اسلام اور پاکستانی تشخص ڈاکٹر جاوید اقبال ترجمہ: سیّد قاسم محمود اقبال اکادمی پاکستان جملہ حقوق محفوظ ناشر محمدسہیل عمر ناظم اقبال اکادمی پاکستان (حکومتِ پاکستان، وزارت ثقافت ) چھٹی منزل ، ایوان اقبال ، لاہور Tel: [+92-42] 6314-510 [+92-42] 9203-573 Fax: [+92-42] 631-4496 Email: director@iap.gov.pk Website: www.allamaiqbal.com ISBN 969-416-- طبع اوّل : ۲۰۰۸ء تعداد : ؟؟؟ قیمت : ۔؍ روپے مطبع : لاہور محل فروخت : ۱۱۶ میکلوڈ روڈ ، لاہور، فون نمبر ۷۳۵۷۲۱۴ فہرست پیش لفظ باب:۱ اسلام میں قومیت اور ریاست کے تصورات: ایک جائزہ ۱-عہد نبویؐ کی ریاست کا نمونہ ۲-جمہوری خلافت کا نمونہ (ماڈل) ۳-سیاسی نصب العین کی تحریف و تخریب ۴-فقہا، ماہرین اخلاقیات اور فلاسفہ کی آرا باب:۲ ہندوستان میں مسلم مقتدر ریاست ۱-عربوں کا تسلط ۲-سلطنتِ مغلیہ سے پہلے ۳-مغل شہنشاہ باب:۳ عسکریت پسند ’’وہابی‘‘ اسلام کا عروج باب:۴ مسلمانانِ ہند اور مغرب باب:۵ تحریک خلافت باب:۶ ہندوستان میں فرقہ واریت کا مسئلہ باب:۷ نئے معاشرتی و سیاسی اُفق کا خواب ۱-اقبال کا تصور جدید اسلام ۲-سیکولرازم کے بارے میں اقبال کا نقطۂ نظر ۳-مسلم انڈیا کی سیاست میں اقبال کا کردار باب:۸ مسلم ریاست کا ظہور حاصل کلام /…/…/ ۱ پیش لفظ(مصنف) پاکستان ایک نظریاتی مملکت ہے۔ ہم یہ بات کہتے نہیں تھکتے کہ پاکستان کا قیام ایک نظریے کی بنیاد پر عمل میں آیا اور یہ ایک نیا تجربہ ہے۔ اگر قیام پاکستان کی تاریخ کو پیش نظر رکھتے ہوئے اس حقیقت کا جائزہ لیا جائے تو اس بات کے اعتراف میں کوئی امر مانع نہیں ہو سکتا کہ بانیانِ پاکستان کے پیش نظر جہاں آئینی، معاشی، سماجی اور ثقافتی مسائل تھے وہاں اس کے ساتھ ساتھ نظریاتی تقاضے بھی تھے جو انجام کار انہیں قیامِ پاکستان کی جدوجہد کی طرف لے گئے اور یہ جدوجہد پاکستان کی تشکیل پر منتج ہوئی۔ تاہم قیامِ پاکستان کے ساتھ ہی ہمیں ایسے حالات سے سابقہ پڑا کہ وہ مقاصد بتدریج نظروں سے اوجھل ہوتے چلے گئے اور ہماری انفرادی اور اجتماعی ترجیحات میں انہیں کوئی وقیع مقام نہ مل سکا۔ پاکستان کے نظریاتی تشخص کو ہر دور میں موضوعِ بحث تو رکھا گیا لیکن شاید ہم اسے سنجیدگی کے ساتھ وہ توجہ نہیں دے سکے جس کا یہ موضوع مستحق تھا کہ ہم اس خواب کو حقیقت میں بھی ڈھال سکتے۔ تاہم اس کا ایک یہ پہلو ضرور سامنے آیا کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس موضوع کے حوالے سے ایسے مباحث کا آغاز ہو گیا جنہوں نے فکری پراگندگی اور نظریاتی انتشار کو جنم دیا۔ آج اگر ہم اپنے معاشرے کو دیکھیں تو ہمیں انتہا پسندی کے رجحانات کے پیچھے بھی بڑی حد تک اسلامی دعوے اور نظریاتی تصورات ہی نظر آئیں گے۔ لہٰذا آج اس امر کی ضرورت ہے کہ ہم اس نظریاتی اساس کو تلاش کریں اور پاکستان کے تشخص کا تعین کرتے ہوئے اس امر کا دلائل، تاریخی شہادتوں اور عملی حقائق کے ساتھ ثبوت فراہم کریں کہ پاکستان کا نظریاتی تشخص اسلام کے ساتھ ہی وابستہ ہے۔ آئینی مسائل ہوں، قومی ڈھانچہ ہو، اداروں کی کارکردگی ہو، انفرادی و اجتماعی کردار ہو یا اقوام عالم کے مابین ہمارا اجتماعی، قومی اور ملی کردار ہو ان سب جہات کا تعین اگر کوئی واحد عنصر موثر طور پر کر سکتا ہے تو وہ اسلام ہی ہے۔ لہٰذا اس تشخص کے تعین اور اس کے لیے باقاعدہ استدلال کی فراہمی آج ہماری ایک اہم ملی و قومی ضرورت ہے۔ موجودہ کتاب اسلام اور پاکستانی تشخص اسی نقطۂ نظر، مقصد اور نصب العین کو پیش نظر رکھتے ہوئے لکھی گئی ہے۔ اس میں اسلام میں قومیت اور ریاست کے تصورات کا مختلف تناظروں میں جائزہ لیا گیا ہے جس کے لیے پہلی مکمل مثال عہد نبوی کی ریاست ہے۔ اس ریاست کے خدوخال، طریق کار، ریاستی ڈھانچے اور دیگر تفصیلات کا تفصیلی جائزہ لیا گیا ہے۔ خلافت راشدہ کو اپنے عہد کی ایک جمہوری خلافت کے نمونے کے طور پر بیان کیا گیا ہے اور پھر تاریخ کے مختلف ادوار میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہمارے سیاسی تصورات میں جو تحریف اور تخریب پیدا ہوئی اس کا تجزیہ بھی کیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس امر کا بھی تفصیلی جائزہ لیا گیا ہے کہ اسلام میں قومیت، ریاست، آئین اور سیاست کے بارے میں فقہا، ماہرین فکر اور اہل فلسفہ کی آراء کیا ہیں اور ان آراء کے ہماری قومی زندگی میں عملی طور پر کیا اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ اسلامی قومیت اور ریاست کے تصور کو برصغیر کی سرزمین میں فروغ کس طرح حاصل ہوا اس کا تفصیلی جائزہ بھی لیا گیا ہے۔ عربوں کے سندھ پر تسلط، سلطنت مغلیہ کے قیام سے پہلے کے ادوار، مغلیہ سلطنت کے دور میں مسلم قومیت اور اسلامی تصور ریاست کے فروغ کا جائزہ بھی تفصیل سے پیش کیا گیا ہے۔ مسلم دنیا میں دورِ جدید کے رجحانات میں سے ایک اہم رجحان عسکریت پسندی اور انتہا پسندی کا پہلو ہے۔ ہندوستان میں ’’تحریک مجاہدین‘‘ یا وہابی اسلام اس کی ایک نمائندہ تحریک تھی جس کو تفصیل کے ساتھ اس کتاب میں بیان کیا گیا ہے۔ ہندوستان میں انگریز کی آمد کے بعد مغربی نظریات، افکار، رسوم و رواج اور کلچر کو بھی مقامی معاشرے اور تہذیب کے ساتھ باہمی ارتباط کا موقع ملا جس سے نئے رجحانات پیدا ہوئے، نئی تحریکوں نے جنم لیا اور ہر تحریک نے مسلم معاشرے پر اپنے اثرات مرتب کیے۔ ان میں سے تحریک خلافت ایک بڑی سیاسی تحریک تھی۔ ان تحریکوں کا ایک بڑا ثمر ہندوستان میں جداگانہ قومیت کے تصور کا فروغ تھا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اقتدار سے محروم ہونے کے بعد دورِ غلامی میں مسلمانوں میں جو ایک نمایاں احساس پیدا ہوا وہ علیحدہ تشخص کی بقا کا احساس تھا۔ مگر ’’تحریک مجاہدین‘‘ اور ’’تحریک خلافت‘‘ عملی طور پر اس لیے ناکام ہوئیں کہ وہ ’’تقلیدی‘‘ فکر کا نتیجہ تھیں۔ ’’تحریک پاکستان‘‘ کی کامیابی کا سبب بانیانِ پاکستان کی ’’اجتہادی‘‘ سوچ تھی۔ اس دور کی نمائندہ آواز اقبال کی آواز ہے جسے جدید اسلام کا ایک بڑا اور موثر نمائندہ سمجھا جاتا ہے۔ سیکولرزم، قومیت اور ریاست کے بارے میں اقبال کے افکار کا ہماری ملی زندگی کے ساتھ براہِ راست تعلق بھی ہے اور ان کا ہماری ملی زندگی کی صورت گری میں ایک نمایاں کردار بھی ہے۔ اقبال کے اس کردار ہی کا ایک نتیجہ پاکستان کی صورت میں مسلم ریاست کا ظہور ہے جو کئی صدیوں کی عملی اور فکری سطح پر جاری رہنے والی مسلسل جدوجہد کا ایک ایسا ثمر ہے جس سے ہندوستان کے مسلمانوں میں اپنی الگ قومیت اور تشخص کو بقا دینے کی امنگ اور آرزو کا اظہار ہوتا ہے۔ یہ کتاب اسی آرزو کے پس منظر اور مستقبل میں اس کی صورت گری کے امکانات کا احاطہ کرتی ہے۔ جاوید اقبال عرض ناشر اسلام اور پاکستانی تشخص کا شمار ان کتب میں ہوتا ہے جو پاکستان کی نظریاتی اساس کی تفہیم کے لیے کلیدی حیثیت رکھتی ہیں۔ قیامِ پاکستان کے بعد پاکستان کی نظریاتی اساس کے تعین اور اس کے لوازمات کی تشریح و توضیح کے لیے کئی کتب لکھی گئیں لیکن ایک ایسی کتاب کی ضرورت ہمیشہ موجود رہی جس میں پاکستان کے تشخص کی اساس کا تعین کرنے کے لیے موزوں اور ثقہ استدلال بھی فراہم کیا گیا ہو۔ اسلام اور پاکستانی تشخص میں اس ضرورت کو بڑی حد تک پورا کیا گیا ہے۔ اس میں پاکستان کے اسلامی تشخص کی نہ صرف تاریخی اہمیت اور پس منظر کو واضح کیا گیا ہے بلکہ اس ضرورت کو بھی بیان کیا گیا ہے جس کے تحت پاکستان وجود میں آیا۔ مسلم قومیت کے اس امتیاز کو جسے علامہ نے ’خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمی‘ کہہ کر بیان فرمایا تھا تاریخی حوالے سے تلاش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ڈاکٹر جاوید اقبال اقبالیات اور پاکستانیات کے میدان میں ایک نمایاں اور امتیازی مقام و مرتبہ رکھتے ہیں۔ آپ نے کئی کتب اور مقالات تصنیف کیے ہیں جن میں ان بنیادی سوالات کے جوابات دینے کی کوشش کی گئی ہے جن کا تعلق ہمارے قومی، ملی اور بین الاقوامی مسائل سے ہے۔ موجودہ کتاب میں بھی ڈاکٹر صاحب نے پاکستان کے تشخص کو نہ صرف مسلمانانِ ہند کی امنگوں، آرزووں اور تحریک آزادی کی جدوجہد کے مقاصد کے تناظر میں بیان کیا ہے بلکہ اس کی اصل کو اسلام کی پہلی ریاست یعنی ریاست مدینہ کے ساتھ مربوط اور منسلک کیا گیا ہے۔ ریاست مدینہ کے قیام کے بعد کس طرح اسلامی قومیت، سیاست اور ریاست کا تصور دور خلفائے راشدین میں آگے بڑھا اور بعد کے ادوار میں یہ تصور کس طرح عملی اور فکری آلائشوں کا شکار ہوا اس کی وضاحت بھی ڈاکٹر صاحب نے بڑی شرح و بسط سے اس کتاب میں بیان کی ہے۔ برصغیر پاک و ہند میں مسلمانانِ برصغیر جب انگریز کی آمد کے بعد اقتدار سے محروم ہوئے تو ہندوؤں اور انگریزوں کے ساتھ مناقشت اور کشمکش کے نتیجے میں ان میں اپنی بقا اور تشخص کے حصول کا احساس بیدار ہوا جو تحریک آزادی میں بتدریج ارتقا پذیر رہا تاآنکہ یہ قیامِ پاکستان پر منتج ہوا۔ اسلام اور پاکستانی تشخص کا امتیاز یہ ہے کہ یہ کتاب اس تمام تر تفصیل کو ایک ترتیب کے ساتھ بیان کرتی ہے جس سے ہم ان نتائج تک پہنچتے ہیں جو پاکستان کی تشکیل کا سبب بنے۔ موجودہ حالات کے تناظر میں اس کتاب کی اہمیت کئی گنا بڑھ گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کتاب کا انگریزی ایڈیشن ہونے کے باوجود اقبال اکادمی پاکستان نے اس کا اردو ایڈیشن شائع کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ اردو خواں طبقے تک بھی ڈاکٹر صاحب کی تحقیق کے نتائج پہنچ سکیں اور ان بنیادی تاریخی اور علمی حقائق سے آگاہ ہو سکیں جو اس موضوع سے متعلق ہیں اور جن سے آگاہی کے بعد ہی ہم اپنے انفرادی، قومی اور اجتماعی رویوں میں تبدیلی لا کر ان بنیادی مقاصد سے ہم آہنگ ہو سکتے ہیں جو تحریک آزادی کے پیش نظر تھے اور اپنے قومی اور ملی تشخص کا تحفظ کرتے ہوئے قومی اور بین الاقوامی سطح پر اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ ناشر پیش لفظ(مترجم) اسلامی ریاست کیا ہوتی ہے ؟ کیاماضی میں کبھی کہیں اسلامی ریاست وجود میں بھی آئی تھی یا یہ محض ایک رُوحانی آرزو ہے؟ نظریاتی اعتبار سے پاکستان ایک اسلامی ریاست کی حیثیت سے قومی ہے نہ علاقائی نہ مکمل طور پر مقتدر، لیکن حقیقت میں بین الاقوامی قانون کے مسلمہ معیار کے مطابق، اورہر لحاظ سے ایک قومی،علاقائی اور مقتدر ریاست ہے۔ نظریے اور حقیقت کا یہ فرق کیوں ہے؟ یہ اوراِن سے پیوستہ کئی دوسرے گہرے اور پیچیدہ فکری سوالات نے اپنے صحیح جواب معلوم کرنے کے لیے ڈاکٹرجاوید اقبال کو مہمیز دی۔ یہ سوالات ڈاکٹر صاحب کے اپنے پیدا کردہ نہ تھے ، بلکہ حصولِ آزادی کے بعد بعض فکری گوشوں کی جانب سے یکے بعد دیگرے اٹھائے جاتے رہے اور یوں رفتہ رفتہ دوقومی نظریے کی بنیاد پر قائم ہونے والی مسلم ریاست کی نہاد و بنیاد پر ہی تشکیک کے سایے پڑنے لگے۔ ڈاکٹرصاحب کے لیے تاریخ کے پاس جانے کے سوا چارۂ کار نہ تھا۔ چنانچہ انھوں نے تیرہ صدیوں کی مسلمانانِ ہند کی کٹی پھٹی تاریخ کا سفر اختیار کیا۔ عرب،افغان ، ترک، مُغل اور آخر میں انگریزوں کے دور پر پڑائو کیا۔ ہر دور کے متخصص مورخین و مصنفین سے اُس دور کے آئین و قانون اورسیاسی نظام پر مفصل گفتگو رہی(ہدف: اسلام اور تشخص پاکستان)۔ گفتگو ڈاکٹر صاحب کے سوالات کے سہارے ا ستوار رہی۔ فاضل مصنف نے ہر دور سے مخصوص حالات پر تیکھے سوالات عائد کیے۔ مثلاًجب ہندوستان کے مقتدر سلاطین کا دور سامنے آیا تو سوال اُبھرے: اُن کے اقتدار کی نوعیت کیا تھی اورقانونی جواز کا ماخذکیا تھا؟ (ہندواکثریت کے ماحول میں) خلافت یا باقی دنیائے اسلام سے مسلم ریاست کے سیاسی تعلق کی کیا نوعیت تھی؟ غیر مسلم رعایا سے کیا سلوک روا رکھا جاتا تھا؟ شریعت کا نفاذکس حد تک کیا گیا تھا؟ ہندوستان میں مسلمانوں کی مقتدر ریاست کے زوال کے اسباب کیا تھے؟ یا مثلاًجب ’’تحریک خلافت‘‘ کے خاتمے کے بعد ہندو مسلم فرقہ واریت کے چھوٹے چھوٹے اختلافات نے جمع ہو کر ایک اتنے بڑے گمبھیر مسئلے کی صورت اختیار کرلی کہ سوراج یا آزادی کے حصول کادار و مدار اُس ایک کے حل پر منحصر ہوگیا تومعاملات کی تہ تک پہنچنے کے لیے ڈاکٹر صاحب کے فلسفیانہ ذہن میں جو سوال پیدا ہوئے تھے، بنیادی نوعیت کے تھے۔ وہ کون سے معاشرتی اور سیاسی عوامل تھے جن کے سبب فرقہ وارانہ مسائل پیدا ہوئے ؟کس وجہ سے آل انڈیا مسلم لیگ دوحصوں میں تقسیم ہوئی؟ مسلم انڈیا کی سیاست کے اس مرحلے میں علامہ محمد اقبال اور محمد علی جناح کے درمیان جو اختلافات پیدا ہوئے ،اُن کا نظریا تی پس منظر کیا تھا؟ یہ اختلافات کب اور کیونکر دور ہوئے؟ یا مثلاًجب مسلم ریا ست کے قیام کا خواب پورا ہوتا نظر آیا اورہر مکتب ِ فکر کے فلسفیوں اور سیاست دانوں نے اس خواب کو دھندلانے کے لیے ’’قومیت ‘‘ اور’’ قوم پرستی‘‘ کی بحث چھیڑی تو ڈاکٹر صاحب نے بھی اس بحث میں داخل ہونے کے لیے چند سوال پیش کردیے ۔ مغربی قوم پرستی ، اسلامی قوم پرستی سے کس اعتبار سے جدا و مختلف ہے؟ ہندوستانی قوم پرستی کو ’’پان ہندو قوم پرستی‘‘ کیوں سمجھا جاتا ہے؟ جنوبی ایشیا میں مسلمانوں کی ثقافتی نشاۃ ثانیہ کے لیے علامہ اقبال کا کیا کردار ہے؟ اقبال کی نگاہ میں جدید ’’اسلامی ریاست‘‘ کی تعریف کیا ہے؟ اور یہ کہ مسلمانوں کے سیاسی ارتقا میں اُن کا کیا حصہ ہے؟ اورجب بیسویں صدی کی چوتھی دہائی میں ہندوستان میں ایک مسلم ریاست کے قیام کے امکانات خاصے روشن ہو گئے تو یہ سوال اٹھائے گئے۔ کیاتحریک ِ پاکستان جدید مسلم انڈیا کی سابقہ مذہبی سیاسی تحریکوں سے مختلف و ممیز تھی؟ کیا جناح کے تصور میں پاکستان مسلم اکثریتی ریاست کی حیثیت سے ایک سیکولر ریاست تھا یا اسلامی ریاست ؟ تیرہ سو سال کی تاریخ کے مسافر نے ہر دور کے مورخین و مصنفین سے اُس دور کے آئین و قانون اور سیاسی نظام پر صرف گفتگو ہی نہ کی (ہدف: اسلام اور تشخص پاکستان) بلکہ اُن سے مستند و معتبر تصدیقات و اقتباسات بھی حاصل کیے جو حواشی اورحوالوں کی صورت میں ہر باب کے آخر میں سجادی گئی ہیں ، جن کی تعداد 815 ہے۔ اگر راقم سے پوچھا جائے کہ اس کتاب میں مصنف نے جو کچھ تفصیل سے بیان کیا ہے، اُسے ایک جملے میں بیان کروں تو میں مصنف کا یہ جملہ نقل کروں گا: ’’ اِس کتاب کا موقف یہ ہے کہ مسلمانان پاکستان کا قومی تشخص ’’اسلام ‘‘ یعنی ایک مشترکہ روحانی سرچشمے سے ماخوذہے‘‘۔ زبان کو ئی بھی ہو، ادائے مطلب کا قرینہ ڈاکٹر صاحب کے ہاں صاف، واضح اور سادہ ہوتا ہے۔ کوئی ایچ پیچ نہیں، اگر مگر نہیں کسی کو اتفاق ہو یا اختلاف ، اس سے غرض نہیں۔ طنزنہ غصہ۔ متانت سے بات مکمل کریں گے۔ جیسی شفاف انگریزی اِس کتاب کے انگلش ایڈیشن میں تھی،ویسی ہی اردو زبان اُردو ایڈیشن میں بھی آگئی ہے۔ یعنی ترجمہ مشین کی طرح خود بخود ہوگیا۔ سید قاسم محمود باب اوّل اسلام میں قومیت اور ریاست کے تصورات: ایک جائزہ پاکستان کا دعویٰ ہے کہ وہ ایک اسلامی ریاست ہے۔ مسلمانوں کا وطن ہے۔ یہاں کے باشندوں کی اکثریت کی قومیت کی بنیاد نسل، زبان اور علاقے کے اشتراک کی بجائے، اسلام پر ہے جو اُن کی مشترکہ آرزو ہے۔ نظریاتی اعتبار سے دیکھیں تو ایک اسلامی ریاست کی حیثیت سے پاکستان قومی ہے نہ علاقائی نہ مکمل طور پر مقتدر۔ لیکن حقیقت میں بین الاقوامی قانون کے مسلّمہ معیار کے عین مطابق اور ہر لحاظ سے ایک قومی، علاقائی اور مقتدر ریاست ہے۔ یہ جو نظریے اور حقیقت کا فرق ہے، یہی ہمیں پاکستان کے تشخص کی جستجو کی تحریک دینے کا بڑا سبب ہے۔ اسلام میں بطور دین، پاپائیت کی کوئی گنجایش نہیں، اسی لیے اسلام کی تاریخ میں کبھی تھیوکریسی (دینی حکومت) نہیں آئی۔ بہرحال اسلام اپنے ماننے والوں کو چند خاص مذہبی احکام اور دنیاوی (سول و فوجداری) قوانین کا پابند بناتا ہے جو ریاست کو اپنے مسلمان شہریوں کے لیے نافذ کرنا چاہییں۔ اس پس منظر میں پاکستان کے مسلمانوں کی جدید نسل کو اس بنیادی سوال کا جواب معلوم ہونا چاہیے کہ اسلامی ریاست کیا ہوتی ہے؟ کیا ماضی میں کبھی، کہیں اسلامی ریاست وجود میں بھی آئی تھی یا یہ محض ایک روحانی آرزو ہے؟ اسلامی قانون کے اصل ماخذ یعنی قرآن و سنت میں اسلامی ریاست کے سیاسی نظام کی کوئی خصوصی ہیئت موجود نہیں۔ عہد نبویؐ کے بعد، بالخصوص ابتدائی خلافت کے قیام کے وقت سیاسی و مذہبی گروہ بندی کے باعث مسلمانوں میں فرقہ وارانہ تفریق پیدا ہوگئی تھی۔ چار خلفائے راشدین میں سے تین کو شہید کیا گیا، اور حصولِ اقتدار کی کشمکش نے، جو قدیم قبائلی دشمنیوں کی وجہ سے چلی آرہی تھی، مسلمانوں کو ایک ضرر رساں اور تباہ کن خانہ جنگی میں دھکیل دیا۔ اس خانہ جنگی کا نتیجہ یہ ہوا کہ ’’جمہوری‘‘ سیاسی نظام کی جگہ مطلق آمرانہ، موروثی؍ خاندانی ملوکیت نے لے لی جو آیندہ اسلام کی پوری تاریخ میں جاری و ساری رہی۔ اسلامی آئین کے اُصول و نظریے پر جتنی بھی تالیفات مدون ہوئیں، وہ سب کی سب ملوکیت کے دوران لکھی گئیں۔ چنانچہ جن فقہا نے یہ تالیفات قلم بند کیں، وہ ملوکیت کو اسلامی ریاست کا مثالی نمونہ قرار دینے میں متفق الرائے ہیں۔ مسلم فقہا نے ریاست کے کسی اور نمونے پر اسلامی ریاست کی برتری جتانے کے لیے ہمیشہ اس بات پر زور دیا ہے کہ جو ریاست انسان کے بنائے ہوئے قوانین کے تحت اپنا نظام چلاتی ہے، وہ اپنے شہریوں کے لیے صرف اس دنیا کی خوشی کی کوشش کرتی ہے، جبکہ ان کے بقول چونکہ ’’اسلامی‘‘ ریاست کی اساس وحی پر ہوتی ہے، لہٰذا اُس کا نصب العین دوگونہ خوشی کے حصول کو عملی جامہ پہنانا ہوتا ہے، یعنی اس دنیا میں مسلمانوں کی خوشی کے لیے کوشش کرنا بھی اور آخرت میں بھی مسلمانوں کی خوشی حاصل کرنے کی تیاری۔ مسلمانوں نے ایک وسیع و عریض سلطنت قائم کی اور عظیم الشان تہذیب استوار کی، لیکن بدقسمتی سے ایک فاتح اور ثمرآور عقیدے کی حیثیت سے، اسلام کی ترقی اُس کے سیاسی نصب العین کے ’’دوبارہ کفروالحاد‘‘ کی طرف پلٹ جانے پر منتج ہوئی، اور مسلمانوں کی نظروں سے اُن کے عقیدے کے اہم ترین جمہوری و اقتصادی ممکنات اوجھل ہوگئے۔ یہ جاننے اور سمجھنے کے لیے کہ مسلمانوں کا سیاسی نصب العین ’’دوبارہ کفروالحاد‘‘ کی طرف کیوں اور کیونکر پلٹ گیا، اسلامی تاریخ کی روشنی میں مسلمانوں کے سیاسی فکر کے ارتقا کا تنقیدی جائزہ لینا ضروری ہے۔ اس باب میں یہ تنقیدی جائزہ چار مختلف عنوانات کے تحت لیا جارہا ہے: (۱) عہد نبویؐ کی ریاست کا نمونہ (۲)جمہوری خلافت کا نمونہ (۳)سیاسی نصب العین کی تحریف و تخریب اور (۴) فقہا، مصلحین اور مفکرین کی آرا۔ عہد نبویؐ کی ریاست کا نمونہ اسلامی ریاست کا طرزِ حکومت یا سیاسی نظم کیسا ہونا چاہیے، اس کے بارے میں قرآن خاموش ہے۔ قرآن کا اصرار زیادہ تر اسلامی قانون کے نفاذ پر ہے۔ نبی کریمؐ کی ذات میں، مدینہ کی نئی ریاست کے امام یا سربراہ کی حیثیت سے، مجتہد، سیاسی رہنما، منتظم، منصف اور سپہ سالار، سب کے کردار وفرائض مجتمع ہوگئے تھے۔ وہ نماز کی امامت کرتے تھے۔ دین اور قانونِ خداوندی (وحی) کے اُمور میں مختارِ کل تھے۔ ان تمام حیثیتوں میں ان کا مقامِ بلند اور رتبہ اعلیٰ منفرد اور غیرمعمولی تھا۔ آنحضورؐ نے مکے کے مہاجرین اور مدینے کے انصار میں اخوت اور بھائی چارے کا رشتہ اُستوار کرکے انھیں ایک امت؍ ملت میں متحدومنظم کرکے ’’مسلم قومیت‘‘ کا اُصول قائم کیا، جس کے تحت نسل، زبان اورعلاقے کے اشتراک کی بجائے، مشترکہ روحانی آرزو پر زور دیا گیا۔ چونکہ نئی ملت کو شریعت (ضابطۂ قانون) کے مطابق انفرادی و اجتماعی زندگی گزارنا تھی، لہٰذا اُس نے اپنا ایک مخصوص سول معاشرہ قائم کرنے کی کوشش کی۔ مختصر سی مدت میں، یہ نئی ملت مدینہ میں ایک نئی ریاست کی صورت میں ڈھل گئی۔ مسلمانوں کے لیے ریاست کا قیام ایک عملی اور ناگزیر ضرورت بھی تھی، جیسا کہ قرآن میں ارشادِ ربانی ہے: یَا اَیُّھَا الذِّیْنَ آمَنُوا اَطیعُوااللّٰہَ وَ اَطِیعُواالرَّسوُل وَ اُوْلِی الْأَمْرِ مِنْکُمْ (اے ایمان والو! اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسولؐ کی اور ان لوگوں کی جو تم میں سے صاحبِ امر ہوں۔ )(سورۃ النسآ-۵۹) ریاست کا مقتدر اعلیٰ اگر غیرمسلموں کو بھی اختیارات تفویض کرے یا انھیں ملازمت میں لے تو ظاہر ہے کہ ان کی بھی اطاعت واجب ہے۔ ازروئے قرآن مسلمان کو جو طرزِ حیات اختیار کرنے کا حکم دیا گیا ہے، اُس کی تعمیل صرف اسی صورت میں ہوسکتی ہے کہ وہ سیاسی اور معاشی لحاظ سے آزاد معاشرے کا فرد ہو۔ اس سیاق میں مسلمانوں کو اپنی ایک ریاست قائم کرنی چاہیے، جہاں کہیں بھی مستحکم ریاست قائم کرنا ممکن ہو۔ یہی اُصول سنت رسول سے بھی اخذ کیا جاسکتا ہے کہ آنحضورؐ نے مدینہ میں ایک تمدنی معاشرہ اور ریاست کی بنیاد ڈالنے کے لیے اپنے آبائی شہر مکہ سے ہجرت کی تھی۔ آنحضورؐ اگرچہ سیاسی و عسکری اُمور میں مقتدرِ فیصل تھے، اور اللہ کے رسول کی حیثیت سے دوسروں سے مشورہ کرنے کے پابند نہ تھے، اس کے باوجود آپؐ تمام اُمور میں، سوائے اُن اُمور کے جن کا تعلق وحی سے تھا، اپنے صحابہؓ سے مشورہ کیا کرتے تھے۔ قرآن نے آپؐ کو تمام معاملات میں صحابہ کرام سے مشورہ کرنے کی ہدایت کی اور یہ بھی کہ جب ایک دفعہ فیصلہ ہوجائے تو اللہ پر بھروسا کرنا چاہیے۔ سورۃ آل عمران، آیت ۱۵۹ میں آیا ہے: وَ شَاوِرْھُم فِی الْاَمْرِ۔ فَاِذاَ عَزَمَتَ فَتَوَکَّل عَلَی اللّٰہِ (ہر معاملے میں ان کو شریک مشورہ رکھو۔ پھر جب تمھارا عزم کسی رائے پر مستحکم ہوجائے تو اللہ پر بھروسا کرو)۔ اللہ تعالیٰ کے اس حکم میں امورِ ریاست میں ’’شوریٰ‘‘ کی اہمیت پر زور دیا گیا ہے۔ نبی کریمؐ کو کسی کے مشورے کی ضرورت نہ تھی، لیکن ذاتی حیثیت میں آپؐ عموماً دوسروں کے مشورے کی قدر کرتے تھے اور اپنے ذاتی فیصلے پر مصر نہیں ہوتے تھے۔ سورۃ الشوریٰ، آیت۳۸ میں مسلمانوں کو اپنے معاملات میں باہمی مشاورت کی تاکید کی گئی ہے: وَ اَ مُرھْمْ شُوریٰ بَیْنَھُمْ۔ اس آیت میں مسلم اُمہ کی نوعیت واضح کی گئی ہے: (ترجمہ) ’’جو اپنے رب کا حکم مانتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں، اپنے معاملات آپس کے مشورے سے چلاتے ہیں، ہم نے جو کچھ بھی رزق انھیں دیا ہے، اُس میں سے خرچ کرتے ہیں۔‘‘آنحضورؐ نے اپنی ایک حدیث میں ارشاد فرمایا: ’’میری امت میں اختلافِ رائے اللہ کی رحمت ہے۔‘‘ اور دوسری حدیث میں فرمایا: ’’میری امت کا اجماع کبھی گمراہی پر نہ ہوگا۔‘‘۱؎ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ شوریٰ سے متعلق آیاتِ قرآنی کی تشریح کرتے وقت جن حضرات سے مشورہ کرنا مقصود ہوتا ہے، آیا اُن سے صرف مشورہ لینا چاہیے یا اُن کے مشورے پر عمل کرنا بھی ضروری ہے؟ نبی کریمؐ امورِ ریاست میں ہمیشہ اپنے صحابہؓ اور معززینِ اُمہ سے، اپنے مشیر کی حیثیت سے مشورہ کرتے تھے۔ اس طریقے پر خلفائے راشدین نے عمل کیا چنانچہ یہ اُصول اخذ ہوا کہ صاحبِ اختیار کو دوسروں سے مشورہ ضرور کرنا چاہیے۔ لیکن وہ اُن کے مشورے پر عمل کرنے کا پابند نہیں ہوتا اور بحیثیت امام اسے نظرانداز کرسکتا ہے۔ مدینہ میں جس ریاست کی بنیاد ڈالی گئی، اس میں مسلمانوں کے علاوہ یہودیوں، عیسائیوں اور کفار قبائل کی آبادیاں بھی تھیں۔ ریاست کی آزادی برقرار رکھنے کے لیے ضروری تھا کہ ریاست کے تمام شہریوں میں مساوات قائم کی جائے تاکہ وہ اپنے مشترکہ علاقے کے دفاع میں ایک دوسرے کی مدد کرسکیں۔ نتیجۃً نبی کریمؐ نے دوسری قوموں اور قبائل کے مشورے کے بعد ’’میثاقِ مدینہ‘‘ نافذ کیا جو دنیا کا پہلا تحریری دستور تھا، جس کی بنیاد سورۃ البقرۃ ، آیت۲۵۶ کے اس قرآنی حکم پر رکھی گئی تھی: لَا اکْرَاہ فِی الدّین۔ دین میں زور زبردستی نہیں۔ میثاقِ مدینہ سینتالیس دفعات پر مشتمل ہے۔ پہلے حصے کی تیئس دفعات کا تعلق شہریوں کے باہمی تعلقات سے ہے، جن میں مسلمانوں کے حقوق و فرائض بھی شامل ہیں۔ ان دفعات نے مہاجرین مکہ کو انصارِ مدینہ کے ساتھ مواخات اور بھائی چارے کے بندھن میں متحد کردیا۔ میثاق کا دوسرا حصہ،جو چوبیس دفعات پر مشتمل ہے، یہودیوں اور دوسرے غیرمسلم باشندوں سے مسلمانوں کے تعلقات واضح کرتا ہے۔ اس حصے میں ان کے مذاہب کی آزادی اور املاک کے تحفظ کی یقین دہانی کرائی گئی ہے۔ نیز اُن کے حقوق و فرائض کی فہرست دی گئی ہے۔ آئینی دستاویز کے اس حصے نے غیرمسلموں کو اُمتِ مسلمہ کے ساتھ منسلک کردیا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ چونکہ مسلمانوں کی قومیت کی بنیاد تو مشترکہ روحانی آرزو ہے، لیکن ریاست کی غیر مسلم اقلیتوں کے ساتھ ان کا اتحاد حب الوطنی، انسان دوستی اور مشترکہ علاقے کے دفاع کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ مسلمان اور غیر مسلم ’’سیاسی وحدت‘‘ کی حیثیت سے، مل کر مشترکہ دشمن کے خلاف لڑیں گے (ایک دوسرے کی مدد کریں گے)۔ ان کا عمل ایک دوسرے کی خیرخواہی کا ہوگا، وہ خلوص کے ساتھ ایک دوسرے کی خیرخواہی کریں گے اور ان کا طریقہ وفاداری کا ہوگا، عہدشکنی کا نہیں اور یہودیوں پر ان کے جنگ کے خرچ کا بار ہوگا اور مسلمانوں پر ان کے جنگ کے اپنے خرچ کا بار ہوگا۔ نیز یہ کہ ’’یہودی جنگ کا بار اُس وقت تک برداشت کرتے رہیں گے جب تک وہ (مسلمانوں کے ساتھ) مل کر جنگ میں شریک رہیں گے۔ … ’’یثرب کا جوف (مدینہ منورہ کا میدانی اور پہاڑی علاقہ) اس دستور والوں کے لیے مقدس اور محترم ہوگا۔‘‘… اس دستور کے ماننے والوں میں اگر کوئی (آپس میں) ایسا تنازع پیدا ہوجائے جس سے نقصان اور فساد کا اندیشہ ہو تو اس متنازع امر میں فیصلے کے لیے اللہ اور اُس کے رسولؐ کی طرف رجوع کرنا ہوگا اور اللہ کی (تائید) اس شخص کے ساتھ ہے جو اس صحیفہ (دستور) کے مندرجات کی زیادہ احتیاط اور وفا شعاری کے ساتھ تعمیل کرے گا۔۲؎ نبی کریمؐ نے مدینہ میں جس ریاست کی بنیاد ڈالی تھی، وہ ’’وفاقی‘‘ تھی، کیونکہ اس میں غیرمسلم قبائل اپنے قوانین کے مطابق رہتے تھے، جس طرح مسلمان اپنے شرعی قوانین کے مطابق۔ اور یہ کہ غیرمسلم قبائل اپنے اپنے علاقے میں سیاسی اور مذہبی طور پر پوری طرح خودمختار تھے۔ وہ مسلمانوں کے ساتھ ایک قوم واحدہ کی صورت میں میثاق مدینہ کی متفقہ شرائط کے تحت متحد تھے۔ ایک دستاویز کی حیثیت سے میثاق مدینہ کی کوئی مذہبی اہمیت نہ تھی۔ وہ محض ایک معاہدۂ عمرانی تھا جو کسی ایک معاہد فریق کے اس کی شرائط کی خلاف ورزی کرنے پر منسوخ کیا جاسکتا تھا۔ تاہم ایک تکثیری معاشرہ قائم کرنا آنحضورؐ ہی کی کوشش تھی، یعنی ایک ایسی ریاست جس میں متفرق مذاہب، متفرق ثقافتیں اور متفرق قوانین ایک ساتھ رہ سکتے ہوں۔ ریاست کے سربراہ کی حیثیت سے نبی کریمؐ کی پہلی دلچسپی یقینا مسلمانوں میں اتحاد پیدا کرنے اور اسے قائم رکھنے اور حکومت شریعت کے قانون کے مطابق چلانے سے تھی۔ چونکہ قانون کے اُصول تو اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی بذریعۂ وحی قرآن مجید میں منضبط کر دیے تھے، لہٰذا نبی کریمؐ نے سربراہ ریاست کی حیثیت سے ان قوانین و اُصول کی تشریح کی اور ان کو نافذ کیا۔ آپؐ نے یہ اُصول وضع کیا کہ قانون سازی میں سربراہِ ریاست یا امام کو مقلد (دوسروں کی تشریحات کی تقلید کرنے والا) نہیں، بلکہ مجتہد ہونا چاہیے (جو قانون کی تشریح خود کرتا ہے)۔ یہ اُصول سورۃ عنکبوت، آیت۶۹ سے ماخوذ ہے: وَالَّذِیْنَ جَاھَدُوا فِینا لَنَھدیَنَّھم سُبُلَنَا (جو لوگ ہماری خاطر مجاہدہ کریں گے، انھیں ہم اپنے راستے دکھائیں گے)۔ اس اُصول کی مزید تائید آنحضورؐ کی ایک حدیث سے بھی ہوتی ہے۔ حضرت معاذ بن جبلؓ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہؐ نے ان کو قاضی بنا کر یمن کے لیے روانہ فرمایا تو آپؐ نے ان سے دریافت کیاکہ جب تمھارے سامنے کوئی مقدمہ یا قضیہ پیش ہوگا تو تم اس کا فیصلہ کس طرح کرو گے؟ تو انھوں نے عرض کیا کہ میں اللہ کی کتاب (قرآن) کی ہدایت کے مطابق فیصلہ کروں گا۔حضورؐ نے فرمایا کہ اگر کتاب اللہ میں تمھیں اس کے بارے میں کوئی حکم یا ہدایت نہ ملے تو کیا کرو گے؟ انھوں نے عرض کیا کہ پھر میں اللہ کے رسول کی سنت کے مطابق فیصلہ کروں گا۔ حضورؐ نے فرمایا، اور اگر اللہ کے رسول کی سنت میں بھی تمھیں اس بارے میں حکم یا ہدایت نہ ملے تو کیا کرو گے؟ انھوں نے عرض کیا، تو پھر میں اپنی رائے اور قیاس سے کام لوں گا اور اجتہاد کروں گا اور صحیح نتیجے تک پہنچنے کی کوشش میں کوئی دقیقہ اُٹھا نہ رکھوں گا۔ یہ جواب سن کر حضورؐ نے ان کا سینہ ٹھونکتے ہوئے شاباش دی اور فرمایا، حمدوشکر اس اللہ کے لیے، جس نے اپنے رسولؐ کے فرستادہ کو اِس بات کی توفیق دی جو اس کے رسول کو پسند ہے۔ اس حدیث سے یہ نتیجہ نکالا جاسکتا ہے کہ دینی احکام (عبادات) تو نہیں بدلے جاسکتے، لیکن دنیاوی ’’معاملات‘‘ ضرور بدل جاتے ہیں۔ چنانچہ حالات ایسے پیدا ہوسکتے ہیں جن کے حل میں قرآن وسنت سے کافی ہدایت نہ ملتی ہو، تو ایسی صورت میں مسلمانوں سے یہی توقع کی جائے گی کہ وہ اسلامی فقہ کی تشریح وتعبیر کے ذریعے مسئلے کا حل خود نکالیں اور پھر وقت کے تقاضوں کے مطابق انھیں نافذ بھی کریں۔ بالفاظِ دیگر اجتہاد ایک ایسا طریقہ ہے جس سے شریعت کو فعال و متحرک اور فقہ کو اُمت کی ضرورت سے ہم آہنگ رکھا جاتا ہے۔ علاوہ ازیں یہ بھی ضروری ہے کہ عدلیہ (قضا) کو انتظامیہ سے علاحدہ رکھا جائے۔ سورۃ النسائ، آیت۵۹ میں حکم آیا ہے: فَان تَنَازَعتم فی شَی فَرُدوہُ اَلَی اللّٰہ و الرَّسول (اگر تمھارے درمیان کسی معاملے میں نزاع ہوجائے تو اسے اللہ اور رسول کی طرف پھیر دو)، یعنی قرآن وسنت کی ہدایات کی روشنی میں تصفیے کے لیے عدلیہ کی طرف رجوع کیا جائے۔ عدلیہ کا فیصلہ فریقین کے لیے تسلیم کرنا ضروری ہوگا۔ قرآنی احکام و قوانین کے متواتر ارتقا کے لیے آنحضورؐ نے اجتہاد کی اہمیت پر خاص زور دیا ہے۔ اس زمانے میں جہاں کہیں اختلافِ رائے یا ایسا ابہام پیدا ہوا جس کی واضح تشریح کی ضرورت پڑی، تو اجتہاد کے طریقے سے فائدہ اُٹھایا گیا۔ ایسی صورتوں میں کہ جہاں قرآنی حکم تو بالکل واضح تھا، لیکن حالاتِ حاضرہ کا تقاضا کچھ اور تھا، آنحضورؐ نے قرآنی حکم کو ’’تعویق‘‘ میں ڈالنے کی اجازت دی۔ اختیارات کا یہ استعمال امام (سربراہِ ریاست) کا ’’صوابدیدی اختیار‘‘ کہلا سکتا ہے۔ ’’حاکمانہ اختیار‘‘ کی ایک مثال صلح حدیبیہ ہے جو ریاست مدینہ کے سربراہ نبی کریمؐ اور قریش مکہ کے نمایندے سہیل بن عمرو کے درمیان طے پایا۔ یہ معاہدہ دس سال کی مدت کے لیے طے پایا تھا کہ فریقین دس سال تک جنگ بند رکھیں گے۔ اس عرصے میں لوگ پُرامن رہیں گے۔ کوئی کسی پر ہاتھ نہیں اُٹھائے گا۔ جس طریقے سے یہ معاہدہ ضبطِ تحریر میں آیا، وہ بڑا دلچسپ ہے۔ معتبر ومعروف تاریخی ماخذ سے ثابت ہے کہ معاہدے کا مسودہ لکھنے کے لیے آپؐ نے حضرت علیؓ کو بلایا کہ تحریر لکھ دیں اور یہ املا کرایا: بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ اس پر سہیل نے کہا: ’’ہم نہیں جانتے، رحمن کیا ہے؟‘‘ آپؐ یوں لکھیے باسمک اللّھُمَّ (اے اللہ تیرے نام سے)۔ نبی کریمؐ نے حضرت علیؓ کو حکم دیا کہ یہی لکھو۔ اس کے بعد آپؐ نے یہ املا کرایا۔ ’’معاہدہ ہے جس پر محمد رسول اللہؐ نے سہیل بن عمرو سے مصالحت کی۔‘‘ اس پر سہیل نے پھر مداخلت کی اور حضرت علیؓ کو لکھنے سے روک دیا۔ پھر اُس نے آپؐ کو مخاطب کرکے کہا: ’’اگر ہم مانتے کہ آپ اللہ کے رسول ہیں، تو پھر ہم نہ تو آپؐ کو بیت اللہ سے روکتے اور نہ جنگ کرتے، لہٰذا آپ محمد بن عبداللہ لکھوائیے۔‘‘ آپؐ نے فرمایا: ’’میں اللہ کا رسول ہوں، اگرچہ تم جھٹلائو۔ پھر حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کی مخالفت و احتجاج کے باوجود، حضرت علیؓ کو حکم دیا کہ محمد بن عبداللہ لکھیں اور لفظ ’’رسول اللہ‘‘ مٹا دیں۔ تب حضرت علیؓ نے بادلِ نخواستہ تحریر کیا: یہ معاہدہ محمد بن عبداللہ نے سہیل بن عمر کے ساتھ طے کیا۔‘‘۳؎ معاہدہ سازی کا یہ اسلوبِ خاص رسولِ کریمؐ کے سیاسی رہنما ہونے کی حیثیت سے اُن کے سیاسی تدبر، وسیع النظری اور حقیقت پسندی کی ترجمانی کرتا ہے۔ منٹگمری واٹ کے نزدیک اِس طریق عمل کا محرک یہ تھا کہ آپؐ قرآنی پیغام پر کامل ایمان رکھتے تھے، سیاسی و مذہبی نظام کی حیثیت سے اسلام کے مستقبل پر عقیدہ رکھتے تھے اور اللہ تعالیٰ نے جو کام اُن کے سپرد کیا تھا، اُس سے بے پناہ محبت اور لگائو رکھتے تھے۔۴؎ گویا صلح حدیبیہ کے وقت آپؐ نے اللہ کا رسول ہونے کا منصب عارضی طور پر پس پشت ڈال کر، سربراہِ ریاست کی حیثیت سے ’’صوابدیدی اختیار‘‘ استعمال کیا۔ یہ صوابدیدی عمل ریاست یا اُمت کے مفاد میں تھا اور اللہ تعالیٰ کے اقتدارِ اعلیٰ یا اُس کی شریعت کی بالادستی سے متصادم تھا نہ متخالف۔ فقہ اسلامی ریاست کے سربراہ کے، بحیثیت قانون ساز، اس اختیار کو تسلیم کرتی ہے کہ اگر حالات کا تقاضا یا ریاست یا اُمت کے مفادات کا مطالبہ ہو تو قرآنی حکم کو تعویق میں ڈالا جاسکتا ہے۔ اس کی تحدید یا توسیع ہوسکتی ہے۔ کسی شرعی قانون کی شدت و سختی سے، بالخصوص دیوانی معاملات میں، بچنے کے لیے فقہا نے بعض تدابیر کی سفارش کر رکھی ہے، جن کو اصطلاح میں ’’حیلہ‘‘ کہا جاتا ہے۔ سربراہِ ریاست کے بحیثیت امام حاکمانہ اختیار کا استعمال اجتہاد سے مختلف چیز ہے، اگرچہ وہ بھی اس کا استحقاق ہے۔ اسلامی ریاست اللہ تعالیٰ کے اقتدارِ اعلیٰ اور حکم خدواندی کی بالادستی کو تسلیم کرتی ہے، لیکن جہاں تک اس کی تشریح و تنفیذ کا تعلق ہے، امام کا اختیار، بحیثیت قانون ساز، مسلّم و بالادست ہے۔ مزید برآں وہ اپنے صوابدیدی اختیار کا استعمال، ریاست اور اُمت کے مفادات کے پیش نظر، خاص حالات میں قانون کی خاص تشریح کے ذریعے کرتا ہے۔ فقہ میں قرآن کے تصورِ اضطرار کی ایک وسیع تر تشریح بھی قانون ساز کی مدد کے لیے موجود ہے، جس کی رُو سے حرام حلال میں بدل جاتا ہے۔ سال ۶۶۱ء کے دوران اس نظریے کی ترویج سے، کہ خلافت اور نبوت کو ایک خاندان میں مرتکز نہیں ہونا چاہیے، ایک اور اُصول وضع ہوا، یہ کہ روحانیت کا نظم ِریاست سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ نظم ِریاست سے روحانیت کی علاحدگی کا اگر یہ نتیجہ ہوا کہ اسلام میں طاقت والی ریاست (ملوکیت) وجود میں آئی تو سنی فقہا نے اس کے حق میں دلیل یہ دی کہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، کیونکہ ملوکیت بھی شریعت نافذ کرنے میں اتنی ہی بااختیار ہوتی ہے جتنی کہ خلافت۔ اور آخر میں حجۃ الوادع کے موقع پر عرفات کی پہاڑی پر آنحضورؐ کے خطبے کا بھی ذکر ہونا چاہیے، جس میں ایک انتہائی اہم آئینی اُصول قرار دیا گیا ہے، جس کی رُو سے انسانی حقوق کی وضاحت اسلامی نقطۂ نظر سے کی گئی ہے۔ بنی نوع انسان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ قرآنی آیات پر مبنی وہ انسانی حقوق گنوائے گئے جن کی ضمانت آنحضورؐ نے اپنے آخری خطبے میں دی تھی۔ شہریوں کی جان و مال کی حفاظت لازمی قرار دی گئی۔ سود کو حرام قرار دیا گیا۔ قصاص کا وہ طریقہ جو زمانۂ جاہلیت سے چلا آتا تھا، منسوخ کیا گیا۔ عربی کو عجمی پر، سوائے تقویٰ کے، برتری حاصل نہ ہوگی۔ مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ ایک مسلمان کے لیے دوسرے مسلمان بھائی کی املاک سے، اس کی رضامندی کے بغیر کچھ لینا جائز نہیں۔ زوجین کے حقوق کی بھی حفاظت کی گئی۔ امام (سربراہِ ریاست) کے انتظامی ایوانِ صدر کی بنیادیں بھی خود نبی کریمؐ نے قائم کردی تھیں۔ کاتب مقرر کیے گئے۔ جو سرکاری دستاویزات لکھتے تھے۔ تمام سرکاری دستاویزات کی تصدیق کے لیے مہر نبوت ثبت کی جاتی تھی۔ سنت نبویؐ سے جو چند اہم آئینی اُصول اخذ ہوتے ہیں، وہ یہ ہیں: ۱- حتمی اقتدارِ اعلیٰ صرف اللہ تعالیٰ کا ہے۔ حکم خداوندی کی بالادستی مسلّم ہے۔ ۲- مسلمانوں کی قومیت کی بنیاد مشترکہ روحانی آرزو ہے۔ نسل، زبان اور علاقے کا اشتراک ثانوی چیز ہے۔ ۳- چونکہ مسلمانوں کی حکومت تمام دینی و د نیاوی معاملات میں شریعت کے تحت چلائی جانی چاہیے، جس میں اطاعت صرف ان حکمرانوں کی ہوسکتی ہے جو انھی میں سے ہوں، لہٰذا جہاں کہیں مستحکم ریاست قائم کرنا ممکن ہو، وہاں ان کو اپنی ریاست قائم کرنے کی خواہش اور کوشش کرنا چاہیے۔ ۴- اسلامی ریاست کے غیرمسلم شہری (مفتوحہ علاقوں کے نہیں جو ذمی کہلاتے ہیں) اپنے دین و املاک کے معاملات میں آزاد ہیں۔ مسلمانوں سے اُن کا قومی اتحاد عملی حقائق، پرخلوص دوستی، باعزت روابط اور باہمی احترام پر مبنی ہے۔ ۵- مسلمان اور غیرمسلم اپنی ریاست کے علاقے کا دفاع، ایک متحدہ قوم کی حیثیت سے، مشترکہ؍ اجتماعی طور پر کرتے ہیں اور دفاعی اخراجات برداشت کرتے ہیں۔ ۶- ریاست کے لیے ایک تحریری آئین وضع اور نافذ کرنا اور اُس کی دفعات کی مکمل پابندی کرنا سنت نبویؐ ہے۔ ۷- آئین کی منظوری فردِ واحد کا معاملہ نہیں ہے، بلکہ وفاقی علاقوں کے نمایندوں کا مشترکہ کام ہے، جو اس معاہدۂ عمرانی کے رضاکارانہ دستخط کنندگان ہیں۔ آئین بنیادی طور پر ایک معاہدہ ہے۔ اسے روحانی یا مذہبی تقدیس حاصل نہیں ہے۔ ۸- مختلف مذاہب، نسلوں اور قوموں کے پُرامن بقائے باہمی کے ذریعے انسانی وحدت (اُمت واحدہ) کا نصب العین حاصل کرنا چاہیے۔ ۹- ریاست کے دینی اُمور و معاملات بروئے کار لانے کے لیے شوریٰ (مشورت) کی اہمیت پر زور دینا چاہیے۔ ۱۰- شریعت کی تشریح و تنفیذ کے ضمن میں سربراہِ ریاست کو مقلد نہیں، مجتہد ہونا چاہیے۔ قانون سازی میں اجتہاد ایک مسلسل اور غیر مختتم طریقِ کار ہے۔ ۱۱- انتظامیہ کا کام مقتدر اعلیٰ کی تشریح کے مطابق شریعت کا نفاذ و انتظام ہے۔ قانون سازی میں مقتدر اعلیٰ کو حقیقت پسند ہونا چاہیے، سیاسی تدبر اور دوراندیشی سے کام لینا چاہیے، تاکہ ریاست اور اُس کے شہریوں کے مفادات کا تحفظ کیا جاسکے۔ ۱۲- انسانی حقوق، جو قرآن و سنت میں گنوائے گئے ہیں، ریاست میں ان کی ضمانت دی جانی چاہیے اور اُن کا نفاذ ہونا چاہیے۔ ۱۳- اسلامی بہبود کے قوانین کی رُو سے جو محصولات عاید کیے جائیں اُن کی تحصیل سرکاری عمّال کو بڑی احتیاط سے کرنی چاہیے اور ریاست کی نگرانی میں شہریوں کے لیے مشخص کرنا چاہیے۔ ۱۴- عدلیہ کو انتظامیہ سے الگ ہونا چاہیے تاکہ اس کی آزادی یقینی ہو۔ ۱۵- مسلمان اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسولؐ کی اطاعت کے پابند، اور جو اُن میں سے اولوالامر (حاکم) ہوں اُن کی بھی اطاعت کے پابند ہیں، تاکہ ریاست میں امن و نظم برقرار رکھا جائے۔ آنحضورؐ کی سربراہی میں مدینہ کی شہری ریاست ہمیشہ سے اسلامی ریاست کی ایک مثال، ایک نمونہ بنی رہی ہے۔ مدینے کی یہ ریاست مسلمانوں کی تاریخ میں منفرد و یکتا رہی ہے اور دوبارہ اُس کا کبھی ظہور نہیں ہوا۔نظریاتی نقطۂ نظر سے، مدینہ کی ریاست ایک مکمل ریاست کا نمونہ تھی جس کے سربراہ کا اللہ سے براہ راست رابطہ تھا۔ آنحضورؐ قرآن مجید میں مذکورہ سامی نبی بادشاہوں کی روایت کے مطابق اِس ریاست کے سربراہ تھے۔ لیکن اگرچہ ریاست کی بنیادیں رکھی جاچکی تھیں اور اس کی سربراہی نبی امام کے ہاتھ میں تھی، تاہم یہ ریاست اپنی جگہ ترقی پذیر تھی اور جن مقاصد کے لیے یہ قائم کی گئی تھی، اُن کے حصول کے لیے کوشاں تھی۔ دوسرے لفظوں میں اسلامی ریاست ایک مکمل مصنوعہ چیز نہیں ہے، بلکہ ہمہ وقت ارتقا پذیر ہے۔ اُمت کا قانونی نظام کے دائرے میں رہ کر ترقی کرتے جانا ضروری ہے، جس کے موٹے موٹے اُصول قرآن و سنت میں واضح ہوچکے ہیں۔ ارتقا پذیری بجائے خود ’’اجتہاد‘‘ کے مسلسل عمل کا تقاضا کرتی ہے۔ جہاں تک سیاسی نظام کا تعلق ہے، آنحضورؐ کی رحلت کے بعد، اُمت اپنے حالات کے تقاضوں کے مطابق کوئی بھی سیاسی نظام اختیار کرنے میں آزاد تھی۔ ۲- جمہوری خلافت کا نمونہ (ماڈل) آنحضورؐ نے ۶۳۲ء میں رحلت فرمائی۔ آپؐ کی رحلت کے ساتھ ہی، فوری طور پر اُن کے جانشین (خلیفہ) کا مسئلہ اُٹھ کھڑا ہوا۔ ایک بالکل نئی معاشرتی و سیاسی ہیئت کے لیے رہنما و سربراہ کی ضرورت سر پر آن پڑی تھی۔ ’’خلافت‘‘ ایک ادارے کی حیثیت سے وجود میں آئی، کیونکہ حالات کا اقتضا یہی تھا۔ یہ ادارہ صحابہ کرامؓ کے اجما ع سے، شفاف طریقے سے پیدا ہوا۔ اس ضمن میں آنحضورؐ نے جو نظیر قائم کررکھی تھی، اُس سے بھی اُمت نے رہنمائی حاصل کی۔ آپؐ جب بھی کچھ وقت کے لیے مدینہ سے باہر تشریف لے جاتے تو شہر کے معاملات کی نگرانی کے لیے اپنا قائم مقام؍ نائب (خلیفہ) مقرر کر دیتے۔۵؎ آپؐ کی اس سنت کی توثیق قرآن مجید سے بھی ہوتی ہے۔ سورۃ صٓ ، آیت۲۶ میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت دائود علیہ السلام کو اُن کی سرزمین کا خلیفہ مقرر کیا: یٰدَاو‘دُ اِنّا جَعَلنٰکَ خَلِیْفَۃً فِیْ الْاَرْضِ۔ اسی طرح قرآن میں لفظ ’’امام‘‘ آیا ہے جس کا مطلب عام مفہوم میں رہنما اور قائد ہے، یعنی مومنین یا کفار کا رہنما، انبیا کو قرآن میں بعض جگہ ’’امام‘‘ کہا گیا ہے، اور دوسرے مقامات پر اس اصطلاح کا مطلب، مثال، نمونے یا صحیفۂ آسمانی کا بھی لیا گیا ہے۔ تاریخ کی تشریح میں سنی اور شیعہ روایات کے درمیان اختلاف ہے، یعنی اس امر کے بارے میں کہ نبی کریمؐ نے اپنا جانشین نامزد کیا تھا یا نہیں۔ معروف سنی دانشور جلال الدین سیوطی نے امام بخاری، امام مسلم، امام بیہقی اور امام احمد کی سند پر بیان کیا ہے کہ حضرت عمرؓ اور حضرت علیؓ نے اپنی وفات سے قبل اس امر کی تصدیق کر دی تھی کہ نبی کریمؐ نے اپنا کوئی جانشین مقرر نہیں کیا تھا۔۶؎ ظاہر ہے، اگر آنحضورؐ نے اپناجانشین نامزد کر دیا ہوتا یا، نامزدگی یا تقرری کا کوئی خاص طریقہ مقرر کر دیا ہوتا، تو آیندہ سربراہ ریاست مقرر کرنے کے ضمن میں وہی اور صرف وہی طریقہ اختیار کیا جاتا۔ لیکن اس طرح کی شرط یا پابندی سے اسلامی نظم ریاست کے ارتقا میں دشواری پیش آتی۔ آنحضورؐ نے اپنا جانشین نامزد نہ کرکے یا نامزدگی کا کوئی خاص طریقہ وضع نہ کرکے مشورت کا کوئی ڈھانچا بنا کر یا جانشین کی معزولی کا کوئی طریقہ نہ بتا کر قرآن کے عین مطابق عمل کیا، کیونکہ قرآن بھی اس امر کے بارے میں خاموش ہے۔ یہاں یہ امر ذہن نشین رہنا چاہیے کہ اسلام میں سیاسی نظام کا تعلق دنیاوی ’’معاملات‘‘ سے ہے، جو ارتقا پذیری کے سبب قانونِ تغیر کے تحت آتے ہیں۔ نتیجۃً سیاسی نظام بذاتہٖ کوئی سیاسی یا مذہبی اہمیت نہیں رکھتا۔ کسی بھی قسم کا سیاسی نظام قابلِ قبول ہے، بشرطیکہ اس میں اسلام کا قانونی نظام (شریعت) نافذ العمل ہو اور جو مسلمانوں کی عبادات میں حارج نہ ہو۔ قرآن کی روح کا تقاضا یہ ہے کہ مسلمانوں کے اُمور ومعاملات کا نظم و نسق چلانے کے لیے صرف قابل شخص یا اشخاص کا تقرر ہونا چاہیے۔ قرآن کا بنیادی تعلق صحیح اور غلط یا خیرو شر جیسے اخلاقی نوعیت کے معاملات سے ہے، منصوبہ سازی سے نہیں۔ سیاسی تقرریوں کا معاملہ دراصل صحیح و غلط انتخاب کے انتظامی اُمور سے ہے، جبکہ تقرری کا طریق کار اور عملے کا چنائو، حالات حاضرہ کی روشنی میں، منصوبہ سازی اور معیار قابلیت مقرر کرنے پر منحصر ہے۔ آنحضورؐ کی اپنے جانشین کی نامزدگی یا تقرری ، یا تقرری یا معزولی کے کچھ قواعد بنانے کے ضمن میں آپؐ کی مکمل خاموشی گویا دانستہ تھی، کیونکہ ایسے فنی نوعیت کے طریق کار وضع کرنے کا کام اُمت کی خوش نیتی اور خوش تدبیری پر چھوڑ دیا گیا۔ ظاہر ہے کہ یہ طریق کار مستقل نوعیت کے نہیں تھے،بلکہ اِن میں وقتاً فوقتاً بدلتے ہوئے حالات کے مطابق اُمہ کوترمیم و اضافہ کرنا تھا۔ اسلام کا اصل مقصد ایسی باعقیدہ اُمہ قائم کرنا ہے،جس کا نظم حکومت شریعت کے مطابق چلایا جائے۔ چنانچہ شریعت کی متواتر تشریح و تنفیذ کے لیے اجتہادی ثقافت پر مبنی ریاست کے قیام کی ضرورت ہے اور یہ کہ اُمہ کوئی بھی ایسا آئینی نظام یا طرز حکومت اختیار کرنے میں آزاد ہے جو اُس کی ضرورتوں سے ہم آہنگ ہو۔ ابن اسحاق نے آنحضورؐ کی حیات طیبہ پر اپنی تالیف میں پوری صحت اور تفصیل کے ساتھ لکھا ہے کہ آپؐ کے پہلے جانشین حضرت ابوبکرصدیق۔ؓ کا انتخاب کیونکر ہوا تھا۔آنحضورؐ کی رحلت پر مدینہ کے مسلمانوں کے تین نمایاں سیاسی گروپ جانشینی کی امیدواری کے لیے اُبھرے مہاجرین، انصار اور بنو ہاشم(آنحضورؐ کے اہل بیت کے حامی)۔ مہاجرین کی قیادت حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کر رہے تھے۔ انصار سعد بن عبیدہؓ کی حمایت میں جبکہ بنو ہاشم حضرت علیؓ کی حمایت میں پر جوش اور سرگرم تھے۔ طبری نے اپنی تاریخ میںلکھا ہے۷؎ کہ حضرت علیؓ اور دیگر اہل بیت تو آپؐ کی تجہیز و تکفین میں مصروف تھے(جبکہ تدفین آپؐ کی رحلت کے دوسرے دن ہوئی) کہ خبر ملی کہ انصار سقیفہ بنی ساعدہ میںجمع ہو رہے ہیںتاکہ وہ سربراہ ریاست کے منصب کے لیے سعد بن عبیدہ کا انتخاب کر لیں۔ حضرت ابو بکرؓ کو بروقت اس کی اطلاع ہو گئی۔ آپ فوراً حضرت عمرؓ اور دوسرے مہاجرین کو لے کر انصار کے اجلاس میں شرکت کے لیے سقیفہ بنی ساعدہ پہنچے۔ انصار مدعی تھے کہ اسلام کی مسلح فوج زیادہ تر انصار پر مشتمل ہے۔ انھوں نے اسلام کی خدمات اپنے خون سے بجا لائی ہیں، اس لیے خلافت کا حق اُن کا ہے۔ انصار نے مہاجرین کے جذبات کا لحاظ کرتے ہوئے یہ تجویز بھی پیش کی کہ حکومت کو دو حصوں میں تقسیم کر لیا جائے یا دو خلفا مشترکہ حکومت چلائیں، ایک خلیفہ انصار سے اور ایک خلیفہ مہاجرین سے لیا جائے۸؎ اور وہ دونوں بیک وقت یا باری باری حکومت کا نظم و نسق چلائیں۔ مہاجروں کے قائدین نے انصار کی اس تجویز کی مخالفت کی۔ وہ اُمہ کے اتحاد کے لیے اُٹھ کھڑے ہوئے۔ انھوں نے دعویٰ کیا کہ عرب قبائل صرف قریش کی قیادت قبول کریں گے، حتیٰ کہ انھوں نے آنحضورؐ کی یہ حدیث اپنے دعویٰ کے اثبات میں پیش کی کہ سیادت و قیادت قریش سے اُبھرے گی۔۹؎ تاہم اسلامیات کے معروف دانشور ڈاکٹر حمید اللہ کا کہنا ہے کہ آنحضورؐ کی اس حدیث کا متن آنحضورؐ کے اسوہ کے منافی ہے۔ اسوئہ رسولؐ قریش کی لازمی سیادت کی تصدیق نہیں کرتا۔ واقعہ یہ ہے کہ حضورؐ کسی نہ کسی وجہ سے مدینہ سے باہر کم از کم پچیس مرتبہ گئے۔ انھوں نے مدینہ میں اپنا قائم مقام یا جانشین(جو خلیفہ کہلاتا تھا) نامزد کیا، لیکن ہر موقع پر انھوں نے اپنی غیر موجودگی میں کاروبار حکومت چلانے کے لیے قریش ہی کو نامزد نہیں کیا۔ آپؐ کے جانشینوں میں مدنی بھی تھے، قریش بھی تھے،کنعانی بھی تھے، ان کے علاوہ دوسرے بھی تھے۔ اُن میں سے حتی کہ ایک نابینا بھی تھے۔۱۰؎ حضرت علیؓ انصار کے اس اجلاس میں شریک نہیں تھے، لیکن بنو ہاشم کا یہ دعویٰ کہ وہ نبی کریمؐکے اہل بیت اور آپؐ کی قرابت داری کے سبب آپؐ کے جانشین ہونے کے زیادہ حق دار ہیں،اجلاس میں پیش کیا گیا۔ سقیفہ بنی ساعدہ میں حالات انتہائی سنگین صورت اختیار کر گئے، اس نازک موقع پر حضرت ابوبکرؓ نے نہایت نرمی اور آشتی سے انصار کو سمجھایا اور یہ بر محل تقریر کی کہ ’’مجھے تم لوگوں کے فضائل و مناقب اور تمھارے اسلامی جذبات سے انکار نہیں، لیکن عرب، قریش کے علاوہ اور کسی خاندان کی سیادت تسلیم نہیں کر سکتے۔ پھر مہاجرین اپنے تقدم فی الاسلام اور آنحضرتؐ کے ساتھ خاندانی قرابت کی بنا پر آپؐ کی جانشینی کے زیادہ مستحق ہیں۔ یہ ابوعبیدہ اور عمر بن الخطاب موجود ہیں۔ ان میں سے جس کے ہاتھ پر چاہو، بیعت کر لو۔ یہ سنتے ہی حضرت عمرؓ نے حضرت ابوبکرؓ کے ہاتھوں میں ہاتھ دے کر فرمایا کہ آپ ہم سب میں بزرگ ، ہم سب میں بہتر اور رسول اللہ کے سب سے مقرب ہیں، اس لیے ہم آپ کے ہاتھوں پر بیعت کرتے ہیں۔ چنانچہ حضرت عمرؓ کی بیعت کے ساتھ مسلمان بیعت کے لیے ٹوٹ پڑے۔ اس کے دوسرے دن مسجد نبویؐ میں عام بیعت ہوئی۱۱؎ اور یوں ربیع الاول ۱۲ ھ میں حضرت ابوبکرؓ مہاجرین اور انصار کے عام بیعت سے مسندِ خلافت پر متمکن ہوئے(طبری کے نزدیک۱۲؎ حضرت علیؓ اور بنو ہاشم کے دوسرے افراد نے عام بیعت کے کچھ عرصہ بعد خلیفہ ابو بکرؓ سے بیعت کی)۔ بیعت عام کے بعد حضرت ابو بکرؓ نے جو تقریر کی ، وہ بھی نہایت اہم اور قابل ذکر ہے۔ آپ نے فرمایا: لوگو! میں تم پر حاکم بنایا گیا ہوں، حالانکہ میں تمھاری جماعت میں سب سے بہتر نہیں ہوں۔ اگر میں اچھا کام کروں تو میری اطاعت کرو اور اگر کج روی اختیار کروں تو مجھے راہ راست پر لائو۔ سچائی امانت ہے اور جھوٹ خیانت۔ تمھارا ضعیف فرد بھی میرے نزدیک قوی ہے، یہاں تک کہ میں دوسروں سے اس کا حق نہ دلا دوں اور تمھارا قوی شخص بھی میرے نزدیک ضعیف ہے یہاں تک کہ میں اُس سے دوسروں کا حق حاصل نہ کر لوں۔ یاد رکھو، جو قوم جہاد فی سبیل اللہ چھوڑ دیتی ہے، خدا اُس کو ذلیل و خوار کر دیتا ہے اور جس قوم میں بدکاری پھیل جاتی ہے، خدا اُس کو مصیبت میں مبتلا کر دیتا ہے۔ اگر میں خدا اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کروں تو میری اطاعت کرو، اور اگر اُس کی نافرمانی کروں تو تم پر میری اطاعت لازم نہیں۔۱۳؎ حضرت ابوبکرؓ نے اپنے آخری ایام میں اکابر صحابہ کو بُلا کر آیندہ اپنے جانشین کے بارے میں مشورہ کیا اور اپنی طرف سے حضرت عمرؓ کا نام پیش کیا، لیکن چونکہ نامزدگی کی کوئی قانونی نظیر موجود نہیں تھی، لہٰذا یہ محض ایک سفارش تھی۔ تاہم چونکہ مسلمانوں کو خلیفہ ابوبکر ؓ پر اعتماد تھا، لہٰذا اُن کی سفارش پر عمل کیا گیا، استصواب رائے سے حضرت عمرؓ کی نامزدگی منظور ہوئی جس کی توثیق عام بیعت سے ہوئی۔ ۲۳ھ میںحضرت عمرؓ کی شہادت کا حادثہ پیش آیا۔ انھوں نے اپنی وفات سے پہلے حضرت علیؓ ، عثمانؓ، زبیرؓ، طلحہؓ، سعدؓ اور عبدالرحمن ؓ بن عوف چھ آدمیوں کو، جن کی اسلام میں بڑی خدمات تھیں، نامزد کرکے فرمایا تھا، اُن میں جس پر کثرت رائے ہو جائے، اُسے خلیفہ بنانا۔ معروف مؤرخ قاضی سلیمان منصور پوری نے اپنی تالیف رحمت للعالمین( حصہ دوم) میں لکھا ہے کہ نامزدگان میں آنحضور کی پھوپھی ام حکیم بیضا کا نام بھی شامل تھا۔ حضرت عمرؓ نے اس مجلس انتخاب میں اپنے فرزند عبداللہ کو بھی شامل کیا، اگر ان چھ آدمیوں کے انتخاب میں ووٹ برابر آئیں تو فیصلہ کن ووٹ عبداللہ دیں گے، لیکن انھیں خلافت کی امیدواری کا حق حاصل نہ ہوگا۔ حضرت عمرؓ کی تجہیز وتکفین سے فراغت کے بعد آپ کی وصیت کے مطابق چھ نامزد آدمیوں کو ایک گھر میں یکجا کیا گیا، مگر کوئی فیصلہ نہ ہو سکا۔تیسرے دن حضرت عبدالرحمنؓ بن عوف نے فرمایا کہ انتخاب کی صورت یہ ہے کے چھ کی تعداد کو اور کم کرد یا جائے۔ اورجو شخص جسے زیادہ اہل سمجھتا ہو، اُس کا نام پیش کر دے۔ اس تجویز پر حضرت سعدؓ نے حضرت عبدالرحمنؓ کا نام پیش کیا، لیکن آپ نے اپنا نام واپس لے لیا۔ حضرت طلحہؓ نے حضرت عثمانؓ کا اور حضرت زبیر ؓ نے حضرت علیؓ کا نام پیش کیا۔ اس تحریک پر حضرت عبدالرحمن نے فرمایا کہ اب صرف دو نام رہ گئے ہیں۔ ان دونوں میں سے جو شخص کتاب اللہ اور سنت رسول پر عمل کرنے کا عہد کرے گا، اُس کے ہاتھ پر بیعت کی جائے گی۔ پھر انھوں نے دونوں سے الگ الگ دریافت کیا کہ اگر وہ خلیفہ منتخب ہوئے تو وہ ریاستی نظم و نسق کیونکر چلائیں گے۔ پھر دونوں کی اجازت اور مرضی سے مسجد نبویؐ کے اجتماع میں ایک مؤثر تقریر کی اور خود عثمانؓ کے ہاتھ پر بیعت کر لی۔ آپ کی بیعت کے بعد حضرت علیؓ نے ہاتھ بڑھایا۔ آپ کے بیعت کرتے ہی ساری خلقت ٹوٹ پڑی۔ بیعت عام کے بعد محرم ۲۴ھ میں حضرت عثمانؓ مسند خلافت پر متمکن ہوئے۔ خلیفہ عثمانؓ کے عہد میں بہت سی پیچیدگیاں اور تضادات پیدا ہوئے۔ باغیوں نے اُن کے گھر پر ہلّہ بول کر انھیں بڑی بے رحمی سے شہید کر دیا۔ خلیفہ عثمانؓ کی رحلت کے بعد مدینہ کے بعض اکابر صحابہؓ نے حضرت علیؓ کی خدمت میںحاضر ہو کر عرض کیا کہ خلیفہ کا انتخاب ضروری ہے۔ حضرت علیؓ نے یہ اشارہ سمجھ کر جواب دیا کہ مجھے اس کی حاجت نہیں، جسے تم منتخب کرو گے، میں بھی اسے قبول کر لوں گا۔ ان لوگوں نے عرض کیا کہ آپ کے ہوتے ہوئے کوئی دوسرا اس منصب کا مستحق نہیں ہے، اس لیے آپ کے علاوہ ہم کسی دوسرے کو منتخب ہی نہیں کر سکتے۔ آنحضورؐ کے چچا حضرت عباسؓ کی بھی یہی رائے تھی۔ غرض اکابرین کے اصرار سے مجبور ہو کر اور امت کے مفاد کے پیش نظر آپ نے قبول فرمایا لیکن نجی محفل میں نجی بیعت لینے سے انکار کیا اور اصرار کیا کہ مسجد نبوی میں بیعت عام لی جائے۔ چنانچہ اُن کا مطالبہ تسلیم کیا گیا اور مسجد نبوی میں اجتماع میں، آپ کے ہاتھ پر مسلمانوں نے عام بیعت کی۔۱۴؎ لیکن حضرت علیؓ کا عہد حضرت عثمانؓ کے عہد سے بھی زیادہ ہنگامہ خیز ثابت ہوا۔ ۴۰ھ میں حضرت علیؓ فجر کی نماز ادا کرنے کے لیے کوفہ کی مسجد کی طرف بڑھ رہے تھے کہ اُن کو شہید کر دیا گیا۔ اس مختصر سے جائزے سے یہ بات صاف اور واضح ہو جاتی ہے کہ خلفائے راشدین (۶۳۲ تا ۶۶۱ئ) کے عہد میں سربراہ ریاست کی تقرری کے لیے مختلف طریقے اختیار کیے گئے۔ ان طریقوں کی صراحت نہ تو قرآن میں ملتی ہے اور نہ سنت رسول سے ان کی کوئی شہادت یا سفارش ملتی ہے۔ یہ طریقے خلفائے راشدین نے حسب ضرورتِ وقت کے اختیار کر لیے۔ خلافت کے امیدوار کا تقرر یا تو ’’انتخاب‘‘ کے ذریعہ سے ہوا یا سابق خلیفہ کی ’’نامزدگی‘‘ سے یا ایک ’’مجلس انتخاب‘‘ یا اہل مدینہ کے ’’ براہ راست استصواب‘‘ سے۔ خواتین کو رائے دہی سے محروم نہیں کیا گیا، لیکن انھوں نے بیعت کرنے کی تقریب میں حصہ نہیں لیا۔ عرب کے اپنے سیاسی تمدن میں انتخاب کا موروثی قاعدہ بہت گہرا اور مسلّم تھا، اسے جڑ سے اکھاڑ دیا گیا۔ اب صدر کے انتخاب کے لیے جتنے بھی طریقے اختیار کیے گئے، خاص جمہوری تھے، اور اکثریتی اُصول کو نامنظور تو نہیں کیا گیا، لیکن اُس کی پیروی بھی نہیں کی گئی کیونکہ اس کی ضرورت نہ پڑی تھی تاہم خلیفہ کے لیے ضروری تھا کہ وہ ریاست کے منتظم اعلیٰ کی حیثیت سے مجلس شوریٰ سے مشورہ کرے، لیکن وہ اس کے مشورے پر عمل کرنے کا پابند نہیں تھا۔ تصور یہ تھا کہ سربراہ ریاست نبی کریمؐ کا جانشین (خلیفہ) اسلامی قانون کی شرح اور نافذ کرنے والا (امام ؍مجتہد ، نماز کی امامت کرنے والا، دین اسلام کا محافظ، اُمتِ مسلمہ کا سرپرست ، منصف، محتسب ، منتظم، سیاسی رہبر اور سپہ سالار(امیر المومنین) ہے۔ عہد نبویؐ میں سربراہ ریاست کو صرف ایک تسلیم شدہ استحقاق حاصل تھا۔۔۔ وہ یہ کہ تمام سرکاری دستاویزات پر اس کی مہر ثبت ہوتی تھی۔ خلفائے راشدین کے عہد میں، بالخصوص حضرت علیؓ کی ہنگامہ خیز خلافت میں، ایک اور استحقاق کا اضافہ ہوا۔ وہ یہ کہ اگر کسی وجہ سے سربراہ ریاست نے نماز کی امامت نہ کی اور وہ بوقت نماز غیر موجود رہا، تو نماز پڑھانے والا امام اپنے خطبے میں اس کا نام لے کر اُس کے لیے دُعا کرتا تھا۔ اس موقع پر مناسب معلوم ہوتا ہے کہ خلافت کے ادارے کے بارے میں خوارج کا نقطۂ نظر بھی اختصار کے ساتھ پیش کیا جائے، جو تاریخ اسلام کے اوائل ہی میں نمودار ہو گئے تھے۔ ’’خارجی‘‘ کا لغوی مفہوم ہے جو اللہ کی خاطر اپنا گھر چھوڑ دے۔ اس کا ایک اور مطلب اُمتِ مسلمہ سے ’’خروج‘‘ہے۔ خروج کا نقطۂ نظر سنی اور شیعہ نقطہ ہائے نظر کی عین ضد ہے۔ اُن کو اسلام کے سیاسی فکر میں بائیں بازو کے علم بردار سمجھنا چاہیے۔ اُن کو جدید سیاسی اصطلاح میں شدت پسند سوشل ڈیموکریٹ کہا جا سکتا ہے۔ ان کا بڑا عقیدہ یہ تھا کہ اعمالِ صالحہ کے بغیر صرف ایمان حصول نجات کے لیے کافی نہیں۔ چنانچہ وہ خلیفہ میں صرف اعمال صالحہ اور اخلاقی صفات کا مطالبہ کرتے تھے۔وہ خلیفہ کو معزول کرنے کا حق رکھتے تھے ، تاکہ اگر خلیفہ اپنی کسی اخلاقی کمزوری کے باعث اس منصب کے لیے نااہل ہو تو اُسے معزول کر دیا جائے۔ خوارج کا عقیدہ تھا کہ خلیفہ کا تقرر تمام مسلمانوں کی رائے اور رضا مندی سے ہونا چاہیے۔ چنانچہ انھوں نے خلافت کو علیؓ کے گھرانے یا قریش کے قبیلے تک محدود رکھنے کے اُصول کو مسترد کر دیا۔ انھوں نے آزاد اور غیر جانب دارانہ انتخاب پر اصرار کیا اور اس بات پر زور دیا کہ ایک غیر عرب، حتی کہ ایک غلام بھی خلافت کے منصب کے اہل ہے، بشرطیکہ وہ اعلیٰ کردار و اوصاف کا حامل مسلمان ہو اور اپنے منصبی فرائض خوش اسلوبی سے سر انجام دے سکے۔ اُن کا ایک فرقہ عورت کو بھی خلیفہ مقرر کرنے کے حق میں تھا۔ ایک دوسرا فرقہ خلیفہ مقرر کرنے کی ضرورت ہی کو تسلیم نہ کرتا تھا۔ وہ کہتے تھے کہ خلیفہ کا تقرر فرض کفایہ ہے قرآن مجید میں خلیفہ مقرر کرنے کے بارے میں خاص طور پر کہاں لکھا ہے۔ یہ کوئی لازمی نہیں، محض سفارشی چیز ہے ۔اُمت ایک جائز مشاورتی اسمبلی قائم کرکے بھی کاروبار مملکت چلا سکتی ہے، جیسا کہ سورۃ الشوریٰ ، آیت ۳۸ میں اس کی گنجایش موجود ہے ۔ مشاورتی اسمبلی کے ساتھ ساتھ مسلمان اپنے دینی شعائر و فرائض بھی پورا کر سکتے ہیں۔ تاہم اگر حالات کا تقاضا ہو تو خلیفہ کا تقرر ہو سکتا ہے۔۱۵؎ خلافتِ راشدہ کے عہد میں انتظامیہ؍ عاملہ مناسب طریقے سے مستحکم و منظم ہو گئی تھی۔ خاص طور پر حضرت عمرؓ نے مرکزی ایوان حکومت میں، ایرانی طرز پر دیوانوں کی شکل میں،مختلف محکمے قائم کیے تھے۔ ان محکموں میں معتمد اور محرر مقرر کیے گئے تھے تاکہ وہ نظم و نسق میں سربراہ ریاست (چیف ایگزیکٹو) کی مدد کریں۔حقوق اللہ، حقوق العبادا ور حقوق بین اللہ و العباد کے نفاذ کے لیے اخلاقی احتساب کا ایک محکمہ (حسبہ) بھی قائم کیا گیا تھا۔ حقوق اللہ میں خاص خاص نماز باجماعت ، رمضان کے روزے اور زکوٰۃ ہیں ۔ حقوق العباد کی خلاف ورزی کرنے والی غلطیاں یہ ہیں : ناجائز لین دین ، سود، جھوٹی ترازو، ناقص اوزان و پیمانے، قرضے ادا نہ کرنا ، وغیرہ۔ اللہ اور بندوں کے مشترک حقوق کی خلاف ورزی کی ایک مثال یہ ہے کہ ایک مطلقہ عورت یا بیوہ عدت پوری کیے بغیر دوسری شادی کرلے۔ یا امام نماز پڑھانے کی مدت غیر ضروری طور پر بڑھالے کہ کمزور و نحیف اور ضعیف العمر نمازیوں کے لیے کھڑا رہنا دشوار ہو جائے یا لوگوں کے لیے اپنے کام کاج پر بروقت جا نا مشکل ہو جائے یا ایک قاضی عدالت لگانے سے پہلے لوگوں کو انتظار میں رکھے۔ ایک دلچسپ اور اہم بات یہ ہے کہ حقوق العباد ، جن کو عرف ِ عام میں آج ہم ’’انسانی حقوق‘‘یا حقوق بشر کہتے ہیں، اُن کی صاف صراحت قرآن و سنت میں موجود ہے۔ سورۃ الانعام، آیت ۱۶۵ کے مطابق اللہ ہی ہے جس نے تم کو زمین کا خلیفہ بنایا: وَھُوَالَّذِی جَعَلَکُم خَلٰیئف الاَرض۔ چنانچہ ساتویں صدی کی اسلامی جمہوری ریاست کے تمام شہری، مسلمان ہوں کہ غیر مسلم، سب انسانی حقوق سے واقف تھے اور ریاست نے ان کی ضمانت دے رکھی تھی۔ ذیل میں چند بنیادی انسانی حقوق کی فہرست دی جا رہی ہے جن کے براہ راست حوالے قرآن و سنت میں موجود ہیں: ۱- قانون کی نظر میں تمام شہریوں کی مساوات ، نیز مرتبے اور مواقع کی مساوات ۲- مذہب کی آزادی ۳- زندگی کا حق ۴- جائیداد کا حق ۵- کوئی دوسروں کی غلطیوں کا سزا وار نہیں ۶- شخصی آزادی کا حق ۷- اظہار رائے کی آزادی ۸- نقل و حرکت کی آزادی ۹- جماعت سازی کی آزادی ۱۰- خلوت کی آزادی ۱۱- بنیادی ضروریات زندگی کے حصول کا حق ۱۲- نیک نامی کا حق ۱۳- سماعت کا حق ۱۴- مناسب عدالتی طریقِ کار بمطابق فیصلے کا حق (۱) قانون کی نظر میں تمام شہریوں کی مساوات ، نیز مرتبے اور مواقع کی مساوات ’’لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا اور اُسی جان سے اُس کا جوڑا بنایا۔ پھر ان دونوں سے کثرت سے مرد و عورت (پیدا کرکے روئے زمین پر) پھیلا دیے (سورۃ النسائ: ۱) ٍ ’’ واقعہ یہ ہے کہ فرعون نے زمین میں سرکشی کی اور اُس کے باشندوں کو گروہوں میں تقسیم کر دیا۔ اُن میں سے ایک گروہ کو وہ ذلیل کرتا تھا۔ اُس کے لڑکوں کو قتل کرتا اور اُس کی لڑکیوں کو زندہ رہنے دیتا تھا۔ بے شک وہ مفسدوں میں سے تھا۔‘‘ (سورۃ القصص:۴) (۲) مذہب کی آزادی ’’ دین کے معاملے میں کوئی زبردستی نہیں ہے‘‘(سورۃ البقرہ : ۲۵۶) ’’ اور اگر تمھارا رب چاہتا تو جتنے لوگ زمین میں ہیں، سب کے سب ایمان لے آتے۔ تو کیا تم لوگوں پر زبردستی کرنا چاہتے ہو کہ وہ مومن ہو جائیں؟‘‘ (سورۃ یونس :۹۹) ’’اور اگر خدا چاہتا تو یہ لوگ شرک نہ کرتے۔ اور (اے پیغمبرؐ) ہم نے تم کو ان پرنگہبان مقرر نہیں کیا، اور نہ تم ان کے داروغہ ہو (سورۃ الانعام : ۱۰۷) ’’ ہم نے تم (انسانوں) میں سے ہر ایک کے لیے ایک شریعت اور ایک راہ عمل مقرر کی۔ اگرچہ تمھارا خدا چاہتا تو تم سب کو ایک اُمت بھی بنا سکتا تھا، لیکن اس نے یہ اس لیے کیا کہ جو کچھ اس نے تم لوگوں کو دیا ہے، اس میں تمھاری آزمایش کرے۔ لہٰذا بھلائیوں میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کرو۔ آخر کار تم سب کو خدا کی طرف پلٹ کر جانا ہے۔ پھر وہ تمھیں اصل حقیقت بتا دے گا، جس میں تم اختلاف کرتے رہے ہو (سورۃ مائدہ ۔۴۸) ’’اور اگر اللہ لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعے نہ ہٹاتا رہتا تو (راہبوں کی) خانقاہیں اور (عیسائیوں کے) گرجا اور (یہودیوں) کے معبد اور (مسلمانوں کی) مسجدیں، جن میں اللہ کا کثرت سے ذکر کیا جاتا ہے سب مسمار کی جا چکی ہوتیں۔‘‘(سورۃ الحج: ۴۰) ٍ ’’ تمھارے لیے تمھارا دین ہے اور میرے لیے میرا دین۔‘‘(سورۃ کافرون : ۶) (۳) زندگی کا حق ’’ قتل نفس کا ارتکاب نہ کرو جسے اللہ نے حرام کیا ہے، مگر حق کے ساتھ۔‘‘ ( سورہ بنی اسرائیل:۳۳) (۴) مال و جائیداد کا حق ’’ اور تم لوگ نہ تو آپس میں ایک دوسرے کا مال ناحق کھائو اور نہ اُس کو (رشوۃً) حاکموں کے پاس پہنچائو تاکہ لوگوں کا مال کا کچھ حصہ ناجائز طور پر نہ کھا جائو۔‘‘(سورۃ البقرہ: ۱۸۸) (۵) کوئی دوسروں کی غلطیوں کا سزاوار نہیں ’’ہر شخص جو کچھ کماتا ہے، اُس کا ذمہ دار وہ خود ہے۔ کوئی بوجھ اُٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہیں اُٹھاتا۔‘‘ (سورۃ الانعام : ۱۶۴) ’’ کوئی بوجھ اُٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہیں اُٹھائے گا۔‘‘(سورۃ النجم : ۳۹) (۶) شخصی آزادی کا حق امام ابودائود نے امام شاطبی اور امام ابو یوسف کی سند سے روایت کیا ہے کہ آنحضورا کے وقتوں میں مدینہ میں چند اشخاص کو شک کی بنیاد پر گرفتار کیا گیا۔ حضورا سے ایک صحابی نے دریافت کیا کہ اِن کو کیوں اور کس وجہ سے گرفتار کیا گیا ہے۔ آنحضورا خاموش رہے۔ صحابی نے سوال دہرایا، گویا پیروکار کو، جو اُس وقت وہاں موجود تھا، اصل صورتِ حال کی وضاحت کرنے کا موقع دیا گیا۔ جب سوال تیسری مرتبہ دہرایا گیا، اور اس مرتبہ بھی پیروکار نے وضاحت نہ کی تو آنحضورا نے اُن لوگوں کو رہا کرنے کا حکم صادر کیا۔ اس حدیث مبارکہ کی اساس پر امام شاطبی نے معالم السنن میں یہ استدلال پیش کیا کہ اسلام میں صرف دو طرح کی حراست کی اجازت ہے: (۱)عدالت کے حکم کے تحت اور (۲) تفتیش کی غرض سے۔ اس کے سوا کسی اور وجہ سے، کسی کو شخصی آزادی سے محروم نہیں کیا جاسکتا۔ مذکورہ حدیث کی بنیاد پر امام ابویوسف نے کتاب الخراج میں یہ نتیجہ نکالا کہ کسی شخص کو جھوٹے یا غیرمصدقہ الزامات کے تحت گرفتار نہیں کیا جاسکتا۔ حضرت عمر فاروق۔ؓ کا یہ قول امام مالکؒ کی موطا میں منقول ہے کہ اسلام میں مناسب قانونی کاروائی کے بغیر کسی شخص کو گرفتار نہیں کیا جاسکتا۔ (۷) اظہار رائے کی آزادی ’’اللہ اس کو پسند نہیں کرتا کہ آدمی بدگوئی پر زبان کھولے، اِلّا یہ کہ کسی پر ظلم کیا گیا ہو۔‘‘ (النسائ-۱۴۸) ’’بنی اسرائیل میں سے کچھ لوگوں نے کُفر کی راہ اختیار کی، اُن پر داؤدعلیہ السلام اور عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام کی زبان سے لعنت کی گئی، کیونکہ وہ سرکش ہوگئے تھے اور زیادتیاں کرنے لگے تھے۔ انھوں نے ایک دوسرے کو برے افعال کے ارتکاب سے روکنا چھوڑ دیا تھا۔ برا طرزِ عمل تھا جو انھوں نے اختیار کیا۔‘‘ (المائدہ:۷۸،۷۹) ’’آخرکار جب وہ اُن ہدایات کو بالکل ہی فراموش کرگئے جو اُنھیں یاد کرائی گئی تھیں، تو ہم نے اُن لوگوں کو بچالیا جو بُرائی سے روکتے تھے، اور باقی سب لوگوں کو جو ظالم تھے، اُن کی نافرمانیوں پر سخت عذاب میں پکڑلیا۔‘‘(اعراف:۱۶۵) ’’(مومنو!) جتنی امتیں لوگوں میں پیدا ہوئیں، تم اُن سب سے بہتر ہو۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو اور بدی سے روکتے ہو۔‘‘ (آل عمران:۱۱۰) (۸) نقل و حرکت کی آزادی ’’وہی تو ہے جس نے تمھارے لیے زمین کو تابع کررکھا ہے۔ تو اُس کی راہوں میں چلو پھرو اور خدا کا دیا ہوا رزق کھاؤ۔تمھیں اُسی کے حضور دوبارہ زندہ ہوکر جانا ہے۔‘‘ (الملک:۱۵) (۹) جماعت سازی کی آزادی ’’اور تم میں ایک جماعت ایسی ہونی چاہیے جو لوگوں کو نیکی کی طرف بلائے، اور اچھے کام کرنے کا حکم دے اور برے کاموں سے منع کرے۔‘‘ (آلِ عمران:۱۰۴) (۱۰) خلوت کا حق ’’یہ کوئی نیکی کا کام نہیں ہے کہ تم اپنے گھروں میں پیچھے کی طرف سے داخل ہوتے ہو…تم اپنے گھروں میں دروازے ہی سے آیا کرو۔‘‘ (البقرہ:۱۸۹) (۱۱) بنیادی ضروریاتِ زندگی کے حصول کا حق ’’جن لوگوں کو اللہ نے اپنے فضل سے نوازا ہے اور پھر وہ بخل سے کام لیتے ہیں، وہ اس خیال میں نہ رہیں کہ یہ بخیلی اُن کے لیے اچھی ہے۔ نہیں، یہ اُن کے حق میں نہایت بری ہے۔ جو کچھ وہ اپنی کنجوسی سے جمع کررہے ہیں، وہی قیامت کے روز اُن کے گلے کا طوق بن جائے گا۔‘‘ (آلِ عمران:۱۸۰) ’’اور اُن کے مالوں میں حق ہے، سائل اور محروم کے لیے۔‘‘ (ذاریات:۱۹) (۱۲) نیک نامی کا حق ’’آپس میں ایک دوسرے پر طعن نہ کرو اور نہ ایک دوسرے کو برے القاب سے یاد کرو۔ ایمان لانے کے بعد فسق میں نام پیدا کرنا بہت بری بات ہے۔ اے لوگو، جو ایمان لائے ہو، بہت گمان کرنے سے پرہیز کرو، کہ بعض گمان گناہ ہوتے ہیں۔‘‘ (حجرات:۱۱،۱۲) ’’جو لوگ مومن مردوں اور عورتوں کو بے قصور اذیت دیتے ہیں، انھوں نے ایک بڑے بہتان اور صریح گناہ کا وبال اپنے سر لے لیا ہے۔‘‘ (احزاب:۵۸) (۱۳) سماعت کا حق حضرت علیؓ کو یمن روانہ کرتے وقت نبی اکرمؐ نے انھیں تاکید کی تھی: ’’آپ کوئی فیصلہ نہ کریں، تاوقتیکہ فریق ثانی کی سماعت بھی اُسی طریقے سے نہ کی جائے، جس طریقے سے فریقِ اوّل کی سماعت کی ہے۔‘‘ (۱۴) مناسب عدالتی طریقِ کار کے مطابق فیصلے کا حق ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اگر کوئی فاسق تمھارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو تحقیق کرلیا کرو۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ تم کسی گروہ کو نادانستہ نقصان پہنچا بیٹھو اور پھر اپنے کیے پر پشیمان ہو۔‘‘ (حجرات:۶) ’’کسی ایسی چیز کے پیچھے نہ لگو، جس کا تمھیں علم نہ ہو۔‘‘ (بنی اسرائیل:۳۶) ’’اللہ تمھیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں اہلِ امانت کے سپرد کرو اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ کرو۔‘‘ (النسائ:۵۸) مدینے کے شہری قرآن مجید میں مذکور انسانی حقوق سے کس قدر آگاہ تھے، یہ دیکھنے کے لیے صرف ایک مثال کا حوالہ کافی ہے۔ ایک رات حضرت عمرؓ ایک گلی سے گزر رہے تھے کہ انھیں ایک گھر کے اندر سے شرابی کی واہی تباہی کی آوازیں سنائی دیں۔ حضرت طیش کے عالم میں مکان کی چھت پر چڑھ گئے اور اوپر سے مالک مکان سے، جو کہ اُس وقت صحن میں تھا، غصّے سے کہا: ’’تم نے ایسے بدزبان شرابی کو اپنے مکان میں رکھ کر قانون کی خلاف ورزی کیوں کی ہے؟‘‘ مالک مکان نے کہا: ’’کسی مسلمان کو دوسرے مسلمان سے ایسے انداز میں گفتگو کرنے کا کوئی حق نہیں پہنچتا۔ میں نے اگر ایک مرتبہ خلاف ورزی کی ہے، تو آپ دیکھیے، آپ نے کتنی مرتبہ خلاف ورزی کی ہے۔ اوّل یہ کہ آپ نے جاسوسی کی، جبکہ اللہ کا حکم ہے: ’’ایک دوسرے کے حال کا تجسس نہ کیا کرو‘‘ (حجرات:۱۲)۔ دوسرے یہ کہ آپ نے میرے گھر کی چھت پر چڑھ کر اللہ تعالیٰ کے اس حکم کی خلاف ورزی کی : ’’گھروں میں اُن کے دروازوں سے آیا کرو‘‘ (البقرہ:۱۸۹)۔ تیسرے یہ کہ آپ میری اجازت کے بغیر میرے مکان پر آئے، جبکہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے: ’’جب تک تم کو اجازت نہ دی جائے، گھر میں داخل مت ہو‘‘ (النور:۲۸)۔ چوتھے یہ کہ آپ نے سلام نہیں کیا، جبکہ اللہ کا حکم ہے: ’’دوسرے لوگوں کے گھروں میں گھر والوں سے اجازت لیے اور اُن کو سلام کیے بغیر داخل نہ ہوا کرو‘‘ (النور:۲۷)۔ مالک مکان کا یہ جواب سن کر حضرت عمرؓ پریشان ہوئے اور کہا: ’’اچھا، میں تمھیں معاف کرتا ہوں۔‘‘ اس پر مالک مکان نے سختی سے کہا: ’’اور آپ کی پانچویں خلاف ورزی ہے۔ آپ خود کو اسلامی احکام نافذ کرنے والا خیال کرتے ہیں، اور حال یہ ہے کہ احکام الٰہی پر عمل نہ کرنے کی غلطی خود کرتے ہیں اور معاف مجھے کرتے ہیں‘‘ انسانی حقوق کے بارے میں اسلامی احکام کے نفاذ سے متعلق ہر شخص کو اظہارِ رائے کی آزادی تھی۔ حتیٰ کہ خلیفہ بھی اپنے عمل اور رویے کے لیے جواب دہ تھا۔ خلیفہ کی جانب شہریوں کا رویہ کبھی کبھی جارحانہ اور گنواروں کا سا، اور کبھی کبھی خاصا نامناسب اور توہین آمیز ہوتا تھا، لیکن خلیفہ بڑے تحمل سے برداشت کرتا تھا۔ حضرت عمرؓ کو تو ایسی صورتِ حال سے اکثر سابقہ پڑا اور لوگوں کے سخت سوالات کا جواب دینا پڑا۔ خلیفہ عثمانؓ کو تو اس لیے جان سے ہاتھ دھونا پڑے کہ وہ اپنے نکتہ چینوں کو مطمئن نہیں کرسکے تھے۔ ایک دفعہ خلیفہ علیؓ کوفہ کی مسجد میں خطبہ دے رہے تھے کہ چند خارجیوں نے اُٹھ کر خطبہ روک دیا اور توہین آمیز بدزبانی کی۔ صحابہ نے حضرت علیؓ پر زور دیا کہ اِن خارجیوں کو سزا دیں یا کم از کم اُنھیں مسجد سے نکال دیں۔ لیکن خلیفہ علیؓ نے اس دلیل کے تحت کوئی کارروائی کرنے سے انکار کردیا کہ مسلمانوں کے اظہار رائے کی آزادی کا حق سلب نہیں کیا جاسکتا۔۱۶؎ خلیفہ کو مجلسِ شورٰی کے مشورے کو مسترد کرنے کا جو اختیار حاصل تھا، تو اس نے بھی امورِ مملکت کے نظم و نسق میں انتہائی اہم کردار ادا کیا۔ جب کوئی اہم مسئلہ درپیش ہوتا تو مجلس شورٰی بلائی جاتی۔ مجلس کی مشورت کے بغیر کوئی فیصلہ نہیں کیا جاتا تھا۔ بعض فیصلے کثرتِ رائے سے ہوتے تھے۔ مجلس شورٰی کے ارکان زیادہ تر دو بڑے سیاسی گروپوں یعنی مہاجرین اور انصار پر مشتمل تھے۔ خلیفہ عمرؓ کے عہد میں عراق اور شام کے مفتوحہ علاقوں کی زمین کو ’’غنیمت‘‘ شمار نہ کرنے کا معاملہ شورٰی کے مشورے کی روشنی میں طے کیا گیا تھا۔ شورٰی کی رائے میں ازروئے قرآن یہ سرکاری زمین تھی۔ چنانچہ زمین کا پانچواں حصہ (خُمس) عوام کی فلاح و بہبود کے لیے مختص کردیا گیا اور باقی سپاہ میں تقسیم کردیا گیا۔ مسلّح افواج اور دوسرے عملے کی تنخواہیں ادا کرنے کا مسئلہ، عمال اور محصل کی تقرری اور دوسرے ملکوں سے تجارتی تعلقات کے مسائل مجلسِ شورٰی کے مشورے کے مطابق حل کیے گئے۔ خلیفہ عمرؓ نے فرمایا تھا: ’’شورٰی کے بغیر خلافت نہیں۔‘‘۱۷؎ اسلامی قانون کے شارح و مجتہد کی حیثیت سے خلیفہ عمرؓ کو علم اسرار الدین کا بانی مبانی خیال کیا جاتا ہے۔ اُن کے نزدیک تمام شرعی احکام عقل و استدلال پر مبنی تھے، حالانکہ عام طور پر یہ خیال کیا جاتا تھا کہ اسلامی احکام کا عقل سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ خلیفہ علیؓ کا بھی یہی مکتب فکر تھا۔ انھوں نے اپنے عہد میں، عقل کی روشنی میں، تشریح وحی کے علم کو نمایاں ترقی دی۔ علامہ شبلی نعمانی کے نزدیک خلیفہ عمرؓ پہلے شخص تھے، جنھوں نے ایک قانونی رائے وضع کرنے کے لیے قیاس (آزاد فکری) کی اہمیت پر زور دیا۔ خلیفہ عمرؓ سے پہلے خلیفہ ابوبکرؓ کے عہد میں قانونی فیصلے یا تو قرآن کی روشنی میں یا سنتِ نبویؐ کے نظائر کے مطابق یا صحابہ کے اجماع کی بنیاد پر کیے جاتے تھے۔۱۸؎ خلیفہ عمرؓ پر تو اسلامی قانون کی تعبیر و تشریح میں ’’بدعت‘‘ کرنے پر بھی نکتہ چینی کی گئی، لیکن اُن کی دلیل یہ تھی کہ بدعت دو قسم کی ہوتی ہے: بدعت سیئۃ یعنی قابل ملامت، مذمومہ۔ اور بدعت حسنۃ یعنی قابلِ تحسین، محمودہ۔ بالفاظِ دیگر خلیفہ عمرؓ نے نہ صرف یہ کہ آیاتِ قرآنی کی پابندی کی، بلکہ اس کے ساتھ اُن کی روح تک پہنچنے کی کوشش بھی کی۔۱۹؎ خلیفہ عمرؓ نے غیر مسلموں کو مکہ اور مدینہ میں داخل ہونے کی اجازت دی۔ وہ جب تک چاہیں، ان مقدس مقامات میں قیام کرسکتے تھے۔۲۰؎ علاوہ ازیں صدقہ/زکوٰۃ فنڈ سے مفلس غیر مسلموں کے لیے وظائف بھی مقرر کیے گئے تھے۔ اُس زمانے میں مذہبی رواداری عام تھی، جس کی بے شمار مثالیں دی جاسکتی ہیں۔ مثلاً ایک دفعہ خلیفہ عمرؓ کو اطلاع ملی کہ شام میں بعض مسلمانوں نے ایک یہودی کی زمین پر زبردستی قبضہ کرلیا ہے اور اُس پر مسجد تعمیر کرلی ہے۔ خلیفہ عمرؓ کے حکم پر مسجد مسمار کردی گئی اور قطعۂ زمین یہودی مالک کو واپس بحال کردیا گیا۔ یہ قطعۂ زمین جو عام طور پر ’’بیت الیہودی‘‘ کے نام سے معروف ہے، شام میں آج تک موجود ہے۔ خلیفہ عمرؓ مسلم مسلّح افواج کے مقبول و مشہور جرنیلوں پر بھی کڑی نگاہ رکھتے تھے، جن میں عربوں اور نومسلموں کے علاوہ مختلف قومیتوں کے لوگ بھی شامل تھے، یہودی، یونانی، بزنطینی، ایرانی اور حتّی کہ سندھ کے جاٹ بھی۔۲۱؎ انھوں نے اپنے دو بڑے سپہ سالاروں خالد بن ولیدؓ کو شام میں اور مثنیٰ شیبانی کو عراق میں نافرمانی اور عدول حکمی کی بنا پر معزول کرکے، معمولی سپاہی کے عہدے پر مقرر کردیا، تاکہ مرکزی انتظامیہ کی بالادستی قائم رکھی جاسکے۔۲۲؎ خلیفہ علیؓ نے، جو سابقہ تین خلفا کی انتظامیہ میں، مجلس شورٰی کے اہم رُکن رہ چکے تھے، اپنے عہدِ خلافت میں نہ صرف ’’شورٰی‘‘ کے ادارے کو تقویت دی، بلکہ بالعموم اُس کی مشورت اور رہنمائی میں کام کیا۔ جنگِ صفین میں جب امیرمعاویہؓ کی ہمت پست ہوگئی اور وہ فرار کی سوچنے لگے اور اس خطرناک حالت میں حضرت عمرو بن العاصؓ نے انھیں مشورہ دیا کہ قرآن مجید کے قلمی نسخے نیزوں کے سروں پر بندھوائیں، جس سے رمزاً یہ ظاہر کرنا مقصود تھا کہ لڑائی بند ہونی چاہیے اور فیصلہ کتاب اللہ پر چھوڑا جائے۔ تب بھی خلیفہ علیؓ نے شورٰی اور اپنے فوجی افسروں کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے معاویہؓ کے آدمیوں کے خلاف کارروائی نہیں کی، حالانکہ وہ اُن کا تعاقب کرکے بغاوت کو مکمل طور پر کچل دینا چاہتے تھے، بلکہ انھوں نے تو شورٰی کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے معاویہ ؓ کے طرفداروں کی، حکم مقرر کرنے کی تجویز بھی قبول کرلی۔ اس حقیقت کے باوجود کہ خلیفہ علیؓ کے عہدِ خلافت میں حالات بہت سخت اور مشکل تھے، انھوں نے اسلامی قانون و فقہ کی ترویج و ترقی میں نمایاں کردار ادا کیا۔ سابقہ تین خلفائے راشدین کی طرح وہ بھی قانون کی تشریح میں مجتہد کی حیثیت رکھتے تھے۔ اگرچہ عدلیہ کو انتظامیہ سے الگ کیا جاچکا تھا، پھر بھی خلیفہ علیؓ کو ایسے واقعات کی اطلاع ملی کہ بعض سرکردہ سرکاری عہدہ داروں کے ہاتھوں غریب شہریوں کا استحصال کیا جارہا ہے اور عدلیہ اُن کی تکالیف کا مداوا، اُن عہدہ داروں کے اثر و رسوخ کی وجہ سے نہیں کرسکتی ہے۔ خلیفہ علیؓ نے انتظامیہ کی غلطیوں کے تدارک کے لیے ایک طاقتور نئی مرکزی عدلیہ ’’نظارۃ المظالم‘‘ قائم کی اور خود بھی پہلے ناظر کی حیثیت سے اس میں شریکِ کار رہے۔ خلیفہ علیؓ اور خلیفہ عمرؓ نے مجتہدین کی طرح جرأت مندی سے اسلامی قانون کی تعبیر و تنفیذ کی۔ اپنے انتظامی فیصلوں کی بنیاد مشاورت پر رکھی۔ انسانی حقوق کا نفاذ کیا اور عدلیہ کی آزادی اور خودمختاری کو قائم رکھا۔ خلیفہ علیؓ انتہائی جمہورپسند، انسان دوست اور نرم دل تھے۔ سیّد امیر علی نے لکھا ہے کہ اگر اُن میں خلیفہ عمرؓ کی سی سختی ہوتی تو وہ سرکش اور باغی عربوں پر حکومت کرنے میں زیادہ کامیاب ہوتے۔ لیکن اُن کی عالی ظرفی اور صبر و تحمل کو غلط سمجھا گیا، اور اُن کی انسان دوستی اور حق پرستی کو اُن کے حریفوں نے اپنے مفاد کے لیے استعمال کیا۔۲۳؎ خلفائے راشدین نے سنتِ نبویؐ سے اخذ کردہ آئینی اُصولوں پر پوری پابندی سے عمل کیا، اور خود خلفائے راشدین کی سنّت سے جو اہم ترین آئینی اُصول اسلامی سیاست و طرزِ حکومت میں داخل ہوا، وہ خلیفہ یعنی صدرِ مملکت کے طریق تقرر کا تنوع ہے۔ اس اُصول کا لُبِ لباب یہ ہے کہ صدر کا تقرر لازماً مسلمانوں کی رضامندی سے ہونا چاہیے۔ روایتاً موروثی جانشینی کا طریقہ بالخصوص خارج کردیا گیا۔ خلیفہ کے تقرر کے متنوع طریقوں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ کوئی بھی سیاسی نظام حالاتِ جاریہ کے مطابق اختیار کیا جاسکتا ہے، بشرطیکہ وہ جمہوری، کارگزار اور دانشمندانہ ہو۔ ظاہر ہے کہ اسلام کا زور فی الحقیقت ایسی جماعت المومنین کے قیام پر ہے، جس پر ’’فعال‘‘ و ’’متحرک‘‘ شریعت کے مطابق حکومت ہو۔ جمہوری سیاسی نظام، جو نئی اسلامی ریاست میں خلفائے راشدین کی سنت کے دوران، رائے دہندگان کے چناؤ یا نامزدگی یا انتخابی ادارہ یا بذریعہ استصواب، بہت اہمیت رکھتا تھا، کیونکہ اس پر نبی کریم کی رحلت کے فوراً بعد آغازِ کار ہوا اور آنحضورؐ کے قریبی صحابہؓ کی نگرانی میں رائج ہوا۔ تاہم یہ نظام مندرجہ ذیل متعدد وجوہ سے ناکام ہوا: اوّل: اس جمہوری سیاسی نظام کی تہ میں خود کو موروثی/ خاندانی آمرانہ ملوکیت میں بدل جانے کا امکان موجود تھا، کیونکہ خلیفہ ’’شورٰی‘‘ سے صرف مشورہ لینے کا پابند تھا، اُن کے مشورے پر عمل کرنے کا پابند نہیں تھا۔ دوم: خلیفہ کا تقرر قیاساً پوری زندگی کے لیے ہوتا تھا، لیکن ضرورت پڑنے پر اُس کے مواخذے یا معزولی کا کوئی قانونی طریقہ وضع نہیں کیا گیاتھا۔ سوم: قدیم قبائلی رقابتوں نے شک اور حقارت میں شدت پیدا کی۔ سیاسی گروپوں میں اختلاف رائے نے جنگ جویانہ مقابلہ جوئی کا ماحول پیدا کیا اور اقتدار کی کشمکش سے خانہ جنگی ہوئی۔ چہارم: چار خلفائے راشدین میں سے تین، یعنی حضرت عمرؓ، حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ شہید کیے گئے۔ حضرت عمرؓ اور حضرت علیؓ کی شہادت مسجد میں ہوئی، جو منتخب مسلمان صدرِ مملکت کے لیے ایک کھلی جگہ ہے۔ جہاں وہ نہایت غیر محفوظ ہے، خصوصاً جب اُس عہد میں اُس کے تحفظ کا کوئی انتظام نہیں کیا جاتا تھا۔ اُس وقت مدینہ میں کوئی چھاؤنی تھی نہ حضرت عثمانؓ کے گھر اور اُن کی شخصیت کے تحفظ کے لیے محافظ مامور کیے گئے تھے۔ حضرت علیؓ کا قتل خارجیوں نے سوچی سمجھی سازش کے تحت کیا تھا۔ اس سیاسی گروپ نے اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے دہشت گردی کے طریقے اختیار کیے۔ یہ مانی ہوئی بات ہے کہ تاریخ بڑے لوگ بناتے ہیں۔ چاروں خلفائے راشدین، جنھوں نے جمہوری اسلام کی بنیادیں اُستوار کیں، وہ یقینا آنحضورؐ کے بعد عظیم ترین لوگ تھے جو اسلام پیدا کرسکا۔ لیکن بڑے لوگ تاریخ صرف اُس وقت بناتے ہیں جب لوگ متحد ہوکر اُن کے ساتھ بھرپور تعاون کریں۔ اسلام میں مستقل جمہوریت لانے میں خلفائے راشدین کی کوششیں بارآور نہ ہوسکیں، اُن کی اپنی کسی کوتاہی کی وجہ سے نہیں، بلکہ اس لیے کہ اُس زمانے کے مسلمان یہ سمجھنے سے قاصر رہے کہ جمہوریت کا اپنا ڈسپلن ہے۔ اگر اُنھوں نے اس سیاسی سبق کو سمجھ لیا ہوتا جو خلفائے راشدین نے بڑی قابلیت سے سمجھایا تھا، تو شورٰی ترقی کرکے ایک نمایندہ ادارے میں اُستوار ہوسکتی تھی اور اجتہاد کا طریقہ اجماع کے ذریعے قانون سازی کے عمل میں داخل ہوسکتا تھا۔ لیکن مسلمان متعدد مذہبی و سیاسی، غیر روادار گروپوں میں منقسم ہوگئے اور اس غلط فہمی میں مبتلا ہوگئے: ’’تم ہمارے ساتھ نہیں ہو۔ تم ہمارے دشمن ہو۔‘‘ ان گروپوں نے ایک دوسرے کا بے رحمی سے قتال کیا۔ سیّد امیر علی نے بالکل ٹھیک لکھا ہے کہ اسلام کی جمہوریت حضرت علیؓ کے ساتھ ہی ختم ہوگئی۔ انھوں نے اپنی کتاب کا آخری جملہ اولزنر کے ایک اقتباس کا حوالہ دے کر قلم بند کیا ہے: ’’اور یوں وہ مقبول عوامی عہد ختم ہوا جو قبائلی سادگی کی بنیاد پر اُستوار ہوا تھا اور جو پھر کبھی اُمتِ مسلمہ میں دوبارہ نمودار نہیں ہوا۔‘‘۲۴؎ (۳) سیاسی نصب العین کی تحریف و تخریب دوادوار یعنی ۶۶۱-۱۲۵۸ء اور ۱۲۶۱-۱۵۱۷ء میں خلافت اپنی روح اور ہیئت میں بالکل ہی منقلب ہوگئی۔ شام کے امیر معاویہؓ نے ۶۶۱ء میں، جنھوں نے حضرت علیؓ کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا تھا، اپنی خلافت کا دعویٰ کردیا۔ اپنے انتقال سے پہلے ہی انھوں نے اپنے بیٹے یزید کو اپنا جانشین مقرر کردیا۔ یزید کے لیے حلفِ وفاداری یا بیعت لینے کا اہتمام کیا گیا، حالانکہ بعض فقہا نے احتجاج کیا تھا کہ بیک وقت اور بیک مقام دو شخصوں کے لیے حلفِ وفاداری یا بیعت لینا ناجائز اور غیر قانونی ہے۔ امیر معاویہؓ نے اپنے بیٹے کی جانشینی کے جواز کے لیے سیاسی تشریح کی کہ اگر وہ اپنے اپنے گھرانے سے باہر کے کسی شخص کو نامزد کرتے یا جانشینی کا مسئلہ مسلم جماعت کے فیصلے پر چھوڑ دیا جاتا تو پھر مسلمانوں میں خانہ جنگی ہوجاتی۔ انھوں نے خلیفہ ابوبکرؓ کی نظیر بھی پیش کی کہ انھوں نے اپنے جانشین کے طور پر خلیفہ عمرؓ کو نامزد کیا تھا۔ اس تشریح کی پیروی کرتے ہوئے مروان نے، جو اُس وقت مدینہ میں امیر معاویہؓ کے نائب تھے، ایک اجتماع میں کہا: ’’اے لوگو! امیرالمومنین نے اپنے فرزند یزید کو جانشین بنانے کا فیصلہ ابوبکرؓ اور عمرؓ کی نظیروں کے مطابق بالکل صحیح کیا ہے۔‘‘ عبدالرحمن بن ابوبکرؓ نے تقریر میں مداخلت کرتے ہوئے کہا: ’’نہیں، بلکہ خسرو اور قیصر کی نظیروں کے مطابق غلط فیصلہ کیا، اس لیے کہ ابوبکرؓ اور عمرؓ نے اپنے بیٹوں میں سے کسی کو اور نہ اپنے گھرانے کے کسی فرد کو اپنا جانشین بنایا تھا۔‘‘ مروان نے تُرت جواب دیا۔ ’’ہاں ابوبکرؓ اور عمرؓ پراپنے فرزندوں میں سے کسی کو اور اپنے گھرانے کے کسی فرد کو جانشین بنانے پر کوئی قانونی پابندی نہ تھی، بشرطیکہ وہ کسی کو اس کا اہل سمجھتے۔ موجودہ صورت تو یہ ہے کہ امیرالمومنین نے اپنے بیٹے یزید کو اپنا جانشین اس لیے نامزد کیا ہے کہ اُن کی نظر میں یہ اس منصب کے اہل اور موزوں ہیں۔‘‘۲۵؎ یزید کی جانشینی سے اسلامی حکمتِ عملی اور سیاست کی بنیادوں میں ایک اساسی تبدیلی آگئی تھی۔ اس نئے سیاسی نظام کے خلاف آوازیں بھی بلند ہوئیں لیکن بہت غیر مؤثر اور انفعالی۔ اس نئی مثال کی پیروی آیندہ آنے والی پوری تاریخ اسلام میں کی گئی۔ حکمران خلیفہ نے اپنے کسی بیٹے یا رشتہ دار کو اپنا جانشین نامزد کیا اور اُس کے لیے حلفِ وفاداری لینے کا اہتمام کیا۔ عہد عباسیہ میں تو اکثر بیک وقت دو دو جانشین نامزد کیے گئے کہ وہ ایک دوسرے کے بعد منصبِ خلافت پر فائز ہوں گے، لیکن اس بندوبست سے ہمیشہ خانہ جنگی ہوئی۔ ملّت/اُمت کو گویا بادشاہت /ملوکیت کو قبول کرنے پر مجبور کردیا گیا۔ مسلمانوں کی تاریخ سے سبق یہ ملے کہ بے امن اور منتشر لوگوں میں جمہوری نظام سے عدم استحکام پیدا ہوتا ہے، جو بالآخر اُمت کے لیے نقصان دہ اور تباہ کن ثابت ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں سمجھا یہ جاتا تھا کہ قرآن ملوکیت کے منافی یا خلاف نہیں ہے، کیونکہ قرآن میں ایسے انبیا کا ذکر موجود ہے جو بادشاہ بھی تھے۔ غرضیکہ نبی کریمؐ کے اصل سیاسی نصب العین اور خلفائے راشدین کی سنت کو چپکے سے مسترد کردیا گیا۔ شہریوں کو رعایا بنالیا گیا اور جمہوری نظام کو ہٹاکر اُس کی جگہ مطلق العنان ملوکیت کو رائج کردیا گیا۔ بعد کے فقہا اور مؤرخین نے بنو اُمیہ کو غاصب یا طاقت کے بل پر بادشاہ کہا جو صرف نام کے خلیفہ تھے۔ عرب اشرافیہ کی حیثیت سے بنواُمیہ نے مدینہ کی بجائے دمشق سے حکمرانی کی۔ انھیں تمام شاہانہ مراعات و حقوق حاصل تھے۔ دو مراعات تو انھیں پہلے حاصل تھیں یعنی مُہر اور خطبہ۔ امیر معاویہؓ نے تین مزید مراعات کا اضافہ کرلیا اور اس کے جواز بھی پیش کیے۔ ایک تو تختِ شاہی (سریر)، جس پر معاویہؓ خود اس لیے بیٹھتے تھے کہ بدن کے فربہ تھے، اور جب کبھی وہ عربی رواج کے مطابق عربوں کے ساتھ فرش پر بیٹھتے تھے تو دو آدمی انھیں اُٹھانے میں مدد کرتے تھے۔ جب وہ کرسی یا تخت پر بیٹھتے تو خود ہی کسی کی مدد کے بغیر کھڑے ہوجایا کرتے تھے۔ دوسری رعایت یہ حاصل کی کہ مسجد میں خاص امیر معاویہؓ کے لیے، اُن کی ذاتی حفاظت کی خاطر مقصورہ بنایا گیا، کیونکہ ایک خارجی نے بوقتِ نماز مسجد میں اُن پر ناکام قاتلانہ حملہ کیا تھا۔ تیسری رعایت یہ حاصل کی کہ مسلم سکّے پر، جو اگرچہ خلیفہ عمرؓ کے عہد سے ہی ڈھالا جانے لگا تھا، لیکن اب سکّے پر، حکمران بادشاہ کے استحقاق کے طور پر، اُموی خلیفہ کا نام بھی کندہ کیا جانے لگا۔ عربی کو درباری زبان قرار دیا گیا اور دربارِ خلافت کی سابقہ سادگی کی جگہ شان و شوکت اور تعیشات نے لے لی۔ سیاسی نظام کی کایا پلٹ کے ساتھ ساتھ اسلام کے انتظامی اور عدالتی اداروں میں بھی سیاسی تبدیلی کے اثرات داخل ہوگئے۔ دوسرے لفظوں میں سیاسی تبدیلیاں اس ترکیب سے وضع کی گئیں کہ اُمویوں نے جو نظام قائم کردیا ہے، اُس سے کوئی تصادم نہ ہونے پائے۔ سانحۂ کربلا کے بعد، اور سیاسی حالات سے مایوس ہوکر، دنیائے اسلام کے بہترین ذہن تصوف کی طرف مائل ہوگئے یا انھوں نے ترکِ دنیا کی روش اختیار کرلی۔ مرجیئوں نے فلسفۂ جبریت کا ایک الگ ہی مکتب بنالیا۔ اُن کا عقیدہ تھا کہ دنیا میں جو بھی واقعہ رونما ہوتا ہے، خدا کی مرضی اور ارادے سے ہوتا ہے۔ اُمویوں نے اس فلسفے کی نہ صرف حمایت کی بلکہ اس کو رواج دینے میں حوصلہ افزائی کی، کیونکہ اس سے اُن کے اس نقطۂ نظر کی تائید ہوتی تھی کہ سانحۂ کربلا اور وہاں جو کچھ ہوا، وہ خدا کی مرضی سے ہوا۔ جنگِ زاب (۷۵۰ئ) کے بعد اُموی حکمرانی کی جگہ عباسی حکمرانی نے لے لی، جس کے نتیجے میں خلافت اپنے ارتقا کے دوسرے مرحلے سے نکل کر تیسرے مرحلے میں داخل ہوگئی۔ اُموی حکمرانی (۶۶۱-۷۵۰ئ) کے تحت اُمتِ مسلمہ کا اتحاد ایک سیاسی حقیقت رہا، لیکن ابوالعباس سفّاح کی تخت نشینی کے بعد، جسے ۷۴۹ء میں عباسی خلیفہ کی حیثیت کے تسلیم کرلیا گیا تھا، چھ سال کے اندر اندر خلافت کا اتحاد، ہسپانیہ میں خود مختار اُموی سلطنت کے قیام سے پارہ پارہ ہوگیا۔ اس سلطنت کا بانی عبدالرحمن اوّل تھا جو آخری خلیفہ مروان ثانی کی اولاد سے تھا، جس نے جنگِ زاب میں عباسیوں سے شکست کھائی تھی۔ تاہم ہسپانیہ میں اُمویوں نے ’’خلیفہ‘‘ کا لقب اختیار نہیں کیا، بلکہ ’’امیر‘‘ کا لقب اختیار کیا۔۲۶؎ عباسیوں کے تحت دارالخلافہ دمشق سے اُٹھ کر بغداد آگیا اور خلافت ایرانی نمونے پر، بعض اداروں مثلاً وزارت کے اجرا پر، بادشاہت میں بدل گئی۔ اسلامی مقبوضات کے امیر (موروثی گورنر)، جو اُمویوں کے وقت میں سخت نگرانی میں ہوتے تھے، عباسیوں کے وقت میں آزاد ہوجانے سے دولت سمیٹنے لگے، کیونکہ مرکز میں رفتہ رفتہ کمزوریاں آرہی تھیں۔ امرا بے شک باضابطہ سندِ امارت خلیفہ سے حاصل کرتے تھے، لیکن وہ اپنے اپنے علاقے میں مکمل طور پر آزاد اور خود مختار تھے۔ بعض امرا خلیفہ کو خراج دیتے تھے، بعض امرا نہیں دیتے تھے، اُن میں سے اکثر و بیشتر ایک دوسرے سے لڑائیاں لڑتے رہتے تھے۔ دسویں اور گیارہویں صدی کے دوران میں دنیائے اسلام چھوٹی چھوٹی بے شمار ریاستوں میں بٹ کر رہی گئی تھی اور اُن کے امرا ایک دوسرے سے باہم دست و گریباں رہتے تھے۔۲۷؎ شمالی افریقہ پہلے فیض کے حکمران ادریسی خاندان سے منقطع ہوا (۷۸۵ء میں)، پھر اغلبی خاندان سے (۸۰۱ء میں)۲۸؎ اور آخر میں فاطمی خاندان سے (۹۰۹ء میں)۔ فاطمیوں نے (جو اپنا رشتہ حضرت علیؓ اور حضرت فاطمہؓ سے بتاتے تھے) پہلے مصر فتح کیا، پھر بتدریج ایک وسیع سلطنت قائم کی، جس کی سرحدیں شمالی افریقہ سے لے کر شام اور یمن اور حتی کہ حجاز تک پھیلی ہوئی تھیں۔ دسویں اور گیارہویں صدی کے دوران میں عباسی خلیفہ بہت کمزور ہوگیا تھا۔ بویہ خاندان کی فوجیں (۹۴۶ئ) میں) بغداد میں داخل ہوئیں اور عباسی خلافت کا نظم و نسق بویہ امرا کے ہاتھوں میں چلا گیا (بویہ خاندان جو خلافتِ بغداد پر حاوی ہوگیا تھا، شیعہ خاندان تھا)۔ سکّوں پر خلیفہ کے ساتھ ساتھ بویہ امیر کا نام بھی مسکوک ہونے لگا۔ مسجدوں میں خطبوں میں خلیفہ کے نام کے ساتھ بویہ امیر کا نام بھی پڑھا جانے لگا۔ خلیفہ کسی کو امیر کی رضامندی کے بغیر پروانۂ اقتدار عطا نہیں کرسکتا تھا۔ خلیفہ کا کام فقط القابات و اعزازات عطا کرنے تک محدود ہوگیا تھا۔ تاہم نظریاتی اور اُصولی طور پر خلیفہ ہی کو اُمتِ مسلمہ کا دینی و دنیاوی سربراہ خیال کیا جاتا تھا، اور امرا بھی خلیفہ کے نام سے، اُسی کی جانب سے احکام صادر کرتے تھے۔ خلافتِ عباسیہ کو شمالی افریقہ میں تسلیم نہیں کیا جاتا تھا جو فاطمی سلطنت کا حصہ تھا۔ وہاں کے حکمرانوں کو ’’امام‘‘ کہا جاتا تھا۔ جب مقاماتِ مقدسہ بھی فاطمیوں کے ہاتھوں میں چلے گئے تو ہسپانیہ کے اُموی حکمران عبدالرحمن ثالث نے ’’خلیفہ‘‘ کا لقب اختیار کیا اور اُس کی سلطنت میں اُسے بطور خلیفہ تسلیم کیا جانے لگا۔ دسویں صدی میں تین جداگانہ، خودمختار اور متخالف خلافتیں دنیائے اسلام میں اُبھر چکی تھیں: قرطبہ (ہسپانیہ کی اُموی خلافت)، قاہرہ (فاطمی خلافت) اور بغداد (عباسی خلافت)۔ ہسپانیہ میں اُموی اقتدار ۱۰۳۷ء سے زوال پذیر تھا (یہاں تک کہ بالآخر وہاں سے مسلمانوں کو ۱۶۱۰ء میں نکال باہر کیا گیا)۔ فاطمی خلافت کو صلاح الدین ایوبی نے ۱۱۷۱ء میں عباسی خلافت کے زیرِ تسلط کرلیا، اور خود عباسی خلافت ۱۲۵۸ء تک سسکتی رہی۔ عباسی خلافت دسویں اور گیارہویں صدی کے دوران اپنے زوال اور ضعف کی آخری حد کو پہنچ چکی تھی۔ دارالخلافہ کا پورا نظم و نسق خاندان بویہ کے ہاتھ میں تھا۔ بے شمار حکمران خاندانوں کے عروج (مثلاً طاہری، صفاری اور سامانی وغیرہ) اور مشرقی اسلامی سرزمین متعدد خود مختار سیاسی وحدتوں میں منقسم ہونے کی وجہ سے خلافت محض ایک آئینی داستان بن کر رہ گئی تھی۔ ضعف و اضمحلال کے اس دور میں ابوالحسن علی بن محمد الماوردی (۹۹۱-۱۰۵۸ئ) نے اپنی کتاب احکام السلطانیہ لکھی جس میں اسلامی نظریۂ آئین کی باضابطہ تشریح کی گئی ہے۔ البیرونی (۹۷۳-۱۰۴۸ئ) نے تو صاف صاف لکھا تھا کہ دنیاوی، انتظامی اُمور پر خلافت کا اختیار بالکل ختم ہوچکا ہے اور خلافت محض ایک مذہبی منصب بن کر رہ گئی ہے۔۲۹؎ البیرونی کے برعکس ماوردی نے خلافت کی بے بسی اور لاچارگی کو نظرانداز کردیا۔ اُس نے اسلام میں ریاست کا جو نقشہ کھینچا ہے، وہ فقہ کے مختلف مکاتبِ فکر سے متعلق دوسرے سُنّی فقہا کی طرح، رائج الوقت حقائق و حالات سے بعید ہے۔ اسلامی علاقوں میں خود مختار حکمران خاندانوں کے قیام سے چونکہ خلافت کا اثر کم ہوگیا تھا، لہٰذا ماوردی نے اس بات پر اصرار کیا کہ جن امرا نے خلیفہ کا اختیار و اقتدار غصب کیا ہے، وہ خلیفہ سے سندِ خلافت ضرور بالضرور حاصل کریں، تاکہ اُن کی حکمرانی کو قانونی طور پر جائز قرار دیا جاسکے۔ بہرکیف خلیفہ اور سیاسی لحاظ سے خود مختار امرا کے درمیان سیاسی بالادستی کے لیے کشمکش برابر جاری رہی، اور بالآخر اسلام میں ’’سلطانیت‘‘ کے قیام پر منتج ہوئی۔ لفظ ’’سلطان‘‘ قرآن مجید میں آیا ہے، جس کے معنی ہیں رُوحانی یا طلسمی طاقت (خیر یا شر کی طاقت وغیرہ)۔ حدیث کے ادب میں ’’سلطان‘‘ کا مطلب ہے ’’خدا کی طاقت‘‘ یا ’’سرکاری طاقت‘‘۔ اسلام کی اوائل تاریخ میں ’’سلطان‘‘ کا مطلب تھا، خلیفہ کی دنیاوی طاقت۔ عباسیوں کے عہد میں جب ہسپانیہ اور شمالی افریقہ خلیفۂ بغداد کی حکمرانی سے نکل گئے، تو ہسپانیہ کے اُموی حکمرانوں کو بعض اوقات ’’ابنِ سلطان‘‘ کہا جاتا تھا (اِس دلیل کے تحت کہ وہ دمشق کے اُموی خلیفہ کی اولاد سے تھے)۔ عباسیوں میں سے مامون الرشیدکو خلیفۃ اللہ کہا جاتا تھا۔ بعد میں آنے والے عباسیوں کے عہد میں جب خودمختار حکمران خاندانوں کے عروج سے خلیفہ کی طاقت کمزور یا مسدود ہوئی، تو اصطلاح ’’سلطان‘‘ کا اطلاق سیکولر/ مقتدر حکمران کے لیے، خلیفہ کے مقابلے میں استعمال ہونے لگا جو کم از کم نظریاتی طور پر اُمتِ مسلمہ کے اعلیٰ مذہبی و سیاسی سربراہ کی حیثیت رکھتا تھا۔ چنانچہ جب آلِ بویہ بغداد پر حاکم ہوگئے تو انھوں نے خلیفہ کی جانب سے القابات حاصل کیے، جیسے امیرالامرا، سلطان الدولۃ، شاہ، شہنشاہ، ملک وغیرہ، لیکن خلیفہ کے عطا کردہ اِن القابات کے ساتھ ’’سلطان‘‘ کا سابقہ ابھی مروج نہیں ہوا تھا۔ خود مختار حکمران اپنے اختیارات کا نشان خلیفۂ وقت سے، بویہ امیر کے مشورے پر، مذہبی یا سیاسی وجوہ سے قبول کرتے تھے۔ انھوں نے خلافت اور اُمت کی وحدت، بطور علامت، خلیفہ کا نام خطبے میں لے کر یا سکوں میں مسکوک کراکر قائم کیے رکھی، لیکن وہ اپنے اپنے علاقے میں مکمل طور پر خودمختار تھے۔ بالفاظِ دیگر سلطانیت قائم تو ہوگئی تھی، لیکن وہ ابھی خلافت سے نظریاتی طور پر علیحدہ ہونے کے مرحلے تک نہیں پہنچی تھی۔ سلطانیت وجود میں آگئی تھی، لیکن ابھی اُسے قانونی جواز حاصل نہ تھا۔ ابھی سرکاری دستاویزات، خط و کتابت یا سکّوں میں اُس کا عام رواج نہ ہوا تھا۔ خلیفہ بے شک دنیاوی و انتظامی طاقت سے محروم ہوگیا تھا، لیکن مذہبی استحقاق مثلاً عدلیہ کے قاضیوں اور مسجد کے اماموں کی تقرری کا حق خلیفہ ہی کو حاصل تھا۔ وہ اُمت مسلمہ کی وحدت کی علامت تھا اور حکمران خاندانوں کے عروج و زوال سے اُس کی اس فضیلت پر کوئی فرق نہ پڑتا تھا۔ بویوں کے بعد غزنوی آئے، لیکن اُس وقت تک بھی ’’سلطان‘‘ کا لقب رائج ہونے کے باوجود قانونی جواز سے محروم تھا۔ تاہم جب سلجوقی افواج بغداد میں داخل ہوئیں اور غزنویوں کا اقتدار ختم ہوا تو ’’سلطان‘‘ کے لقب کو سرکاری توثیق حاصل ہوگئی۔ طغرل بیگ نے ’’سلطان‘‘ کا لقب ۱۰۵۵ء میں خلیفہ سے حاصل کیا اور یہ لقب اُس کے سکّوں پر بھی کندہ ہوا۔۳۰؎ لہٰذا اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ گیارہویں صدی کے بعد سلطانیت کو خود مختارانہ حیثیت حاصل ہوئی اور وہ خلافت کے ساتھ ساتھ قائم رہی۔ سلطان خلیفہ کے دنیاوی اختیارات کا واحد حامل ہوگیا۔ چنانچہ اُس کا اقتدار تلوار پر منحصر تھا اور اُسے تلوار ہی سے برطرف کیا جاسکتا تھا۔ مطلب یہ کہ خلیفہ کی جانب سے سلطان کی حکمرانی کی توثیق اس سے زیادہ کچھ نہ تھی کہ پہلے سے قائم شدہ اقتدار پر مہر قبولیت ثبت کردی جائے۔ تاہم سلطانیت خلافت کی جگہ نہ لے سکی، اس لیے کہ اس ادارے کے ساتھ مذہبی اُمور و وظائف وابستہ تھے، روایات کی اثر آفرینی اِس کے ساتھ تھی اور یہ کہ سنی مسلمانوں کے دل میں عباسیوں کی عزت و تکریم تھی۔ گیارہویں، بارہویں اور تیرہویں صدیوں کے اخلاق پسند مصنّفین کے نزدیک سلطانیت یا تو خلافت کے دائرۂ کار کے اندر اپنا مقام رکھتی تھی یا بجائے خود ایک جداگانہ وجود رکھتی تھی۔ مثال کے طور پر نظام آرودی کے خیال میں خلیفہ کے لیے تنہا اسلام کی وسیع سلطنت کے اُمور و معاملات کا اہتمام و انصرام۳۱؎بہت مشکل تھا، لہٰذا ضروری تھا کہ مختلف علاقوں کی حکومت چلانے کے لیے اُس کے نائبین وہاں موجود و مامور ہوں۔ نظام الملک (۱۰۱۷-۱۰۹۱ئ) اس خیال کا حامی تھا کہ سلطان کے دنیاوی اختیارات کا منبع خلافت ہے۔ اُس کی رائے میں سلطانیت ایک خداداد ادارہ ہے، لہٰذا سلطان خودمختار اور شریعت کے مطابق حکومت کرنے کا پابند ہے۔ نظام الملک کے نزدیک خلافت محض ایک مذہبی ادارہ ہے اور قاضی خلیفہ کے نائب/نمایندے ہیں۔۳۲؎ خلیفہ کی جانب سے سلطان کے اختیارات کی قبولیت و توثیق سے بغداد میں حکومت اور اقتدار میں ثنویت پیدا ہوئی، جس سے سلطان اور خلیفہ میں کشمکش کی صورت پیدا ہوئی۔ خلیفہ مجبور و بے بس ہوگیا، لیکن جب متحارب سلجوقی دعوے داروں میں جانشینی کے لیے جنگیں شروع ہوئیں تو خلیفہ نے اپنی آزادی پر زور دیا۔ خلیفہ المکتفی نے اپنا دنیاوی و انتظامی اختیار بحال کیا، کم از کم بغداد اور آس پاس کے علاقوں میں، جہاں سے سلجوقیوں کو نکال دیا گیا۔ خلیفہ نے تو اپنے دنیاوی اختیارات سلطان کو اپنی مرضی سے تفویض کیے تھے، لیکن اب سلطان دنیاوی اختیارات کا حق دار بن گیا اور اِن اختیارات کا دعویٰ رکھنے لگا۔ بارہویں صدی کے نصف آخر میں خلیفہ کی جانب سے حکمرانوں کو فرداً فرداً سندِ قبولیت دینے کی تجدید سے فائدے کی بجائے اُلٹا نقصان ہونے لگا، کیونکہ سلطانیت کے حامیوں نے کہنا شروع کردیا کہ دنیاوی معاملات میں عمل دخل خلیفہ کے وقار کے منافی ہے۔ بارٹ ہولڈ نے آخری سلجوقی سلطان سے منسلک ایک اتابک کا یہ بیان بطور اقتباس دہرایا ہے کہ خلیفہ کو چاہیے کہ وہ بحیثیت امام نماز کی امامت اور دینی رسوم کی قیادت کرے، کیونکہ دین ہی ہمارے عقیدے کی بنیاد اور بہترین عمل ہے۔ جہاں تک دنیاوی معاملات کا تعلق ہے، وہ سلطان کو تفویض کردینے چاہییں۔ سلجوقیوں کو زوال آیا تو اُن کی جگہ خوارزم شاہیوں نے لی اور انھوں نے بھی اُن مراعات و حقوق کا مطالبہ کردیا جو سلجوقیوں کو حاصل تھے۔ اس کے نتیجے میں خلیفہ اور اُن کے درمیان ایک نئی کشمکش شروع ہوگئی۔ خوارزم شاہی شیعہ تھے اور انھوں نے اپنی سلطنت کی توثیق کے لیے کبھی خلیفہ سے رجوع نہیں کیا، کیونکہ اُن کی طاقت کا انحصار اُن کی اپنی عسکری قوت پر تھا۔ اس کے برعکس غوری سنی تھے اور خلیفہ کے ساتھ ان کے تعلقات خوشگوار تھے۔ انھوں نے خلیفہ کی سندِ قبولیت سے پہلے ہی ’’سلطان‘‘ کا لقب اختیار کرلیا تھا۔۳۳؎ خوارزم شاہی بغداد کو اپنا علاقہ سمجھتے تھے، اس لیے اُن کا مطالبہ تھا کہ انھیں بطور ’’سلطان‘‘ تسلیم کیا جائے اور اُن کا نام خطبے میں خلیفہ کے نام کے ساتھ پڑھا جائے۔ محمد بن تکاش نے اپنے تحت ’’عالمگیر سلطنت‘‘ قائم کرنے کا منصوبہ بنایا اور اپنی مہر پر یہ الفاظ منقش کرائے: ’’ظِل اللہ فی الارض‘‘۔ اُس نے اپنے علاقے کے شیعہ فقہا سے خلیفۂ بغداد کو معزول کرنے اور بغداد کی طرف مارچ کرنے کا فتویٰ حاصل کرلیا، لیکن وہ بغداد پر قبضہ نہ کرسکا۔ تاہم وہ مرحلہ آن پہنچا تھا کہ اگر خلیفہ بغداد سلطان کا نام خطبے میں پڑھنے کی اجازت نہ دے تو سلطان انتقاماً اپنے علاقے کی حدود میں، خطبے سے خلیفہ کا نام خارج کردے گا۔ یعنی ایسی صورتِ حال پیدا ہوگئی تھی کہ خلیفہ سلطان کو معزول نہیں کرسکتا تھا، لیکن سلطان فقہا سے فتویٰ حاصل کرکے خلیفہ کو معزول کرسکتا تھا۔۳۴؎ سیاسی برتری کے لیے سلطنت اور خلافت کی باہمی کشمکش شیعہ سنی تنازعے کا سبب بھی بن گئی جو اُمتِ مسلمہ کی اجتماعی بربادی کا پیش خیمہ ثابت ہوئی۔ تیرہویں صدی کے وسط میں منگولوں نے نہ صرف خوارزم شاہ کو شکست دی بلکہ بغداد کی بھی اینٹ سے اینٹ بجادی (۱۲۵۸ئ)۔ خلیفہ مستعصم کو بے رحمی سے قتل کردیا گیا اور آیندہ تین سال تک (۱۲۵۸ئ-۱۲۶۱ئ) دنیائے اسلام خلیفہ کے بغیر رہی۔ ۱۲۶۱ء میں عباسی خلافت قاہرہ میں نمودار ہوئی تو مصر کے مملوک سلاطین کی پناہ میں آکر مکمل طور پر ایک دینی ادارے کی صورت میں متشکل ہوگئی۔ سلطان بیبرس نے خلافت کے احیا کے لیے بہت کوشش کی، تاکہ مصر میں سلاطین مملوک کی حکمرانی کو سندِ جواز مل سکے۔ سنی فقہا زاہری اور جلال الدین سیوطی قاہرہ کی خلافت کی حمایت اس مقصد کے تحت کررہے تھے کہ مصر کی مملوک سلطنت کو واحد قانونی اور جائز سلطنت کا درجہ حاصل ہوسکے۔۳۵؎ خلیفہ سلطان کے سلسلۂ عزائم کا حصہ بن گیا اور سلطان نے جن حکمرانوں کی سفارش کی، اُن کو سندِ قبولیت سے نوازا۔ خلیفہ کا دنیاوی اُمور سے کوئی تعلق نہ تھا۔ بعض روایات، جیسے خطبے میں خلیفہ کا نام پڑھنا اور سکّوں پر اُس کا نام مسکوک کرانا، ختم کردی گئیں۔ اس کے باوجود خلیفہ سلاطین کی حکمرانی کو قانونی جواز دینے کا واحد مجاز تھا۔ یہاں تک کہ چودہویں اور پندرہویں صدی کے سُنی فقہا نے یہ افسانہ تراشا کہ خلیفہ کی توثیق کے بغیر اقتدار ناجائز اور غیرقانونی ہے۔ اس افسانے سے یہ ظاہر کرنا مقصود تھا کہ قاہرہ کا عباسی خلیفہ رسولِ کریمؐ کا وارث ہے اور یہ کہ جس سلطان کو خلیفہ کی سندِ قبولیت حاصل نہ ہو، اُسے اسلامی قانون کے مطابق قاضی مقرر کرنے کا اختیار نہیں۔ اگر وہ بلاجواز قاضی مقرر کرتا ہے تو خلیفہ کی سلطنت میں جتنی شادیاں ہوں گی، وہ سب ناجائز ہوں گی۔۳۶؎ اُدھر مکہ کے فقہا کی جانب سے یہ رائے ظاہر کی گئی کہ خلافت ۱۲۵۸ء کے بعد موقوف ہوئی اور اُس کے بعد سے خلافت کی جگہ سلطانیت نے لے لی۔ چودہویں اور پندرہویں صدیوں کے دوران میں منگول حکمرانوں نے اسلام قبول کرنے کے بعد ’’سلطان‘‘ (یا ایل خان) کا لقب اختیار کیا۔ انھوں نے قاہرہ کی خلافت کو تسلیم نہیں کیا، کیونکہ اُن کے اسلاف نے عباسیوں سے جنگ کی تھی۔ علاوہ ازیں مملوک سلاطین سے بھی اُن کے تعلقات خوشگوار نہ تھے۔۳۷؎ اس پس منظر میں اسلامی مشرقی علاقوں میں سلطنت کے لیے ایک نئی مذہبی تحریک پیدا ہوئی۔ سلطنت کی بنیاد ’’طاقت‘‘ (ذی شوکت) پر منحصر سمجھی گئی اور اس کی قوت کا سرچشمہ ’’اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم‘‘ سمجھا گیا۔ اِس نظریے کی رُو سے صرف چار خلفائے راشدین نبی کریمؐ کے صحیح جانشین اور از رُوئے شریعت فقط وہی جائز خلیفہ تھے۔ اُموی اور عباسی ’’طاقت کے بل پر‘‘ خلیفہ تھے۔ چونکہ تمام طاقت کا سرچشمہ اللہ ہے، لہٰذا سلطان اپنے آپ کو خلیفہ (خلیفۃ اللہ) قرار دے سکتا ہے۔ غالباً اِسی دلیل کے تحت امیر تیمور کے فرزند شاہ رُخ نے پندرہویں صدی میں خلیفہ ہونے کا دعویٰ کیا تھا۔ یوں اس طریقے سے خلافت سلطانیت میں ضم ہوگئی اور یوں پندرہویں صدی سے مشرقی اسلامی ممالک میں خطبے میں حکمران سلطان کے نام کے ساتھ خلفائے راشدین کے نام پڑھنا اور سکّوں پر اُس کے نام کے ساتھ اُن کے اسمائے گرامی مسکوک کرانا عام رواج ہوگیا۔۳۸؎ عثمانی سلطان سلیم اوّل نے ۱۵۱۷ء میں مصر فتح کیا اور اس کا الحاق سلطنتِ عثمانیہ کے ساتھ کرلیا۔ قاہرہ میں مُقیم خلیفہ متوکل سوم کو استنبول (قسطنطنیہ) لے جایا گیا، جہاں اُس نے خلافت سلطان سلیم اوّل کے نام لکھ دی۔ خلافت پر عثمانی سلطان کا دعویٰ مندرجہ ذیل دلائل پر مبنی تھا: (ا) طاقت کا حق (ذی شوکت) (ب) نامزدگی (وہی دلیل جو یزید کو معاویہؓ کا جانشین بنانے کے لیے دی گئی تھی)۔ انتخاب (خلیفہ عثمانؓ کے انتخاب کی نظیر کے پیشِ نظر چند اعلیٰ عہدہ داروں کا محدود حلقۂ انتخاب) (ج) مقاماتِ مقدسہ کی حفاظت و نگہبانی موخرالذکر دلیل کے بارے میں بارٹ ہولڈ نے لکھا ہے کہ اگرچہ ہسپانیہ کے اُموی حکمرانوں نے ’’خلیفہ‘‘ کا لقب اس لیے اختیار نہیں کیا تھا کہ مقاماتِ مقدسہ عباسی خلافت کی تحویل میں تھے، تاہم اکابر فقہا نے مقاماتِ مقدسہ کی تحویل کو خلافت کا منصب سنبھالنے کے لیے ضروری شرط قرار نہیں دیا ہے۔۳۹؎ عثمانی قریش تھے نہ عرب، بلکہ ترک تھے۔ ابن خلدون اور ابوبکر باقلانی کی رائے کی تقلید کرتے ہوئے سولہویں اور سترہویں صدی کے فقہا خلافت کے منصب کے لیے قریشی نسب سے متعلق ہونے کو کوئی اہمیت نہیں دیتے۔ عثمانی سلطان/ خلیفہ کے تحت شیخ الاسلام کا عہدہ بتدریج ترقی پذیر ہوا اور امورِ مذہبی کا محکمہ ریاست کے دوسرے محکموں سے الگ کردیا گیا۔ خلافتِ عثمانیہ کو پوری سلطنتِ عثمانیہ کے طول و عرض میں تسلیم و قبول کیا گیا۔ البتہ شیعی ایران اور مغل انڈیا نے مذہبی اور خاندانی رقابتوں کی وجہ سے عثمانی خلفا کو تسلیم نہیں کیا۔ خلافتِ عثمانیہ اپنی مطلق العنانی اور اپنے آمرانہ مزاج، اور وقت کے بدلتے ہوئے تقاضوں سے ہم آہنگ ہونے کی ناقابلیت کی وجہ سے اُٹھارہویں اور اُنیسویں صدی میں رُوبہ زوال ہوگئی۔ چونکہ علما اور فقہا صدیوں سے اللہ اور اُس کے رسولؐ کے بعد حکمرانوں کی اطاعت اور وفاداری کا دم بھرنے کے عادی ہوگئے تھے، لہٰذا سنی مسلم عوام کے پاس اس کے سوا چارہ نہ تھا کہ وہ اجتماعی انتشار اور طوائف الملوکی سے بچنے کے لیے آمریت کو قبول کرلیں۔ چنانچہ انھوں نے مطلق العنانی کے آگے سرِاطاعت خم کرلیا اور ایک سلطان کے بعد دوسرے سلطان کی آمرانہ حکمرانی کے تحت مصائب برداشت کیے۔ چند مستثنیات سے قطع نظر، پورے عرصے میں حکمران اور برسراقتدار طبقہ قانون سے بالاتر اور ماورا رہا۔ اگر شریعت سختی سے نافذ کی گئی تو غریب اور مفلوک الحال عوام کو قابو میں لانے کے لیے یا مطیع کرنے کے لیے… عوام شہریوں کے رُتبے سے گر کر محض رعایا بن گئے تھے۔ بالآخر عثمانی سلطان/ خلیفہ کے عرب باشندے اصلاح پسند ’’وہابی‘‘ تحریک کی طرف رجوع ہوئے، جس نے انتہائی سختی کے ساتھ شریعت کی بالادستی قائم کی۔ اس کے ساتھ ساتھ مغرب کے جدید حرکی اُصول مثلاً شخصی آزادی، قوم پرستی، حب الوطنی، آزاد فکری، سیکولرازم، آئین پسندی اور انقلاب پسندی دنیائے اسلام میں بھی متعارف ہوئے۔ بالآخر ۱۹۲۳/۱۹۲۴ء میں مصطفی کمال پاشا کی قیادت میں ترکی کے قوم پرستوں نے سلطنتِ عثمانیہ، خلافتِ عثمانیہ اور شیخ الاسلام کا منصب ہمیشہ کے لیے ختم کردیا۔ اور ’’قومی ریاست‘‘ کی حیثیت سے ترکی کو سیکولر جمہوریہ قرار دیا گیا۔ (۴) فقہا، ماہرینِ اخلاقیات اور فلاسفہ کی آرا اسلام کے نظریۂ آئین، سیاسی اخلاقیات اور فلسفے پر ادب نویں صدی میں دنیائے اسلام میں سامنے آنا شروع ہوا۔ یہ ادب تین زمروں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے: فقہا، ماہرین اخلاقیات اور فلاسفہ۔ فقہا فقہا میں سب سے نمایاں ماوردی (۹۹۱-۱۰۳۱ئ) ہے۔ اُس کا مشہور رسالہ احکام السلطانیہ بویہ امرا کو عباسی خلیفہ کی یہ اہمیت جتانے کے لیے لکھا گیا تھا کہ وہ اعلیٰ اور برتر رُوحانی اور دنیاوی حاکم مجاز ہے۔ یہاں یہ امر ذہن نشین رہنا چاہیے کہ سنی فقہا کا کردار یہ رہا ہے کہ مثالی اور حقیقی، اور نظریے اور عمل کے درمیان جو خلیج حائل ہے، اُسے پاٹا جائے۔ اس مقصد کے لیے اُنھوں نے ہر تبدیلی کے موقع پر اسلامی تعقل کی راہ نکالی ہے تاکہ اُمّت کا اسلامی مزاج و کردار مسلسل جاری و ساری رہے۔ ماوردی کا کہنا یہ تھا کہ خلافت/ امامت کا قیام مسلمانوں کا دینی فریضہ ہے، کیونکہ اِس کا بنیادی مقصد عقیدے کا تحفظ کرنا اور وحی کے نفاذ کے ذریعے دنیا میں امن و سلامتی کو برقرار رکھنا ہے۔ اپنی اس دلیل کی تائید میں اُس نے سورہ صٓ کی آیت ۲۷ کا سہارا لیا ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤدعلیہ السلام کو ’’خلیفہ فی الارض‘‘ مقرر کیا ہے۔ (ترجمہ): ’’اے داؤدعلیہ السلام ، ہم نے تجھے زمین میں خلیفہ بنایا ہے۔ لہٰذا تو لوگوں کے درمیان حق کے ساتھ حکومت کر اور خواہشِ نفس کی پیروی نہ کر کہ وہ تجھے اللہ کی راہ سے بھٹکادے گی۔‘‘ ماوردی کی رائے یہ ہے کہ سیکولر ریاست کی بنیاد اُن اُصولوں پر رکھی جاتی ہے جو انسانی عقل سے ماخوذ ہوتے ہیں، لہٰذا ایسی ریاست میں شہریوں کی صرف مادی ترقی ہی کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ اس کے برعکس خلافت کی بنیاد چونکہ قانونِ وحی پر ہوتی ہے، لہٰذا یہ عوام کی مادی اور رُوحانی ترقی دونوں کی ضامن ہوتی ہے۔۴۰؎ ماوردی نے خلیفہ کا تقرر کرنے والی جماعت کو تین گروپوں میں تقسیم کیا ہے۔ پہلا گروپ خلافت کے امیدواروں کا ہے۔ خلافت کے اُمیدوار کے لیے ضروری ہے کہ وہ بالغ اور اعلیٰ کردار کا مسلمان ہونے کے علاوہ قریش کے نسب سے تعلق رکھتا ہو، جسمانی اور ذہنی صحت کے لحاظ سے مضبوط و طاقتور ہو، شجاعت اور عزمِ صمیم کا مالک ہو، فنونِ حرب سے اچھی طرح واقف ہو، منصف مزاج ہو، ہر طرح کی معلومات کی خبر رکھتا ہو، مجتہد کی حیثیت سے آزادانہ فیصلے کرنے کی قابلیت رکھتا ہو۔ دوسرے گروپ میں جماعت کے وہ نمایاں اور سرکردہ افراد شامل ہیں، جن کو ’’قبض و بسط‘‘ کا اختیار حاصل ہوچکا ہو اور جو خلیفہ کو منتخب کرنے کا حق رکھتے ہوں۔ (حق رائے دہی) تیسرے گروپ میں عامۃ المسلمین شامل ہیں جو چند اکابر کی رائے سے منتخب ہونے والے خلیفہ سے وفاداری کا حلف اُٹھائیں (بیعت)۔۴۱؎ ماوردی کے نزدیک خلیفہ کا انتخاب جماعت کے چند سرکردہ معززین کریں یا سابق خلیفہ اپنا جانشین نامزد کرے، یہ دونوں صورتیں بالکل دُرست اور جائز ہیں۔ حکمران خلیفہ اپنی زندگی میں اپنے بیٹے یا رشتہ دار کو اپنا جانشین مقرر کرسکتا ہے اور ایک وقت میں ایک سے زیادہ افراد کی نامزدگی کرسکتا ہے۔۴۲؎ صاف ظاہر ہے کہ ماوردی حقیقی تاریخی صورتِ حال کو عقل کے مطابق قرار دے رہا تھا۔ وہ کوشش کررہا تھا کہ خلیفہ کی تقرری کے ضمن میں سابقہ جمہوری طریقوں میں جو تبدیلیاں، آنے والے وقتوں کے حالات کی مناسبت سے پیدا ہوئیں، اُن کو عقلی جواز فراہم کیا جائے۔ جیسا کہ پہلے بھی بیان ہوا، حکمران خلیفہ اپنی زندگی میں اپنے بیٹے یا رشتہ دار کو عام طور پر اپنا جانشین مقرر کیا کرتا تھا اور سرکردہ امرا، نمایاں سرکاری عہدے دار جو زیادہ تر خلیفہ کے اپنے خاص مقرر ہوتے تھے، جانشین کی تقرری کی منظوری دیتے تھے۔ نامزدگی کے بعد اس منظوری کا مطلب ہوتا تھا، آنے والے خلیفہ کا انتخاب۔ چونکہ خلافت بعدازاں موروثی/ خاندانی ملوکیت میں بدل چکی تھی، لہٰذا یہ افسانہ تراشا گیا کہ خلیفہ منصبِ خلافت پر خلفائے راشدین کے طرزِ عمل، طرزِ نامزدگی اور طرزِ انتخاب کے عین مطابق متمکن ہے۔ ماوردی نے اپنی دلیل کو تقویت پہنچانے کے لیے اسلام کی اوائل تاریخ کی مثالوں سے فائدہ اُٹھایا۔ مثلاً یہ کہ خلیفہ ابوبکرؓ کا انتخاب اُن لوگوں نے کیا جو کسی سابقہ خلیفہ کے پیدا کردہ خاص افراد یا آلۂ کار نہ تھے۔ خلیفہ ابوبکرؓ نے خلیفہ عمرؓ کی نامزدگی کی تو یہ اُن کی محض ایک سفارش تھی جسے جماعت المُسلمین نے تسلیم کرلیا۔ خلیفہ عثمانؓ کو ایک انتخابی ادارے نے منتخب کیا تھا۔ اُن کو کسی نے نامزد نہیں کیا تھا۔ اسی طرح خلیفہ علیؓ کا عوامی استصواب رائے سے انتخاب ہوا تھا۔ ماوردی نے ہر ایک صورت میں یہ مثالیں بطور نظیر استعمال کی ہیں، تاکہ خاندان عباسیہ میں خلافت کا منصب موروثی/ خاندانی ملوکیت میں رکھنے کے لیے قانونی جواز فراہم کیا جاسکے۔ بہرحال ماوردی اُن کی ملازمت میں تھا۔ اُس نے تو ہارون الرشید کی نظیر کی اساس پر، جس نے اپنے ممکنہ جانشینوں کے طور پر اپنے تین بیٹوں کی بیک وقت سہ گونہ نامزدگیاں کی تھیں، یکے بعد دیگرے تین نامزدگیوں کو جائز قرار دیا تھا۔ بیک وقت تین نامزدگیوں کو دوسرے فقہا نے اِس دلیل کے تحت جائز قرار دیا تھا کہ خود آنحضورؐ نے میدانِ جنگ میں یکے بعد دیگرے تین سپہ سالاروں کی نامزدگی کی تھی۔ ماوردی کا دعویٰ تھا کہ نامزدگی کا یہ طریقہ عوامی مفاد کی خاطر اختیار کیا جاسکتا ہے۔ تاہم اُسے یہ احساس نہ ہوا کہ میدانِ جنگ میں متواتر تین سپہ سالاروں کی نامزدگی کا اُصول عام حالات میں ناقابلِ اطلاق ہے۔ خلیفہ کی وفات پر جب اُس کا مقررہ جانشین تختِ خلافت پر بیٹھتا ہے تو نیا خلیفہ اپنے پیش رو کی نامزدگی کا پابند نہیں ہے، بلکہ اعلیٰ حاکم مجاز کی حیثیت سے اُسے اپنا جانشین نامزد کرنے کا استحقاق حاصل ہے۔ ماوردی نے خلیفہ کے فرائضِ منصبی بھی گنوائے ہیںکہ: اُسے دینِ اسلام کا تحفظ کرنا چاہیے۔ کفر و الحاد کے پھیلاؤ کو روکنا چاہیے۔ مجتہد کی حیثیت سے اسلامی قانون کی تشریح و تنفیذ کرنی چاہیے۔ اسلامی ریاست کی جغرافیائی حدود کے دفاع کی خاطر سرحدوں پر مسلح فوجیں مامور کرنی چاہییں۔ اسلام کی اشاعت کے مقصد کے تحت یا تو ارد گرد کے ممالک کے غیر مسلموں کو اسلام کی دعوت دینی چاہیے یا اُن کے خلاف جنگ کی جائے، تاوقتیکہ وہ خود کو مفتوح کی حیثیت سے قبول نہ کرلیں۔ اُسے عدل و انصاف کا نفاذ اور تحفظ کرنا چاہیے۔ اُسے ایک مستحکم مالیاتی نظام نافذ کرنا چاہیے۔ اُسے صرف قابل وزرا، امرا، عاملین، منصفین اور دیگر سرکاری عہدہ داران کی تقرری، اور خزانے سے اُن کی تنخواہیں مقرر کرنی چاہییں، اور آخر میں یہ کہ اُسے ریاست کے تمام محکموں کی نگرانی کرنی چاہیے۔ خلیفہ کے فرائض اپنی اصلیت و نوعیت کے لحاظ سے روحانی بھی تھے اور دنیاوی بھی، جس کا مطلب ہے دین اور سیاست یا چرچ اور ریاست کی یکجائی۔ ماوردی نے ریاست کا جو نمونہ پیش کیا، وہ مسلمانوں کی اجتماعی زندگی کے مذہبی اور سیکولر پہلوؤں کا امتزاج تھا۔ ایسی ریاست فی الحقیقت وجود میں آئی تھی یا نہیں، یہ دوسری بات ہے۔ اور آخری بات یہ کہ ماوردی نے اُن حالات کا بھی مفروضہ قائم کیا ہے، جن کے تحت خلیفہ کو معزول کیا جاسکتا ہے، اور یہ خصوصی حالات بھی گنوائے ہیں: اگر خلیفہ دین کی صحیح تعبیر و تشریح سے قاصر رہے، اگر ذہنی یا جسمانی طور پر معذور ہوجائے، گرفتار یا زیرِ حراست ہو یا اُس کی نقل و حرکت پر پابندیاں عائد کی جائیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ماوردی کا استدلال یہ بھی تھا کہ اگر کسی طاقتور امیر کے زیرِ اثر ہو، اور وہ امیر شریعت کے مطابق حکمرانی کررہا ہو تو خلیفہ کو رہا یا معزول کرنے کی ضرورت پیدا نہ ہوگی۔۴۳؎ ظاہر ہے کہ سیاسی حالاتِ جاریہ نے ماوردی کو یہ نظریہ اختیار کرنے پر مجبور کیا۔ ماوردی نے اسلامی ریاست کے بارے میں اپنے نظریے میں مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ کے شعبوں کی جو تشریحات پیش کی ہیں، یہاں اختصار کے ساتھ اُن کا جائزہ لیا جاتاہے: نظری اور اُصولی اعتبار سے کسی شخص کو اسلامی ریاست میں قانون سازی کا استحقاق نہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس ضمن میں اپنے قوانین قرآن مجید میں درج کردیے ہیں۔ یہ قوانین وسیع اور ہمہ گیر اُصولوں کی صورت میں ہیں، جن کی تشریح حدیث، اجماع اور قیاس کی روشنی میں کی جانی چاہیے۔ قانون سازی کا ایک اور وسیع میدان بھی ہے جو اسلام کے احکام (یعنی قرآن و سنت) سے متصادم ہے، ایسے قوانین کی حد تک، مسلم حکمرانوں نے شاہی فرامین کی صورت میں، قانون سازی کی ہے اور اُن کا نفاذ کیا ہے۔ فقہا نے اُن قرآنی قوانین کی تشریح میں جرح کی ہے جن میں بظاہر ابہام ہے یا جن کی صحیح تعبیر کے معاملے میں سابقہ فقہا کے درمیان اختلافِ رائے پایا جاتا ہے۔ انھوں نے ایسے خود ساختہ قوانین کے نفاذ کی مخالفت نہیں کی جن کے بارے میں قرآن و سنت خاموش ہیں۔ خلیفہ بادشاہ کی حیثیت سے محض ایک ایجنٹ تھا جس کی وساطت سے شریعت کا نفاذ ہوسکتا تھا۔ لیکن کبھی کبھی بحیثیت امام وہ ایسے قوانین وضع و نافذ کرنے کے سلسلے میں اپنا صوابدیدی اختیار استعمال کرتا تھا۔ خلیفہ کو فقہا کی تقرری کا بھی استحقاق تھا، اور اُنھیں قانون کے معاملات میں درج ذیل صورتوں میں فتویٰ دینے کا مجاز ٹھہراتا تھا۔ (۱)یا تو کسی خاص مکتبِ فکر کی تشریح کو، جو خلیفہ کی پسند و ضرورت کے مطابق ہو، ترجیح دے کر، (۲)یا بعض دوسرے فقہا کے فتاویٰ کو اس استدلال کے تحت منسوخ کرکے کہ وہ غیر مصلحت آمیز یا مفادِ عامہ کے خلاف ہیں، (۳)یا صرف ایسے معدودے چند فقہا کو فتویٰ جاری کرنے کا مجاز قرار دینا جو خلیفہ کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوں۔ یہ انتظام آمرانہ اور مطلق العنان ملوکیت کے مفادات کے لیے عین موزوں تھا۔ شریعت کی تعبیر و تشریح کا اختیار عام طور پر صرف خاص خاص فقہا کو دیا جاتا تھا جن کا تقرر خلیفہ خود کرتا تھا۔ مختلف الخیال فقہا پر مشتمل اسمبلی کی تشکیل کی کوشش نہیں کی جاتی تھی، کیونکہ اُس کے اتنا زیادہ مستحکم و قوی ہونے کا امکان ہوتا تھا کہ وہ حکمران کے صوابدیدی اور آمرانہ اختیار کو محدود یا سلب نہ کردے۔ الماوردی کی تشریح کے مطابق اسلامی ریاست وحدانی طرزِ حکومت کی حامل تھی، ایک واحد برترین سربراہ کے ماتحت انتہائی مرکزیت لیے ہوئے۔ یہ سربراہ چیف ایگزیکٹو ہوتا تھا۔ گویا خلیفہ چیف ایگزیکٹو کی حیثیت سے وزرا، امرا، قضاۃ، عاملین وغیرہ کا تقرر کرتا تھا اور ریاست کے تمام محکموں (دیوان) کی براہِ راست نگرانی کرتا تھا۔ ’’وزیر‘‘ کا عہدہ عباسیوں کے عہدِ خلافت میں شروع ہوا، جب خلافت فرماں روائی کے ایرانی تصور کے زیرِ اثر آچکی تھی۔ اس سے پہلے اس عہدے کے قیام کی کوئی نظیر موجود نہ تھی۔ اس عہدے کی تقرری کے حق میں ماوردی نے یہ دلیل پیش کی کہ لفظ ’’وزیر‘‘ ’’وزر‘‘ سے مشتق ہے جس کے لغوی معنی ہیں وزن، بوجھ۔ وزیر وہ ہوتا ہے جو حکمران کی ذمہ داریوں کا بوجھ اُٹھانے میں اُس کی مدد کرتا ہے۔ اُن کے خیال میں وزیر یا وزرا کی تقرری کی اجازت فقہا نے پہلے سے دے رکھی تھی۔ انھوں نے یہ دلیل بھی دی کہ قرآن میں آیا ہے کہ حضرت موسیٰعلیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ اُن کے اپنے گھرانے سے اُن کا بوجھ بٹانے کے لیے ایک وزیر عطا کرے (چنانچہ اُن کے بھائی ہارونعلیہ السلام نے یہ منصب سنبھالا)۔ ماوردی کی ایک دلیل یہ بھی تھی کہ نبی کریمؐ اپنے اُن صحابہ سے مشورہ کیا کرتے تھے جو آپؐ کی دنیاوی ذمہ داریوں کا وزن اُٹھانے میں اُن کے شریک تھے۔ ابن خلدون نے وزارت کے عہدے کے جواز میں یہ دلیل پیش کی کہ حضرت ابوبکرؓ آنحضورؐ کے وزیر، عمرؓ ابوبکرؓ کے وزیر اور عثمانؓ اور علیؓ ، عمرؓ کے وزیر تھے۔۴۴؎ یہ امر عجیب اور قابلِ ذکر ہے کہ جب کبھی مسلم سیاست میں کوئی تبدیلی آئی، اُس کے جواز میں اُس وقت کے فقہا نے قرآن و سنت کو خوب استعمال کیا۔ پہلے بھی بیان ہوچکا ہے کہ ماوردی کا استدلال یہ تھا کہ خلافت ایک دینی فریضہ ہے اور اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤدعلیہ السلام کو خلیفہ فی الارض مقرر کرکے ایک نظیر قائم کررکھی ہے۔ لیکن خلفائے راشدین کے عہد میں خلافت کے ادارے کو خداداد، مذہبی فریضہ خیال نہیں کیا جاتا تھا۔ اسی طرح اُس زمانے میں وزیر یا وزرا کی تقرری کی بھی کوئی مثال موجود نہیں ہے۔ اس سے یہ بات صاف ظاہر ہوتی ہے کہ فقہا ہر عہد میں، اپنے وقت کی ضرورتوں اور تقاضوں کے مطابق شریعت کی تعبیر و تشریح کرلیا کرتے تھے۔ جہاں تک امارت کا تعلق ہے، ماوردی نے تین امارتوں کا ذکر کیا ہے جن کی تقرری یا منظوری خلیفہ کرتا تھا۔ امارت العامہ جسے عمومی اختیارات حاصل ہوتے تھے۔ امارت الخاصہ، جسے خصوصی اختیارات حاصل ہوتے تھے اور امارت الاستیلا جو بزور غصب کی جاتی تھی۔ عمومی اختیارات رکھنے والا امیر حکمران کی طرح ہوتا تھا، اور خصوصی اختیارات کا مطلب ہوتا تھا، کسی خاص محکمے پر حاکمیت کا حق۔ امارت الاستیلا اُس وقت وجود میں آتی تھی جب کوئی مسلمان غاصب مسلح طاقت کی بنا پر (خلیفہ کی فوج کو شکست دے کر یا حکمران امیر کو معزول کرکے) اقتدار حاصل کرتا تھا۔ ایسے حالات میں خلیفہ کے پاس اس کے سوا چارۂ کار نہ ہوتا تھا کہ غاصب امیر کی امارت کو اُس کے علاقے کی حدود تک تسلیم کرے۔ چنانچہ نظریۂ ضرورت کے تحت ماوردی نے یہ تصور پیش کیا کہ اگر غاصب امیر یہ وعدہ کرتا ہے کہ وہ شریعت کے مطابق حکومت کرے گا اور خلیفہ سے وفاداری کا حلف اُٹھاکر اُمتِ مسلمہ کا اتحاد برقرار رکھنے کا عہد کرتا ہے تو اُس کی امارت کی منظوری سے انکار نہیں کرنا چاہیے۔ غاصب امرا بھی اپنی حکمرانی کو قانونی طور پر جائز ٹھہرانے کے لیے خلیفہ سے اپنے علاقے میں اپنی امارت کی تصدیق کے لیے درخواست کرتے تھے، بلکہ بعض امرا خلیفہ کو خراج بھی دیتے تھے۔ بعض نہیں بھی دیتے تھے۔ دور دراز صوبوں میں امیر (گورنر) تعینات کرنے کا طریقہ بہت قدیمی ہے۔ نبی کریمؐ نے، پھر خلفائے راشدین اور بنواُمیہ نے امیر مقرر کیے اور اُن کے کاموں اور سرگرمیوں کی سخت نگرانی کی۔ تاہم اُمویوں کے عہد میں موروثی امارت کا رواج شروع ہوا، جسے عباسیوں نے برقرار رکھا۔ چنانچہ جب کوئی امیر فوت ہوتا تھا تو اُس کا بیٹا یا قریبی رشتہ دار اُس کی جانشینی کرتا تھا جس کی رسمی توثیق خلیفہ کی جانب سے ہوجاتی تھی۔ لیکن امارت الاستیلا، جس نے دنیائے اسلام کے مکمل اتحاد کو گھٹا کر ڈھیلے ڈھالے کنفڈریشن کی شکل دے دی تھی اور خلیفہ کو فی الحقیقت مجبور و لاچار کردیا تھا، بعد کی پیداوار ہے۔تاریخ اسلام کے اوائل میں اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔ ماوردی نے امارت الاستیلا کو اپنی اسلامی ریاست کی تشریح میں شامل کیا ہے۔۴۵؎ کیونکہ اُن کا اصل مقصد یہ تھا، جیسا کہ پہلے بھی بیان ہوچکا ہے، کہ غاصب امرا پر عباسی خلافت کی اہمیت جتائی جائے جو اپنا وقار کھوچکی تھی۔ جہاں تک خلیفہ کی انتظامی ذمہ داریوں کا تعلق ہے، ماوردی نے قضا (عدلیہ) پر بھی سیرحاصل بحث کی ہے، جو ریاست کا اہم ترین عضو (وظیفہ) رہا ہے۔ جوں جوں اسلامی سلطنت پھیلتی گئی، چار بڑی عدالتیں، جن کا اپنا اپنا دائرۂ سماعت تھا، وجود میں آئیں۔ نظارت المظالم یعنی ناظر جرائم کی عدالت، قاضی کی عدالت جسے سول/ فوجداری مقدمات کی سماعت کا اختیار تھا، محتسب کی عدالت اور صاحب الشرطہ یعنی پولیس مجسٹریٹ کی عدالت۔ ماوردی کے نزدیک تمام عدالتوں کے قضاۃ (جج) مقرر کرنے کی ذمہ داری خلیفہ کی تھی، البتہ خود اُسے مظالم کورٹ کی صدارت کرنی چاہیے۔ ماوردی کی تشریح کے مطابق اسلامی ریاست اصل میں ملوکیت یا بادشاہت تھی جو بنو عباس کے لیے بالخصوص اور بنوقریش کے لیے بالعموم وقف و مخصوص تھی۔ خلیفہ کو (کم از کم نظریاتی طور پر) تمام عمال کو اپنی مرضی سے مقرر یا منسوخ کرنے کا استحقاق حاصل تھا۔ اگر کوئی حکمران اسلامی دنیا کے کسی بھی حصے میں حکومت کرتا ہے تو وہ صرف خلیفہ کی منظوری سے کرسکتا ہے، ورنہ اُس کی حکومت بے جواز اور غیر قانونی ہے۔ انتظامی اور عدالتی ادارے جو وقت کے ساتھ ساتھ ارتقا پذیر ہوئے تھے، تھوڑی بہت تبدیلیوں کے ساتھ چلتے رہے۔ بے شمار خودمختار حکمران خاندانوں کا نظم و نسق، اُن کے اپنے اپنے علاقوں میں، اُن کی اپنی اپنی ضرورتوں کے مطابق چلتا رہا۔ خلاصۂ کلام یہ کہ ماوردی نے اسلامی ریاست کا جو نقشہ پیش کیا تھا، اُس کے خاص خاص نکات یہ تھے: / ریاست کا مقصد مسلمانوں کی فلاح حاصل کرنا ہے، اِس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔ / ریاست کا مقصد اُمتِ مسلمہ کا اتحاد اور دنیائے اسلام کی وحدت ہے، لہٰذا صرف ایک خلیفہ کی انتخاب یا تقرر ہونا چاہیے۔ / اگر دنیائے اسلام کو کسی وجہ سے منقسم ہونا ہے تو ایسی وحدتیں صرف خلیفہ کی منظوری سے برقرار رہ سکتی ہیں۔ / اسلامی ریاست میں مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان مابہ الامتیاز ہونا چاہیے۔ / صرف وہی محاصل عائد کیے جائیں، جن کا ذکر قرآن مجید میں آیا ہے۔ / سود حرام ہے۔ / مسلمانوں پر اسلام کا سول قانون لاگو ہوگا۔ مسلمانوں اور غیر مسلموں دونوں پر اسلام کا فوجداری کا قانون لاگو ہوگا۔ البتہ مسلمان مجرمین کے مقابلے میں بعض صورتوں میں غیرمسلموں پر نصف سزا عائد ہوگی۔ / اسلامی ریاست میں مسلمانوں پر اسلام کا دینی نظم و ضبط برقرار رکھنے کے لیے ’’حسبہ‘‘ کا محکمہ قائم کیا جائے گا۔ اسلامی ریاست کے بارے میں ماوردی کا نظریہ بعد میں آنے والے فقہا کے لیے ایک معیار بن گیا۔ بعدازاں جب خلیفۂ بغداد کی حالت میں مزید ضعف آیا تو سیاسی حقیقتوں کی مناسبت سے مزید تبدیلیاں کی گئیں۔ مثال کے طور پر الغزالی (۱۰۵۸-۱۱۱۱ئ) کے وقتوں تک خلیفہ مکمل طور پر سلطان سلجوق کے زیرِتسلط آگیا تھا۔ ایسی صورتِ حال میں الغزالی نے ماوردی کی طرح یہ دلیل پیش کی کہ خلافت محض ایک عقلی ضرورت نہیں ہے، بلکہ ازروئے شریعت مسلمانوں کا ایک مذہبی فریضہ ہے۔ اس ضمن میں اُن کا استدلال یہ تھا کہ نبی کریمؐ کی رحلت کے بعد خلافت کو، مسلمانوں کی اجتماعی رائے (اجماع) کے مطابق ایک ناگزیر ادارے کے طور پر تسلیم کیا گیا۔۴۶؎ لہٰذا مناسب مذہبی و سیاسی نظام کی برقراری کے لیے ایک خلیفہ کی تقرری ضروری ہے۔ مذہبی و سیاسی نظام ایک ایسا امام ہی برقرار رکھ سکتا ہے جس کی اطاعت لازمی ہے۔ یہ طرزِ استدلال اس لیے اختیار کیا گیا تھا کہ سلطان سلجوق پر، جس نے خاصا اقتدار چھین لیا تھا، عباسی خلیفہ المستظہر کی خلافت کا جواز جتایا جاسکے، اور باطنیہ فرقے کے لوگوں کو بھی عباسی خلیفہ کی اہمیت بتائی جائے جو صرف اُس کے حریف قاہرہ کے فاطمی امام کو جائز تسلیم کرتے تھے۔ غزالی نے خلیفہ المستظہر کی شخصیت کی موزونیت سے خلیفہ کی خصوصیات میں کچھ ترمیمیں بھی کیں۔ مثال کے طور پر کہا گیا کہ خلیفہ کے لیے جہاد کی قابلیت کا ہونا ضروری نہیں، بلکہ طاقت و شجاعت کی صفات، جو جہاد کے لیے ضروری ہیں، وہ خلیفہ کے ’’وفادار‘‘ سلطان میں ہوتی ہیں، اور جن کا اظہار و استعمال وہ خلیفہ کی جگہ کرسکتا ہے۔ اسی طرح ریاست کے نظم و نسق کی ذمہ داری بھی قابل اور صاحبِ تقویٰ سلطان کو تفویض کی جاسکتی ہے جو خلیفہ کی ذمہ داریاں سنبھالنے میں اُس کا شریک ہوتا ہے۔ حتیٰ کہ اگر خلیفہ میں علم کی کمی ہو یا اجتہاد کی قابلیت کا فقدان ہو تو اسے بھی نظر انداز کیا جاسکتا ہے، کیونکہ خلیفہ علمائے دین کی رائے پر بھروسا کرسکتا ہے جن سے مشورہ کیا جانا چاہیے اور اُن کے مشورے پر عمل بھی کرنا چاہیے۔ بالفاظِ دیگر غزالی کا نظریہ یہ تھا کہ خلیفہ میں اگر اجتہاد کی قابلیت نہ ہو تو اُسے مجتہد بننے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔ علمائے دین کی قانونی آرا کی تقلید کرتے ہوئے مقلِّد رہنا چاہیے۔۴۷؎ الغزالی چونکہ خلیفہ کی سیاسی ماتحت پوزیشن سے اچھی طرح واقف تھے، لہٰذا اُنھوں نے بلا جھجک فرمایا کہ خلیفہ کو اپنا اختیار کسی ایسی شخصیت کو تفویض کردینا چاہیے جو مؤثر طاقت رکھتا ہو اور اطاعت گزار ہو۔ خلیفہ کو مذہبی زندگی گزارنی چاہیے اور رہنمائی اور ہدایت علمائے دین سے حاصل کرنی چاہیے۔ اپنے سُنّی عقائد کی بنا پر خلیفہ کا حق ہے کہ سلطنت کے تمام معروف اور نمایاں اکابرین اُس کی اطاعت کریں اور اُس کی وفاداری کا دم بھریں۔ الغزالی کے وقتوں میں عباسی خلافت اِس قدر کمزور ہوگئی تھی کہ کبھی کبھی سلطان نیا خلیفہ مقرر یا نامزد کردیتا تھا۔ زمینی حقائق کی روشنی میں اور اس خیال سے کہ نئے خلیفہ کی تقرری یا نامزدگی ایسا شخص کرتا تھا جس کی پشت پر عسکری طاقت ہوتی تھی، غزالی نئے خلیفہ کی ایسی تقرری یا نامزدگی کو ازروئے شریعت جائز قرار دیتے ہیں۔ غزالی کے نزدیک جب تک سلطان، مناسب و مؤثر طاقت کا مالک اور خلیفہ کا وفادار اور اطاعت گزار ہے، اُس کی حکمرانی شرعاً جائز ہے۔ جس اُصول پر غزالی نے اپنے نظریے کی اساس رکھی تھی، وہ یہ تھا کہ جابر سلطان کا ظلم و ستم برداشت کیا جاسکتا ہے، لیکن انتشار، لاقانونیت اور بدامنی کو برداشت نہیں کیا جاسکتا۔ الغزالی کی اصل اور بڑی دلیل یہ تھی کہ ایک جابر و آمر سلطان کو ہٹانا، جس کی پشت پر فوج کی طاقت ہو، انتشار کا سبب بنے گا اور ریاست کے مفادات اور فلاح عامہ کی خاطر ایسی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔ انھوں نے سورۃ النسائ، آیت:۵۹ یٰٓأَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ کا حوالہ دیے بغیر، البتہ بعض احادیث پر بھروسا کرتے ہوئے اصرار کے ساتھ کہا کہ خلیفہ کے علاوہ امرا و سلاطین کی بھی اطاعت کرنی چاہیے، خواہ انھوں نے سیاسی اقتدار غصب کررکھا ہو۔۴۸؎ مزید برآں دو اور ممتاز و مشہور فقہا ابن جامٰعۃ (۱۲۴۱-۱۳۳۱ئ) اور ابن تیمیہ (۱۲۶۳-۱۳۲۸ئ) نے اس موضوع پر جو کچھ لکھا ہے، اُس کا بھی اختصار کے ساتھ جائزہ لیا جانا چاہیے۔ الغزالی کی طرح ابن جامعۃ کا بھی یہی خیال تھا کہ جبر انتشار پر قابلِ ترجیح ہے۔ دوسرے لفظوں میں، بدامنی اور طوائف الملوکی سے بچنے کے لیے بُری حکومت کو قبول کرلینا چاہیے۔ خلفائے راشدین کے زمانے سے سورۃ النسا کی آیت ۵۹ کی یہ تفسیر مسلّم رہی تھی کہ بطور صدرِ مملکت خلیفہ کی اطاعت برحق اور جائز ہے، بشرطیکہ وہ اللہ اور اُس کے رسولؐ کے دیے ہوئے احکام و قوانین پر عمل کرتا ہے، اور جب اُس کا عمل شریعت کے خلاف ہو، تو اُسے معزول کردینا چاہیے۔ لیکن نئی سیاسی حقیقت کے پیشِ نظر ابن جامعۃ جیسے فقہا نے اس تفسیر کو اپنے مطلب کے رنگ میں رنگ لیا۔ اُس نے اپنا نقطۂ نظر پیش کیا کہ ہر حاکم کی اطاعت کرنی چاہیے خواہ وہ غاصب ہی ہو لیکن وہ ریاست کے نظم و نسق پر مؤثر قابو رکھتا ہو، اور جو اپنی مصلحت ہی کی خاطر سہی، خلیفہ کی اطاعت بطور علامت ہی کرتا ہو۔ ابن جامعۃ نے بے حجابانہ خود ساختہ امام کی بھی حکومت کو جائز قرار دیا، خواہ یہ حکومت اُس نے طاقت کے بل پر حاصل کی ہو۔ الغزالی نے الماوردی سے ایک قدم آگے بڑھ کر سلطان کی جانب سے خلیفہ کی تقرری /نامزدگی کو بھی جائز قرار دیا تھا، لیکن ابن جامعۃ نے تو الغزالی سے بھی آگے بڑھ کر ایک غاصب حکمران کو، خود کو امام مقرر کرنے کا اختیار دے کر اُسے جائز قرار دے دیا۔ ابن جامعۃ کے نزدیک سورۃ النسا کی آیت ۵۹ کے بموجب حکمران یعنی اولوالامر کی اطاعت مسلمانوں کا دینی فریضہ ہے، کیونکہ یہ اطاعت اللہ اور رسولؐ کی اطاعت کے مترادف ہے۔ چنانچہ اُسی نے نتیجہ نکالا کہ ایک ملٹری کمانڈر خود کو امام مقرر کرتا ہے تو شرعاً یہ جائز ہے، اور اُمتِ مسلمہ کا اتحاد برقرار رکھنے کی خاطر ایسے حکمران کی اطاعت سب مسلمانوں پر واجب ہے۔ ابن جامعۃ نے تو یہاں تک کہا کہ اُمت کو آیندہ آنے والے دوسرے غاصب حکمران کی بھی اطاعت کرنی چاہیے جو پہلے غاصب حکمران کو شکست دے کر یا معزول کرکے خود مؤثر امام بن گیا ہے۔۴۹؎ الماوردی، الغزالی اور ابن جامعۃ یہ تینوں شافعی مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے تھے۔ زوال پذیر سیاسی حالت بگڑنے کے ساتھ ساتھ شریعت کی تفسیر نے جو سمجھوتہ کیا، اِن تینوں نے اُس کی توثیق کی، حتیٰ کہ انھوں نے بالصراحت قرار دیا کہ سلطان یا کسی غاصب حکمران کو بھی خلیفہ کے اختیارات و وظائف کی حوالگی ازروئے شریعت بالکل جائز ہے۔ بالفاظ دیگر اِن نمایاں اور بڑے سنی فقہا نے صاف الفاظ میں یہ نظریہ قائم کردیا کہ شریعت کی کئی کئی تعبیریں اور تفسیریں ہوسکتی ہیں اور کسی بھی قسم کے موجود حالات کے مطابق شریعت کو بدل دینا بالکل جائز اور قانونی ہے۔ ممتاز حنبلی فقیہ ابنِ تیمیہ (۱۲۶۳-۱۳۲۸ئ) کی آواز سب سے مختلف لب و لہجہ رکھتی ہے۔ اسلامی ریاست کے ضمن میں روایتی فقہا کے رویے اور رائے سے بے زار و ناخوش ہوکر اُنھوں نے اجتہاد کی آزادی پر زور دیا اور ازسر نو آغاز کرنے کے لیے قرآن و سنت کے بنیادی ماخذ سے رجوع کرنے پر اصرار کیا۔ انھوں نے خلافت سے تعلق نہیں رکھا، بلکہ اس ادارے کی ضرورت ہی سے انکار کردیا۔ اُن کا تعلق اصل میں شریعت کی بالادستی سے تھا اور اِس امر سے کہ امت مُسلمہ (حکمران اور عامۃ المسلمین سب) کیونکر شریعت کے مطابق زندگی بسر کرسکتی ہے۔ اُنھوں نے امام اور اُمّہ کے قریبی تعلق پر زور دیا، اگرچہ امام اُن کے نزدیک مؤثر حاکمیت کا حامل تھا، خواہ قانونی طور پر حاصل کی گئی ہو یا غیرقانونی طریقے سے۔ سورۃ النسا کی آیت ۵۹ کی تفسیر بیان کرتے ہوئے ابنِ تیمیہ نے یہ دلیل پیش کی کہ حاکم مجاز کے صرف اُن احکام کی پیروی کرنی چاہیے جو قرآن و سنت سے ہم آہنگ ہیں۔ تاہم انھوں نے قرآن و سنت سے متصادم احکام کی پیروی کرنے سے مسلمانوں کو روکتے ہوئے، انھیں بغاوت کی تلقین ریاست میں انتشار یا بدامنی پھیلنے کے خوف سے نہیں کی۔ ابنِ تیمیہ نے حاکم مجاز اور اُس کے عمال سے شریعت پر عمل کرنے کی توقع کی۔ اگر حاکم شریعت کے احکام سے واقفیت نہ رکھتا ہو تو انھوں نے الغزالی کی طرح علما سے مشورہ کرنے اور رہنمائی حاصل کرنے کی حمایت کی۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہنا چاہیے کہ ابن تیمیہ کا بھی یہ خیال تھا کہ سربراہِ ریاست میں مجتہد کی خوبی کا موجود کا ہونا ضروری نہیں اور اُسے بس تقلید ہی پر عمل کرنا چاہیے۔ گویا ابن تیمیہ اور الغزالی دونوں نظم ریاست میں علما کے اثر و نفوذ کی خواہش رکھتے تھے، کیونکہ دونوں کے خیال میں علما رسولؐ کے حقیقی وارث تھے، اور خلفائے راشدین کے عہد کے بعد اُن کی اہمیت و فضیلت وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی جاتی ہے۔ ابنِ تیمیہ نے خلیفہ اور سلطان کے درمیان اقتدار کی رسہ کشی کو کوئی اہمیت نہ دی۔ اُن کے وقت میں جو بھی صورتِ حال موجود تھی، اُسے انھوں نے جوں کا توں قبول کرلیا۔ وہ اسلامی ریاست میں شریعت کی حاکمیت کی بحالی کے آرزومند تھے، تاکہ مسلمان اپنے اجتماعی احیا کے لیے اپنی زندگیاں سختی سے نفاذ کردہ مستند قانون کے مطابق بسر کرسکیں۔۵۰؎ وہ ایک مثالی اور باریک بیں شرعی حکومت کے دعوے دار تھے اور انھوں نے اپنے نصب العین کے حصول کے لیے پوری زندگی جدوجہد میں گزار دی۔ چونکہ شریعت کے بارے میں اُن کی تعبیر و تفسیر تنگ، سخت، بے لچک اور مروجہ سیاسی حالات کے لیے غیرموزوں تھی، لہٰذا اِسے بالعموم نظرانداز کردیا گیا۔ ماہرینِ اخلاقیات ماہرینِ اخلاقیات مصنّفین نے سیاسی اخلاقیات کے موضوع پر معیاری کتب تصنیف کیں۔ یہ کتابیں بادشاہوں کے لیے پندونصائح کی صورت میں تھیں (اِن کتابوں کو ادب، اخلاق یا عکاس ادب بھی کہا جاتا ہے)۔ ماہرینِ اخلاقیات نہ تو فقہا کے قائم کردہ اسلامی آئینی نظریات سے دلچسپی رکھتے تھے اور نہ فلاسفہ کے سیاسی افکار سے کوئی تعلق رکھتے تھے۔ وہ صرف یہ چاہتے تھے کہ خلیفہ امورِ مملکت سے خود کو الگ تھلگ رکھے اور مکمل طور پر مذہبی شعائر کی بجاآوری کے لیے، خصوصاً نماز باجماعت اور روزے کی پابندی اور حفاظتِ دین کے فریضے کی ادائیگی۔ اخلاقیات کے ماہروں کے نزدیک اسلامی ریاست کا اصل حاکم سلطان ہوتا ہے، اور ہر ریاست کے شہری اگرچہ نظریاتی طور پر اُمت مسلمہ کا حصہ ہیں، لیکن عملاً وہ سلطان کی رعایا ہیں۔ اُن کی تعلیمات زیادہ تر سیاسی مسائل و مباحث پر مبنی تھیں، انھیں اس سوال سے کوئی غرض نہ تھی کہ سلطان اپنے عہدے پر جائز طریقے سے فائز ہے یا ناجائز طریقے سے۔ انھوں نے سیاسی حقیقت کو اُسی شکل میں قبول کیا جیسی کہ وہ تھی، لیکن اس کے ساتھ ساتھ مالک الفضل یا سلطان العادل کا معیار یا نمونہ سامنے رکھنے کی کوشش کی۔ اپنے مقصد کے حصول کے لیے انھوں نے قبل از اسلام کے وقتوں کے ایرانی مصنّفین کے اسلوب اور طرز کی تقلید کی۔ یہ اخلاقی ادب ظاہر ہے کہ اُس عہد کی پیداوار ہے جب خلافت نے رفتہ رفتہ اپنی جگہ سلطانیت کی راہ ہموار کردی تھی۔ اخلاقیات کے ماہرین نے اگرچہ اخلاقیات کے عالمگیر تصوّرات کی ترجمانی کی، لیکن وہ شریعت سے بھی وابستہ رہے۔ وہ ایک مستحکم، مطلق العنان بادشاہت میں ایک مثالی سیاسی نظم دیکھنا چاہتے تھے، جو عالمگیر اخلاقی اقدار مثلاً عدل و مساوات پر مبنی ہو اور جو ظاہر ہے کہ شریعت کے بھی عین مطابق تھا۔ وہ زمانہ قبل از اسلام کے بادشاہوں کے بارے میں یہ بتانے کے لیے کہ نیک دلی اور پارسائی کے لحاظ سے وہ اُن کے لیے معیار کی حیثیت رکھتے تھے، وہ اُن کی زندگی کے واقعات اور مثالیں بکثرت استعمال کرتے تھے۔ اُن کی تصانیف سلاطین کے لیے پند نامہ یا ہدایت نامہ کی حیثیت رکھتی تھیں۔ بعض سلاطین تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود کئی لحاظ سے بڑے جابر، حتیٰ کہ سفّاک تھے اور انسانی یا اخلاقی اقدار کو ذرا بھی خاطر میں نہ لاتے تھے۔ سلاطین کو مشورت یا نصیحت چاپلوسی کے فن ہی سے دی جاسکتی تھی، اور بتایا جاسکتا تھا کہ حکمران کے اوصاف کیا ہونے چاہییں۔ اُس کے فرائض کیا ہوتے ہیں۔ اُس کے خدّام و عمّال کے اوصاف و فرائض کیا ہونے چاہییں۔ سلطان کے اپنی رعایا سے کیسے تعلقات ہونے چاہییں اور یہ کہ امورِ ریاست کا بہترین انتظام و انصرام کیونکر ہوسکتا ہے۔ ان مصنّفین میں سے چند کے اسمائے گرامی ہیں: ابن المقفع (کتاب ادب الصغیر) جاحظ (کتاب التاج اور کتاب استحقاق الامامۃ) کیکاؤس (قابوس نامہ) نظام الملک (سیاست نامہ) الغزالی (نصیحت الملوک) اوائل سُنّی فقہا کی روایت کی پیروی میں ابن المقفع (۷۲۴-۷۵۷ئ) کو خلیفہ / حکمران سے توقع یہ تھی کہ وہ مجتہد ہوگا اور شریعت کے نفاذ میں اجتہاد سے کام لے گا۔ اس کے برعکس جاحظ نے قدیم ایرانی بادشاہوں کے رسوم و رواجات اور واقعات کے حوالے دے کر، اپنی تصنیف کتاب استحقاق الامامۃ میں لکھا کہ شریعت تو زمانے کے ساتھ بدلتی رہتی ہے، اور حکمران اور حکومت مستقل چیزیں ہیں۔ یہ کبھی نہیں بدلتے۔ کیکاؤس نے حکمران امیر کی حیثیت سے قابوس نامہ ۱۰۸۲ء میں اپنے ذاتی تجربات و واردات کی بنیاد پر، اپنے فرزند کی ہدایت و رہنمائی کے لیے تحریر کی۔ اُس کی رائے میں حکمران کو عملی مسلمان ہونا چاہیے یعنی دانا، منصف مزاج، عادل اور حق پسند اور اپنی سلطنت پر پورا پورا قابورکھنے والا۔ نظام الملک (۱۰۱۸-۱۰۹۲ئ) دو سلجوق سلاطین الپ ارسلان اور ملک شاہ کا وزیر اعظم رہ چکا تھا۔ امیرکیکاؤس کی طرح نظام الملک نے بھی ایک مسلم حکمران کے ضروری اوصاف گنوائے اور اُس سے توقع رکھی کہ وہ شریعت کی حدود میں رہتے ہوئے ایک مطلق العنان بادشاہ کی حیثیت سے حکومت کرے گا۔ نظام الملک کی آرزو تھی کہ حکمران ایک نیک نام، متقی اور ناقابلِ رسا عدلیہ کے قیام پر خصوصی توجہ دے۔ اُس نے نصیحت کی کہ خواتین کا عدلیہ میں کوئی اثر رسوخ نہ ہونا چاہیے۔ اس نے کلیدی اسامیوں پر غیر مسلموں کی تقرری کی مخالفت کی، خاص طور پر جب تعلیم یافتہ اور قابل مسلمان بے روزگار ہوں۔ اُس کی خواہش تھی کہ حکمران ایک محکمۂ جاسوسی بھی رکھے، تاکہ آگاہ رہے کہ اُس کی سلطنت میں کیا ہورہا ہے، حالانکہ جاسوسی کو قرآن مجید میں خاص طور پر ممنوع قرار دیا گیا ہے۔ الغزالی بنیادی طور پر ایک مذہبی مفکر تھے۔ انھوں نے اپنی کتاب میں (سالِ تالیف ۱۱۱۱ئ) مسلم حکمران کے روحانی عقائد سے بحث کی ہے اور اُن اخلاقی اُصولوں پر روشنی ڈالی ہے جن کی اُسے پیروی کرنی چاہیے۔ انھوں نے اپنے افکار و نظریات کو موجود سیاسی حقائق سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی، لیکن اُن کی کوشش بہت سے تضادات کی شکار ہوگئی۔ مثال کے طور پر اُن کے نزدیک خلافت ایک ناگزیر ادارہ ہے جو اجتماعی رائے (اجماع) پر مبنی ہے اور جس کا قیام اچھے مذہبی و سیاسی نظام کی تشکیل کے لیے ضروری ہے۔ لیکن نصیحت الملوک میں وہ گویا تبلیغ کرتے ہیں کہ بادشاہ خداداد ہوتے ہیں۔ خدا نے بادشاہ کو انسان کو انسان کے ظلم سے محفوظ کرنے کے لیے بھیجا ہے، جس طرح اُس نے انسانوں کی ہدایت کے لیے پیغمبر بھیجے۔ انھوں نے بے چون و چرا لکھا کہ سلطان ظل اللہ فی الارض (زمین پر اللہ کا سایہ) ہے۔ اُن کا طرزِ استدلال یہ تھا: ’’بادشاہوں سے جھگڑنا نامناسب اور اُن سے نفرت رکھنا غلطی ہے، کیونکہ خدائے بزرگ و برتر کا ارشاد ہے: اطاعت کرو اللہ کی اور اُس کے رسول کی، اور اُن کی جو تم میں سے حکمران ہوں۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ اطاعت کرو اللہ کی اور اُس کے رسول کی اور اپنے شہزادوں کی۔ لہٰذا ہر وہ شخص جس کو اللہ تعالیٰ نے دین کی سمجھ دی ہے، اُسے بادشاہوں سے محبت رکھنی چاہیے اور اُن کی اطاعت کرنی چاہیے۔‘‘۵۱؎ کیسی عجیب بات ہے کہ ایک وقت ایسا بھی آیا جب الغزالی جیسے بلند رتبے کے عالمِ دین نے ہر بادشاہ کو اللہ کا نمایندہ قرار دیا، جو بنی نوع انسان کا حافظ و نصیر ہے، لہٰذا اُسے ’’زمین پر اللہ کا سایہ‘‘ سمجھنا چاہیے۔ الغزالی نے اصل مسئلے کو چھوا تک نہیں کہ آیا سلطان کو خلیفہ کی اطاعت کرنی چاہیے یا نہیں کرنی چاہیے۔ اس کے برخلاف الغزالی تو یہ چاہتے تھے کہ سلطان پرانے خلفا کی سنت کی پیروی کرنے کے ساتھ ساتھ قدیم ایرانی یا ساسانی بادشاہوں کے سے طرزِ عمل کی پیروی کریں۔ عامۃ المسلمین کے لیے غزالیؒ کا خیال یہ تھا کہ جس طرح جو اللہ کی غیر مشروط عبادت کرتے ہیں، اسی طرح وہ بادشاہ کی کامل اطاعت کریں۔ اور آخری بات یہ کہ جہاں اخلاقیات کے ماہرین نے شریعت کی حدود میں رہتے ہوئے مطلق العنان بادشاہت کی وکالت کی، وہاں درحقیقت ان دانش وروں کا یہ مشورہ سیاسی مفاہمت کی بنیاد پر تھا۔ یقینا سیاسی مفاہمت واحد کسوٹی ہے جس پر پورے عکاس ادب کو پرکھنا چاہیے۔ فلاسفہ مسلم مفکرین نے اسلام کی تشریح یونانی فلسفے کی روشنی میں کرنے کی کوشش کی۔ یہی وجہ ہے کہ اُن کے سیاسی افکار پر افلاطون اور ارسطو کا اثر ہے۔ انھیں افلاطون کی اس رائے سے کامل اتفاق تھا کہ قانون ہی ریاست کی اصل اور واحد اساس ہے، جس کو آگے بڑھاتے ہوئے انھوں نے یہ نتیجہ نکالا کہ جس ریاست کی بنیاد سراسر شریعت پر ہو اور وہ شریعت کی بالادستی پر یقین رکھتی ہو، وہ ریاست صحیح معنوں میں ’’اسلامی‘‘ ہے۔ لیکن اگر کسی ریاست میں شریعت نافذ نہ کی گئی ہو یا یہ محض انسان کے اپنے خودساختہ قوانین کے نفاذ کے لیے بنائی گئی ہو، وہ اسلامی نہیں ہوگی، بلکہ ایک ایسی ریاست ہوگی جو بربنائے طاقت (ملک) وجود میں آئی۔ مسلم مفکرین کا عقیدہ یہ بھی رہا ہے کہ شریعت کے اصلی اور گہرے اسرار و معانی صرف فلسفے کے ذریعے سمجھ میں آسکتے ہیں۔ یہاں ابن خلدون (۱۳۳۲-۱۴۰۶ئ) کے افکار کا جائزہ لینے سے پہلے تین مسلمان فلاسفہ الفارابی (۸۶۸-۹۵۰) ابن سینا (۹۸۰-۱۰۳۷ئ) اور ابن رشد (۱۱۲۶-۱۱۹۸ئ) کے نظریات کا مختصر جائزہ مناسب معلوم ہوتا ہے۔ ابن خلدون فقیہ نہیں تھا۔ اخلاقیات کا ماہر بھی نہ تھا۔ فلسفی بھی نہ تھا۔ وہ سیاسیات کا ماہر تھا۔ عقلی اور عملی نظریہ رکھتا تھا۔ اپنی ذات کا منفرد و یکتا تھا۔۵۲؎ فارابی مسلّمہ طور پر پہلا سیاسی مفکر تھا۔ افلاطون اور ارسطو کے افکار کے زیر اثر ہونے کے باوجود اُس نے اپنی طرف سے اہم اور دلچسپ اضافے کیے۔ اپنے یونانی اساتذہ کی مانند فارابی کو بھی انسان کے حقیقی مقصد سے گہری دلچسپی تھی۔ اساتذہ کی مانند اُس نے بھی انسان کا مقصد ’’حصولِ مُسرّت‘‘ قرار دیا تھا۔ لیکن فارابی نے جس نکتے پر خاص زور دیا، وہ یہ تھا کہ انسان مکمل اور حقیقی مُسرّت صرف اُسی وقت حاصل کرسکتا ہے جب وہ زندگی شریعت کے مطابق بسر کرے۔ ’’مسرت‘‘ اور ’’کاملیت‘‘ انسان تنہائی میں حاصل نہیں کرسکتا۔ ان کے حصول کے لیے اُسے لازماً دوسرے انسانوں کے ساتھ سول سوسائٹی بناکر رہنا پڑے گا۔ اس کا منطقی نتیجہ یہ نکلا کہ ریاست کا قیام انسان کے لیے ضروری ہوگیا، کیونکہ ’’مسرت‘‘ جماعت یا معاشرے میں باہمی مدد و تعاون کے ذریعے ہی حاصل کی جاسکتی ہے۔ فارابی کے نزدیک مثالی ریاست وہ ہوتی ہے جس میں شہریوں کو ’’دوگونہ‘‘ مسرت حاصل کرنے کی سہولتیں دی جاتی ہوں، جیسا کہ اسلام نے قرار دیا ہے، ایک موجودہ دنیا میں خوشحالی حاصل کرنے کی مسرت، اور دوسرے آخرت میں مسرت حاصل کرنے کی تیاری۔ فارابی کے نزدیک وہی مثالی ریاست حقیقت کا روپ دھار سکتی ہے جس میں حکمرانی پیغمبر، قانون ساز، فلسفی، امام کی سرکردگی میں انجام پائی ہو۔ سادہ لفظوں میں کامل اور مثالی ریاست وہی تھی جس پر نبی کریمؐ نے بہ حیثیت امام حکومت کی تھی، کیونکہ آنحضورؐ کا اللہ تعالیٰ سے براہِ راست رابطہ تھا، جس کا قانون بذریعہ وحی حضورؐ پر نازل ہوا، جس کے گہرے اسرار و معانی آنحضور بطور فلسفی بخوبی جاننے کی قدرت رکھتے تھے۔ فارابی کا نظریہ ہماری سمجھ میں اُسی وقت آسکتا ہے جب ہم نبوّت کے بارے میں اُس کے نظریات سے بھی کماحقہ واقفیت رکھتے ہوں۔ اُس کا عقیدہ تھا کہ جو لوگ ریاست مدینہ میں اُس وقت رہایش پذیر تھے جب اُس پر آنحضورؐ کی حکمرانی تھی، وہی لوگ تھے جن کو حقیقی مسرت و کاملیت نصیب ہوئی اور انھوں نے اپنی حقیقی تقدیر کا فہم حاصل کیا۔ چونکہ رسولِ کریمؐ امام المطلق یعنی قانون کے حتمی شارح تھے، لہٰذا وہ مثالی ریاست (المدینۃ الفاضلہ) کے مثالی فرماں روا تھے۔ چونکہ پیغمبر، قانون ساز، فلسفی، امام کی عدم موجودگی میں مثالی یا کامل ریاست کی تشکیل عملاً ناممکن تھی، اس لیے فارابی نے غیر کامل ریاست کی چند مختلف صورتیں گنوائی ہیں۔ کچھ غیر کامل ریاستیں فارابی نے استاد افلاطون کی تصانیف سے اخذ کی ہیں، اور کچھ غیر کامل ریاستیں اُس کے اپنے ذہن کی ایجاد ہیں۔ چند غیر کامل ریاستیں یہ ہیں: __ جو زندگی کی بنیادی ضروریات کی کفالت کرنے تک محدود ہو (المدینۃ الضروریہ) __ قابلِ نفرت، حقیر، خراب ریاست (الشہوہ) __ جابرانہ ریاست (التغلّب) __ جمہوری ریاست (المدینۃ الجمعیہ) __ مکار، منافق ریاست (الفاسقہ) __ ناکام ریاست (المبادلہ) __ گمراہ اور غلط کار ریاست (الضلۃ) فارابی تمام غیر کامل ریاستوں کو ’’جاہلیہ‘‘ قرار دیتا ہے اور کہتا ہے کہ ایسی ریاستوں کے شہری کبھی حقیقی مسرت حاصل نہیں کرسکتے۔ دلچسپ اور قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ فارابی الجمعیہ ریاست کو اپنے مثالی یا المدینۃ الفاضلہ کے تصوّر کے قریب تر خیال کرتا ہے۔ المدینۃ الفاضلۃ غالباً اُس کے ذہن میں خلفائے راشدین کا جمہوری دور تھا جو پیغمبر، امام کی مثالی قیادت کے فوراً بعد آیا تھا۔ جب فارابی یہ کہتا ہے کہ بیشتر جاہلیہ ریاستیں جمہوری ریاست کے نمونے سے ظہور میں آئیں، تو لازماً یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ اُس کے ذہن میں یقینا وہ جمہوری نظام تھا جو بعدازاں مطلق العنان ملوکیت کی مختلف صورتوں میں منقلب ہوا۔ ظاہر ہے کہ اسلام کی تاریخ پر فارابی کی گہری نظر تھی، اور اُس پر یونانی فلسفے کے اثرات کی نوعیت کچھ بھی رہی ہو، اُسے اُمتِ مسلمہ کے تاریخی تجربے سے پوری پوری آگاہی تھی۔ جہاں تک ابن سینا کے سیاسی فلسفے کا تعلق ہے، تین عوامل اُس میں مدغم ہوگئے تھے: یونانی افکار، اُن پر فارابی کے اضافے اور ترامیم، اور خلافت کے بارے میں راسخ العقیدگی پر مبنی نظریات جو فقہا نے پیش کیے تھے۔ ابن سینا بھی فارابی اور یونانی مفکرین کی طرح یہ عقیدہ رکھتا تھا کہ انسان کا اصلی مقصد ’’حصولِ مُسرّت‘‘ ہے۔ اُس کا یہ بھی عقیدہ تھا کہ جو ریاست پیغمبر-قانون ساز پر نازل شدہ وحی پر مبنی شریعت کے مطابق قائم ہوئی تھی، وہ طاقت (ملک) کے بل پر قائم کردہ ریاست سے کہیں زیادہ اعلیٰ اور بلند تھی۔ جہاں تک خلافت کا تعلق ہے، ابن سینا کا خیال تھا کہ خلیفہ جسے شریعت کا مکمل علم حاصل ہونا چاہیے، اُس کی اطاعت اس لیے کرنی چاہیے کہ وہ پیغمبر قانون ساز کا وارث ہے۔ اُس نے بھی خلیفہ کے وہی فرائض، ذمہ داریاں اور اوصاف بتائے ہیں جو فقہا نے گنوائے ہیں۔ البتہ یہ اضافہ کیا کہ خلیفہ کا انتخاب پوری اُمتِ مسلمہ کو کرنا چاہیے۔ اگر انتخاب کرنے والے (رائے دہندگان) غلط انتخاب کریں گے تو وہ مسلمان نہ رہیں گے، کافر ہوجائیں گے۔ ابن سینا نے فقہا سے معنوی لحاظ سے اختلاف کیا، جب اُس نے کہا کہ غاصب (متغلّب) حکمران کے خلاف جنگ کرنی چاہیے اور ممکن ہو تو اُسے قتل کردینا چاہیے۔ اُس نے تو یہاں تک کہا کہ جو شہری غاصب کے خلاف جنگ کے وسائل رکھنے کے باوجود جنگ نہیں کرتے، وہ مستوجب سزا ہیں۔ ابن سینا نے دعوے کے ساتھ کہا کہ غاصب کو قتل کرنا خدا کے نزدیک پسندیدہ ترین عمل ہے۔ بے شک ابن سینا کا مرتبہ عالی اور بلند ہے، لیکن بدقسمتی سے اُن کے نظریات میں بھی تضاد پایا جاتا ہے۔ اُس نے دلیل کے ساتھ کہا تھا کہ اگر ایک کمزور اور نااہل خلیفہ کو ہٹاکر اُس کی جگہ ایک طاقتور اور عقل مند باغی کو تخت پر بٹھا دیا جائے تو شہریوں کو چاہیے کہ وہ باغی کا دعویٰ تسلیم کریں، بشرطیکہ دوسرے اعتبارات سے بھی وہ اِس منصب کے اہل ہو۔ گویا ابن سینا نے اپنا سابقہ سخت اور بے لچک موقف ایک ایسے حکمران کے حق میں بدل لیا جس کی حکمرانی طاقت اور ذہانت پر مبنی ہو۔ ظاہر ہے کہ اُس نے اس نکتے پر زور دیا کہ ایک طاقتور اور ذہین، مگر کم پارسا، غاصب حکمران ایک کمزور اور نااہل، مگر متقی خلیفہ کے مقابلے میں بہتر اور قابلِ ترجیح ہے۔ ابن سینا نے عبادات اور معاملات میں بھی امتیاز روا رکھا۔ اُس نے کہا کہ عبادات کی انجام دہی ضروری ہے، اس لیے کہ یہ ملتِ اسلامیہ کے ہر فرد کے لیے فائدہ مند ہے، لیکن امام کو بنیادی طور پر شہریوں کے معاملات سے تعلق رکھنا چاہیے۔ معاشرتی تعلقات کی تنظیم ایسی قانون سازی سے کرنی چاہیے جو شہریوں کی جان و مال اور لین دین کے معاملات کا تحفظ کرسکے۔ اُس نے سفارش کی کہ شریعت کا نفاذ ہونا چاہیے اور جو لوگ شریعت کے مخالف ہوں، انھیں ریاست سے نکال باہر کرنا چاہیے۔ اُس کا حصولِ مسرت کا دوگونہ تصور بھی یعنی موجودہ دنیا میں انسان کی خوشحالی اور آخرت میں نعمتوں کے حصول کی تیاری، شریعت پر پوری پابندی کے ساتھ عمل کرنے سے وابستہ ہے۔ دوسرے مسلمان مفکرین کی طرح ابن رشد کا بھی یہی خیال تھا کہ انسان مسرت یا کاملیت عالم تنہائی میں حاصل نہیں کرسکتا۔ اُسے دوسرے انسانوں سے سیاسی تعلقات ضرور اُستوار کرنے چاہییں۔ وہ ریاست کے بغیر زندہ بھی نہیں رہ سکتا۔ اُس کا یہ اصرار عین منطقی ہے، کیونکہ ایک اچھی ریاست یقینا قانون پر مبنی ہوتی ہے۔ مثالی ریاست وہ ہوتی ہے جس کی بنیاد وحی پر رکھی گئی ہو اور سچی خوشی یا اعلیٰ ترین کاملیت ایسی ہی ریاست میں حاصل ہوسکتی ہے۔ مثالی ریاست کا آئین شریعت ہے۔ چونکہ صرف فلسفی ہی شریعت کے گہرے اسرار و معانی سمجھنے کی قابلیت رکھتا ہے، اور وہی اُن کی صحیح تشریح کرسکتا ہے، لہٰذا اُسے مثالی ریاست کی سیاست میں انتہائی اہم کردار ادا کرنا پڑتا ہے۔ ابن رشد اگرچہ خود بھی عالمِ دین تھا، مالکی مکتب کا فقیہہ تھا، قرطبہ کا قاضی تھا، تاہم وہ شریعت کی تفہیم و تشریح کے معاملے میں فلاسفہ کو علمائے دین اور فقہاکے مقابلے میں بہتر اور قابل ترجیح سمجھتا تھا۔ ابن خلدون نے شریعت کی بنیاد پر قائم شدہ ریاست (سیاستِ دینیہ) اور عقل کی بنیاد پر قائم شدہ ریاست (سیاست عقلیہ) کے درمیان خطِ امتیاز کھینچا ہے۔۵۳؎ اُس کا نظریۂ تاریخ زیادہ تر ’’عصبیت‘‘ کے تصور پر اُستوار ہے۔ عصبیت کا مطلب ہے، ایک گروہ یا خاندان کا دعویٰ حکمرانی، اجتماعی کارناموں اور فتوحات کی وجہ سے حاصل شدہ شہرت ، عزمِ صمیم اور زبردست طاقت کی اساس پر۔ ابن خلدون کے نظریے کے مطابق جب تک ایک گروپ (مثلاً قبیلہ قریش) یا خاندان (مثلاً سلجوق) اپنی کمزوری اور زوال کے آثار ظاہر نہیں کرتا، اُس وقت تک وہ ریاست کے اوپر اپنا اقتدار برقرار رکھتا ہے۔ اور جب ایک گروپ یا خاندان اقتدار کھودیتا ہے تو دوسرا گروپ یا خاندان تازہ ’’عصبیت‘‘ کے ساتھ اقتدار سنبھال لیتا ہے۔ ابن خلدون کے وقتوں میں بیشتر موجود مسلم ریاستیں مقتدر ریاستیں تھیں یعنی وہ طاقت کے بل پر اقتدار میں آئی تھیں۔ اُس کی اپنی اصطلاح میں یہ ریاستیں ’’انسان کے خود ساختہ قوانین پر‘‘ قائم ہوئی تھیں۔ اس کا طرز استدلال یہ تھا کہ رسول کریمؐ قانون ساز امام تھے۔ آپؐ نے مسلمانوں کو شریعت کے تحت متحد و منظم کردیا تھا، جس کی بالادستی کو خلفائے راشدین کے پوری عہدِ خلافت میں تسلیم کیا جاتا رہا تھا۔ بعدازاں مذہبی جوش و تحریک میں کمی آنے کی وجہ سے خلافت ملوکیت میں بدل گئی، جس میں حکمرانی انسانی عقل کے وضع کردہ قوانین کے تحت کی جاتی تھی، حالانکہ دعویٰ یہ کیا جاتا تھا کہ اُن کا اصل سرچشمہ شریعت ہے۔ ابن خلدون نے مذہبی و سیاسی ادارے کی حیثیت سے خلافت کی اہمیت پر بھی بحث کی ہے اور ماوردی کی اِس رائے سے اتفاق کیا ہے کہ خلیفہ کا کام دینِ اسلام کا تحفظ اور کاروبارِ ریاست کا انصرام ہے۔ لیکن ابن خلدون کے زمانے میں خلافت خالص مذہبی ادارے کی حیثیت سے صرف قاہرہ میں باقی بچ گئی تھی، جبکہ مدت ہوئی، خلیفہ کا انتظامی یا سرکاری معاملات سے کوئی سروکار نہ رہا تھا۔ ابن خلدون کو ایک عمل پسند مفکر کی حیثیت سے یقین تھا کہ ایک مقتدر ریاست (ملوکیت) بھی انسان کے بنائے ہوئے خود ساختہ قوانین کے ذریعے اپنے شہریوں کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرسکتی ہے۔ اُس نے سفارش کی تھی کہ ملوکیت کو اپنا رشتہ شریعت سے منقطع نہیں کرلینا چاہیے، کیونکہ ملوکیت اصل میں خلافت ہی سے نکلی ہے۔ ابن خلدون نے شریعت کی نظری و اُصولی اہمیت کو تسلیم کرنے کے باوجود، ریاست کو بھی اُس کی اصلیت و حقیقت کے ساتھ قبول کیا اور کہا کہ ایک ’’مخلوط‘‘ ریاست بھی جس کا نظمِ حکومت جزواً شریعت کے مطابق اور جزواً انسان کے خودساختہ قوانین کے تحت چلایا جاتا ہو، اپنے شہریوں کی خدمت بجالاسکتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں ایک ایسی مسلم ریاست جس کا نظمِ حکومت انسانی عقل کے وضع کردہ قوانین کے تحت چلتا ہو، وہ بھی اپنے شہریوں کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرسکتی ہے۔ ابن خلدون کا یہ موقف فقہا اور فلاسفہ کے موقف سے مختلف ہے، جو ریاست میں شریعت کے خالص پن کو برقرار رکھنے پر زور دیتے ہیں۔ فقہا نے شریعت کی بالادستی کو برقرار رکھتے ہوئے، اس کی تشریح بدلتے زمانے کے حالات اور تقاضوں کی روشنی میں، بالخصوص ’’معاملات‘‘ میں، بذریعہ اجتہاد کی ہے۔ انھوں نے مختلف اختراعی تشریحات سامنے لاکر شریعت کو متحرک اور اِسے جمود سے بچائے رکھا ہے۔ ظاہر ہے کہ جو چیز مسلمانوں کی ریاست کو ’’اسلامی‘‘ بناتی ہے، وہ اس کا طرزِ حکومت ہے نہ سیاسی نظام جو اس نے اختیار کیا ہو، بلکہ اُن قوانین کا نفاذ ہے جو کسی اور ماخذ سے نہیں، بلکہ خالصتہً شریعت سے اخذ کیے گئے ہوں۔ جب تک صاحب اقتدار (جائز یا ناجائز) ریاست میں شریعت کی بالادستی برقرار رکھے ہوئے ہے، اسلام کو کسی بھی طرح کے سیاسی نظام سے کوئی تعلق ہے نہ سروکار۔ ’’میثاقِ مدینہ‘‘ جو آنحضورؐ نے یہودیوں سے کیا اور جمہوری سیاسی نظام جو آپؐ کے بعد خلفائے راشدین نے متعارف کرایا، یہ دونوں مختلف قسم کے معاشرتی معاہدے ہیں، جن سے ’’شوریٰ‘‘ کی مختلف صورتیں پیدا ہوئیں۔ بہرکیف مشہور فقیہ شاہ ولی اللہ نے سیاسی نظاموں کو شریعت کا جزولاینفک قرار دیا ہے اور لکھا ہے کہ شریعت کے تحت اسلام میں سربراہِ ریاست کے عہدے کے لیے صرف تین طریقے تسلیم شدہ ہیں یعنی انتخاب، نامزدگی اور غصب۔۵۴؎ شاہ صاحب کے نزدیک روایتی فقہ حتیٰ کہ غصب کو بھی جواز فراہم کرتا ہے، بشرطیکہ غاصب شریعت نافذ کرنے کا وعدہ کرے (اور اگر وہ ایسا نہ کرے تو مسلمانوں کو اُس کے خلاف بغاوت نہیں کرنی چاہیے، کیونکہ اُسے سزا صرف خدا دے سکتا ہے)۔ فقہا، ماہرینِ اخلاق اور فلاسفہ کی اکثریت کے نزدیک حقیقی اسلامی ریاست کا نظمِ حکومت خالص شرعی قوانین کے مطابق، بلالحاظ سیاسی نظام، قائم کیا جاتا ہے۔ اگر ایک مسلم ریاست میں شرعی قوانین انسان کے وضع کردہ قوانین کی مسابقت یا مطابقت میں نافذ کیے جاتے ہیں یا وہاں کا نظمِ حکومت خالصتہً ہندوئوں انسان کے وضع کردہ قوانین کے تحت چلایا جاتا ہے (یعنی سیکولر حکومت) تو وہ اسلامی ریاست نہیں ہے۔ اس کو مقتدر ریاست یعنی طاقت کے بل پر حاصل کردہ ریاست کہا جاسکتا ہے۔ معیار کی کسوٹی پر پرکھا جائے تو صرف وہ ریاست حقیقی معنی میں اسلامی ریاست کہلانے کی مستحق تھی جس پر پیغمبر/قانون ساز/ امام نے، اور آپؐ کے بعد خلفائے راشدین نے حکومت کی تھی۔ اس کے بعد تو اسلامی ریاست ملوکیت کی مختلف شکلوں میں منقلب ہوگئی، جن کی بنیاد طاقت یا زورزبردستی یا موروثی/ خاندانی جانشینی یا حملہ آوری یا کسی اور جائز یا ناجائز طریقوں سے پڑی تھی، اور پھر سے مسلمانوں کے سیاسی مقاصد میں کفر و الحاد کا رنگ بھرا جانے لگا۔ پھر یہ دعویٰ بھی کیا جانے لگا کہ مقتدر ریاست بھی شریعت نافذ کرنے کی اہلیت رکھتی ہے، حالانکہ دنیائے اسلام کی بیشتر مقتدر ریاستوں میں نظمِ حکومت ’’مخلوط‘‘ قوانین کے تحت چلایا جاتا تھا (یعنی کچھ شرعی قوانین اور کچھ انسان کے وضع کردہ قوانین)۔ انسان کے وضع کردہ قوانین بالعموم شاہی فرمان کے ذریعے نافذ کیے جاتے تھے اور غالباً صاحبِ اقتدار کے صوابدیدی اختیارات کے تحت حکم نامے کے ذریعے۔ نتیجتاً کہا جاسکتا ہے کہ دنیائے اسلام میں ہر مقتدر ریاست ’’اسلامی‘‘ ریاست بننے کا خواب دیکھ سکتی ہے، لیکن چونکہ زمانے کی حرکت دائری نہیں ہے، لہٰذا یہ مقصد حاصل کرنے کا امکان کم ہے۔ ئ…ئئ…ء حوالے و حواشی ۱- یہ احادیث مشہور ہیں اور اکثر دانشوروں نے اِن کا حوالہ دیا ہے۔ مثال کے طور پر دیکھیے: The Caliphate, by T.W. Arnold, p. 184 etc.۔ ۲- میثاقِ مدینہ کے انگریزی ترجمے کے لیے دیکھیے: Muhammad at Medina, by Montgomery Watt, 1962 Ed. pp. 221-225.۔ ۳- ابن اسحاق، سیرت رسول اللہ، انگریزی ترجمہ، اے گلیوم، The Life of Muhammad,by A. Guillaume, 9th Pak. Ed. 1990, pp. 504-507۔ تاریخ طبری (سیرۃ النبی) جلد اوّل، اُردو ترجمہ: نفیس اکیڈمی، کراچی، ایڈیشن ۱۹۶۷ئ،ص۳۳۵ تا۳۳۹۔ ۴- Muhammad at Medina pp. 51, 52. ۵- المسعودی، کتاب التہنیۃوالاشراف،ص۲۳۵،۲۳۶۔وغیرھم ۶- تاریخ الخلفائ، اُردو ترجمہ شبیر احمد انصاری،ص۹،۱۰۔ ۷- طبری کا ماخذ واقدی ہے۔ دیکھیے: تاریخ طبری (سیرۃ النبی)، جلداول، اُردو ترجمہ، ص۵۲۷۔ 8- Introduction to Islam, by Hamidullah, p.11. 9- The Caliphate, pp. 45-50. 10- Introduction to Islam, by Hamidullah, p.11. ۱۱- ابن اسحاق، سیرت رسول اللہ،ص۶۸۳-۶۸۷؛ تاریخ طبری،جلد اول،ص۵۲۹-۵۳۵۔ ۱۲- تاریخ طبری، جلد اول،ص۵۳۵۔ ۱۳- امیر علی، مختصر تاریخ اسلام (اُردو ترجمہ)، ایڈیشن ۱۹۵۱،ص۲۱،۲۲۔نیز دیکھیے تاریخ طبری ، جلد اول، ص ۵۷۹، سیرت رسول اللہ، ص۶۸۷۔ ۱۴- تاریخ طبری، جلد سوم، ص۲۷؛ The Orient under the Caliphs،ص۱۹۔ ۱۵- کتاب الکامل،مرتبہ ڈبلیو وائٹ(باب خوارج)،ص۵۲۷تا۶۰۰؛ ابن خلدون ، مقدمہ، ص۱۹۶تا۲۰۲؛ Sociology of Islam, by R.Levy, vol. 1, pp. 301-304; The Caliphate, by T.W. Arnold, pp. 148-189; A Literary History of the Arabs, by R.A.Nicholson, p. 207-220; The Development of Muslim Theology, etc. by D.A Macdonald, pp. 7-63. 16- A Muslim Commentary on the Universal Declaration of Human Rights, by Sultan Hussain Tabandeh (Nazr Mazhabi be A'ilania Huquq al Bashr) English trans.F.J. Goulding, 1970 Ed., pp. 31-32. ۱۷- شبلی نعمانی، الفاروق،ص۲۵۴-۲۵۶۔ ۱۸- ایضاً، ص۴۴۸-۴۵۰،۴۷۸،۴۷۹۔ ۱۹- ماہنامہ قومی ڈائجسٹ، فاروق اعظم نمبر، شمارہ مارچ۱۹۸۳، مقالہ: ڈاکٹر محمد حمیداللّہ، ص۲۸۔ ۲۰- شبلی نعمانی، الفاروق،ص۳۹۵،۳۹۶،۵۱۸۔ ۲۱- ایضاً، ص۳۴۵،۳۴۶۔ ۲۲- ایضاً،ص۱۷۹،۱۸۱۔ ۲۳- امیر علی، مختصر تاریخ اسلام(اُردو ترجمہ)،ص۵۲۔ ۲۴- ایضاً،ص۵۴۔ ۲۵- سیوطی، تاریخ الخلفائ، اُردو ترجمہ، ص۲۲۴؛ انگریزی ترجمہ ایس ایچ جیرٹ،ص۱۹۷،۱۹۹،۲۰۹۔ 26- Muhammad Dynasties, by S. Lane-Pool, p.20. 27- Damascus Chronicle of the Crusades,trans. by H.A.R. Gibb, pp. 22,23, 34. 28- Muhammaden Dynasties, p. 36 29- Al-Beruni's Chronology of Ancient Nations, trans byE. Sachau, pp. 129, 131. 30- A Baghdad Chronicle by R. Levy, p. 188. 31- Chahar Maquala, trans. by E.G. Browne, p. 11. ۳۲- سیاست نامہ،ص۵،۴۲،۴۳۔ 33- Barthold's, Turkestan Down to the Mongol Invasion, trans by H.A.R. Gibb, pp. 246, 247. ۳۴- ایضاً،ص۳۷۳-۳۷۵۔ 35- Barthold's,Studies uber Kalif and Sultan, trans. by C.H. Becker. Der Islam, 1916. pp. 352, 364-374. 36- Borthold's Musalaman Culture, trans. by S. Suharwardy, p. 69. 37- A Literary History of Persia, by E.G. Browner, vol. 3, pp. 40-61. ۳۸- بارٹ ہولڈ، Studies under Kalif and Sultan، S353,374. ۳۹- ایضاً،ص۳۵۲،۳۵۴،۳۵۵۔ ۴۰- الحکام السلطانیہ،ص۳۔ نیز دیکھیے: مقدمہ ابن خلدون،ص۱۹۰،۱۹۱۔ ۴۱- ایضاً،ص۴،۵،۴۲۔ ۴۲- ایضاً، ص۱۲،۱۳،۱۸۔ نیز دیکھیے: مقدمہ ابن خلدون،ص۲۱۰-۲۱۸۔ ۴۳- الحکام السلطانیہ،ص۲۳-۳۲۔ ۴۴- مقدمہ ابن خلدون، ص۲۳۷۔ ۴۵- الحکام السلطانیہ،ص۴۷-۵۷۔ ۴۶- کتاب الاقتصاد فی الاعتقاد،ص۹۵،۹۶۔ ۴۷- کتاب المستظہرین،ص۸۳،۹۲۔ 48- Ihya al-Ulum, vol.2, p. 124; The Sunni Theory of the Caliphate, by H.A.R. Gibb, Theory of Islamic Government, (The Muslim World, july 1955), pp. 229-241. 49- Tahir al-Ahkem- fi Tadbir ahl-al-Islam, ed. and Trans. by Kofler in Islamica vol. VI, pp. 349-414 and Vol. VII pp. 1-64. ۵۰- کتاب السیاسۃ الشرعیۃ،ص۴۰،۵۶،۶۳،۱۶۹،۱۷۰۔ 51- Nasihat al-Muluk, (Counsel for Kings) English trans, by F.R.C. Bagley ed. 1964 Macmillan, pp. 45, 46. ۵۲- تفصیلی مطالعے کے لیے الفارابی کی تین تصانیف کا مطالعہ کرنا چاہیے: المدینۃ الفاضلہ، کتاب السیاسیۃ المدنیۃاور کتاب تحصیل السادہ۔ابن سینا کے سیاسی فکر کے مزید مطالعے کے لیے اُس کی تصنیف کتاب الشفا کے آخری دو ابواب ابن رشد کی تہافۃ التہافہ، فصل المقال، مناہج۔ میں نے اپنے موجودہ مطالعے کے اس خاص حصے کے لیے روزنتھال کی کتاب Political Thought in Medieval Islam پر اعتبار کیا ہے (ص۱۲۲-۱۵۷، ۱۷۵-۲۰۹)۔ اور ایچ کے شیروانی کی تصنیف Studies of Muslim Political Thought and Administration، شائع کردہ شیخ محمد اشرف، ص۵۸-۸۶،۱۳۵-۱۶۷،۱۶۸-۱۸۴ اور ڈاکٹر محمد حمیداللہ کی تصنیف انٹروڈکشن ٹو اسلام،ص۱۰۵-۱۱۹۔ ۵۳- مقدمہ ابن خلدون، اب اس کا اُردو ترجمہ بھی دستیاب ہے اور انگریزی ترجمہ بھی از ارون آئی جے روزنتھال۔ ۵۴- شاہ ولی اللہ، حجۃ اللّہ البالغۃ، اُردو ترجمہ: مولانا عبدالرحیم، ایڈیشن۱۹۶۲، جلد دوم،ص۶۰۷۔ ظ…ظظ…ظ باب دوم ہندوستان میں مسلم مقتدر ریاست اِس باب میں جن چند مباحث سے گفتگو ہوگی، اُن کا تعلق ہندوستان کے مسلم حکمرانوں سے ہے۔ اُن کے اقتدارِ اعلیٰ کی نوعیت کیا تھی اور قانونی جواز کا ماخذ کیا تھا؟ اقتدار ایک حکمران سے اُس کے جانشین یا ایک خاندان سے دوسرے خاندان کی طرف کیونکر منتقل ہوتا تھا؟ (ہندو اکثریت کے ماحول میں) خلافت یا باقی دنیائے اسلام سے مسلم ریاست کے سیاسی تعلق کی کیا نوعیت تھی؟ غیر مسلم رعایا سے کیا سلوک روا رکھا جاتا تھا؟ شریعت کا نفاذ کس حد تک کیا گیا تھا؟ اور آخر یہ کہ ہندوستان میں مسلمانوں کی مقتدر ریاست کے زوال کے اسباب کیا تھے؟ عربوں کا تسلّط ۷۱۱ء میں سندھ (بشمول ملتان) پر محمد بن قاسم کے قبضے کے بعد وادیِ سندھ کا الحاق اُموی سلطنت کے ساتھ کرلیا گیا۔ وادیِ سندھ پر حکومت عرب امرا کرتے تھے جن کا تقرر اُموی خلیفہ، اور بعدازاں عباسی خلیفہ کرتے تھے۔ جب بغداد میں عباسی خلافت کمزور ہوگئی تو سندھ پر عربوں کی گرفت بھی ڈھیلی پڑگئی۔ آٹھویں صدی کے اختتام تک وادیِ سندھ مغربی اسلام سے بھاگے ہوئے بے شمار کُفار، بالخصوص قرامطہ کی آماج گاہ بن گئی۔ اس کے بعد تو خود مختار مقامی خاندانوں کی حکمرانی کا دور شروع ہوگیا۔ جب سندھ اسلام کے دھارے میں شامل ہوا، اُس وقت اس کے باشندے ہندو یا بدھ تھے اور اُن کے مندر اور پگوڈے سندھ اور ملتان کے چپے چپے پر بنے ہوئے تھے۔ عرب فاتحین نے اُن کے مذہب یا عبادت گاہوں میں ذرا بھی مداخلت نہ کی۔ اُنھوں نے جزیے کی وصولی کے لیے برہمنوں کی خدمات حاصل کیں۔ (جزیہ مفتوحہ و محفوظہ غیر مسلموں سے حاصل کردہ محصول ہوتا ہے)۔ حکومت نے برہمنوں کو مندروں وغیرہ کی دیکھ بھال کے لیے وظائف دیے۔۱؎ انتظامیہ میں بہت سے سرکردہ ہندوؤں کو اہم اسامیوں پر مقرر کیا گیا۔ راجہ داہر کی شکست کے بعد اُس کے بعض وزرا کو اُن کے عہدوں پر برقرار رکھا گیا، جن میں ساگر، نوبہ بن ہرن اور کشک شامل ہیں۔ نوبہ بن داس اور بھدرکان کواڑور اور نیرون کے علاقوں کا امیر مقرر کیا گیا۔ برہمن آباد کے قبضے کے بعد وہاں کی عدالت میں عدل گستری کے لیے چار مقامی معززین کی ایک کمیٹی بنادی گئی۔ مفتوحہ علاقے کے بعض قلعوں کی حفاظت کے لیے برہمن کمانڈر مقرر کیے گئے جن کے ماتحت سندھی سپاہیوں کے بریگیڈ تعینات کیے گئے۔۲؎ اس خطّے کی آمدنی کے ذرائع یہ تھے: جزیہ (عام محصول جو غیر مسلموں سے لیا جاتا تھا)۔ زکوٰۃ (خیراتی محصول جو مسلمانوں سے وصول کیا جاتا تھا)، خراج (زرعی محصول جو غیر مسلموں سے لیا جاتا تھا)، غنیمت (جنگ کے مابقیٰ) اور تاجروں پر عائد کردہ درآمدی/ برآمدی محصول۔۳؎ اسلام کی جانب تبدیلی ٔمذہب زیادہ تر صوفیائے کرام کی وجہ سے ہوئی جنھوں نے اس خطے میں اپنے اپنے روحانی سلسلے قائم کردیے تھے۔ بہت سے غیرمسلموں نے اموی خلیفہ عمر بن عبدالعزیز کی دعوت پر اسلام قبول کرلیاتھا، جنھوں نے اُن کو جزیے کی ادایگی سے مستثنیٰ قرار دیے دیا تھا۔ تاریخ سندھ کے مؤلف ابوظفر ندوی کے مطابق جب عربوں نے اپنا قبضہ مستحکم کرلیا تو انھوں نے سندھ میں حنفی فقہ نافذ کی۔ عدلیہ کے لیے عرب قاضی مقرر کیے گئے، جن کی تقرری براہِ راست بغداد میں خلیفہ کے حکم سے ہوتی تھی۔۴؎ عامل (محصول وصول کرنے والے) کی تقرری بھی اِسی طریقے سے ہوتی تھی، اور وہ امیر (گورنر) کے سامنے جوابدہ ہوتے تھے۔ جس زمانے میں عربوں کا تسلّط کمزور ہونے لگا، تو مقامی آبادی شیعیت کے زیرِاثر آگئی۔ شیعی اثر براہ بلوچستان سندھ اور ملتان تک پھیل گیا تھا۔ ۸۸۳ء میں فاطمی داعی سندھ میں آکر آباد ہوگئے اور انھوں نے اسماعیلی عقائد و نظریات کی تبلیغ شروع کردی اور اس کے ساتھ ساتھ بغداد کے کمزور عباسی خلیفہ کے خلاف بغاوت منظم کرنے کا آغاز کردیا۔۵؎ اس ذہنی پس منظر میں سلطان محمود غزنوی، جو سُنّی اسلام کا دعوے دار تھا، ۱۰۰۱ء میں ملتان میں اسماعیلیوں کو شکست دینے کے بعد سندھ پر حملہ آور ہوا۔ اٹھارہویں صدی کے اختتام تک سندھ اور پنجاب سلطنت غزنویہ کے حصہ بن گئے۔ جب سلطان محمود کے جانشینوں کو اُن کے حریف غوریوں نے پیچھے ہٹایا تو وہ لاہور میں سکونت پذیر ہوگئے۔ یہ وقت شمال مغربی ہندوستان میں بڑی کشمکش کا وقت تھا۔ اسلام ایک فاتح عقیدے کی حیثیت سے ہندوستان میں داخل ہوا تھا۔ مسلمان فاتحین اور ہندو مفتوحین کے تعلقات ذرا بھی دوستانہ اور خوشگوار نہ تھے۔ اگرچہ ہندو مسلم ریاست کے سول محکموں میں ملازمت کرتے تھے، محمود غزنوی کی افواج میں ہندو بریگیڈ ہندو جنرلوں کی سرکردگی میں تعینات تھے، بعض ہندو راجاؤں کی حکمرانی تسلیم کرلی گئی تھی، اس کے باوجود ہندو مسلمانوں اور اسلام کو غیر ملکی مداخلت خیال کرتے تھے۔ ہندوؤں اور مسلمانوں کے باہمی اختلافات کا اولین تذکرہ ہمیں البیرونی (۹۷۳-۱۰۴۸ئ) کی کتاب الہند میں ملتا ہے جو ہندوستان میں محمود غزنوی کے ساتھ ۱۰۰۱ء میں آیا تھا۔ وہ لکھتا ہے: ’’ہندوؤں اور مسلمانوں میں بے تعلقی اور مغائرت کا دوسرا سبب دین کا اختلاف ہے۔ ہندو غیر دین والوں سے نفرت کرتے ہیں۔ ہندو دین میں ہم سے مکمل اختلاف و مغائرت رکھتے ہیں۔ نہ ہم کسی ایسی چیز کا اقرار کرتے ہیں جو اُن کے ہاں مانی جاتی ہے اور نہ وہ ہمارے یہاں کی کسی چیز کو تسلیم کرتے ہیں۔ اگرچہ ہندو لوگ آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ مذہبی تنازع کم کرتے ہیں اور بحث و مناظرہ کے سوا جان و مال کو نقصان نہیں پہنچاتے، لیکن غیروں کو یہ ملیچھ یعنی ناپاک کہتے ہیں، اور اِن کو ناپاک سمجھنے کی وجہ سے ان سے ملنا جلنا، شادی بیاہ کرنا، اُن کے قریب جانا یا ساتھ بیٹھنا اور ساتھ کھانا جائز نہیں سمجھتے۔ حتیٰ کہ جس چیز میں غیر قوم کو آگ یا پانی سے کام لیا گیا ہو، یعنی دو چیزوں پر زندگی کا دارومدار ہے، اُسے بھی ناپاک سمجھتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ کسی بھی طریقے سے اصلاحِ احوال کی کوئی صورت نہیں ہے، اس لیے کہ اگرچہ ناپاک چیز پاک چیز سے مل کر پاک ہوسکتی ہے، لیکن ہندوؤں میں کسی شخص کو، جو اُن کی قوم سے نہیں ہے، اور جو اُن میں داخل ہونے کی رغبت یا ہندومت کی طرف میلان رکھتا ہے، اپنے اندر داخل کرنے کی مطلق اجازت نہیں ہے، اور یہ ایسی حالت ہے جو ہر رشتے کو توڑ دیتی اور مکمل طور پر منقطع کردیتی ہے۔‘‘۶؎ بہرحال محمودغزنوی کی افواج میں مسلمانوں اور ہندوؤں کے باہمی رابطے سے ایک نئی زبان پیدا ہوئی جسے بعد میں ’’اُردو‘‘ کہا جانے لگا۔ لفظ ’’اُردو‘‘ اپنی اصل میں ترکی زبان کا لفظ ہے اور اس کے لغوی معنی ہیں لشکر یا کیمپ۔ اُردو کی ابتدائی تشکیل ۱۰۲۷ء میں شروع ہوئی جب محمود کی افواج لاہور میں تعینات تھیں۔ اُردو اپنے ابتدائی ارتقائی مرحلے میں فارسی، ترکی اور پرانی پنجابی کی مرکب تھی، لیکن ۱۱۹۳ء کے بعد جب مسلم افواج دہلی کی طرف بڑھیں تو یہ ہندی کی ایک شاخ برج بھاشا کے زیر اثر آگئی۔ دہلی میں مقیم مسلمانوں کی فوج کو ’’اُردو‘‘ (لشکر) یا اُردوئے معلی (عالیشان فوج) کہا جاتا تھا۔ جو زبان اہل لشکر بولتے تھے، اُس کا نام ’’زبان اُردوئے معلی‘‘ یعنی عالیشان فوج کی زبان تھا، لیکن بعد میں اُردو ایک باقاعدہ عوامی زبان کا نام بن گیا، اُردو دکن میں ۱۳۲۶ء میں داخل ہوئی۔۷؎ بعد کی صدیوں میں اُردو کو مسلم ثقافت کی زبان کا درجہ حاصل ہوا، اور اس نے بیسویں صدی کے دوران مسلم تحریک آزادی میں انتہائی اہم اور نمایاں کردار ادا کیا۔ جب سے الماوردی نے اپنا اسلامی نظریۂ آئین پیش کیا تھا، اُس وقت سے سُنّی مسلمانوں کا یہ عقیدہ بن گیا تھا کہ ازرُوئے شریعت عالمگیر خلافت کا قیام مسلمانوں کا مذہبی فریضہ ہے، اور مسلمانوں کی مقتدر ریاست، خواہ وہ دنیا کے کسی بھی حصّے میں ہو، صرف اُسی وقت جائز کہلائے گی، جب وہ بغداد کے عباسی خلیفہ سے سندِ جواز حاصل کرے گی۔ اس کے بعد سے ہر خودمختار سنی سلطان، خواہ اقتدار پر اُس کا دعویٰ جائز تھا یا نہیں، کوشش کرتا تھا کہ اُسے خلیفۂ بغداد سے سندِ جواز حاصل ہو۔ گیارہویں صدی میں سلطان محمود غزنوی کو عباسی خلیفہ القادر نے سندِجواز عطا کی۔ سلطان محمود کے سرکاری سکّوں پر اُس کے نام کے ساتھ خلیفہ القادر کا نام بھی مسکوک تھا، اور خطبے میں بھی اُس کے نام سے پہلے خلیفہ کا نام پڑھا جاتا تھا۔ اُس کے جانشینوں نے بھی یہ روایت پہلے غزنہ میں، اور پھر لاہور میں جاری رکھی۔ حتیٰ کہ علاء الدین جہاں سوز بھی، جس نے بعد میں غزنہ کی اینٹ سے اینٹ بجائی اور شہر کی ایک ایک عمارت کو منہدم کرکے خاک آلود کردیا، خلیفہ کی جانب سے اپنے لیے شاندار لقب عطا ہونے پر فخر کیا کرتا تھا۔ اسی طرح سلطان محمد غوری نے خلیفہ الناصر کا رُوحانی اختیار تسلیم کیا اور عوض میں ایک خطاب وصول کیا۔۸؎ تیرہویں صدی کے پہلے عشرے میں سلطنتِ غزنویہ غوریوں کے ہاتھوں میں چلی گئی۔ انھوں نے مزید فتوحات کیں اور وہ ہندوستان کے اندر مزید علاقوں میں داخل ہوتے چلے گئے۔ سلطان محمد غوری کے انتقال کے وقت پورا شمال مغربی ہندوستان، وسطی ہند اور بنگال تک پورا علاقہ سلطنتِ غوریہ میں شامل تھا۔ محمد غوری نے اپنے آزاد کردہ ترک غلام قطب الدین ایبک کو اپنے تین مفتوحہ علاقوں کا وائسرائے مقرر کیا اور ۱۲۰۶ھ میں اُس کے وارثوں نے ایبک کو ’’سلطان‘‘ کا لقب عطا کیا۔۹؎ ’’سلطان‘‘ کا لقب اصلاً خلیفہ کی جانب سے عطا ہوتا تھا، لیکن خلافتِ بغداد کے زوال کی وجہ سے ہر طاقتور، خود مختار حکمران خود ہی اپنے آپ کو ’’سلطان‘‘ سے ملقب کرلیتا تھا۔ سلطنتِ مُغلیہ سے پہلے قطب الدین ایبک ہندوستان کا پہلا سلطان تھا۔ اُس نے عباسی خلیفہ سے سندِ جواز عطا کرنے کی درخواست نہیں کی تھی۔ اُس کے اوائل عہدِ حکمرانی میں غوری سلطان کا نام ہندوستان کی مساجد میں خطبے میں پڑھا جاتا تھا اور سکّوں پر بھی کندہ تھا۱۰؎ لیکن بعد میں ایبک نے اپنا نام خطبے میں بھی پڑھوایا اور سکّوں پر بھی کندہ کرایا۔ مسلمانوں کا قانونِ وراثت پوری جزئیات کے ساتھ شریعت میں درج ہے، لیکن تخت نشینی کے لیے جانشینی کے قاعدے کلیے کے بارے میں شریعت بالکل خاموش ہے۔ تاریخِ اسلام سے تو یہ ثابت و ظاہر ہوتا ہے کہ ایک حکمران بادشاہ یا تو اپنی زندگی میں اپنا جانشین مقرر کرتا تھا یا اُس کی وفات پر جانشینی کے لیے ورثامیں جنگ ہوتی تھی۔ سلطان قطب الدین ایبک لاہور میں اچانک فوت ہوگیا۔ اُس کے امرا اور ملوک نے اُس کے متبنیٰ بیٹے آرام شاہ کو تخت پر بٹھادیا۔ آرام شاہ اتنا طاقتور نہیں تھا کہ پوری زندگی اِس عہدۂ جلیلہ کے فرائض بخوبی سرانجام دے سکتا۔ سلطان ایبک کی دو بیٹیاں، یکے بعد دیگرے ایک دوسری کی وفات پر، ناصرالدین قباچہ سے بیاہی گئیں، جبکہ تیسری بیٹی کی شادی شمس الدین التمش سے ہوئی۔ اِن ترک ملوک نے اپنی زندگیاں غلام کی حیثیت سے شروع کی تھیں اور سلطان ایبک کی سرپرستی میں اعلیٰ مراتب پر پہنچے تھے۔ طبقاتِ ناصری میں بیان کیا گیا ہے کہ سلطان ایبک کی وفات کے بعد ہندوستان کو چار حصوں میں تقسیم کیا گیا: سندھ اور ملتان کے علاقے پر قباچہ کا قبضہ ہوگیا۔ التمش نے دہلی کا علاقہ ہتھیا لیا۔ خلجی ملوک نے لکھنوتی (بنگال) میں اپنی عمل داری قائم کرلی۔ لاہور کا علاقہ ادلتے بدلتے حالات کے تحت کبھی تاج الدین یلدوز کے قبضے میں چلا گیا، کبھی قباچہ اس پر قابض و متصرف ہوگیا اور کبھی التمش۔۱۲؎ آرام شاہ کو التمش نے شکست دی اور قتل کیا۔ تختِ دہلی کے دعوے داروں کے درمیان جانشینی کی جنگیں کئی سال تک جاری رہیں، حتیٰ کہ التمش نے اپنے تمام حریفوں پر قابو پالیا (۱۲۱۲ئ)۔ قباچہ دریائے سندھ میں ڈوب مرا۔ باغی خلجی ملوک نے ہتھیار ڈال دیے اور لاہور کا علاقہ یلدوز کی شکست پر سلطنتِ دہلی میں شامل کرلیا گیا۔ شمالی ہندوستان میں التمش کے اقتدار کے مستحکم ہوتے ہی عباسی خلیفہ المستنصر کی جانب سے اُس کے سفرا اعزازات اور سلطان الہند کے لیے سندِ جواز کے ساتھ ساتھ ’’ناصر امیر المومنین‘‘ کا لقب لے کر دہلی حاضر ہوتے رہے۔ نتیجۃً شمس الدین التمش نے سلطان الہند کی حیثیت سے حکم صادر کردیا کہ عباسی خلیفہ کا نام خطبے میں پڑھا جائے اور سکّوں پر کندہ کرایا جائے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ التمش نے اپنی حکومت کے لیے خلیفہ عباسی سے سندِ جواز حاصل کرنے کے لیے خود درخواست کی تھی یا خلیفہ عباسی نے اپنی کسی ذاتی، سیاسی و سفارتی وجہ سے از خود التمش کو سلطان الہند کی حیثیت میں منظوری دی تھی؟ غالباً التمش ہی نے ہندوستان پر اپنی حکمرانی کے لیے خلیفہ کی توثیق حاصل کرنے کی تحریک کی تھی۔ خلیفہ المستنصر کی بھی خواہش تھی کہ شیعہ حکمران خوارزم شاہ سے مغلوب ہوکر خلافت کے وقار میں جو کمی آگئی تھی، اُسے بحال کیا جائے۔ ریورٹی نے لکھا ہے کہ لکھنوتی (بنگال) کے حکمران کو بھی جوازِ اقتدار کی سند وصول نہیں ہوئی تھی، لیکن اُس نے ’’سلطان‘‘ کی بجائے لقب ’’پادشاہ‘‘ استعمال کرنے کو ترجیح دی۔ بعد میں لکھنوتی کو بھی مفتوح کیا گیا اور اُسے التمش کی سلطنتِ دہلی کے ساتھ ملحق کیا گیا۔ التمش نے ہندوستان پر مسلسل چھبیس سال حکومت کی۔ اُس کی وفات پر چالیس سابقہ غلام (جن کو ’’چہلگانی‘‘ کہا جاتا ہے) جو برسراقتدار آگئے تھے، وہ بادشاہ گربن گئے۔ انھوں نے تختِ دہلی پر التمش کے بیٹے رکن الدین فیروز شاہ کو بٹھا دیا جو ایک ترک کنیز شاہ ترکان کے بطن سے تھا۔ طبقاتِ ناصری کے مؤلف منہاج الدین کے مطابق شاہ ترکان التمش کے پورے حرم کی سربراہ تھی۔ اب التمش کے انتقال کے بعد اُس نے احکام صادر کرنا شروع کردیے۔ امورِ ریاست کا اہتمام و انصرام اُس نے اپنے ہاتھ میں لے لیا، کیونکہ رُکن الدین فیروز شاہ تو بقول منہاج الدین: ’’عیش و عشرت میں پڑگیا۔ بیت المال کا پیسہ بے دریغ، انتہائی فضول طریقے سے خرچ کرنے لگا۔ تعیشات کے لیے اُس کی ہوس اور حِسّی تلذذ و تفریح کے لیے اُس کی خواہش اتنی بڑھی ہوئی تھی کہ کاروبارِ مملکت، ریاست کا نظم و نسق اور سلطنت کے امور و معاملات کا اہتمام و انتظام سب کچھ انتشار اور خلفشار سے دوچار ہوگیا۔‘‘۱۳؎ اب شاہ ترکان کے لیے حرم کی دوسری خواتین سے پرانی حسد و رقابت کا انتقام لینے کا سنہری موقع تھا جو کئی برس سے اُس کے دل میں پرورش پارہا تھا۔ اُس نے کئی آزاد جنمی عورتوں کو، جن کو التمش نے اپنے نکاح میں ڈال لیا تھا، انتہائی تذلیل کے ساتھ قتل کرادیا۔ اُس نے مرحوم سلطان کی محبوب کنیزوں کو بڑی نفرت و حقارت سے دیکھا اور توہین آمیز سلوک روا رکھا۔ شاہ ترکان نے رُکن الدین فیروز شاہ کے ساتھ مل کر التمش کے سب سے چھوٹے بیٹے قطب الدین کو، جو ایک اور کنیز کے بطن سے تھا، پہلے دونوں آنکھوں سے اندھا کردیا اور پھر موت کے گھاٹ اتاردیا۔ اُس نے رضیہ کو بھی ہلاک کرانے کی کوشش کی جو التمش کی بڑی بیگم یعنی سلطان ایبک کی سب سے بڑی بیٹی کے بطن سے تھی۔ قتل و ہلاکت کے ایسے خون ریز واقعات کے پیشِ نظر اہل دہلی نے بغاوت کرادی اور شاہی محل پر ہلّہ بول دیا۔ شاہ ترکان اور رُکن الدین فیروز شاہ کو گرفتار کیا گیا۔ بغاوت پورے ملک میں پھیل گئی اور بے شمار لوگوں کو جان کا نذرانہ دینا پڑا۔ بالآخر ترک امرا و ملوک نے رضیہ کے لیے حلف وفاداری اٹھایا اور یوں رضیہ دہلی کی سلطان بن گئی۔ اُس کے حکم پر رُکن الدین فیروز شاہ اور اُس کی ماں شاہ ترکان کو پھانسی دی گئی۔۱۴؎ سکّوں پر رضیہ کو جن القاب سے یاد کیا گیا، وہ یہ ہیں: عمدۃ النسائ، ملکۂ زمان، رضیہ سلطان‘‘ آگے بڑھنے سے پہلے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ تین اہم نکات کی مختصر صراحت کردی جائے۔ فرض کرو، شریعت پوری سختی سے نافذ کردی گئی تھی۔ تب بھی، جیسا کہ سلطان رُکن الدین فیروز شاہ کی مثال سے ثابت ہے، اس کی سزائیں وغیرہ صرف غریب غربا پر عاید کی جاتی تھیں اور برسراقتدار طبقے کو الگ رکھا جاتا تھا۔ طبقاتِ ناصری کا مصنف منہاج الدین، جسے سلطان التمش نے دہلی کا قاضی القضاۃ مقرر کیا تھا اور جو بجائے خود ممتاز اور نمایاں فقیہ تھا، سلطان رکن الدین فیروز شاہ کی زیادتیوں کا حال بیان کرتے ہوئے لکھا ہے: البتہ کہہ دینا چاہیے کہ اُس کی طبیعت ہوس رانی اور عیش و نشاط کی طرف مائل تھی۔ وہ صرف ایسے ہی مشغلوں کی طرف خاص میلان رکھتا تھا۔ اکثر خلعت اور انعام گویوں، مسخروں اور ہیجڑوں کو دیے گئے۔ مال بے جا لُٹانے کا یہ عالم تھا کہ مست و مدہوش ہوکر ہاتھی پر سوار ہوجاتا۔ شہر میں سے گزرتا اور خالص سونے کے ٹنکے دائیں بائیں پھینکتا لوگ چنتے اور اپنا اپنا حصہ لے جاتے۔۱۵؎ ایک اور اہم بات تخت کے کسی دعوے دار کی دونوں آنکھیں نکلوانے کی رسم تھی، تاکہ اُسے تخت نشینی کے حق سے محروم کردیا جائے۔ غالباً یہ طریقہ اس لیے اختیار کیا جاتا تھا کہ الماوردی نے سربراہِ ریاست کے عہدے کے لیے اُس کی جسمانی صحت کو (بشمول آنکھیں) ضروری خصوصیت اور شرط قرار دیا تھا۔ یہ طریقہ اصلاً ہندی نہیں تھا، بلکہ مسلم مشرق وسطیٰ سے درآمد ہوا تھا۔ ہندوستان میں مسلم سلاطین نے جبروتشدد کی متعدد صورتیں اختیار کی تھیں، جن میں سے ایک آدمی کو ہاتھی کے پیروں تلے روندنا بھی تھا۔ ایک بات طے ہے کہ ایسی سزاؤں اور تعزیروں کی اجازت و منظوری شریعت نے نہیں دی تھی۔ تیسرا اہم اور قابلِ ذکر نکتہ التمش کی دختر رضیہ کو، ترک امرا و ملوک کی جانب سے سلطان الہند مقرر کرنا اور اُس کے لیے حلف وفاداری اٹھانا ہے۔ منہاج الدین نے رضیہ کی تقرری کو اس لیے بھی جائز قرار دیا ہے کہ رضیہ نے اپنے باپ التمش کی زندگی ہی میں حاکمیت کا اختیار استعمال کیا تھا۔ التمش نے ایک حکم کے ذریعے اُسے اپنا وارث ولی عہد مقرر کیا تھا۔ منہاج الدین نے طبقاتِ ناصری میں لکھا ہے: فتح گوالیار کے بعد سلطان شمس الدین دہلی آیا تو حکم دے دیا کہ سلطان رضیہ کے لیے ولی عہدی کی سند لکھی جائے۔ جب یہ تحریر مرتب ہورہی تھی تو سلطنت کے جن کارکنوں کو درجۂ قُرب حاصل تھا، انھوں نے عرض کیا کہ جوان بیٹوں کے ہوتے ہوئے، جو حکمرانی کے قابل ہیں، بادشاہ اسلام نے بیٹی کو ولی عہد بنایا۔ اس میں کیا حکمت ہے اور بادشاہ کی نظر کس مقصد پر جمی ہوئی ہے؟ نیازمندوں کو تو یہ معاملہ ٹھیک معلوم نہیں ہوتا۔ یہ پیچیدگی ہمارے دل سے دور کیجیے۔ سلطان نے فرمایا: ’’میرے بیٹے عیش و عشرت اور جوانی کی رنگ رلیوں میں مشغول ہیں۔ اِن میں سے کوئی بھی ملک داری نہیں کرسکتا اور وہ سلطنت کو سنبھال نہ سکیں گے۔ میرے مرنے کے بعد تم لوگوں پر روشن ہوجائے گا کہ اِس بیٹی سے بڑھ کر ولی عہدی کے لائق کوئی نہ تھا۔‘‘ منہاج الدین نے آخر میں اپنی رائے کا اظہار یوں کیا ہے: ’’سچ یہ ہے کہ حقیقتِ حال وہی تھی جو اِس بادشاہ سعید و دانشمند نے واضح فرمادی تھی۔‘‘۱۶؎ مسلمان فقہا کی اکثریت کی رائے ہے کہ اسلام میں عورت کو سربراہِ ریاست مقرر نہیں کیا جاسکتا۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ قرآن نے اس کی اجازت دیتے ہوئے دانا ملکہ سبا بلقیس کی مثال دی ہے جس نے حضرت سلیمانعلیہ السلام کے ہاتھوں اسلام قبول کیا تھا (حوالہ: سورۃ نمل:۴۴) اور بعدازاں اُس کی سلطنت میں اُس کی حکمرانی کی توثیق کردی گئی تھی۔ فقہا کا اعتراض آنحضورؐ سے منسوب ایک حدیث پر مبنی ہے۔ جب شاہ ایران خسروپرویز کی بیٹی پوران دخت، اپنے باپ کی جانشین کی حیثیت سے ایران کے تخت پر بیٹھی تو کہا جاتا ہے کہ آنحضورؐ نے اس پر تبصرہ آرائی کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ جو قوم اپنا سربراہ عورت کو بناتی ہے، وہ باقی نہیں رہ سکتی۔ بعض علما، جن میں ڈاکٹر حمیداللہ شامل ہیں، یہ رائے دیتے ہیں کہ آنحضورؐ کا یہ تبصرہ اُس وقت کے ایران کے خاص مروجہ سیاسی حالات پر تھا۔ یہ دلیل بلاشبہ مستحکم اور دل لگتی ہے، اگر یہ حدیث مستند و معتبر یا عالمگیر اہمیت کی ہوتی تو نہ طلحہؓ اور زبیرؓ رسولِ کریمؐ کی زوجہ حضرت عائشہ صدیقہؓ کو خلیفہ حضرت علیؓ کے خلاف جنگ کی ترغیب دیتے اور نہ خود حضرت عائشہ صدیقہؓ ہی جنگِ جمل میں اُن کی قیادت کے لیے رضامند ہوتیں۔ حقیقت یہ ہے کہ دہلی میں اُس وقت علما، سیّد، شیوخ اور صوفی سبھی اہل الرائے موجود تھے لیکن کسی نے بھی التمش کی جانب سے اپنی بیٹی رضیہ کو اپنا جانشین مقرر کرنے پر شرعی اعتراض نہ کیا۔ رضیہ سلطان مردانہ لباس پہنتی تھی۔ عوام میں آتی تھی اور اپنے جنگجویانہ مزاج کے باعث اپنے حریف ترک ملوک سے جنگ کرتی تھی۔ وہ اُنھیں مطیع کرنے اور اپنی سلطنت کی توسیع کرنے میں کامیاب رہی۔ ایبی سینیا کے سیاہ رُو حبشی امیرجمال الدین یاقوت کی جانب اُس کی ضرورت سے زیادہ ہمدردانہ توجہ اور مراعات سے گندمی رنگت کے ترک ملوک اُس سے حسد کرتے تھے۔ چنانچہ انھوں نے رضیہ کے خلاف سازش کی۔ یاقوت کو بہانے سے گرفتار کیا اور ہلاک کردیا۔ رضیہ سلطان کو بھی گرفتار کرکے، دہلی سے کچھ فاصلے پر، بھٹنڈہ قلعے کے قید خانے میں ڈال دیا۔ بھٹنڈہ میں رضیہ نے ملک اختیار الدین التونیہ کی شادی کی تجویز قبول کی اور اُس سے نکاح کرلیا۔ بعدازاں اُنھوں نے اپنی سلطنت کی بحالی کے لیے، ایک لشکر ترتیب دے کر، دہلی کی طرف کوچ کیا۔ دریں اثنا ترک مملوک نے سلطان التمش مرحوم کے ایک اور فرزند معزالدین بہرام شاہ کو تختِ دہلی پر بٹھا دیا تھا۔ دہلی کے نواح میں دونوں لشکروں کے درمیان جنگ ہوئی۔ معزالدین بہرام شاہ کی فوج نے انھیں شکست دی۔ رضیہ سلطان اور ملک التونیہ کے لشکریوں نے اُن کا ساتھ چھوڑ دیا۔ میدانِ جنگ سے فرار ہوتے وقت وہ دونوں ہندوؤں کے ہتھے چڑھ گئے، جنھوں نے اُن کو ہلاک کردیا۔ سلطان معزالدین بہرام شاہ نے چالیس بادشاہ گروں یعنی ’’چہلگانی‘‘ سے چھٹکارا پانے کی کوشش کی، لیکن یہ ترک امرا بہت طاقتور تھے۔ سلطان اُن کو نہ ہٹا سکا۔ بلکہ انھوں نے سلطان کے خلاف سازش کی۔ کامیاب ہوئے اور دہلی پر قابض ہوگئے۔ سلطان گرفتار ہوا اور بعدازاں قتل ہوا۔ تب ترک ملوک نے سلطان رُکن الدین فیروز شاہ کے بیٹے علاء الدین مسعود شاہ کو تخت پر بٹھادیا۔ التمش کے اس پوتے کی حکمرانی تقریباً چار سال رہی۔ اُس کے عہد میں سکّوں پر عباسی خلیفہ المستعصِم کا نام کندہ ہوتا رہا اور یہ سلسلہ ۱۲۵۸ء میں منگولوں کے ہاتھوں اُس کے قتل کے بعد بھی جاری رہا۔ سلطان علاء الدین مسعود شاہ نے بھی اپنے پیش روؤں کی مانند مسلّح فوج کو اپنے کنٹرول میں لانے کی کوشش کی، یاتو طاقتور ملوک کو باہم تقسیم کرکے اور اُن میں پھوٹ ڈال کر، یا انھیں گرفتار کرکے قتل کراکر، لیکن وہ کچھ بھی نہ کرسکا۔ ناکام رہا۔ طبقاتِ ناصری کے مؤلف کے بقول: ’’لشکر کشی کے دوران میں بعض بے سروپا لوگ خفیہ خفیہ سلطان کی خدمت میں راہ پاگئے اور اُسے ناپسندیدہ حرکات کی ترغیب دی۔ چنانچہ اُس کے دل میں بڑے بڑے سرداروں کے قتل یا اسیری کا خیال پیدا ہوا اور وہ اس خیال پر پختہ ہوگیا۔ اُس کی قابلِ تعریف طبیعت پسندیدہ خصائل سے ہٹ گئی اور وہ کھیل تماشے، عیش و عشرت اور شکار کی طرف مائل ہوگیا اور یہ میلان حد سے بڑھ گیا۔‘‘۱۷؎ طاقتور امیروں اور سرداروں نے آپس میں اتفاق کرکے اُسے محل میں قید کرکے قتل کرادیا۔ علاء الدین مسعود شاہ کی جگہ التمش کا واحد اور آخری زندہ فرزند ناصرالدین محمود شاہ تخت نشین ہوا۔ اُس کی حکمرانی التمش کے کسی دوسرے جانشین کے مقابلے میں طویل تر مدّت تک جاری رہی۔ اوّل تو اس وجہ سے کہ اُس کے سخت گیر خُسر ملک غیاث الدین بلبن نے اُس کے ’’وزیر‘‘ کی حیثیت سے امورِ ریاست کا انتظام خوش اسلوبی سے چلایا۔ دوم اس وجہ سے کہ بلبن خود بھی ’’چہلگانی‘‘ کا رُکن تھا۔ وہ اس بادشاہ گر گروپ کی طاقت مکمل طور پر تباہ کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ سلطان ناصرالدین محمود شاہ کے عہد کے دوران منگولوں نے بغداد کو تباہ و برباد کردیا اور خلیفہ المستعصِم کو بے رحمی سے قتل کردیا۔ لیکن اُس کے پورے عہد (۱۲۴۶-۱۲۶۵ئ)، پھر اُس کے جانشینوں غیاث الدین بلبن (۱۲۶۶-۱۲۸۷ئ) اور معزالدین کیقباد(۱۲۸۷-۱۲۸۸ئ) کے عہد میں خلیفہ المستعصِم کا نام سکّوں پر بھی کُندہ کرایا جاتا رہا اور خطبے میں بھی باقاعدگی سے پڑھا گیا۔۱۸؎ اس بات کے شواہد موجود نہیں ہیں کہ کسی بھی عباسی خلیفہ نے التمش یا غیاث الدین بلبن کے کسی جانشین کو سلطان الہند کی حیثیت سے سندِ جواز عطا کی ہو۔ خلیفہ المستعصِم کو منگولوں نے جنوری۱۲۵۸ء میں قتل کیا تھا۔ فرشتہ کے مطابق ہلاکو خان نے اپنا سفیر دو ماہ بعد مارچ۱۲۵۸ء میں دہلی بھیجا تھا اور سلطان ناصرالدین محمود شاہ نے انتہائی عزت و تکریم سے اُس کا استقبال کیا تھا۔۱۹؎ المستعصِم کے قتل کے تین سال بعد ۱۲۶۱ء میں قاہرہ میں عباسی خلافت دوبارہ قائم ہوگئی تھی، لیکن المستعصِم کی وفات کے چالیس سال بعد تک مسلم انڈیا میں اُس کا نام مساجد میں خطبوں میں پڑھا جاتا رہا اور سکّوں میں بھی کندہ ہوتا رہا۔ ای تھامس نے لکھا ہے کہ خطبوں اور سکّوں میں المستعصم کا نام لینے کی رسم عارضی طور پر رُکن الدین ابراہیم خلجی کے عہد میں موقوف ہوئی تھی۔۲۰؎ ہندوستان میں یہ رسم اتنی طویل مدت تک کیوں جاری رہی؟ طبقاتِ ناصری کے مؤلف کے مطابق ’’اُس وقت تک کے لیے جاری رکھی گئی جب تک کوئی اہل اور موزوں خلیفہ یہ منصب دوبارہ سنبھالے۔‘‘۲۱؎ سلطان غیاث الدین بلبن کے عہد میں عباسی خلیفہ (قاہرہ) کے بارے میں کچھ سننے میں نہیں آیا، البتہ فرشتہ نے اپنی تاریخ میں ’’دربار میں خلیفہ کی نسل کے دو شہزادوں کی موجودگی کا ذکر کیا ہے۔‘‘۲۲؎ منگولوں نے دنیائے اسلام کو تَہ و بالا کرنے کے لیے زبردست تحریک کا آغاز کردیا تھا۔ ایک طرف تو وہ بغداد میں آکر جم کر بیٹھ گئے۔ دوسری طرف انھوں نے سلاطین مصر کے خلاف جنگ چھیڑ دی۔ تیسری طرف سلاطینِ ہند پر پے در پے حملوں کا سلسلہ شروع کردیا۔ پروفیسر عزیز احمد کی رائے میں غیاث الدین بلبن نے دربار میں کئی اختراعات، مثلاً سجدۂ تعظیمی ایجاد کرکے سلطان الہند کے رُتبے کو شوکت و جلالت دے دی تھی۔ اس سے پروفیسر صاحب یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ غیاث الدین بلبن اپنی اِن اختراعات کے ذریعے ایک پختہ کار بادشاہ کی مانند، اپنے ’’حقِ نیابتِ الٰہی‘‘ کی بنیاد پر سلطان کا اقتدارِ اعلیٰ منوانے کی کوشش کررہا تھا، کیونکہ اُس وقت نبی کریمؐ کی صحیح جانشینی کے تسلسل کا کوئی وارث خلیفہ نہ تھا، جس سے سلطان الہند اپنی سلطنت کے لیے سندِجواز حاصل کرتا۔۲۳؎ یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ چودہویں اور پندرہویں صدی میں، جب منگول حکمرانوں نے اسلام قبول کیا، مشرقی اسلام کی سلطنت میں ایک نئی مذہبی تحریک پیدا ہوئی۔ سنّی فقہا نے یہ نظریہ پیش کیا کہ سلطنت یا تو طاقت کے بل پر قائم کی گئی یا ’’اللہ کے فضل وکرم‘‘ سے قائم ہوئی۔ اِس نظریے کے مطابق ۶۶۱ء کے بعد سے اسلام میں ریاست طاقت یاقوت کے بل پر قائم کی گئی۔ چنانچہ اُموی اور نیز عباسی خلفاطاقت کے بل پر حکمرانی کرتے رہے۔ جبکہ چار خلفائے راشدین جو نبی کریمؐکے سچے جانشین تھے، ازروئے شریعت حقیقی خلیفہ تھے۔ یہ بات مشکوک معلوم ہوتی ہے کہ سلطان بلبن نے اپنے دربار میں اختراعات، مذکورہ بالا نظریے کی بنیاد پر، اپنا اقتدارِ اعلیٰ منوانے کی خاطر کی تھیں۔ غالباً مذکورہ نظریہ بلبن کے عہد میں وضع بھی نہیں ہوا تھا۔ تاہم شیر شاہ سُوری (۱۵۳۸-۱۵۵۵ئ) کے سکّوں پر چاروں خلفائے راشدین کے نام مسکوک تھے۲۴؎ اور ہم عصر عالمگیر خلافت کا حوالہ تک موجود نہ تھا، جو اُس وقت تک قسطنطنیہ میں عثمانیوں میں منتقل ہوچکی تھی۔ تھامس ڈبلیو آرنلڈ نے اِس رائے کا اظہار کیا ہے کہ سلاطین کو خلافت کی تقدیر سے کوئی سروکار نہ تھا، اور اگر خلیفہ المستعصِم کا نام اُس کی وفات کے چالیس برس بعد تک خطبے اور سکّوں میں برقرار رکھا گیا، تو یہ محض ایک مسلّمہ روایت کی پاسداری تھی۔۲۵؎ جیسا کہ اوپر بیان ہوا، سقوطِ بغداد کے ساتھ ہی منگولوں نے دنیائے اسلام میں سازشوں اور حملوں کا جال پھیلا دیا تھا۔ بہرحال مغربی اسلام چونکہ سراسر مسلمانوں پر مشتمل تھا، لہٰذا وہ منگولوں کے حملے لوٹانے میں کامیاب رہا۔ مشرقی اسلام، بالخصوص مسلم انڈیا مسلسل منگولوں کے توسیع پسندانہ عزائم کی زد میں تھا۔ بے شک منگولوں کو تو روک لیا گیا تھا، لیکن ہندوستان میں ابتدائی مسلم سلطنت دشمنانہ ہندو ماحول میں غیر محفوظ اور دنیائے اسلام سے الگ تھلگ ہوکر رہ گئی۔ اس کے نتیجے میں ہندوستان کی مسلم ریاست نے اگر عالمگیر خلافت کے ساتھ سرحد پار، غیر معمولی وفاداری کا دم بھرا تو اس کا ایک ہی مطلب تھا کہ دنیائے اسلام سے مضبوط رُوحانی تعلق اُستوار کیا جائے۔ اس تعلق اور رابطے سے تحفظ کا احساس ہوا۔ غالباً اسی احساسِ تحفظ کی وجہ سے خلیفہ المستعصِم کا نام اُس کی وفات کے چالیس برس بعد تک سکّوں اور خطبے میں استعمال کیا جاتا رہا۔ اگر اِس بات کو ایک صحیح اور جائز وجہ سمجھا جائے تو پھر کیا وجہ ہے کہ قاہرہ کی بحال شدہ عباسی خلافت کو ہندوستان میں تسلیم نہیں کیا گیا؟ خلافت کی بحالی اعتراضات سے خالی نہیں تھی، کیونکہ بعض فقہا، مثلاً مکّہ کے فقیہ قطب الدین کی یہ سوچی سمجھی رائے تھی کہ خلافت آخری عباسی خلیفۂ بغداد المستعصِم کی وفات کے ساتھ ہی ختم ہوگئی تھی۔ اگر یہ رائے تسلیم کرلی جائے تو طبقاتِ ناصری کے مؤلف کی یہ رائے بھی قابلِ قبول معلوم ہوتی ہے کہ مسلم انڈیا میں خلیفہ کا نام خطبے اور سکّوں میں جاری رکھنے کی رسم اُس وقت تک کے لیے اختیار کی گئی تھی جب تک کوئی اہل اور موزوں خلیفہ بحال ہوکر سامنے نہ آجائے۔ اِس رائے کو مزید تقویت اس بات سے پہنچتی ہے کہ اگلی صدی میں زاہدی اور جلال الدین سیوطی جیسے عظیم فقہا نے قاہرہ کی خلافتِ عباسیہ کی تعریف و تحسین کی اور فتویٰ دیا کہ ایک ایسے سلطان کی حاکمیت، جسے قاہرہ کے خلیفہ کی جانب سے سندِ جواز حاصل نہ ہو، صرف یہی نہیں کہ وہ ازرُوئے شریعت غیرقانونی ہے، بلکہ سلطان کو قاضی مقرر کرنے کا اختیار بھی نہیں ہے، اور اگر وہ قاضی مقرر کرے گا تو شریعت کی رُو سے اُس کی سلطنت میں ہونے والی تمام شادیاں ناجائز ہوں گی۔ اس پس منظر میں، جیسا کہ ہم آگے چل کر دیکھیں گے، سلطان محمد تغلق (۱۳۲۵-۱۳۵۱ئ) نے قاہرہ کے عباسی خلیفہ سے سندِ جواز حاصل کی۔ تاہم مسلم انڈیا میں سلطان ناصرالدین محمود شاہ اور غیاث الدین بلبن کے عہد میں، جو لگ بھگ چالیس سال پر محیط تھا، بہت اچھا نظمِ حکومت رہا تھا جس کی وجہ سے سلطنت میں امن و سکون کا دور دورہ رہا۔ سلطان ناصرالدین محمود شاہ ایک متّقی اور باضمیر مسلمان تھا۔ غیاث الدین بلبن ضیائالدین برنی کے مطابق، شہزادگی میں شراب خوری اور قماربازی کا بہت شوقین تھا، لیکن سلطان کا منصب سنبھالنے کے بعد اُس نے یہ عادات ترک کردیں اور ایک اچھا عملی مسلمان بن گیا۔۲۶؎ تاہم اُس نے اپنے خطرناک حریفوں کو تباہ کرنے میں کبھی جھجک سے کام نہیں لیا۔ مثال کے طور پر اُس نے چہلگانی کے ارکان کو اُن کی شراب میں چپکے سے زہر ملاکر ہمیشہ کی نیند سُلا دیا۔۲۷؎ سلطان بلبن کی وفات کے بعد ہر چیز منتشر ہوگئی۔ اُس نے اپنے بڑے بیٹے محمد (جو منگولوں کے خلاف ایک معرکے میں شہید ہوگیا تھا) کے بیٹے یعنی اپنے پوتے کیکاؤس کو اپنا جانشین مقرر کیا تھا۔ اُس کے حریف ملوک نے سازش کرکے بلبن کے چھوٹے بیٹے بغراخان کے فرزند کیقباد کو تخت پر بٹھا دیا، جس نے دھوکا دے کر اپنے چچا زاد کیکاؤس کو قتل کرادیا۔ سلطان معزالدین کیقباد سترہ اٹھارہ برس کی عمر میں تخت نشین ہوا۔ خوب صورت لونڈوں اور حسین و جمیل لڑکیوں کی صحبت میں پڑے رہنا اُس کی فطرتِ ثانیہ تھی۔ اُس کی شخصیت جنسی تلذذ اور عیش پرستی کے لیے وقف ہوکر رہ گئی تھی، یہاں تک کہ کثرتِ شراب نوشی اور جنسی تعلقات کی وجہ سے وہ بیمار پڑگیا۔ جب وہ لقوے اور فالج کے مرض میں مبتلا زیرِ علاج تھا، ترک امرا نے موقع غنیمت جان کر اُس کے نابالغ بیٹے شمس الدین کو تختِ دہلی پر بٹھا دیا۔ دریں اثنا پوری سلطنت میں جگہ جگہ بغاوتیں پھوٹ پڑیں۔ اقتدار کی اِس کشمکش میں ایک دوسرے کے حریف ترک ملوک آپس میں لڑنے مارنے لگے اور ایک دوسرے کو قتل کرنے لگے۔ جن لوگوں کو قتل کیا جانا مقصود تھا، اُن میں ملک جلال الدین خلجی بھی شامل تھا، لیکن عین موقع پر اُس کے محافظوں نے اُسے بچالیا۔ کچھ قاتل سلطان معزالدین کیقباد کو قتل کرنے کے لیے بھیجے گئے، جو ویسے بھی مرض الموت میں مبتلا تھا۔ انھوں نے اُسے ایک بوری میں لپیٹا اور لاتیں مارمارکر ہلاک کردیا۔ پھر انھوں نے اُس کی نعش کو دریائے جمنا میں بہادیا۔ یوں التمش اور بلبن کے حکمران خاندانوں کا خاتمہ ہوا۔۲۸؎ ملک جلال الدین خلجی نے طاقت مجتمع کی اور خاصی بڑی عمر میں سلطان الہند بن گیا۔ مؤرخ ضیاء الدین برنی کے مطابق وہ بڑا رحم دل اور نیک آدمی تھا۔ ایک موقع پر جب اُس کے دشمن گرفتار ہوکراُس کے روبروپیش ہوئے تو اُس نے اُن کی رہائی کا حکم صادر کیا اور انھیں شاہی محل میں اپنے ساتھ شراب نوشی کی محفل میں شرکت کی دعوت دی، اور یوں جن باغیوں کو موت کے گھاٹ اتارنا چاہیے تھا، انھیں معاف کردیا گیا۔ ضیاالدین برنی نے اپنی تاریخ میں یہ واقعہ بیان کرنے کے بعد لکھا ہے کہ جب سلطان کے قریبی رفقا نے سلطان کی اس کارروائی پر تنقید کی تو سلطان نے جواب دیا: ’’میں انتہائی سخت اور پابند اسلامی ماحول میں زندگی گزار کر اب ضعیف العمری کو پہنچا ہوں۔ میں مسلمانوں کو قتل کرنے کی عادت میں مبتلا نہیں ہوں۔ اس وقت میری عمر ستّر سال کی ہے اور میں نے اپنی پوری زندگی میں ایک بھی مسلمان کو شہید نہیں کیا۔ آپ مجھ سے یہ توقع کیوں رکھتے ہیں کہ میں شریعت اور اسلامی احکام کو نظرانداز کردوں گا اور محض اس مختصر سی عارضی حکمرانی کو مضبوط بنانے کی خاطر مسلمانوں کے گلے کٹواؤں گا۔‘‘۲۹؎ منگولوں پر اپنی فتوحات کے بعد سلطان جلال الدین خلجی نے حکم صادر کیا کہ خطبے میں اُس کے نام کے ساتھ ’’مجاہد فی سبیل اللہ‘‘ کے الفاظ پڑھے جایا کریں۔ وہ باقاعدگی سے شراب نوشی کی محفلیں منعقد کیا کرتا تھا جس میں دوستوں اور دشمنوں کو مدعو کیا جاتا تھا۔ شاعر امیر خسرو کا عاشق تھا جو روزانہ اُسے اپنے کلام سنایا کرتاتھا۔ اُس کے دل پسند ساقی چند لڑکے تھے جن کے رہنما ہیبت خان کے دو خوب صورت بیٹے تھے۔ اُس کا محبوب سازندہ محمد شاہ، مغنیہ فتوحہ فقائی کی بیٹی اور رقاصہ دو انتہائی خوب صورت لڑکیاں نصرت خاتون اور مہرافروز تھیں۔۳۰؎ تاریخ فیروز شاہی میں سلطان جلال الدین خلجی کی شریعت کی ’’تکریم‘‘ کا ایک دلچسپ واقعہ بیان ہوا ہے۔اُس کے عہد میں ایک صوفی درویش سیّدی مولا کو اُس کے مریدوں سمیت، بغاوت کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔ صحرائے بہادر پور میں ایک آتشِ عظیم جلائی گئی، جس کے شعلے آسمان تک پہنچتے تھے، اور سیّدی مولا ااور اُس کے رفقا سے کہا گیا کہ اس آتش کے اندر چلو۔ اگر تمھارا بیان سچ ہے تو تمھیں کوئی گزند نہیں پہنچے گا، اور اگر تمھارا بیان غلط ہے تو تمھیں جُرم کی سزا ملے گی۔ لیکن علما نے اس طریقے کی مخالفت کی اور کہا کہ آگ بالطبع ایک جلانے والی چیز ہے۔ راست گو اور دروغ گو دونوں کو یکساں جلائے گی۔ یہ امر شریعت محمدیہؐ کے قطعاً خلاف ہے کہ آتش سوزندہ کے ساتھ مقدمات فیصل کیے جائیں۔ اس پر بادشاہ اس فیصلے سے باز آیا اور خود سیّدی مولا کی طرف متوجہ ہوا۔ بادشاہ نے اُس سے کئی سوال کیے اور اُس نے اُن کے جواب دیے کہ اتنے میں بادشاہ نے شیخ ابوبکر طُوسی حیدری سے، جو قلندرانِ حیدری کا سرگروہ تھا، کہا: ’’اے درویشاں دادِ من ازیں ظالم بستانید۔‘‘ اس پر ایک قلندر اُٹھا اور اُس نے سیّدی مولا پر کئی وار کرکے اُسے مجروح کردیا۔ بادشاہ سیّدی مولا کے قتل کے بارے میں متامل تھا کہ اتنے میں اُس کے دوسرے بیٹے ارکلی خان نے اپنے فیل بان کو حکم دیا کہ سیّدی مولا پر ہاتھی دوڑا کر اس کا کام تمام کردو۔ چنانچہ اس طرح سیّدی مولا کا خاتمہ ہوا۔ ضیاء الدین برنی جو اُس روز دہلی میں تھا، کہتا ہے کہ اس واقعے کے بعد ایک سیاہ آندھی اُٹھی جس سے تمام جہان تیرہ و تار ہوگیا اور سیّدی مولا کے قتل کے بعد جلال الدین اور اُس کاکنبہ تباہ ہوگیا۔ سلطان کو اُس کے بھتیجے اور داماد علائوالدین خلجی نے دھوکے سے قتل کردیا۔ اُس کے دوبیٹے ارکلی خان اور رُکن الدین ابراہیم اور اُن کی والدہ گرفتار ہوئے۔ ملکہ جہان کو اُس کے گھر میں محبوس کردیا گیا اور علاء الدین خلجی کے حکم سے سلطان کے دونوں بیٹوں کی آنکھیں نکلواکر، اندھا کردیا گیا۔۳۱؎ اب علاء الدین خلجی خود بخود سلطان بن گیا(۱۲۹۵ئ)، کیونکہ کوئی بھی اُس کی حاکمیت کو چیلنج کرنے والا زندہ نہ بچا تھا۔ ضیاء الدین برنی نے لکھا ہے کہ اُس کے عہد میں عورتوں اور بچوں اور جرائم کے ملزمین کی بلاضمانت گرفتاری کا طریقہ شروع ہوا۔ برنی نے مزید لکھا ہے کہ سلطان کا مقرّبِ خاص اور وزیر نصرت خان ایک قدم آگے نکل گیا۔ اُس نے حکم صادر کیا کہ جن لوگوں نے عام بغاوت کے دوران اُس کے بھائی کے خلاف جنگ میں حصہ لیا تھا، اُن سب کی بیویوں اور بیٹیوں کو گرفتار کرکے بھنگیوں کے سپرد کردیا جائے، تاکہ وہ اُن کی اجتماعی آبرو ریزی کریں۔ اُس نے یہ حکم بھی دیا تھا کہ اُن کے بچوں کے اُن کی ماؤں کے سامنے ٹکڑے کیے جائیں۔۳۲؎ شراب خوری کی محفل میں سلطان علاء الدین خلجی اکثر کہا کرتا تھا کہ وہ ایک نیامذہب ایجاد کرنا چاہتا ہے۔ اُس نے ’’دستِ راست خلافت‘‘ کا لقب اختیار کیا اور ’’سکندرثانی‘‘ اپنے نام کے ساتھ سکّوں پر کندہ کرایا۔ اُس نے حکم صادر کیا کہ یہ دونوں القاب اُس کے نام کے ساتھ بڑھا دیے جائیں اور خطبے میں بھی پڑھے جائیں۔۳۳؎ سلطان علاء الدین خلجی شریعت پر اپنے احکام کو بالادست قرار دیتا تھا۔ اُس کی پالیسی اس بات سے طے پاتی تھی کہ وہ ریاست کے لیے کس چیز کو مفید سمجھتا ہے۔ وہ اس بات کی پروا نہیں کرتا تھا کہ اُس کی پالیسی شریعت کی رُو سے غلط ہے یا صحیح۔ مثال کے طور پر اُس نے شراب ترک کردی تھی اور ملک میں شراب سازی اور شراب نوشی ممنوع قرار دے دی تھی، اس لیے نہیں کہ شریعت کی رُو سے اس کی ممانعت ہے، بلکہ اس لیے کہ اُس کے خیال میں حریف ترک امرا و ملوک کی بغاوتوں کو کچلنے کے لیے مختلف تدابیر میں سے ایک ممانعتِ شراب بھی تھی۔ ضیاء الدین برنی لکھتا ہے کہ سلطان غیر تعلیم یافتہ، جاہل اور بدمزاج تھا۔ وہ کبھی علما کی صحبت میں نہیں بیٹھا تھا اور علما بھی اُس کے پاس جانے سے احتراز کرتے تھے۔ امورِ ریاست سے متعلق کسی شرعی مسئلے پر وہ علما سے شاذ ہی مشورہ کرتا تھا۔ فرشتہ کے مطابق، سلطان کہا کرتا تھا: ’’مذہب کا سول حکومت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ مذہب تو نجی زندگی کا کاروبار بلکہ ایک طرح کی ذہنی تفریح ہے۔ ایک دانا شہزادے کی مستحکم رائے آدمیوں کی انجمنوں کی مختلف النوع آرا سے افضل ہے۔‘‘۳۵؎ سلطان نے شریعت کی تعزیرات نافذ کرنے کی بجائے، بعض جرائم کے لیے انسان کی وضع کردہ سزائیں مقرر کررکھی تھیں۔ مثال کے طور پر، اگر کوئی شخص زنا کا ارتکاب کرتا ہے تو اُس کے قانون کے مطابق اُس کا عضو تناسل قطع کردیا جاتا تھا۔۳۶؎ اُس نے مختلف اشیا کو مختلف زمروں میں تقسیم کرکے اُن کی قیمتیں مقرر کی تھیں، مثلاً غلّہ، مواشی، گھوڑے، پارچات، غلام اور کنیزیں۔ تاریخ فرشتہ میں لکھا ہے کہ ’’سلطان نے حتیٰ کہ طوائفوں کو بھی، اُن کے حُسن اور گائیکی میں اُن کے ہُنر اور دوسری خدمات کی بنیاد پر، تین زمروں میں تقسیم کیا تھا اور ہر زمرے کی قیمت مقرر کی تھی۔۳۷؎ ایک کنیزکی کناری اور خوب صورت لڑکے کی قیمت بیس تا چالیس ٹنکے مقرر تھی۔۳۸؎ طاقتور فاتح سلطان علاء الدین خلجی کا انجام بہت المناک اور عبرت ناک ہوا۔ آخری ایام میں، جبکہ وہ شدید علیل تھا، ایک مخنّث ملک نائب سے اُس کی دل بستگی ہوگئی، جس نے واقعتا سلطنت پر اپنی حکمرانی شروع کردی تھی۔ ایک روز سلطان اپنی علالت کے باعث بے ہوشی کی حالت میں تھا کہ اُس مخنّث نے اُس کا گلاگھونٹ کر ہلاک کردیا۔۳۹؎ سلطان علاء الدین خلجی کے بعد اُس کے قاتل مخنّث نے اُس کے سب سے چھوٹے پانچ سالہ بیٹے شہاب الدین کو تخت پر بٹھادیا۔ سلطان کے بڑے بیٹے خضر خان اور شادی خان جو اپنے مرحوم باپ کے حکم کے تحت پہلے ہی قید خانے میں سزا بھگت رہے تھے، مخنّث کے حکم پر اب دونوں کی آنکھیں بھی نکلوادیں گئیں۔ تاہم سلطان کی وفات کے پینتیس دن کے بعد ملک نائب مخنّث کو بھی شاہی محل کے کمرۂ استراحت میں اُس کے چار محافظوں نے قتل کردیا۔ ان محافظوں نے سلطان خلجی کے ایک اور بیٹے قطب الدین مبارک شاہ کو تخت پر بٹھادیا۔ اُسے بھی مخنّث نے قید خانے میں ڈال رکھا تھا، لیکن اُس کی خوش قسمتی کہ اُسے اندھا نہیں کیا گیا تھا۔ قطب الدین مبارک شاہ نے اپنے پانچ سالہ بھائی شہاب الدین کو معزول کرکے اُسے گوالیار بھیج دیا، جہاں اُسے بینائی سے محروم کردیا گیا (شہاب الدین اور اُس کے دونوں بڑے بھائیوں خضرخان اور شادی خان کو بھی اُن کے بھائی سلطان قطب الدین مبارک شاہ کے حکم پر قتل کردیاگیا)۔ اس کے بعد اُس نے اُن چار محافظوں کو گرفتار کیا، جنھوں نے مخنّث کو قتل کرکے اُسے تخت پر بٹھایا تھا، اور انھیں ہلاک کرادیا۔ ضیاء الدین برنی کے مطابق سلطان قطب الدین مبارک شاہ ہم جنسیا (مفعول) تھا۔ وہ نچلی ذات کے ایک ہندو، نومسلم حسن مروار کا والہ و شیدا ہوگیا اور اُسے خسرو خان کے لقب سے نوازا۔ اُس کا سارا وقت شراب پینے، گانا سننے اور جسمانی تلذذ و تعیش کی دوسری صورتوں میں بسر ہوتا۔ چنانچہ دارالحکومت میں ہر شخص نے اپنے بادشاہ کاسا طرزِ زیست اختیار کرلیا۔ چنانچہ خوب صورت غلام لونڈوں، حسین و جمیل، ہیجڑوں، لونڈیوں اور شراب کی طلب کئی گنا بڑھ جانے سے اُن کی قیمتیں بھی بڑھیں۔ چنانچہ سلطان علاء الدین خلجی نے اشیا کی قیمتیں کنٹرول کرنے کا جو نظام بنایا تھا، اُس کی کوئی اہمیت نہ رہی۔۴۰؎ جوں جوں سلطان بوڑھا ہوتا گیا، زیادہ اخلاق باختہ ہوتا گیا۔ اُس نے اپنے بعض مقربانِ خاص کو بے وجہ پھانسی پر چڑھا دیا۔ ضیاء الدین برنی لکھتا ہے کہ سلطان محل کی ضیافتوں میں اکثر اس حالت میں شریک ہوتا کہ وہ عورتوں کا لباس زیب تن کیے ہوتا اور اُس نے عورتوں والے زیور پہن رکھے ہوتے۔ اُس کی ایک عادت یہ تھی کہ وہ قابلِ احترام اور متقی اور نیک نام لوگوں کی درباری مسخروں اور فاحشہ عورتوں سے تضحیک کراتا۔ ضیاء الدین برنی نے اپنی تاریخ میں تفصیل سے بیان کیا ہے کہ آخر کار اُس کے ہم جنس پرست ساتھی خسروخان نے سلطان قطب الدین مبارک شاہ کو محل میں قتل کردیا اور خسروخان کی ترغیب پر اُس کے آدمیوں نے حرم کی خواتین کی آبروریزی کی۔ خسروخان نے اسلام کا بھی مذاق اُڑایا۔ ناصرالدین کا لقب اختیار کرکے مسلم امرا کو معزول کرکے اُن کی جگہ ہندو امرا کا تقرر کیا۔ اپنی پرواری قوم کے بہت سے افراد، جو ابھی ہندو ہی تھے، محل کے اندر بھرلیے اور اُن امرا کو جنھوں نے اُس کا ساتھ دیا تھا، خطابات اور انعامات سے نوازا۔ یہ غیرمتوقع اقدامات نہ تھے، لیکن اُس نے اپنے ہندو امرا کو اس سے نہ روکا کہ وہ اسلام کو رسوا کریں۔ ہندوؤں نے دہلی کی بعض مسجدوں کواپنے قبضے میں لے کر اُن کی ہر طرح توہین کی۔ اُن کی محرابوں میں بت اور مورتیاں سجائیں، اور اذانیں بند کردیں۔ سلطان خسروخان کے دربار میں قرآن مجید کے چبوترے بناکر، ہندو اُن پر بیٹھتے تھے۔ اس کے علاوہ وہ مسلمان عورتوں کو اپنے تصرف میں لانے لگے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ مسلمانوں کی برتری کا خاتمہ ہو گیا اور ہندومت کا فاتحانہ احیا ہو گیا، لیکن جلد ہی غیاث الدین تغلق نے بغاوت کردی۔ اُس کے سپاہیوں نے خسروخان کے آدمیوں کو چن چن کر موت کے گھاٹ اُتارا اور خسروخان کو بھی قتل کردیا۔۴۲؎ اب خاندان خلجی کا کوئی فرد ایسا نہ بچا تھا جسے تخت پر بٹھایا جاسکتا، لہٰذا غیاث الدین تغلق کو سلطان کی حیثیت سے تسلیم کرلیا گیا۔ ضیاء الدین برنی کے مطابق سلطان ایک عملی مسلمان تھا۔ اُس نے کبھی شراب پی تھی نہ جوا کھیلا تھا۔ اُس نے ہمیشہ اپنے مقربین کو بھی یہ برائیاں اختیار نہ کرنے کی تلقین کی۔ سلطان کی وفات ایک زیرِ تعمیر محل کی چھت اچانک اُس کے اوپر گرنے سے ہوئی۔ ایک روایت یہ بھی ہے کہ چھت گراکر باپ کو ہلاک کرنے کی سکیم اُس کے بیٹے محمد تغلق کی تھی۔۴۳؎ محمد تغلق ۱۳۲۴ء میں سلطان بن گیا۔ ضیاء الدین برنی کے مطابق وہ متلون مزاج تھا۔ پَل میں تولہ، پَل میں ماشہ۔ وہ متضادانہ خصوصیات کا حامل تھا۔ ایک طرف تو وہ متقی اور عملی مسلمان تھا۔ دوسری طرف سیّدوں، مشائخ، سنی علمائے دین، اطاعت شعار مسلم شرفا اور شجاع سپاہیوں کو مذہب کے نام پر قتل کراکر بہت خوش ہوتا تھا۔۴۴؎ ضیاء الدین برنی لکھتا ہے کہ محمد تغلق کو یہ وہم ہوگیا تھا کہ جو بھی عباسی خلیفہ کی توثیق کے بغیر حکومت کرچکا ہے یا آیندہ کرے گا، وہ مغلوب و مقہور ہوا یا ہوجائے گا۔۴۵؎ فرشتہ کی بھی یہی رائے ہے کہ سلطان کو پختہ یقین تھا کہ اُس کے عہد میں جتنی بھی آفات آئی ہیں، وہ محض عباسی خلیفہ کی توثیق نہ کرانے کی وجہ سے آئی ہیں۔ البتہ یہ طے کرنا مشکل ہے کہ سلطان محمد تغلق کو خلیفہ سے سندِ جواز حاصل کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی۔ وہ سیاحوں سے کرید کرید کر خلافتِ عباسیہ کے حالات پوچھا کرتا تھا۔ بالآخر سلطان کو معلوم ہوا کہ قاہرہ کا عباسی خلیفہ درحقیقت ابوالعباس کی نسل سے ہے۔ تب مذاکرات کا آغاز ہوا اور سلطان نے نائب الخلافت کے لقب کے ساتھ خلیفہ کا توثیق نامہ حاصل کیا۔ یوں قاہرہ کے عباسی خلیفہ کا نام خطبے میں پڑھنے اور سکّوں میں کندہ کرانے کا رواج دوبارہ شروع ہوا۔ سلطان نے ایک فرمان جاری کیا جس کے بموجب خطیبوں کو تاکید کی گئی کہ وہ خطبے میں اُن تمام سابقہ سلاطین کے نام بھی لیا کریں جن کی رسمی توثیق عباسی خلیفہ سے کرائی گئی تھی۔۴۶؎ نیز یہ بھی تاکید کی گئی کہ جن سلاطین نے اپنی حکمرانی کی توثیق خلیفہ سے نہیں کرائی تھی، اُن کے نام خطبے میں نہ پڑھے جائیں۔ جن سلاطین نے خلیفہ سے اپنی حکمرانی کی توثیق کرائی تھی، اُن کے نام یہ ہیں: ۱- سلطان محمد غوری ۲- سلطان شمس الدین التمش ۳- سلطان ناصرالدین محمود شاہ ۴- سلطان غیاث الدین بلبن ۵- سلطان جلال الدین خلجی ۶- سلطان علاء الدین خلجی ۷- سلطان قطب الدین مبارک شاہ ۸- سلطان محمد تغلق سلطان محمد غوری، سلطان التمش اور سلطان محمد تغلق کے سوا باقی سلاطین کے بارے میں کوئی شہادت نہیں ملتی کہ انھوں نے خلیفہ سے رسماً توثیق نامہ حاصل کیا تھا۔ فرشتہ نے بالکل صحیح لکھا ہے کہ ایسے سلاطین میں، جن کو غاصب کہا گیا یا جن کی حکمرانی کو غیرقانونی یا ناجائز قرار دیا گیا، اُن میں سلطان محمد تغلق کے والد غیاث الدین تغلق کا نام بھی شامل ہے۔ سلطان محمد تغلق کی نرینہ اولاد نہیں تھی۔ اُس کی وفات کے بعد اُس کا چچیرا بھائی فیروز تغلق تخت نشین ہوا (۱۳۵۶ئ)۔ اُس کی حکمرانی کی بھی توثیق قاہرہ کے عباسی خلیفہ نے کی۔۴۸؎ اُس نے اچھے مسلمان بادشاہ کی حیثیت سے بعض شرعی قوانین نافذ کرنے کی کوشش کی۔ مثال کے طور پر اُس نے غیرمسلموں پر جزیہ دوبارہ عائد کیا جو چند برسوں سے وصول نہیں کیا جارہا تھا۔ اُس نے حکم دیا کہ سرکاری خزانے سے غنیمت کا حصہ ایک تہائی نہیں، بلکہ شریعت کے مطابق پانچواں حصہ لیا جائے۔ بدعتیوں کو جلاوطن کردیا گیا اور اُن کی تصانیف ممنوع قراردی گئیں۔ مردوں کو ریشمی کپڑے یا سونے چاندی کے برتن استعمال کرنے سے منع کردیا۔ خواتین کو مسلم صوفیا کے مقبروں یا ہندو مندروں پر مذہبی تقریبات میں شریک ہونے کی ممانعت کردی گئی۔ اُس نے ایک حکم کے ذریعے بعض سزائیں عائد کرنے سے منع کردیاگیا، خواہ وہ شریعت کے مطابق ہوں، مثلاً ہاتھ، ناک، کان یا پاؤں کاٹنا یا آنکھیں نکلوانا، آہنی ہتھوڑے سے ہڈیاں توڑنا، زندہ جلادینا، ہاتھ اور پاؤں کے ناخنوں پر ضربیں لگانا، کھال کھنچوانا، جسم کو دو حصوں میں ٹکڑے ٹکڑے کرنا وغیرہ۔۴۹؎ فیروز شاہ تغلق کی وفات کے بعد سلطنت میں انتشار پیدا ہوا اور ہر جگہ بغاوتیں پھوٹ پڑیں۔ مرحوم سلاطین کے بیٹے آپس میں لڑنے اور ایک دوسرے کو قتل کرنے لگے۔ تاہم ایسے حالات میں بھی قاہرہ کے عباسی خلیفہ کا نام سکّوں پر برابر کندہ ہوتا رہا۔ انتشار میں خلفشار کی کیفیت ہندوستان پر تیمور کے حملے سے پیدا ہوئی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ کئی شہروں میں، جن میں دہلی بھی شامل تھا، مغلوں نے لوٹ مار کی اور ہندوؤں اور مسلمانوں کو بلاامتیاز وسیع پیمانے پر قتل کیاگیا۔ تیمور نے ہندوستانی علاقوں پر خضر خان کو اپنا گورنر مقرر کیا (۱۴۱۴ئ)۔ خضر خان نے ’’سلطان‘‘ کا لقب اختیار نہیں کیا۔ وہ اپنے آپ کو تیمور کا، اور تیمور کے بعد اُس کے بیٹے شاہ رُخ کا نائب سمجھتا تھا۔ چنانچہ خضر خان کے عہد میں خطبے میں اور سکّوں پر قاہرہ کے خلیفہ کی بجائے تیمور اور بعدازاں شاہ رُخ کا نام لیا گیا۔ البتہ اُس کی اولاد میں سے مبارک شاہ (جسے اُس کے بھتیجے محمد شاہ نے قتل کرادیا تھا)، محمد شاہ اور علاء الدین نے ’’سلطان‘‘ کا لقب اختیار کیا اور اپنے خطبے اور سکّوں میں قاہرہ کے خلیفے کا نام بحال کیا۔۵۰؎ بالآخر سلطنت خاندانِ لودھی کے ہاتھ میں آئی۔ بہلول لودھی کو بطور سلطان الہند تسلیم کیا گیا(۱۴۵۱ئ)۔ وہ اسلام اور شریعت کا سخت پابند تھا۔ سلطان بہلول لودھی کے بعد اُس کا بیٹا سکندر لودھی تخت نشین ہوا، اُسے بھی مؤرخین نے سچا عملی مسلمان اور عادل بادشاہ قرار دیا ہے۔ تاریخ فرشتہ میں لکھا ہے کہ اُس کی ایک عجیب عادت تھی کہ وہ پانچوں وقت کی نمازیں ملاکر ایک ہی وقت پڑھ لیا کرتا تھا۔۵۱؎ فرشتہ نے سلطان سکندر لودھی کی عدل گستری کا ایک واقعہ بھی بیان کیا ہے۔ دو بھائیوں نے ایک جنگ میں حصہ لیا۔ انھیں مالِ غنیمت میں بیش قیمت پارچات کے علاوہ دونوں کو ایک ایک ہیرا بھی ملا۔ بڑے بھائی نے اپنے چھوٹے بھائی سے کہا کہ وہ واپس گھر جائے اور جو غنیمت میں چیزیں اُسے ملی ہیں، وہ اُس کی بیوی تک پہنچا دے۔ چھوٹے بھائی کی نیت میں فرق آگیا۔ اُس نے پارچات وغیرہ تو بھابھی کو دے دیے لیکن ہیرا نہیں دیا اور اپنے لیے رکھ لیا۔ دو سال کے بعد جب بڑا بھائی گھر واپس آیا تو اُس نے اپنی بیوی سے ہیرے کے متعلق پوچھا تو بیوی نے بتایا کہ اُس کے چھوٹے بھائی نے اُسے کوئی ہیرا نہیں دیا تھا۔ اُس نے بھائی سے پوچھا کہ ہیرا کہاں ہے۔ اُس نے جواب دیا کہ میں نے اُس کی ہدایت کے مطابق اُس کی بیوی کو دے دیا تھا۔ ہوتے ہوتے یہ تنازع شہر کے قاضی بھُورے شاہ کی عدالت میں پہنچا۔ چھوٹے بھائی نے اپنے بیان کی تائید میں جو گواہ پیش کیے، انھوں نے اُس کی بیوی کے خلاف بیان دیا، جس کی بنا پر قاضی نے اُس عورت کی دادرسی نہیں کی۔ تب سلطان نے دونوں بھائیوں، بڑے بھائی کی بیوی اور گواہوں کو طلب کیا اور سب کو حکم دیا کہ وہ ہیرے کے نمونے پر موم کا سانچا بنائیں۔ دونوں بھائیوں اور گواہوں نے ہیرے کی مومی نقل بنادی، لیکن اُس عورت نے مومی نقل نہیں بنائی اور کہا کہ اُس نے جو چیز دیکھی تک نہیں، وہ اُس کا نمونہ کیسے بناسکتی ہے۔ دونوں بھائیوں اور گواہوں نے جو مومی نمونے بنائے تھے، وہ شکل کے اعتبار سے ایک دوسرے سے بالکل مختلف تھے۔ پس سلطان نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ چھوٹے بھائی نے جو گواہ پیش کیے ہیں، وہ جھوٹے ہیں اور عورت سچی ہے اور اُس نے صحیح اور درست بیان دیا ہے۔۵۲؎ خاندان لودھی کا آخری سلطان ابراہیم لودھی تھا جو اپنے والد سلطان سکندر لودھی کی وفات کے بعد تخت نشین ہوا لیکن پانی پت کی جنگ میں ظہیرالدین بابر کے ہاتھوں قتل ہوا۔ خضرخان کے ورثا یعنی سیّد خاندان اور لودھی خاندان کے پورے عہدِ حکومت قاہرہ کے عباسی خلیفہ کا نام خطبے میں پڑھا گیا اور سکّوں پر کندہ کرایا گیا۔ شاہانِ بنگال کے سکّوں پر خلیفہ المستعصِم کا نام اُس کی وفات کے بعد عرصۂ دراز تک کندہ ہوتا رہا۔۵۳؎ لیکن اس امر کی شہادت دستیاب نہیں ہے کہ درج ذیل خود مختار ریاستوں کے سکّوں پر خلیفہ کا نام مسکوک کرایا گیا تھا: دکن کے بہمنی سلطان، بیجاپور، احمد نگر، گولکنڈہ، مالوہ، گجرات، خاندیش، بہار، جون پور اور کشمیر۔ فرشتہ کے مطابق بارہ اماموں کے نام بیجاپور اور گولکنڈہ کے خطبے میں پڑھے جاتے تھے۔۵۴؎ فرشتہ نے یہ بھی لکھا ہے کہ دکن کے بہمنی خاندان کے سکّوں پر ایک طرف کلمہ اور چاروں خلفائے راشدین کے نام اور دوسری طرف سلطان کا لقب اور سالِ حکمرانی کندہ تھا۔۵۵؎ اُس نے اپنی تاریخ میں یہ بھی لکھا ہے کہ بہمنی سلطان محمد شاہ نے عباسی خلیفہ سے سندِ توثیق بھی حاصل کی اور یہ اجازت نامہ بھی کہ سلطان خطبے میں اور سکّوں پر خلیفہ کا نام استعمال کرسکتا ہے۔۵۶؎ فرشتہ نے یہ بھی بیان کیا ہے کہ سلطان محمد شاہ کے عہد میں، بہمنی سلطنت میں بڑی سختی سے شریعت نافذ کی گئی، اور جو بھی شریعت کے قوانین کی خلاف ورزی کرتا تھا اُسے سخت سزادی جاتی تھی۔ اُس نے ایک عورت کا واقعہ بیان کیا ہے جس پر زنا کا الزام تھا۔ اُسے قاضی کے روبروپیش کیا گیا۔ قاضی نے اُس سے دریافت کیا کہ اُس نے ایک ہی وقت دو دو مردوں سے شادیاں کیوں کررکھی ہیں۔ عورت نے جواب دیا، میں نے دو مردوں سے نکاح اس لیے کررکھا ہے کہ ایک مرد شریعت کے تحت ایک وقت میں چار شادیاں کرسکتا ہے، لیکن قرآن میں ایسا کوئی قانون نہیں ہے جس کے تحت عورت کو ایک سے زیادہ شادیاں کرنے کی ممانعت کی گئی ہو۔چونکہ اس نکتے پر اس کے نزدیک شریعت کی یہی تشریح تھی، اس لیے وہ اپنے طور پر اس بات پر یقین رکھتی تھی کہ وہ بیک وقت ایک سے زیادہ شادیاں کرسکتی ہے۔ تاہم اُس نے عدالت میں یہ بھی کہا کہ اگر شریعت کی رُو سے عورت کے لیے ایک سے زیادہ شادیاں کرنا ممنوع ہے تو وہ معافی کی طلب گار ہے اور ایک خاوند سے ازدواجی رشتہ منقطع کرنے کا وعدہ کرتی ہے۔ فقہ کا مسلمہ اُصول ہے کہ قانون سے ناواقفیت قانون کا دفاع نہیں ہے۔ اس کے باوجود قاضی نے اُسے شک کا فائدہ دیتے ہوئے بری کردیا۔ غالباً قاضی کے نرم رویے کی وجہ یہ تھی کہ قانون کی فوجداری دفعات کی، سختی سے صاف اور واضح تشریح ہونا ضروری ہے، اور چونکہ شریعت میں عورت کے بیک وقت زیادہ شادیاں کرنے کی ممانعت کی خاص تشریح موجود نہیں ہے، لہٰذا اُس عورت کی زنا کی نیت ثابت نہیں تھی، اور وہ واقعی یہی سمجھتی تھی کہ اُسے شریعت کی اجازت حاصل ہے، حالانکہ فی الحقیقت شریعت نے اس کی اجازت نہیں دی۔۵۷؎ اس طرح فرشتہ نے ایک غیرشادی شدہ عورت کا واقعہ بھی بیان کیا ہے، جس نے ایک بے ’’ہڈی‘‘ بچے کو جنم دیا تھا۔ اُس پر زنا کا الزام لگایا گیا اور قاضی کے روبرو پیش کیاگیا۔ قاضی نے یا تو علم الطبّ کی معمولی واقفیت یا عورت کے وکیل کی جرح کے زیراثر اُس عورت کو بری کردیا، اس دلیل کے ساتھ کہ ایک بے ہڈی کا بچہ مرد اور عورت کے ناجائز تعلقات سے پیدا نہیں ہوسکتا، اور غالباً کسی اور نوعیت کے تعلقات کی وجہ سے پیدا ہوا ہوگا، جن کا زنا کے الزام سے کوئی سروکار نہیں۔ صاف ظاہر ہے کہ جب کبھی جرائم کے انسداد کے لیے شرعی قوانین نافذ کیے گئے، ہندوستان کے قاضیوں کا رجحان نرم رویہ اختیار کرکے سزا کی شدت میں تخفیف کرنا یا زنا کے معاملات میں کسی بعید دلیل کی بنیاد پر ملزم کو بری کردینے کا تھا، خصوصاً جب الزام عورت پر لگایا گیا ہو یا الزام مستوجب سخت سزا ہو۔ ہندوستان میں مُغل سلاطین سے پہلے کے جتنے بھی سلاطین تھے، ماسوائے سادات خاندان کے، (جو آلِ رسولؐ ہونے کا دعویٰ رکھتے تھے)، تمام سلاطین کا تعلق مختلف نسلوں سے تھا۔ وہ اپنی اصل میں ترک تھے یا افغان، جہاں تک بابر کا تعلق ہے، وہ اپنے ساتھ ترک منگول کی امتزاجی میراث لایا تھا۔ یہ تمام سلاطین ہندوستان میں وسطی یا شمال مغربی ایشیا سے وارد ہوئے تھے جہاں اسلامی عقیدے کا بیج پہلے ہی بویا جاچکا تھا۔ اِن بیرونی سلاطین نے ہندوستان میں انتظامیہ اور عدلیہ کا جو نظام قائم کیا، وہ آنے والے مسلم خاندانوں کے عہدِ حکومت میں بعض ترامیم کے ساتھ جاری و ساری رہا۔ ہندوستان میں اسلامی ریاست دشمنانہ ہندو ماحول میں، عسکری طاقت میں اپنی برتری کے باوجود خود کو غیرمحفوظ محسوس کرتی رہی۔ ریاست غیر محفوظ ہی نہیں، غیر مستحکم بھی تھی، کیونکہ مسلم حکمران ہندو راجاؤں سے جنگیں لڑتے رہتے تھے، بلکہ آپس میں بھی ایک دوسرے سے لڑتے رہتے تھے۔ سقوطِ بغداد کے بعد منگولوں نے دنیائے اسلام کو تقسیم کردیا۔ مشرقی اسلام بالعموم اور مسلم انڈیا بالخصوص باقی دنیائے اسلام سے منقطع اور الگ تھلگ ہوکر رہ گیا۔ ہندوستان میں عدم استحکام، عدم تحفظ اور علیحدگی کے خوف کی وجہ سے سلاطین عالمگیر خلافت کی غیر معمولی وفاداری کا دم بھرا کرتے تھے، ایسا کرنے سے دنیائے اسلام سے قریبی تعلقات اُستوار ہوتے تھے اور ریاست کو تحفظ بھی فراہم ہوتا تھا۔ پروفیسر عزیز احمد نے بالکل ٹھیک لکھا ہے: ’’ہندوستان میں مغلوں کی حکومت سے پہلے کے پورے دور میں عباسی خلیفہ کا محض نام یا اختیار ہی سلطان الہند کی قانونی حاکمیت کا ماخذ و اجازت نامہ ہوتا تھا۔ سکّوں کے یومیہ استعمال ہی سے عام ہندی مسلمان کو عالمگیر خلیفہ کے مرتبہ و اختیار سے آگاہی رہتی تھی۔ اور یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں کہ جب کسی خاص عباسی خلیفہ کا نام سکّے پر نظر آتا تھا تو ہر خطبۂ جمعہ میں بھی اُس کا نام احترام و عقیدت سے پڑھے جانے سے اُس کی اہمیت ہندی مسلمان پر طاری ہوجاتی تھی۔‘‘۵۸؎ عدم تحفظ کے مسئلے پر قابو پانے کے لیے نووارد سلطان کسی نئے مذہب یا نئی شریعت کے ذریعے مقامی آبادی سے میل جول کی کوشش کرتے تھے۔ ہندوستان میں ذات پات کے نظام کو ایک روحانی تحریک کے ذریعے ہی توڑا جاسکتا تھا۔ اس سلسلے میں ہندوستان میں ورودِ اسلام سے قبل بدھ مت نے کوششیں کی تھیں لیکن ناکام۔ ہندوستان میں ایک نیا مذہب قائم کرنے کا خیال مغل شہنشاہ اکبر ہی کے ذہن میں نہیں آیا تھا، بلکہ سلطان علاء الدین خلجی پہلا مسلمان حکمران تھا جس نے نیامذہب اور نئی شریعت ایجاد کرنے کا سوچا تھا۔ دواہم مؤرخین ضیاء الدین برنی اور فرشتہ یقین کے ساتھ لکھتے ہیں کہ سلطان علاء الدین خلجی نیا مذہب ایجاد کرنے کے بارے میں اپنے ذاتی تکبر کو مطمئن کرنے کے لیے سوچا کرتا تھا، تاکہ اُس کا نام ہمیشہ کے لیے زندہ رہے، لیکن اُس کے ایک دانا مشیر علاء الملک نے یہ نادان تخیل اس دلیل کے تحت ترک کرنے کا مشورہ دیا کہ اگر بادشاہ نے نیا مذہب ایجاد کیا تو تمام مسلم رعایا اُس کے خلاف بغاوت کردے گی۔۵۹؎ مذکورہ دونوں مؤرخین نے اُس گفتگو کو اپنی اپنی تالیفات میں باقاعدہ درج کیا ہے جو سلطان علاء الدین خلجی اور قاضی مغیث الدین کے مابین ہوئی تھی، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہندوستان کے خاص حالات میں نیا مذہب ایجاد کرنے کے کیا سیاسی نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔ قاضی مغیث الدین جیسے عالم دین اور فقیہ سے مذاکرہ کرنے کا مقصد ہی یہ تھا کہ قاضی اس معاملے میں اُس کے سوالات کے مناسب جواب شریعت کی روشنی میں دے کر اُسے مطمئن کرے۔ مذاکرے کے اختتام پر سلطان نے قاضی سے جو کچھ کہا، وہ اُس کے فکر اور تشویش کی بخوبی ترجمانی کرتا ہے۔ سلطان نے کہا تھا: ’’دنیا کے مسائل اور بالخصوص ہندوستان کو جن مسائل کا سامنا ہے، اُن کو محض شریعت کی پیروی سے حل نہیں کیا جاسکتا۔ جب تک سیاسی مصلحت اندیشی کی روشنی میں سخت اقدامات نہ کیے جائیں گے، ملک میں امن و امان اور نظم و ضبط قائم کرنا ناممکن ہے۔‘‘۶۰؎ نظریاتی لحاظ سے دنیائے اسلام عالمگیر خلافت کے سایے تلے ایک واحد مذہبی و سیاسی وحدت تھی۔ آٹھویں صدی کے بعد یہ وحدت صرف نظریے میں موجود تھی۔ عملاً سلطنت کو خلافت کی کوئی اجازت و منظوری حاصل نہ تھی، اس لیے جانشینی اور وراثت کا کوئی قانونی اُصول موجود نہ تھا۔ اسلام میں سلطنت کا ارتقا محض طاقت کے بل پر ہوا تھا، جس کی برقراری نظریۂ ضرورت کے تحت ’’اجماع‘‘ پر منحصر تھی۔ ہندوستان میں سلطنت تو لازماً طاقت پر مبنی تھی، اور سلطان عام طور پر مطلق العنان ہوتا تھا۔ ریاست گویا اُس کی ذاتی جائیداد تھی۔ بے شک رعایا پر نظریاتی طور پر شریعت کے تحت حکمرانی کی جاتی تھی، لیکن فی الحقیقت سلطان کی مرضی سلطنت کا قانون تھا۔ سلطان کے بعد برسراقتدار طبقہ اختیارات کا استعمال کرتاتھا۔ یہ طبقہ سلطان کی حمایت کرتا تھا، اگر وہ مضبوط ہو، اور اُس کی مخالفت کرتا تھا، اگر وہ کمزور ہو۔ جب تک مرکزی حکومت کا انصرام عمدگی سے چلتا رہتا تھا، سلطان محفوظ رہتا تھا، اور جب سلطنت میں کمزوری رونما ہوتی تو امرا اپنی اپنی خودمختاری کا اعلان کرکے جنگجو بن جاتے۔ ہندو رعایا بھی بغاوت کردیتی، اور یوں سلطنت پارہ پارہ ہوجاتی۔ سلطان عام طور پر اپنا جانشین مقرر کردیا کرتا تھا۔ اس نظام کی نہاد میں خامی یہ تھی کہ حریص امرا کو سازش کرنے کی حوصلہ افزائی ہوتی تھی یا پھر تخت نشینی کے لیے جنگیں ہوتی تھیں۔ بیٹا باپ کے خلاف بغاوت کرتا تھا اور بھائی اپنے دوسرے بھائیوں کو قتل کراتا تھا۔ یہ رسم اٹھارہویں صدی تک ہندوستان کی مسلم حکمرانی میں خوب چلی۔ مغل شہنشاہ بابر دہلی میں ۱۵۲۶ء میں آیا۔ اُس نے اپنے نام کا خطبہ پادشاہِ ہند کی حیثیت میں پڑھوایا۔ قاہرہ میں عباسی خلافت ۱۵۱۷ء میں، بابر کے دہلی پر قبضہ کرنے سے صرف نوسال پہلے، ختم ہوکر ترکی کے عثمانیوں کے ہاتھوں میں جاچکی تھی۔ مغلوں نے اپنی داخلی اور گھریلو دشمنیوں کی وجہ سے عثمانی خلفا کو تسلیم نہیں کیا، البتہ وہ اپنی سفارتی خط و کتابت میں اُن کو ’’خلیفہ‘‘ کے لقب سے خطاب کرتے تھے۔ بعض ایسے امرا البتہ موجود رہتے تھے، بالخصوص اکبر کے عہد میں، جن کو خلیفہ کا گماشتہ ہونے کے شبہے میں مشکوک سمجھا جاتا تھا۔۶۳؎ مغل شہنشاہوں نے اپنی باری میں چند اختراعات کیں۔ مثلاً سکّوں پر سے خلیفہ کا نام حذف کردیا گیا اور (پندرہویں صدی کے دوران مشرقی اسلام میں اختیار کردہ طریقے کے مطابق) سکّوں پر چاروں خلفائے راشدین کے نام کندہ کرادیے گئے۔ بعض صورتوں میں سکّوں پر صرف حضرت علیؓ کا نام مسکوک کرایا گیا۔۶۴؎ یہی طریقہ خطبۂ جمعہ میں اختیار کیا گیا۔ مغل شہنشاہوں نے ہندوستان میں خود کو امام قرار دیا، اور جوں جوں اُن کا اقتدار مستحکم اور اُن کی سلطنت وسیع ہوتی گئی، مغل انڈیا اس قدر مضبوط اور خودکفیل ہوگیا کہ انھوں نے خود کو باقی دنیائے اسلام سے منقطع کرلیا۔ مغلوں کا اقتدار طاقت کے بل پر قائم تھا اور اُن تمام کمزوریوں اور خامیوں میں مبتلا تھا، جن کی وجہ سے ہندوستان میں سابقہ اسلامی سلطنت کا خاتمہ ہوا تھا۔ مُغل سنی عقائد رکھتے تھے، سوائے ہمایوں کے، جو صفویوں کے طریقے کے مطابق، شیعیت کی طرف میلان ظاہر کرنے پر اس لیے مجبور تھا کہ اُسے شیر شاہ سُوری سے اپنی کھوئی ہوئی سلطنت دوبارہ حاصل کرنے کے لیے ایران کی مدد لینا پڑی تھی۔ اگرچہ مغل شہنشاہوں نے بھی سابقہ سلاطین کی طرح حرم رکھے تھے، لیکن بعض شہنشاہوں کی بیویاں یا مائیں ہندو تھیں، جنھوں نے اسلام قبول نہیں کیا تھا۔ ایسی شادیوں کو شریعت کی اِس کھینچ تان تشریح کے کہ تحت ہندو اہل کتاب کی مثل ہیں، جائز قرار دیا گیا تھا۔ اورنگ زیب کے سوا مغل شہنشاہوں کی مذہبی پالیسی ہندوستان کے سابقہ مسلمان سلاطین کی اختیار کردہ پالیسی سے مختلف تھی۔ بعض مؤرخین کا خیال ہے کہ بابر نے اپنے وصیت نامے میں ہمایوں کو یہ خفیہ تلقین کی تھی کہ وہ اپنی ہندو رعایا کی عبادت گاہیں منہدم نہ کرے اور گئوکشی سے اجتناب کرے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ دستاویز بھوپال کی سٹیٹ لائبریری میں محفوظ ہے۔ مرے ٹی ٹائٹس اس کے اکثر حوالے دیتا ہے،۶۵؎ لیکن سری رام شرما کی نظر میں اس کا اعتبار مشکوک ہے۔۶۶؎ ہمایوں کو ایک واضح مذہبی پالیسی وضع کرنے کا موقع نہیں ملا۔ جبکہ اکبر ۱۵۵۶ء میں اپنے والد کی جانشینی کے بعد،شہنشاہ ہند کی حیثیت سے مسلّمہ اقتدار حاصل کرچکا تھا، ہمایوں کو ہندو مسلم منافرت کے مسئلے سے دوچار ہونا پڑا۔۶۷؎ دوسرے ملکوں کے برخلاف جہاں مسلمانوں کی حکمرانی تھی، ہندوستان ایک ایسا ملک تھا جو بے شمار نسلوں، رسموں اور مذہبوں کا گھر تھا۔ مسلمان ہندوستان میں حکمران ہونے کے باوجود اقلیت میں تھے، اور ہندوؤں کی رُوحانی اور اخلاقی اقدار و روایات مسلمانوں کی اخلاقی اقدار و روایات کے بالکل برعکس تھیں اور وہ تعداد میں مسلمانوں سے کہیں زیادہ اکثریت میں تھے۔ درونِ ملک امن و امان برقرار رکھنے کے لیے اور بیرونی حملہ آوروں سے بچنے کے لیے، اکبر نے ہندوستان کے مختلف العقیدہ اور مختلف النسل عوام کو ایک لڑی میں پرونے کی کوشش کی۔ اُس نے ہندو اکثریت کا دل جیتنے کے لیے ایک آزاد اور روادارانہ مذہبی پالیسی اختیار کرنے کی کوشش کی۔ اکبر نے مفتیوں اور علما کو اپنے کنٹرول میں رکھا، اور اُن کے بدست اپنے احکام کی مخالفت کا امکان کم رکھنے کے لیے اُن سے اپنے ایک اعلان پر دستخط کرالیے، جس کی رُو سے علما نے سلطان العادِل کی فہم و فراست کی برتری کو تسلیم کیا اور اس امر پر اپنی رضامندی کا اظہار کیا کہ متنازع مذہبی یا قانونی معاملات میں شہنشاہ کی رائے، بحیثیت امام مفادِ عامہ یا سیاسی مصلحت کی خاطر حتمی اور قطعی سمجھی جائے گی۔۶۸؎ اِس اعلان نے اکبر کو اپنی مرضی کے مطابق حکومت کرنے کے غیر معمولی اختیارات دے دیے۔ اُس نے ہندوؤں پر عائد جزیہ اور زیارت ٹیکس ختم کردیا۔ مسلمانوں پر عائد زکوٰۃ بھی ختم کردی۔ اُس نے ہندومت ترک کرکے اسلام اختیار کرنے والے نومسلموں کو دوبارہ اپنا آبائی مذہب اختیار کرنے کی اجازت دے دی، بشرطیکہ وہ ایسا چاہیں۔ اُس نے کم عمر بچوں کی شادیوں کی حوصلہ شکنی کی اور ’’ستی‘‘ کی رسم پر پابندیاں عائد کیں۔ بنتِ عم سے شادی پر پابندی عائد کی اور ہندوبیواؤں کو دوسری شادی کی اجازت دی۔ اُس کی تحریک پر سنسکرت کتابوں کے فارسی میں تراجم کرائے گئے۔ عقلی علوم کے حصول کی حوصلہ افزائی کی گئی۔ تعلیمی اداروں میں سنسکرت زبان کا نصاب شامل کیا گیا۔ نظم و نسق کے محکموں میں اُس نے اعلیٰ عہدوں پر بلاامتیاز مسلمانوں کے ساتھ ہندوؤں کو بھی فائز کیا۔ علاوہ ازیں اُس نے مزید آگے بڑھ کر ایک جامع مذہب ’’دینِ الٰہی‘‘ کے نام سے قائم کیا، تاکہ اُس کی رعایا اُسے ایک دنیاوی سربراہ کے علاوہ ایک مذہبی سربراہ کی بھی حیثیت سے تسلیم کرتے ہوئے، اُسے اپنا دین و دنیا کا مالک، بادشاہ تسلیم کریں۔۶۹؎ یہ دین ’’نیشنل چرچ‘‘ کی طرح کا سادہ دین تھا جس میں بادشاہ کی مکمل اطاعت کا مطالبہ کیا گیا تھا۔۷۰؎ اکبر کی پہلی ملاقات وجودی صوفی شیخ تاج الدین اجودھانی سے ۱۵۷۸ء میں ہوئی۔ شیخ ابن العربی اور عبدالکریم الجیلی کے نظریات کے زیراثر تھا۔ شیخ نے شہنشاہ کو یہ قبول کرلینے کی ترغیب دی کہ وہ خود مقدس اور خالص ہے، اور (عبدالکریم الجیلی کی وضع کردہ اصطلاح) ’’انسانِ کامل‘‘ کا اطلاق اُسی کی ذات پر ہوتا ہے اور خود اللہ تعالیٰ نے اکبر کی شخصیت میں اپنی جلوہ نمائی کی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ شہنشاہ کے احترام میں سجدۂ تعظیمی کی ایجاد شیخ ہی کی مرہون منت ہے۔ شیخ نے پرچار کیا کہ اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کا بہترین طریقہ شہنشاہ کی اطاعت ہے۔ چنانچہ شہنشاہ کے اوصاف کے لیے منفرد، یکتا، بے مثل ، مطلق، کامل جیسے الفاظ عام طور پر رواج پاگئے۔۷۱؎ شہنشاہ کا ذومعنی موٹو ’’اللہ اکبر‘‘ (اللہ بڑا ہے اور اللہ اکبر ہے) تمام سرکاری دستاویزات پر طبع ہونے لگا، شاہی مہر پر منقش اور سکّوں پر کندہ کرادیا گیا۔ شہنشاہ کو معصوم اور خطا و گناہ سے ماورا خیال کیا جاتا تھا۔ اُس نے یہ کلمہ عوام کے عام استعمال میں لانے کا حکم دیا: ’’لا الہ الا اللہ، اکبر خلیفۃ اللہ‘‘۔ اس حکم پر مسلمان رعایا نے سخت احتجاج کیے، جس سے مجبور ہوکر یہ کلمہ اُس نے اپنے خاص مقربین کے محدود حلقے تک مروج رکھا۔۷۲؎ اکبر نے جو مذہب ایجاد کیا، وہ ایک طرح کا سلسلۂ تصوف (طریقت) تھا، جو اُس کی ذات کے گرد گھومتا تھا۔ وہ اس مذہب کی بنیاد ’’عقل‘‘ کو قرار دیتا تھا۔ وہ ہر قسم کی نفس پرستی، ہوس رانی، بدعنوانی، دھوکابازی، ظلم و جبر، غروروتکبر کے خلاف تھا۔ زندگی کی بربادی خواہ کسی بھی صورت میں کی جائے، بُری سمجھی گئی اور تجرّد کی حوصلہ افزائی کی گئی۔ جو شخص شہنشاہ کے لیے جان، مال، عزت اور عقیدہ بھی قربان کرنے کے لیے تیار ہوتا وہ شہنشاہ کا مرید بن جاتا۔ اُس کے حلقۂ ارادت میں داخل ہونے کا طریقہ سلسلۂ طریقت سے ملتا جلتا تھا۔ اُس کی بیعت کرنے کا مطلب تھا اسلام مجازی و تقلیدی سے انکار۔ اُس کے مرید جب آپس میں ملتے تو کہتے ’’اللہ اکبرجل و جلالہ۔‘‘۷۳؎ (شہنشاہ کا نام جلال الدین اکبر تھا) اکبر کی مذہبی پالیسی مختلف النسل رعایا کے درمیان اتحاد پیدا کرنے کی غرض سے وضع ہوئی۔ اُس نے ایک گروہ یا جماعت کے مذہب کو کسی دوسرے گروہ یا جماعت کے مذہب پر ترجیح نہیں دی۔ اس پالیسی کے تحت اُس نے خود کو اسلام سے منقطع کرلیا۔ شواہد سے اس خیال کو بھی تقویت پہنچتی ہے کہ راسخ العقیدہ اسلام سے اکبر کی علیحدگی کا بڑا سبب اُس زمانے کے علما کی پست فکری اور پست علمی تھی۔۷۴؎ اُسے صوفیا کی وحدت الوجودی تعلیمات سے گہری دلچسپی تھی، بلکہ فی الحقیقت اُس کا مذہب/ طریقۂ ولایت پر مبنی تھا۔ وحدت الوجود (ہمہ اُوست) کا نظریہ جب سے ابن العربی نے پیش کیا ہے، اُس وقت سے صوفیائے اسلام پر اپنا گہرا اثر ڈالتا رہا ہے۔ اکبر کے عہدِ حکومت میں ہندوستان میں چودہ سے زیادہ متصوفانہ سلاسل قائم تھے۔۷۵؎ وجودی فلسفے کے زیر اثر بہت سے مسلمان صوفیا نے یا تو سنتِ رسولؐ کی پیروی ترک کردی تھی یا خود کو شریعت کا پابند خیال نہیں کرتے تھے۔۷۶؎ اس رویے کی بنیاد یہ تصور تھا کہ لا الہ الا اللّٰہ پر عقیدے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ لازماً محمد رسول اللّٰہ پر بھی اعتقاد رکھا جائے۔ اس پس منظر میں اکبر کو جرأت ہوئی کہ اُس نے آنحضورؐ کا اسمِ گرامی خطبۂ جمعہ سے خارج کرادیا۔۷۷؎ جب سے اسلام ہندوستان میں وارد ہوا تھا، یہ پہلی مرتبہ تھا کہ ہندومت نے بھگتی تحریک کے ذریعے اپنی بحالی کا مظاہرہ کیا۔ بھگتی تحریک مسلمانوں کے نچلے طبقوں کو ہندومت کے دھارے میں شامل کرنے کے لیے شروع ہوئی تھی۔ اکبر نے جزیہ ختم کرکے، گئوکشی کی ممانعت کرکے اور قصداً اسلام کو کچلنے سے مسلمانوں کو برہم اور ناراض کرلیا۔ اُس نے بعض مساجد کے بارے میں حکم جاری کیا کہ اُن کو گوداموں اور ہندو محافظ خانوں میں بدل دیا جائے یا منہدم کرکے اُن کی جگہ مندر تعمیر کیے جائیں۔۷۸؎ شہنشاہ کی یک طرفہ، جانب دارانہ پالیسی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ہندوؤں نے اپنی امن پسند، بھگتی تحریک کے ذریعے مسلمانوں کو ہندومت کے دھارے میں داخل کرنے کی کوشش کی۔ اس کے علاوہ ہندوؤں نے شہنشاہ کی منظوری سے جوگیوں اور سنیاسیوں کو مسلّح کرنا شروع کردیا، جنھوں نے جنگجویا نہ وتیرہ اختیار کرلیا۔۷۹؎ مؤرخ جے این Farquhar نے ۱۵۶۵ء کا سال متعین کیا ہے، جب اکبر کی منظوری سے سنیاسیوں کو مسلّح کیا گیا تھا، حالانکہ اُس کے خیال میں جوگیوں کو سنیاسیوں سے بہت عرصہ پہلے اسلحہ فراہم کردیا گیا تھا۔۸۰؎ ہندو جوگیوں اور سنیاسیوں کو مسلّح کرکے ہندو جنگ جوئی کے بیج بودیے گئے، جس نے بعدازاں اورنگ زیب کے عہد میں سخت مشکلات پیدا کیں۔ اکبر کے اس اقدام کو سلطنتِ مغلیہ کے زوال کے اسباب میں سے ایک شمار کیا جاتا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اکبر کو ایک نئے مذہب کی جستجو اُس کے ذاتی رُوحانی بحران سے پیدا ہوئی تھی، جو سنی راسخ العقیدگی کی بے لچک سخت گیری کا ردِعمل تھا یا وہ خود ہی اپنے ایک پیش رو سلطان علاء الدین خلجی کی طرح سیاسی ضرورت کے تحت ہندوستان میں ایک نیامذہب ایجاد کرنا چاہتا تھا؟ اکبر کے عزائم و خواہشات کچھ بھی ہوں، اُس کی ہندوؤں اور مسلمانوں کو مدغم کرنے کی پالیسی محض اس لیے ناکام ہوئی کہ یہ دونوں قومیں اپنی اپنی جگہ، اپنی اپنی وجوہ سے ایک دوسرے میں مدغم ہونے کے لیے تیار نہ تھیں۔ یہ بات ایک راجپوت امیر، راجہ مان سنگھ کی مثال سے ثابت ہے، جسے اکبر نے اپنے دینِ الٰہی میں داخل ہوکر اپنا مرید بنانے کی کوشش کی تھی۔ جب ۱۵۵۷ء میں راجا مان سنگھ بہار کا گورنر ہوکر جانے لگا اور اکبر نے خلوت میں خاص اظہارِ شفقت کرکے مریدی کا ذکر کیا تو اُس نے صاف جواب دیا کہ حضور اگر مریدی سے مراد جاں نثاری ہے تو آپ دیکھتے ہیں کہ جان ہتھیلی پر لیے پھرتا ہوں۔ امتحان کی حاجت نہیں۔ اگر حضور کی مراد مذہب سے ہے تو ہندو ہوں…فرمائیے، مسلمان ہوجاؤں۔ دوسرا رستہ مجھے معلوم نہیں کون سا ہے کہ اختیار کروں‘‘۸۱؎ چنانچہ اکبر ٹال گیا۔ مسلمانوں نے بھی ہندومت میں مدغم ہونے کی مزاحمت کی، جبکہ ہندو اکثریت نے مسلم اقلیت کو ہضم کرنے کی بہت کوشش کی۔ اکبر کی مذہبی پالیسی کے خلاف مزاحمت زیادہ ترسلسلۂ نقشبندیہ کی جانب سے ہوئی، جو ہندوستان میں خواجہ محمد باقی باللہ (۱۵۶۳-۱۶۰۳ئ) نے متعارف کرایا تھا اور شیخ احمد سرہندی (۱۵۶۴-۱۶۲۴ئ) نے مستحکم کیا تھا۔ شیخ احمد سرہندی نے اپنی زندگی کے اوائل میں ابن العربی کا نظریۂ وحدت الوجود قبول کرلیا تھا۸۲؎ اور اِسی وجہ سے ابوالفضل اور فیضی، دو مشہور آزاد خیالوں کے قریبی دوست بن گئے تھے، جن پر اکبر کو اسلام سے ہٹانے کا الزام ہے۔ بعد میں شیخ احمد نے اُن کی صحبت اس لیے ترک کردی کہ وہ اسلام اور اسلامی تعلیمات کی بے حُرمتی کرتے تھے۔۸۳؎ شیخ احمد نے محسوس کرلیا تھا کہ اگر توحیدِ اسلامی کو توحیدِ وجودی کے مماثل اور ہم معنی قرار دیا گیا تو اس کا ایک ہی مطلب ہوگا کہ ہندوستان کے نقشے سے اسلام خارج ہوجائے گا۔ چنانچہ شیخ نے اسلامی توحید اور وجودی توحید میں خطِ امتیاز کھینچا اور اِن دونوں کے درمیان جو فرق ہے، اُسے زوردار طریقے سے نمایاں کیا۔ دونوں نظریوں میں فرق و اختلاف اُن کے ذاتی متصوفانہ واردات پر مبنی تھا۔ وہ جانتے تھے کہ وحدتِ وجود اُن کے بیشتر ہم عصر صوفی سلسلوں، بھگتی تحریک اور نیز اکبر کی مذہبی پالیسی کا بنیادی اُصول ہے۔ چنانچہ اُنھوں نے وحدت الوجود پر حملہ کیا۔ اسے اسلامی تعلیمات کے لیے اجنبی اور متضاد خیال کیا اور اسے اسلامی توحید کے مماثل قرار دینے کے رویے کی شدید مذمت کی۔ شیخ احمد نے اسلام کے سب سے بڑے وجودی صوفی ابن العربی کو نشانۂ تنقید بنایا۔ ابن العربی کا نقطۂ نظر ہے کہ ذات اور صفات اصل میں ایک ہیں، یہ کہ خدا توحید میں بھی ہے، ثنویت میں بھی، تثلیت میں بھی اور کثرت میں بھی ہے، یہ کہ قدرتی مظاہر کافی الحقیقت کوئی وجود نہیں، خدا اور انسان کا تعلق محض شناخت کا ہے، اور یہ کہ تخلیق کا مقصد خالق کی خود افروزی کی خواہش ہے۔۸۴؎ شیخ سرہندی نے کہا کہ خدا اپنی صفات سے الگ اور ماورا ہے، یہ کہ خارجی دنیا کے مظاہر اُس کی صفات کے چمکدار مشاہدات نہیں ہیں، کیونکہ اُس کی صفات تصوّرات کی مانند مکمل بالذات ہیں، جبکہ مظاہر مکمل نہیں ہیں، یہ کہ خارجی دنیا حقیقی ہے اور اپنے خالق خدا سے الگ اپنا وجود رکھتی ہے، یہ کہ انسان کے لیے قُربتِ خداوندی انسانی ادراک سے ماورا ہے (فی الحقیقت انسان مکڑی کی طرح، جو جالابنتی ہے، اُس ہستی سے جدا ہے جو اپنی ایک پھونک سے آسمان و زمین کا جالا مٹا سکتا ہے)۔ یہ کہ ’’تخلیق کا مقصد طاعت (عبادت) ہے نہ کہ علم (یاخدا کی خود افروزی کی خواہش) مختصر یہ کہ شیخ احمد نے اس نکتے پر زور دیا کہ وحدت الوجود ایک باطنی تجربہ ہے، ایک ایسا تجربہ جو حقیقت میں وقوع پذیر نہیں ہوتا، بلکہ بس یونہی ہوجاتا ہے۔ لہٰذا یہ وحدت الشہود ہے جو ظاہری وحدت یا شناخت کا تجربہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ذاتِ خداوندی انسانی ادراک سے ماورا ہے، لہٰذا انسان کے لیے ایمان بالغیب پر عقیدہ رکھنا ضروری ہے۔ بنی نوع انسان صرف عبودیت کا مقام حاصل کرسکتے ہیں،ا ور وہ اُس سے زیادہ نہیں جان سکتے جو اللہ تعالیٰ نے بذریعۂ وحی اُسے بتایا ہے۔ لہٰذا بنی نوع انسان کو چاہیے کہ وہ کلیۃً وحی (قرآن وحدیث) سے، اور اُن کی تشریح کے لیے علما و فقہا سے رجوع کریں۔۸۵؎ شیخ احمد اکبر کے عہدِ حکومت میں اسلام کے ساتھ انتہائی ناروا اور افسوسناک سلوک کی وجہ سے بہت ملول اور دل گرفتہ رہتے تھے اور ہندوستان میں شریعت کی بحالی و تنفیذ پر اصرار کرتے تھے۔۸۶؎ انھوں نے اسلام میں توحید کی تشریح جس انداز میں کی، اُس نے اکبر کی مذہبی پالیسی کے خلاف زبردست مزاحمتی جوش پیدا کردیا۔ اُن کے پیروکاروں کا ایک جمِ غفیر اُن کے گرد جمع ہوگیا۔ انھوں نے اپنے نظریۂ وحدت الشہود کی تبلیغ و اشاعت کے لیے اپنے پیروکاروں کو مختلف علاقوں میں روانہ کیا۔ انھوں نے بارسوخ سرکاری عہدے داروں سے خط و کتابت شروع کی، جو متاثر ہوکر اُن کے حلقۂ ارادت میں شامل ہوگئے۔ اُن کے مکتوبات اُن کے پیروکاروں نے جمع کیے، مرتب کیے اور اُن کی زندگی میں شائع کیے۔ تاہم اُن کا مشن اکبر کے عہد میں کامیاب نہ ہوسکا۔ جب اکبر کا بیٹا جہانگیر تخت نشین ہوا (۱۶۰۵ئ) تو شیخ نے اکبر کی مذہبی پالیسی کے خلاف باقاعدہ ایک فعال تحریک کا آغاز کیا۔ یہ مذہبی پالیسی جہانگیر نے بھی اختیار کی تھی۔ یہ تحریک صرف مُغل فوج تک محدود تھی، کیونکہ شیخ احمد کے پیروکار مختلف علاقوں میں جاکر سپاہیوں سے حلف اُٹھواتے تھے کہ وہ ایسے احکام پر عمل درآمد نہ کریں گے جو اسلام سے متصادم ہوں۔۸۷؎ اس پر جہانگیر کے وزیر آصف جاہ نے شہنشاہ کو مشورہ دیا تھا کہ ایک حکم کے ذریعے سپاہیوں کو شیخ کے مریدوں سے ملنے جلنے یا حلف اٹھانے کی ممانعت کی جائے۔ آصف جاہ نے شہنشاہ کو شیخ احمد کی گرفتاری اور حراست کا مشورہ بھی دیا۔ چنانچہ شیخ احمد ایک سیاسی ملزم بن گئے اور انھیں جہانگیر کے رُوبرو، دربار میں پیش ہونے کا حکم ہوا (۱۶۱۹ئ)۔ اُن پر الزام یہ عائد کیا گیا کہ اپنے مکتوبات میں انھوں نے کفر و الحاد کی تلقین کی ہے اور شہنشاہ کے حضور سجدۂ تعظیمی ادا نہ کرکے آداب کی توہین کی ہے۔ چنانچہ سزا کے طور پر شیخ کو گوالیار کے قلعے میں دو سال تک مقید رکھا گیا۔ روضۃ القیومیہ کا مصنف لکھتا ہے کہ اس قید کے خلاف شیخ کے مریدوں نے، بالخصوص جو فوج میں تھے، بغاوت کردی۔ اسی وجہ سے کابل کے گورنر مہابت خان نے بھی بادشاہ کے خلاف علمِ بغاوت بلند کردیا۔۸۸؎ شیخ کی رہائی کے بعد شہنشاہ جہانگیر نے اُن کا استقبال پوری عزت و تکریم کے ساتھ کیا۔ اپنی بقایا زندگی میں شیخ نے شہنشاہ کے مشیر کی حیثیت سے کام کیا۔۸۹؎ شیخ احمد نے تلقین کی کہ مسلمانوں کو سنتِ رسولؐ کا اتباع کرنا چاہیے۔ علما کو تحریک دی کہ وہ صرف قرآن و حدیث پر اپنی توجہ مرکوز رکھیں۔ انھوں نے ولایت کو معناً نبوت سے مختلف کمتر درجے پر رکھا اور شریعت کو طریقت سے بالاتر قرار دیا۔ شیخ احمد نے مغلیہ سلطنت کو دوبارہ اسلام کی طرف لے جانے کے لیے متعدد مطالبات پیش کیے، مثلاً: سجدۂ تعظیمی کی رسم منسوخ کی جائے، منہدم مساجد دوبارہ تعمیر کرائی جائیں، گئوکشی کو ممنوع قرار دینے والے قوانین منسوخ کیے جائیں، جزیے کی وصولی بحال کی جائے، شریعت کے مناسب نفاذ کے لیے مفتیوں، قاضیوں اور محتسبوں کا تقرر کیا جائے۔ تمام بدعتوں کو یکسر ختم کیا جائے اور جن لوگوں کو اس عرصے میں ظالمانہ احکام کی خلاف ورزی میں قید کیا گیا ہے، انھیں رہا کیا جائے۔۹۰؎ جہانگیر کے عہد میں اِن مطالبات (اصلاحات) میں سے کسی ایک پر بھی عمل نہیں کیا گیا۔ تاہم شیخ احمد کے شہنشاہ جہانگیر کا مشیر بننے سے بہت پہلے سلسلۂ نقشبندیہ (مجدّدیہ) چند اہم سرکاری افسروں پر اپنا اثر ڈالنے میں کامیاب ہوچکا تھا۔ جہانگیر شراب کارسیا تھا، اور منشیات بالخصوص افیون استعمال کرتا تھا، لیکن ایک باعقیدہ مسلمان کی حیثیت سے اُسے اکبر سے بہتر خیال کیا جاتا تھا، حالانکہ اُس نے اپنے عہد میں اکبر کی مذہبی پالیسی جاری رکھی تھی۔ شاہجہان جو جہانگیر کے بعد تخت نشین ہوا (۱۶۲۸ئ) ، شیخ احمد سرہندی کا، اور بعد میں اُن کے جانشین محمد معصوم کا پیروکار تھا۔۹۲؎ چنانچہ شاہجہان کے عہد میں سجدۂ تعظیمی کی رسم بند کردی گئی اور اُس کی جگہ سلام گزاری کی ایک نئی شکل رائج کی گئی۹۳؎ لیکن مغل دربار میں دوسری غیر اسلامی باتوں میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ محمد شبلی نے مغل حکمرانوں کے خلاف اسلامی نقطۂ نظر سے ایک طویل فردِ جرم قائم کی ہے۔ مثلاً وہ رقم طراز ہیں کہ ہندوؤں نے اُس مذہبی آزادی کا غلط فائدہ اٹھایا جو اکبر نے انھیں عطا کی تھی۔ انھوں نے اسلام کو جبراً ہندومت میں ضم کرنے کی کوشش کی۔ مسلم عورتوں کو اُٹھا کر لے جاتے اور اُن سے زبردستی شادی کرکے گھر میں بٹھالیتے۔ انھوں نے آباد مسجدوں کو مندروں میں بدل لیا۔ یہ صورتِ حال جہانگیر اور شاہجہان کے عہدِحکومت میں، بالخصوص شاہجہان کے اواخر عہد تک جاری رہی، جب مرکزی حکومت کا نظم و نسق داراشکوہ کے ہاتھ میں چلا گیا۔۹۴؎ سترہویں صدی میں مغل انڈیا نے شاہجہان کے بیٹوں کی اقتدار کے لیے کشمکش کا عجب تماشا دیکھا۔ اورنگ زیب نے اپنے بھائیوں سے جنگیں کیں اور اُن کو قتل کردیا۔ اُس نے اپنے باپ کو قید خانے میں ڈال دیا۔ دکن میں اُس نے صرف ہندو حکمرانوں سے جنگ نہ کی، بلکہ شیعہ مسلم سلطنتوں کا بھی صفایا کردیا۔ اورنگ زیب اور داراشکوہ میں جو کشمکش ہوئی، وہ صرف مطلق اقتدار یا تخت حاصل کرنے کی جنگ نہ تھی، بلکہ دو متخالف طرزِ فکر یعنی سنی راسخیت اور صوفی راسخیت کی جنگ تھی۔ اب وہ مقام آن پہنچا تھا کہ مسلمانانِ ہند کو حتمی فیصلہ کرنا تھا کہ یا تو ہندومت میں ضم ہوجائیں یا راسخ العقیدہ اسلام سے رجوع کرکے اپنا جُدا گانہ تشخص برقرار رکھیں۔ داراشکوہ نے اپنے وقت کے دانش وروں کو تحریک دے کر بھگوت گیتا اور اپنشد کے فارسی تراجم کرائے۔ اُس کا عقیدہ تھا کہ اسلامی تصوف اور ہندو تصوف میں کوئی فرق نہیں۔ اصل میں یہ ایک ہیں۔ اُس نے اپنی مشہور تالیف مجمع البحرین میں اسلام اور ہندومت کی مشترکہ خصوصیات پر روشنی ڈالی ہے۔ سنی راسخ العقیدہ اورنگ زیب نے اپنے بھائی داراشکوہ پر الحاد کا الزام عائد کیا۔ جنگِ تخت نشینی میں اُسے شکست دے کر گرفتار کیا گیا اور پھانسی دینے کی بڑی وجہِ جواز الحاد کا الزام تھا۔ اورنگ زیب کے تخت نشین ہوتے ہی (۱۶۵۸ئ) مغلوں کی مذہبی پالیسی میں زبردست انقلاب آگیا۔ اورنگ زیب نے تمام غیراسلامی رسموں اور طریقوں کا خاتمہ کردیا۔ شمسی کیلنڈر کی جگہ ہجری کیلنڈر رائج کیا گیا۔ نوروز کی تقریبات کو غیراسلامی قراردے کر معطل کیاگیا۔ مسلمانوں میں اسلام کا مذہبی نظم و ضبط قائم کرنے کے لیے مذہبی سنسرشپ کا محکمہ ’’حسبہ‘‘ بحال کردیا گیا۔ جو محصولات حنفی ضابطۂ قانون کے مطابق درست اور جائز نہ تھے، اُن کو منسوخ کردیاگیا۔ جزیہ غیر مسلم رعایا پر دوبارہ عائد کردیا گیا (۱۶۷۹ئ)، اور ریاست کو دوبارہ شریعت کے دائرے میں لانے کی کوشش کی گئی۔ کیا اورنگ زیب شریعت کے سخت نفاذ سے جرائم کا انسداد کرنے میں کامیاب ہو گیا تھا؟ اس کی قانونی اصلاحات اور نفاذ شریعت کے بارے میں ایک انتہائی دلچسپ واقعہ دین محمد فوق نے اپنی تالیف وجدانی نشتر میں بیان کیا ہے۔اُنھوں نے لکھا ہے کہ اورنگ زیب نے اپنے مذہبی جوش میں یہ فرمان جاری کیا کہ اُس کی سلطنت میں جتنی طوائفیں موجود ہیں، وہ مقررہ مدت کے اندر اندر شادی کر لیں اور جو طوائفیں مقررہ تاریخ تک شادی نہیں کریں گی، اُن کو کشتیوں میں بٹھا کر دریائے جمنا میں ڈبو دیا جائے گا۔ اِس حکم کی تعمیل میں سینکڑوں طوائفوںنے نکاح کرکے گھر بیٹھ رہیں، لیکن اب بھی زیادہ تر غیرشادی شدہ ہی رہیں۔ مقررہ تاریخ میں صرف ایک دن باقی رہ گیا تھا۔ کشتیاں جمنا کے کنارے تیار کھڑی تھیں۔ یہ وہ زمانہ ہے جب صوفی بزرگ شیخ کلیم اللہ جہان آبادی کاشہرہ تھا۔ ایک نوجوان اور خوبصورت طوائف ہر روز اُن کی خدمت میں سلامِ عقیدت پیش کرنے آتی تھی۔ ہر صبح جب نمازِ فجرسے فارغ ہوتے تودیکھتے کہ وہ ہاتھ باندھے کھڑی ہے۔ شیخ اُس کی طرف نگاہیں اٹھا کر دیکھتے تو وہ ادب سے جھک کر سلام کرکے خاموشی سے چلتی جاتی۔ آج اُس نے بڑی جرأت کا مظاہرہ کیا کہ زبان کھولی اور کہا کہ میرا ’’آخری سلام‘‘ قبول ہو۔ شیخ نے تعجب سے پوچھا، آخری کیوں؟ اس پر اُس عورت نے اورنگ زیب کے حکم کی تفصیل بتا دی۔ شیخ نے حافظ شیرازی کے چند اشعار پڑھے اور کہا کہ یہ اشعار تم اچھی طرح یاد کر لو اور دوسری ساتھیوں سے بھی کہو کہ وہ یہ اشعاری زبانی رٹ لیں۔ جب اُن کو کشتیوں میں بٹھا کر دریا کی طرف لے جایا جائے گا تو تم سب مل کر اونچی آواز میں یہ اشعار گانا شروع کر دینا۔ چنانچہ ان سب طوائفوں نے ایسا ہی کیا اور ایسی درد انگیز آواز میں مل کر وہ اشعار پڑھے کہ ہر ایک کی آنکھوں میںآنسو آگئے۔ جب اُن کی آوازیں بادشاہ تک پہنچیں تووہ سخت پریشان ہوا اوراس نے حکم دیا کہ اِن سب کو آزاد کردیا جائے۔ اِس واقعے سے شاعری کی طاقت کا بھی اندازہ ہوتا ہے کہ حافظ کے اشعار نے اورنگ زیب جیسے راسخ العقیدہ مسلمان کو بھی اپنا فرمان بدل دینے پر مجبور کر دیا جو مغل انڈیا میں شریعت کے نفاذ پر تُلا ہوا تھا۔۹۵؎ یہ کہنا تو مشکل ہے کہ اورنگ زیب شیخ احمد سرہندی کی تعلیمات کے زیرِاثر تھا یا نہیں، البتہ یہ طے ہے کہ وہ سلسلہ نقشبندیہ (مجدّدیہ) کا حامی، اور محمد معصوم (شیخ احمد سرہندی کے جانشین) کا مرید تھا۔۹۶؎ چنانچہ اُس کے عہد میں شیخ احمد سرہندی کی پیش کردہ بعض اصلاحات نافذ کی گئیں۔ اورنگ زیب نے اپنے بعض اقدامات سے ہندو رعایا کو ناراض کیا۔ مثلاً اُس نے اُن کے مذہبی اور تعلیمی اداروں کے خلاف کارروائی کی۔ مندروں کو منہدم کرایا۔ ہندوتہوار منانے پر پابندی عائد کردی گئی۔ ہندوؤں پر جزیہ دوبارہ عائد کردیا گیا۔ اکبر اور اورنگ زیب کی مذہبی پالیسیاں ہندو مسلم دشمنی کے مسئلے کے حل کے ضمن میں دو مختلف قسم کی کوششیں نظرآتی ہیں۔ یہ مسئلہ بعد میں انگریزوں کے عہد حکومت کے دوران میں کمیونل مسئلے کے طور پر مشہور ہوا۔ اکبر کا تجربہ اس لیے ناکام رہا کہ مسلم اقلیت ہندو اکثریت میں ضم ہونے کے لیے تیار نہ تھی۔ اورنگ زیب کا تجربہ اس لیے ناکام ہوا کہ مسلم اقلیت کے بعض قوانین اور ادارے ہندو اکثریت پر تھوپنے سے ہندو ناراض ہوگئے۔ مؤرخ سری رام شرما نے بالکل ٹھیک لکھا ہے: ’’یہ اورنگ زیب کی بدقسمتی تھی کہ اُس سے پہلے حکمرانی کی مسلم روایت کو اپنی غیرمسلم رعایا کی اتنی بڑی اکثریت سے نمٹنے کا کبھی موقع نہ ملا تھا جو تبدیلی مذہب کے لیے بھی تیار نہ تھی… اِس کا نتیجہ یہ ہوا کہ عہدِ اکبری کی ہمہ گیر ریاست کی جگہ اکبر سے پہلے کی مسلم ریاست دوبارہ آگئی۔ ریاست کا نظام بدل جانے کے باوجود اُس کا بھی وہی حشر ہوا جو اکبری عہد کی ریاست کا ہوا۔ اکبری عہد سے پہلے کی مسلم ریاست کا اپنی رعایا کی بڑی اکثریت پر کوئی رسوخ نہ تھا، جس کی سرگرم وفاداری مسلم ریاست کو کبھی حاصل نہ ہوسکی۔ قدرتی بات ہے کہ تاریخِ ہند کی تین صدیاں (۱۱۹۷ تا۱۵۲۶ئ) دہلی میں متعدد مسلم خاندانوں کا عروج و زوال دیکھ چکی تھیں… اِن میں ہر حکمران خاندان کی عمر ساٹھ سال سے زیادہ نہ تھی۔ اورنگ زیب اور اُس کی ریاست کا بھی یہی حشر ہوا۔ اُس کی مذہبی پالیسی نے ہندو رعایا کی رہی سہی وفاداری کو بھی کھودیا… مغل خاندان نے جو کمائی کی تھی، وہ اورنگ زیب نے تباہ کردی۔‘‘۹۷؎ اورنگ زیب کی وفات ۱۷۰۷ء میں ہوئی۔ اس کے بعد کی صدی نے سلطنت مغلیہ کے ٹوٹنے کا تماشا دیکھا۔ اورنگ زیب کی اولاد میں جانشینی کی جنگیں ہوئیں، اُس کے جانشینوں کی نااہلی، مرکزی حکومت کی کمزوری، ہندو مسلم کمیونل تنازعات، سنی شیعہ فرقہ وارانہ جھگڑے، نادرشاہ کے ہاتھوں دہلی کی لوٹ مار (۱۷۳۹ئ) ، مرہٹوں، جاٹوں اور سکھوں کا عروج اور احمد شاہ ابدالی کے حملے (۱۷۴۹ئ)، دہلی پر روہیلہ راج کا مختصر دورانیہ، اور بالآخر انگریزوں کی فتوحات نے ہندوستان میں مسلم حکمرانی کا دیوالیہ نکال دیا۔ ظاہر ہے کہ ہندوستان میں مسلمانوں کی ’’مقتدرریاست‘‘ (طاقت کے بل پر قائم کردہ) کی حکومت ’’مخلوط قوانین‘‘ کے تحت چلائی جاتی تھی۔ شرعی قوانین نافذ کیے جاتے تھے، لیکن مغلوں کا دعویٰ تھا کہ وہ ’’امام‘‘ ہیں۔ حکمران انسان کے وضع کردہ قوانین کا بھی پیوند لگادیتا تھا، بلکہ بعض اوقات شاہی فرمان کے ذریعے شرعی تعزیرات میں ترمیم بھی کرلیتا تھا۔ اِس قسم کی قانون سازی کو ’’قانونِ شاہی‘‘ کہا جاتا تھا۔ اِس قسم کا اختیار استعمال کرنے کا اُصول یہ تھا کہ شریعت ہمیشہ ہر قوم کے مزاج، رسم و رواج اورعادات و اطوار کا لحاظ رکھتی ہے، لہٰذا امام کو یہ حق حاصل ہے کہ اگر وقت کے تقاضے اور حالات اجازت دیں تو حدود سے متعلقہ قرآنی قوانین کو عارضی طور پر معطل کردے۔۹۸؎ سلطان رحم کا حق استعمال کرکے سزا میں تخفیف کرتا تھا اور بغاوت، قتل ڈاکہ زنی اور چوری کے مقدمات میں سزائوں میں کمی بیشی کرنے کا اختیار رکھتا تھا۔۹۹؎ امیرعلی کے نزدیک یہ استحقاق سب سے پہلے امیر معاویہؓ نے استعمال کیا تھا، حالانکہ خلفائے راشدین نے کبھی استعمال نہ کیا تھا۔۱۰۰؎ ’’رواج کا قانون‘‘ جس پر اہلِ ہند عموماً عمل درآمد کرتے تھے اور جو بلاشبہ اسلام کے اُصولوں سے بھی متصادم تھا، مسلم ریاست میں ’’قانونِ عرف‘‘۱۰۱؎ کے نام سے منظور کرلیا گیا تھا۔ چھوٹے چھوٹے مقدمات کے تصفیے کے لیے دیہی علاقوں میں پنچایت سسٹم جو پہلے سے موجود تھا، اُسے جوں کا توں برقرار رکھا گیا۔۱۰۲؎ اگر حکمران یا برسراقتدار طبقے کا طرزِ زیست شریعت کے مطابق نہ ہوتا تو کسی کو بھی حرف گیری کی جرأت نہ ہوتی۔ بصورتِ دیگر مسلمان حکمرانوں نے قاضیوں کے عدل گستری کے روزمرہ کے کاموں میں شاذ ہی مداخلت کی کوشش کی ہوگی۔ تاہم مسلم انڈیا کی قانونی تاریخ، مختلف عدالتوں کی کارگزاری اور تاریخ کے مختلف ادوار میں عدل گستری کے نظام کے بارے میں وسیع اور گہرا تحقیقی کام اب تک نہیں ہوا ہے۔ بے شمار مشہور تصانیف کی صورت میں کافی مطبوعہ مواد موجود ہے، مثلاً ہدایہ، فقہ فیروز شاہی (سلطان فیروز تغلق کے عہد میں مرتب ہوئی) ، آئین اکبری، دستورالعمل عالمگیری اور فتاویٰ عالمگیری(جو شہنشاہ عالمگیر کے عہد میں مرتب ہوئیں)۔ تاریخ ہند کی چند طبع زاد کتب مثلاً طبقاتِ ناصری، تاریخ فیروز شاہی، تاریخ فرشتہ اور بدایوں کی منتخب التواریخ۔ ان کے علاوہ چند اور مفید معلومات رکھنے والی کتابیں دستیاب ہیں۔ پوری تاریخ اسلام میں قاضیوں کا تقرر بادشاہ کرتا رہا ہے۔ صدیوں کے دوران میں مسلمہ طریقِ کار جس پر پوری جزئیات کے ساتھ عمل درآمد ہوتا رہا ہے، یہ ہے کہ جن معاملوں میں قرآن و حدیث خاموش ہیں اور اُن سے کوئی رہنمائی نہیں ملتی، وہاں قاضی اپنی عقل یا صوابدید (قیاس) فقہا کی اجتماعی رائے (اجماع) سے فیصلہ کرتے تھے۔ ایک قاضی کا فیصلہ اُس کے پیش۔روؤں کے لیے نظیر نہیں بن جاتا تھا۔ نتیجتاً کسی قانون سے متعلق مقدمے کی کارروائی کی تدوین یا حفاظت کی حوصلہ افزائی نہیں کی جاتی تھی۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ۱۲۰۰ء سے ۱۸۵۷ء تک مسلم انڈیا کی عدالتی تاریخ کے بارے میں معلومات کے ذرایع و ماخذ بہت محدود ہیں۔ تاہم اِس خاص شعبے میں ایک تعارفی نوعیت کا کام موجود ہے جس پر اعتبار کیا جاتا ہے۔۱۰۳؎ مسلم ریاست نے ابتدا ہی سے ہندوؤں کے مذہبی رسوم یا رواج میں مداخلتِ بے جا سے احتراز کیا۔ مثال کے طور پر پانی یا آگ کے امتحان کے ذریعے سماعت کا طریقہ ہندو علاقوں میں ہندو عدالتی نظام کے مطابق بحال کردیا گیا۔ اگرچہ ایسی سماعت شریعت کی رُو سے غلط تھی، لیکن مسلم حکمرانوں نے اِس ہندووانہ طریقے میں مداخلت نہیں کی۔۱۰۴؎ مسلم ریاست کی حدود میں جہاں تک ہندوؤں کا تعلق ہے، اگر مقدمے کے دونوں فریق ہندو ہوتے تو اُن پر اُن کے شخصی دیوانی قانون کے مطابق عدالتی کارروائی کی اجازت تھی۔ سلطان التمش نے قاضیوں کی عدالت میں دیوانی/ شخصی مقدمات میں، ہندو قانون کی تشریح کے لیے پنڈتوں کی خدمات حاصل کرنے کا طریقہ متعارف کرایا۔۱۰۵؎ تمام رعایا پر، جن میں مسلمان اور ہندو سب شامل تھے، اسلامی فوجداری قانون لاگو ہوتا تھا، جبکہ زنا، شراب خوری وغیرہ کے جرائم میں مسلمانوں کو سخت تر سزائیں دی جاتی تھیں۔۱۰۶؎ غیر مسلموں کو شراب بیچنے، سؤر فارم بنانے، سؤر کا گوشت کھانے یا سود کے لین دین پر مقدمہ دائر نہ ہوتا تھا۔ وہ آنحضرت محمدؐ کو اللہ کا سچا رسول ماننے سے انکار کرسکتے تھے اور اُن کو قانون ارتکابِ کُفر یا توہین رسالت کے تحت سزا نہیں دی جاتی تھی۔۱۰۷؎ اِرتداد یا حقوق اللہ کی خلاف ورزی سے متعلق قوانین کا اطلاق صرف مسلمانوں پر ہوتا تھا۔ اِن قوانین کا نفاذ محتسب کرتا تھا۔ محتسب کا منصب مسلم انڈیا میں پہلی مرتبہ سلطان التمش نے متعارف کرایا تھا۔۱۰۸؎ قاضیوں کی تقرری کے لیے حکمران عام طور پر اہلِعلم و فضل کا انتخاب کرتے تھے۔ قاضی کی تقرری تاحیات ہوتی ہے اور اس کا اعلان کیا جاتا تھا، لیکن یہ بھی طے شدہ بات ہے کہ قاضی اپنا عہدہ سلطان کی مرضی تک برقرار رکھ سکتا تھا۔ حنفی فقہ کے مطابق عورت کو بھی قاضی مقرر کیا جاسکتا تھا۔ چنانچہ رضیہ سلطان نے قاضی اور منصف کے فرائض انجام دیے۔۱۰۹؎ سلطان محمد تغلق نے ابن بطوطہ کو دہلی کا قاضی القضاۃ مقرر کیا اور اُس نے سلطان کے رُوبرو حلفِ وفاداری اُٹھایا۔ قاضی القضاۃ کو سلطان مامور کرتا تھا اور وہ سلطان کے لیے حلفِ وفاداری اُٹھاتا تھا۔۱۱۰؎ مفتیوں، پنڈتوں، محتسبوں اور محرّرین کا عملہ قاضی کی عدالت سے وابستہ ہوتا تھا۔۱۱۱؎ سلطان عدالتوں کی عمارات الگ تھلگ، وسیع اور کھُلی جگہوں پر تعمیر کراتا تھا جو ’’دارالقضا‘‘ یا ’’دارالعدل‘‘ کہلاتی تھیں۔ مغلوں کے عہد میں عدالتی عمارات مزید وسیع کردی گئیں اور اِن کو کچہریاں کہا جاتا تھا۔ قاضی کے فرائض میں دیوانی و فوجداری مقدمات میں انصاف کرنے کے علاوہ یہ فرائض بھی شامل تھے: امامت (مساجد میں نماز جمعہ اور عیدین کی نمازوں کی امامت)، نکاح خوانی، محتسب کے کاموں کی انجام دہی، اوقاف کا انتظام اور مرحومین کے املاک کی تقسیم۔۱۱۲؎ شہنشاہ اورنگ زیب کے وقت میں قاضی مسلمانوں سے زکوٰۃ اور غیر مسلموں سے جزیہ وصول کرتے تھے۔ عہدِ مغلیہ سے پہلے قاضی یا قاضی القضاۃ خطبے میں خلیفۂ وقت اور حکمران سلطان کے نام بھی پڑھتا تھا اور اُن کے لیے اجتماعی دُعا کراتا تھا۔ مغلیہ عہد میں خطبے میں خلفائے راشدین کے اسمائے گرامی کے بعد حکمران مغل شہنشاہ کا نام پڑھا جاتا تھا۔ مُغل طریقِ کار میں قاضی فوجداری مقدمے میں مُجرم کو کوئی بھی سزا دے سکتا تھا، نقد جُرمانہ بھی عائد کرسکتا تھا۔ اگر سزائے موت سنائی جاتی تو اُس کی توثیق سلطان یا گورنر کرتا تھا۔۱۱۳؎ ایک انگریز سیّاح فرائر نے اپنی یادداشتوں میں لکھا ہے کہ اُس نے شہنشاہ اورنگ زیب کے عہد میں ہندوستان کا سفر کیا تھا۔ وہاں اُس نے ایک قاضی کو نکاح پڑھاتے دیکھا اور نتیجہ نکالا کہ اہلِیورپ نے شادی کی مخصوص رسم اور جسٹس آف پیس کے ہاں شادی کی رجسٹریشن کرانا، یہ سب کچھ مسلمانوں سے اخذ کیا ہوگا۔۱۱۴؎ عہدِ مغلیہ سے پہلے کے سلاطین، جن کے بارے میں مؤرخین نے تسلیم کیا ہے کہ اُنھوں نے انصاف پروری اور عدل گُستری کا اعلیٰ معیار قائم کیا تھا، اُن میں قطب الدین ایبک التمش، رضیہ، ناصرالدین محمود، بلبن، فیروزتغلق، بہلول لودھی اور سکندر لودھی شامل ہیں۔۱۱۵؎ التمش نے حکم صادر کیا تھا کہ جس شخص کو کوئی شکایت ہو اور وہ سلطان سے فریاد کرنا چاہے، اُسے سیاہ لباس پہننا چاہیے تاکہ اُس کی صاف شناخت ہوسکے سلطان نے اپنے محل سے باہر ایک زنجیرآویزاں کررکھی تھی تاکہ فریادی زنجیر کھینچ کر عدل و انصاف کا طلب گار ہوسکے۔ کبھی کبھی التمش بھیس بدل کر عدالتوں میں چلا جاتا تھا، یہ معائنہ کرنے کے لیے کہ قاضی صحیح انصاف کررہے ہیں۔۱۱۶؎ محمد تغلق نے عادی مجرموں کی اصلاح کے لیے ایک تربیتی عدالت قائم کی تھی، جو اُس کے جانشین فیروزتغلق نے ختم کردی تھی۔ فیروز تغلق نے ایسے قاضیوں کو برطرف کردیا تھا جو رشوت لینے کی وجہ سے بدنام ہوگئے تھے۔ اُس نے ایک شاہی فرمان کے ذریعے قطع اعضا کی ممانعت کردی تھی اور ’’حد‘‘ کے لیے شریعت کی مقررہ سزاؤں میں ترمیم کردی تھی۔ سکندر لودھی نے خالص دیوانی مقدمات کے جلد تصفیے کے لیے ’’میرِ عدل‘‘ کی ایک اضافی عدالت قائم کی تھی۔۱۱۷؎ سلطان جلال الدین خلجی، علاء الدین خلجی، محمد تغلق اور مغل شہنشاہ کی ایسی مثالیں موجود ہیں کہ انھوں نے شریعت کو دبانے یا نظرانداز کرنے کی کوشش کی۔ اسی طرح مفتیوں اور عامۃالمسلمین کی ناراضی کے خوف سے انھوں نے ایسی روایات قائم کرنے کا منصوبہ ترک کردیا جو اسلامی احکام کے منافی تھیں۔۱۱۸؎ شہنشاہ اکبر نے سماعت بذریعہ آزمایش کا طریقہ راجپوتوں کو خوش کرنے کے لیے رائج کرنے کی کوشش کی لیکن فقہا کی وجہ سے ارادہ ترک کردیا۔ اکبر سے پہلے سلطان جلال الدین خلجی نے سیّدی مولا کا سچ جھوٹ معلوم کرنے کے لیے اُسے آگ کے امتحان میں سے گزارنا چاہا، لیکن علما نے ایسے سخت اور غیرانسانی امتحان کی اجازت دینے سے انکار کردیا، کیونکہ یہ ازرُوئے شریعت ممنوع تھا۔۱۱۹؎ فوجداری اپیلوں کی آخری اعلیٰ عدالتیں ’’دیوانِ مظالم‘‘ اور دیوانی اپیلوں کی عدالتیں ’’دیوانِ رسالت‘‘ کہلاتی تھیں۔ اِن عدالتوں کی صدارت خود سلطان یا اُس کی موجودگی میں صدرِ جہاں کرتا تھا۔ صدرِ جہاں اُس عدالت کی بھی صدارت کرتا تھا جس کا تعلق احتساب کے معاملات سے تھا۔ علاوہ ازیں ایک شاہی عدالت تھی جس کی صدارت سلطان کرتا تھا۔ ایک خصوصی عدالت چیف جسٹس کی تھی جس کی صدارت قاضی القضاۃ کرتا تھا۔ اِن عدالتوں میں ہر قسم کے متنازع معاملات کی سماعت ہوتی تھی۔۱۲۰؎ شیر شاہ سُوری نے دیوانی مقدمات کے تصفیے کے لیے سب ڈویژن (تحصیل) کی سطح پر منصف کی اضافی عدالت قائم کی تھی۔ اُس کے عہد میں پہلی مرتبہ پولیس کے قواعد و ضوابط بھی پوری تفصیل سے مرتب کیے گئے۔۱۲۱؎ سابقہ سلاطین کی طرح مغل شہنشاہ بھی عدلیہ کا سربراہ ہوتا تھا۔ ۱۵۲۶ء کے بعد جب سلطنت مغلیہ میں توسیع ہوئی تو عدالتی نظام میں بھی مزید ترقی ہوئی۔ شہنشاہ اکبر نے عدلیہ کو انتظامیہ سے الگ کردیا۔ وزیراعظم کے عدالتی اختیارات واپس لے کر قاضی القضاۃ کے سپرد کردیے۔۱۲۲؎ شہنشاہ کو عدل و انصاف کا سرچشمہ خیال کیا جاتا تھا، لہٰذا وہ on the original side پر دیوانی اور فوجداری مقدمات اور اپیلوں کی سماعت کرتا تھا۔ وہ عموماً بنچ کی صدارت کرتا تھا جس میں قاضی القضاۃ بھی شامل ہوتا تھا اور قانون و حقائق کے مسائل کا تصفیہ کرتا تھا۔۱۲۳؎ فتاویٰ عالمگیری میں مقررہ طریقِ کار کے مطابق دیوانی مقدمات کے لیے قرار دیا گیا تھا کہ مدعی کو اپنا دعویٰ قاضی کی عدالت میں بہ نفسِ نفیس یا بذریعہ مختار مجاز دائر کرنا چاہیے۔ سرسری سماعت کے بعد مُدعا علیہ کو طلب کیا جاتا تھا کہ وہ دعوے سے انکار یا قبول کرے۔ اس کے بعد فردِجُرم عائد کی جاتی تھی اور فریقین کو شہادت پیش کرنے کے لیے کہا جاتا تھا۔ گواہوں کی مناسب جرح کے بعد فیصلہ سنایا جاتا تھا۔ مدعا علیہ یا اُس کے نمایندے کی عدم موجودگی میں ڈگری جاری نہیں کی جاتی تھی۔۱۲۴؎ فوجداری مقدمات میں طریقِ کار یہ تھا کہ مستغیث قاضی کے رُوبرو بہ نفسِ نفیس یا بذریعہ مختارِ مجاز پیش ہوتا تھا۔ سرکاری استغاثے محتسب یا کوتوال دائر کرتا تھا۔ ملزم اگر زیرحراست ہوتا تو اُسے پولیس پیش کرتی تھی یا مستغیث کی جانب سے بعض شہادتوں کے اندراج کے بعد ملزم کو عدالت کی جانب سے طلب کیا جاتا تھا۔۱۲۵؎ شہنشاہ جہانگیر کو جو معاملات پیش کیے جاتے تھے، کہا جاتا ہے کہ اُن کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لیے اُس نے اپنے طریقے وضع کررکھے تھے۔ مثلاً وہ راتوں کو محل سے نکل کر مے خانوں میں چلا جاتا، عام آدمیوں کے ساتھ شراب پیتا اور وہاں بیٹھ کر معلومات حاصل کرتا۔۱۲۶؎ اگر یہ روایت درست ہے، تو حیرت ہوتی ہے کہ محتسب کے دائرہ سماعت میں سلطنت کے مے خانے کیوں شامل نہیں کیے گئے تھے۔ قتل کے مقدمے میں جہاں تک قصاص کی ادایگی کا تعلق ہے، قاضی کو یہ صوابدیدی اختیار حاصل تھا کہ وہ فریقین کی رضامندی سے معاملہ طے کرادے، اس لیے کہ شریعت کے نزدیک قتل ایک نجی معاملہ ہے۔ اگرچہ ’’حد‘‘ سے متعلق جرائم میں کسی قسم کا معاوضہ نہیں دیا جاسکتا، جن میں سزائیں مقرر اور ناقابلِ تغیر ہیں۔ البتہ قاضی ’’تعزیری‘‘ سزاؤں کی ضابطہ بندی کرسکتا تھا، حتیٰ کہ وہ نئی سزائیں بھی ایجاد کرسکتا تھا، مثلاً زبان کاٹنا، جسم میں میخیں ٹھونکنا اور آختہ کاری۔ توہینِ عدالت کی سزا بہت سخت تھی۔ آگرہ کے قاضی نے توہینِ عدالت کے جرم پر ایک مجرم کو موت کی سزا سنائی تھی۔ قاضی کو اختیار تھا کہ وہ توہینِ عدالت کرنے والے کو ’’تعزیر‘‘ کے تحت خود سزا دے یا معاملہ شہنشاہ کی خدمت میں پیش کرے۔۱۲۸؎ کسی کو پھانسی پر چڑھانے کے ڈیتھ وارنٹ پر شہنشاہ یا گورنر دستخط کرتا تھا۔ پھانسیاں عموماً غروبِ آفتاب کے بعد دی جاتی تھیں۔ جرائم کے انسداد کی خاطر مغل شہنشاہ اور بعض سلاطین سخت اور مثالی سزائیں دیا کرتے تھے۔ سلطان بلبن نے اپنے ایک گورنر کے بارے میں، جو قتل کا ملزم تھا، حکم دیا کہ اُسے ایک غلام کی حیثیت سے مقتول کے ورثا کے حوالے کردیا جائے۔ سلطان محمد تغلق نے بغاوت کے شبہے میں ایک نیک نام اور پارساشخص کو، شاہ حیدری کی طرح، عوام کے رُوبرو پھانسی دینے سے ذرا بھی جھجک محسوس نہ کی۔ بغاوت کے ایک اور معاملے میں، ایک مشہور بزرگ شیخ حاد کا گوشت کاٹ کر بھونا گیا، اور چاول کی پلاؤ بنا کر ہاتھیوں کو کھانے کے لیے ڈال دیا گیا، لیکن ہاتھیوں نے چکھا تک نہیں۔ شہنشاہ اکبر نے ایک سرکاری عہدے دار کو، جس نے زِنا کا ارتکاب کیا تھا، اُس کا گلاگھونٹ کر ہلاک کرادیا۔ اکبر نے خود آدم خان کو، جو قتل کا ملزم تھا، اپنے قلعے کی فصیل سے نیچے پھینک دیا تھا۔ شہنشاہ جہانگیر قیدیوں کو ہاتھیوں سے کچلوانے کے منظر سے لطف اندوز ہوتا تھا۔ایک مرتبہ اُس کے حکم سے سات جرائم کے ایک مجرم، رہزن ڈاکو کا ایک ایک عضو کاٹا گیا، تاوقتیکہ وہ ہلاک نہ ہوگیا۔ شہنشاہ شاہجہاں نے ایک مجرم کو سانپ سے ڈسوا کر ہلاک کیا۔ ایک اور معاملے میں اُس نے ایک بدعنوان، راشی پولیس افسر کو زہر دے کر مارا، اور کھلی عدالت میں اُس کے سسکنے کا منظر دیکھا۔۱۲۹؎ حکمران سزا میں کمی بیشی کرسکتا تھا۔ ایک عورت دریائی خان پر یہ الزام تھا کہ اُس نے اُنیس مردوں کے ساتھ زنا کیا اور پھر اپنے عاشقوں کو غلامی میں بیچ دیا۔ قاضی نے مقدمے کی سماعت کے بعد اُسے سنگ سار کرنے کی سزادی۔ گورنر کے نزدیک اتنے بڑے جرم کی سزا ناکافی تھی۔ اُس نے معاملہ شہنشاہ کے حضور پیش کیا۔ شہنشاہ نے حکم دیا کہ خونخوار کتوں سے زانیہ کے ٹکڑے ٹکڑے کرائے جائیں۔ ایک اور معاملے میں زانیہ کو سنگ سار کرنے کی سزا گورنر نے معاف کردی۔ ایک زانیہ تین دن تک سنگ سار ہوتی رہی، لیکن وہ بچ گئی۔ اس پر اُس کی سزا معاف کردی گئی۔۱۳۰؎ ابنِ بطوطہ نے لکھا ہے کہ ہاتھیوں کو مجرمین کے ٹکڑے ٹکڑے کرنے کی خاص تربیت دی جاتی تھی۔ اُس نے لکھا ہے کہ مجرم کو ہاتھیوں کے آگے ڈال دیا جاتا۔ ہاتھی اُس شخص کو اپنی سونڈ میں لپیٹ کر ہوا میں اُچھالتا۔ پھر اُسے گھما کر اپنے پیروں میں پیٹھ کے بل ڈال دیتا۔ ہاتھی کے پائوں میں چاقو کی طرح کے تیز آہنی ہتھیار لگے ہوتے تھے۔ اگر مجرم کے ٹکڑے ٹکڑے کرنا مقصود ہوتا تو ہاتھی اپنے پائوں کے آہنی ہتھیار سے اُس کا پورا جسم چھلنی کر دیتا، اور پھر اُسے ہجوم کی طرف پھینک دیتا۔ غداروں، ڈاکوئوں اور چوروں کو یہی سزا دی جاتی تھی۔ اورنگ زیب کے عہد کے دوران بہت سی عدالتی اصلاحات کی گئیں، جن میں سے بعض پر آج تک عمل ہو رہا ہے۔ اُس کے عہد میں فتاویٰ عالمگیری اور عدالتی طریقِ کار کے لیے ضابطہ مرتب ہوئے۔ اُس نے قاضی کے حکم پر پولیس کی حراست میں ملزم کے جسمانی ریمانڈ کا طریقہ جاری کیا۔ پولیس قانونی شہادت کے بغیر کسی شخص کو گرفتار نہیں کرسکتی تھی۔ فردِجرم عائد ہونے تک اُسے حوالات یا قیدخانے میں نہیں رکھا جاسکتا تھا۔ جو فوجداری مقدمات قاضیوں کے ہاں زیرسماعت ہوتے تھے، اُن کے بارے میں حکم جاری ہوتا تھا کہ جلد از جلد نمٹائے جائیں۔ قاضی کے روبرو اپنے اپنے مقدمے کی وکالت کے لیے فریقین کو اپنے اپنے وکیل مقرر کرنے کی اجازت تھی۔ زمین کے لگان کے ضمن میں عوام کو سرکاری ریکارڈ دیکھنے کی عام اجازت تھی۔ دیوانی اور فوجداری مقدمات میں اعلیٰ عدالتوں میں اپیلیں دائر کرنے کے نظام میں اصلاحات کی گئیں۔ شہنشاہ اورنگ زیب نے عدالتی نظام کی خرابیاں دور کرنے کے لیے اعلیٰ ترین عدالت ’’دیوانِ مظالم‘‘ کی از سر نو تشکیل کی۔ وہ ہر بدھ کو دیوانِ مظالم کی صدارت خود کرتا تھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ اُس کے رویے میں نرمی آگئی۔ اُس نے موت کی سزا پانے والے مجرم کے جسم میں میخیں گاڑنے کی ممانعت کردی تھی۔ وہ بیشتر صورتوں میں موت کی سزا کو تاحیات سزا میں بدل دیتا تھا۔ چوری اور ڈاکہ زنی کے مجرمین کے لیے یہ سزا کافی سمجھی گئی کہ پچھتاوے کا احساس ہونے تک غیر معینہ عرصے کے لیے قید میں ڈال دیا جائے۔ چوری کی سزا میں قطع ید کی ممانعت ایک شاہی فرمان کے ذریعے کردی گئی تھی۔۱۳۲؎ اورنگ زیب نے ایک اور شاہی فرمان کے ذریعے مشکوک افراد کی پولیس نگرانی کا ایک باقاعدہ نظام رائج کردیا تھا۔۱۳۳؎ اس نے قاضیوں کو حکم دے رکھا تھا کہ وہ گاہے بگاہے بندی خانوں (قید خانوں) کا خود معائنہ کیا کریں، اور جب کسی سزا یافتہ کے بارے میں یہ معلوم ہو کہ اُس کو بہت زیادہ دیر تک قید خانے میں رکھا گیا ہے، تو اُسے رہا کردیا جائے۔۱۳۴؎ مسلم ریاست میں بیشتر علما سلاطین کو مشورہ دیا کرتے تھے کہ غیر مسلم رعایا پر سخت اور تضحیک آمیز رویہ اختیار کرنا اُن کی مذہبی ذمہ داری ہے۔ ضیاالدین برنی رقم طراز ہے کہ علما سلطان التمش سے غیر مسلموں سے نرمی اور ہمدردی کا سلوک اختیار کرنے پر ناراض تھے۔ سلطان بلبن کو مولانا نورالدین مبارک غزنوی نے بتایا کہ اچھے مسلمان کی نشانیوں میں سے ایک یہ ہے کہ جب سلطان کسی ہندو کو دیکھے تو اُس کا چہرہ غیظ و غضب سے سُرخ ہوجائے۔ علما کے اصرار پر اور اکبر کی مذہبی پالیسی کے ردِعمل میں شہنشاہ اورنگ زیب نے حکم صادر کیا تھا کہ جزیہ غیرمسلموں کے پاس جاکر وصول نہ کیا جائے، بلکہ یہ ہر غیر مسلم کی ذمہ داری ہے کہ وہ خود آکر جزیہ جمع کرائے۔۱۳۵؎ علما نے اس رائے کا اظہار کیا تھا کہ مسلم انڈیا میں اسلام کی برتری کے لیے رسمی مظاہرہ ضروری ہے، مثلاً گائوکشی اور ہندوؤں سے جزیے اور زیارت ٹیکس کی وصولی۔ اورنگ زیب کی وفات کے بعد اُس کے جانشینوں نے اُس کا مستحکم عدالتی نظام درجہ بدرجہ کمزور کردیا۔ عدلیہ کے اختیارات مختلف سطحوں کے منتظمین نے ناجائز طور پر اپنے حق میں کرلیے۔ اِن غاصب لوگوں کی بدعنوانیوں اور بے انصافیوں سے انگریزوں کو اپنا عدالتی نظام نافذ کرنے کا بہانہ مل گیا۔ اٹھارہویں صدی کے دوران میں سلطنت مغلیہ زوال پذیر تھی۔ ہندوستان میں مسلم سماج اور خاص طور پر دہلی میں سخت بدنظمی اور خلفشار تھا۔ اورنگ زیب نے سنی راسخیت پر جو خاص زور دیا تھا، اُس کی وجہ سے نہ صرف ہندوؤں اور مسلمانوں میں منافرت بڑھ گئی تھی، بلکہ شیعوں اور سنیوں کے درمیان بھی کشمکش میں اضافہ ہوگیا تھا۔ اورنگ زیب کے جانشین بہادر شاہ نے اپنے باپ کی سخت، بے لچک سنی پالیسی سے انحراف کیا۔ حکم صادر کیا کہ خطبے میں تکریم کا لفظ ’’سیّد‘‘ اُس کے دیگر القابات کے ساتھ بڑھا دیا جائے۔ ’’سیّد‘‘ ہونے کا دعویٰ اُس نے اس لیے کیا تھا وہ سیّد زادی نواب بائی بیگم کے بطن سے تھا۔ اُس نے یہ حکم بھی دیا کہ اُس کے والد اورنگ زیب کے وقتوں میں جو خطبہ پڑھا جاتا تھا، اُسے یکسر بدل دیا جائے۔ نئے خطبے میں خلیفہ ابوبکرؓ اور خلیفہ عمرؓ کے اسمائے گرامی تو برقرار رکھے گئے، لیکن خلیفہ عثمانؓ کا اسم گرامی خارج کردیا گیا، اور خلیفہ علیؓ کے القابات میں ’’وصی‘‘ کا اضافہ کردیا گیا (جس کا مطلب ہے نبی کریمؐ کی وصیّت پر عمل کرنے والا)۔ خلیفہ علیؓ آنحضورؐ کے چچا ابوطالب کے فرزند، حسنؓ و حسینؓ کے والد اور اماموں کے امام! سنّیوں نے یہ نیا خطبہ لاہور، دہلی اور احمد آباد کی مساجد میں پڑھنے کی مزاحمت کی۔ احمد آباد میں خطیب کو پنجاب کے ایک مسلمان نے قتل کردیا۔ جامع مسجد دہلی میں خلیفہ علیؓ کی شان میں آیاتِ قرآنی کی تلاوت کا نتیجہ یہ ہوا کہ مؤذن کو ہلاک کردیا گیا۔ اس طرح کے واقعات دوسرے شہروں میں بھی رونما ہوئے، جس کے نتیجے میں بہادر شاہ اپنا حکم واپس لینے اور سابقہ روایتی سنی خطبہ بحال کرنے پر مجبور ہوگیا۔۱۳۶؎ مذکورہ صدی کے دوران میں ہندو مسلم فسادات روزمرہ کے معمول بن گئے۔ فرخ سیر کے عہدِ حکومت کے دوسرے سال میں احمد آباد میں ہندومسلم فسادات مسلسل تین دن جاری رہے، جن میں بے شمار ہندو اور مسلمان مارے گئے۔۱۳۷؎ ۱۷۲۰ء میں آگرہ اور کشمیر میں، ۱۷۲۵ء اور پھر ۱۷۲۹ء میں دہلی میں، اور ہندوستان کے دوسرے شہروں میں ہندو مسلم فسادات ہوتے رہے۔۱۳۸؎ تصوف کے جھوٹے مدعیان اور نیم صوفی جگہ جگہ نمودار ہونے لگے اور اُن کے سلسلے عوام پر خطرناک اثر قائم کرنے لگے۔ مثال کے طور پر اورنگ زیب کی اولاد میں سے بعض نے اپنا ہی ایک نیا متصوفانہ سلسلہ شروع کردیا، اور درباری اُن کے مرید بن گئے۔ نام نہاد تصوف کی جڑیں اتنی مضبوط تھیں کہ آخری وہمی مغل شہنشاہ کو اپنی متصوفانہ، طلسمی قوت پر اس قدر یقین تھا کہ وہ خود کی مچھر یا مکھی کی صورت میں قلبِ ماہیت کرسکتا ہے۔۱۳۹؎ مسلمانوں کے متوسط اور نچلے طبقوں نے بے شمار غیر اسلامی طور طریقے اختیار کرلیے۔ بالائی طبقے کی بیگمات بڑی مہنگی خوشبویات و عطریات اور زیورات سے لدی پھندی رہتیں۔ چکلوں کے مالکوں کے گماشتے اور ایجنٹ، جن میں مرد اور عورتیں شامل تھیں، دہلی کے سماج کے مختلف طبقوں سے نوجوان لڑکیوں کو ترغیب دے کر چکلوں میں آزادانہ لاتے تھے۔ کتاب شاہ ولی اللہ اور اُن کا زمانہ کا مصنف رقم طراز ہے: ’’آتشک، سوزاک اور دوسری جنسی بیماریوں کی دوائیں عطائیوں کی دکانوں پر بکثرت دستیاب تھیں جو فنِ تشہیر کے بھی بڑے ماہر تھے۔‘‘۱۴۰؎ سوال یہ ہے کہ ہندوستان میں مسلمانوں کی مقتدر ریاست کے زوال کے اسباب کیا تھے؟سنی راسخیت اور شیعہ راسخیت کی زبردست کشمکش، جس کی طرف پہلے بھی اشارہ کیا جاچکا ہے۔ اورنگ زیب کے عہد میں اسلامی تشخص برقرار رکھنے کی کوشش کی گئی، جس کی وجہ سے ہندوؤں اور مسلمانوں کی دیرینہ عداوت میں مزید اضافہ ہوا۔ عالمِ اسلام میں بالعموم اور مسلم انڈیا میں بالخصوص، تخلیقی اور اختراعی سرگرمی کے فقدان کی وجہ سے، ذہنی و فکری جمود نے علما و فقہا کو اپنی گرفت میں لے لیا تھا۔ اُن میں اتنی اہلیت و قابلیت نہ تھی کہ وہ بدلتے ہوئے حالات میں اُمت مسلمہ کو پیش آمدہ مسائل کے ٹھوس حل پیش کرسکتے۔ اسلام کے قرن اوّل میں عظیم صوفی سلاسل نے اپنے خلوص، ہمدردی اور قرآن کی انسانی مساوات کی تعلیمات کی بے لوث تبلیغ سے لاکھوں غیرمسلموں کو مشرف بہ اسلام کیا تھا، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ تصوف کے سلسلوں میں بھی زوال آگیا تھا۔ صوفی طریقت نے شریعت کی راہِ ہدایت ترک کردی اور ایسے طور طریقوں میں مبتلا ہوگئے جو اسلام کے لیے نہ صرف اجنبی تھے، بلکہ منافی بھی تھے۔ سادہ لفظوں میں یوں کہیے کہ ہندوستان میں مسلم سٹیٹ ہمیشہ سے سلطان/ بادشاہ کی جائیداد رہی ہے۔ یہاں کے باشندوں نے کبھی شہریوں کا درجہ حاصل نہیں کیا، بلکہ ہمیشہ اُن کو رعایا سمجھا گیا۔ تاریخ کے صفحات شاہد ہیں کہ سیاسی اقتدار کے زوال سے قوم کا کردار بھی خراب ہوجاتا ہے۔ ہندوستان میں مسلم سلطنت کے سقوط سے مسلمانوں کے اخلاق و کردار میں بھی تیزی سے خرابی رونما ہوئی۔ علامہ محمد اقبال کا مشاہدہ بالکل صحیح تھا۔ وہ لکھتے ہیں: ’’جب سے ہندوستان میں مسلمانوں کے سیاسی اقتدار کو زوال آیا ہے، اُس وقت سے وہ بڑی تیزی سے اخلاقی پستی میں بھی مبتلا ہوگئے ہیں۔ دنیا کی تمام مسلم اقوام میں غالباً مسلمانانِ ہند، کردار کے لحاظ سے سب سے پست ہیں۔ میرا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس ملک میں اپنی سابقہ عظمت سے انکار کیا جائے۔ لیکن مجھے اعتراف ہے کہ کسی قدر تقدیر پرست بھی ہوں اور اُن مختلف و متنوع قوتوں سے بخوبی آگاہ ہوں جو قوموں کی تقدیر بناتی یا بگاڑتی ہیں۔‘‘۱۴۱؎ ئ…ئئ…ء حوالے و حواشی ۱- مولانا ابوظفر ندوی، تاریخِ سندھ،ص۳۷۸،۳۷۹۔ ۲- ایضاً،ص۳۷۷،۳۷۸؛ چھچھ نامہ، ترجمہ: اختررضوی،ص۲۷۸۔ ۳- تاریخ سندھ،ص۳۷۱۔ ۴- ایضاً، ص۱۲۴،۱۲۵،۳۶۳،۳۷۰۔ 5- Chronological Dictionary of Sind, p. 195; History of India ed. & trans. by Eliot & Dowson vol.1 pp. 459-461; Tarikh-i-Ferishta trans. by Briggs vol. 4. pp. 411, 422-443. 6- Al-Beruni's India, trans. by S.Sachaul vol.1. pp. 17,19,179. 7- A History of Urdu Literature by T. Grahame Bailey. pp. 5-12. 8- Studies in Islamic Culture in the Indian Environment by Aziz Ahmad. pp. 4-6. ۹- طبقاتِ ناصری،انگریزی ترجمہ:ریورٹی،جلد اوّل،ص۵۲۵؛ تاریخ فرشتہ،جلد اوّل، ص۱۹۸۔ ۱۰- طبقاتِ ناصری، جلد اوّل،ص۵۲۵۔ ۱۱- ایضاً،ص ۵۲۸۔ ۱۲- ایضاً،ص ۵۲۸-۵۳۱،۵۴۴،۵۹۰-۵۹۵،۶۰۸،۶۱۶۔ ۱۳- ایضاً، ص۶۳۰-۶۳۲۔ ۱۴- ایضاً، ص۶۳۲-۶۳۷۔ ۱۵- ایضاً، ص۶۳۶-۶۳۷۔ ۱۶- ایضاً، ص۶۳۸-۶۳۹۔ ۱۷- ایضاً، ص۶۶۸-۶۶۹۔ ۱۸- ایضاً، جلد دوم،ص۲۵۹۔ 19- Tarikh-i-Ferishta, vol.1 p.245. ۲۰- Pathan Kings of Delhi، ص۲۵۴،۲۵۵۔ 21- Tabaqat-i-Nasiri, vol.2. p.1259. 22- Tarikh-i-Ferishta, vol.1. p.251 ۲۳- Studies in Islamic Culture in the Indian Environment، ص۷۔ ۲۴- ایضاً، ص۱۰۔ 25- The Caliphate, pp.87,88. ۲۶- تاریخ فیروز شاہی، اُردو ترجمہ: ڈاکٹر سیّد معین الحق۔ ۲۷- ایضاً، ص۱۰۴،۱۰۵۔ ۲۸- ایضاً، ص۲۱۵-۲۷۳۔ ۲۹- ایضاً، ص۲۸۸،۲۸۹۔ ۳۰- ایضاً، ص۳۰۳،۳۰۴،۳۰۷،۳۰۸۔ ۳۱- ایضاً، ص۳۱۸-۳۸۴۔ ۳۲- ایضاً، ص۳۷۸،۳۷۹۔ 33- Ibid., p. 391; Tarikh i Farishta, vol.1. pp.333,334. ۳۴- ایضاً، ص۴۲۴۔ 35- Tarikh i Farishta, Vol.1. p. 347. ۳۶- تاریخ فیروز شاہی، ص۴۳۴۔ ۳۷- تاریخ فرشتہ، اُردو ترجمہ: عبدالحی خواجہ، جلد اوّل،ص۴۰۲-۴۰۸۔ ۳۸- تاریخ فیروز شاہی،ص۴۶۱۔ ۳۹- ایضاً، ص۵۳۴۔ ۴۰- ایضاً، ص۵۵۵،۵۵۶۔ ۴۱- Pathan Kings of India، ص۱۷۹-۱۸۳۔ ۴۲- تاریخ فیروز شاہی،ص۵۵۱-۶۰۶۔ ۴۳- ایضاً، ص۶۴۶،۶۴۷۔ ۴۴- ایضاً، ص۶۵۵،۶۵۶۔ ۴۵- ایضاً، ص۶۹۹،۷۰۰۔ 46- Tarikh i Farishta, Vol.1. p. 426. ۴۷- ایضاً، ص۴۲۶؛ Pathan Kings of Delhi، ص۲۵۶۔ شمس السراج عفیف اپنی تالیف تاریخ فیروز شاہی میں لکھتا ہے کہ یہی طریقہ اُس کے جانشین فیروز شاہ تغلق نے بھی اختیار کیا تھا۔دیکھیے: History of India by Elliot and Dowson, Vol.3. pp. 292,293; also see pp.249,250. ۴۸- تاریخ فیروز شاہی،ص۸۳۲،۸۳۳۔ ۴۹- تاریخ فرشتہ، اُردو ترجمہ عبدالحی خواجہ، جلد اوّل،ص۵۱۳،۵۱۴۔ 50- Tarikh i Ferishta, Vol.1. p. 508. E. Thomas in his Pathan Kings of Delhi: میںلکھتا ہے کہ اُس عہد کے سکّوں پر سابقہ سلاطین تغلق کے نام کندہ ہیں،ص۳۲۸،۳۲۹۔ ۵۱- تاریخ فرشتہ، اُردو ترجمہ عبدالحی خواجہ، جلد اوّل،ص۶۰۴۔ ۵۲- ایضاً، ص۶۰۶،۶۰۸۔ ۵۳- Pathan Kings of Delhi، ص۱۹۴،۱۰۷،۲۰۱۔ 54- Tarikh i Farishta, trans. by Briggs Vol.3. pp.24,225. ۵۵- ایضاً، جلد دوم، ص۳۰۰۔ ۵۶- ایضاً، اُردو ترجمہ: عبدالحی خواجہ، جلد اوّل، ص۸۴۱، ۵۷- ایضاً، ص۸۸۰۔ ۵۸- Studies in Islamic Culture in the Indian Environment، ص۱۰،۱۱۔ ۵۹- تاریخ فرشتہ، اُردو ترجمہ: عبدالحی خواجہ، جلد اوّل،ص۳۸۲،۳۸۳-۳۸۵۔ ۶۰- ایضاً، ص۳۹۷،۴۰۱۔ 61- Tarikh i Farishta, trans. by Briggs Vol.2. p.46. 62- Indian Islam by Murray T. Titus. pp. 59,60. 63- Badaoni's Mutakhab ut Tawarikh, trans. by W.H. Lowe Vol. 2. p.282. ۶۴- Pathan Kings of Delhi، ص۳۷۸،۳۸۲۔ 65- Indian Islam, pp. 59,60. 66- The Religious Policy of the Mughal Emperors, p.9. 67- Badaoni's, Mutakhab ut Tawarikh, vol. 2. p.203. ۶۸- ایضاً، ص۲۷۸-۲۸۰۔ ۶۹- ایضاً، ص۳۲۳۔ ۷۰- ایضاً، ص۲۹۹۔ ۷۱- ایضاً، ص۲۶۵،۲۶۶،۳۱۱؛ Ain-i-Akbari, translated by Brochmann & Jarrett. Vol 1. pp.158,162. ۷۲- ایضاً، جلد دوم، ص۲۱۳،۳۱۷،۳۴۹،۳۶۷،۲۹۵،۲۸۱۔ ۷۳- ایضا، جلد دوم، ص۲۹۹،۳۰۴،۳۴۹۔ ۷۴- ایضاً، جلد دوم، ص۲۶۷،۲۰۴،۲۰۵،۲۶۲،۲۰۶،۲۱۴۔ سری رام شرما کا خیال ہے کہ اکبر مسلمان ہی رہا۔ دیکھیے: اُس کی کتاب The Religious Policy of the Mughal Emperors, pp.46 51. 75- Indian Islam, p.111. ۷۶- بدایونی، منتخب التواریخ (انگریزی ترجمہ)، جلد دوم، ص۲۶۵،۲۶۶،۲۸۷۔ ۷۷- ایضاً، جلد دوم،ص۲۶۸۔ ۷۸- ایضاً، جلد دوم، ص۳۱۷،۳۱۹،۳۳۲،۳۱۶،۳۲۴،۲۸۴،۳۸۸،۳۴۹،۳۱۰،۳۱۲،۳۱۴،۳۱۵،۳۶۸؛ مکتوباتِ امام ربّانی، جلد دوم،ص۹۲،۲۷۰۔ ۷۹- Organization of the Sannyasis of the Vedant (یہ انگریزی مقالہJournal of Royal Asiatic Society,، ۱۹۲۵، صفحہ۴۸۳-۴۸۵، شائع ہوا) ۸۰- ایضاً۔ 81- Badaoni's, Muntakhab ut Tawarikh, trans. by W.H. Lowe. Vol. 2. p.375. ۸۲- مکتوباتِ امام ربّانی، جلد اوّل،ص۳۱،۷۵،۷۶۔ نیز دیکھیے: Indian Islam، ص۱۲۴،۱۲۵۔ انھوں نے اپنے بارے میں ’’مجدد الف ثانی‘‘ کا دعویٰ کیا۔ ۸۳- کمال الدین، ووضۃ القیومیہ، جلد اوّل،ص۶۴-۶۷۔ ۸۴- The Mystical Philosofohy of Muhyid-ud-Din Ibn-al-Arabi,by F.A Affifiص۴،۵،۱۰،۱۳،۱۶،۱۷،۱۹،۲۴،۲۹،۳۱،۴۰،۴۵،۵۴،۵۵،۶۰،۶۱،۱۴۹۔ 85- The Mujjaddid's Conception of Tawhid by Burhan Ahmad Faruqi. pp. 57 94. ۸۶- مکتوباتِ امام رّبانی، جلد اوّل،ص۴۷،۵۱،۶۵،۸۱،۱۰۳،۱۶۳،۱۰۵، ۱۱۷،۱۱۸،۱۲۲،۱۴۴، ۱۴۶، ۱۷۹، ۲۱۰،۲۷۷،۳۲۳۔ ۸۷- روضۃ القیومیہ، جلد اوّل، ص۱۷۱-۱۷۴۔ ۸۸- ایضاً، جلد اوّل،ص۱۷۵،۱۸۱۔ نیز دیکھیے: حضرات القدس، جلد دوم، ص۸۹،۹۰۔ توزکِ جہانگیری، مرتبہ: سیّد احمد خان، ص۲۷۲،۲۷۳۔ ۸۹- روضۃ القیومیہ، جلد اوّل،ص۱۹۰،۱۹۱۔ ۹۰- روضۃ القیومیہ کا مصنف لکھتا ہے کہ یہ اصلاحات جہانگیر نے نافذ کی تھیں۔ جلد اول، ص۱۹۳۔ لیکن اُس کا یہ دعویٰ درست نہیں۔ ۹۱- حضرات القدس، جلد دوم، ص۹۰۔ ۹۲- روضۃ القیومیہ، جلد دوم، ص۱۸۔ 93- History of India, by Elliot and Dowsen Vol. 7. p.170. ۹۴- محمد شبلی ، اورنگ زیب عالمگیر، ۹۵- محمد دین فوق نے وجدانی نشتر میں حافظ شیرازی کے جس شعر کا ذکر کیا ہے، وہ یہ ہے: درکوئے نیک نامی مارا گزر ندادند گرتونمی پسندی تغییر دہ قضارا ۹۶- روضۃ القیومیہ، جلد دوم، ص۳۸،۳۹۔ 97- Religious Policy of the Mughal Emperors, pp.168,169. ۹۸- جریدہ المعارف، شمارہ اکتوبر دسمبر ۱۹۹۶ئ، جنوری -مارچ۱۹۹۷ئ،ص۷۱، شائع کردہ: ادارۂ ثقافتِ اسلامیہ، لاہور۔ ۹۹- The Administration of Justice in Medieval India, by M.Bashir Ahmad، ۱۹۴۱ (علی گڑھ ہسٹاریکل ریسرچ انسٹی ٹیوٹ، علی گڑھ (یونیورسٹی)، ص۷۹،۸۰؛ محمد بشیر احمد، The Judicial System of the Mughal Empire، ۱۹۷۸ (پاکستان ہسٹاریکل سوسائٹی، کراچی)، جلد دوم دراصل جلد اوّل کا نظرثانی ایڈیشن ہے۔ 100- The Spirit of Islam, p.280. ۱۰۱- ایضاً، ص۷۳،۷۴۔ ۱۰۲- ایضاً، ص۱۲۷۔ ۱۰۳- The Administration of Justice in Medieval India ۱۰۴- ایضاً، ص۱۹۴۔ ۱۰۵- ایضاً،ص۱۲۷۔ ۱۰۶- ایضاً،ص۷۲۔ ۱۰۷- ایضاً،ص۷۷۔ ۱۰۸- ایضاً،ص۱۱۶۔ ۱۰۹- ایضاً،ص۸۲،۸۵۔ ۱۱۰- ص۱۰۹۔ الشمش پہلا شخص تھا جس نے یہ طریقہ شروع کیا تھا کہ سلطان کی تخت نشینی قاضی القضاۃ کو سرانجام دینی چاہیے۔ صدر جہاں کا عہدہ سلطان ناصرالدین محمود نے شروع کیا تھا تاکہ وہ دیوانِ مظالم (اعلیٰ ترین عدالت) کی صدارت کرے اور اُس نے سراج الدین منہاج کو پہلا صدر مقرر، ص۱۰۴، ۱۰۵۔ ۱۱۱- ایضاً،ص۱۱۹،۱۲۰۔ ۱۱۲- ایضاً،ص۱۲۱،۱۲۲،۱۵۴۔ ۱۱۳- ایضاً،ص۱۸۶۔ ۱۱۴- ایضاً،ص۱۵۴۔ ۱۱۵- ایضاً،ص۹۸،۹۹۔ ۱۱۶- ایضاً،ص۹۸۔ مغل شہنشاہ جہانگیر نے بھی زنجیرِ عدل اپنے محل کے باہر آویزاں کرائی تھی۔ ۱۱۷- ایضاً،ص۱۲۷۔ ۱۱۸- ایضاً،ص۹۹۔ ۱۱۹- ایضاً،ص۱۹۴،۱۹۵۔ ۱۲۰- ایضاً،ص۱۰۴،۱۰۵۔ ۱۲۱- ایضاً،ص۱۲۹ ۱۲۲- ایضاً،ص۱۳۷،۱۳۸۔ ۱۲۳- ایضاً،ص۱۴۲۔ ۱۲۴- ایضاً،ص۱۸۱۔ ۱۲۵- ایضاً،ص۱۸۲،۱۸۳۔ ۱۲۶- ایضاً،ص۱۸۴۔ ۱۲۷- ایضاً،ص۲۲۵،۲۲۶۔ ۱۲۸- ایضاً،ص۲۳۰۔ ۱۲۹- ایضاً،ص۲۰۱،۲۰۲،۲۳۲،۲۳۶۔ ۱۳۰- ایضاً،ص۲۰۲،۲۰۳۔ ۱۳۱- ایضاً،ص۲۳۶۔ ۱۳۲- مرزا محمد حسن، مراۃ احمدی، مرتبہ: سیّد نواب علی، کلکتہ، ص۲۹۶،۲۹۷۔ ۱۳۳- The Administration of Justice in Medieval India،ص۲۶۶-۲۷۱،۲۰۱،۲۰۲۔ ۱۳۴- ایضاً،ص۲۲۵،۲۴۷،۲۴۸۔ ۱۳۵- جریدہ المعارف، شمارہ اکتوبر-دسمبر۱۹۹۶، جنوری-مارچ ۱۹۹۷ئ، شائع کردہ ادارۂ ثقافتِ اسلامیہ لاہور، ص۴۴-۴۵۔ ۱۳۶- ایضاً، ص۷۱۔ 138- Shah Wali Allah & His Times by Saiyid Athar Abbas Rizvi. Australia, 1980. pp.197 202. ۱۳۸- سیّد اختر عباس رضوی، شاہ ولی اللہ اور اُن کا زمانہ، (انگریزی)، ۱۹۸۰ئ،ص۱۹۷-۲۰۲۔ ۱۳۹- اسبابِ بغاوتِ ہند،ص۵۔ 140- Shah Wali Allah & His Times, pp.176,178. ۱۴۱- Stray Reflection، ص۵۰،۵۱۔ ظ…ظظ…ظ باب سوم عسکریت پسند ’’وہابی‘‘ اسلام کا عروج ہندوستان میں ’’وہابی‘‘ اسلام کے عروج کا سراغ اٹھارویں صدی میں لگایا جاسکتا ہے، جب سلطنتِ مغلیہ مائل بہ انتشار تھی اور سلسلۂ نقشبندیہ (مجددیہ) کی پہلی سی کٹر مذہبی شدت پسندی عقائد کی راسخیت اور خالص پن کو قائم رکھنے سے رفتہ رفتہ بے نیاز ہوگئی تھی۔ علما اور مشائخ صحائفِ آسمانی کی تفسیر، فقہ و قانون کے مسائل اور وحدت الوجود اور وحدت الشہود کے متصوفانہ نظریوں کے بحث مباحثوں میں ایک دوسرے کے متقابل و متصادم تھے۔ اُس مشکل زمانے میں انتہائی اور اہم شخصیت شاہ ولی اللہ (۱۷۰۳-۱۷۶۲ئ) سامنے آتی ہے۔ وہ اور اُن کے اخلاف شاہ عبدالعزیز، شاہ رفیع الدین، شاہ عبدالقادر اور شاہ عبدالغنی مسلمانوں کے معاشرے میں اصلاحات کا بیڑہ اُٹھاتے ہیں۔ انھوں نے مسلمانوں کو احساس دلایا کہ وہ پیش آمدہ سیاسی، معاشرتی اور اقتصادی تبدیلیوں سے کس طریقے سے ہم آہنگی اختیار کرسکتے ہیں۔ شاہ ولی اللہ نے روایتی اسلامی تعلیم اپنے والد شاہ عبدالرحیم کی نگرانی میں حاصل کی۔ شاہ عبدالرحیم نے اپنے فرزند کو مختلف صوفیانہ سلاسل مثلاً نقشبندیہ، قادریہ اور چشتیہ میں بیک وقت بیعت کرایا۔ شاہ ولی اللہ نے چاروں سُنی مکاتبِ فقہ میں اور یہ جن کتبِ حدیث پر مبنی تھے، اُن میں گہری دل چسپی لی۔ اپنے والد کے مرقد پر مراقبے کی عادت نے اُن کے اندر غور و فکر کی صلاحیت کو غالب کردیا اور غالباً اِسی عادت کی وجہ سے مسائل تصوف کے ادراک میں بھی ان کے اندر وسعتِ فکر و نظر پیدا ہوئی۔ اُن کی ابتدائی تعلیم سے اُن کی علمیت میں توازن و عدل کا احساس پیدا ہونے میں مدد ملی۔ اُنھوں نے اپنے وقت کے علما اور مشائخ پر اس باب میں کڑی تنقید کی کہ وہ مسلم عوام کو اسلام سے دور لے جارہے ہیں۔ انھوں نے مسلم عوام کی بھی سرزنش کی کہ وہ ایسے رسوم و طریق اختیار کررہے ہیں جو اسلام کے خلاف ہیں۔ اس حقیقت کے باوجود کہ وہ تقلید کو مسترد کرنے کا رجحان رکھتے تھے، انھوں نے کہا یہی کہ چاروں سنی مکاتبِ فقہ برابر کی اہمیت رکھتے ہیں اور چاروں کی پیروی کرنی چاہیے۔ انھوں نے ایک مکتب کی دوسرے مکاتب پر نکتہ چینی کے رجحان کی مذمت کی اور ہمیشہ اُن کے اختلافات دور کرنے کی کوشش کی۔ اُن کی رائے یہ تھی کہ معتبر اور فاضل فقہا بذریعۂ اجتہاد انفرادی فیصلے کیا کریں۔ اجتہاد کے طریقے پر عمل کرنے سے وہ لامحالہ اپنی فقہ میں حائل قانونی پیچیدگی کو رفع کرنے کے لیے دوسرے مکاتبِ فقہ کے نظریات سے بھی استفادہ کریں گے۔ اُن کا خیال تھا کہ ہر نسل کے مسلمانوں میں سے تعلیم یافتہ اور فاضل لوگوں کی اجتماعی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے وقت کے مسائل سے عہدہ برآہونے کے لیے اجتہاد سے کام لیا کریں۔ شاہ ولی اللہ چونکہ مختلف سلاسل سے بیعت تھے، لہٰذا وہ محسوس کرتے تھے کہ تمام صوفیانہ سلسلے روحانی طور پر یکساں قدر و قیمت کے حامل ہیں۔ اس تناظر میں وہ خود کو ابن العربی کے تصورِ وحدت الوجود اور شیخ احمد سرہندی کے تصورِ وحدت الشہود کے ماننے والوں کے درمیان ایک ہمدرد اور مخلص ثالث خیال کرتے تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ اصل میں دونوں ایک ہیں۔ اس کے باوصف وحدت الوجودیوں کے خیال کے برعکس وہ اسلام کو ہندومت سے برتر خیال کرتے تھے۔ شاہ ولی اللہ کے نزدیک جہاد شریعت کے لوازم میں سے ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ انھوں نے راسخ العقیدہ مسلمانوں کو تاکید کی کہ وہ تصوف سے بھی ہم آہنگی اختیار کریں، کیونکہ شریعت اور طریقت ایک ہی حقیقت کے دوپہلو ہیں۔ شریعت خارجی پہلو ہے جس کا تعلق حقوق اللہ اور حقوق العباد کے تحفظ سے ہے، جب کہ طریقت باطنی پہلو ہے جس کا تعلق نیک اعمال کے ذریعے تطہیرقلب سے ہے۔ مختصر یہ کہ شاہ ولی اللہ کا اصل اور بڑا کردار یہ ہے کہ انھوں نے تضادات کو دور کرنے، اور الہٰیات، فقہ اور تصوف کے باہمی اختلافات میں تطبیق پیدا کرنے کی کوشش کی۔ فارسی زبان میں اُن کے ترجمۂ قرآن کو قدامت پسند علما نے بدعت قرار دے کر مسترد کردیا، اوّل اس وجہ سے کہ ترجمہ اصل عربی متن کے معجزانہ اثر سے خالی ہے۔ دوم اِس وجہ سے کہ دوسرے دانشوروں کو دوسری زبانوں میں قرآن مجید کا ترجمہ کرنے کی حوصلہ افزائی ہوگی۔ لیکن اُن کے فارسی ترجمے نے ایک ایسی ہیئت روشن کردی، جس کی روشنی میں آگے چل کر اُن کی اولاد نے قرآن مجید کا اُردو ترجمہ کیا۔ شاہ ولی اللہ کی شخصیت میں ایک سیاسی رنگ بھی تھا۔انھیں مغلیہ حکومت کی بحالی سے، خصوصاً دہلی میں، بڑی گہری دلچسپی تھی۔ انھوں نے احمد شاہ ابدالی کو متعدد خطوط لکھ کر دعوت دی کہ وہ ہندوستان آئے اور مرہٹوں کو کچل دے، جنھوں نے دارالحکومت دہلی پر پورا کنٹرول حاصل کررکھا ہے۔ احمد شاہ ابدالی نے دہلی پر حملہ کیا اور مرہٹوں کو کچل کے رکھ دیا، لیکن مغلیہ حکومت کی بحالی کی غرض سے نہیں، بلکہ پنجاب میں اپنے مقبوضات کے تحفظ کے لیے، جو مرہٹوں کے پے بہ پے حملوں کی زد میں تھے۔ احمد شاہ ابدالی نے بے شک مرہٹوں کی طاقت کا دیوالیہ نکال دیا، لیکن اُس نے مسلمانوں کی طاقت کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا۔ اسی وجہ سے شاہ ولی اللہ پر سیاسی بصیرت نہ رکھنے کا الزام عائد کیا جاتا ہے اور سیاسی بصیرت کے فقدان کے الزام کے تحت اُن پر یہ بھی نکتہ چینی کی جاتی ہے کہ انھوں نے مئی ۱۷۵۷ء میں جنگ پلاسی میں مسلمانوں پر انگریزوں کی فتح کو نظرانداز کردیا، جس نے ہندوستان میں مسلمانوں کے اقتدار پر بدنصیبی کی مہر ثبت کردی۔ اُنھیں صرف دہلی کے تحفظ کی فکر رہی، جہاں وہ اور اُن کے اہلِخانہ رہایش پذیر تھے اور جہاں وہ اپنے مدرسے میں درس و تدریس کا فریضہ انجام دیتے تھے۔۱؎ ویسے یہ ہے عجیب بات کہ شاہ ولی اللہ نے قدامت پسندوں کے ساتھ ساتھ آزاد خیال مسلم مفکرین و مصلحین کو بھی، جو اُن کے پیروکار تھے، تحریک دی۔ وہ قدامت پسندوں کے ’’آئیڈیل‘‘ اس لیے تھے کہ اُن کا نقطۂ نظر اور طریقۂ کار بنیادی طور پر روایتی تھا اور وہ راسخ العقیدہ اسلام کے خالص پن پر زور دیتے تھے۔ آزاد خیال مفکرین نے اُن کا امیج ’’آزاد خیال سکالر‘‘ کی حیثیت سے ابھارنے، بلکہ دنیائے اسلام میں ’’جدت پسندوں‘‘ کا پیشرو قرار دینے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کیا۔ آزاد خیال مفکرین کی تعریف و توصیف کا سبب یہ ہے کہ شاہ صاحب نے قدامت پسند علما کی مخالفت اور ناراضی کے باوجود فارسی میں قرآن کا ترجمہ کرنے کی جسارت کا مظاہرہ کیا، ’’تقلید‘‘ کو مسترد کیا اور مسلمانوں کی ہر نسل اور ہر عہد کے لیے حقِ اجتہاد کو تسلیم کیا۔ قدامت پسندی کے نقطۂ نظر سے دیکھیں تو شاہ صاحب کے اپنے پیرو، مثلاً نام نہاد ’’وہابی‘‘ عسکریت پسند سیّد احمد بریلوی، شاہ اسماعیل شہید، اور دیوبندی علما کی کثیر تعداد، جنھوں نے بعدازاں تحریکِ خلافت میں سرگرمی سے حصہ لیا، یہ سب شاہ صاحب سے تحریک و تشویق حاصل کرتے تھے۔ جیسا کہ پچھلے باب میں ذکر ہوچکا ہے، اُن کے نزدیک اسلامی ریاست کا سیاسی نظام اس کے قانونی نظام کا جزوِ لاینفک ہے، اور شریعت میں تو امامت کے قیام کے صرف تین طریقے تسلیم شدہ ہیں: انتخاب، نامزدگی اور غصب۔ آزاد خیالی کے نقطۂ نظر سے دیکھیں تو سرسیّد احمد خان، مولانا شبلی نعمانی اور اقبال، اور قدرے کم معروف دانشور، زیادہ تر شاہ صاحب کے زیراثر تھے۔ اقبال کے نزدیک تو شاہ صاحب ہندوستان میں پہلے مسلمان تھے جنھوں نے ’’تغیر‘‘ کی اہمیت کا احساس کیا۔ مولانا شبلی نعمانی نے یہ ثابت کرنے کے لیے کہ شاہ ولی اللہ کا اندازِ فکر روایتی نہیں تھا، حجۃ اللہ البالغۃ کا ایک اقتباس اُردو میں ترجمہ کیا، جس میں یہ رائے ظاہر کی گئی تھی کہ اسلامی فقہی ’’تعزیرات‘‘ مسلمانوں کی آیندہ نسلوں پر سختی سے نافذ نہیں کرنی چاہییں۔ شبلی کے نقطۂ نظر کی تائید میں اقبال نے مذکورہ اقتباس کے اُردو ترجمے کا انگریزی میں ترجمہ کیا اور اپنے ’’خطبات‘‘ میں شامل کرلیا، حالانکہ مولانا سیّد سلیمان ندوی نے اس پر حاشیہ چڑھا رکھا تھا کہ مولانا شبلی کا اُردو ترجمہ عمومی نوعیت کا ہے اور شاہ ولی اللہ کے اصل عربی متن کا حقیقی مفہوم ظاہر نہیں کرتا، بلکہ یہ کہ اگر اُن کے ’’حدود‘‘ کے باب کی روشنی میں پڑھا جائے تو اِس کا مطلب اُلٹ نکلے گا۔‘‘۲؎ یہ طے کرنا ایک الگ مسئلہ ہے کہ آیا شاہ ولی اللہ قدامت پسند تھے یا آزاد خیال۔ اُن کا معتدل و متوازن علمی طریقہ ایسا موثر و کارگر تھا کہ اُس وقت کے تضادات دور کرنے میں بھی مدد ملی اور الٰہیات، فقہ اور حتیٰ کہ روحانی واردات (تصوف) کی الجھنیں سلجھانے میں بھی مدد ملی۔ یہی وجہ ہے کہ اُن کی ذات آنے والے ’’قدامت پسند‘‘ اور ’’آزاد خیال‘‘ مصلحین کے لیے سرچشمۂ فکر بنی۔ ہندوستان میں اسلام کا سیاسی زوال، بالخصوص ۱۷۹۹ء میں، ٹیپو سلطان کی شہادت کے بعد اپنے عروج کو پہنچ گیا اور سیاسی اقتدار کی بحالی کی اُمیدیں اب خاک میں مل گئیں، لیکن اقبال کی رجائیت پسندانہ تعبیر کے مطابق ’’جس طرح ’’جینا‘‘ کے مقام پر جرمنی کی شکست (۱۸۰۶ئ) کی راکھ میں سے جدید جرمنی کی چنگاری نمودار ہوئی تھی، بالکل اُسی طرح ۱۷۹۹ء میں اسلام کی سیاسی تذلیل سے جدید دنیائے اسلام اور اُس کے مسائل اُبھرے۔‘‘۳؎ ۱۷۹۹ء کے بعد مسلم فقہا کے ذہن پر جو سوالات طاری ہوئے، وہ یہ تھے: ’’ہندوستان کو اب کیا دارالاسلام خیال کیا جائے یا یہ اب دارالحرب بن گیا ہے؟ اسلام میں جہاد اور ہجرت کے اُصولوں کی حقیقی اہمیت کیا ہے؟ قرآن کی سورۃ النساء کی آیت ۵۹ (ترجمہ) ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسولؐ کی اور اُن لوگوں کی جو تم میں سے صاحبِ امر ہوں‘‘، اس آیت میں ’’تم میں سے‘‘ کا کیا مفہوم ہے؟ کیا اسلام میں خلافت محض ایک دینی ادارہ ہے؟ ہندوستان کے مسلمانوں یا سلطنتِ عثمانیہ سے باہر کے مسلمانوں کا خلافتِ عثمانیہ سے کیا تعلق ہے؟ ان سوالوں کا جواب معلوم کرنے کے لیے جو تنازع پیدا ہوا، وہ بہت سنگین تھا۔ مسلم سیاست دان، جو مسلمانانِ ہند کے سیاسی حالات میں آنے والی تبدیلیوں سے باخبر ہوچکے تھے، انھوں نے بالآخر فقہا سے مطالبہ کیا کہ وہ ایسی دینی دلیل کی راہ اختیار کریں جو حالات کے تقاضے کے مطابق ہو، لیکن بقولِ اقبال: ’’محض منطق کے زور سے اُن عقائد کو مفتوح کرنا آسان کام نہیں تھا جو صدیوں سے مسلمانانِ عالم کے ضمیر پر حکمرانی کرتے رہے تھے۔‘‘۴؎ ۱۷۵۷ء کی جنگِ پلاسی کے بعد مسلم فقہا کے ایسے فتوے وقتاً فوقتاً جاری ہوتے رہے کہ اب ہندوستان دارالاسلام نہیں رہا، بلکہ دارالحرب بن چکا ہے۔۵؎ ایسٹ انڈیا کمپنی نے مغل شہنشاہ شاہ عالم کو مرہٹوں سے تحفظ دینے اور اُس کی حمایت و تائید کے معاوضے میں، ۱۷۶۵ء میں بنگال، بہار اور اوڑیسہ کی دیوانی حاصل کی۔۶؎ اِس سودے سے کمپنی کی بے قاعدہ حیثیت کو ایک قانونی جواز فراہم ہوگیا۔ البتہ کمپنی کے عمّال اپنے سیاسی اقتدار کے اوائل مرحلوں میں اس معاملے میں بہت محتاط رہے کہ کمپنی کی جانب سے کسی نوعیت کے اقتدار اعلیٰ کا مظاہرہ نہ کیا جائے، بلکہ محض مغل شہنشاہ کے ایجنٹ کے طور پر کام کرنے کا عندیہ دیا جائے۔ مسلمانوں کا نظامِ حکومت ناکام ہوچکا تھا اور انگریز ایک مسلم ملک پر قبضہ جمانے کے مرحلے سے گزر رہے تھے۔ وہ اِس بات سے خوفزدہ تھے کہ اگر حکمرانی کا رسمی اظہار کیا گیا تو اس سے مسلمان اپنے سیاسی اقتدار میں یکایک تبدیلی کے بارے میں چوکنے ہوجائیں گے اور ایسا نہ ہوکہ وہ اپنے نئے حکمرانوں کے خلاف بغاوت پر اُتر جائیں۔ چنانچہ کمپنی ایک صوبے کے بعد دوسرے صوبے پر تو قبضہ جماتی گئی، لیکن اُس نے پرانے کمزور انتظامی ڈھانچے کو برقرار رکھا۔ انتظامیہ کے کاموں کو چالو رکھنے کے لیے یا تو پرانے مسلم گورنروں کو تعینات کیے رکھا یا نئے گورنر مقرر کیے۔ کمپنی نے مسلم ضابطۂ قانونی اور طریقِ کار کو برقرار رکھا اور اُس پر عمل درآمد کرانے کے لیے مسلم قاضی مامور کیے۔۷؎ دارالحکومت دہلی میں مسلم شہنشاہ کو قائم رکھا۔ اُس کے نام سے سکے مسکوک کرائے، اور اُس کے خاندانی اخراجات کے لیے ماہوار وظیفہ ادا کیا۔ کمپنی نے اِس سازش کو’’عظیم کھیل‘‘ قراردیا،۸؎ تاہم یہ معما اپنی جگہ موجود تھا کہ ترپ کا پتہ کیونکر کھیلا جائے؟۹؎ ہندوستان مسلم انڈیا کی حیثیت سے نکل کر برٹش انڈیا کی حیثیت میں، غیر محسوس مدارج سے گزررہا تھا۔ کمپنی کے ملازمین کا یہی خیال تھا۔۱۰؎ آنے والے برسوں میں کمپنی رفتہ رفتہ مضبوطی سے جم گئی اور اب ماتحت مسلم گورنروں کو برطرف کرنے سے خود کو محفوظ سمجھنے لگی۔ چنانچہ انگریز گورنر جنرلوں نے کامیابی کے ساتھ مغل دربار کے کورنش بجا لانے کے آداب و رسوم منسوخ کردیے۔ جو آلِ تیمور کے مجروح وقار کا تقاضا بن گئے تھے۔ ۱۸۳۵ء میں ہندوستان کے سکوں پر سے مغل شہنشاہ کی شبیہ محو ہوگئی اور اُس کی جگہ کمپنی نے اپنا روپیہ جاری کیا جس پر برطانیہ کے بادشاہ کی شبیہ منقش تھی۔ ان تبدیلیوں کے باوجود ’’نقلی شہنشاہ‘‘ کو، جسے پہلے کارآمد خیال کیا جاتا تھا، باقی رکھا گیا، حالانکہ وہ کے اور میلی سن جیسے مؤرخین کے نزدیک ’’ایک دُکھتی رگ‘‘ تھا۔ مسلمانوں کی ممکنہ بغاوت کے خوف سے انگریز تاجروں کے سامراجی عزائم عارضی طور پر دب گئے تھے، حالانکہ اُن میں سے جو جارحیت پسند تھے، اُن کا اصرار تھا کہ اوّلین سازگار موقع پر شہنشاہ کو برطرف کردینا چاہیے، کیونکہ وہ مشکوک ہے اور دوبارہ اپنی منتشر قوتوں کو مجتمع کرسکتا ہے۔۱۲؎ یہ اوّلین سازگار موقع ۱۸۵۷ء کی بغاوت نے مہیا کردیا۔ بغاوت فرو کرنے کے بعد شہنشاہ کو جلاوطن کردیا گیا۔ بغاوت کی آگ بھڑکانے کا ذمہ دار مسلمانوں کو قرار دیاگیا۔ اُن کی جائیدادیں اور زمینیں ضبط کرلی گئیں۔ اُن کی زبانوں (فارسی، عربی، اُردو) کو کچل دیا گیا، اُن کا ضابطۂ قانونی منسوخ کردیاگیا۔ اُن کے قاضیوں کو برطرف کردیا گیا، اور اُن کو سرکاری ملازمت دینے سے محروم کردیا گیا۔۱۳؎ تاہم مسلمانانِ ہند کی سیاسی حیثیت میں یہ سب بنیادی تبدیلیاں، جو ۱۸۵۹ء کے بعد تو اظہرمن الشمس حقائق کی صورت میں سامنے آچکی تھیں، مسلم فقہا کی گہری نظر اور توجہ سے نہ بچ سکیں۔۱۴؎ اب ضرورت تھی ایک ایسے سیاسی رہنما کی جو مسلمانوں کا کھویا ہوا سیاسی وقار بحال کرنے کے لیے مسلمانوں کو متحد و منظم کرسکتا۔ اس معاشرتی اور سیاسی خلا کو پُر کرنے کے سلسلے میں سیّد احمد بریلوی (۱۷۸۶-۱۸۳۱ئ) نے یکایک اہمیت و مقبولیت حاصل کرلی۔۱۵؎ مسلمان وقت ضائع کیے بغیر، پورے برٹش انڈیا کے کونے کونے سے نکل کر سیّد صاحب کے گرد جمع ہوگئے۔ چونکہ اسلام میں سیاسی احیا ہمیشہ مذہبی احیا (یا اپنی باری پر مذہبی احیا سیاسی احیا) کے ساتھ ملزوم و مشروط رہا ہے، لہٰذا ہندوستان میں پہلی مسلم معاشرتی و سیاسی اور عسکریت پسند تحریک بنیادی طور پر مذہبی شدت پسندوں کی تحریک تھی۔‘‘۱۶؎ سیّد احمد کے مذہبی اُصول ابن عبدالوہاب کے اصولوں سے ملتے جلتے تھے، جن کی کوشش سے عرب میں ترکوں کی پیدا کردہ بدعنوانیوں کا خاتمہ ہوگیا تھا۔ سیّد احمد ۱۸۲۲ء میں۱۷؎ جب مقدس شہروں کی زیارت کے لیے عرب گئے تو اِن کوششوں سے بہت متاثر ہوئے۔ چنانچہ اُنھوں نے مسلمانوں کی ہدایت کے لیے توحید اور قرآن و سنت پر عمل کرنے پر زور دیا اور تلقین کی کہ تمام بدعتوں اور فضولیات کا مکمل اور فوری خاتمہ کیا جائے۔ سیّد صاحب نے اپنے پیروکاروں کو سخت تاکید کی کہ وہ توحیدِ الٰہی پر قائم رہیں، سنتِ رسولؐ کے مطابق زندگی بسر کریں، شرک اور بدعت سے بچیں۔۱۸؎ شرک سے طرح طرح کی بدعتیں اور فضولیات پیدا ہوتی ہیں، خصوصاً جب لوگ اللہ کے علم، اُس کے تصرف یا عبادت یا سنت میں شریک ہونے کا دعویٰ کریں۔ انسان اور خدا کے درمیان کسی بھی طرح کے انسانی یا فوق الفطری واسطوں مثلاً روحانی مرشدوں، صوفی بزرگوں اور فرشتوں وغیرہ کی مداخلت سے شرک پیدا ہوتا ہے، کیونکہ اِن میں سے کسی کو بھی توسل و شفاعت کی طاقت و دیعت نہیں کی گئی ہے۔ مرشدوں اور پیروں سے دعاؤں کی التجا کرنا، اُن کے مقبروں پر چڑھاوے چڑھانا یا اُن کی قبروں پر چراغ جلانا کھلا شرک ہے اور اِس کو ختم ہونا چاہیے۔ علاوہ ازیں وہ تمام رسومات اور طور طریقے جن کا رسولِ کریمؐ یا خلفائے راشدین کی زندگی میں کوئی وجود نہ تھا اور جو بعد میں آنے والی نسلوں نے اسلام میں داخل کرلیے ہیں، اُن پر ہرگز عمل نہیں کرنا چاہیے۔۱۹؎ مسلمانوں کو قرآن کی تشریح و تفسیر اپنی ذاتی رائے اور بصیرت کی روشنی میں کرنی چاہیے۔ اگر کوئی معتبر و مستند حدیث جو قرآن کی تفسیر سے متصادم ہو، اُس پر عمل نہیں کرنا چاہیے۔۲۰؎ مسلمانوں کو مستقلاً اپنے امام کی جستجو اور اطاعت کرنی چاہیے۔۲۱؎ اسلام کے بنیادی احکام مثلاً توحید الٰہی پر ایمان، نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج اور جہاد محض نظریات نہیں ہیں، بلکہ فرائض ہیں جن پر پوری سختی اور پابندی سے عمل کرنا چاہیے۔۲۲؎ سیّد احمد کی طہارت پسندانہ اصلاحات، جن کا مقصد اسلام کی اصل سادگی کی بحالی تھا، درحقیقت ہندوستان میں مسلمانوں کے اخلاقی، سیاسی اور معاشی زوال کا احتجاجی ردِعمل تھا۔ وہ اور اُن کے پیروکار اگر اسلام کے بنیادی احکام (بشمول جہاد) پر سختی سے عمل کرنے پر زور نہ دیتے تو یہ تحریک کسی قسم کا اثر چھوڑے بغیر ختم ہوجاتی۔ ہندوستان کے مسلمانوں کی سیاسی حیثیت کے پیشِ نظر، جسے دوسرے مسلم ملکوں کے مقابلے میں، جہاں اسلام کا غلبہ تھا، دارالحرب قرار دیا جاچکا تھا، یہ امر قدرتی تھا کہ مذہبی مصلحین ثانوی اہمیت کے مسائل کو نظرانداز کردیں اور جہاد کی لازمی ضرورت اور اسلامی ریاست کے قیام پر زور دیں۔۲۳؎ ۱۸۲۲ء میں حج کے لیے روانہ ہوتے وقت سیّد صاحب دہلی سے کلکتہ جاتے ہوئے پٹنہ میں ٹھہرے۔ وہ جہاں بھی گئے، مسلمانوں کے جم غفیر نے اُن کا استقبال کیا۔ پٹنہ انقلابی سرگرمیوں کا اعصابی مرکز بن گیا۔ انھوں نے چندہ جمع کرنے اور اسلام کی خاطر جان کا نذرانہ پیش کرنے والے مجاہدین کی فہرستیں بنانے کی غرض سے اپنے نائب، نمایندے اور مبلغین مامور کیے۔ حج بیت اللہ سے واپسی پر سیّد صاحب براستہ بمبئی آئے۔ شمالی ہند کے سفر میں انھوں نے سکھوں کے خلاف جہاد کی تبلیغ کی، جنھوں نے ہندوستان کے شمال مغربی علاقوں پر قبضہ جما رکھا تھا، اور خصوصاً پنجاب میں مسلمانوں پر حکمرانی کررہے تھے۔۲۴؎ نہ صرف بڑے بڑے شہروں: سورت، حیدرآباد، مدراس، کلکتہ، پٹنہ، لکھنؤ اور دہلی کے مسلمانوں نے جہادی تحریک کے لیے روپیہ دیا، بلکہ دیہات میں، تقریباً ہر مسلمان گھرانے نے سکھوں کے خلاف جہاد کے اخراجات برداشت کرنے کے لیے بڑھ چڑھ کر چندہ دیا۔ برٹش انڈیا کے مسلمانوں کی تنظیم کے بعد سیّد احمد سندھ گئے اور سکھوں کے خلاف وہاں کے حکمرانوں سے اتحاد کیا۔ بالآخر ۱۸۲۴ء میں سیّد احمد صوبہ سرحد میں وارد ہوئے اور افغان اور پٹھان قبائل اور برٹش انڈیا کے چپے چپے سے آئے ہوئے مجاہدین کی قیادت کی۔۲۵؎ ۲۱ دسمبر ۱۸۲۶ء کو سکھوں کے خلاف باضابطہ اعلانِ جہاد ہوا۔۲۶؎ منصوبہ یہ تھا کہ ہندوستان کے شمال مغربی خطے میں (جہاں اب پاکستان واقع ہے) اسلامی ریاست قائم کی جائے۔ ۱۸۳۰ء میں سکھوں کا مغربی دارالحکومت پشاور پر مجاہدین کا قبضہ ہوا، لیکن بعدازاں بعض افغان سرداروں کی غداری کی وجہ سے یہ شہر چھوڑنا پڑا۔ ۱۸۳۱ء میں بالاکوٹ کے مقام پر سیّد احمد اور اُن کے انتہائی وفادار رفیقِ کار شاہ محمد اسماعیل سکھوں کے ہاتھوں شہید ہوئے۔۲۷؎ جس وقت سیّد احمد شمال مغربی سرحدی علاقے میں سکھوں کے خلاف مسلمانوں کی قیادت کررہے تھے، نثار علی مشرقی بنگال میں مسلمان کاشت کاروں کی، اُن کے ہندو جاگیرداروں کے خلاف، رہنمائی کررہے تھے۔۲۸؎ ابن عبدالوہاب کی وہابی تحریک کی طرز پر مذہبی اصلاحات کی ایک تحریک مشرقی بنگال میں حاجی شریعت اللہ نے ۱۸۰۴ء میں شروع کی۔ انھوں نے ہندوستان کو دارالحرب قرار دیا۔ اُن کے بیٹے دودھومیاں نے تحریک کو احسن طریقے سے منظم کیا۔ اُن کے پیروکار زیادہ تر مسلمان کسان اور مزدور تھے۔ ہدایت حسین کے بقول: ’’دودھو میاں نے بنی نوع انسان کی مساوات پر خاص زور دیا اور تلقین کی کہ کمزوروں اور غریبوں کی فلاح و بہبود بھی اُتنی ہی ضروری ہے جتنی بالائی طبقے کے لوگوں اور رؤسا کی فلاح و بہبود ضروری ہے۔ جب کوئی بھائی مصیبت میں مبتلا ہوجائے تو اُس کے ہمسایوں کا فرض ہے کہ اُس کی مدد کریں… اِس مقصد سے کچھ بھی کیا جائے، وہ مجرمانہ یا ناجائز نہیں ہوگا۔‘‘۲۹؎ دودھو میاں نے بہادر پور کو اپنا صدر مقام بنایا۔ مشرقی بنگال کو بے شمار سیکٹروں میں تقسیم کیا۔ ہر سیکٹر میں اپنا نائب مقرر کیا تاکہ وہ لوگوں سے فنڈ جمع کرے۔ جمع شدہ فنڈ ہندو جاگیرداروں کے ظلم و ستم سے نجات دلانے کے لیے مسلمان کاشت کاروں کی بہبود پر خرچ کیا جاتا تھا۔ نثار علی چاندپور سے آئے تھے۔ حج پر گئے تو وہاں سیّد احمد سے ملاقات ہوئی۔ متاثر ہوئے اور اُن کے حلقۂ ارادت میں شامل ہوگئے۔ بنگال واپسی پر بارہ ست میں قیام کیا اور سیّد احمد کی تعلیمات کی تبلیغ کی۔۳۰؎ کسانوں کی ایک تنظیم پہلے سے مشرقی بنگال میں موجود تھی جو دودھومیاں نے قائم کررکھی تھی۔ نثار علی کی تعلیمات دودھومیاں سے مختلف نہ تھیں۔ وہ مساوات اور مسلمانوں کے اتحاد پر خصوصی زور دیتے تھے۔ وہ بہت جلد مظلوم اور پسے ہوئے نچلے طبقے کے لوگوں میں بہت مقبول ہوگئے۔۳۱؎ مشرقی بنگال میں نثار علی کی چلائی ہوئی مذہبی اصلاح اور سیاسی انقلاب کی تحریک کو شمال مغربی ہندوستان میں سیّد احمد اور اُن کے پیروکاروں کی کامیابیوں سے بہت تقویت پہنچی۔۳۲؎ کٹر اور متعصب ہندو جاگیرداروں نے مسلمانوں کی تنظیم کو شک کی نظر سے دیکھا اور اس کی ترقی کو روکنے کے لیے متعدد اقدامات کیے۔ تصادم اُس وقت شروع ہوا جب ایک ہندو جاگیر دار کرشنا رائے آف پورنا نے اپنے تمام مسلمان مزارعوں پر ۸/۲ روپے کا لگان عاید کردیا اور کہا کہ یہ اُن کی ڈاڑھیوں پر جرمانہ ہے۔ یہ سب مزارعے نثار علی کی تنظیم کے رکن تھے۔ یہ لگان پورنا اور سرفراز پور کے دیہات میں زبردستی وصول کیا گیا۔ سرفرازپور میں کرشنا رائے کے آدمیوں کا نثار علی اور اُس کے پیروکاروں کا دست بدست جھگڑا ہوگیا۔ عدالتی کارروائی ہوئی۔ کرشنا رائے کے اثر رسوخ کے سبب فیصلہ اُس کے حق میں ہوا۔ جن مسلمان کاشت کاروں نے یہ فالتو اور ناجائز لگان ادا کرنے سے انکار کیا، کرشنا رائے نے اُنھیں گرفتار کرکے جیل بھجوادیا۔ بالآخر مسلم کاشت کاروں کا ایک وفد کرشنارائے کے خلاف اپیل دائر کرنے کے لیے کلکتہ گیا۔ معلوم ہوا کہ عدالت میں جج صاحبان حاضر نہیں ہیں۔ اس واقعے سے مشتعل ہوکر ۱۸۳۱ء میں پانچ سو مسلم کاشت کاروں نے نثار علی اور مسکین شاہ کی قیادت میں باغیانہ تحریک کا آغاز کیا۔ کرشنا رائے کے خلاف جہاد کا اعلان ہوا۔۳۳؎ ضلع کی پولیس کاشتکاروں کو دبانے میں ناکام رہی اور انگریزی فوج کو طلب کرنا پڑا۔ کسانوں کو پیچھے دھکیل دیا گیا۔ وہ بھاری جانی و مالی نقصان اٹھا کر واپس اپنی خندقوں میں پہنچ گئے، لیکن انگریزی فوج نے اُن کے مورچوں سے زبردست حملہ کیا۔ جھڑپ میں نثارعلی (عرف تیطومیاں) اپنے چند ساتھیوں سمیت شہید ہوئے۔ پانچ سو کسانوں میں ڈیڑھ سو کھیت رہے۔ باقی ۳۵۰ میں سے ۱۴۰ کو عدالت نے مختلف نوعیت اور میعاد کی قید کی سزائیں دیں۔ مسکین شاہ کو تختۂ دار پر لٹکایا گیا۔۳۴؎ اب شمال مغربی علاقے کے معاملات کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ ۱۸۳۱ء میں سیّد احمد اور محمد اسماعیل کی شہادت سے انقلابی تحریک کا پہلا مرحلہ ختم ہوا۔ تاہم سیّد احمد کے پیروکار ستھانہ کے مقام پر جمع ہوئے اور مولوی نصیرالدین دہلوی کو اپنا قائد منتخب کیا، تا ایں کہ بہار سے عنایت علی اور اُس کے بھائی ولایت علی تازہ جمعیت کے ساتھ وارد ہوئے۔ دونوں بھائیوں کو سندھ اور ٹونک کی حمایت حاصل تھی۔ رسد اور مجاہدین برٹش انڈیا سے بکثرت آتے تھے۔ عنایت علی کی قیادت میں مجاہدین نے سکھوں پر حملے کرکے اُنھیں بالاکوٹ سے نکال دیا۔ سکھوں کو مظفر آباد اور مانسہرہ میں بھی شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ ۱۸۳۹ء میں رنجیت سنگھ کی شکست کے کچھ عرصہ بعد سکھوں کی طاقت کو زوال آگیا۔ چنانچہ سیّد احمد کے پیروکاروں نے دریائے سندھ کے بائیں کنارے کے پورے علاقے پر، ستھانہ سے کشمیر تک، قبضہ جمالیا۔ اب تک انگریز فوج سے اُن کا آمنا سامنا نہ ہوا تھا، حالانکہ جب انگریزوں نے افغانستان پر حملہ کیا تھا تو انھوں نے امیرِ افغانستان کی طرف داری کی تھی۔۳۵؎ ۱۸۲۳ء تک ہندوستان کا بیشتر علاقہ، ماسوائے شمال مغربی پنجاب، صوبہ سرحد، سندھ اور کشمیر کے (جو اُس وقت سکھوں کے تسلط میںتھا) انگریزوں کے قبضے میں چلا گیا تھا۔ ۱۸۴۳ء میں سندھ کا بھی الحاق ہوگیا۔ ۱۸۴۶ء میں سکھ فوج کی شکست کے بعد انگریزوں نے پنجاب میں ایک سکھ حکمران کے تحت کٹھ پتلی حکومت قائم کی۔ عنایت علی اور ولایت علی دونوں بھائیوں سے کہا گیا کہ وہ واپس اپنے وطن بہار چلے جائیں۔ جب وہ اپنے گھروں کو واپس چلے آئے تو اُنھیں ضمانت پر پابند کیا گیا کہ وہ چار سال تک پٹنہ سے باہر نہیں جائیں گے۔۳۶؎ ۱۸۴۹ء میں پنجاب کا بھی الحاق ہوگیا۔ عنایت علی اور ولایت علی نے برٹش انڈیا کو ’’دارالحرب‘‘ قرار دیاتھا۔ اب اُن کا یہ خیال پختہ ہوگیا تھا کہ انگریزوں سے جنگ جیتنے کا چونکہ کوئی امکان نہیں ہے، اس لیے ضروری ہوگیا ہے کہ مسلمان یہ ملک چھوڑ کر ہجرت کرجائیں۔ انھوں نے کہا کہ انگریز فرعونِ وقت ہیں، لہٰذا جس طرح بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰعلیہ السلام کی قیادت میں مصر سے خروج کیا تھا، اسی طرح مسلمان بھی انگریزوں کی سلطنت سے ہجرت کرجائیں۔۳۷؎ اسی خیال کے تحت جب ضمانت کے چار سال کی مدت ختم ہوئی تو دونوں بھائی اپنے اہلِخانہ کے ساتھ ستھانہ پہنچے۔ ولایت علی تو ستھانہ میں اپنی دوبارہ آمد کے کچھ ہی عرصہ بعد وفات پاگئے۔ ۱۸۵۲ء میں سیّد احمد کے پیروکاروں اور حسن زئی قبیلے نے امب پر حملہ کردیا، جس کے خان نے انگریزوں سے دوستی کا عہدوپیمان کرلیاتھا۔ ۱۸۵۳ء میں انگریزوں نے اُن کی سرکوبی کے لیے ایک فوجی مہم بھیجی۔۳۸؎ ڈبلیو ڈبلیو ہنٹر کا کہنا ہے کہ ۱۸۵۰ء کے درمیان سیّد احمد کے بچے کھچے پیروکاروں کو اطاعت پر مجبور کرنے کے لیے سولہ فوجی مہمیں بھیجی گئیں، لیکن ہر موقع پر مجاہدین نے انگریز فوج سے براہِ راست مڈبھیڑ کی بجائے، پہلوتہی کی پالیسی اختیار کی۔ ۱۸۵۷ء اور ۱۸۵۸ء کے دوران جب پورے برٹش انڈیا میں بغاوت کے شعلے بھڑک رہے تھے، سیّد احمد کے پیروکاروں نے انگریز فوج کے خلاف شیخ جانا، نیرنجی، سلیم خان، چنگتائی، پنجتر، منگل تھانہ اور بالآخر ستھانہ کے مقام پر زبردست لڑائیاں لڑیں۔ ستھانہ کی فیصلہ کن جنگ میں مجاہدین نے انتہائی شجاعت اور دلیری کا مظاہرہ کیا۔ پیجٹ اور میسن نے لکھا ہے: ’’وہ بڑی شان اور تمکنت سے میدانِ جنگ میں آتے تھے۔ بالکل خاموش اور پُرسکون، کسی قسم کی آواز یا چیخ پکار کے بغیر۔ جہاد کو خوشی کی تقریب جان کر، زیادہ تر سفید لباس میں ملبوس، اور اُن کے قائدین مخملین چوغے زیب تن کیے ہوئے۔‘‘۳۹؎ عنایت علی سقوطِ ستھانہ سے بارہ دن پہلے انتقال کرگئے۔ انگریزوں نے ستھانہ کے مغرب میں پہاڑی علاقے میں آباد قبائل کو آمادہ کرلیا کہ وہ آیندہ کسی بھی شکل میں سیّد احمد کے پیروکاروں کی مدد نہیں کریں گے۔۴۰؎ آیندہ دو سال تک سرحدی علاقے میں کوئی مسلح سرگرمی دیکھنے میں نہیں آئی، سوائے اس کے کہ انگریز حکومت کے عتاب سے بچنے کے لیے۔ باغی پورے ہندوستان سے آکر اس خطے میں پناہ لیتے تھے اور سیّد کے پیروکار اُن کو خوش آمدید کہتے تھے۔ ۱۸۶۰ء تک مجاہدین نے ملکا کے مقام پر قلعہ بند کرلیا تھا۔ یہ مقام ستھانہ کی بستی سے قدرے اونچائی پر تھا۔ ۱۸۶۱ء میں مجاہدین نے ملکا سے نکل کر انگریزی مقبوضات میں آکر ازسرنو حملوں کا آغاز کیا۔ ان حملوں کے نتیجے میں اُنھوں نے دوسال کی مسلسل لڑائیوں کے بعد ۱۸۶۳ء میں ستھانہ پر دوبارہ قبضہ کرلیا، اور دوبارہ اپنے پرانے دشمن خان امب پر حملے شروع کیے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ انگریزوں کی تازہ فوجی مہم بھیجی گئی، جس نے مسلسل کئی لڑائیوں کے بعد بالآخر ملکا پر قبضہ کرکے اُس کی اینٹ سے اینٹ بجادی، لیکن آیندہ پانچ برسوں میں مجاہدین نے پھر قدم جمالیے۔ اُن کے خلاف آخری جنگ ۱۸۶۸ء میں ہوئی۔۴۱؎ سیّد احمد کے جن مجاہدین نے لڑائیوں کے دوران ہتھیار ڈال دیے تھے اور نیز برٹش انڈیا میں اُن کے حامیوں کے خلاف ۱۸۶۴ء اور پھر ۱۸۶۶ء میں مقدمے چلائے گئے،۴۲؎ اُن میں سے بعض کو سزائے موت دی گئی، خاصی تعداد کو جلاوطن کیا گیا یا مختلف میعاد کی سزائیں دی گئیں۔ ۱۸۷۰ء تک برٹش انڈیا میں جہاں کہیں بھی اُن کے انقلابی تشہیر و تبلیغ کے مرکز تھے، اُن سب کو منہدم کردیا گیا۔۴۳؎ اب ایک پیچیدہ مسئلہ پیدا ہوا کہ آیا جہاد جس کا اعلان انقلابی تحریک کے رہنماؤں نے سکھوں کے خلاف کیا تھا، انگریزوں کے خلاف بھی ہونا چاہیے یا نہیں، جو ہندوستان کے عیسائی حکمران تھے۔ شاہ عبدالعزیز نے ایک فتویٰ جاری کیا جس میں انھوں نے لکھا کہ ایک مسلم ملک اُس وقت دارالحرب بن جاتا ہے جب اُس ملک میں آباد مسلمان یا اُن کے پڑوسی غیر مسلم حکمرانوں کو ملک سے باہر نکالنے سے قاصر رہیں (یا یہ سمجھنے لگیں کہ ایسا ناممکن ہے) یا ’’کفار‘‘ اتنے طاقتور ہوں کہ اُن کی طاقت کو کچلنا ممکن نہ ہو یا اسلام کے احکامات و تعلیمات پر عمل کرنا اور محصولات وصول کرنا دشوار ہوجائے۔ مولانا عبدالحی نے بھی ایک فتویٰ جاری کیا تھا جو شاہ عبدالعزیز کے قریبی رشتہ دار اور سیّد احمد کے مخلص پیروکار تھے۔ انھوں نے بھی اپنے فتویٰ میں لکھا کہ سابق مسلم انڈیا جو اب ایک عیسائی سلطنت میں بدل چکا ہے، ’’دارالحرب‘‘ ہے۔۴۴؎ اِن فتووں کے حوالے سے انگریز حکومت نے قرار دیا کہ سیّد احمد نے جہاد کا جو اعلان کیا تھا، وہ فقط سکھوں کے خلاف نہیں تھا، بلکہ انگریزوں کے بھی خلاف تھا۔ ۱۸۳۱ء میں جب مسلمان صوبہ سرحد میں سکھوں کے خلاف جنگ کررہے تھے، سیّد احمد کا ایک پیروکار نثار علی (عرف تیطومیاں) مشرقی بنگال میں ہندو جاگیرداروں کے خلاف مسلمان کاشتکاروں کی تحریک کی قیادت کررہا تھا، اُس نے برطانوی راج کے خاتمے اور ہندوستان میں اسلام کے دوبارہ قیام کا اعلان کیا۔ ۱۸۴۹ء میں پنجاب کے الحاق کے بعد انگریزوںنے دعویٰ کیا کہ انھوں نے پشاور میں سکھوں کو شکست دے کر جنگ جیتی تھی، لہٰذا وہ سکھوں کے وارث اور جانشین ہیں۔ سیّد احمد کے پیروکاروں نے ستھانہ کو عسکری مستقر بنایا تھا، جہاں مشرقی بنگال جیسے دور دراز علاقے سے رضاکار اور اسلحہ آیا تھا، اس لیے مشرقی بنگال بھی اُن کا حریف قرارپایا۔۴۵؎ لارڈایلن برا نے ۱۸۴۳ء میں لکھا: ’’میں اِس عقیدے سے اپنی آنکھیں بند نہیں کرسکتا کہ یہ نسل (مسلمان) بنیادی طور پر ہماری دشمن ہے، لہٰذا ہماری صحیح اور سچی پالیسی ہندوؤں سے مصالحت کرنے کی ہے۔‘‘۴۶؎ ۱۸۵۷ء میں سپاہیوں کی بغاوت کے مسلمان رہنماؤں کو سیّد احمد کے پیروکاروں کی تائید و حمایت حاصل تھی۔ ولایت علی نے ۱۸۵۰ء میں ستھانہ جاتے ہوئے، دہلی میں چند روزقیام کیا۔ وہاں جہاد کے حق میں تقریریں کیں اور مغل شہنشاہ کی خوشنودی اور منظوری حاصل کی۔۴۷؎ مسلمان پہلے ہی مضطرب اور انگریزی حکمرانی سے ناخوش تھے۔ اس امر کا باقاعدہ پروپیگنڈا کیا گیا کہ انگریزوں کی حکومت اسلام کو نیست و نابود کردے گی۔ اس پروپیگنڈے سے حکومت نے ہندوؤں کے دل جیت لیے۔ سرجیمس آؤٹ رام نے لکھا: ’’یوں مسلمانوں کے لیے بغاوت کی تحریک شروع ہونے کے لیے تیار تھی۔… یہ یقین کرلیا گیا تھا کہ بغاوت شروع کرنے سے پہلے جوشیلے مسلمان پورے ملک میں جہاد کی تلقین کریں۔ مسلمانوں نے ہندوؤں کو، جو بنی نوع انسان میں سب سے زیادہ ضعیف الاعتقاد اور احمق لوگ ہیں، ترغیب دی کہ سبزپرچم بلند کریں اور اس بنیاد پر اطاعت کی قسم کھائیں کہ ہم نے پورے ہندوستان کو رضاکارانہ عیسائیت کی طرف لانا ہے۔۴۸؎ چنانچہ انھوں نے دہلی میں مسلم شہنشاہ کو تاج پہنایا اور اپنے فرماں روا کی حیثیت سے اُس کی وفاداری کا حلف اٹھایا۔ دریں اثنا وہ انگریزوں کے خلاف جنگ کرتے رہے، حتیٰ کہ ۱۸۵۸ء میں ستھانہ میں بُری طرح شکست کھائی۔۴۹؎ بہرحال سیّد احمد کے پیروکاروں نے لڑائیاں جاری رکھیں اور سرحدی علاقے میں مُلکا کے مقام پر ایک نیا فوجی کیمپ لگایا اور انگریز حکومت کو فوجی مہمات میں الجھائے رکھا جو اُسے بہت مہنگی پڑیں۔ یہاں تک کہ ۱۸۶۳ء میں انگریزوں نے مجاہدین کے کیمپ کو نذرِ آتش کردیا۔ انگریزی حکومت نے آخری مہم سرحد میں ۱۸۶۸ء میں بھیجی۔۵۰؎ ۱۸۶۴ء اور ۱۸۶۶ء میں حکومت کی جانب سے جو مقدمات چلائے گئے، اُن سے معلوم ہوتا ہے کہ دراصل مسلمانوں ہی نے ہندوستان سے انگریزوں کو نکال باہر کرنے کی سازش اور کوشش کی تھی۔ اس سے برطانوی حکام نے یہ نتیجہ نکالا کہ ہندوستان میں برطانیہ کی حکمرانی کے لیے اصل خطرہ مسلمانوں سے ہے۔ مسلمانوں نے ہندوؤں کی طرح اُس سیاسی تبدیلی سے خود کو ہم آہنگ نہیں کیا جو ملک میں آچکی تھی، لہٰذا اُن پر بھروسا نہیں کرنا چاہیے۔ اُن سے وفا کی اُمید رکھنی چاہیے نہ وفاداری کی۔۵۱؎ مسلمان رہنماؤں نے اِن الزامات کی تردید کی۔ اُن کا کہنا تھا کہ شاہ عبدالعزیز اور مولانا عبدالحی کے فتووں کا مطلب یہ نہیں تھا کہ انگریزوں کے خلاف جہاد کیا جائے۔ دلیل یہ دی گئی کہ شاہ عبدالعزیز نے دو سوالوں کے جواب میں اپنا فتویٰ دیا تھا جو اُن کی خدمت میں پیش کیے گئے تھے۔ پہلا سوال یہ تھا کہ کیا مسلمانوں کے لیے ہندوستان میں سود پر قرض دینا جائز ہے۔ دوسرا سوال یہ تھا کہ کیا ہندوستان میں اُن کا رہنا ازروئے شریعت جائز ہے۔ پہلے سوال کا جواب انھوں نے یہ دیا تھا کہ چونکہ ہندوستان کو دارالحرب قرار دیا جاچکا ہے، لہٰذا مسلمانوں کے لیے سود لینا جائز ہے۔ دوسرے سوال کے جواب میں اُنھوں نے فتویٰ دیا تھا کہ اگر غیر مسلم حکمران مسلمانوں کے مذہبی فرائض کی انجام دہی میں مزاحم نہ ہوں تو ملک چھوڑنا ضروری نہیں۔ انگریزوں کے خلاف مسلمانوں کے جہاد کرنے کا حوالہ تک شاہ صاحب کے فتوے میں موجود نہ تھا۔ اسی طرح مولانا عبدالحی کے فتوے میں بھی یہ تحریر تھا کہ ہندوستان کو ’’دارالحرب‘‘ اس اصطلاح کے فنی مفہوم میں قرار دیا گیا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ بعض معاہدات، جن کو دارالاسلام میں ناجائز قرار دیا جاتا ہے، وہ دارالحرب میں مسلمانوں کے لیے جائز ہوجاتے ہیں۔۵۲؎ مسلمان رہنماؤں نے تاویل پیش کی کہ سیّد احمد کا جہاد انگریزوں کے خلاف نہیں تھا، سکھوں کے خلاف تھا جو پنجاب کے مسلمانوں پر ظلم و ستم ڈھا رہے تھے۔ پھر یہ کہ خود برطانوی حکومت سکھوں کے خلاف مسلمانوں کی جہادی تحریک کے دوران اُن کے ہر اقدام سے پوری طرح باخبر تھی۔ اُس وقت حکومت کو اُن کی غداری کا ذرا بھی شبہ نہ ہوا تھا۔ اِس کے برعکس مجسٹریٹوں اور کمشنروں کو خصوصی ہدایات دی گئی تھیں کہ وہ مسلمان رضاکاروں کی بھرتی یا اسلحہ حاصل کرنے کے معاملے میں ہرگز مداخلت نہ کریں، محض اس لیے کہ، جیسا کہ سرکاری حلقوں میں یقین کیا جاتا تھا، مسلم مصلحین کا مقصد انگریزوں کے لیے نقصان دہ نہیں، بلکہ فائدہ مند تھا۔ یہی وجہ ہے کہ مجاہدین پورے برٹش انڈیا میں سکھوں کے خلاف کھلم کھلا جہاد کا اعلان کرتے تھے۔ اس بات کی کوئی ایک مثال بھی سامنے نہیں آئی کہ کسی ایک مبلغ نے بھی مسلمانوں کے جذبات انگریزوں کے خلاف بھڑکائے ہوں۔ ایک دفعہ مولانا محمد اسماعیل نے کلکتہ میں سکھوں کے خلاف جہاد کی تلقین کی، تو اُن سے دریافت کیا گیا، کہ کیا وجہ ہے کہ انگریزوں کے خلاف جہاد کا اعلان نہیں کیا جاتا، حالانکہ انگریز بھی کافر ہیں۔ مولانا نے اس سوال کا یہ جواب دیا کہ اُن کی حکومت میں مسلمانوں پر ظلم و ستم نہیں ڈھایا جاتا، اس لیے اُن کے خلاف جہاد جائز نہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ پنجاب اور سرحد کے مسلمانوں کو سکھوں کے پنجۂ استبداد سے نجات دلانے میں سیّد احمد کے مجاہدین نے جو جنگِ آزادی استقامت سے لڑی، پورے برٹش انڈیا کے تمام مسلمانوں نے اسے ہمدردی اور قدر کی نگاہ سے دیکھا۔ ۱۸۶۹ء میں پنجاب کے الحاق کے بعد عنایت علی اور ولایت علی، جنھوں نے سیّد احمد اور محمد اسماعیل کی شہادت کے بعد مجاہدین کی کمان سنبھال لی تھی، صوبہ سرحد سے برٹش انڈیا میں اپنے اپنے گھر آگئے تھے۔ ۱۸۳۱ء میں مشرقی بنگال میں جو بغاوت ہوئی، اُس کے بارے میں مسلمان قائدین کہتے ہیں کہ وہ بغاوت دراصل ہندوجاگیرداروں کے ظلم و تشدد کے خلاف مسلمان کاشتکاروں کی تحریک تھی۔ انگریز سرکاری حکام کاشتکاروں کے مسائل و مصائب پر کوئی توجہ نہیں دیتے تھے، لہٰذا محض اقتصادی وجوہ سے انھوں نے ہندو جاگیرداروں کے خلاف ہتھیار اُٹھالیے۔ کاشتکاروں کی اس خالص باغیانہ تحریک کا سیّد احمد کی جہادی تحریک سے کوئی تعلق نہ تھا۔ مسلمان کاشتکاروں کے رہنما برطانوی راج کے خاتمے یا ہندوستان میں اسلامی ریاست کے دوبارہ قیام کا اعلان کس برتے پر کرتے، جب کہ مضبوط و مستحکم اور باوسیلہ سلطنتِ برطانیہ کے مقابلے میں کاشتکاروں کی فوج صرف پانچ سو بندوق بردار افراد پر مشتمل تھی۔۵۳؎ اِن الزامات کی تردید میں کہ مجاہدین نے ۱۸۴۹ء میں پنجاب کے الحاق کے بعد، پشاور کے خطے میں ستھانہ کو اپنا عسکری مستقر بناکر دراصل انگریزوں کے خلاف جنگ چھیڑی تھی، مسلمان مصلحین نے تسلیم کیا کہ عنایت علی اور ولایت علی الحاقِ پنجاب کے بعد سرحد کی طرف ضرور بڑھے تھے، لیکن اُن کا مقصد سکھوں سے جموں کے مقام پر طاقت آزمائی کا تھا، انگریزوں کے خلاف جنگ کرنے کا نہیں تھا۔ جب تک وہ سرحد میں رہے، اُن کی مدد کے لیے اسلحہ اور رضاکار پٹنہ (بہار) اور مشرقی بنگال سے آتے تھے۔ اُن کی وفات کے بعد، جو ۱۸۵۱ء کے چند سال بعد ہوئی، اُن کے پیروکار منتشر ہوگئے۔ یاد رہے کہ ۱۸۵۷ء اور ۱۸۵۸ء میں، جن لوگوں نے ستھانہ میں انگریزوں کے خلاف جنگ کی تھی، وہ سیّد احمد کے پیروکار نہیں تھے، بلکہ سرحد کے اُجڈ قبائل تھے جو زمانۂ قدیم سے ہندوستان کی ہر حکومت کے لیے وبالِ جان بنے رہے ہیں۔۵۴؎ اسی طرح مسلمان قائدین نے ۱۸۵۷ء کی سپاہیوں کی بغاوت کے بارے میں بھی کہا ہے کہ اُس کا سیّد احمد کی تحریک سے کوئی تعلق نہ تھا۔ اُن کے پیروکاروں نے باغیوں کی حمایت نہیں کی، جنھوں نے دہلی پر قبضہ کرکے، مغل شہنشاہ کو بحال کرایا تھا۔ سیّد احمد کے پیروکاروں نے اسلام کی اصل پاکیزگی اور خالص پن پر زور دیا تھا اور اسلام کو غیر مسلم اداروں سے نجات دلانے کا عزم کیا تھا۔ اُنھوں نے خلافتِ راشدہ کا زمانہ واپس لانے کی بھرپور کوشش کی۔ سچے امام کے اوصاف و خصائص کی تشریح میں رسائل تحریر کیے، جس کی بیعت مسلمانوں کو کرنی چاہیے۔ سلطنت کے مسلّمہ مگر غیراسلامی ادارے کی مذمت کرنا اُن کے مسلک کا حصہ تھا۔ لہٰذا اس امر میں کوئی صداقت نہیں ہے کہ ولایت علی نے دہلی میں جہاد کی تلقین شہنشاہ کی منظوری سے کی تھی، اور اس نقطۂ نظر کی تائید میں بھی کوئی شہادت دستیاب نہیں کہ شہنشاہ کی بحالی کسی منظم مسلم منصوبے کا حصہ تھی۔ باغیوں کے ایک لیڈر بخت خان نے سیّد احمد کے ایک پیروکار ملا محبوب علی، مقیم دہلی کو دھمکی دی تھی کہ وہ انگریزوں کے خلاف جہاد کا فتویٰ دے، ورنہ جان سے ہاتھ دھونے پڑیں گے۔ لیکن ملا صاحب نے صاف انکار کردیا، بلکہ انگریز خواتین اور بچوں کے ظالمانہ سلوک پر بخت خان اور اُس کے ساتھیوں کو سخت سست کہا۔۵۵؎ بہرکیف چونکہ سیّد احمد کی اصلاحی تحریک سے وابستہ مبلغین غدر سے پہلے اور غدر کے بعد بھی اپنے تبلیغی کاموں میں سرگرم رہے، لہٰذا ۱۸۵۷ء کی بغاوت کا الزام اُن کے سر پر تھوپ دیا گیا۔ چنانچہ سیّد احمد کے پیروکاروں کو بلاامتیاز نشانۂ ظلم و تشدد بنایاگیا۔ جی او ٹریولیان کے الفاظ میں: ’’دہلی پر انگریزوں کا قبضہ ہوجانے کے بعد غازی (سیّد احمد کے پیروکار) کے نام سے مذہبی شدت پسندوں کی جماعت کے ہرفرد کو پھانسی پر لٹکایا گیا۔ منتقم مزاج اور غیر ذمہ دار جج ایک سے زیادہ ایسے اشخاص کو پھانسی کی سزا سناتا تھا، جن کا جرم شاید کسی ایسے مذہب سے منسوب ہونا بتایا جاتا تھا جو ہمارے مذہب (عیسائیت) کا حریف ہو۔‘‘۵۶؎ بہرحال انگریزوں کا غضب مسلمانوں پر نازل ہوا۔ اُنھیں تختہ دار پر لٹکانے سے پہلے سؤر کی چربی مل کر، سؤر کی کھال میں سیا جاتا اور اُن کی نعش نذرِآتش کی جاتی۔۵۷؎ مسلم مورخین کی رائے یہ ہے کہ ۱۸۶۳ء اور ۱۸۶۸ء کے درمیان ملکا کیمپ پر انگریزوں کی فوجی مہمات سیّد احمد کے پیروکاروں ہی کے خلاف نہیں بھیجی گئی تھیں، بلکہ ۱۸۵۷ء میں سپاہیوں کی بغاوت کے بعد ہندو اور مسلمان مغرور باغی اس خطے میں جمع ہوگئے تھے۔ یہ اجتماع انگریز حکومت کے لیے تشویش کا سبب بن گیا۔ چنانچہ مسلم مورخین کا خیال ہے کہ مسلمانوں اور غیر مسلموں کے اجتماع کو ’’جہادی جماعت‘‘ قرار دینا بالکل غلط بات ہے۔۵۸؎ ۱۸۶۴ء اور ۱۸۶۶ء میں جو مقدمے چلائے گئے، وہ سپاہیوں کی بغاوت کے بعد چلائے گئے۔ اگر ان مقدمات میں سیّد احمد کے پیروکاروں کے شامل ہونے کی اکّا دُکا مثالیں موجود ہیں تو اِس کی وجہ یہ ہے کہ اُن میں سے بعض کو باغیوں میں شامل ہونے پر مجبور کیا گیا تھا۔ اِن اِکادُکا مثالوں سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ سیّد احمد کے پیروکار یا مسلمان بالعموم ہندوستان میں برطانوی حکومت کے خلاف سازش میں ملوث تھے۔۵۹؎ جہاں تک اس الزام کا تعلق ہے کہ مسلمان ہندوستان میں برطانوی راج کے استحکام کے خلاف خطرے کا سرچشمہ تھے، مسلمان قائدین نے کہا ہے کہ ۱۸۵۸ء تک انگریز حکومت کی ملازمت میں مسلمانوں کی خاصی بڑی تعداد تھی، جن میں سیّد احمد کے پیروکار بھی شامل تھے۔ یہ لوگ انگریزوں کے وفادار رہے اور اُنھوں نے غدر کے تاریک ایام میں اپنی جان کی قربانی دے کر انگریز خواتین اور بچوں کی حفاظت کی۔ مسلمانوں نے اُن لوگوں کی وفاداری سے کبھی منہ نہیں موڑا، جن سے دوستی نبھانے کی اُنھیں اجازت دی گئی ہے، جیسا کہ قرآن مجید میں اللہ کی ہدایت آئی ہے: (ترجمہ): ’’تم اہلِایمان کی عداوت میں سب سے زیادہ سخت یہود اور مشرکین کو پاؤ گے، اور ایمان لانے والوں کے لیے دوستی میں قریب تر اُن لوگوں کو پاؤ گے جنھوں نے کہا تھا کہ ہم نصاریٰ ہیں۔ یہ اِس وجہ سے کہ ان میں عبادت گزار راہب اور تارک الدُنیا فقیر پائے جاتے ہیں اور اُن میں غرورِ نفس نہیں ہے۔‘‘۶۰؎ (سورہ المائدہ، آیت۸۲) لیکن صداقت مذکورہ بالا دو نقطہ ہائے نظر کے درمیان میں تھی۔ اصلاحی تحریک کے قائدین نے مسلمانوں پر یہ بات راسخ کردی تھی کہ ہندوستان اب دارالاسلام نہیں رہا۔ یہ الگ بات ہے کہ ابتدائی مصلحین نے انگریزوں کے خلاف جنگ کرنا مناسب خیال نہیں کیا تھا یا واقعی اُن کا یہ خیال تھا کہ انگریزوں کے خلاف جہاد موزوں نہیں، تاہم حکمتِ عملی کے لحاظ سے اُنھوں نے انگریزوں کے خلاف جہاد کا اعلان کرنے سے احتراز کیا۔۶۱؎ جہاں تک سکھوں کے خلاف اعلانِ جہاد کا تعلق ہے، جو واقعی سرحد اور پنجاب میں مسلمانوں پر ظلم و ستم ڈھارہے تھے، خود انگریز یہ نہیں چاہتے تھے کہ اُن کی غیرمحفوظ سرحد کے قریب، ایک مضبوط سکھ طاقت موجود ہو، کیونکہ اگر مسلح سکھ فوج برطانوی علاقوں میں مارچ کرنا شروع کردے تو گنگا کے میدانوں تک اُسے روکنے کے لیے کوئی قدرتی رکاوٹ نہیں ہے۔ ہاں اگر سکھوں کے مقبوضہ پنجاب اور ملحقہ علاقوں میں جو مسلح خلفشار ہے، وہ جب تک براہِ راست انگریزی حکومت پر اثرانداز نہ ہو، تو وہ بے شک ہوا کرے، یہی وجہ ہے کہ برٹش انڈیا میں سکھوں کے خلاف جہاد کی عام تشہیر و تبلیغ ہوتی تھی۔ اسلحہ جمع کیا جاتا تھا اور انگریزی حکومت کی ذرا سی بھی مداخلت کے بغیر رضاکاروں کی کھلم کھلا بھرتی کی جاتی تھی۔ ۱۸۴۹ء میں پنجاب کے الحاق سے ذرا پہلے عنایت علی اور ولایت علی سے کہا گیا کہ وہ واپس اپنے وطن بہار چلے جائیں۔ انگریزوں کے نقطۂ نظر سے اب سرحد میں اُن کی مزید موجودگی مناسب نہیں تھی۔ ۱۸۵۷ء کی سپاہیوں کی بغاوت اور ۱۸۶۴ء میں قاضیوں کی منسوخی کے درمیانی عرصے میں حالات نے ایک مختلف رُخ اختیار کرلیا۔ سیّد احمد کے مجاہدین نے انگریزوں کے خلاف بے شمار عسکری مہمات بھیجیں، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ انگریزی حکومت نے اُنھیں باغی قرار دے دیا۔ راجندرپرشاد کے لفظوں میں: ’’جب تک سکھ انگریزوں کے دل میں کانٹے کی طرح کھٹک رہے تھے، مسلمانوں کو سکھوں کے خلاف جہاد کی حوصلہ افزائی کی جاتی تھی۔ جب سکھوں کو شکست ہوگئی اور پنجاب بھی فتح ہوگیا، تو مجاہدین کو انگریزوں کے خلاف باغی قرار دے دیا گیا۔ اُن کو طرح طرح کی سزائیں دی گئیں اور تاحیات جلاوطنی کی سزا دی گئی اور یوں اُن کی پوری جماعت کا شیرازہ بکھیردیا گیا۔‘‘۶۲؎ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سکھوں کے خلاف جہاد نے انگریزوں کے خلاف رُخ کیوں اختیار کرلیا؟ بنیادی محرک یہ تھا کہ مسلمان انگریزی حکومت سے نفرت کرتے تھے۔ ۱۸۲۶ اور ۱۸۵۷ء کی درمیانی مدت میں جب سیّد احمد کے مجاہدین سرحد اور پنجاب میں سکھوں کے خلاف لڑرہے تھے تو برٹش انڈیا کے مسلمانوں کی پوری توجہ اِس جنگ کی طرف تھی، اُدھر ایسٹ انڈیا کمپنی اپنے نظم و نسق میں مسلمانوں کو نکال کر اُن کی جگہ انگریز افسروں کو بھرتی کررہی تھی۔ مسلم گورنروں کو برطرف کرکے اُن کی جگہ انگریز کمشنر مقرر کیے گئے۔ ۱۸۳۵ء میں ایسے سکے مسکوک کرنا بند کردیے جن پر مغل شہنشاہ کا نام منقوش ہوتا تھا۔ ۱۸۳۷ء میں کمپنی نے مسلمانوں کی سرکاری زبانیں عربی اور فارسی منسوخ کرکے ان کی جگہ انگریزی رائج کردی۔ تاہم شہنشاہ کو دارالحکومت دہلی میں اور اس کے مقررہ مسلمان قاضیوں کو برقرار رکھا گیا، کیونکہ مسلمانوں سے اُن کا جو تعلق تھا، اُسے انگریزوں کے مفادات کے لیے ضروری خیال کیا جاتا تھا۔ بالآخر ۱۸۵۷ء کی سپاہیوں کی بغاوت نے مسلم شہنشاہ سے بھی چھٹکارا پانے کا موقع فراہم کردیا۔ اب ہندوستان سرکاری طور پر تاجِ برطانیہ کے تحت آگیا۔ ملکہ وکٹوریہ نے ملکہ معظمۂ ہند کا لقب اختیار کرلیا اور مسلم شہنشاہ کو جلاوطن کردیا گیا۔ سابق شہنشاہ کی جلاوطنی سے مسلمانوں میں کوئی تحریک پیدا نہ ہوئی، کیونکہ کسی بھی مثبت معنی میں اب اُسے کسی نوعیت کا انتظامی حق و اختیار حاصل نہ رہا تھا۔ ملکہ وکٹوریہ نے اپنے ۱۸۵۸ء کے اعلان میں یقین دلایا تھا کہ اُس کی ہندوستانی رعایا کو مکمل مذہبی آزادی حاصل ہوگی اور اُن کے ساتھ عدل و انصاف کا سلوک روا رکھا جائے گا اور اُن پر حکومت غیرجانب داری سے کی جائے گی۔ ملکہ وکٹوریہ کے اعلان کے فقط چھ سال کے بعد مسلمانوں کا ضابطۂ قانونی منسوخ کردیا گیا اور ۱۸۶۴ء میں مسلمانوں کی قضا کی تباہ کن تنسیخ عمل میں آئی، جس پر مسلمانوں میں خاصا اشتعال پیدا ہوا، کیونکہ ایک سابقہ فتوے کی رو سے قرار پایا تھا کہ جب تک مسلمان قضاۃ کو برقرار رکھا جائے گا، ہندوستان کو دارالاسلام سمجھا جائے گا۔۶۳؎ ہندوستان پر انگریزوں کے قبضے سے پہلے دیوانی و فوجداری عدلیہ اور نیز اسلام کے اپنے ضابطۂ قانونی کے انصرام کے لیے مرکزی ہیئتِ انتظامیہ کی جانب سے مسلم قاضیوں کا تقرر ہوتا تھا۔ انگریزوں کو جب ۱۷۶۵ء میں دیوانی (وصولی مال گزاری) کے اختیارات حاصل ہوگئے تو انھوں نے اس دستور کو مصلحتاً برقرار رکھا۔ شہنشاہ کے عطا کردہ اختیارات کی رُو سے قرار پایا تھا کہ انگریز مسلم شہنشاہ کے نائب کی حیثیت سے کام کریں گے اور ہر لحاظ سے مسلم انتظامیہ کے انصرام و اہتمام کے ذمہ دار ہوں گے۔ افسرانِ قانون و عدل یعنی قاضی مسلمانوں کے لیے ناگزیر تھے، کیونکہ وہی نکاح پڑھاتے تھے، وراثت کے تنازعے فیصل کرتے تھے، لوگوں کی امانتیں رکھتے تھے، مذہبی اوقاف کی نگرانی کرتے تھے اور جمعہ و عیدین کی نمازوں کی امامت کرتے تھے۔۶۴؎ مسلم قضا کی تنسیخ پر مسلمانوں کا اشتعال بجا تھا۔ اُن کے نزدیک یہ اقدام مسلمانوں کے مذہبی فرائض کی انجام دہی میں دیدہ دانستہ مداخلت تھا، اسلام کو کچلنے کے مترادف تھا، ملکہ وکٹوریہ نے اپنے اعلان میں جو مذہبی آزادی کا وعدہ کیا، اُس کی سراسر خلاف ورزی تھی۔ اب مسلمانوں نے جمعہ اور عیدین کی نمازوں میں شامل ہونا موقوف کردیا۔ اب یہ خوف لاحق ہوگیا کہ آیندہ مسلمانوں کی شادیاں قاضیوں کے بغیر، ناجائز اور غیرقانونی ہوں گی، مسلمانوں کی جائیداد کی تقسیم غیر قانونی طریقے سے ہوا کرے گی، مسلمانوں کے اوقاف کا ناجائز استعمال ہوگا۔ اس خوف کی وجہ سے غیرملکی حکمرانی کے خلاف مسلمانوں کی نفرت میں مزید شدت پیدا ہوگئی۔ اس تبدیلی کا مطلب تھا، ’’پرانے‘‘ سیاسی تمدن کی موت، جب کہ ابھی ’’نیا‘‘ سیاسی تمدن پیدا نہیں ہوا تھا۔ انگریزوں اور مسلمانوں میں جو باہمی بدگمانی پہلے روز سے پیدا ہوگئی تھی، اب وہ کئی گنا بڑھ گئی۔ انگریز تو مسلمانوں کو شک کی نگاہ سے دیکھتے تھے، جب کہ مسلمانوں کا یہ حال تھا کہ انگریزوں سے منسوب ہر چیز کو مکروہ خیال کرتے تھے، اُن کا طرزِ زیست، اُن کا لباس، اُن کی خوراک، حتیٰ کہ اُن کی انگریزی زبان تک مکروہ تھی۔ مذہبی مراعات و حقوق کی سلبی اور سیاسی حیثیت میں زوال کے علاوہ مسلمانوں پر اقتصادی انحطاط کی قیامت بھی ٹوٹ پڑی۔ مسلمانوں کے پورے عہدِ حکمرانی میں مسلمان الگ تھے اور ہندو الگ، اور انھوں نے ایک دوسرے میں ضم ہونے کا رُجحان کبھی ظاہر نہیں کیا۔ وہ ثقافتی اور مذہبی لحاظ سے اپنے اپنے جداگانہ تشخص پر قائم رہے۔ دونوں قوموں کے درمیان سیاسی رشتہ مسلم شہنشاہ کے دم سے قائم تھا، جس سے دونوں قومیں اطاعت اور وفادری کا دم بھرتی تھیں۔ مسلمان اقلیت میں ہونے کے باوجود ہندوستان میں جاگیردار اشرافیہ کے طبقے پر مشتمل، اور سول ، انتظامیہ، عدلیہ اور فوج کے دفاتر کے اجارہ دار تھے۔ اورنگ زیب کی وفات کے بعد چند عشروں کے اندر اندر سلطنتِ مغلیہ ایک سیاسی وحدت کے طور پر ختم ہوگئی۔ اٹھارویں صدی میں مرہٹہ، سکھ اور انگریز تاہم سلطنتِ مغلیہ کے کھنڈرات پر بالادستی کی جنگیں لڑرہے تھے۔ مسلمانوں نے اپنی بقا کے لیے مرہٹوں اور سکھوں سے پے در پے جنگیں لڑیں، جن سے ان قوموں کے درمیان ایسی عداوت اور نفرت پیدا ہوئی جو بیسویں صدی تک جاری رہی۔ جب سے انگریزوں کو دیوانی (وصولی مال گزاری) عطا ہوئی تھی، مسلمان زمیندار اور کاشت کار مصائب میں مبتلا ہوگئے تھے۔ ۱۸۵۲ء میں بے لگان پٹہ داری کی تحقیقات کے لیے انعام کمیشن مقرر کیا گیا۔ حکومت کا مقصد یہ بتایا گیا کہ کاشت کاروں کو جاگیرداروں کے استحصال سے نجات دلائی جائے اور لگان وصول کرنے والوں یا درمیانی لوگوں کے موروثی نظام کی بجائے اُن سے سرکار کا براہِ راست تعلق قائم کیا جائے۔ کمیشن کے ارکان نے جاگیرداروں کے کلیموں کا جائزہ لیا۔ جن جن کے ملکیت نامے گم تھے یا جو زمینوں پر ناجائز قبضہ جمائے ہوئے تھے، وہ سب کوڑی کوڑی کے محتاج ہوگئے۔ ۱۸۵۶ء میں اودھ کے الحاق سے، آر ای رابرٹس کے بقول: ’’اِن تبدیلیوں کے نتیجے میں زبردست معاشرتی اضطراب و خلفشار پیدا ہوا۔‘‘۶۵؎ نئے بندوبستِ اراضی کا سب سے زیادہ نقصان مسلمان زمینداروں کو ہوا، بلکہ مسلمان کاشت کار تو اور بھی زیادہ مصیبت میں مبتلا ہوگئے، کیونکہ انگریزوں نے جو نئے قوانین نافذ کیے، اُن کی وجہ سے ہندو ساہوکاروں کو بالادستی حاصل ہوگئی۔ صوبہ یوپی کے ۱۸۷۳ء کے اعداد وشمار کے مطابق قرض خواہوں کے پچاس فی صد سے زیادہ دعاوی مسلمانوں کے خلاف دائر کیے گئے تھے۔ اُسی سال صوبہ پنجاب میں بھی مسلمانوں کی جائیداد بقدر تیرہ لاکھ اسی ہزار پاؤنڈ ساہوکاروں کے نام منتقل ہوئی یا اُن کے ہاتھ گروی رکھی گئی۔۶۶؎ عربی اور فارسی زبانوں کی منسوخی، انگریزی کی ترویج اور سرکاری ملازمتوں سے مسلمانوں کی محرومی نے مسلمانوں پر تمام معزز پیشوں کے دروازے بند کردیے۔ اس امر پر بار بار زوردیا جاتا رہا ہے کہ مسلمانوں نے نئی تہذیب کی مزاحمت اپنے مذہب کی وجہ سے کی، جس میں ہر طرح کی خوشحالی و ترقی کے تصور سے نفرت کا جذبہ بھی شامل تھا۔ نئی تہذیب سے مسلمانوں کی مزاحمت صرف مذہب ہی کی وجہ سے نہ تھی، بلکہ بڑی حد تک، معاشی وجوہ سے بھی تھی۔ جہاں تک مسلمانوں کے مذہب کا تعلق ہے، شاہ عبدالعزیز نے انگریزی زبان سیکھنے کی حمایت میں فتویٰ دیا تھا، لیکن مسلمانوں کے معاشی نقطۂ نظر سے سوال پیدا ہوا، کیا نئی تعلیم حاصل کرنے سے کوئی مادی فائدہ بھی ہوگا؟ ۱۸۵۸ء میں ملکہ وکٹوریہ نے اعلان کیا تھا کہ ہندوستانی رعایا کے ساتھ عدل و انصاف کا سلوک روا رکھا جائے گا اور اُن پر حکومت غیرجانب داری سے کی جائے گی، لیکن حقیقت یہ ہے کہ حکومتِ برطانیہ کی پالیسی، خصوصاً ۱۸۵۷ء کی بغاوت کے بعد، مسلمانوں کو ہر لحاظ سے کچلنے کی تھی۔ ہندوؤں کو ترجیح دی جاتی تھی اور مسلمانوں کو تمام سرکاری ملازمتوں سے محروم کرنے کے لیے سرکاری گزٹوں اور اعلانات میں اُنھیں خارج کیا جاتا تھا۔ مسلمان اپنے لیے زیادہ سے زیادہ جن اسامیوں کی توقع کرسکتے تھے، وہ یہ تھیں: قُلی، ہرکارہ، دواتوں میں سیاہی بھرنے والا، قلمیں صاف کرنے والا۔‘‘۶۷؎ مشرقی زبانوں کے جرائد اور کتب خانوں میں مسلمانوں کے لیے کوئی گنجایش نہ تھی۔ ’’ایشیاٹک سوسائٹی‘‘ کی تمام سرگرمیاں فقط سنسکرت کے لیے وقف تھیں، جب کہ سامی تہذیب و ثقافت کے تحفظ کے لیے کسی گرانٹ کی منظوری شجر ممنوعہ تھی۔ لہٰذا مسلمانوں کا یہ سمجھنا کہ اُنھیں دانستہ نظر انداز کیا جارہا ہے، قدرتی امر تھا۔ حکومت مشن سکولوں کی سرپرستی کررہی تھی جو عیسائیت کی تعلیم و تبلیغ کرتے تھے۔ حکومت نے ایسے یتیم خانے قائم کیے جہاں یتیم بچوں کی پرورش عیسائی بچوں کی طرح کی جاتی تھی۔ انگریز افسر اپنے ماتحتوں کو عیسائیت قبول کرنے پر مجبور کرتے تھے۔ حکومت اُن مشنریوں کی حوصلہ افزائی کرتی تھی جو کھلے عوامی اجتماعات سے خطاب کرتے تھے، مسلح گارڈ اور پولیس اُن کی حفاظت پر مامور ہوتے تھے۔ یہ مشنری دوسرے مذاہب کے بانیوں کے خلاف توہین آمیز اور مغلظ زبان میں الزام تراشی کرتے تھے اور ایسا لٹریچر سرِ عام پھیلاتے تھے جن سے لوگوں کے مذہبی جذبات مجروح ہوتے تھے۔ آخری بات یہ کہ حکومت نے اوقاف کی رقم میں خرد برد کی جو مسلمانوں کے تعلیمی اداروں کے نظم و نسق کے لیے وقف کی گئی تھیں، جہاں اب ہندوؤں کو تعلیم دی جانے لگی تھی۔ ڈبلیو ڈبلیو ہنٹر کے الفاظ میں: ’’مسلمانوں کو عملاً نکال باہر کردیا گیا۔‘‘۶۸؎ اِس مدت کے دوران میں دونوں قوموں میں جوں جوں اقتصادی رقابت و مسابقت میں شدت پیدا ہوئی، ہندو مسلم پرانی منافرت اُبھر کر سطح کے اوپر آگئی۔ انگریزوں نے ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان کشاکش دیکھی تو انھوں نے اسے اپنے مفاد میں استعمال کرنا چاہا۔ ۱۸۵۸ء میں بمبئی کے گورنر نے کہا تھا: ’’رومنوں کا ایک قدیم موٹو تھا: ’’پھوٹ ڈالو اور حکومت کرو، اب یہ ہمارا موٹو ہوگا۔‘‘۶۹؎ چنانچہ بعد میں آنے والے ہندو نیشنلسٹ دانشوروں نے اس بات پر زور دیا کہ ہندوستان میں فرقہ وارانہ مسئلہ پیدا ہی انگریزوںکی اس پالیسی سے ہوا کہ ’’تقسیم کرو اور حکومت کرو۔‘‘ اس بیان میں تھوڑی بہت سچائی تو ہے، لیکن مکمل سچائی نہیں ہے۔ مولانا محمد علی نے لندن میں منعقدہ گول میز کانفرنس کے چوتھے اجلاس میں اپنی تقریر میں کہا تھا: ’’مکمل سچائی یہ ہے کہ ہم منقسم ہیں تم حکمرانی کرو‘‘۔۷۰؎ ہندوستان میں انگریزوں کی حکمرانی کے ساتھ ساتھ جو مغربی ثقافتی انقلاب برگ و بار لایا، اُس نے ہندوؤں کو اپنے اصل مذہب کی طرف رجوع کردیا۔ اُن کی تحریک کے سرچشمے مسلمانوں کی تحریک کے سرچشموں سے مختلف تھے۔ بنگال میں اوّلین ہندو مذہبی و سماجی تحریک ’’برہما سماج‘‘ کے بانی راجہ موہن رائے (۱۷۲۲-۱۸۳۳ئ) نے اصلی ہندومت کے احیا کی بھرپور جدوجہد کی۔ اُس نے اسلامی تصوف، عیسائیت اور ہندو اُپنشدوں سے خاص خاص باتیں اخذ کرلیں، اور نتیجہ یہ نکالا کہ حضرت عیسیٰعلیہ السلام کے احکام ’’اخلاقی اصولوں کے لیے زیادہ ترغیب انگیز اور بنی نوع انسان کے مفاد و استعمال کے لیے دوسرے مذاہب کے مقابلے میں بہتر ہیں۔‘‘ چنانچہ ’’عہد نامۂ عتیق‘‘ کا بنگالی میں ترجمہ کرایا گیا۔ راجہ موہن رائے نے مغربی تعلیم کی پورے خلوص و جذبے سے حمایت کی۔ راجہ رائے کے بعد آنے والے مصلحین نے اپنے پیروکاروں پر حضرت عیسیٰعلیہ السلام کی عظمت، اُن کی فضیلت و برتری اور خداترسی، اور تمام مذاہب کی مساوات اور صداقت کا اثر ڈالے رکھا۔ ہندوؤں کی بعد کی مذہبی و سماجی تحریکوں نے، جن میں پراتھنا سماج اور دیوسماج پیش پیش تھیں، ہندوؤں کے اخلاقی و تعلیمی احیا کے لیے کوششیں کیں۔ آریہ سماج نے، جس کی بنیاد ۱۸۷۵ء میں ڈالی گئی تھی اور جو بعدازاں لاہور میں منتقل ہوگئی تھی، جدیدیت کو رجعت پسند ہندومت سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی۔ آریہ سماج نے ہندوؤں میں بُت پرستی، توہمات اور ذات پات کے تعصب کی مذمت کی۔ اس تحریک نے جدید سائنسی علوم کی تحصیل اور معاشرتی اصلاحات کی ضرورت پر زور دیا۔ اس کے ساتھ ساتھ ہندوؤں کو اصل ویدوں کے عقائد پر لوٹ جانے کی تلقین کی، اور یوں ہندومت سے بیرونی مذاہب مثلاً اسلام اور عیسائیت کو خارج کرنے کی کوشش کی۔ گئوماتا کے تقدس و تحفظ پر خاص زور دیا گیا اور نعرہ مشہور کیا گیا ’’ہندوستان ہندوستانیوں کا‘‘ (یعنی ہندوؤں کا)۔۷۲؎ صاف ظاہر ہے کہ ہندوؤں کی یہ احیائی تحریکیں سیاسی اور معاشی عوامل کے تحت متعین ہوئی تھیں۔ ہندوؤں کے نقطۂ نظر سے تو اسلامی تہذیب اور مغربی تہذیب دونوں اجنبی اور بیرونی تھیں۔ انھوں نے اگر مغربی تہذیب کے آگے سرِتسلیم خم کرلیا تو اس کی وجہ یہ تھی کہ اس کے بہتر معاشی امکانات موجود تھے۔ چنانچہ انھوں نے جدید تعلیم کی حمایت کی اور اپنی ضروریات کے مطابق پورے ملک میں سکولوں کا جال بچھادیا۔ جیسا کہ پہلے بھی بیان ہوا، سپاہیوں کی بغاوت کا ذمہ دار مسلمانوں کو ٹھہرایا گیا تھا۔ ہندوؤں نے انگریزوں کو صرف یہی یقین نہیں دلایا کہ اُن کا بغاوت سے کوئی تعلق نہ تھا، وہ تو سراسر مسلمانوں کی مہم جوئی تھی، بلکہ انگریزی حکومت کو یہ بھی یقین دلایا کہ مسلمانوں کو اُن کی موجودہ پسماندگی سے اُبھرنے کا موقع نہیں دینا چاہیے۔ اخبارات نے اس بات کا خوب چرچا کیا کہ عام مسلمانوں کی ہمدردیاں اُن کے ایک معروف باغی گروہ (یعنی سیّد احمد کے مجاہدین) کے ساتھ ہیں، لہٰذا مسلمانوں کے لیے سرکاری سرپرستی میں توسیع کرنا خطرناک ہوگا۔۷۳؎ ۱۸۵۸ء کے بعد انگریزوں کے سامراجی مفادات کا بھی یہی تقاضا تھا کہ ہندوؤں کو ابھارنے کی حوصلہ افزائی کریں اور مسلمانوں کو گرنے دیں۔ ہندوؤں کو سرکاری ملازمتیں دی گئیں۔ مسلمانوں کو اِن سے محروم رکھا گیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان ترقی و خوشحالی کی جو خلیج حائل تھی، وہ مزید وسیع ہوگئی۔ ڈبلیو ڈبلیو ہنٹر نے لکھا: ’’گزشتہ چالیس برسوں میں مسلمانوں نے خود کو ہندوؤں سے لباس میں، سلام دُعا کے آداب میں اور دوسرے ظاہری امتیازات میں اس قدر الگ تھلگ کرلیا ہے کہ اپنی برتری کے عہد میں کبھی اس کی ضرورت بھی اُنھوں نے محسوس نہ کی تھی۔‘‘۷۴؎ وزیرِ ہند ای سی بیلے (Bayley) نے مسلمانوں کے مسئلے پر تحقیقات کے دوران میں اپنے مشاہدات یوں رقم کیے: ’’ہندوؤں نے مسلمانوں کی حکمرانی کے تحت اپنی تقریر کو بالکل اُسی طرح قبول کرلیا تھا، جس طرح ہماری حکومت کے تحت قبول کرلیا ہے۔ ترقی کی خاطر موجودہ ترجیح کا انحصار انگریزی تعلیم کے حصول پر ہے اور وہ انگریزی سیکھ رہے ہیں۔ پہلے ترقی کے لیے ترجیح کا انحصار فارسی تعلیم کے حصول پر تھا اور انھوں نے فارسی سیکھی تھی۔… پس جب ہم نے سرکاری دفاتر میں انگریزی رائج کی تو چرب زبان ہندوؤں نے اس زبان پر اس قدر عبور حاصل کرلیا جتنا کامیاب زندگی گزارنے کے لیے ضروری تھا۔ مسلمانوں کے عہدِ حکومت میں جو سابقہ زبان کاروبار کے لیے چلتی تھی، وہ بھی اور ہمارے عہد میں جو نئی زبان چالو ہوئی ہے، وہ بھی ہندو کے نزدیک بیرونی تھیں۔ وہ دونوں زبانوں سے کوئی رغبت نہیں رکھتا، سوائے اس کے کہ معاشی نقطۂ نظر سے کونسی زبان قابلِ ترجیح ہے۔ مسلمانوں کے ساتھ معاملہ بالکل مختلف تھا۔ ملک کے ہمارے ماتحت آنے سے پہلے مسلمان ہندوستان میں سیاسی طاقت ہی نہیں، بلکہ عقلی و ذہنی طاقت کے بھی حامل تھے۔ اُن کا نظامِ تعلیم ایسا تھا کہ اعلیٰ درجے کی ذہنی تربیت اور قابلیت پیدا ہونے کی پوری پوری گنجایش تھی۔ ہم نے اپنے عہدِ حکومت کے ابتدائی پچھتر برسوں میں اپنے نظم و نسق کے انصرام کے لیے قابل افسر پیدا کرنے کے لیے مسلمانوں کے نظامِ تعلیم کو جاری رکھ کر اس سے استفادہ کیا ہے۔ دریں اثنا ہم نے اپنا سررشتہ تعلیم نافذ کردیا اور جب افسروں کی ایک کھیپ تیار ہوگئی، جو سب کے سب ہندو تھے، تو ہم نے اپنے منصوبے کے مطابق مسلمانوں کے پرانے نظامِ تعلیم کو منسوخ کردیا۔ مسلمانوں کو یہ تبدیلی قبول نہ تھی۔ ایک قدیم فاتح قوم اپنے شاندار ماضی کی روایات کو آسانی سے فراموش نہیں کرسکتی۔‘‘۷۵؎ مذکورہ حالات و واقعات کی روشنی میں مسلمانوں کے لیے ہندوستان کو دارالاسلام کی بجائے دارالحرب قرار دینا ایک قدرتی امر تھا۔ سیّد احمد کے مجاہدین نے تبلیغ کی کہ مسلمانوں پر یہ واجب ہے کہ یا تو اِن ظالم انگریزوں کے خلاف جہاد کریں یا اس لعنتی سرزمین سے ہجرت کرجائیں۔ چنانچہ ہندوستان کے مسلمانوں کا ایک طبقہ انگریزوں سے جہاد کی خاطر سرحدی علاقے میں ہجرت کرگیا اور انگریزی حکومت کے لیے ایک مستقل دردِ سر بن گیا۔ مسلمانوں کی اکثریت کے پاس اس کے سوا چارۂ کار نہ تھا کہ خواہی نخواہی اپنی موجودہ زبوں حالی اور پسماندگی کو قبول کریں۔ اُن کے لیے ہندوستان سے مستقل ہجرت کرکے چلے جانا ممکن نہ تھا، جہاں وہ کئی صدیوں سے حاکمانہ رہ رہے تھے۔ اُن کے لیے یہ بھی ناممکن تھا کہ وہ اپنے سے کہیں زیادہ طاقتور اور باوسیلہ سلطنتِ برطانیہ کے خلاف مسلسل جنگ کرتے رہیں۔ تاہم ہندوستان کے حکمرانوں کی حیثیت سے مسلمانوں کا غرور ابھی تازہ اور زندہ تھا۔ مسلمانان ہند جس کیفیت سے گزر رہے تھے ، اُس کا اندازہ مندرجۂ ذیل اشعار سے ہوسکتا ہے جو گلی گلی رضاکار انگریزوں کے خلاف اعلانِ جہاد کرنے کے لیے اپنے من گھڑت یا دوسروں شاعروں کے اشعار گا گا کر سناتے تھے۔ مثلاً: اس جنگ میں خنجر کی نوک پر کافر نجس کتنے نے اپنے بھاڑے کے ٹٹو ہندو مسخرے کے ساتھ مل کر ہمارا ایماں تباہ کردیاہے اے غیرتِ ایمانی، اے ہمت ِ مردانہ! اُٹھ باندھ کمر، کیا ڈرتاہے ہے وقت شہادت ہے آیا اللہ اکبر، اللہ اکبر! یا مثلاً: واسطے دین کے لڑنا نہ پئے طمع بلاد اہلِ اسلام اسے شرع میں کہتے ہیں جہاد ہے جو قرآن و احادیث میں خوبیٔ جہاد ہم بیاں کرتے ہیں تھوڑا سا اسے یاد کر لو فرض ہے تم پہ مسلمانو جہادِ کفار اس کا سامان کرو جلد اگر ہو دیں دار جس کے پیروں پہ پڑی گرد صف ِ جنگ جہاد وہ جہنم سے بچا نار سے وہ ہے آزاد جہاد کی طرف بلاتے ہوئے اچانک اُس کی منظوم تقریر کا رخ مسلمانوں کی زبوں حالی اور موجودہ حالت کی طرف مڑ جاتا: کیا بیاں کیجئے نیرنگیٔ اوضاعِ جہاں کہ بیک چشم زدن ہو گیا عالم ویراں جن کے ہاتھی تھے سواری کو، سو اب ننگے پائوں پھرے ہیں جوتے کو محتاج پڑے سر گرداں نعمتیں جن کو میسر تھیں ہمیشہ ہر وقت روز پھرتے ہیں یہاں قوت کو اپنے حیراں جن کے پوشاک سے معمور تھے توشے خانے سو وہ پیوند کو، پھرتے ہیں ترستے عریاں پوچھتا کوئی نہیں حال کسی کا اس وقت ہے عدم دہر کی آنکھوں سے مروت کا نشاں کیا زمانے کی ہوا ہوگئی، سبحان اللہ! زندگی ہوئی ہر ایک کی ا ب دشمنِ جاں یہ بحث کہ ہندوستان دارالاسلام ہے یا دارالحرب، خالصتاً ایک علمی بحث تھی، سوائے سیّد احمد کے معتقدین کے۔ تین مختلف دلائل کی بنا پر اس بحث کے تین پہلو تھے: اوّل یہ کہ ہندوستان دارالحرب ہے، لہٰذا مسلمانوں کے لیے جہاد واجب ہے یا پھر وہ ملک سے ہجرت کرجائیں۔ دوم یہ کہ ہندوستان اب بھی دارالاسلام ہے، کیونکہ مسلمانوں کی مذہبی تعذیب کے شواہد نہیں ہیں، لہٰذا مسلمانوں کے لیے جہاد یا ہجرت کا مطالبہ بے معنی اور غیرضروری ہے۔ سوم یہ کہ ملک دارالحرب تو ہے، لیکن صرف فنی مفہوم میں، لہٰذا مسلمانوں پر جہاد واجب نہیں، البتہ اگر حکومت اُن پر ظلم ڈھائے تو وہ ہتھیار اُٹھائے بغیر، ملک سے ہجرت کرسکتے ہیں۔ پہلا نقطۂ نظر سیّد احمد کے معتقدین کا تھا، اور اس کی بنیاد وہ حالات ہوتے ہیں جن کے تحت ایک مسلم ملک دارالحرب بن جاتا ہے۔ یہ نقطۂ نظر حنفی مسلک کے مشہور فقہا نے پیش کیا تھا۔ امام ابوحنیفہؒ کے نزدیک ایسے حالات پیدا ہونے کی تین صورتیں ہوتی ہیں: اوّل، جب مسلم ملک پر غیر مسلموں کی حکمرانی کھلم کھلا مسلّط ہو۔ دوم، جب کوئی دوسرا مسلم ملک ایسا موجود نہ ہو جو مداخلت کرسکے اور جس سے مدد طلب کی جاسکے۔ سوم، جب غیر مسلم حکمرانوں کا تسلط قائم ہونے سے مسلمانوں اور ذمیوں کی مذہبی امان اُلٹ ہوجائے۔ تاہم امام محمد اور امام ابو یوسف کی رائے میں مسلم ملک کو دارالحرب قرار دینے کے مسئلے پر پہلی دو صورتیں کافی ہیں۔ ہندوستان میں پہلی نوعیت کے حالات پیدا ہوجانے کو شاہ عبدالعزیز اور عبدالحی کے فتووں نے بھی تقویت پہنچائی، جن میں کم و بیش انھی دلائل کے تحت بیان کیا گیا کہ اب ہندوستان دارالاسلام نہیں رہا۔ اس نقطۂ نظر کے حامیوں نے یہ نتیجہ نکالا کہ چونکہ انگریزوں کی حکمرانی کھلم کھلا مسلط ہوچکی ہے، لہٰذا ہندوستان دارالحرب بن چکا ہے۔ کوئی تیسرا آزاد مسلم ملک بھی موجود نہیں ہے جو مداخلت کرسکے اور جس سے مدد طلب کی جاسکے۔ انگلستان اور سابق مسلم انڈیا کے درمیان بحری راستہ ہے۔ مسلمانوں اور ذمیوں کو جو مذہبی امان مسلمانوں کے عہدِ حکومت میں حاصل تھی، وہ بھی اُلٹ ہوچکی ہے، کیونکہ انگریزی حکومت نے قاضیوں کو موقوف کردیا ہے اور ذمیوں (غیر مسلم رعایا) کے مذہبی احکام میں بھی انگریزی حکومت مداخلت کررہی ہے۔۷۷؎ چونکہ مسلمان اللہ اور رسولؐ کے بعد صرف ایسے حکام کی اطاعت کے پابند ہیں جو اسلام کے قوانین و احکام نافذ کریں۷۸؎ اور چونکہ اسلامی قوانین جو پہلے نافذ العمل تھے، اب ہندوستان میں مزید نافذ نہ ہوسکیں گے، لہٰذا مسلمانوں پر کفار (انگریز) کے خلاف جہاد واجب ہے یا وہ اس لعنتی سرزمین سے ہجرت کرکے کسی مسلم ملک میں چلے جائیں۔ دوسرے نقطۂ نظر کو اُن لوگوں کی تائید و حمایت حاصل تھی جو مذہبی و سیاسی بنیادوں پر سیّد احمد کے معتقدین سے اختلاف رکھتے تھے۔ سیّد احمد کی اصلاحی تحریک دراصل اُن غیرمسلم شعائر و رسوم کے خلاف ایک بغاوت تھی جو مسلم معاشرے میں رائج ہوگئے تھے۔ سیاسی نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو یہ تحریک نچلے متوسط طبقوں کے معاشی انحطاط کا نتیجہ تھی۔ لہٰذا چند مستثنیات سے قطع نظر، اس تحریک کو مسلمانوں کے نچلے طبقوں کی حمایت حاصل تھی۔ لیکن مسلمانوں کے بالائی طبقے نے تحریک کی مخالفت کی۔ ڈبلیو ڈبلیو ہنٹر کے الفاظ میں: ’’ایک ضلع میں وہابیوں کی موجودگی دراصل تمام طبقوں کے لیے ایک مستقل مصیبت ہے… جائیداد یا مفادات و حقوق کے لیے… ہر مسلمان مولوی، جس کی مسجد سے متصل چند ایکڑ اراضی یا خانقاہ موجود ہے، وہ گزشتہ نصف صدی سے وہابیوں کے خلاف واویلا کررہا ہے۔‘‘ چنانچہ جیسا کہ ڈبلیو ڈبلیو ہنٹر نے اپنے مشاہدے کی بنا پر لکھا: ’’اچھے کھاتے پیتے مسلمانوں نے، جن کے مفادات مولویوں کی حمایت کرنے سے وابستہ تھے، اپنے مقصد کے لیے موزوں فتوے جاری کرائے۔‘‘۷۹؎ محمڈن سوسائٹی آف کلکتہ نے اعلان کیا کہ ہندوستان دارالاسلام ہے، کیونکہ یہاں اذان دینے اور مسجدوں میں نماز پڑھنے کی آزادی ہے۔ قربانی کے مقصد سے گئوکشی پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ مسلمانوں کے مذہبی فرائض و شعائر کی ادایگی میں حکومت کی جانب سے کسی نوعیت کی مداخلت نہیں کی جاتی۔ لہٰذا انگریزوں کے خلاف جہاد یا ہجرت غیر قانونی ہیں۔ محمڈن سوسائٹی نے اس امر کی جانب بھی اشارہ کیا کہ حکومتِ برطانیہ نے عثمانی سلطان، خلیفۂ ترکی کے ساتھ امن اور دوستی کا معاہدہ کیا ہے، جس کی پاسداری کرنا، دنیا بھر کے تمام مسلمانوں پر واجب ہے۔ محمڈن سوسائٹی نے اپنے موقف کی تائید میں حنفی، شافعی اور مالکی فقہ کے فتوے پیش کیے، جن کی رُو سے کہا گیا تھا کہ ایک ملک اُس وقت تک دارالاسلام رہتا ہے، جب تک اسلام کے کچھ نہ کچھ آثار و شواہد وہاں موجود ہوں۔ کوئی ملک دارالحرب اُس وقت بنتا ہے جب اسلام کے تمام کے تمام یا بیش تر احکام کی بجاآوری ممکن نہ رہے۔ شیعہ علما نے بھی یہی فتویٰ دیا کہ ہندوستان دارالاسلام ہے۔۸۰؎ تیسرے نقطۂ نظر کی وکالت سرسیّد احمد خان نے کی۔ انھوں نے کہا کہ کسی ملک کے دارالاسلام اور دارالحرب کی اصطلاحوں کا کوئی ذکر یا حوالہ قرآن مجید سے ثابت نہیں ہے۔ اصطلاح دارالحرب ایک غیر معتبر حدیث میں استعمال ہوئی ہے، جس کی رو سے مسلمانوں کو ایسے ملک میں سود لینے کی اجازت دی گئی ہے۔ جب مسلم فقہا نے اسلامی فقہ کے قوانین مرتب کیے تو اُنھوں نے کسی متنازعہ مسئلے کے حل کے لیے، قانونی موشگافی کے طور پر دو جملے وضع کیے کہ آیا مسلمان قانونی طور پر سود کا کاروبار کرسکتے ہیں یا نہیں کرسکتے۔۸۱؎ حنفی فقہا کے مقررہ حالات کے تحت دو قسم کے ممالک کی صراحت کی گئی تھی۔ سرسیّد نے اِن کا تجزیہ کرنے کے بعد نتیجہ نکالا کہ کوئی ملک یا تو دارالاسلام ہوگا یا دارالحرب، حالانکہ ایک ہی وقت میں وہ بعض وجوہ سے دارالاسلام بھی ہوں گے اور دارالحرب بھی۔ سرسیّد کے نزدیک ایسے درمیانی ملک کی ایک مثال ہندوستان ہے۔۸۲؎ دیکھا جائے تو دارالحرب کی دوصورتیں سامنے آتی ہیں۔ اول، ایک بیرونی ملک جہاں مسلمانوں کو سود لینے کی اجازت ہو۔ دوم، ایک ایسا ملک جہاں مسلمانوں پر جہاد واجب ہو۔ جہاد صرف اور صرف غیرمسلموں کے خلاف ہی ہوسکتا ہے، اور وہ بھی اول، اس وقت جب جہاد کا اعلان ریاست کی جانب سے ہو، اور دوم، جب مسلمانوں کی فتح کا ہر امکان موجود ہو۔ سوم، جب مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان کوئی معاہدۂ امن موجود نہ ہو، اور چہارم، جب مسلمانوں اور غیرمسلموں کے درمیان امان پانے والوں اور امان دینے والوں کے بارے میں کوئی معاہدۂ دوستی موجود نہ ہو۔۸۲۳؎ سرسیّد احمد خان نے مشہور و معروف حنفی فقہا اور شاہ عبدالعزیز اور عبدالحی کے فتووں کی سند پر قراردیا کہ ہندوستان صرف پہلی صورت کے مفہوم میں دارالحرب ہے، دوسری صورت کے مفہوم میں دارالحرب نہیں ہے۔ یعنی انگریزوں کے خلاف مسلمانوں پر جہاد واجب نہیں ہے، کیونکہ دونوں کے درمیان امان پانے والوں اور امان دینے والوں کا تعلق موجود ہے۔ علاوہ ازیں انگریزی حکومت کے تحت مسلمانوں کو امن و امان اور تحفظ حاصل ہے۔ حتیٰ کہ اگر حکومت مسلمانوں کے مذہبی فرائض کی ادایگی میں مداخلت بے جا کرے، تب بھی انگریزوں کے خلاف بغاوت کرنا مسلمانوں پر واجب نہیں۔ اگر حکومت کی جانب سے ایسے حالات پیدا کیے جائیں تو ہندوستان سے ہجرت کرنے میں وہ حق بجانب ہوں گے۔ لیکن حکومت کی جانب سے ایسی مداخلت نہیں ہورہی۔ قاضیوں کی موقوفی سے اسلام کے مبادیات پر کوئی فرق نہیں پڑتا، اور یہ امر بھی ملحوظ رہنا چاہیے کہ ترکی کی مسلم حکومت سے برطانیہ کی حکومت کا معاہدۂ امن موجود ہے۔ اِن عوامل کی روشنی میں مسلمانوں پر واجب ہے کہ وہ حکومت کے وفادار رہیں۔ سرسیّد کی ایک اور دلیل یہ تھی کہ کوئی اسلامی قانون ایسا نہیں ہے جو غیر مسلم حکمرانوں کی اطاعت اور وفاداری سے مسلمانوں کو روکتا ہو۔ حضرت یوسفعلیہ السلام نے بادشاہِ مصر فوطیفار کی ملازمت کی اور ہر معاملے میں اُس کی اطاعت کی حالانکہ فوطیفار کا مذہب حضرت یوسفعلیہ السلام کے مذہب سے مختلف تھا۔ اسلام نے مسلمانوں کو تلقین کی ہے کہ وہ اپنے حکمرانوں کے وفادار رہیں، خواہ وہ مسلمان ہوں یا نہ ہوں۔ اِس طرزِ استدلال کے نقاد کے نزدیک، ایک طرف تو یہ کہنا کہ ہندوستان دارالحرب ہے، اور اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہنا کہ مسلمانوں کو مذہبی امان حاصل ہے، اِن دونوں میں تضاد ہے۔ اِس ضمن میں اُن کی تشریح یہ تھی کہ اسلامی قانون و عمل عام طور پر مسلمہ دو صورتوں کے درمیان ایک تیسری سرحدی صورت کی بھی نشان دہی کرتے ہیں، جسے ’’دارالامان‘‘ کہا جاتا ہے، یعنی ایک ملک جسے دارالاسلام کہا جاسکتا ہے نہ دارالحرب جہاں مسلمانوں پر جہاد واجب ہو۔ مولانا محمد شبلی نعمانی کی رائے میں ہندوستان دارالامان تھا۔ وہ شاہ عبدالعزیز کے فتوے کی پیروی میں یقین رکھتے تھے کہ مسلمانوں کے لیے بنک کا سود جائز ہے۔۸۴؎ یہ تنازع جو سیّد احمد کی مذہبی (سیاسی و معاشی) تحریک کا قدرتی نتیجہ تھا، بہ نظرِ ظاہر عارضی نوعیت و اہمیت کا محسوس ہوتا ہے، لیکن اس کے مابعد اثرات و نتائج کو نظرانداز کرنا ممکن نہیں۔ مسلمانوں کے باہمی فرقہ وارانہ یا طبقاتی اختلافات سے قطع نظر، اُن کے اس شعور نے کہ اب وہ ہندوستان کے حاکم نہیں رہے یا یہ کہ اب اسلام ہندوستان کا حکمران مذہب نہیں رہا، اُن کے دل میں فرقہ وارانہ یا قومی تشخص کا احساس بیدار کیا۔ بنگال پہلا صوبہ تھا جہاں انگریزوں نے اپنا جم جماؤ کیا تھا۔ وہاں جاگیرداروں کے خلاف مسلمان کسانوں کی بغاوت، مشینی مصنوعات کے خلاف اہل محنت، بالخصوص ہُنرمندوں اور کاریگروں کا احتجاج ظاہر کرتا ہے کہ بنگال میں سیّد احمد کی تحریک کا تعلق طبقاتی کشمکش سے تھا، جس میں انگریزوں کے قبضے کی وجہ سے شدت آگئی تھی۔ اس اصلاحی تحریک نے بنگال کے نچلے طبقے کے مسلمانوں میں اسلام کے احیا کا جذبہ پیدا کیا۔ یہ تحریک، جیسا کہ ڈبلیوڈبلیوہنٹر نے لکھا ہے، ہندوؤں کے خلاف ہرگز نہ تھی۔ ہنٹر لکھتا ہے: ’’۱۸۳۱ء میں کلکتہ کے اطراف میں کسانوں کی شورش کے وقت وہ (مسلمان کسان) بلاامتیاز مسلمان اور ہندو جاگیرداروں کے مکانوں میں جارحانہ داخل ہوجاتے تھے۔‘‘۸۵؎ ڈبلیو سی سمتھ کے بقول: ’’وہابی تحریک کے دوران میں نچلے طبقے کے مسلمانوں نے نچلے طبقے کے ہندوؤں کے خلاف کارروائی نہیں کی، اور نہ نچلے طبقے کے مسلمانوں کی جدوجہد معاشی مسائل سے منحرف ہوکر اپنے فرقہ وارانہ ’’دوستوں‘‘ سے مصنوعی استحکام کی طرف ہوئی، بلکہ طبقاتی دشمنوں کے خلاف جاری رہی۔‘‘۸۶؎ بہرکیف اس تحریک سے فرقہ وارانہ (یاقومی) رویوں کی حوصلہ افزائی ہوئی۔ مذہبی لحاظ سے دیکھا جائے تو اسلام میں تطہیر کا عمل ہوا۔ بعدازاں ہندوستان میں پیدا ہونے والے تمام فرقے یا مسلم دینیات کے مکاتب، بشمول دیوبندی، بریلوی، اہلِحدیث اور اہلِقرآن، سب بلاواسطہ یا بالواسطہ سیّد احمد کی تحریک کے خوشہ چین ہیں۔ اسی طرح آزاد خیال مفکرین و مصلحین نے، سرسیّد احمد خان سے لے کر علامہ محمد اقبال تک، اس تحریک کا اثر قبول کیا۔ سیاسی نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو اِس تحریک کے رہنماؤں نے جو انقلاب شروع کیا تھا، وہ متعدد وجوہ سے کامیاب نہ ہوسکا۔ اوّل یہ کہ مضبوط اور باوسیلہ سلطنتِ برطانیہ سے جنگ کرنے میں فتح کا کوئی امکان نہ تھا۔ دوم، ہندوستان سے عوامی ہجرت ناممکن تھی۔ سوم، سیّد احمد کے معتقدین میں، اُن کی زندگی ہی میں، پھوٹ پڑگئی تھی۔ محمد اسماعیل، جن کو سیّد احمد کی تائید حاصل تھی، غیر مقلد تھے (یعنی وہ سابقہ فقہا اور فقہ کے چار مسلمہ مکاتب کی اندھا دھند تقلید کے قائل نہ تھے)، جب کہ کرامت علی مقلد تھے (یعنی وہ فقہ کے چاروں مکاتب کو تسلیم کرتے ہیں اور راسخ العقیدہ حنفی تھے)۔ نتیجہ یہ ہوا کہ جب جہاد کے لیے مسلمان قائد کے انتخاب کا مرحلہ آیا تو کرامت علی نے اپنی راہ الگ اختیار کرلی۔۸۷؎ چہارم، سیّد احمد کی کوشش یہ تھی کہ سرحدی علاقے میں، جہاں اُن کو عارضی غلبہ حاصل ہوگیا تھا، روایتی اسلامی ریاست قائم کرکے وہاں سختی سے شریعت نافذ کی جائے۔ لیکن اُن کی یہ کوشش پٹھان قبائل کی صدیوں کی مسلمہ روایات و رسوم سے متصادم ہوگئی۔ سیّد احمد نے اُن کی شادی بیاہ کی رسوم میں اصلاحات لانے کی کوشش کی، مثلاً اُن کی ایک رسم یہ تھی کہ وہ اپنی بیٹیوں کی شادی سب سے زیادہ بولی دینے والے سے کرتے تھے۔ سیّد احمد نے زکوٰۃ کی ادایگی لازمی قرار دی۔ اسلامی شرعی عدالت قائم کی۔ سرحدی قبائل اس اچانک تبدیلی سے برہم ہوگئے۔۸۸؎ اسی طرح جب بالاکوٹ میں سیّد احمد کو شکست ہوگئی تو جتنے مجاہدین ہندوستان کے مختلف علاقوں سے سرحد میں آئے تھے، قبائل اُن پر ٹوٹ پڑے۔ اے گارڈنر نے لکھا ہے: ’’بہت سے ہندوستانی جنونی رضاکار، جو قبائل کی پناہ میں آئے، اُن کا لباس اور سازوسامان قبائل کو اتنا پسند آیا کہ چھیننے کو جی چاہا‘‘، اُن سب کو قتل کردیا گیا۔۸۹؎ ایم باقر رقم طراز ہیں: ’’شمال مغربی سرحد کے مسلمان زندگی میں اُس تبدیلی کے لیے تیار نہ تھے جس کی تلقین و تبلیغ عسکریت پسند مصلحین کرتے تھے۔ اُنھوں نے اسے دوا کی تلخ گولی سمجھ کر نگل تو لیا، لیکن تکلیف برقرار رہی۔ زندگی کا اسلامی تصور سمجھنے کے لیے اُن کی کافی تعلیم تھی نہ صحیح تربیت۔ انھوں نے اُن کے ساتھ (سیّد احمد اور اُن کے ہندوستانی پیروکار) ہاتھ تو ملایا لیکن جونہی اُن سے چھٹکارا پانے کا موقع ہاتھ آیا، اُنھوں نے اُن سے چھٹکارا حاصل کرلیا۔‘‘۹۰؎ بنگال میں سیّد احمد کے معتقدین (اور صحیح معنی میں نثار علی کے پیروکاروں) کا رویہ جارحانہ تھا۔ انھوں نے تو اُن مسلمانوں پر بھی حملہ کیا جو اُن کی ہاں میں ہاں نہ ملاتے تھے۔۹۱؎ پنجم، مولویوں کا طبقہ اور نیز اونچے طبقے کے مسلمان جو صاحب جائیداد تھے یا اُن کے مفادات کا بھی تقاضا تھا، انھوں نے اس تحریک کی مخالفت کی۔ ڈبلیو ڈبلیو ہنٹر لکھتا ہے: ’’مسلمان جاگیر دار مسجد کے امور و معاملات کے امین و محافظ ہوتے ہیں، جس طرح کہ برطانیہ کے جاگیردار چرچ کے محافظ و امین ہوتے ہیں۔ کسی بھی نوعیت کا اختلاف، خواہ مذہبی ہو یا سیاسی، مفادات پرستوں کے لیے ناقابل برداشت ہوتا ہے۔ اور اب ہندوستانی وہابی مذہبی لحاظ سے بھی اور سیاسی لحاظ سے بھی انتہا پسند ’’مخالفین‘‘ میں شمار ہوتے ہیں۔ اُن کو اونچے طبقے کے لوگوں اور اعتدال پسند مولویوں کی تائید حاصل نہ ہوسکی۔ ششم: ہندوؤں نے سیّد احمد کے پیروکاروں کی مخالفت کی اور اُن کی وجہ سے اور کچھ معاشی مسابقت کی وجہ سے ہندوستان کے تمام مسلمان اُن کی مخالفت کی لپیٹ میں آگئے۔ اور آخر میں یہ کہ حکومت چونکہ اس عسکریت پسند تحریک کو ہندوستان میں انگریزی راج کے خلاف سمجھتی تھی، لہٰذا انھوں نے اس تحریک کو کچلنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کیا۔ اس اصلاحی تحریک کی ناکامی سے چند اہم سبق حاصل ہوتے ہیں۔ بلاشبہ اس تحریک سے اسلام میں کسی قدر تطہیر ہوئی، لیکن یہ مسلمانانِ ہند میں اتحاد قائم کرنے میں ناکام رہی اور جب یہ تحریک منتشر ہوئی تو جنوبی ایشیا کے پہلے سے منقسم مسلمانوں میں چند اور مذہبی فرقے پیدا ہوگئے۔ سیاسی طور پر اس عسکریت پسند تحریک کے رہنماؤں کے خیال میں ہندوستان دارالحرب بن چکا تھا، لہٰذا اب مسلمانوں پر واجب تھا کہ وہ ظالم قابضوں کے خلاف جہاد میں شامل ہوں اور احیاے اسلام کی کوشش کریں۔ یہ ظالم قابض ظاہر ہے کہ انگریز تھے، لیکن جہاد کا رسمی اعلان صرف سکھوں کے خلاف کیا گیا، جو پنجاب اور سرحد کے کچھ علاقوں پر قابض تھے۔ عسکریت پسند مجاہدین کی حکمتِ عملی یہ تھی کہ ہندوستان میں انگریزوں سے جنگ کرنے کے لیے فوجی امداد افغانستان سے حاصل کی جائے۔ یہ سیّد احمد کے بعض خطوط سے ظاہر ہے جو اُنھوں نے اپنے پیروکاروں کے لیے تحریر کیے تھے۔۹۳؎ شمال مغربی سرحد کو اس جنگ کے مرکزی میدان کے لیے منتخب کیا گیا، کیونکہ یہ علاقہ مسلم افغانستان سے متصل تھا۔ اس خطے میں مسلمانوں کی بڑی اکثریت تھی، اور ادھر سکھ اس خطے پر اپنا قبضہ جمانے کی پہلے ہی کوشش کررہے تھے۔ عسکری حکمتِ عملی یہ تھی کہ سرحد کی جانب سے حملے کیے جائیں اور پنجاب کو سکھوں کے قبضے سے آزاد کرایا جائے۔ اس کے بعد جنگ کے دوسرے مرحلے میں ہندوستان میں انگریزی مقبوضات پر حملے کیے جائیں۔ حکومتِ برطانیہ اس منصوبے سے پوری طرح باخبر تھی، لیکن جب تک عسکریت پسند سکھوں سے جنگ میں مشغول ہیں اور سکھوں کی طاقت کو کمزور کررہے ہیں، اُس وقت تک اُس نے مداخلت نہیں کی۔ مذہبی نقطۂ نظر سے جہاد کی کارروائی اُس وقت ہوتی ہے، جب اس کا اعلان ریاست کی طرف سے کیا جائے اور جب مسلمانوں کی فتح کا واضح اور معقول امکان ہو۔ اس تحریک کی صورتِ حال یہ تھی کہ کوئی مستحکم اسلامی ریاست نہ تھی جو جہاد کا اعلان کرتی، اور افغانستان سے بھی کوئی امداد نہ آئی۔ مجاہدین مذہبی لحاظ سے تو بڑے جوشیلے تھے لیکن انھیں ذرا بھی فوجی تربیت حاصل نہ تھی، اور نہ وہ جدید حرب و ضرب سے آگاہ تھے۔ وہ اُن ترقیوں سے بالکل ناواقف تھے جو یورپ میں انسانی علوم، سائنس اور ٹکنالوجی کے شعبوں میں ہوئی تھیں، اور نہ اُن کے پاس مناسب اسلحہ تھا۔ تاہم لڑائی کے وقت وہ چپکے چپکے پیش رفت کرتے تھے۔ مجاہدین اپنے بہترین لباسوں میں ملبوس، اُن کے رہنما مخملیں چُغے زیب تن کیے ہوئے، آگے بڑھتے تھے تو انگریزوں کی لمبی رینج والی گنوں کا چارہ بن جاتے تھے۔ ایسے حالات میں کہا جاسکتا ہے کہ یہ جہاد نہیں تھا، بلکہ اجتماعی خود کشی تھی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مجاہدین نے نہ صرف تمام مسلمانان ہند کو زبردست نقصان پہنچایا، بلکہ اُن کی مادّی ترقی بھی روک دی۔ مسلمانوں نے غیرملکی استبداد سے آزادی حاصل کرنے کے، اپنے پہلے ہی تجربے میں، یہ سبق حاصل کیا کہ اُنھیں اپنی سیاسی قیادت مذہبی جنونیوں کے ہاتھ میں نہیں دینی چاہیے۔ اُس زمانے کی ایک اور خاص اور دلچسپ بات وہ کشمکش ہے جو رجعت پسند علما کے فتووں اور عمل پسند علما کے اجتہادی فیصلوں سے پیدا ہوئی۔ جیسا کہ اوپر بیان ہوچکا ہے، دارالاسلام اور دارالحرب یا جہاد اور ہجرت کی بحث میں ایسے ملکوں کی ایک نئی قسم ایجاد کی گئی، جن کو دارالامان کہا گیا۔ قرآن کی اس واضح آیت کے باوجود کہ ’’اطاعت کرو اللہ کی اور رسولؐ کی اور اُن لوگوں کی جو تم میں سے صاحبِ امر ہوں‘‘ یہ قرار دیا گیا کہ مسلمان اپنے غیر مسلم حکمرانوں کی اطاعت کریں، اُن سے وفادار رہیں اور اُن کی خدمت کریں، اس دلیل کی تائید میں قرآن مجید سے حضرت یوسفعلیہ السلام کی نظیر پیش کی گئی کہ اُنھوں نے اپنے غیر مسلم آقا کی وفاداری کے ساتھ خدمت کی تھی۔ فتوے جاری کیے گئے کہ مسلمان انگریزی زبان سیکھ سکتے ہیں، انگریزوں کی ملازمت کرسکتے ہیں، بنکوں سے سودی کاروبار کرسکتے ہیں، جسے ’’ربا‘‘ کی تعریف میں شمار نہیں کیا جائے گا۔ قاضیوں کی موقوفی کے بعد جب نئے نئے مسائل پیدا ہوئے تو مسلمانوں نے نماز کے لیے مسجدوں میں جانا بند کردیا، خوف لاحق ہوا کہ جب نکاح قاضی نہیں پڑھائیں گے تو ایسی شادیاں ناجائز قرار پائیں گی۔ ایسی عجیب اور نازک صورتِ حال کو جس چیز نے سنبھالا دیا، وہ عمل پسند مصلحین کا ’’اجتہاد‘‘ تھا۔ مسلمانوں کو یہ مفید سبق بھی حاصل ہوا کہ مستقبل میں پیش آنے والی ناگہانی الجھنوں، نئے نئے اور پیچیدہ مسائل کے حل کے لیے اجتہاد سے کام لینا چاہیے۔ ئ…ئئ…ء حوالے و حواشی 1- Shah Wali Ullah and His Times by Saiyid Athar Abbas Rizvi. Canberra. 1980. p. 398. ۲- The Reconstruction of Religious Thought in Islam, 1982, pp. 97, 171, 172;۔ نیز دیکھیے: علم الکلام اور الکلام (مولانا شبلی نعمانی)، ۱۹۶۷، ص۲۳۸۔ 3- Islam and Ahmadism, p. 20. ۴- ایضاً، ص۲۱،۲۲۔ 5- Review of Dr. Hunter's, Indian Musalmans by Syed Ahmad Khan, p. 44. 6- Oxford History of India by V.A. Smith, p. 503. 7- Our Indian Musalmans by W.W. Hunter, pp. 134, 135. 8- History of the Indian Mutiny by Kaye and Malleson, Vol. 2. pp. 2, 3. ۹- ایضاً، ص۴۔ 10- Our Indian Musalmans, pp. 136-137. 11- History of the Indian Mutiny, Vol. 2, p. 11. ۱۲- ایضاً،ص۱۳،۱۵،۱۶،۱۹۔ ۱۳- فارسی اور عربی کو ۱۸۳۷ء میں منسوخ کردیا گیا تھا۔ Indian Islam by Murray T. Titus. pp. 191 193. 14- Our Indian Musalmans, p. 139. ۱۵- اُن کے سوانح کی زیادہ تفصیلات کے لیے دیکھیے: کلکتہ ریویو، جلد ۵۰،نمبر۱۰۰، ۱۸۷۰ئ،ص۸۷؛ سیّد ابوالحسن علی ندوی، سیرت احمد شہید،ص۵۷،۶۹؛ Our Indian Musalmans, p. 12. 16- Asiatic Studies by A.C. Lyall, p. 236. ۱۷- ہدایت المومنین، ص۴۔ ۱۸- محمد اسماعیل، تقویت الاسلام (اُردو ترجمہ) ،۱۲۶۲ھ، ص۵،۶۔ ۱۹- ایضاً،ص۷،۹،۱۰،۱۲،۱۵،۱۶،۲۰؛ خرم علی، نصیبۃ المسلمین، ۱۲۳۸ھ،ص۲،۴،۶،۱۰،۲۱،۴۲؛ سیّد محمد، تنبییہ الغافلین، ۱۹۴۱ئ، ص۴،۵،۲۸،۳۳،۳۳-۵۹،۷۳-۸۷؛ محمد اسماعیل، صراط المستقیم، ص۱۵،۵۹،۱۱۲،۱۱۳،۱۱۵،۱۲۳،۱۲۵،۱۲۷،۱۲۹،۱۳۰،۱۳۲،۱۶۲۔ ۲۰- صراط المستقیم، ص۱۶۵،۱۶۶۔ ۲۱- محمد اسماعیل، منصبِ امامت، ص۶۳،۶۴۔ ۲۲- صراط المستقیم، ص۱۶۳۔ ۲۳- ایضاً،ص۲۲۰،۲۲۴۔ ۲۴- سیرت سیّد احمد شہید،ص۱۰۴،۱۳۴؛ سیّد احمد خان، آثار الصنادید، ص۴۳-۴۷۔ ۲۵- سیرت سیّد احمد شہید، ص۱۳۶-۱۴۳۔ 26- Our Indian Musalmans, p. 15. ۲۷- سیرت سیّد احمد شہید، ص۱۸۲-۱۹۲؛History of the Sikhs by J.D. Cunningham, pp.198 202. 28- Our Indian Musalmans, pp. 44,45. ۲۹- Indian Islam, pp. 179 181.۔ شریعت اللہ کا فرقہ ’’فرائضی‘‘ کہلاتا تھا۔ 30- Our Indian Musalmans, pp. 44,45. 31- The Calcutta Review, Vol L. No. C. 1870. p. 104. 32- The Calcutta Review, Vol LI. No. CI. 1870, P. 177. ۳۳- ایضاً،ص۱۷۸۔ 34- Our Indian Musalmans, p. 47. 35- The Calcutta Review, Vol LI. No. CI. 1870. pp. 188, 189. 36- The Calcutta Review, Vol LI. No. CII. 1870. p. 381. ۳۷- ایضاً،ص۳۸۶۔ ۳۸- ایضاً،ص۳۸۲،۳۹۲۔ 39- Our Indian Musalmans, pp. 23, 24. ۴۰- ایضاً،ص۴۳۔ 41- Our Indian Musalmans, pp. 24, 25, 27, 38, 42; Campaigns on the North West Frontier, pp. 50 62. 42- Our Indian Musalmans, pp. 84 105. ۴۳- ایضاً،ص۷۸۔ ۴۴- ایضاً،ص۱۳۹،۱۴۰۔ ۴۵- ایضاً،ص۲۱،۲۲،۴۶۔ 46- Modern Islam in India by W.C. Smith. Quotation cited p. 162. 47- The Calcutta Review, Vol. LI. No. CII. 1870. p. 382. 48- History of Indian Mutiny, Vol. 2. p. 27. 49- Our Indian Musalmans, pp. 24, 25, 89. ۵۰- ایضاً،ص۲۵،۴۳۔ ۵۱- ایضاً،ص۱۱،۶۱،۷۵،۱۳۹۔ ۵۲- The Pioneer، شمارہ ۱۴؍اگست۱۸۷۱ئ۔ 53- Review on Dr. Hunter's, Indian Musalmans, pp. 13 17, 28. ۵۴- ایضاً،ص۱۸،۱۹۔ ۵۵- ایضاً،ص۱۶۔ 56- Cawnpore. p. 109 quoted by E. Thompson and G.T. Garrett in Rise and fulfilment of British Rule in India, p. 462. 57- My Diary in India by Russel, pp. 11, 13. 58- Review on Dr. Hunter's Indian Musalmans, pp. 20 27. ۵۹- ایضاً،ص۲۲۔ نیز دیکھیے: The Pioneer، شمارہ ۴،اپریل۱۸۷۱ء 60- Review on Indian Musalmans, by Dr. Hunter's p. 45. ۶۱- ڈاکٹر ہنٹر کا کہنا ہے کہ سیّد احمد بریلوی کے پیروکاروں نے ۱۸۶۳ء میں انگریزوں کے خلاف جہاد کا اعلان کیا تھا۔ نیز دیکھیے: Our Indian Musalmans, p. 27. ۶۲- India Divided،ص۹۴۔ 63- Our Indian Musalmans, pp. 136 139. ۶۴- ایضاً،ص۱۸۹-۱۹۲۔ نیز دیکھیے: The Pioneer، شمارہ ۴، اپریل۱۸۷۱ء 65- Historical Geography of India, p. 363. ۶۶- سرسیّد احمد خان، مضامین تہذیب الاخلاق،جلد دوم،ص۵۲۲،۵۲۳۔ نیز دیکھیے: Rise and Fulfilment of British Rule in India 67- Our Indian Musalmans, pp. 165 167. ۶۸- ایضاً،ص۱۸۴-۱۸۶۔ ۶۹- اقتباس از Modern Islam in India،ص۱۶۲۔ 70- Writings & Speeches of Maulana Muhammad Ali, ed. by Afzal Iqbal. p. 464. 71- Modern Religious Movements in India by J.N. Farquhar. pp. 29 37. ۷۲- ایضاً،ص۴۳،۴۵،۵۶،۵۸، ۷۴،۸۱،۱۷۳-۱۸۲،۱۰۱-۱۲۸۔ ۷۳- الطاف حسین حالی کے نزدیک چربی والے کارتوسوں کے خلاف احتجاج، جو غدر کا اصلی سبب تھا، ہندوؤں نے کیا تھا، لیکن الزام مسلمانوں پر عائد کیا گیا۔ دیکھیے: حیاتِ جاوید، حصہ اوّل،ص۲۱۴،۲۲۲،۷۱، نیز دیکھیے: کلکتہ ریویو، جلد ۵۰، شمارہ۱۰۰، ۱۸۷۰ئ،ص۷۳-۷۵۔ 74- Our Indian Musalmans, p. 178. ۷۵- بحوالہ شاہ اسماعیل شہید، مطبوعہ: قومی کتب خانہ، لاہور،ص۷۰،۷۱۔ ۷۶- نظم بہ عنوان: ’’دارالحرب‘‘، شیخ غازی الدین نے ’’جہاد‘‘ کے مبلغ سے کیا کہا دیکھیے: The Pioneer، شمارہ ۲۵،نومبر۱۸۷۱ئ۔ 77- Our Indian Musalmans, pp. 60 81, 124 129. ۷۸- محمد اسماعیل، منصبِ امامت،ص۱۳۰۔ 79- Our Indian Musalmans, pp. 106, 107, 112. ۸۰- ایضاً،ص۱۱۵-۱۲۴، ۱۳۰-۱۳۳، اور ضمیمہ جات،ص۲۱۳-۲۱۵۔ ۸۱- مضمون مطبوعہ علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ، ۱۲مئی۱۸۷۱ء 82- Review on Indian Musalmans, by Dr. Hunter's, p. 42. ۸۳- دیکھیے: The Pioneer ، شمارہ۴ اور ۱۴، اپریل،۲۳نومبر۱۸۷۱ئ۔ سیّد احمد خان کا مضمون مطبوعہ علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ،شمارہ۱۲مئی۱۸۷۱ئ۔ انڈیا کے وفادار مسلمانوں کا جائزہ (انگریزی)، تلخیص:سیّد احمد خان، میرٹھ،۱۸۶۰ء (بادشاہ فوطیفار کی ملازمت میں حضرت یوسفعلیہ السلام کا حوالہ سیّد احمد خاں سے پہلے شاہ عبدالعزیز نے اپنے ایک فتوے میں دیا تھا جس کی رُو سے مسلمانوں کو انگریزوں کی ملازمت کی اجازت دی گئی تھی۔ فتاویٰ عزیزی، جلد اول،ص۸۶،جلد دوم،ص۱۱۹۔ ۸۴- The Pioneer، شمارہ ۲۳نومبر۱۸۷۱ئ؛ مکاتیب شبلی، جلد دوم،ص۱۶۵۔ 85- Our Indian Musalmans, p. 107. 86- Modern Islam in India, p. 162. ۸۷- سیّد طفیل احمد منگلوری، مسلمانوں کا روشن مستقبل، ص۱۰۶۔ نیز دیکھیے: Indian Islam, ص۱۶۲۔ ۸۸- Our Indian Musalmans ص۱۷،۱۸، سیرت سیّد احمد شہید،ص۱۵۰-۱۹۳۔ سیّد بریلوی کے پیروکاروں کے مابین اس امر میں اختلاف ہے کہ سیّد احمد مسلمانوں کے ’’امام‘‘ تھے۔ ۸۹- شاہ اسماعیل شہید، مطبوعہ قومی کتب خانہ، لاہور، ص۴۰۔ ۹۰- ایضاً۔ 91- Our Indian Musalmans, P. 107. ۹۲- ایضاً،۱۰۷ ۹۳- مجموعہ مکتوبات قلمی،ص۵۸،۵۹۔ مکاتیب کا حوالہ، ابو الحسن علی ندوی، سیرت سیّد احمد شہید، میں بھی ملتا ہے، ص۱۲۶-۱۳۹۔ ظ…ظظ…ظ باب چہارم مسلمانانِ ہند اور مغرب دنیائے اسلام میں یورپی استعماری طاقتوں کی آمد کے ساتھ ساتھ جو نئے خیالات وارد ہوئے، اُن کے بارے میں مسلمانوں کا ردعمل تین طرح کا تھا: یا تو مکمل ا سترداد، یا مکمل قبولیت، یا انھیں اسلامی تصورات سے ہم آہنگ کرنا۔ مغربی خیالات کو مکمل طور پر رد کرنے والے مسلمان زیادہ تر مذہبی انتہا پسند تھے جن کو ’’وہابی‘‘ کہا جاتا تھا یا ان کو ’’رجعت پسند‘‘ خیال کیا جاتا تھا۔ تعاون کرنے والے مسلمانوں کو ’’مغرب زدہ‘‘ کہا جاتا تھا۔ نئے خیالات کی اسلام سے ہم آہنگی پیدا کرنے والوں کو ’’آزاد خیال مصلحین‘‘ کہا جانے لگا۔ ان کو رجعت پسند یا قدامت پسند، جو مغربیت اور جدیدیت میں امتیاز نہیں کرتے تھے، مغرب زدہ مسلمان خیال کرتے تھے۔ رجعت پسندوں کی مزاحمت دنیائے اسلام میں یورپی استعماری طاقتوں کی پیش رفت کو نہ روک سکی، کیونکہ انھیں معلوم ہی نہ تھا کہ مغرب کی طاقت کے سرچشمے کیا ہیں، جن میں انسانی علم، سائنس اور ٹکنالوجی کے سرچشمے شامل ہیں۔ ہندوستان میں انھوں نے انگریزوں کا مقابلہ پرانی وضع کی بندوقوں یا تلواروں سے کیا، جبکہ انگریزوں نے دُور مار توپوں سے کام لیا۔ چنانچہ ان کو شکست ہوئی نتیجہ یہ کہ انگریزوں نے ۱۸۵۸ء تا ۱۸۷۰ء کے فقط بارہ برسوں میں ہندوستان کی پوری مسلم قوم کو کچل کر رکھ دیا۔ انگریزوں نے اپنی جارحیت کی پالیسی کو ۱۸۷۰ء میں تبدیل کیا۔۱؎ اُن کے جارحانہ رویے میں یہ تبدیلی زیادہ تر سرسیّد احمد خان (۱۸۱۷-۱۸۹۸ئ) کی کوششوں سے ہوئی، جن کو ہندوستان میں انگریز حکومت اور مابعد بغاوت مسلمانوں کے درمیان داعی امن و مفاہمت قرار دیا جاتا ہے۔۲؎ مرے ٹی ٹائٹس نے تجزیہ کرتے ہوئے لکھا ہے: ’’سرسیّد نے اپنے لوگوں کی طرف حکمران طاقت کی ہمدردی یہ ظاہر کرکے حاصل کی کہ وہ تو انگریزی حکومت کے وفادار ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ انھوں نے بڑی مستعدی اور محنت سے مسلمانوں کو زندگی کے نئے رویے کی طرف لانے کی کوشش کی، جس کے بارے میں انھیں یقین تھا کہ صرف یہی رویہ اختیار کرنے سے مکمل تباہی سے بچاجاسکتا ہے۔‘‘۳؎ غدر سے پہلے کا سرسیّد کا کیرئیر اتنا اہم نہیں ہے، جتنا غدر کے بعد کی سرگرمیاں اہم ہیں۔ وہ دہلی کے ایک اشراف خاندان کے چشم و چراغ تھے، جس کا تعلق مغل دربار سے چلا آرہا تھا۔ اُن کی اسلامی تعلیم ادھوری رہ گئی تھی۔ انگریزی حکومت میں ملازمت کرلی۔ غدر کے دنوں میں کئی انگریزوں کی جانیں بچائیں۔ ۱۸۵۷ء سے پہلے اُن کی متعدد مذہبی و تاریخی تصانیف شائع ہوچکی تھیں، جن میں دہلی کے آثار قدیمہ کا سروے آثار الصنادید بھی شامل تھا جو ۱۸۴۷ء میں طبع ہوا۔۴؎ ۱۸۵۸ء میں اُن کا میمورینڈم اسباب بغاوتِ ہند شائع ہوا۔ یہاں سے گویا انگریزوں سے مفاہمت کرانے کی کوششوں کا آغاز ہوا۔ ۱۸۶۰ء اور ۱۸۶۱ء میں انگریزی میں ہندوستان کے وفادار مسلمان کے عنوان سے متعدد پمفلٹ لکھ کر شائع کرائے۔ ۱۸۶۲ء میں تلبیین الکلام چھپی جو بائبل کی نامکمل تفسیر تھی۔ ۱۸۶۸ء میں ایک دینی رسالہ احکام طعامِ اہلِ کتاب چھپا، جس میں اہلِکتاب کے ساتھ کھانا کھانے کے آداب و احکام بتائے گئے تھے۔ اور ۱۸۷۲ء میں ڈاکٹر ہنٹر کی کتاب انڈین مسلمان پر تبصرہ شائع ہوا۔ اِن مطبوعات کے علاوہ اُن کی مناظراتی تصانیف بھی شائع ہوئیں، مثلاً خطباتِ احمدیہ ۱۸۷۰ء میں چھپی جو رسولِ کریمؐ کی حیاتِ طیبہ پر مضامین کا مجموعہ تھا۔ ۱۸۸۰ء اور ۱۸۹۵ء کی درمیانی مدت میں تفسیر القرآن چھ جلدوں میں چھپی جو قرآن مجید کی نامکمل تفسیر ہے اور جسے تصانیف احمدیہ بھی کہا جاتا ہے۔ علاوہ ازیں اُن کے خطبات، تقریروں اور تحریروں میں ایسے بے شمار نمونے اور اقتباسات ہیں، جن کا مقصد مسلمانوں کو ترغیب دلانا ہے کہ وہ مغرب کی طرف مثبت رویہ اختیار کریں۔۵؎ جس وقت اسبابِ بغاوتِ ہند زیرِ قلم تھی، اُس وقت مسلمانانِ ہند کے سیاسی حالات بہت مشکل اور نازک تھے۔ ’’غدر‘‘ کو کچل دیا گیا تھا اور اس کا ذمہ دار مسلمانوں کو قرار دیا گیا تھا۔ جب سرسیّد نے یہ میمورینڈم حکومتِ ہند اور برطانوی پارلیمنٹ میں پیش کرنے کا فیصلہ کیا تو اُن کے احباب نے انھیں ایسا کرنے سے روکا۔ اُن کے مشورے کے باوجود سرسیّد نے یہ میمورینڈم حکومتِ برطانیہ کو بھجوا دیا۔۶؎ اُنھوں نے ہندوستانیوں اور بالخصوص مسلمانوں کو اِن الزامات سے بری الذمہ قرار دینے کی کوشش کی کہ سپاہیوں کی بغاوت اُن کا سوچا سمجھا منصوبہ تھا۔ سرسیّد کے نزدیک بغاوت کے اصل اسباب یہ تھے: حکومت کے ارادوں کے بارے میں لوگوں کی غلط فہمی، ایسے قوانین کا نفاذ جو ہندوستان کی مسلّمہ روایات و رسوم کے خلاف تھے، ہندوستان کے عوام کے حالاتِ زندگی، اُن کے طرزِ فکر اور شکایات کے بارے میں حکومت کی ناواقفیت، انگریز افسروں کی لاپروائی (یا لوگوں کے لیے دوستانہ جذبات کا فقدان) اور فوج کا ناقص نظم و نسق۔۷؎ انگریزوں اور ہندوستانیوں میں باہمی افہام و تفہیم پیدا کرنے کے لیے انھوں نے تجویز پیش کی کہ ہندوستانیوں کو قانون ساز کونسل کی رُکنیت دی جائے اور یہ کہ ہندوستانیوں کو اعلیٰ عدالتی اور انتظامی عہدوں سے محروم نہ رکھا جائے۔ سرسیّد نے اپنی انگریزی تصنیف ہندوستان کے وفادار مسلمان میں غداری اور بے وفائی کے الزامات کے خلاف مسلمانوں کا دفاع کیا۔ انھوں نے اِس الزام کی تردید کی کہ مذہبی لحاظ سے مسلمان انگریزوں کے خلاف جہاد کرنے پر پابند ہیں۔ انھوں نے دلائل کے ساتھ کہا کہ مسلمانوں سے زیادہ ہندوستان کی کوئی قوم انگریزوں کی وفادار اور اطاعت شعار نہیں ہوسکتی، کیونکہ انگریز عیسائی ہونے کی وجہ سے مسلمانوں کے نزدیک ’’اہل کتاب‘‘ ہیں۔ عیسائی بھی انبیائے کرام اور وحیِ الٰہی پر عقیدہ رکھتے ہیں اور نبوت کی اُسی مذہبی لڑی سے تعلق رکھتے ہیں جس سے مسلمانوں کا بھی رشتہ ہے۔ سرسیّد نے اس ضمن میں آنحضورؐ کی ایک حدیث کا بھی حوالہ دیا جس میں عیسائیوں اور مسلمانوں کو یکساں مذہبی حیثیت دی گئی ہے۔۹؎ سرسیّد نے ایک مضمون بھی تحریر کیا، جس میں انھوں نے بتایا کہ قرآنِ کریم میں عیسائیوں کے لیے جو لفظ ’’نصاریٰ‘‘ استعمال کیا گیا ہے، وہ ’’ناصرہ‘‘ سے مشتق نہیں ہے بلکہ ’’نصر‘‘ سے ماخوذ ہے، جس کے معنی ہیں مدد۔ قرآن کی متعدد آیات کے حوالے دے کر انھوں نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ نصاریٰ اللہ کے ناصر و مددگار ہیں اور مسلمانوں کو اُن کی دوستی عطا کی گئی ہے، جیسا کہ قرآنِ مجید کی سورۃ المائدہ، آیت۸۲ میں ارشادِ ربانی ہے: (ترجمہ) ’’…اور ایمان لانے والوں کے لیے دوستی میں قریب تر اُن لوگوں کو پاؤ گے جنھوں نے کہا تھا کہ ہم نصاریٰ ہیں۔‘‘۱۰؎ سرسیّد نے بائبل کی تفسیر تبییٔن الکلام اس مقصد سے لکھی تھی کہ مسلمانوں کو عیسائیت کے بارے میں بہتر فہم پیدا ہو، خصوصاً مسیحی مشنریوں سے مباحثہ یا مناظرہ کرتے وقت، اور اسلام کے بارے میں عیسائیوں کے شکوک اور مسیحی صحائف کے بارے میں مسلمانوں کے شکوک دور کرکے دونوں مذاہب کے پیروکاروں میں خوشگوار تعلقات قائم کیے جائیں۔۱۱؎ سرسیّد پہلے مسلمان تھے جنھوں نے بائبل کی ہمدردانہ تفسیر لکھی۔ لیکن تفسیر ادھوری رہ گئی، کیونکہ ایک تو موضوع بہت دقیق تھا اور دوسرے اِسے جس انداز میں لکھا جارہا تھا۔۱۲؎ سرسیّد کہتے تھے کہ بائبل کا متن مصدقہ ہے، جبکہ مسلمانوں کا دعویٰ تھا کہ اس کے متن میں دانستہ تحریف کی گئی ہے۔۱۳؎ سرسیّد نے عیسائیت اور اسلام کی تعلیمات میں مشابہت پر زور دینے کے لیے اناجیل اور قرآن اور حدیث کے مفصل حوالے دیے۔ اور جہاں جہاں دونوں مذاہب میں کچھ اختلافات اور فرق نظر آئے تو انھوں نے یہ دلیل پیش کی کہ اگر بائبل کا کوئی حکم اسلامی حکم سے متصادم ہے، تو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ بائبل کا حکم، جو قرآن سے پہلے آیا تھا، وہ محدود مدّت کے لیے مفید مطلب تھا۔۱۵؎ جے ایم ایس بالجون نے سرسیّد کی اس تصنیف میں بے شمار تضادات کی نشان دہی کرتے ہوئے، اپنے تجزیے کا خاتمہ ان الفاظ میں کیا ہے: ’’بہ حیثیت مجموعی عیسائیت کی جانب سرسیّد کا رویہ منصفانہ ہے اور بیشتر مسلمان جدیدیوں کے مقابلے میں وہ بہت روادار ہیں۔‘‘۱۶؎ مسلمانوں اور عیسائیوں کے مابین سماجی روابط اور میل جول بڑھانے کی غرض سے سرسیّد نے رسالہ احکام طعام اہلِ کتاب لکھا، جس میں انھوں نے بیان کیا کہ عیسائیوں کے ساتھ کھانا کھانے میں مسلمانوں میں جو تعصّب پایا جاتا ہے، وہ درحقیقت ہندو رسم و رواج پر مبنی ہے۔ قرآنی آیات کے حوالوں سے اُنھوں نے اپنے اس نقطۂ نظر کو تقویت پہنچائی کہ مسلمانوں کا عیسائیوں کے ساتھ مل بیٹھ کر کھانا جائز ہے، بشرطیکہ نہ تو شراب خوری ہو اور نہ ممنوعہ غذائیں ہوں۔ انھوں نے عیسائی میزبانوں کے ہاں مخنقہ یا مذبوجہ پرند کا گوشت کھانے پر اعتراض نہیں کیا۔۱۷؎ ہنٹر کی کتاب انڈین مسلمان پر اپنے تبصرے میں انھوں نے مسلمانوں، بالخصوص سیّد احمد بریلوی کے پیروکاروں پر بغاوت کے الزام کے خلاف اُن کا دفاع کیا۔ سیّد احمد کے پیروکاروں پر، جن کو ’’وہابی‘‘ بھی کہا جاتا تھا، شمال مغربی سرحدی علاقے میں انگریزوں کے خلاف جنگ کرنے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ ہنٹر نے اپنی کتاب میں ایک اشتعال انگیز، جذباتی سوال اٹھایا تھا: ’’ہمارے انڈین مسلمان، کیا وہ ملکہ کے خلاف بغاوت کرنے میں ضمیر کے قیدی ہیں؟‘‘ پھر خود ہی اس سوال کی تشریح میں بطور دلیل لکھا کہ ’’مسلمان مذہبی فریضے کے طور پر انگریزوں کے خلاف بغاوت کرنے پر مجبور تھے، اور وہ ہندوستان میں برطانوی طاقت کے لیے مستقل خطرے کا منبع تھے۔‘‘۱۸؎ سرسیّد نے ’’وہابیوں‘‘ کے اصلاحی جوش و خروش پر، اُن کی بہت تعریف کی، اور اصرار کیا کہ اُن کا جہاد انگریزوں کے خلاف نہیں، سکھوں کے خلاف تھا۔ وہ تو انگریزوں کے وفادار تھے، اور جن لوگوں نے سرحدی علاقے میں انگریزوں سے جنگ کی تھی، وہ سیّد احمد کے پیروکار نہیں تھے، بلکہ اُجڈ قبائل تھے یا بھگوڑے باغی۔۱۹؎ خطبات احمدیہ آنحضورؐ کی حیات طیبہ پر مضامین کا مجموعہ تھا اور اس میں سرولیم میور کی کتاب لائف آف محمدؐ کا جواب بڑی محنت اور جانفشانی سے لکھا تھا۔ ولیم میور نے آنحضورؐ کی سیرت و کردار اور خصوصاً اسلام پر جو الزامات عائد کیے تھے، اُن کا سختی سے بطلان کیا تھا، سرسیّد نے مستند حوالوں کے ساتھ ثابت کیا تھا کہ یہودی اور عیسائی صحائف میں آنحضورؐ کی آمد کی پیشین گوئیاں موجود ہیں۔ بعدازاںتفسیر القرآن میں اِس موضوع پر دوبارہ تفصیل سے قلم اٹھایا۔ تفسیر القرآن کی جلددوم میں حضرت عیسیٰعلیہ السلام کی ولادت، معجزات، مشن اور وفات کے بارے میں مسلمانوں کے عقائد کی عقلی تصریحات پیش کیں۔ سرسیّد نے دعوے کے ساتھ لکھا کہ اسلام کے سوا کوئی دوسرا مذہب ایسا نہیں ہے جس نے حضرت عیسیٰعلیہ السلام اور اُن کی تعلیمات کی اس قدر تکریم کی ہو۔ اُن کا خیال تھا کہ مسلمانوں اور غیرمسلموں کے درمیان دوستی، جو قدرتی لگاؤ کی بنا پر ہو، اُسے صرف اسلام نے تسلیم کیا۔۲۰؎ ایک اور موضوع، جس پر سرسیّد نے پوری توجہ کی، یہ تھا کہ کن حالات کے تحت مسلمانوں پر جہاد واجب ہوتا ہے۔ انھوں نے جہاد کے موضوع پر بہت کچھ لکھا۔ اُن کا لہجہ معذرت خواہانہ تھا۔ اُن کا خیال تھا کہ جہاد ’’قدرت‘‘ سے ہم آہنگ چیز ہے۔ اس کی نوعیت مدافعانہ ہے، جیسا کہ حضورؐ کے تمام غزوات دفاعی تھے۔ اسلام میں دین قبول کرنے پر جبر نہیں۔ تبدیلی مذہب صرف پُرامن ترغیب و تبلیغ سے ہونی چاہیے۔ جبر کے زور پر یا تلوار کی نوک پر نہیں۔ بعد کے مسلم حکمرانوں کی غلطیوں کا الزام اسلام پر عائد کرنا درست نہیں۔ اسلام فراخ دلانہ رواداری کا قائل ہے۔ مسلمان صرف اسلام کے دفاع کی خاطر جنگ کرسکتے ہیں۔ اسلام اپنے پیروکاروں پر حکمرانوں کی اطاعت اور وفاداری کی تلقین کرتا ہے، خواہ اُن کا مذہب کچھ بھی ہو۔ آنحضورؐ نے اسلام کے ابتدائی ایام میں اپنے بعض صحابہؓ کو، جن پر جبروتشدد کیا جاتا تھا، حبشہ کی عیسائی سلطنت میں پناہ لینے کا مشورہ دیا تھا۔۲۱؎ سرسیّد نے خود اپنے لیے ترکی (یورپی) لباس اختیار کرلیا اور انگریزوں کے ساتھ گھُل مل کر رہنے لگے، جیسا کہ اُن کے سوانح نگار حالی نے لکھا ہے، انگلستان کا دورہ کرنے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اُن کی مثال کی تقلید کرتے ہوئے دوسرے مسلمانوں کو بھی انگلستان جانے کی حوصلہ افزائی ہو۔۲۲؎ ہندوستانیوں اور بالخصوص مسلمانوں کو انگریزوں کے قریب لانا پوری زندگی اُن کا ایک بنیادی مقصد رہا جو اُن کی اصلاحی تحریک میں مختلف پہلوؤں اور صورتوں میں ظاہر ہوا۔۲۳؎ کبھی کبھی وہ انگریز افسروں کے رویے کی وجہ سے سخت مایوس ہوجاتے۔ اُن کے ذاتی تجربے کی چند جھلکیاں یہاں پیش کی جاتی ہیں۔ ۱۸۶۷ء کے آگرہ دربار سے وہ احتجاجاً واک آؤٹ کرآئے تھے، کیونکہ تقریب میں نشستوں کی ترتیب میں نسلی امتیاز روا رکھا گیا تھا۔ ایک اور موقع پر ایک انگریز افسر نے ایم اے او کالج کو اِن تلخ الفاظ کے ساتھ، چندہ دینے سے انکار کردیا: ’’یہ ادارہ ہمارا بچہ ہے، اُس کا نہیں ہے۔ اُسے چاہیے کہ پدرانہ شفقت سے تھپکنے کی بجائے اسے لات مارکر الگ ہوجائے۔‘‘ سرسیّد نے اِن الفاظ میں انگریزوں کو یاد دلایا: ’’آپ حضرات، پوری ایک صدی یا زاید عرصے سے ہمارے ساتھ ایک ہی ملک میں رہ رہے ہیں، آپ نے ایک ہی ہوا میں سانس لیا ہے، ایک ہی پانی پیا ہے، ایک ہی خوراک کی فصلوں سے اپنی کروڑوں ہندوستانی رعایا کے ساتھ غذائیت حاصل کی ہے، لیکن ایسے سماجی میل جول اور روابط کا فقدان، جو انگریزوں اور اِس ملک کے باشندوں کے درمیان لفظ ’’دوستی‘‘ کی بنیاد پر استوار ہونے چاہییں تھے، انتہائی افسوسناک ہے۔‘‘ اپنی زندگی کے آخری ایام میں اُن کی مایوسی بہت بڑھ گئی تھی، کیونکہ فاتحین اور مفتوحین کے درمیان مساوات قائم ہونے کی تمام اُمیدیں خاک میں مل گئی تھیں، حتیٰ کہ مستقبل میں بھی اس کی کوئی اُمید نظر نہ آتی تھی۔ اُن کی ایک تقریر کے اس اقتباس سے اُن کی نااُمیدی کا اظہار ہوتا ہے: ’’میری رائے میں ابھی وہ وقت نہیں آیا اور شاید نہ کبھی آئے گا، جب ہمارے یورپی دوست، اس ملک کے فاتح اور اپنی فتح پر قدرتاً نازاں، اپنے مفتوح اور قدرتاً نفرت زدہ ہندوستانی کے ساتھ ایک ہی بنچ پر بیٹھنا گوارا کرلیں گے، جو اپنے فرائض مساوی عزت و تکریم کے ساتھ ادا کرنا چاہتا ہے۔ اگر ہندوستانی ایک دیانت دار اور شائستہ انسان کی حیثیت سے اپنی عزتِ نفس برقرار رکھنے کا آرزومند ہے، تو اُس کی زندگی ناقابلِ برداشت بن جاتی ہے۔۔۔۔۔ یہ کوئی راز نہیں ہے کہ انگریز اپنے ہم وطنوں سے جو سلوک روا رکھتے ہیں، وہ اُس سلوک سے بالکل مختلف ہوتا ہے جو وہ ہندوستانیوں سے روا رکھتے ہیں، وہی فرق ہے جو سفید اور سیاہ میں ہوتا ہے۔ لوگ لاف زنی کیا کریں اور کہا کریں کہ ایسا نہیں ہے، لیکن دانا لوگ ہی جانتے ہیں کہ اصل حقیقت کیا ہے۔‘‘۲۴؎ سرسیّد ۱۸۶۹ء میں انگلستان کے دورے پر گئے۔ یورپ کی ثقافتی ترقی سے بہت زیادہ متاثر ہوئے۔۲۵؎ ڈبلیو سی سمتھ کے بقول: ’’پہلے وہ برطانیہ کی وفاداری پر محض سیاسی طور پر، زور دیا کرتے تھے۔ اس کے بعد انھیں ثقافتی ترقی سے بھی پرجوش دلچسپی پیدا ہوگئی۔ اب اُن کے سامنے صرف یہی مقصد نہ تھا کہ مسلمانوں کو برطانوی راج کو تسلیم کرنے پر آمادہ کریں، بلکہ اب مغربی کلچر کو قبول کرنے کی ترغیب دینا بھی اُن کا مقصد بن گیا تھا۔‘‘۲۶؎ ۱۸۷۰ء میں ہندوستان واپس آنے کے بعد۲۷؎ سرسیّد نے مسلمانوں کے مذہبی، اخلاقی، معاشرتی، ادبی، تعلیمی، اقتصادی اور سیاسی نقطۂ نظر کی اصلاح کے لیے ایک ہمہ گیر تحریک شروع کی۔ چونکہ اُن کی اصلاحی تحریک اُن سیاسی، معاشی اور ثقافتی تبدیلیوں کا نتیجہ تھی جو برطانوی راج کے قیام کے بعد رونما ہوئی تھیں، لہٰذا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ یہاں اُن کی تحریک کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لیا جائے۔ بالجون کے خیال کے مطابق سرسیّد کے مذہبی افکار ۱۸۷۰ء سے ۱۸۹۸ء تک کی مدّت پر محیط ہیں، (یعنی ۱۸۷۰ء میں انگلستان سے ہندوستان واپسی کی تاریخ سے لے کر ۱۸۹۸ء میں اُن کی وفات تک)۔ اُن کی ابتدائی دینی تالیفات راسخ العقیدگی پر مبنی ہیں، اگرچہ آزادانہ تحقیق کی جانب بتدریج پیش رفت کا رجحان بھی ملتا ہے۔ اُن کی پرورش مذہبی رواداری کے ماحول میں ہوئی تھی۔ یہ درست ہے کہ دینیات کے موضوع پر اُن کے ابتدائی رسائل میں کٹر راسخ العقیدگی پائی جاتی ہے، تاہم رفتہ رفتہ عالمانہ تحقیق کے ذوق و شوق اور تقلید کی راہ پر نہ چلنے کے احساس نے پرورش پائی۔ وسیع تناظر میں دیکھا جائے تو اُن کے اس عالمانہ رویے کی پرورش محمد اسماعیل شہید کے زیراثر ہوئی۔ اُن کی ابتدائی روایتی کٹر اسلامی تعلیم بوجوہ ادھوری رہ گئی تھی۔ اِسی طرح وہ نئے طرزِ تعلیم سے بھی مستفید نہ ہوسکے، کیونکہ اُن کا انگریزی زبان کا علم محدود اور ناکافی تھا۔ اُن کی یہ ذہنی حالت حالی کی رائے میں زحمت کے پردے میں رحمت ثابت ہوئی۔ اگر سرسیّد پرانی، روایتی تعلیم پر کامل عبور حاصل کرلیتے تو اُن کے لیے تقلید سے آزاد ہونا اور نئی تعلیم سے ہم آہنگ ہونا ممکن نہ رہتا۔ اس کے برعکس یورپ کی ثقافتی ترقی کا اعلیٰ معیار، جو عام طور پر ہندوستانی طلبہ پر اتنا گہرا اثر ڈالتا تھا کہ وہ اپنے وطن کی ترقی کے بارے میں پُرامید ہوجاتے تھے، سرسیّد کے دماغ پر اس قدر گہرا اور حیرت انگیز اثر اس لیے ڈال سکا کہ وہ نئی اور جدید تعلیم سے بس واجبی واقفیت رکھتے تھے۔۳۰؎ اسلام کی تفسیرِ نو سے اُن کا بڑا مقصد ’’وقت اور مصلحت کے تقاضے کے مطابق ضروری ضروری باتوں کی شناخت و تفہیم تھی۔‘‘۳۱؎ اُن کی رائے میں مسلمان اور عیسائی ایسے دو مذاہب کے پیروکار تھے جو ایک دوسرے کے حریف نہیں، بلکہ دوست تھے۔ وہ یہ بھی جانتے تھے کہ جدید سائنسی علوم کی تحصیل، جو اُن کی قوم کے لیے ضروری تھی اسلام اور دنیائے اسلام کے بنیادی اتحاد و استحکام کے لیے ایک خطرہ ہے، تاوقتیکہ اسلامی دینیات کے مبادیات کو روایت کی بجائے عقل کے اُصول پر استوار نہ کیا جائے۔ نیز اُن کا مقصد عیسائی مشنریوں کے حملوں سے اسلام کا دفاع بھی تھا جو اپنے تبلیغی دوروں میں یہ دعویٰ کرتے رہتے تھے کہ اسلام ایک غیر عقلی مذہب ہے اور ثقافتی ترقی کا مخالف ہے۔۳۲؎ سرسیّد نے واضح طور پر لکھا کہ ازمنہ وسطیٰ کے دوران جب مسلمانوں کا یونانی سائنسی علوم سے آمنا سامنا ہوا تو انھوں نے اپنی مکتبی دینیات کو یونانی سائنسی علوم سے ہم آہنگ کرلیا۔ ’’نئے علم‘‘ کو اپنے قدیم علم میں جذب کرلینے کا یہ طریقہ مفید ثابت ہوا، لیکن صرف کچھ مدت کے لیے، کیونکہ اُس وقت یہ احساس نہیں کیا گیا تھا کہ یونانی سائنسی علوم کی فکری و قیاسی نوعیت بالآخر مسلمانوں کو گمراہی کی طرف لے جائے گی۔ یونانی سائنسی علوم کے برعکس جدید سائنسی علوم تجربی ہیں اور تشکیک کی طرف لے جاتے ہیں۔ لہٰذا ایک نئے علم الکلام کی ضرورت ہے جو جدید سائنس سے پیدا شدہ لامذہبیت کے رُجحان کے آگے بند باندھ سکے۔ اگر دینیات کی تفسیر و تشریح جدید سائنس کی روشنی میں کی جائے تو سرسیّد کو یقین تھا کہ اسلام پر مسلمانوں کا ایمان پختہ تر ہوجائے گا اس لیے اسلام اُن کی رائے میں دینِ فطرت ہے۔ قرآنی آیات و احکام جدید سائنس کے انکشافات کے عین مطابق ہیں۔۳۳؎ دینیات میں اُن کی تحقیقات رویے میں تبدیلی کی غماز ہیں، اسلام کے بنیادی اصولوں میں تبدیلی کی غماز نہیں ہیں۔۳۴؎ اُن کے اپنے افکار و نظریات میں کوئی خاص انقلابی بات نہ تھی، کیونکہ انھوں نے جو کچھ کہا، پچھلے زمانے کے اسلام کے مشہور و معروف علمائے دین کے منتخب افکار و نظریات کی بنیاد پر کہا ہے۔۳۵؎ سرسیّد کی اسلام کی تشریحات عقلی تھیں، اس لیے کہ وہ مذہب سے متعلق معاملات میں تحقیق چاہتے تھے اور تقلید کے سخت خلاف تھے۔ اُن کا خیال تھا کہ جب تک مسلمانوں میں بے لاگ اور غیر جانب دارانہ تحقیق کی رُوح قائم رہی اسلام کا دنیاوی سائنسی علوم سے کوئی تصادم نہیں ہوا۔ جب اس روح کا فقدان ہوا تو معمولی قابلیت کے آدمی اُبھر آئے۔ وہ اس سے زیادہ کچھ نہ کرسکے کہ پچھلوں نے فکر کے جو سانچے یا عمل کے جو ضوابط بنادیے تھے، اُن پر آنکھیں میچ کر چلتے رہیں۔ صہیونی اور مسیحی افکار، اور نیز مقامی رسوم و رواج اسلامی دینیات میں داخل ہوگئے، یہاں تک کہ بعد کے علمائے دین نے یہ افسانہ گھڑنے میں فخر محسوس کیا کہ اجتہاد (آزادانہ تحقیق) کے دروازے بند ہوچکے ہیں۔ سرسیّد نے کہا، تحقیق کی کسوٹی ’’عقل‘‘ ہے۔ اسلام کی بنیاد عقل کے اصولوں پر ہے۔ اسلام دینِ فطرت ہے۔ ’’فطرت‘‘ سے اُن کی مراد ایک ایسا منفرد اور اچھوتا نظامِ ترکیب و ہیئت ہے جو مادی اور غیرمادی مظاہر میں سمایا ہوا ہے۔۳۷؎ انھوں نے ’’قدرت‘‘ کی اصطلاح کو ’’انسانی فطرت‘‘ کے معنی میں بھی استعمال کیا اور طبعی سائنس کی ’’قدرت‘‘ کے مفہوم میں بھی۔۳۸؎ خدا کی نوعیت و ماہیت کے بارے میں انھوں نے جو دلائل پیش کیے، وہ کائناتی اور غایتیاتی تھے۔ خدا علّتِ نمائی کی حیثیت سے انسانی فہم و ادراک سے ماورا ہے۔ خدا ’’قدرت‘‘ کا خالق اور صانع ہے۔ پس اسی لیے ’’قدرت‘‘ مکمل تھی (یعنی دنیا کو سموس ہے، ایک مرتب، باقاعدہ کل، باضابطہ وحدت)۔ جو چیز قدرت کے مطابق اور اس سے ہم آہنگ ہے، وہ ’’قدرتی‘‘ ہے، اور جو چیز اس سے ہم آہنگ نہیں، وہ ’’غیر قدرتی‘‘ہے۔۳۹؎ اسلام انسانی نیچر کے عین مطابق ہے، کیونکہ جدید سائنسی علوم نے ’’نیچر‘‘ کی جو تشریح کی ہے، انسانی نیچر اُس کے عین مطابق ہے۔ اسلام، بلکہ زیادہ صحیح مفہوم میں، قرآن خدا کا قول ہے اور ’’نیچر‘‘ خدا کا عمل ہے۔ خدا کے قول و عمل میں مکمل ہم آہنگی ہے۔‘‘۴۰؎ سرسیّد نے اسلام کے ’’اساسی اصولوں‘‘ (جن کو قرآن احکامِ منصوصہ کہتا ہے) اور ’’استخراجی اصولوں‘‘ کے درمیان خطِ امتیاز کھینچا ہے۔ اساسی اُصول ’’نیچر‘‘ کے عین مطابق ہیں، اور استخراجی اصول یا تو سابقہ فقہا کی ذاتی رائے ہیں یا اجماع کا اتفاقِ رائے۔۴۱؎ احادیث نبویؐ کے استناد کے لیے، خواہ اُن کے راوی کتنے بھی قابلِ اعتبار ہوں، سرسیّد نے انتہائی سخت منطقی کسوٹی اور ایک لازمی شرط مقرر کی۔ مثال کے طور پر جو احادیث قرآن سے متصادم ہیں، وہ غیر معتبر ہیں۔ انھوں نے وحی متلو اور وحی غیر متلو میں بھی امتیاز روا رکھا۔ وحی متلو سے مراد وہ وحی ہے جو تلاوت کی جاتی ہے اور یہ قرآنِ کریم ہے۔ وحی غیر متلو سے مراد وہ وحی ہے جس کی قرآن کی طرح تلاوت نہیں کی جاتی، بلکہ صرف پڑھی جاتی ہے اور اس سے مراد احادیث ہیں، آنحضورؐ کی احادیث یا ذاتی آرا مستند ہوں یا نہ ہوں، قوتِ نافذہ کی حیثیت نہیں رکھتیں، کیونکہ حضورؐ نے کبھی اپنے بارے میں فوق البشر ہونے کا دعویٰ نہیں کیا۔ مختصر یہ کہ سرسیّد کی رائے میں قرآن مجید میں درج ’’احکامِ منصوصہ‘‘ کے علاوہ تمام اسلامی دینی لٹریچر کو اسلام کی کسی بھی اچھی تفسیر میں ثانوی کردار ہی ادا کرنا چاہیے۔۴۲؎ عملاً سرسیّد کی بعد کی تمام تحریروں میں اسلام کی تفسیروں سے دیومالائی عناصر خارج کرکے، اُن کو عقل کی بنیاد پر لانے کی شعوری کوشش صاف نظر آتی ہے۔ یہ شعوری کوشش تجرباتی سائنسوں کے نتائج کے عین مطابق تھی۔ اُن کی تفسیر القرآن عین اِسی اُصول کے مطابق تھی، جو اُن شکوک و شبہات کو رفع کرنے کے لیے لکھی گئی تھی جو مغربی تعلیم کی اشاعت سے مسلم اربابِ فکر و دانش کے ذہنوں میں پیدا ہوگئے تھے۔۴۳؎ نبوت کو خُلقی وصف (دوسرے اوصاف کی طرح) قرار دیا گیا۔ جوں جوں نبیؑ عمر اور تجربے میں پختہ تر ہوتا جاتا ہے، نبوت کا وصف بھی بڑھتا جاتا ہے۔ حضرت محمدؐ اُمی تھے، کیونکہ اللہ تعالیٰ اُن کی ذاتِ اقدس کو اپنا وسیلۂ اظہار بنانا چاہتا تھا جس کے ذریعے اُس کے لفظ (یعنی قرآن) کا ابلاغ ہوسکے۔۴۴؎ آنحضورؐ کے معجزوں، حیات بعد الموت، جنت اور دوزخ کے واردات اور یوم حشر، سب کی تفسیر عقلی طور پر کی گئی۔ شیطان اور فرشتوں کے خارجی وجود سے انکار کیا گیا۔۴۶؎ سات منجمد و مجسم افلاک، زمین کے گرد سورج کی گردش جیسے مکتبی مفروضات کا بطلان کیا گیا اور بتایا گیا کہ قرآن نے کائنات کے بارے میں جدید سائنس کے انکشافات و نتائج کی تصدیق کی ہے۔۴۷؎ حضرت آدمعلیہ السلام کی روایتی داستان کو مسترد کردیا گیا اور نظریۂ ارتقا کو قرآن سے مکمل ہم آہنگ و مطابق قرار دے کر قبول کرلیا گیا۔۴۸؎ اسی طرح آنحضورؐ کی بدنی معراج اور شق الصدر کو بھی مسترد کردیا گیا اور کہا گیا کہ یہ تجربات محض تصور یا خواب تھے۔۴۹؎ جوتے پہنے ہوئے نماز پڑھنا، پرندے کی گردن مروڑ کر، اُس کا گوشت کھانا اور شیوکرنا مسلمانوں کے لیے ناپسندیدہ ہیں نہ حرام۔۵۰؎ دلیل دی گئی کہ نماز میں صرف فرض پڑھنے چاہییں۔ اضافی نمازیں اور روزے ’’زائد از نیچر‘‘ ہیں، لہٰذا اِن کی خاص قدروقیمت نہیں۔ انسان کو اُس کی جبلتوں یا ’’نیچر‘‘ پر مجبور کیا گیا ہے، لیکن اپنے ارادے میں وہ آزاد ہے۔ مسلمان جب تک توحید اور رسالت پر ایمان رکھتا ہے، اُس کا کوئی عمل اُسے کافر نہیں بناسکتا، کیونکہ ایمان ایک ایسی چیز ہے جو قلب۵۲؎ میں ہوتا ہے۔ اسلام نے عورت کا مقام و مرتبہ بڑھایا اور مسلسل بڑھانے پر توجہ رکھی۔ لہٰذا کثرتِ ازدواج کا جو مطلب مسلمانوں نے سمجھ رکھا ہے، اسلام نے اُس کی اجازت نہیں دی۔۵۳؎ اسی طرح غلامی بھی اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے جس نے انسدادِ غلامی پر زور دیا۔۵۴؎ سرسیّد کا مقصد، جیسا کہ انھوں نے خود بھی اس کا اعتراف کیا ہے، مسلمانوں کی اجتماعی ترقی تھا اور یہ مقصد مذہب کو شامل کیے بغیر حاصل کرنا ممکن نہ تھا، لہٰذا انھوں نے محسوس کیا کہ اسلام کی نئی تفسیر ہونی چاہیے۔ لیکن اُن کی مذہبی تحریک میں جان نہیں تھی، کیونکہ یہ ’’منفی نوعیت‘‘ کی تھی، اِس کی طاقت اس میں پنہاں تھی کہ جس بات کی تائید نہ کی جاسکتی ہو، اُس سے انکاری ہوجاؤ۔ اِس کا نتیجہ یہ ہوا کہ یہ مذہبی تحریک ایک طرح کی معاشرتی اور سیاسی تحریک میں ضم ہوگئی۔ بالجون نے لکھا ہے: ’’مذہب پر احمد خان کے نظریوں کی اِس سے زیادہ کوئی اہمیت نہیں کہ اُنیسویں صدی کی مغربی فکر کے لاڈلے بچے یعنی ’’عقل‘‘ کو پیار سے تھپکنا اور میٹھی میٹھی باتیں کرکے دل بہلانا۔‘‘۵۷؎ سمتھ لکھتا ہے: ’’بڑی حد تک، اسلام میں جدیدیت، ظاہری صورت میں، مسیحی مشنریوں کے جارحانہ حملوں کے ردِعمل میں وجود میں آئی۔ تقریباً بلااستثنا، مصلحین نے نئے، جدید اسلام کی تشریح میں جو کچھ بھی لکھا، مشنریوں کی اسلام پر سخت نکتہ چینی کے جواب میں معذرت خواہانہ انداز میں لکھا۔ فی الحقیقت عیسائی مشنریوں کے حملے کا مرکزی نکتہ یہ تھا کہ اسلام انسان دوستی اور لبرل اُصول پرستی کا وہ معیار قائم کرنے سے قاصر ہے جو مغربی بورژوا کلچر نے قائم کیا تھا (اور مغربی عیسائیت نے جسے اپنے اندر جذب کرلینا تھا)…ہندوستانی بورژوا (سیّد احمد خان اور دوسروں) نے مشنریوں کے حملے کا نکتہ سمجھ لیا… ردِعمل کے طور پر جو اسلام پیش کیا، اُس کے بارے میں عیسائی مصنّفین نے لکھا، کہ یہ تو زیادہ تر عیسائیت پر مبنی ہے۔ مسلم کسان نے بھی سرسیّد اور دوسرا کا پیدا کردہ بورژوا اسلام قبول نہیں کیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمانوں کے بالائی اور متوسط طبقوں میں سرسیّد کے مذہبی خیالات کی سخت مخالفت ہوئی۔ اُن کے تعلیمی منصوبے میں اِس شبہے کے تحت رکاوٹ پیدا ہوئی کہ اُن کے مذہبی خیالات بالآخر تعلیمی نصاب میں شامل کرلیے جائیں گے۔ چنانچہ مکہ معظمہ کے فقہا سے اُن کے کافر ہونے کے فتوے حاصل کیے گئے۔ اُن کو دجال کہہ کر ملامت کی گئی اور دہریہ کہہ کر تمسخر اڑایا گیا۔ حتیٰ کہ اُن کی جان کا خطرہ لاحق ہوگیا، لیکن سرسیّد نے اپنے خیالات میں ذرا بھی تبدیلی نہ کی۔‘‘۶۰؎ سرسیّد کی اخلاقی اور معاشرتی اصلاحات بھی، اُن کے مذہبی خیالات کی طرح، سیاسی حالات کی پیداوار تھیں، راجہ رام موہن رائے اور دوسرے ہندومصلحین نے اُنیسویں صدی کے آغاز ہی سے ہندوؤں کو نئے کلچر سے ہم آہنگ کرنا شروع کردیا تھا۔۶۲؎ مسلمانوں میں تبدیلی کی ضرورت کا احساس ہندوؤں سے کم از کم پچاس برس کے بعد ہوا۔ سرسیّد نے انگلستان سے واپسی کے کچھ عرصہ بعد ایک رسالہ تہذیب الاخلاق جاری کیا، جس میں خود انھوں نے اور اُن کے رفقا نے مسلمانوں کے مذہبی اور اخلاقی نقطۂ نظر میں اصلاح لانے اور انھیں زندگی کا ترقی پسندانہ رویہ اختیار کرنے کی ترغیب دینے کے لیے مضامین تحریر کیے۔ جیسا کہ مولانا حالی نے اپنی رائے دی: تہذیب الاخلاق انگریزی جرائد (Tattler اور Spectator، مرتبہ: سٹیل اور ایڈیسن) کے نمونے اور وضع پر شائع کیا گیا۔ سرسیّد کی رائے یہ تھی کہ اصلاح مسلم قوم کے اندر سے پیدا ہونی چاہیے۔ غیر ملکی تسلط تمام برائیوں کی جڑ نہیں ہے، مسلمانوں کی پستی اور زیردستی دراصل اُن کی اپنی جہالت، خود غرضی، جھوٹے تکبر، خیالی پلاؤ پکانے کی عادت، رواداری کا فقدان، عملی توانائی اور معاشرتی استحکام کی عدم موجودگی کی وجہ سے ہے۔ اُن کا استدلال یہ تھا کہ کسی قوم کی عظمت کا انحصار افراد کے وسیع اور ترقی پسند نقطۂ نظر پر ہے، جو اپنے ذاتی مفادات کے تحفظ سے پہلے قومی مفادات کے تحفظ کے لیے کوشش کرتے ہیں۔۶۳؎ تہذیب الاخلاق آزاد خیالی، عدل، اپنی مدد آپ اور ترقی کا علم بردار تھا۔ اس کا مقصد مسلمانوں میں اخوّت اور بھائی چارے کی رُوح دوبارہ پیدا کرنا تھا۔ اس نے تعلیم اور بالخصوص جدید سائنسی علوم کی تحصیل پر زور دیا۔ اِس نے رجعت پسندی پر حملے کیے، آرام طلبی، غیرمہذب اطوار، رسوم اور ہر اُس چیز پر نکتہ چینی کی، جس نے مسلمانوں کو مہذب دنیا کی آنکھوں میں ذلیل اور نیچا بنا رکھا تھا۔ مختصر یہ کہ اِس رسالے نے وہ تمام باتیں اختیار کرنے پر اصرار کیا جو مغربی ثقافت میں اچھی اور قابل تعریف تھیں۔ سرسیّد نے اِس رسالے کے ذریعے جو مہم شروع کی تھی، وہ چھ سات سال تک جاری رہی۔ رسالہ تہذیب الاخلاق مسلمانوں کے متوسط طبقے کی ایک معمولی اقلیت پر اثر انداز ہونے میں کامیاب ہوگیا۔ یہ لوگ بقول حالیؔ، نہ تو پورے جاہل تھے اور نہ عقلی سائنسی علوم سے بہرہ مند تھے۔ مذہبی انتہا پسندوں (روایت پسندوں) نے اِس رسالے کی پوری شدت سے مخالفت کی، کیونکہ اُن کے خیال میں یہ رسالہ اسلام کو نقصان پہنچا رہا تھا۔ غیر تعلیم یافتہ اور جاہل نچلے طبقے کے مسلمانوں نے تہذیب الاخلاق کا کبھی نام تک نہ سنا تھا، اور نہ ہی یہ رسالہ اشرافیہ تک پہنچ سکا، کیونکہ جیسا کہ مولانا حالیؔ نے لکھا: ’’اِن لوگوں کو یہ بتانا کہ مسلمان زوال پذیر ہیں، اُتنا ہی مشکل تھا جتنا مرغابی کو آنے والے طوفان کی بابت خبردار کرنا۔‘‘ بڑی حد تک تہذیب الاخلاق اپنے محدود دائرے میں، مسلمانوں کی ترقی میں رکاوٹیں دور کرنے میں خاصا کامیاب ہوا۔‘‘۶۵؎ سرسیّد کی کوششوں سے نیا ادبی ذوق اور اسلوبِ نگارش بھی پیدا ہوا۔ اُردو شاعروں نے اب تک فارسی شاعری کی تقلید کی تھی، ہیئت پر خاص سخت گیری اور محدود موضوعات۔ اب نئے شاعروں کے سامنے موضوعات کے چناؤ کا ایک ہی مقصد تھا، یعنی مسلمانوں کی عمومی اور اجتماعی ترقی۔ اسی طرح نثر کے اسالیب میں بھی انقلاب آگیا۔ سرسیّد نے ۱۸۶۳ء میں غازی پور میں اپنا ذاتی پرنٹنگ پریس قائم کرکے مسلم پریس کی تنظیم کے لیے ایک مثال قائم کردی۔ مرے ٹی ٹائٹس لکھتا ہے کہ ’’اُس کے بعد تو مسلم پریس کا ایک مسلسل تانتا بندھ گیا۔‘‘ جدید تعلیم کی ترویج میں سرسیّد کی خدمات، جس کا اب تذکرہ ہوگا، بلاشبہ بہت قابلِ قدر اور بہت زیادہ ہیں۔ بہ حیثیت مجموعی مسلمان اب تک چند در چند وجوہ سے انگریزی زبان سیکھنے سے احتراز کرتے رہے تھے۔ جیسا کہ مولانا حالیؔ نے اشارہ کیا ہے، مسلمان ہندوؤں کے برعکس غیر ملکی زبانیں اختیار کرنے کے عادی نہیں تھے، کیونکہ وہ جہاں بھی جاتے تھے، اپنی اسلامی زبانیں اور ادب (عربی اور فارسی) ساتھ لے جاتے تھے۔ صدیوں کے دوران میں انھوں نے ایک ایسا نظامِ تعلیم و تدریس وضع کرلیا تھا جو دینیات اور دنیاوی علوم کا حیرت انگیز امتزاج تھا۔ آگے چل کر یہ نظام بجائے خود اسلام کا جز قرار دیا گیا۔ مسلمانوں نے اپنے طریقِ تعلیم کا تحفظ بڑی سختی اور جذبۂ رقابت سے، اِس خوف سے کیا کہ کسی نوعیت کی کسی تبدیلی پر اسلام کی جگہ کوئی اور مذہب نہ لے لے۔ چنانچہ جب ۱۸۳۸ء میں حکومت نے انگریزی تعلیم رائج کرنے کا عندیہ دیا تو مسلمانوں نے اس پر احتجاج کیا۔۶۸؎ اپنے طریقِ تعلیم سے مسلمانوں کی گہری وابستگی نے اُن کے اندر ثقافتی برتری کی رُوح زندہ رکھی۔۶۹؎ سرکاری سیکولرسکولوں میں داخلے سے پہلے مسلمان بچے کو ہندو بچے کے برعکس دینی تعلیم حاصل کرنے کے لیے مکتب بھیجا جاتا تھا اس کا نتیجہ یہ ہوتا کہ مسلمان بچہ ہندو بچے کی نسبت دیر سے سکول میں داخلہ لیتا تھا۔ تکمیلِ تعلیم کے بعد مسلمان نوجوان کے لیے کیریئر کا کوئی دروازہ کھلانہ تھا، کیونکہ وہ سرکاری ملازمت کے لیے پہلے ہی محروم کردیا گیا تھا۔ اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے وہ بے نیازی کا رویہ برتتا تھا، اس کی ایک وجہ مسلمانوں کی عام اقتصادی زبوں حالی تھی۔۷۰؎ مولانا حالی نے لکھا ہے کہ ۱۸۵۸ء سے (یعنی اُس وقت سے جب حکومت کی سرپرستی میں کلکتہ، مدراس اور بمبئی کی یونیورسٹیوں نے کام شروع کردیا تھا)۱۸۷۵ء تک، ہندوستان میں مسلمان گریجویٹوں کی تعداد فقط ۲۰ تھی، جبکہ ہندو گریجویٹوں کی تعداد ۸۴۶ تھی۔۷۱؎ سررشۂ تعلیم کی جو سکیم حکومت نے متعارف کرائی تھی، وہ اطمینان بخش نہیں تھی۔ ایک غیر ملکی اجنبی زبان پر عبور حاصل کرنے میں جو مشکلات پیش آتی ہیں، اُن کے علاوہ پیچیدہ نصاب، مصنوعی یکسانیت، فالتو اور غیر ضروری مضامین کی تعلیم و تدریس، امتحانی پرچہ جات بنانے کا ناقص نظام، اور طلبہ کی جبری حاضری کو یقینی بنانے کے لیے قابلِ اعتراض طریقے زبردست نکتہ چینی کے ہدف بنے۔ ایسی مثالیں بھی موجود ہیں کہ لوئرسکولوں میں رجسٹر حاضری کے اندراجات مصنوعی تھے۔۷۳؎ حکومت کی یہ تعلیمی سکیم مشترکہ ثقافتی تناظر کی بنیاد پر بنائی گئی تھی، جس کے نتیجے میں بے شمار، الگ تھلگ رہنے والی اقوام کے چند مٹھی بھر تعلیم یافتہ افراد میں اتحاد کی ایک فضا قائم کرنے میں کامیاب ہوگئی، لیکن عملاً ہندوستان کے سخت اور ہٹ دھرم نسلی امتیازات پر قابو پانے میں ناکام رہی۔۷۴؎ سکیم کی سیکولر نوعیت کی وجہ سے شکوک پیدا ہوئے۔۷۵؎ نصاب میں اخلاقی تعلیم و تربیت کے نہ ہونے کی وجہ سے طلبہ کے اخلاق پر منفی اثر وارد ہوا۔۷۶؎ البتہ اس سکیم کی وجہ سے ہندوستانی مغرب کے سیاسی افکار (بالخصوص انقلابی سیاست) سے روشناس ہوئے، اور بالآخر ہندوستان میں قومی تحریک کے لیے راہ ہموار ہوئی۔۷۷؎ مصنف مے ہیو کی رائے یہ ہے کہ مغربی تعلیم زیادہ تر اِس لیے ناکام ہوئی کہ انگریزوں نے ہندوستان میں آباد مختلف اقوام کے معاشرتی پس منظر کو نظر انداز کرکے غیر ملکی اور اجنبی کلچر زبردستی تھوپنے کی کوشش کی، اور ایسی تعلیم یافتہ نسلیں پیدا کیں، جن کو اپنی اپنی ثقافتی تمناؤں اور مقاصد کے مطابق پیدا ہونا چاہیے تھا۔۷۸؎ ۱۸۷۰ء کے بعد حکومت نے مسلمانوں میں بھی تعلیم کے فروغ پر گہری توجہ کی۔۷۹؎ مسلمانوں کی کلاسیکی زبانوں یعنی عربی اور فارسی کو تسلیم کیا گیا اور انگریزی کے ساتھ ساتھ اُن کے مطالعے کی بھی حوصلہ افزائی کی گئی۔ مسلمانوں کے تعلیمی اداروں کے لیے گرانٹ دی گئی، تعلیمی وظائف دیے گئے اور مسلمانوں کے تعلیمی مفادات کی نگرانی کے لیے انسپکٹر مقرر کیے گئے۔ ۱۸۸۲ء کے ایجوکیشن کمیشن نے مسلمانوں میں، جو اپنی بے نیازی کی وجہ سے کافی پیچھے رہ گئے تھے، تعلیم کے فروغ کے لیے ہمدردانہ سفارشات پیش کیں۔۸۰؎ سرسیّد نے غدر کے بعد ہندوستان میں انگریزی تعلیم کی ترویج کی حمایت کی۸۱؎ اور انھوں نے خود بھی چند برس تعلیمی مقاصد کے لیے مغرب کی ادبی اور سائنسی تصانیف کے اُردو تراجم کی اہمیت پر خاص زور دیا۔۸۲؎ وہ ثقافتی میدان میں انگریزوں اور ہندوستانیوں میں باہمی اشتراک و اتحاد پیدا کرنے کے لیے عزم صمیم رکھتے تھے۔ چنانچہ انھوں نے ۱۸۶۳ء میں غازی پور میں ’’سائنٹیفک سوسائٹی‘‘ قائم کی۔ اس سوسائٹی کے ارکان میں انگریز اور ہندوستانی دونوں شامل تھے۔۸۳؎ اِس سوسائٹی نے چند معیاری ادبی اور سائنسی کتابوں کے اُردو تراجم شائع کیے۔ ایک سال بعد ۱۸۶۴ء میں سرسیّد کا تبادلہ غازی پور سے علی گڑھ ہوگیا اور یوں ’’سوسائٹی‘‘ کا اثاثہ بھی اپنے بانی مبانی کے ساتھ علی گڑھ منتقل ہوگیا۔ علی گڑھ آنے کے بعد سوسائٹی کی ثقافتی سرگرمیوں میں شدت پیدا ہوگئی۔ سوسائٹی کے زیراہتمام ایک ہفتہ وار جریدہ علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ جاری کیا گیا (۱۸۶۶-۱۸۹۸ئ)۔ اس جریدے کے ذریعے اخلاقی اور سماجی ترقی کی ضرورت و اہمیت واضح کی گئی اور جدید سائنسی علوم کی تحصیل پر خاص زور دیا گیا۔ لیکن اِس جریدے کا اصل مقصد سیاسی تھا، یعنی برطانوی پارلیمنٹ کو ہندوستانی امور سے آگاہ کرنا اور ہندوستانیوں کو برطانوی پارلیمنٹ کے امور سے روشناس کرانا۔۸۴؎ انگلستان میں اپنے قیام کے دوران سرسیّد نے کیمبرج یونی ورسٹی کا دورہ بھی کیا تھا، تاکہ اُس کے نظم و نسق کا بچشم خود مشاہدہ کیا جائے۔۸۵؎ اس دورے کے بعد اُنھیں احساس ہوا کہ مسلمانوں کا نظامِ تعلیم فرسودہ ہوچکا ہے اور اس کو وقت کے تقاضوں کے مطابق جدید بنانے کی ضرورت ہے۔ انھوں نے انگلستان سے واپسی کے بعد لکھا: ’’قدیم اسلامی کتابیں اور اُن کی تحریروں کا لب ولہجہ، وہ فرزندانِ اسلام کو فکری آزادی اور وضاحت و سلاست نہیں سکھاتیں اور نہ بہ حیثیت مجموعی معاملات کی اصل حقیقت تک پہنچنے کی قابلیت پیدا کرتی ہیں، بلکہ اس کے برعکس وہ دھوکا دیتی ہیں اور لوگوں کو معانی چھپانے کا درس دیتی ہیں، اُن کو لچھے دار لفظوں میں تقریر کرنا سکھاتی ہیں، غلط بیانی اور غیر متعلقہ باتوں سے کام لیتی ہیں، جھوٹی تعریف کرنا اِن کا شیوہ ہے، غلامی میں رہنا ان کی عادت ہے، تکبر، غرور اور خود فریبی سے خود کو پھلائے رکھتی ہیں، مبالغہ آرائی سے باتیں بگھارتی ہیں، ماضی کی تاریخ کو تاریکی میں رکھتی ہیں، اور حقائق پر داستانوں اور کہانیوں کا رنگ چڑھاتی ہیں… یہ تمام چیزیں عصرِ حاضر اور رُوحِ زمانہ کے لیے غیرموزوں ہیں، لہٰذا مسلمانوں کو فائدہ پہنچانے کی بجائے اُلٹا نقصان پہنچاتی ہیں۔‘‘۸۶؎ سرسیّد نے مسلمانوں کی تعلیمی ترقی کا جائزہ لیتے رہنے کے لیے ایک کمیٹی قائم کی۔ کمیٹی نے جدید تعلیم کے میدان میں مسلمانوں کی پسماندگی کے اسباب سے متعلق موضوع پر بہترین مقالہ لکھنے والے کو ایوارڈ دینے کا اعلان کیا۔ کمیٹی کو موصول ہونے والے تمام مقالات سرسیّد نے خود پڑھے اور اُن کا خلاصہ خود تیار کیا، جس کے اہم نکات یہ تھے: (ا) روشن خیال مسلمان انگریزی زبان کے خلاف رجعت پسند مسلمانوں کے تعصّبات کو کوئی اہمیت نہیں دیتے، حالانکہ وہ ایسے تعصبات کو مسلمانوں کے لیے خطرناک سمجھتے ہیں۔ (ب) گورنمنٹ کالجوں اور سکولوں میں زیرِ تعلیم مسلمان طلبہ کی تعداد ہندو طلبہ کی تعداد کے مقابلے میں انتہائی کم ہے۔ (ج) سرکاری تعلیمی اداروں میں اختیار کردہ طریقِ تعلیم مسلمانوں کی ضرورتوں کے لیے بالکل غیرموزوں ہے۔ (د) اگر حکومت موجودہ طریقِ تعلیم بدل کر کوئی اور طریقہ رائج کرے تو وہ بھی مسلمانوں کو اطمینان نہ دلاسکے گا۔ (ھ) مسلمان اپنے قدیمی نظامِ تعلیم کو برقرار رکھنے کے ساتھ ساتھ نئی اور جدید تعلیم کے حصول میں بھی دلچسپی رکھتے ہیں۔ لہٰذا اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے کہ مسلمانوں کو اپنا طریقِ تعلیم اختیار کرنے کی آزادی دی جائے۔۸۷؎ آخری نکتے پر خاص زور دیا گیا۔ چنانچہ ایک مسلم کالج قائم کرنے کے لیے چندہ کمیٹیاں بنائی گئیں۔ بے انتہا مصائب و مشکلات اور سخت مخالفت کے باوجود چندے اور امدادی رقوم جمع ہوئیں۔۸۸؎ بالآخر ۱۸۷۷ء میں وائسرائے ہند لارڈلٹن کو محمڈن اینگلو اورینٹل کالج کا سنگِ بنیاد رکھنے کی دعوت دی گئی۔۸۹؎ اُس تقریب میں سرسیّد نے لارڈلٹن کو پیش کردہ اپنے خطاب میں کالج کے اغراض و مقاصد بیان کرتے ہوئے کہا کہ کالج کا مقصد ’’ماضی کی اُن خواب ناک، تصوراتی روایات کا خاتمہ کرنے کے لیے، جو مسلمانوں کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بنی ہوئی ہیں، مشرقی علوم کو مغربی ادب و سائنس سے ہم آہنگ کرنا، مسلمانانِ ہند کو تاجِ برطانیہ کی قابل اور مفید رعایا بنانا، اور اُن میں ایسی وفاداری کا جذبہ پیدا کرنا، جو غیر ملکی حکمرانوں کی غلامانہ اطاعت شعاری سے نہیں، بلکہ اچھی حکومت کی نعمتوں کی سچّی شکر گزاری سے پیدا ہوتی ہے۔‘‘۹۰؎ ایم اے او کالج دوسرے مسلم تعلیمی اداروں کے برعکس، جو پہلے سے موجود تھے یا بعد میں وجود میں آئے، ایک خاص مقصد سے فروغِ تعلیم کے لیے قائم کیا گیاتھا، اور وہ مقصد تھا، صحیح قسم کے سیاسی رویے کا تعیّن۔ عبدالحمید لکھتے ہیں: ’’ایک ایسا نظامِ تعلیم کبھی دیرپا ثابت نہیں ہوسکتا جو ایک مضبوط و مستحکم سیاسی نظام کی بنیادوں کو چیلنج کرے۔ لہٰذا ہم دیکھتے ہیں کہ سرسیّد نے تعلیم کے میدان میں اپنے سیاسی نظریات کو نتیجہ خیز بنانے کے لیے صحیح خطوط پر، محنت سے کام کیا۔ انھوں نے جس عظیم درس گاہ کی بنیاد رکھی تھی، اُس کے مقاصد میں سے ایک یہ بھی تھا کہ ہندوستان میں غدر کے بعد جو سیاسی نظام قائم ہوا ہے، یہ ادارہ اُس کا سہارا بنے۔۹۱؎ چنانچہ اُنھوں نے کالج کے لیے ایسے قواعد و ضوابط بنائے، جن کی رُو سے کالج کے اہتمام و انصرام کے لیے انگریز پرنسپل اور اہلِعملہ کی تقرری لازمی قرار پائی۔ مستقبل میں اہلِعملہ کو قومیانے کی امکانی پالیسی سے بچانے کے لیے، سرسیّد نے اپنی وفات سے قبل ’’ٹرسٹیزبل‘‘ تیار کیا جس کے تحت کالج کا دستور اُن کے منصوبے کے مطابق سخت تر کردیا گیا۔ یہ بل سخت مخالفت کے باوجود منظور ہوگیا، حالانکہ سرسیّد کے بیشتر رفقائے کار اُن سے متفق نہ تھے۔ ایک موقع پر سرسیّد نے اپنے ایک رفیق کار سمیع اللہ خان کو فرانس میں دوبدو لڑائی کا چیلنج دیا تھا۔۹۲؎ سرسیّد کی وفات کے کچھ ہی عرصہ بعد یکے بعد دیگرے آنے والے پرنسپلوں کی سرکردگی میں انگریز عملے اور ایم اے او کالج کے ٹرسٹیوں کے درمیان اختلافات کی خلیج مزید وسیع ہوگئی۔ کالج کے انگریز پرنسپل پہلے سفارت کار، اور بعد میں ماہرین تعلیم تھے۔ وہ اپنے قانونی مالکان یعنی ٹرسٹیوں کی رائے کو خاطر میں نہ لاتے تھے۔ مورخین نے بالکل درست لکھا ہے کہ ایم اے او کالج کے انگریز پرنسپلوں نے، جن میں بیک، مورلسین اور آرچ بولڈ شامل ہیں، کم و بیش ایسے خود مختار انگریز ریذیڈنٹوں کا سا کردار ادا کیا جو کسی انڈین پرنس کے دربا میں بطور سفیر مامور ہوں۔۹۳؎ اِس امر کا تذکرہ تو ہم آگے چل کر کریں گے کہ بیک نے سرسیّد کے شکوک کو کیونکر پورا کردکھایا اور بیک کے بعد آنے والے پرنسپلوں نے انگریزی حکومت کی خواہشات کے مطابق مسلم سیاست کے رجحانات کو کیونکر منضبط کیا، تاہم یہ بات بھی نظر انداز نہیں کرنی چاہیے کہ جس پالیسی پر انگریز پرنسپلوں نے عمل کیا، وہ تو اصل میں خود سرسیّد نے بنائی تھی۔ کالج کے قوانین کے مطابق آرٹس اور سیکولر سائنسی علوم کے علاوہ دینیات کی تعلیم و تدریس کا بھی اہتمام تھا۔ چونکہ مسلمان سرسیّد کی مذہبی خیالات کے خلاف تھے، اس لیے سرسیّد نے خود کو شعبۂ دینیات سے الگ رکھا اور سنیوں اور شیعوں کے لیے اُن کے اپنے اپنے مذہبی احکام و اُصول کی روشنی میں مذہبی تعلیم کا جداگانہ انتظام کیا۔ علی گڑھ کا تعلیمی ماحول ایسا بن گیا تھا کہ طلبہ کے مابین اخوت اور بھائی چارے کی حوصلہ افزائی اور کھیلوں کا شوق پیدا ہوتا تھا۔ کالج میں ہندو طلبہ بھی داخلہ لیتے تھے، لیکن اُنھیں دینی تعلیم نہ دی جاتی تھی۔ گئوکشی ممنوع تھی اور کالج میں گائے کا گوشت نہ پکایا جاتا تھا نہ کھایا جاتا تھا۔۹۴؎ قدامت پسند مسلم کالج کے خلاف تھے۔ اُن کا دعویٰ تھا کہ اِس ادارے کی تعلیم سے مکمل الحاد پھیلے گا۔۹۵؎ مسلمانوں کی عام معاشی زبوں حالی کے پیشِ نظر، سرسیّد کے لیے ممکن نہ تھا کہ عوامی تعلیم کا بیڑا اُٹھاتے، لہٰذا نچلے طبقے کے مسلمان اِس ادارے کے اثرات سے بالکل محروم رہے۔ سرسیّد کا مقصد تو یہ تھا کہ مسلمانوں کے بالائی اور متوسط طبقوں کو اعلیٰ تعلیم دی جائے، تاکہ وہ حکومت کے نگہبان شعبوں میں ذمہ دار اور اعلیٰ اسامیوں پر فائز ہوسکیں۔۹۶؎ وہ ملک کی سیاسی زندگی میں مسلمانوں کا حصہ لینا پسند نہیں کرتے تھے۔ سرسیّد کے سیاسی نظریے کا تعیّن بڑی حد تک مسلمانوں کی فرقہ وارانہ معیشت کے بارے میں اُن کے نظریے سے ہوا تھا۔ اُن کا خاندانی تعلق مغل اشرافیہ سے تھا۔ وہ اِس امر کا گہرا شعور رکھتے تھے کہ مسلمان ہندوستان پر چھ صدیوں سے زیادہ عرصے تک حکمرانی کرتے رہے تھے، اور یہ کہ انگریزوں نے اقتدار مسلمانوں سے چھینا تھا۔ ماضی میں مسلمانوں کی معاشی خوشحالی کا انحصار مسلم ریاست کی سرپرستی پر تھا۔ غدر نے ہندوستان میں مسلم حکمرانی کا نشان مٹا دیا اور مسلم اشراف کا صفایا کردیا جو صدیوں تک مسلمانوں کے متوسط اور نچلے طبقوں کے پشت پناہ اور مضبوط سہارا بنے ہوئے تھے۔ نئے سیاسی نظام کے قیام کے ساتھ ہی نئی تہذیب بھی آگئی۔ اُنیسویں صدی کے اوائل میں انگریز تاجروں کی لوٹ کھسوٹ سے ہندوستان کی دولت کے سرچشمے خشک ہوگئے۔ مسلم تہذیب کو زوال آیا اور اسلام بدعنوان ہوگیا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کا بندوبستِ اراضی اور اس کے نافذ کردہ ایسے قوانین، جن پر عمل درآمد سے ساہوکاروں کے طبقے کو تمام طبقوں پر بالادستی حاصل ہوگئی، ایسے اقدامات سے مسلمان کسانوں میں بے چینی پیدا ہوئی۔ مشینی مصنوعات کی آمد سے مسلمان دست کاروں اور ہنرمندوں کا خاتمہ ہوگیا۔ کمپنی کے اِن اقدامات کے خلاف احتجاج ہوا جس کے باعث سیّد احمد بریلوی کی انقلابی تحریک نے مقبولیت حاصل کرلی۔ یہ دوسری بات ہے کہ اس انقلابی ’’وہابی‘‘ تحریک کے نتائج بہت حوصلہ شکن ثابت ہوئے۔ انگریزوں کا غضب مسلمانوں پر ٹوٹ پڑا۔ اس صورتِ حال کے ردِعمل میں سرسیّد کی پرامن تحریک ظہور میں آئی۔ انھوں نے اپنی تمام کوششوں کا محور مسلمانوں کی بالائی سطح کو بنایا، کیونکہ اپنے نہاں خانۂ دل میں وہ اِس بات پر یقین رکھتے تھے کہ کسی قوم کی خوشحالی کی کسوٹی ہمیشہ تعلیم یافتہ اور خوشحال متوسط اور بالائی طبقے ہوا کرتے ہیں۔۹۷؎ وہ نچلے طبقے کے مسلمانوں کے بارے میں فکر مند نہیں تھے، جن کے بارے میں وہ ہمیشہ یوں سوچتے تھے کہ اُنھیں اپنے قدموں پر خود کھڑا ہونا چاہیے اور معاشرے کے اونچے طبقوں کو نیچے کی طرف لانے کی کوشش کبھی نہیں کرنی چاہیے۔ نشرواشاعت کی کمیٹی کے ایک اجلاس کی روداد میں ایک پیراگراف ملتا ہے جس کی عبارت یہ ہے: ’’سرسیّد کی رائے یہ تھی کہ ’’یہ جملہ کہ شرافت اور کمینگی کا تعلق امارت اور غربت سے نہیں ہونا چاہیے‘‘، اگرچہ کانوں کو بھلا معلوم ہوتا ہے، لیکن یہ ہمارے اطوار اور رسوم سے ہم آہنگ نہیں ہے۔ اُن کے خیال میں اِس کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی کہ شرافت اور کمینگی کو امارت اور غربت پر مبنی کیوں نہ خیال کیا جائے۔‘‘۹۸؎ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے مسلمانوں کے متوسط اور بالائی طبقوں کو حکومت سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی۔ غدر کے بعد امن اور ہندوستان میں انگریزی راج کا استحکام بہت بڑی نعمت تھی۔ سرسیّد نے کہا: ’’صدیوں تک ہندوستان بدترین قسم کے آمروں کے تحت مصائب برداشت کرتا رہا ہے، یہاں تک کہ رضائے الٰہی سے ہندوستان کی حکمرانی روشن خیال لوگوں (انگریزوں) کے ہاتھوں میں ودیعت کی گئی۔‘‘۹۹؎ اپنی ایک غیرمعمولی تقریر میں انھوں نے کہا: ’’مسلمانوں اور انگریزوں نے کبھی ایک دوسرے کی مخالفت نہیں کی۔ ہمیں تباہ کرنے کے لیے اُن کے دل میں کوئی انتقام کا جذبہ نہ تھا۔ بلاشبہ صلیبی جنگیں (مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان) مذہبی عداوت کی بنا پر لڑی گئی تھیں، لیکن انگریزوں کا اُن لڑائیوں سے کوئی تعلق نہ تھا۔ یہ درست ہے کہ ہم نے ہندوستان پر صدیوں تک حکومت کی ہے، اور یہ بھی درست ہے کہ ہمیں اپنی حکمرانی کی یادیں بہت عزیز ہیں، لیکن اِس وجہ سے ہمارے دل میں انگریزوں کے خلاف کوئی کینہ یا بُغض نہیں ہے… ہم نے ہندوستان میں اُن کی حکمرانی قائم ہونے میں مدد کی تو اپنے ملک کے فائدے کے لیے کی اس معاملے میں مسلمانوں اور انگریزوں کے درمیان تعاون کی مثال ایسی ہے، جیسے قینچی کے دو پترے۔ کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ دونوں قوموں میں سے کس نے زیادہ خدمات سرانجام دیں۔‘‘۱۰۰؎ مختصر العمر ’’برٹش انڈیا ایسوسی ایشن‘‘ کی رُکنیت، جو سرسیّد نے ۱۸۶۶ء میں علی گڑھ میں قائم کی تھی، صرف بالائی طبقوں خصوصاً جاگیردار اشراف تک محدود تھی (اِس کے رکن انگریز تھے اور چند ہندو بھی)۔ ایسوسی ایشن کا مقصد برٹش پارلیمنٹ کو ہندوستانیوں کے سیاسی فکر کے رُجحانات کے عوامی اظہارِ رائے اِس کی پالیسی کے خلاف تھی۔ حتیٰ کہ جب اِس کا چندہ گھٹانے کی کوشش کی گئی تو وہ بھی ناکام ہوگئی۔۱۰۱؎ ’’اعتدال پسندی‘‘ جو سرسیّد کے سیاسی نظریے کی اہم خصوصیت ہے، وہ دراصل مسلمانوں کے جاگیردار اشراف کی ’’اعتدال پسندی‘‘ کی غماز ہے۔۱۰۲؎ انھوں نے اپنی زندگی میں جتنی بھی سیاسی تنظیمیں بنائیں، جیسا کہ ہم آگے چل کر بیان کریں گے، وہ کسی کی شرکت اور تعاون کے بغیر بنائی تھیں، لہٰذا سب کی سب مرجھا گئیں۔ سرسیّد کو جب روایت پسند کہا گیا تو وہ خفا ہوگئے اور اعلان کیا کہ میں آزاد خیال (لبرل) ہوں۔۱۰۳؎ حتیٰ کہ انھوں نے اپنے ایک خط میں خود کو انقلابی کہا۔ اپنے دوست کے نام خط میں انھوں نے لکھا: ’’میں دینِ اسلام میں مکمل اور پکا اعتقاد رکھتا ہوں جو انقلابی اصول سکھاتا ہے اور جو بادشاہت اور موروثیت کے خلاف ہے۔ یہ لوگوں کے منتخب صدر کی حکمرانی کو تسلیم کرتا ہے۔ فردِ واحد کی ذات میں دولت کے ارتکاز کو تسلیم نہیں کرتا۔ بانی اسلام کے وضع کردہ قانون کی رُو سے مرحوم کی جائیداد اُس کے ورثا میں تقسیم ہوجانی چاہیے۔ پس ایک شخص کے پاس کتنی بھی جائیداد یا نقدی ہو، دو نسلوں کے اندر اندر وہ بے شمار حصص میں تقسیم در تقسیم ہوجائے گی۔ لہٰذا میں اپنے خون اور اعتقاد دونوں کے لحاظ سے انقلابی ہوں۔‘‘۱۰۴؎ البتہ سرسیّد نے ایک مخصوص انقلابیت کی وکالت کی۔ کہہ لیجیے، وکٹوریائی انقلابیت کی بجائے اسلامی انقلابیت کو ترجیح دی، بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ یہ نظریے کی محض علمی نوعیت کی ترجمانی تھی۔ غدر کے بعد مسلم اشرافیہ کی تباہی سے وہ بہت رنجیدہ رہتے تھے اور بچے کھچے اشراف کی تعیش پسندی اور فضول خرچیوں پر کڑھتے رہتے تھے۔۱۰۵؎ جب وہ وائسرائے کی قانون سازکونسل (۱۸۷۸ء تا۱۸۸۲ئ)۱۰۶؎ کے رُکن تھے تو انھوں نے ایک مسودہ قانونِ وقفِ خاندانی کے نام سے تیار کیا تھا، جس سے مسلمان خاندانوں کو تباہی اور بربادی سے بچانا مقصود تھا۔ انھوں نے دیکھا کہ مسلمان خاندانوں کی حالت روز بروز تباہ و برباد ہوتی جاتی ہے اور جو امیر اور ذی مقدور خاندان تھے، اُن کی اولاد مفلس ہوتی جاتی ہے اور جن میں ابھی کچھ جان باقی ہے، دو تین پشتوں کے بعد اُن کی جائدادیں اور ریاستیں بھی سب برباد اور چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم اور قرضے میں فروخت ہوجائیں گی۔ اس لیے اُن کو یہ خیال پیدا ہوا کہ کوئی ایسی تدبیر کی جائے جس سے مسلمانوں کے معزز خاندان بنے رہیں اور اُن میں کچھ ایسے ذی مقدور اور رئیس دکھائی دیں جن سے مسلمانوں کی قوم کی عزّت اور امتیاز قائم رہے۔ لیکن یہ مسودۂ قانون بعض قانونی دشواریوں کی وجہ سے قانون نہ بن سکا، جبکہ مسلم اشرافیہ نے اس کی حمایت کی اور حسبِ توقع مذہبی انتہا پسندوں نے مخالفت کی۔۱۰۷؎ سرسیّد کی رائے میں معاشرتی استحکام کا فقدان اور کمیونل معیشت کی غیر موجودگی مسلمانوں کی غربت اور زبوں حالی کے اصلی اسباب تھے۔ انھوں نے کہا کہ مسلمانوں کی خوشحالی کے لیے زراعت کے طریقوں میں نئی نئی اصلاحات اور ترقیاں ضروری ہیں۔ صنعت و حرفت کی تنظیم اور تجارت و کاروبار کی حوصلہ افزائی ہونی چاہیے،۱۰۸؎ لیکن اُن کے مخاطب صرف متوسط اور بالائی طبقے کے مسلمان تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ انھوں نے نیشنل کانگریس میں مسلمانوں کی شرکت زیادہ تر اسی وجہ سے پسند نہ کی کہ اُنھیں معلوم تھا کہ مسلمان بہ حیثیت مجموعی اپنے ہندوہمسایوں سے صرف تعداد اور تعلیم ہی میں پیچھے نہیںہیں، بلکہ معیشت میں بھی اُن سے کمزور ہیں۔ اُن کی حقیقی تشویش یہ تھی کہ اگر ہندوستان میں نیابتی طرزِ حکومت رائج ہو تو اقتصادی لحاظ سے کمزور مسلمان ہندوؤں کے مکمل طور پر تابع بن کر رہ جائیں گے۔ انھوں نے اپنے ایک خطاب میں مسلمانوں سے پوچھا: ’’کیا تم نے کبھی سوچا بھی ہے کہ ہندوؤں کے پاس کتنی دولت ہے اور اُن کی سالانہ آمدنی کیا ہے؟ کیا آپ کے پاس اُن کے برابر جائیداد اور دولت ہے؟ نہیں، بالکل نہیں‘‘۱۰۹؎ یہ بات کہ وہ آمرانہ مزاج کے آدمی تھے، اُن کے سوانح نگار حالیؔ نے بھی تسلیم کی ہے۔۱۱۰؎ مولانا سیّد سلیمان ندوی نے تو یہاں تک کہا ہے کہ وہ بادشاہت کے حامی تھے۔۱۱۱؎ عبدالحمید رقم طراز ہیں: ’’اُن کے خُلقی، طبعی عالی نسبی مزاج نے اُن کو جمہوریت کے روایتی تصور سے بدگمان کردیا تھا، جس میں ہر فرد اثر و رسوخ کی ایک اکائی کی حیثیت رکھتا ہے، اور جو موثر اصلاحی تدابیر کے نہ ہونے کی صورت میں، خودبخود عددی اکثریت کی آمریت کی صورت اختیار کرسکتی ہے۔‘‘۱۱۲؎ سیّد سلیمان ندوی کی رائے میں جمہوریت کے لیے سرسیّد کی ناپسندیدگی کی وجہ بادشاہت سے محبت نہ تھی، بلکہ ہندوستان تھا جو بقول ان کے جمہوریت کے لیے غیرموزوں ملک تھا۔ اُنھوں نے صرف ایک بل کی منظوری پر اعتراض کیا تھا، یہ مسودۂ قانون لوکل سیلف گورنمنٹ و بلدیات کا بل (۱۸۸۳ئ) تھا۔ جس کے مطابق لوکل بورڈوں میں تمام سیٹوں کے لیے انتخاب کا اُصول تسلیم کیا گیا تھا۔ اس حقیقت کے باوجود کہ وائسرائے لارڈرپن نے تمام سیٹوں کے لیے انتخاب کی حمایت کی تھی، لیکن بعدازاں اپنی رائے تبدیل کرکے دوتہائی ارکان بذریعہ انتخاب اور ایک تہائی ارکان بذریعہ نامزدگی مقرر کرنے کا حامی ہوگیا تھا۔ اس بل کی مخالفت میں سرسیّد نے اپنے دلائل پیش کرتے ہوئے کہا تھا: ۱۱۳؎ ’’ہندوستان بجائے خود ایک براعظم ہے، جس میں مختلف مذاہب کے پیروکار، بے شمار نسلوں سے تعلق رکھنے والے لوگ آباد ہیں۔ مذہبی امتیازات یا ذات پات کے نظام کا سخت گیرانہ نفاذ، اقوام کو ہمسایہ ہونے کے باوجود ایک دوسرے سے جدا رکھتے ہیں۔ لوگوں میں یکسانیت اور وحدت کہیں نظر نہیں آتی۔ ممکن ہے کہ کسی ایک صوبے میں مختلف مذاہب کے پیروکار یا مختلف ذاتوں کے لوگ آباد ہوں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ آبادی کا ایک حصہ تاجروں اور خوشحال مالکانِ جائیداد پر مشتمل ہو اور دوسرا حصہ تعلیم یافتہ یا معزز حضرات پر مشتمل ہو۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ایک گروپ دوسرے گروپ کے مقابلے میں تعداد کے لحاظ سے بڑا، زیادہ روشن خیال اور ثقافتی سطح پر زیادہ ترقی یافتہ ہو۔ کسی کے نزدیک یہ بہت ضروری ہوگا کہ لوکل بورڈوں یا صوبائی کونسلوں کے ارکان لوگوں کے اپنے منتخب کردہ ہوں، جبکہ کسی اور کے نزدیک اِس بات کی کوئی اہمیت نہیں ہوگی۔ پس ایسے حالات میں، یہ صاف ظاہر ہے کہ نیابتی اداروں کے قیام سے بے شمار معاشرتی اور سیاسی مشکلات پیدا ہوں گی۔… میرے لارڈ! ہندوستان جیسے ملک میں، جہاں نسلی و مذہبی مخاصمت کی جڑیں بہت گہری ہوں، جہاں آبادی کے مختلف گروہوں کی ثقافتی ترقی کی سطحیں مختلف ہیں، میں یقین سے کَہ سکتا ہوں کہ اُصولِ انتخاب کے رواج سے بہت سے مسائل پیدا ہوں گے۔ جب تک نسلی و مذہبی اختلافات اور ذات پات کی تقسیم ہندوستان کی معاشرتی و سیاسی زندگی کا حصہ ہیں، اُس وقت تک یہاں جمہوری اداروں کا رواج ممکن نہیں۔ اکثریت یقینا اقلیت کو اپنے تابع رکھے گی… اس سے نسلی و مذہبی اختلافات مزید گہرے ہوں گے۔ میرے لارڈ! میں نے اس موضوع پر قدرے تفصیل سے بات کی ہے… اور اس کے باوجود کہ میں جمہوریت کا مخلص حامی ہوں، میں نے آپ کی توجہ جمہوری اداروں کے ایسے قاعدوں ضابطوں کی طرف مبذول کرائی ہے، جن کے نفاذ سے ہندوستان یقینا جمہوریت کے بنیادی مقصد متضاد راہ پر چل نکلے گا۔‘‘۱۱۴؎ سرسیّد کا خیال تھا کہ ہندوستان میں اُصولِ انتخاب معاشی طور پر پسماندہ مسلم قوم کے مفادات کے لیے نقصان دہ ثابت ہوگا۔ انھوں نے کہا تھا: ’’ہماری موجود صورتِ حال ایسی ہے کہ اگر ہندو چاہیں تو ہمیں بہت تھوڑے وقت میں فنا کرسکتے ہیں۔ ملک کی تمام اندرونی تجارت اُن کے ہاتھ میں ہے، جبکہ بیرونی تجارت پر پورا کنٹرول انگریزوں کا ہے۔‘‘۱۱۵؎ ایک اور موقع پر انھوں نے کہا تھا: ’’فرض کرو، الیکشن کے لیے یہ ضابطہ بنایا جاتا ہے کہ صرف اُن رائے دہندگان کو ووٹ دینے کا حق حاصل ہوگا، جن کی سالانہ آمدنی پانچ ہزار روپے ماہوار سے کم نہ ہو۔ اب آپ بتائیے کہ مسلمانوں میں ایسے کتنے لوگ ہیں جن کی آمدنی اتنی زیادہ ہو۔‘‘۱۱۶؎ الیکشن کے نتائج پر غور کرو۔ کوئی ضلع ایسا نہیں ہے جہاں ہندوئوں اور مسلمانوں کی تعداد مساوی ہو۔ ایسی صورت میں کیا آپ کَہ سکتے ہیں کہ مسلمان ہندوئوں پر غالب آجائیں گے اور حکومت خود اختیاری کی لگام اُن کے ہاتھ میں ہوگی؟ کلکتہ میں مجھے ایک معزز خاندان کے باریش معمر بزرگ ملے۔ کہتے تھے ’’ہم پر ایک قیامت ٹوٹ پڑی ہے۔ ہمارے قصبے میں اٹھارہ ممبروں کا انتخاب ہونا تھا۔ ایک بھی مسلمان منتخب نہیں ہوا۔ تمام سیٹیں ہندوئوں نے جیت لیں۔ اب چاہتا یہ ہوں کہ حکومت کسی مسلمان کو نامزد کردے اور نامزدگی ہو تو میری ہو… تمام شہروں کی صورتِ حال یہی ہے… پس ہم ایسی راہ پر کیسے چل سکتے ہیں، جس کے لیے ہم تیار ہیں نہ ہمارا ملک۔‘‘۱۱۷؎ سرسیّد (مسلمانوں کے علاوہ) اونچے طبقے کے ہندوئوںکا بھی دل جیتنا چاہتے تھے۔ اس مقصد کے لیے اُن کے شریف خون اور اعلیٰ نسل کی یاد دلاتے رہتے تھے۔ اُن کا خیال تھا کہ اگر الیکشن عام حقِ رائے دہی کی بنیاد پر ہوگا تو ہر شخص، حتی کہ درزی، موچی اور قصائی بھی منتخب ہوکر آجائیں گے۔ یہ ہندوستان کی اشرافیہ کے لیے انتہائی توہین آمیز ہوگا کہ اُن پر نچلی ذاتوں کے لوگ حکومت کریں۔ انھوں نے کہا تھا: ’’آپ کو اس حقیقت کی اہمیت محسوس کرلینی چاہیے کہ وائسرائے کی کونسل کے ممبراعلیٰ سماجی رتبے کے حامل ہوں۔ کیا ہماری اشرافیہ نچلی ذات یا نسل کے آدمی کو، خواہ وہ کتنا بھی قابل اور تعلیم یافتہ ہو، برداشت کرلے گی کہ وہ ایسی قانون سازی کرے جو اُن کی امارت، جائیداد یا مرتبے کو متاثر کرے؟ ہرگز نہیں۔ کوئی بھی یہ بات پسند نہیں کرے گا (تالیاں)۔ کونسل کی ممبری بڑے فخرو اعزاز کی بات ہے۔ لہٰذا حکومت پر واجب ہے کہ وہ معزز شخص کا انتخاب کرے، ایسا شخص جسے وائسرائے اپنے بھائی کی حیثیت دے سکے، اپنے رفیقِ کار کا درجہ دے سکے، اور اُسے عالیشان سرکاری ضیافتوں اور اعلیٰ تفریحی محفلوں میں شرکت کی دعوت دے سکے، جہاں وہ نوابوں اور اُمرا کے ساتھ مہذب انداز میں ملاقات کرسکے۔۱۱۸؎ جہاں تک ہندوستان کے درآمدی حکمرانوں کا تعلق ہے، سرسیّد کی رائے یہ تھی: ’’اور جو لوگ انگستان میں مقابلہ جاتی امتحان پاس کرنے کے بعد یہاں آتے ہیں، وہ ہماری آنکھوں سے دور اتنے فاصلے پر پیدا ہوتے اور پرورش پاتے ہیں، ہمیں نہیں معلوم کہ آیا وہ نوابوں یا شرفا کی اولاد ہیں یا درزیوں کے بیٹے (تالیاں)۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ اَمر ہماری آنکھوں سے اوجھل رہتا ہے کہ نچلے سماجی رُتبے کا کوئی شخص ہم پر حکومت چلا رہا ہے۔ لیکن ہندوستان میں ایسا نہیں ہوتا۔۱۱۹؎ سرسیّد کو سیاسی عمل سے براہِ راست کوئی دلچسپی نہ تھی۔ اُن کی اصل غرض و غایت جیسا کہ وہ باربار اعلان کیا کرتے تھے، مسلمانوں کی تعلیمی ترقی سے تھی۔۱۲۰؎ اپنے ملک کی سیاسی زندگی سے اُن کی بے رُخی یا انگریزوں سے غیر مشروط وفاداری پر اُن کے بعض نقادوں نے سخت گرفت کی ہے اور انھیں سیاسی ابن الوقت قرار دیا ہے۔۱۲۱؎ مہادیو ڈیسائی نے لکھا ہے کہ سرسیّد نے برطانوی سامراجیوں کے ہاتھوں میں محض ایک کھلونے کا کردار ادا نہیں کیا، بلکہ مسلمانوں کو ایسی راہوں پر گامزن کر دیا، جس سے عزتِ نفس، عالی دماغی اور سیاسی وسیع النظری پیدا ہونے کی بجائے غلامانہ ذہنیت پھلی پھولی۔۱۲۲؎ لیکن جن حالات میں انھوں نے اپنا نقطۂ نظر اختیار کیا، اگر اُن کا مناسب تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ ایسے تنقیدی فیصلے درست نہیں ہیں۔ جیسے کہ مثلاً بالجون نے لکھا ہے: ’’اُمورِ سیاست سے اُن کی بے نیازی اُن کی سیاسی دانش اور حقیقت پسندی کا ثبوت ہے۔‘‘۱۲۳؎ عبدالحمید کہتے ہیں: ’’دراصل وہ اپنی قانون پسندی کی وجہ سے آئینی اختیار کا بے پناہ احترام کرتے تھے۔‘‘۱۲۴؎ مولانا محمد علی تحریک خلافت کے دوران میں مسلم سیاست پر چھائے رہتے تھے اور جن کے سیاسی نظریات سرسیّد کے نظریات کے بالکل ضد تھے، انھوں نے ۱۹۲۳ء میں کہا تھا: ’’آج گزری ہوئی نسل کے اعمال کا جائزہ لینا، خود کو دانا کہلوانے کے لیے، آسان ہے، مجھے یہ اعتراف کرنے میں کوئی باک نہیں، کہ سرسیّد احمد خاں کا رویہ دانائی پر مبنی تھا، اور میری اِس خواہش کے باوجود کے کاش کچھ باتیں جو انھوں نے کہی تھیں، ناگفتنی رہ جاتیں، میں تسلیم کرتا ہوں کہ مسلمانوں یا بحیثیت مجموعی ہندوستان کا کوئی بہی خواہ اُن حالات میں مسلمانوں کی رہنمائی کے لیے کوئی اور طریقہ اختیار نہیں کرسکتا تھا۔‘‘۱۲۵؎ سرسیّد حکومت کے خلاف احتجاجی مزاحمت کو پسند نہیں کرتے تھے۔ نیشنل کانگرس کی مخالفت کی ایک وجہ یہ بھی تھی۔۱۲۶؎ لیکنانھیں ہمیشہ مسلمانوں کی فکر مندی رہی، جن کو غدر کے بعد ایک مذہبی و سیاسی اکائی کے طور پر ظلم وستم کا نشانہ بنایا گیا۔ انھوں نے مسلمانوں کا سیاسی وقار بحال کرنے کے لیے سخت محنت کی، اور یہ مقصد حاصل کرنے میں بڑی حد تک وہ کامیاب بھی رہے۔ اگر مسلمان کانگرس میں شمولیت اختیار کرلیتے، تو ’’نرم مزاج بنگالی ہندئووں‘‘ کی جس چیز کو محض احتجاج کہاجاتا تھا، وہ ’’گرم مزاج مسلمانوں‘‘ کی صورت میں بغاوت کہلاتی۔ اسی لیے سرسیّد مسلمانوں کے کانگرس میں شمولیت کے خلاف تھے۔۱۲۷؎ اپنی اس پالیسی پر عمل کرتے ہوئے، انھوں نے مسلمانانِ ہند میں ’’پان اسلامزم‘‘ کی تحریک کو روکنے کے لیے متعدد مضامین قلم بند کیے، جن میں ترکی کے سلطان عبدالحمید کے اس دعوے کی، کہ وہ اُمت کے لیے خلفیۃً المسلمین کی حیثیت رکھتے ہیں، سخت مخالفت کی۔۱۲۸؎ انڈین نیشنل کانگرس کے قیام کے ایک سال بعد ۱۸۸۶ء میں علی گڑھ میں ’’محمڈن ایجوکیشنل کانگرس‘‘ کی بنیاد ڈالی، کیونکہ اُن کا خیال تھا کہ مسلمانوں کو ’’سیاسی کانگرس‘‘ کی بجائے ’’تعلیمی کانگرس‘‘ کی ضرورت ہے۔ بعد میں لفظ ’’کانگرس‘‘ بدل کر ’’کانفرنس‘‘ رکھ دیا گیا، اور اب یہ تنظیم ’’محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس‘‘ کے نام سے منسوب ہوئی۔ کانفرنس کے قیام کا مقصد یہ تھا کہ مسلمانانِ ہند کے خالِص تعلیمی مسائل کا جائزہ لیا جائے۔ تعلیم یافتہ مسلمانوں میں اس کی مقبولیت سے قومی استحکام کی رُوح بھی اجاگر ہوئی۔۱۲۹؎ بنگال انگریزوں کے سیاسی اور معاشی تسلّط میں چونکہ پہلے آگیا تھا، اس لیے نئی تہذیب کا اثر یہاں شمال مغربی صوبوں سے بہت پہلے راسخ ہوا۔ وہاں مغربی تعلیم کی مقبولیت عامہ کی وجہ سے ہندوؤں میں نہ صرف بے شمار مذہبی و معاشرتی اصلاحی تحریکیں اور تنظیمیں رونما ہوئیں، بلکہ قوم پرستی (نیشنلزم) کے بیج بھی بودیے۔۱۳۰؎ ہندوستانی دانشوروں کا رابطہ وکٹوریائی انقلابی ادبیات سے ہوا۔ جوں جوں نمایندہ اداروں کے لیے ہندوستانیوں کا شوق بڑھا، اُن کے دل میں ہندوستان میں حکومتِ خود اختیاری قائم کرنے کی خواہش پیداہوئی۔۱۳۱؎ بہرکیف سیاسی امور و مسائل پر بحث مباحثے کا حق گویا صرف تعلیم یافتہ طبقے کو حاصل رہا۔۱۳۲؎ ۱۸۷۶ء میں کلکتہ میں ’’انڈین ایسوسی ایشن‘‘ قائم ہوئی۔ اِس ایسوسی ایشن کے قیام کے بعد سریندرناتھ بیزجی نے بڑی محنت کی تھی۔ اُنھی دنوں حکومت نے انڈین سِول سروس کے کھُلے مقابلہ جاتی امتحان میں داخلے کی حدِعمر ۲۱سال سے گھٹاکر ۱۹ سال مقرر کرنے کی پالیسی بنائی تھی۔ اس پالیسی کے خلاف ہندوستان کے تعلیم یافتہ طبقے نے احتجاج شروع کررکھا تھا۔ ایسوسی ایشن نے اِس احتجاج کی حمایت میں آواز اُٹھائی۔ حکومت کی نئی پالیسی کے خلاف رائے عامہ ہموار کرنے کی غرض سے بیزجی نے پورے ہندوستان کا ملک گیر دورہ کیا۔ انھوں نے اجلاسوں سے خطاب کیا اور ہندوستان کے مختلف شہروں میں ’’انڈین ایسوسی ایشن‘‘ کی شاخیں قائم کیں۔۱۳۳؎ یوں زیادہ سرکاری ملازمتوں کے حصول کی خاطر ہندوؤں کے تعلیم یافتہ متوسط طبقے کے احتجاج کی صورت میں سیاسی سرگرمیوں کا آغاز ہوا۔۱۳۴؎ انڈین نیشنل کانگرس ۱۸۸۵ء میں بمبئی میں قائم ہوئی تھی، یہ وہ خطہ ہے جہاں نئی سیاسی، معاشی اور ثقافتی قوتوں کا خاصا اثر تھا۔ کانگرس کا آغاز ایک وفادار جماعت کی صورت میں ہوا تھا،۱۳۵؎ لیکن بی جی تلک کے زیراثر اِس میں انقلابی تبدیلی آگئی۔ تلک ایک جارحیت پسند سیاست داں تھا اور آئین پسندی کا ذرا بھی قدردان نہ تھا۔۱۳۶؎ اُس نے ہندوؤں میں ایک تشہیری مہم چلائی، جس کا مقصد انگریزوں اور مسلمانوں کے خلاف ہندوؤں کے دل میں نفرت پیدا کرنا تھا۔ اُس نے مسلمانوں کے خلاف مرہٹوں والی جارحانہ مذہبی رسم کی تجدید کی اور عقل و دانائی کے ہندو دیوتا گنیش کو نذرانۂ عقیدت پیش کرنے کے لیے میلے منعقد کیے، جن کے نتیجے میں ۱۸۹۳ء میں بمبئی میں ہندومسلم فسادات ہوئے۔ اُس نے گئوکشی کے خلاف ایک سوسائٹی قائم کی اور حکومت نے ’’مسجدوں کے آگے باجا بجانے‘‘ پر جو پابندی عائد کی تھی،۱۳۷؎ اُس کے خلاف احتجاجی تحریک چلائی۔ بنگال کے معتدل مزاج سیاست داں، جو ہندو مسلم اتحاد پیدا کرنے کی کوشش کررہے تھے، اُن کو خاموش کردیا گیا۔ ہندوستانی قوم پرستی کا مطلب کیا، ہندو قوم پرستی، اُن کا موٹو بن گیا۔۱۳۸؎ بپن چندرپال نے ہندوؤں کی پرتشدد، قوم پرستانہ سرگرمیوں کی مذمت کی، جس سے ترغیب پاکر مسلمانوں نے اپنے تحفظ کے لیے حکومت کی طرف رجوع کیا۔ پال کی رائے میں ’’اِن ہندو قوم پرستوں کے دل و دماغ پر یہ احمقانہ اور خود کشی کے مترادف، جذبہ طاری ہوگیا کہ ایک دفعہ پھر ایک واحد ہندو ریاست قائم کی جائے یا ہندوستان میں ہندو ریاستوں کی کنفڈریسی بنائی جائے۔ بعض لوگوں نے تو پس پردہ رہ کر سوراج کا مطلب ہندوراج بتانا شروع کردیا۔‘‘۱۳۹؎ انڈین نیشنل کانگرس نے اپنے ابتدائی تین سالانہ اجلاسوں میں یہ قراردادیں منظور کیں: ’’سیکرٹری آف سٹیٹ کی کونسل کے ارکان کا انتخاب ہو…صوبائی قانون ساز کونسلوں میں منتخب ارکان کی تعداد میں اضافہ ہو… ہندوستان اور انگلستان میں سِول سروس کے امتحانات بیک وقت ہوا کریں… انتظامیہ اور عدلیہ کے اختیارات میں علیحدگی ہو، مقدمات کی سماعت جیوری کرے… دفاعی مقاصد کے لیے رضاکاروں کی بھرتی کا اندراج ہو… آرمی میں کمیشنڈ اسامیوں پر ہندوستانیوں کا تقرر ہو، ہندوستان میں ایک ملٹری کالج قائم کیا جائے، آرمز ایکٹ میں ترمیم کی جائے… جن لوگوں کی آمدنی ایک ہزار روپے سالانہ سے کم ہو، اُن کو انکم ٹیکس کی چھوٹ دی جائے… فنی تعلیم کی حوصلہ افزائی کی جائے۔‘‘۱۴۰؎ ہندوسیاست میں اِن ترقیوں کے ردِعمل کے طور پر ۱۸۶۳ء میں کلکتہ میں مسلمانوں نے ’’محمڈن سوسائٹی‘‘ نواب عبدالطیف کی سرکردگی میں قائم کی، جنھوں نے ’’وہابیوں‘‘ کی مخالفت اور مذمت کی۔ یہ سوسائٹی سیاسی لحاظ سے اور مذہبی لحاظ سے بھی انگریزوں کی حامی تھی۔۱۴۱؎ ۱۸۷۷ء میں سیّد امیر علی نے کلکتہ ہی میں ’’سنٹرل نیشنل محمڈن ایسوسی ایشن‘‘ کی بنیاد رکھی۔ مقصد یہ تھا کہ مسلمانوں کے مفادات کا تحفظ کیا جائے اور مسلمانوں میں سیاسی تربیت کو فروغ دیا جائے۔ سرسیّد سے اِس تنظیم کی حمایت کے لیے درخواست کی گئی، لیکن سرسیّد نے تائید و حمایت سے انکار کردیا۔۱۴۲؎ سرسیّد کے سیاسی نظریات کے ارتقا پر تبصرہ آرائی کرتے ہوئے طفیل احمد منگلوری نے لکھا ہے کہ وہ آزاد خیال تھے لیکن صرف ۱۸۸۴ء تک،۱۴۳؎ جب وہ مسٹر بیک کے زیرِ اثر آگئے اور اُن کی آزاد خیالی رجعت پسند روایت پرستی کے نیچے دب کر کچلی گئی۔ اپنے اِس خیال کو تقویت پہنچانے کے لیے منگلوری نے سرسیّد کے بڑے بڑے کارناموں کا جائزہ لیا ہے، انھوں نے رسالہ اسبابِ بغاوتِ ہند میں قانون ساز کونسل میں ہندوستانی ممبروں کی شمولیت کی ضرورت و اہمیت پر زور دیا۔ حکومتِ برطانیہ نے اُن کی تجویز قبول کی اور انڈین کونسلز ایکٹ مجریہ ۱۸۶۱ء کے تحت تین ہندوستانیوں کو وائسرائے کی ایگزیکٹو کونسل کا ممبر بنایا گیا۔۱۴۴؎ سرسیّد کو نسلی امتیاز سے نفرت تھی۔ جب ۱۸۸۳ء میں البرٹ بل قانون ساز کونسل میں پیش کیا گیا تو سرسیّد نے دل و جان سے اس کی حمایت کی۔ (اس بل کے تحت ہندوستانی مجسٹریٹوں کو انگریز مجرموں کے خلاف سماعت کا اختیار دیا گیا تھا، لیکن ہندوستان میں انگریز کمیونٹی نے اِس کی مخالفت کی تھی)۔ ’’سائنٹیفک سوسائٹی‘‘ اور بعدازاں ’’برٹش انڈین ایسوسی ایشن‘‘، یہ دونوں انجمنیں ہندوستانیوں (مسلمان اور ہندو دونوں) کو انگریزوں سے ہم آہنگ کرنے کے لیے بنائی گئی تھیں۔ سرسیّد نے اکثر و بیشتر نمایندہ حکومت کے حق میں تقریریں کیں، اخوت و مساوات کی تلقین کی اور اپنے اِس یقین کا اظہار کیا کہ تمام ہندوستانی ایک قوم ہیں۔ طفیل منگلوری نے اس موضوع پر سرسیّد کے خطابات سے بے شمار اقتباسات کے حوالے دے کر یہ نتیجہ نکالا ہے کہ سرسیّد ایک سچے محبِ وطن تھے۔‘‘۱۴۵؎ پھر ۱۸۸۴ء میں سرسیّد کے سیاسی نظریوں میں مسٹربیک کے زیراثر اچانک تبدیلی آئی، جن کو ۱۸۸۳ء میں ایم اے او کالج کے پرنسپل کے طور پر تعینات کیا گیا تھا۔۱۴۶؎ بیک نے سرسیّد کا اعتماد حاصل کرلیا اور بوڑھے آدمی کو اپنے زبردست اثر کی گرفت میں لے لیا۔ ۱۸۸۴ء میں مشہور بنگالی لیڈر بیزجی کو علی گڑھ میں ایک اجلاس سے خطاب کرنے کے لیے بلایا گیا۔ بیزجی نے اپنے خطاب میں سول سروس کے امتحان میں حدِعمر کے قواعد پر نکتہ چینی کی، انگلستان اور ہندوستان میں سول سروس کے امتحانات بیک وقت لینے کا مطالبہ کیا، وائسرائے کی قانون ساز کونسل کے نمایندوں کے لیے انتخاب کا طریقہ اختیار کرنے کا مطالبہ کیا۔ مسٹر بیک نے اِن مطالبات و سفارشات پر تبصرہ کرتے ہوئے اپنی تقریر میں کہا: ’’اگر مطالبات پیش کرنے کا یہ نظریہ ’’کمزور دل بنگالیوں‘‘ تک رہے تو کوئی حرج نہیں، لیکن اگر یہ ’’وبا‘‘ شمالی صوبوں میں پھیل گئی، جو کہ عسکری نسلوں کا گھر ہے، تو کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ کیسا بھونچال آئے گا۔ مسٹربیک نے پنجابیوں اور پٹھانوں کو وارننگ دی کہ اگر سول سروس کا امتحان ہندوستان میں منعقد ہوا، تو اُن کے بچے ’’چالاک بنگالیوں‘‘ کا مقابلہ نہ کرسکیں گے ۔ مسٹر بیک نے علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ کی ذمہ داری سنبھالی اور اُس میں بنگالیوں اور اُن کے مطالبات کے خلاف وسیع پیمانے پر اداریے اور شذرے لکھے۔ لوگ سمجھے کہ یہ تحریریں سرسیّد کے قلم کی نکلی ہوئی ہیں۔ مسٹربیک نے دونوں پارٹیوں کے درمیان عداوت کے بیج بودیے۔ اُس نے بڑی ہوشیاری سے سرسیّد کو لارڈرپن جیسے انگریز آزاد خیال لوگوں سے الگ کردیا اور انھیں کنزرویٹو پارٹی کا پرجوش حامی بنادیا۔ لہٰذا سرسیّد نے نیشنل کانگرس کے خلاف اپنی لکھنؤ والی تقریر میں (۱۸۸۷ئ)، جو پہلے مساوات کے اصول کے بڑے علم بردار تھے، اب علی الاعلان اور پرجوش طریقے سے طبقاتی امتیازات کی حمایت کی۔ انھوں نے سول سروس کے امتحان ہندوستان میں لینے کی مخالفت کی، نیابتی اداروں کے کانگرس کے مطالبے کی مذمت کی، اور اعلان کیا کہ ہندوستانی ایک قوم نہیں ہیں بلکہ بے شمار قوموں کا مجموعہ ہیں۔ اِن دعاوی سے صاف ظاہر ہے کہ بیک سرسیّد کو قومی دھارے سے الگ کرنے کے مشن میں کامیاب ہوگیا تھا۔ طفیل احمد منگلوری نے لکھا ہے کہ لکھنؤ والی تقریر کے کچھ عرصہ بعد سیّد احمد خان کو ’’سر‘‘ کا خطاب دیا گیا۔۱۴۷؎ اپنی دلیل کے اِسی بہاؤ میں منگلوری نے لکھا ہے کہ مسٹر بیک کے زیر اثر سرسیّد نے ۱۸۸۸ء میں ’’یونائیٹڈ انڈین پیٹریاٹک ایسوسی ایشن‘‘ قائم کی۔۱۴۸؎ اسے ’’یونائیٹڈ‘‘ اس لیے کہا گیا کہ اس کے ارکان کا تعلق ہندوؤں اور مسلمانوں دونوں کے بالائی طبقے سے تھا۔ اس ایسوسی ایشن کا مقصد برطانوی پارلیمنٹ کو یہ یقین دلانا تھا کہ ہندوستانی، بالخصوص رؤسا اور راجگان نیشنل کانگرس کے حامی نہیں ہیں، بلکہ وفادار رعایا ہیں اور ہندوستان میں انگریزی راج کے استحکام کے لیے کوشاں ہیں۔ اس ایسوسی ایشن کی ایک شاخ انگلستان میں، مسٹربیک کے بعد آنے والے پرنسپل مسٹر موریسن کے مکان میں قائم کی گئی۔ ایسوسی ایشن کانگرس کے خلاف تھی، یہ نام کی ’’یونائیٹڈ‘‘ تھی، سارا کام مسلمانوں کے نام سے انجام پاتا تھا۔۱۴۹؎ ۱۸۸۹ء میں بریڈلے بل برطانوی پارلیمنٹ میں بحث کے لیے پیش کیا گیا‘‘ جس کا مقصد نمایندگی کے خطوط پر، انڈین قانون ساز کونسلوں میں وسعت پیدا کرنا تھا۔ اس بل پر مسٹربیک پھر حرکت میں آگئے۔ انھوں نے مسلمانوں کی جانب سے ایک اپیل لکھی، جس میں اِس امر پر زور دیا گیا کہ وہ بل کے خلاف ہیں اور دلیل یہ دی گئی کہ چونکہ ہندوستان بے شمار قومیتوں کا گھر ہے، لہٰذا یہاں نیابتی اداروں کا قیام مناسب نہیں ہے۔ طلبہ کی ٹولیاں ملک کے مختلف حصّوں میں بھیجی گئیں کہ اس اپیل پر زیادہ سے زیادہ مسلمانوں کے دستخط کرائے جائیں۔ مسٹر بیک بذاتِ خود جامع مسجد دہلی کے دروازے پر بیٹھ گئے اور عرضداشت پر مسلمانوں سے دستخط کرانے کی مہم کی نگرانی کی۔ بالآخر یہ دستاویز، جس پر ۲۰ ہزار۷۳۵ دستخط ثبت تھے ۱۸۹۰ء میں برطانوی پارلیمنٹ کو ارسال کی گئی، لیکن عرضداشت کامیاب نہ ہوسکی، کیونکہ انڈین کونسلز بل، جس نے ہندوستانی آئین کو ایک قدم اور آگے بڑھا دیا تھا، ۱۸۹۲ء میں قانون بن گیا۔۱۵۰؎ اس پر بھی بیک نے حوصلہ نہیں ہارا۔ تلک نے مسلمانوں اور انگریزوں کے خلاف جو جارحانہ کارروائیاں شروع کی تھیں، جن کے نتیجے میں ۱۸۹۳ء میں بمبئی میں ہندو مسلم فسادات ہوئے تھے۔ تلک کی سرگرمیوں سے بیک کو مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان رکاوٹ پیدا کرنے کا ایک اور موقع ہاتھ آگیا۔ اُس نے اُسی سال ’’پیٹریاک ایسوسی ایشن‘‘ توڑدی اور ’’محمڈن اینگلو اورینٹل ڈیفنس ایسوسی ایشن آف اپر انڈیا‘‘ کی بنیاد ڈالی۔ ڈیفنس ایسوسی ایشن خالصتاً مسلمانوں کی جماعت تھی، جس کا مقصد مسلمانوں کے سیاسی مفادات کا تحفظ تھا۔ انتہائی وفادار تھی اور ہندوستان میں برطانوی راج کے استحکام کے لیے کام کررہی تھی۔ طفیل منگلوری لکھتے ہیں کہ اِس ایسوسی ایشن کی وساطت سے بیک مسلمانوں کو باقی ہندوستانیوں سے علیحدہ کرنے میں کامیاب ہوگیا۔۱۵۱؎ یہ مسئلہ حل کرنے کے لیے کہ آیا سرسیّد ۱۸۸۴ء تک تو ’’آزاد خیال‘‘ تھے، لیکن بعد میں مسٹر بیک کے زیر اثر آکر ’’رجعت پسند‘‘ بن گئے، جیسا کہ طفیل منگلوری کا ادعا ہے، یہ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ یہ طے کیا جائے کہ کیا سرسیّد ہندو مسلم اتحاد کو ایک مسلّمہ اور مکمل حقیقت سمجھتے تھے۔ عبدالحمید لکھتے ہیں: ’’سیّد احمد کے تضادات اور بے اصولیاں آسانی سے سمجھ میں آسکتی ہیں، اگر یہ ذہن نشین رکھا جائے کہ وہ ’’جمہوریت پسند‘‘ یا ’’قوم پرست‘‘ نہیں تھے، جیسا کہ ہم اِن اصطلاحوں سے مراد لیتے ہیں۔ وہ کچھ عرصہ ’’جمہوری خیالات‘‘ کے ساتھ ضرور کھیلتے رہے، لیکن جمہوری خیالات نے اُن کی اشرافیہ والی قدامت پسندی کا زرہ بکتر کبھی نہیں چیرا۔‘‘۱۵۲؎ سرسیّد کے تضادات کو سمجھنے کے لیے اُن کی طبعی قدامت پسندی کا تجزیہ ضرور کرنا چاہیے۔ انھوں نے اپنے مشہور میمورینڈم اسبابِ بغاوت ہند میں غدر کا ایک سبب انڈین آرمی کی بدانتظامی بھی بتایا ہے اور لکھا ہے: ہماری گورنمنٹ کا ا…… فوج ہمیشہ قابل اعتراض تھا۔ فوج …… کی کمی ہمیشہ اعتراض کی جگہ تھی۔ جب کہ نادر شاہ نے خراسان پر فتح پائی اور ایران، افغانستان دو مختلف ملک اُس کے قبضے میں آئے۔ اس نے برابر کی دوفوجیں آراستہ کیں۔ ایک ایرانی قزلباشی، دوسری افغانی جب ایرانی فوج کچھ عدول حکمی کا ارادہ کرتی تو افغانی فوج اُس کے دبانے کو موجود تھی، اور جب افغانی فوج سرتابی کرتی تو قزلباشی اس کے تدارک کو موجود ہوتی۔ یہ بات سچ ہے کہ ہماری گورنمنٹ نے ہندو مسلمان دونوں قوموں کو، جو آپس میں مخالف ہیں، نوکر رکھا تھا، مگر بہ سبب مخلوط ہوجانے ان دونوں قوموں کے ہر ایک پلٹن میں یہ تفرقہ نہ رہا تھا۔ ظاہر ہے کہ ایک پلٹن کے جتنے نوکر ہیں، اُن میں بہ سبب یک جا رہنے کے، اور ایک لڑی میں مرتب ہونے کے، آپس میں اتحاد اور ارتباط برادرانہ ہوجاتا تھا۔ ایک پلٹن کے سپاہی اپنے آپ کو ایک برادری سمجھتے تھے اور اسی سبب سے ہندو مسلمان کی تمیز نہ تھی۔ دونوں قومیں آپس میں اپنے آپ کو بھائی سمجھتی تھیں۔ اُس پلٹن کے آدمی جو کچھ کرتے تھے، سب اُس میں شریک ہوجاتے تھے۔ ایک دوسرے کا حامی اور مددگار ہوجاتا تھا۔ اگر اِن دونوں قوموں کی پلٹنیں اس طرح پر آراستہ ہوتیں کہ ایک پلٹن نری ہندوئوں کی ہوتی، جن میں کوئی مسلمان نہ ہوتا اور ایک پلٹن نری مسلمانوں کی ہوتی، جس میں کوئی ہندو نہ ہوتا تو یہ آپس کا اتحاد اور برادری نہ ہونے پاتی۔۱۵۳؎ سمتھ کا خیال ہے کہ یہ عبارت سرسیّد کے خیالات کی ترجمان نہیں ہے۔۱۵۴؎ وہ اِس بات سے بخوبی آگاہ تھے کہ مسلمان اب کبھی اپنا گم شدہ اقتدار حاصل نہ کرسکیں گے۔ اگر انگریزوں کو شکست ہوئی تو ہندوستان میں طوائف الملوکی اور انتشار پھیل جائے گا،۱۵۵؎ اور چونکہ مسلمان تعداد کے لحاظ سے اقلیت میں ہیں، اس لیے نقصان بھی انھی کا زیادہ ہوگا۔ اس لیے ظاہر بات ہے کہ انھوں نے مسلمانوں کو انگریزوں سے مصالحت پر آمادہ کرنے کی کوشش کی، صرف سیاسی طور پر ہی نہیں، بلکہ دینی لحاظ سے بھی، اگرچہ اُن کا لب و لہجہ عمومی ہی رہا۔ وہ ’’قدامت پسند‘‘ تھے اور چاہتے تھے کہ ہندو بھی قدامت پسند ہی رہیں۔ انھوں نے ۱۸۶۴ء میں غازی پور میں جو سکول قائم کیا تھا، اُس میں تمام طلبہ کے ساتھ یکساں سلوک کیا جاتا تھا، اس کے باوجود انھوں نے ہندوؤں کے ذات پات کے نظام کی پابندیوں کا خاص خیال رکھا۔۱۵۶؎ انھوں نے اپنی بے شمار تقریروں میں، خاص طور پر وہ تقریریں، جو انھوں نے اپنے پنجاب کے دورے (۱۸۸۴ئ) کے دوران کیں، ہندو مسلم اتحاد کی ضرورت پر زور دیا۔ پنجاب میں انھوں نے ہندوؤں کی بھی اکثر میٹنگوں سے خطاب کیا۔ طفیل منگلوری نے سرسیّد کی اِن تقریروں سے متعدد اقتباسات دیے ہیں۔ البتہ عبدالحمید کا خیال ہے کہ پنجاب میں اُن کی تقریریں پڑھی جائیں تو لگتا ہے، جیسے خیرسگالی کی تحریریں ہوں۔۱۵۷؎ کہا جاتا ہے کہ پنجاب کے ہندوؤں نے سرسیّد سے درخواست کی تھی کہ ہندو غریب طلبہ کو محمڈن سول سروس فنڈ سے سکالر شپ دیے جائیں، تاکہ وہ انگلستان جاکر سول سروس کے امتحان دے سکیں۔ لیکن سرسیّد نے یہ درخواست تسلیم نہیں کی، اور کہا کہ چونکہ مذہبی لحاظ سے ہندو سمندر عبور کرنے پر اپنی ذات سے نکل جاتا ہے، لہٰذا بہتر یہ ہے کہ اس معاملے میں مدد نہ کی جائے۔۱۵۸؎ اس میں کوئی شک نہیں کہ سرسیّد نے ہندوؤں اور مسلمانوں کو ایک دوسرے کے قریب لانے کی بہت کوشش کی، لیکن حالیؔ لکھتے ہیں کہ ۱۸۶۷ء میں اُردو ہندی تنازعے سے وہ بہت زیادہ مایوس ہوئے اور انھیں یقین ہوگیا کہ ہندومسلم اتحاد اب گم شدہ چیز ہے۔ اُردو ۱۸۳۵ء سے ہندوستانی عدالتوں کی زبان تھی۔ حالی رقم طراز ہیں: ’’۱۸۶۷ء میں بنارس کے بعض سربرآوردہ ہندوؤں کو یہ خیال پیدا ہوا کہ جہاں تک ممکن ہو، تمام سرکاری عدالتوں میں سے اُردو زبان اور فارسی خط کے موقوف کرانے میں کوشش کی جائے اور بجائے اس کے بھاشا زبان جاری ہو جو دیونا گری میں لکھی جائے۔ اس مطالبے کی حمایت میں بے شمار ہندو انجمنیں بہار، یوپی اور شمالی صوبوں میں قائم کی گئیں۔۱۵۹؎ مولانا حالی مزید لکھتے ہیں: ’’سرسیّد کہتے تھے کہ یہ پہلا موقع تھا جبکہ مجھے یقین ہوگیا کہ اب ہندو مسلمانوں کا بطور ایک قوم کے ساتھ چلنا اور دونوں کو ملاکر سب کے لیے ساتھ ساتھ کوشش کرنا محال ہے۔ اُن کا بیان ہے کہ انھیں دنوں میں جب کہ یہ چرچا بنارس میں پھیلا ایک روز مسٹر شکسپیئر سے، جو اُس وقت بنارس میں کمشنر تھے، میں مسلمانوں کی تعلیم کے باب میں کچھ گفتگو کررہا تھا اور وہ متعجب ہوکر میری گفتگو سن رہے تھے۔ آخر انھوں نے کہا کہ آج یہ پہلا موقع ہے کہ میں نے تم سے خاص مسلمانوں کی ترقی کا ذکر سنا ہے، اس سے پہلے تم ہمیشہ عام ہندوستانیوں کی بھلائی کا خیال ظاہر کرتے تھے۔ میں نے کہا، اب مجھ کو یقین ہوگیا ہے کہ دونوں قومیں کسی کام میں دل سے شریک نہ ہوسکیں گی۔ اب تو بہت کم ہے، آگے آگے اس سے زیادہ مخالفت اور عناد اُن لوگوں کے سبب، جو تعلیم یافتہ کہلاتے ہیں، بڑھتا نظر آتا ہے۔ جو زندہ رہے گا، وہ دیکھے گا۔ انھوں نے کہا، اگر آپ کی یہ پیشین گوئی صحیح ہو تو نہایت افسوس ہے۔ میں نے کہا، مجھے بھی نہایت افسوس ہے، مگر اپنی پیشین گوئی پر مجھے پورا یقین ہے۔‘‘۱۶۰؎ بہرصورت لیفٹیننٹ گورنر آف بنگال نے بہار کی عدالتوں میں اُردو کی جگہ بہاری زبان نافذ کرنے کا حکم نامہ جاری کردیا۔ انگریز حکومت کے فیصلے سے حوصلہ پاکر شمالی صوبوں کے ہندوؤں نے اُردو کی منسوخی کا مطالبہ شروع کردیا۔ سرسیّد نے اپنا بہت سارا وقت اِس تنازعے کے لیے وقف کردیا جو کئی سال تک جاری رہا۔ حتیٰ کہ اپنے بستر مرگ پر بھی انھوں نے اُردو کے دفاع میں مضامین تحریر کیے۔۱۶۱؎ طفیل احمد منگلوری کا خیال ہے کہ سرسیّد نے ۱۸۸۴ء کے بعد، یعنی جب سے اُن پر بیک کا اثر ہوا تھا، نیابتی اداروں کی مخالفت کی، لیکن مقامی حکومت خود اختیاری اور بلدیات کے بل (۱۸۸۳ئ) کے خلاف انھوں نے جو تقریر کی تھی، اُس سے صاف ظاہر ہے کہ وہ انتخاب کے اصول کو مسلمانوں کے مفادات کے خلاف سمجھتے تھے اور اسی لیے انھوں نے نامزدگی کا طریقہ پسند کیا تھا۔۱۶۲؎ کانگرس اور اُس کے مطالبات کی مخالفت جو انھوں نے کی، اُس کا سبب بھی یہی تھا کہ انھیں مسلمانوں کی تعلیمی اور اقتصادی زبوں حالی اور عددی کمزوری پر تشویش تھی۔ وہ بخوبی جانتے تھے کہ ہندوستان میں جمہوری حکومت کا مطلب اکثریت کی حکمرانی ہے۔ وہ خود کو ’’اہلِکتاب‘‘ سے وابستہ ہونا منظور کرلیں گے، لیکن ہندو اکثریت کی حکمرانی تسلیم نہیں کریں گے۔۱۶۳؎ سمتھ لکھتا ہے: ’’سرسیّد ایسا شخص تھا جس نے اپنی زندگی مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے لیے وقف کردی تھی… اُن کے لیے مذہب کی نئی تفسیر لکھنا، اخلاق سدھار کی تحریک چلانا اور حکمرانوں کے لیے وفاداری حاصل کرنا، اپنی قوم کو ہرگز کسی دوسری پر حاوی کرنے کا انھوں نے سوچا تک نہیں، البتہ اُن کے مفادات کی خاطر، صرف ایک گروپ یعنی بھاری اکثریت والے ہندوؤں کی مخالفت کی۔‘‘۱۶۴؎ اُس وقت کے سیاسی حالات نے مسلمانوں کے تعلیم یافتہ طبقے پر واضح کردیا کہ سرسیّد بالکل غلط بھی نہ تھے۔ اُردو ہندی تنازع ابھی ختم نہ ہوا تھا۔ اوپر سے بنگال کے ہندو اخبارات نے مسلمانوں کے خلاف مہم چلا رکھی تھی۔ تلک کی سرکردگی میں جو انڈین قومی تحریک چل رہی تھی، وہ مسلمانوں کے خلاف پرتشدد مرحلے میں داخل ہوگئی تھی، اور یوں مسلمان ردِعمل کے طور پر حکومت کی پناہ لینے پر مجبور ہوگئے تھے۔ ملک کی سیاسی زندگی سے الگ تھلگ رہنے یا وفاداری کے عوض حکومت کی عنایات پر انحصار کرنا، سرسیّد کی اس پالیسی کے نقصانات بھی ہوئے۔ مسلمانوں کی تعلیمی اور اقتصادی پسماندگی پر اب سیاسی پسماندگی کا بھی اضافہ ہوگیا۔ حکومت اکثریت کے مطالبات کے آگے تو اکثر جھک جاتی اور مسلمانوں کو خاطر میں نہ لاتی۔ مسلمانوں کو اپنا بھی سیاسی پلیٹ فارم بنانا چاہیے تھا، لیکن حکومت نہیں بنانے دینا چاہتی تھی۔ سرسیّد مسلمانوں کے غیر متنازعہ رہنما اور علی گڑھ مسلم ریاست کا گڑھ تھا۔ ۱۸۹۸ء میں اُن کی وفات کے بعد ایم اے او کالج اندرونی مشکلات میں گھر گیا۔ سرسیّد نے ٹرسٹی بل اِس انداز میں وضع کیا تھا کہ انگریز پرنسپلوں اور سٹاف کو بالادستی حاصل رہتی تھی۔ اب مسٹر بیک کی سرکردگی میں انگریز سٹاف اور بعض ٹرسٹیوں کے درمیان ٹھن گئی۔۱۶۵؎ ٹرسٹی بل کے تحت سرسیّد کے فرزند سیّد محمود کالج کے سیکرٹری تھے۔ اب محسن الملک (۱۸۳۷-۱۹۰۷ئ) ٹرسٹیوں کی کثرتِ رائے سے سیّد محمود کو برطرف کرکے سیکرٹری بن گئے۔۱۶۶؎ ۱۸۹۹ء میں بیک انتقال کرگیا اور اُس کے ساتھ ہی محمڈن اینگلو اورینٹل ایسوسی ایشن آف اپرانڈیا بھی مرگئی۔ بیک کی جگہ پرنسپلی کے لیے موریسن آگئے۔۱۶۷؎ جب موریسن نے کالج کی پرنسپلی کا چارج سنبھالا، اُس وقت یوپی کا گورنر سرانتھونی میکڈانڈ تھا۔ بنگال کے لیفٹیننٹ گورنر کی حیثیت سے اُس نے عدالتوں میں اُردو کی جگہ بہاری زبان رائج کرنے کا حکم نامہ جاری کیا تھا۔ اب ہندو قدرتاً یہ توقع رکھتے تھے کہ وہ یوپی میں اُردو کی منسوخی کا حکم نامہ جاری کرے گا۔۱۶۸؎ اور اُس نے واقعی ۱۹۰۰ء میں یوپی میں اُردو کی جگہ ہندی رائج کرنے کا حکم نامہ جاری کیا۔ اِس فیصلے سے علی گڑھ کے وفاداروں اور یوپی کے مسلمانوں کو صدمہ پہنچا۔ نواب لطف علی خان کی صدارت میں ’’اُردو ڈیفنس ایسوسی ایشن‘‘ بنائی گئی اور علی گڑھ میں ایک احتجاجی جلسہ برپا ہوا۔ محسن الملک نے اِس موقع پر انتہائی نرم تقریر کی۔ اس حکم نامے کی تنسیخ کے لیے ایک قرارداد منظور ہوئی اور گورنر کو بھیجی گئی۔ مشتعل مزاج میکڈانڈ نے اپنا حکم نامہ نہیں بدلا اور اُس کا نزلہ نواب لطف علی خان پر نازل ہوا۔ انھوں نے اُردو ڈیفنس ایسوسی ایشن کی صدارت سے استعفیٰ دے دیا۔ محسن الملک کو ایسوسی ایشن کا صدر منتخب کیا گیا۔ لکھنؤ میں ایک احتجاجی اجلاس منعقد ہوا۔ اس اجلاس میں محسن الملک نے سخت تقریر کی اور جس یک طرفہ اور جابرانہ انداز میں اُردو کی جگہ ہندی رائج کرنے کا حکم دیا گیا تھا، اُس کی سخت گرفت کی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ یوپی کی حکومت کی جانب سے انھیں حکم موصول ہوا کہ یا تو اُردو ڈیفنس ایسوسی ایشن کے صدر رہو یا کالج کے سیکرٹری۔ حکومت نے اُردو ہندی کے تنازعے میں اُن کی شرکت کو پسند نہیںکیا، کیونکہ یہ سیاسی معاملہ تھا۔ گورنر میکڈانلڈ نے اُن سے خط و کتابت میں ’’محسن الملک‘‘ کے خطاب کے استعمال کی ممانعت کردی۔ محسن الملک کو اُردو ڈیفنس ایسوسی ایشن کی صدارت سے مستعفی ہونا پڑا۔۱۶۹؎ محسن الملک نے حوصلہ نہیں ہارا اور اُس موقع کے منتظر رہے جب مسلمانوں کے مطالبات پیش کرنے والی اُن کی سیاسی تنظیم وجود میں آئے گی۔ انھوں نے محمڈن اینگلو اورینٹل ڈیفنس ایسوسی ایشن آف اپرانڈیا کو بحال کرنے کی کوشش کی، لیکن موریسن نے مخالفت کی۔ غرضیکہ جب تک موریسن کالج کا پرنسپل رہا، علی گڑھ کے وفاداروں کی ایک نہ چلی۔ موریسن کے ذریعے حکومت نے بیرونِ ملک سفارتی مقاصد کے لیے کالج، سٹاف اور طلبہ کو استعمال کیا۔ بعض پروفیسروں کو برٹش پولٹیکل ڈیپارٹمنٹ، شیراز (ایران) میں خدمات بجالانے کے لیے منتخب کیا گیا۔ یہ وہ دن تھے جب انگلستان اور رُوس ایران میں اپنا اپنا حلقۂ اثر بڑھا رہے تھے۔ حکومتِ برطانیہ کی ہدایات کے بموجب علی گڑھ کے طلبہ کا ایک وفد ۱۹۰۳ء میں ایران بھیجا گیا۔ جب ٹرسٹیوں نے اس پر اعتراض کیا تو موریسن نے انھیں سمجھایا کہ وفد بھیجنے سے مسلمانوں کے حق میں اچھے نتائج نکلیں گے۔۱۷۰؎ محسن الملک کسی ’’تعلیمی‘‘ ادارے کے سیکرٹری کی حیثیت سے سیاست میں حصہ نہ لے سکتے تھے، لیکن وقارالملک (۱۸۴۱-۱۹۱۷ئ) مسلمانوں کی سیاسی ترقی کے لیے سخت محنت کررہے تھے۔۱۷۱؎ مسلمانوں کے تعلیم یافتہ طبقوں نے نیشنل کانگرس میں شمولیت اختیار نہیں کی تھی، کیونکہ سرسیّد نے انھیں دلائل کے ساتھ شمولیت سے منع کیا تھا، اور پھر حالات نے بھی ثابت کیا کہ سرسیّد درست تھے۔ وقار الملک نے اعلان کیا: ’’لعنت ہے اُس وقت پر، جب ہمیں اُن لوگوں کا مطیع بننا پڑے جو اورنگ زیب کی ’’غلطیاں‘‘ ہم پر تھوپ رہے ہیں۔ وہ وقت آئے گا جب ہم متحد ہوں گے اور آئینی حاکمیت کے دفاع میں برطانوی پرچم تلے جئیں گے یا مرجائیں گے۔ ہم اگر ایسا کریں گے تو انگریزوں کو نہیں، بلکہ اپنے آپ کو فائدہ پہنچائیں گے۔‘‘۔۱۷۲؎ انھوں نے ۱۹۰۱ء میں لکھنؤ کے مقام پر محمڈن پولیٹکل آرگنائزیشن بنائی۔ اس آرگنائزیشن کا مقصد یہ تھا کہ وفادار مسلمانوں کے مطالبات احترام کے ساتھ حکومت کی خدمت میں پیش کیے جائیں، لیکن وقار الملک کی کوششیں بارآور نہ ہوئیں، کیونکہ حکومت مسلمانوں کی کسی بھی قسم کی سیاسی تنظیم کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہ تھی۔۱۷۳؎ ۱۹۰۵ء تک سیاسی صورتِ حال بدل چکی تھی، جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے، یہ تبدیلی اُن کے حق میں بہت اچھی ثابت ہوئی۔ وائسرائے لارڈ کرزن نے صوبہ بنگال کی ازسرِ نو حد بندی کا منصوبہ بنایا۔ پرانا صوبہ بنگال بہار، اڑیسہ اور آسام پر مشتمل تھا۔ اب منصوبہ یہ تھا کہ دو صوبے بنائے جائیں۔ مغربی بنگال، جس میں بہار اور اڑیسہ شامل ہوں اور مشرقی بنگال، جس میں آسام شامل ہو۔ تقسیم بنگال کی وجوہ، سرکاری حلقوں کے مطابق یہ تھیں کہ پرانے صوبے کا سائز بہت وسیع ہے، اس لیے اس کے نظم و نسق میں دشواریاں پیش آتی ہیں۔ بنگال کی تقسیم ۱۹۰۵ء میںہوئی، جس کی وجہ سے مشرقی بنگال میں مسلمانوں کو واضح اکثریت حاصل ہوگئی۔ مسلمانوں کے نقطۂ نظر سے تقسیم بنگال ایک اطمینان بخش انتظام تھا، کیونکہ اس سے مشرقی بنگال میں مسلمان کاشت کاروں کو معاشی ترقی کے مواقع حاصل ہوگئے، جیسا کہ ۱۸۷۱ء میں ہنٹر نے بھی اس طرف توجہ دلائی تھی۔۱۷۴؎ کانگرس نے تقسیمِ بنگال کی مخالفت کی، کیونکہ یہ مشرقی بنگال کے ہندو جاگیرداروں کے مفادات کے لیے نقصان دہ تھی۔ کانگرس نے حکومت پر الزام لگایا کہ اُس نے قصداً ہندوستان کی دو بڑی قوموں میں تفرقہ ڈالا ہے۔ ہندوؤں نے جنونی کیفیت میں دہشت گردی کی مہم شروع کردی جو پورے صوبے میں پھیل گئی۔۱۷۵؎ ۱۹۰۵ء ہی میں لارڈ کرزن ہندوستان سے واپس انگلستان چلا گیا۔ اُس کی جگہ لارڈ منٹو آیا۔ دریں اثنا انگلستان میں لبرل پارٹی برسرِ اقتدار آگئی۔ کانگرس کے دباؤ کے تحت ہندوستان میں نیابتی اداروں کا قیام ایک فوری ضرورت بن گئی۔ وائسرائے لارڈ منٹو اور وزیرہند جان مورلے نے اس ضمن میں بیانات جاری کیے۔۱۷۶؎ محسن الملک کو یہ تشویش لاحق تھی کہ ہندوستان میں الیکشن کا طریقہ رائج ہوا تو مسلمان پر اکثریتی قوم (ہندو) کا مکمل اور مستقل غلبہ رہے گا۔ سرسیّد پہلے ہی خبردار کرچکے تھے کہ اگر ہندوستان میں حکومت جمہوری طریقے سے چلائی گئی تو تعلیمی اور اقتصادی لحاظ سے مسلمان قوم ملک کی انتظامیہ میں شریک نہ ہوسکے گی۔ مسلمانوں کی تعداد اگرچہ چھ کروڑ بیس لاکھ تھی، اس کے باوجود ہندوستان کی کل آبادی کا فقط ایک چوتھائی تھے۔ اگر نیابتی ادارے رائج کیے گئے تو مسلمانوں کو نقصان ہوگا، تاوقتیکہ جداگانہ انتخاب کا نظام رائج نہ کیا جائے اور اُنھیں وائسرائے کی قانون ساز اسمبلی میں پچاس فی صد نمایندگی نہ دی جائے، جو سرسیّد کے نزدیک ناممکن سی بات تھی۔۱۷۷؎ اسی لیے انھوں نے مسلمانوں کو یہ مشورہ دیا تھا کہ قانون ساز کونسل میں مسلمان ارکان کی نامزدگی کو غنیمت جانیں۔ لیکن جب سرسیّد نے یہ مشورہ دیا تھا، اُس وقت سے اب تک زمانہ بدل چکا تھا۔ محسن الملک نے وقار الملک سے مشورہ کرکے ایک خط ایم اے او کالج کے پرنسپل آرچ بولڈ کو، جو پرنسپل موریسن کا جانشین تھا، لکھا کہ وہ شملہ میں وائسرائے سے رابطہ کرکے دریافت کریں کہ مسلمانوں کا ایک میمورنڈم پیش کرنے کے لیے ایک وفد اُن سے ملنا چاہتا ہے، کیا وہ وفد سے ملاقات کے لیے کچھ وقت نکال سکیں گے۔‘‘ وائسرائے مسلمانوں کے وفد سے ملاقات کے لیے آمادہ ہوگیا۔ چنانچہ محسن الملک اور دوسرے معروف مسلمان لیڈروں نے جن میں سیّد علی امام، حماد الملک، وقار الملک اور میاں شاہ دین وغیرہم شامل تھے، مسلمانوں کے مطالبات مرتب کیے۔ اہم ترین مطالبہ یہ تھا کہ قوموں کے تناسب سے حلقہ ہائے انتخاب قائم کیے جائیں اور ہندوستان کے لیے جو بھی نمایندگی کا نیا، ترمیم یافتہ طریقہ اختیار کیا جائے، اُس میں مسلمانوں کی تعداد اور سیاسی اہمیت کے مطابق مسلمانوں کا حصہ مقرر کیا جائے۔۱۷۸؎ بالآخر یکم اکتوبر ۱۹۰۶ء کو آغا خان کی قیادت میں، مسلم وفد جس میں محسن الملک، حکیم اجمل خان، سیّد علی امام، عبدالرحیم اور میاں محمد شفیع شامل تھے، وائسرائے سے ملاقی ہوا۔ وائسرائے نے وفد کو یقین دلایا کہ مسلمانوں کے مطالبات کے مطابق اُن کے مفادات کا تحفظ کیا جائے گا۔۱۷۹؎ کانگرس مخلوط انتخاب کے حق میں تھی، کیونکہ جداگانہ انتخاب کی صورت میں ہندو نمایندوں کی تعداد گھٹ جائے گی۔ حتیٰ کہ طفیل احمد منگلوری نے بھی یہ تسلیم کیا ہے کہ مخلوط انتخاب کے ذریعے مسلمان نمایندوں کی کامیابی کا دور دور تک کوئی امکان نہ تھا۔۱۸۰؎ کانگرس کے ہندو لیڈروں نے دعویٰ کیا کہ مسلم وفد حکومت کی خواہشات کے مطابق تیار کیا گیا تھا۔ حکومت کا مقصد یہ تھا کہ چھ کروڑ بیس لاکھ لوگوں کو باغی کانگرس کی صفوں میں شامل ہونے سے روکا جائے۔۱۸۱؎ تاہم گوکھلے جیسے لیڈروں نے مسلمانوں کے شکوک کو ہمدردی کی نگاہ سے دیکھا اور مسلمانوں کے جداگانہ انتخاب کے کسی بھی نکتہ چین نے کوئی ایسا موثر متبادل حل تجویز نہیں کیا، جس کے تحت ایک ایسے ملک میں اقلیتوں کے مفادات کا تحفظ ہوسکے، جہاں ہندو اور مسلمان زیادہ تر اپنے ہم مذہبوں کو ووٹ دیا کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ شملہ وفد نے ایک ایسے طریقۂ کار کی صورت نکالی تھی، جس کے تحت مسلمان سرکاری نامزدگی سے چمٹے بغیر اپنی صحیح اور جائز نمایندگی حاصل کرسکتے ہیں۔ اس طریقۂ کار کے مطابق ہندوستان میں جداگانہ انتخاب کا نظام رائج ہوا۔‘‘۱۸۲؎ مسلم وفد کی کامیابی نے ایک سیاسی مسلم تنظیم کے قیام کا راستہ ہموار کردیا۔ دسمبر ۱۹۰۶ء میں ہندوستان بھر کے مسلم رہنما ڈھاکہ میں جمع ہوئے اور آغا خاں کی صدارت میں آل انڈیا مسلم لیگ کی تشکیل ہوئی۔ وقار الملک کو مسلم لیگ کا سیکرٹری اور محسن الملک کو جوائنٹ سیکرٹری مقرر کیا گیا، اگرچہ محسن الملک اس کے بعد جلد ہی وفات پاگئے۔ مسلم لیگ کا بڑا مقصد مسلمانوں کے مفادات کا تحفظ اور حکومت کو مسلمانوں کے مطالبات پیش کرنا تھا۔ مسلم لیگ سراسر ایک وفادار تنظیم تھی اور ہندوستان کی دوسری اقوام کے ساتھ دوستانہ روابط قائم کرنا اس کی غرض و غایت تھی۔ ڈھاکہ کے افتتاحی اجلاس میں ایک قرارداد کے ذریعے تقسیمِ بنگال کی حمایت کی گئی، اس لیے کہ وہ مسلمانوں کے حق میں مفید ہے۔ تاہم مسلم لیگ کی قیادت وفادار بالائی طبقے کے ہاتھوں میں رہی۔ عوامی رابطہ اور احتجاج وغیرہ کو اس کے عملی پروگرام سے خارج رکھا گیا۔ اُدھر تو مسلم رہنما ڈھاکہ میں مسلم لیگ قائم کررہے تھے، ادھر لاہور میں ہندوؤں نے بھارت مہامنڈل (جس کی بنیاد ۱۹۰۰ء میں رکھی گئی تھی) کا نام بدل کر ہندو مہاسبھا کے روپ میں ازسرِ نو تنظیم کی۔۱۸۳؎ اس سیاسی تنظیم کو مقبولیت ۱۹۲۴ء میں حاصل ہوئی۔ مسلم لیگ کا پہلا رسمی اجلاس دسمبر ۱۹۰۷ء میں کراچی میں آدم جی پیر بھائی کی صدارت میں منعقد ہوا۔ تاہم اجلاس کی کارروائی مکمل نہ ہوسکی، لہٰذا ایک ذیلی اجلاس مارچ ۱۹۰۸ء میں علی گڑھ میں ہوا۔ اس کی اہمیت یہ ہے کہ محسن الملک کی وفات کے بعد وقار الملک کو ایم اے او کالج کا سیکرٹری مقرر کیا گیا تھا، چنانچہ اِس اجلاس میں وہ مسلم لیگ کی معتمدی سے مستعفی ہوگئے، اگرچہ لیگ کا صدر دفتر علی گڑھ ہی رہا۔ مسلم لیگ کی پانچ سالہ کارروائیوں (۱۹۰۶تا۱۹۱۰ئ) کے دوران جو قراردادیں منظور کی گئیں، اُن کے خاص خاص موضوعات یہ تھے: انتظامیہ اور عدلیہ کے اختیارات و فرائض کی علیحدگی کی حمایت، مقامی بورڈوں کے انتخاب میں قوم وار نمایندگی کے اصول میں توسیع کا مطالبہ، پریوی کونسل میں نمایندگی کے لیے ایک مسلمان رُکن کا الیکشن، سرکاری ملازمتوں میں مسلمانوں کی متناسب نمایندگی، قانون مسلم اوقاف کی تحقیق کے لیے ایک کمیٹی کا تقرر۔۱۸۴؎ ۰۹-۱۹۰۸ء میں وقار الملک نے جب کالج کی معتمدی کا چارج سنبھالا تھا تو کچھ عرصے کے بعد ہی انگریز پرنسپل اور ٹرسٹیو ں کے درمیان پرانی کشاکش دوبارہ اُبھر کر سامنے آگئی۔ جب وقار الملک نے کالج کا ٹائم ٹیبل دیکھنا چاہا تاکہ معلوم ہوسکے کہ انگریز سٹاف نے کتنے گھنٹے کام کیا ہے تو اس پر بطور احتجاج پرنسپل آرچ بولڈ اور انگریز سٹاف نے استعفیٰ دے دیا۔ کالج کے سرپرست اور یوپی کے گورنر سرجان ہیوٹ نے یہ بحران حل کرنے کے لیے ٹرسٹی بل کے تحت کارروائی کی۔ اُس نے فیصلہ پرنسپل کے حق میں دیا، اس دلیل کے تحت کہ سیکرٹری کو پرنسپل کے انتظامی اختیارات میں دخل دینے کا کوئی حق نہیں پہنچتا۔ ٹرسٹیوں نے سیکرٹری کی حمایت کی، جو کالج کی مالیاتی پالیسی بنانے کا ذمہ دار تھا۔ دریں اثنا مسلمانوں نے گورنر کے فیصلے کے خلاف احتجاجی جلسے منعقد کیے۔ بالآخر گورنر نے کالج کے بعض انتظامی امور میں مداخلت کا حق تسلیم کرلیا۔ تب ٹرسٹیوں نے پرنسپل کا استعفیٰ منظور کرلیا اور انگریز سٹاف نے اپنے استعفے واپس لے لیے۔ یوں وہ مسئلہ بھی اپنے انجام کو پہنچا جس نے اُس وقت سے، جب سے سرسیّد نے ٹرسٹی بل تیار کیا تھا، کئی اُلجھنیں پیدا کی تھیں۔ اس سارے مسئلے کا فوری نتیجہ یہ نکلا کہ گورنر ہیوٹ نے آغا خان سے رابطہ قائم کیا اور جنوری ۱۹۱۰ء میں مسلم لیگ کا صدر دفتر علی گڑھ سے لکھنؤ منتقل ہوگیا۔ طفیل احمد منگلوری نے لکھا ہے کہ مسلم لیگ کی نقلِ مکانی سے علی گڑھ کے وقار کو سخت صدمہ پہنچا، کیونکہ یہ مسلمانوں کی ثقافتی و سیاسی سرگرمیوں کا مرکز و محور تھا لیکن اِس تبدیلی کا ایک فائدہ بھی ہوا۔ وہ یہ کہ گذشتہ پچیس برسوں سے مسلمانوں میں آزاد سیاسی فکر کو پنپنے سے روکنے کے لیے، ایم اے او کالج کے انگریز پرنسپل اپنا جو اثر رسوخ استعمال کرتے رہے تھے، اُس کا خاتمہ ہوا۔۱۸۵؎ ۱۹۰۹ء میں ہندوستان میں مورلے منٹو آئینی اصلاحات کا نفاذ ہوا۔ نئے انڈین کونسلز ایکٹ کے تحت جداگانہ انتخابات کا اُصول تسلیم کرلیا گیا۔ قانون ساز کونسل میں وسعت کی گئی اور صوبائی کونسلوں کے لیے غیرسرکاری منتخب ارکان کی تعداد بڑھا دی گئی۔۱۸۶؎ جداگانہ انتخابات کا مسلمانوں کا مطالبہ تسلیم کیے جانے کا مطلب یہ تھا کہ مسلم قوم کو ہندوستان میں ایک جداگانہ سیاسی تشخص کی حیثیت سے تسلیم کرلیا گیا۔ ’’وہابی‘‘ عسکریت پسندوں کے جنگ جویانہ رویے کے برعکس سرسیّد نے حکمرانوں اور محکوم رعایا دونوں کے فائدے کی غرض سے مسلمانانِ ہند اور انگریزوں کے درمیان پُرامن بقائے باہمی کا مکالمہ شروع کیا۔ اسلام اور مغرب کے مکالمے میں وہ مسلمانوں کے بارے میں یہ حقیقت ثابت کرنے میں کامیاب ہوگئے کہ وہ ہندوستان جیسے کثیر الاقوامی ملک میں ایک جداگانہ اور منفرد قوم ہیں۔ مولوی عبدالحق نے بجاطور پر اشارہ کیا ہے کہ سرسیّد سے پہلے لفظ ’’قوم‘‘ محدود اور تنگ معنوں میں استعمال ہوتا تھا، جیسے قبیلہ، مثلاً سیّد، شیخ، مغل اور پٹھان، لیکن سرسیّد نے اس لفظ کو وسیع معنوں میں استعمال کیا، یعنی تمام مسلمان مل کر ایک ’’قوم‘‘ ہیں۔۱۸۷؎ سرسیّد جنوبی ایشیا میں پہلے ’’ماڈرن‘‘ مسلمان تھے، جنھوں نے مغرب سے آئے ہوئے نئے خیالات و افکار کو اسلام سے ہم آہنگ کرنے کا بیڑا اٹھایا۔ انھوں نے نئے زمانے کے چیلنج قبول کیے۔ وہ جنوبی ایشیا میں مسلمانوں کی تعلیمی، سائنسی، اخلاقی، ثقافتی اور سیاسی جدیدیت کی تحریک کے بانی تھے۔ وہ اس پر پختہ یقین رکھتے تھے کہ مسلمانوں کی نئی نسل میں نیا مذہبی جذبہ پیدا کرنے کے لیے روایتی اسلامی نظریے اور قانون کی تفسیرِ نو کی ضرورت ہے۔ وہ محسوس کرتے تھے کہ اسلام کو ایک نیا رُخ دینے کی ضرورت ہے۔ اُنھیں بے شک مسلم انڈیا کا مارٹن لوتھر قرار نہ دیا جائے، اس کے باوجود جس تحریک کا انھوں نے بیڑا اٹھایا تھا، وہ اُتنی ہی ضروری اور اہم تھی، جتنی یورپی دنیائے عیسائیت کے لیے تحریک اصلاحِ مذہب (ریفورمیشن)۔ مسلمانوں کے جداگانہ تشخص کی بنیاد پر سرسیّد کے رُجحان کو درست قرار دینے کے سلسلے میں اشتیاق حسین قریشی کا خیال ہے کہ چونکہ سرسیّد شاہ ولی اللہ کے خاندان کی تخلیق کردہ روایت میں پلے بڑھتے تھے، لہٰذا مسلم قوم کے جداگانہ تشخص پر اُن کا پختہ اعتقاد تھا۔ چنانچہ جب کبھی اُنھوں نے ہندوؤں اور مسلمانوں کے اتحاد کی ضرورت پر بات کی، اُن کا مطلب ہوتا تھا، دوجداگانہ وحدتوں کا اتحاد لیکن جب کبھی اُنھوں نے یہ کہا کہ ہندوستان میں رہنے والے تمام لوگ ایک قوم ہیں، تو اُن کا یہ بیان قرآن کے اِس مفہوم میں ہوتا تھا کہ تمام بنی نوع انسان ایک اُمتِ واحدہ ہیں۔۱۸۰؎ اِسی طرح حفیظ ملک کی بھی یہی رائے ہے کہ سرسیّد پہلے مسلمان قوم پرست تھے اور بعد میں انڈین۔۱۸۹؎ بلاشبہ سرسیّد پر شاہ ولی اللہ کا گہرا اثر تھا، تاہم دونوں کے سیاسی نقطۂ نظر میں بہت فرق تھا۔ شاہ ولی اللہ کو بھی تبدیلی کی ضرورت کا احساس ہوگیا تھا، لیکن وہ ازمنۂ وسطیٰ کی اصطلاح میں سوچتے تھے، اُسی زمانے کے ماحول میں جیتے تھے۔ زوال آمادہ سلطنتِ مغلیہ کو زندہ رکھنے کے لیے اُن کا نقطۂ نظر پیچھے کی طرف دیکھنے والے رومانی شخص کاسا تھا۔ اِس کے برعکس سرسیّد کو پورا یقین تھا کہ ماضی میں جینا ممکن نہیں۔ آگے کی طرف دیکھنے والے حقیقت پسند شخص کی طرح اُن کی نظر میں، ہندوستان میں اسلام کے مستقبل کے مثبت کردار کی ایک واضح تصویر تھی۔ سرسیّد کے مخالفین (بالخصوص دیوبندی علما) نے اُن کو کافر قراردیا۔ اُنھوں نے یہ افواہ تک پھیلا دی کہ اُنھوں نے عیسائیت قبول کرلی تھی۔ مکہ اور مدینہ کے علما سے فتوے حاصل کیے گئے، جن میں اعلان کیا گیا تھا کہ وہ شیطان کا براہِ راست مقرر کردہ خلیفہ ہے، جسے مسلمانوں کو گمراہ کرنے کے لیے بھیجا گیا ہے اور جس کا کفر و الحاد یہودیوں اور عیسائیوں سے بھی زیادہ ملامت انگیز ہے۔۱۹۰؎ اُن کے نظریات کے خلاف بے شمار اعتراضات میں سے ایک یہ تھا کہ ماہرِ دینیات کی حیثیت سے وہ عباسی عہد کے بدنام زمانہ فلسفیوں کے اعتزال (عقل پرستی) پر مبنی یونانی فلسفے کی تجدید چاہتے تھے۔اُن کی اسلام کی حقیقت پسندانہ تعبیر و تفسیر نہ صرف یہ کہ مغربی تعلیم یافتہ نوجوان مسلمانوں کو مذہبی حقائق کے بارے میں شک میں پڑنے سے بچاتی تھی، بلکہ اِس کی بڑی دوررس اہمیت ہے۔ انھوں نے اپنے عہد کے سائنٹیفک مزاج کے مدّنظر اسلام کو ایک سائنٹیفک مذہب کے طور پر پیش کیا۔ سرسیّد کے زیراثر اُردو زبان، شاعری اور نثر نے نئی بلندیاں اور نئی وسعتیں حاصل کیں، اُردو زبان مسلمانانِ ہند کی قومی، سیاسی، معاشرتی، اخلاقی، ثقافتی، سائنسی اور معاشی تمناؤں کے اظہار و ابلاغ کے قابل ہوگئی۔ اُن کی مخالفت اس بنا پر ہوئی کہ وہ انگریزی حکومت کی جانب وفاداری برقرار رکھنے پر اصرار کرتے تھے۔ بنیادی طور پر اُن کا یہ رویہ سیاسی مفاہمت کا غماز ہے۔ اُس وقت کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ انگریز خوش دلی سے آزادی دے کر، ہندوستان سے چلے جائیں گے۔ غالباً سرسیّد بجا طور پر یقین رکھتے تھے کہ مسلم انڈیا اور مغرب میں مستقل مکالمہ جاری رہنا چاہیے، کیونکہ ان دونوں تہذیبوں کے درمیان تبادلۂ خیال سے مسلمانوں کو ثقافتی اور مادّی فائدہ پہنچے گا۔ سرسیّد کی وفات کے بتیس سال بعد محمد اقبال نے، جنھوں نے شمال مغربی ہندوستان کے مسلم اکثریتی علاقوں پر مشتمل ایک مسلم ریاست کا تصور دیا، اپنے ایک خط میں سرسیّد کی عظمت کا اعتراف یوں کیا ہے: اگرچہ ہمارے عظیم شاعر حالی نے سرسیّد احمد خان کے سوانح حیات بڑی تفصیل سے تحریر کیے ہیں، لیکن مسلمانانِ ایشیا ابھی تک اُن کی ذہنی کاوش کو پوری طرح سمجھنے کے قابل نہیں ہوسکے۔ اِس حقیقت کا مجھ پر انکشاف ہوا ہے کہ سرسیّد کی نگاہ ایسے وسیع و عریض امور پر جمی ہوئی تھی، جن کا تعلق مسلمانانِ ایشیا کے مذہب اور سیاست سے تھا۔ پس مسلم ایشیا نے ابھی تک اُن کی شخصیت کی حقیقی عظمت کا اندازہ نہیں کیا۔۱۹۱؎ ئ…ئئ…ء حوالے و حواشی 1- Modern Islam in India by W.C. Smith. pp. 166, 167. 2- The Reforms and Religious Ideas of Sir Sayyid Ahmad Khan by J.M.S Baljon. p. 16. 3- Indian Islam. p. 194. ۴- غدر سے پہلے کی تصانیف کے لیے دیکھیے: سرسیّد کی اصلاحات و مذہبی خیالاتکا حصہ کتابیات،ص۹۹-۱۰۰۔ 5- Baljon's The Reforms and Religious Ideas etc. p. 14 and Bibliography. pp. 99, 100. ۶- حیاتِ جاوید،حصہ اوّل،ص۷۲-۷۴؛ اسباب بغاوتِ ہند،ص۴،۵،۷،۱۰،۲۳،۲۴،۳۵،۴۵۔ ۷- ایضاً، ص۱۶-۵۶ ۸- ایضاً، ص۱۱-۱۴،۴۵،۴۶۔ حالی کے مطابق برطانوی پارلیمنٹ نے سرسیّد کی تجاویز منظور کرلیں، دیکھیے: حیاتِ جاوید، حصہ دوم،ص۳۰،۳۱۔ ۹- تین پمفلٹ (۲۷۳ صفحات)،حیاتِ جاوید، حصہ اوّل،ص۷۵-۸۱۔ An Account of the Loyal Muhammadans of India. No. 1 by Sir Syed Ahmad Khan. Meerut. 1860. See the Preface: ۱۰- انگریز جانتے تھے کہ مسلمان عیسائیوں کو اتنا ہی قابلِ نفرت سمجھتے تھے جتنا یہودی، جو حضرت عیسیٰعلیہ السلام کو ناصرہ والے کہتے تھے۔ ایک مسلمان کو کان پور میں اس لیے پھانسی دے دی گئی تھی کہ اُس نے حضرت عیسیٰعلیہ السلام کو ناصرہ کہا تھا۔ دیکھیے: حیاتِ جاوید، حصہ اوّل، ص۸۱،۸۲۔ ۱۱- Baljonکا خیال ہے کہ لفظ ’’ناصرہ‘‘ کا نصر (مدد) سے مشتق ہونا قرینِ قیاس نہیں ہے۔ دیکھیے: The Reform and Religious Ideas etc. p. 17 ۱۲- حیاتِ جاوید،حصہ اوّل،ص۸۶،۹۵۔ ۱۳- تبیئن الکلام،جلد اوّل،ص۳۰،۳۸،۶۴-۹۵،۱۳۵،۱۴۸-۱۵۰۔ ۱۴- ایضاً، جلد اول،ص۷-۳۰، جلد دوم۲۶،۲۷،۵۶،۱۰۸،۱۲۳۔ ۱۵- ایضاً، جلد دوم، ص۲۸۵-۲۸۸۔ 16- Baljon's, The Reforms and Religious Ideas etc., pp. 77 84. ۱۷- احکامِ طعام،ص۲،۳،۸،۱۱،۱۲،۱۵،۲۸؛، تفسیرالقرآن،جلد دوم، ص۱۱۲-۱۲۰۔ نیز دیکھیے:Life and Work of Sir Syed Ahmad Khan, by G.F.I. Graham.۔ جب سرسیّد نے ’’احکام طعام‘‘ لکھی تو بعض مذہبی انتہا پسند علما نے اُن کو ’’عیسائی‘‘ قرار دیا۔ لیکن روشن خیال مسلمانوں نے اُن سے اتفاق کیا۔ دیکھیے: حیاتِ جاوید، حصہ اوّل،ص۱۱۵-۱۱۷۔ 18- Our Indian Musalmans, pp. 11,61,75,139. 19- Review on Indian Musalmans by Hunter's, pp. 13 19, 20 27, 28, 45. ۲۰- ایضاً، حصہ اول،ص۱۲۹+۱۳۱، حصہ دوم،ص۱۱۴-۱۵۳۔ ۲۱- تفسیر القرآن،جلد چہارم، ص۳۳-۳۷۔ ۲۲- ایضا، ص۴۲۔ ۲۳- ایضاً، حصہ اول، ص۱۱۹،۱۲۰۔ ۲۴- ایضاً، حصہ دوم، ص۴۴،۴۷۔ ۲۵- ایضاً، حصہ اول، ص۱۱۸-۱۳۲، حصہ دوم،ص۴۸-۵۳۔ 26- Modern Islam in India, p. 17. ۲۷- حیاتِ جاوید، حصہ اول،ص۱۳۲۔ 28- The Reforms and Religious Ideas, pp. 45 49. ۲۹- حیاتِ جاوید، حصہ دوم، ص۸،۹، حصہ اول، ص۱۵۔ سرسیّد کی اصلاحات و مذہبی خیالات (انگریزی)،ص۴۵-۴۹۔ Sir Syed Ahmad Khan as a Religious Reformer, by Shah Din, p. 6. ۳۰- حیاتِ جاوید، حصہ دوم، ص۴۔ ۳۱- عبدالحمید، سرسیّد احمد خان اور مسلمانوں کی علیحدگی پسند تحریک، ص۱۱۹۔ ۳۲- حیاتِ جاوید،حصہ دوم،ص۱۱۲-۱۱۴،۱۷۰۔ ۳۳- مجموعہ لیکچر ہائے ڈاکٹر سرسیّد، مرتبہ سراج الدین،ص۱۷۸-۱۹۵۔ نیز دیکھیے: مجموعہ تہذیب الاخلاق، جلد دوم، ص۱۶۱،۱۸۱،۱۸۲۔ 34- Indian Islam, pp. 207,208. Murray اُنھیں معزلہ قرار دیتا ہے، لیکن حالی کا خیال ہے کہ سرسیّد معزلہ کے صرف وہی خیالات قبول کرتے تھے جو اُن کے اپنے خیالات سے ہم آہنگ ہوں (حیاتِ جاوید، حصہ دوم،ص۲۰۰)۔ ۳۵- ایضاً، حصہ دوم،ص۲۱۴۔ حالی نے سرسیّد کی آرا کی تفصیل دی ہے،ص۲۰۸-۲۱۶۔ ۳۶- مضامین تہذیب الاخلاق، جلد دوم،ص۲۹،۵۰،۱۸۳۔نیز دیکھیے: ، مجموعہ لیکچرہائے ڈاکٹر سرسیّد، مرتبہ: سراج الدین،۱۷۶-۱۹۵۔ ۳۷- مضامین تہذیب الاخلاق، جلد دوم،ص۲۱،۲۲؛ خطباتِ احمدیہ،ص۴ 38- Indian Islam, p. 208. ۳۹- مضامین تہذیب الاخلاق، جلد دوم،ص۳۰۲-۳۰۶، نیز دیکھیے: سرسیّد کی اصلاحات و مذہبی خیالات (انگریزی)،ص۵۱-۵۳۔ ۴۰- مجموعہ لیکچر ہائے،ص۱۸۴،۱۸۵،۱۹۰۔ سرسیّد تصوراتی وحی کے قائل تھے، زبانی وحی کے قائل نہ تھے، خطباتِ احمدیہ،ص۲۶۱-۲۸۲؛ The Reforms and Religious Ideas by Baljon's. pp. 53 58. ۴۱- خطباتِ احمدیہ،ص۶ (ہمارے لیے اللہ کی کتاب کافی ہے)،ص۲۰۰۔ ۴۲- ایضاً، ص۷،۲۰۲-۲۲۷؛ مضامین تہذیب الاخلاق، جلد دوم، ص۱۶۴-۱۸۰۔ انھوں نے اِس الزام کی تردید کی کہ وہ حدیث و……کے خلاف ہیں۔ ۴۳- حیاتِ جاوید، حصہ دوم، ص۱۶۲-۱۷۱،۱۹۵-۲۰۶،۲۹۸-۳۱۷۔ ۴۴- مضامین تہذیب الاخلاق، جلد دوم، ص۱۱۸-۱۲۶،۱۹۷؛ سرسیّد کی اصلاحات و مذہبی خیالات (انگریزی)،ص۵۸،۵۹۔ ۴۵- تفسیر القرآن، جلد دوم، ص۱-۸، جلد سوم۵-۶۷، جلد پنجم،ص۵-۹۔ ۴۶- ایضاً، جلد پنجم، ص۱۰۹-۱۱۱، جلد چہارم،ص۸-۳۱؛ مضامین تہذیب الاخلاق، جلد دوم، ص۱۹۴-۱۹۷،۳۴۱-۳۴۸۔ ۴۷- ایضاً، جلد دوم،ص۲۲۶-۲۸۹۔آخری مضامین،ص۸۲،۸۳،۸۵-۹۰۔ ۴۸- ایضاً، ص۱۸۳-۱۹۴۔ ۴۹- خطباتِ احمدیہ،ص۳۹۸-۴۲۹۔ تفسیر القرآن، جلد ششم میں اس موضوع پر تفصیل سے بحث کی گئی ہے۔ ۵۰- مضامین تہذیب الاخلاق، جلد دوم، ص۲۱۰-۲۶۱۔ ۵۱- ایضاً، ص۲۹۴۔ ۵۲- ایضاً، ص۲۱۶-۲۲۳،۳۱۴ (سرسیّد احمد خان نے روحانی اور دنیاوی یا عقیدہ اور عمل یعنی ایمان اور عمل کے درمیان خط امتیاز کھینچا ہے (ص۱۳)۔ ۵۳- تفسیر القرآن، جلد دوم، ص۷۱-۹۰۔ ۵۴- خطباتِ احمدیہ،ص۱۵۰؛ حیاتِ جاوید، حصہ دوم، ص۱۵۴-۱۶۵۔ ۵۵- مضامین تہذیب الاخلاق، جلد دوم، ص۵-۷۔ 56- The Mohammadan World of Today, ed. by S.M. Zwemer etc. p. 198. 57- Baljon's, The Reforms and Religious Ideas, pp. 85. 58- Modern Islam in India, p. 45. ۵۹- مسلمانوں کے نچلے طبقے پر سرسیّد کے مذہبی خیالات یا اُن کی اصلاحی تحریک کا کوئی اثر نہ ہوا۔ تاہم اُن کی اصلاحی تحریک کے اُصولوں کی مزید اشاعت چراغ علی، سیّد امیر علی اور خدابخش نے کی۔ Modern Islam in India,،ص۲۶،۲۷؛ Modern Religious Movements in India, by J.N. Farquhar, pp. 97 100. ۶۰- مجموعہ لیکچر ہائے، ص۱۸۱،۱۸۲؛ حیاتِ جاوید، حصہ دوم، ص۲۰۱-۲۰۶،۲۶۱-۲۵۶؛ The Reforms and Religious Ideas,،ص۶۸-۷۰۔ ۶۱- حیاتِ جاوید، حصہ دوم،ص۳۱۷۔ ۶۲- ایضاً، حصہ اوّل، ص۱۳۳ (مذہبی انتہا پسندوں نے اُن پر الزام لگایا کہ سٹیل اور ایڈیسن پیغمبر تھے۔ دیکھیے: مضامین تہذیب الاخلاق، جلد دوم،ص۳۰۵)۔ ۶۳- ایضاً، جلد دوم، ص۱۲۷-۱۳۳۔ ۶۴- ایضاً، جلد دوم، ص۵-۱۸،۲۳-۲۸،۵۰-۵۹،۶۹-۱۰۱، نیز دیکھیے: اُن کا مضمون تہذیب الاخلاق کے مضامین،ص۴۴۷-۴۵۴؛ حیاتِ جاوید، حصہ دوم، ص۵۴-۶۳۔ ۶۵- مضامین تہذیب الاخلاق، جلد دوم، ص۵۶۹-۵۷۲؛ حیاتِ جاوید، حصہ اوّل، ص۱۳۳-۱۳۷۔ ۶۶- حیاتِ جاوید، حصہ دوم، ص۶۳۔ 67- Indian Islam, p. 204. ۶۸- حیاتِ جاوید، حصہ دوم، ص۶۴،۶۵،۲۸۳،۲۸۴ (ہندوؤں نے مسلمانوں کے برعکس، ایک نئی زبان سیکھنے کا خیرمقدم کیا۔ جب حکومت نے ۱۸۲۴ء میں کلکتہ کے مقام پر سنسکرت کالج قائم کیا تو سرسیّد نے مخالفت کی)۔ ۶۹- سیّد محمود رقم طراز ہیں کہ انگریزی تعلیم میں مسلمانوں کی پسماندگی کا سبب اپنی نسل پر فخر، ماضی کی برتری کی یادیں اور مذہبی خوف تھے۔ دیکھیے اُن کی کتاب ہندوستان میں انگریزی تعلیم کی تاریخ، ص۱۴۸۔ 70- Baljon's, The Reforms and Religious Ideas etc., p. 24; Majmua Lecture Hai etc. pp. 49,50; Review on Education in India by Sir Alfred Croft. pp. 312- 314. ۷۱- حیاتِ جاوید، حصہ دوم،ص۶۵،۶۶۔ 72- Report of the Committee for Better Diffusion of Education etc., by Sir Syed Ahmad Khan, pp. 17,21,23,38. 73- Life & Works of Sir Syed Ahmad Khan, by G.F.I. Graham, p. 215. 74- The Education of India, by A. Mayhew. p. 61. 75- Our Indian Musalmans, pp. 142,143. 76- Review on Education in India, pp. 330 332. 77- Political India, ed. by Sir John Cumming, p. 32. 78- The Education of India, pp. 31,32. ۷۹- مسلمانوں میں انگریزی تعلیم پھیلانے کا مقصد یہ تھا کہ حکومت اُن پر عسکریت پسند وہابی تحریک کے منفی اثرات زائل کرنا چاہتی تھی۔ دیکھیے: شاہ اسماعیل شہید، مطبوعہ قومی کتب خانہ، ص۸۴۔ 80- Review on Education in India, pp. 311 322. 81- Baljon's, The Reforms and Religious Ideas etc., p. 34. ۸۲- حیاتِ جاوید، حصہ اول،ص۹۶؛ مجموعہ لیکچر ہائے،ص۱۹۷،۱۹۸۔ ۸۳- حیاتِ جاوید، حصہ اول،ص۹۵-۹۷؛ حصہ دوم، ص۳۷-۴۰۔ ۸۴- ایضاً، حصہ اوّل،ص۹۸-۱۰۰،۱۰۳-۱۰۶۔ ۸۵- ایضاً، حصہ اوّل، ص۱۲۷۔ 86- Report for Better Diffusion of Education etc., p. 50. ۸۷- حیاتِ جاوید، حصہ اوّل، ص۱۳۷-۱۳۹۔ ۸۸- ایضاً، حصہ اوّل،ص۱۴۰-۱۴۴،۱۵۲-۱۶۹۔ ۸۹- ایضاً، حصہ اوّل، ص۱۵۶،۱۵۷ (۱۹۲۰ء میں کالج کا درجہ بڑھا کر اسے یونی ورسٹی بنادیا گیا)۔ 90- Life & Work of Sir Syed Ahmad Khan, by Graham, pp. 274, 275. ۹۱- عبدالحمید، Sir Syed Ahmad Khan and the Genesis, p. 90. ۹۲- ایضاً، ص۹۲-۹۵ ۔ (نیز دیکھیے: حیاتِ جاوید، حصہ اول، ص۲۲۹-۲۳۳)۔ 93- Sir Syed Ahmad Khan and the Genesi, pp. 106 112. ۹۴- ایضاً، ص۱۱۴؛ حیاتِ جاوید، حصہ اول،ص۱۶۹-۱۷۷؛ حصہ دوم،ص۶۳،۶۴،۷۱-۸۶،۱۴۰۔ ۹۵- سیدافتخار عالم ، Mohammadan College History, pp. 90 94. ۹۶- حیاتِ جاوید، حصہ دوم،ص۶۶-۷۱۔ ۹۷- Indian Islam، ص۲۰۶؛ مجموعہ لیکچر ہائے،ص۵۰،۷۵۔ 98- Sir Syed Ahmad Khan and the Genesis etc., p. ۹۹- مجموعہ لیکچر ہائے،ص۲۳۶،۲۳۷۔ ۱۰۰- حیاتِ جاوید، حصہ دوم،ص۴۲-۴۴۔ (حالی کا خیال ہے کہ قینچی کے دوپتروں کا اشارہ اُن مسلمان حکمرانوں کی جانب ہے، جنھوں نے انگریزوں کو ہندوستان پر تسلط جمانے میں مدد کی، مثلاً میر جعفر آف بنگال، نظام حیدر آباد دکن جس نے اپنے علاقے سے فرانسیسیوں کو نکالا، شاہ عالم، جس نے لارڈلیک کی پناہ حاصل کی اور دوسرے) ۱۰۱- حیاتِ جاوید، حصہ اول،ص۱۰۱،۱۰۲۔ ۱۰۲- خود نوشت،ص۴۶۲۔ ۱۰۳- مجموعہ لیکچر ہائے،ص۲۵۲۔ ۱۰۴- سیّد راس مسعود، خطوطِ سرسیّد، ص۱۲۳۔ ۱۰۵- مضامین تہذیب الاخلاق، جلد دوم،ص۵۲۔ ۱۰۶- حیاتِ جاوید، حصہ اوّل، ص۸۶۔ ۱۰۷- ایضاً، حصہ اوّل،۱۸۹-۱۹۱۔ ۱۰۸- مضامین تہذیب الاخلاق، جلد دوم،ص۵۵۔ ۱۰۹- مجموعہ لیکچر ہائے، ص۲۴۷۔ ۱۱۰- حیاتِ جاوید، حصہ اول،ص۲۳۱۔ ۱۱۱- حیاتِ شبلی،ص۲۹۴۔ 112- Sir Syed Ahmad Khan and the Genesis, p. 65. ۱۱۳- حیاتِ جاوید، حصہ اوّل،ص۱۹۲۔ ۱۱۴- ایضاً،ص۲۷۵،۲۷۶۔ ۱۱۵- ایضاً، ص۲۶۶،۲۶۷۔ ۱۱۶- ایضاً، ص۲۴۷۔ ۱۱۷- ایضاً، ص۲۵۲،۲۵۵۔ ۱۱۸- ایضاً، ص۲۴۱۔ ۱۱۹- ایضاً، ص۲۴۵۔ ۱۲۰- مجموعہ لیکچر ہائے،ص۱۲۴-۲۱۶۔ 121- New India, by Sir Henry Cotton, p. 232. 122- Baljon's, The Reforms and Religious Ideas, pp. 93,94. ۱۲۳- ایضاً، ص۹۴؛ Wither Islam, by H.A.R. Gibb، ص۲۲۹،۲۳۰۔ 124- Sir Syed Ahmad Khan and the Genesis, p. 39. ۱۲۵- افضل اقبال، مرتب :مولانا محمد علی کی تحریریں اور تقریریں، ص۲۵۱۔ ۱۲۶- حیاتِ جاوید، حصہ اوّل،ص۲۱۵۔ ۱۲۷- ایضاً، حصہ اوّل، ص۲۱۴،۲۱۵۔ ۱۲۸- آخری مضامین،ص۳۹،۴۳،۴۴،۵۹-۶۵۔ ۱۲۹- حیاتِ جاوید، حصہ اول،ص۲۰۴-۲۱۰؛ مجموعہ لیکچرہائے،ص۲۱۵؛ Sir Syed Ahmad Khan and the Genesis، ص۱۴۴-۱۴۷۔ 130- The Reconstruction of India by Edward Thompson, p. 58. 131- The Growth and Development of National Thought in India, by Ishwar Nath Topa. pp. 82 86; The Reconstruction of India, p. 65 67. 132- A Nation in Making by Surrendranath Bannergea, pp. 5,6. ۱۳۳- ایضاً، ص۴۱-۴۸۔ 134- Modern Islam in India, p. 168. ۱۳۵- ایضاً، ص۲۳۔ 136- Political India, pp. 48,49. 137- A History of the National Movement, by V. Lovett. pp. 47 51; Indian Unrest, by V. Chirol. p. 43. ۱۳۸- ایضاً، ص۴۴،۴۵۔ 139- B.C. Pal's Nationality & Empire. pp. 388,389; Landmarks in Indian Constitutional and National Development (1600 1919) by G.N. Singh. pp. 260, 261. 140- India Divided by Rajendra Prasad, pp. 101,102. 141- Modern Islam in India, pp. 14,15. 142- Sir Sayyid Ahmad Khan and the Genesis. p. 16,17. ۱۴۳- مسلمانوں کا روشن مستقبل،ص۲۷۵۔ ۱۴۴- ایضاً، ص۲۶۴،۲۶۵۔ ۱۴۵- ایضاً، ص۲۶۵،۲۷۲۔ ۱۴۶- T.Morisonاپنی History of the M.A.O. College، میں لکھتا ہے: ’’بیک نے کالج کی روایات میں ایسی چیزیں داخل کردیں جو ابھی ابتدائی حالت میں تھیں… اور یہ انھوں نے پرنسپل کی حیثیت میں کیا… یعنی کالج اور مسلمانوں کے مفادات کے لیے کام کیا‘‘،ص۵،۶۔ ۱۴۷- مسلمانوں کا روشن مستقبل،ص۲۷۵-۲۹۰۔ نیز دیکھیے: مقالات شبلی، جلد ہشتم، ص۱۵۵۔ 148- Life & Work of Sir Syed Ahmad Khan, by Graham. p. 273. Assistance of Beck acknowledged, by Syed Ahmad khan. ۱۴۹- مسلمانوں کا روشن مستقبل،ص۲۹۳-۲۹۷؛ حیاتِ جاوید، حصہ اول، ص۲۱۸-۲۲۳، حصہ دوم، ص۲۸۲۔ ۱۵۰- مسلمانوں کا روشن مستقبل،ص۲۹۷-۳۰۰۔ ۱۵۱- ایضاً، ص۳۳۰-۳۰۲۔ 152- Sir Sayyid Ahmad Khan and the Genesis. p. 130. ۱۵۳- اسباب بغاوتِ ہند،ص۵۱،۵۲۔ 154- Modern Islam in India, p. 26. 155- Sir Sayyid Ahmad Khan and the Genesis. p. 133. ۱۵۶- مجموعہ لیکچرہائے، ص۱۳۲۔ 157- Sir Sayyid Ahmad Khan and the Genesis. p. 130. ۱۵۸- ایضاً، ص۱۳۲۔ ۱۵۹- حیاتِ جاوید، حصہ اول، ص۱۱۱-۱۱۵؛ خطوطِ سرسیّد،ص۶۶ ۱۶۰- حیاتِ جاوید، حصہ اول،ص۱۱۲۔ ۱۶۱- ایضاً،حصہ اول،ص۱۱۴۔ ۱۶۲- مجموعہ لیکچر ہائے،ص۲۷۲-۲۷۶۔ ۱۶۳- ایضاً، ص۲۴۰-۲۷۶۔ 164- Modern Islam in India, p. 26. 165- Makers of Pakistan and Modern Muslim India, pp. 83,84. ۱۶۶- ایضاً، ص۸۵۔ محسن الملک کا اصل نام سیّد مہدی علی تھا۔ ’’محسن الملک‘‘ نواب حیدرآباد دکن کی جانب سے دیا ہوا خطاب تھا)۔ ۱۶۷- مسلمانوں کا روشن مستقبل،ص۳۲۷،۳۲۸۔ ۱۶۸- ہندوؤں کا ایک وفد ۱۸۹۸ء میں میکڈانل سے اِس مطالبے کے ساتھ ملا تھا کہ اُردو کی جگہ ہندی رائج کی جائے، لیکن سرسیّد کے اثر رسوخ کی وجہ سے یوپی کی حکومت نے اُن کا یہ مطالبہ تسلیم نہ کیا۔ حوالے کے لیے دیکھیے: مسلمانوں کا روشن مستقبل،ص۳۳۲۔ ۱۶۹- ایضاً، ص۳۳۲-۳۳۵؛ Makers of Pakistan and Modern Muslim India, p. 91. ۱۷۰- ایضاً، ص۳۴۰،۳۴۱۔ ۱۷۱- اُن کا اصلی نام مشتاق حسین تھا۔ وقار الملک حیدرآباد کا دیا ہوا خطاب تھا، Makers of Pakistan and Modern Muslim India, p. 102. ۱۷۲- تذکرۂ وقار، ص۱۶۹،۱۷۰۔ ۱۷۳- مسلمانوں کا روشن مستقبل،ص۳۴۱-۳۴۴۔ 174- History of Indian National Movement, pp. 57,58. 175- A Nation in Making by Bannerjea, p. 124. 176- Makers of Pakistan and Modern Muslim India, pp. 91,92. ۱۷۷- مجموعہ لیکچرہائے، ص۲۴۷،۲۴۸۔ 178- Makers of Pakistan and Modern Muslim India, pp. 92 94. ۱۷۹- ایضاً، ص۹۴-۹۶۔ ۱۸۰- مسلمانوں کا روشن مستقبل،ص۳۶۳۔ ۱۸۱- India Divided، ص۱۰۹-۱۱۵۔ 182- Makers of Pakistan and Modern Muslim India, p. 95. ۱۸۳- مسلمانوں کا روشن مستقبل،ص۳۵۸-۳۶۰۔ ۱۸۴- ایضاً، ص۳۶۳۔ ۱۸۵- ایضاً،ص۳۶۶،۳۶۷۔ ۱۸۶- ایضاً،ص۲۲۳-۲۲۵،۳۶۸،۳۶۹؛ Outlines of Indian Constitutional History by W.A.J. Archbold.،ص۱۶۰-۱۶۶۔ ہندوستان کا دارالحکومت کلکتہ سے دہلی ۱۹۱۱ء میں منتقل ہوا؛ وی چرول، India Old and New by V. Chirol.(انگریزی)،ص۱۲۸۔ ۱۸۷- سرسیّد: حالات و افکار، ص۷۶۔ ۱۸۸- The Muslim Community in the Indo Pakistan Subcontinent، ۱۹۶۲ئ،ص۲۴۸،۲۶۹۔ ۱۸۹- Sir Sayyid Ahmad Khan's Contribution،ص۱۴۶۔ ۱۹۰- حیاتِ جاوید،ص۵۴۱۔ ۱۹۱- ڈاکٹر ظفرالاسلام کے نام اقبال کا خط، مورخہ ۲۷؍فروری۱۹۳۶ئ۔ فوٹو کاپی مصنف کے پاس محفوظ ہے۔ ظ…ظظ…ظ باب پنجم تحریکِ خلافت اٹھارہویں صدی کے وسط میں دنیائے اسلام میں جتنی بھی احیائی تحریکیں چلیں، اُن سب کا تعلق عبدالوہاب (۱۷۰۳ تا ۱۷۸۷ئ) کی قدامت پسند عسکری و اصلاحی تحریک سے نظرآتا ہے۔ عرب سے اُٹھنے والی یہ تحریک ابتدا میں پوری دنیا میں مذہبی، اخلاقی، سماجی اور سیاسی زوال و انحطاط کے خلاف ایک احتجاجی تحریک تھی۔ اسلام کو زوال پذیر تصوف، لاعلم ملائیت اور مطلق العنان سلطنت بالخصوص ترکی میں عثمانیوں سے نجات دلانے کی بھرپور کوشش کی گئی۔ یہ تحریک دنیا بھر میں سنی اسلام پر اثر انداز ہوئی۔ ابتدائی قدامت پسندی کے باوجود یہ احیائی تحریک ایک دو نسلوں کے بعد، وسیع النظری میں بدل گئی، اور وسیع النظری نے آگے چل کر پان اسلامیت یا مسلم قومیت کی صورت اختیار کرلی۔ وسیع النظری کہیے یا پان اسلامیت یا مسلم قومیت، یہ سب ذہنی، فکری اور سیاسی محرکات تھے، جن کو بیرونی یورپی مؤثرات سے بھی ترغیب ملی۔ دنیائے اسلام کو بڑا اہم سٹریٹجک مقام حاصل ہے، صرف یورپ اور روس کے درمیان ہی نہیں، بلکہ یورپ اور افریقہ، ہندوستان، مشرقِ بعید اور بحرالکاہل کے درمیان بھی۔ سولہویں اور سترہویں صدیوں کے دوران میں یورپ اور ماوراے اسلام خطوں کے درمیان آمدورفت صرف راس امید کا طویل چکر لگا کر ہوتی تھی۔ اٹھارہویں صدی کے اختتام تک یورپی طاقتوں کے معاشی مفادات نے زور مارا کہ براہِ راست، چھوٹے راستے اختیار کیے جائیں۔ رس و رسائل کے یہ نئے راستے دنیائے اسلام کے آرپار ہی گزر سکتے تھے۔ مثال کے طور پر یورپ سے ہندوستان تک پہنچنے کا راستہ بذریعہ بحیرۂ روم، مراکش کی بندرگاہ جبل الطارق (جبرالٹر) اور مصری علاقے (نہرسویز) سے ملایا گیا۔ مشرقِ بعید تک جانے والا یہی راستہ آبنائے ملاکا سے ملایا گیا جو شرق الہند اور جزیرہ نمائے ملایا کے درمیان واقع ہے۔ درہ دانیال، مارمورا اور باسفورس پر ترکی کا قبضہ تھا، لہٰذا یورپ کو جنوبی رُوس سے ملانے والے بذریعہ بحیرۂ اسود سمندری راستے پر بھی ترکی کا تسلط تھا۔ اس راستے کو براہِ خشکی باکو کے تیل کے میدانوں اور وسط ایشیا تک توسیع دی گئی تو آذربائیجان اور کیسپئن کے اردگرد کے مسلم ممالک سے گزرنا پڑا۔ برٹش انڈیا تک رُوسی توسیع پسندی کا خطرہ افغانستان اور ایران کو برطانیہ کے سفارتی دباؤ تلے آنے پر مجبور کررہا تھا۔ پہلی جنگ عظیم (۱۹۱۴-۱۹۱۸ئ) سے پہلے اور بعد ریلوے، موٹرگاڑیوں اور فضائی راستے کھولے گئے، جو دنیائے اسلام کے مرکز سے ہوکر گزرتے تھے۔ دنیائے اسلام میں یورپی طاقتوںکے معاشی نفوذ کا نتیجہ یہ ہوا کہ بعض مسلم ملکوں پر اُن کا قبضہ ہوگیا اور بعض مسلم ملکوں کا معاشی استحصال ہونے لگا۔ استعمار کی چڑھتی لہر کے ساتھ نئے خیالات آئے… قومیت، جمہوریت، آئین پسندی اور سیاست مدن…یعنی جب تک مسلمانوں کو اپنا مجہول کردار ترک کرنے کا خیال آیا، اُس وقت تک دنیائے اسلام کے بیرونی حاشیے تمام کے تمام یورپ کی بڑی طاقتوں کے ہاتھوں میں آچکے تھے۔ روس، ہندوستان، ملایا، شرق الہند، چین اور حاری افریقہ کے مسلمانوں نے کسی قدر مزاحمت کی، لیکن چونکہ وہ اِن ملکوں میں بکھری ہوئی اقلیتوں کی حیثیت رکھتے تھے، لہٰذا وہ بالآخر اطاعت پر مجبور ہوگئے۔ مسلمان جو دنیائے اسلام کے قلب یا مرکز میں آباد تھے، اُن کا معاملہ قدرے مختلف تھا۔ وہ اپنے قدرتی وسائل (مثلاً معدنی تیل اور تمباکو وغیرہ) سے فائدہ اٹھانے پر کمربستہ تھے۔ جہاں جہاں مسلمانوں کی غالب اکثریت تھی، وہاں وہ اپنی آزادی کو برقرار رکھنے میں کامیاب ہوگئے۔ گویا اٹھارہویں صدی کے وسط میں اسلام کے تمدنی احیا کی جو تحریک چلی تھی، اُس نے مغربی تہذیب کے استرداد و بطلان کی زبردست تحریک کی شکل اختیار کرلی۔ عبدالوہاب کے روایت پسند مقلدین، سیّد احمد بریلوی اور محمد السنوسی مغرب کے سخت خلاف تھے۔ اُن کے برعکس اعتدال پسند، روشن خیال بزرگوں، جیسے مدحت پاشا (ترکی)، مفتی عالم جان (رُوس)، سرسیّد احمد خان (ہندوستان) اور شیخ محمد عبدہ (مصر) نے اسلام کو نئی مغربی تہذیب سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی۔ کبھی کبھی یوں لگتا تھا کہ دونوں گروہ تہذیبی تصادم پر اُتر آئیں گے۔ لیکن چونکہ دونوں ہی گروپ یعنی روایت پسند اور تجدّد پسند بیرونی یورپی خطرے پر مشوش و فکر مند تھے، لہٰذا وہ مذہبی و علاقائی اسلام کے تحفظ و دفاع کی خاطر باہم شیروشکر ہوگئے۔ روایت پسندی اور تجدّد پسندی کے اِن بظاہر متصادم و متضاد رجحانات کے مابین مفاہمت کے عمل کو آگے بڑھانے میں پان اسلامی تحریک کے بانی سیّد جمال الدین افغانی (۱۸۳۸-۱۸۹۷ئ) نے غیر معمولی کردار ادا کیا۔۱؎ افغانی اُن مسلم مصلحین میں سے تھے جن کو احساس ہوگیا تھا کہ یورپی استعمار کے چنگل سے بچانے کے لیے عالمِ اسلام کا دفاع صرف اسی صورت میں ممکن ہے کہ مغربی ٹکنالوجی اور تنظیم اختیار کی جائے۔۲؎ ’’پان اسلامزم‘‘ کی اصطلاح یورپی سیاست دانوں نے اس بات پر زور دینے کی غرض سے وضع کی تھی کہ مسلمان مسیحی یورپ کے خلاف اپنی تمام قوتوں کو متحد و یکجا کرنے کی منصوبہ بندی کررہے ہیں۔ چنانچہ یورپی دانش و حکمتِ عملی نے قیاسی ’’جارحانہ اسلام‘‘ کے خلاف قدیم مسیحی نفرت و حقارت کو دوبارہ زندہ کرنے کی کوشش کی۔ اس کا قدرتی نتیجہ یہ نکلا کہ مسلمانوں نے بھی ردِعمل کے طور پر یورپ کے اثر و نفوذ کے خلاف ایک متحدہ فرنٹ بنالیا۔ مسلمانوں کے اِس اتحاد کے ردِعمل میں اہلِمغرب نے کہا، یہ تو وہی یورپ کو جہنم و اصل کرنے کی، مسلمانوں کی پرانی سازش کا شاخسانہ ہے۔ مشہور سیاسی رہنما، مولانا ظفر علی خاں کا خیال تھا کہ: ’’جب تک مراکش، طرابلس، ایران اور مقدونیہ پوری طرح ہڑپ نہ کرلیے گئے، اُس وقت تک پان اسلامزم کا بھوت انتہائی مؤثر و کارآمد ثابت ہوتا رہا۔ اُس وقت تک زعمائے مسیحیت کو سادہ لوح انتہا پسندوں کو ایک خیالی خطرے کا ہوّا دکھانے میں بہت آسانی رہی ہے۔ اس خیالی خطرے سے بچنے کا ایک ہی طریقہ تھا کہ مسلمان کو اُس کے گھر بار سے محروم کردیا جائے۔ چنانچہ یورپی طاقتوں نے مسلمانوں کو تباہ و برباد کرنے کے لیے کیا کچھ نہ کیا۔ خود مختار مسلم ریاستوں کو ٹکڑے ٹکڑے کیا۔ اُن کو اپنے اندر ضم کیا یا اپنے ساتھ الحاق کیا اور پھر ترکی اور افغانستان کے باقیات کو، جو پہلے ہی کمزوری سے کانپ رہے تھے، متحد کرنے کی چال چلنا۔ ان استحصالی سازشوں پر مسیحی دانشور اور کیا اضافہ کرنا چاہیں گے؟‘‘۳؎ ایک معروف مغربی اسکالر ای جی براؤن کے نزدیک ’’پان اسلامزم‘‘ کی اصطلاح قابلِ اعتراض ہے، کیونکہ مغرب میں اس کا یہ مطلب لیا جاتا تھا کہ ’’اس میں کچھ تعصّب اور جنونیت‘‘ کی ملاوٹ ہے۔ تاہم براؤن یہ بھی کہتا ہے کہ ’’پان اسلامی تحریک بنیادی طور پر دفاعی نوعیت کی تھی اور مشترکہ عقائد کی زیادہ عقلی اساس پر مبنی تھی۔‘‘ وہ لکھتا ہے: ’’یورپی طاقتوں کے ہاتھوں بچی کھچی چند مسلم ریاستوں (ترکی، ایران اور مراکش) کے امکانی استحصال نے ان ریاستوں کو الگ الگ یا متحدہ طور پر آنے والے مشترکہ خطرات کے بارے میں بیدار کردیا ہے۔ اور اب بالآخر رفتہ رفتہ یک گونہ استحکام پیدا کرنے کی طرف مائل کردیا ہے۔ اس نقطۂ نظر سے اس بیداری کو پان اسلامی تحریک کہا جاسکتا ہے۔‘‘۴؎ ایف ولائی کے نزدیک مسلمانوں نے بالآخر اپنے تحفظ و دفاع کا احساس کرلیا تھا۔ اوّل اس وجہ سے کہ یورپی دانش وروں اور سفارت کاروں نے اسلام کے خلاف اپنے مذہبی تعصّب سے کبھی احتراز نہ کیا، اور دوم اِس وجہ سے کہ یورپی تاجر ایشیا کے تجارتی استحصال پر تلے ہوئے تھے۔۵؎ ڈبلیو ڈبلیو کیش ’’پان اسلامی تحریک‘‘ کو عیسائی طاقتوں کی چارہ دستی کے خلاف ایک مزاحمتی، اور مسلمانوں کے اتحاد اور اسلامی خطوط پر اسلام کے احیا کی تحریک خیال کرتا ہے… اسلامی طاقت و اقتدار کے لیے انجمنِ اقوام اسلام کی تشکیل… اُس وقت کی عام زبان میں اس کا مطلب تھا، تمام مسلمانانِ عالم پر ترکی کی حاکمیت کا اطلاق۔۶؎ اس بارے میں اتفاق رائے نہیں ہے کہ اس تحریک کا بانی کون تھا۔ یہ تحریک کب اور کہاں شروع ہوئی۔ بعض مؤرخین کہتے ہیں کہ سلطان عبدالحمید نے ۱۸۷۶ء میں اپنی تخت نشینی کے کچھ ہی عرصہ بعد اِس تحریک کی بنیاد، اپنی مطلق العنانی کی بحالی و استحکام کی غرض سے ترکی میں رکھی تھی۔۷؎ بعضوں کے نزدیک خوقند کے سابق حکمران خندیار خان نے ۱۸۷۰ء میں بخارا میں اس کی بنیاد ڈالی تھی اور شریف مکہ کو اس کا سربراہ مقرر کیا تھا۔ اُس کے قتل کے بعد جب سلطان عبدالحمید نے قبضہ کیا تو اُس کا نمایندۂ خاص جمال الدین افغانی اس تحریک کی روحِ رواں بن گیا، جس کی ہدایت و رہنمائی میں سوداگر وں، مبلغوں، دانشوروں اور فقرا نے یہ تحریک دنیائے اسلام کے گوشے گوشے میں پھیلادی۔۸؎ بپن چندرپال کا خیال ہے کہ پان اسلامی تحریک کا آغاز ہندوستان میں اُس وقت ہوا، جب جمال الدین افغانی نے ۱۸۸۰-۱۸۸۱ء میں ہندوستان کا دورہ کیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ افغانی نے ہندوستان کے مسلم رہنماؤں سے ملاقاتیں کیں اور اُن میں اپنی پان اسلامی تحریک کا ’’وائرس‘‘ پھیلادیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا ہندوستان کے مسلمان (بالخصوص بنگالی مسلمان جو بی سی پال کے خیال میں قومی سیاسی اتحاد کے فروغ کے لیے ہندوؤں کے طرف دار تھے) اپنے ہندو بھائیوں کی سیاسی سرگرمیوں سے الگ ہونے لگے، یہاں تک کہ ملک میں قومی اتحاد و یگانگت پیدا کرنے کی کوششوں کے ضمن میں ہندوؤں اور مسلمانوں میں رفتہ رفتہ خلیج حائل ہوتی گئی۔۹؎ جی این سنگھ کے نزدیک پان اسلامی تحریک کا گھر پنجاب ہے۔۱۰؎ جو حضرات اِس تحریک کا تعلق جمال الدین افغانی سے بتاتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ افغانی نے ۱۸۷۱ء میں مصر میں اپنی آمد کے فوراً بعد مصر میں ’’پان اسلامک سوسائٹی‘‘ قائم کی تھی۔ اس سوسائٹی کی وجہ سے اُنھیں ۱۸۷۹ء میں مصر سے نکال دیا گیا۔ افغانی نے پریس اور لندن میں ’’پان اسلامزم‘‘ کے بارے میں جن خیالات کا اظہار کیا تھا، وہ مصر کے اخبارات میں بھی شائع کرائے۔۱۱؎ ڈبلیو سی بلنٹ نے ۱۸۸۴ء اور ۱۸۸۵ء میں مشرق وسطیٰ کے حالات کا بغور جائزہ لیا تھا۔ اُس نے اپنے جائزے میں کسی ایسی تحریک کا ذکر تک نہیں کیا جس کے نام کے ساتھ ’’پان اسلامک‘‘ لگا ہوا ہو۔ اس کے برعکس وہ یوں لکھتا ہے: ’’قسطنطنیہ کے دورِ زوال میں مسلم دنیا کسی قائد کا بڑی شدت سے انتظار کررہی ہے۔ اگر انگلستان نے یہ موقع ہاتھ سے گزاردیا تو یہ منصب کسی اور عیسائی طاقت کے ہاتھ میں چلا جائے گا۔‘‘۱۲؎ اِن مختلف و متضاد آرا کی روشنی میں یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ ’’پان اسلامزم‘‘ ایک منظم تحریک کی شکل میں موجود نہ تھی۔ براؤن تو سرے سے اس کے وجود کا قائل نہیں۱۳؎ البتہ مسلمانوں کی اس تشویش اور فکر مندی کے نتیجے میں، کہ غیر مسلم یورپ کے بیرونی خطرے کی موجودگی میں اپنی آزادی برقرار رکھی جائے اور اندرونی طور پر مطلق العنان سلطان کی چیرہ دستی سے بچا جائے، ایک تحریک ضرور قائم ہوئی، جس میں ’’مسلم قومیت‘‘ کے جراثیم موجود تھے۔ پان اسلامیت اور مسلم قومیت کی تحریکیں لازم و ملزوم تھیں۔ یہ الگ بات ہے کہ ’’مسلم قومیت‘‘ کی تحریک نے ۱۹۱۸ء کے بعد زیادہ اہمیت حاصل کرلی۔ یورپی استعمار کے مقابلے میں ’’پان اسلامزم‘‘ کو عثمانی سلطان و خلیفہ کی قیادت میں ایک اسلامی کنفڈریشن بنانے کی، مسلمانانِ عالم کی آرزو قرار دیا جاسکتا ہے۔ اُمّہ کی اس آرزو کو سلطان عبدالحمید نے اپنی مطلق العنانی کو قائم رکھنے کے مفاد میں استعمال کیا۔ منصبِ خلافت، جو سنیوں کے نزدیک ایک دنیاوی منصب تھا، اصلاً ایک انتخابی ادارہ تھا جو خلیفہ کے ذاتی اوصاف اور قریشی النسب ہونے پر مبنی تھا۔ ۶۶۱ء میں حضرت معاویہؓ کی جانشینی سے لے کر ۱۲۵۸ء میں مستعصم باللہ کی شہادت تک، خلافت نہ تو انتخابی ادارہ رہا اور نہ اس کے منصب کے لیے ذاتی اوصاف ہی کی ضرورت مناسب سمجھی گئی۔ اس کے جواز کے لیے شوکت، دولت یا طاقت اور قریشی ہونا کافی قرار دیا گیا۔ پھر ۱۲۶۱ء سے ۱۵۱۷ء تک خلافت قریشی نسب کی بنیاد پر ’’دنیاوی‘‘ سے منتقل ہوکر ’’روحانی‘‘ بن گئی۔ ۱۵۱۷ء میں عثمانی سلطان سلیم نے مصر فتح کیا اور یہ منصب متوکل سوم سے سلطان سلیم کو منتقل ہوگیا۔ ۱۵۱۷ء کے بعد خلافت پر عثمانیوں کا دعویٰ نہ تو ذاتی اوصاف پر مبنی تھا، نہ قریشی النسب ہونے پر، بلکہ شوکت اور خادم حرمین شریفین ہونے پر۔۱۴؎ اٹھارہویں صدی میں اسلام پر یورپ کے بڑھتے ہوئے دباؤ کے سبب مسلمانوں کی توجہ خلافت عثمانیہ کی طرف دوبارہ مبذول ہوئی، خواہ یہ اثر سفارتی یا عسکری دباؤ کے تحت ہوا یا تجارتی استحصال یا نئے افکار کے ابلاغ سے سلطان عبدالحمید ۱۸۷۶ء میں تخت نشین ہوا۔ اُس وقت عثمانی علاقے، جن میں مسلمانوں کی اکثریت تھی، یورپی طاقتوں کے ہاتھوں میں جارہے تھے۔ ۱۸۷۶ء سے ۱۸۸۲ء تک، صرف چھ برسوں میں بوسنیا ہرزیگونیا، بلغاریہ، مشرقی رومیلیا، تین ماوراے کا کیشیا سلجوق، مصر اور تیونس پر غیر مسلم یورپی حکومتیں مسلط ہوچکی تھیں۔ باقی آزاد اور خود مختار مسلم ممالک بھی رفتہ رفتہ، یکے بعد دیگرے غیروں کے قبضے میں جارہی تھیں۔ ۱۸۵۸ء میں مغل شہنشاہ کو انگریزوں نے معزول کرکے جلاوطن کردیا۔ اور یوں ہندوستان برٹش ایمپائر کا حصہ بن گیا۔ جنوبی مسلم ریاستوں کو زار روس نے اپنی مملکت میں شامل کرلیا۔ افغانستان کے امورِ خارجہ پر ۱۸۷۹ء میں برطانیہ کا تصرف ہوگیا۔ چین کے جنوب مغرب اور شمال مغرب کے مسلمان، جو اپنی آزادی برقرار رکھنے کی جدوجہد کررہے تھے، بالآخر اُنھیں ۱۸۵۶ء تا ۱۸۷۸ء کے درمیانی عرصے میں چین کی شاہی حکومت نے کچل کررکھ دیا۔۱۵؎ اِن واقعات سے مسلمانوں میں ایک نئی بیداری اور استحکام کا احساس پیدا ہوا۔ خلافتِ عثمانیہ کا اب تک کافی بھرم قائم تھا اور بین الاقوامی اُمور میں اُسے اہمیت حاصل تھی۔ یہ درست ہے کہ اُس کے حریف دعوے دار بھی موجود تھے، مثلاً مراکش کے شریف، جو اپنا شجرۂ نسب بنوقریش سے بتاتے تھے۔ تاہم مسلمانانِ عالم عثمانیوں ہی کو اپنا مرکز و ملجا خیال کرتے تھے۔ مصر اور تیونس مغربی طاقتوں کے خلاف اپنی اپنی قومی آزادی کے لیے جدوجہد کررہے تھے۔ ہندوستان، روس اور چین کے مسلمانوں کے لیے بالخصوص، خلافت عثمانیہ ایک ضرورت بن گئی۔ ان ملکوں میں مسلمان بہت بڑی اقلیتوں کی حیثیت رکھتے تھے، اور اس امر سے بخوبی آگاہ تھے کہ ہندوستان، روس اور چین میں اٹھنے والی، علاقائی قوم پرستی کی لہریں مسلمانوں کے جداگانہ وجود و تشخص کے لیے سخت مُضر ثابت ہوں گی۔ ان وجوہ سے اُن کی نظریں خلافتِ عثمانیہ پر جاٹکتی تھیں۔۱۶؎ خلافتِ عثمانیہ کے اندرون یہ حال تھا کہ سلطان عبدالحمید کے عہد میں آمریت کے حامیوں اور آئین پسندوں کے درمیان ایک کشمکش شروع ہوگئی تھی۔ سلطان عبدالحمید دنیا بھر کے مسلمانوں کی حمایت حاصل کرکے اپنی ذاتی پوزیشن مضبوط کرنا چاہتا تھا، جس کے لیے آئینی تحریک کو کچلنا ضروری تھا۔ اُس نے اپنی جانشینی کے کچھ عرصہ بعد اپنا ایک آئین نافذ بھی کیا تھا، جس سے اُس کے اپنے اقتدار کو تقویت پہنچتی تھی۔ جب خلیفہ کی حیثیت سے اُس کی پوزیشن کافی مضبوط ہوگئی تو اُس نے اپنی طاقت کا مظاہرہ یوں کیا کہ پہلے تو پارلیمنٹ کو منسوخ کیا، پھر شیخ الاسلام سے یہ فتویٰ لیا کہ جو لوگ آئین کا مطالبہ کرتے ہیں، اُن کے خلاف جہاد کیا جائے۔ تاہم ۱۹۰۸ء میں نوجوان ترکوں کے انقلاب سے مجبور ہوکر اُس نے آئین بحال کردیا۔ چونکہ سلطان عبدالحمید جوابی انقلاب لانے سے قاصر رہا، لہٰذا اُسے ۱۹۰۹ء میں معزول کردیا گیا۔۱۷؎ مسلمانانِ عالم کے اتحاد کی تازہ بیداری کے مذہبی، معاشرتی، تہذیبی اور سیاسی مضمرات کے بارے میں بہت کچھ کہا جاسکتا ہے۔ مولانا ظفر علی خاں رقم طراز ہیں: ’’مغربی میکاولیت نے اپنی شرانگیز فطرت سے مجبور ہوکر، پان اسلامزم کو جس فریب دہ تصور میں لپیٹ کر، آسان اور سادہ لفظوں میں بیان کرنے کی کوشش کی ہے، اُس سے قطع نظر حقیقت یہ ہے کہ پان اسلامزم کوئی نئی تحریک نہیں ہے، بلکہ اُتنی ہی پرانی ہے جتنا خود اسلام۔‘‘۱۸؎ خلافت کا ادارہ، جو اسلامی ریاست کے تصور کا حقیقی اور مثالی اظہار ہے، اُمتِ مسلمہ کے اتحاد کا ایک اور پختہ اُصول ہے۔ اسلام امام کی اطاعت کو واجب قرار دیتا ہے۔ امام کا مسلمان ہونا ضروری ہے، وہ مطلوبہ اوصاف کا حامل ہے یا نہیں، اِس بات کی خاص اہمیت نہیں۔ ۶۶۱ء کے بعد خلافت موروثی ملوکیت میں بدل گئی، حالانکہ مصر اور ہسپانیہ میں خلافت یا امامت کے حریف دعوے دار موجود تھے۔ ہندوستان میں مغلوں نے اپنی آزاد اور خود مختار ریاست قائم کرلی تھی۔ اِن باتوں نے خلافت کی اہمیت کو کم کردیا تھا، لیکن اس کی بین الاقوامی اہمیت کو ختم نہیں کیا تھا۔۱۹؎ ویسے بھی اسلام کو یورپ اور رُوس کی جانب سے کسی بڑے بیرونی خطرے کا سامنا نہیں تھا، لہٰذا عثمانی خلافت کے لیے جو دلچسپی پہلے سے موجود تھی، وہ ازسر نو بیدار ہوگئی۔ خلافتِ عثمانیہ کے تحت اسلامیانِ عالم کے اتحاد و استحکام کی اس نئی تحریک کے اثرات و مضمرات کے خلاف یورپی دانشوروں نے بہت کچھ لکھا، جن میں آرنلڈ (انگلستان) اور بارٹ ہولڈ (روس) کے نام پیش پیش ہیں۔ منصبِ خلافت پر عثمانی سلاطین کا دعویٰ جھٹلانے کے لیے ان گنت علمی دلائل پیش کیے گئے۔ مثلاً دلیل دی گئی کہ مسلمان اپنی تاریخ میں کبھی متحد قوم نہیں رہے۔ تاریخ سے ظاہر ہے کہ رفتہ رفتہ کئی خلافتیں اور آزاد و خود مختار ریاستیں دنیائے اسلام میں وجود میں آگئی تھیں، جن کی وجہ سے دنیا بھر کے مسلمان بے شمار علاقائی یا سیاسی وحدتوں میں منقسم ہوگئے تھے۔ کہا گیا کہ ۱۵۱۷ء میں خلیفہ متوکل کی جانب سے عثمانی سلطان سلیم کو خلافت کی منتقلی کبھی نہیں ہوئی۔ یہ ایک من گھڑت افسانہ ہے جو آرمینیا کے ایک ترک نے اٹھارہویں صدی کے نصف ثانی میں گھڑا تھا۔۲۰؎ اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ خلافت واقعی منتقل ہوئی تھی، تب بھی اس بات کا کیا جواب ہے کہ عثمانی خلافت کا نسبی تعلق بنوقریش سے نہیں تھا۔ چنانچہ عثمانی خلافت اِس لحاظ سے بھی غیرقانونی اور بے جواز ہی رہی۔۲۱؎ اس کے برعکس مسلمان سیاسی مفکرین نے مسیحی دانشوروں کی تحقیق کو کوئی اہمیت نہ دی۔ اُن کی بنیادی حکمت عملی یہ تھی کہ مسیحی یورپ کے امکانی خطرے اور حملے کے خلاف اُمتِ مسلمہ کا اتحاد پہلے سے موجود خلافت کے تحت کیا جائے۔ اُن کا استدلال یہ تھا کہ خلافت بہ حیثیت ادارہ بے شمار تبدیلیوں سے گزر چکی ہے، یعنی پہلے انتخابی منصب سے موروثی ملوکیت تک، پھر دنیاوی منصب سے روحانی منصب تک۔ بنواُمیہ، بنوعباس اور فاطمی خلفا میں بھی کسی نہ کسی وصف کا فقدان تھا۔ جہاں تک خلیفہ کے قریشی النسب ہونے کا تعلق ہے، ابن خلدون، ابوبکر باقلانی اور دوسرے مسلم فقہا نے اتفاق رائے سے کہا ہے کہ یہ شرط اُس وقت تک درست رہی جب تک قریش دنیائے اسلام کی قیادت کے قابل رہے۔ جب اُن میں یہ قابلیت مفقود ہوگئی تو وہ منصبِ خلافت کے بھی نااہل ہوگئے۔ جہاں تک عثمانی سلاطین/خلفا کا تعلق ہے، وہ شوکت کے حامل اور حرمین شریفین کے مسلّمہ نگران تھے۔ یہ درست ہے کہ وہ حسب نسب کے اعتبار سے قریش سے تعلق نہ رکھتے تھے، جس کے باعث منصب خلافت کے لیے اُن کے دعوے میں کسی قدر تخفیف ہوجاتی ہے۲۲؎ پھر بھی پوری دنیا کے مسلمان خلافتِ عثمانیہ کو مسلمانانِ عالم کے اتحاد و استحکام کی علامت خیال کرتے تھے۔ چنانچہ جب پہلی جنگ عظیم (۱۹۱۴-۱۹۱۸ئ) کا آغاز ہوا اور ترکی نے جنگ میں محوری طاقتوں کی طرف داری کی تو عثمانی سلطان/ خلیفہ نے ’’دشمنانِ اسلام‘‘ کے خلاف جہاد کا اعلان کردیا، لیکن اعلانِ جہاد کا خاطر خواہ اثر نہ ہوا۔ اس لیے کہ مراکش فرانس کے زیرِ تسلط تھا۔ طرابلس اٹلی کے قبضہ میں تھا۔ مصر نے عثمانی خلیفہ کے اعلان پر جہاد کرنا چاہا، لیکن برطانوی افواج کی آمد کے باعث وہ اپنی خواہش کو عملی جامہ نہ پہنا سکا۔ ایران کو ترکی کے ساتھ شامل ہونے سے روس اور برطانیہ کے مشترکہ فوجی دباؤ نے روک دیا۔۲۳؎ افغانستان کے امورِ خارجہ برطانیہ کے ہاتھوں میں تھے۔ مسلمانانِ ہند کی صورتِ حال عجیب تھی۔ وہ وفاداریوں کی کشاکش میں مبتلا تھے۔ وہ ترکی کے حامی تھے، لیکن میدانِ جنگ میں اپنے مسلمان بھائیوں کے خلاف شجاعانہ لڑتے تھے۔ ’’بعض مقامات پر انھوں نے برطانیہ کا ساتھ چھوڑ دیا اور نتیجتاً پھانسیاں پائیں، لیکن وفاداری اور بے وفائی کے ایسے قصے جنگ کی حالت میں ہوتے رہتے ہیں۔‘‘۲۴؎ ترکوں کے ساتھ عربوں کے شامل نہ ہونے کے بارے میں برطانیہ کی حکمت عملی کامیاب رہی۔ حجاز کے شاہ حسین کو ، شریف مکہ کی پالیسی کے مطابق، عثمانی سلطان/ خلیفہ کے خلاف بغاوت کرنے کی ترغیب دی گئی۔ اُس کی حمایت کے بدل میں وعدہ کیا گیا کہ اُسے سلطنتِ عثمانیہ کے عرب صوبوں (شام، عراق اور حجاز) کا خود مختار حاکم بنادیا جائے گا۔ انگریزوں نے ایک طرف تو حجاز کے شاہ حسین سے یہ وعدے کیے، دوسری طرف اُس کے حریف ابن سعود سے بھی اِسی قسم کے کامیاب مذاکرات کیے۔ شاہ حسین کو ہندوستان میں اسلام کا غدار قرار دیا گیا، حالانکہ وہ خود کو قریش کی اولاد بتاتا تھا، اور اسی لیے منصبِ خلافت کا بھی اُمیدوار تھا۔ مسلمانانِ ہند نے حج کا بائیکاٹ کردیا اور حرمین شریفین اور دوسرے مقاماتِ مقدسہ عثمانی سلطان/ خلیفہ کو واپس کرنے کا مطالبہ کیا۔۲۵؎ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس مرحلے پر سیّدجمال الدین افغانی نے خلافتِ عثمانیہ کے تحت مسلمانانِ عالم کے اتحاد کے لیے جو کوششیں کیں، اُن کا جائزہ لیا جائے۔ براؤن لکھتا ہے: ’’وہ (جمال الدین) بیک وقت فلسفی، ادیب، خطیب اور صحافی تھے، لیکن سب سے بڑھ کر سیاست دان۔ اُن کے مداح اُن کو عظیم محبِ وطن اور اُن کے حریف اُن کو خطرناک شورشی کہتے تھے۔‘‘۲۶؎ سیّد جمال الدین افغانی ۱۸۳۸ء میں افغانستان کے ایک گاؤں اسد آباد میں پیدا ہوئے تھے (بعض لوگ کہتے ہیں کہ وہ اسد آباد ہی میں پیدا ہوئے تھے، لیکن یہ گاؤں ایران کے صوبے ہمدان میں واقع ہے)۔۲۷؎ وہ عام طورپر افغانی کے نام سے مشہور ہیں، لیکن ایران میں اسدآبادی کے نام سے جانے پہچانے جاتے ہیں۔ انھوں نے بعض اوقات خود کو ’’الحسینی‘‘ یا استنبولی بھی لکھا۔ بعض ایرانی مصنّفین کے نزدیک وہ شیعہ تھے۔ انھوں نے زندگی بھر شادی نہیں کی، البتہ ’’مُتعہ‘‘ کئی بار کیا۔ چونکہ وہ مسلمانوں کی اکثریت کو، جو سنیوں پر مشتمل تھی، متحد کرنے کے لیے کوشاں تھے، اس لیے انھوں نے کبھی اپنا ذاتی عقیدہ ظاہر نہیں کیا۔۲۸؎ سیّد جمال الدین نے کچھ عرصہ امیردوست محمد خان اور اُن کے جانشینوں کی خدمت کی۔ افغانستان کے حکمرانوں کی خدمت کے دوران انھوں نے مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کی بھی زیارت کی۔ ۱۸۶۹ء میں انھوں نے یہ ملازمت ترک کردی۔ افغانستان کو خیرباد کہا۔ ہندوستان آئے۔ یہاں سے قاہرہ گئے۔ وہاں ایک دو ماہ کے قیام کے دوران میں اسلامی اتحاد کی ضرورت و اہمیت پر لیکچردیے۔ قاہرہ سے قسطنطنیہ گئے اور ۱۸۷۱ء میں قاہرہ واپس آگئے۔ مصر میں اُن کی سرگرمیاں، خاص طور پر وہاں کی قومی تحریک کے لیے اُن کی عملی حمایت سے انگریز حکام مشکوک ہوگئے۔ انھوں نے سیّد صاحب کو ۱۸۷۹ء میں مصر سے نکال دیا۔ تب وہ ہندوستان آگئے اور حیدرآباد دکن میں اقامت اختیار کی۔ ۱۸۸۲ء میں مصر کے قوم پرستوں نے، جو خدیو کی مطلق العنانی کی بجائے آئینی حکومت کا مطالبہ کررہے تھے، اور جس کے نتیجے میں مصر کے اندرونی معاملات میں برطانیہ مداخلت بے جا کررہا تھا، اعرابی پاشا کی قیادت میں بغاوت کردی۔ بغاوت کا نتیجہ یہ نکلا کہ ۱۸۸۲ء میں برطانیہ نے مصر پر قبضہ کرلیا۔ جمال الدین نے چونکہ مصر کی قوم پرستانہ تحریک کی حمایت کی تھی، اور اِسی بنا پر ہندوستان میں برطانوی حکومت نے اُنھیں ایک لحاظ سے نظر بند کررکھا تھا، ۱۸۸۲ء میں مصر پر قبضے کے بعد انھیں بھی آزادی ملی۔ تب وہ لندن چلے گئے۔ وہاں سے کچھ عرصے کے بعد پیرس چلے گئے، جہاں اُنھوں نے تین سال قیام کیا۔ وہاں سے ایک ہفت روزہ العروۃ الوثقی جاری کیا۔ ۱۸۸۵ء میں دوبارہ لندن گئے۔ وہاں سے ماسکو (اور بعدازاں سینٹ پیٹرز برگ) پہنچے۔ وہاں اپنے چار سالہ قیام کے دوران انھوں نے زار کے روس میں مسلمانوں کے لیے رعایتیں حاصل کیں۔ تاہم وہ ۱۸۸۹ء تک وہاں ٹھہرے۔ ایران کے شاہ ناصرالدین نے انھیں واپس ایران آنے پر آمادہ کرلیا، جس سے وہ میونخ میں ملے تھے۔ لیکن چونکہ وہ آئینی تحریک کے حامی اور شاہ پرستی کے خلاف تھے، اس لیے ۱۸۹۰ء میں اُنھیں ایران سے بھی نکال دیا گیا۔ وہ ۱۸۹۱ء میں لندن پہنچے اور اُسی سال قسطنطنیہ واپس آگئے۔ سلطان عبدالحمید نے جمال الدین کا شاہانہ استقبال کیا۔ سلطان کا خیال تھا کہ اُس کی مطلق العنانی اور آمریت کے قیام و استحکام میں افغانی بطور آلۂ کار مددگار ثابت ہوں گے، لیکن سلطان کو یہ دیکھ کر مایوسی ہوئی کہ افغانی نے اُس کی مدد کرنے کے بجائے، اُلٹا ترکی میں آئینی تحریک کی تائید و حمایت کی۔ ۹؍مارچ ۱۸۹۷ء کو اُن کا انتقال ہوگیا۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ اُنھیں سلطان عبدالحمید کی ہدایت کے مطابق زہر دلوایا گیا تھا۔۲۹؎ براؤن لکھتا ہے: ’’اِس غیر معمولی شخص نے اپنے کسی بھی ہم عصر کے مقابلے میں اسلامی مشرق کے حالات و واقعات کا دھارا بدلنے میں، کم از کم بیس برسوں کے عرصے میں، نمایاں خدمات انجام دیں‘‘۳۰؎ افغانی نے مصر میں قومی انقلاب برپا کرنے کی تحریک میں حصہ لیا۔ ایران میں آئین پسندی کی تحریک اُن کی ترغیب و تشویق پر منظم کی گئی۔ ترکی میں آئین پسندی کی تحریک کو اُن کی تائید و حمایت حاصل رہی۔ علاوہ ازیں انھوں نے یورپی استعمار کے خطرے کے خلاف اسلام کے تحفظ کے لیے مسلم ریاستوں میں اتحاد پیدا کرنے کی کوشش کی۔ انھوں نے سنیوں اور شیعوں کے درمیان حائل، قدیم خلیج پاٹنے کے لیے جدوجہد کی، اور اس کے لیے شاہ ایران کو یہ مشورہ دیا کہ وہ عثمانی سلطان کو خلیفۃ المسلمین تسلیم کرلیں اور اس کے ساتھ ساتھ سلطان ترکی کے سامنے یہ تجویز رکھی کہ وہ شاہ ایران کو شیعہ مسلمانوں کا سربراہ تسلیم کرلیں۔۳۱؎ جمال الدین افغانی نے خلافتِ عثمانیہ کے بارے میں اس تنازعے میں حصہ نہیں لیا کہ عثمانیوں کا قریشی نسب سے متعلق نہ ہونے کے باعث منصبِ خلافت پر بھی کوئی حق نہیں۔ اس متنازعہ صورت حال کو انھوں نے حقیقت پسندانہ اور عملی نقطۂ نظر سے دیکھا۔ اُن کا خیال تھا کہ قائم شدہ خلافت کے تحت مسلمانانِ عالم کا اتحاد ایک مذہبی و سیاسی ضرورت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بعض روایت پسند علما اور اعتدال پسند لوگ اُن کی حمایت کرتے تھے۔ تاہم وہ تبلیغ اِس بات کی کرتے تھے کہ سلطان/ خلیفہ سے وفاداری مشروط ہونی چاہیے۔۳۲؎ مشروط سے اُن کی مراد یہ تھی کہ خلافت کو ’’آئینی‘‘ ہونا چاہیے اور یہ اُن کا نیا ’’اجتہاد‘‘ تھا۔ مسلم حکمران ابھی ماضی میں جی رہے تھے، جبکہ زمانہ بدل گیا تھا۔ وہ مطلق العنان تھے۔ جابر و آمر تھے۔ نااہل اور ناقابل تھے، اور اپنے ذاتی مفادات کی خاطر رعایا کے مفادات کو قربان کرسکتے تھے۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ جمال الدین افغانی تلقین کیا کرتے تھے کہ مسلم اقوام اپنے اپنے ملکوں میں آئینی حکومت قائم کرنے اور مطلق العنان بادشاہوں اور اُن کی جابرانہ حکومتوں سے نجات پانے کی کوشش کریں۔۳۳؎ اُن کے ایک ایرانی ہم عصر اور پیروکار کے الفاظ میں: ’’انھوں نے جو تحریک شروع کی تھی، وہ بہ تمام و کمال اسلام کی جانب سے پوری دنیائے انسانیت کے نام ایک تحفۂ جمہوریت تھی۔ یہ ایسی تحریک تھی جس نے وسیع تر انسانی اُصولوں کی دوامی بنیاد پر اپنی شمع روشن کی تھی، جس پر اسلام کی بھی قوت و طاقت کا انحصار تھا۔‘‘۳۴؎ جہاں تک یورپ کی جانب سے بیرونی خطرے کا تعلق تھا تو جمال الدین افغانی کہا کرتے تھے کہ اسلام کے خلاف عیسائیوں کی روایتی نفرت، نسل، مسلک یا قومیت سے قطع نظر، پورے یورپ میں پھیلی ہوئی ہے۔ ماضی میں کسی بھی غیر مسلم قوم نے اسلام یا مسلمانوں پر حملہ آور ہونے کا دعویٰ نہیں کیا۔ کافر ایران کو ابتدا ہی میں کچل دیا گیا تھا۔ ہندوستان کے بدھ یا ہندو مسلمانوں پر حملہ کرنے کے لیے کبھی اپنے ملک سے باہر نہ نکلے۔ بے شک منگولوں نے حملہ کیا، اور مسلمانوں کو نقصان بھی پہنچایا، لیکن انھوں نے خود اسلام قبول کرلیا۔ مختصر یہ کہ کرۂ ارض پر اسلامی طاقت کا عیسائی اقوام کے علاوہ اور کوئی دشمن یا حریف نہ تھا۔ جمال الدین افغانی کو پکا یقین تھا کہ مسیحی یورپی طاقتیں اسلام کو تباہ کرنے کے لیے پوری منصوبہ بندی کررہی ہیں، لہٰذا اُن کے خطرناک عزائم سے اسلام کو بچانے کے لیے ضروری ہے کہ آئینی خلافتِ عثمانیہ کے تحت مسلم ریاستوں کا ایک وفاقی اتحاد بنایا جائے (یعنی ریاست ہائے متحدہ اسلامیہ)۔ اِس کے پہلو بہ پہلو افغانی نے مسلمانوں کو یہ تلقین بھی کی کہ وہ یورپی ترقی کی تکنیک اختیار کریں اور اُن کی طاقت کا راز معلوم کرنے کی کوشش کریں۔۳۵؎ جمال الدین افغانی جہاں سیاست داں تھے، وہاں مذہبی، ثقافتی، معاشرتی، عقلی اور فکری تعلیم و تہذیب کے بارے میں بھی واضح عقائد رکھتے تھے۔ ایران کے شیعہ علما کے علاوہ وہ دنیائے اسلام کے مشہور و معروف سنی علما سے قریبی اور دوستانہ تعلقات قائم کرنے میں ناکام رہے۔ گفتگو اور مباحثے میں وہ کرشمہ ساز شخصیت تھے۔ علما سے مذاکرات کرنے کے لیے اُن کی درس گاہوں میں جانے کے بجائے وہ استنبول یا قاہرہ کے کافی ہاؤسوں میں سگار کا دھواں اڑاتے اور کافی کی چُسکیاں لیتے ہوئے مسلم نوجوانوں سے تبادلہ خیال کیا کرتے اور یوں بالآخر اُنھیں اپنا ہم خیال بنانے میں کامیاب ہوجاتے۔ قدامت پسند علما تو ہمیشہ ہی اُن کے فلسفیانہ خیالات و افکار کی مخالفت کیا کرتے تھے۔ بعض علما کے نزدیک وہ ’’مغرب زدہ مسلمان‘‘ یا ’’فری میسن‘‘ تھے۔ بعضوں کے نزدیک وہ دہریہ یا کافر تھے۔ قدامت پسند علما سے جمال الدین افغانی کا پہلا تصادم ۱۸۷۰ء میں استنبول میں ہوا، جب شیخ الاسلام حسن فہمی آفندی کی قیادت میں علما نے اُن کے خلاف کفر کا فتویٰ جاری کیا۔ اُن پر ایک الزام یہ تھا کہ وہ روایت پر درایت کو ترجیح دیتے ہیں۔ علما کہتے تھے کہ خلیفہ عبدالحمید کے اختیاراتِ مطلقہ کو از روئے شریعت محدود نہیں کیا جاسکتا۔ وہ مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) سے مشورہ کرسکتا ہے، لیکن اُن کا مشورہ قبول کرنے کا پابند نہیں۔ افغانی کا ’’آئینی خلافت‘‘ کا نظریہ قرآنی حکم ہی کے خلاف نہیں جو سورۃ الشوریٰ کی آیت ۳۸ میں واضح طور پر موجود ہے: وَ اَمُر شُورٰی بَینَھُم (اور اپنے کام اس کے مشورے سے کرتے ہیں) بلکہ صدیوں سے کارفرما آنحضورؐ کی سنت، خلفائے راشدین اور بعدمیں آنے والے سلاطینِ اسلام کے طریق کے بھی خلاف ہے جو بے شک شوریٰ سے مشورہ کرتے تھے، لیکن اپس کے مشورے پر عمل کرنے کے پابند نہیں تھے۔ مزیدبرآں علما کے نزدیک افغانی کا آئینی خلافت کا نظریہ سورۃ النسائ، آیت:۵۹ سے بھی متصادم تھا، جس کی رو سے مسلمانوں کو صاحبِ حکومت کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے: ’’یٰٓأَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ(مومنو! اللہ اور اُس کے رسول کی اطاعت کرو اور جو تم میں سے صاحبِ حکومت ہیں، اُن کی بھی)۔ پس علما نے فتویٰ جاری کردیا کہ جو شخص بھی ’’آئینی خلافت‘‘ کا مطالبہ کرے، وہ باغی ہے، غدار ہے، کافر ہے۔ انھوں نے افغانی پر یہ الزام بھی عائد کیا کہ وہ نبوّت کو ایک فن اور فلسفی کو نبی کے ہم رُتبہ خیال کرتے ہیں۔ جمال الدین افغانی کا کچھ اِسی طرح کا تصادم مصری علما سے بھی مصر کے دوران قیام (۱۸۷۱ تا ۱۸۷۹ئ) ہوا۔ اُن میں سے مفتی محمد عبدہ تو اُن کے قابلِ اعتماد مرید بن گئے۔ ماضی کے علما و فقہا کے بارے میں افغانی کی رائے سے علماے مصر کو سخت اختلاف تھا، لیکن افغانی کا کہنا تھا کہ اُن کی رائے فلسفیانہ دلائل کی روشنی میں قائم ہوئی ہے۔ الازہر کے بعض شیوخ نے اُنھیں ’’اسلامی عقائد کا ناسخ‘‘ قرار دے کر اُن کو مطعون کیا، لیکن جب ۱۸۷۹ء میں اُنھیں خدیو توفیق کے احکام کے تحت مصر سے جلاوطن کیا گیا تو یہ جلاوطنی علماے مصر کے اختلاف کی وجہ سے نہیں تھی، بلکہ اس کے اسباب سیاسی تھے۔ افغانی کا عقیدہ تھا کہ کسی بھی انسانی معاشرے کی اجتماعی زندگی کی تنظیم کے لیے مذہب لازمی چیز ہے۔ اسلام کے بنیادی مآخذ قرآن و سنت ہیں، اس لیے اُمتِ مسلمہ کی تنظیمِ نو اِن مآخذ کی عقلی تعبیر کی روشنی میں ہوسکتی ہے۔ علما کہتے ہیں کہ بدعت کا پھیلاؤ اسلام کے لیے اصل خطرہ ہے، لیکن افغانی کہتے تھے، نہیں، اصل خطرہ مغرب کی سیاسی و معاشی طاقت ہے۔ اُن کا یقین تھا کہ اسلامی تہذیب کے زوال کا سبب مسلمانوں میں فلسفیانہ روح کی موت اور علم کا فقدان ہے۔ دنیاے اسلام پر مغرب کی برتری جہالت پر علم کی برتری ہے۔ اس کے لیے اُن کی دلیل یہ تھی کہ مسلمانوں میں جدید سائنسی علوم اس لیے مقبول نہیں ہوسکے، کیونکہ ماضی کی صدیوں میں علما نے علوم کو ’’اسلامی‘‘ اور ’’غیر اسلامی‘‘ میں تقسیم کردیا۔ علم کی اِس مصنوعی تقسیم نے مسلمانوں میں جدید سائنس کے خلاف صرف تعصب ہی پیدا نہیں کیا، بلکہ اس کی وجہ سے مسلم معاشروں میں علم کو اسلام کے خلاف سمجھا جانے لگا۔ اسی لیے وہ کہتے تھے کہ مسلم معاشروں میں فلسفے کی تعلیم لازمی قرار دے دینی چاہیے کیونکہ فلسفہ تمام تجربی علوم کی جان ہے۔ اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ مسلم معاشروں کی تشکیلِ نو آئینی جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کی بنیادوں پر کی جائے۔ افغانی کے نزدیک سچا ’’عالم‘‘ وہی ہے جس کے روشن الفاظ دلوں کی تاریکی دور کرکے اُنھیں منور کردے جو عالم اپنی راہ خود نہ تراش سکے، اور محض دوسروں کی تقلید پر بھروسا کرے، وہ ’’عالم‘‘ نہیں ہے۔ اُنھیں اس بات کا دُکھ تھا کہ یہ ہمارے علما جو قدیم کتابوں کا رٹہ تو خوب لگاتے ہیں، لیکن یہ معلوم کرنے کی ذرا بھی زحمت گوارا نہیں کرتے کہ جدید سائنسی ایجادات، مثلاً ٹیلی گراف، کیمرہ، دوربین، خردبین، ریکارڈنگ مشین، برقی بلب، ریلوے انجن کیونکر بنتے ہیں یا کیونکر کام کرتے ہیں۔ ۱۸۸۹ء تا ۱۸۹۱ء ایران کے دورانِ قیام سیّد افغانی نے شیعہ علما سے قریبی تعلقات اُستوار کیے، لیکن وہاں بھی انھوں نے آئینی تحریک کی حمایت کی تھی، لہٰذا ایران سے بھی جبراً جلاوطن کیے گئے۔ تاہم وہ مجتہداعظم سے وہ مشہور فتویٰ اور اُس کا اعلان کرانے میں کامیاب ہوگئے تھے، جس کے تحت ایران میں تمباکو نوشی شرعاً ممنوع یا حرام قرار دی گئی تھی۔ پیرس کے دورانِ قیام اُنھوں نے فرانس کے عقل پسند فلسفی رینان کے مقالے ’’اسلام اور سائنس‘‘ کے ردّ میں اپنا مقالہ تحریر کیا، جس میں ’’علم‘‘ کے بارے میں اپنے نظریے کی وضاحت کرتے ہوئے انھوں نے لکھا کہ مذہب اور علم ایک دوسرے کے حریف نہیں ہیں، لہٰذا کچھ علوم کو ’’اسلامی‘‘ اور کچھ علوم کو ’’غیراسلامی‘‘ کہنا سراسر حماقت کی بات ہے۔ کسی نظریے یا سائنس کی قدر و قیمت کو جانچنے کے لیے واحد کسوٹی عقل یا منطق ہے۔ لہٰذا علما و فقہا کو چاہیے کہ وہ جدید معاشرتی علوم سے کماحقہ واقفیت حاصل کریں اور اپنے متروک، فرسودہ، جامد و ساکن، بے حرکت اور بے عمل قسم کے علم سے لوگوں کو خواہ مخواہ فکری ژولیدگی اور اُلجھن میں نہ ڈالا کریں۔ چند بنیادی سوالات افغانی کے ذہن کو پریشان رکھتے تھے، اور جب کبھی، جہاں کہیں قدامت پسند علما سے گفتگو اور مباحثے کا موقع ملتا تو یہ سوالات اُن کی گفتگو کے مرکزی موضوع ہوتے: ٭ کیا اسلام حصولِ علم کے لیے انسانی ذہن کو مکمل آزادی دیتا ہے، یا یہ آزادی علم کے چند خاص شعبوں تک محدود ہے؟ ٭ کیا لفظ ’’علما‘‘ کی تعریف میں مذہبی علم کے علاوہ سیکولر علوم میں بھی تخصص حاصل کرنے کو شامل کیا جاسکتا ہے؟ ٭ کیا یہ درست نہیں کہ اسلامی تہذیب کے زوال کا سبب یہ ہے کہ مذہب یا مذہب کے غلط تصور نے فلسفیانہ رُوح اور سیکولر علوم کو کچل کررکھ دیا ہے؟ ٭ کیا اسلامی تہذیب کا ارتقا اس لیے نہیں رُک گیا کہ علما نے قصداً اپنی غیر عقلی جذباتی جنونیت کا مظاہرہ کیا، جس کی وجہ سے علم کے تمام شعبوں میں آزادانہ تحقیق کے دروازے بند ہوگئے اور علم کے معنی صرف ’’دینی علم‘‘ تک محدود ہوکر رہ گئے؟ افغانی کے رفیقِ کار اور مرید شیخ محمد عبدہ آگے چل کر مصر کے مفتیِ اعظم مامور ہوئے۔ اس حیثیت میں مفتی صاحب نے کئی دلچسپ فتاویٰ جاری کیے۔ مثلاً انھوں نے عبادات اور معاملات میں امتیاز روا رکھا اور بتایا کہ دنیاوی اُمور یا معاملات میں زمانے کے ساتھ ساتھ تغیر آتا رہتا ہے۔ انھوں نے ’’تقلید‘‘ کی مخالفت کی اور کہا کہ مقلد چونکہ اسلام کے اصول و احکام عقل کے استعمال کے بغیر قبول کرتا ہے، لہٰذا وہ ’’ایقان‘‘ حاصل نہیں کرسکتا۔ جب تک وہ ایقان کی منزل تک نہ پہنچے، شک اُس کے دل میں براجمان رہتا ہے۔ اور جس کے دل میں شک براجمان رہے، اُس کی حالت کافر سے بہتر نہیں ہوتی۔ شیخ عبدہ نے طلفیق کا اصول متعارف کرایا جس کی رو سے فقیہ کو کسی دوسرے فقہی مسلک کا فیصلہ قبول کرلینے کی اجازت تھی، خواہ وہ فیصلہ اُس کے اپنے مسلک کے خلاف ہو۔ اس طرح انھوں نے اجتہاد کا ایک نیا طریقہ نکالا۔ شیخ عبدہ نے یہ بھی کہا کہ شریعت فوٹو گرافی، تصویر سازی، سنگ تراشی اور مجسمہ سازی کے خلاف نہیں ہوسکتی، اس لیے کہ اظہار و ابلاغ کے یہ ذرائع علم و معلومات حاصل کرنے کے بھی ذرائع ہیں۔ انھوں نے اہلِکتاب کے ذبیحے کو مسلمانوں کے لیے حلال قرار دیا۔اُن کے نزدیک بینکوں کا سُود ’’ربا‘‘ نہیں ہے۔ مغربی لباس پہننا جائز ہے۔ انھوں نے کثرتِ ازدواج کے خلاف فتویٰ دیا جس سے مصر میں مسلمان خواتین کی ’’تحریکِ آزادیِ نسواں‘‘ کا آغاز ہوا۔۳۶؎ ہندوستان میں جب تک مغل شہنشاہ موجود رہا، مسلمانوں کو ملک سے باہر عثمانی سلطان/ خلیفہ سے وفاداری کی ضرورت محسوس نہ ہوتی تھی۔ مغل شہنشاہیت کے زوال کے بعد، قدرتی بات ہے کہ خلافتِ عثمانیہ کی اہمیت بڑھ گئی۔ حقیقت یہ ہے کہ وی کیرول کے الفاظ میں ’’خود انگلستان نے اسلامیانِ ہند کی نظروں میں ترکی کی اہمیت بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کی بہت کوشش کی۔ انیسویں صدی کے دوران میں طویل عرصے تک انگلستان کی یہ پالیسی رہی کہ رُوس کے خلاف ترکی کو بھڑکایا جاتا رہے‘‘۔۳۷؎ ۱۷۹۹ء میں ٹیپو سلطان کی شہادت کے بعد خلافتِ عثمانیہ کے مسلمانانِ ہند کی دلچسپی میں اور اضافہ ہوا۔ اُس وقت وفاداریوں میں بھی کشمکش نہ ہوئی، کیونکہ انگلستان نے رُوس کے خلاف ترکی کی طرف داری کی، اور جمعہ کے خطبوں میں عثمانی خلیفہ کا نام لینے پر بھی انگلستان نے کوئی اعتراض نہیں کیا۔ ترکی کی طرف انگلستان کا رویہ اُنیسویں صدی کے آخری عشرے میں تبدیل ہوا، جس کی وجہ یہ ہوئی کہ مصر پر انگلستان کا تسلط ۱۸۸۲ء میں قائم ہوگیا تھا۔ ۱۸۹۷ء میں یونانیوں نے انگلستان کی شہ پر بغاوت کردی۔ ترکوں کے ہاتھوں یونانیوں کو شکست ہوئی تو ہندوستان کے مسلمانوں نے جشن منایا، لیکن سرسیّد سخت پریشان ہوئے، کیونکہ وہ تو سلطان عبدالحمید کو خلیفۃ المسلمین ماننے کے لیے تیار نہیں تھے اور اِس موضوع پر مضامین لکھ رہے تھے۔ اُن کا کہنا یہ تھا کہ چونکہ مسلمانانِ ہند برطانیہ کی رعایا ہیں، سلطان عبدالحمید کی رعایا نہیں ہیں، لہٰذا اُنھیں برطانیہ کا وفادار رہنا چاہیے، خواہ اس کے لیے ترکی سے غیر دوستانہ رویہ اختیار کرنا پڑے۔ سرسیّد نے خطبے میں عثمانی سلطان/ خلیفہ کا نام لینے پر بھی اعتراض کیا اور اسے غیرضروری قرار دیا۔ تاہم سرسیّد مسلم ممالک کی زبوں حالی پر جذباتی طور پر بہت پریشان رہتے تھے۔ انھوں نے ایک دفعہ لکھا: ’’جب بہت ساری مسلم مملکتیں موجود تھیں اور اُن میں کسی ایک کو زوال آجاتا تھا تو چنداں تکلیف نہ ہوتی تھی، لیکن اب کہ جب چند ہی مسلم مملکتیں باقی رہ گئی ہیں، تو کوئی چھوٹی ریاست بھی ہاتھ سے نکل جائے تو احساسِ زیاں ہوتا ہے۔ اگر ترکی مفتوح ہوجاتا ہے تو زبردست صدمہ ہوگا، کیونکہ ترکی اسلام کی بچی کھچی آخری ریاست ہے۔ ڈرلگتا ہے، کہیں ہماری حالت یہودیوں کی سی نہ ہوجائے اور ہم بھی بے وطن ہوکر مارے مارے نہ پھریں۔‘‘۴۰؎ افغانی نے ہندوستان کے دورانِ قیام سرسیّد کے مذہبی خیالات کے خلاف ایک تنقیدی مقالہ ردِّنیچریہ لکھا (فارسی، مطبوعہ بمبئی ۱۸۸۱-اُردو، کلکتہ۱۸۸۳، عربی، بیروت ۱۸۸۶ئ)۔ انھوں نے سرسیّد کے خلاف باقاعدہ ایک تحریک اپنے ہفت روزہ العروۃ الوثقیٰ میں شروع کی، جو پیرس سے چھپتا تھا۔ اپنے ایک مضمون میں انھوں نے لکھا: ’’سرسیّد اور اُن کے رفقاے کار نے مذہب کا پردہ ہٹا دیا… مسلمانوں میں کفر والحاد پھیلا دیا… ہندوستانیوں اور مسلمانوں کے درمیان تفرقہ کا بیج بوکر اور بھی ستم کیا… ان لوگوں نے اسلامی خلافت کے خلاف معاندانہ مضامین لکھے… یہ نیچری یورپ کے نیچریوں سے بالکل مختلف ہیں، کیونکہ یورپ میں تو کوئی شخص اپنا مذہب چھوڑ دیتا ہے تو وہ کم از کم محبِ وطن تو رہتا ہے اور بیرونی جارحیت کے خلاف مادرِ وطن کے دفاع کے لیے پورے جوش و خروش سے اُٹھ کھڑا ہوتا ہے… اور سرسیّد اور اُس کے احباب تو بیرونی استعمار کو گلے لگاتے ہیں اور مذہب اور قومیت کی خوشبو کے آثار بھی مٹانے پر تُلے ہوئے ہیں۔‘‘۴۱؎ افغانی یہ نہ جان سکے کہ وہ اور سرسیّد دونوں اُمتِ مسلمہ کے مستقبل کے بارے میں ایک جیسے خیالات رکھتے ہیں۔ دوسرے وہ خلافتِ عثمانیہ کے بارے میں مسلم انڈیا کی مخصوص اور نازک پوزیشن کا بھی صحیح اندازہ نہ کرسکے۔ مسلمانانِ ہند کی حالت مصر، ایران، افغانستان یا ترکی کے مسلمانوں جیسی نہیں تھی۔ وہ ہندوستان میں اقلیت میں تھے، اگرچہ اُن کی تعداد سات کروڑ تھی۔ اگر مسلمانانِ ہند افغانی کی خواہش کے مطابق ہندوستان کو ’’مادرِ وطن‘‘ بنالیتے تو اس کا ایک ہی مطلب ہوتا کہ سات کروڑ مسلمان ایک ایسی قوم میں ضم ہوکر رہ جاتے جس کی تعداد مسلمانوں سے چارگنا زیادہ تھی۔ چینی مسلمانوں کی مثال سامنے تھی کہ وہ چین کی اکثریتی قوم میں جذب ہوکر رہ گئے۔ یہ خیال اپنی جگہ درست ہوسکتا ہے کہ ہندوستان میں ’’مذہب‘‘ کی بنیاد پر ’’قومیت‘‘ کی تشکیل ایک عجیب اور متضاد بات نظر آتی ہے، لیکن بلاشبہ سرسیّد تو مسلمانوں کو مذہب کی بنیاد پر ایک جداگانہ قوم قرار دیتے تھے۔ اُن کے مذہبی نظریات خواہ کتنے ہی ناقِص اور قابلِ اعتراض ہوں، لیکن اُن کے سیاسی نظریات کے مضمرات بالکل صاف اور واضح تھے۔ اُن کا استدلال بیّن اور بہتر تھا اور آیندہ آنے والے واقعات کی روشنی میں ثابت ہوا کہ وہ صحیح تھے۔ افغانی کے ہندوستان کے دورانِ قیام ہندوستان کے مسلمان دانشوروں پر اتحادِ اسلامی کے جذبے میں کچھ زیادہ ہی جوش آگیا۔ کہا جاتا ہے کہ اس ضمن میں افغانی سالارجنگ سے بھی ملے اور سرسیّد سے بھی، لیکن دونوں نے اُن کے سیاسی نظریے سے کسی خاص دلچسپی کا اظہار نہیں کیا۔ لیکن نوجوان دانشوروں کے ایک گروپ نے، جس میں سیّد امیر علی، چراغ علی، حسن عسکری جیسے لوگ شامل تھے، افغانی کی پُرجوش پیروی کی اور اُن کا شاندار استقبال کیا جب وہ کلکتہ کے دورے پر آئے تھے۔۴۲؎ سیّد امیر علی اتحادِ اسلامی کے بڑے چیمپئین تھے۔ وہ پہلے شخص تھے، جنھوں نے ۱۸۷۷ء میں کلکتہ میں ایک مسلم قومی سیاسی تنظیم قائم کی تھی۔ سیّد امیر علی سنی خلافت کی حمایت کرنے والے پہلے شیعہ مسلمان نہیں تھے کیونکہ اُن سے پہلے روس اور ایران کے شیعہ اور سنی علما نے مشترکہ فیصلہ کرکے خلافتِ عثمانیہ کو دفاعِ اسلام کی ایک سیاسی ضرورت قرار دیا تھا۔۴۳؎ تاہم سیّد امیر علی کا اثر ہندوستانی مسلمانوں کے اونچے دانشور اور ذہین طبقے تک محدود رہا یا انگلستان میں صرف اُن لوگوں تک جن کو مشرقی مسئلے سے کوئی خاص دلچسپی تھی۔ سیّد امیر علی اور چراغ علی نے اسلام کے دفاع میں بہت لکھا ہے۔ اُن کی تصانیف زیادہ تر انگریزی میں ہیں، اسی لیے وہ اندرونِ ملک سے زیادہ بیرونی ملکوں میں جانے پہچانے جاتے ہیں۔ ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی اور شریف الدین پیرزادہ جیسے مشہور مؤرخین نے تاریخ تحریک آزادی (انگریزی) کی جلد اوّل، صفحات ۴۸ اور ۴۹ کی بنیاد پر لکھا ہے کہ افغانی نے ایک ایسی اسلامی جمہوریہ کا تصور پیش کیا تھا جس میں وسط ایشیا کی مسلم ریاستیں، افغانستان اور شمال مغربی ہندوستان کے مسلم اکثریتی علاقے (موجودہ پاکستان) شامل ہوں۔۴۴؎ اس تصور کو کہاں اور کیسی پذیرائی ملی، اس کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ ہمارے جن بزرگوں نے خلافتِ عثمانیہ کے تحت اتحادِ اسلامی کی ضرورت سے خاص اور گہری دلچسپی لی، اُن میں مولانا محمد شبلی (۱۸۵۷-۱۹۱۴ئ) کی شخصیت قابلِ ذکر ہے۔ انھوں نے سرسیّد کے رفیقِ کار کی حیثیت سے سترہ برس ایم اے او کالج، علی گڑھ میں کام کیا تھا، بلکہ سرسیّد کے اثر سے انھوں نے سلطان عبدالحمید کے خلیفۃ المسلمین کے دعوے کے بطلان میں ایک مضمون بھی لکھا تھا۔ یہ مضمون اُن کی مرضی کے خلاف لکھنے کی ترغیب دی گئی تھی،۴۵؎ ورنہ وہ سرسیّد کے مذہبی و سیاسی نظریے کے خلاف ایک مجسّم ردِعمل کی حیثیت رکھتے تھے۔ اے ایچ البیرونی نے کیا خوب لکھا ہے: ’’جدید مسلم انڈیا کی تشکیل میں مولانا شبلی کا خاص کارنامہ یہ نہیں ہے کہ انھوں نے علی گڑھ تحریک کو تقویت پہنچائی، بلکہ یہ ہے کہ اُسے کمزور کیا۔‘‘۴۶؎ ۱۸۷۷ء میں جب ترک انگریزوں کے ساتھ مل کر رُوسیوں کے خلاف لڑ رہے تھے، مسلمانانِ ہند کی توجہ ترکی کی طرف مبذول ہوئی۔ مولانا شبلی اُن مسلمانوںمیںسے تھے جنھوں نے ترک زخمی اور معذور سپاہیوں کی مدد کے لیے اپنے ضلع سے چندے جمع کیے۔ پھر یہ چندے ترکی روانہ کیے گئے۔ وہ خود ۱۸۹۲ء میں قسطنطنیہ گئے اور وہاں تین ماہ قیام کیا۔ سلطان عبدالحمید نے اُن کی علمی خدمات کے اعتراف میں مجیدی ماڈل سے نوازا۔۱۸۷۷ء کے کچھ عرصہ بعد انگلستان اور ترکی کے تعلقات کشیدہ ہوگئے۔ انگلستان نے ۱۸۸۲ء میں مصر پر قبضہ جمالیا، اور ۱۸۹۷ء میں یونان کو ترغیب دے کر ترکی کے خلاف بغاوت کرادی، چنانچہ جب مولانا شبلی ترکی سے واپس ہندوستان آئے تو قدرتاً اُنھیں حکومت برطانیہ نے سلطان عبدالحمید کا جاسوس خیال کیا، اُنھیں سلطان کا عطا کردہ تمغۂ مجیدی لگانے کی اجازت نہ دی گئی، بلکہ وہ تمغہ چوری ہوگیا۔۴۷؎ مولانا شبلی اور سرسیّد کے درمیان اختلافات، مولانا شبلی کے علی گڑھ کالج میں شامل ہونے کے بعد ہی شروع ہوگئے تھے (مولانا نے کالج کی ملازمت ۱۸۸۲ء میں اختیار کی تھی اور سرسیّد کی وفات کے دو ماہ بعد ۱۸۹۸ء میں ترک کردی تھی)۔ اُن کے اختلافات کی کئی وجوہ تھیں، مثلاً ٹیکنیکل اور سائنٹیفک علم کے حصول میں (عربی کی بجائے) انگریزی زبان کو ذریعہ تعلیم بنانے کے سرسیّد کے حکم پر سخت تنقید، سرسیّد کے مذہبی نظریات کی مخالفت، سرسیّد کے سیاسی نظریات کی مخالفت (مولانا شبلی کو کانگرس کے خلاف سرسیّد کی پالیسی پسند نہ تھی۔ وہ صدق دل سے نیشنلسٹ تھے اور چاہتے تھے کہ مسلمان قومی تحریک کے دھارے میں شامل رہیں)۔ نیز یہ کہ سرسیّد نے خلافتِ عثمانیہ کے دعاوی کے ردّ میں جو مضامین لکھے، اُن کی مخالفت۔ حقیقت یہ ہے کہ شبلی نے بھی وہی غلطی کی جو افغانی نے مسلم انڈیا کے مسئلے کے حل کے بارے میں کی تھی۔ دونوں کی یہ خواہش تھی کہ مسلمانانِ ہند خود کو بربنائے مذہب ’’ہندوستانی قوم‘‘ خیال کریں، جس میں ہندو بھی شامل ہیں، جبکہ سرسیّد مسلمانوں کو مذہب ہی کی بنیاد پر ایک الگ قوم سمجھتے تھے۔ یہ ممکن نہیں ہے کہ ایک شخص بیک وقت پان اسلامسٹ (اتحادِ اسلامی کا علم بردار) بھی ہو اور انڈین نیشنلسٹ (قوم پرست) بھی ہو۔ افغانی اور شبلی دونوں کو تذبذب اِس بارے میں ہوا کہ انھوں نے قومیت اور مذہب کو ایک نہیں سمجھا (جیسا کہ مسلم ممالک میں اسلام اور قومیت کو ایک ہی چیز خیال کیا جاتا ہے) بلکہ باہم متضاد اور ایک دوسرے سے الگ تھلگ سمجھا۔ وہ چاہتے تھے کہ مسلمانانِ ہند ہندوستان کو اپنی ’’مادرِ وطن‘‘ سمجھیں اور قومی تحریک میں شریک ہوجائیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ مسلمان ہندوستان کی اکثریت یعنی ہندوؤں میں مدغم ہوجائیں جن کو خلافتِ عثمانیہ یا دنیاے اسلام کے مستقبل سے کوئی غرض تھی نہ دلچسپی۔ اس کے پہلو بہ پہلو دونوں حضرات یہ بھی چاہتے تھے کہ مسلمانانِ ہند ہندوستان سے باہر، ماوراے خطہ خلافتِ عثمانیہ یا دنیاے اسلام سے بھی وفادار رہیں۔۴۸؎ علی گڑھ کالج سے رخصت ہونے کے بعد شبلی نے ۱۹۰۵ء میں لکھنؤ میں ندوۃ العلما میں شمولیت اختیار کی، لیکن آٹھ سال کے بعد ندوہ کے نصاب میں انگریزی زبان کی شمولیت کے مسئلے پر، علاوہ ازیں دوسرے مسائل پر بھی اختلافات پیدا ہونے کی صورت میں، انھوں نے ۱۹۱۳ء میں ندوہ بھی چھوڑ دیا۔۴۹؎ شبلی ندوہ کو اپنے مذہبی و سیاسی نظریات کے مطابق ایک خالص ’’دینی ادارہ‘‘ بنانے اور اسے علی گڑھ کالج کے بالمقابل کھڑا کرنے میں کامیاب نہ ہوسکے۔۵۰؎ ۱۹۱۹ء کے بعد ندوۃ العلما نے بالآخر شبلی کا مذہبی و سیاسی نظریہ قبول کرلیا۔ شبلی نے سفر نامۂ ترکی لکھا اور ترکوں کے بارے میں بے شمار مضامین بھی لکھے۔ لیکن اُن کا اصل شاعرانہ جوہر اُن کی اُن نظموں میں کھل کر سامنے آیا جو انھوں نے ترکی کی حالتِ زار پر لکھی تھیں۔ اپنی نظم و نثر کی اِن تحریروں کی بنیاد پر شبلی نے ترکی کو مسلمانانِ ہند کے بہت قریب کردیا۔ شبلی کے بعد مولانا ابوالکلام آزاد کا مقام دینی، ادبی اور سیاسی مشاہیر میں بہت نمایاں اوربلند ہے۔ آزاد نے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز صحافی کی حیثیت میں ۱۹۱۲ء میں کیا، جب انھوں نے کلکتہ سے اپنا اخبارالہلال جاری کیا۔ یہ اخبار نیشنل کانگرس کا حامی تھا اور اس کے ساتھ ساتھ خلافتِ عثمانیہ کی حمایت بھی کرتا تھا۔ بہت مختصر سی مدت میں یہ کثیر الاشاعت ہوگیا، لیکن پہلی جنگِ عظیم (۱۹۱۴-۱۹۱۸ئ) کا اعلان ہوتے ہی حکومت نے اس کی اشاعت روک دی اور مولانا آزاد کو نظربند کردیا گیا۔ وہ جنگ کے بعد بھی ۱۹۲۰ء تک نظر بند رہے۔۵۱؎ شبلی اور آزاد کے علاوہ مولانا محمد علی جوہر (۱۸۷۸ئ-۱۹۳۱ئ)، اُن کے بھائی شوکت علی اور ظفر علی خان اہم شخصیات تھیں، جنھوں نے خلافتِ عثمانیہ کے تحت اتحادِ اسلامی کے نصب العین کی پُرزور تائید و حمایت کی۔ مولانا محمد علی نے دو اخبار جاری کیے۔ ایک کامریڈ انگریزی میں، جو ۱۹۱۱ء میں کلکتہ سے جاری ہوا، اور دوسرا ہمدرد اُردو میں، جو ۱۹۱۳ء میں دہلی سے جاری ہوا۔ ظفر علی خان نے اپنا اخبار زمیندار لاہور سے جاری کیا۔ کامریڈ کو حکومت نے کچل دیا۔ محمد علی، شوکت علی اور ظفر علی خاں کو بھی ڈیفنس آف انڈیا رُولز کے تحت ۱۹۱۵ء سے ۱۹۱۹ء تک نظربند رکھا گیا۔۵۲؎ اِن مشاہیرِ وقت کے کارناموں کی روشنی میں دیکھا جائے تو یہ بات بالکل واضح نظر آتی ہے کہ اتحادِ اسلامی کے نصب العین نے تعلیم یافتہ مسلمانوں کی توجہ، ایک فکری و ذہنی تحریک کی صورت میں اپنی جانب مبذول کرنا شروع کردی تھی۔ اس تحریک میں دانشور، شاعر اور صحافی سبھی شامل تھے۔ کہا جاسکتا ہے کہ اتحادِ اسلامی پر یہ نیا اصرار سرسیّد کی روشن خیالی (لبرل ازم) کی توسیع تھا، مگر انگریزی حکومت سے وفاداری کی پالیسی کے بغیر۔ ۱۹۱۹ء تک اتحادِ اسلامی کی تحریک بنیادی طور رپر فکری رہی، جس کا اثر صرف تعلیم یافتہ اور خوشحال مسلمانوں تک محدود تھا۔ علما جو شروع ہی سے سرسیّد کے خلاف تھے، انھوں نے اپنی مخالفت سے کچھ بھی تو حاصل نہیں کیا۔ وہ ہر معاملے سے بے نیازی برتتے رہے، لیکن ۱۹۱۹ء کے بعد جب اتحادِ اسلامی کی تحریک فقط فکری و ذہنی نہ رہی، بلکہ (صلح نامہ ترکی کے خلاف ناراضی کی وجہ سے) ایک سیاسی، عملی تحریک بن گئی، تو علما نے اپنی بے نیازی اور الگ تھلگ رہنے کی پالیسی کو خیرباد کہا۔ معاشی طور پر مضطرب، نچلے طبقے کے مسلمان تحریک میں شامل ہوتے گئے اور اُن کے ساتھ علما بھی۔ ۱۹۱۱ء اور ۱۹۱۴ء کے درمیان سرسیّد کی انگریزوں سے وفاداری کی پالیسی کی بھاپ نکل گئی اور انگریزوں اور مسلمانوں کے تعلقات کشیدہ ہوگئے۔ انگریزی حکومت کی جانب سے اپنے وفاداروں کو پہلی سیاسی دھمکی اُس وقت ملی، جب بنگال کی تقسیم کو منسوخ کردیا گیا جو ۱۹۰۵ء میں اُن کے مطالبے پر معرضِ وجود میں آئی تھی۔ ۱۹۰۵ سے ۱۹۱۱ء تک تقسیمِ بنگال کی تنسیخ کے لیے کانگرس کے مسلسل اور زبردست مطالبے کے آگے حکومت نہیں جھکی، لیکن ۱۹۱۱ء میں بنگالی ہندو قوم پرستوں کی دہشت گردانہ سرگرمیوں سے پریشان ہوکر جھک گئی اور تقسیم کو منسوخ کردیا، اور پورا متحدہ بنگال بحال کردیا۔۵۳؎ ہندوؤں کے اعتراض کے باوجود حکومت نے مسلمانوں سے وعدہ کیا کہ ان کی اعلیٰ تعلیم کی خاطر ڈھاکا میں ایک یونی ورسٹی قائم کی جائے گی۔۵۴؎ تاہم وفاداروںکو پہلی مرتبہ احساس ہوگیا کہ حقوق کے حصول کے لیے آئینی طریقے ناکام ثابت ہوگئے ہیں۔ حکومت نے طاقت کے آگے گھٹنے ٹیک دینے کی ایک نظیر قائم کردی ہے۔ شبلی نے اسے ’’طمانچہ‘‘ کہا… ایسا طمانچہ جس نے مسلمانوں کا منہ پھیردیا۔۵۵؎ تقسیمِ بنگال کی تنسیخ سے مسلمانوں کے بعض حلقوں میں تحریک پیدا ہوئی کہ ہندوؤں کے ساتھ مل جُل کر رہنا چاہیے۔ اس نئے رجحان کو جانچنے کے لیے وقارالملک نے لکھا: ’’حکومت نے اپنے فیصلے سے مسلمانوں کے ساتھ ناروا بے نیازی کا سلوک کیا ہے، جس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ بعض تعلیم یافتہ مسلمانوں نے یہ کہنا شروع کردیا ہے کہ ہندوؤں سے الگ تھلگ رہنا مسلمانوںکے مفاد میں نہیں ہے۔ انھوں نے مشورہ دیا ہے کہ مسلمانوں کو انڈین نیشنل کانگرس میں شامل ہوجانا چاہیے… اور کانگرس بھی برسوں سے یہی کہتی آرہی ہے… حکومت نے مسلمانوں کو ناراض کرنے اور شکایت کرنے کا ایک جائز موقع فراہم کیا ہے، لیکن ہم اِس مشورے سے پورا پورا اختلاف رکھتے ہیں کہ ہمیں دوسری بڑی جماعت میں شامل ہوجانا چاہیے۔‘‘۵۶؎ ۱۹۱۱ء میں اٹلی نے طرابلس (لیبیا) پر حملہ کردیا۔ پوری دنیائے اسلام میں اشتعال پیدا ہوا، بالخصوص مسلم انڈیا سخت طیش میں آیا، اس لیے کہ مسلم ملک مصر پر ۱۸۸۲ء میں برطانیہ نے قبضہ جمالیا تھا، لیکن مصر اب تک سلطنتِ عثمانیہ کا حصہ خیال کیا جاتا تھا، اور اِسی بنا پر مصر کی فوج ازروئے قانون سلطان/ خلیفہ کے حکم کے تابع تھی۔ مگر برطانیہ نے اُسے مجبور کردیا کہ وہ اٹلی اور لیبیا کی جنگ میں غیر جانب دار رہے۔۵۷؎ ۱۹۱۲ء میں جنگِ بلقان میں عثمانی ترکی اپنے چند یورپی صوبوںسے ہاتھ دھوبیٹھا۔ اُسی سال روس نے مشہد پر بمباری کی، جس کے نتیجے میں ایران پر قبضہ ہوا۔ روس اور برطانیہ نے مل کر ایران میں آئینی تحریک کی حمایت کی۔ اس کے ساتھ ساتھ فرانس نے اپنے مقبوضہ مراکش پر اپنی گرفت مزید مضبوط کردی۔ مسلمانانِ ہند ۱۸۹۷ء سے حکومتِ برطانیہ سے اپنی وفاداری کے بدلے میں درخواست کرتے آرہے تھے کہ وہ سلطنتِ عثمانیہ پر یورپی طاقتوں کو حملہ آوری سے باز رکھیں۔ اس درخواست یا مطالبے پر حکومتِ برطانیہ نے ذرا بھی توجہ نہ کی اور ترکی کے خلاف اپنی پالیسی جاری رکھی۔۵۸؎ مسلمانوں کے دلوںمیں حکومتِ برطانیہ کے خلاف ایک اور رنجش علی گڑھ کالج کے مرتبے کے بارے میں تھی، جو وقت کے ساتھ ساتھ پلتی رہی۔ اُن کا مطالبہ یہ تھا کہ کالج کو بڑھا کر اِسے مسلم یونی ورسٹی کا درجہ دیا جائے۔ مجوزہ یونی ورسٹی کے لیے ۳۱لاکھ روپے کی رقم جمع کرلی گئی تھی۔ مسلمانوں کا مطالبہ یہ تھا کہ پورے ہندوستان میں پھیلے ہوئے مسلمانوں کے کالجوں اور سکولوں کا الحاق مجوزہ مسلم یونی ورسٹی کے ساتھ کردیا جائے۔ نیز یونی ورسٹی کے انتظامی امور کے انصرام میں ٹرسٹ کے بورڈ کو حتمی اختیار دیا جائے۔ یہ سب مطالبے حکومت نے مسترد کردیے۔ مجوزہ یونی ورسٹی کے نام پر کافی اختلافات اور بحث مباحثے ہوتے رہے۔ حکومت یہ چاہتی تھی کہ اسے مسلم یونی ورسٹی کہنے کی بجائے علی گڑھ یونی ورسٹی کہا جائے۔ بالآخر طویل کشمکش کے بعد حکومت جھک گئی اور ۱۹۲۰ء میں علی گڑھ کالج کو مسلم یونی ورسٹی کا چارٹر دے دیا گیا۔ تاہم انقلاب پسند، جوشیلے نوجوان لیڈروں کے مطالبات تسلیم نہیں کیے گئے، جن میں مولانا محمد علی پیش پیش تھے۔ اِن لوگوں نے علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے مقابلے میں دہلی میں جامعہ ملیہ قائم کرلی۔۵۹؎ ہندوستان سے باہر کے ملّی مسائل کے علاوہ مسلمانانِ ہند دورنِ ملک سیاسی طوفان کی وجہ سے بھی پریشان خاطر رہتے تھے۔ انھوں نے انتہائی غم گسار اور تکلیف دہ غیظ و غضب کے عالم میں جنگِ بلقان میں ترکی کی شکست کا اندوہ ناک منظر دیکھا۔ مولانا محمد علی نے انجمنِ ہلال احمر قائم کی اور ۱۹۱۲ء میں ڈاکٹر انصاری کی قیادت میں ایک طبی وفد ترکی بھیجا۔۶۰؎ رنج و غم اور کشاکش کی اِس حالت میں اگست ۱۹۱۳ء میں مسجد کان پور کا سانحہ پیش آیا۔ کان پور کے عمالِ حکومت نے مسجد کا ایک حصہ منہدم کرکے سڑک سیّدھی کردی۔ مسلمانوں کو یہ سخت ناگوار تھا، مگر پھر بھی انہدام عمل میں آگیا۔ مسلمانوں کا ایک احتجاجی جلوس مسجد پہنچا اور منہدم دیوار کی دوبارہ تعمیر کرنے لگا۔ انگریز ڈپٹی کمشنر پولیس کا جتھہ لے کر موقع پر پہنچا اور پیشگی وارننگ کے بغیر پولیس کو گولی چلانے کا حکم دے دیا۔ کئی مسلمان شہید ہوئے اور بہت سے زخمی۔ اِن میں بچے بھی شامل تھے۔ اِس واقعے سے پورے مسلم انڈیا میں احتجاج و ہیجان پیدا ہوگیا۔ مسلمانوں کا مطالبہ یہ تھا کہ مسجد اُسی طرح قائم رہے جس طرح تھی۔ حکومت نے اِس کو اپنے وقار کا معاملہ قرار دے دیا۔ مسلمانوں کا ایک وفد اس کے لیے انگلستان بھیجا گیا کہ حکومتِ برطانیہ کو مسلمانوں کا معاملہ سمجھائے۔ اس وفد میں مولانا محمد علی اور وزیر حسن شامل تھے۔ مسلمانوں کے سخت احتجاج کے بعد یہ ہوا کہ لارڈ ہارڈنگ، وائسرائے اور سر علی امام، لاممبر، کان پور آئے اور انھوں نے کسی طرح اِس تنازعے کا تصفیہ کیا۔ مسلمان اس سے مطمئن نہیں ہوئے اور اُن کو حکومت کے خلاف شکایت پیدا ہوگئی۔۶۱؎ یہ اور اس طرح کے دوسرے کھلے اور خفیہ سیاسی واقعات تھے جو مسلمانوں اور برٹش راج کے باہمی تعلقات میں کھنڈت ڈال رہے تھے۔ ہم نے اب تک صرف اُن خارجی اسباب و واقعات کی نشان دہی کی ہے جو انگریزوں اور مسلمانوں کے باہمی تعلقات پر برا اثر ڈال رہے تھے۔ ایک بڑا اندرونی سبب جو اِس پورے عرصے کے دوران تعلقات میں کشیدگی پیدا کررہا تھا، روز افزوں معاشی بے چینی تھا۔ سمتھ نے لکھا ہے: ’’مسلمان کاشت کار تقریباً ایک صدی سے، خاص طور پر وہابی نظریے کے تحت، انگریزوں اور دوسری قوموں کے خلاف بغاوت کرتے چلے آرہے تھے… جہاں تک مسلمانوں کے نئے متوسط طبقوں کا تعلق ہے، جن پر حکومت بھروسا کرتی تھی، جو تعلیم یافتہ تھے، جو منہ میں زبان رکھتے تھے، جن کو نظرانداز یا کچلا نہیں جاسکتا تھا، اُنھیں استعماری نظام میں اپنی غلامانہ حیثیت کا احساس ہونے لگا، اور وہ بھی اب اپنی بے اطمینانی کا اظہار کرنے لگے۔‘‘۶۲؎ جیسا کہ پہلے اشارہ کیا گیا، تقسیمِ بنگال کی تنسیخ سے بعض تعلیم یافتہ مسلمانوں میں ایک نیا فکری رُجحان پیدا ہوا۔ اُنھوں نے مسلم لیگ پر تنقید کی اور کھلم کھلا تجویزیں پیش کیں کہ مسلمانوں کو ہندوؤں کا ساتھ دینا چاہیے۔ سرسیّد کی روایت کو زندہ رکھتے ہوئے، وقارالملک نے اس نئے رجحان کے خلاف چند مضامین لکھے۔ شبلی نے وقارالملک کے خلاف لکھا۔ یوں مطبوعہ مضامین کی ایک زندہ جنگ چھڑ گئی، جس نے نتیجتاً مسلم لیگ کے اندر اصلاح کی خواہش اور کوشش پیدا کی۔ شبلی نے اپنے ایک مضمون ’’مسلمانوں کی پولیٹیکل کروٹ‘‘ (مطبوعہ ۱۲؍فروری۱۹۱۲ئ) میں لکھا تھا: پولیٹیکل خواب سے بیدار ہونے کا وقت آگیا ہے۔ ہم کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ جس چیز کو ہم پالیٹکس سمجھتے تھے، وہ پالیٹکس کی تحقیر تھی۔ ہماری پالیٹکس کا کعبہ دراصل بت کدہ تھا۔ ہماری پالیٹکس، جس کی آواز کلمۂ شہادت کی طرح ولادت کے دن سے ہمارے کانوں میں پڑی، صرف یہ تھی: ’’ابھی وقت نہیں آیا ہے‘‘، ’’ابھی ہم کو پالیٹکس کے قابل بننا چاہیے‘‘، ’’ابھی صرف تعلیم کی ضرورت ہے‘‘، ’’ہماری تعداد کم ہے، اس لیے نیابتی اصولِ سلطنت ہمارے موافق نہیں۔ یہ الفاظ اِس قدر دہرائے گئے کہ قوم کی رگ و پے میں سرایت کرگئے۔ ہر مسلمان بچہ ان خیالات کو ساتھ لے کر پیدا ہوتا ہے، اور زندگی کے تمام مراحل میں ساتھ رکھتا ہے۔ مسلمانوں کی عام جماعت میں جب پالیٹکس کا نام آتا ہے تو یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ اچھے سے نوجوان تعلیم یافتہ گراموفون کی طرح اِن الفاظ کو دہراتا ہے۔ دنیا میں صرف آئڈیل (مطبح نظر) ایک چیز ہے جو انسان کے جذبات اور احساسات کو برانگیختہ کرسکتی ہے۔ ہمارا آئڈیل کیا ہے؟ ہم نے کس چیز کو تاکا ہے؟ ہمارا کیا منتہائے خیال ہے؟ بی اے اور نوکریاں! کیا اِس آئڈیل سے قوم میں کسی قسم کے پرزور جذبات پیدا ہوسکتے ہیں؟ کیا اتنی سی بات کے لیے زحمتیں برداشت کی جاسکتی ہیں؟ کیا یہ مقصد کوئی بڑا ولولہ دل میں پیدا کرسکتا ہے؟ کیا اس ذوق میں فرشِ خاک پھولوں کی سیج بن سکتا ہے؟ اِس پست مقصد سے سخت نقصان یہ ہوا کہ تمام قوم کی قوم میں پست حوصلگی اور بزدلی چھا گئی۔ ہمارے پولیٹیکل لُغت نے جائز آزادی کا نام بغاوت رکھ دیا ہے… خیر، یہ فریب کاری ختم ہوچکی، غفلت کا دور گزر چکا، قوم میں ایک احساس پیدا ہوچلا ہے، اور صرف یہ متعیّن کرنا رہ گیا ہے کہ نئی زندگی کا طریقِ عمل کیا ہوگا۔ بہرحال سرسیّد نے اگر نیشنل کانگرس سے روکا تو اچھا کیا۔ کانگرس میں شریک ہونا پھر بھی تقلید تھی، جو ہمارا عار ہے۔ ہم کو خود اپنے پاؤں پر کھڑا ہوا چاہیے۔ ہم کو اپنا راستہ آپ متعین کرنا چاہیے۔ ہماری ضروریات ہندوؤں کے ساتھ مشترک بھی ہیں اور جداگانہ بھی۔ اس لیے ہم کو ایک جداگانہ پولیٹیکل اسٹیج کی ضرورت ہے۔ اس موقع پر پہنچ کر دفعتہ ہمارے سامنے ایک چیز نمودار ہوتی ہے ’’مسلم لیگ‘‘۔ یہ عجیب الخلقت کیا چیز ہے؟ کیا یہ پالیٹکس ہے؟ خدا نخواستہ نہیں۔ انٹی کانگرس ہے؟ نہیں۔ کیا ہاؤس آف لارڈز ہے؟ ہاں سوانگ تو اسی قسم کا ہے۔ مولانا شبلی نے تجویز کیا کہ مسلم لیگ کی رُکنیت صرف اونچے طبقے کے افراد تک محدود نہیں ہونی چاہیے، کیونکہ عامۃ المسلمین سے اُن کا دور کا بھی واسطہ نہیں۔ اس کی مجلسِ عاملہ سے دولت مند عنصر (جاگیرداروں) کو نکال باہر کردینا چاہیے اور اُن کی جگہ ایسے مخلص مسلمانوں کو شامل کرنا چاہیے جو اپنی رائے کا اظہار آزادانہ اور سچائی سے کرسکیں۔ مسلم لیگ کو اپنا نصب العین تحفظِ حقوق سے بڑھا کر ہندوستان کی ’’حکومتِ خود اختیاری‘‘ کا حصول بنالینا چاہیے۔ مسلم لیگ کو اپنی شاخیں دیہی علاقوں میں کھولنی چاہییں اور مسلمان کاشت کاروں کے مسائل و مشکلات پر بھی توجہ کرنی چاہیے، جن کی غربت و افلاس مسلسل بڑھ رہی ہے۔ مسلم لیگ کو چاہیے کہ حالاتِ حاضرہ پر لیکچروں کے ذریعے یا پمفلٹ تقسیم کرکے مسلمانوں میں مناسب سیاسی و قومی شعور پیدا کرے۔ مسلم لیگ کو ویسے ہندو مسلم اتحاد کے لیے کام کرنا چاہیے جیسا کہ عہدِ مغلیہ میں ہندوستان میں موجود تھا۔ مسلم لیگ کو ’’اعتدال پسندوں‘‘ کی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے، نیشنل کانگرس کی منظور کردہ تمام قراردادوں کو اپنے شیڈول میں شامل کرلینا چاہیے (ماسوا چند مخصوص قراردادوں کے)۔ جن امور و معاملات کا مشترکہ تعلق مسلمانوں اور ہندوؤں سے ہو، اُن پر مباحثہ مشترکہ پلیٹ فارم پر ہونا چاہیے۔ اسی طرح وائسرائے کے پاس جو وفود بھیجے جاتے ہیں، اُن میں دونوں قوموں کے نمایندے شامل ہونے چاہییں۔‘‘۶۴؎ شبلی کے اِن خیالات نے تعلیم یافتہ مسلمانوں میں ایک تحرک پیدا کردیا، حتیٰ کہ مسلم لیگ بھی اپنے اندر اصلاحات کی ضرورت محسوس کرنے لگی۔ تاہم شبلی کی بعض تجاویز اتنی انقلابی تھیں کہ اُن کو مسلم لیگ کے عملی پروگرام میں شامل کرنا بہت مشکل تھا۔ مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس ۱۹۱۳ء منعقدہ لکھنؤ میں، میاں سر محمد شفیع کی صدارت میں دستور میں، ہندوستان میں ’’حکومتِ خود اختیاری‘‘ کا نصب العین مشروط طور پر شامل کرلیا گیا۔ شرط یہ کہ مسلم لیگ ایسی ’’حکومتِ خود اختیاری‘‘ چاہتی ہے جو ہندوستان کے لیے ’’موزوں‘‘ ہو۔ محتاط لفظ ’’موزوں‘‘ کے اضافے سے (شبلی کو اپنی چند بہترین طنزیہ نظمیں لکھنے کی تحریک ہوئی)۶۵؎ دوہرا مقصد حاصل ہوا، یعنی ایک طرف تو مسلمانوں کے اندر باغیانہ عنصر کو تسلی دی گئی اور دوسری طرف مسلم لیگ کی اصل روح سے بھی پاسداری برتی گئی۔ ترکی کے لیے انگریزوں کے مخاصمانہ روّیے پر مسلمانوں کی مایوسی نے نئی نسل کے مسلمان رہنماؤں کو رفتہ رفتہ مجبور کردیا کہ وہ ہندوؤں سے مفاہمت پیدا کریں۔ ہندو اخبارات نے ترکوں کی حالتِ زار پر اُن کی ہمدردی میں شذرے اور مضامین شائع کیے، جن میں مسلمانوں سے بار بار اپیل کی گئی کہ وہ ہندوؤں سے تعاون کریں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ کانگرس اور لیگ کے سالانہ اجلاس بیک وقت اور ایک ہی مقام پر منعقد ہونے لگے۔ ۱۹۱۶ء میں کانگرس نے لیگ کا جداگانہ انتخاب کا مطالبہ قبول کرلیا، حالانکہ اس سے پہلے کانگرس اس پر سخت تنقید کرکے مسترد کرچکی تھی۔۶۶؎ یوں کانگرس اور مسلم لیگ نے مل کر ’’ہوم رُول‘‘ کی قرارداد منظور کی۔ اس کے ساتھ ساتھ دونوں جماعتوں کے رہنماؤں نے ’’میثاقِ لکھنؤ‘‘ پر دستخط کیے جو محمد علی جناح کی صدارت میں منظور کیا گیا۔ جناح صاحب کو اس اجلاس کی صدار ت کے لیے اس لیے منتخب کیا گیا تھا کہ وہ اپنی غیر جانب داری کی وجہ سے قومی شہرت کے مالک تھے۔ اور یوں بقول طفیل احمد ’’مسلم لیگ مولانا شبلی کے مقررہ معیار کے مطابق واقعی ایک سیاسی جماعت بن گئی۔‘‘۶۷؎ ’’میثاقِ لکھنؤ‘‘ کی رُو سے کانگرس اور لیگ کے درمیان جو معاہدہ ہوا، وہ یہ تھا کہ جداگانہ انتخابات کے ذریعے صوبائی قانون ساز اسمبلیوں میں منتخب مسلمان نمایندوں کا تناسب یہ ہوگا: پنجاب: ۵۰ فی صد یوپی: ۳۰ فی صد بنگال: ۴۰ فی صد بہار اور اُڑیسہ: ۲۵ فی صد سی پی: ۱۵ فی صد مدراس: ۱۵ فی صد بمبئی: ۳.۳۳ فی صد مرکزی اسمبلی کے لیے طے پایا کہ منتخب ارکان کی ایک تہائی تعداد مسلمانوں پر مشتمل ہوگی۔ یہ بھی طے پایا کہ اگر کسی صوبے میں کسی ایک جماعت کے ارکان کی دوتہائی تعداد کسی بل یا کارروائی یا قرارداد کی منظوری کے خلاف ہو تو پھر دونوں جماعتوں کی طرف سے یہ بل یا کارروائی یا قرارداد روک لی جائے گی۔ ڈسٹرکٹ بورڈوں، میونسپل کونسلوں اور مقامی حکومت کے دوسرے بلدیاتی اداروں میں ہندو مسلم نمایندگی کے تناسب کا مسئلہ حل کیے بغیر چھوڑ دیا گیا۔۶۸؎ مسلمان مجموعی طور پر پورے ہندوستان میں کل آبادی کا ایک تہائی سے بھی کم تھے۔ اُن کی تعداد ہر صوبے میں مختلف تھی، لیکن بنگال اور شمال مغربی ہند میں وہ اکثریت میں تھے۔ ’’میثاقِ لکھنؤ‘‘ پر دستخط کے وقت مسلمانوں کی آبادی کا تناسب یہ تھا: شمال مغربی سرحدی صوبہ کے سرکاری اضلاع (۹۱ فی صد مسلمان، ۷ فیصد ہندو) اور بلوچستان (۸۷ فی صد مسلمان اور ۱۱ فی صد ہندو)۔ یہ دونوں صوبے چیف کمشنروں کے زیرِ انتظام تھے۔ ۱۹۰۹ء کی آئینی اصلاحات اِن صوبوں میں نافذ نہیں کی گئی تھیں۔ سندھ (۷۵ فی صد مسلمان، ۱۹ فی صد ہندو) بمبئی کے ساتھ ملحق تھا (جس کی آبادی بشمول سندھ ۷۷ فی صد ہندو اور ۱۹ فی صد مسلمانوں پر مشتمل تھی)۔ پنجاب (۵۶ فی صد مسلمان، ۴۰ فی صد ہندو اور سکھ)، بنگال (۵۵ فی صد مسلمان، ۴۳ فی صد ہندو)۔ لکھنؤ پیکٹ کے وقت یہی دو مسلم اکثریتی صوبے تھے۔ باقی صوبوں میں ہندوؤں کی واضح اکثریت تھی، مدراس (۸۸ فی صد ہندو، ۶ فی صدمسلمان)، یوپی (۸۵ فی صد ہندو، ۱۴ فی صد مسلمان)، سی پی (۸۴ فی صد ہندو، ۴ فی صد مسلمان)، بہار اور اڑیسہ (۸۲ فی صد ہندو اور ۱۰ فی صد مسلمان)۔۶۹؎ ’’میثاقِ لکھنؤ‘‘ کے تحت مسلمانوں کو اپنی آبادی کے تناسب سے قدرے زیادہ نمایندگی صرف اُن صوبوں میں دی گئی، جہاں ہندوؤں کو واضح اکثریت حاصل تھی۔ پنجاب اور بنگال کے صوبوں میں مسلمانوں کو ترغیب دی گئی کہ وہ اپنی اکثریت کے نفع میں سے اقلیت کو بھی کچھ فائدہ پہنچائیں۔ یاد رہے کہ ’’میثاقِ لکھنؤ‘‘ پر دستخط کرنے والے زیادہ تر مسلم رہنما اقلیتی صوبوں سے آئے تھے۔ اُس وقت یہ احساس نہیں کیا گیا کہ ہندو اکثریتی صوبوں میں مسلمانوں کی آبادی سے قدرے زیادہ نمایندگی لینے کے عوض بنگال اور پنجاب میں مسلم اکثریت کی قربانی دے کر گویا پورے ہندوستان پر اکثریت کے تسلط کو تسلیم کرلیا گیا۔ فیصلے کی اِس غلطی نے مسلم اکثریتی صوبوں کے خوف میں اضافہ کردیا جس سے ہندوستان میں مسلمانوں کی علیحدگی پسندی کی تحریک کو تقویت ملی۔ ’’میثاقِ لکھنؤ‘‘ کس قدر غیر حقیقی تھا، اس کا اندازہ وی لووٹ کی اُن آرا سے ہوسکتا ہے جو انھوں نے ۱۹۱۷ء کے بعد ہونے والے شاہ آباد یا ارّہ کے مقامات پر ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات کے بارے میں قائم کی تھیں۔ اُس نے لکھا: فساد کوئی چالیس مربع میل کے وسیع علاقے میں شروع ہوا اور ہندو بلوائیوں کے ہاتھوں پھیلتا چلا گیا۔ انھوں نے ہر مسلمان گاؤں یا گھر پر حملہ کیا اور لُوٹا … سات اکتوبر تک شاہ آباد کے علاقے میں ۲۹ دیہات تباہ و برباد کیے جاچکے تھے… فساد اُس وقت تک جاری رہا جب تک فوج کافی تعداد میں وہاں نہیں پہنچ گئی… اُس وقت پٹنہ اور گیا کے مسلمان ایک عذاب کی حالت میں سہمے ہوئے تھے… فسادات خوب سوچ سمجھ کر، بڑی احتیاط اور مہارت سے منظم کیے گئے تھے… مسلمانوں نے کسی مقام پر بھی اشتعال انگیزی نہیں کی… بدنصیب نہتے مسلمانوں پر جو ظلم ڈھائے گئے، اُن کی داستانیں شمالی ہند کی اکثر مسجدوں میں، احتجاجی جلسوں میں دہرائی گئیں اور متاثرین کی امداد کے لیے چندے جمع کیے گئے۔ اِن جلسوں کے منتظمین وہ لوگ تھے جو بحث مباحثے کے خوف سے اب تک سیاست کے خرخشوں میں نہیں پڑے تھے۔‘‘۷۰؎ پہلی جنگِ عظیم کے آغاز کے کچھ ہی عرصہ بعد جب ترکی نے محوری طاقتوں کا ساتھ دیا تو ہندوستان کے اکثر مسلمان لیڈر، محمد علی، شوکت علی، ابوالکلام آزاد اور ظفر علی خاں نظر بند کردیے گئے اور ترکی کی حمایت کرنے والے اخبارات ضبط کرلیے گئے۔ دریں اثنا بعض علماے کرام مثلاً محمود الحسن، عبیداللہ سندھی، محمد میاں، حسین احمد مدنی، عزیز گل و غیرہم، جن کے بارے میں اطلاع ملی کہ وہ مکہ، کابل اور دوسرے مقامات سے انگریزوں کے خلاف جہادی سرکلر خفیہ طور پر پھیلارہے ہیں، انھیں حجاز کے شاہ حسین کے تعاون سے گرفتار کرلیا گیا۔ پھر ان سب کو ۱۹۱۶ء میں مالٹا میں قید کردیا گیا۔ جنگ نے پورے ہندوستان کے طول و عرض میں انقلابی تحریکوں کو پھلنے پھولنے میں، جلتی پر تیل کا کام دیا۔ انقلابی تحریکوں کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے حکومت نے ۱۹۱۹ء میں بدنام زمانہ ’’رولٹ ایکٹ‘‘ نافذ کردیا۔ اس ایکٹ کے خلاف مہاتما گاندھی نے ایک احتجاجی تحریک کا آغاز کردیا۔ مسلمان بھی دوسری قوموں اور جماعتوں کی طرح اِس احتجاجی تحریک میں شامل ہوگئے، جسے ہر مقام پر کچل دیا گیا۔ ۱۳؍اپریل ۱۹۱۹ء کو امرتسر کے جلیانوالہ باغ میں حکومت نے جو انتہائی ظلم و تشدد سے قتلِ عام کیا، وہ برٹش انڈیا کے عہدِ حکومت میں ایک سیاہ دن کی حیثیت رکھتا ہے۔۷۱؎ جنگ کے بعد مونیٹگو چمسفورڈ سکیم کا، جو گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ ۱۹۱۹ء کا حصہ تھی، باقاعدہ نفاذ ۱۹۲۱ء میں کیاگیا۔ اس سکیم کے تحت ہندوستان کے لیے نیم وفاقی قسم کا دستور متعارف کرایا گیا، جس کے تحت صوبائی اسمبلیوں میں دو عملی جاری رہی۔ مسلمانوں کے لیے جداگانہ انتخابات کا اصول برقرار رکھا گیا۔ ۱۹۱۹ء اور ۱۹۲۰ء میں مسلمانانِ ہند کی پوزیشن انتہائی مشکل اور نازک ہوگئی۔ جنگ ختم ہوگئی تھی، لیکن اس طرح کہ محوری طاقتوں کے ساتھ ترکی کو بھی شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ دورانِ جنگ برطانیہ نے ترکی کے مقبوضات کے بارے میں جو وعدے کیے تھے، اُن کو بھی پورا نہیں کیا گیا۔ ۲نومبر ۱۹۱۴ء کو آغازِ جنگ کے وقت حکومتِ ہند نے (حکومتِ برطانیہ نے نہیں) میدانِ جنگ میں ترکی کے انگلستان کا حریف ہونے پر اظہار افسوس کیا تھا۔ مسلمانانِ ہند کو یقین دلایا گیا تھا کہ جنگ محض سیاسی نوعیت کی ہے، مذہب سے اِس کا کوئی تعلق نہیں ہے، لہٰذا انگلستان مسلمانوں کے مقاماتِ مقدسہ پر، خصوصاً جو عرب، عراق اور فلسطین میں واقع ہیں، حملہ نہیں کرے گا۔ اِن یقین دہانیوں کی وجہ سے ہی ہندوستان کے مسلمان فوج میں بھرتی ہوئے، اور یوں ترکی کے خلاف انگریزی حکومت کی فوجی معاونت کے لیے تیار ہوئے۔ انگریزوں نے اپنے پختہ وعدوں اور یقین دہانیوں کے برعکس عراق پر حملہ کیا۔ نومبر ۱۹۱۴ء میں بصرہ، نومبر ۱۹۱۵ء میں سلمان پاک، مارچ ۱۹۱۷ء میں بغداد، کوفہ، کربلا اور نجف یکے بعد دیگرے انگریزوں کے قبضے میں چلے گئے۔ برطانوی افواج دسمبر ۱۹۱۷ء میں یروشلم (بیت المقدس) میں داخل ہوئیں۔ ایک سال قبل جون۱۹۱۶ء میں حجاز میں ایک سازش کی گئی تھی، جس کے تحت شاہ حسین کو ترکی کے خلاف بغاوت کرنے پر تیار کیا گیا۔ اس کے نتیجے میں حجاز میں کشت و خون ہوا۔ برطانیہ نے جدّہ پر بمباری کی حتیٰ کہ اُس کے ہوائی جہازوں نے مدینہ منورہ پر پروازیں کیں۔ جنگ کے اواخر میں برطانیہ کے وزیراعظم لائیڈ جارج نے ۵ جنوری ۱۹۱۸ء کو اعلان کیا کہ ترکوں کو اُن کے دارالحکومت قسطنطنیہ سے محروم نہیں کیا جائے گا اور نہ ایشیائے کوچک اور تھریس کی زرخیز سرزمینوں سے، کیونکہ یہاں ترکوں کی اکثریت ہے۔ تاہم عرب، آرمینیا، عراق، شام اور فلسطین کی حوصلہ افزائی کی جائے گی کہ وہ اپنے اپنے علاقوں میں اپنی اپنی جداگانہ، آزاد، خود مختار قومی حکومتیں قائم کریں، اس قسم کا ایک تائیدی بیان ۸؍جنوری ۱۹۱۸ء کو امریکا کے صدر ولسن نے بھی دیا اور انجمنِ اقوام (لیگ آف نیشنز) نے بھی اِن چھوٹی اقوام کی آزادی کے تحفظ کی حمایت کی پالیسی اختیار کی۔۷۲؎ فی الحقیقت صورتِ حال مختلف تھی۔ فاتح اتحادی طاقتوں نے پہلے ہی بے شمار خفیہ معاہدوں اور سازشوں سے سلطنتِ عثمانیہ کے عملاً حصے بخرے کردیے تھے۔ تھریس (بشمول ادرنہ) یونانیوں کو دے دیا گیا۔ برطانیہ نے قسطنطنیہ پر قبضہ جمالیا اور سلطان خلیفہ عملاً اُن کا قیدی بن کر رہ گیا۔ ایشیائے کوچک کے باقی مقبوضات کے بھی انتظامی امور و معاملات میں ترکی کو اُس کے حق سے محروم کردیا گیا۔ ترکی کو اپنی عیسائی اقلیت پر بھی فرماں روائی کا حق نہ رہا۔ خلیفۃ المسلمین کی حیثیت سے سلطان کو جو اختیارات حاصل تھے، وہ سلب کرلیے گئے۔ شام فرانس کو دے دیا گیا۔ عراق اور فلسطین انگریزوں نے اپنے پاس رکھ لیے۔ مسلمانانِ ہند نے جنگ جیتنے کے لیے انگریزوں کی خاطر اپنی جانیں قربان کی تھیں۔ اپنے مذہبی احکام کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اپنے ہم مذہب بھائیوں کے خلاف جنگ کی تھی۔ اب انھوں نے جنگ کے بعد اِس لین دین، سودا بازی اور سازشوں کے واقعات دیکھے تو اُنھیں صرف مایوسی ہی نہیں ہوئی، بلکہ شدت سے محسوس ہوا کہ اُن کے ساتھ دھوکا ہوا ہے۔ اُنھیں برطانیہ سے توقع یہ تھی کہ وہ ہارے ہوئے ترکی کے ساتھ بڑائی سے پیش آئے گا۔ چنانچہ اُمتِ مسلمہ کو جن مشکلات و مصائب کا سامنا تھا، اُن سب کے لیے اُنھوں نے برطانیہ کو ذمہ دار قرار دیا، اور ذرا بھی محسوس نہ کیا کہ وہ ان اجتماعی آفتوں کے خود بھی برابر کے ذمہ دار ہیں۔ ۱۹۱۹ء میں اپنی رہائی کے بعد مولانا محمد علی نے دہلی میں خلافت کانفرنس منعقد کی۔ چند ہندو لیڈر بھی، جن کو ترکوں سے ہمدردی تھی اور جن میں مہاتما گاندھی بھی شامل تھے، اِس کانفرنس میں شریک ہوئے۔ قرارداد منظور کی گئی کہ سلطنتِ عثمانیہ کی تقسیم، خلیفۃ المسلمین کی حیثیت سے سلطان کے اختیارات کی تخفیف اور مقاماتِ مقدسہ پر غیر مسلم طاقتوں کے تسلط کے خلاف مسلمان احتجاجی جلسے منعقد کریں۔ نیز یہ کہ مسلمان حکومت کے ساتھ تعاون نہ کریں اور برطانوی اشیا کا بائیکاٹ کریں۔۷۳؎ خلافت کانفرنس کا پہلا باقاعدہ اجلاس دسمبر ۱۹۱۹ء میں امرتسر کے مقام پر ہوا، جس میں مسلمانوں اور ہندوؤں نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ طے پایا کہ خلافت فنڈ کے لیے دس لاکھ روپے جمع کیے جائیں اور ایک وفد خلافتِ عثمانیہ کے استقرار و استحکام کے بارے میں مسلمانوں کے مطالبات (ہندوؤں کی حمایت کے ساتھ) پیش کرنے کے لیے برطانیہ بھیجا جائے۔ بعض مسلمان رہنماؤں نے، جن میں علامہ اقبال بھی شامل تھے، وفد بھیجنے کی مخالفت کی۔ اُن کی دلیل یہ تھی کہ اگر مسلم انڈیا کے مطالبات کے مطابق خلافتِ عثمانیہ بحال کر بھی دی جائے تو وہ بہرحال انگلستان یا دوسری یورپی طاقتوں کی حکمرانی کے زیرِ اطاعت ہوگی۔ ایسی خلافت کا مسلمانوں کو کیا فائدہ۔ لیکن اس کمزور اختلافی آواز کو کوئی اہمیت نہ دی گئی۔۷۴؎ خلافت کانفرنس جاری تھی کہ جمعیت العلماے ہند وجود میں آئی اور علماے ہند جو ۱۸۵۷ء سے اب تک سیاست سے خود کو بالاتر سمجھتے آئے تھے، انھوں نے پہلی مرتبہ ملک کی سیاسی زندگی میں عملی حصہ لینا شروع کیا۔ اُس وقت جمعیت العلما کی سرگرمیاں بالکل وہی تھیں جو خلافت کانفرنس کی تھیں۔ خلافت کانفرنس جو فیصلے کرتی تھی، اُن کو مذہبی منظوری جمعیت العلما دیتی تھی۔۷۵؎ مارچ ۱۹۲۰ء میں مولانا محمد علی کی قیادت میں خلافت وفد انگلستان گیا۔ وفد میں سیّد سلیمان ندوی، سیّد حسن اور محمد حیات شامل تھے۔ مسلم انڈیا کے مطابات برطانیہ کے وزیراعظم کو پیش کیے گئے۔ مطالبات یہ تھے: چونکہ اسلام میں ’’روحانی‘‘ اور ’’دنیاوی‘‘ میں امتیاز نہیں کیا جاتا، لہٰذا عثمانی سلطان خلیفہ کی حکومت میں کافی علاقے اور کافی معاشی و عسکری وسائل اسلام کے دفاع کے لیے ہونے چاہییں۔ پس جزیرۃ العرب (یعنی جزیرہ نمائے عرب بشمول عراق و اردن، فلسطین اور شام) اُس کے اختیار و انتظام میں ہونا چاہیے۔ یہ وفد پیرس بھی گیا، جہاں مولانا محمد علی نے چند جلسوں سے بھی خطاب کیا۔۷۶؎ انھیں کوئی کامیابی حاصل نہ ہوسکی اور وہ خالی ہاتھ واپس ہندوستان آگئے۔ عجیب اور دلچسپ بات یہ ہے کہ ہندوستانی ’’خلافتیوں‘‘ کے مطالبات عربوں اور ترکوں کی آرا سے کوئی مطابقت، موافقت اور ہم آہنگی نہ رکھتے تھے۔ ہندوستانی رہنما ترکی کے عرب صوبوں کے دوبارہ الحاق پر زور دیتے تھے تاکہ سلطنتِ عثمانیہ کا کم از کم ایک حصہ قائم و برقرار رہے، جبکہ اس کے برعکس عرب ایک آزاد اور خود مختار پان عرب ریاست قائم کرنے کے آرزو مند تھے۔ وہ اس کے لیے بالکل تیار نہ تھے کہ ترک اُن پر دوبارہ حکومت کریں۔ ترک چونکہ عربوں کی خواہشات سے آگاہ تھے، اس لیے وہ عرب صوبے دوبارہ لینے کے لیے متمنی نہ تھے۔ وہ تو صرف یہ چاہتے تھے کہ ترکی تقسیم نہ ہو۔ مئی ۱۹۲۰ء میں سلطان خلیفہ نے قسطنطنیہ میں انقرہ کی نیشنل اسمبلی کی مرضی کے خلاف صلح نامہ سیورے پر دستخط کردیے (جس میں تقسیم ترکی کی شرط موجود تھی)۔ خلافت کانفرنس نے صلح نامہ سیورے کے خلاف احتجاجی جلسہ منعقد کیا۔ مولانا ابوالکلام آزاد نے، جو حال ہی میں جیل سے رہا ہوکر آئے تھے، کلکتہ کے ایک بڑے جلسۂ عام سے خطاب کیا اور عدم تعاون کے بارے میں اپنی مشہور قانونی تشریح بیان کی۔ جمعیت العلما نے مولانا آزاد کی تائید کی۔ پانچ سو علما نے مولانا محمود الحسن کی قیادت میں (جو مالٹا کی اسیری سے رہائی کے بعد ہندوستان پہنچے تھے، ایک فتویٰ جاری کیا، جس کی رو سے برٹش راج سے عدم تعاون ہر مسلمان کا مذہبی فریضہ قرار دیا گیا۔ کہا گیا کہ مسلمان اپنے تمام سرکاری خطابات سے دست بردار ہوجائیں، کونسلوں کی رُکنیت اور سرکاری ملازمت، آرمی اور پولیس کی نوکری سے مستعفی ہوجائیں۔ کہا گیا کہ مسلمان عدالتوں، تعلیمی اداروں اور برطانوی مصنوعات، بالخصوص ٹیکسٹائل کا مکمل بائیکاٹ کریں۔۷۷؎ جب خلافت کی احتجاجی تحریک زور پکڑ رہی تھی، مہاتما گاندھی نے، جن کا جلیانوالا باغ کے قتلِ عام میں سرگرم حصہ لینے کے باعث کانگرس پر خاصا اثر تھا اور جن کی خلافت کانفرنس کے جلسوں میں شریک ہوکر خلافتِ عثمانیہ کی تائید کرنے کے باعث مسلمانوں میں خاصی نیک نامی ہوگئی تھی، اپنی عدم تشدد اور عدم تعاون کی اسکیم پیش کردی۔ اِس سکیم میں مسلمانوں کو ہندوؤں کے ساتھ شریک ہونے کی دعوت دی گئی، تاکہ برطانیہ کو صلح نامہ ترکی پر نظرثانی کے لیے مجبور کیا جاسکے اور ہندوستان کے لیے حکومت خود اختیاری کا مطالبہ منوایا جاسکے۔ مہاتما گاندھی کی یہ اسکیم مولانا آزاد اور جمعیت العلما کی اسکیم کے عین مطابق تھی۔ چنانچہ خلافتی علما نے فتویٰ دے دیا کہ دنیاوی اغراض و مقاصد کے حصول میں غیر مسلموں کے کندھوں کے ساتھ کندھا ملاکر جدوجہد کرنے سے اسلام کی طرف سے کوئی پابندی نہیں ہے۔ انھوں نے مصر میں قوم پرستوں کی سرگرمیوں کی مثال پیش کی، جہاں مسلمان اور قبطی (عیسائی) مصر کی آزادی کے مسئلے پر متحد ہیں۔ فلسطین کی بھی مثال دی گئی، جہاں مسلمانوں اور عیسائیوں نے مل کر آزادی کی جنگ لڑی اور مشترکہ طور پر ’’اعلانِ بالفور‘‘ کی مخالفت کی، جس کی رو سے فلسطین کو یہودیوں کا قومی وطن بنانا مقصود تھا۔۷۸؎ یہ سب باتیں دُرست، لیکن انھوں نے یہ خیال نہیں کیا کہ مصر اور فلسطین میں مسلمانوں کی اکثریت ہے۔ عیسائی اقلیت ’’اہلِکتاب‘‘ تھی، جن کے ساتھ معاشرتی میل جول (مل کر کھانا اور شادی بیاہ کرنا) اسلام نے ممنوع قرار نہیں دیا، اور نہ دونوں قوموں میں کسی اور طرح کی سماجی یا رواجی قدغن تھی۔ اگر قومی مقصد کی خاطر عیسائی مسلمانوں کے ساتھ شریک ہوگئے تو مصر اور فلسطین میں قوم پرستی کی تحریک اسلام سے پوری طرح ہم آہنگ تھی۔ لیکن ہندوستان میں صورتِ حال بالکل مختلف تھی۔ معدودے چند رہنماؤں مثلاً علامہ محمد اقبال اور محمد علی جناح کی مخالفت کے باوجود مسلمان تحریک عدم تعاون کے تیز دھارے کے بہاؤ کی لپیٹ میں آگئے۔ جناح صاحب جو پہلے تحریکِ خلافت کے حامی تو تھے، لیکن اب تحریکِ عدم تعاون کے مخالف تھے، محض اِس لیے کہ یہ نئی تحریک آئینی تحریک نہیں تھی۔ اقبال تحریکِ خلافت کے صرف اس حد تک حامی تھے کہ اس کی وجہ سے مسلمانانِ ہند میں مسلم قوم پرستی کا جذبہ پرورش پاتا ہے، لیکن وہ بھی تحریک عدم تعاون میں مسلمانوں کی شرکت کے خلاف تھے۔ انھوں نے اسلامیہ کالج لاہور اور اسلامیہ کالج پشاور کو ایسے تعلیمی اداروں کی صورت میں بدل دینے کی کوششوں کی مزاحمت کی، جہاں گاندھی جی کی تعلیمات کی ترویج ہو۔۷۹؎ گاندھی جی، محمد علی، شوکت علی اور دوسرے نمایاں رہنماؤں نے پورے ملک کا دورہ کیا۔ یہ قوم پرستانہ تحریکِ خلافت بھی عجیب و غریب تحریک تھی۔ بیک وقت رومانی، ژولیدہ، غیر عقلی اور غیر منظم اور بے ڈھنگی، تحریک سے وابستہ رہنماؤں میں سے شاید ہی کسی کے سامنے واضح تصویر ہو کہ وہ کیا چاہتے ہیں اور کس کے خلاف کس مقصد سے جنگ لڑرہے ہیں۔ سب کو صرف اتنا معلوم تھا کہ وہ حکومت برطانیہ کے خلاف لڑ رہے ہیں۔ لیکن اگر برطانیہ ہندوستان سے نکل جائے تو کیا ہوگا؟ کسی مسلم رہنما کے پاس اِس سوال کا واضح جواب نہیں تھا۔ انھوں نے اِس مسئلے کے بارے میں کبھی سوچا ہی نہ تھا۔ ہندو مسلم اتحاد کی اندرونی کہانی اتنی دلچسپ نہ تھی، جتنی بظاہر نظر آتی تھی۔ بلاشبہ ہندو رہنماؤں نے خلافت تحریک کی حمایت کی تھی، لیکن ظاہر ہے کہ اُنھیں اس مسئلے سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔ لالہ لاجپت رائے، بی سی پال اور دوسرے ہندو مہاسبھائی لیڈروں نے اِس خالص اسلامی تحریک کے ارتقا کو ابتداہی سے شک کی نظر سے دیکھا تھا اور ہندوستانی قوم پرستی کے مستقبل کے لیے خطرناک قرار دیا تھا۔ بی سی پال نے لکھا تھا: ’’پان اسلامزم کا یہ پرجوش ابال انتہائی نازک پیچیدگیاں اپنے اندر رکھتا ہے جو ہندوستانی قوم پرستی اور برطانوی قوم پرستی دونوں کے مستقبل پر مساوی طور پر اثر انداز ہوں گی… ہندوستانی قوم پرستی اور اِس کے برطانوی تعلق کے درمیان مفاہمت اور مکمل آہنگی پیدا کرنے میں جتنی تاخیر ہوگی، اُتنا ہی اس بات کا زیادہ امکان ہے کہ یہ پان اسلامیت (اتحاد اسلامی) کی تحریک اپنے علیحدگی پسندانہ مقاصد حاصل کرلے گی۔ اتحادِ اسلامی کے ناگزیر منطقی نتیجے کو سامنے رکھا جائے تو ہمارے پان اسلامی دوستوں کے دلوں میں ہندوستان کی سیاسی آزادی کے لیے جو یہ نئی محبت یکایک پیدا ہوگئی ہے، اُس کے بارے میں شبہ ضرور پیدا ہوتا ہے کہ کیوں۔ دراصل یہ پورا پروپیگنڈا اپنے اندر ایک زبردست قابلِ تشریح شرانگیزی رکھتا ہے۔‘‘۸۰؎ مولانا محمد علی نے اپنے ایک بیان میں مسلمانوں کی پوزیشن واضح کردی تھی۔ انھوں نے کہا تھا: ’’لالہ جی (لاجپت رائے) اور پان اسلام کے کٹر دشمن بپن چندرلال کی طرح کے حضرات کو یہ شرائط بے شک منظور نہ ہوں، اور بہت سے دوسرے ہندو دستوں کو بھی یہ شرائط عجیب سی لگتی ہوں، جس طرح کہ مسلمانوں اور عیسائیوں اور دوسروں کو، جن کا تصور مذہب عالمی مذہب کا تصور ہے، یہ تصور عجیب سا لگتا ہے کہ ہندوستان کے رہنے والوں کا مذہب ہندومت ہے۔ لیکن ہمیں حقیقت کو اُسی طرح دیکھنا چاہیے، جیسی کہ وہ ہے۔ ہندوستانی قومیت کی تشکیل میںمسلمانوں کا تعاون اُنھی شرائط پر ہوگا جو ہم بیان کرچکے ہیں… اس لیے کہ ہمارے گمراہ نکتہ چین ’’پان اسلامزم‘‘ کے بارے میں خواہ کچھ بھی کہیں، یہ اسلام کے سوا کچھ بھی نہیں، نہ کم نہ زیادہ… لالہ جی کے نزدیک نظم و نسق میں یا صنف و حرفت کی ترقی اور دوسرے معاملات میں ہندوئوں کا بیشتر حصہ ’’سوراج‘‘ (آزادی) کہلاتا ہے، لیکن ہمارے خیال میں ہندوئوں، بلکہ مسلمانوں کے نزدیک بھی ، سوراج اگر سوادھرم (مذہبی آزادی) نہیں تو کچھ نہیں۔ بہرکیف جمعیت العلما نے ایک فتویٰ جاری کیا کہ اگر ترکی کے صلح نامے کی شرائط پر مسلمانوں کی خواہشات کے خلاف عمل درآمد کیا گیا تو ہندوستان دارالحرب بن جائے گا اور مسلمانوں پر ہجرت واجب ہوجائے گی۔ ۱۹۲۰ء کی گرمیوں میں مسلمانوں کو معلوم ہوا کہ ہندوستان سے افغانستان (دارالاسلام) ہجرت کرنے کا وقت آگیا ہے، کیونکہ اتحادی طاقتیں ترکی پر صلح نامہ سیورے کی شرائط تھوپ رہی ہیں۔۸۲؎ چنانچہ سندھ، سرحد اور پنجاب کے غریب مسلم کسانوں نے اپنا سامان و اسباب فروخت کیا اور افغانستان پہنچے۔ رش بروک ولیمز لکھتا ہے: ’’سینکڑوں خاندانوں نے اپنی زمین اور جائیدادیں محض ایک ترانے کی خاطر بیچ دیں۔ اپنے معاملات طے کیے۔ بیوی بچوں کو گاڑیوں پر لادا، سرکار نے جو رائفلیں اُنھیں ڈاکوؤں اور لٹیروں کی لوٹ مار سے بچنے کے لیے دے رکھی تھیں، وہ سرکار کو واپس لوٹائیں اور درۂ خیبر کی سمت چل پڑے۔ اٹھارہ ہزار مہاجرین اس راہ پر گامزن ہوئے۔ وہ پُرامن تھے اور ترتیب و تنظیم میں تھے۔ کسی کے خلاف غصہ نہ عناد۔ لفظ ’’ہجرت‘‘ یعنی مذہبی وجوہ سے ایک ملک سے دوسرے ملک چلے جانا تاریخ اسلام میں خاصی اہمیت رکھتا ہے، لیکن اُس سال ہجرت کی تجدید سیاسیات کے طالب علم کے لیے ایک عجیب اور تکلیف دہ چیستان ہے۔‘‘۸۳؎ خلافتیوں کا کہنا تھا کہ تحریکِ ہجرت بہت کامیاب رہی، لیکن حقیقت مختلف تھی۔ علما کے فتوے نے شمال مغربی ہندوستان میں تو قیامت ڈھادی۔ ہجرت کرنے والوں کی کل تعداد پانچ لاکھ اور بیس لاکھ کے درمیان بتائی جاتی ہے۔۸۴؎ غریب و نادار اور مفلوک الحال لاکھوں مسلمان جڑ سے اکھاڑ کر تباہی و بربادی کے گڑھوں میں پھینک دیے گئے۔ افغانستان، جو پہلے ہی ایک بنجر ملک تھا، ہندوستان سے آئے ہوئے اِن مہاجرین کی کفالت نہیں کرسکتا تھا۔ چنانچہ افغان حکام نے اپنے ملک میں اُن کا داخلہ ممنوع قرار دے دیا۔ اُنھیں اپنے اپنے گھر واپس جانے پر مجبور کردیا گیا۔ ہر شخص نے جو تکالیف برداشت کیں، وہ انتہائی افسوس ناک اور ناقابلِ بیان ہیں۔ رش بروک ولیمز کے الفاظ میں: ’’پشاور سے کابل تک، سڑک بوڑھوں، عورتوں اور بچوں کی قبروں سے اٹی پڑی تھی، جو سفرِ ہجرت کی تکلیفیں برداشت نہ کرسکنے کے سبب اللہ کو پیارے ہوئے۔ پریشان حال مہاجر جب واپس پہنچے تو بے گھر تھے۔ کوڑی کوڑی کے محتاج تھے۔ اُن کی جائیدادیں اُن لوگوں کی ملکیت میں تھیں جن کو وہ مذہبی جوش کے پہلے ابال میں فروخت کرگئے تھے۔‘‘۸۵؎ ترکی سے جذبۂ ہمدردی کا تشدد آمیز اظہار موپلوں نے ۱۹۲۱ء میں بغاوت کے ذریعے کیا (موپلے عربوں اور ہندوستان کی مخلوط نسل کے مسلمان ہیں)۔ انھوں نے چند ہفتوں کے اندر اندر جنوبی مالا بار (مدراس پریذیڈنسی) کے دو تعلقوں پر قبضہ کرلیا۔ وہاں اسلامی ریاست قائم کی اور ایک سال تک انگریزی فوج کا بے جگری سے مقابلہ کیا جو اُن کو مطیع کرنے کے لیے بھیجی جاتی رہی۔ موپلے کاشت کار لوگ تھے۔ تیس لاکھ کی کل آبادی میں وہ دس لاکھ تھے۔ باقی بیس لاکھ ہندو تھے۔ مالابار کے علاقے میں زمین دار زیادہ تر ہندو تھے۔ موپلے اُن کے کاشت کار تھے۔ زرعی معاملات میں عدم تعاون اور اضطراب کی وجہ سے ماضی میں بھی موپلے احتجاج کرتے رہے تھے۔ ۱۹۲۱ء میں موپلے اپنے ہندومالکان کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوئے، جنھوں نے ظاہر ہے، اپنے مفادات کی وجہ سے اُن کی بغاوت میں شامل ہونے سے انکار کردیا تھا۔ ہندوؤں کو موپلوں کے ہاتھوں بہت نقصان اُٹھانا پڑا۔ اس ضمن میں جو رپورٹ پارلیمنٹ میں پیش کی گئی، اُس کا ایک اقتباس: ’’قتلِ عام، جبریہ تبدیلیِ مذہب، مندروں کا انہدام، عورتوں کی بے حُرمتی، لوٹ مار، غارت گری… مختصر یہ کہ ظالمانہ اور بے لگام بربریت کے تمام حربے آزمائے گئے جو اُس وقت تک جاری رہے جب تک مسلح افواج نے آکر ملک کے اِس دشوار گزار اور وسیع علاقے میں امن و امان قائم نہ کردیا۔ دریں صورتِ احوال، خلافتی دوست موپلوں کی حوصلہ افزائی کے لیے، دین کی خاطر اُن کی شاندار خدمات پر، مبارکباد کی قراردادیں منظور کررہے تھے۔ مہاتما گاندھی اُنھیں ’’خوفِ خدا رکھنے والے موپلے‘‘ کہتے تھے جو دین کی خاطر دین کے بتلائے ہوئے طریقوں پر عمل کررہے تھے۔۸۷؎ مولانا محمد علی کی رائے میں ’’موپلوں کی بغاوت زرعی مسائل کی وجہ سے بھی ہوسکتی ہے اور حکومت کی ناروا اشتعال انگیزیوں کی وجہ سے بھی۔‘‘۸۸؎ بالآخر موپلوں کا حشر مہاجرین سے بھی برا ہوا۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق دس ہزار موپلے یا تو فاقوں کی تاب نہ لاکر پہاڑوں میں بے کسی کی موت مرگئے یا اُنھیں گولیوں سے چھلنی کردیا گیا۔‘‘۸۹؎ ایک سو موپلے انگریز سارجنٹ کی ایک گاڑی میں دم گھُٹنے سے ہلاک ہوگئے۔۹۰؎ ہزاروں موپلوں کو یا تو لمبی سزائے قید دی گئی یا تاحیات جزائر انڈیمان میں قید کردیا گیا۔۹۱؎ مسلمانوں کے سیاسی ماحول کا یہ حال تھا کہ جمعیت العلماے ہند نے نومبر ۱۹۲۱ء میں مولانا ابوالکلام آزاد کی صدارت میں جلسہ منعقد کیا۔ ایک قرارداد کے ذریعے مسلمانوں کو پولیس اور فوج میں بھرتی ہونے سے منع کردیا گیا۔ اس پر مولانا آزاد کو گرفتار کرلیا گیا۔ چند روز کے بعد محمد علی، شوکت علی، مولانا حسین احمد مدنی، ڈاکٹر سیف الدین کچلو، پیر غلام مجدّد ، مولانا ناصر احمد اور بھارتی کرشنا ترتھاجی کو بھی جیل بھیج دیا، جو اب تک صرف نظر بند تھے۔ اُن سب پر فوج کو ملک کی وفاداری سے روکنے کا جرم عائد کیا گیا۔ مولانا محمد علی نے اپنی صفائی میں فرمایا: ’’بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا ملکہ برطانیہ کا اعلان دینِ اسلام کو تحفظ دیتا ہے یا نہیں؟ میرا پورا استدلال یہ ہے کہ اگر ہم مسلمان سپاہی سے یہ کہتے ہیں کہ وہ برٹش آرمی کی ملازمت ترک کردے اور بھرتی ہونے سے انکار کردے اور اگر ہم لوگوں سے کہیں کہ وہ فوج میں بھرتی نہ ہوں، اور ہم یہ بات پھر دہراتے ہیں اور ثابت کرتے ہیں کہ جو کچھ ہم کہہ رہے ہیں؟ وہ قرآن مجید کے احکام کے عین مطابق ہے، پھر تو ہم بے قصور ہیں… میں پھر کہتا ہوں کہ کسی مسلمان کو برٹش آرمی میں ملازمت نہیں کرنی چاہیے، کیونکہ اس ملازمت میں مسلمان کو اپنے مسلمان بھائیوں کو قتل کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ یہ میں نے پہلے بھی کہا تھا اور اب پھر کہتا ہوں کہ یہ ہمارے مذہب میں ممنوع اور ناجائز ہے۔‘‘۹۲؎ محمد علی اور شوکت علی کو دو دو سال کی سزائے قید دی گئی۔ صلح نامہ سیورے کے خلاف احتجاج جاری رہا، جو اُس وقت اپنے عروج کو پہنچ گیا جب ترک قوم پرستوں نے ایشیاے کوچک میں یونانیوں کوشکست سے دوچار کیا اور یونانیوں اور ترکوں کی ایک کانفرنس ۱۹۲۲ء میں پیرس میں منعقد ہوئی۔ ہجرت کی تحریک میں ہزاروں مسلمانوں پر جو آفتیں گزریں، جس طرح موپلوں پر انگریزوں نے مظالم ڈھائے اور اُن پر تباہی ٹوٹی، اِن سب واقعات پر مستزاد یہ کہ ہزاروں مسلمانوں نے کونسلوں کی رُکنیت اور سرکاری ملازمت سے استعفیٰ دے دیا۔ تعلیمی ادارے سنسان ہوگئے اور انگلستان کے کپڑے کا بائیکاٹ کردیا گیا۔ مسلمانانِ ہند تو اپنی جگہ اتحادِ اسلامی کے نصب العین کے لیے زبردست اور پُرجوش جدوجہد کررہے تھے، دوسری طرف اتحادِ اسلامی کی عالمگیرتحریک ’’پان اسلامزم‘‘ جو دنیائے اسلام کے اکثر ممالک میں جاری تھی، اُس کی جگہ قومی آزادی کی تحریکوں نے لے لی۔ ۱۹۱۸ء کے بعد ولندیزی شرق الہند، مراکش، طرابلس، مصر، فلسطین، شام، عراق، عرب، افغانستان، ایران اور حتیٰ کہ ترکی میں بھی بجائے عثمانی سلطان خلیفہ کے تحت اسلامی ملکوں کی یونین بنانے کے، علاقائی قومیت یا اپنے اپنے علاقے میں ’’قومی ریاستوں‘‘ کی تشکیل پر خاص زور دیا جانے لگا۔ جداگانہ قومیت پر زور (مثلاً مصری قوم پرستوں کا یہ نعرہ: ’’مصر، مصریوں کا ہے‘‘) نتیجہ تھا، خاص خاص مسلم ممالک پر غیرملکی تسلّط کا۔ افغانستان نے برطانوی ہند پر ۱۹۱۹ء میں حملہ کیا، جس کے نتیجے میں وہ اپنے امورِ خارجہ کا کنٹرول حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ اس کے بعد افغانستان میں قومی نوعیت کی بے شمار سیاسی اصلاحات ہوتی رہیں۔ ایران میں بھی ۱۹۱۸ء کے بعد برطانیہ اور رُوس کی گرفت کسی قدر ڈھیلی پڑگئی۔ ایران کو رضا خان پہلوی کی قیادت میں ایک اور انقلاب سے گزرنا پڑا۔ رضاخان نے حکمران شاہی خاندان کو برطرف کیا اور ایران کو ایک جمہوریہ بنانے کا سوچا۔ لیکن وہ اپنی اِس سوچ کو پوری طرح عملی جامہ نہ پہناسکا، اس لیے کہ شیعہ علما کی مخالفت کا سامنا تھا۔ اُس نے ایران میں سیکولرازم کو راہ دینے کے لیے ایک نیا طریقہ ایجاد کیا۔ مذہبی امور تو پارلیمنٹ میں مجتہدین کے سپرد کردیے اور خود شاہ بن گیا، دنیاوی اُمور کا صدرِ مملکت۔ عرب میں حجاز کے شاہ حسین نے اپنے حریف ابن سعود کے ہاتھوں شکست کھائی، اب حجاز کا بادشاہ بھی ابن سعود تھا۔ حسین نے برطانیہ کی آغوش میں پناہ لی۔ برطانیہ نے ابن سعود کو بادشاہ تسلیم کیا اور حسین اور اُس کی آل اولاد کے لیے، جوڑ توڑ کرکے، شرق اردن کی چھوٹی سی ریاست تخلیق کرلی۔ حسین کے خاندان کی ایک اور شاخ کو عراق کا حاکم بنادیا۔ اس کے بدلے میں برطانیہ نے عراق کے تیل کے ذخائر کے استحصال و استعمال کے حقوق حاصل کرلیے۔ ترکی میں جدوجہد بالکل مختلف نوعیت کی تھی۔ سلطان خلیفہ نے صلح نامہ سیورے کی شرائط تسلیم کرلی تھیں۔ صلح نامہ یا معاہدۂ سیورے کی شرائط یہ تھیں: ۱- سلطان اتحادیوں کی حمایت کے ساتھ قسطنطنیہ میں حکومت کرے گا۔ ۲- اتحادیوں کو یہ حق ہوگا کہ آبناؤں پر قبضہ کرلیں اور یہ بھی کہ ایشیائی ترکیہ کے کسی حصے پر قابض ہوجائیں۔ ۳- آرمینیا کی ایک نئی ریاست قائم کی جائے گی جس میں مندرجہ ذیل صوبے شامل ہوں گے: مشرقی اناطولیہ، ارض روم، داں، بتلس، ترایزون، ارزنجان اس ریاست کی حدود امریکا کی مدد سے قائم کی جائیں گی۔ ۴- ترکی عرب کے متعلق اپنے تمام دعووں سے دست بردار ہوجائے گا۔ ۵- شام کی حکمرانی فرانس کو، عراق اور اُردن کی برطانیہ کو دی جائے گی۔ عدلیہ اٹلی کو، سمرنا اور مغربی اناطولیہ یونان کو۔ لیکن قوم پرستوں نے سلطان خلیفہ کے اس اقدام کے خلاف، عربوں کی طرح، ترکی کو تقسیم ہونے سے بچانے کے لیے اور اپنی نئی قومی زندگی کے لیے سخت جدوجہد کی۔ قوم پرستوں نے ایشیائے کوچک میں اپنی ایک تنظیم بنائی اور مصطفی کمال پاشا کی قیادت میں ۱۹۱۹ء میں یونان اور انگلستان کے خلاف ازسر نو جنگ چھیڑ دی۔ لیکن سلطان خلیفہ نے اتحادیوں کا ساتھ دیا اور قوم پرستوں کو کچلنے کے لیے مسلح فوجیں روانہ کیں۔ شیخ الاسلام نے بھی ایک فتویٰ جاری کردیا کہ جو قوم پرست ترکی کی آزادی اور اتحاد کے لیے کوششیں کررہے ہیں، وہ اسلام کے دشمن ہیں۔ قوم پرستوں نے ایشیائے کوچک میں سلطان کی فوجوں اور یونانیوں کو شکست دینے کے بعد اپنی توجہ اپنے اصل دشمن برطانیہ کی طرف مبذول کی جو قسطنطنیہ میں بیٹھا تھا۔ برطانیہ نے فوراً ایک امن کانفرنس لوزین کے مقام پر بلائی۔ اُس میں شرکت کے لیے قومی اسمبلی اور سلطان خلیفہ دونوں کے نمایندوں کو مدعو کیا۔ امن کانفرنس کے نتیجے میں ۱۹۲۲ء میں اسمبلی نے ایک قانون سلطانیت کی تنسیخ کے لیے منظور کیا۔ قوم پرستوں نے قسطنطنیہ پر قبضہ کرلیا اور سابق سلطان نے انگریزوں کے ایک بحری جہاز میں پناہ لی۔ اُس کے فرزند عبدالمجید کو خلیفہ بنایا گیا۔ اب نیا معما یہ پیدا ہوا کہ سلطانیت کی تنسیخ سے خلافت (جو ہمیشہ سے ایک ’’دنیاوی‘‘ منصب سمجھا جاتا رہا تھا) گھٹ کر محض ایک ’’روحانی ادارہ‘‘ رہ گئی۔ لہٰذا مسلم انڈیا سمیت مسلم ممالک کے علما نے اِس انتظام پر اختلافِ رائے کا اظہار کیا لیکن ترکی میں مسجدوں کے اماموں اور واعظین کو سخت تاکید کی گئی کہ وہ اپنے وعظ و خطبے میں ترکی کی معاشی اصلاح و ترقی کے سوا کسی اور موضوع پر بات نہ کریں۔ ۱۹۲۳ء میں ترکی کو اسمبلی نے جمہوریہ قرار دیا۔ مصطفی کمال کو جمہوریہ کا صدر منتخب کیا گیا۔ لیکن اب بھی خلیفہ کے منصب کے اختیارات و حدود غیر واضح رہے۔ ۱۹۲۴ء میں برسراقتدار پارٹی یعنی ’’پیپلز پارٹی‘‘ نے خلافت اور شیخ الاسلام کا منصب منسوخ کیا۔ سابق خلیفہ، سابق شیخ الاسلام اور عثمانی خاندان کے افراد کو ترکی سے جلاوطن کردیا گیا۔ ۱۹۲۴ء کے بعد ترکی کی قومی تحریک مصطفی کمال کی قیادت میں حیرت انگیز رفتار سے بڑھی۔ اسلام پر سیکولرازم غالب آگیا جو ترکی قوم کا نیا نظریہ قرار پایا۔ قومی ترقی کی راہ میں جتنی رکاوٹیں حائل تھیں، اُن کو دور کیا گیا اور ترکوں کی زندگی کے تمام شعبوں میں انقلابی تبدیلیاں لائی گئیں۔ مسلمانانِ ہند نے مصطفی کمال اور اُس کے ساتھیوں کی صدق دل سے تائید و حمایت کی، لیکن علما اور سیاسی لیڈروں نے اپنی ناواقفیت اور کم علمی کی وجہ سے صورتِ حال کا صحیح اندازہ نہیں کیا۔ اُن کا خیال تھا کہ قوم پرست قسطنطنیہ میں اتحادیوں کی قید سے سلطان خلیفہ کو رہائی دلوانے کی خاطر جنگ لڑرہے ہیں۔ چنانچہ مسلم انڈیا نے غازی مصطفی کمال اور سلطان خلیفہ کی شان میں تعریفوں کے پل باندھ دیے لیکن ان میں سے کسی کو یہ احساس نہیں ہوا کہ سلطان خلیفہ نے تو غازی کمال کو اسلام کا دشمن اور غازی کمال پاشا نے سلطان خلیفہ کو ترکی کا دشمن اور غدار قرار دیا ہے۔ ۱۹۲۴ء میں خلافت کی تنسیخ پر مسلمانانِ ہند کو سخت صدمہ ہوا، کیونکہ اُنھیں علما نے سخت تلقین کررکھی تھی کہ جو مسلمان خلیفہ کی اطاعت کا حلف اٹھائے بغیر مرجائے گا، وہ سیدھا دوزخ میں جائے گا۔ خلافت کانفرنس نے معاملے کی تفہیم کے لیے ایک وفد ترکی بھیجنا چاہا، لیکن ترکی کی حکومت نے وفد کا استقبال کرنے سے انکار کردیا۔ خلافت کی تنسیخ سے ہندوستان میں تحریکِ خلافت خود بخود ختم ہوگئی۔ مسلمانوں کو ایک اور ناکامی کی ذلت برداشت کرنا پڑی۔ وہ رفتہ رفتہ خواب دیکھنا چھوڑ رہے تھے اور حقائق کا سامنا کرنا سیکھ رہے تھے۔ ۱۹۲۴ء کے بعد مسلم انڈیا کا رویہ اور طرزِ فکر یہ ہوگیا: ’’نہ ہندوؤں کی مدد پرانحصار، نہ حکومت کی ہمدردی پر بھروسا اور بیرونی دنیا کے حالات کا مقابلہ، ہم اکیلے ہی اپنے حوصلہ سے کریں گے۔‘‘ یہ جملہ مولانا محمد علی جوہر سے منسوب ہے، جو اُن کے اِس جذبے کی ترجمانی کرتا ہے: ’’اب ہمیں نہ اُمیّہ مزید پریشان کریں گے نہ عباسیہ، نہ عثمانیہ۔ آج سے حکومت اسلام ابن اسلام کی ہوگی۔‘‘۹۳؎ خلافت کانفرنس نے مہاتما گاندھی سے اپنے تعلقات ختم کردیے اور مولانا محمد علی نے ایک جداگانہ پالیسی اختیار کرلی۔ تحریکِ خلافت نے پہلی بار مسلمانانِ ہند کو سیاسی شعور دیا۔ ۱۹۱۱ء سے ۱۹۲۴ء تک تعلیم یافتہ مسلم طبقے میں جو زبردست سیاسی طوفان آیا، وہ دراصل سرسیّد کی سیاسی قدامت پسندی کی تحریک کا ردِّ عمل تھا۔ تحریک خلافت وہابی تحریک سے نظریاتی اختلاف کے باوجود کئی اعتبارات سے مشابہت رکھتی تھی، جس کے خطرناک نتائج کے پیش نظر سرسیّد نے حکومتِ برطانیہ سے غیرمشروط وفاداری کی پالیسی اختیار کی تھی۔ سیّد احمد بریلوی کی ’’وہابی‘‘ تحریک کے رہنماؤں کی طرح، جو بنیادی طور پر مذہبی مصلحین تھے، خلافتی رہنما بھی مذہبی جذبات سے مغلوب اور خواب دیکھنے والے تھے، جن کو دیوبندی علما کی حمایت حاصل تھی۔ سمتھ لکھتا ہے: ’’مذہبیات کا پورا وزن حکومت مخالفت تحریک کی پشت پر تھا۔ دینیات اور الٰہیات کے عظّام خلافتی رہنماؤں کے مُشیر تھے اور ملک کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے ملاؤں نے ایک زبردست تشہیری قوت فراہم کی۔‘‘۹۴؎ دونوں تحریکیں عوامی تحریکیں تھیں، جن میں معاشی طور پر مفلوک الحال، نچلے طبقے کے مسلمانوں نے بھرپور شرکت کی۔ وہابیوں اور خلافتیوں دونوں نے برطانوی استعمار کے خلاف جنگ کی۔ وہابیوں نے اعلان کیا کہ ہندوستان دارالحرب ہے۔ مسلمان ہندوستان سے ہجرت کرکے صوبہ سرحد چلے جائیں، جہاں انگریزوں کے خلاف جہاد کیا گیا۔ اسی طرح خلافتیوں نے بھی دیوبندی علما کی رہنمائی میں ہندوستان کو دارالحرب قرار دیا اور مسلمانوں سے کہا کہ وہ ہندوستان سے ہجرت کرکے افغانستان چلے جائیں۔ اس حقیقت کے باوجود کہ خلافتیوں نے مہاتما گاندھی کے فلسفۂ عدم تشدد کی تلقین کی، مالابار میں زرعی محرومیوں کے نتیجے میں کاشتکار موپلوں نے بغاوت کی۔ ’’وہابی‘‘ تحریک نے ہندوستان کے نچلے طبقے کے مسلمانوں کی تطہیر کی، لیکن کس حیثیت سے؟ یہ کہ آیندہ کم از کم پچاس سال کے لیے اُن کی تعلیمی، سیاسی اور معاشی ترقی رک گئی۔ اسی طرح تحریکِ خلافت نے مسلمانوں کے تعلیم یافتہ طبقے اور غیر تعلیم یافتہ نچلے طبقے کو سیاسی رنگ میں رنگ دیا، لیکن شمال مغربی ہندوستان اور مالابار کے غریب اور نادار مسلمانوں پر ناقابلِ بیان مصائب کے پہاڑ توڑ دیے۔ وہابیوں اور خلافتی علمائے دیوبند کی وضع کردہ دارالحرب کی سیاسی رومانیت زمینی حقائق سے کوئی تعلق نہ رکھتی تھی۔ بدقسمتی سے مسلم انڈیا کی جدید تاریخ میں جب کبھی مسلمانوں کی قیادت مذہبی جوشیلوں یا مذہبی سیاسی خواب دیکھنے والوں کے ہاتھوں میں آئی، مسلمانوں کے لیے پیغام مرگ لائی اور معاشی و سیاسی تباہی پر منتج ہوئی۔ میثاقِ لکھنؤ (۱۹۱۶ئ) جسے بعض مؤرخین نے تقسیمِ بنگال (۱۹۰۵-۱۹۱۱ئ) کا تعمیری باب قراردیا تھا، ۱۹۱۹ء میں گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ کا جز بن گیا۔ ہندو مسلم اتحاد کا یہ میثاق آیندہ چند برسوں کے دوران بھی سرسیّد کی علیحدگی پسندانہ پالیسی کے ردِعمل کے عبوری دور میں بطور دستاویز زندہ رہا۔ تاہم میثاق لکھنؤ کی وجہ سے آیندہ کم از کم اُنیس سال تک کے لیے مسلمانانِ ہند، بالخصوص شمال مغربی ہند اور بنگال کے مسلمانوں کا سیاسی ارتقا رُکا رہا۔ بالآخر گورنمنٹ آف انڈیا پیکٹ ۱۹۳۵ء کے ذریعے یہ میثاق ختم کردیا گیا۔ مسلمانوں کی جانب سے میثاقِ لکھنؤ سے رفتہ رفتہ قطع تعلق کے سبب مسلمانوں میں وہ سیاسی بیداری پیدا ہوئی جسے ہندوستان میں ’’مسلم قوم پرستی‘‘ کہا جاسکتا ہے۔ تحریکِ خلافت نے اُن مسلمانوں کا اتحاد پارہ پارہ کردیا، جنھوں نے سیاست میں مسلم علیحدگی کی تحریک کے بانی سرسیّد کی پیروی کی تھی۔ اُن کے ہم عصر شبلی نعمانی نے انڈین قوم پرستی کا پرچم بلند کیے رکھا، اپنی پوری علمی زندگی کے دوران سرسیّد کے مذہبی و سیاسی نظریات کے خلاف علما کی مخالفت کی جوت جگائے رکھی۔ ۱۹۲۴ء کے بعد بعض خلافتی لیڈروں نے بھی علیحدگی پسندی کی پالیسی اختیار کرلی۔ تاہم شبلی کے سیاسی جانشینوں نے، جن میں ابوالکلام آزاد پیش پیش رہے، ایسے دوسرے تمام مسلمانوں سے رشتہ توڑ کر آل انڈیا نیشنل کانگرس سے جوڑ لیا۔ اکثر دیوبندی علما اور جمعیت العلمائے ہند، کانگرس کی ہم نوا سیاسی و مذہبی تنظیم کی حیثیت سے باقی بچ رہے۔۹۵؎ ئ…ئئ…ء حوالے و حواشی 1- E.G. Brown, The Persian Revolution (1905-1909), pp.3,4. 2- L. Stooddord, The New World of Islam, p.54. 3- B.C. Pal, Quoted in Nationality and Empire, pp374,375. 4- The Persian Revolution, p.1. 5- Spritual and Political Revolution in Islam, pp.27,29. 6- The Muslim World in Revolution, p.26. 7- V. Chirol, Pan-Islamism, pp.1,2. 8- E.Sell, Khilafat Agitation in India, p.42. 9- Memoirs of My Life and Time, p.417. 10- Landmarks in Indian Constitutional and National Development (1600-1919), p 486. 11- Jalal-ud-din, Pan-Islamism, Khilafat, Non-Coopration, Swaraj and Hindu-Muslim Unity (Lectures). Two Parts, pp.5,10-12. 12- Ideas About India, p.97. 13- The Persian Revolution, pp.1,2. 14- All About The Khilafat by M.H.Abbas, pp. 64-66. 15- A.J. Toynbee, Survey of International Affairs 1925, vol, 1, pp.33,36,37. 16- Ibid, pp.37-39. 17- Ibid, pp.42,43. 18- Nationality and Empire, p.375. 19- Abul Kalam Azad, The Khilafat, pp.5-9, 15,16,33,34,121,122. 20- W. Barthold, Kalif and Sultan, pp.353-412. 21- T.W. Arnold, The Caliphat, pp. 47,180-183. 22- Abul Kalam Azad, The Khilafat, pp. 102-111,111-119 23- The New World of Islam, p.61. 24- E. Thompson, The Reconstruction of India, p.121. 25- Smith, Nationalism and Reform in India, pp.309,310. 26- The Persian Revolution, p.3. 27- Pan-Islamism, Khilafat etc., p.8,9. 28- Revealed to the author in the course of attending the Conference on Syed Jamal-ud-din Afghani in Tehran (Iran the procedings of which are to be published. 29- The Persian Revolution, pp.1-58, Jamal-ud-din Afghani by Amin Afghani, Pan-Islamism, Khlilafat etc.1-15. 30- The Persian Revolution, p.12. 31- The Khilafat Agitation in India, p.43. 32- The New World of Islam, pp.39-41. ۳۴- ایران کے بادشاہ ناصرالدین کی غیرآئینی اور مطلق العنانہ حکمرانی کے خلاف جمال الدین افغانی کی تحریک کی وجہ سے شاہ قتل ہوا The Persian Revolution,pp.59-97. Pan-Islamism, Khilafat etc., p.10. 34- Ibid, p.15. 35- The New Word of Islam, pp.52-54. ۳۶- جمال الدین افغانی اور شیخ محمد عبدہ کے بارے میں مواد، فکرِ اسلامی کی تشکیلِ جدید (از ضیاء الحسن فاروقی اور مشیر الحق) ذاکر حسین انسٹی ٹیوٹ آف اسلامی سٹیڈیز، جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی سے اخذ کیا گیا ہے، ص۳۷۵-۴۰۸۔ 37- Survey of International Affairs, 1925, Vol.I, p.40. ۳۸- آخری مضامین، ص۳۱-۴۵،۵۹-۶۹ ۳۹- مضامین تہذیب الاخلاق، جلد دوم، ۳۶۹-۳۷۲ 40- Political India, pp.95,96. 41- The Refarm & Religious Ideas etc., pp.75,76. 42- Pan-Islamism, Khilafat etc., pp.10-12. 43- Syed Ameer Ali, The Caliphate, Ameer Ali, The Caliphate & Islamism Renaissanee The Persian Revolution. 44- Ishtiaq Hussain Qureshi, See Struggle for Pakistan, Sharifuddin Pirzada, The Evolution of Pakistan. ۴۵- سیّد سلیمان ندوی، حیاتِ شبلی، ص۲۸۱،۲۹۷ 46- Makers of Pakistan and Modern Muslim India, p.119. ۴۷- حیاتِ شبلی، ص۹۴-۹۶، ۱۹۰-۲۱۹، ۲۷۸-۲۸۱ ۴۸- ایضاً، ص۱۲۱،۲۸۱،۲۹۸۔نیز دیکھیے: سیّد سلیمان ندوی، مکاتیب شبلی (حصہ اوّل)، ص۲۳، ۲۴، ۳۴۲،۳۴۳ ۴۹- ایضاً، ص۴۱۲-۴۵۹،۶۳۸،۶۴۳-۶۶۷ 50- Makers of Pakistan & Modern Muslim India, pp.125,126. 51- Ibid, pp.131-147. 52- Ibid, pp.151-165. 53- A History of The National Movement, pp.57,58,63,65,66,88. ۵۴- مسلمانوں کا روشن مستقبل، ص۳۷۴،۳۷۵ ۵۵- مقالاتِ شبلی، جلد ہشتم،ص۱۴۸ 56- Makers of Pakistan & Modern Muslim India, pp.111,112. 57- Nationalism and Reform in India, pp.306,307. ۵۸- سیّد سلیمان ندوی، حیاتِ شبلی، ص۵۹۱-۵۹۴۔ ۵۹- رئیس احمد جعفری، سیرت محمد علی، ص۲۳۴-۲۵۵؛ سیّد سلیمان ندوی، حیاتِ شبلی، ص۵۳۰-۵۳۵۔ ۶۰- ایضاً، ص۵۹۴،۵۹۵۔ ۶۱- ایضاً، ص۶۰۰-۶۰۷۔ 62- Modern Islam in India, p.195. ۶۳- مقاماتِ شبلی، ج ہشتم، ص۱۴۹،۱۵۰،۱۵۱،۱۵۸،۱۵۹،۱۶۱،۱۶۳،۱۶۴۔ ۶۴- ایضاً، ص۱۷۰-۱۷۷۔ ۶۵- مولوی مسعود علی، کُلیّاتِ شبلی، ص۶۴-۷۴۔ 66- C.Y. Chintamani, Indian Policies since the Muting, pp.91-93. ۶۷- مسلمانوں کا روشن مستقبل، ص۳۸۸۔ 68- A Scheme of Reforms passed by the Indian National Congress & All-India Muslim League. December 29th to 31st, 1916 (India Home Rule League Pamphlet Series),pp.2-8. 69- India in 1926-27, pp.2,15,16. 70- A History of the India National Movement, pp.148-150. 71- V. Chirol, India Old & New, pp.172-174,177-179. ۷۲- ابوالکلام آزاد، خلافت، ص۲۰۳-۲۰۷۔ ۷۳- مسلمانوں کا روشن مستقبل، ص۵۰۸-۵۱۲۔ ۷۴- شیخ عطاء اللہ، اقبال نامہ، جلد اول، ص۱۰۶-۱۰۷۔ ۷۵۔ مسلمانوں کا روشن مستقبل ،ص ۵۲۶-۵۲۸۔ 76- Indian Khilafat Publications-Pamphlet No.1, pp.10-12, Pamphlet No.2, p.6 (The Pamphlets are six in number). See also Select Writings & Speeches of Maulana Muhammad Ali, ed. by Afzal Iqbal, pp.157-162,165-204. ۷۷- مسلمانوں کا روشن مستقبل، ص۵۱۲،۵۱۳،۵۲۸،۵۲۹۔ 78- Pan-Islamism, Khilafat etc. (Lectures), pp.16,17,20-38. W.W.Cash, The Muslim World in Revolution, pp.38,39. 79- Ali Brothers, For India and Islam,p.19. Makers of Pakistan & Modern Muslim India, p.177. 80- Nationality & Empire, pp.xxix,160. 81- Selected Writings & Speeches of Maulana Muhammad Ali, p.389. ۸۲- مسلمانوں کا روشن مستقبل، ص۵۱۵،۵۲۹۔ 83- India in 1920,pp.51,52 84- Modern Islam in India, p.203 85- India in 1920, pp.52-53. 86- India in 1921, pp.73,74. 87- Ibid. 89- For India & Islam, p.5. 89- Nationalism & Reform in India, p.316. 90- Ibid G. Gopalan Nair, The Moplah Rebellion, 1921, pp.90-93. 91- Reconstruction of India, pp.141,142. 92- Selected Writings & Speeches, pp.214,216,224. ۹۳- رئیس احمد جعفری، سیرت محمد علی، ص۱۴۔ 94- Modern Islam in India, p.199. ۹۵- مسلمانوں کا روشن مستقبل، ص۵۴۵-۵۲۶۔ ظ…ظظ…ظ باب ششم ہندوستان میں فرقہ واریت کا مسئلہ چند انتہائی اور اہم مسائل محتاجِ بیان ہیں، جن پر اِ س باب میں غور کیا جائے گا۔ مثلاً وہ کون سے معاشرتی اور سیاسی عوامل تھے، جن کے سبب فرقہ وارانہ مسائل پیدا ہوئے؟ کس وجہ سے آل انڈیا مسلم لیگ دو حصوں میں تقسیم ہوئی؟ مسلم انڈیا کی سیاست کے اس مرحلے میں، علامہ محمد اقبال اور محمد علی جناح کے درمیان جو اختلافات پیدا ہوئے، اُن کا نظریاتی پس منظر کیا تھا؟ یہ اختلافات کب اور کیونکر دُور ہوئے؟ شرکتِ اقتدار کا کوئی معاہدہ جب ہندو اور مُسلم جماعتوں کے رہنماؤں کی کوششوں کے باوجود طے نہ پاسکا تو پھر وہ مسئلہ پیدا ہوا جسے فرقہ وارانہ مسئلہ کہا جاتا ہے۔ مسئلہ اُبھر کر اُس وقت سامنے آیا جب ہندوؤں کی جانب سے ’’میثاق لکھنؤ‘‘ کی خلاف ورزی ہوئی اور انھوں نے اصرار کیا کہ مسلمانوں کو جداگانہ انتخابات کے مطالبے سے دست بردار ہوجانا چاہیے۔ مسلمانوں نے میثاقِ لکھنؤ کو ایک طرف رکھا اور مسلم اکثریتی صوبوں میں اپنی اکثریت کی بحالی کا مطالبہ کردیا۔ ہندوستان میں فرقہ وارانہ مسئلے کی تاریخ بہت پیچیدہ ہے۔ دو بڑی قوموں کی کشمکش اس لیے ہوئی کہ اُن کا تعلق ایسے مذہبیوں اور تہذیبوں سے تھا جو ایک دوسرے سے بالکل ہی متضاد ہیں۔ فرقہ وارانہ تعصّب یا دشمنی کی وجہ سے ہندو مسلم فسادات ہونے لگے، جو اورنگ زیب عالمگیر کی وفات کے بعد عام ہوگئے۔ ہندوستان پر انگریزوں کا مکمل تسلط، جیسا کہ مؤرخین بیان کرتے ہیں، ۱۸۲۳ء سے شروع ہوا۔۱؎ تشدد کا ایک خوفناک مظاہرہ بنارس میں ۱۸۰۹ء میں ہوا۔ انڈین قانونی کمیشن کی رپورٹ میں لکھا گیا: ’’برطانوی حکام ہندو مسلم اختلافات کے بنیادی حقائق اور اصل اسباب کو تبدیل نہ کرسکے… درحقیقت بنیادی اختلاف موجود ہے جو ہر معاشرتی رواج، ہر معاشی مقابلے اور پرانی مذہبی منافرت کے ہر واقعے میں اظہار پاتا ہے‘‘۔۲؎ ۱۸۷۱ء میں بریلی (یوپی) کے مقام پر ہندو مسلم فسادات ہوئے جن میں بے شمار لوگ مارے گئے۔ بعدازاں ۱۸۸۵ء تا ۱۸۸۷ء پورے یوپی اور دہلی میں فساد ہوئے۔ ۱۸۹۳ء میں پٹنہ، بنارس اور گورکھ پور کے اضلاع اور بمبئی میں فرقہ وارانہ فسادات ہوئے۔ ۱۹۱۱-۱۹۱۲ء اور ۱۹۱۵ تا ۱۹۱۸ء کے دوران مونگھیر، پٹنہ، شاہ آباد، آرہ اور کرتارپور کے اضلاع (بہار اور یوپی) میں مکمل بدامنی کی حالت رہی،۳؎ ۱۹۲۲ء اور ۱۹۲۳ء میں یوپی، پنجاب اور سندھ میں لڑائیاں ہوئیں۔ ۱۹۲۴ء میں دہلی، ناگپور، لاہور، کوہاٹ، لکھنؤ، مراد آباد، بھاگل پور، گلبرگہ (دکن)، کنکنارا، شاہجہان پور اور الہ آباد میں فسادات پھوٹ پڑے۔ ان فسادات کے نتیجے میں نام نہاد ’’یونٹی کانفرنس‘‘ وجود میں آئی جو ہندو مسلم اتحاد کے سلسلے کی پہلی کڑی تھی اور جس کے اجلاس ۱۹۲۴ء سے پہلے اور بعد تقریباً ہر سال ہوتے رہے۔ یونٹی کانفرنس میں بے شمار قومیتوں کے نمایندے شامل تھے، جو ہندوستان کے طول و عرض میں پھیلی ہوئی تھیں۔ کانفرنس نے مذہبی رواداری برتنے کے بارے میں سب کے لیے اطمینان بخش ایک قرارداد منظور کی، لیکن چونکہ اس میں اُن معاشی اور سیاسی مسائل کا ذکر تک نہ تھا، جو دونوں بڑی اقوام کو ایک دوسرے سے جدا کرتے ہیں، لہٰذا قرارداد کا کوئی نتیجہ نہ نکلا اور یونٹی کانفرنس بھی بے اثر ہوگئی۔‘‘ ۱۹۲۵ء میں دہلی، الٰہ آباد، یوپی کے بعض علاقوں، سی پی، برار، گجرات، بمبئی اور کلکتہ میں دوبارہ ہندومسلم فسادات ہوئے۔ ۱۹۲۶ء کے دوران میں فسادات بنگال، یوپی اور پنجاب میں ہوتے رہے۔ ۱۹۲۷ء میں فسادات سے یوپی، بمبئی، سی پی، بہار اور اڑیسہ، دہلی، بنگال اور پنجاب متاثر ہوئے۔ ۱۹۲۹ تا ۱۹۳۲ء متاثرہ علاقے بمبئی، یوپی، بہار اور پنجاب تھے۔ کشمیر میں صورتِ حال انتہائی اشتعال انگیز ہوگئی، کیونکہ وہاں گئوکشی پر بھائی جرمانے عائد کیے گئے، مسلمانوں کو ہندوؤں کے فاقہ کشی کے دن فاقہ کشی پر مجبور کیا گیا۔ مسلمانوں کو بطور سزا سرکاری ملازمت سے برخواست کیا گیا۔ کشمیریوں کو امداد پنجاب اور صوبہ سرحد کے مسلمانوں سے ملی۔ خصوصاً مجلسِ احیا نے سارا معاملہ اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ احتجاج کرنے والے ہزارہا مسلمان ریاست کی سرحد عبور کرکے کشمیر میں داخل ہوئے۔ تب حکومتِ ہند نے اُنھیں کشمیر میں داخل ہونے سے روکنے کے جبری اقدامات کیے۔ دریں اثنا ہندو مہاسبھا نے راجہ کشمیر پر دباؤ ڈالے رکھا کہ وہ اپنی پالیسی پر سختی سے قائم رہے۔ ہندو مہاسبھا نے انتقامی تحریک مسلم ریاستوں میں جاری کردی۔۴؎ فسادات چھڑنے کا عام سبب مسلمانوں کی جانب سے گئوکشی تھا جس سے ہندوؤں کے جذبات مشتعل ہوتے تھے یا مسجدوں کے آگے ہندوؤں کا مذہبی تہواروں کے موقع پر گانا بجانا، جس سے مسلمانوں کے جذبات مشتعل ہوتے تھے۔ فسادات کا آغاز اُس وقت بھی ہوجاتا تھا جب ہندوؤں اور مسلمانوں کے تہوار اتفاق سے ایک ہی دن آجائیں اور حریفانہ جلسوس بیک وقت نکالے جائیں۔ مثال کے طور پر جب مسلمانوں کا سنجیدہ اور غم زدہ محرم کا جلوس اور ہندوئوں کا پُر مسرت، رنگ رلیوں والا ہولی کا جشن ایک ہی دن برپا ہوں۔ بُت، مجسمے، پیپل کے درخت، بعض دریا، تالاب یا کنوئیں جو ہندوئوں کے نزدیک پوترہیں، اگر مسلمان اُن کی بے حرمتی کریں، پیپل کاٹ دیں یا پانی میں غلاظت پھینک دیں تو گویا ہندو مسلم فساد کا آغاز ہوگیا۔ اسی طرح سؤر کا گوشت کھانا تو کجا، اُس کا دیکھنا دکھانا بھی مسلمانوں کے لیے حرام ہے، تمباکو کا پینا، حتیٰ کہ اُس کا دھواں بھی سکھوں کے نزدیک ناجائز ہے۔ کسی قسم کا گوشت، خون، مچھلی، انڈے، پیاز ہندوئوں (بالخصوص وشنو ہندوؤں) کے نزدیک ناپاک ہیں، اور اگر لوگ یہ چیزیں اُن کے روبرو لے آئیں تو فساد کا اندیشہ ہے۔ دوسری قوموں اور فرقوں کے لیے تبلیغی سرگرمیاں، مخالف قوم کے سربراہ مذہب کے بانی کے خلاف پمفلٹوں کی اشاعت، ’’مقدس کتابوں‘‘ کی آتش زنی، عبادت گاہوں پر قبضۂ مخالفانہ، یہ باتیں بھی فساد کا سبب بن سکتی ہیں۔ کبھی کبھی محض ایک خالص ذاتی مسئلہ، مثلاً ایک مسلمان لڑکا ہندو لڑکی کو اغوا کرلے یا ہندو لڑکا مسلمان لڑکی کو بھگا کر لے جائے، یہ واقعہ بھی ہندو مسلم فسادات بھڑکانے کے لیے کافی ہوسکتا ہے۔ کوئی غیر معمولی یا معمولی واقعہ، مثلاً بازار میں کوئی بھاگتا ہوا گھوڑا طرح طرح کی افواہیں پھیلا سکتا ہے۔ لوگ احتجاجاً اپنی دکانیں بند کردیتے ہیں اور یوں فساد کے بھُس میں چنگاری ڈال دی جاتی ہے۔‘‘۵؎ فرقہ وارانہ فسادات کا سبب محض مذہبی اختلافات نہیں بلکہ مذہبی اختلافات کے پہلو بہ پہلو معاشی شکایات بھی ہوتی تھیں۔ جی ٹی گیرٹ نے اِس ضمن میں لکھا ہے: ’’اُن علاقوں کا نقشہ سامنے رکھیے، جن میں ہندو مسلم فسادات روزمرہ کے معمول ہیں۔ معلوم ہوجائے گا کہ اشتعال انگیزی کابڑا سبب اقتصادی ہے۔ اِن علاقوں کے لوگ واضح طور پر دو اقتصادی گروپوں میں منقسم ہیں۔ مثلاً شمال مغرب میں ہندو ساہوکار ہیں اور مسلمان کاشت کار ہیں۔ شمال مشرق میں زمین دار ہندو ہیں اور کاشتکار مسلمان ہیں۔ قصبات میں، اور یاد رہے کہ مذہبی تعصب کے جذبے کی شدت قصبات ہی میں زیادہ ہوتی ہے، دکاندار، پیشہ ور لوگ اور آجر ہندو ہیں اور کا دیگر اور مزدور عموماً مسلمان ہیں،… ہر سیاست دان یہ گُرخوب جانتا ہے کہ کسی پیچیدہ سماجی یا معاشی مسئلے کے مقابلے میں کسی معمولی مذہبی معاملے پر عام لوگوں کے جذبات کو بھڑکانا زیادہ آسان ہے… بہت سے سربرآوردہ سیاست دانوں نے کافی مغربی تشکیک بذریعہ تعلیم حاصل کی ہے۔ مغربی تعلیم نے قدیم رسوم و رواج کے بہت سے کونے کھرچ کر درست کردیے ہیں۔ مسٹر جناح اور مسٹر جیکار کے بارے میں یہ خیال کرنا ممکن نہیں کہ وہ صحرا کے مذہب (اسلام) اور جنگل کے مذہب (ہندومت) کے بارے میں ایک دوسرے کے حریف بن جائیں گے۔ ہندو مسلم مخاصمت اپنی موجودہ شکل میں نسل سے کوئی تعلق نہیں رکھتی، اور مذہب کے اصول و احکام سے تو اس کا سرے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔۶؎ مسلم اکثریتی مشرقی بنگال میں زرعی مصائب کی وجہ سے کاشت کاروں نے بغاوت کی۔ اسی طرح جنوبی ہند میں موپلوں نے وقتاً فوقتاً بغاوتیں کیں، ان میں سے بدترین بغاوت وہ تھی جو ۱۹۲۱ اور ۱۹۲۲ء میں ہوئی۔ جیسا کہ پہلے ذکر ہوچکا ہے، ہندوستان میں تاجر، صنعت کار، ساہوکار اور پیشہ ورلوگ زیادہ تر ہندو تھے۔ اور زیادہ تر مسلمان ’’پرولتاریہ‘‘ تھے۔ یہی اقتصادی تفاوت بمبئی (۱۹۲۹ئ) اور کلکتہ کے ہندو مسلم فسادات میں اکثر نظر آتی ہے۔ ۱۸۵۸ء کے بعد دونوں قوموں کے نچلے، متوسط اور بالائی متوسط طبقوں نے ایک دوسرے کو اقتصادی حریف قراردیا ہے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ملازمتوں، کاروباری ٹھیکوں، منڈیوں اور صنعت و حرفت میں ہر جگہ فرقہ وارانہ مسابقت ہونے لگی۔ اقتصادی تفاوت کے علاوہ دونوں قوموں کے درمیان معاشرتی اختلافات کی وجہ سے بھی فرقہ وارانہ کشاکش پیدا ہوئی۔ اس سلسلے میں ڈبلیوسی سمتھ لکھتا ہے: ’’ہندو کے نزدیک ہر وہ ہندوستانی جو مسلمان ہے، ذات برادری سے باہر اور اچھوت ہے، اُس سے لین دین خاص حدود کے اندر رہتے ہوئے کرنا چاہیے۔ ان خاص حدود میں مذہب شامل ہے، لیکن ہندومت میں ’’مذہبی‘‘ ہونے کا مطلب ہے، اعلیٰ ترقی یافتہ روایت کے مفہوم میں ’’سماجی‘‘۷؎ اور سماجی روایت کا مطلب یہ ہے کہ دونوں قوموں کے افراد آپس میں شادی نہیں کریں گے، مل کر کھانا نہیں کھائیں گے، مختلف کپڑے پہنیں گے، اپنے بچوں کے نام مختلف انداز میں رکھیں گے، مختلف عادتیں اختیار کریں گے اور مختلف بستیوں اور محلوں میں رہیں گے۔ پس ہندو اور مسلمان، خواہ اپنے اختلافات کو خاموشی سے قبول کرلیں یا دوستوں کی حیثیت سے زندگی بسر کریں، یہ دونوں بنیادی طور پر جداگانہ اور مخاصمانہ معاشرتی گروپ ہیں۔ اس ضمن میں عبدالرحیم رقم طراز ہیں: ’’فرض کرو، ہم میں سے کوئی افغانستان، ایران اور وسط ایشیا کا سفر کرے، چینی مسلمانوں، عربوں اور ترکوں کے ساتھ رہے، وہ محسوس کرے گا کہ جیسے وہ اپنے گھر میں ہے، اور اِن ملکوں میں مسلمانوں کے ساتھ رہتے ہوئے اُسے کسی ایسی چیز یا رواج سے سابقہ نہیں پڑے گا، جس کا وہ عادی نہ ہو۔ اس کے برعکس ہندوستان میں صورتِ حال یہ ہے کہ جب ہم اپنی گلی عبور کرکے اُس محلے میں داخل ہوتے ہیں جہاں ہندو بھائی آباد ہیں تو تمام معاشرتی معاملات میں، ہم خود کو بالکل اجنبی محسوس کرتے ہیں۔‘‘۸؎ اقتصادی تفاوت اور معاشرتی اختلافات کے علاوہ ثقافتی مضمرات بھی ہندو مسلم تنازعات یا فسادات کا سبب بنتے ہیں۔ یہ دوسری بات ہے کہ ثقافتی تنازعات میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے زیادہ تعلیم یافتہ طبقے ہی ملوث ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر اِن باتوں پر تنازع اُٹھ کھڑا ہوتا ہے: تاریخی تعلقات کے تناظر میں، کسی تاریخی شخصیت کی توہین یا توصیف، جو ایک قوم کے نزدیک عظیم تھی اور دوسری قوم کے نزدیک اس کے برعکس۔ کسی یادگار یا آثارِ قدیمہ کی موجودگی، جو ایک قوم کے لیے باعثِ فخر تھی اور دوسری قوم کے لیے باعثِ ننگ۔ کسی تاریخی اہمیت کے مقام یا عبادت گاہ پر قبضۂ مخالفانہ (مثلاً مسجد شہید گنج اور شیوا مندر وغیرہ)۔ ثقافتی کشمکش کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ ایک قوم دوسری قوم پر اپنی زبان، ثقافت یا تہذیب تھوپنے کی کوشش کرے۔ اُردو ہندی کا مشہورتنازع اس کی بہترین مثال ہے۔ ۱۸۶۷ء کے بعد زبان کے تنازعے نے ہندوئوں اور مسلمانوں کو دو حریف گروہوں میں تقسیم کردیا تھا۔ سیاسی اختلافات نے تو بے شمار موقعوں پر ہندومسلم فسادات کو گویا عروج پر پہنچا دیا۔ ۱۹۲۴ء کے بعد مندرجہ ذیل فسادات کا تعلق کسی نہ کسی سیاسی مسئلے سے تھا: مسلمانوں کا مسلم اکثریتی صوبوں میں اپنی کثرت کا زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کی خواہش، حریف فرقہ وارانہ جماعتیں اور تنظیمیں قائم کرنا، ۱۹۳۱ء میں عدم تعاون کی تحریک میں شامل ہونے سے مسلمانوں کے انکار پر ہندوؤں کا اعتراض، ایک قومی ہیرو بھگت سنگھ کی یاد میں کان پور کے مسلمانوں کا دکانیں بند کرنے اور ہڑتال کرنے سے انکار، جموں اور کشمیر میں ہندوئوں اور مسلمانوں کے درمیان سیاسی خلفشار۔ حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان میں فرقہ واریت کے کسی ایک اصلی اور بنیادی مسئلے کی نشان دہی بہت مشکل ہے۔ ڈبلیوسی سمتھ نے لکھا ہے: ’’ہم یہ کہنے کی بجائے کہ ’’فرقہ واریت موجود ہے‘‘، یہ کہا کرتے ہیں کہ ’’فرقہ واریت موجود رہی ہے‘‘، کیونکہ فرقہ واریت کی خواہ کوئی بھی تعریف مقرر کی جائے، وہ تادیر اپنی صداقت برقرار نہیں رکھ سکتی، اس لیے کہ صورتِ حال انتہائی فعّال اور متحرک ہے۔ جس چیز کی تعریف متعین کی جاتی ہے، وہی خود کو تبدیل کرکے ارتقا پذیر ہوجاتی ہے… چنانچہ فرقہ واریت بھی صدی بہ صدی، صوبہ بہ صوبہ، قریہ بہ قریہ، شہر شہر، گاؤں گاؤں مختلف و متنوع رہی ہے۔ بلکہ طبقہ بہ طبقہ ایک سیاسی و معاشرتی ماحول کے مقابلے میں دوسرے سیاسی و معاشرتی ماحول میں مختلف رہی ہے۔‘‘۹؎ تاہم مذہبی معاملات نے ہمیشہ عوام کی دل چسپی اپنی طرف مبذول کی اور دوسرے تمام امور و معاملات کو پیچھے چھوڑ دیا۔ ہندوستان کی تاریخ میں جتنی بھی جنگیں یا طبقاتی لڑائیاں ہوئی ہیں، وہ سب کسی نہ کسی مذہبی نظریے کے تحت لڑی گئی ہیں۔ تاہم ’’مذہب‘‘ یا اُس کے ’’پیروکار‘‘ کا مطلب و مقصد وسیع تر مفہوم میں سمجھنا چاہیے۔ ہندو اور مسلمان اپنی اپنی مذہبی جماعتوں سے وفاداری کا دم بھرتے ہیں، جن کے افراد مذہبی طور پر عموماً ’’سخت پیروکار ، معتدل مزاج یا سرد مہر‘‘ہوتے ہیں یا ’’کٹر، آزاد خیال یا دہریے‘‘ یا ’’نیک یا بد‘‘ یا ’’جاگیردار یا مزارع‘‘ یا صاحب ثروت یا عام آدمی‘‘۔ گویا زور ہمیشہ مذہبی جماعت پر رہا، بجائے اس کے کہ مذہبی اصول و احکام کی سخت بجاآوری پر ہوتا۔۱۰؎ فرقہ واریت نے ایک سچی ہندوستانی قومیت کو پروان نہ چڑھنے دیا۔ مولانا محمد علی جوہر رقم طراز ہیں: ’’ہندو فرقہ پرست، محب وطن نے ’’سوراج‘‘ کو اپنا ترانۂ جنگ بنالیا۔ وہ مسلمان کو اپنے دل میں جگہ دینے کے لیے تیار نہیں، جب تک وہ اپنی انفرادیت کو جھٹک کر، مکمل طور پر ہندومت کی آغوش میں نہ آجائے… احیائے ہندومت کے مناظر، حکومتِ خود اختیاری کے خواب، جمہوریت کے لباس میں ملبوس قدیم دیوتاؤں کے ساتھ ہنسی مذاق، اِن سب باتوں نے قدامت پسند مسلمان کو ششدر کردیا، جو ماضی کی مفلوج گرفت سے خود کو چھڑانے کی کوشش میں کانپ رہا تھا۔ اُسے معلوم ہوگیا کہ جنگ کا پانسہ پلٹ چکا ہے۔ ہتھیار (علاقائی قومیت، جمہوریت وغیرہ) بالکل نئے تھے اور یہ ہتھیار استعمال کرنے کے طریقے بھی نئے تھے… اِس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ اپنے خول میں سمٹ گیا اور فرقہ وارانہ حُب الوطنی کے مقاصد کی پرورش کرنے لگا۔ ہندو فرقہ پرست، محبِ وطن کو مسلمان محبِ وطن پر یہ فوقیت حاصل ہے کہ اُس کے پاس بے شمار فارمولے تھے۔ وہ جس فارمولے کو چاہتا، اختیار کرسکتا تھا۔ ہندو محبِ وطن ہندوستان کے چیمپین کے بھیس میں سڑک پر دلیرانہ اور مغرورانہ چل رہا ہے، جب کہ مسلمان سست گام بھی ہے اور بدنصیب بھی۔ وہ اپنے جینے کے غیرمشتبہ حق کو بھی معذرت کی صورت میں پیش کرتا ہے… ہندو مسلمان کو نظرانداز کرنے کی کوشش کرتا ہے، جس کا بدلہ مسلمان یہ سوچ کرلیتا ہے کہ تمام ’’قوم پرستانہ‘‘ آرزوئیں اگر فریب نہیں تو دامِ فریب ضرور ہیں۔تاہم مفادات کی تشخیص اور حدبندی کے بارے میں کہانی بڑی محنت سے دہرائی جاتی ہے اور ہندو ’’قوم پرستی‘‘ کے پرچارک ہندوستانیوں کے اتحاد کے بارے میں بڑے چکاچوند جُملے استعمال کرتے ہیں، گویا ہندوئوں اور مسلمانوں میں احساس، جذبے، مزاج، مقاصد اور طرزِ فکر میں کوئی بنیادی اختلافات نہ ہوں۔‘‘۱۱؎ مولانا محمد علی غالباً پہلے سیاسی رہنما تھے، جنھوں نے (۱۹۲۳ء میں) اس امر کی نشان دہی کی تھی کہ ’’وسیع و عریض براعظم ہندوستان کا نام جغرافیائی لحاظ سے غلط ہے۔ اختلافات کے گمراہ کن اتحاد کے سوا اس میں کوئی اتحاد نہیں ہے۔‘‘ ہندوئوں اور مسلمانوں میں اختلافات کی جو خلیج حائل ہے، وہ بنیادی طور پر مذہبی ہے۔ یہ دو تہذیبوں کا تصادم ہے، لہٰذا ہندوستان کے مسائل ’’بین الاقوامی‘‘ ہیں۔ مولانا نے ۱۹۱۱ء میں لکھا تھا: ’’ہم ٹوٹے ہوئے شیشوں کو گوند سے جوڑنے کی کوشش نہیں کریں گے کہ بعد میں اپنی ناکامی پر آہ و فغاں کریں یا شیشے کا مواد ناقص ثابت کرتے پھریں۔ بالفاظ دیگر، ہم صورتِ حال کا دلیری سے مقابلہ کریں گے۔ ہم حقائق کا احترام کریں گے، خواہ حقائق کتنے ہی سنگین اور ناموافق ہوں۔‘‘۱۲؎ جیسا کہ پچھلے باب میں بیان ہوچکا ہے، محمد علی، شوکت علی اور دوسرے سربرآوردہ خلافتی لیڈر ۱۹۲۲ء میں گرفتار ہوگئے تھے۔ جب تک اُن کی رہائی کے دن آئے، ملک میں سیاسی نقشہ تبدیل ہوچکا تھا۔ نیشنل کانگرس نے ناکام تحریک عدم تعاون کے باعث اپنی بہت ساری مقبولیت کھودی تھی اور سوراج پارٹی اور ہندو مہاسبھا اُس پر غالب آگئی تھیں۔ پنڈت موتی لال نہرو اور سی آر داس کی قیادت میں سوراجیوں کی رائے یہ تھی کہ گاندھی اور اُن کے حامیوں کے لائحہ عمل کے مطابق عدم تعاون کی تحریک جاری رکھنے سے زیادہ بہتر یہ ہے کہ قانون ساز اسمبلی میں جائیں اور وہاں اصلاح یافتہ آئین پر کارروائی میں، سرکاری تدبیروں کی مخالفت کرکے، خلل ڈالا جائے۔ جب خود ترکوں نے خلافت کا خاتمہ کردیا تو مسلمانوں کا رُخ خود بخود ہندوستانی سیاست کی طرف ہوگیا۔ خلافت کانفرنس نے گاندھی اور کانگرس سے اپنا ناتا توڑ لیا۔ سوراجی حسبِ پروگرام مرکزی قانون ساز اسمبلی اور صوبائی کونسلوں میں جانے لگے اور انھوں نے آئین میں اصلاحات لانے کی کوششوں میں کامیابی سے رکاوٹیں ڈالیں۔ صوبہ بنگال میں سوراجیوں کو شاندار کامیابی مسلمانوں کے تعاون کی وجہ سے حاصل ہوئی (سی آر داس نے مسلمانوں سے تعاون کا ایک معاہدہ کرلیا تھا)۔ سوراجیوں نے پنڈت موتی لال نہرو کی سرکردگی میں، مسلمانوں کو ترغیب دی کہ وہ مشترکہ انتخابات کا اصول تسلیم کرلیں۔ ایسی صورت میں بنگال اور پنجاب (مسلم اکثریتی دو صوبوں) میں اُن کے لیے سیٹیں مخصوص کردی جائیں گی۔ کانگرس کے برخلاف ہندو مہاسبھا نے فرقہ واریت کے مسئلے کو کبھی ایک طرف نہیں رکھا۔ ہندو مہاسبھا کو مسلمان ہندوئوں کی اصل اور صحیح نمایندہ جماعت قرار دیتے ہیں۔ ہندو مہاسبھا کا خیال تھا کہ ہندوئوں کے مفادات، مسلمانوں کے مفادات کے مقابلے میں، کانگرس کے ہاتھوں میں محفوظ نہیں ہیں۔ سوراجی لیڈر سی آر داس نے بنگال کے مسلمانوں سے جو معاہدہ کیا تھا، ہندو مہاسبھا نے اُسے مسترد کردیا۔ چنانچہ پنڈت مدن موہن مالویہ اور لالہ لاجپت رائے کی سرکردگی میں ہندومہاسبھا نے مقبولیتِ عامہ حاصل کی اور کونسل کے انتخابات میں نیشنل کانگرس کو شکست دی۔ ہندومہاسبھا کے بارے میں مصنف سی وائی چنتامنی کی رائے کا ایک حصہ قابلِ اقتباس ہے: ’’فرقہ وارانہ کشمکش سے ہندومہاسبھا کی سرگرمیوں میں بہت اضافہ ہوگیا… اِس جماعت کو زیادہ تر ہندوؤں کے اِس احساس سے تقویت پہنچی کہ اُن کے ساتھ انصاف نہیں ہورہا۔ …ہندو سیاسی لیڈر سب کے سب قوم پرست تھے۔ اُن میں بعض ایسے تھے جنھوں نے ابتدا ہی میں ہندو سبھاؤں کے قیام کی تائید کی تھی اور جہاں جہاں سبھائیں قائم ہوئی تھیں، اُن میں خوش دلی سے شریک ہوئے تھے۔ بعض لیڈر بعد میں قائل ہوکر مہاسبھا میں شامل ہوگئے۔ پنجاب میں جہاں فرقہ واری کا مسئلہ پیش منظر میں رہا ہے، تاہم ہندو لیڈر بلااستثنا ہندو سبھا کے رکن تھے… پنجاب کے بعد بنگال میں بھی ہندو مہاسبھا کے طرزِ فکر و عمل کی تائید کی گئی۔ پنجاب کے ایک لیڈر (لال چند نے ۱۹۰۸ء میں) یہاں تک کہہ دیا تھا کہ ’’مسلمانوں کے ساتھ اتحاد کی خواہش ہندوئوں کی کمزوری ہے‘‘… لیکن پنجاب کے باہر کچھ عرصہ، بلکہ طویل عرصے تک یہ خیال کیا جاتا رہا کہ وہاں کانگرس موجود ہے، اس لیے کسی اور ہندو تنظیم کی ضرورت نہیں… آنے والے آئین کی ماہیت سے بھی عوام کو اندازہ ہوجائے گا کہ مستقبل قریب میں ملک میں ’’اتحاد‘‘ کا راج نہ ہوگا۔ میں خود کو اتنا ہی بڑا قوم پرست سمجھتا ہوں، جتنا کوئی ا ور ہوسکتا ہے، لیکن میں یہ نہیں بھول سکتا اور نہ بھولنا چاہتا ہوں کہ میں ہندو ہوں، اور ایک عوامی آدمی کی حیثیت سے اپنا یہ فریضہ خیال کرتا ہوں کہ ہندوستانی قوم کے جزولاینفک کی حیثیت سے ہندوئوں کے مفادات کا بھرپور دفاع کروں۔ مجھے پکا یقین ہے کہ میرے ہم مذہب بھائی بھی عام طور پر وہی محسوس کرتے ہیں جو میں محسوس کرتا ہوں۔‘‘۱۳؎ بہرحال پنڈت مدن موہن مالویہ نے سنگھٹن تحریک منظم کرکے تلک کے نظریے کو عملی جامہ پہنا دیا۔ اس تحریک کا مقصد ہندوئوں میں جسمانی تربیت کے کلچر کو فروغ دینا اور یوں ہندوئوں میں عسکریت پسندی کی رُوح کی تجدیدِ نو تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ پنڈت جی نے شدھی تحریک بھی منظم کی، جس کا مقصد یہ تھا کہ یوپی کے معاشی لحاظ سے پسماندہ، برائے نام نومسلموں کو دوبارہ ہندومت کے دھارے میں شامل کیا جائے۔۱۴؎ ہندو مہاسبھا کا نیا ایجنڈا لالہ ہردیال (۱۹۲۵ئ) کے الفاظ میں یہ تھا: ’’ہندو نسل، ہندوستان اور پنجاب کا مستقبل اِن چار ستونوں پر قائم ہے: (۱)ہندو سگھٹن (۲)ہندو راج (۳)مسلمانوں کی شُدھی اور (۴) افغانستان اور صوبہ سرحد پر قبضہ اور وہاں کے مسلمانوں کی شُدھی۔ جب تک ہندو قوم اِن چار مقاصد کے حصول کی تکمیل نہ کرے گی، اُس وقت تک ہمارے بچوں اور اُن کے بچوں کا تحفظ خطرے میں رہے گا، اور یوں ہندو نسل کا تحفظ ہمیشہ کے لیے ناممکن ہوجائے گا۔ ہندونسل کی صرف ایک تاریخ ہے اور اس کے ادارے بھی ایک جیسے ہیں، لیکن مسلمان اور عیسائی ہندومت کی حدود سے خارج ہیں۔ یہ دونوں مذاہب ہمارے لیے غیر ملکی اور اجنبی ہیں۔ یہ لوگ فارسی، عربی اور یورپی اداروں سے محبت رکھتے ہیں… جس طرح اپنی آنکھ سے انسان گندامواد باہر نکال دیتا ہے، اسی طرح اِن دونوں مذہبوں کی بھی شدھی ہونی چاہیے۔… اگر ہندو اپنا تحفظ چاہتے ہیں تو اُن کو افغانستان اور صوبہ سرحد پر قبضہ کر لینا چاہیے اور وہاں کے پہاڑی قبائل کو ہندو بنالینا چاہیے۔‘‘۱۵؎ ہندومہاسبھا نے ۱۹۲۵ء میں اپنے اجلاس کلکتہ میں ایک قرارداد منظور کی، جس میں ہندوؤں کے بے شمار فرقوں اور ذاتوں کے اتحاد اور پورے ملک میں ہندی زبان کی ترویج کی ضرورت پر زور دیا گیا تھا۔۱۶؎ مسلمانانِ ہند نے سنگھٹن اور شدھی کی تحریک کو شک کی نظر سے دیکھا۔ اِن تحریکوں کے ردِعمل میں ڈاکٹر سیف الدین کچلو اور میرغلام بھیک نیرنگ نے ’تنظیم‘ اور ’تبلیغ‘ کے نام سے دو تحریکوں کی بنیاد ڈالی۔ ’تنظیم‘ تحریک کا مقصد یہ تھا کہ غریب اور پسماندہ مسلمانوں کو دینی تعلیم دی جائے اور ’تبلیغ‘ تحریک کا مقصد یہ تھا کہ نومسلموں کو دوبارہ ہندومت اختیار کرنے سے روکا جائے۔ ۱۹۲۴ء میں محمد علی جناح نے مسلم لیگ کی تنظیمِ نو کی، جسے پچھلے چند برسوں سے خلافت کانفرنس نے گہنا دیا تھا۔ لیگ کا سالانہ اجلاس بمبئی میں رضاعلی کی صدارت میں منعقد ہوا۔ اس اجلاس میں ایک قرارداد منظور کی گئی جس کی رو سے ہندومہاسبھا کی سرگرمیوں کو مسترد کیا گیا اور اس جماعت کو ہندوئوں اور مسلمانوں میں اختلافات کی خلیج وسیع کرنے کا ذمہ دار قرار دیاگیا۔ سوراجیوں نے مسلمانوں پر زور دیا تھا کہ وہ جداگانہ انتخابات سے دست بردار ہوجائیں۔ اگر وہ ایسا کریں گے تو پنجاب اور بنگال میں مسلمانوں کی نشستیں مخصوص کردی جائیں گی، لیکن پنجاب کے مسلمان جداگانہ انتخابات کا اُصول ترک کرنے کے لیے تیار نہ ہوئے، کیونکہ سوراج پارٹی پر ہندومہاسبھا کے ارکان کا غلبہ تھا۔ مسلمان لیڈروں کو اس بات کی تشویش تھی کہ مسلمانوں کی عام معاشی پسماندگی کی وجہ سے اُن کے لیے یہ بہت مشکل ہوگا کہ رائے دہندگان کے لیے صاحبِ جائیداد ہونے کی جو شرط عائد ہے، اُسے پورا کرسکیں۔ اگر جداگانہ انتخابات سے دست بردار ہوجائیں تو ہندو اِس پوزیشن میں آجائیں گے کہ اُن مسلمان نمایندوں کو منتخب کریں گے جو اکثریت کے مفادات کے نگران ہوں گے اور اُن نمایندوں کے الیکشن کو ویٹو کردیں گے جو اُن کے مفادات کے مطلب کے نہ ہوں گے۔ دوسرے لفظوں میں اس کا صاف اور سادہ مطلب یہ ہوا کہ کوئی مسلمان نمایندہ اُس حلقے سے منتخب نہیں ہوسکے گا جہاں رائے دہندگان کی اکثریت ہندوؤں پر مشتمل ہو۔ ۱۹۲۵ء کے، مسلم لیگ کے اجلاس علی گڑھ میں، جو زیرصدارت عبدالرحیم منعقد ہوا، سربرآوردہ مسلمان رہنما شریک ہوئے، جن میں محمد علی جناح، مولانا محمد علی، شوکت علی، حسرت موہانی، ڈاکٹر کچلو، علی امام اور سر محمد شفیع کے اسماے گرامی قابلِ ذکر ہیں۔ سرعبدالرحیم نے اپنے خطبۂ صدارت میں ارشاد فرمایا: ’’بعض ہندو لیڈر اب یہاں تک کہنے لگے ہیں کہ مسلمانوں کو ہندوستان سے اُسی طرح نکال دیا جائے گا، جس طرح اہلِہسپانیہ نے مُوروں کو نکال دیا تھا۔‘‘ انھوں نے سوراج پارٹی پر بھی تنقید کی اور اعلان کیا کہ مسلمان سوراج پارٹی سے اُس وقت تک مفاہمت نہیں کریں گے، جب تک یہ جماعت ہندو سرمایہ داروں اور اجارہ داروں کے زیرِ اثر ہے۔ چند قراردادیں بھی منظور کی گئیں: یہ کہ جداگانہ انتخابات کا طریقہ برقرار رکھا جائے، یہ کہ آیندہ آبادی کی تقسیم نو کے وقت پنجاب، بنگال، سندھ اور صوبہ سرحد میں مسلم اکثریت برقرار رکھی جائے، یہ کہ ۱۹۱۹ء کی آئینی اصلاحات کی نظرثانی کے لیے ایک رائل کمیشن مقرر کیا جائے۔ اس اجلاس کے بعد قانون ساز اسمبلی کے مسلم ارکان نے اسمبلی میں اِس امر کی قرارداد پیش کی کہ آئینی اصلاحات کے دائرے میں صوبہ سرحد کو بھی شامل کیا جائے۔ ہندوؤں نے پنڈت مدن موہن مالویہ کی سرکردگی میں اِس قرارداد کی مخالفت کی، جس کے نتیجے میں بالآخر سورج پارٹی میں پھوٹ پڑگئی، کیونکہ اس کے مسلمان ارکان پارٹی سے الگ ہوگئے۔۱۷؎ ۱۹۲۶ء میں محمد علی جناح مشترکہ انتخابات کے حق میں ہوگئے، بشرطیکہ اکثریتی قوم کے ساتھ معاہدہ ہوجائے۔ اُنھوں نے مسلم لیڈروں (بالخصوص پنجاب کے لیڈروں) کو اپنے طرزِ فکر سے متفق کرنے کی بہت کوشش کی، اور انھوں نے ۲۰مارچ ۱۹۲۷ئ، بمقام دہلی، مسلم لیگ کی جانب سے یہ بیان جاری کیا کہ مسلمان خاص شرائط کے تحت مشترکہ انتخابات قبول کرنے کے لیے تیار ہیں۔۱۸؎ مسلمان بمبئی پریذیڈنسی سے سندھ کی علیحدگی چاہتے تھے۔ اُن کی دلیل یہ تھی کہ بمبئی کے ساتھ سندھ کا الحاق ۱۸۴۲ء میں، انگریزوں کے قبضے کے کچھ ہی عرصے کے بعد کیا گیا تھا۔ اہل سندھ زبان، مذہب اور نسل کے لحاظ سے بمبئی پریذیڈنسی کے لوگوں سے بالکل مختلف تھے۔ سندھ اور پریذیڈنسی کے درمیان گجرات اور کاٹھیاواڑ کے علاقے حائل تھے۔ پھر یہ کہ سندھ کا بمبئی سے بذریعہ ریل براہِ راست تعلق نہ تھا۔ شمال مغربی سرحدی صوبہ (جو ۱۹۰۱ء میں پنجاب سے الگ کرکے بنایا گیا تھا) اور بلوچستان اِس بات کے حق دار تھے کہ آئینی اصلاحات سے اُنھیں بھی فائدہ ہو۔ ان صوبوں کے مسلمانوں کو صوبائی اور مرکزی اسمبلیوں میں حقِ نمایندگی سے کیوں محروم رکھا جارہا ہے، جب کہ ہندوستان کے ددسرے صوبوں کے لوگ نسبتہً ہندوئوں زیادہ ترقی یافتہ طرزِ حکومت سے مستفید ہورہے ہیں؟ مسلمان بنگال اور پنجاب میں اکثریت میں تھے۔ اگر ان دو صوبوں میں آبادی کے تناسب سے نشستیں مخصوص کی جائیں تو قیاس اغلب یہ تھا کہ صوبائی کونسلوں میں مسلم ارکان کو اکثریت حاصل ہوجائے گی۔ اسی طرح اگر سندھ کو بمبئی پریذیڈنسی سے الگ کرلیا جائے تو یہاں کے مسلمانوں کی تعداد ۷۵ فی صد، اور صوبہ سرحد اور بلوچستان کی تعداد ۹۰ فی صد تھی۔ اگر مسلمانوں کے مطالبات مان لیے جائیں تو اِن صوبوں میں مسلم اکثریت خودبخود اقتدار میں آجائے گی۔ گویا شمال مغربی ہندوستان میں چار مسلم صوبوں کا ایک بلاک قائم ہونے کا پورا امکان تھا، یعنی پنجاب، سندھ، صوبہ سرحد اور بلوچستان کا بلاک۔ جناح کی شرائط مسلمانوں کی رائے عامہ کے مطابق تھیں، لیکن مسلمان لیڈروں میں جداگانہ انتخابات سے دست بردار ہونے سے متعلق اختلاف موجود تھا۔ پنجاب کے مسلمان لیڈر اس امر سے بخوبی آگاہ تھے کہ پنجاب، سندھ اور بنگال میں اقتصادی طور پر ہندوئوں کو برتری حاصل ہے۔ انھیں یہ تشویش بھی لاحق تھی کہ مسلمانوں کے جداگانہ انتخابات سے دست بردار ہونے سے، ہندو ایسے مسلمان نمایندوں کو منتخب نہ ہونے دیں گے جو مسلم مفادات کے سچے ترجمان و نگران ہوں گے۔ اسی لیے جناح نے پنجاب کے مسلم لیڈروں کو ترغیب دینے کے لیے یہ دلیل دی کہ اصل مقصد قومی تشخص کی برقراری اور مسلمانوں کے حقوق کا تحفظ ہے، لہٰذا جداگانہ انتخابات بجائے خود مقصد نہیں ہے۔۱۹؎ یکم مئی ۱۹۲۷ء کو پنجاب صوبائی مسلم لیگ کے اجلاس منعقدہ لاہور میں علامہ اقبال نے جُداگانہ انتخابات کے حق میں اور مشترکہ انتخابات کو قبول کرنے کے خلاف ایک قرارداد پیش کی، جس کی تائید میں اقبال نے کہا: ’’مجھے یہ کہنے کا حق پہنچتا ہے کہ میں سب سے پہلا ہندوستانی ہوں جس نے ہندو مسلم اتحاد کی اہمیت و ضرورت کا احساس کیا اور میری ہمیشہ سے آرزو ہے کہ اتحاد مستقل حیثیت اختیار کرلے، لیکن حالات حلقہ ہائے انتخابات کے اشتراک کے لیے موزوں نہیں ہیں اور ہمارے صدر (سر محمد شفیع) نے ہندو رہنماؤں کی تقریروں کے جو اقتباسات اپنے خطبۂ صدارت میں دیے ہیں، اُن سے ہندوئوں کی افسوسناک ذہنیت آشکار ہوتی ہے۔ اِس ذہنیت کو ملحوظ رکھتے ہوئے تو حلقہ ہائے انتخاب کا اشتراک کسی حالت میں بھی گوارا نہیں کیا جاسکتا۔ میں حیران ہوں کہ مسلمانوں کے خلاف اِس قسم کی ذہنیت اختیار کرنے کی ہندوئوں کو کیوں ضرورت پڑی۔ مسلمان تعداد میں کم ہیں۔ اقتصادی حیثیت سے پیچھے ہیں۔ تعلیم میں پسماندہ ہیں۔ ویسے بڑے بھولے بھالے ہیں۔ حکومت انھیں آسانی سے چکنی چپڑی باتیں کرکے پھسلالیتی ہے۔ ہندو انھیں پھسلالیتے ہیں۔ میں حیران ہوں کہ ہندوئوں نے یہ ذہنیت کیوں اختیار کی، اور یہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہندوئوں کی ذہنیت ہے، اگر اور کوئی وجہ نہ ہوتی تو میں کہتا کہ تنہا اِسی وجہ سے حلقہ ہائے انتخاب الگ رکھے جائیں۔… آخر میں مسلمانوں سے ایک ضروری بات کہنا چاہتا ہوں۔ وہ یہ ہے کہ مسلمان اپنے پاؤں پر کھڑے ہوجائیں۔ ایک طرف ہندوئوں کی کوششیں اُن کے خلاف ہورہی ہیں۔ دوسری طرف حکومت کے موجودہ نظام کی سرگرمیاں مسلمانوں کے خلاف جارہی ہیں۔ اِن مصیبتوں میں بچاؤ کی صورت محض یہ ہے کہ مسلمان اپنے پاؤں پر کھڑے ہوجائیں اور مردانہ وار ہر مصیبت کا مقابلہ کریں۔‘‘۲۱؎ کانگرس اور دوسری ہندوتنظیموں نے آیندہ آئینی کمیشن کا بائیکاٹ کرنے کا فیصلہ کیا، جس کی تقرری کا اعلان برٹش راج نے نومبر ۱۹۲۷ء میں کیا تھا۔ کانگرس کو ناراضی اس بات پر تھی کہ مجوزہ کمیشن میں ہندوستانی نمایندے شامل نہیں کیے گئے تھے۔ جناح صاحب کو اب تک امید تھی کہ ہندوئوں اور مسلمانوں میں کوئی سمجھوتہ ہوجائے گا، اسی لیے انھوں نے مسلم لیگ میں اپنے حامیوں کو ترغیب دی کہ وہ کمیشن کے بائیکاٹ کے حق میں ایک قراردادلائیں۔ مولانا محمد علی جوہر نے جناح صاحب کی تائید کی۔ لیکن پنجاب کے بعض لیڈر، جن میں سر محمد شفیع، علامہ اقبال اور مولانا حسرت موہانی شامل تھے، کمیشن کے ساتھ تعاون کرنے کا فیصلہ کیا۔ علامہ اقبال نے پنجاب صوبائی مسلم لیگ کے سیکرٹری کی حیثیت سے یہ رائے دی کہ کمیشن میں ہندوستانی نمایندوں کی عدم شمولیت سے صرف یہ ثابت ہوتا ہے کہ دوبڑی قوموں میں باہمی اعتماد نہیں ہے۔ اُنھوں نے اس امر کی بھی نشان دہی کی کہ جہاں تک اقلیتوں کا تعلق ہے، وہ کمیشن سے تعاون کی صورت میں اِس پوزیشن میں ہوں گے کہ کمیشن کے رُوبرو اپنی اُمیدیں اور اپنے خدشات پیش کرسکیں۔ مولانا محمد علی جوہر نے کمیشن سے تعاون کرنے کے بارے میں علامہ اقبال کا بیان مسترد کردیا۔ انھوں نے اپنے مضمون میں رائے زنی کرتے ہوئے لکھا کہ سب جانتے ہیں کہ سرمحمد شفیع جیسا شخص وائسرائے سے اختلاف نہیں کرے گا، اسی لیے اُنھوں نے اپنی وفاداری کا گیت گانا شروع کردیا ہے یہ پنجاب کی بدقسمتی ہے کہ علامہ محمد اقبال جیسے بڑے رہنما سرمحمد شفیع جیسے وفاداروں کو اپنی ’’آزاد خیالی‘‘ کی سطح تک اُوپر نہ اُٹھاسکے۔ اس کے برعکس معلوم یہ ہوا کہ یہ خود سرمحمد شفیع کی سطح تک گرگئے ہیں۔۲۲؎ اقبال نے مولانا محمد علی کی رائے کا کوئی جواب نہ دیا۔ البتہ ۸؍دسمبر۱۹۲۷ء کو انھوں نے اپنے بیان میں کہا کہ مسلمانوں کے لیے اُن حقوق کے لیے جدوجہد کرنا ضروری ہے، جو ہندو اُن کو دینا نہیں چاہتے۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ جو مسلمان لیڈر کمیشن کے بائیکاٹ کی بات کررہے ہیں، اُن کا تعلق ایسے صوبوں سے ہے، جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں، اسی لیے وہ پنجاب اور بنگال کے مسلمان لیڈروں کی حکمتِ عملی سمجھنے سے قاصر ہیں۔۲۳؎ جناح کی یہ تجویز کہ چند شرائط کے ساتھ جداگانہ انتخابات کا اُصول ترک کردیا جائے، ابھی تک آل انڈیا مسلم لیگ نے اپنے طریقِ کار کے مطابق منظور نہیں کی تھی۔ اب یہ مسئلہ درپیش تھا کہ اس مقصد کے لیے مسلم لیگ کا سالانہ اجلاس کہاں منعقد کیا جائے۔ اُس زمانے میں ڈاکٹر کچلو مسلم لیگ کے سیکرٹری جنرل تھے، اور وہ کٹر قوم پرست (نیشنلسٹ) مسلمان تھے۔ وہ بہت پرجوش تھے کہ مسلم لیگ کے اجلاسوں میں جناح کی تجویز منظور ہو، تاکہ میثاقِ لکھنؤ کی طرز پر ہندوئوں اور مسلمانوں کے درمیان کوئی سمجھوتہ طے پائے۔ ڈاکٹر کچلو مسلم لیگ کا یہ اجلاس لاہور میں منعقد کرنے کے اس لیے خلاف تھے کہ پنجاب کی صوبائی لیگ نے جداگانہ انتخابات سے دست بردار ہونے کی مخالفت کی تھی، لہٰذا یہ اجلاس کلکتہ میں منعقد کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ علامہ اقبال نے یہ فیصلہ غیر آئینی قراردیا۔ انھوں نے اپنے بیان میں صاف کہا کہ جداگانہ انتخابات سے دست بردار ہونے کی منظوری لینے کا موقع کلکتہ میں زیادہ روشن ہے۔۲۴؎ اِن واقعات کے سبب مسلم لیگ دو حصوں میں بٹ گئی۔ ایک گروپ کا نام جناح لیگ اور دوسرے گروپ کا نام شفیع لیگ قرار پایا جناح لیگ نے اپنا سالانہ اجلاس سرمحمد یعقوب کی صدارت میں کلکتہ میں منعقد کیا۔ سرمحمد شفیع آل انڈیا مسلم لیگ کے شفیع گروپ کے صدر اور علامہ اقبال سیکرٹری جنرل بن گئے۔ شفیع لیگ کا اجلاس لاہور میں منعقد ہوا۔ ۱۹؍دسمبر ۱۹۲۷ء کو اپنے گروپ کی حکمتِ عملی کی وضاحت کرتے ہوئے علامہ اقبال نے بیان دیا کہ آئینی کمیشن کی تقرری سے پہلے مسلمانوں نے اکثریتی قوم سے باربار درخواست کی کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ اپنے اختلافات دور کرکے کوئی سمجھوتہ کرلیں، لیکن اُنھیں ہندو لیڈر شپ سے صرف ایک ہی متکبرانہ جواب ملا: ’’نہیں‘‘۔ مسلمانوں کو احساس تھا کہ وہ دولت، اثر و رسوخ، سیاسی قیادت اور عددی طاقت میں ہندوئوں کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ اگر مسلمان، ہندوئوں اور حکومتِ برطانیہ سے بار بار اپنے حقوق کے تحفظ کا مطالبہ نہ کرتے تو ایک جداگانہ قوم کی حیثیت سے اُن کی سیاسی موت یقینی تھی۔۲۵؎ دسمبر ۱۹۲۷ء میں موچی دروازے، لاہور کے باہر مسلمانوں کے جلسۂ عام سے خطاب کرتے ہوئے علامہ اقبال نے اعلان کیا کہ اس وقت مسلمانوں کے سامنے دو بڑے مسائل ہیں: ایک مسئلہ سوراج (آزادی) کا ہے اور دوسرا جداگانہ انتخابات کی برقراری ہے۔ انھوں نے کہا کہ اکثریتی قوم کے منفی رویے کی وجہ سے مسلمان آزادی کی جدوجہد میں شریک ہونے سے بددِل اور مایوس ہوگئے ہیں۔ ان حالات میں اُنھیں اپنے ملی حقوق کے تحفظ کے لیے کمربستہ ہوجانا چاہیے، کیونکہ مسلم انڈیا کی آیندہ ترقی کا انحصار اسی مسئلے پر ہے۔۲۶؎ شفیع لیگ نے مئی ۱۹۲۸ء میں ایک کمیٹی بنائی، تاکہ وہ مسلم مطالبات کا ایک میمورنڈم تیار کرے جو آئینی کمیشن کو پیش کیا جائے۔ علامہ اقبال نے اس کمیٹی کے رُکن کی حیثیت سے میمورنڈم میں کامل صوبائی خود مختاری کا مطالبہ شامل کرنے پر اصرار کیا۔ اقبال کی یہ بات تسلیم کرلی گئی۔ دریں اثنا اقبال کو اپنے علاج کے سلسلے میں اپنے معالج کے پاس دہلی جانا پڑا، لہٰذا وہ کمیٹی کے آیندہ اجلاسوں میں شریک نہ ہوسکے۔ دہلی سے واپسی پر وہ یہ جان کر سخت برہم ہوئے کہ کامل صوبائی خودمختاری کا مطالبہ شامل کرنے کی بجائے، میمورنڈم میں وحدانی طرزِ حکومت کی تجویز شامل کی گئی ہے، جس کا مطلب یہ تھا کہ امن و امان قائم کرنے اور عدلیہ کے محکمے براہِ راست صوبائی گورنر کے کنٹرول میں رہیں گے۔ احتجاج کے طور پر اقبال شفیع لیگ سے بطور سیکرٹری جنرل مستعفی ہوگئے۔ اقبال کے استعفے پر عوام کے اشتعال کو محسوس کرتے ہوئے، سر محمد شفیع مسلمانوں کے مطالبے کے آگے جھک گئے اور کامل صوبائی خودمختاری کا مطالبہ میمورنڈم میں شامل کرلیا گیا۔ تب اقبال نے بھی اپنا استعفیٰ واپس لے لیا اور میمورنڈم پر دستخط کردیے۔۲۷؎ بالآخر اقبال ۵نومبر۱۹۲۸ء کو کمیشن کے رُو برو پیش ہوئے۔ لیکن وہ کمیشن کی رپورٹ سے مطمئن نہیں تھے جو ۱۹۳۰ء میں شائع ہوئی۔ اقبال نے ۲۴جون ۱۹۳۰ء کو اپنے بیان میں رپورٹ پر سخت تنقید کی۔۲۸؎ کمیشن نے جداگانہ انتخابات کو برقرار رکھنے کے سوا تمام مسائل پر مسلمانوں کے خلاف فیصلہ کیا تھا لیکن جب وائسرائے نے لندن میں منعقد ہونے والی پہلی گول میزکانفرنس کا اعلان کیا تو کمیشن کی رپورٹ کی اہمیت ختم ہوگئی۔ نہروکمیٹی نے، جو ہندوستان کا عام طور پر مسلّمہ، آیندہ آئین مرتب کرنے میں مشغول تھی، مسلمانوں کے مطالبات مسترد کردیے جو مولانا محمد علی، شوکت علی اور حسرت موہانی نے پیش کیے تھے۔ ۱۹۲۸ء میں نہروکمیٹی کی رپورٹ شائع ہونے کے بعد، جناح صاحب نے کلکتہ میں منعقد ہونے والے نہرو آئین کنونشن میں اپنی ترامیم پیش کیں، لیکن انھیں یہ دیکھ کر مایوسی ہوئی کہ اُن کی پیش کردہ ایک بھی ترمیم منظور نہیں ہوئی۔ چونکہ رپورٹ میں انتہائی طاقتور مرکز کی حکومت بنانے کی سفارش کی گئی تھی، جس میں اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کا ذرا بھی خیال نہیں کیا گیا تھا، لہٰذا مسلمانوں کو شبہ ہوا کہ یہ رپورٹ ہندو مہاسبھا کے دباؤ کے تحت مرتب کی گئی ہے۔ جناح صاحب اپنی ترامیم کو منظور کرانے میں ناکام رہے تو اُنھوں نے اپنے بیان میں کہا: ’’ہندومہاسبھا نے الٹی میٹم دیا ہے کہ اگر رپورٹ میں ہندومسلم مسئلے سے متعلق ایک لفظ بھی تبدیل کیا گیا تو وہ نہرورپورٹ کی حمایت سے دست بردار ہوجائے گی… دریں حالات، میں نے آل انڈیا مسلم لیگ کی تجویز کردہ انتہائی معقول ترامیم پیش کی تھیں، تاکہ اُن کی منظوری کی صورت میں نہرورپورٹ مسلم لیگ کے نمایندوں کو پیش کی جاسکے کہ وہ بھی اپنی منظوری دے دیں، لیکن یہ ترامیم بڑی ڈھٹائی سے مسترد کردی گئیں۔‘‘۲۹؎ علامہ اقبال نے نہروکمیٹی کی رپورٹ کا موازنہ رائل کمیشن کی سفارشات سے کرتے ہوئے لکھا: ’’لیکن جہاں تک مرکزی وفاقی ریاست کے اختیارات کا تعلق ہے، انگلستان اور ہندوستان کے پنڈتوں کے تجویز کردہ دساتیر میں جو باریک اختلاف ہے، اُس سے دونوں کی نیتوں کا اظہار ہوتا ہے۔ ہندوستان کے پنڈت مرکزی حکومت کے موجودہ اختیارات میں کوئی تبدیلی نہیں چاہتے۔ اُن کی صرف یہ خواہش ہے کہ یہ حکومت پوری طرح مرکزی مقننہ کے سامنے جوابدہ ہو، جس میں اُن کی اکثریت اُس وقت اور بھی زیادہ طاقتور ہوجائے گی، جب نامزد اراکین کا طریقہ ختم ہوجائے گا۔ اس کے برعکس انگلستان کے پنڈتوں نے یہ محسوس کرتے ہوئے کہ اگر جمہوریت کا اطلاق مرکز میں کیا گیا تو یہ اُن کے مفاد کے خلاف ہوگا اور ذمہ دارانہ طرزِحکومت کی جانب پیش قدمی کی صورت میں تمام اختیارات اُن کے ہاتھوں سے نکل جائیں گے۔ اس لیے اُنھوں نے وفاق کے اصول کو رائج کیا ہے اور اس کے متعلق کچھ تجاویز پیش کرکے بظاہر آغاز کردیا ہے، لیکن اُن کی سوچ کے مطابق اِس اصول کی جو قدر و قیمت ہے، وہ اس سے بالکل مختلف ہے جو مسلم ہندوستان کے پیشِ نظر ہے۔ مسلمان وفاقی طرزِ حکومت کا مطالبہ اس لیے کرتے ہیں کہ یہ ہندوستان کے سب سے مشکل مسئلے یعنی فرقہ وارانہ مسئلے کا حل ہے۔ وفاق کے بارے میں شاہی کمیشن کا نقطۂ نظر اگرچہ اصولاً درست ہے، لیکن اس سے وفاقی ریاستوں میں ذمہ دارانہ حکومت کا قیام مقصود نہیں ہے۔ اس کا مدعا بجز اس کے کچھ نہیں کہ ہندوستان میں جمہوریت کے نفاذ سے انگریزوں کے لیے جو صورتِ حال پیدا ہوگئی ہے، اُس سے کسی طرح فرار حاصل کیا جائے اور فرقہ وارانہ مسئلے کا یا تو بالکل اِس میں خیال ہی نہیں کیا گیا یا اسے ویسے ہی چھوڑ دیا ہے… میں ہندوستان کے مسلمانوں کو کبھی یہ مشورہ نہیں دوں گا کہ کسی ایسے نظامِ حکومت پر خواہ وہ برطانوی ہو یا ہندوستان میں وضع کیا گیا ہو، اظہارِ رضامندی کریں جو حقیقی وفاق کے اُصول کی نفی کرے یا اُن کے جداگانہ سیاسی تشخص کو تسلیم نہ کرے۔‘‘۳۰؎ (رائل کمیشن کی رپورٹ مسلم کانفرنس نے اپنے اجلاس منعقدہ، جولائی ۱۹۳۰ء میں مسترد کردی تھی)۔ جس وقت ہندوستان کے آیندہ دستور سے متعلق مسائل کا حل ڈھونڈا جارہا تھا، مسلمان نہ صرف یہ کہ مطمئن نہ تھے، بلکہ وہ آپس میں تقسیم بھی ہوگئے تھے۔ اتحاد پیدا کرنے کے لیے ایک متحدہ فرنٹ بنانے کا فیصلہ کیا گیا جو ’’آل پارٹیز مسلم کانفرنس‘‘ کی صورت میں ظاہر ہوا۔ اقبال اِس کانفرنس کے بانیوں میں سے تھے، اور انھوں نے مسلمانوں کے مطالبات مرتب کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ کانفرنس کا اجلاس ۲۹دسمبر۱۹۲۸ء کو دہلی میں آغا خان کی صدارت میں منعقد ہوا۔ کانفرنس نے متنازعہ مسائل مثلاً نہرورپورٹ یا رائل کمیشن کی رپورٹ کا حوالہ دیے بغیر، ایک قرارداد منظور کی، جس میں مسلمانوں کے دس آئینی مطالبات پیش کیے گئے۔ ایک مطالبہ یہ بھی تھا کہ مسلمانوں کو کسی بھی حالت میں جداگانہ انتخابات سے محروم نہ کیا جائے (یہ دس مطالبات عام طور پر ’’تجاویز دہلی‘‘ کے نام سے معروف ہیں)۔ اس قرارداد کی تائید میں تقریر کرتے ہوئے علامہ اقبال نے کہا، کہ نصف صدی قبل سرسیّد نے مسلمانوں کے لیے جو راہ متعین کی تھی، وہ بالکل درست تھی، اور بے شمار تلخ تجربات کے بعد اب مسلمان اس کی اہمیت محسوس کرنے لگے ہیں۔ انھوں نے اعلان کیا: ’’آج میں نہایت صاف لفظوں میں کہنا چاہتا ہوں کہ اگر مسلمانوں کو ہندوستان میں بہ حیثیت مسلمان ہونے کے زندہ رہنا ہے تو اُن کو جلد از جلد اپنی اصلاح و ترقی کے لیے سعی و کوشش کرنی چاہیے۔ اور جلد از جلد ایک علیحدہ پولٹیکل پروگرام بنانا چاہیے۔ آپ جانتے ہیں کہ ہندوستان میں بعض حصے ایسے ہیں، جن میں مسلمانوں کی اکثریت ہے اور بعض حصے ایسے ہیں جن میں وہ قلیل تعداد میں ہیں۔ ان حالات میں ہم کو علیحدہ طور پر ایک پولٹیکل پروگرام بنانے کی ضرورت ہے۔ آج ہر قوم اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے سعی و کوشش کررہی ہے۔ پھر کیا وجہ ہے کہ مسلمان اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے سعی و کوشش نہ کریں۔ آج اس کانفرنس میں متفقہ طور پر جو ریزولیوشن پیش ہوا ہے، وہ نہایت صحیح ہے اور اس کی صحت کے لیے میرے پاس ایک مذہبی دلیل ہے، اور وہ یہ کہ ہمارے آقائے نامدار حضور سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ میری اُمّت کا اجتماع کبھی گمراہی پر نہ ہوگا۔‘‘۳۲؎ ہندوقیادت کی جانب سے نہرو رپورٹ میں اپنی ترامیم کے استرداد کے تلخ تجربے کے بعد، محمد علی جناح نے محسوس کرلیا کہ اب ہندوئوں سے حقیقی معاملہ فہمی کا کوئی امکان نہیں ہے۔ لہٰذا اُن کے پاس اس کے سوا کوئی چارۂ کار نہیں رہا کہ وہ حسب سابق مسلمانوں کے مفادات و حقوق کے تحفظ پر اپنی پوری توجہ صرف کردیں۔ آل پارٹیز مسلم کانفرنس کی قرارداد میں جو دس مطالبات (تجاویز دہلی) مرتب کیے گئے تھے، اُن کا بغور مطالعہ کرنے کے بعد جناح صاحب اس نتیجے پر پہنچے کہ اِن کی مزید اصلاح ہوسکتی ہے۔ چنانچہ انھوں نے چارمزید مطالبات قرارداد میں شامل کرانے کے لیے مرتب کیے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ اس امر کے لیے بھی کوشاں تھے کہ مسلمان لیڈروں کے باہمی اختلافات دور کیے جائیں اور مسلم لیگ کے دونوں گروپوں کو دوبارہ متحد کیا جائے۔ اس مقصد سے جناح صاحب نے مارچ ۱۹۲۹ء میں سرمحمد شفیع سے ملاقات کی۔ دونوں کے درمیان اتفاق رائے سے طے پایا کہ ۳۱؍مارچ۱۹۲۹ء کو دہلی میں مسلم لیگ کے دونوں گروپوں پر مشتمل اجلاس منعقد کیا جائے، جس میں نہرورپورٹ کو رسماً مسترد کیا جائے، نیز عام طور پر مسلمہ مسلم مطالبات پر مشتمل ایک قرارداد منظور کی جائے۔ اس انتظام کے تحت شفیع لیگ کے تمام ارکان، بشمول علامہ اقبال، دہلی میں جمع ہوئے۔ جناح صاحب نے ایک خط میں لکھا ہے کہ اس کے بعد جناح اور اقبال کے نقطۂ ہائے نظر میں مکمل ہم آہنگی ہوگئی جو اپریل۱۹۳۸ء میں اقبال کی وفات تک قائم رہی۔۳۳؎ تاہم لیگ کے دونوں گروپوں میں اتحاد پیدا نہ ہوسکا، کیونکہ قوم پرست مسلمانوں کے ایک گروہ نے اس موقع پر خلل پیدا کردیا تھا۔ جناح صاحب تو اپنی ذاتی حیثیت میں آل پارٹیز مسلم کانفرنس کی منظور کردہ قرارداد قبول کرنے کے لیے تیار تھے، کیونکہ اس میں مسلمانوں کی اکثریت کی آرا کی ترجمانی کی گئی تھی، لیکن بعض قوم پرست مسلمان جو اُن کے ارد گرد جمع تھے اور جن کا تعلق مسلم لیگ کے اُنھی کے گروپ سے تھا، مزاحم ہوگئے وہ ہر قیمت پر نہرورپورٹ قبول کرنے پر مُصر تھے۔۳۴؎ جناح صاحب اپنے گروپ کے قوم پرست حضرات کے رویے سے مایوس ہوکر، اُن سے الگ ہوگئے۔ انھوں نے آل پارٹیز مسلم کانفرنس کی قرارداد میں شامل دس مطالبات میں اپنی طرف سے چار مزید مطالبات کا اضافہ کیا اور اخبارات کو جاری کردیے۔ یہ جناح کے ’’چودہ نکات‘‘ کے نام سے مشہور ہوئے، اور توقع یہ کی گئی کہ ہندوستان کے آیندہ دستور میں یہ چودہ نکات شامل کیے جائیں گے۔ چودہ نکات یہ تھے: ۱- آیندہ کا آئین وفاقی ہو، جس میں تمام غیر معینہ اُمور صوبوں کے حوالے کیے جائیں۔ ۲- تمام صوبوں کو مکمل خود مختاری حاصل ہو اور اُنھیں یکساں اختیارات دیے جائیں۔ ۳- ملک کی تمام اسمبلیوں اور انتخابی اداروں میں اقلیتوں کو مؤثر نمایندگی دی جائے اور کسی قوم کی اکثریت کو اقلیت یا برابری میں تبدیل نہ کیا جائے۔ ۴- مرکزی قانون ساز اسمبلی میں مسلمانوں کو کم از کم ایک تہائی نمایندگی دی جائے۔ ۵- جداگانہ انتخابات کا طریقہ رائج کیا جائے اور اگر کوئی قوم اپنی مرضی سے مخلوط انتخاب کو پسند کرے تو اُسے اِس کی اجازت دی جائے۔ ۶- اگر کسی وقت صوبوں کی حدود کا از سر نو تعین کیا جائے تو یہ تبدیلی بنگال، پنجاب اور صوبہ سرحد میں مسلمانوں کی اکثریت پر اثر انداز نہ ہو۔ ۷- تمام قوموں کو مکمل آزادی، آزادیِ ضمیر، آزادیِ عبادت، آزادیِ رسوم، آزادیِ تعلیم و تبلیغ اور آزادیِ اجتماع کی ضمانت دی جائے۔ ۸- کوئی بل، قرارداد یا تحریک کسی بھی قانون ساز اور انتخابی ادارے میں پیش نہ کی جائے، اگر اس بل سے متاثرہ قوم کے تین چوتھائی لوگ اس کی مخالفت کریں۔ ۹- سندھ کو بمبئی سے علیحدہ کرکے جداگانہ صوبے کی حیثیت دی جائے۔ ۱۰- دیگر صوبوں کی مانند سرحد اور بلوچستان میں بھی اصلاحات جاری کی جائیں۔ ۱۱- مسلمانوں کو بشرطِ قابلیت سرکاری اور خودمختار اداروں میں دیگر ہندوستانیوں کے پہلو بہ پہلو ملازمتیں دی جائیں۔ ۱۲- دستور میں ایسے تحفظات رکھے جائیں، جن سے اسلامی تہذیب و ثقافت کا تحفظ ہوسکے اور مسلمانوں کی تعلیم میں ترقی ہو اور اُن کی زبان، شخصی قوانین اور اوقاف کا تحفظ ہوسکے۔ ۱۳- مرکزی اور صوبائی وزارتوں میں مسلمانوں کو ایک تہائی نمایندگی دی جائے اور اُن کی شمولیت کے بغیر کوئی کابینہ نہ بنائی جائے۔ ۱۴- دستور میں اُس وقت تک کوئی تبدیلی یا ترمیم نہ کی جائے، جب تک وفاق میں شامل تمام صوبے اور ریاستیں اس تبدیلی یا ترمیم کی منظوری نہ دیں۔ جناح صاحب کے ’’چودہ نکات‘‘ کی اشاعت کے بعد مسلم لیگ کے دونوں گروپوں کے اختلافات ختم ہوگئے۔ مسلم لیگ کا اتحاد رسماً ۲۸؍فروری۱۹۳۰ء کو ہوا جب قوم پرست لیڈروں نے، بشمول ڈاکٹر انصاری، ڈاکٹر کچلو، ابوالکلام آزاد اور دوسروں نے مسلم لیگ چھوڑ دی۔ چونکہ مسلم لیگ کا امیج حالیہ افتراق کی وجہ سے اور کچھ اس وجہ سے بھی کہ ’’مسلم قوم پرستوں‘‘ کی صفوں میں ’’قوم پرست مسلمان‘‘ گھُس آئے تھے، لہٰذا فیصلہ کیا گیا کہ مسلم لیگ کے ساتھ ساتھ مسلم کانفرنس کو بھی برقرار رکھا جائے۔ ہندو مہاسبھا کا سالانہ اجلاس ۳۰ مارچ۱۹۲۹ء کو ڈاکٹر مونجے کی صدارت میں بمقام سُورت منعقد ہوا، جسے ہندو مسلم تعلقات کی داستان کا خاتمہ کہا جاتا ہے۔ ایک قرارداد کی منظوری سے ہندو مہاسبھا اپنے سابقہ موقف پر ڈٹ گئی کہ کسی بھی حالت میں کسی قوم کے ساتھ خصوصی سلوک نہ کیا جائے۔۳۵؎ نومبر۱۹۳۰ء میں گول میز کانفرنس کا پہلا اجلاس لندن میں منعقد ہوا۔ اس اجلاس میں ہندوستانی ریاستوں کے نمایندے اور برطانوی ہند کی بے شمار قومیتوں اور تنظیموں کے نمایندے شریک ہوگئے۔ البتہ کانگرس نے شرکت سے انکار کردیا، تاوقتیکہ ہندوستان کو پورے اور فوراً ڈومینین سٹیٹس کی ضمانت نہ دی جائے۔ نمایاں ہندو لیڈر، جن میں مہاتماگاندھی اور پنڈت موتی لال نہرو شامل تھے، جنھوں نے عدم تعاون کی تحریک چلائی تھی، گرفتار کرلیے گئے۔ مسلم وفد میں چند سرکردہ ارکان شامل تھے، آغا خان، محمد علی جناح، مولانا محمد علی، سر محمد شفیع، مولوی فضل الحق۔ اُن کے مطالبات مشترک تھے جن کی صراحت جناح صاحب کے ’’چودہ نکات‘‘ میں موجود تھی۔ پہلی گول میز کانفرنس میں ہندوستانی ریاستوں اور برٹش انڈیا پر مشتمل ایک وفاقی یونین بنانے پر غور ہوا۔ صوبوں کو کسی قدر خود مختاری دی جائے۔ شمال مغربی سرحدی صوبے میں آئینی اصلاحات لائی جائیں۔ سندھ کو بمبئی پریذیڈنسی سے الگ کیا جائے۔ اِن مسائل پر ہمدردانہ غور ہوا۔ صوبائی اور مرکزی قانون ساز اسمبلیوں میں سیٹوں کے تعین کا مسئلہ لاینحل رہا۔ مسلمان لیڈروں کو ایک ایسا ہندوستانی وفاق بنانے پر شک ہوا جس میں ریاستیں بھی شامل ہوں (اس لیے کہ مسلم ریاستیں معدودے چند تھیں)۔ منصوبہ یہ تھا کہ ہندوستان میں برطانوی اقتدار جوں کا توں سلامت رہے، ہندوئوں کی غیر معمولی اکثریت کا خاص خیال رکھا جائے، جنھوں نے پہلے فیڈریشن کی سکیم منسوخ کردی تھی، لیکن اب وہ نئی سوچی سمجھی سکیم کو تسلیم کرنے کے لیے تیار تھے۔ علامہ اقبال کو اگرچہ پہلی گول میز کانفرنس میں مدعو نہیں کیا گیا تھا، تاہم اُن کی رائے یہ تھی کہ مرکزی حکومت کی تشکیل کے بارے میں ہندوئوں اور مسلمانوں کے درمیان جو اختلافات ہیں، اُن سے انگریز والیانِ ریاست کے ذریعے فائدہ اٹھارہے ہیں۔ انھوں نے کہا تھا کہ مرکزیت (وفاقیت) سے مسلمانوں کو کوئی فائدہ نہ پہنچے گا، جب تک اُنھیں پنجاب، بنگال، صوبہ سرحد، سندھ اور بلوچستان میں اکثریتی حقوق مع تمام مابقیٰ اختیارات، کی ضمانت نہیں دی جاتی اور مرکزی قانون ساز اسمبلی میں اُن کے لیے ایک تہائی سیٹیں متعین کرنے کا وعدہ نہیں کیا جاتا۔۳۶؎ مولانا محمد علی جوہر نے وزیراعظم کے نام، اپنے یکم جنوری ۱۹۳۱ء کے مکتوب میں تحریر کیا تھا: مسلمان اُس مفہوم میں اقلیت نہیں ہیں، جس مفہوم میں گزشتہ جنگ اور اُس کے آخری ایام میں ہمیں یورپی اقلیتوں کی مانند سمجھا جاتا تھا… مسلمان ہندوستان کی ایک ایسی قوم جس کی آبادی سات کروڑ سے تجاوز کرچکی ہو، اُسے کسی بھی اعتبار سے اقلیت نہیں کہا جاسکتا… اتنی بڑی آبادی کو اقلیت کہنا محض حماقت ہے۔‘‘۳۷؎ خود وہ مسلمان لیڈر بھی، جو گول میز کانفرنس میں شریک ہوئے، کانفرنس کے مذاکرات سے مطمئن نہ تھے۔ مولانا محمد علی۴جنوری۱۹۳۱ء کو وفات پاگئے۔ محمد علی جناح حکومتِ برطانیہ، ہندونمایندوں اور برطانیہ کی حمایت کرنے والے مسلمان نمایندوں کی سازشوں سے اس قدر بددل ہوئے کہ انھوں نے سیاست ترک کرکے مستقلاً برطانیہ میں اقامت کا فیصلہ کر لیا۔ پچھلے صفحات میں اس امر کی وضاحت کی جاچکی ہے کہ مسلم لیگ دو گروپوں میں تقسیم ہوگئی تھی، اس وجہ سے ایک گروپ جداگانہ انتخابات برقرار رکھنے کے حق میں تھا، دوسرا گروپ دست بردار ہونے کے حق میں تھا۔ اقلیتی صوبوں کے مسلم لیگی لیڈر جداگانہ انتخابات سے دست بردار ہونے کے حق میں تھے۔ اُن کا خیال تھا کہ ہندوؤں کے ساتھ بامقصد سیاسی سمجھوتہ ہوسکتا ہے۔ مسلم اکثریتی صوبوں (بالخصوص پنجاب) کے لیڈر ہندو مسلم سمجھوتے کے بارے میں پراُمید نہیں تھے۔ وہ ہر قیمت پر جداگانہ انتخابات برقرار رکھنے پر تُلے ہوئے تھے۔ لیکن یہ معاملہ اتنا سادہ نہیں ہے جتنا بظاہر نظرآتا ہے، بشرطیکہ ہم اِن اختلافات کے نظریاتی پس منظر سے واقف ہوں، خصوصاً علامہ محمد اقبال اور محمد علی جناح کے نقطۂ نظر سے آگاہ ہوں۔ یہ بات دلچسپی سے خالی نہیں کہ علامہ اقبال نے مسلم لیگ (شفیع گروپ) کے سیکرٹری/ سیکرٹری جنرل کی حیثیت سے جو اخباری بیانات جاری کیے، اُن پر دوسرے مسلم لیگی لیڈروں یعنی سرمحمد شفیع، سرفیروز خان نُون، نواب سرذوالفقار علی خان اور سرعبدالقادر وغیرہم کے بھی دستخط ہوتے تھے، جن کو عام طور پر حکومتِ برطانیہ کے حامی خیال کیا جاتا تھا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا محمد اقبال (بلکہ سرمحمد اقبال) بھی، جیسا کہ مولانا محمد علی نے الزام عائد کیا، سرمحمد شفیع اور دوسرے مسلم لیگی لیڈروں جیسے تھے؟ یا وہ یہ ضروری خیال کرتے تھے کہ اِن بااثر اور بارسوخ حضرات کو بھی اپنا ہم نوا بنایا جائے، جن کو اپنے طرزِ فکر کی راہ پر لگانے کے لیے ہی انھوں نے اِن حضرات سے روابط قائم کیے تھے؟ اُن دنوں ایک نہایت طاقتور پنجابی مسلمان لیڈر، سر فضل حسین، یونینسٹ پارٹی کے بانی اور حکومتِ برطانیہ کے بہت قریبی ساتھی، اقبال سے خوش نہیں تھے۔ سرفضل حسین کسی مسلم اکثریتی صوبے سے تعلق رکھنے والے واحد نمایاں لیڈر تھے، جنھوں نے ۱۹۱۶ء کے مسترد ’’میثاق لکھنؤ‘‘ پر دستخط کیے تھے۔ اقبال نے اُن سے اُس وقت اختلاف کیا جب وہ صوبائی قانون ساز کونسل کے رُکن تھے۔ اُس مرحلے پر اقبال کو، صوبائی سطح کے لیڈر کی حیثیت سے برطانیہ کے حامی لیڈروں اور دوسرے بارسوخ مسلم لیڈروں کی حمایت کی ضرورت تھی، تاکہ وہ آل انڈیا مسلم سیاست میں ممتاز حیثیت حاصل کرسکیں۔ مولانا محمد علی کی یہ تنقید کہ اقبال سرمحمد شفیع کی سطح پر اُتر آئے ہیں، جب انھوں نے رائل کمیشن کے ساتھ تعاون کیا تھا، جائز نہیں تھی۔ اقبال نے برطانیہ کے حامی، اپنے رفقائے کار سے اختلاف کیا تھا، بلکہ شفیع لیگ کے سیکرٹری جنرل کے عہدے سے استعفیٰ بھی دے دیا تھا، اُس وقت جب اقبال کا یہ مجوزہ مطالبہ میمورنڈم سے خارج کردیا تھا کہ صوبوں کو مکمل خودمختاری دی جائے۔ یہ مسلمانوں کے اہم ترین مطالبات میں سے تھا۔ سر محمد شفیع جیسے بااثر مسلم لیڈروں کے لیے جداگانہ انتخابات اس لیے ضروری تھے کہ ہندوستان میں کسی بھی آئینی انتظام کے تحت جب بھی الیکشن ہوں، خود اُن کے لیے اور اُن کے حامی امیدواروں کے لیے الیکشن جیتنا اور مسلم اکثریتی صوبوں میں اقتدار حاصل کرنا زیادہ آسان تھا۔ اقبال اِن محدود خطوط پر نہیں سوچتے تھے۔ وہ سرسیّد اور اُن کی دُور اندیشی کے زبردست چاہنے والے تھے۔ وہ وسیع تر افقوں تک پہنچنے اور اپنے نصب العین کے حصول کے لیے بلند عزائم اور نیک آرزوئیں رکھتے تھے۔ سرسیّد کی طرح اقبال کو بھی یہ یقین رفتہ رفتہ آیا تھا کہ ہندوؤں اور مسلمانوں میں مفاہمت کا شاید ہی کوئی امکان ہو۔ یہ یقین حاصل ہونے کے بعد اُنھیں وفاقی مرکز سے کوئی دل چسپی نہ رہی، اور اس کی جگہ مکمل صوبائی خود مختاری کے لیے کام کیا، تاکہ جغرافیائی طور پر متصلہ مسلم اکثریتی صوبے شمال مغرب میں اپنا ایک بلاک تشکیل دے سکیں (اس موضوع پر آیندہ باب میں تفصیل سے بحث کریں گے)۔ اس پس منظر میں اقبال نے مابعد الطبیعی پیرایۂ اظہار میں دعویٰ کیا کہ اس امرکا ’’الہام‘‘ صرف اُنھی کو ہوا ہے کہ سرسیّد کا تصور ایک زیادہ وسیع تعمیراتی ڈیزائن پر مرکوز تھا، جس کا جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کے مذہب و سیاست کے مستقبل سے گہرا تعلق تھا۔ اقبال کے برعکس محمد علی جناح نے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز آزاد خیال ہندوستانی لیڈروں، دادا بھائی نوروجی، کے جی گوکھلے اور فیروزشاہ مہتا کی معیت میں، ایک قوم پرست (نیشنلسٹ) کی حیثیت سے کیا تھا۔ وہ ۱۹۱۶ء کے ’’میثاق لکھنؤ‘‘ کے بانیوں میں سے تھے۔ وہ پورے ملک میں ہندو مسلم اتحاد کے سفیر کی حیثیت سے مشہور تھے۔ وہ صدق دلی سے اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ بامعنی ہندو مسلم مفاہمت کا ہر امکان موجود ہے، بشرطیکہ مسلمان جداگانہ انتخابات کے اصول سے دست بردار ہوجائیں۔ جناح اور اقبال کی باہمی کشمکش درحقیقت دوتصوراتی شخصیات کی باہمی کشمکش تھی۔ دونوں ہی مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے جدوجہد کررہے تھے، لیکن دونوں کا طریقہ مختلف تھا۔ اُس وقت جناح صاحب ’’قوم پرست مسلمان‘‘ تھے، جب کہ اقبال ’’مسلم قوم پرست‘‘ تھے۔ جناح سیاست داں تھے اور پرامید تھے کہ ایک نہ ایک دن ہندومسلم اتحاد ہوجائے گا۔ وہ اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ اگر ہندو اکثریتی صوبوں میں مسلمان خود کو محفوظ اور مطمئن محسوس کریں، تو اس کا خود بخود مطلب یہ ہوگا کہ پورے ہندوستان کے مسلمان امن چین کی زندگی بسر کریں گے۔ اقبال فلسفی تھے، انھیں ہندو مسلم اتحاد کی اُمید کم تھی۔ وہ اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ مسلمانوں کو اُن صوبوں میں اقتدار حاصل کرنے کی جدوجہد کرنی چاہیے، جہاں وہ اکثریت میں ہیں۔ اُن کی صوبائی طاقت ہندو اکثریتی صوبوں کے مسلمانوں کو تحفظ فراہم کرے گی۔ اقبال جناح سے اپنے فکر کی صداقت نہ منواسکے اور جناح اقبال کو اپنی سیاسی حکمتِ عملی کی صداقت کے بارے میں قائل نہ کرسکے۔ پس مسلم سیاست کے اِس دور میں یہ دونوں ایک دوسرے سے بے تعلق رہے۔ بالآخر ۱۹۲۹ء میں جاکر اُن کے اختلافات دور ہوئے۔ جناح صاحب ہندو مسلم سمجھوتہ کرانے کی، متعدد ناکام کوششوں کے بعد بالآخر اقبال کے تصورِ تقدیر کے قائل ہوگئے۔ وہ ہندو لیڈروں کے منفی رویے کی وجہ سے بالکل ہی مایوس ہوچکے تھے۔ اس بات کا اعتراف انھوں نے انعام اللہ خان، انڈیا بک ہاؤس، عابد روڈ، حیدر آباد دکن کے نام، اپنے ۱۴مئی ۱۹۴۴ء کے مکتوب میں کیا: ’’۱۹۲۹ء سے میرے اور مرحوم ڈاکٹر سر محمد اقبال کے درمیان مکمل اتفاق رائے رہا ہے۔ وہ عظیم اور ممتاز مسلمان تھے۔ انھوں نے ہر مرحلے پر میری حوصلہ افزائی کی اور اخیر دم تک میرے ساتھ ثابت قدم رہے۔‘‘ ایک مفکر کی حیثیت سے اقبال نے غالباً و جدانی طور پر محسوس کرلیا تھا کہ ہندوؤں کی نام نہاد ’’راست روی‘‘ مسلمانوں کے ساتھ سمجھوتہ کرنے کا راستہ بند کردے گی۔ انھوں نے اپنے ایک دوست سے کہا تھا: ’’ہندو مسلمانوں سے کبھی متفق نہ ہوں گے۔ مجھے یقین ہے کہ اگر مسلمان ہندوئوں کی تمام شرائط مان لیں اور اُنھیں اپنی طرف سے غیر مشروط مفاہمت پیش کریں، تب بھی وہ ایسی صورتِ حال پیدا کرنے کی پوری پوری کوشش کریں گے کہ جسے مسترد کیا جاسکے۔‘‘۳۸؎ جناح جیسے عملی سیاست کے تجربے نے اقبال کے حقیقت پسندانہ فکر کی سچائی میں ایک اور شہادت فراہم کردی تھی۔ ہندو مسلم سمجھوتہ حاصل کرنے میں جناح کی ناکامی سے سبق لیتے ہوئے، رفتہ رفتہ دوسرے قوم پرست مسلم رہنماؤں، مثلاً مولانا محمد علی نے بھی تسلیم کرلیا کہ مسلمانانِ ہند اقلیت نہیں ہیں، بلکہ ایک قوم ہیں۔ اُس مشکل اور سخت زمانے میں خود مسلم انڈیا بے شمار سیاسی تنظیموں میں بٹا ہوا تھا۔ ہم پانچ سیاسی جماعتوں کا ذکر پہلے کرچکے ہیں… مسلم لیگ، خلافت کانفرنس، جمعیت العلمائے ہند، مسلم کانفرنس اور نیشنلسٹ مسلم پارٹی۔ موخر الذکر پارٹی جولائی ۱۹۲۹ء میں مولانا ابولاکلام آزاد کی تاحیات صدارت میں قائم ہوئی تھی۔ ڈاکٹر انصاری، ٹی اے شیروانی اور عبدالغفار خان نیشنلسٹ پارٹی کے اجلاسوں میں شریک ہوتے تھے۔ اس پارٹی کا مقصد مسلمانوں میں ہندوستانی نیشنلزم (قوم پرستی) کو مقبول عام بنانا تھا، لیکن یہ پارٹی ۱۹۳۱ء میں نیشنل کانگرس میں ضم ہوگئی۔ ۱۹۲۳ء میں جب مولانا شوکت علی نے پنجاب خلافت کمیٹی کے ناجائز اور غیرقانونی جماعت ہونے کا اعلان کیا تو پنجابی خلافتی لیڈروں نے دسمبر ۱۹۲۹ء میں احرار پارٹی قائم کی۔ اِن لیڈروں میں یہ حضرات شامل تھے: مولانا ظفر علی خاں، خواجہ عبدالرحمن، چودھری افضل حق، سیّد عطائاللہ شاہ بخاری، مولانا داؤد غزنوی، مولانا مظہر علی اظہر اور مولانا حبیب الرحمن۔ احرار پارٹی درحقیقت جمعیت العلمائے ہند کی ایک شاخ تھی، لہٰذا کانگرس کی حامی اور طرف دار تھی۔ اس کا پروگرام معاشرتی طور پر انقلابی تھا۔ اس نے کشمیری مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ کی خاطر ہر موقع پر اسلام کے نام سے فائدہ اٹھایا۔ احرار پارٹی نے ’’کشمیر چلو‘‘ کی احتجاجی تحریک (۱۹۳۱-۱۹۳۲ئ) چلائی جو کچھ عرصہ پنجاب میں بہت مقبول رہی۔ دینی عقیدے کے لحاظ سے یہ سنی جماعت تھی اور احمدیوں کے سخت خلاف تھی، جن کو مسلمان کافر قرار دیتے تھے۔ اسی طرح احرارپارٹی نے لکھنؤ کے سنی شیعہ فسادات میں سنیوں کا ساتھ دیا اپنی زندگی کے آخری ایام میں یہ عملاً جمعیت العلمائے ہند اور نیشنل کانگرس کی حاشیہ بردار تھی۔ پنجاب میں ایک اور مسلم پارٹی ’’یونیسٹ پارٹی‘‘ تھی۔ یہ غیرفرقہ وارانہ جماعت تھی، لیکن اس میں زیادہ تر مسلمان شامل تھے۔ اس پارٹی کی بنیاد ۱۹۱۹ء کی آئینی اصلاحات کے نفاذ پر میاں سرفضل حسین نے رکھی تھی۔ یہ جماعت زیادہ تر جاگیرداروں کے ذاتی مفادات کی نگرانی کرتی تھی۔ کانگرس کی ایک اور حمایتی مسلم سیاسی تنظیم ’’خدائی خدمت گار‘‘، جس کی بنیاد ۱۹۲۹ء میں خان عبدالغفار خان نے صوبہ سرحد میں رکھی تھی۔ یہ تنظیم جمعیت العلما، نیشنلسٹ مسلم پارٹی، احرار پارٹی اور نیشنل کانگرس کے ساتھ مل کر کام کرتی تھی۔ خان عبدالغفار خان نے قبائل کے تعاون سے انگریز چیف کمشنر کے آرڈیننسوں کے خلاف صوبہ سرحد میں احتجاجی تحریک چلائی۔ اس کے نتیجے میں کچھ آئینی اصلاحات ہوئیں اور اپریل ۱۹۳۲ء میں صوبے کو گورنری درجہ مل گیا۔ اپنی زندگی کے آخری برسوں میں تنظیم بھی نیشنل کانگرس میں ضم ہوگئی۔ کانگرس کی ایک اور حمایتی تنظیم ’’شیعہ پولٹیکل کانفرنس‘‘ تھی، جو یوپی کے شیعہ مسلمانوں نے شروع کی تھی۔ اس کا پہلا اجلاس لکھنؤ کے مقام پر ۱۹۳۰ء میں راجہ نواب علی خان کی صدارت میں منعقد ہوا تھا۔ آل پارٹیز مسلم کانفرنس کے اس مطالبے کے ردِعمل میں کہ مسلمانوں کے لیے جداگانہ انتخابات کا طریقہ رائج رہنا چاہیے، شیعہ پولٹیکل کانفرنس نے یہ مطالبہ داغ دیا کہ شیعوں کے بھی جداگانہ انتخابات کا بندوبست کیا جائے۔ کانگرس کی ایک اور ہم نوا مسلم سیاسی تنظیم ’’مومن کانفرنس‘‘ تھی، جو مسلمان جولاہوں کے مفادات کی نگران تھی۔ اس کا پہلا اجلاس ۱۹۲۵ء میں کلکتہ میں حاجی حافظ شمس الدین کی صدارت میں منعقد ہوا۔ کانگرس کی ایک اور حامی جماعت ’’مسلم وطن پارٹی‘‘ بلوچستان میں کام کررہی تھی، لیکن یہ بعد میں مسلم لیگ میں ضم ہوگئی۔ ’’جموں و کشمیر مسلم کانفرنس‘‘ شیخ محمد عبداللہ نے، جو ایک انقلابی قومی سوشلسٹ تھے، کشمیر کی احتجاجی تحریک (۱۹۳۱-۱۹۳۲ئ) کے دوران میں قائم کی تھی۔ بنگال میں ۱۹۱۹ء میں آئینی اصلاحات کے نفاذ کے بعد فضل الحق نے ’’مسلم پر جاپارٹی‘‘ قائم کی تھی۔ یہ غیرفرقہ وارانہ پارٹی تھی، لیکن اس میں مسلمانوں کی اکثریت تھی۔ یہ پارٹی کاشت کاروں کی جنگ برائے حقوقِ کاشت سے پیدا ہوئی تھی۔ عنایت اللہ خان مشرقی نے ۱۹۳۱ء میں خاکسار پارٹی کی بنیاد ڈالی۔ اس پارٹی نے ڈسپلن، وردی، فوجی تربیت، ورزش، پریڈ اور سماجی خدمت پر زور دیا۔ اس پارٹی کی علامت بیلچہ تھا، جو ہر خاکسار اپنے ساتھ رکھنے کا پابند تھا۔ یہ پارٹی پنجاب، سندھ، صوبہ سرحد اور یوپی میں مقبول ہوئی۔ خاکسار پارٹی ایک مسلم فرقہ وارانہ جماعت تھی۔ اس نے نہ تو کسی اور جماعت کے ساتھ مل کر کام کیا، نہ اس کا اپنا کوئی سیاسی پروگرام تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں کا سیاسی اتحاد تحریکِ خلافت نے پارہ پارہ کردیا تھا۔ اس تحریک نے مسلمانانِ ہند کو مختلف سیاسی کیمپوں میں تقسیم کردیا۔ مسلمان لیڈروں کا ایک گروپ، جن کو انتہا پسند کہا جاسکتا ہے، وہ یا تو کانگرس کی طرف لڑھک گئے یا انھوں نے اپنی اپنی چھوٹی چھوٹی تنظیمیں کانگرس کے حق میں قائم کرلیں، حالانکہ تحریکِ خلافت کے نتیجے میں خود کانگرس کا اثر بھی خاصا کم ہوگیا تھا۔ ہندو مہاسبھا تمام ہندو (یاہندو اکثریتی) سیاسی تنظیموں پر غالب آگئی تھی۔ اسلام ہندوستان کی جدید تاریخ میں اتنا منقسم نہیں ہوا تھا، جتنا ۱۹۳۲ء میں ہوا۔ بعض مسلم سیاسی مفکرین ’’مسلم نیشن‘‘ اور اُس کے علاقائی وطن کی اصطلاحوں میں نظریہ سازی کرنے لگے تھے۔ انھوں نے مکمل صوبائی خودمختاری کا مطالبہ کیا۔ اُس وقت پندرہ سے زیادہ مسلم سیاسی جماعتیں موجود تھیں، جو ایک دوسرے سے متضاد و متصادم، اپنے اپنے پروگراموں پر عمل پیرا تھیں، لیکن مجموعی طور پر مسلم انڈیا کے سیاسی فکر میں مکمل خلفشار اور انتشار کا نقشہ پیش کررہی تھیں۔ علامہ محمد اقبال نے مسلم کانفرنس (منعقدہ لاہور، مارچ ۱۹۳۲ئ) کے خطبۂ صدارت میں مسلمانوں کی حالتِ زار اِن الفاظ میں بیان کی تھی: ’’اور ہم، پرانی نسل کے لوگوں کے لیے اس سے زیادہ شرمندگی کی بات کیا ہوگی کہ ہم اپنی نئی نسل کو، اُن معاشی، سیاسی، حتیٰ کہ مذہبی بحرانوں کا سامنا کرنے کے لیے تیار کرنے میں ناکام رہے ہیں، جو جدید زمانہ لانے والا ہے۔ پوری مسلمان قوم کو اپنی موجودہ ذہنیت کو یکسر بدلنے کی ضرورت ہے، تاکہ یہ تازہ آرزوؤں اور مقاصد کی امنگ محسوس کرنے کے قابل ہوسکے۔ ہندوستان کے مسلمان نے عرصہ ہوا اپنے باطن کی گہرائیوں میں جھانکنا چھوڑ دیا ہے… حتیٰ کہ اُن لوگوں کے سیاسی فکر میں ایک طرح کا انتشار ہے، جن کے بارے میں فرض کیا جاتا ہے کہ عصرِ حاضر کی سیاسی جدوجہد میں وہ مسلمانانِ ہند کی رہنمائی کریں گے۔‘‘۳۹؎ ئ…ئئ…ء حوالے و حواشی 1- An Advanced History of India, by R.C. Majumdar & K. Datta, p. 540. 2- Vol. 1. p. 25; see also Political India, pp. 109, 110. 3- A History of the Indian National Movement, pp. 144 150, 180. 4- India in 1925 26, pp. 29, 66; India in 1926 27, pp. 1, 2; India in 1927 28, pp. 9 16; India in 1928 29, pp. 2 4, 24; India in 1929 30, p. 9; India in 1930 31, pp. 91, 103; India in 1931 32, pp. 14, 30 32. 5- The Hindu Muslim Riots, by R.M. Agarwala, pp. 14 17; India in 1927 28, pp. 10, 11. 6- An Indian Commentary, pp. 177, 178. 7- Modern Islam in India, p. 159. 8- Political India, p. 104. 9- Modern Islam in India, pp. 157, 160. 10- Ibid., p. 157. 11- Speeches & Writings of Maulana Muhammad Ali, pp. 66 68. 12- Ibid., pp. 256, 267. 13- Indian Politics Since The Mutiny, pp. 141, 146 148. 14- Some Important Indian Problems, by Sir Muhammad Shafi, pp. 22, 23; India in 1924 25, p. 301, 302. 15- Nationalism in Conflict in India, by M.R.T., pp. 4, 5. 16- India in 1925 26, pp. 6 8. 17- Ibid., pp. 70, 71, 78 80, 105 110. 18- India in 1926 27, pp. 16, 17, 47; Iqbal Ka Sayasi Karnama, by Muhammad Ahmad Khan, pp. 101 103. 19- Ibid., p. 104. 20- Guftar i Iqbal, ed. by Muhammad Rafiq Afzal, pp. 26 28. 21- Ibid., pp. 49 51, 52, 53. 22- Iqbal Ka Sayasi Karnama, p. 170. 23- Guftar i Iqbal, pp. 53 56. 24- Ibid., pp. 57 60. 25- Ibid., pp. 61 64. 26- Ibid., p. 64. 27- Zikr i Iqbal, by Abdul Majid Salik, pp. 140, 141; Iqbal's Speeches, Writing and Statements, ed. by Latif Ahmad Sherwani, pp. 204, 205; for the contents of the Memorandum see Iqbal Ka Sayasi Karnama, pp. 181, 182. 28- Guftar i Iqbal, pp. 106 109. 29- India's Political Crisis, by W.I. Hull, pp. 54, 55. 30- Presidential Address; The Muslim League (Allahabad Session) December 1930, pp. 9 11. 31- Iqbal Ka Sayasi Karnama, p. 197; See also India's Political Crisis, pp. 59 61; Indian Annual Register 1928, Vol. 2, ed. by N.N. Mitra, pp. 409, 410. 32- Guftar i Iqbal, pp. 73. 33- Published letter of Jinnah dated 14 May, 1944 addressed to Inamullah Khan in possession of the author. 34- Guftar i Iqbal, pp. 87 91. 35- India in 1928 29, pp. 36 38, 41 46. 36- Muhammad Iqbal; Presidential Address: The Muslim League (Allahabad Session) December 1930, pp. 11 13. 37- Speeches & Writings, p. 475. 38- Iqbal Ka Sayasi Karnama, p. 166. 39- The Indian Annual Register 1932, Vol. 1. p. 306. ساتواں باب نئے معاشرتی و سیاسی اُفق کا خواب اِس باب میں مرکزِ توجہ ’’قوم پرستی‘‘ ہے: یعنی مغربی قوم پرستی اسلامی قوم پرستی سے کس اعتبار سے جدا و مختلف ہے؟ ہندوستانی قوم پرستی کو ’’پان ہندو قوم پرستی‘‘ کیوں سمجھا جاتا ہے؟ جنوبی ایشیا میں مسلمانوں کی ثقافتی نشاۃ ثانیہ کے لیے علامہ اقبال کا کیا کردار رہا؟ اقبال کی نگاہ میں جدید ’’اسلامی ریاست‘‘ کی تعریف کیا ہے؟ اور یہ کہ مسلمانوں کے سیاسی ارتقا میں اُن کا کیا حصہ ہے؟ دنیائے اسلام میں ’’مسلم قوم پرستی‘‘ نے اُن عسکریت پسند اصلاحی تحریکوں کی افزایش سے جنم لیا، جو زوال پذیر عثمانی اور مغل سلطنتوں کے خلاف احتجاجاً رونما ہوئی تھیں۔ بعد ازاں مغرب، بالخصوص مغربی افکار سے ربط ضبط پیدا ہونے پر اسلامی ’’شدت پسندی‘‘ نے بڑھ کر ’’آزاد خیالی‘‘ (یا لبرل ازم) کی صورت اختیار کرلی۔ یورپی توسیع پسندی کے خوف سے ’’پان اسلامیت‘‘ کی تحریک پیدا ہوئی اور مسلم ممالک پر یورپی طاقتوں کے تسلط کے سبب مسلمانوں میں علاقائی یا وطنی قوم پرستی کا جذبہ اُبھرا۔ ’’مغربی قوم پرستی‘‘ کو ’’قومی یک جہتی‘‘ کی قوتِ متحرکہ خیال کیا جاتا ہے جو مشترکہ نسل، ثقافت، زبان اور علاقے کی بنیاد پر اُستوار ہوتی ہے۔ قومی یک جہتی میں مذہب ضرور بالضرور شامل نہیں ہوتا۔ مسلمانوں کے ہاں ایسی قوم پرستی پیدا ہونے میں کوئی دشواری نہیں ہے، بشرطیکہ متعلقہ ملک کی بیشتر آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہو۔ مسلم ملک میں قوم پرستی کا تقاضا یہ ہوگا کہ مذہب کی قدر و قیمت کو اگر گھٹانا ہی پڑے تو وہ کم از کم ذاتی عبادت و عقیدے کی چیز ضرور رہے گا۔ تاہم مسلم اکثریتی ملک میں اسلام کے لیے سینہ کشادہ رکھنا پڑتا ہے۔ قوم پرستی اُن ملکوں میں مسئلہ بنتی ہے، جہاں مسلمان بڑی تعداد میں اقلیت میں ہوں، یا اُن ملکوں کے خاص خاص معینہ علاقوں میں اکثریت میں ہوں۔ ایسے ملکوں میں ’’قوم پرستی‘‘ (نیشنلزم) کی اصطلاح تضاد کا شکار ہوجاتی ہے۔ جب مسلم دانش وروں نے مغرب کی علاقائی/ وطنی قوم پرستی کو قبول کرلیا تو اُنھوں نے اس کی تشریح، محدود معنوں میں کی۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ مغربی قوم پرستی کی چڑھتی لہر سے مسلمانوں کے اخوت و یک جہتی کے بنیادی تصورات برہم ہوں۔ چنانچہ انھوں نے ’’مسلم قومیت‘‘ کا مطلب یہ نکالا کہ مختلف زبانیں بولنے والی، بے شمار نسلوں کی سیاسی آزادی: جو اسلام کی پیروکار ہیں اور اُن خطوں میں آباد ہیں، جن کے مجموعے کو عالمِ اسلام کہا جاتا ہے۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ یہ قومی آزادی مسلمانوں کے مساوات، اخوّت اور یک جہتی کے عام اصولوں سے متصادم ہو، جو اُن کی مذہبی روایات اور ثقافتی ارتباط سے پختہ و مستحکم ہوئے ہیں۔ ہمیشہ سے یہ حقیقت تسلیم شدہ ہے کہ اسلام پوری انسانیت کے لیے ایک اخلاقی و سیاسی نظام ہے۔ اسلام بذاتِ خودایک ’’ریاست‘‘ ہے، جس کے وجود سے ایسا معاشرتی نظم پیدا ہوتا ہے جو ہر طرح کے نسلی، لسانی اور علاقائی تنوع و اختلاف کو اپنے اندر ضم کرلیتا ہے۔ چنانچہ اسلام جدید قوم پرستی کے خلاف ہے، جہاں قوم پرستی اسلام سے جداگانہ طرز اختیار کرلیتی ہے، جہاں قوم پرستی خالصتہً ہندوئوں نسل، زبان یا علاقے کی بنیاد پر ایک سیاسی روایت بن جاتی ہے، یا جہاں قوم پرستی اسلام کے اصولوں کے خلاف حریفانہ دعاوی رکھتی ہے۔ دنیائے اسلام میں یورپی طاقتوں کے اثر و نفوذ سے قبل، مسلمانوں میں ایک طرح کی قوم پرستی پہلے ہی رونما ہوچکی تھی، جس کی تشریح قبائلی یا نسلی وفاداری کے حوالے سے کی جاسکتی ہے، لیکن مسلمان بالعموم قوم پرستی سے، اس کے جدید علاقائی مفہوم میں، آگاہ نہیں تھے۔ جدید علاقائی مفہوم میں قوم پرستی کا شعور اوّل اوّل سلطان عبدالحمید کے عہد میں عربوں اور ترکوں میں پیدا ہوا۔ جمال الدین افغانی کے، ’’آئینی خلافت‘‘ کے تحت، عالم اسلام کے وفاق کے تصور میں بھی نسلی، لسانی یا علاقائی قوم پرستی کے اثرات موجود تھے۔ تاہم اس نئے تصور کو یورپی توسیع پسندی کے خوف نے پھیلنے پھولنے نہیں دیا۔ بیسویں صدی کے دوسرے عشرے میں، جب پہلی جنگِ عظیم (۱۹۱۴-۱۹۱۸ئ) کے غنائم کی حصہ داری پر اتحادیوں میں پھوٹ پڑگئی تو ترکوں نے خلافت کو منسوخ کرکے، جدید مغربی افکار کے تحت ترکی میں سیکولرازم کو رائج کردیا۔ البانیہ نے خود کو مسلمانوں کے دھارے سے منقطع کرلیا۔ ایران میں وطنی قوم پرستی پروان چڑھی۔ دوسرے مسلم ملکوں نے، بشمول مصر، شام، عراق، فلسطین، طرابلس، مراکش نے انگریزوں، فرانسیسوں یا اطالویوں سے آزادی حاصل کرنے کے لیے اپنے اپنے انداز میں حکمتِ عملی اختیار کی۔ برطانوی ہند میں آٹھ کروڑ مسلمان، ہندوئوں کے مقابلے میں محدود تعداد رکھنے کے باوجود دنیا میں سب سے بڑی مسلم اکثریت کی حیثیت رکھتے تھے۔ صرف صوبہ پنجاب میں مسلمانوں کی تعداد مصر کے برابر تھی۔ سعودی عرب، مصر اور ایران کے مسلمانوں کی مجموعی تعداد صوبہ بنگال کے مسلمانوں سے کم تھی۔ قوم پرستی کی نشوونما کی وجہ سے، اور اس کے ساتھ ساتھ انڈیا میں ہندومت کی احیائی تحریک کے سبب مسلمانوں کو ایک حریف اور مخالفانہ ماحول میں اپنی کثیر اقلیت کا شعور پیدا ہوا۔ سیّد احمد بریلوی کی اصلاحی اور عسکری تحریک، جس کے سبب انڈیا میں مسلمانوں کی احیائی تحریک کا آغاز ہوا، ہندوؤں کے خلاف نہیں تھی، لیکن اس کی وجہ سے فرقہ وارانہ رجحانات ضرور پیدا ہوئے۔ سرسیّد کی مذہبی ’’آزاد خیالی‘‘ اور سیاسی ’’اعتدال پسندی‘‘ سیّد احمد بریلوی کی ’’وہابی‘‘ تحریک کا ردِعمل تھی۔ اُن کی تحریک نے مسلم قوم پرستی کے بیج بوئے۔ سرسیّد پہلے مسلم رہنما تھے، جن کو احساس ہوا کہ برطانوی طرز کی جمہوریت انڈیا کے مخصوص حالات کے لیے موزوں نہیں ہے، لیکن مسلم رہنماؤں کی جدید نسل سیاسی طور پر جمال الدین افغانی کے زیراثر ’’پان اسلامی اتحاد‘‘ پر یقین رکھتی تھی۔ زائد علاقائی طاقت کے حصول کی خاطر خلافتیوں کے متضاد استدلال نے مسلمانانِ ہند کو گمراہ کیا۔ ایک طرف تو وہ انڈیا کی قوم پرستانہ تحریک عدم تعاون میں حصہ لے رہے تھے اور اس کے پہلو بہ پہلو تجدیدِ خلافت کے لیے احتجاج بھی کررہے تھے۔ بہرحال سرسیّد کی ’’اعتدال پسندی‘‘ کے خلاف ردِعمل کا یہ مرحلہ جلد ختم ہوگیا۔ خلافت کے خاتمے، دنیائے اسلام میں علاقائی قوم پرستی کے فروغ اور انڈیا میں ہندومہاسبھا کی مقبولیت نے مسلمانانِ ہند کو جداگانہ پالیسی اختیار کرنے پر مجبور کردیا۔ آل انڈیا مسلم لیگ کی تجدید نو اور مسلمانوں کے مندرجہ ذیل تین بڑے مطالبات کے سبب انڈیا میں مسلم قوم پرستی تیزی سے ترویج پاتی چلی گئی: ۱- پنجاب اور بنگال میں مسلم اکثریت کا اپنی سیاسی طاقت استعمال کرنے کا اختیار۔ ۲- شمال مغربی سرحدی صوبے اور بلوچستان میں آئینی اصلاحات۔ ۳- بمبئی پریذیڈنسی سے سندھ کی علیحدگی۔ خلاصہ یہ کہ مسلم قوم پرستی اور پان ہندو قوم پرستی کی باہمی کشمکش سے مسلمانانِ ہند میں علیحدگی پسندی کو تقویت ملی۔ یہاں ’’پان ہندو قوم پرستی‘‘ کی کسی قدر وضاحت ہوجائے تو بہتر ہے۔ اسلام کے برخلاف ہندومت میں منتشر و مختلف نسلوں اور ذاتوں کا اکثریتی اجتماع ہے۔ ہندومت میں وحدت و اتحاد کا تصور نہیں ہے۔ دراصل اصطلاح ’’ہندو‘‘ کا مطلب ہے ’’ہند‘‘ کا باشندہ۔ ہندو کے دھرم کا تعین اس ’’خدا‘‘ سے نہیں ہوتا جس کی وہ پوجا کرتا ہے اور نہ اُس ’’کتاب‘‘ سے جس پر وہ یقین رکھتا ہے، بلکہ اُس کی ذات پات، اُس کے طرزِ حیات، پیشے اور رویے یا طرزِ عمل سے ہوتا ہے۔۱؎ ہندوئوںمیں باہم کھانے پینے یا شادی بیاہ کرنے پر جو کڑی پابندیاں عائد ہیں، اُن کا سبب چار بڑی ذاتیں اور اُن کی بے شمار ذیلی قسمیں ہیں۔ یہ پابندیاں اتنی سخت ہیں کہ اُن پر قابو نہیں پایا جاسکتا۔ اِن پابندیوں کی وجہ سے ہندو ایک قوم کی صورت میں متحد نہ ہوسکے، بلکہ اُن کے اندر بے شمار جداگانہ قومیتیں اور گروہ پیدا ہوگئے۔ اتحاد پیدا کرنے والے معروف عوامل مثلاً مشترکہ زبان، نسلی وحدت کا شعور، آزادانہ میل جول، مشترکہ مجموعۂ قوانین، مشترکہ روایات وغیرہ، ہندوئوں میں موجود نہیں ہیں۔ جب مسلمانوں نے انڈیا پر حملہ کیا تو یہاں کے ہندو مختلف ریاستوں میں بٹے ہوئے تھے۔ اسلام بطور مذہب، ہندوستان میں فاتح لوگوں کے عقیدے کے طور پر داخل ہوا۔ ہندوئوں کی کثیرتعداد نے اسلام قبول کرلیا، اور تاریخ کے ساتھ ساتھ مسلمان، ہندوستان کی بے شمار، غیرمربوط، بکھری ہوئی قومیتوں میں سے ایک اور قومیت بن گئے۔ جب مسلمانوں کا اقتدار زوال پذیر ہوا تو مرہٹوں نے ہندوئوں کو ایک متحدہ قوم بنانے کی کوشش کی، لیکن یہ کوشش ناکام ہوگئی، کیونکہ ہندوئوں میں اجتماعی قومی شعور کا فقدان تھا۔ ہندوستان ایک وسیع و عریض ملک ہے۔ اسے جنوبی ایشیا کہا جائے تو بجا ہے۔ یہ بے شمار اور ان گنت قومیتوں کا گھر ہے۔ یہاں آل انڈیا، واحد قوم کا تصور موجود نہیں۔ ہاں یہ درست ہے کہ مغلوں اور انگریزوں کے عہدِ حکومت میں بظاہر سیاسی وحدت قائم کی گئی تھی۔ جب مغرب سے قوم پرستی کی طاقتور لہر آئی اور ذات پات کی تقسیم سدراہ بنی، تو تجدیدی ہندوؤں نے منتشر ہندو قومیتوں میں اتحاد پیدا کرنے کی غرض سے ’’پان ہندو‘‘ قوم پرستی اختیار کی، جو مذہبی اور ثقافتی لحاظ سے مسلمانوں اور انگریزوں کے خلاف تحریک تھی۔ ہندوستان میں پان ہندو قوم پرستی نے کئی شکلیں اختیار کیں، مثلاً: مذہبی اصلاحی انجمنوں کا قیام، ہندومت کے عہد زرین کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنا، شیوجی کے مسلک کی ترویج، تلک اور اُس کے پیروکاروں (اور بعدازاں ہندو مہاسبھائی لیڈروں) کی اشتعال انگیز تقریریں، غیر ملکیوں (مسلمانوں اور انگریزوں) کو ہندوستان سے نکال باہر کرنے کا مطالبہ، ہندی کو ہندوستان کی قومی زبان بنانے کا پروپیگنڈا، سودیشی تحریک (ہندوستانیوں کے لیے ہندوستانی مصنوعات)، عسکری تحریکوں مثلاً سنگھٹن اور شُدھی تحریکوں(یعنی نو مسلموں کو دوبارہ ہندو بنانا)کا آغاز۔ ۱۹۲۰ء کے بعد پان ہندو قوم پرستوں نے ذات پات کی تقسیم کو ختم کرنے اور ہندومت کی سماجی پابندیاں دور کرنے کی کوشش کی۔ تاہم ہندومت اپنے پورے ’’سماجی ابہام‘‘ کے ساتھ صرف ’’جنینی سطح‘‘۴؎ پر ہی قومی بن سکا۔ برہمنوں اور غیربرہمن ہندوؤں کی قدیم کشمکش کی ایک مثال مدراس میں رونما ہوئی۔ یہاں غیربرہمن ہندوئوں کے لیے چند نشستیں مقرر تھیں۔ ۱۹۳۰ء میں پست ذاتوں (اچھوت، دلت، ہریجن) نے مذہبی تشدد، سماجی علیحدگی اور مسلسل اقتصادی محرومیوں کی وجہ سے جداگانہ انتخابات کا مطالبہ پیش کیا۔ اس سلسلے میں اُن کے لیڈر ڈاکٹر امبیدکر نے گول میز کانفرنس میں بھی شرکت کی۔ اُن کا چھ کروڑ پست ذاتوں کے لیے جداگانہ انتخابات کا مطالبہ ۱۹۳۲ء کے کمیونل ایوارڈ میں تسلیم کرلیا گیا۔ اِس سے بالائی طبقے کے ہندوئوں میں ہیجان پیدا ہوگیا۔ مہاتما گاندھی نے دھمکی دی کہ اگر ہریجنوں کو مندروں میں داخل ہونے اور اعلیٰ ذاتوں کے کنوؤں پر سے پانی بھرنے کی اجازت نہ دی گئی تو وہ مرن برت رکھ لیں گے۔ گاندھی جی نے اس بات پر بھی زور دیا کہ صوبائی اسمبلیوں میں اُن کے حسبِ خواہش سیٹیں ریزو کی جائیں۔ اپنے اس مخصوص معاوضہ گیر، ادلے بدلے کے اسلوب پر عمل کرنے سے انھیں یہ امید تھی کہ ہریجن جداگانہ انتخابات کے مطالبے سے دست بردار ہوجائیں گے۔ چنانچہ صوبائی اسمبلی میں پست ذاتوں کی نااہلیتیں دور کرنے سے متعلق پرائیویٹ بل پیش کیے گئے، لیکن اُن کی حریف ہندو مہاسبھا نے اعلان کیا کہ پست ذاتیں ’’دیوتاؤں‘‘ کا دیدار صرف دورسے کرسکتی ہیں۔ وہ مندروں میں قدم نہیں رکھ سکتیں، اور نہ بتوں کو چھُوسکتی ہیں، اور نہ کسی سمجھوتے کے تحت بالائی جاتوں کے ہندو، ہریجنوں کے ساتھ مل کر کھانا کھاسکتے ہیں اور نہ آپس میں شادی کرسکتے ہیں۔ اچھوتوں کے حق میں جو پرائیویٹ بل پیش کیے گئے، اُن کے بارے میں مہاسبھائی لیڈروں نے اعلان کیا کہ وہ ۱۸۵۸ء کے ملکہ وکٹوریہ کے اعلان کی خلاف ورزی ہیں، جس کے تحت حکومتِ برطانیہ نے وعدہ کیا تھا کہ وہ ہندوستان کے لوگوں کے مذہبی رسوم میں مداخلت نہیں کرے گی۔۵؎ ہندو لیڈروں کے زبردست دباؤ کے تحت پست ذاتیں جداگانہ انتخابات کے مطالبے سے دستبردار ہونے پر مجبور ہوگئیں، لیکن محمد علی جناح کے بقول: ’’پان ہندو قوم پرستوں نے مسلمانوں کے ساتھ کبھی اُسی جذبے کا مظاہرہ نہیں کیا، اس کے باوجود اُن کا دعویٰ یہ رہا کہ وہ ہندوستان کے تمام باشندوں کے نمایندے ہیں۔‘‘۶؎ اصولی طور پر اسلام میں کوئی سماجی پابندیاں نہیں ہیں۔ اسلام کے اخلاقی، قانونی اور سیاسی اصول و احکام قرآن اور سنتِ نبویؐ میں درج ہیں۔ علاوہ ازیں مسلمانوں کی تاریخ اور اُن کی تہذیبی یکسانیت نے مسلمانوں کو بحیثیت مجموعی داخلی وحدت اور ہم آہنگی عطا کررکھی ہے۔ جن خطوں اور ملکوں میں مسلمانوں کی اکثریت ہے، وہ سب مل کر ’’دارالاسلام‘‘ ہیں، جس کا استحکام اور دفاع تمام مسلمانوں کا فرض ہے۔ لہٰذا پان اسلامی یا مسلم قومی تحریکیں درحقیقت ’’دارالاسلام‘‘ کے روایتی تصور اور علاقائی قوم پرستی کے نئے تصور کے امتزاج کا اظہار تھیں۔ ہندوستان میں ’’مسلم قوم پرستی‘‘ کو سمجھنے کے لیے محمد اقبال (۱۸۷۷-۱۹۳۸ئ) کے سیاسی تصور کی طرف رجوع کرنا پڑتا ہے۔ اقبال بنیادی طور پر مذہبی شاعر تھے۔ انھوں نے اپنے عصر کے مسلمانوں کی رُوحانی امنگوں کا ابلاغ شاعری اور فلسفیانہ محاورے میں کیا۔ اسلام کی دینیات اور ثقافتی تاریخ، فلسفۂ جدید اور یورپ کی ثقافتی تاریخ کے وسیع اور گہرے مطالعے اور مکمل علم کے بغیر اقبال کی شاعری اور فکر کی اہمیت کو پوری طرح سمجھنا بہت مشکل ہے۔ یہ اُن کی پہلودار شخصیت کا ایک پیچیدہ پہلو ہے۔ شاعر اور فلسفی ہونے کے علاوہ وہ مشہور ماہرِ قانون، فاضلِ دینیات، سیاست داں اور سیاسی رہنما بھی تھے۔ اُن کا تصورِ کائنات بنیادی طور پر شاہ ولی اللہ، سرسیّد، جمال الدین افغانی اور شبلی نعمانی کے افکار کا امتزاج تھا، بلکہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ اسلامی و مغربی ثقافتوں کی تفہیم، مسلمانانِ ہند کی سیاست اور اُن کے مستقبل کے شعور و ادراک کے معاملے میں اِن سب بزرگوں سے آگے تھے۔ جب اقبال جوان ہورہے تھے تو مسلمان من حیث الملّت ایک بوڑھے کی طرح ماضی میں جی رہے تھے اور مستقلاً مدافعت کی حالت میں رہتے تھے۔ انھوں نے اپنی زندگی کا آغاز ایک وحدت الوجودی، ہندوستانی قوم پرست اور محبِ وطن کی حیثیت سے کیا۔ وہ پہلے شاعر تھے جنھوں نے ہندوستان کے لیے غیرفرقہ وارانہ قومی ترانہ ’’ہندوستان ہمارا‘‘ تخلیق کیا (جو آج بھی ہندوستان کے سکولوں میں گایا جاتا ہے)۔ البتہ مسلمانوں کے اندیشوں کا سراغ اُن کی ابتدائی قوم پرستی یا حب الوطنی میں لکھی گئی نظموں میں بھی ملتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اُن کا حساس مسلم ضمیر ہندوستان اور مشرقِ وسطیٰ کے مسلمانوں کی حالتِ زار کو محسوس کیے بغیر نہ رہ سکا جو غیر ملکی استبداد سے آزادی حاصل کرنے کی شجاعانہ جدوجہد کررہے تھے۔ اقبال نے یورپ کے دورانِ قیام (۱۹۰۵تا۱۹۰۸ئ) کیمبرج، لندن، ہائیڈل برگ اور میونخ کی یونیورسٹیوں میں فلسفے اور قانون کی تعلیم حاصل کی۔ اُس وقت یورپ فکری لحاظ سے ہیگل کے فلسفے کے جادوئی اثر کے تحت تھا۔ عقل پرستی پر زور تھا۔ سائنس کی طاقت سے حاصل کردہ ترقی نے مادہ پرستانہ ملحدانہ رجحانات پیدا کررکھے تھے۔ اقبال کے ذہن نے اِن مادہ پرستانہ و ملحدانہ افکار و رجحانات سے کوئی اثر قبول نہ کیا۔ انھوں نے یورپ کے قیام کے دوران میں وحدت الوجود اور علاقائی قوم پرستی دونوں کو مسترد کردیا تھا۔ اُن کا خیال یہ تھا کہ مادہ پرستی اور الحاد کی یہ فکری و عقلی قوتیں عیسائیت کی اخلاقی و مذہبی اقدار پر چھاگئی ہیں، اور ان سے قوم پرستی، شاؤنیت (جنگ جویانہ وطن پرستی) اور سامراجیت نے جنم لیا ہے۔ ان غیرانسانی محرکات نے یورپ کے ریاستی نظام کو مسخ کرکے رکھ دیا تھا، جہاں خارجہ پالیسی کا تعیّن فقط قومی مفادات کے پیشِ نظر ہوتا تھا۔ یہ گمراہ یورپی ریاستیں اکثر آپس میں جنگیں کرتی رہتی تھیں، اور خطرناک مسابقت جوئی میں مبتلا رہتی تھیں، جو اُن کو بالآخر تباہی کے کنارے لگادیں گی۔ اسی لیے ردِعمل کے طور پر اقبال کو یہ پختہ یقین ہوگیا تھا کہ نسل، زبان اور وطن کی بنیاد پر قائم شدہ انسانی وحدت کا نصب العین، اور اُس کے حصول کی خاطر جنگ آزمائی کرتے رہنا، صرف غیرانسانی ہی نہیں ہے، بلکہ انسان کی مساوات اور اخوت کے، عالمگیر طور پر مسلمہ اخلاقی اقدار کے بھی منافی ہے۔ اُنھیں احساس ہوگیا تھا کہ وطنی قوم پرستی اور خالص حُب الوطنی دراصل پوجاپاٹ کے لیے یورپی بُت ہیں۔ مسیحیت نے اِن بتوں کو اپنے بنیادی عقائد کی قیمت پر گودلے لیا تھا۔ مسیحیوں کا مذہبی عقیدہ گھٹ کر ہر شخص کا ذاتی معاملہ بن کررہ گیا تھا۔ اسلام نے کبھی بُت پرستی سے سمجھوتہ نہیں کیا، خواہ وہ کسی بھی شکل میں ہو۔ اسلام نے ایسی مخالفانہ ترغیبات کو بار بار پائے حقارت سے ٹھکرایا۔۸؎ چونکہ اسلام بنیادی طور پر جامع اور ہمہ گیر ہے، اس لیے اس نے نیشنلزم (قوم پرستی) یا ایسے کسی اور ازم کو کبھی قبول نہیں کیا۔ یورپ کے دورانِ قیام اقبال کو یہ بھی محسوس ہوگیا تھا کہ یورپی طاقتوں کی سامراجی حکمتِ عملی کا اصل مقصد اُمتِ مسلمہ کی وحدت کو پارہ پارہ کرنا ہے۔ اُن کے خیال میں یورپی طاقتوں نے یہ مقصد پہلی جنگ عظیم کے بعد، عالمِ اسلام میں قوم پرستی کا مغربی نظریہ پھیلا کر حاصل کرلیا تھا۔۹؎ اس عہد میں اقبال جمال الدین افغانی کے اسلام کے نظریۂ وحدت و استحکام کے زیرِ اثر رہے۔ ۱۹۰۸ء میں یورپ سے واپسی کے بعد اِس تبدیلی کا اظہار مارچ۱۹۰۹ء میں تحریر کردہ اُن کے ایک خط سے ہوتا ہے: ’’میں خود اِس خیال کا حامی رہ چکا ہوں کہ امتیازِ مذہب اس ملک سے اُٹھ جانا چاہیے۔ اور اب تک پرائیویٹ زندگی میں اسی پر کاربند ہوں، مگر اب میرا یہ خیال ہے کہ اپنی اپنی قومی شخصیت کو محفوظ رکھنا ہندوئوں اور مسلمانوں دونوں کے لیے ضروری ہے۔ ہندوستان میں ایک مشترک قومیت پیدا کرنے کا خیال اگرچہ نہایت خوب صورت ہے، اور شعریت سے معمور ہے۔ تاہم موجودہ حالت اور قوموں کے نادانستہ رجحانات کے لحاظ سے ناقابلِ عمل ہے۔‘‘ جس وقت مسلم ممالک ایک ایک کرکے یورپی طاقتوں کے ہتھے چڑھ رہے تھے اور خلافتی رہنما مسلمانانِ ہند کو تلقین کررہے تھے کہ وہ ہندو نیشنل کانگرس میں شامل ہوجائیں، اُس وقت اقبال نے قوم پرستی کے خلاف آواز بلند کی اور سیّد جمال الدین افغانی کے وفاق اسلام کے تصور کے پرشوق ہم نوا کی حیثیت سے اُنھوں نے بین الاقوامی اسلام کے موضوع پر دوفارسی مثنویاں پیش کیں، یعنی اسرارِ خودی اور رموزِ بے خودی۔ اسرارِ خودی ۱۹۱۵ء میں شائع ہوئی۔ اس میں اقبال نے مسلمانوں کے تہذیبی احیا کے لیے فلسفیانہ زاویۂ نظر پیش کیا۔ انھوں نے فلسفۂ وحدت الوجود کو مسترد کیا اور خودی کی تشکیل و ارتقا پر زور دیا، جس کی بدولت مسلمان ایک بار پھر طاقت اور آزادی حاصل کرسکتا ہے۔ انھوں نے مسلمانوں کو تاکید کی کہ وہ اپنے اندر اسلامی صفات و کردار پیدا کریں۔ اسرارِ خودی کا دوسرا حصہ رموزِ بے خودی کے عنوان سے ۱۹۱۸ء میں شائع ہوا۔ اس میں اقبال نے اُمتِ مسلمہ کی اجتماعی خودی کو تجدید و ارتقا کی وضاحت کی۔ انھوں نے اس بات پر زور دیا کہ اسلام اُن تمام غیر انسانی نظریوں کا سخت حریف ہے جن کی بنیاد نسل، زبان یا وطن پر اٹھائی جاتی ہے۔ کہا گیا کہ اسلام نے منفرد افراد پر مشتمل منفرد معاشرے کی بنیادیں رکھ دی ہیں۔ ان دونوں نظموں میں اسلامی نقطۂ نظر سے نو تشکیل یافتہ افراد اور جماعت سے متعلق اقبال نے اپنے افکار و نظریات کی وضاحت کی ہے۔ یہ دونوں نظمیں ایسے نازک وقت پر شائع ہوئیں، جب اسلام اور مغرب کی کشمکش اپنے انجام کو پہنچتے ہوئے، دنیائے اسلام کے مکمل انتشار کی صورت میں ختم ہورہی تھی۔ اقبال نے مسلم ممالک کا اتحاد اسلام یا ’’ایغو‘‘ (خودی) کے ذریعے حاصل کرنے کی آرزو کا اظہار کیا۔ ’’ایغو‘‘ کی اصطلاح اُنھوں نے مسلمانوں کے، اور بالخصوص مسلمانانِ ہند کے انفرادی اور اجتماعی تشخص کے لیے ایجاد کی۔۱۱؎ ہندوستانی سیاست کے حوالے سے اُن کے کلام میں مخصوص اسلامی رنگ آگیا، جس سے اُن کے قوم پرست مداح اُن سے دور ہوگئے۔۱۲؎ اقبال کے نزدیک اسلام نے قومیت کی اساس ایک خالص تجریدی اصول، ایک مشترک روحانی مقصد و آرزو پر رکھی ہے۔ اسلام میں قومیت کے تصوّر میں کسی مادی چیز مثلاً وطن، نسل، رنگ، زبان، رسم الخط یا طرزِ لباس کی آمیزش نہیں ہے۔ مسلمانانِ عالم میں اتحاد و استحکام کا احساس ایک خصوصی نظریۂ کائنات ’’ہم خیالی‘‘ پر مبنی ہے، جس میں اِس نظریے یا مقصد کے دفاع میں اپنی جان تک قربان کردینے کا عزم شامل ہے۔ اقبال کے نزدیک مسلمان کے لیے اسلام ہی اُس کی قوم پرستی اور حُب الوطنی ہے۔ اقبال نے لکھنؤ پیکٹ ۱۹۱۶ء اسی لیے مسترد کردیا تھا کہ اِس کی بنیاد ہندوستانی قوم پرستی کے غلط اور پرفریب نظریے پر رکھی گئی تھی۔ اُنھوں نے لکھنؤ پیکٹ اس لیے مسترد کیا کہ اس کے ذریعے ہندوستان کے مسلم اکثریتی صوبوںمیں مسلمانوں کو سیاسی اقتدار حاصل کرنے کے موقع سے محروم رکھا گیا تھا۔۱۳؎ انھوں نے خلافتی رہنماؤں کی بھی اُس وقت مخالفت کی، جب اُنھوں نے ’’صلح نامہ ترکی‘‘ کی نظرثانی کے لیے احتجاجی تحریک کا آغاز کیا، اور بعدازاں برٹش راج کے خلاف ہندو نیشنل کانگرس کی تحریک عدم تعاون میں شامل ہوکر ہندوستانی قوم پرست بن گئے۔ مہاتما گاندھی نے اقبال کو مشورہ دیا کہ مسلم نیشنل یونی ورسٹی (جامعہ ملیہ) کی سربراہی قبول کرلیں، جو خلافتیوں نے دہلی میں قائم کی تھی، لیکن انھوں نے یہ مشورہ ماننے سے انکار کردیا۔ اقبال کے نزدیک ایسی خلافت جو یورپی طاقتوں کی ماتحتی میں زندہ رکھی گئی ہو، مسلمانانِ عالم کے لیے فائدہ مند نہیں ہے۔۱۴؎ سرسیّد کی طرح اقبال بھی مسلمانوں کے ہندوستانی قومی تحریک میں شامل ہونے کے خلاف تھے۔ انھوں نے لکھا کہ خلافتیوں نے اپنے اصل مقاصد اور اپنی اصل منزل سے انحراف کیا ہے، اور اب وہ ایک ایسی قوم پرستی کی راہ پر چل پڑے ہیں، جو مسلمان کسی صورت میں بھی قبول نہیں کریں گے۔ ترکوں کے تنسیخِ خلافت کے فیصلے کو اقبال نے بالکل درست قراردیا۔۱۶؎ مسلم ممالک میں مسلم قوم پرستی کی تحریکوں کو انھوں نے خوش آمدید کہا، بلکہ وہ خود مسلم انڈیا میں مسلم قوم پرستی کے پہلے اور انتہائی پرجوش وکیل بن گئے۔ اقبال کے نزدیک، تمام مسلمانانِ عالم کو ایک ہی ریاست میں مدغم کرنے کا خیال سلطان عبدالحمید کے ذہن میں اپنے ذاتی سیاسی مقاصد کے تحت آیا ہوگا، لیکن جمال الدین افغانی یا اُن کے پیروکاروں نے ایسی واحد ریاست کا تصور پیش نہیں کیا تھا۔ جب سے مسلمانوں میں بیداری پیدا ہوئی ہے، مصلحین نے دنیائے اسلام میں انتشار کی قوتوں کے خلاف جدوجہد کی ہے۔ اقبال کے خیال میں انتشار کی تین قوتیں ہیں: (۱) ملّائیت، جو علمائے اسلام کے فکری و عقلی جمود کی عکاس ہے۔ (۲) تصوّف، جس نے مسلمانوں کی قوتِ ارادی اور قوتِ عمل کو مفلوج کردیا۔ (۳) سلطنت، جس نے اجتماعی مفادات کی قیمت پر اپنے اغراض کو پورا کیا۔ خلافت میں، از روئے تعریف، قلمرو یا مملکت کی ضرورت بہرحال قائم ہے، لیکن چونکہ اسلامی مملکت برقرار نہ رہی، اور اس کی جگہ بے شمار آزاد یا نیم آزاد مسلم ریاستیں وجود میں آگئی ہیں، اس لیے عالمگیر خلافت قصۂ پارینہ بن چکی ہے۔ اقبال کا استدلال یہ تھا کہ اسلام تمام خونی رشتوں اور تمام وطنی وابستگیوں سے بلند و ماورا ہے۔ اسلام تقاضا کرتا ہے، خدا سے خالص وفاداری کا، حکمرانوں سے وفاداری کا نہیں۔ اقبال کی اصطلاح میں یوں کہا جائے گا کہ خدا سے وفاداری کا مطلب ہے، اپنی خودی سے وفاداری۔ خلافتِ عثمانیہ کی تنسیخ اور اس کے نتیجے میں مسلم ممالک میں روحِ جمہوریت کی بیداری، بقول اقبال، اسلام کی اصل روح کی طرف مراجعت تھی۔ اقبال کے نزدیک جمہوریت ہی اسلام کا اصل اصول تھا، جسے عرب ملوکیت نے، خصوصاً خلیفۂ رابع حضرت علیؓ کے بعد، ترک کردیا تھا۔ جب انھوں نے اپنے نقطۂ نظر کی وضاحت میں کہا تھا کہ اسلام قوم پرستی ہے نہ ملوکیت، بلکہ ’’مسلم اقوام کی دولتِ مشترکہ‘‘ہے، جس میں نسلی تنوع اور ہمہ وقت بدلتی ہوئی جغرافیائی سرحدوں کو ، اُن کا تہذیبی ماحول بدلنے کے لیے نہیں، بلکہ محض حوالے کے طور پر قبول کرلیا جاتا ہے تو دراصل انھوں نے بین الاقوامی اسلام کا تصور پیش کیا تھا۔ تاہم حالاتِ حاضرہ کے پیشِ نظر اُن کا خیال یہ تھا کہ فی الحال ہر مسلم ملک، اپنی اپنی جگہ اپنے اپنے حالات کو بہتر بنانے پر توجہ دے، حتی کہ سب کے سب اتنے مضبوط اور طاقتور ہوجائیں کہ اپنے مشترکہ دشمن کے مقابلے میں، اسلام کے تحت متحد ہوکر جمہوریتوں کا زندہ خاندان بن جائیں۔ عالمِ اسلام میں یکساں رُوحانی اقدار کی وجہ سے مسلم ممالک میں سیاسی اتحاد پیدا ہونے کی راہ آسان ہوجاتی ہے۔ مسلم ممالک کا اتحاد ایک مثالی بین الاقوامی ریاست کی شکل بھی اختیار کرسکتا ہے، انجمنِ اقوام مسلم بھی بن سکتا ہے یا خود مختار، گوناگوں مسلم ریاستوں کا اجتماعِ متحدہ بھی بن سکتا ہے جو صلح ناموں، سمجھوتوں اور معاہدوں کے تحت ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہوں۔ اگر مسلم ریاستیں ایک دوسرے کے خلاف جنگ کریں تو اسلام کا رشتۂ اتحاد سیاسی طور پر ٹوٹ جائے گا اور اگر مسلم ریاستیں اسلام کے بنیادی اصولوں کے خلاف عمل کریں تو مذہبی طور پر اسلام کی حیثیت ختم ہوجائے گی۔۲۲؎ اقبال ترکی میں قوم پرستی کے فروغ پر خوش تھے، اور ایران سے بھی، بشرطیکہ وہاں قوم پرستی اسلام سے الگ تھلگ نہ ہوجائے۔ لیکن وہ مغربی طرز کی قوم پرستی کے سخت خلاف تھے۔ اُن کا خیال تھا کہ اگر مسلمانانِ ہند نے مغربی طرز کی قوم پرستی اختیار کی تو اسلام کے بنیادی نظام و کردار پر اس کا برا اثر پڑے گا۔ اُنھوں نے واشگاف لفظوں میں اعلان کیا: ’’میں یورپ میں رائج قوم پرستی کے خلاف ہوں، اس لیے نہیں کہ اگر یہ ہندوستان میں رائج ہونے دی گئی تو اس سے مسلمانوں کو فائدہ کم پہنچے گا، بلکہ اس لیے خلاف ہوں کہ مجھے اس میں ملحدانہ مادہ پرستی کے جراثیم نظرآتے ہیں، جو جدید انسانیت کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہیں۔‘‘۲۳؎ اس ضمن میں اقبال کا استدلال یہ تھا۲۴؎ کہ مذاہب کی تاریخ سے ثابت ہوتا ہے کہ زمانۂ قدیم میں مذہب علاقائی یا قومی تھا، مثلاً قدیم مصریوں، یونانیوں اور علاقہ کے اعتبار سے ہندوئوں کا مذہب۔ بعدازاں صیہونیت نے مذہب کو نسل پرست بنادیا۔ مسیحیت نے یہ سکھایا کہ مذہب ذاتی عقیدے کی چیز ہے یا یہ ہر شخص کا ذاتی معاملہ ہے۔ مسیحیت کی بنیاد ایک سِول معاشرے پر نہیں، بلکہ ایک لادینی دنیا میں خانقاہی نظام پر رکھی گئی۔ اس نے سول معاملات میں رومی حکومت کا اختیار تسلیم کرلیا۔ چنانچہ جب ریاست مسیحیت کے زیرِاثر آئی تو کلیسا اور ریاست کے درمیان اختیارات کی تقسیم پر تنازع اُٹھ کھڑا ہوا۔۲۵؎ مارٹن لوتھر نے کلیسا کے خلاف جو بغاوت برپا کی، اُس کے دُوررس نتائج ظاہر ہوئے۔ کلیسا کو ریاست سے علیحدہ کردیا گیا کہ یہ تو ہر شخص کا ذاتی معاملہ ہے اور ریاست کو افراد کی اجتماعی زندگی کا نمایندہ قراردیا گیا۔ کلیسا اور ریاست کی علیحدگی کا نتیجہ یہ ہوا کہ اخلاقی و قانونی نظاموں کی تشکیل قومی خطوط پر اُستوار ہوئی، جن کی رُو سے نسل، زبان اور علاقے کے اصول انسانی وحدت کے اصول قرار پائے۔ یورپ میں دین و دنیا کی علیحدگی سے باہم متضاد و حریف ریاستیں وجود میں آئیں، جن کی زندگی سے مذہب کو خارج کردیاگیا۔۲۶؎ اقبال نے اس امر پر خاص طور پر زور دیا کہ یہ اسلام ہی تھا جس نے بتایا کہ مذہب نہ قومی ہے نہ نسلی نہ ذاتی، بلکہ خالصتہً ہندوئوں انسانی ہے۔۲۷؎ اسلام شروع ہی سے، مسیحیت کے برعکس، ایک سِول معاشرے کی بنیاد پر اُستوار و قائم ہوا تھا۔ رومنوں کی بارہ الواح کی مانند قرآن مجید میں بھی جو اصولِ قانون دیے گئے ہیں، وہ تفسیر و تشریح کے ذریعے ارتقا کے امکانات رکھتے ہیں۔ لہٰذا اسلام میں روح اور مادے یا دین اور دنیا کی ثنویت کی کوئی گنجایش نہیں ہے۔ اسلام کا مذہبی نصب العین اور معاشرتی نظام ایک دوسرے کی زندگی کے لیے، لازم و ملزوم کی حیثیت رکھتا ہے۔ اقبال نے تاکیداً کہا کہ مغربی طرز کی قوم پرستی اسلام کی سب سے بڑی دشمن ہے۔۲۸؎ ہر طرح کے سیاسی اظہار کی اصل بنیاد رُوحانی زندگی ہونی چاہیے۔۲۹؎ علاقائی حُب الوطنی انسان کی جبلت کے خلاف ہے، لیکن عقائد، روایات اور ثقافت و تہذیب کی بڑی اہمیت ہے۔ انسان زمین کے اُس قطعے کے مقابلے میں، جسے اُس کی رُوح نے ایک طرح کی عارضی آماجگاہ بنالیا ہے، اپنے عقائد و اقدار کے لیے زندہ رہتا ہے اور اُن کے لیے جان بھی قربان کرسکتا ہے۔۳۰؎ تاہم اُنھوں نے اِس نکتے کی اہمیت پر بھی زور دیا کہ قومیں عام طور پر اُن سرزمینوں سے وابستہ رہتی ہیں جو اُن کے قبضے میں ہیں۔ ہندوستانی اس لیے ہندوستانی کہلاتے ہیں کہ وہ اُس سرزمین پر آباد ہیں جو ہندوستان کہلاتا ہے۔ جغرافیائی تصور کے لحاظ سے علاقہ یا خطہ اسلام سے اس لیے متصادم نہیں ہے کہ اُس کی سرحدیں بدلتی رہتی ہیں۔ مثال کے طور پر برما کے لوگ ہندوستانی تھے، لیکن گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ، ۱۹۳۵ء کے نفاذ کے بعد، برمی بن گئے۔ بقول اقبال، قوم پرستی اسلام سے صرف اُس وقت متصادم ہوتی ہے، جب ایک سیاسی نظریے کے طور پر یہ تقاضا کرتی ہے کہ اسلام کو قومی زندگی میں ایک زندہ عنصر کے طور پر کارفرما نہیں رہنا چاہیے۔ جہاں تک حُب الوطنی اور اپنے ملک کی خاطر جان بھی قربان کردینے کا تعلق ہے، عقائد، روایات اور ثقافت سمیت اسلامی عقیدے کا جزولاینفک ہے۔۳۱؎ رسولِ کریمؐ کی اپنے آبائی شہر مکہ سے مدینہ کی جانب ہجرت، اور مدینہ کی ریاست میں اہلِایمان (مہاجرین و انصار) کی ایک اُمت کی تشکیل، اس واقعے سے صاف ظاہر ہے کہ مسلمانوں کی قومیت دراصل ایک مشترکہ روحانی عقیدے پر مبنی ہے۔ اگر آنحضورؐ کفارِ مکہ سے مشترکہ نسل، زبان یا وطن کی بنیاد پر سمجھوتہ کرلیتے، جس کا مطلب یہ ہوتا کہ تم اپنے بتوں کی پوجا کرتے رہو اور ہمیں اپنے اللہ کی عبادت کرنے دو، تو آنحضورؐ پہلے عرب قوم پرست ہوتے، پیغمبرِ اسلام نہ ہوتے اسی سبب مسلمانوں نے صرف نسل، زبان یا وطن کی بنیاد پر قائم ہونے والے تنگ نظر سیاسی نظام کی خاطر اپنی اجتماعی وحدت ترک کرنے سے انکار کردیا۔ قرآن مجید میں جہاں جہاں لوگوں کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دی گئی ہے، اصطلاح ملت یا اُمت استعمال کی گئی ہے، اصطلاح ’’قوم‘‘ استعمال نہیں کی گئی۔ یہ تصور ظاہر ہے، اس لیے اختیار کیا گیا کہ متعدد قومیں مل کر ایک اُمّت بن سکتی ہیں، لیکن ضروری نہیں کہ اُمتِ واحدہ ایک قوم پر مشتمل ہو۔ قوم لوگوں کا ایسا گروہ ہے جو مشترک قبیلے، نسل، رنگ، زبان یا علاقے کی بنیاد پر وجود میں آگیا ہو۔ ایسا گروہ مختلف مقامات پر مختلف صورتیں اختیار کرسکتا ہے۔ اس کے برعکس ’’اُمت‘‘ مختلف النوع ایسے قومی گروہوں کو اپنے اندر سمیٹ لیتی ہے، پھر اُن کو ایسی واحد امت بناتی ہے جسے اپنی خودی کا تشخص حاصل ہوتا ہے۔ اسلام باہم متضاد و حریف قومی گروہوں سے پیروکار اپنی جانب کھینچ لیتا رہا ہے۔ اور اِس مختلف النوع اجتماعیت میں ایک اجتماعی عزم و خودی پیدا کرنے میں بڑی حد تک کامیاب ہوا ہے۔ اسلام ایک نسلی، غیرلسانی اور غیر علاقائی عقیدہ ہونے کی حیثیت سے انسان وحدت و اتحاد کے لیے ایک مثالی نمونہ فراہم کرتا ہے۔۳۲؎ رہ گیا یہ مسئلہ کہ آیا وہ مسلم ریاستیں (مثلاً ترکی اور ایران) جنھوں نے علاقائی یا وطنی قوم پرستی اختیار کرلی ہے، دائرۂ اسلام سے باہر ہوگئی ہیں؟ اس مسئلے پر اقبال کی رائے یہ ہے کہ جب تک مسلمان توحید و رسالت پر ایمان رکھتے ہیں وہ دائرۂ اسلام سے باہر قرار نہیں دیے جاسکتے، خواہ قرآن یا شریعت کے بارے میں اُن کی تعبیر و تشریح کیسی بھی ناقص ہو۔ اِن مسلم ریاستوں میں مادّی نقطۂ نظر کا فروغ اسلام کے خلاف نہیں، بلکہ اسلام کے عین مطابق ہے، کیونکہ مادہ اسلام کے نزدیک ’’دراصل رُوح ہے جو اپنا تشخص زمان و مکاں کی حدود میں قائم کرتی ہے۔‘‘۳۳؎ اسی طرح مختلف قسم کے لباس یا رسم الخط کا اختیار کرنا اسلام سے قطع تعلق نہیں، کیونکہ اسلام ایک دین کی حیثیت سے کوئی علاقائی وابستگی نہیں رکھتا، اور ایک تہذیب کی حیثیت سے اس کا کوئی خاص لباس ہے، نہ خاص زبان، نہ خاص رسم الخط۔۳۴؎ اقبال کا خیال تھا کہ قوم پرستی کا مسئلہ ترکی، ایران، مصر اور دوسرے مسلم ملکوں میں اس لیے پیدا نہیں ہوسکتا کہ وہاں بھاری اکثریت مسلمانوں کی ہے، اور جو لوگ اقلیت میں ہیں، وہ ’’اہلِکتاب‘‘ ہیں۔ مسلمانوں اور اہلِکتاب کے درمیان کوئی معاشرتی پابندیاں حائل نہیں ہیں، کیونکہ یہودی عیسائی کے ہاتھ لگانے سے مسلمان کا کھانا حرام نہیں ہوجاتا، جیسا کہ ہندوئوں کے ہاں مسلمان یا عیسائی یا یہودی کے ہاتھ لگانے سے اُن کا کھانا خراب ہوجاتا ہے۔ علاوہ ازیں اسلامی فقہ اہلِکتاب کے ساتھ میل جول اور ازدواجی تعلقات کی بھی اجازت دیتا ہے۔۳۵؎ لیکن جن ملکوںمیں مسلمان اقلیت میں ہیں، وہاں اسلام بجائے خود قوم پرستی کو ایک متحدہ مسلم قوم بنانے کی قوت میں بدل سکتا ہے۔ ایسی صورتِ حال میں مسلمان ایک تہذیبی و ثقافتی وحدت کے طور پر خودمختاری حاصل کرنے میں حق بجانب ہوں گے، بشرطیکہ وہ ایک قائم رہ سکنے والی ریاست تخلیق کرسکیں۔۳۶؎ آراے نکلسن نے اسرارِ خودی (مطبوعہ۱۹۲۰ئ) کے دیباچے میں لکھا تھا:اس کے باوجود کہ اقبال قوم پرستی کے نظریے کے واضح طور پر خلاف ہیں، اُن کے مداحوں نے احتجاجاً کہنا شروع کردیا ہے کہ اقبال کا وہ مطلب نہیں جو انھوں نے بیان کیا ہے۔‘‘ اقبال کا ایک اور نقاد ایچ اے آرگب ہے، جس کے نزدیک شاعر فلسفی ’’عجیب و غریب تضادات کا شکار ہے۔‘‘ وہ ’’مسلم قوم پرستی‘‘ کی اقبالی تشریح کے دو متضاد رجحانات میں ہم آہنگی پیدا کرنے سے قاصر ہے۔ اُس نے یہ سوال اُٹھایا ہے کہ اقبال ایک طرف تو ’’قوم پرستی‘‘ کے خلاف ہیں اور دوسری طرف شمال مغربی ہندوستان میں ایک جداگانہ مسلم ریاست قائم کرنے کے حق میں اپنی آواز اور اپنے قلم کا پورا زور صرف کرتے ہیں۔ اپنے نقادوں کے لیے اقبال کا جواب بہت سادہ تھا، یہ کہ قوم پرستی کا مطلب ہے، لوگوں میں کسی بھی نسبت سے، ایک دوسرے سے وابستگی کا شعور پیدا ہوجانا۔ کوئی مشترک عنصر/ عناصر مثلاً نسل، زبان، علاقے سے قوم بن سکتی ہے تو اسی طور مذہب کا اشتراک بھی قوم پرستی کا شعور پیدا کرسکتا ہے۔ اُن کے تجزیے کی رُو سے قوم پرستی کو اسلام کے مختلف پہلوؤں میں سے ایک پہلو قرار دیا جاسکتا ہے۔ اسلام کے تہذیبی احیا کے لیے اقبال کا حصہ اُن کا فلسفۂ خودی (ایغو یا انا) ہے، جس کا اظہار صرف اُن کی شاعری میں نہیں ہوا، بلکہ اُن کے نثری کارنامے خطبات تشکیلِ جدید میں بھی ہوا ہے۔ اس ضمن میں اُن کے فلسفیانہ افکار کا خلاصہ یہ ہے: ثبات اِک تغیر کو ہے زمانے میں، حیات و کائنات میں صرف اور صرف تغیر کو ثبات حاصل ہے۔ خدا انائے مطلق ہے، اُس کی ایک ذات، ایک شخصیت ہے، جو پوری قوت و شدت سے حيو قیوم ہے اور ہمہ وقت خالق ہے۔ وہ قادرِ مطلق ہے۔ اُس کی لامحدودیت وسیع نہیں بلکہ عمیق ہے۔ وہ صاحبِ ارادہ ہے، اور اُس کا ارادہ مسلسل رُوبہ عمل ہے۔ وہ اپنی تخلیق میں برابر اضافہ کرتا جاتا ہے، اور جب چاہے، اپنا ارادہ بدل بھی سکتا ہے۔ اُس کی انائے مطلق سے انائیں پیدا ہوتی رہتی ہیں۔ مادے کے ایک ذرّے کی پابند حرکت سے لے کر انسانی انا میں خیال کی آزادانہ حرکت تک، پوری کائنات اِننی انا اللہ (طہٰ:۱۴) ’’میں ہی اللہ ہوں‘‘ کی اظہارِ ذات ہے۔ پس کائنات اللہ کا ایک عملِ مسلسل ہے۔ ذہن اور مادے میں، سوائے انانیت کے مدارج کے، کوئی فرق و امتیاز نہیں ہے۔ انسان اگر کائنات سے مابہ الامتیاز ہے تو صرف اس وجہ سے کہ دمِ تخلیق اُس نے حکم ربی سے خود آگہی حاصل کرلی تھی۔ انسان اپنی محدود انا، اور اپنے ذاتی تشخص کی حیثیت سے منفرد و یکتا، لیکن اللہ سے الگ ہے۔ وہ آزاد ہے۔ اُس کی خواہشیں اور تمنائیں، اُس کی خوشیاں اور اُس کے غم، اُس کی نفرتیں اور محبتیں، اُس کے فیصلے اور عزائم خالصتہً ہندوئوں اُس کے اپنے ہیں، حتیٰ کہ جب عمل کی کئی راہیں کھلی ہوں تو اس کے لیے خدا بھی منتخب نہیں کرسکتا کون سی راہ اُسے اپنے لیے اختیار کرنی چاہیے۔ انسان بالقوۃ اور عملاً خالق ہے۔ وہ تغیر کے درجہ بدرجہ عمل میں خدا کا شریکِ کار بننے کی صلاحیت رکھتا ہے، بشرطیکہ پہلا قدم وہ اٹھائے۔ اس سیاق کی رُو سے انسان آخرت کی زندگی بطور استحقاق حاصل نہیں کرسکتا۔ آخرت کی زندگی اُسے مسلسل و متواتر تخلیقیت کے ذریعے اپنی انا کو محکم بنانے سے حاصل ہوسکے گی۔ جہنم کوئی دائمی عذاب کا گڑھا نہیں ہے، نہ جنت دائمی آرام گاہ ہے۔ یہ محض تادیبی و اصلاحی کیفیات کے نام ہیں۔ مقامات نہیں احوال ہیں عمل کی کوئی انتہا نہیں۔ انسان انائے مطلق سے تازہ روشنی حاصل کرنے کے لیے ہمیشہ آگے کی طرف لپکتا اور بڑھتا رہے گا۔ انسان کا ہر عمل ایک نئی صورتِ حال پیدا کرتا ہے اور ہر نئی صورتِ حال جہانِ تخلیق کو فتح کرنے کے نئے نئے امکانات پیدا کرتی ہے۔ انسان اور خدا انتہائی فعال شخصیتوں کے مالک ہیں، ایک دوسرے سے جدا بھی، اور ایک دوسرے کے ساتھ شریک بھی۔ سمندر میں قطروں کے انجذاب کی مثال صرف اُن اناؤں پر صادق آتی ہے جو اپنی انا کو مستحکم کرنے سے قاصر رہتے ہیں، لیکن وہ شخصیتیں جو باطنی استحکام حاصل کرلیتی ہیں، وہ خدائی سمندر کے اندر موتیوں کی طرح مستقلاً بہتی رہتی ہیں۔ اُن کی ہستی مِٹ نہیں جاتی، بلکہ بے کراں انائے مطلق میں شامل ہوکر بھی اپنا وجود قائم رکھتی ہیں، جس طرح موم بتی کی مدھم روشنی سورج کی تیز روشنی میں بھی اپنا جداگانہ وجود برقرار رکھتی ہے۔ لہٰذا زندگی موم بتی کی طرح اپنے شعلے کو مسلسل جلائے رکھنے کا نام ہے یا قطرے کا مسلسل اضطراب، آرزومندی اور تخلیق کے ہلکورے کھاتے ہوئے بالآخر موتی بن جانا ہے۔ پس انسان کی منزلِ مقصود انفرادیت کی حدود سے نکل جانا نہیں، بلکہ انفرادیت کی زیادہ قطعی اور صحیح صحیح تعریف متعین کرانا ہے۔ ایٹمی وقت یا زمانِ متسلسل اللہ تعالیٰ نے انسان کی تخلیقیت کا امتحان لینے یا جانچنے کے لیے بطور آلہ قصداً بنائی ہے۔ انسانی اعمال تخلیقی ہوتے ہیں، بشرطیکہ کسی مستحکم شخصیت سے سرزد ہوں۔ ایسے تخلیقی اعمال زمان متسلسل سے اثر قبول کیے بغیر مستقل عوام کی حیثیت سے زندہ رہتے ہیں۔ باقی دوسرے تمام انسانی افعال وقت کی بے رحم روانی میں شریک ہوکر بالآخر ختم ہوجاتی ہیں۔ اس بحث کا نچوڑ یہ ہے کہ انسان ایک رُوحانی وجود ہے جو زمان و مکاں کی قیود میں رہتے ہوئے خود آگاہی ہے۔ اِن قیود کی وضاحت میں یوں کہا جاسکتاہے کہ انسان جس معاشرتی ہیئت سے تعلق رکھتا ہے، فقط اسی کے حقوق و فرائض کا پابند ہونے کے باعث ایک زندہ و توانا قوت ہے۔ لیکن بے نظیر و یکتا افراد بے نظیر و یکتا معاشرے کی تشکیل کرتے ہیں۔ ایک ایسے معاشرے کی، جو واضح عقائد و روایات کا حامل ہیں اور جس میں مثالیں اور ترغیبات قائم کرکے اپنی حدود میں وسعت پیدا کرنے کی قابلیت ہو۔ اقبال کی رائے میں اسلام میں ایسا معاشرہ مسلم اُمہ کی صورت میں قائم کرنے کی قابلیت موجود ہے۔ انفرادی انا (خودی) اور اجتماعی انا (بے خودی) کے اُن کے نظریات کی بنیاد ایک کامل مسلمان اور مکمل اسلامی معاشرے کے بارے میں قرآنی اصول پر قائم کی گئی ہے۔ اُن کے فوق الفطری افکار سے جو اخلاقی اقدار مستنبط ہوتی ہیں، وہ یہ ہیں: محبت، آزادی، جرأت اور فقر یعنی مادی آسایشات کے حصول سے مکمل بے نیازی۔ ان اوصاف کی تربیت و پرورش سے انسان کی شخصیت کو مستحکم بنانے میں مدد مل سکتی ہے۔ ایسی شخصیت سے سرزد ہونے والے افعال یقینا تخلیقی اور دیرپا ہوں گے۔ جن عوامل سے آدمی کی شخصیت تباہ ہوتی ہے، وہ جمود سے پیدا ہوتے ہیں۔ جمود تخلیق کی ضد ہے۔ جمود سے انفعالی خصائص پیدا ہوتے ہیں، جیسے عجز، انکسار، اطاعت، خوف، بدعنوانی، بزدلی، سوال یا مانگنے کی عادت، یعنی صرف رزق اور پیسہ مانگنے کی عادت ہی نہیں، بلکہ دوسروں سے خیالات و نظریات مانگنے کی عادت، تقلید اور بالآخر غلامی۔ اور غلامی و محکومی تو ایسی لعنت ہے جو افراد اور معاشروں کی قابلیتوں کو زنگ لگادیتی ہے اور وقت کے دھارے میں اندھا دھند اور بے نیازانہ بہتے رہنے کی بنا پر، تاریخ سے اُن کا نام و نشان بھی مٹ جاتا ہے۔ اقبال کا فلسفہ کیا ہے، مسلمانوں میں تحقیق جوئی اور مبارزت طلبی کی رُوح کی دوبارہ پیدایش کی آرزو مندی، تاکہ وہ انفرادی اور اجتماعی حیثیت سے تخلیق و ایجاد کے میدانوں میں اپنی گم شدہ عظمت دوبارہ حاصل کرسکیں۔ انھوں نے تاریخ کا تجزیہ کرکے ثابت کیا کہ علم انسانی کے شعبوں میں مغربی تہذیب دراصل اسلامی تہذیب ہی کی توسیع ہے۔ فکرِ مغربی کا ہر وہ پہلو، جو انسانی ترقی کا باعث بنا، محض اُن خیالات، نظریات اور مباحث کی تشریح اور توسیع ہے، جو مسلمان مفکرین اور سائنس دانوں نے پیش کیے تھے۔ نئے مسلم معاشرے پر مشتمل نئے مسلم افراد کے بارے میں اقبال کے خواب نے اسلام اور مغرب کے درمیان رابطے کے لیے ایک پُل تعمیر کردیا۔ لیکن ’’جہانِ نو‘‘ پیدا کرنے کا یہ خواب اُس وقت تک شرمندۂ تعبیر نہ ہوسکتا تھا، جب تک دینی تعلیم کا مروجہ طریقہ تبدیل نہ کیا جائے اور نئے علما پر مشتمل ایک نئی روحانی تعبیر اسلام کی سامنے نہ آئے ۔ اوریہ صرف ایک جدید اسلامی ریاست وجود میں لائے جانے ہی سے ممکن تھا۔ سرسیّد اور جمال الدین افغانی کی طرح اقبال بھی ’’روایت پسند ‘‘ علما کو مسلمانوں کی مذہبی، ثقافتی اور مادی ترقی کی راہ میں رکاوٹ سمجھتے تھے۔ علمائے ہند کے بارے میں اُن کی رائے مایوس کن تھی۔ نواب بہاول پور کے نام انھوں نے اپنے مکتوب محررہ، ستمبر ۱۹۳۷ء میں لکھا: میں نے اپنی زندگی کے گزشتہ تیس برس اسلام کے بنیادی اُصولوں اور اس کے تمدن کی صحیح وضاحت کرنے میں صرف کیے ہیں، لیکن اب جب کہ میں بوڑھا ہوچکا ہوں اور میری استعدادیں تھک گئی ہیں، تو مجھے اس دردناک حقیقت کا احساس ہورہا ہے کہ سیاسیات ہند میں بعض ایسی نئی قوتیں برسرِعمل ہیں، جو ہندوستان میں اسلام اور اس کے مستقبل پر بُری طرح سے اثر انداز ہوں گی… جن علمائے اسلام نے سیاسیاتِ ہند میں حصہ لیا ہے، اُن کے کردار سے عیاں ہے کہ انھیں ہندوستان میں مسلمان کی پوزیشن کا قطعی تصور نہیں ہے، بلکہ وہ علما جو دوسروں سے زیادہ علم رکھتے ہیں، حقیقت میں ان سے کہیں زیادہ احمق ثابت ہوئے ہیں۔ اِس تناظر میں دیکھا جائے تو اقبال نے اپنی پوری زندگی میں علمائے ہند کی جدید تعلیم و تربیت کی بہترین کوشش کی، تاکہ اُن میں سے نئے علما کی ایک ایسی جماعت پیدا ہو جو اُن کے تصور کے مطابق ایک نئے مسلم معاشرے کے لیے اسلام کی نئی تعبیر پیش کرسکیں۔ وہ جانتے تھے کہ ہمارے علما گویا ازمنۂ وسطیٰ میں بستے ہوئے جدید زمانے کی ضروریات سے بے خبر الگ تھلگ زندگی گزار رہے ہیں۔ اسی لیے اقبال چاہتے تھے کہ روایتی دینی مدارس میں یا تو اصلاحات کی جائیں یا اُن کو جدید یونیورسٹیوں کے ساتھ منسلک کردیا جائے۔ اقبال کے نزدیک ہندی مسلم معاشرہ بے شمار کمزوریوں اور خامیوں میں مبتلا تھا۔ اس کا حال زار انھوں نے اپنے ایک اُردو مضمون قومی زندگی میں بیان کیا ہے جو ۱۹۰۴ء میں جریدہ مخزن میں چھپا تھا۔ وہ لکھتے ہیں: یہ بدقسمت قوم حکومت کھو بیٹھی ہے۔ صنعت کھوبیٹھی ہے۔ تجارت کھوبیٹھی ہے۔ اب وقت کے تقاضوں سے غافل ا ور افلاس کی تیز تلوار سے مجروح ہوکر ایک بے معنی توکل کا عصا ٹیکے کھڑی ہے، اور باتیں توخیر، ابھی تک اِن کی مذہبی نزاعوں ہی کا فیصلہ نہیں ہوا۔ آئے دن ایک نیا فرقہ پیدا ہوتا ہے جو اپنے آپ کو جنت کا وارث سمجھ کر باقی تمام نوع انسان کو جہنم کا ایندھن قراردیتا ہے، غرضیکہ اِن فرقہ آرائیوں نے خیرالامم کی جمعیت کو کچھ ایسی بری طرح منتشر کردیا ہے کہ اتحاد و یگانگت کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ مولوی صاحبان کی یہ حالت ہے کہ اگر کسی شہر میں اتفاق سے دو جمع ہوجائیں تو حیات مسیح یا آیاتِ ناسخ و منسوخ پر بحث کرنے کے لیے باہمی نامہ و پیام ہوتے ہیں، اور اگر بحث چھڑ جائے، اور بالعموم چھڑ جاتی ہے، تو ایسی جوتیوں میں دال بٹتی ہے کہ خدا کی پناہ۔ پرانا علم و فضل جو علمائے اسلام کا خاصہ تھا، نام کو بھی نہیں۔ ہاں مسلمان کافروں کی ایک فہرست ہے کہ اپنے دستِ خاص سے اس میں روزبروز اضافہ کرتے رہتے ہیں۔… امرا کی عشرت پسندی کی داستان سب سے نرالی ہے، خیر سے چارلڑکیاں اور دولڑکے تو پہلے سے ہیں، ابھی میاں تیسری بیوی کی تلاش میں ہیں، اور پہلی دو بیویوں سے پوشیدہ پیغام بھیجتے رہتے ہیں۔ کبھی گھر کی جوتی پزار سے فرصت ہوئی تو بازار کی کسی حُسن فروش نازنین سے بھی گھڑی بھر کے لیے آنکھ لڑا آئے۔ اوّل تو کسی کو جرأت نہیں کہ حضرت کو نصیحت کرے اور اگر کسی کو لب کشائی کا حوصلہ ہو تو چیں بجبیں ہوکر ارشاد فرماتے ہیں: تجھ کو پرائی کیا پڑی، اپنی نبیڑ تو عوام کی تو کچھ نہ پوچھیے، کوئی اپنی عمر کا اندوختہ بچے کے ختنہ پر اُڑا رہا ہے۔ کوئی استاد کے خوف سے اپنے نازپروردہ لڑکے کا پڑھنا لکھنا چھڑا رہا ہے۔ کوئی دن بھر کی کمائی شام کو اُڑاتا ہے اور کل کا اللہ مالک ہے، کہہ کر اپنے دل کو تسکین دیتا ہے۔ کہیں ایک معمولی بات پر مقدمہ بازیاں ہورہی ہیں۔ کہیں جائیداد کے جھگڑوں سے جائیدادیں فنا ہورہی ہیں۔ غرض کس کس کی شکایت کریں۔ لنکا میں جورہتا ہے، باون ہی گزکا ہے۔ تمدن کی یہ صورت کہ لڑکیاں ناتعلیم یافتہ، نوجوان جاہل، روزگار ان کو نہیں ملتا۔ محنت سے یہ گھبراتے ہیں۔ حرفت کو یہ عار سمجھتے ہیں، مقدماتِ نکاح کی تعداد اِن میں روز بروز بڑھ رہی ہے۔ جرم کی مقدار روز افزوں ہے۔ دماغ شاہجہانی، آمدنیاں قلیل اور افلاس کا یہ عالم ہے کہ رمضان خوب مہینہ ہے مسلمانوں کا یہ وقت بڑا نازک ہے اور سوائے اس کے کہ تمام قوم متفقہ طور پر اپنے دل و دماغ کو اصلاح کی طرف متوجہ نہ کرے، کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ دنیا میں کوئی بڑا کام سعی بلیغ کے بغیر نہیں ہوا، یہاں تک کہ خدا تعالیٰ بھی کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا، جب تک کہ وہ قوم اپنی حالت خود نہ بدلے۔ اقبال کے نزدیک ایک نیا مسلم معاشرہ وجود میں لانے کے لیے جو عوامل درکار ہیں، اُن میں سب سے اہم اسلامی تمدن میں اصلاحات پیدا کرنا ہے۔ اس مقصد کے لیے اُن کا خیال تھا کہ علما کی صحیح معنوں میں تعلیم و تربیت کی ضرورت ہے۔ اُن کا استدلال یہ تھا: مسلمانوں میں اصلاحِ تمدن کا سوال درحقیقت ایک مذہبی سوال ہے، کیونکہ اسلامی تمدن اصل میں مذہبِ اسلام کی عملی صورت کا نام ہے، اور ہماری تمدنی زندگی کا کوئی پہلو ایسا نہیں ہے جو اُصولِ مذہب سے جدا ہوسکتا ہو، میرا یہ منصب نہیں کہ میں اس اہم مسئلہ پر مذہبی اعتبار سے گفتگو کروں، تاہم میں اس قدر کہنے سے باز نہیں رہ سکتا کہ حالاتِ زندگی میں ایک عظیم الشان انقلاب آجانے کی وجہ سے بعض ایسی تمدنی ضروریات پیدا ہوگئی ہیں کہ فقہا کے استدلالات جن کے مجموعے کو عام طور پر شریعتِ اسلامی کہا جاتا ہے، ایک نظرثانی کی محتاج ہیں، میرا یہ عندیہ نہیں کہ مسلّماتِ مذہب میں کوئی اندرونی نقص ہے، جس کے سبب سے وہ ہماری موجودہ تمدنی ضروریات پر حاوی نہیں ہیں، بلکہ میرا مدعا یہ ہے کہ قرآن شریف واحادیث کے وسیع اصول کی بنا پر جو استدلال فقہا نے وقتاً فوقتاً کیے ہیں، ان میں سے اکثر ایسے ہیں جو خاص خاص زمانوں کے لیے واقعی مناسب اور قابلِ عمل تھے، مگر حال کی ضروریات پر کافی طور پر حاوی نہیں ہیں، اگرچہ شیعہ مفسروں نے بعض بعض اصول کی تشریح میں ایک حیرت ناک وسعتِ نظر سے کام لیا ہے، تاہم جہاں تک میرا علم ہے شریعت اسلامی کی جو توضیح جنابِ ابوحنیفہؒ نے کی ہے ویسی کسی اسلامی مفسر نے آج تک نہیں کی، اگر مذہبِ اسلام کی رُو سے مجسموں کے ذریعے بڑے حکما اور علما کی یاد گاریں قائم رکھنے کا دستور جائز ہوتا تو یہ عظیم الشان فقیہ اس عزت کا سب سے پہلا حق دار تھا۔ دینی خدمت کے اس حصے یعنی فلسفۂ شریعت کی تفسیر و توضیح میں امیرالمؤمنین جنابِ علیؓ کے بعد جو کچھ اس فلسفی امام نے سکھایا ہے قوم اسے کبھی فراموش نہیں کرے گی، لیکن اگر موجودہ حالاتِ زندگی پر غور و فکر کیا جائے تو جس طرح اس وقت ہمیں تائیدِ اُصول مذہب کے لیے ایک جدید علم کلام کی ضرورت ہے اسی طرح قانونِ اسلامی کی جدید تفسیر کے لیے ایک بہت بڑے فقیہ کی ضرورت ہے جس کے قوائے عقلیہ و متخیلہ کا پیمانہ اس قدر وسیع ہو کہ وہ مسلّمات کی بنا پر قانونِ اسلامی کو نہ صرف ایک جدید پیرائے میں مرتب و منظم کرسکے، بلکہ تخیل کے زور سے اصول کو ایسی وسعت دے سکے جو حال کے تمدنی تقاضوں کی تمام ممکن صورتوں پر حاوی ہو، جہاں تک مجھے معلوم ہے، اسلامی دنیا میں اب تک کوئی ایسا عالی دماغ مقنن پیدا نہیں ہوا، اور اگر اس کام کی اہمیت کو دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے یہ کام شاید ایک سے زیادہ دماغوں کا ہے اور اس کی تکمیل کے لیے کم از کم ایک صدی کی ضرورت ہے۔۴۱؎ اقبال نئے علما کی تعلیم و تربیت کے لیے ایک اسلامی یونی ورسٹی قائم کرنا چاہتے تھے۔ اس کے قیام کے کئی مقاصد تھے، جن میں سے ایک کی وضاحت کرتے ہوئے اقبال فرماتے ہیں: ہندوستان میں اسلامی یونی ورسٹی کا قیام ایک اور لحاظ سے بھی نہایت ضروری ہے۔ کون نہیں جانتا کہ ہماری قوم کے عوام کی اخلاقی تربیت کا کام ایسے علما اور واعظ انجام دے رہے ہیں جو اس خدمت کی انجام دہی کے پوری طرح سے اہل نہیں ہیں اس لیے کہ اُن کا مبلغ علم اسلامی تاریخ اور اسلامی علوم کے متعلق نہایت ہی محدود ہے۔ اخلاق اور مذہب کے اُصول و فروع کی تلقین کے لیے موجودہ زمانے کے واعظ کو تاریخ، اقتصادیات اور عمرانیات کے حقائق عظیمہ سے آشنا ہونے کے علاوہ اپنی قوم کے ادب اور تخیل میں پوری دسترس رکھنی چاہیے۔۴۲؎ یہ اسلامی یونی ورسٹی قائم نہ ہوسکی۔ تاہم بیسویں صدی کی تیسری دہائی میں علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی نے اسلامیات (اسلامک سٹڈیز) کی نئی فیکلٹی کھولنے کا فیصلہ کیا۔ یونی ورسٹی کے چانسلر آفتاب احمد خان نے اس ضمن میں اقبال سے مشورہ طلب کیا۔ اقبال نے جواب میں ایک لمبا خط لکھا جو انتہائی اہم دستاویز کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس خط کے بعض اقتباسات اس طرح ہیں: ہمارا پہلا مقصد موزوں صفات کے علما پیدا کرنا ہے جو ملت کی روحانی ضرورتوں کو پورا کرسکیں، مگر زندگی کے متعلق ملت کے زاویۂ نگاہ کے دوش بدوش ملت کی رُوحانی ضرورتیں بھی بدلتی رہتی ہیں۔ فرد کی حیثیت اس کی ذہنی و فکری آزادی اور طبعی علوم کی لامتناہی ترقی، ان چیزوں میں جو تبدیلی واقع ہوئی ہے، اُس نے جدید زندگی کے اساس کو یکسر متغیر کردیا ہے۔ چنانچہ جس قسم کا علمِ کلام اور علمِ دین ازمنۂ متوسط کے مسلمان کی تسکینِ قلب کے لیے کافی ہوتا تھا، وہ آج تسکین بخش نہیں ہے۔ اس سے مذہب کی روح کو صدمہ پہنچانا مقصود نہیں۔ اجتہادی گہرائیوں کو دوبارہ حاصل کرنا مقصود ہے، تو فکرِ دینی کو ازسرِ نو تعمیر کرنا قطعاً لازمی ہے، اور بہت سے مسئلوں کی طرح اس مسئلے میں بھی سرسیّد احمد خان کی دوررس نگاہ کم و بیش، پیش گوئیانہ تھی۔ جیسا کہ آپ کو علم ہے، انھوں نے اس کی بنیاد زیادہ تر ایک گزرے ہوئے عہد کے فلسفیانہ معتقدات و افکار پررکھی ہے۔ مجھے اندیشہ ہے کہ میں آپ کے مسلم دینیات کے مجوزہ نصاب سے اتفاق نہیں کرسکتا۔ میرے نزدیک قدیم طرز پر مسلم دینیات کا شعبہ قائم کرنا بالکل بے سود ہے، اگر اس سے آپ کا یہ مقصد نہیں ہے کہ سوسائٹی کی زیادہ قدامت پسند جماعت کی تالیفِ قلب مدنظر رہے۔ جہاں تک روحانیت کا تعلق ہے، کہا جاسکتا ہے کہ قدیم تر دینیات فرسودہ خیالات کی حامل ہے اور جہاں تک تعلیمی حیثیت کا تعلق ہے، جدید مسائل کا طلوع اور قدیم مسائل کی طرحِ نو کے مقابلے میں اس کی کوئی قدر و قیمت نہیں… آج ضرورت ہے کہ دماغی اور ذہنی کاوش کی ایک نئی وادی کی طرف مہمیز کی جائے اور ایک نئی دینیات اور علمِ کلام کی تعمیر و تشکیل میں اس کو بروئے کار لایا جائے۔ ظاہر ہے کہ یہ کام انھی لوگوں کے ہاتھوں سرانجام پاسکتا ہے، جن میں اس کام کی صلاحیت ہے، مگر ایسے آدمی کس طور پر پیدا کیے جائیں …میری تجویز یہ ہے کہ اگر آپ چاہتے ہیں کہ سوسائٹی کا قدامت پسند عنصر مطمئن ہوجائے تو آپ قدیم طرز کی دینیات کے اسکول سے ابتدا کرسکتے ہیں… مگر آپ کا نصب العین یہ ہونا چاہیے کہ آپ تدریجاً اس کی بجائے ان لوگوں کی جماعت کو کارفرما بنائیں جو میری تجویز کردہ سکیم کے مطابق خود اجتہادِ فکر پر قادر ہوں۔ میری رائے میں جدید اسلامی ملّتوں کے لیے جدید دینی افکار کی توسیع اور ترویج ضروری ہے۔ قدیم اور جدید اصولاتِ تعلیم کے مابین اور روحانی آزادی اور معبدی اقتدار کے مابین دنیائے اسلام میں ایک کشاکش شروع ہوگئی ہے۔ یہ رُوحِ انسانیت کی تحریک افغانستان جیسے ملک پر بھی اثرڈال رہی ہے۔ آپ نے امیرِ افغانستان کی وہ تفسیر پڑھی ہوگی، جس میں انھوں نے علما کے اختیارات کے حدود متعین کرنے کی کوشش کی ہے۔ جدید دنیائے اسلام کی مختلف تحریکیں اسی نتیجے کی طرف لے جاتی ہیں۔ ان حالات کے تحت مسلم یونی ورسٹی کے صدر کی حیثیت سے آپ کا فرض ہے کہ دلیری سے اس وادی کی طرف قدم بڑھائیں۔ اس میں شک نہیں کہ محتاط رہنا لازم ہوگا اور فکر و حکمت کی اصلاح اس طور پر لانی ہوگی کہ معاشرتی امن و سکون میں خلل نہ آنے پائے۔‘‘۴۳؎ دینیات کے شعبے میں اقبال کی تجویز کردہ تعلیمی اصلاحات پر عمل نہ ہوسکا۔ اُن کی وفات سے کچھ ہی عرصہ پہلے اُن کے نمونے کے مطابق ایک دارالعلوم قائم کرنے کی کوشش ہوئی تھی۔ اس مقصد سے اقبال نے مولانا مودودی کی وساطت سے جامعہ الازہر، مصر کے ریکٹر المُراغی سے سلسلۂ مکاتبت بھی شروع کیا تھا، لیکن مصری، اقبال کی ضرورتوں کے مطابق کوئی عرب عالم سامنے نہ لاسکے۔ جہاں تک برصغیر میں ایک نئی ’’اسلامی‘‘ ریاست قائم کرنے کا تعلق ہے، تو ایک دفعہ محمد علی جناح نے کہا تھا کہ اقبال اُن گنتی کے چند آدمیوں میں سے تھے جنھوں نے مسلمانوں کے تاریخی علاقوں میں ایک اسلامی ریاست قائم کرنے کے بارے میں سوچا تھا۔۴۴؎ لیکن بہتر یہ ہے کہ جدید اسلامی ریاست کے بارے میں اقبال کے تصور پر بحث کرنے سے پہلے اسلام اور بالخصوص قرآن کے ریاست کے بارے میں احکام کا جائزہ لیا جائے۔ اقبال کا تصورِ جدید اسلام اقبال اسلام کی تعریف کا تعین عالمِ دین کی حیثیت سے نہیں بلکہ فلسفی کی حیثیت سے کرتے ہیں۔ اُن کے نزدیک: ’’اسلام‘‘ لفظ مذہب کے قدیم معنوں میں مذہب نہیں ہے۔ بلکہ ایک رویہ ہے، یوں کہیے کہ آزادی بلکہ تسخیرِ کائنات کا رویہ۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلام قدیم دنیا کے پورے فکری نظام کے خلاف ایک بغاوت ہے۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہنا چاہیے، اسلام انسان کی دریافت ہے۔‘‘۴۵؎ گویا اقبال کے نقطۂ نظر کے مطابق اسلام ایک دین اور تمدن کی حیثیت سے ’’انسان دوست‘‘ ہے اور مساواتِ انسانی کا علمبردار ہے۔ اسلام کی کوئی ایسی تشریح اقبال کو قبول نہیں جو جاگیرداری، موروثیت یا ملوکیت کو برحق قراردیتی ہو اور انسانوں میں امتیاز روا رکھتی ہو۔ اقبال کے مغربی نقاد یہ دور کی کوڑی لائے ہیں کہ انھوں نے انسان دوستی (ہیومنزم) کا تصور مغرب سے حاصل کیا اور اس کی روشنی میں اسلام کی تشریح کی۔ اس کے برعکس اقبال تاریخ کے پس منظر میں ثابت کرتے ہیں کہ ’’انسان دوستی‘‘ تو اسلامی تمدن ہی کی پیداوار ہے اور مغرب کو اسلام کا ایک تحفہ ہے۔ جہاں تک قرآن کا تعلق ہے، اقبال کا عقیدہ ہے کہ اس کی آیات میں لاتعداد نئی دنیائیں مخفی ہیں اور آنے والے کتنے ہی زمانوں کے اسرار اس کی حکمت میں پوشیدہ ہیں۔ اس کی جو مختلف و متعدد تفاسیر ہیں، وہ ماضی، حال اور مستقبل کے مسائل حل کرسکتی ہیں، بشرطیکہ مسلمان ’’عقل‘‘ کو ’’عشق‘‘ سے ہم آہنگ کرنے کے قابل ہوجائیں اور اُنھیں یہ شعور حاصل ہوجائے کہ جو نئی دنیا اُن کے سینوں میں دفن ہے، وہ اُن سے حرفِ ’’کُن‘‘ سن کر بیدار ہوجائے گی۔۴۶؎ اقبال بدلتے ہوئے زمانے کے تقاضوں اور ضرورتوں کے مطابق ’’معاملات‘‘ کے قرآنی احکام کی تشریح میں لچک دار اور ترقی پسند رویے کے حق میں تھے۔ اقبال کا خیال تھا کہ جدید اسلام کو زمانۂ متوسط کے علما و فقہا کے نظریات سے ’’رہائی‘‘ دلانے کی ضرورت ہے: ’’ہم خیالوں اور جذبوں کے اُس قید خانے میں زندگی بسر کررہے ہیں جو صدیوں کے دوران میں ہم پر سخت تنگ ہوگیا ہے۔‘‘۴۷؎ یہی وجہ ہے کہ اُنھوں نے خاندانی/ موروثی خلافت یا امامت یا سلطنت کو فرسودہ طرزہائے حکومت قرار دے کر مسترد کردیا۔ اقبال کے نزدیک موجودہ اسلامی ریاست کو شریعت پر مبنی ہونا چاہیے۔ لیکن شریعت کی تشریح کیا ہونی چاہیے؟ اقبال کے نزدیک شریعت کے دو بنیادی عوامل ہیں: عبادات (دینی فرائض) اور معاملات (دنیاوی اُمور)۔ شریعت کی رو سے دنیاوی امور کا نظم ایک ایسے سیاسی نظام کے تحت ہونا چاہیے جو ’’باہمی مشاورت‘‘ پر مبنی ہو اور جو نظام جمہوریت کی تمام مروجہ صورتوں میں رائج ہے۔ موجودہ زمانے کے سیاسی مفکرین کی طرح اقبال نے بھی سیاسی نظام کی حیثیت سے جدید مغربی تصور جمہوریت پر تنقید کی ہے جس میں کئی خامیاں ہیں۔ لیکن چونکہ کوئی اور قابلِ قبول متبادل موجود نہیں ، لہٰذا اقبال اس نتیجہ پر پہنچے کہ بعض مسلم ملکوں میں منتخب قانون ساز اسمبلیوں کا قیام اسلام کی اصل رُوح کی طرف مراجعت ہے۔ اُن کے نزدیک سورۃ النساء آیت۵۹ میں اطاعت کے بارے میں جو حکم آیا ہے ’’وَ اُولی الاَمِر مِنْکُمْ‘‘ (اور اطاعت کرو) اُن لوگوں کی جو ’’تم میں سے‘‘ صاحبِ امر ہوں)۔ منکم ’’تم میں سے‘‘ سے مراد تمھارے جیسے ہوں۔ یعنی بادشاہ یا موروثی حکمران نہ ہوں۔ اس ضمن میں اقبال کا استدلال یہ ہے کہ ’’خلافت افراد کی ایک جماعت یا منتخب اسمبلی کو سونپی جاسکتی ہے۔‘‘۴۸؎ اُن کا عقیدہ ہے کہ: ’’توحید کا مطلب عملی اعتبار سے انسانی مساوات، یک جہتی اور آزادی ہے۔ اسلامی نقطۂ نظر سے ریاست انھی اعلیٰ اصولوں کو زمانی اور مکانی قوتوں میں تبدیل کرنے کی جدوجہد سے عبارت ہے، یعنی ان اصولوں کو ایک مخصوص انسانی ادارے میں عملی صورت دینے کی خواہش کا نام ہے۔‘‘۴۹؎ اقبال کی مجوزہ اسلامی ریاست میں اسلامی قوانین غیرمسلم اقلیتوں پر نہیں تھوپے جاسکتے۔ برصغیر میں اُن پر ہمیشہ سے اُن کے اپنے قوانین کا اطلاق ہوتا رہا ہے اور آیندہ بھی ہوتا رہے گا۔ انھوں نے واشگاف الفاظ میں کہہ رکھا ہے: ’’میں دوسرے فرقوں کے رسم و رواج، قوانین اور مذہبی اور معاشرتی اداروں کا بے حد احترام کرتا ہوں۔ یہی نہیں بلکہ یہ تو قرآنی تعلیم کے عین مطابق میرا فرض ہے کہ اگر ضرورت پڑے تو میں اُن کی عبادت گاہوں کا دفاع بھی کروں۔‘‘ اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے بارے میں مسلم ریاست کی ذمہ داری پر اقبال کا اِدّعا سورۃ الحج کی آیت ۴۰ پر موقوف ہے، جس میں حکم آیا ہے: (ترجمہ): ’’اگر اللہ لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعے دفع نہ کرتا رہے تو خانقاہیں، گرجے، کینسے اور مسجدیں سب مسمار کرڈالی جائیں، جن میں اللہ کا نام کثرت سے لیا جاتا ہے۔‘‘۵۰؎ اقبال کو پختہ یقین تھا کہ ہندوستان میں جداگانہ انتخابات کا طریق مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے ضروری ہے۔ مسلمانوں نے جداگانہ انتخابات پر اصرار کیا تو اس لیے نہیں کہ وہ جمہوریت سے خوف زدہ تھے، بلکہ اس لیے کہ وہ جمہوریت کے فوائد سے محروم نہیں ہونا چاہتے تھے۔ وہ ایسی مذہبی حریف اکثریت کے زیرتسلط رہنے کے خلاف تھے، جس نے خود کو ’’قوم پرستی کے لبادے میں چھپا رکھا ہے، بظاہر فراخ دلانہ حُب الوطنی کے دعوے دار، بہ باطن کسی ذات یا قبیلے کی طرح تنگ نظر۔‘‘ اقبال کے نزدیک مسلمان جمہوریت کا مطالبہ اس کے صحیح مفہوم میں کررہے تھے، خواہ ہندوستان کے خصوصی حالات میں، اس کی ظاہری ہیئت کو بدلنا پڑے۔۵۲؎ یہ محض ایک تدبیر تھی، کوئی مذہبی فریضہ نہ تھا۔ مسلمانوں کے لیے جداگانہ انتخابات اقبال کی نظر میں مقدس نہ تھے۔ انھوں نے فرمایا: ’’مسلمانانِ ہند کو خالص علاقائی (مخلوط) انتخابات پر کوئی اعتراض نہ ہوگا، بشرطیکہ صوبوں کی حدبندی اس طریقے سے کی جائے کہ لسانی، نسلی، ثقافتی اور مذہبی اتحاد رکھنے والی جماعتیں مقابلتاً ہندوئوں بہتر تحفظ حاصل کرسکیں۔‘‘۵۳؎ ہم پہلے بھی اس بات کا ذکر کرآئے ہیں کہ اقبال نے اگرچہ انسانی بنیادوں پر اپنی شاعری میں علاقائی قوم پرستی اور حُب الوطنی پر تنقید کی ہے، اُن کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ مسلم اکثریتی ملکوں میں اسلام کا قوم پرستی سے کوئی تنازع نہیں ہے۔ اسی طرح مادرِ وطن کے لیے جان کی قربانی دے دینا اسلامی عقائد کا حصہ ہے۔ وہ فرماتے ہیں: ’’مسلم اکثریتی ملکوں میں اسلام قوم پرستی کے لیے گنجایش پیدا کرتا ہے، کیونکہ وہاں اسلام اور قوم پرستی عملاً مماثل ہیں۔ لیکن مسلم اقلیتی ملکوں میں (جہاں مسلمان کسی خاص خطے میں اکثریت میں ہوں) یہ بالکل جائز بات ہے کہ ایک جداگانہ ثقافتی وحدت کی حیثیت سے وہ اپنے حق خود ارادیت کا مطالبہ کریں… حُب الوطنی کا مطلب، اپنے وطن سے محبت کے مفہوم میں، حتیٰ کہ وطن کی عزت و حُرمت کی خاطر، جان قربان کردینا بھی مسلمانوں کا عقیدہ ہے۔‘‘۵۴؎ سیکولرازم کے بارے میں اقبال کا نقطۂ نظر ’’سیکولرازم‘‘ کے بارے میں اقبال کے نقطۂ نظر کا جائزہ لینے کے لیے ضروری معلوم ہوتا ہے کہ مغربی تہذیب میں سیکولرازم کی جو دو صورتیں، اُن کے سیاسی نظام فِکر میں جزولاینفک کے طور پر داخل ہوگئی ہیں، اُن پر کچھ گفتگو کی جائے۔ سیکولرازم کے نظریے کی پیدایش و ارتقا کے تاریخی پس منظر سے قطع نظر، سرمایہ دار جمہوریتوں نے یہ نظریہ اس اصول کی بنیاد پر اختیار کیا ہے کہ ریاست کو مذہب کے معاملات میں غیر جانبدار رہنا چاہیے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ سیکولرازم تمام شہریوں کی مساوات کی ضمانت دیتی ہے، خواہ اُن کے روحانی عقائد کچھ بھی ہوں، کیونکہ ریاست پر حکمرانی سراسر انسان کے اپنے بنائے ہوئے قوانین کے تحت ہوتی ہے (جن کا کسی مذہب سے تعلق نہیں ہوتا) اور ان قوانین کا اطلاق مساوی طور پر تمام شہریوں پر ہوتا ہے۔ نیز سیکولرازم اقلیتوں، دوسرے مذاہب اور دوسری ثقافتوں کی جانب رواداری برتنے کا صرف نام ہی نہیں ہے، بلکہ ان سب کو قبول کرنے کا ضمانت نامہ ہے۔ سیکولرازم کی دوسری صورت اشتراکی ملکوں میں پروان چڑھی، جہاں اس کا صاف مطلب ہے: ’’ریاست بلامذہب‘‘ یا شہریوں پر الحاد کی پابندی بطور سرکاری پالیسی۔ سویت یونین کے انہدام کے بعد سیکولرازم کی یہ صورت ختم ہوچکی ہے، اور فی الحال روسی فیڈریشن اور دوسرے سابقہ اشتراکی ممالک نے سیکولرازم کی وہ صورت اختیار کرلی ہے جو سرمایہ دارجمہوریتوں میں رائج ہے۔ اقبال نے ایک مذہبی فلسفی کی حیثیت سے یہ دلیل پیش کی ہے کہ جدید طبیعیات کے انکشافات بالخصوص وہ جن کا تعلق مادے اور فطرت سے ہے، مادہ پرستوں اور سیکولرازم کے حامیوں کے لیے چشم کُشا ہیں۔ اُنھوں نے اپنی اس دلیل کی صراحت کرتے ہوئے کہا: ’’قرآن کی رُو سے حقیقت مطلقہ رُوحانی ہے اور اس کی زندگی زمانی فعلیت سے عبارت ہے۔ روح کو فطرت، مادیت اور دنیوی امور ہی میں اپنے اظہار کے مواقع ملتے ہیں۔ اس طرح سیکولرازم بھی اپنی اساس کے حوالے سے روحانی ہے۔ فکرِ جدید نے اسلام بلکہ درحقیقت تمام مذاہب کی جو خدمت کی ہے، وہ اُس تنقید کے حوالے سے ہے جو اُس نے فطرت یا مادیت پر کی ہے، یعنی یہ کہ محض مادہ کوئی چیز نہیں جب تک ہم اس کی جڑیں روحانیت میں دریافت نہیں کرلیتے۔ نجس دنیا نام کی کوئی بھی شے نہیں۔ مادے کی یہ تمام وسعت روح کی خودآگہی کی وسعت پر مبنی ہے۔ سب کچھ مقدس ہے، ناپاک نہیں۔ رسولِ کریمؐ نے اس کو نہایت خوب صورتی سے یوں بیان کیا ہے کہ یہ ساری زمین مسجد ہے۔۵۵؎ گویا اقبال کی اصطلاح میں سیکولرازم کی جڑیں روحانیت میں پیوست ہیں۔ لہٰذا سیکولرازم کو خلافِ خدا قرار دینے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ اگر سیکولرازم کا مطلب ریاست کی جانب سے ’’مذہبی آزادی‘‘ اور ’’تمام شہریوں کی مساوات‘‘ کے حقوق کی ضمانت ہے تو پھر یہ یقینا اسلام کے خلاف نہیں ہے۔ اقبال کے نزدیک اسلامی ریاست میں قوانین ’’مخلوط‘‘ ہونے چاہییں۔ جہاں اسلامی قوانین کا اطلاق صرف مسلمان شہریوں پر ہوگا اور اقلیتوں کو اپنے ذاتی مذہبی عقیدے یا رواج پر چلنے کی آزادی ہوگی۔ جہاں تک تیسری قسم کے قانون یعنی انسان کے اپنے بنائے ہوئے قوانین کا تعلق ہے، سو ریاست کے بہترین مفاد کی خاطر اور شہریوں میں مساوات کے اصول کے تحت وہ تمام شہریوں پر یکساں طور پر لاگو ہوں گے۔ اس پس منظر میں دیکھا جائے تو سیکولرازم کو قبول یا مسترد کرنے کی بحث کا اقبال کی اسلامی ریاست یا جناح کی مسلم ریاست سے کوئی تعلق نہیں جو یقینا کسی قسم کی مذہبی شدت پسندی یا ملاّئیت پر قائم نہیں ہے۔ اسی بنا پر اُسے جدید اسلامی جمہوری فلاحی ریاست کا نام دیا گیا ہے۔ اقبال آگے جاکر اس امر کی بھی صراحت کردیتے ہیں کہ اسلامی ریاست میں مذہبی اور سیاسی وظائف و فرائض کی تفریق (یعنی عبادات اور معاملات) کو کلیسا اور ریاست کی مغربی تفریق سے خلط ملط نہیں کرنا چاہیے۔ اقبال کے نزدیک اسلامی ریاست میں یہ تفریق صرف فرائض کی انجام دہی کی حد تک تفریق ہے، اور دوسری صورت میں روح اور مادہ یا مقدس اور ناپاک کی تقسیم ہے جو مابعد الطبیعی ثنویت پر مبنی ہے۔ چونکہ اسلام میں جداگانہ مذہبی ادارے (جیسے کلیسا کا ادارہ) کا تصور موجود نہیں ہے، اس لیے اقبال جداگانہ وزارتِ مذہبی اُمور قائم کرنے کے حق میں ہیں جو اوقاف وغیرہ اُمور کے علاوہ دینی مدرسوں اور مسجدوں کا انتظام بھی سنبھالے۔ اس وزارت کو مسجدوں کے اماموں اور خطیبوں کا تقرر کرنا چاہیے۔ اقبال کے خیال کے مطابق کسی شخص کو مسجد میں ریاست کے جاری کردہ اجازت نامے کے بغیر تبلیغ کی اجازت نہ ہونی چاہیے۔ جب کمال اتاترک نے جدید ترکی میں مذہبی اصلاحات نافذ کیں تو اقبال نے اُن کی اِن الفاظ میں تحسین کی تھی: ’’جہاں تک علما کو سرکاری طور پر اجازت نامے جاری کرنے کا سوال ہے، اگر مجھے اختیار ہو تو میں مسلم انڈیا میں بھی ایسا ہی کروں۔ ہمارے یہاں عام مسلمانوں میں جو جہالت پائی جاتی ہے، اُس کا بڑا سبب دیومالائی کہانیاں گھڑنے والا ’’مُلّا‘‘ ہے۔ مُلّا کو لوگوں کی مذہبی زندگی سے خارج کرکے اتاترک نے وہ کام کیا ہے، جسے سُن کر ابن تیمیہ اور شاہ ولی اللہ کے دل بھی خوش ہوجاتے۔ مشکٰوۃ میں آنحضورؐ کی ایک حدیث اس موضوع پر موجود ہے کہ اسلامی ریاست کا صرف امیر اور اُس کے مقرر کردہ اشخاص ہی کو تبلیغ کا استحقاق ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ اتاترک کو اس حدیث کا علم تھا یا نہیں، لیکن یہ امر خوش آیند ہے کہ اس اہم معاملے میں اُنھوں نے اسلامی ضمیر کی روشنی میں حلقۂ اعمال کو روشن کیا ہے۔‘‘۵۶؎ اقبال کے نقطۂ نظر کو تاریخِ اسلام سے بھی تقویت ملتی ہے۔ جب بغداد میں خلفائے عباسی اپنے زوال کی آخری حد پر تھے، تب بھی انھوں نے قضاۃ اور مسجد کے اماموں اور خطیبوں کی تقرری کا اختیار اپنے پاس رکھا۔ ظاہر ہے کہ اسلامی قیادت نے یہ طریقہ اُن لوگوں کو دبانے کے لیے اختیار کیا تھا جو مسلمانوں میں فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے پر تلے ہوئے تھے۔ جہاں تک اقبال کی مجوزہ اسلامی ریاست میں اسلامی قانون سازی کا تعلق ہے، اقبال نے تاکید کی ہے کہ منتخب اسمبلیوں میں قانون سازی کے عمل میں ’’اجتہاد‘‘ اختیار کیا جائے۔ اجتہاد وہ واحد ذریعہ ہے جو ایک جدید جمہوری اسلامی ریاست میں اجماع کے طور پر اختیار کیا جاسکتا ہے۔ دل چسپ اور قابل ذکر بات یہ ہے کہ مولانا شبلی نے لکھا ہے کہ خلیفہ عمر فاروقؓ کے زمانے میں ’’اکثریت کی بنیاد‘‘ پر اجماع کے فیصلوں کو قبول کیا جاتا تھا۔ اقبال نے یہ بھی کہا ہے کہ آزاد خیال مسلم دانشوروں کا جو یہ خیال ہے کہ شریعت کی تعبیر نو جدید زندگی کے بدلے ہوئے حالات اور اُن کے اپنے تجربے کی روشنی میںہونی چاہیے، بالکل جائز اور درست ہے۔ اقبال کو پختہ یقین تھا کہ دنیائے اسلام کو نئی فکری و عقلی قوتوں کا سامنا ہے جو انسانی علم کی غیرمعمولی ترقیوں کے سبب وجود میں آئی ہیں۔ اسی لیے وہ تجویز کرتے ہیں کہ مسلمانوں کی ہر نسل کو، اپنے پیش روؤں کے کارناموں کی روشنی میں، مگر بے روک ٹوک، اپنے مسائل کو خود حل کرنے کی اجازت ہونی چاہیے۔ انھوں نے لکھا ہے: ’’اسلامی ممالک میں جمہوری روح کے ارتقا اور قانون ساز اسمبلیوں کی بتدریج تشکیل کے نتیجے میں، عین امکان ہے کہ اجتہاد کا اختیار فقہا یا علما سے قانون ساز اسمبلی کو منتقل ہوجائے گا۔ یہ واحد ممکنہ طریقہ ہے جو موجودہ زمانے میں ’’اجماع‘‘ اختیار کرسکتا ہے۔ اس طریقے سے ایسے منتخب نمایندوں کو بھی قانونی بحث مباحثے میں شرکت کا موقع مل جائے گا جو حالات کی نبض پر ہاتھ رکھتے ہیں۔ صرف اس طریقے پر عمل کرنے سے ہم اپنے قانونی نظام کی سوئی ہوئی روح کو بیدار اور مائل بہ ترقی کرسکتے ہیں۔‘‘ امام ابواسحاق شاطبی (جن کا حوالہ اقبال نے ’’خطبات‘‘ میں دیا ہے) اگرچہ اس امکان کو قبول کرتے ہیں کہ ’’اجماع‘‘ کی صورت میں اجتہاد میں ایک غیر مسلم بھی شرکت کرسکتا ہے، لیکن اقبال نے اس مسئلے کو نہیں چھیڑا کہ جدید مسلم قانون ساز اسمبلی (اجماع) کے غیر مسلم ارکان قانون سازی میں اجتہاد میں شریک ہوسکتے ہیں یا نہیں۔ جہاں تک انفرادی سطح پر اجتہادی فیصلے کا تعلق ہے، برطانوی ہند میں اینگلومحمڈن لا کے تحت ایک غیرمسلم جج کو، مسلم پرسنل لا سے متعلق معاملات میں، علما کے اعتراض کے بغیر، فیصلہ کرنے کا اختیار مل گیا تھا۔ اقبال نے حالات کے پیش نظر کسی قرآنی حکم کے اطلاق کی تحدید یا توسیع یا التوا میں رکھنے کے اُصول کو تو تسلیم کیا ہے، لیکن انھوں نے معتزلہ اور معروف حنفی فقیہ عیسی بن عبّان کا یہ نقطۂ نظر قبول نہیں کیا کہ اجماع کسی قرآنی حکم کو منسوخ بھی کرسکتا ہے۔ اقبال مساوات، اتحاد اور آزادی پر زور دیتے ہوئے اسلامی جمہوریہ میں قانون کی بالادستی، انسانی حقوق کی ضمانت، معاشرتی و اقتصادی انصاف کے اصول، جیسا کہ وہ قرآن و سنت میں موجود ہیں، کی شمولیت کے خواہش مند ہیں۔ وہ شریعت کے بعض معاملات کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے جھجک رکھتے ہیں، بالخصوص سول اور فوجداری کی قانون سازی کے ایسے معاملات میں، جو تشریحِ نو کا تقاضا کرتے ہیں۔ اُن کی جھجک کا سبب یہ ہے کہ مسلم اُمہ روایت پسند ہے۔ فرقہ وارانہ اختلافات کی وجہ سے ابھی جذباتی طور پر یہ حقیقت تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں کہ شریعت اپنی روح میں باعثِ تقسیم و تفریق نہیں ہے، بلکہ باعثِ وحدت و جامعیت ہے، اور یہ کہ مسلمانوں کو شریعت کی اصل روح کی طرف رجوع کرنے کی ضرورت ہے۔ جھجک اور احتیاط پسندی کے باوجود اُن کے جگہ جگہ بکھرے ہوئے خیالات اُن کے ترقی پسندانہ فکری رجحانات کی غمازی کرتے ہیں۔ اقبال کی نظر میں قانون ساز کی ایک اہم اہلیت یہ ہے کہ وہ قانون داں (وکیل) ہو اور اُس نے روایتی اسلامی فقہ کا مطالعہ جدید اصولِ قانون کی روشنی میں کررکھا ہو۔ اُن کی خواہش تھی کہ لا کالجوں میں ایک نیا نصاب بنایا جائے جس میں قدیم و جدید دونوں نظامِ قانون شامل کیے جائیں یعنی اسلامی فقہ اور جدید جورسپروڈنس اور ایسا نصاب قانونی تعلیم کے اداروں میں متعارف کیا جائے۔ انھوں نے یہ نقطہ نظر اس سوال کے جواب میں اختیار کیا تھا کہ موجودہ مسلم اسمبلیوں کے منتخب اراکین، جو اسلامی فقہ کی باریکیوں کو نہ سمجھتے ہوں، وہ قانون سازی کے معاملوں میں تشریحِ قانون کیونکر کرسکتے ہیں؟ اس سوال کے جواب میں اقبال نے تجویز پیش کی تھی کہ قابل و فاضل قانون ساز افراد کی عدم موجودگی کا حل یہ ہے کہ ایک مجلس علما نامز دکی جائے جو قانون ساز اسمبلی کا حصہ ہو۔ مگر سنگین غلطیوں یا قانون کی غلط تشریح سے بچنے کے لیے یہ حل عارضی ہونا چاہیے۔ عصرِ حاضر میں اسمبلی کے ذریعے اسلامی قانون سازی کے عمل میں، اپنے قدامت پسند علما کی فرقہ واریت اور ان کی عقلی حدود سے اقبال بخوبی آگاہ تھے، جو چھوٹی چھوٹی باتوں پر جھگڑا مول لے لیتے ہیں، اور اُن سے مناسب رہنمائی کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ لہٰذا اقبال خاص خاص میدانوں میں ’’غیر علما‘‘ ماہرینِ خصوصی کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہیں، اور جانتے ہیں کہ ان کے ساتھ ایسے عام نمایندے بھی، جو معاملات پر گہری نظر رکھتے ہوں، جدید اسلامی قانون سازی کے کارِ خیر میں حصہ لے سکتے ہیں۔ اقبال خاندانی منصوبہ بندی کے بارے میں قانون وضع کرنے کے حق میں تھے۔ انھوں نے ترکی میں کثرتِ ازدواج کی منسوخی کے قانون پر اتفاق رائے کا اظہار اس بنیاد پر کیا کہ اسلامی ریاست کا امیر یا صدر غیر معمولی معاشرتی حالات میں قرآن مجید کی کسی قانونی اجازت؍ حکم کو معرضِ التوا میں رکھ سکتا ہے۔ اُن کا خیال تھا کہ اسلامی ریاست بنیادی طور پر ترقی پذیر ریاست ہے۔ اپنے اس خیال کی وضاحت کے لیے انھوں نے (انڈین بینکنگ انکوائری رپورٹ کے معاملے میں) اخبار ٹائمز آف انڈیا میں شائع شدہ ایک مضمون سے یہ اقتباس پیش کیا: ’’قدیم ہندوستان میں ریاست شرح سود مقرر کرنے کے لیے قوانین وضع کرتی تھی، لیکن مسلمانوں کے عہد میں، اس امر کے باوجود کہ اسلام قرضے پر سود لینے دینے کی سخت ممانعت کرتا ہے، ہندوستانی مسلم ریاستوں نے سود اور شرح سود پر کوئی پابندی عائد نہیں کی۔‘‘۶۱؎ اسلامی قانون فوجداری اور اس کے حدود (و تعزیرات) کے ضمن میں اقبال نے شاہ ولی اللہ کی ایک رائے کے مولانا شبلی کے ترجمے پر انحصار کرتے ہوئے لکھا: ’’شاہ ولی اللہ کے نزدیک تعلیم و ہدایت کا پیغمبرانہ طریقہ یہ ہے کہ بالعموم پیغمبر کا دیا ہوا قانون اُس سرزمین کے لوگوں کی عادات و رسوم اور خصوصیات کا خاص لحاظ رکھتا ہے، جس میں ہدایت کے لیے اُسے بھیجا گیا… اُس کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ وہ خاص اُس سرزمین کے لوگوں کی تربیت کرتا ہے، پھر انھیں عالمگیر شریعت کی تعمیر و تشکیل کے لیے بطور مرکز استعمال کرتا ہے۔ اس طریقے پر عمل کرتے ہوئے وہ پورے بنی نوع انسان کی معاشرتی زندگی کے عالمگیر اُصولوں پر ارتکاز کرتے ہوئے، اپنی سرزمین کے لوگوں کی مخصوص عادات و روایات کی روشنی میں اُن کا نفاذ کرتا ہے۔ اس طرح کے اطلاق و نفاذ سے جو شرعی احکام (مثلاً جرائم کی سزاؤں سے متعلق) بطور نتیجہ اخذ ہوں گے، وہ دراصل خاص اُس قوم سے متعلق ہوں گے، اور چونکہ اُن کا اطلاق و نفاذ مقصود بالذات نہیں ہے، لہٰذا آیندہ نسلوں پر وہ لازماً اور سختی کے ساتھ لاگو نہیں ہوسکتے۔‘‘۶۲؎ اقبال سوشلزم کے اصولِ مساوات کو بھی بہ نظرِ تحسین دیکھتے تھے، انھوں نے اپنی متعدد فارسی اور اُردو نظموں میں روس میں اشتراکی تحریک کی تعریف کی ہے۔ انھوں نے روس کے اشتراکی تجربے کو ہمدردی سے دیکھا، کیونکہ کم از کم اپنی ظاہری ہیئت میں اس کا مقصد، اسلام کی طرح، مطلق العنانیت کے خاتمے کے ساتھ کلیسائی نظام کو ختم کرکے مساواتِ انسانی کو فروغ دینا تھا۔ لیکن اقبال نے اشتراکیت کو اس لحاظ سے مسترد کردیا کہ اس کی بنیاد الحادی مادیت پر رکھی گئی تھی۔ انھوں نے اپنے ۲۴جون۱۹۲۳ء کے مکتوب میں اعلان کیا: ’’مجھے یقین ہے کہ خود روسی بھی اپنے تجربے کی بنیاد پر ایک دن اپنے موجودہ نظام کی خامیوں سے آگاہ ہونے کے بعد کسی اور معاشرتی نظام کی طرف رجوع کرنے پر مجبور ہوجائیں گے، جس کے بنیادی اُصول یا تو خالصتاً یا قریب قریب اسلامی ہوں گے۔‘‘۶۳؎ اقبال ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے پختہ یقین رکھتے تھے کہ قرآن نے انسانیت کے مختلف طبقوں کے معاشی مسائل کا بہترین حل پیش کیا ہے۔ شریعت نے سرمایے کی طاقت کے بل پر ایک طبقے کا، دوسرے طبقے کا استحصال، بالکل ختم کردیا ہے۔ مگر اسلام اپنے معاشی نظام سے سرمایے کو بالکل ہی خارج نہیں کرتا، بلکہ انسانی فطرت کا غائر مطالعہ کرنے کے بعد، ایک ایسی ہیئت کے طور پر برقرار رکھتا ہے جو سرمایہ و محنت میں توازن پیدا کرے۔ انھوں نے محمد علی جناح کے نام اپنے خط (۲۸ مئی۱۹۳۷ئ) میں لکھا تھا کہ مسلمانوں کے معاشی مسائل شریعت کے نفاذ ہی سے حل ہوسکتے ہیں، اور مستقبل میں شریعت کی تشریح جدید افکار و نظریات کی روشنی میں کی جاسکتی ہے۔ اُن کا کہنا یہ ہے: ’’اسلام میں ایسی سوشل ڈیموکریسی کو، جو اسلام کے قانونی اصولوں سے ہم آہنگ ہو، اختیار و قبول کرلینا انقلاب نہیں، بلکہ اسلام کی اصل روح کی طرف مراجعت ہے۔‘‘ وہ اسلام کے قانونِ وراثت، اور دوسرے فلاحی قوانین مثلاً زکوٰۃ و عشر کے نفاذ کے سخت حامی تھے۔ انھوں نے قرآن اس اصول کا حوالہ دیتے ہوئے کہ ’’یَسْئَلُوْنَکَ مَا ذَا یُنْفِقُوْنَ قُلِ الْعَفْوَ‘‘ (سورۃ البقرہ:۲۱۹) یہ استدلال پیش کیا تھا کہ کوئی بھی ٹیکس جو مصلحتِ عامہ کے پیشِ نظر عائد کیا جائے، اُسے شریعت کے مخالف قرار نہیں دیا جاسکتا۔ سوال یہ ہے کہ اقبال کے نزدیک زمین کا اصل مالک اللہ کیوں ہے اور جو انسان کسی نہ کسی سبب زمین پر اپنے ذاتی مفادات کی خاطر قابض ہے، وہ محض امین یا اجارہ دار کیوں ہے؟ مسلم انڈیا میں سلاطین اور بادشاہوں نے جاگیریں اُن اشخاص کو عطا کی تھیں جو سلطنت کو مناسب فوجی امداد فراہم کرسکیں اور جو مقامی نظم و نسق چلا سکیں اور لوگوں سے محصولات بھی وصول کرسکیں۔ انگریزوں نے یہ نظام برقرار رکھا اور نئی اشرافیہ پیدا کی۔ نئے جاگیرداروں نے سیاسی وفا شعاری کے ساتھ ساتھ انگریزوں کو عسکری امداد بھی فراہم کی۔ بالفاظِ دیگر اُن علاقوں کے نئے جاگیردار، جہاں اب پاکستان قائم ہے، انگریزی سامراج کے دائیں بازو بن گئے۔ اقبال کے نزدیک ملکیتِ اراضی کا مسئلہ الجھا ہوا تھا۔ وہ ایک طرف تو انگریزوں کی حکومت سے جاگیرداروں کی اطاعت کی مذمت کرتے تھے اور دوسری طرف وہ انگریزوں کے اس دعوے کی بھی تردید کرتے تھے کہ زمین کی ملکیت تاجِ برطانیہ کو حاصل ہے۔ اُنھوں نے ’’الارض اللہ‘‘ یعنی زمین اللہ کی ہے، کا نعرہ لگایا اور یہ موقف اختیار کرنے کے سبب وہ بے زمین کاشتکاروں کے چیمپئن بن گئے۔ اقبال مخاربہ (بٹائی یا لگان) کے بھی مخالف تھے، اور اس کے خلاف قانون نافذ کرنے کی سفارش بھی کی، جس کے مطابق ایک شخص اپنے پاس اتنا موزوں قطعۂ اراضی رکھ سکتا تھا جس کی وہ خود کاشت کرسکے۔ اُن کا خیال تھا کہ چونکہ ریاست زمین کی مالک ہے نہ بن سکتی ہے، لہٰذا فی الحال ریاست کی مملوکہ آدھی زمین بے زمین کاشتکاروں کو قسطوں پر دے دینی چاہیے۔ ۱۹۲۷ء میں جب وہ پنجاب کی لیجسلیٹو کونسل کے منتخب ممبر تھے، انھوں نے جاگیرداروں پر زرعی انکم ٹیکس، اُسی شرح سے عائد کروانے کی سفارش کی جس تناسب سے عام انکم ٹیکس لگایا جاتا ہے۔ اقبال نے کہا، جس طرح قلیل آمدنی والے گروپ انکم ٹیکس کی ادائی سے مستثنیٰ تھے، اسی طرح چھوٹے زمینداروں کو بھی لگان کی ادائی سے مستثنیٰ قرار دیا جائے۔ اقبال سرمایہ دارانہ نظام اور کمیونزم (اشتراکیت) دونوں کے خلاف تھے۔ دراصل وہ متوسط طبقے کی فلاحی ریاست قائم کرنے کے آرزو مند تھے۔ اقبال نے اپنی نظم و نثر میں شریعت کے اہم حصے ’’عبادات‘‘ پر بھی رائے زنی کی ہے۔ لیکن یہاں بھی اُن کا نقطۂ نظر ایک عالمِ دین کا سا نہیں، بلکہ فلسفی کا ہے۔ اُنھوں نے تعلیمی نظام کا معیار بڑھانے پر زور دیا، تاکہ ہماری جامعات سے تکمیلِ تعلیم کے بعد پختہ عزم و اخلاص کے نوجوان مرد و زن نکل سکیں جو بیک وقت جدید زاویۂ نظر کے مالک اور تخلیق و ایجاد کی جبلت و صلاحیت کے حامل ہوں۔ اقبال جنوبی ایشیا میں پہلے مسلمان مفکر تھے، جنھوں نے اسلام میں ریاست کو ’’روحانی جمہوریت‘‘ سے تعبیر کیا۔ اس ضمن میں اُن کا استدلال یہ تھا کہ: ’’اسلام کے اساسی فکر کے مطابق اب انسان کی فلاح کے لیے وحی نہیں آئے گی، لہٰذا مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ کرۂ ارض پر آباد تمام اقوام و ملل میں اپنے آپ کو روحانی طور پر سب سے زیادہ آزاد سمجھیں۔ اوّل اوّل جو مسلمان دورِ جاہلیت کی رُوحانی غلامی سے آزاد ہوئے، وہ اسلام کی اس اساسی فکر کی اہمیت نہ سمجھ سکے مگر آج کے مسلمان کو اس بات کا بخوبی احساس ہونا چاہیے کہ اسلام کا اصل مقصد ’’روحانی جمہوریت‘‘ کا قیام ہے جس کی تحصیل ابھی تک ممکن نہیں ہوسکی۔ کیا یہ نقطۂ نظر غیرروایتی ہے؟ اقبال نے یہ نظریہ کہاں سے اخذ کیا؟ انھوں نے اس کی وضاحت نہیں کی۔ اُنھوں نے ’’روحانی جمہوریت‘‘ کو اسلام کا حتمی مقصد قرار دینے کا خیال غالباً اُس اصول سے اخذ کیا ہوگا جس پر ’’میثاقِ مدینہ‘‘ ترتیب دیا گیا، یا سورۃ المائدہ کی آیت سے، جس میں اللہ بنی نوع انسان کو مخاطب کرتے ہوئے کہتا ہے (ترجمہ): ’’ہم نے تم میں سے ہر ایک کے لیے ایک علیحدہ شریعت اور ایک راہِ عمل مقرر کی۔ اگر تمھارا خدا چاہتا تو تم سب کو ایک اُمّت بھی بناسکتا تھا، لیکن اُس نے یہ اس لیے کیا کہ جو کچھ اُس نے تم لوگوں کو دیا ہے اُس میں تمھاری آزمایش کرے۔ لہٰذا نیک کاموں میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کرو۔ آخر کار تم سب کو اللہ کی طرف پلٹ کر جانا ہے۔ پھر وہ تمھیں اصل حقیقت بتادے گا، جس کے بارے میں تم اختلاف کرتے رہے ہو۔‘‘ اس ضمن میں اگر میثاقِ مدینہ اور مذکورہ قرآنی آیت ہی اقبال کے رہنما ماخذ ہیں، تو پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ روحانی جمہوریت عملاً کیونکر قائم کی جاسکتی ہے؟ غالباً اُنھوں نے خود ہی روحانی جمہوریت کے بارے میں یہ تصور قائم کرلیا ہوگا: ایک ایسی ریاست جس میں تمام مذاہب برابر آزاد ہوں، سب کے ساتھ رواداری برتی جاتی ہو، اُن کا احترام کیا جاتا ہو، اُن کو تسلیم کیا جاتا ہو۔ اُن کی نظر میں ایسی مثالی ریاست مغربی تہذیب کی پیدا کردہ دونوں قسم کی سیکولرریاستوں (یعنی سرمایہ دارانہ اور اشتراکی)۔ اس اعتبار سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ اقبال کی اسلامی ریاست بحیثیت ایک روحانی جمہوریت صحیح معنوں میں ایک آئیڈیل یا مثالی سیکولر ریاست ہی قرار دی جاسکتی ہے۔ جیسا کہ اوپر بیان ہوا، وہ اسلامی ریاست جو آنحضورؐ کے زمانے میں قائم ہوئی، حرفِ آخر اور مکمل شکل میں نہ تھی۔ پیغمبرؐ کی قائم کردہ ریاست کے بعد خلافت کی کئی صورتیں یکے بعد دیگرے رونما ہوئیں، مثلاً جمہوریت کی صورت میں بذریعۂ انتخاب، بذریعہ نامزدگی، بذریعہ محدود حلقۂ انتخاب یا بذریعہ استصواب رائے۔ آمریت کی صورت میں بذریعہ جبر، استیلا یا غصب۔ حتیٰ کہ خلافت نے سلطنت یا ملوکیت کی صورت میں اختیار کرلی۔ جمال الدین افغانی ۱۹۲۴ء میں خلافت کے خاتمے سے پہلے ’’آئینی‘‘ خلافت کا تصور پیش کیا تھا۔ اقبال کی تشریح کے مطابق خلیفہ کے اختیارات منتخب مسلم قانون ساز اسمبلی کے ذریعے روبہ کار لائے جاسکتے ہیں۔ اصل میں یہی نقطۂ نظر خوارج کا تھا۔ اقبال کے نزدیک جدید اسلامی ریاست ایک ایسا تصور ہے جسے ابھی شرمندۂ تعبیر ہونا ہے۔ اقبال کا تصورِ ریاست اسلام کے ساتھ جدید مغربی افکار کے امتزاج کی اچھی مثال ہے۔ انھوں نے اپنی شاعری میں جن خیالات کا اظہار کیا اور ۱۹۲۴ء میں نظریۂ اجتہاد پر اپنی جو رائے ظاہر کی، اُس کی بنیاد پر بعض روایت پرست علما نے اُنھیں ’’کافر‘‘ قرار دیا۔ حقیقت یہ ہے کہ اقبال اپنے زمانے سے بہت آگے تھے، کیونکہ ابھی عامۃ المسلمین اُن کے خیالات و افکار قبول کرنے کے لیے تیار نہ تھے۔ اقبال کے مغربی نقاد یا مغرب پسند مسلم نقادوں کے نزدیک جدید اسلامی ریاست کے بارے میں اُن کے تصور کو اپنی اصطلاح میں ’’سیکولرانسان دوستی‘‘ یا ’’لبرل افادی انسان دوستی‘‘ کہہ سکتے ہیں۔ اقبال کے نزدیک روحِ اسلام ہمہ گیر اور لامحدود ہے۔ جیسا کہ اسلام کی تاریخ سے ثابت و ظاہر ہے، اسلام کے دھارے میں تمام دوسری تہذیبوں کے نئے افکار وخیالات اس طرح جذب ہوسکتے ہیں کہ اسلام اُن کو اپنے رنگ میں رنگ لے۔ اقبال کی جدید اسلامی ریاست کے حفائص ۱- یہ ریاست جمہوری ہے۔ ۲- عصرِ حاضر کے تقاضوں سے عہدہ برآہونے کے لیے، پارلیمنٹ کو اسلامی قوانین کے نفاذ میں ’’اجتہاد‘‘ کو رہنما اصول کے طور پر اختیار کرنا چاہیے۔ ۳- عصرِحاضر کے تقاضوں سے عہدہ برآہونے کے لیے، پارلیمنٹ کو اسلامی قوانین کے نفاذ میں ’’اجتہاد‘‘ کو رہنما اصول کے طور پر اختیار کرنا چاہیے۔ ۳- مذہبی نظامت اور ریاستی اعضا کی تفریق خالصتہً ہندوئوں انتظامی نوعیت کی ہے۔ یہ کلیسا اور ریاست کی تفریق کے مشابہ نہیں ہے۔ ۴- اسلام کا قانونِ فوجداری زبردستی عائد نہیں کرنا چاہیے۔ ۵- فری مارکیٹ اکانومی کی ترویج کی خاطر بلاسود بنکاری نافذ کرنے کی ضرورت نہیں۔ ۶- ریاست کو بے زمین مزارعین اور مزدوروں کے حقوق کا تحفظ کرنا چاہیے اور زرعی پیداوار پر بھی ٹیکس لگانا چاہیے۔ ۷- ریاست کی ذمہ داری ہے کہ صنعتی مزدوروں کی کم از کم اجرت مقرر کرے اور اُن کا تحفظ کرے، اُنھیں طبی امداد دے اور اُن کی ریٹائرمنٹ پر معاوضے کی ضمانت دے۔ ۸- مسلم اکثریتی ریاست میں قومی استحکام پیدا کرنے کی غرض سے مشترکہ انتخابات کا طریقہ اختیار کیا جاسکتا ہے۔ ۹- روحانی جمہوریت کی تعریف واضح نہیں، تاہم نسل، مذہب یا عقیدے کا لحاظ کیے بغیر، تمام شہریوں کی برابری اس کا مطمح نظر ہے۔ مسلم انڈیا کی سیاست میں اقبال کا کردار اقبال نے مسلم انڈیا کے سیاسی ارتقا میں کیا کردار ادا کیا؟ فکری اعتبار سے اقبال پر سرسیّد کے سیاسی افکار کا گہرا اثر تھا اور مستقبل میں اُنھی کی ترقی و ترویج کے امکانات پر نظر رکھتے تھے۔ ابھی وہ انگلستان میں زیرِ تعلیم تھے کہ اُنھوں نے مسلم لیگ کی شاخ لندن میں، ۱۹۰۷ء میں شمولیت اختیار کرلی تھی۔ حکومتِ برطانیہ نے جب ۱۹۰۹ء کی آئینی اصلاحات کے تحت مسلمانوں کو جداگانہ انتخابات کا حق دے دیا، تو انھوں نے ہندوستانی قوم پرستی کو ہمیشہ کے لیے خیرباد کہہ دیا اور اس نتیجے پر پہنچے کہ مسلمانوں کے جداگانہ قومی تشخص کا تحفظ بہت ضروری ہے۔ اُن کی مثنوی اسرارِ خودی کے اخیر میں ایک نظم ’’دُعا‘‘ کے عنوان سے شامل ہے، جس میں وہ اللہ تعالیٰ سے التجا کرتے ہیں: ہر کسے از ظنِ خود شد یارِ من ازدرونِ من نخست اسرارِ من یعنی ہر شخص اپنے ظن و خیال کے مطابق میرا دوست بنا۔ لیکن کسی نے میرے دل کے اسرار معلوم نہ کیے۔ انھوں نے ایک ایسے ہمدم کی آرزو کی جو اُن کے دل کے اسرار جان سکتا۔ وہ اسرار کیا تھے جن میں اپنے دوست کو شریک کرنا چاہتے تھے؟ کیا وہ برصغیر کے مسلم اکثریتی صوبوں پر مشتمل ایک مقتدر اسلامی ریاست قائم کرنے کا خواب دیکھ رہے تھے؟ اُنھوں نے ۱۹۲۶ء میں مسلمانوں کی سیاست میں حصہ لینا شروع کردیا جب وہ لاہور سے پنجاب لیجسلیٹو کونسل کے رُکن منتخب ہوئے۔ انھوں نے کل ہند مسلم سیاست میں ایک قائد کی حیثیت سے ۱۹۲۷ء میں شہرت حاصل کی جب مسلمانوں کے لیے جداگانہ انتخابات کا طریقہ برقرار رکھتے یا ترک کرنے کے اہم مسئلے پر مسلم لیگ دوحصوں میں بٹ گئی تھی۔ آل انڈیا مسلم لیگ (شفیع گروپ) کے سیکرٹری جنرل کی حیثیت سے اقبال نے جداگانہ انتخابات کا طریقہ ترک کرنے کی مخالفت کی۔ ۱۹۲۹ء میں محمد علی جناح سے مصالحت ہونے کے بعد وہ ملک گیرسطح پر مسلمان قائد کی حیثیت سے اُبھرے۔ ۱۳؍جولائی۱۹۳۰ء کو مسلم لیگ کونسل کے اجلاس میں ۱۹۳۰ء کے آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس کی صدارت کے لیے محمد علی جناح نے بحیثیت صدر اقبال کا نام تجویز کیا۔ یہ تجویز اتفاق رائے سے منظور ہوئی۔ جناح چاہتے تھے کہ اقبال آل انڈیا مسلم لیگ کے صدر کی حیثیت سے، گول میز کانفرنس میں باضابطہ نمایندے کی حیثیت سے، اُن کے ساتھ شرکت کریں، لیکن پنجاب کے وزیراعلیٰ سرفضل حسین کی تدبیروں سے اقبال کو پہلی گول میز کانفرنس میں شمولیت کا دعوت نامہ نہ ملا۔ مسلم نمایندگان تو گول میزکانفرنس میں شرکت کے لیے لندن چلے گئے، لیکن اقبال سیاسی لحاظ سے زیادہ فعال ہوگئے۔ انھوں نے مسلم کانفرنس سے اپنے خطاب (۲۸دسمبر۱۹۲۸ئ) میں کہا تھا کہ ہندوستان کے بعض حصوں میں مسلمانوں کی اکثریت ہے، لہٰذا اُنھیں وہاں اپنا جداگانہ سیاسی پروگرام وضع کرنا چاہیے۔ اپنے اس خیال کو آگے بڑھانے کے لیے انھوں نے ۲۳نومبر۱۹۳۰ء کو لاہور کے ایک اجلاس میں تجویز پیش کی کہ شمالی ہندوستان کے مسلمانوں کی ایک خصوصی کانفرنس بلائی جائے جس میںصوبہ سرحد، بلوچستان، پنجاب اور سندھ کے نمایندوں کو مدعو کیا جائے۔ مقصد ان مسلم اکثریتی خطوں کے مسلمانوں کو منظم کرنا تھا تاکہ اُن کے مطالبات و تجاویز کے ایک علیحدہ ایجنڈا مرتب کیا جائے۔ اُسی اجلاس میں ’’اپر انڈیا مسلم کانفرنس‘‘ کے لیے ایک استقبالیہ کمیٹی کی تشکیل کی گئی اور اقبال کو اس کانفرنس کا صدر منتخب کیا گیا۔ ۹؍دسمبر۱۹۳۰ء کو بعض مقتدر مسلمانانِ صوبہ سرحد، پنجاب، بلوچستان و سندھ کے نام ’’اپرانڈیا مسلم کانفرنس‘‘ کے متعلق علامہ اقبال اور دیگر ارکانِ مجلسِ استقبالیہ نے درج ذیل اپیل شائع کی: اس کانفرنس کے طلب کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ان صوبہ جات کے مسلمانوں کو حالاتِ حاضرہ اور آج کی سیاسی تحریکات سے آگاہ کیا جائے اور ہماری ہمسایہ اقوام اور ہندوستان کی حاکم قوم کی حکمتِ عملی سے واقف کرکے ان خطرات سے آگاہ کیا جائے، جن سے اس وقت ملتِ مرحومہ دوچار ہے اور اس کے بعد مسلمانانِ ہند کی اُس کثرت کو، جو ان صوبہ جات میں ہے، جن کو خدائے حکیم و علیم و خبیر نے یقینا بلامصلحت نہیں، بلکہ کسی ایسی مصلحت کے لیے، جو اربابِ دانش و بینش پر روز بروز عیاں ہوتی چلی جارہی ہے، یکجا کررکھا ہے… اور ہندوستان میں اسلام اور مسلمانوں کے تحفظ کے لیے سرگرمِ عمل ہونے کا پیغام دیا جائے۔۷۰؎ یہ کانفرنس منعقد کرنے کی ضرورت اس لیے پیش نہ آئی کہ آل انڈیا مسلم لیگ کا سالانہ اجلاس جس کی صدارت اقبال نے کی، بالآخر الٰہ آباد کے مقام پر ۲۹دسمبر۱۹۳۰ء کو منعقد ہوا۔ اقبال نے اپنے خطبۂ صدارت میں کم از کم شمالی ہند کے مسلمانوں کے لیے ایک قومی وطن کے طور پر، (پنجاب، سندھ، صوبہ سرحد اور بلوچستان پر مشتمل) ایک مربوط ریاست قائم کرنے کی تجویز پیش کی۔ مجوزہ ریاست کو رقبے میں کم وسیع اور آبادی میں زیادہ مسلم بنانے کے مقصد سے انھوں نے مشورہ دیا کہ مشرقی پنجاب کے ایسے اضلاع کو جہاں غیرمسلموں کی اکثریت ہے، اس ریاست سے الگ کردینا چاہیے۔ ایسی ریاست جو ’’سلطنتِ برطانیہ کے اندر حکومتِ خود مختاری حاصل کرے یا اس سے باہر رہ کر‘‘ طاقت کا اندرونی توازن اور امن و سلامتی قائم کرنے میں ممدومعاون ثابت ہوگی۔‘‘۷۱؎ اقبال کی اس تجویز پر اینگلوانڈین اور ہندو اخبارات نے سخت نکتہ چینی کی۔ لندن میں گول میز کانفرنس کی کارروائی کو ہندو مہاسبھا کے لیڈر ڈاکٹر مونجے نے درہم برہم کردیا، اور کمیٹی سے بڑی برہمی سے خطاب کرتے ہوئے کہا: ’’مجھے نہیں معلوم، کل کے اخبارات میں سرمحمد اقبال کی تقریر کی جو رپورٹ چھپی ہے، اُس کا حوالہ دوں یا نہ دوں۔ وہ ہندوستان میں مسلم لیگ کے صدر ہیں۔ مجھے اس معاملے کا ذکر کرتے ہوئے بہت برا لگتا ہے، لیکن اس کا یہاں ذکر کرنے کے لیے پرزور مطالبہ کیا گیا ہے، اس لیے میں دکھ کے ساتھ اس کا حوالہ دینے پر مجبور ہوں… میں اپنے مسلمان دوستوں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ جذبات کی رو میں نہ بہہ جائیں۔ ہم تمام لوگ ہندوستان کے باسی ہیں۔ تمھارے اور ہمارے درمیان خون اور ہڈی کا کوئی فرق نہیں ہے۔ ہم سب ایک ہی قوم کی اولاد ہیں۔ ہم تمھیں تمھارے کلچر، تمھارے مذہب اور تمھاری نسل کی ترقی و تحفظ کے مطالبے کے لیے ہر طرح کا بہترین تحفظ دینے کے لیے تیار ہیں۔ میں آپ سے اپیل کرتا ہوں کہ ہمت کرو اور ہندوستان میں ایک ہی قومیت کے مشترکہ شیرازے میں شامل ہوجاؤ۔ مجھے یقین ہے کہ آپ آیندہ دس سال تک اس تجربے پر عمل کریں گے تو آپ کو کبھی شکایت کا موقع نہ ملے گا۔‘‘ اس کے جواب میں سرمحمد شفیع نے اپنی تقریر میں کہا: ’’ڈاکٹر مونجے نے سرمحمد اقبال کی تقریر کا حوالہ دیا ہے… کاش ڈاکٹر مونجے نے یہ حوالہ نہ دیا ہوتا اور مجھے بھی بادلِ نخواستہ جوابی تقریر پر مجبور نہ کیا ہوتا۔ اگر سرمحمد اقبال نے یہ کہا کہ جب مرکزی حکومت میں ہندوؤں کی مستقل اور غیرمبدل اکثریت کی وجہ سے پورے ہندوستان کی ایک ہندو ریاست ہوگی، تو گورنری آٹھ صوبوں میں جہاں ہندواکثریتی ریاستیں ہوں گی، تو اِسی دلیل کے تحت اُن چار صوبوں میں جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے چار مسلم ریاستیں ہونی چاہییں۔ یہ ایک سادہ سی، عام فہم بات ہے اور مجھے اس میں کوئی غلطی نظر نہیں آتی… اگر اقبال نے یہی کہا ہے تو یہاں اُس کو مسئلہ بناکر حوالہ دینے کی ضرورت نہ تھی۔ لیکن اگر انھوں نے دولتِ مشترکہ سے باہر کسی آزاد مسلم ریاست قائم کرنے کی بات کی ہے، تو میں تمام مسلمان نمایندوں کی جانب سے اُن کی بات کو مسترد کرتا ہوں… لیکن جناب وزیراعظم، میرے دوست ڈاکٹر مونجے ہندوستان کے مختلف حصوں میں جو لاپروائی سے اشتعال انگیز تقریریں کرتے رہتے ہیں، اُن سے ایک مسلمان یقینا مشتعل ہوکر اسی قسم کی متبادل تجویز دے سکتا ہے۔‘‘۷۲؎ ہندوؤں اور مسلمانوں میں تفریق کی بنیاد پر ہندوستان کی تقسیم کے بارے میں بے شمار شخصیتوں کی جانب سے متعدد تجاویز پیش ہوتی رہی ہیں، جن کا ذکر یہاں ضروری نہیں۔۷۳؎ اقبال کی تجویز مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے ایک ممتاز اور ذمہ دار مسلمان لیڈر کی جانب سے پیش کی گئی تھی۔ یہ تجویز جناح کے ’’چودہ نکات‘‘ میں مضمر مسلمانوں کے مطالبات سے ایک قدم آگے تھی، جو اُس وقت گول میز کانفرنس کے زیرِغور تھے۔ اگر دونوں میں ’’چودہ نکات‘‘ پر کوئی سمجھوتہ ہونے کا امکان تھا تو ہندوستان کے اندر ’’مسلم انڈیا‘‘ بن سکتا تھا۔ لیکن اگر فریقوں میں ایسا امکان نہیں تھا تو اقبال کی تجویز یہی تھی کہ مسلم اکثریتی صوبوں کو خودمختاری دی جاسکتی ہے۔ البتہ مرکز میں آئین کیا اور کیسا ہوگا۔ یہ معاملہ کھلا چھوڑ دیا گیا۔ تیس کی دہائی میں اقبال اور اُن کے ہم خیال دوسرے مسلم رہنماؤں کی سیاسی حکمتِ عملی کا بیان شمال مغربی ہندوستان میں ’’آزاد‘‘ مسلم ریاست کی اصطلاحوں میں نہیں ہوتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اقبال نے اپنے خطبۂ الٰہ آباد میں، مجوزہ مربوط مسلم ریاست کا درجہ معین کرتے ہوئے یہ مبہم جملہ استعمال کیا تھا کہ ’’سلطنتِ برطانیہ کے اندر یا اُس کے باہر‘‘۔ اور یہی وجہ ہے کہ اقبال نے ایڈورڈ تھامپسن اور راغب احسن کے نام اپنے خطوط (محررہ۱۹۳۴ئ) میں اپنی تجویز کو چودھری رحمت علی اور کیمبرج میں اُن کے رفقائے کار کی تجویز سے لاتعلق کیا تھا جسے ’’پاکستان‘‘ کی سکیم کہا گیا۔ اور غالباً اسی وجہ سے محمد علی جناح نے بھی ۱۹۴۰ء میں قرارداد لاہور کی منظوری کے بعد رحمت علی کے تصورِ ’’پاکستان‘‘ کو قبول نہیں کیا تھا، جیسا کہ فرینک موریس نے اپنی تصنیف Witness to an Era میں حوالہ دیا۔ موریس نے لکھا ہے: ’’میں نے دورانِ گفتگو جب کبھی بھی رحمت علی کا حوالہ دیا، جناح کی تیوری پر واضح طور پر بل پڑجاتے، وہ رحمت علی کے تصورِ پاکستان کو اگر ویلز کا بھیانک خواب نہیں، تو والٹ ڈزنی کی ڈریم لینڈ جیسی کوئی چیز سمجھتے تھے۔‘‘ جہاں ایک طرف ہندو مہاسبھا کے لیڈر ایک مربوط مسلم ریاست قائم کرنے کی تجویز پیش کرنے پر اقبال پر نکتہ چینی کرتے تھے، وہاں دوسری طرف وہ مفاہمت کے لیے اُن سے رابطے بھی قائم کرتے تھے۔ مثلاً ایس وی للت نے، جو پہلے ہی مولانا شوکت علی کے رابطے میں تھے، ۲۸مئی۱۹۳۲ء کو ڈاکٹر مونجے کی طرف سے اقبال کو ایک خط لکھا، جس میں انھوں نے تحریر کیا: ’’آمدم برسرِ مطلب، میں نے ڈاکٹر مونجے کی رضامندی حاصل کرلی ہے (ظاہر ہے، انتہائی رازداری کے ساتھ) کہ وہ شمالی ہندوستان کی چار مسلم صوبوں کے انضمام کی سکیم کی حمایت کریں گے۔ ہم آپ کی اصطلاح ’’مسلم ریاست‘‘ سے اتفاق نہیں کرتے۔ یہی مفہوم ’’مسلم صوبے‘‘ کا نام دے کر بھی ادا ہوسکتا ہے۔ الفاظ مختلف ہوسکتے ہیں، لیکن مفہوم ایک ہی رہے گا… یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ ڈاکٹر مونجے فی الحال اس پوزیشن میں نہیں ہیں کہ آپ کی اسکیم کی علانیہ حمایت کرسکیں۔ یہ مرحلہ بعد میں آئے گا۔ فی الحال مجھے اختیار دیا گیا ہے کہ میں پرائیویٹ معاملت جاری رکھوں… میں اپنی کوششوں کی رپورٹ اُن کو پیش کروںگا، تب ہی وہ رسماً کوئی قدم اٹھانے کی پوزیشن میں ہوں گے… تاہم میں یہاں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ مولانا شوکت علی نے میری کوششوں میں مجھے مدد دینے کا وعدہ کیا ہے۔ آپ کی جانب سے یہ معلوم ہوجانے کے بعد ہی کہ آپ افہام و تفہیم کی کوشش کو کس نظر سے دیکھتے ہیں… میں ڈاکٹر مونجے سے کہہ سکتا ہوں کہ اس معاملے میں سلسلۂ جنبانی کریں۔‘‘۷۶؎ مگر یہ ساری مکالمت بے نتیجہ ثابت ہوئی۔ اقبال کی رحلت کے دوسال بعد، جب مسلم لیگ نے ۱۹۴۰ء میں قرارداد لاہور منظور کی، بعض ذمہ دار ہندو رہنماؤں نے یہ پروپیگنڈا شروع کردیا کہ اقبال نے شمال مغربی ہندوستان میں ایک مربوط مسلم ریاست قائم کرنے کی اپنی تجویز سے رجوع کرلیا تھا۔ ایسی آرا کا اظہار ہندوستانی سیاست کے دوسرے مصنّفین کے علاوہ پنڈت جواہر لال نہرو نے اپنی کتاب ڈسکوری آف انڈیا میں اور امبیدکر نے بھی اپنی کتاب Thoughts on Pakistan میں کیا ہے۔ لیکن جو شخص اقبال کی وفات کے بعد، یہ جھوٹ پھیلانے کا اصل ذمہ دار ہے، وہ ایڈورڈتھامپسن (آکسفورڈ یونی ورسٹی میں بنگلہ زبان کا کانگرس کا حامی پروفیسر) تھا، جس نے اپنی کتاب Enlist India for Freedom (مطبوعہ ۱۹۴۰ئ) میں دعوے کے ساتھ لکھا کہ اُن کے نام ایک خط میں اقبال نے اعتراف کیا تھا کہ ’’پاکستان‘‘ کی تخلیق انگریزوں، ہندوؤں اور مسلمانوں کے لیے تباہ کن ثابت ہوگی، نیز یہ کہ انھوں نے اس تجویز کی تائید مجبوراً کی تھی، کیونکہ اُس وقت وہ مسلم لیگ کے صدر تھے۔۷۹؎ قبل ازیں اسی شخص ایڈورڈ تھامپسن نے اخبار لندن ٹائمزکی اشاعت ۳؍اکتوبر۱۹۳۱ء میں ایک خط چھپوایا تھا، جس میں اقبال کے ایک مربوط ریاست قائم کرنے کے تصور کو ’’پان اسلامی سازش‘‘ کہہ کر اس کی مذمت کی تھی۔ اقبال نے اس خط کے جواب میں دی ٹائمز کی اشاعت ۱۲؍اکتوبر۱۹۳۱ء میں ایک خط چھپوایا، جس میں انھوں نے لکھا تھا کہ وہ شمال مغربی ہندوستان میں ایک مربوط مسلم ریاست کو، ایک عملی سیاست کے منصوبے کے طور پر، برطانوی دولتِ مشترکہ سے باہر نہیں سمجھتے، اور یہ کہ یہ ریاست فی الحقیقت شمالی ایشیا کے کوہستانوں کی افلاس زدہ نسلوں کی جارحیت کے مقابلے میں ہندوستان اور سلطنتِ برطانیہ کے لیے پشت پناہ ثابت ہوگی۔‘‘۸۰؎ خوش قسمتی سے ایڈورڈتھامپسن کے نام اقبال کے خطوط مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ کے اے حسن نے مرتب کرکے شائع کرادیے ہیں۔ ایڈورڈتھامپسن نے اپنی کتاب Enlist India for Freedom میں اقبال کے جس خط کا حوالہ دیا ہے، اُس پر ۲۶جولائی۱۹۳۴ء کی تاریخ درج ہے۔ اُس خط میں اقبال نے ایڈورڈتھامپسن کو لکھا تھا: ’’مسلم کانفرنس کے صدر کی حیثیت سے سندھ کی علیحدگی کی حمایت کرنا میرا فرض تھا۔ ذاتی طور پر مجھے ہمیشہ سے یہ یقین رہا ہے کہ شمال مغربی ہندوستان کے صوبوں کا انضمام انگلستان، ہندوستان اور اسلام کے لیے بے پناہ فوائد کا سبب بنے گا۔‘‘۸۱؎ ایڈورڈتھامپسن کی بددیانتی صاف ظاہر ہے۔ اقبال شمالی ہندوستان میں ایک مربوط مسلم ریاست کی اسکیم پیش کرنے کے بعد تقریباً آٹھ سال زندہ رہے۔ ان آٹھ برسوں میں اُنھوں نے متعدد موقعوں پر اپنی اسکیم کو فرقہ وارانہ مسئلے کے واحد حل کے طور پر پیش کیا۔ اس ضمن میں چند غیرمعمولی دستاویزات کے حوالے دیے جاسکتے ہیں: 1- اقبال کا خط بنام لندن ٹائمز، مطبوعہ ۱۲؍اکتوبر۱۹۳۱ئ۔ 2- اقبال کا خط بنام ایڈورڈتھامپسن، محررّہ ۲۶؍جولائی۱۹۳۴ئ۔ 3- اقبال کا خطبۂ صدارت، آل انڈیا مسلم کانفرنس، ۲۱مارچ۱۹۳۲، منعقدہ لاہور، جس میں انھوں نے بڑی تفصیل سے آل انڈیا فیڈریشن کے تصور کے خلاف دلائل دیے ہیں۔ 4- اقبال کا خط بنامِ مولانا محمد عرفان خان، محررہ ۸جون۱۹۳۲ئ، جس میں اُنھوں نے اس خواہش کا اظہار کیا ہے کہ مولانا شوکت علی مسلم ریاست کی سکیم کے بارے میں ہندومہاسبھا کے لیڈروں سے مذاکرات کریں۔ 5- اقبال کی تقریر، نیشنل لیگ کے اجلاس منعقدہ لندن میں، مورخہ۲۴نومبر۱۹۳۲ء کو، جس میں انھوں نے دعویٰ کیا ہے کہ اُن کی سکیم ہندو مسلم مسئلے کا واحد حل ہے۔ 6- اقبال کا خط بنام پنڈت جواہر لال نہرو، جو پنڈت نہرو کی گول میز کانفرنس (تیسرے اجلاس) میں شریک مسلمان نمایندوں پر تنقید کے جواب میں لکھا گیا، اور جس میں اقبال نے صاف لفظوں میں اعلان کیا کہ ہندوستان کے مسئلے کا واحد حل اس ملک کو مذہبی، تاریخی اور ثقافتی رجحانات کی بنیاد پر تقسیم کرنا ہے۔ 7- اقبال کے خطوط بنام جناح، جو ۱۹۳۶ء سے وفات تک لکھے گئے، بالخصوص ۲۱جون ۱۹۳۷ء کا خط، جس میں انھوں نے صراحت کے ساتھ لکھا: ’’مسلم صوبوں کا وفاق جو میرے اوپر تجویز کردہ خطوط پر تشکیل دیا گیا ہو، واحد طریقہ ہے جس سے ہندوستان میں امن و امان قائم ہوسکتا ہے اور مسلمانوں کو غیر مسلموں کے غلبے سے بچایا جاسکتا ہے۔ آخر شمال مغربی ہندوستان اور بنگال کے مسلمانوں کو حق خودارادیت رکھنے والی اقوام کیوں نہیں قرار دیا جاتا، جیسا کہ ہندوستان کے اندر اور ہندوستان سے باہر دوسری اقوام کو قراردیا جاتا ہے۔‘‘۸۶؎ یہ تمام شہادتیں واضح طور پر ثابت کرتی ہیں کہ اقبال نے کبھی اپنا موقف نہیں بدلا۔ یہ یقین کرلینا ممکن نہیں کہ ایک ایسا شخص، جس نے اپنی پوری زندگی اسلام کی تعبیر و تشریح، ایک قوم ساز قوت کی حیثیت سے، کرکے ایک نیا مسلم فرد اور ایک نیا مسلم معاشرہ تخلیق کرنے کی جدوجہد میں صرف کردی ہو، جس نے اپنی فلسفیانہ شاعری کے ذریعے، مسلمانوں کو تحریک دی کہ وہ اپنی ’’ایغو‘‘ کو مستحکم کریں، جس نے ایک جدید اسلامی جمہوری فلاحی ریاست کے خدوخال متعین کیے، کیا ایسا شخص اسلام کو علاقائی استحکام دینے کی خاطر، ایک مربوط مسلم ریاست قائم کرنے کا اپنا مطالبہ واپس لے لے گا۔ سوال یہ ہے کہ آخر یہ جھوٹ پھیلانے کا کیا سبب تھا؟ واحد قابلِ فہم سبب جو پیش کیا جاسکتا ہے یہی ہے کہ مسلم ریاست کے قیام کی اسکیم سے اقبال کو لاتعلق ظاہر کرکے، دیدہ دانستہ کوشش کی گئی کہ مجوزہ ریاست کو اُس نظریاتی بنیاد سے محروم کردیا جائے جو درحقیقت اقبال ہی نے فراہم کی تھی۔ ۱۹۳۱ء میں گول میز کانفرنس کے دوسرے سیشن میں شریک ہونے کے لیے لندن جانے سے پیش تر اقبال اور مولانا شوکت علی نے مل کر ہندومسلم مفاہمت کی کوئی صورت نکالنے کے لیے متعدد ناکام کوششیں کیں۔ اقبال نے تحریکِ کشمیر میں بھی حصہ لیا اور کشمیر کمیٹی کے فعال رُکن کی حیثیت سے، ڈوگرہ حکمرانوں کے ہاتھوں کشمیری مسلمانوں پر جبروتشدد کے خلاف عملاً جدوجہد کی، جس کے نتیجے میں کشمیر میں اُن کا داخلہ مستقلاً ممنوع قرار دے دیا گیا۔ گول میز کانفرنس کے دوسرے سیشن میں مہاتماگاندھی کی شرکت (اِرون گاندھی پیکٹ کے تحت رہائی کے بعد) اور پنڈت مدن موہن مالویہ کی شمولیت سے بھی فرقہ وارانہ مسئلے کا کوئی حل سامنے نہ آیا۔ مسلم نمایندگان کو کانفرنس کے مذاکرات سے کوئی دلچسپی نہیں تھی، تاوقتیکہ ہندوستان کے گیارہ صوبوں میں سے پانچ مسلم اکثریتی صوبوں کو خود مختاری دینے کا اعلان نہ کیا جائے۔ وہ مرکزی مقننہ کا مسئلہ مستقبل پر چھوڑنے کے لیے تیار تھے۔ ہندو مسلم بحران کا کوئی حل نکالنے میں کانفرنس کی ناکامی سے برطانوی پارلیمنٹ نے اگست۱۹۳۲ء میں کمیونل ایوارڈ جاری کرنے پر مجبور ہوگئی۔ اس ایوارڈ کے تحت مسلمانوںکے لیے جداگانہ طرزِ انتخاب کو برقرار رکھا گیا، لیکن اُن کی نمایندگی پنجاب میں ۵۶ سے گھٹا کر ۴۹ سیٹوں اور بنگال میں ۵۵ سے گھٹا کر ۴۸ سیٹوں تک محدود کردی گئی۔ اس پر مسلمانوں کا ایوارڈ سے مایوس ہونا قدرتی بات تھی، کیونکہ پنجاب اور بنگال میں اُن کی آبادی کے تناسب سے سات فی صد سیٹیں کم دی گئیں۔ گول میز کانفرنس میں کوئی فرقہ وارانہ معاہدہ کرنے میں ہندوستانی لیڈروں کی ناکامی پر، اقبال نے پیش گوئی کردی تھی کہ مستقبل قریب میں مسلمانوں کو اپنی آزادانہ راہِ عمل اختیار کرنی پڑے گی۔ چنانچہ وہ اپنے بیانات میں اسی بات پر زور دینے لگے کہ مسلمانوں کو متحد ہوکر، ایک نصب العین کے حصول کی خاطر اپنی توانائی مرکوز کرلینی چاہیے۔ گول میز کانفرنس کے دوسرے سیشن کے اختتام پر ہندوستان واپس آنے سے پہلے اقبال نے مؤتمر عالمِ اسلامی (۶تا۱۴دسمبر۱۹۳۱ئ) میں شرکت کی جو مفتی اعظم فلسطین نے بیت المقدس میں طلب کی تھی۔ اِس موقع پر اقبال نے اپنے خطاب میں تفصیل سے مؤتمر عالمِ اسلامی کے اغراض و مقاصد پر روشنی ڈالی، یعنی یہ کہ اُمتِ مسلمہ کے اتحاد و باہمی تعاون کے لیے کام کیا جائے، مسلمانانِ عالم میں سچی اسلامی اخوت کی رُوح بیدار کی جائے، مسلمانوں کی توجہ اجتماعی اسلامی فرائض کی انجام دہی پر مبذول کی جائے، اور یہ کہ دینِ اسلامی کو اُس کے بدخواہوں سے تحفظ دلوایا جائے اور اسلامی تمدن کے فروغ کے لیے کام کیا جائے۔ اقبال کو ۱۹۳۲ء میں آل انڈیا مسلم کانفرنس کا صدر منتخب کیا گیا۔ کانفرنس کے اجلاس منعقدہ لاہور، مورخہ۲۱مارچ۱۹۳۲ئ، اُنھوں نے اپنے خطبۂ صدارت میں شمال مغربی ہندوستان میں ایک مربوط مسلم ریاست قائم کرنے کی تجویز کا اعادہ کیا اور مسلمانوں کے آیندہ سیاسی ایجنڈے کے بارے میں انھوں نے تجاویز پیش کیں۔ سب سے پہلے یہ کہ مسلمانوں کی صرف ایک سیاسی جماعت ہونی چاہیے، جس کی شاخیں پورے ہندوستان میں قائم کی جائیں۔ اس جماعت کا آئین ایسا جامع اور ہمہ گیر ہونا چاہیے کہ مسلمانوں کی تمام سیاسی آرا اُس میں جذب ہوجائیں۔ دوسرے یہ کہ یُوتھ لیگ اور والنٹیر کور کی کل ہند تنظیم کے لیے کم از کم پچاس لاکھ روپے کا فنڈ جمع کیا جائے۔ اِن اداروں کو سماجی بہبود، رواجات کی اصلاح، دیہات میں آباد مسلمانوں کی تجارتی و اقتصادی ترقی، خصوصاً ایسے صوبوں (مثلاً پنجاب) میں جہاں مسلم کاشتکاروں کا قرضہ بہت زیادہ ہے، یہ سب کام ایسے اداروں کے سپرد کیے جائیں۔ تیسرے یہ کہ تمام اہم اضلاع میں مردوں اور عورتوں کی الگ الگ ثقافتی تنظیمیں قائم کی جائیں، تاکہ نوجوانوں میں مسلم قومیت کا شعور پیدا کیا جاسکے۔ انھیں لیکچروں کے ذریعے یاد دلایا جائے کہ ماضی میں مسلمانوں نے کیسے عظیم الشان تمدن کی بنیاد رکھی اور اب بھی بنی نوع انسان کی اخلاقی اور ثقافتی ترقی میں مسلمانوں کو کیا کچھ کرنا ہے۔ چوتھے یہ کہ علما اور وکلا کی ایک مجلس بنائی جائے جو شرعی قوانین سے خوب آگاہ ہوں۔ یہ مجلس جدید تجربوں کی روشنی میں اسلامی قانون کی تعبیر نو کرکے اُس میں وسعت پیدا کرنے کی کوشش کرے، لیکن اس طریقے سے کہ بنیادی اصولوں کی روح مسخ نہ ہو۔ اقبال نے گول میز کانفرنس کے تیسرے اجلاس میں بھی شرکت کی جو ۱۷نومبر۱۹۳۲ء کو لندن میں شروع ہوئی تھی۔ ہندو نیشنل کانگرس کے نمایندے اس کانفرنس میں شریک نہ ہوئے۔ جناح جو اُس زمانے میں ہندی سیاست سے مایوس ہوکر لندن میں رہایش پذیر تھے، وہ بھی شریک نہ تھے، کیونکہ انھیں مدعو نہیں کیا گیا تھا۔ ڈاکٹر امبیدکر نے لکھا ہے کہ علامہ اقبال نے اس کانفرنس میں صرف ایک تقریر کی، جس میں انھوں نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ ہندوستان میں کوئی مرکزی حکومت نہ ہونی چاہیے۔ صوبے آزاد اور خودمختار قلمرو (ڈومنین) کی حیثیت سے براہِ راست لندن میں وزیرِ ہند سے تعلق رکھتے ہوں۔ اسی دوران لندن میں اقبال نے جناح سے کئی ملاقاتیں کیں اور اُنھیں ترغیب دی کہ ہندوستان واپس آکر مسلم لیگ کی ازسرِ نو تنظیم کریں اور علیحدہ مسلم ریاست کے قیام کی خاطر نئے ایجنڈے پر کام کیا جائے۔ ۱۹۳۳ اور ۱۹۳۴ء کے دوران مختلف النوع سیاسی آرا رکھنے والے مسلم رہنما آپس میں زیادہ اتحاد پیدا کرنے کی کوشش کررہے تھے، جب کہ ہندو مسلم اختلافات کی خلیج مزید وسیع ہوتی چلی گئی۔ جے کوٹ مین نے ۱۹۳۲ء میں لکھا: ’’ایک مضبوط، متحدہ ہندوستان کا قیام دن بدن ناممکن ہوتا جارہا ہے۔ اس کی جگہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ شمال اور شمال مغرب میں ایک مضبوط مسلم ریاست وجود میں آجائے گی، جس کی نظریں ہندوستان سے ہٹ کر باقی دنیائے اسلام پر مرکوز ہوجائیں گی، جس کا یہ ایک حصہ ہے۔‘‘ مسلم لیگ کو مسلم کانفرنس میں ضم کرنے کی کوششیں کی گئیں جو ناکام ثابت ہوئیں۔ ۱۹۳۴ء میں لندن سے محمد علی جناح کی واپسی پر، انھیں مسلم لیگ کا صدر منتخب کیا گیا۔ مسلم لیگ کے سیشن میں ایک قرارداد منظور کی گئی، جس میں کہا گیا کہ مسلمان جداگانہ انتخابات سے دست بردار نہیں ہوں گے، انھیں کمیونل ایوارڈ منظور ہے، اور وہ صرف اُن مسلم اُمیدواروں کو ووٹ دیں گے جو مسلم لیگ یا مسلم کانفرنس کی پالیسی پر عمل کریں گے۔ باقی قرارداد میں اُن تحفظات کا اعادہ کیا گیا جو مسلمان آئین میں شامل کرنے کے خواہش مند تھے۔ خاص خاص مطالبات بہرحال یہ تھے: بمبئی پریذیڈنسی سے سندھ کی علیحدگی اور بلوچستان میں آئینی اصلاحات کا نفاذ۔ گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ مجریہ ۱۹۳۵ء کا نفاذ ۱۹۳۷ء میں ہوا۔ اس ایکٹ میں دو باتیں خاص طور پر ملحوظ رکھی گئیں تھیں: (ا)صوبوں میں خود مختار حکومتیں، لیکن ہنگامی اختیارات گورنر کو حاصل ہوں گے۔ (ب)آل انڈیا مرکزی وفاقی حکومت جو برطانوی ہند کے صوبوں اور دیسی ریاستوں پر مشتمل ہو۔ تمام اہم محکمے، بشمول دفاع، امورِ خارجہ ’’ریزرو‘‘ رہیں گے یا گورنر جنرل کے زیرِ اختیار ہوں گے۔ ایک سال پہلے سندھ بمبئی پریذیڈنسی سے علیحدہ ہوچکا تھا۔ فرقہ وارانہ نمایندگی کا کوئی اور متبادل حل نہ ہونے کی وجہ سے مسلم لیگ نے کمیونل ایوارڈ منظور کرلیا تھا۔ ۱۹۳۵ء کے ایکٹ کی صوبائی اسکیم کے تحت صوبوں کی خودمختاری کسی حد تک تسلیم کرلی گئی تھی، لہٰذا موجودہ صورتِ حال میں مسلمانوں نے اس پیش رفت کو غنیمت جانا، لیکن انھوں نے مرکز میں نافذ کردہ وفاقی اسکیم کا بائیکاٹ کردیا، کیونکہ اس میں وہ تمام ضروری عوامل شامل نہ تھے جو ایک سچی فیڈریشن کے قیام کے لیے ضروری ہوتے ہیں۔ اقبال کی رائے یہ تھی کہ نئے آئین نے مسلمانانِ ہند کو اپنی تنظیم کا ایک سنہری اور منفرد موقع دیا ہے۔ اُن کے نزدیک ہندوستان اور مسلم ایشیا میں آیندہ سیاسی ترقی کا دارومدار، بڑی حد تک، انڈین اسلام کے استحکام پر ہے۔ جہاں تک اس امر کا تعلق ہے کہ مسلم لیگ مسلمانانِ ہند کی واحد سیاسی جماعت ہے، اقبال نے جناح کو لکھا کہ مسلم لیگ کو مسلمانوں کے صرف بالائی طبقے کی ترجمان نہ ہونا چاہیے۔ عامۃ المسلمین نے لیگ سے کسی دلچسپی کا اظہار نہیں کیا، کیونکہ اس نے اُن کی ترقی کے لیے کوئی وعدہ نہیں کیا تھا۔ مسلم لیگ کے مستقبل کا انحصار اس کی پالیسی اور پروگرام پر ہے، جس میں مسلمانوں کے اقتصادی مسئلے کا حل بھی شامل ہے۔ انھوں نے ہندوستان میں سوشل جمہوریت اور برہمنیت (اونچے طبقے کے ہندو) کے فرق کو برہمنیت اور بدھ مت کے باہمی فرق کے مشابہ قراردیا۔ ہندومت اگر سوشل جمہوریت کو قبول کرلے تو ہندومت نہیں رہے گا۔ اس کے برعکس اسلام کے نزدیک ’’سوشل جمہوریت کی کسی موزوں شکل میں قبولیت‘‘ کوئی انقلاب نہیں ہے، بلکہ اس کی اصل روح کی طرف مراجعت ہے۔ مسلمانوں کے لیے اپنا معاشی مسئلہ حل کرنا آسان تر ہے۔ تاکہ مسلمان اپنا معاشی مسئلہ خود حل کرنے کے قابل ہوسکیں، ضروری ہے کہ ایک یا زیادہ مسلم اکثریتی ریاستیں قائم کرکے ہندوستان کی ازسرِ نو تقسیم کی جائے۔‘‘ مسلم لیگ کو عوام میں لے جانے کے لیے اقبال نے جناح کو مشورہ دیا کہ مسلم لیگ کے آیندہ سیشن میں وہ اپنے خطبۂ صدارت میں (مسلم انڈیا کی خصوصی دل چسپی کے موضوع) تنازعِ فلسطین کا جو حوالہ دینے والے ہیں، اُس سے مسلم لیگ کو عوام میں مقبول کرنے میں مدد ملے گی۔ انھوں نے جناح کو یہ مشورہ بھی دیا کہ مسلم لیگ کے تمام اہم سیشن مسلم اقلیتی صوبوں کے دارالحکومت کی بجائے مسلم اکثریتی صوبوں کے دارالحکومت مثلاً لاہور، پشاور، کراچی اور ڈھاکہ میں منعقد ہونے چاہییں۔ انھوں نے یہ مشورہ بھی دیا کہ ایک آل انڈیا مسلم کنونشن دہلی میں منعقد کی جائے، جس میں نئی صوبائی اسمبلیوں کے تمام منتخب ارکان اور سرکردہ مسلمان لیڈر شامل ہوں۔ اس کنونشن میں مسلم انڈیا کے نصب العین کا اعادہ کیا جائے۔ مرکزی اسمبلی کے منتخب مسلم ارکان کو آل انڈیا مسلم پالیسی اختیار کرنے کا پابند کیا جائے، اور اُنھیں عہد کرنا چاہیے کہ وہ مرکزی موضوعات سے متعلق مسلمانوں کے مقاصد و مفادات کی حمایت کریں گے نیز یہ حقیقت اجاگر کریں گے کہ مسلمان ہندوستان کی دوسری بڑی قوم ہیں۔ مسلم لیگ نے اپریل۱۹۳۶ء کے سیشن میں، اپنی تاریخ میں پہلی مرتبہ عوامی رابطے کی پالیسی اختیار کرنے کا فیصلہ کیا۔ مسلمانانِ ہند کو ہدایات جاری کیں کہ وہ اعلیٰ اور ترقی پسند پروگرام کے ساتھ خود کو ایک سیاسی جماعت کی صورت میں منظم کریں۔ اسی طرح آنے والے انتخابات میں حصہ لینے کی قرارداد بھی منظور کی گئی۔ جون ۱۹۳۶ء میں مسلم لیگ نے مرکزی پارلیمانی بورڈ اور بعدازاں صوبائی پارلیمانی بورڈ بھی قائم کیے۔ ۱۹۳۷ء تک پورے ہندوستان میں ضلعی شاخیں قائم ہوچکی تھیں۔ ۱۹۳۶ء کے وسط سے مسلمانوں نے مسلم لیگ میں شامل ہونا شروع کردیا تھا۔ اکتوبر۱۹۳۶ء میں لکھنؤ سیشن کے بعد مسلمانانِ ہند برطانوی ہند کی سیاسی زندگی کے آخری مرحلے میں داخل ہوئے۔ جناح کے نام اقبال کے خطوط سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اپنی زندگی کے آخری دو برسوں (۱۹۳۶-۱۹۳۸ئ) کے دوران میں بسترمرگ سے جناح کو مشورے دیتے رہے اور رہنمائی کرتے رہے۔ اس بات کا اعتراف جناح نے ان لفظوں میں کیا: ’’وہ میرے ذاتی دوست، فلسفی اور راہ نما تھے، اور اس حیثیت میں وہ میری عملی تحریک اور روحانی مدد کے اصل سرچشمہ تھے۔… جب وہ صاحبِ فراش تھے تو اُس وقت بھی وہی تھے جو… پنجاب کے تاریک ترین ایام میں، مسلم لیگ کا پرچم تھامے، تن تنہا چٹان کی طرح کھڑے رہے اور انھوں نے پوری دنیا کی مخالفت کا سامنا کیا۔‘‘ اقبال اور جناح کی باہمی خط کتابت سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ ۱۹۳۷ء تک، اقبال نے مسلم ریاست قائم کرنے کی اسکیم میں بنگال کو بھی شامل کرلیا تھا، اور وہ ہندوستان سے مسلمانوں کی علیحدگی کی اصطلاح میں سوچنے لگے تھے۔ جناح کے ساتھ مل کر انھوں نے مسلم صوبوں کے جداگانہ وفاق کا مطالبہ کیا، تاکہ ہندوستان کے شمال مغرب اور بنگال کے مسلمانوں کو بھی ویسی ہی جداگانہ قوم سمجھا جائے جیسے ہندوستان سے باہر کی دیگر اقوام کو سمجھا جاتا ہے۔ اور یہ کہ انھیں دیگر اقوام کی طرح مکمل طور پر خودارادیت کا حق حاصل ہو۔ اپنی زندگی کے آخری چند ہفتوں میں اقبال مسلمانوں کے سیاسی مستقبل کے بارے میں انتہائی حساس ہوگئے تھے۔ اگر کوئی شخص جناح پر نکتہ چینی کرتا یا مسلمانانِ ہند کی قیادت کے بارے میں اُن کی شخصیت پر کوئی اعتراض کرتا تو وہ سخت برہم ہوجاتے۔ اسی طرح مسلمانوں کے حتمی سیاسی نصب العین کے بارے میں کوئی اختلافِ رائے ظاہر کرتا تو اُن کے لیے ناقابلِ برداشت ہوجاتا اور وہ مشتعل ہوجاتے۔ وہ باربار جناح سے پوچھتے تھے، کیا مسلم صوبوں کے جداگانہ وفاق کا مطالبہ کرنے کا وقت نہیں آگیا؟ جناح نے اقبال کو یقین دہانی کرانے کی کوشش کی کہ انھوں نے مسلم انڈیا کے لیے جو سیاسی کردار مقرر کردیا ہے، وہ بالآخر مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے پیش کردیا جائے گا، لیکن کب، اس کے لیے موزوں وقت کا انتخاب انھی جناح پر چھوڑ دینا چاہیے۔۹۸؎ ئ…ئئ…ء حوالے و حواشی 1- Indian Nationality, by R.N. Gilchrist, pp. 83, 84. 2- Ibid., p. 61; The New World of Islam, by L. Stoddard, p. 201. 3- Ibid., pp. 7, 62, 91, 92, 128, 134, 135, 137; also see Introduction: The New World of Islam, p. 201, 203. 4- The Untouchables, by B.R. Ambedkar, pp. 14 22. 5- India in 1931 32, pp.. 70, 71; India in 1932 33, p. 10. Dr. Ambedkar died as a Buddhist. 6- Speeches & Writings of Jinnah, ed. by Jamil ud din Ahmad, Vol. 1. p. 6. 7- Thoughts & Reflections of Iqbal, ed. by S.A. Wahid, pp. 163 165. 8- Stray Reflections__A Note Book of Allama Iqbal, ed. by Javid Iqbal, p. 99. ۹- سید عبدالواحد معینی (مرتب) ، مقالاتِ اقبال ، ص۲۲۲۔ ۱۰- جی کیو فرخ، سفینۂ حیات، ص ۲۳۔ 11- Iqbal's Letter to Altaf Hussain, The Dawn Iqbal Supplement, 21st April, 1949. 12- Man Who Made Urdu Poetry Masculine, by A.S. Bokhari, The Hindustan Times, 23rd April, 1938. ۱۳- مسلم لیگ کے اجلاس الہ آباد دسمبر ۱۹۳۰ء میں علامہ کا صدارتی خطبہ، ص ۱۶۔ ۱۴- علامہ محمد اقبال، اقبال نامہ ، مرتبہ : شیخ عطااللہ، جلد اول، ص ۱۰۶تا ۱۰۷، نیز دیکھیے جاوید اقبال، زندہ رود، ص ۴۱۶۔ ۱۵- ایضاً، ص ۱۵۸۔ 16- The Reconstruction of Religious Thought in Islam, p. 157. ۱۷- حرفِ اقبال، مطبوعہ المنار اکیڈمی، ص ۲۸۸ تا ۲۲۹۔ 18- Islam & Ahmadism, pp. 31 33. 19- The Reconstruction of Religious Thought in Islam, p. 158. 20- Ibid., p. 147; Islam & Ahmadism, p. 41. 21- The Reconstruction of Religious Thought in Islam, p. 158, 173. 22- Ibid., p. 159; Islam & Ahmadism, p. 45. 23- The Indian Annual Register 1932, Vol. 1, ed. by N.N. Mitra, p. 301. ۲۴- علامہ محمد اقبال ، ’’اسلام اورنظریۂ قومیت ‘‘، مطبوعہ روزنامہ احسان، ۹؍مارچ ۱۹۳۸ئ۔ 25- The Reconstruction of Religious Thought in Islam, p. 153, 163. ۲۶- مسلم لیگ کے اجلاس الہ آباد دسمبر ۱۹۳۰ء میں علامہ کا صدارتی خطبہ، ص ۱۶۔ ۲۷- علامہ محمد اقبال ، ’’اسلام اورنظریۂ قومیت ‘‘، مطبوعہ روزنامہ احسان، ۹؍مارچ ۱۹۳۸ئ۔ ۲۸- اقبال نامہ، جلد دوم، ص ۵۶ تا ۵۷۔ 29- The Reconstruction of Religious Thought in Islam, p. 147,148. ۳۰- علامہ محمد اقبال ، ’’اسلام اورنظریۂ قومیت ‘‘، مطبوعہ روزنامہ احسان، ۹؍مارچ ۱۹۳۸ئ؛Islam & Ahmadism,، ص ۴۳؛حرف اقبال ، ص ۶۰ تا ۶۱۔ ۳۱- علامہ محمد اقبال ، ’’اسلام اورنظریۂ قومیت ‘‘، مطبوعہ روزنامہ احسان، ۹؍مارچ ۱۹۳۸ئ۔ ۳۲- علامہ محمد اقبال ، ’’اسلام اورنظریۂ قومیت ‘‘، مطبوعہ روزنامہ احسان، ۹؍مارچ ۱۹۳۸ئ؛The Reconstruction of Religious Thought in Islam, p. 167.،زندہ رود، ص ۱۰۳۹تا ۱۰۴۳۔ ۳۳- ۱۳- مسلم لیگ کے اجلاس الہ آباد دسمبر ۱۹۳۰ء میں علامہ کا صدارتی خطبہ، ص ۲۔ 34- Islam & Ahmadism, pp. 35, 36. 35- Ibid., p. 43. 36- Ibid., p. 44. 37- Ibid., p. xxxi. 38- Modern Trends in Islam. p. 60. ۳۹- زندہ رود، ص ۴۶ تا ۱۔ ۴۰- اورینٹل کالج میگرین، جشن اقبال نمبر، مرتبہ : ڈاکٹر عبادت بریلوی، ص ۱۹ تا ۳۹۔ ۴۱- ایضاً، ص ۱۹ تا ۳۹۔ ۴۲- زندہ رود، ص ۳۰۸۔ ۴۳- ایضا، ص ۳۱۸تا ۳۲۰۔ 44- Pakistan (As Visualized by Iqbal & Jinnah) compiled by G.H. Zulfiqar. p. 44. 45- Stray Reflections, p. 139. ۴۶- زندہ رود، ص ۳۱۷؛ دیکھیے جاوید نامہ (کلیات اقبال، اشاعت ۱۹۷۳ئ) ص ۶۵۴تا ۶۵۵۔ 47- The Indian Annual Register 1932, Vol. 1. p. 306. 48- The Reconstruction of Religious Thought in Islam, pp. 157, 158. 49- Ibid., p. 154. 50- Statements & Speeches of Iqbal, p. 10. ۵۱- مسلم لیگ کے اجلاس الہ آباد دسمبر ۱۹۳۰ء میں علامہ کا صدارتی خطبہ، ص ۵۔ ۵۲- حرفِ اقبال ، ص ۲۳۷۔ 53- Discourses of Iqbal, ed. by S.H. Razzaki, pp. 65, 66. 54- Statements & Speeches of Iqbal, p. 136. 55- The Reconstruction of Religious Thought in Islam, pp. 155. 56- Statements & Speeches of Iqbal, p. 131, 132. 57- The Reconstruction of Religious Thought in Islam, pp. 168,173 176. Shatibi's al-Muwafaqat vol. 4 p. 80; Abd al-Aziz Bukhari's Kashf al-Asrar vol. 3, pp, 895, 896, cited by Muhammad Khalid Masud in Iqbal's Reconstruction of Ijtihad, pp. 147, 188, 189. Iqbal Academy Pakistan. 1995. 58- The Reconstruction of Religious Thought in Islam, pp. 164, 165. 59- Ibid., pp. 175, 176. 60- Islam & Ahmadism, pp. 35, 36. ۶۱- مسلم لیگ کے اجلاس الہ آباد دسمبر ۱۹۳۰ء میں علامہ کا صدارتی خطبہ، ص ۸۔ 62- The Reconstruction of Religious Thought in Islam, pp. 171, 172. 63- Ideology of Pakistan by Javid Iqbal, p. 20. 64- Ibid., quoted pp. 34. 35. 65- Ibid., pp. 21, 38. 66- Ibid., p. 38. 67- The Reconstruction of Religious Thought in Islam, pp. 179, 180. 68- Ibid., p. 164. 69- Syed Shams ul Hassan's Plain Mr. Jinnah, pp. 50 52. ۷۰- گفتارِ اقبال، ص ۱۱۳ تا ۱۱۶۔ ۷۱- مسلم لیگ کے اجلاس الہ آباد دسمبر ۱۹۳۰ء میں علامہ کا صدارتی خطبہ، ص ۱۱تا ۱۲۔ 72- Proceedings of the First Round Table Conference (Minorities sub committee) pp. 43, 44, 60, 61. ۷۳- ان سکیموں کی تفصیل کے لیے ملاحظہ ہوں: Sharifuddin Pirzada's `Evolution of Pakistan'; and Ishtiaq Hussain Qureshi's `Struggle for Pakistan'. ۷۴- Iqbal__ His Political Idea at the Cross Road، نیز روزنامہ جنگ ، اقبال ایڈیشن ۲۱ اپریل ۱۹۸۲ئ۔ 75- Frank Moraes, Witness to an Era, pp. 79, 80. ۷۶- اصل خط اقبال میوزیم لاہور میں محفوظ ہیں۔ 77- Jawaharlal Nehru, Discovery of India, p. 298. 78- Ambedkar, Thoughts on Pakistan, p. 326. ۷۹- ص ۵۸تا۵۹ ، ۱۹۳۰ء میں اقبال مسلم لیگ کے صدر تھے۔ اس وقت اس کا مطالبہ قائد اعظم کے چودہ نکات پر مشتمل تھا نہ کہ پاکستان پر۔ لہٰذا وہ اس تجویز کی حمایت کرنے کے پابند نہیں تھے۔ 80- Iqbal's Letters & Writings, ed. by B.A. Dar, pp. 119, 120; Proceedings of Round Table Conference (Second Session), pp. 116, 117. 81- Iqbal His political Idea at the Cross Road, p. 81. 82- Iqbal's Speeches & Statements, ed. by A.R. Tariq (English), p.38. ۸۳- بشیر احمد ڈار (مرتب)، انوارِ اقبال، ص ۲۸ تا ۲۹۔ 84- Iqbal's Letters & Writings, p. 75. 85- Iqbal's Speeches & Statements, p. 216. 86- Letters of Iqbal to Jinnah, 1943. Pub. Sh. Muhammad Ashraf, p. 22. ۸۷- حرفِ اقبال، ص ۷۹تا ۸۰۔ 88- Pakistan, pub. 1945, p. 329. 89- Years of Destiny (India 1926 1932), pp. 238 240. 90- Letters of Iqbal to Jinnah, p. 11. 91- Ibid., pp. 15 18. 92- Ibid., p. 26. 93- Ibid., p. 23. 94- Ibid., p. 8. 95- Speeches & Writings of Jinnah, Vol. 1, pp. 27, 28. 96- Pakistan, p. 38. 97- Ibid., p. 35. ۹۸- زندہ رود، ص ۱۳۵ تا ۱۳۶۔ ظ…ظظ…ظ آٹھواں باب مسلم ریاست کا ظہور تیسری اور چوتھی دہائی کے دوران ہندوستان میں ایک مسلم ریاست کے قیام کے امکانات خاصے روشن ہوگئے تھے۔ تاہم اُس وقت کے بڑے بڑے سوالات یہ تھے: مسلمانانِ ہند کی سیاسی تنظیم میں مسلم لیگ نے محمد علی جناح کی قیادت میں کیا کردار ادا کیا؟ وہ کیا اسباب تھے جن کی بنا پر جناح ’’قوم پرست‘‘ سے نظریاتی تبدیلی کرکے ’’مسلم قوم پرستی‘‘ کے حامی ہوگئے؟ یا مسلمانوں کی جدوجہد آزادی میں اُن کے قائداعظم بن گئے؟ تحریکِ پاکستان کس اعتبار سے جدید مسلم انڈیا کی سابقہ مذہبی سیاسی تحریکوں سے مختلف و ممیز تھی؟ کیا جناح کے تصور میں پاکستان مسلم اکثریتی ریاست کی حیثیت سے ایک سیکولرریاست تھا یا اسلامی ریاست؟ آئیے اختصار کے ساتھ جائزہ لیتے ہیں کہ مسلم لیگ نے بطور ایک سیاسی جماعت کے، کیونکر ارتقائی منزلیں طے کیں۔ جیسا کہ پہلے بھی بیان ہوچکا ہے، یہ جماعت ۱۹۰۶ء میں بعض بااثر مسلمانوں نے قائم کی تھی، جو وائسرائے سے مسلمانوں کے لیے جداگانہ انتخابات کا وعدہ لینے میں کامیاب ہوگئے تھے۔ ان بااثر مسلمانوں نے حکومت کی منظور کردہ تقسیمِ بنگال (۱۹۰۵ئ) کی حمایت کی تھی۔ مسلم لیگ آئینی اقتدار سے وفاداری کے ساتھ، مسلمانوں کے مفادات کے تحفظ کی دعوے دار تھی۔ ۱۹۰۹ء میں مسلم لیگ نے مسلمانوں کے لیے علیحدہ نیابت کا اصول تسلیم کروالیا۔مسلم لیگ نے اپنے ۱۹۱۳ء کے دستور میں ہندوستان کے لیے ’’موزوں حکومتِ خود اختیاری‘‘ کو منزلِ مقصود قراردینے کا اضافہ کرلیا۔ خلافت تحریک کے زور پر ۱۹۱۶ء کے لکھنؤ پیکٹ میں مسلم لیگ کانگرس کے زیراثر آگئی۔ ۱۹۱۹ء میں خلافت کمیٹی کے قیام سے مسلم لیگ اپنی پہلی سیاسی موت مرگئی۔ ۱۹۲۴ء میں محمد علی جناح نے اسے دوبارہ زندہ کیالیکن مسلمانوں میں قبولیت عامہ سے پہلے ہی ۱۹۲۷ء میں وہ دو حصوں میں تقسیم ہو گئی اور یوں وہ اپنی دوسری سیاسی موت مر گئی۔ مسلمانوں میں ۱۹۲۸ء میں نہرو کمیٹی کی رپورٹ کی اشاعت پر مسلم لیگ میں تفریق قائم رہی۔ ہندوستان کے آیندہ آئین کی تشکیل کے لیے لندن میں ہونے والی گول میز کانفرنس سے پہلے ۱۹۲۹ء میں مسلم کانفرنس قائم ہوئی۔ لیکن ۱۹۲۹ء میں ہی جناح لیگ اور شفیع لیگ متحد ہوگئیں۔ بہرحال ۱۹۳۷ء میں لکھنؤ کے مقام پر منعقد ہونے والے اجلاس میں محمد علی جناح کی صدارت میں مسلم لیگ میں ازسرِ نو جان پڑی، جس میں مسلمانوں سے عوامی رابطہ قائم کرنے کی پالیسی اختیار کی گئی۔ ۱۹۳۷ء تک مسلم لیگ کا سیاسی وجود برائے نام تھا، کیونکہ عام مسلمانوں کو اس کی قیادت پر اعتبار تھا نہ دل چسپی تھی۔۱؎ محمد علی جناح (۱۸۷۶-۱۹۴۸ئ) نے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز نیشنل کانگرس کے مخلص، سرگرم اور وفادار رُکن کی حیثیت سے کیا۔ ۱۹۱۰ء میں جداگانہ مسلم حلقۂ نیابت سے بمبئی کی تجارتی برادری کی جانب سے وائسرائے کی لیجسلیٹو کونسل کے رُکن منتخب ہوئے۔ تین سال کے بعد ۱۹۱۳ء میں نیشنل کانگرس کی رکنیت کے ساتھ ساتھ مسلم لیگ میں بھی شامل ہوئے۔ اُس وقت اُن کا خیال تھا کہ: ’’مسلم لیگ اور مسلم مفادات سے وفاداری کا مطلب کسی بھی اعتبار سے اور کسی بھی وقت وسیع تر قومی مفاد سے بے وفائی نہیں ہے جس کے لیے انھوں نے اپنی زندگی وقف کررکھی تھی۔‘‘۲؎ اپنی غیر معمولی آزاد خیالی اور غیرفرقہ وارانہ شہرت کی وجہ سے ۱۹۱۶ء میں مسلم لیگ کے صدر منتخب ہوئے۔ یہ وہی سال ہے جب میثاقِ لکھنؤ پر دستخط ہوئے تھے۔ وہ ’’اوّل و آخر قوم پرست‘‘ ہونے کے باوجود اس امر سے بخوبی واقف تھے کہ ہندوستان کی قومی اُمنگیں اُس وقت تک پوری نہیں ہوسکتیں، جب تک مسلمانوں کو اپنے آئینی حقوق کے مناسب اور پراثر تحفظات حاصل نہیں ہوجاتے۔۴؎ ہندوؤں اور مسلمانوں میں اتحاد پیدا کرنے کی کوششوں کے سبب اُنھیں ’’ہندو مسلم اتحاد کے سفیر‘‘ کا لقب ملا۔۵؎ جناح نے خود کو پان اسلامزم کی تحریک سے الگ تھلگ رکھا، اگرچہ اُنھوں نے خلافت سے ہمدردی کا اظہار کیا۔۶؎ ان باتوں کے باوجود وہ کانگرس کے اشتراک سے خلافتیوں کی تحریکِ عفم تعاون (۱۹۱۹-۱۹۲۲ئ) کے خلاف تھے۔ ۱۹۱۹ء کی آئینی اصلاحات کو نیشنل کانگرس کے غیر تسلی بخش قراردینے کے باوجود جناح کا مشورہ تھا کہ انھیں قبول کرلینا چاہیے۔۷؎ اسی بنیاد پر انھوں نے نیشنل کانگرس سے استعفیٰ دے دیا۔ اور ۱۹۲۳ء میں آزاد قوم پرست امیدوار کی حیثیت سے منتخب ہوکر، لیجسلیٹو اسمبلی میں ایک چھوٹے سے گروپ کی قیادت کی۔۸؎ ۱۹۲۴ء میں مسلم لیگ کا احیا کیا اور ہندو مسلم سمجھوتے کی کوشش کی۔۹؎ آپ نے مسلم رہنماؤں کو مشترک انتخابات تسلیم کرنے کی تاکید کی۔۱۰؎ اور دوسری طرف ہندوؤں کو مسلمانوں کے مطالبات تسلیم کرنے پر زور دیا، یعنی یہ کہ شمال مغربی سرحدی صوبے اور بلوچستان میں آئینی اصلاحات لائی جائیں، سندھ کو بمبئی پریذیڈنسی سے الگ کیا جائے، اور پنجاب اور بنگال میں آبادی کی بنیاد پر انتخابات کرائے جائیں۔ رجائیت پسند جناح نے دونوں فریقوں کے لیے قابل قبول کوئی سمجھوتہ کرنے کی خاطر بہت کوششیں کیں، جو سب کی سب ناکام ہوئیں۔ ۱۹۲۹ء میں انھوں نے مسلم کانفرنس کی دہلی تجاویز میں چند مزید تجاویز کا اضافہ کیا، جن کو جناح کے ’’چودہ نکات‘‘ کہا گیا، لیکن ہندوئوں نے اِن کو بھی مسترد کردیا۔ ۱۹۳۰ء میں گول میز کانفرنس کے اجلاسوں میں جناح نے اقبال کی اس تجویز کے بارے میں خاموشی اختیار کیے رکھی کہ شمال مغربی ہندوستان میں ایک متحدہ مسلم ریاست قائم ہونی چاہیے۔ مگر گول میز کانفرنس میں جناح کے ’’چودہ نکات‘‘ کے مسترد ہوجانے پر اُن کی شخصیت میں ایک نمایاں تبدیلی آگئی تھی۔ یہاں تک کہ اُن کی مایوسی واضح طور پر محسوس ہونے لگی تھی۔۱۱؎ انھوں نے ایک موقع پر کہا: ’’میں نے ہندو مسلم سمجھوتے کے لیے متواتر اتنی کوششیں کیں، کہ ایک اخبار نے یہاں تک لکھا کہ مسٹر جناح ہندو مسلم اتحاد پیدا کرنے سے کبھی نہیں تھکتے۔‘‘ پھر مزید کہا: ’’لیکن راونڈٹیبل کانفرنس کے اجلاسوں میں مجھے اپنی زندگی کا سب سے بڑا صدمہ پہنچا۔ ہندوئوں کے جذبات، ہندوئوں کے ذہن اور ہندوئوں کا رویہ دیکھ کر میں اس نتیجے پر پہنچا کہ اتحاد کی کوئی راہ نہیں ہے۔‘‘۱۲؎ دل شکستگی اور مایوسی کے عالم میں اُن کی اپنی کیفیت یہ تھی کہ وہ نہ تو ہندوؤں کی ذہنیت بدل سکتے تھے اور نہ مسلمانوں کو اُن کی سنگین حالت محسوس کراسکتے تھے۔آخر کار سخت مایوس ہوکر اُنھوں نے سیاست ترک کرکے انگلستان میں قیام کا فیصلہ کیا۔ مایوسی کی اس کیفیت نے جناح کے ذہن کو انگلستان میں چار سالہ قیام کے دوران میں سخت پریشان رکھا۔ مایوسی اور دل شکستگی کے ایسے ہی جذبات کا اظہار بعض دوسرے مسلمان رہنماؤں مثلاً مولانا محمد علی اور اقبال نے بھی کیا تھا، جو اپنے اپنے دور میں ہندوستان میں قوم پرستی کے علم بردار رہے تھے۔ لیکن جناح کا معاملہ دوسرے رہنماؤں سے مختلف تھا، وہ کسی اور مسلم رہنما کے مقابلے میں زیادہ آزاد خیال اور کھلے دل کے مالک تھے۔ اگر جناح جیسا آزاد خیال لیڈر بھی ہندوؤں کے رویے سے مایوس ہوکر، مسلمانوں کی ’’سیاسی رجعت پسندی‘‘ میں پناہ لے، تو اس کا صاف مطلب یہی ہے کہ ہندوستان کے مسلمانوں اور ہندوؤں میں سمجھوتے یا افہام و تفہیم کا کوئی بھی امکان موجود نہیں تھا۔ یہ بات حتمی طور پر واضح نہیں کہ کسی شخص کے کہنے پر جناح ہندوستان واپس آئے۔ بعض مورخین کا خیال ہے کہ دوسرے لوگوں کے علاوہ لیاقت علی خان بھی اُنھیں واپس آنے کی ترغیب دینے والوں میں شامل تھے۔ اس امر کے بھی شواہد موجود ہیں کہ ۱۹۳۱-۱۹۳۲ء میں جب اقبال گول میزکانفرنس میں شرکت کے لیے لندن گئے تو انھوں نے جناح سے کئی ملاقاتیں کیں اور انھیں ہندوستان واپس آکر مسلم لیگ کے پرچم تلے مسلمانوں کو، نئے سیاسی ایجنڈے کے تحت منظم کرنے کا مشورہ دیا جس کی سفارش خطبۂ الہ آباد میں کی گئی تھی۔ بہرحال جناح ۱۹۳۴ء میں ہندوستان واپس آگئے اور اپنی سیاسی حیثیت کے بارے میں فرمایا: ’’مجھے کوئی اختیار حاصل نہ تھا۔ میں ایک گداگر کی طرح بے بس تھا اور میرے ساتھ وہی سلوک کیا گیا جو گداگروں کے ساتھ کیا جاتا ہے۔‘‘۱۳؎ انھوں نے مرکز میں وفاق کی تجویز کو مسترد کیا، البتہ صوبوں کی خودمختاری کی سکیم کو تسلیم کیا۔ ۱۹۳۶ء میں اُن کی صدارت میں مسلم لیگ کا مرکزی پارلیمانی بورڈ اور صوبائی پارلیمانی بورڈ تشکیل دیے گئے۔ ۱۹۳۷ء میں مسلم لیگ کے اجلاس منعقدہ لکھنؤ کے بعد انھوں نے ہندو ’’مسلم اتحاد کی سفارت‘‘ چھوڑ کر، اپنی زندگی میں پہلی مرتبہ مسلمانوں کے جداگانہ تشخص کا دعویٰ کیا۔ اُس زمانے (۱۹۳۶-۱۹۳۸ئ) میں اُن پر اقبال کا گہرا اثر ہوا جو بذریعۂ خط و کتابت اُن سے مسلسل رابطے میں تھے۔۱۴؎ پانچ سال کے اندر اندر انھوں نے مسلمانوں کو ’’زیرو پوائنٹ‘‘ سے اٹھا کر ایسے بلند مقام پر پہنچا دیا جہاں وہ انگریزوں اور ہندوئوں کے درمیان طاقت کا توازن بن گئے تھے۔۱۵؎ ۱۹۳۵ء کے نئے آئین کے تحت انتخابات کے کچھ ہی عرصہ بعد ۱۹۳۷ء میں کانگرس اور مسلم لیگ میں سیاسی اقتدار کے لیے کشمکش شروع ہوگئی۔ کانگرس نے ہندو حلقہ ہائے انتخاب کی تقریباً تمام سیٹیں جیت لیں، علاوہ ازیں شمال مغربی سرحدی صوبے کی بھی بیش تر مسلم نشستیں حاصل کرلیں۔ مسلم لیگ نے اگرچہ مسلم حلقہ ہائے انتخاب، بالخصوص ہندو اکثریتی صوبوں میں بیش تر مسلم نشستیں جیت لیں۔ لیکن بہ حیثیت مجموعی مسلم لیگ مسلم اکثریتی صوبوں میں ناکام رہی۔ فاتح کانگرس نے مدراس، متحدہ صوبہ جات (یوپی)، سنٹرل صوبے (سی پی)، بہار اور اڑیسہ، بمبئی اور شمال مغربی سرحدی صوبے میں حکومت قائم کی، لیکن سندھ، پنجاب، بنگال اور آسام کے صوبوں میں حکومت بنانے سے قاصر رہی، کیونکہ وہاں صوبائی غیرفرقہ وارانہ لیکن مسلم اکثریتی سیاسی جماعتوں نے مسلم وزرائے اعلیٰ کی سرکردگی میں مخلوط حکومتیں بنالی تھیں۔ کانگرسی رہنماؤں نے برطانوی حکومت سے زمام حکومت سنبھالنے سے پہلے یہ ضمانت حاصل کرلی تھی کہ صوبائی گورنر اپنے خصوصی، صوابدیدی یا ہنگامی اختیارات استعمال نہیں کریں گے اور نہ وہ کسی اور اعتبار سے کانگرسی وزارتوں کے معاملات میں دخل اندازی کریں گے۔ برطانوی حکومت سے یہ یقین دہانی حاصل کرنے کے بعد ہندوئوں نے کانگرس اور مسلم لیگ کی مخلوط وزارتیں بنانے کی بجائے خالصۃً کانگرسی وزارتوں کی تشکیل کی، اور اس طرح کانگرس مسلم لیگ کو، یعنی مسلمانوں کے حقِ نمایندگی کو نظرانداز کردینے کی مرتکب ہوئی۔ کانگرس نے انتہائی مہلک پالیسی یہ اختیار کی کہ صوبائی مسلم لیگی جماعتوں کو کانگرس میں ضم کرنے کے لیے مسلم لیگ کے صوبائی پارلیمانی بورڈوں کو منسوخ کرنے کی کوشش کی۔ کانگرس اپنی فتح کے نشے میں کسی قسم کی مفاہمت کے لیے تیار نہ ہوئی، بلکہ ہر قیمت پر اپنی اکثریت کی بنیاد پر طاقت آزمائی پر تلی رہی۔ اُدھر مسلم لیگ ہندو اکثریتی صوبوں میں کچھ طاقت رکھنے کے باوجود اتنی کمزور تھی کہ کانگرس سے برابری کا دعویٰ نہ کرسکتی تھی۔ مسلم اکثریتی صوبوں میں تو اس کا وجود نہ ہونے کے برابر تھا۔ لہٰذا کانگرسی رہنماؤں نے فیصلہ کرلیا کہ مسلم لیگ کو اپنے اندر ضم کرنے کا یہ مناسب موقع ہے۔ چنانچہ یوپی کے دیہی مسلمانوں کو کانگرس میں شامل کرنے کے لیے عوامی رابطہ مہم شروع کی گئی۔ مسلم اکثریتی صوبوں میں غیرکانگرسی وزارتیں توڑنے کے لیے اُن کے حریفوں کی کھلم کھلا حمایت کی گئی۔ مختصر یہ کہ کانگرس نے ہندو اکثریتی صوبوں میں (جہاں وہ بڑی مضبوط اور طاقتور تھی) مسلم لیگ کو ختم کردینے کا منصوبہ بنایا، کیونکہ اگر مسلم لیگ ہندو اکثریتی صوبوں میں ختم ہو جائے تو ملک کے دوسرے حصوں میں بھی اُس کا اثر رسوخ ختم ہوجائے گا۔ لیکن ہوا یہ کہ کانگرس کی عوامی رابطہ مہم ناکام ہوگئی۔ مسلم لیگ کو اپنے اندر ضم کرنے کی کوششوں کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسلم لیگ ہندو اکثریتی صوبوں میں زیادہ توانا اور طاقتور ہوکر اُبھری۔ مسلم لیگ نے بھی انتقاماً عوامی رابطہ مہم چلائی اور اُس کے اہداف یہ تھے: کانگرس کا ترنگا جھنڈا لہرانے، بندے ماترم کا ترانہ گانے، کھادی کے کپڑے پہننے، اور سکولوں میں مہاتماگاندھی کی تصویر کی پوجاکرنے کے خلاف آواز اٹھانا۔ مسلم لیگ نے زور شور سے اُردو کی جگہ ہندی کے استعمال، ودیامندر کی تعلیمی سکیم، گئوکشی کے امتناع، مسلمانوں کے کاروبار کے بائیکاٹ اور کنوؤں کا پانی نکالنے کی ممانعت (جن پر صرف اعلیٰ ذاتوں کے ہندوؤں کی اجارہ داری تھی) کے خلاف کامیاب احتجاجی تحریک چلائی۔۱۶؎ صوبائی مسلم لیگی جماعتوں نے مرکزی دفتر میں شکایات بھجوائیں، جن پر کارروائی کرتے ہوئے ’’پیرپورکمیٹی‘‘ بنائی گئی تاکہ وہ ہندو اکثریتی صوبوں میں مسلمانوں کی شکایات اور الزامات کی تحقیقات کرے۔ پیرپورکمیٹی کی رپورٹ ۱۹۳۸ء کے اواخر میں شائع ہوئی۔ اس رپورٹ کے بعد ’’شریف رپورٹ‘‘ آئی جس میں صوبہ بہار کے مسلمانوں کی شکایات کی تحقیق کی گئی تھی۔ بعدازاں ’’کمال یار جنگ رپورٹ‘‘ شائع ہوئی جس میں ہندو اکثریتی صوبوں میں مسلمانوں کی تعلیم کے مستقبل کے بارے میں تفصیلات درج تھیں۔ جناح نے وائسرائے کو رسماً توجہ دلائی کہ ان معاملات کے بارے میں صوبائی گورنر کوئی اقدام کرنے سے قاصر رہے ہیں، جن کو نئے آئین کے تحت، اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کا اختیار حاصل تھا۔ سو انھوں نے ایک رائل کمیشن مقرر کرنے کا مطالبہ کیا جو مسلمانوں کی شکایات کی تحقیقات کرکے اُن کا ازالہ کرے۔ اِن تمام باتوں سے شکوک و شبہات پیدا ہوئے اور خطرہ بڑھا۔ جیسا کہ آرکوپ لینڈ نے لکھا کہ ’’یہی حالات رہے تو وہ دن دور نہیں جب ہندی اسلام بھی بدھ مت کی طرح ہندومت میں مکمل طور پر جذب ہوجائے گا۔‘‘۱۷؎ کانگرسی حکومت نے جناح کو اس حقیقت پر زور دینے کا سنہری موقع فراہم کردیا کہ کانگرس خالصتاً ایک ہندو جماعت ہے جو ایک ایسی پالیسی اختیار کیے ہوئے ہے جو بالآخر فرقہ وارانہ کشمکش پر منتج ہوگی۔ انھوں نے واضح طور پر، بار بار اعلان کیا کہ مسلمانوں کو ہندوؤں سے انصاف اور رواداری کی کوئی اُمید نہیں ہے۔۱۸؎ مسلم لیگ پورے ہندوستان میں رفتہ رفتہ مقبولیت اور طاقت حاصل کررہی تھی۔ پنجاب، بنگال اور آسام کے وزرائے اعلیٰ نے اپنے اپنے حامیوں کے ساتھ مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کرلی۔ تب کانگرسی رہنماؤں کو احساس ہوا کہ مسلم لیگ کو نظر انداز کرنے یا کچلنے کی پالیسی درست نہیں تھی۔ چنانچہ مہاتما گاندھی اور پنڈت جواہر لال نہرو نے جناح سے مذاکرات کا دروازہ کھولا، لیکن یہ ’’اتحادی مکالمے‘‘ ناکام رہے، کیونکہ جناح کا دعویٰ تھا کہ مسلم لیگ مسلمانوں کی واحد نمایندہ جماعت ہے، اور مطالبہ کیا کہ مذاکرات سے پہلے مسلم لیگ کی اس حیثیت کو تسلیم کیا جائے۔ کانگرس نے یہ دعویٰ اور مطالبہ تسلیم نہیں کیا، کیونکہ کانگرس ’’نظریاتی طور پر‘‘ خود کو غیرفرقہ وارانہ جماعت سمجھتی تھی جو ہندوستان کی تمام قوموں کی نمایندہ جماعت ہے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ ’’مسلم قومیت‘‘ کا شعور مسلم اکثریتی صوبوں میں پنپنے سے پہلے ہندو اکثریتی صوبوں میں پیدا ہوا۔ ظاہر ہے کہ اسلام ہندو اکثریتی صوبوں میں دفاعی حیثیت میں تھا جب کہ مسلم اکثریتی صوبوں میں اُسے دفاع کی ضرورت نہ تھی۔ ہندو اکثریتی صوبوں میں مسلم اقلیتیں، جو الگ تھلگ اور خوفزدہ ہوگئی تھیں، پورے مسلم انڈیا میں یہ شعور پھیلانے میں کامیاب ہوگئیں کہ اسلام خطرے میں ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ نئے آئین کو نئی قوت کے ساتھ تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ مسلم لیگ نے پہلے ہی مرکز میں وفاق کا بائیکاٹ کردیا تھا، اگرچہ صوبائی سکیم کو قبول کرلیا تھا۔ اب اُس نے صوبائی اسکیم کو بھی مسترد کردیا، کیونکہ جناح کے الفاظ میں، اس اسکیم سے ہندو اکثریتی صوبوں میں مسلمانوں پر باضابطہ تشدد کیا گیا۔ اُن کا استدلال یہ تھا کہ اگر مرکزی وفاق وجود میں لایا گیا تو مرکز میں ہندوؤں کو وہی بالادستی حاصل ہوگئی جو صوبوں میں حاصل ہوئی اور مسلمانوں کے خلاف وہی نتائج برآمد ہوں گے جو صوبوں میں بھی ظاہر ہوئے۔۱۹؎ ۱۹۳۵ء کے ایکٹ کو ناکام بنانے کے لیے مسلم لیگ کے مرکزی دفتر نے، جناح کی صدارت میں، فی الواقع ایک مؤثر ’’وحدانی مرکز‘‘ قائم کرلیا، جس کا مقصد غیرکانگرسی وزارتوں پر اپنی گرفت مضبوط رکھنا تھا (اب یہ وزارتیں لیگی وزارتیں کہلانے لگی تھیں، کیونکہ اِن کے وزرائے اعلیٰ نے مسلم لیگ کے معاہدے پر دستخط کردیے تھے)۔۲۰؎ اب مسلمان محض قانونی تحفظات کا مطالبہ کرنے کی پوزیشن سے آگے بڑھ گئے تھے، کیونکہ کانگرسی حکومتیں اور صوبائی گورنر اقلیتوں کا تحفظ کرنے میں ناکام ہوچکے تھے۔ مسلم لیگ کی دلیل یہ تھی کہ ایک مستقل، حریفانہ ہندو اکثریت کی موجودگی میں محض قانونی تحفظات بے معنی چیز ہیں۔ ان باتوں کا نتیجہ یہ ہوا کہ ۱۹۳۸ء میں مسلم لیگ نے یہ قرارداد پاس کی کہ ہندوستان کے آیندہ آئین پر ایک بار پھر اُس سیاسی تجربے کی روشنی میں، نظرثانی کی جائے جو ۱۹۳۵ء کے ایکٹ کے بعد حاصل ہوا ہے۔۲۱؎ نیز قرارداد میں یہ بھی کہا گیا کہ مسلم لیگ ایک ایسی آئینی اسکیم بنائے جس کے تحت مسلمانوں کو کامل آزادی حاصل ہوسکے۔ جناح کو اختیار دیا گیا کہ ۱۹۳۵ء کی وفاقی سکیم کے متبادل کے طور پر جو بے شمار اسکیمیں زیرِ غور آئی تھیں، اُن کا ازسرنو جائزہ لے کر رپورٹ مرتب کریں۔ ۳ستمبر ۱۹۳۹ء کو وائسرائے نے اعلان کیا کہ انگلستان جرمنی کے مقابلے میں حالتِ جنگ میں ہے اور اہلِہند سے جنگ میں تعاون کا مطالبہ کیا۔ نیشنل کانگرس نے اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مطالبہ کیا کہ وہ صرف اس صورت میں تعاون کرے گی کہ ہندوستان کو کامل آزادی دی جائے اور اس کا آیندہ آئین کانگرس کی سکیم کے مطابق وضع کیا جائے۔ انگریزی حکومت کی جانب سے ایسی کوئی یقین دہانی نہ کرائی گئی، جس کے ردِعمل میں کانگرسی وزارتوں نے ۱۵نومبر۱۹۳۹ء کو استعفے پیش کردیے۔ کانگرسی حکومت کا خاتمہ مسلمانوں کے لیے گویا خوشیاں منانے کا موقع تھا۔ جناح نے ’’یومِ نجات‘‘ منانے کی اپیل کی جو ۲۲دسمبر۱۹۳۹ء کو مسلمانانِ ہند نے بڑے جوش و خروش سے منایا۔ مسلم لیگ نے جنگ کی کوششوں میں رکاوٹ ڈالے بغیر تعاون کیا، مگر اس شرط کے ساتھ کہ آیندہ دستور یا ہندوستان کے لیے کسی اور آئینی پیش رفت کے بارے میں کانگرس کی پیش کردہ کوئی سکیم مسلمانوں کی رضامندی اور منظوری کے بغیر قابلِ قبول نہ ہوگی نیز اس امر پر خاص زور دیا کہ اپنی آیندہ کی آئینی حکمتِ عملی وضع کرنے کا حق صرف مسلمانوں کو حاصل ہے۔ اب مسلمانوں کا نیا نصب العین متعین کرنے کا موزوں ترین وقت آگیا تھا۔ ۲۳؍مارچ ۱۹۴۰ء کو لاہور کے مقام پر مسلم لیگ نے اپنی تاریخی قرارداد منظور کی (جو عرفِ عام میں قرارداد پاکستان کے نام سے مشہور ہے)۔ جناح نے اپنے خطبۂ صدارت میں اس نکتے پر خاص زور دیا کہ ہندو اور مسلمان دوجداگانہ قومیں ہیں۔ مسلمان کسی بھی لحاظ سے اقلیت نہیں ہیں، کیونکہ آبادی کے تناسب کے لحاظ سے وہ ہندوستان کے بعض وسیع خطوں میں غالب اکثریت میں ہیں، جن میں بنگال، پنجاب، شمال مغربی سرحدی صوبہ، بلوچستان اور سندھ شامل ہیں۔ مسلمانوں کو خود اختیاری کا ہر حق حاصل ہے، خصوصاً ایسے حالات میں کہ گیارہ صوبوں میں سے چار صوبوں میں، جہاں مسلمان اکثریت میں ہیں، وزارتیں کانگرس کے عدمِ تعاون اور سِول نافرمانی کے فیصلے کے باوجود کامیابی سے چل رہی ہیں۔ جناح نے اپنے خطبۂ صدارت میں مزید کہا: ’’ہندوستان کا مسئلہ فرقہ وارانہ نوعیت کا نہیں، بلکہ بدیہی طور پر بین الاقوامی ہے، اور اس کو اسی اعتبار سے حل کرنا چاہیے۔ اگر اس بنیادی اور اساسی اصول کو پیشِ نظر نہ رکھا گیا تو جو دستور بھی بنایا جائے گا، وہ چل نہ سکے گا، اور نہ صرف مسلمانوں کے لیے بلکہ انگریزوں اور ہندوئوں کے لیے بھی تباہ کن اور مضر ثابت ہوگا۔ اگر حکومتِ برطانیہ کی یہ سچی اور مخلصانہ خواہش ہے کہ اس برعظیم کے لوگوں کے لیے امن اور خوشحالی لائے تو اس کا واحد طریقہ یہی ہے کہ ہندوستان کو خودمختار قومی ریاستوں میں تقسیم کرکے، یہاں کی دوبڑی قوموں کو اپنے اپنے جداگانہ وطن بنانے دیے جائیں۔‘‘۲۲؎ اس تناظر میں مسلم لیگ کے مذکورہ اجلاس لاہور میں قرار پایا کہ ’’کوئی آئینی منصوبہ اس ملک میں قابلِ عمل اور مسلمانوں کے لیے قابلِ قبول نہیں ہوگا، تاوقتیکہ وہ مندرجہ ذیل اصول پر وضع نہ کیا گیا ہو، یعنی جغرافیائی طور پر متصل وحدتوں کی حد بندی ایسے خطوں میں کی جائے (مناسب علاقائی ردّو بدل کے ساتھ) کہ جن علاقوں میں مسلمانوں کی اکثریت ہے، مثلاً ہندوستان کے شمال مغربی اور مشرقی حصے، اُن کی تشکیل ایسی آزاد ریاستوں کی صورت میں کی جائے، جن کی مشمولہ وحدتیں خودمختار اور مقتدرہوں۔‘‘ قرارداد کی منظوری کے بعد مسلم لیگ کی مجلسِ عاملہ کو اختیار دیا گیا کہ ’’وہ ان بنیادی اصولوں کے مطابق ایسا آئینی منصوبہ بنائیں جس میں تمام اختیارات کے متعلقہ شعبوں مثلاً دفاع، امورِ خارجہ، مواصلات، کسٹم اور دوسرے ضروری امور میں موزوں تجاویز پیش ہوں۔‘‘۲۳؎ بعدازاں مسلم لیگ کے منتخب قانون سازوں کے کنونشن منعقدہ دہلی میں ۹؍اپریل۱۹۴۶ء کو ایک اور قرارداد متفقہ طور پر منظور کی گئی جس میں منجملہ دیگر امورِ متعلقہ کے، یہ بھی واضح کردیا گیا کہ پاکستان ایک واحد مقتدر ریاست ہوگی۔ قرارداد کے اصل الفاظ کا ترجمہ یہ ہے: ہندوستان کے شمال مشرق میں بنگال اور آسام اور شمال مغرب میں پنجاب، صوبہ سرحد، سندھ اور بلوچستان یعنی پاکستان کے علاقے جہاں مسلمانوں کو غالب اکثریت حاصل ہے، وہاں واحد مقتدر آزاد اور خودمختار مملکت کی تشکیل کی جائے اور اس امر کا واضح اعلان کیا جائے کہ پاکستان کا قیام بلاتاخیر عمل میں لایا جائے گا۔ مسلمانانِ ہند کے لیے جداگانہ وطن حاصل کرنے کی لیگی قرارداد جناح کے دو ’’قومی نظریے‘‘ کی اساس پر منظور کی گئی۔ حقیقت یہ ہے کہ جناح سے بہت عرصہ سے بے شمار ہندو اور مسلمان رہنماؤں کی جانب سے ہندوؤں اور مسلمانوں کو دوجداگانہ اور ممیز و مختلف قومیں قراردیا جاتا رہا تھا۔ جب سے مسلمانوں کو جداگانہ حقِ انتخابات دیا گیا تھا، اس مفروضے کے باوجود کہ آٹھ کروڑ مسلمان اقلیت میں ہیں اور محض اسی لیے اُن کو تحفظات کی ضرورت ہے، مسلمان خود کو ایک جداگانہ قومی و سیاسی تشخص کا حامل سمجھتے تھے جس کو وہ بہرصورت قائم رکھنا چاہتے تھے۔ جیسا کہ جناح نے اس طرف توجہ دلاتے ہوئے کہا تھا: ’’جداگانہ انتخابات کا مطالبہ مسلمانوں کے اس اندرونی احساس کا محض ایک اشارہ تھا۔‘‘ انھوں نے اپنی اس تقریر میں مزید فرمایا تھا: ’’اسی احساس اور جذبے سے میثاقِ لکھنؤ پر دستخط ہوئے تھے، جس کا بنیادی اصول ہی یہ تھا کہ دو جداگانہ اور مختلف جماعتیں ایک دوسرے سے معاہدہ کررہی ہیں۔‘‘۲۴؎ ۱۹۲۴ء کے بعد مسلمانوں نے اُن صوبوں میں فی الواقعی طاقت حاصل کرنے کی کوشش کی، جہاں وہ اکثریت میں تھے، لیکن ہندوئوں نے من حیث الجماعت اُن علاقوں میں بھی غلبہ حاصل کرنے کی کوشش کی، جہاں وہ اقلیت میں تھے، جس سے ظاہر ہوا کہ ہندوستان کی وحدت یا ہندوستانی قوم کے ایک ہونے کا تصور کوئی حقیقت نہیں رکھتا۔ اسی بات کی صراحت کرتے ہوئے جناح نے کہا تھا: ’’گزشتہ بارہ سو سال کی تاریخ ہندوستان میں کوئی قومی وحدت قائم کرنے سے قاصر رہی اور مختلف زمانوں کے دوران تاریخ نے دیکھا کہ ہندوستان ہمیشہ ہندو انڈیا اور مسلم انڈیا کے مابین منقسم رہا ہے۔ ہندوستان کی موجودہ مصنوعی وحدت صرف انگریزوں کی آمد کے بعد دیکھنے میں آئی ہے اور یہ بھی انگریزوں کی بندوق کے بل پر برقرار ہے۔‘‘۲۵؎ جناح نے اپنے ۲۳مارچ۱۹۴۰ء کو لاہور والے اجلاس میں صاف صاف کہا تھا: ’’سمجھ میں نہیں آتا کہ ہمارے ہندو دوست اسلام اور ہندومت کی جداگانہ نوعیت و ماہیت کو سمجھنے سے کیوں قاصر رہتے ہیں۔ اسلام اور ہندودھرم محض مذاہب نہیں ہیں، بلکہ درحقیقت مختلف اور جداگانہ معاشرتی نظام ہیں۔ یہ محض ایک خواب ہے کہ ہندو اور مسلمان کبھی مل کر ایک مشترکہ قومیت تخلیق کرسکیں گے۔ متحدہ ہندوستانی قوم کا تصور محض تخیل ہے۔ بلکہ ہمارے بہت سے مسائل اور مشکلات کی اصل جڑ ہے اور اگر ہم نے بروقت اپنے تصورات میں اصلاح نہ کی تو ہندوستان تباہ ہوجائے گا۔ ہندو اور مسلمان مختلف مذہبوں، فلسفوں، معاشرتی نظاموں اور ادبیات سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ آپس میں شادی بیاہ نہیں کرتے۔ نہ ایک دسترخوان پر بیٹھ کر کھانا کھاتے ہیں۔ بلاشبہ یہ بالکل مختلف تہذیبوں سے واسطہ رکھتے ہیں، جن کی بنیاد ایسے افکار و تصورات پر ہے جو ایک دوسرے کی ضد ہیں، بلکہ اکثر متصادم رہتے ہیں۔ یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ ہندو اور مسلمان اپنی اپنی تمنائیں اور آرزوئیں تاریخ کے مختلف سرچشموں سے اخذ کرتے ہیں۔ ان کی مثنویاں مختلف، ان کے ہیرومختلف، ان کے قصے کہانیاں مختلف۔ اکثر اوقات ایک قوم کا ہیرو دوسری قوم کا دشمن ہوتا ہے۔ ایک قوم کی فتح دوسری قوم کی شکست ہوتی ہے۔ ایسی دو جداگانہ قوموں کو ایک ہی ریاست کے تحت زبردستی متحد کرنے سے، جب کہ عددی اکثریت اور اقلیت کا بھی خاصا فرق ہے، لازماً بے اطمینانی کا سبب بنے گا اور ہر وہ آئینی ڈھانچہ بالآخر تباہ ہوکر رہ جائے گا جو ایسی ریاست کے لیے بنایا جائے گا۔‘‘۲۶؎ بنی پرشاد نے لکھا ہے کہ مسلمانوں کی آمد سے پہلے ہندوستان کے جتنے بھی حملہ آور باہر سے آئے، وہ ہندوئوں کے سماجی (ذات پات کے) نظام میں جذب ہوگئے، لیکن مسلمانوں اور ہندوئوں کے درمیان کوئی ایسی صورت پیدا نہ ہوئی۔ اس کی وجہ، بنی پرشاد کی نظر میں یہ ہے کہ مسلمانوں کی دینیات اتنی اعلیٰ اور ترقی یافتہ تھی کہ ہندومت کے لیے اسلام کو اپنے اندر جذب کرسکنا، ممکن نہ تھا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمان ہندوئوں سے الگ تھلگ، ایک جداگانہ قوم کی حیثیت سے برقرار رہے اور ہندوستان میں اپنے اوائلی عہدِ حکمرانی میں اُن کا رابطہ مشرق وسطیٰ کی مسلم ریاستوں سے برابر قائم رہا۔ ہندومت، جیسا کہ توقع تھی، بالخصوص مسلم حکمرانی کے استحکام کے بعد، مدافعت کی پوزیشن میں آگیا اور اُس نے اپنا دائرہ اثر اتنا تنگ کرلیا کہ اس سے پہلے کبھی نہ کیا تھا۔ جن لوگوں نے اسلام قبول کرلیا اُن کو ملیچھ (ناپاک) قرار دیا گیا۔ تیرہویں اور چودہویں صدی کے دوران شمال اور جنوب میں اسلام اور ہندومت ایک دوسرے کے مقابل کھڑے تھے۔ تاہم مغلوں کی رواداری کی پالیسی کے سبب دونوں قوموں میں کسی قدر ہم آہنگی پیدا ہوئی، لیکن مذہبی امتیاز اُس زمانے میں بھی باقی رہا اور اورنگ زیب عالمگیر کے عہدِ حکومت میں تو مزید بڑھ گیا۔ ہندوستان میں اُنیسویں صدی میں احیائی تحریکوں کا خطرناک پہلو، بنی پرشاد کے نزدیک یہ تھا کہ دونوں قوموں میں تفریق نے شدت اختیار کرلی۔ ہندو اور مسلمان اپنی آرزوئیں اور تمنائیں مختلف سرچشموں سے حاصل کرتے تھے، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ فرقہ واریت کی بنیاد پر دشمنی پیدا ہوگئی۔ مسلمانوں کو جداگانہ انتخابات کا حق دینے سے ہندوئوں سے اُن کی علیحدگی کا عمل پایۂ تکمیل کو پہنچا اور انھوں نے اپنا جداگانہ ثقافتی تشخص اُستوار کرلیا۔۲۷؎ ڈاکٹر امبیدکر کو ہندوئوں اور مسلمانوں میں اُتنی بھی یگانگت نظر نہیں آئی، جتنی انھیں برما کے بُدھوں اور ہندوستان کے ہندوئوں کے مابین نظر آئی۔ انھوں نے لکھا کہ ہندومت اور اسلام روحانی طور پر ایک دوسرے کے لیے اجنبی اور سماجی طور پر ایک دوسرے کے حریف ہیں، اس لیے کہ ہندو اُس مذہبی تعذیب کو فراموش نہیں کرسکتے جو مسلمانوں نے ہندوستان کا حکمران بننے کے بعد اُن پر کی تھی۔۲۸؎ امبیدکر کے نزدیک سرحدوں کی ازسر نو حد بندی اور تبادلۂ آبادی فرقہ وارانہ مسئلے کا بہترین حل تھا۔۲۹؎ ہندومہاسبھا کا سرکاری نقطۂ نظر، جو ۱۹۲۴ء سے ’’پان ہندومت‘‘ کا نصب العین بلند کیے ہوئے ہے، سب سے اچھے انداز میں ساودر کرکے الفاظ میں بیان ہوا ہے۔ اُس نے کہا تھا: ’’پرانے مرض کی تشخیص اور اُس کا علاج اُسے نظر انداز کرنے سے بہتر ہے۔ ہمیں بہادری سے ناگوار حقائق کا سامنا کرنا ہوگا۔ آج ہندوستان کو ایک واحد اور ہم نسل قوم متصور نہیں کیا جاسکتا، بلکہ اس کے برخلاف ہندوستان میں دوبڑی قومیں ہیں، ہندو اور مسلمان۔‘‘۳۰؎ ہندومہاسبھا نے واضح طور پر مسلمانوں کو ایک جداگانہ قوم تسلیم کیا اور انھیں ہندوستان میں رہنے کی اجازت دی، لیکن حکمران ہندو قوم کی اطاعت شعار رعایا کی حیثیت میں۔‘‘۳۱؎ آئی جے پٹ نے ہندوئوں اور مسلمانوں کے امتیاز و اختلاف کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا کہ چونکہ مسلمانوں کی مذہبی تہذیب و تربیت سامی ہے، لہٰذا اُن کی سیاسی فکر منطقی، باضابطہ اور باعمل ہے، جب کہ ہندوئوں کی تربیت ویدانتی ہے یا سریانی، اس لیے وہ مبہم، تصوراتی اور نظریاتی ہیں۔۳۲؎ ایم آرٹی کا کہنا ہے کہ ہندو اور مسلمان فقط مذہبی اور سماجی طور پر ہی منقسم نہیں ہیں، بلکہ سیاسی اور معاشی طور پر بھی منقسم ہیں۔ مسلمان اپنی ملّت کا سیاسی احیا صرف ہندوستان ہی میں نہیں، بلکہ پورے عالمِ اسلام میں دیکھنے کا آرزو مند ہے، جب کہ ہندو اپنے ملک کی سرحدوں سے باہر ایسی خواہش نہیں رکھتے۔ دونوں قوموں میں جو سیاسی تفریق پائی جاتی ہے، اُس کی بنیادیں اُن کی ماضی کی تاریخ میں جمی ہوئی ہیں جہاں اُن کی تحریک کے سرچشمے الگ الگ موجود ہیں۔۳۳؎ معاشی اعتبار سے بھی ہندوئوں اور مسلمانوں کے مفادات میں تصادم پایا جاتا تھا۔ بعض پیشوں پر، جن میں دکانداری، غلے اور کپڑے کی مارکیٹیں، ملک کی اندرونی و بیرونی تجارت شامل ہیں، ہندوئوں کی اجارہ داری حتیٰ کہ مسلم اکثریتی صوبوں میں بھی تھی۔ ہندو ساہوکاروں نے مسلم دیہات میں مسلمانوں کو اپنا مقروض بنا کررکھا تھا۔ اُن کی بچتیں سود کی شکل میں ہندوئوں کی جیبوں میں جاتی تھیں۔ صرف پنجاب میں سود سے حاصل ہونے والی آمدنی صوبے کے پورے مالیۂ اراضی سے دس گنا زیادہ تھی۔ شہروں میں ہندو متوسط طبقہ خوشحال تھا، جب کہ مسلم متوسط طبقہ سرکاری دفتر میں چھوٹی چھوٹی ملازمتیں کرنے والوں یا چھوٹے موٹے کاروبار کرنے والوں پر مشتمل تھا۔ ایم آرٹی رقم طراز ہے: ’’مسلمانوں کا خوف اس خیال کے تحت بھی بڑھ گیا تھا کہ حریف جماعت کے ہاتھوں میں سیاسی و معاشی طاقت کا ارتکاز اُن کی سیاسی و معاشی حالت کو اور بھی ابتر کردے گا۔‘‘۳۴؎ مسلمان جو سمندری ساحلوں کے ساتھ ساتھ، مسلسل اور متصل قطعاتِ اراضی پر متصرف و قابض ہیں، اُن کو اُس قوم کے اندر اقلیت کی حیثیت میں رہنے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا جو وسیع تر جغرافیائی خطے میں آباد ہے۔۳۵؎ اگر مسلمان وفاقی یا نیم وفاقی طرزِ حکومت کی صورت میں ’’متحدہ ہندوستان‘‘ کو قبول کرلیں تو یہ اُن کے لیے معاشرتی، اقتصادی، تعلیمی، ثقافتی اور سیاسی طور پر تباہ۔کن ثابت ہوگا۔۳۶؎ دُرانی رقم طراز ہیں: ’’ہندوئوں اور مسلمانوں کی قوم پرستی بہت سست رفتاری سے پروان چڑھی ہے، اور یہ کب پختہ ہوئی، اس کے بارے میں کوئی تاریخ مقرر نہیں کی جاسکتی… اس کا پہلا اظہار، بالخصوص سرکاری ملازمتوں کے حصول میں، معاشی مخاصمت کی صورت میں ہوا، جو بعدازاں سیاسی مخاصمت اور بالآخر قومی مخاصمت میں تبدیل ہوگئی۔‘‘ وہ مزید لکھتے ہیں: ’’اگر جداگانہ طرزِ انتخابات نہ اپنایا جاتا، تب بھی ایک متحدہ، متجانس قوم یقینا وجو دمیں نہ آتی۔ صرف یہ ہوتا کہ مسلمانوں اور ہندوئوں کا مکمل غلبہ ہوجاتا۔ ہندو اور مسلمان دونوں اپنی اپنی جگہ اپنی جداگانہ قومیت کا شعور رکھنے لگے ہیں، اور جب تک یہ دونوں قومیں اس نئے شعور کی روشنی میں اپنے تعلقات میں ہم آہنگی پیدا نہ کریں گے، دونوں کے درمیان کسی قسم کا امن و امان نہیں ہوسکتا۔‘‘۳۷؎ ’’دوقومی نظریے‘‘ سے بالآخر دو اہم سوال پیدا ہوئے۔ اوّل یہ کہ کیا ہندوستان جغرافیائی لحاظ سے ایک ملک ہے؟ اور دوم یہ کہ کیا (برطانیہ کی آمد سے پہلے) ہندوستان میں کبھی ’’سیاسی وحدت‘‘ نام کی کوئی چیز رائج رہی ہے؟ جہاں تک پہلے سوال کا تعلق ہے، یہ دلیل دی جاتی رہی ہے کہ ہندوستان ملک نہیں ہے، برصغیر ہے اس کا رقبہ یورپ کے برابر ہے (روس کو چھوڑ کر)۔ اس کی آبادی شمالی امریکا سے تین گنا زیادہ ہے (بشمول کینیڈا، ریاست ہائے متحدہ امریکہ اور میکسیکو)۔۳۸؎ اس کی آب و ہوا، نسلیات اور ارضیات کے تنوع نے ایک جغرافیائی ملک نہیں، بلکہ متعدد ملک بنا رکھے ہیں، جہاں طرح طرح کے مختلف النسل انسانی ماحول پائے جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر شمال مغربی منطقہ قدرتی لحاظ سے ، واضح طور پر ایک الگ خطہ ہے، جس میں دریائے سندھ کا طاس اور اُس کے معاون دریا شامل ہیں جو باقی ہندوستان کے دریاؤں کی مخالف سمت میں بہتے ہیں۔ اس علاقے کا نکاسیِ آب کا نظام الگ ہے۔ اس کی آب و ہوا مختلف ہے۔ اس کی فصلیں اور پیداوار الگ ہیں، حتیٰ کہ یہاں کے لوگ اپنے جسمانی خدوخال، رنگ، رہن سہن، لباس اور خوراک وغیرہ کے لحاظ سے ہندوستان کے دوسرے علاقے کے لوگوں سے مختلف ہیں۔۳۹؎ اسی طرح مشرقی منطقہ جس میں برہم پُتر اور زیریں گنگا کا ڈیلٹا شامل ہیں، دوسرے علاقوں سے بالکل مختلف ہے۔ بالائی گنگاکا ڈیلٹا اور دکن دو ایسے منطقے ہیں جو ہر لحاظ سے ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔۴۰؎ قرار دیا گیا کہ یہ چار منطقے چار مختلف ریاستوں کی تخلیق کے لیے قدرتی بنیاد فراہم کرتے ہیں۔۴۱؎ جہاں تک سیاسی وحدت سے متعلق دوسرے سوال کا تعلق ہے، دلیل یہ دی گئی کہ برطانیہ کی آمد سے پہلے، اگر ہندوستان میں سیاسی وحدت نام کی کوئی چیز حاصل کی گئی تو یہ فقط بالاتر فوجی طاقت کے بل پر نافذ کی گئی، بجائے اس کے کہ لوگوں نے آپس میں اتحاد پیدا کرنے کی کوشش کی ہو۔۴۲؎ امبیدکر کے نزدیک پرانوں کے مصنّفین نے ہندوستان کو نو ریاستوں میں تقسیم کررکھا تھا۔۴۳؎ ہندوئوں کی تمام قدیم روایات (مہابھارت اور رامائن کے مطابق) سے ظاہر ہے کہ ہندوستان بے شمار چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں بٹا ہوا تھا جو ایک دوسرے سے جنگ کرتی رہتی تھیں۔۴۴؎ سکندر کے حملے کے وقت ہندوستان بے شمار چھوٹی چھوٹی مملکتوں میں منقسم تھا۔ آر ای رابرٹس نے لکھا ہے: ’’ہندوستان میں ہندوئوں نے کوئی دیرپا شاہی مملکت کبھی قائم نہیں کی، اگرچہ تین موقعوں پر اس کا امکان پیدا ہوگیا تھا۔ اشوک کی مختصر المیعاد سلطنت، بعض مورخین کے نزدیک کوہ ہندوکش سے لے کر میسور کی شمالی سرحد تک پھیلی ہوئی تھی۔ پھر ۴۰۰ء میں پاٹلی پتر کے سمدرگپت کی سلطنت، اور دو سو سال کے بعد قنوج کے راجہ ہرش کی سلطنت شمالی ہند کے بیشتر علاقے پر حاوی تھی، لیکن اُن دونوں میں سے کسی نے بھی دیرپا خاندانی حکمرانی قائم نہیں کی۔۴۵؎ چینی سیاح ہوان سوانگ ، جس نے ساتویں صدی عیسوی میں ہندوستان کا دورہ کیا تھا، اپنے سفرنامے میں لکھا ہے کہ ہندوستان پانچ ڈویژنوں یا پانچ چھوٹے ہندوستانوں میں منقسم تھا۔ ان پانچ ڈویژنوں میں الگ الگ اسی بادشاہتیں قائم تھیں۔‘‘۴۶؎ جب آٹھویں صدی عیسوی میں مسلمانوں نے ہندوستان پر حملہ کیا، تو ہندوستان پھر تقسیم ہوا۔ عربوں نے سندھ کو باقی ہندوستان سے الگ کرلیا۔ سلطان محمود غزنوی نے شمال مغربی خطے کو اپنی سلطنت میں شامل کرلیا اور اپنے دارالسلطنت غزنہ سے اس علاقے پر حکمرانی کی۔ جب شہاب الدین غوری نے ہندوستان پر حملہ کیا تو برِصغیر متعدد آزاد و خودمختار ریاستوں میں بٹا ہوا تھا۔ بیرونی حملے کا خطرہ ہندوئوں کے ہاں کبھی ایک مستقل اتحاد کی قوت نہ بن سکا۔ غوری کے وائسرائے قطب الدین ایبک نے، جو بعدازاں ہندوستان کا پہلا سلطان بنا، لاہور کو اپنا دارالسلطنت بنایا، لیکن جب سلطنت میں وسعت پیدا ہوئی تو اُس نے دہلی کو اپنا دارالسلطنت بنالیا۔ سلاطینِ دہلی کے عہدِ حکومت میں، جب کبھی مرکز کمزور ہوا، ہندوستان کے شمالی مغربی اور مشرقی علاقوں نے مرکز سے دوردراز فاصلے پرواقع ہونے کے سبب، خودمختاری حاصل کرلی۔ جنوب (یعنی دکن) مسلم سلطنتِ دہلی کا حصہ نہیں بنا۔ دکن بے شمار آزاد یا نیم آزاد مسلم اور ہندو مملکتوں میں منقسم رہا۔ مغل ایک وسیع سلطنت قائم کرنے میں کامیاب ہوگئے جس میں انتہائے جنوب کے سوا پورا ہندوستان شامل تھا، لیکن یہ وسعت اسلحے کی طاقت سے حاصل کی گئی۔ یہ حقیقت ہے کہ مسلم حکمرانوں کے تحت ہندوستان کی وحدت اسلحے کے بل پر برقرار رکھی گئی اور ہندو رعایا نے بغاوت کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا، بشرطیکہ انھوں نے بھی اسلحے کے بل پر خود کو طاقتور محسوس کیا ہو۔ مغلوں کے زوال کے بعد مرہٹوں نے ہندوستان کو، اسلام کے برعکس، کنفڈریسی کی صورت میں، متحد کرنے کی کوشش کی، لیکن انھیں اس لیے کامیابی حاصل نہ ہوسکی کہ کنفڈریسی کی ہر ریاست دوسری ریاستوں سے الگ تھلگ رہ کر، آزادانہ حکومت کرنے کو ترجیح دیتی تھی، اُس مرحلے پر اگر انگریز میدان میں داخل نہ ہوتے تو ہندوستان کی نام نہاد وحدت ایک مقدس اُمید سے زیادہ کچھ نہ رہتی اور ہندوستان متعدد آزاد مملکتوں میں بٹا رہتا۔ کہا جاتا ہے کہ شمالی مغربی خطہ پوری تاریخ کے دوران اپنی جداگانہ اور منفرد حیثیت برقرار رکھتا رہا ہے، سوائے اُس مختصر سی مدت کے، جب یہ سمدرگپت کی سلطنت کا حصہ بن گیا تھا، اس خطے پر ہمیشہ اس کے اپنے بادشاہوں کی حکمرانی کا سکہ چلتا رہا۔ مسلمانوں (سلاطین دہلی) کے عہد میں یہ خطہ جمنا کے پار باقی پورے انڈیا سے مابہ الامتیاز حیثیت رکھتا تھا، جسے اُس وقت ’’ہندوستان‘‘ کہا جاتا تھا۔ انگریزوں کے قبضے سے پہلے اس علاقے نے اپنا امتیاز اور جداگانہ تشخص پہلے افغانوں کے تحت، پھر سکھوں کے تحت حاصل کرلیا تھا۔ گلکرائسٹ کے نزدیک قوم فی الحقیقت ’’ایک علاقائی ریاست جمع قومیت ہے۔‘‘ اُس نے دلیل یہ دی ہے کہ ہر قومیت یا تو علاقائی ریاست رہی ہے یا سابقہ علاقائی ریاست کی دعوے دار ہوتی ہے یا اپنے لیے نئی ریاست کی تخلیق کرتی ہے۔۴۷؎ مسلمانوں نے باصرار کہا کہ وہ ایک قوم ہیں، پس اس کا مطلب خود بخود یہ ہوا کہ ایک خودمختار قومی ریاست (یا ریاستوں) کی تخلیق ہو جو اُن کے لیے ایک جداگانہ وطن کی حیثیت رکھتی ہو۔ جناح نے سلطنتِ مغلیہ کے زوال کے بعد، سب سے بڑے منصوبے کی تکمیل پر مسلمانانِ ہند کو تلقین کرتے ہوئے، اعلان کیا تھا: ’’ہم ایک قوم ہیں اور قوم کو رہنے بسنے کے لیے ایک علاقہ چاہیے… قوم ہوا میں نہیں رہتی۔ قوم زمین پر رہتی ہے، اور قوم اپنی زمین پر حکومت کرتی ہے۔ پس قوم کو اپنی علاقائی ریاست چاہیے۔‘‘۴۸؎ ’’قرارداد لاہور‘‘ (۱۹۴۰ئ) پر اُس کے ابہام کی وجہ سے نکتہ چینی کی گئی۔۴۹؎ وہ خطے جو نئی مسلم ریاستوں پر مشتمل ہوں گے، اُن کی پوری صراحت نہیں کی گئی تھی۔ مسلمانوں کے لیے جن چیزوں کا مطالبہ کیا گیا تھا، وہ تھیں: جداگانہ وطن، خودمختار قومی ریاستیں اور فیڈریشن، یہ تینوں مختلف النوع باتیں ایک ہی قرارداد میں شامل تھیں۔ یہ بات بھی واضح نہیں تھی کہ ’’قرارداد‘‘ کے ذریعے ہندوستان کے شمال مغربی اور مشرقی خطوں میں دو خودمختار مسلم ریاستوں کی تشکیل کا مطالبہ کیا گیا ہے یا مسلم ریاستوں کی فیڈریشن یا کنفڈریشن کا۔ نیز ’’قومی وطن‘‘ اور ’’قومی ریاست‘‘ میں جو باریک سا فرق ہے، اُسے بھی نہیں چھوا گیا۔۵۰؎ بہرحال قرارداد میں ہندوستان کی تقسیم کا اُصول قائم کردیا گیا تھا۔ جناح نے تقسیم کی وضاحت کرتے ہوئے صاف صاف اعلان کردیا تھا کہ تقسیم اُس وقت کے چھ مسلم اکثریتی صوبوں کی سرحدوں (شمال مغربی سرحدی صوبہ، پنجاب، سندھ، بلوچستان شمالی مغربی ہندوستان میں اور بنگال اور آسام مشرقی ہندوستان میں) میں مناسب علاقائی ردّوبدل کے ساتھ ہونی چاہیے۔ یہ چھ صوبے خودمختار یونٹوں کی حیثیت سے اپنی دستور ساز اسمبلی خود منتخب کریں گے جو مقتدر وفاقی ریاست کی نمایندہ و ترجمان ہوگی۔۵۱؎ کیا باقی ہندوستان شمال مغربی اور مشرقی صوبوں کی علیحدگی کا مطالبہ کوئی انوکھی یا اچنبھے کی بات تھی؟ امبید کرنے اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ شمال مغربی سرحدی صوبے، پنجاب اور سندھ کا انضمام ایک پرانا منصوبہ ہے جس کی سفارش ہندوستان کے مختلف وائسرائے اور نظمائے کار کرتے رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ صوبہ سرحد اور پنجاب تو ۱۹۰۱ء تک ایک ہی صوبہ تھے۔ امبیدکر کا کہنا ہے کہ اگر سندھ پر انگریزوں کا قبضہ پنجاب سے پہلے ہوجاتا اور بعد میں نہ ہوتا تو سندھ کو بمبئی کے ساتھ ملحق کرنے کی بجائے اُس کا الحاق پنجاب کے ساتھ کیا جاتا، اس لیے کہ دونوں صوبے متصل تھے اور ایک ہی بڑے دریا اور اُس کے معاون دریاؤں سے مربوط تھے۔ جہاں تک مشرقی صوبوں (بنگال اور آسام) کا تعلق ہے، امبیدکر نے لکھا ہے کہ لارڈ کرزن نے دونوں کا انضمام ۱۹۰۵ء میں کردیا تھا اور نئے صوبے کا دارالحکومت ڈھاکہ بنایا گیا تھا۔ اگر تقسیمِ بنگال (اسے یہی نام دیا گیا تھا) برقرار رہتی اور ہندوؤں کی شدید مخالفت کے باعث ۱۹۱۱ء میں منسوخ نہ کی جاتی تو مشرقی خطے میں یہ مسلم ریاست ۳۵ برس پرانی ہوچکی ہوتی، بجائے اس کے کہ ۱۹۴۰ء میں ایک نئے منصوبے کے طور پر اس کے قیام کا مطالبہ کیا جاتا۔۵۲؎ بہرکیف مسلم اکثریتی صوبوں کی علیحدگی کا سوال صرف اُس وقت اُٹھا جب یہ بات بالکل واضح ہوگئی کہ ہندوئوں سے کسی قسم کے بے تعصب انصاف کی اُمید نہیں رکھی جاسکتی۔ مسلم لیگ کی قرارداد لاہور (۱۹۴۰ئ) سے پہلے بھی تقسیمِ ہند یا صوبوں کی تقسیمِ نو کی کئی تجاویز پیش ہوچکی تھیں۔ ان میں سے بعض تجاویز مسلم لیگ کی مجلسِ عاملہ کے زیرِ غور آئی تھیں، لیکن مجلسِ عاملہ نے کسی مخصوص تجویز پر عمل نہیں کیا۔ مثال کے طور پر ’’قرارداد لاہور‘‘ میں لفظ ’’پاکستان‘‘ موجود نہیں تھا(جو چودھری رحمت علی اور اُس کے رفقا نے کیمبرج میں ۱۹۳۲ء میں وضع کیا تھا)، بلکہ ہندو اخبارات نے قرارداد پر نکتہ چینی کرتے وقت طنز کے طور پر استعمال کیا تھا۔ اس لفظ ’’پاکستان‘‘ نے مسلم عوام کے ذہن پر جادو کا سا اثر کیا، اور بعد میں مسلم صوبوں کے مجوزہ وفاق کے نام کی حیثیت سے مسلم لیگ نے سرکاری طور پر قبول کرلیا، (بمطابق قرارداد دہلی، ۹؍اپریل۱۹۴۶ئ)۔۵۳؎ اقبال اُس وقت زندہ ہوتے تو ’’قرارداد لاہور‘‘ کی منظوری کی خبر سن کر بہت خوش ہوتے۔ جناح کے سیکرٹری مطلوب الحسن سیّد نے لکھا ہے کہ قرارداد کی منظوری کے بعد جناح فاتحہ خوانی کے لیے اقبال کے مزار پر تشریف لے گئے اور مطلوب سے کہا: ’’اقبال آج ہمارے درمیان نہیں ہیں۔ وہ زندہ ہوتے تو یہ دیکھ کر خوش ہوتے کہ ہم نے وہ کچھ کردکھایا جس کی وہ ہم سے توقع رکھتے تھے۔‘‘۵۴؎ تاہم مسلم لیگ کے تقسیمِ ہند کے مطالبے سے کانگرسی حلقوں میں ہلچل مچ گئی اور انھوں نے سخت متشدانہ ردِ عمل کا مظاہرہ کیا۔ مہاتما گاندھی نے اسے ’’ہندوستان کی چیرپھاڑ کہا۔‘‘ سی راج گوپال اچاریہ نے اسے ’’بچے کو دوٹکڑوں میں کاٹنا‘‘ یا ’’گئوماتا کو دو ٹکڑوں میں کاٹنا‘‘ قرار دیا۔۵۵؎ ہندو اخبارات نے پروپیگنڈا شروع کردیا کہ آزاد مسلم ریاست ایک کٹر ملائی یا مذہبی ریاست ہوگی۔ جو غیر مسلم اقلیتوں کو نیست و نابود کردے گی۔ پڑوسی مسلم ممالک سے معاہدے کرے گی یا پان اسلامی تحریک کا احیا کرکے ہندو انڈیا کے لیے ایک مستقل خطرہ بن جائے گی۔ یہ بھی کہا گیا کہ نئی مسلم ریاست برطانوی سامراج کی آلۂ کار ہوگی اور یوں ہندوستان کی آزادی کے پاؤں میں ایک طرح سے بیڑیاں بن جائے گی۔ اعلان کیا گیا کہ تقسیم کا منصوبہ ناقابلِ عمل ہے، کیونکہ اس طرح ہندو انڈیا میں مسلم اقلیتیں معلق ہوکر رہ جائیں گی۔ مجوزہ مسلم ریاست معاشی طور پر خودکفیل نہ ہوگی اور یوں مسلمانانِ ہند کے لیے مہلک ثابت ہوگی۔۵۶؎ قرارداد لاہور پر زبردست نکتہ چینی اور مکمل استرداد سے اثر لیے بغیر، مسلم لیگ نے آگے بڑھ کر یہ مطالبہ کردیا کہ حکومتِ برطانیہ کو اس امر کی اجازت دینی چاہیے کہ کوئی آئین (عبوری یا حتمی) مسلمانوں کی منظوری کے بغیر اختیار نہیں کیا جائے اور اگر جنگ کی وجوہ سے وائسرائے کی ایگزیکٹو کونسل میں توسیع کی جائے، اور اس کے لیے کانگرس تعاون کا فیصلہ کرے تو مسلم لیگ بھی تعاون کرے گی، بشرطیکہ ایگزیکٹو کونسل کے مسلم ارکان کی تعداد ہندوارکان کے برابر ہو۔۵۷؎ ۱۹۳۹ء میں کانگرسی وزارتوں کے مستعفی ہونے کے بعد کانگرسی صوبوں کا نظم و نسق گورنروں کے سپرد کردیا گیا تھا، جس کا مطلب یہ تھا کہ ۱۹۳۵ء کے ایکٹ کی صوبائی اسکیم ناکام ہوچکی ہے۔ حکومتِ برطانیہ نے مرکزی وفاق کو معطل کردیا جسے ہندوستان کی بڑی بڑی سیاسی پارٹیاں پہلے ہی رسماً مسترد کرچکی تھیں، اور مرکز کا نظم و نسق نامزد ارکان کے ذریعے چلایا جارہا تھا۔ مسلم لیگ نے، جیسا کہ پہلے بھی بیان ہوچکا ہے، مرکزی وفاق کا بائیکاٹ کررکھا تھا۔ ایک مرحلے پر مسلم لیگ کا مطالبہ یہ تھا کہ مرکز میں مسلم نمایندگی ۳۳ فی صد ہو، اب ’’قرارداد لاہور‘‘ کی منظوری کے بعد مسلم لیگ نے مسلم نمایندگی میں اضافہ کرکے مرکز میں ۵۰ فی صد نمایندگی کا مطالبہ کردیا۔ بلکہ اس مطالبے کو عبوری وفاقی سکیم میں شرکت کی بنیادی شرط قراردیا۔۵۸؎ ۸؍اگست ۱۹۴۰ء کو وائسرائے نے حکومت کی نئی پالیسی کا اعلان کیا (جسے عام طور پر ’’اگست پیشکش‘‘ کہا جاتا ہے)۔ اب حکومتِ برطانیہ نے یہ موقف اختیار کیا کہ اقلیتوں کی رضامندی کے بغیر آیندہ کا آئین وضع و اختیار نہیں کیا جائے گا۔ وائسرائے نے اپنے اعلان میں یہ بھی کہا کہ جنگ کے تازہ حالات کے سبب ایگزیکٹو کونسل میں توسیع اور ایک مشاورتی ڈیفنس کونسل کا قیام ضروری ہوگیا ہے۔ وائسرائے نے تمام سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں سے تعاون کی اپیل کی۔ ظاہر ہے، کانگرس نے یہ مفروضہ قائم کررکھا تھا کہ ہندوستان میں صرف دو ’’پارٹیاں‘‘ ہیں، ایک حکومتِ برطانیہ اور دوسری نیشنل کانگرس، لہٰذا جب بھی حکومتِ برطانیہ کے یہاں سے دست برداری ہوگی تو اقتدار صرف اور صرف کانگرس کو منتقل ہوگا۔ چنانچہ اپنے مکمل سوراج کے سابقہ مطالبے پر سختی سے قائم رہتے ہوئے کانگرس نے ’’اگست پیشکش‘‘ مسترد کردی۔ مسلم لیگ نے یہ اعلان کرتے ہوئے کہ مسلمانانِ ہند کسی ایسے آئین کو قبول نہیں کریں گے جس میں مطالبۂ پاکستان کو تسلیم نہ کیا گیا ہو، ’’اگست پیشکش‘‘ کو قبول کرلیا، بشرطیکہ کانگرس اصولِ مساوات سے متفق ہو۔ جنگ کے دوران میں مسلم لیگ کا مطالبۂ پاکستان کسی قدر خاموش رہا۔ اس کی وضاحت جناح کے الفاظ میں یوں کی گئی: ’’کیا وجہ ہے کہ مسلمانوں نے پاکستان کا مطالبہ ابھی اور اسی وقت ماننے پر اصرار نہیں کیا… ہم اس موقع پر حکومتِ برطانیہ کو پریشان نہیں کرنا چاہتے تھے جو خود اپنی زندگی موت کی کشمکش اور اپنے وجود کو برقرار رکھنے کی جنگ میں مبتلا تھی۔‘‘۵۹؎ اکتوبر۱۹۴۰ء میں کانگرس کی مجلسِ عاملہ نے ’’قرارداد رام گڑھ ‘‘منظور کی، جس کے تحت مہاتما گاندھی کی سرکردگی میں سول نافرمانی کی تحریک چلانے کا فیصلہ کیا گیا۔ یہ فیصلہ ہندوستانی رہنماؤں کی رضامندی کے بغیر جنگ میں ہندوستان کی شمولیت کے خلاف کیا گیا۔ نتیجتاً تمام سرکردہ کانگرسی رہنماؤں کو گرفتار کرلیا گیا، اور پھر مارچ۱۹۴۱ء میں اُس وقت رہا کیا گیا جب سرسٹیفورڈکرپس ہندوستان آئے۔ کرپس کو برطانوی کابینہ کی جانب سے اختیار دیا گیا تھا کہ وہ ہندوستانی رہنماؤں سے مذاکرات کرکے سیاسی بحران کا کوئی حل تجویز کریں۔ وہ ایسے نازک وقت پر آئے جب ہندوستان جاپانی حملے کی زد میں تھا۔ اُن کی تجاویز کئی سطحوں پر مشتمل تھیں: (۱)برطانیہ ایک نئی انڈین یونین قائم کرنے کے لیے تیار ہے، جسے ڈومنین کا درجہ، اور برطانوی دولتِ مشترکہ سے الگ ہونے کے اختیارات حاصل ہوں گے۔ (۲)جنگ کے بعد ایک دستور ساز اسمبلی ایسے حلقۂ انتخاب سے منتخب ہوگی، جس کے ارکان تمام صوبائی قانون ساز اسمبلیوں کے ایوان ہائے زیریں پر مشتمل ہوں گے(دیسی ریاستیں اپنے نمایندے خود منتخب کریں گی) اور جن کا انتخاب متناسب نمایندگی کے اُصول پر ہوگا۔ (۳)اگر کوئی صوبہ یا صوبے (اپنی سادہ اکثریت کی بنیاد پر) نیا آئین قبول کرنے پر رضامند نہ ہوں، تو اسی طریقِ کار کے مطابق، انھیں اپنا آئین وضع کرنے کی اجازت ہوگی اور ایک وہی درجہ اور اختیارات حاصل ہوں گے جو انڈین یونین کو حاصل ہوں گے۔ (۴)ہندوستان کا دفاع برطانیہ کی عالمی جنگی کوشش کے جز کے طور پر، اُس کے کنٹرول میں رہے گا۔ کرپس کی تجاویز انتہائی احتیاط سے وضع کی گئی تھیں، جن کی رُو سے ایک طرف تو واحد انڈین یونین بنانا مقصد ٹھہرا اور دوسری طرف ہندوستان میں ایک سے زیادہ یونین بنانے یا علیحدہ ہونے والے صوبوں کے حقِ خود اختیاری کو بھی تسلیم کیا گیا۔ مہاتما گاندھی نے اس پر اپنی رائے دیتے ہوئے کہا: ’’ڈرافٹ ڈیکلریشن ایک ایسے بنک کا اگلی تاریخ کا چیک ہے جس کا عنقریب دیوالیہ نکلنے والا ہے۔‘‘۶۰؎ کانگرس نے کرپس تجاویز اس لیے مسترد کردیں کہ اُن کی رو سے صوبوں کی علیحدگی کا اُصول تسلیم کرلیا گیا تھا جو کانگرس کے وحدتِ ہند کے موقف کے خلاف تھا۔ مسلم لیگ نے بھی کرپس تجاویز مسترد کردیں، لیکن اُس کی وجوہ مختلف تھیں۔ ڈرافٹ ڈیکلریشن کو ’’بھرا پستول‘‘ قرار دیتے ہوئے جناح نے کہا کہ’’ اس ڈیکلریشن کا بنیادی مقصد ایک واحد انڈین یونین کی تشکیل ہے۔‘‘۶۱؎ چنانچہ مسلم لیگ نے قرارداد منظور کی کہ: ’’ڈیکلریشن میں اگرچہ مرادی مفہوم میں پاکستان کے قیام کو تسلیم کرلیا گیا ہے، لیکن اس کا اصل مقصد ایک واحد انڈین یونین قائم کرنا ہے، ایک سے زیادہ یونین کی تشکیل کا سوال مستقبل بعید کے کسی دور کے ممکن العمل امکان پر چھوڑ دیا گیا ہے۔‘‘ آئین ساز اسمبلی کا انتخاب واحد حلقۂ انتخاب سے (یعنی فرقہ وارانہ نمایندگی کی بجائے متناسب نمایندگی کی بنیاد پر) کرانا، اور فیصلے سادہ اکثریت کی بنیاد پر کرانا، ان باتوں کا مقصد ایک واحد یونین قائم کرنا ہے جو مسلم لیگ کے تقسیمِ ہند کے مطالبے کی ضد ہے۔۶۲؎ اگست ۱۹۴۲ء میں کانگرس نے ’’ہندوستان چھوڑ دو‘‘ کی قرارداد منظور کی، جس میں ہندوستان سے اتحادی افواج کی فوری واپسی اور برطانوی راج کے خاتمے کا مطالبہ کیا گیا۔ مہاتما گاندھی کی سرکردگی میں ایک عوامی، احتجاجی سول نافرمانی کی تحریک کا آغاز ہوا۔ ردِ عمل کے طور پر برٹش راج نے کانگرس کو غیر قانونی جماعت قراردے دیا۔ مجلسِ عاملہ کے ارکان کو بہ مشمول گاندھی قید کردیا گیا جہاں وہ اگست۱۹۴۲ء سے جون ۱۹۴۵ء تک جیل میں رہے۔ گاندھی کو بُری صحت کی وجہ سے مئی ۱۹۴۴ء میں رہا کردیا گیا۔‘‘۶۳؎ جناح نے اعلان کیا کہ ’’ہندوستان چھوڑ دو کی قرارداد کا مقصد ہندوستان میں دوسری تمام قوموں، بالخصوص مسلمانوں کے مفادات کو قربان کرتے ہوئے انگریزوں کو مجبور کرکے ایک ایسا نظامِ حکومت منوانا تھا جس کے تحت ہندو راج قائم ہو۔ انھوں نے مسلمانوں کو تلقین کی کہ وہ کانگرس کی سول نافرمانی کی تحریک میں شامل ہونے سے اجتناب کریں۔۶۴؎ سیاسی منظر سے کانگرس کی عدم موجودگی کے سبب مسلم لیگ کی پوزیشن کو تقویت پہنچی۔ ہندو اکثریتی صوبوں میں تو مسلم لیگ پہلے ہی خاصی مضبوط تھی، لیکن ۱۹۴۲ء تک یہ مسلم اکثریتی صوبوں میں بہت مضبوط ہوگئی۔ جون ۱۹۴۳ء میں لارڈ ویول ہندوستان کے وائسرائے بن کر آئے۔ مئی۱۹۴۴ء سے، جب سے گاندھی جی قید خانے سے رہا ہوکر آئے تھے، ہندو مسلم تنازع حل کرانے کے لیے گاندھی جناح کو مذاکرات کی میز پر لانے کی کئی کوششیں کی گئیں۔ آخری کوشش سی رام گوپال اچاریہ نے کی۔۶۰؎ گاندھی جناح مذاکرات ستمبر۱۹۴۴ء میں شروع ہوئے۔ گاندھی ہندوستان کی علاقائی تقسیم پر غور کرنے کے لیے آمادہ ہوگئے، لیکن صرف سی رام گوپال اچاریہ کے فارمولے کے تحت، جو یہ تھا: ا- مسلم لیگ کو کانگرس کے آزادیِ ہند کے مطالبے کی توثیق و حمایت کرنی چاہیے (بالفاظ دیگر مسلم لیگ کو ’’ہندوستان چھوڑ دو‘‘ کی کانگرسی قرارداد اختیار کرلینی چاہیے، جسے اُس نے مسترد کررکھا تھا)۔ ب- مشترکہ مفادات کے امور، مثلاً دفاع، امورِ خارجہ، تجارت اور مواصلات وغیرہ کا چارج سنبھالنے کے لیے ایک عبوری وحدانی مرکزی حکومت قائم کی جائے (جس کا سیدھا) مطلب یہ تھا کہ ایسی مرکزی وحدانی حکومت قائم ہوجائے جس میں ہندوئوں کو غالب اکثریت حاصل ہوگی)۔ ج- جنگِ عظیم کے خاتمے کے بعد مرکزی وحدانی حکومت مسلم اکثریتی صوبوں کے متصل اضلاع کی حد بندی کے لیے ایک کمیشن مقرر کرے۔ یہ کمیشن حد بندی کیے جانے والے اضلاع میں بالغ رائے دہندگی کی بنیاد پر لوگوں کا استصواب رائے کرائے، جس کی اساس پر بالآخر طے ہو کہ کون کون سے علاقے مرکز سے علیحدہ ہونے کے حق میں ہیں۔ د- ان شرائط کا اطلاق صرف اس صورت میں ہوگا کہ برطانیہ پورا اقتدار اور تمام ذمہ داری مجوزہ مرکزی وحدانی حکومت کو منتقل کرنے کے لیے آمادہ ہوجائے۔ جناح کا کہنا یہ تھا کہ اگر تقسیم کا اُصول تسلیم کرلیا جائے تو اس کا منطقی نتیجہ یہ نکلے گا کہ ہندوستان اور پاکستان دونوں کو اپنی اپنی دستور ساز اسمبلی کا الگ الگ انتخاب کرنا ہوگا۔ جناح یہ بات تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں تھے کہ کمیشن مقرر کرنے کا اختیار مرکزی وحدانی حکومت کو حاصل ہو، اور نہ وہ پاکستان کو ’’متصل اضلاع کا بنڈل‘‘ خیال کرتے تھے جو انھیں تحفے میں دیا جائے۔ اُن کا اصرار تھا کہ مسلمان جس چیز کا مطالبہ کررہے ہیں وہ خود ارادیت کا حق ہے اور وہ بھی محض ’’علاقائی یونٹ‘‘ کے طور پر نہیں، بلکہ بحیثیت ایک قوم جس کا مطلب یہ تھا کہ غیرمسلموں کو مسلم اکثریتی صوبوں کے مستقبل طے کرنے کے معاملے میں شریک ہونے کا کوئی حق نہیں پہنچتا۔ بہرصورت گاندھی جناح مذاکرات کی ناکامی کا بڑا سبب گاندھی جی کا یہ اصرار تھا کہ پہلے انگریز ہندوستان چھوڑ دیں، اُس کے بعد ہی تقسیم کے مسئلے پر بات ہوسکتی ہے، جب کہ اس کے برعکس جناح کا موقف یہ تھا کہ پہلے تقسیم کا اُصول اور طریقِ کار طے ہو، تب انگریز یہاں سے رخصت ہوں۔۶۶؎ جب ۱۹۴۵ء میں جرمنی کو جنگ میں شکست ہوئی تو وائسرائے کے مشورے پر کانگرس کے مجلسِ عاملہ کے ارکان کو رہا کردیا گیا۔ اُس نے اپنی ایگزیکٹو کونسل میں (وائسرائے اور کمانڈر انچیف کے عہدے چھوڑ کر) ہندوستانی ارکان شامل کرنے کے لیے شملہ میں ہندوستانی لیڈروں کی ایک کانفرنس بلائی۔ خیال یہ تھا کہ جاپان کی جنگ ختم ہونے تک ہندوستانی اراکین پر مشتمل یہ ایگزیکٹو کونسل کے مساوی تعداد میں اپنے اپنے ارکان نامزد کریں، لیکن یہ کانفرنس بھی ناکام ہوگئی، کیونکہ کانگرس مسلم لیگ کی یہ بات ماننے کے لیے تیار نہ تھی کہ کونسل کے تمام مسلم ارکان نامزد کرنے کا حق صرف مسلم لیگ کو حاصل ہو۔۶۷؎ جاپان کی شکست کے چند ماہ بعد مرکزی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات منعقد ہوئے۔ اس موقع پر جناح نے کانگرس کے بے شمار حامی مسلمانوں یا آزاد مسلم گروپوں سے اپیل کی کہ وہ مسلم لیگ میں شامل ہوجائیں۔۶۸؎ انتخابات کے نتائج سے ثابت ہوگیا کہ مسلمانوں کی غالب اکثریت مسلم لیگ کی حامی ہے۔ مرکزی اسمبلی کے لیے مسلمانوں کے لیے مخصوص تمام سیٹیں مسلم لیگ نے جیت لیں۔ صوبائی انتخابات میں کل ۴۹۵ سیٹوں میں سے ۴۴۶ سیٹیں مسلم لیگ کو حاصل ہوئیں۔۶۹؎ تاہم مسلم لیگ کو بنگال، آسام، پنجاب، صوبہ سرحد، سندھ اور بلوچستان میں اپنی پوزیشن مستحکم کرنے سے پہلے متعدد کانگرسی مسلمانوں، آزاد امیدواروں، فرقہ وارانہ یا غیرفرقہ وارانہ صوبائی سیاسی جماعتوں سے الجھنا پڑا۔ ۱۹۳۷ء میں مسلم لیگ کے ارکان کی کل تعداد۱۳۳۰ تھی۔ پنڈت جواہر لال نہرو نے اپنے ایک اخباری بیان (مجریہ جنوری۱۹۳۸ئ) میں اعتراف کیا تھا کہ کانگرس کے ۳۰لاکھ دس ہزار ارکان میں سے مسلمانوں کی تعداد صرف ایک لاکھ تھی۔ ۱۹۴۴ء میں مسلم لیگ کے ارکان کی تعداد سرکاری دعوے کے مطابق بیس لاکھ تھی۔۷۰؎ ڈبلیوسی سمتھ نے لکھا ہے: ’’اگرچہ مسلم لیگ پر رجعت پسند چھائے ہوئے تھے، لیکن موجودہ صورتِ حال یہ ہے کہ مسلمانوں کا پورا متوسط طبقہ، جس میں ترقی پسند بھی شامل ہیں، مسلم لیگ کا حامی ہے۔ اور اب مسلم لیگ مسلمانوں کے نچلے طبقوں کو بھی اپنی طرف مسحور کررہی ہے۔ اس طریقے سے اس کی قلبِ ماہیت ہورہی ہے۔ یہ جماعت مسلمانانِ ہند کی قومی تحریک کی نمایندہ بن گئی ہے۔ اور اس پر رجعت پسندوں کا غلبہ بتدریج کم ہورہا ہے۔‘‘۷۱؎ پام دت نے مسلمانوں میں مسلم لیگ کی مقبولیت کی کئی وجوہ بیان کی ہیں، مثلاً: ۱- بالعموم سیاسی شعور بڑھنے سے نئے عوام نے ہندوستان کی بڑی بڑی سیاسی جماعتوں میں شامل ہونا شروع کیا۔ ۲- مسلم قومیت کی رُوح کے ارتقا، اور اس کے نتیجے میں مسلم لیگ کی تنظیمِ نو نے مسلمانوں کے نوجوان طبقے کو اپنی طرف مائل کیا، جو رجعت پسندوں اور انگریز کے وفادار عناصر کے برخلاف جمہوریت اور جمہوری پالیسی اختیار کرنے پر اصرار کرتا تھا۔ لیگیوں کا یہ نوجوان طبقہ عام مسلمانوں کی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ نوجوان لیگیوں نے سابقہ غالب سیاسی جماعتوں کے خلاف، بالخصوص پنجاب اور بنگال میں کامیاب عوامی تحریکیں چلائیں۔ مثال کے طور پر ۱۹۴۶ء میں پنجاب میں یونینسٹ پارٹی کا خاتمہ نوجوانوں کے نئے پروگرام کی کامیابی کا ثبوت ہے۔ ۳- اُن صوبوں میں جہاں ۱۹۳۷ء کے انتخابات کے بعد کانگرسی وزارتیں قائم ہوئی تھیں، مسلم لیگ کو کچلنے کی کوشش کی گئی، جس کی وجہ سے ہندومسلم مخاصمت میں اضافہ ہوا۔ پام دت نے لکھا: ’’مسلم عوام نے کانگرس اور بالخصوص گاندھی کی دائیں بازو کی قیادت کے بہت زیادہ پروپیگنڈے میں ہندوئوں کے مذہبی جوش و خروش سے کوئی تعلق نہ رکھا، اس کے باوجود کانگرس خودکو علی الاعلان غیرفرقہ وارانہ جماعت کہتی رہتی تھی اور اس کی صفوں میں سرکردہ محبِ وطن مسلمان شامل تھے۔‘‘ پس مسلمان مذکورہ وجوہ کی بنا پر مسلم لیگ کی طرف جانے لگے اور آخری بات یہ کہ قرارداد پاکستان (۱۹۴۰ئ) جس نے مسلمانوں میں ایک نئی آرزو اور تحریک پیدا کردی تھی، اُس نے بھی مسلمانوں سے عام حمایت حاصل کی۔‘‘۷۲؎ مارچ ۱۹۴۶ء میں وزارتی مشن کا وفد ہندوستان آیا جو تین ارکان لارڈپیتھک لارنس، سرسیٹفورڈ کرپس اور اے وی الیگزنڈر پر مشتمل تھا۔ اس وفد کا مقصد ایک نمایندہ دستور ساز اسمبلی اور ایگزیکٹو کونسل کی تشکیل میں ہندوستانی رہنماؤں کو مدددینا تھا۔ اپریل ۱۹۴۶ء میں مسلم لیگی قانون سازوں کا کنونشن دہلی میں طلب کیا گیا، جس میں اتفاق رائے سے مطالبۂ پاکستان کی توثیق کی گئی۔ وزارتی مشن کو جب کانگرس اور مسلم لیگ کے درمیان مفاہمت پیدا کرنے میں کامیابی حاصل نہ ہوئی، تو اُس نے ۱۶مئی کو اپنی تجاویز کا اعلان کردیا، جو یہ تھیں: ا- ایک واحد انڈین یونین (بشمول برطانوی ہند و دیسی ریاستیں) کی دستور ساز اسمبلی کی تشکیل کے لیے صوبائی اسمبلیوں کے ارکان پر دس لاکھ آبادی کے ایک نمایندے کے تناسب سے ارکان منتخب کریں گی۔ ب- امورِ خارجہ، دفاع اور مواصلات کے محکمے انڈین یونین کے سپرد ہونے چاہییں۔ ج- دستور ساز اسمبلی کے صوبائی نمایندگان نیا دستور وضع کرنے کے بعد تین گروپوں میں جمع ہوکر اجلاس کریں گے: گروپ اے (مشتمل برمدراس، بمبئی، یوپی، بہار اور اڑیسہ اور سی پی)، گروپ بی (پنجاب، صوبہ سرحد اور سندھ) اور گروپ سی (بنگال اور آسام)، اور طے کریں گے کہ کیا وہ کچھ صوبائی امور ایک واحد گروپ میں مشترک رکھنا چاہیں گے۔ د- یونین اور نیز گروپوں کے دستور میں کسی صوبے کے (یونین سے) علیحدہ ہونے کا حق شامل ہونا چاہیے، بشرطیکہ صوبہ علیحدہ ہونا چاہے، مگر ابتدائی دس سال کے بعد ھ- عبوری مدت کے لیے ایک عبوری ایگزیکٹو کونسل کا مشورہ دیا گیا۔ مسلم لیگ نے وزارتی مشن کا یہ منصوبہ تسلیم کرلیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جناح نے اس مرحلے پر یہ منصوبہ کیوں تسلیم کیا جب کہ قرارداد لاہور کے تحت مسلم لیگ نے پاکستان قائم کرنے کا عہد کررکھا تھا؟ کیا جناح نے پاکستان کا مطالبہ محض سیاسی سودا بازی کے لیے کیا تھا؟ حقیقی صورتِ حال یہ ہے کہ مسلم لیگ کونسل نے کوئی فیصلہ کرنے سے پہلے متواتر کئی دن تک اس معاملے پر غور و خوض کیا۔ اس منصوبے کے تحت فرقہ وارانہ بنیاد پر صوبوں کی گروپ بندی، اور امورِ خارجہ، دفاع اور مواصلات کو یونین کے ذمے چھوڑ کر، ابتدائی دس سال کے لیے تین دستور ساز مجالس قائم کردی گئی تھیں، گویا بلاواسطہ پاکستان کا مطالبہ تسلیم کرلیا گیا تھا۔ پورا کاپورا پنجاب گروپ بی میں اور پورا کا پورا بنگال اور آسام گروپ سی میں شامل کرکے، گویا مسلم لیگ کے مطالبے سے زیادہ کا علاقہ دیا جارہا تھا۔ یوں تبادلۂ آبادی کی بھی ضرورت نہ رہتی تھی۔ اور آخری قابلِ ذکر بات یہ کہ ہندو اکثریتی صوبوں میں مسلمانوں کی اور مسلم اکثریتی صوبوں میں ہندوئوں کے باہمی تحفظ کا بھی بندوبست ہوگیا تھا۔ اُس مرحلے پر یہ منصوبہ مسلم لیگ کو جو زیادہ سے زیادہ دے سکتا تھا، وہ اُسے دے دیا گیا۔ چنانچہ جناح نے لیگ کی ایگزیکٹو کونسل کو یہ منصوبہ قبول کرنے کا مشورہ دیا اور کونسل کے ارکان نے اتفاقِ رائے سے اس کے حق میں ووٹ دیا۔ کونسل نے لارڈویول کے فارمولے ۵:۵:۲ کی بنیاد پر عبوری حکومت میں شامل ہونے کا بھی فیصلہ۷۳؎ (یعنی پانچ کانگرس کے نمایندے، پانچ مسلم لیگ کے اور دو دوسری اقلیتوں کے، جو بعدازاں تین کردیے گئے)۔ کانگرس کے لیڈروں نے پہلے تو یہ منصوبہ قبول کرلیا، لیکن بعدازاں طویل مدتی امکانات، بالخصوص منصوبے کے دستور سازی کے معاملے پر، اپنے انداز میں، اپنے مفاد میں رائے زنی کرنے لگے۔ کانگرس کی بدلی ہوئی رائے یہ تھی کہ گروپ بندی نہیں ہونی چاہیے۔۷۴؎ اگر ہو تو گروپ بی اور گروپ سی (مسلم اکثریتی صوبوں) کو شروع ہی میں فیصلے کا اختیار ہونا چاہیے، نہ کہ، جیسا کہ منصوبے میں کہا گیا ہے، گروپ اے کا دستور اور صوبائی دستور بننے، اور نئے صوبائی منشور کے مطابق الیکشن ہونے کے بعد۔ کانگرس کی تشریح کے مطابق دستور ساز اسمبلی کو مقتدر ادارہ ہونا چاہیے۔ پنڈت جواہر لال نے ’’امورِ خارجہ‘‘ کی تشریح کرتے ہوئے کہا، اس میں تعلقاتِ خارجہ کے علاوہ، بیرونی تجارت ، کسٹم اور کرنسی کو بھی شامل رکھنا چاہیے۔ ان باتوں پر رائے زنی اور تشریحات کے بعد کانگرس نے بالآخر عبوری پلان مسترد کردیا۔ یعنی ۵:۵:۳ کے فارمولے کی بنیاد پر وائسرائے کی ایگزیکٹو کونسل کی تشکیل۔ وائسرائے پہلے اعلان کرچکا تھا کہ اگر کسی ایک بھی جماعت نے تعاون کا اظہار کیا تو عبوری حکومت بہرصورت قائم کی جائے گی، لیکن اُس نے مسلم لیگ کو عبوری حکومت بنانے کی دعوت دینے کی بجائے، اب کانگرس کی نامنظوری پر عبوری ایگزیکٹو کونسل کی تشکیل ملتوی کردی۔ مزیدبرآں وائسرائے نے وزارتی مشن سے مشورے کے بعد کانگرس کو خوش کرنے کے لیے فارمولے میں بھی ترمیم کرکے ۶:۵:۳ کا تناسب کردیا (یعنی کانگرس کے نمایندے چھ، مسلم لیگ کے نمایندے پانچ اور دوسری اقلیتوں کے نمایندے تین)۔ عبوری حکومت کے التوا اور طویل مدتی پلان کی کانگرس کی مشروط قبولیت نے مسلم لیگ کو مجبور کردیا کہ وہ وزارتی مشن کی تجاویز پر ازسرِ نو غور و خوض کرے۔ چنانچہ مسلم لیگ نے جولائی میں اپنی قبولیت واپس لے لی اور ایک ’’مکمل طور پر آزاد، غیر مشروط مقتدر پاکستان‘‘ کے حصول کے لیے راست اقدام کا فیصلہ کیا۔ اس فیصلے کی حمایت میں تمام ممتاز و سرکردہ مسلمانوں نے اپنے اپنے برطانوی اعزازات و خطابات واپس کردیے۔‘‘۷۵؎ اگست میں کانگرس کی مجلسِ عاملہ نے عبوری حکومت میں نئے فارمولے ۶:۵:۳ (۶کانگرسی، ۵ لیگی اور ۳ دوسری اقلیتیں) کی بنیاد پر شامل ہونے کا فیصلہ کیا۔ وائسرائے نے پنڈت جواہر لال نہرو اور اُس کے رفقا کی عبوری حکومت میں شمولیت کا اعلان کردیا۔ دریں اثنا کلکتہ، بہار، بمبئی اور مشرقی بنگال میں فرقہ وارانہ فسادات پھوٹ پڑے۔ خانہ جنگی کا خطرہ پیدا ہونے کے امکان سے وائسرائے نے جناح سے رابطہ قائم کیا، اور بالآخر اکتوبر میں مسلم لیگ کو عبوری حکومت میں شامل ہونے پر رضامند کرلیا۔ عبوری حکومت میں کانگرس اور مسلم لیگ کی شمولیت سے بھی ہندوستان کا مسئلہ حل نہ ہوا۔ کانگرس نے صوبوں کی گروپ بندی کے بارے میں وزارتی مشن کی تجاویز کو مسترد کردیا اور (مسلم لیگ کے مطالبۂ پاکستان کی تردید کرتے ہوئے) اصرار کیا کہ ۱۶مئی کے پلان کے مصنّفین کو بھی اس کی تشریح کا اختیار نہیں ہے۔ کانگرس نے کہا کہ پلان کی صحیح تشریح کے لیے فیڈرل کورٹ کے ججوں پر مشتمل ایک کمیشن بنایا جائے۔ اس مرحلے پر حالات ایسے شدید ہوگئے کہ تنازعے کے فریقین کو لندن مدعو کیا گیا، تاکہ برطانوی کابینہ اپنے منصوبے کی وضاحت کرسکے۔ چنانچہ لارڈویول، جناح، پنڈت جواہرلال نہرو، لیاقت علی خان اور سردار بلدیوسنگھ لندن گئے۔ برطانوی کابینہ نے اپنے قانونی مشیروں سے مشورے کے بعد بالآخر اعلان کردیا کہ وزارتی مشن نارضامند مسلم اکثریتی صوبوں پر کوئی آئین تھوپنے کا ارادہ نہیں رکھتی۔ فروری ۱۹۴۷ء میں برطانیہ کے وزیراعظم لارڈایٹلی نے اعلان کردیا کہ ہندوستان کو بہرصورت آزادی دے دی جائے گی ’’یا تو بہ حیثیت مجموعی برطانوی ہند کے لیے مرکزی حکومت کی صورت میں یا موجودہ صوبائی حکومتوں کے بعض علاقوں کی صورت میں یا کسی اور صورت میں جو ہندوستانی عوام کے بہترین مفادات میں اور انتہائی موزوں محسوس ہو۔‘‘۷۶؎ مارچ۱۹۴۷ء میں لارڈ ویول کی جگہ لارڈ ماؤنٹ بیٹن کو ہندوستان کا وائسرائے مقرر کیا گیا۔ ماؤنٹ بیٹن نے کانگرسی اور لیگی رہنماؤں سے یکے بعد دیگرے مذاکرات کے بعد بالآخر ۳؍جون کو اپنا منصوبہ پیش کیا جو برطانوی کابینہ نے منظور کرلیا۔ ماؤنٹ بیٹن کے منصوبے کے مطابق تقسیمِ ہند کو ایک ناگزیر امر کے طور پر تسلیم کرلیا گیا۔ برطانیہ کو اقتدار ۱۵؍اگست تک آنے والی حکومتوں کو منتقل کرنا تھا (جن کو مکمل ڈومنین درجہ حاصل ہوگا اور صریحاً برطانوی دولتِ مشترکہ سے الگ ہونے کا اختیار بھی)۔ پنجاب اور بنگال کو تقسیم کرنا تھا۔ پنجاب اور بنگال کی صوبائی اسمبلی میں مسلم اور غیرمسلم اضلاع کے نمایندوں کو الگ الگ طے کرنا تھا کہ ہندوستان کی دستور ساز اسمبلی میں شامل ہوں گے یا پاکستان کی اسمبلی میں، سندھ کو اپنی قانون ساز اسمبلی کے ذریعے، سلہٹ (آسام کے مسلم اکثریتی ضلعے) اور صوبہ سرحد کے لوگوں کو بالغ مردانہ رائے دہندگی کی بنیاد پر ریفرنڈم کے ذریعے، بلوچستان کو اپنے نمایندوں کے جرگے کے ذریعے اور دیسی ریاستوں کو اپنے قانون ساز اداروں کے ذریعے۔ تین جون کا منصوبہ کانگرس اور مسلم لیگ دونوں نے قبول کرلیا۔ ۲۰ جون کو بنگال کے مشرقی اضلاع نے پاکستان کے حق میں ووٹ دیا۔ ۲۳جون کو پنجاب کے مغربی اضلاع نے پاکستان میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا۔ ۲۹جون کو بلوچستان نے اور ۱۳جولائی کو سلہٹ نے پاکستان کے حق میں ووٹ دیا۔ سندھ نے پاکستان کے حق میں ووٹ دیا اور صوبہ سرحد نے ریفرنڈم میں بھاری اکثریت سے پاکستان میں شمولیت کا فیصلہ کیا۔۷۷؎ مغربی بنگال اور مشرقی پنجاب نے انڈین یونین کے حق میں ووٹ دیا۔ ایک باؤنڈری کمیشن (سرسیرل ریڈکلف کی سربراہی میں دو مسلمان اور دو غیرمسلم نمایندوں پر مشتمل) مشرقی اور مغربی پنجاب اور مشرقی اور مغربی بنگال کی حد بندی کرنے کے لیے قائم کیا گیا۔ لیکن ماؤنٹ بیٹن، ریڈکلف اور پنڈت جواہر لال نہرو کی سازش سے مشرقی اور مغربی بنگال کی حد بندی میں ایک غیر منطقی اور غیرمنصفانہ خط کھینچا گیا، جب کہ مسلم اکثریت کے علاقے جو پاکستان سے قدرتاً متصل تھے، ہندوستان کے ساتھ محض اس لیے ملحق کردیے گئے کہ ہندوستان کو مسلم اکثریت ریاست جموں و کشمیر میں داخلے کا راستہ مل جائے۔ اس طرح برطانوی سامراج نے جاتے جاتے ہندوستان اور پاکستان کے درمیان یہ متنازعہ علاقہ ورثے میں چھوڑا۔ جناح نے اسی پر قناعت کی اور اسے ’’لُولہ لنگڑا پاکستان‘‘ قراردیا۔ ۱۸ جولائی کو انڈین آزادی ایکٹ برطانوی پارلیمنٹ سے منظور کرایا گیا، جس کی رو سے انڈیا اور پاکستان کے دو ڈمینین ملک قائم کیے گئے اور تمام اختیارات ان نئے ملکوں کی دستور ساز اسمبلیوں کو منتقل کردیے گئے۔ دیسی ریاستوں پر برطانیہ کی بالادستی ختم ہوئی۔ اُن کو انڈیا یا پاکستان میں شمولیت کا فیصلہ کرنے کی آزادی دے دی گئی۔ دو عبوری حکومتیں قائم کی گئیں جو دو نئے ڈومنین ملکوں انڈیا اور پاکستان کے نمایندوں پر مشتمل تھیں۔ باؤنڈری کمیشن کے ایوارڈ کے بعد مسلح افواج، ریلوے اور دوسری بے شمار املاک کی تقسیم عمل میں آئی جو سابقہ یا صوبائی حکومتوں کی ملکیت تھیں۔ دریں اثنافرقہ وارانہ فسادات کی صورتِ حال پنجاب، یوپی، بہار، کلکتہ، مشرقی بنگال اور بمبئی میں انتہائی سنگین ہوگئی اور سرحد کے دونوں طرف سے مہاجرین کی نقل مکانی کا سیلاب پھوٹ پڑا۔ ۱۴؍اگست ۱۹۴۷ء یعنی رسمی انتقالِ اقتدار کی مقررہ تاریخ کو کراچی میں حکومتِ پاکستان کا افتتاح ہوا۔ مسلم لیگ کی سفارش پر جارج ششم نے جناح کو پاکستان کا گورنر جنرل مقرر کیا اور یوں پاکستان مسلمانوں کے وطن اور قومی ریاست کی حیثیت سے وجود میں آیا۔ سوال یہ ہے کہ تحریک پاکستان سابقہ مسلم سیاسی تحریکوں سے کس طرح مختلف تھی؟ جب سے مسلمانانِ ہند جدید تاریخ میں داخل ہوئے، اُنھیں چار بڑی سیاسی تحریکوں کے دھارے میں شامل ہونا پڑا: وہابی تحریک، علی گڑھ تحریک، خلافت تحریک اور تحریکِ پاکستان۔ ظاہر ہے کہ اِن تحریکوں کی وجہ تحریک میں اسلام کا مذہبی جوش و خروش شامل تھا، تاکہ مسلمانوں کا جداگانہ تشخص ظاہر و قائم رہے۔ چونکہ اسلام میں ثقافت اور مذہب کے درمیان خطِ امتیاز کھینچنا مشکل ہے، لہٰذا یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ اِن تمام سیاسی تحریکوں میں اسلام قدرِ مشترک کی حیثیت رکھتا تھا۔ عسکریت پسند وہابی تحریک نے مسلمانوں کو اپنی سلطنت کے کھوجانے کا شعوردیا۔ اس تحریک نے شاہ ولی اللہ کی تعلیمات کے زیرِ اثر مسلمانوں کے اندر یہ عزم پیدا کیا کہ اقتدار مرہٹوں یا سکھوں یا انگریزوں کے غیر مسلم ہاتھوں میں مرتکز نہ ہونے پائے۔ وہابیوں نے واشگاف لفظوں میں اعلان کردیا تھا کہ ہندوستان اب ’’دارالاسلام‘‘ نہیں رہا، بلکہ ’’دارالحرب‘‘ بن چکا ہے۔ شریعت کے تحت مسلمانوں کے پاس فقط دو راستے ہیں: یا تو وہ اپنا کھویا ہوا اقتدار حاصل کرنے کے لیے ’’جہاد‘‘ کریں یا ہندوستان سے کسی مسلم ملک کی طرف ’’ہجرت‘‘ کرجائیں۔ اُنھوں نے شمال مغربی سرحدی علاقے میں ایک ’’اسلامی ریاست‘‘ قائم کرنے کی بھی کوشش کی۔ وہابی تحریک کے قائدین روایتی دینیات کے تو عالم فاضل تھے، لیکن وہ یورپ میں ہونے والے انسانی علوم کی ترقیوں سے، بالخصوص اسلحہ سازی کے باب میں، بالکل ناواقف تھے۔ جدید اسلحہ سازی کے شعبے میں انتہائی مسلح اور تربیت یافتہ انگریزی فوج کے ساتھ اُن کا کوئی مقابلہ نہ تھا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ تحریک مکمل طور پر ناکام رہی اور مسلم انڈیا کی ترقی ایک سو سال پیچھے چلی گئی۔ علی گڑھ تحریک کی قیادت جنوبی ایشیا کے پہلے جدید مسلم، سرسیّد احمد خان نے کی۔ اس تحریک نے تعلیم کے میدان میں جدیدیت پر زور دیا اور مسلمانوں میں ثقافتی احیا کا ماحول پیدا کرنے میں کامیاب رہی۔ اس نے مسلم قومیت کی بنیاد ڈالی اور مسلم علیحدگی کے لیے راستہ ہموار کیا، لیکن یہ اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کی خاطر انگریزوں کی وفادار تھی۔ تحریکِ خلافت پان اسلامی نصب العین کے لیے مسلم انڈیا کے گہرے لگاؤ کی ترجمان تھی، لیکن علی گڑھ تحریک کی سیاسی روایت پسندی اور انگریزوں سے وفاداری کے خلاف اپنے احتجاجی ردِعمل میں عقلی حدود سے تجاوز کرگئی اور انگریزوں کے خلاف، یہ طے کرائے بغیر کہ متحدہ ہندوستان میں مسلمانوں کی سیاسی حیثیت کیا ہوگی، ہندوؤں کے ساتھ مل گئی۔ خلافتی علما نے مسلمانوں کو ہجرت کا حکم دیا جس سے شمال مغربی ہندوستان کے مسلمانوں کو بڑی تعداد میں جان کا نذرانہ پیش کرنا پڑا اور زبردست اقتصادی تباہی کا سامنا کرنا پڑا۔ اس اعتبارسے مسلمانوں کی یہ تحریک بھی ناکام رہی۔ تحریکِ پاکستان سابقہ تحریکوں سے اس لحاظ سے مختلف تھی کہ اس کے سامنے ایک معین اور ٹھوس مقصد تھا۔ اس تحریک نے جہاد یا ہجرت کی ترغیب دینے کی بجائے، مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ وطن اور ایک مسلم قومی ریاست وجود میں لانے کی خاطر جدوجہد کی یا عام الفاظ میں برصغیر ہندوستان میں دارالاسلام تخلیق کرنے کی کوشش کی۔ اس کا نصب العین مبہم نہیں تھا اور نہ اس کی بنیاد مبہم مذہبی رومانیت پر تھی۔ اس تحریک کے سامنے ایک واضح نصب العین تھا جو عسکری کارروائی ،تشدد یا احتجاجی سیاست کے ذریعے حاصل نہ ہوسکتا تھا، بلکہ، صرف جمہوری طرزِ عمل سے یا عقلی منصوبہ بندی کے ذریعے۔ یعنی اُن علاقوں کے مسلمانوں کے حقِ خودارادیت کے لیے تگ و دو کرنا جہاں وہ اکثریت میں تھے۔ سابقہ تحریکوں سے تحریکِ پاکستان کا ایک اور فرق قیادت کے معیار کا بھی تھا۔ سابقہ تحریکوں کی قیادت کئی لحاظ سے مختلف تھی۔ علی گڑھ تحریک کے قائدین نے غیرمسلم سیاسی جماعتوں اور انجمنوں سے تعاون اور رواداری پر زور دیا تھا۔ وہابیوں اور خلافتیوں کا زور انگریز دشمنی پر تھا۔ اُن کا سیاسی ایجنڈا وہابی یا سنی مذہبی عقائد کی تصوراتی مگر کٹر تشریح پر مبنی تھا۔ خلافتی علما کی پان اسلامیت اور ہندوستانی قومیت کی آمیزش کی کوشش قطعی غیرمنطقی، غیر عقلی اور غیرعملی تھی۔ جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کی تقدیر، ان گنت فاضل و قابل علما کی موجودگی کے ہوتے ہوئے بھی گزشتہ دو صدیوں کے دوران میں، چار نمایاں ’’غیرعلما‘‘ شخصیتوں کے ہاتھ میں رہی ہے، یعنی سرسیّد، جمال الدین افغانی، محمد اقبال اور محمد علی جناح۔ بدقسمتی سے ان چاروں کو روایتی علما نے کسی نہ کسی مرحلے پر ’’کافر‘‘ قرار دیا۔ قائداعظم محمد علی جناح اپنے عظیم پیش روؤں سے کہیں زیادہ آزاد خیال (لبرل) تھے۔ ۱۷۰۷ء (اورنگ زیب کی وفات) کے بعد سے اب تک مسلم انڈیا نے اس قابلیت اور درجے کا کوئی سیاسی لیڈر پیدا نہیں کیا تھا۔ ایک رفیع الشان نصب العین کے لیے اُن کی بے لچک لگن، اُن کی پرعزم، پراستقلال، پر اعتماد اور پر ایمان قیادت، اُن کی پرجلال یکسوئی، مقصد کے لیے اخلاص اور فرض شناسی کا جرأت مندانہ تصور، اُن کی قانونی مہارت، سیاسی رہنمائی، تنظیمی قابلیت، تجزیاتی صلاحیت، بے خطا قوتِ ادراک، ذہن اور روح کی شفافیت، یہ وہ اعلیٰ صفات ہیں جو اس سے پہلے کسی اور مسلمان رہنما میں نظرنہیں آئیں ۔ اپنے ہم عصر سیاسی رہنماؤں کے برعکس، انھوں نے ہمیشہ بہترین لباس زیب تن کیا۔ اردو کم جانتے تھے۔ صرف انگریزی بولتے تھے۔ اس پر بھی مسلم عوام جان نثاری سے اُن کی پیروی کرتے تھے۔ اُن کے ایک سوانح نگار نے لکھا ہے کہ وہ جانتے تھے وہ کیا چاہتے ہیں، اور جو چاہتے تھے، اُسے حاصل کرلینے کا طریقہ بھی جانتے تھے۔۷۸؎ صرف نصب العین ہی دلکش نہیں تھا بلکہ اس کی تحصیل کے لیے طلسماتی کشش والا قائد بھی تھا جس نے ارضِ موعود کی طرف مسلم عوام کی قیادت کی اور جس نے فتح اور شکست کے درمیان ایک بڑا فرق پیدا کردیا۔ بالآخر محمد علی جناح کی قیادت اور رہنمائی میں پاکستان مسلم قوم کی رائے دہی کے فیصلے سے قائم ہوا۔ کیا جناح کے تصور کے مطابق مسلم اکثریتی ریاست کی حیثیت سے پاکستان سیکولر ریاست ہوتا یا اسلامی ریاست؟ یہ سوال اٹھانا نہیں چاہیے، کیونکہ ہندوستان میں تمام مسلم تحریکیں، بشمول تحریکِ پاکستان، مسلمانوں کے مفادات کے تحفظ کے لیے اسلام ہی سے تحریک پاتی تھیں۔ اس کا نتیجہ یہ تھا کہ کسی بھی مسلم لیڈر کو اسلام سے انحراف کرنے اور مخالفانہ سمت میں جانے کی جرأت نہ ہوتی تھی۔ اگر جناح کا مقصد ایک ’’سیکولرریاست‘‘ ہی قائم کرنا تھا تو مسلمانوں کو ہندوستان سے جدا کرنے کا کوئی جواز نہ تھا۔ ہندو رہنما بھی ہندوستان کو ایک ’’سیکولر‘‘ ریاست بنانا چاہتے تھے، اور اُن کی تائید و حمایت کانگرس کے مسلمان ارکان بھی کررہے تھے، جن میں ہندوستان کے مشہور و معروف علما بھی شامل تھے جو ’’تحریکِ پاکستان‘‘ کے مخالف تھے۔ انھیں بھی ’’سیکولر‘‘ ہندوستان کا شہری بننا قبول تھا۔ اس امر کا ذکر کیا جاچکا ہے کہ جناح اپنی زندگی کے ’’قوم پرستی‘‘ کے مرحلے میں بھی یقین رکھتے تھے کہ آزادی صرف ہندو مسلم اتحاد کے ذریعے ہی حاصل ہوسکتی ہے۔ مسلم قوم پرستی کو اپنانے کے بعد، وہ دعویٰ کیا کرتے کہ وہ اب بھی قوم پرست (نیشنلسٹ) ہیں۔ اگرچہ اب اُن کے لیے قوم پرستی کی تعریف و تعبیر بدل گئی تھی۔ چونکہ انھوں نے صرف مسلمانوں کی آزادی کے لیے جدوجہد کی۔ انھوں نے اپنے اس تبدیل شدہ موقف کی وضاحت میں، ۱۹۳۹ء میں کہا تھا: ’’نیشنلزم اور نیشنلسٹ کے الفاظ نے اپنی تعریف وتشریح میں کئی تبدیلیاں کی ہیں۔ بعض لوگوں کی اپنی ڈکشنری ہے، لیکن اصطلاح کے ایماندارانہ مفہوم میں، میں اب بھی نیشنلسٹ ہوں۔‘‘۷۹؎ ایک اور موقع پر انھوں نے فرمایا کہ مسلمانوں کی خدمت کے فریضے کی انجام دہی میں اگر اُنھیں ’’فرقہ پرست‘‘ کہا جائے تو وہ اسے بخوشی قبول کرنے کے لیے تیار ہیں،ا ور مزید کہا: ’’میں مسلمان پیدا ہوا، میں مسلمان ہوں، اور مسلمان کی حیثیت سے مروں گا۔‘‘۸۰؎ مارچ ۱۹۴۰ء میں علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا تھا کہ ہندوؤں کے ساتھ مسلمانوں کا تعاون اسلامی احکام کے خلاف ہے۔ اس کی صراحت کرتے ہوئے انھوں نے مزید کہا تھا: ’’میں نے گزشتہ چھ مہینوں میں اپنا بیشتر وقت تاریخ اسلام اور اسلامی قانون (شریعت) کے مطالعے میں صرف کیا ہے، اور میں یہ سوچنے لگا ہوں کہ یہ (ہندو مسلم تعاون) نہ تو ممکن ہے نہ قابلِ عمل۔ تحریک عدم تعاون میں محمڈن رہنماؤں (حکیم اجمل خان اور ڈاکٹر سیف الدین کچلو) کا خلوص اور جذبہ اپنی جگہ، لیکن میرے خیال میں اُن کا مذہب اس قسم کے عمل پر پابندی عائد کرتا ہے… کیا کوئی مسلمان قرآن کو نظرانداز کرسکتا ہے؟ میں یہی کہہ سکتا ہوں کہ ممکن ہے، اسلامی قانون سے متعلق میرا مطالعہ صحیح نہ ہو۔‘‘۸۱؎ اس اعتبار سے جناح سیاست میں مذہب کو لانے پر فخر کا اظہار کرتے تھے۔۸۲؎ اُن کی پوری تعلیم و تربیت قانون اور قانون کی حکمرانی میں ہوئی تھی۔ وہ شخصی حکمرانی کے خلاف تھے۔ جمہوریت اُن کے لیے ایمان کا درجہ رکھتی تھی۔ انھوں نے پارلیمانی یا صدارتی طرزِ جمہوریت میں سے کسی ایک کو ترجیح دینے کے بارے میں اپنی واضح رائے کا اظہار نہیں کیا، تاہم اُن کا ذہن بنیادی امور کے ضمن میں بالکل صاف تھا: یہ کہ حکومت لوگوں کے بلاواسطہ منتخب ہونے والے نمایندوں کو قانوناً بنانی چاہیے۔ وفاقی یونٹوں کو، مرکز کے پاس چند ضروری اختیارات چھوڑ کر، خود مختار ہونا چاہیے، شہریوں کے بنیادی حقوق کی ضمانت ہونی چاہیے۔ اور یہ کہ عدلیہ کو آزاد ہونا چاہیے۔ اس صاف ذہن کے ساتھ جناح کو یقین تھا کہ جن اصولوں کی وہ عمر بھر پاسداری کرتے رہے ہیں، وہ اسلام کے جمہوری تصور کے خلاف نہیں ہیں۔ انھوں نے کہا تھا: ’’جمہوریت ہمارے خون میں ہے۔ ہماری رگوں میں ہے۔ صدیوں کے نامساعد حالات نے ہمارے خون کی گردش کو سردکردیا ہے۔‘‘۸۳؎ انھوں نے بہ اصرار یہ بھی کہا تھا: ’’آئیے، ہم سچے اسلامی مقاصد و اُصول کے مطابق اپنی جمہوریت کی بنیادیں قائم کردیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں سکھایا ہے کہ ریاست کے اُمور میں ہمارے فیصلے گفتگو اور مشاورت سے ہونے چاہییں۔‘‘۸۴؎ اسلام کے بارے میں اُن کا بنیادی تصور یہ تھا کہ اسلام ہمیں انسانی مساوات، عدل اور رواداری سکھاتا ہے۔ انھی ذاتی عقائد و نظریات کے تناظر میں، انھوں نے پاکستان کے آیندہ دستور کے بارے میں، ایک سوال کے جواب میں کہا تھا: ’’مجھے نہیں معلوم کہ آئین کی حتمی شکل کیا ہوگی۔ لیکن اتنا یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ یہ جمہوری طرز کا ہوگا اور اس میں اسلام کے بنیادی اُصول شامل ہوں گے۔‘‘۸۵؎ اس معاملے میں اُن کا ذہن صاف تھا کہ پاکستان کوئی مذہبی (تھیاکریسی) ریاست نہ ہوگی جہاں صرف مسلمان مکمل شہری ہوں اور غیر مسلم مکمل شہری نہ ہوں۔۸۶؎ انھوں نے ہمیشہ زور دے کر کہا: ’’اسلام ہم سے دوسرے مذاہب کی جانب رواداری اختیار کرنے کا تقاضا کرتا ہے۔ ہم اُن لوگوں کا اپنے قریب ترین حلقۂ دوستی میں خیرمقدم کرتے ہیں، خواہ اُن کا کوئی بھی مذہب ہو، جو اپنی رضامندی سے پاکستان کے سچے اور وفاداری شہری کی حیثیت سے اپنا کردار ادا کرنے کو تیار ہیں۔‘‘۸۷؎ اُن کے نقطۂ نظر سے پاکستان میں ریاست ہوگا نہ شیعہ ریاست، لیکن وہ مسلمانوں سے یہ توقع رکھتے تھے کہ وہ پاکستان کو’’اسلام کا گہوارہ‘‘ بنائیں گے اسی بنا پر انھوں نے مسلمانوں سے عہد لیا کہ وہ اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ کریں گے۔۸۹؎ جناح نے کبھی ’’پاکستان آئیڈیالوجی‘‘ (نظریۂ پاکستان) یا ’’آئیڈیالوجی آف پاکستان‘‘ کی اصطلاحیں استعمال نہیں کیں۔ البتہ انھوں نے ’’آئیڈیالوجی آف لیگ‘‘۹۰؎ کا جملہ ضرور استعمال کیا اور اس کی صراحت میں کہا کہ پاکستان کا مطلب مسلمانوں کی صرف آزادی ہی نہیں ہے، بلکہ یہ ’’مسلم آئیڈیالوجی‘‘۹۱؎ کا محافظ بھی ہوگا، کیونکہ ’’ہمارا مذہب، ہماری ثقافت اور اسلامی مقاصد حصولِ آزادی کے لیے ہماری قوتِ تحریک ہیں۔‘‘۹۲؎ جناح کے بیانات و تقاریر کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ ’’مسلم‘‘ اور ’’اسلامی‘‘ کی اصطلاحیں اُن کے نزدیک مترادف اور ہم معنی تھیں۔ جناح کی نظر میں ترقی کے مقاصد یہ تھے: مساوات، اخوت اور سب کے لیے یکساں مواقع، انھوں نے فرمایا تھا: ’’ہم نے پاکستان کا مطالبہ کیا۔ اس کے حصول کے لیے ہم نے جدوجہد کی اور ہم نے اسے حاصل کرلیا۔ اب ہم اُسے جسمانی اور روحانی طور پر اپنے معاملات، اپنی روایات اور اپنے مزاج کے مطابق چلانے میں آزاد ہیں۔ اخوت، مساوات اور بھائی چارہ، یہ سب ہمارے مذہب، ثقافت اور تہذیب کے بنیادی نکات ہیں۔ ہم نے حصول پاکستان کے لیے اسی لیے جدوجہد کی کہ اِس برصغیر میں ان بنیادی انسانی حقوق کے سلب کیے جانے کا خطرہ موجود تھا۔‘‘۹۳؎ جناح نے یہ بھی فرمایا کہ پاکستان میں مسلمان ’’اسلامی قانون‘‘ کے تحت حکمرانی کریں گے،۹۴؎ اور یہ کہ پاکستان کا آئین شریعت سے متصادم نہ ہوگا۔ انھوں نے واشگاف لفظوں میں اعلان کیا تھا: ’’یہ بے اطمینانی اور گھبراہٹ کا احساس کیوں ہے کہ پاکستان کا آیندہ دستور شرعی قوانین سے متصادم ہوگا؟… کچھ لوگ ہیں جو قصداً شرارت پیدا کرنا چاہتے ہیں اور پروپیگنڈا کررہے ہیں کہ ہم اسے (شریعت کو) الگ رکھ دیں گے۔‘‘۹۵؎ اسلام میں ریاست کے بارے میں اُن کا تصور ایک جدید، ترقی پسند اور لبرل ریاست کا تھا۔ انھوں نے ۱۸؍اکتوبر۱۹۴۰ء کو علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے طلبہ کو آنے والی نسل کی اصل ذمہ داری یہ بتائی تھی: ’’ملک میں ایک ’’ترقی پسند‘‘ قوم کی تشکیل۔‘‘۹۶؎ اُنھیں مسلم خواتین کی افسوس ناک حالتِ زار پر سخت تشویش تھی اور وہ اُن کی آزادی کے حق میں تھے۔۹۷؎ انھوں نے ۳فروری۱۹۳۸ء کو دہلی میں، اینگلو عربک کالج کے طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے اعلان کیا تھا: ’’لیگ نے اب تک جو کچھ کیا ہے، وہ یہ ہے کہ آپ کو مسلمانوں کے رجعت پسند عناصر سے آزادی دلوادی ہے اور یہ رائے عامہ پیدا کردی ہے کہ جو لوگ خود غرضی کا کھیل کھیلتے ہیں، وہ اصل میں غدار ہیں۔ لیگ نے یقینا آپ کو مولویوں اور مُلاؤں کے ناپسندیدہ عناصر سے نجات دلادی ہے۔ میں بحیثیت مجموعی تمام مولویوں کی بات نہیں کررہا۔ اُن میں سے بعض اتنے ہی محبِ وطن اور مخلص ہیں جتنے کوئی اور ہوسکتے ہیں۔ لیکن بعض مولوی حضرات بلاشبہ ناپسندیدہ ہیں۔ حکومتِ برطانیہ، کانگرس، رجعت پسندوں اور نام نہاد مولویوں کے پنجوں سے چھٹکارا دلانے کے بعد میں اپنے نوجوانوں سے اپیل کرتا ہوں کہ ہماری خواتین کو بھی آزادی دلائیں۔ یہ بہت ضروری ہے۔ میرا مطلب یہ نہیں ہے کہ اپنے معاشرے میں ہم مغرب کی خرابیوں کو رواج دیں۔ میرا مطلب یہ ہے کہ ہماری خواتین کو ہماری زندگی میں شریکِ عمل ہونا چاہیے، صرف سماجی میدان ہی میں نہیں، بلکہ سیاست کے میدان میں بھی۔‘‘۹۸؎ جناح نے جب کبھی قومی اتحاد پر زور دیا یا قومی استحکام کی ضرورت پر بات کی، اُنھوں نے اسلام کے سوا کسی اور چیز پر اپنے دلائل کی بنیاد نہیں رکھی۔۹۹؎ ’’صوبائیت‘‘ ان کے نزدیک ایک ایسا زہر تھا جسے مسلمانوں کی ہیئت اجتماعیہ سے نکال دینا چاہیے۔ اسی طرح فرقہ واریت (سنی شیعہ) ایک ایسی لعنت ہے جس سے چھٹکارا پانا ہوگا۔۱۰۰؎ انھوں نے اردو کو، جو مسلم تہذیب کی زبان ہے، پاکستان کی واحد قومی زبان کی حیثیت سے اختیار کرنے کی سفارش کی۔۱۰۱؎ یکم جولائی ۱۹۴۸ء کو سٹیٹ بنک آف پاکستان کی رسمِ افتتاح کے موقع پر انھوں نے مغرب کے معاشی نظریہ و عمل کو ردّ کرنے کے بعد فرمایا تھا: ’’ہمیں اپنی تقدیر بنانے کے لیے اپنے طریقے سے محنت کرنی چاہیے، اور دنیا کے سامنے ایک ایسا اقتصادی نظام پیش کرنا چاہیے جو انسانی مساوات اور معاشرتی انصاف کے سچے اسلامی تصورات پر مبنی ہو۔‘‘۱۰۲؎ جناح کے عوامی خطبات و بیانات کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہ نتیجہ اخذ کرنا پڑتا ہے کہ وہ اسلام میں ریاست کا ایک واضح تصور رکھتے تھے، یہ دوسری بات ہے کہ انھوں نے ’’اسلامی ریاست‘‘ کی اصطلاح استعمال نہیں کی۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اُنھوں نے پاکستان کے رسمی قیام سے صرف چاردن پہلے ۱۱؍اگست۱۹۴۷ء کو دستور ساز اسمبلی کے خطبۂ صدارت میں جو کچھ کہا تھا، اُسے اُن کے دوسرے بیانات سے کیونکر ہم آہنگ کیا جائے؟ جب انھوں نے فرمایا تھا کہ ’’وقت کے ساتھ ساتھ ہندو، ہندونہ رہیں گے اور مسلمان، مسلمان نہ رہیں گے، یعنی مذہبی معنوں میں نہیں، کیونکہ مذہب تو ہر شخص کا ذاتی عقیدہ ہے، بلکہ سیاسی معنوں میں ریاست کے برابر شہریوں کی حیثیت سے۔‘‘۱۰۳؎ سیکولردانش وروں نے خطاب کے اس ٹکڑے کو یہ ثابت کرنے کیل لیے ہمیشہ بطور مثال استعمال کیا ہے کہ جناح پاکستان کو ’’سیکولر‘‘ ریاست بنانے کے حق میں تھے۔ روزنتھال کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ جناح کا یہ بیان اُن کی ’’آزاد خیالی‘‘ یا ’’غیرمحتاط لفاظی‘‘ کی مثال ہے، اور یہ کہ انھوں نے اپنی سابقہ پوزیشن بدل لی تھی۔۱۰۴؎ شریف المجاہد کی دلیل یہ ہے کہ اس خطبے نے آنے والے برسوں میں اگرچہ کافی شکوک پیدا کیے، یہاں تک کہ قرارداد مقاصد (۱۹۴۹ئ) کی مذمت کے لیے بھی اس خطبے کو استعمال کیا گیا۔ اس کا اصل مقصد ماضی کی تلخ یادوں کو بھلانا اور اقلیتوں میں بھروسا اور اعتماد پیدا کرنا تھا۔ اُن کا خیال ہے کہ ایک مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جناح نے اپنے اس خطبے میں، جدیدیت پسند کی حیثیت سے اسلامی ریاست کا وہ روایتی یا رواجی تصور مسترد کردیا جو اُن مطلق العنان خلفا و سلاطین کے عہدِ حکومت میں پروان چڑھا تھا، جو مسلمانوں اور غیرمسلموں میں فرق و امتیاز برتتے تھے اور غیرمسلموں کو وہ سیاسی حقوق و مراعات نہ دیتے تھے جو مسلمانوں کو حاصل تھے۔ شریف المجاہد یقین کے ساتھ کہتے ہیں کہ خطبے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اسلامی اُصول پاکستان کے آیندہ دستور کی بنیاد نہیں بنیں گے بلکہ ناقابل تردید حقیقت یہ ہے کہ جناح ہر شخص کی ’’مذہبی آزادی‘‘ کو اسلامی ہیئت اجتماعی کا جزولاینفک سمجھتے تھے۔ بہرحال اگر اس خطبے کے بعد کے جناح کے بیانات کو پیشِ نظر رکھا جائے تو ظاہر و ثابت ہوجاتا ہے کہ سیکولردانش وروں کی تشریح و تعبیر غلط ہے۔ شریف المجاہد لکھتے ہیں کہ اس خطبے کے تین دن بعد جب ماؤنٹ بیٹن کراچی آئے اور پاکستان کی دستور ساز اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے مغل شہنشاہ اکبر کی سیاسی اور مذہبی رواداری کی تعریف کی تو جناح نے فوراً اپنی جوابی تقریر میں فرمایا: جس رواداری اور وسیع النظری کا اظہار شہنشاہ اکبر نے تمام غیر مسلموں کی خاطر کیا… اُس کا تعلق تیرہ سو سال پہلے سے ہے ، جب ہمارے پیغمبرؐ نے نہ صرف الفاظ سے، بلکہ اپنے عمل سے یہودیوں اور عیسائیوں پر غلبہ پانے کے بعد ان کے ساتھ حسنِ سلوک کا مظاہرہ کیا تھا۔ آنحضورؐ نے اُن کے عقیدے اور شعائر کے لیے انتہائی رواداری اور احترام کا مظاہرہ کیا تھا۔‘‘ شریف المجاہد نے پوری بحث سے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ جناح اپنی بقیہ مختصر زندگی میں بار بار اسلامی رواداری کے اصولوں کی فضیلت و اہمیت پر زور دیتے رہے۔۱۰۵؎ یہ سمجھنا بہت مشکل ہے کہ جب جناح پاکستان میں رہنے والے تمام شہریوں کو مذہبی آزادی کا یقین دلارہے تھے، یعنی ہندوؤں اور مسلمانوں کو اپنی اپنی عبادت گاہوں میں جانے کی آزادی حاصل ہوگی، اور ریاست کے شہری کی حیثیت سے مسلمانوں اور غیرمسلموں کے درمیان کوئی فرق و امتیاز روا نہ رکھا جائے گا، تو وہ اسلام کے کس اصول کی خلاف ورزی کررہے تھے؟ کیا ان کا مطلب یہ تھا کہ پاکستان اسلام کے رواداری کے اصولوں کی پابندی کرنے کی بجائے ایک ’’سیکولر‘‘ ریاست ہوگا؟ جناح سے پہلے اقبال نے بھی کہا تھا: ’’توحید کا اصل مطلب انسانی یک جہتی، مساوات اور آزادی ہے۔ گویا اقبال نے بھی توثیق کی تھی کہ اسلام کا اصل مقصد ’’روحانی جمہوریت‘‘ کا قیام ہے۔ اس بحث کا حاصل یہ ہے کہ جناح کے نزدیک اسلام میں ریاست کا مطلب ’’تھیوکریسی‘‘ (ملائیت) نہیں ہے۔ ساتھ ہی انھوں نے کبھی یہ دعویٰ نہیں کیا کہ پاکستان ایک ’’سیکولر‘‘ ریاست ہوگی۔ اُن کی پوزیشن وہی تھی جو ایک ’’آزاد خیال‘‘ اور ’’جدیدیت پسند‘‘ مسلمان کی ہوسکتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اُن کے مسلم ریاست کے تصور میں چند نئے خیالات و نظریات شامل ہوگئے تھے، مثلاً ’’قومی ریاست‘‘، ’’حقِ خودارادیت‘‘، ’’جمہوریت‘‘، ’’آئین پسندی‘‘، ’’قانون کی حکمرانی‘‘ ’’انسانی حقوق‘‘، ’’معاشرتی انصاف‘‘ اور تمام شہریوں میں مساوات و یک جہتی۔ مختصر یہ کہ جناح پاکستان میں ایک لبرل، جمہوری، مسلم، فلاحی ریاست قائم کرنے کے آرزو مند تھے۔ ئ…ئئ…ء حوالے و حواشی 1- Speeches & Writings of Jinnah, ed. by Jamil ud din Ahmad, Vol. 1. p. 373. 2- Sarojini Naidu, quoted in Muhammad Ali Jinnah, by M.H. Saiyid, p. 92. 3- Jinnah's speech on the Indian Finance Bill in 1925. Eminent Musalmans (Natesan), p. 435. Quoted by A.H. Albiruni in Makers of Pakistan and Modern Muslim India, p. 201. 4- M.A. Jinnah: Speeches (1912 1917), pub. by Ganesh & Co., Madras, pp. 45, 46, 78,99. 5- Ibid., See his Biographical Appreciation, by Sarojini Naidu, Also Autobiography, by Jawaharlal Nehru, p. 67. 6- Tragedy of Jinnah, by K. Chandra, p. 34. Also see Makers of Pakistan & Modern Muslim India, p. 198. 7- Ibid., pp. 199, 200. ۸- ایس۔ ایم ۔خان، حیاتِ قائد اعظم ، ص ۱۷۵تا ۱۸۳۔ 9- Muhammad Ali Jinnah, by M.H. Saiyid, p. 305. ۱۰- قائد اعظم ذاتی طورپر جداگانہ انتخابات کے حق میں نہیں تھے۔ چونکہ مسلم رہنما ئوں کی اکثریت اس کے حق میں تھی ، لہٰذا قائد اعظم کو اس کی حمایت کرنا پڑی ۔بحوالہ تقریر قائد اعظم ، ۳۰ مئی ۱۹۲۷ء ۔ ملاحظہ ہو: حیاتِ قائد اعظم از ایس ۔ایم ۔خان ، ص ۲۰۷ تا ۲۰۸۔ 11- Muhammad Ali Jinnah, by M.H. Saiyid, p. 402. 12- Speeches & Writings, Vol. 1. p. 43. 13- Ibid., p. 43. 14- Letters of Iqbal to Jinnah, (see Foreword by Jinnah) p. 4. Also Muhammad Ali Jinnah, by M.H. Saiyid, p. 564. 15- Speeches & Writings, Vol. 1. p. 43. ۱۶- Indian Politics،ہندو اکثریتی صوبوں میں نافذ کی جانے والی اصلاحات صوبہ سرحد میں نافذ نہیں کی گئی تھیں ۔ص ۱۲۲ تا ۱۲۳۔ 17- Indian Politics, p. 192. 18- Speeches & Writings, Vol. 1, p. 30, 31. 19- Indian Politics, p. 195, 197. 20- Ibid., p. 196. 21- Speeches & Writings, Vol. 1, p. 137. 22- Ibid., pp. 173, 177, 180. 23- The Indian Annual Register 1940, ed. by N.N. Mitra, pp. 311, 312. 24- Speeches & Writings, Vol. 1, p. 153, 154. 25- Ibid., p. 179. 26- Ibid., p. 178. 27- India's Hindu Muslim Questions, pp. 13 15, 19, 20, 31, 83, 85. 28- Thoughts on Pakistan, pp. 60 62, 137, 138. 29- Pakistan or Partition of India, pp. 95 107. 30- Nationalism in Conflict in India, by M.R.T. pp. 4 7. 31- The meaning of Pakistan, by F.K. Khan Durrani, pp. 91 93, 102, 105. 32- A Short History of the Hindu & Muslim Minds and their Reaction to Politics, (A Pamphlet). 33- Pakistan & Muslim India, pp. 3, 4. 34- Ibid., pp. 5, 7 9. 35- The Communal Pattern of India, by Kazi Saeed ud Din Ahmad, p. 8. 36- Some Aspects of Pakistan, by Jamil ud Din Ahmad, pp. 15, 16, 18. 37- The Meaning of Pakistan, pp. 47, 48, 79. 38- Is India Geographically One? by Kazi Saeed ud Din Ahmad, pp. 2,3. 39- Pakistan & Muslim India, pp. 22,23. 40- Is India Geographically One? p. 4. 41- Politico Regional Division of India, by Kazi Saeed ud Din Ahmad, p. 2. 42- Pakistan & Muslim India, p. 229. 43- Thoughts on Pakistan, p. 47. 44- Pakistan & Muslim India, p. 225. 45- Quoted in Pakistan & Muslim India, pp. 223 225. 46- Thoughts on Pakistan, p. 47; also see Cuningham's Ancient Geography of India, ed. by Majumdar, pp. 13, 14. 47- Indian Nationality, p. 7. 48- Speeches & Writings, Vol. 1, pp. 247, 248. 49- India Divided, by Rajendra Prasad, pp. 211 270. 50- Thoughts on Pakistan, p. 17. 51- Speeches & Writings, Vol. 2, pp. 218, 219. 52- Thoughts on Pakistan, pp. 18 20. 53- Speeches & Writings, Vol. 1, pp. 556, 557. 54- Pakistan as Visualized by Iqbal & Jinnah compiled, by G.H. Zulfiqar, p. 40. 55- Speeches & Writings, Vol. 1. p. 254. 56- Ibid., pp. 241, 258, 344, 356, 183, 184, 255. 57- Ibid., pp. 284, 285. 58- Ibid., p. 281. 59- Ibid., p. 286. 60- Muslim League Yesterday & Today, by A. B. Rajput, pp. 86,87. 61- Speeches & Writings, Vol. 1, pp. 405 413. 62- Indian Politics, by R. Coupland, p. 279. 63- Ibid., p. 287 307. 64- Speeches & Writings of Jinnah, Vol.1, pp. 434 437, 443,444,479,480. 65- Ibid., p. 486. 66- Ibid., Vol. 2. pp. 158 220. 67- Ibid., p. 363 384. 68- Ibid., pp. 396, 397. 69- The Making of Pakistan, by R. Symonds, p.67. 70- India Today, by R. Palme Dutt., p.434. 71- Modern Islam in India, p.269. 72- India Today, pp. 434 437. 73- Cabinet Mission & After compiled, by M. Ashraf, pp. 36 100, 175, 199 208, 217, 212 216, 218 240, 290 337, 388 431. 74- See Jawaharlal Nehru's statement in Making of the Indian Constitution, Vol. 1, (Documents) ed. by A.C. Bannerjee, p.241. 75- Speeches & Writings, Vol. 2, pp. 389 401, 407 418,419 423. 76- The Making of Pakistan, p.70. ۷۷- ایضا، ص ۷۱؛ پاکستان کو ۱۹۵۳ء اسلامی جمہوریہ قرار دیاگیا اور دولتِ مشترکہ کا رکن بن گیا۔ 78- Jinnah, by Sharif al Mujahid, p.353. 79- Speeches & Writings, Vol. 1, p.96. 80- Speeches, Statements & Messages of the Quaid i Azam compiled, by Khurshid Ahmad Khan Yusufi, Vol. II, p. 1021. Bazm i Iqbal Publication, Lahore, 1996. 81- Ibid., p.1178. 82- Ibid., p.692. 83- Speeches & Writings, Vol.1, p. 507. 84- The Legacy of Quaid i Azam, ed. by Javid Iqbal, p.23. Speech at Sibi Durbar 14th Feb. 1948. 85- Ibid., pp.25,26. Broadcast to the U.S. Feb. 1948. ۸۶- ایضا، ص ۲۸، پریس کانفرنس ، دہلی، ۱۹؍فروری ۱۹۴۸ئ۔ 87- Ibid., p.27. Broadcast Talk to Australia 19th Feb. 1948. 88- Speeches & Statements as Governor General, p.30. 89- The Legacy of Quaid i Azam, p.41. Speech University Stadium Lahore 30th Oct.,1947. 90- Speeches & Writings, Vol.I, p.265. 91- Ibid., Vol.II, p.175. 92- Ibid., Vol.II, p.242. 93- The Legacy of Quaid i Azam, p.40. 94- Speeches & Writings, Vol.2, p.237. ۹۵- The Dawn، ۲۸ ؍جنوری ۱۹۴۸ء کا بیان جو شریف المجاہد نے Jinnah میں درج کیا ہے۔ ملاحظہ ہو: ص۲۶۸۔ 96- Speeches, Statements & Messages, Vol.II, pp.1242, 1243. ۹۷- The Legacy of Quaid i Azam، مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں ۱۰؍مارچ ۱۹۴۴ء کو خطاب۔ 98- Speeches, Statements & Messages, Vol. II, p.727. 99- Speeches & Writings, Vol.2, p.23. 100- The Legacy of Quaid i Azam, pp.67,68. 101- Ibid., p.69. 102- Ibid., p.60. 103- Ibid., p.41,42. ۱۰۴- شریف المجاہد کی Jinnah میں درج شدہ، ص ۲۴۸۔ 105- Ibid., pp.247 255. ظ…ظظ…ظ حاصلِ کلام اِس کتاب کا موقف یہ ہے کہ مسلمانان پاکستان کی قومیت ’’اسلام‘‘ یعنی ایک مشترکہ روحانی سرچشمے سے ماخوذ ہے۔ دوقومی نظریے نے اُن میں اپنی شناخت و تشخص کا شعور اور آپس میں ثقافتی و معاشرتی استحکام پیدا کیا، جس نے بالآخر تخلیق پاکستان کے لیے ایک اساسی اصول کی صورت اختیار کرلی۔ بالفاظِ دیگر برعظیم ہند میں اسلام قوم سازی کا ایک فیصلہ کن محرک بنا۔ قیام پاکستان کا مطالبہ کسی خاص مسلم فرقے کی ریاست قائم کرنے کے لیے نہیں تھا۔ یہ ریاست ہر اُس شخص کے لیے تھی جو خود کو مسلمان سمجھتا تھا اور مسلم اکثریتی صوبے میں رہتا تھا۔ مسلم اکثریتی صوبوں کے انسانی اور قدرتی وسائل کے پیشِ نظر، بانیانِ پاکستان کو یقین تھا کہ ہندوستان سے اِن علاقوں کی علیحدگی سے مسلمانوں کی معاشی ترقی کا مسئلہ حل ہوجائے گا۔ اور آخری اہم بات یہ کہ روایتی اسلامی اقدار کو جدید لبرل افکار سے ہم آہنگ کرنے کے ذریعے، انھوں نے روایتی مسلم ریاست کے وسیع اُصولوں کی نشان دہی کی اور ایک نئی اسلامی ریاست کے قیام کے لیے سیاسی و فکری لائحہ عمل طے کیا، جس پر پاکستان کو گامزن ہونا تھا۔ اس کتاب میں یہ نقطۂ نظر پیش کیا گیا ہے کہ اسلام میں ریاست ہمیشہ ارتقائی عمل سے گزرتی رہی ہے۔ اس کا سیاسی نظام اس کے قانونی نظام سے مختلف و جدا ہے، اس لیے کہ اسلامی ریاست اس وقت ’’اسلامی‘‘ کہلانے کی مستحق ہوتی ہے جب وہ اپنے مسلم شہریوں کے لیے اسلامی قوانین (شریعت) نافذ کرے۔ اگرچہ عہدِ نبویؐ میں چند رہنما آئینی اُصول معین ہوگئے تھے، سیاسی لحاظ سے ریاست کو بذاتہٖ کبھی حرفِ آخر اور ایک مکمل چیز نہیں سمجھا گیا۔ بعدازاں جب جمہوری دور آیا تو آئینی حکمرانی کے مختلف تجربے کیے گئے، مثلاً: انتخاب، نامزدگی، انتخاب بذریعۂ محدود حلقۂ انتخاب، استصواب رائے، اور پھر اقتدار کا غصب، جس نے بالآخر مطلق العنان ملوکیت کی بے شمار شکلیں اختیار کرلیں۔ سیّد جمال الدین افغانی نے ’’آئینی خلافت‘‘ کا نظریہ پیش کیا۔ اقبال کے نزدیک خلیفہ یا امام کے تمام اختیارات جمہوری طور پر منتخب مسلم اسمبلی کو منتقل کردیا جانا درست تھا۔ جناح کو پختہ یقین تھا کہ وفاقی پارلیمانی نظامِ جمہوریت جو انسانی حقوق کی ضمانت دیتا ہے، تمام شہریوں کے ساتھ مساوات کا سلوک کرتا ہے اور قانون کی بالادستی کا علم بردار ہے، اسلامی احکام کے منافی نہیں بلکہ مطابق ہے۔ بالفاظ دیگر اقبال اور جناح، دونوں نے روایت کو جدیدیت کے ساتھ ہم آہنگ کرلیا تھا، اور یوں ایک جمہوری اسلامی ریاست میں ہم عصر وفاقی پارلیمانی طرزِ حکومت قائم کرنے کا جواز پیداہوگیا۔ پہلے باب میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ روایتی فقہا نے ہمیشہ اسلامی ریاست کے سیاسی نظام اور قانونی نظام کے درمیان خطِ امتیاز کھینچا ہے۔ اسی امتیاز کی بنا پر بعض فقہا کی رائے میں ایک غاصب کی حکمرانی کو تسلیم کرلینے میں کوئی ہرج نہیں، بشرطیکہ وہ مسلمانوں کے دینی فرائض کی انجام دہی میں مداخلت نہ کرے اور شریعت نافذ کرنے کا مدعی ہو۔ تاریخِ اسلام میں سیاسی نظام نے کتنی ہی شکلیں بدلیں اور قانونی نظام بھی ہمیشہ قرآن و سنت کے احکام کی ایک تعبیر پر مبنی نہیں رہا۔ اربابِ اقتدار مطلق العنانہ احکام کے تحت، ایسے شاہی فرامین اور احکامِ امتناعی صادر کر کے فرماں روائی کرتے رہے جو شرعی قوانین کے ماورا اور بسااوقات اُن سے متصادم ہوتے تھے۔ عصرِ حاضر میں عہدنبویؐ یا خلافتِ راشدہ کے نظام ہائے حکومت کی دوبارہ تخلیق ممکن نہیں۔ بے شک بعض مذہبی انتہا پسندوں کے نزدیک ایسے نمونوں پر اسلامی ریاست کا قیام باعثِ اطمینان ہوسکتا ہے جن میں ’’شوریٰ‘‘ صاحب اقتدار کے لیے محض ایک مجلسِ مشاورت کی حیثیت رکھتی ہے وہ چاہے شوریٰ کا فیصلہ قبول کرے اور چاہے نہ کرے۔ لیکن ایسی ریاست مسلمانوں کے لیے اُن مسلم ممالک میں قابلِ قبول نہ ہوگی، جہاں حکومت ’’مخلوط قوانین‘‘ (خدا کے بنائے ہوئے قوانین اور انسان کے بنائے ہوئے قوانین) کے تحت چلائی جارہی ہو۔ مخلوط قوانین کی اس اُلجھن کے پیشِ نظر بانیانِ پاکستان (بالخصوص اقبال) کو احساس ہوگیا تھا کہ شرعی قوانین کی تعبیر نو کے لیے پارلیمنٹ میں ’’اجتہاد‘‘ کے ذریعے جدیدیت کا عنصر شامل کرنا پڑے گا۔ ۱۹۴۷ء میں پاکستان کے قیام کے کچھ ہی عرصہ بعد اُسے اسلامی جمہوریہ قرار دے دیا گیا۔ قراردادِ مقاصد ۱۹۴۹ء میں منظور ہوئی، جو ۱۹۵۶ء کے آئین کے دیباچے میں شامل کی گئی، اور پھر ۱۹۶۲ء اور ۱۹۷۳ء کے دساتیر میں۔ مستقبل میں پاکستان میں اسلامی قوانین نافذ کرنے کی خواہش کا اظہار اِن دساتیر کے ابواب متعلقہ اصولِ سرکاری پالیسی اور ان اسلامی دفعات سے ہوتا ہے جن کے تحت اسمبلیوں میں اسلامی قانون سازی میں مشورہ دینے کے لیے اسلامی نظریاتی کونسل وجود میں لائی گئی۔ پاکستان کو ابتدا ہی سے ایسے سنگین مسائل اور آزمایشوں کا سامنا کرنا پڑا جن کی توقع نہیں تھی یا جن کا بانیانِ پاکستان نے تصور تک نہ کیا تھا۔ پاکستان کے وجود میں آنے کے سال بعد جناح فوت ہوگئے۔ بعدازاں لیاقت علی خان، پاکستان کے پہلے وزیراعظم، کو شہید کردیا گیا۔ سیاسی قیادت میں خلا پیدا ہوجانے کے سبب چودھری محمد علی، ملک غلام محمد یا سکندر مرزا جیسے بیوروکریٹ سامنے آگئے جن کا تحریک پاکستان سے کوئی تعلق نہ تھا۔ پاکستان کے قیام کے تقریباً دس برس بعدیعنی ۱۹۵۶ء میں پہلا آئین چودھری محمد علی کے زمانے میں بنا۔ مگر دو برس بعد سکندر مرزا نے بحیثیت صدر اُسے منسوخ کردیا۔ بالآخر ۱۹۵۹ء میں جنرل محمد ایوب خان نے سکندر مرزا کو فارغ کرکے ملک میں نام نہاد جمہوری نظام کا خاتمہ کردیا۔ پاکستان میں مارشل لا لگا۔ ۱۹۶۲ء میں جنرل ایوب خان نے بنیادی جمہوریتوں کی بنیاد پر صدارتی طرز کا آئین نافذ کیا۔ لیکن اُس کے زوال کے بعد جنرل یحییٰ خان نے مارشل لا لگانے کے ساتھ ۱۹۶۲ء کا آئین منسوخ کردیا۔ پاکستان کے قیام کے بعد پہلی مرتبہ شفاف انتخابات (۱۹۷۰-۱۹۷۱ئ) جنرل یحییٰ خان کے دور میں ہوئے، جن کے نتیجے میں مشرقی پاکستان سے مجیب الرحمن کی عوامی لیگ اور مغربی پاکستان سے ذوالفقار علی بھٹو کی جماعت پیپلزپارٹی نے کامیابی حاصل کی۔ اقتدار کی منتقلی نہ کیے جانے کے سبب اور سیاسی قائدین کی آپس میں چپقلش کے نتیجے میں پاکستان دولخت ہوگیا۔ جناح کے قائم کردہ پاکستان کے حامیوں کے لیے یہ نہایت مایوسی اور بے بسی کا عالم تھا۔ بہرحال گرد و نواح نے وجدانی طور پر اس المیہ کو محسوس کرتے ہوئے اس کا باعث بننے والوں کو اُن کی کارکردگی کی سزا دی۔ مجیب الرحمن اور اندرا گاندھی اپنوں ہی کی گولیوں کا نشانہ بنے اور ذوالفقار علی بھٹو نے عدالتوں کے فیصلوں کے تحت پھانسی کی سزا پائی۔ جناح نے صوبائیت اور فرقہ واریت کو قومی زندگی کا زہر قرار دیتے ہوئے ان کی ملامت کی تھی، لیکن پاکستان کی علاقائی، لسانی اور نسلی قوتوں نے مسلم قومیت کی روح کو پامال کردیا۔ بنگالی صوبہ کی وفاق پاکستان سے علیحدگی دراصل اسی لعنت کا نتیجہ تھی۔ دوسری طرف بھٹو نے اگرچہ باقی ماندہ پاکستان کے لیے ۱۹۷۳ء میں وفاقی پارلیمانی جمہوری طرز کا آئین نافذ کیا، مگر اس میں اپنی منشا کے مطابق تبدیلیاں کرکے اس کا حلیہ بدل دیا۔ بالآخر اپنی لڑکھڑاتی ہوئی حکومت کو بچانے کی خاطر انتہا پسند عناصر کے آگے گھٹنے ٹیک دیے اور اُن کے نام نہاد ’’اسلامی‘‘ مطالبات تسلیم کرلیے: اتوار کی بجائے جمعے کو ہفتہ وار تعطیل قرار دے دیا گیا، شراب کی خرید و فروخت اور پینے پلانے پر پابندی عائد کردی گئی، گھڑدوڑ پر قماربازی کی ممانعت کردی اور ’’احمدیوں‘‘ کو اقلیت قرار دے دیا گیا۔ پس یوں قیامِ پاکستان کے تقریباً تیس سال کے بعد پہلی مرتبہ پاکستان میں ’’اسلام‘‘نافذ کیا گیا۔ لیکن بھٹو کے حریف ان کی اِن ’’اسلامی‘‘ اصلاحات کے نفاذ پر بھی مطمئن نہ ہوئے۔ کیونکہ اُن کا اصل مقصد شاید اسلام کا نفاذ نہیں بلکہ بھٹو سے چھٹکارا پانا تھا، چنانچہ انھیں کامیابی اُس وقت حاصل ہوئی جب جنرل ضیاء الحق نے بذریعہ غصب سیاسی اقتدار سنبھالا۔ اسلام کی سیاست کاری اور فوری نوعیت کے سیاسی مفادات کی خاطر مذہبی حلقوں سے سودابازی کی تنگ نظر پالیسی جس کی بنیاد بھٹو نے رکھی مگر جنرل ضیاء الحق کے زمانہ میں جسے فروغ حاصل ہوا، کے سبب ۱۹۷۶ء اور ۱۹۷۷ء میں اہلِپاکستان میں انتہا پسندی یا فرقہ واریت کا زہر پھیلتا چلا گیا۔ جنرل ضیاء الحق کے عہد میں نفاذِ اسلام کے لیے مزید اقدامات اٹھائے گئے۔ ۱۹۷۳ء میں قانونی ترمیم کی گئی تاکہ تمام اہم ذاتی دستاویزات مثلاً شناختی کارڈ اور پاسپورٹ وغیرہ میں ’’مسلم‘‘ اور ’’غیر مسلم‘‘ کے الفاظ کے استعمال سے، ان کے آپس میں امتیاز کی نشان دہی کی جاسکے۔ پاکستان کے ضابطۂ فوجداری میں تبدیلیاں کی گئیں، تاکہ اسلامی طریقِ عبادت کے استعمال میں ’’احمدیوں‘‘ پر پابندیاں عاید کی جائیں۔ قانون ناموسِ رسولؐ نافذ کیا گیا، اور اس کے غلط استعمال کو روکنے کے لیے قانونی طریقِ کار میں جو اصلاحات ضرور ہونی چاہیے تھیں، وہ علما کے دباؤ کے تحت نہ کی گئیں۔ اس قانون نے اقلیتوں میں عدمِ استحکام پیدا کیا جو پہلے ہی امتیازی سلوک کی شاکی تھیں۔ ۱۹۷۳ء کے آئین میں مزید ترامیم کرکے اسلام کو پاکستان کا سرکاری مذہب قراردیا گیا۔ قرارداد مقاصد کو آئین کا مستقل حصہ بنادیا گیا۔ اسلامی حدود کی بعض دفعات کو ضابطۂ فوجداری میں شامل کرلیا گیا۔ اسی طرح قانون شہادت میں تبدیلیاں لائی گئیں۔ حدود کے مقدمات میں سماعت و تعزیر کے لیے ایک وفاقی شرعی عدالت، محدود اختیارِ سماعت کے ساتھ قائم کی گئی۔ زکوٰۃ و عشر کی وصولی کے لیے طریقۂ کار اختیار کیا گیا، لیکن حکام کی بدعنوانی کی وجہ سے، مستحق افراد ان فلاحی تدابیر سے مستفید نہ ہوسکے۔ جنرل ضیائالحق کی اسلامائزشین درحقیقت علما حضرات کی شرعی قوانین کی ذاتی محدود تعبیر پر مبنی تھی، اور وہ کبھی پارلیمنٹ میں ’’اجتہاد‘‘ کے مرحلے سے نہیں گزری۔ اسلامی تعزیراتی قانون سازی محض تبرکاً آرایشی یا دکھاوے کی تھی، کیونکہ حدود کے قوانین کے تحت، ثبوت و شہادت کے سخت معیار کے باعث، عملی طور پر سزائیں نہ دی جاسکتی تھیں اور نہ دی گئیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان میں امن و امان کی ابتر صورتِ حال میں بہتری نہ آسکی، بلکہ خواتین کی حالت زار اور بھی تشویش ناک ہوگئی، جن کو ان قوانین کے تحت ظلم و جبر کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ مختصر یہ کہ جنرل ضیاء الحق نے اسلامائزیشن کی جو شکل متعارف کرائی، وہ اسلام کی اُس تعبیر و تشریح کے بالکل برعکس تھی جو بانیانِ پاکستان کے اذہان میں تھی۔ اس نے نارواداری اور فرقہ واریت میں اس حد تک شدت پیدا کردی کہ فرقہ پرست دہشت گردوں کے حریف گروہوں نے ایک دوسرے کو قتل کرنا شروع کردیا، بلکہ ایسے اوقات میں بھی جب وہ اپنی اپنی مسجدوں میں نماز پڑھ رہے ہوتے۔ بانیانِ پاکستان نے اس کا تصور بھی نہ کیا تھا کہ نئی اور کمزور اسلامی جمہوریہ پر مذہبی عناصر کے زیراثر، روایتی طریقوں سے، صرف اسلامائزیشن ہی کا دباؤ نہ پڑے گا، بلکہ اس کی ناپختہ اور نااہل سیاسی قیادت فوج کی بار بار مداخلت کا آسانی سے شکار ہوجائے گی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان اپنی زندگی میں سے بیشتر حصہ فوجی حکمرانی کے زیرِ عتاب رہا۔ پاکستان میں جمہوریت کو بے شمار مسائل، الجھنوں، دشواریوں اور تناؤ سے گزرنا پڑا ہے۔ کسی منتخب حکومت کو اپنی میعاد پوری کرنے کا موقع نہ دیا گیا۔ فوجی حکمرانوں نے بار بار اس بہانے مداخلت کی کہ صدر اور وزیراعظم کے اختیارات کے مابین توازن قائم نہیں کیا جاسکا، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ وفاقی پارلیمانی نظامِ حکومت میں صدر صرف وفاق کی وحدت کی علامت ہوتا ہے، جب کہ تمام انتظامی اختیارات وزیراعظم کے پاس ہوتے ہیں۔ جناح نے خود اس کی نظیر قائم کردی تھی۔ انھوں نے گورنر جنرل کی حیثیت سے کبھی وزیراعظم لیاقت علی خان کے انتظامی اختیارات میں مداخلت نہیں کی۔ تاہم ۱۹۵۶ء کا آئین اس لیے منسوخ کردیا گیا کہ اس کے تحت صدر کو وہ اختیارات تفویض نہیں کیے گئے تھے جو ملک غلام محمد یا سکندر مرزا اپنے لیے چاہتے تھے۔ بعدازاں ۱۹۶۲ء کے اُس آئین کے تحت صدارتی طرزِحکومت کا تجربہ کیا گیا، جو جنرل ایوب خان نے اپنی ضروریات کے مطابق وضع کرایا تھا۔ لیکن ۱۹۷۳ء کے آئین کے تحت صدر کو ایک بار پھر محض علامت بنادیا گیا اور وزیراعظم بھٹو مقتدرِ کل بن گئے۔ بھٹو کے زوال کے بعد جنرل ضیاء الحق نے ۱۹۷۳ء کے آئین میں دفعہ ۵۸ (۲) (بی) کا اضافہ کرکے اس کا حلیہ مزید بگاڑ دیا، جس کی رو سے ایک بالواسطہ منتخب صدر کو اس قدر اختیارات تفویض کردیے گئے کہ وہ وزیراعظم اور اُس کی کابینہ کو برخاست اور قومی اسمبلی کو کالعدم قراردے سکتا تھا۔ بعدازاں جنرل ضیاء الحق کی حادثاتی موت کے بعد میاں نوازشریف کی وزارت عظمیٰ کے دور میں اسمبلی کے ایک متفق الرائے فیصلے کے تحت آئین میں ایک ایسی ترمیم لائی گئی جس کے تحت دفعہ ۵۸(۲)(ب) کو منسوخ کردیا گیا اور وفاقی پارلیمانی طرزِ جمہوریت بحال کردی گئی۔ بالآخر ۱۹۹۹ء میں جنرل پرویز مشرف کے چوتھے عسکری غصب کے دوران میں ۱۹۷۳ء کے آئین میں متعدد ترامیم کی گئیں۔ دفعہ ۵۸(۲)(ب) بحال کردی گئی، اگرچہ صدر کے اس اختیار کا استعمال ایک نئے فورم مسمی ’’نیشنل سیکورٹی کونسل‘‘ کے مشورے سے مشروط کردیا گیا۔ نیشنل سیکورٹی کونسل دوسرے ارکان کے علاوہ چاروں آرمی سربراہان پر مشتمل ہے، جس کے بارے میں جنرل پرویز مشرف نے ایک اخباری کانفرنس میں صراحت کی کہ کونسل کے مشورے کی شرط کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان میں آیندہ فوجی استیلا (غصب) کا سلسلہ رک جائے گا، اور یہ کہ فوج کو باہر رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ اُسے اندر آنے دیا جائے، بقول جنرل پرویز مشرف نیشنل سیکورٹی کونسل کی موجودگی میں آرمی چیف کو برسراقتدار آنے کی جرأت نہ ہوگی۔ اس طرح آئین میں نیشنل سیکورٹی کونسل کی گنجایش پیدا کرکے، ملک کے سیاسی نظام میں فوج کو ایک مستقل کردار ادا کرنے کے لیے، اسے ادارے کی صورت دے دی گئی۔ جس طرح پاکستان میں نفاذِ اسلام کے ضمن میں بانیانِ پاکستان کے افکار و تصورات سے انحراف کیا گیا، اسی طرح ملک میں ایک مستقل جمہوری سیاسی نظام قائم کرنے کے سلسلے میں بھی اُن کے نظریات سے مکمل انحراف کیا گیا۔ ان مسائل کی کوکھ سے نئے سوالات پیدا ہوتے ہیں۔ دو قومی نظریے کی اہمیت کو گھٹایا نہیں جاسکتا، کیونکہ اسی کی بنیاد پر پاکستان قائم ہوا اور اسی کی بنیاد پر پاکستانی مسلم قوم کو ہندوستانی قوم سے ہمیشہ ممیز کیا جائے گا۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اب پاکستان کے اندر مسلمانوں اور غیرمسلم اقلیتوں کے مابین امتیاز روا رکھنے کا کیا جواز ہے؟ پاکستان میں علاقائی، لسانی اور نسلی عناصر کو مسلم قومیت کے سانچے میں کیونکر ضم کیا جائے، کہ قومی استحکام مضبوط ہو اور یہ عناصر پاکستان کی علاقائی سالمیت کے لیے خطرہ نہ بنیں؟ بدعنوانیوں کا خاتمہ کرنے کے لیے احتساب کا کونسا طریقہ اختیار کیا جائے، جس سے معاشیات کی صحت بحال ہو؟ اور آخری سوال یہ ہے کہ پاکستان میں اسلامی انتہا پسندی، فرقہ واریت اور بعض اقلیتوں کے ساتھ بدسلوکی کو کیونکر روکا جائے، اس سے پہلے کہ یہ ملک کو تباہ و برباد کردیں؟ بین الاقوامی برادری کو آج جن مسائل کا سامنا ہے، اُن میں سب سے زیادہ پریشان کن اور الجھا ہوا مسئلہ دہشت گردی کا ہے۔ اس کے باوجود ’’دہشت گردی‘‘ کی تعریف کے بارے میں اتفاق رائے نہیں ہے۔ مغربی ذہن کا عمومی نقطۂ نظر یہ ہے کہ دہشت گردی اپنی تمام صورتوں میں قابل مذمت ہے۔ پاکستان بھی دہشت گردی کی مذمت کرتا ہے، لیکن وہ فلسطین اور کشمیر کے لوگوں کی جدوجہد آزادی کو دہشت گردی نہیں سمجھتا بلکہ دہشت گردی کے سیاسی اسباب دور کرنے پر زور دیتا ہے اور انتقامی کارروائیوں یا ریاستی دہشت گردی کی مذمت کرتا ہے۔ پاکستان خود ہر قسم کی دہشت گردی کا شکار رہا ہے: یعنی اندرونی، بین الاقوامی اور ورائے قومی۔ پاکستان کی شمال مغربی اور جنوب مشرقی سرحدوں کی جانب سے سبوتاژ اور دہشت گردی کی سرگرمیاں جاری ہیں۔ اندرونِ ملک مذہبی دہشت گردی بھی، جب سے پاکستان امریکا کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شامل ہوا ہے، روزافزوں ہے۔ امریکہ کے زیراثر جنرل پرویز مشرف کا افغان پالیسی بدلنے اور طالبان سے منہ موڑنے کا فیصلہ سخت گیر اسلام پسند گروہوں اور عسکریت پسندوں کے لیے اشتعال انگیز ثابت ہوا ہے۔اس پالیسی کے سبب پاکستان کے اندر خودکش حملوں کا اضافہ ہوگیا ہے۔ جوں جوں مسلمانوں کے خلاف مغرب میں تعصب بڑھ رہا ہے، قوی امکان ہے کہ اگر انتہا پسند عناصر پاکستان میں مزید قوت حاصل کرگئے تو بالآخر اسلام اور مغرب کا تصادم ایک حقیقت بن سکتا ہے۔ ۱۱؍ستمبر ۲۰۰۱ء کو ورلڈ ٹریڈ سنٹر اور پنتاگون پر تباہ کن دہشت گردانہ حملوں سے پہلے بھی، جن میں امریکہ اور مغربی ممالک کو افغانستان اور عراق کے ملوث ہونے کا شبہ تھا، مغرب میں یہ تاثر عام پایا جاتا تھا کہ اسلام ایک ناروادار اور متعصب مذہب ہے جو اپنے پیروکاروں کو دہشت گردی کے طریقوں سے معصوم اور بے گناہ لوگوں کو قتل کرنے کی تلقین کرتا ہے۔ یہ تاثر اس مفروضے پر مبنی ہے کہ سویت یونین کے انہدام کے بعد اسلام اگلا ’’نظریۂ نفرت‘‘ ہے، اور دنیا اکیسویں صدی کے دوران اسلام اور مغرب کے درمیان تہذیبوں کا تصادم دیکھے گی۔ اس بحث کا مرکزی نکتہ یہ ہے کہ نیوورلڈ آرڈر کے تحت، عالمگیر اسلامی اُمّہ مغربی تہذیب کی بنیادی قدروں اور مفادات کے لیے زبردست خطرہ ہے۔ مغربی دانش وروں میں برنارڈلیوس اسلام اور مسیحیت کے درمیان تصادم دیکھتا ہے، کیونکہ اُس کے نزدیک یہ دونوں تہذیبیں ایک دوسرے سے ہم آہنگ نہیں ہیں، یعنی ان کا فلسفۂ حیات اور طریقِ زیست چودہ سو سال سے ایک دوسرے سے مختلف ہونے کے باعث دست و گریبان رہا ہے۔ وہ وثوق سے کہتا ہے کہ اسلام کے لیے سیکولر ازم اور جدیدیت کے مغربی نظریات ناقابلِ قبول ہیں (Roots of Muslim Rage)۔ اسی طرح جان ایسپوزیٹو کا استدلال یہ ہے کہ ایک طرف جہاں مغربی ممالک ’’نیوورلڈ آرڈر‘‘ قائم کرنے کی کوشش کررہے ہیں، وہاں حریف ’’ورائے قومی اسلام‘‘ مغرب کے لیے ایک نئے عالمی توحید پرست دشمن کی حیثیت سے ابھررہا ہے (Islamic Threat: Myth or Reality) ۔ اس کے برخلاف ہنٹگن کا دعویٰ یہ ہے کہ اسلامی تہذیب اور کنفیوشسی (چینی) تہذیب مغرب کے خلاف متحد ہوجائیں گی، کیونکہ مغرب کے عقائد و اقدار اُن دونوں تہذیبوں سے مختلف ہیں۔ وہ کہتا ہے کہ انفرادیت پسندی، آزاد خیالی، آئین پسندی، انسانی حقوق، مساوات، آزادی، قانون کی حکمرانی، فری مارکیٹ اور ریاست سے کلیسا کی علیحدگی کے مغربی افکار و تصورات اسلامی کنفیوشسی تہذیبوں میں نہیں پائے جاتے۔ لہٰذا مغربی تہذیب اور اسلامی اور کنفیوشسی تہذیبوں میں تصادم ناگزیر ہے: (The Clash of Civilizations and the Remaking of World Order) جاپانی نژاد امریکی سکالر فوکویاما کا نظریہ ہے کہ بنی نوع انسان کی تاریخ متضاد خیالات کی باہمی کشمکش اور تصادم سے پھلی پھولی ہے۔ ہر ’’خیال‘‘ خود کو ایک عالمی معیار ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے اور اپنے اس قائم کردہ معیار سے ہم آہنگ معاشرتی و سیاسی نظام اُستوار کرتا ہے۔ اس کشمکش میں برتر ’’خیال‘‘ باقی بچ رہتا ہے اور کمتر ’’خیال‘‘ تباہ ہوجاتا ہے۔ مغرب نے سویت یونین کی اشتراکیت کا خاتمہ کرکے اپنے ’’خیال‘‘ یا افکار کی برتری ثابت کردی ہے۔لہٰذا تاریخ نے اب آگے بڑھنا بند کردیا ہے اور ایک مقام پر آکر ٹھہرگئی ہے (The End of History and the Last Man)۔ ہنٹگن کے اس تصور سے کہ مغربی تہذیب کو ختم کرنے کے لیے اسلامی اور کنفیوشسی تہذیبیں آپس میں متحد ہوجائیں گی، یورپ میں اُنیسویں صدی کی کشاکش یاد آتی ہے جب ’’پان اسلامزم‘‘ اور ’’زردخطرہ‘‘ (Yellow Peril) کی طرح کی اصطلاحات وضع کی گئی تھیں۔ ’’زرد خطرہ‘‘ کی اصطلاح مغرب کو جاپانی خطرے سے آگاہ کرنے کے لیے استعمال کی گئی۔ جاپانیوں نے مغرب کے ساتھ مقابلہ جوئی کا آغاز یوں کیا تھا کہ اُنھوں نے مغرب کی نام نہاد فری مارکیٹوں میں سستی اشیائے خرید کا ڈھیر لگادیا تھا جو مغربیوں نے ایشیا اور افریقہ کے معاشی استحصال کے لیے قائم کی تھیں۔ توہین آمیز اصطلاح ’’زرد خطرہ‘‘ کی جگہ اب ’’کنفیوشسی خطرے‘‘ نے غالباً اس لیے لے لی ہے کہ چینی بھی (زرد فام ہونے کے سبب) اکیسویں صدی کے اختتام سے پہلے ایک عظیم معاشی طاقت کی حیثیت سے ابھر سکتے ہیں۔ اصطلاح ’’پان اسلامزم‘‘ یورپی صحافیوں اور پالیسی سازوں نے مسیحی یورپ کے خلاف اسلامی طاقتوں کے اتحاد پر توجہ دلانے کے لیے طنزاً وضع کی تھی۔ اُس زمانے میں مغربی ڈپلومیسی کا کمال ’’بنیادی طور پر جارحیت پسند اسلام‘‘ کے خلاف قدیم مسیحی نفرت کو دوبارہ ابھارنا تھا۔ چنانچہ یورپی استعمار کے خلاف کمزور مسلم ممالک کے باہمی اتحاد کی کوشش کے بارے میں یہ خیال کیا جاتا تھا کہ یہ پورے یورپ کو تباہ کرنے کی مسلمانوں کی پرانی سازش ہے۔ سو ’’پان اسلامزم‘‘ کی اصطلاح اُنیسویں صدی میں مغربی ڈپلومیسی نے زوال پذیر مسلم سلطنتوں کو ختم کرنے کے جواز میں وضع کی تھی۔ اس زمانے کے ایک مسلم مشاہد نے چشم دید حالات کی بنیاد پر لکھا ہے: ’’یورپ کے گلی کوچوں میں گھومنے والے عام آدمی کے نزدیک پان اسلامزم کی اصطلاح پوری دنیا کے تمام مسلمانوں کے ایک زبردست اتحاد کے مترادف تھی، جس کا مقصدِ وحید مسیحیت کا، ایک زندہ سیاسی قوت کی حیثیت سے مکمل خاتمہ کرنا تھا۔ جب تک مراکش، طرابلس، ایران یا مقدونیہ پر بزور طاقت قبضہ نہ ہوجائے، اُس وقت تک پان اسلامزم کا بھوت اہلِمغرب کے لیے انتہائی کارگر معاون ثابت ہوتا رہا۔ اس سے مسیحیت کے ناخداؤں کو ایک تصوراتی خطرے کے پیشِ نظر اپنے فریب خوردہ ’’جنونیوں‘‘ سے مسلسل جنگ آزمائی کا موقع ملا۔ اس خطرے کو دور کرنے کا ایک ہی طریقہ اُن کے پاس تھا کہ مسلمانوں کو ’’چکی چولھے‘‘ سے محروم کردیا جائے(بی سی پال: Nationality and Empire)۔ جب مغربی نظریہ ساز یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اسلام اُن کے مستقبل کا دشمن ہے تو اس کے جواب میں ماضی کے تلخ تجربے کے ڈسے ہوئے مسلمانوں کے پاس یہ نتیجہ اخذ کرنے کے سوا کوئی چارۂ کار نہیں رہ جاتا کہ اُن کا یہ دعویٰ بھی مسلم علاقوں کے سیاسی و معاشی استحصال کے لیے ایک نئی چال ہے۔ جب یورپی استعماری طاقتیں دنیائے اسلام کے اندر داخل ہوگئیں تو نئے، درآمدی، مغربی افکار کے بارے میں مسلمانوں کا ردِعمل ایک جیسا نہیں، بلکہ سہ جہتی تھا: (۱) مکمل استرداد، (۲)قبولیت اور مطابقت اور (۳)نئے خیالات کی اسلام سے ہم آہنگی۔ پہلے زمرے سے متعلق مسلمان، جو زیادہ تر مذہبی جنونی تھے، ’’رجعت پسند‘‘ کہلائے۔ دوسرے زمرے کے مسلمانوں کو ’’مغرب زدہ‘‘ کہا گیا اور تیسرے زمرے کے مسلمانوں کو ’’لبرل‘‘ یا ’’اصلاح پسند‘‘ کہا گیا۔ جب سے اسلام جدید تاریخ میں داخل ہوا ہے، ’’مغرب زدہ‘‘ مسلمان بالعموم ’’لبرل‘‘ یا ’’اصلاح پسندوں‘‘ کے طرف دار اور ’’رجعت پسندوں‘‘ کے مخالف رہے ہیں۔ ترکی اور مسلم انڈیا میں ’’رجعت پسندی‘‘ کا مسئلہ دو مختلف طریقوں سے حل کیا گیا۔ ترکی میں کمال اتاترک نے ترکوں کی مذہبی زندگی سے علما کا اثر و کردار ختم کردیا۔ مسلم انڈیا میں سرسیّد اور اقبال جیسے مصلحین نے ایک اور راہ اختیار کی۔ اُنھوں نے ایسے فاضل اسکالروں کی تعلیم و تربیت کا اہتمام کیا جو علما کے ایک نئے گروہ کی شکل میں سامنے آئے، جنھوں نے اسلام کی تعبیر وسیع النظری، تحرک انگیز اور عقلی طریقے سے کی اور اسے ایک نئے مسلم معاشرے کی خدمت میں پیش کیا، جس کے بارے میں اُن کا خیال تھا کہ اس میں زندگی کا جدید نقطۂ نظر پھلے پھولے گا۔ روایت پسند یا رجعت پسند مسلمان (جن کو اب مغرب بنیاد پرست، انقلابی، جنگجو یا سیاسی کہتا ہے) نئے مغربی افکار کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔وہ تبدیلی کو تصنع خیال کرتے ہیں اور جدیدیت کو مسترد کرتے ہیں۔ چونکہ انفرادیت پسندی، آزاد خیالی، آئین پسندی، انسانی حقوق، قانون کی حکمرانی اور قومی ریاست کے مغربی تصورات سیکولرازم کے جزو لاینفک ہیں، اس لیے وہ اُنھیں ’’بے خدا‘‘ یا ’’لادین‘‘ قراردیتے ہیں یعنی الحاد۔ اُن کے نزدیک سیکولرازم ایک ایسا نظریہ ہے جس کا مقصد مذہب کی بنیاد کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا ہے۔ اسی طرح اُن کے نزدیک قومی ریاست کا تصور بھی ناقابلِ قبول ہے کیونکہ وہ انسانیت کو مختلف گروہوں میں تقسیم کرتا ہے اور ایک انسان سے دوسرے انسان کے درمیان دیوار کھڑی کردیتا ہے۔ قومی ریاست کا تصور اسلامی نظریۂ اُمہ سے متصادم ہے (جو تمام مسلمانوں کی وحدت پر زور دیتا ہے)۔ روایت پسند ذہنوں کے لیے اسلام کا آئین صرف قرآن ہے۔ اُن کے نزدیک قانون کی حکمرانی کا تصور شریعت کی بالادستی ہے۔ ان کے عقیدہ کے مطابق اسلام میں انفرادیت پسندی، آزاد خیالی یا وسیع النظری کا کوئی مثیل نہیں ہے، اس لیے ہر مسلمان کے عمل کے لیے اسلام کے احکام کافی ہیں۔ اسلام میں حقوق اللہ، حقوق العباد اور ایسے حقوق کا اپنا نظام موجود ہے جو اللہ اور بندے میں مشترک ہیں۔ اُن کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ اسلامی نظام انسانی حقوق کے بارے میں انسان کے اپنے بنائے ہوئے نظام سے اعلیٰ تر ہے۔ علاوہ ازیں اسلام کی بنیاد مسلمانوں کے لیے مساوات اور اخوت کے اصولوں پر رکھی گئی ہے۔ اسلام میں ریاست سے کلیسا کی علیحدگی کا تصور موجود نہیں ہے، اس لیے اسلام میں کلیسا ہے نہ پادری۔ اسلام میں فری مارکیٹوں کو بھی کاروبار کی اجازت ہے، بشرطیکہ وہ شریعت کے احکام کی پابندی کریں۔ اور اُن کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ مغرب کے ’’نیوورلڈ آرڈر‘‘ پر ملامت بھیجنی چاہیے کیونکہ ہر مسلمان پوری دنیا میں ’’دینی آرڈر‘‘ نافذ کرنے کا پابند ہے۔ مختصر یہ کہ اِن طریقوں سے روایتی اندازِ فکر مغربی نظریات کا مقابلہ کررہا ہے، لیکن یہ مقابلہ جوئی پوری مسلم اُمہ کے خیالات کی ترجمان نہیں ہے، جو تصادم کی بجائے تمام مذاہب اور اقوام کے ساتھ پراُمن بقائے باہمی کا عقیدہ رکھتی ہے۔ اِس مرحلے پر تین سوالات پیدا ہوتے ہیں۔ اول یہ کہ مغرب دنیائے اسلام کو اپنا دشمن کیوں سمجھتا ہے؟ دوم یہ کہ نام نہاد روایت پرست مسلمان مغرب کے خلاف کیوں ہیں؟ سوم یہ کہ بالخصوص جنوبی ایشیا کے اصلاح پسند مسلم مفکروں نے مغربی افکار کو اسلام سے کیونکر ہم آہنگ کیا، اور اس طرح مغرب اور دوسری تہذیبوں کے ساتھ پُرامن بقائے باہمی کی وکالت کی؟ بات یہ ہے کہ اسلام سے مغرب کی مخاصمت صلیبی جنگوں کے وقت سے چلی آرہی ہے۔ ہسپانیہ پر مسلم اقتدار کی یادیں، سقوطِ قسطنطنیہ، محاصرۂ ویانا، گیلی پولس پر مسیحیوں کی شکست اور اس طرح کے بے شمار واقعات ہیں جن سے اہلِمغرب کو اسلام سے مستقل خطرہ محسوس ہوتا ہے۔ جب عسکریت پسند مسلم عناصر کی جانب سے نئے چیلنج پیدا ہوتے ہیں تو اُن کے اِس احساس میں شدت پیدا ہوجاتی ہے۔ ماضیِ قریب میں تین بڑے واقعات ایسے رونما ہوئے ہیں جن سے مغرب میں کسی نئے اسلامی ہمہ گیر انقلاب کا خوف پیدا ہوگیا ہے اور انقلاب ایران (۲)الجزائر کے انتخابات میں اسلام پسندوں کی کامیابی اور (۳)افغانستان میں طالبان کی فتح۔ ایک جارحانہ اور انقلابی اسلام کا تصور، جو دین و دنیا کی وحدت کا قائل ہے، جو علاقائی سرحدوں کو نہیں پہچانتا، جو براعظموں، قوموں اور نسلوں کو قطع کرتے ہوئے پھیلتا جاتا ہے، اور جو مسیحیت کی طرح دوسرا عالمی مذہب ہے، یقینا ایک بڑا خطرہ بن جاتا ہے۔ تبلیغی مذہب کے اعتبار سے اسلام کو ایک ایسی فیصلہ کن قوت خیال کیا جاتا ہے جسے آخری فتح اور عالمگیر مقبولیت حاصل ہوجائے گی۔ عالمگیر نظریے کی حیثیت سے اسلام بذاتہٖ مغرب کے اس زعم کے لیے ایک چیلنج ہے کہ وہ تہذیبی برتری کا حامل ہے، جس کا دعویٰ سیکولر انسان دوستی اور اس کی حتمی فتح کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔ شیرین ہنٹر کے بقول: اس تناظر میں دیکھا جائے تو اسلام مغرب کے لیے واقعی ایک نئی دشمنی کا مثالی امیدوار ہے جو کمیونزم کے زوال سے پیدا شدہ خلا کو پر کرے گا‘‘ (The future of Islam and the West)۔ مغربی تسلط کے بارے میں مسلمانوں کی اجتماعی یادداشت ابھی نئی اور تازہ ہے۔ دراصل اُن کے اشتعال کی جڑیں گزشتہ تین صدیوں کی تذلیل میں گڑی ہوئی ہیں جو مغربی استعمار کی افریقہ سے لے کر مشرق وسطیٰ اور جنوب مشرقی ایشیا تک توسیع سے پیدا ہوا ہے۔ یورپ اور خصوصی طور پر امریکہ کی امداد سے اسرائیل کی تخلیق کے باعث عربوں کے احساسِ تذلیل میں شدت پیدا ہوئی ہے، مزید اس لیے بھی کہ فلسطینیوں کی کثیر تعداد کو ترکِ وطن پر مجبور کیا گیا۔ مسلمانوں کی نظر میں امریکا کی فوجی امداد کی وجہ سے اسرائیل عرب ممالک کو پے درپے شکستیں دیتا چلا آیا ہے۔ اسی طرح شاہ ایران جیسے عوام دشمن حکمرانوں کی حمایت، کیمپ ڈیوڈ میں انوارالسادات کی اسرائیل کو بے حساب مراعات دینے پر حوصلہ افزائی، خلیجی جنگ، عراق کی گزشتہ دس برسوں سے مسلسل ناکہ بندی کے بعد اس پرتسلط اور الجزائر میں اسلام پسندوں کو ان کے جمہوری حقوق دینے سے انکار، یہ سب واقعات بحیثیت مجموعی مسلمانوں کے لیے اشتعال انگیز ہیں۔ بوسنیا، کشمیر، چیچنیا اور کوسوو میں مسلمانوں کا قتلِ عام اور اِن ملکوں سے لاکھوں مسلم مہاجرین کا ترکِ وطن، ان سب باتوں سے مغرب نے صرفِ نظرکر رکھا ہے۔ علاوہ ازیں مسلمانوں کو پختہ یقین ہوچکا ہے کہ امریکہ اور اُس کے اتحادی مسلمانوں کے لیے دوہرا معیار اپنائے ہوئے ہیں۔ گزشتہ چند سالوں سے اسرائیل کے خلاف اقوامِ متحدہ کی قراردادیں نظر اندا زکی جاتی ہیں اور عراق کے خلاف قراردادوں پر فوری عمل کیا جاتا ہے۔ جب ہینس بلکس کی سربراہی میں اقوام متحدہ کے انسپکٹروں کی ٹیم نے رپورٹ پیش کی کہ اجتماعی تباہی کے ہتھیار یا کیمیاوی اسلحہ عراق میں موجود نہیں ہے تو صدر بش اور وزیراعظم ٹونی بلیئر نے یک طرفہ اعلان کردیا کہ وہ عراق میں حکومت کی تبدیلی لاکر رہیں گے، اس لیے کہ: صدام عوام پر ظلم کررہا ہے، اُس کے پاس کیمیاوی اسلحہ یا اجتماعی تباہی کے ہتھیار ہیں اور وہ دہشت گردوں کی مدد کررہا ہے۔ ’’آپریشن عراق لبریشن‘‘ (OIL) کا نام بدل کر ’’آپریشن عراق فریڈم‘‘ رکھ دیا گیا۔ اتحادی طاقتوں نے یک طرفہ طور پر عراق پر حملہ کردیا اور بے گناہ عراقی عوام پر اجتماعی تباہی کے لیے اسلحہ بے محابا استعمال کیا گیا۔ یہ نام نہاد پیشگی کارروائی اقوام متحدہ کے تقریباً تمام ممالک کے احتجاج کے باوجود کی گئی۔ اس نے ایک خوفناک بین الاقوامی نظیر قائم کردی ہے جس کے تحت کوئی بھی طاقتور ملک، جس کے پاس اجتماعی تباہی کے ہتھیار ہوں، وہ اس بہانے پر کہ اُسے اپنی جان کا خطرہ ہے، کسی دوسرے کمزور مقتدر ملک پر پیشگی حملہ کرسکتا ہے۔ یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ پنٹاگون نے اعلان کیا کہ جنگ کے بعد عراق پر کنٹرول کا حق صرف امریکا کو حاصل ہوگا، کیونکہ دورانِ جنگ امریکی فوج نے بے شمار قربانیاں دی ہیں۔ اس بات سے امریکا کی بدنیتی ظاہر ہوجاتی ہے جو اپنے تمام جنگی اخراجات عراق سے پورے کرنا چاہتا ہے اور اپنی معیشت کو معصوم عراقیوں کی قیمت پر فروغ دینا چاہتا ہے جو پہلے تو صدام کے ہاتھوں ظلم و تشدد برداشت کرتے رہے اور اب اُس کے جانشین امریکہ اور اس کی اتحادی طاقتوں کے ہاتھوں برداشت کررہے ہیں۔ ایک طرف تو امریکہ کے پالیسی ساز غیر مسلح اور مجبور و بے بس فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی فوج کی روزمرہ کی زیادتیوں کو مستقلاً نظر انداز کرتے چلے آرہے ہیں، اور دوسری طرف وہ صدام کی آمرانہ حکومت کی ………زیادتیوں سے عراقیوں کو بچانے کے لیے دوڑے چلے جارہے ہیں۔ پوری دنیا میں جنگ کے خلاف ریلیوں، جلوسوں اور مظاہروں نے ہنٹگٹن کے اس مفروضے کو جھٹلادیا ہے کہ مستقبل کی جنگیں سیاسی نظریوں یا معاشی مفادات پر نہ لڑی جائیں گی بلکہ تہذیبی تصادم کے نتیجے میں برپا ہوں گی۔ عراق پر حملہ اور قبضہ واضح طور پر معاشی مفادات کی خاطر کیا گیا۔ مختصر یہ کہ خطرے کے پیشِ نظر پیشگی حملے کے پردے میں عریاں جارحیت اور امریکہ اور اُس کے حواریوں کا عیارانہ رویہ یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ مسلم ممالک میں اُن کے خلاف ردِعمل کے طور پر جارحیت اور انتہاپسندی کا رجحان بڑھا ہے۔ اس انتہا پسند گروہ کے اراکین اپنی عسکری جدوجہد کو ’’جہاد‘‘ کا نام دیتے ہیں، جس کی غلط تعبیر کرتے ہوئے مغربی پالیسی ساز اسے مغربی تہذیب کو تباہ و برباد کرنے کے مقصد سے جارحانہ دہشت گردی کی مقدس جنگ قرار دیتے ہیں۔ جہاد کا لغوی مفہوم ہے: جدوجہد کرنا، یا کسی مقصد کو حاصل کرنے کے لیے کوشش کرنا۔ عسکری مفہوم میں اس کا مطلب ہے ایسی جنگ، جو ایک اسلامی ریاست اُن غیرمسلموں کے خلاف کرتی ہے جو مسلمانوں کے دشمن ہیں، جنھوں نے مسلم علاقوں پر زبردستی قبضہ کررکھا ہے، مسلمانوں پر جبروتشدد کررہے ہیں، اور مسلمانوں اور اُن کے درمیان کوئی معاہدۂ امن نہیں ہے۔ غیر مسلموں کے خلاف ایسی جنگ لازماً دفاعی ہوگی، اور آخری بات یہ ہے کہ فقہا کے نزدیک اس جنگ میں مسلمانوں کی لازماً فتح کے امکانات ہونے چاہییں۔ یہ امر ذہن نشین رہنا چاہیے کہ اگر مسلم عسکریت پسندوں کے کچھ گروہ ایک مسلم اکثریتی ملک میں، غیر مسلم غاصبوں کے خلاف جنگ آزما ہوں تو ایسی جنگ کو اگر جہاد بھی کہا جائے تو دراصل یہ قومی جنگِ آزادی ہی ہوگی، جس کی مثال مقبوضہ کشمیر یا فلسطین ہے، جہاں اپنے غصب شدہ علاقوں کی بازیابی اور سیاسی حقوق کے حصول کی خاطر قومی آزادی کی جنگیں لڑی جارہی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ پوری دنیا کے مسلمانوں کی اکثریت نے، جو مغرب اور دوسری تہذیبوں کے ساتھ پُرامن بقائے باہمی کے قائل ہیں، یا توجدید مغربی نظریات کو قبول کرلیا ہے یا اُنھیں اسلام کے ساتھ ہم آہنگ کرلیا ہے۔ اصلاح پسند مسلم مفکرین ’’جدیدیت‘‘ اور ’’مغربیت‘‘ میں امتیاز روا رکھتے ہیں۔ اُن کے نزدیک ’’جدیدیت‘‘ تبدیلی کو قبول کرنے کا نام ہے، جو معاشرے کی زندگی میں، وقت کے ساتھ ساتھ قدرتاً ہوتی رہتی ہے۔ لیکن ’’مغربیت‘‘ ایک غیر ملکی کلچر اختیار کرنے کا نام ہے۔ یہ عین ممکن ہے کہ آدمی اپنی ثقافتی روایات کا علمبردار ہوتے ہوئے تبدیلی یا جدیدیت کا خیرمقدم کرے۔ جنوبی ایشیا میں وسیع النظر مسلم مفکروں اور بانیانِ پاکستان نے کامیابی سے مغرب کے جدید افکار کو اسلامی کلچر میں سمولیا۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان نئے مغربی افکار کو اسلام میں سمولینے کا نتیجہ ہے۔ تہذیبوں میں تصادم کے نظریات غیر مصدقہ حقائق کی بنیاد پر قائم کیے گئے ہیں۔ نظریہ سازوں نے دنیائے اسلام کی ماضیِ قریب کی یا حالیہ تاریخ پر مناسب توجہ نہیں دی۔ دنیائے اسلام کی حکومتیں مختلف سیاسی نظاموں کے تحت چل رہی ہیں اور سیاسی مفادات بھی مختلف ہیں۔ بے پناہ وسائل کے باوجود وہ ملک متحد نہیں ہیں۔ اس لیے وہ مغرب کے لیے کسی بھی لحاظ سے خطرہ نہیں بن سکتے۔ مشرقِ وسطیٰ میں امریکا اور اُس کے اتحادیوں کا اصل مقصد اسرائیل کا تحفظ ہے، خواہ اس کے لیے اُنھیں مشرقِ وسطیٰ کا نقشہ بدلنا پڑے۔ لہٰذا جب کوئی مسلم ریاست فوجی طاقت حاصل کرلیتی ہے تو اُنھیں خطرہ محسوس ہونے لگتا ہے۔ پاکستان کی جوہری صلاحیت کو ’’اسلامی بم‘‘ کہا گیا، کیونکہ مغرب کو یہ خوف لاحق ہے کہ اگر ایٹمی ٹیکنالوجی انتہا پسندوں کے ہاتھ لگ گئی یا کسی اور مسلم ملک مثلاً ایران، عراق یا لیبیا کو دے دی گئی تو اسے اسرائیل کے خلاف استعمال کیا جائے گا۔ اس کے برخلاف اصل صورتِ حال یہ ہے کہ اسرائیل کی غیرعلانیہ ایٹمی قوت کو نظرانداز بلکہ فراخ دلی سے قبول کرلیا جاتا ہے۔ فی الحال اسلام اور مغرب میں کسی عام تصادم کا کوئی حقیقی امکان نہیں ہے۔ لیکن اگر انتہائی طاقتور لیکن انتہائی ڈرپوک امریکا کے خلاف بعض مسلم عسکریت پسندوں کی دہشت گردانہ کارروائیوں کے جواب میں امریکا اُن کے خلاف میزائلوں سے حملے کرتا ہے یا کسی مسلم ملک پر کارپٹ بمباری کرتا ہے، بجائے اس کے کہ کسی اور طریقے سے اصل مجرموں کی نشان دہی کرکے اُن کو گرفت میں لے، تو ظاہر ہے کہ ایسی جنگ کے تباہ کن اثرات سے لبرل مسلم حکومتوں میں عدمِ استحکام پیدا ہوگا۔ اور پاکستان سمیت ان حکومتوں کی ناکامی سے انتہا پسند عناصر برسراقتدار آسکتے ہیں یا ایسی ریاستیں انتشار و خلفشار کا شکار ہوسکتی ہیں۔ اگرچہ گزشتہ سالوں میں پاکستان اپنے بانیوں کے تصورات سے دورہٹ چکا ہے، اس کے باوجود یہاں مسلمانوں کی غالب اکثریت مزاجاً اعتدال پسند ہے۔ وہ اسلام کا وہی لبرل تصور رکھتے ہیں جس کی وکالت جناح نے کی تھی۔ وہ ثقافتی تنوع قبول کرتے ہیں اور دوسروں کے ساتھ پرامن بقائے باہمی سے رہنا چاہتے ہیں۔ اگرچہ گزشتہ دو عشروں سے اُس انتہا پسند اقلیت نے انھیں یرغمال بنانے کی کوشش کی ہے جس کی حوصلہ افزائی فوجی آمر ضیاالحق نے، محض اپنی طاقت کو برقرار رکھنے کے لیے کی تھی۔ پاکستانیوں کا اسلامی تشخص اُن کے اور باقی دنیائے اسلام کے درمیان ایک جذباتی رشتے پر قائم ہے۔ اس لیے بے گناہ افغانیوں اور عراقیوں پر، جن کا دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں، حملہ آور امریکی فوج کے مظالم پر، امریکا کی مدد سے اسرائیل کے فلسطینیوں کے قتلِ عام پر، اور کشمیر میں مسلمانوں پر ہونے والے جبر و تشدد پر انھیں تشویش ہے۔ بدقسمتی کی بات ہے کہ پاکستان میں بار بارعسکری استیلا کے سبب ماضی میں بالغ النظر اور پختہ ذہن سیاسی قیادت ابھر نہ سکی۔ نوجوان سیاسی لیڈر آپس میں لڑتے ہیں اور ایسی فضا پیدا کردیتے ہیں کہ فوج آتی ہے ا ور قبضہ جمالیتی ہے۔ سیاست دان جمہوریت کی بحالی کے لیے واویلا کرتے ہیں۔ کسی نہ کسی شکل میں اقتدار اُنھیں منتقل کردیا جاتا ہے۔ سیاست دان پھر آپس میں لڑتے ہیں۔ فوج پھر آجاتی ہے اور اقتدار پر قبضہ جمالیتی ہے۔ یہ سلسلہ یونہی چلتا رہا ہے۔ بالفرض محال یہ دعویٰ کیا جائے کہ شخصیت پرستی کے رُجحان کو کچل دیا گیا ہے، اور اب صرف سیاسی جماعتوں کو مضبوط بنانے کی حوصلہ افزائی کی جائے گی، یا یہ کہ تعلیم یافتہ، ذہین اور باصلاحیت نوجوان مردوں اور عورتوں کو ملک میں سیاسی و معاشی ترقی میں شریک ہونے کے مواقع فراہم کیے جائیں گے، تب بھی ’’فوجی‘‘ ارباب اقتدار سے تعاون کرنے کے لیے وہی جاگیردار اشرافیہ، بدعنوان افسر شاہی، نوآبادیاتی ماضی کے باقیات، موقع پرست صنعت کار وغیرہ، نسل بہ نسل موروثی طریق پر، نئے چہروں کے ساتھ، آگے بڑھتے ہیں۔ نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ نظام جوں کا توں برقرار رہتا ہے اور کوئی مستقل تبدیلی نظر نہیں آتی۔ پاکستان ایک بھنور میں پھنس کررہ گیا ہے۔ تعلیم یافتہ اور مخلص افراد جو اپنے ملک کی ترقی میں حصہ لے سکتے ہیں اپنی صلاحیتوں کی آزمایش کے لیے نئے راستے ڈھوندنے لگے ہیں۔ یعنی قسمت آزمائی کے لیے دوسرے ملکوں میں چلے جاتے ہیں جہاں انھیں اپنی زندگی کو بہتر بنانے کے لیے مواقع مل سکتے ہوں۔ اگر ایسے نوجوان پاکستانیوں کی تعداد کے بارے میں معلومات جمع کی جائیں جو ہرسال بیرونی ممالک کی شہریت اختیار کرنے کی درخواست دیتے ہیں، تو معلوم ہوجائے گا کہ جن نوجوانوں میں نئی نسل کے لیڈر بننے کی صلاحیت موجود ہے، وہ اپنے وطن کو اس کی حالتِ زار پر چھوڑ کر، محض اس لیے نقلِ مکانی کررہے ہیں کہ انھیں اپنی اُمنگوں کے مطابق لائی ہوئی نمایندہ حکومت میں شریک ہونے کا موقع نہیں مل سکتا۔ انتخابات میں رائے دہندگان کی کم تعداد سے بھی یہ حقیقت ظاہر ہوتی ہے کہ پاکستانیوں کی اکثریت انتخابی طریقِ کار پر عدم اعتماد کا اظہار کرتی ہے۔ احتساب کا عمل بھی ہر موقع اور ہر شخص کے لیے الگ ہوتا ہے، حتیٰ کہ وہ لوگ بھی جو صریحاً اس کی حدود میں آتے ہیں، وہ بھی ناجائز ذرائع سے لوٹی ہوئی دولت میں سے کچھ حصہ اپنے مستغیث دوستوں کے حق میں دست بردار کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں جو مالِ غنیمت کے حصہ دار بننے کے قانوناً مجاز ہوتے ہیں۔جب تک ایسا نظام قائم نہیں ہوجاتا جہاں دیانت دار، مخلص اور تعلیم یافتہ افراد ملک کی حکمرانی اور مضبوط جمہوری اداروں کی ترقی میں شریک ہوسکیں اور جہاں ہر شہری کو اپنی صلاحیت و اہلیت کے مطابق اپنے آپ کو پروان چڑھانے کے لیے یکساں مواقع مل سکیں، تب تک وہ سیاسی آزادی جو پاکستان کے قیام سے حاصل کی گئی تھی، محض ایک سراب ہی رہے گی۔ بانیانِ پاکستان اور ان کی ہم عصر نسل رخصت ہوچکی۔ ان کے بعد آنے والے اس اعتماد پر عزت کے ساتھ پورا اترنے سے قاصر رہے جو ان پر کیا گیا تھا۔ پاکستان ناکام ریاست نہیں بلکہ ناکام فوجی اور سول لیڈروں کے ہاتھوںمیں رہی ہے۔ پاکستان دوراہے پر کھڑا ہے۔ اس کی راہ نجات یہی ہے کہ اُس کے امور و معاملات کا نظم و نسق چلانے کی ذمہ داری نئی نسل کے سیاسی لیڈروں کے سپرد کردی جائے۔ اسی نسل کے پاکستانی سائنس دانوں اور انجینئروں نے پاکستان کو ایک نیوکلیر طاقت بنادیا، جس سے ظاہر ہے کہ پاکستان کے پاس وسیع انسانی و مادی وسائل ہیں۔ نیز اُس کا نظریہ ایسی ریاست کے تصور سے ماخوذ ہے جو وسیع النظری، انسان دوستی اور مساوات پر مبنی ہو۔ یعنی ایسا پاکستان جہاں کاروبارِ مملکت کو جدید، جمہوری، اسلامی اور فلاحی اصول و مقاصد کے مطابق چلایا جائے، اور جن کی وضاحت عوام کی اجتماعی زندگی کے ہر پہلو میں اجتہاد کی بنیاد پر کی جائے۔ جیسے کہ اوپر بیان کیا گیا ہے، جنرل ضیاء الحق کی ہوائی حادثے میں اچانک موت کے بعد پاکستان مسلم لیگ اور پیپلزپارٹی کی کامیابیوں کی بنا پر میاں نواز شریف اور محترمہ بے نظیربھٹو نے یکے بعد دیگرے دو دو مرتبہ وزارتِ عظمیٰ کا منصب سنبھالا۔ دونوں لیڈروں کی آپس میں سیاسی رقابت نے دشمنی کی صورت اختیار کرلی۔ دونوں فریقوں کے درمیان خوب کیچڑ اچھالا گیا۔ دونوں لیڈروں کی شاید ناپختہ ذہنیتوں کے سبب چند غلط فیصلے بھی ہوئے۔ دونوں کو آئین کی شق (۵۸) (۲) (بی) کے تحت اقتدار سے علیحدہ کیا گیا۔ بالآخر ۱۹۹۹ء میں جنرل پرویز مشرف نے میاں نواز شریف کو وزارتِ عظمیٰ کے منصب سے بذریعہ غصب فارغ کرکے اقتدار پر قبضہ جمالیا۔ میاں نواز شریف تو جنرل ضیاء الحق کے ہاتھوں بھٹو کے انجام کے پیش نظر اپنے آپ کو عائد کردہ الزامات کے سلسلہ میں فوجی حکومت سے اپنی جان چھڑاکر سعودی عرب چلے گئے اور محترمہ بے نظیر بھٹو خود ہی ترک وطن کرکے دبئی جاآباد ہوئیں۔ میاں نواز شریف کے ہٹائے جانے سے پیش تر پاکستان کی افغان پالیسی قدامت پرست اور عسکریت پسند طالبان کی حکومت کو تسلیم کرتے ہوئے ان کے ساتھ دوستی پر قائم تھی اور یوں ان کے اثر و رسوخ کو افغانستان کی سرحدوں میں محدود کیا گیا تھا۔ مگر جنرل پرویز مشرف نے امریکہ کے زیراثر اس پالیسی کو ختم کرکے اُن کے خلاف محاذکھول دیا۔ جنرل پرویز مشرف کے دعوے کے مطابق اُنھیں ایسا اس لیے کرنا پڑا کیونکہ ۱۱ ستمبر۲۰۰۱ء کو نیویارک اور واشنگٹن میں تباہ کن دہشت گردانہ حملوں کے بعد انھیں امریکہ کی طرف سے وارننگ دی گئی تھی کہ اگر امریکہ کا ساتھ نہ دیا تو پاکستان کو ’’پتھر کے زمانے‘‘ میں واپس بھیج دیا جائے گا۔ امریکہ کے نزدیک چونکہ ان دہشت گردانہ حملوں کے ذمہ دار اسامہ بن لادن اور افغانستان پر قابض طالبان تھے، اس لیے امریکہ اور اس کے اتحادی یورپی ملکوں نے عراق کے علاوہ افغانستان پر بھی تسلط کے لیے حملہ کردیا۔ افغانستان کے خلاف امریکہ کی جنگ میں پاکستان نے کود کر نہ صرف یہ کہ امریکہ کی طفیلی ریاست بننا قبول کرلیا بلکہ پاکستان دہشت گردی اور خودکش بمباروں کی زد میں آگیا۔ اور اس کا شمار دنیا بھر کے انتہائی غیر محفوظ اور خطرناک ترین ملکوں میں ہونے لگا۔ جنرل پرویز مشرف اپنے پیش رو غاصب جرنیلوں کی مانند ۱۹۹۹ء سے نظریۂ ضرورت کے سہارے، استصواب رائے حاصل کرنے کے غیرآئینی طریقوں اور چند موقع پرست سیاسی گروہوں کی حمایت سے اقتدار سنبھالے رہے۔ اپنے بارے میں وہ اس خوش فہمی میں مبتلا تھے کہ وہ پاکستان میں بڑے مقبول ہیں۔ لیکن ۲۰۰۷ء میں سپریم کورٹ پاکستان کے چیف جسٹس کو اس بنا پر معزول کرکے کہ وہ اُن کے خلاف سازش کررہے ہیں اور بعدازاں ملک میں ایمرجنسی لگانے، ذرائع ابلاغ پر سخت پابندیاں عاید کرنے، سپریم اور ہائی کورٹوں کے مزید ججوں کو ہٹا کر اور ان کی جگہ پی سی او کے تحت اپنے فرماں بردار جج صاحبان کو قسمیں چکوانے کے سبب لوگوں میں جنرل پرویز مشرف پاکستان کی سب سے ناپسندیدہ شخصیت سمجھے جانے لگے۔ پاکستانی وکلائ، سول سوسائٹی، عوام و خواص کے ساتھ مغربی ممالک کے شدید دباؤ پر اُنھوں نے جرنیل کی وردی تو اتار دی اور انتخابات کا اعلان بھی کیا ہے نیز پیپلز پارٹی کی قائد محترمہ بے نظیر بھٹو اور مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف کو پاکستان آنے اور انتخابات میں حصہ لینے کا موقع بھی فراہم کیا ۔ مگر لیاقت باغ راولپنڈی میں محترمہ بے نظیر بھٹو کی ناگہانی موت سے پیپلز پارٹی اپنی محبوب قائد کی سربراہی سے محروم ہوگئی ۔ ابھی تک یہ طے نہیں ہوسکا کہ ان کی موت بہیمانہ ٹارگٹ قتل کی وجہ سے ہوئی یا کسی حادثہ کے سبب اور اگر ٹارگٹ قتل تھا تو اس جرم کا ارتکاب کس نے کیا؟ ۱۸ فروری۲۰۰۸ء کے عام انتخابات میں سب سے زیادہ ووٹ پیپلز پارٹی نے حاصل کیے۔ دوسرے درجہ پر مسلم لیگ (ن) رہی۔ اسی طرح مسلم لیگ (ق)، اے این پی، ایم کیو ایم اور کئی آزاد امیدواروں نے بھی بعض نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔ ان نتائج کے ذریعے پاکستانی قوم نے فیصلہ صادر کردیا کہ وہ جنرل پرویز مشرف اور ان کی پالیسیوں کے خلاف ہیں۔ مگر جنرل پرویز مشرف نے دعویٰ کیا کہ انھیں گزشتہ قومی اسمبلی نے آئین کے تحت آیندہ پانچ برس کے لیے صدر منتخب کیا ہے، اس لیے وہ استعفیٰ نہیں دیں گے۔ نیز چونکہ انھوں نے شفاف انتخابات کرانے کا وعدہ پورا کردیا ہے، اس لیے مرکز میں جو بھی حکومت بنی اس کے ساتھ مل کر کام کریں گے۔ یہ دعویٰ اس بنا پر کیا جارہا تھا کہ سینٹ کے ممبران کی اکثریت غالباً فی الحال ان کے حق میں ہونے کے سبب قومی اسمبلی اور سینٹ کے جائنٹ سیشن میں آئینی طور پر اُنھیں ’’امپیچمنٹ‘‘ کے ذریعے فارغ کرنے کی خاطر دو تہائی ووٹ حاصل کرسکنے کا امکان کم تھا۔ سو ان حالات میں ظاہر ہے کہ جنرل پرویز مشرف نے جب بھی صدارت کو چھوڑا رضاکارانہ طور پر ہی چھوڑیں گے۔ پاکستان اگر واقعی ایک بار پھر جمہوریت کی راہ پر گامزن ہونے کا ارادہ رکھتا ہے تو اُسے جن اہم مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا وہ مندرجہ ذیل ہیں: ۱- انتخابات میں کامیاب سیاسی جماعتوں کے مکمل یا جزوی اتحاد یا آزاد امیدواروں کی امداد سے جو بھی مرکزی یا صوبائی حکومتیں بنیں گی، قومی اسمبلی یا پارلیمنٹ کے لیڈر یا وزیراعظم یا چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ یا قومی یا صوبائی اسمبلیوں کے دیگر عہدہ دار جن سیاسی جماعتوں سے بھی لیے جائیں، انھیں اپنے منصب کا حلف اٹھانا پڑے گا۔ کیا اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اُن سب نے ۱۹۷۳ء کے آئین کو ان تمام ناجائز تبدیلیوں کے ساتھ تسلیم کرلیا ہے جو جنرل پرویز مشرف نے اُس میں وارد کررکھی ہیں؟ ۲- آئین کی موجودہ شکل کے تحت جنرل پرویز مشرف کی بحیثیت صدر وزیراعظم پاکستان کے ساتھ تعلقات کی نوعیت کیا ویسے ہی ہوگی جیسے جنرل ضیاء الحق کی وزیراعظم کے ساتھ تھی؟ ۳- اگر جنرل پرویز مشرف رضاکارانہ طور پر صدارت کا منصب نہیں چھوڑتے تو اُن سے خلاصی حاصل کرنے کی خاطر کیا آئینی طریقہ اختیار کرنا ہوگا؟ ۴- ملک میں صحیح معنوں میں وفاقی پارلیمانی جمہوری نظامِ حکومت قائم کرنے کی خاطر ۱۹۷۳ء کے آئین میں جن اہم تبدیلیوں کی ضرورت ہے اُنھیں کب اور کس طرح آئین کا حصہ بنایا جائے گا؟ ۵- چیف جسٹس پاکستان اور دیگر فارغ کردہ اعلیٰ عدالتوں کے ججوں کو آئینی طور پر کیسے بحال کیا جاسکے گا؟ ۶- ایمرجنسی کے پردے میں جو دیگر غیرآئینی اقدام اٹھائے گئے، مثلاً پی سی او کے تحت نئے ججوں کو حلف دلوا کر اپنے عہدوں پر فائز کرنا، پریس اور میڈیا پر ناجائز پابندیاں لگانا، اعلیٰ عدالتوں سے ایسے اقدام کے حق میں فیصلے کروانا وغیرہ، ان کا تدارک کیسے ہوگا؟ ۷- دہشت گردی کے خلاف امریکہ کی جنگ میں پاکستان بدستور شرکت جاری رکھے گا یا اس جنگ سے کنارہ کشی اختیار کرلے گا؟ ۸- بجلی، گیس، آٹے یا مہنگائی، بے روزگاری، غربت، بیماری اور دیگر ایسے بحرانوں سے فوری طور پر کیسے نپٹا جائے گا؟ نیز آیندہ ملک کے لیے مثبت معاشی ترقی کی خاطر کیا اقدام اٹھائے جائیں گے؟آ ئ…ئئ…ء