بسم اللّہ الرحمن الرحیم علّامہ اقبال اور زمیندار ء روزنامہ زمیندار میں علامہ اقبال سے متعلق خبروں اور مقالات کا انتخاب ء علّامہ اقبال اور زمیندار مرتب: ڈاکٹر اخترا لنسا اقبال اکادمی پاکستان جملہ حقوق محفوظ ناشر محمدسہیل عمر ناظم اقبال اکادمی پاکستان (حکومتِ پاکستان، وزارت ثقافت ) چھٹی منزل ، ایوان اقبال ، لاہور Tel: [+92-42] 6314-510 [+92-42] 9203-573 Fax: [+92-42] 631-4496 Email: director@iap.gov.pk Website: www.allamaiqbal.com ISBN 978-969-416-419-9 طبع اول : ۲۰۱۰ء تعداد : قیمت : مطبع : میسرز دارالفکر ، لاہور محل فروخت : ۱۱۶ میکلوڈ روڈ ، لاہور، فون نمبر ۷۳۵۷۲۱۴ انتساب: محترم اُستادِ گرامی جناب ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کے نام ترتیب ز مقدمہ: زمیندار ظفرعلی خاں اور علامہ اقبال مرتب ابواب: ۱- ز متون اقبال ا- نثر ۱- تقاریر ۲- بیانات ۳- تبصرے ۴- مکاتیب ۵- تار ب- شاعری ۲- ز تصانیف اقبال کے بارے میں ۱- مضامین ۲- اشتہارات ۳- اطلاعات ۴- رپورٹیں ۵- تجزیے ۶- تبصرے ۷- تار ۸- منظومات ۳- ز سوانح اقبال (زمانی ترتیب سے) ۴- ز انجمنیں، ادارے ۵- ز معاصرین اور احباب ۶- ز افکار و حوادث تفصیل ابواب باب ا: متونِ اقبال (الف) نثر ۱- تقاریر مسٹر گھوکھلے کے مسودہ تعلیم لازمی کی تائید میں تقریر ۲؍فروری۱۹۱۲ئ ۳۴ شہنشاہ انگلستان پر اظہارِ اعتماد ۴،۶؍فروری۱۹۱۲ئ ۳۵ انجمن حمایت اسلام کی جنرل کونسل میں تقریر ۱۴؍جولائی۱۹۲۳ ۳۶ صوبہ سرحد اور اصلاحات ۲ ؍مئی ۱۹۲۶ء ۳۸ [مسلمانو! متحد ہوجائو] ۲۱؍ نومبر ۱۹۲۶ئ ۳۸ ہندو اپنے مسلم آزار رویے کی اصلاح کریں ۲؍فروری ۱۹۲۷ئ ۳۹ مذہب اور سائنس، حبیبیہ ہال میں لکچر ۶؍مارچ۱۹۲۷ئ ۴۱ تخفیف محاصل اور ترقی تعلیم [بجٹ تقریر] ۹؍مارچ۱۹۲۷ئ ۴۲ معاملہ اراضی کا نظام بدلا جائے [بجٹ پر بحث] ۱۳؍ مارچ۱۹۲۷ئ ۴۳ The spirit of Muslim Culture ۲۰؍اپریل۱۹۲۷ئ ۴۵ فرقہ وار نیابت اور جداگانہ حلقہ ہاے انتخاب ۴؍مئی۱۹۲۷ئ ۴۸ مسلمانوں میں کوئی قابلِ ذکر اختلاف نہیں ہے ۵؍ مئی۱۹۳۱ء ۴۹ [اقبال کے سفرِ اُندلس کا تذکرہ] ۹؍اپریل۱۹۳۳ئ ۴۹ ۲- بیانات اشاعت اسلام کے عظیم الشان نظام کی ضرورت ۷؍نومبر۱۹۲۴ئ ۵۱ مسٹر چنتا منی کی قوم پرست جماعت [سے استعفیٰ] ۶؍اپریل ۱۹۲۶ئ ۵۳ تعلیم یافتہ اشخاص کی بے روزگاری ۱۵؍فروری۱۹۲۷ئ ۵۴ اُردو اخبارات پر الزام ۱۵؍مئی۱۹۲۷ئ ۵۵ [مسلمانو! متفق ہوجائو] ۱۵؍مئی۱۹۳۱ء ۵۵ ۳- تبصرے [جانوروں کے حالات و خصائل کے متعلق اقبال کی راے] ۱۵؍اکتوبر۱۹۲۰ئ ۵۷ تاریخ حریت اسلام کے متعلق علامہ اقبال کی راے ۵؍نومبر۱۹۲۵ء ۵۷ ہمایوں لاہور ۳۰؍جنوری۱۹۲۶ئ ۵۸ دین کامل پر اقبال کی راے ۲؍جولائی۱۹۲۶ء ۵۹ ۴- مکاتیب اسلام اور بولشویت مسلمانوں کا حقیقی لائحہ عمل قرآن ہے ۲۴؍جون ۱۹۲۳ئ ۶۰ مولانا اختر علی خاں [کے نام] علامہ اقبال کا تہنیت کا پیغام ۱۹؍مارچ۱۹۲۴ء ۶۲ سپاس تعزیت ۶؍نومبر۱۹۲۴ء ۶۲ ڈاکٹر کچلو،اقبال اور جناب مسیح الملک کی تجویز مصالحت ۱۱؍اگست۱۹۲۶ئ ۶۲ [ملک محمد حسین، پنجاب کونسل کی امیدواری سے دست بردار] ۵؍اکتوبر ۱۹۲۶ء ۶۳ سپاس تبریک ۲۲؍دسمبر ۱۹۲۶ء ۶۳ [صوبہ جاتی خود مختاری کے مسئلے سے اختلاف] ۲۴؍جون۱۹۲۸ئ ۶۴ ۵- تار مسلم کانفرنس کے وقار کے تحفظ کا سوال ۵؍جولائی۱۹۳۲ئ ۶۶ (ب ) شاعری حقائق و معارف (غزل) ۱۱؍مئی ۱۹۲۴ء ۶۸ حقائق و معارف (ظریفانہ) ۱۲؍مئی ۱۹۲۴ئ ۶۸ حقائق و معارف (غزل) ۲۹؍جنوری۱۹۲۶ئ ۶۹ باب ۲: تصانیفِ اقبال کے بارے میں ۱- مضامین نذر اقبال یکم جون۱۹۲۰ئ ۷۶ پیام مشرق، علامہ اقبال کی تازہ تصنیف ۱۹؍اپریل۱۹۲۳ئ ۷۷ پیام مشرق ۳۱؍مئی۱۹۲۳ئ ۷۸ اسرار خودی اور رموز بے خودی ۲۰؍جولائی۱۹۲۳ئ ۸۳ علامہ اقبال کا اُردو کلام ۲۶؍دسمبر۱۹۲۳ئ ۸۳ علامہ اقبال کا اُردو کلام، بانگ درا ۱۴؍ستمبر۱۹۲۴ئ ۸۴ علامہ اقبال کا اُردو کلام، بانگ درا ۱۵؍ستمبر۱۹۲۴ئ ۸۷ ۲-اشتہارات نظم ’’شکوہ‘‘ ۱۲؍اپریل۱۹۱۲ئ ۹۱ جوابِ شکوہ ۲۹؍نومبر۱۹۱۲ئ ۹۱ جوابِ شکوہ ۹؍دسمبر۱۹۱۲ئ ۹۲ وہ کون ہے جسے ترکوں سے ہمدردی نہیں ۲۱؍فروری۱۹۱۳ئ ۹۲ نظم ’’شمع و شاعر‘‘ ۹؍مارچ۱۹۱۳ئ ۹۲ مفت تحفہ ۱۸؍مارچ۱۹۱۳ئ ۹۲ خضرراہ ۲۸؍اپریل۱۹۲۲ئ ۹۳ اقبال کی تازہ نظم ’’خضرراہ‘‘ ۳؍نومبر۱۹۲۲ئ ۹۳ اقبال کی تازہ نظم ’’خضرراہ‘‘ ۶؍جنوری۱۹۲۳ئ ۹۴ شائقین پیام مشرق ملاحظہ فرمائیں ۲۴؍مئی۱۹۲۳ئ ۹۴ پیام مشرق کا ناجائز اشتہار ۵؍مارچ۱۹۲۴ئ ۹۵ علامہ اقبال کا کلام شائع ہوگیا بانگ درا ۳۰؍اگست۱۹۲۴ئ ۹۶ ڈاکٹر سر محمد اقبال کے اُردو کلام کا مجموعہ شائع ہوگیا بانگ درا ۷؍ستمبر۱۹۲۴ئ ۹۶ علامہ اقبال کے اُردو کلام کا مجموعہ موسومہ بانگ درا ۱۰؍ستمبر۱۹۲۴ئ ۹۷ ترجمان حقیقت علامہ اقبال کی بانگ درا ۲؍فروری۱۹۲۵ئ ۹۸ بانگِ درا (مجلّد) ۲۱؍فروری۱۹۲۵ئ ۱۰۱ کلیات اقبال ۷؍اگست۱۹۲۵ئ ۱۰۱ خضر راہ ۸؍نومبر۱۹۲۵ئ ۱۰۲ اُردو کی بہترین کتب ۲۸؍اپریل۱۹۲۶ئ ۱۰۲ علامہ اقبال کے اردو کلام بانگِ درا کا دوسرا اڈیشن یکم مئی۱۹۲۶ئ ۱۰۲ فلسفۂ اسلام پر علامہ سر اقبال کے خطبات ۲۴؍جولائی۱۹۲۶ئ ۱۰۴ خضرراہ ۷؍ستمبر۱۹۲۶ئ ۱۰۴ خضرراہ ۳؍اکتوبر۱۹۲۶ئ ۱۰۵ پیام مشرق کا ترجمہ جرمن زبان میں ۳۰؍دسمبر۱۹۲۶ئ ۱۰۵ اقبالی کیلنڈر ۱۴؍جنوری۱۹۲۷ئ ۱۰۶ علامہ اقبال کی تازہ تصنیف زبورعجم ۲۶؍جنوری۱۹۲۷ئ ۱۰۶ علامہ اقبال کے اردو کلام بانگ درا کا دوسرا اڈیشن ۱۰؍فروری۱۹۲۷ئ ۱۰۷ قارئین کرام کو مژدہ ۱۱؍مارچ۱۹۲۷ئ ۱۰۷ یاچناں کن یاچنیں ۱۳؍مارچ۱۹۲۷ئ ۱۰۸ شاہین معما کا اقبال نمبر ۳۰؍اپریل۱۹۴۹ئ ۱۰۸ ۳- اطلاعات امریکہ کی طرف سے اسلام کے خلاف اعلانِ جہاد ۲۵؍اپریل۱۹۲۰ئ ۱۱۰ علامہ اقبال کی بیگم صاحبہ کا انتقال ۲۴؍اکتوبر۱۹۲۴ئ ۱۱۰ مسلمانانِ لاہور کا عظیم الشان جلسہ ۲۳؍جنوری۱۹۲۷ئ ۱۱۱ مسلمانانِ لاہور کا جلسہ ۳۰؍جنوری۱۹۲۷ئ ۱۱۲ مسلمانوں، ہندوؤں اور سکھوں کی مشترکہ ریلیف کمیٹی ۲۶؍مئی۱۹۲۷ئ ۱۱۲ نواب سرذوالفقار علی خان کی تقریر ۲۳؍اپریل۱۹۳۱ئ ۱۱۳ چودھری ظفر اللہ خاں اپنے منصب سے مستعفی ہونے والے ہیں یکم؍جولائی۱۹۳۲ئ ۱۱۳ ۴- رپورٹیں لاہور میں اخوت اسلامی کے روح پرور مناظر ۷؍فروری۱۹۲۴ئ ۱۱۵ مسجد شاہ محمد غوث کے متولی کی افسوس ناک حرکت ۲۸؍دسمبر۱۹۲۶ئ ۱۱۶ کفر کے خرمن پر اسلام کی بجلی ۲۵؍جنوری۱۹۲۷ئ ۱۱۷ مولانا ظفر علی خاں اور ڈاکٹر اقبال کی خدمات کا اعتراف ۱۰؍مئی۱۹۲۷ئ ۱۱۸ لاہور میں ایک اور کانفرنس ۱۵؍مئی۱۹۲۷ئ ۱۱۹ دفتر زمیندار میں اکابر ملت کا اجتماع ۵؍مئی۱۹۳۱ئ ۱۲۰ ۵- تجزیے علامہ اقبال پر ایک افسوس ناک تہمت ۲۸؍اپریل۱۹۲۳ئ ۱۲۱ علامہ اقبال اور دارالتکفیر دیداریہ ۳۰؍اکتوبر۱۹۲۵ئ ۱۲۲ وزیر خانی دارالتکفیر سے استفتا ۸؍نومبر۱۹۲۵ئ ۱۲۹ کشمیر میں مسلمانوں کی مظلومانہ حالت ۲۸؍اکتوبر۱۹۲۶ئ ۱۳۱ ۶- تبصرے انتقاد:اقبال ۲؍اکتوبر۱۹۲۲ئ ۱۳۳ طلوع اسلام ۶؍اپریل۱۹۲۳ئ ۱۳۳ پیام مشرق ’’زندگی‘‘ ۲۹؍اپریل۱۹۲۳ئ ۱۳۵ پیام مشرق ۴؍مئی۱۹۲۳ئ ۱۳۶ پیام مشرق ’’مئے باقی‘‘ ۲۸؍مئی۱۹۲۳ئ ۱۳۷ حقایق و معارف ۱۵؍فروری۱۹۲۵ئ ۱۳۸ ۷-تار مسلمانوں پر گولیاں چلانے کا واقعہ ہائلہ ۱۰؍مارچ۱۹۲۷ئ ۱۳۹ مجلسِ عامہ مسلم کانفرنس کے انعقاد کا التوا یکم جولائی۱۹۳۲ئ ۱۳۹ ۸- منظومات شکوہ جناب ڈاکٹر اقبال سے ۱۹؍فروری۱۹۲۲ئ ۱۴۱ اقبال؛ حضرت گرامی کی معنی رس نظروں میں ۲۱؍مئی۱۹۲۲ئ ۱۴۲ خطاب مسلم بہ علامہ اقبال ۱۵؍نومبر۱۹۲۲ئ ۱۴۲ سلام ۲۳؍نومبر۱۹۲۶ئ ۱۴۳ مقصود رسالتؐ ۲۲؍مئی۱۹۲۷ئ ۱۴۵ باب ۳: سوانح اقبال (زمانی ترتیب سے) (الف) جلسوں میں شرکت، مختلف عہدوں پر تعیناتی، متفرق مصروفیات ۱۵۲ مسلمانان پنجاب کے تین مطالبات ۲۹؍جنوری۱۹۲۶ئ ۱۵۲ علامہ اقبال اور امیدواری کونسل ۱۷؍جولائی۱۹۲۶ئ ۱۵۳ علامہ سر محمد اقبال اور پنجاب کونسل کی امیدواری ۱۷؍جولائی۱۹۲۶ئ ۱۵۵ علامہ اقبال اور کونسل کی امیدواری ۲۰؍جولائی ۱۹۲۶ئ ۱۵۵ علامہ اقبال اور کونسل کی امیدواری ۶؍اگست۱۹۲۶ئ ۱۵۶ پنجاب خلافت الیکشن بورڈ کا فیصلہ ۱۴؍اگست۱۹۲۶ئ ۱۵۷ مجلس خلافت کے انتخابی بورڈ کا فیصلہ ۲۲؍اگست۱۹۲۶ئ ۱۵۸ خلافت الیکشن بورڈ کا جلسہ ۱۲؍ستمبر۱۹۲۶ئ ۱۶۴ پنجاب کونسل کے انتخابات اور مولانا شوکت علی ۲۸؍ستمبر۱۹۲۶ئ ۱۶۴ انتخابی جلسوں میں تقاریر ۱۴؍اکتوبر۱۹۲۶ئ ۱۶۵ نواب صاحب کے چوک میں اہم جلسہ ۱۴؍اکتوبر۱۹۲۶ئ ۱۶۶ علامہ اقبال کے حق میں جلسے ۱۴؍اکتوبر۱۹۲۶ئ ۱۶۶ مسلمانانِ لاہور کا عظیم الشان جلسہ ۱۹؍اکتوبر۱۹۲۶ئ ۱۶۶ علامہ اقبال ۲۱؍اکتوبر۱۹۲۶ئ ۱۶۷ علامہ اقبال کے حق میں جلسے اور جلوس ۲۳؍اکتوبر۱۹۲۶ئ ۱۶۷ پنجاب کونسل کا آئندہ انتخاب اور حلقۂ لاہور ۳۱؍اکتوبر۱۹۲۶ئ ۱۶۸ مجلس خلافت اور علامہ اقبال ۳۱؍اکتوبر۱۹۲۶ئ ۱۶۸ علامہ اقبال اور انتخاب کونسل ۲۰؍نومبر۱۹۲۶ئ ۱۶۹ ملک محمد دین جواب دیں ۲۰؍نومبر۱۹۲۶ئ ۱۷۴ انتخابات کونسل کے بعض افسوس ناک تجربات ۲۳؍نومبر۱۹۲۶ئ ۱۷۵ خلافت الیکشن بورڈ کے نامزدہ امیدوار مختلف مقامات پر شان دار کامیابیاں ۲۷؍نومبر۱۹۲۶ئ ۱۷۹ انتخاب کونسل کے تلخ تجربات ۵؍دسمبر۱۹۲۶ئ ۱۷۹ خلافت الیکشن بورڈ کی عظیم الشان فتح ۸؍دسمبر۱۹۲۶ئ ۱۸۶ علامہ اقبال کی شان دار کامیابی ۹؍دسمبر۱۹۲۶ئ ۱۸۶ خلافت الیکشن بورڈ کی فتح مبین ۹؍دسمبر۱۹۲۶ئ ۱۸۸ خلافت الیکشن بورڈ اور مسلمانان پنجاب شان دار کامیابیاں ۱۰؍دسمبر۱۹۲۶ئ ۱۹۰ پنجاب کے ہندوؤں کی ذہنیت ۱۶؍دسمبر۱۹۲۶ئ ۱۹۳ علامہ اقبال کے اعزاز میں دعوت طعام ۲۸؍دسمبر۱۹۲۶ئ ۱۹۶ آل انڈیا مسلم لیگ کا اجلاس ۳۱؍دسمبر۱۹۲۶ئ ۱۹۶ پنجاب کونسل میں انڈی پنڈنٹ جماعت، علامہ اقبال رہنما ہوںگے ۱۴؍جنوری۱۹۲۷ئ ۱۹۷ پنجاب پراونشل لیگ کا نیا انتخاب ۲۲؍فروری۱۹۲۷ ۱۹۸ (ب) مراسلات: اقبال اور سر ۴؍مارچ۱۹۲۳ئ ۱۹۹ صوبۂ سرحد کی آواز ۲۰؍نومبر۱۹۲۶ئ ۱۹۹ معرکۂ انتخاب کے فرمایشی مبلغ ۲۰؍نومبر۱۹۲۶ئ ۱۹۸ علامہ اقبال سے عقیدت ۲۱؍دسمبر۱۹۲۶ئ ۱۹۸ باب ۴: انجمنیں، ادارے انجمن حمایت اسلام لاہور کا ستائیسواں سالانہ جلسہ ۱۲؍اپریل۱۹۱۲ئ ۲۰۶ انجمن حمایت اسلام لاہور کا اٹھائیسوں سالانہ جلسہ ۲۸؍فروری۱۹۱۳ئ ۲۰۷ انجمن حمایت اسلام لاہور کا سالانہ جلسہ ۲۶؍مارچ۱۹۱۳ئ ۲۰۷ انجمن حمایت اسلام کے پینتیسویں اجلاس کی یاد میں (نظم) ۲۳؍اپریل۱۹۲۰ئ ۲۰۸ انجمن حمایت اسلام لاہور کا سالانہ جلسہ ۲۲؍مارچ۱۹۲۳ئ ۲۱۰ انجمن حمایت اسلام کا سالانہ جلسہ ۲۴؍مارچ۱۹۲۳ئ ۲۱۰ آل انڈیا مسلم کشمیری کانفرنس کا دسواں سالانہ اجلاس ۲۸؍اکتوبر۱۹۲۳ئ ۲۱۱ انجمن حمایت اسلام لاہور، معزز ارکان کا استعفا ۴؍فروری۱۹۲۶ئ ۲۱۲ انجمن حمایت اسلام اور ترکِ موالات ۹؍جولائی۱۹۲۶ئ ۲۱۵ انجمن حمایت اسلام اور ترکِ موالات ۹؍جولائی۱۹۲۶ئ ۲۱۵ انجمن حمایت اسلام اور ترکِ موالات ۲۳؍جولائی۱۹۲۶ئ ۲۲۱۹ انجمن حمایت اسلام اور تحریک موالات ۲۸؍جولائی۱۹۲۶ئ ۲۲۸ انجمن حمایت اسلام اور زمیندار ۶؍اگست۱۹۲۶ئ ۲۳۵ اخبار حمایت اسلام کا اعتراف جرائم ۲۰؍اگست۱۹۲۶ئ ۲۴۰ انجمن حمایت اسلام اور ترکِ موالات ۲۹؍دسمبر۱۹۲۶ئ ۲۴۳ باب ۵: معاصرین اور احباب نواب ذوالفقار علی خان کی صحت ۸؍اپریل۱۹۲۶ئ ۲۶۴ خان بہادر شیخ عبدالقادر کی مراجعت ۲۶؍اکتوبر۱۹۲۶ئ ۲۶۴ باب ۶: افکار و حوادث (زمانی ترتیب) m ۴؍اکتوبر ۱۹۲۲ء ۱۶۸ m ۸؍جنوری۱۹۲۳ئ ۲۶۸ m ۱۵؍جنوری۱۹۲۳ئ ۲۷۲ m ۸؍جولائی۱۹۲۳ئ ۲۷۲ m ۱۴؍جولائی۱۹۲۳ئ ۲۷۳ m ۵؍مارچ۱۹۲۴ئ ۲۷۴ m ۳؍اگست۱۹۲۴ئ ۲۷۵ m ۲۳؍اگست۱۹۲۴ئ ۲۷۵ m ۸؍دسمبر۱۹۲۴ئ ۲۷۶ m ۱۰؍جنوری۱۹۲۵ئ ۲۷۷ m ۱۰؍جنوری۱۹۲۶ئ ۲۷۷ m ۱۹؍اکتوبر۱۹۲۶ئ ۲۷۸ m ۲۳؍اکتوبر۱۹۲۶ئ ۲۷۹ m ۲۴؍اکتوبر۱۹۲۶ئ ۲۷۹ m ۲۸؍اکتوبر۱۹۲۶ئ ۲۷۹ m ۲۵نومبر۱۹۲۶ئ ۲۸۰ m ۲۷ نومبر۱۹۲۶ئ ۲۸۰ m ۱۰؍دسمبر۱۹۲۶ئ ۲۸۱ m ۲۹؍دسمبر۱۹۲۶ئ ۲۸۲ /…/…/ مقدمہ: زمیندار، ظفر علی خاں اور علامہ اقبال ۱ اُردو کا قدیم اور ممتاز اخبار زمیندار؛ مولانا ظفر علی خاں (۱۸۷۲ئ-۱۹۵۶ئ)کے والد مولانا سراج الدین احمد خاں کے زیرادارت جنوری ۱۹۰۳ء میں لاہور سے ہفتہ وار نکلنا شروع ہوا۔ چند ماہ بعد اپنی بعض مجبوریوں کے باعث، وہ اسے کرم آباد، تحصیل وزیر آباد لے گئے۔ یکم جون ۱۹۰۳ء سے یہ موضع کرم آباد سے ہفتہ وار نکلنے لگا۔ اس کا مقصد اجرا کاشت کاروں اور زمینداروں کے مسائل کا اظہار، ان کے مفادات کی نگہبانی اور اس طبقے کی اصلاح تھا، اسی وجہ سے اس کا نام زمیندار رکھا گیا۔ زمیندار میں چونکہ زیادہ تر زمینداروں اور کسانوں کی فلاح و بہبود کے متعلق مضامین شائع ہوتے تھے، اس لیے یہ ایک زرعی اخبار سمجھا جاتا تھا۔ مولانا سراج الدین احمد نے ۲۲×۱۸ کے بارہ صفحاتی اخبار کو چھے سال چلایا۔ ۶؍دسمبر ۱۹۰۹ء کو ان کے انتقال کے بعد مولانا ظفر علی خاں نے اس کی ادارت سنبھالی اور بڑی توجہ اور محنت سے ہفتہ وار زمیندار کو ہر اعتبار سے ایک بہتر اور معیاری اخبار بنانے کی کوشش کی۔ ۱۹۱۰ء میں چودھری شہاب الدین کے کہنے پر زمیندار کرم آباد سے کٹڑی امیر چند (ٹکسالی دروازہ) لاہور میں منتقل ہوگیااور یکم مئی ۱۹۱۱ء کو لاہور سے شائع ہونا شروع ہوا۔ ان دنوں لاہور سے پیسہ اخبار، انتخاب لاجواب، ہندوستان اور کشمیری میگزین ہفتہ وار نکلتے تھے۔ زمیندار نے ان اُردو اخبارات میں تازہ خبروں، تبصروں اور تجزیوں کی وجہ سے ایک نمایاں مقام حاصل کرلیا اور اس کی اشاعت میں بہت جلد خاصا اضافہ ہوا۔ اب اس نے خالص اسلامی رنگ اختیار کیا تو لوگوں نے اسے ہاتھوں ہاتھ لیا۔ ہر شخص زمیندار کے مطالعے کا شائق نظر آتا تھا۔ چنانچہ بہت قلیل مدت میں یہ ہفتہ وار کے بجاے ہفتے میں دوبار نکلنے لگا۔ جس دور میں زمیندار جاری ہوا، عوام میں اخبار بینی کا ذوق کم تھا۔ زمیندار نے نہ صرف عوام میں اخبار بینی کا ذوق پیدا کیا بلکہ ان میں سیاسی شعور بھی بیدار کیا۔ جب اٹلی نے طرابلس پر حملہ کیا تو ظفر علی خاں نے لاہور کے ڈپٹی کمشنر کی اجازت سے زمیندار کا روزانہ ضمیمہ نکالنا شروع کیا۔ روزانہ ضمیمے کا سب سے پہلا پرچہ ۲؍اکتوبر۱۹۱۱ء کو نکلا۔ ۵؍نومبر۱۹۱۱ء سے اس ضمیمے نے باقاعدہ روزنامہ اخبار کی حیثیت اختیار کرلی۔ اب اس کی مقبولیت میں حیرت انگیز سرعت کے ساتھ اضافہ ہونے لگا اور اس کی اشاعت کا دائرہ وسیع ہونے لگا۔ اس دور میں زمیندار نے جنگ طرابلس ہی کو اپنی تمام توجہات کا مرکز بنائے رکھا۔ جنگ کے متعلق نئی خبروں کی اشاعت میں انتہائی اہتمام کیا جاتا۔ مختلف یورپی ممالک کی خارجی سیاسیات سے بحث کی جاتی جن کا تعلق عالمِ اسلام سے تھا۔ مسلمانانِ ہند کو غیر ملکی اسلامی بھائیوں کی امداد پر متوجہ کیا جانے لگا۔ وسطِ اکتوبر۱۹۱۲ء میں یہ ۵ ہزار کی تعداد میں چھپ رہا تھا۔ ۲۲؍اکتوبر۱۹۱۲ء سے زمیندار اپنے مطبعے سے چھپنا شروع ہوا تو اس کی اشاعت اور بڑھ گئی۔ ۲۹؍نومبر۱۹۱۲ء کو ۱۲ ہزار ۵سو کاپیاں چھپیں، بعد ازاں اسی رفتار سے اس کی اشاعت میں اضافہ ہوتا گیا اور ۱۹۱۳ء میں اس کی روزانہ کاپیوں کی تعداد ۲۰، ۲۵ ہزار تک پہنچ گئی۔ بڑھتی ہوئی مانگ اور عام دلچسپی کے پیشِ نظر اس میں بعض نمایاں تبدیلیاں بھی کی گئیں، مثلاً ۲۴؍اکتوبر ۱۹۱۵ء سے یہ اخبار، اشاعت الصباح اور اشاعت المساء کے نام سے دن میں دو بار شائع ہونے لگا لیکن مطبعے کی خرابی اور حکومت کی سختیوں کی وجہ سے یہ سلسلہ ۲۴؍دسمبر ۱۹۱۵ء کو ختم ہوگیا۔ ۱۹۲۳ء تک روزنامہ زمیندار ۲۲×۱۸ کی تقطیع میں چھپتا تھا، ۱۹۲۴ء میں اسے ناکافی خیال کرتے ہوئے ۲۲×۲۹ کی تقطیع میں شائع کیا جانے لگا۔ اس سے ایک تو مواد میں اضافہ ہوا، دوسرے خبروں کی ترتیب و تزئین کی زیادہ گنجائش پیدا ہوئی۔ اخبار کا دوسرا صفحہ ادارتی مقالات کے لیے مخصوص کردیا گیا جس کے تین کالم تو متین و سنجیدہ صحافت کے لیے مختص کیے گئے اور ایک مزاحیہ کالم ’’افکار و حوادث‘‘ کے نام سے مستقل طور پر شائع کیا جانے لگا جسے بعد میں سب اخباروں نے اپنالیا۔ ڈاکٹر وزیرآغا زمیندار کے اس فکاہی کالم کے بارے میں فرماتے ہیں: صحافت میں زمیندار کی اہمیت کی ایک وجہ تو مولانا ظفر علی خاں کی طنزیہ شاعری ہے اور دوسری ’’افکار و حوادث‘‘ کے اس کالم کا اجرا ہے جسے اُردو صحافت میں طنزومزاح کی شاہ راہ کا دوسرا اہم سنگ میل سمجھنا چاہیے۔ مسلمانوں کی سیاسی و مذہبی خدمت کے ساتھ علمی و ادبی رنگ میں قوم کے مذاق کی اصلاح کرنا زمیندار کا مقصد تھا، اس لیے ۱۹۲۶ء کے اواخر میں زمیندار کا سنڈے اڈیشن نکالنے کا فیصلہ کیا گیا، چنانچہ ۱۰؍جنوری ۱۹۲۷ء بروز ہفتہ اس کا سنڈے اڈیشن منظر عام پر آیا جس میں محققانہ علمی مضامین، ادبی تنقیدات، دل آویز نظمیں، عربی و فارسی اور انگریزی جرائد و رسائل کے دل کش اور معلومات افزا اقتباسات شائع ہوتے رہے۔ ۲۵؍ ستمبر ۱۹۳۲ء سے مولانا ظفر علی خاں نے زمیندار کا ایک صفحہ انگریزی میں بھی شائع کرنا شروع کردیا جس کی ترتیب عبدالمجید صاحب کے سپرد کی گئی لیکن یہ سلسلہ کچھ عرصے بعد ختم ہوگیا۔ زمیندار وقتاً فوقتاً بعض خاص نمبروں، مثلاً: سلورجوبلی، گولڈن جوبلی کے علاوہ میلاد نمبر، امیر نمبر، اسلام نمبر، کشمیر نمبر اور شہید نمبر شائع کرنے کا اہتمام بھی کرتا رہا۔ زمیندار کے فائلوں پر ایک نظر ڈالنے سے مندرجہ ذیل اُمور قاری کے سامنے آتے ہیں: زمیندار کے ہر پرچے پر شمارہ نمبر، جلد نمبر، دن، تاریخ اور مہینے کا اندراج ہوتا۔ ابتدائی دور میں اخبار کی پیشانی پر مندرجہ ذیل دو اشعار درج ہوتے تھے: ؎ خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا ساتھ ہی دوسرے کونے میں نواب محبوب علی خاں آصف شہر یار دکن کا یہ شعر: ؎ تم خیر خواہ دولتِ برطانیہ رہو سمجھیں جناب قیصر ہند اپنا جاں نثار بعد میں دوسرا شعر نظر نہیں آتا جب کہ پہلا شعر ۱۳؍جولائی۱۹۲۴ء تک اخبار کے صفحۂ اوّل کی زینت رہا۔ جب زمیندار کے خلاف داروگیر کی مہم اپنے جوبن پر آئی تو ۱۴؍ جولائی۱۹۱۴ء کی اشاعت سے مندرجہ ذیل شعر مستقل طور پر اس کی پیشانی پر شائع ہونے لگا: ؎ نورِ خدا ہے کفر کی حرکت پہ خندہ زن پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا مولانا ظفر علی خاں کے علاوہ مولانا عبداللہ العمادی، مولانا وحید الدین سلیم، مولانا وجاہت حسین جھنجھانوی، منشی غلام رسول، اے ایم ترمذی، مولوی شریف احمد مارہروی، نیاز فتح پوری، غلام حیدر، سیّد محمد جالب، اطہر امر تسری، مولانا عبدالمجید سالک، غلام رسول مہر اور مولانا اختر علی خاں مختلف ادوار میں اس کے اڈیٹر رہے ۔ جس زمانے میں زمیندار جاری ہوا تھا، لوگوں میں اخبار بینی کا کچھ زیادہ شوق نہ تھا؛ علاوہ ازیں زمیندار حقیقتاً ایک ایسے طبقے کے لیے جاری کیا گیا تھا جسے اخبار بینی تو درکنار، عام چیزیں پڑھنے کا بھی شوق نہیں تھا۔ غیر زمین دار طبقے کو بھی زمیندار سے کوئی دلچسپی نہیں تھی یہی وجہ ہے کہ زمیندار کا حلقۂ اشاعت محدود تھا۔ ایسے حالات میں اس کی مقبولیت کی خفیف سی بھی توقع نہیں ہوسکتی تھی لیکن مولانا کے خلوص، محنت اور جذبۂ خدمت کی بدولت یہ بہت کم مدت میں توقع سے بڑھ کے پھلا پھُولا۔ زمیندار کے پرچوں میں ہندوستان اور بیرون ملک کی تازہ اور دل چسپ خبروں کے علاوہ ادبی مقالات شائع کیے جاتے، قومی و ملکی مسائل پر نہایت متین انداز میں تبصرہ کیا جاتا، شذرات تحریر کیے جاتے، تاریخی مضامین درج کیے جاتے اور تجارتی خبروں پر توجہ کی جاتی۔ مولانا نے زمیندار کی وجاہت بڑھانے کے لیے موضوعات میں تنوع پیدا کیا، خود گھن گرج کے ساتھ سیاسی شاعری شروع کی جس کی بدولت اُردو صحافت نئے الفاظ و اصطلاحات سے مالامال ہوئی، لوگوں کو انگریزی حکومت کے خوف سے نجات ملی اور ان میں جراَت اور حوصلہ پیدا ہوا۔ تحریکِ آزادی میں زمیندار نے جو کردار ادا کیا، وہ ناقابلِ فراموش ہے۔ یہ اخبار اس دور کے متعلق سیاسی اور معاشرتی معلومات فراہم کرنے کا ایک مؤثر ذریعہ تھا۔ مسلم دنیا میں اس وقت جو سیاسی تبدیلیاں ہورہی تھیں، لوگ ان سے بے بہرہ تھے؛ زمیندارنے انھیں قومی و سیاسی شعور سے آشنا کیا، شعرا، ادبا اور دیگر سیاسی و سماجی شخصیات اور مختلف رہنمائوں کے افکار و خیالات کو عوام الناس تک پہنچانے کے لیے اپنے صفحات میں جگہ دی۔ اخبار شروع ہی سے عالم گیر اتحاد اسلام کا قائل تھا۔ اس کی وجہ سے ہندوستان کے مسلمانوں میں ایک عام سیاسی اور مذہبی بیداری پیدا ہوئی۔ زمیندار اس کے لیے بین الاقوامی سیاست پر معلوماتی مقالے شائع کرتا اور غیرملکی اخبارات سے اعلیٰ پاے کے مقالوں کا ترجمہ پیش کرتا۔ جنگِ طرابلس اور جنگِ بلقان کی خبروں کی اشاعت کے لیے زمیندار نے خصوصی اہتمام کیا۔ اس سلسلے میں ترک اور عرب مجاہدوں کی امداد و اعانت کے لیے ولولہ انگیز اپیلیں شائع کیں جس پر جابجا چندے جمع ہوئے، یوں پانچ لاکھ روپے سے زائد رقم زمیندار کے ذریعے ترکوں تک پہنچائی گئی۔ عثمانی قونصل جنرل نے حکومت ترکیہ کی جانب سے زمیندار کی ان گراںقدر خدمات کا نہایت حوصلہ افزا الفاظ میں اعتراف و شکریہ ادا کیا۔ بیرونی دنیا کے ساتھ ساتھ ہندوستانی مسلمان جن تکالیف و مصائب سے دوچار رہے، زمیندار نے اپنے کالموں میں ان پر بھی توجہ دی۔ تقسیمِ بنگال منسوخ ہوئی، مغربی طاقتوں نے خلافت عثمانیہ کے خلاف ایک نئی مہم کا آغاز کررکھا تھا، طرابلس کے مسلمانوں کی حالت خراب تھی، جنگ بلقان میں ترکوں سے کئی علاقے چھین لیے گئے تھے اور جب ۱۹۱۳ء میں مچھلی بازار کانپور میں مسجد کی شہادت کا واقعہ پیش آیا تو ہندوستان بھر میں انگریزوں کے خلاف غم و غصے کی لہر دوڑ گئی، ملک میں جابجا جلسے جلوس منعقد کیے گئے، زمیندار نے ان تمام جلسوں کی کارروائی کو اپنے کالموں میں جگہ دی اور اپنے ترش لہجے اور خطیبانہ انداز میں مسلمانوں کے جذبات و احساسات کی ترجمانی کی۔ ملکی سیاست کے سلسلے میں شروع میں زمیندار کی پالیسی کاملاً کانگریسی اور نیشنلسٹ تھی۔ جب تصفیۂ حقوق کے لیے مسلمانوں نے مہم شروع کی تو زمیندار نے اس کی مخالفت کی، سائمن کمیشن کے سلسلے میں کانگریس کا ساتھ دیا، نہرو رپورٹ کی تائید و حمایت کی لیکن بعض مرحلے ایسے بھی آئے جب اس نے ان سے انحراف بھی کیا، مثلاً: جب شدھی اور سنگھٹن کا زور ہوا تو زمیندار نے تنظیم اور تبلیغ کی تحریکوں کو آگے بڑھایا۔ سائمن کمیشن میں جب کسی ہندوستانی کو شریک نہ کیا گیا تو زمیندار کا شمار بھی مخالفینِ کمیشن میں تھا۔ اس دور میں اس کے اداریے اور خبروں کے کالم؛ سب سائمن کمیشن کی مخالفت سے پُر ہوتے تھے۔ زمیندار سائمن کمیشن کے حامیوں کو ’’سائمن پرست‘‘ کے نام سے یاد کرتا تھا۔ زمیندار کی زندگی کے کئی پہلو ہیں، مثلاً: ملک و قوم کی ہنگامہ خیز بیداری اور احیا کا کام، ہندوستان کے اندر اتحاد اسلام کی سب سے پہلی اور موثر دعوت کا انتظام، مطابع کی زبردست جدوجہد، مسلمانوں میں سیاسی خیالات کی صحیح نشوونما، قومی تحریک کی توسیع و تقویت کے لیے سرفروشانہ سعی و کوشش، اہم مقاصد انسانی کے لیے ایثار و قربانی کے سچے جذبے کی عملی نمائش، انتہائی بے سروسامانی کے باوجود عدیم النظیر استقلال و استقامت اور اس کے نتیجے میں حکومتِ وقت کے جبروتشدد کا مقابلہ۔ زمیندار شروع ہی سے مسلمانوں کا بے باک ترجمان رہا۔ جنگ آزادی میں اس نے انگریزحکمران کے جبرواستبداد اور ظلم و ستم کے خلاف آواز بلند کی تو اس پر پے در پے ضمانتوں اور اخبار کی ضبطیوں کے وار کیے گئے؛ پریس ضبط ہوا، آئے دن کی ڈگریاں، گرفتاریاں اور ضبطیاں اس کی زندگی کا جزولاینفک بن گئیں۔ حق گوئی کی پاداش میں ۱۲؍مارچ۱۹۱۲ء کو زمیندار اور اس کے پریس سے پہلی دفعہ ۲ ہزار روپے کی ضمانت طلب کی گئی جو ۲۹؍ مارچ۱۹۱۲ء کو داخل کرادی گئی۔ ۳؍اگست۱۹۱۳ء کو مچھلی بازار، کانپور کا سانحہ پیش آیا۔ زمیندار نے اس سانحے پر نہایت زبردست مضامین لکھے جس پر حکومت کے غیظ و غضب کی دبی ہوئی آگ یکایک بھڑک اُٹھی، یوں ۱۸؍ستمبر ۱۹۱۳ء کو زمیندار کی ۲ ہزار روپے کی ضمانت ضبط ہوگئی اور اس سے دس ہزار روپے کی تازہ ضمانت مانگی گئی۔ مقررہ تاریخ پر یہ ضمانت داخل کردی گئی اور زمیندار کی اشاعت میں ایک روز کا توقف بھی نہ آیا۔ قریباً تین ماہ بعد ۱۳؍جنوری۱۹۱۴ء کو یہ ضمانت اور سٹیم پریس؛ دونوں ضبط کرلیے گئے اور ناچار اخبار کی اشاعت ۱۸؍فروری تک بند رہی۔ ۱۸؍فروری کو مسلم پرنٹنگ پریس کے نام سے نئے مطبعے کے قیام کے بعد ۱۹؍فروری۱۹۱۴ء کو دو ہزار روپے کی ضمانت داخل کرکے زمیندار کی اشاعت شروع کی گئی۔۱؎ جولائی ۱۹۱۴ء کے اواخر میں جنگِ یورپ شروع ہوئی جس کے باعث زمیندار کے لیے نئے حوادث کی فضا پیدا ہوگئی؛ مولانا ظفر علی خاں کو نظر بند کردیا گیا، یوں ان کی ادارت کا سلسلہ بھی ختم ہوگیا۔ اب زمیندار کی پیشانی پر مولانا کا نام مدیر کی بجاے مالک کے طور پر چھپنے لگا۔ ۱۱؍مارچ۱۹۱۵ء کو مولانا نے زمیندار کی ملکیت اپنی بیگم کے نام منتقل کردی۔۲؎ مولانا کی نظر بندی کے بعد زمیندار پر مصائب اور حکومت کی سخت گیریاں بڑھ گئیں، انجامِ کار اخبار بند کرنا پڑا۔ زمیندار کی بندش کے بعد لمعات کے نام سے ایک روز نامہ جاری کیا گیا جس پر چند روز بعد ہی وہی پابندیاں لگادی گئیں جو زمیندار پر عائد کی گئی تھیں، اس طرح لمعات بھی مجبوراً بند ہوگیا۔۳؎ ۲۰؍اپریل ۱۹۲۰ء کو زمیندار کا پھر اجرا ہوا لیکن تین ماہ بعد ہی ۲۳؍جولائی۱۹۲۰ء کو پھر دو ہزار روپے کی ضمانت طلب کرلی گئی جو ۷؍دسمبر۱۹۲۰ء کو ضبط کرلی گئی۔ ۲۵؍ دسمبر۱۹۲۰ء کو نئی ضمانت داخل کرکے زمیندار پہلی آب و تاب کے ساتھ کانگریس پریس سے چھپنے لگا لیکن جلد ہی اس کی ضبطی کے بعد زمیندار سالک پرنٹنگ پریس سے شائع ہونے لگا۔ حکومت نے اس کو بھی دو ہزار روپے نقد ضمانت ادا کرنے کا حکم دیا لیکن رقم ادا کرنے کے تین روز بعد ہی اسے ضبط کرلیا گیا۔ ۱۱؍اگست۱۹۲۱ء کو مولانا اختر علی خاں اور راجا غلام قادر، دونوں گرفتار کرلیے گئے اور ۱۷؍اکتوبر کو دونوں حضرات کو تین تین سال قید بامشقت کی سزا کا حکم سنا دیا گیا۔۴؎ اب ادارت کی ذمہ داری عبدالمجید سالک اور مولوی شفاعت اللہ خاں نے سنبھالی۔ ۴؍ نومبر ۱۹۲۱ء کو ان کی گرفتاری کے بعد پنڈت رام سرن دت نے ناشر کی ذمہ داری قبول کی، یوں دسمبر ۱۹۲۱ء کو دو ہزار کی ضمانت داخل کرکے زمیندار پھر نکلنے لگا۔ ۲۷؍جنوری۱۹۲۲ء کو آغا صفدر کا بیان شائع کرنے کی پاداش میں یہ ضمانت ضبط کرلی گئی۔ ۲؍فروری ۱۹۲۲ء کو از سر نو دو ہزار کی ضمانت داخل کرائی گئی جو دو ہفتے کے بعد ضبط کرلی گئی۔۵؎ غرض گوناگوں مصائب و شدائد کا سلسلہ جاری رہا۔ قیامِ پاکستان کے بعد تحریکِ ختمِ نبوت (۱۹۵۳ئ) میں زمیندار کا ڈیکلریشن منسوخ ہوا اور حکومت نے پریس قبضے میں لے لیا۔ اس وقت ظفر علی خاں کے بیٹے اختر علی خاں اخبار کے مدیر تھے۔ ان کو مارشل لا کے تحت چودہ سال قید بامشقت کی سزا سنائی گئی، یوں تقریباً نصف صدی کی ہنگامہ خیز جدوجہد کے بعد ۱۹۵۴ء میں اخبار مستقلاً بند ہوگیا۔ ان تفصیلات سے اندازہ ہوتا ہے کہ سامراج اور مغربی طاقتوں پر بے پناہ یلغار نے جہاں زمیندار کو عوام میں مقبول بنایا، وہاں حاکم اس سے ناراض ہوئے اور اسے خاموش کرنے کے لیے ہر حربہ استعمال کیا مگر زمیندار کے مالک و مدیران ان تمام حوادث کے سامنے ڈٹے رہے اور اخبار کا اثر و رسوخ اور وقار بدستور قائم رکھا، اس طرح زمیندار گویا پوری نصف صدی کی داستانِ عزیمت ہے۔ مشہور صحافی، ادیب اور شاعر مولانا عبدالمجید سالک نے زمیندار کو یوں خراج عقیدت پیش کیا: زمیندار اگرچہ حکومت کے ہتھوڑوں کی بے پناہ ضربات سے چور ہورہا ہے، گیارہ کارکنوں کو قید کراچکا، ہزاروں روپیا سرکاری خزانے میں داخل کراچکا، آج آسمان ہند کے نیچے کوئی بھی اخبار اس کی مظلومی و بے کسی کا مقابلہ نہیں کرسکتا، لیکن جراَت، حوصلے اور شجاعت و بسالت کا اب بھی یہ عالم ہے کہ آج بھی اس کی صداے بے پناہ سے ایوان حکومت میں تزلزل آجاتا ہے، بڑے بڑے جباروں اور متکبروں کو پگڑیاں سنبھالتے ہی بنتی ہے، گویا: ؎ ملی تعزیر جس قدر بھی، بڑھا ہے ذوق گناہ اس سے دل ایسے بے باک ہوچکے ہیں کہ خوفِ دارورسن نہیں ہے۶؎ مولانا ظفر علی خاں نے زمیندار کو اُردو صحافت میں ایک منفرد اور نمایاں مقام دلانے میں جو اہم کردار ادا کیا، اس کے متعلق مولانا محمد علی جوہر کی راے ایک ہم عصر کی حیثیت سے بہت اہمیت کی حامل ہے، لکھتے ہیں: یہ پرچہ اس لیے عروج کو پہنچا کہ ایک ایسے شخص نے اس کی ادارت سنبھالی جو نہایت قابل ہے… علی گڑھ کا گریجوایٹ ہے… جدید تمدن اور سیاست سے آگاہ ہے… انگریزی کی اعلیٰ قابلیت کا حامل ہے، اُردو نثر میں ایک درخشاں اُسلوب کا مالک ہے اور شعر و شاعری پر اُسے کامل عبور ہے… انھوں نے عوام کو زبان و بیان کے ایک انداز کا عادی بنایا ہے جو ہماری صحافت میں موجود نہیں تھا اور صورت یہ ہوگئی ہے کہ زمیندار کے مقابلے پر دوسرے اخبار پھیکے اور بے مزہ معلوم ہوتے ہیں… ان سب خصوصیات نے زمیندار کو اپنے عہد کا بہترین اخبار بنادیا اور اس کی اشاعت برابر ترقی پذیر رہی۔۷؎ ۲ زمیندارکے اڈیٹر مولانا ظفر علی خاں نہایت بلند پایہ علمی و ادبی ذوق رکھتے تھے۔ جن اہل علم اور اہل قلم سے اُن کا تعلق رہا، ان میں اقبال کا نام سرِفہرست ہے۔ اقبال سے ان کے تعلقات ابتدائی زمانے ہی سے استوار تھے۔ وہ اقبال کے فکروفلسفے کے بڑے قدردان تھے، چنانچہ دکن ریویو میں مارچ ۱۹۰۴ء میں اقبال کی نظم ’’ رخصت اے بزمِ جہاں‘‘ شائع ہوئی۔ لاہور آمد پر تعلقات مزید بڑھ گئے اور یہ تعلقات بعد میں دوستی میں تبدیل ہوگئے اور مولانا کے جاری کردہ ماہنامہ پنجاب ریویو کے ستمبر ۱۹۱۰ء کے شمارے میں علامہ کی نظم ’’رات اور شاعر‘‘ شائع ہوئی۔ بعد ازاں اقبال کی متعدد نظمیں پنجاب ریویو کی زینت بنیں۔ زمیندارکو یہ خصوصی امتیاز حاصل ہے کہ وقتاً فوقتاً اپنی مختلف اشاعتوں میں علامہ اقبال کی تقاریر و بیانات، مکاتیب و مراسلات، مضامین و مقالات اور تبصرے برابر شائع کرتا رہتا۔ علامہ کی مختلف تصانیف کی اشاعت کے متعلق اشتہارات، اطلاعات اور اعلانات شائع ہوتے، جن سے بعض اہم معلومات سامنے آتی ہیں۔ علامہ کی تصانیف کو بڑے فراخدلانہ انداز میں خوش آمدید کہا جاتا اور ان کا تعارف و تبصرہ شائع کیا جاتا۔ اپنی ایک اشاعت میں اسرار خودی اور رموز بے خودی کے بارے میں لکھا: اس فتنہ و آشوب کے زمانے میں صحیح روح اسلامی کی تعلیم اور اسرار حیات کی تفہیم کے لیے جو توفیق مبدۂ فیاض کی طرف سے علامہ ممدوح کو ودیعت کی گئی ہے، بہت کم شعرا و فلاسفہ میں پائی جاتی ہے۔ ان دونوں مثنویوں سے ادبیات اسلامی میں نہایت گراںقدر اضافہ ہوا ہے، زبان کی صفائی و سلاست کانمونہ ہیں، ژولیدگی بیان یا غیر مانوس الفاظ و تراکیب کا کہیں نام و نشان تک نہیں… ضرورت ہے کہ اسلامی مدارس کی اعلیٰ جماعتوں میں علامہ کی تصانیف نصاب فارسی میں داخل کی جائیں۔ جامعہ عثمانیہ حیدرآباد دکن کو اس بارے میں خاص توجہ کرنی چاہیے۔۸؎ ’’گوئٹے اور اقبال‘‘ کے عنوان سے ایک پرچے میں مضمون شائع کیا، چودھری محمد حسین کے قلم سے اپنے تین شماروں ۱۷،۱۹ اور ۲۱؍مارچ ۱۹۲۳ء میں پیام مشرق کا تفصیلی تعارف پیش کیا۔ پیام مشرق کے متعلق اخبار سیاست میں منیجر صوفی پرنٹنگ اینڈ پبلشنگ کمپنی لمیٹڈ کی طرف سے ایک اشتہار چھپا۔ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے زمیندار نے نہایت غم و غصے کا اظہار کیا اور لکھا: ان سطور کو پڑھ کر جناب علامہ کو مینجر کمپنی کی غیر ذمہ دارانہ حرکت پر بہت رنج ہوا ہے۔ اوّل تو اشاعت کتاب سے پہلے مصنف یا ناشر کے سوا کسی اور شخص کا بے اجازت اپنے نام سے اس کتاب کا اشتہار دینا بالکل خلاف قانون اور دیانت ہے اور پھر اس کی قیمت ساڑھے چار روپے خود ہی تجویز کرکے لکھ دینا اور بھی مجرمانہ حرکت ہے۔ یوں اُردو اور فارسی کی کئی نظمیں اور غزلیں زمیندار کی مختلف اشاعتوں میں شامل ہوئیں جو اب اقبال کے شعری مجموعوں میں شامل ہیں۔ تصانیف اقبال پر ان کے دوست احباب تعارفی مضامین و مقالات تحریر کرتے جنھیں مدیر زمیندار بڑے اہتمام سے شائع کرتے تھے۔ کلام اقبال سے متعلق ادارتی نوٹ زمیندار کے ذریعے اہل ادب و شوق تک پہنچے۔ بعض علمی و ادبی، تہذیبی و ثقافتی اداروں سے اقبال کی وابستگی تھی۔ ان اداروں میں وہ مختلف عہدوں پر فائز رہے۔ اقبال کی ان خدمات کا ذکر زمیندار میں ملتا ہے۔ ۱۹۲۳ء میں جشن نو روز کے سلسلے میں حکومت کی طرف سے چند اصحاب کو اعزازات و خطابات عطا کیے گئے۔ علامہ اقبال کو بھی یکم جنوری ۱۹۲۳ء کو ’’سر‘‘ کا خطاب دیا گیا۔ اس سے ملک کے حریت پسندوں کو شدید دھچکا لگا اور علامہ پر اعتراضات ہوئے۔ اس موقعے پر مدیر زمیندار عبدالمجید سالک نے سات نہایت تندوتیز اور طنزیہ اشعار پر مشتمل بے قافیہ نظم لکھی۔ اس نظم میں مولانا کی مراد اقبال کی مذمت نہ تھی چنانچہ مولانا نے اپنے ایک انٹرویو میں فرمایا: میں نے اقبال کے متعلق جو بھی لکھا، اس کا مقصد ہرگز ان کی مذمت نہ تھا۔ اسے آپ ایک دوست کا شکوہ و شکایت کَہ سکتے ہیں اور وہ بھی ایک مخلص دوست کا۔۹؎ ’’افکار و حوادث‘‘ میں اس شخصیت کے بارے میں لکھا: جناب میاں محمد شفیع کو سر کا خطاب ملا تو کسی قومی اخبار نے ایک لفظ تک نہیں لکھا لیکن حضرت علامہ اقبال کے ’’سر‘‘ ہوجانے پر تمام دنیاے ادب و سیاست میں تہلکہ مچ رہا ہے۔ آخر اس کی وجہ کیا ہے؟ وجہ بالکل ظاہر ہے کہ میاں محمد شفیع صاحب کو قوم اپنا نہیں سمجھتی۔ وہ نہ کبھی پہلے قوم کی راے کی پروا کرتے تھے، نہ اب کرتے ہیں۔ ان کا دائرہ عمل ہی دوسرا ہے لیکن اقبال، ہمارا اقبال، قوم کی آنکھوں کا تارا اقبال اگر ہم سے چھن جائے اور حکومت ایک دو حرفی لفظ دکھا کر اسے موہ لے تو یقینا ماتم کا مقام ہے۔۱۰؎ یہ درست ہے کہ زمیندار نے میدان سیاست میں غلطی کرنے پر بڑے بڑے مسلم رہنمائوں کی کھلم کھلا مخالفت کی لیکن علامہ اقبال کی بصیرت سے یہ توقع ہی نہیں کی جاسکتی تھی کہ وہ برعظیم کے مسلمانوں کے تمام مفادات کے خلاف بھی کوئی اقدام کرسکتے ہیں اور یہ حقیقت خود مدیر زمیندار پر بھی منکشف تھی، اسی لیے آگے چل کے لکھتے ہیں: ہم علامہ اقبال کی عزت سے خوش ہوتے ہیں۔ زمیندار سے زیادہ شاید کوئی دنیا بھر میں موصوف کا مداح نہیں۔۱۱؎ اسی طرح جب ’’مجلسِ مرکزیہ خلافت‘‘ کی مجلسِ عاملہ کے اجلاس میں نئے وفد خلافت کے بھیجنے کی تجویز پیش کی گئی تو اس میں حکیم اجمل خان صاحب، ڈاکٹر انصاری اور مولانا سیّد سلیمان ندوی جیسے بزرگوں کے اسماے گرامی شامل تھے لیکن علامہ اقبال کا نام وفد خلافت میں شامل نہیں تھا۔ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے ۸؍جنوری ۱۹۲۳ء کو ص۳ پر زمیندار نے لکھا: ہم حیران ہیں کہ مجلسِ عاملہ کے ارکان کی نظر انتخاب علامہ اقبال پر کیوں نہ پڑی، حالانکہ زمیندار بیسیوں دفعہ علامہ کا اسم گرامی پیش کرچکا ہے۔ یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ ہندوستان کے مسلمانوں میں جس ہستی نے سب سے پہلے اتحاد اسلام اور وابستگی خلافت کی روح پھونکی اور جس نے صرف اسی ایک مسئلے کے حل کو اپنی زندگی کا مقصد قرار دیے رکھا ہے، وہ جناب علامہ اقبال ہی کی ذات بابرکات ہے اور یہ امر بھی محتاج بیان نہیں کہ ممالک اسلامی کے تعلیم یافتہ طبقے میں جو عزت و مقبولیت دنیاے اسلام کے اس سب سے بڑے شاعر اور فلسفی کو حاصل ہے، وہ [دنیا کے دیگر ممالک] دیگر دنیاے ملک میں سے کسی کو نصیب نہیں لیکن افسوس ہے کہ مجلسِ عاملہ میں ہمارے جو نمایندے موجود ہیں، وہ دورحاضر کی اس عظیم الشان اور جلیل القدر شخصیت کی حقیقی اہمیت کو نہیں سمجھتے یا اگر سمجھتے ہیں تو تنگ خیالی کے جذبے سے متاثر ہوکر اتنی جراَت اپنے آپ میں نہیں پاتے کہ اس کا نام وفد خلافت کے لیے تجویز کریں۔ ہمارا یہ خیال ہے کہ اسلام کے ادارۂ جمہوریت، نظام خلافت اور بقاے مرکزیت کے متعلق علامہ اقبال جس قدر مجتہدانہ علم و بصیرت رکھتے ہیں، وہ بہت کم لوگوں کو میسر ہے۔ ہمارے رہنمایان ملّی میں سے صرف چند بزرگ ترین ہستیاں ان پیچیدہ مسائل پر جامعیت اور صحت کے ساتھ غور و خوض کرنے کی توفیق رکھتی ہیں۔ چونکہ ان حضرات کو پروانہ ہاے راہداری دینے میں حکومت پس و پیش کرتی ہے، اس لیے ہمیں دلی افسوس ہے کہ وہ ہماری صحیح نیابت کے لیے ممالک اسلامی میں تشریف نہیں لے جاسکتے۔ مجلسِ عاملہ نے جن بزرگوں کو تجویز کیا ہے، ان کی موزونیت میں بھی کچھ شک نہیں لیکن ہم چاہتے ہیں اور ہماری اس خواہش میں لاکھوں تعلیم یافتہ اور مردم شناس مسلمان متفق ہیں کہ مجلسِ عاملۂ خلافت جناب علامہ کو بھی منتخب کرے… ہماری راے میں مجلس خلافت کے ارباب حل و عقد کو اپنے اس فیصلے میں ترمیم کرکے علامہ اقبال کا نام تجویز فرمانا اور آپ سے اس سلسلے میں استصواب کرنا چاہیے۔ غرض زمیندار نے اپنی پوری قوت و توانائی کے ساتھ علامہ اقبال کی تائید و حمایت اور ترجمانی کی۔ یہ بات دلچسپی سے خالی نہیں کہ اس ضمن میں زمیندار نے نہ صرف مجلسِ عاملہ بلکہ حکومت پر تنقید کی اور علامہ اقبال کو وفد خلافت میں شامل کرنے کی ترغیب بھی دی۔ خود علامہ اقبال کو بھی زمیندار سے ہمیشہ دلی ہمدردی رہی اور سیاسی اختلافات کے ایک مختصر عرصے کو چھوڑ کر وہ ہمیشہ اس کی قلمی معاونت کرتے رہے اور جب کبھی یہ اخبار اپنی حریت آموزی اور خرمن استعمار پر شعلہ فشانی کے باعث زیر عتاب آجاتا اور جرمانہ یا بندش یا پریس کی ضبطی وغیرہ جیسی سزاؤں سے نوازا جاتا تو حضرت علامہ کو اس کا بہت دکھ ہوتا اور جب یہ اخبار شورش کاشمیری کے الفاظ میں ققنس کی طرح اپنی خاکستر سے نیا جنم لیتا تو حضرت علامہ اس پر اظہار مسرت فرماتے۔۱۲؎ ’’افکار و حوادث‘‘ کے عنوان سے زمیندار میں روزانہ ایک فکاہیہ کالم چھپتا تھا۔ ان کالموں میں متعدد مقامات پر اقبال کا ذکر ملتا ہے۔ ۳ ہمارے ہاں اقبال اور اقبالیات سے متعلق مواد و لوازمہ جمع کرنے کی روایت موجود ہے، مثلاً روزنامہ انقلاب میں موجود اقبالیاتی لوازمے کو اخذ کرکے حمزہ فاروقی نے مختلف مجموعے (حیاتِ اقبال کے چند مخفی گوشے۔ سفرنامۂ اقبال۔ اقبال کا سیاسی سفر۔ افکار و حوادث) مرتب کیے ہیں۔ محمد حنیف شاہد کی مرتبہ کتابیں (اقبال اور پنجاب کونسل۔ اقبال اور انجمن حمایت اسلام) بھی اسی طرح کے لوازمے پر مشتمل ہیں۔ گفتارِ اقبال (مرتبۂ محمد رفیق افضل) میں زمیندار اور انقلاب کا اقبالیاتی لوازمہ جمع کیا گیا ہے۔میں نے گفتارِ اقبال پر ایم فل کا کام شروع کیا تو احساس ہوا کہ زمیندار سے مزید بھی اقبالیاتی لوازمہ مل سکتا ہے، چنانچہ مقالے سے فارغ ہوکر زمیندار سے ایسے لوازمے کو جمع کرنا شروع کیا تو اندازہ ہوا کہ ع ابھی اس بحر کی تَہ میں ہیں لاکھوں لولوے لالہ استادِ محترم ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی صاحب سے مشورے کے بعد طے ہوا کہ یہ سب چیزیں جمع کرلی جائیں۔ یہ کام شروع کیا لیکن بعض مصروفیات کی وجہ سے اس کی تکمیل میں خاصا عرصہ گزر گیا۔ اب بھی استادِ محترم کی بار بار یاد دہانی کے نتیجے میں یہ مجموعہ پیش کیا جارہا ہے۔ اس کا سارا مواد زمیندار کے شماروں سے اخذ کیا گیا ہے۔ مرتبین نے ضرورت کے مطابق مخصوص لوازمہ (مثلاً خط، روداد، مضامین، تقاریر و بیانات، رپورٹیں وغیرہ) زمیندار سے اخذ کرکے اپنے مختلف مجموعوں میں شامل کرلیا۔ اس کے باوجود زمیندار میں اقبالیات کے مختلف موضوعات پر ایسا لوازمہ موجود ہے جس کی طرف محققین کی نظر نہیں گئی۔ یہ لوازمہ بھی اقبال کے خطوط و مضامین اور تقاریر و بیانات کی طرح ہی اہم ہے۔ اس میں اداریے، تبصرے، اقبال کا کلام، اقبال سے متعلق خبریں، کلام اقبال کی اشاعت کے سلسلے میں اشتہارات و اعلانات وغیرہ شامل ہیں۔ ۱- زیر نظر مجموعے میں شامل مواد زمیندار کے مختلف شماروں سے اخذ کیا گیا ہے۔ ۲- بہت سا مواد ایسا ہے جو پہلے کسی مجموعے میں موجود نہیں۔ ۳- چند تحریریں مرتبین کے مختلف مجموعوں میں شامل ہیں لیکن ناقص اور نامکمل صورت میں ہیں۔ہم نے زیرنظر مجموعے میں ایسی تحریروں کو مکمل صورت میں شامل کیا ہے۔ ۴- بعض متون کی نقل نویسی میں خاصی بے احتیاطی سے کام لیا گیا ہے اور متن صحت کے ساتھ نقل نہیں کیا گیا۔ ۵- زیر نظر مجموعے میں اقبال کے متون زمیندار سے نقل کرنے میں حتی الامکان پوری احتیاط سے کام لیا گیا ہے اور نقل نویسی میں اصل سے مطابقت کو برقرار رکھا گیا ہے۔ ۶- زمیندار سے ماخوذ سارا مواد تاریخی (زمانی) ترتیب سے یکجا کیا گیا ہے، یعنی ایک خاص عرصے میں جتنا مواد جن مختلف موضوعات پر شائع ہوا، اُسے تاریخ وار درج کیا گیا ہے۔ ۷- املا مروج، صحیح اور معیاری اختیار کیا گیا ہے۔ ۸- جہاں ضروری سمجھا، مختصر حواشی درج کیے گئے ہیں۔ اقبال کی تقاریر اور بیانات کے جو عنوانات یا سرخیاں زمیندار میں درج تھیں، انھیں اسی طرح دیا گیا ہے، یعنی اگر کسی بیان کی ایک یا دو تین سرخیاں ہیں تو انھیں جوں کا توں رہنے دیا گیا ہے۔ اس مجموعے کی بعض تحریریں گفتار اقبال میں بھی شامل ہیں مگر تقابل کرنے پر اندازہ ہوا کہ گفتار کا متن ناقص ہے۔ ہم نے زمیندار کا اصل متن شامل کیا ہے اور گفتار سے اختلاف یا کمی بیشی کی حواشی میں نشان دہی کی ہے۔ہر بیان اور ہر تقریر کے خاتمے پر زمیندار کا حوالہ دیا گیا ہے۔ بعض متون چند دوسرے مجموعوں میں بھی شامل ہیں مگر ان کا متن ناقص ہے۔ ۹- کلام اقبال جو زمیندار میں شائع ہوتا رہا، اگرچہ اب وہ اقبال کے شعری مجموعوں میں شامل ہے لیکن بعض اشعار یا منظومات کا متن اقبال کے شعری مجموعوں کے متون سے مختلف ہے یا اشعار کی ترتیب میں اختلاف نظرآتا ہے، ان اختلافات کی نشان دہی کی گئی ہے۔ ساتھ ہی ان شعری مجموعوں کا حوالہ دے دیا گیا ہے جن میں اب وہ اشعار اور نظمیں موجود ہیں۔ ۱۰- مدون متون میں موجود اغلاط کی تصحیح کی گئی ہے اور حواشی میں ایسے مقامات کی نشاندہی کردی گئی ہے۔ تحقیق و قیاس کی مدد سے صحیح متن پیش کرنے کی مقدور بھر کوشش کی گئی ہے۔ یہ لوازمہ ادارہ تحقیقات پاکستان دانش گاہ پنجاب لاہور اور لاہور میوزیم لائبریری میں موجود زمیندار کے فائلوں سے اَخذ کیا گیا ہے۔ مَیں ان اداروں کے منتظمین کی عنایات کے لیے تَہ دل سے ممنون ہوں۔ زمیندار کی ان اقبالیاتی تحریروں کو موضوعات کے اعتبار سے تقسیم کیا گیا ہے، پھر ترتیب زمانی کے اعتبار سے انھیں یکجا کردیا گیا ہے۔ جہاں جہاں ضرورت محسوس ہوئی، مختصر حواشی بھی لکھ دیے ہیں۔ یہاں یہ ذکر مناسب ہوگا کہ مولاناغلام رسول مہر نے اخبارات کا ایک ذخیرہ عجائب گھر کو دے دیا تھا۔ عجائب گھر میں پہلے سے بھی انقلاب اور زمیندار کے بہت سے شمارے موجود تھے۔ ان سب کی حفاظت کا مناسب انتظام کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ بعض شمارے خستہ اور کرم خوردہ ہیں۔ اگر چندبرس یہی صورت برقرار رہی تو نہایت قیمتی دستاویزات ضائع ہوجانے کا اندیشہ ہے۔ میں استاد محترم ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی صاحب کی ممنون ہوں جنھوں نے تحریروں کی ترتیب و تدوین کے تمام مراحل میں رہنمائی کی۔ اقبال اکادمی پاکستان لاہور کے ڈائریکٹر جناب محمدسہیل عمر کی بھی شکر گزار ہوں جن کی توجہ سے یہ مجموعہ شائع ہورہا ہے۔ اختر النساء ایسوسی ایٹ پروفیسر اُردو گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج برائے خواتین، وحدت کالونی، لاہور حوالے اور حواشی ۱- روزنامہ زمیندار، ۱۴ ؍جولائی ۱۹۲۴ئ،ص۳ ۲- ایضاً ۳- ایضاً ۴- ایضاً ۵- ایضاً ۶- ایضاً ۷- کامریڈ ،۲۳ ؍مارچ۱۹۱۲ء ۸- جعفر بلوچ: اقبال اور ظفر علی خاں ، اقبال اکادمی پاکستان لاہور، ۱۹۹۵، ص۷۳ ۹- روزنامہ زمیندار، ۸ ؍جنوری۱۹۲۳ئ،ص۳ ۱۰- ایضاً ۱۱- ایضاً ۱۲- جعفر بلوچ: اقبال اور ظفر علی خاں ، ص۷۳ ض…ضض…ض باب :۱ ز متونِ اقبال الف-نثر ۱- تقاریر مسٹر گھوکھلے کے مسودہ تعلیم لازمی کی تائید میں تقریر ۱۸؍فروری ۱۹۱۲ء کو اسلامیہ کالج حبیبیہ ہال لاہور میں مسٹر گھوکھلے کے مسودہ تعلیم لازمی، جو انھوں نے ایک امپیریل لیجسلیٹو کونسل میں پیش کیا تھا، کی حمایت میں ایک جلسہ زیر صدارت ڈاکٹر شیخ محمد اقبال منعقد ہوا۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنے خطبہ صدارت میں فرمایا: مسئلہ تعلیم پر غور کرنے کے لیے لاہور میں دو جلسے پیشتر بھی ہوچکے ہیں مگر اس جلسے میں اس بل کے جبریہ پہلو پر غور ہوگا۔ لفظ جبر سے کسی کو کھٹکنا نہ چاہیے۔ جس طرح چیچک کا ٹیکا لازمی اور جبری قرار دیا گیا ہے اور یہ لزوم و جبر اس شخص کے حق میں کسی طرح مضر نہیں ہوسکتا جس کے ٹیکا لگایا جاتا ہے اسی طرح جبریہ تعلیم بھی قابل اعتراض متصور نہیں ہوسکتی۔ جبریہ تعلیم بھی گویا روحانی چیچک کا ٹیکا ہے۔ اسلام میں جبر کی تعلیم موجود ہے۔ مسلمانوں کو حکم ہے کہ اپنے بچوں کو زبردستی نماز پڑھائیں۔ بعض لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ اس جبریہ تعلیم کے قانون کی حد میں لڑکیاں بھی آجائیں گی مگر ہم چاہیں تو اس شق کو قانون سے نکلوانے کی کوشش کرسکتے ہیں… اس بل پر اس وقت تک جو اعتراضات ہوچکے ہیں، وہ بالکل لغو اور بے ہودہ ہیں۔ میں ایک اعتراض کو پیش کرکے بدلائل شائستہ اس کی تردید کرتا مگر وقت نہیں اور بہت سے حضرات تقریریں کرنے والے ہیں۔ جلسے میں خواجہ کمال الدین نے درج ذیل قرارداد پیش کی: مسلمانوں کا یہ عام جلسہ جبر کے اس عام اُصول کی بڑے زور سے تائید کرتا ہے جو مسٹر گھوکھلے نے اپنے مسودہ قانون تعلیم ابتدائی میں اختیار کیا ہے، اس لیے کہ یہ اُصول تعلیم، اسلام کے تابع ہونے کے علاوہ اس ملک کے باشندوں کی مادی اور اخلاقی فلاح کا ممد ہے۔ اس قرارداد پر تقریروں کے بعد صدر جلسہ نے اُٹھ کر حاضرین سے پوچھا کہ قرارداد منظور ہے تو سب نے اس کا جواب اثبات میں دیا اور قرارداد باتفاق راے منظور ہوگئی۔ چند سیکنڈ کے بعد اسّی برس کے ایک پیر مرد اپنی جگہ پر کھڑے ہوئے اور کہنے لگے: ’’میں اس کی تائید کرتا ہوں مگر چند الفاظ کہنے کی اجازت چاہتا ہوں‘‘۔ صدر جلسہ نے فرمایا: ’اگرچہ رزولیوشن منظور ہوچکا ہے مگر میں اب بھی اجازت دیتا ہوں کہ جو شخص مخالفت کرنا چاہے، وہ سامنے آئے، اس کی باتوں کا جواب دیا جائے گا۔‘‘ یہ سن کر وہی پیر مرد پھر کھڑے ہوئے اور کہنے لگے کہ ’’سررشتہ تعلیم بہت عرصے سے جاری ہے اور یہ سرکار کی مہربانی ہے مگر افسوس ہے کہ جو شخص تعلیم پاتا ہے وہ گھر کا رہتا ہے نہ گھاٹ کا۔ ہمارا نصاب تعلیم مذہبی ہونا چاہیے۔ میں ہر رزولیوشن کی تائید تو کروں گا، مگر ساتھ ہی ساتھ اسی طرح جزو لگاتا جائوں گا۔‘‘ ۲؍فروری ۱۹۱۲ء شہنشاہ انگلستان پر اظہارِ اعتماد دسمبر ۱۹۱۱ء میں جب شہنشاہ انگلستان نے دہلی دربار میں تقسیم بنگال کی تنسیخ کا اعلان کیا تو تمام ہندوستان کے مسلمانوں میں غم و الم کی ایک لہر دوڑ گئی۔ شہنشاہ انگلستان جب ہندوستان سے واپس گئے تو پنجاب میں بعض مسلمان رہنمائوں نے تجویز کی کہ حکومت انگلستان اور شہنشاہ پر اعتماد کا اظہار کرنے کے لیے ہندوئوں اور مسلمانوں کے مشترکہ جلسے کیے جائیں لیکن مسلمانوں کی اکثریت اس قسم کے جلسوں کے انعقاد کے خلاف تھی۔ خدشہ یہ تھا کہ مبادا حکومت برطانیہ ایسے جلسوں کے انعقاد سے یہ نتیجہ اخذ کرے کہ تقسیم بنگال کی تنسیخ کے فیصلے کا مسلمانوں پر کوئی اثر نہیں ہوا۔ اس کے ردِعمل کے طور پر مسلمانوں نے علاحدہ جلسے منعقد کیے۔ ایک جلسہ یکم فروری ۱۹۱۱ء کو باغ بیرون موچی دروازہ منعقد ہوا۔ سب سے پہلے ڈاکٹر شیخ محمد اقبال نے، جو اس جلسے کے صدر تجویز کیے گئے تھے، سٹیج پر آکر فرمایا کہ ’’اس وقت حسن اتفاق سے آنریبل ملک مبارز خان صاحب ٹوانا جلسہ گاہ میں تشریف رکھتے ہیں، اس لیے میں تجویز کرتا ہوں کہ میرے بجائے ملک صاحب موصوف اس جلسے کے صدر بنائے جائیں اور میں ملک صاحب سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ آگے بڑھ کر کرسی صدارت کو زینت بخشیں۔‘‘ حاضرین جلسہ نے ڈاکٹر صاحب کی راے سے اتفاق کیا اور ملک مبارز خان کرسی صدارت پر متمکن ہوئے۔ ڈاکٹر شیخ محمد اقبال نے سورہ ’’دھر‘‘ کے پہلے رکوع کی چند آیتیں نہایت خوش الحانی سے تلاوت فرما کر جلسے کی کارروائی کا افتتاح کیا۔ اسی جلسے میں تیسری قرارداد۱؎ پر، جو مولوی غلام محی الدین قصوری نے پیش کی، تقریر کرتے ہوئے ڈاکٹر شیخ محمد اقبال نے فرمایا: بادشاہ سلامت کے آنے سے انگلستان ہندوستان سے قریب ہوگیا ہے جس سے ہندوستانیوں کو بہت برکات و فیوض حاصل ہوں گے۔ جن لوگوں کو انگلستان کی اصلی زندگی دیکھنے کا موقع ملا ہے، وہ جانتے ہیں کہ انگلستان ایک اعلیٰ پایے کا ملک ہے، اس لیے ہندوستان کا اس سے قریب تر ہوجانا باعث انتفاع ہے۔ بادشاہ سلامت کے آنے سے یہاں کی قومیں باہم مل جائیں گی۔ اگرچہ فی مابین بعض معاملات میں اختلاف ہے مگر ہم یقین کرتے ہیں کہ اس کی بنیاد نیک نیتی پر ہوگی، اور اس قسم کے اختلافات کا ماحصل رحمت ہوا کرتا ہے۔ بہتر یہ ہے کہ مل کر کام کیا جائے۔ شہنشاہ معظم کی شخصیت ایسی ہے کہ سب لوگ اس سے نسبت اشتراک رکھتے ہیں اور اس لیے ہمارا خیال ہے کہ اتحاد روز بروز بڑھتا جائے گا مگر مسلمانوں کو اپنی ترقی کے لیے خود ہاتھ پائوں مارنے چاہییں۔ ہندوئوں کو اب تک جو کچھ ملا ہے، محض اپنی کوششوں سے ملا ہے۔ اس کے بعد نہایت جوش سے فرمایا: اسلام کی تاریخ کو دیکھو! وہ کیا کہتی ہے؟ عرب کے خطے کو یورپین معماروں نے ردی اور بے کارپتھر کا خطاب دے کر یہ کَہ دیا تھا کہ اس پتھر پر کوئی بنیاد کھڑی نہیں ہوسکتی۔ ایشیا اور یورپ کی قومیں عرب سے نفرت کرتی تھیں مگر عربوں نے جب ہوش سنبھالا اور اپنے کَس بل سے کام لیا تو یہی پتھر دنیا کے ایوان تمدن کی محراب کی کلید بن گیا اور خدا کی قسم! روما جیسی باجبروت سلطنت عربوں کے سیلاب کے آگے نہ ٹھہر سکی۔ یہ اس قوم کی حالت ہے جو اپنے بل پر کھڑی ہوئی۔ ہمیں چاہیے کہ اپنے خدا، اپنے رسولؐ، اپنے دین اور اپنے قوت بازو پر بھروسا رکھ کر حاکموں سے مودبانہ حاجات طلب کریں اور بنی نوع انسان میں امن و امان قائم رکھیں کیونکہ اسلام ہمیں شر و فساد کی ممانعت کرتا ہے۔ اِن اُصولوں کو مدنظر رکھ کر باقی اقوام سے ربط و اتحاد بڑھائیں اور جو سیکھ سکتے ہیں، انھیں سکھائیں، جو سکھا سکتے ہیں ان سے سیکھیں اور حتیٰ الوسع ہمارا وہ نصف العین ہو جو اگلے مسلمانوں کا تھا۔ بحوالہ : گفتارِ اقبال، ۴، ۶؍فروری ۱۹۱۲ء انجمن حمایت اسلام کی جنرل کونسل میں تقریر حبیبیہ ہال میں معرکہ عظیم۲؎ ۲۴؍جون ۱۹۲۳ء کو انجمن حمایت اسلام کی مجلسِ عامہ کا ایک اجلاس منعقد ہوا جس میں عہدے داروں کا انتخاب ہوا۔ بہت بحث اور جھگڑوں کے بعد انتخاب عمل میں آیا۔ مجلسِ عامہ کی روداد کی تصدیق کے لیے ۸؍جولائی کو انجمن کی جنرل کونسل کا اجلاس منعقد ہوا۔ مولوی فضل دین نے جلسے کی صدارت کے فرائض انجام دیے۔ مسئلہ زیر بحث یہ تھا کہ آیا روداد کی تصدیق کی جائے یا نہ کی جائے۔ بعض ارکان مجلسِ عامہ چاہتے تھے کہ رودادکے اس حصے کی، جس میں خان صاحب عبدالعزیز اور خان صاحب ملک کرم دین کو انجمن کی کونسل کا رُکن بنانے کی تجویز تھی، کی تصدیق نہ کی جائے لیکن مولوی فضل دین صدر جلسہ نے اس روداد کی تصدیق کردی۔ اس پر اعتراضات کا ایک طوفان کھڑا ہوگیا۔ اسی شور و شغب میں ایک شخص نے ڈاکٹر شیخ محمد اقبال کا نام پیش کردیا اور تجویز کی کہ آپ کو سکرٹری بنا دیا جائے۔ اس پر ڈاکٹر اقبال نے فرمایا: میں نے پہلے بھی یہ عرض کیا تھا کہ میںیہ فرائض انجام نہیں دے سکتا لیکن مجھے کہا گیا تھا کہ میرا نام رہنا ضروری ہے۔ کام کرنے کے لیے مولوی غلام محی الدین صاحب کا نام منظور کیا گیا تھا۔ اب بھی میں کَہ دینا چاہتا ہوں کہ میں کام نہیں کرسکتا۔ احباب نے ڈاکٹر صاحب کو خاموش کرا دیا لیکن ڈاکٹر صاحب پھر باجازت صاحب صدر بولنے لگے۔ آپ نے نہایت غصے کی حالت میں فرمایا: موجودہ واقعات کے رونما ہونے کے بعد میں اس انجمن کا سکرٹری تو کیا اس کی کونسل تک کا رکن رہنا پسند نہیں کرتا۔ انجمن حمایت اسلام نہ صرف پنجاب اور ہندوستان بلکہ ایشیا اور دنیاے اسلام میں مشہور ہے۔ جب اس کے ارکان کی اس کارگزاری کا حال ان ممالک میں سنا۲؎ جائے گا تو پنجاب اور ہندوستان کے باشندوں کو علی العموم اور مسلمانوں کی علی الخصوص سخت رسوائی ہوگی۔ بعض ارکان نے خدا جانے ایسی حرکات کیوں کی ہیں جو مسلمانوں کے لیے باعث ذلت و رسوائی ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ یہ معاملہ صاف ہوجائے اور جب تک یہ معاملہ صاف نہ ہوجائے گا، میں انجمن کا رکن بننا بھی پسند نہ کروں گا۔ کس طرح ملک کرم دین صاحب سے پوچھا گیا؛ ایک بار نہیں بلکہ دو بار، اور انھوں نے یہ کہا کہ میں نہ کسی سے ملا ہوں، نہ میں نے کسی سے کہا کہ میں شملہ تبدیل ہوگیا ہوں، نہ جنرل کونسل کی رکنیت سے مستعفی ہوا ہوں، نہ کہیں باہر جارہا ہوں۔ یہ تمام باتیں گھڑلی گئی ہیں۔۳؎ پھر ان سے اپنے مطلب کے موافق لکھوانے کے لیے اور تحریر پر کوئی پچھلی تاریخ ڈلوانے کے لیے کوشش کی گئی، ان کی منتیں سماجتیں کی گئیں۔ اب منشی عبدالرحمن صاحب اور مولوی غلام محی الدین صاحب فرمائیں کہ معاملہ کیا ہے۔ پھر شور مچا، مختلف تقریریں ہوئیں لیکن ارکانِ مجلسِ عامہ نے چٹھی کے مسئلے کو نظر انداز کردیا اور باتفاق راے قرار پایا کہ ڈاکٹر شیخ محمد اقبال انجمن کے سکرٹری۴؎ ہوں۔ ۱۴؍جولائی ۱۹۲۳ئ، ص۶، ۷۔ صوبہ سرحد اور اصلاحات آزاد پٹھان کی اہلیتِ حکومت علامہ اقبال مدّفیوضہ کے ارشادات کسی خاص نوعیت کے سیاسی اور غیر سیاسی نظام کے لیے ابناے آدم کی اہلیت و عدم اہلیت کا تذکرہ ایک لاطائل بحث ہوا کرتا ہے۔ صلاحیت قاطبتہً فطری نہیں ہوتی بلکہ وہ جزوی اعتبار سے اپنی تولید کے لیے خود نظام کی محتاج ہوتی ہے اور یہ نظام بھی بطور ردعمل اُصول اخذ و گیر کے ماتحت اشخاص متعلقہ کے اخلاق، رجحانات طبعی اور ہدایات قومی سے متاثر ہوتا ہے۔ میرے خیال میں پٹھان اپنے ولولۂ حریت، پرشوق احساس شخصیت اور طبعاً جمہوریت پسند واقع ہونے کے لحاظ سے سب سے بڑھ چڑھ کر حصول اصلاحات کا مستحق ہے۔ کل ہی میں افغانستان کی جمعیت عظمیٰ یعنی ’’لوئی جرگہ‘‘ کی روداد کا مطالعہ کررہا تھا۔ یہ روداد اب ایک کتاب کی صورت میں شائع ہوگئی ہے۔ اس سے خوب واضح ہوتا ہے کہ پٹھان سیاسی نظام کے حصول کے لیے ہر طرح سے موزوں ہیں۔ اس روداد میں اہم سیاسی مباحث پر بحث و تمحیص کی گئی ہے۔ وہ مجلس وضع قوانین ہندو و دیگر مجالس قوانین کے ارکان کی آنکھوں سے غلط فہمیوں کے پردوں کو چاک کرنے کے لیے ایک کارآمد آلہ ثابت ہوسکتی ہے۔ شمال مغربی سرحدی صوبے کے لوگ بھی اسی نسل سے تعلق رکھتے ہیں اور انھی کی روایات قومی سے بہرہ اندوز ہیں۔ میں اس زاویہ نگاہ سے متفق نہیں ہوں کہ قومیت کے اعتبار سے پٹھان افغانوں سے مختلف واقع ہوئے ہیں۔ دیکھو انسائی کلوپیڈیا (دائرہ المعارف) اسلام میں مضمون متعلقہ افغانستان۔ بنابریں اہل سرحد کے خصائص طبعی اور روایات قومی میں کثرت سے ایسا مواد موجود ہے جس کو استعمال میں لاکر پٹھانوں کے لیے جمہوری ادارات تیار کیے جاسکتے ہیں۔ اگر اصلاحات ہندوستان کے دیگر صوبوں کی بہ نسبت صوبہ سرحد میں زیادہ کامیابی حاصل کرلیں تو مجھے اس پر کوئی تعجب نہیں ہوگا۔ وہ ناخوش گوار قومی تعصب، جو موسومہ سیاسی دلائل یا سرحدیوں کی مزعومہ دماغی عدم قابلیت کی بنا پر صوبہ سرحد میں نفاذ اصلاحات کی مخالفت کررہا ہے، محض اس ادھیڑ بن میں مصروف ہے کہ ایک بڑے مقصد کے لیے نظر فریب حیلے تلاش کرے۔ (ماخوذ از اوبزور) یک شنبہ، ۱۹؍شوال المکرم ۱۳۴۴ھ؍ ۲ مئی۱۹۲۶ئ، ۱۳/۹۴،ص۳۔ [مسلمانو! متحد ہوجائو] علامہ اقبال کی تقریر دل پذیر۴؎ ۱۸؍نومبر۵؎ کو علامہ اقبال نے ایک تقریر میں فرمایا: مسلمانوں کی زندگی کا راز اتحاد میں مضمر ہے۔ میں نے برسوں مطالعہ کیا، راتیں غور و فکر میں گزار دیں تاکہ وہ حقیقت معلوم کروں جس پر کاربند ہوکر عرب حضورؐ سرور کائنات کی صحبت میں تیس سال کے اندر اندر دنیا کے امام بن گئے۔ وہ حقیقت اتحاد و اتفاق ہے۶؎ جو ہر شخص کے لبوں پر ہر وقت جاری رہتی ہے کاش ہر مسلمان کے دل میں بیٹھ جائے۔ نسلی اور اعتقادی اختلافات میں تنگ نظری اور تعصب نے مسلمانوں کو تباہ کردیا۔ اختلاف راے ایک طبعی امرہے، اس لیے کہ طبائع مختلف ہوتی ہیں۔ ہر شخص کی نظر مختلف ہے، اُسلوب فکر مختلف ہے۷؎ لیکن اس اختلاف کو اس طریقے پر رکھنا چاہیے جس طرح کہ ہمارے آباو اجداد نے اسے رکھا۔ اس صورت میں اختلاف رحمت ہے۔ جب لوگوں میں تنگ نظری آجاتی ہے تو یہ زحمت بن جاتا ہے۔ مسلمانو! میں تمھیں کہتا ہوں کہ اگر زندہ رہنا چاہتے ہو تو متحد ہوجائو۔ اختلاف بھی کرو تو اپنے آبا۸؎ کی طرح، تنگ نظری چھوڑ دو۔ میں کہتا ہوں کہ تنگ نظری چھوڑنے سے سب اختلافات مٹ سکتے ہیں۔ مسلمانانِ ہند کے لیے دوسری ضروری چیز یہ ہے کہ وہ ہندوستان کی سیاسیات کے ساتھ گہری دل۔بستگی پیدا کریں۔ جو لوگ خود اخبار نہ پڑھ سکتے ہوں، وہ دوسروں سے سنیں۔ اس وقت جو قوتیں دنیا میں کارفرما ہیں، ان میں سے اکثر اسلام کے خلاف کام کررہی ہیں لیکن لِیُظْہِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کَلِّہٖ ۹؎ کے دعوے کی بنا پر۔۱۰؎ میرا ایمان ہے کہ انجام کار اسلام کی قوتیں کامیاب و فائز۱۱؎ ہوں گی: لَا تَہْنُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤُمِنِیْنَ۔۱۲؎ میں کہتا ہوں کہ مخالف کو بھی نرمی سے سمجھائو جَادِلْہُمْ بِالَّتِیْ ہِیَ اَحْسَنُ ‘۱۳؎ قلب کی فطرت ہی ایسی ہے کہ وہ محبت سے رام ہوسکتا ہے، مخالفت اور عداوت سے رام نہیں ہوسکتا۔ نامہ نگار۱۴؎ ۲۱؍نومبر ۱۹۲۶ئ، ص۴۔ مسلمانانِ لاہور کا دوسرا عظیم الشان جلسہ برادرانِ وطن کو اتحاد و رواداری کی دعوت ہندو اپنے مسلم آزار رویے کی اصلاح کریں۱۵؎ سوامی شردھانند کے قتل کے بعد بعض آریہ سماجی اخبارات مثلاً پرتاب و ملاپ اور ہندو لیڈروں نے مسلمانوں اور اسلام کے خلاف ایک حقارت آمیز اور خطرناک پروپیگنڈا شروع کردیا۔ اس کے خلاف صداے احتجاج بلند کرنے کے لیے مسلمانانِ لاہور کے دو عام جلسے بصدارت ڈاکٹر سر محمد اقبال منعقد ہوئے۔ پہلا جلسہ ۲۲؍جنوری ۱۹۲۷ء کو باغ بیرون موچی دروازہ ہوا، جس میں علامہ اقبال نے ایک بصیرت افروز افتتاحی خطبہ دیا۔ دوسرا جلسہ بھی بیرون موچی دروازہ ۳۰؍جنوری کو منعقد ہوا۔ اجلاس کے اختتام پر علامہ اقبال نے فرمایا: گذشتہ تقریروں کے بعد کسی اور تقریر کی ضرورت نہ تھی۔ میرا خیال ہے آپ اس قدر سیراب ہوچکے ہیں کہ اب اس میں ایک قطرے کی گنجائش۱۶؎ نہیں رہی۔ آپ نے عمل کرنے کے لائق اتنی۱۷؎ باتیں سنی ہیں کہ مجھے اندیشہ ہے کہ آپ کو صبح تک یاد بھی رہیں گی یا نہیں۔ ہندوستان میں اور ہندوستان سے باہر دیگر ممالک میں ہر جگہ ہماری رسوائی کے چرچے ہورہے ہیں۔ ہمارے باہمی تنازعات بہت افسوس ناک ہیں۔ ہم یہ بھی نہیں سوچتے کہ ہماری اس کش مکش کے نتائج ایشیا کے دیگر ممالک کے حق میں کیا ہوں گے۔ میرے تصور میں صداقت ایک ایسا ترشا۱۸؎ ہوا ہیرا ہے جس کے کئی پہلو ہیں اور اس کے ہر پہلو سے مختلف رنگ کی شعاعیںنکل رہی ہیں اور ہر شخص اپنی اپنی پسند کے مطابق کسی رنگ کی شعاع کو اختیار کرلیتا ہے اور اپنے نقطۂ نگاہ سے صداقت کو دیکھتا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ صداقت کو دیکھنے کا ایک مطلق نقطۂ نگاہ بھی موجود ہے اور وہی نقطۂ نگاہ اسلام ہے، اس لیے رواداری کا اُصول یہی ہے کہ مثال بالا کو پیش نظر رکھتے ہوئے کسی کو یہ نہ کہا جائے کہ تم باطل پر ہو۔ انسانوں کے طبائع مختلف ہیں اور ان کی تربیت مختلف قسم کے طبعی اور جغرافیائی اُصول پر ہوتی ہے، اس لیے صداقت کے متعلق ان کے نقطہ ہاے نگاہ میں بھی اختلاف ہوجاتا ہے لیکن اس اختلاف کا نتیجہ یہ نہ ہونا چاہیے کہ آپس میں سر پھٹول ہو۔ قرآن میں حکم دیا گیا ہے کہ اے لوگو! اگر تم فروعی اُمور میں متحد نہیں ہوسکتے تو اسی ایک بات پر اتحاد کرلو جو تم سب میں متفق ہے۔ اسلام نے بھی اسی صداقت کی تعلیم دی ہے جو زمانۂ قدیم کے بعض رشیوں نے دی تھی۱۹؎ (آپ نے اس موقع پر سنسکرت کا ایک اشلوک پڑھ کر سنایا جس کا مفہوم قرآن کریم کی۲۰؎ اس آیت کے مطابق تھا کہ کُلُّ شَیْ ئٍ ہَالکٌ اِلَّا وَجْہ‘ اللّٰہ نَحْنُ اَقْرَبُ اِلَیْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْدِ۔)۲۰؎ میں تم سے صداقت کے نام پر۲۱؎ اپیل کرتا ہوں کہ خدا کے لیے حقائق کی طرف دیکھو اور آپس میں نہ لڑ! ہندوستان میں بعض ایسے لوگ بھی ہیں جو اپنی اغراض کے لیے تمھارے درمیان پھوٹ ڈالنے کے ساعی رہتے ہیں۔۲۲؎ اگر تم آپس میں لڑو گے تو ملک میں بدامنی ہوگی، سب کو تکلیف اُٹھانی پڑے گی۔ آپ نے فرمایا کہ ہندو۲۲؎ پرانے قصے تازہ کررہے ہیں لیکن گڑے مردوں کو اکھاڑنے سے کیا فائدہ ہے۔ آپ نے ہندوئوں کو مخاطب کرکے یہ شعر پڑھا: ؎ قفس میں اے ہم صفیر اگلی شکایتوں کی حکایتیں کیا خزاں کا دورہ ہے گلستاں میں، نہ تو رہے گا نہ ہم رہیں گے اگر تمھارے دل میں اس امر کا سچا جذبہ موجود ہے کہ ہم عزت و آبرو کی زندگی بسر کریں تو متحد ہونے کی صورت پیدا کرو! کاش یہ لوگ دوسرے ممالک کی سیر کرتے اور دیکھتے کہ غلامی کی زندگی کے باعث وہاں ہندوستانیوں کی۲۴؎ کیا قدر ہے۔ آپ نے فرمایا کہ فروعی۲۵؎ مذہبی جھگڑوں میں اشتعال دلانے سے نقصان ہوگا۔ ہمارے لیے متحدہ قومیت کا تصور ہی اچھا ہے۔۲۶؎ اگرچہ اس اعلیٰ مقصد کے حصول میں دقتیں ہوں گی، تکلیف ہوگی لیکن۲۷؎ جب ہم اس مقصد بلند پر پہنچ جائیں گے تو بڑی لذت حاصل کریں گے اور کہیں گے کہ وقت ضائع [نہیں] ہوا۔۲۸؎ پس اے ہندوئو اور مسلمانو! تم ایسے باہمی تعلقات۲۹؎ پیدا کرو کہ ہم اختلاف برداشت کرلیا کریں۔ آپ نے فرمایا کہ سردی۳۰؎ نہ ہوتی تو میں کچھ اور عرض کرتا۔ ۲؍فروری ۱۹۲۷ئ، ص۳۔ مذہب اور سائنس حبیبیہ ہال میں لکچر۳۱؎ ۴؍مارچ ۱۹۲۷ء کو اسلامیہ کالج کے حبیبیہ ہال میں مرزا بشیر الدین محمود نے ’’سائنس اور مذہب‘‘ کے موضوع پر تقریر کی۔ تقریر میں اس امر کو ثابت کرنے کی کوشش کی کہ مذہب اور سائنس کے درمیان کوئی تصادم نہیں،۳۲؎ جلسے کی صدارت علامہ اقبال نے فرمائی۔ تقریر کے خاتمے پر علامہ اقبال نے مختصر سے الفاظ میں اس موضوع پر روشنی ڈالی۔ آپ نے فرمایا: مذہب، فلسفہ، طبیعات۳۳؎ اور دیگر علوم و فنون؛ سب کے سب مختلف راستے ہیں جو ایک ہی منزل مقصود پر جاکر ختم ہوتے ہیں۔ مذہب اور سائنس کے تصادم کا خیال اسلامی نہیں کیونکہ سائنس یعنی علوم جدیدہ و فنون حاضرہ۳۴؎ کے باب کھولنے والے تو مسلمان ہی ہیں اور اسلام ہی نے انسان کو منطق کا استقرائی طریق سکھایا اور علوم کی بنیاد نظریات اور قیاسات پررکھنے۳۵؎ کے طریق کو مسترد کرنے کی تعلیم دی اور یہی علوم جدیدہ کی پیدائش کا موجب ہوئی۔ ڈاکٹر ولیم جان ڈریپر کی مشہور و معروف کتاب معرکۂ مذہب و سائنس، جس کا ترجمہ مولانا ظفرعلی خاں کے قلم کامرہونِ احسان ہے، اصل میں۳۶؎ مذہب اور سائنس کی ہنگامہ آرائی کی مظہر نہیں بلکہ عیسائیت اور سائنس کے تصادم کی تاریخ ہے۔ اس تصادم کی وجہ یہ تھی کہ یورپ کے علما و حکما مسلمانوں کی علمی ترقی سے متاثر ہوئے تو اہل فرنگ کے خیالات میں زبردست انقلاب پیدا ہونے لگا اور رومن کیتھولک مذہب والے اس علمی انقلاب سے متصادم ہوئے۔ ڈاکٹر ڈریپر نے اسی انقلاب کی تاریخ لکھ دی۔ سائنس اور مذہب کے تصادم کے خیال کو غیر اسلامی قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ قرآن کریم۳۷؎ کے ہر صفحے پر انسان کو مشاہدے اور تجربے کے ذریعے علم حاصل کرنے کی تلقین کی گئی ہے اور منتہاے نظر یہ بتایا گیا ہے کہ قواے فطرت کو مسخر کیا جائے، چنانچہ قرآن پاک تو صاف الفاظ میں انسان کو یہ تعلیم دیتا ہے کہ اگر وہ قواے فطرت پر غلبہ حاصل کرلیں گے تو ستاروں سے بھی پرے پہنچنے کے قابل ہوجائیں گے۔ مسلمانوں میں فرقۂ معتزلہ اور دیگر فرقوں کے درمیان جو تنازع پیدا ہوا تھا، وہ اس قسم کا نہ تھا جو یورپ کے روشن دماغ علما اور تاریک خیال پادریوں کے درمیان پیدا ہوا بلکہ وہ تو ایک علمی بحث تھی، جس کا موضوع محض یہ تھا کہ آیا ہمیں الہامی کلام ربانی کو عقل انسانی کے معیار پر پرکھنے کا حق حاصل ہے یا نہیں۔ ۶؍مارچ ۱۹۲۷ئ، ص۶۔ مجلس وضع قوانین پنجاب کا اہم اجلاس میزانیے پر پُرجوش مباحثہ تخفیف محاصل اور ترقی تعلیم کی سفارش لاہور ۵؍مارچ، آج پنجاب کونسل کے اجلاس میں میزانیے پر عام بحث و تمحیص کی گئی۔ جن ارکان نے حلف وفاداری اُٹھایا، ان میں ڈاکٹر گوپی چند بھارگو، شہر لاہور کے جدید منتخبہ رکن بھی شامل تھے۔ سب سے پہلے صدر کونسل چودھری شہاب الدین نے سرگوپال داس بھنڈاری کی موت پر اظہار تاسف کیا اور ایوان نے انھیں اختیار دیا کہ وہ متوفی کے پس ماندوں کو ایک پیغام تعزیت روانہ کریں۔ علامہ سر محمد اقبال علامہ سر محمد اقبال نے میزانیے کے عام مباحثے کا افتتاح کیا۔ آپ نے رکن مالیات کو اس کی واضح تقریر اور معتمد مالیات کو اس کی یادداشت کے لیے مبارک باد دی۔ ازاں بعد آپ نے فرمایا کہ موجودہ اور آئندہ سال کے مصارف مال گزاری کے مقابلے میں ۸۶ لاکھ روپے زائد ہیں۔ آپ نے کہا: یہ امر قرین دانش نہیں کہ آمدنی سے زیادہ روپیا صرف کیا جائے۔ آگے چل کر آپ نے اس ضرورت پر زور دیا کہ دیہات میں حفظان صحت اور عورتوں کے علاج کے لیے مزید انتظامات کیے جائیں۔ آپ نے فرمایا کہ صوبے کے ’’نذرانے‘‘ میں متوقع تخفیف کی وجہ سے جو روپیا بچے، اسے تخفیف محاصل پر صرف کرنا چاہیے۔ یہ عجیب بات ہے کہ محصول آمدنی میں اضافہ کیا جاتا ہے لیکن مال گزاری نہیں بڑھائی جاتی۔ غالباً اس کے لیے یہ وحشیانہ اُصول ذمہ دار ہے کہ زمین حکومت کی ہے۔ یہ کہنا غلط ہے کہ شاہان مغلیہ زمین کی ملکیت کے مدعی تھے۔ بادشاہ آتے جاتے رہتے ہیں اور صرف لوگوں کو بقا حاصل ہے۔ باشندے سلطنت مغلیہ کے قیام سے بہت پہلے زمین کے مالک تھے۔ یہ امر غیر منصفانہ ہے کہ جو لوگ دو کنال زمین کے مالک ہیں، ان سے بھی اتنی ہی مال گزاری لی جائے، جتنی ان لوگوں سے لی جاتی ہے جو دو ہزار کنال زمین کے مالک ہیں۔ سیّد محمد حسین… شیخ محمد صادق… ڈاکٹر گوکل چند نارنگ، رانا فیروزالدین، شیخ عبدالقادر… خان بہادر محمد حیات… چودھری افضل حق نے تقاریر کیں۔ ازاں بعد کونسل کا اجلاس دو شنبے پر ملتوی کردیا گیا جب میزانیے پر مزید بحث و تمحیص ہوگی۔ چہار شنبہ، ۴رمضان ۱۳۴۵ھ؍ ۹؍مارچ ۱۹۲۷ء ۱۴/۵۳، ص۳۔ حرف اقبال از لطیف احمد شروانی،ص۸۴تا۸۷۔ میزانیہ پنجاب پر علامہ اقبال کے ارشادات معاملہ اراضی کا نظام بدلا جائے میں اس میزانیے پر، جو ۲۸؍فروری کو اس کونسل میں پیش ہوا تھا، ایک عام تبصرہ کرنے کا خواہاں ہوں۔ ہر شخص، جس نے آنریبل وزیر مالیات کی تقریر اور معتمد مال کی تیار کردہ یادداشت کا مطالعہ کیا ہے، ان دستاویزوں کی غیر معمولی وضاحت سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ ایک عام ناظر کی حیثیت سے میری معلومات میں ان سے بہت اضافہ ہوا ہے (خوب ،خوب)۔ حقیقت یہ ہے کہ معتمد مالیات نے نہایت صاف گوئی سے اس نکتہ چینی کی دعوت دی ہے جو صوبے کی عام مالی حالت پر وارد ہوسکتی ہے۔ معتمد مالیات نے ہمیں بتایا ہے کہ ہم گذشتہ سال اپنی آمدنی سے ۲۳ لاکھ روپیا زیادہ صرف کرچکے ہیں اور اس سال کا خرچ آمدنی سے ساٹھ لاکھ روپیا زائد ہے۔ بالفاظ دیگر ہم دو سال میں ۸۳ لاکھ روپیا زائد از آمدنی صرف کردیں گے۔ بنابریں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا صوبے کے نشووارتقا پر اتنی گراں قدر قیمتیں صرف کرنے میں ہم حق بجانب ہیں؟ معتمد مالیات نے اپنے تبصرے میں جو مختلف حالات بیان کیے ہیں، ان سے واضح ہوتا ہے کہ مالیے کی عمومی حالت اطمینان بخش ہے۔ اگرچہ صاحب موصوف نے یہ بھی بتادیا ہے کہ مستقل فنڈوں کی عدم موجودگی میں ٹیکسوں میں تخفیف نہیں کی جاسکتی۔ صوبے کی عام مالی حالت کی اچھائی کو ملحوظ رکھتے ہوے میزانیے میں دیہات کے حفظانِ صحت اور عورتوں کے لیے طبی امداد کا ضرور انتظام ہونا چاہیے تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ اس صوبے میں عورتوں کے لیے طبی انتظام کی اشد ضرورت ہے (خوب-خوب) لیکن میزانیے میں اس مد کے لیے کسی قسم کا انتظام نظر نہیں آتا۔ جناب والا! میں آپ کی اور کونسل کے معزز ارکان کی توجہ اس شدید اہم ضرورت کی طرف مبذول کراتا ہوں۔ جس حد تک تخفیف محاصل کا تعلق ہے، میرا خیال ہے کہ معتمد مالیات صوبے کی مالی حالت کا قابل قدر تبصرہ تیار کرتے وقت اس امر سے آگاہ تھے کہ حکومت ہند ہمارے صوبے کے نذرانے کا ایک حصہ معاف کررہی ہے۔ اب ہمیں معلوم ہے کہ ۸۶ لاکھ روپے کی رقم معاف کی گئی ہے۔ (مسٹر ایچ ڈی کریک: اس کی معافی کا امکان ہے) جس میں سے ساٹھ لاکھ کی رقم مستقل ہے اور چھبیس لاکھ کی رقم غیر مستقل ہے۔ اگر یہ گراںقدر رقم معاف کردی گئی، جیسا کہ مجھے امید ہے معاف کردی جائے گی تو میری گزارش یہ ہے کہ اس رقم کو تخفیف محاصل میں صرف کرنا چاہیے (نعرہ ہاے تحسین)، یعنی اس بے ضابطگی کو دور کرنا چاہیے جو بحالت موجودہ ہمارے نظام محاصل میں کارفرما ہے۔ بے ضابطگی یہ ہے کہ ہم زمین کے معاملے میں تاریخی اضافے کے اس اُصول سے کام نہیں لیتے جس سے انکم ٹیکس میں کام لیا جاتا ہے (خوب -خوب)۔ زمین کے معاملے میں اس اُصول سے کام نہ لینے کی وجہ بعض اوقات اس قدیم نظریے میں تلاش کی جاتی ہے کہ ساری زمین ملکیت حکومت ہے۔ اس ملکیت عامہ کا دعویٰ نہ عہد قدیم میں کسی نے کیا اور نہ سلاطین مغلیہ کے زمانے میں ایسا مطالبہ پیش کیا گیا۔ یہ اس مسئلے کا تاریخی پہلو ہے۔ مجلس تحقیقات محاصل بھی اسے تسلیم کرچکی ہے۔ اگرچہ اس مجلس کے نصف ارکان کی یہ راے تھی کہ معاملہ زمین کو ٹیکس کے نام سے تعبیر نہیں کیا جاسکتا لیکن بقیہ نصف ارکان یہ کہتے تھے کہ اس کی نوعیت بھی ٹیکس ہی کی ہے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ اس ملک میں حکمران طاقت نے کبھی اس قسم کے حقوق کا مطالبہ نہیں کیا (نعرہ ہاے تحسین)۔ ہمیں بتایا جاتا ہے کہ مغلوں نے ایسا دعویٰ کیا تھا لیکن پنجاب کے باشندے اس ملک کی زمین کے اس وقت سے مالک چلے آتے ہیں جب کہ بابر کی نسل نے تاریخ کے ایوان میں قدم بھی نہ رکھا تھا۔ اس سے صرف ایک نتیجہ نکلتا ہے کہ بادشاہتیں بنتی اور بگڑتی رہتی ہیں اور صرف قوم کو بقا حاصل ہے (نعرہ ہاے تحسین)۔ بنابریں میں کہتا ہوں کہ اگر کسی وقت کسی ملک کے اندر یہ نظریہ رائج بھی تھا تو اس بیسویں صدی میں اسے جائز نہیں مانا جاسکتا۔ اگر حکومت ہند ہمارے نذرانے کی مذکورہ رقم معاف کردے تو ہمیں اسے تخفیف محاصل میں صرف کرنا چاہیے۔ ہمیں معاملہ زمین میں بھی تدریجی اضافے کے اُصول سے کام لینا چاہیے۔ اس وقت زمین کے ہر چھوٹے بڑے قطعے کے لیے معاملہ لیا جاتا ہے، خواہ کسی شخص کے پاس دو کنال زمین ہو، خواہ دو سو کنال، بہرصورت اسے معاملہ ادا کرنا پڑتا ہے۔ اس کے برعکس انکم ٹیکس کے باب میں صلاحیت و استطاعت کے اُصول یا مدارج کے اُصول پر عمل کیا جاتا ہے یعنی ایک تدریجی پیمانہ قائم ہے۔ بعض لوگوں سے قطعاً کوئی انکم ٹیکس نہیں لیا جاتا۔ میری گزارش ہے کہ کونسل کو اس اُصول کی روشنی میں تخفیف محاصل کے مسئلے پر نظر ڈالنی چاہیے (نعرہ ہاے تحسین)۔ یک شنبہ ۸؍رمضان۴۵ھ؍ ۱۳؍مارچ۱۹۲۷ئ، ۱۴؍۵۶، سنڈے اڈیشن،ص۲۔ حرف اقبال، ص۸۴-۸۷ اور اقبال اور پنجاب کونسل۸۲-۸۴ پر یہی متن بعض ترمیمات کے ساتھ درج ہے۔ زمیندار نے علامہ کی اس تجویز کی تہ دل سے تائید کرتے ہوئے امکانی مجلس کی اس مسئلہ خاص پر توجہ مبذول کرانے کی کوشش کی۔ یک شنبہ ۸ رمضان ۴۵ھ؍ ۱۳؍مارچ ۱۹۲۷ئ، ۱۴/۵۶، سنڈے اڈیشن، ص۳۔ انجمن حمایت اسلام کا اکتالیسواں سالانہ اجلاس علامہ اقبال کی تقریر پچاس ہزار مسلمانوں کا اجتماع عظیم۳۹؎ علامہ سر محمد اقبال نے انجمن حمایت اسلام کے اکتالیسویں سالانہ جلسے میں ایک تقریر (The Spirit of Muslim Culture) فرمائی۔ تقریر کے اختتام پر علامہ اقبال نے اپنی تقریر کا خلاصہ اُردو میں بیان کیا۔ آپ نے فرمایا: مکان و زمان، اشیا۴۰؎ کی حقیقت انسان سے پوشیدہ ہے۔ ہر انسان کے دل میں ایک ہوس ہے۔ ہر شخص کی یہ خواہش ہے کہ اسے نظام عالم کی حقیقت معلوم ہوجائے۔ یہود کا سوال لَنْ نُّؤْمِنَ حَتّٰی نَرَی اللّٰہَ جَہْرَۃً (ہم خدا پر اس وقت تک ایمان نہ لائیں گے جب تک کہ اسے عیاناً نہ دیکھ لیں)۴۱؎ اسی ہوس کا نتیجہ تھا۔ خود موسیٰ کلیم اللہ نے بھی رَبّ اَرِنِیْ اَنْظُرْ اِلَیْکَ۴۲؎کی درخواست کی تھی۔ غرض مشاہدے کی ہوس عالم گیر ہے۔ میں نے اس خیال کو دو ایک اشعار میں سمجھایا ہے: ؎ خرد گفت او بچشم اندر نگنجد۴۷؎ نگاہِ شوق در امید و بیم است۴۷؎ نمے گردد کہن افسانۂ طور۴۷؎ کہ در ہر دل تمناے کلیم است۴۳؎ موسیٰ علیہ السلام کی کہانی پرانی نہیں، آج بھی ہر شخص ربِّ اَرِنِْی کَہ رہا ہے۔ حقیقت کا مشاہدہ دو طرح سے ہوتا ہے۔ حق تعالیٰ نے فرمایا: وَجَعَلَ لَکُمْ السَّمْعَ وَالْاَبْصَارَ وَالْاَفْئِدَہ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ (۱۶:۳۰)۴۴؎ اس آیت میں حصولِ علم کے ذریعوں کی طرف اشارہ ہے۔ ایک ذریعہ تو سمع و بصر ہے اور دوسرا ذریعہ انسان کا قلب ہے۔ یعنی یہ نہ ہو کہ سمع و بصر کو چھوڑ کر کلی طور پر قلب کی طرف متوجہ ہو جائو اور ایسا بھی نہ ہو کہ قلب سے غافل ہوکر یورپ والوں کی طرح بالکل سمع و بصر کے ہو رہو۔ مسلمانوں نے صرف۴۵؎ توجہات، قلب پر مرتکز کر دیں اور سمع و بصر سے پورا کام نہ لیا بلکہ ساری ایشیائی تہذیب کا خاصہ یہی ہے حالانکہ کمال یہ ہے کہ سمع و بصر فواد سب کو جمع کیا جائے۔ نظام عالم کی آفرینش یوں ہے کہ حق تعالیٰ نے اپنی نمو کے لیے یا اپنے آپ کو ظاہر و نمایاں کرنے کے لیے ایک نقطۂ خاص سے سفر کیا یا بقول صوفیۂ کرام: حسن کو آشکارا کرنے کے لیے دنیا کو پیدا کیا۔اس خط سفر کا آخری نقطہ عالم ظاہر ہے۔ اب حقیقت تک پہنچنے کی راہ یہ ہے کہ اس آخری نقطے سے اُلٹا سفر کیا جائے۔۴۶؎ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ مظاہر کو چھوڑ کر حقیقت کی طرف متوجہ ہوں۔ اس کا مقصد یہ نہ ہونا چاہیے کہ انسان مشاہدہ حقیقت کے ساتھ اپنے آپ کو فنا کردے۔ اسلام کا عندیہ یہ ہے کہ حقیقت کا مشاہدہ مردانہ وار کیا جائے۔ ایک شاعر نے اس حقیقت پر اس شعر میں روشنی ڈالی ہے: ؎ موسیٰ ز ہوش رفت بہ یک پر تو صفات تو عین ذات می نگری در تبسمی یہی اسلامی آئیڈیل ہے۔ اسلامی نقطۂ خیال میں یہی معراج ہے کہ مشاہدۂ ذات کے بعد بھی عبودیت قائم ہے لیکن تمرد و سرکشی کے لیے نہیں، بلکہ خدمت و عبدیت کے لیے۔ مسلم کو کسی چیز میں فنا نہ ہونا چاہیے، گو یہ فنا فی اللہ کیوں نہ ہو۔ علامہ کی اس تقریر سے متاثر ہوکر ایک عیسائی جنٹلمین غلام مسیح نام نے اسلام قبول کرنے کا ارادہ ظاہر کیا تھا، چنانچہ مولانا سیّد سلیمان ندوی نے اسے مسلمان کیا۔۴۷؎ ۲۰؍اپریل ۱۹۲۷ئ، ص۴۔ یہی تقریر انقلاب ۱۹؍ اپریل ۱۹۲۷ء میں بھی شائع ہوئی (ص۳) جو ذیل میں دی جارہی ہے: ہر انسان کے دل میں مشاہدہ حقیقت کی ہوس ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ اسے نظام عالم سے آگاہی حاصل ہوجائے۔ زمان و مکان کی کنہ سمجھ میں آجائے جو حقیقت کائنات کے اندر پوشیدہ ہے، اس کے مشاہدے اور نظارے کا موقع مل جائے۔ سامی قومیں اس مشاہدے کے لیے ہمیشہ بے تابی کا اظہار کرتی رہی ہیں۔ یہودیوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہا کہ لَنْ نُّؤمِنَ حَتُّی نَرَی اللّٰہَ جَہْرَۃً، خود حضرت موسیٰ علیہ السلام رَبِّ اَرِنِیْ فرماتے رہے، میں نے لکھا ہے ؎ خرد گفت او بچشم اندر نگنجد نگاہِ شوق در امید و بیم است نمے گردد کہن افسانۂ طور کہ در ہر دل تمنائے کلیم است مشاہدہ حقیقت کے حصول کے دو طریق ہیں: (۱) سمع و بصر (۲) قلوب یا بہ اصطلاح قرآن حکیم ’’افئدہ‘‘ ۔یہ ضروری ہے۔ یہ ضروری ہے کہ ان دو طریقوں سے علیٰ قدر ضرورت کام لیا جائے۔ یورپ نے اپنی ساری کوششیں صرف سمع و بصر تک محدود کردیں اور ’’افئدہ‘‘ کو ترک کردیا۔ مسلمانوں نے اپنی توجہات ’’افئدہ‘‘ پر مرتکز کردیں اور سمع و بصر سے پورا کام نہ لیا،بلکہ ساری ایشیائی تہذیب کا خاصہ یہی ہے کہ اس میں ’’افئدہ‘‘ پر بہت زور دیا گیا ہے اور سمع و بصر پسِ پشت ڈالا گیا ہے، حالانکہ ضرورت دونوں طریقوں سے کام لینے کی ہے۔ نظامِ عالم کی آفرینش کو یوں سمجھو کہ حقیقت نے اپنی نمود کے لیے یا اپنے آپ کو واضح کرنے کے لیے ایک نقطۂ خاص سے سفر کیا یا بہ اصطلاح صوفیاکرام: حسن نے نظارے کے شوق میں اپنے آپ کو آشکارا کردیا۔ اس خط سفر کا آخری نقطہ عالم ظاہر ہے۔ اب حقیقت تک پہنچنے کا راستہ یہ ہے کہ اس آخری نقطے سے اُلٹا سفر کیا جائے۔ مشاہدے کا مقصد یہ نہیں ہونا چاہیے کہ انسان اس میں اپنے آپ کو فنا کردے۔ اسلام جس مشاہدے کا معلم ہے، وہ اپنے آپ کو قائم رکھنے کی تعلیم دیتا ہے، یعنی اسلام کا مشاہدہ مردانگی پر مبنی ہے۔ ایک شاعر نے حضور سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی نعت میں یہ نکتہ بڑے اچھے طریق پر واضح کیا ہے۔ میرا خیال ہے کہ نعت میں اس سے بہتر شعر نہیں لکھا گیا: ؎ موسیٰ ز ہوش رفت بہ یک جلوہ صفات تو عین ذات مے نگری و در تبسمی یہ اسلامی آئیڈیل ہے۔ اسلامی نقطۂ خیال سے معراج یہی ہے کہ مشاہدۂ ذات کے بعد بھی عبودیت قائم رہے، لیکن سرکشی اور تمرد کے لیے نہیں، بلکہ خدمت کے لیے۔ انقلاب: ۱۹؍اپریل ۱۹۲۷ئ، ص۳۔ پنجاب پراونشل مسلم لیگ، مئی ۱۹۲۷ء پنجاب مسلم لیگ کا اجلاس فرقہ وار نیابت اور جداگانہ حلقہ ہاے انتخاب۴۸؎ ۲۰؍مارچ ۱۹۲۷ء کو ۳۰ مقتدر مسلم رہنمائوں نے دہلی میں ایک جلسہ کرکے ہندو مسلم مسئلے کے حل کرنے کے لیے چند تجاویز پیش کیں جو عام طور پر ’’دہلی تجاویز‘‘ کے نام سے مشہور ہیں۔ مسلم رہنمائوں نے یہ اعلان کیا کہ اگر ہندو ان تجاویز کو بغیر کسی ترمیم کے منظور کرلیں تو وہ جداگانہ طریق انتخاب کو ترک کرنے کے لیے تیار ہیں۔ گو یہ تجاویز مسٹر کیلگر کے دسمبر ۱۹۲۵ء والے اجلاس ہندو مہاسبھا کے خطبہ صدارت پر مبنی تھیں، مگر جب وہی تجاویز مسلمانوں نے پیش کیں تو ہندوئوں، خاص کر ہندو مہاسبھا نے ان کی اخبارات اور عام جلسوں میں شدید مخالفت شروع کردی۔ پنجاب کے سیاسی ماحول اور فرقہ وارانہ فضا کو مدنظر رکھتے ہوئے یہاں کے مسلم رہنمائوں کی اکثریت جداگانہ طریق انتخاب کو کسی صورت میں بھی ترک کرنے کو تیار نہ تھی۔ سر شفیع نے دہلی میں بھی جداگانہ طریق انتخاب کو چھوڑنے کی سخت مخالفت کی۔ ان تجاویز سے پیدا ہونے والی صورت حال پر اور پنجابی نقطہ نگاہ پیش کرنے کے لیے پنجاب پراونشل مسلم لیگ کا ایک اجلاس یکم مئی ۱۹۲۷ء کو برکت علی اسلامیہ۴۹؎ ہال میں منعقد کیا گیا۔ سر محمد شفیع نے دہلی میں مسلمان رہنمائوں کی مرتب کردہ تجاویز اور ہندو مہاسبھا کے رویے کے جواب میں ایک جامع تقریر کی۔۵۰؎ اسی جلسے میں علامہ سر محمد اقبال نے درج ذیل قرارداد پیش کی: ۵۱؎ پنجاب پراونشل مسلم لیگ اپنے اس عقیدے کا اعادہ کرتی ہے کہ ملک کی موجودہ سیاسی حالت میں جداگانہ حلقہ ہاے انتخاب ہی کے ذریعے سے مرکزی مجلس وضع قوانین اور صوبوں کی مجالس وضع قوانین باشندگان ہند کی حقیقی نمائندہ مجالس بن سکتی ہیں۔ حلقہ ہاے انتخاب کی علاحدگی سے۵۲؎ باشندوں کے جائز حقوق محفوظ۵۳؎ رہ سکتے ہیں۔ وہ فریقانہ کشمکش جو مخلوط و مشترک حلقہ ہاے انتخاب سے پیدا ہوگی، اسی صورت میں دور ہوسکتی ہے، اس لیے لیگ کی۵۴؎ یہ قطعی راے ہے کہ جب تک اقلیتوں کے حقوق کی مؤثر حفاظت کا انتظام نہ ہو، مسلمان فریقانہ۵۵؎ حلقہ ہاے انتخاب کو دستور ہند کے ایک اساس جزو کی حیثیت سے قائم رکھنے پر لازماً مصر رہیں۔۵۶؎ ۴؍مئی ۱۹۲۷ئ، ص۴۔ انتخاب جداگانہ کے حامیوں کا جلسہ علامہ اقبال اور مولوی عید کی اہم تقریریں مسلمانوں میں کوئی قابل ذکر اختلاف نہیں ہے لاہور…دومئی: آج شام کے ساڑھے سات بجے مسلمانانِ لاہور کا ایک جلسہ باغ بیرون موچی دروازہ میں منعقد ہوا۔ ڈاکٹر سر علامہ محمد اقبال صدر جلسہ تھے۔ حاضری دو اور تین ہزار کے درمیان تھی۔ معزز حاضرین میں مولوی محمد علی ایم اے امام جماعت احمدیہ، مولوی غلام محی الدین قصوری، ڈاکٹر خلیفہ شجاع الدین، شیخ عظیم اللہ خان، سعادت علی خان اور دیگر اصحاب کے نام قابل ذکر ہیں۔ …سر محمد اقبال نے آخر میں کہا کہ یہ بات: مسلمانوں میں اتحاد نہیں، غلط ہے۔ مہاتماگاندھی یہ کہنے میں حق بجانب نہ تھے کہ مسلمانوں کا مطالبہ متحدہ نہیں۔ ہندوؤں میں بھی تین گروہ ہیں۔ ایک مزدوروں کی حکومت، دوسرا مخلوط انتخاب اور تیسرا جداگانہ انتخاب چاہتا ہے۔ اگر ان اختلافات کو نظر انداز کرکے مسلمانوں کے معمولی فرق کو اس قدر اہمیت دی جائے تو یہ ریاکاری نہیں تو اور کیا ہے۔ مسلمانوں میں سیاسی اختلاف نہیں۔ نیشنلسٹ مسلم بھی تیرہ معاملات میں ہمارے حامی ہیں۔ صرف ایک معاملے میں معمولی اختلاف ہے اور وہ بھی مخلوط انتخاب باغیوں [کو] کے حق راے دہندگی کے ساتھ مشروط چاہتے ہیں۔ وہ قطعاً ناممکن ہے اور ناقابل عمل ہے۔ موجودہ قوم پرستی، دہریت کی طرف لے جاتی ہے۔ مسلمانوں کو اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا چاہیے۔ انھیں نہ انگریزوں پر اعتقاد کرنے کی ضرورت ہے اور نہ وہ ہندوؤں کے غلام بن کر زندہ رہ سکتے ہیں۔ ۵؍مئی۱۹۳۱ئ،ص۴۔ [اقبال کے سفر اُندلس کا تذکرہ] جامعہ ملّیہ دہلی میں علامہ سراقبال کا لکچر دہلی ۶؍اپریل: جامعہ ملّیہ اسلامیہ دہلی میں زیرصدارت ڈاکٹر ذاکر حسین ایک جلسہ ہوا جس میں علامہ سر محمد اقبال نے گول میز کانفرنس کے بعد اپنے یورپی سفر کے تجربات سے حاضرین کو محظوظ فرمایا۔ سر محمد اقبال نے اپنی پوری تقریر میں اسپین (اندلس) کو خاص طور پر پیش نظر رکھا۔ آپ نے کہا: وہاں پادریوں کا زور روز بروز گھٹتا جارہا ہے اور توقع ہے کہ دس سال کے اندر اندر وہ ہماری طرح آزاد ہوجائیں گے۔ آپ نے جامعہ ملّیہ کے طلبہ کو مشورہ دیا کہ وہ اسپین کی تاریخ و تمدن سے دلچسپی لیا کریں۔ آپ نے مزید کہا کہ یورپ کے سفر سے مجھے معلوم ہوا کہ اس ۲۰ سال کے اندر انگلستان، فرانس اور اسپین کے باشندے اسلامی تاریخ اور کلچر کے مطالعہ سے بے۔حد دلچسپی لینے لگے ہیں اور عربی ریسرچ کے لیے خصوصاً اسپین میں وسیع میدان ہے۔ آپ نے طلبہ سے اسپینی زبان سیکھ کر ریسرچ کے لیے وہاں جانے کی اپیل کی۔ علامہ اقبال نے اسپین کو ’’اسلام کا وعدہ کرو‘‘ ملک قرار دیتے ہوئے شہر کارڈز[قرطبہ] کی تاریخ بیان کی جس میں پہلے عرب آباد تھے۔ آپ نے فرمایا کہ کسی زمانے میں اسی شہر میں ۳۰۰ --- اور اتنی ہی مسجدیں اور لائبریریاں تھیں لیکن اس وقت فقط ایک مسجد موجود ہے۔ عیسائیوں کے قبضے کے بعد اس مسجد کے اندر کئی کلیسا بنائے گئے جنھیں آج کل وہاں سے ہٹادیا گیا ہے۔ آپ نے اس مسجد کی شان و شوکت کا نقشہ کھینچتے ہوئے کہا کہ اس کی تعریف سے زبان قاصر ہے۔ عیسائی چونکہ خدا اور مذہب پر ایمان رکھتے ہیں، اسی لیے غالباً اس مسجد کے رعب و داب نے انھیں منہدم کرنے سے باز رکھا۔ موجودہ حکومت کا رویہ اسلام کے ساتھ اگلے وقت کے متعصب عیسائیوں سے کہیں بہتر ہے۔ آپ نے اس کے بعد بتلایا کہ جنوبی اسپین میں مسلمانوں پر کس طرح ظلم کیے گئے اور انھیں وہاں سے نکالنے کے لیے کون سی تدابیر اختیار کرنا پڑیں۔ اسپین میں زمانہ اسلام کی بہت سی رسمیں اب تک رائج ہیں۔ علامہ اقبال سے بعض حضرات نے پان اسلامی تحریک کے متعلق سوال کیا جس کے جواب میں آپ نے کہا کہ میں نے کسی تحریک کے ساتھ سفر اختیار نہیں کیا تھا۔ بہرحال، موجودہ ارتقائی زمانے کے ساتھ ساتھ نیا احساس اور نئی بے داریاں پیدا ہوتی جارہی ہیں۔ ۹؍اپریل ۱۹۳۳ئ،…ص۵۔ ض…ضض…ض ۲- بیانات اشاعتِ اسلام کے عظیم الشان نظام کی ضرورت علامہ اقبال کی ایک اہم تجویز حجاز کی موجودہ صورت حالات اور آئندہ انتظام کے متعلق علامہ اقبال کے گراںقدر خیالات معزز معاصر مسلم آؤٹ لک کے نمایندے کی وساطت سے قارئین کرام کے ملاحظہ میں پیش ہوچکے ہیں۔ اس سلسلے میں علامہ ممدوح نے سابق خلیفۃ المسلمین کے حاکم حجاز بنائے جانے کی تجویز کے متعلق اپنی راے ظاہر کرتے ہوئے ایک نہایت اہم اور عمدہ تجویز پیش کی تھی۔ آپ نے فرمایا: سابق خلیفہ المسلمین کو حاکم حجاز بنانے کی تجویز درست نہیں ہے۔ مسلمانان عالم سابق خلیفۃ المسلمین کی ذات سے جو کام لے سکتے ہیں۔ وہ یہ ہے کہ اشاعت اسلام کا ایک زبردست نظام قائم کیا جائے اور سابق خلیفہ المسلمین اس نظام کے صدر بنائے جائیں۔ اس نظام کے ماتحت ایک عظیم الشان اور وسیع بین الملّی اسلامی درس گاہ قائم کی جائے جس میں مبلغین کی تعلیم و تربیت کا نہایت عمدہ انتظام ہو۔ یہ مبلّغین ضروری تعلیم سے فراغت حاصل کرنے کے بعد مختلف حصص عالم میں اشاعت اسلام کا کام شروع کردیںگے۔ ہم تحقیقی طور پر نہیں کَہ سکتے کہ علامہ ممدوح کی یہ تجویز کس حد تک ممکن العمل ہے لیکن اس تجویز کی اہمیت سے کسی شخص کو انکار نہیں ہوسکتا۔ اشاعت اسلام مسلمانوں کا سب سے بڑا فریضہ ہے لیکن افسوس کہ اسلام کے ابتدائی دور کے سوا کسی عہد میں بھی مسلمان اجتماعی حیثیت سے اس فریضے کی انجام دہی کا انتظام نہ کرسکے۔ انھوں نے دنیا کے مختلف حصص میں ایسی عظیم الشان سلطنتیں قائم کیں جن کی شوکت و ابہت اور طاقت و قوت کے نظائر سے قدیم و جدید تاریخ کے اوراق یکسر خالی ہیں۔ ان کے ایک ایک فرد نے اُٹھ کر گنتی کے دنوں اور مہینوں میں بڑے بڑے علاقے مسخر کرڈالے لیکن افسوس کہ کسی کو بھی اپنے وظیفہ حیات یعنی اشاعت اسلام کے باقاعدہ انتظام کی توفیق نہ ہوئی۔ اسلام دنیا میں اس لیے نہیں آیا تھا کہ اس کے پیرو بڑی بڑی اور پُرشوکت سلطنتیں قائم کریں۔ یہ کائنات انسانیت کے لیے حق کا سب سے آخری اور مکمل ترین پیغام تھا۔ سلطنتیں حقیقی مقصود نہیں تھیں بلکہ اس پیغام حق کو دنیا تک پہنچانا اور راہ گم کردہ انسانوں کو صراط مستقیم پر قائم کرنے کا ایک ضروری اور ناگزیر وسیلہ تھیں، لیکن افسوس کہ مسلمان بہت جلد عجمی و رومی تصورات کے شکار ہوگئے اور اس طرح اسلام کا حقیقی مقصد پورا نہ ہوسکا۔ مسلمانوں نے اپنے عہد عروج و اقبال میں قرطبہ و غرناطہ، قاہرہ و قسطنطنیہ، دمشق و بغداد، دہلی و آگرہ کو قیامت تک کے لیے دنیاوی شان و شکوہ کا محیرا لعقول مرکز بنادیا۔ انھوں نے اُمورا، نیل، دجلہ اور جمنا کے پانیوں پر سنہری کشتیاں چلائیں لیکن اشاعت اسلام کا کوئی انتظام نہ کیا، حالانکہ ان کی زندگیوں کا سب سے بڑا اور حقیقی مقصد یہی تھا۔ باقی سب چیزیں اس مقصد کے مختلف ذرائع کی حیثیت رکھتی تھیں۔ اسلامی سلطنتوں کے زوال کا سب سے بڑا سبب مسلمانوں کی یہی غفلت تھی اور اس وقت بعض ممالک میں مسلمانوں کے سامنے جو مشکلات رونما ہیں، ان کی علت بھی یہی اغراض عن المقصود ہیں۔ اس وقت مسلمانوں کی جو آبادیاں نظر آتی ہیں، ان کا بہت بڑا حصہ دورِ اوّل کے مسلمانوں کی مخلصانہ کوششوں کا نتیجہ ہیں۔ بعد میں بعض مقدس بزرگان دین اور بعض ارباب علم و فضل انفرادی حیثیت سے اس باب میں تھوڑی بہت کوششیں کرتے رہے لیکن انفرادی کوششیں ایسے اہم کام میں جس حد تک نتیجہ خیز ہوسکتی ہیں، وہ ظاہر ہے۔ اب وقت ہے کہ مسلمان اپنے اس قومی وظیفے کی طرف خاص توجہ کریں۔ موتمر اسلامی میں خلافت و مرکزیتِ اسلام کا جو نظام قائم ہوگا، اس کے ماتحت اس معاملے کا انتظام نہایت ضروری ہے۔ اس کی بہترین صورت یہ ہوسکتی ہے کہ نظامِ خلافت و مرکزیت کے ماتحت عالمِ اسلام کے ہر حصّے میں زکوٰۃ و اوقاف کی تنظیم کی جائے اور اس طرح جو گراںقدر رقوم حاصل ہوں ان کا سب سے بڑا حصہ اشاعتِ اسلام کے لیے وقف کردیا جائے۔ علامہ اقبال کی یہ تجویز نہایت اہم ہے کہ مبلّغینِ اسلام کے لیے ایک وسیع بین الملّی اسلامی درس گاہ قائم ہونی چاہیے جس میں ہر قوم اور ہر ملک کے اندر اشاعتِ اسلام کے لیے مبلغ تیار کیے جائیں۔ اس مقصد کے حصول کی بہترین صورت یہ ہے کہ ہر ملک کے حالات و معاملات اور جذبات و خیالات کے متعلق کامل واقفیت حاصل کی جائے۔ یہ اندازہ کیا جائے کہ سب سے پہلے کن کن ممالک میں اشاعت کا کام فروغ پاسکتا ہے اور ان ممالک میں مبلّغین کے لیے کن کن السنہ اور کن کن علوم کا جاننا ضروری ہے، پھر ان ضروریات کے مطابق ایسے مبلّغین تیار کیے جائیں جو اپنی زندگیاں صرف اسی کام کے لیے وقف کردیں۔ اگر مسلمانوں نے اشاعت اسلام کا ایسا انتظام کرلیا تو پھر چند سال کے اندر اندر دنیا کی حالت پلٹ جائے گی۔ علامہ ممدوح فرماتے ہیں کہ سابق خلیفۃ المسلمین کو اس نظام کا سرپرست بنایا جاسکتا ہے لیکن ہمارا خیال ہے کہ اگر سابق خلیفۃ المسلمین آئندہ نظامِ خلافت میں صدر جمعیۃ اسلامی نہ بن سکیں تو اس صورت میں اشاعتِ اسلام کے اس بین الملّی نظام کو ان کی سرپرستی میں شروع کرنا شاید مناسب نہیں ہوگا۔ اس میں شبہہ نہیں کہ سلاطینِ آلِ عثمان کی عدیم النظیر اسلامی خدمات کے باعث اس خاندان کو عالمِ اسلام میں بہت بڑا اعزاز حاصل ہے اور سابق خلیفۃ المسلمین کی سرپرستی سے اشاعتِ اسلام کے نظام کو بہت تقویت پہنچ سکتی ہے۔ اس سے بھی انکار نہیں ہوسکتا کہ اگر آئندہ انتظامِ خلافت میں عالم اسلام نے سابق خلیفۃ المسلمین کو صدر مجلسِ مرکزیہ اسلام نہ بنایا تو پھر اشاعتِ اسلام کے کام کو ان کی سرپرستی میں شروع کرنے سے بہت سی مشکلات پیدا ہوجائیں گی۔ بہت ممکن ہے کہ نظامِ اشاعت اسلام اور نظامِ خلافت میں تصادم پیدا ہوجائے اور اس طرح مرکزیتِ اسلام کے مقصد کو نقصان پہنچے۔ علامہ اقبال کی یہ تجویز علی الکل نہایت ضروری اور اہم ہے، مسلمان اس کی بعض جزیات میں حسبِ صوربدیہ تغیر و تبدل کرسکتے ہیں لیکن نفسِ تجویز کی اہمیت سے انکار نہیں کرسکتے اور اگر انھوں نے اشاعتِ اسلام کا اجتماعی انتظام نہ کیا تو دنیاے اسلام کی مشکلات کبھی رفع نہیں ہوں گی، اسلام کی حقیقی منزلِ مقصود کبھی بھی قریب نہیں آئے گی۔ جمعہ ۹؍ ربیع الثانی ۱۳۴۳ھ؍۷؍نومبر۱۹۲۴ئ،۱۱/۲۴۳،ص۲۔ مسٹر چنتامنی کی قوم پرست جماعت [سے مستعفی] حضرت علامہ اقبال کا اعلان۱؎ ۶؍اپریل ۱۹۲۶ء کو چنتامنی کی قوم پرست جماعت سے استعفا۲؎ دینے کے متعلق علامہ سر محمد اقبال نے درج ذیل بیان دیا: بعض احباب۳؎ مجھ سے دریافت کررہے ہیں کہ نیشنل لبرل لیگ میں میری شرکت اور اس کے بعد مستعفی ہوجانے کی کیا وجہ تھی اور اس کے بعد میں نے اس جلسے کے داعیوں میں اپنا نام درج کرنے کی اجازت کیوں دی؟ جو بعض اربابِ سیاست کی طرف سے بمبئی میں منعقد ہونے والا تھا۔۴؎ حقیقت یہ ہے کہ پنجاب میں ہندوئوں اور مسلمانوں کے تعلقات کی کشیدگی۵؎ کے باعث جو شرم۔ناک حالات پیدا ہورہے ہیں اور صوبے کی فضا جیسی مکدر ہورہی ہے، اسے کوئی مخلص انسان اچھی نظروں سے نہیں دیکھتا۔ میں دل سے چاہتا ہوں کہ ہندو اور مسلمان اپنے اختلافات ختم کرکے ملک میں بھائیوں کی طرح سے رہیں اور بات بات میں ایک دوسرے کا سر نہ پھوڑتے پھریں۔ میرے بعض احباب نے مجھ سے کہا کہ پنجاب کی مختلف اقوام کے تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے ایک متحدہ کوشش ضروری ہے جس میں ہر جماعت کے افراد شامل ہوں گے۔ میں نے ان سے کہا کہ میرے پیش نظر فی الحال کوئی سیاسی مقصد نہیں ہے، تاہم اخلاقی اعتبار سے اس میں شرکت کرنا میں اپنا فرض جانتا۶؎ ہوں، چنانچہ میں ان کی اس کوشش میں شریک ہوا، لیکن تھوڑی ہی مدت کے بعد معلوم ہوا کہ گوہر مقصود یہاں بھی مفقود ہے اور ملک میں ابھی حصول مقصد کے امکانات بہت کم ہیں، اس بنا پر میں نے اس جماعت سے استعفا۷؎ دے دیا۔ اس کے بعد چند روز ہوئے مسٹر چنتامنی کا ایک تار۸؎ میرے نام موصول ہوا جس میں مجھ سے استدعا کی گئی تھی کہ مجوزہ نیشنلسٹ کانفرنس کے داعیوں میں اپنا نام درج کرنے کی اجازت دیجیے۔ میں نے رسمی طور پر جلسے کا داعی بننا منظور کیا اور ان کو اجازت دے دی کہ وہ میری طرف سے دستخط کردیں، جس سے میری مراد کسی سیاسی جماعت کی موافقت یا مخالفت نہ تھی، نہ مسٹر چنتامنی کے تار میں ایسے الفاظ تھے، جن سے معلوم ہوتا کہ ان کا جلسہ کسی سیاسی جماعت کی مخالفت کے لیے ہے۔ اب معلوم ہوا۹؎ کہ ان کے جلسے کا مقصود بالخاصہ ’’سوراجی جماعت‘‘کی مخالفت تھا۔ میں اس امر کا اعلان کردینا چاہتا ہوں کہ میں اب تک تمام سیاسی جماعتوں سے علاحدہ رہا ہوں، البتہ میری خواہش یہ رہی ہے اور ہے کہ ہندوستان کی تمام جماعتوں کے تعلقات بہتر ہوجائیں کہ موجودہ فضا ملک کے لیے بالبداہت باعث ننگ ہے اور مختلف اقوام کی اخلاقی و معاشرتی زندگی کے لیے نہایت مضرت رساں ہے۔ کسی سیاسی جماعت سے میرا کوئی تعلق نہیں، ہاں! اہل ہند کے باہمی تعلقات کی درستی میں ہر مخلص شخص کے ساتھ ہوں۔ محمد اقبال، از لاہور ۶؍اپریل ۱۹۲۶ئ، ص۴۔ علامہ اقبال کی تحریکات تعلیم یافتہ اشخاص کی بے روزگاری لاہور، ۱۳؍فروری: علامہ اقبال مدظلہُ العالی نے پنجاب کونسل کے آئندہ اجلاس میں حسب ذیل تحریکات پیش کرنے کا نوٹس دیا ہے: (۱) یہ کونسل جناب گورنر بہ اجلاس کونسل سے سفارش کرتی ہے کہ تعلیم یافتہ طبقے میں بے کاری اور بے روزگاری کے پیش نظر حکومت کو چاہیے کہ بے کار تعلیم یافتہ اشخاص کو قطعات اراضی عطا کردے، تاکہ وہ اس میں زراعت کراسکیں۔ ٹیکسوں میں تخفیف (۲) یہ کونسل گورنر بہ اجلاس کونسل سے سفارش کرتی ہے کہ چونکہ حکومت ہند نے حکومت پنجاب کو سالانہ زر تعاون معاف کردیا ہے، اس لیے ٹیکسوں میں تخفیف کرنے کے لیے ایک مجلس تحقیقات مقرر کردی جائے، تاکہ تخفیف سب محصول گزاروں پر مساوی طور پر تقسیم ہوسکے۔ سہ شنبہ، ۱۲ شعبان ۱۳۴۵ھ؍ ۱۵؍فروری۱۹۲۷ئ،ص۳۔ اُردو اخبارات پر الزام لاہور، ۱۲؍ مئی: لاہور کے چند معززین نے حسبِ ذیل بیان شائع کیا ہے: ہماری راے میں بعض ورنیکلر اخبارات کشیدگی کا سبب ہیں۔ ہماری راے میں گورنمنٹ کو چاہیے کہ ان کے خلاف کارروائی کرے، تاکہ ان اخبار نویسوں میں ذمہ داری کا احساس پیدا ہو۔ ہم یہ بھی چاہتے ہیں کہ مقررین بھی اپنی تقریروں میں اعتدال سے کام لیا کریں۔ سر میاں محمد شفیع، راجا نریندرا ناتھ، ڈاکٹر سر محمد اقبال، راے بہادر رام سرن داس، خان بہادر محمد حسین، دیوان بہادر کرشن کشور، عبداللہ یوسف علی (پرنسپل اسلامیہ کالج)، راے بہادر بدری داس، ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ، سردار مہرسنگھ چاولا، بھائی گوردت سنگھ، راجا رام بینکر، لچھن داس بینکر، مہاشا ہنس راج۔ ۱۵؍مئی۱۹۲۷ئ،ص۵۔ [مسلمانو! متفق ہوجائو] بھوپال میں مسلم زعما کا اجتماع خوش گوار نتائج کی توقع شرکاے اجتماع کا مشترکہ بیان بھوپال، ۱۲؍مئی: نواب بھوپال کی دعوت پر مختلف الخیال مسلم زعماے قوم، بھوپال میں جمع ہوئے۔ انھوں نے مصرع ذیل اخباری بیان شائع کرایا ہے: ہم ذیل کے دستخط کنندگان دس اور گیارہ مئی کو بھوپال میں ایک بے قاعدہ جلسے میں اس غرض سے جمع ہوئے کہ باہمی تبادلۂ خیالات کے بعد مسلمانوں کی دونوں مختلف الخیال جماعتوں کے رفع اختلاف کی کوشش کی جائے، تاکہ ہندو مسلم مسائل کے متعلق کوئی مفاہمت ہونے میں سہولت پیدا ہوسکے۔ اگرچہ ہم اس امر میں متفق ہیں کہ ہمیں گفت و شنید کی تفصیلات میں نہ جانا چاہیے، نہ ان تجاویز ہی سے بحث کرنی چاہیے جو اس اجتماع میں پیش ہوئیں، پھر بھی ہم یہ ظاہر کیے بغیر نہیں رہ سکتے کہ گفت و شنید میں جن مفاہمانہ اور دوستانہ جذبات کا اظہار کیا گیا، وہ ہمارے لیے نہایت مسرت بخش تھا۔ ہر شخص کا قلب اس جذبے سے سرشار نظر آتا تھا کہ مسلمانوں کو متفق ہوکر ملکی سیاسیات میں ایک متحدہ جماعت کی حیثیت سے حصہ لینا چاہیے۔ جون کے پہلے ہفتے میں اس گفت و شنید کا اجرا ہوگا اور توقع کی جاتی ہے کہ اس موقعے پر کوئی تشفی بخش اور فیصلہ کن مفاہمت ہوسکے گی۔ (سر) محمد شفیع مولانا شوکت علی ڈاکٹر محمد اقبال مسٹر تصدق احمد خاں شیروانی ۱۵؍مئی۱۹۳۱ئ،ص۴۔ ۳- تبصرے [جانوروں کے حالات و خصائل سے متعلق کتاب] ترجمانِ حقیقت ڈاکٹر محمد اقبال نے بعد مطالعہ یہ راے قائم کی ہے کہ جانوروں کے حالات و خصائل کی مشرح و مفصل باتصویر کتاب اپنی آپ نظیر ہے۔ میرا یہ دعویٰ ہے کہ دنیا کی کسی زبان میں جانوروں کی عادات و بودوباش کی ایسی جامع کتاب تصنیف نہیں کی گئی۔ میں بڑے زور سے سفارش کرتا ہوں کہ ہر ایک آدمی بالعموم اور طالب علم بالخصوص اس کا ضرور مطالعہ کریں اور دیکھیں کہ خداے تعالیٰ کی وسیع مخلوقات میں یہ … کیا حیرت انگیز طریق زندگی رکھتی ہے۔ فاضل مصنف نے اپنی عمر بھر کی محنت شاقہ اور زربکثیر صرف کرکے اس کو اِس قدر دلکش پیراے میں قلم بند کیا ہے کہ حیرت ہوتی ہے۔ اس کا حجم (۵۰۰) صفحات، تصاویر (۶۰۰)، لکھائی چھپائی کاغذ نہایت اعلیٰ۔ باوجود اس قدر ضخیم ہونے کے قیمت صرف دو روپے بارہ آنے مع محصول ڈاک۔ ملنے کا پتہ: سیّد اکبر علی پروپرائٹرعلمی کتب خانہ ،لاہور جمعہ یکم صفر المظفر ۱۳۳۹ھ…۱۵؍اکتوبر۱۹۲۰ئ،۷/۱۴۲،ص۵۔ سہ شنبہ ۵ صفرالمظفر۱۳۳۹ھ… ۱۹؍اکتوبر۱۹۲۰ئ،۷/۱۴۴،ص۶۔ جمعہ۸ صفر المظفر ۱۳۳۹ھ…۲۲؍اکتوبر۱۹۲۰ئ،۷/۱۴۸،ص۸۔ تاریخ حریت اسلام۱؎ کے متعلق علامہ سر ڈاکٹر محمد اقبال صاحب ایم اے کی راے تاریخ حریت اسلام ایک بہترین تصنیف ہے۔ دلیری اور بے باکی سے اعلان حق کرنا گذشتہ مسلمانوں کی سیرت کا ایک نمایاں پہلو تھا مگر افسوس کہ زمانۂ حاضرہ کے عام مسلمان تو تاریخ اسلامیہ سے بالکل بے بہرہ ہیں۔ اچھے اچھے تعلیم یافتہ موٹے موٹے واقعات سے بھی بے خبر ہیں۔ ان حالات پر یہ کتاب اسلامی لٹریچر میں ایک قابل قدر اضافہ ہے۔ مجھے یقین ہے کہ کوئی مسلمان خاندان اس بیش بہا کتاب کے مطالعے سے محروم نہ رہے گا۔ اسلامی سکولوں اور کالجوں کے کتب خانے خاص طور پر اس کے مطالعے کی طرف توجہ کریں۔ علامہ موصوف کے علاوہ تمام ہندوستان کے نام ور لیڈروں اور مشہور اخبارات کے اڈیٹروں نے اس کتاب [کا] کو ہر مسلمان کے لیے مطالعہ ضروری قرار دیا ہے۔ اس کتاب کے مطالعے سے آپ [کے] زمانۂ رسالتؐ سے لے کر آج تک کے تمام راست باز، حق پرست اور حق گو بزرگوں کے حیرت خیز، جراَت آفرین، ولولہ انگیز، حریت آموز حالات اور عدل و انصاف و مساوات، خدا ترسی اور پاکیزہ نفسی کے حامی بادشاہوں کے سبق آموز واقعات کے علاوہ پرستاران حق و صداقت اور فداے ملت و مذہب عورتوں کے سوانحات درج ہیں۔ قیمت تین روپے، جلد کے خریدار کو محصول ڈاک معاف۔ …محمد حفیظ اللہ قریشی، پروپرائٹر قریشی بک ایجنسی، لاہور۔ یک شنبہ، ۲۶، ربیع الثانی ۱۳۴۴ھ؍۱۵؍نومبر۱۹۲۵،۱۲/۲۴۵،ص۱۔ مشمولہ انوار اقبال، ص۶۹-۷۰، خط بنام فوق۲۷؍اکتوبر۱۹۲۰ئ۔ ہمایوں لاہور علامہ اقبال: رسالہ ہمایوں ہر اعتبار سے اُردو کے بہترین رسالوں میں سے ہے۔ خواجہ حسن نظامی صاحب نے خوب کہا ہے کہ ہمایوں بڑھ رہا ہے، بڑھے گا اور اس کو کوئی شیرشاہ زک نہ دے سکے گا۔ ہمایوں کا حجم ۷۲ صفحے ہے۔ ہر مہینے کم از کم ایک اعلیٰ درجے کی تصویر شائع کی جاتی ہے اور اعلیٰ درجے کے مضامین نظم و نثر درج ہوتے ہیں۔ چندہ سالانہ پانچ روپے۔ ششماہ تین روپے علاوہ محصول۔ ملنے کا پتہ:منیجرہمایوں، ۳۰ مزنگ روڈ، لاہور۔ شنبہ ۱۵رجب المرجب ۱۳۴۴ھ؍ ۳۰؍جنوری۱۹۲۶ئ،۱۳/۲۲، ص۵۔ شنبہ، ۲۲ رجب المرجب ۱۳۴۴ھ؍ ۶؍فروری۱۹۲۶ئ،۱۳/۲۸،ص۵۔ یک شنبہ، ۳۰ رجب المرجب ۱۳۴۴ھ؍ ۱۴؍فروری۱۹۲۶ئ،۱۳/۳۴،ص۳۔ مفتی سیّد عبدالقیوم وکیل جالندھری کی دین کامل پر سر محمد اقبال کی راے دین کامل کی پہلی جلد کا میں نے بغور مطالعہ کیا ہے۔ کتاب نہایت اہم اور مفید مطالب پر حادی ہے۔ مصنف کا طرز بیان ستھرا ہے اور مطالب کی ترتیب بھی نہایت عمدہ اور منطقیانہ ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اس کتاب کی اشاعت بہت نتیجہ خیز ہوگی۔ غالباً آئندہ جلدوں میں مفتی صاحب قرآن کی ان آیات پر مفصل بحث کریں گے جن کا تعلق شرائع سے ہے، مثلاً وصیت میراث وغیرہ۔ میں اس بحث کو دیکھنے کے لیے بے تاب ہوں۔ خدا کرے ان کی باقی جلدیں جلد شائع ہوں۔ کتاب مذکور کی آٹھ جلدیں ہیں، جن میں اسلام کی حقیقت اور اس کے علمی و عملی اُصولوں کے متعلق مفصل بحث کی گئی ہے۔ پہلی جلد چھپ گئی ہے۔ کاغذ لکھائی چھپائی عمدہ ہے۔ مندرجہ ذیل پتے سے مل سکتی ہے: ناظم اشاعت دین کامل، جالندھر شہر پنجاب۔ جمعہ، ۲۰؍ ذی الحجہ ۱۳۴۴ھ؍ ۲؍جولائی۱۹۲۶ئ،۱۳/۱۴۲،ص۱۔ ۴- مکاتیب اسلام اور بولشویت جناب علامہ اقبال کا مکتوب مسلمانوں کا حقیقی لائحۂ عمل قرآن ہے۔۱؎ اخبار زمیندار کی اشاعت مورخہ ۲۳؍جون ۱۹۲۳ء میں شمس الدین حسن کا ایک مضمون۲؎ پروفیسر غلام حسین۳؎ کے متعلق شائع ہوا جس میں اشتراکیت کے عقائد کا ذکر کرتے ہوئے صاحب مضمون نے علامہ اقبال کی ان نظموں کا حوالہ دیا جن میں سرمایہ و محنت کے متعلق اظہارِ خیالات ہوا تھا۔ اس حوالے سے شمس الدین حسن کا منشا عقائد اشتراکیت کا جواز ثابت کرنا تھا۔ علامہ اقبال نے درج ذیل مکتوب اس بارے میں بغرض اشاعت زمیندار کو ۲۴؍جون کو بھیجا: مکرم بندہ جناب اڈیٹر صاحب زمیندار! السلام علیکم! میں نے ابھی ایک دوست۴؎ سے سنا ہے کہ کسی صاحب نے آپ کے اخبار میں یا کسی اور اخبار میں (میں نے اخبار ابھی تک نہیں دیکھا) میری طرف بالشویک خیالات منسوب کیے ہیں۔ چونکہ بالشویک خیالات رکھنا میرے نزدیک دائرہ اسلام سے خارج ہوجانے کے مرادف ہے، اس واسطے اس تحریر کی تردید میرا فرض ہے۔ میں مسلمان ہوں۔ میرا عقیدہ ہے، اور یہ عقیدہ دلائل و براہین پر مبنی ہے؛ کہ انسانی جماعتوں کے اقتصادی امراض کا بہترین علاج قرآن نے تجویز کیا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ سرمایہ داری کی قوت جب حد اعتدال سے تجاوز کرجائے تو دنیا کے لیے ایک قسم کی لعنت ہے لیکن دنیا کو اس کے مضر اثرات سے نجات دلانے کا طریق یہ نہیں کہ معاشی نظام سے اس قوت کو خارج کردیا جائے، جیساکہ بالشویک تجویز کرتے ہیں۔ قرآن کریم نے اس قوت کو مناسب حدود کے اندر رکھنے کے لیے قانون میراث، حرمت ربا اور زکوٰۃ۵؎ وغیرہ کا نظام تجویز کیا ہے اور فطرت انسانی کو ملحوظ رکھتے ہوئے یہی طریق قابل عمل بھی ہے۔ روسی بالشوزم یورپ کی عاقبت اندیش اور خود غرض سرمایہ۔داری کے خلاف ایک زبردست ردعمل ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ مغرب کی سرمایہ داری اور روسی بالشوزم دونوں افراط و تفریط۶؎ کا نتیجہ ہیں۔ اعتدال کی راہ وہی ہے جو قرآن نے ہم کو بتائی ہے اور جس کا میں نے اوپر اشارۃً ذکر کیا ہے۔ شریعتِ حقۂ اسلامیہ کا مقصود یہ ہے کہ سرمایہ داری کی بنا پر ایک جماعت دوسری جماعت کو مغلوب نہ کرسکے اور اس مدعا کے حصول کے لیے میرے عقیدے کی رو سے وہی راہ آسان اور قابل عمل ہے جس کا انکشاف شارع علیہ السلام نے کیا ہے۔ اسلام سرماے کی قوت کو معاشی نظام سے خارج نہیں کرتا، بلکہ فطرت انسانی پر ایک عمیق نظر ڈالتے ہوئے اسے قائم رکھتا ہے اور ہمارے لیے ایک ایسا معاشی نظام تجویز کرتا ہے جس پر عمل پیرا ہونے سے یہ قوت کبھی اپنے مناسب حدود سے تجاوز نہیں کرسکتی۔ مجھے افسوس ہے کہ مسلمانوں نے اسلام کے اقتصادی پہلو کا مطالعہ نہیں کیا، ورنہ ان کو معلوم ہوتا کہ اس خاص اعتبار سے اسلام کتنی بڑی نعمت ہے۔ میرا عقیدہ ہے: فَاَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِہٖ اِخْوَانا۷؎ میں اسی نعمت کی طرف اشارہ ہے، کیونکہ کسی قوم کے افراد صحیح معنوں میں ایک دوسرے کے اخوان نہیں ہوسکتے، جب تک کہ وہ ہر پہلو سے ایک دوسرے کے ساتھ مساوات نہ رکھتے ہوں اور اس مساوات کا حصول بغیر ایک ایسے سوشل نظام کے ممکن نہیں، جس کا مقصود سرمایہ داری کی قوت۸؎ کو مناسب حدود کے اندر رکھنا ہے۔ یورپ اس نکتہ کو نظر انداز کرکے آج آلام و مصائب کا شکار ہے۔ میری دلی آرزو ہے کہ بنی نوع انسان کی قومیں اپنے اپنے ممالک میں ایسے قوانین وضع کریں جن کا مقصود سرمایہ کی قوت کو مناسب حدود کے اندر رکھ کرمذکورہ۹؎ بالا مساوات کی تخلیق و تولید ہو اور مجھے یقین ہے کہ خود روسی قوم بھی اپنے موجود۱۰؎ نظام کے نقائص تجربے سے معلوم کرکے کسی ایسے نام کی طرف رجوع کرنے پر مجبور ہوجائے گی جس کے اُصول اساسی یا تو خالص اسلامی ہوں گے یا ان سے ملتے جلتے ہوں گے۔ موجودہ صورت میں روسیوں کا اقتصادی نصب العین خواہ کیسا ہی محمود کیوں نہ ہو، ان کے طریق عمل سے کسی مسلمان کو ہم دردی نہیں ہوسکتی۔ ہندوستان اور دیگر ممالک کے مسلمان، جو یورپ کی پولیٹیکل ایکانمی پڑھ کر مغربی خیالات سے فوراً متاثر ہوجاتے ہیں، ان کے لیے لازم ہے کہ اس زمانے میں قرآن کریم کی اقتصادی تعلیم پر نظر غائر ڈالیں۔ مجھے یقین ہے کہ وہ اپنی تمام مشکلات کا حل اس کتاب میں پائیں گے۔ لاہور کی لیبر یونین کے مسلمان ممبر بالخصوص اس طرف توجہ کریں۔ مجھ کو ان کے اغراض و مقاصد کے ساتھ دلی ہم دردی ہے مگر مجھے اُمید ہے کہ وہ کوئی ایسا طریق عمل یا نصب العین اختیار نہ کریں گے جو قرآنی تعلیم کے منافی ہو۔ (محمدؐ اقبال، بیرسٹر ایٹ لا، لاہور) زمیندار، ۲۴؍جون ۱۹۲۳ء لاہور۔ مولانا اختر علی خان کی رہائی کے موقع پر علامہ اقبال کا تہنیت کا پیغام عزیز من اختر علی خاں سلّمٰہ‘! تمھاری رہائی اور خاص کر تمھارے استقلال اور ثبات قدم سے مجھے بڑی مسرت ہوئی ہے۔ اپنی والدہ مکرمہ کی خدمت میں میری طرف سے اور میری بیوی کی طرف سے مبارک باد کہنا۔ اللہ کا فضل تمھارے شامل حال ہو۔ والدعا! (محمد اقبال، لاہور) ۱۴؍مارچ۱۹۲۴ء چہار شنبہ، ۱۲ شعبان ۱۳۴۲ھ،۱۹؍مارچ ۱۹۲۴ئ،۱۱/۶۲،ص۴۔ بیگم صاحبہ علامہ اقبال کا انتقال سپاس تعزیت مخدومی جناب اڈیٹر صاحب زمیندار! السلام علیکم!…آپ کے اخبار کی وساطت سے میں ان تمام حضرات کا شکریہ ادا کرتا ہوں جنھوں نے اس موقعے پر مجھ سے اظہار ہمدردی کیا ہے۔ مرحومہ کے علاج میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا گیا مگر تقدیر الٰہی کے سامنے سواے تسلیم کے اور کیا چارہ ہے۔ کافر نتوانی شدنا چار مسلمان شو مخلص! محمد اقبال پنج شنبہ، ۸؍ربیع الثانی ۱۳۴۳ھ؍ ۶؍نومبر۱۹۲۴ئ،۱۱/۲۴۲،ص۳۔ ڈاکٹر کچلو صاحب کی تجویز مصالحت علامہ اقبال اور جناب مسیح الملک کی تجویز مصالحت ڈاکٹر کچلو صاحب نے مجلس خلافت، خدام الحرمین، جماعت اہل حدیث اور حزب الاحناف کے سرکردہ بزرگوں اور رہنمائوں کے سامنے یہ تجویز پیش کی تھی کہ خلافت اور جمعیۃ العلما کے وفود کی واپسی پر حرمین کے سرکردہ اصحاب اپنے موجودہ اعمال اور ان کے نتائج پر غور کریں تاکہ کوئی صورت اصلاح کی پیدا ہوسکے۔ الحمدللّٰہ کہ اس سلسلے میں اس وقت تک جس قدر جوابی مکتوبات موصول ہورہے ہیں اُن سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر ایک حلقے میں مسلمانوں کی موجودہ حالت زار کے متعلق ایک احساسِ درد موجود ہے۔ علامہ اقبال (حکیم اجمل خاں صاحب اور دوسرے اصحاب) کی طرف سے حسب ذیل مکتوب موصول ہوئے ہیں: علامہ سر محمد اقبال صاحب کا مکتوب آپ کا خط ابھی ملا ہے تجویز نہایت معقول ہے اور میں خود اسی خیال میں تھا۔ آپ کا خط آنے سے کچھ پہلے یہاں حزب الاحناف کے چند ممبر موجود تھے جنھیں میں نے اسی مطلب کے لیے بلایا تھا۔ میری راے میں یہ جلسہ انبالہ میں ہونا چاہیے۔ اگر وہاں نہ ہوسکے تو امرتسر موزوں ہے۔ لاہور کی فضا اس کے لیے موزوں نہیں۔ چہار شنبہ، یکم صفر المظفر۱۳۴۴ھ؍ ۱۱؍اگست۱۹۲۶ئ،۱۳/۱۷۵،ص۴۔ [ملک محمد حسین، پنجاب کونسل کی امیدواری سے دست بردار] علامہ اقبال کا شکریہ جناب اڈیٹر صاحب زمیندار! السلام علیکم! آج آپ کے پرچے میں یہ خبر پڑھ کر کہ ملک محمد حسین صاحب صدر بلدیہ لاہور؛ پنجاب کونسل کی امیدواری سے میرے حق میں دست بردار ہوگئے ہیں، مجھے بہت مسرت ہوئی۔ میں ملک صاحب کی اس عنایت فرمائی کا تہ دل سے شکرگزار ہوں اور ان کے اس جذبے کو بے انتہا قابل تعریف سمجھتا ہوں کہ وہ مسلمانوں میں برادریوں کے افتراق کو دیکھنا گوارا نہیں کرتے اور اتحاد المسلمین کے مقصد عزیز کے لیے انتہائی ایثار سے کام لے سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ تمام مسلمانوں کو اسی قسم کی دردمندی اور ایسے ہی ایثار کی توفیق بخشے۔ محمد اقبال لاہور، ۳؍اکتوبر ۱۹۲۶ء ۵؍اکتوبر ۱۹۲۶ئ، ص۲۔ سپاس تبریک علامہ اقبال کی طرف سے۱۱؎ ۵؍دسمبر ۱۹۲۶ء کو علامہ اقبال کی کامیابی کا اعلان ہوا۔ مختلف لوگوں نے مبارک باد کے خطوط اور تار بھیجے۔ ان کے جواب میں آپ نے درج ذیل الفاظ میں زمیندار کی وساطت سے ان کا شکریہ ادا کیا: جن بے شمار احباب نے پنجاب کونسل کی ممبری میں میری کامیابی پر مبارکباد کے تار اور خطوط ارسال فرمائے ہیں، ان کو۱۲؎ فرداً فرداً جواب دینا میرے لیے بے انتہا مشکل ہے، اس لیے زمیندار کی وساطت سے ان سب کا دلی شکریہ ادا کرتا ہوں۔ محمد اقبال ، لاہور زمیندار: ۲۲؍دسمبر ۱۹۲۶ئ، ص۱۔ [صوبہ جاتی خودمختاری کے مسئلے سے اختلاف] ڈاکٹر سر محمد اقبال رکن پنجاب کونسل نے نام نہاد آل انڈیا مسلم لیگ لاہور کے نائب صدر کے نام حسب ذیل مکتوب ارسال کیا ہے جناب عالی! جیسا کہ آپ کو معلوم ہے، مجھے وسطِ مئی میں درد گردہ کی شکایت ہوگئی تھی اور میں بغرضِ علاج دہلی چلا گیا تھا۔ ۲۱؍جون کو واپسی کے بعد سائمن کمیشن کے لیے لیگ کی مطبوعہ یادداشت نظر سے گزری۔ آپ اس حقیقت سے بے خبر نہیں ہیں کہ میں نے بعض مسائل، خصوصاً صوبہ جاتی خود مختاری کے مسئلے سے اسی وقت اختلاف کیا تھا جب کہ جناب صدر کے مکان پر مسودہ مرتب کرنے والی کمیٹی کا پہلا جلسہ ہوا تھا۔ ابتدائی مسودہ بطور آزمائش و امتحان مرتب کیا گیا تھا۔ اس کا مدعا اسی قدر تھا کہ لیگ کے ممبروں کے خیالات اس مسئلے کے متعلق معلوم ہوجائیں۔ اکثر اراکین نے مسودۂ ابتدائی کے زیر بحث مسائل پر اپنے خیالات ظاہر کردیے۔ ان خیالات سے واقف ہوجانے کے بعد اصل مسودے کی ترتیب ہونے لگی لیکن اس اثنا میں بدقسمتی سے مجھے گردہ کی شکایت ہوگئی اور اس وجہ سے اصل مسودے کے متعلق مباحثوں میں شریک ہونے سے مجبور رہا۔ اب لیگ کی مطبوعہ یادداشت کے دیکھنے سے واضح ہوتا ہے کہ اس میں کامل صوبہ جاتی خود مختاری کا مطالبہ نہیں کیا گیا ہے، بلکہ فرویہ طرز کی صوبہ جاتی حکومت کی طلب اور تجویز ہے جس میں قانون قیام امن اور عدالت کے اختیارات بلاواسطہ گورنر کو حاصل ہوں گے۔ مجھے یہ ظاہر کرنے کی زیادہ ضرورت نہیں کہ یہ حکومتِ خواص کی ایک زیر نقاب صورت ہے اور اس سے کوئی تعمیری ارتقا مقصود نہیں۔ میں اپنے اس خیال پر سختی سے قائم ہوں جو مسودے کو ترتیب دینے والی کمیٹی کے پہلے جلسے میں ظاہر کیا تھا کہ آل انڈیا مسلم لیگ کو کامل صوبہ جاتی خود مختاری کا مطالبہ کرنا چاہیے (اور میرے نزدیک یہ تمام مسلمانان پنجاب کا مطالبہ ہے)۔ ان حالات میں مجھے آل انڈیا مسلم لیگ کا سکریٹری نہیں رہنا چاہیے۔ براہ عنایت استعفاقبول فرمائیے۔ آپ کا صادق! محمد اقبال، بیرسٹر رکن پنجاب کونسل ۲۴؍جون ۱۹۲۸ئ،۱۵/۱۳۷،ص۶۔ [نوٹ: اقبال کے استعفا دینے پر چودھری افضل حق کا احتجاج بھی زمیندار کے اسی صفحے پر موجود ہے۔ ] ۵- تار مسلم کانفرنس کے وقار کے تحفظ کا سوال سیّد ذاکر علی صاحب سیکرٹری یوپی مسلم کانفرنس، قیصر باغ، لکھنؤ کے نام برقی پیغام مولانا شفیع داؤدی کے نام علامہ اقبال صدر آل انڈیا مسلم کانفرنس نے سیّد ذاکر علی صاحب سکریٹری یوپی مسلم کانفرنس، قیصر باغ، لکھنؤ کے نام حسبِ ذیل برقی پیغام ارسال فرمایا : وقت بے حد نازک ہے۔ افتراق کا موقع نہ آنے دیجیے۔ مولانا شفیع داؤدی سے مل کر خوش اُسلوبی سے معاملات کو طے کیجیے۔ اکثریت کا مطالبہ یہ ہے کہ اجلاس ملتوی کردیا جائے۔ (اقبال) مولانا شفیع داؤدی کے نام حضرت علامہ نے مولانا شفیع داؤدی سکریٹری آل انڈیا مسلم کانفرنس کے نام حسب ذیل تار بھیجا ہے: نازک حالات پیدا نہ کیجیے۔ استعفا واپس لے لیجیے۔ سیّد ذاکر علی اور دوسرے حضرات سے مل کر بوجہ احسن معاملات کو طے کرلیجیے۔ التوا کا مطالبہ اکثریت کا مطالبہ ہے۔ (اقبال) ایک مختصر بیان لاہور،۲؍جولائی: آج نمائندہ اخبارات نے مسلم کانفرنس کے صدر ڈاکٹر سر محمد اقبال سے ملاقات کی۔ بارہ بجے تک آپ کو مولانا شفیع داؤدی سکریٹری آل انڈیا مسلم کانفرنس کا استعفا موصول نہیں ہوا تھا لیکن تین بجے کے قریب آپ کو استعفا موصول ہوگیا، چنانچہ آپ نے فرمایا کہ مولانا شفیع داؤدی کا استعفا مجھے ابھی موصول ہوا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ مولوی صاحب نے اس میں جلدی کی ہے۔ بہرحال، میں نے ان کو تار دے دیا ہے کہ اپنا استعفا واپس لے لیں۔ مسلم کانفرنس کے مستقبل کے متعلق کوئی راے نہیں دے سکتا ۔ جہاں تک میں نے موجودہ حالت پر غور کیا ہے، میری ابھی تک یہی راے ہے کہ التوا میں فائدہ ہے اور عدم التوا میں نقصان کا اندیشہ ہے۔ اراکین کے جس قدر تار مجھے موصول ہوئے تھے، ان میں یہی لکھا تھا کہ ۲؍جولائی کا اجلاس ملتوی کردیا جائے۔ اس طرح مولانا داؤدی صاحب کو بھی اس قسم کے کثیر التعداد تار موصول ہوئے تھے۔ وہ اس حقیقت کو اپنے مطبوعہ بیان میں تسلیم کرچکے ہیں۔ ان تاروں کی بنا پر میں نے داؤدی کو لکھا تھا کہ التوا انسب معلوم ہوتا ہے۔ ۵؍جولائی۱۹۳۲ئ،ص۵۔ ب-شاعری حقائق و معارف (غزل) علامہ اقبال مسجد تو بنادی شب بھر میں ایماں کی حرارت والوں نے دل۱؎ اپنا پرانا پاپی ہے برسوں میں نمازی بن نہ سکا کیا خوب امیر فصیل کو سنّوسی نے پیغام دیا توچمڑے کا تو حجازی۲؎ ہے پر دل کا حجازی بن نہ سکا تر آنکھیں تو ہوجاتی ہیں پر کیا لذّت اس رونے میں جب خونِ جگر کی آمیزش سے اشک پیازی بن نہ سکا اقبال بڑا اُپدیشک ہے، مَن باتوں میں موہ لیتا ہے گفتار کا یہ غازی تو بنا، کردار کا غازی بن نہ سکا پنج شنبہ، ۱۳رمضان ۱۳۴۰ھ؍ ۱۱؍مئی۱۹۲۴ئ،۹/۷۶،ص۱۔ حقائق و معارف(ظریفانہ) علامہ اقبال (۱) اٹھا کر پھینک دو ڈربے سے باہر۳؎ نئی تہذیب کے انڈے ہیں گندے الکشن، ممبری، کونسل، وزارت۴؎ بنائے خوب آزادی نے پھندے میاں نجّار بھی چھیلے گئے ساتھ نہایت تیز ہیں یورپ کے رندے (۲) پٹی خوب جُمّن کے ہاتھوں نصیبن گئی عُرس میں اور شب بھر نہ آئی نہیں بار صاحب کے ٹیبل پہ اس کو پڑی، روپ بسکٹ کا دھارے، خطائی خدا کی زمین تھی مزارع نے جوتی کمائی مگر چودھری جی نے کھائی۵؎ جمعہ، ۱۴ ؍رمضان۰ ۱۳۴ھ؍ ۱۲؍مئی۱۹۲۴ئ،۹/۷۷،ص۱۔ حقائق و معارف(غزل) از علامہ اقبال گرچہ اندیشہ مارشتۂ خام است ولے مثل زنّار باندام دو عالم بستند ہرزماں تازہ ترے خو بترے می جونیند نقش خو بے کہ شکستند دگرکم بستند عشق از لذتِ نظارہ بدیوار جہاں رخنۂ کردد زِ آب و گل آدم بستند ہمایوں بر عقلِ جہاں بینے۶؎ ترکانہ شبیخوں بہ یک ذرۂ درد دل از علمِ فلاطوں بہ آں فقرکہ بے تیغے صد کشورِدل گیرد از شوکتِ دارا بہ، از فرِّ فریدوں بہ۷؎ دی مغیچۂ بامن اسرارِ محبت گفت اشکے کہ فرو خوردی ازبادۂ گلگوں بہ نیرنگِ خیال عورت کی اہمیت اور پردے کی ضرورت کے متعلق ارشاد ہوا ہے: تاب زن مثل گہر برخویشتن پیچیدہ بہ چشمہ زار زندگانی از نظر پوشیدہ بہ زندگی بحر پرآشوب انست وزن پایاب رو موج و گردانش نگر پایاب اونادیدہ بہ آشکارائی زسر آفرنیش دوری است زانکہ حفظِ جوہر ہر خالق از مستوری است نورجہاں جمعہ، ۱۴؍رجب المرجب ۱۳۴۴ھ؍ ۲۹؍جنوری۱۹۲۶ئ،۱۳/۲۱،ص۱۔ خ…خ…خ حوالے اور حواشی (الف) نثر (۱) تقاریر ۱- گفتار میں یہ سرخی درج نہیں، ص۹ ۲- گفتار ، سنایا، ص۹ ۳- ایضاً: گھڑی گئیں ہیں، ص۹ ۴- گفتار میں اس جگہ یہ عنوان نہیں دیا گیا ہے، ص۱۸ ۵- ایضاً، ۱۹؍نومبر، ص۱۸ ۶- ایضاً، اتحاد و اتفاق میں ہے، ص۱۸ ۷- ایضاً، مختلف ہوتی ہیں، ص۱۸ ۸- ایضاً، آباء ، ص۱۸ (عربی کے بہت سے مصدروں کے آخر میں اصلاً ہمزہ آتا ہے لیکن اُردو میں ایسے الفاظ ہمزہ کے بغیر لکھے جاتے ہیں۔ اس اُصول کے تحت رشید حسن خاں نے آبا (اُردو کیسے لکھیں، ص۱۰۴) کو ہمزہ کے بغیر لکھا ہے۔ ۹- الفتح، ۲۸:۴۸ (ترجمہ: اسے سب دینوں پر غالب کرے) ۱۰- گفتار:دعویٰ پر، ص۱۹ ۱۱- گفتار: کامیاب اور فائز، ص۱۹ ۱۲- اٰلِ عمران، ۱۳۹:۳ (ترجمہ: نہ سستی کرو اور نہ غم کھائو تمھیں غالب آئو گے اگر ایمان رکھتے ہو) ۱۳- النحل، ۱۲۵:۱۶ (ترجمہ: ان سے اس طریقہ پر بحث کرو جو سب سے بہتر ہو) ۱۴- گفتار میںیہ ’’اختتامی کلمہ درج نہیں ہے، ص۱۹ ۱۵- گفتار میں یہاں یہ عنوان درج ہے: ’’جلسۂ عام سے خطاب‘‘، ص۲۰ ۱۶- گفتار:قطرہ کی بھی گنجایش، ص۲۰ ۱۷- گفتار:ایسی، ص۲۰ ۱۸- گفتار: تراشا، ص۲۱ ۱۹- ایضاً، رشیوں نے دی، ص۲۱ (’’تھی‘‘ کا استعمال قابل ترجیح ہے، کیونکہ ماضی بعید کی بات ہورہی ہے) ۲۰- یہ دو الگ الگ آیات ہیں۔ پہلی آیت (القصص: ۸۸:۲۸) ’’وجہہ‘‘ پر ختم ہوتی ہے (ترجمہ: ہر چیز فانی ہے سوا اس ذات کے)، دوسری آیت (قٓ: ۱۶:۵۰) ’’نحن‘‘ سے شروع ہوتی ہے (ترجمہ: ہم دل کی رگ سے بھی زیادہ قریب ہیں) جبکہ ’’وجہہ‘‘ کے بعد ’’اللہ‘‘ زائد ہے۔ ۲۱- گفتار:نام سے، ص۲۱ ۲۲- گفتار:پھوٹ ڈالنے کی مساعی میں رہتے ہیں، ص۲۱ ۲۳- گفتار:اٹھانی پڑے گی۔ ہندو…، ص۲۲ ۲۴- ایضاً، کے باعث ہندوستان کی، ص۲۲ ۲۵- ایضاً، … قدر ہے۔ فروعی، ص۲۲ ۲۶- ایضاً، تصور اچھا ہے، ص۲۲ ۲۷- ایضاً، ایضاً، دقتیں ہوں گی لیکن ص۲۲ ۲۸- ضائع نہ ہوا، ص۲۲ (’’ضائع نہ ہوا‘‘ درست ہے) ۲۹- گفتار:ایسے تعلقات، ص۲۲ ۳۰- ایضاً، …کریں۔ سردی، ص۲۲ ۳۱- گفتار میںدرج یہ درج نہیں ہے: ’’حبیبیہ ہال میں ایک لکچر‘‘ ص۲۲ ۳۲- نقل نویسی کے وقت گفتار میں یہ جملہ درج نہیں کیا گیا … ’’تقریر کی… جلسے کی‘‘ ص۲۲ ۳۳- گفتار: طبیعیات، ص۲۲ (فرہنگ عامرہ (ص۴۰۵) میں بھی املا ’’طبیعات‘‘ ہے) ۳۴- ایضاً، علوم جدیدہ و فنون حاضرہ، ص۲۳ ۳۵- ایضاً، قیاسات پر پرکھنے، ص۲۳ ۳۶- ایضاً، ’’… معرکۂ مذہب و سائنس (ترجمہ از مولانا ظفر علی خاں) اصل میں، ص۲۳ ۳۷- ایضاً، … کے تصادم کا خیال غیر اسلامی ہے۔ قرآن کریم، ص۲۳ ۳۸- ایضاً، فرقۂ معتزلہ، ص۲۳ ۳۹- گفتار (ص۲۴) میں اس جگہ یہ عنوان درج ہے: ’’انجمن حمایت اسلام کے سالانہ اجلاس میں تقریر‘‘ ۴۰- گفتار: مکان و زمان (’’و‘‘ کا اضافہ درست ہے) ۴۱- البقرۃ: ۵۵:۲، ترجمہ: ہم ہرگز تمھارا یقین نہ لائیں گے، جب تک علانیہ خدا کونہ دیکھ لیں۔ ۴۲- الاعراف: ۱۷۳:۷، ترجمہ: اے میرے رب! مجھے اپنا دیدار دکھا کہ میں تجھے دیکھوں۔ ۴۳- پیامِ مشرق: ص۳۸ ۴۴- النحل: ۷۸:۱۶ (ترجمہ: اور تمھیں کان اور آنکھ اور دل دیے کہ تم احسان مانو) ۴۵- گفتار:مسلمانوں نے اپنی، ص۲۵ ۴۶- نقل نویس کی لاپروائی سے یہاں گفتار میں کچھ عبارت چھوٹ گئی ہے: ’’نمایاں کرنے کے لیے… آخری نقطے سے اُلٹا سفر کیا جائے۔‘‘، ص۲۵ ۴۷- گفتار میں درج ذیل عبارت درج نہیں کی گئی: ’’…علامہ کی اس تقریر… مسلمان کیا۔‘‘ ص۲۵ ۴۸- انقلاب میں بھی زمیندار والا عنوان درج ہے۔ گفتار ص۲۶ پر حسب ذیل عنوان مندرج ہے: ’’پنجاب پراونشل مسلم لیگ‘‘، مئی ۱۹۲۷ء ۴۹- انقلاب:محمڈن ہال ۵۰- یہ تقریر انقلاب مورخہ ۴؍مئی ۱۹۲۷ء ص۱ بقیہ ص۵ پر حسب ذیل عنوان کے تحت شائع ہوئی : ’’مخلوط حلقہ ہاے انتخاب اور مسلمانوں کی شرائط ہندو مہاسبھا اور رہنمائوں کی افسوس ناک ذہنیت مفاہمت کرنے سے عملاً احتراز، سر میاں محمد شفیع کا خطبۂ صدارت‘‘ ۵۱- انقلاب میں یہاں یہ عنوان دیا گیا ہے: ’’جداگانہ حلقہ ہاے انتخاب‘‘ ۵۲- گفتار:علاحدگی ہی سے، ص۲۶ ۵۳- ایضاً، جائز حقوق و فوائد محفوظ رہ، ص۲۶ ۵۴- گفتار میں یہاں عبارت کچھ یوں درج ہے: …محفوظ رہ سکتے ہیں اور اسی صورت میں فرقہ وار کش مکش دور ہوسکتی ہے جو وقتاً فوقتاً پیش آتی رہتی ہے اور جو مخلوط و مشترک حلقہ ہاے انتخاب سے پیدا ہوگی، اس لیے لیگ کی…، ص۲۷ ۵۵- ایضاً، …نہ ہو، اس وقت تک مسلمان فرقہ وار، ص۲۶، ۲۷ ۵۶- زمیندار،۴؍مئی ۱۹۲۷ء ص۴ (زمیندار میں اس قرارداد کا صرف اتنا حصہ ہی شائع ہوا، باقی حصہ انقلاب میں شامل ہے) (۲) بیانات ۱- گفتار میں یہ سرخی درج ہے: مسٹر چنتامنی کی قوم پرست جماعت کے متعلق بیان، ص۱۳ ۲- گفتار: استعفیٰ ، ص۱۳ (فرہنگ عامرہ (ص۳۲)، فرہنگ آصفیہ، جلد اوّل (ص۱۶۴) میں بھی یہی املا ہے) ۳- ایضاً، اصحاب ، ص۱۳(’’احباب‘‘ قابل ترجیح ہے۔ استفسار کنندگان زیادہ تر علامہ کے قریبی دوست یا ملاقاتی ہوں گے جن کے لیے ’’اصحاب‘‘ سے زیادہ ’’احباب‘‘ کا لفظ موزوں ہے) ۴- ایضاً،ہونے والا تھا؟ حقیقت…، ص۱۳ ۵- ایضاً، مسلمانوں کی کشیدگی، ص۱۳ ۶- ایضاً، سمجھتا ، ص۱۳(’’سمجھتا‘‘ بہتر ہے) ۷- ایضاً، استعفیٰ، ص۱۳ ۸- ایضاً،کا تار، ص۱۳ ۹- ایضاً، معلوم ہوا ہے کہ، ص۱۴ (۳) تبصرے ۱- مشمولہ انوار اقبال، ص۶۹،۷۰، خط بنام فوق، ۲۷؍اکتوبر۱۹۲۰ئ۔ (۴) مکاتیب ۱- گفتار میں اس جگہ صرف یہ عنوان درج ہے: ’’اسلام اور بالشوزم‘‘، ص۵ ۲- کیا پروفیسر غلام حسین بالشویک ایجنٹ تھے؟ ۳- کامریڈ غلام حسین ۱۹۲۳ء میں بالشویک سازش کے مقدمہ میں گرفتار ہوئے۔ غلام حسین، جو پہلے ایڈورڈ کالج پشاور میں پروفیسر تھے، نومبر ۱۹۲۲ء میں ملازمت سے استعفیٰ دے کر اخبار انقلاب، جو ستمبر ۱۹۲۲ء میں اشتراکی خیالات کی تبلیغ کے لیے نکالا گیا تھا، سے منسلک ہوگئے۔ یہ پرچہ مالی خسارے اور محدود دائرۂ مقبولیت کی وجہ سے بند کردیا گیا۔ تھوڑے دنوں بعد کامریڈ غلام حسین اور چند دیگر آدمیوں کی گرفتاریاں عمل میں آئیں۔ شمس الدین حسن مدیر انقلاب نے اپنے ایک مضمون مورخہ ۲۳؍جون میں لکھا کہ اگر بالشویک خیالات کا حامی ہونا ’’جرم ہے تو پھر ہمارے ملک کا سب سے بڑا شاعر ڈاکٹر سر محمد اقبال کیوں قانون کی زد سے بچ سکتا ہے، کیونکہ بالشویک نظام حکومت کارل مارکس کے فلسفۂ سیاسیات کا لب لباب ہے اور کارل مارکس کے فلسفہ کو عام فہم زبان میں سوشلزم اور کمیونزم کہا جاتا ہے۔ ان حالات میں اگر کوئی تھوڑی سی عقل کا مالک بھی سر محمد اقبال کی خضر راہ اور پیامِ مشرق کو بغور دیکھے تو وہ فوراً اس نتیجے پر پہنچے گا کہ علامہ اقبال یقینا ایک اشتراکی ہی نہیں، بلکہ اشتراکیت کے مبلغ اعلیٰ ہیں…… (زمیندار، ۲۳؍جون ۱۹۲۳ئ، ص۳) ۴- گفتار: ایک اور دوست، ص۶ ۵- گفتار: قانونِ میراث اور زکوٰۃ، ص۷ ۶- گفتار: افراط و تقریظ، ص۷ ۷- اٰلِ عمران:۳ (ترجمہ: اس کے فضل سے تم آپس میں بھائی ہوگئے) ۸- گفتار: سرمایہ کی قوت ہے، ص۷ ۹- نقل نویسی کی لاپروائی سے گفتار میں یہ عبارت چھوٹ گئی ہے۔ … مناسب حدود کے اندر رکھ کر مذکورہ بالا مساوات… ص۷ ۱۰- گفتار: موجودہ، ص۷ ۱۱- گفتار:یہاں صرف ’’سپاس تبریک‘‘ درج ہے، ص۱۹ ۱۲- گفتار:کا، ص۱۹ (ب) شاعری ۱- بانگ درا، من، ص۲۹۱ ۲- ایضاً، تو نام و نسب کا حجازی ہے، ص۲۹۱ ۳- ایضاً، ظریفانہ، اُٹھاکر پھینک دو باہر گلی میں،ص۲۹۰ ۴- ایضاً، صدارت،ص۲۹۰ ۵- باقیات اقبال، ص۴۶۲ سرود رفتہ،ص۲۳۱ ۶- زبور عجم، برعقلِ فلک پیماترکانہ…ص۲۳/۴۱۵ ۷- یہ شعر نمبر ۳ پہ ہے۔ ض…ضض…ض باب :۲ ز تصانیفِ اقبال ۱- مضامین نذرِ اقبال جناب عرشی کے گلہ آفریں پیام کا اہل دل کو منت گزار ہونا چاہیے کہ علامہ اقبال کو اپنا طلسمِ سکوت توڑتے ہی بنی اور چرخ حقہ باز کے شعبدوں کو اپنی آنکھوں دیکھ لینے کے باوجود گفتگو کا دروازہ انھوں نے بند نہ کیا، بلکہ چشم عشق کی طرح کھول دیا۔ اشاعت امروزہ میں کسی دوسری جگہ اُن کے ایک قصیدے کے چند ابتدائی اشعار درج ہیں جو سوز ناتمام ہے۔ جب یہ نظم ختم ہوکر ان اوراق میں چھپے گی تو گریبان و دامن کا رہاسہا فرق بھی جاتا رہے گا۔ علامہ اقبال پیغام بھیجتے ہیں کہ مضامین تازہ کے انبار کہاں سے لاکر لگاؤں؟ وہی اگلی باتیں ہیں جو سیکڑوں دفعہ دہرائی جاچکی ہیں، وہی پرانا دکھڑا ہے جو ہزار بار دہرایا جاچکا ہے۔ اسرار خودی اور رموز بے خودی میں کون سی ایسی حقیقت ہے جو بے نقاب نہیں کی جاچکی۔ کون سا ایسا نکتہ ہے جو صراحتاً یا کنایتہ بیان نہیں کیا جاچکا۔ بجا ارشاد ہوا، لیکن کبھی دریا کے ذخار کا بہاؤ بھی رکا ہے اور کہیں اس کی روانی سے نگاہ کو یکسانیت کی شکایت ہوئی ہے۔ آپ شوق سے وہی پرانی باتیں بیان کیجیے لیکن الفاظ تو نئے ہوں گے، بندشیں تو اچھوتی ہوں گی، ترکیبیں تو نرالی ہوں گی۔ عرشی اور فیروز طغرائی اور نیاز نئی شراب نہیں مانگتے، وہی مئے خانہ ساز دیجیے جس کا سرور ہی اس کی کہنگی ہے۔ ہاں! ساقی گری کا اتنا کرشمہ ضرور دکھائیے کہ کبھی ہندوستان کے سبوچہ سفالین میں بھر دیجیے، کبھی صراحی چینی میں اور کبھی شیشہ حلبی میں۔ شراب تو وہی ہوگی لیکن ظروف کا تنوع مزہ دے جائے گا۔ مثلاً: پرسوں شام ہی آپ نے آتش سیال کا ایک گھونٹ ہمیں پلایا جس کی کیفیت اب تک دل و دماغ میں ہے: ؎ تا بردید لالۂ آتش نژاد از خاک شام بازسیرابش ز خون ناب مسلماں کردہ اند چند بوندیں اس لعل ناب کی مذاق میں اور ٹپکائیے کہ صبوحی نوش ترس رہے ہیں۔ قصیدہ جلد ختم کیجیے اور یہ نظم بھی جلدی مرحمت ہو۔ سہ شنبہ، ۱۳؍رمضان۱۳۳۸ئ؍ یکم جون ۱۹۲۰ئ،۷/۳۵،ص۱۔ پیام مشرق علامہ اقبال کی تازہ تصنیف ماہ گذشتہ میں ہمارے مکرم جناب چودھری محمد حسین صاحب ایم اے کا ایک فاضلانہ مضمون علامہ اقبال کی تازہ تصنیف پیامِ مشرق کے متعلق شائع ہوچکا ہے جس سے قارئین کرام کو کسی قدر اندازہ ضرور ہوگیا ہوگا کہ حضرت علامہ کا تازہ علمی کارنامہ زندگی کے کتنے ہنگامے اور ولولۂ حیات کی کتنی شورشیں اپنے اندر رکھتا ہے۔ چودھری صاحب نے بتایا ہے کہ جس زمانے میں جرمنی کا مشہور شاعر گوئٹے پیدا ہوا، اہل جرمنی تعبید و غلامی کی پیچ در پیچ زنجیروںمیں جکڑے ہوئے تھے۔ ان زنجیروں کو توڑنے کے لیے مبدئِ فیاض نے ذہن رسا اور فکر فلک پیما و دیعت کیا اور اس نے زوال و ذلت میں ڈوبی ہوئی قوم کو جھنجوڑ جھنجوڑ کر جگانا شروع کیا۔ اتنے میں دیوانِ حافظ کا ترجمہ جرمن زبان میں شائع ہوا۔ گوئٹے نے اسے دیکھا۔ اظہار جذبات کے مشرقی انداز نے ایک نیا راستہ اس کے سامنے کھول دیا، چنانچہ پانچ چھے برس کے اندر اس نے ’’مغربی دیوان‘‘ کے نام سے ایک مجموعہ مکمل کرکے شائع کیا جس میں مغرب کے غم و اندوہ کی داستان مشرق کو سنائی گئی تھی۔ علامہ اقبال نے ’’مغربی دیوان‘‘ کے جواب میں پیام مشرق کے نام سے ایک مجموعہ مرتب فرمایا ہے۔ جس طرح مغرب کے زوال و انحطاط پر گوئٹے نے نہ صرف نوحہ خوانی کی بلکہ اس زوال کے خلاف سرکشی و بغاوت کا جھنڈا بلند کیا، اسی طرح اقبال نے مشرق کی ذلت و غلامی پر نہ صرف آنسو بہائے، بلکہ اس غلامی کو پیغام پیکار دیا ہے، اور صرف یہی نہیں کہ مشرق کی مصیبتوں کو مغرب کے سامنے کھول کر رکھ دے، بلکہ خود اہل مغرب سے بھی کہا ہے کہ جو وتیرے تم نے اختیار کررکھے ہیں، وہ تمھاری تباہی و بربادی کا پیغام ہیں۔ تم اسے تہذیب و تمدن کہتے ہو مگر یہ چیز فی الحقیقت تمھاری تمام تعمیر کو اندر ہی اندر دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے۔ پیام مشرق ابھی مرتب صورت میں ہمارے سامنے نہیں آئی لیکن اس کے متعلق جو باتیں ہمیں معلوم ہوئی ہیں، وہ اپنے قارئین کرام تک پہنچا دینا ضروری سمجھتے ہیں۔ پیام مشرق کتابی تقطیع کے قریباً سوا دو سو صفحوں پر ختم ہوگی اور چند روز کے بعد معرض اشاعت میں آنے والی ہے۔ سب سے زیادہ قابل ذکر بات یہ ہے کہ ایشیا کے امیدگاہ، ضیغمِ اسلام، اعلیٰ حضرت شہر یار غازی امیر امان اللہ خان خلد اللہ کے نام نامی پر معنون کیا ہے اور اس تقریب سے شہریار غازی کے حضور میں سیاسیات عالیہ اور روح اسلام کے متعلق ایسے ایسے نکات و معارف ارشاد ہوئے ہیں کہ شاید اسکندر اعظم کو ارسطو سے بھی میسر نہ آئے ہوں گے۔ پہلا حصہ ڈیڑھ سو رباعیات پر مشتمل ہے، دوسرے میں ڈیڑھ سو قطعات ہیں۔ اس کے بعد تہذیب مغرب، تحریکات مغربی اور فلسفۂ مغربی کے متعلق چند نہایت عالی پایہ نظمیں ہیں۔ آخر میں نغمۂ تغزل کی نورپاشیاں ہیں اور ہم نہایت وثوق سے کَہ سکتے ہیں کہ اس تغزل کا بانکپن بڑے بڑے ایرانی اساتذہ کے نتائج تخیل کو طاق نسیاں پر رکھوا دے گا، کیونکہ ان لوگوں نے ثباتی دنیا، غم ہجراں، فغان و زار نالی اور شکایت زمانہ پر تو بہت کچھ لکھا لیکن زندگی کی قدر و قیمت، ہنگامہ حیات کی شورش اور عمل کی جہاں افروزی سے تقریباً سب ناآشنا رہے۔ اقبال کی غزلیں اپنے معانی و مطالب کے علو و عظمت کی وجہ سے بالکل جدید معلوم ہوں گی۔ پیام مشرق کی کاپیاں لکھی جاچکی ہیں، اب کتاب چھپ رہی ہے، غالباً آٹھ دس دن کے اندر اندر مکمل ہوکر شائع ہوجائے گی، قیمت غالباً تین روپے کے قریب ہوگی۔ یہ مجمل سا مضمون محض اس لیے لکھا گیا ہے کہ قارئین کرام اپنے مایہ ناز شاعر اور نام ور حکیم کے خیالاتِ تازہ سے بہرہ اندوز ہونے کے لیے تیار ہوجائیں۔ ہمارا ارادہ ہے کہ جب پیام مشرق چھپ کر ہمارے سامنے آجائے تو ہم اس کو حقیقی معنوں میں روشناس کرانے کی غرض سے ایک سلسلۂ مضامین لکھیں گے۔ قارئین کرام کو منتظر رہنا چاہیے۔ پنج شنبہ، یکم رمضان۱۳۳۸ھ؍ ۱۹؍اپریل۱۹۲۳ئ،۱۰/۸۷،ص۲۔ پیام مشرق پیر مغرب شاعرِ المانوی آں قتیلِ شیوہ ہاے پہلوی بست نقشِ شاہدانِ شوخ و شنگ داد مشرق را سلامے از فرنگ در جوابش گفتہ ام پیغامِ شرق ماہ تابے ریختم برشام شرق۱؎ علامہ اقبال کی تازہ ترین تصنیف پیام مشرق کے متعلق ان صفحات پر ایک سے زائد بار تذکرہ آچکا ہے۔ ہم نے اس کی زیور طبع سے آراستگی و پیراستگی کی اطلاع دیتے ہوئے وعدہ کیا تھا کہ اس کے متعلق تفصیل کے ساتھ کسی دوسرے موقعے پر اظہار خیالات کریں گے۔ چنانچہ آج اس وعدے کو پورا کرتے ہیں۔ یہ ابتدا ہی میں عرض کردینا مناسب ہوگا کہ یہ مضمون اس نادرۂ روزگار مجموعۂ حقائق و معارف کے محاسن و مطالب کی تمام و کمال وضاحت سے قاصر ہے اور نہ ایک آدھ مضمون اس کے حقیقی خط و خال کی زندگی پرور اور حیات آموز خوبیوں کے وضوح و انشراح کے لیے کافی ہوسکتا ہے۔ اس کے لیے ایک طویل اورمبسوط سلسلہ مضامین کی ضرورت ہے اور ہمارے پیش نظر فرصت کی گنجائش اس بسط و تفصیل کی متحمل نہیں۔ اس مضمون کا حقیقی مقصد یہ ہے کہ قارئین کرام کو پیام مشرق کی حیثیت و اہمیت کا ایک عام اندازہ ہوجائے اور وہ یہ سمجھ لیں کہ علامہ ممدوح کے ندرت زاتخیل نے اس سرزمین میں کیا کیا گل کاریاں کی ہیں اور حقائق و معارف حیات کی کن کن گہرائیوں میں غواصی کی ہے۔ پیام مشرق سات حصّوں پر مشتمل ہے۔ پہلا حصّہ دیباچہ ہے جس میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ کن وجوہ و اسباب کی بنا پر گوئٹے؛ خواجہ حافظ کے دیوان کے ترجمے سے متاثر ہوا اور اس نے خواجہ کے انداز کو اختیار کرتے ہوئے اپنا ’’مغربی دیوان‘‘ مرتب کیا، جس کے جواب میں زیر انتقاد کتاب لکھی گئی ہے۔ دیباچہ نثر میں ہے۔ دوسرے حصّے سے نظم کا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔ اس حصّے کو ’’پیش کش‘‘ کے نام سے موسوم کرنا موزوں ہوگا، کیونکہ اس میں پیام مشرق کو ضیغم اسلام، اعلیٰ حضرت امیر امان اللہ خان غازی تاجدار دولت مستقلہ افغانستان کے نام نامی پر معنون کیا گیا ہے۔ ہم اس پیش کش کے نصف سے زائد اشعار اپنی ۴؍ مئی کی اشاعت میں ہدیہ قارئین کرام کرچکے ہیں جن سے اندازہ ہوگیا ہوگا کہ مشرقی دنیا کے اس سب سے بڑے فلسفی، احقائق حیات کے اس سب سے ماہر اور دور حاضر کے اس سب سے بڑے شاعر نے کس اچھوتے اور دلکش انداز میں اعلیٰ حضرت امیر غازی کو عملی سیاسیات کے حقائق بتلائے ہیں اور کس طرح انھیں افغانوں کی غیور قوم کی تہذیب و ترتیب پر متوجہ کیا ہے۔ تیسرے حصّے سے اصل کتاب شروع ہوتی ہے۔ یہ حصہ ’’لالۂ طور‘‘ کے نام سے موسوم ہے اور (۸۰) صفحات پر مشتمل ہے۔ اس میں (۱۵۵) رباعیات ہیں جن میں حکمت، فلسفہ، تمدن، معاشرت یا بہ اصطلاحِ جامع: زندگی اور حیات کے اسرار بیان کیے گئے ہیں اور کوئی رباعی ایسی نہیں ہے جو از سر تاپا درس عمل اور درس حیات نہیں ہے، مثلاً ارشاد ہوتا ہے: ؎ تنے پیدا کن از مشتِ غبارے تنے محکم تراز سنگیں حصارے دورنِ او دلِ درد آشناے چو جوے درکنارِ کوہسارے۲؎ ہم نہیں سمجھتے کہ زندگی کی اس سے بہتر اور کیا تفسیر ہوسکتی ہے؟ ایک جگہ فرماتے ہیں : ؎ دلِ بے باک را ضرغام، رنگ ست دلِ ترسندہ را آہو پلنگ است۳؎ اگر بیمے نہ داری بحر صحرا ست اگر ترسی بہر موجش نہنگ است۳؎ ہندوستان کی سرزمین میں جس شخص کی نظر سب سے پہلے وحدت اسلامی کی حقیقت پر پہنچی اور جس نے سب سے پہلے یہاں وطن، نسل، رنگ اور خون کے غیر اسلامی رشتوں کو توڑ کر مذہب کی صحیح اسلامی اساس قومیت کی دعوت دی، وہ علامہ اقبال ہیں۔ آج ہندوستان سے مختلف حصوں میں وحدت اسلامی کی دعوت کے جو بڑے بڑے آتش کدے روشن ہیں، وہ سب اپنی تپش، سوز اور حرارت کے لیے علامہ ممدوح کے مرہون منت ہیں۔ مسلمان بچّوں کے قومی گیت سے لے کر مثنویوں تک علامہ ممدوح کی ایک نظم بھی ایسی نہیں جس میں یہ دعوت مؤثر سے مؤثر انداز میں موجود نہ ہو۔ پیام مشرق کے زیر انتقاد حصّے میں اس کے متعلق ارشاد ہوتا ہے: ؎ تواے کودک منش خود را ادب کن مسلمان زادۂ؟ ترکِ نسب کن برنگ احمرِ و خوں و رگ و پوست عرب نازد اگر ترکِ عرب کن۴؎ نہ افغانیم و نے ترک و تتاریم چمن زادیم و ازیک شاخساریم تمیزِ رنگ و بو برما حرام است کہ ما پروردۂ یک نو بہاریم۵؎ بہرحال، ہم عرض کرچکے ہیں کہ مفصل انتقاد کا موقع نہیں ہے، اس لیے محض اشارات پر اکتفا کررہے ہیں اور صرف ایک رباعی اور یہاں درج کرتے ہیں جو علامہ ممدوح کے اشعار کی حقیقت کا آئینہ ہے۔ کاش مخاطب سمجھے! فرماتے ہیں: ؎ بخود باز آورد رندِ کہن را مئے برنا کہ من درجام کردم۶؎ من ایں مے چوں مغانِ دورپیشیں نہ چشمِ مستِ ساتی وام کرام۶؎ پیام مشرق کے چوتھے حصے کا نام ’’افکار‘‘ ہے جس میں مختلف مضامین پر چھوٹی بڑی نظمیں ہیں۔ بڑی بڑی نظموں میں سے ’’تسخیرِ فطرت‘‘،’’ نواے وقت‘‘، ’’بہار‘‘، ’’دنیاے عمل‘‘، ’’زندگی‘‘ وغیرہ نہایت نادر چیزیں ہیں۔ یہ حصہ تقریباً ۴۰ صفحات پر مشتمل ہے۔ بہار اور شبنم پر جو نظمیں ہیں، ان کی بحریں بالکل نئی ہیں، مثلاً ’’فصلِ بہار‘‘ کا پہلا بند یہ ہے: ؎ خیز کہ در کوہ و دشت خیمہ زد ابرِ بہار مستِ ترنّم ہزار طوطی و درّاج سار بر طرفِ جویبار کشت گل و لالہ زار چشمِ تماشا بسیار خیز کہ درکوہ و دشت، خیمہ زد ابرِ بہار۷؎ ’’غلامی‘‘ کے متعلق ارشاد ہوتا ہے: ؎ آدم از بے بصری بندگیٔ آدم کرد گوہرے داشت ولے نذرِ قباد و جم کرد یعنی از خوے غلامی ز سگاں خوار تر است من ندیدم کہ سگے پیشِ سگے سرخم کرد۸؎ پانچواں حصہ ’’مے باقی‘‘ کے نام سے موسوم ہے۔ یہ غزلیات پر مشتمل ہے جن میں سے ایک غزل ہم اپنی کسی قریبی اشاعت میں شامل کرچکے ہیں۔ اس سے اندازہ ہوگیا ہوگا کہ ان کے نہج، انداز اور مطالب کی حالت کیا ہے۔ خود علامہ ممدوح نے ایک مقام پر اپنی غزلوں کی حقیقت نہایت عمدہ طریقے پر بیان کی ہے، فرماتے ہیں: ؎ بایں بہانہِ دریں بزم محرمے جویم۹؎ غزل سرایم و پیغامِ آشنا گویم۹؎ اس حصّے میں بھی زندگی کے وہ تمام حقائق و اسرار بدرجہ اتم موجود ہیں جو نظموں اور رباعیات کی جان ہیں۔ اگر رباعیات میں یہ ارشاد ہوتا ہے کہ ’’بہ دریا غلط و با موجش درآویز‘‘ اگر نظموں میں یہ لکھا گیا ہے کہ ’’اگر خواہی حیات اندر خطرزی‘‘ تو غزلیات کے سفینہ میں بھی یہی گوہر ہیں: ؎ بہ کیش زندہ دلاں زندگی جفاطلبی است سفر بہ کعبہ نکردم کہ راہ بے خطر است۱۰؎ چو موج سازِ وجودم زسیلِ بے پرو است گماں مبرکہ دریں بحر ساحلے جویم۱۱؎ رمزِ حیات جوئی؟ جز در تپش نیابی درقلزم آرمیدن تنگ است آبجو را۱۲؎ تنش از سایۂِ بال روے لرزہ می گیرد۱۳؎ چوشاہیں زادۂ اندر قفس بادانہ می سازد کہیں کہیں ان موتیوں کی آب و تاب بہت تیز ہوگئی ہے: ؎ تیروسنان و خنجر و شمشیرم آرزوست بامن میا کہ مسلک شبیرم آزرو ست۱۵؎ گفتند لب بہ بند و ز اسرارِ مامگو گفتم کہ خیر! نعرۂ تکبیرم آرزوست۱۴؎ چھٹے حصّے کا نام ’’نقش فرنگ‘‘ ہے جس میں مغربی سیاسیات، مغربی مسائل، مغربی شعرا، مغربی حکما وغیرہ پر نظمیں ہیں اور شوپن ہار و نیٹشا، ٹالسٹاے، کارل مارکس، ہیگل، آئین سٹائن، برگساں، کانٹ وغیرہ کے فلسفے اور بائرن، براؤننگ وغیرہ کی شاعری کی حقیقت کو اس طرح ایک ایک دو دو شعروں میں بیان کردیا ہے کہ جن لوگوں کی عمریں ان سے ایک ایک شخص کی صفات کے مطالعے میں کامل انہماک و اشتعال کے ساتھ بسر ہوچکی ہیں، وہ بھی ان کا خلاصہ اس سے بہتر بیان نہیں کرسکے۔’’نیٹشا‘‘ کے متعلق ایک مقام پر دو شعر لکھے ہیں: ؎ ز سستیٔ عناصرِ انساں دلش تپید فکرِ حکیم پیکرِ محکم تر آفرید۱۶؎ افگند درفرنگ صد آشوبِ تازۂ دیوانۂ بکار گہِ شیشہ گر رسید۱۵؎ نیٹشا کے متعلق اس سے بہترکیا لکھا جاسکتا تھا۔ دوسرے مقام پرنیٹشا کی ساری زندگی کو ایک شعر میں بند کردیا ہے: ؎ آنکہ برطرحِ حرم بتخانہ ساخت قلبِ او مومن، دماغش کافر است۱۶؎ نقش فرنگ میں ’’جمعیۃ الاقوام‘‘ کے متعلق جو شعر لکھے ہیں، وہ بھی بطور خاص قابل ملاحظہ ہیں اور غالباً جمعیۃ الاقوام کے آغاز سے اس وقت تک کسی چھوٹے بڑے مضمون نظم و نثر میں اس کی حقیقت اس سے بہتر الفاظ میں بیان نہیں ہوئی۔ فرماتے ہیں: ؎ برفتد تا روشِ رزم دریں بزمِ کہن درد مندانِ جہاں طرح نوانداختہ اند۱۸؎ من ازیں بیش ندانم کہ کفن دزدے چند بہرِتقسیم قبور انجمنے ساختہ اند۱۷؎ پیام مشرق کے ساتویں حصے کا نام ’’خردہ‘‘ ہے جس میں متفرق اشعار ہیں۔ یہ پیام مشرق کا نامکمل سا خاکہ ہے جس سے قارئین کرام کو اس کی حقیقت و اہمیت کا اندازہ کرنے میں کچھ مدد مل سکے گی۔ اگر آج اقبال یورپ کے کسی ملک میں ہوتا تو اس کی ایک ایک نظم موتیوں سے تلتی لیکن قدرت نے اسے ایک غلام، محکوم اور اپنی اصل سے دور افتادہ قوم کو حقیقی زندگی کی راہ دکھانے اور اسے اپنا بھولا ہوا سبق یاد کرانے کے لیے ہندوستان میں پیدا کیا۔ وہ موتیوں کا طالب نہیں ہے، گوہروں کا آرزو مند نہیں ہے، دولت اور عزوجاہ کا خواہاں نہیں ہے، صرف یہ چاہتا ہے کہ اس کی بربط وجود سے زندگی کی جو نوا نکلتی ہے، لوگ اس کی حقیقت کو سمجھیں اور وہ جو صحیح اور سچا اسلامی راستہ دکھا رہا ہے، اس کی پیروی کریں۔ اغیار، علامہ ممدوح کے حیات پرور افکار عالیہ سے استفادہ کررہے ہیں اور اسرار خودی کا انگریزی ترجمہ اس وقت شاید تیسری دفعہ چھپ رہا ہے۔ کاش ان لوگوں کی بھی آنکھیں کھلیں جن کے لیے یہ چیزیں لکھی گئی ہیں اور جن کی خاطر علامہ ممدوح خون جگر کھارہے ہیں۔ پیام مشرق نہایت نفیس کاغذ پر نہایت عمدہ، دیدہ زیب اور دلکش انداز میں چھپی ہے۔ قیمت غیر مجلّد ہے۔ مبارک علی صاحب تاجر کتب، لوہاری دروازہ، لاہور سے طلب فرمائیے۔ پنج شنبہ، ۱۴؍شوال۱۳۴۱ھ؍ ۳۱؍مئی۱۹۲۳ئ،۱۰/۱۲۰،ص۲۔ اسرارِ خودی اور رموزِ بے خودی علامہ اقبال کی دونوں گراں پایہ مثنویاں نہ صرف مسلمانان ہند بلکہ تمام دنیاے اسلام سے جو خراج تحسین حاصل کرچکی ہیں وہ محتاج تعارف نہیں اور حقیقت یہ ہے کہ اس فتنہ و آشوب کے زمانے میں صحیح روح اسلامی کی تعلیم اور اسرار حیات کی تفہیم کے لیے جو توفیق مبدۂ فیاض کی طرف سے علامہ ممدوح کو ودیعت کی گئی ہے، بہت کم شعرا و فلاسفر میں پائی جاتی ہے۔ ان دونوں مثنویوں سے ادبیات اسلامی میں نہایت گراںقدر اضافہ ہوا ہے۔ علامہ اقبال کی تصانیف اسرارخودی، رموز بے خودی اور پیام مشرق؛ تینوں زبان کی صفائی و سلاست کا نمونہ ہیں، ژولیدگی بیان یا غیر مانوس الفاظ و تراکیب کا کہیں نام و نشان تک نہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ عام تعلیم یافتہ مسلمان ان حیات افروز اور زندگی آموز کتابوں کو پڑھیں اور صحیح اسلامی تڑپ سے آشنا ہوں۔ ضرورت ہے کہ اسلامی مدارس کی اعلیٰ جماعتوں میں علامہ کی تصانیف نصاب فارسی میں داخل کی جائیں۔ جامعہ عثمانیہ حیدرآباد دکن کو اس بارے میں خاص توجہ کرنی چاہیے۔ جمعہ، ۵؍ذی الحجہ ۱۳۴۱ھ؍ ۲۰؍جولائی۱۹۲۳ئ،۱۰/۱۶۳،ص۳۔ علامہ اقبال کا اُردو کلام چند روز ہوئے ہم نے جناب علامہ اقبال کی خدمت اقدس میں عرض کیا تھا کہ جناب کے اُردو کلام کا اشتیاق و انتظار عام ہے، اس لیے اس کی ترتیب و اشاعت میں جہاں تک ہوسکے، عجلت سے کام لیجیے۔ ہمارے مکّرم دوست چودھری محمد حسین صاحب ایم اے نے ہمارے اس شذرے کے جواب میں جو کچھ تحریر فرمایا، اس سے یہ مترشح ہوتا تھا کہ گویا ہم علامہ ممدوح کے فارسی کلام کی اشاعت غیر ضروری سمجھتے ہیں۔ چودھری صاحب کا یہ خیال قطعاً صحیح نہیں ہے۔ ہم علامہ اقبال کے فارسی کلام کو تمام دنیاے اسلام کے لیے باعثِ رحمت اور موجبِ عروج و ترقی سمجھتے ہیں اور اس حقیقت سے باخبر ہیں کہ اُردو کلام سے صرف مسلمانان ہند ہی بہرہ اندوز ہوسکیں گے، لیکن ہم نے زبان فارسی سے ہندوستان کے مسلمانوں کی بے التفاتی کو مدنظر رکھ کر صرف یہ عرض کیا تھا کہ فارسی کلام پڑھنے اور سمجھنے والوں کی نسبت اُردو کے شوقین زیادہ ہیں اور غالباً اس حقیقت کا بطلان چودھری صاحب نہیں کرسکتے۔ لازم ہے کہ مسلمان علامہ اقبال کا فارسی کلام سمجھنے کے لیے فارسی میں قابلیت پیدا کرنے کی کوشش کریں، کیونکہ محض زبان سے بے خبر ہونے کے باعث وہ اس صدی کی دوتین بہترین تصانیف کا لطف اُٹھانے سے محروم رہے جاتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی جناب علامہ اقبال کو چاہیے کہ اپنا وہ اُردو کلام، جو فی الحقیقت علامہ ممدوح کی تمام تعلیمات اسلامی کا خزینہ دار اوّل ہے، مجموعے کی صورت میں شائع کردیں تاکہ وہ لاکھوں مسلمان، جو فارسی میں قابلیت پیدا کرنے کی طاقت و فرصت نہیں رکھتے، اس سے مستفید ہوں۔ ملک و قوم کی خدمت کے ساتھ ساتھ شاعر کا ایک فرض زبان کی خدمت بھی ہے۔ علامہ اقبال نے زبان اُردو کی شاعری کو چار چاند لگادیے ہیں اور کوئی وجہ نہیں کہ ہندوستان؛ اقبال کے اُردو کلام سے محروم رہے۔ بہرکیف، ہمیں چودھری صاحب کی تحریر سے یہ معلوم کرکے بہت مسرت ہوئی کہ علامہ ممدوح نے اپنا اُردو کلام مرتب فرمانا شروع کردیا ہے اور غالباً وہ ۱۹۲۴ء کے نصف اوّل میں چھپ کرشائع ہوجائے گا۔ اللہ تعالیٰ علامہ کو اس ارادے میں کامیاب فرمائے !آمین! چہارشنبہ، ۸؍جمادی الاوّل۱۳۴۲ھ؍۲۶؍دسمبر۱۹۲۳ئ،۱۰/۲۸۹،ص۲۔ علامہ اقبال کا اُردو کلام بانگ درا دورہا باید کہ تایک مردِ حق پیدا شود بوعلی اندر خراساں یا اویس اندر قرن (۱) قدرت جس طرح عام ہستیوں کی تخلیق میں حد سے زیادہ کشادہ دل بلکہ مُسرف ہے، اسی طرح خاص، نادر اور بلندپایہ جوہروں سے عالم وجود کو آراستہ و پیراستہ کرنے میں انتہائی بخل و امساک سے کام لیتی ہے۔ قرنیں بسر ہوجاتی ہیں، صدیاں گزر جاتی ہیں، دور منقضی ہوجاتے ہیں جب جاکر نگار خانۂ وجود میں ایک آدھ تصویر ایسی بنتی ہے جس کی دلکشی و دلربائی عام انسانی سطح سے بالا ہو۔ اس کے بعد دنیا صدیوں تک اسی آئینے کو سامنے رکھ کر اپنے چہرے کی آرائش و زیبائش کا سامان کرتی رہتی ہے۔ انیسویں صدی کے ساتویں عشرہ کے اختتام پر قدرت نے پنجاب کی سرزمین کو اسی نوع کی ایک بخشش خاص سے مشرف و مفتحز فرمایا اور سیالکوٹ کی خاک سے وہ گراں بہا گوہر نکلا جس کی عدیم النظیر آب و تاب ایشیا اور عالم اسلام کے لیے صدیوں تک زندگی کا پیغام بننے والی تھی۔ یہ گراں بہا گوہر اقبال تھا (متع اللہ الاسلام والشرق لطول حیاۃ و حفظ بقائۃ) جس طرح خاص ہستیوں کی تخلیق میں قدرت ایک شیوہ خاص کی پابند ہے، اسی طرح ان ہستیوں کے دائرہ ہاے عمل کی تخصیص و تعین میں بھی اس کے حکم و مصالح خاص ہیں۔ جب وہ دقیانوسی تمدن اور دقیانوسی نظام ہاے حکومت کے بتوں کو ریزہ ریزہ کرکے دنیا کو نئے جوش اور نئے ولولوں سے معمور کرنا چاہتی ہے تو کار سیکا کے ایک گمنام گھرانے سے نپولین پیدا ہوجاتا ہے۔ جب وہ عقائد و اعمال کے باغ کی قوت نمومیں ازسر نو زندگی اور حرکت کے خاص سامان پیدا کرنا چاہتی ہے، اس باغ کی بے طور بڑھی ہوئی شاخوں کی قطع و بریدسے فطرت کے مقررہ سلیقہ آرائش کا پابند بنانا چاہتی ہے مرکز سے ہٹی ہوئی جماعتوں کو نئے سرے سے رشد و ہدایت کی سچی تڑپ اور استقامت و عزیمت کے سچے جذبات سے مشرف و سرفراز کرنا چاہتی ہے تو ابن تیمیہ، شاہ ولی اللہ اور ابوالکلام جیسی بلند منزلت شخصیتوں کو دنیا میں لے آتی ہے، لیکن جب مردہ اور مصاف حیات میں شکست خوردہ قوموں کے اندر زندگی کا نیا جذبہ پیدا کرنا چاہتی ہے، یاس و نومیدی کی تاریک فضا میں اُمید و آرزو کی روشنی پھیلانا چاہتی ہے، جماعتی جذبۂ عمل کے ساکن و آسودہ مرکز میں جوش و خروش کے طوفان برپا کرنا چاہتی ہے، راستوں اور منزلوں کی تفصیلی تعین و تشریح سے پہلے حرکت سفر کا حقیقی داعیہ پیدا کرکے راہ و منزل مقصود کے محض خاص خاص نشان بتا دینا چاہتی ہے تو پھر اس کی قوت تخلیق کے کرشمے گوئٹے اور اقبال کی صورت میں ظاہر ہوتے ہیں۔ علامہ اقبال کی شائع شدہ تصنیفات دنیا کے سامنے ہیں۔ ہم یہ دعویٰ نہیں کرتے کہ ان کا ایک ایک حرف منزل من اللہ اور مبراعن الخطا ہے۔ ممکن ہے کہ ان کے بعض اجزا حرف بہ حرف اس معیار کے مطابق نہ ہوں جو ارتقا کی خفیف سی حرکت کو بھی گوارا نہیں کرسکتا اور جس میں تنگ دلانہ غلو کے باعث اُردو شاعری کی عام رولباس اور ظاہری وضع قطع میں اس درجہ منہمک ہوگئی ہے، اسے جسم کی صحت اور زندگی کے تحفظ کا قطعاً کوئی خیال نہیں رہا۔ عیب سے پاک صرف خدا کی ذات ہے۔ علامہ اقبال کا وجود گرامی کتنا ہی بلند منزلت اور بلند پایہ کیوں نہ ہو لیکن وہ ہرحال میں انسان ہیں، اس لیے ان سے غلطی اور خطا کا صدور ناممکن نہیں ہے لیکن اس حقیقت سے کون انصاف دوست انکار کرسکتا ہے کہ علامہ ممدوح کا وجود اُردو شاعری کی تاریخ کا روشن ترین باب ہے۔ آج اُردو زبان دور حاضر کی متمدن اقوام کی شاعری کے مقابلے میں معنوی حیثیت سے کوئی جامع مرقع پیش کرسکتی ہے تو وہ اقبال کا کلام ہے۔ غالب نے اُردو شاعری کی ممکنات ارتقا کا دھندلا سا نقشہ پیش کیا تھا، اقبال کے نادر روزگار دل و دماغ نے اس نقشے کو لے کر صدہا نئی راہوں کی ایک ایک منزل آئینہ کردی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ایک بے روح وجود اور چند لمحوں کی دلچسپی کے ایک بے نتیجہ مشغلے کو قوم کے احیا، قوم کی بیداری اور حقائق حیات ملیہ کی تبین و تشریح کا مؤثر ترین ذریعہ بنا دیا۔ ہندوستان سے باہر کے ممالک میں علامہ اقبال کی شہرت ان کی فارسی تصنیفات کی وجہ سے ہوئی ہے اور حق یہ ہے کہ یہی تصانیف علامہ ممدوح کے فطری کمالات و نوادر کا بہترین مرقع ہیں لیکن ہندوستان اور علی الخصوص پنجاب کے ارباب ذوق علامہ ممدوح کے اُردو کلام کی اشاعت کے مشتاق تھے اور چاہتے تھے کہ وہ نادر موتی ایک لڑی میں پروئے جائیں جو مرحوم مخزن کے صفحات اور انجمن حمایتِ اسلام کے سالانہ جلسوں میں ارباب بصیرت کو نادیدہ تابش و ضیاسے مسحور کرچکے تھے۔ اُردو کلام کے مجموعے کی اشاعت بوجوہ نہایت ضروری تھی۔ سب سے بڑی اور پہلی وجہ تو یہ تھی کہ فارسی کا مذاق کم ہوجانے کے باعث اُس حلقے کا بہت بڑا حصہ علامہ اقبال کی فارسی تصانیف سے پورے طور پر بہرہ اندوز نہیں ہوسکتا تھا جس کے درمیان اللہ تعالیٰ نے علامہ ممدوح کو پیدا کیا تھا۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ محض اُردو کلام کا مجموعہ ہی علامہ ممدوح کے تخیل کے تمام ارتقائی مدارج پیش کرسکتا تھا اور فارسی تصانیف سے لطف اندوز ہونے والے بزرگ بھی اس وقت تک اقبال کے دل و دماغ کی حقیقی کیفیات سے محظوظ و متمتع نہیں ہوسکتے تھے جب تک کہ ان کیفیات کے تمام مدارجِ نشو و ارتقا سامنے نہ آجاتے، اس لیے بار بار ہر سمت سے یہ استدعا ہوتی رہی کہ علامہ ممدوح اُردو کلام کا مجموعہ شائع فرمائیں، چنانچہ اسرار خودی، رموز بے خودی اور پیام مشرق کی اشاعت کے تذکروں کے سلسلے میں ہر صاحب ِذوق مجموعۂ اُردو کی اشاعت کا تقاضا کرتا رہا لیکن علامہ ممدوح یہ فرماکر اصرار کرنے والے احباب کو ٹال دیتے کہ اُردو شاعری میرے حقیقی پیغام کی تیاری کی منزل تھی، اس لیے اس کی اشاعت چنداں ضروری نہیں۔ آخر کار انتہائی اصرار کے بعد وہ اس کی اشاعت پر رضامند ہوگئے اور آج یہ بیش بہا سلک جواہر بانگ درا کے حقیقت پرور نام سے دنیا کے سامنے موجود ہے۔ افسوس کہ روزانہ اخبار کے صفحات اس نادر مجموعے کے تفصیلی تذکرے کے متحمل نہیں، تاہم اس کا اجمالی سا خاکہ پیش کردینا ضروری ہے تاکہ قارئین کرام کو اس کی حقیقی حیثیت کا زیادہ اچھا اندازہ ہوسکے۔ یک شنبہ۱۴؍صفرالمظفر۱۳۴۳ھ، ۱۴؍ستمبر۱۹۲۴ئ،۱۱/۲۰۳،ص۲۔ علامہ اقبال کا اُردو کلام بانگ درا چوبجانِ من درائی دگر آرزو نہ بینی۱۷؎ مگر ایں کہ شبنمِ تویمِ بے کنار بادا۱۷؎ بانگ درا، دیباچہ اور ظریفانہ کلام کے مختصر سے جزو کو مستثنیٰ کرنے کے بعد تین حصوں پر مشتمل ہے۔ پہلے حصّے میں ابتدا سے لے کر ۱۹۰۵ء تک کا کلام ہے، دوسرے حصّے میں ۱۹۰۵ء سے لے کر ۱۹۰۸ء تک کا کلام اور تیسرے حصّے میں ۱۹۰۸ء سے لے کر اس وقت تک کا کلام ہے۔ یہ تقسیم اقبال کی شاعری کے ارتقائی مدارج کی بہترین تشریح ہے۔ ابتدا میں علامہ ممدوح کی شاعری کا رنگ ’’آفاقی‘‘ (یونیورسل) تھا اور ان کا تخیل دنیا کے عام عظیم الشان شعرا کی طرح کسی خاص قوم، کسی خاص سرزمین، کسی خاص آب و ہوا اور کسی خاص دائرے کے ساتھ وابستہ نہیں تھا۔ دنیا کی ہر احساس پر ورشے ان کے سمندِ تخیل کے لیے یکہ تازی کا پیغام تھی۔ ہمالہ کی سطوت و شوکت، پھول کی رنگینی و دلربائی، غالب کا ہنگامہ خیز زور تخیل، سرسیّد کی زبردست اصلاحی تحریک، ابرکہسار کی جولانی، بزمِ قدرت کا حسن پرور منظر، شمع کا سوز و گداز، شیرخوار بچے کی معصومیت اور قید امتیاز سے آزادی، خفتگان خاک کا سکوت، حضرت بلالؓ کا عشق رسولؐ اور اس نوع کی ہر چیز علامہ اقبال کے جذبات و تخیل کو متحرک کرکے دلکش و دل نشین نغمے پیدا کردیتی تھی۔ بلاشبہہ اس دور میں علامہ ممدوح نے بعض ایسی نظمیں بھی کہیں جن میں قومیت و وطنیت کے نہایت بلند پایہ جذبات متموج و متلاطم نظر آتے ہیں لیکن تخیل کی عام رو میں ’’آفاقیت‘‘ کا رنگ غالب تھا اور اس میں قومیت و وطنیت کے عناصر کی اسی حد تک آمیزش تھی جس حد تک کہ یہ عناصر آفاقی تخیل کے تحت میں آسکتے تھے یا زیادہ سے زیادہ علامہ ممدوح کے الفاظ میں انھیں ’’نکلتے ہوئے سورج کی افق تابی‘‘ سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ اس دور کی طویل اور مسلسل نظموں میں سے ’’تصویر درد‘‘ کو خاص اہمیت حاصل ہے، اس لیے کہ اس میں علامہ ممدوح کے تخیل کے ابتدائی دور کی قریباً تمام خصوصیات بوجہ احسن جمع ہیں اور یہی نظم ہے جس کے مطالعے سے اس عظیم الشان اور بلند پایہ شاعر کے دماغی کمالات کی ممکناتِ ارتقا سب سے پہلے صحیح صحیح نمایاں ہوتی ہیں۔ دوسرا دور علامہ اقبال کے قیام ولایت سے تعلق رکھتا ہے۔ اسی زمانے میں ان کے ابتدائی دور کی خصوصیات سے انقلاب پیدا ہوا۔ اس انقلاب کی حقیقی حیثیت کی وضاحت طویل مباحث کی محتاج ہے۔ مختصراً یہ کہا جاسکتا ہے کہ ولایت پہنچ کر علامہ ممدوح کو پوری اقوام کی عالم گیر ہوس۔ناکیوں کا صحیح صحیح علم ہوا، مغربی تمدن کی غلط بنیاد کے راز کھلے اور یورپ کے لعنت خیز تصور قومیت کی حقیقت آشکار ہوئی۔ انھوں نے دیکھا کہ یہ تمام بلائیں اور یہ تمام مصیبتیں نہ محض اسلام، نہ محض مشرق بلکہ ساری دنیا کو تباہی و بربادی کے عمیق غار کی طرف لے جارہی ہیں۔ یورپی اقوام کی ظاہری شان و شکوہ اور حکومت و فرماں روائی کے مسحور کن اثرات کی وجہ سے مسلمان اور سرزمین مشرق کی دوسری قومیں اسی راستے پر آرہی ہیں جو یورپ کو دائمی نامرادی کے بے پایاں سمندر میں گرانے والا ہے۔ اس احساس نے ان کے حساس قلب میں معاً یہ ہنگامہ خیز تڑپ پیدا کردی کہ وہ تباہی کی اس رو کا سدّباب کریں اور اسلام و مشرق کو اس کی ہمہ گیری سے بچائیں۔ یہ ان کے جوش ایثار و قربانی کی ایک سخت آزمائش تھی۔ وہ دیکھتے تھے کہ آفاقی شاعری کا راستہ عالم گیر شہرت و نام وری اور بیش بہا دنیاوی فوائد و منافع کا سرچشمہ ہے اور حق یہ ہے کہ اگر وہ اس راستے پر قائم رہتے تو آج دنیا کا ہر حصہ ان کے قدم چومتا اور جس طرۂ امتیاز نے ٹیگور کو دنیا کے عظیم ترین شعراکی بزم میں پہنچا دیا، وہ آج سے برسوں پیشتر علامہ اقبال کا زیب دستار بن چکا ہوتا۔ اس کے خلاف اسلام و مشرق کے لیے انتباہی صدا ’’صدابہ صحرا‘‘ سے زیادہ کی حیثیت نہ رکھتی تھی۔ اس وقت ہر قلب پر یورپی تقلید اور افرنگیت کے اثرات اس طرح غالب تھے کہ کسی کو ان کے خلاف زبان کشا ہونے کی بھی جرات نہ ہوتی تھی لیکن علامہ ممدوح کا درد مند، حق پرست اور حساس قلب شہرت و نام وری اور دنیاوی فوائد و منافع کی تمام دل خوش کن امیدوں سے بے نیاز ہوگیا اور انھوں نے فیصلہ کرلیا کہ اللہ تعالیٰ کی تمام عطا کردہ نعمتوں کا سب سے پہلا حق دارِ اسلام ہے، اس لیے جو کچھ بن آئے، وہ اسی کے لیے ہونا چاہیے۔ اس فیصلے کے بعد علامہ ممدوح کی نظموں میں آفاقی رنگ کے بجاے اسلامی رنگ یہاں تک غالب ہوگیا کہ اس کے بعد جو کچھ لکھا، وہ سب مسلمانوں کے لیے اور سرزمین مشرق کے لیے تنبیہ عبرت اور بیداری کا پیغام تھا۔ سہ سالہ قیام ولایت کا سارا زمانہ آفاقی شاعری اور اسلامی شاعری کے درمیان کا انقلابی دور ہے۔ اس کی بعض نظمیں آفاقی تخیل کے تحیرزا کرشمے ہیں اور نواے غم،( پیامِ مشرق) عبدالقادر کے نام اور مرثیہ سسلی میں جدید احساس کے عناصر غالب ہیں۔ اسی دور میں ۱۹۰۷ء میں وہ شہرۂ آفاق غزل۱۹؎ لکھی گئی تھی جو علامہ اقبال کی دوربینی، حقیقت رسی اور ان کی شاعری کی رفعت منصب کی بہترین شہادت ہے اور جس کے چند اشعار یہ ہیں: ؎ نکل کے صحرا سے جس نے روما کی سلطنت کو اُلٹ دیا تھا۲۰؎ سنا ہے میں نے یہ قدسیوں سے، وہ شیر پھر ہوشیار ہوگا۲۰؎ دیارِ مغرب کے رہنے والو! خدا کی بستی دکاں نہیں ہے۲۰؎ کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو، وہ اب زرِ کم عیار ہوگا۲۰؎ تمھاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی۲۰؎ جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا، ناپایدار ہوگا۲۰؎ سفینۂ برگِ گل بنالے گا قافلہ مورِ ناتواں کا۲۰؎ ہزار موجوں کی ہوکشاکش، مگر یہ دریا سے پار ہوگا۲۰؎ ان اشعار میں مغربی تمدن کی تباہی اور اسلام کی سرفرازی و سربلندی کے متعلق جوپیشین گوئیاں کی گئی تھیں، وہ اب تک حرف بہ حرف پوری ہوچکی ہیں۔ کیا یہ اللہ تعالیٰ کی بخشش خاص کا ثبوت نہیں ہے کہ جو باتیں ۱۹۱۴ء کے بعد پیش آنے والی تھیں، وہ ۱۹۰۷ء میں اس طرح بیان کردی گئیں گویا علامہ اقبال کی آنکھوں کے سامنے وقوع پذیر ہورہی تھیں۔ تیسرا دور علامہ ممدوح کی خالص اسلامی شاعری کا دور ہے جس کا ایک ایک حرف محض اسی زمانے کے لیے نہیں، اسی عہد کے لیے نہیں، بلکہ اسلام و مشرق کی صدہا آئندہ نسلوں کے لیے احیا و بیداری کا سب سے بڑا پیغام بنا رہے گا۔ اس دور کی تمام چھوٹی بڑی نظمیں اس پیغام حیات کے نغموں سے معمور ہیں جس سے عالم اسلام و مشرق زندہ کرنے کی خاطر قدرت نے علامہ ممدوح کے وجود کو اپنی بخشش کے لیے منتخب کیا تھا۔ یہ بانگ درا کی مجمل سی کیفیت ہے۔ ہر دور کی غزلیں، نظموں کے بعد درج کردی گئی ہیں۔ یہ مجموعہ قریباً (۳۵۰) صفحوں پر مشتمل ہے۔ بعض شائع شدہ نظموں کے بعض حصّے بدل دیے گئے ہیں، بعض حصّے حذف کردیے گئے ہیں اور بعض میں اضافہ کردیا گیا ہے۔ دیباچہ شیخ عبدالقادر صاحب بی اے بیرسٹرایٹ لا کا لکھا ہوا ہے اور ہمیں دلی افسوس کے ساتھ اس حقیقت کا اظہار کرنا پڑتا ہے کہ یہ دیباچہ نہ شیخ صاحب موصوف کی شان کے شایاں ہے اور نہ بانگ درا ایسی نادر روز گار کتاب کے لیے زیبا ہے۔ شیخ صاحب ممدوح علامہ اقبال کی اُردو شاعری کے تمام ارتقائی مدارج کے بہترین راز دار سمجھے جاتے تھے لیکن افسوس کہ دیباچے نے ہماری توقعات مجروح کردیں۔ بانگ درا کی لکھائی چھپائی اور کاغذ نہایت نفیس و دیدہ زیب ہے۔ ارباب ذوق جناب مولوی ممتاز علی صاحب مالک دارالاشاعت پنجاب؛ ۱۹۵؍ ریلوے روڈ، لاہور سے چار روپے میں خرید سکتے ہیں۔ علامہ ممدوح کے اُردو کلام کو ہندوستان میں علی العموم اور پنجاب میں علی الخصوص جو مقبولیت و ہر دل عزیزی حاصل ہے، اسے پیش نظر رکھتے ہوئے بانگِ درا کی خریداری کے متعلق کچھ عرض کرنا مناسب معلوم نہیں ہوتا لیکن دل یہ گوارا نہیں کرتا کہ بانگِ درا کا ذکر آئے اور اس کی زیادہ سے زیادہ اشاعت کے ضروری فرض کے متعلق قارئین کرام کی خدمت میں التجانہ کی جائے۔ بانگ درا مسلمانوں کے لیے بیداری کا سب سے بڑا پیغام ہے۔ اس کے اندر حقیقی اسلامی خصائص اور حقیقی اسلامی جذبات کی سب سے بہتر تصویر کھینچی گئی ہے۔ یہ کوہ فاراں کے فراموش کردہ عہد کی تازگی تجدید، استواری اور استحکام کی سب سے بڑھ کر مؤثر اور سب سے بڑھ کر دل نشین دعوت ہے۔ ہر پڑھے لکھے مسلمان کا فرض ہے کہ وہ اس کتاب کو خریدے اور اس پیغام حیات سے بہرہ اندوز ہو، جس نے علامہ اقبال کے مبارک و مسحور وجود کو اپنے اعلان و اظہار کا ذریعہ بنایا۔ دو شنبہ، ۱۵؍ صفرالمظفر۱۳۴۳ھ؍ ۱۵ستمبر۱۹۲۴ئ،۱۱/۲۰۴،ص۲۔ ۲- اشتہارات نظم ’’شکوہ‘‘ ڈاکٹر محمد اقبال صاحب ایل ایل ڈی، پی ایچ ڈی، بیرسٹرایٹ لا کی مشہور نظم’’ شکوہ‘‘ اور مولوی ظفر علی خاں صاحب بی اے اڈیٹر زمیندار کی نعت ’’باخدا دیوانہ باش و بامحمد ہوشیار‘‘ نہایت عمدہ ولایتی کاغذ پر چھپوا کر تیار ہے۔ ٹکٹ مع محصول ڈاک آنے پر دفتر زمیندار لاہور سے مل سکتی ہے۔ جمعہ، ۲۳؍ربیع الاوّل۱۳۳۰ھ؍ ۱۲؍اپریل۱۹۱۲ئ،۲/۸۳،ص۳۔ جوابِ شکوہ مسلمانوں کو اپنے خدا سے جو نیاز مندانہ شکایتیں تھیںِ وہ تو اربابِ ذوقِ سلیم؛ ترجمانِ حقیقت ڈاکٹر محمد اقبال کی زبانی سن چکے۔ اب دیکھنا یہ تھا کہ بارگاہِ ایزدی سے ان گلوں کا جواب کیا ملتا ہے۔ ڈاکٹر محمد اقبال کے بلاغت زاتخیل نے ’’شکوہ‘‘ کا جواب جس اندازِ خاص سے دیا ہے، وہ اسی کا حصّہ ہے اور ہرگز غیر موزوں نہ ہوگا اگر بالالفاظ غالب وہ اس جواب کے ستایش گریوں ہوں: ؎ میرا اندازِ سخن شانۂ زلف الہام تیری رفتارِ قلم جنبشِ بالِ جبریل ’’شکوہ‘‘ کا جواب ڈاکٹر صاحب مسلمانوں کے ایک عظیم الشان جلسہ میں، جو ۳۰؍نومبر کو ہفتے کے روز بعد نماز مغرب بیرون موچی دروازہ میں منعقد ہوگا، سنائیں گے۔ ’’جواب‘‘ کی پانچ ہزار کاپیاں چھپوائی گئی ہیں اور قیمت فی نسخہ ۴؍رکھی گئی ہے جو زمیندار ٹرکشں ریلیف فنڈ کے لیے ڈاکٹر صاحب نے وقف کردی ہے۔ امید کی جاتی ہے کہ کم از کم پانچ ہزار چونیاں جیبوں میں موجود ہوں گی۔ ڈاکٹر صاحب کی معرکہ آرانظم کے علاوہ غالباً بعض اور اساتذہ کی نظمیں اور لطیف تقریریں بھی ہوں گی۔ امید ہے کہ نہ صرف لاہور کے تمام مسلمان بلکہ بیرون جات سے بھی ذوقِ سلیم رکھنے والے بزرگ اس جلسے میں، جس کی نوعیت خود اس کے پرلطف اور بانمک ہونے پر شاہد ہے، آکر جلوہ افروز حسنات ہوں گے۔ جمعہ، ۱۹؍ذی الحجہ۱۳۳۰ھ؍۲۹؍نومبر۱۹۱۲ئ،۲/۲۷۱،ص۴۔ جوابِ شکوہ ڈاکٹر محمد اقبال صاحب ایم اے کی شہرۂ آفاق نظم ’’جوابِ شکوہ‘‘ جس کی تمام قیمت زمیندار ٹرکش ریلیف فنڈ میں داخل کی جائے گی، علاوہ محصول ڈاک ۴؍ کو مندرجہ ذیل پتے سے مل سکتی ہے: مینجر میو چوئل ٹریڈنگ ایجنسی: موچی دروازہ ،لاہور۔ دوشنبہ، ۲۹؍ ذی الحجہ۱۳۳۰ئ؍ ۹؍دسمبر۱۹۱۲ئ،۲/۲۷۹،ص۴۔ یک شنبہ، ۵؍محرم الحرام ۱۳۳۰؍۱۵؍دسمبر۱۹۱۲ئ،۲/۲۸۴،ص۴۔ وہ کون ہے جسے ترکوں سے ہمدردی نہیں ڈاکٹر شیخ محمد اقبال صاحب ایم اے کی شہرہ آفاق نظم ’’جوابِ شکوہ‘‘ کی تمام قیمت زمیندار ٹرکش ریلیف فنڈ میں جمع کی جائے گی۔ علاوہ محصول ڈاک ۴؍ کو مندرجہ ذیل پتے سے مل سکتی ہے: میو چوئل ٹریڈنگ ایجنسی: موچی دروازہ، لاہور جمعہ، ۱۴؍ربیع الاوّل ۱۳۳۱ھ؍۲۱؍فروری۱۹۱۳ئ،۳/۴۱،ص۴۔ نظم ’’شمع و شاعر‘‘ نظم ’’شمع و شاعر‘‘ مصنفہ ڈاکٹر شیخ محمد اقبال صاحب ایم اے کی قیمت آٹھ آنے کی بجاے ۴؍ مقرر کردی گئی ہے۔ نظم کی عمدگی کی ضمانت کے لیے ڈاکٹر صاحب موصوف کا نام نامی کافی ہے۔ اس کی تمام قیمت سرمایۂ انجمنِ حمایتِ اسلام میں جمع کی جائے گی۔ رفع تکلیف کے لیے اس کی ایجنسی میوچوئل ٹریڈنگ ایجنسی موچی دروازہ، لاہورکو دے دی ہے۔ خریدار خواہ انجمن سے یا ایجنسی سے طلب کریں۔ (دستخط) احمد مخدومی سکریٹری کمیٹی تالیف و اشاعت انجمنِ حمایتِ اسلام ، لاہور۔ یک شنبہ، ۳۰؍ربیع الاوّل ۱۳۳۱ھ؍۹؍مارچ۱۹۱۳ئ،۳/۵۴،ص۴۔ مفت تحفہ ڈاکٹر محمد اقبال، مولوی ظفر علی خاں اور منشی وجاہت حسین صاحب کی وہ نظمیں جو آج تک آپ نے نہ پڑھی ہوں گی، ایک آنے کا ٹکٹ، محصول ڈاک کے لیے، آنے پر مفت روانہ کی جائیں گی۔ میو چوئل ٹریڈنگ ایجنسی: موچی دروازہ، لاہور۔ سہ شنبہ،۹؍ربیع الثانی۱۳۳۱ھ؍۱۸؍مارچ۱۹۱۳ئ،۳/۶۲،ص۴۔ خضر راہ علامہ اقبال کی وہ لبریز حقائق نظم جو انھوں نے انجمن حمایت اسلام کے سالانہ جلسے میں پڑھی، قیمت۴؍… المشتھر مہتمم حافظ بک ڈپو: حلقہ نمبر۵، نولکھا، لاہور جمعہ، ۲۹؍ شعبان المعظم ۱۳۴۰ھ؍۲۸؍اپریل۱۹۲۲ئ،۹/۶۵، ص۷۔ یک شنبہ، یکم رمضان ۱۳۴۰ھ؍۳۰؍اپریل۱۹۲۲ئ،۹/۶۷، ص۷۔ شنبہ، ۲۲؍ رمضان ۱۳۴۰ھ؍۲۰؍مئی۱۹۲۲ئ،۹/۸۴، ص۷۔ چہار شنبہ، ۲۶؍ رمضان ۱۳۴۰ھ؍۲۴؍مئی۱۹۲۲ئ،۹/۸۷، ص۷۔ یک شنبہ، ۳۰؍ رمضان ۱۳۴۰ھ؍۲۸؍مئی۱۹۲۲ئ،۹/۹۲، ص۷۔ پنج شنبہ، ۴؍ شوال ۱۳۴۰ھ؍یکم جون۱۹۲۲ئ،۹/۹۳، ص۷۔ علامہ ڈاکٹر شیخ محمد اقبال صاحب ایم اے کی تازہ نظم ’’خضرِراہ‘‘ قیمت چار آنے، علاوہ محصول ڈاک ملنے کا پتہ: طاہر الدین: انار کلی، لاہور۔ جمعہ، ۳؍ربیع الاوّل ۱۳۴۱ھ؍ ۳؍نومبر۱۹۲۲ئ،۹/۲۲۷،ص۸۔ چہار شنبہ، ۱۸؍ ربیع الاوّل ۱۳۴۱ھ؍ ۸؍نومبر۱۹۲۲ئ، ۹/۲۳۰، ص۸۔ دو شنبہ، ۲۳؍ ربیع الاوّل ۱۳۴۱ھ؍ ۱۳؍نومبر۱۹۲۲ئ،۹/۲۳۵،ص۷۔ جمعہ ،۲۷؍ ربیع الاوّل ۱۳۴۱ھ؍ ۱۷؍نومبر۱۹۲۲ئ،۹/۲۳۸،ص۸۔ یک شنبہ،۲۹؍ ربیع الاوّل ۱۳۴۱ھ؍ ۱۹؍نومبر۱۹۲۲ئ،۹/۲۴۰،ص۸۔ چہار شنبہ، ۲؍ ربیع الثانی ۱۳۴۱ھ؍ ۲۲؍نومبر۱۹۲۲ئ،۹/۲۴۲،ص۸۔ دوشنبہ،۷ ؍ربیع الثانی ۱۳۴۱ھ؍ ۲۷؍نومبر۱۹۲۲ئ،۹/۲۴۶،ص۷۔ پنج شنبہ،۱۰؍ ربیع الثانی ۱۳۴۱ھ؍ ۳۰؍نومبر۱۹۲۲ئ،۹/۲۴۸،ص۷۔ یک شنبہ، ۱۳؍ ربیع الثانی ۱۳۴۱ھ؍ ۳؍دسمبر۱۹۲۲ئ،۹/۲۵۱،ص۸۔ پنج شنبہ،۱۷؍ ربیع الثانی ۱۳۴۱ھ؍ ۷؍دسمبر۱۹۲۲ئ،۹/۲۵۴،ص۸۔ جمعہ،۱۸ ؍ربیع الثانی ۱۳۴۱ھ؍ ۸؍دسمبر۱۹۲۲ئ،۹/۲۵۵،ص۸۔ شنبہ، ۱۹؍ ربیع الثانی ۱۳۴۱ھ؍ ۹؍دسمبر۱۹۲۲ئ،۹/۲۵۶ص۸۔ چہارشنبہ،۲۳؍ ربیع الثانی ۱۳۴۱ھ؍ ۱۳؍دسمبر۱۹۲۲ئ،۹/۲۵۸،ص۸۔ جمعہ،۲۵؍ ربیع الثانی ۱۳۴۱ھ؍ ۱۵؍دسمبر۱۹۲۲ئ،۹/۲۶۰،ص۷۔ چہارشنبہ،۳۰؍ ربیع الثانی ۱۳۴۱ھ؍ ۲۰؍دسمبر۱۹۲۲ئ،۹/۲۶۴،ص۷۔ علامہ ڈاکٹر شیخ محمد اقبال صاحب ایم اے کی تازہ نظم ’’ خضرِراہ‘‘ اس کے علاوہ مکمل ’’ترانہ‘‘۲؍، ’’شکوہ‘‘۲؍، ’’جوابِ شکوہ‘‘۴؍،’’ فریاد امت‘‘۲؍، ’’نالۂ یتیم‘‘۲؍، ’’اکبری اقبال‘‘۳؍ طاہر دین: انار کلی لاہور سے طلب کیجیے۔ شنبہ، ۱۸؍ جمادی الاوّل ۱۳۴۱ھ؍ ۶؍جنوری۱۹۲۳ئ،۱۰/۴،ص۷۔ پنج شنبہ، ۲۳ ؍جمادی الاوّل ۱۳۴۱ھ؍ ۱۱؍جنوری۱۹۲۳ئ،۱۰/۸،ص۸۔ شنبہ، ۲۵؍ جمادی الاوّل ۱۳۴۱ھ؍ ۱۳؍جنوری۱۹۲۳ئ،۱۰/۱۰،ص۸۔ دو شنبہ،۲۷؍ جمادی الاوّل ۱۳۴۱ھ؍ ۱۵؍جنوری۱۹۲۳ئ،۱۰/۱۲،ص۸۔ جمعہ، یکم جمادی الثانی ۱۳۴۱ھ؍ ۱۹؍جنوری۱۹۲۳ئ،۱۰/۱۵،ص۷۔ دوشنبہ،۳ ؍جمادی الثانی ۱۳۴۱ھ؍ ۲۱؍جنوری۱۹۲۳ئ،۱۰/۱۷،ص۸۔ شائقین پیام مشرق ملاحظہ فرمائیں پیام مشرق کی کتابت میں دو غلطیاں ایسی نظر آئی ہیں جن کی تصحیح ضروری معلوم ہوتی ہے۔ صفحہ ۱۱۴، نظم موسوم بہ ’’کشمیر‘‘ کے پانچویں شعر میں ’’لالۂ خاک‘‘ کی بجاے ’’لالۂ زخاک‘‘ پڑھنا چاہیے۔ صفحہ ۱۵۹، پہلے شعر کے دوسرے مصرع میں لفظ ’’میکدہ‘‘ غلط ہے، ’’بتکدہ‘‘ ہونا چاہیے۔ باقی کتاب میں چند ایک جگہ کوئی کشش یا نقطہ یا حرف چھپائی میں پتھر سے اُڑ گیا ہے۔ مفصلہ ذیل غلط نامہ کے مطابق ایسی غلطیوں کو بھی صحیح فرمالیں: صفحہ نظم غلط صحیح ۱۸ (قطعہ) نمبر۳۰ کردد گردد ۷۲ رباعی نمبر۱۳۹ دم زدم ۷۴ رباعی نمبر۱۴۳ بند بیند ۱۲۲ طیارہ (ساتواں شعر، مصرع اوّل) نندفوش تندجوش ۱۲۴ تہذیب (آخری شعر، مصرع اوّل) چنگ جنگ ۱۵۸ غزل (صفحہ کا پہلا شعر) زر زد ۱۸۰ محاورہ (دوسرا شعر، مصرع اوّل) از ار ( چودھری محمد حسین) پنج شنبہ،۷؍شوال المکرم۱۳۴۱ھ؍۲۴؍مئی۱۹۲۳ئ،۱۰/۱۱۴،ص۷۔ پیام مشرق کا ناجائز اشتہار مجموعہ کلامِ اُردو مرتب ہوگیا جناب چودھری محمد حسین صاحب ایم اے اطلاع دیتے ہیں کہ اخبارسیاست میں منیجر صوفی پرنٹنگ اینڈ پبلشنگ کمپنی لمیٹڈ، بہاء الدین، پنجاب کی طرف سے کتابوں کا ایک اشتہار چھپ رہا ہے جس میں پیام مشرق کے متعلق مندرجہ ذیل سطور درج ہیں:’’علامہ اقبال کی تازہ تصنیف کا دوسرا اڈیشن پہلے سے اسّی صفحہ زیادہ، قیمت ساڑھے چار روپے‘‘ ان سطور کو پڑھ کر جناب علامہ کو مینجر کمپنی کی غیر ذمہ دارانہ حرکت پر بہت رنج ہوا ہے۔ اوّل تو اشاعت کتاب سے پہلے مصنف یا ناشر کے سوا کسی اور شخص کا بے اجازت اپنے نام سے اس کتاب کا اشتہار دینا بالکل خلاف قانون و دیانت ہے اور پھر اس کی قیمت ساڑھے چار روپے خود ہی تجویز کرکے لکھ دینا تو اور بھی مجرمانہ حرکت ہے۔ قارئین کو اطلاع دی جاتی ہے کہ پیام مشرق کے دوسرے اڈیشن کی قیمت بھی وہی ہوگی جو پہلے اڈیشن کی تھی۔ مینجر صوفی کمپنی کی اس حرکت کا قانونی تدارک عنقریب کیا جانے والا ہے۔ مجموعۂ کلامِ اُردو۱؎ چودھری صاحب نے یہ مژدہً جانفزا بھی۲؎ سنایا ہے کہ جناب علامہ اقبال نے اپنا اُردو کلام انتخاب و اصلاح و ترمیم کے بعد مرتب کرکے کاتب کے سپرد کردیا ہے اور ان شا اللہ اب ایک دو ماہ۳؎ ہی کے بعد نظر افروزِ اربابِ ذوقِ سلیم ہوگا۔ چہار شنبہ،۲۸؍ رجب المرجب۱۳۴۲ھ؍۵؍مارچ۱۹۲۴ئ،۱۱/۵۲،ص۵۔ علامہ اقبال کا کلام شائع ہوگیا بانگِ درا زمیندار کے صفحات پر علامہ اقبال کے اُردو کلام کی ترتیب و طباعت کا قبل ازیں بارہا ذکر آچکا ہے۔ آج ہم انتہائی مسرت و شادمانی کے ساتھ قارئینِ کرام تک یہ جانفرا مژدہ پہنچانے کا شرف حاصل کرتے ہیں کہ علامہ ممدوح کے اُردو کلام کا مجموعہ بانگ درا کے نام سے شائع ہوگیا ہے۔ یہ ساڑھے تین سو صفحات پر مشتمل ہے جس میںتمام چھوٹی بڑی مطبوعہ و غیر مطبوعہ نظمیں، انتخاب و اصلاح کے بعد جمع کردی گئی ہیں۔ کتاب کا کاغذ، لکھائی اور چھپائی نہایت عمدہ اور دیدہ زیب ہے۔ قیمت چار روپے ہم اس مجموعے کے متعلق اپنی تفصیلی گزارشات دوسری صحبت میں پیش کریں گے۔ اربابِ شوق کو چاہیے کہ وہ اس نادر روزگار کتاب کو جلد خرید لیں، ورنہ دوسرے اڈیشن کا انتظار کرنا پڑے گا۔ ملنے کا پتا: مہتمم دارالاشاعت پنجاب:۱۹۵؍ ریلوے روڈ، لاہور۔ شنبہ، ۲۸؍محرم الحرام۱۳۴۳ھ،۳۰؍اگست۱۹۲۴ئ،۱۱/۱۹۱،ص۴۔ ترجمانِ حقیقت، لسانِ اسلام ڈاکٹر سر محمد اقبال مدظلّہ العالی اُردو کلام کا مجموعہ شائع ہوگیا بانگِ درا جناب علامہ ممدوح کی تقریباً ڈیڑھ سو عالی پایہ حیات افروز اور جذبہ انگیز نظموں کا مجموعہ ہے جس میں جناب ممدوح نے اپنی شائع شدہ نظموں کو بعد اصلاح و انتخاب مرتب فرمایا ہے اور بہت سی غیر مطبوعہ نظمیں بھی شامل کی ہیں۔ جناب علامہ کا تخیل بلند، آپ کی ترجمانی فطرت، آپ کے رشحات خیال کا جوش و خروش، ہماری تعریف سے مستغنی ہے۔ ہم اقبال کے بادۂ تخیل کے سرشاروں کو صلاح عام دیتے ہیں کہ جہاں تک جلد ہو سکے، وہ اس بے بہا مجموعے کو خرید لیں۔ فرمائشوں کی اس قدر بھرمار ہے کہ چند ہی روز میں پہلا اڈیشن ختم ہوجائے گا اور دوسرے اڈیشن کا انتظار جیسا کچھ سوہان روح ہوا کرتا ہے، اسے اربابِ ذوق خوب جانتے ہیں۔ قیمت مجلد صرف چار روپے… کتابت و طباعت نہایت نظر فریب، کاغذ نفیس، ضخامت ساڑھے تین سو صفحات۔ ملنے کا پتا: سیّد ممتاز علی اینڈ سنز، دارالاشاعت پنجاب: ۱۹۵؍ ریلوے روڈ،لاہور یک شنبہ، ۶؍صفرالمظفر۱۳۴۳ھ؍۷؍ستمبر۱۹۲۴ئ،۱۱/۱۹۷،ص۵۔ جمعہ، ۱۲صفرالمظفر۱۳۴۳ھ؍۱۲؍ستمبر۱۹۲۴ئ،۱۱/۲۰۱،ص۵۔ دوشنبہ،۱۵؍صفرالمظفر۱۳۴۳ھ؍۱۵؍ستمبر۱۹۲۴ئ،۱۱/۲۰۴،ص۵۔ پنج شنبہ،۱۸؍صفرالمظفر۱۳۴۳ھ؍۱۸؍ستمبر۱۹۲۴ئ،۱۱/۲۰۶،ص۵۔ یک شنبہ،۲۱؍صفرالمظفر۱۳۴۳ھ؍۲۱؍ستمبر۱۹۲۴ئ،۱۱/۲۰۹،ص۵۔ شنبہ،۲۷؍صفرالمظفر۱۳۴۳ھ؍۲۷؍ستمبر۱۹۲۴ئ،۱۱/۲۱۲،ص۵۔ چہار شنبہ، یکم ربیع الاوّل۱۳۴۳ھ؍یکم؍اکتوبر۱۹۲۴ئ،۱۱/۲۱۵،ص۵۔ شنبہ،۴؍ربیع الاوّل۱۳۴۳ھ؍۴؍ اکتوبر۱۹۲۴ئ،۱۱/۲۱۸،ص۵۔ علامہ ڈاکٹر سرشیخ محمد اقبال اُردو کلام کا مجموعہ موسومہ بانگِ درا چھپ کر تیار ہوگیا ہے، تعدادِ اشاعت محدود ہے۔ جلد منگوالیجیے! قیمت چار روپے۔ محصول ڈاک بذمہ خریدار۔ المشتہر: شیخ طاہر الدین: متصل مسلم بنک، انار کلی، لاہور چہار شنبہ، ۱۰؍صفرالمظفر ۱۳۴۳ھ؍۱۰؍ستمبر۱۹۲۴ئ،۱۱/۱۹۹،ص۶۔ پنج شنبہ، ۱۱؍ صفرالمظفر ۱۳۴۳ھ؍۱۱؍ستمبر۱۹۲۴ئ،۱۱/۲۰۰،ص۶۔ جمعہ،۱۲؍ صفرالمظفر ۱۳۴۳ھ؍۱۲؍ستمبر۱۹۲۴ئ،۱۱/۲۰۱،ص۶۔ یک شنبہ،۱۴؍ صفرالمظفر ۱۳۴۳ھ؍۱۴؍ستمبر۱۹۲۴ئ،۱۱/۲۰۳،ص۶۔ دوشنبہ،۱۵؍ صفرالمظفر ۱۳۴۳ھ؍۱۵؍ستمبر۱۹۲۴ئ،۱۱/۲۰۴،ص۶۔ پنج شنبہ،۱۸؍ صفرالمظفر ۱۳۴۳ھ؍۱۸؍ستمبر۱۹۲۴ئ،۱۱/۲۰۶،ص۶۔ جمعہ،۱۹؍ صفرالمظفر ۱۳۴۳ھ؍۱۹؍ستمبر۱۹۲۴ئ،۱۱/۲۰۷،ص۶۔ شنبہ،۲۰؍ صفرالمظفر ۱۳۴۳ھ؍۲۰؍ستمبر۱۹۲۴ئ،۱۱/۲۰۸،ص۶۔ جمعہ، ۲۱؍ صفرالمظفر ۱۳۴۳ھ؍۲۱؍ستمبر۱۹۲۴ئ، ۱۱/۲۰۹،ص۶۔ چہار شنبہ،۲۴؍ صفرالمظفر ۱۳۴۳ھ؍۲۴؍ستمبر۱۹۲۴ئ،۱۱/۲۱۰،ص۶۔ پنج شنبہ،۲۵؍ صفرالمظفر ۱۳۴۳ھ؍۲۵؍ستمبر۱۹۲۴ئ،۱۱/۲۱۱،ص۶۔ دوشنبہ،۱۳؍ ربیع الاوّل ۱۳۴۳ھ؍۱۳؍اکتوبر۱۹۲۴ئ۱۱/۲۲۴،ص۵۔ پنج شنبہ، ۱۶ ؍ربیع الاوّل ۱۳۴۳ھ؍۱۶؍اکتوبر۱۹۲۴ئ،۱۱/۲۲۶،ص۶۔ شنبہ،۱۸ ؍ربیع الاوّل ۱۳۴۳ھ؍۱۸؍اکتوبر۱۹۲۴ئ،۱۱/۲۲۸،ص۶۔ دوشنبہ،۲۰؍ ربیع الاوّل ۱۳۴۳ھ؍۲۰؍اکتوبر۱۹۲۴ئ،۱۱/۲۳۰،ص۶۔ پنج شنبہ،۲۳؍ ربیع الاوّل۱۳۴۳ھ؍۲۳؍اکتوبر۱۹۲۴ئ،۱۱/۲۳۲،ص۵۔ شنبہ،۲۵ ؍ربیع الاوّل ۱۳۴۳ھ؍۲۵؍اکتوبر۱۹۲۴ئ،۱۱/۲۳۴،ص۶۔ چہارشنبہ،۷؍ربیع الثانی ۱۳۴۳ھ؍۵؍نومبر۱۹۲۴ئ،۱۱/۲۴۱،ص۶۔ جمعہ، ۹؍ربیع الثانی ۱۳۴۳ھ؍۷؍نومبر۱۹۲۴ئ،۱۱/۲۴۳،ص۶۔ ترجمانِ حقیقت علامہ اقبال کی بانگِ درا جناب علامہ کی اُردو نظموں کا مجموعہ ہے، ہزاروں جلدیں ہاتھوں ہاتھ فروخت ہوگئیں، بہت تھوڑے نسخے باقی رہ گئے ہیں، اس لیے نہایت جلد منگا لیجیے، ورنہ دوسرے اڈیشن کا انتظار کرنا پڑے گا۔ قیمت صرف چار روپے۔ سیّد ممتاز علی اینڈ سنز۔ دارالاشاعت پنجاب ۱۹۵ ریلوے روڈ، لاہور۔ دوشنبہ، ۴؍رجب ۱۳۴۳ھ؍ ۲؍فروری۱۹۲۵ئ،۱۲/۲۷،ص۵۔ پنج شنبہ،۱۱؍ رجب ۱۳۴۳ھ؍۵؍فروری۱۹۲۵ئ،۱۲/۲۹،ص۵۔ شنبہ،۱۳؍ رجب ۱۳۴۳ھ؍۷؍فروری۱۹۲۵ئ،۱۲/۳۱،ص۶۔ دوشنبہ،۱۵؍ رجب ۱۳۴۳ھ؍ ۹؍فروری۱۹۲۵ئ،۱۲/۳۳،ص۵۔ پنج شنبہ،۱۸؍ رجب ۱۳۴۳ھ؍۱۲؍فروری۱۹۲۵ئ،۱۲/۳۵،ص۶۔ دوشنبہ،۲۲؍ رجب ۱۳۴۳ھ؍۱۶؍فروری۱۹۲۵ئ،۱۲/۳۹،ص۵۔ جمعہ، ۲۶؍ رجب ۱۳۴۳ھ؍۲۰؍فروری۱۹۲۵ئ،۱۲/۴۲،ص۶۔ چہار شنبہ، یکم شعبان ۱۳۴۳ھ؍۲۵؍فروری۱۹۲۵ئ،۱۲/۴۵،ص۶۔ پنج شنبہ،۲ شعبان ۱۳۴۳ھ؍۲۶؍فروری۱۹۲۵ئ،۱۲/۴۶،ص۶۔ جمعہ،۳؍ شعبان ۱۳۴۳ھ؍۲۷؍فروری۱۹۲۵ئ،۱۲/۴۷،ص۶۔ یک شنبہ،۵ ؍شعبان ۱۳۴۳ھ؍یکم مارچ۱۹۲۵ئ،۱۲/۴۹،ص۶۔ چہار شنبہ،۸؍ شعبان ۱۳۴۳ھ؍۴؍ مارچ۱۹۲۵ئ،۱۲/۵۱،ص۶۔ پنج شنبہ،۹؍ شعبان ۱۳۴۳ھ؍۵؍ مارچ۱۹۲۵ئ،۱۲/۵۲،ص۶۔ شنبہ،۱۱؍ شعبان ۱۳۴۳ھ؍۷؍ مارچ۱۹۲۵ئ،۱۲/۵۴،ص۶۔ دوشنبہ،۱۳؍ شعبان ۱۳۴۳ھ؍۹؍ مارچ۱۹۲۵ئ،۱۲/۵۶،ص۶۔ چہارشنبہ،۱۵؍ شعبان ۱۳۴۳ھ؍۱۱؍ مارچ۱۹۲۵ئ،۱۲/۵۷،ص۶۔ چہار شنبہ،۲۲ ؍شعبان ۱۳۴۳ھ؍۱۸؍ مارچ۱۹۲۵ئ،۱۲/۵۹،ص۶۔ پنج شنبہ،۲۳؍ شعبان ۱۳۴۳ھ؍۱۹؍ مارچ۱۹۲۵ئ،۱۲/۶۰،ص۵۔ شنبہ، ۲۵؍ شعبان ۱۳۴۳ھ؍۲۱؍ مارچ۱۹۲۵ئ،۱۲/۶۲،ص۶۔ پنج شنبہ،۳۰؍ شعبان ۱۳۴۳ھ؍۲۶؍ مارچ۱۹۲۵ئ،۱۲/۶۶،ص۶۔ شنبہ،۲؍ رمضان ۱۳۴۳ھ؍۲۸؍ مارچ۱۹۲۵ئ،۱۲/۶۸،ص۵۔ دو شنبہ، ۵؍رمضان ۱۳۴۳ھ؍۳۰؍ مارچ۱۹۲۵ئ،۱۲/۷۰،ص۶۔ پنج شنبہ،۸؍ رمضان ۱۳۴۳ھ؍۲؍اپریل۱۹۲۵ئ،۱۲/۷۲،ص۶۔ شنبہ،۱۰؍ رمضان ۱۳۴۳ھ؍۴؍اپریل۱۹۲۵ئ،۱۲/۷۴،ص۵۔ جمعہ،۱۶؍ رمضان ۱۳۴۳ھ؍۱۰؍اپریل۱۹۲۵ئ،۱۲/۷۹،ص۶۔ شنبہ،۱۷؍ رمضان ۱۳۴۳ھ؍۱۱؍اپریل۱۹۲۵ئ،۱۲/۸۰،ص۵۔ دوشنبہ،۱۹؍ رمضان ۱۳۴۳ھ؍۱۳؍اپریل۱۹۲۵ئ،۱۲/۸۲،ص۵۔ پنج شنبہ،۲۹؍ رمضان ۱۳۴۳ھ؍۲۳؍اپریل۱۹۲۵ئ،۱۲/۸۹،ص۶۔ شنبہ، یکم شوال ۱۳۴۳ھ؍۲۵؍اپریل۱۹۲۵ئ،۱۲/۹۱،ص۵۔ چہار شنبہ،۵؍شوال ۱۳۴۳ھ؍۲۹؍اپریل۱۹۲۵ئ،۱۲/۹۲،ص۶۔ شنبہ، ۸؍شوال ۱۳۴۳ھ؍۲؍مئی۱۹۲۵ئ،۱۲/۹۵،ص۶۔ دوشنبہ،۱۰؍ شوال ۱۳۴۳ھ؍۴؍مئی۱۹۲۵ئ،۱۲/۹۷،ص۶۔ پنج شنبہ،۱۳؍ شوال ۱۳۴۳ھ؍۷؍مئی۱۹۲۵ئ،۱۲/۹۹،ص۶۔ شنبہ،۱۴؍ شوال ۱۳۴۳ھ؍۹؍مئی۱۹۲۵ئ،۱۲/۱۰۱،ص۶۔ دو شنبہ،۱۶؍ شوال ۱۳۴۳ھ؍۱۱؍مئی۱۹۲۵ئ،۱۲/۱۰۳،ص۶۔ جمعہ،۲۱؍ شوال ۱۳۴۳ھ؍۱۵؍مئی۱۹۲۵ئ،۱۲/۱۰۶،ص۵۔ چہارشنبہ،۲۶؍ شوال ۱۳۴۳ھ؍۲۰؍مئی۱۹۲۵ئ،۱۲/۱۱۰،ص۶۔ جمعہ،۲۸؍ شوال ۱۳۴۳ھ؍۲۲؍مئی۱۹۲۵ئ،۱۲/۱۱۲،ص۶۔ یک شنبہ،۳۰؍ شوال ۱۳۴۳ھ؍۲۴؍مئی۱۹۲۵ئ،۱۲/۱۱۴،ص۶۔ چہار شنبہ،۳؍ ذیقعد ۱۳۴۳ھ؍۲۷؍مئی۱۹۲۵ئ،۱۲/۱۱۶،ص۶۔ جمعہ،۵ ؍ذیقعد ۱۳۴۳ھ؍۲۹؍مئی۱۹۲۵ئ،۱۲/۱۱۸،ص۶۔ یک شنبہ،۷؍ ذیقعد ۱۳۴۳ھ؍۳۱؍مئی۱۹۲۵ئ،۱۲/۱۲۰،ص۶۔ چہار شنبہ،۱۰؍ ذیقعد ۱۳۴۳ھ؍۲؍جون۱۹۲۵ئ،۱۲/۱۲۲،ص۶۔ جمعہ،۱۲؍ ذیقعد ۱۳۴۳ھ؍۵؍جون۱۹۲۵ئ،۱۲/۱۲۴،ص۸۔ یک شنبہ،۱۴؍ ذیقعد ۱۳۴۳ھ؍۷؍جون۱۹۲۵ئ،۱۲/۱۲۶،ص۶۔ چہارشنبہ،۱۷؍ ذیقعد ۱۳۴۳ھ؍۱۰؍جون۱۹۲۵ئ،۱۲/۱۲۸،ص۶۔ جمعہ،۱۹؍ ذیقعد ۱۳۴۳ھ؍۱۲؍جون۱۹۲۵ئ،۱۲/۱۳۰،ص۶۔ یک شنبہ،۲۱؍ ذیقعد ۱۳۴۳ھ؍۱۴؍جون۱۹۲۵ئ،۱۲/۱۳۲،ص۶۔ چہار شنبہ،۲۴؍ ذیقعد ۱۳۴۳ھ؍۱۷؍جون۱۹۲۵ئ،۱۲/۱۳۴،ص۸۔ شنبہ،۲۷؍ ذیقعد ۱۳۴۳ھ؍۲۰؍جون۱۹۲۵ئ،۱۲/۱۳۶،ص۷۔ سہ شنبہ،۳۰؍ ذیقعد ۱۳۴۳ھ؍۲۳؍جون۱۹۲۵ئ،۱۲/۱۳۸،ص۶۔ پنج شنبہ،۲؍ذی الحجہ ۱۳۴۳ھ؍۲۵؍جون۱۹۲۵ئ،۱۲/۱۴۰،ص۶۔ یک شنبہ،۶؍ ذی الحجہ۱۳۴۳ھ؍۲۸؍جون۱۹۲۵ئ،۱۲/۱۴۳،ص۶۔ چہار شنبہ،۹؍ ذی الحجہ۱۳۴۳ھ؍یکم جولائی۱۹۲۵ئ،۱۲/۱۴۵،ص۶۔ یک شنبہ،۱۳ ؍ذی الحجہ۱۳۴۳ھ؍۵؍جولائی۱۹۲۵ئ،۱۲/۱۴۷،ص۶۔ چہار شنبہ،۱۶؍ذی الحجہ۱۳۴۳ھ؍۸؍ جولائی۱۹۲۵ئ،۱۲/۱۴۹،ص۶۔ جمعہ،۱۸؍ذی الحجہ۱۳۴۳ھ؍۱۰؍ جولائی۱۹۲۵ئ،۱۲/۱۵۱،ص۶۔ یک شنبہ، ۲۰؍ذی الحجہ۱۳۴۳ھ؍۱۲؍ جولائی۱۹۲۵ئ،۱۲/۱۵۳،ص۶۔ سہ شنبہ، ۲۲؍ذی الحجہ۱۳۴۳ھ؍۱۴؍ جولائی۱۹۲۵ئ،۱۲/۱۵۴،ص۶۔ بانگِ درا (مجلّد) مولوی سیّد ممتاز علی صاحب اینڈ سنز اطلاع دیتے ہیں کہ بانگِ درا (علامہ اقبال) ان کے ہاں سے مجلّد بھی مل سکتی ہے۔ جلد نہایت نفیس ولایتی انداز کی بندھی ہوئی ہے جس پر خوش خط سنہری حروف میں بانگ درا اور علامہ کا اسم گرامی چھپا ہوا ہے۔ غیر مجلّد کی قیمت چار روپے اور مجلّد کی سوا پانچ روپے مقرر کی گئی ہے۔ ملنے کا پتا: سیّد ممتاز علی اینڈ سنز، سنٹرل پبلشنگ ہاؤس: ۹۵؍ ریلوے روڈ، لاہور۔ شنبہِ۲۷رجب۱۳۴۳ھ؍ ۲۱؍فروری۱۹۲۵ئ،۱۲/۴۲،ص۵۔ کلّیاتِ اقبال اربابِ نظر کی راے ہے کہ آج تک کسی مشرقی شاعر کے کلام پر اتنا دلچسپ مقدمہ اس طریقے سے نہیں لکھا گیا جس طرح کہ ملک کے مایہ ناز مولوی عبدالرزاق صاحب ایچ سی ایس نے ڈاکٹرسر محمد اقبال کے اُردو مجموعہ کلام پر تحریر فرمایا ہے۔ دیباچہ کیا ہے؟ گویا اقبال کی زندگی کے مکمل واقعات، ان کی شاعری کی تمام خصوصیات اور ان کی تصانیف کی کامل تصریحات کا آئینہ ہے، شائع ہوچکا ہے۔ ضخامت ۴۰۰ صفحات، کاغذ نہایت نفیس، کتابت و طباعت نظر فریبِ بایں ہمہ قیمت فی نسخہ: مجلّد ۶؍غیر مجلّد۵؍ فوراً طلب کیجیے، ورنہ دوسرے اڈیشن کا انتظار کرنا پڑے گا۔ خرچۂ ڈاک بذمۂ خریدار۔ ملنے کا پتا: دارالکتب رہبر: افضل گنج، حیدر آباد دکن۔ جمعہ، ۱۶؍محرم ۱۳۴۴ھ؍۷؍اگست۱۹۲۵ئ،۱۲/۱۷۳،ص۶۔ پنج شنبہ،۲۲؍ محرم۱۳۴۴ھ؍۱۳؍اگست۱۹۲۵ئ،۱۲/۱۷۸،ص۶۔ خضرِراہ علامہ اقبال کے کلام باالہام کی تعریف میں کچھ لکھنا سورج کو آئینہ دکھانا ہے۔ سراقبال موصوف نے اس نظم ’’خضرراہ‘‘میں اپنی ذاتِ والا صفات کو شاعر کا خطاب دے کر’’ خضرِراہ‘‘ کے تصور میں اپنے دل کا جواب اپنی زبان سے جو کچھ دیا ہے، اس کا لطف کچھ پڑھنے والے کو ہی حاصل ہو سکتا ہے۔ قیمت۴؍ ’’جواب شکوہ‘‘:۴، ’’شکوہ‘‘:۲، ’’تصویر درد‘‘:۴، ’’شمع و شاعر‘‘:۴،( بانگ درا) مالک لال دین قیصر تاجر کتب: کشمیری بازار، لاہور۔ یک شنبہ،۱۹ربیع الثانی۱۳۴۴ھ؍۸؍نومبر۱۹۲۵ئ،۱۲/۲۴۸،ص۲۔ اُردو کی بہترین کتب اقبال شکوہ ۲؍ جوابِ شکوہ ۲؍ فریادِ امت ۴؍ بلال ۱؍ شمع و شاعر ۲؍ تصویرِ درد ۴؍ طلوعِ اسلام ۴؍ خضرِراہ ۴؍ بانگ درا ۴؍ [روپے] چہار شنبہ،۱۵شوال المکرم۱۳۴۴ھ؍۲۸؍اپریل۱۹۲۶ئ،۱۳/۹۰،ص۸۔ نادر موقع خوشخبری نادر موقع علامہ ڈاکٹر شیخ سر محمد اقبال صاحب کے ٹی بیرسٹرایٹ لا کے اُردو کلام کا مجموعہ موسومہ بانگِ درا کا دوسرا اڈیشن نہایت آب و تاب سے عمدہ کاغذ پر طبع ہونے والا ہے۔ لکھائی چھپائی مثل سابق دیدہ زیب ہوگی، سرورق بھی نہایت خوبصورت ہوگا اور ہر ایک جلد ڈاکٹر صاحب موصوف کی تصویر سے مزّین ہوگی۔ باوجود ان تمام خوبیوں کے سابق قیمت مبلغ چار روپے کے بجاے دو روپے آٹھ آنے صرف ان اصحاب سے لیے جاویں گے جو ۱۵؍ جون۱۹۲۶ء تک اپنا آرڈر درج کرادیں گے۔ یک صد کتاب سے زائد کے خریدار کو کمیشن بھی دیا جائے گا۔ دس کتابوں کے خریدار کو محصول ڈاک معاف۔ نوٹ: مجلّد کتاب بھی ایک روپیا زائد خرچ کرنے پر مل سکتی ہے جس پر بانگ درا اور ڈاکٹر صاحب کا نام سنہرے حروف سے لکھا ہوگا۔ المشتہر حکیم شیخ طاہرالدین: بازار انار کلی، لاہور۔ یک شنبہ،۱۹؍ شوال المکرم۱۳۴۴ھ؍یکم مئی۱۹۲۶ئ،۱۳/۹۲،ص۸۔ دوشنبہ،۲۰؍ شوال المکرم۱۳۴۴ھ؍۲؍ مئی۱۹۲۶ئ،۱۳/۹۳،ص۸۔ سہ شنبہ،۲۱؍ شوال المکرم۱۳۴۴ھ؍۳؍ مئی۱۹۲۶ئ،۱۳/۹۵،ص۸۔ جمعہ،۸؍ ذیقعد۱۳۴۴ھ؍۲۱؍ مئی۱۹۲۶ئ،۱۳/۱۱۰،ص۹۔ چہارشنبہ،۱۲؍ذیقعد۱۳۴۴ھ؍۲۶؍ مئی۱۹۲۶ئ،۱۳/۱۱۴،ص۸۔ چہارشنبہ،۲۰؍ذیقعد۱۳۴۴ھ؍۲؍جون۱۹۲۶ئ،۱۳/۱۲۰،ص۷۔ جمعہ،۲۹؍ذیقعد۱۳۴۴ھ؍۱۱؍جون۱۹۲۶ئ،۱۳/۱۲۷،ص۵۔ یک شنبہ ،یکم ذی الحجہ ۱۳۴۴ھ؍۱۴؍جون۱۹۲۶ئ،۱۳/۱۲۹،ص۹۔ جمعہ،۶؍ ذی الحجہ ۱۳۴۴ھ؍۱۸؍جون۱۹۲۶ئ،۱۳/۱۳۳،ص۷۔ یک شنبہ،۸؍ذی الحجہ ۱۳۴۴ھ؍۲۰؍جون۱۹۲۶ئ،۱۳/۱۳۴،ص۷۔ پنج شنبہ،۱۹؍ ذی الحجہ ۱۳۴۴ھ؍یکم؍جولائی۱۹۲۶ئ،۱۳/۱۴۱،ص۸۔ یک شنبہ، ۲۲؍ ذی الحجہ ۱۳۴۴ھ؍۴؍جولائی۱۹۲۶ئ،۱۳/۱۴۴،ص۸۔ چہار شنبہ،۲۵؍ ذی الحجہ ۱۳۴۴ھ؍۷؍جولائی۱۹۲۶ئ،۱۳/۱۴۷،ص۶۔ شنبہ،۲۸؍ ذی الحجہ ۱۳۴۴ھ؍۱۰؍جولائی۱۹۲۶ئ،۱۳/۱۵۰،ص۵۔ جمعہ،۵؍ محرم الحرام ۱۳۴۴ھ؍۱۶؍جولائی۱۹۲۶ئ،۱۳/۱۵۴،ص۵۔ فلسفۂ اسلام پر علامہ سر اقبال کے خطبات مسلم ایسوسی ایشن، مدراس کی سعی مشکور لاہور، ۲۱؍جولائی: مسلم ایسوسی ایشن مدراس، ایک مدت سے علامہ اقبال مدظلہ العالیٰ کو ’’فلسفۂ اسلام‘‘ پر ایک سلسلۂ خطبات تیار۴؎ کرنے کے لیے آمادہ کررہی تھی۔ آج ہم مسلمانوں تک یہ بشارت عظمیٰ پہنچانے کے قابل ہوئے ہیں۵؎ کہ علامۂ ممدوح مذکورہ بالا ایسوسی ایشن۶؎ کی سرپرستی میں فلسفۂ اسلام پر چھ خطبے (لیکچر) دینے کے لیے آمادہ ہوگئے ہیں۔ خطبات کی تفصیل یہ ہے: (۱) ختمِ نبوت؛ نفسیاتِ جدیدہ کی روشنی میں (۲) روحِ قرآن (دی سپرٹ آف قرآن)۷؎ (۳) ذاتِ باری تعالیٰ کا اسلامی تخیل (۴) علومِ جدید اور مسئلۂ تکوین (۵) حقیقتِ خودی اور حیات مابعدالموت (۶) اسلامی تصوف یہ خطبات نومبر ۱۹۲۷ء میں مدراس میں دیے جائیں گے۔ ان کی تیاری کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے۔ اندازہ۸؎ یہ ہے کہ ہر خطبہ فل سکیپ سائز کے تقریباً تیس ٹائپ شدہ صفحات پر مشتمل ہوگا، گویا اس طرح تخمیناً۹؎ دو سو صفحے کی کتاب تیارہوجائے گی۔ علامہ ممدوح خطبات۱۰؎ انگریزی میں لکھیں گے لیکن ساتھ ساتھ ان کا اُردو ترجمہ بھی تیار ہوجائے گا۔۱۱؎ مسلم ایسوسی ایشن، مدراس تمام مسلمانوں کی طرف سے مبارک باد کی مستحق ہے کہ اس کی سعی و کوشش کی بدولت علامہ اقبال ایسی جامعِ علومِ مشرق و مغرب شخصیت کے قلم سے فلسفہ اسلام پر ایک عدیم النظیر کتاب کی ترتیب کا انتظام ہوگیا ہے۔ شنبہ،۱۳؍محرم الحرام۱۳۴۵ھ؍۲۴؍جولائی۱۹۲۶ئ،۱۳/۱۶۰،ص۳۔ خضرِراہ علامہ اقبال کی یہ مشہور اور پسندیدہ نظم علاحدہ چھوٹی تقطیع اور کھلے کاغذ پر شائع کی گئی۔ طباعت و کتاب نہایت عمدہ۔ ۵؍ کے ٹکٹ روانہ کرکے طلب کیجیے۔ وی پی کے ذریعے حاصل کرنے کے ۷؍ادا کرنے ہوں گے۔ روایاتِ اسلامی اس کتاب کے مولف احمد منصور صاحب ہیں۔ انھوں نے شبلی نعمانی، ڈاکٹر اقبال اور حضرت مولانا ظفرعلی خاں کی وہ ولولہ انگیز نظمیں جمع کی ہیں جن میں تاریخ اسلام کے واقعات نہایت خوش اُسلوبی کے ساتھ نظم کے سانچے میں ڈھالے گئے ہیں۔ دیگر ظاہری خوبیوں کے علاوہ ایک صفحے پر ہر سہ اصحاب کی چھوٹی اور خوشنما عکسی تصویریں دی گئی ہیں۔ ۷؍ کے ٹکٹ بھیجیے یا ۹؍کا وی پی طلب کیجیے۔ مذکورہ ہر دو کتابیں اس پتے سے مل سکتی ہیں: ملک لال دین قیصر، مالک قیصری کتب خانہ: کشمیری بازار، لاہور۔ سہ شنبہ،۲۸؍ صفر۱۳۴۵ھ؍ ۷؍ستمبر۱۹۲۶ئ،۱۳/۱۹۵،ص۵۔ خضرِراہ علامہ اقبال کی شہرۂ آفاق نظم جو ۱۹۲۳ء میں انجمن حمایت اسلام کے جلسے میں پڑھی گئی تھی، کاغذ، لکھائی اور چھپائی نہایت دیدہ زیب۔ قیمت چار آنے۔ روایاتِ اسلامی علامہ اقبال، علامہ شبلی اور مولانا ظفرعلی خاں کی تمام دلکش تاریخی نظموں کا مجموعہ کاغذ، لکھائی چھپائی دیدہ زیب، ابتدا میں ہرسہ بزرگوں کی تصاویر، قیمت چھ آنے۔ دونوں کتابیں ملنے کا پتا: جناب ملک لال دین صاحب قیصر: کشمیری بازار، لاہور۔ نوٹ: ایک ایک کتاب منگانے والوں کو چاہیے کہ ’’خضرراہ‘‘ کے لیے پانچ آنے کے ٹکٹ اور روایات اسلامی کے لیے سات آنے کے ٹکٹ ارسال فرمائیں، ورنہ انھیں وی پی کا خرچہ برداشت کرنا پڑے گا اور اس طرح کتابیں منگانے والے حضرات بذریعہ وی پی منگاسکتے ہیں۔ ۳؍اکتوبر۱۹۲۶ئ،ص۳۔ پیامِ مشرق کا ترجمہ جرمن زبان میں علامہ اقبال کے پیامِ مشرق کا ترجمہ جرمنی کے ایک بالغ نظر شاعرہانس ماننکے نے جرمن زبان میں شروع کردیا ہے۔ اس وقت تک پندرہ متفرق نظموں کا ترجمہ ہوچکا ہے جس کا ایک نسخہ فاضل مترجم نے اپنے ہاتھ سے چمڑے کے کاغذ پر لکھ کر تحفتہً علامہ اقبال کی خدمت میں بھیجا ہے: ؎ پنج شنبہ،۲۴،جمادی الاخریٰ۱۳۴۵ھ؍۳۰؍دسمبر۱۹۲۶ئ،۱۳/۲۸۶،ص۶۔ اقبالی کیلنڈر یہ نہایت خوشنما، رنگین کیلنڈر شیخ غلام مصطفی صاحب نے ہمارے پاس بغرضِ اظہارِ راے ارسال فرمایا ہے۔ اس پر ترجمانِ حقیقت علامہ اقبال کی ایک بہت واضح اور خوبصورت تصویر دی گئی ہے اور اس کے نیچے کیلنڈر کے اوراق منسلک ہیں جن میں ہر ورق پر پورے مہینے کی تاریخیں مندرج ہیں۔ تعطیلات کے خانے سیاہ بنائے گئے ہیں۔ اس کیلنڈر کی لطیف خصوصیت یہ ہے کہ ہر مہینے کے ورق پر علامہ کا ایک ایسا شعر درج کیا گیا ہے جس سے کنایتہ اس مہینے یا موسم کا کوئی تعلق ہے۔ مثلاً جنوری کے ورق پر یہ شعر لکھا گیا ہے: آفتاب تازہ پیدا بطنِ گیتی سے ہوا آسماں ڈوبے ہوئے تاروں کا ماتم کب تلک ہمیں یقین ہے کہ اس کیلنڈر کو مسلمان ہاتھوں ہاتھ خریدیں گے۔ قیمت فی کیلنڈر پانچ ہے، دو آنے کی ٹکٹ آنے پر روانہ کیا جاسکتا ہے۔ تاجروں کو کافی کمیشن دیا جاتا ہے۔ ہمارے نزدیک حضرت علامہ کی تصویر اس قیمت میں بالکل مفت ہے۔ ملنے کا پتا: شیخ غلام مصطفی تاجر کتب: رنگ محل، لاہور۔ جمعہ،۱۰؍رجب ۱۳۴۵ھ؍۱۴؍جنوری۱۹۲۷ئ،۱۴/۱۰،ص۱۔ سہ شنبہ،۲۱؍رجب۱۳۴۵ھ؍۲۵؍جنوری۱۹۲۷ئ،۱۴/۱۹،ص۵۔ علامہ اقبال کی تازہ تصنیف زبور عجم نہایت مسرت کے ساتھ قارئین کرام کو یہ مژدہ سنایا جاتا ہے کہ علامہ اقبال کی تازہ تصنیف زبورعجم بالکل مکمل ہوگئی ہے اور سنا جاتا ہے کہ دوچار روز میں اس کی کتابت شروع ہوجائے گی۔ زبورعجم میں علامہ موصوف کی حیات افروز فارسی غزلوں اور نظموں کے علاوہ دو مثنویاں بھی شامل ہیں ایک ’’بندگی نامہ‘‘ اور دوسری محمود شبستری کی گلشن راز… کا جواب۔ چہار شنبہ،۲۲رجب ۱۳۴۵ھ؍۲۶جنوری۱۹۲۷ئ،۱۴/۲۰،ص۴۔ نادر موقع خوشخبری نادر موقع علامہ ڈاکٹر شیخ سر محمدؐ اقبال صاحب کے ٹی بیرسٹرایٹ لا کے اُردو کلام کا مجموعہ موسومہ بانگِ درا کا دوسرا اڈیشن نہایت آب و تاب سے بہت عمدہ کاغذ پر طبع ہوگیا ہے، لکھائی اور چھپائی مثل سابق دیدہ زیب ہے، سرورق بھی اب کے نہایت خوبصورت ہے اور ہر ایک جلد ڈاکٹر صاحب موصوف کی تصویر سے مزّین ہے۔ باوجود ان تمام خوبیوں کے سابق قیمت مبلغ چار روپے کے بجاے دو روپے آٹھ آنے علاوہ محصول ڈاک صرف ان اصحاب سے لیے جاویں گے جو ۲۱؍مارچ ۱۹۲۷ء تک اپنا آرڈر بھیج دیں گے۔ یک صد کتاب سے زائد کے خریدار کو کمیشن بھی دیا جائے گا۔ دس کتاب کے خرید ار کو محصول ڈاک معاف۔ (نوٹ) مجلّد کتاب بھی ایک روپیا زائد خرچ کرنے پر مل سکتی ہے۔ جلد پر بانگ درا اور ڈاکٹر صاحب کا نام سنہرے حروف سے لکھا ہے۔ المشتہر: حکیم شیخ طاہرالدین: بازار انار کلی لاہور۔ پنج شنبہ،۷؍ شعبان۱۳۴۵ھ؍۱۰؍فروری۱۹۲۷ئ،۱۴/ ۳۲،ص۵۔ چہارشنبہ،۱۳؍ شعبان۱۳۴۵ھ؍۱۶؍فروری۱۹۲۷ئ،۱۴/ ۳۷،ص۵۔ جمعہ،۲۱؍ شعبان۱۳۴۵ھ؍۲۴؍فروری۱۹۲۷ئ،۱۴/ ۳۷،ص۵۔ پنج شنبہ،۱۲؍رمضان۱۳۴۵ھ؍۱۷؍مارچ۱۹۲۷ئ،۱۴/ ۶۰،ص۵۔ سہ شنبہ،۱۶؍شوال۱۳۴۵ھ؍۱۹؍اپریل۱۹۲۷ئ،۱۴/ ۸۳،ص۵۔ سہ شنبہ،۲۹؍ ذیقعد۱۳۴۵ھ؍۳۱؍مئی۱۹۲۷ئ،۱۴/ ۱۱۹،ص۶۔ قارئینِ کرام کو مژدہ اشاعت پس فردا یعنی سنڈے اڈیشن میں علامہ اقبال مدظلہ العالی کی ایک تازہ نظم درج کی جائے گی۔ اس کے علاوہ اشاعت مذکور میں اور بھی کئی قسم کی دلچسپیاں ہوں گی۔ مہتمم جمعہ، ۶رمضان۱۳۴۵ھ؍ ۱۱؍مارچ۱۹۲۷ئ،۱۴/۵۵،ص۳۔ یاچناں کن یاچنیں علامہ اقبال مدظلہ العالی ہم قبل ازیں قارئین کرام تک یہ بشارتِ عظمیٰ پہنچا چکے ہیں کہ علامہ اقبال کا تازہ کلام زبورعجم کے نام سے مکمل ہوچکا ہے اور کتاب مطبع تک پہنچ چکی ہے۔ امید ہے کہ ان شاء اللہ زبورعجم دو مہینے کے اندر شائقین کے ہاتھوں تک پہنچ جائے گی۔ جس نظم سے آج کا زمیندار مزین ہے، وہ اسی سلکِ جواہر کا ایک شاہ وار گوہر ہے۔ زبورِعجم تخمیناً تین سو صفحات پر مشتمل ہوگی۔ (مدیر) یک شنبہ، ۸؍مضان۱۳۴۵ھ؍ ۱۳؍مارچ۱۹۲۷ئ،ص۱۔ تو شاہین ہے، پرواز ہے کام تیرا تیرے سامنے آسماں اور بھی ہیں ’’شاہین معما کا اقبال نمبر ‘‘ ۱ ر ت X X ۲ ع ل X X X ۳ ا ق X ۴ ر ا ت X ۵ ا ت ا م ۶ ا ع ت ا پہلا انعام چھ سو روپے، صرف چھ عام فہم اشاروں کے مقابل ایک ہزار روپے کے نقد انعامات؛ ایک ہی نام سے زیادہ حلوں کے لیے ۱۰۰، باقی انعامات تین سو روپے۔ آخری تاریخ داخلہ: پندرہ مئی۱۹۴۹ء خاص لاہور کے لیے آخری تاریخ داخلہ: چودہ مئی۱۹۴۹ء تاریخ نتیجہ: ۱۷ ؍مئی ۱۹۴۹ء بروز سنڈے اڈیشن اخبار زمیندار، جس پر ۱۸؍مئی کی تاریخ ہوگی۔ (انعام تین غلطیوں تک دیا جائے گا) ۱- علامہ اقبال کے نزدیک شاعر وہی ہوسکتا ہے جس کو ……………سے شاعرانہ طبیعت عطا ہوئی ہو۔ ۲- اقبال کا زریں قول ہے کہ انسان ………کے بغیر کامیاب نہیں ہوسکتا۔ ۳- ہزاروں …………بھی دنیا میں اگر پیدا ہوں تو دنیا ایسی درخشاں نہ ہوسکے گی جو واحد اقبال کی ذات سے منور تھی۔ ۴- کسے انکار ہوسکتا ہے کہ علامہ اقبال …………سے خالی تھے۔ ۵- شاعر اعظم کسی بڑے آدمی کے لیے کوئی…………نہ کرتے تھے۔ ۶- آپ کو حکیم نابینا صاحب و حکیم قرشی پر زیادہ …………تھا اور وہی ان کے خاص معالج تھے۔ علامہ اقبال کو ہدیۂ تعزیت پیش کرتے ہوئے شاہین معما کا ایک خاص نمبر (اقبال) آپ کے سامنے پیش کیا جاتا ہے۔ یہ اقبال نمبر شاہین معما کے سلسلہ وار نمبروں سے علاحدہ ہے۔ شاہین معما نمبر ۹ حسب دستور سابق ۵؍مئی۱۹۴۹ء بروز بدھ وار اخبار امروز شائع ہوگا اور اسی روز اخبار زمیندار اور اخبار امروز میں شاہین معما نمبر ۸ کا نتیجہ شائع ہوگا۔ ملی جلی زبانوں سے دائیں سے بائیں جانب اشارات کی امداد سے خالی خانوں کو پُر کریں۔ صحیح حل صرف وہ ہوگا جو مینجر شاہین کے ذاتی حل سے حرف بہ حرف مطابقت کرے گا اور جس پر کسی قسم کی جرح یا تنقید نہ ہوسکے گی۔ ایک ہی نام سے کئی حل ارسال کرنے والے صرف ایک ہی انعام کے مستحق ہوں گے جو سب سے بڑا ہوگا۔ آخری تاریخ داخلے کے بعد وصول شدہ حل کسی بھی حالت میں شامل مقابلہ نہ ہوں گے، خواہ وہ کئی روز پہلے بعینہٖ رجسٹری ہی کیوں نہ لاہور یا کسی اور مقام سے چلے ہوں۔ باقی مفصل شرائط وہی ہیں جو ہر شاہین معما پر وقتاً فوقتاً عائد ہوتی رہتی ہیں۔ نتیجہ معما ہذا صرف دو ہفتوں تک منظر عام پر آرہا ہے۔ اس کے حل ارسال کرنے میں تاخیر نہ فرمائیے۔ وصول شدہ رقومات واپس نہ ہوں گی، البتہ خاص حالت میں اگلے معما میں شمار کردی جاسکتی ہیں۔ حل و منی آرڈر حسبِ ذیل پتا پر ارسال فرمائیے: مینجر شاہین معما (اقبال نمبر): ۲۴ راجا رام، اسٹریٹ گوال منڈی، لاہور۔ کشمیرنمبر،۳۰؍اپریل۱۹۴۹ئ،ص۲۰۔ ۳- اطلاعات امریکا کی طرف سے اسلام کے خلاف اعلانِ جہاد ساعت وہ آگئی کہ اسلامیانِ ہند مغرب کو اپنی آہ سے زیر و زبر کریں بروز یک شنبہ بتاریخ ۲۵؍اپریل بوقت ۵بجے شام باغ بیرون موچی دروازہ میں مسلمانانِ لاہور کا ایک عام جلسہ منعقد ہونا قرار پایا ہے کہ اہل امریکا نے مبلغینِ اسلام پر داخلے کا جو دروازہ بند کیا ہے، اس کے متعلق اب مسلمانوں کو کیا کرنا چاہیے؟ الداعیان: ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ، (ڈاکٹر شیخ) محمد اقبال (جنرل سکریٹری انجمن حمایتِ اسلامی) ، (داروغہ) عبدالرحیم (جنرل سکرٹری ینگ مسلم ایسویسی ایشن)، (مولوی) ظفر علی خاں (اڈیٹر زمیندار و پریذیڈنٹ پنجاب پراونشل خلافت کمیٹی)، چودھری غلام حیدر خاں (اڈیٹر اخبار صداقت)۔ یک شنبہ، ۶؍شعبان۱۳۳۸ھ؍۲۵؍اپریل۱۹۲۰ئ،۵/۷،ص۴۔ حادثۂ جانکاہ علامہ اقبال کی بیگم صاحبہ کا انتقال انتہائی رنج و افسوس اور دلی اندوہ و قلق کے ساتھ یہ الم انگیز اطلاع درجِ اخبار کی جاتی ہے کہ علامہ سر اقبال کی لدھیانے والی بیگم صاحبہ کا ۲۱؍اکتوبر کو انتقال ہوگیا، انا لِلّٰہ وانا الیہ راجعون۔ مرحومہ مغفورہ علیل تھیں اور لاہور سے اپنے والدین کے ہاں لدھیانہ تشریف لے گئی تھیں۔ ہفتے کے روز ان کی سخت علالت کا تار لاہور پہنچا۔ اسی روز علامہ اقبال لدھیانہ تشریف لے گئے۔ دو شنبہ کو چار بجے کے قریب علامہ ممدوح کی طرف سے اس غم انگیز حادثے کی اطلاع لاہور پہنچی۔ زمیندار کا عملۂ ادارت اس جانکاہ حادثے پر علامہ اقبال کے ساتھ گہری ہمدردی کا اظہار کرتا ہے اور دل سے دست بدعا ہے کہ ایزد و برتر توانا مرحومہ کو اپنے جوار رحمت میں جگہ دے اور علامہ ممدوح، نیز مرحومہ کے دوسرے خویش و اقارب کو صبر جمیل عطا فرمائے! آمین! جمعہ، ۲۴؍ربیع الاوّل۱۳۴۳ئ؍ ۲۴؍اکتوبر۱۹۲۴ئ،۱۱/۲۳۳،ص۳۔ مسلمانانِ لاہور کا عظیم الشان جلسہ بعض آریہ سماجی اخبارات، مثلاً پرتاپ، ملاپ نے مسلمانوں اور ان کے مذہب کے خلاف جو حقارت آمیز و خطرناک پروپیگنڈا شروع کررکھا ہے، اس کے خلاف صداے اجتحاج بلند کرنے کے لیے مسلمانانِ لاہور کا ایک جلسہ عام بصدارت جناب ڈاکٹر سر محمد اقبال صاحب بیرسٹرایٹ لا ممبرلیجسلیٹو کونسل بروز شنبہ (شینچر) بتاریخ ۲۲؍جنوری ۱۹۲۷ء بعد ازنماز مغرب باغ بیرون موچی دروازہ میں ہونا قرار پایا ہے۔ امید ہے کہ ہر طبقے کے مسلمان اس اہم جلسے میں شامل ہوکر اپنے قومی فرض سے سبکدوش ہوں گے۔ الداعیان: علامہ ڈاکٹر سرمحمد اقبال میکلوڈ روڈ، لاہور۔ خان سعادت علی خان جنرل سکریٹری انجمن اسلامیہ لاہور، سیّدمحسن شاہ صاحب وکیل سکریٹری انجمن اسلامیہ لاہور، ڈاکٹر سیّد محمد حسین شاہ صاحب جنرل سکریٹری انجمن اشاعت اسلام لاہور، ماسٹر فقیر اللہ صاحب سکریٹری احمدیہ انجمن اشاعت اسلام لاہور، مولوی غلام محی الدین صاحب وکیل سکریٹری انجمن حمایت اسلام لاہور، پیرتاج الدین صاحب جنرل سکریٹری مسلم لیگ، فضل دین صاحب تاجر سکریٹری انجمن اہل حدیث، مولانا ظفر علی خاں صاحب اڈیٹر زمیندار ، مولوی محمد الدین صاحب اڈیٹر کشمیری میگزین شیرانوالہ دروازہ، مولوی محبوب عالم صاحب اڈیٹر پیسہ اخبار، مولوی مہرعلی اڈیٹر تہذیب نسواں ریلوے روڈ، منشی دین صاحب اڈیٹر میونسپل ٹرسٹ شیرانوالہ دروازہ، مولوی مصطفی خان صاحب اڈیٹر اسلامک ورلڈ ، شیخ عظیم اللہ صاحب وکیل، خواجہ فیروزالدین صاحب بیرسٹرایٹ لا بیرون موچی دروازہ، چودھری برکت علی صاحب وکیل مزنگ روڈ، ملک محمد امین صاحب وکیل، شیخ محمد دین جان صاحب وکیل، شیخ نیاز محمد صاحب وکیل، مولوی عبداللہ صاحب جمعیت دعوت تبلیغ، شمس العلما سیّد علی الحائری صاحب، مولانا مولوی احمد علی صاحب دروازہ شیرانوالہ۔ یک شنبہ، ۱۹رجب ۱۳۴۵ھ؍۲۳؍جنوری۱۹۲۷ئ،۱۴/۱۸،ص۶۔ مسلمانانِ لاہور کا جلسہ لاہور، ۲۹؍جنوری: آج شام کو ساڑھے چھ بجے باغ بیرون موچی دروازہ میں ڈاکٹر اقبال کے زیر صدارت ایک جلسہ منعقد ہوگا جس میں مولانا غلام مرشد اور مولانا محمد علی امیر جماعت احمدیہ لاہور ’’حالات حاضرہ اور تعلقات ہندو و مسلم‘‘ پر تقریریں کریں گے۔ (نامہ نگار) یک شنبہ، ۲۶؍رجب ۱۳۴۵ھ؍ ۳۰؍جنوری۱۹۲۷ئ،۱۴/۲۴،ص۶۔ مسلمانوں، ہندوؤں اور سکھوں کی مشترکہ ریلیف کمیٹی سوا چار ہزار روپے فی الفور جمع ہوگئے لاہور، ۲۵؍مئی: کمشنر صاحب لاہور ڈویژن کی تجویز کے مطابق لاہور کے سرکردہ ہندوؤں، مسلمانوں اور سکھوں کی ایک مجلس؛ فساداتِ لاہور کے متعلق ریلیف کمیٹی قائم کرنے کی غرض سے کمشنر صاحب کے دفتر میں منعقد ہوئی۔ کمشنر صاحب اس کانفرنس کے صدر تھے۔ مندرجہ ذیل ریزولیوشن پاس ہوئے: (۱) ’’ان قبیلوں کی امداد کے لیے، جو فسادات میں اپنے روزی کمانے والے کھوچکے ہیں، چندہ جمع کرنے کے لیے تجاویز عمل میں لائی جائیں۔‘‘ یہ ریزولیوشن خان بہادر ملک محمد حسین صدر میونسپل کمیٹی نے پیش کیا اور دیوان بہادر لالہ کشن کشور نے اس کی تائید کی۔ (۲) راے بہادر لالہ رام سرن داس نے تحریک پیش کی کہ ہر ایک قبیلے کے حالات کی تحقیقات کرنے کے لیے ہر ایک جماعت کے لیڈروں کی ایک ایگزیکٹیو کمیٹی بنائی جائے جو بحث مباحثے کے بعد یہ فیصلہ کرے کہ فلاں کنبے کے لیے کس قدر مالی امداد کی ضرورت ہے۔ (۳) یہ کہ اس تحقیقات کے نتیجے کی ۱۱ یا ۱۲ ؍جون سے پہلے پہلے جنرل باڈی کو رپورٹ کی جائے جو فوراً چندہ جمع کرنے کے لیے ایک مشترکہ اپیل جاری کرے، بشرطیکہ عید کا دن ۱۰ یا ۱۱؍جون کو ہو۔ ریلیف کمیٹی حسب ذیل ممبروں کی ایک کمیٹی بنائی گئی۔ راجا نریندر ناتھ صدر، مسٹر جی ایس راگھول کنوینر، راے بہادر رام سرن داس خزانچی، ڈاکٹر گوکل چند نارنگ، دیوان بہادر کشن کشور، ڈاکٹر گوپی چند، سر محمد شفیع، ڈاکٹر سر محمد اقبال، خان بہادر ملک محمد حسین، ڈاکٹر اللہ جوایا، مولوی محرم چشتی، خان بہادر شیخ عبدالقادر، سردار مہر سنگھ چاولا، سردار امرسنگھ، سردار گوروپال سنگھ سالایہ اور مسٹر کے ایل رلیا رام۔ اس کمیٹی کا کورم ۵ ممبروں کا ہوگا۔ اگر کسی حالت میں کوئی ممبر غیر حاضر ہو تو اسے اپنا نمائندہ بھیجنے کی اجازت ہوگی۔ فہرست چندہ اس جگہ (۴۲۹۵ روپے) چار ہزار دو سو پچانوے روپے جمع کیے گئے جس کی تفصیل حسب ذیل ہے: راے بہادر رام سرن داس، دیوان بہادر کشن کشور اور راجا نریندر ناتھ پانچ پانچ سو روپے، سرذوالفقار علی خان۲۰۰روپے، ڈاکٹر گوکل چندنارنگ اور راے بہادر موتی ساگر ۱۵۰ روپے، ڈاکٹر نندلال، مولوی محرم علی چشتی، ڈاکٹر اللہ جوایا، سردار مہر سنگھ چاولا، راے بہادر لالہ سری داس، ڈاکٹر سر محمد اقبال، خان بہادر شیخ عبدالقادر، راے بہادر لالہ نرنجن داس، شیخ محمد تقی، راے بہادر رام پرشاد، راے بہادر اجودھیا پرشاد، راے صاحب کرم چندپوری، راے بہادر لالہ دھنپت راے اور میاں عبدالعزیز نے ایک ایک سو روپے کی رقم دی۔ بہت سے اصحاب نے پچاس، پچیس، بیس اور پندرہ روپے کی رقمیں بھی دیں۔ پنج شنبہ،۲۴؍ذیقعد۱۳۴۵ھ؍۲۶؍مئی،۱۹۲۷ئ،۱۱۵،ص۳۔ نواب سر ذوالفقار علی خاں کی تقریر لاہور، ۲۱؍اپریل: پنجاب لیرٹری لیگ کے اہتمام میں ایک جلسہ ہوگا جس میں نواب سرذوالفقار علی خاں وائی ایم سی اے ہال میں ۵؍ مئی کو شام کے ۷؍بجے قسطنطنیہ کی موجودہ حالت پر ایک تقریر فرمائیں گے۔ ڈاکٹر سر اقبال جلسے کے صدر ہوں گے۔ ۲۳؍اپریل۱۹۳۱ئ،ص۴۔ چودھری ظفر اللہ خاں اپنے منصب سے مستعفی ہونے والے ہیں ان کے جانشین نواب چھتاری، علامہ اقبال یا سر ذوالفقار علی خاں ہوں گے شملہ، ۲۸؍جون: زمیندار کاشملوی نامہ نگار، جس کی رسائی وائسراے کی ایگزیکٹیو کونسل اور اعضاے حکومت کی مخصوص صحبتوں تک وسائل ہیں، رقم طراز ہے کہ وائسراے کی ایگزیکٹو کونسل میں چودھری ظفراللہ خان کے تقرر کے خلاف مسلمانوں کے ہنگامہ خیز احتجاج کا کافی اثر ہوا ہے۔ اعضاے حکومت اپنی غلطی پر پشیمان ہیں اور تلافیِ مافات کی کوشش کرنی چاہتے ہیں۔ اسی سلسلے میں یہ بھی سنا گیا ہے کہ چودھری ظفراللہ خان خرابیِ صحت کی بنا پر اپنے عہدے سے مستعفی ہونے والے ہیں۔ ان کے بعد اس منصب کے لیے تین اصحاب کے نام پیش ہیں: نواب چھتاری، سر اقبال، سرذوالفقار علی۔ یہ بھی معلوم ہے کہ بہت سے ملکی و ملی مسائل میں حکومت چودھری ظفر اللہ خان کو اپنا ہمنوا نہیں بنا سکتی۔ ان کی سکیم حکومت کی سکیم سے بھی زیادہ رجعت پسندانہ ہے۔ یکم؍جولائی۱۹۳۲ئ،ص۴۔ ۴- رپورٹیں لاہور میں اُخوتِ اسلامی کے روح پرور مناظر مہمانانِ عزیز یعنی ترکانِ احرار رات کو بارہ بجے کے بعد ہوٹل کی طرف روانہ ہوئے ڈاکٹر میجر حیدر عصمت بے اور لیفٹیننٹ الیاس آفندی۱؎ ملاقات کے کمرے میں تشریف لے آئے، ملاقات کرنے والے تشریف لاتے رہے۔ یہ دونوں حضرات تعظیم کے لیے کھڑے ہوتے تھے اور ہر ایک سے نہایت خندہ پیشانی سے ملتے تھے۔ حضرت اقبال کا انتظار اسلامی دنیا میں علامہ شیخ محمد اقبال کا فارسی کلام اس قدر مقبول عام ہوا ہے کہ مختلف زبانوں کے شعرا ے نامدار نے آپ کے کلام کے تراجم مختلف زبان میں تیار کیے ہیں۔ لیفٹیننٹ الیاس آفندی آپ کے مداحین میں سے ہیں، چنانچہ ریل سے اترتے ہی آپ نے جناب اقبال کے متعلق پوچھنا شروع کیا۔ اس وقت تو ان کی خدمت میں یہ عرض کردیا گیا کہ علامہ اقبال کے دشمنوں کی طبیعت ناساز ہے، اس لیے تشریف نہیں لاسکے، ان شاء اللہ کل کسی وقت تشریف لائیں گے۔ آج دس بجے کے بعد ایک صاحب نے فرمایا کہ چند نوجوانانِ شہر نے ترکان احرار کو مدعو کیا ہے اور علامہ اقبال سے درخواست کی ہے کہ وہ فرائض میزبانی انجام دیں، چنانچہ علامہ اقبال آج اس جلسۂ دعوت میں شریک ہوں گے۔ یہ خبر سن کر لیفٹیننٹ الیاس آفندی بہت مسرور ہوئے اور فرمانے لگے کہ ہمارے لیے حضرت اقبال کی موجودگی باعث فخر و مباہات ہے………۔ رنگ محل کے چوک میں تشریف آوری رنگ محل مشن اسکول کے سامنے چند نوجوانوں نے دعوت کا سامان کیا تھا۔ کوچہ چابک سواراں کے ان نوجوانوں نے شرائط میزبانی کو بوجہ احسن انجام دیا۔ کوچے کے دروازے پر دروازہ تیار کیا گیا تھا، باجے والے کھڑے تھے، جناب علامہ شیخ محمد اقبال صاحب، مولوی محبوب عالم صاحب، مرزا جلال الدین صاحب، حاجی شمس الدین صاحب اور دیگر اکابر موجود تھے۔ مہمانان عزیز کی تشریف آوری پر بینڈ باجے نے خیر مقدم کا راگ گایا، ہجوم سے اللہ اکبر، زندہ باد کے غلغلہ انداز نعرے بلند ہوئے اور بزرگوں نے ان مجاہدین اسلام کا استقبال کیا۔ ڈاکٹر اقبال کی خدمت میں اظہارِ عقیدت ڈاکٹر شیخ محمد اقبال صاحب اور دیگر حضرات سے تعارف کرایا گیا۔ جناب میجرحیدر عصمت نے اور جناب لیفٹیننٹ الیاس آفندی نے ان اکابر سے مصافحہ اور معانقہ کیا اور جوش مسرت و اخوت میں ان کے منہ چومے۔ یہ دونوں حضرات علامہ اقبال پر فدا ہورہے تھے۔ جناب الیاس آفندی بار بار فرماتے تھے کہ آج میں اپنے آپ کو خوش قسمت سمجھتا ہوں کہ میں نے اس بزرگ سے ملاقات کا شرف حاصل کیا جس کے لیے میں ہمیشہ مضطرب رہاکرتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ اقبال صاحب کو عمر خضر عطا فرماے اور وہ اسی طرح خدمت اسلام انجام دیتے رہیں! پنج شنبہ، ۲۶ جمادی الثانی۱۳۴۲ھ؍ ۷؍فروری۱۹۲۴ئ،۱۱/۳۱،ص۴۔ مسجد شاہ محمد غوث کے متولی کی افسوس ناک حرکت قبروں کو کھود کر دکانیں بنانے کی کوشش پولیس نے کھدائی روک دی ہے لاہور، ۲۷دسمبر: پرسوں صبح سویرے بعد نماز میاں غلام نبی صاحب نائب متولی مسجد شاہ محمد غوث علیہ الرحمۃ نے مسجد کی اس زمین کو کھودنا شروع کردیا جو مسجد کے دروازے کے قریب بائیں جانب خالی پڑی ہوئی ہے اور جس میں بہت سی قبریں بھی موجود ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ان قبروں کے لیے متولیوں نے روپیا وصول کرکے جگہ دی تھی۔ بعض دوسرے متولیوں، اہل محلہ اور دیگر مسلمانوں نے متولی مذکور کو ایسا کرنے سے روکا اور متولی مذکور نے صاف طور پر کَہ دیا کہ میں یہاں دکانیں بنانا چاہتا ہوں، بلکہ اس مقصد کے لیے اس نے اینٹیں بھی منگالی تھیں۔ متولی اور اس کے چند حامیوں اور دوسرے لوگوں کے درمیان مارپیٹ ہونے کا بھی اندیشہ تھا لیکن سیّد لعل شاہ صاحب اور حاجی شمس الدین صاحب نے بیچ بچاؤ کردیا۔ اس جگہ، جہاں متولی دکانوں کی دیواروں کی بنیادیں کھود رہا تھا، ۲۷ ہڈیاں نکلی ہیں جو پولیس نے اپنی رپورٹ میں درج کرلی ہیں اور بابوقادربخش کے پاس رکھ دی گئی ہیں۔ پولیس نے متولی مذکور کو اس فعل سے روک دیا اور کل رات تک پہرہ دیتی رہی تاکہ دوبارہ ایسی کوشش نہ کی جائے۔ کل علامہ اقبال، چودھری شہاب الدین، خواجہ دل محمد، خواجہ فیروزالدین، ملک محمد حسین، شیخ عظیم اللہ اور چودھری فتح محمد صاحب موقع کا معائنہ کرنے کے لیے تشریف لائے۔ ملک محمد حسین صاحب صدر بلدیہ نے لوگوں کو یقین دلایا کہ یہاں دکانیں بنانے کی اجازت نہیں دی جائے گی اور جو نقشہ تعمیر دکانات کے لیے منظور کیا جاچکا ہے، وہ منسوخ کردیا جائے گا۔ سہ شنبہ، ۲۲جمادی الاخریٰ۱۳۴۵ھ؍۲۸؍دسمبر۱۹۲۶ئ،۱۳/۲۸۴،ص۳۔ کفر کے خرمن پر اسلام کی بجلی مسلمانانِ لاہور کا ایک عظیم الشان جلسہ پندرہ ہزار فرزندانِ توحید کا اجتماع جوش ملی کے جانفروز نظارے لاہور، ۲۲؍جنوری:آج بعد نماز مغرب باغ بیرون موچی دروازہ میں مسلمانانِ لاہور کا ایک نہایت عظیم الشان جلسہ حضرت علامہ اقبال مدظلہ العالی کی زیر صدارت منعقد ہوا۔ یہ جلسہ اپنی شان و شوکت، تعداد حاضرین اور جوش اسلامی کے اعتبار سے ان جلسوں کی یادتازہ کررہا تھا جو طرابلس و بلقان کی لڑائیوں کے زمانے میں منعقد ہوا کرتے تھے۔ ہر طرف فرزندان توحید کے ٹھٹھ کے ٹھٹھ لگے ہوئے تھے۔ حاضرین کی تعداد کا اندازہ پندرہ ہزار سے زیادہ کیا جاتا ہے۔ اس جلسے کی سب سے بڑی خصوصیت یہ تھی کہ تمام فرقوں کے مسلمان اپنے اختلاف کو بالاے طاق رکھ کر کفر کے مقابلے میں اسلام کی عزت کی حمایت کے لیے دوش بدوش اور پہلو بہ پہلو بیٹھے تھے۔ دیوبندی، حنفی، حزب الاحناف، شیعہ، احمدی، اہل حدیث، جدید تعلیم یافتہ؛ غرض تمام طبقوں اور فرقوں کے مسلمان موجود تھے۔ وکلا، بیرسٹر، تاجر، دکاندار، دفاتر کے ملازم، کارخانوں کے مزدور؛ سبھی شریک جلسہ تھے اور ہر اعتبار سے یہ جلسہ مسلمانانِ لاہور کی نمائندگی کی اہلیت رکھتا تھا۔ اس جلسے کے انعقاد کا مقصد یہ تھا کہ سوامی شردھانند کے قتل کے سلسلے میں ہندوؤں کے رہنمائوں اور اخباروں نے مسلمانوں پر من حیث القوم اور مذہب مقدس اسلام پر جو حملے کیے ہیں اور جس اشتعال انگیز تحریر و تقریر کا سلسلہ برابر جاری ہے، اس کے خلاف پوری قوت سے احتجاج کیا جائے۔ جن حضرات نے اس جلسے میں شریک ہوکر مسلمانوں کے جوش و خروش کا نظارہ کیا ہے، وہ خوب جانتے ہیں کہ ایک ایک مسلمان ہندو جرائد و عمائد کے ان دل آزار حملوں کو نہایت شدت سے محسوس کررہا ہے۔ سب سے پہلے تلاوت قرآن مجید کے بعد علامہ اقبال نے ایک بصیرت افروز افتتاحی خطبہ دیا جس میں نہایت متانت اور کافی زور کے ساتھ برادرانِ وطن کے موجودہ رویے کے خلاف احتجاج فرمایا اور ملک کے موجودہ نفاق پر اظہار افسوس کرتے ہوئے ہندوؤں اور سکھوں سے یہ التماس کی کہ جب منشاے ایزدی نے ہمیں یکجا رہنے پر مجبور کردیا ہے تو ہمیں بھی ایسا رویہ اختیار کرنا چاہیے کہ ہم یکجا رہ سکیں۔ اس کے بعد حضرت مولانا ظفر علی خاں نے قرار داد پیش کی۔۲؎ سہ شنبہ، ۲۱رجب ۱۳۴۵ھ؍۲۵؍جنوری۱۹۲۷ئ،۱۴/۱۹،ص۳۔ مسلمانانِ راولپنڈی کا اجتماع عظیم مولانا ظفر علی خاں اور ڈاکٹر اقبال کی خدمات کا اعتراف رنگیلا رسول کے ناشر راجپال کی رہائی پر اظہار افسوس ہائی کورٹ سے شیخ محمد امین کی معطلی پر مالی امداد کے لیے آمادگی راولپنڈی، ۶؍مئی: آج بروز جمعہ ہزار ہا مسلمانوں کے مجمعے میں مولوی محمد اسماعیل صاحب اور مولانا مولوی غلام علی صاحب آفیسر منشی نے ہندوؤں اور سکھوں کا حملہ، جو لاہور میں بے گناہ مسلمانوں پر اچانک کیا گیا، سنایا اور ہر ایک مسلمان کو حقیقی معنوں میں مسلمان بن کر قال اللہ و قال الرسول کے مطابق آئندہ زندگی گزارنے کی طرف توجہ دلائی۔ اس کے بعد بہ اتفاق آرا مندرجہ ذیل رزولیوشن پاس کیے گئے: ۱- ’’مسلمانان راولپنڈی‘‘ سکھ ہندو حملہ کرنے والوں کے خلاف (جو لاہور میں بے گناہ مسلمانوں پر کیا گیا) اظہار ملامت کرتے ہوئے حضرت مولانا ظفر علی خاں اور ڈاکٹر سر اقبال وغیرہ کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔ انھوں نے عام مسلمین کو صبرو تحمل اختیار کرنے کی طرف توجہ دلائی۔ ۲- ’’مسلمانان راولپنڈی‘‘ کتاب رنگیلا رسول کے پبلشر مہاشا راجپال کے ہائی کورٹ سے رہا ہوجانے پر اظہار افسوس کرتے ہوئے حکومت پنجاب کو توجہ دلاتے ہیں کہ اگر وہ رنگیلا رسول کو ضبط کرکے اس کے پبلشر کو قرار واقعی سزا نہ دے گی تو مسلمانوں کے دلوں پر اس کا سخت صدمہ ہوگا اور مسلمان اس امر کے باور کرنے میں حق بجانب ہوں گے کہ حکومت پنجاب، یعنی سرمیلکم ہیلی کو مسلمانوں کے جذبات کا وہ احساس نہیں جو ایک حاکم کو اپنی رعایا سے ہونا چاہیے۔ ۳- ’’مسلمانان راولپنڈی‘‘ کا یہ جلسہ مولانا شیخ محمد امین صاحب بیرسٹرایٹ لا (سابق ساگرچند) سے تین ماہ کے لیے پریکٹس بند کردیے جانے پر دلی ہمدردی کا اظہار کرتا ہوا اس امر کو واضح کردینا چاہتا ہے کہ ’’مسلمانان راولپنڈی‘‘ مولانا کی ہر طرح مالی امداد کے لیے حاضر ہیں۔ (نامہ نگار) سہ شنبہ،۸ذیقعد۱۳۴۵ھ؍۱۰؍مئی۱۹۲۷ئ،۱۴/۱۰۲،ص۳۔ لاہور میں ایک اور کانفرنس لاہور، ۱۳؍مئی: ساڑھے چار بجے عصر کے وقت لاہور کے ہندو، مسلم اور سکھ لیڈروں کی ایک اور کانفرنس راے بہادر لالہ دونی ساگر کی کوٹھی واقع فیروز پور روڈ میں منعقد ہوئی۔ سرمحمد شفیع صدر تھے۔ دیوان بہادر راجا نریندر ناتھ، راے بہادر لالہ رام سرن داس، سردار بہادر مہتاب سنگھ، مسٹر گنپت راے بیرسٹر، مسٹر حبیب اللہ ، دیوان بہادر لالہ پنڈی داس بسروال، سردار رام سنگھ، مسٹر یوسف علی، سر محمد اقبال، ڈاکٹر نندلال، لالہ بدری داس، خان بہادر ملک محمد حسین صدر بلدیہ لاہور، راے بہاری تھاپر، شیخ امیر علی، راے بہادر نرنجن داس، راے بہادر[…]، مسٹر رام جوایا، ڈاکٹر خلیفہ شجاع الدین، مسٹر انعام علی، سرمیاں محمد شفیع، میاں عبدالعزیز بیرسٹرایٹ لا، مسٹر راجا رام، ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ، راے بہادر موتی ساگر، شیخ عظیم اللہ، مسٹر چراغ دین، راے گوپال داس، لالہ فقیر چند وکیل، سیّد افضال علی، لالہ کمندلال پوری، سیّد مراتب علی اور مسٹر محسن شاہ کانفرنس میں شامل تھے۔ راے بہادر گوپال داس کو کانفرنس کا سکریٹری مقرر کیا گیا۔ کانفرنس کے اغراض و مقاصد حسب ذیل ہیں: ۱- تمام جماعتوں میں بین الاقوامی اتحاد اور میل ملاپ کی روح پیدا کی جائے۔ ۲- تمام شہر میں اتحادی کمیٹیاں مقرر کی جائیں جس کی شاخیں بھی ہوں گی۔ ۳- اصلی مجرموں کو سزائیں دلائی جائیں اور بے گناہوں کی حفاظت ہو۔ اس کے بعد ایک کمیٹی حسب ذیل پندرہ ممبروں سے ترتیب دی گئی جسے اضافے کے اختیار حاصل رہیں گے: راے بہادر لالہ رام سرن داس بحیثیت کنوینر (داعی)، دیوان بہادر راجا نرندر ناتھ ، راے بہادر لالہ موتی ساگر، ڈاکٹر گوکل چند نارنگ، لالہ درگا داس، سردار بہادر مہتاب سنگھ، سردار مہر سنگھ چاولا، سردار امرسنگھ، سر محمد قبال، میاں عبدالعزیز، ڈاکٹر خلیفہ شجاع الدین، ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ، خان بہادر شیخ عبدالقادر، خان بہادر ملک محمد حسین اور سر محمد شفیع۔ پہلے کمیٹی میں صرف چودہ(۱۴) ممبر رکھے گئے تھے مگر سردار مہتاب سنگھ کی تجویز اور خان بہادر ملک محمد حسین کی تائید پر سردار امر سنگھ کا نام بھی کمیٹی میں داخل کیا گیا۔ یک شنبہ،۱۳؍ ذیقعد ۱۳۴۵ھ؍۱۵؍مئی۱۹۲۷ئ،۱۴/۱۰۷،ص۵۔ دفتر زمیندار میں اکابر ملت کا اجتماع مذاکرے سے خوش گوار نتائج کی توقع ہے لاہور،۳؍مئی: مولانا ظفر علی خاں صاحب نے مسئلہ انتخاب پر گفتگو کرنے کے لیے جن اکابرین ملت کو دعوت دی تھی، ان میں سے مولانا مفتی کفایت اللہ، ڈاکٹر اقبال، غازی عبدالرحمن اور خود مولانا آج دفتر زمیندار میں مجتمع ہوئے۔ ان حضرات کے علاوہ مولانا سیّد محمد داؤد غزنوی، مولانا سیّد عطا اللہ شاہ بخاری اور چودھری افضل حق بھی شریک مذاکرہ ہوئے۔ گفتگو شروع سے آخر تک امید افزا تھی جس سے خوش گوار نتائج کے پیدا ہونے کی توقع ہے۔ ۵؍مئی۱۹۳۱ئ،ص۵۔ ۵- تجزیے علامہ اقبال پر ایک افسوس ناک تہمت کیسری کی ۲۶؍اپریل کی اشاعت میں ہمیں علامہ اقبال کی ذات گرامی پر ایک نہایت افسوس ناک تہمت دیکھ کر بے حد رنج ہوا اور اس سے بھی بڑھ کر افسوس ناک امر یہ ہے کہ اس تہمت کا سرچشمہ کوئی مسلمان اخبار بتلایا جاتا ہے۔ امام الہند حضرت مولانا ابوالکلام آزاد نے میاں عبدالعزیز صاحب کی کوٹھی میں مسلم رہنمائوں کا جو جلسہ کیا تھا، اس میں ہم خود شامل تھے۔ جس وقت حضرت امام الہند نے فرمایا کہ مسلمانوں کو بیس کروڑ ہندوؤں کے دل اپنے قبضے میں لینے چاہییں تو علامہ اقبال نے فرمایا کہ پنجاب کے ایک کروڑ ہندوؤں کے دل اپنے قبضے میں لینے کا ذمہ ہم مسلمانانِ پنجاب لیتے ہیں، بقیہ انیس کروڑ کو ’’بنگالہ کا سحر‘‘ مسحور کرے گا۔ ’’بنگالہ کے سحر‘‘ سے ان کی مراد غالباً حضرت امام الہند یا دیش بندھو داس یا دونوں بزرگوں سے تھی۔ انھوں نے قطعاً یہ نہیں فرمایا کہ ’’۱۱کروڑ کا ذمہ لیا جاسکتا ہے‘‘۔ جس اخبار نے علامہ اقبال کی طرف اس قسم کے افسوس ناک [الفاظ] منسوب کیے، اس نے حیرت انگیز غلط بیانی کی۔ ہم کیسری کے غصے کو بجا سمجھتے ہیں لیکن اتنا ضرور عرض کریں گے کہ اگر وہ یہ سطور سپردِ قلم کرنے سے پیشتر علامہ اقبال سے اس کی تصدیق کرالیتا تو نہایت اچھا ہوتا۔ صرف اس واقعے سے یہ حقیقت پایۂ ثبوت کو پہنچ جاتی ہے کہ اس وقت ہندوؤں اور مسلمانوں کی کشیدگی کس حد تک پہنچی ہوئی ہے۔ جن باتوں سے کشیدگی کا کوئی پہلو نکل سکتا ہو، وہ ان کی تحقیق و توثیق کی محنت برداشت کیے بغیر ان سے کام لینا شروع کردیتے ہیں۔ ہم یہاں تک لکھ چکے تھے کہ ۲۷؍اپریل کا ملاپ دیکھنے میں آیا۔ ملاپ نے اس تہمت و افترا کو نقل کرنے کے بعد مسلمانوں کی تہذیب و شرافت کا جن لفظوں میں ماتم کیا ہے، ہم یہاں ان کا اعادہ قطعاً غیر ضروری سمجھتے ہیں، اس لیے کہ ہر طبقے کے اشخاص کا اندازِ گفتار جدا ہوتا ہے ۔ بہرحال، ہماری غرض صرف یہ ہے کہ علامہ اقبال کی طرف جو الفاظ منسوب کیے گئے ہیں، وہ ایک افسوس ناک تہمت اور ایک رنجدہ افترا ہیں جن سے نہیں معلوم علامہ ممدوح کے دل کو کس قدر صدمہ ہوا ہوگا۔ اس قسم کے اخلاق سوز الفاظ تو تمام مسلمانوں کی زبان پر جاری نہیں ہوسکتے، چہ جائیکہ ان کو علامہ اقبال جیسی مجسمۂ شرافت اسلامی شخصیت سے منسوب کیا جائے۔ جس اخبار نے علامہ اقبال کو اس طرح مہتمم کیا، وہ ایک نہایت افسوس ناک فعل کا مرتکب ہوا۔ علامہ اقبال کی خدمت میں ہم عرفی کی زبان سے یہ عرض کرنا مناسب خیال کرتے ہیں کہ: ؎ تہمت فسق نہ مہاں نہ برباد تو رفت یوسف ایں رامتحمل شدد مریم برداشت شنبہ، ۱۰رمضان المبارک۱۳۴۱ھ؍ ۲۸؍اپریل۱۹۲۳،۱۰/۹۵،ص۴۔ علامہ اقبال اور دارالتکفیر دیداریہ (سب سے بڑا ’’اقبالی‘‘ گناہگار) ازاں پیشِ بتاں قصیدم و زنار بربستم کہ شیخِ شہر مردِ باخدا گردد زتکفیرم (اقبال مدظلہ العالی) مولوی دیدار علی کی عالم گیر ’’کافرگری‘‘ نے منصبِ عالیہ افتا کو جو نقصان پہنچایا ہے، وہ کسی صراحت کا محتاج نہیں۔ شاید ہی کوئی سچا خادم دین وملت ایسا ہو جو تکفیر کی اس نادر گردی سے محفوظ رہا ہو، حتیٰ کہ علامہ اقبال مدظلّہ العالی جیسا زاویہ نشیں اور مزلت گزیں بزرگ بھی اس حملے سے نہیں بچا۔ یہ سوال غور طلب ہے کہ اگر اسلام کی صحیح ترین اور مبنی براسوۂ نبوت خدمت کے لیے ساری زندگیاں وقف کردینے والے بزرگ بھی ہمارے بعض ’’بدنام کنندگان نکونامے چند‘‘ مفتیوں کے نزدیک اسی قابل ہیں کہ انھیں حتی الامکان اسلام کے حلقے سے باہر رکھا جائے تو پھر بے کس امت کے بدنصیب افراد اسلام کے صحیح عملی مفہوم کی تلاش میں کہاں جائیں۔ ذیل کے مضمون میں ہمارے فاضل مضمون نگار اور محترم بھائی نے، جو علامہ اقبال کے فیضِ صحبت سے سب سے بڑھ کر مستفید ہیں، مولوی دیدار علی صاحب کے فتواے کفر پر تنقید فرمائی ہے اور دینِ مبین کے سچے مفتیوں کے روبرو چند اہم غور طلب حقائق پیش کیے ہیں جن پر توجہ کرنا بے حد ضروری ہے، مثلاً یہ مسئلہ کہ کسی خاص ملک اور خاص قوم کے وسیلۂ اظہارِ خیالات کو ’’بجوز و لابجوز‘‘ کی کسوٹی پر پرکھنے سے پیشتر ان کے حقیقی معانی متعین کرنے کا صحیح ترین معیار کیا ہونا چاہیے؟ مفتی کے لیے سوالاتِ مندرجہ استفتا کی نسبت کن کن معاملات کی تحقیق ضروری ہے؟ استفتا کے جواب کی صورت کیا ہونی چاہیے؟استفتا کے لیے کن کن خصائص کا بہم پہنچانا لازمی ہے؟ یہ ضروری ہے کہ تمام بزرگانِ ملّت ان حقائق پر ٹھنڈے دل سے غور کریں اور امت کی قیادت و رہنمائی کے سب سے بڑے منصب افتا کو تذلیل و توہین سے بچائیں۔ مولوی دیدار علی صاحب کے فتوے کے متعلق ہم خود فی الحال عرض کرنا نہیں چاہتے۔ اس مضمون میں صاحبِ مضمون نے ایک موقع پر شیخ علی حزیں کا قول نقل کیا ہے کہ ’’شعرمرا بہ ملّا کہ برو۔‘‘ ہمیں امید ہے کہ اس مضمون کو پڑھنے کے بعد مولوی دیدار علی صاحب پر اپنے افتا کی حقیقت اچھی طرح آشکار ہوجائے گی اور وہ اس کے سوا اور کیا کرسکیں گے: ع ’’فتویٰ مرابہ نقاد شعر کہ برو‘‘ جن اشعار کی بنا پر علامہ اقبال کو خاکم بدہن کافر قرار دیا گیا تھا، ان کی تشریح اچھی طرح کردی گئی ہے اور مولوی دیدار علی صاحب کے فتواے کفر کی غلطیاں بالکل آشکار کردی گئی ہیں۔ کیا ہم امید رکھ سکتے ہیں کہ مولوی صاحب اس مضمون کے مطالعے کے بعد یا تو اپنا فتویٰ واپس لے لیں گے یا اس مضمون کو پیش نظر رکھ کر دنیا کو اپنے فتوے کے تفصیلی دلائل سے آگاہ فرمائیں گے؟ علامہ اقبال مسلمان نہ تھے [تو] مولوی دیدار علی ان پر کفر کا فتوی نہ لگاتے۔ حقیقی اسلام فی الواقع وہ تجلی الٰہیہ ہے جس کو دیکھنے کی آنکھیں کسی (مولوی) ’’دیدار علی‘‘ کو آج تک نصیب نہیں ہوئیں۔ حقیقی مسلمان وہ مسلمان ہے جو وحی آسمانی کا مقصود و مظہر ہوسکتا ہو، وہ پیراک حقائق قرآنیہ و لطائف محمدیہ کے بے پایاں سمندروں کا خواص ہوسکتا ہو۔ ظاہر ہے کہ وہ ’’مذہب‘‘ کو ’’رسم‘‘ جاننے والے ظاہر پرستوں کی پہچان میں کبھی نہیں آسکتا۔ اسلامی تاریخ کا کوئی دور ایسا نہ ہوگا جس میں ’’علماے سو‘‘ نے ’’علماے حق‘‘ پر کفر کی ننگی تلواروں سے یورش نہ کی ہو۔ نہایت پتے کی بات، جو مولانا دیدار علی صاحب سے پوچھنے کی ہے، یہ ہے کہ قبلہ وہ اعداد و شمار دیں جن سے یہ پتا چلے کہ منصب ’’مولویت‘‘ کو سنبھالنے کے دن سے لے کر آج تک آپ نے کتنے کافروں کو مسلمان بنایا اور کتنے مسلمانوں کی گردنوں میں تکفیر کا طوق ڈالا۔ اگر ایک مولوی دیدار علی اور تمام ہندوستان کے کافر گر مولاناؤں سے یہی سوال کیا جائے اور اس کا صحیح جواب حاصل کیا جائے تو ممکن ہے ہندوستان کے مولویوں اور کافروں کی تعداد آریہ سماجیوں کے ’’شدھوں‘‘ سے زیادہ نکلے۔ چند روز ہوئے علماے حق میں سے ایک بزرگ یعنی قبلہ سیّد سلیمان نے زمیندار میں ایک مضمون شائع کرکے مولوی دیدار علی صاحب کے علم و فضل کی تمام قلعی کھول دی تھی مگر ہمارے ’’زندہ دل اور خوش طبع مسلمان نوجوان‘‘ ہیں کہ انھیں دل لگی سواے پیرانہ سال مولویوں کے اور کسی سے سوجھتی نہیں۔ پیرزادہ محمد صدیق سہارنپوری (خواہ فی الواقع کوئی صاحب وجود ہستی ہیں یا کسی خوش طبع کے طفیل صرف ان کے نام ہی کا وجود ۱۵؍اکتوبر کے زمیندار میں صفحہ کاغذ پر ظہور میں آیا، اس خیال سے ضرور مستحق مبارک باد ہیں کہ انھوں نے مولانا دیدار علی صاحب کی انتہائی علمی و ادبی خوبیوں کو دنیا پر ہویدا ہونے کا موقع دیا ہے۔ ہندوستان کے علماے حق سے ایک سوال مگر پیشتر اس کے کہ ہم اصل مطلب کی طرف رجوع کریں، ان اشعار کو زیرِ بحث لائیں جن کی بنا پر دارالتفکیر دیداریہ سے حضرت اقبال پر کفر کا فتویٰ صادر کیا گیا، ہم اپنے محترم اور باعثِ فخر علماے دیوبند وغیرہ سے پوچھتے ہیں کہ شریعتِ اسلامیہ میں خود مسئلۂ استفتا و افتا کے متعلق کیا احکام ہیں؟ کیا مفتی کے لیے لازم نہیں کہ مستفتی کے سوال کی معقولیت وغیر معقولیت یا صحت و عدم صحت پر غور کرے اور دیکھے کہ جن اُمور و مضامین کی بنا پر مستفتی نے استفتا وضع کیا ہے، اُن سے وہ سوالات بھی پیدا ہوئے یا نہیں؟ یا شریعت نے اندھا دھند اجازت دے دی ہے کہ واقعات و حالات کو سامنے تو رکھ دو مگر ان سے جو نتائج چاہو خود مستنبط کرکے ’’مفتیانِ دینِ مبین و حامیانِ شرعِ متین‘‘ سے فتویٰ لے لو۔ یہ ’’مفتیان و حامیان‘‘ اس امر کے مجاز ہرگز نہیں کہ نفسِ معاملہ پر خود بھی غور کریں اور سوالات کی معقولیت کو زیر بحث لائیں۔ علامہ اقبال کو کافر بنانے والے اشعار ہم ان اشعار کے معانی و تشریح اور سیاق و سباق سے ناظرین کو آگاہ کرنا چاہتے ہیں جن کی بنا پر علامہ اقبال کو ’’کافر‘‘ گردانا گیا۔ ادبا اور صاحبِ ذوق حضرات تو ان اشعار کو پڑھ کر اور پھر ان سے جو مطالب اخذ کرکے، ان کی بنا پر کفر کا فتویٰ لگایا ہے، انھیں ملاحظہ فرما کر بہت ہی محظوظ ہوئے۔ اکثر کو شیخ علی حزیں کا قول (بہ ترمیمِ قلیل) یاد آگیا کہ: ع شعر مرا بہ مُلّا کہ بُرد جو اشعار سب سے پہلے فتوے کی زد میں آتے ہیں، وہ اس نظم سے ہیں جو ’’آفتاب‘‘ کے زیرِعنوان بانگ درا میں درج ہے۔ یہ نظم مدتیں گزریں ملک کے کئی اخباروں اور رسالوں میں چھپ چکی ہے اور ہندوستان، بالخصوص پنجاب کے بہت تھوڑے سخن دوست حضرات ایسے ہوں گے جو اس نظم کی شان ’’ترنم‘‘ سے آشنانہ ہوںگے۔ یہ نظم دراصل ’’رگ وید‘‘ کے اس مشہور و معروف منتر کا ترجمہ ہے جسے ’’گایتری‘‘ کہا جاتا ہے اور جس کے متعلق یہ صحیح روایت ہے کہ برہمن اس کے الفاظ کی آواز تک غیربرہمنوں کے کان میں نہ پڑنے دیتے تھے۔ ہندو مذہب کی مقدس ترین کتاب، یعنی ویدوں میں ’’گایتری‘‘ کے پایہ کا شاید ہی کوئی اور منتر ہوگا۔ مسلمانوں کو بہت کم معلوم ہے کہ ہندو عبادت گزار اپنی عبادت میں جہاں اور منتروں کو ایک ایک دفعہ پڑھتے ہیں، وہاں ’’گاتیری‘‘ کو تین دفعہ پڑھتے ہیں۔ نظم کا عنوان ’’آفتاب‘‘ محض اس لیے ہے کہ اصل منتر میں انسانی روح کو قائل نے آفتاب سے تشبیہ دی ہے، گویا نظم میں جہاں ’’آفتاب‘‘ مخاطب ہے، وہاں اصل مقصود ہی روح ہے۔ ’’مفتی دین دیداری‘‘ نے جن الفاظ پر گرفت کی ہے، وہ حسبِ ذیل اشعار میں آتے ہیں: ؎ ہے محفلِ وجود کا ساماں طراز تو یزدانِ ساکنانِ نشیب و فراز تو ہرچیز کی حیات کا پروردگار تو زائیدگانِ نور کا ہے تاجدار تو کفر اس بات میں ہے کہ بزعم مستفتی یا مفتی نظم میں مخاطب ’’آفتاب‘‘ اور اسے ’’پروردگار‘‘ و ’’یزدان‘‘ کے ان الفاظ سے پکارا گیا ہے اور یہ الفاظ ’’عرفا‘‘ مخصوص ذاتِ جنابِ باری ہیں۔ کیا مفتی صاحب یہ بتائیں گے کہ ’’عرفا‘‘ سے کیا مراد ہے؟ ہم تمام علما سے پوچھتے ہیں کہ ’’ذاتِ جنابِ باری‘‘ کے لیے جو الفاظ قرآن نے مخصوص کیے ہیں، ان سے ’’غیر اللہ‘‘ کو موسوم کرنے والا کافر ہے یا ان الفاظ سے موسوم کرنے والا بھی جو ایک خاص مسلک کے ’’عرف‘‘ میں، اور وہ بھی ’’جُہلا‘‘ میں ذات باری کے لیے مخصوص ہوتے ہوں؟ ہندوستان میں تو یہ الفاظ بعد میں آئے۔ ان کے اصل واضع تو ایرانی ہیں۔ دیکھنے کی بات یہ تھی یابہ الفاظ ایرانی عالموں اور ادیبوں کے نزدیک بھی مخصوص ’’ذات باری‘‘ ہیں۔ مفتی کے احاطہ علم و فضل میں یہ بات موجود ہونی چاہیے تھی کہ ’’آفتاب‘‘ اور ’’روح‘‘ تو درکنار، ایرانی تو شراب کو بھی ’’پروردگار‘‘ کہتے ہیں۔ باور نہ ہو تو ارکانِ ادارتِ زمیندار سے آکر پوچھ لیجیے کہ مندرجہ ذیل شعر کا قائل کون ہے: ؎ چیست ذانی بادۂ گلگوں مصفا جوہرے عشق را پروردگارے حسن را پیغمبرے اسی طرح مفتی محترم کو لفظ ’’یزدان‘‘ کی تحقیق کی بھی آج تک حاجت نہیں[ہوئی]۔ اگر آپ حقیقی معنوں میں ’’عالم‘‘ ہوتے تو آپ کو معلوم ہوتا کہ معمولی غیاث اللغات جیسی لغتوںمیں بھی لکھا ہے کہ اسلام سے پہلے ایرانیوں کا عقیدہ یہ تھا کہ ایک نہیں بلکہ دو ہستیاں ازلی و ابدی ہیں۔ ان میں سے ایک کا نام ’’یزدان‘‘ ہے اور دوسری کا ’’اہرمن‘‘۔ اول الذکر ’’خیروبرکت‘‘ کی مالک ہے اور مؤخرالذکر ’’شر و نفاق‘‘ کی۔ کیا سند ہے مولانا کے پاس جس سے انھوں نے لفظ ’’یزدان‘‘ کو اسلامی عقیدے کے رو سے ’’مخصوصِ ذاتِ باری‘‘ کردیا۔ مسلمان تو آج تک یہی سمجھتے تھے کہ سواے لفظ ’’اللہ‘‘ اور لفظ ’’رحمن‘‘ کے اور کوئی لفظ مخصوصِ ’’ذاتِ باری‘‘ نہیں، ’’پروردگار‘‘ و ’’یزدان‘‘ تو درکنار۔ مولوی صاحب کو معلوم ہونا چاہیے کہ ایرانیوں کے نزدیک تو خود لفظ ’’خدا‘‘ بھی ’’مخصوص ذات باری‘‘ نہیں۔ شاہنامہ کبھی مولوی صاحب نے پڑھا ہو تو کئی دفعہ ’’ایران خدا‘‘ ’’توران خدا‘‘ کی ترکیب پر نظر پڑی ہوگی اور پھر لفظ خدا کو انوری کے ہاں بصیغۂ جمع استعمال ہوتے دیکھا ہوگا: ؎ گر دل دوست بحر دکاں باشد دل دوستِ خدائیگاں باشد مفتی صاحب خود مسلمان رہے یا کافر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ میں علماے حق سے استفتاکرتا ہوں کہ وہ شخص مسلمان رہا یا کافر جو ان الفاظ کو ’’مخصوصِ ذاتِ باری‘‘ قرار دیتا ہو، جن کا قرآن حکیم میں ذکر نہیں اور جن کا اطلاق اصل اہل زبان کے نزدیک مخلوق اور پھر شراب جیسی مخلوق پر روا ہو۔ ’’گایتری‘‘ کا ترجمہ کرنے میں شاعر نے جس کمال کا ثبوت دیا، وہ ہمارے ’’مفتی‘‘ کی نظر میں پستی دکھائی دی۔ اگر آپ ادب و شعر سے واقف ہوتے اور ساتھ ہی اتنے عالم اور سخن دوست ہوتے کہ آپ کو معلوم ہوتا کہ اقبال نے اس نظم میں ’’گایتری‘‘ کا ترجمہ کیا ہے تو واللہ آپ آکر اقبال کے پاؤں پکڑتے اور اس کے ادب و شعر کی نہیں بلکہ اس کی ’’مسلمانی‘‘ کی داد دیتے۔ مسلمانی کی داد کیوں؟ اس لیے کہ اس نے ترجمے میں بکمالِ حزم و احتیاط وہ الفاظ، جو از روے قرآنِ پاک مخصوصِ ذاتِ باری ہیں، اپنی اس قسم کی نظم میں دانستہ وارد نہیں ہونے دیے۔ ’’اللہ‘‘ اور ’’رحمن‘‘ تو ایک طرف، شاعر نے ’’ذاتِ باری‘‘ کی کوئی ایسی صفت نظم میں درج نہیں کی جو عربی زبان میں ہو۔ مثلاً وہ نہایت آسانی سے ’’پروردگار‘‘ کے بجاے لفظ ’’خالق‘‘ لکھ سکتے تھے یا ’’یزدان‘‘ کی بجاے ’’اللہ‘‘ یا ’’باری‘‘ وغیرہ فرماسکتے تھے۔ یہ ہے اصل مومن کی فراست کہ کئی سال قبل اس کے ضمیر نے اس بات کو معلوم کرلیا کہ اگرچہ میں ’’تصنیف‘‘ نہیں کررہا، بلکہ محض ’’ترجمہ‘‘ کرتا ہوں اور ’’نقل کفر کفر نہ باشد‘‘، تاہم کسی غیر اسلام مذہب کے خدا کو ان الفاظِ ذات و صفات سے موسوم کرنے سے پرہیز کرنا چاہیے جو قرآن پاک میں وارد ہوئی ہیں مگر بہ حفظِ ماتقدم اکارت گیا اور کافروں کے حملے سے نہ بچ سکے، پر نہ بچ سکے۔ آپ نے سمجھا ہوگا کہ ایک آریہ زبان (سنسکرت) کودوسری آریہ زبان (فارسی) کے الفاظ میں ترجمہ کرکے رکھ دیتا ہوں اور بتا دیتا ہوں کہ ہندوؤں کا خدا یا معبود کن صفات سے متصف ہوسکتا ہے لیکن کیا معلوم تھا کہ مسلمانوں کے لیے اتنا علم بہم پہنچانے سے خود اسلام سے خارج کردیا جاؤں گا۔ دوسری نظم، جس پر فتویٰ کی بنیاد ہے، وہ اقبال نے ’’رام‘‘ کی تعریف میں لکھی ہے۔ اس پر یہ اعتراض ہے کہ چونکہ ’’رام‘‘ کو ہنود ’’اوتار‘‘ مانتے ہیں اور ’’اوتار‘‘ ہنود کے نزدیک خدا کے جنم لینے کو کہتے ہیں، اس لیے رام کی تعریف کرنے والا کافر۔ سبحان اللہ! کیا منطق ہے اور کیا فتویٰ! بسوخت عقل زحیرت … ’’رام‘‘ یا ہندوؤں کے ’’اوتار‘‘ کی تعریف اقبال نے یہ کی کہ اسے مفصلہ ذیل اشعار میں ’’امام‘‘ اور ’’چراغِ ہدایت‘‘ کہا: ؎ ہے رام کے وجود پہ ہندوستاں کو ناز اہلِ نظر سمجھتے ہیں اس کو امامِ ہند اعجاز اس چراغِ ہدایت کا ہے یہی روشن تراز سحر ہے زمانے میںشامِ ہند کاش ہمارے مفتی ان اشعار کا مطلب کسی معمولی سخن فہم مگر ’’مسلمان‘‘ سے ہی پوچھ لیتے اور بعد میں فتویٰ لکھتے۔ ہندو اگر رام کو ’’اوتار‘‘ مانتے ہیں تو اس سے اقبال کو کیا، اس نے تو ’’اوتار‘‘ ماننے والوں ہی کو یہ بتایا ہے کہ وہ بحیثیتِ ’’مخلوق‘‘ اور بحیثیتِ ’’انسان‘‘ زیادہ سے زیادہ ’’امام‘‘ کہے جاسکتے ہیں یا ’’چراغِ ہدایت‘‘۔ ہمارا عقیدہ ہے کہ ان اشعار کا قدرتی اثر اس نظم کے ہندو قارئین کے دلوں پر بھی یہی ہوگا کہ رام ’’اوتار‘‘ نہ تھے، ’’اللہ میاں‘‘ نہ تھے، بلکہ ’’انسان‘‘ تھے اور زیادہ سے زیادہ ’’امام‘‘ اور ’’چراغِ ہدایت‘‘ مگر یہ تلقین و تبلیغ اور عاقلانہ تلقین و تبلیغ اقبال کا کام ہوسکتا ہے، مولانا دیدار علی کو اس سے کیا واسطہ۔ ان اشعار سے خواہ سیکڑوں ہندوؤں کا عقیدہ رام کے متعلق یہ ہوگیا ہو کہ وہ اوتار نہ تھے، بلکہ واقعی انسان اور آدم زاد تھے مگر مولانا موصوف کو جب لطف آتا اور ان کے نزدیک اقبال جب ’’مومن‘‘ ہوتا اگر وہ نظم میں ’’رام‘‘ کو ایک دو بے نقط سناتا اور سب سے بڑی بات یہ کہ اس پر ’’کفر‘‘ کا فتویٰ لگاتا۔ علامہ اقبال کو آئندہ محتاط رہنا چاہیے کہ اگر کبھی پھر کسی ہندو مذہبی ہستی پر لکھنے کا اتفاق ہو تو پچھلے گناہ کی تلافی کرکے آئندہ اپنے ’’مسلمان‘‘ ہونے کا ثبوت بہم پہنچانا چاہیے۔ تیسری بات یہ ہے کہ اس شعر: ؎ خصوصیت نہیں کچھ اس میں، اے کلیم! تری شجر حجر بھی خدا سے کلام کرتے ہیں میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی توہین کی گئی ہے جو کفر ہے۔ کیا کہیں! زبان بند ہی رہے تو اچھا ہے۔ اپنے متعلق بھی کفر کے فتوے کا ڈر ہے۔ ’’گناہگار‘‘ تو ہو ہی چکے ہیں، کیونکہ اقبال سے ملتے جلتے ہیں اور سب سے زیادہ ملتے جلتے ہیں اور فتویٰ میں صادر ہے کہ ملنے جلنے والے ضرور ’’گناہگار‘‘ ہیں۔ الحمدللہ! کاش یہ ’’گناہگاری‘‘ کبھی خود مفتی صاحب کو بھی نصیب ہوتی تو وہ کسی حد تک اندازہ کرسکتے کہ جس شے کو وہ بزعمِ خود ’’اسلام و ایمان‘‘ سمجھتے ہیں، کہ اس کی حقیقی حیثیت کیا ہے اور حقائق و معارفِ صحیحہ کتاب اللہ کی کسوٹی کا فیصلہ اُس کے متعلق کس درجہ الم انگیز ہے: ع شرم دارد کفر از ایمان تو داؤ چل گیا تو ایک نہ ایک دفعہ ضرور کبھی اقبال کے پاس قبلہ کو لاہی بٹھائیں گے۔ اس شعر پر زیادہ کچھ لکھنے کی حاجت نہیں۔ فتویٰ کی عبارت مفتی کے ذوق سلیم کی مرثیہ خوانی کرچکی ہے۔ جناب کلیم کو اس طرح مخاطب کرتے مولانا نے اقبال کو تو پکڑلیا مگر مولانا روم پر آج تک کوئی گرفت نہ کی۔ گوبہ سبیلِ حکایت مولانا روم نے یہ الفاظ خدا ہی کے منہ میں ڈالے ہیں مگر کون نہیں جانتا کہ یہ خود ساختہ قصہ ہے اور اس کے گھڑنے والے خود پیرِرومی ہیں۔ کیا ان اشعار میں حضرت موسیٰؑ کی کوئی توہین پیدا نہیں! ؎ تو براے وصل کردن آمدی نے براے فصل کردن آمدی مومیا! آداب داناں دیگر اند سوختہ جان در داناں دیگر اند ان اشعار کے ساتھ ہم مفتی محترم کو مولانا روم کی وہ وصیت بھی یاد دلادیں جو انھوں نے اسی قصّے میں مولانا دیدار علی جیسے علما کو اس لیے کی ہے کہ جب اقبال جیسے شاعروں کے شعر پڑھنے لگو تو تمھارا عقیدہ کیا ہونا چاہیے، فرماتے ہیں ؎ ما بروں راننگریم و قال را ما دروں را بنگریم و حال را ناظِر قلیم اگر خاشع بود گرچہ گفت لفظ ناخاضع بود زانکہ دل جوہر بود گفتن عرض پس طفیل آمد عرض جوہر غرض چند ازیں الفاظ و اضمار و حجاز سوز خواہم سوز باآں سوزساز آتشے از عشق در جاں بر فروز سربسر فکر و عبارت را بسوز ہاں! ایک اعتراض یہ بھی ہے کہ حسب ذیل شعر میں ’’مرشداں خود بیں‘‘ کَہ کر توہین بزرگان کی گئی ہے، لہٰذا قائل ’’فسق‘‘ کا مرتکب ہوا ہے : ؎ غضب ہے یہ مرشدانِ خود بیں خدا تری قوم کو بچائے بگاڑ کر تیرے مسلموں کو یہ اپنی عزت بنا رہے ہیں یہاں تو رہی سہی بات بھی ڈبودی۔ علامہ اقبال یہ شعر کہتے وقت دل میں خوش ہو ہوکر کہتے ہوں گے کہ واہ! آج تو موجودہ زمانے کے انگریزی پڑھے ہوئے لیڈروں کو ’’مرشدانِ خودبیں‘‘ کَہ کر ان کا مذاق خوب اُڑایا اور آگے نہیں تو اب تو ’’مفتیانِ دینِ متین‘‘ اور’’ حامیانِ شرعِ مبین‘‘ مجھے بھی دین کا ایک ادنیٰ خادم سمجھیں گے اور جانیں گے کہ میں اصل میں انھیں کا خدمت گزار اور انھیں کی عزت کا پاس دار ہوں لیکن کیا معلوم تھا کہ وہ کبھی نظراُٹھا کر میری تمام نظم ہی کو نہ پڑھیں گے، اس کے سیاق و سباق پر کوئی غور نہ کریں گے، کتاب کھول کر اتنا بھی نہ دیکھیں گے کہ یہ الفاظ بہ طریقِ انگریزی اُلٹی واؤ کے اندر رکھے گئے ہیں تاکہ معلوم ہو کہ ان کے معنی وہ نہیں جو عام ہیں، بلکہ ان سے کسی پر چوٹ مراد ہے، یہ نہیں دیکھیں گے کہ اس سے اوپر ہی کے شعر میں مخاطب ’’زائرانِ حریمِ مغرب‘‘ ہیں جو ظاہر ہے کہ حضرت علامہ دیدار علی جیسے بزرگ اگلی دنیا میں چل کر بھی کبھی نہیں ہوسکتے۔ دوسرا استفتا خیر، اس شعر کی بنا پر تو کفر کا فتویٰ لگا کر مولوی صاحب نے واقعی ’’قلم‘‘ توڑ دیا، اب کیوں کسی شاعر کو بھی مولویوں کی حمایت کی جراَت ہوگی؟ ہم اس موقع پر بھی علما سے استفتا کرتے ہیں کہ مولویوں کے حامی کو کافر کہنے والا خود مسلمان ہے یا کافر؟ ایک تیسرا استفتا مولانا نے رام کو ’’امام‘‘ کہنے پر تو اس بنا پر کفر کا فتویٰ دیا کہ ایسے شخص کی تعریف کی گئی جسے ہندو ’’اوتار‘‘ مانتے ہیں، کیا مولوی صاحب خود ’’عرفا‘‘ اپنی پیدائش کے دن سے اس وقت تک دنیا کے سامنے اوتار کی حیثیت میں نہیں ظاہر ہورہے، کیوں؟ اس لیے کہ آپ کا اسمِ مبارک یعنی ’’عرف‘‘ ’’دیدار علی‘‘ ہے۔ کیا آپ حضرت علیؓ کے اوتار ہیں یا اہلِ قرآن مولوی ’’حشمت علی‘‘ صاحب کی طرح، جو ہمیشہ اپنے آپ کو ’’حشمت العلی‘‘ لکھتے ہیں آپ اپنے نام میں جو لفظ ’’علی‘‘ سے حضرت علی نہیں، بلکہ خدا کا جو اسم ’’علی‘‘ ہے، وہ سمجھتے ہوں گے، گو آپ نے اپنے علم نحو کے بل پر کبھی اپنے نام کو ’’دیدار العلی‘‘ نہیں لکھا۔ اگر یہ صورت ہے تو پھر تو آپ ’’عرفا‘‘ خدا کے ’’اوتار‘‘ ٹھہرے۔ کیا ’’عرفا‘‘ خدا کہلانے والے شخص کو علما مسلمان کہیں گے یا کافر؟ بینو و توجہ لا۔ ہم آخر میں مولانا کی ضیافت طبع کے لیے نظیریؔ کا ایک شعر خاتمے پر لکھ کر مضمون کو ختم کرتے ہیں اور مولانا سے استدعا کرتے ہیں کہ آئندہ کفر کا فتویٰ لکھتے وقت خدا کے لیے ایک دفعہ اس شعر کو ضرور پڑھ لیا کیجیے: ؎ مصنفی کردن خطر دار د مجہل اقرار کن چوں ز دانائی بتنگ آئی بنادانی گریز جمعہ، ۱۰ربیع الثانی ۱۳۴۴ھ؍۳۰؍اکتوبر۱۹۲۵ئ،۱۲/۲۴۱،ص ابقیہ ص۳۔ وزیر خانی دارالتکفیر سے استفتا بریلوی اور وزیر خانی دارالتکفیر سے زمیندار مورخہ ۱۱؍اکتوبر میں ایک فتویٰ شائع ہوا تھا جس میں علامہ اقبال کو اس بنا پر کافر بتایا گیا کہ ان کے بعض اشعار میں غیر اللہ یعنی آفتاب وغیرہ کو کائنات کا پروردگار کہا ہے مگر ہم دیکھتے ہیں کہ شیخ عبدالحق محدث دہلویؒ بھی اپنی مشہور و معروف کتاب مدارج نبوۃ میں بعینہٖ اسی جرم کے مرتکب ہیں، چنانچہ جلد اوّل، ص۴۱ میں کہتے ہیں : ؎ شکر فیض تو چمن چوں کند اے ابربہار کہ اگر خار و گل ہمہ پروردۂ تست شیخ صاحب اسی شعر میں ابرِ بہار کو خاروگل کا پروردگار کہتے ہیں۔ کیا اس کی جرم پاداش میں مولوی دیدار علی اور ان کے رفقاے کار کے نزدیک شیخ صاحبؒ بھی ڈاکٹر اقبال کی طرح گمراہ اور خارج از اسلام ہیں؟ اگر شیخ صاحب کے کلام میں حجاز کا استعمال ہے تو ڈاکٹر اقبال کیوں حجازی استعمالات سے محروم رکھے جاتے ہیں؟ علاوہ بریں جب ڈاکٹر صاحب کے کفر کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ اسم پروردگار عرفا باری کے ساتھ مخصوص اور خدا کے کسی خاص نام کا غیر اللہ پر استعمال کرنا کفر صریح ہے تو علماے بریلی وبدایوں اور خطیب مسجد وزیر خان اور ان کے ہم نوا بدعتی زعیمِ حنفیت جو رسول اللہﷺ پر عالم الغیب کا لفظ اطلاق کرتے ہیں، اور باوجود یہ کہ یہ نام اللہ کے ساتھ مخصوص ہے، ایسے لوگوں کے لیے وزیر خانی دارالافتا سے کیا حکم ہے؟بینو و توجہ لا۔ مستفتی نیاز مند: حکیم احمد علی فیروز پوری یک شنبہ، ۱۹؍ربیع الثانی۱۳۴۴ھ؍۸؍نومبر۱۹۲۵ئ،۱۲/۲۴۸،ص۳۔ کشمیر میں مسلمانوں کی مظلومانہ حالت کشمیری مسلمان جسمانی و دماغی اور ذہنی لحاظ سے ایک ممتاز درجہ رکھتے ہیں لیکن ان کی قابلیت کے جوہر اس وقت کھلتے ہیں جب یہ کشمیر کی حدود سے باہر نکلتے ہیں اور انھیں آزاد فضا میں کام کرنے اور مراحل ارتقا طے کرنے کے مواقع نصیب ہوتے ہیں۔ جو کشمیری کسی وقت زمانے کے دباؤ اور معاشی ضروریات سے تنگ آکر پنجاب آبسے تھے اور افلاس کے ہاتھوں ہر طرح عاجز تھے، انھوں نے اپنی خداداد ذہانت و لیاقت سے کام لے کر نسبتاً ایک قلیل وقفۂ مدت میں اس قدر عروج و سربلندی حاصل کرلی کہ ہمسایہ اقوام سے بھی سبقت لے گئے۔ اس وقت نہ صرف پنجاب، بلکہ اطرافِ ہند میں صدہا ایسے کشمیری مسلمان موجود ہیں جن کے جیب و دامن گو ابتدا میں سنہری سکّوں سے خالی تھے لیکن آج وہ دولت کے ساتھ کھیل رہے ہیں اور عزت و خوشحالی ان کی ہم رکاب بنی ہوئی ہے۔ آخر سیف الملت ڈاکٹر کچلو اور علامہ اقبال، سیّد الوک شاہ، حکیم اجمل خان اور شیخ صادق حسن کشمیری ہی ہیں اور ان کے آبا و اجداد اسی خطۂ پاک سے نقلِ وطن کرکے آئے تھے۔ آج ان گراں مایہ ہستیوں کے کارناموں سے فضا میں ایک گونج پیدا ہے اور نہ صرف کشمیری، بلکہ تمام اسلامی ہند ان پر فخر کررہا ہے۔ افسوس! ریاست کشمیر ۱۸۴۶ء سے لے کر ۱۹۲۶ء تک ’’ایک کچلو اور ایک اقبال‘‘ کو پیدا نہ کرسکی اور یہاں چند ایسے دولت مند مسلمان بھی ڈھونڈنے سے نہیں مل سکتے جنھیں کوئی امتیاز عظمت حاصل ہو۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ حکامِ ریاست کا سلوک مسلمانوں کے ساتھ اچھا نہیں۔ حکومت کی استبدادیت روزافزوں ہے اور مسلمانوں کے لیے حوصلہ مندی دکھانے کا کوئی موقع نہیں۔ یہاں کی تمام اقتصادی، تعلیمی، تجارتی، معاشرتی اور تمدنی ترقیاں ۳ فی صد ہندو آبادی کے لیے وقف ہوکر رہ گئی ہیں۔ کاروباری سہولتیں حاصل ہیں تو ہندو کو، عہدے ملتے ہیں تو ہندو کو، ملازمتوں پر قبضہ ہے تو ہندو کا، ٹھیکے دیے جاتے ہیں تو ہندو کو۔ مسلمانوں کا کام تو یہ ہے کہ وہ دن بھر مرکر غلّہ اور میوے پیدا کریں، برف کے تودوں پر ڈاک لے جائیں، کارخانوں اور دکانوں پر پہرہ دیں، بیگار میں حکامِ ریاست کے اسباب لادیں، اِدھر اُدھر مارے مارے پھریں، خیمے گاڑیں، گاڑیاں چلائیں، ٹٹویے پھیریں، پٹڑیاں چرائیں، پانی بھریں، بکریاں چرائیں، خدمت گاری کریں، موٹا کھائیں، موٹا پہنیں اور اُف تک نہ کریں۔ اگر زبان ہلائیں تو دنادن دنا دن گولیاں برسنے لگتی ہیں، داروگیر اور قید و بند کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے، ہتھکڑیاں اور بیڑیوں کی نمائش کی جانے لگتی ہے، جلا وطنیاں ہوتی ہیں، برخاستگیاں عمل میں آتی ہیں اور جاگیریں ضبط کرلی جاتی ہیں۔ ان حالات میں اگر ہر مسلمان ارسطو، سمارک، فارابی اور ابن رشد بھی ہو تو اس کا دماغ مختل، اس کی ہمت پست، اس کا دماغ کند اور اس کی حالت حیوان جیسی ہوکر رہ جائے۔ کشمیر کے مسلمان تو دراصل ایک ایسے اذیت دہ شکنجے میں کسے ہوئے ہیں کہ ان کے لیے کوئی حرکت کرنا غیر ممکن ہے۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کے کشمیری بھائی ترقی کریں، ان کے جوہروں کو پوری تابندگی حاصل ہو اور وہ بھی دنیا میں عزت و خوشحالی کی زندگی بسر کرنے کے قابل ہوسکیں تو خدا کے لییاُٹھو اور ان کے لیے کچھ کام کرو! انھیں پنجۂ اذیت سے چھڑاؤ! ان میں تعلیم رائج کرو! انھیں تجارت میں لگاؤ اور ان کی بہبود کے خیال کو مقدم رکھو! ورنہ نتائج نہایت اندوہناک ہوں گے اور یہ معززّ قوم برباد ہوکر رہ جائے گی۔ یہ غفلت کا وقت نہیں، کام کا وقت ہے۔ (کشمیر پبلسٹی آفس) امرتسر ۲۸؍اکتوبر۱۹۲۶ئ،ص۵۔ ۶- تبصرے انتقاد اقبال یہ دلچسپ عمدہ کتاب جناب مولوی احمد دین صاحب بی اے ایڈووکیٹ کے بہار آفرین خامہ کی چمن بندی کا نتیجہ ہے جس کے دو حصّے ہیں: حصۂ اوّل میں علامہ اقبال کی شاعرانہ زندگی اور ان کے فلسفۂ حیات کے ارتقا کے تمام ضروری اور اہم پہلو ایک عمدہ ترتیب کے ساتھ واضح کیے گئے ہیں، ضمناً علامہ ممدوح کے مختصر سے سوانح حیات بھی آگئے ہیں۔ یہ حصّہ ۱۴۰ صفحات پر مشتمل ہے۔ دوسرے حصّے میں علامہ ممدوح کے کلام کے مضامین بیان کیے گئے ہیں۔ یہ حصّہ ۱۴۴ صفحات پر پھیلا ہوا ہے۔ ہم کتاب کو بالاستیاب نہیں دیکھ سکے لیکن سرسری ورق گردانی سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ علامہ اقبال اور مولوی احمد دین صاحب کے مابین شروع ہی سے گہرے دوستانہ تعلقات و روابط قائم رہے ہیں، اس لیے علامہ ممدوح کے متعلق مولوی صاحب موصوف کا مطالعہ صرف کلام تک محدود نہیں، بلکہ صاحب کلام کی شخصیت کے تمام ارتقائی مدارج بھی ان کے سامنے ہیں۔ اس وجہ سے کتاب کی اہمیت اور بھی بڑھ گئی ہے۔ علامہ اقبال کے کلام سے شوق و شغف رکھنے والوں کے لیے، جن کی تعداد خدا کے فضل و کرم سے اس وقت بہت زیادہ ہے، اس کتاب کا مطالعہ بہت سی دلچسپیوں کا موجب ہوگا۔ علامہ اقبال کا ایک عمدہ فوٹو بھی شاملِ کتاب ہے۔ لکھائی چھپائی اور کاغذ عمدہ، قیمت بعد محصول ڈاک سوا روپیا۔ حضرت مصنف جناب مولوی احمد دین صاحب بی اے ایڈووکیٹ لاہور سے طلب فرمائیے۔ شنبہ، ۱۴؍ربیع الاوّل ۱۳۴۵ھ؍ ۲؍اکتوبر۱۹۲۲ئ،۱۳/۲۱۴،ص۱۔ طلوع اسلام حضرت علامہ اقبال نے انجمنِ حمایتِ اسلام کے اجلاس سالانہ میں جو نظم ارشاد فرمائی، اس کے دو بند تبرکاً ذیل میں درج کیے جاتے ہیں۔ پہلے بند میں بتایا گیا ہے کہ مادی ساز و سامان کچھ چیز نہیں، بلکہ ایمانِ محکم اور عملِ پہیم ہی میں ملتِ بیضا کی زندگی کا راز پوشیدہ ہے۔ دوسرے بند میں جرمن اور ترکی کی حالت کا موازنہ کرکے اس وعدے کا ثبوت بہم پہنچایا ہے۔ پوری نظم نوبندوں پر مشتمل ہے اور مبارک علی صاحب تاجرِ کتب: لوہاری دروازہ، لاہور سے چار آنے میں مل سکتی ہے۔ قارئینِ کرام ضرور منگا کر ملاحظہ فرمائیں۔ (مدیر زمیندار) غلامی میں نہ کام آتی ہیں شمشیر یں، نہ تدبیریں جو ہو ذوقِ یقیںپیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں کوئی اندازہ کرسکتا ہے اس کے زورِ بازو کا؟ نگاہِ مردِ مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں ولایت، پادشاہی، علمِ اشیا کی جہانگیری یہ سب کیا ہیں؟ فقط اک نکتۂ ایماں کی تفسیریں براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے ہوس چھپ چھپ کے سینوں میں بنالیتی ہے تصویریں تمیزِ بندہ و آقا؛ فسادِ آدمیت ہے حذر! اے چیرہ دستاں! سخت ہیں فطرت کی تعزیریں حقیقت ایک ہے ہر شے کی، خاکی ہو کہ نوری ہو لہو خورشید کا ٹپکے اگر ذرّے کا دل چیریں یقیں محکم، عمل پیہم، محبت فاتحِ عالم جہادِ زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں چہ باید مرد را طبعِ بلندے، مشربِ نابے۱؎ دلِ گرمے، نگاہِ پاک بنیے، جانِ بیتابے عقابی شان سے جھپٹے تھے جو بے بال و پر نکلے ستارے شام کے خونِ شفق میں ڈوب کر نکلے ہوئے مدفونِ دریا زیرِ دریا تیرنے والے طمانچے موج کے کھاتے تھے جو، بن کر گہر نکلے غبارِ رہ گذر ہیں، کیمیا پر ناز تھا جن کو جبینیں خاک پر رکھتے تھے جو اکسیر گر نکلے ہمارا نرم رو قاصد پیامِ زندگی لایا خبر دیتی تھیں جن کو بجلیاں، وہ بے خبر نکلے حرم رُسوا ہوا، پیرِ حرم کی کم نگاہی سے جوانانِ تتاری کس قدر صاحبِ نظر نکلے زمیں سے نوریانِ آسماں پرواز کہتے تھے یہ خاکی زندہ تر، پائندہ تر، تابندہ تر نکلے جہاں میں اہلِ ایماں صورتِ خورشید جیتے ہیں اِدھر ڈوبے، اُدھر نکلے، اُدھر ڈوبے، اِدھر نکلے یقیں افراد کا سرمایۂ تعمیرِ ملت ہے یہی قوّت ہے جو صورت گرِتقدیرِ ملت ہے۱؎ جمعہ،۱۸؍شعبان۱۳۴۱ھ؍۶؍اپریل۱۹۲۳ئ،۱۹/۷۷، ص۱۔ پیامِ مشرق زندگی علامہ اقبال کی تازہ ترین تصنیف پیامِ مشرق کے متعلق ان صفحات پر ایک سے زائد مرتبہ تذکرہ آچکا ہے۔ آج ہم موثق معلومات کی بنا پر قارئین کرام تک یہ خوشخبری پہنچانے کا شرف حاصل کرتے ہیں کہ یہ نادرہ روزگار کتاب دو شنبہ کو تیار ہوجائے گی۔ علامہ اقبال کے حیات پرور خیالات و افکار کے شیدائی اسے دو شنبہ کو بعد دوپہر مبارک علی کتب فروش: اندرون لوہاری دروازہ، لاہور سے خرید سکتے ہیں۔ جس نظم سے ہم آج زمیندار کے صفحے کو مزّین کرتے ہیں، یہ اسی گلدستے کا ایک عنبر بیز پھول اور اسی لڑی کا ایک شاہوار گوہر ہے۔ اس کی رباعیات، قطعات، مسلسل نظموں اور غزلوں میں سے کون سی چیز ایسی ہے جو اپنے اندر حقائق و معارف کے سمندر نہیں رکھتی۔ بہرحال، اس کتاب کے مشتاق ہاتھوں تک پہنچنے میں اب صرف دو یا تین روز کی مدت باقی ہے اور ارباب بصیرت خود اندازہ فرمالیں گے کہ مشرقی دنیا کے اس سب سے بڑے شاعر کی بلندیِ منزلت اور رفعتِ مرتبت کا کیا عالم ہے۔ (زمیندار) گفتم کہ شوق سیرنہ بردش بمنزلے گفتا کہ منزلش بہ ہمیں سیر مضمراست گفتم کہ خاکی است و بخاکش ہمیں دہند گفتا چو دانہ خاک شکافد گلِ تراست۲؎ یک شنبہ، ۱۱؍رمضان۱۳۴۱ھ؍۲۹؍اپریل۱۹۲۴ئ،۱۰/۹۶،ص۱۔ پیام مشرق جیسا کہ ہم اپنی کسی قریبی اشاعت میں عرض کرچکے ہیں کہ علامہ اقبال کے حیات پرور افکار عالیہ کا تازہ ترین مرقع پیام مشرق دو شنبہ کے روز شائع ہوگیا۔ یہ کتاب شیخ مبارک علی صاحب تاجر کتب: اندرون لوہاری دروازہ، لاہور کے پاس سے ملتی ہے۔ لکھائی چھپائی اور کاغذ نہایت عمدہ ہے۔ قیمت مجلّد سے، غیر مجلّد ۸؍۔ پیام مشرق پر مفصل انتقاد کے لیے ضروری ہے کہ ہم اس کا اچھی طرح مطالعہ کرلیں۔ یہ سطور صرف قارئین کرام تک اس کی اشاعت کی بشارت پہنچانے کے لیے سپرد قلم کی جارہی ہیں۔ ہم پہلے اپنے ایک مقالۂ افتتاحیہ میں لکھ چکے ہیں کہ یہ اعلیٰ حضرت، ضیغمِ اسلام امیر امان اللہ خان غازی خلد اللہ تعالیٰ ملکہ، واجلالہ، کی ذات والا صفات سے منسوب ہے۔ ذیل میں ہم اسی انتساب کے بعض حصّے یہاں مندرج کرتے ہیں۔ افسوس کہ زمیندار کا صفحہ اس پوری نظم کے اندراج کی گنجائش نہیں رکھتا ورنہ ایک شعر بھی چھوڑنے کے قابل نہ تھا لیکن ہم مجبور تھے۔ قارئین کرام کتاب منگوائیں، پڑھیں اور دیکھیں کہ علامہ ممدوح نے کس طرح ایک ایک مصرعے کو اسلامی زندگی کے حقائق کا سمندر بنادیا ہے اور اعلیٰ حضرت امیر غازی کو غیور ملت افغانیہ کی تہذیب کے لیے کیسے کیسے معارف بتائے ہیں۔ اے امیر ابنِ امیر ابنِ امیر! ہدیہ از بے نواے ہم پذیر اے ترا فطرت ضمیرِ پاک داد از غمِ دیں سینۂ صد چاک داد ملتِ آوارۂ کوہ و دمن در رگِ او خونِ شیراں موجزن زیرک و روئیں تن و روشن جبیں چشمِ او چوں جرّہ بازاں تیزبیں در قہستاں خلوتے ورزیدۂ رستخیزِ زندگی نادیدۂ سیّدِ کل، صاحبِ امّ الکتاب پردگیہا بر ضمیرش بے حجاب جانِ ما را لذّتِ احساس نیست خاکِ رہ جُز ریزۂ الماس نیست سروری دردینِ ماخدمت گری است عدلِ فاروقی و فقرِ حیدری است درہجومِ کار ہاے ملک و دیں بادلِ خودیک نفس خَلوت گزیں ہرکہ یک دم درکمینِ خودنشست ہیچ نخچیر از کمندِ او نجست درقباے خسروی درویش زی دیدۂ بیدار و خدا اندیش زی آں مسلماناں کہ میری کردہ اند در شہنشاہی فقیری کردہ اند ہرکہ عشقِ مصطفیؐ سامانِ اوست بحر و بر در گوشۂ دامانِ اوست خیزو اندر گردش آور جامِ عشق در قہستاں تازہ کن پیغامِ عشق۳؎ جمعہ ۱۶؍رمضان۱۳۴۱ھ،۴؍مئی۱۹۲۳ئ،۱۰/۱۰۰،ص۱۔ پیام مشرق میٔ باقی افسوس کہ ہم اپنی بعض مجبوریوں کی وجہ سے علامہ اقبال کی تصنیف پیامِ مشرق کے متعلق کوئی مفصل مضمون نہ لکھ سکے۔ اب ان شاء اللہ دو تین روز کے اندر ایک مقالۂ افتتاحیہ میں اس بلند پایہ کتاب کے موٹے موٹے خط و خال پر کچھ روشنی ڈالی جائے گی۔ ذیل میں ہم پیامِ مشرق کے حصہ ’’مئے باقی‘‘ کے چند جرعے پیش کرتے ہیں جن کی حیات بخش کیفیت اور زندگی آموز سرور بڑے بڑے خم خانوں کو پیغامِ خجالت دے رہا ہے۔ یہ حصّہ غزلیات پر مشتمل ہے لیکن صرف مندرجہ ذیل غزل سے اندازہ ہوسکتا ہے کہ اس چمن کی گلکاریوں کا اُسلوب و نہج اور مقصد و مدعا کیا ہے؟ جیسا کہ ہم پہلے عرض کرچکے ہیں، کتاب مبارک علی صاحب تاجر کتب: لوہاری دروازہ، لاہور کے ہاں سے ملتی ہے۔ جنونِ زندہ دلان ہرزہ گردِ صحرانیست زقید و صیدِ نہنگاں حکایتے آور شریک حلقۂ رنداں بادہ پیماباش حذر ز بیعت پیرے کہ مردِ غوغانیست حدیث خلوتیان جزبہ رمزو ایمانیست۴؎ دوشنبہ،۱۱شوال المکرم۴۱ھ؍۲۸؍مئی۱۹۲۳ئ،۱۰/۱۱۸،ص۱۔ حقائق و معارف (علامہ اقبال مدّظلہ العالی) کمال معرفت نوریاں ہمیں خاک است کہ شانِ آدمِ خاکی حدیث لولاک است کشاے چہرہ کہ آں کس کہ لن ترانی گفت ہنوز منتظر جلوۂ کفِ خاک است تواں ربود ز چشمِ ستارہ مردم را خرد بدست تو شاہین تند و چالاک است گماں مبر کہ بہ یک شیوہ عشق می بازند قبابدوشِ گل و لالہ بے جنوں چاک است حدیثِ شوق ادا کردہ ام بخلوتِ دوست نبالۂ کہ ز آلایشِ نفس پاک است تواز دمید گلِولالہ نا امید شو کہ شاخِ زندگی ما ہنوز نمناک است دریں چمن کہ سرود است و ایں نواز کجاست۵؎ کہ غنچہ سربہ گریباں و گل عرقناک است۵؎ (علی گڑھ میگزین) یک شنبہ،۲۱ ؍رجب۴۳ھ؍۱۵؍فروری۱۹۲۵ئ،۱۲/۳۸،ص۱۔ ۷- تار مسلمانوں پر گولیاں چلانے کا واقعہ ہائلہ مجسٹریٹ کا نادرشاہی حکم علامہ سر اقبال مدّظلہ العالی کو باریسال سے حسب ذیل برقی پیغام موصول ہوا ہے: ’’ کولکئی ضلع باریسال بنگال میں نہایت اہم واقعہ ہائلہ رونما ہوا۔ گورکھا سپاہیوں نے مسٹر بلینڈی مجسٹریٹ کے زیر احکام گولی چلاکر سترہ اشخاص کو قتل کردیا اور کئی اشخاص کو مجروح کردیا۔ گولی جاہل اور ناواقف کسانوں پر چلائی گئی جو ایک مسجد کے احاطہ میں مسجد کے سامنے باجا بجانے کے خلاف احتجاج کرنے کے لیے جمع ہورہے تھے، حالانکہ ان دیہاتیوں کی طرف سے کسی قسم کا تشدد عمل میں نہیں آیا۔ اگر مجسٹریٹ اس مخالفت کو پہلے سے سوچ کر کسی بااثر اور صاحب رسوخ مسلمان کی مدد لے لیتا تو یہ ہنگامہ رونما نہ ہوتا۔ اس موقع پر معمولی پولیس کے سپاہیوں سے کام نہیں لیا گیا اور نہ پہلے مشکلات کی روک تھام کے لیے آئینی ذرائع اختیار کیے گئے۔ گولی چلانا سراسر ناجائز اور غیر دانش مندانہ تھا۔ گولیاں ہجوم کے گنجان حصوں پر چلائی گئیں۔ ہر حق پرست انسان کا فرض ہے کہ وہ اس طرح کے بے نظیر اور ظالمانہ قتل عام کی طرف خاص طور پر توجہ کرے جو محض ایک شخص کی مطلق العنان اور عاقبت نااندیشانہ لاپروائی کے باعث رونما ہوا۔ بے کس و ستم زدہ خاندانوں کی امداد کے لیے سرمایہ کا افتتاح کردیا گیا۔ آپ کی ٹھوس امداد، عملی ہمدردی اور رہنمائی کی ضرورت ہے۔ (حمایت الدین ہاشم علی) پنج شنبہ،۵رمضان۱۳۴۵ھ؍۱۰؍مارچ۱۹۲۷ئ،ص۳۔ مجلسِ عاملہ مسلم کانفرنس کے انعقاد کا التوا علامہ اقبال کو ملک فیروز خان اور ڈاکٹر شفاعت احمد کا برقیہ شملہ، ۲۸؍جون: ملک فیروز خان نون، ڈاکٹر شفاعت احمد خان اور ڈاکٹر ضیا الدین احمد نے سرمحمد اقبال اور مولوی شفیع داؤدی صدر اور سکریٹری مسلم کانفرنس کے نام ذیل کا برقیہ ارسال کیا ہے: چونکہ سرکاری طور پر معلوم ہوچکا ہے کہ ملک معظم کی حکومت نے موسم گرما ہی میں فرقہ وارانہ تصفیے کا اعلان کردینے کا فیصلہ کرلیا ہے، اس لیے فی الحال ۳؍جولائی کو الٰہ آباد میں مجلسِ عاملہ کے جلسے کی کوئی ضرورت نہیں۔ براہ کرم اجلاس کو [آخیر] جولائی پر ملتوی کردیا جائے۔ یکم جولائی۱۹۳۲ئ،ص۴۔ ۸- منظومات شکوہ جناب ڈاکٹر اقبال سے عرض کر حضرتِ اقبال سے جاکر یہ صبا اے کہ دنیاے سخن میں تری تمثال نہیں ماجرا کیا ہے کہ خاموش ہے کچھ روز سے تو گرم پرواز تیرا فکر سبک بال نہیں بزم کہتی ہے کہ تو جب سے نہیں زمزمہ سنج کسی آہنگ میں وہ سُر نہیں، وہ تال نہیں باندھنے کے لیے مضمون نہیں ملتے تجھ کو یا روانی پر تیری طبع ہی فی الحال نہیں کون سا دن ہے کہ سر پر کوئی بجلی نہ گری کون سی شب ہے کہ آیا کوئی بھونچال نہیں کون سا گوشہ ہے ماتم نہیں جس میں برپا کون سا خطّہ ہے جو مضطرب الحال نہیں شاہزادے سے عقیدت نہیں کس بستی کو کشورِ ہند کے کس شہر میں ہڑتال نہیں مبتذل ہیں یہ مباحث ترے نزدیک اگر تو خلافت کے مضامین تو پامال نہیں ان معارف ہی سے کر آکے جہاد اکبر شرح کو تجھ سے تقاضاے زرومال نہیں کب جنوں مصلحت۵؎ اندیش ہوا کرتا ہے آج کیوں یاد تجھے اپنے ہی اقوال نہیں تنت کے وقت میں اپنوں سے نہ منہ پھیر کہ تُو دولت اسلام کی ہے، کفر کا اقبال نہیں (مسلم) یک شنبہ،۲۲؍جمادی الثانی/۱۳۴ھ؍۱۹؍فروری۱۹۲۲ئ،۹/۴۱،ص۱۔ اقبال حضرت گرامی کی معنی رس نظروں میں درسِ ماضی از کتابِ حال گیر ساغر از خمخانۂ اقبال گیر حضرتِ اقبال آں بالغ نظر دارد از بود و نبودِ ما خبر مابہ ذوقِ سوختن کم ساختیم بے خودی را از خودی نشناختیم آں نوا یرداز اسرارِ ازل شہسوارِ عرصۂ علم و عمل بے خودی رادر خودی منزل شناس درغبارِ کارواں محمل شناس از نوایش بزمِ یورپ درخروش حکمتِ امریکا او را سفتہ گوش نالہ ہاے آتشینِ آں حکیم سوخت رختِ فتنۂ امید و بیم ساخت باد لہا و بودش ہیچ نیست سوخت دلہا را و دُودش ہیچ نیست یک شنبہ،۲۳؍رمضان ۱۳۴۰ھ؍۲۱؍مئی۱۹۲۲ئ،۹/۸۵،ص۱۔ خطابِ مسلم بہ علامہ اقبال (تراوشِ طبع جناب جلال قرشی، مسلم یونی ورسٹی کالج، علی گڑھ) اے نگارم خصم تو پامال بود دائمت اقبال در اقبال بتو گوئمت اسرارِ من ازمن شنو شاید من یارِ دلدارم بشو دردِ ملّت را دلت گنجینۂ موجزن صد قلزم اندر سینۂ توہماں چشمے کہ بیند دردِ من توہمانی کُوبگرید درزِمن خوب میدانم ہماں مستا نہٖ می شناسم توہماں دیوانہٖ ق نالہ ہاے ملّتت درگوش شد پر زگوہر ہاے چشم آغوش شد ساختی لیلیٰ و خود مجنوں شدی خوب تروانی رموزِ بے خودی اے کہ ہر حرفت کہ درگفتارہست خیمہ زن در وادیِ اسرار ہست ق مسلمے رابسکہ غازی میکند ہندی را خود حجازی میکند تو مرا درسِ خود آموختی نفسِ شیطاں راہمہ تن سوختی واقفِ اسرار مستقبل شدی جادۂ تسلیم را منزل شدی عارضِ محبوب دیدی بے نقاب دیدۂ را آر بیروں از حجاب دورکن از ما سکونِ خواب را باز بر سازے بزن مضراب را آخرت پرسم بگو با من نگار تو چرا کردی خموشی اختیار چہار شنبہ،۲۵ ربیع الاوّل ۱۳۴۱ھ؍ ۱۵؍نومبر۱۹۲۲ئ،۹/۲۳۶،ص۱۔ ’’سلام‘‘ آج لاہور میں ہے جلسۂ حزب الاحناف بزم میں اہلِ تماشا بھی میں غوغائی بھی حج کو دیدار علی ہی نے نہیں روکا ہے اس میں حسرت بھی ہیں، ماجو بھی ہیں، قدوائی بھی کچھ علی پور ہی دشمن نہیں دینِ حق کا بھائی بند اُس کے ہیں لاہور کے ہرجائی بھی کیا جہالت ہے کہ پیروں کے پرستاروں میں سخن مافیہ ہے، اللہ کی یکتائی بھی ان کے نزدیک ہیں ہم مرتبہ ’’اللہ و رسولؐ‘‘ دیکھ لی کفر اور اسلام کی یکجائی بھی ہے جو کن رس تو نوازِ ’’طریقت‘‘ میں چلو طبلہ پر تھاپ بھی ہے، بجتی ہے شہنائی بھی تم نے اس حلقہ میں دیکھے کئی خوش گل قوّال کوئی رقّاصۂ مہ پارہ نظر آئی بھی؟ لَو لگاتا اگر اسلام سے، ایک بات بھی تھی تو جو کالر بھی لگالیتا ہے اور ٹائی بھی دیکھ اور سن کے سمجھتے ہیں تجھے کیا اغیار دی گئی تجھ کو سماعت بھی ہے، بینائی بھی خانہ جنگی سے جو فرصت مل جائے تو دیکھ مولوی جی کے مہادل کی صف آرائی بھی دیکھ اپنے اثرِ رفتہ کے دنبال میں آج لاجپت راے کی تحریک کی گیرائی بھی ہند میں کاش مسلماں بھی دکھائی دیتے جس کے ہرگوشہ میں ہندو بھی ہیں عیسائی بھی بت ترشواے ہیں کچھ تفرقہ پردازوں نے پوجنے ان کو لگے ’’کعبہ کے شیدائی‘‘ بھی چھوٹے بھائی ہیں… حق میں ہمارے فتنہ تو قیامت سے نہیں کم ہیں بڑے بھائی بھی دوسروں پر ہے یہ الزام کہ وہ زرکش ہیں جیسے ان پر ہے حرام آج تک اک پائی بھی ایک چٹکی ہی ابھی لی ہے کہ تم [ستم ہے پائی ہے]مرے زخم کی گہرائی بھی کون کہتا ہے کہ قبّے ہیں اساسِ اسلام کیا ہوا نجد نے بنیاد یہ گر ڈھائی بھی آج کل کی حنفیّت کے عزاداروں میں لکھنؤ تیرے سلامی بھی ہیں، مجرائی بھی حق کے اظہار میں ڈرنا نہیں مجھ کو آتا مجھ سے ناراض رضائی بھی ہیں، مرزائی بھی قافیہ تنگ حریفوں کا اگر کرنا ہو سیکھ لو آکے مری قافیہ پیمائی بھی آمد اکبرؔ کی تمام ان میرے اشعار میں ہے ساتھ اقبالؔ کی ہے زمزمہ پیرائی بھی ظفر علی خاں ۱۹؍نومبر۱۹۲۶ء سہ شنبہ، ۱۶جمادی الاولیٰ۱۳۴۵ھ؍۲۳؍نومبر۱۹۲۶ئ،۱۳/۲۵۶،ص۱۔ مقصودِ رسالتؐ (از مولوی اصغر حسین خاں صاحب نظیر لودھیانوی، شیخوپورہ) حضرتِ اقبال آں بحرِ علوم چشمِ او مست شرابِ پیرِ روم بے خبر از مدعا بودیم ما از حرم نا آشنا بودیم ما زد سرِ انگشت بر تارِ حیات آشکارا کرد اسرارِ حیات مسلم آں پروردۂ باغِ سروش بود در ہندوستاں زنّار پوش داد اُو را عشق لیلاے حجاز ناز ہا افروخت از خاک ینار دینِ فطرت را بلند آوازہ کرد گلشنِ ہندوستاں را تازہ کرد از خُمِ عرفاں شرابِ ناب داد قلب را بے تابیِ سیماب داد شاہد بطحا قرارِ جانِ اُو مدحِ ختم المرسلینؐ ایمانِ اُو نعلِ شبدیز خیالِ خویش را سود در میدانِ نعتِ مصطفیؐ ’’درشبستانِ حرا خلوت گزید قوم و آئین و حکومت آفرید‘‘ کارِ ختمالانبیا ایں بودوبس ہستیش را مدعا ایں بودوبس ساخت از اقوام یک قومِ گراں یک دل و یک اعتقاد و یک زباں دین و دنیا را بآئین چوں بہ بست آدمِ کم مایہ شدبیضا بدست علم و حکمت رابفرماں ربط داد درجہاں از شعلہ ہا فردوس زاد لطفِ او گیرندۂ ہر سرزمیں زیں سبب شد رحمۃٌ للعالمین ضرب الَّا اللہ زد چوں صبحدم قوم شدبیدار از خوابِ عدم دہر از آئین حق تسخیر شد قیصر و کسریٰ بہ شمشیر شد ہیبتِ روما فرِ امیراں نہ ماند ہیچ قانونے بجز قرآں نہ ماند ’’درشبستانِ حرا خلوت گزید قوم و آئین و حکومت آفرید‘‘ یک شنبہ، ۲۰ ذیقعد ۱۳۴۵ھ؍ ۲۲؍مئی۱۹۲۷ئ،۱۱۳،ص۴۔ خ…خ…خ حوالے اور حواشی ۱- مضامین ۱- پیام مشرق، پیش کش، ص۱۶ ۲- ایضاً ،لالہ طور، رباعی نمبر۱۴، درکنارِ کوہسارے،ص۲۹ ۳- ایضاً، رباعی نمبر۹۶، ص۵۷ ۴- ایضاً، رباعی نمبر ۸۶ کے مطابق یہ مصرع یوں ہے: عرب نازداگر، ترک عرب کن، ص۵۲ ۵- ایضاً، رباعی نمبر۸۳، ص۵۲ ۶- ایضاً، رباعی نمبر ۴۲،ص۳۹ ۷- ایضاً، افکار، فصل بہار، ص۹۱ ۸- ایضاً، غلامی، ص۱۳۴ ۹- ایضاً، مئے باقی، غزل نمبر ۵،ص۱۴۷ ۱۰- ایضاً، مئے باقی، غزل نمبر۴، ص۱۴۷ ۱۱- ایضاً، غزل نمبر۵، ص۱۴۸ ۱۲- ایضاً، غزل نمبر۱۱، ص۱۵۳ ۱۳- ایضاً، غزل نمبر۱۰، بال تدروے لرزہ میگرد،ص۱۵۳ ۱۴- ایضاً، غزل نمبر۱۵، ص۱۵۶ ۱۵- ایضاً، نقش فرنگ، نیٹشا،ص۱۹۸ ۱۶- ایضاً،ص۲۰۱ ۱۷- ایضاً، جمعیتہ الاقوام،ص۱۹۳ ۱۸- ایضاً، ص۱۷۹ ۱۹- بعنوان مارچ ۱۹۰۷ء مشمولہ بانگ درا، حصہ دوم،ص۱۴۰ ۲۰- بانگ درا، سنا ہے یہ قدسیوں سے میں نے وہ شیر پھر ہوشیار ہوگا، ص۱۴۰ ۲- اشتہارات ۱- مشمولہ اقبال چودھری محمد حسین کی نظر میں،ص۴۵ مشمولہ مفکر پاکستان،ص۶۷۵ ۲- اقبال چودھری محمد حسین کی نظر میں، ابھی،ص۴۵ ۳- ایضاً، ایک ماہ،ص۴۵ مفکر پاکستان، ایک ماہ، ص۶۷۵ ۴- مفکر پاکستان ،ایک طویل عرصے سے اقبال کو،ص۶۷۹ ۵- مفکر پاکستان،کو یہ بشارت عظمیٰ دیتے ہیں کہ، ص۶۷۹ ۶- مفکر پاکستان،مذکورہ ایسوسی ایشن، ص۶۷۹ ۷- مفکر پاکستان،روح قرآن، ص۶۷۹ ۸- مفکر پاکستان،دیے جائیں گے اندازہ ہے، ص۶۷۹ ۹- مفکر پاکستان،اندازاً، ص۶۷۹ ۱۰- مفکر پاکستان،ہوجائے گی-خطبات،ص۶۷۹ ۴- رپورٹیں ۱- ان دونوں حضرات کا تعلق حکومت عثمانیہ سے تھا اور یہ افغانستان سے آرہے تھے۔ (زمیندار، ۷؍فروری ۱۹۲۴ئ،ص۴) ۲- تین قراردادیں پیش کی گئیں: (۱) مولانا ظفر علی خاں(ہندوؤں کے پروپیگنڈا کے خلاف زبردست احتجاج) (۲)مولوی عصمت اللہ خان(محبوب علی شہید کے لیے دعاے مغفرت) (۳)مولانا غلام مرشد (تبلیغ کے لیے قواے کی تنظیم)۔ ۶- تبصرے ۱- بانگ درا، ص۲۷۲ ۲- پیام مشرق، افکار، زندگی،ص۱۲۵ پر پوری غزل اس طرح درج ہے: پرسیدم از بلند نگاہے حیات چیست؟ گفتامئے کہ تلخ ترِاو نکو تر است گفتم کہ کرمک است و ز گلِ سربروں زند گفتا کہ شعلہ زاد مثالِ سمندر است گفتم کہ شر بفطرتِ خامش نہادہ اند گفتا کہ خیرِ او نشناسی ہمیں شراست گفتم کہ شوقِ سیر نبردش بہ منزلے گفتا کہ منزلش بہ ہمیں شوق مضمر است گفتم کہ خاکی است و بخاکش ہمی دہند گفتا چو دانہ خاک شگافد گُلِ تراست ۳- پیام مشرق،ص۱۶-۲۱۔ ۴- پیام مشرق، مئے باقی، ص۱۵۸ پر غزل نمبر ۱۸ اس طرح درج ہے: زخاکِ خویش طلب آتشے کہ پیدانیست تجلّیِٔ دگرے در خورِ تقاضا نیست اگرچہ عقلِ فسوں پیشہ لشکرے انگیخت تو دل گرفتہ نہ باشی کہ عشق تنہا نیست تورہ شناس نۂِ، و ز مقام بے خبری چہ نغمہ ایست کہ در بربطِ سلیمیٰ نیست نظر بخویش چناں بستہ ام کہ جلوۂ دوست جہاں گرفت و مرا فرصتِ تماشا نیست بیاکہ غلغلہ درشہرِ دلبراں فگنیم جنونِ زندہ دلاں ہرزہ گردِ صحرا نیست ز قید و صیدِ نہنگاں حکاتیے آور مگو کہ زورقِ ما روشناس دریا نیست مریدِ ہمت آں رہروم کہ پانگذاشت بہ جادۂ کہ در و کوہ و دشت و دریا نیست شریکِ حلقۂ رندانِ بادہ پیما باش حذر زبیعتِ پیرے کہ مردِ غوغا نیست برہنہ حرف نہ گفتن کمال گویائی است حدیثِ خلوتیاں جزبہ رمز و ایما نیست ۵- کلیات اقبال (فارسی) زبور عجم ، ص۷۷ پریہ غزل اس طرح درج ہے: فرشتہ گرچہ بروں از طلسمِ افلاک است نگاہِ او بتماشاے ایں کفِ خاک است گماں مبرکہ بیک شیوہ عشق می بازند قبابدوشِ گل و لالہ بے جنوں چاک است حدیثِ شوق ادامی تواں بخلوتِ دوست بنالۂ کہ ز آلایشِ نفس پاک است تواں گرفت زچشمِ ستارہ مردم را خرد بدستِ تو شاہین تندو چالاک است کشاے چہرہ کہ آنکس کہ لن ترانی گفت ہنوز منتظرِ جلوۂ کفِ خاک است دریں چمن کہ سرود است وایں نواز کجاست؟ کہ غنچہ سربگریبان و گل عرقناک است ۶- جناب اقبال کے اس شعر کی طرف اشارہ ہے: پختہ ہوتی ہے اگر مصلحت اندیش ہو عقل عشق ہو مصلحت اندیش تو ہے خام ابھی ۷- منظومات ض…ضض …ض باب :۱ ز سوانح اقبال (الف) جلسوں میں شرکت، مختلف عہدوں پر تعیناتی، متفرق مصروفیات مسلمانان پنجاب کے تین مطالبات حکومت پنجاب کو اچھی طرح معلوم ہے کہ پچھلے دنوں عدالت عالیہ میں ججی کی جو اسامی خالی ہوئی تھی اس پر کئی مسلمانوں کے تقرر کا مطالبہ تمام اسلامی انجمنوں اور اخباروں کی طرف سے پیش کیا گیا تھا لیکن حکومت نے مسلمانوں کے اس متفقہ اور جائز مطالبے کو پس پشت ڈال کر ایک مسیحی کو عدالت عالیہ کا جج بنا دیا جس پر مسلمانوں کا سارا تعلیم یافتہ طبقہ پیچ و تاب کھا کر رہ گیا۔ اس کے بعد حکومت نے اُمور منتقلہ کی دونوں وزارتیں غیر مسلموں کے سپرد کرکے مسلمانوں کی اکثریت سے جو تغافل برتا اس کو بھی مسلمان بہت غیظ و غضب کی نظروں سے دیکھ رہے ہیں۔ حکومت کی تازہ حرکت یہ ہے کہ اس کے بعض حکام محض ہندو سنگٹھیوں کو خوش کرنے کے لیے ایک غیر ہر دلعزیز اور ناپسندیدہ مسلمان یعنی مولوی محرم علی چشتی کو بلدیہ لاہور کا رکن نامزد کرانے کے درپے ہیں۔ اس سے بھی لاہور کے بہترین حلقوں میں اضطراب پیدا ہورہا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ مسلمانوں کو جن کی اکثریت اس صوبے میں خاص ترجیح کا استحقاق رکھتی ہے پے در پے حق تلفیوں سے اشتعال نہ دلائے کیونکہ اس کا نتیجہ خوش گوار نہ ہوگا۔ سرمیلکم ہیلی جیسے دانش مند گورنر کو حقایق سے بالکل غافل نہیں ہوجانا چاہیے۔ مسلمانوں کے تین مطالبات ہیں: اوّل: جونہی کوئی موقع ملے فوراً عدالت عالیہ میں پنجاب کا کوئی قانون دان مسلمان ججی کے عہدے پر فائز کیا جائے مسلمانان پنجاب اس کے لیے ڈاکٹر سر محمد اقبال کا نام بار بار پیش کرچکے ہیں۔ دوم: صوبہ جات متحدہ کی تقلید میں بہت جلد اُمور منتقلہ میں ایک اور وزارت کا اضافہ کیا جائے اور وہ وزارت کسی مسلمان کو دی جائے۔ اس کے لیے ہر طبقے کے مسلمان خان بہادر شیخ عبدالقادر صاحب (سابق وزیر تعلیم) کو موزوں سمجھتے ہیں۔ سوم: بلدیہ لاہور میں مولوی محرم علی چشتی ہرگز نامزد رکن نہ بنائے جائیں اور نہ کوئی اور ایسا شخص نامزد کیا جائے جسے حکومت صدر منتخب کرانا چاہتی ہو۔ اس نامزدگی کے لیے بعض حلقوں میں خلیفہ شجاع الدین صاحب بیرسٹرایٹ لا کا نام تجویز کیا جارہا ہے اور ہم سبھی اس تجویز پر صاد کرتے ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ ان مطالبات پر فوری توجہ کی جائے گی اور مسلمانوں کے حقوق کا اتلاف زیادہ مدت تک جاری نہ رکھا جائے گا۔ جمعہ ۱۴رجب المرجب۱۳۴۴ھ،۲۹؍جنوری۱۹۲۶ئ،۱۳/۲۱،ص۲۔ علامہ اقبال اور امیدواری کونسل لاہور کے تمام معززین اور اہل شہر کو تقریباً دو اڑھائی ماہ سے معلوم ہے کہ پنجاب کونسل کے آیندہ انتخاب میں علامہ سر اقبال۱؎ شہر لاہور کی طرف سے بہ طور امیدوار کھڑے ہورہے ہیں۔ ہم نے یہ اطلاع۲؎ پاتے ہی اس حلقے کے تمام دوسرے امیدواروں سے مؤدبانہ درخواست کی تھی کہ وہ علامہ ممدوح کی۳؎ نادر روزگار شخصیت، فقید المثال علمیت و فضیلت اور مسلم دردمندی، اسلام و مسلمین کو مدنظر رکھتے ہوئے علامہ ممدوح کے۴؎ حق میں دست بردار ہوجائیں اور اس رفیع المرتبت وجود کو جس پر ملت اسلامیہ کی آیندہ نسلیں قیامت تک ناز کرتی رہیں گی اور جس کے آستانۂ فضیلت میں مشرق و مغرب دونوں کے لیے جبین سائی باعث صد شرف و افتخار ہے، بلا مقابلہ کونسل میں بھیج کر خود اپنے دامنوں کو جوہر ناشناسی۵؎ کے دھبّے سے بچائیں۔ ہمیں اس بات پر بے حد مسرت ہوئی کہ میاں عبدالعزیز صاحب بیرسٹرایٹ لانے جو۶؎ اثر، رسوخ، قابلیت اور حق گوئی کے لحاظ سے تمام دوسرے امیدواروں میں بہترین شخص ہیں اس معاملے۷؎ میں سبقت فرمائی اور علامہ اقبال کے حق میں امیدواری سے دست بردار ہوگئے۔ ہمیں یقین ہے کہ ہر مسلمان میاں صاحب کے اس ایثار کا۸؎ تہ دل سے قدر کرے گا۔ حق یہ ہے کہ اس ایثار نے میاں صاحب کا پایہ مسلمانوں میں پہلے سے بدرجہا زیادہ بلند۹؎ کردیا ہے اور یہ حلقہ لاہور کے دوسرے امیدواروں کے لیے ایک سبق ہے کہ اپنی قوم کے ایک نادر الوجود فرد کی قدر و منزلت کا صحیح طریقہ کیا ہے۔ میاں صاحب نے اعلان دست برداری میں جن پاکیزہ جذبات۱۰؎کا اظہار فرمایا ان سے ہر امیدوار کو استفادہ کرنا چاہیے۔ جو لوگ اپنی ذاتی اغراض اور اپنے ذاتی مقاصد کو پس پشت ڈال کر محض فی سبیل اللہ ملک و قوم کی فلاح و بہبود کے میدان میں اترتے ہیں ان کا شیوہ یہی ہوتا ہے۔ زبان سے خدمت ملک و قوم کا دعویٰ کرلینا آسان ہے لیکن اس دعوے کے مطابق عمل کی امتحان گاہ میں پورا اترنے کی توفیق سے ہر شخص بہرہ ور نہیں ہوتا۔ میاں صاحب کا محولہ بالااعلان ان کی اہلیت اور بے نفسی کی ایک ایسی عملی شہادت ہے جس سے انکار کی کوئی شخص جرأت نہیں کرسکتا۔ وجوہ دست برداری کے سلسلے میں وہ فرماتے ہیں کہ رکنیت کونسل ایک شخص کی جدی وراثت نہیں بلکہ ہر قابل شخص کو اس کے ذریعے سے خدمت ملک و قوم کا موقع ملنا چاہیے۔ علاوہ ازیں۱۱؎ وہ علامہ سر اقبال کی مسلم قابلیت و فضیلت کا کھلے لفظوں میں اعتراف فرماتے۱۲؎ ہیں اور کہتے ہیں کہ لاہور میں ان کا علامہ اقبال کا مقابلہ ان کے ہزاروں مشترک دوستوں اور محبّوں کے لیے سخت پریشانی کا موجب تھا اور سب سے بڑھ کر قابل غور بات یہ ہے کہ اس طرح مختلف فرقوں اور ذاتوں میں کشمکش کے پہلو پیدا ہوسکتے ہیں۱۳؎ اور مسلمانوں میں نشست و افتراق رونما ہونے کا اندیشہ ہوسکتا تھا۔۱۴؎ کیا ہم امید کرسکتے ہیں کہ مختلف حلقوں کے دوسرے امیدوار میاں صاحب کے ان پاکیزہ جذبات سے سچی قوم پرستی، خدمت مسلمین اور اہلیت کا سبق حاصل کریں گے۔ ہمیں معلوم ہوا ہے کہ لاہور سے ایک دو اور اصحاب بھی امیدوار بننے کا ارادہ فرما رہے ہیں۔ ہمیں یقین رکھنا چاہیے میاں عبدالعزیز صاحب کے اس مخلصانہ اعلان دست برداری کے بعد وہ بھی اپنے ارادوں پر نظر ثانی فرمائیں گے اور علامہ اقبال کی بلند شخصیت کے عزت و احترام نیز مقتضیات اتحاد و اتفاق کو ملحوظ رکھتے ہوئے بلاتامل دست برداری کا اعلان فرمادیں گے۔ کونسل کی رکنیت تک پہنچ جانا ان کے لیے اتنا باعث اعزاز نہ ہوگا جتنا کہ علامہ ممدوح کے حق میں دست برداری کا اعلان۔ ہم پہلے عرض کرچکے ہیں کہ کونسل کی رکنیت علامہ ممدوح کے شرف و بلند مرتبتی میں بال برابر بھی اضافہ نہیں کرتی بلکہ علامہ ممدوح کا یہ ارادہ خود کونسل کے لیے باعث عزت ہے۔ کیا ہم امید کرسکتے ہیں کہ حلقہ لاہور کے تمام امیدواران کونسل ہماری اس استدعا پر غور فرمائیںگے؟ میاں عبدالعزیز صاحب کے ان جذبات پر اور ان کے اس فیصلے پر مسلمانان پنجاب کے ہر حلقے میں تحسین و آفرین کے پھول برسائے جائیں گے۔ ہم میاں صاحب کے اس فیصلے اور جذبے کو قدر و استحسان کی نگاہوں سے دیکھتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ پنجاب کے کسی اور حلقے کے مسلمان اپنی نمایندگی کے لیے میاں صاحب کی گراں قدر خدمات حاصل کرلیں گے اور اپنے حلقے کی طرف سے انھیں انتخاب کے لیے نامزد کرلیں گے۔۱۵؎ شنبہ ۶؍محرم الحرام۱۳۴۵ھ،۱۷/جولائی۱۹۲۶ئ،۱۳/۱۵۵،ص۲۔ اقبال اور پنجاب کونسل، ص۳۰،۳۱۔ علامہ سر محمد اقبال اور پنجاب کونسل کی امیدواری میاں عبدالعزیز کے زبردست ایثار کا شکریہ دوسرے امیدوار بھی میاں صاحب کی تقلید کریں پنجاب کونسل کے آیندہ انتخابات میں علامہ سر اقبال کے امیدوار کھڑے ہونے کا ہمیں جس وقت سے علم ہوا تھا اس وقت سے ہماری یہ خواہش تھی کہ علامہ موصوف کی بلندی مرتبت کا لحاظ کرتے ہوئے اگر تمام دوسرے امیدوار اپنے ارادوں سے دست بردار ہوجائیں تو یہ بات نہ محض ان کی اور قوم کی عزت کا باعث ہوگی بلکہ اس طرح مسلمانوں کے اتحاد و اتفاق میں بھی کوئی خلل واقع نہ ہوگا۔ ہم میاں عبدالعزیز صاحب بیرسٹرایٹ لا کے بے حد ممنون ہیں کہ انھوں نے اس معاملے میں سبقت فرمائی اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ وہ اس شخصیت کے حق میں دست بردار ہوئے جسے بلامبالغہ ساری قوم میں امتیاز خاص حاصل ہے۔ ہمیں امید ہے کہ دوسرے امیدوار صاحبان بھی میاں عبدالعزیز صاحب کے نقش قدم پر چلتے ہوئے علامہ اقبال کے حق میں دست برداری کا اعلان کردیں گے اس طرح علامہ موصوف کی قدر و منزلت کا حق بھی ادا ہوجائے گا مسلمانوں کو پنجاب کونسل میں جماعت بندی اور افتراق کا بھی کوئی امکان نہ رہے گا اور ہم بہترین نمایندہ بھی بھیج سکیں گے۔ (۱) ملک میران بخش ٹھیکیدار لاہور کوچہ ککّے زیّاں۔ (۲) حافظ فیروزالدین مالک نو لکھا کمپنی محلہ ککّے زیّاں لاہور۔ (۳) ملک برکت علی ایم اے ایل ایل بی وکیل عدالت عالیہ لاہور۔ (۴) مالک غلام محمد تاجر کتب کشمیری بازار لاہور۔ ٍ (۵) ملک لال الدین قیصر تاجر کتب محلہ ککّے زیّاں لاہور۔ شنبہ ۶؍محرم الحرام ۱۳۴۵ھ،۱۷؍جولائی۱۹۲۶ئ،۱۳/۱۵۵،ص۵۔ علامہ اقبال اور کونسل کی اُمیدواری علامہ ممدوح کا اعلان میاں عبدالعزیز اور دیگر حضرات کا شکریہ۱۶؎ علامہ سر محمد اقبال نے پنجاب کونسل کا اُمیدوار کھڑا ہونے کے لیے ۲۰؍جولائی ۱۹۲۶ء کو درج ذیل اعلان کیا: میرے تمام احباب اور اکثر معززین و باشندگان شہر کو ایک مدت سے معلوم ہے کہ میں پنجاب کونسل کے آیندہ انتخابات میں حلقۂ لاہور۱۷؎ کی طرف سے بطور اُمیدوار کھڑے۱۸؎ ہونے کا ارادہ کررہا ہوں لیکن میں اب تک اس کے متعلق باقاعدہ اعلان کرنے سے محترز رہا اس لیے کہ میرے عزیز دوست میاں عبدالعزیز بیرسٹر ایٹ لا موجودہ کونسل میں اس حلقے کی طرف سے نمایندگی فرما رہے ہیں اور میں نہیں چاہتا تھا کہ میرا ارادۂ اُمیدواری۱۹؎ میرے کسی دوست کے ارادے سے متصادم ہو اور مسلمانوں پر تفریق و کشمکش کا دروازہ کھلے۔ میں میاں عبدالعزیز صاحب کا بے حد ممنون ہوں کہ وہ حلقۂ لاہور۲۰؎ کی طرف سے اُمیدوار بننے کا ارادہ میرے حق میں ترک فرما چکے ہیں اور اس کی نسبت زمیندار میں ان کا اعلان بھی شائع ہوگیا ہے لہٰذا انھوں نے وعدہ فرمایا ہے کہ مجھے کامیاب بنانے کی پوری کوشش فرمائیں گے۔ اب مناسب معلوم ہوتا ہے کہ میں اپنی اُمیدواری کا باقاعدہ اعلان کردوں۔ مسلمانوں کو معلوم ہے کہ میں اب تک اس قسم کے مشاغل سے بالکل علیحدہ رہا۲۱؎ محض اس لیے کہ دوسرے لوگ یہ کام انجام دے رہے تھے اور میں نے اپنے لیے دوسرا دائرہ کار منتخب کرلیا تھا لیکن اب قوم کی مصیبتیں مجبور کررہی ہیں کہ میں اپنا حلقۂ عمل۲۲؎ قدرے وسیع کردوں۔ شاید میرا ناچیز وجود اس طرح اس ملت کے لیے زیادہ مفید ہوسکے جس کی خدمت میں میری زندگی کے تمام لیل و نہار گزرے۲۳؎ ہیں۔ میرے خیالات و جذبات ہر مسلمان پر روز روشن کی طرح آشکارا ہیں اور مجھے کامل امید ہے کہ وہ کونسل میں اپنے حقوق کی حفاظت اور اپنے خیالات کی ترجمانی کے لیے میری ذات پر اعتماد کرنے میں ایک لحظہ کے لیے بھی متامل نہ ہوں گے۔ میں اپنے طول و طویل دعاوی کو شائستہ توجہ نہیں سمجھتا۔ عمل دلی جذبات کے ملفوظ اظہارات کا بہترین معیار ہے، خدا کرے کہ میں اس معیار پر پورا اتر سکوں۔ آخر میں میں پھر اپنے عزیز دوست میاں عبدالعزیز صاحب کا شکریہ ادا کرتا ہوں نیز ان اصحاب کا بھی دل سے شکر گزار ہوں جنھوں نے میاں عبدالعزیز صاحب کے اعلان دست برداری کے بعد بذریعہ زمیندار مجھ پر کامل اعتماد کا اظہار فرمایا۔ اللہ تعالیٰ مجھے ان کے اس اعتماد کو حق بجانب کرنے کی توفیق دے۔ آمین ۲۰؍جولائی ۱۹۲۶ئ، ص۳۔ علامہ اقبال اور کونسل کی امیدواری مسلمان بھائیوں سے درخواست بڑی خوشی کی بات ہے کہ پنجاب کونسل کے آیندہ انتخاب کے لیے فخرِ قوم ڈاکٹر سر محمد اقبال بیرسٹر لاہور نے، لاہور کے مسلم حلقے کی ممبری قبول فرمانے کا اعلان کردیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب مسلمانوں کے بڑے ہی خیرخواہ اور بڑے ہی لائق و فائق ہیں۔ ہندوستان میں ان کی شان کے لائق مسلمان کوئی بھی نہیں اس لیے ہم اپنے تمام قومی بھائیوں سے عرض کرتے ہیں کہ وہ ڈاکٹر صاحب کو ممبر بنانے میں بڑی کوشش کریں۔ میاں حسین بخش قادری مالک قادری فونڈری ورکشاپ برانڈرتھ روڈ لاہور، میاں غلام مصطفی صاحب مالک ویلکن مشینری کمپنی برانڈرتھ روڈ لاہور، میاں کریم بخش صاحب چشتی مالک کارخانہ کریم بخش چشتی اینڈ سنزبرانڈرتھ روڈ لاہور، میاں محمد دین ٹھیکے دار و مالک آئس فیکٹری برانڈرتھ روڈ لاہور، میاں کریم بخش صاحب قادری ٹھیکے دار و مالک کارخانہ زمیندار، فونڈری ورکشاپ برانڈرتھ روڈ لاہور۔ ۶؍اگست۱۹۲۶،ص۵۔ پنجاب خلافت الیکشن بورڈ کا فیصلہ تجویز کردہ امیدواران کونسل کی پہلی قسط مجلس خلافت پنجاب کے الیکشن بورڈ نے قیام کے ساتھ ہی کام شروع کردیا تھا مگر افسوس کہ بعض ارکان کی ذاتی پریشانیوں اور مصیبتوں کے باعث کام میں ناگزیر التوا ہوگیا۔ ان میں میرے فرزند اکبر کی طویل علالت اور حسرت ناک وفات، حضرت مولانا عبدالقادر صاحب قصوری کے صاحبزادے اور مولوی محی الدین صاحب کی اہلیہ کی علالت کا حصّہ سب سے زیادہ ہے لیکن ان کے باوجود حتی الامکان ہر ممکن کوشش جاری رہی۔ مختلف حلقوں کے راے دہندگان کے جذبات و خیالات معلوم کیے گئے، مختلف شہروں کا دورہ کیا گیا۔ حالت نہایت اطمینان بخش معلوم ہوئی ہے۔ ہر مقام کے لوگ خلافت کے الیکشن بورڈ کی امداد کے لیے تیار پائے گئے۔ جو امیدوار بورڈ کے سامنے آئے ان کی مختلف حیثیات پر غور کیا گیا۔ بعد غور و فکر الیکشن بورڈ سردست مندرجہ ذیل امیدواروں کی سفارش کرتا ہے اور مصر حہ حلقوں کے مسلمانوں سے مستدعی ہے کہ وہ انھی امیدواروں کو رائیں دیں، انھی کو کامیاب بنائیں اس لیے کہ بورڈ کی راے میں یہ امیدوار ہمہ وجوہ قوم و وطن کے حقوق کی امانت کے بہترین اہل اور ان کے حصول کے لیے مناسب سعی و جہد کی صلاحیت کے بہترین سرمایہ دار ہیں اور بورڈ اپنی تمام قوتیں انھی کی اعانت میں صرف کرے گا۔ بورڈ کے تجویز کردہ امیدواروں کی فہرست درج ذیل ہے: ۱- حلقہ لاہور (شہر) علامہ اقبال پی ایچ ڈی بیرسٹرایٹ لا، لاہور۔ ۲- وسطی شہری حلقہ (سیالکوٹ، وزیرآباد، گوجرانوالہ، شیخوپورہ، قصور، فیروزپور، جالندھر، ہوشیارپور، گورداس پور، انبالہ وغیرہ) مولوی مظہر علی صاحب اظہر بی اے ۔ ایل ایل بی۔ وکیل گورداس پور، موجودہ ممبر کونسل۔ ۳- کمشنری ملتان اور کمشنری راولپنڈی شہری حلقہ ڈاکٹر محمد عالم بی اے۔ ایل ایل ڈی بیرسٹرایٹ لا، لاہور۔ ۴- لدھیانہ، انبالہ، کرنال وغیرہ شہری حلقہ رانا فیروز دین صاحب بی اے۔ ایل ایل بی (ہوشیار پور) موجودہ ممبر کونسل۔ ۵- لدھیانہ، ہوشیارپور (دیہاتی حلقہ) چودھری افضل حق صاحب (گڑھ شنکر) موجودہ ممبر کونسل۔ بورڈ نے حلقہ انتخاب کی عام حالت کو ملحوظ رکھتے ہوئے ملک لال دین خاں صاحب کو نمایندگی کے لیے تجویز کیا تھا لیکن آخری فیصلے کے اعلان سے قبل یہ حقیقت سامنے آئی کہ ملک لال دین صاحب تحریک کے زمانے میں سزایابی کے باعث بلااجازت خاص امیدوار نہیں بن سکتے اور اجازت کے لیے کچھ مدت درکار تھی نیز اجلاس کا التوا لازمی تھا۔ اس التوا کے باعث امیدواروں کے نام میں مشکلات پیدا ہوجانے کا اندیشہ تھا۔ ملک صاحب ان مشکلات کو مدنظر رکھتے ہوئے ازراہ ایثار مولوی مظہر علی صاحب کے حق میں دست بردار ہوگئے۔ پنجاب کونسل کی بقیہ نشستوں اور اسمبلی کی نشستوں کے لیے موزوں ترین امیدواروں کا فیصلہ زیر غور ہے ان حلقوں کے راے دہندگان سے درخواست ہے کہ وہ سردست اپنی رائیں محفوظ رکھیں۔ کسی سے وعدے نہ کریں اور جماعت کے فیصلے کا انتظار فرمائیں۔ جن حلقوں کے امیدواروں کی نسبت بورڈ فیصلہ کرچکا ہے ان کے راے دہندگان سے مکرّر التجا ہے کہ وہ امیدواروں کی کامیابی کے لیے ہر ممکن کوشش عمل میں لائیں۔ ہر شہر کی مجالس خلافت کو چاہیے کہ وہ فوراً ماتحت ایلیکشن (الیکشن) بورڈ بناکر معاً کام شروع کردیں۔ بورڈ کو کامل یقین ہے کہ ہر مسلمان اس معاملے میں مجالس خلافت کی پوری پوری امداد کرے گا۔ (خواجہ) عبدالرحمن غازی …کنوینر شنبہ۴؍صفر۱۳۴۵ھ، ۱۴؍اگست۱۹۲۶ئ،۱۳/۱۷۷،ص۳۔ مجلس خلافت کے انتخابی بورڈ کا فیصلہ اُصول کار اور مقاصد کی وضاحت ایک مقامی معاصر کی غلط بیانیاں لاہور کے ایک اخبار نے جو اپنی غلط بیانیوں کے لیے ناقابل رشک [مقام] حاصل کرچکا ہے اپنی ۱۸؍اگست کی اشاعت میں مجلس خلافت پنجاب کے انتخابی بورڈ کے متعلق جو اطلاع شائع کی ہے اس کی نسبت ہم اشاعت دیروزہ میں عرض کرچکے ہیں کہ وہ غلط ہے اور اس میں محض واقعات ہی غلط رنگ میں پیش نہیں کیے گئے بلکہ بورڈ کی حیثیت اور اُصول کار کے متعلق بھی حیرت انگیز بے خبری و نادانی یادیدہ دانستہ غلط بیانی سے کام لیا گیا ہے۔ مجلس خلافت کے حلقۂ اثر کی وسعت یا تنگی کا مبحث بالکل ایک جداگانہ حیثیت رکھتا ہے اور ہم کسی کے ساتھ یہ بحث نہیں چھیڑنا چاہتے کہ عام مسلمان مجلس خلافت یا اس کے انتخابی بورڈ کے فیصلوں کو کس نظر سے دیکھتے ہیں، واقعات و حقایق خود بخود اس کا فیصلہ کردیں گے۔ حیرت اس بات پر ہے کہ کونسلوں کے داخلے کے متعلق جمعیت مرکزیہ خلافت کی قرار داد اور اس کے اتباع میں مجلس خلافت پنجاب کے فیصلوں (صاف، واضح اور غیر مشتبہ فیصلوں) کی موجودگی میں جریدہ مذکور کے نامہ نگار کو غلط بیانیاں کرنے کی جرأت کیوں کر ہوئی؟ جمعیۃ مرکزیہ خلافت اور کونسلوں کا داخلہ جمعیۃ مرکزیہ خلافت نے گزشتہ اپریل کے اجلاس میں کونسلوں کے داخلے کے متعلق جو قرارداد منظور کی تھی، اس کا مفاد یہ تھا کہ کوئی مجلس خلافت کسی مسلمان امیدوار کو اپنے ٹکٹ پر نہیں بھیج سکتی یعنی مجالس خلافت کو قطعاً یہ حق حاصل نہ ہوگا کہ وہ اپنی طرف سے اُمیدواروں کو نامزد کریں۔ اس کے ساتھ ہی مختلف صوبوں کی ضروریات اور اضطراب انگیز حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے جمعیۃ مرکزیہ خلافت نے تمام صوبوں کی مجالس خلافت کو اجازت دے دی تھی کہ وہ اگر ضرورت سمجھیں تو ایسے مسلم امیدواروں کی امداد و اعانت کریں جو مسلمانوں کے حقوق اور قومی مقاصد کو ذاتی اغراض اور حکومت کی خوشنودی پر ترجیح دیں۔ مجلس خلافت پنجاب کا فیصلہ یہی قرار داد تھی جس کے اتباع میں مجلس خلافت پنجاب نے مسلمانوں کے بہترین امیدواراں کونسل کی امداد و اعانت کا کام اپنے ہاتھ میں لیا اور انتخابی بورڈ کے قیام کے وقت صاف الفاظ میں اس حقیقت کی وضاحت کردی گئی تھی کہ مجلس خلافت کسی امیدوار کو اپنی طرف سے نامزد نہ کرے گی۔ چنانچہ انتخابی بورڈ کے کام کے لیے جو لائحہ وضع کیا گیا تھا اس میں بھی محض [چند]بڑے بڑے اُصول پیش کردیے گئے تھے۔ کوئی تفصیلی پروگرام نہیں بنایا گیا تھا۔ اگر مجلس خلافت امیدواروں کی نامزدگیوں کا کام اپنے ہاتھ میں لیتی تو خود ان کے لیے پروگرام مرتب کرتی لیکن مجلس نے محض یہ کیا کہ چند [بڑے] بڑے اور عام اُصول پیش کردیے۔ تاکہ جو لوگ ان اُصولوں سے متفق ہوں ان میں سے بہترین اصحاب کی امداد و اعانت کا کام انجام دے اور [دوسرے] اصحاب کونسل کے اندر جاکر ان اصولوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے صلاح و مشورے سے خود تفصیلی پروگرام مرتب کرلیں۔ مجلس خلافت کا مقصد ملکی فضا بے حد خراب ہوچکی تھی، مسلمانوں کا تشتت اور انتشار بہت افسوس ناک تھا، مجلس خلافت محض یہ چاہتی تھی کہ چند عام بڑے بڑے اُصولوں کی بنا پر بہترین امیدواروں کے لیے ہم راے بن کر کونسل میں جانے کا موقع پیدا کردے تاکہ وہ وہاں مسلمانوں کی ایک آزاد خیال اور مخلص جماعت بنانے میں کامیاب ہوجائیں۔ وطنی میثاق کی عدم موجودگی میں ہندوؤں، مسلمانوں، سکھوں وغیرہ کو متفق و متحد بناکر کونسل میں بھیجنا بہ ظاہر غیر ممکن ہوگیا تھا۔ مجلس خلافت کی خواہش اور کوشش یہ تھی کہ وہ کم از کم آزاد خیال اور مخلص مسلمانوں کی ایک اچھی اور موئثر جماعت مرتب ہوجانے کا سامان بہم پہنچا دے تاکہ اسلامی حقوق کی حفاظت و ضیافت کا کام بھی بوجہ احسن انجام پاتا رہے اور بڑے بڑے وطنی مقاصد کی سعی تکمیل کو بھی کوئی نقصان نہ پہنچے۔ مجلس خلافت اچھی ہو یا بُری وہ بقول نامہ نگار اخبار مذکور ’’وہابیوں‘‘ کی جماعت ہو یا مسلمانوں کی، اس کا دائرہ اثر وسیع ہو یا تنگ یہ تمام مباحث فضول اور لایعنی ہیں۔ جس زاویہ نگاہ کی بنا پر مجلس خلافت نے انتخابات کا کام اپنے ہاتھ میں لیا اس پر کوئی اعتراض وارد نہیں ہوسکتا اور کوئی شخص یہ نہیں کَہ سکتا کہ مجلس خلافت اسلامی حقوق کی حفاظت اور وطنی مقاصد کی تکمیل کے سوا کچھ چاہتی تھی۔ امیدواروں کے خصائص اس توضیح سے یہ حقیقت بھی بالکل براہن و آشکار ہوجاتی ہے کہ مجلس خلافت پنجاب کے انتخابی بورڈ نے جن جن مسلم امیدواروں کے بہترین ہونے کا فیصلہ کیا ہے ان میں سے کوئی بھی مجلس خلافت کا امیدوار یا اس کا نامزدہ ممبر نہیں ہے اس لیے کہ خلافت نے نامزدگیوں کا کام اپنے ہاتھ میں نہیں لیا۔ البتہ یہ صحیح ہے کہ مجلس خلافت کے انتخابی بورڈ کی راے میں یہ امیدوار بہترین ہیں جن کے ہاتھوں میں اسلامی حقوق اور وطنی مقاصد بہمہ وجوہ محفوظ ہیں اس لیے انتخابی بورڈ نے ان امیدواروں کی سفارش کی ہے اور مجلس خلافت پنجاب کے تمام قواے عمل انھیں آیندہ انتخابات میں کامیاب بنانے کے لیے وقف رہیں گے۔ بقیہ حلقہ ہاے انتخاب کے بہترین امیدواروں کے متعلق بھی انتخابی بورڈ کا طریق کار یہی ہوگا۔ مدعامحض یہ ہے کہ کسی طرح کونسل میں سچے اور مخلص مسلمانوں کی ایک جماعت بن سکے اور وہ متفق علیہ اُصول کے ماتحت اپنا تفصیلی پروگرام خود بنالے۔ بورڈ کا کام بہترین امیدواروں کی تائید و اعانت کے سوا اور کچھ نہ تھا اور یہ بھی بالکل واضح ہے کہ امیدواروں کے لیے مجلس خلافت کی رکنیت ضروری نہ تھی، محض ان اُصول کے ساتھ اتفاق ضروری تھا جو بورڈ کی نظروں میں وطنی مقاصد کی تکمیل اور اسلامی حقوق کی حفاظت کے اصل الاُصول تھے۔ اگرچہ یہ صحیح ہے کہ مجلس خلافت کے دیرینہ کارکنوں سے اس اُصول کی پابندی کی نسبت جس طرح یقین و وثوق ہوسکتا تھا اس طرح دوسرے اصحاب سے نہیں ہوسکتا تاہم اُصولی طور پر مجلس خلافت کی رکنیت کوئی شرط نہ تھی چنانچہ اس کی وضاحت بھی ابتدائی اعلانوں اور ان اعلانوں کی تشریحات میں کردی گئی تھی۔ بورڈ نے امیدواروں کی تحریری درخواست کو بھی ان کے معاملے پر غور و فکر کی ضروری شرط قرار نہیں دیا تھا، وہ محض بہترین امیدواروں کی تائید و اعانت کے فیصلے کا ذمہ دار تھا اور اس کے لیے اتنا کافی تھا کہ مختلف امیدواروں میں سے جنھیں بہترین سمجھے ان سے اُصول کے ساتھ اتفاق کا اطمینان کرے۔ علامہ اقبال کا معاملہ علامہ اقبال مدظلہ کا معاملہ جب بورڈ کے سامنے آیا تو ان کی کوئی تحریری درخواست بورڈ کے روبرو موجود نہ تھی۔ لیکن چونکہ علامہ ممدوح اپنی قابلیت، فضیلت، خلوص اور دردمندی اسلام کی بنا پر بہت ممتاز تھے اس لیے بعض ارکان کی تجویز کے مطابق یہ طے ہوا کہ علامہ ممدوح سے گفت شنید کرکے اُصول کے متعلق اطمینان کرلیا جائے۔ چنانچہ گفت و شنید ہوئی اور اس میں علامہ موصوف نے اُصول کے ساتھ کامل اتفاق کا اظہار کیا۔ اس اتفاق کے بعد بورڈ نے ان کی تائید و اعانت کا اعلان کردیا۔ اس سلسلے میں تمام مسلمانوں کے ساتھ جو ’’دھوکا‘‘ کیا گیا ہے وہ وضاحت طلب ہے۔ جب بورڈ کا کام محض بہترین امیدواروں کا انتخاب تھا اور ان میں کوئی امیدوار بھی ایسا نہیں جسے بورڈ کے اُصول کے ساتھ اتفاق کا اطمینان کیے بغیر منتخب کیا گیا ہوپھر اس میں دھوکا کیا ہوا؟ اخبار مذکور کا نامہ نگار لکھتا ہے کہ مجلس خلافت نے علامہ اقبال کے نامِ بلند کی نسبت سے اپنے اعزاز کی ناواجب سعی کی ہے۔ بلاشبہ علامہ اقبال کی شخصیت ہر جماعت کے لیے باعث صدزیب ہے لیکن مجلس خلافت یا اس کا بورڈ مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے بلند اُصول سے انحراف اختیار کرکے کسی شخصیت کی شمولیت و اشتراک سے زینت پانے کا خواہاں نہیں۔ مقصد محض یہ تھا کہ مسلمانوں کے بہترین امیدوار کونسل میں جائیں۔ انتخابی بورڈ نے بہترین امیدواروں کے لیے جو اُصول مقرر کیے تھے علامہ ممدوح نے ان کے ساتھ پورے اتفاق کا اظہار فرمایا۔ دوسری حیثیتوں سے ان کی ذات مدح و ستایش سے بے نیاز تھی پھر کیا بورڈ ان حقایق کے باوجود آیندہ انتخابات میں ان کی تائید و اعانت کا اعلان نہ کرتا؟ ہاں اگر کوئی شخص یہ دعویٰ کرے کہ علامہ ممدوح نے انتخابی بورڈ کے اُصول کے ساتھ اتفاق نہیں کیا یا بورڈ نے اس اتفاق کی نسبت اطمینان کیے بغیر ان کی تائید و اعانت کا اعلان کردیا تو اس صورت میں بورڈ کو اپنے اُصول سے انحراف کا مجرم قراردیا جاسکتا ہے۔ ہمارے مقامی معاصر اور اس کے نامہ نگار خصوصی کو یقین رکھنا چاہیے کہ جس مجلس خلافت کی شمولیت کل تک اس کے مالک کے لیے سب سے بڑے اعزاز کا باعث تھی وہ مجلس خلافت آج بھی اپنے وطن پرستانہ اور اسلام پرستانہ اُصول پر مضبوطی کے ساتھ کاربند ہے، اس کے کارکن مسلمانوں کے لیے اور ملک کے لیے جن اُصول کار کو بہترین سمجھتے ہیں، نیک نیتی کے ساتھ بہترین سمجھتے ہیں اور ان کے مطابق کام کرتے ہیں۔ مجلس خلافت رہے یا نہ رہے، اس کے اثرو رسوخ کو کوئی مسلمان قبول کرے یا نہ کرے لیکن جب تک اس کا وجود ہے وہ اپنے کسی دائرہ عمل کے کسی اُصول کو کسی شخصیت کی خاطر قربان کرنے کے لیے تیار نہیں۔ ڈاکٹر محمد عالم اور شیخ عبدالقادر معاصر مذکور لکھتا ہے کہ ڈاکٹر شیخ محمد عالم صاحب بیرسٹرایٹ لا کو خان بہادر شیخ عبدالقادر صاحب ’’قبلہ‘‘ کے مقابلے میں لیا گیا ہے کیا شیخ عبدالقادر صاحب وہی بزرگ نہیں ہیں جن کی سرکاری مصلحت کوشیوں کا راز سرمائیکل اوڈوائر کے زمانے سے طشت ازبام ہوچکا ہے؟ پھر اگر معاصر مذکور کے نامہ نگار کی نظروں میں ’’قبلہ‘‘ بن گئے ہیں تو یہ مجلس خلافت کے انتخابی بورڈ کا قصور نہیں ہے۔ ڈاکٹر شیخ محمد عالم صاحب کا مقابلہ اگر کسی ایسے شخص سے ہوتا جو قوم پرستی اور آزاد خیالی کے زاویہ نگاہ سے ان کا مسئلہ ہوتا تو اس صورت میں بھی اس انتخاب پر اعتراض شائستہ اعتنا مقصود ہوسکتا لیکن کیا انتخابی بورڈ سے یہ توقع کی جاتی تھی کہ وہ اور کسی کے مقابلے میں بھی نہیں بلکہ خان بہادر شیخ عبدالقادر صاحب یا بقول نامہ نگار اخبار مذکور شیخ عبدالقادر صاحب ’’قبلہ‘‘ کے مقابلے میں ڈاکٹر شیخ محمد عالم صاحب کو مرجح قرار دیا جاتا یعنی قوم پرستی اور آزاد خیالی کے نقطہ نظر سے غلامی کو حریت پر مقدم رکھا جاتا؟ ملک لال خاں صاحب قبلہ کا معاملہ جناب ملک لال خان [کے متعلق] عرض کرنے کی ضرورت نہیں سمجھتے اس لیے کہ اس مسئلے میں تمام [معاملات، تفصیلات] کے ساتھ شائع ہوچکے ہیں اور ہماری راے میں ان کے اعادہ کی ضرورت نہیں۔ بورڈ کی بے اثری بیان کیا گیا ہے کہ مجلس خلافت وہابیوں کی جماعت ہے۔ اس کی تصدیق کی صورت یہ ہے کہ اب تک اس نے جن امیدواروں کے بہترین ہونے کا اعلان کیا ہے وہ سب کے سب وہابی ہیں۔ مثلاً علامہ اقبال وہابی، ڈاکٹر محمد عالم وہابی، رانا فیروزالدین وہابی، چودھری افضل حق وہابی، مولوی مظہر علی وہابی۔ حقیقی افسوس الزام تراشی پر نہیں بلکہ اس بات پر ہے کہ ان کم بختوں کو الزام تراشی کا بھی سلیقہ نہیں اور اپنے ہاتھوں اپنے دعاوی کی جڑیں کاٹنا شروع کردیتے ہیں۔ اخبار مذکورکے نامہ نگار خاص کا سرچشمہ ہمیں معلوم ہے اس نے بورڈ کی نسبت جو کچھ لکھوایا ہے ہمارے نزدیک وہ کسی حیثیت سے بھی درخوراعتنا نہیں۔ شاید اس سرچشمے کو فراموش نہیں ہونا ہوگا کہ یہی بورڈ جس پر لوگ ہنسے، بیگانوں نے مضحکہ اُڑایا، انھوں نے تبسم زیر لب پر اکتفاکیا۔ تاامید کامیابی اس سرچشمہ کی طواف گاہ تھا اور آج بھی اگر بورڈ ان کے معاملے پر متوجہ ہونے کا میلان ظاہر کرے تو بھی صدشوق و نیاز اس کا دروازہ کھٹکھٹانے کے لیے ہاتھ بے تاب حرکت کرسکتے ہیں۔ ہمارے لیے اتنا عرض کردینا کافی ہے کہ ’’انگور کھٹے ہیں‘‘ کا طریق عمل کبھی کسی شخص کے لیے موجب اعزاز نہیں بنا۔ خاتمہ سخن آخر میں عام مسلمانوں سے پھر گزارش ہے کہ بورڈ کا طریق عمل اور اس کا مقصد و مدعا پورے طور پر واضح ہوچکا ہے۔ مجلس خلافت کسی امیدوار کو اپنے ٹکٹ پر نہیں بھیج رہی اور نہ اس کے اعلان کردہ اصحاب میں سے کوئی شخص مجلس خلافت کا نامزدہ ممبر ہے۔ بورڈ نے مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت اور وطنی مقاصد کی تکمیل کے اُصول کے لحاظ سے بہترین امیدواروں کا اعلان کردیا۔ مجالس خلافت ان امیدواروں کو کامیاب بنانے کی کوششیں کریں گی اور ہمیں یقین ہے کہ وہ مسلمان مجلس خلافت کے مقصد و مدعا سے پورے طور پر آگاہ ہونے کے بعد ان امیدواروں کی تائید میں کوئی دقیقہاُٹھانہ رکھیں گے۔ مجلس خلافت محض یہ چاہتی ہے کہ کونسل میں آزاد خیال اور مخلص مسلمانوں کی ایک جماعت بن جائے وہ بڑے بڑے اُصول یعنی اسلامی حقوق کی حفاظت، آزادی وطن کی سعی، ذاتی اغراض اور حکومت کی خوشنودی پر قومی مقاصد اور اسلامی مفاد کی ترجیح کے ماتحت اپنا تفصیلی پروگرام خود بنائے اور اس طرح کونسل کے مسلمان ممبر مسلمانوں کے لیے اور وطن کے لیے کوئی مفید و موثر خدمت انجام دے سکیں۔ ہمیں یقین ہے کہ اس پر تمام مسلمان متفق ہوجائیںگے۔ مجلس خلافت کی آخری شرط محض یہی ہے کہ کونسل میں ان اُصول پر جو جماعت بنے مجلس [کی] اعانت سے فائدہ اٹھانے والا پنجاب اس جماعت کی ہم [نوائی کرے] یک شنبہ۱۲؍ صفرالمظفر ۱۳۴۵ھ،۲۲؍اگست۱۹۲۶ئ،۱۳/۱۸۴،ص۳۔ خلافت الیکشن بورڈ کا جلسہ مزید امیدواروں کا فیصلہ ۱۰؍ستمبر کو پنجاب خلافت الیکشن بورڈ کا جلسہ دفتر خلافت پنجاب میں ہوا اس میں پنجاب کونسل کے امیدواروں کے متعلق دو مزید فیصلے کیے گئے، جن کی تفصیل یہ ہے: (۱) امرت سر مسلم شہری حلقے کی طرف سے شیخ محمد صادق صاحب بیرسٹرایٹ لا، امرت سر (موجودہ ممبر کونسل) (۲) ڈیرہ غازی خاں مسلم دیہاتی حلقے کی طرف سے سردار محمد اعظم جان خاں صاحب زاری علیگ، رئیس اعظم روجھان ضلع ڈیرہ غازی خان۔ الیکشن بورڈ کے فیصلوں اور مجلس خلافت پنجاب کے کام کے سلسلے میں چند مفصل گزارشات جلد شائع کروں گا۔ اسمبلی اور کونسل کے بقیہ حلقوں کے لیے غور و تحقیق جاری ہے بورڈ کا آیندہ اجلاس ۱۹؍ستمبر کو شام کے چار بجے ہوگا۔ تمام مسلمانوں سے درخواست ہے کہ وہ بورڈ کے سفارش کردہ ارکان کی پوری پوری تائید کریں۔ ہر ماتحت مجلس خلافت کو اس کا خاص خیال رکھنا چاہیے۔ عبدالرحمن غازی کنوینر یک شنبہ ۴؍ربیع الاوّل ۱۳۴۵ھ،۱۲؍ستمبر۱۹۲۶ئ،۱۳/۱۹۹،ص۳۔ پنجاب کونسل کے انتخابات اور مولانا شوکت علی خلافت الیکشن بورڈ کی تائید میں اہم بیان کونسلوں میں اپنے آزمائے ہوئے سپاہیوں کو بھیجو پنجاب کونسل کی انتخابی مہم کے متعلق مولانا شوکت علی نے اپنا حسب ذیل بیان شایع کرنے کی اجازت دی ہے: ’’ہر شخص کو معلوم ہے کہ میں ترک موالات کے مسئلے میں آج بھی وہی راے رکھتا ہوں جو اوّل تھی۔ اپنے لیے ایک طریق عمل اختیار کیا ہے جس کو اپنی دینی و دنیوی بہبودی کا ذریعہ سمجھتا ہوں۔ کونسلوں میں داخل ہونے کو میں آج بھی بیکار سمجھتا ہوں مگر میرے بہت سے بھائی اور کام کے ساتھی اس بارے میں دوسری راے رکھتے ہیں۔ وہ بھی کونسلوں کو بہت اچھا نہیں سمجھتے مگر پھر بھی مجبوراً ان کے ذریعے سے کام نکالنا چاہتے ہیں۔ مجھے حق حاصل نہیں ہے کہ میں ان پر جبر کروں۔ یہ حالت ہوتے ہوئے جب کہ لوگ کونسلوں میں جارہے ہیں تو میں خود یہ راے رکھتا ہوں کہ جانے والوں میں سے مسلمانِ پنجاب ان خادمانِ قوم کو منتخب کریں جو کونسلوں میں جاکر ذاتی مفاد کے لیے کوشش نہ کریں بلکہ قومی مفاد کو پیش نظر رکھیں۔ اس لیے میں نہایت خوشی کے ساتھ پنجاب کے مسلمان امیدواروں میں سے رانا فیروز الدین خاں، چودھری افضل حق، ڈاکٹر سرشیخ محمد اقبال، شیخ محمد صادق ، ڈاکٹر شیخ محمد عالم، مولوی مظہر علی اظہر خاں، محمد اعظم جان خاں کو جنھیں پنجاب خلافت کمیٹی کے الیکشن بورڈ اور پنجاب کونسل نے امداد دینے کا فیصلہ کیا ہے، بہترین امیدوار سمجھتا ہوں۔ یہ حضرات خلافت کمیٹی کی خدمات کرچکے ہیں، اسلام کے حامی ہیں اب بھی ہر مسئلے میں جان فروشی کے ساتھ اسلامی اور ملکی مفاد کی پوری پوری تائید کریں گے۔ میں توقع کرتا ہوں کہ مسلمان ان کا ساتھ دیں گے اور دکھاوی لوگوں سے زیادہ ان آزماے ہوئے کارکنانِ اسلام کو اپنی راے دے کر کامیاب بنانے کی ہر ممکن کوشش کریں گے اور ان کے علاوہ امیدواروں کو پنجاب خلافت کمیٹی پنجاب کونسل کے دیگر حلقہ جات یا اسمبلی کے لیے منتخب کریں۔ ان کے لیے بھی اسی طرح سعی و کوشش کریں گے۔ (دستخط (مولانا) شوکت علی خادم کعبہ سکریٹری دفتر خلافت مرکزیہ کمیٹی) سہ شنبہ ۲۰؍ربیع الاوّل ۱۳۴۵ھ،۲۸؍ستمبر۱۹۲۶ئ،۱۳/۲۱۱،ص۴۔ انتخابی جلسوں میں تقاریر علامہ سر محمد اقبال نے جب ۱۹۲۶ء کے انتخابات میں پنجاب کونسل کی رکنیت کا امیدوار کھڑے۲۴؎ ہونے کا اعلان کیا تو لاہور میں ان کی حمایت میں تقریباً ۲۰ جلسے منعقد کیے گئے جن میں اکابرین لاہور اور مختلف انجمنوں نے استدعا کی کہ علامہ صاحب کو بلامقابلہ منتخب کیا جائے۔ میاں عبدالعزیز بار ایٹ لا اور چودھری۲۵؎ محمد حسین ان کے حق میں دستبردار ہوگئے لیکن ملک محمد دین نے ان کا مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ ۱۴؍اکتوبر۱۹۲۶ئ،ص۳۔ نواب صاحب کے چوک میں اہم جلسہ لاہور۔ چہار شنبہ۱۳؍اکتوبرکو رات کے ۸ بجے وارڈ نمبر ۸،۹ چوک نواب صاحب میں ایک جلسہ علامہ اقبال کی تائید میں منعقد ہوگا جس میں روسا و معززین شہر اور شعرا بھی شرکت کریں گے نیز علامہ ممدوح خود بھی رونق افروز جلسہ ہوں گے۔ ۱۶؍اکتوبر۱۹۲۶ئ،ص۳۔ علامہ اقبال کے حق میں جلسے قصاب برادری کے سرکردہ حضرات کا اعلان۲۶؎ ۱۱؍اکتوبر کو ایک جلسے۲۷؎ سے خطاب کرتے ہوئے علامہ اقبال نے فرمایا: علامہ اقبال کے ارشاداتِ گرامی۲۸؎ میں انگریزی، اُردو اور فارسی میں برنگ نثر بھی اپنے خیالات کا اظہار کرسکتا تھا لیکن یہ ایک مانی ہوئی بات ہے کہ طبائع نثر کی نسبت شعر سے زیادہ متاثر ہوتی ہے۲۹؎ لہٰذا میں نے مسلمانوں کو زندگی کے صحیح مفہوم سے آشنا کرنے، اسلاف کے نقش قدم پر چلانے اور ناامیدی، بزدلی اور کم ہمتی سے باز رکھنے کے لیے نظم کا ذریعہ استعمال کیا۔ میں نے پچیس سال تک اپنے بھائیوں کی مقدور بھر ذہنی خدمت کی۔ اب میں ان کی بطرز خاص عملی خدمت کے لیے اپنے آپ کو پیش کررہا ہوں۔ اسلامیانِ ہند پر عجب دور گزر رہا ہے۔ ۱۹۲۹ء میں ایک شاہی مجلس تحقیقات اصلاحات جسے ’’رائل کمیشن‘‘ کہتے ہیں، یہ تحقیق کرے گی کہ آیا ہندوستان مزید رعایات و اصلاحات کا مستحق ہے یا نہیں۔ ضرورت ہے کہ مسلمان بھی اس باب میں پوری توجہ سے کام لیں اور اپنے حقوق کا تحفظ کریں۔ ممبر کا سب سے بڑا وصف یہ ہونا چاہیے کہ ذاتی اور قومی منفعت کی ٹکر کے وقت اپنے شخصی مفاد کو مقاصد قوم پر قربان کردے۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ میں کبھی بھی اپنے مفاد کو قوم کے مصالح کے مقابلے میں ترجیح نہیں دوں گا اور رب العزت سے دعا کرتا ہوں کہ وہ مجھے اس امر کی توفیق بخشے کہ میں آپ کی خدمت کرسکوں۔ میں اغراضِ ملّی کے مقابلے میں ذاتی خواہشوں پر مرمٹنے کو موت سے بدتر خیال کرتا ہوں۔ ۱۴؍اکتوبر ۱۹۲۶ئ، ص۳۔ مسلمانانِ لاہور کا عظیم الشان جلسہ لاہور ۱۸؍اکتوبر آج بروز دو شنبہ بوقت ۸ بجے شاہ عالمی دروازہ چوک مستی میں مسلمانانِ لاہور کا ایک عظیم الشان جلسہ لسان الاسلام و ترجمان حقیقت علامہ سرڈاکٹر شیخ محمد اقبال ایم اے پی ایچ ڈی بیرسٹرایٹ لا کی تائید میں منعقد ہوگا۔ شہر کے اکثر معزّزین اس مہتم بالّشان اجتماع میں شرکت فرما ہوں گے۔ لاہور اور برونجات کے مشاہیر اہل سخن اور مقررین حاضرین کو اپنے خیالات و افکار سے مستفیض فرمائیں گے۔ علاوہ ازیں مختلف محلّوں کے رضا کاران بھی رونق افزاے بزم ہوں گے۔ علامہ ممدوح خود بھی تشریف فرما ہوں گے۔ امید ہے کہ مسلمان اس جلسے میں بہ کثرت شامل ہوں گے۔ سہ شنبہ۱۱؍ربیع الاوّل ۱۳۴۵ھ،۱۹؍اکتوبر۱۹۲۶ئ،ص۴۔ علامہ اقبال سیّد اصغر علی شاہ صاحب گیلانی بوریاں والے فرماتے ہیں کہ مسلمانانِ لاہور کی غیرت ملّی کا اقتضایہ ہے کہ آیندہ انتخابات میں علامہ ممدوح بلا مقابلہ رکن بنیں۔ پنج شنبہ ۱۳؍ربیع الاوّل ۱۳۴۵ھ،۲۱؍اکتوبر۱۹۲۶ئ،۱۳/۲۳۰،ص۳۔ علامہ اقبال کے حق میں جلسے اور جلوس مسلمانانِ لاہور کا فقید النظیر اجتماع سیف الملّت ڈاکٹر کچلو اور راجہ غضنفر علی کی تصریحات۳۰؎ ۱۵؍اکتوبر کو ایک جلسہ زیر صدارت ملک محمد حسین منعقد ہوا۔ ڈاکٹر سیف الدین کچلو نے علامہ اقبال کی حمایت میں پرزور تقریر کی۔۳۱؎ جلسے کے اختتام پر علامہ اقبال نے معززین، رضاکاران اور حاضرین کا شکریہ ادا کرنے کے بعد فرمایا: علامہ اقبال کے ارشادات۳۲؎ میں جناب حاجی شمس الدین صاحب (بھوسہ فروش بیرونِ دہلی دروازہ۳۳؎ ) کا بالخصوص شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انھوں نے قبولیت حق میں سبقت فرمائی۔ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ صبح ایک وفد جناب حضرت مہر صوبہ صاحب کی سرکردگی میں میرے پاس پہنچا کہ مجھ کو ملک محمد دین صاحب کے حق میں دستبردار ہوجانا چاہیے۔ میں نے اس وفد کے سامنے اسلامیت کا اُصول پیش کیا کہ مسلمانوں کا نائب وہی ہوسکتا ہے جس پر مسلمانوں کا اجماع ہوجائے۔ بڑی خوشی کی بات ہے کہ حاجی شمس الدین صاحب نے اس اُصول حقہ کو سب سے پہلے قبول کیا۔ آپ باوجود ضعیف العمری کے ہمراہ جلوس رہے۔ (عامۃ الناس کے اصرار پر حاجی صاحب نے حاضرین کو اپنی زیارت سے مشرف فرمایا) اب ہم۳۴؎ کو پھر ابراہیمی کام کرنا ہے اور ذات پات کے بت کو پاش پاش کرنا ہے۔ میں نوجوانوں کے سامنے عنقریب ایک سوشل پروگرام پیش کرنے والا ہوں۔ یک شنبہ ۱۵؍ربیع الاوّل ۱۳۴۵ھ/۲۳؍اکتوبر ۱۹۲۶ئ، ص۵۔ پنجاب کونسل کا آیندہ انتخاب اور حلقۂ لاہور معاندین کی شر انگیزیاں کم و بیش دو ماہ کا عرصہ ہوچکا ہے، ایک مقامی اخبار نے علامہ اقبال کی امیدواری کونسل کے سلسلے میں بعض غلط، بے اصل اور بے بنیاد الزامات خلافت الیکشن بورڈ پر عاید کیے تھے، جن کی تردید کے سلسلے میں ہمیں اپنی ۲۲؍اگست کی اشاعت کے تیسرے صفحے پر ایک مفصل مضمون شائع کرنا پڑا تھا۔ اس مضمون میں ہم نے تمام واقعات صاف صاف واضح کردیے تھے، مثلاً سب سے پہلے کونسلوں کے داخلے کے متعلق جمعیۃ مرکزیہ خلافت کی قرارداد پیش کی۔ پھر اس کی بنا پر مجلس خلافت پنجاب کے دستور العمل کی تشریح کی۔ بہترین امیدواروں کے ضروری اور لازمی خصائص بتائے۔ علامہ اقبال اور خلافت الیکشن بورڈ کے تعلق کو واضح کیا۔ اس تشریح و توضیح کے بعد مجلس خلافت یا الیکشن بورڈ کی نسبت کسی غلط فہمی کے پیدا ہونے کا کوئی امکان نہیں رہا تھا لیکن بعض بدطنیتوں اور ذاتی اغراض کے بندوں نے پھر شور برپا کیا ہے اور شہر لاہور کی مجلسِ انتخاب کونسل کی طرف سے پرسوں شام کو جو جلسہ ہوا تھا اس کی بعض بزمآل اندیشانہ تقریروں کے باعث اس شور کو بہت تقویت پہنچی ہے لہٰذا ہمارا فرض ہے کہ ایک مرتبہ پھر صحیح حالات قارئین کرام کے روبرو پیش کردیں تاکہ کوئی شخص اصل حقیقت سے بے بہرہ نہ رہے۔ مجلسِ خلافت پنجاب کا مقصد بارہا عرض کیا جاچکا ہے کہ مجلس خلافت پنجاب کسی امیدوار کو اپنے ٹکٹ پر نہیں بھیج رہی اور مجلسِ مرکزیہ کی قرارداد کے ماتحت وہ ایسا کرنے کی حق دار ہے۔ مجلس مذکورہ کا مقصد محض یہ تھا کہ مختلف مسلم حلقوں سے بہترین امیدواروں کو بعض اہم قومی و ملکی اُصول پر متفق کرکے کونسل میں بھیجے تاکہ وہ سب اس اُصول کے تحت اپنا مفصل پروگرام وضع کرکے بہ طور ایک سچی قوم پرست جماعت کے کام کریں اور ملک و قوم کی واقعی خدمات انجام دے سکیں۔ کونسل کے اندرونی حالات سے واقف اصحاب جانتے ہیں کہ جماعت کے بغیر اندر کوئی فیصلہ کام نہیں کرسکتا اور ذاتی طور پر کوئی شخص کتنا ہی قابل، کتنا ہی بلند پایہ اور کتنا ہی بیدار مغز کیوں نہ ہو لیکن جب تک کسی جماعت میں شامل نہ ہوگا کوئی خدمت انجام نہیں دے سکتا۔ کونسل میں ایک قوم پرست مسلم جماعت کے قیام کے لیے پورے سامان فراہم کردینے کی غرض و غایت ہی کو ملحوظ رکھتے ہوئے مجلسِ خلافت نے انتخابات کے متعلق اپنا دستور العمل وضع کیا تھا اور اس کے مطابق کام شروع کیا تھا۔ چنانچہ یہ تمام واقعات ۲۲؍اگست کے زمیندار میں نہایت وضاحت کے ساتھ بیان ہوچکے ہیں۔ مندرجہ ذیل اقتباس ملاحظہ فرمائیے: مجلس خلافت پنجاب کے انتخابی [بورڈ نے] جن جن مسلم امیدواروں کے بہترین ہونے کا فیصلہ کیا [ان میں سے]کوئی بھی مجلس خلافت کا امیدوار یا اس کا نامزد ممبر نہیں [اس]لیے کہ خلافت نے نامزدگیوں کا کام اپنے ہاتھ ہی میں لیا۔ مدعا محض یہ ہے کہ کسی طرح کونسل میں سچے اور مخلص مسلمانوں کی [ایک] جماعت بن سکے اور وہ متفق علیہ اُصول کے ماتحت اپنا تفصیلی پروگرام خود بنالے۔ بورڈ کا کام بہترین امیدواروں کی تائید و اعانت کے سوا اور کچھ نہ تھا اور یہ بھی بالکل واضح ہے کہ امیدواروں کے لیے مجلس خلافت کی رکنیت ضروری نہ تھی محض ان اُصول کے ساتھ اتفاق ضروری تھا جو بورڈ کی نظروں میں وطنی مقاصد کی تکمیل اور اسلامی حقوق کی حفاظت کے اصل الاُصول تھے۔ یہ تمام اُمور آج سے دو ماہ قبل واضح کیے جاچکے تھے پھر سمجھ میں نہیں آتا کہ جو لوگ مجلسِ خلافت کی حیثیت کے متعلق غلط فہمیاں پھیلا رہے ہیں ان کی دیانت کی نسبت کیا خیال کیا جائے؟ علامہ اقبال اور انتخابی بورڈ ۲۲؍اگست کی اشاعت میں یہ بھی لکھ دیا گیا تھا کہ: بورڈ نے امیدواروں کی تحریری درخواست کو بھی ان کے معاملے پر غور و فکر کی ضروری شرط قرار نہیں دیا وہ محض بہترین امیدواروں کی تائید و اعانت کے فیصلے کا ذمہ دار تھا اور اس کے لیے اتنا کافی تھا کہ مختلف امیدواروں میں سے جنھیں بہترین سمجھے، ان سے اُصول کے ساتھ اتفاق کا اطمینان کرے۔ آج بارہا ہمیں سنایا جاتا ہے کہ علامہ اقبال نے بورڈ کے پاس کوئی [درخواست] نہیں دی تھی لیکن اس کی نسبت بھی ہم آج سے دوماہ پیشتر صاف … لکھ چکے ہیں: علامہ اقبال مدظلہٗ کا معاملہ جب بورڈ کے سامنے آیا تو ان کی کوئی تحریری درخواست بورڈ کے رو برو موجود نہ تھی لیکن چونکہ علامہ ممدوح اپنی قابلیت، فضیلت، خلوص اور دردمندی اسلام کی بنا پر بہت ممتاز تھے اس لیے بعض ارکان کی تجویز کے مطابق یہ طے ہوا کہ علامہ ممدوح سے گفت و شنید کرکے اُصول کے متعلق اطمینان کرلیا جائے۔ چنانچہ گفت و شنید ہوئی اور اس میں علامہ موصوف نے اُصول کے ساتھ کامل اتفاق کا اظہار کیا۔ ان اُصول کا ملخص یہ ہے: (۱) ذاتی مفاد اور حکومت کی خوشنودی پر قومی و ملکی مفاد کو ترجیح دینا۔ (۲) ہندوستان کی کامل و مکمل آزادی کو بطور نصب العین اپنے سامنے رکھنا۔ (۳) مسلمانوں کے حقوق کی پوری حفاظت کرنا۔ (۴) جو جماعت ان اُصول کے ماتحت قائم ہو اس کی ہم نوائی کرنا۔ حیرت ہے کہ جن اُمور کا ہم خود علی الاعلان اعتراف کرچکے ہیں، بورڈ کے ایما کے مطابق اعلان کرچکے ہیں، ان کی نسبت کیوں غلط بیانیاں کی جارہی ہیں۔ نہ کبھی یہ کہا گیا کہ تحریری درخواست کی، امیدوار کے معاملے پر غور و فکر کی لازمی شرط ہے اور نہ کبھی یہ دعوے کیا گیا کہ علامہ اقبال نے درخواست دی۔ البتہ اُصول کے ساتھ اتفاق کا دعویٰ کیا گیا اور اس دعوے کی تردید کے لیے کسی شخص کے پاس کوئی دلیل موجود ہو تو سامنے آئے اور تردید کرے۔ بورڈ کی طرف سے یا مجلس خلافت کی طرف سے خود بے اصل دعوے وضع کرکے ان کی تردید کرنا نہ دیانت ہے نہ شرافت۔ ایک افسوس ناک غلط بیانی ایک غلط بیانی یہ کی جارہی ہے کہ خلافت بورڈ نے یہ سب کچھ علامہ اقبال کی بلند شخصیت کا سہارا ڈھونڈھنے کے لیے کیا۔ یہ صریح افترا اور کھلا ہوا بہتان ہے۔ ہم ذاتی طور پر علامہ اقبال کی بلند شخصیت کے اتنے معترف ہیں کہ کوئی اس باب میں ہم سے سبقت کا دعوے نہیں کرسکتا۔ خلافت بورڈ کے ارکان بھی ممکن ہے ذاتی طور پر یہی راے رکھتے ہوں تاہم بورڈ یا مجلس خلافت بہ حیثیت جماعت صرف اُصول کی پابند ہے، شخصیتوں کی پابند نہیں۔ ۲۲؍اگست ہی کی اشاعت میں ہم نے صاف صاف لکھ دیا تھا کہ: مجلس خلافت رہے یا نہ رہے، اس کے اثر و رسوخ کو کوئی مسلمان قبول کرے یا نہ کرے لیکن جب تک اس کا وجود ہے وہ اپنے کسی دائرہ عمل کے کسی اُصول کو کسی شخصیت کی خاطر قربان کرنے کے لیے تیار نہیں۔ علامہ اقبال کے بہ طور امیدوار کھڑے ہونے کا بورڈ کو علم تھا اور چونکہ وہ دوسری حیثیتوں کے لحاظ سے بہترین امیدوار تھے۔ اس لیے بورڈ کا فرض تھا کہ درخواست کے بغیر بھی ان سے اُصول کے متعلق گفت و شنید کرے۔ اگر وہ اُصول کے ساتھ اتفاق کریں تو ان کی تائید کرے ورنہ نہ کرے۔ یہ علامہ اقبال کی شخصیت عظمیٰ کے دامن میں پناہ لینے کی خواہش کا اظہار نہ تھا۔ جیسا کہ بعض ’’اُصول باختہ رہنما‘‘ اپنی حالت پر قیاس کرتے ہوئے سمجھتے ہیں۔ بلکہ بورڈ کی طرف سے اداے فرض کے لیے مخلصانہ سعی و کوشش کا ثبوت تھا۔ بورڈ کے پیش نظر مسلمانوں کی خدمت تھی۔ کونسل کے اندر بہترین مسلمانوں کی ایک جماعت کا قیام تھا اور وہ اس مقصد کے حصول کے لیے اپنے اُصول کے متعلق کسی قابل و فاضل امیدوار سے گفت و شنید کرنے میں کوئی بے عزتی نہیں سمجھتا تھا۔ ہاں اگر علامہ اقبال اُصول سے اتفاق نہ کرتے اور اس صورت میں بھی بورڈ ان کی تائید و اعانت کا فیصلہ کرتا تو البتہ یہ طریق عمل علامہ موصوف کی شخصیت کی خاطر اُصول سے انحراف کا ثبوت بن سکتا تھا مگر ایسا نہیں ہوا اور جو لوگ آج بورڈ کو علامہ ممدوح کی شخصیت کے’’ پُجاری‘‘ ظاہر کررہے ہیں وہ سخت غلطی پر ہیں یا دیدہ دانستہ حقیقت سے اعراض کررہے ہیں۔ علامہ اقبال کے نادان حمایتی علامہ اقبال کے بعض نادان حمایتیوں نے اس سلسلے میں جو غلط بیانیاں کیں وہ سخت قابل افسوس ہیں۔ اگر وہ مخلص ہوتے تو سب سے پہلے صحیح واقعات معلوم کرتے اور اس کے بعد ان کی نسبت جلسہ عام میں زبانیں کھولتے لیکن انتہائی رنج و اندوہ کے ساتھ عرض کرنا پڑتا ہے کہ آج کل ذاتی اغراض اکثر اشخاص کا محور عمل بن چکی ہیں، جہاں کہیں ان اغراض کے لیے فضا سازگار نظرآتی ہے یہ لوگ پہنچ جاتے ہیں اور بہ طور خود دعاوی تراش تراش کر ان کی تردید پر خوش ہوجاتے ہیں۔ ہمیں انتہائی رنج و افسوس ڈاکٹر سیف الدین کچلو کی روش پر ہے جنھوں نے اس جلسے میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ مجلسِ خلافت علامہ اقبال کی جلیل القدر شخصیت کی تائید کرکے اپنا کھویا ہوا وقار دوبارہ حاصل کرنا چاہتی ہے۔ اگر وہ مجلسِ خلافت پنجاب کے [لیے] کام کرنا چاہتے تھے یا اس کے بعض کارکنوں کو بدنام کرنا ان کا مقصد [تھاتو] انھیں کسی نے روکنے کی کوشش نہیں کی تھی، ان کے لیے ساری دنیا کے پلیٹ فارم کھلے ہوئے تھے، اخبار کھلے ہوئے تھے، ان کا اپنا تنظیم کا پلیٹ فارم تنظیم اخبار موجود تھا، وہ جو کچھ چاہتے فرماتے، جو جی میں تھا کہتے لیکن علامہ اقبال کے انتخابی جلسے کو اپنے ان خیالات کے اظہار کا ذریعہ نہ بناتے۔ علامہ اقبال کے مخلص حامی تھے تو کاش صحیح واقعات معلوم کرلیتے اور انھی کی بنا پر اپنے دعاوی کی بنیاد رکھتے اس لیے کہ کسی جماعت کی نسبت غلط بیانیاں کرنے یا اس کی روش کی نسبت غلط فہمیاں پھیلانے سے علامہ اقبال کو قطعاً فایدہ نہیں پہنچ سکتا۔ خلافت کے ساتھ جھگڑنے کے لیے بہت سے میدان ہیں۔ علامہ اقبال کے انتخابی جلسے کو ان کش۔مکشوں کا اکھاڑہ بنانے کا نتیجہ اس کے سوا اور کچھ نہیں ہوسکتا کہ خدانخواستہ اصل کام کو نقصان پہنچے اور مختلف جماعتوں میں تصادم پیدا ہوجائے۔ ایک دلچسپ لطیفہ بعض اصحاب انتخابی بورڈ کے اُصول سنتے ہیں تو بڑی بے تکلفی سے فرمادیتے ہیں کہ ان اُصول سے تو کوئی مسلمان بھی اختلاف نہیں کرسکتا۔ گویا یہ بھی ان کے نزدیک بورڈ کے وضع کردہ اُصول کی خدمت کی دلیل ہے اور وہ چاہتے تھے یا متوقع تھا کہ انتخابی بورڈ ایسے اُصول وضع کرتا جنھیں کوئی مسلمان بھی نہ مان سکتا۔ یہ منطق ہماری سمجھ میں نہیں آئی۔ ہمارے نزدیک اور ہر معقول شخص کے نزدیک یہ بورڈ کے انتہائی بدتر اور مسلمانوں کے تمام مقاصد سے حقیقی آگاہی کا ثبوت ہے کہ اس نے جو اُصول وضع کیے ہیں ہر مسلمان بلاتامل ان کے ساتھ اتفاق کا اظہار کرتا ہے۔ تاہم بعض لوگ اسی بنا پر بورڈ کی مخالفت کرتے ہیں کہ کہیں اسے مسلمانوں کی نظروں میں بہت بڑا اعزاز حاصل نہ ہوجائے۔ اللہ تعالیٰ تمام مسلمانوں کو حق و انصاف کے صحیح اندازے کی ہدایت دے اور سب کو متحد و متفق کردے۔ آخر میں ہم بھی کہتے ہیں کہ مجلسِ خلافت کا کوئی امیدوار نہیں۔ بورڈ نے مسلمانوں کے عام فائدے کے چند اُصول وضع کیے ہیں۔ ان سے جو لوگ اتفاق کریں اور بہترین امیدوار ہوں، ان کی بورڈ امداد کرتا ہے،عام مسلمانوں سے سفارش کرتا ہے کہ انھی کو راے دیں۔ مقصد محض یہ ہے کہ ہم اُصول اور ہم مسلک اشخاص کی ایک جماعت کونسل میں پہنچ جائے اور اپنا پروگرام خود بناکر مسلمانوں کی اور ملک کی کوئی مفید خدمت انجام دے سکے۔ یک شنبہ ۲۳؍ربیع الاوّل ۱۳۴۵ھ، ۳۱؍اکتوبر۱۹۲۶ئ، ۱۳/۲۳۸،ص۲۔ مجلس خلافت اور علامہ اقبال خلافت الیکشن بورڈ کے اُصول۳۵؎ درج ذیل اُصول پنجاب خلافت الیکشن بورڈ کی طرف سے علامہ اقبال کی خدمت میں اکتوبر ۱۹۲۶ء میں پیش کیے گئے جن سے اتفاق کرتے ہوئے آپ نے دستخط ثبت فرمائے: ۱- ہمیشہ قومی مفاد کو ذاتی اغراض اور حکومت کی خوشنودی پر ترجیح دینا۔ ۲- مسلمانوں کے تمام حقوق کی حفاظت کے علاوہ ہندوستان کی مکمل آزادی کا نصب العین پیش نظر رکھنا اور خلافت کمیٹی جب تک اس نصب العین کو سامنے رکھ کر کام کررہی ہے، اس کی مخالفت کونسل کے اندر یا باہر نہ کرنا۔ ۳- عام اسلامی مفاد کی حفاظت کے علاوہ جب تک ہندوستان کے حالات بدل نہ جائیں اس وقت تک مسلمانوں کے لیے فرقہ وار نیابت کی جدوجہد جاری رکھنا۔ ۴- کونسل کے اندر اس جماعت کی ہم نوائی کرنا جو مندرجہ بالا اُصول پر کاربند ہے۔ (دستخط) اقبال یک شنبہ۲۳ ؍ربیع الاول ۱۳۴۵ھ،۳۱؍اکتوبر۱۹۲۶ئ،۱۳/۲۳۸،ص۴۔ علامہ اقبال اور انتخاب کونسل علامہ ممدوح کی افضلیت اہل لاہور کے مسلم حلقے کی خواندہ جماعت ڈاکٹر سر محمد اقبال کے مذہب سے خوب واقف ہے ان کے اشعار سے، ان کے مذہبی خیالات کا پورا پورا علم ہوسکتا ہے اور خواندہ جماعت میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جسے ان پر مذہبی حیثیت سے کچھ اعتراض ہو۔ انجمن حمایت اسلام کے جلسوں میں خواندہ اور ناخواندہ جماعت کے اشخاص ڈاکٹر صاحب کے اشعار سے وجد میں آجایا کرتے ہیں۔ ہر ایک کلام جو سچائی کے سرچشمے سے نکلتا ہے، وہی مقبول عام ہوا کرتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے آج تک احساس نفس اور ہمدردیِ بنی نوع انساں، خاص کر مسلمانوں کے اتفاق اور اتحاد پر جو زور دیا ہے وہ ان کے کلام سے ظاہر ہورہا ہے۔ اس قسم کے خیالات رکھنے والا انسان اگر شہر لاہور کے مسلم حلقے کی طرف سے کونسل کی امیدواری کے واسطے کھڑا ہو تو اس میں شک نہیں کہ شہر لاہور کے مسلم حلقے کی یہ خوش قسمتی ہے کہ انھیں ایسا ہمدرد بنی نوع، احساس نفس کا واعظ بلا تردد میسر آگیا۔ ضروری تھا کہ وہ بلامقابلہ کونسل میں جاتا مگر افسوس کہ ایسا نہیں ہوا۔ اگرچہ فہمیدہ آدمیوں نے ڈاکٹر صاحب کے حق میں دست بردار ہوکر اپنی دانش مندی کا ثبوت دے کر عام لوگوں پر ظاہر کردیا تھا کہ واقعی ڈاکٹر صاحب ہی بہتر اور موزوں آدمی ہیں لیکن افسوس ان پر جن کی سمجھ میں نہیں آیا اور وہ حنفی اور وہابی کی مذہبی آڑ میں لوگوں سے اپیل کررہے ہیں۔ کیا پبلک کو وہ اس قدر فرسودہ دماغ خیال کررہے ہیں کہ وہ اتنا بھی نہیں سمجھ سکتی کہ یہ کونسل کی امیدواری ہے یا بادشاہی مسجد کی امامت کا انتخاب ہے؟ البتہ اگر مسجد کی امامت کا انتخاب ہوتا تو حنفی اور وہابی جھگڑا درمیان میں لایا جاسکتا تھا لیکن کونسل کی ممبری کے انتخاب کو اس سے کچھ بھی واسطہ نہ ہونا چاہیے۔ شہر لاہور کے مسلم حلقہ کے راے دہندوں کو جو بباعث ناخواندگی یا کسی اور وجہ سے ڈاکٹر اقبال کی شخصیت سے واقف نہیں ہیں، میں بتلانا چاہتا ہوں کہ آپ لوگوں کو کونسل کے واسطے ایسا آدمی منتخب کرنا چاہیے جو احساس نفس رکھتا ہو اور اس احساس نفس کی خاطر اس نے بہت سے دنیاوی فائدوں کو قربان کردیا ہو۔ علاوہ اس کے بنی نوع کا عموماً اور مسلمانوں کا خصوصاً قولاً عملاً ہمدرد رہا ہو۔ ہر ایک ایسے راے دہندہ کا یہ فرض ہے کہ اگر وہ خود نہیں فیصلہ کرسکتا تو کسی ایسے خواندہ آدمی کی پیروی کرے جسے وہ اچھا سمجھتا ہو، اگر وہ ایسا کرے گا تو یقینا وہ اپنی راے کا صحیح استعمال کرسکے گا ورنہ اپنی راے کو ضائع کرنے والوں میں سے ہوگا۔ جہاں تک میرا خیال ہے ملک محمد دین صاحب، ڈاکٹر اقبال صاحب کے مقابلے میں غلطی پر ہیں جن کا احساس انھیں اس وقت نہیں البتہ بعد میں ہوجائے گا کیونکہ انسان کا ضمیر صاف آئینہ کی طرح ہے لیکن خواہشات نفس کے گرد غبار سے جب آلودہ ہوجائیں تو حق و باطل کی تمیزنہیںکرسکتا اور کش مکش کی آندھی جب رک جاتی ہے تو ضمیر اپنی اگلی حالت پر آجاتا ہے اور انسان اپنے نفس کو اندر ہی اندر ملامت کرتا ہے۔ جو لوگ ڈاکٹر اقبال کی تائید کا فیصلہ کرچکے ہیں وہ راستی کی حمایت پر ہیں اور وہ اپنی راے کی قدر افزائی کررہے ہیں۔ (ایک درد مند مسلمان) شنبہ ۱۳؍جمادی الاول ۱۳۴۵ھ، ۲۰؍نومبر۱۹۲۶ئ، ۱۳؍۲۵۴، ص۱۔ ملک محمد دین جواب دیں کیا یہ سچ ہے کہ کاغذات امیدواری کی پڑتال (scrutinize) کے روز آپ کو کوئی مسلمان وکیل دستیاب نہ ہوسکا اور آپ نے اس ہندو وکیل کو اپنا مشیر قانونی بنایا جو کتاب رنگیلا رسول کے مصنف کی پیروی مفت کرتا رہا اور بزازہٹہ کے فساد کے مقدمے میں ہندوؤں کی طرف سے مفت پیش ہوا۔ اگر یہ صحیح ہے تو ان حالات کے اندر کیا مسلمان آپ سے یہ توقع رکھنے میں حق بجانب ہوں گے کہ ہندوؤں اور مسلمانوں کے مفاد کے معاملے میں آپ ’’اسلامی انصاف‘‘ کے رویے پر کاربند رہیں گے جس کا آپ نے اپنے اعلان امیدواری میں وعدہ فرمایا ہے۔ غالباً یہ حقیقت جناب سے مخفی نہ ہوگی کہ ہمسایہ قوم مسلمانوں کو ان کے حقوق سے محروم رکھنے کے خیال سے اپنے قابل ترین افراد کو کونسل میں بھیج رہی ہے اور وہاں قوم کے ایسے نمایندوں کی ضرورت ہے جو معاملہ فہم ہونے کے علاوہ قومی حقوق کی مدافعت کے لیے معقول و مدلل تقریریں کرسکیں۔ جناب نے اپنے معرکۂ انتخاب کے لیے ۱۴؍نومبر کو مزنگ کے جلسے میں جو تقریر فرمائی تھی اس نے حاضرین کے دلوں پر آپ کی مہارت خطابت کا کچھ اچھا اثر قائم نہیں کیا بلکہ بہت سے لوگ یہ کہتے ہیں کہ آپ کی تقریر پبلک جلسوں کی ناکام ترین تقریروں میں سے تھی۔ کیا اس صورت میں آپ سے کونسل کے اندر مؤثر زبان کشائی کی توقع وابستہ کی جاسکتی ہے۔ (باقی کل) م۔ا۔خ شنبہ ۱۳؍جمادی الاول ۱۳۴۵ھ، ۲۰؍نومبر۱۹۲۶ئ، ۱۳؍۲۵۴، ص۵۔ انتخابات کونسل کے بعض افسوس ناک تجربات لاہور کے مسلمان توجہ فرمائیں تو اے کو دک منش خود را ادب کن مسلمان زادۂ ترک نسب کن بہ رنگِ احمر و خون و رگ و پوست اگر نازد عرب، ترک عرب کن (اقبال) ایک ’’درد مند مسلمان‘‘ کے قلم سے انتخابات کونسل کے سلسلے میں جو تلخ و ناخوش گوار تجربات ہوئے ہیں ان پر میں بعد انتخابات ایک مفصل مضمون لکھنے کا فیصلہ کرچکا ہوں تاکہ میرے ہم وطن بلدیات کے آیندہ انتخابات میں ان تجربات کے اعادے کا موقع نہ آنے دیں۔ ملک محمد دین کے حامیوں کی ناشائستہ حرکت دوسری الم انگیز مثال لاہور میں ملک محمد دین صاحب کے حامیوں اور معاونوں نے پیش کی اور علامہ اقبال کے خلاف بعض اشتہاروں میں اپنے ناشائستہ اور شرم ناک کلمات استعمال کیے جنھیں پڑھ کر مسلمانوں کی اخلاقی پستی کے ماتم کے سوا اور کوئی چارہ نظر نہیں آتا۔ بلاشبہ ہر شخص کو حق حاصل ہے کہ وہ اپنی اچھائیوں کو جس طرح چاہے بڑھا چڑھا کر پیش کرے اور مدمقابل کی کمزوریوں کو نمایاں کرکے دکھلائے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ انسان ظریفانہ انداز گفتار، ادب، اخلاق، دیانت اور انسانیت سے یکسر کنارہ کش ہوجائے اور ایسی شرم ناک اور پایہ اخلاق سے گری ہوئی باتوں پر اتر آئے جن کے تصور سے بھی انسانیت کی گردن شرم و خجالت سے خم ہوجائے۔ ہر امیدوار کا حق ہے کہ وہ راے دہندوں کے پاس پہنچے اور انھیں احسن طریق پر اپنی راے کا قائل کرے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ اچھے پڑھے لکھے، مہذب اور شائستہ انسان کونسل کی رکنیت کی خاطر اپنے حامیوں کو اس کی اجازت دے دیں کہ وہ اخلاق و انسانیت کی جڑ پر کلہاڑے چلائیں یا بدرجہ آخر ان کی ایسی نازیبا حرکات کو اپنے حق میں گوارا کریں۔ جن لوگوں کے اخلاق ہوس رکنیت میں ایسے افسوس ناک اُمور کے صدور کو گوارا کرلیتے ہیں ان سے کونسل میں قومی اور ملکی خدمات کی کیا امیدیں وابستہ کی جاسکتی ہیں؟ میری گردن شرم سے جھکی جارہی ہے کہ یہ نازیبا حرکات اس جماعت کی طرف سے سرزد ہوئیں جو خدا کے فضل و کرم سے مسلمان ہے، اس کائنات کے سب سے بڑے مصلح اخلاق (ا) کی نام لیوا ہے اور اس کے وجود پاک کی محبت کا دعویٰ کررہی ہے ع فاہا ثم آہا ثم آہا برائیوں پر فخر و مباہات اس سے بھی بڑھ کر تاسف انگیز یہ حقیقت ہے کہ ان حرکات پر جابجا فخر و مباہات کا اظہار کیا جاتا ہے۔ مجھے معلوم ہوا ہے کہ محرم علی صاحب چشتی نے ان تمام اشتہارات کو جو علامہ اقبال کے خلاف پچھلے دنوں نکلتے رہے اور جن میں شاید کوئی اشتہار بھی حسن اخلاق یا دیانت سے بہرہ ور نہ تھا، پلندے کی صورت میں میاں فضل حسین صاحب کے پاس بھیجا۔ معلوم نہیں یہ واقعہ کس حد تک صحیح ہے اور جواب اثبات میں ہے تو بھیجنے والے کا مقصد و مدعا کیا تھا؟ لیکن اگر یہ صحیح ہے تو کیا اب مسلمانوں کی اخلاقی بے حسی تمیز حق و باطل کی اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ وہ اپنی بداخلاقیوں پر فخر و ناز کریں؟ [ایسی] حرکات پر اتر آئیں؟ کیا کوئی دردمند مسلمان اپنے بھائیوں کی اس [حرکت] پر خون کے آنسو بہائے بغیر رہ سکتا ہے؟ اور اللہ ایک وقت تھا یا انکسار پسندی کا یہ عالم تھا کہ آپ اپنی اچھائیوں [کو ظاہر] کرتے ہوئے بھی تامل ہوتا تھا لیکن آج ہم اس پستی میں پہنچ گئے [ہیں کہ] اپنی برائیوں کو فخر و ناز کے ساتھ دوسروں کے سامنے پیش کرتے ہیں اگر ہم میں انصاف و دیانت اور اخلاق کی کوئی حس باقی ہوتی تو شرم کے ہجوم سے گردن اوپر نہ اُٹھاسکتے یہ محض افراد ہی کا قصور نہیں بلکہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ قوم کا احساس اخلاق مرچکا ہے کہ وہ ایسی باتوں کو خاموشی سے برداشت کرتی ہے اور اس کی اجتماعی باز پرس اور احتساب کا کوئی خوف کسی شخص کو اس قسم کی حرکات سے باز نہیں رکھ سکتا کیا مسلمان اپنے قومی اخلاق کی اس حالت پر کوئی فخر کرسکتے ہیں؟ حقیقت اسلام سے دوری ۱۹؍نومبر کو لاہور میں علامہ اقبال کا عدیم النظیر جلوس نکلا جو آٹھ بجے کے قریب موچی دروازے سے چلا اور دن بھر شہر کے مختلف حصوں کے چکر لگاکر شام کے چھے بجے کے قریب نیلاگنبد والی مسجد کے قریب ختم ہوا۔ اس جلوس میں کم و بیش تیس ہزار مسلمان شامل تھے۔ اہل شہر کا بیان ہے آج تک لاہور میں ایسا عظیم الشان جلوس نہیں نکلا صرف مولانا ظفر علی خاں کا وہ جلوس اس کی نظیر بن سکتا ہے جو مولانا ممدوح کی پنج سالہ قید سے رہائی پر لاہور میں نکلا تھا۔ علامہ اقبال کے جلوس میں بھاٹی دروازے کے باہر ایک اراعیں بزرگ سے بعض اصحاب نے کہا کہ ’’آپ بھی جلوس میں شامل ہوجائیے‘‘ اس بزرگ نے جواب دیا ’’میں اراعیوں کا ساتھ نہیں چھوڑ سکتا خواہ کچھ ہوجائے‘‘ دیکھنے کو یہ واقعہ نہایت معمولی ہے لیکن اس کے اندر مسلمانوں کی مذہبی بے حسی اور حقیقت اسلام سے بُعد و ہجر کا… افسوس ناک منظر رونما ہوتا ہے۔ کیا نسلی تعصّبات کی یہی وہ لعنت نہ تھی جس کا مٹنا اور فنا کرنا مسلمانوں کے اوّلین فرائض میں داخل تھا؟ جو مسلمان آج کلمہ توحید کی عالم گیر برادری کو یکسر پس پشت ڈال کر اور اس سے ایک قسم کا بے حس ہوکر نسلی رشتوں اور ذاتیات کی تقسیم آرائیوں پر اس درجہ شدت کے ساتھ جم گئے ہیں کہ ان سے علیحدگی گویا ان کے نزدیک اسلام سے علیحدگی کے مترادف بن گئی ہے۔ کیا وہ مسلمان حقیقت اسلام سے بہرہ مندی کے اہل سمجھے جاسکتے ہیں؟ لاہور ایسے کاروباری شہر کے پچیس تیس ہزار مسلمان بصورت جلوس بازاروں میں پھر رہے ہیں اور ایک مسلمان، لا الہ الا اللہ کہنے والا مسلمان محض اس وجہ سے ان کی شرکت سے احتراز کرتا ہے کہ وہ اراعیں ہے۔ اس بزرگ نے یہ نہیں کہا ’’میں علامہ اقبال کے مقابلے میں دوسرے امیدوار کو مسلمانانِ لاہور کی ترجمان و نیابت کا زیادہ اہل سمجھتا ہوں یا میرے نزدیک وہ علامہ ممدوح سے زیادہ قابل اور زیادہ فاضل ہے اس لیے میں علامہ ممدوح کے جلوس میں شریک نہیں ہوسکتا‘‘ محض یہ کہنا کہ ’’میں اراعیں ہوں اور اراعیوں سے کسی حالت میں بھی علیحدہ نہیں ہوسکتا‘‘ کیا اسلام کی تعلیم یہی تھی؟ کیا … کے زمانے میں عربوں کی حالت اس سے زیادہ بری تھی اور کیا… نہیں جو مسلمانوں کے قلوب سے حقیقت اسلام کی اس ناپیدگی کا … کہ مسلمان اسلام سے کتنی دور جاپڑے ہیں؟ مولانا ظفر علی خاں… دوران اسیری میں شاید آج کل کی حالت کا اندازہ فرماتے ہیں… کہا تھا کہ ؎ یہ پوچھا جارہا ہے آج کل خدّامِ ملت سے کہ تم ہو ذات کے رانگٹر یا نسب کے اراعیں ہو تعلیم اتحاد بھی جرم ہے محض یہی نہیں مجھے یہ بھی معلوم ہوا کہ ایک دوسرے بزرگ نے خود علامہ ممدوح سے بطور طعن کہا کہ ’’آپ نے اپنی ایک تقریر میں فرمایا تھا کہ میں تمام مسلمانوں کو متحد کردوں گا‘‘ گویا آج مسلمانوں میں ایسے بزرگ بھی موجود ہیں جو اتحاد و اتفاق کی تعلیم کے لیے اپنی زندگیاں وقف کردینے والے اشخاص پر طعن کرتے ہیں، انھیں مسلمانوں کی نمایندگی کے مستحق نہیں سمجھتے اور ان لوگوں کو کونسل کی رکنیت پر فائز کرنے کے خواہاں ہیں جو مسلمانوں میں پھوٹ ڈلوائیں، انھیں منتشر کریں اور فرقے بناکر انھیں ایک دوسرے سے لڑائیں۔ سر شفیع کی غیر جانبداری مجھے ابھی معلوم ہوا ہے کہ میاں سر محمد شفیع نے کسی جگہ یہ خیال ظاہر کیا کہ وہ علامہ اقبال اور ملک محمد دین کے معاملے میں غیر جانبدار رہیں گے اور کسی کو راے نہیں دیں گے۔ میں نہیں کَہ سکتا کہ یہ بیان کس حد تک صحیح ہے لیکن اگر صحیح ہے تو انصاف سے کہو کہ کیا یہ حد سے زیادہ افسوس ناک نہیں؟ عام آدمیوں سے تو زیادہ سوچنے، سمجھنے اور اچھے فیصلے کرنے کی توقع ہی نہیں ہوسکتی لیکن میاں محمد شفیع صاحب صوبہ پنجاب کے پرانے رہنمائوں میں شمار ہوتے ہیں، وائسرائے کی کونسل کے ممبر رہ چکے ہیں۔ اعلیٰ درجے کے تعلیم یافتہ آدمی ہیں کیا انھیں بھی علامہ اقبال اور ملک محمد دین میں سے بہتر شخص کے انتخاب میں کوئی دقت ہوسکتی ہے؟ کیا وہ بھی یہی سمجھتے ہیں کہ ان دونوں امیدواروں میں کوئی فرق مراتب نہیں؟ اگر ایسا نہیں تو کیا وجہ ہے کہ وہ غیرجانبداری کی اوٹ میں پناہ لے رہے ہیں؟ محض یہی وجہ ہے کہ علامہ اقبال کی افضلیت مسلّم ہے مگر ملک محمد دین کے ساتھ برادری کا رشتہ ہے۔ اگر برادری کے پیچھے جائیں تو افضل شخص کے خلاف راے دینی پڑتی ہے اور اگر افضل شخص کو راے دیں تو برادری کی ناراضی کا اندیشہ ہے۔ جس قوم میں اتنے بلند مرتبہ اور بلند پایہ آدمیوں کا یہ عالم ہو وہ خاک پنپے گی۔ میاں سر محمد شفیع کو چاہیے تھا کہ وہ اپنے اثر و رسوخ سے کام لے کر ملک محمد دین کو بٹھاتے ورنہ اپنی ساری برادری کو مسلمہ طور پر افضل شخص کی تائید پر آمادہ کرکے اراعیں اور غیراراعیں کا غیر اسلامی امتیاز توڑ ڈالتے۔ یہ قوم اور اسلام دونوں کی خدمت سمجھی جاتی لیکن آہ! اگر ہمارے ذی اثر لوگ اتنی جرأت اور ہمت کے مالک ہوتے تو آج بدنصیبی کی ٹھوکریں کیوں کھاتے پھرتے۔ ہم میاں سر محمد شفیع صاحب سے پوچھتے ہیں کہ غیرجانبداری کی صورت میں اگر ۱۹۲۹ء کے رائل کمیشن نے آپ سے یہ سوال کردیا کہ آپ ایسے اعلیٰ تعلیم یافتہ آدمی نے ۱۹۲۶ء میں اپنا حق راے دہندگی کیوں استعمال نہیں کیا تھا تو آپ کیا جواب دیں گے؟ سہ شنبہ ۱۶؍ جمادی الاوّل ۱۳۴۶ھ، ۲۳؍نومبر۱۹۲۶ئ، ۱۳/۲۵۶، ص۱۔ خلافت الیکشن بورڈ کے نامزدہ امیدوار مختلف مقامات پر شان دار کامیابیاں کامیابی کے لیے زبردست توقعات لاہور ۲۶؍نومبر خلاف الیکشن بورڈ پنجاب نے پنجاب کونسل کی مسلم نشستوں کے لیے حسب ذیل امیدواروں کو نامزد کیا تھا۔ ڈاکٹر محمد اقبال (شہر و چھاؤنی لاہور) ڈاکٹر محمد عالم (قصباتی حلقہ مغربی پنجاب) چودھری افضل حق (دیہاتی حلقہ لدھیانہ و ہوشیارپور) مولوی مظہر علی اظہر (قصباتی حلقہ جنوبی و مشرقی پنجاب) شیخ محمد صادق (شہرو چھاؤنی امرتسر) اور سردار محمد اعظم جان مزاری (ضلع ڈیرہ غازی خان) مختلف مقامات پر راے دہندگی عمل میں آچکی ہے اور عام طور پر حالت نہایت امید افزا ہے، خلافت کے نامزدہ امیدواروں نے اپنے حریفوں کے مقابلے میں بہت زیادہ ووٹ حاصل کیے ہیں۔ ان کی کامیابی یقینی ہے اور اس کی زبردست توقعات موجود ہیں۔ یک شنبہ ۲۰؍جمادی الاول۱۳۴۶ھ،۲۷؍نومبر۱۹۲۶ئ،ص۳۔ انتخابات کونسل کے تلخ تجربات حلقۂ لاہور کے بعض افسوس ناک پہلو انتخابات کونسل کے نتائج ابھی تک شائع نہیں ہوئے لیکن ہم یہ ضروری سمجھتے ہیں کہ ان انتخابات کے بعض تلخ اور افسوس ناک تجربات بیان کردیں شاید یہ تجربات آیندہ ہمارے بھائیوں کے لیے اصلاح احوال کا وسیلہ بن سکیں۔ ہمارے ایک مضمون نگار نے پچھلے دنوں حلقہ لاہور کے متعلق بعض واقعات لکھے تھے لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ وہ مضمون تمام واقعات کی شرح و تفصیل کے لیے کفایت نہیں کرتا۔ حلقہ لاہور کو۳۶؎ ہم نے اس لیے بحث کے واسطے منتخب کیا ہے کہ یہاں کے حالات سے ہمیں ذاتی طور پر بہت کافی واقفیت ہے۔ جس حد تک ہمیں علم ہے دوسرے حلقوں میں بھی کم و بیش ایسے ہی واقعات پیش آئے لہٰذا اس مضمون کو باوجود تخصیص حلقہ اُصولاًعمومیت کا جامہ بھی پہنایا جاسکتا ہے۔ انتخابات کا اوّلین اُصول یہ حقیقت ہر صاحب بصیرت پر آشکارا ہے کہ نہ محض کونسل بلکہ ہر نیابتی نشست کے لیے بہمہ وجوہ بہترین شخصیت کا انتخاب عمل میں آنا چاہیے اور اس بارے میں ذات پات، برادری، ہم نسلی اور ہم قومی یا دوستانہ تعلقات و روابط کے مسائل بالکل ہیچ اور ناقابل اعتنا ہیں اور جو شخص اصل مقصود سے کنارہ کش ہوکر ان ناقابل اعتنا رشتوں اور رابطوں کو کوئی اہمیت دیتا ہے وہ قومیت کے ضابطۂ اخلاق کی بنا پر شدید مجرم ہے اور ہر قوم پرست کا فرض ہے کہ وہ ایسے شخص یا اشخاص و جماعات کے ان باطل اور لایعنی محرکات عمل کی پوری قوت کے ساتھ مخالفت کرے۔ اسلام کا اُصول یہ تو انتخابات کا عام بنیادی اُصول ہے جس پر ہر مسلم و غیر مسلم کو خلوص و نیک نیتی کے ساتھ کاربند ہونا چاہیے۔ مسلمانوں کے لیے اس اُصول کی پابندی بہ درجہ اولیٰ ضروری ہے اس لیے کہ ان کی مذہبی کتاب نے رنگ، نسل، خون اور خویشگی کے تمام رشتوں کو توڑ کر افضلیت کی بنیاد صرف تقویٰ پر رکھی ہے اِنَّ اَکْرَ مَکُمْ عِنْدَاللَّہِ اَتْقَکُمْ (پ ۲۶/۱۴) اور لفظ ’’تقویٰ‘‘ اپنے مفہوم کی وسعت و ہمہ گیری کے اعتبار سے انسان کے اعمال، ذاتی جوہروں، ذاتی قابلیتوں وغیرہ سب پر حاوی ہے۔ پس جو مسلمان افضلیت کے اس قرآنی اُصول اور الٰہی اُصول کو چھوڑ کر رنگ، نسل، خون اور خویشگی کے امتیازات کی بنا پر اختلاف و اتفاق کا فیصلہ کرتا ہے وہ روح اسلام سے بیزاری کا مجرم ہے، صریحی قرآنی حکم سے انحراف کا گناہ گار ہے اور ان روابط کو مستحکم کرتا ہے جنھیں اسلام دور جاہلیت کی خصوصیات قرار دے چکا ہے۔ حلقہ لاہور کی حالت لیکن آہ! صد ہزار۳۷؎ حسرت و آہ! کہ لاہور کے مسلمانوں میں سے ایک طبقے نے گزشتہ انتخابات کے موقع پر اسی جرم کا ارتکاب کیا۔ اس طبقے کے سب افراد خدا کے فضل و کرم سے مسلمان تھے اور انتخابات کی مہم میں ان کی زبانیں کئی مرتبہ مذموم اسلام پرستی کے بعض دعادی کے لیے متحرک ہوئیں لیکن افسوس کہ وہ اس اُصول پر عمل پیرا ہونے کی توفیق سے مشرف نہ ہوسکے جو اسلامی قومیت کی روح اور اسلامی ملت کی شیرازہ بندی کی جان تھا یعنی اِنَّ اَکْرَ مَکُمْ عِنْدَاللَّہِ اَتْقَکُمْ ۔۳۸؎ علامہ اقبال علامہ اقبال کی شخصیت عظمیٰ ہماری تعریف و توصیف سے بالا ہے۔۳۹؎ ساری دنیا جانتی ہے کہ علامہ ممدوح ایسی نادر الوجود شخصیتیں صدیوں کے بعد پیدا ہوا کرتی ہیں۔ موجودہ مسلمانان ہند میں سے شاید علامہ ممدوح ہی وہ ممتاز ترین ہستی ہیں جن کے علم و فضل کے روبرو یورپ و امریکہ کی کلاہ افتخار کو بھی مضطرانہ جھکنا پڑا ہے۔ ایک ایسے وجود کا کونسل کی رکنیت کے لیے امیدوار بننا مسلمانانِ لاہور کے لیے علی الخصوص اور مسلمانان پنجاب کے لیے علی العموم بڑی ہی خوش قسمتی اور سعد بختی کا موجب تھا اور عام طور پر خیال کیا جاتا تھا کہ علامہ ممدوح کی۴۰؎ طرف سے اعلان اُمیدواری ہی کافی ہوگا اور تمام مسلمان ان کے علم و فضل یا ان کی مدت العمر کی بے لوث خدمت ملت اور بہمہ وجوہ مجرب شخصیت کو ملحوظ رکھتے ہوئے بیک آہنگ انھیں بلا مقابلہ نمایندہ [منتخب] کرلیں گے۔ میاں عبدالعزیز صاحب بیرسٹرایٹ لا، لاہور کو۴۱؎ جو سابقہ کونسل میں حلقہ لاہور کی طرف سے نمایندگی فرمارہے تھے جب اس حقیقت کا علم ہوا تو انھوں نے بلاتامل علامہ اقبال کے حق میں ارادہ اُمیدواری سے دست برداری اختیار فرمالی۔ لاہور کے اکثر ذی اثر اور ذی مرتبت مسلمانوں نے میاں صاحب کے اس فعل پر استحسان کا اظہار کیا۔ بعدازاں ملک محمد حسین صاحب بلدیہ لاہور آگے بڑھے۴۲؎ اور انھوں نے بھی علامہ اقبال کے مقابلے میں دست برداری ہی کو ترجیح دی۔ ملک محمد الدین کا عزم مقابلہ لاہور کی ان دونوں کارکن شخصیتوں کے اعلاناتِ دست برداری کے بعد عام طور پر خیال پیدا ہوگیا تھا کہ اب علامہ ممدوح۴۳؎ بلا مقابلہ منتخب ہوجائیں گے لیکن عین آخری وقت میں ملک محمد دین صاحب بیرسٹرایٹ لا۴۴؎ جنھیں نابھہ والے معاملے نے بھی جمہور مسلمین۴۵؎سے پورے طور پر روشناس کرانے کی کوئی تقویت نہیں پہنچائی تھی اپنے گوشہ گمنامی سے باہر نکلے اور علامہ اقبال کے مقابلے۴۶؎پر کھڑے ہوگئے۔ اس مقابلے کے اسباب و محرکات کی نسبت لاہور میں طرح طرح کی چہ مے گوئیاں ہوتی رہی ہیں اور بعض باخبر حضرات نے اس کی جڑیں دور دور تک پہنچادیں لیکن ہمیں اس قسم کے معاملات کی تحقیق و تشریح میں وقت ضائع کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ اصل حالات زود یا بہ دیر خود بخود آشکارا ہوجائیں گے۔ صورت مقابلہ ہمارے نزدیک۴۷؎ اور اکثر ذی اثر دردمند مسلمانوں کے نزدیک نفس مقابلہ بھی بے انتہا تکلیف دہ تھا اس لیے کہ ملک محمد دین صاحب کو۴۸؎ کسی حیثیت سے بھی علامہ اقبال کے ساتھ کوئی نسبت نہ تھی اور دونوں شخصیتوں کے مابین ہر دائرے میں اتنا بُعد اور فصل تھا کہ عامی سے عامی اور ادنیٰ سے ادنیٰ مسلمان کو بھی توازن فضائل میں کوئی اشتباہ نہیں ہوسکتا لیکن اس سے بھی بڑھ کر تکلیف دہ اور افسوس ناک امر یہ ہے کہ ملک محمد دین صاحب۴۹؎ اور ان کے حامیوں نے مقابلے میں جو تدابر اختیار کیں وہ سب کی سب اسلامی اخلاق اور اسلامی اُصول سے منزلوں دور تھیں اور یہ واقعہ اتنا رنج دہ ہے کہ کوئی بہی خواہ ملت اس پر خون کے آنسوبہائے بغیر نہیں رہ سکتا۔ برادری کی بحث اس سلسلے میں سب سے پہلے برادری کا ڈھونگ کھڑا کیا گیا۔ کہا گیا کہ ملک محمد دین صاحب اراعیں برادری سے تعلق رکھتے ہیں اور ساری برادری کو انھیں کی امداد کرنی چاہیے بلکہ ہماری معلومات یہ ہیں کہ خود ملک صاحب نے مزنگ کے جلسے میں جو تقریر فرمائی تھی (جس کی نسبت بعض اصحاب کا بیان ہے کہ یہ تقریر چھے منٹ اور تیرہ سیکنڈ ہوئی اور ملک صاحب نے اس میں کم و بیش ۲۴۳ لفظ استعمال فرمائے) اس میں سب سے زیادہ زور اس بات پر دیا تھا کہ اراعیں مظلوم ہیں اور تمام انتخابی مجالس میں غیر اراعیوں کی کثرت ہے۔ اگر ملک صاحب اور ان کے حامی یہ کہتے کہ وہ علامہ اقبال سے بدرجہا بہتر طریقے پر عوام کی نمایندگی کرسکتے ہیں اس لیے پرچیاں انھی کو ملنی چاہئیں تو یہ دعویٰ نفس دعویٰ کے لحاظ سے کتنا ہی محل نظر ہوتا۔ تاہم اسے جائز سمجھا جاتا لیکن افسوس کہ انھوں نے برادری کا سوال پیدا کیا، برادری کا رونا رویا جو امر واقعہ کے بھی خلاف تھا، اسلام کے بھی خلاف تھا، اتحاد ملت کے بھی خلاف تھا اور اُصول نمایندگی کے بھی خلاف تھا اور ہم سمجھتے ہیں کہ کوئی سچا مسلمان ملک صاحب اور ان کے حامیوں کے اس افسوس ناک زاویہ نگاہ کو کبھی فراموش نہیں کرسکتا اور اسے اس وقت تک فراموش نہیں کرنا چاہیے جب تک کہ اس قماش اور اس خیال کے لوگ ایسے زاویۂ نگاہ سے پورے طور پر تائب نہ ہوجائیں۔ اراعیں برادری کی غلطی بے انتہا افسوس کا مقام ہے کہ اراعیں برادری کے اکثر اشخاص اس غلطی میں بے انتہا مبتلا ہوگئے اور اس صف میں بڑے بڑے جلیل القدر اصحاب بھی شامل ہیں، جن سے زیادہ بہتر اور زیادہ عمدہ طریق عمل کی توقع تھی۔ ہمیں ایسے اراعیوں کے نام بھی بتائے گئے ہیں جنھوں نے اس امتیاز کیشی کو نفرت کے ساتھ ٹھکرادیا اور علامہ اقبال کی افضلیت کی سچی قدر کرتے ہوئے اپنی آرا علامہ ممدوح ہی کے حق میں استعمال فرمائیں۔ ان کی تعداد کتنی ہی کم کیوں نہ ہو لیکن ہمارے دل میں اپنے ان سچے اسلام پرست بھائیوں کی بڑی ہی قدر و منزلت ہے۔ خدا کرے کہ تمام برادریاں اور علی الخصوص عام اراعیں حضرات بھی اپنے انھیں بھائیوں کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق سے بہرہ مند ہوجائیں۔ بعض ’’مخبری‘‘ پیشہ اصحاب بعض اصحاب کی نسبت سنا جاتا ہے کہ انھوں نے مقامی۵۰؎حکام کے پاس جاکر مختلف النوع غلط بیانیاں کیں۔ کبھی۵۱؎ یہ کَہ دیا کہ علامہ اقبال اور ملک محمد دین کا مقابلہ درحقیقت۵۲؎ اراعیوں اور کشمیریوں کا جھگڑا ہے۔ کبھی یہ کَہ دیا کہ اگر علامہ ممدوح۵۳؎ کامیاب ہوگئے تو ان کا جلوس نہیں نکلنا چاہیے وغیرہ۔ من الخرافات والا کا ذیب والا باطیل۔ حقیقت یہ ہے کہ علامہ اقبال نے کسی موقع پر بھی ’’کشمیریت‘‘ کے دامن میں پناہ نہ لی۔ انھیں ایسے غیر اسلامی اختیارات کی زنجیریں توڑے ہوئے شاید ربع صدی گزر چکی ہے اور انتخابات کے سلسلے میں شاید ہی ان کی کوئی تقریر ایسی ہوئی ہو جس میں انھوں نے ببانگ دہل یہ نہ فرمادیا ہو کہ ’’جو لوگ ۵۴؎ مجھے کشمیری سمجھ کر پرچیاں دینے کے آرزو مند ہوں وہ پرچیاں نہ دیں جو لوگ فرقہ بندی کی بنا پر میری امداد کے خواہاں ہوں وہ اس امداد سے بصد خوشی دست کش ہوجائیں۔ میں مسلمان ہوں ہر کلمہ گو کا خادم ہوں، مسلمانوں کی نمایندگی کرنا چاہتا ہوں جو شخص میری اس حیثیت کو پسند کرے، وہ میری امداد کرے۔ میں اسلام کے سوا کسی دوسرے رشتے کا معتقد نہیں‘‘۔ مختلف برادریوں کے متفقہ فیصلے پھر یہ بھی غلط ہے کہ علامہ ممدوح کے حامی صرف کشمیری تھے بلکہ بلاخوف تردید کہا جاسکتا ہے کہ لاہور کے صرف دو اخباروں نے علامہ ممدوح کی۵۵؎ مخالفت کی اور یہ دونوں اخبار کشمیریوں کے تھے یعنی سیاست اور نشتر مع ہذا لاہور میں کشمیریوں کی پرچیاں اراعیوں سے بہت کم تھیں اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ علامہ اقبال کی حمایت تمام برادریوں نے کی۔ مثلاً زرگروں، خوجوں، قصابوںاور لوہاروں کی برادریوں کے متفقہ فیصلے علامہ ممدوح کے حق میں شائع ہوئے۔ ککے زئیوں نے عملی حیثیت سے بالاتفاق علامہ ممدوح کی تائید کی۔ بعض اراعیں حضرات نے بھی انھیں ہی پرچیاں دیں۔ مختلف مذہبی۵۶؎ حلقوں میں سے سیّد علی حائری، خواجگان نارووال، احمد یان قادیان اور احمد یان لاہور نے بھی علامہ ممدوح۵۷؎ کی تائید میں اعلان کیے۔ لاہور کے اہل حدیث حضرات نے بھی علامہ ممدوح ہی کو ووٹ دیے۔ جماعتوں میں سے مجلس خلافت پنجاب نے علامہ ممدوح کو۵۸؎ بہترین امیدوار قرار دیتے ہوئے ان کی امداد و اعانت کا اعلان کیا۔۵۹؎ انجمن اسلامیہ میاں میر نے ان کی حمایت کا فیصلہ کیا۔ ان حقایق ثانیہ کے بعد علامہ اقبال اور ملک محمد دین کے مقابلے کو محض اراعیوں اور کشمیریوں کا جھگڑا قرار دینا کورسوادی اور بدباطنی کے سوا اور کیا حیثیت رکھتا ہے؟ حرب عقاید یہاں تک تو برادریوں کے روابط کی بحث تھی۔ ملک محمد دین صاحب۶۰؎ اور ان کے حامیوں نے دوسری افسوس ناک حرکت یہ کی کہ حنفی وہابی کا جھگڑا پیدا کیا۔۶۱؎ پہلی افتراق انگیزی کی حیثیت نسلی تھی۔ دوسری افتراق انگیزی کا انداز و اُسلوب مذہبی تھا۔ کتنے افسوس اور شرم کا مقام ہے کہ وہ لوگ جو کونسل میں ’’مسلمانوں‘‘ کی نمایندگی کے لیے کھڑے ہوتے ہیں اپنی کامیابی کے لیے سب سے پہلی تدبیر یہ کرتے ہیں کہ ملت میں نسلی اور مذہبی افتراقات کی آگ بھڑک اُٹھے۔ کیا کوئی مسلمان ان مساعی پر فخر کرسکتا ہے؟ اور کیا آج ہم ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں اپنی نمایندگی اور حفظ حقوق کی امانت کو محفوظ سمجھ سکتے ہیں؟ شرم ناک اشتہارات انتخابات لاہور۶۲؎؎ کا تیسرا افسوس ناک پہلو۶۳؎ وہ اشتہارات ہیں جو پے در پے ملک محمددین کے حامیوں کی طرف سے شائع ہوتے رہے۔ یہ اشتہارات ہمارے علم کے مطابق تعداد میں (۱۴) تھے۶۴؎ اور ان کا انداز و اُسلوب اور سعی الزام تراشی و بہتان طرازی اس درجہ افسوس ناک تھے کہ جب خیال آتا ہے کہ یہ تمام اشتہارات مسلمانوں کی طرف سے شائع ہوئے، دور حاضر کی ایک مایہ ناز اسلامی شخصیت کے خلاف شائع ہوئے، کونسل کی رکنیت کی خاطر شائع ہوئے تو ہماری گردن شرم و ندامت سے جھُک جاتی ہے۔ ہم مسلمانوں کی مذہبی و اخلاقی پستیوںسے آگاہ تھے مگر یہ وہم بھی نہ تھا کہ مسلمان پستی کی اس انتہا پر پہنچ چکے ہیں جس کا مظہر یہ چہاردہ اشتہارات ہیں مثلاً آٹھ ابتدائی اشتہارات جن میں ہر اشتہار پر ایک سوال درج تھا۔ ’’ڈاکٹر اقبال کے اعمال و عقائد (من جانب معراج دین) ’’ازالہ غلط فہمی‘‘ (من جانب معراج دین) ’’احمد دین کی طرف سے‘‘ وغیرہ۔ قرآن کریم نے ہمیں حکم دیا تھا: وَلاَ تَلْمِزُوٓا اَنفُسَکُمْ وَلاَ تَنَابَزُوْا بِالْاَلْقَابِ بِئْسَ الاِسْمُ الْفُسُوْقُ بَعْدَ الْاِِیْمَانِ وَمَنْ لَّمْ یَتُبْ فَاُوْلٰٓئِکَ ہُمُ الظّٰلِمُوْنَo اور آپس میں طعنہ زنی نہ کرو اور نہ برے ناموں پر چڑاؤ، ایمان کے بعد فسق میں مبتلا ہونا بہت برا ہے اور جو باز نہ آئے تو وہ ظالم ہے۔ لیکن ملک محمد دین صاحب کے حامیوں کے یہ اشتہارات قرآن پاک کی اس مقدس تعلیم پر عمل کا جو دردانگیز منظر پیش کررہے ہیں۔ وہ اس قابل ہے کہ سارے مسلمان مل کر اور متفق ہوکر اس کا خاتمہ کریں۔ اس کے سوا اور کیا عرض کیا جاسکتا ہے۔ خدا ان لوگوں کو ہدایت دے جو ملت اسلامیہ کا دامن ایسی نجاستوں سے آلودہ کرنے میں بھی متامل نہیں ہوتے۔ خوشی کا مقام ہے کہ علامہ اقبال یا ان کے حامیوں کی طرف سے ان اشتہارات کا کوئی جواب نہ دیا گیا۔ انتخابی جلسے ساری انتخابی مہم میں علامہ اقبال کے حامیوں کی طرف سے کم و بیش بیس جلسے منعقد کیے گئے۔ ان میں۶۵؎ سے ہر جلسے میں اتحاد و اتفاق کی تعلیم دی گئی۔ ذات پات کے غیراسلامی قیود اور اختلافات عقائد کی افتراق انگیزیوں سے علیحدگی اور احتراز کی تلقین کی گئی۔ کسی جلسے میں کسی برادری کے خلاف کچھ نہ کہا گیا اگر کسی غیرذمہ دار مقرر کی زبان سے کوئی غیر محتاط کلمہ نکل بھی گیا تو اسی جلسے میں اس کی تلافی کردی گئی۔ جب یہ معلوم ہوگیا کہ اراعیں برادری کی اکثریت محض برادری کی بنا پر ملک محمد دین کی تائید کے سامان کررہی ہے تو اس وقت بھی اس برادری کے خلاف کوئی بات نہ کہی گئی بلکہ بعض جلسوں میں اراعیوں کی تعریف کی گئی۔ مقصود حقیقی ان تفصیلات سے مقصود محض یہ ہے کہ مسلمانوں کو ہر صورت میں اسلام کی بنیادی تعلیمات پر کاربند ہونا چاہیے۔ کونسلوں کی نشستوں یا اس قسم کی دوسری بے حقیقت یا باحقیقت باتوں کے لیے اسلام کے مسلمہ مسلک سے سرمو بھی انحراف نہیں کرنا چاہیے۔ ذاتی اغراض کے لیے حربِ عقائد یا حرب برادری چھیڑنا بہت برا ہے۔ اگر دو بھائیوں میں مقابلے کا بھی موقع آئے تو اس مقابلے میں اسلامی شرافت اور انسانی شرافت کے تمام ضوابط کی شدت کے ساتھ پابندی کرنی چاہیے اور لایعنی اشتہار بازیوں اور بے ہودہ الزام تراشیوں سے بچنا چاہیے اس لیے کہ یہ مدمقابل کی تذلیل و تحقیر نہیں بلکہ اپنی انسانی شرافت اور اپنے اسلامی اخلاق کی توہین ہے۔ عام مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ ایسے موقعوں پر ہر رشتے سے کنارہ کش ہوکر مسلمہ طور پر بہترین شخص کا ساتھ دیں خواہ وہ کسی برادری سے تعلق رکھتا ہو۔ ہمیں اُمید ہے کہ برادران اسلام بلدیات کے آیندہ انتخابات میں ان ضروری اُمور کا خاص خیال رکھیں گے اور جو منظر کونسل کے انتخابات میں ہمارے بعض غلط اندیش بھائیوں نے پیش کیا ہے۔ اس کے اعادہ کا موقع نہ آنے دیں گے۔۶۶؎ یک شنبہ ۳۰ جمادی الاولیٰ۱۳۴۵ھ، ۵؍دسمبر۱۹۲۶ئ،۱۳/۲۶۶،ص۲۔ اقبال اور پنجاب کونسل، ص۷۲-۷۴ خلافت الیکشن بورڈ کی عظیم الشان فتح خلافتی امیدواروں کی شان دار کامیابی لاہور،۶؍دسمبر پنجاب خلافت الیکشن بورڈ نے پنجاب کونسل کے لیے حسب ذیل امیدوار نامزد کیے تھے۔ ڈاکٹر محمد عالم (شہری حلقہ قسمت راولپنڈی ملتان) چودھری افضل حق (دیہاتی حلقہ لدھیانہ وہشیارپور) رانا فیروز الدین (شہری حلقہ قسمت لدھیانہ و انبالہ) شیخ محمد صادق (شہری حلقہ امرت سر)، مولوی مظہر علی اظہر (شہری حلقہ وسطی لاہور و جالندھر) اعظم جان مزاری (حلقہ ضلع ڈیرہ غازی خاں) ان امیدواروں میں سے ڈاکٹر محمد عالم، چودھری افضل حق، رانا فیروز الدین اور شیخ محمد صادق کامیاب ہوگئے اور مولوی مظہر علی اظہر اور اعظم جان مزاری ناکام رہے۔ خلافت الیکشن بورڈ نے علامہ ڈاکٹر سر محمد اقبال کی بھی حمایت کی تھی اور جناب ممدوح بھی حسب توقع ووٹوں کی زبردست اکثریت کے ساتھ کامیاب ہوگئے ہیں۔ چہار شنبہ۳؍جمادی الاخری۱۳۴۵ھ،۸؍دسمبر۱۹۲۶ئ، ص۳۔ علامہ اقبال کی شان دار کامیابی ہمیں یہ اندیشہ تو کبھی ایک لمحے کے لیے بھی نہیں ہوا کہ علامہ اقبال کا کوئی مخالف ان کے مقابلے۶۷؎ میں کام یاب ہوجائے گا۔ کیونکہ ہم اچھی طرح جانتے تھے کہ لاہور کے مسلمانوں کی زندہ دلی اور مردم شناسی مسلّم ہے اور وہ کبھی اس قسم کی حماقت کے مرتکب نہیں ہوسکتے کہ علامہ اقبال کی گراں پایہ شخصیت اور ملک محمد دین کے درمیان تمیز نہ کرسکیں۔ البتہ یہ بات بُری معلوم ہوتی تھی کہ ایک پڑھا لکھا مسلمان جسے اپنی تعلیم یافتگی کی وجہ سے علامہ اقبال کا مرتبہ داں ہونا چاہیے تھا محض اپنی برادری کے چند سونا فہم اور غیر تعلیم یافتہ افراد کی حمایت کے بل پر۶۸؎ ایک انتہا درجے کے ہر دلعزیز اور محبوب خاص و عام انسان کے مقابلے۶۹؎ پر کھڑا ہوکر غیر مسلم قوموں کی نظروں میں مسلمانوں کی ذلت کا باعث بن رہا ہے۔ بہرکیف مسلمانانِ لاہور نے تقریباً بتیس سو آرا کی اکثریت سے علامہ اقبال کو اپنا نمایندہ منتخب کرکے اس گستاخی کا نہایت موثر جواب دے دیا ہے جس کا ارتکاب علامہ کے مخالف سے ہوا تھا۔ ہمیں یقین ہے کہ ملک محمد دین صاحب آیندہ۷۰؎ مسلمانوں سے کبھی اس امر کی توقع نہ کریں گے کہ وہ قابل وفاضل حضرات کے مقابلے پر ان کی ذات مبارک کو محض اس لیے ترجیح دیں کہ وہ اراعیں ہیں اور چند ’’مزارات مقدسہ‘‘ دیکھ آئے ہیں۔ جن مسلمانوں نے ملک محمد دین کے حق میں اپنے ووٹ دیے ان میں کوئی دو ہزار تو وہ ناخواندہ اراعیں بھائی ہیں جو علامہ اقبال کی علمی قابلیت و منزلت سے بالکل ناواقف ہیں۔ انھیں تو جب اُن کے چودھریوں نے یہ بتادیا کہ ایک اراعیں کے مقابلے میں ایک کشمیری کھڑا ہے لہٰذا برادری۷۱؎ کی عزت خطرے میں ہے، تو وہ دیوانہ وار ٹوٹ پڑے اور ملک محمد دین کے حق میں پرچیاں دے آئے۔ ان کی بلاجانے کہ کونسل میں کیا ہوتا ہے اور وہاں مسلمانوں کے حقوق کی حمایت علامہ اقبال بہتر کرسکیں گے یا ملک محمد دین، یہ تو اراعیوں کا حال ہے۔ باقی۷۲؎ چار پانچ سو پرچیاں غالباً ان حضرات کی ہوں گی، جنھیں ’’بریلوی حنفیت‘‘ کا ہیضہ ہے اور جو ایک صنال و مُضل مقامی اخبار اور حزب الاحناف کے اسلام فروشانہ پروپیگنڈے سے متاثر ہوگئے۔ اللہ اللہ خیرسلّا۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں میں برادریوں کے افتراق اور فرقوں کے اختلاف نے جو قیامت مچا رکھی ہے وہی مسلمانوں کے کسی کام کو پنپنے نہیں دیتی اور ان کی ہر تحریک میں بے برکتی کا باعث ہوئی ہے۔ ہم نے انتخاب کا نتیجہ نکلنے سے پہلے بھی اور بعد میں بھی، بعض معزز اراعیوں کے خیالات معلوم کیے تو ہم نے دیکھا کہ وہ اپنی برادری کی اس حرکت پر سخت پشیمان ہیں اور ملک محمد دین صاحب کی ابلہ فریبی کو اچھی نظر سے نہیں دیکھتے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’صاحب ہم نہیں چاہتے کہ لاہور کے مسلمانوں میں برادری کا سوال پیدا ہو اگر ایسا ہوا تو کشمیری اور ککے زئی ہر جگہ متحد ہوکر ہم کو شکست دے دیا کریں گے‘‘۔ ملک محمد دین اور ان کے حمایتیوں نے اپنے ذاتی مفاد کی خاطر اراعیوں کو تمام دیگر مسلمانوں کے مقابلے میں لاکر اپنی برادری سے نادانستہ سخت دشمنی کی ہے۔ غرض اس برادری اور فرقے کی لعنت نے مسلمانوں میں جو افسوس ناک تفرقہ ڈالا ہے اس کے نتائج نہایت خوف ناک ہوسکتے ہیں اور ہم ان بے شمار تعلیم یافتہ اور معزز اراعیوں کے دل سے مداح ہیں جنھوں نے اس موقع پر برادری کی حمایت کے خیال کو بالاے طاق رکھ کر مردانہ وار علامہ اقبال کے حق میں ووٹ دیے اور اسلام کے مقاصد کو برادری کے خیالی اور موہوم مفاد پر ترجیح دی۔ ان زندہ دل اور ضرورت شناس بزرگوں کا فرض ہے کہ اپنی برادری میں صحیح خیالات کا پروپیگنڈا کریں اور اراعیوں کو سمجھائیں کہ وہ سب سے پہلے مسلمان ہیں اور اس کے بعد اراعیں ہیں۔ اسی طرح ہر برادری کے افراد کو یہ حقیقت ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ اسلام کے اغراض تمام دیگر مقاصد پر مقدم ہیں۔ اگر لاہور کے مسلمانوں کی تمام برادریوں اور تمام فرقوں میں بہت جلد اس خیال کی تبلیغ و اشاعت نہ کی گئی تو ہمیں اندیشہ ہے کہ بلدیہ کے انتخابات میں بھی اسی قسم کے افسوس ناک حالات پیدا ہوں گے اور یہ امر مسلمانوں کے لیے سخت ذلت کا باعث ہوگا۔ علامہ اقبال کی کام یابی مسلمانانِ لاہور کی عزت اور سرخروئی کا باعث ہے اور جن اراعیں بھائیوں نے ایک فوری تاثر کے ماتحت علامہ کے۷۳؎ خلاف پرچیاں ڈالی تھیں، انھیں بھی چاہیے کہ اب علامہ کے خلاف کسی قسم کا میل اپنے دل میں نہ رکھیں۔ کیونکہ علامہ اقبال کی ذات برادریوں اور فرقوں سے اعلیٰ و ارفع ہے اور وہ اراعیوں کی اس حرکت کے باوجود بھی ان کی خدمت و نیابت کے لیے بہ دل و جان موجود ہیں۔۷۴؎ لاہور کی دوسری برادریوں سے بھی ہماری دلی استدعا ہے کہ وہ خدا کے لیے اراعیوں کی طرف سے اپنے دلوں کو بالکل صاف کرلیں اور برادری کے تعصبات کو قطعاً ترک کردیں اگر انھوں نے اس کش مکش کو جاری رکھا تو وہ مقاصد اسلام کے ساتھ انتہائی دشمنی کریں گے۔ اسی طرح اراعیوں سے بھی یہ گزارش ہے کہ اس انتخاب میں دوسری برادریوں کے خلاف ہوکر انھوں نے کوئی فائدہ حاصل نہیں کیا بلکہ شکست فاش اُٹھانے کے علاوہ دنیا بھر کی نفرین کے مستحق بھی ہوئے ہیں لہٰذا انھیں چاہیے کہ اس رویے کو ہمیشہ کے لیے ترک کردیں اور جب کبھی کوئی اراعیں امیدواران سے یہ کہے کہ میں اراعیں ہوں اس لیے مجھے ووٹ دو تو وہ صاف انکار کردیں اور کَہ دیں کہ ہمارا ووٹ بہترین ہے۔۷۵؎ پنج شنبہ ۴؍جمادی الاخریٰ ۱۳۴۵ھ، ۹؍دسمبر۱۹۲۶ئ، ۱۳/۲۶۹،ص۲۔ اقبال اور پنجاب کونسل، ص۷۵-۷۷ خلافت الیکشن بورڈ کی فتح مبین معرکۂ انتخابات میں شان دار نتیجہ چھے میں سے پانچ خلافتی امیدوار منتخب ہوگئے لاہور، ۸؍دسمبر، خلافت الیکشن بورڈ پنجاب نے پنجاب کونسل کے لیے حسب ذیل امیدوار نامزد کیے تھے: ۱۔ ڈاکٹر محمد عالم (شہری حلقہ قسمت راولپنڈی و ملتان) ۲۔ چودھری افضل حق (دیہاتی حلقہ لدھیانہ وہشیارپور) ۳۔ رانا فیروزالدین خاں (شہری حلقہ قسمت لدھیانہ و انبالہ) ۴۔ شیخ محمد صادق (شہری حلقہ امرت سر) ۵۔ مولوی مظہر علی اظہر (شہری حلقہ وسطی لاہور و جالندھر) ۶۔ اعظم جان مزاری (حلقہ ڈیرہ غازی خاں) ۷۔ علامہ سر محمد اقبال (حلقہ شہری لاہور) ڈاکٹر محمد عالم نے اپنے مدمقابل خان بہادر شیخ عبدالقادر بیرسٹرلاہور سابق رکن کونسل کو شکست دی۔ یہ خلافت الیکشن بورڈ کے لیے ایک زبردست فتح ہے کیونکہ مقابلہ نہایت سخت تھا۔ رانا فیروز الدین خاں کے مقابلے میں خواجہ محمد یوسف کھڑے ہوئے تھے لیکن رانا صاحب نے اپنے حریف کے مقابلے میں بہت زیادہ ووٹ حاصل کیے۔ اس حلقے کی طرف سے جناب ارشاد علی خاں بھی کھڑے ہوئے تھے لیکن بعد میں امیدواری سے دست کش ہوگئے۔ چودھری افضل حق کے مقابلے میں مسٹر غلام رسول وکیل لدھیانہ کھڑے ہوئے تھے لیکن چودھری صاحب نے ان کے مقابلے میں زبردست کامیابی حاصل کی۔ علامہ اقبال کے مقابلے میں ملک محمد دین بیرسٹر لاہور کھڑے ہوئے تھے۔ اگرچہ لاہور میں اراعی و کشمیری کا سوال اُٹھایا گیا اور جماعت بندی کے لیے سخت کوششیں کی گئیں لیکن ان کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔ علامہ اقبال کے حق میں اراعیوں نے بھی بکثرت ووٹ دیے اور علامہ ممدوح ووٹوں کی زبردست اکثریت کے ساتھ منتخب ہوگئے۔ خلافت الیکشن بورڈ کو مولوی مظہر علی اظہرؔ کی ناکامی کا بہت افسوس ہے جنھوں نے پچھلی کونسل میں گراںقدر خدمات انجام دیں تھیں۔ مولوی صاحب کے مقابلے میں تین امیدوار کھڑے ہوئے تھے، شیخ دین محمد وکیل گوجرانوالہ، مولوی غلام محی الدین قصوری اور شیخ نیاز محمد ایم اے وکیل لاہور۔ مولوی مظہر علی صاحب کی ناکامی بالکل خلاف توقع ہے۔ ان کی کامیابی کی بڑی امید تھی لیکن آپ کو شیخ دین محمد صاحب کے مقابلے میں ۱۰۳ ووٹ کم ملے اور شیخ صاحب منتخب شدہ قرار دیے گئے۔ مولوی غلام محی الدین قصوری کے ووٹ بہت کم تھے لہٰذا ان کی ضمانت بھی ضبط کرلی گئی ہے۔ سردار اعظم جان مزاری کو خلافت الیکشن بورڈ نے اپنا امیدوار تو بنالیا تھا لیکن افسوس یہ ہے کہ ان کے حلقے میں دور دست ہونے کی وجہ سے عملی طور پر کام نہ کیا جاسکا۔ اسی طرح یہ سمجھنا چاہیے کہ خلافت الیکشن بورڈ کے چھے امیدواروں میں سے جن کے لیے پورے طور پر کام کیا گیا تھا، پانچ کامیاب ہوگئے۔ یہ نتیجہ نہایت شان دار اور حوصلہ افزا ہے۔ بعض افراد اور جماعتوں نے مجلسِ خلافت کو بدنام کرنے کے لیے اپنی انتہائی کوششیں صرف کردیں لیکن خدا کا شکر ہے کہ انھیں حسرت و ناکامی کے سوا کچھ نصیب نہ ہوا۔ اس شان دار نتیجے نے واضح کردیا ہے کہ مجلس خلافت کو صوبے میں زبردست اثر و اقتدار حاصل ہے اور انتخابات میں اس کی اعانت بے حد اہمیت رکھتی ہے۔ اب اس بات میں ذرا شک و شبہ نہیں رہا کہ مجلس خلافت ایک واحد ٹھوس کام کرنے والی جماعت ہے اور انتخابات کے سلسلے میں اس نے ملک و قوم کی زبردست خدمت کی ہے کیونکہ ایسے ایسے امیدواروں کو چُن کر کونسل میں بھیجا ہے جو اسلامی درد رکھتے ہیں اور کسی ایسی بات کی حمایت کرنے کے لیے تیار نہیں جس سے مسلمانوں یا قومیت متحدہ ہند کو نقصان پہنچنے کا احتمال ہو۔ پنج شنبہ ۴؍جمادی الاخریٰ۱۳۴۵ھ،۹؍دسمبر۱۹۲۶ئ،ص۳۔ خلافت الیکشن بورڈ اور مسلمانانِ پنجاب شان دار کامیابیاں جو حضرات اس غلط فہمی میں مبتلا تھے کہ پنجاب میں اب رہنمایانِ خلافت کی کوئی نہیں سنتا اور تحریک کی ناکامی کے بعد اس کے کارکن اثر و اقتدار سے باکل محروم ہوچکے ہیں انھیں انتخابات کے نتائج سے درس عبرت حاصل کرنا چاہیے۔ مجلس خلافت کے الیکشن بورڈ نے سات حضرات کی سفارش کی تھی جن کے اسماے گرامی یہ ہیں: علامہ اقبال، ڈاکٹر محمد عالم، رانا فیروز الدین، چودھری افضل حق، مولوی مظہر علی، شیخ محمد صادق اور سردار اعظم جان خاں مزاری۔ ان سات حضرات میں سے مولوی مظہر علی اور سردار اعظم جان خاں ناکام رہے اور باقی تمام حضرات اپنے طاقتور اور ذی رسوخ حریفوں کو شکست فاش دے کر کامیاب ہوگئے۔ مولوی مظہر علی اور سردار اعظم جان خاں مزاری کی ناکامی بے انتہا افسوس ناک ہے علی الخصوص مولوی مظہر علی جیسے قابل اور ان تھک کارکن کا پنجاب کونسل میں نہ جاسکنا، بہت ہی بڑا قومی و ملّی نقصان ہے اور ہم اس پر انتہائی رنج و تاسف کا اظہار کرتے ہیں۔ فی الحقیقت ان دونوں حضرات کی ناکامی کے وجوہ خاص تھے۔ بات یہ تھی کہ مولوی مظہر علی کے حلقے میں سے تین اور حضرات امیدوار ہوگئے اور بعض معزز و مقتدر مسلمانوں کے سمجھانے بجھانے کے باوجود اُن میں سے ایک بھی دست بردار ہونے پر آمادہ نہ ہوا۔ مولوی غلام محی الدین صاحب وکیل قصوری، شیخ نیاز محمد صاحب وکیل لاہور اور شیخ دین محمد صاحب وکیل گوجرانوالہ تینوں برابر ڈٹے رہے اور ان کے کارپردازوں نے فرقے اور برادری کے پروپیگنڈے میں کوئی کسر اُٹھانہ رکھی۔ اگر قابلیت اور کارکردگی کے معیار پر فیصلہ ہوتا تو کوئی وجہ نہ تھی کہ مولوی مظہر علی جیسا وسیع المشرب، فصیح البیان، صحیح الدماغ اور ایثار پیشہ امیدوار ناکام رہ جاتا اور شیخ دین محمد صاحب کامیاب ہوجاتے جن کی خدمات قومی و ملکی سے ملک اب تک قطعاً ناآشنا ہے۔ خدا اس فرقے اور برادری کی لعنت سے مسلمانوں کو نجات دے جس نے ان کے تمام کاموں کو تباہ و برباد کررکھا ہے۔ سردار محمد اعظم جان خاں مزاری بھی اپنے حریف کے مقابلے میں زیادہ قابل، روشن خیال اور ایثار پیشہ کارکن تھے لیکن ہمارا خیال ہے کہ ان کے حق میں بہت ہی کم پروپیگنڈا کیا جاسکا لہٰذا ووٹروں کو ان کی قدر و وقعت پہچاننے کا موقع نہیں ملا۔ برکیف ان دونوں امیدواروں کی ناکامی نہایت افسوس ناک ہے اور دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ کامیاب امیدواروں کو ان کا نعم البدل بننے کی توفیق عطا فرمائے۔ علامہ اقبال کی عظیم الشان کامیابی پر ہم اشاعت دیروزہ میں اظہار خیالات کرچکے ہیں اور چونکہ آپ کی کامیابی کے متعلق روز اول سے ہی کوئی شبہ نہ تھا اس لیے مزید عرض کرنا بیکار ہے۔ سب سے بڑی فتح وہ ہے جو ڈاکٹر محمد عالم صاحب نے خان بہادر شیخ عبدالقادر صاحب پر حاصل کی ہے ان کے حلقے میں مقابلہ بہت سخت تھا کیونکہ خان بہادر شیخ عبدالقادر صاحب کی حمایت پر اس علاقے کے تمام سرکار پرست، زمیندار، رئیس اور بااقتدار حضرات تھے اور ڈاکٹر شیخ محمد عالم صاحب کی زیادہ تر رسائی عامۃ المسلمین تک تھی جو ڈاکٹر صاحب کی شان دار اسلامی خدمات کو بخوبی جانتے تھے اور کسی حالت میں بھی شیخ عبدالقادر صاحب کے حق میں راے دینے پر آمادہ نہ تھے۔ یہ حلقہ اس قدر طویل و عریض ہے اور اس میں زمینداروں اور رئیسوں کے اقتدار کا اس قدر عروج ہے کہ اگر پنجاب بھر میں صرف اسی حلقے کے اندر پنجاب خلافت الیکشن بورڈ کے سفارشی امیدوار کو کامیابی ہوتی اور باقی حلقوں کے امیدوار ناکام رہ جاتے تو صرف اسی حلقے کی فتح الیکشن بورڈ کی نیک نامی کے لیے بس کافی تھی۔ خان بہادر شیخ عبدالقادر کی شکست فی الحقیقت حکومت کی شکست ہے کیونکہ جمہور نے حکومت کو بتا دیا ہے کہ جس شخص کو اس نے سارے ہندوستان کا نمایندہ بناکر جنیوا بھیجا تھا وہ ہندوستان تو درکنار چند اضلاع کے مسلمانوں کا نمایندہ بھی نہیں ہے۔ ہم جناب شیخ صاحب کی ادبی قابلیت، آپ کے حُسن اخلاق اور آپ کی متانت و سنجیدگی کے بہت مداح ہیں لیکن اس کا کیا کیجیے کہ عامۃ المسلمین اب صرف ایسے شخص کو اپنا نمایندہ بنانا چاہتے ہیں جس میں ان خوبیوں کے علاوہ ایثار و قربانی اور قومی جذبات کے احترام کا ملکہ بھی ہو۔ اب کوئی شخص زندگی بھر حکومت سے وابستہ رہ کر اپنے ذاتی منافع کو قومی مفاد پر ترجیح دے کر عوام میں ہر دلعزیزی حاصل نہیں کرسکتا۔ رانا فیروز الدین کے مقابلے میں خواجہ محمد یوسف، چودھری افضل حق کے مقابلے میں غلام رسول صاحب وکیل اور شیخ محمد صادق کے مقابلے میں میاں حسام الدین کی ناکامی بھی اسی امر کا بیّن ثبوت ہے کہ اب مسلمان اپنے حقیقی خیرخواہوں اور حکومت کے پٹھوؤں میں تمیز کرنے کے قابل ہوگئے ہیں علی الخصوص لدھیانہ اور امرتسر میں خواجہ محمد یوسف اور میاں حسام الدین کے طرف داروں نے اپنا انتہائی رسوخ اور اپنی انتہائی کوششیں صرف کردیں لیکن عامۃ المسلمین کے غالب عنصر نے انھی امیدواروں کے حق میں رائیں دیں جو خلافت کے سفارش کردہ تھے اور جو بارہا خدمت قومی میں ایثار و سرگرمی کا ثبوت دے چکے ہیں۔ یہ چند خیالات محض اس لیے ظاہر کیے گئے ہیں کہ ہمارے مخالفین پر عامۃ المسلمین کے جذبات حقیقی کی حیثیت روشن ہوجائے اور وہ آیندہ اپنے اعمال و افعال میں ایسا تغیر پیدا کریں جس سے قوم کی توجہ ان کی طرف مبذول ہو۔ ورنہ حقیقت یہ ہے کہ نتائج کی اشاعت کے بعد افراد و جماعات کے خلاف پروپیگنڈا فی الفور بند ہوجانا چاہیے اور کام یاب امیدواروں کو لازم ہے کہ دوران انتخاب کے تمام ناگوار واقعات کو فراموش کرکے اپنے دلوں کو ان لوگوں کے بغض و عناد سے قطعاً پاک کرلیں جنھوں نے انتخاب میں ان کی مخالفت کی تھی اور اپنے آپ کو حلقے کے سارے مسلمانوں کا نمایندہ سمجھیں۔ انتخاب فی نفسہ کوئی مقصد نہیں بلکہ محض حصولِ مقصد کا ذریعہ ہے اور مقاصد کی جنگ تو کامیابی کے بعد شروع ہوتی ہے۔ کامیاب امیدواروں کو چاہیے کہ کونسل میں جاکر ہندوستان کی آزادی اور مسلمانوں کے حقوق کی حمایت کو ہر وقت مدنظر رکھیں اور کوئی ایسی حرکت نہ کریں جس سے مختلف قوموں اور مختلف فرقوں کے درمیان افتراق پیدا ہونے کا اندیشہ ہو۔ ہاں اگر ان کے جائز مطالبات پر کوئی برا مانے تو اس کی پروا نہ کریں مثلاً اگر ہندو ارکان نیابت کے لیے اساس آبادی اور جداگانہ حلقہ ہائے انتخاب کے مطالبات پر مخالفانہ شور و غل مچائیں تو مسلمان ارکان کو اس سے متاثر ہونا چاہیے اور مردانہ وار ان کا مقابلہ کرنا چاہیے لیکن جب کوئی ایسا معاملہ درپیش ہو جس میں حکومت کا ساتھ دینا ملک و قوم کے لیے مُضر ہوسکتا ہو اس وقت ہندو مسلم کے اختلاف کو بالاے طاق رکھ کر حکومت کے خلاف اقوام ہند کے نمایندوں سے اتحاد کرلینا چاہیے۔ ہمیں امید ہے کہ خلافت الیکشن بورڈ کے سفارش کردہ ارکان ان اُصولِ کار پر جنھیں تسلیم کرنے کے بعد وہ رکنیت کے امیدوار ہوئے تھے برابر قائم رہیں گے اور پنجاب کونسل میں اُن مسلمان ارکان سے دلی تعاون کریں گے جو اُن اُصول کے ماتحت کام کرنے پر آمادہ ہوں۔ ہمارے صوبے کی کونسل میں اس دفعہ زیادہ تر ہندو سبھا کے نامزد کردہ ہندو ارکان تشریف لائے ہیں جن کا مقصد وحید ہر معاملے میں مسلمانوں کو نیچا دکھانا ہے۔ ہمیں امید ہے کہ مسلمان ارکان اُن کی طرف سے چوکنّے رہیں گے اور اپنی جماعت میں ایسا افتراق رونما نہ ہونے دیں گے جس سے ’’ہندوسبھائی‘‘ حضرات کو اپنے مقاصد میں کامیابی ہو۔ شنبہ۵؍جمادی الاخریٰ۱۳۴۵ھ،۱۰؍دسمبر۱۹۲۶ئ، ص۲۔ پنجاب کے ہندوؤں کی ذہنیت مجلس وضع قوانین پنجاب اور مسلمان یوں تو ہم نے بارہا اس حقیقت ثانیہ کی طرف رہنمایاں وطن کی توجہ مبذول کرائی ہے کہ اتحاد ہندو و مسلم کے عظیم الشان مقصد کا انہدام صرف ان ہندوؤں کی وطن فروشانہ مساعی کا شرمندۂ احسان ہے جو پنڈت مالوی اور لالہ لاجپت راے جیسے دشمنانِ اتحاد کے اقوال کو کانگریس کے احکام پر مرجع سمجھنے کے عادی ہیں لیکن تازہ انتخابات کے نتائج نے تو اس امر کو بالکل واضح کردیا ہے کہ ہندو اتحاد، قومیت، آزادی، کانگریس غرض تمام مقاصد عالیہ سے بے نیاز ہوکر صرف ہندو سبھا کے پرستار بن چکے ہیں اور انھیں دن رات یہی موہوم خطرہ کھائے جاتا ہے کہ شمال و مغرب سے افغان اُتر آئیں گے اور مسلمان ان کے ساتھ مل کر ہندوؤں کو کچا چبا جائیں گے۔ ہم ملک کے تمام ہوش مند انسانوں سے انصاف کے خواہاں ہیں وہ خدا کے لیے حالات و واقعات پر غور کریں اور بتائیں کہ آیا ملک کی موجودہ شرم ناک حالت ہندوؤں کے جنون تفرق کی شرمندۂ احسان ہے یا اس میں مسلمانوں کا قصور ہے؟ یہ حقایق اظہر من الشمس ہیں کہ سنگٹھن ہندوؤں نے شروع کی، شدھی کا آغاز ہندوؤں کی طرف سے ہوا، مسلمانوں کو نیچا دکھانے کے لیے اپنی علیحدہ انجمن (ہندو سبھا) ہندوؤں نے قائم کی اور اس کے بعد کونسلوں کے انتخابات کا کام بھی اسی انجمن کے سپرد کرکے کانگریس کے خلاف تمام ملک کے طول و عرض میں نفرت و حقارت کے جذبات برانگیختہ کرنے کی کوشش کی۔ اس کے مقابلے میں مسلمانوں کی حالت ملاحظہ ہو کہ ایک نہایت معزز کانگریسی اور خلافتی مسلمان رہ نما نے قومی تحریکات سے الگ ہوکر تنظیم کا غلغلہ بلند کیا لیکن مسلمان اس کی طرف متوجہ نہ ہوئے۔ تبلیغی انجمنیں قائم ہوئیں لیکن مسلمانوں نے ان کی طرف کما حقہ توجہ نہ کی۔ مسلم لیگ مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت کے لیے اُٹھی لیکن وہ بھی مسلمانوں میں کوئی خاص جوش پیدا کرنے میں کامیاب نہ ہوسکی۔ اس کے انتخابات میں بھی مسلمانوں نے کسی فرقہ دار انجمن کو دخل نہ دینے دیا اور اس ساری غفلت کا حقیقی باعث یہ تھا کہ مسلمان کانگریس کے خیر خواہ تھے۔ قومیت متحدہ اور حریت وطن کے مقاصد سے اُنہیں الفت تھی اور وہ کسی طرح بھی اس عظیم الشان نصب العین کو نظروں سے اوجھل کرنے کے لیے آمادہ نہ تھے۔ پنجاب کے ہندوؤں کی حالت علی الخصوص نہایت عبرت انگیز ہے یوں تو پچھلی کونسل میں بھی پنجاب کی سوراج پارٹی فی الحقیقت ’’سماج پارٹی‘‘ ہی تھی لیکن اس دفعہ تو صاف اور واضح طور پر ہندو سبھا ئی کے نمایندوں کو اکثریت حاصل ہوئی ہے جو اس امر کا عہد کرچکے ہیں کہ مسلمانوں کو ہر شعبے میں ینچاد کھانے کی کوشش کریں گے۔ ہندوسبھا کے نامزدہ امیدواروں نے انتخابات کے سلسلے میں جو تقریریں کیں ان میں سب سے زیادہ زور اسی بات پر دیتے رہے کہ کانگریس کوئی چیز نہیں اور ہر ہندو کا دھرم یہ ہے کہ سوراجیہ جماعت مسلمانوں کی مخالفت میں کوئی دقیقہ اُٹھا نہ رکھے۔ اس کے مقابلے میں مسلمانوں نے امکان بھر یہی کوشش کی کہ ایسے ارکان کو کونسل میں بھیجیں جو ہندوستان کے مفاد، وطن کی آزادی اور ہندو و مسلم کے اتحاد کو مدنظر رکھنے کے بعد اسلامی حقوق کی حفاظت میں کوشاں ہوں۔ مسلمانوں کی راے عامہ اب تک کانگریس اور سوراجیہ جماعت کی حامی ہے لیکن ہندو سبھائی اخبارات کانگریس کو کھُلی کھُلی گالیاں دے رہے ہیں اور اس امر پر وفور مسرت میں بغلیں بجارہے ہیں کہ پنجاب کونسل کے انتخابات میں کانگریس کو شکست فاش کھانی پڑی ہے۔ اس دفعہ پنجاب کونسل میں سوراجیہ جماعت یعنی کانگریس کی طرف سے صرف دو نمایندے یعنی لالہ بودھراج اور رائے زادہ ہنس راج کام یاب ہوئے جن کے مقابلے میں راجا نرندراناتھ، ڈاکٹر گوکل چند نارنگ، بخشی نیک چند، راے بہادر سیوک رام، مسٹر لابھ سنگھ، رائے صاحب گنگا رام، راؤبہادر بلبیرسنگھ، لالہ جوتی پرشاد، لالہ گوپال داس، چودھری بلدیوسنگھ اور چودھری چھاجورام ہندو سبھا کی طرف سے منتخب ہوئے ہیں۔ چھے ارکان آزاد خیال کہلاتے ہیں جن میں لالہ موہن لال (شملہ) میاں رام سنگھ اور لالہ کیشورام کے علاوہ لالہ منوہرلال، رائے بہادر دھنپت راے اور راے بہادر پنڈت دولت رام کالیہ جیسے سرکار پرست ہندو بھی شامل ہیں۔ زمینداروں میں سے چودھری چھوٹورام، چودھری دولی چند اور چودھری کیسرسنگھ منتخب ہوئے۔ گویا جاٹوں کی جو جماعت گذشتہ کونسل میں کم از کم زمینداروں کے مفاد کے مسائل ہی پر مسلمان ارکان سے متفق ہوجایا کرتی تھی وہ بھی عملاً ختم کردی گئی ہے۔ اسمبلی کے انتخابات میں صرف یہی امر ہندوؤں کی ذہنیت کا اندازہ کرنے کے لیے کافی ہے کہ انھوں نے جالندھر اور راولپنڈی دونوں حلقوں میں رائے ز ادہ ہنس راج (کانگریسی) اور دیوان چمن لال (کانگریسی) پرلالہ لاجپت راے کو ترجیح دی اور حصار کے لالہ شام داس (کانگریسی) کو ناکام رکھ کر ٹھاکر داس بھارگو کو کامیاب کردیا جو ہندو سبھا کے نمایندے تھے۔ ہندو سبھا کی اس فتح پر بندے ماترم لکھتا ہے: پنجاب میں سوراجیہ پارٹی کو انتخابات میں شکست بلکہ شکست فاش ہونا اس بات کی بیّن دلیل ہے کہ پنجاب اس پارٹی کی مسلم نواز اور ہندو کُش حکمت عملی سے تنگ آیا ہوا ہے اور وہ لالہ لاجپت راے جی اور پنڈت مالوی جی جیسے ممتاز اور آزمودہ کارقومی لیڈروں کی ذات اور ان کی پالیسی پر پورا اعتماد اور وشواش رکھتا ہے۔ ملاپ پے درپے مضامین لکھ کر ہندوؤں کی ذہنیت ظاہر کررہا ہے اور نہایت وضاحت کے ساتھ لکھتا ہے کہ ہندو پنجاب کا فتویٰ یہ ہے کہ وہ کانگریس اور سوراجیہ پارٹی کی پالیسی کو قطعاً ناپسند کرتا ہے اور ہندوسبھا کی پالیسی کو دل و جان سے چاہتا ہے۔ ہندو سبھا کے مشہور لیڈر اور مسلمانوں کے خلاف آئے دن بدزبانی کرنے والے ’’دیوتا شروپ‘‘ بھائی پر مانندجی فرماتے ہیں: چناؤ کے نتائج کو سامنے رکھتے ہوئے میں بڑے فخر اور ابھمان کے ساتھ کَہ سکتا ہوں کہ پنجاب کے ہندوؤں نے ہندوسبھا کا سچے دل سے ساتھ دیا ہے۔ ذاتی طور پر میں تو اس چناؤ میں اتنا ہی دیکھنا چاہتا تھا کہ پنجاب کے ہندوؤں کا دل کدھر کو ہے۔ نتیجہ دیکھ کر میری آتما کو تسلی کے باوجود تمام مخالفانہ ترغیبوں اور کوششوں کے پنجاب کے ہندوؤں کا دل و دماغ راستی پر ہے۔ ہندوؤں کی ذہنیت تو اس قدر خوف ناک ہے اور مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ ان کی طرف سے انتخابات میں کوشش کرنے کے لیے کوئی جماعت مامور نہ ہوئی اور مجلس خلافت کے انتخابی بورڈ نے صرف چند نشستوں کے لیے چند حضرات کی سفارش کردی اور یہ وہ حضرات ہیں جن کے خلاف ہندوؤں کو بھی کوئی وجہ شکایت پیدا ہونے کی گنجایش نہیں۔ علامہ اقبال، ڈاکٹر محمد عالم، رانا فیروز الدین، چودھری افضل حق اور شیخ محمد صادق وہ حضرات ہیں جنھوں نے اس شرط پر دستخط کیے ہیں کہ ہندوستان کی مکمل آزادی کو بطور نصب العین اپنے سامنے رکھیں گے۔ اس کے علاوہ رانا صاحب، چودھری صاحب اور شیخ صاحب گزشتہ کونسل میں کام کرکے دکھاچکے ہیں کہ ان کی ذہنیتیںتعصّب و عناد کی تاریکی سے بالکل پاک ہیں۔ جدید اسمبلی میں غضنفر علی خاں صاحب اور میاں عبدالحیِ صاحب یقینا ایسے حضرات ہیں جنھوں نے اپنے گزشتہ کارناموں سے اپنے آپ کو محب وطن اور قومیت پرست ثابت کیا ہے اور انھیں لالہ لاجپت راے جیسے زہریلے ہندو اور ٹھاکر داس صاحب بھارگو سے کوئی نسبت نہیں ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ پنجاب کونسل میں ہندو سبھائیوں کی اس کثرت کو شرانگیزی سے باز رکھنے کے لیے مسلمان ارکان کیا طریق اختیار کریں گے۔ صورت حالات نہایت خطرناک ہے اور تمام مسلمان ارکان کو چاہیے کہ بہت جلد لاہور میں جمع ہوکر اپنے آیندہ نظام عمل کے متعلق مشورہ کریں اور اپنی تمام طاقتوں کو ایک نقطے پر لاکر شرانگیز قوموں کا مقابلہ کریں۔ اگر ہندو سبھائیوں کی قوت کونسل میں ناقابل مدافعت ہوگئی اور مسلمانوں میں کوئی تفرقہ قائم رہا تو پنجاب میں نہ اسلامی حقوق محفوظ رہیں گے نہ زمینداروں کی حالت اچھی رہے گی۔ ایک طرف ہندو سبھائی اپنی من مانی کارروائیاں کریں گے اور دوسری طرف حکومت اس صورت حالات سے فائدہ اُٹھائے گی۔ ہمیں یقین ہے کہ پنجاب کونسل کے مسلمان ارکان جلد سے جلد ہماری استدعا پر توجہ فرمائیں گے۔ پنج شنبہ ۱۰؍جمادی الاخریٰ ۱۳۴۵ھ، ۱۶؍دسمبر۱۹۲۶ئ،۱۳/۲۷۵،ص۲۔ علامہ اقبال کے اعزاز میں دعوت طعام۷۶؎ ۲۶؍دسمبر ۱۹۲۶ء کو ککے زئی برادری نے علامہ اقبال کے اعزاز میں ایک پرتکلف۷۷؎ دعوت طعام دی جس میں شہر کے تقریباً تمام مسلم عمائد و اکابر شریک تھے۔ ملک برکت علی صاحب نے مہمانوں کا شکریہ ادا کیا۔۷۸؎ علامہ اقبال نے اس تقریب میں ایک مؤثر تقریر فرمائی جس میں مسلم ارکان کونسل سے پرزور استدعا کی کہ وہ دیہاتی اور غیر دیہاتی وغیرہ کے امتیازوں سے یکسر کنارہ کش ہوکر متحدہ طور پر اسلام اور وطن کی خدمت انجام دیں۔ ۲۸؍دسمبر ۱۹۲۶ئ، ص۳۔ آل انڈیا مسلم لیگ کا اجلاس مسٹر محمد علی جناح کی تقریر دہلی ۲۹؍دسمبر آل انڈیا مسلم لیگ کے اٹھارویں سالانہ اجلاس کا پہلا جلسہ کل سہ پہر کے وقت اجمیری دروازے کے باہر شروع ہوا۔ پنڈال نہایت خوش اُسلوبی کے ساتھ سجایا گیا تھا۔ حاضرین کی تعداد تقریباً پانچ سو تھی جس میں اسّی مندوبین تھے۔ خاص طور پر قابل ذکر اصحاب میں سے سر عبدالرحیم، ڈاکٹر سر محمد اقبال، سر محمد عبداللہ اور سر رحیم بخش تھے۔ مجلس استقبالیہ کے صدر پیرزادہ محمد حسین نے جلسے کی کارروائی شروع کی یعنی اپنا خطبۂ صدارت پڑھنا شروع کیا۔ مسٹر محمد علی جناح سابق صدر لیگ نے خان بہادر شیخ عبدالقادر سے استدعا کی کہ وہ تشریف لائیں اور کرسی صدارت کو زینت بخشیں۔ شیخ صاحب نے ۱۹۱۹ء سے لے کر ۱۹۲۶ء تک کے واقعات پر اپنے خطبہ صدارت میں روشنی ڈالی جب کہ ۱۹۱۹ء میں وہ اس مجلس کے صدر تھے۔ مسٹر جناح نے تقریر کرتے ہوئے شیخ صاحب کا تعارف حاضرین مجلس سے کرایا اور کہا کہ شیخ صاحب نے ملک اور قوم کی بیش بہا خدمات انجام دی ہیں اور مجھے پوری توقع ہے کہ لیگ آپ کی صدارت میں نمایاں ترقی کرے گی اور آپ کی رہنمائی ہمارے لیے موجب صدہزار افتخار ہوگی۔ اس کے بعد شیخ عبدالقادر صاحب نے اپنا طویل خطبۂ صدارت پڑھنا شروع کیا۔ آپ نے اپنے خطبۂ صدارت میں دو اُمور پر زیادہ بحث کی ہے ان میں سے ایک تو جنوبی افریقہ کا سوال ہے اور دوسرے سانڈرہٹ کمیٹی کی رپورٹ ہے، پڑھ کر سنائی۔ جمعہ ۲۵؍جمادی الاخریٰ ۱۳۴۵ھ، ۳۱؍دسمبر۱۹۲۶ئ، ۱۳/۲۸۷،ص۴ پنجاب کونسل میں انڈی پنڈنٹ جماعت علامہ اقبال رہنماہوں گے پنجاب کونسل میں انڈی پنڈنٹ جماعت کی ترتیب کی نسبت جو اطلاعات کئی روز سے ہندوستان ٹائمز دہلی اور کونسل کی ایک خاص پارٹی کے آرگن مسلم آؤٹ لک لاہور اور دیگر اخبارات میں شائع ہورہی ہیںان میں سے اکثر و بیشتر غلط اور خلاف واقع ہیں۔ اسی سلسلے میں راقم الحروف نے علامہ محمد اقبال مدظلہ العالی اور دیگر اصحاب سے ملاقات کرنے کے بعد یہ معلومات حاصل کی ہیں کہ کونسل کے متعدد ذی اثر ارکان اس نام کی ایک جماعت مرتب کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں اور یہ بھی ممکن ہے کہ علامہ اقبال اس جماعت کے رہنما بن جائیں۔ اغلب یہ ہے کہ اس جماعت کی ترتیب کے متعلق حقیقی اطلاع پنجاب کونسل کے آیندہ اجلاس سے ایک دو روز پیشتر مل جائے گی۔ اس میں سکھ، مسلمان اور ہندو سب شریک ہوں گے۔ یہ کسی جماعت کی مخالفت نہ کرے گی بلکہ صوبے کے تمام طبقاتِ آبادی کے جملہ جائز اور واجبی حقوق کی حفاظت کا فرض انجام دے گی۔ اس جماعت کے نزدیک زمیندار اور غیر زمیندار، مزدور اور غیر مزدور نیز دیہاتی اور شہری کا کوئی امتیاز نہ ہوگا بلکہ یہ ہر معاملے میں ہر جماعت اور ہر طبقے کے حقوق کی پوری نگہداشت کرے گی۔ (نامہ نگار) جمعہ ۱۰؍رجب ۱۳۴۵ھ، ۱۴؍جنوری۱۹۲۷ئ، ۱۴/۱۰، ص۳۔ پنجاب پراونشل لیگ کا نیا انتخاب ۲۰؍فروری کے اجلاس میں پنجاب پروانشل لیگ کے عہدے داروں کا انتخاب عمل میں آیا جس کی اجمالی کیفیت یہ ہے: صدر سرمیاں محمد شفیع جنرل سکریٹری علامہ اقبال مدظلہ العالی نائب صدر خان بہادر شیخ عبدالقادر بیرسٹر سکریٹری ملک برکت علی صاحب ایڈوکیٹ سکریٹری میاں عبدالعزیز صاحب بیرسٹر سکریٹری چودھری ظفراللہ خاں صاحب بیرسٹر بقیہ عہدے داروں کا انتخاب بعد میںہوگا۔ (نامہ نگار) سہ شنبہ ۱۹؍شعبان۱۳۴۵ھ، ۲۲؍فروری۱۹۲۷ئ، ۱۳/۴۱،ص۳۔ (ب) مراسلات اقبال اور سر جناب مدیر زمیندار، السلام علیکم! جریدہ سیاست کی ۱۷؍فروری ۱۹۲۳ء کی اشاعت میں مندرجہ صدر عنوان سے ایک مضمون شایع ہوا ہے جس کے آخر میں ’’احقر نشتر‘‘ لکھا ہے۔ اس مضمون کے متعلق میرے اکثر احباب مجھے خطوط لکھ رہے ہیں اور مختلف خیالات کا اظہار فرمارہے ہیں۔ میرے اکثر لاہوری دوست بھی اس مضمون کے بارے میں مجھ سے زبانی استفسار فرمارہے ہیں۔ میں اپنے تمام محترم دوستوں کو اس تحریر کے ذریعے مطلع کرتا ہوں کہ وہ مضمون میں نے نہیں لکھا وہ کوئی اور نشتر صاحب ہیں۔ افسوس ہے کہ مضمون نگار صاحب نے اپنا پورا نام درج نہ کیا ورنہ یہ غلط فہمی پیدا نہ ہوتی۔ میرے معزز دوستوں نے محاسن مضمون کے متعلق جن مختلف خیالات و آرا کا تحفہ مجھے پیش کیا ہے میں اسے اصلی مضمون نگار صاحب کی خدمت میں پیش کرکے اس امر پر مسرت و اطمینان کا اظہار کرتا ہوں کہ حق بہ حق دار رسد۔ (ابوالنعیم نشتر جالندھری) دوشنبہ۱۵؍رجب المرجب ۱۳۴۱ھ، ۴؍مارچ۱۹۲۳ئ، ۱۰/۵۲،ص۶۔ صوبہ سرحد کی آواز ڈاکٹر شیخ محمد اقبال کی حمائت جناب اڈیٹر صاحب زمیندار، السلام علیکم! ہم مسلمانان صوبۂ سرحد کو یہ وہم و گمان بھی نہ تھا کہ ترجمان اسلام ڈاکٹر شیخ محمد اقبال کے مقابلے میں بھی کوئی شخص رکنیت کونسل کے لیے کھڑا ہوگا لیکن اخبارات کے ذریعے سے یہ معلوم کرکے سخت افسوس ہوا کہ ایک شخص مسمی ملک محمد دین ڈاکٹر صاحب موصوف کے مقابلے میں اپنا سارا زور اور تمام ذرائع صرف کررہا ہے۔ زیادہ افسوس ان مسلمانوں پر ہے جو ملک محمد دین کے اس تاریخی قصور میں ہاتھ بٹارہے ہیں۔ ایک وقت آئے گا کہ جب لوگ ۱۹۲۶ء کے لاہوری مسلمانوں کی مردم شناسی پر ماتم کریں گے اور ان کی حماقت کا مضحکہ اُڑائیں گے اس لیے کہ انھوں نے اقبال کے مقابلے میں محمد دین کا کھڑا رہنا گوارا کرلیا ہے ۔ پشاور اور نوشہرہ کے خدام ملت نوجوانوں میں یہ تحریک ہورہی ہے کہ اگر انتخاب کونسل کی آرا شماری سے قبل ممکن ہو تو صوبہ سرحد کے نوجوانوں کا ایک وفد مسلمانانِ لاہور سے بربنائے اخوت یہ درخواست کرنے کے لیے لاہور آئے کہ وہ ڈاکٹر شیخ محمد اقبال کے لیے ووٹ دیں۔ پشاور ۱۵؍نومبر۱۹۲۶ء (ایک سرحدی) شنبہ ۱۳؍جمادی الاول۱۳۴۵ھ،۲۰؍نومبر ۔۱۹۲۶ئ،ص۵۔ معرکۂ انتخاب کے فرمایشی مبلغ جناب اڈیٹر صاحب زمیندار، السلام علیکم! آج رات مزنگ میں جلال پوری مالک سیاست نے ڈاکٹر شیخ محمد اقبال پر غلط الزامات کی فرمایشی بوچھاڑ کی۔ جب تقریر کے بعد ان سے اس تقریر کا ثبوت دریافت کیا گیا تو آئیں بائیں شائیں کرکے ٹال دیا پھر میں نے صاف کَہ دیا کہ یہ غلط بیانیاں روپیا کررہا ہے تو جواب ملا کون روپیا نہیں کھاتا؟ اس کے بعد وہ ٹانگے پر بیٹھ کر بھاگ گئے۔ لاہور۱۴؍نومبر۱۹۲۶ء محمد شفیع چوک مستی لاہور شنبہ ۱۳؍جمادی الاول۱۳۴۵ھ،۲۰؍نومبر ۱۹۲۶ئ،ص۵۔ علامہ اقبال سے عقیدت السلام علیکم بزرگانِ ملت و علیکم السلام بزرگان دین ایسے چراغ کے روشن ہونے کی بڑی خوشی ہوئی نورِ خدا مشکل کشا بن کے آئے دل و جگر کی دعا بن کے آئے اندک نوشتہ بسیار داند وارڈ نمبرالف، اکبری گیٹ لاہور مرزا غلام محمد از لاہور سہ شنبہ ۱۵جمادی الاخریٰ۱۳۴۵ھ ۲۱؍دسمبر۱۹۲۶ئ،۱۳/۲۷۹،ص۵۔ خ…خ…خ حوالے اور حواشی ۱- اقبال اور پنجاب کونسل، مرتبہ: محمد حنیف شاہد آیندہ انتخابات میں علامہ سرمحمد اقبال،ص۳۰ ۲- ایضاً، ہم نے اطلاع، ص۳۰ ۳- ایضاً، علامہ کی،ص۳۰ ۴- ایضاً، علامہ کے،ص۳۰ ۵- ایضاً، جوہر شناسی،ص۳۰ ۶- ایضاً، عبدالعزیز بیرسٹرایٹ لا جو،ص۳۰ ۷- ایضاً، مقابلے،ص۳۰ ۸- ایضاً، کی،ص۳۰ ۹- ایضاً، بدرجہا بلند،ص۳۱ ۱۰- ایضاً، خدمات،ص۳۱ ۱۱- ایضاً، علاوہ بریں،ص۳۱ ۱۲- کرتے،ص۳۱ ۱۳- تھے،ص۳۱ ۱۴- اندیشہ تھا،ص۳۱ ۱۵- اقبال اور پنجاب کونسل، میں ’’حاصل کریں گے‘‘ کے بعد کی عبارت ’’ہمیں معلوم ہوا ہے… نامزد کرلیں گے‘‘ درج نہیں ہے۔ ص۳۱ ۱۶- گفتار میں صرف یہ سرخی دی گئی ہے: کونسل کی اُمیدواری کے لیے اعلان، ص۱۴ ۱۷- گفتار: حلقہ لاہور، ص۱۵ ۱۸- ایضاً: کھڑا (قانونِ امالہ کے مطابق ’’کھڑے‘‘ درست ہے)، ص۱۵ ۱۹- ایضاً: ارادہ اُمیدواری، ص۱۵ ۲۰- ایضاً، حلقہ لاہور، ص۱۵ ۲۱- علحدہ، ص۱۵ ۲۲- حلقہ عمل، ص۱۵ ۲۳- ایضاً، ’’گذرے‘‘، ص۱۵۔ اُردو کے مصدر میں گزرنا، گزارنا… سب میں زے ہے ان سے جتنے لفظ بنیں گے، سب میں لازماً زے لکھی جائے گی، جیسے: گزرا… گزرتے رہنا (اُردو، کیسے لکھیں از رشید حسن خالد، ص۴۰) لہٰذا ’’گزرے‘‘ درست ہے۔ ۲۴- گفتار: کھڑا، ص۱۶ ۲۵- گفتار:چوہدری، ص۱۶ ۲۶- گفتار میں اس جگہ یہ عنوانات نہیں دیے گئے ہیں۔ ص۱۶ ۲۷- گفتار: جلسہ، ص۱۶ ۲۸- گفتار میں اس جگہ یہ عنوان نہیں دیا گیا ہے، ص۱۶ ۲۹- گفتار: ہوتی ہیں (’’ہوتی ہیں‘‘ درست معلوم ہوتا ہے)، ص۱۶ ۳۰- گفتار میں اس جگہ یہ عنوانات نہیں دیے گئے ہیں، ص۱۷ ۳۱- تقریر کے متن کے لیے گفتار کا ضمیمہ ملاحظہ فرمائیے۔ ۳۲- گفتار میں اس جگہ یہ عنوان نہیں دیا گیا ہے، ص۱۷ ۳۳- گفتار (بیرون دہلی درواز)، ص۱۷ ۳۴- گفتار میں مندرجہ ذیل عبارت درج نہیں کی گئی۔ (جلوس رہے… اب ہم، ص۱۸) ۳۵- گفتار میں اس جگہ صرف یہ عنوان درج ہے: ’’انتخابی منشور‘‘، ص۲۷۰ اقبال اور پنجاب کونسل میںنقل نویسی کے وقت درج ذیل عبارات چھوٹ گئی ہیں۔ ۳۶- گفتار تجربات بیان کردیں………حلقۂ لاہور کو، ص۷۲ ۳۷- ایضاً، مخالفت کرے……… صدہزار حسرت، ص۷۲ ۳۸- ایضاً، متحرک ہوجائیں………عنداللہ اتقکم ، ص۷۲ ۳۹- ایضاً، سے بالاتر ہے، ص۷۲ ۴۰- ایضاً، علامہ اقبال کی، ص۷۲ ۴۱- ایضاً، بیرسٹر کو، ص۷۳ ۴۲- اقبال اور پنجاب کونسل میں یہ عبارت درج نہیں ہے درست برادری اختیار فرمالی………بعدازاںملک محمد حسین صاحب صدر بلدیہ آگے بڑھے،ص۷۳ ۴۳- ایضاً، علامہ اقبال ، ص۷۳ ۴۴- ایضاً، محمد دین بیرسٹر،ص۷۳ ۴۵- ایضاً، مسلمانوں، ص۷۳ ۴۶- ایضاً، اور مقابلے پر،ص۷۳۔ ۴۷- اقبال اور پنجاب کونسل میں یہ عبارت درج نہیں ہے۔ کھڑے ہوگئے…… ہمارے نزدیک ص۷۳ ۴۸- ایضاً، مسلمانوں کے نزدیک……ملک محمد دین کو ص۷۳ ۴۹- ایضاً، محمد دین اور ص۷۳ ۵۰- اقبال اور پنجاب کونسل میں نقل نویسی کے وقت یہ ساری عبارت چھوٹ گئی ہے۔ نہیں رہ سکتا ………بعض اصحاب …… نے مقامی ص۷۳ ۵۱- ایضاً، کیں اور یہ، ص۷۳ ۵۲- ایضاً، دراصل، ص۷۳ ۵۳- ایضاً، کہ اقبال، ص۷۳ ۵۴- اقبال اور پنجاب کونسل میں نقل نویسی میں یہ عبارت چھوٹ گئی ہے۔ نکلنا چاہیے…… انھوں نے ببانگ دہل کَہ دیا تھا ’’جو لوگ ،ص۷۳ ۵۵- ایضاً، معتقد نہیں‘‘، لطف کی بات یہ ہے کہ صرف دو اخباروں نے علامہ اقبال کی،ص۷۴ ۵۶- ایضاً، علامہ قبال کے حق میں چھپے، ککے زئیوں نے بھی عملی حیثیت سے علامہ اقبال کی مدد کی۔ مختلف مذہبی،ص۷۴ ۵۷- ایضاً، علامہ اقبال ص۷۴ ۵۸- ایضاً، مجلس خلافت نے علامہ اقبال کو ص۷۴ ۵۹- ایضاً، امداد و اعانت کی ص۷۴ ۶۰- ایضاً، حمایت کا فیصلہ کیا۔ ملک محمد دین اور ص۷۴۔ ۶۱- ایضاً، جھگڑا کھڑا کردیا ص۷۴ ۶۲- اقبال اور پنجاب کونسل، میں یہ عبارت درج نہیں ہے۔ اُسلوب مذہبی تھا……… انتخابات لاہور، ص۷۴ ۶۳- ایضاً، افسوس ناک اور شرم ناک پہلو ص۷۴ ۶۴- ایضاً، مطابق چودہ تھے،ص۷۴ ۶۵- اقبال اور پنجاب کونسل، میں یہ عبارت کچھ اس طرح ہے بہتان طرازی کے سوا کچھ نہ تھا لیکن اس کے برعکس ساری انتخابی مہم میں علامہ اقبال کی طرف سے ان کے حامیوں نے کم و بیش بیس جلسے منعقد کیے ان میں،ص۷۴ ۶۶- اقبال اور پنجاب کونسل، میں نقل نویسی میں ’’تلافی کی گئی‘‘ ص۷۴ کے بعد بقیہ عبارت ’’جب یہ معلوم ہوگیا ………موقع نہ آنے دیں گے‘‘ چھوڑ دی گئی ہے۔ ۶۷- ایضاً، معاملے ص۷۵ ۶۸- ایضاً، بل بوتے پرص۷۶ ۶۹- ایضاً، میں ص۷۶ ۷۰- ایضاً، ملک محمد دین آیندہ ص۷۶ ۷۱- ایضاً، لہٰذا ہماری برادری ص۷۶ ۷۲- ایضاً، یا ملک محمد دین باقی، ص۷۶ ۷۳- ایضاً، تاثر کے تحت علامہ اقبال کے، ص۷۶ ۷۴- ایضاً، کے لیے دل و جان سے موجود ہیں، ص۷۶ ۷۵- ایضاً، دشمنی کریں گے (ص۷۶) کے بعد کی عبارت ’’اس طرح اراعیوں ……… بہترین ہے‘‘ درج نہیں کی گئی۔ ۷۶- گفتار میں اس جگہ یہ عنوان درج نہیں ہے۔ ص۲۰ ۷۷- گفتار:ایک دعوت طعام ، ص۲۰ ۷۸- نقل نویس کی لاپروائی سے یہاں گفتار میں کچھ عبارت چھوٹ گئی ہے: ’’جس میں شہر کے… شکریہ ادا کیا‘‘۔ ص۲۰ ض…ضض…ض انجمن حمایت اسلام کا ستائیسواں سالانہ جلسہ انجمن حمایت اسلام کے ستائیسویں سالانہ جلسے کے پہلے اجلاس کا آخری دن ۷؍اپریل یک شنبہ تھا۔ حاضرین کی غیرمعمولی بھیڑبھاڑ تھی۔ کارروائی جلسہ نواب حاجی فتح علی خان صاحب قزلباش رئیس لاہور کی صدارت میں صبح کے ساڑھے سات بجے شروع ہوئی۔ اوّل قرآن ونعت خوانی ہوئی۔ اس کے خواجہ دل محمد صاحب ایم اے پروفیسر اسلامیہ کالج نے دلچسپ نظم سنائی۔ دوسرا اجلاس دو بجے سے ۵ بجے شام تک اس جلسے کے صدر آنریبل نواب ذوالفقار علی خان صاحب تھے مگر وہ کسی وجہ سے جلسے میں رونق افروز نہ ہوسکے اور ان کی بجاے خان بہادر مرزا سلطان احمد صاحب مشیر مال ریاست بہاول پور کی صدارت میں کارروائی شروع ہوئی۔ سب سے پہلے منشی میراں بخش صاحب جلوہ وقائع نگار سیالکوٹ نے یتیموں کی ہمدردی میں ایک نظم سنائی۔ ان کے بعد شیخ عبدالقادر صاحب بی اے نے اپنی دلچسپ تقریر شروع کی اس کا اقتباس بھی کسی دوسری اشاعت میں ہدیہ ناظرین کیا جائے گا۔ اس کارروائی کے بعد ڈاکٹر شیخ محمد اقبال صاحب تالیوں کی مسلسل و متواتر گونج میں سٹیج پر نمودار ہوئے اور فرمایا کہ: گزشتہ سال میں نے اس جلسے میں جو نظم پڑھی تھی وہ خدا کا شکوہ تھا۔ بعض لوگوں نے خیال کیا تھا کہ یہ بہت بڑی جسارت ہے اور میں بھی یہی سمجھتا تھا لیکن اس کا مضمون ایسا پسند کیا گیا کہ اس کی اشاعت کے متعلق آج تک کئی ہزار خطوط میرے پاس آچکے ہیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ جو بات لوگوں کے دل میں تھی میں نے وہی ظاہر کردی تھی لیکن میں خیال کرتا ہوں کہ میرا شکوہ خدا کو بھی پسند آیا۔ خیر اگر وہ نہ بھی بخشے تو میں یہی کہوں گا۔ ؎ تیری رحمت ہے کہ دوزخ بھی مجھے تو نے دیا کہ مکافات کی میرے تو جگہ یہ بھی نہ تھی میں نے اپنے لیے خود ایک سزا تجویز کرلی ہے کہ اپنی شکایت (…) کروں میں اپنی نظم پر انگریزی تعلیم یافتہ نوجوانوں کی خاص توجہ دلاتا ہوں۔ میری شعر گوئی خاص احساسات کا نمونہ ہے۔ آج میری نظم ایسی جامع ہے کہ اس میں مشکلات کی تصویر کھینچ کر ان کے حل کرنے کا طریقہ بتایا گیا ہے۔ یہ زمانہ اسلام کی تاریخ میں تباہی کے اعتبار سے سخت نازک وقت ہے۔ خدا کے واسطے تم لوگ توجہ کرو اور اسلام کی عزت برقرار رکھو۔ اس مختصر تمہید کے بعد ڈاکٹر اقبال نے چند اشعار سنائے جو دیروزہ اشاعت میں شائع ہوچکے ہیں۔ اس کارروائی کے بعد نماز عصر کے لیے جلسہ برخاست ہوا۔ جمعہ؍۲۳ ربیع الاوّل ۱۳۳۰ھ، ۱۲؍اپریل۱۹۱۲ئ، ۲/۸۳،ص۴۔ انجمن حمایت اسلام لاہور کا اٹھائیسواں سالانہ جلسہ اس جلسے کی اطلاع دیتے ہوئے زمیندار نے لکھا: ہمدردان قوم و معاونین انجمن کی اطلاع کے لیے یہ دوسرا اعلان کیا جاتا ہے اور یقین ہے کہ وہ اسے پڑھ کر از حد مسرور ہوں گے کہ ہز آنر سر لوئی ڈین بالقابہ لیفٹیننٹ گورنر بہادر صوبہ پنجاب نے ازراہ تلطف انجمن کی استدعا کے مطابق ۲۲؍مارچ۱۳ء کو سہ پہر کے اجلاس میں تشریف لانا اور مسلمانان پنجاب کی جانب سے الوداعی ایڈریس کا لینا منظور فرما لیا ہے…جوبرادرانِ اسلام جلسے میں تقریر کرنا یا نظم پڑھنا چاہیں وہ حسب اعلان سابق یکم ؍مارچ ۱۹۱۳ء تک خاکسار کو اطلاع دیں۔ خاکسار شمس الدین جنرل سکریٹری ۲۸؍فروری۱۹۱۳ئ،ص۴۔ انجمن حمایت اسلام لاہور کا سالانہ جلسہ (۲) دوسرے اجلاس کی نشست میں ڈاکٹر شیخ محمد اقبال صاحب ایم اے پی ایچ ڈی بیرسٹرایٹ لا نے اپنی ایک بلیغ و دقیق نظم فارسی سے حاضرین کی سامعہ نوازی کی اور گو حاضرین جلسہ میں اس سخن مغلق اور کلام ادق کے سمجھنے والوں کی تعداد بہت کم تھی تاہم خوانندگی اشعار کے وقت تمام جلسے پر سکوت کا عالم طاری تھا اور بعض مقامات پر اقبال کے طرز تکلم سے حاضرین کو اشعار کا مفہوم سمجھنے میں کم و بیش مدد مل جاتی تھی۔ مسلمان چشم شوق سے اقبال کی صورت کو دیکھ رہے تھے اور ایک ایک شعر بلکہ ایک ایک مصرعے کو گوش دل سے سن رہے تھے۔ جو اصحاب سخن فہم واقع ہوئے تھے وہ دل میں مزے لے لے کر زبان سے دادِ سخن دے رہے تھے اور جن کے ہاتھ پلّے کچھ نہ پڑتا تھا وہ بھی بے ساختہ اظہار مسرت کرتے تھے جس سے اقبال کی شہرت و مقبولیت اور ہر دل عزیزی کا بوجہ اتم اندازہ ہو سکتا تھا لیکن اسی کے ساتھ ہمیں افراد قوم کی تہی مغزی اور بے مایگی پر حددرجہ افسوس ہوا کہ جو زبان کسی زمانے میں شاہان اسلام کی کاروباری زبان تھی اب مسلمانوں میں اس کے سمجھنے والوں کا عنصر کالملح فی الطعام کا حکم رکھتا ہے۔ اگر اس نظم فارسی کو اقبال کی بجاے کوئی اور شاعر پڑھتا تو شاید ایک متنفس بھی توجہ سے نہ سنتا اگر ممکن ہوسکا تو نظم اقبال زمیندار کی کسی اشاعت قریبہ میں ہدیہ ناظرین کی جائے گی۔ اس کا ہر شعر معانی و مطالب کے لحاظ سے قوم کے سمندر غفلت کے لیے تازیانہ عبرت کی تاثیر رکھتا ہے۔ ڈاکٹر اقبال کے بعد حکیم امین الدین صاحب بیرسٹرایٹ لا اور مولوی حاجی محمد ابراہیم صاحب اور مولانا محمد عبداللہ پشاوری کی تقاریر اس جلسے کی روح رواں تھیں۔ حکیم امین الدین صاحب کی تقریر طراز عنوان مرزا غالب مغفور کا یہ شعر تھا: ؎ بیداد عشق سے نہیں ڈرتا مگر اسدؔ جس دل پہ ناز تھا مجھے، وہ دل نہیں رہا یہ عنوان زبان حال سے پکار پکار کر کَہ رہا ہے کہ اس کے تحت میں جو تقریر ہوگی اس میں مسلمانوں کی موجودہ حالت کا موثر پیرایے میں اظہار کیا جائے گا۔ چہارشنبہ ۱۷؍ربیع الثانی۱۳۳۱ھ، ۲۶؍مارچ۱۹۱۳ئ،۳/۶۹،ص۲ انجمن حمایت اسلام کے پینتیسویں اجلاس کی یاد میں (۱) اے ساکنانِ بلدۂ لاہور آج شام میں آپ کو سناؤں گا باتیں کھری کھری میری یہ داستاں ہے میرے درد کا نچوڑ دل سے نکل رہی ہے کہانی یہ دُکھ بھری پینتیس سال گزرے کہ کچھ اہل دل بزرگ اُٹھے کہ اپنی قوم کی فرمائیں رہبری ڈالی اک انجمن کی ہنا اپنے ہاتھ سے اسلام کے لیے ہوئی جو وجہ برتری اس انجمن کے واسطے اپنی تمام عمر کرتے رہے یہ دین کے خادم گداگری تاآنکہ آگئی چمنِ علم میں بہار اور شاخ دین مصطفوی ہوگئی ہری لاہور نورِ علم سے رخشندہ ہوگیا شرمندہ جس سے ہوگیا خورشید خاوری پھریک بیک ہوا گئی پنجاب کی پلٹ گردش میں آخر آہی گیا چرخ خیبری رجعت پسند ہوگئے ملت کے سنگ راہ اسلام کی اُجڑ گئی کھیتی ہری بھری باطل کا غلغلہ ہوا افلاک تک بلند قرآں میں بند ہوگئی حق کی نواگری چاندی سمجھ رہے تھے جسے ہوگئی خزف ہیرا جو تھا وہ بن گیا پل بھر میں کنکری سرجھُک گیا حمایت اسلام کا وہاں جھُکتا جہاں تھا کفر کا اکلیل سروری اس وقت ہم کو کوئی سلیمان چاہیے ہے شیخ نجد دیو تو ہے انجمن پری (۲) اے قوم مژدہ ہوکہ سلیماں بھی آگیا باطل ہوا رجنہ کا دعوائے خودسری جبروتیوں نے دین کا ڈنکا بجا دیا طاغوتیوں کی اب نہ چلے گی نمونگری وقت آگیا کہ ہو عَلم اسلام کا بلند اقبال اس انجمن کے بنے ہیں سکریٹری نواب ذوالفقار علی خاں ہیں اس کے صدر کیوں جلوہ ریز اس میں نہ ہو شان حیدری چشمہ اُبل رہا ہے محمدؐ کے نور کا اب ہم ہیں اور اس میں ہماری شناوری جمعہ ۳؍شعبان المعظم۱۳۳۸ھ، ۲۳؍اپریل۱۹۲۰ئ،۳/۷،ص۱۔ انجمن حمایت اسلام لاہور کا سالانہ جلسہ ۳۰،۳۱؍مارچ یوم جمعہ اور ہفتہ کو اسلامیہ ہائی سکول دروازہ شیرانوالہ میں ہوگا۔ یکم؍ اپریل اتوار کو چونکہ شالامار باغ کا میلہ قرار پایا ہے لہٰذا اتوار کا دن مجبوراً چھوڑنا پڑا۔ علامہ ڈاکٹر سر محمد اقبال صاحب ایک عدیم النظیر نظم پڑھیں گے۔ برادران اسلام کثرت سے شریک جلسہ ہوکر اس سے مستفیض ہوں اور فراخ دل سے چندہ دے کر حقِ داد اور خراج تحسین ادا کریں۔ غلام محی الدین پنج شنبہ ۳؍شعبان۱۳۴۱ھ، ۲۲؍مارچ۱۹۲۳ئ، نمبر۶۶، ص۶۔ انجمن حمایت اسلام کا سالانہ جلسہ قبل ازیں مشتہر ہوچکا ہے کہ خدا کی عنایت سے انجمن کا سالانہ جلسہ ۳۰؍۳۱ مارچ و یکم؍اپریل ۱۹۲۳ء کو اسلامیہ ہائی سکول دروازہ شیرانوالہ میں انعقاد پذیر ہوگا۔ جن بزرگان و اکابر قوم نے اس وقت تک اپنی تشریف آوری اور اپنے پاکیزہ اور مفید قومی خیالات کے اظہار کا پختہ وعدہ فرمایا ہے ان کے اسمائے گرامی شائع کیے جاتے ہیں۔ چند اور بزرگوں کی شمولیت کی بھی قوی توقع ہے جن کے نام نامی پھر شائع کیے جائیں گے۔ برادرانِ اسلام سے توقع ہے کہ وہ اس نادر موقع کو ہاتھ سے نہ جانے دیں گے اور کثرت سے شریک جلسہ ہوکر ان بزرگوں کے کلام معجز نظام سے فیض یاب ہوں گے اور جلسے کو کامیاب بنائیں گے۔ جناب مولوی سیّد سلیمان صاحب ندوی اعظم گڑھ، جناب مولوی حاجی محمد ابراہیم صاحب سیالکوٹ، جناب مولوی ابوالوفا ثناء اللہ صاحب امرتسر، جناب مولوی اصغر علی صاحب روحی ایم۔ او۔ایل پروفیسر اسلامیہ کالج لاہور، جناب مولوی محمد علی صاحب امیر جماعت احمدیہ لاہور، جناب آنریبل نواب سر ذوالفقار علی خان صاحب لاہور، جناب ڈاکٹر سر شیخ محمد اقبال صاحب ایم اے بیرسٹرایٹ لا لاہور، جناب خواجہ دل محمد صاحب ایم اے پروفیسر اسلامیہ کالج لاہور، جناب خان احمد حسین خان صاحب بی اے اڈیٹر شباب اُردو لاہور، جناب مولوی عبدالمجید صاحب وکیل لائلپور، جناب مولانا تاجورنجیب آبادی سب اڈیٹر ہمایوں لاہور، جناب نشتر صاحب جالندھری، جناب مولوی غلام قادر صاحب گرامی شاعر حضور خسرو دکن ہوشیارپور، جناب مسٹر محمد تیمور صاحب ایم اے پروفیسر اسلامیہ کالج پشاور، جناب مولانا مولوی احمد علی صاحب امام مسجد دروازہ شیرانوالہ لاہور۔ (خاکسار شمس الدین سکریٹری انجمن) شنبہ ۵ شعبان المعظم ۱۳۴۱ھ، ۲۴؍مارچ۱۹۲۳ئ، ۱۰/۶۸،ص۶۔ آل انڈیا مسلم کشمیری کانفرنس کادسواں سالانہ اجلاس اجلاس چہارم ½۴ بجے سہ پہر سے ۶ بجے شام تک (۱) ڈاکٹر سرمحمد اقبال پی ایچ ڈی بیرسٹرایٹ لا، لاہور ۴ بجے سے ½۴ بجے تک نظم…… (۲) خواجہ اللہ بخش صاحب گنائی لاہور ½۴ سے ۵ بجے تک ’’اسلام آزادی ہے‘‘ ۱۷؍ربیع الاوّل ۱۳۴۲ھ، ۲۸؍اکتوبر۱۹۲۳ئ، ۱۰/۲۳۹،ص۷۔ انجمن حمایت اسلام لاہور معزز ارکان کا استعفا مدت دراز سے ہمیں انجمن حمایت اسلام لاہور میں ایک خاص جماعت کے استبداد کے متعلق شکایات موصول ہورہی تھیں لیکن ہم محض اس لیے اب شکایات پر اظہار خیالات سے اجتناب کررہے تھے کہ مبادا اس سے انجمن کو کوئی نقصان پہنچ جائے اور مسلمانوں کی تعلیم کے سلسلے میں اس فیض رساں انجمن نے جو شان دار خدمات انجام دی ہیں ان میں کسی قسم کا خلل واقع ہوجائے لیکن پے در پے شکایات سے مجبور ہوکر آج ہم حقیقی صورت حالات کے متعلق کچھ عرض کرنا چاہتے ہیں۔ ان شکایات کا سلسلہ اس زمانے سے شروع ہوتا ہے جب خاں صاحب شیخ عبدالعزیز صاحب اور مولوی غلام محی الدین صاحب قصوری دوبارہ انجمن حمایت اسلام میں داخل ہوئے ہیں۔ سب سے پہلے نواب سر ذوالفقار علی خاں صاحب اور جناب علامہ اقبال نے انجمن کی صدارت اور معتمدی سے استعفا دیا اور اپنے استعفوں میں یہ بیان کیا کہ انجمن میں ایسے حالات پیدا ہوگئے ہیں جن کے ماتحت وہ کام کرنے سے قاصر ہیں۔ اس کے بعد حاجی شمس الدین صاحب نے بھی اس وجہ سے استعفا دیا کہ اس انجمن میں کام کرنا آپ کے نزدیک موجب ثواب نہ رہا تھا۔ ہم نے بارہا انھی حضرات سے انجمن کے اندرونی طرز عمل کے متعلق گفت و شنید کی تو معلوم ہوا کہ جنرل کونسل میں ’’’مزنگ پارٹی‘‘ یعنی خاں صاحب شیخ عبدالعزیز، مولوی غلام محی الدین خاں اور ان کے آوردوں کا زور بہت بڑھ گیا ہے اور وہ ہمیشہ کثرت آرا سے اپنی من مانی تجاویز منظور کرالیتے ہیں۔ انجمن کے پرانے کارکنوں اور حقیقی خیرخواہوں کی ایک نہیں چلنے دیتے اور ان کے مخلصانہ مشوروں کو استحقار سے ٹھکرا دیتے ہیں۔ اس کے بعد انجمن کے ایک بہت پرانے اور مخلص کا رکن خاں صاحب میاں حاکم دین صاحب نے ایک دو رسالے شایع کیے جن میں کارکنان انجمن کے استبداد کی شکایت کے علاوہ حسابات کی بعض بے ضابطگیاں اور بے عنوانیاں بھی ظاہر کیں جو بعض حالات میں غبن کی حد تک پہنچتی تھیں۔ اگرچہ انجمن نے میاں صاحب کے عاید کردہ الزامات کا جواب دے دیا لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان جوابات کے بعد بھی معترضین کا کامل اطمینان نہیں ہوا اور وہ الزامات بدستور تشنہ تحقیق ہیں۔ ان الزامات اور ان کے جوابات کی نقلیں ہمیں انجمن کے گذشتہ جلسے سے قبل موصول ہوچکی تھیں لیکن ہم نے ان پر صرف اس خیال سے خامہ فرسائی مناسب نہ سمجھی کہ مبادا مسلمانوں میں انجمن کے متعلق بدگمانیاں پیدا ہوجائیں اور جلسے کی ناکامی سے انجمن کے کاروبار پر کوئی برا اثر پڑجائے۔ لیکن حال ہی میں جنرل کونسل کے تیئیس معزز ارکان نے جو استعفا دیا ہے اس سے تو ہمارا پیمانہ شکیب بالکل ہی لبریز ہوگیا۔ ان مستعفی ارکان کے اسماے گرامی یہ ہیں: ڈاکٹر خلیفہ شجاع الدین صاحب، شیخ عظیم اللہ صاحب وکیل، مولوی احمد دین صاحب وکیل، شیخ حسن دین صاحب وکیل، میرعزیزالدین صاحب، میر خورشید زماں صاحب بیرسٹر، شیخ گلاب دین صاحب وکیل، مولوی محمد شفیع صاحب وائس پرنسپل اورینٹل کالج، منشی دین محمد صاحب اڈیٹر میونسپل گزٹ، ڈاکٹر خواجہ عبدالرحمن صاحب، پروفیسر عبدالحمید صاحب، خواجہ غلام نبی صاحب، حاجی شمس الدین صاحب، میاں عبدالعزیز صاحب بیرسٹر، مولوی عبدالعزیز منہاس وکیل گوجرانوالہ، آغا محمد صفدر صاحب، حافظ حسین بخش صاحب، میاں شہاب الدین صاحب، ملک غلام محی الدین صاحب (گوجرانوالہ) ڈاکٹر غلام جیلانی صاحب شمس الاطبا اور سیّد محسن شاہ صاحب وکیل۔ غالباً اس امر میں قارئین کرام بھی ہم سے متفق ہوں گے کہ ان میں اکثر حضرات جماعت پسندی کے اغراض اور ذاتی مفاد کے خیال کی آلایش سے قطعاً مبرا ہیں۔ کوئی ایمان دار شخص ایک لمحے کے لیے بھی اپنے دماغ میں یہ خیال نہیں لاسکتا کہ علامہ اقبال، نواب ذوالفقار علی خاں، حاجی شمس الدین، خلیفہ شجاع الدین، مولوی احمد دین، میاں عبدالعزیز اور بعض دیگر معزز حضرات انجمن کے بدخواہ ہیں یا محض ذاتی جاہ و رفعت کی غرض سے خدا وندان انجمن کے خلاف آواز بلند کررہے ہیں۔ ان میں سے بعض حضرات تو اس زمانے سے انجمن کی خدمت کررہے ہیں جب جناب شیخ عبدالعزیز صاحب، مولوی غلام محی الدین صاحب اور ان کے حمایتی ابھی ابتدائی مدارس میں تعلیم پارہے ہوں گے۔ ان لوگوں کی بیزاری سے ہر شخص یہی نتیجہ نکالنے پر مجبور ہے کہ انجمن کی جنرل کونسل میں اکثریت کا استبداد یقینا برداشت کی حد سے باہر ہوچکا ہے۔ اب دیکھنا یہ چاہیے کہ ان حضرات کو انجمن کی موجودہ جنرل کونسل کے طرز عمل کے متعلق کیا شکایات ہیں۔ ہمارے نزدیک انھوں نے اس استعفے میں انتہائی وضاحت سے کام لیا ہے لہٰذا ہم صرف اس استعفے کے بعض فقرات نقل کردینا ہی کافی سمجھتے ہیں، ان پر مزید تبصرے کی حاجت نہیں۔ مستعفی حضرات کا بیان ہے: ان افسوس ناک حالات میں جو ایک عرصے سے رونما ہورہے ہیں، اب انجمن سے اپنی نسبت اور تعلق کو قائم رکھنا باعث ثواب اور موجب اجر نہیں رہا۔ وہ افسوس ناک حالات کیا ہیں؟ انجمن کے حقیقی مفاد کا لحاظ نہ رکھتے ہوئے کونسل میں سخت بے قاعدگیوں اور ناجائز وسائل سے ایک ایسا جتھا قائم ہوگیا ہے جو اپنی قوت اور طاقت کے بل پر تحکمانہ رویہ سے جو چاہتا ہے کرتا ہے اور کسی دوسرے رکن کے اعتراضات اور مشوروں کی بابت جو عین انجمن کی بہتری اور اس کے مفاد کے لیے پیش کیے جاتے ہیں، توجہ اور التفات کرنا اپنی شان حکومت کے خلاف سمجھتا ہے۔ وہ جتھا کن لوگوں پر مشتمل ہے؟ اگر اس جتھے کے اجزاے ترکیبی کی تحلیل کی جائے تو اس کل کے پرزے مسلم و مجوزہ رشتہ داریوں اور دیگر پرائیویٹ اور گہرے تعلقات کی وجہ سے ایک دوسرے سے اس قدر وابستہ ہیں کہ اپنے محور کے گرد اضطرار اور گردش کررہے ہیں اور اپنے وظیفے کے ادا کرنے میں سرمو کوتاہی نہیں کرتے۔ اگر یہ تمام باتیں درست ہیں اور یقینا درست ہیں کیونکہ یہ تمام محترم اور مقتدر حضرات جھوٹ پر جمع نہیں ہوسکتے تو مسلمانوں کو چاہیے کہ جہاں تک جلد ہوسکے، ان حالات کا خاتمہ کردیں اور اس مفید اور فیض رساں انجمن کو تباہی سے بچالیں جو پنجاب کے مسلمانوں کے لیے روشنی کے مینار کی حیثیت رکھتی ہے۔ ہم نے بعض معتبر ذرائع سے سنا ہے کہ جنرل کونسل میں بعض ایسے معزز ارکان بھی موجود ہیں جو فی الحقیقت ان تمام شکایات کے مؤید ہیں لیکن انھوں نے بعض وجوہ سے استعفا دینا مناسب نہیں سمجھا۔ ہمیں معلوم ہے کہ خان بہادر شیخ عبدالقادر صاحب، خاں بہادر شیخ انعام علی صاحب اور خاں بہادر شیخ امیر علی صاحب جیسے بزرگوں کو بھی اکثر اوقات اکثریت کے سامنے باکراہ سر تسلیم خم کرنا پڑا ہے چنانچہ وہ بھی اس صورت حالات کو دل سے پسند نہیں کرتے اور اصلاح کے متمنی ہیں۔ ہم خاں صاحب شیخ عبدالعزیز اور مولوی غلام محی الدین خاں سے علی الاعلان یہ دریافت کرنا چاہتے ہیں کہ آپ حضرات کے پاس ان الزامات کا کیا جواب ہے؟ آیا یہ حقیقت ہے کہ جنرل کونسل میں بعض ایسے اشخاص بھی داخل کیے جاچکے ہیں جن میں اس کے سوا کوئی قابلیت نہیں کہ وہ آپ حضرات کے رشتہ دار یا احباب ہیں؟ کیا آپ مسلمانوں کو یہ بتاسکتے ہیں کہ مستعفی حضرات نے آج تک جنرل کونسل میں جتنی تجاویز پیش کیں یا جتنے مشورے دیے ان میں کتنی تجاویز اور کتنے مشوروں کو آپ کی جماعت نے شرف قبول بخشا؟ کیا ان حضرات کے احتجاج کی کوئی اصل بھی ہے یا فی الحقیقت آپ کی شخصیتیں بالکل بے عیب ہیں اور یہ سب حضرات پرلے درجے کی ضلالت فکر میں مبتلا ہیں؟ ہمارے نزدیک اب ضرورت اس بات کی ہے کہ انجمن میں اس ناپسندیدہ اکثریت کے اقتدار کو توڑ دیا جائے اور ایک ایسا نظام تیار کیا جائے جس کے ماتحت ہر جماعت اور ہر خیال کے اشخاص کو انجمن کی خدمت کا موقع مل سکے۔ فلاح قوم اور رفاہ عامہ کے کام بھی ’’پارٹی سسٹم‘‘ پر نہیں چل سکتے اور بدقسمتی سے انجمن کی جنرل کونسل کا نظام آئینی ایسا واقع ہوا ہے کہ اس میں چالاک اشخاص نہایت آسانی سے اپنے حامیوں کی تعداد بڑھا سکتے ہیں اور پھر انجمن انھی کی ذاتی جائداد بن کر رہ جاتی ہے۔ یہ صورت حالات نہایت خطرناک ہے اور اگر لاہور کے مسلمانوں نے اپنی زندگی کا ثبوت نہ دیا تو اندیشہ ہے کہ ان کی سب سے بڑی انجمن مٹی کے گھروندے کی طرح خاک میں مل جائے گی اور وہ مدت العمر اس نقصان کی تلافی نہ کرسکیں گے۔ پنج شنبہ ۲۰؍رجب المرجب ۱۳۴۴ھ، ۴؍فروری۱۹۲۶ئ، ۱۳/۲۶،ص۲۔ انجمن حمایت اسلام اور ترکِ موالات۱؎ تحریک خلافت کے دوران مولانا محمد علی، مولانا شوکت علی اور دیگر حضرات ترک موالات کی تحریک کو پھیلانے کے لیے لاہور آئے۔ علی برادران کے ایما پر انجمن حمایت اسلام کی مجلسِ عامہ کا ایک اجلاس ۱۴؍نومبر ۱۹۲۰ء کو زیرصدارت نواب سر ذوالفقار علی خاں منعقد ہوا۔ اس اجلاس میں مجلسِ عامہ کے ۵۱؍ ارکان نے شرکت کی۔ ڈاکٹر اقبال آنریری سکرٹری۲؎ نے اپنی افتتاحی تقریر میں فرمایا: مسٹر محمد علی، مسٹر شوکت علی، مولانا ابوالکلام آزاد اور دوسرے اصحاب (تحریک ترک موالات کو پھیلانے اور ترقی دینے کی غرض سے) لاہور۳؎ آئے ہوئے ہیں۔ ان کے خیالات سننے کے لیے ارکان انجمن کے دو جلسے ہوچکے ہیں۔ اسلامیہ کالج میں جو جلسہ ہوا تھا اس میں مجلسِ عامہ کے ۲۱؍ارکان شریک تھے جن میں سے ۱۹؍ارکان نے انجمن کے غور و فکر کے لیے ذیل کی دو تجاویز باقاعدہ پیش کیں:۴؎ ۱- اسلامیہ کالج اور سکولوں کے لیے حکومت سے جو سالانہ عطیات اور امدادی رقوم لی جاتی ہیں انھیں ترک کردیا جائے۔ ۲- اگر اسلامیہ کالج کے طلبہ کی اکثریت موجودہ نظامِ تعلیم پر عدم اطمینان کا اظہار کرے تو کالج کا رشتہ الحاق پنجاب یونی ورسٹی سے منقطع کرلیا جائے… حامیان ترک موالات نے [حکومت کی مالی امداد کے بجائے] انجمن کو سالانہ گیارہ ہزار روپے کی رقم دینے کا وعدہ کیا ہے نیز۵؎ متعدد خطوط موصول ہوئے ہیں جن میں اسلامیہ کالج کو یونی ورسٹی سے علیحدہ۶؎ کرلینے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ اس کے بعد علامہ اقبال نے ان مذہبی فتووں کا ذکر کیا جو زیر بحث موضوع کے متعلق شائع ہوچکے تھے۔ اپنی راے دیتے ہوئے آپ نے فرمایا: ’’اس مسئلے پر مذہبی زاویہ نگاہ سے غور کیا جائے اور میرا یہ عقیدہ ہے۷؎ کہ انجمن الحاق اور حکومت سے امداد لینے کے مسائل کا فیصلہ مذہبی علما۸؎ سے مشورہ لیے بغیر اور دینی احکام۹؎ معلوم کیے بغیر نہیں کرسکتی۔‘‘۱۰؎ جمعہ۲۷؍ذی الحجہ ۱۳۴۴ھ، ۹؍جولائی ۱۹۲۶ئ،۱۳/۱۴۹، ص۲۔ گفتارِ اقبال، ص۲۸۷ انجمن حمایت اسلام اور ترکِ موالات گذشتہ تاریخ کا ایک ورق خاموشی ماگشت بدآموز بتاں را ورنہ اثرے بود، ازیں پیش فغاں را ہم انجمن حمایت اسلام کے اندرونی تنازعے سے اب تک علیحدہ رہے ہیں اور ۲۳؍ارکان کے استعفے کے سوا آج تک اس مسئلے پر کچھ نہیں لکھا۔ اس کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ بعض دوسرے اہم تر مسائل نے ہمیں ہر سمت سے آنکھیں بند کرلینے پر مجبور کردیا تھا۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ ہمیں مختلف ذرائع سے حالات معلوم کرکے یہ توقع پیدا ہوگئی تھی کہ شاید تنازعہ خود بخود رفع ہوجائے لیکن افسوس کہ ہماری یہ توقع بالکل ناکام ثابت ہوئی اور آج حالات پہلے سے نازک تر نظر آتے ہیں۔ چند روز ہوئے ہم نے فیصلہ کیا تھا کہ اب اس مسئلے پر تفصیلی بحث کا سلسلہ شروع کردیں اور اس بے تعلقی و علیحدگی سے کنارہ کش ہوجائیں جو حالات موجودہ انجمن اور اس کے پیش نظر کام دونوں کے لیے نقصان رساں اور خطرناک ہے۔ ہم ابھی تحقیق و ترتیب حالات ہی کی فکر میں تھے کہ انجمن کے موجودہ آنریری سکریٹری خاں صاحب شیخ عبدالعزیز کی طرف سے چند انگریزی مکاتیب کا ایک مرقع حمایت اسلام کی ایک قریبی اشاعت میں چھپا۔ اگرچہ اصل تنازعے کے متعلق ہم مفصل بحث کے لیے ابھی تیار نہ تھے لیکن محولہ بالا مکاتیب میں ایک مکتوب ایسا ہے جس کا عام انداز، عام اُسلوب اور نفس مضمون ان اُصول پر کھلے ہوئے حملے کی حیثیت رکھتا ہے جن پر ہماری قومی و ملّی تحریک کی بنیاد قائم تھی اس لیے ہم مجبور ہوگئے ہیں کہ اس مکتوب کے مضمون کی نسبت اپنے خیالات ظاہر کردیں اور اصل تنازعے کے متعلق مفصل مضامین کا سلسلہ کسی دوسری صحبت میں قارئین کرام کے سامنے پیش کریں۔ اس مکتوب کے آغاز میں خان صاحب شیخ عبدالعزیز بیان فرماتے ہیں کہ حاجی شمس الدین اور ان کے رفقا کو عام طور پر یہ اعزاز دیا جاتا ہے کہ انھوں نے انجمن کو تحریک ترکِ موالات کے تباہی خیز اثرات سے بچایا لیکن واقعات و حقایق اس دعوے کے خلاف ہیں اور حقیقت حال یہ ظاہر ہوتی ہے کہ حاجی شمس الدین اُصول ترک موالات کے موید تھے اور ان اُصول کو انجمن کے تعلیمی اداروں میں نافذ فرمانا چاہتے تھے۔ سب سے پہلے ہم خاں صاحب شیخ صاحب سے پوچھنا چاہتے ہیں کہ اگر حاجی صاحب واقعی اُصول ترکِ موالات کے موید تھے تو کیا قومی اور مذہبی زاویہ نگاہ سے یہ طریق عمل ان کے لیے باعث اعزاز ہے یا موجب تنقیص؟ کیا مذہبی بے حسی کی اس سے بدتر بھی کوئی صورت ہوسکتی ہے کہ آج جبکہ تحریک ترکِ موالات بہ ظاہر ناکام نظر آتی ہے اور اس تحریک کے مخالفین کے لیے فضا زیادہ ساز گار معلوم ہوتی ہے، ان لوگوں کو حمایت ترکِ موالات کی بنا پر الزام دیا جائے جنھوں نے قوم و مذہب کے ایک الم انگیز و زہرہ شگاف دور مصائب میں اپنے فرائض کا صحیح صحیح احساس فرمایا، ادنیٰ درجے کے دینوی اعزازات کو درخور اعتنا نہ سمجھا۔ خاں صاحب شیخ صاحب کا سیاسی مسلک (اگر اسے مسلک کے لفظ سے تعبیر کرنا موزوں سمجھا جائے) ہر شخص پر اچھی طرح واضح ہے اور کسی کو بھی یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ ان کی سرگرمیوں کی پرکار کس مرکز پر گھومتی ہے، نہ آغاز ترکِ موالات کے واقعات کو یہاں دہرانے کی ضرورت ہے لیکن کیا یہ طریق عمل کسی بلندپایہ فرد کے نزدیک بھی مستحسن قرار پاسکتا ہے کہ راے عامہ نے جن لوگوں سے سچے مذہبی جوش، سچی اور دینی غیرت و حمیت کے ولولہ انگیز دور میں مفاد قومی اور ملی کے دُشمن سمجھ کر منہ پھیرلیا تھا وہ آج گردوپیش کے حالات و نمایشی مساعدت سے فائدہ اُٹھا کر ان لوگوں پر یہ کَہ کر زبان طعن دراز کریں کہ ان کے دل دینی غیرت و حمیت سے مفارقت اختیار کرنے پر رضا مند نہ تھے؟ ترک موالات ایک نہتی اور بے دست وپا آبادی کا جنگی حربہ تھا جسے اس نے دہشت ناک مصائب کے ایک نازک دور میں ان طاقتوں کے خلاف استعمال کرنے کی کوشش کی جو اس آبادی کی تباہیوں اور دل دوزیوں کا موجب بنی تھیں۔ آج اگر وہ حربہ غیر مؤثر ہوگیا ہے تو مخالفین کے لیے اس پر خوش ہونا کسی طرح بھی قرین دانش مندی نہیں۔ ترک موالات کے [جو] مقاصد تھے ان کا ایک حصّہ پورا ہوگیا۔ یہ حقیقت سے ثابت ہے کہ اگر ہندوستان کے مسلمانوں کا بہت بڑا حصّہ ۱۹۲۰ء میں ایک ہنگامہ خیز قومی تحریک شروع نہ کرتا تو نہ ترکی کو اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کی مہلت دی جاتی نہ حجاز کی شریعتی حکومت کو مردود قرار دیا جاتا نہ اس خطبہ مبارکہ کی تطہیر کے سامان ہوتے اور نہ دوسری اسلامی حکومتوں کی آزادی و استقلال میں مداخلت سے احتراز کیا جاتا۔ یہ صحیح ہے کہ بعض ناگوار حوادث کی بنا پر تحریکِ موالات کے تمام مقاصد پورے نہ ہوسکے لیکن اگریہ بھی مان لیا جائے کہ یہ تحریک بالکل ناکام رہی تو اس صورت میں بھی اس پر اعتراض نہیں ہوسکتا اس لیے کہ وہ ایک جنگ تھی۔ جو صریح قرآنی احکام کی تعمیل میں شروع کی گئی تھی اور اس کے غیر امید افزا نتائج اس کے مقاصد و آغاز کی برائی کی دلیل نہیں بن سکتے۔ ہم تو خان صاحب شیخ عبدالعزیز کی مخالفت سے صرف اس لیے علیحدہ ہوئے تھے کہ ان کے ذاتی خیالات خواہ کچھ ہوں لیکن اگر ان کا وجود کسی نہ کسی حیثیت میں مسلمانوں کی ایک تعلیمی انجمن کے لیے مفید ثابت ہوسکتا ہے تو اسی سے فائدہ اُٹھایا جائے۔ کیا ہماری خاموشی یا قوم کی خاموشی سے انھیں یہ جرأت ہوگئی ہے کہ اس تحریک ترکِ موالات پر زبان طعن دراز کریں جس کی مؤثریت کی مہر تاحیات ان کی پیشانی سے مٹ نہیں سکتی خواہ وہ دس مرتبہ انجمن کے سکریٹری رہیں؟ یہ تو حاجی شمس الدین اور ان کے رفقا پر جزیہ تحریک ترکِ موالات کے ’’الزام‘‘ کی حیثیت ہے لیکن یہاں ہم یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ جن ’’واقعات و حقایق‘‘ کی بنا پر خاں صاحب شیخ عبدالعزیز نے حاجی شمس الدین اور ان کے رفقا پر یہ ’’الزام‘‘ عائد کیا ہے وہ کیا ظاہر کرتے ہیں۔ خاں صاحب شیخ صاحب نے اپنے دعوے کی تائید میں انجمن کی مجلسِ عامہ (جنرل کونسل) کی ایک کارروائی پیش کی ہے جس کا مفاد یہ ہے ۱۴؍نومبر ۱۹۲۰ء کو (علی برادران کے ایما پر) مجلسِ عامہ کا ایک اجلاس نواب سر ذوالفقار علی خاں کی صدارت میں منعقد ہوا۔ اس اجلاس میں مجلسِ عامہ کے ۵۱؍ ارکان شریک تھے۔ ڈاکٹر محمد اقبال آنریری سکریٹری نے افتتاحی تقریر میں یہ واضح کیا کہ: مسٹر محمد علی، مسٹر شوکت علی، مولانا ابوالکلام آزاد اور دوسرے اصحاب (تحریک ترک موالات کو پھیلانے اور ترقی دینے کی غرض سے) لاہور آئے ہوئے ہیں۔ ان کے خیالات سننے کے لیے ارکان انجمن کے دو جلسے ہوچکے ہیں۔ اسلامیہ کالج میں جو جلسہ ہوا تھا اس میں مجلسِ عامہ کے ۲۱؍ ارکان شریک تھے جن میں سے ۱۹؍ارکان نے انجمن کے غور و فکر کے لیے ذیل کی دو تجاویز پیش کیں: ۱- اسلامیہ کالج اور سکولوں کے لیے حکومت سے جو سالانہ عطیات اور امدادی رقوم لی جاتی ہیں انھیں ترک کردیا جائے۔ ۲- اگر اسلامیہ کالج کے طلبہ کی اکثریت موجودہ نظام تعلیم پر عدم اطمینان کا اظہار کرے تو کالج کا رشتہ الحاق پنجاب یونی ورسٹی سے منقطع کرلیا جائے۔ سکریٹری نے اس کے بعد یہ بیان کیا کہ حامیان ترک موالات نے (حکومت کی مالی امداد کے بجائے) انجمن کو سالانہ گیارہ ہزار روپے کی رقم دینے کا وعدہ کیا ہے نیز متعدد خطوط موصول ہوئے ہیں جن میں اسلامیہ کالج کو یونی ورسٹی سے علیحدہ کرلینے کا مطالبہ کیا گیا ہے صورت حالات کی اس صراحت کے بعد آنریری سیکریٹری صاحب یعنی علامہ اقبال نے ان مذہبی فتووں کا ذکر کیا جو زیربحث موضوع کی نسبت شائع ہوچکے تھے اور اپنی راے یہ پیش کی کہ اس مسئلے پر مذہبی زاویہ نگاہ سے غور کیا جائے اور میرا یہ عقیدہ ہے کہ انجمن الحاق اور حکومت سے امداد لینے کے مسائل کا فیصلہ مذہبی علما سے مشورہ لیے بغیر اور دینی احکام معلوم کیے بغیر نہیں کرسکتی۔ ان واقعات سے محض یہ ثابت ہوتا ہے کہ علامہ اقبال نے تمام حالات پر تبصرہ کرنے کے بعد اس بات پر زور دیا تھا کہ انجمن زیربحث مسائل کے متعلق مذہبی احکام معلوم کرے اور ان کے مطابق عمل پیرا ہوجائے اور ہمیں معلوم ہے کہ اس زمانے میں علامہ ممدوح نے زمیندار میں ایک مضمون شائع کرایا تھا جس میں علمائے کرام کو ایک مقام پر جمع کرنے اور ان سے فتوے لینے کے اُصول اور طریقوں کی وضاحت کی گئی تھی۔ لیکن علامہ ممدوح کی اس تجویز کا جو حشر ہوا وہ خاں صاحب شیخ عبدالعزیز ہی کے الفاظ میں سن لیجیے۔ خان بہادر شیخ عبدالقادر، خان بہادر شیخ غلام صادق اور خان احمد حسین خاں نے سکریٹری صاحب کے خیالات کی مخالفت کی اور یہ فرمایا کہ اسلامیہ کالج کے الحاق کا مسئلہ مذہبی احکام سے بالکل علیحدہ ہوکر طے کرنا چاہیے۔ سبحان اللہ انجمن حمایت اسلام کے ارباب حل و عقد حمایت و حمیّت اسلام کا اس سے بہتر ثبوت اور کیا دے سکتے تھے۔ جو انجمن وجود پذیر ہی صرف اس لیے ہوئی تھی کہ نونہالان اسلامی کو دنیوی تعلیم کے ساتھ ساتھ دینی حیثیت سے بھی سچے مسلمان بنائے اس انجمن کے کارکنوں کی نظروں میں اپنے فرائض کی بجاآوری کا اس سے بہتر طریقہ اور کیا ہوسکتا تھا؟ سوال یہ نہیں کہ تحریک ترک موالات اچھی تھی یا بُری، صحیح اُصول پر قائم تھی یا غلط اُصول پر، الحاق کالج کے لیے مفید تھا یا غیر مفید۔ غور طلب وہ موجب ننگ زاویہ نگاہ تھے جس کی بنا پر مذہبی احکام کو پس پشت ڈالنا اور ان سے چشم پوشی کیے رکھنا ضروری قرار دیا گیا اور یہ سب کچھ ان مسلمانوں نے کیا جنھیں قوم نے انجمن حمایت اسلام کی متاع عزیز سونپی تھی۔ اس کے بعد کیا ہوا؟ خان صاحب شیخ عبدالعزیز فرماتے ہیں کہ: خان بہادر میاں فضل حسین نے یہ تجویز پیش کی کہ اسلامیہ کالج و سکول بدستور پنجاب یونی ورسٹی سے ملحق رہیں۔ اس پر کافی بحث ہوئی۔ انجام کار میاں صاحب کی تجویز اکثریت نے منظور کرلی۔ (۳۶ ؍ارکان نے اس کے حق میں راے دی اور ۱۵؍ ارکان نے رائیں دینے میں حصّہ لینے سے ہی انکار کردیا) جو ارکان اس تجویز کی تائید سے علیحدہ رہے وہ یا تو اس کے خلاف تھے یا یہ چاہتے تھے کہ جب تک انجمن حکومت سے مالی امداد حاصل کرنے کے جواز کی نسبت فتویٰ نہ لے لے اس وقت تک آخری فیصلے کو ملتوی رکھا جائے۔ انجمن کے دونوں سکرٹری صاحبان یعنی حاجی شمس الدین اور ڈاکٹر محمد اقبال اقلیت کے ساتھ تھے اور انجمن کی کارروائی میں ان کے نام اقلیت کی فہرست میں خاص طور پر نمایاں ہیں۔ یہ ہے حقایق و واقعات کا وہ مرقع جس کی بنا پر خاں صاحب شیخ عبدالعزیز نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ حاجی شمس الدین صاحب اور علامہ سر اقبال تحریک ترک موالات کے حامی تھے۔ ہمارے نزدیک ان دونوں بزرگوں کے لیے یہ امر باعث صدشرف ہے اس لیے کہ تحریک ترک موالات صریح قرآنی احکام پر مبنی تھی اور ایک مسلمان کے لیے قرآنی احکام کی تعمیل سے بڑھ کر عزت و شرف کا اور کیا مقام ہوسکتا ہے؟ لیکن جن واقعات و حقایق پر خاں صاحب شیخ عبدالعزیز نے اپنے دعوے کی بنیاد رکھی ہے وہ صاحب موصوف کے اس دعوے کے موید نہیں ہیں۔ حاجی شمس الدین کے خیالات کی نسبت محولا بالا اقتباسات سے کچھ ظاہر نہیں ہوتا لیکن علامہ اقبال کا زاویہ نگاہ بالکل واضح ہے یعنی علامہ ممدوح قطعاً یہ نہیں کہتے تھے کہ ترک موالات کا جو دستور العمل مولانا محمد علی، مولانا شوکت علی، حضرت مولانا ابوالکلام آزاد یا دوسرے اصحاب نے پیش فرمایا اسے اس صورت میں منظور کرلیا جائے بلکہ وہ یہ کہتے تھے کہ علمائے کرام کے ایک جامع اجتماع میں الحاق اور حکومت سے امداد کے مسائل کا فیصلہ کرایا جائے۔ وہ اجتماع جو فتویٰ دے اس پر عمل کیا جائے شاید علامہ ممدوح کو یہ طریق عمل پیش کرنے کی ضرورت اسی وجہ سے محسوس ہوئی کہ مختلف فتوے ایک دوسرے کے خلاف تھے اور اصل مسائل پر کسی فتوے میں کوئی جامع بحث موجود نہ تھی۔ چنانچہ علامہ ممدوح نے اپنی تجویز میں شیخ الہند حضرت مولانا محمود الحسن مرحوم کے فتوے سے لے کر مولوی حاکم علی صاحب کے فتوے میں سب کا ذکر فرمایا اور خاں صاحب شیخ عبدالعزیز کے پیش کردہ ’’واقعات و حقایق‘‘ میں یہ ذکر موجود ہے۔ اگر خان صاحب شیخ عبدالعزیز کے نزدیک ترک موالات کی حمایت گناہ تھی تو کیا علمائے کرام کی ایک نمایندہ جماعت سے متنازعہ فیہ مسائل کے متعلق فتویٰ طلب کرنا یا الحاق اور حکومت سے امداد لینے کے متعلق مذہبی احکام معلوم کرنا بھی گناہ ہے کہ اس کا ذکر معترضانہ حیثیت میں فرمارہے ہیں۔ آخر میں خاں صاحب شیخ صاحب ایک درجن سے زائد خاں بہادروں اور خطاب یافتہ آدمیوں اور نصف درجن کے قریب ساعیان راہ حکومت کے نام پیش کرتے ہیں جو ان کے قول کے مطابق ایک نازک وقت میں انجمن کو بچانے کے لیے آگے بڑھے۔ اس بچاؤ کی صورت کیا تھی؟ خاں صاحب شیخ عبدالعزیز خود فرماچکے ہیں کہ اس کا سب سے نمایاں اور ممتاز پہلو یہ تھا کہ الحاق قائم رکھنے اور حکومت سے امداد لینے کے مسائل کے متعلق مذہبی احکام کا ذکر تک بھی درمیان میں نہیں آنا چاہیے۔ کیا یہ سمجھیں کہ آج جو جماعت انجمن میں برسراقتدار ہے وہ اسی زاویہ نگاہ کی پابند ہے؟ کیا یہی زاویہ نگاہ ہے جس نے آج کل کالج کی مذہبی حیثیت فنا کررکھی ہے اور ناٹکوں کے تماشے کرنے اور سوانگ بھرنے کو کالج کی ترقی کا سب سے بڑا زینہ سمجھا جاتا ہے؟ ہم اس بات کو اچھا نہیں سمجھتے کہ مسلمانوں میں خواہ مخواہ رد و کد کا سلسلہ شروع ہو۔ یہی وجہ تھی کہ ہم نے خاں صاحب شیخ عبدالعزیز کے مسلک کے آدمیوں کا دوبارہ انجمن میں آنا اور ارباب دل و عقد میں داخل ہوجانا بھی گوارا کرلیا اور یہی کوشش کی کہ ہر شخص کی خدمات سے فائدہ اُٹھایا جائے لیکن ہم اس امر کو برداشت نہیں کرسکتے کہ حمایت اسلام کے پردے میں مذہبی احکام سے تنفر کی تحریکیں پیش ہوں اور ان پر فخر کیا جائے اور اس بات کو بھی برداشت نہیں کرسکتے کہ انجمن چند اشخاص یا ان کی مخصوص حکومت پرستانہ معتقدات و اغراض کی تکمیل کا ذریعہ بنی رہے۔ کیا ہم امید کرسکتے ہیں کارپردازان انجمن اپنی آنکھیں کھولیں گے اور اپنی اصلاح کی طرف متوجہ ہوں گے؟ ترک موالات نہ کرو لیکن مذہبی احکام کا مضحکہ بھی تو نہ اُڑاؤ۔ تمھارے سامنے ڈی اے وی کالج کی مثال موجود ہے بہ درجہ اقل اس مثال کی پیروی تو کرو اور حمایت اسلام کے نامِ بلند کو اپنی خواہشات اور اپنی اغراض پر تو بھینٹ نہ چڑھاؤ۔ جمعہ۲۷؍ذی الحجہ ۱۳۴۴ھ، ۹؍جولائی ۱۹۲۶ئ،۱۳/۱۴۹، ص۲۔ انجمن حمایت اسلام اور ترک موالات حمایت اسلام کی بوکھلاہٹ تیری رسوائی کے خوں شہدا درپے ہو دامن یار خدا ڈھانپ لے پردہ تیرا ۹؍جولائی کے زمیندار میں ہم نے انجمن حمایت اسلام کے خاں صاحب شیخ عبدالعزیز صاحب کے ایک مکتوب کی بنا پر ایک افتتاحیہ لکھا تھا جس میں مندرجہ ذیل اُمور سے بحث کی گئی تھی۔ تحریک ترک موالات کے خلاف زبان طعن دراز کرنا جذبہ اسلام کی کھلی ہوئی توہین ہے اس لیے کہ (۱) وہ تحریک صریح قرآنی احکام کی بنا پر شروع کی گئی تھی اور کوئی مسلمان اس وقت اس تحریک کے خلاف لب کشا نہیں ہوسکتا جب تک کہ اس کا دل ایمان کے نور سے کلیتہً محروم ہوجائے۔ (۲) خان صاحب شیخ صاحب نے واقعات و حقایق کو غلط صورت میں پیش کرکے یہ ثابت کرنے کی ناکام کوشش کی کہ الحاق اور حکومت سے امداد کے معاملات میں علامہ اقبال اور حاجی شمس الدین صاحب جمعیۃ خلافت کے اختیار کردہ ملک کے حرفاً حرفاً موید تھے۔ حالانکہ جو کچھ اس امر کے اثرات میں پیش کیا گیا تھا وہ سارے کا سارا اس دعوے کی مخالفت و تردید کا ثبوت تھا۔ کم از کم علامہ اقبال کی نسبت قطعی طور پر ثابت ہے کہ انھوں نے انجمن کی مجلس عمومی کے ارکان کے روبرو تمام مطالبات پیش فرمائے، مختلف فتوؤں کا بھی ذکر کردیا اور اپنی راے یہ ظاہر کی کہ فیصلہ مذہبی احکام کی بنا پر ہونا چاہیے اور اس کی بہتر صورت یہ ہے کہ مختلف علما کو ایک مقام پر جمع کرکے خالصۃً متنازعہ اُمور کے متعلق باقاعدہ استفسار کیا جائے، وہ جو فتویٰ دیں اس پر عمل کیا جائے۔ (۴) ہم نے مذہبی احکام کو پس پشت ڈالنے والوں کو موجب صدننگ زاویہ نگاہ کا ماتم کیا۔ اس زاویہ نگاہ کو بطور تفاخر دنیا کے سامنے پیش کرنے والوں کی مذہبی بے حسی پر افسوس کیا اور ارکان انجمن سے استدعا کی کہ اپنی حالت درست کریں اور حمایت اسلام کے پردے میں مذہب سے بُعد و تنفر پیدا کرنے کا ناشایسۃمسلک چھوڑ دیں۔ انجمن کے نوزائیدہ ہفتہ وار اخبار حمایت اسلام نے اپنی ۱۷؍جولائی کی اشاعت میں ہمارے اس افتتاحیہ پر تبصرہ شائع کیا ہے لیکن یا تو اصل مباحث کو بالکل مسخ کردیا ہے یا ہمارے دلائل و الفاظ کو محرق صورت میں اپنے قارئین تک پہنچایا ہے یا سرے سے غیر متعلق مباحث چھیڑدیے ہیں۔ اس افسوس ناک شیوہ کو مدنظر رکھتے ہوئے تو یہ خیال ہوتا کہ شاید حمایت اسلام پنجاب کے بدنام ترین اخبار حق کا نقش ثانی یا نصف بہتر ہے اور اس خیال کی صحت کا سب سے بڑا قرینہ یہ ہے کہ جس نقاش نے حق کے نام پر باطل کی سیاہی چمکائی تھی اسی نقاش کا دماغ حمایت اسلام کی ممسوخ اُلفطرت ہستی کا مطلع ہے۔ حمایت اسلام نے سب سے پہلے خاں صاحب شیخ صاحب کے مکتوب کے بقول اس کے ’’شان نزول‘‘ یا بہ اصطلاح فلسفہ ’’ علت معقولی‘‘ یہ بیان کی ہے کہ ڈاکٹر خلیفہ شجاع الدین صاحب نے حاجی شمس الدین اور ان کے رفقا کو یہ اعزاز دینے کی کوشش کی تھی کہ ان لوگوں نے انجمن اور کالج کو تحریک ترک موالات کے تباہی خیز اثرات سے بچایا۔ خاں صاحب شیخ صاحب کو ’’حقایق و واقعات‘‘ کی بنا پر معلوم تھا کہ کالج اور انجمن کو بچانے کا یہ سہرا ان لوگوں کے سر ہے جن میں سے اکثر کے ناموں کے پہلے ’’خان بہادری‘‘ کے دم چھلے لگے ہوئے ہیں۔ خاں صاحب شیخ صاحب ناحق والے خاں صاحب شیخ صاحب حکومت کے شعبہ مطابع میں بیٹھ کر اخبارات کے کارکنوں کو حکومت کے دام تعزیر میں پھنسانے والے خاں صاحب شیخ صاحب جن کی ساری عمر حق (آپ اس کی عمومیت کو لادینی سے مخصوص کرسکتے ہیں) کی حمایت میں گزری اور جو آج کل اسلام کی ’’حمایت‘‘ فرمارہے ہیں، کس طرح یہ برداشت کرسکتے تھے کہ کم و بیش ایک درجن خان بہادروں اور نصف درجن ساعیاں راہ حکومت کا یہ ’’حق امتیاز‘‘ بیٹھے بٹھائے فریب حاجی شمس الدین اور ان کے رفقا چھین لیں۔ چنانچہ وہ اُٹھے اور نظامت شعبہ مطابع کی بلندیوں سے جنھیں شملہ کی بلندیوں سے نسبت اختصاص حاصل ہے ’’نزول‘‘ فرماکر زیر بحث مکتوب کی ترتیب میں مصروف ہوگئے تاکہ یہ ’’طرۂ امتیاز‘‘ حاجی صاحب کی فقیرانہ کلاہ کے لیے موجب افتخار نہ رہے۔ حمایت اسلام لکھتا ہے۔ اس مضمون میں لفظ تحریک پر بالکل بحث نہیں کی گئی نہ اس بات کو زیر بحث لایا گیا ہے کہ حاجی صاحب کا طرز عمل مذہبی نقطہ نگاہ سے باعث اعزاز تھا یا موجب تنقیص؟ ہمیں اس سے بحث نہیں کہ مکتوب میں نقد و نظر کا دائرہ کیسا مقرر کیا گیا تھا البتہ مکتوب کا عام انداز اور اُسلوب و نہج یہی ظاہر کرتا تھا کہ اس میں دوسرے مقاصد کے علاوہ ایک تحریک ترک موالات کی مخالفت بھی ہے۔ کوئی دوسرا شخص ہوتا تو بہت ممکن تھا کہ ہم مکتوب کے عام انداز و اُسلوب کو نظر انداز کرکے اس کا دامن اس قسم کی تکویت سے پاک سمجھ لیتے لیکن کیا خاں صاحب شیخ صاحب شعبہ مطابع والے خاں صاحب شیخ صاحب کی نسبت یہ مان لیں کہ زیر بحث مکتوب کے لیے قلم کو حرکت دیتے وقت ان کا دل اس تحریک کی مخالفت و معاندت کے کلیتہً ننگ اسلام جذبات سے پاک تھا جس کی موثریت کی مہرتاحیات ان کی پیشانی سے مٹ نہیں سکتی، خواہ وہ دس مرتبہ انجمن کے سکرٹری نہیں کیا حق کے نقش ثانی حمایت اسلام کو یہ جرأت ہوئی ہے کہ ہمیں طلوع آفتاب کے لیے مشرق کے بجائے مغرب کی طرف نظریں جمانے کی دعوت دے؟ ہمیں معلوم نہیں کہ انجمن کو ترک موالات کے ’’تباہی خیز اثرات‘‘ سے بچانے کا طرہ امتیاز حاجی کی کلاہ افتخار میں ٹانکنے والوں کا زاویہ نگاہ کیا ہے تاہم اتنا ظاہر کردینا ضروری سمجھتے ہیں کہ اگر ان کے خیالات بھی اس باب میں خاں صاحب شیخ صاحب کے خیالات سے خواجہ تاشی کی نسبت رکھتے ہیں تو ان سے بھی اسی طرح باز پرس کی جائے گی جس طرح کہ آج خاں صاحب شیخ صاحب سے بازپرس کررہے ہیں۔ خاں صاحب شیخ صاحب اپنی نظامت کی کُرسی پر بیٹھ کر گذشتہ چھے سال سے حکومت کے متعلق ہماری اور دوسرے قومی اخبار کی روش کا احتساب فرمارہے ہیں جس میدان میں وہ اب حمایت اسلام کے نیم مردہ ٹٹو پر بیٹھ کر شہسواری کے دعوے دار بن رہے ہیں وہاں ہم ان کے اعمال کا جائزہ لیں گے۔ وہ متعدد قومی کارکنوں کو جیل خانوں میں پہنچانے کا ذریعہ بن چکے ہیں۔ ہم نے اپنی آنکھوں سے انھیں عدالتوں میں قومی کارکنوں کے خلاف لرزتے ہوئے اور کانپتے ہوئے شہادتیں دیتے دیکھا ہے۔ ہم عام مسلمانوں کی دینی غیریت و حمیت کی عدالت میں ان کے اعمال پیش کریں گے اور اس عدالت کے فیصلوں کی موثریت کا خاں صاحب شیخ صاحب کم از کم ایک مرتبہ بہت اچھا اور سبق آموز تجربہ کرچکے ہیں۔ خدا کرے کہ مرور زماں نے ان کے دل سے اس سبق کی یادمحونہ کردی ہو۔ حمایت اسلام نے ہمارے افتتاحیہ میں سے ’’صریح قرآنی احکام‘‘ کے جملے کو لے کر بہ طور خاص بار بار یہ صورت تعریض پیش کیا ہے۔ یہ طریق ہمارے لیے قطعاً تعجب خیز نہیں۔ اس لیے کہ نیا اور نادیدہ نہیں۔ جس انجمن کے بڑے بڑے کارکن آج مذہبی احکام سے اعتراض و چشم پوشی پر فخر کرسکتے ہیں، متنازعہ فیہ اُمور کا فیصلہ کتاب و سنت کی بنا پر کرنے کی تجویز پیش کرنے والوں کے خلاف زبان استعمال کرتے ہوئے نہیں شرماتے وہ اگر ’’صریح قرآنی احکام‘‘کامضحکہ اُڑائیں تو یہ امر قطعاً تعجب خیز نہیں تاہم یہ واضح رہنا چاہیے کہ دنیا ہے، دائرہ عمل نظامت شعبہ مطابع ہا خاں صاحب شیخ صاحب کی انجمن نہیں ہے۔ جس چیز کا وہ آج تمسخر اُڑا رہے ہیں ہوسکتا ہے کہ مسلمانوں کی مذہبی غیریت و حمیت کل اسی معاملے پر انھیں خوں کے آنسو بہانے پر مجبور کردے۔ ہم نے فقط تحریک ترک موالات کی نسبت لکھا تھا کہ: وہ ایک جنگ بھی جو صریح قرآنی احکام کی تعمیل میں شروع کی گئی تھی۔ خاں صاحب شیخ صاحب نے ’’واقعات و حقایق‘‘ کا مرقع پیش کیا تھا اس کے اجمالی تذکرے کے بعد ہم نے علامہ اقبال کے زاویہ نگاہ کو ان لفظوں میں پیش کیا تھا: علامہ ممدوح قطعاً یہ نہیں کہتے تھے کہ ترک موالات کا جو دستورالعمل مولانا محمد علی، مولانا شوکت علی، حضرت مولانا ابوالکلام آزاد یا دوسرے اصحاب نے پیش فرمایا اسے اسی صورت میں منظور کرلیا جائے بلکہ وہ یہ کہتے تھے کہ علمائے کرام کے ایک جامع اجتماع میں الحاق اور حکومت سے امداد کے مسائل کا فیصلہ کرالیا جائے وہ اجتماع جو فتوے دے اس پر عمل کیا جائے۔ اسی سلسلے میں ہم نے لکھا تھا: شاید علامہ ممدوح کو یہ طریق عمل پیش کرنے کی ضرورت اس وجہ سے محسوس ہوئی کہ مختلف فتوے ایک دوسرے کے خلاف تھے اور اصل مسائل پر کسی فتوے میں کوئی جامع بحث موجود نہ تھی چنانچہ علامہ ممدوح نے اپنی تقریر میں شیخ الہند حضرت مولانا محمودالحسن مرحوم کے فتوے سے لے کر مولوی حاکم علی صاحب کے فتوے تک سب کا ذکر فرمایا۔ حمایت اسلام نے ہمارے الفاظ (وہ ایک جنگ تھی جو صریح قرآنی احکام کی بنا پر شروع کی گئی تھی اور مختلف فتوے ایک دوسرے کے خلاف تھے) کو باہمہ گر متناقض قرار دیا ہے اور اس پر وہ خوش ہے کہ اب زمیندار کا سارا افتتاحیہ بے حقیقت ثابت ہوگیا سخن فہمی کے اس شرم ناک مظاہرے پر جس کا ’’مظہر بروزی‘‘ لاہور کا ایک مشہور عوامی شاعر اور ’’مظہر حقیقی‘‘ سرکاری شعبہ مطابع کا ناظم ہے، اہل نظر جس قدر اپنا سرپیٹیں بجا ہوگا بلکہ ہم اس سے بھی ایک قدم آگے بڑھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ ہماری عبادت کے ایک موجب صدننگ تحریک ہے اور جو اخبار سرکاری شعبہ مطابع کے ناظم کی سرپرستی میں نکل رہا ہے اس میں ایسی تحریکات کا وجود بے انتہا ذلت خیز ہے۔ اگر دنیا اس طوطی ’’پس آئینہ‘‘ کی بنا پر اس کے’’ استاد ازل‘‘ کے کمالات کا قیاس کرے تو سرکاری شعبہ مطابع کی سخن فہمی اور دیانت کیشی کا کتنا بھیانک منظر سامنے آتا ہے۔ اب اس تضاد کی حقیقت سن لیجیے۔ ہمارا دعویٰ یہ تھا اور ہے کہ تحریک ترک موالات ایک جنگ تھی جو صریح مذہبی احکام کی بنا پر شروع کی گئی تھی۔ علامہ اقبال نے مولانا محمد علی، مولانا شوکت علی اور حضرت مولانا ابوالکلام کے پیش کردہ فتوے کے تسلیم و عدم تسلیم کا مسئلہ علمائے اسلام کے جامع اجتماع کے فیصلے پر موقوف قرار دیا اور وہ بھی صرف الحاق اور حکومت سے امداد کے جزئیات میں علامہ ممدوح کی تقریر اور زمیندار میں ان کے شائع شدہ مضمون سے اس طریق عمل کا قرینہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ الحاق اور حکومت سے امداد کے مسائل کے متعلق ایک مستقل اور مناسب استفتا کی ضرورت تھی اور چونکہ ارکان انجمن کے روبرو مختلف فتوے آچکے تھے اس لیے علامہ اقبال کسی ایک فتوے کو بطور خود ترجیح دینے کے بجائے زیادہ مناسب یہ سمجھتے تھے کہ ہر خیال اور ہر راے کے علما کو ایک مقام پر جمع کرکے ان سے استفتا کرلیا جائے اور مختلف دلائل کا توازن ان پر چھوڑ دیا جائے کیونکہ وہی اس توازن کے اہل تھے۔ ہمارے قیاس کے مطابق علامہ ممدوح کی متذکرہ صدر فیصلے کی وجہ بہ ظاہر یہی تھی۔ چنانچہ ہمارے الفاظ مدنظر رہنے سے یہ حقیقت پورے طور سے آشکار ہوسکتی۔ ہم نے لکھا تھا۔ شاید علامہ ممدوح کو یہ طریق عمل پیش کرنے کی ضرورت اس وجہ سے محسوس ہوئی کہ مختلف فتوے ایک دوسرے کے خلاف تھے اور اصل مسائل کے متعلق کسی فتوے میں کوئی جامع بحث موجود نہ تھی (جس سے دلائل کا توازن کیا جاسکتا)۔ حمایت اسلام نے پہلا فقرہ نظر انداز کردیا اور پھر شاید کے اشتباہی لفظ کو سامنے رکھ کر بھی یہ نہ سمجھ لیا کہ یہ ہمارا عقیدہ نہیں بلکہ دوسرے شخص کے ایک فعل کی ایک امکانی اور قیاسی وجہ ہے۔ باقی رہا مختلف فتوؤں کا مسئلہ تو یہ کوئی ایسی چیز نہیں ہے جسے خاں صاحب شیخ صاحب کا جاری کردہ اخبار حمایت اسلام محل نظر قرار دے۔ جنگ کے زمانے میں مسلمانانِ ہند کے ترکوں کے خلاف لڑنے کے جواز کی خاطر کئی حکومت پرست مولویوں نے فتوے وضع کیے خود تحریک ترک موالات کے دور میں انگریزوں کو شامل ’’اولوالامر‘‘ قرار دیا گیا۔ خاں صاحب شیخ صاحب کو یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ ہندوستان کے حلقہ ہائے علم دین میں بھی ضمیر فروش انسان موجود ہیں جو حکومت کی خوشنودی کے راستے میں اپنے ایمان کی متاع کو لٹادینے میں قطعاً کوئی باک نہیں رکھتے۔ علامہ اقبال جس مجمع میں تقریر فرمارہے تھے خود خاں صاحب شیخ صاحب کے قول کے مطابق کم و بیش ایک درجن خطاب یافتہ آدمیوں اور نصف درج سے زائد ساعیان راہِ حکومت پر مشتمل تھا۔ ہر شخص پر یہ حقیقت روز روشن کی طرح آشکارا تھی کہ وہ لوگ مولانا محمد علی، مولانا شوکت علی یا حضرت مولانا ابوالکلام آزاد کے پیش کردہ فتوے کا کس صورت میں خیر مقدم کریں گے اور اختلافی فتووں کی اوٹ میں کیا کچھ نہ کہا جائے گا۔ لہٰذا ہماری راے میں علامہ اقبال کی کوشش یہی ہونی چاہیے تھی کہ وہ پروردگانِ حکومت کو مذہبی احکام کے اتباع پر متوجہ کرتے چنانچہ انھوں نے یہی کیا اور اختلافی فتوؤں کی اوٹ لے کر مخالفانہ عذرات کا دہانۂ فساد یہ کَہ کر بند کردیا کہ ہر خیال اور ہر راے کے علما کو ایک مقام پر جمع کرکے ان سے باقاعدہ استفتا کرلیا جائے، ممکن ہے کہ خود علامہ ممدوح کے نزدیک بھی جمعیۃ خلافت کا پیش کردہ فتویٰ اطمینان بخش ہو، تاہم اس حقیقت سے کوئی شخص انکار نہیں کرسکتا کہ وہ مذہبی احکام کے اتباع سے بال برابر بھی ہٹنے کے لیے تیار نہ تھے بلکہ سب کو دعوت دے رہے تھے کہ مذہبی احکام کی پیروی کی جائے مگر ’’خان بہادروں‘‘ کو مذہب کا نام ہی لاحول کا ڈنڈا معلوم ہوتا تھا اور وہ اس سے اس طرح بھاگتے تھے جس طرح کہ سگ گزیدہ پانی سے بھاگتا ہے۔ چار سال تک حکومت کے دامن میں سوئے رہنے کے بعد آج فضا کے تغیر نے ان لوگوں کو پھر جرأت دلائی ہے کہ وہ زبانیں کھولیں اور اپنی مذہبی بے غیرتی کو ’’اصابت راے‘‘ کے نام سے تعبیر کریں۔ حمایت اسلام نے یہ بھی لکھا ہے کہ یہ صریح قرآنی احکام محض مہاتما گاندھی کی تحریک کو تقویت پہنچانے کے لیے تلاش کیے گئے تھے۔ یہ حمایت اسلام کا قصور نہیں بلکہ اس کے اس دماغ کا قصور ہے جس کے نزدیک خلافت عظمیٰ کی تباہی، ترک حکومت اور حجاز کی تقدیس کا زوال قطعاً کوئی حیثیت نہیں رکھتا اور قیاس کرتا ہوا یہ سمجھتا ہے کہ یہ اُمور کسی مسلمان کے دل میں پیدا ہی نہیں ہو سکتے۔ بس مہاتما گاندھی نے ایک فتنہ برپا کیا تھا جس پر مسلمان ترک موالات کو لے کر اچھے بھلے ’’قومی کارکنوں‘‘ کو انجمنوں سے باہر نکال دینے پر تل گئے اور انھوں نے کسی شخص کو ’’جام دندان باختن‘‘ کے تجربے کا موقع نہ دیا۔ اس لایعنی اور مہمل اغراض کا تفصیلی جواب بھی ہمارے پاس موجود ہے لیکن ہم مناسب سمجھتے ہیں کہ پہلے دوسرے معاملات کا فیصلہ کرلیں اور پھر تجاہل پیشہ غرض پرستوں کی انفرادی تسکین پر متوجہ ہوں۔ حمایت اسلام نے تحریک ترک موالات پر کاربند ہونے کے نقائص اور اس تحریک کے عملاً بے اثر ہوجانے کا ذکر بھی کیا ہے اور وہ لکھتا ہے کہ اگر ۱۹۲۰ء میں کالج کو یونی ورسٹی سے علیحدہ کرلیا جاتا تو ’’اسلامیہ کالج کی عظیم الشان درس گاہ جس کا بجٹ لاکھوں روپے کا ہوتا ہے کیونکر چل سکتی۔‘‘ اس سلسلے میں ایک ’’نام نہاد مسلم یونی ورسٹی‘‘ (جامعہ ملّیہ اسلامیہ) کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔ یہ معاملات بہت تفصیل طلب ہیں اور حمایت اسلام نے یہ سب کچھ اس لیے پیش کیا ہے کہ ہم ان تفصیلات میں الجھ کر اصل مقصد سے دور چلے جائیں اور اس کی نازک گردن ہمارے پنجہ احتساب سے باہر نکل جائے لیکن ہم اس دامِ فریب کو خوب سمجھتے ہیں۔ ان اعتراضات کا اجمالی جواب یہ ہے کہ کیا قومی جنگ کے دوران کوئی سپاہی ذاتی نقصانات کے عذر پیش کرکے خدمتِ جنگ سے مستثنیٰ رہ سکتا ہے؟ جب اسلام کی بنیاد اغیار کے حملوں کی آماجگاہ بن چکی تھی تو اس وقت کون یہ سوچ سکتا تھا کہ اسلامیہ کالج کا حشر کیا ہوگا۔ ترکی، خلافت حجاز، عرب، ایران اور آزادی ہند کی راہ میں ایک اسلامیہ کالج کیا دس کروڑ اسلامیہ کالج بلا تامل قربان کیے جاسکتے تھے اور اب بھی کیے جاسکتے ہیں۔ اسلامیہ کالج اسلام و مسلمین کے لیے ہے، مسلمین و اسلام اسلامیہ کالج کے لیے ہیں۔ جس قوم نے سالہاسال کی محنتوں سے یہ کالج قائم کردیا وہ اسے چلا سکتی ہے اور ایسے دس نئے کالج بناسکتی ہے۔ خاں صاحب شیخ صاحب نے تو اس کالج کو حکومت کی امداد سے چلایا ہے، انجمن حمایت اسلام کے کارکن برسوں سے اسے چلا رہے تھے۔ اس سے بھی بڑی بات یہ ہے کہ آج کالج کیا کررہا ہے؟ اس کا سب سے بڑا اسلامی کارنامہ یہی ہے کہ اس کے پرنسپل صاحب حکومت کے ایک دیرینہ کارندے اور انجمن حمایت اسلام کے سکرٹری تکمیل اغراض حکومت کے ایک قدیم اور آزمودہ کارساعی ہیں۔ ان دونوں کے وجود نے کالج کو مسلمانوں کے لیے جس قدر ’’مفید‘‘ بنادیا ہے اس کی حقیقت ہم ایک جداگانہ مضمون میں واضح کریں گے اس وقت اس درس گاہ کا سب سے بڑا اور ممتاز کارنامہ یہ ہے کہ اس میں ’’جون آف آرک‘‘ کا ناٹک لڑکوں نے کیا تھا، مونچھیں ڈاڑھی منڈا کر کیا تھا۔ اسلام کا چمن ان افعال کی آب یاری سے جس درجہ پھل پھول رہا ہے وہ ظاہر ہے لیکن ہم ان تفصیلات کو مستقل مضمون کے لیے محفوظ رکھتے ہیں جس میں اسلامیہ کالج کی اسلامی حالت کا نقشہ پیش کیا جائے گا۔ باقی رہی تحریک ترک موالات تو اس کی نسبت ہم پہلے عرض کرچکے ہیں کہ یہ جس دور میں شروع کی گئی تھی ضروری تھی، اشد ضروری تھی۔ اس کا اثر ہر مقام پر ہوا۔ ترک اور حجاز مسلم مجاہدوں کی تلواروں سے آزاد ہوگئے لیکن اس آزادی میں مسلمانان ہند کی تحریک ترکِ موالات کا بھی بہت بڑا حصّہ ہے۔ آج وہ اسباب بھی بدل چکے ہیں جو ترکِ موالات کے موجب بنے تھے اور اندرون ملک میں اس پر عمل کی استطاعت بھی بدل چکی ہے تاہم ترکِ موالات کی روح موجود ہے، گو اس کی جزئیات و تفصیلات سابقہ صورت میں موجود نہیں ہے اور اسی روح کا نتیجہ ہے کہ وہ خاں صاحب شیخ صاحب جو ۱۹۲۰ء سے پہلے قوم کے معززترین افراد میں سمجھے جاتے تھے اور ان کے خاں بہادر اور خطاب یافتہ اور دوسرے رفقا جنھیں ہر مقام پر عزت و احترام کے پیکر سمجھا جاتا تھا آج قوم کے ’’بے نوا خادموں‘‘ کے مقابلے میں اتنے بے حقیقت ہیں کہ عوام ان کا تمسخر اُڑاتے ہیں۔ یہ روح آج بھی موجود ہے اور انشااللہ ہمیشہ رہے گی۔ اگر خاں صاحب شیخ صاحب میں جرأت ہے تو اپنے دائرے سے باہر آکر اس روح کی مؤثریت کا اندازہ کرلیں۔ خدا کو منظور ہوا تو انھیں ہر حال میں اس کا اندازہ ہوجائے گا۔ اب ہم خاں صاحب شیخ صاحب سے پوچھنا چاہتے ہیں کہ مذہبی احکام کو کلیتہً پس پشت ڈال کر الحاق اور حکومت سے امداد کا جو فیصلہ کیا گیا تھا کہ ان مسائل کے فیصلے کے لیے مذہبی احکام کو سامنے لانے کی ضرورت نہیں۔ کیا یہ اسلام تھا؟ اسلام کی پابندی تھی اور کیا انجمن کی موجودہ برسراقتدر جماعت کا زاویہ نگاہ یہی ہے یا کچھ اور؟ وہ اس سوال کا صاف صاف جواب دیں یا تو ان لوگوں کی کھلم کھلا مذمت کریں جنھوں نے اس موجب صد ننگ زاویہ نگاہ کی پابندی پر زور دیا یا اس کی صحت کا اقرار کریں، تاکہ قوم پر ظاہر ہوجائے کہ حمایت اسلام کی متاع عزیز کے حامل کتنے پکے مسلمان ہیں پھر یا تو قوم انجمن کی باگ اہل ہاتھوں میں دے یا اس سے کلیتہً قطع تعلق کرے۔ جمعہ ۱۲؍محرم الحرام ۱۳۴۵ھ، ۲۳؍جولائی۱۹۲۶ئ، ۱۳/۱۵۹،ص۲ انجمن حمایت اسلام اور تحریک موالات گذشتہ تاریخ کا ایک ورق شیخ عبدالعزیز کے نام کھلی چٹھی (انجمن کے ایک دیرینہ خادم کے قلم سے) مکرمی جناب شیخ صاحب……السلام علیکم! انجمن کے اندرونی اختلافات وہ پیچیدگیاں اختیار کررہے ہیں کہ قوم کے جو افراد گذشتہ دو تین سال سے سیاسیات انجمن سے اعتنائی انجمن کی بہترین خدمت تصور کیے بیٹھے تھے وہ بھی لب کشائی پہ مجبور ہوتے نظر آرہے ہیں [ان کا] سکوت نہ صرف مہمل بلکہ مہلک ثابت ہورہا ہے اور ڈر ہے کہ ان کی مدت سے دبی ہوئی چنگاریوں کو عنادو کینہ کی ہوائیں مصالح وقت کی خاشا کی عمارتوں تک بہت جلد اور قبل از وقت نہ پہنچادیں۔ نظم و نسق انجمن کی باگ ڈور اس وقت آپ کے ہاتھ میں ہے بالفاظ دیگر انجمن کے اربابِ حل و عقد میں ذمہ داری کا سب سے زیادہ بوجھ آپ کے کندھوں پر ہے۔ مصلحت یہ تھی کہ آپ اس الجھی ہوئی گتھی کو شروع ہی میں سلجھانے کی کوشش کرتے جو شکایات آپ کے خلاف کسی فریق کو تھیں انھیں دور کرتے اور اگر مرورایام نے آپ کا کھویا ہوا اقتدار آپ کو واپس دلادیا تھا تو اس اقتدار کو تالیف قلوب کا ذریعہ بناتے، رنجشوں اور مناقشوں کے زائل کرنے میں صرف کرتے۔ انجمن کی مالی حالت خواہ دیر بعد درست ہوتی، اس کی انتظامی حالت کا بعجلت درست ہونا صحیح معنوں میں انجمن کی ترقی متصوّر ہوتا۔ انجمن سے آپ کا تعلق بہت قدیم ہے اس دوران آپ نے زمانے کے کئی نشیب و فراز بھی دیکھے۔ مخالفین اور بالخصوص معاندانہ و جارحانہ مخالفتیں ہر انسان کے دل کو جذبہ انتقام سے لبریز کردیتی ہیں اور کوئی وجہ نہیں کہ آپ اس جذبے کو دل میں جگہ دینے سے کلی طور پر محفوظ رہتے۔ تاہم مردانگی یہ تھی کہ دوسرے عہد اقتدار کے شروع ہوتے ہی انجمن اور قوم کی فلاح و بہبود کو مدنظر رکھتے ہوئے تمام کدورتوں اور نفرتوں سے دل کو پاک و صاف کرلیا جاتا۔ گذشتہ واقعات کی یاد اگر کبھی آئینہ دل کو ٹھیس بھی لگاتی تو مستقبل کی کامیابیوں کی اُمید اس کی پروانہ کرتی۔ مصائب و مصالح، قومی احساس، ذاتی شکایتوں کو (اگر وہ معقول بھی تھیں) ہمیشہ کے لیے فنا کردیتا اور لوگ ۱۹۲۹ء کے ’’شیخ صاحب‘‘ کو ۱۹۳۰ء یا اس کے قبل کے ’’خاں صاحب‘‘ سے بالکل مختلف اور میّسر پاتے۔ انگریزی چٹھیوں کی اشاعت میں انجمن کا ایک دیرینہ خادم ہوں۔ جس نگاہ سے آپ کے عہد اوّل کے واقعات کو دیکھا کرتا تھا اس نگاہ سے اس درمیانی عہد کو بھی دیکھتا رہا جبکہ آپ کا تعلق انجمن سے منقطع ہوچکا تھا۔ پھر وہ واقعات بھی یاد ہیں جنھوں نے آپ کو دوبارہ انجمن کا معتمد اعزازی بنایا اور اب یہ واقعات بھی بغور دیکھ رہا ہوں جو اس وقت رونما ہورہے ہیں۔ قوم کو آپ سے ہزار شکایتیں ہوں، مسلمان پبلک آپ کو تعاونی کہے یا حکومت پرست، سرکاری شعبۂ مطابع کے ناظم اعلیٰ ہو کہ انجمن کے سکریٹری بننے پر صوبے کے اختیارات آپ کے متعلق بیسیوں نکتہ چینیاں کریں مگر میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ ملک اور قوم کے اندر ایک جماعت آپ کے جاننے والوں کی ایسی بھی ہوسکتی ہے جو صرف آپ کی کارگزاری اور خدمات تک ہی اپنی نظریں محدود رکھے اور اس کے سوا کسی بات سے اسے سروکار نہ ہو۔ اب بھی خدا شاہد ہے کہ جس دن سے انجمن کے دونوں فریقوں میں کشمکش کا آغاز ہوا میری اور میرے چند احباب کی یہی راے تھی کہ ارکان انجمن میں سے بعض کو آپ کا دوبارہ اقتدار حاصل کرنا اچھا معلوم نہیں ہوتا اور وہ آپ سے خواہ مخواہ کی چھیڑچھاڑ پر تلے بیٹھے ہیں۔ یہ عقیدہ ابھی گذشتہ ہفتے تک دل پر اسی طرح مسلط تھا، جس طرح اٹلی پر مسولینی۔ لیکن افسوس کہ انجمن کے ہفتہ وار اخبار حمایت اسلام میں آپ کی انگریزی چٹھیوں کی اشاعت نے اس عقیدے کو بے طرح متزلزل کردیا اور پانچ چھے روز کی سوچ بچار کے بعد مجھے سوائے اس کے اور کچھ نہیں سوجھا کہ اپنے ان خیالات کو بذریعہ اخبار آپ تک پہنچا دوں۔ شجرہ، عہدہ داران انجمن کا مسلم آؤٹ لک میں شائع ہوتا آپ کا بال تک بیکا نہ کرسکتا تھا۔ مگر آپ کی اپنی تحریریں جو مدیر مسلم آؤٹ لک نے میرا خیال ہے نہایت عقلمندی اور مصلحت شناسی سے شائع نہ کی تھیں، آپ کے حق میں وہ زہرپھیلانے کا باعث ہوسکتی ہیں جو بالآخر انجمن کی تمام ہستی کو معرض خطر میں ڈال دے۔ تحریک ترک موالات زندہ ہے ۹ ؍جولائی کے زمیندار میں آپ کی جس چٹھی پر افتتاحیہ لکھا گیا ہے کاش وہ آپ نے نہ لکھی ہوتی۔ پبلک کا حافظہ کمزور ہوتا ہے، تلخ سے تلخ واقعات کو بھی زیادہ دیر تک محفوظ نہیں رکھ سکتا۔ آپ نے غلطی سے یہ فرض کرلیا کہ تحریک عدم تعاون اتنی ناکام اور اتنی فنا ہوچکی ہے کہ لوگوں پر ’’تعاون‘‘ کی خوبیاں اور اس کی برکتیں واضح کرنا ان کو بیش از پیش آپ کا گرویدہ بنادے گا اور آپ کو تدبر و سیاست اور دوربینی و مصلحت اندیشی کا اتنا معترف کردے گا کہ آیندہ بادمخالف کا جھونکا یا طوفان آپ کو مقام قیادت سے جنبش نہ دے۔ آپ کو یاد رکھ لینا چاہیے تھا کہ تحریک عدم تعاون عوام کے قلوب میں ایسا گھر پیدا کرچکی ہے کہ جب تک ہندوستان آزاد نہیں ہولیتا وہ اس تحریک کو ہرگز ترک نہ کریں گے۔ مختلف قوموں کی باہم جنگ و جدل ہے تو تحریک عدم تعاون کی کامیابی کا نتیجہ ہے نہ کہ اس کی ناکامی کا۔ اگر کچھ ملنے کی امید نہ ہو یا دوسرے سے چھین لینے کا ارادہ نہ ہو تو قوموں کو کیا پڑی ہے کہ ایک دوسری کے منہ آئیں اور اس طرح دست گریبان ہوتی پھریں۔ آپ کے اگر یہی خیالات تھے اور چھے یا سات سال کے تجربات و مشاہدات نے ان میں کوئی تبدیلی نہیں پیدا کی تھی تو اس وقت سیاسی فضا سے یہ دھوکا تو نہ کھایا ہوتا کہ تمام ہندوستان اب تعاون پر تلا بیٹھا ہے اور اگر اس وقت یہ بتلا دیا جائے گا کہ ہم قدیمی تعاونی ہیں اور یہ وہ پالیسی ہے جس نے انجمن اور اس کے کالج کو عدم تعاون کے طوفانی ایّام میں تباہ ہونے سے بچایا تھا۔ تو لوگ سیاسی ’’بیعت‘‘ کے لیے دیوانہ وار خدمت میں حاضر ہونا شروع ہوجائیں گے۔ آپ کی اس پالیسی کے تجدیدی اعلان نے سب سے پہلے زمیندار کو چوکنّا کردیا اور کوئی وجہ نہیں کہ تمام وہ لوگ جن کے سینے قوم پرستی کے سوز سے بالکل خالی نہیں ہوگئے، آپ کے اس بیان پر چراغ پانہ ہوں۔ چٹھیوں کی حقیقی حیثیت سب سے بڑا ستم آپ نے یہ کیا کہ صرف عدم تعاون ہی کو بالواسطہ برا نہیں کہا بلکہ انجمن کے سابق کارکنوں کے خلاف انتقامی جذبات کا اس پرایے میں اظہار کیا ہے جس سے ہر پڑھا لکھا آدمی یہی نتیجہ اخذ کرنے پر مجبور ہوکہ آپ کو ضرورت ہی انجمن کی رودادوں سے عبارتیں نقل کرنے کی اس لیے پیش آئی کہ آپ علامہ سر محمد اقبال اور حاجی شمس الدین صاحب کو ایک طرف قوم کی نگاہ میں مصلحت ناشناس و مآل نا اندیش ثابت کریں اور دوسری طرف حکومت کو ان دونوں خادماں قوم کے متعلق اس امر کا تحریری ثبوت بہم پہنچادیں کہ وہ ان کے متعلق دھوکے میں نہ رہے اگر ان دونوں میں سے کسی ایک نے بھی کبھی سیاسی پلیٹ فارم پر آکر عدم تعاون کے حق میں تقریر نہیں کی یا بذریعہ تحریر اس کے حامی نہیں ہوئے تو یہ محض ان کی چالاکی ہے یا حکومت کی اصل واقعات سے غفلت ورنہ یہ ازلی و ابدی عدم تعاونی ہیں کہ ان کے دل کبھی حکومت وقت سے مانوس نہیں ہوسکتے۔ یہ اظہار بھی قابل اعتراض نہ تھا اگر واقعیت پرمبنی ہوتا آپ کی نیت اور آپ کی دیانت محل شبہ نہ تھی اگر آپ اپنے نقل کردہ اقتباسات سے پبلک کو صحیح نتیجے پر پہنچانے کی کوشش کرتے۔ کسی واقعے یا کسی صداقت کا دبانا یا اسے اس پیرایے میں بیان کرنا کہ مسامع آپ ہی کے مطلوبہ نتائج ذہن میں لاسکے اور قائل کے صحیح مقصد و معانی کے سمجھنے سے معذور رہے۔ میرے خیال میں اس سے بڑھ کر دنیا میں اور کوئی بے انصافی نہیں ہوسکتی۔ علامہ اقبال کا زاویۂ نگاہ انجمن کے جس اجلاس کا آپ نے ذکر کیا ہے اور جس کی روداد سے آپ نے اقتباس لیا ہے اس کی تمام کارروائی سے راقم الحروف پوری طرح آگاہ ہے اور تعجب تو یہ ہے کہ آپ خود ہی یہ لکھتے ہیں کہ سکرٹری یعنی ڈاکٹر سر محمد اقبال نے راے پیش کی کہ: اس مسئلے پر مذہبی زاویۂ نگاہ سے غور کیا جائے اور میرا یہ عقیدہ ہے کہ انجمن الحاق اور حکومت سے امداد لینے کا فیصلہ مذہبی علما سے مشورہ لیے بغیر اور دینی احکام معلوم کیے بغیر نہیں کرسکتی۔ اور پھر خود ہی جب یہ بتانے پر اترتے ہیں کہ عدم تعاون کے پُرآشوب طوفان میں کالج یا انجمن کی کشتی کے کھویا وہ حضرات تھے جو بالعموم خان بہادر کہلاتے ہیں اور جنھوں نے ڈاکٹر صاحب کی تجویز سے اختلاف رکھتے ہوئے الحاق کے بارے میں علماے اسلام سے استفتا کو بے معنی سمجھا۔ اس وقت آپ اس امر کی وضاحت نہیں کرتے کہ ڈاکٹر صاحب اور ان کے بعض دوسرے رفقا اپنے مذکورہ بالا عقیدے کی بنا پر نہ ’’عدم تعاونیوں‘‘ میں تھے اور نہ ’’تعاونیوں‘‘ میں، بلکہ ایک علیحدہ جماعت رکھتے تھے جو خواہ تعداد میں کم تھی مگر تمام معاملے کو شریعت حقہ کے سپرد کردینے کے حق میں تھی بلکہ شاید حکومت کو اس طرف خاص طور پر متوجہ کرنے کے لیے آپ ووٹ دینے والوں کو صرف دو گروہوں میں تقسیم کرتے ہیں، ایک اکثریت راے والے اور ایک اقلیت والے۔ اکثریت میں آپ تمام خان بہادروں کو رکھتے ہیں اور اقلیت میں جن سے بظاہر تمام کے تمام عدم تعاونی مراد ہوں ان کو بھی شامل کرجاتے ہیں جن کا افراط تفریط والوں سے کوئی سروکار نہ تھا اور جو صرف احکام اسلام کی بجاآوری کو اپنا فرض سمجھتے تھے اور جن کے پیش رو علامہ اقبال اور حاجی شمس الدین تھے۔ آپ تسلیم کریں گے کہ واقعے کو اس طرح اس پیرایے میں بیان کرنا اُسے حقیقت سے دور پھینک دینا ہے اور دیانت اُصول کی صریح خلاف ورزی کرنا ہے۔ علما سے باقاعدہ استضا کی تحریک آپ کی انجمن کی روداد خواہ کچھ کہتی ہو جو کچھ علامہ سر محمد اقبال نے اس جلسے میں کہا اس کا ماحصل سوء حافظہ کے مطابق یہ تھا کہ جو فتوے حامیان ترک موالات نے عدم الحاق کے ثبوت میں پیش کیے ہیں وہ علما سے فرداً فرداً کیے ہیں۔ استفتا کے وقت ضروری سوالات و مسائل چھوڑ دیے گئے ہیں جب تک ان سوالات کا شرعی جواب ہمارے پیش نظر نہ ہو ہم الحاق و عدم الحاق یا سرکاری امداد کے متعلق کسی آخری نتیجے پر نہیں پہنچ سکتے۔ علاوہ ازیں ایسے مہمات اُمور کو طے کرنے کے لیے مستند اور سرکردہ علما کی ایک جماعت کا ہونا ضروری ہے۔ انفرادی حیثیت میں اس انحطاط کے زمانے میں کوئی ایک عالم بھی خواہ وہ ایک ہی جیّدکیوں نہ ہو فتویٰ دینے کا اہل نہیں ہوسکتا۔ اگر میرا حافظہ خطا نہیں کرتا تو صاحب موصوف کے یہ الفاظ بھی تھے کہ علما کی یہ کانفرنس خاص لاہور میں منعقد کی جائے اور استفتاً تیار کرنے کے لیے بھی ایسے آدمی منتخب کیے جائیں جو اس کے اہل ہوں اور جو کسی ضروری سوال کو بھی نظرانداز نہ کریں۔ جب تک یہ نہیں ہوسکتا الحاق و عدم الحاق کی بحث کو اُٹھادیا جائے اور کالج جس حالت میں بھی ہے اسے رہنے دیا جائے۔ ڈاکٹر صاحب کی اس قسم کی تحریر زمیندار میں بھی شائع ہوئی تھی۔ میں نہیں سمجھ سکتا کہ یہ تجویز عدم تعاونیوں کے حق میں کہی جاسکتی ہے یا تعاونیوں کے حق میں۔ اگر تعاونیوں کو اس وقت اپنے ووٹوں کی کثرت پر اعتماد تھا اور انھوں نے اس تجویز سے بے پروا ہوکر الحاق کی تجویز منظور کردی تو اس سے یہ کیسے ثابت ہوا کہ سر اقبال عدم تعاونی تھے۔ ہر دانش مند سے دانش مند انسان ڈاکٹر صاحب کی اس تجویز سے یہی نتیجہ اخذ کرے گا کہ وقت و حالات کے اعتبار سے یہ بہترین تجویز تھی۔ عدم تعاونیوں کے پاس اس کو قبول کیے بغیر کوئی چارہ نہ تھا جو چڑھائی انھوں نے کی تھی اور جس یورش پر وہ گھر سے نکلے تھے اگر ڈاکٹر اقبال اور حاجی شمس الدین کھلم کھلا ان سے جاملتے تو کیا یہ شیخ صاحب وہم میں بھی لاسکتے ہیں[کہ] اس زمانے میں ’’الحاقی‘‘ یا ’’تعاونی‘‘ خان بہادر اپنی تجویز میں کبھی کامیاب ہوسکتے؟ ڈاکٹر صاحب کی تجویز نے مولانا ابوالکلام، مولانا محمد علی اور مولانا شوکت علی کے لیے بظاہر اعتراض کی کوئی گنجایش نہ چھوڑی لیکن اس تجویز سے ’’تعاونیوں‘‘ کی قوت بھی دو چند ہوگئی اور کالج کو تباہی سے بچانے کا سہرا ان کے سر باندھا گیا۔ باقی رہے علامہ سر محمد اقبال اور حاجی شمس الدین مسودہ بقول آپ کے ’’اقلیت‘‘ میں تھے اور انھوں نے چونکہ تعاونیوں کے ساتھ ووٹ نہیں دیا تھا اس لیے کیوں نہ عدم تعاونی ٹھہرائے جائیں۔ یہ عریضہ صرف اس غرض سے لکھا گیا ہے کہ آپ اپنی انگریزی چٹھیوں میں جو اصل حیثیت اختیار کرنا چاہتے ہیں اُسے پھر ایک دفعہ واضح کردیں اور خاکسار جیسے دیرینہ معتقدین کو بدگمانی سے بچالیں۔ اگر دوسری پارٹی کے لوگ دعویٰ کرتے ہیں کہ عدم تعاون کے دنوںمیں ہم نے کالج کو بچایا تو انھیں دعویٰ کرنے دیجیے اس سے آپ کا کیا بگڑتا ہے آپ کا تو اس وقت کالج یا انجمن سے تعلق ہی نہ تھا۔ چٹھیوں کی اشاعت کے مقاصد اور نتائج آپ کے موجودہ تدبر اور مصلحت کا اندازہ اگر آپ کو اس طرز عمل پر مجبور کرتا ہے کہ آپ ملک کی موجودہ سیاسی فضا سے جو آپ کے دوررس خیال میں حکومت پرستی کے لیے سازگار ہوچکی ہے، پورا فائدہ اُٹھائیں۔ انجمن کی فائلوں اور رودادوں میں سے جہاں کوئی فقرہ پبلک کی موجودہ ذہنیت کو ملحوظ رکھتے ہوئے نواب ذوالفقار علی خاں، سر اقبال، حاجی شمس الدین وغیرہم کے خلاف پراپیگنڈا کا کام دے سکتا ہے اُسے بحیثیت آنریری سکرٹری انجمن حمایت اسلام، انجمن کے نوزائیدہ آرگن میں ضرور چھاپ دیں تو اس طرح آپ کی کارکردگی و خدمت گزاری، قوم کے پرکھنے کی وہ کسوٹی مسلم پبلک کے ہاتھ میں آرہی ہے جسے ایک دفعہ ان کے ہاتھ میں دے کر آپ کو ضرور پچھتانا پڑے گا۔ کیا انجمن کی انھی فائلوں اور رودادوں میں کوئی عبارت، کوئی فقرہ، کوئی لفظ، ایسا درج نہ تھا جس کو مذکورہ بالا حضرات اپنے ایام اقتدار میں آپ کے خلاف پراپیگنڈا کا ذریعہ بناتے، کیوں نہیں تھا؟ آپ خود جانتے ہیں کہ ضرور تھا اور ایسا نہ تھا کہ اس کو نقل کرنے کے بعد اس کے صحیح معنی سے پبلک کی توجہ کو دور پھینکنے کے لیے اپنی طرف سے نتائج پیدا کرکے دکھانے کی ضرورت لاحق ہوتی۔ مگر تاسف تو اس امر پر ہے کہ جو بات آپ بطور قبح ان حضرات میں پیدا کرتے ہیں وہی قوم و ملک کے نزدیک ان کا حسن ہے اسی کی بدولت وہ قوم میں ہر دل عزیز ہوئے اور اگر قوم کو بحیثیت مسلمان قوم باقی رہنا ہے تو وہ آیندہ بھی ہر دل عزیز رہیں گے۔ آپ کا مسلمان پبلک پر یہ راز بیان کرنا کہ مذہبی فتاویٰ کی تحقیر نے خلافت ایجی ٹیشن کے دنوں میں کالج کو بچایا، اسلام سے کلی بے اعتنائی و بے التفائی ہی موجب نجات ہوتی تو معاف کیجیے گا یہ آپ کا خود اپنے حق میں کوئی اچھا پراپیگنڈا نہیں۔ مسلمان قوم کی ذہنیت کا ابھی تک آپ نے صحیح اندازہ نہیں کیا۔ آپ سمجھتے ہیں کہ مسلمان اسلام کو چھوڑ چکے ہیں یقین جانیے ابھی انھوں نے اسے نہیں چھوڑا۔ یہ احساس ابھی زندہ ہے کہ ایک کیا، سینکڑوں کالج خدا اور اس کے رسولؐ کی عزت پر نثار کیے جاسکتے ہیں جن میں تعلیم کا حاصل کرنا اسلام سے بُعدو تبائن کا باعث ہو اور جن کی انتظامی کَل کا چلانا مخالفین اسلام کی امداد و احسان کا منّت کش ہو۔ یہ سب کچھ تو ہوا مگر آپ تو فرمائیں کہ اس مکتوب یا انجمن کی روداد کی اشاعت سے یہ جو مقصود پیش نظر رکھا گیا کہ ڈاکٹر سر محمد اقبال عدم تعاونیوں میں شمار ہوں تو اس میں آپ کو کوئی ذاتی فائدہ مدنظر ہے یا ڈاکٹر صاحب اس حربے سے کسی بلند مقام سے نیچے اتار دیے جائیں گے؟ اگر آپ کے پیش نظر یہ دوسرا مقصدہے تو اس کی تکمیل کی صرف یہی ایک صورت تھی کہ سرکار کے ہاں کوئی بلند منصب اس وقت ان کے لیے مخصوص ہوچکا ہوتا۔ ہمیں یاد ہے کہ چند ماہ گزرے جب ہائی کورٹ میں ججی کا معاملہ درپیش تھا تو ہفتہ دارانگریزی اخبار آبرزود میں ڈاکٹر صاحب پر شیخ نیاز محمد صاحب کو ترجیح دی گئی تھی لیکن اب تو کوئی ایسا چرچا بھی سرکاری یا غیر سرکاری حلقوں میں نہیں، ججیاںتقسیم ہوچکیں اور اب کوئی سال تک کسی مسلمان کو اس عہدے کے حاصل ہونے کی امید نہیں ہوسکتی ہاں پنجاب کونسل میں ڈاکٹر صاحب ضرور لاہور کی طرف سے کھڑے ہورہے ہیں۔ آپ کا پراپیگنڈا اگر ان کی اس خواہش پر کسی ضرب کی نیت سے شروع ہوا ہے تو یہ بھی بظاہر بے معنی ہے وہ لوگ جو عدم تعاون سے متعلق تھے ان کے ابھی تک تعاون پسندوں سے زیادہ حقوق تصور کیے جاتے ہیں۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ آخر آپ کو اس روش کے اختیار کرنے کی ضرورت کیوں لاحق ہوئی۔ کیا محض اس لیے کہ قوم کی آنکھیں بار بار آپ سے ہٹ کر علامہ اقبال پر کیوں پڑتی رہی ہیں اور آیندہ نہیں پڑنی چاہئیں؟ محض اس لیے کہ عدم تعاون کے دنوں میں انجمن کے لیے کافی چندہ جمع نہ ہوسکا تھا اور گذشتہ جلسے میں پچاس ساٹھ ہزار روپیا جمع ہوگیا۔ ترمم نرسی بکعبہ اے اعرابی کیں راہ کہ تومیر وہی متبرکستان است چہارشنبہ ۱۷؍محرم الحرام ۱۳۴۵ھ، ۲۸؍جولائی۱۹۲۶ئ، ۱۳/۱۶۳،ص۱۔ انجمن حمایت اسلام اور زمیندار انجمن حمایت اسلام، اسلامیہ کالج اور انجمن کے موجودہ سکرٹری یعنی خاں صاحب شیخ صاحب کی نسبت ہم نے پچھلے دنوں جو مضامین لکھے اور شائع کیے تھے ان کا ایک جواب (جسے حقیقتہً تہمتِ جواب کہنا زیادہ موزوں ہوگا) حمایت اسلام نے دیا ہے۔ دوسرا جواب ایک مجہول الاسم شخص نے واقف حال کے فرضی نام سے ایک مقامی اخبار میں شائع کرایا ہے۔ دونوں جوابوں کا سب سے نمایاں پہلو فطری پریشان دماغی، ژولیدہ مغزی یا اصلیت کے احتجاب و اخفا کی ارادی کوشش کے سوا اور کچھ نہیں البتہ بلادلیل ہم پر جابجا ذاتی حملے کیے گئے ہیں اور مخالف کے پاس جب کوئی دلیل نہیں ہوتی تو اس کی طرف سے ہمیشہ اسی نوع کی تحریرات شائع ہوا کرتی ہیں۔ ایسی تحریرات کی غرض و غایت یہ ہوتی ہے کہ معترض پریشان ہوکر خود بخود خاموش ہوجائے یا اصل مباحث کو چھوڑ کر غیر متعلق اُمور میں الجھ جائے لیکن ہم حمایت اسلام اور واقف حال دونوں کو ابھی سے یہ دل شکن پیغام پہنچا دینا چاہتے ہیں کہ ہماری گرفتاری کے لیے یہ دامِ فریب کام نہیں دے سکتا: ؎ برو ایں دام بسرمرغ وگرنہ کہ عنقارِ بلند ز ست آشیانہ ہم ذاتی حملوں کے جواب میں ابھی ایک حرف نہیں لکھیں گے جب تک کہ اصل مباحث کاقطعی طور پر فیصلہ نہ ہوجائے البتہ واقف حال نے بارہ سو روپے کا جو ذکر چھیڑ دیا ہے اس کی نسبت اشاعت آیندہ میں مستقلاً بحث کریں گے تاکہ اصل حقیقت قارئین کرام پر واضح ہوجائے نیز اس سلسلے میں خاں صاحب شیخ صاحب سے گونا گوں ’’محاسن‘‘ کی نظارہ آشامی کے جو مواقع پیدا ہوگئے ہیں وہ لاحاصل ضائع نہ ہوں لیکن بقیہ ذاتی حملوں کی نسبت اس وقت میں کچھ نہیں لکھیں گے جب تک اصل بحث صاف نہ ہوجائے گی۔ ۱- خاں صاحب شیخ صاحب کے مکتوب کی نسبت ہم اب تک جو کچھ لکھتے رہے اس کا خلاصہ یہ تھا: مکتوب کا موضوع بحث خواہ کچھ تھا لیکن اس میں تحریک ترک موالات پر اعتراض اس خاں صاحب شیخ صاحب کی طرف سے نہیں ہونا چاہیے تھا جس کی پیشانی سے اس تحریک کی موثریت کی لہر کامیاب نہیں ہوسکتی خواہ وہ دس مرتبہ انجمن کی نظامت کے منصب پر فائز ہوں۔ ۲- یہ علامہ سر اقبال، حاجی شمس الدین صاحب اور ان کے رفقا پر تائید ترک موالات کا الزام ان کی توہین کا نہیں بلکہ عزت و احترام کا باعث ہے۔ ۳- جن ’’واقعات و حقایق‘‘ کی بنا پر خان صاحب شیخ صاحب نے علامہ اقبال اور حاجی صاحب کو حامی ترک موالات ثابت کیا ہے وہ ’’واقعات و حقایق‘‘ خان صاحب شیخ صاحب کے اس دعویٰ کے خلاف ہیں۔ ۴- ان سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ علامہ ممدوح مجلسِ خلافت کے پیش کردہ فتوائے ترک موالات کے نہ موید تھے اور نہ مخالف وہ صرف یہ چاہتے تھے کہ الحاق اور ترک امداد حکومت کے مسائل کے متعلق بالخاصہ استفتا نہیں کیا گیا اس لیے ضروری ہے کہ اب اس بارے میں علمائے کرام کے ایک جامع اجتماع سے مستقل طور پر فتویٰ حاصل کیا جائے اور اس فتوے کو دستورالعمل بنایا جائے۔ ۵- خان بہادروں اور سرکار پرستوں کی جماعت نے یہ تجویز پیش کی کہ اس بارے میں مذہبی احکام معلوم کرنے کی کوئی ضرورت نہیں بلکہ الحاق و امداد کا فیصلہ مذہب سے علیحدہ رہ کر کیا جائے چنانچہ اکثریت کی بنا پر یہی فیصلہ ہوا۔ یہ پانچوں اُمور بالکل واضح، بین اور غیر مشتبہ الفاظ میں دو مرتبہ پیش کیے گئے لیکن حمایت اسلام ہر مرتبہ ’’غلط مبحث‘‘ کا جملہ استعمال کرکے تمام مباحث کا فیصلہ کردینے پر آمادہ نظر آتا ہے۔ کیا ہم یہ سمجھیں کہ اخبار حق کے اس جدید اڈیشن کو ’’غلط مبحث‘‘ کے معنی بھی معلوم نہیں۔ ہم سردست ذاتی تعریضات میں الجھنے سے احتراز کرتے ہیں اور صاف الفاظ میں یہ پوچھتے ہیں کہ حمایت اسلام سب سے پہلے متذکرہ صدر پانچ اُمور کی صحت و عدم کے متعلق دفعہ دار جواب دے ہم تمام دوسرے دلائل کو چھوڑ کر صرف خاں صاحب شیخ صاحب کے مکتوب ہی سے ان اُمور کی صاف، واضح اور بین بحث کرنے کے لیے تیار ہیں۔ حمایت اسلام لکھتا ہے: حاجی شمس الدین اور ان کے رفقا اس وقت تحریک عدم تعاون کے موید تھے اور چاہتے تھے کہ انجمن کی درس گاہیں یونی ورسٹی سے اپنا تعلق قطع کرکے کانگریس کے ساتھ شامل ہوجائیں۔ یہ واقعات کی صریح تغلیط بلکہ شرم ناک بددیانتی ہے اور اس میں چالاکی یہ کی گئی ہے کہ علامہ سر اقبال (جن کی تقریر اس دعوے کا علی الاعلان بطلان کررہی ہے) کا ذکر چھوڑ کر حاجی شمس الدین کا نام پہلے لایا گیا ہے اور علامہ ممدوح کو شرارت کے ساتھ حاجی صاحب کے ’’رفقا‘‘ میں شامل کردیا گیا ہے۔ حمایت اسلام کے ہتھکنڈے صاف ثابت کررہے ہیں کہ کس طرح اس کے اندر حق کی روح کام کررہی ہے اور حق یہ ہے کہ اگر خاں صاحب شیخ صاحب کی سرپرستی حمایت اسلام کو حق بھی نہ بنا سکتی تو یہ اس سرپرستی کی صریح توہین ہوتی واقف حال صاحب کے خیالات کا خلاصہ یہ ہے کہ: جب لاہور کے اسلامیہ کالج پر خلافتی لیڈروں کا حملہ ہوا تو حاجی شمس الدین اور علامہ سر اقبال ان لوگوں کی ڈراؤنی شخصیتوں سے مرعوب ہوکر اور یا وہ ترک موالات کی اس صنف سے متفق تھے، کچھ بھی ہو انھوں نے یہ چاہا کہ کالج کا تعلق یونی ورسٹی سے منقطع کردیں اور وہ گراں قدر امداد لینی ترک کردیں جو مسلمانوں کی تعلیم کے لیے وصول ہوتی تھی۔ حمایت اسلام کی محولا بالا تحریر کی طرح یہ تحریر بھی از سرتاپا خلاف واقعہ اور دیانت روایت سے کلیتہً معرا ہے۔ خاں صاحب شیخ صاحب نے اپنے مکتوب میں علامہ ممدوح کی جو تقریر نقل کی ہے خود اس لایعنی دعویٰ کی تردید کررہی ہے۔ خاں صاحب شیخ صاحب [کے بقول] کیا اس کا مفاد یہ ہے: ۱- علامہ سر اقبال نے اپنی تقریر میں صورت حالات بیان فرمائی۔ ۲- الحاق اور امداد کے متعلق مختلف فتوؤں کا ذکر فرمایا۔ ۳- خود یہ تجویز پیش کی کہ الحاق اور امداد کے متعلق علمائے کرام کے ایک جامع اجتماع سے مستقلاً استفتا کیا جائے اور اسی کے مطابق عمل کیا جائے۔ ۴- خان بہادر شیخ عبدالقادر وغیرہ نے کہا کہ ان اُمور کے متعلق مذہبی فتوے کی ضرورت نہیں بلکہ ان کا فیصلہ مذہب سے علیحدہ رہ کر کیا جائے۔ ۵- خان بہادر میاں فضل حسین نے الحاق و امداد کو برقرار رکھنے کی تجویز پیش کی جو اکثریت سے منظور ہوگئی۔ ۶- انجمن کے دونوں سکرٹریوں یعنی علامہ اقبال اور حاجی شمس الدین نے اس تجویز کے متعلق راے دینے سے علیحدگی اختیار کرلی۔ خاں صاحب شیخ صاحب نے اپنے بیان میں یہ چالاکی کی تھی کہ اختتام پر دونوں سکرٹریوں کے حقیقی زاویۂ نگاہ کی وضاحت سے احتراز کیا تھا تاکہ عام لوگوں پر یہ اثر پڑے کہ ہر دو صاحبان میاں فضل حسین کی تجویز کے خلاف تھے اس لیے مجلس خلافت کے پیش کردہ فتوے ترک موالات کے حامی تھے۔ حالانکہ حقیقی واقعات خاں صاحب شیخ صاحب کی اس چالاکی کا دامن بالکل تار تار کررہے ہیں۔ اس وقت انجمن میں تین قسم کے لوگ تھے: ۱- ایک جماعت ترک موالات کے پیش کردہ فتوے کو حرفاً حرفاً صحیح سمجھتی تھی اور اسے بلاغور و خوض مزید معرض عمل میں لانا چاہتی تھی معلوم ہوتا ہے کہ اس کی تعداد بہت کم تھی۔ ۲- دوسری جماعت زیر بحث معاملات کی مذہبی حیثیت معلوم کرنے میں گھبراتی تھی اس لیے کہ اسے اندیشہ تھا کہ اس صورت میں شاید فتویٰ الحاق و امداد کے خلاف نکلے اور اس طرح وہ لوگ حکومت کی نظروں میں معتوب ہوجائیں، اس جماعت کی عنانِ قیادت میاں فضل حسین کے ہاتھ میں تھی اور تمام خان بہادر اور سرکار پرست اسی جماعت میں تھے۔ ۳- تیسری جماعت ترک موالات کے پیش کردہ فتوے کی حمایت یاتردید میں کچھ نہیں کہتی تھی اس کا زاویۂ نگاہ یہ تھا کہ الحاق و امداد کے متعلق مستقل طور پر علمائے کرام سے استفتاً کیا جائے اور جو مذہبی احکام معلوم ہوں ان پر عمل کیا جائے، اس جماعت کے بردار علامہ سر اقبال اور حاجی شمس الدین صاحب تھے۔ یہ سب کچھ خاں صاحب شیخ صاحب کے مکتوب سے ثابت ہوتا ہے اور بلاکسی تاویل و توجیہہ کے ثابت ہوتا ہے صراحتہً ثابت ہوتا ہے لیکن خاں صاحب شیخ صاحب نے اپنا مقصد حاصل کرنے کے لیے ظاہر یہ کیا تھا کہ انجمن میں اس وقت صرف دو جماعتیں تھیں ہم حیران ہیں کہ جہاں چار سال میں لکھنے میں دیانت بیان کا خیال نہیں رکھا جاتا وہاں دوسرے معاملات میں کبھی کچھ نہیں ہوتا ہوگا۔ اب ہم اپنے اعتراضات کو پھر سوالوں کی صورت میں دہراے دیتے ہیں۔ حمایت اسلام یا واقف حال دفعہ داران کا جواب دیں اور غیر متعلق مباحث چھیڑ کر واقعات پر پردہ ڈالنے کی افسوس ناک کوشش ترک کردیں۔ ۱- دعویٰ کیا جاتا ہے کہ علامہ اقبال اور حاجی شمس الدین رہنمایان خلافت کے پیش کردہ فتویٰ ترک موالات کے حامی تھے۔ خان صاحب شیخ صاحب نے انجمن کے جلسے کی جو روداد اپنے مکتوب میں پیش کی ہے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ علامہ ممدوح نے الحاق و امداد کے متعلق علمائے کرام کے ایک جامع اجتماع سے مستقلاً فتویٰ حاصل کرنے کی تجویز پیش کی تھی پھر کیا اس حقیقت کو ملحوظ رکھتے ہوئے متذکرہ دعوے کرنا انتہا درجے کی بددیانتی نہیں ہے جس کے مرتکب چالاکی کے ساتھ خان صاحب شیخ صاحب بھی ہوئے حمایت اسلام اور واقف حال بھی ہورہے ہیں؟ ۲- خان صاحب شیخ صاحب بہ فخر و ناز کَہ رہے ہیں کہ خان بہادروں کی جماعت نے الحاق و امداد کا فیصلہ مذہب سے علیحدہ رہ کر کرنے کی تجویز پیش کی۔ کیا ایک اسلامی ادارے میں ایسا طریق عمل اختیار کرنا مذہب کی توہین نہیں ہے اور کیا اس صورت عمل کے بعد زیبا ہے کہ ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں انجمن حمایت اسلام کی باگ دی جائے؟ ۳- خان صاحب شیخ صاحب یا تو خان بہادروں کے اس زاویہ نگاہ کی کھلم کھلا مذمت کریں تاکہ لوگ سمجھ لیں کہ اب انجمن میں ایسے آدمی نہیں رہے جو موقع آنے پر اپنی حکومت پرستی کے جوش میں اسلامی احکام کو بھی پس پشت ڈال دینے میں تامل نہیں کرتے یا صاف صاف کَہ دیں کہ انجمن کے موجودہ ارکان کی اکثریت اب تک اسی زاویۂ نگاہ کی پابند ہے تاکہ لوگوں پر انجمن حمایت اسلام کی اسلام پرستی واضح ہوجائے۔ ہم نے تمام مباحث بہ ترتیب پیش کردیے ہیں، ان کا نمبروار جواب دیا جائے، خان صاحب شیخ صاحب کو بھی چاہیے کہ وہ تقلّب و اقعات اور قومی اخبارات کے احتساب کے ’’افکار‘‘ سے فرصت نکالیں اور ہمارے سوالات کا صاف صاف جواب دیں۔ حمایت اسلام سے یہ پوچھنا چاہتے ہیں کہ اس بارے میں جو کچھ وہ لکھ رہا ہے کیا یہ خان صاحب شیخ صاحب کی طرف سے ہے یا انجمن کی طرف سے؟ اگر خاں صاحب شیخ صاحب کی طرف سے ہے تو قوم کو یہ پوچھنے کا حق ہے کہ کیا اس کا جمع کیا ہوا روپیا اسی طرح ایک فرد کی حمایت میں برباد ہونا چاہیے اور فرد بھی وہ جس کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ وہ مدت دراز سے حکومت کی خدمت میں قوم پرستی اور اسلام پرستی کا گلا گھونٹتا رہا ہے؟ اگر حمایت اسلام یہ سب کچھ انجمن کی طرف سے لکھ رہا ہے تو کیا اس کے لیے زیبا ہے کہ ایک فرد کے خیالات کو انجمن کے خیالات قرار دے اور انجمن کا روپیا ان لوگوں کو بدنام کرنے میں صرف کرے جن کے افکار و مساعی نے انجمن کو اوج کمال پر پہنچایا اور جو آج حالات کی ناسازگاری کے باعث باوجود خواہش خدمت دائرہ خدمت سے باہر نظر آتے ہیں؟ اشاعت آیندہ میں انشااللہ بارہ سو روپے والا معاملہ اور دوسرے اُمور پیش کیے جائیں گے۔ جمعہ ۲۶محرم الحرام ۱۳۴۴ھ، ۶ا؍گست ۱۹۲۶ئ،۱۳/۱۷۱،ص۲۔ اخبار حمایت اسلام کا اعتراف جرائم ’’حق‘‘ کوشی کا نیا مظاہرہ انجمن حمایت اسلام کے خان صاحب شیخ صاحب کے ایک مکتوب کی نسبت ہم نے جو بحث شروع کی تھی اخبار حمایت اسلام نے نئی نئی اخبار نویسی کے شوق میں میدان کے اندر طفلانہ قلابازیوں کی مشق شروع کردی شاید اس وجہ سے کہ ہمارے زائیدہ معاصر کو ابھی تک بازیچۂ اطفال نغمہ زار اور مجلس بحث و استدلال میں تمیز کا شعور نہیں آیا۔ ہمیں یہ حق حاصل نہیں کہ دنیا کے کسی شخص کی زبان پر پہرے بٹھائیں لیکن جب کوئی محض اس وجہ سے لب گفتگو وا رکھنے کا عزم بالجزم کرے کہ کسی کو اس پر بے زبانی کا الزام عاید کرنے کا موقع نہ ملے تو لامحالہ یہی کہنا پڑے گا کہ ایسے بولنے سے نہ بولنا ہزار درجے بہتر ہے۔ شاید ہمارے کم سن معاصر نے ابھی گلستان کا یہ حقیقت آموز سبق بھی نہیں پڑھا کہ ؎ تاطفل سخن نہ گفتہ باشد عیب و ہنرش نہفتہ باشد حمایت اسلام شاید اس بات پر خوش ہوگا کہ وہ بہر حال انجمن کی ایک مقتدر ترین ہستی کے آلودہ کی مشست و شو کا فرض انجام دے رہا ہے لیکن ہم اس کے ساتھ اور اس کے سرپرست حقیقی کے ساتھ گہری ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ حمایت اسلام اپنے ساتھ اور اپنے سرپرست کے ساتھ اس سے بڑھ کر اور کوئی دشمنی نہیں کرسکتا تھا۔ اس نے صدہا سربستہ رازوں کے افشا کا موقع پیدا کردیا اور جو کچھ اپنی اور اپنے سرپرست کی برأت پر لکھا وہ اعترافِ جرم کے سوا اور کچھ نہیں۔ اسی پر تو دانا ہمیشہ کہا کرتے ہیں کہ عقلمند دشمن نادان دوست سے ہزار درجے بہتر ہوتا ہے۔ حمایت اسلام چند قلابازیاں اور کھالے، ہمارے اس قول کی حقیقت اس پر خود بخود آشکارا ہوجائے گی۔ ہم نے اخبار حمایت اسلام کو اخبار حق کا نقش ثانی قرار دیا تھا اور عام طور پر مشہور ہے کہ ع نقاش نقش ثانی بہتر کُشدز اوّل لیکن ہمیں افسوس کے ساتھ عرض کرنا پڑتا ہے کہ کم از کم حمایت اسلام کے معاملے میں یہ اُصول صحیح ثابت نہیں ہوا۔ بلاشبہ حمایت اسلام میں حقکے تمام نمایاں خصائص موجود ہیں، اس میں جھوٹ ہے، تلبیس ہے، واقعات و حقایق سے اعتراض ہے، حقیقی بحث سے فریب کا رانہ گریز کے ساتھ غیر متعلق مباحث سے دل بستگی کا کا جوش ہے لیکن اس کے ساتھ ہی طفلانہ بے احتیاطی اور ناپختگی و ناتجربہ کاری بھی ہے جو اس کی ہر متذکرہ صدر خصوصیت کی پردہ دری کرتی رہتی ہے اور ہر حقیقت میں صاف سمجھ رہا ہے کہ اگرچہ یہ حق کا نقش ثانی ہے مگر پہلے نقش کی طرح جما نہیں۔ ۵؍اگست کے زمیندار میں ہم نے تمام مباحث کو چند دفعات میں مرتب کردیا تھا تاکہ حمایت اسلام کو اصل مقصد سے اعراض کا موقع نہ ملے لیکن ۱۴؍اگست کے حمایت اسلام میں بھی پھر ان تمام دفعات کا صاف صاف جواب دینے سے گریز اختیار کرکے غیر متعلق مباحث چھیڑ دیے گئے ہیں۔ اس کے باوجود حق (رسوائے عام اخبار مقصود نہیں ہے) چھپ نہیں سکا۔ ہمارے سوالات کا خلاصہ یہ تھا: ۱- دعویٰ کیا جاتا ہے کہ علامہ اقبال اور حاجی شمس الدین رہنمایان خلافت کے پیش کردہ فتوی ترک موالات کے حامی تھے۔ ’’خاں صاحب شیخ صاحب‘‘ نے انجمن کے جلسے کی جو روداد اپنے مکتوب میں پیش کی ہے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ علامہ ممدوح نے الحاق و امداد کے متعلق علمائے کرام کے ایک جامع اجتماع سے مستقلاً فتویٰ حاصل کرنے کی تجویز پیش کی تھی۔ پھر کیا اس حقیقت کو ملحوظ رکھتے ہوئے متذکرہ صدر دعوے کرنا انتہا درجے کی بددیانتی نہیں ہے؟ جس کے مرتکب چالاکی کے ساتھ خاں صاحب شیخ صاحب‘‘ بھی ہوئے اور حمایت اسلام اور واقف حال بھی ہورہے ہیں۔ ۲- ’’خان صاحب شیخ صاحب‘‘ بہ فخرو ناز کَہ رہے ہیں خان بہادروں کی حمایت نے الحاق و امداد کا فیصلہ مذہب سے علیحدہ رہ کر کرنے کی تجویز پیش کی۔ کیا ایک اسلامی ادارے میں ایسا طریق عمل اختیار کرنا مذہب کی توہین نہیں ہے؟ اور کیا اس صورت عمل کے بعد زیبا ہے کہ ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں انجمن حمایت اسلامکی باگ دی جائے؟ ۳- ’’خان صاحب شیخ صاحب‘‘ یا تو خاں بہادروں کے اس زاویہ نگاہ کی کھلم کھلا مذمت کریں تاکہ لوگ سمجھ لیں کہ اب انجمن میں ایسے آدمی نہیں رہے جو موقع آنے پر اپنی حکومت پرستی کے جوش میں اسلامی احکام کو بھی پس پشت ڈال دینے میں تامل نہیں کرتے یا صاف صاف کَہ دیں کہ انجمن کے موجودہ ارکان کی اکثریت اب تک اس زاویہ نگاہ کی پابند ہے کہ لوگوں پر انجمن کی اسلام پرستی واضح ہوجائے۔ حمایت اسلام نے کسی موقع پر بھی ہمارے ان سوالات کا جواب دینے کی کوشش نہیں کی اور لغویات سے صفحے کے صفحے سیاہ کرنے میں بقول اپنے کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھی اور کافی جھک مارا تاہم مقصد حاصل ہوگیا یعنی حمایت اسلام نے خود ہی ظاہر کردیا کہ خاں صاحب شیخ صاحب نے اپنے مکتوب میں چالاکی کے ساتھ علامہ اقبال اور حاجی شمس الدین کو جو ترک موالات کے حامی ثابت کرنے کی کوشش کی تھی وہ غلط تھی اور واقعات و حقایق کی بنا پر غلط تھی اب اس کی تفصیل سن لیجیے۔ ’’خاں صاحب شیخ صاحب‘‘ نے اپنے مکتوب میں ’’اقلیت‘‘ کی تفصیل نہیں بتائی تھی محض یہی لکھا تھا کہ میاں فضل حسین نے الحاق و امداد کو برقرار رکھنے کی تجویز پیش کی جو اکثریت آرا سے منظور ہوگئی اور معتمدین یعنی علامہ اقبال اور حاجی صاحب اقلیت کے ساتھ تھے۔ ہم نے لکھا تھا کہ اقلیت کے دو حصّے تھے۔ ایک حصّہ ترک موالات کے پیش شدہ فتوے کا مؤید تھا۔ دوسرا حصّہ الحاق و امداد کی نسبت بالخاصہ استفتا کا طلب گار تھا۔ علامہ اقبال اور حاجی صاحب آخری حصّے میں تھے۔ ’’خاں صاحب شیخ صاحب‘‘ نے اس کی وضاحت غالباً اس لیے کی کہ عدم وضاحت کی حالت میں ان دونوں بزرگوں کے حامی ترک موالات ہونے کا اثر لوگوں پر زیادہ زور کے ساتھ ڈالا جاسکے گا۔ اب حمایت اسلام نے خود خان صاحب شیخ صاحب کے مکتوب کا مبہم حصّہ نمایاں کردیا ہے یعنی یہ کہ انجمن کو یونی ورسٹی سے ملحق رکھنے کی تجویز کے مخالفین یا تو تجویز کے مخالف تھے یا یہ کہتے تھے کہ جب تک انجمن مذہبی فیصلہ نہ کرے اس وقت تک فیصلے کو ملتوی کردیا جائے۔ خان صاحب شیخ صاحب نے یہ نہیں بتایا تھا کہ علامہ اقبال اور حاجی صاحب ان دو گروہوں میں سے کس کے ساتھ تھے لیکن خان صاحب کے زبان حال حمایت اسلام نے کم از کم علامہ اقبال کے متعلق یہ تسلیم کرلیا ہے کہ وہ اس گروہ میں تھے جو مذہبی فیصلے تک الحاق و امداد کا فیصلے کو ملتوی رکھنا چاہتا تھا۔ حمایت اسلام نے اگرچہ صاف صاف یہ نہیں لکھا مگر مندرجہ ذیل اقتباسات ہمارے دعوے کے قطعی موید ہیں۔ علما مختلف و متضاد فتوے شائع کررہے تھے لہٰذا قومی اعانت کو اس خلجان ہلاکت خیز میں ڈالنا (یعنی فتوے لینا) ایک غلطی تھی اور یہی وہ غلطی تھی جو بعض اشخاص اور علامہ اقبال مدظلہٗ سے سرزد ہورہی تھی… اگر سکرٹری (علامہ اقبال) کی راے پر عمل لیا جاتا (یعنی فتویٰ لیا جاتا) تو نتیجہ پھر بھی یہی نکلتا اور پھر بھی وہی تضاد و تخالف قائم رہتا جو اس وقت موجود تھا… اس سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ علامہ اقبال الحاق و امداد کے معاملے میں ترک موالات کے پیش کردہ فتوے کے حامی نہیں تھے اور حاجی صاحب ان کے ہم خیال تھے ثابت ہوا کہ ’’خان صاحب شیخ صاحب‘‘ نے اپنے مکتوب میں جو دعویٰ کیا تھا وہ بالکل غلط تھا اور یہی ہم کہتے تھے کہ واقعات و حقایق کی بنا پر خاں صاحب کا دعویٰ غلط ہے۔ ۲۰؍اگست۱۹۲۶ئ، ص۲۔ انجمن حمایت اسلام اور ترک موالات حمایت اسلام کی بوکھلاہٹ تیری رسوائی کے خوں شہدا درپے ہو دامن یار خدا ڈھانپ لے پردہ ترا! ۹؍جولائی کے زمیندار میں ہم نے انجمن حمایت اسلام کے خاں صاحب شیخ عبدالعزیز صاحب کے ایک مکتوب کی بنا پر ایک افتتاحیہ لکھا تھا جس میں مندرجہ ذیل اُمور سے بحث کی گئی تھی: (۱) تحریک ترک موالات کے خلاف زبان طعن استعمال کرنا جذبہ اسلام کی کھلی ہوئی توہین ہے اس لیے کہ وہ تحریک صریح قرآنی [احکام] کی بنا پر شروع کی گئی تھی اور کوئی مسلمان اس وقت تک اس تحریک کے خلاف لب کشا نہیں ہوسکتا جب تک کہ اس کا دل ایمان کے نور سے کلیتہً محروم ہوجائے۔ (۲) خان صاحب شیخ صاحب نے واقعات و حقایق کو غلط صورت میں پیش کرکے یہ ثابت کرنے کی ناکام کوشش کی کہ الحاق اور حکومت سے امداد کے معاملات میں علامہ اقبال اور حاجی شمس الدین صاحب جمعیتہ خلافت کے اختیار کردہ مسلک کے حرفاً حرفاً موید تھے حالانکہ جو کچھ اس امر کے اثرات میں پیش کیا گیا تھا وہ سارے کا سارا اس دعوے کے مخالف و تردید کا ثبوت تھا۔ کم از کم علامہ اقبال کی نسبت قطعی طور پر ثابت ہے کہ انھوں نے انجمن کی مجلس عمومی کے ارکان کے روبرو تمام حالات پیش فرمادیے اور اپنی راے یہ ظاہر کی کہ فیصلہ مذہبی احکام کی بنا پر ہونا چاہیے اور اس کی بہتر صورت یہ ہے کہ مختلف علما کو ایک مقام پر جمع کرکے خالصتہً متنازعہ اُمور کے متعلق باقاعدہ استفسار کیا جائے، وہ جو فتویٰ دیں اس پر عمل کیا جائے۔ (۳) دوسرے لوگوں نے جن کے نام سر خان بہادر شیخ عبدالقادر، خان بہادر شیخ غلام صادق، خان احمد حسین خان صاحب اور خان بہادر سرمیاں فضل حسین صاحب بتائے جاتے ہیں، اس بات پر زور دیا کہ الحاق کا مسئلہ مذہبی احکام سے بالکل علیحدہ ہوکر طے کیا جائے۔ چنانچہ میاں فضل حسین صاحب نے اسی مضمون کی ایک تجویز پیش کی جو کثرت آرا سے منظور ہوگئی۔ ۱۵؍ ارکان نے رائیں دینے میں حصّہ لینے ہی سے انکار کردیا انھیں میں علامہ سر اقبال اور حاجی شمس الدین صاحب بھی تھے۔ (۴) ہم نے مذہبی احکام کو پس پشت ڈالنے والوں کو موجب صدننگ زاویہ نگاہ کا ماتم کیا اس زاویہ نگاہ کو بطور تفاخر دنیا کے سامنے پیش کرنے والوں کی مذہبی بے حسی پر افسوس کیا اور ارکان انجمن سے استدعا کی کہ اپنی حالت درست کریں اور حمایت اسلام کے پردے میں مذہب سے بُعد و تنفر پیدا کرنے کا ناشائستہ [فعل] چھوڑ دیں۔ ۲ا؍محرم الحرام ۱۳۴۵ھ، ۲۹؍دسمبر۱۹۲۶ئ۔ ۲- ادارے قومی دارالعلوم علی گڑھ کی مجلس تاسیس کا شان دار جلسہ ۲۷؍نومبر۱۹۲۰ء وفد خلافت اور علامہ اقبال ۲۴؍مئی۱۹۲۴ء پنجاب یونی ورسٹی کی سینیٹ کا اجلاس ۲۰؍دسمبر۱۹۲۴ء کفن چوروں کے ہندوستانی حمایتی ۵؍فروری۱۹۲۶ء پنجاب نیشنل برل لیگ ۶؍فروری ۱۹۲۶ء خدام الحرمین کے جلسے میں علامہ اقبال کی نظم ۱۳؍اکتوبر۱۹۲۶ء جامعہ ملّیہ اسلامیہ کے لیے اپیل ۲۸؍دسمبر۱۹۲۶ء جامعہ ملّیہ اسلامیہ ۲۸؍۱۹۲۶ء پنجاب میں وزارت کی کش مکش ۲۹؍دسمبر۱۹۲۶ء جامعہ ملّیہ اسلامیہ ۲۵؍جنوری۱۹۲۷ء قومی دارالعلوم علی گڑھ مجلس تاسیس کا شان دار جلسہ نیا دستور العمل علامہ اقبال کو پرنسپل بنانے کی تجویز (خاص تار بنام زمیندار) علی گڑھ ۲۸؍نومبر قومی مسلم یونی ورسٹی کی مجلس تاسیس کا اجلاس زیر صدارت حکیم الرحمن خان ۲۲؍نومبر کو یونی ورسٹی ہال میں منعقد ہوا، ۲۸؍ممبر موجود تھے جن کے اسمائے گرامی حسب ذیل ہیں: مولانا ابوالکلام آزاد، مولانا محمد علی، مولانا شوکت علی، مولانا آزاد سبحانی، مولانا عبدالماجد، ڈاکٹر انصاری، ڈاکٹر کچلو، ڈاکٹر عبدالرحمن، ڈاکٹر یعقوب بیگ، آغا صفدر، مسٹر اسمعٰیل خان، مسٹر معظم علی خان، مولانا حسرت موہانی اور مہاتماگاندھی بھی موجود تھے۔ مختلف صوبوں سے ۱۷ نئے ممبروں کا انتخاب ہوا۔ ڈاکٹر انصاری نے کہا کہ میں مستقل طور پر علی گڑھ نہیں رہ سکتا اس لیے کسی مقامی ممبر کو سکرٹری بنا دیا جائے۔ یہ تجویز منظور کی گئی اور حکیم اجمل خاں صاحب صدر اور مقامی ممبر حاجی موسیٰ خان سکریٹری بنائے گئے اور مسٹر انوار الہدیٰ اور تصدق احمد شروانی جائنٹ سکرٹری منتخب ہوئے نیز جماعت انتظامیہ کے لیے عہدے دار اور دس معمولی ممبر معہ پرنسپل اور عملہ ایک آدمی کے منتخب ہوئے اور یہ قرارداد منظور ہوئی کہ نئی یونی ورسٹی میں دینیات لازمی ہو اور اس میں ضروری ترمیم و اضافہ بھی کیا جائے اس کے بعد یہ قرارداد منظور ہوئی کہ نئی یونی ورسٹی میں ہندو طلبہ بھی داخل کیے جائیں۔ مشہور ہندو مسلمان ماہرین تعلیم کی ایک جماعت منتخب کی گئی تاکہ نئی یونی ورسٹی کا دستور العمل تیار کرے اور مذہبی ضروریات کو ملحوظ رکھتے ہوئے قومی تعلیم پر اپنی سفارشات پیش کرے۔ توقع ہے کہ نیا دستورالعمل سال آیندہ سے قابل عمل ہوگا۔ ترمیم کرنے والی جماعت کو یہ اختیار بھی دیا گیا کہ دارالعلوم اور امتحانات داخلہ اور اسی طرح علم طبیعی کی آزاد درس گاہ کا علمی اُصول پر انتظام کرے۔ اس جماعت کو یہ اختیار بھی دیا گیا کہ علی گڑھ یا باہر کے قومی اوقاف کا قومی یونی ورسٹی سے الحاق رکھنے کے لیے قواعد مرتب کرے علاوہ بریں علی گڑھ میں قومی سکول کے قیام پر بھی غور و خوض ہوا نیز کمیٹی کو اس کا اختیار دیا گیا کہ عارضی ضروریات کے لیے عمارت کا انتظام کرے اور قابل اساتذہ کا تقرر عمل میں لائے۔ اس کا فیصلہ کیا گیا کہ ان غریب طلبہ کو مالی امداد دی جائے جو علی گڑھ کالج سے یہاں آئے ہیں اور تمام لوکل کمیٹیوں کو مشورہ دیا جاتا ہے کہ وہ بھی ان طلبہ کے لیے ایسا انتظام کریں جو دوسرے مقامات سے ان کے پاس آئیں۔ یہ قرارداد منظور کی گئی کہ علامہ اقبال سے عہدہ پرنسپل کو قبول کرنے کی درخواست کی جائے۔ چھ ممبروں کی ایک کمیٹی اس غرض سے مقرر کی گئی کہ ٹرسٹیوں کے متعلق قواعدو ضوابط مرتب کرے۔ جماعت انتظامیہ سے تخمیناً دس ہزار روپے ماہانہ کی منظوری کی سفارش کی گئی۔ یہ روپیا بورڈنگ ہاؤس اور طلبہ کے انتظام رہائش پر صرف ہوگا۔ مجلس تاسیس اس وقت تک کام کرتی رہے گی جب تک نئے قوانین کے ماتحت نئے کارکنوں کا انتخاب ہو۔ ۱۰۴۵ روپے کا نقد عطیہ اسی وقت وصول ہوا اور ۷۵۴۰ روپے سالانہ عطیے کے وعدوں کا جلسے میں اعلان کیا گیا جس میں پانچ ہزار روپے سالانہ سیٹھ حاجی عبداللہ ہارون کراچی کے اوریک ہزار روپے سالانہ حاجی جان محمد پشاوری کے ہیں۔ (محمد علی) شنبہ ۱۵؍ربیع الاوّل ۱۳۳۹ھ، ۲۷؍نومبر۱۹۲۰ئ، ۷/۱۷۴، ص۴۔ وفد خلافت اور علامہ اقبال مجلسِ مرکزیہ خلافت کی مجلسِ عاملہ کے اجلاس میں جس نئے وفد خلافت کے بھیجنے کی تجویز کی گئی ہے اس میں حکیم اجمل خان صاحب، ڈاکٹر انصاری اور مولانا سیّد سلیمان ندوی صاحب جیسے بزرگوں کے اسمائے گرامی موجود ہیں۔ ان محترم حضرات کی قابلیت اور علومرتبت میں کسی شخص کو کلام نہیں لیکن ہم حیران ہیں کہ مجلسِ عاملہ کے ارکان کی نظر انتخاب علامہ اقبال پر کیوں نہ پڑی حالانکہ زمیندار بیسیوں دفعہ علامہ کا اسم گرامی پیش کرچکا ہے۔ یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ ہندوستان کے مسلمانوں میں جس ہستی نے سب سے پہلے اتحاد اسلام اور وابستگی خلافت کی روح پھونکی اور جس نے صرف اسی ایک مسئلے کے حل کو اپنی زندگی کا مقصد قرار دیے رکھا ہے وہ جناب علامہ اقبال ہی کی ذات بابرکات ہے اور یہ امر بھی محتاج بیان نہیں کہ ممالک اسلامی کے تعلیم یافتہ طبقے میں جو عزت و مقبولیت دنیائے اسلام کے اس سب سے بڑے شاعر اور فلسفی کو حاصل ہے وہ دیگر ابنائے ملک میں سے کسی کو نصیب نہیں۔ لیکن افسوس ہے کہ مجلسِ عاملہ میں ہمارے جو نمایندے موجود ہیں وہ دور حاضر کی اس عظیم الشان اور جلیل القدر شخصیت کی حقیقی اہمیت کو نہیں سمجھتے یا اگر سمجھتے ہیں تو تنگ خیالی کے جذبے سے متاثر ہوکر اتنی جرأت اپنے آپ میں نہیں پاتے کہ اس کا نام وفدِ خلافت کے لیے تجویز کریں۔ ہمارا یہ خیال ہے کہ اسلام کے ادارۂ جمہوریت نظامِ خلافت اور بقا کے مرکزیت کے متعلق علامہ اقبال جس قدر مجتہدانہ علم و بصیرت رکھتے ہیں وہ بہت کم لوگوں کو میسر ہے۔ ہمارے رہنمایان ملّی میں سے صرف چند بزرگ ترین ہستیاں ان پیچیدہ مسائل پر جامعیت اور صحت کے ساتھ غور و خوض کرنے کی توفیق رکھتی ہیں چونکہ ان حضرات کو پروانہ ہائے راہداری دینے میں حکومت پس و پیش کرتی ہے اسی لیے ہمیں دلی افسوس ہے کہ وہ ہماری صحیح نیابت کے لیے ممالک اسلامی میں تشریف نہیں لے جاسکتے۔ مجلسِ عاملہ نے جن بزرگ کو تجویز کیا ہے ان کی موزونیت میں بھی کچھ شک نہیں لیکن ہم چاہتے ہیں اور ہماری اس خواہش میں لاکھوں تعلیم یافتہ اور مردم شناس مسلمان متفق ہیں کہ مجلسِ عاملہ خلافت جناب علامہ کو بھی محبت کرے… ہماری راے میں مجلس خلافت کے ارباب حل و عقد کو اپنے اس فیصلے میں ترمیم کرکے علامہ اقبال کا نام تجویز فرمانا اور آپ سے اس سلسلے میں استصواب کرنا چاہیے۔ شنبہ ۸ شوال المکرم ۱۳۴۳ھ، ۲۴؍مئی۱۹۲۴ئ، ۱۱/۱۱۲، ص۲۔ پنجاب یونی ورسٹی کی سینیٹ کا اجلاس دستور اساسی کی نئی ترتیب یونی ورسٹی میں جماعتی نیابت کا توازن شنبہ ۶؍ دسمبر کو شام کے پانچ بجے سینیٹ ہال میں پنجاب یونی ورسٹی کی سینیٹ کا ایک اجلاس منعقد ہوا۔ جلسے کے صدر آنریبل سرجان مینارڈ وائس چانسلر تھے۔ ایجنڈے کے بہت سے معمولی کاروبار کو طے کرنے کے بعد وائس چانسلر نے خود آخری تجویز کو پیش کیا جو یونی ورسٹی کے نظام و ضابطے کی ازسرنو ترتیب کے متعلق تھی۔ دوشنبہ کی کارروائی سینیٹ کا ملتوی جلسہ ۸؍دسمبر کو بروز دو شنبہ منعقد ہوا۔ ’’فیلوز‘‘ اس جلسے میں بھی بہ تعداد کثیر موجود تھے………… ڈاکٹر سر محمد اقبال۔ ڈاکٹر سر محمد اقبال نے بیان کیا کہ اگرچہ میرا نام مجلس کے رکن کی حیثیت سے شائع کیا گیا تھا لیکن میں نے ان کی کارروائیوں میں کوئی حصّہ نہیں لیا۔ شنبہ ۲۲؍جمادی الاول۱۳۴۳ھ، ۲۰؍دسمبر۱۹۲۴ئ، ۱۱/۲۷۹،ص۵۔ ’’کفن چوروں‘‘ کے ہندوستانی حمایتی ایک نیا خوف ناک فتنہ برفتد تاروشِ رزم دریںِ بزمِ کہن درد مندانِ جہاں طرحِ نوانداختہ اند من ازیں بیش ندانم کہ کفن دزدے چند بہرِ تقسیمِ قبور انجمنے ساختہ اند۱۱؎ (اقبال) رجب المرجب ۱۳۴۴ھ، ۵؍فروری۱۹۲۶ئ، ۱۳/۲۷، ص۲۔ پنجاب نیشنل لبرل لیگ پچھلے دنوں میاں سر محمد شفیع کی صدارت میں ایک نئی انجمن ’’پنجاب نیشنل لبرل لیگ‘‘ کے نام سے قائم ہوئی تھی اور اس انجمن کے ایک نائب صدر علامہ اقبال بھی مقرر کیے گئے تھے اگر علامہ کا اسم گرامی اس میں نہ ہوتا تو ہم اس کی طرف توجہ بھی نہ کرتے اور یہی سمجھ لیتے کہ یہ بھی میاں سر محمد شفیع صاحب کی ان سرگرمیوں کا ایک کرشمہ ہے جو آپ آج کل حصول جاہ کے سلسلے میں اختیار فرمارہے ہیں۔ علامہ کا نام پڑھ کر ہمیں حیرت ہوئی کہ آپ عمر بھر سیاسیات سے الگ تھلگ رہے نہ انتہا پسند بنے، نہ اعتدال پسند کہلائے، نہ لیگی ہوئے نہ خلافتی۔ آخر نیشنل لبرل جماعت میں کیا خاص دل فریبی نظر آئی کہ آپ اس کے نائب صدر منتخب ہوگئے لیکن گفتگو کے بعد معلوم ہوا کہ اس لیگ کے قیام کا ایک مقصد یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ ہندوؤں اور مسلمانوں کی موجودہ ناگوار چپقلش کا خاتمہ کرنے کی تدبیریں کی جائیں اور حضرت علامہ نے صرف اسی مقصد سے اس میں شرکت اختیار کی ہے چونکہ اس لیگ میں چند غیرمسلم حضرات بھی شامل ہیں اور ان میں راجا نرندرناتھ صاحب جیسے سنگٹھنی بزرگ کا نام زیادہ نمایاں نظر آرہا ہے اس لیے ہمیں یہ خیال پیدا ہوا کہ ممکن ہے سرمحمد شفیع اور علامہ اقبال نے اتحاد ہندو و مسلم کا کوئی ایسا راستہ نکال لیا ہو جس سے قومیت متحدہ ہند کی بنیادیں استوار ہوجائیں اور مسلمانوں کے حقوق کو نقصان پہنچے بغیر اتحاد ہوجائے۔ لیکن اب تک کوشش کے باوجود بھی ہمیں یہ معلوم نہ ہوسکا کہ فرقہ وار معاملات کے متعلق اس لیگ کا مسلک کیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ آیا یہ لیگ جداگانہ حلقہ ہائے انتخاب اور فرقہ وار نیابت کی حامی ہے یا مخالف؟ اور آیا اس لیگ کے ہندوارکان ان مسائل میں سر محمد شفیع اور علامہ اقبال کے ہم عقیدہ ہیں یا نہیں؟ اگر ان حضرات نے واقعی ہندو اہل الرائے میں ایک ایسی جماعت پیدا کرلی ہے جو فرقہ دار نیابت اور جداگانہ انتخابی حلقوں کو تسلیم کرنے کے لیے تیار ہے تو سبحان اللہ چشم ما روشن دل ماشاد۔ لیکن اگر یہ نہیں تو پھر کچھ نہیں۔ اس لیگ کا وجود بالکل غیر ضروری ہے اور کم از کم علامہ اقبال کے شایان شان تو نہیں کہ اس قسم کی بے معنی انجمن سے اپنا تعلق قائم رکھیں۔ کیا لیگ کے کارپرداز اپنی حکمت عملی کا اظہار کرنے کی تکلیف گوارا فرمائیں گے؟ شنبہ ۲۲؍رجب المرجب ۱۳۴۴ھ، ۶؍فروری۱۹۲۶ئ،۱۳/ ۲۸، ص۲۔ خدام الحرمین کے جلسے میں علامہ اقبال کی نظم حقیقت حال خدام الحرمین کے کارکنوں کی طرف سے اعلان ہوا ہے کہ علامہ سر اقبال مدظلہ العالی خدام الحرمین کے آیندہ جلسے میں نظم پڑھیں گے۔ اس واقعے کی نسبت اصلیت یہ معلوم ہوئی کہ خدام الحرمین کی طرف سے علامہ ممدوح کی خدمت میں نظم پڑھنے کے متعلق ایک خط دستی بھیجا گیا تھا۔ اس خط کے ملنے سے ایک دو گھنٹے پیشتر ایک معتبر و معزز شخص نے علامہ ممدوح سے کہا تھا کہ بعض لوگ ان کے انتخاب کے سلسلے میں حنفی وہابی کا جھگڑا پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ علامہ ممدوح کو اس خط پر اسی جھگڑے کی ایک کڑی ہونے کا شبہ ہوا چنانچہ انھوں نے خط لانے والے اصحاب سے کہا کہ وہ سیّد حبیب شاہ صاحب کو جن کے اس خط پر دستخط تھے، بھیج دیں۔ سیّد صاحب اس پیغام کے ایک یا دو روز بعد علامہ اقبال کے پاس گئے۔ علامہ موصوف نے خط کا ذکر کیا نیز اپنا شبہ بیان فرمایا۔ سیّد صاحب نے آخرالذکر امر کی نسبت کہا کہ آپ کے (علامہ اقبال کے) متعلق ایسا جھگڑا پیدا نہیں ہوسکتا اور خط کی تحریر اور دستخط دونوں سے برات کا اظہار کیا۔ اس کے سوا نظم کے متعلق کوئی گفتگو نہیں ہوئی۔ معتبر ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ علامہ اقبال انتخابات کو مذہبی جھگڑوں اور برادریوں کی کشاکشوں سے بالکل علیحدہ رکھنے کے خواہاں ہیں۔ وہ فرماتے ہیں کہ مسلمانوں کی ہر برادری یکساں حیثیت سے ان کے لیے برابر ہے۔ وہ ہر اسلامی فرقے اور اسلامی جماعت کے خادم ہیں اور ہر مسلمان کا تہ دل سے احترام کرتے ہیں۔ خدا کرے اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو اتحاد کی توفیق دے اور وہ متحد اور ہم آہنگ ہوکر ملت بیضا کی عظیم الشان خدمات انجام دیں یا کم از کم موجودہ داخلی و خارجی خطرات کا کامیابی کے ساتھ مقابلہ کرسکیں۔ (آمین) (لاہور کا ایک مسلمان) چہارشنبہ ۵؍ربیع الثانی ۱۳۴۵ھ، ۱۳؍اکتوبر۱۹۲۶ئ، ۱۳/۲۲۴،ص۳۔ جامعہ ملّیہ اسلامیہ کے لیے اپیل علامہ اقبال نے جامعہ ملّیہ۶ کی امداد کے لیے ۲۸؍دسمبر ۱۹۲۶ء کو ۵ مسلم رہنمائوں۱۲؎ کے ہمراہ مندرجہ ذیل اپیل شائع کرائی: جامعہ ملیہ اسلامیہ (نیشنل مسلم یونی ورسٹی) کی بنیاد اگرچہ تحریک خلافت کے سلسلہ۱۳؎ میں پڑی لیکن وہ اول دن سے ایک مستقل تعلیمی نصب العین رکھتی تھی۔ اسی کا نتیجہ تھا کہ ۱۹۲۴ء میں اس کے تمام ارکان نے یہ فیصلہ کرلیا کہ آیندہ اسے خلافت کمیٹی سے الگ کرکے ایک مستقل اور خالص تعلیمی مرکز کی شکل دے دی جائے اس کے لیے جس قدر مالی اعانت کی ضرورت ہو اس کا بطور خود انتظام کیا جائے اور چونکہ۱۴؎ علی گڑھ کے قیام میں اس کا اندیشہ کیا جاسکتا تھا کہ مسلم یونی ورسٹی علی گڑھ سے اس کی رقیبانہ چشمک باقی ہے اس لیے گذشتہ سال اس کا محل قیام بھی علی گڑھ سے دہلی میں بدل دیا گیا۔ جو ہر حیثیت سے ایک مرکزی ’انسٹی ٹیوشن‘ کے لیے موزوں مقام ہے۔ ہمارا۱۵؎ یقین ہے کہ نہ صرف مسلمانان ہند بلکہ ہندوستان کے لیے ایک ایسے قومی تعلیمی مرکز کی ضرورت وقت کی اُصولی اور بنیادی ضرورتوں میں سے ہے اور اگر ملک کی بے التفاتی سے یہ مرکز تکمیل تک نہ پہنچ سکا تو ایک نہایت قیمتی تعلیمی حرکت۱۶؎ سے ملک کا مستقبل محروم ہوجائے گا۔ اگرچہ جامعہ کی مطلوبہ تکمیل کے لیے ایک بڑے سرمایہ۱۷؎ کی ضرورت ہے لیکن اگر بالفعل پانچ ہزار روپے میں ماہوار آمدنی کا انتظام ہوجائے تو اس کی بنیاد اس حد تک مضبوط ہوجائے گی کہ بہتر تعلیمی نتائج فوراً حاصل کیے جاسکیں۔ یہ پانچ ہزار روپیہ ماہوار نہایت آسانی۱۸؎ سے فراہم ہوسکتا ہے اگر ملک کے لاکھوں مستطیع اشخاص میں سے سو اہل خیر ایسے نکل آئیں جو پچاس روپے ماہوار اس عظیم الشان کام کے لیے وقف کرسکیں تو ہم امید۱۹؎ کرتے ہیں کہ ہندوستان کے کروڑوں مسلمانوں میں ایسے سو اہل خیر و استطاعت حضرات کا نکل آنا کچھ دشوار نہ ہوگا بشرطیکہ وہ اس کارِعظیم کی اہمیت اور اس کے نتائج محسوس کریں۔ ہم تمام ایسے حضرات سے اپیل کرتے ہیں کہ جامعہ ملیہ کے لیے کم از کم اتنا ضرور کریں۔ ہم نے یہ اپیل کرتے ہوئے اپنی ذمہ داری پوری طرح محسوس کرلی ہے۔ ہم ملک کویقین دلائیں گے۲۰؎ کہ اگر جامعہ ملیہ کی موجودہ حالت اور اس کے مستقبل کی طرف سے ہمیں پورا اطمینان نہ ہوتا تو ہم اس نئی اپیل کی ذمہ داری ہرگز قبول نہ کرتے۔ ہم یہ بھی ظاہر کردینا چاہتے ہیں کہ اب اس’انسٹی ٹیوشن‘ کو ملک کی کسی پولٹیکل تحریک سے کسی قسم کا تعلق نہیں ہے اور یہ کامل معنوں میں ایک خالص تعلیمی درس گاہ ہے۔ (ڈاکٹر سر) محمد اقبال۔ (نواب سر) ذوالفقار علی خان۔ (صاحبزادہ) آفتاب احمد خان۔ (مولانا) ابوالکلام آزاد۔ اجمل (امیر جامعہ)۔ مختار احمد انصاری (معتمد جامعہ)۔ ۲۸؍دسمبر ۱۹۲۶ئ، ص۱۔ جامعہ ملّیہ اسلامیہ مسلمانان ہند نے اس وقت تک تعلیم کو صحیح مسلک پر لانے کے لیے جس قدر کوششیں کی ہیں ان میں ایک اہم اور خاص طور پر قابل ذکر کوشش جامعہ ملیہ اسلامیہ کی تاسیس تھی جو تحریک ترک موالات کے زمانے میں عمل میں آئی لیکن افسوس کہ مسلمانوں نے تعمیر و اصلاح ملت کے لیے صحیح احساس سے بے بہرگی کے باعث اس اہم تعلیمی ادارے پر وہ توجہ مبذول نہ کی جس کا یہ حقیقتہً مستحق تھا۔ اس کی تاسیس چونکہ اس وقت ہوئی تھی جبکہ تعلیمی مقاطعہ اپنے اوج شباب پر تھا اس لیے ابتدائی دور میں بہت سے طالب علم تعلیم کے لیے وہاں پہنچ گئے اور قوم کی طرف سے جامعہ کو مالی امداد بھی کافی ملتی رہی لیکن جب مقاطعہ کی سرگرمی میں تخفیف ہوئی اور فضا میں ذرا سکون پیدا ہوا تو اس کے ساتھ ہی جامعہ کی حیثیت بھی بہت بڑی حد تک نظروں سے گرگئی اور جن مقاصد عظیمہ و جلیلہ کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کا سنگ بنیاد رکھا گیا تھا وہ قوم کی نظروں سے فی الجملہ اوجھل ہوگئے ۔تاہم بزرگان قوم کا بالغ نظر حصّہ اس ادارے کو اچھے پیمانے پر قائم رکھنے اور مستقل بنانے کے لیے کوشش کرتا رہا تاکہ عہد ترک موالات اور احساس صحیحہ تعلیم کا یہ پیش قیمت ثمرہ اپنی افادی شان کا پورے طور پر مظاہرہ کرتا رہے اور مسلمان اس سے جو فائدہ اُٹھاسکتے ہیں، اُٹھائیں۔ ان بزرگوں میں سے حضرت مسیح الملک کا اسم گرامی خاص طور پر قابل ذکر ہے۔ قارئین کرام کو معلوم ہے کہ جامعہ ملیہ سب سے پہلے علی گڑھ میں قائم ہوئی تھی اور علی گڑھ کالج ہی کے طلبہ سب سے پہلے اس میں شامل ہوئے تھے۔ جب تحریک کا ابتدائی ہنگامہ خیز زمانہ گزر گیا تو عام طور پر خیال کیا گیا کہ اسے علی گڑھ میں رکھنے سے ایک طرف تو بہ اعتبار مقام یہ مرکزیت حاصل نہیں کرسکتی اور دوسری طرف مسلم یونی ورسٹی والوں کے ساتھ رقابت کا اندیشہ تھا لہٰذا ارباب بست و کشاد جامعہ نے انتہائی دانش مندی سے کام لے کر اسے علی گڑھ سے دہلی میں منتقل کردیا جس سے دونوں متذکرہ صدر ’’نقائص‘‘ رفع ہوگئے۔ ۱۹۲۴ء تک جامعہ کے تمام مصارف کا بہت بڑا انحصار مجلسِ مرکزیہ خلافت پر تھا لیکن ۱۹۲۴ء میں ذمہ دار اصحاب نے یہ فیصلہ بھی کرلیا کہ اسے مجلس خلافت سے الگ کرکے ایک مستقل تعلیمی ادارہ بنادیا جائے اور اسے جس قدر مالی امداد کی ضرورت ہو اس کا وہ خود انتظام کرے۔ جامعہ، مسلمانان ہند کا واحد قومی ادارہ ہے اور ہر مسلمان کا فرض ہے وہ علی قدر استطاعت اس ادارے کو مالی امداد دے اور ہم اس خیال سے حرفاً حرفاً متفق ہیں کہ ایسا تعلیمی مرکز مسلمانوں کے لیے وقت کی ایک اہم اُصولی اور بنیادی ضرورت ہے اور اگر مسلمانوں کی بے التفاتی سے یہ مرکز مستقل حیثیت اختیار نہ کرسکا یا اپنے آپ کو اچھے پیمانے پر قائم نہ رکھ سکا تو ہم ایک نہایت قیمتی تعلیمی مرکز سے محروم ہوجائیں گے۔ حال میں ہمارے پاس جامعہ کی امداد کے لیے ایک اپیل پہنچی ہے جس کے نیچے علامہ اقبال، نواب سرذوالفقار علی خان، صاحبزادہ آفتاب احمد خان، مولانا ابوالکلام آزاد، مسیح الملک حکیم اجمل خان (امیر جامعہ) اور ڈاکٹر مختار احمد انصاری (معتمد جامعہ) کے دستخط ثبت ہیں۔ اپیل کا مفاد یہ ہے کہ اگر بالفعل پانچ ہزار روپے ماہوار کی آمدنی کا مستقل انتظام ہوجائے تو جامعہ کی بنیاد مضبوط و مستحکم ہوسکتی ہے اور اسے اچھے پیمانے پر چلانے کی طرف سے اطمینان حاصل ہوسکتا ہے۔ سات کروڑ مسلمانوں کے لیے پانچ ہزار روپے ماہوار کی مستقل امداد کا انتظام کچھ بھی مشکل نہیں۔ آسان ترین صورت یہ ہے کہ ایک ایک سو روپیا ماہوار دینے والے پچاس آدمی یا پچاس پچاس روپے ماہوار دینے والے سو آدمی اس کارخیر میں شریک ہوجائیں اور [سات] کروڑ [مسلمانان]توحید میں ایسے پچاس یا سو آدمیوں کا نکل آنا بہت آسان ہے۔ ہزاروں ذی استطاعت بزرگ ہیں جو صدہا غیر ضروری اُمور میں ہر سال ہزاروں روپے صرف کردیتے ہیں اور جن کے اموال و امتعہ کا کثیر حصّہ ایسے اُمور میں خرچ ہوتا ہے جو قوم اور ملک کے فائدے سے یکسر خالی ہوتے ہیں۔ کیا وہ بارہ بارہ سو روپے یا بہ درجہ آخر چھ چھ سو روپے سالانہ کی امداد جامعہ ملیہ کو نہیں دے سکتے؟ دے سکتے ہیں اور یقینا دے سکتے ہیں۔ ہندوؤں کی طرف دیکھو کہ ان میں سے ایک ایک فرد ہزاروں لاکھوں روپے قومی کاموں میں صرف کررہا ہے۔ کیا مسلمان اپنے واحد قومی تعلیمی مرکز کے استحکام و مضبوطی کے لیے پانچ ہزار روپے ماہوار کا مستقل انتظام بھی نہیں کرسکتے؟ اگر ایک شخص سویا پچاس روپے ماہوار کا انتظام نہیں کرسکتا تو ایسے چند اشخاص مل کر پانچ پانچ دس دس اور بیس بیس روپے کے حصّے لے سکتے ہیں لیکن یہ ضروری ہے کہ جامعہ ملیہ کے ذمہ دارانِ انتظام کے پاس ہر حلقے سے بدرجہ قل پچاس روپے کی ماہانہ امداد کی اطلاع پہنچ جائے یعنی یہ نہ ہو کہ پانچ روپے یا دس روپے یا بیس روپے دینے والا شخص اس پر کفایت کرے بلکہ اس کا فرض ہے کہ وہ اپنے رفقا، اعزّہ اور ہمسایوں میں اس کارخیرکی تحریک فرمائے اور ایک دو یا اس سے زائد افراد کو لاکر ایسا انتظام کردے کہ وہ رقم امداد کم از کم پچاس روپے تک پہنچ جائے۔ اس کے علاوہ ذی استطاعت اور دولت مند اصحاب کا فرض ہے کہ وہ یک مشت رقموں کا بھی انتظام فرمائیں تاکہ جامعہ کی تمام چھوٹی بڑی ضرورتیں احسن طریق پر پوری ہوسکیں۔ اپیل پر دستخط کرنے والے اصحاب فرماتے ہیں: ہم نے یہ اپیل کرتے ہوئے اپنی ذمہ داری پوری طرح محسوس کرلی ہے ہم ملک کو یقین دلائیں گے کہ اگر جامعہ ملیہ کی موجودہ حالت اور اس کے مستقبل کی طرف سے ہمیں پورا اطمینان نہ ہوتا تو ہم اس نئی اپیل کی ذمہ داری ہرگز قبول نہ کرتے۔ ہم یہ بھی ظاہر کردینا چاہتے ہیں کہ اب اس انسٹی ٹیوشن کو ملک کی کسی پولٹیکل تحریک سے کسی قسم کا تعلق نہیں ہے اور یہ کامل معنوں میں ایک خالص تعلیمی درس گاہ ہے۔ ہندوستان کا کون سا فرد ہے جو علامہ اقبال، نواب ذوالفقار علی خان، صاحبزادہ آفتاب احمد خان، مولانا ابوالکلام، حکیم اجمل خاں اور ڈاکٹر انصاری کے اس ارشاد پر مطمئن نہ ہوجائے گا۔ اس اپیل سے مسلمانوں پر یہ بھی واضح ہوسکتا ہے کہ اب جامعہ ملیہ کسی خاص عقیدے اور خاص طریق کی سیاسی جماعت کے زیرانتظام نہیں رہی بلکہ ہر طبقے اور ہر راے کے بہترین اور معتمد ترین اصحاب اسے مستقل و مستحکم بنانا ضروری سمجھتے ہیں یعنی علامہ اقبال، نواب ذوالفقار علی خان، صاحبزادہ آفتاب احمد خان، مولانا آزاد، حکیم صاحب اور ڈاکٹر انصاری سب کو اس کی ضرورت و اہمیت کا پورا پورا احساس ہے اور سب کے ہاتھ اس کے استقلال و استحکام کے لیے مشترکہ کوشش کے واسطے بڑھ رہے ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ مسلمانان ہند اس اپیل کا پر جوش خیر مقدم کریں گے اور پانچ ہزار روپے کی مستقل ماہوار امداد کا جلد سے جلد بندوبست کردیں گے۔ ہم تمام معطیوں اور معاونوں کی فہرست وقتاً فوقتاً اخبار میں شائع کرتے رہیں گے۔ سہ شنبہ ۲۲؍جمادی الاخریٰ ۱۳۴۵ھ، ۲۸؍دسمبر۱۹۲۶ئ، ۱۳/۲۸۴،ص۲۔ پنجاب میں وزارت کی کش مکش مولانا داؤداپسن اور مالک مسلم آوٹ لک مسلم آوٹ لک سے مولانا داؤداپسن کی علیحدگی کے متعلق ہم قبل ازیں ایک مختصر سے ذیلی مقالے میں اپنے خیالات ظاہر کرچکے ہیں۔ ہمیں اس علیحدگی پر دلی افسوس ہے اور مسلمانان پنجاب کی بڑی بدنصیبی ہے کہ ان کا واحد روزنامہ انگریزی اخبار مولانا اپسن ایسے پر جوش اور مخلص مسلمان کی خدمات سے محروم ہوگیا ہے۔ خدا کرے کہ مولانا اپسن جلد سے جلد آبزرور کو بلند پایہ روزانہ انگریزی اخبار بنانے میں کامیاب ہوجائیں، وہ اس نازک موقع پر بہ دستور قوم کی صحیح خدمت انجام دے سکیں اور اس کی صحیح رہ نمائی فرماسکیں۔ مولانا اپسن نے اپنی علیحدگی کے جو وجوہ و اسباب بیان کیے ہیں ان کی صحت کی نسبت ہم خود ابھی تک کچھ نہیں کرسکتے لیکن اس سے انکار نہیں ہوسکتا کہ اگر وہ وجوہ صحیح ہیں یا ان کا عشر عشیر بھی صحیح ہے تو ہمیں مسلم آوٹ لک کے مالک نیز میاں سرفضل حسین اور ان کے حماتیوں پر دلی افسوس ہے کہ کسی مسلمان کے لیے بھی زیبا نہیں کہ وہ ذاتی اغراض اور اپنے چند حمایتیوں کی اغرض کے لیے مسلمانوں کے بہترین آدمیوں کو خدمت ملک و وطن کے اچھے مواقع سے محروم رکھنے کی کوشش کرے اور قوم کے مفاد کو بھی قربان کردینے میں متامل نہ ہو۔ ہمیں میاں سرفضل حسین کے خیالات سے اکثر اختلاف رہا ہے اور ہمارے نزدیک حکومت کا کوئی آدمی بھی کبھی صحیح طریقے پر قوم و وطن کی قابل ذکر خدمت انجام نہیں دے سکتا لیکن یہ تو خیال بھی نہیں تھا کہ میاں صاحب اپنے مفاد اور اپنے حمایتیوں کے مفاد کے لیے مسلمانوں کے بہترین افراد اور مسلم قوم کے مفاد سے بھی بے پروا ہوگئے ہیں۔ اگر مولانا داؤد اپسن کے شائع کردہ بیان کے واقعات صحیح ہیں تو دلی رنج کے ساتھ صاف صاف کہنا پڑتا ہے کہ ان واقعات پر کوئی مسلمان اس وقت تک استحسان کا اظہار نہیں کرسکتا جب تک وہ قوم اور وطن کے مفاد سے یکسر قطع تعلق نہ کرے۔ مسلم آؤٹ لک اور زمیندار زمیندار باوجود اختلاف مسلک اور باوجود اختلاف راے ہمیشہ مسلم آؤٹ لک کا موید رہا ہے اس لیے کہ کارپرداز انِ زمیندار کا دستور حیات ہی یہ ہے کہ جو فرد یا جریدہ جس حد تک عام مسلمانوں کے لیے مفید ثابت ہوسکے، اس حد تک اس سے پورا فائدہ اُٹھایا جائے، اس کی پوری تائید کی جائے اور حتی الامکان اس کے نقائص و عیوب سے احتراز کیا جائے۔ چنانچہ زمیندار نے ہر ضروری موقعے پر مسلم آؤٹ لک کی ترقی اشاعت کے لیے مضامین لکھے اور ہر ممکن ذریعے سے کوشش کی کہ اس معزز ہم عصر کا دائرہ افادہ بہت وسیع ہوجائے لیکن افسوس کہ مسلم آؤٹ لک نے زمیندارکی ان تمام خدمات کو فراموش کرکے ۲۴؍دسمبر کی اشاعت میں اس کے خلاف بہت زہر اُگلا ہے۔ محض اس ’’جرم‘‘ کی پاداش میں کہ ہمارے نمایندے نے مولانا اپسن کے ساتھ ملاقات کرکے علیحدگی کے متعلق ان کا جو بیان حاصل کیا تھا اسے زمیندارمیں کیوں شائع کیا اور اس کی اشاعت سے قبل مسلم آؤٹ لک کے مالک یا کارپردازوں سے اس بیان کی صحت و عدم صحت کی نسبت کیوں استصواب نہ کیا۔ ہم نہیں چاہتے تھے کہ اس قسم کے مباحث میں خواہ مخواہ الجھیں لیکن چونکہ ہمارے الزام تراش معاصر نے خود اسے چھیڑدیا ہے اس لیے عرض کرتے ہیں کہ ہر اخبار اور اس کے کارکن اپنے منصب کی اخلاقی ذمہ داریوں سے پورے طور پر آگاہ ہیں۔ ہم نے جو کچھ کیا اپنے خیال اور اپنی سمجھ کے مطابق دیانت داری سے کیا۔ہمیں مولانا اپسن کی علیحدگی کے حقیقی وجوہ بہت پہلے معلوم ہوچکے تھے اور ان کی تفصیلات بہت دردناک تھیں۔ مولانا اپسن کا جو بیان شائع ہوا ہے وہ بہت مجمل ہے اور ہم اخلاقاً اس سے زیادہ کچھ نہیں شائع کرسکتے تھے جتنا کہ مولانا اپسن نے خود شائع کرنا مناسب سمجھا لیکن ہمیں اس سے بہت زیادہ معلوم تھا جتنا کہ شائع ہوا۔ ان حالات کی نسبت مسلم آؤٹ لک کے دفتر سے استفسار ہمارے نزدیک بالکل غیر ضروری تھا اس لیے کہ جو کچھ مولانا اپسن نے بیان کیا ہے اس کی شہادت مسلم آؤٹ لک کی ۱۷؍دسمبر کی اشاعت کا تھا اور چودھری چھوٹو رام کی حمایت کے مضامین دے رہے ہیں اور اب بھی مسلم آؤٹ لک نے اپنی ’’برأت‘‘ میں جو کچھ لکھا ہے وہ اس کی حیثیت کو کچھ زیادہ صاف نہیں کرسکا۔ ’’آقا اور غلام‘‘ ہمیں بے انتہا افسوس مسلم آؤٹ لک کی ۲۴؍دسمبر کی اشاعت کے محولہ بالا مضمون کے عنوان اور انداز تحریر پر ہے۔ بلاشبہ یہ صحیح ہے کہ مولانا اپسن مالک مسلم آؤٹ لک کے ملازم تھے لیکن ایک جریدے کے معزز اڈیٹر کے ایک فعل کی نسبت اظہار راے کے لیے آقا اور غلام‘‘ کا عنوان کسی شریف انسان کے نزدیک بھی شائستہ استحسان نہیں ہوسکتا اور جو شخص حسن اتفاق یا سوء اتفاق سے چند ہزار روپے لگا کر…… دو تین مشینوں کا مالک بن جاتا ہے یا دس پانچ آدمیوں کو ملازم رکھ لیتا ہے اسے قطعاً یہ حق نہیں پہنچتا کہ اہل قلم اور ارباب علم کی نسبت ایسے پایۂ اخلاق سے گرے ہوئے انداز میں اظہار راے کرے اور چند روپوں کے معاوضے میں حریت فکر و آزادی خیال کے خون کے درپے ہو۔ اس سلسلے میں مولانا اپسن پر ذاتی اغراض کا الزام پائیشن اور انڈی پنڈنٹ سے ان کی علیحدگی کا ذکر بے حد شرم ناک ہے۔ مولانا اپسن کے لیے یہ بڑی قابل فخر بات ہے کہ وہ کسی موقعے پر بھی اپنی راے کی آزادی سے دست برداری پر راضی نہیں ہوئے اور جب ان کے دماغ اور ہاتھ کو ’’سُنہری اور روپہلی‘‘ زنجیروں میں جکڑنے کی کوشش کی گئی وہ بلاتامل علیحدہ ہوگئے اور اپنی معاش کی خاطر جس سے وہ بیچارے کبھی فارغ البال نہیں ہوئے اور آج بھی فارغ البال نہیں ہیں، اپنے ضمیر کے خون پر آمادہ نہیں ہوئے۔ مولانا اپسن سے بعض معاملات میں ہمیں بھی اختلاف ہے لیکن ان کی شرافت، ان کی دیانت، ان کے خلوص اور ان کے جوش اسلام سے انکار در حقیقت نصف النہار کے وقت، دن سے انکار کے مترادف ہے۔ اس مضمون میں ہماری نسبت جو کچھ لکھا گیا ہے اس کے متعلق ہم ابھی کچھ کہنا نہیں چاہتے چند روز میں معلوم ہوجائے گا کہ ذاتی اغراض کی قربان گاہ پر قوم کے مفادکو کس نے ذبح کیا، ہم نے یا مسلم آؤٹ لک نے؟ چند غرض پرست افراد کی حمایت کی خاطر قوم کی فلاح و بہبود سے کس نے چشم پوشی کی، ہم نے یا مسلم آؤٹ لک نے؟ مسلمانوں میں افتراق کا بیج کس نے بویا، ہم نے یا مسلم آؤٹ لک نے؟ ہماری دلی دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو راہ راست پر چلائے۔ مسلمانوں سے التماس ہے کہ وہ اپنے حقیقی مفاد سے آگاہ ہوں۔ دیکھیں کہ ان کے ’’سرمایہ دار‘‘ ذاتی مفاد کی خاطر ان کے پرجوش ’’مزدور‘‘ خادموں کے ساتھ کیسا سلوک کرتے ہیں اور کس طرح ایک سچے مسلمان کو ذاتی اغراض کا بندہ اور قوم کے مفاد سے بے پروا بتایا جاتا ہے محض اس بنا پر کہ اس غریب کے پاس روپیا نہیں، وہ اسلام اور وطن کی خدمت کے لیے ایک ایسے شخص کے ہاں ملازمت اختیار کرتا ہے جس کے پاس روپیا ہے، اخبار ہے اور مطبع ہے اور پھر اس کے خیال میں قومی خدمت کی جو صورت ہے وہ اس صاحب مطبع اور مالک اخبار کے خیالات سے مطابقت نہیں کھاتی۔ ہمیں بتایا جاتا ہے کہ مالک مسلم آؤٹ لک کے ساتھ مولانا اپسن کا جو معاہدہ ہوا تھا، اس کی رو سے مالک ہروہ مضمون اخبار میں شایع کرنے کا حق دار تھا جو اس کے نزدیک مسلمانوں کے لیے اور وطن کے لیے مفید ہوتا لیکن ادب سے عرض ہے کہ کیا غریب اپسن کو علیحدگی کے بعد بھی اس امر کا حق حاصل نہیں کہ وہ مالک مسلم آؤٹ لک کے خیالات سے اختلاف کرے اور کہے کہ مالک مذکور ایک ایسے مسلک پر کاربند ہونے کے لیے مُصر ہے جو مسلمانوں کے بہترین مفاد کے لیے مضرت رساں ہے۔ آخر اس پر بگڑنے کی کون سی بات ہے؟ اب رہا یہ امر کہ مسلمانوں کا بہترین مفاد کس کی تائید پر ہے۔ مولانا اپسن کی یا مالک مسلم آؤٹ لک کی؟ تو اس کا فیصلہ چند روز میں ہوجائے گا جب کہ مولانا اپسن اپنا اخبار نکال کر پورے معاملات اپنے قلم سے واضح فرمادیں گے۔ اس وقت مسلمان خود اندازہ فرمالیں گے کہ حق کس کے ساتھ تھا۔ مسلم آؤٹ لک کا افسوس ناک طرز عمل ۲۵؍ دسمبر کے مسلم آؤٹ لک میں ایک ہی صفحے پر پے در پے چار مراسلتیں شائع ہوئی ہیں جنھیں چار بنانے کے لیے ٹکڑے ٹکڑے کردیا گیا ہے لیکن نوعیت مطالب اور انداز تحریر کے اعتبار سے درحقیقت وہ ایک ہی مضمون معلوم ہوتا ہے۔ ان میں سے سب سے پہلی مراسلت میں مولانا اپسن کے بیان کو ’’مسلم قوم کے ساتھ غداری‘‘ کے جملے سے تعبیر کیا گیا ہے اور یقین ظاہر کیا گیا ہے کہ علامہ سر اقبال اور اس صوبے کا ہر صاحب فہم مسلمان مولانا اپسن کے بیان سے قطعی برأت اختیار کرے گا۔ مولانا اپسن کی نسبت لکھا گیا ہے کہ انھوں نے مسلمانان پنجاب کے مسلمہ رہنما (یعنی میاں سر فضل حسین) کی نیک شہرت اور نیک نام پر بزدلانہ حملہ کیا ہے۔ آخر میں علامہ اقبال کو ایک گونہ دھمکی دی گئی ہے کہ اگر مسلمانوں کو شبہ بھی ہوگیا کہ فلاں مسلمان مولانا اپسن کے اس بیان کا محرک تھا تو خواہ وہ کتنا ہی بلند پایہ کیوں نہ ہو اور اس کے علم و فضل کا کتنا ہی ڈنکا کیوں نہ بج رہا ہو، عام مسلمانوں میں اس کا اعتماد ایک لمحے کے لیے بھی قائم نہ رہ سکے گا۔ دوسری مراسلت میں میاں فضل حسین کی تعریف کی گئی ہے، فرمایا گیا ہے کہ مولانا اپسن نے اپنے بیان میں علامہ سر اقبال اور دیہاتی جماعت کے مابین تکدر پیدا کرنے کی کوشش کی ہے اور چودھری چھوٹورام کے خلاف جو خیالات ظاہر کیے گئے تھے، دیہاتی جماعت کی جانب سے ان خیالات سے برأت کا اظہار کیا گیا ہے۔ تیسری مراسلت چودھری چھوٹورام کی تعریف پر مشتمل ہے۔ چوتھی مراسلت کے آغاز میں ٹریبون کے ایک مقالے سے اختلاف کیا گیا ہے جس کا عنوان ’’پنجاب میں ترتیب وزارت‘‘ تھا اس میں چودھری چھوٹو رام کی نسبت جو خیالات ظاہر کیے گئے تھے ان پر نکتہ چینی کی گئی ہے اور یہ تجویز پیش کی گئی ہے کہ گورنر کو وزیر دیہاتی جماعت سے منتخب کرنا چاہیے اور آخر میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ گورنر کو متعلقہ محکموں میں مسلمانوں کی نمایندگی کا پورا لحاظ رکھنا چاہیے۔ میاں فضل حسین اور ہم پہلی اور دوسری مراسلت میں میاں سرفضل حسین کی نسبت جن خیالات کا اظہار کیا گیا ہے ہمیں ان سے شدید اختلاف ہے۔ میاں صاحب کو مسلمانان پنجاب نے کبھی اپنا رہنما نہیں مانا، کبھی انھیں باعث فخر نہیں سمجھا اور اس دور حریت و آزادی میں کون حواس باختہ حکومت کے کسی ملازم کو قوم کا رہنما مان سکتا ہے۔ میاں فضل حسین کے خلاف جب ہندو جراید اور ہندو افراد نے شور مچایا تھا تو ہم سب سے پہلے میاں صاحب کی حمایت کے لیے اُٹھے تھے اور زمیندار کا تین چار سال کا فایل اس حقیقت باہرہ کا ثبوت ہے کہ اس معاملے میں ہم سے بڑھ کر میاں صاحب کی حمایت کسی دوسرے شخص نے نہ کی لیکن وہ حمایت میاں صاحب کی ذات یا ان کی وزارت کی نہ تھی بلکہ ایک اچھے اُصول کی حمایت تھی اور اس وقت ہندوؤں کا شور درحقیقت میاں صاحب پر نہیں بلکہ اس اچھے اُصول یعنی نظم و نسق ملک میں مسلمانان پنجاب کی واجبی نمایندگی پر اثر انداز تھا۔ میاں صاحب سے ہمیں ہمیشہ اختلاف رہا اور اب بھی اختلاف ہے لیکن جب وہ غلط یا صحیح طور پر ایک اچھے اُصول سے وابستہ ہوگئے یا وابستہ کردیے گئے تو ہم نے کھلے بندوں اس خاص معاملے میں ان کی حمایت کی لیکن نہ اس وقت وہ ہماری نظروں میں مسلمانان پنجاب کے رہ نما تھے نہ ان کی شش سالہ وزارت نے انھیں مسلمانوں کی رہنمائی کا منصب دیا اور نہ ان کا موجودہ منصب اس مقصد کے لیے مفید ہے۔ وہ پہلے بھی حکومت کے آدمی تھی اور اب بھی حکومت کے آدمی ہیں اور ہمیں معلوم ہے کہ انھوں نے اب تک مسلمانوں کی کوئی قابل قدر خدمت انجام نہیں دی۔ اگرچہ ان کی ’’خدمات‘‘ کا شور بہت بلند ہے اور اس شور کے ذمہ دار درحقیقت ہندو ہیں اگر مولانا اپسن کا یہ بیان صحیح ہے کہ میاں فضل حسین نے یہ کوشش کی کہ کوئی قابل مسلمان نظم و نسق ملک میں اعلیٰ عہدہ حاصل نہ کرسکے یعنی وزیر نہ بن سکے اور اس مقصد کے لیے انھوں نے تیسری وزارت کے قیام سے بھی اختلاف کیا تو ہمیں انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ یہ اسلامی مفاد سے صریح غداری کا ثبوت ہے اور اگر یہ صحیح ہے تو ایسا مسلمان ایک لحظے کے لیے بھی کسی بہی خواہ قوم [یا] مسلمانوں کی نظروں میں شائستہ تحسین نہیں سمجھا جاسکتا چہ جائیکہ اسے مسلمانان پنجاب کا رہنما قرار دیا جائے یا کہا جائے کہ مسلمانان پنجاب اس پر فخر کرسکتے ہیں۔ دیہاتی جماعت ’’دیہاتی جماعت‘‘ کا ڈھونگ بھی ہماری نظروں میں ہمیشہ تکلیف دہ رہا ہے۔ مسلمان پہلے ہی کافی ہی منتشر تھے اور ہیں، نسلی اختلاف کی لعنت ان میں تھی، مذہبی اختلاف نے انھیں تباہ کررکھا تھا، یہ دیہاتی اور غیردیہاتی، شہری اور غیر شہری، زراعت پیشہ اور غیر زراعت پیشہ کا اختلاف ایک نئی لعنت تھی جو افسوس کہ بعض غرض پرست مسلمانوں کی کوششوں نے پنجاب کونسل کے اندر جاری کی اور جواب تک بہ شدومد جاری ہے۔ مقصد اس کا غالباً یہ تھا کہ نظم و نسق کے اعلیٰ ترین عہدے چند خاص آدمیوں کے ہاتھ میں رہیں اور کوئی دوسرا قابل مسلمان ان تک نہ پہنچ سکے۔ ہم ہمیشہ اس طریق عمل کے موید بلکہ سب سے بڑے داعی رہے ہیں کہ کونسل کے اندر ہندو مسلمان اور سکھ مل کر اور متحد ہوکر قوم اور ملک کے فائدے کے لیے کوشش کریں اور ہم ہر اس ہندو کا تہ دل سے خیر مقدم کرنے کے لیے آمادہ رہے ہیں جو تعصبات سے علیحدہ ہوکر دوسری ہمسایہ قوموں کے نمایندوں سے شرکت عمل پر آمادہ ہوسکے لیکن دیہاتی جماعت یا زراعت پیشہ ارکان کی جماعت یا اتحاد، خواہ جماعت اتحاد و اشتراک عمل کے اس اعلیٰ اُصول پر نہیں بنی تھی اور نہ کبھی اس نے اس اُصول پر کام کیا اس کا مقصد محض یہ تھا کہ جو چند لوگ اقتدار حاصل کرچکے ہیں ان کے لیے اس اقتدار کے دوامی اجارہ دار بن جانے کا موقع پیدا کیا جائے اور حکومت دیہاتی اور غیردیہاتی کے ایک جدید امتیاز سے فائدہ اُٹھا کر دونوں کو ایک دوسرے کے خلاف استعمال کرسکے جیسا کہ اُس نے آبیانے کے موقعے پر کیا۔ جو جو اشخاص قوم اور ملک کو نقصان پہنچانے والے اس نئے عامل کے کار پرداز تھے وہ درحقیقت قوم اور ملک دونوں کے دشمن تھے، حکومت کے کارندے تھے، ذاتی اغراض کے بندے تھے اور ہمیں افسوس ہے کہ شاید آج بھی یہ تمام اغراض بہ دستور کار فرما ہیں پھر کیا کوئی بہی خواہ ملک و ملت نہیں جو پنجاب کونسل کو اس لعنت سے نجات دے؟ کیا یہ نہیں ہوسکتا کہ چند مخلص انسان سامنے آئیں اور اس طبلِ بلند بانگ کا چرمی پیٹ چاک کردیں۔ اس کے بعد مخلص ہندو اور مخلص مسلمان مل کر ایک ایسی جماعت بنائیں جس میں شہری اور غیر شہری کا کوئی امتیاز نہ ہو، جو صرف ملک اور قوم کے مقاصد کو پیش نظر رکھ کر مخلصانہ کام کرے، جو ذاتی اغراض کی تمام نجاستوں سے کونسل کے دامن کو پاک کردے اور ’’کہنہ مشق استادوں‘‘ اور ’’نوآموزشاگردوں‘‘ نے کونسل میں کٹھ پتلیوں کا جو تماشا [دکھایا] ختم ہوجائے؟ وزارتوں کی تقسیم ہمیں معلوم نہیں کہ وزارتوں کی تقسیم کا انجام کیا ہوگا۔ لیکن اتنا کَہ دنیا چاہتے ہیں کہ گورنر کو کسی غرض پرست مسلمان کی راے اور مشورے پر کان نہیں دھرنا چاہیے اور ہر قوم کی تعداد، تناسب آبادی اور حیثیت کو ملحوظ رکھ کر کوئی فیصلہ کرنا چاہیے۔ ہر قوم کے قابل افراد نمایاں ہیں لہٰذا وزارتیں انھی کو دی جانی چاہئیں جو بہترین قابلیت رکھتے ہوں، عوام میں معتمد علیہ ہوں۔ جوڑ توڑ کرنے والوں کی راے اور مشورے کے مطابق عمل پیرا ہونے سے کچھ زیادہ خوش گوار نتیجہ برآمد نہ ہوگا اور مخلص افراد اس بات پر مجبور ہوجائیں گے کہ وہ ایک ایک فرد قوم کے پاس پہنچیں اور انھیں حکومت کی روش کے خلاف پر زور احتجاج پر آمادہ کریں نیز بتائیں کہ ذمہ دار افراد کس مسلک پر کاربند ہیں اور حکومت اپنی اغراض کے لیے کس حکمت عملی کی پابند ہے؟ علامہ اقبال کا تعلق جس حد تک ہمیں معلوم ہے کہ مولانا داؤد اپسن کے بیان سے علامہ اقبال کا قطعاً کوئی تعلق نہیں، علامہ ممدوح ہمیشہ اتحاد کے حامی رہے ہیں، وہ ہر شخص سے یہی کہتے رہے ہیں کہ متحد ہوکر قوم اور ملک کی خدمت کرو، انھوں نے کبھی کسی امتیاز کو اپنے دل میں جگہ نہیں دی اور کبھی کسی امتیاز پر خوش نہیں ہوئے۔ وہ اتنے نیک ہیں کہ کسی کو نیچا دکھانے یا کسی کو شکست دینے یا اپنی ذاتی غرض کے لیے جوڑ توڑ کرنے کا ان کے دل میں کبھی وہم بھی نہیں گزرا اور اگر علامہ ممدوح ہمارے اس خیال پر ناراض نہ ہوں تو ہم کَہ سکتے ہیں کہ وہ فطرتاً بھی اس قسم کے اُمور اور اس قسم کی زندگی کے قابل نہیں ہیں۔ کاش اللہ تعالیٰ انھیں ہست عطا کرے کہ وہ تمام قوموں کے مخلص افراد کو قوم اور وطن کی سچی خدمت کے لیے متحد کرسکیں۔ وہ اگر کوشش فرمائیں تو بہت کچھ ہوسکتا ہے۔ تمام قوموں کے ذی اثر افراد انہیں عزت و احترام کی نگاہوں سے دیکھتے ہیں اور ان کی ذات گرامی پر پورا اعتماد رکھتے ہیں۔ کاش علامہ ممدوح اس اہم کام کے لیے تیار ہوجائیں اور کونسل میں ان کا وجود پنجاب کے لیے باعث رحمت بن سکے۔ چہارشنبہ ۲۳ ؍جمادی الاخریٰ۱۳۴۵ھ، ۲۹؍دسمبر۱۹۲۶ئ، ۱۳/۲۸۵،ص۱، بقیہ ص۲۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کا اپیل اخبارات میں شایع ہوگیا جس پر علامہ سر محمد اقبال، نواب ذوالفقار علی خان، مولانا ابوالکلام، ڈاکٹر انصاری اور مسیح الملک حکیم اجمل خان کے دستخط تھے۔ ہمیں یہ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ روزنامہ زمیندار کے سوا اور کسی اُردو اخبار نے اس پر پوری توجہ نہیں کی۔ بعض نے اس پر ذیلی مقالات لکھے ہیں مگر ضرورت اس امر کی تھی کہ زمیندار کی طرح اس پر مقالات افتتاحیہ لکھے جاتے اور پھر بار بار ملک کو اس کی طرف متوجہ کیا جاتا۔ اگرچہ دفتر جامعہ سے اس امر کی اطلاع تو بآسانی نہیں مل سکتی کہ اس اپیل کا ملک نے کیا جواب دیا مگر جہاں تک آپ کے نامہ نگار کو مختلف ذرایع سے اطلاع مل چکی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حالات امید افزا ہیں۔ جامعہ کے پرنسپل ڈاکٹر ذاکر حسین ہماری سابقہ اطلاع کے مطابق بہار گئے ہوئے ہیں امید کی جاتی ہے کہ حکیم اجمل خان صاحب بھوپال سے واپس آکر بہار تشریف لے جائیں گے۔ سہ شنبہ ۲۱؍ رجب ۱۳۴۵ھ، ۲۵ جنوری۱۹۲۷ئ، ۱۴/۱۹،ص۱۔ خ…خ…خ حوالے اور حواشی ۱- گفتار ص۲۶۸ پہ صرف یہ عنوان درج ہے: ’’تحریک خلافت‘‘، ۲- گفتار:ڈاکٹر اقبال، ص۲۶۸ ۳- ایضاً: … آزاد اور دوسرے اصحاب لاہور…، ص۲۶۸ ۴- ایضاً: تجاویز پیش کیں، ص۲۶۸ ۵- گفتار: کیا ہے… نیز، ص۲۶۸ ۶- ایضاً: علحدہ، ص۲۶۸ ۷- گفتار: آپ نے فرمایا ’’میرا یہ عقیدہ ہے…، ص۲۶۹ ۸- گفتار: علما ۹- انھی دونوں علامہ اقبال نے زمیندار میں ایک مضمون لکھا جس میں علماے کرام کو ایک مقام پر جمع کرنے اور ان سے فتویٰ لینے کے اُصول اور طریقوں کی وضاحت کی۔ ۱۰- علامہ اقبال کی تجویز منظور نہ ہوئی۔ اس کے بعد خان بہادر میاں فضل حسین نے یہ تجویز پیش کی کہ اسلامیہ کالج اور سکول بدستور پنجاب یونی ورسٹی سے ملحق رہیں۔ یہ تجویز کافی بحث کے بعد منظور کرلی گئی۔ ۳۶؍ ارکان نے اس کے حق میں راے دی۔ علامہ اقبال اور ۱۵ دوسرے حضرات نے راے دینے میں حصہ نہ لیا۔ ۱۱- پیام مشرق، جمعیت الاقوام، ص۱۹۳ ۱۲- نواب سر ذوالفقار علی خان، صاحبزادہ آفتاب احمد خان، مولانا ابوالکلام آزاد، مسیح الملک حکیم اجمل خان (امیر جامعہ) اور ڈاکٹر مختار احمد انصاری (معتمد جامعہ) ۱۳- گفتار: سلسلے (’’سلسلے‘‘ درست ہے)، ص۲۷۱ ۱۴- گفتار: کیا جائے۔ چونکہ، ص۲۷۱ ۱۵- ایضاً: ہمیں، ص۲۷۱ ۱۶- ایضاً: مرکز (’’مرکز‘‘ درست ہے)، ص۲۷۱ ۱۷- ایضاً: سرمائے (’’سرمائے‘‘ درست ہے)، ص۲۷۱ ۱۸- ایضاً: روپیہ نہایت آمدہ، ص۲۷۱ ۱۹- ایضاً: …اس عظیم کام کے لیے فراہم کرسکیں تو یہ کام آسان ہوسکتا ہے۔ ہم امید، ص۲۷۱ ۲۰- ایضاً: دلاتے ہیں، ص۲۷۱ ض…ضض…ض نواب ذوالفقار علی خان کی صحت لاہور میں تشریف آوری لاہور۔ ۱۶؍اپریل۔ نواب سرذوالفقار علی خاں کے ٹی سی ایس آئی جو ایک مدت سے علیل تھے اور دہلی میں علاج کرارہے تھے، اب بالکل تندرست ہوکر لاہور آپہنچے ہیں۔ ریلوے اسٹیشن پر آنریبل چودھری شہاب الدین، ڈاکٹر سر محمد اقبال، شیخ اصغر علی آئی سی ایس، نواب سر امیرالدین آف لوہار د اور نواب احمد نواز خان آف ڈیرانے آپ کا خیرمقدم کیا۔ پنج شنبہ ۲۴؍ رمضان المبارک۱۳۴۴ھ، ۸؍اپریل۱۹۲۶، ۱۳/۷۶،ص۶۔ خان بہادر شیخ عبدالقادر کی مراجعت اسٹیشن پر عظیم الشّان استقبال لاہور ۲۵؍ اکتوبر خان بہادر شیخ عبدالقادر صاحب بیرسٹرایٹ لا سابق وزیر تعلیم جو ’’مجلس اقوام‘‘ کے لیے ہندوستانی نمایندے کی حیثیت میں جنیوا تشریف لے گئے تھے ۱۴؍اکتوبر کی صبح سواسات بجے بمبئی میل سے تشریف لائے۔ گو قلت وقت کے سبب یہ اطلاع نہ دی جاسکی مگر پھر بھی ہر قوم اور ہر طبقے کے معزز نمایندے اسٹیشن پر موجود تھے۔ آپ کے استقبال کے لیے جو اشخاص موجود تھے ان میں سے قابل ذکر اصحاب حسب ذیل ہیں: علامہ ڈاکٹر سراقبال ، علامہ عبداللہ یوسف علی پرنسپل اسلامیہ کالج، خان بہادر شیخ نورالٰہی آئی ای ایس، ڈاکٹر خلیفہ شجاع الدین بارایٹ لا، مرزا محمد سعید آئی ای ایس، مولوی غلام محی الدین وکیل، خاں صاحب شیخ عبدالعزیز بی۔اے، سردار اودھے سنگھ شائق وکیل فیروزپور، خواجہ دل محمد صاحب، مولانا توحید، ڈاکٹر محمود، پروفیسر دیوی دیال ایم اے۔ جس وقت آپ گاڑی سے اُترے حاضرین نے اللہ اکبر کے مسلسل نعروں سے آپ کا استقبال کیا۔ پھولوں کے ہاروں سے شیخ صاحب کا چہرہ بمشکل نظر آتا تھا۔ رضا کار اگر انتظام نہ کرتے تو مصافحوں اور معانقوں کی کش مکش میں دوچار آدمی کچلے جاتے۔ اسٹیشن سے یہ قومی ہجوم جلوس میں تبدیل ہوکر شیخ صاحب کے ساتھ ان کی کوٹھی تک گیا۔ (نامہ نگار) سہ شنبہ، ۱۸؍ربیع الثانی۱۳۴۴ھ، ۲۶؍اکتوبر۱۹۲۶ئ،۱۳/۲۳۳، ص۳۔ افکار و حوادث حضرت اقبال کے شہر میں کارکنان قومی کے اجتماع سے علامہ موصوف کے اس شعر کی تشریح ہوجاتی ہے ؎ لازم ہے دل کے پاس رہے پاسبانِ عقل لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے مدتوں کے بچھڑے، جیل سے آئے ہوئے احباب کی ملاقات اور مہینوں کی تگ و دو اور جدوجہد کے بعد یکجا بیٹھنے سے جو مسرت ہوتی تھی اور کارکنانِ قوم فرصت کا وقت جس خوشی سے گزارتے تھے اس سے اس شعر کا مفہوم سمجھ میں آجاتا تھا۔ چہارشنبہ ۱۱؍صفرالمظفر ۱۳۴۱ھ، ۴؍اکتوبر۱۹۲۲ئ، ۹/۲۰۴،ص۳۔ افکار و حوادث حضرت علامہ اقبال اور خطاب ’’سرؔ‘‘ سوچ تو دل میں لقب ساقی کا ہے زیبا تجھے؟۱؎ انجمن پیاسی ہے اور پیمانہ بے صہبا ترا۱؎ کعبہ پہلو میں ہے اور سودائی بُت خانہ ہے۱؎ کس قدر شوریدہ سر ہے شوقِ بے پروا ترا!۱؎ اور ہے تیرا شعار، آئینِ ملّت اور ہے۱؎ زشت روئی سے تری آئینہ ہے رسوا تیرا جناب میاں محمد شفیع بالقابہ کو سر کا خطاب ملا تو کسی قومی اخبار نے ایک لفظ تک نہ لکھا لیکن حضرت علامہ اقبال کے سر ہوجانے پر تمام دُنیائے ادب و سیاست میں تہلکہ مچ رہا ہے آخر اس کی وجہ کیا ہے؟ وجہ بالکل ظاہر ہے کہ میاں محمد شفیع صاحب کو قوم اپنا نہیں سمجھتی۔ وہ نہ کبھی پہلے قوم کی راے کی پروا کرتے تھے نہ اب کرتے ہیں، ان کا دائرہ عمل ہی دوسرا ہے لیکن اقبال ’’ہمارا اقبال، قوم کی آنکھوں کا تارا اقبال‘‘ اگر ہم سے چھن جائے اور حکومت ایک دو حرفی لفظ دکھا کر اسے موہ لے تو یقینا ماتم کا مقام ہے۔ ہم علامہ اقبال کی عزت سے خوش ہوئے ہیں۔ زمیندار سے زیادہ شاید کوئی دنیا بھر میں موصوف کا مداح نہیں۔ اگر آج سے پندرہ سال قبل ہی سر کا خطاب آپ کو دیا جاتا تو ہم ہدیۂ تہنیت پیش کرنے میں سب سے پیش پیش ہوتے لیکن جب حکومتِ برطانیہ کے ہاتھوں جزیرۃ العرب کی مقدس سرزمین کی بے حرمتی ہوچکی، خلافت کے مقدمۂ اسلامیہ کو انگلستان کے ہاتھوں فتنۂ تاتار سے بھی زیادہ ہولناک حوادث پیش آئے اور اب تک کرزن چاہتا ہے کہ ایک دفعہ انگلستان اور اسلام کو پھر لاکر میدان جدال و قتال میں کھڑا کردے تو ہم اقبال کی برطانی ’’عزت افزائی‘‘ پر کیا خوش ہوں؟ اب اگر اقبال سر ہوئے تو کیا ہوئے ؎ آہ! جب گلشن کی جمعیت پریشاں ہوچکی۲؎ پھول کو بادِبہاری کا پیام آیا تو کیا ڈاکٹر ٹیگور اور ڈاکٹر پوس کو بھی سر کا خطاب ان کی علمی و ادبی شہرت کی وجہ سے ملا اور اقبال کو بھی حکومت نے اسی وجہ سے نوازا لیکن مسلمان کے لیے ارباب حکومت کی دی ہوئی عزت توپرکاہ سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی، مسلمان تو اپنے خدا اور رسولؐ کے ساتھ عزت میں حصّہ دار ہے۔ اِنَّ الْعزّۃِ للّٰہِ وَلِرَسُولِہٖ وَلِلْمُوْمِنِیْنْ۔ کیا علامہ اقبال خدا کی دی ہوئی عزت سے بے نیاز ہوگئے ہیں کہ خدا کی مخالف طاقتوں کی عطائی ہوئی عزت پر خوش ہیں۔ اِیَبِتْغُونَ عِنْدَھُمُ الْعِزَۃ؟ حالانکہ اِنَّ الْعِزَّۃَ لِلّٰہ جَمِعْیاً ۔ وائے نادانی! کہ تو محتاجِ ساقی ہوگیا ؎ مے بھی تو، مینا بھی تو، ساقی بھی تو، محفل بھی تو اقبال سر کے دو حرفی اعزاز پر قناعت کرگئے حالانکہ ہم انھیں کسی عظیم الشان اسلامی سلطنت کی وزارت عظمیٰ پر فائز دیکھنا چاہتے ہیں اور یہ امر کچھ دشوار نہیں ؎ توہی ناداں چند کلیوں پر قناعت کرگیا۴؎ ورنہ گلشن میں علاجِ تنگیِٔ داماں بھی ہے! اگر اقبال [سر] بنادیے گئے تو ان کے سرکاری دوستوں کو مبارک ہو جناب سر ذوالفقار علی خاں اس پر جتنی خوشی منائیں کم ہے لیکن یہ ظاہر ہے کہ مسلمان اقبال کے اس سرکاری سرؔ کو پسند نہیں کرتے وہ تو اقبال کے اسی سر کے شیدا ہیں جس میں اسلام کے عشق کا سودا ہے۔ اگرچہ ہماری اس گزارش پر کہ ؎ درمیانِ انجمن معشوق ہرجائی مباش گاہ باسلطاں باشی گاہ باشی فقر علامہ ممدوح فوراً یہ کَہ اُٹھیں گے کَہ تم ’’امتیاز ظاہری‘‘ کے طلسم کے اسیر ہو کیونکہ ؎ من کہ شمعِ عشق را دربزم دل افروختم سوختم خود را و سامانِ دوئی ہم سوختم لیکن اس قسم کے شاعرانہ جواب اور ’’ہیر کی نگری‘‘ میں ’’رانجھے‘‘ کے مختلف ’’اسما و القاب‘‘ کے عذرلنگ سے ان لوگوں کی تسکین کیونکر ہوسکتی ہے جو ڈھائی برس ہی سے نہیں بلکہ بہت مدت سے خان بہادروں، نوابوں اور سروں سے سخت بدظن ہوچکے ہیں۔ وہ تو یہی سمجھ رہے ہیں کہ اقبال کی عزت و حرمت اب حدودِ عالم گیر سے سمٹ کر صرف سرکاری حلقوں تک محدود ہوگئی ؎ رہزنِ ہمت ہوا ذوقِ تن آسانی ترا۵؎ بحرتھا صحرا میں تو، گلشن میں آیا جُو ہوا۱؎ آبرو باقی تری ملّت کی جمعیّت سے تھی۵؎ جب یہ جمعیّت گئی، دنیا میں رسوا تو ہوا۵؎ فرد قائم ربطِ ملت سے ہے، تنہا کچھ نہیں۵؎ موج ہے دریا میں، اور بیرونِ دریا کچھ نہیں ہم اعلان کرنا چاہتے ہیں کہ علامہ اقبال نے عمر بھر اسلام کی جو خدمت کی ہے اس کے سپاسِ مفت سے مسلمانانِ ہند کس طرح عہدہ برا نہیں ہوسکتے اور جس رنگ میں وہ آج تک خدمت کرتے رہے اسی رنگ میں اب بھی کرتے رہیں گے لیکن پہلے کی طرح اب یہ ادعانہ کرسکیں گے کہ ؎ مرغانِ زیرِ دام کے ہنگامے سُن چکے ہو تم۲؎ یہ بھی سنو کہ نالہٰ طائرِ بام اور ہے کیونکہ جو ’’طائرِبام‘‘ تھا وہ بھی اب ’’مرغِ زیرِدام‘‘ ہوچکا، خدا س دام سے اس کو مخلصی عطا فرمائے۔ ہم علامہ اقبال کی خدمت میں کچھ عرض نہیں کرنا چاہتے صرف اس وقت بے اختیار ان کے مندرجہ ذیل ارشادات زبانِ قلم پر جاری ہوگئے ہیں ؎ اگر منظور ہے تجھ۳؎ کو خزاں نا آشنا رہنا۹؎ جہانِ رنگ و بو سے پہلے قطعِ آرزو کرلے!۹؎ تمنّا آبرو کی ہو اگر گلزارِ ہستی میں۹؎ تو کانٹوں میں اُلجھ کر زندگی کرنے کی خو کرلے!۹؎ صنوبر باغ میں آزاد بھی ہے، پابگل بھی ہے۹؎ انھی پابندیوں میں حاصل آزادی تو کرلے!۴؎ تنک بخشی کو استغنا سے پیغامِ خجالت دے۹؎ نہ ہو۵؎ منّت کشِ شبنم، نگوں جام و سبو کرلے! نہیں یہ شانِ خود داری چمن سے توڑ کر تجھ کو۶؎ کوئی دستار میں رکھ لے، کوئی زیبِ گلو کرلے۷؎ تو اگر خود دار ہے منّت کشِ ساقی نہ ہو۱۲؎ عین دریا میں حباب آسانگوں پیمانہ کر۱۲؎ کیفیت باقی پرانے کوہ و صحرا میں نہیں۱۲؎ ہے جنوں تیرا نیا، پیدا نیا ویرانہ کر۱۲؎ ہاں! اسی شاخِ کہن پر پھر بنالے آشیاں۱۲؎ اہل گلشن کو شہیدِ نغمۂ مستانہ کر۱۲؎ کیوں چمن میں بے صدا مثلِ رمِ شبنم ہے تُو؟۱۲؎ لب کشا ہو جا سرودِ بربطِ عالم ہے تُو!۷؎ اندھیرے میں شمس العلما اتفاق ملاحظہ فرمائیے کہ جناب علامہ اقبال کے استاد مکرم حضرت مولانا سیّد میر حسن صاحب قبلہ سیالکوٹی کو بھی شمس العلما کا خطاب دیا گیا ہے اس پر ہمیں علامہ اقبال کا ایک قطعہ یاد آگیا۔ قطعہ بخت مسلم کی شب تار سے ڈرتی ہے سحر تیرگی میں ہے یہ شب دیدۂ آہو کی طرح ہے اندھیرے میں فقط مولوی صاحب کی نمود بن کے شمس العلما چمکے ہیں جگنو کی طرح دو شنبہ ۲۰؍ جمادی الاوّل ۱۳۴۱ھ، ۸؍جنوری ۱۹۲۳ئ، ۱۰/۶ ص۳۔ افکار و حوادث قطعہ تاریخ خطاب یافتگی علامہ اقبال جناب شکور علی خاں صاحب افسرؔ حیدرآباد دکن سے تحریر فرماتے ہیں: بندہ سے جس کو علامہ اقبال سے قلبی اتحاد اور دیرینہ آشنائی ہے اُن کے سالِ نو کے خطاب کا تذکرہ مع جناب سالکؔ کی بے مثل نظم اخبار زمیندار میں دیکھ کر رہا نہیں گیا اور مجھ پر جو حالت طاری ہوئی اُس نے مادۂ تاریخ نکالنے پر مجبور کیا جو مندرجہ ذیل ہے: ؎ کے مرد حق اسیرِ کمندِ ہوا شود گرسرزتن جدا اوتن از سرجدا شود تاریخ نو خطاب سر از افسر آمدہ اقبال راچو قلب کنی لابقا شود دوشنبہ ۲۷؍جمادی الاوّل ۱۳۴۱ ھ، ۱۵؍جنوری ۱۹۲۳ئ،۱۰/۱۲،ص۳۔ افکار و حوادث ترجمان حقیقت علامہ اقبال نے نام نہاد مسلمانوں کو موردآلام و مصائب ہوتا دیکھ کر خدا کے حضور میں شکوہ کیا تھا کہ ؎ رحمتیں ہیں تیری اغیار کے کاشانوں پر برق گرتی ہے تو بیچارے مسلمانوں پر اور جواب شکوہ میں فرمایا ہے کہ ؎ عدل ہے فاطر ہستی کا ازل سے دستور مسلم آئیں ہوا کافر تو ملے حور و قصور سچ ہے خدا وند کریم نے ان کافروں کو جو مسلمانوں کے قوانین پر عمل پیرا ہوگئے دنیا کی دولت و عزت سے مالا مال کردیا اور مسلمان ’’خوار ہوئے تارکِ قرآں ہوکر‘‘۔ آج کیا مدتوں سے جس طرف نظر اُٹھاؤ مسلمان زار و نزار نظر آتے ہیں، چین ہو یا مراکش، عرب ہو یا مصر، ترکی ہو یا ایرانی ہر سمت ان کی خستہ حالی کا رونا رویا جارہا ہے۔ ابھی ترکی کو اپنے مصائب سے نجات نہیں ملی، سرزمین حجاز اور مقامات مقدسہ پر اغیار کا بالواسطہ یا بلاواسطہ قبضہ و اقتدار موجود ہے، ہندوستان میں نام نہاد مسلمان آتش ارتداد میں بھسم ہوئے جارہے ہیں کہ ایران سے زلزلہ کی دہشت انگیز خبر آئی، تربت حیدری میں زلزلہ آیا، ہزاروں گھر اجڑ گئے، بستیاں ویران ہوگئیں، آبادیاں کھنڈر بن گئیں اور وہ شہر جہاں ہر گھڑی چہل پہل نظر آتی تھی بدم شوم اور زاغ و زغن کے لیے وقف ہوگئے۔ ابھی یہ رونا رویا جارہا ہے کہ ایک تباہی خیز طوفان اور ہلاکت انگیز طغیانی کی خبر موصول ہوئی جس نے ہزاروں گھروں پر پانی پھیر دیا، بستے گھر تَہ آب ہوگئے، املاک و جائداد، انسان اور حیوان پانی میں بَہ گئے۔ مسلمانوں کے لیے یہ واقعات درس عبرت ہیں۔ آنکھیں ہیں تو دیکھ لو، کان ہیں تو سن لو، دماغ ہے تو ہوش میں آؤ، تارکِ قرآن ہو کر خوار نہ ہو صراط مستقیم پر گامزن ہو، دین کی حبل المتین کو مضبوط تھام لو، اخوت اسلامی کا ثبوت دو، ایران کے ستم رسیدوں کے لیے جو کچھ ہوسکے، عالی جناب قونصل ایران مقیم شملہ کی خدمت میں ارسال فرماکر اپنے فرض اوّلین کو انجام دو اور حقیقی معنوں میں مسلمان بن کر نت نئے مصائب و آلام سے نجات پانے کی کوشش کرو۔ یک شنبہ ۲؍ ذیقعدہ ۱۳۴۱ھ، ۸؍جولائی۱۹۲۳ئ،۱۰/۱۵۳،ص۳۔ افکار و حوادث انجمن حمایت اسلام کی جنرل کونسل کا اجلاس تھا یا ’’دخل در نامعقولات کے عادی‘‘ کی تحریر کے مطابق حبیبیہ ہال میں پڑھے لکھے مشاہیر کا دنگل۔ جلسے کی روداد اور ارکان کے طرز عمل سے یہ ظاہر ہوتا تھا کہ دلوں میں کدورت ہے، مختلف الخیال حضرات موجود ہیں جو اپنی اپنی جماعت کے افراد کو عہدے دار بناکر انجمن کے نظم و نسق کو اپنے قابو میں لینا چاہتے ہیں۔ کہا تو یہ جاتا تھا کہ انجمن کا عہدے دار بننا درد سر خریدنا ہے، نہ کوئی معاوضہ ملتا ہے نہ کسی پر احسان ہوتا ہے لیکن پھر بھی مقابلے کیے جاتے تھے۔ شاید اس طرز عمل کی وجہ یہ ہے کہ کونسل کے ارکان کو یقین ہوچکا ہے کہ انجمن کی عہدہ داری قصر عزت و جاہ کے نردبان ہے ورنہ ’’زردادن اور درد سر خریدن‘‘ شیوہ دانش منداں نہیں ہے۔ ایک صاحب نے اسی جنرل کونسل کے اجلاس میں فرمایا تھا کہ خاں صاحب شیخ عبدالعزیز صاحب کے علیحدہ ہونے کے وقت انجمن کا خزانہ بھر پور تھا اور آج انجمن مفلوک الحال ہے۔ شاید واقعات ماسبق بالکل فراموش ہوچکے ہیں اگر یاد ہوتے اور انصاف کی نظر دوڑائی جاتی تو یہ کَہ دینا پڑتا کہ خاں صاحب شیخ صاحب کے عہدے کے بعد کوئی ایسا جلسہ منعقد نہ ہوسکا جس میں کوئی خاص رقم جمع ہوسکے، مسلمان غریب ہیں، انھوں نے اپنا اندوختہ ترکانِ امرا کی خدمت کے لیے وقف کردیا اور انجمن کو سرکاری اعانت و امداد کے سپرد کردیا تاکہ حامیان موالات کو معلوم ہوجائے کہ غریبوں کے پیسے پیسے میں حکومت کے لاکھوں روپوں سے زیادہ برکت ہوا کرتی ہے۔ مجلسِ عامہ کے ایک رکن منشی عبدالرحمن صاحب ملک کرم دین سے نہ ملے نہ انھیں دیکھا نہ اُن سے باتیں کیں محض سنی سنائی باتوں پر انھوں نے لکھ دیا کہ ’’مجھے ملک کرم الدین صاحب سے معلوم ہوا ہے کہ وہ شملہ تبدیل ہورہے ہیں اور ان کی جگہ کسی اور صاحب کو رکن بنایا جائے‘‘ مولوی غلام محی الدین جائنٹ سکرٹری انجمن حمایت اسلام کی طرف سے یہ اعلان کہ ملک کرم الدین صاحب کی طرف سے اس مضمون کا خط موصول ہوا۔ اس طرح ایک رکن کی جگہ خالی کراکے خاں صاحب شیخ عبدالعزیز کو مجلسِ عامہ کا رکن بنایا جانا، ملک کرم الدین صاحب کا ان واقعات سے انکار، ان کی خدمت میں بعض ارکان مجلسِ عامہ کا پہنچنا اور ان سے اپنے مطلب کی چٹھی لکھانے کی کوشش، کچھ ایسے پُر پیچ معاملات ہیں جو اب تک سلجھ نہیں سکے۔ علامہ شیخ محمد اقبال ان بیانات سے جو انجمن کی مجلسِ عامہ کے اجلاس میں پیش ہوئے ہیں مطمئن ہوجائیں تو ہوجائیں، مجلسِ عامہ کے ارکان بیانات کو اطمینان بخش خیال فرمالیں لیکن ہم تو یہی کہیں گے کہ انجمن کی عزت و عظمت برقرار رکھنے کے لیے اس معاملے کی تحقیقات اشد ضروری ہیں اور تحقیقات کے لیے جنرل کونسل کے ارکان کی جماعت کا تقرر عمل میں نہ آئے بلکہ معاملہ چند غیر جانبدار حضرات اور ایک دو اخبار نویسوں کے سپرد کیا جائے تاکہ حقیقت کا انکشاف ہوجائے اور جنرل کونسل کے ارکان اور انجمن حمایت اسلام کی عزت پر جو حرف آیا ہے وہ رفع ہوسکے۔ شنبہ ۲۸؍ ذیقعدہ ۱۳۴۱ھ، ۱۴؍جولائی۱۹۲۳ئ، ۱۰/۱۵۸، ص۳۔ افکار و حوادث مشہور جمعیۃ الاقوام جسیٹیگورنے بدمعاشوں کی انجمن کہا تھا اور اقبال نے ع بہرِتقسیمِ قبور انجمنے ساختہ اند کی پھبتی کَہ کر رولِ مغربی کو ’’کفن چوروں‘‘ کا خطاب دیا تھا آج کل دنیا کی ’’ہیلتھ آفیسر‘‘ بن رہی ہے۔ اس جمعیت میں ایک شعبہ ’’وبا ہائے متعدی‘‘ بھی ہے نام سے تو معلوم نہیں ہوتا کہ یہ شعبہ وباؤں کی روک تھام کے لیے قائم کیا گیا ہے بلکہ ہمیں یہ تو شبہ ہوتا ہے کہ جس طرح رول مغربی جمعیۃ الاقوام میں مل جل کر عراق و فلسطین کو کھاجانے کا مشورہ کیا کرتی تھیں اسی طرح شعبہ وباہائے متعدی میں مختلف وبائیں جمع ہوکر یہ فیصلہ کرتی ہوں گی کہ کس کس کمزور ملک کو تختۂ مشق بنایا جائے۔ چہارشنبہ۲۸؍ رجب المرجب ۱۳۴۲ھ، ۵؍مارچ۱۹۲۴ئ، ۱۱/۵۱،ص۲۔ افکار و حوادث ایک مقامی معاصر کو کسی خبر کا ترجمہ کرتے ہوئے شعر چسپاں کرنے کا شوق جو چرایا تو انھوں نے علامہ اقبال کا یہ مصرع لکھ مارا ع عشق گر مصلحت اندیش ہے ہے خام ابھی ذرا ’’ہے ہے‘‘ ملاحظہ ہو کسی قدر فصیح واقع ہوا ہے لیکن قارئین کرام اس فصاحت کی داد صرف مترجم صاحب ہی کو دیں کیونکہ علامہ کا صحیح مصرع یوں ہے ع عشق ہو مصلحت اندیش تو ہے خام ابھی افسوس ہے کہ غیر ذمہ دار لوگ اس قسم کی حرکت کرتے ہوئے یہ احساس نہیں کرتے کہ وہ شاعر کی توہین کررہے ہیں۔ یک شنبہ ۳۰؍ذی الحجہ۱۳۴۲ھ، ۳؍اگست۱۹۲۴ئ، ۱۱/۱۷۰،ص۲۔ افکار و حوادث جب علامہ اقبال کی کوئی نظم شائع ہوتی ہے اس کے چند ہی روز بعد بہت سے گرے پڑے شاعر اسی زمین میں طبع آزمائی شروع کردیتے ہیں ہم ان سب کی نیتوں پر حملہ نہیں کرتے لیکن اکثر ’’برخود غلط‘‘ متشاعروں کا منشا فی الحقیقت ’’مقابلہ‘‘ ہوتا ہے اس مقابلے کا نتیجہ کچھ نہیں ہوتا اگر کوئی مینڈھا اپنی طاقت کے گھمنڈ میں کسی سنگین دیوار سے ٹکر مارے تو اس کا نتیجہ ظاہر ہے۔ لیکن بعض حضرات محض جوشِ عقیدت سے حضرت علامہ کا تتبع کرنے کے لیے انھی زمینوں میں شعر فرماتے ہیں، انھی میں سے ایک صاحب حافظ فضل حق آزادؔ عظیم آبادی ہیں جنھوں نے علامہ اقبال کی اس غزل پر بملازمان سلطاں خبردے دہم زرازے ایک غزل تصنیف فرماکر معارف میں شائع کرائی ہے غزل کے متعلق تو ہم اپنی راے محفوظ رکھتے ہیں لیکن مقطع اپنی گوناگوں خوبیوں کے اعتبار سے اتنا دلفریب ہے کہ ہم اسے قارئین کرام کی خدمت میںپیش کیے بغیر نہیں رہ سکتے۔ فرماتے ہیں کہ ؎ بہ ترانہ ہائے اقبال کہ زوصفِ اوزباں لال غزلے سرود الحال آزادؔ نغمہ سازے اس شعر کو آپ یوں بھی پڑھ سکتے ہیں۔ بہ ترانہ ہائے اقبال کہ زوصفِ اوزباں لا غزلے سرود الحا آزادؔ نغمہ سازے معارف کے محترم اور فاضل مدیر نے یہ غزل غالباً اس لیے درج کردی کہ جناب آزادؔ عظیم آبادی ملک کے مشہور شعرا میں سے ہیں اگر آپ کوئی شعر مذاق سلیم کے خلاف بھی لکھ جائیں تو آیندہ نسلوں کے لیے وہ بدمذاقی ہی کی سند ہوجائے گی۔ ہمیں معلوم ہے کہ جناب یاسؔ عظیم آبادی اور ان کے دیگر ہم خیال ’’نکات عروضی‘‘ اور ’’زحافات‘‘ پر بحث کرکے اس مقطع کو درست کردیں گے لیکن ہمارے اس دعوے کے خلاف ان کے پاس کوئی دلیل نہیں کہ یہ مقطع ذوق سلیم کے نزدیک نہایت لغو ہے اور اگر آزادؔ صاحب کوشش کرتے تو اس سے بہتر کَہ سکتے تھے۔ ’’نکات عروضی‘‘ کی بنا پر بحث کرنے والوں کی ضیافت طبع کے لیے ہم اسی مقطع کی ایک اور بوالعجی پیش کیے دیتے ہیں۔ یہ غزل ’’فعلات فاعلاتن فُعِلات فاعلاتن‘‘ کے وزن میں ہے لیکن دوسرے مصر عے کی تقطیع ملاحظہ ہو: غزلے س رودالحا لازاد نغم سازے فعلات فاعلاتن مفعول فاعلاتن تیسرا رکن فُعِلات سے مفعول کیونکر بن گیا، اس کا راز عروضی ہی بہتر جانتے ہیں ہم عامیان کج مج ان نکات عروضی و معارف فن کو نہیں سمجھ سکتے۔ شنبہ ۲۱؍ محرم الحرام ۱۳۴۳ھ، ۲۳؍اگست۱۹۲۴ئ، ۱۱/۱۸۵،ص۲۔ افکار و حوادث علامہ اقبال نے آج سے بہت پہلے یہ اشعار لکھے تھے کہ ؎ زاہدِ تنگ نظر نے مجھے کافر جانا اور کافر یہ سمجھتا ہے مسلماں ہوں میں رندکہتا ہے ولی مجھ کو ولی رند مجھے سن کے ان دونوں کی تقریر کو حیراں ہوں میں زمیندارکی حالت بھی کچھ ایسی ہی ہے۔ حنفی اسے وہابی سمجھتے ہیں اور وہابی حنفی خیال کرتے ہیں چونکہ ہر مسئلے پر یہ اخبار اپنی واضح اور روشن راے رکھتا ہے اور لگی لپٹی رکھنا نہیں چاہتا اس لیے جن لوگوں کو روپیا لے کر کام کرنے کی عادت ہے وہ اسے بھی بعض طاقتوں کا وظیفہ خوار خیال کرتے ہیں۔ دوشنبہ ۱۰؍جمادی الاوّل ۱۳۴۳ھ، ۸؍دسمبر۱۹۲۴ئ،۱۱/۲۶۹،ص۲۔ افکار و حوادث علامہ اقبال نے ایک نظم میں فرمایا ہے کہ ؎ کشاکش زم و گر ماتپ و تراش و خراش زخاکِ تیرہ دروں تابہ شیشۂ حلبی مقام بست و شکست و فشرد و سوزو کشید میانِ قطرۂ نسیان و آتشِ عنبی اب کانگریس کے سرمائے کو بھی ایسی ہی منازل میں سے گزرنا پڑے گا۔ ایک شخص کپاس خریدے گا، اس کو بنولوں سے پاک کرے گا، پھر اُسے دھنے گا، پھر کھاوی بورڈ میں بھیجے گا پھر وہاں کھدر بُناجائے گا پھر بیچا جائے گا اور جب کہیں جاکر روپیا پیدا ہوگا، سبحان اللہ ؎ مغاں کہ دانہ انگور آب می سازند ستارہ می شکنند آفتاب می سازند شنبہ ۱۴؍جمادی الاخریٰ ۱۳۴۳ھ، ۱۰؍جنوری ۱۹۲۵،۱۲/۸،ص۲۔ افکار و حوادث زمانہ کانپور کے تازہ پرچے میں حضرت علامہ اقبال کا ایک شعر درج کیا گیا ہے جس پر آپ کا اسم گرامی یوں لکھا ہے: ڈاکٹر سر محمدؐ اقبال ایم اے پی ایچ ڈی کے سی آئی ای تارکین موالات تو اسی پر بگڑ رہے تھے کہ ڈاکٹر صاحب سرؔ کیوں ہوگئے ۔ منشی دیانرائن نگم نے آپ کو ’’کے- سی- آئی- ای‘‘ بھی بنادیا۔ ہمدرد نے اپنی ایک تازہ اشاعت میں یہ ظاہر کرنے کے لیے کہ علی گڑھ جوبلی پر بہت کم لوگوں نے مبارک باد کے تار بھیجے، یہ بھی لکھا کہ ڈاکٹر سر اقبال اگرچہ علی گڑھ کالج کے ’’اولڈ بوائے‘‘ ہیں مگر انھوں نے بھی تہنیت کا پیغام نہیں بھیجا۔ حالانکہ علامہ اقبال گورنمنٹ کالج لاہور اور کیمبرج کے تعلیم یافتہ ہیں اور آپ کو عمر بھر میں صرف ایک آدھ دفعہ علی گڑھ جانے کا اتفاق ہوا ہے وہ بھی تعلّم کے لیے نہیں بلکہ ارشاد و ہدایت کی غرض سے۔ منشی دیانرائن صاحب نگم علامہ اقبال کو نہ جانتے ہوں لیکن مولانا محمد علی کو تو اتنا بے خبر نہ ہونا چاہیے۔ یک شنبہ ۸؍جمادی الثانی۱۳۴۴ھ، ۱۰؍جنوری۱۹۲۶ئ، ۱۳/۸،ص۲۔ افکار و حوادث علامہ اقبال کی تائید کے لیے آج کل لاہور میں جابجا جلسے منعقد ہورہے ہیں اور بہت زور شور کی تقریریں کی جارہی ہیں۔ نواب صاحب کے چوک میں جو جلسہ منعقد ہوا اس میں برادریوں کے افتراق کے خلاف بہت کچھ کہا گیا ایک ککے زئی صاحب نے تقریر میں کہا کہ میں ککے زئی ہونے کے باوجود کشمیری امیدوار (علامہ اقبال) کی تائید کررہا ہوں ایک دوست نے پاس ہی سے برسبیل مزاح کہا کہ برادری آپ کا حقہ پانی بند کردے گی اس پر وہ صاحب بولے کہ پانی تو یوں بند نہیں ہوسکتا کہ میرے گھر میں نل لگا ہوا ہے اور بلدیہ کے صدر ملک محمد حسین ککے زئی ہیں جو ڈاکٹر صاحب کے حق میں دست بردار ہوکر اپنے مسلمان ہونے کا ثبوت دے چکے ہیں اور حقہ اس لیے بند نہیں ہوسکتا کہ سگرٹ کی ڈبیا میری جیب میں ہے۔ برادریوں کے افتراق کی مصیبت نے عجیب مضحکہ خیز صورت پیدا کررکھی ہے خدا جانے مسلمانوں کو اس مصیبت سے کب چھٹکارا ملے گا۔ بعض کو کون یہ کہتے ہوئے سنے گئے ہیں کہ ’’اس میں شک نہیں کہ ڈاکٹر اقبال بڑے لائق آدمی ہیں اور سب مسلمانوں کو ان پر فخر ہے لیکن کیا کریں ہم تو اراعیں ہیں‘‘ گویا اراعیں ہونا اسلام اور قابلیت دونوں کے منافی ہے۔ سہ شنبہ۱۱؍ربیع الثانی۱۳۴۵ھ، ۱۹؍اکتوبر۱۹۲۶ئ، ۱۳/۲۲۸،ص۲۔ افکار و حوادث ان لوگوں کی تاریک خیالی اور جہالت پر افسوس ہے جو کونسل کے انتخابات میں بھی حنفی اور وہابی کی تفریق پیدا کررہے ہیں اور آج کل ہندوستان میں سلطان نجد کے خلاف جو احمقانہ شورش برپا ہے اس سے فائدہ اُٹھانا چاہتے ہیں۔ لاہور میں ایک صاحب علامہ اقبال کے مقابلے پر کھڑے ہوئے ہیں اور آپ نے اعلان کیا ہے کہ میں پکا حنفی ہوں اور اگر کونسل میں چلاگیا تو مزاروں اور ان کے قبّوں کی حفاظت میں کوئی کسر اُٹھا نہ رکھوں گا گویا آپ لاہور سے نہیں بلکہ جنت البقیع کے حلقے سے کھڑے ہورہے ہیں۔ کوئی پوچھے کہ بندۂ خدا لاہور کے کون سے قصبے سلطان ابن سعود اور نجدیوں کے ہتھوڑوں کی رسائی کے اندر ہیں کہ تم ان کی حفاظت کرو گے۔ جہاں ابن سعود حکمران نہیں وہاں قبّوں کو کوئی خطرہ ہی درپیش نہیں۔ آخر اس اعلان کا مطلب کیا ہے؟ اس کے علاوہ ڈاکٹر اقبال کون سے وہابی اور ’’نجدی نواز‘‘ ہیں کہ ان کے خلاف اپنے حنفی المذہب ہونے کا اعلان کرکے کامیابی کی توقع رکھتے ہو۔ شنبہ ۱۵؍ربیع الاخریٰ۱۳۴۵ھ، ۲۳؍اکتوبر ۱۹۲۶ئ، ۱۳/۲۳۱،ص۲۔ افکار و حوادث لاہور کے ایک غیر معروف بیرسٹر ملک محمد دین صاحب علامہ اقبال کے مقابلے میں کونسل کے لیے کھڑے ہوئے ہیں اور خدام الحرمین اوربزم صوفیہ والوں کی بہت خاطر مدارات کررہے ہیں چنانچہ آپ نے بڑے بڑے صوفیوں کو چائے کی دعوت بھی دی جس کے آخر میں مولوی عبدالقدیر صاحب نے دعا مانگی کہ اللہ تعالیٰ ملک صاحب کو آپ کے مقصد میں کامیاب کرے۔ جب مولوی صاحب نے عین حرم کے اندر کھڑے ہوکر شریف حسین کے لیے دعا فرمائی اور اس کا اثر اُلٹا پڑا تو ’’ٹی پارٹی‘‘ کی دعا کے اثر کا خود ہی اندازہ کرلیجیے۔ ہم علامہ اقبال کو مبارکباد دیتے ہیں کہ انھوں نے نہ کسی ’’صوفی‘‘ کو ٹی پارٹی دی اور نہ خطرے میں پڑے۔ یک شنبہ ۱۶؍ربیع الاخری ۱۳۴۵ھ، ۲۴؍ اکتوبر۱۹۲۶ئ، ۱۳/۲۳۲،ص۲۔ افکار و حوادث ہمارے دوست علامہ حسین میر کی ظریف طبیعت میں جودت اور جدّت بدرجہ کمال موجود ہے۔ آپ نے علامہ اقبال (کشمیری) اور ملک محمد دین (اراعیں) کے مقابلے پر اظہار خیالات کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اراعیوں اور کشمیریوں کے درمیان مقابلہ نہایت خطرناک ہے کیونکہ ان دونوں برادریوں کے تعلقات کا کشیدہ ہونا دونوں کی عافیت کے لیے مضر ہے۔ ثبوت یہ ہے کہ اگر اراعیں شلجموں کی کاشت ترک کردیں تو کشمیری بھوکے مرجائیں اور اگر کشمیری ستیا گرہ کرکے شلجم کھانا چھوڑ دیں تو اراعیوں کاناطقہ بند ہوجائے لہٰذا ضروری ہے کہ یہ دونوں برادریاں مفاہمت پرکار بند ہوجائیں۔ گذشتہ تین سال تک کونسل میں ایک اراعیں (میاں عبدالعزیز صاحب) لاہور کی نمایندگی کرتے رہے اور اب کشمیری کو موقع دینا چاہیے۔ پنجشنبہ، ۲۰؍ربیع الثانی۱۳۴۵ھ، ۲۸؍اکتوبر۱۹۲۶ئ، ۱۳/۲۳۵،ص۲۔ افکار و حوادث ایک مقامی اخبار نے جو اپنی بے اُصولی کی وجہ سے ایک خاص قسم کی شہرت حاصل کرچکا ہے، اپنی ایک اشاعت کے صفحے پر ایک نہایت جلی اشتہار شائع کیا ہے جس میں لکھا ہے کہ علامہ اقبال کے حق میں ووٹ دینا ’’دشمنان اسلام اور ہاومان مقابر و مساجد و مآثر ‘‘ کی حمایت کرنا ہے لیکن پہلے صفحے کی پیشانی پر اُسی ’’دشمن اسلام‘‘ کا ایک حیات افروز مصرع درج ہے ع خنجر ہلال کا ہے قومی نشاں ہمارا یہ پیشانی صرف اسی اشاعت کی نہیں بلکہ جب سے جریدۂ مذکور پیدا ہوا ہے یہ مصرع روزانہ اس کا طرازِ عنوان چلا آرہا ہے۔ بلاشبہ اقبال دنیائے اسلام کے مایۂ ناز حکیم، شاعر اور معلّم ہیں اور ان کی شخصیت بہت بڑی ہے لیکن انھیں معلوم ہونا چاہیے کہ حضرت مبلغ علیہ السلام کی ذات بابرکات اُن سے بھی بڑی واقع ہوئی۔ انا للہ! پنج شنبہ ۱۸؍جمادی الاولیٰ ۱۳۴۵ھ، ۲۵؍نومبر۱۹۲۶ئ، ۱۳/۲۵۷،ص۲۔ افکار و حوادث لاہور میں انتخاب کے دن بعض نہایت پر لُطف مناظر دیکھنے میں آئے۔ علامہ اقبال کے حامیوں میں ترکی ٹوپیوں کی کثرت تھی اور ملک محمد دین کے اراعیں بھائیوں میں تہبند بہت نمایاں نظر آتے تھے۔ ایک طرف ’’اللہ اکبر‘‘ اور ’’علامہ اقبال زندہ باد‘‘ کے نعرے بلند ہورہے تھے اور دوسری طرف سے ’’ملک محمد دین نوں یاد رکھنا‘‘ اس قدر بدآہنگی کے ساتھ کہا جاتا تھا کہ ذوق سماعت پر بے حد گراں گزرتا تھا۔ قارئین میں سے جن کو تھیٹر دیکھنے کا اتفاق ہوا ہے وہ خوب جانتے ہیں کہ جونہی ’’ڈراپ سین‘‘ ہوتا ہے تھیٹر کے چاروں کونوں سے نہایت کرخت آوازیں بلند ہوتی ہیں ’’کیلے کھان آلے، پان کھان آلے، ٹغے داپا، ٹغے داپا‘‘۔ بس اسی قسم کی آوازیں ملک محمد دین کے حامیوں کی طرف سے سنائی دے رہی تھیں۔ جس وارڈ میں ملک محمد دین کے حامیوں کی تعداد زیادہ ہوتی تھی وہاں اُن کے ’’اراعیں پن‘‘ سے خوف کھاکر بعض مسلمان یہ رویہ اختیار کرتے تھے کہ ’’ملک محمد دین کو یاد رکھنا‘‘ پکارتے پکارتے آگے بڑھ جاتے تھے اور اپنا ووٹ ڈاکٹر صاحب کے حق میں داخل کرکے پھر ’’ملک محمد دین کو یاد رکھنا‘‘ پکارتے ہوئے واپس چلے آتے تھے۔ ہر حلقے میں ایک ایک شامیانہ ڈاکٹر صاحب کے حامیوں کا تھا اور ایک ایک ملک محمد دین کے بھائیوں نے تان رکھا تھا۔ ڈاکٹر صاحب کے حامیوں کو دیکھ کر تو یہ گمان ہوتا تھا کہ مسلم لیگ یا علی گڑھ جوبلی کا جلسہ ہے اور ملک صاحب کے ساتھیوں کو دوتہیاں اور کھیس اوڑھے دری پر بیٹھے اور حقے اُڑاتے دیکھ کر یہ غلط فہمی ہوتی تھی کہ گاؤں سے کسی مقدمے پر آئے ہوئے ہیں اور یہ پولنگ سٹیشن نہیں تحصیلدار صاحب کی کچہری ہے۔ انتخابات کے سلسلے میں علامہ اقبال لاہور کے ایک محلے میں تشریف لے گئے، سیکڑوں مشتاقانِ دیدار کا مجمع ہوگیا، ایک بڑی بی نے بڑھ کر بلائیں لیں اور کہا ’’کہ اللہ رکھے ہمارا اقبال ابھی تو گبھرُو ہی ہے‘‘ رضا کاروں سے خدا کی پناہ، انھوں نے منہ چھپاکر ہنسنا شروع کردیا۔ علامہ اقبال مسکرا دیے اور فرمانے لگے ارے میاں چپ بھی رہو، بڑی مدت کے بعد یہ خوش۔گوار فقرہ سناہے‘‘۔ اس فقرے پر تو لڑکوں کی ہنسی کا بند بالکل ہی ٹوٹ گیا اور انھوں نے حضرت علامہ کی اس خوش طبعی پر ایک نہایت بلند ’’قہقہہ‘‘ لگایا۔ ۲۷؍نومبر۱۹۲۶ئ۔ افکار و حوادث کامیابی ناکامیابی خدا کے اختیار میں ہے لیکن سچ یہ ہے کہ ملک محمد دین اور ان کے اراعیں بھائیوں نے انتخاب میں اپنی سی کرکے دکھادی اگر مقابلے میں علامہ اقبال کے بجائے کوئی دوسرا ہوتا تو اس کے چھکے چھوٹ جاتے ؎ شکست و فتح نصیبوں سے ہے ولے اے میرؔ مقابلہ تو دلِ ناتواں نے خوب کیا ۱۰؍دسمبر۱۹۲۶ئ، ص۲۔ افکار و حوادث ۲۶؍دسمبر کو لاہور کے ککے زیوں نے علامہ اقبال کی کامیابی کے اعزاز میں معززین شہر کو ایک نہایت شان دار دعوت دی۔ چونکہ لاہور کے ککے زئی ’’ملک‘‘ کہلاتے ہیں اس لیے علامہ نے اپنی تقریر میں انھیں ’’حضرات ملائکہ‘‘ کَہ کر مخاطب فرمایا اور ساتھ ہی یہ بتایا کہ اگرچہ ’’ملک‘‘ کی جمع ’’ملوک‘‘ ہے لیکن میں آپ حضرات کو ’’ملائکہ‘‘ کہنا زیادہ پسند کرتا ہوں۔ قرآن مجید میں آیا ہے کہ مومنین کی مدد کے لیے آسمان سے ’’ملائکہ‘‘ نازل ہوا کرتے ہیں چونکہ آپ حضرات نے کونسل کے انتخاب میں میری مدد کی ہے لہٰذا میرے لیے آپ بھی ’’ملائکہ‘‘ ہی ہیں۔ لیکن یہ ارشاد فرماتے ہوئے حضرت علامہ غالباً یہ بھول گئے کہ ان کے مدمقابل بھی ’’ملک‘‘ ہی کہلاتے ہیں (گو وہ ککے زئی نہیں ہیں) اس کے علاوہ دو چار ’’ککے زئی ملک‘‘ بھی ایسے موجود ہیں جنھوں نے علامہ کے خلاف راے دی تھی غالباً علامہ اس کا یہی جواب دیں گے کہ فرشتوں کی دو قسمیں ہیں بعض رحمت کے فرشتے ہوتے ہیں اور بعض عذاب کے۔ چہار شنبہ ۲۳؍ جمادی الاخریٰ ۱۳۴۵ھ، ۲۹؍دسمبر۱۹۲۶ئ،۱۳/۲۸۵،ص۲۔ خ…خ…خ حوالے اور حواشی ۱- بانگ درا، بحر تھا صحرا میں تو، گلشن میں مثلِ جو ہوا،ص۱۸۹ ۲- بانگ درا، طلبہ علی گڑھ کے نام، طائرِ زیرِدام کے نالے تو سن چکے ہو تم، ص۱۱۴ ۳- بانگ درا، اگر منظور ہو تجکو………ص۲۵۰ ۴- ایضاً، ………حاصل آزادی کو تو کرلے،ص۲۵۰ ۵- ایضاً، نہ رہ منت کش، ص۲۵۰ ۶- ایضاً، توڑ کر تجکو،ص۲۵۰ ۷- ایضاً، شمع و شاعر،ص۱۹۱ ض…ضض…ض ۱- مضامین نذر اقبال آگرہ: ۵۲ آل انڈیا مسلم لیگ: ۶۴، ۶۵ آئن سٹائن: ۸۲ ابنِ تیمیہ: ۸۵ ابنِ رُشد: ۱۳۲ ابنِ سعود: ۲۷۹ اجمل خاں،حکیم: ۲۸، ۶۳، ۱۳۱، ۲۴۵، ۲۴۷، ۲۵۱- ۲۵۴، ۲۶۰، ۲۶۱ احمد دین، مولوی: ۱۳۲، ۱۳۳، ۲۱۲، ۲۱۳ احمد علی فیروزپوری:۱۳۰ احمد علی،مولانا: ۱۱۲، ۲۱۱ احمد مخدومی: ۹۲ احمد منصور:۱۰۴ احمد نواز خاں آف ڈیرا، نواب: ۲۶۴ اختر علی خاں، مولانا: ۲۴۲۱، ۲۵، ۶۲ ادارہ تحقیقاتِ پاکستان، پنجاب یونی ورسٹی لاہور،۳۱ اڈوائر، مائیکل: ۱۶۲ ارسطو: ۷۸، ۱۳۲ اسرارِ خودی: ۲۶، ۷۶، ۸۲، ۸۳، ۸۶ اسلامیہ کالج لاہور: ۳۴،۴۱ اسلامیہ ہائی سکول، شیرانوالہ گیٹ: ۲۱۰ اشاعت الصباح (زمیندار کا ایک نام): ۲۰ اشاعت المساء (زمیندار کا ایک نام): ۲۰ اصغر حسین صاحب نظیر لدھیانوی: ۱۴۵ اصغر علی روحی: ۲۱۰ اصغر علی شاہ گیلانی بوریاں والے: ۱۶۷ افضل حق چودھری: ۴۳، ۶۵، ۱۲۰، ۱۵۸، ۱۶۳، ۱۶۵، ۱۸۷، ۱۸۸، ۱۸۹، ۱۹۰، ۱۹۱، ۱۹۵ اقبال از احمد دین: ۱۳۲ اقبال اکادمی پاکستان، لاہور:۳۲ اقبال اور انجمن حمایتِ اسلام: ۲۹ اقبال اور پنجاب کونسل: ۲۹، ۴۵، ۱۵۴، ۲۰۱- ۲۰۳ اقبال اور ظفر علی خاں:۳۲ اقبال چودھری محمد حسین کی نظر میں:۱۴۸ اقبال کا سیاسی سفر: ۲۹ اقبالی کیلنڈر: ۱۰۶ اللہ بخش گنائی: ۲۱۱ الوک شاہ،سیّد: ۱۳۱ الیاس آفندی، لیفٹیننٹ: ۱۱۵، ۱۱۶ امان اللہ خاں غازی، والیِ افغانستان: ۷۸، ۷۹، ۱۳۶ امرتسر:۶۳ امرسنگھ، سردار: ۱۲۰ امیرالدین، نواب آف لوہارو، سر: ۲۶۴ امین الدین بیرسٹر ایٹ لا،حکیم: ۲۰۸ انبالہ: ۶۳ انتخاب لاجواب:۱۹ انجمن اسلامیہ میاں میر: ۱۸۳ انجمن حمایتِ اسلام: ۳۶، ۳۷، ۴۵، ۷۱، ۲۰۶، ۲۰۷، ۲۱۰، ۲۱۱، ۲۱۵، ۲۱۶، ۲۱۹، ۲۲۱-۲۲۵، ۲۲۷-۲۲۹، ۲۳۱، ۲۳۵، ۲۴۰، ۲۴۲، ۲۴۳، ۲۷۳ انڈی پینڈنٹ (اخبار): ۲۵۶ انسائی کلو پیڈیا اسلام: ۳۸ انصاری، ڈاکٹر، ۲۸ انقلاب، روزنامہ: ۲۹، ۳۱، ۴۶، ۴۸، ۷۲، ۷۳ انوارِ اقبال: ۵۸، ۷۳ انوری: ۱۲۶ ایڈورڈ کالج پشاور: ۷۳ اُردو کیسے لکھیں؟: ۷۰، ۲۰۲ آبزرور: ۲۳۴، ۲۵۴ آزاد سبحانی، مولانا: ۲۴۵ آزاد، مولانا ابوالکلام:۸۵،۱۲۱، ۲۱۵، ۲۱۸، ۲۲۴-۲۲۶، ۲۳۳، ۲۴۵، ۲۵۴، ۲۵۱، ۲۵۴، ۲۶۰، ۲۶۲ آفتاب احمد خاں، صاحب زادہ: ۲۵۱-۲۵۴، ۲۶۰، ۲۶۲ آل انڈیا مسلم کشمیری کانفرنس: ۲۱۱ بابر، ظہیر الدین: ۴۴ بارلیسال: ۱۳۹ بانگِ درا: ۷۴، ۸۴، ۸۶، ۸۷، ۸۹، ۹۰، ۹۶، ۹۸، ۱۰۱-۱۰۳، ۱۰۷، ۱۲۳، ۱۴۸، ۱۴۹، ۲۸۲ بائرن: ۸۲ براوننگ: ۸۲ برکت علی اسلامیہ ہال: ۴۸ برکت علی چودھری: ۱۱۱ برکت علی، ملک: ۱۵۵، ۱۹۶، ۱۹۸ برگساں: ۸۲ بزمِ صوفیہ: ۲۷۹ بشیرالدین محمود،مرزا:۴۱ بغداد: ۵۲ بلدیو سنگھ، سردار: ۱۹۴ بمبئی:۵۳ بندگی نامہ : ۱۰۶ بندے ماترم (اخبار): ۱۹۵ بودھ راج، لالہ: ۱۹۴ بھوپال: ۵۵ پائیشن (اخبار): ۲۵۶ پرتاپ (اخبار): ۳۹، ۱۱۱ پرمانندجی، بھائی: ۱۹۵ پشاور: ۲۰۰ پنجاب پراونشل خلافت کمیٹی: ۱۱۰ پنجاب پراونشل لیگ: ۱۹۸ پنجاب پروانشل مسلم لیگ: ۴۸، ۷۲ پنجاب خلافت الیکشن بورڈ: ۱۵۷ پنجاب ریویو: ۲۶ پنجاب نیشنل لبرل لیگ: ۲، ۲۴۸ پنجاب یونی ورسٹی: ۲۴۵، ۲۴۸ پیامِ مشرق:۲۶،۷۱،۷۳،۷۷-۸۰، ۸۲-۸۴، ۸۶، ۸۸، ۹۴، ۹۵، ۱۳۵-۱۳۷، ۱۴۷، ۱۴۹، ۲۶۲ پیسہ اخبار:۱۹ پین اسلامک ازم: ۵۰ تاجور نجیب آبادی: ۲۱۱ تاریخِ حریتِ اسلام: ۵۷ تحریکِ خلافت: ۲۵۰ تصدق احمد خاں شروانی: ۵۶، ۲۴۶ تصویرِ درد: ۱۰۲ تنظیم (اخبار): ۱۷۱ ٹریبیون (اخبار): ۲۵۸ ٹھاکر داس بھارگو: ۱۹۶ ٹیگور،رابندر ناتھ: ۸۸ ثناء اللہ امرتسری،مولانا: ۲۱۰ جالندھر: ۵۹ جامعہ عثمانیہ، حیدرآباد: ۲۶، ۸۳ جامعہ ملیہ اسلامیہ، دہلی: ۴۹، ۲۲۷، ۲۴۵، ۲۵۰، ۲۵۱، ۲۵۳، ۲۵۴، ۲۶۰ جان محمد پشاوری: ۲۴۶ جان مینارڈ، سر: ۲۴۸ جعفر بلوچ: ۳۲ جلال قرشی: ۱۴۲ جماعت اہلِ حدیث: ۶۲ جمعیۃ مرکزیہ خلافت: ۱۵۹، ۱۶۸، ۲۲۱ جنگِ بلقان: ۲۲ جنگِ طرابلس: ۲۲ جوابِ شکوہ: ۹۱، ۹۲، ۹۴، ۱۰۲ چنتامنی: ۵۳، ۵۴ چھوٹو رام، چودھری: ۱۹۴، ۲۵۵، ۲۵۷، ۲۵۸ حبیب شاہ،سیّد: ۲۵۰ حرفِ اقبال: ۴۳، ۴۵ حزب الاحناف: ۶۲، ۶۳، ۱۸۷ حسام الدین،میاں: ۱۹۱ حسرت موہانی: ۲۴۵ حسین میر سیالکوٹی: ۲۷۹ حق (اخبار): ۲۲۲، ۲۳۶، ۲۳۷، ۲۴۱ حکیم الرحمن خاں: ۲۴۵ حمایتِ اسلام (اخبار): ۲۲۶، ۲۲۷، ۲۳۰، ۲۳۵-۲۴۳ حمزہ فاروقی: ۲۹ حیاتِ اقبال کے چند مخفی گوشے: ۲۹ حیدر عصمت بے، ڈاکٹر میجر: ۱۱۵، ۱۱۶ خان احمد حسین خاں: ۲۱۱، ۲۱۹، ۲۴۴ خدام الحرمین: ۶۲، ۲۴۵، ۲۴۹، ۲۷۹ خضرِراہ: ۱۰۵ دارالاشاعت پنجاب: ۹۶-۹۸ دارالتکفیر دیداریہ: ۱۲۲، ۱۲۴ دارالعلوم علی گڑھ: ۲۴۵ دائود اپسن،مولانا: ۲۵۴-۲۵۸ دائود غزنوی، مولانا: ۱۲۰ دکن ریویو: ۲۶ دل محمد، خواجہ: ۲۰۶، ۲۱۱، ۲۶۴ دمشق: ۵۲ دولت رام کالیہ: ۱۹۴ دہلی: ۵۲ دھنپت راے: ۱۹۴ دیا نرائن نگم،منشی: ۲۷۸ دیدار علی، مولوی: ۱۲۲-۱۲۴، ۱۲۷ دینِ کامل: ۵۹ دیوانِ حافظ: ۷۷ دیوان، چمن لال: ۱۹۵ دیوی دیال، پروفیسر: ۲۶۴ ڈاکٹر انصاری: ۲۴۵، ۲۴۷، ۲۵۱-۲۵۴، ۲۶۰ ڈاکٹر کچلو: ۶۲، ۱۳۱، ۱۶۷، ۱۷۱ ڈریپر،ڈاکٹر ولیم جان: ۴۱ ذاکر حسین، ڈاکٹر:۴۹، ۲۶۱ ذاکر علی،سیّد: ۶۶ ذوالفقار علی خاں، نواب سر: ۱۱۳، ۲۰۶، ۲۱۰، ۲۱۱-۲۱۳، ۲۱۵، ۲۳۳، ۲۵۱-۲۵۳، ۲۶۱، ۲۶۲، ۲۶۴، ۲۶۹ رابندر ناتھ ٹیگور: ۲۶۹، ۲۷۴ راج پال: ۱۱۸، ۱۱۹ رام سرن داس، راے بہادر: ۵۵، ۱۱۲، ۱۱۳، ۱۱۹، ۱۲۰ رام سرن دت، پنڈت: ۲۴ رحیم بخش،سر: ۱۹۷ رشید حسن خاں: ۷۰، ۲۰۲ رموزِ بے خودی: ۲۶، ۷۶، ۸۳، ۸۶ رنگیلا رسولؐ: ۱۱۸، ۱۱۹، ۱۷۴ روایاتِ اسلامی: ۱۰۴، ۱۰۵ زبورِ عجم: ۷۴، ۱۰۵، ۱۰۸، ۱۵۰ زمانہ، کان پور: ۲۷۷ زمیندار ٹرکش ریلیف فنڈ: ۹۱، ۹۲ سالک، عبدالمجید: ۲۱، ۲۴، ۲۵، ۲۷، ۲۷۲ سائمن کمیشن: ۲۳ سراج الدین احمد خاں:۱۹ سردار بیگم (بیگم اقبال): ۶۲، ۱۱۰ سرودِ رفتہ: ۷۴ سفرنامۂ اقبال: ۲۹ سکندرِ اعظم: ۷۸ سلطان احمد،مرزا (مشیرِ مال بہاول پور): ۲۰۶ سلیمان ندوی،سیّد: ۲۸، ۴۶، ۱۲۳، ۲۱۰، ۲۴۷ سمارک: ۱۳۲ سوامی شردھانند: ۳۹، ۱۱۸ سوراج پارٹی: ۱۹۴ سیاست (اخبار): ۲۶، ۹۵، ۱۸۳، ۱۹۹، ۲۰۰ شاہ نامہ فردوسی: ۱۲۶ شاہ ولی اللہ: ۸۵ شاہین معمّا: ۱۰۶، ۱۰۸ شبابِ اُردو: ۲۱۱ شبلی نعمانی،علامہ: ۱۰۴، ۱۰۵ شجاع الدین، ڈاکٹر خلیفہ: ۴۹، ۱۱۹، ۱۲۰، ۱۵۳، ۲۱۲، ۲۱۳، ۲۲۲، ۲۶۴ شریف حسین (شریفِ مکہ): ۲۷۹ شفاعت احمد خاں، ڈاکٹر: ۱۳۹، ۱۴۰ شفیع دائودی،مولانا: ۶۶، ۶۷، ۱۴۰ شکور علی خاں اصغر: ۲۷۲ شکوہ: ۹۱، ۹۴، ۱۰۲ شمس الدین حسن: ۶۰، ۷۳ شمس الدین، حاجی: ۲۱۶-۲۲۰، ۲۲۲، ۲۳۳، ۲۳۶، ۲۳۷، ۲۴۱-۲۴۴ شمع و شاعر: ۹۲، ۱۰۲ شوپن ہار: ۸۲ شورش کاشمیری: ۲۸ شوکت علی، مولانا: ۵۶، ۱۶۴، ۱۶۵، ۲۱۵، ۲۱۸، ۲۲۴، ۲۲۶، ۲۳۳، ۲۴۵ شہاب الدین چودھری: ۱۹، ۴۲، ۱۱۷، ۲۶۴ شیخ علی حزیں: ۱۲۳ صادق حسن کشمیری، شیخ: ۱۳۱ ضیاء الدین احمد، ڈاکٹر: ۱۴۰ طلوعِ اسلام: ۱۰۲، ۱۳۳ ظفر علی خاں، مولانا: ۱۹-۲۱، ۲۴-۲۶، ۴۱، ۷۱، ۹۲، ۱۰۵، ۱۱۰، ۱۱۱، ۱۱۸، ۱۲۰، ۱۴۵، ۱۴۹، ۱۷۷ ظفراللہ، چودھری: ۱۱۳، ۱۱۴، ۱۵۸ عبدالحق محدث دہلوی: ۱۳۰ عبدالرحمن غازی: ۱۵۸ عبدالرحیم،سر: ۱۹۷ عبدالعزیز بیرسٹر ایٹ لا،میاں :۱۱۹، ۱۲۱، ۱۵۳، ۱۵۵، ۱۵۶، ۱۶۵، ۱۸۱، ۱۹۸، ۲۰۱ عبدالعزیز، شیخ: ۲۱۶-۲۲۲، ۲۲۸، ۲۳۵، ۲۳۷، ۲۳۹، ۲۴۱، ۲۴۳، ۲۷۳، ۲۷۴ عبدالقادر، خان بہادرشیخ: ۱۱۲، ۱۲۰، ۱۵۲، ۱۶۲، ۱۹۱، ۱۹۷، ۱۹۸، ۲۱۴، ۲۱۹، ۲۳۷، ۲۴۴، ۲۶۴ عبدالقادر،شیخ: ۴۳، ۸۹، ۹۰ عبدالقادر قصوری، مولانا: ۱۵۷ عبدالقیوم وکیل جالندھری،مفتی: ۵۹ عبداللہ العمادی:۲۱ عبداللہ ہارون: ۲۴۶ عبداللہ یوسف علی: ۵۵، ۲۶۴ عبدالماجد،مولانا: ۲۴۵ عرفی شیرازی: ۱۲۲ عطاء اللہ شاہ بخاری، مولانا: ۱۲۰ عظیم اللہ خاں، شیخ:۴۹ علی برادران: ۲۱۵، ۲۱۸ علی حائری،سیّد: ۱۸۳ علی گڑھ: ۲۴۶، ۲۵۱، ۲۵۲ علی گڑھ میگزین: ۱۳۸ غالب، مرزا اسداللہ خاں: ۸۶ غرناطہ: ۵۲ غضنفر علی خاں: ۱۹۶ غلام صادق، خان بہادر شیخ: ۲۱۹، ۲۴۴ غلام محی الدین قصوری: ۳۵، ۳۷، ۴۹، ۱۵۷، ۱۸۹، ۱۹۰، ۲۱۱، ۲۱۴ غلام مرشد، مولانا: ۱۴۹ غیاث اللغات: ۱۲۵ فارابی: ۱۳۲ فتح علی خاں قزلباش: ۲۰۶ فرہنگِ عامرہ: ۷۱، ۷۲ فرہنگِ آصفہ: ۷۲ فریادِ اُمت: ۹۴، ۱۰۲ فضل حسین، خان بہادرمیاں: ۲۱۹، ۲۳۷، ۲۳۸، ۲۴۲، ۲۴۴، ۲۶۱ فضل حسین، سرمیاں: ۱۷۶، ۲۵۴، ۲۵۷، ۲۵۸ فضل حق آزاد عظیم آبادی: ۲۷۵ فضل دین، مولوی: ۳۶، ۳۷ فوق: ۵۸، ۷۳ فیروز الدین حافظ: ۱۵۵ فیروز الدین، خواجہ: ۱۱۱ فیروز الدین،رانا: ۴۳، ۱۵۸، ۱۶۳، ۱۶۵، ۱۸۷، ۱۸۸، ۱۹۱، ۱۹۵ فیروز خاں نون: ۱۳۹، ۱۴۰ قاہرہ: ۵۲ قرطبہ: ۵۰،۵۲ قسطنطنیہ: ۵۲ کارسیکا: ۸۵ کارل مارکس: ۷۳، ۸۲ کامریڈ (اخبار): ۳۲ کانٹ: ۸۲ کانگریس: ۱۹۴، ۲۷۷ کرم آباد، تحصیل وزیرآباد:۱۹ کریک، ایچ ڈی: ۴۴ کشمیر پبلسٹی آفس امرتسر: ۱۳۲ کشمیری میگزین: ۱۹ کشن کشور، دیوان بہادر : ۱۱۲، ۱۱۳ کفایت اللہ، مفتی: ۱۲۰ کلیاتِ اقبال (مولوی عبدالرزاق): ۱۰۱ کلیاتِ باقیاتِ اقبال: ۷۴ کوچہ چابک سواراں: ۱۱۵ کیسری (اخبار): ۱۲۱ گرامی، غلام قادر: ۱۴۲، ۲۱۱ گفتارِ اقبال: ۲۹، ۳۰، ۳۶، ۷۰-۷۳،۲۰۱، ۲۰۲، ۲۰۴، ۲۶۱ گلستان: ۲۴۰ گلشنِ راز: ۱۰۶ گوپال داس بھنڈاری، سر: ۴۲ گوپال داس، راے بہادر:۱۱۹ گوپی چند بھارگو، ڈاکٹر: ۴۲، ۱۱۲ گوکل چند نارنگ، ڈاکٹر: ۴۳، ۱۱۲، ۱۱۳، ۱۲۰، ۱۰۴ گوکھلے: ۳۴ گوئٹے: ۷۷ لاجپت راے: ۱۹۵، ۱۹۶ لال خاں،ملک: ۱۶۳ لال دین قیصر: ۱۵۵ لاہور: ۱۹،۲۰، ۶۳ لاہور میوزیم لائبریری: ۳۱ لدھیانہ:۱۱۰ لطیف احمد شروانی: ۴۳ لکھنؤ: ۶۶ لمعات (زمیندار کا ایک نام): ۲۴ لیبر یونین لاہور: ۶۱ مبارز خاں ٹوانا،ملک: ۳۵ مبارک علی، تاجر کتب: ۸۲ مجلسِ خلافت: ۶۲ مجلسِ خلافت پنجاب: ۱۵۹، ۱۶۰، ۱۶۱، ۱۶۸-۱۷۰، ۱۷۲، ۱۹۰ مجلسِ مرکزیہ خلافت: ۲۸، ۲۴۷، ۲۵۲ مجلسِ وضعِ قوانین، پنجاب: ۴۲، ۱۹۳ مچھلی بازار، کان پور: ۲۳ محبوب عالم، اڈیٹر پیسہ اخبار: ۱۱۱، ۱۱۶ محبوب علی خاں، نظام دکن: ۲۱ محرم علی چشتی: ۱۵۲، ۱۷۶ محمد اعظم جاں خاں زاری علیگ: ۱۶۴، ۱۶۵، ۱۷۹، ۱۸۷، ۱۸۹، ۱۹۰، ۱۹۱ محمد جالب،سیّد: ۲۱ محمد حسن قرشی، مسیح الملک: ۶۲ محمد حسین، پیرزادہ: ۱۹۷ محمد حسین،چودھری:۲۶، ۷۷، ۸۳، ۹۵-۹۷ محمد حسین، خان بہادر: ۵۵، ۱۱۲، ۱۱۳، ۱۱۷، ۱۱۹، ۱۲۰ محمد حسین،سیّد: ۴۳ محمد حسین،ملک: ۶۳، ۱۶۷، ۱۸۱ محمد حنیف شاہد: ۲۹، ۲۰۱ محمد حیات، خان بہادر: ۴۳ محمد دین،ملک: ۱۶۵، ۱۷۴، ۱۷۵، ۱۷۸، ۱۸۱، ۱۸۲، ۱۸۴، ۱۸۵، ۱۸۷، ۱۸۹، ۱۹۹، ۲۰۳، ۲۰۴، ۲۷۹-۲۸۱ محمد رفیق افضل: ۲۹ محمد سہیل عمر:۳۱ محمد شفیع،سر:۲۷، ۴۸، ۵۵، ۵۶، ۷۲، ۱۱۲، ۱۱۹، ۱۲۰، ۱۷۸، ۱۹۸، ۲۴۸، ۲۴۹، ۲۶۸ محمد شفیع، مولوی: ۲۱۲ محمد صادق بیرسٹر ایٹ لا،شیخ: ۱۶۴ محمد صادق،شیخ: ۴۳، ۱۶۵، ۱۷۹، ۱۸۷، ۱۸۹، ۱۹۰، ۱۹۱، ۱۹۵ محمد عالم، ڈاکٹر: ۱۵۸، ۱۶۲، ۱۶۳، ۱۶۵، ۱۷۹، ۱۸۷، ۱۸۸، ۱۹۰، ۱۹۵ محمد عبداللہ پشاوری: ۲۰۸ محمد علی جناح،قائداعظم: ۱۹۷ محمد علی جوہر،مولانا: ۲۵، ۲۱۵، ۲۱۸، ۲۲۴، ۲۲۵، ۲۲۶، ۲۳۳، ۲۴۵، ۲۷۸ محمد علی (امیر جماعت احمدیہ، لاہور): ۱۱۲، ۲۱۱ محمود الحسن، شیخ الہند مولانا: ۲۲۴ مخزن، لاہور: ۸۶ مسجد شاہ محمد غوث: ۱۱۶ مسجدِ قرطبہ: ۵۰ مسلم ایسوسی ایشن، مدراس: ۱۰۴ مسلم آؤٹ لک، لاہور: ۵۱، ۱۹۷، ۲۳۰، ۲۵۴-۲۵۸ مسلم کانفرنس: ۶۶، ۶۷ مسلم یونی ورسٹی علی گڑھ: ۲۵۲ مظہر علی اظہر: ۱۵۸، ۱۶۳، ۱۶۵، ۱۷۹، ۱۸۷، ۱۸۹، ۱۹۰، ۱۹۱ معارف،اعظم گڑھ: ۲۷۵، ۲۷۶ معرکۂ مذہب و سائنس: ۴۱، ۷۱ مفکرِ پاکستان: ۱۴۸، ۱۴۹ ملاپ (اخبار): ۳۹، ۱۱۱، ۱۲۱، ۱۹۵ منوہر لال، لالہ: ۱۹۴ مہاتما گاندھی: ۴۹، ۲۲۶، ۲۴۵ مہر، غلام رسول: ۲۱،۳۱ میر حسن،سیّد: ۲۷۱ میراں بخش جلوہ: ۲۰۶ میراں بخش ملک: ۱۵۵ میلکم ہیلی: ۱۱۹، ۱۵۲ میونسپل گزٹ: ۲۱۲ نالۂ یتیم: ۹۴ نپولین: ۸۵ نریندر ناتھ راجا: ۵۵، ۱۱۳، ۱۱۹، ۱۲۰، ۱۹۴ ۲۴۹ نشتر (اخبار): ۱۸۳ نشتر جالندھری: ۱۹۹، ۲۱۱ نظیری نیشاپوری: ۱۳۰ نواب چھتاری: ۱۱۳، ۱۱۴ نورجہاں: ۶۹ نوشہرہ: ۲۰۰ نیاز فتح پوری: ۲۱ نیٹشے: ۸۲ نیرنگِ خیال: ۶۹ نیشنل لبرل لیگ: ۵۳ وجاہت حسین،منشی: ۹۲ وحید الدین سلیم: ۲۱ وزیر آغا، ڈاکٹر:۲۰ ہاشمی، ڈاکٹر رفیع الدین: ۲۹، ۳۱ ہانس ماننکے: ۱۰۵ ہمایوں، لاہور: ۵۸، ۶۹ ہمدرد (اخبار): ۲۷۸ ہندو سبھا: ۱۹۳، ۱۹۴ ہندوستان (اخبار): ۱۹ ہندوستان ٹائمز، دہلی: ۱۹۷ ہنس راج، راے زادہ: ۱۹۴، ۱۹۵ ہیگل: ۸۲ یاس عظیم آبادی: ۲۷۶ یعقوب بیگ، ڈاکٹر مرزا : ۱۱۰، ۱۱۹، ۲۴۵ ینگ مسلم ایسوسی ایشن: ۱۱۰ /…/…/