاشرت کی آبادی میں بسر کرتے آ رہے تھے تعلیم کے معاملے میں انہوںنے اپنے استاد (عرب) سے زیادہ کام کر دیا یہی بات ہے کہ نحو‘ لغت ‘ حدیث‘ اصول‘ فقہ‘ فلسفہ‘ کے امام و پیشوا قریباً کل عجمی ہیں علامہ ابن خلدون نے ا س پر مقدمہ تاریخ میں ایک مستقل مضمون لکھا ہے جس کی سرخی یہ ہے کہ حملۃ العلم فی الاسلام اکثر ہم العجم یعنی اسلام میں علم کے عالمین اکثر عجم ہیں ہمارے اکثر خوان جو عرب کی نسل سے ہیں اس بات کو رشک اور تعجب سے سنیں گے مگر ان کو ہشام ۱؎ اور عیسیٰ کی طرح صبر کرنا چاہیے۔ (۲) تعلیم مسجدوں اور علماء کی خاص درس گاہوں میں مقید نہ تھی وزراء حکام فوجی افسر اہل منصب ‘ ہر طبقہ کے لوگ پڑھتے پڑھاتے رہتے تھے۔ وزارت کے کثیر الاشغال وقت میں بھی بو علی سینا کی خدمت میں مستعد طلبہ کا ایک گروہ حاضررہتا تھا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱؎ ہشام بن عبدالمالک دولت بنو امیہ کا نامو ر خلیفہ تھا راوی کا بیان ہے ک مھ سے ہشام نے پوچھا کہ اس وقت مکہ میں علم کا سردار کون ہے میں نے کہا عطا (ہشام) وہ عربی الاصل ہے (میں) نہیں اسی طرح اس نے شام مصر ‘ جزیرۃ ‘ خراسان‘ بصرہ کی نسبت پوچھا میں نے مکحول یزید میمون ضحاک کے نام لیے ہر نام پر پوچھتا جاتا تھا کہ عربی الاصل ہے اور مجھ سے ’’نہیں‘‘ کا لفظ سن کر پیچ تاب کھاتا جاتا ہے اخیر میں میں نے کہا کہ ابراہیم الخفی جو کہ کوفہ کا امام ہے عربی الاصل ہے اس پر ا س نے ایک ٹھنڈی آہ بھری کر کہا کہ خیر اس سے کچھ تسکین ہوئی (فتح المغیث ص ۵۹۸) عیسیٰ کی نسبت بھی ایک قسم کا واقعہ بیان کیا گیا ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (۳) تعلیم میں نہایت آزادی تھی کسی مقررہ نصاب کی پابندی ضروری نہیں تھی جو شخص ج خاص بن کو چاہتاتھا حاصل کر سکتا تھا۔ اہل کمال کے زمرہ میں سینکڑوں گزرے ہٰں جو ایک فن میں امام تھے اور دوسرے فنون میں معمولی طالب علم کا بھی درجہ نہیںرکھتے تھے۔ (۴) امراء اور اہل منصب کا گروہ جو شائقین علم کی سرپرستی کرتاتھا عموماً تعلیم یافتہ اور پایہ شناس تھا۔ تعلیم کی اشاعت کا یہ بہت بڑا سبب تھا سلاطین و وزراء تو ایک طرف معمولی سے معمولی رئیس کی خدمت میں سینکڑوں ادیب و فاضل موجود ہوتے تھے اور چونکہ ان کی تنخواہیں کسی خدمت کے بدل نہ تھیں بلکہ صرف ان کا ذاتی کمال اور قبول عا م مہنگے داموں کو خریدا جاتا تھا تمام ملک میں لیاقت اور شہرت پیدا کرنے کا ایک عام جوش پھیل گیا تھا تسنیفات میں زور طبع کے ساتھ تحقیق و احتیاط کا لحاظ اس لیے زیادہ تر کرنا پڑتا تھا کہ جن قدر دانوں کے سامنے پیش کرنا ہے وہ خود صاحب النظر اورنکتہ چیں ہیں۔ مدرسوں کے قائم ہونے نے دفعتہ کوئی تبدیلی پیدا نہیں کی نصاب تعلیم قریبا ً وہی رہا جو پہلے تھا‘ پرائیویٹ تعلیم گاہیں عموماً قائم رہیں اور حق یہ ہے کہ جب تک ان پر کچھ زوال نہیں آیا تعلیم بھی نہایت وسعت سے جاری رہی لیکن رفتہ رفتہ ان مدرسوں میں خاص خاص قاعدوں کی پابندیاں شروع ہوئیں اور سلطنت عثمانیہ کے زمانے میں تو گویا تعلیم کا ایک جداگانہ قانون پاس کیا گیا آٹھویں صدی سے پہلے فارغ التحصیل ہونے کے لیے ایک خاص مدت متعین ہو چکی تھی۔ گویا ملکوں کے اعتبار سے مختلف تھی مثلاً مغرب (مراکو وغیرہ) میں ۱۶ برس اور ٹیسنس میں پانس برس طالب العلم کو تعلیم گاہ میں رہنا لازمی تھا۔ املا کا طریقہ بھی رفتہ رفتہ جاتا رہا آٹھویں صدی میں حافظ زین الدین عراقی نے (حافظ ابن حجر کے استاد تھے) اس کو زند ہ کرنا چاہا اور تقریباً چار سو مجلسوں میں اس طرح درس بھی دیا حافظ ابن حجر و سخاوی نے بھی ان کی تقلید کی مگر انہی بزرگوں پر خاتمہ ہو گیا جلال الدین سیوطی نے ارادہ کیا مگر لوگوں کی بے توجہی دیکھ کر خود باز رہے۔ یہ مدرسے اکثر مذہبی تھے اور کسی ایک مذہب کے ساتھ خصوصیت رکھتے تھے۔ دارالعلوم نظامیہ صرف شافعیوں کے لیے تھا مستنصریہ وغیرہ میں چاروں مذہب کا درس ہوتا مگر مدرسین و نصاب تعلیم بالکل جداگانہ تھے اس خصوصیت نے مذہب پر ایک نمایاں اثر ڈالا چوتھی صدی میں بلہ اس سے پہلے تقلید مذہبی کی بنیادپر پڑ چکی تھی مگر ان مدرسوں نے چونکہ اس کو محسوس سورت میں دکھایا قوم میں ا س کا عام رواج ہو گیا اور نہایت سختی کے ساتھ ہوا شاہ ولی اللہ صاحب نے تقلید شخصی کی ابتدا چوٹھ صدی کے بعد قرار دی ہے ۱؎ ہر شخص بآسانی یہ فیصلہ کر سکتا ہے کہ ان مدرسوں نے جو تقلید شخصی کے ہم زبان ہیں یا خود تقلید کو پیدا کیا ہو گا یا کم سے کم اس کو ترقی اور استواری دی ہو گی مدرسوں کی ابتدائی زمانہ میں تو ایسے علماء کثرت سے تھے جو اجتہاد کا حق رکھتے تھے لیکن رفتہ رفتہ تقلید کے عام رواج نے علوم اور ایجاد کی قوت کو اس قدر گھٹا دیا کہ گویا قوم سے اجتہاد کی قابلیت ہی جاتی رہی شاہ ولی اللہ صاحب نے کتاب الانصاف میں نہایت سچ لکھا ہے کہ اس زمانے میں یعنی پانچویں چھٹی صدی میں تقلید ہی ضروری تھی۔ تیسرے دو ر میں اس بات نے تعلیم کو نہایت ابتر کر دیا ہے کہ جو فن مقصود بالذات نہ تھے مثلاًنحو ‘ صرف ‘منطق‘ و امثال ان کی تعلیم میں وہ اہتمام اور موشگافیان ہونے لگیں کہ عمر کا ایک بڑا حصہ انہی کے نذر ہو گیا ۔ اور اتنا وقت نہ مل سکا کہ جن علو م کی تکمیل مقصود اصلی تھی ان پر پوری توجہ ہو سکتی۔ تصانیف کی کثرت اور ان کا درس میں داخل ہونا ۲؎ اس بات نے بھی نہایت ضرر پہنچایا ہے پہلے او ر دوسرے دور میں زیادہ تر فن کی تعلیم ہوتی تھی‘ لیکن تیسرے دور نے کتابی تعلیم کی بنیاد ڈالی‘ جس میں اصلی مسائل سے زیادہ کتاب کی عبارت اور ان کے متعلقات سے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱؎ دیکھو حجۃ اللہ البلاغہ ص ۱۵۸ ۲؎ علامہ ابن خلدون نے ان دونوں باتوں پر نہایت عمدہ بحث ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سے بحث ہوتی تھی ہمارے ہندوستان میں تو ضمیرون کے مرجع اور حیثیت تعلیلی و تقلیدی و بعدیت ذاتی و زمانی کے تنگ دائرے سے طلبہ تو کیا اکثر علماء بھی کبھی باہر نہیں نکلے۔ ان مدرسوں میں (ترکی مدارس کے سوا) فلسفہ و منطق کی تعلیم کا بہت کم اہتمام تھا اور اکثر نامور مدرسوں میں تو ان کے علوم نے رسائی ہی نہیں پائی لیکن اس کا الزام بانیان مدرسہ پر نہیں ہے۔ بلکہ قوم کے ان بزرگوں پر ہے جو دینی حیثیت سے قوم پر حکمران تھے ہم لکھ آئے ہیں۔ کہ مسلمانوں میں علوم کی بنیاد مذہب کی زمین پر رکھی گئی۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ تھا ک مذہبی پیشوائوں کی اجتہادی رائیں جدھر رخ کریں علوم بھی ان کا ساتھ دیں اسی وجہ سے مملکت اسلامیہ کے ہر گوشے میں رہ رہ کر فلسفہ کو صدمے اٹھانے پڑتے ہیں۔ معتضد باللہ خلیفہ عباسی نے جو سنہ ۲۷۹ھ میں تخت نشین ہوا۔ پہلے ہی سال فرمان کی اکہ کتب فروش فلسفہ کی کتابیں نہ بیچنے پائیں ۱؎ حکیم ابن رشد کو اپنی فلسفی تصنیفات سے اس لیے خود انکار کرنا پڑا کہ خاندان عبدالمومن (سلاطین مراکو) نے اس جرم پر اس کو قید کر دیا تھا۔ اسی خاندان کے ایک فرماں روا نے جس کا نام مامون تھا۔ حکیم بن حبیب کو قتل کرا دیا ۲؎ ۔ سلطنت عثمانیہ میں بھی ایک مفتی صاحب نے فلسفہ کا درس بند کرا دیا ۳؎ حافظ جلال الدین سیوطی نے علم منطق کے ناجاء زہونے پر ایک کتاب ہی تصنیف کر ڈالی۔ جس کا ننام القول المشرقی فی تحریم الاشتغالم بالمنطق ہے علامہ ابن الصلاح نے بھی اس مضمون کا ایک فتویٰ لکھا ۴؎ علامہ ابن تیمیہ مامون الرشید پر ہمیشہ ترس کھاتے رہے کہ دیکھیے اس جرم پر فلسفہ کا رواج دینا خدا اس سے کیا مواخذہ کرتا ہے‘ اسپین کے امرا اور خواص فلسفہ کے حامی تھے لیکن عوام کی برہمی کے خوف سے کبھ اس علم کو عام آزادی نہیںدی گئی ۱؎ تاہم مجھ و اقرار کرنا پڑے گا کہ فلسفہ کے دوستوں کی تعداد (عام کا ذکر نہیں) دشمنوں سے زیادہ تھی۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (بقیہ حاشیہ ۸۵) لکھی ہے دیکھو مقدمہ تاریخ فضل ۶ کی فصل ۲۰ و فصل ۳۱ ۱؎ تاریخ انخلفاء خلانہ معتضد باللہ ۲؎ نفح الطیب تاریخ سپین مطبوعہ فرانس جلد ثانی ص ۱۲۵ ۳؎ کشف الظنون ذکر علم حکمت ۴؎ حسن المحاضرہ ترجمہ حافظ جلال الدین سیوطی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مذہب نے تعلیم پر جو بڑا نمایاں اثر دکھایا وہ یہ یہ کہ قدیم عربی زبان نہایت احتیاط سے محفوظ رہی حالانکہ قدیم عربی ایک مدت سے نہ ملک کی زبان ہے نہ حکومت کی فارس و خراسان کی عام زبان فارسی تھی۔ عباسی جو بغدادمیںخلیفہ کہلاتے تھے۔ ان کا جاہ و جلال بغدا کے شہر پناہ تک محدود تھا۔ عنان حکومت و یلم یا سلجوق کے ہاتھ میں تھی جو زبان اوراصل دونوں اعتبار سے عجمی تھے۔ مصر و شام ایک مدت تک ایوبییہ نوریہ چراکسی کے قبضہ میں رہے اوریہ سب عجمی تھے۔ ممالک مغربی مراکو تونس وغیرہ میں بربروزناتہ کی عمل داری تھی خود عرب میں قدیم عربی کا رواج نہیں رہا تھا غرض اسکے زندہ رہنے کا کوئی سہارا نہ تھا لیکن صرف اس بات نے کہ قرآن پاک اور حدیث اسی زبان میںتھی اس کہنہ زبان کو تہرہ سو برس کی عمر دی اور خدا سے امید ہے کہ قیامت تک اس کو قائم رکھے۔ اس بات کا بے شبہ افسوس ہے کہ اس یکطرفہ توجہ نے موجودہ زبان سے ہم کو بالکل محروم رکھا آج چھ سو برس ہوے کہ عرب کی زبان بالکل بدل گئی۔ سینکڑوں نئے الفاظ کا داخل ہو جانا مختلف تصرفات و تبدیلیاں نئے محاوروں کا استعمال یہ سب ایک طر ف خود اعراب و تراکیب کی وہ حالت نہیں رہی موجودہ علم نحو اب سرے سے بیکار ہو گیا ہے تقریباً پانچ سو برس سے عرب اس نئی زبان میں شعر و قصائد لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱؎ نفح الطیب جلد اول ص ۱۳۶ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسی زبان میں ان کے فصیح و بلیغ خطبے پائے جاتے ہیں لوگوں کو یہ سن کر تعجب ہو گا کہ یہ قسائد اگر اعراب کے ساتھ پڑھے جائیں تو موزوں نہیں رہتے افسوس ہے کہ اس جدید مستقل زبان پر کسی نے توجہ نہیں دی اور ان اشعار کے سمجھنے کے لیے ہمارے پاس کوئی لغت موجود نہیں ۱؎ ۔ کس قدر افسوس و شرم کی بات ہے کہ ان لغات محدثہ کے لیے ہم کو عیسائی فاضلوں کا دریوزہ گر ہونا پڑتاہے یعنی پروفیسر پطرس کا جس نے نہایت تحقیق سے محیط المحیط لھی ہے ۔ اورلین صاحب انگلشی کا جن کی کتاب مدالقاموس کی ۱۷ جلدیں لندن میں چھپ چکی ہیں۔ اسلام جس وسیع دنیا پر حکومت کر رہا تھا اس میں جغرافیائی تقسیم کی حیثیت سے مختلف ملک شامل تھے اور متعدد قومیں آبادتھیں اسلامی اتحاد نے اگرچہ ہر حصہ میں یکساں طورپر علوم کی روشنی پھیلانی مگر ملکی و قومی خصوصیتوں نے مختلف صورتیں پیدا کیں۔ ایران نے منقولی علوم کے علاوہ عقلیات کو معراج کمال تک پہنچایا ۔ مصر و شام میں فقہ‘ حدیث و اسماء الرجال پر زیادہ توجہ ہوئی حافظ جلال الدین طوسی مصر کی فضیلت کی ایک بڑی وجہ یہ قرار دیتے ہیں ک وہاں فلسفہ کا زور نہیں ہے۔ اسپین میں زباندانی شاعری تاریخ کو زیادہ فروغ ہوا یہاں تک کہ لڑکوں کو قرآن پڑھنے کے زمانہ سے اشعار و امثال یاد کرائے جاتے تھے۔ یہ اختلاف انہی ملکی خصوصیتوں کا اثر تھا ایرانیو کے ذہن کی لطافت موشگافی دقیقہ سنجی فلسفہ و منطق کے بالکل مناسب تھی مصر و شام عرب کے دامن میں تھے اور اس وجہ سے قوت حافظہ کی عمدگی اور متوسط ذہانت نے حدیث و اسماء الرجال کو زیادہ پسند کیا اسپین عرب ہونے کی حیثیت سے مصر و شام کا ہم پایہ تھا لیکن اتنی خصوصیت نے وہاں مدت تک عرب خاندان حکومت کرتے رہے۔ جو شعرو شاعری پر جان دیتے تھے اسپین میں ادب و شاعری کو زیادہ چمکا دیا شام میںبھی اال احمدان کے زمانے میںجو عموماً سخنور تھے شاعری کا پایہ نہایت بلند ہو گیا تھا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱؎ علامہ ابن خلدون نے مقدمہ تاریخ میں اس بحث پر متعدد مضمون لکھے ہیں بہت سے اشعار بھی نقل کیے ہیں جو اس نئی زبان میں شعرائے عرب نے لکھے ہیں اورجن میں اعراب کا مطلق پتہ نہیں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ انقلابات حکومت کو جو کثرت سے ممالک اسلامی میں ہوا کیے۔ علمی مقاصد کیلیے اکثر مفید ثابت ہوئے ایک خاندان گو کلیتہ برباد ہو جاتا ہے مگرا س کے علمی آثار اکثر محفوظ رہتے تھے جو مواضع اور علاقے مدرسوں پر وقف ہو چکے تھے۔ دوسری نئی حکومت ان کو غضب نہیںکر سکتی تھی۔ ہلاکو خان نے نہ صرف بغداد کو غارت کی بلکہ تمام ممالک اسلامی کو غضب نہیںکر سکتی تھی۔ ہلوکو نے نہ صرف بغداد کو غارتک کیا بلکہ تمام ممالک اسلامی کو برسوں تک بے چراغ کر دیا۔ تاہم اوقاف میں کچھ تصڑف نہ کر سکا۔ اس نے بغداد وغیرہ کے تمام اوقاف محقق طوسی کے ہاتھ میںدیے جس کا بہت بڑا حصہ محقق موصوف نے رصد خانے کی تعمیر میں صرف کیا ممالک اسلامی میں جب کوئی نئی حکومت قائم ہوتی تھی تو اس کو استحکام سلطنت اور عظمت و جلال قائم رکھنے کے لیے ضرور تھا کہ مدرسوں کی تعمیر اور تعلیم کی اشاعت میںپچھلی حکومت سے زیادہ فیاضیان دکھتے تھے اس بات سے تعجب ہے او رافسوس دونوں ہوتا ہے کہ پچھلی تعلیم جس کا اثر ہوا کہ خاکہ اب بھی ہندوستان میں موجود ہے پولیٹکل آواز سے بالکل خالی ہے نصاب تعلیم میں ایسی کوئی کتاب داخل نہ تھی تاریخ کی کتابیں اگر پڑھائی جاتی تھیں تو تاریخی حیثیت سے نہیں بلکہ فن انشاء کے اعتبار سے طالب علموں کی سادہ اور مفلسانہ طرز زندگی ‘ دنیوی خواہشوں سے مبرا اور بے غرض شوق کمالات علمی کے لیے جس قدر زیادہ مفید تھا‘ اسی قدر ان معاملات ملکی سے الگ رکھتا تھا۔ ہم کو تو جرات نہیں ہو سکتی مگر علامہ ابن خلدون فرماتے ہیں (گو بیان سبب میں ہم سے مختلف ہیں ) ان العلماء من بین البشرا بعد الامم عن السیاسہ ؎۱ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱؎ دیکھو مقدمہ ابن خلدون فصل ۶ کی فصل ۳۵ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ’’یعنی نوع بشر میں عام لوگ انتظامات ملکی سے بہت دور ہیں‘‘ ہم نے اس آرٹیکل میں کسی قدر تفصیل کے ساتھ مدرسوں کے حالات لکھے تھے مگر ہم بتا دینا چاہتے ہیں کہ اسلامی تعلیم کے اندازہ کرنے کا یہ نہایت چھوٹا پیمچانہ ہے ہماری علمی فیاضیوں اورایجادات و صنائع کو مدرسوں کے احاطہ سے باہر ڈھونڈ نا چاہیے۔ مدرسوں کی کثرت اور عالمگیر رواج نے بھی پرائیویٹ تعلیم گاہوں کی تعداد کو کم نہیں کیا سنہ ۷۴۸ھ میں جب کہ مصر مدرسوں اور دارالعلوم سے معمور تھا‘ خود مصر کی ایک جامع مسجد میں چالیس ۴۰ سے زائد حلقہ درس تھے۔ جن میں سے ہر قسم کے علوم و فنون پڑھائے جاتے تھے ۱؎۔ میں نے اس آرٹیکل میں اس بات سے قصداً پرہیز کیا ہے کہ سلف کے کارنامے زیادہ آب و تاب سے لکھوں قوم کی آج یہ حالت ہے کہ جتنا لکھا گیا ہے یہ بھی اس کے چہرے پر نہیں کھلتا سلف کے مفاخر کا ہم کیا ذکر کر سکتے ہیں ہم نے جب خود کچھ نہیں کیا تو اس سے کیا حاصل کی سلف نے بہت کچھ کیا تھا۔ مولف گرفتم کز حریفاں بیش یا کم میتواں گفتن زو سنت تاچہ آمد آخر اینہم میتواں گفتن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱؎ حسن المحاضرہ جلد ثانی ص ۱۸ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ٭٭٭ ملا نظام الدین علیہ الرحمتہ بانی درس نظامیہ آج تمام ہندوستان میں عربی تعلیم کا جو نصاب ہے وہ نظامیہ کے نام سے مشہور ہے لیکن یہ سخت تعجب ہے کہ اکثر لوگوں کو معلوم ہیں کہ یہ نصاب کب بنا؟ اور کس نے بنایا؟ حال کی ایک تصنیف میں اس کو نظام الملک وزیر مملکت سلجوقیہ کی طرف منسوب کیاگیاہے پرانے تعلیم یافتہ اس قدر جانتے ہیں کہ اس کے بانی ملا نظام الدین صاحب لکھنوی ہیں لیکن اس سے زیادہ ان کو بھی واقفیت نہیں۔ ملا نظام الدین صاحب جس رتبہ کے شخص تھے اور خصوصاً اس نصاب کے قائم کرنے سے ان کو جو شہرت حاصل ہوئی اس کے لحاظ سے میں ایک مدت سے اس بات کا آرزو مند تھا کہ ان کے مفصل حالات دریافت کروں لیکن چونکہ ہمارے ملک میں بیوگرنی (سوانحعمری) لکھنے کا طریقہ بہت کم تھا اس لیے اس آرزو مند پور ی ہونے کی بہت کم امید ہو سکتی تھی میر غلام علی آزاد نے سجنہ المرجان میں مختصر طور پر ان کا تزکرہ کیا ہے جو بالکل ناکافی ہے بڑے تلاش سے ایک رسالہ ہاتھ آیا جو مولانا ولی اللہ صاحب فرنگی محلی (محشی صدرا) کی تصنیف ہے اور خاص ملا صاحب مرحوم کے حالات میں ہے لیکن اس میں اصلی حالات نہایت کم ہیں البتہ ان کی کرامتوں اور خرق عادات کا ایک بڑا دفتر ہے وہ اس زمانہ کے کام کا نہیں۔ تاہم بمصداق مالا یدرک کلہ لا یترک کلہ میں ایک مختصر سا خاکہی ان کی سوانح عمری کا ناظرین کے سامنے پیش کرتا ہوں۔ خاندان کا حال لکھنو کے اطراف میں جو مردم خیز بستیاں میںایک مشہور قصبہ سہالی ہ جو لکھنو سے اٹھائیس میل ہے یہاں مسلمانوں کے دو مشہور خاندان آباد تھے انصاری جو حضرت ابو ایوب انصاریؓ کی اولاد دے تھے عثمانی یعنی حضرت عثمانؓ کی اولادسے ملا صاحب اسی قسبہ کے رہنے والے تھے اور انصاری خاندان سے تھے ان کے والد ملا قطب الدین بہت بڑے مستند عالم تھے اور ان کا حلقہ درس تمام مشرق ممالک کا قبلہ گاہ تھا عثمانیوں اور انصاریوں میں قدیم سے عداوت چلی آتی تھی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایک دن عثمانی ملا صاحب کے گھر پر چڑھ آئے اور ان کو قتل کر کے گھرمیں آگ لگا دی یہ واقعہ سنہ ۱۱۰۳ھ میں پیش آیا چونہ وہ بے گناہ قتل کیے گئے تھے قو نے ان کو شہید کا لقب دیا چنانچہ کتب علمیہ میں جہاں ان کا نام آتا ہے اسی لقب کے ساتھ آتا ہ ملا قطب الدین صاحب نے چار فرزند تھے بڑے صاحبزادے اس وقت دلی میں عالمگیر بادشاہ کے دربار سے تعلق رکھتے تھے شیخ محمد سعید اورملا نظام الدین مکان پر تھے ملا قطب الدین صاحب کی شہادت کے بعد یہ لوگ بے کسی کی وج سے سہالی سے نکل کر لکھنو چلے گئے لیکن یہاں رہنے کا کوئی ٹھکانہ نہ ھتا۔ سلطنت تیموریہ کے زمانہ میںچونکہ واقعہ نگاری کا صیغہ نہایت وسعت کے ساتھ قائم تھا اور ملک کا ایک ایک جزئی واقعہ دربار شاہی تک پہنچتا رہتا تھا۔ لکھنو کے واقعہ نگار نے فوراً دربار کو اطلاع دی اور وہاں سے فرمان صادر ہوا کہ ملا صاھب کے صاحبزادوں کو فرنگی محل کے محلہ میں ایک قطعہ مکان مع عمارات متعلقہ غایت کیا جائے اطلاع کی تاریخ ۱۴ شعبان سنہ ۳۷ ھ جلوس والا کے مطابق سنہ ۱۱۰۵ھ اور فرمان صادر ہونے کی تاریخ ۱۱ شوال نہ ۳۸ھ جلو س والا ہے اس فرمان کی کچھ عبارت ہم آگے نقل کریں گے۔ لکھنو میں آباد ہونے کا سبب ملا نظام الدین جن کا ہم تذکرہ لکھ رہے ہیں اس وقت پانژدہ سالہ تھے اس لیے فرمان میں ان کا نام نہیں ہے بلکہ ان کے دونوں بڑے بھائیوں کا ہے یہ فرمان اب تک اس خاندان میں موجودہے اور میں نے ایک دفعہ لکھنو میں اس کی زیارت کی تھی چنانچہ اس کے ضروری الفاظ اس موقع پر درج کرتے ہیں پیشانی پر عالمگیر کی مہر ہے۔ عالمگیر کا فرمان دامن میں یہ عبارت ہے۔ ’’دریں وقت میمنت اقتران فرمان والا شان واجب الاذعان صدر شد کہ یکمنزل حویلی فرنگی محل بامتعلقہ آن واقع بلدہ لکھنو‘ مضاف بہ صوبہ اودھ کہ ازا مکنہ نزولی است برائے بودن شیخ محمد اسعد و محمد سعید پسران ملا قطب الدین شہید حسب الضمن مقرر فرمودیم بایدکہ حکام و عمال و مصدیان مہمات حال و استقبال و جاگیرداران و کرد ریان آنرا بنام مشار الیہا معاف و ہرقوع القلم دانستہ بوجہ الوجودہ مزاحم و معترض نہ شوند و اندرین باب سند مجدد نہ طلبند۔ مرقو غرہ ذیقعدہ سال سی دہفتم جلوس والانوشتہ شد۔‘‘ فرمان کی پشت پر جو عبارت ہے اس کا پہلافقرہ یہ ہے۔ ’’شرح یادداشت واقع بتاریخ روز پنجشنبہ ۱۴ شعبان المعظم سنہ ۳۷ جلوس والا موافق سنہ ۱۱۰۵ھ بمطابق مرد اوماہ برسالہ صدارت و مشیخت پناہ فضیلت و کمالات دستگاہ سزاوار مرحمت و احسان صدر منیف القدر فاضل خان و نوبت واقعہ نویسی کمترین بندگان درگاہ خلائق پناہ حسام الدین حسین قلمی میگرو کہ بعرض مقدس و معلی رسید کہ شیخ محمد اسعد و محمد سعید پسران ملا قطب الدین شہید ساکن قصبہ سہالی بسبب شہادت پدر خود قصبہ مذکور را گزاشتہ جلا وطن گردید ندوکرام مکانہا سکونت ندارند الخ ‘‘ طالب علمی جس وقت ملا قطب الدین کا خاندان لکھو میں آباد ہوا ملا نظام الیدن صاحب کی عمر پندرہ برس کی تھی اور شرح جامی پڑھتے تھے اگرچہ اس وقت تک اطمینان کی معقول صورت نہیں پیدا ہوئی تھی تاہم ملا صاحب نے فراغ خاطر کا انتظار نہ کیا اور علوم کی تحصیل جاری رکھی غلام علی آزاد نے سنۃ المرجان میں لکھا ہے کہ ’’ملا صاحب نے یورپ کا سفر کیا اور مختلف شہروں میں تحصیل کی اخیر میں لکھنو واپس آ کر شیخ غلام نقشبند لکھنوی سے بقیہ کتابیں پڑھیں اور انہٰں سے سند فضیلت حاصل کی لیکن مولوی ولی اللہ صاحب نے جو مستقل رسالہ ان کی سوانح عمری میں لکھا ہے کہ ابتدائی کتابیں دیوامیں اور قصبات میںجا کر جو مستقل رسالہ ان کی سوانح عمری میں لکھا ہے کہ ابتدائی کتابیں دیوامیں اور قصبات میں جا کر پڑھیں لیکن انتہائی کتابیں بنارس میں جا کر حافظ امان اللہ بنارسی سے ختم کیں فرنگی محل میں آج جو روایت مشہور ہے وہ بھی اس کی موید ہے۔ فراغ تحصیل کے ساتھ ہی ملا صاحب اپنے والد بزرگوار کے مسند درس پر متمکن ہوئے اور تھورے ہی دنوں میں ان کا آستانہ تمام مشرقی ہندوستان کا مرجع بن گیا۔ تصوف علوم ظاہر ی کی تکمیل سے فارغ ہو کر ملا صاحب نے علوم باطنی کی طرف سے توجہ کی اس وقت حضرت شاہ عبدالرزاق صاحب بانسوی کے فیوض و برکات کا تمام ہندوستان میں غلغلہ تھا ملا صاحب ان کے آستانے پر حاضر ہوئے اور ان کے ہاتھ پر بیعت کی شاہ صاحب موصوف علوم اسلامیہ سے ناآشنا تھے ۔ اس لیے تمام لوگوں کو تعجب ہوا یہاں تک کہ علمائے فرنگی محل نے علانیہ ملا صاحب سے شکایت کی ملا صاحب کے تلامذہ میں سے ملا کمال علوم عقلیہ میں بڑی دستگاہ تھے اور چونکہ ب انتہا ذہین تھے کسی کو خاطر میں نہ لاتے تھے ملا صاحب کی بیعت پر دو بدوگستاخانہ عرض کیا ک آپ نے ایک جاہل کے ہاتھ پر کیوں بیعت کی اس پر بھی قناعت نہ کر کے شاہ صاحب کی خدمت میں پہنچے اور فلسفہ کے چند مشکل مسئلے سوچ کر گئے کہ شاہ صاحب سے پوچھیں گے اور ان کو الزا م دیںگے مشہور ہے کہ شاہ صاحب نے خود ان مسائل کو چھیڑا اور ملا کمال کی خاطر خواہ تسکین کر دی چنانچہ اسی وقت ملا کمال اور ان کے ساتھ بہت سے علماء شاہ صاحب کے قدموں پر گر پڑے اور ان کے ہاتھ پر بیعت کر لی۔ شاہ صاحب نے ۱۱۳ھ میں رحلت فرمائی ان کی وفات کے بعد ملا نظام الدین نے ان کے خلیفہ سید اسمعیل بلگرامی سے باطنی فیوض حاصل کیے۔ بیماری اور وفات ملا صاحب کو ابتدا سے قرحہ کا مرض تھا لیکن کبھی معالجہ کی طرف توجہ نہ کی۔ اور اخیر عمر میں جب کہ سن شریف ۷۵ برس کو پہنچ گیا نہایت ضعیف ہو کر صاحب فراش ہو گئے اور زنانخانہ میں رہنے لگے لیکن چونکہ نہایت کثرت سے لوگ بیمار پرسی کو جاتے تھے اورباربار وہ پردہ کرانے میں گھر والوں کو تکلیف ہوتی تھی ملا احمد عبدالحق صاحب نے عر ض کیا کہ حضور اگر دیوانخانہ میں تشریف رکھتے تو بہتر ہوتا۔ ملا صاحب نے کچھ جواب نہ دیا دوسر ے دن شاہ عبدالغنی صاحب عیادت کو آئے تو ملا صاحب نے یہ مصرعہ ہر روز بینم تنگ تر سوراخ این غربالہا پڑ ھ کر فرمایا کہ اچھامیاں عبدالحق ہی کی مرضٰ پر عمل کرو چنانچہ دیوانخانہ میں اٹھ کر تشریف لائے اور وہیں وفات کی۔ ملا صاحب کی دو بیویاں تھیں دوسری شادی غالباً اس غرض سے کی تھی کہ پہلی سے اولاد نہیں ہوئی تھی۔ بیماری کو جب اشتداد ہوا تو زوجہ اولیٰ ملا صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور کہا کہ مجھ سے جو تقصیر ہوئی معاف مرمائیے فرمایا کہ تم نے کوئی تقصیر نہیں کی البتہ مجھ سے یہ گناہ ہوا کہ تمہارے ہوتے ہوئے دوسرے شادی کی اس جرم کو معاف کر دو تھوڑی دیر کے بعد زوجہ ثانیہ آئیں اور کہا کہ آپ تو تشریف لیے جاتے ہیں اولاد کو کس پر چھوڑے جاتے ہیں ملا صاحب کو سخت رنج ہوا حاضرین سے کہا کہ مجھ کو اٹھا کر بٹھا دو پھر فرمایا کہ نظام الدین تو جاتا ہے لیکن ہمیشہ رہے گا۔ تاریخ وفات آخر نویں تاریخ جمادی الاول روز چہار شنبہ سنہ ۱۱۶۱ھ دوپہر دن چڑھے انتقال فرمایا تاریخ وفات یہ ہے۔ ملک بودو بیک حرکت ملک گشت عربی مادہ یہ ہے: مال العاشق الی المعشوق اخلاق و عادات ملا صاحب ابتدا ہی سے نہایت غنی النفس اور متوکل تھے ان کی علمی شہرت ان کی زندگی ہی میں اس درجہ پر پہہنچ گئی تھی کہ وہ ذرا سی خواہش کرتے تو ہر قسم کا جاہ و منصب حاصل ہو سکتاتھا لیکن اس طرف توجہ نہ کی تین تین دن کے فاقے ہوتے تھے اور نہایت استقلال کے ساتھ برداشت کرتے تھے امراء اور اہل دول سے بالکل نہیں ملتے تھے بلکہ اس قسم کے لوگ خدمت میں حاضر ہوتے تو بے التفاتی ظاہر فرماتے شیخ غلام مخدوم کا بیان ہے کہ میں ایک دفعہ ملا صاحب کی خدمت میں حاضر تھا اور بیماری کی وجہ سے پلنگ پر لیٹا ہوا تھا۔ اتفاقاً امراء میں سے ایک صاحب ملنے کے لیے آئے میں نے ان کے لحاظ سے پلنگ پر سے اتر آنا چاہا ملا صاحب نے فرمایا کہ سفید پوشوں کو دیکھ کر بدحواس کیوں ہوتے ہو آرام سے لیٹے رہو۔ امراء شاہی میں سے ایک رئیس جو ہفت ہزاری کامنصب رکھتا تھا ملا صاحب کی خدمت میں اکثر حاضر ہوا کرتا تھا ایک دفعہ جمعہ کے دن عین نماز کے وقت کہلا بھیجا کہ اگر آپ ذرا انتظار فرمائیں تو میں بھی حاضر ہو کر حضور کی اقتدا کا شرف حاصل کر سکوں ملا صاحب نے ذرا دیر انتظار فرمایا پھر کہا کہ ’’نما ز خدا کے لیے ہے اہل دنیا کے نہیں ہے۔ یہ کہہ کر نماز کے لیے کھڑے ہوگئے۔ بے نفسی لیکن یہ بے نیازی اور بد دماغی امراء اور جاہ پرستوں کے لیے مخصوص تھی ورنہ مزاج میں مسکینی اور تواضع تھی ای دن ایک ایرانی ابوالمعالی نام ملا صاحب کا شہر ہ سن کر ملاقات کے لیے آیا ملا صاحب کی درسگاہ میں چٹائی پر بیٹھے ہوئے درس دے رہے تھے اس نے ایرانی علماء کا جاہ و جلال دکھا تھا ملا صاحب کی طرف سے اس کا خیال نہ جا سکا لوگوں سے پوچھا ملا نظام الدین کہاں تشریف رکھتے تھے آپ نے فرمایا ک مولانا کا حال تو میں نہیںجانتا تھا لیکن نظام الدین میرا ہی نام ہے اس نے چند فقہی مسائل پیش کیے کہ اہل حق (یعنی شیعہ مذہب والوں) کے نزدیک اس کا کیا جواب ہے ملا صاحب نے اس کا منشا سمجھ کر شیعوں کی روایت کے مطابق جواب دیا نہایت پسند کیا اور کہا کہ ان ہی مسئلوں کو اہل ضلالت (سینوں) کے مذہب کے موافق بیان فرمائیے ملا صاحب نے سینوں کی روایتیں بیان کیں وہ عش عش کر گیا اور کہا کہ جس قدر سنا تھا اس سے زیادہ پایا۔ علماء کی نسبت عام شکایت یہ ہے کہ علی مباحثات سے ہمیشہ ان کو فخر اور امتیاز مقصود ہوتاہے اور اس کے لیے وہ کبھی حریف کے مقابلہ میں سکوت اختیار نہیںکرتے لیکن ملا صاحب اس عیب سے بالکل پاک تھے ایک دفعہ ایک صاحب ان سے بحث کرنے کے لیے تشریف لائے ملا صاحب نے مسئلہ کی تحقیق بیان فرمائی انہوںنے اعتراض کیا۔ ملا صاحب چپ ہو گئے انہوںنے مشہور کرنا شروع کیا کہ میں نے ملا نظام الدین کو بند کر دیا ملا صاحب کے تلامذہ کو ناگوار گزار اور ایک شاگرد نے جا کر ان صاحب کو زور تقریر سے بالکل ساکت کر دیا ملاصاحب کو خبر ہوئی تو اس قدر برہم ہوئے کہ اس شاگرد کو حلقہ درس سے الگ کر دیا اور کہا کہ میں ہرگز یہ نہیں پسند کرتا کہ میری وجہ سے کسی شخص کی شہرت اور عزت میں فرق آئے۔ تصنیفات ملا صاحب کی تصنیفات کثرت سے ہیں مثلاً شرح مسلم الثبوت شرح منارسمی بہ صبح صادق ‘ حاشیہ صدرا‘ حاشیہ شمس بازگہ حاشیہ برحاشیہ قدیمہ یہ تامام کتابیں بڑے پایہ کی ہٰں اور نہایت دقیق تحقیقات پر مشتمل ہیں لیکن درحقیقت ملا صاحب کی شہرت ان تصنیفات کی وجہ سے نہیں بلکہ ان کے طریقہ درس کی بدولت ہے ملاصاحب کے زمانہ میں ہندوستان کے تمام اطراف میں بڑ ے بڑے علماء موجود تھے۔ اورہر ایک کی الگ الگ گفتگو درسگار قائم تھی مثلاً ملا محب اللہ بہاری مصنف سلم و مسلم متوفی سنہ ۱۱۱۹ھ ملا جیون مصنف نورالانوار المتوفی ۱۱۳۰ھ سید عبدالجیل بلگرامی استاذ غلام علی آزاد المتوفی ۱۱۲۲ھ میر غلام علی آزاد بلگرامی حضرت شاہ ولی اللہ صاحب دہلوی المتوفی سنہ ۱۱۷۴ھ لیکن ملا صاحب کے حلقہ درس سے جس رتبہ کے فضلا پیدا ہوئے وہ خود ان بزرگوں کی ہمسری کا دعویٰ کر سکتے تھے ملا صاحب کے فرزند مولانا عبدالعلی کو تمام ملک نے بحر العلوم کا لقب دیا جو آج تک مشہور ہے اور درحقیقت ہندوستان کی خاک سے کوئی شخص اس جامعیت کا شروع اسلام سے آج تک نہیں پیدا ہوا ملا صاحب کے دوسرے شاگرد ملا کمال اس پایہ کے شخص تھے کہ مولوی حمد اللہ جن کی شرح سلم آج نصاب تعلیم میں داخل ہیں ان ہی کے دامن فیض میں پلے تھے ملا حسن کو بھی ملا صاحب کی شاگردی کا فخر حاصل تھا۔ ملا صاحب کے درس نے اس قدرقبولیت حاصل کی کہ ہندوستان میں ہر جگہ سلسلہ بہ سلسلہ انہی کے شاگرد نظر آتے تھے ۔ اورلکھنو کافر نگی محل تو علم و فن کا معدن بن گیا جہاں دو سو آج تک علمی سلسلہ منقطع نہیںہوا اور سینکڑوں اہل کمال پیدا ہو کر پیوند خاک ہو گء ملا مبین‘ مولان ظہور اللہ ‘ مولان ولی اللہ ‘ مفتی محمد یوسف‘ مولانا عبدالحکیم‘ مولانا عبدالحئی صاحب مرحوم جو ہمارے زمانہ میں موجود تھے ان کی تصنیفیں تمام ملک میں پھیلی ہوئی ہیں آج جہاں جہاں علوم عربیہ کا نام و نشان باقی ہے اسی خاندان کا پرتو فیض ہے ہندوستان کے کسی گوشہ یں جو شخص تحصیل علم کا احرام باندھتا ہے اس کا رخ فرنگی محل کی طرف ہوتاہے میں نے ۱۸۹۶ھ میں جب ملا نظام الدین کے آستانہ کی زیارت کی اور ان کی درس گاہ کو جو ایک مختصر سا بالا خانہ دیکھا تو عجب حیرت ہوئی اللہ اکبر ہمارے ہندوستان کا کیمبرج یہی ہے۔ یہی خاک ہے جس سے عبدالعلی بحر العلوم اور ملا کمال پیدا ہوئے افسوس اب یہ کعبہ ویران ہوتا جاتاہے۔ یادرفتگان صرف ایک مقدس بزرگ مولانا نعیم صاحب باقی ہیں جو عبدالعلی بحر العلوم کے پرپوتے ہیں اور جن کو ہماری سرکار نے شمس العلماء کا خطاب دیا ہے۔ در س نظامیہ کے خصوصیات ملا صاحب کے حالات میں سب سے زیادہ قابل توجہ ان کا مقر ر کردہ نصاب ہے جو نظامیہ کے نام سے مشہور ہے۔ اس نصاب کے خصوصیات یہ ہیں ۔ (۱) نصاب میں ہندوستان کے علماء کی متعدد کتابیں داخل ہیں مثلاً نور الانوار سلم‘ مسلم رشیدیہ ‘ شمس بازغہ ‘ حالانکہ اس سے پہلے یہاں کی ایک تصنیف بھی درس میں داخل نہ تھی۔ (۲) ہر فن کی وہ کتابیں لی ہیں جن سے زیادہ مشکل اس فن میں کوئی کتاب نہ تھی۔ (۳) منطق و فلسفہ کی کتابیں تمام علوم کی نسبت زیادہ ہیں۔ (۴) حدیث کی صرف ایک کتاب ہے یعنی مشکوۃ۔ (۵) ادب کا حصہ بہت کم ہے۔ اس نصاب میں سب سے زیادہ مقدم خصوصیت جو ملا صاحب کو پیش نظر تھی‘ یہ تھی کہ قوت کہ قوت مطالعہ اس قدر قوی ہو جائے کہ نصاب کے ختم کرنے کے طالب العلم جس فن کی جو کتاب چاہے سمجھ سکے اس سے کوئی شخص انکار نہیں کر سکتا کہ درس نظامیہ کی کتابیں اگر اچھی طرح سمجھ کر پڑھ لے جائیں تو عربی زبان کی کوئی کتاب لا ینحل نہیں رہ سکتی۔ بخلاف درس قدیم کے کہ اس سے یہ بات حاصل نہیںہو سکتی تھی۔ اختصار کے لحاظ سے بھی اس نصاب کو نصاب قدیم پر ترجیح ہے ایک متوسط الذہن طالب العلم سولہ سترہ برس کی عمر میں تمام کتب درسیہ سے فارغ ہو سکتاہے۔ چنانچہ علمائے فرنگی محل میں اکثر اتنی ہی عمر میں فارغ ہو جاتے تھے۔ اس نصاب کی بڑی خصوصیت یہ بھی ہے کہ چونکہ اس میں فقہ کی کتابیں بہت کم ہیں اور جو ہیں ان میں معقویل استدلال سے کام لیا گیا ہے ۔ اس لیے اس نصاب سے وہ تقشف اور ظاہر پرستی اور مذہب کا بیجا تعصب نہیںپیدا ہوتا تھا جو سطحی فقہا کا خاصاہے اسی کا اثر ہے کہ فرنگی محل میں جو بڑے بڑے علماء پیدا ہوء یان میں کسی نے مذہبی مناظرات کی کوئی کتاب نہیں شیعہ و سنی کا جھگڑا سب سے زیادہ لکھنو میں پیدا ہو سکتا تھا۔ لیکن یہ صدا دلی سے بلند ہوئی اور گو تمام ملک ا س ہنگامہ میں مبتلا ہو گیا اور تحفہ اثناء عشریہ کے فقرے رجز کی طرح مذہبی پہلوانوں کی زبانوں پر چڑھ گئے تاہم علمائے فرنگی محل اخیر تک اس شورش سے الگ رہے اس نصاب سے اور باتوں کے ساتھ ملا نظام الدین صاحب کی انصاف پرستی اور فراخ حوصلگی کا بڑا ثبوت ملتا ہے علما میں یہ خصلت بہت کم پائی جاتی ہے کہ ان کو معاصرین کے فضل کا اقرار ہو لیکن ملا صاحب نے اپنے معاصر علماء کو اس وقت عزت دی کہ ان کی کتابیں درس میں شامل کر دیں نور الانوار سلم و مسلم سب ان کے معاصرین کی تصنیفات ہیں اور درس نظامیہ میں داخل ہیں ملا صاحب کی کسر نفسی اس سے بڑھ کر کیا ہو گی کہ اپنی کوئی تصنیف نصاب میں داخل نہیں کی حالانکہ ان کا کوئی معاصر ان کی ہمسری نہیںکر سکتا۔ اس موقع پر یہ بتا دینا بھی ضروری ہے کہ موجودہ درس جو نظامیہ کے نام سے مشہور ہے دراصل درس نظامیہ نہیں ہے اس میںبہت سی کتابیں ایسی اضافہ ہو گئی ہیں جو ملا نظام الدین صاحب کے عہد میں موجود بھی نہ تھیں۔ مثلا ً ملا صاحب ‘ حمد اللہ ‘ حاشیہ ‘ غلام یحییٰ ‘ قاضی مبارک اگرچہ ہمارے نزدیک ضروریات زمانہ کے لحاظ سے درس نظامیہ میں بہت کچھ ترمیم و اضافہ کی ضرورت ہے لیکن اس مضمون میں ہم اس بحث کو نہیں چھیڑتے اور اسی تحریر پر بس کرتے ہیں۔ (معارف علی گڑھ فروری ۱۹۰۰ئ) ٭٭٭ درس نظامیہ ؎۱ فرنگی محل… یا نظام بغداد یا ہندوستان کا کیمبرج ہماری قدیم طرز تعلیم اور آج کل کی مغربی تعلیم میں اس قدر فرقہے کہ چند روز کے بعد لوگوں کو قدیم تعلیم کی صحیح تصویر ذہن نشین کرانی مشکل ہو گی جس طر ح آج سلطنت تیموریہ کے اصول حکجمت اور طریقہ انتظام کا خاکہ لوگوں کے ذہن میں نہیں آتا ایک شاندار عظیم الشان عمارت ماہران فن کا ایک گروہ لیکچروں کا ایک سلسلہ چند گھنٹے محدود جس کے بعد عمارت قالب بیجان رہ جاتی ہے۔ یہ چیزیں یکجا ہوجائیں تو یہ ایک یونیورسٹی یا کالج ہے لیکن قدیم اصطلاح میںکالج ایک شخص کے وجود کا خاص نام تاھ وہ جہاں بیٹھ جاتا تھا کالج بن جاتا تھا اس کے گرد مستفیدوں کی ایک جماعت کثیر جمع ہو جاتی تھی اس کے فیض کا بادل ہر وقت برستا رہتا تھا دن رات جس وقت جو کچھ بولتا تھا علمی لکچر ہوتا تھا اس کے حرکات و سکنات‘ نشست برخاست وضع‘ قطع طور طریقے سب خاموش علمی لیکچر تھے شاگردوں کا سلسلہ در سلسلہ پھیلتا جاتا تھا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱؎ اس مضمون کی ماخذ حسب ذیل کتابیں ہیں (۱) رسالہ قطبیہ درحال ہلا قطب الدین شہید از عبدالاعلی فرزند مولوی عبدالعلی بحر العلوم (۲) اعصان اربعہ مولوی ولی اللہ محشی صدرا (۳) عمدۃ الوسائل مولوی ولی اللہ صاحب موصوف الصدر درحال ملا قطب الدین و شاہ عبدالرزاق بانسوی (۴) اغصان الانسااب مصنفیہ رضی الدین محمود انصاری ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہاں تک کہ چند دن کے بعدیہ ذی روح کالج یونیورسٹی یا جامعہ اعظم بن جاتا تھا آج لوگ کالج کی طرف منسوب ہوتے ہیں مثلاً آکسن لیکن اس زمانہ میں شخص کی طرف منسوب ہوتے تھے نظامیہ بغداد سے ہزاروں ارباب کمال تعلیم پا کر نکلتے تھے لیکن اسمائے رجال میں جہاں کہیں ان کا حال لکھا جاتا ہے نظامیہ کا نام نہیں آتا بلکہ ان اساتذہ کا نام آتا ہے جن سے انہوںنے تعلیم پائجی تھی آج کل کی یونیورسٹیاں یا کالج صرف بڑے بڑے شہروں مں قائم کیے جا سکتے ہیں لیکن اس وت کے ذی روح کالج ہر قصبہ ہر گائوں ہر جھونپڑے میں قائم ہو سکتے ہیں دلی اور لکھنو پائے تخت تھے لیکن علمی فیض رسانی میںسہالی ‘ دیوا‘ گوپامئو‘ بلگرام جیسے دیہات ان دارالحکومتوں سے بجا ہمسری کا دعویٰکر سکتے تھے ملا نظام الدین جن کے پرتو فیض سے آج تمام ہندوستان روشن ہے ملا محب اللہ بہاری جن کے سلم اور مسلم نے آدھا حصہ درس کا دبا لیا ہے قاضی مبارک جن کی تصنیف کا سمجھنا منتہائے استعداد سمجھا جاتا ہے یہ کمال انہی دیہات نے پیدا کیے تھے۔ اس قسم کے زندہ کالج اگرچہ ہندوستان کے ہر گوشہ میںموجود تھے لیکن نسبتاً اودھ کا صوبہ تمام اور صوبہ جات س یممتاز تھا اس صوبہ میں دس دس پانچ پانچ میل پر شرفا اور بخباء کے دیہات آباد تھے جن میں اچھے اچھے نامور فضلا درس دیتے تھے اور دور دور سے تحصیل علم کے لیے آتے تھے سلاطین وقت کی طرف ان درس گاہوں کے لیے دیہات معاف تھے مولوی غلام علی آزاد نے مآثر الکرام میں اس واقعہ کو تفصیل سے لکھا ہے ہم اس موقع پر اس کا اقتباس نقل کرتے ہیں۔ ’’اگرچہ جمیع صوبہ جات ہندو بوجودھا لملان علم تففادارند اما صوبہ اودھ والہ آباد خصوصیتے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (بقیہ حاشیہ صفحہ ۱۰۲) تصنیف سنہ ۱۲۶۰ھ اس موقع پر مجھ کو جناب مولوی عبدالباری کا شکریہ ادا کرنا بھی فرض ہے جنہوںنے یہ کتابیں مجھ کو دیکھنے کے لیے عنایت کیں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دارو کہ در ہیچ‘ صوبہ نتواں یافت چہ در تمام صوبہ اودھ والہ آباد بفاصلہ بنچ کردہ نہایت دہ کردہ آبادی شرفاء او نجاہست کہ از سلاطین و حکام و وظائف و زمین مدد معاش داشتہ اند و مساجد و مدارس و خانقاہات بنا نہادہ و مدرسان عصر در ہر جا ابواب علم برروئے دانش پڑ وہان کشادہ و طلبہ علم خیل می روندا وہر جاموافقت دست بہم داد ‘ بہ تحصیل مشغول می شوند و صاحب توفیقان ہر معمورہ طلبہ علم رانگاہ می دارند‘ و خدمت ابن جماء را سعادت عظمیٰ می دادند وصاحبقران ثانی شاہجہان انار اللہ برہانہ می گفت پورب شیراز مملکت ماست ۱؎۔‘‘ یہ نظام سنہ ۱۱۳۰ھ تک قائم رہا جب برہان الملک سعادت خان نیشاپوری اودھ کے صوبہ دار ہوئے تو تمام معافیاں ضبط کر لیں علماء و فضلاء کی اولاد کسب معاش کی ضرورت سے پڑھنا پڑھانا چھوڑ کر سپہ گری میںمصروف ہوئی مدرسے ویران ہو گئے اور علی صحبتیں درہم برہم ہو گئیں سنہ ۱۱۵۹ھ میں الہ آباد کا صوبہ بھی اس خاندان کے قبضہ میں آ گیا اور صفدر جنگ صوبہ دار مقرر ہوئے انہوں نے رہی سہی معافیاں بھی ضبط کر لیں‘ احمد شاہ کے زمانہ میں صفدر جنگ کو وزارت ملی ان کے نائب نے وظیفہ داروں کو اور بھی تنگ پکڑا ارواس طرح علمی بستیاںاجڑ گئیں ۲؎۔ غرض انہی زندہ کالجوں میں ایک سہالی بھی تھی جس نے آگے چل کر فرنگی محل کا قالب اختیار کیا یہ لکھنو سے ۳۲ میل پر ایک چھوٹا سا گائوں ہے جو کسی زمانہ میں بہت بڑا قصبہ تھا درس نظامیہ کا سنگ بنیاد اسی سرزمین پر رکھا گیا۔ درس نظامیہ ہندوستان کی علمی تاریخ اورعلمی زبان کا سب سے نمایاں لفظ ہے ہندوستان میں آج کلکتہ سے پشاور تک جس قدر تعلیمی سلسلے پھیلے ہوئے ہیں سب اسی درس کی شاخیںہیں کوئی عالم عالم نہیںمانا جاتا جب تک ثابت نہ ہوکہ اس نے اسی طریقہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱؎ کتاب مذکور تذکرہ ملا نظام الدین ۲؎ یہ پوری تفصیل مآثر الکرام میں ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ درس کے موافق تعلیم حاصل کی ہے جس طرح کھوٹا سکہ ٹکسال سے باہر کہلاتا ہے اسی طرح کسی کتاب کا درس نظامیہ سے کارج ہونا س ات کی شہادت ہے کہ وہ نصاب تعلیم میں داخل ہونے کی قابلیت کا دعویٰ نہیں کر سکتی درس نظامیہ اگرچہ خاص ہندوتسان کا کارنامہ فخر ہے لیکن نظام الملک نے بغدادمیں جو مدرسہ اعظم نظامیہ کے نام سے قائم کیا تھا اس کی عالمگیر شہرت نے اس قدر دست درازی کی کہ اس سلسلہ کو بھی اس کے فہرست اعمال میں داخل کرنا چاہا چنانچہ ہمارے زمانہ ک اکثر ناواقفوں کو دھوکا ہوگیا یہاں تک کہ ایک اردو تصنیف میں صراحتہ یہ دعویٰ کیا گیا۔ درس نظامیہ اگرچہ ملا نظام الدین صاحب کی طرف سے منسوب ہے لیکن درحقیقت اس کی تاریخ ایک پشت اوپر سے شروع ہوتی ہے ملا نظام الدین کے والد جن کا نام قطب الدینشہید تھا اور اس لیے اس علمی لوح کے طغراد ہی قرار پا سکتے ہیں تمام ہندوستان میںبلکہ انصاف یہ ہے کہ تمام دنیائے اسلام میں یہ بات صرف اسی مقدس ذات کو حاصل ہے کہ پورے دو سو برس تک متواتر اور بلا فضل ان کی نسل سے علماء ہوتے چلے آئے ہیں ارو آج بھی یہ سلسلہ قائم ہے۔ ہندوستان کی علمی تاریخ میںیہ بات بھی لحاظ کے قابل ہے کہ اس ملک میں تاریخ اور رجال کا مذاق کم تھا لیکن اس سلسلہ نے خاص کر اپنے خاندان کا حال اس استقصا کے ساتھ کیا تھا کہ اس کی نظیر نہیں مل سکتی چنانچہ ہم کو اس مضمون کے لکھنے میں تاریخی معلومات کی حیثیت سے کوئی دقت نہیں پیش آئی۔ اسلام جب عرب سے نکل کر دور دور ممالک میں پھیلا تو اکثر عرب کے خاندان ہجرت کر کے ان ممالک میں چلے آئے ان میں سے حضرت ابو ایوب انصاریؓ کی نسل سے ایک بزرگ ہرات میں آئے اور یہاں سکونت کی انکے خاندان سے ایک بزرگ علاء الدین ۱؎ انصاری ہندوستان آئے چنانچہ ان کا مزار قصبہ برنادہ میں ہے جو دلی اور متھرا کی راہ میں واقع ہے ان کی نسل سے شیخ نظام الدین سہالی میں آئے شیخ موصوف نے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱؎ یہ تین بھائی ساتھ آئے تھیے ایک ن ان میں سے پانی پت میں قیام کیا۔ چنانچہ پانی پت کے انصاری یہی کے خاندان سے ہیں۔ (رسالہ قطبیہ اس بناء پر مولانا حالی اور علمائے فرنگی محل ہم منسب ہیں)۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہاں مستقل سکونت اختیار کی اور درس و تدریس کا سلسلہ جاری کیا۔ شیخ نظام الدین کے پرپوتے شیخ حافظ نے علم و عمل میں زیادہ شہرت حاصل کی یہ شہنشاہ اکبر کا زمانہ تھا تیموری حکومت کی خصوصیت اس کے کارناموں کا طغرائے زریں ہے کہ تمام ملک میں چپہ چپہ پر واقع نویس موجود تھے جن کے متعلق یہ بھی تھی کہ ارباب کمال کے وجود سے بادشاہ کو اطلاع دیتے رہتے تھے ۔ چنانچہ خبر ہونے کے ساتھ ساتھ ان لوگوں کی جاگیریں مقررہو جاتی تھیں جن کی مال گزاری ان کے لیے معاف ہو جاتی تھی اس قسم کے بے شمار فرامین شاہی خود ہماری نظر سے گزرے ہیں غرض شیخ حافظ کی بھی جاگیر مقرر ہو گئی اور اسکے متعلق فرمان شاہی عطا ہوا یہ فرمان ا ب تک اس خاندان کے پا س موجود ہے اور اس میں جیسا کہ مولوی ولی اللہ صاحب نے اغصان اربعہ میں لکھا ہے کہ شیخ کی نسبت نہایت تعظیمی الفاظ مذکور ہیں شیخ موصوف کی درس گاہ میں طلبہ کی سکونت کا انتظام تھا جن کے مصارف کا تکفل خود شیخ کی طرف سے کیا جاتا تھا۔ ملا قطب الدین شہید انہی شیخ حافظ کی نسل سے چوتھی پشت میں تھے درس نظامیہ کی اصل بنیاد انہی سے شروع ہوتی ہے ملا صاحب کے والد لاہور کے مدسے میں مدرس تھے ملا صاحب نے اسی زمانے میں ان سے تعلیم پائی ان کے علاوہ قاضی گھانسی سے علوم حاصل کیے جو بہت بڑے صوفی اور حضرت محب اللہ الہ آبادی کے خلیفہ اور جانشین تھے اس زمانہ میں قصبہ دیوا لکھنو کے نواح میں ہے مولانا عبدالسلام کے درس کی وجہ سے علم و فضل کا مرکز تھا ملا صاحب نے وہاں بھی جا کر علم کی تحصیل کی‘ مولانا عبدالعلی بحر العلوم کے خلف اکبر مولوی عبدالعلی اپنے رسالہ قطبیہ میں لکھتے ہیں کہ ’’ان کی تصنیفات میں سے صرف شرح حکمتہ العین کا حاشیہ اور رسالہ امور عامہ کے مسودہ کے کچھ اجزا میرے والد کے کتب خانہ میںموجود ہیں تلویح کا حاشیہ بھی ملا نظام الدین کے زمانہ تک موجود تھا مگر اب مفقود ہے‘‘۔ ملا صاحب کا معمول یہ تھا کہ دن کو درس دیتے تھے شب کو عبادت میں مصروف رہتے تھے اور سہ شنبہ اور جمعہ کے دن تصنیف کرتے تھے ۔ ۱؎ ملا صاحب کا فضل و کمال کا شہرہ ہوا تو عالم گیر نے ان سے ملاقات کی خواہش کی لیکن ملا صاحب نے اپنے اسلاف کے طریقہ کے موافق گوشہ عزلت کا چھوڑنا گوارا نہ کیا ۔ ۲؎ ملا صاحب نے درس کا ایک خاص طریقہ اختیار کیا تھا جو خود ان کا قائم کردہ تھا وہ ہر فن کی طرف ایک جامع اور مستند کتاب پڑھاتے تھے کہ شاگرد کو تمام مسائل پر مجتہدا نہ عبور ہو جاتا تھا رسالہ قطبیہ میں ہے۔ مولانا نے شہید (ملا قطب الدین) ازہر فن یک یک کتاب فی خوانید ندشاگردان محقق فی شدند۔ ملا نظام الدین اور مولنا بحر العلوم نے ا پر اضافہ کیا چنانچہ آگے تفصیل آتی ہے: ملا صاحب کے حلقہ درس نے نہایت وسعت حاصل کی اور سلسلہ تلامذہ میں ایسے علماء پیدا کیے جن کے الگ الگ حلقہ درس ہو گئے اور تمام ہندوستان پر چھا گئے‘ ان میں سے چار شخص نہایت نامور ہیں ملا نظا م الدین جن کے نام سے درس نظامیہ مشہور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱؎ رسالہ قطبیہ از مولٰنا عبدالا علی درحال ملا قطب الدین شہید ۲؎ گلزار انصار ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہے ملا محب اللہ بہاری جو بیک واسطہ ملا صاحب کے شاگرد ہیں اور جن کی تصنیف ملم اور مسلم اس قدر مقبول ہوئی کہ آج علما ء کا سرمایہ کمال یہی کتابیں اور ان کی شرحیں ہیں مولوی امان اللہ بنارسی جو ملا نظام الدین کے استاد ہیں جن کی اصول فقہ میں ایک معرکہ آراء تصنیف ہے قطب الدین شمس آبادی جو محب اللہ بہاری کے استاد تھے۔ ملا صاحب کی شہادت ملا قطب الدین کی شہادت اگرچہ ایک اہم واقعہ ہے لیکن سخت تعجب ہے کہ رسالہ قطبیہ اغصان اربعہ اور سجتہ المرجان ان سب کتابوں میں اس واقعہ کو نایت اجمال سے لکھا ہے۔ اس لیے ہم عمدۃ الوسائل اور گلزار انصار سے ان کی تفصیل لکھتے ہیں اگرچہ پچھلی کتاب ایک معمولی درجہ کی تصنیف ہے۔ قصبہ سہالی کے آ س پاس خانزادے رہتے ہیں ان سے چوہدری محمد آصف سے جو سہالی کے زمیندار اور ملا صاحب کے ابن العم تھے ہمیشہ سرحدی جھگڑے رہتے تھے ملا صاحب کی شادی چوھدری محمد آصف کی لڑکی سے ہوئی تھی اس تعلق سے خانزادوں کو ملا صاحب سے بھی عداوت ہو گئی تاہم چونکہ ملا صحب کی عزت دربار شاہی میں تھی یہ لوگ کچھ جرات نہیںکر سکتے ھتے سو اتفاق سے کہ خود سہالی میں عثمانی خاندان کے جو شیخ زادے تھے ان سے اور چودھری محمد آصف سے موضع بلران کی آبپاشی کے متعلق نزاع ہوئی اہل شہر ان جزئیات کی وقعت نہیں کر سکتے ‘ لیکن ہم دیہات والے ان مہمات کو ایران و توران کے معرکوں سے کم نہیںسمجھتے غرض دونوں طرف سے بڑے زور کی تیاریاں ہوئیں غرض ملا صاحب نے جا کر بیچ بچائو کیا اور دونوں طرف کی فوجیں واپس بلا لی گئیں۔ موقع پا کر خانزادے کئی سو آدمی کے ساتھ سہالی میں آئے اور عثمانیوں کو جا کر بھڑکایا کہ ہم ساتھ ہیں آپ حملہ کیجیے سب مل کر چوہدری آصف کے گھر پر چڑھ آئے چودھری صاحب ملا صاحب کے مکان پر تقریب ولادت کی مبارک باد دینے گئے تھے ۱؎ ۔ ظالموں نے جا کر ملا صاحب کے گھر کامحاصرہ کر لیا دیواروں میں نقب لگا کر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱؎؎ یہ تفصیل گلزار انصار سے ماخوذ ہے محضر نامہ میں نہیں ہے اعضان الانساب اور رسالہ قطبیہ میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ گھس گئے ایک نازک اور کمزور جسم کے لیے ہکا سا ایک وار کافی تھا لیکن ظالموں نے تمام آلات جنگ استعمال کیے پھر بندوق اور آخر تلواروں کے سات واروں نے مل کر اس پیکر روحانی کو برباد کر نا چاہا‘ اور اپنے اعتقاد کے مطابق کامیاب بھی ہوئے لیکن کشتگان خنجر تسلیم را ہر زمان از غیب جانے دیگر است اس واقعہ کی تاریخ روز دو شنبہ رجب سنہ ۱۱۰۳ھ ہے۔ ملا صاحب کے ساتھ چند طلبہ نے بھی جو مشغول در س تھے۔ وفات پائی ظالموںنے خونریزی سے فارغ ہو کر گھر کا مال و اسباب لوٹا اور ملا صاحب کا ذخیرہ علمی ‘ جس میں سات سو کتابیں تھیں جلا کر برباد کر دیا ملا صاحب کی لاش‘ اور چودھری آصف کا سر ساتھ لے گئے تین چار دن بعد ملا صاحب کے دونوں ہاتھ کاٹ کر رکھ لیے اور لاش سہالی بھیج دی چنانچہ ۲۷ رجب کو نما ز جنازہ پڑھ کر تجہیز و تکفین کی۔ اس واقعہ میں ملا صاحبزادوں سے تین صاحب موجود تھے۔ ملا سعید‘ ملا نظام الدین‘ ملار ضا ملا سعید زخمی ہوئے اور ملام نظام الدین کو اشقیاء پکڑ کر پینتے پور لے گئے لیکن فتح پور اور دیوا کے شرفاء نے جا کر نہایت لجاجت اور الحاحسے ان کی رہائی کرائی صاحبزادوں نے ایک محضر لکھا جس میں تمام واقعات کی تفصیل لکھی یہ محضر اب تک موجود ہے اور اس پر تمام مشہور علماء اور روساء اور عمال شاہی کے تصدیقی دستخط ثبت ہیں چونکہ اس محضر میں تمام واقعات اور قاتلوں کے نام تفصیل سے درج ہیں اس لیے ہم اس کو بعینہ نقل کرتے ہیں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہے کہ مخالفین نے پہلے چودھری آصف پر حملہ کیا اور ملا صاحب کے پاس اعانت و مشورت کے لیے آئے مخالفوں نے تعاقب کیا ‘ اور ان کے ساتھ ملا صاحب کو بھی شہید کر دیا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم بحکم آیہ کریمہ لا تکتموا الشھادۃ ومن یکتمھا فانہ اثم قلبہ سوال می کنم و گواہی می خواہم با جماعتہ ستم رسید گان محمد سعید و نظام الدین‘ و محمد رضا پسران مولوی قطب الدین ساکن قصبہ سہالی سرکار لکھنو صوبہ اودھ از قضاۃ اسلام و مشائخ کرام و جمہور امما برآیں معنی کہ براصاغر و اکابراین دیا ر روشن ہو یدا ست کہ مولوی مذکور موصوف بکمالات انسانیہ و فضائل علمیہ و عملیہ و حافظ قرآن مجید بودند وغیر اشغال تدریس و تکرار باطلبہ علوم دینیہ و عبادت و طاعت کارے نداشتند و دراوقات فراغ ازدرس و عبادت بہ تصنیف در علم تفسیر و حدیث و فقہ و اصول می پرواختند بتاریخ رجب المرجب ۱۱۰۳ھ مطابق روز دو شنبہ بر عادت قدیمہ از نماز فجر و وظائف فراغ اندوختہ در مدرسہ آمدہ‘ بدرس جمیع از فضلائے حاضر الخدمت مشغول شد مد چوں دو گھڑی روز بر آمد اسد اللہ و باقر و پیر محمد سکنہ روضہ عملہ پر گنہ سہالی‘ و نوروو غلام محی الدین بساون و سہاون‘ ساکنان قصبہ سہالی و فقیر اللہ متوطن قصبہ دیوا‘ و انور ساکن استی معمولہ پر گن بجنور وغیرہ زمینداران گردو پیش خان مولوی رامحاصرہ نمو د ندوازہر چہار طرف دیوار نقہا زدہ اندرون درآمدند و مولوی ایک زخم تیرویک زخم تفنگ و ہفت ضرب شمشیر برورسانیدہ شہید ساختند و شیخ غلام محمد نبیرہ زبدۃ الاولا د بندگی شیخ نظام الدین ساکن امیٹھی و دیگر شیخ شرف اللہ ساکن سندیلہ کہ بخواندن فاتحتہ الفراغ در خدمت بودند‘ نیز از دست ظلمہ مذکور ین شہید شد ند‘ و محمد آصف چودھری پر گنہ سالی کہ برائے مدد مولوی رسیدہ باہمرا ہیان خود شہید شدند بندہ محمد سعید و جمعے از طلبہ و شیخ فضل اللہ برادر نائب قاضی عبداللہ قاضی برگنہ سہالی وغیرہ زخمہ شد پس از آنکہ جملہ مذکورین از قتل و نکاح فارغ شد ند یہ نہتب اموال و امتعہ کہ در ھویلی بود پرداختند چنانچہ اثرے ازان نگذاشتند و کتب مولوی وغیرہ از مردم کہ قریب نہصد حامجتمع بود اکثرے ازاں آفش و ادہ سوختند اوران میاں مصحف مجید چہار جلد و مشکوۃ وگیرہ از کتب حدیث و مصنفات مولوی حاشیہ ملویح شرح عقائد نسضیہ و تعریفات بزدوی و حاشیہ مطول وغیرہ کتب کثیر الحجم مشتمل بر فوائد جمیلہ بود ندہمہ سوختہ شد و ہمہ رابردند بامستران مولوی برادران بانواع ہتک حرمت پیش آمدند ازاں برخانہ شیخ حسام الدین برادر عمزاد حقیق مولوی وغیرہ برادران و مردم غربا سکنہ قصبہ سہالی بریختند مال و متاع ہرچہ بود بغارت بروند چون وقت دوپہر از کارہائے مسطور فارغ شدند و مراجعت مسکن خود کہ موضع پنیھتے پور معمولہ پرگنہ فتح پور دیواوغیرہ باشند نمودند بندہ نظام الدین پسر خورد مولوی را اسیر کردہ ہمراہ گرفتند و نعش مولوی و سر محمد آصف چودھری نیز باخود ہا موضع مذکور بردند ببعد از سہ چہار روز از الحاج و عمر بعضے شرفاء فتح پور و دیوا بندہ نظام الدین راخلاص نمودند و سر محمد آصف دادند و نعش مولوی را جابجا مدفونفی کردند و می برآوردند آخر بعد نہ روز ہر دودست بریدہ گرفتند و نعش بہ قصہ بہالی فرستادند ‘ چنانچہ جمع از مسلمین نماز جنازہ خواندہ بتاریخ بست و ہفتم شہر مذکور در قصبہ سہالی مدفون ساختند۔ تذکروں میں دشمنوں کی مخالفت کی کوئی خاص وجہ ملا صاحب سے نہیں ہے ارو صرف آصف چودھری کی پناہ گزینی ایسی بے رحمی اور سفاکی کا سبب نہیں ہو سکتی۔ عمدۃ الوسائل میں لکھاہے کہ مخالفین اپنی زمینداری میں نہایت ظلم کرتے تھے اورچونکہ عالمگیر ملا قطب الدین سے بہت راہ و رسم رکھتا تھا اور امرائے دربار کو ن کی خدمت میں بھیجتا رہتا تھا اس لیے انہو ں نے سمجھا کہ ہمارے مظالم بادشاہ تک پہنچ جائیں گے ۔ ملا سعید یہ محضر لے کر عالم گیر کے پاس گیا عالمگیر نے عمال کے نام فرمان بھیجا کہ قاتلوں سے قصاص لیا جائے اور ان کا خان و مان برباد کر دیا جائے ۱؎ چنانچہ صوبہ دار لکھنو نے سرکاری سپاہ بھیج کر ان کا گھر غارت کر دیا‘ مخالفین بھاگ کر جلا وطن ہو گئے اور بالآخر خاندان والوں نے جعلی فوقی نامہ بنا کر عالمگیر کے دربار میں پیش کیا کہ قاتل مر گئے ‘ قاتل اسد اللہ تھا جو موضع پنیتی پور کا رہنے والا تھا وہ گوروپش وہ کر بچ لیکن مدت تک زندہ رہا ملا نظام الدین (پسر ملا قطب الدین شہید) کی خدمت میں حاضر ہوا کرتاتھا اس نے ملا صاحب کی خدمت میں خون بہا بھی پیش کیا لیکن انہوں نے قبول کرنے سے انکار کر دیا بلکہ اپنا حصہ معاف کر دیا تاہم خون کا یہ اثر تھا کہ جب وہ ملا صاحب کی خدمت میں حاضر ہوتا تھا تو آپ اس کی طرف سے منہ پھیر لیتے تھے۔ ۲؎ مولوی ولی اللہ صاحب عمدۃ الوسائل میں لکھتے ہیں کہ میںنے سنہ ۱۲۰۹ھ میں پنیتی پور جا کر دیکھا تو ویران اور تباہ تھا اور گائوں والے کہتے تھے کہ یہ اسی خون ناحق کی سزا ہے۔ عالمگیر نے ملا قطب الدین کے صاحبزادوں کے رہنے کے لیے فرمان کے ذریعہ سے لکھنو میں دو مکان عنایت کیے یہ فرمان اب ت اس خاندان میں موجود ہے اور ہم اس کے جستہ جستہ حصے نقل کرتے ہیں۔ ’’درین وقت میمنت اقتران والا شان واجب الاذغان صادر شد کہ یک منزل حویلی فرنگی محل با متعلقہ آن واقع بلند لکھنو مصٓف بہ اودھ کہ از امکتہ نزولی است برائے بودن شیخ محمد اسعد ومحمد سعید پسران ملا قطب الدین شہید حسب الضمن مقرر فرمودیم ‘ باید کہ حکام و عمال و متصد بان مہمات حاول و استقبال و جاگیر داران و کرور یان آن رانبام مثازا معاف و مرفوع القلم دانستہ بوجہ من الوجوہ مزاحم و معترض نہ شوند ‘ واندریں باب سند مجدد نہ طلبند مرقوم عزہ ذی قعدہ سال سی ہفتم جلو والا نوشتہ شد‘‘۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱؎ اغصان اربعہ مطبوعہ مطبع کارنامہ لکھنو ۲؎ رسالہ قطبیہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فرمان کے پشت پر جو عبارت درج ہے اس کا پہال فقرہ یہ ہے ۔ ’’شرح یادداشت واقع بتاریخ روز پنجشنبہ ۱۴ شعبان المعظم ۳۷ جلوس والا موافق سنہ ۱۱۰۵ھ مطابق مرد و ماہ برسالہ صدارت و مشیخت پناہ ‘ فضیلت و کمالات دستگاہ سزاوار مرحمت و احسان صدر منیع القدر فاضل خان و نوبت واقعہ نویسی کمترین بندگان درگاہ خلائق پناہ حسام الدین حسین قلمی می فردو کہ بعرض مقد و معلی رسید کہ شیخ محمد ساسعد و محمد سعید پسران ملا قطب الدین شہید ساکن قصبہ سہالی بسبب شہادت پدر خود قصبہ مذکور را گذاشتہ جلا وطن گردیندن وکدام مکان ہا سکونت ندارند‘‘ الخ ملا صاحب کی شہادت سنہ ۱۱۰۳ھ میں ہوئی اور فرمان کی تاریخ تحریر شعبان سنہ ۱۱۰۵ھ ہے چونکہ عالمگیر اس زمانہ میں دکن میں تھا اس لیے ملا صاحب سعید کو وہاں پہنچتے ہی حکم صادر ہوتے ہوئے دو برس کا زمانہ گزراغرض فرمان کے بعد سارا خاندان لکھنو میں آ گیا اور فرنگی محل دار العلم و عمل بن گیا۔ اس محلہ کی وجہ تسمیہ یہ مشہور ہے کہ فرانس کا ایک سوداگر اسمحلہ میں تجارت کے تعلق سے رہا تھا وہ وطن چلا گیا تو ا سکے مکانات سرکاری قبضہ میں آ گئے اور وہی اسلامی علوم کی یونیورسٹی بن گئی۔ یہ بین کرامت بتخانہ مرا اے شیخ کہ چون خراب شود خانہ خدا گردد ملا صاحب کے چار صاحبزادے تھے ملا اسعد‘ ملا سعید‘ ملا نظام الدین‘ ملا رضا ملا اسعد سب میں بڑے تھے اور بہت بڑے عالم تھے‘ حاشیہ قدیمہ پر حاشیہ لکھاتھا۔ ملا جیون سے مناظرہ میں فتح حاصل کی۔ مزاج امیرانہ تھا اس لیے دربر میں توسل پیدا کیا اور ہمیشہ عالمگیر کے ہمرکاب رہتے تھے شاہ علم کے زمانہ میں وفات پائی ۱؎ ملال حسن جو مشہورعالم گزرے ہیں انہی کے پوتے تھے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱؎ رسالہ قطبیہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دوسرے صاحبزادے ملا سعید باپ کے ساتھ زخمی ہوئے تھے اچھے ہو کر دکن گئے اور فرنگی محل کی معافی کا فرمان لائے عنفوان شباب میں وفات کی ملا احمد عبدالحق جو مشہور صوفی بزرگ گزرے ہیں انہی کے صاحبزدادے ہیں مولوی مبین شارح مسلم انہی کے فرزند تھے۔ تیسرے صاحب زادے ملا نظام الدین تھے ان کا حال تفصیل سے آتا ہے۔ چوتھے صاحب زادے ملا محمد رضا ملا نظام الدین سے سات برس چھوٹے تھے ۔ یہ بھی بڑے عالم تھے مسل پر شرح لکھی لیکن اخیر میں درس و تدریس کا سلسلہ چھوڑ کر شاہ عبدالرزاق تونسوی کے ہاتھ پر مرید ہوئے وار تارک الدنیا ہو گئے۔ ملا نظام الدین کی عمر باپ کی شہادت کے وقت ۱۴ برس کی تھی اور شرح ملا جامی تک پڑھ چکے تھے لکھنو میں آ کر طالب علمی میں مشغول ہوئے ابتدائی کتابیں دیوا میں جاکر پڑھیںجو ااج حاجی وارث علی صاحب مرحوم کے انتساب سے مشہور ہے۔ اور اس زمانہ میں مولانا عبدالسلام کا درس گاہ تھا پھر اکثر کتابیں جائس میں جا کر ملا علی قلی سے پڑھیں امور عامہ مولانا امان اللہ بنارسی سے پرھا] قوشجیہ کی تحصیل ملا نقشبند گورکھپور سے کی ۱؎ مولوی غلام علی آزاد سجتہ المرجان میں لکھتے ہیں کہ آخری کتابین ملا غلام علی نقشبند سے لکھنو میں پڑھیں زمانہ کا انقلاب دیکھو آ ج جائس اور دیوا معمولی دیہات ہیں ایک زمانہ تھا کہ وہ ملا نظام الدین کے قبلہ مقصد تھے غرض ملا صاحب نے ۲۴ برس کی عمر میں تمام علوم و فنون سے فراغت حاصل کر لی۔ سلسلہ قطبیہ میں یوں تو سینکڑوں علماء پیدا ہوء ے لیکن ملا نظام الدین کے نام کو خدانے وہ عزت دی جو آج سب کا نام انہی کے انام سے روشن ہے اور ہندوستان کا تمام سلسلہ دس انہی کے نام سے منسوب ہے مولوی غلام علی آزاد مآثر الکرام میں لکھتے ہیں کہ امروز علمائے اکثر قطر ہندوستان نسبت تلمزبہ مولوی دارند و کلاہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱؎ یہ تفصیل اغصان الاعتاب میں ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ گوشہ تفاخر خرمی شکنند و کسیکہ سلسلہ تلمذبہ اور ساند بین الفضلا علم امتیازی افرازو‘‘ وہ علم و فضل کے ساتھ زہد و قناعت سے صبر و رضا] تقدس اور ایثار نفس کے وجود مجسم تھے۔ ان کی تصنیفات بھی کثت سے ہیں لیکن یہ بھی ان کا ایثار نفس ہے کہ سلسلہ درس میں اپنی ایک تصنیف بھی نہیں رکھی بلکہ اپنے استاد‘ بھائی ملا محب اللہ بہاری کی کتابیں سلم و مسلم درس میں داخل کیں جس کی بدولت آج ان کتابوں کا نام آفتاب و ماہتاب کی طرح روشن ہے۔ ملا صاحب نے چالیس برس کی عمر میں شاہ عبدالرزاق بانسویؒ کے ہاتھ پر بیعت کی۔ اور پھر تصوف کا رنگ ان پر غالب آ گیا ملا صحب کا بالا خانہ جس پر بیٹھ کر درس دیا کرتے تھے آج بھی موجود ہے میں نے سنہ ۱۸۹۹ء میں اس کی زیارت کی تھی ۹ جمادی الاول سنہ ۱۱۶۸ھ میں سنگ مثانہ کی بیماری میں وفات پائی۔ عبدالباسط ایٹھوی نے تاریخ لکھی۔ نظام الدین محمد و اصل حق چو از روئے زمین سوئے فلک شد وصال سال تاریخش فلک گفت ملک بود و بیک حرکت ۱؎ ملک شد تصنیفات حسب ذیل ہیں: شرح منار‘ حاشیہ شمس بازغہ‘ حاشیہ‘ حاشیہ قدیمہ‘ شرح عقائد جلالہ‘ شرح مسلم ‘ شرح تحریرالاصول‘ حاشیہ صدرا ملا صاحب نے نہایت زہد و قناعت کی زندگی بسر کی کبھی کبھی تین تین دن کا فاقہ گزرجاتا تھا اکثر چنے چاب کر رہ جاتیتھے کبھی اہل دنیا کی طرف توجہ نہ کی۔ مناظرہ اور مجادلہ جو علماء کا عام طریقہ ہے اس سے پرہیز کرتے تھے ان کے طلبہ میں اگر کسی کو بحث میں الزام دیتا تھا تو اس سے ناراض ہوتے تھے چونکہ میں نے ملا صاحب کا حال ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱؎ رباعی عمدۃ الوسائل میں نقل کی ہے اور شارع کا نام اغصان الانساب میں لکھا ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ معارف میں تفصیل سے لکھا ہے کہ اسلیے یہاں قلم انداز کرتا ہوں۔ مولانا عبدالعلی بحر العلوم ملاصاحب ی پہلی شاد ی سے کوئی اولا د نہ تھی لوگ کہتے تھے کہ دوسری شادی کر لیں فرماتے تھے کہ میں بکھیرے میں نہیں پڑنا چاہتا۔ ہاں کسی بزرگ کا ارشاد ہو گاتو مجبوری ہے ۔ امیر اسماعیل بلگرامی سے ملا صاحب نے فیض باطنی حاصل کیا تھا۔ انہوں نے کہلا بھیجا کہ مجھ کو الہام سے معلوم ہوا ہے ہ دوسری شادی سے تمہار اولاد ہو گی غرض اخیر سن میں قصبہ سترکھ میں شادی کی جس سے وہ گوہر شاہوار پیدا ہوا جو آج بحر العلوم کے نام سے مشہور ہیں۔ بحر العلوم نے جن کا اصل نام عبدالعلی ہے کتابیںملا صاحب سے ہی پڑھیں اس وقت ان یکا سن ۱۷ سل کا تھا۔ اسی زمانہ میں ملا صاحب نے ان کی شادی کا کوری میں کر دی ملا صاحب کی وفات کے بعد بحر العلوم نے ملا کمال سے استفادہ کیا جو ملا نظام الدین کے شاگردوں میں سب سے ممتاز تھے۔ آغاز شباب تھا کہ ایک ناگوار واقع پیش آیا جس کی وجہ سے ان کو وطن چھوڑنا پڑا تفصیل اس جمال کی یہ ہے کہ سید نور الحسن خان صاحب بلگرامی ایک بزرگ شیعی مذہب تھے وہ اس زمانہ میں بیمار تھے اور مولوی محب اللہ صاحب کے مکان پر جو مولوی مبین شارح سلم کے والد تھے مقیم تھے محمرم کا زمانہ آیا تو بیماری کی وجہ سے خود تعذیہ کی زیارت کو نہ جا سکے اور کہلا بھیجا کہ تعزی کو اس طرف سے لے جائیں تاکہ میں یہیں سے زیارت کر لوں مولانا بحر العلوم کا مدرسہ سر راہ تھا اور اتفاق سے کہ اسی وقت مولنا محرم ک شربت پر فاتحہ پڑھ رہے تھے کہ ان کو معلوم نہ تھا کہ بلگرامی صاحب ے حسب طلب تعزیہ آتا ہے چونک فاتحہ میں مصروف تھے زبان سے نہ بولے ہاتھ کے اشارہ سے کیا کہ ادھر سے راستہ نہیں طلبہ موجود تھے سمجھے کہ تعزیہ توڑنے کا حکم ہے اتھ کر تعزیہ توڑ پھوڑ ڈالا۔ ی نوابان اودھ کا زمانہ اور شیعیت کا زور تھا۔ غل پڑ گیا کہ مولٰنا نے بغاو ت کی قاضی غلام مصطفی جوشیعی مذہب تھے بلوہ عام کر کے مولانا کے گھر پر چڑھ آئے ولانا نے بھی سینکڑوں آدمی جمع کر لیے اورمقابلہ کی تیاری کی کہ یہ سامان دیکھ کر قاجی صاحب نے صلح کی درخواست کی اور معاملہ رفع دفع ہو تگیا مگر یہ محض رفع الوقتی تھا قاضی صاحب چاہتے تھے کہ بے خبری میں مولانا کو قتل کرا دیں مولانا نے اہل خاندان سے مشورت کی حکومت کا مقابلہ کون کر سکتا تھا لوگوں نے کہا مصلحت یہ ہے کہ آپ کچھ دنوں کے لیے ٹل جائیں لیکن مولانانے کہا کہ ملا نظام الدین صاحب کی نشست گاہ سے نکلنا ٹھیک نہیں آپ یہی رہیں ہم لوگ سینہ سپر ہوں گے لیکن خاندان کے لوگ خود مولانا کو عروج نہیں دیکھ سکتے تھے اور چاہتے تھے کہ ی پتھر سینہ سے ٹل جائے۔ ان لوگوں ے کہا آپ اپنے ساتھ ہم کو برباد نہ کرائیے مولانا کے رفقا اب بھی راضی نہ تھے لیکن مولانا چھپ کر گھر سے نکلے اور شاہجہان پور چلے آئے یہاں حافظ رحمت خان کی حکومت تھی اس نے بڑی تعظیم کی مولانا نے ۲۰ سال تک یہاں قیام کیا ۱؎۔ حافظ رحمت خان نے مولانا کے مصارف کے لیے معقول رقم مقرر کر دی اور ان کے طلبا کے لیے وظائف مقر ر کرا دیے نواب عبداللہ خاں رئیس شاہجہان پور نے قلعہ میں لے جا کر اپنے مکان میں اتار ا دور دور سے طلبہ مولانا کا نام سن کرآنے لگے اور بہت بڑی درس گاہ قائم ہو گئی بہت سے لوگ فارغ التحصیل ہو کر نکلے یہاں مولانا نے بہت سی کتابیں تصنیف کیں حافظ رحمت خان نے جب شہادت پائی تو یہ اطراف نواب شجاع الدولہ کی حکومت مں آ گئے تو مولانا نے یہاں سے نکلنے کا ارادہ کیا اس زمانہ میں رامپور کی ریاست پر نواب فیض اللہ خان حکمران تھے وہ خود آ کر مولانا کو ساتھ لے گئے چند روز تک مولانا نے یہاں قیام کیا لیکن نواب موصوف مولانا کے گروہ طلبہ کی کفالت نہ کر سکے۔ اور مولانا نے یہاں سے بھی نکلنے کا ارادہ کیا اس زمانہ میں منشی صدر الدین خان نے لوہار میں جو کلکتہ کے نواح میں ہے ایک مدرسہ قائم کیا تھا مولانا کے پاس بھیج کر تشریف لانے کی درخواست کی ‘ مولانا سو شاگردوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱؎ یہ پوری تفصیل رسالہ قطبیہ میں ہے اور چونکہ یہ خود مولانا کے خلف اکبر کی تحریر ہے اس لیے اس سے زیاد ہ اعتماد اور کوئی شہادت نہیں ہو سکتی۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کے ساتھ بوہا ر کو روانہ ہوئے قریب پہنچے تو منشی صدرالدین خان خود استقبال کے لیے آئے چار سو تنخواہ مقرر کی اور مولانا کے تمام شاگردوں کے وظائف مقرر کر دیے۔ یہ واقعات اغصان اربعہ سے منقول ہے لیکن رسالہ قطبیہ میں ہے کہ مولانا کو رام پور میں کچھ شکایت کی وجہ نہیں ہو ئی تھی لیکن منشی صدر الدین خان کے سخت اصرار کی وجہ سے مجبور ہو گئے قطبیہ میں یہ بھی لکھا ہے کہ منشی صدر الدین خان نے افسر ان انگریزی کی سفارشیں بھی نواب فیض اللہ خان کے پاس بھجوائیں۔ کہ وہ مولانا کو ادھر روانہ کر دیں۔ بہرحال مولانا نے بوہار میں کچھ زیادہ زمانہ تک قیام کیا یہ وہ زمانہ ہے کہ مدارس میں نواب والا جاہ محمد علی خان وائی آرکاٹ کی حکومت تھی‘ وہ خاص قصبہ گوپائیو کے رہنے والے تھے اس تعلق سے مولانا کے ہم وطن تھے مولانا بعض اسباب کی وجہ سے بوہا ر سے دل برداشتہ ہو گئے تھے یہ خبر نواب کو پہنچی تو درخواست بھیجی مولانا بوہار سے روانہ ہوے مدراس کے قریب پہنچے تو نواب اعزہ خاندان اور امرائے دربار کو ایک منزل آگے استقبال کے لیے بھیج دیا شہر میں داخل ہوئے تو سب امراء جلو میں ساتھ ساتھ تھے ڈیوڑھی کے قریب بالکی پہنچی تو نواب مع تمام مقربین کے پیادہ پا نکلا مولانا نے پالکی سے اترنا چاہا نواب نے بڑھ کر پالکی میں کاندھا دیا اور اسی طرح مکان کے صحن تک لایا دربار میں جہاں خود اس کی نشست تھی مولانا کو اس جگہ بٹھایا اور مولانا کے قدمے چومے اور کہا اللہ اکبر یہ نصیب کہاں تھے کہ حضور کا قدم میرے گھر میں آتا۔ ۱؎ اغصان الانساب میں لکھا ہے کہ مولانا بوہا ر سے اٹھ کر پہلے کلکتہ میں آئے یہاں نظام حیدر آباد اور سلطان حیدر (ٹیپوسلطان کا باپ ) کی متعدد عرضیان آئیں کہ یہاں قدم رنجہ فرمائیے لیکن چونکہ ہم وطنی کا واسطہ تھا اس لیے مولانا نے مدراس کو ترجیح دی۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱؎ یہ پوری تفصیل اغصان اربعہ میں ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نواب محمد علی خان نے مولانا کو ایک نہایت عمدہ محل رہنے کو دیا اور روزانہ اپنے باورچی خانے سے کھانا بھجواتا تھا جب کبھی مولانا اس کو ملنے جاتے تھے تو اسی پہلے دستور کے موافق استقبال اور تعظیم کرتا تھا چند وز کے بعد ایک بڑ امدرسہ تعمیر کرایا مولاناکی بیش قرار تنخواہ مقرر کی طلبہ کے وظیفے مقرر کیے مولانا اب اسی مدرسہ میں طلبہ کے ساتھ رہنے لگے۔ نواب محمد علی خان کے مرنے کے بعد ان کے بیٹے عمدۃ الامراء مسند نشین ہوئے خاندان میں مسند نزینی کے متعلق نزاع کا احتمال تھا لیکن مولانا نے جب ان کو لے جا کر مسند پر بٹھایا تو سب نے گردن اطاعت خم کر دی عمدۃ الامراء نے با پ سے بھی زیادہ عزت و حرمت کی‘ مولانا کے علاوہ ان کے خاندان کے لیے الگ ماہوار مقرر کیں عمدۃ الامراء کے مرنے کے بعد لوگوں نے ان کے بیٹے کو مسند نشین کیا لیکن چونکہ مولانا اس کے عقائد اور مذہب کی طرف سے مطمئن نہ تھے اس لیے خود اس رسم میں شریک نہ ہوئے چونکہ اس نے اہل خاندان کے ساتھ اچھا نبھائو نہیں کیا لوگوں نے شکایت کی بالآخر چھ مہینے کے بعد انگریزوں نے اس کو معزول کر دیا اور عظیم الدولہ کو جو نواب محمد علی خان کے بڑے بیٹے تھے مسند نشین کیا ۔ عظیم الدولہ مولانا کے شاگرد خاص تھے عظیم الدولہ کی نوابی برائے نام تھی کیونکہ گورنمنٹ انگریزی نے ملک اس کے قبضہ سے نکال کر روزینہ مقرر کر دیا تھا لیکن عظیم الدولہ نے مولانا کی ماہوار جاری رکھی۔ اب مولانا کی عمر ۸۳ سال کی ہو چکی تھی اور ضعب غالب آتا جا رہا تھا یہاں تک کہ ۸ رجب سنہ ۱۲۳۵ھ میں مرض الموت میں گرفتار ہوئے چار دن تک یہ حالت رہی کہ کبھی کبھی ہوش آ جاتا تھا پھر غشی طاری ہو جاتی تھی ہوش کی حالت میں چند بار فرمایا کہ نفی و اثبات کی حقیقت اب معلوم ہوئی خداکے سوا کوئی چیز موجود نہیں ۱۲ رجب کو انتقال کیا ۱؎۔ مولانا نے اخلاق و عادات کی سب سے نمایاں صفت فیاضی اور دریا دلی تھی ہمیشہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱؎ اغصان اربعہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نہایت فارغ البال تھے لیکن جو کچھ آتا تھا احباب اور فقرا کو تقسیم کر دیتے تھے اس وجہ سے اہل و عیال نہایت تنگی سے بسر کرتے تھے لیکن سے باربار اپنی عسرت اور تنگ حالی کی شکایت کرتے تھے لیکن مولانا کچھ خیال نہیں کرتے تھے کبھی کبھی نواب کو خبر ہو جاتی تھی تو وہ راہ راست بھیج دیتاتھا۔ مزاج میں اپنے والد کے خلاف ادعاء اور تمکنت تھی کسی سے دبتے نہ تھے مناظرہ کے بہت شائق تھے ان سے زیادہ سن و سال کے جو علماء تھے ان سے مباحثہ کرتے تھے لکھنو میں جب شیعوںنے ان کے مقابلہ پر بلوہ کرنا چاہا تو ایک گروہ کثیر تعدادکے ساتھ لے کر مقابل ہوئے اور آخر حریف کو ہٹ جانا پڑا تصنیفات میں بھی انداز طبیعت کی جھلک نظرآتی ہے۔ مولاناکے تین صاحبزادے تھے ان کے حالات تفصیل سے لکھے جا سکتے ہیں لیکن یہ ایک کتاب بن جائے گی۔ سلسلہ نظامیہ کی علمی حالت پر ایک عام اجمالی نظر اس خاندان نے علم و فن کی ترقی دینے کے جو جو کام کیے ان کی تفصیل کے لیے ایک دفتر درکار ہے میں مختصراً بعض اہم باتیںلکھتا ہوں۔ ۱۔ سب سے پہلے یہ کہ اتفاق سے یہ خاندان کثیر الافراد تھا۔ ملا قطب الدین شہید کے چار صاحب زادے تھے ان سب سے خاندان پھیلے اور ہر طبقہ میں کثرت اولاد رہی مولوی عبدالباری صاحب نے ایک رسالہ آثار الاول کے نام لکھا ہے جو شائع ہو چکا ہے وہ گویا اس خاندان کی انسائیکلو پیڈیا ہے اس میں سینکڑوں بزرگوں کے نام اور مختصر حالات لکھے ہیں ان بزرگوں میں اکثر صاحب علم اور صاحب تصنیفات تھے یہاں تک کہ ان سب تصنیفات کی جمع کی جائیں تو ایک کتب خانہ بن جائے گا میرے زمانہ تک جو مشاہیر زندہ تھے ان کے یہ نام ہیں۔ مولانامفتی محمد یوسف‘ مولانا نعمت اللہ‘ ریاضی دان‘ مولانا عبدالحکیم‘ مولٰنا محمد نعیم‘ مولانا عبدالحئی‘ مولوی فضل اللہ۔ ان بزرگوں کے تلامذہ سینکڑوں اور ہزاروں سے متجاوز تھے جن میں سے بہت سے خود بڑے بڑ ے سلسلہ درس کے مالک تھے خاکسار کو بھی اس سلسلہ شاگردی کا فخر حاصل ہے۔ ہندوستان میں جس قدر اور جہاں جہاں بڑے بڑے سلسلہ درس قائم ہوئے اکثر اسی خاندان کا فیض ہے مثلاً پورب میں محب اللہ بہاری اور غلام یحییٰ بہاری سے علم پھیلا دونوں اسی خاندان کے شاگرد ہیں رام پور میں ایک زمانہ تک درس گاہ عام تھا یہ مولانا بحر العلوم اور ملا حسن کا فیض تھا کیونکہ یہ دونوں بزرگ ایک مدت تک یہاں رہے تھے۔ اور ملا حسن نے رام پور میں ہی وفات پائی نجیب الدولہ نے دارا نگر میں جو امروہہ کے قریب ایک مدرسہ قائم کیا تھا جس میںنہایت کثرت سے طلبہ نے تعلیم پائی اس مدرسہ کے اکثر مدرسین اسی خاندان کے شاگرد تھے۔ بنگل اور مدراس میں جو کچھ علم پھیلا وہ مولانا بحر العلوم کا فیض ہے کہ ان مقامات میں آپ نے قیام فرمایا تھا یہ بات خاص لحاظ کے قابل ہ کہ یہ خاندان اگر دنیا کی طرف متوجہ ہو جاتا تو جاہ ومنصب کی کمی نہ تھی‘ چنانچہ بعض بعض نے اتفاقاً ادھر کا رخ کیا تو بڑے بڑے عہدے حاصل کیے مثلاً مولوی غلام یحییٰ اور مولوی غلام محمد صدر الصدور تھے نوریہ سلسلہ نے حیدر آباد مین ںہایت عظمت حاصل کی لیکن من حیث الاغلب اس خاندان نے علم و فن کو مقصد زندگی قرار دیا فقر و فاقہ میں بسر کی اور اس میں عمریں گزار دیں ی بھی عجیب اتفاق ہے کہ ہندوستان میں جو علمی خاندان تھے مثلاً دلی میں شاہ ولی اللہ الہ آباد میں شاہ محمد افضل صاحب کا دائرہ ‘ بہار میںملا محب اللہ جون پور میں ملا محمود جون پوری‘ بلگرام میں عبدالجلیل بلگرامی ‘ غلام علی آزااد‘ یہ سب خاندان دو دو تین تین پشت سے زیادہ نہ چلے‘ یعنی وہ علمی حیثیت قائم نہ رہی‘ لیکن فرنگی محل کا خاندان دو سو برس تک ایک حیثیت سے قائم رہا اور سینکڑوں علماء و فضلا پیدا ہوئے۔ ۲۔ آج تمام ہندوستان میں جو نصاب تعلیم جاری ہے اس میں اکثر کتابیں اسی علمی سلسلہ کی تصنیفات ہیں‘ سلم ملا محب اللہ بہاری کی تصنیف ہے جو قطب الدین کے شاگرد تھے اس ی تین شرحیں داخل در س ہیں وہ سب اسی خاندان کی یا ان کے شاگردوں کی تصنیف ہیں میر زاہد پر غلام یحییٰ کا حاشیہ درس میں داخل ہے وہ بیک واسطہ ملا کمال کے شاگرد تھے۔ ۳۔ ایک مدت سے درس کا جو طریقہ چلا آتا تھا اس خاندان نے اس کو بدل دیا اور اس میں مناسب اصلاھ کی اس خاندان سے پہلے ہر فن میںمتعدد اور کثرت سے کتابیں درس میں داخل تھیں ملا قطب الدین شہید نے یہ طریقہ قائم کیا کہ ہر فن کی صرف ایک مختصر اور جامع کتاب مقرر کی ملا نظام الدین نے ایک ایک کتاب کا اضافہ کیا یعنی ہر فن کی دو دو کتابیں لیں اس طرح ایک بڑا طوففار کم ہو گیا مثلاً پہلے منطق میں شرح مطالعہ پڑھاتے تھے ملا صاحب نے بجائے اس کے قطبی رکھی جو اس سے بہت مختصر ہے حاشیہ قدیمہ وجدیدہ وغیرہ جس کو ملا فتح اللہ نے ہندوستان میں راج دیا تھا سب اٹھا دیا۔ یہ امر خاص طور پر اظہار کے قابل ہے کہ آج جس چیز کو لوگ درس نظامیہ کہتے ہیں اور اس نام کی وجہ سے سختی کے ساتھ اس پر اڑے ہوئے ہیں اس کا بڑا حصہ درس نظامیہ سے کوئی تعلق نہیںرکھتا مثلاً حمد اللہ‘ ملا حسن آج درس میں داخل ہیں کتاب ملا نظام الدین کے زمانے میں تصنیف بھی نہیں ہوئی تھی قاضی مبارک بھی درس میں داخل تھیں اب اڑا دی گئیں۔مولوی عبدالاعلیٰ (خلف اکبر مولانا بحر العلوم) نے اپنے زمانہ کا جو سلسلہ بتایا ہے اس میں شرح حکمتہ العین داخل ہے حالانکہ آج کل بالکل متروک ہے اسی طرح انہوںنے فن موسیقی کو بھی داخل درس رکھا ہے حالانکہ آج اس فن کا نام لینا بھی گناہ ہے۔ در س نظامی کا اصول کیا تھا درس نظامیہ میں اصول ذیل ملحوظ رکھے گئے ۔ ۱۔ اختصار یعنی ہر فن کی ایک دو کتابیں لے لی گئیں۔ ۲۔ اختصار کے اصول پر اکثر کتابیں‘ ناتمام درس میں رکھی گئیں۔ یعنی صر ف اس قدر حصہ لیا گیا جو ضروری خیال کیا گیا مثلا میرزاہد‘ ملا جلال‘ صدر اشمس بازغہ ‘ مسلم تلویح‘ ان سب کتابوں کے کچھ حصے در س میں داخل ہیں۔ ۳۔ ہر فن میں وہی کتاب رکھی ہے جو اس فن کی سب سے مشکل کتاب تھی اس سے مقصد یہ تھا کہ غور کی قوت پیدا ہو جائے کہ پھر جس کتاب کو چاہے دیکھ کر سمجھ سکے۔ ۴۔ منطق جو پہلے بالکل سادہ تھی یعنی اس میں کسی اور فن کی آمیزش نہ تھی ملا محب اللہ نے اس میں فلسفہ کے مسائل ملا یدیے اور اس کا عام انداز بدل دیا یہ کتاب ملا نظام الدین صاحب نے درس میں داخل کی پھر ملا صاحب کے شاگردوں نے اس پر شرحیں لکھیں اور ان میں فلسفہ کا اور زیادہ اضافہ ہوتا گیا یہ سب کتابیں درس میں داخل ہوتی گئیں جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آج منطق کی بہت سی کتابیں پڑھ کر بھی منطق نہیں آتی کیونکہ جو کو منطق سمجھتے ہیں وہ منطق نہیں بلکہ فلسفہ ہے اسی کا نتیجہ ہے کہ آج دو عولم جو باہم بحث کرتے ہیں تو ان کی تقریر منطقی قواعد سے بالکل الگ رہتی ہے اسی طرح اصول فقہ کا فن فلسفہ سے الگ تھا ملا محب اللہ نے اس میںفلسفہ کا رنگ پیدا کی ااور اب اصول بھ گویا فلسفہ ہے۔ ہندوستان میں علم و فن کا رواج گو چھ سو برس سے ہے لیکن زیادہ تر منقولات کا رواج تھا منطق و فلسفہ صرف قطبی تک پڑھاتے تھے سب یسے پہہلے مولانا عبداللہ ملتی المتوفی ۹۲۲ھ نے معقولات کی ترویج کی ۱؎ ان کے بعد قطب الدین شہید نے اور ان کے خاندا ن نے معقولات کو ترقی دی۔ اس کا ایک نتیجہ یہ ہوا کہ علماء میں وہ سختی کم ہو گئی جو فقہا میں عموماً ہوتی ہے فتاوی عالمگیری میں تکفیر کا باب اٹھا کر دیکھو اس کے مقابلے میں مولانا بحر العلوم نے ارکان اربعہ میں امامت کی بحث میں جو کچھ لکھا ہے اس کا مقابلہ کرو تو زمین و آسمان کا فرق نظر آئے گا۔(الندوہ ج ۷ نمبر ۱۲ دسمبر سنہ ۱۹۲۰ئ) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱؎ مآثر الکرام ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ٭٭٭ ندوہ اور نصاب تعلیم ندوہ کے قائم ہونے کی سب سے بری ضرورت جو ظاہر کی گئی ہے اور واقعی تھی بھ وہ نصاب تعلیم کی اصلاح تھی ندوہ کے مقاصد میں یہ اہم المقاصد تھا اور آج تک ندوہ کے جتنے اجلاس ہوئے اس مقصد کو ہمیشہ نہایت بلدن آہنگی سے بیان کیا گیا لیکن یہ امر بظاہر نہایت تعجب انگیز ہے کہ پارسا تک جو نصاب جاری تھا قریباً وہی قدیم نصاب تھا جو دیو بند وغیرہ میں جاری ہے۔ اس کی وجہ بہت بڑی یہ ہے کہ اصلاح نصاب کا خیال صرف چند روشن خیال علماء کے دل میں پیدا ہوا ہے ۔ باقی تمام لوگ اسی لکیر کے فقیر ہیں۔ اور چونکہ فیصلہ عموماً کثرت رائے پر ہوتا ہے اس لیے انہی بزرگوں کا پلہ بھاری رہتا ہے۔ ا س سے بڑھ کر یہ مشکل ہے کہ مدرسین جو ہاتھ آ سکتے ہیں اسی نصاب کے تعلیم یافتہ ہیں اس لیے وہ جدید نصاب (جس میں قدما کی تصنیفات داخل کی گئی ہیں) کے پڑھانے سے عاجز ہیں مثلاً مختصر المعانی و مطول ہزاروں دفعہ پڑی پڑھائی ہیں ان کے بیسیوں حاشیے موجود ہیں اس لیے ان کا پڑھنا لینا ہر کس و ناکس کو آسان ہے لیکن جدید نصاب میں ان کے بجائے دلائل الاعجاز عبدالقاہر جرجانی رکھی گئی ہے ی ہکتاب اگرچہ فن بلاغت کی جان ہے اورمطول وغیرہ سب کے خوشہ چین ہیں لیکن نہ ہمار مدرسین نے کبھی اس کتاب کو دیکھا تھا نہ اس پر شرحیں اور حاشیے موجود ہیں اس لیے یہ لوگ اس کے پڑھانے سے عاجز ہیں اور چونکہ اپنے عجز کا تسلیم کرنا کسر شان ہے اس لیے یہ کہتے پھرتے ہیں کہ اس قسم کی کتابوں سسے کافی استعداد پیدا نہیں ہوتی بہرحال سال حال میںیہ قطعی فیسلہ کیا گیا کہ جو کچھ ہو جدید نصاب جاری کر دیا جائے اس کے اجزاء کے ساتھ فوراً ایک مدرس صاحب نے استعفا دیا اور اب اخبارات وغیرہ میں مضامین شائع کیے جا رہے ہیں کہ جدید نصاب درس کے قابل نہیں بے شبہ اس نئے راستہ کے اختیار کرنے میں نہایت مشکلات پیش آئیں گی لیکن اگر ندوہ میں اس قدر بھی ہمت اور حوصلہ نہیں کہ وہ ان مشکلات کا مقابلہ کرے تو اس کو سرے سے اصلاح نصاب کا نام لینا نہ چاہیے یہ سخت بددیانتی ہے کہ تمام دنیا میں اصلاح نصاب کا غل مچایا جائے اور ایک ذرہ اصلاح نہ کی جائے۔ ہم نے اسی خیال سے اصلاح نصاب کے متعلق ایک سلسلہ وار مضمون شروع کیا ہے جس کا پہلا نمبر آج کے پرچے میں درج ہے۔ ٭٭٭ نصاب تعلیم یہ ایک نہایت اہم سوال ہے کہ ہندوستان میں ہمارے علمی تنزل کا اصل سبب کیا ہے ا سکے مختلف جواب دیے جاتے ہیں۔ عام جوا ب تو یہ ہے کہ تقدیر لیکن یہ جواب صرف اسی سوال کا نہیں بلکہ دنیا کے تما م سوالوں کا جواب ہے اور ہم کو ایسے جواب کی ضرورت ہے جس کو اس سوال سے کوئی بھی خاص خصوصیت ہو بعضوں کا خیال ہے کہ انقلاب سلطنت لیکن اسلامی سلطنتوں کی نسبت کہا جائے گا کہ خاص قسطنطنیہ میں کم سے کم بیس ہزار طلبہ علوم عربیہ کی تعلیم پاتے ہیں لیکن مدتوں سے ایک شخص بھی صاھب کمال پیدا نہیں ہوا۔ اور سچ یہ ہے کہ مصر و شام و رو م کا علمی معیار ہندوستان سے بھی گھٹا ہوا ہے۔ اس سوال کا صحیح جواب صرف یہ ہے کہ ’’نصاب تعلیم کا نقص اس کی تفصیل آ گے آئے گی لیکن تفصیل سے پہلے بعض ظاہر الورود اعتراضات کا ذکر کرنا اور ان کا جواب دینا ضروری ہے‘‘۔ اس جواب پر عموماً یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ اسی نصاب نے عبدالعلی بحر العلوم حمد اللہ محب اللہ بہاری قاضی مبارک‘ شاہ ولی اللہ ملا حسن جیسے اشخاص پیدا کیے تھے اس لیے اگر نصاب تعلیم کا قصور ہوتا تو اس سے اس درجہ کے کامل الفن کیوںکر پیدا ہوتے۔ اس اعتراض کا سرسری جوابت تو یہ ہے کہ جو نصاب اب ہے وہ ان بزرگوں کے زمانہ میں کہاں تھا شرح مسلم ‘ حمد اللہ‘ شرح مسلم‘ ملا حسن ‘ حاشیہ بحر العلوم قاضی غلام یحییٰ ہدیہ سعیدیہ وغیر ہ یہ کتابیں اس زمانہ میں کہاں تھیں لیکن اس اعتراض کا حقیقی جوا ب یہ ہے کہ کسی چیز کی خرابی کا اثر عموماً ابتدا میں ظاہر ہوتا ہے بلکہ یہ اثر پہلے پیدا ہوتا ہے پھر آہستہ آہستہ بڑھتا ہے یہاں تک کہ بالآخر علانیہ ظاہر ہو جاتا ہے موجودہ نصاب کی خرابی کا اثر پہلے ہی دن شروع ہو گیا تھا۔ جس کی بدیہی دلیل یہ ہے کہ جس دن سے یہ نصاب جاری ہوا عین اسی دن سے علم کا تنزل شرو ع ہو گیا ج کا سلسلہ آج تک جاری ہے یعنی جس درجہ کے علامء اس وقت تھے ان کے شاگرد ان سے کم درجہ کے نکلے شاگرد کے شاگرد ان سے بھی کم پھر ان سے بھی کم یہاں تک کہ یہ زمانہ آ گیا ہے کہ جس میں کمال نام و نشان بھی نہ رہا۔ پہلے طبقوں کا تنزل ہم کو اس لیے محسوس نہیںہوتا کہ گو وہ لوگ علم و فضل میں اگلوں سے کم تھے ‘ اہم آج کی حالت کے لحاظ سے نہایت بلند رتبہ تھے لیکن جب تنزل کی رفتار روز بروز تیز ہوتی گئی اور اب یہ نوبت پہنچی کی تمام ہندوستان میں اس سرے سے اس سرے تک ایک بھی صاحب فن نظر نہیں آتا تو کون شبہ کر سکتا ہے کہ یہ نتیجہ اسی تخم کا ثمر ہے ۔ جو سو برس پہلے بویا گیا تھا ہم اس دعویٰ کے ثابت کرنے کے لیے امارات و قرائن پر اکتفا نہیں کرتے بلکہ قطعی طریقہ سے ثابت کرتے ہیں کہ موجودہ نصاب تعلیم نہایت ناقص اور ابتر ہے سب سے پہلے ہم کو چند مقدمات اصول موضوعہ کے طور پر ذہن نشین کر لینے چاہئیں اور وہ یہ ہیں۔ ۱۔ تعلیم سے مقصود ی ہے کہ نفس فن حاصل کیا جائے۔ ۲۔ ہر فن کے حاصل کرنے کا یہ عمدہ طریقہ ہے کہ اس کے مسائل کو منفرد اً اور بہ استقلال حاصل کیا جائے تاکہ اس فن کی طرف کافی توجہ ہو سکے بجائے اس کے اگر چن فنون کے مسائل کو مخلوظ کر کے حاصل کیا جائے گا تو کسی فنکی اچھی طرح تکمیل نہ ہو گی۔ ۳۔ متعدد علوم و فنون کی تحصیل میں الاقدم فالا قدم کا خیال ضرور ہے یعنی یہ کہ جو مقصود بالذات ہیں ان کے حاصل کرنے میں زیادہ وقت صرف کیا جائے جو مقصود بالغرض ہیں ان میں کم ‘ اسی طرح علوم مقصود بالذات میں اہمیت کے فرق مراتب کرنا چاہیے یعنی جو علوم مہتم بالشان اور ضروری ہیں وہ زیادہ توجہ کے قابل ہیں۔ ۴۔ ہر علم کی تحصیل میں سب سے مقد م یہ پیش نظر رکھنا چاہیے کہ اس فن کی جو غایت ہے وہ حاصل ہو۔ مذکورہ بالا اصول کی صحت سے کسی کو انکار نہیں ہو سکتا‘ اب ان اصول کی بنا پر ہم موجودہ نصٓب سے بحث رکتے ہیں۔ ۱۔ موجودہ نصاب میں اکچر کتابیں ایسی ہیں نجن میںنفس مضمون کے علاوہ نہایت کثرت سے لفظی مباحث ہوتے ہیں جن کا مدار کسی کتاب کے خاص الفاظ پر ہوتا ہے یعنی اگر اصل مسئلہ کو دوسرے الفاظ میں بیان کیا جائے تو وہ تمام مباحث بیکار ہو جائیں‘ مثلا شمسیہ میں یہ عبارت تھی کہ العلم ما تصور فقط وھو الخ قطبی میں اس کے متعلق ایک بڑی بحث اس بنا پر چھیڑی گئی ہے کہ ھو کی ضمیر تصور کی طرف پھرتی ہے یا تصور فقط کی طرف اس بحث میں قطبی اور میر کے کئی صفحے صرف ہو گئے لیکن اگر مصنف ضمیر کے بجائے خود مرجع کو ذکر کر دیتا تو یہ تما م بحثیں رائگاں جاتیں اس طرح بجائے اس کے اصل مسلہ پر وقت صرف کیا جائے مصنف کے ایک خاص لفظ اور اس کے منشا پر بے فائدہ وقت صرف کرنا پڑتا ہے۔ نصاب موجودہ کی اکثر کتابوں کی یہی حالت ہے یعنی جس قدر اصل فن کے مسائل میں ان کے قریب بلکہ ان سے زیادہ یہ فضول لفظی مسائل ہیں۔ اس موقع پر یہ بات بتا دینا بھی ضروری ہے کہ قدما ء کے زمانے میں شرح اور حاشیہ کا طریقہ نہ تھا۔ بوعلی سینا کے بعد سے یہ طریقہ پیدا ہو ا ہے لیکن اس وقت تک شرح میںبھی مصنف کی خاص عبارت اور الفاظ سے بحث نہیں کرتے تھے بلکہ اصل مسئلہ کی توضیح اور تشریح کرتے تھے اس کے بعدی ہ طریقہ پیدا ہوا کہ اصل فن سے چنداں غرض نہٰں رہی بلکہ تمام تر توجہ اس پر صرف ہوتی تھی کہ مصنف کی عبارت کا کیا مطلب ہے کس لفظ سے کیا خاص فائد ہ ہے؟ کون سی ضمیر کس طرح پھرتیہے؟ مصنف کی عبادت کا اوروںنے جو مطلب سمجھا ہے غلط ہے فلاں جگہ مصنف نے رفع دخل مقدر کیا ہے مصنف کی عبارت پر یہ اعتراض ہوتا ہے وغیرہ وغیرہ جس وقت سے یہ طریقہ جاری ہوا وہ علمی تنزل کاپہلا دن تھا۔ علامہ ابن خلدون نے مقدمہ تاریخ میں ایک مضمون لکھا ہے جس کی سرخی یہ ہے۔ فی ان کثرۃ التالیف فی العلوم عایقۃ عن لتحصیل اس مضمون کا ماحصل یہی ہے چنانچہ وہ مثالاً فن فقہ کی بہت سی کتابوں کا نام لکھ کر لکھتے ہیں۔ وھی کلھا متکررۃ والمعنی واحدو المتعلم مطالب باستحضار جمیعھا تمیز مابینھا ولعمر منقیضٰ فی واحدمنھا ولو اقتصر ا لمعلمون بالمتعلمین علی المسائل المذہبیۃ فقد لکان الامر بدون ذالک بکثیر وکان التعلیم سھلا ’’یہ تمام عبارتیںمکرر ہیں اور مطلب ایک ہے اور شاگرد پر لازم کیا جاتاہے کہ وہ تمام عبارتوں کو یاد کرے اور عمر ایک ہی کے محفوظ رکھنے میں صرف ہو جاتی ہے ۔ اس لیے اگر مدرسین صرف مسائل مذہبی پر اکتفا کرتے تو تعلیم نہایت سہل ہوتی اور بہت کم زمانہ صرف ہوتا‘‘۔ عجیب بات یہ ہے کہ علامہ ابن خلدون کے زمانے میں بھی وہی حالت تھی جو اب ہے یعنی باوجود اس طریقہ کی خرابی کے لوگ اس کوترک نہیںکر سکتے تھے کیونکہ یہ طریقہ لوگوں کے لیے بجائے طبیعت ثانیہ کے ہو گیا تھا چنانچہ علامہ موصوف عبارت مذکور کے بعد لکھتے ہیں۔ ولکنہ داء لا یرتفع لا ستقرارالعواید علیہ فصارت کالطبیعۃ ’’لیکن یہ ایک مرض بن گیا ہے جو دفع نہیں ہو سکتا‘ کیونکہ معمول عام ہو جانے کی وجہ سے وہ بجائے طبیعت کے ہو گیا ہے‘‘۔ ۲۔ سب سے بڑی خرابی نصاب کی موجودہ یہ ہے ک اس میں اکثر ایسی کتابیں داخل ہیں جن میں متعدد فن مخلوط ہیں اور اس خلط مبحث کی وجہ سے طالب علم کا ذہن پریشان ہوتا ہے یہاں تک کہ اس کو یہ فیصلہ کرنا مشکل ہوتا ہے کہ وہ کون سا فن حاصل کر رہا ہے۔ ملا حسن اللہ قاضی مبارک منطق کی کتابیں ہیں لیکن ان میں اکثر مباحث الہیات اور مابعد الطبیعہ کے ہیں مثلاً علم باری جعل ‘ بسیط و جعل مرکب‘ کلی طبعی کا وجود فی انجارج وجود ذہنی وغیرہ وغیرہ۔ ملا جلال فن منطق میں بڑے برے معرکہ کی کتاب سمجھی جاتی ہے لیکن جس قدر درس مین ہے اس کا بڑا حصہ دیباچہ کی شرح میں ہے جو صرف اس خاص عبارت سے متعلق ہے جو مصنف نے حمد و نعت میں لکھی ہے ان کتابوں کے درس کا جو زمانہ رکھا گیا ہے اس وقت تک مینذی کے سوا فلسفہ کی اور کوئی روحانی کتاب نہیں پڑھائی جاتی اس لیے الہیات کے مباحث طالب علم کو بالکل اجنبی اور سخت نامانوس معلوم ہوتے ہیں۔ ۳۔ بہت بڑی غلطی یہ ہے کہ جو علو مقصود بالعرض ہیں ان کو مقصود بالذات بنایا گیا ہے اور زمانہ تحصیل کا بڑا حصہ انہی کے حاصل کرھنے میں صڑف کردیا جاتا ہے مثلاً نحو‘ صرف منطق مقصود بالعرض ہیں لیکن کتب درس زیادہ انہیں کے متعلق ہیں منطق کا مقصد یہ ہے کہ فلسفہ میں کام آئے لیکن منطق کی درسی کتابیں فلسفہ کے اعتبار سے اضعافاً مضاعفہ ہیں‘ صغریٰ‘ کبریٰ‘ میزان منطق‘ تہذیب‘ شرح تہذیب قطبی‘ میر قطبی‘ ملا حسن‘ ملا جلال‘ میر زاہد جلال‘ حمد اللہ ‘ قاضی مبارک‘ یہ انبا ر کا انبار منطق میں ہے اور درس میں داخل ہے لیکن فلسفہ کی صرف تین کتابین درس میں داخل ہیں جن میں سے مینبدی پوری پڑھائی جاتی ہے باقی کے جستہ جستہ مقامات ۔ اسی طرح صرف و نحو میں برسوں اوقات صرف کی جاتی ہے اور جو اس کی غرض و غایت ہی یعنی علم و ادب اس میں بہت کم زمانہ صر ف ہوتا ہے اسی کا نتیجہ ہے کہ سینکڑوں ہزاروں طلبہ میں سے ایک بھی صاحب فن پیدا نہیں ہوتا۔ علامہ ابن خلدون نے ا س خرابی پر نہایت تفصیل سے بحث کی ہے چنانچہ وہ لکھتے ہیں۔ واما العلوم التی ھی الۃ لغیرھا مثل العربیۃ والمنطق وامثالھ فلا ینبعی ان ینظر فیھا الامن حٰث ھیالۃ لذالک الغیر فقط ولا یوسع فیھا الکلام ولا تفرع المسائل لان ذالک مفرج لھا عن المقصود … فیکون الاشتعال بھذہ العلوم الا لیہ تضیعاً للعمرو شغلا بمالا یعنی وھذا کما فعل المتاخرون فی صناعۃ النحو و صناعۃ المنطق و و اصول الفقہ لا نھم او سعراد ایرۃ کلام فیھا نھی من نوع اللغو و ھی ایضاً مضرۃ بالمتعلمین علیٰ لا طلاق فاذا قطعوا العمر فی تحصیل الوسائل فمتی یظفر و بالمقاصد ’’باقی وہ علوم جو دوسرے علموں کا آلہ ہیں مثلاً عربیت اورمنطق وغیرہ تو ان کو تو صرف اسی حیثیت سے دیکھنا چاہیے کہ وہ فلاںعلم کا آلہ ہیں ان میں نہ کلام کو وسعت دینی چاہیے نہ مسائل کی تفریح کرنی چاہیے کیوں کہ ایسا کرنا اس کو اصل مقصد سے خارج کردینا ہے۔ توان علوم آلیہ میں مشغول ہونا عرمر کا ضائع کرنا ہے اور لا یعنی میںمشغول ہونا ہے جیسا کہ متاخرین نے نحو اور منطق اور اصول فقہ کے متعلق کیا ۔ یعنی کلام کے دائرہ کو بہت وسیع کر دیا۔ یہ تو ایک قسم کی لغویت ہے اور وہ طالب علموں کو بھی عموماً مضر ہے کیونکہ جب وہ مسائل میں عمر ضائع کر دیں گے تو اصل مقصد تک کب پہنچیں گے‘‘۔ (الندوہ ج ۱ نمبر ۲ جمادی الثانی سنہ ۱۳۲۲ھ) ٭٭٭ فن نحو کی مروجہ کتابیں ابن حاجب نے کافیہ میں مسائل نحویہ کو جس طریقہ سے مدون کیا وہ اس قدرمقبول ہوا کہ اس کے بعد جس قدر کتابیں اس فن میں لکھی گئیں گویا اسی کی عکس تصویریںتھیں‘ ایک مدت کی ممارست اور انس کی وجہ سے اب یہ خیال بھی نہیںرہا کہ اس طریقہ میں کوئی نقص ہوگا لیکن آئو تقلید کے دائرہ سے نکل کردیکھیںکہ کیا ایساہی ہے۔ علوم و فنون کی تدوین میں عمدگی کا جو معیار قرار دیا جا سکتا ہے وہ حسب ذیل ہے ۔ ۱۔ مسائل کی ترتیب اصول عقلی کے بنا پر ہو۔ ۲۔ جو اصطلاحات قائم کیے جائیں ان کے لغوی معنی اور مصطلح معنی میں نمایاں تناسب ہو تاکہ لغوی معنی سے اصطلاحی معنی کی طرح کیال جلد منقتل ہو سکے۔ ۳۔ قواعد کلیہ کی تعداد اس قدر کم ہو کہ اس سے کم نہ ہو سکتی ہو۔ سب سے پہلے ہم اس بحث کر تے ہیںکہ موجودہ ترتیب کہاں تک اصول عقلی پر مبنی ہے اس کے لیے ہم کو نحو کی حقیقت اورماہیت پر غور کرنا چاہیے۔ نحو کی تعریف متاخرین نے یہ کی ہے علم باصول بعرف بھا احول اواخر الکلم لیکن اگر نحوکی یہی حقیقت ہے تو جن زبانوں میں اعراب نہیں ہے ان کے لیے نحو کا فن بیکار ہو گا کیونکہ اس تعریف کی رو سے نحو کا یہ مقصد ہے کہ الفاظ کا اعراب معلوم کیا جائے اس کے لیے جن زبانوںمیں سرے سے اعراب نہیںہیں مثلاموجودہ فارسی یا اہل زبان کی عربی جس میں تمام الفاظ ساکن الدواخر ہوتے ہیں اورعوامل کے اانے سے ان میں کوئی تغیر نہیں پیدا ہوتا وہ نحو کے دائرہ سے باہر ہوں گی۔ حقیقت یہ ہے کہ ہر زبان میں ادائے مطلب کے لیے الفاظ کی ترتیب کا خاص طریقہ ہے یہ طریقے بعض مشترک ہوتے ہیں بعض اورکسی دوسری زبان میں بھی پائے جاتے ہیں۔ اور بعض غیر مشترک جو خاص ایک ہی زبان کے ساتھ مخصوص ہیں انہی طریقوںکے جزئیات کا نام نھو کی تدوین کے یہ معنی ہیں کہ ان تمام جزئیات کا استقصاء کر کے ان کو کلیات کے تحت میں لایا جائے۔ علامہ ابن خلدون نے نحو کی تعریف ان جامع الفاظ میں کی ہے۔ بہ یتبین اصول المقاصد بالدلالۃ س تعریف سے ثابت ہو گا کہ نحو کا اصلی مقصد ادائے معانی سے متعلق ہے یعنی جب ہم ایک مطلب ادا کرنا چاہیں ت ہم کو فاعل مفعول متعلقات فعل وغیرہ کو کس ترتیب سے لانا چاہیے۔ باقی یہ امر کہ الفاظ پر ان تراکیب کا کیا اثر پڑتا ہے اور اواخر حروف کو کس حالت میں کون سا اعراب ہوتا ہے یہ ایک ضمنی مسلہ ہے البتہ چونکہ نحو کی تدوین اصل میں علمائے عجم نے کی اور ان کے لیے اعراب کی صحب بھی ایک امر اہم تھی اس لیے رفتہ رفتہ اعراب کی حیثیت اس قدر اہم ہو گئی کہ متاخرین نے ا س کو عین نحو سمجھ لیا۔ جب یہ امر ثابت ہو گیا کہ نحو کا اصلی تعلق الفاظ کی ترتیب اور تقدیم و تاخیر سے ہے تو نحو کی ترتیب یہ ہونی چاہیے کہ کلام کے جو اجزاء سب سے مقدم ہیں ان کا حلا پہلے بیان کیا جائے پھر ا سے کم درجہ کے اجزاء کا حال‘ پھر ان سے کم کا‘ اس لحاظ س پہلے مسند الیہ کا حال بیان کرنا چاہیے پھر مسند کا پھر متعلقات کا ‘ پھر توابع کا‘ اس بنا پر مبتدائ‘ فاعل ‘ حروف مشبہ کے اسمائ‘ افعال ناقصہ کی خبر و امثال ہزہ کا حلا ایک عنوان کے نیچے لکھنا چاہیے لیکن متاخرین نے اس معنوی حیثیت کو چھوڑ کر صرف اعراب کا لحاظ رکھا اور مرفوعات منصوبات اور مجرودات کے لحاظ سے تربی قائم کی اس اعراب پرستی کی وجہ سے بہت سے مسائل کی حیثیت بدل گئی اور ان کے موقع ترتیب میں فرق آ گیا چنانچہ ہم چند مثالیںذیل میں درج کرت ہیں۔ ۱۔ مفعول لہ معنی کے لحاظ سے مجرور باالام ہے ضربتہ تادیبا و ضربتہ للتادیب میں معناً کسی طرح کا فرق نہیں لیکن صرف اس وجہ سے کہ اس کو فتح ہونا ہے اس کے لیے زبردستی ایک نیا نام ایجاد کیا گیا ہے اور اس کو مفعول کے معنوں میں شمار کیا گیا ہے۔ یہی کیفیت مفعول معہ کی ہے خوب غور سے دیکھو معنی کے اعتبار سے مفعول معہ اور معطوف بالکل ایک ہیں۔ صرف اعراب کی بنا پر اس کو مفعول کا لقب دیا گیا ہے حالانکہ یہ نہایت آسان بات تھی کہ اس کو وائو عاطفہ کے تحت میں بیان کیا جاتا ہے اور اس قدر اضافہ کر دیا جاتا ہے کہ بعض موقعوں پر معطوف کو فتحہ ہوتا ہے اس کے ساتھ معہ کے خصوصیات بیان کر دی جاتی ہیں۔ ۲۔ حروف مشبہ کے اسماء مسند الیہ ہیں اور اس لحاظ سے ان کو فاعل اور متداء کے ساتھ بیان کرنا چاہیے لیکن اعراب کے لحاظ سے وہ منصوبات میں داخل کیے گئے ہ یں اس قسم کی اوربہت سی مثالیں ہیں۔ ایک بڑانقص موجودہ نحو میں یہ ہے کہ کلمات کے بہت سے اقسام اور اصطلاحات بے فائدہ بنائے گئے ہیں چنانچہ ہم چند مثالیں درج کرتے ہیں۔ ۱۔ مفعول مالم نسیم فاعلہ کو ایک خاص اصطلاح قرار دینا اور اس کے مسائل جداگانہ لکھنا محض بیکار ہے مفعول فالم لسیم فاعلہ کوئی الگ چیز نہیں بلکہ فعل مجہول کے فاعل کا نام ہے فاعل کے لیے یہ ضرور نہیں کہ اس سے فعل کا ارتکاب ہوا ہے بلکہ اصطلاح نحو میں فاعل کے لیے صرف اس قدر کافی ہے ک وہ فعل یا شبہ فعل کا مسند الیہ ہو‘ یہ ظاہر ہے کہ ضرب زید میںمصروفیت کی اسناد زید کی طرف ہے اس بنا پر وہ بھی اس طرح فاعل ہے جس طرح ضرب زید میں زید۔ ۲۔ افعال ناقصہ کو تمام افعال سے جداگانہ قرار دینا اور اس کے معمول کے لیے بالکل ایک نئی اصطلاح اسم و خبر کے نام سے قائم کرنا محض لغو ہے یہ غلطی اس وجہ سے پیدا ہوئی کہ افعال ناقصہ کو فعل لازم سمجھا ہے حالانکہ وہ درحقیقت متعدی ہیں چنانچہ اس کا بیان آگے آئے گا۔ ۳۔ افعال مقاربت کی جداگانہ اصطلاح قائم کرنا بے فائدہ ہے افعال مقاربت میں جس چیز کو اسم کہتے ہیں وہ درحقیقت فاعل ہے اور جس کو خبر کہتے ہیں وہ مفعول ہے ان افعال میں بھی فعل تنہا فاعل پر تمام نہیں ہوتا بلکہ ایک اور چیز کا محتاج رہتا ہے اور وہی مفعول ہے ۔ ۴۔ اس طرح افعال مدح وذم کی اصطلاح کی بھی ضرورت نہیں انعم الرجل زید میں الرجل فاعل ہے ارو زید بدل اور یہ معمولی ترکیب ہے۔ متعدی کی تعریف کا فیہ وغیرہ یہ ہے کہ مایتوقف فیھم علی متعلق اس بناء پر افعال ناقصہ عموماً متعدی ہیں کیونکہ ان کا مفہوم تنہا فاعل سے سمجھ میں نہیں آتا علامہ رضی نے تصریح کی ہے کہ اس تعریف کی بنا پر قرب وغیرہ متعدی ہیںچنانچہ لازم ومتعدی کی بحث میں لکھتے ہیں وعلی ماحد ینتغی ان یکون نحو قوب وبعد و خرج و دخل متعد یا اذالا یفھم معانیھا الا مبتعلق اس بناء پر افعال ناقصہ کے اسم و خبردرحقیقت فاعل اور مفعو ل ہیں۔ (الندوہ جلد ۱ نمبر ۶ شوال سنہ ۱۳۲۲ھ) ٭٭٭ تعلیم قدیم و جدید کیا ان میں سے کوئی غیر ضروری ہے؟ کیا ان دونوں میں تعارض ہے ؟ کیا ان میں کسی اصلاح کی ضرورت ہے دونوں مل کر کیوں کام کر سکتے ہیں۔ اگرچہ سوالات قومی مسئلہ کے متعلق اہم اور ضروری سوالات ہیں لیکن قوم نے کبھی ان سوالات پر مستقل حیثیت سے بحث نہیں کی اس کی وجہ یہ ہے کہ اس وقت جو دنیوی اور دینی درسگاہیں یا انجمنیںملک میں قائم ہیں ان کو جو کامیابی اس وقت حاصل ہے وہ اس پر قانع تھیں اس لیے ان مسائل کے حل کرنے کی ان کو ضرورت محسوس نہیںہوئی مثلاً اسلامی کالجوں میں سینکڑوں‘ ہزاروں بچے تعلیم پاتے ہیں۔ ہر سال سینکڑوں ایم اے اور بی اے ہو کر نکلتے ہیں سینکڑوں فارغ شدہ طلبا ء نے معقول نوکریاں حاصل کیں ۔ سینکڑوں وکالت کر رہے ہیں سینکڑوں اپرنٹس اور امیدوار ہیں۔ ان باتو ں کے ہوتے ان کو اس بات کی کیا ضرورت ہے کہ وہ قدیم تعلیم کی ضرورت اور اس کے نتائج اور ترمیم و اصلاح کا سودا مول لیں۔ کار دنیا کے تمام نہ کرو ہر چہ گیرید مختصر گیر ید اس کے مقابلے میں عربی مدارس دیکھ رہے ہیںکہ ان کے تعلیم یافتہ مساجد میں پھیلے ہوئے ہیں۔ ہزاروں مولوی تیار ہو گئے ہیں ہر ہر ضلع میں عربی کے چھوٹے چھوٹے مدرسے قائم ہوتے جاتے ہیں ہر جگہ واعظوں کی مانگ ان باتوں کے ساتھ ان کو کیا غرض ہے کہ وہ جدید تعلیم کی ضرورت اور نتائج پر غور کرنے کی زحمت اٹھائیں۔ لیکن اب اس سکون میں کچھ جنبش پیدا ہو چلی ہے کیونکہ اب ہرگر وہ جس قسم کی تعلیم کا حامی ہے چاہتا ہے کہ تمام ملک میں وہی تعلیم پھیل جائے اس کا لازمی نتیجہ کہ دونوں گروہوں میں تقابل ‘ مسابقت اور محاسدہ پیدا ہو چنانچہ ایسا صرف یہ امتیاز باقی رہا کہ پست حوصلہ لوگوں نے اعلانیہ اپنے حریف مدارس اورانجمنوں کی برائی شروع کی اورمہذب حضرات نے دل آزاری اور بدگوئی سے احترازکیا۔ اگرچہ حقیقت ی ہے کہ ہندوستان کے چھ کروڑ مسلمانوں سے دونوںکو بہ قدر کافی اپنے کام کیلیے مددمل سکتی ہے لیکن واقعی اب اس کا وقت آ گیا ہے کہ تمام قوم مل کہ ایک وسیع خاکہ تیار کر دے جس میں تمام درسگاہوں اور انجمنوں کی نسبت طے کر دیا جائے کہ کون کون ضروری ہیں؟ کس حد تک ضروری ہیں؟ اور مجوزہ نقشہ میں ہر ایک کی جگہ کہاں ہے؟ تاکہ جو کام ہو رہے ہیں سب مل کر ایک کام بن جائیں اور ایک کام دوسرے کام میں خلل انداز نہ ہو نے پائے ورنہ دو طرقہ کشمکش میں ہزاروں لاکھوں مسلمان یہ فیصلہ نہ کر سکیں گے کہ وہ کس طرح رخ اور کدھر جائیں۔ اس غرض سے سوالات ذیل پر نظر ڈالنی چاہیے ‘ جدید تعلیم ضروری ہے یا نہیں؟ قدیم تعلیم ضروری ہے یا نہیں؟ دونوں میں اصلاح کی ضرورت ہے یا نہیں؟ اصلاح کا کیا طریقہ ہے؟ علی گڑھ دیو بند ندوہ کے کیا حدود ہیں اور کون کون کام کس کے حد عمل میں چھوڑ دینے چاہئیں۔ پہلے سوال کے جواب میں اب اختلاف نہیں رہا۔ اور اگر کسی کو ہو تو ہم کو اسی خطاب کرنے کی ضرورت نہیں۔ دوسرے سوال کا جواب جدید گروہ کے ذہن مین دفعتہ نفی کی صورت میں آئے گا لیکن ان کو ذرا غور سے کام لینا چاہیے اور پہلے ان سوالات کا جواب دینا چاہیے۔ کیا مسلمانوں کی قومیت مذہب کے سوا اور کچھ ہے؟ اگر نہیں ہے تو مذہب کے قیام کے بغیر ان کی قومیت کیو ں کر قائم رہے گی؟ اگر مذہب کی ضرورت ہے تو مذہبی تعلیم ‘ قدیم تعلیم کے بغیر کیوں کر ممکن ہے؟ شاید یہ کہا جائے کہ انگریزی کے ساتھ مذہبی تعلیم یہ تعلیم بہ قدر ضرورت ممکن اور اسی قدر کافی ہے لیکن کیا صرف اس قدر تعلیم سے قرآن و حدیث ہو سکتی ہے کیا اس درجہ کے تعلیم یافتہ اسلامی شکل مسالل کی تشریح کر سکتے ہیں کیا غیر مذہب والے مذہب اسلام اور تاریخ اسلا م پر جو اعتراضات کرتے ہیں ان کے مقابلے کے لیے اتنی تعلیم کافی ہے؟ کیا اس قدر تعلیم پائے ہوئے لوگ مذیبی خدمات مثلاً وعظ امامت فتوی وغیرہ انجام دے سکتے ہیں؟ کیا عوام پر ان لوگوں کا کوئی مذہبی اثر قائم ہو سکتا ہے؟ تیسرا سوال یعنی یہ کہ دونوں طریقہ تعلیم میں اصلاح کی ضرورت ہے یا نہیں‘ ایک معرکہ کا سوال ہے نہ اس کے لیے کہ درحقیقت وہ ایسا ہے بلکہ اس لیے کہ دونوں فریق ایک مدت سے اسی حالت پر قائم ہیں۔ اور چونکہ دونوں اپنے اپنے حوصلہ کے مطابق کامیاب ہیں اس لیے ان کو علانیہ نظر آیا ہے کہ اصلاح کی ضرورت نہیں ہے۔ تاہم جدیدہ گروہ بہ آسانی اپنے خلاف نکتہ چینی سننے پر آمادہ ہو سکتا ہے اس لیے پہلے ہم انہی سے خطاب کر تے ہیں۔ اس قدرمسلم ہونے کے بعد کہ تعلیم جدید کے ساتھ کسی قدر مذہبی تعلیم ضروری ہے یہ سوال باقی رہتا ہے کہ اسضرورت کی مقدار کیا ہے؟ اور اس کا طریقہ کیا ہے ؟ یہ ظاہر ہے کہ انگریزی تعلیم یافتہ لوگوں سے ہم کو مذہبی یعنی امامت وعظ افتاد کا کام لینا نہیں ہے بلکہ غرض یہ ہے کہ وہ خود بقدر ضرورت مسائل اسلام اور تاریخ اسلام سے واقف ہوں اس کے لیے صرف ایک مختصر اور جامع و مانع سلسلہ کتب و دینیات کی ضرورتہے جس میں سلسلہ بہ سلسلہ اسکول سے کالج کلاسوں تک تک کے قابل کتابیں ہیں اس سلسلہ میں تین قسم کی کتابیں ہونی چاہئیں۔ عقائد فقہ او ر تاریخ اسلام فقہ اور تاریخ کے متعلق مصر میں عمدہ کتابیں تیار ہو گئی ہیں ان کا ترجمہ کافی ہو گا عقائد کی نسبت البتہ مشکل ہے کیونکہ ہندوستان میں جو کتابیں آج کل لکھی گئی ہیں ان پر ابھی تمام لوگوں کا اتفاق نہیں ہو سکتا ۔ اور مصر وغیرہ کی جدید تصانیف ناکافی ہیں اور ناقابل درس ہیں اس لیے یہ بہتر ہو گا کہ اسکول کلاسوں میں صرف فقہ اور تاریخ اسلام اور سادہ عقائد کی تعلیم ہو اور کالج کلاسوں میں امام غزالی اور ابن رشد وار شاہ ولی اللہ صاحب کی چیدہ تصنیفات خود رب ہی کی زبان میں پڑھائی جائیں اور ان سب کی مجموعی ضخامت دو دو سو صفحون سے زیادہ نہ ہو۔ لیکن نہایت مقدم امر یہ ہے کہ کالجوں میں صرف کتابی تعلیم سے مذہبی اثر نہیں پیدا ہوسکتا بلکہ اس بات کی ضرورت ہے کہ طلبہ کے چاروں طرف مذہبی عظمت کی تصویر نظر آئے دینیات کے نتائج امتحان کو انگریزی تعلیم کے نتائج کی طرح لازمی قرار دیا جائے۔ مزہبی علماء بیش قرار مشاہرہ کے مقرر کیے جائیں وعظ کے موقعوں پر اکثر ارکان کالج یا امکان شریک ہوں مذہبی پابندی ک بنا پر طلبا کی خاص توقیر اور تحسین کی جائے اور سب سے مقدم یہ کہ دو چار طلبہ کو گراں بہا وظائف دے کر ڈگری حاصل کرنے کے بعد مذہبی اعلیٰ تعلیم دلائی جائے ۔ یہ امر اگرچہ بدیہی ہے کہ قدیم تعیم میں سخت اصلاح اور اضافہ کی ضرورت ہے لیکن افسوس ہے کہ بڑے بڑے مقدس علماء اب تک اس ضرورت کے قائل نہیں اس لیے ہم ان سے سوالات ذیل کے جوابات چاہتے ہیں (۱) یور پ کے مصنیفن مذہب پر جو حملہ کر رہے ہیں اس سے واقف ہونے کی ضرورت ہے یا نہیں؟ (۲) اگر علماء خود ان خیالات سے واقف نہ ہوں گے تو کیا انگریزی خواں مسلمانوں میںان خیالات کا شائع ہونا کوئی روک سکتا ہے؟ (۳) مذہب پر عموماً اور مذہب اسلام پر جو اعتراضات یورپ کے لو گ کر رہے ہیں ان کا جواب دینا کس کا فرض ہے؟ (۴) علماء جب تک ان خیالات سے واقف نہ ہوں گے جواب کیونکر دے سکیں گے؟ (۵) کیا علمائے سلف نے یونانیوں کا فلسفہ نہیں سیکھا تھا اور ان کے اعتراضات کے جواب نہیں دیے تھے؟ (۶) اگر ااس وقت اس زمانے کے فلسفہ کا سیکھنا جائز تھا تو اب کیوں جائز نہیں ہے؟ ان سوالات کا اگرچہ خود بخود جواب ہو گا کہ تعلیم قدیم کے ساتھ جدی خیالات سے واقف ہونے اور انگریزی علوم پڑھنے کی ضرورت ہے لیکن بایںہمہ اس بات کی ضرورت نہیں کہ ہم ان علماء کو جو کسی قسم کی اصلاح کی ضرورت نہیں خیال کرتے اصلاح پر مجبور کریں۔ اس کی وجہ ہم کسی قدر تفصیل ک ساتھ بیان کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔ مذہبی کاموں کا دائرہ بہت وسیع ہے مثلا دیہات کے جاہل مسلمانوں میں احکام اسلام کا پھیلنا اتنا بڑا وسیع کام ہے جس کے لیے سینکڑوں ہزاروں مولویو ں اور واعظوں کی ضرورت ہے اسی طرح مساجد کی امامت اور فتویٰ وغیرہ بہت سے کام ہین۔ جومحض خالص قدیم یافتہ حضرات انجام دے سکتے ہیں۔ اس لیے تقسیم عمل کی رو سے یہ کام اس گروہ کے ہاتھ میں دے دینے چاہئیں اور ہر طرح ان کی تائید واعانت اور احترام کرنا چاہیے اس نقطہ خیال کو اگر پیش نظر رکھا جائے تو جو لوگ قدیجم عربی مدارس کو بے کار بتاتے ہیں وہ بھی تسلیم کر لیں گے ۔ کہ دنیا میں کوئی چیز بے کار نہیں ہے۔ صرف ہم کو ان کا استعمال صحیح طورسے کرنا چاہیے صحابہ میںحضرت عبدالرحمن بن عوفؓ بھی تھے جو لاکھوں روپے کے مالک تھے اور حضرت ابوذرؓ بھی تھے جن کا قول تھا کہ صاحب المال کافر (جس کے پاس روپیہ ہو وہ کافر ہے) باایں ہمہ اسلام کو دونوں کی ذات سے نفع پہنچتا تھا کیونکہ دونوں سے مختلف کام لیے جا سکتے تھے البتہ اس قسم کے قدیم مدرسوں میں اس قسم کی تربیت پر اصرار کرنا چاہیے جس سے تعصب سخت دلی تنگ خیالی پیدا نہ ہو۔ جس کا یہ نتیجہ ہو تا ہے کہ پرانے مولوی اورجدید تعلیم یافتہ ایک صحبت میں بسر نہیں کر سکتے اورہر موقع پر دونوں دو حریف کی صورت میں نظر آتے ہیں ان لوگو ں کودربار نبوی کا نمونہ پیش نظر رکھنا چاہیے جہاں کافروں اور منافقوں تک کو بار ملتا تھا اور ان کی بھی خاطر داری کی جاتی تھی‘ حضرت موسیٰ علیہ السلام فرعون کی ہدایت کے لیے بھیجے گئے تو ان کو حکم ملا کہ قولا لہ قولا لینا یعنی فرعون سے نرمی سے بات کرنا؟ دونوں گروہ اب قوم کے ضروری اجزاء ہیں اس لیے دونوں آپس میں دست و بازو ہو کر کام کرنا چاہیے۔ لیکن علماء کے جس گروہ نے جدید ضرورتوں کا اندازہ کیا ہے اور اس کے موافق عربی تعلیم میں اصلاح و اضافہ کرنا چاہتے ہیں وہ ان اصول کے سوا اور کیا اختیار کر سکتے ہیں‘ جو ندوہ نے اختیار کیا ہے اور جو عملی صورت میں ظاہر ہو رہا ہے۔ اگر قوم ان واقعات کو پیش نظر رکھے تو آج کل قوم کی کوششوں کی پراگندگی کا جو اعتراض ہے وہ اٹھ جائے اورلوگ اطمینان او ر سکون اور بے تعصبی کے ساتھ اپنی اپنی حدود میں محدود رہ کر اپنے کاموں کو انجام دیں۔ (الندوہ ج ۷ نمبر ۹) ستمبر سنہ ۱۹۱۰ء ٭٭٭ ہوا کا رخ دوسری طرف مشرقی کانفرنس ندوۃ العلماء کے متعلق ایک فرقہ تو و ہ ہے جس کی منفصلہ رائے ی ہے کہ یہ ایک بے معنی بلکہ مضر کام ہ لیکن جو لو گ اس کو اصلاً مفید بھی سمجھتے ہیں۔ وہ بھی ہمیشہ مجھ سے کہتے تھے کہ ہواکا رخ دوسری طرف ہے ۔ اس لیے ندوہ کامیاب نہی ہو سکتا۔ میرا اصول عمل یہ ہے ک اگر ایک کام قوم اور مذہب کے لیے ضروری ہے تو ہمارا فرض اس کے لیے کوشش کرنا ہے کامیابی یا ناکامیابی سے ہم کو بحث نہیں ہے ہم ان لوگوںمیں سے ہیں جن کا قومی نعرہ یہ تھا۔ اذا اھم القی بین عینیہ عزمہ ونکب عن ذکر العواقب جانبا جب قصد کرتا ہے تو اپنے عزم کو آنکھوں کے سامنے رکھ لیتا ہے اور اس سے کچھ بحث نہیںکرتا کہ انجام کیا ہو گا۔ سمندر میں جب کوئی کشتی شکستہ ڈوبنے لگتا ہے تو اس کو نظرآتا ہے کہ کوسوں تک کنارہ کا پتا نہیں کوئی سہارا نہیں اس کی شناوری ‘ سمندر کے عرض و طول کا مقابلہ نہیں کر سکتی ۔ تاہم کیا وہ دیدہ و دانستہ ہاتھ پائوں مارنا چھوڑ دیتا ہے ؟ اور قصداً ڈوب جاتا ہے؟ ہمارا اسی قدر فرض ہے فرض کا ادا کرنا ہی کامیابی ہے کسی اور کامیابی کی ہم کو ضرورت نہیں‘ لیکن واقعہ یہ ہے کہ اس کے ساتھ ہمیشہ ہاتف غیب کی دھیمی وار آہستہ آواز بھی میرے کانوں میں آیا کرتی تھی۔ کہ ممکن ہے ہ خود ہوا کارخ بدل جائے مشرقی کانفرنس اسی خواب کی تعبیر ہے۔ مشرقی تعلیم کی تحریکیں اس سے پہلے بھی ہوئیں ڈاکتر لاٹیز کی سرگرم کوششوں سے پنجاب میں تعلیم مشرقی کی ایک شاخ یونیورسٹی قائم ہوئ۔ الہ آباد یونیورسٹی میں ملا اور فاضل کے امتحانات اسی خیال سے ناتمام خاکے ہیں۔ سرسید مرحوم نے ہمیشی ان کوششوں کی سخت مخالفت کی۔ پنجاب یونیورسٹی پر ان کے تین پر زور آرٹیکل قلعہ شکن توپیں تھیں جن کے صدمہ نے مشرقی تعلیم کو چکنا چور کر دیا۔ الہ آباد یونیورسٹی جب بن رہی تھی تو بظاہر نظر آتا تھا کہ اس میں بھی مشرقی تعیم کی شاخ کھول جائے گی ۔ تو سرسید نے متعدد آرٹیکل اس زور سے لکھے ہیں کہ اس تجویز کے پرخفیچے اڑ گئے سرسید کی مخالفت اس پر مبنی تھی کہ وہ سمجھتے تھے کہ مشرقی تعلیم کی یہ کوشش مغربی تعلیم کی ترقی کو روک دے گی۔ جو ملک کے لیے نہایت ضرر رساں کام ہے۔ اس میں یک ذرہ شبہ نہیںکہ اگر ہم کو یہ یقین ہو کہ مشرقی تعلیم کی کسی تجویز سے مغربی تعلیم میں ذرہ بھر بھی کمی ہوگی۔ تو ہمارا فرض ہے کہ اس تجویز سے علانیہ فرت کا اطہار کر دیں۔ مسلمان اس وقت کش مکش زندگی کے میدان میں ہیں۔ ان کی ہمسایہ قومیں مغربی تعلیم ہی کی بدولت ان سے اس میدان میں بڑھ رہی ہیں۔ اگر خدانخواستہ مسلمان مغربی تعلیم کی کوشش میں ذرا بھی پیچھے رہ جائیں تو ان کی ملکی قور قومی زندگی دفعتہ برباد ہو جائے گی۔ لیکن اب وہ حالت نہیں ہے کہ مسلمانوں نے اچھی طرح سمجھ لیا ہے کہ ان کی دنیوی ترقی صرف اس بات پر موقوف ہے کہ ان کا ایک ایک بچہ انگریزی میں تعلیم یافتہ ہو جائے لیکن باوجود اس کے یہ ممکن ہے کہ مشرقی تعلیم کے لیے بھی جگہ نکل سکے۔ ترقی یافتہ قوموں کی مثا ل ہمارے سامنے موجود ہے یورپ سب کچھ کر رہا ہے۔ تاہم ان میں ایک وسیع گروہ موجود ہے۔ جو اپنی مذہبی تعلیم او مرزہبی لٹریچر کا محافظ ہ خود ہماری ہمسایہ قومون کا کیا حال ہے۔ آریہ انگریزی تعلیم میں اس قدر تیزی سے ترقی کر رہے ہٰں کہ مسلمان اس کی گرد کو بھی نہیں پہنچ سکتے ۔ تاہم وہ گروکل بھی قائم کر رہے ہیں۔ جو سنسکرت کی تعلیم کے لیے مخصوص ہے اور جس کا مقصد صرف اپنے مذہب اوراپنے لٹریچر کی اشاعت ہے۔ ا گروکل میں جو لڑکے داخل ہوتے ہیں ان سے عہد لیاجاتا ہے کہ دنیا کا کوئی کام نہیں کریں گے۔ ۲۴ برس کی عمر تک ان کو تعلیم دی جاتی ہے۔ سونے کو لکڑی کا تختہ ملتا ہے ۔ اپنے ہاتھ سے سب کام کرنا پڑتاہے۔ اس جفاکشی ارو دنیاوی سے تعلقی کے ساتھ تین سو دولت مند وں نے اپنے بچے اس میں بھیج دیے ہیں۔ اور ع ۲۴ ماہوار ایک ایک بچہ کا خرچ دیتے ہٰں ۔ ہر سال میں اس مدرسہ کے لیے لاکھوں کا چندہ جمع ہو جاتا ہ اورا س کی شاخیں جابجا قائم ہوتی جاتی ہیں۔ کیا اس مدرسہ نے آریوں میں انگریزی تعلیم کو کم کر دیا ہے؟ کیا انگریزی تعلیم پر کوئی برا اثر ڈالا ہے؟ بلکہ سچ یہ ہے کہ اس کے تعلیم یافتہ مدرسہ سے نکل کر تمام قوم میں انگریزی تعلیم اور دنیاوی ترقی کی روح پھونک دیں گے۔ تیر انداز اپنی جگہ پر رہتا ہے۔ لیکن تیر کوسوں نکل جاتا ہے۔ رجز خواں خود نہیںلڑتے‘ لیکن ہزاروں لڑنے والے پیدا کر دیتے ہیں۔ غرض اگر یورپ کو یہ ابین دنیا طلبی پادریوں کی حاجت ہے‘ اگر آریوں نے اس کو انگریزی خوانی گرو کل کی ضرورت ہے تو مسلمانوں کو بھی عربی تعلیم اور مذہبی تعلیم کی ضرورت ہے۔ اور یہ ضرورت ا س وقت تک جاری رہے گی جب تک مسلمانوں کی قوم کا باقی رہنا ضروری ہے۔ انہی اسباب سے باوجود تمام مخالفتوں کے ندوہ قائم ہوا اور باوجود تمام مزاحمتوں کے اس نے اپنا وجود قائم رکھا۔ یہ سوا ل پہلے ہی دن پیدا ہوا کہ ندوہ کے تعلیم یافتہ کیا کھائیں گے؟ اس کا جواب آسان تو یہ تھا کہ اب تک عام مولوی کسی نہ کسی طرح اپنی زندگی بسر کر رہے ہیں اور علم الاعداد سے نظر آتا ہے کہ عربی مدرسوں کی تعداد گھٹتی نہیںبلکہ بڑھتی جاتی ہے۔ جب ہم اس کو روک نہیں سکتے تو اس میں کیا حرج ہے کہ اس گروہ کو زیادہ بکار آمد بنا دیا جائے۔ لیکن اس کا اصلی اور صحیح جوب یہ ہے کہ مسلمان بہت جلد ا بات کا احسان کریں گے۔ کہ ان کو اپنی قومیت اور مذہب کے بقا کے لیے مشنری (یعنی مبلغین اسلام) قائم کرنے کی ضرورت ہے ۔ یورپ اس قدر دنیوی تعیم میں منہمک ہے تاہم صرف لندن میں مشنری پر دوکروڑ روپیہ سالانہ خرچ کر رہا ے۔ جب اسلامی مشنری قائم ہو گی تو ا سکے موزوں اور صحیح کارکن صرف ندوہ مہیا کر سے گا۔ لیک چونکہ ابھی تک اسلامی مشنری کا باقاعدہ طریقہ نہیں قائم ہوا اس لیے اس سوال کے جواب دینے کے لیے اور پہلوئوںپر بھی نظر پڑتی تھی۔ انہی میں ایک یہ بھی تھا کہ ندوہ کے تعلیم یافتہ کیا گورنمنٹ کے بھی کچھ کام آ سکتے ہیں۔ گورنمنٹ کی تعلیمی پالیسی اب تک یہ تھی کہ وہ مذہبی تعلیم سے بالکل الگ تھی اور مشرقی تعلیم بھی اس فن میں برائے نام تھی۔ لیکن ملک کی عام رئے یہ تھی کہ مذہبی تعلیم کے بغیر اخلاق اورتربیت کا شیرازہ قائم نہیں رہ سکتا۔ اس کے ساتھ یہ بھی خیال تھا کہ عربی اور سنسکرت زبانوں کی اعلیٰ تعلیم بھی سلسلہ تعلیم کا ایک ضروری حصہ ہے یہ کہنا مشکل ہے کہ گورنمنٹ نے بھی مذہبی تعلیم کی ضڑورت کا احساس کیا یا نہیں۔ لیکن یہ صاف نظر آتاہے کہ گورنمنٹ نے اس بات کو ضروری خیال کیاکہ مشرقی تعلیم کو جس قدر و عزت کی نگاہ سے دیکھا جائے حال میں گورنمنٹ نے جو مشرقی کانفرنس شملہ میں قائم کی۔ اس کے مقاصد میں سے بعض مقاصد یہ تھے۔ (۱) مشرقی و مغربی تعلیم میں اتحاد پیدا کرنا۔ (۲) علم الآثار (ارکیالوجی) کی تعلیم دینا اور جدید طریقہ تحقیقات آثار قدیمہ سے واقف کرنا۔ (۳) اعلیٰ طریقہ پر قدیم و قلمی کتب خانوں کی فہرست سازی (کیٹلاگنگ) کی تعلیم دینا۔ (۴) اعلیٰ مشرقی تعلیم کے لے بیش قرار وظائف مقرر کرنا۔ (۵) دیسی زبانوں کو ترقی دینا اور ان کے لیے امتحانات قائم کرنا۔ (۶) علمی مشرقی تعلیم یافتوں کے لیے کالجوں میں پروفیسری ‘ مدرسوں میں ٹیچری عجائب خانوںمیں تحقیقات آثار قدیمہ اور قدیم کتب خانوں میں ترتیب فہرست کے لیے عہدے قائم کرنا۔ (۷) کلکتہ کی مشرقی درسگاہوں کو متفق و متحد کرنا۔ (۸) افسروں کی زباندانی کا امتحان لینا۔ (۹) کلکتہ میں اغرا ض بالا کے لیے ایک عظیم الشان مشرقی درس گاہ قائم کرنا۔ یہ بات ظاہر ہیہ کہ علماء کا گروہ مسلمانوں کی جماعت کا ایک ضروری جز ہے۔ ان کی تعداد کثیر ملک میں موجود ہے۔ اورہمیشہ موجود رہے گی۔ ان کا قوم پر نہایت قوی اثر ہے‘ عربی زبان ایک علمی زبان ہے ان اسباب سے یہ مناسب نہیں کہ مشرقی تعلیم سے بالکل بے اعتنائی اختیار کی جائے البتہ اس کی ضرورت ہے ک اس کو زیادہ بکار آمد بنایا جائے۔ اور مذہبی حصہ کو چھوڑ کر باقی چیزوں میں ایسی ترقی اور اصلاح کی جائے کہ مشرقی تعلیم یافتہ لوگوں کی معاش کے لیے کچھ وسائل پیدا ہو سکیں۔ کانفرنس میں جو کچھ طے کیا ہے ‘ ابھی اس کی باضابطہ منظور نہیں ہوئی۔ ا سلیے اس کی تفصیل ابھی غیر ضروری ہے لیکن بظاہر حسب ذیل نتائج کی توقع کی جا سکتی ہے۔ (۱) گورنمنٹ کی طرف سے ایک انسپکٹر ہو گا۔ جو قدیم عربی مدارس کا معائنہ کر سکے گا۔ اگر مدرسہ کے مہتمم ایسی نگرانی کو پسند کریں گے۔ (۲) جن مدرسوں کو گورنمنٹ ا س قابل سمجھے گی کہ ان کو کچھ ماہوار امداد دے گی۔ (۳) کلکتہ میں بہت بڑے وسیع پیمانہ پر ایک مشرقی درس گاہ قائم ہو گی۔ مدارس عربیہ کے فارغ شدہ اگر چاہیں گے تو اس درس گاہ میں تعلیم حاصل کریں گے۔ (۴) اس درس گاہ کے تعلیم پانے والوں کو بیش قرار وظیفے دیے جائیں گے۔ (۵) اس درس گاہ سے سند لینے کے بعد ان کو متعدد آسامیاں مل سکیں گی جو مشرقی تخفیفات سے متعلق ہوں گی۔ (۶) مدارس عربیہ جن کو گورنمنٹ تسلیم کرے گی اور جس کے تعلیم یافتہ کم سے کم انگریزی زبا ن جانتے ہوں گے ان کو کالجوں اور اسکولوں کی پروفیسری اور مدرسی مل سکے گی۔ ان واقعات کے بیان کرنے سے غرض یہ ہے کہ جو فرقہ اب تک بغیر کیس معاوضہ کے عربی علوم کی تحصیل میں مشغول تھا۔ اب کسی قدر ذریعہ معاش حاصل ہونے کی صورت میں امید ہے کہ اپنا کام زیادہ مستعدی سے اور زیادہ وسعت حوصلہ سے انجام دے۔ ہم لوگ اگر عربی علوم اورمذہبی علوم کے جان وادہ اور جانثار ہیں تو ا س قدر معاوضہ ہمارے لیے بالکل کافی ہے اور کوئی غیر گورنمنٹ اس سے زیادہ اور کیا کر سکتی ہے۔ (الندوہ جلد ۸ نمبر ۸) (اگست سنہ ۱۹۱۱ئ) ٭٭٭ ریاست حیدر آباد کی مشرقی یونیورسٹی معلوم نہیںمسلمانوں میں کون سی مبارک ساعت میں تقلید کی بنیاد پڑی تھی کہ زمانہ کے سینکڑوں‘ ہزاروں انقلابات کے ساتھ بھی اس کی بندشیں ابھی تک کمزور نہیں ہوئیں۔ تعجب ہے اور سخت تعجب ہے کہ جدید تعلیم یافتہ فرقہ جو اجتہاد اور جدت کا دعوے دار ہے۔ اور درحقیقت جدید تعلیم کا یہی اثر ہونا چاہیے تھا۔ وہ بھی اسی طرح بے سمجھے بوجھے ایک عام راستے پر پڑ لیا ہے۔ اور کچھ نظر نہیں آتا کہ ہم کہاں جا رہے ہیں۔ جس تعلیم اور نتائج تعلیم کا اس قدر شور و غل ہے وہ کیا ہے؟ کالجوں کی ڈگریاں اور نوکریاں دو گرہیچ شاید یہ کہا جائے کہ اس کے سوا ہم کیا کر سکتے ہیں؟ اور اسی لیے تو ہم اپنی یونیورسٹی چاہتے ہیں۔ کہ اپنی ضرورتوں کے موافق اپنی تعلیم کا سامان بہم پہنچائیں لیکن مجبوری یہ ہے کہ اس قدر روپیہ بہم نہیں پہنچتا کہ یونیورسٹی بن سکے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ یونیورسٹی بن سکتی ہے وہاں کیا ہو رہا ہے؟ حیدرا ٓاباد میں عنان تعلیم انہی لوگوں کے ہاتھوں میں رہی ہے جو ہندوستان یونیورسٹی بنانے کے محرک اور جان دادہ ہیں۔ یونیورسٹی کے لیے دس لاکھ روپیہ مانگا جا رہا ہے حیدر آباد میں ایک منٹ میں یہ رقم مل سکتی ہ حیدر آباد میں صرف ایک کالج پر ڈیڑھ لاکھ روپیہ صرف ہو سکتا ہے۔ حیدر آباد کو اس بات کی کچھ پروا نہیں ہو سکتی۔ کہ اگر وہ اپنی یونیورسٹی بنائے تو اس کے تعلیم یافتہ انگریزی گورنمنٹ میں نوکریاں نہ پائیں گے۔ کیونکہ حیدر آباد خود ایسی وسیع ریاست ہے کہ وہاں کے تعلیم یافتہ دوسری جگہ نوکری کرنے کے محتاج نہیں لیکن تقلید پرستی کی یہ حالت ہے کہ انگریزی تعلیم میں کسی قسم کی اصلاح و ترمیم ایک طرح خاص مشرقی تعلیم میں بھی جس کے لیے اب وہاں ایک دارالعلوم ہے۔ پنجاب یونیورسٹی کے مشرقی امتحانات کے بیہودہ نصاب کی آج تک تقلید کی گئی ہے پنجاب نے مولوی فاضل اور مولوی عالم وغیرہ کے جو امتحانات مقرر کیے ہیں وہ دنیا کے کام کے ہیں۔ نہ دین کے تاہم آج تک ا سکی محکومی کی گئی۔ اور اس وقت تک آزادی کا خیال نہ آیا۔ جب تک خود یونیورسٹی نے یہ قاعدہ نہیں بنایا کہ ہم دوسرے ممالک کے لوگوں کو اپنے امتحانات میں شریک نہیں کر سکتے۔ دوسہ بار باتو گفتم کہ مرابہ ہیچ بستان نشد اتفاق شاید کہ بہ ایں بہا گرا نم بہرحال خوبی تقدیر سے پنجاب یونیورسٹی نے حیدرآباد کے طلبہ کو اپنے امتحانات میں شامل کرنے سے روکا‘ اب اگر یہ ممکن ہوتا کہ یہ سب طلبہ وہاں کے انگریزی سکولوں میں داخل ہو جاتے تو پھر اسی تقلید پرستی کے دام میں گرفتار ہو جاتے۔ از دام جستہ باز سوئے دام میر دو لیکن سات سو طلبہ جو انگریزی کے ایک حرف سے واقف نہ تھے اور جن میں سے اکثرانگریزی پڑھنا بھی نہیں جانتے تھے۔ وہ کیونکر ایک نئی زندگی اختیا ر کر سکتے تھے۔ غرض اب وہ خیال ہوا کہ دارالعلوم کا نصاب یہاں کی ضرورتوں کے لحاظ سے خود تیار کیا جائے۔ نواب عماد الملک بہادر بلگرامی سی ایس آئی۔ ممبر انڈیا کونسل اس وقت ناظم تعلیمات تھے۔ انہوں نے سرکار میں یہ تجویز پیش کی اور منظور ہوئی۔ ا س کے بعد نواب صاحب موصوف نے میرے نام ایک سرکار مراسلہ بھیجا جس کا اقتباس حسب ذیل ہے: ’’اس وقت باعث تصدیع ی امر ہوا کہ میں نے اس حادثہ (میرے پائوں کے زخمی ہونے کی طرف اشارہ ہے) کے چند ہی روز پہلے سرکا ر میں یہ تجویز پیش کی تھی کہ چونکہ ہمارے دارالعلوم کا تعلق اب پنجاب یونیورسٹی سے منقطع ہو گیا ہے پس مناسب ہو گا کہ ہم اپنے لیے خود ہی مناسب انتظام کر لیں یعنی عربی و فارسی نصاب تعلیم مرتب کرنے کی غرض سے ایک کمیٹی جلد مقرر کی جائے۔ جس میںایک رکن آپ ہوں اور نصاب تعلیم زمانہ حال کی ضرورتوں کے لحاظ سے مرتب ہوتا کہ جو لوگ اس مدرسہ میں تعلیم پاکر امتحان میں کامیابی حاصل کریں۔ وہ سرکاری خدمات کے ادا کرنے کے اہل پائے جائیں‘‘۔ اس امر کے اطلاع دینے سے میرا یہ منشاء نہیں کہ آپ سے فوراً تکلیف گوارا کرنے کی خواہش کروں بلکہ محض اس قدر اطمینان حاصل کرنا منظور ہے کہ کامل صحت کے بعد آیا یہ ممکن ہو تگا کہ آپ یہاں تشریف لائیں۔ ایسے قومی کاموں میں ااپ ہمیشہ تکلیف گوارا کرتے رہے ہیں۔ اگر آپ ک اتشریف لانا ممکن نہ ہو تو کیا آپ نصا ب تعلیم پنجاب یونیورسٹی پر نظر غائر ڈال کر ایک جدید نصاب وہیں مرتب فرما سکتے ہیں۔ ترمیم نصاب میں چند ابواب مدنظر رہیں تو بہترہے۔ (۱) اصلاح نصاب موجودہ پنجاب یونیورسٹی بہ لحاظ متقضائے وقت و زمانہ و ضروریات خدمات حکومتی۔ (۲) تکمیل تحصیل علوم شرقیہ مددوم کی ضرور ت اس وجہ سے ہے کہ پنجاب کی اورئینٹل تعلیم ناقص ہے۔ بہت سے علو م جن سے تکمیل فضیلت کم ہوتی ہے۔ اس تعلیم میں متروک ہیں۔ اس لیے مناسب معلوم ہوتاہے کہ جماعت مولوی فاضل سے بالاتر اقل مرتبہ دو جماعتیں ہوں جن میں تحصیل کی تکمیل ہو سکے۔ میرے رائے ناقص میں اگرچہ سلسلہ نظامیہ کی پابندی ضروری نہیں ہے مگر تکمیل تحصیل کے لیے کچھ اضافہ کتب درسیہ کی ضرورت ہے‘‘۔ نواب صاحب موصوف کا یہ خط اس وقت پہنچا جب مجھ پر پائوں کے زخمی ہونے کا واقعہ گزار چکا تھا اور میں صاحب فراش تھا جب اس سے صحت ہوء تو مولوی عزیز مرزا صاحب ہوم سیکرٹری حیدر آباد نے نواب عماد الملک بہادر کی تحریر کی بنا پر مجھ کو پھر طلب کیا اورمیں جون ۱۹۰۸ء مٰں حیدر آباد گیا۔ وہاں چند روزرہ کر ایک نصاب تیار کیا۔ اور اس کے متعلق ایک یادداشت لکھی جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ نصاب کن اصولوں پر تیار کیا گیا ہے۔ یادداشت مذکور کی نقل درج ذیل ہے: رپورٹ متعلق اصلاح نصاب دار العلوم حیدر آباد بموجب مراسلہ ناظم صاحب سابق نواب عماد الملک بہادر مراسلہ و ناظم صاحب حال مورخہ ۳ ماہ الٰہی سنہ ۱۳۱۷ھ نشان (۱۲۲۳) دارالعلوم ک نصاب اورمدت تعلیم میں جو تغیر اور اصلاح میں نے کی ہے اور جس کا نقشہ اس یادداشت کے ساتھ منسلک ہے۔ اس کی نسبت میں ایک علیحدہ مفصل یادداشت پیش کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ جس سے یہ ظاہر ہو گا کہ ترمیم اور اصلاح کن اصولوں پر کی گئی ہے اور ترمیم اوراصلاح کے مہمات امور کیا ہیں۔ نصاب دارالعلوم کی ترتیب دینے کے وقت سب سے پہلے یہ امر پیش نظر ہونا چاہیے کہ دارالعلوم کا اصلی مقصد کیا ہے اور کس قسم کے لوگ اس سے پیدا کرنے مقصود ہیں۔ دارالعلوم جب تک پنجاب یونیورسٹی سے متعلق رہا اس کی غرض صرف ایسے لوگو ں کا پیدا کرنا تھا جو سرکاری دفاتر میں کام کرنے کے لائق ہوں اور اس مقصد میں دارالعلوم نمایاں طور پر کامیاب رہا لیکن اب جب کہ دارالعلوم خود مختار اور آزاد ہو گیا ہے اس کے مقاصد زیادہ وسیع ہو گئے ہیں اس کی غرض اب ایسے اشخاص بھی پیدا کرنا ہے جو نہ صرف سرکاری دفاتر میں کام کرنے کے قابل ہوں بلکہ ا سے ایسے اشخاص بھی پیدا ہوں جو شرعی خدمات انجام دینے کے قابل ہوں۔ جو علوم دینیہ مثلاً تفسیر‘ حدیث‘ فقہ ‘ ادب میں کمال رکھتے ہوں جو ملک میں مذہبی عالم کی حیثیت سے تسلیم کیے جا ستکے ہوں ۔ اور اس بنا پر ان کی ہدایت اور تلقین کا عامہ اہل اسلام پر پڑ سکے۔ اوروہ عوام میںعمدہ اخلاق اورمذہبی خیالات پھیلا سکیں ۔ جو علوم قدیمہ کے ساتھ جدید علوم و فنون اور جدید خیالات سے بھی آشنا ہوں تاکہ جدید تعلیم یافتہ گروہ پر ان کا اثر پڑ سکے۔ یہ امر بھی خاص طورپر قابل توجہ ہے کہ اس وقت تک جو تعلیم جدید تمام ہندوستا ن میں جاری ہے اس کی نسبت تمام اہل الرائے نے تسلیم کیا ہے کہ وہ ہماری ضرورتوں کے لیے کافی نہیں لیکن چونکہ بغیر اس طریقہ تعلیم کے سرکاری نوکریاں حاصل نہیں ہو سکتیں ۔ اس لیے چاروناچار اسی طریقہ کو اختیار کرنا پڑتا ہے ۔ لیکن یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس طریقہ تعلیم میں ہماری مذہبی اور قومی خصوصیات کا کوئی انتظام نہیں۔ اس میں نہ مذہبی تعلیم ہے نہ قومی تاریخ سے کچھ واقفیت ہو سکتی ہے ۔ نہ اسلامی اخلاق اورمسائل اخلاق کا علم ہو سکتاہے۔ اس کا یہ نتیجہ ہے کہ اگر ایک شخص گو بی اے یا ایم اے کی ڈگری حاصل کرے لیکن اسلامی مسائل ‘ اسلامی تاریخ اسلامی اخلاق کے متعلق اس کی واقفیت اور اس کی پوزیشن ا سے کچھ زیادہ نہیں ہو سکتا۔ جو ایک عامی مسلمان کا ہو سکتا ہے۔ باایںہمہ ہندوستان میں اس مشکل کا کچھ علاج تو نہیں ہو سکتا۔ اس لیے کہ یونیورسٹی کا نصاب تعلیم اس قدر وقت اور فرصت نہیں دے سکتا کہ دوسری چیزوں کے حاصل کرنے کے لیے موقع ہاتھ آئے۔ لیکن چونکہ ریاست نظام ایک وسیع مملکت ہے اور اس وقت اس نے سرکاری نوکریوں کے لیے یونیورسٹیوں کی ڈگریوں کی تعلیم لازمی قرار نہیں دی۔ اس لیے اس کو موقع ہے کہ موجودہ طریقہ تعلیم کے علاوہ ایک ایسا خاص سلسلہ تعلیم بھی قائم کرے جس میں انگریزی تعلیم کے ساتھ اسلامی علوم اور اسلامی تاریخ بھی شامل ہو اور جس کے تعلیم یافتہ گو یا دونوں قسم کی تعلیم کا مجموعہ ہوں۔ اس قسم کی تعلیم کا انتظام دارالعلوم میں ہو سکتا ہے۔ اور ہم کو موجودہ نصاب کے مرتب کرنے میں اس پہلو کو بھی پیش نظررکھنا چاہیے۔ اغراض مذکورہ بالا کے لحاظ سے نصاب موجودہ میں جو تغیر اور اضافہ کیا گیا ہے اس کی تفصیل حسب ذیل ہے۔ (۱) ہر فن کی تعلیم کا عمدہ طریقہ یہ ہے کہ ایسی کتابیں درس میں رکھی جائیں۔ جن میں تمام مسائل نہایت سادہ‘ صاف اور واضح طریقہ س بیان کیے گئے ہوں۔ تاکہ طالب العلم بہ آسانی تمام مسائل پر حاوی ہو جائے۔ اس بنا پر وہ کتابیں جو معیار اور چیستان کے طور پر اس قدر مختصر اور مغلق رکھی گئی ہیں کہ ایک ایک سطر میں ایک ایک صفحہ کے مطالب کھپا دیے گئے ہیں۔ وہ خارج کر دی گئیں۔ (۲) قدیم نصاب میں اکثر ایسی کتابیں ہیں جن میں دوسرے علوم کے مسائل مخلوط کر دیے گئے ہیں اس لیے غلط بحث کی وجہ سے طالب العلم اس فن کے مسائل سے دوچار ہو جاتا ہے۔ مثلاً ملا حسن‘ میر زاہد‘ قاضی مبارک وگیرہ کہ یہ کتابیں دراصل منطق میں ہیں۔ لیکن ان میں فلسفہ اور امور عامہ کے دقیق مسائل ا قدر شامل کر دیے گئے ہیں۔ کہ اصل فن کے مسائل پر گویا پردہ پڑ گیا ہے اور اس کا نتیجہ ی ہے کہ یہ تمام کتابیں پڑھ کر بھی طالب العلم کو خاص منطقی مسائل کی مشق نہیں ہوتی۔ اور یہ نہیں کر سکتا کہ تقریر اور مناظرے میں اپنے دعوئوں کو اشکال منطقی کے ذریعے سے ثابت کر سکے۔ اس بنا پر نصاب حال میں ہر فن میں وہی کتابیں رکھی گئی ہیں جن میںخالص اسی فن کے مسائل استعیاب کے ساتھ مذکور ہیں۔ (۳) قدیم نصاب میں قرآن مجید کی تعلیم کا حصہ نہایت کم ہے ۔ قرآن مجید کا متن تک درس میں نہیں‘ تفسیروں میں صرف دو تفسیریں درس میں داخل ہیں۔ ایک جلالین جس کے الفاظ اور قرآن مجید کے الفاظ عدد میں برابر برابر ہیں اور دوسری بیضاوی جس میں صرف ڈھائی پارے پڑھائے جاتے ہیں جو کتاب کا پندرھواں حصہ بھی نہیں۔ اس لیے قرآن مجید کی تعلیم کا حصہ زیادہ تر وسیع کیا گیا ہے۔ (۴) قدیم نصاب میں اد ب اور لٹریچر کا حصہ نہایت کم ہے۔ حالانکہ ادب کے بغیر تفسیر حدیث‘ اصول فقہ کسی چیز میں کمال حاصل نہیں ہو سکتا۔ اس بناء پر ادب کا نصاب بہت بڑھا دیا گیا ہے۔ (۵) یہ عام شکایت ہے ہ عربی خواں سب کچھ پڑھ جاتے ہیں مگر چند سطریں صحیح عربی کی نہین لکھ سکتے اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ ادب کی تعلیم کم تھی دوسری یہ کہ انشا پردازی اورم ضمون نگاری کی مشق نہیں کرائی جاتی تھی۔ اس لیے نصاب حال میں انشا پردازی کے لیے خاص گھنٹے مقرر کیے گئے۔ (۶) عقائد و علم کلام میں صرف ایک کتاب اور وہ بھی معمولی درجہ کی درس میں تھی۔ یعنی شرح عقائد نسفی حالانکہ یہ فن تمام اسلامی فنون پر مققدم اور سب کا اصل الاصول ہے۔ اس لیے اس فن میں متعدد اوبلند پایہ کتابیں نصاب میں رکھی گئیں۔ (۷) تاریخ اسلام اور عام تاریخ کی ایک کتاب بھی نہ تھی‘ اس لیے اس فن کی کتابیں بھی داخل کی گئیں۔ (۸) علوم جدیدہ کی بعض کتابیں جو عربی میں ترجمہ ہو گئی ہیں۔ نصاب میں شامل کی گئیں لیکن ا موقع پر ظاہر کر دینا ضرور ہے کہ ان کے پڑھانے کا انتظام مشکل ہے۔ ہمارے علماء ان کتابوں کو پڑھا نہیں سکتے۔ اورانگریزی خواں‘ عربی زبان سے آشنا نہیں ہیں۔ یہ ہو سکتا تھا کہ اردو میں جو کتابیں موجود ہیں وہ داخل نصاب کر دی جائیں ۔ لیکن جہاں تک مجھ کو معلوم ہے طبیعیات کی جو کتابیں اردو میں موجود ہیں وہ مدل کے رتبہ سے زیادہ نہیں۔ اس کے سوا عربی خواں طلبہ اردو زبان کی کتاب کو وقعت کی نظر سے نہیں دیکھ سکتے اس کی صرف تدبیر یہ ہے کہ ایسے پروفیسر مقرر کیے جائیں جنہو ں نے بی اے سائنس لیا ہو اور عربی زبان ان کی سیکنڈ لینگوج رہی ہو۔ (۹) انگریزی زبان بطور سیکنڈ لینگوج کے لیازمی قرار دی گئی ہو۔ میں انگریزی زبان سے واقف نہیں ہوں۔ اس لیے میں نے انگریزی کتابوں کا نام نہیںلکھا ہے لیکن ا قدر بخوبی جانتا ہوں کہ مجوودہ نصاب میں ا س قدر گنجائش ہے کہ انگریزی زبان دانی کی کتابیں انٹرنس تک کی اس میں شامل کی جا سکتی ہیں۔ اور درجہ فاضل کے بعد دو برس اس غرض سے رکھے گئے ہیں کہ جو شخص چاہے دو برس تک صرف انگریزی زباندانی کی تعلیم حاصل کرے جس سے وہ انگریزی زبان پر بخوبی قادر ہوسکتاہ۔ (۱۰) نصاب سابق میں ابتداسے اخیر تک مدت تعلیم ۹ ۱ برس تھی۔ لیکن یہ مدت بہت زیادہ تھی اس لیے گھٹا کر کل مدت ۱۴ برس قرار دی گئی ہے۔ (۱۱) نصاب مرتبہ کی ترتیب یہ ہے کہ ابتدائی تعلیم کی مدت ۵ سال قرار دی گء ہے اور یہ فرض کیاگیا ہے کہ لڑکا ساتویں برس کے سن سے دارالعلوم کی ابتدائی جماعتوں میں لیاجائے گا یہ توتعلیم پانچ برس میں تمام ہو گی اور اس میں اردو اور ابتدائی فارسی اور حساب وار کسی قدر انگریزی کی تعلیم ہو گی۔ اس درجہ کے بعد دو الگ شاخیں شروع ہوں گی ۔ یعنی منشی اور عالم اور طالب علم کو اختیار ہو گا کہ ان دونوں شاخوں میں سے جس شاخ کو چاہے اختیا ر کرے۔ منشی کے ۳ سال اور منشی عالم کے ۲ سال وار منشی فاضل کا ایک سال مقرر کیا گیا ہے۔ منشی فاضلتک طالب علم کو فارسی زبان میں عمدہ مہارت اور عربی کی سواد خوانی اور انگریزی بقدر عام ضرورت آ جائے گی۔ عربی کے دو درجے قرر دیے گئے۔ عالم اس کی مدت تعلیم ۸ بس ہے یہ درجہ بی اے کے برابر ہے۔ اس میںتمام علوم متداولہ عربی اور بعض علوم جدیدہ اور انگریزی زباندانی انٹرمیڈیٹ کے درجہ تک آ جائے گی یہ میری خاص رائے ہے کہ لیکن اگر یہاں کے حالات کے لحاظ سے ضروری ہو تتو بیچ میں ایک اور درجہ مولوی یا ملا کے نام سے قائم کر دیا جائئے۔ اور یہ درجہ پانچویں سال تک تمام ہو جائے۔ ا س کے بعد تین برس عالم کے لیے رکھے جائیں۔ فاضل کی اس مدت تعلیم دو برس ہے ار یہ درجہ ایم اے کے برابر ہے اس میں کسی ایک خاص فن کی پوری تعلیم ہوگی اور طالب علم اس خاص فن کی تکمیل کرے گا۔ اور اسی فن کے انتساب سے موسوم ہو گا مثلاً مفسر ادیب فقیہ وغیرہ۔ عالم یا فاضل کے درجہ کے بعد ضرور ہے کہ چند طلبہ کو دو برس تک خالص انگریزی زبان سکھائی جائے تاکہ انگریزی زبان میں تحریر کا ملکہ ہو اور ایسے علماء پیدا ہوں کہ یورپ کی علمی تحقیقات میں اسلامی علوم میں اضافہ کر سکیں۔ اور انگریزی دان جماعت کے مجمع میں انہی کی زبان اور خیالات میں اسلامی عقائد اور مسائل پر تقریر کر سکیں۔ (۱۲) نصاب تعلیم کے نقشے کے ملاحظہ سے چونکہ ہر فن کی کتابیں یک جائی طور پر پیش نظر نہ ہوں گی اس لیے اس موقع پر ہر فن کی الگ الگ کتابیں یکجا لکھ دی جاتی ہیں۔ جس سے بیک نظر اس بات کے اندازہ کرنے کاموقع ملے گا کہ ہر فن میں کس پایہ کی اور کس درجہ کی کتابیں نصاب میں تجویز کی گئی ہیں۔ ادب و معانی و بیان اخوان الصفاء لالطباق الذہب عبدالمومن اصفحانی سبعہ معلقہ مجموعہ الادب حسن التوسل الیٰ صناعۃ الترسیل مختصر المعانی‘ متبنی ‘ تیمیہ بن المقفع مقامات جریری حماسہ‘ نقد الشعراء بن قدامہ نہج البلاغۃ۔ اسراالبلاغۃ‘ عبدالقادر جرجانی کتاب الصناعتیں ابوہلال عسکری۔ فقہ و اصول فقہ قددری‘ سراجی‘ درمختار‘ ارکان اربعہ مولانا بحر العلوم‘ ہدایہ ‘ نورالانوار‘ تحریر ابن الہمام‘ مسلم الثبوت‘ توصیح ‘ و تلویح‘ رسالہ امام شافعی قرآن مجید و تفسیر الہدایۃ الیٰ الصراط المستقیم فوز الکبیر فی اصول التفسیر ‘ جلالین ‘ بیضاوی ‘ احکام القرآ ن ابوبکر رازی۔ فلسفہ ہدیہ سعیدیہ‘ شرح ہدایۃ الحکمت از خیر آبادی شرح اشارات رازمی و طوسی‘ شرح حکمۃ الاشراق ‘ شمس بازغہ‘ دوس الاولیہ فی العلوم الجدیدہ ہئیات جدیدہ۔ کلام و اسرار الدین رسالہ التوحید معالم امام راز حجۃ اللہ البلالغہ اس یادداشت اورنصاب پر غور رنے کے لیے ایک کمیٹی قرار پائی‘ جس کا اجلاس شعبان سنہ ۱۳۲۶ھ میں قرار پایا لیکن چونکہ عین اسی زمانہ میں ندوہ کی خاص ضرورت سے مجھ کو لکھنو واپس آنا پڑا۔ اس لیے وہ اجلاس ملتوی ہو گیا۔ اس کے بعد میں ۲۳ جنوری سنہ ۱۹۰۹ء کو پھر حیدر آباد آ گیا اور ایک کمیٹی نصاب مرتبہ پیش کیا گیا۔ اس کمیٹی میں مولوی عزیز مرزاصاحب معتمد عدالت و افسر تعلیمات شمس العلماء مولوی سید علی صاحب بلگرامی ‘ مولوی انوار اللہ صاحب استاد حضور نظام سید ابوبکر شہاب یمنی‘ مولوی عبدالحکیم صاحب‘ شررمددگار ناظم تعلیمات اور دیگر اصحاب شریک تھے ۔ لیکن چونکہ اس کمیٹی میں کچھ مراتب باقی رہ گئے تھے اس لیے ۷ ۱ فروری سنہ ۱۹۰۹ء کو اس کا پھر ایک اجلاس ہوا۔ جس کے پریذیڈنٹ جناب نواب فخر الملک بہادر وزیر عدالت تھے اور جس میں نواب عماد الملک بہادر اور ڈاکٹر سید سراج الحسن ناظم تعلیمات بھی بہ حیثیت رکن کے شریک تھے۔ دونوں کمیٹیوں میں آزادی سے ہر پہلو پر بحث ہوئی اور کسی قدر تغیر اور ترمیم کے ساتھ نصاب متربہ منظور کیا گیا۔ نواب عماد الملک بہادر کی رائے تھی کہ علوم عربیہ کے ساتھ انگریزی کی تعلیم نہیں ہو سکتی۔ اس لیے اس کو نصاب سے خارج کر دینا چاہیے۔ لیکن یہ جب ظاہر کیا گیا کہ علوم عربیہ میں بہت سی فضول کتابیں جو منطق و فلسفہ کی شامل تھیں۔ خارج کر دی گئی ہیں۔ اس لیے کافی گنجائش ہو سکتی ہے۔ تو نواب صاحب اور موصوف نے بھی اتفاق ظاہر کیا۔ ہم کو اس پر کسی قدر تعجب ہوا کہ اس کمیٹی میں نہایت متقشف اور پرانے خیال کے علماء بھی شریک تھے تاہم انگریزی کے داخل کرنے سے کسی نے انکار نہیں کیا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حیدر آبادمیں ہندوستان کی بہ نسبت روشن خیالی کا اثر زیادہ ہے۔ نصاب کے طے پانے کے بعد اسی کے موافق دارالعلوم میں جدید اسٹاپ قائم ہو گا۔ اس کے ساتھ ایک مجلس بطور سینٹ کے قائم ہو گی اوراسی کے لیے فیلوز منتخب ہوں گے اس طرح ایک مشرقی یونیورسٹی کی بنیاد قائم ہو جائے گی۔ نہایت مسرت کی بات ہے کہ اس وقت افسران تعلیم نواب فخر الملک بہادر وزیر عدالت اور مولوی عزیز مرازا صاحب معتمد عدالت اور سید سراج الحسن صاحب ناظم تعلیمات ہیں ا س لیے ہر طرح پر امید ہے کہ یونیورسٹی عمدہ اورمستحکم اصول پر قائم ہو گی۔ یہ ہم نے باربار کہا ہے اوراب پھر کہتے ہیں کہ ہم مسلمانوں کے لے نہ صرف انگریزی مدرسوں کی تعلیم کافی ہے نہ قدیم عربی مدرسوں کی‘ ہمارے درد کا علاج ایک معجون مرکب ہے جس کا ایک جز مشرقی اور دوسرا مغربی ہے۔ در کفے جام شریعت در کفے سندان عشق ہر ہو سنا کے نہ داند جام و سنداں باختن (الندوہ ج ۶ نمبر ۲ مارچ سنہ ۱۹۱۹ئ) ٭٭٭ احیا ء علوم عربیہ اور ایک ریڈیکل ضبط کروں میں کب تک آہ چل رے خامہ بسم اللہ جدید تعلیم کے فرزندان رشید میں سے ایک صاحب نے جو اپنے آپ کو ریڈیکل کہتے ہیں علی گڑھ منتھلی میں ایک مضمون احیاء علوم عربیہ کے عنوان سے لکھا ہے ۔مضمون کا شان نزول وہ تحریک ہے جس کا منشا یہ ہے کہ علی گڑ ھ میں علوم عربیہ کی تعلیم کا انتظام کیا جائے یہ تحریک ایک انگریزی پروفیسر کی طرف سے پیش ہوئی تھی۔ جس کی نسبت یہ کہا جاتا ہے کہ خود گورنمنٹ کے ایماء کا بھی اس میں شائبہ تھا۔ ہمارے قومی لیڈروں نے نہایت دلیری نہایت آزادی نہایت استقلال سے اس تجویز کی مخالفت کی اور دنیا پر ثبات کر دیا کہ ایسے ضروری موقع پر جب کہ احتمام تھا کہ مسلمانوں کی قوم اس تجویز سے دفعتہ برباد نہ ہو جائے نکتہ چنینیوں کو یہ اعتراض واپس لینا پڑے گا کہ ہمارے لیڈر کسی انگریز افسر کی تحریک کی مخالفت نہیں کر سکتے۔ لیکن اس وقت تک مخالفت کی جو وجہ ارکان کالج یعنی نواب محسن الملک اور مولوی نذیر احمد صاحب نے اپنے پرزور آرٹیکلوں میں ظاہر کی وہ صرف یہ تھی کہ ابھی یہ وقت نہیں آیا کہ مسلمانوں کو انگریزی تعلیم سے ایک منٹ کے لیے بھی دوسری چیزوں کی طرف متوجہ ہونے کی اجازت دی جائے۔ اگرچہ یہ امر کچھ تعجب انگیز نہ تھا ۔ کہ ایسا کالج جس کے نام کے ساتھ اورئنٹل کا لفظ شامل ہے جو ہمیشہ تحریروں اور تقریروں کے ذریعہ سے مسلمانوں کے قومی اور مذہبی تعلیم کے مرکز ہونے کادعویٰ کرتا ہے جو اپنے مہمات کو ایران تک وسیع کر کے لیے گیا وہاں کے لوگوں کو اپنے دائرہ اثر میں لانا چاہتا ہے۔ جس کی مجوزہ یونیورسٹی کی ایک بڑی خصوصیت ی ہے علوم مزہبی کا احیا ہے۔ عربی تعلیم کی طرف سے صریح ایسی بے اعتنائی کا اعلان کرے۔ کیونکہ یہ بالکل ممکن تھا کہ انگریزی تعلیم کوبغیر کسی نقصان کے پہنچانے کے عربی تعلیم کا بھی بقدر ضرورت انتظام کیا جاتا۔ تاہم ان بزرگوں نے نفس علوم عربیہ پر کوئی حملہ نہیںکیا تھا۔ جس کی وجہ شاید یہ تھی کہ علوم عربیہ کے پڑھنے سے جیسا کہ ریڈیکل صاحب نے بیان کیا ہے طبیعت میں آزادی اور دلیری نہیں پیدا ہوتی ۔ اور بزرگان ممدوح علوم عربیہ ہی کے تعلیم یافتہ ہیں۔ لیکن ریڈیکل صاحب تعلیم جدید کے یادگار ہیں ا س لیے وہ نہایت آزادی اور دلیری سے آگے بڑھے اور اصل راز کاپردہ اٹھا دیا۔ یعنی یہ کہ علوم عربیہ خود اس قابل نہیںکہ ان کی تعلیم و وقت ضائع کیا جائے۔ ان کے مقتبس فقرے بیعنیہ حسب ذیل ہیں: ’’بہرصورت ہمیںاس رائے سے بالکل اختلاف ہے کہ عربی میں ایسے علوم موجود ہیں جن کی تعلیم ہمارے دماغوں میں روشنی دلوں میں صفائی‘ خیالات میں پاکیزگی ارادوں میں بلندی اورطبیعتوں میں استقلال پیدا کرے گی۔ ‘‘ ’’ہم جہاں تک سمجھتے ہیں عرب ہمیشہ ایک نہایت جاہل اور وحشی قوم ہے شائستگی اور تہذیب سے ان کو بہت کم حصہ ملا ہے۔ لہٰذا ان کی زبان میں علوم و فنون کے کسی عمدہ ذخیر ہ کا موجود ہونا بعید از قیاس ہے‘‘!!! (صدقنا و آمنا) ایسی حالت میں جب کہ رسولؐ کا نواسہؓ تشنہ لب کربلا میں شہید کیا جائے صحابہؓ کی داڑھیاںنوچی جائیں اور مسجد نبوی میں گھوڑے کی لید ڈالی جاے علوم و فنون کی کیا خاک تدوین و اشاعت ہو سکتی ہے۔ ’’زمانہ جاہلیت کاکل نظم کا ذخیرہ عربوں کی خانہ جنگی اور خونریزی کے قصص یا اونٹنی کی لمبی گردن اور کھجور کی خاردار شاخ کی تعریف و توصیف سے پر ہے کسی قسم کے علمی مضامین کا اس میں پتہ نہیں۔ پچھلے زمانہ کے کلام میں سوائے عیش پرست خلفاء اوران کے مہ جبیں معشوقوں کی تعریف اور شراب و کباب کی توصیف کے کیا رکھا ہے؟ ایسی گندہ اور بے کار نظم کو پڑھنے سے بجز تخریب اخلاق کے کیا فائدہ ہو سکتا ہے؟‘‘ ’’کہا جاتا ہے کہ فن تاریخ میں عربوں نے بہت ترقی ک تھی وہ تاریخیں بیشتر تو عمدہ دیباچوں اور حواشی کے اضافہ کے ساتھ یورپ کی زبانوں میں ترجمہ ہوگئیں۔ ان کا مطالعہ اصل عربی کتابوں سے بہت زیادہ مفید ہے‘‘۔ (یہاں تک ریڈیکل صاحب کے فقروں کا اقتباس تھا) سب سے پہلے قابل لحاظ امر یہ ہے کہ احیا العلوم عربی کے مسئلہ پر ریڈیکل صاحب کو اس پل وسے بحث کرنے کی کوئی ضرورت بھی تھی یا نہیں؟ ہم ریڈیل صاحب اور تمام مخالفین عربی سے پوچھتے ہیں کہ اگر تھوڑی دیر کے لیے بفرض محال یہ تسلیم کر لیا جائے کہ عربی میں قابل قدر ذخیرہ علمی موجود ہے۔ تو وہ کیا عربی جائز رکھیں گے؟ مسٹر مارلیسن نے عربی کے ساتھ ساتھ جدید سائنس کی اسکیم بھی پیش کی تھی۔ کیا مخالفین عربی نے اس اسکیم کی تائید کی؟ کیا سائنس بھی عربی کی طرح قابل التفات نہیں ہے؟ یہ امر قابل لحاظ ہے کہ کیا جدید گروہ عل کو علم کے لیے پڑھتا ہے کیا اگر انگلش تعلیم سرکاری ملازمت کا ذریعہ نہ رہے تو ایک شخص بھی کسی کالج کے احاطہ میں نظر آئے گا؟ کیا کالج سے نکلنے کے بعد بھی انگریزی کے ذخائر علمی کو اس گروہ کے دربار سے باریابی کی عزت ملتی ہے؟ جب یہ حالت ہے تو احیاء عربی کی تجویز سے انکار کے لیے صرف یہ وجوہ کافی تھے کہ ہماری زندگی اور ہماری تعلیم کا مقصد سرکاری ملازمت اورنوکری ہے اوریہ عربی علوم سے حاصل نہیںہو سکتی۔ یہ بالکل بجا استدلال ہتھا جس سے کوئی شخص انکار نہیں کر سکتا تھا۔ ریڈیکل صاحب کی غرض اگر بالذات علوم عربیہ کی تنقیص اور تحقیر تھی تو اس کے لیے مستقل عنوان اختیار کرنا تھا احیا علو م عربیہ کے مسئلہ سے اس کو کوئی تعلق نہ تھا۔ شاید ریڈیکل صاحب کو یہ خیال ہو کہ اگر علوم عربی کی فضیلت ثابت ہو گی تو ممکن ہے کہ کچھ طلبا بھی اس کی طرف متوجہ ہو جائیں۔ لیکن ہم ان کو پورا اطمینان دلاتے ہیں کہ جدیدہ گروہ ایک عاقبت اندیش اور عملی گرو ہ ہے۔ اس نے اپنا راستہ متعین کر لیا ہے اور ہو ہرگز اس فریب میں نہیں آ سکتا ک علم کو علم کے لیے سیکھنے چاہیے۔ اب ہم ریڈیکل صاحب کے ان جملوں کی طرف متوجہ ہوتے ہیں جو انہوں نے علوم عربی کی نسبت ارشاد فرمائے تھے لیکن ہم حیران ہیں کہ ان کے مقابلہ میں طریقہ استدلال کیا ہو گا۔ یورپ کے اہل فن جو زبان عربی سے ماہر ہونے کی وجہ سے اس مسئلہ کے فیصلہ کرنے کا سب سے زیادہ حق رکھتے ہیں۔ مثلاً پروفیسر سیدیو‘ پروفیسر لیبان ‘ پروفیسر رینان‘ پروفیسر مونک (فرنچ کے مشہور مصنف ہیں) پروفیسر برائون۔ ہنری لوئیس پروفیسر زخائو (جرمن کا مشہور عربی دان فاضل ہے) وغیرہ وغیرہ ان کی نسبت ریڈیکل صاحب کو بدگمانی ہے کہک وہ قصداً مسلمانوں کو نشہ غفلت میں مخمور رکھنے کے لیے مداح ہیں۔ ہم خود اگر مسلمانوں کے علمی حالات کمالات اور ایجادات کی مثالیںپیش کریں تو مشکل ہے کہ ریڈیکل صاحب عربی نہیں جانتے اورتاریخ دانی کا یہ حال ہے کہ فرماتے ہیں کہ خلیفہ اول و دوم کے وقت تک قرآن مجید بھی مرتب نہیں ہوا تھا‘‘!! ریڈیکل ساحب کے استدلال کا سنگ بنیاد یہ ہے کہ عرب ایک وحشی قوم ہے اس لیے ان کی زبان میں علمی ذخیرہ ہونا بعید از قیاس ہے۔ لیکن اگر عرب کا وحشی ہونا تسلیم بھی کر لیا جائے تو اس سے دعویٰ کو کچھ مدد نہیں پہنچتی عربی زبان میں جن لوگوں نے علمی ذخیرے مہیا کیے وہ عجمی تھے مثلاً فاریابی بو علی سینا‘ رازی‘ غزالی‘ محقق طوسی‘ قطب الدین شیرازی وغیرہ اور عجم کو غالباً ریڈیکل صاحب بھی وحشی کا خطاب دینا پسند نہیں کرتے۔ پروفیسر رینان نے جو اسلام کے ساتھ تعصب رکھنے میں مشہور ہے۔ فرانس کی اکیڈمی میں ایک لیکچر دیا تھا۔ جس کا موضوع یہ تھا کہ اسلام اور علم دونوں جمع نہی ہوسکتے۔ اس لیکچر میں جہاں مجطوراً اس کو مسلمانوں کی علمی اور فلسفی تحقیقات کا ذکر کرنا پڑا۔ اس نے یہ کہا ’’ہاں فلسفہ عربی زبان میں ہے لیکن عربوں میں نہیں‘‘۔ رینان نے اگرچہ اہل عرب کی فلسفہ دانی سے انکار کیا۔ لیک اسسے انکار نہ کر سکا کہ عربی زبان فلسفہ کا مخزن ہے لیکن ریڈیکل صاحب یہ بھی گوارا نہٰں کر سکتے کہ عربی میں علوم و فنون کا ذخیرہ موجود ہو۔ ریڈیکل صاحب فرماتے ہیں کہ لٹریچر میں عربوں کے پاس نثر تو کوئی عمدہ ذخیرہ ہی نہیں اور نظم کی یہ کیفیت ہے کہ زنانہ جاہلیت کی نظم اونٹنی کی لمبی گردن اورزمانہ اسلام کے مہ جبین معشوقوں کی توصیف پر محدود ہے۔ یہ بالکل اسی قسم کی بات ہے کہ پرانے مولوی یورپ کے علوم و فنون کی نبت کہتے تھے ’’یہ لوگ بجز ا سکے کہ لوہاروں اور نجاروں کی طرح کچھ قالین بنا لیں یا جراحوں کی طرح کچھ چیڑھ پھاڑ لیں اور کیا جانتے ہیں‘‘۔ افسوس! ازر و وہم قبول تو فارغ نشستہ ایم اے آنکہ خوب مانہ مانہ نشاسی نہ زشت ما عرب کے فلسفہ اور علوم و فنون کی تحقیر کا تو کوئی ضعیف پہلو نکل بھی سکتا ہے۔ لیکن عرب کی فصاحت و بلاغت شاعری اور زبان آوری سے انکار کرنا‘ آفتاب کی روشنی سے انکار کرنا ہے۔ شاعری کی جو اصل حقیقت ہے۔ یعنی مناظر قدرت اور جذبات انسانی کو اس طرح ادا کرنا کہ دلوں پر اصلی حالت کا اثر چھا جائے صرف عرب کی شاعری میںپائی جاتی ہے۔ عرب کا ایک ایک بدوی یہ قدرت رکھتا تھا۔ کہ اپنے زور کلام سے جم غفیر کو جس ارادہ سے چاہتا تھا روک لیتا تھا اور جدھر چاہتا تھا جھونک دیتا تھا۔ خلفائے بنو امیہ دمشق میں نہات جاہ و جلال سے سلطنت رکتے تھے ۔ لیکن اپنے بچوں کو سرف اس لیے صحرا میں بھیج دیتے تھے کہ بدوئوں میں رہ کر قوت تقریر اور زباں آوری کا ملکہ حاصل ہو جائے عرب کا ایک ایک شعر وقم کی قوم میں جوش پیدا کر دیتا تھا۔ آج گلیڈ اسٹون اور برک کی اسچین ہوہ کام نہیں کر سکتیں جو عمرو بن کلثوم کے ایک قصیدہ نے قبیلہ تغلب میں سینکڑوں برس تک شرافت اور نوبلٹی کا جوہر قائم رکھا۔ چنانچہ یہ قصیدہ اس قبیلہ کے ایک ایک بچہ کو یاد کرایا جاتا تھا ۔ ا س قصیدہ کا ایک شعر یہ تھا: اذا بلغ الفطام لنا صبی تخرلہ الجبابرسا ساجدینا ’’جس دن ہمارے خاندان کا بچہ چھوڑ دیتا ہے تو بڑے بڑے جبار اس کو سجدہ کرنے کو گر پڑتے ہیں‘‘۔ عرب ہی کی شاعر ی میں یہ فخر حاصل تھا کہ وہ جو کہتے تھے سچ کہتے تھے۔ عرب ہی کو یہ فخر حاصل ہے کہ کسی کی مدح کرنا عار اور ننگ سمجھا جاتا تھا۔ اور جب اخیر زمانہ جاہلیت میں مدح کی ابتدا ہوئی تو یہ التزام تھا کہ سچی اور واقعی باتوں کے سوا اور کچھ نہیں کہتے تھے ایک بادشاہ نے جب ایک شاعر سے کہا کہ میری مدحکرو تو ا سنے صاف کہا کہ افعل حتیٰ اقول یعنی پہلے تم کچھ کر دکھائو تو میں کہوں۔ زہیر بن ابی سلمیٰ کو جب ہرم بن سنان نے ایک قصیدہ پر صلہ دیا تو ا نے معمول کر لیا ۔ کہ جب دربار میں آتا تھا تو کہتاتھا کہ سب کو سلام کرتا ہوں۔ بہ استثناء رہرم بن سنان کے یعنی بادشاہ کو سلام کرنا بھی ایک قسم کی خوشامد ہے جو عرب کے شاعر کو زیبا نہیں ۔ افسوس کہ ریڈیکل صاحب اور اکثر ان کے ہم فن عربی زبان نہیں جانتے ورنہ ہم ان کو عربی زبان میں شاعری کے تمام انواع کے ایسے اعلیٰ درجہ کے نمونے دھاتے جس کی نظیر ان کو بہت مشکل سے مل سکتی تھی۔ مناظر قدرت مثلاً سبزہ زار‘ کوہستان‘دریا‘ جنگل‘ گرمی کی شدت‘ جاڑوں کی ٹھنڈ‘ ابوباراں وغیرہ یا جذبات انسانی مثلا رنج‘ و غم ‘ غیض و غضب‘ فخر و جوش ‘ شجاعت و دلیری‘ ذوق و محبت وغیرہ کو جس کوبی سے عرب نے ادا کیا ہے ایشیا میں کون قوم ا س کی مثال پیش کر سکتی ہے؟ اخلاق کے متعلق ہم دو چار مثالیں ایک کتاب (حماسہ) سے سرسری طور پر انتخاب کر کے پیش کر سکتے ہیں اگر ریڈیکل صاحب کے نزدیک یہ شاعری کا عمدہ نمونہ ہو تو ہم اس قسم کے اشعار کا دریا بہا دینے کو موجود ہیں ۱؎۔ (۱) ازا ما اتت من حاحب لک زلۃ فکن انت محتالا لزلۃ عذرا (۲) وللکف عن شتم اللئیم تکرما اضرل من شتمہ حین بتیتم (۳) ان من الحلم ذلا انت عارفہ والحلم عن قدرۃ فضل من الکرم (۱) اگر تمہارے دوست سے کوئی خطا ہو جائے تو تم کو خود اس کی طرف سے کوئی عذر گڑھ لیناچاہیے۔ (۲) ذلیل آدمی کے برا کہنے سے باز رہنا ا سکو گالی دینے سے زیادہ تکلیف دہ ہے۔ (۳) بعض موقعوں پر بردباری کی ذلت ہے لیکن قدرت کے ہوتے بردباری کرنا شرافت ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱؎ چونکہ ہمارے نزدیک مسٹر ریڈیکل عربی سے نابلد ہیں اس لیے ان کی آسانی کے لیے ان اشعار کا ترجمہ نمبروار درج ذیل کیا جاتاہے ۔ لیکن ہمیں ڈر ہے کہ چونکہ ان اشعار میں کھجور کی خاردر شاخ اور اونٹنی کی لمبی گردن کی طرف اشارہ نہیںہے اس لیے کہیں وہ دعویٰ نہ کر بیٹھیں کہ یہ ترجمہہ غلط ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (۴) لھم جل مالی ان تتابع لی غنی وان قل مالی لم اکلفھم رفدا (۵) وانی بعبدالضیف مادام نازلا وما یشمتہ لی غیرھا تشبہ العبدا (۶) انا لنرحص یوم الروع الفسنا ولو نسام بھافی الامن اغلینا (۷) انی لمن معشرا فنی اوائلھم قول الکماۃ ال این لمحامونا (۸) لوکان الانف مناواحد فدعوا من فارس؟ خالھم ایاہ یعنونا (۹) اذا الکماۃ تنخوا ان یصیلبھم حد انطباۃ وصلنا ہابایدینا (۱۰) اذا لمر لم یدنس من اللوم عوضہ فکل رداء یرتدیہ جمیل (۱۱) تمدنا انا قلیل عدیدنا فقلت لھا ان الکرام قلیل (۱۲) تسیل علیٰ حد انطبات نفرسنا ولیست علیٰ غیر انطبات تسیل (۴) میرا مال میرے بھائیوں کا مال ہے اوراگر میں غریب ہو جائوں تو ان کو تکلیف نہ دوں گا۔ (۵) میں مہمان کا غلام ہوں لیکن اس معاملہ کے سوا مجھ میں گلامی کی کوئی ادا نہیں۔ (۶) ہم لڑائی کے دن اپنی جانیں ارزاں کر دیتے ہیں ۔ لیکن اس کی حالت میں ہماری جانوں کی قیمت بہت گراں ہے۔ (۷) میں اس قبیلہ کا آدمی ہزارو ں کے مجمع میں ہوں۔ اورکوئی شخص پکارے کہ شہ سوار کون ہے ؟توہمارے قبیلہ کا آدمی سمجھ جائے گا کہ میری ہی طرف اشارہ ہے۔ (۹) جب بہادر لوگ تلوار کی دھار سے کترا جاتے ہیں تو ہم بڑھ کر تلوار کو ان تک پہنچا دیتے ہیں۔ (۱۰) اگر آدمی دنائت سے اپنی آبرو میں داغ نہ لگائے تو جو لباس وہ پہنے گا اس کو زیب دے گا۔ (۱۱) وہ ہم کو عیب لگاتی ہے کہ ہمارے آدمی کم ہیں میں نے ان سے کہاہے کہ شرفا تھوڑے ہی ہوتے ہیں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (۱۳) اذا سید مناخلاقا م سید قول لما قال الکرام فعول (۱۴) معودۃ ان لا تسرا نصالھا فتغمد حتی یستباح قبیل ’’ریڈیکل‘‘ صاحب فرماتے ہیں کہ عربی تاریخیں مفید حواشی کے ساتھ یورپ کی زبانوںمیں ترجمہ ہو گئی ہیں۔ ان کامطالعہ عربی کتابوں سے زیادہ مفید ہے۔ ہم ریڈیکل صاحب سے پوچھتے ہیں کہ یورپ کی زبانوں سے کیا مراد ہے؟ انگریزی اگر مراد ہے تو مدعی سست… کی مثال ہے۔ تمام انگریزی مصنفین نے تسلیم کرتے ہیں کہ عربی زبان کا یہ سرمایہ انگریزی میں بہت کم ہے۔ دوچار معمولی اورمتد اول کی کتابوں کے سوا انگریزی میں اس قسم کے تراجم بالکل ناپید ہیں ہم ایک نقشہ در ج کرتے ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یورپ کی زبانوں میںعربی تاریخ کی کس قدر کتابیں ترجمہ ہو چکی ہیں۔ اور ان میں انگریزی کا کس قدر حصہ ہے۔ نمبر نام کتاب کس زبان میں ترجمہ ہوا سنہ و مقام طبع ۱۔ تاریخ حمزہ اصفہانی لاطینی لیپرنگ سنہ ۱۸۴۰ء ۲۔ مسعودی فرنچ پیرس سنہ ۱۸۷۷ء ۳۔ ابوالفداء لاطینی کانبھگن سنہ ۱۷۹۴ء ۴۔ تاریخ الدول الاسلامیہ لاطینی البسلا سنہ ۱۸۴۶ء ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (۱۲) ہماری جان تلواروں کے دھار پر بہتی ہے لیکن اورکسی چیز پر نہیں بہتی۔ (۱۳) ہم میں جب ایک سردار اٹھ جاتا ہے۔ تو دوسرا پیدا ہو جاتا ہے جو وہی کہتا ہے اورکرتا ہے جو اور سرداروں نے کہا تھا اورکیا تھا۔ (۱۴) ہماری تلواروں کو عادت ہے کہ جب میان سے باہر آئیں تو جب تک قبیلہ برباد نہ ہو جائے وہ میان میں نہیں آتیں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۵۔ رسالہ افادۃ والاعتبار فرنچ پیرس سنہ ۱۸۱۰ء ۶۔ سیرت سلطان صلاح الدین لاطینی لیڈن سنہ ۱۸۵۵ء ۷۔ تاریخ ابن خلکان انگریزی ۸۔ کتاب الاعتبار لاسامتہ بن مننقذ فرنچ ۹۔ تاریخ کلبی جرمن ڈسٹین فیلڈ سنہ ۱۸۵۷ء مختصر الدول اور تاریخ المکین و ابن البطریق کا ترجمہ بھی یورپ کی زبانوں میں ہو گیا ہے لیکنان کتابوں کے مصنف عیسائی تھے۔ اس لیے ہم ان کتابوں کو عرب مورخین کے تصنیفات میں شمار نہیں کرتے۔ اس نقشہ سے واضھ ہوا ہو گا کہ ایک دو کتابوںکے سوا باقی کا ترجمہ انگریزی میں نہیں ہوا۔ بلکہ لاطینی وغیرہ میں ہوا ہے بلکہ ان سے متمتع ہونے کا طریقہ ریڈیکل صاحب کیا قرار دیتے ہیں۔ کیا وہ اس بات پر راضی ہیں کہ علی گڑھ کالج میں لاطینی اور فرنچ وغیرہ کی تعلیم کی شاخ کھولی جائے؟ اگر ان کا ایسا ارادہ ہے تو ہم خوشی سے عربی تعلیم کی تحریک واپس لے سکتے ہیں۔ لیکن اصلی سوال یہ ہے کہ کیا مذکورہ بالا کتابوں کی بناپر یہ کہا جا سکتا ہے کہ عربی تاریخ کا سرمایہ یورپ کی زبانوں میںمنتقل ہو گیا ہے ۔ عربی کی نایاب اور غیر مطبوعہ تاریخیں تو ایک طرف مشہور متد اول کتابوں کا بھی ترجمہ نہیں ہوا۔ ابن خلدون ابن اثیر‘ طبری کوبچہ بچہ جانتا ہے ۔ان کا ترجمہ کس زبان میں ہوا؟ اور کیا ان کتابوں کے ترجمہ کے بگیر یہ کہا جا سکتاہے ک یورپین زبانوں میں عربی کا سرمایہ منتقل ہو گیا ہے۔ کشف الظنون میںجس قدر عربی تاریخوں کے نام مذکور ہیں ۔ ان کی تعداد تیرہ سو ہے ۔کیا اس خزانے میں سے پانچ سات تاریخی کتابوں کے ترجمہ کی بنا پر عربی سے بے نیازی کا دعویٰ کیا جا سکتا ہے؟ عربی تاریخ کا جو اصلی خزانہ ہے یعنی محدثین کی تصنیفات اس تک ابھی یورپ کی نگاہ ہی نہیں پہنچی۔ تابہ ترجمہ چہ رسد رجال و تراجم کی سینکڑوں ہزاروں کتابوں میں سے کس کتاب کا یورپین زبانوں میں ترجمہ ہوا ہے؟ یورپ میں عربی تاریخ کی کتابیں نہایت کثرت سے شائع ہوتی ہٰں۔لیکن ترجمہ نہیں بلکہ یورپ نے ان کو اصل زبان میں ہی پڑھناپسند کیاہے۔ اورریڈیکل صاحب کی ا س رائے پر عمل نہیں کیا کہ ترجموں کے ذریعے ان پر نظرڈالنی چاہیے۔ ریڈیکل صاحب فرماتے ہیں کہ عربی زبان میں ایسے معلومات نہیں جن سے ارادوں میں بلندی اور طبائع میں استقلال پیداہو۔ آزادی اور استقلال زیادہ تر تاریخی معلومات کا خاصہ ہے ۔ جب ہم کسی ملک کی تاریخ میں آزادی اور استقلال کی مثالیں پڑھتے ہیں تو طبیعت میں خود بخود ان جزبات کی تحریک ہوتی ہے عرب کی تاریخ اس قسم کی مثالوں سے لبریز ہے۔ آزادی عرب کا مایہ خمیر ہے ۔ بلند خیالی‘ دلیری‘ آزادی‘ حوصلہ مندی‘ کی جو مثالیںتاریخ عرب کے ہر صفحہ پر ملتی ہیں۔ آج بھی یورپ اس قسم کے واقعات پیش نہیں کرتا۔ آزادی کی اس سے برھ کرمثلا کیا ہو گی کہ صحاب کرام جس قدر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ادب و احترام کرتے تھے۔ اس سے زیادہ امکان میں نہ تھا۔ تاہم ہر موقع پر اسآزاد سے اپنے خیالات کا اظہارفرماتے تھے کہ آج ہم کو ان کے بیان کرنے میں تامل ہوتا ہے۔ ہند (امیر معاویہ کی ماں) جب اسلام قبول کرنے کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی وار آپ نے اس سے بیعت لیتے وقت یہ فرمایا کہ عہد کرو کہ اپنی اولاد کو قتل نہ کرو گی تو اس نے یہ الفاظ کہے۔ یا محمد اناربینا ہم صغیرا وقتلھم کبیرا یوم بدر افانت وھم علم ’’بے محمدؐ! ہم نے تو اپنے بچوں کو پال پوس کر بڑایا تھا۔ اور تم نے بدر کی لڑائی میں انکو قتل کر دیا تو تم اور وہ سمجھ لو‘‘۔ حضرت عمرؓ کا رعب و جلال دنیا کو معلوم ہے لیکن ایک عام عرب سرور بار ان سے اس طرح خطاب کرتا تھا۔ کہ کوئی شخص برابر والے کے ساتھ بھی نہیں کر سکتا۔ خالد سیف اللہ نے روم کی سفارت میں فخریہ اظہار کیا تھا۔ کہ ہم نے جس کو بادشاہ بنا رکھا ہے۔ (یعنی حضرت عمر فاروقؓ ) وہ کسی بات میں ہم سے ترجیح کا برتائو نہیںکرتا۔ وہ اگر غلط بولے تو ہم اس کو ٹوک دیں چوری کرے تو ا س کے ہاتھ کاٹ دیں خلاف انصاف کرے تو معزول کر دیں۔ امیر معاویہؓ کے حکم سے جب ان کے عامل نے مدینہہ منورہ کی مسجد میں یزید کی خلافت کا اعلانکیا اور کہا کہ سنہ ابی بکر و عمرؓ یعنی جانشین سلطنت کرنا ابوبکر و عمرؓ کا طریقہ ہے تو وہیں پر ایک شخص نے کھرے ہو کر کہا کہ کذبت بل سنہ کسریٰ و قیصر تو جھوٹ بولتا ہے یہ قیصر اور کسریٰ کا طریقہ ہے۔ اس قسم کے سینکڑوں اور ہزاروں واقعات ہیں کیا ان مثالوں سے آزادی اور استقلال کے جذبات کو تحریک نہیں ہوتی؟ حقیقی یہ ہے کہ جو گروہ علم کو صرف نوکری کی غرض سے پڑھتاہے جس نے معاش کے سینکڑوں اسباب (تجارت ‘ حرفت‘ صنعت) میں سے صرف نوکری پر قناعت کر لی ہے جو یورپین علوم و فنون وہیں سے بجز چند سطحی باتوں ک کچھ نہیں جانتا جس کو ذوق علمی سے کچھ مس نہیں جس نے اعلیٰ تعلیم کے لفظ کو بالکل بے جا استعمال کیا ہے۔ اس کو اس بحث میں پڑنے سے کیا فائدہ کہ عربی زبان میں علوم و فنون نہیں یا ہیں۔ اگر علوم و فنون ہوتے بھی تو ا س گروہ کے کس کام کے تھے۔ ارکان کالج سے ایک بڑا نکتہ جو فروگزاشت ہوا ہورہا ہے وہ یہ ہے کہ موجودہ طریقہ سے وہ صرف ان لوگوں کو انگریزی تعلیم کی طرف متوجہ کر سکے اور کرسکتے ہیں ۔ جن کو معاش کی ضرورت نے انگریزی تعلیم پر مجبور کر رکھا ہے۔ اور امراء اورروسا جن کو معاش کی فکر نہیں۔ وہ انگریزی کے واسطے آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھتے لیکن گر انگریزی تعلیم کے ساتھ پورے طور سے عربی اور مذہبی تعلیم کا بھی بندوبست ہوتا۔تو علی گڑھ کالج کے احاطہ میں تعلقہ داران اودھ اور اہالیان ملک کے خاندان کی یادگار بھی نظر آئیں۔ خاتمہ سخن میں یہ کہنا ضرور ہے کہ میری ہرگز یہ رائے نہیں کہ مسلمانون کو انگریزی تعلیم سے ہٹا کر عربی کی طرف متوجہ کیا جائے۔ ایسا کرنا بے شبہ قوم کے ساتھ دشمنی ہے۔ لیکن اس بحث میں خواہ مخواہ علوم عربیہ کی تحقیر ارکان کالج کا اس قسم کے فقرے استعمال کرنا کہ ہم سے ہرگز یہ توقع نہیں رکھنی چاہیے۔ ہم عربی تعلیم پر ایک حبہ بھی صرف کریں گے۔ نہایت ظلم اورناانصافی ہے۔ اور اس سے ظاہر ہوسکتا ہے کہ ان لوگوں کے دل میں کیا جذبات پوشیدہ ہیں؟ یہ کہنا کہ رعبی زبان ہماری مذہبی زبان نہیں ہے اور ہے تو صرف قرآن کا پڑھ لینا کافی ہے۔ ایک عامیانہ فریب دہی بلکہ بے ہودہ ڈپلومیسی ہے صاف کہنا چاہیے کہ ہم کو قرآن کی بھی ضرورت نہیں یا یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ قرآن کا سمجھنا بغیر عربی کے اعلیٰ تعلیم کے ممکن نہیں۔ بہرحال عربی کی مخالفت جس طریقہ سے کی گئی ہے وہ جس حد تک صحیح بھی ہو۔ لیکن اس کی نسبت یہ مصرع صادق آتا ہے۔ ہتے تو ہیں بھلے کی ولیکن بری طرح عربی کی تحقیر نے ثابت کر دیا ہے کہ قوم واقعی ذلت کے اخیر درجہ پر پہنچ گئی ہے ’’کیونکہ کوئی قوم اس وقت تک ذلیل نہیں ہوتی جب تک وہ خود اپنے آپ کو ذلیل نہ سمجھے اور یہ درجہ اب قوم نے حاصل کر لیا‘‘۔ دکن ریویو مئی سنہ ۱۹۰۴ء ٭٭٭ اختتام۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔The End