استقرائی استدلال اورفکرِاقبال (Inductive Reasoning and Iqbal's Thought) خالد الماس اقبال اکادمی پاکستان جملہ حقوق محفوظ ناشر محمدسہیل عمر ناظم اقبال اکادمی پاکستان (حکومتِ پاکستان، وزارت ثقافت ) چھٹی منزل ، ایوان اقبال ، لاہور Tel: [+92-42] 6314-510 Fax: [+92-42] 631-4496 Email: director@iap.gov.pk Website: www.allamaiqbal.com ISBN 978-969-416- - - طبع اوّل : ۲۰۰۷ء تعداد : ۱۰۰۰ قیمت : ۔؍۰۰روپے مطبع : محل فروخت : ۱۱۶ میکلوڈ روڈ ، لاہور، فون نمبر ۷۳۵۷۲۱۴ ہمائے علم تا افتد بدامت یقیں کم کن، گرفتارِ شکے باش عمل خواہی؟ یقیں را پختہ ترکن یکے جوے و یکے بین و یکے باش پیش لفظ استقرائی استدلال،انسان کے ذہن کا فطری عمل ہے جس میںوہ اپنے خارجی تجربات اور باطنی واردات کے زور پرمعاملاتِ زندگی کوبہتر طریقے سے نپٹانے کے لئے پختہ خیالات و نظریات کی تشکیل کرتا ہے۔یونانی دور کی روایت۱ہے کہ رواقیوں(Stoics)کے زمانے میں یونان کابادشاہ بطلیموس(Ptolemy)،افلاطون(Plato)کے مابعدالطبیعی افکار سے متاثر تھا جو عالم ِرنگ وبوکوحواس وادراکات کادلنشین فریب خیال کرتا تھا۔ اسے معلوم ہواکہ حکیم زینو،رواقی (Zeno,the Stoic)کاشاگرد،سفائرس(Sphaerus)حواس وادراکات کوواہمہ نہیںسمجھتا۔ وہ حسی التبا سات کواندازوں کی محض ایسی بھول چوک خیال کرتاہے جن سے بچا جاسکتاہے بشرطیکہ ذرا سی احتیاط سے کا م لیاجائے۔ بادشاہ نے اس کے خیال کوآزمانے کی خاطراسے شاہی عشائیہ میںمدعو کیا ۔وہاں اسے موم کابنا ہواایک ایسا انار کھانے کے لئے پیش کیاجس کے نقل پراصل کا گمان گزرتا تھا۔طعام کے دوران جونہی سفائرس نے اس انار کی طر ف ہاتھ بڑھایا، بادشاہ بہت ہنسا اوراس کا خوب مذاق اُڑایا۔اس صورت حال میں،سفائرس نے اپنی صفائی میںفی البد یہہ کہا، میں نے انار کی طرف اس لئے ہاتھ نہیں بڑھایا کہ مجھے وہ سچ مچ کاحقیقی انارلگا،میں نے اسے اس لئے کھا نا چاہا کہ شاہی دسترخوان میں عام طورپرایسی شے کھانے کے لئے پیش نہیں کی جاتی، جواصلی نہ ہو۔یہاں، سفائرس کے خیال میں استقرائی استدلال کی کارگزاری۲ ملتی ہے کیونکہ تجربہ بتاتا ہے کہ شاہی دسترخوان میں زیادہ امکان اس امرکا ہوتاہے کہ پیش کردہ اشیاء کھانے کے لائق ہوں گی۔لہٰذاانسان کودھوکااس کے حواس نہیں،تجربات دیتے ہیںاورتلخ تجربوںہی سے تازہ تجربوں کی مزید راہیں کھلتی ہیں،خواہ وہ تجربے کتنے ہی معمولی کیوں نہ ہوں،اپنی علمی اورعملی حیثیت میں بہت دُوررَس نتائج کے حامل ہوتے ہیں۔ ویسے بھی سنجیدہ فکر کبھی بے سروپانہیں ہوتی۔اس کے پیچھے کہیں نہ کہیں استقرائی استدلال ضرور کارفرما ہوتا ہے جو درحقیقت ایسا ذہنی عمل ہے جس میں معلوم سے نامعلوم حقائق کا کھوج لگایا جاتا ہے اور جس کے باعث طبیعی سے مابعدالطبیعی علائق کی کڑیاں باہمدگرپیوستہ ہوجا تی ہیں۔ اسی کے بل بوتے پرانسانی فکر کو وہ رِفعت نصیب ہو جاتی ہے جہاں اُلوہیت سے مستفاد کرنیں اِنسا نیت سے چھو کر گزرتی ہیں۔فکرِاقبال میں یہی استدلال مستور ہے جسے بروئے کارلاتے ہو ئے اس نے مسلمانوں کو جھنجھوڑا کہ عہد جدید کے مسلمانوں کو مغربی دانش کی مادی ترقی اور مشرقی حکمت کی روحانی آسودگی ،دونوںکے تجربات سے بیک وقت فیض یاب ہونے کی ضرورت ہے تاکہ عظمت ِاسلام کایہ احساس جاگزیں ہو کہ انسان کواپنے مادی اورروحانی وسائل کے سہارے اپنے شعورِ ِحیات کی تکمیل خودکرناہے۔ختمِ نبوتؐ کے بعد انسان کی فکرو بصیرت اس نہج کوپہنچ چکی ہے جہاںوہ اپنی جستجواورلگن سے ان حقیقتوں کو جان سکے جن کی رہنمائی کی خاطرکبھی پیغمبر ؑمبعوث ہواکرتے تھے۔اقبال کے نزدیک،یہ خوبی صرف استقرائی استدلال کو حاصل ہے،جس کی بدولت انسان اپنے داخلی محسوسات اور خارجی تحسسات کی مددسے ایسے تعمیمات اور تعقلات وضع کرتاہے جن سے چھپی ہوئی صداقتوں کودریافت کرنے اورماننے کی مشکلات چنداںمشکل نہیں رہتیںگو ایسا کرناآساں نہیںمگر حضرتِ انساں کا امتیازہی یہ ہے کہ جوآسان نہیں،اسے آسان بنا ڈالے۔ اس اعتبارسے،اقبال کے خیال میں، اسلام کاظہور دراصل استقرائی عقل کا ظہو رہے۳۔فکر ِانسانی کے تاریخی شواہدکوپیش ِنظررکھاجائے توایک سوالیہ نشان چسپا ںہوتاہے کہ کس زمانے سے انسان نے صحیح معنی میں استقرائی استدلال کے مصرف کا گرُسیکھا؟ اس کی وجہ سے ایک طرف غیرمسلم تو مادی و طبیعی ترقی کی دوڑمیں بتدریج اتناآگے نکل گئے کہ روحانی ومابعدالطبیعی حقائق کو بہت پیچھے چھوڑ گئے جب کہ دوسری طرف مسلم ، جو مادی اورروحانی، طبیعی اورمابعدالطبیعی حقائق وعلائق میںتمیز اور توازن قائم کرنے کاقرینہ جانتے تھے،ہر دو اعتبارسے فکری افلاس اور تنزل سے دوچارہوئے اوراستقرائی استدلال کی اُس صراطِ ِمستقیم ہی سے بھٹک گئے جو کبھی ان کاسرمایٔہ افتخار تھا۔ آخر کیوں؟ یہ وہ سوال ہے جوفکر ِاقبال کے شناور کو پریشان کرتا ہے یعنی اسلام کا ظہوراگرفی الوا قع استقراء کا ظہورہے تو پھر مسلم اُمہ ہی بالخصوص فکری پسماندگی اور ذہنی پستی کا شکار کیوں ہے؟ اس سوال کا جواب معلوم کرنے کی خاطراس مقالے کوپانچ ابواب میںتقسیم کیا گیا ہے۔ پہلے باب میںاستقرائی استدلال کے بارے میںاہم معلومات بیان کی گئی ہیںاور اس سے متعلق فکرِاقبال کے حوالے سے چندضروری وضاحتیںپیش کی گئی ہیں۔ دوسرے باب میں چینی، ہندوستانی اوربالخصوص یونانی ادوارکے کلاسیکی استدلال کا تاریخی جائزہ پیش کیاگیا ہے اورآخرمیں صرف یونانی استدلال کااقبال کی انفرادی اور عمومی فکرکے ہردوزاویوںسے تجزیہ کیا گیا ہے۔ تیسرے باب میںمسلمانوںکے استدلال کاعلم الکلام،حکمت وفلسفہ اورتصوف کی رُوسے تاریخی جائزہ لیاگیاہے اور آخرمیںان تینوںمکاتب کے بارے میںبالترتیب اورعلیحدہ علیحدہ اقبال کا فکری تجزیہ پیش کیاگیاہے۔ چوتھے باب میںیونانیوں، مسلمانوںاوریورپین کے سائنسی استدلال کاتاریخی جائزہ بیان کیاگیااورآخرمیںان سبھی کے استدلال کے بارے میںترتیب واراورالگ الگ اقبال کافکری تجزیہ پیش کیاگیاہے۔آخری باب میں گزشتہ ابواب کی تلخیص اوران سے اخذ کردہ ماحصل کوپیش کیاگیاتاکہ استقرائی استدلال کے متعلق فکر ِاقبال کی گیرائی اورگہرائی سے شناسائی ہوسکے۔ ایسا تحقیقی عمل یقینادِقت طلب اوربہت دُشوار گزاررہتا اگرفضل خداو ندی کے بعدقابلِ صد احترام پروفیسر ڈا کٹرعبدالخالق،سابق صدر،شعبۂ فلسفہ،پنجاب یونیورسٹی، جیسے شفیق استادکی حوصلہ افزائی اوررہنمائی شامل حال نہ رہتی جنہوں نے بڑی محبت اور محنت سے ہرباب کے متن اور حواشی کواپنی مختصراورجامع تصحیحات واشارات سے اس قابل بنایا کہ اس میں پائی جانے والی غلطیوں اور کوتاہیوں کو بقدرِ امکان رفع کیاجاسکا۔فارسی اشعار کے تراجم اور مفا ہیم کے سلسلے میںجس خلوص سے پروفیسرسیدرشیداحمدشاہ بخاری ،صدرشعبۂ فارسی ،گورنمنٹ اسلامیہ کالج،سول لائنز، لاہور، نے مددکی،اُس کا کماحقہ حق اداکرناممکن نہیں۴۔بعض عربی اورانگریزی کے متبادل اردوالفاظ کے انتخاب میں پروفیسرعلی مبصر،صدرشعبۂ عربی، گورنمنٹ کالج ، شرقپور نے جومعاونت کی اس کے بغیر شایدوہ بات نہ بن پاتی جو مقصود تھی۔بعض کتب کی فراہمی کوفلسفہ کے پروفیسر ڈاکٹرخلیل احمد، گورنمنٹ کالج آف ایجوکیشن ، لاہور، نے ممکن بنایا جو ویسے ڈھونڈناشایداتناسہل نہ ہوتا ۔میری یہ انتہائی خوش نصیبی رہی کہ اس مقالے کے مسودہ کی کمپیوٹرکمپوزنگ والدہ صا حبہ نے انتہائی شوق سے کی، اُن کی شفقت اور مشقت بالآخررنگ لا ئی اور مقالہ اس رنگ رُوپ میں ظہورپذیر ہوا۔ آخرمیں،یہ اعتراف نہ کرنابے انصافی ہوگی کہ صدرشعبۂ اقبالیات،علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی،اسلام آباد، پروفیسر ڈاکٹررحیم بخش شاہین(مرحوم) نے اقبالیات کی تحقیق کے میدان میں جو اُڑان بھرناسکھایا تھا،یہ اس سلسلے کی ایک اور کاوش ہے ۵۔ یہ ا یم فل اقبالیات کی اُن تدریسی مشقوں کا فیضان ہے جوانہوں نے بڑی عمیق نظرسے دیکھیں اورجانچیں۔اﷲ تعالیٰ انہیںجوارِ ِرحمت میں جگہ عطافرمائے ۔آمین ~~~خالدالماس~~~ حواشی ۱۔ اس روایت کوبحوالہ(Diogenes Laeritus,vol,VII,177)، برٹرینڈرسل نے اپنی انگریزی تصنیف کے باب نمبر XXVIIبعنوانStoicism' 'میں اختصارسے، یوں بیان کیا ہے: "In theory of knowledge,in spite of Plato,they accepted perception; the deceptiveness of the senses, they held, was really false judgment, and could be avoided by a little care. A Stoic philosopher, Sphaerus, an immediate disciple of Zeno, was once nvited to dinner by King Ptolemy, who, having heard of this doctrine, offered him a pomegranate made of wax.The philosopher proceeded to try to eat it, whereupon the king laughed at him.He replied that he had felt no certainty of its being a real pomegranate, but had thought it unlikely that anything inedible would be supplied at the royal table. see, Bertrand Russell, History of Western Philosophy, p.275 ۲۔ باور رہے کہ رواقی،استقرائی استدلال کے شائق نہ تھے،وہ بھی دیگر یونانیوں کی طرح استخراجی استدلال کے مشاق تھے۔اُن کے ہاں بھی استقرائی استدلال کی کارگزاری ایک بالواسطہ قسم کا معاملہ تھا۔ برٹر ینڈرسل کے مطابق،سارے کاسارا یونانی دور بنیادی طور پراستخراجی تھا،استقرائی نہیں۔ (تفصیلات کے لئے دیکھئے،باب دوم میں’یونانی استدلال‘ کاحصہ۔) ۳۔ پانچویں خطبہ، بعنوان،"The Spirit of Muslim Culture"،میںاقبال کے اصل الفاظ یوں ہیں: "The birth of Islam...is the birth of inductive intellect."see, Allama Muhammad Iqbal,The Reconstruction of Religious Thought in Islam,p.101 ۴۔ اقبال کے فارسی کلام کے تراجم کے سلسلے میں،پہلے میاں عبدالرشید صاحب کے ترجمے بعنوان’کلیاتِ اقبال فارسی‘ (جلداوّل اوردوم )شائع کردہ شیخ غلام علی اینڈ سنز،سے استفادہ کیا گیا،مگر محترم پروفیسرڈاکٹرعبدالخالق نے کچھ مصرعوں میں ترجمے کی غلطیوںکی نشاندہی کی۔ ان کی اصلاح کی خاطر پروفیسرسید رشیدبخاری سے رجوع کیا گیا ۔اُن کے بقول، اقبال کے فارسی کلام کے جو تراجم دستیاب ہیں،وہ معیاری نہیںاور یہ المیہ ہے کہ فارسی زبان کے ماہرین اوراقبال شناسوںنے اس طرف سنجیدگی سے کوئی توجہ نہیں دی،نتیجتاً،فارسی سے نابلد محقق دستیاب تراجم سے استفادہ کرنے پر مجبور ہیں اور ناواقفیت کی بنیاد پر ان تراجم کو معتبراور مستند شمار کرتے ہیں۔ ۵۔ اس سے پہلے راقم نے،شعبۂ اقبالیات ،علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی، اسلام آباد،کوتحقیقی مقالہ برائے ایم فل اقبالیات، بعنوان، ’’فرائڈاوراقبال کے نظریاتِ شخصیت کا تقابلی مطالعہ‘‘، زیرِ نگرانی، پروفیسر ڈاکٹر نعیم احمد،صدر شعبۂ فلسفہ،پنجاب یونیورسٹی، لاہور ، ۱۹۹۷ء میںپیش کیا ۔ باب اوّل استقرائی استدلال: ایک تعارف (INDUCTIVE REASONING: AN INTRODUCTION) ’’جو استدلال کرتا ہے وہ کرتا ہے، جو نہیں کرتا وہ بھی کرتا ہے۔ لہٰذا استدلال تو ہر کوئی کرتا ہے۔‘‘ (ارسطو) "He who philosophizes, philosophizes, and he who does not philosophize, philosophizes too, so everybody philosophizes," (Aristotle) (Anton Dvmitriee,History of Logic,Vol:1, P.x of Forward) استدلال کی تعریف وتفہیم (Definition and Comprehension of Reasoning) حیوان اورانسان کے درمیان میں فرق زندگی گزرنے اورگزارنے کاہوتاہے۔جبلتوں اورجذبوں سے زندگی گزرتی ہے مگرعقل کی مددسے گزاری جاتی ہے۔اسی تمیزکی تفہیم سے انسانی فکرمیںاستدلال کاپیش منظرابھرتاہیجوحسی مدرکات، منطقی معقولات، روحانی واردات، مستعملہ روایات اوراستنادیت،سبھی کو اپنے محیط میںلے لیتاہے جس سے فطری حقائق کی فکری دھنک کے رنگ ہویدا ہوتے چلے جاتے ہیں اور اس پس منظرمیںانسان کافکری ارتقاء اپنی منازل طے کرتا چلاجاتاہے جہاں بالآخر فکر کے متنوع اور متفرق دائرے ایک ہی دائرے میںتحویل ہو جاتے ہیں۔ یہی استدلال کااوجِ کمال ہے جہاں انسان کے ایقان کوایمان نصیب ہوتاہے اورجس کی رُو سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ انسان ہونا حقیقت نہیںبلکہ کاوش ہے۔دیکھاجائے توفرانسیسی مفکروِل ڈیورانٹ(Will Durant) کا کہنا غلط نہیںکہ’’ ہم استدلال اس لیے نہیںکرتے کہ ہم استدلال کرناچاہتے ہیںبلکہ اس لیے کہ ہمیں ایسا کرناپڑتاہے۱۔‘‘یہ انسان کی وہ مجبوری ہے جس کی بدولت ہر طرح کی فکری آزادی بروئے کار لائی جاتی ہے۔بحیثیت مجموعی،انسان کی اپنی دنیااصل میں اس کے استدلال کی دنیا ہے۔ بنیادی طورپر،استدلال ایسا ذہنی فعل ہے جس کی وجہ سے کوئی فردمناسب اورمعقول وجوہات کی بنیادپرکسی تسلی بخش نتیجے پرپہنچنے کی کوشش کرتاہے۲۔یہ حوالہ چارنکات کاحامل ہے: ۱۔ اس کا مقصدکسی مسئلے کاحل تلاش کرناہے ۲۔ اس کا طریقہ مناسب اور معقول وجوہات کی بنیاد پر فیصلہ کن نتائج برآمدکرناہے ۳۔ اس کاتعلق براہ راست فردسے ہے،کسی گروہ سے نہیں ۴۔ اس کا علاقہ فردکی باطنی اورداخلی کیفیات سے ہے۔جہاںخارجی مشاہدات وتجربات سے اسے تحریک وتقویت ملتی ہے۳۔ ایک لحاظ سے دیکھاجائے تو استدلال کافی حدتک کسی دریافت کی مانند محسوس ہوتا ہے ۔ جس طرح کسی بھولی بسری دریافت کوباربارڈھونڈنے سے اس کی حقیقت پر کوئی حرف نہیں آتا ، بعینہٖ کسی استدلال کے اعادے سے اس کی اصلیت میںکوئی تبدیلی نہیںآتی۔جب کہ ایک دوسر ے زاویہ سے غور کیا جائے توان دونوںمیںفرق بھی معلوم ہوتاہے جوصرف اتناہے کہ دریافت کے لیے اس کی منزل کاحصول انتہائی ضروری ہوتاہے جب کہ استدلال کے لیے یہ لازمی نہیں۔ وہ ہرصورت میںاستدلال ہی رہتا ہے، چاہے اسے اپنی منزل ملے یانہ ملے ۔گو منزلِ مقصودکی کامیابی اس کے لیے انعام کا درجہ رکھتی ہے مگر ناکامی کی صورت میں بھی وہ شاندار اور دلآویز ہو سکتا ہے۔یعنی اس کی خوبصورتی کاانحصاراس کی کامیابی کے حصول پرہی نہیںبلکہ اسے پیش کرنے کے اندازپربھی ہوتاہے۔عام طور پرعمدہ استدلال اسے خیال کیا جاتا ہے جس میںدرپیش مسئلے کافوری، بھرپوراورسیدھاسادہ حل موجودہو،جوفرد کے عہداور فکری تناظرسے مطابقت رکھتا ہو اور مناسب اورمعقول وجوہات کاحامل ہو۔ بنیادی طورپر،اس میںچہارجہتی سرگرمیاںکارفرماہوتی ہیں: ۴ ۱۔ بنیادی مسئلے کاشعورہونا ۲۔ مسئلے کے حل کی پیش بندی کرنا ۳۔ مناسب اورمعقول وجوہات کی تلاش کرنا ۴۔ تسلی بخش نتائج تک پہنچنا اس کی وضاحت کے لیے ایک انتہائی سادہ سی مثال۵ کومدنظررکھتے ہیں۔بالفرض،یہ جاننا مطلوب ہوکہ کیا دیوجانس کلبی اورسکندراعظم کی وفات ایک ہی سال میںہوئی۔اس سلسلے میں سب سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ دیوجانس کلبی کون تھا اور سکندراعظم کون ۔بالفرض معلوم ہو جائے کہ دیوجانس کلبی یونان کافلسفی تھااورسکندراعظم شہنشاہ ٔیونان۔تب یہ مسئلہ حل طلب رہ جاتاہے کہ کیادونوںنے ایک ہی سال میںوفات پائی۔مسئلے کے شعورکے بعد اس کے موزوںحل کی پیش بندی درکارہوتی ہے۔جس کے لیے کچھ سادہ سے سوالات تیارکئے جاتے ہیںجیسے: ۱۔ دیوجانس کلبی کی وفات کب ہوئی؟ ۲۔ سکندراعظم کی وفات کب ہوئی؟ ۳۔ کیاواقعی ان شخصیات کی وفات ایک ہی سال میںہوئی؟ اب مسئلے کے حل کی خاطرمعقول اورمناسب وجوہات کی تلاش ضروری ہے۔اس کے لیے تاریخِ یونان کی مستندکتابوںاورمتعلقہ انسائیکلوپیڈیاکی ورق گردانی کی جاتی ہے اوربالآخرتاریخی شواہد کی مددسے اس تسلی بخش نتیجے پر پہنچاجاتاہے کہ مستندمؤرخین میںاتفاق رائے موجودہے کہ دیوجانس کلبی اورسکندراعظم،دونوںکی وفات۳۲۳قبل مسیح میںہوئی۔ لہٰذایہ نتیجہ درست ہے کہ دونوںایک ہی سال میںفوت ہوئے۔ چونکہ استدلال کاسبب ہمیشہ کوئی نہ کوئی اہم مسئلہ بنتاہے،اس لیے یہاں لفظ’’ مسئلہ ‘‘ کے مفہوم کی صراحت ضروری ہے تاکہ استدلال کی نوعیت اجاگرہوسکے ۔مسئلہ ہمیشہ کسی نہ کسی مقصد کے حصول میں حائل کسی مشکل کی وجہ سے پیداہوتاہے اوراستدلال کا مقصداس مشکل کورفع کرنے کی حتی الوسع جدوجہدکرنا ہوتا ہے۔ اس مقام پر،دو طرح کی مشکلات۶ میں تمیز کر لینا ضروری ہے: ۱۔ عملی مشکل:(Performance Problem) اس سے مرادایسی دشواری ہے جوکسی عملی کام کوپایۂ تکمیل تک پہنچانے کے دوران میںپیش آئے۔ جہاںکام کرنے والے کویہ معلوم ہوکہ کرناکیاہے مگروہ عملاًکرنہ پائے ۔جیسے کسی کو علم ہوکہ کرکٹ کیسے کھیلتے ہیںمگرمشق نہ ہونے کے باعث کھیل نہ سکے۔کسی کو معلوم ہوکہ اس نے اپنا پیانو ڈرائینگ روم سے بیڈروم میںلے جاناہے لیکن زیادہ وزنی ہونے کی وجہ سے وہ اکیلااسے اٹھانہ سکے۔کسی نے اپنے اسباق کاخوب رٹالگارکھاہومگر عین وقت پر بھولنے کی وجہ سے سنانے سے عاجز ہو۔ ۲۔عقلی مشکل:(Intellectual Problem) اس سے مرادایسی دشواری ہے جوکسی عقیدے یانظریے کومستنداورقابلِ قبول معیارکے مطابق قبول کرنے کے سلسلے میںپیش آئے،جیسے مختلف اورمتبادل عقائدمیںسے کسی ایک عقیدے کوچننا،کسی عقیدے کی قبولیت کے بارے میںتجزیہ یافیصلہ کرنا،مختلف نظریات میںسے کسی عمومی اصول کی تلاش کرنا،صحیح اورغلط عقیدے یانظریے میںتمیزکرنا۔ مشکل ،عملی ہویاعقلی،اسے رفع کرنے کے لیے تفکرکی ضرورت پڑتی ہے۔عملی مشکل میں تفکرکاعمل دخل محض آموزش پرمبنی ہوتاہے کیونکہ اس کاحل خاصی مہارت اورمشق کامتقاضی ہوتا ہے۔اس کے برعکس، عقلی مشکل میں تفکر استدلال کا روپ اختیار کرتاہے کیونکہ اس کا حل مناسب اور معقول وجوہات کے بل بوتے پر تسلی بخش نتائج کشیدکرنے کامتقاضی ہوتاہے۔اس لحاظ سے استدلال کی ہرطرح تفکرہے لیکن تفکر کی ہر طرح استدلال نہیں۔گویا استدلال کی رُو سے یہ گمان کرناغلط ہے کہ جوبھی خیال ذہن میںآئے وہ تفکرہے۔دیکھاجائے توتفکربنیادی طور پر دو طرح کا ہوتا ہے:۷ ۱۔ بامقصدفکر(Reflective Thinking) ۲۔ بے مقصدفکر(Unreflective Thinking) بے مقصدفکرایساتفکرہے جس میںشعوری سطح پرکوئی بنیادی مسئلہ درپیش نہیںہوتا۔اِس لیے اِدھراُدھر کے بے ربط خیالات ذہن میں اُمڈے چلے آتے ہیں۔ اس کے برعکس بامقصد فکر ایسا تفکرہے جس میں شعوری سطح پر کوئی نہ کوئی بنیادی مسئلہ در پیش ہوتاہے۔ اس لیے اس کے حل کی خاطر خیالات کو کسی تواترسے ذہن میں یکجا کیا جاتاہے۔ اِسے ایک مثال سے سمجھتے ہیں :۸ بالفرض کوئی کاہل شخص دوپہرکودھوپ میںساحل سمندرپرلیٹاہوااپنے خیالات میںکھویا ہوا ہے۔جہاںکبھی سمندری لہروںکاشور،کبھی پتھروںکی حدت،کبھی پرندوںکی چہچہاہٹ،کبھی ساحلی ہواکی تمازت سے اس کے ذہن میںاِدھراُدھرکے بے ربط خیالات اُبھرتے اورڈوبتے رہتے ہیںکہ یکایک اُسے انتہائی زوردارسمندری لہر کاشور سنائی دیتا ہے۔ وہ غورکرتاہے کہ پانی کا زبر د ست ریلاچٹان کے اس ٹکڑے سے ٹکرایاہے جس کے نزدیک وہ لیٹاہے۔ پانی کے زورسے چٹان کا کچھ حصہ کٹ ساگیاہے۔چٹان کے پیچھے اب اتنی کھائی بن گئی ہے جسے عبورکرناممکن نہیں۔ اُسے خیال آتاہے کہ اگروہ وہاںسے نہ ہٹاتوپانی کااگلاریلااُسے بہاکرلے جائے گا۔اسے تو تیرنابھی نہیں آتا ۔یہ سوچتے ہی وہ خوف زدہ ہوجاتاہے اورمددکے لیے چلاتاہے کہ شایدساحل کے آس پاس کوئی موجودہو،اس کی مددکو آئے اوراسے بچالے۔معاًاسے خیال آتاہے کہ اگر کوئی موقعے پر نہ پہنچاتوریلا اسے بہا لے جائے گا۔لہٰذاوہ بچنے کے لیے ہرطرف نگاہ دوڑاتاہے اور اپنے سرکے قریب چٹان کاایک تنگ ساسراموجودپاتاہے جس پرچڑھ کروہ اگلے ریلے سے محفوظ رہ سکتاہے لہٰذاوہ اس سرے پرچڑھنے کی کوشش کرتاہے اوربالآخرمتوقع سمندری ریلے سے محفوظ ہو جاتا ہے ۔ اس مثال کے مطابق جب تک وہ شخص ساحل سمندرپرلیٹاادھرادھرکے بے ربط خیالات میںگم تھا،وہ کسی بنیادی مسئلے سے دوچارنہ تھا۔قدرتی ماحول کے تناظرمیںاس کے ذہن میں خیالا ت کاجوبے ربط سلسلہ قائم ہواوہ بے مقصدفکرکاغمازہے۔اس کے برعکس،جب وہ سمندری ریلے کے درپیش خطرے سے دوچارہواتواس کے ذہن میں خیالات کاایک مربوط سلسلہ قائم ہوا جس میںمتوقع خطرے کا مشاہدہ،اس کاشعور،اس سے بچنے کی حفاظتی تدابیر اور بالآخربچنے کی عملی کوشش کافکری تسلسل دکھائی دیتاہے۔ایسافکری تسلسل بامقصدفکرکاترجمان ہے۔تفکرکی اس تفریق کو پیشِ نظررکھاجائے تو بے مقصدفکرکااستدلال سے کوئی تعلق قائم نہیںہوتا۔صرف بامقصد فکر کا تعلق استدلال سے اُستوار ہوتاہے ۔علاوہ ازیں،یہ جان لینابھی ضروری ہے کہ خواہ فکربے مقصد ہو یا بامقصد،تفکردوطرح کے پہلو۹رکھتا ہے : ۱۔فکرکاعمل : اس سے مرادکسی فردکی وہ ذہنی حالت ہے جس میں طرح طرح کے خیالات یکے بعد دیگرے مشہود و معدوم ہوتے رہتے ہیں۔مثال کے طور پر کسی شخص کے خواب، تخیلات،اخترشماری، واہمے، تلازم خیالات کے بارے میںنفسیاتی عوامل اورتحریکات کوڈھونڈنافکر کے عمل کو ظاہر کرتے ہیں۔ ۲۔فکرکانتیجہ : اس سے مرادکسی فرد کے ذہنی عمل کے وہ فیصلہ کن حاصلات ہیں جن کا تجزیہ حقائق وعلائق کی فکری صداقت کوبیان کرتاہے جیسے سماجی،سیاسی،مذہبی،اقتصادی اورفلسفیانہ مسائل کے بارے میںمنطقی تجزیہ اور تنقید کرنافکر کے نتیجے کو ظاہر کرتے ہیں۔ فکرکے عمل سے انسانی کرداراورروّیے تشکیل پاتے ہیں۔جیسے کہ بیان کردہ مثال میںبے ربط خیالات کافکری عمل ساحلِ سمندرپرلیٹے شخص کی کاہلی کواورخطرے سے درپیش مسئلہ سے متعلق مربوط خیالات کاسلسلہ اس کے اضطراب کوظاہرکرتاہے۔ استدلال کافکرکے عمل سے کوئی سروکار نہیں ہوتا ۔اس کاواسطہ اس فردکے نتیجۂ فکر سے ہوتا ہے جہاں ہمیشہ مربوط خیالات کی بنیاد پر مسئلے کا شعوری حل ڈھونڈاجاتاہے۔اس حوالے سے،استدلال کاتعلق منطق ’Logic‘ سے قائم ہوتاہے کیونکہ منطق استدلال کوصحیح طورپروضع کرنے اوربہتراندازمیںپیش کرنے کاقرینہ سکھاتا ہے۔اس کے بارے میںقواعدوضوابط طے کرتاہے اورنتائج کے تجزئیے کے گُربتاتاہے۔منطق اوراستدلال کے با ہمی تعلق کی نوعیت منطق کی اجمالی سی تعریف وتفہیم سے واضح ہوجاتی ہے۔ منطق’Logic‘ یونانی لفظ لوگوس ’Logos‘ سے مشتق ہے۔ذومعنی ہونے کی وجہ سے لوگوس کے دومفہوم ہیں :۱۰ .1تفکر:(Ratio) اس سے مرادوہ تصوریاخیال ہے جوانسانی ذہن میںقائم ہوتاہے۔ .2لفاظی: (Oratio) اس سے مرادوہ لفظ یاجملہ ہے جوانسانی ذہن میںقائم کردہ تصوریاخیال کوظاہر کرتا ہے۔ جہاں تک ارسطوکاتعلق ہے۔ اُس نے تفکرکو اندرونی لوگوس (Inward Logos) اورلفاظی کوخارجی لوگوس(Outward Logos)سے عبارت کیاہے۔ یہ حقیقت ہے کہ تفکراورلفاظی کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ جہاںتفکر لفاظی کا تجریدی عکاس ہے، وہاں لفاظی تفکرکا تجسیمی روپ ہے۔ اس بناء پرفکرکوزبان سے اورزبان کوفکرسے جدامتصورکرنامحال ہے۔جس طرح کرسی کے بغیر اقتدارکاخواب شرمندۂ تعبیرنہیںہوسکتااسی طرح زبان کے بغیرفکرکا سلسلہ قائم نہیںہوسکتا کیونکہ زبان فکرکے لیے کرسی کی مثل ہے توفکرزبان کے لیے اقتدارکی مانندہے۔ لغوی مفہوم سے قطعِ نظر،عام طورپرلوگوس سے مرادایسی بات چیت یابحث مباحثہ لیاجاتا ہے جوٹھوس دلائل پرمبنی ہو۔اس اعتبارسے منطق ایساعلم ٹھہرتاہے جس میںصحیح اورغلط فکری دلائل کے مابین تمیزکی جاتی ہے۔لیکن اصطلاحی معنی میں،منطق وہ معیاری علم ہے جوکسی بھی بامقصدفکر کی صداقت اورصوری صحت کے لیے قواعدوضوابط وضع کرتاہے اوراس زاویے سے اس کامطالعہ کر تا ہے۔یہاں،منطق کومعیاری علم اس لیے قراردیاگیاہے کہ یہ حقائق کو بعینہٖ بیان نہیںکرتابلکہ حقا ئق کی قدر وقیمت کو اجاگرکرتاہے۔گویامنطق کا مسئلہ یہ نہیں کہ حقائق کیا ہیں۔اس کا مسئلہ یہ ہے کہ انھیں کیسا ہونا چاہئیے۔ لہٰذاحقائق ظاہرہوںیاپوشیدہ،ان کے فکری ثمرات کے امکانات کا اندازہ لگانامنطق کا وظیفہ ہے۔اس کے بارے میںبرطانوی مفکرجون اسٹورٹ مِل (John Stuart Mill) کا کہنا ہے، ’’منطق کاکام تجزیہ کرناہے،مشاہدہ،اختراع یادریافت کرنانہیں۔‘‘ ۱۱ ظاہر ہے کہ حقائق کے تجزیے کے لیے بامقصد نتائج تک پہنچنا بہت ضروری ہوتاہے اور اسی کی خاطر استدلال کوبروئے کارلایاجاتاہے۔اسی نقطۂ نظر کومنطقی زاویے سے دیکھاجائے تو استدلا ل ایک ایسے ذہنی عمل کی صورت میں سامنے آتاہے جہاںمعلوم قضایا یا مقدمات سے ایک نیاقضیہ بطور نتیجہ اخذکیاجاتاہے۔سیدھے سادے لفظوںمیں،استدلال کا ذہنی عمل ان قضایا سے شروع ہوتا ہے جن سے پہلے ہی آگہی ہوتی ہے،یعنی ان کے بارے میںیہ یقین ہوتا ہے کہ وہ صادق ہیں۔ اس لیے انھی قضایاکے ایماپران نتائج تک پہنچاجاتاہے جن کی آگہی مقصودہوتی ہے۔استدلال کے سارے عمل کی بنیاد گویامعلوم قضایاپراستوارہوتی ہے جن کی صداقت پریقین ہوتاہے کہ وہ فی الواقعی صادق ہیں۔لیکن المیہ یہ ہے کہ بعض اوقات جن قضایاکوصادق متصور کیا گیا ہوتاہے وہ درحقیقت صادق نہیںہوتے۔بعینہٖ بعض اوقات جن قضایاکوصادق متصور نہیں کیا گیا ہوتا، وہ درحقیقت صادق ہوتے ہیں۔جن قضایاکی صداقت پرمکمل یقین ہوتاہے انھیںانتہائی مستند اور ماورائے چیلنج خیال کیا جاتا ہے۔لیکن اگر ان کے استناد کوکوئی چیلنج کردے، گویا اس پرشک کی نگاہ ڈالے توپھر سے تیقن کی بحالی کے لیے ازسرنواستدلال کاسلسلہ شروع کرناپڑتا ہے۔ بے شک چیلنج سے تشکیک کاآغازہوتاہے اور تشکیک تیقن کی ضدہے۔تشکیک فکر کو صدق و کذب میںمعلق رکھتی ہے ذہنی کرب و خلفشارسے دوچاررکھتی ہے لہٰذااس سے جان چھڑانے کا مؤثرحل یہی ہے کہ استدلال کیاجائے۔ چند قضایا پر یقین لایا جائے کہ وہ سو فی صدصادق ہیں۔ ان کی صداقت پریقین لائے بغیراستدلال کے نتائج میںتیقن نہیں لایا جاسکتا۔ایسی صورت حال میںیقین کامسئلہ بہت نازک رہتا ہے کیونکہ جب ذہنی قابلیت کافقدان ہو،وقت کی کمی کامسئلہ درپیش ہو توان کی مناسب چھان پھٹک اورتحقیق کے بغیر ہی انہیںصادق تسلیم کرلیاجاتاہے جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ حقیقت کی بجائے نام نہاد حقیقت کو حقیقت مان لیاجاتاہے۔ پروفیسرسوسان سٹیبنگ(Susan Stebbing) نے پانچ ایسے طریقے۱۲ گنوائے ہیںجن کو جاننے سے یہ بخوبی پتا چلتا ہے کہ صحیح معنی میں اعتقادکاحصول کیسے ممکن ہے۔ادھرغور طلب بات یہ ہے کہ ان میں سے پہلے تین طریقے ایسے ہیںجن میںقضایاکی صداقت کوکسی قسم کی محتاط پرکھ کے بغیرقبول کیاگیاہوتاہے جب کہ آخری دو طریقے ایسے ہیںجن میںقضایاکی صداقت کوکسی نہ کسی کڑی کسوٹی پرپرکھاجاتاہے۔ .1تعصب :(Prejudice) جب کوئی شخص اپنے مخصوص ذہنی مزاج، روّیوں اور دلچسپیوں کے مطابق اس بات کاقائل ہو کہ جن قضایاکی صداقت پراسے یقین ہے وہ اس قدرصادق ہیں کہ ان پر یقین نہ لانے والا صریحاً غلطی پرہوگا۔ثانیاًان قضایاکی صداقت کوثابت کرنے کے لیے مزید کسی تحقیق کی ضرورت نہیں۔ ایسا اعتقاد تعصّب پر مبنی ہوگا۔ مثلاً رنگ، نسل، لسانیات کی وجہ سے انسانوںمیںاونچ نیچ کا عقیدہ اس کی عمدہ مثال ہے۔ .2استناد : (Authority) جب کوئی شخص اپنے اسلاف، والدین، اساتذہ کی تعظیم و توقیریا کسی شعبۂ علم کے ماہر کی خدمات کے اعتراف میں ان کے بیان کردہ قضایا کی صداقت کو حرفِ آخر شمارکرتا ہو اور اسے یہ یقین ہوکہ ان کے قضایاسے بڑھ کر کوئی قضیہ بہتر نہیں ہو سکتا اور اس ضمن میں مزیدکسی تحقیق کی گنجائش بھی نہیں، ایسی صورت میں اس کا ایسا اعتقاد استناد پر مبنی ہوگا۔مثلاًاسلاف کی تعظیم و توقیر کے حوالے سے بعثت محمدیہؐ سے پیشتر عرب قبائل میںبتوںکی پرستش کا عقیدہ یا کسی ماہر علم کی خدمات کی نسبت سے امام ابوحنیفہؒ کی فقہی تحقیقات کوحتمی قرار دینے والوںکاعقیدہ اس کی عمدہ مثالیں ہیں۔ .3بدیہیات :(Self-evidences) جب کوئی شخص اس بات کا قائل ہو کہ اس کے تسلیم شدہ قضایاکی صداقت کسی قسم کے ثبوت کی سزاوار نہیں،اس کے قضایا کی صداقت اس قدرمسلمہ ہے کہ ان پر یقین نہ کرنے کاسوال ہی پیدانہیںہوتا،وہ ازلی طورپرصادق ہیںاورانہیںجھٹلانے کاسوچابھی نہیںجاسکتااورتواوران کا چیلنج تک ممکن نہیں،تواس کاایسااعتقادبدیہیات پرمبنی ہوگا۔مثلاًازمنہ وسطی میںزمین کواجرامِ فلکی کا مرکزقراردینے کاکلیسائی عقیدہ اس کی عمدہ مثال ہے۔ .4 ترغیبات :(Persuasions) جب کوئی شخص کسی ایسے مقرر یا خطیب کے بیان کردہ قضایاکی صداقت پریقین رکھتاہوجس نے اپنے فن بلاغت کے زورپراسے باورکرادیاہوکہ اس کے قضایاکی صداقت اس حد تک کامل ہے کہ اس کے ثبوت کے لیے شواہدکی چنداں ضرورت نہیں،گویامقرریاخطیب نے اپنے مخصوص طرزِتکلم اور مدلل قضایاکواس نہج سے پیش کیاہوکہ اس کاکلام سامع کے دماغ سے کہیںزیادہ اس کے دل کوچھوگیاہو،جس سے سامع اتناقائل ہوگیاہوکہ اسے ان مدلل قضایاکی صداقت کوجانچنے کے لیے کسی قسم کے ثبوت کی ضرورت ہی محسوس نہ ہو تواس کا ایسا اعتقاد ترغیبات پر مبنی ہوگا۔ مثلاً زمانۂ قدیم میں یونان کے سوفسطائی حکماء کے دلائل اورمکالمات پیش کرنے کا انداز اس کی عمدہ مثال ہے۔ .5 ایقان :(Conviction) جب کوئی شخص منطقی قواعدو ضوابط کی روشنی میں ابہام سے محفوظ،مغالطوںسے پاک، تناقضات سے مبّرا، مطابقت، موافقت، معقولیت، مناسبت اور مشابہت وغیرہ پر مبنی قضایا کی صداقت کے لیے اس قدر مناسب، موزوں،خاطرخواہ اورٹھوس عقلی شواہدپیش کرے کہ اسے یقین واثق ہوجائے کہ اب قضایاکی صداقت میں کوئی شائبہ نہیں رہا تو اس کاایسا اعتقاد پختہ ایقان پرمبنی ہوگا۔ مثلاً نیوٹن کے قوانین حرکت اس کی عمدہ مثال ہے۔ ایقان کا طریقہ ہی وہ استدلال ہے جو اندھے اعتقاد سے محفوظ رکھتاہے اور ایسا عقلی اعتقاد استوار کرتا ہے جس میں قضایا کی صداقت یقینی اور دلائل کی صحت خود تردیدی سے پاک ہوتی ہے۔ جہاں تک قضایا کی صداقت کا تعلق ہے، اس کاانحصارقضایاکی نوعیت پرہوتاہے۔اگرقضایاغیرمشروط ہوں توان کی صداقت کا انحصار خارجی حالات و و ا قعا ت پر ہوتاہے جیسے’’بارش ہوتی ہے ‘‘۔یہ ایسا قضیہ ہے جو صرف اُس وقت صادق ہوگاجب واقعی بارش ہو رہی ہو ۔بارش کے ہونے سے پہلے اور بعد میںیہ صادق نہیںرہے گا۔اس حوالے سے غیرمشروط قضایاکی صداقت ہمیشہ خارجی حالات و واقعات سے مشروط ہوتی ہے۔منطقی زبان میںیہ مادی صداقت(Material Truth) کہلاتی ہے۔ اس کے برعکس،اگرقضایامشروط ہوںتوان کی صداقت کاانحصارخارجی حالات و واقعات کی بجائے ان کی اپنی اندرونی ساخت اورہیئت پرہوتاہے۔جیسے’’اگردومیںدوجمع کئے جائیں توحاصل چارہوگا‘‘۔یہ ایساقضیہ ہے جوہرطرح کے زمانے میں صادق متصورہوتاہے کیونکہ یہ حقیقت طے شدہ ہے کہ دواوردوکامجموعہ چارہے۔ اس حوالے سے مشروط قضایا کی صداقت ہمیشہ اسی کی اندرونی ساخت سے مشروط ہوتی ہے۔منطقی زبان میںیہ صوری صداقت(Formal Truth) کہلاتی ہے۔ دوسرے لفظوںمیںاپنی نوعیت کے اعتبار سے غیر مشروط قضایا مشروط طور پر صادق ہوتے ہیں جب کہ مشر و ط قضایا غیرمشروط طورپرصادق ہوتے ہیں۔ دلائل کی صحت کادارومداراس کے صوری پہلو سے ہوتاہے جس کاواسطہ مقدمات اورنتیجے کے باہمی ربط پر ہوتاہے۔ مقدمات دراصل وہ قضایا ہوتے ہیں جن کے باہمی ملاپ سے کوئی قضیہ بطور نتیجہ اخذکیاجاتاہے چونکہ دلائل میں نتیجہ اپنے مقدمات سے اخذ ہوتا ہے اس لیے اگر مقدمات مثبت ہوںمگران سے نتیجہ منفی اخذکیاگیاہو،جیسے : تمام بھوکے بسیارخورہیں تمام کم خوربھوکے ہیں لہٰذاکوئی کم خوربسیارخورنہیں یاپھرکسی منفی مقدمے کی موجودگی میںنتیجہ مثبت برآمدکیاگیاہو،جیسے : کوئیبھوکابسیارخورنہیں تمام کم خوربھوکے ہیں لہٰذا تمام کم خوربسیارخورہیں تو ان صورتوںمیںمقدمات اورنتائج کے مابین خودتردیدی کارشتہ لازم آئے گا، جس سے پوری دلیل کی صحت غلط شمارہوگی۔اس واسطے یہ ضروری ہوتاہے کہ مقدمات اورنتیجہ کاتعلق خودتردیدی سے پاک ہو،یعنی مثبت مقدمات سے نتیجہ ہمیشہ مثبت اخذہو،جیسے : تمام بھوکے بسیارخورہیں تمام کم خوربھوکے ہیں لہٰذاتمام کم خوربسیارخورہیں یاکسی منفی مقدمے کی موجودگی میںنتیجہ بھی ہمیشہ منفی کشیدہو،جیسے : کوئیبھوکابسیارخورنہیں تمام کم خور بھوکے ہیں لہٰذاکوئی کم خوربسیارخورنہیں چونکہ ان صورتوں میں مقدمات اور نتائج کے مابین خود تردیدی کا رشتہ نہیں پایا جاتا،اس لیے ان دلائل کی صحت درست شمار ہوگی۔ منطقی زبان میں یہ صوری صحت (Formal Validity) کہلاتی ہے۔دوسرے لفظوں میں دلائل کی صحت کا تعلق مقدمات کی مادی یاصوری صداقت سے نہیںہوتا،اس کاسروکارمقدمات اورنتیجے کے مابین خود تردیدی کے رشتے کی موجودگی یا غیر موجود گی سے ہوتاہے۔بالفرض مقدمات صداقت سے یکسر محروم ہوںاوردلیل کے مقدمات اور نتیجے میں خودتردیدی موجودنہ ہو،جیسے : تمام کوے نیلے ہیں تمام طوطے کوے ہیں لہٰذاتمام طوطے نیلے ہیں ایسی صورت میںدلیل کی صوری صحت درست شمارہو گی۔اس کامطلب یہ ہوا کہ مقدمات کی صداقت کے بغیر بھی دلائل کی صحت درست ہوسکتی ہے،لیکن منطقی استدلال کے لیے یہ ضروری خیال کیاجاتاہے کہ اس میں مقدمات کی صداقت اور دلائل کی صحت دونوں ٹھیک ٹھیک موجود ہوں۔لیکن اس کے باوجود یہ ضروری نہیںکہ پھربھی استدلال غلطی سے پاک ہو۔مثلاً، کسی سونے کی دکان کامالک امیرکبیرہوتاہے میںسونے کی دکان کامالک نہیںہوں لہٰذامیںامیرکبیرنہیںہوں اس استدلال میں یقینا مقدمات کی صداقت اور دلیل کی صحت، دونوںٹھیک ٹھیک موجود ہیںلیکن غورطلب نکتہ یہ ہے کہ کیاامیرکبیرہونے کے لیے کسی سونے کی دکان کامالک ہوناضروری ہے؟استدلال میںاس طرح کی فکری غلطیوںیامغالطوں کی نشان دہی اوروضاحت منطق کا خاص موضوع ہے۔چونکہ یہاںان سے کوئی خاص سروکار نہیں، اس لیے ان سے اغماض برتتے ہوئے استدلال کی مختلف اقسام کی طرف توجہ کی جاتی ہے:۔ استدلال کی اقسام:(Kinds Of Reasoning) منطق کی رُوسے استدلال ایسا ذہنی عمل ہے جس میںمعلوم شدہ قضایایعنی مقدمات سے ایک نیا قضیہ بطور نتیجہ اخذکیاجاتاہے۔استدلال کی اس تعریف میںمعلوم شدہ قضایادرحقیقت وہ مبینہ حقائق ہوتے ہیںجن کی بنیادپر نتیجہ اخذہوتاہے۔ مبینہ حقائق،بنیادی طورپردوقسم کے ہوتے ہیں : .iعمومی(Universal)حقائق : ان سے مرادتجریدی(Abstract)نوعیت کی کلی سچائیاں ہیں۔ جیسے،تمام انسان فانی ہیں۔ .iiجزوی(Particular)حقائق : ان سے مرادمقرون(Concrete)نوعیت کی مخصوص سچائیاں ہیں۔ جیسے، زید فانی ہے۔ ثانیاً،استدلال میں حقائق کو مخصوص قواعدوضوابط کی رُو سے یکجا کرکے نتیجہ اخذ کیا جاتا ہے۔ حقائق کا اتصال اینٹوںکے ڈھیرکی مانندنہیںہوتاجہاںساتھ ساتھ پڑے ہونے کے باوجود ایک اینٹ کا دوسری اینٹ سے کوئی سروکار نہیںہوتا۔حقائق کااشتراک ایستادہ دیوارکی طرح ہوتاہے جہاںاینٹ سے اینٹ کا تعلق ایک مخصوص طریقے سے قائم ہوتاہے۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ استدلال میں حقائق مربوط شکل کے بغیر مدِنظر نہیں رکھے جاسکتے۔ بہرکیف، حقائق کی اقسام اور اشتراک کے امکانات کومدنظر رکھ کر جائزہ لیاجائے تواستدلال میںنتیجہ ا خذ کرنے کی کل چار صورتیںممکن ہیں : .1جزوی مقدمات سے عمومی نتیجہ اخذہوجیسے : پوٹاشیم پانی پرتیرتاہے پوٹاشیم ایک دھات ہے لہٰذادھاتیںپانی پرتیرتیںہیں .2جزوی مقدمات سے جزوی نتیجہ اخذہوجیسے : گوئٹے شاعرانہ ذوق رکھتاتھا گوئٹے سائنسی قابلیت رکھتاتھا لہٰذاکچھ سائنسی قابلیت کے مالک شاعرانہ ذوق رکھتے ہیں .3عمومی مقدمات سے عمومی نتیجہ اخذہوجیسے : تمام انسان فانی ہیں کوئی فرشتہ انسان نہیں لہٰذاکوئی فرشتہ فانی نہیں .4عمومی مقدمات سے جزوی نتیجہ اخذہوجیسے : تمام اخلاقی عمل اچھے محرک سے ادا کئے جاتے ہیں کچھ قانونی فعل اچھے محرک سے ادا نہیںکئے جاتے لہٰذاکچھ قانونی فعل اخلاقی عمل نہیں ان صورتوںکوپیش نظررکھاجائے تواستدلال کی دواہم اقسام وجودمیںآتی ہیں : .1استخراجی استدلال(Deductive Reasoning) .2استقرائی استدلال(Inductive Reasoning) .1استخراجی استدلال: اس استدلال میں دریافت شدہ عمومی حقائق سے جزوی حقائق کو مستنبط طریقے سے اخذ کیا جاتاہے۔گویا اس استدلال میں ایک چھوٹی سچائی بڑی سچائی سے ماخوذہوتی ہے۔جیسے: تمام عادل لوگ ایماندارہوتے ہیں زیدعادل ہے لہٰذا زیدایماندارہے روایتی طورپریہی خیال کیاجاتارہا ہے کہ استخراجی استدلال کی پہچان یہ ہے کہ اس میں ہمیشہ کلیات سے جزئیات اخذہوتے ہیں۔جیسے: تمام انسان فانی ہیں سقراط انسان ہے لہٰذاسقراط فانی ہے یقینا،اس استدلال میںجزوی نتیجہ پہلے مقدمے کی کلی سچائی سے اخذہواہے لیکن استخراجی استدلال کے بارے میںجدید تحقیق۱۳نے ایسا نقطۂ نظر بدل کر رکھ دیاہے۔مثلاًدرج ذیل مثالوں کی رُو سے استخراجی استدلال کی یہ پہچان قائم نہیں رہی کہ اس میںہمیشہ کلیات سے جزئیات اخذ ہوتے ہیں۔جیسے :مثال نمبر۱: تمام جانورفانی ہیں تمام انسان جانورہیں لہٰذاتمام انسان فانی ہیں اس استدلال میں عمومی نتیجہ کلی سچائی پرمبنی مقدمات سے اخذہواہے گویا کلیات سے کلیہ کو اخذ کیا گیاہے اورمثال نمبر۲: اگرسقراط انسان ہے توسقراط فانی ہے سقراط انسان ہے لہٰذاسقراط فانی ہے اس استدلال میں جزوی نتیجہ جزوی سچائی پرمبنی مقدمات سے اخذ ہوا ہے۔ گویا یہاں جزئیات سے جزئیہ کو اخذ کیاگیاہے۔اب استخراجی استدلال کی پہچان یہ قراردی گئی ہے کہ یہ ایسا استدلال ہے جس میںمقدمات اپنے نتیجے کی صحت کے لیے کلی جواز فراہم کرتے ہیں۔گویا نتیجہ اپنے مقدمات سے لازماًاخذہوتاہے۔مقدمات صادق ہوںگے تونتیجہ بھی صادق ہوگا۔اسی طرح مقدمات باطل ہوں گے تونتیجہ بھی باطل ہوگا۔اس حساب سے استخراجی استدلال کا بنیادی وظیفہ مقدمات اورنتیجے کے مابین قطعی رشتے کی نوعیت کوواضح کرناہے تاکہ درست اورغلط دلائل کی تمیز واضح ہوسکے۔ اگراستخراجی استدلال کے متعلق وضع کردہ قواعدوضوابط کوٹھیک ٹھیک ملحوظ خاطررکھاجائے تومقدمات اورنتیجے کے مابین دلالت کاایساتعلق قائم ہوجاتاہے جس کی بناء پرصادق مقدمات سے باطل نتیجے کے اخذہونے کاسوال ہی پیدانہیںہوتا۔اس اعتبارسے استخراجی استدلال کانتیجہ ہمیشہ یاتوحتمی طورپرسوفیصد صحیح ہوگایاسوفیصدغلط۔نتیجے کے صحیح یا غلط ہونے کے درمیان اس کے امکانی ہونے کی کوئی صورت نہیں نکلتی۔اس بناء پر استخراجی استدلال کو ’’0‘‘اور’’1‘‘ یا’’on ‘‘ او ر ’’ off‘‘یاپھر ’’ہاں‘‘ اور’’نہ ‘‘کی منطق کہاجاتاہے۔موجودہ کمپیوٹرکی مشین لینگوئج اسی کی ترقی یافتہ تکنیکی شکل ہے۔ بطور ماحصل، استخراجی استدلال میں چند حقائق کو بدیہی جان کر مخصوص قواعد و ضوابط کی رو شنی میںان سے حتمی نتائج اخذکئے جاتے ہیں۔گویاتجربات ومشاہدات کا سہارالیے بغیرطے شدہ مسلمہ اورمعلوم حقائق سے یقینی اور حتمی نتائج نکالے جاتے ہیں۔دوسرے لفظوںمیںاستخراجی استدلال کا اصرارفکرکی اندرونی ساخت اور ہیئت پرہوتاہے جس میںدلائل کی صحت کومقرر قواعد و ضوابط کی روشنی میںپرکھ کرحتمی اوریقینی نتائج اخذکئے جاتے ہیں۔ جان اسٹورٹ مل استخراجی استدلال پر معترض ہے۔اس نے اسے مغالطۂ مصادر علی المطلو ب (Petitio Principii)۱۴ قراردیاہے۔اس مغالطے سے مرادوہ فکری غلطی ہے جس میںنتیجہ مقدمات کے اندر پہلے ہی سے مضمر ہوتاہے۔ گویامقدمات کے مفہوم کامحض اعادہ ہوتاہے لہٰذا کوئی نئی خبریااطلاع نہیںپہنچارہا ہوتا۔دوسرے لفظوںمیںنتیجہ مقدمات کے ایسے اجتماع و اشتراک سے وجودمیںآتاہے جہاںمقدمات نتیجے پردلالت کرتے ہیں۔اس کی وجہ سے جو معلومات مقدمات میںموجودہوںوہی نتیجے میںبھی پائی جاتی ہیں۔گویا استدلال ایک دائرے کی شکل میں چلتاہے جہاںنتیجے کی معلومات مقدمات کی معلومات ہی کی طرف پلٹتی ہیں۔اس مناسبت سے اسے مغالطہ ٔ دَور(Circular Fallacy) بھی کہاجاتاہے۔بادی النظرمیںمل کے اعتراض پر غور کیا جائے تو اس میںوزن دکھائی دیتاہے۔مثلاً : تمام انسان فانی ہیں سقراط انسان ہے لہٰذا سقراط فانی ہے اس استدلال کے سرسری سے تجزیے سے واضح ہو جاتاہے کہ یہ حقیقت مسلمہ ہے کہ تمام انسان فانی ہیں اور سقراط کا انسان ہونا بھی شک وشبہ سے مبراہے۔لہٰذا ایسا نتیجہ خودبخود برآمد ہوگا کہ سقراط فانی ہے۔اس لیے مل کااعتراض درست معلوم ہوتاہے کہ نتیجہ تواخذہونے سے پیشترہی مقدمات میںپنہاںہے۔ چنانچہ اخذہونے کے بعدکسی نئی خبریااطلاع کا سبب نہیںبنا۔ استخراجی استدلال کو ثبوت کی رُو سے مستعمل سمجھا جائے تو یقینا یہ کسی نئی خبر کا باعث نہیں اور مغالطے پر مبنی ہے لیکن بنظر غائراس کے نتائج کاتجزیہ کیاجائے تومعلوم ہوگاکہ اپنی اندرونی ساخت اورترکیب کے قواعدوضوابط کی رُو سے اس میںکوئی مغالطہ نہیں،کیونکہ اس کی صوری ہیئت کادارومداراس کے مقدمات اورنتیجے کے مابین خودتردیدی سے محفوظ رہنے پرہے،نیز اس کا نتیجہ کسی نئی خبرکی اطلاع نہ دے پانے کے باوجودعلم کے فروغ میںترقی کاسبب ہے۔ سیدھی سی بات ہے کہ جب تک استخراجی استدلال کے نتائج اخذنہیںکئے جائیںگے اوران نتائج پرمبنی مزیدنتائج نہیںنکالے جائیں گے،علمی ترقی کے راستے مسدودرہیںگے۔موجودہ دور میںالیکٹرک سرکٹس، کمپیوٹرزکی ہارڈوئیر،سوفٹ و ئیر اورانجینئر نگ کے فارمولے استخراجی استدلال کے استعمال کابیّن ثبوت ہیں ۔ .2استقرائی استدلال: اس استدلال میںدریافت شدہ جزوی حقائق سے عمومی حقائق کومربوط طریقے سے اخذکیا جاتاہے۔گویا اس استدلال میں ایک بڑی سچائی چھوٹی چھوٹی سچائیوں سے ماخوذہوتی ہے۔جیسے : زیدعادل ہے اورایماندارہے بکرعادل ہے اورایماندارہے عمرعادل ہے اورایماندارہے ----------وغیرہ--------- لہٰذاتمام عادل لوگ ایماندارہوتے ہیں جان اسٹورٹ مل استقرائی استدلال ہی کو استدلال کاصحیح طریقہ خیال کرتاہے۔روایتی طور پریہی خیال کیا جاتارہا ہے کہ استقرائی استدلال کی پہچان یہ ہے کہ اس میںہمیشہ جزئیات سے کلیات اخذہوتے ہیںجیسے : سقراط انسان ہے اورفانی ہے افلاطون انسان ہے اورفانی ہے ارسطو انسان ہے اور فانی ہے ----------وغیرہ--------- لہٰذا تمام انسان فانی ہیں یقینا اس استدلال میںعمومی نتیجہ بے شمارجزوی سچائیوںکے اشتراک سے اخذہواہے لیکن استقرائی استدلال کے بارے میں جدید تحقیق۱۵نے ایسا نقطۂ نظربدل کے رکھ دیاہے۔مثلاًدرج ذیل مثالوںکی رُوسے اس کی اب یہ پہچان قائم نہیںرہی کہ اس میںہمیشہ جزئیات سے کلیات اخذ ہوتے ہیں :پہلی مثال : تمام گائیںممالیاہیںاورپھیپھڑے رکھتی ہیں تمام گھوڑے ممالیاہیںاورپھیپھڑے رکھتے ہیں تمام انسان ممالیاہیںاورپھیپھڑے رکھتے ہیں ---------------وغیرہ---------------- لہٰذاتمام ممالیاپھیپھڑے رکھتے ہیں اس استدلال میںعمومی نتیجہ کلی سچائیوں پرمبنی بے شمارمقدمات سے اخذہواہے۔ گویاکلیات سے کلیہ کواخذکیاگیا ہے۔دوسری مثال : ہٹلر مطلق العنان تھااورجابرتھا سٹالن مطلق العنان تھااورجابرتھا ---------وغیرہ--------- کاسترو مطلق العنان ہے۔ لہٰذاکاستروجابرہے اس استدلال میں جزوی نتیجہ جزوی سچائیوں پرمبنی بے شمار مقدمات سے اخذ ہوا ہے۔گویا یہاںجزئیات سے جز کو اخذکیاگیاہے۔اس طرح اب استقرائی استدلال کی پہچان یہ قرار دی گئی ہے کہ یہ ایسااستدلال ہے جس میں مقدمات اپنے نتیجے کی صحت کے لیے جزوی جوازفراہم کرتے ہیں۔گویانتیجہ اپنے مقدمات سے امکانی طورپراخذ ہوتا ہے۔ اگر مقدمات صادق ہوں گے تونتیجہ بہتر(better)ہوگا۔بعینہٖ اگر مقدمات باطل ہوںگے تونتیجہ بھی بدتر (worse) ہوگا۔ اس حساب سے استقرائی استدلال کابنیادی وظیفہ مقدمات اورنتیجے کے مابین امکانی رشتے کی نوعیت کو واضح کرناہے تاکہ بہتر(better) اوربدتر(worse) دلائل میں تمیزواضح ہوسکے۔ اگراستقرائی استدلال میں محتاط مشاہدات وتجربات کو ملحوظ خاطر رکھا جائے تومقدمات اور نتیجے کے مابین ایسا تعلق قائم ہو جاتاہے جس کی بناء پرمشہود مقدمات سے غیرمشہود عمومی نتیجہ اخذ ہوتاہے جو کافی حدتک بہتر یا بدتر ہو سکتاہے لیکن سو فیصد حدتک کبھی نہیں۔ دوسرے لفظوں میں، استقرائی استدلال کانتیجہ ہمیشہ امکانی ہوتاہے کبھی حتمی اوریقینی نہیںہوسکتا۔اس کامطلب یہ ہواکہ استقرائی استدلال کی حالت ہاںاورنہیںکی صورتوںمیں دوقطبی(bipolar) نہیںہوتی بلکہ دو قطبین کے درمیان کم وبیش ہوتی رہتی ہے۔اس نقطۂ نظرکی وضاحت کے لیے ایک سادہ سی مثال۱۶ کوسامنے رکھتے ہیں: لاہور کے زیادہ ترسیاست دان مسلم لیگی ہیں چوھدری اعتزازاحسن لاہور کے ایک سیاست دان ہیں لہٰذاغالب امکان ہے کہ چوھدری اعتزازاحسن مسلم لیگی ہیں بالفرض نتیجے کے لیے جزوی جوازمہیاکرنے والے مقدمات صادق ہوںتونتیجے کے بہتر ہونے کاامکان قوی ہوگالیکن اگرمزیدمقدمات اکٹھے کئے جائیںتوان کی رُو سے نتیجہ بہتر رہنے کا امکان مزیدقوی ہوسکتاہے یا پھر کمزورپڑسکتاہے۔مثلاًمشاہدات کی بنیادپریہ حقائق سامنے آئیں : پاکستان پیپلزپارٹی کاکوئی رکن مسلم لیگی نہیں چوھدری اعتزازاحسن پاکستان پیپلزپارٹی کے رکن ہیں تویقینا،استخراجی استدلال کی بدولت یہ نتیجہ اخذہوگاکہ : چوھدری اعتزازاحسن مسلم لیگی نہیں۔ استخراجی استدلال کے اس نتیجے کی رُو سے بلاشک وشبہ محولہ بالااستقرائی استدلال کانتیجہ بہترنہیںرہتااور اگر مزیدشواہداکٹھے کئے جائیںجیسے ،چوھدری اعتزازاحسن مسلم لیگ کے قائد میا ں نوازشریف کے خلاف بڑھ چڑھ کرسیاسی مہم چلاتارہا اوروہ پاکستان پیپلزپارٹی کی چئیرپرسن محترمہ بے نظیربھٹوکی کابینہ کاایک اہم رکن ہے۔یقینا ایسے شواہد کی صورت میں حاصل شدہ استقرا ئی نتیجہ مز ید کمزور پڑ جاتا ہے،قوی نہیںرہتا لیکن پھر بھی اسے سوفیصدبدترقرار نہیں دیا جا سکتاکیونکہ استقرائی استدلال کانتیجہ مستقبل تک محیط ہے اورمستقبل حال میںنامعلوم رہتاہے جس کی بدولت چوھدری اعتزازاحسن کے مستقبل کے بارے میںیقینی طورپریہ نہیںکہاجاسکتاکہ وہ آئندہ بھی مسلم لیگی نہیں رہیںگے اس بنیادپریہ کہا جاتاہے کہ استقرائی استدلال کا نتیجہ ہمیشہ امکانی ہو سکتا ہے، یقینی نہیں۔ بطورماحصل،استقرائی استدلال میںمشہود حقائق کی روشنی میںایسے امکانی نتائج اخذکئے جاتے ہیں جووقت اورحالات کے مطابق تبدیل ہوتے رہتے ہیںاورساتھ ہی ساتھ مستقبل کے بارے میںٹھوس پیشین گوئی کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ عام طورپراستقرائی استدلال کے بارے میںیہ اعتراض کیاجاتاہے کہ اس میںاستقرائی زقند کامغالطہ(Fallacy of Inductive Leap) ۱۷پایاجاتاہے۔اس مغالطے سے مرادوہ فکری غلطی ہے جس میںچندمشہود مقدمات سے غیرمشہود عمومی نتیجہ اخذ کیا جاتا ہے۔جیسے کسی محلے میں رہتے ہوئے یہ تجربہ ہواہوکہ وہاںکی تمام مستورات جھگڑالو ہیںاوراس تجربے کی بنیادپریہ نتیجہ اخذ کیاجائے کہ دنیاکی تمام خواتین جھگڑالوہوتی ہیں…ایسا استدلال پیش کرنا،اپنی جگہ عملی طور پریقیناخطرے سے خالی نہ ہوگا۔ بہر کیف استقرائی استدلال میں خواہ کتنی ہی احتیاط اورژرف نگاہی سے کام لیا گیا ہو، مطلوبہ نتیجہ نکالنے میں جلدبازی نہ کی گئی ہو، بھرپورا عتماد اور محتاط مشاہدات و تجربات کی مدد سے نتیجہ اخذ کیاگیاہو، جیسے کہ’’تمام کوے کالے ہیں‘‘اسی بناء پرایک معقول اور مستند نتیجہ مانا جاتا ہے ۔ پھربھی اس میںنامعلوم مستقبل کے شامل ہونے سے انحراف نہیںکیا جا سکتا اوریہی وہ جہت ہے جو استقرائی استدلال کو استقرائی زقند کے مغالطے میںبدلنے کا سبب بن سکتی ہے۔ظاہرہے کہ استقرائی استدلال کانتیجہ خواہ کتناہی قوی کیوںنہ ہواس میںمستقبل کے حوالے سے تبدیلی کاامکان رہتاہے۔آج کاعمومی نتیجہ آج کے مقدمات کی رُوسے جس قدر قوی کیوں نہ ثابت ہو،آنے والے کل کی ایک ہی مثال اسے کمزورکرسکتی ہے اوریہی نہیں بلکہ اسے یکسربدل کر بھی رکھ سکتی ہے۔ اس لیے استقرائی استدلال سے استقرائی زقند کا اعتراض دور کرنا مشکل ہے ۔ لاریب، معترضین کادعویٰ اپنی جگہ ٹھوس سہی مگر نامعلوم مستقبل کی طرف موثرقدم اُٹھانے اورعلم میں خاطرخواہ اضافے کے لیے استقرائی استدلال ناگزیر ہے ۔جب تک محتاط تجربات و مشاہدا ت نہیں کئے جائیںگے انسانی علم کے راستے مسدود رہیںگے۔ویسے بھی فطرت کے یکساں اصول وضوابط سے استقرائی استدلال کے نتائج پربھروسہ بڑھتاہے۔بلاشبہ آج یہ مانا جانے لگا ہے کہ بزبانِ ڈاکٹرآغاافتخارحسین ،’’مشاہدات اورتجربات سے نتائج اخذ کرنے کے لیے عقل استقرائی کی ضرورت ہے۔ سائنس کی بیشترترقی انسان کی عقلِ استقرائی ہی سے عبارت ہے۔‘‘۱۸ مجموعی طورپر،استخراجی اوراستقرائی، استدلال کی دواقسام نہیںبلکہ وہ ایک ہی فکری عمل کے دومختلف روپ ہیں۔اُن میںباہم کوئی مناقشت نہیں۔دونوںکے منفرداہداف ہیں۔دونوںایک دوسرے کے معاون ہیں۔ان میں سے کوئی بھی ایک دوسرے پرمقدم نہیں۔ میلون(Mellone) کاخیال ہے کہ استدلال کافکری عمل ایک مالاکی طرح ہے۔۱۹استخراجی صورت میںمالاکادھاگا یعنی عمومی اصول ہاتھ میںہوتاہے جس میں حقائق کے دانوں کویکے بعد دیگرے پرودیاجاتاہے ۔ اس کے برعکس،استقرائی صورت میں حقائق کے دانوںکاڈھیرموجودہوتاہے جسے ایک لڑی میں پرونے کے لیے مناسب دھاگے یعنی عمومی اصول کی تلاش ہوتی ہے۔چونکہ استخراجی استدلا ل اور استقرائی استدلال ایک ہی فکری عمل کے دومتضاددھارے ہیں،اس لیے ان کے مابین امتیازات کو نظراندازکردینا زیادتی ہوگی کیونکہ ان ہی کی وجہ سے ان کے الگ الگ دائرۂ عمل، مقصداور منزلِ مقصود کا تعین ہوتا ہے۔ان کے بنیادی امتیازات حسبِ ذیل ہیں: .1روایتی طورپریہ خیال کیاجاتارہا کہ استخراجی استدلال وہ ہوتاہے جس میںکلیات سے جزئیات اخذ کئے جاتے ہیںمگرجدیدتحقیق نے یہ ثابت کردکھایاہے کہ اس میں کلیات سے کلیات اورجزئیات سے جزئیات بھی اخذ کئے جاسکتے ہیں۔البتہ یہ طے ہے کہ اس میںجزئیات سے کلیات کواخذ کرناممکن نہیں۔اس کے برعکس،استقرائی استدلال کے بارے میںیہ خیال تھاکہ اس میںجزئیات سے کلیات اخذ کئے جاتے ہیںمگرجدیدتحقیق نے یہ ثابت کردکھایاکہ اس میںکلیات سے کلیات اورجزئیات سے جزئیات بھی اخذ کئے جاسکتے ہیں۔البتہ یہ طے ہے کہ اس میںکلیات سے جزئیات کواخذکرناممکن نہیں۔اس حساب سے دیکھاجائے تواستخراجی استدلال وہ ہے جس میںجزئیات سے کلیات کو اخذ کرنااوراستقرائی استدلال وہ ہے جس میںکلیات سے جزئیات کواخذکرناممکن نہیں۔ .2استخراجی استدلال کانتیجہ اپنے مقدمات سے یقینی اور لازمی طورپر اخذہوتاہے۔کیونکہ نتیجے کے لیے مقدمات کلی جوازفراہم کرتے ہیں۔اس لیے وہ سوفیصدصادق ہوتاہے یا پھر سو فیصدباطل۔اس حساب سے سوال ہی پیدانہیںہوتاکہ مقدمات صادق ہوںاورنتیجہ باطل۔اس کے برعکس،استقرائی استدلال کانتیجہ اپنے مقدمات سے امکانی اوراحتمالی طورپراخذہوتاہے کیونکہ نتیجے کے لیے مقدمات جزوی جوازمہیاکرتے ہیں اس لیے وہ کافی حدتک بہتر(better) ہوتا ہے یابدتر(worse)۔اس حساب سے ہوسکتا ہے کہ مقدمات سچ ہوںاورنتیجہ باطل۔ .3استخراجی استدلال کی نوعیت صوری ہے کیونکہ اس کااصرارفکرکی اندرونی ساخت پرہوتاہے جس میں بدیہی حقائق کے مقررہ قواعدوضوابط کی رُوسے نتائج اخذکئے جاتے ہیں۔ گویا استخراجی استدلال میں فکر کو اسی کے باطن پر مرکوز رکھا جاتا ہے جہاں مقدمات اورنتیجے کے مابین رشتے کی مطابقت کوجانچاجاتاہے۔اس کے برعکس، استقرائی استدلال کی نوعیت مادی ہے کیونکہ اس کااصرارخارجی مشاہدات و تجربات کی روسے کسی مظہر کے وقوع پذیر ہونے کے امکانات کوبے نقاب کرنا ہے۔ گویااستقرائی استدلال میںفکرکواس کے خارج پرمرتکزکیاجاتاہے جہاں فکر اور حقیقت کی مطابقت کوجانچاجاتاہے۔ .4استخراجی استدلال کا انحصار بدیہیات پر ہے جنہیں اتھارٹی خیال کیا جاتا ہے۔ ان پرمبنی مقدمات کا ذر یعہ الفاظ بنتے ہیں جن میں غلطی اور لغزش کا امکان موجود رہتا ہے۔اس لیے استخراجی استدلال کا ہدف فکر کو لفظی مغالطوںسے پاک رکھناہے۔اس کے برعکس،استقرائی استدلال کاانحصارمشاہدات وتجربات پرہے جنہیںخاصی عرق ریزی سے اکٹھا کیاجاتاہے۔ان مشاہدات وتجربات پرمبنی مقدمات کاذریعہ حسی ادراکات بنتے ہیں جن میں کوتاہی اور خطا کا امکان موجودرہتاہے۔استقرائی استدلال کاہدف فکرکو تجربی مغالطوں سے دورکرناہے۔ .5استخراجی استدلال کا رجحان تعقلات کے اطلاقی پہلوسے متعلق ہے جس میں عمومی تعقلا ت کو مخصوص احوال پرمنطبق کرکے متعلقہ تعقل کی صحت کومعلوم کیاجاتاہے اورجس سے تعقلات کے استنادکواستحکام ملتا ہے ۔اس کے برعکس، استقرائی استدلال کارجحان تعقلات کے تشکیلی پہلوسے متعلق ہے جس میںمخصوص احوال سے عمومی تعقلات کو وضع کیا جاتا ہے اور جس سے تعقلات کی بنیادوں کو استوار کیا جاتا ہے۔ .6استخراجی استدلال روایتاًتقسیم(division)کے عمل پرموقوف ہے کیونکہ اس میںایک بڑی جماعت کو چھوٹی جماعتوںمیںتقسیم کیاجاتاہے۔گویااستخراجی استدلال پہلے سے معلوم علم کی تقسیم درتقسیم کامبسوط سلسلہ ہے۔اس کے برعکس،استقرائی استدلال روایتاًجماعت بندی (classification)کے عمل پرموقوف ہے کیونکہ اس میںچھوٹی چھوٹی جماعتوںکوان کی باہمی خاصیتوں کی بدولت ایک بڑی جماعت میںضم کیاجاتاہے۔گویااستقرائی استدلال تجربات ومشاہدات کی بدولت دریافت شدہ علم کی ترکیب درترکیب کامبسوط سلسلہ ہے۔ بطورجملۂ معترضہ، استخراجی اور استقرائی استدلال کے بارے میں دو متخالف اور انتہا پسندا نہ نقطۂ نظر موجود ہیں ،اُن سے صرفِ نظرکرنازیادتی ہوگی۔وہ حسب ِذیل ہیں : 1۔ہر طرح کے استدلال کانتیجہ بالآخراستخراجی ہے۔یہ نقطۂ نظرارسطو سے یادگارہے 2۔ہر طرح کے استدلال کا نتیجہ بالآخراستقرائی ہے۔یہ نقطۂ نظرمل سے یادگارہے بالفرض،استخراجی اوراستقرائی استدلال کی یہ سادہ سی مثالیںمدنظررکھی جائیں : استخراجی استدلال استقرائی استدلال تمام انسان فانی ہیں سقراط فانی ہے سقراط انسان ہے سقراط انسان ہے لہٰذا سقراط فانی ہے لہٰذاتمام انسان فانی ہیں یقینااِن مثالوں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان دونوں کے درمیان فرق صرف اتناہے کہ استخراج کا نتیجہ، استقراء کا پہلا مقدمہ اور استقراء کا نتیجہ، استخراج کا پہلا مقدمہ بن گیا ہے۔ وگرنہ : .1بحوالہ ارسطو۲۰،دونوں طرز کے استدلال میں نتیجہ اخذ کرنے کا استخراجی اصول یکساں ہے۔استخراجی استدلال کانتیجہ اپنے دونوںمقدمات میںلفظ’’انسان‘‘ کے اشتراک سے نکلا ہے۔بعینہٖ استقرائی استدلال کا نتیجہ اپنے دونوںمقدمات میںلفظ’’ سقراط‘‘ کے اشتراک سے برآمد ہواہے۔ اس لحاظ سے ہرطرح کے استدلال کانتیجہ بالآخر استخراجی ہے ۔دراصل،ارسطو کا جھکاؤ فکرکے صوری پہلوکی طرف ہے۔ .2بحوالہ جان سٹورٹ مل۲۱،دونوں طرزکے استدلال میںنتیجہ اخذکرنے کااستقرائی اصول یکساںہے ۔ استخراجی استدلال کانتیجہ جن مقدمات سے اخذہواہے، وہ مشاہدہ شدہ حقائق پر مبنی ہیںجہاں تک عمومی مقدمے کا تعلق ہے،اس کامشاہدہ براہ راست نہیں تو بالواسطہ حقائق کی یادداشت پرلازماًمبنی ہے ۔جب کہ استقرائی استدلال کانتیجہ جن مقدمات سے اخذہواہے،وہ بلاشک و شبہ مشاہداتی حقائق پر منحصر ہیں۔اس لحاظ سے ہر طرح کے استدلال کا نتیجہ بالآخر استقرائی ہے۔ دراصل مل کاجھکاؤفکرکے مادی پہلوکی طرف ہے۔ آخر میں یہ جاننا بھی اہم ہے کہ استخراجی اوراستقرائی استدلال کی تفریق نمایاںکیسے ہوئی؟ اس میںکوئی شک نہیںکہ زمانۂ آفرینش ہی سے انسان اپنے گردوپیش سے کبھی بے خبر نہیں رہا۔ مثلاً روزانہ سورج کامشرق سے اُبھرنااورمغرب میںڈوب جانا،دریاکابلندی سے پستی کی طرف بہنا، رات کوآسمان کاتاروںسے بھرجانا،ایسے فطری مناظرہیںجن سے ماضی بعیدکاانسان بھی اُتناہی مانوس تھاجتناکہ آج کاانسان ہے کیونکہ ان مناظر کو ہمیشہ سے ایسے ہی وقوع پذیر ہوتے دیکھا گیا ہے۔فرق صرف اتناہے کہ قدیم دور کے انسان نے ان مناظر کی وجوہات اور توجیہات کوجانے بغیر محض مشاہدات کے ایما پر انہیں بدیہیات کادرجہ دے دیالیکن آج کاانسان ایساکرنے کو تیار نہیں۔اگلے وقتوںمیں،جیسے جیسے انسان میںعلمی تجسس اورتحیرکامادہ بڑھنے لگا،لامحالہ ان مناظرکی وجوہات اورتوجیہات کوجاننے سے بھی دلچسپی اوربے چینی بڑھنے لگی،نتیجتاً انسان نے استدلال کی سنجیدہ راہ پکڑی۔تاریخ کے آئینے میں دیکھا جائے تو اس کاموہوم اظہار مصری داناؤں اور بھر پور اظہاریونانی دانش وروںکے ہاںملتاہے۔روسی مفکر آئزک ایسی موف۲۲ (Issac Asimov) بتاتاہے کہ مصر کے ارض پیماؤںکو علم ہندسہ سے بہت شغف تھا۔مثلاًانہوںنے ایک رسّی کوبارہ مساوی ٹکڑوںمیںتقسیم کیااوران سے ایک ایسی تکون تیارکی جس کاایک سراتین، دوسرا چار اور تیسرا پانچ ٹکڑوںپرمشتمل تھا۔تکون کاقائمۃلزاویہ وہاںبنتاجہاںتین اور چار ٹکڑوں والے سرے آپس میں ملتے۔قائمۃالزاویہ تکون کو بنانے کے اس عملی طریقے سے جب یونانی مفکرباخبرہوئے توان کی دانائی نے اس سے استخراجی استدلال کا طریقہ ڈھونڈنکالا۔انہوںنے غورکیاکہ طبیعی ساخت ایک حادثاتی امرہے۔اس سے کوئی فرق نہیںپڑتاکہ تکون رسّی سے بنی ہو،کپڑے سے یاپھرلکڑی کے کسی ٹکڑے سے ۔اصل معاملہ لکیروںکاہے جن کے ملنے سے تکون بنتی ہے ۔ پس ثابت یہ ہواکہ قدر وقیمت ہندسی اشکال کی ہے،مقرون اشیاء کی نہیں۔ضرورت اس امرکی ہے کہ ہندسی شکلوں کے طرز کی بدیہیات تلاش کی جائیںاورپھران کی روشنی میںفیصلہ کن نتائج برآمدکئے جائیںجیسے کہ یونانیوںنے کافی سوچ بچارکے بعدیہ اصول دریافت کیاکہ کسی بھی تکون میںزاویۂ قائمہ صرف اس وقت بنے گاجب اس کی اطراف کے درمیان کلیہ"x2+ y2= z2"کارشتہ قائم ہو۔ ’z‘ تکون کی سب سے لمبی طرف یعنی وتر(hypotenuse)کوظاہرکرتاہے۔زاویہ وہاںبنے گا جہاں ’x‘یعنی عمود (perpendicular)اور’y ‘ یعنی بنیاد(base)آپس میں ملیںگے۔چنانچہ جب کبھی تکون کی اطراف عمود، بنیاداوروترکی قیمتوں ،3،4اور5کابالترتیب مربع کیا جائے گا تو وضع شدہ کلیہ کے مطابق تکون کی صورت"9+16=25"ظاہرہوگی۔بعینہٖ اگراطراف عمود، بنیاد اور وترکی قیمتوں، 5،12اور13کابالترتیب مربع کیاجائے توحاصلِ کل "25+144=169" نکلے گا اور اسی طرح اگر اطراف 7، 24اور25کامربع کیاجائے تو نتیجہ "49+576=625" حاصل ہوگا۔محض ان تین مثالوںسے یہ واضح ہو جاتاہے کہ وضع شدہ کلیہ کی رُوسے مزیدکئی ان گنت زاویۂ قائمہ تکو نیں بنائی جاناممکن ہیں۔قصہ کوتاہ،یونانیوں نے علم ہندسہ کی رُوسے استخراجی استدلال کوخوب جلا بخشی، اوروہ اس کے نشہ میںاس قدرغرق ہو گئے کہ اسے ہرطرح کے حصولِ علم کی قطعی کلیدسمجھ بیٹھے۔ نتیجتاً بدیہیات کے استخراج سے علم بالآخراس انتہاتک جاپہنچا جہاںیہ مان لیاگیا کہ علم اپنی تکمیل کوپہنچ چکا ہے، لہٰذافیثاغورث، اقلیدس، افلاطون اور بالخصوص ارسطونے جوفکری گتھیاں سلجھانا تھیں،وہ سلجھا چکے۔لہذامزیدتحیراورتحقیق کی گنجائش نہیںرہی۔لیکن استخراج کاجبری بندعلم کے فطری زورکو ہمیشہ کے لیے نہ باندھ سکا۔صدیوںبعدتحیرکی جگہ تشکیک نے لے لی۔ یونانیوںکی سکہ بند بدیہیا ت چیلنج کی زدمیںآنے لگیں۔یونانی دانشوروں کا پرشکوہ علمی سحرزائل ہونے لگاجیسے کہ مغربی مفکر جان لاک (John Locke)کے اس قول سے عیاں ہے ۔ ’’خد ا انسانوںسے اتنا کفا یت شعار نہیںہوا کہ ان کو دوپایہ مخلوق بنائے اورارسطو پر چھوڑدے کہ وہ انہیں عقلمند بنا دے ۔ ‘ ‘ ۲۳ نتیجتاًاستخراج پر اعتمادڈگمگانے لگا،ایسی تبدیلی استخراج سے استقراء کی طرف بڑھنے کاپیش خیمہ ثابت ہوئی۔ یہ سب کچھ اس دورمیںہواجب مسلمانوںاورپھریورپی مفکروںکو آہستہ آہستہ یہ سمجھ میںآنے لگاکہ یونانیوں نے استقراء کے مؤنس جن کواستخراج کی بوتل میںبندکررکھاہے۔ لہٰذااسے آزادکرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ علم کی ابتدا بدیہا ت سے نہ کی جائے۔پہلے محتاط مشاہدات وتجربات کوجمع کیاجائے،پھران کی بالترتیب صف بندی کی جائے اور آخرکاراُن مرتب شدہ مشاہدات وتجربات میںسے کسی ایسے اصول کواخذکیاجائے جوان کی تلخیص ثابت ہو۔ مثلاًیہ روزمرہ کے مشاہدے اور تجربے کی بات ہے کہ سنگ ِمرمرڈوب جاتا ہے، لکڑی تیرتی ہے۔لوہا ڈوب جاتاہے،پَرتیرتا ہے ۔ پارہ ڈوبتا ہے،زیتون کاتیل تیرتاہے،وغیرہ وغیرہ۔ آخرتمام ڈوبنے اورتیرنے والی اشیاء میںوہ کون سی خصوصیت ہے جو انہیں ایک دوسرے سے ممیز کرتی ہے۔ایسے تجربے سے یہ نتیجہ نکالنا یقینا دشوارنہ ہوگاکہ بھاری اشیاء پانی میںڈوب جاتی ہیں جب کہ ہلکی اشیاء تیرتی ہیں۔ لیکن کیایہ طریقہ ایسی صورت حال میں بھی صحیح ہوگاجب چیزیں کچھ اس طرز کی مشترک خصوصیات کی حامل ہوں۔مثلاً برانڈی اور پانی،وہسکی اورپانی،رَم اورپانی،واڈکااورپانی، تمام نشہ آورمشروبات ہیں۔چونکہ ان سب میںپانی مشترک ہے لہٰذاکیایہ نتیجہ نکالنادرست ہوگا کہ پانی نشہ آورشے ہے۔یقینانہیں۔ایسااستدلال بادی النظرمیںاستقرائی معلوم ہوتاہے،مگریہ ہے نہیں۔ استقرائی استدلال اتناسادہ بھی نہیںجتنامعلوم ہوتاہے۔اس کے کچھ مسلمات ہیںجن کے بغیر اس پرعمل درآمدممکن نہیں۔اس لیے ان مسلّمات کوجانناضروری ہے۔ استقرائی استدلال کے مسلّمات(Postulates of Inductive Reasoning) استقرائی استدلال کے خدوخال کومتعین کرنے والے مسلّمات حسب ذیل ہیں : 1۔مشاہدہ وتجربہ :(Observation and Experiment) استقرائی استدلال کے مقدمات کے لیے مادی صداقت کاحامل ہوناضروری ہے۔یعنی مقدمات کاخارجی حقائق سے میل کھانالازمی ہے جس کی شرط اولین مشاہدہ وتجربہ ہے۔یہ دونوں ایسے عمل ہیںجن کے مابین کوئی حدِ فاصل کھینچنا ناممکن ہے ۔ یہ بتانابہت مشکل ہے کہ کہاں پر ایک کا اختتام اور کہاں سے دوسرے کا آغاز ہوتا ہے۔ اگرچہ یہ دونوںقابل تفریق نہیںلیکن پھربھی ان کی تفریق کومدنظررکھناضروری ہے۔ عام طورپرمشاہدے سے مرادکسی فطری مظہر یا واقعے کی طرف ایسی خصوصی توجہ منعطف کرناہے تاکہ اس کی اصلی حقیقت کاوقوف حاصل ہو جائے۔اس کے برعکس،تجربے سے مراد فطرت کے مشہود حقائق کوایک خاص نہج سے اس طرح ترتیب دیناہے کہ انہی حقائق سے ان کے نئے دریچے واہوجائیں۔جیونز(Jeavons)۲۴نے مشاہدے اور تجربے کے فرق کوبڑی خوب صورتی سے بیان کیا ہے۔اس کے خیال میںمشاہدہ کامطلب فطرت کے روزمرہ معمولات میںرونما ہونے والے واقعات و تغیرات کوکسی قسم کے ردّوبدل کے بغیر بڑے غورسے احاطۂ شعورمیںلانا ہے۔جس طرح کبھی قدیم ماہرین فلکیات نے ستاروںکے گرد گردش کرنے والے سورج، چاند اور ستاروں کا بغورمشاہدہ کیااوران اجرام فلکی کی حرکات کے بارے میں قوانین وضع کئے۔ اسی طرح جدید ماہرین موسمیات بادلوںکی نوعیت اور بلندی،آندھی کی قوت اور سمت، ہوائی رطوبت اورحرارت،بیرومیٹر کے اتارچڑھاؤاورغرضیکہ ہرطرح کی موسمی تبدیلیوںمیںکسی قسم کی دخل اندازی کئے بغیر، محض اپنے عمیق مشاہدے کے زور پر آنے والے دنوں کے موسم کی پیشین گوئی کرتے ہیں۔اسی طرح ماہرینِ ارضیات بھی صرف مشاہدے ہی پر اکتفاکرتے ہیں کہ جب وہ چٹانوںکی خصوصیات اورحالتوں کے بارے میںتحقیقات کرتے ہیں۔حیوانات،نباتات اورمعدنیات کے ماہرین بھی اپنے اپنے شعبوں میںمتعلقہ اشیاء کی قدرتی حالتوں کا مطالعہ مشاہدات کے آغازسے کرتے ہیں۔اس کے برعکس،تجربے کا مطلب مشہود واقعات وتغیرات میںحسب منشا ردوبدل کر کے ان کے نتائج کا بغور مطالعہ کرناہے جیسے کہ کوئی کیمیادان پانی کے اندر سے برقی رَو گزارکر اس کے دونوںاجزاء ہائیڈروجن اورآکسیجن کو ایک دوسرے سے علیحدہ کر کے اس کی ساخت کودریافت کرتاہے یا پھر کوئی ماہر معدنیات جب دویاتین معدنی جواہرکوپگھلاکریہ معلوم کرتا ہے کہ ان کے پگھلنے سے کونسی مخصوص دھات بنتی ہے، اُس وقت وہ بھی تجربے کواستعمال میںلاتاہے۔یہی نہیں نباتات اور حیوانات کے ماہرین بھی صر ف مشاہدات پر بھروسا نہیںکرتے، بلکہ وہ بھی پودوںاورحیوانوںپر تجربات کرتے ہیں۔ مثلاً انہیں مختلف موسموں اورزمینوںمیںمنتقل کر کے یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ ماحولیاتی تبدیلی سے ان کی قدرتی شکلوں اورجنسوں میںکہاںتک تغیرآتا ہے۔ مشاہدے اورتجربے کے اس فرق سے یہ نتیجہ نکلتاہے کہ حقائق اگرمشاہدے کی بدولت بے نقاب ہوںتوان کے دَرپردہ فطرت کارساز ہوتی ہے لیکن اگرتجربے کی بدولت ظاہرہوںتوان کے پیچھے ماہرین علم کاہاتھ ہوتاہے۔ .iمشاہدے کی نوعیت :(Nature of Observation) مشاہدہ حالتِ شعورکاوہ نقطۂ ماسکہ ہے جسے کسی نہ کسی دلچسپی یا غرض کے تحت منتخب کیا جاتا ہے۔اس اعتبار سے اس کی نوعیت انتخابی ہوتی ہے۔ظاہرہے فطرت تو رنگا رنگ مظاہر اورمتنوع واقعات سے بھری پڑی ہے۔مشاہدے کے بل بوتے پران میں سے صرف انہی کا چناؤ کیا جاتا ہے جن کے بارے میں جاننا مقصود ہوتا ہے۔ مشاہدے کی نوعیت سطحی بھی ہوسکتی ہے اورعمیق بھی۔مثال کے طورپرایک عام آدمی کا مشاہدہ جزوقتی اورسطحی ہوتاہے کیونکہ اس کے مشاہدے میںمعمول کے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیںجن کے وقتی اثرات اس کے دل ودماغ کو متاثر کرتے ہیں۔اس کے برعکس،ایک ماہرعلم وفن کامشاہدہ ہمہ وقتی اورعمیق ہوتاہے کیونکہ اس کے مشاہدے میںوہی واقعات اتنے گہرے اور دیرپااثرات چھوڑتے ہیںجن کے عکس اس کے علمی اورفنی کارناموںمیںجھلکتے ہیں۔اس میںکوئی شک نہیں کہ عمیق اور باریک بیںمشاہدہ ہی کسی معمولی سے واقعے کو غیرمعمولی اہمیت بخش دیتاہے۔مثلاًجیمزواٹ(James Watt)نے بھاپ کی قوت سے کیتلی کے ڈھکنے کے اوپر اٹھنے کامشاہدہ کیاتواس نے بھاپ کاانجن ایجاد کیا۔بعینہٖ آئزک نیوٹن(Issac Newton)نے گرتے ہوئے سیب کے مشاہدے سے بالآخرقانون کشش ثقل دریافت کیا۔ایک مشّاق صاحب ِنظر اپنے مشاہدے میںبڑی وسعت کاحامل ہوتا ہے۔وہ اپنے مشاہدے میںنہ صرف ظاہری مظاہرو واقعات کوبلکہ ان سے متعلق ہرطرح کی جزئیات کوبھی جگہ دیتاہے اوراسے بخوبی اندازہ ہوتاہے کہ کس طرح ان جزئیات کو یکے بعددیگرے ردّکرناہے جن کامطلوبہ حقائق سے واسطہ نہیں پڑتا۔۲۵ مشاہدہ بلاواسطہ بھی ہوتاہے اوربالواسطہ بھی۔چونکہ بلاواسطہ مشاہدہ ذاتی ہوتاہے، اس لیے عموماً اسے انتہائی قابل اعتماد سمجھاجاتاہے، یہاںتک کہ ذاتی مشاہدے کویقین کے مترادف خیال کیاجاتاہے، حالانکہ ضروری نہیں کہ یہ نقائص سے مبّرا ہو۔منطق داں ولیم منٹو(William Minto)۲۶ کی نظرمیںذاتی مشاہدے کے تین نقائص بہت نمایاںہیں : .iاس میں صرف مخصوص واقعے پرتوجہ دی جاتی ہے اور متعلقہ جزئیات کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے .iiاس میںاصل واقعے کو توڑمروڑ کربیان کیاجاتاہے .iiiاس میں واقعے کی اصل توجیہ جاننے کی بجائے اس کی توجیہ اپنی مرضی کی گھڑلی جاتی ہے ان نقائص کی وضاحت یوں کی جاسکتی ہے کہ بالفرض کہیں کوئی حادثہ ہو گیا ہو، وہاںپر موجود تماشائیوں کی نظریںلامحالہ اس مخصوص حادثے کی طرف مرکوزہوںگی لیکن کسی کی توجہ اس طرف نہیںجائے گی کہ اس وقت حادثے کے آس پاس مزید کیا کچھ موجودتھا۔کہنے کامطلب یہ ہے کہ کوئی بھی بنظرغائریہ جاننے کی کوشش نہیں کرئے گا کہ آخر اُس حادثے کے وقت مزیدکون کون سے شواہد کار فرماتھے۔اگرہرتماشائی سے باری باری اُس حادثے کی تفصیلات کے بارے میں پوچھا جائے توہرکسی کابیان بھی ایک جیسانہیںہوگا۔اُس وقوعہ کو ہر کوئی اپنے اپنے حساب سے بیان کرے گا اور اگراس حادثے کی وجہ دریافت کی جائے توہرکوئی اس کی توجیہ بھی اپنے اپنے مخصوص زاویۂ نگاہ سے کرے گا اور اس طرح اصل صورتِ حال کی اپنے خودساختہ نتائج سے تعبیر کرئے گا۔ ولیم منٹو۲۷کے نزدیک،ذاتی مشاہدے کاحال کسی مداری کے عجیب و غریب کرتب دکھانے جیساہوتا ہے۔ جس طرح مداری اپنے کرتب دکھاتے وقت تماشائیوں کوموسیقی کے شور، اپنی تیزطرار گپ شپ اورغیرضروری جسمانی حرکات و سکنات میںمشغول رکھتاہے اوراُس کی وجہ سے تماشائیوںکی نگاہیںاُس کے ہاتھوںکی پھرتیوںکی طرف مرکوز نہیںہو پاتیں۔نتیجتاً،وہ کمال مہارت سے ہاتھوںکی صفائی دکھانے میںکامیاب ہوجاتاہے۔بالکل اسی طرح جلدبازی، جوش وخروش،خود غرضی، دلی وابستگی اور تجسّس وتحیرجیسی کیفیات میں ایک فرد صرف وہی مشاہدہ کرتاہے جس کی طرف وہ متوجہ ہوتاہے اور اُس سے وابستہ بقیہ ٹھوس حقائق سے بے نیازرہتاہے۔دراصل ہرفرد کے مشاہدے کی عینک کارنگ مختلف ہے، اس لیے ہرایک کا منظرنامہ ایک جیسا نہیںہوتا۔ چونکہ علم کے تقاضوںکا کوئی شمار نہیں۔تحقیقات اورجستجو کی کوئی قطعی حد نہیں۔اس لیے بہت سے حقائق کو جاننا پڑتاہے لیکن ہرایک کوذاتی مشاہدے میںلانامشکل ہے۔بہت سے حقائق ذاتی مشاہدے کی دسترس سے ویسے ہی باہر ہیںجیسے کہ ماضی کے حالات وواقعات،سائنسی تحقیقات و نظریات،انبیائ،اولیاء اورعلماء کی تعلیمات وغیرہ۔ اس لیے ذاتی مشاہدے تک محدود قوتِ رسائی کی بدولت ایسے مستعملہ شواہد سے رجوع کرناپڑتاہے جنہیںمستندخیال کیا جاتا ہے ۔ یہ ٹھیک ہے کہ بالواسطہ مشاہدے کے طورپرہرشعبۂ علم کا استناد اپناایک مقام رکھتا ہے مگر مسئلہ اُس وقت پیدا ہو تا ہے جب استناد کوچیلنج کیاجاتاہے جیسے کہ قدیم عہدکی ایسی ثقافتی رسومات،دیومالائی روایات، مذہبی تعلیمات، سائنسی نظریات،فلسفیانہ خیالات،جن کا استناد اب چیلنج کے بعدقائم نہیںرہا اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے ۔ حاصل کلام یہ ہے کہ مشاہدہ ذاتی ہو یاشہادتی ،غلطیوں سے پاک نہیںہوتا،اس لیے ممکنہ حد تک تجربات کا سہارا لینا پڑتاہے اگرچہ تجربات میںبھی تغیرات کادروازہ کھلا رہتا ہے، کوتاہیوں اور لغزشوںکاامکان رہتاہے،پھر بھی پرُاعتماداورقابل بھروسا ایقان کایہی مؤثرمعیارہے۔ .iiتجربے کی نوعیت : (Nature of Experiment) تجربہ حالتِ شعور سے منتخب کردہ مشاہدات کاوہ نقطۂ ارتکاز ہے جسے کسی نہ کسی خاص مقصد کے تحت مرتب کیا جا تاہے تاکہ ایسے حقائق ظاہرہوجائیںجومحض مشاہدات کی بدولت کبھی ظاہرنہ ہوتے۔اس اعتبار سے تجربے کی نوعیت انتخابی ہوتی ہے۔ ظاہرہے کہ زندگی کے معمولات میں مشاہدات کاسلسلہ جاری رہتاہے۔تجربے کی خاطرصرف انہی مشا ہدات کاچناؤ کیاجاتاہے جن کے تحت فطرت کے سربستہ رازوںکی پردہ کشائی مقصودہوتی ہے ۔ گویا جہاں مشاہدے میں حقائق کو قدرتی حالات کے تحت معلوم کیاجاتاہے وہاںتجربے میںانہیںمخصوص مصنوعی حالات کے زیر اثر جانچاجاتاہے۔مثال کے طورپراٹلی کے نامور سائنسدان ،گلیلیو گلیلی(Galileo Galilei) ۲۸ نے جب پنڈولم کے متعلق یہ قانون دریافت کیاکہ اس کی حرکت ایک مستقل شے ہے جس پرحرکت کی لمبائی اور چھوٹائی کاکچھ اثر نہیں ہوتا تو درحقیقت اِس دریافت کے پیچھے اُس کے اپنے مخصوص مشاہدے کا بڑا ہاتھ تھا۔مشہور واقعے ہے کہ زمانہ ٔطالب علمی میں ، گلیلیوایک گرجے کے بڑے ہال میںپادری کا لیکچرسن رہاتھا۔وہاںاس کی توجہ چھت میں آویزاں لیمپ کے پنڈولم کی طرف منعطف ہوئی۔ وہ اس کا غورسے مشاہدہ کرتارہا۔لیکچر ختم ہونے کے بعدجب سب چلے گئے تو اُس نے ایک بینچ پر چڑھ کر اس لیمپ کوہلایاجس سے اس کا پنڈولم زیادہ لمباہوگیااور فوراًاس کی رفتاربڑھ گئی۔اُس کویہ خیال آیاکہ پنڈ ولم کی حرکت کا فاصلہ جب کم ہوتاہے تولیمپ کی رفتار بھی کم ہوتی ہے لیکن جب یہ فاصلہ زیادہ کردیاجاتاہے تو اس کی رفتار بڑھ جاتی ہے۔اس سے گلیلیونے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ لیمپ کے جھولنے کاوقت مستقل ہے۔جس پرپنڈولم کے کم یازیادہ ہونے کاکچھ اثرنہیں پڑتا ۔ یونیورسٹی میںآکراس نے تجربے سے اپنے خیال کی تصدیق کرنے کافیصلہ کیا ۔ اس نے دھاگے کے ساتھ ایک گولا باندھااوراس کوایک اسٹینڈ کے ساتھ لٹکادیا۔پھراسے ہلکا سا جھولا دیا اور جھولاؤ کے وقت کا مقابلہ اپنی نبض کی رفتار کے ساتھ کرناشروع کیا۔جب جھولاؤ کا وقت اس کی نبض کی رفتار سے زیادہ ہوتاتووہ دھاگے کی لمبائی کم کردیتا۔جب جھولاؤ کا وقت کم ہوتاتووہ دھاگے کی لمبائی زیادہ کر دیتا۔ ایسا کرتے کرتے بالآخر اس نے گولے کے جھولاؤ کے عرصے کواپنی نبض کی رفتار کی ضرب کے عرصے کے عین برابر کرلیا۔ اب وہ تجربے کے دوران میںگولے کے جھولاؤ کو کبھی لمبااورکبھی چھوٹاکردیتا۔لیکن دونوںصورتوںمیں اس کے جھولاؤ کا عرصہ نبض کی رفتارکے برابررہتا۔اس طرح تجربے کی رُوسے یہ ثابت ہوگیاکہ کسی شے کے جھولاؤ کا عرصہ ایک مستقل شے ہے جس پر جھولاؤ کی لمبائی اورچھوٹائی کااثر نہیںپڑتا۔ تجربے کی نوعیت موضوعی بھی ہوسکتی ہے اورمعروضی بھی ۔مثال کے طورپرایک آدمی کاتجربہ اُس وقت باطنی مشاہدے اور موضوعیت کا حامل ہوتا ہے جب اُس میں تخیلات، خیالات، احساسا ت، یادداشت اوررجحانات کاذاتی عمل دخل ہوتا ہے۔ اس کے برعکس،ایک ماہرعلم وفن کا تجربہ خارجی مشاہدے اورمعروضیت کاحامل ہوتاہے جب اس میںخارجی مہیجات اور ان کے ردعمل، ذاتی اورمستعملہ مشاہدات کی کڑی پرکھ،سابقہ نظریات ااورمنہاجات سے استفادہ اور عملی مہارت کا استعمال ہو۔علمی ترقی کی بدولت اس میںکوئی شائبہ نہیںرہا کہ معروضی تجربات ہی فطرت کے پوشیدہ حقائق کوبے نقاب کرنے میںمعاون ہوتے ہیں۔ معروضی تجربہ اپنی نوعیت کے لحاظ سے سائنسی بھی ہوسکتاہے اورغیر سائنسی بھی۔ تجربہ سائنسی اُس وقت کہلاتا ہے جب مشاہداتی حقائق کو مفروضات کی مدمیںرکھاجائے،مفروضات کی کڑی جانچ پڑتال کی جائے،ان سے ٹھوس اور فیصلہ کن نتائج اخذ کئے جائیں،ان کی بنیادپر کوئی نظریہ وضع کیا جائے جوبعدازاںعالمگیر قانون کی صورت اختیار کرلے مگرمزید اصلاح اورترقی کے امکانات سے عبارت ہو قابل چیلنج ہو،امکانی اور احتمالی ہو،قطعیت کادعویدارنہ ہو۔ اس کے برعکس،جب مشاہداتی حقائق کو عقائدکے زمرے میں رکھاجائے،عقائد کو بلاچون وچرامانا جائے،انہیں مسلمہ او ر مستعملہ گرداناجائے،ان کے چیلنج کوتضحیک اورتوہین قراردیاجائے،ان سے ماخوذنتائج کوازلی و ابدی صداقتیں شمار کیا جائے،ان کوکسی قسم کی اصلاح اورترمیم سے مبّرا تسلیم کیاجائے اوران کی تصدیق و تحقیق کے لیے صرف اتناہی کافی سمجھا جاتا ہو کہ ان کادرجہ استناد کاحامل ہے توایسا تجربہ غیر سا ئنسی ہوتا ہے۔فکرِانسانی کی تاریخ سائنسی اور غیرسائنسی تجربوں کی گواہ ہے۔ اُن میں سے چندایک کی مثالیں یہاں پیش کی جا تی ہیں۔مثلاً،ازمنہ وسطیٰ میںارسطوکوعلم کی سند سمجھا جاتا تھا حالانکہ اس کے بہت سے مشاہدات غیرسائنسی تجربے کے حامل تھے کیونکہ اس کی فکرکامیلان استخراجی قیاس پر مبنی تھا،جس میںاس کی حکیمانہ بصیرت کے باوجودتہذیبی تعصبات بھی شامل تھے۔مثلاًجب اس نے یہ کہاکہ عورت کے مقابلے میںمرد کے دانت تعدادمیںزیادہ ہوتے ہیںتواس نے نہ عورت کے دانت گنے نہ مرد کے۔۲۹دراصل، اُس زمانے میںارسطواس قدرفوق البشربن چکاتھاکہ اس کے خلاف کوئی بات سنی نہیںجاسکتی تھی مگرگلیلیونے اس کے کئی غیرسائنسی تجربات کوسائنسی تجربات کی رُوسے شکست دی۔مزے کی بات یہ ہے کہ ادھر پیروان ارسطوبھی اپنی جہالت کی بناء پرگلیلیوسے ہرشکست کابدلہ لیتے رہے۔تاریخی صفحات میںدرج ہے کہ لوگ گلیلیوکی دوربین سے مشتری کے چانددیکھنے کے باوجود مصررہتے کہ ایسانہیںہوسکتاکیونکہ اس کاتذکرہ ارسطوکی تصانیف میںنہیںملتا۔جب۱۶۰۴ میں گلیلیو۳۰نے آسمان پرایک نئے ستارے کے طلوع ہونے کی نویدسنائی اور اس کے مشاہدے کی دعوت عام دی تو لوگوں نے خوب ناک بھوں چڑھائی۔ کیونکہ ان کے خیال میںارسطو نے یہ واضح لکھ دیاتھاکہ آسمان کوقدرت نے ستاروںسے مزین کرکے ہمیشہ کے لیے کامل بنادیاہے اورجب گلیلیو۳۱ نے پانچ اورایک سیر کے دولوہے کے باٹ اٹلی کے شہر پیسا(Pisa)کے خمیدہ مینار سے ایک ساتھ نیچے گرائے تو اس نے ثابت کردکھایاکہ ارسطو کایہ خیال درست نہیں ہے کہ اجسام کے نیچے گرنے کی رفتاران کے وزن سے متناسب ہے۔ دراصل،ارسطونے کاغذکے ایک ہلکے پرزے اور لوہے کے ایک بھاری باٹ کوبلندی سے نیچے گرتے دیکھ کر یہ عمومی نتیجہ اخذکرلیاتھاکہ اجسام کے گرنے کی رفتاران کے وزن کے متناسب ہوتی ہے۔گلیلیوکے تجربے کے باوجودلوگوںنے اسے طعن وتشنیع کاہدف بنایا۔گلیلیو۳۲کوصحیح معنی میںاپنے کئے کی سزااس وقت بھگتناپڑی جب اس نے دوربین کے ذریعے کوپرنیکس کے نظریے کو سچ کردکھایاکہ زمین سورج کے گردگھومتی ہے۔اب کی دفعہ چرچ کے پادری اورارسطو کے پرستار اس قدر بھڑکے کہ انھوںنے اس پر بے دینی کا فتویٰ صادر کیا۔ سزائے موت کا مقدمہ دائر کیا۔ بالآخر اسے گمراہی کے اعتراف کے باعث اسی کے گھرمیں تاحیات نظربندکردیاگیا۔گلیلیوکاجرم صرف اتنا تھاکہ اس کاتجربہ انجیل مقدس اورارسطوکے نظریے کے منافی تھاجس کی رُوسے زمین سورج کے گردگردش کرے،سوال ہی پیدانہیںہوتا۔ 2۔یکسانیٔ فطرت :(Uniformity of Nature) استقرائی استدلال کے مقدمات میں صرف انہی مشاہدات وتجربات کاانتخاب عمل میں لایا جاتاہے جن میں فطری یکسانیت پائی جاتی ہو۔ فطرت کی رنگینی بیک وقت یکساں اورمتنوع واقعا ت سے پرُہے ۔ایک طرف یکساں واقعات ہیںجواتنی باقاعدگی اورتسلسل سے بار بار رونما ہو رہے ہیںکہ انسان اُن کاعادی ہوجاتاہے اوریہ توقع نہیں رکھتاکہ وہ خلافِ معمول بھی وقوع پذیرہوسکتے ہیں۔جیسے کہ موسموں کا ہیر پھیر،رات دن کی گردش،سورج کا طلوع وغروب ہونا،پانی سے پیاس کا بجھنا،آگ سے حرارت کااحساس پیداہونا،وغیرہ۔دوسری طرف متنوع واقعات ہیں جوخاصی بے قاعدگی اور بے ترتیبی کاشکارہیںاورشاذونادرہی وقوع پذیرہوتے ہیں۔ اس لیے انہیں اتفاقی، حادثاتی اورغیرمعمولی نوعیت کاسمجھاجاتاہے، جیسے طوفان، زلزلہ،سیلاب، وبا،خشک سالی، قحط، سورج اور چاند گرہن، موت، وغیرہ۔پروفیسرسوسان سٹیبنگ۳۳نے یکسانیت اورتنوع کے امتیاز کو اجاگر کرتے ہوئے لکھاہے کہ یکسانی اشیاء و واقعات کاایسامجموعہ ہے کہ اگران میںسے کسی ایک کااعادہ کیاجائے تو دیگر کا بھی اعادہ ہوجاتا ہے، جب کہ تنوع اشیاء و واقعات کا ایسا مجموعہ ہے کہ اگران میںسے کسی ایک یا زیادہ کااعادہ ہوجائے تودیگرکواس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ علمی لحاظ سے یکسانیت کو تنوع پرفوقیت حاصل ہے کیونکہ اگرکسی واقعہ کے حالات ایک جیسے رہیں تویہ اندازہ کرنا مشکل نہیںرہتاکہ آئندہ بھی ویسے ہی واقعات رونماہوگے۔یہی استقرائی استدلال کاکمال ہے کہ اس میں متنوع واقعات سے یکساںواقعات کا امتیاز ہو جاتا ہے۔ مل(Mill)۳۴کے خیال میں استقرائی استدلال کی تعریف میںیکسانی کی تفہیم بدرجۂ اتم موجودہے جس کے تحت اگر کوئی واقعہ ایک بار رونماہوجائے توہرباراسی طرح واقع ہوگا بشرطیکہ ہربار ویسے ہی حالات رونماہوتے رہیں۔ فطرت کی یکسانی کوئی یک رنگی چیز نہیںکیونکہ اس کے مختلف النوع گوشے ہیں اور ہرگوشے کی یکسانی منفردہے۔اس اعتبارسے بین(Bain)۳۵ کاخیال درست معلوم ہوتاہے کہ فطرت ایک ہی یکسانی نہیںبلکہ یکسانیوںکانام ہے۔ مل(Mill)۳۶ فطرت کی یکسانی کی دو قسموں بتاتا ہے: .iیکسانیٔ تعلیل:(Uniformity of Causation) .iiیکسانیٔ ہم موجودیت : (Uniformity of Coexistence) یہاں ان کی وضاحت کی جاتی ہے۔ .iیکسانیٔ تعلیل :(Uniformity of Causation) اس سے مرادفطری واقعات کاایساسلسلہ ہے جو علّت اور معلول کے رشتے میںبندھا ہواہے جہاں یکساں علّت یکساںحالات کے تحت یکساں معلول پیداکرتی ہے یا پھریکساں معلو ل یکساںحالات کے تحت یکساںعلّت سے پیدا ہوتے ہیں۔علّت اورمعلول کے مفہوم کی انتہائی سادہ سی وضاحت جان لاک(Locke John )۳۷نے کی ہے۔ جس کے مطابق علّت وہ ہے جس سے کسی واقعے کاآغازہواورمعلول وہ واقعہ ہے جس کاآغازکسی علّت سے ہو۔ گویا علّت معلول کو پیداکرتی ہے اورمعلول علّت سے پیداہوتاہے۔اس مناسبت سے علّت کی حیثیت فاعلی اور معلو ل کی مفعولی دکھائی دیتی ہے۔یکسانیٔ تعلیل کی تفصیلات میںجانے سے پیشتریہ ازحد ضروری ہے کہ علّت اوروجہ کے فرق کو مدنظررکھ لیاجائے کیونکہ عام طورپران دونوںکوآپس میںخلط ملط کر دیا جاتا ہے جس سے ابہام کااندیشہ لاحق ہوتاہے۔ پروفیسر سٹیس(Stace)۳۸ کی وضاحت کے مطابق علّت وہ ہے جوبے شک کسی واقعے کوظاہرکرتی ہے مگراس کی کبھی توجیہ پیش نہیںکرتی۔اس کے برعکس وجہ وہ ہے جوکسی واقعے کے ظاہرہونے کی لازماً توجیہ پیش کرتی ہے۔ مثال کے طورپرشعلہ سے ہمیشہ حرارت ظاہرہوتی ہے، اس لیے شعلہ حرارت کی علّت ہے۔بے شک شعلے سے حرارت ظاہر ہوتی ہے لیکن اس سے اس کی توجیہ معلوم نہیںہوتی کہ وہ بالآخرپیدا کیوںہوتی ہے ؟ ظاہر ہے،اس کے پیداہونے کی توجیہ کچھ بھی ہوسکتی ہے جیسے موم بتی کاجلنا، چولھے کا پھٹنا، بجلی کے سرکٹ کاشارٹ ہوجانا،وغیرہ اس طرح ان میںسے کوئی بھی توجیہ شعلہ کی وجہ ہوسکتی ہے ۔ اس اعتبارسے دیکھاجائے توعلّت محض میکانیت (mechanism)ہے جس کی رُو سے کوئی وجہ اپنے نتائج کوپیداکرتی ہے۔بنیادی طورپر، علّت اور معلول پہ موقوف نظریۂ تعلیل تین طرح کے نقطۂ نظرکاحامل ہے ۳۹ : .iعلّت اورمعلول کارشتہ لزومیت کاحامل ہے جہاں علّت معلول کوپیداکرنے کی قوت رکھتی ہے۔ جیسے شعلے سے حرارت کاپیداہونا۔ .iiعلّت اورمعلول کارشتہ تقدم اورتاخر کے استقلال سے عبارت ہے جہاںعلّت معلول کا غیر مشر و ط اور مستقل تقدم ہے اورمعلول علّت کا غیر مشروط اورمستقل تاخرہے۔ جیسے خشک سالی سے قحط کا پڑنا۔ .iiiعلّت اورمعلول کارشتہ باہمی تبدیلی پرمشتمل ہے جہاںعلّت معلول میںاورمعلول علّت میںبدل جاتا ہے۔ جیسے پانی کابھاپ یابرف میںتبدیل ہونا۔بعینہٖ بھاپ یابرف کاپانی میں تبدیل ہونا۔ چاہے اِن میںسے کسی نقطۂ نظر کوفوقیت دی جائے،یکسانیٔ تعلیل کامرکزی خیال یہی ہے کہ ہریکساں علّت کا ہمیشہ یکساںمعلول ہوتاہے۔مثلاً،بالفرض شعلے کو حرارت کی علّت ماناجائے تو اس کامطلب یہ ہوگاکہ شعلہ ہمیشہ حرارت کی علّت بنتاہے اورحرارت ہمیشہ شعلے کامعلول بنتی ہے۔ اس نکتے سے بآسانی واضح ہوتاہے کہ کسی علّت سے رفاقت یاتقدم کارشتہ رکھے بغیرکوئی معلول وقوع پذیرنہیںہوسکتا۔اگرکسی علّت سے شناسائی ہوجائے تولامحالہ اس کے معلول سے شناسائی ہوجائے گی۔ میل ون۴۰کے نزدیک،یکسانیٔ تعلیل ہرکسی کی فکر میںکارفرماہے، حتی کہ بچوں اور احمقوں کی سوچ میںبھی موجودہے۔اگرچہ وہ اس کے بارے میںنہیںسوچتے لیکن سوچتے اسی کے مطابق ہیں۔یہی نہیں،زمانۂ قدیم کے غیر مہذب انسانوں نے بھی اسے اپنے قیاس میںجگہ دی اگرچہ ان کایقینِ واثق ہوتا کہ کارخانۂ قدرت کاانتظام و انصرام کسی نہ کسی نیک یابددیوتاکے اختیار میں ہے لیکن پھربھی وہ زندگی کے معمولات میںواقعات کی یکسانی کوملحوظِ خاطر رکھتے۔دیومالائی دور کی توہم پرستی اِسی دور سے یادگارہے۔ ولیم منٹو۴۱ کے تجزئیے کے مطابق،فطری اشیاء وواقعات کے مابین تعلقات کا اُلجھاؤ حقائق کو اس قدر گنجلک بنادیتاہے کہ انہیںمتفارق اجزاء میںمدرک نہیںکیاجاسکتا۔مشاہدے کے زورپر اگرکبھی متنوع واقعات کے تعلقات یکے بعددیگرے ہمیشہ ایک ہی نوعیت میںمدرک ہونے لگیںتوصاحبِ ادراک کو یہ گمان ہونے لگتاہے کہ ان کے درمیان کوئی اتفاقی یاسطحی نوعیت کا تعلق نہیںبلکہ ان میںضرورکوئی پائیداراورا بدی رشتہ موجودہے۔اس طرح کے گمان سے بالآخریہ عقیدہ تقویت پکڑجاتاہے کہ جب کبھی ایسی صورت حال پیداہوتویقیناایسے نتائج آئندہ بھی برآمد ہوںگے جوکہ اب تک احاطۂ ادراک میںلائے جاچکے ہیں۔مثال کے طورپراگرکوئی کتابھونکے اورکسی بچے کے معدے میںدردبھی اُسی لمحے ختم ہوجائے اورایسا بارہاہوتا رہے توآخرکارایسے مشاہدے سے اُس بچے کی والدہ کویہ یقین ہو جائے گاکہ کتے کابھونکنامعدے کے دردکاعلاج ہے۔دیومالائی دورکی توّہم پرستی کے قصے ایسے ہی یکسانی کے مشاہدوں کی وجہ سے منظرِعام پر آئے ۔ اِس کی وجہ صاف ظاہرہے کہ اُس دور کے انسان زمانۂ جدید کے طرز کے مشاہدات و تجربا ت سے نابلدتھے ۔وہ اشیاء وواقعات کی یکسانی فطرت کواپنے موضوعی مشاہدات کے بل بوتے پر قیاس کرتے اورنتیجتاً توہم پرستی اوراساطیری روایات کاشکارہوئے ۔ اگرچہ یہ تسلیم کیاجاچکاہے کہ کسی جانی یاانجانی علت کے بغیر کوئی واقعہ رونما نہیں ہو سکتا اورماضی کے واقعات سے اتنا یقین ضرورہوتاہے کہ مستقبل میںبھی ویسا ہی ہوتارہے گا مگر پھر بھی معاملہ اتنا سادہ نہیں جتنا بادی النظر میں معلوم ہوتا ہے۔ جیونز۴۲ کامؤقف ہے کہ سورج روز طلوع ہوتاہے اور صدیوں سے بعینہٖ طلوع ہورہا ہے۔اس طرح کے سینکڑوںواقعات سے انسان اتنا مانوس ہوچکا ہے کہ وہ یہ توقع ہی نہیںرکھتا کہ آئندہ کبھی ایسا نہیں ہوگا۔مستقبل میں آخر کار ہونا کیا ہے،انسان کو اس کاقطعی علم نہیں،اسے صرف یکسانی فطرت کی بناء پر توقع ہے کہ مستقبل کے واقعات ماضی سے مختلف نہیںہوںگے۔لیکن مسئلہ یہ ہے کہ توقع کوعلم کے مترادف قرار نہیں دیا جا سکتا۔ مثلاًمل۴۳ لکھتاہے کہ وسطی افریقہ کے باشندے کوئی پچاس دہائیوں تک یہی توقع کرتے رہے کہ دنیا کے تمام انسان سیاہ فام ہیں۔انہیں صحیح صورت حال جاننے میںایک لمباعرصہ لگا۔ مستقبل کے حوالے سے یکسانیٔ فطرت میںایک استثنیٰ بھی موجودہے جوماضی کاانحراف کرسکتی ہے اورانسانی توقعات کوپس پشت ڈال سکتی ہے۔جب کہ دوسری طرف یکسانیٔ تعلیل کااصول قطعیت کادعویدارہے جس میںاستثنیٰ کی کوئی گنجائش موجود نہیں،جہاںیکساںعلّت ہرصورت میں یکساں معلول کو ظاہر کرتی ہے۔مؤخرالذکر کے اعتبارسے دیکھاجائے توبقول مل۴۴،نامعلوم معلوم ہی کی مانندہوگااورمستقبل ماضی سے مشابہ ہوگا۔یوںمستقبل ماضی کااعادہ بن کررہ جائے گاجو کسی صورت میں بھی ممکن نہیں۔اس حوالے سے گرین (Green)۴۵ کا کہنا درست معلوم ہوتاہے کہ مستقبل ماضی کی طرح نہیں ہوسکتاکیونکہ یہ اضافہ پذیرہے گومستقبل کے اُفق ماضی سے کہیں زیادہ وُسعت کے حامل ہیں۔یکسانیٔ تعلیل میںاستثنیٰ کاامکان موجودنہیںاورانسانی توقعات علم کے مترادف نہیںلیکن اس کے باوجود یکسانیٔ تعلیل اہمیت طلب ہے کیونکہ مستقبل کے واقعات کی حتی الوسع پیشین گوئی اسی کے ذریعے ممکن ہے۔جہاںتک یکسانیٔ تعلیل پراعتقادرکھنے کاسوال ہے۔ اس کے بارے میں ماہرین کے ہاںتین طرح کے نقطۂ نظر موجود ہیں۔۴۶ : .iیکسانیٔ تعلیل پراعتقادقبل تجربی ہوتاہے یعنی ایسا اعتقاد فطری اور پیدائشی ہوتا ہے۔ .iiیکسانیٔ تعلیل پراعتقادمابعدتجربی ہوتاہے یعنی ایسااعتقاد سراسراکتسابی اور تجربی ہوتا ہے، فطری نہیں۔ .iiiیکسانی ٔتعلیل پراعتقادآبائی اکتساب اورذاتی وراثت پرموقوف تجربی ہوتاہے یعنی ایسا اعتقاد آباؤاجداد نے تجربی بنیادوں پراپنایاہوتاہے جب کہ اس کی نسلوں نے اسی کوموروثی طور پر اختیار کیاہوتاہے۔ .iiیکسانیٔ ہم موجودیت :(Uniformity of Coexistence) اس سے مراد فطری اشیاء کی ایسی صورتِ حال ہے جس میںدویادوسے زیادہ منفرد، مخصوص اور متفارق خصوصیات ہمیشہ ایک ساتھ کسی شے میں پائی جاتی ہیں۔ان خصوصیات کاآپس میںکوئی ناگزیررشتہ نہیںہوتایعنی ان میںسے کوئی بھی خصوصیت کسی دوسرے کی علت نہیں بنتی۔ گوہر خصوصیت ذاتی تشخص کی حامل ہوتی ہے لیکن ایک ساتھ موجود ہوکروہ اس شے کی الگ سے پہچان قائم کردیتی ہے کہ جس میںوہ مستقلاًپائی جاتی ہے ۔مثال کے طورپر کیمیا کے ہر بنیادی عنصر کی ایک اپنی شناخت ہے جو ان میں موجود منفرد اور متفارق خصوصیات کی یکسانیت پرمبنی ہے۔اس کی وضاحت یوںکی جاسکتی ہے کہ ہیراہمیشہ سے ہیراہے کیونکہ جوخصوصیات اس میںپائی جاتی ہیںوہ اس کی یکساں خصوصیا ت ہیں یعنی ہمیشہ سے اس میںبعینہٖ موجودہیں۔مثلاًہیرے کی خصوصیات یہ ہیں:اس کامخصوص رنگ، چمک اور صورت ہے۔ جلانے پرجل اٹھتاہے ۔اس کے جلنے سے کاربونک ایسڈپیدا ہوتاہے۔کسی دوسرے جوہر سے اسے کاٹا نہیں جاسکتا۔ہیرا ان خصوصیات کے بغیرہیرا نہیںہو سکتا۔اس حوالے سے یکسانی ہم موجودیت کامطلب کسی شے میں ہمیشہ سے موجود متفارق خصوصیات کی یکسانیت کو مدنظررکھناہے تاکہ کائنات کے رنگارنگ مظاہر سے شناسائی ہو سکے ۔ ۴۷ یکسانیٔہم موجودیت،یکسانیٔ تعلیل کی طرح فطری حقائق کے باہمی رشتوں کے ثبوت فراہم کرنے سے قاصرہے۔لیکن جب تک اس کی بدولت فطری اشیاء کے وجودکاادراک نہیں کیا جائے گا،ان کے درمیان یکسانیٔ تعلیل کاسلسلہ قائم کرنامشکل ہوگا۔معدنیات کی ہردھات اپنی خصوصیت کی بناء پرہمیشہ ایک دوسرے سے الگ اور منفردہے مگریکسانیٔ تعلیل کی وجہ سے کوئی ایک دھات کسی دوسری دھات کی علّت ہوسکتی ہے جیسے سٹین لیس سٹیل کی علّت لوہا ہے۔روزمرہ کی زندگی میںیکسانیٔہم موجودیت کی جھلکیاں بکثرت دیکھنے کوملتی ہیں۔جیسے کسی ذائقہ دارآم کے رنگ، خوشبو،شباہت وغیرہ کو مدنظررکھ کریہ توقع کی جاسکتی ہے کہ اس جیسی خصوصیات رکھنے والے آموں کا ذائقہ بھی چکھے گئے آم جیسا ہوگا۔ جہاںتک ان سائنسی علوم کاتعلق ہے جومختلف جانداروں کی ساخت اورصفات کے بارے میںتحقیقات کرتے ہیں،ان کاواسطہ بہر صورت یکسانی ہم موجودیت سے پڑتاہے جیسے اناٹومی کے قوانین سے جانداروں کے جسمانی اعضاء کے مابین ہم موجودیت کاثبوت ملتا ہے۔ بین (Bain)۴۸کے بقول،اناٹومی یکسانیٔ ہم موجودیت کابہت وسیع ذخیرہ ہے۔یہی صورت حال نباتات کے معاملے میںبھی دکھائی دیتی ہے۔پودوںمیںساختی صفات کے ساتھ ساتھ رنگ اور دیگر بہت سی صفات کی ہم موجودیت بھی شامل ہوتی ہے جو دراصل ان کی جماعت بندی پرموقوف ہوتی ہے کیونکہ جماعت بندی سابقہ مشاہدات سے مشروط ہوتی ہے جن میںکچھ خصوصیات ہمیشہ ایک دوسرے کے ساتھ موجودپائی جاتی ہیں۔مثلاً جہاںکوئی بھی مادی شے پائی جائے گی وہاںاس کے ساتھ ہی کششِ ثقل اور جمود کی صفات بھی موجودہوںگی۔مجموعی طورپر،یکسانیٔ ہم موجودیت کی افادیت اور صداقت اس نکتے میںمضمرہے کہ اس پر تعلیل کاانطباق ممکن نہیںمگراس کے باعث تعلیل کااطلاق ممکن ہے جوزمانۂ آفرینش سے تاحال ارتقاء تک ہرفطری مظہر کی علّت تلاش کرنے کی بنیادہے۔ استقرائی استدلال کے اَسالیب :(The Modes of Inductive Reasoning) استقرائی استدلال میںحقائق سے نتائج اخذکرنے کاکوئی بنابنایااُسلوب نہیں ہے البتہ اب تک اس کے مختلف اَنداز(versions)سامنے آچکے ہیں۔جیسے : ۱۔کسی ایک مقرون مثال کومدنظررکھ کرکوئی عمومی نتیجہ اخذکیاجاتاہے۔مثلاًاگریہ آگاہی ہو جائے کہ یہ سرخ دھبہ اُس گلابی دھبے سے زیادہ گہراہے تواس مقرون مثال سے یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ اس طرح کاہر سرخ دھبہ اس طرح کے ہر گلابی دھبے سے زیادہ گہرا ہوتاہے۔ ڈبلیو ای جانسن (W. E. Johnson)۴۹ اسے وجدانی استقراء (Intuitive Induction) کا انداز قرار دیتا ہے۔ اس سلسلے میںوہ اس کی تجربی اورصوری اقسام میں تمیز کرتا ہے۔اس کے نزدیک اگرکسی مخصوص شے کے حسی تاثرات اور ان کے باہمی روابط کے ادراک سے اس طرح کاخارجی وقوف ہوجائے جو اسی طرح کی دیگر اشیاء کے حسی تاثرات اوران کے روابط کے بارے میںبعینہٖ صادق آتاہو تووہ وجدانی استقراء کی تجربی قسم ہوگی ۔مثلاً کوئی شے سرخ،نارنجی اورپیلے رنگوںپرمشتمل ہو تو پہلی نظرمیںہی یہ وقوف ہوجاتاہے کہ سرخ اورنارنجی رنگوںکی بہ نسبت سرخ اورپیلے رنگوںکے درمیان کی حسی کیفیات کافرق زیادہ نمایاںہوتاہے۔اب اگر انہی رنگوںپرمشتمل کوئی شے کبھی دکھائی دے تو ان رنگوں کی حسی کیفیات کاامتیازان میںبعینہٖ موجودملے گا۔حسی تاثرات تو درکنار، استقرائی وجدان کی تجربی قسم باطنی تاثرات سے بھی عبارت ہوسکتی ہے۔جیسے،یہ وقوف ہوجائے کہ فلاں تجربے سے سرورحاصل ہوتاہے تواس تجربے کی خواہش بیداررہے گی اوراس طرح کے وقوف سے بالآخر نتیجہ یہ نکلے گاکہ صاحب وقوف ہمیشہ یہ خواہش رکھے گاکہ اسی طرح کے سرور انگیز تجربے حاصل ہوتے رہیں۔ اگروجدانی استقراء کی تجربی قسم عمومیت کے رنگ میںرنگ جائے توپھریہ صوری قسم میں ڈھل جاتی ہے جہاں تجربی تعمیمات کے بل بوتے پرمقرون اشیاء کافوری وقوف سہل ہو جاتا ہے۔ جیسے،سرخ اورسبز رنگوںکی حسی کیفیات میںخاصا بُعد ہے۔اس تعمیم کاہراس شے میںبآسانی وقوف کیاجاسکتاہے جوسرخ اورسبز رنگوںسے مزین ہو۔ ارسطونے اسی اسلوب کواپنایا۔اس کاخیال تھا کہ انسانی عقل ازخودبعض جزئیات سے کلیات کواخذکرلیتی ہے۔مثال کے طورپر،کل اپنے اجزا سے بڑا ہوتا ہے، ایسا متعارفہ ہے جس میںیہ ضروری نہیں کہ اسے بہت سے جزئی شواہدکے پیشِ نظر اسے اخذکیاجائے۔اس کے لیے صرف ایک مثال کامشاہدہ ہی کافی ہوتا ہے۔استقرائی استدلال کے اس اُسلوب کی خصوصیت ہی یہ ہے کہ وہ وجدانی طورپرجزو میںکل کے عنصرکوپہچان لیتی ہے۔ لیکن وجدانی استقراء کامسئلہ یہ ہے کہ اگرباطنی تاثرات ماورائے حِسّی تجربات کے غمازہوں،کسی استناد کی پیداوار ہوں، تو ان کے تعمیمی وقوف کے تیقن کامعاملہ کھٹائی میںپڑسکتاہے بشرطیکہ اس کی تصدیق کاکوئی معیارموجودنہ ہو۔ .2کسی مخصوص جماعت کے گنے چنے اراکین کومدنظررکھ کراس پوری جماعت کے بارے میںعمومی نتیجہ اخذ کیاجاتاہے۔مثلاًاگرہرماہ کے دنوںکوگن لیاجائے تویہ نتیجہ لامحالہ برآمدہوتاہے کہ سال کے تمام مہینوں کے دن بتیس سے کم ہوتے ہیں۔اسی طرح اگر گول(circular)، بیضوی (eclipse) ، شلجمی(parabola)اور ہذلولی(hyperbola)اشکال کوغور سے دیکھیںتومعلوم ہو گا کہ یہ تمام ہندسی اشکال ایک خط مستقیم کودوسے زیادہ نقاط پرکبھی قطع نہیںکرتیں۔ان مقرون اشکال کے بغور مطالعے سے یہ عمومی نتیجہ برآمدہوتاہے کہ ہندسی شکل کا ہر مخروطی حصہ(conic section) ایکخط مستقیم کودو سے زیادہ نقاط پرکبھی قطع نہیںکرتا۔اس طرح کے استقرائی اُسلوب کواستقرائے تام (Complete Induction)۵۰ کہاگیاہے، لیکن اس میںقباحت یہ ہے کہ اس کے لیے مخصوص اور محدود جماعت کے تمام اراکین کی مکمل گنتی ضروری ہے ورنہ یہ اُس صورت میںبے کار ہے کہ جب جماعت اتنی بڑی ہو کہ اس کے تمام اراکین کی مکمل گنتی ممکن نہ ہو۔عمیق نظری سے کام لیاجائے تواندازہ ہوگاکہ یہ انداز استقراء سے کہیں زیادہ قیاسی(Syllogistic)طرزکاحامل ہے۔مثلاً : گول، بیضوی، شلجمی اور ہذلولی، اشکال ایک خط مستقیم کو دو سے زیادہ نقاط پرکبھی قطع نہیں کرتیں ہرمخروطی حصہ گول،بیضوی،شلجمی یاہذلولی ہندسی شکل کاہوتاہے لہٰذا ہندسی شکل کاکوئی بھی مخروطی حصہ ایک خط مستقیم کودوسے زیادہ نقاط پرکبھی قطع نہیںکرتا۵۱ ڈبلیو ای جانسن۵۲ اسے خلاصۂ استقراء (Summary Induction) کہتا ہے کیونکہ اس کے نزدیک ایسی استقرائی استدلال کا نتیجہ دراصل مخصوص مثالوں کا محض ایک خلاصہ ثابت ہوتا ہے۔ .3کسی مخصوص جماعت کے بیشتراراکین کے مابین کسی مشترک صفت کو مدنظررکھتے ہوئے اُس پوری جماعت کے بارے میں عمومی نتیجہ اخذ کیا جاتا ہے۔ مثلاً آسٹریلیا کی دریافت سے پیشتردنیاکے ہرخطے میںجہاں کہیں بھی راج ہنس دیکھے گئے ان میںسفیدرنگ کی مشترک صفت پائی گئی۔انہیںگننے کے بعدیہ نتیجہ اخذکیاگیاکہ دنیا کے تمام راج ہنس سفیدہوتے ہیں۔استقرائی استدلال کے اس اُسلوب کو استقرائے ناقص(Incomplete Induction)۵۳ کا عنوان دیا جاتا ہے کیونکہ اس میں مخصوص جماعت کے تمام تراراکین کی گنتی ممکن نہیں۔اس لیے اس میںجس قدر کثیر مثالوںکوگناجاتاہے نتیجہ بھی اسی قدر مضبوط اوربہتر متصورکیاجاتاہے۔اس اسلوب میںنقص یہ ہے کہ ایک منفی مثال سار ے نتیجے کوغلط ثابت کرنے کے لیے کافی ہے، جیسے آسٹریلیاکی دریافت کے بعدکالے رنگ کے راج ہنس بھی دیکھے گئے جس سے یہ نتیجہ درست نہ رہا کہ دنیا کے تمام راج ہنس سفیدہوتے ہیں۔ باوررہے کہ ایسی صورت میں نتیجہ غلط ہونے کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ وہ سو فی صد غلط ہوگیا ہے۔صرف یہ ہوتاہے کہ اس کی صداقت میں کمی واقع ہوجاتی ہے۔اس کے بارے میںفرانسس بیکن(Francis Bacon)۵۴کہتاہے کہ گنتی پرموقوف ا ستقراء ایک طفلانہ عمل ہے۔ اس کے نتائج غیریقینی ہوتے ہیں کیونکہ ا س میں حقائق گنے چنے ہوتے ہیں۔اس لیے صرف ایک متضاد مثال اسے کمزورثابت کرسکتی ہے ۔ .4دو یا دو سے زیادہ مثالوں کے مابین کسی بنیادی اور ناگزیر صفت کو مدنظر رکھتے ہوئے اُس جیسی تمام مثالوں کے بارے میں عمومی نتیجہ اخذ کیا جاتا ہے۔ مثلاً اگر یہ مشاہدے میںآچکاہوکہ زمین کے وہ تمام خطے جہاں بر فا نی تودے گرتے ہیں،تنگ وتاریک برفانی چٹانیںبنادیتے ہیں۔ بعدازاںکبھی برطانیہ کی کسی وادی میںتنگ و تاریک بر فانی چٹانوںکامنظردیکھنے میںآئے توموجودہ منظراورگذشتہ مشاہدے کے درمیان مشابہت کی بدولت یہ نتیجہ اخذکر نا دُشوار نہیں رہتا کہ برطانیہ کی وادی میںبھی غالباًکبھی برفانی تودے گرتے رہے ہونگے۔استقرائی استدلال کے اِس اُسلو ب کو تمثیلی استقرائ(Analogical Induction)۵۵سے عبارت کیاجاتاہے۔بطور جملۂ معترضہ، یہاں استدلا ل اور ادب میںاستعمال ہونے والی تمثیل کے امتیازکی نشان دہی ضروری ہے،ادب میں تمثیل کومدعا کی وضاحت کے لیے استعمال میں لایا جاتا ہے۔مثال کے طور پر، اگر کسی ادبی مضمون میںسائنس کی نوعیت کو اُجا گر کرنا مقصود ہو تو اسے مکان کی مشابہت سے یوں واضح کیا جا سکتاہے۔سائنس کی عمارت حقائق پر استوارہے جیسے کہ مکان کی عمارت اینٹوں پر۔ گویا جس طرح محض اینٹوں کاڈھیرمکان نہیںہوتا، بعینہٖ حقائق کامجموعہ سائنس نہیں ہوتا۔۵۶اس کے برعکس، استدلال میں تمثیل مدعاکے جوازکے لیے مستعمل ہے۔مثلاً : پڑوسیوں کی جنگ، دونوں کے لیے ہولناک ہے ایتھنزاورتھیبزکی جنگ،پڑوسیوںکی جنگ ہے لہٰذا ایتھنز اورتھیبزکی جنگ، دونوںکے لیے ہولناک ہے۔۵۷ یہاں نتیجے کے معتبرہونے کاجوازاس کے مقدمات کے مابین مشابہتوں پرمنحصرہے۔ چونکہ تمثیلی استقراء کا دارو مدار گزشتہ تجربات و واقعات پرہوتاہے، اس لیے اس میںخرابی یہ ہے کہ اگر مشاہدات و تجربات کی نوعیت بے وزن اورغیرسائنسی طرزکی ہو تواس کے نتائج مایوس کن ثا بت ہوتے ہیں۔جیسے کہ۵۸پہلے وقتوں کے لوگ اپنے جذبات کے حوالے سے بڑا سطحی اوربے جان استدلال کیا کرتے تھے۔ وہ انتہائی نامعقول اورغیرموزوں مشابہتوں سے نتائج اخذ کیا کرتے: مثلاًان کایہ استدلال تھاکہ شام کودیاجلاناضروری ہے تاکہ صبح کاسورج طلوع ہو سکے، یرقان کے مریض کی جلد صحت یابی کے لیے اسے سرخ اشیاء جیسے سرخ سانڈکی کھال اوربال وغیرہ میںلپیٹنا ضروری ہے تاوقتیکہ یرقان زردپرندوں کے جسم میں نہ چلاجائے۔جس روزکوئی کالی بلی کسی شخص کی راہ کاٹ جائے،اس روز اس شخص کے کام میںناکامی لازم ہے، وغیرہ۔ عہد جدید میں آج بھی معمولی سوجھ بوجھ کے انسان میں اس طرح کااستقرائی اسلوب بخوبی دیکھنے کو ملتا ہے۔ .5کسی جماعت کے چنداراکین کو بطور نمونہ چن لیا جاتاہے اور ان کی خاصیتوںکاشماریاقی بنیادوںپرجائزہ لے کراس پوری جماعت کے بارے میںکوئی عمومی نتیجہ اخذ کر لیا جاتا ہے۔۵۹ مثلاًانسان کے بلڈپریشرکو ملی میٹرزمیںناپاجاتاہے جس میںدوریڈنگز اہم ہوتی ہیں۔ ایک بصور تِ انقباض(Systolic Pressure)یعنی قلبی عضلات کے سکڑنے سے120ملی میٹر اور دو سری بصورتِ انبساط(Diastolic Pressure) یعنی قلبی عضلات کے پھیلنے سے70ملی میٹر نو ٹ کی جاتی ہے۔ اس طرح ایک صحت مندبالغ شخص کابلڈپریشر120/70ملی میٹرز ہوتا ہے۔ بسا اوقات عمر کے ساتھ بلڈپریشربڑھتاہے جس کاعلاج نہ کرایاجائے تووہ دل کے مسائل پیدا کرتا ہے سٹینفور ڈ یونیورسٹی(Stanford University)کے محققین نے35 سے59سال کے درمیان مرد کھلاڑیوں کے انقباض خون کی ریڈنگ لی۔اُن کا اوسط 123ملی میٹرنکلا۔بالآخران کھلاڑیوںکے ا نقباض کی اوسط کو مدنظررکھتے ہوئے یہ عمومی نتیجہ اخذکیاگیا کہ35سے59سال کے تقریباًتمام مردوں کا انقباض123ملی میٹر کے قریب ہوگا۔اسے نسبتی استقرائ(Proportional Induction)سے موسوم کیاجاتاہے۔اسے ایک سادہ سی مثال سے یوںپیش کیاجاسکتا ہے کہ بالفرض امریکہ میں الیکشن قریب ہوں،جہاںری پبلکن اور ڈیموکریٹک پارٹیوں کے اُمیدواران آمنے سامنے ہوں ۔ ہر امریکی ریاست سے سوافرادکے انٹرویولینے کے بعدیہ اوسط نکل آئے کہ ہر100میں سے 96ووٹ ری پبلکن پارٹی کے حق میںہیںتولامحالہ یہ عمومی نتیجہ برآمدہوگا کہ ری پبلکن پارٹی کے اُمیدوارکے لیے امریکہ کے آئندہ صدربننے کاامکان زیادہ ہے۔ ولیم منٹو۶۰کے خیال میں، فردِ واحد کے سلسلے میں نسبتی استقراء کارآمد نہیں رہتا۔ مثلاًاگرکوئی شخص گمشدہ کتوں کے لیے کوئی تربیتی ادارہ قائم کرنا چاہتا ہو توبلاشبہ اسے نسبتی استقراء کی ضرورت پڑے گی تاکہ وہ شماریاتی طریقے سے یہ جان سکے کہ کتوں کے آوارہ ہونے کے امکانات کیا ہیں ۔ یعنی کتنے کتوں کے گھروںسے بھٹکنے کے امکان زیادہ ہیں۔لیکن صرف ایک کتے کی آوارگی کے احتمال کوجانچناہوتوشماریاتی طریقے کی جگہ کتے اور اس کے مالک کے رویوں کامشاہدہ زیادہ سود مند رہتاہے۔اسی طرح کسی مخصوص گھوڑے پرشرط لگانے کے موقعے پربکی شماریاتی حساب کتا ب کے چکرمیںنہیںپڑتاکہ پسندیدہ گھوڑا کتنی باردیگرگھوڑوں سے جیتا یا ہارا۔ وہ محض مختلف گھوڑوںکی سابقہ دوڑ اوران کے نسب کومدنظررکھ کرمخصوص گھوڑے کاانتخاب کرتاہے اورتب یہ شرط لگاتاہے کہ اس کے مستقبل کی دوڑمیںجیتنے کاامکان قوی ہے۔نسبتی استقراء سے اس وقت کام چلایا جاتا ہے جب کچھ اورنہ ہوسکتاہو۔ .6ابتدائی اورثانوی ماخذسے استفادہ کرتے ہوئے ماضی کے مخصوص حالات وواقعات کو منتخب کر کے انہیں ایک قرینے سے ترتیب دیا جاتاہے۔ان کی درجہ بندی کی جاتی ہے۔ان کاداخلی اورخارجی تنقیدسے جائزہ لیاجاتا ہے اوربالآخرایک گہرے تجزئیے کے بعدان سے ایک ایساعمومی نتیجہ اخذکیاجاتاہے جس کی مددسے موجودہ زمانہ کے واقعات اورمستقبل کے حالات کی پیشین گوئی کی جا سکتی ہے۔ماضی کے حالات و واقعات سے عمومی اصول وضع کرنے کے منفرد انداز کو تاریخی استقرائ(Historical Induction) ۶۱ کہاجاتاہے۔اس میںابتدائی ماخذ، اصل دستاویزات اورعینی شواہدجب کہ ثانوی ماخذ،بالواسطہ دستاویزات اوردیگر شواہدپرمبنی ہوتے ہیں۔خارجی تنقید میں موادکے ماخذات اورداخلی تنقیدمیںماخذات کے ذریعے حاصل کردہ موادکے معتبراورمستندہونے کی جانچ پرکھ کی جاتی ہے۔مثال کے طورپرکسی عہدکے معاشرتی، مذہبی اورسیاسی تناظرمیںکسی قوم کے طرزحیات کو جانچا پرکھاجائے تو اس قوم کی ثقافت کے بارے میںایسے عمومی اصول وضع کئے جاسکتے ہیںجوان کے آئندہ روّیوںکی ترجمانی کرسکتے ہوں۔ تاریخی استقراء کی مشکل یہ ہے کہ بقول لینگ لوئس(Langlois) ۶۲قدیم دستاویزات دستیاب نہ ہوں تو تاریخ مرتب نہیںہوسکتی کیونکہ تاریخ دان کابراہ راست مشاہدہ صرف ان دستاویز ات تک محدودہوتاہے جوحوادث زمانہ سے محفوظ رہیں۔اس لیے یہ اس کی مجبوری ہوتی ہے کہ انہی دستاویزات سے حقائق کو اخذ کرئے اور انہیںکی کڑی پرکھ سے اپنا استدلال کرئے۔ دوسرے لفظوںمیںقدیم دستاویزات پرانحصارکرنے کے باعث تاریخی حقائق کی نوعیتبالواسطہ مشاہدے پر مبنی ہوتی ہے۔اسی لیے یہ کہاجاتاہے کہ اگردستاویزات نہ ہوںتوپھرتاریخ بھی نہیں ہو سکتی۔ استقرائی استدلال کے دواسلوب ایسے ہیںجوبادی النظرمیںاستقراء کے حامل ہیںمگر بنظر غائر واضح ہوتا ہے کہ وہ نام نہاداستقرائ(Pseudo Induction) ہیں۔ .1کسی ایک ہندی شکل کی بنیادی صفات کومدنظررکھتے ہوئے یہ عمومی نتیجہ نکالاجاتاہے کہ جوکچھ اس شکل کے بارے میںصحیح ہے بعینہٖ ویسی صفات کی حامل دیگراشکال کے بارے میںبھی سوفیصد صحیح ہے۔مثال کے طورپر، ایک قائمتہ الزاویہ مثلث میںقاعدے کامربع جمع ہمیشہ عمودکے مربع اور وترکے مربع کے برابرہوتاہے۔ہروہ شکل جو قائمتہ الزاویہ مثلث سے مشابہ ہے یقینااس کے قاعدے کامربع جمع،عمودکے مربع اوروترکے مربع کے برابرہوگا۔ اسے ہندسی استقراء (Geometrical Induction)۶۳کہاجاتاہے کیونکہ اس میں ایک ہندسی شکل کی صفات پر غور کرنے سے اُس جیسی دیگر ہندسی شکلوںکے بارے میں فیصلہ کن نتیجے نکالے جا سکتے ہیں۔ .2کسی مخصوص جماعت کے چند سلسلہ واراراکین کے مابین سوفیصد مشابہتوں کی بنیاد پر اس پوری جماعت کے تمام تراراکین کے بارے میںعمومی نتیجہ اخذکیاجاتاہے۔مثلاًاگرایک کے عددسے لے کراُس سے اگلے طاق اعداد کو سلسلہ وارجمع کیاجائے توان کاحاصل ان کی تعداد کے مربع کے برابرنکلتاہے۔ بالفرض پہلے دوطاق اعداد’1‘اور’3‘ کو جمع کیاجائے تواس کاحاصل جمع ’4‘آئے گاجوکہ’2‘کامربع ہے،یعنی’2×2=4‘۔اسی طرح پہلے تین طاق اعداد، ’1‘،’3‘،’5‘کوجمع کریں تواس کامجموعہ’9‘نکلے گاجوکہ’3‘کامربع ہے،یعنی’3×3=9‘۔بعینہٖ پہلے چارطاق ا عداد ’1‘، ’3‘،’5‘،’7‘کاماحصل’16‘ہے جو’4‘کامربع ہے،یعنی’4×4=16‘،ہے اورعلیٰ ہذالقیاس۔اس طرح کے ریاضیاتی سلسلے سے یہ عمومی نتیجہ اخذہوتاہے کہ ایک کے عددسے شروع ہوکرسلسلہ وار طاق اعدادکاحاصل جمع ان اعداد کی تعداد کے مربع کے ہمیشہ برابرہوتاہے۔اسے ریاضیاتی استقراء (Mathematical Induction)۶۴کہا جاتاہے کیونکہ اس کی ایک ہی مثال اسی جیسی تمام مثالوںکی تائیدکرتی ہے۔ ریاضی استقراء کی صورت الجبرے میںبھی دیکھی جاسکتی ہے۔مثلاً:ایک مشہورفارمولاہے: b2-a2=(b-a) (b+a)،اس فارمولے کے تحت 'a'اور'b'کی چاہے کوئی سی قیمت مقرر کرلی جائے ،(b+a) اور b)-(aکا حاصلِ ضرب ہمیشہ(b2-a2)کے برابرہوگا۔۶۵مل کے خیال میںہندسی اورریاضیاتی استقراء کواستقرائی استدلال خیال کرنادرست نہیںکیونکہ ان کے درپردہ استخراج کار فرما ہے۔۶۶ سوسان سٹیبنگ نے اس کی وضاحت خوب کی ہے۔ اس کے مطابق ریاضی کادرجہ خالص سائنس کاہے،تجرباتی سائنس کانہیں۔خالص سائنس کاجھکاؤ صوری صداقت کی طرف ہے جس میں طے شدہ اصول وضوابط کی رُو سے خارجی حقائق سے بے نیاز اعداد سے نتائج نکالے جاتے ہیں۔اس کے برعکس تجرباتی سائنس کامیلان مادی صداقت کی طرف ہے جس میںخارجی حقائق سے ماخوذ اصول وضوابط کی بنیاد پر نتائج اخذ کئے جاتے ہیں۔۶۷یہی وجہ ہے کہ ہندسہ، ریاضی اور الجبرے جیسے خالص سائنسی علوم کے عمومی نتائج میں قطعیت ہے جبکہ تجرباتی نوعیت کے سائنسی علوم میںایسانہیںہے۔اس تفریق کے پیشِ نظرماہرین کاخیال ہے کہ استقرائی استدلال کوہندسی یاریاضی اندازکاحامل قراردینامناسب نہیں۔ ہندسہ اورریاضی کی رُو سے خالص سائنس کو نام نہاد استقراء سے عبارت کرنا اپنی جگہ درست سہی مگر تجرباتی سائنس کے سیاق وسباق میںپھر بھی ایسے استدلال کی بھرپورگنجائش موجودہے جسے فی الواقع ہندسہ وریاضی استقراء سے موسوم کیاجاسکتاہے۔استقرائی استدلال کایہ وہ اُسلوب ہے جس کا سلسلہ ایسے مشاہدات و تجربات سے قائم ہوتا ہے جہاںسب سے پہلے ٹھوس اورمقرون اشیاء کی پوری پوری اورٹھیک ٹھیک ناپ تول اورپیمائش کی جاتی ہے اور پھر ان پر مناسب قاعدوںاورکلیوںکے اطلاق سے مؤثراورمفیدنتائج اخذکئے جاتے ہیں۔اس طرح ان کی صداقت اُس وقت تک، مستقل اوریقینی رہتی ہے جب تک کہ ناپ تول اورپیمائش سے حاصل کردہ رقوم معین اوردرست مانی جاتی رہیں لیکن جب کبھی ان میں کوئی تبدیلی لائی جاتی ہے، اس کے لامحالہ اثرات نتائج پروارد ہوتے ہیں۔بنیادی طور پرایسے اُسلوب کے دواندازموجود ہیں۔۶۸ .iمشاہدے کے زورپرپہلے کسی بنیادی مفروضے کوقائم کیاجاتا ہے اورپھراُس سے بعض ایسے اُموراخذکئے جاتے ہیںجن سے اُس مفروضے کی تجرباتی تصدیق ہوسکتی ہے ۔مثال کے طور پرمکاںکامفروضہ سہ ابعادی یاابعادِ ثلا ثہ (three dimensional)یعنی لمبائی،چوڑائی اورگہرائی کے مشاہدے سے وجودمیںآیا ہے۔اس مفرو ضیسے جو طبیعیاتی اُمور برآمد ہوئے ہیں جیسے کہ فوٹو گرافی کے میدان میںسہ ابعادی فلموںکااستعمال، اس سے مکاں کے مفروضے کی صداقت کی تجرباتی تصدیق ہوتی ہے۔ .2مشاہدے کے بل بوتے پرپہلے سے قائم شدہ مفروضے کی تمثیل پرایک ایسا آئیڈیل تصور وضع کیاجاتا ہے جس کی ہوبہو مثل اس دنیامیںناپیدہے مگراس کی بناء پربعض توجہ طلب اورمعنی خیز نتائج اخذکئے جاسکتے ہیں۔ مثال کے طور پرمقرون اشیاء کی لمبائی،چوڑائی اورگہرائی کے مشاہدات کی وجہ سے قائم شدہ سہ ابعادی مفروضۂ مکاں کی تمثیل پر کثیرابعادی(multi-dimensional) مکاںکاایک ایسامفروضہ قیاس کیاجاسکتاہے جس کی عملاًکوئی ہندسی شکل اس دنیامیںممکن الحصول نہیں۔مگراس آئیڈیل تصورسے جن ہندسی اشکال کاتاثراُبھرے گاوہ یقیناسہ ابعادی دنیا کی اشیاء سے مختلف ہوگااورایک اور ہی دنیائے تخیل کانقشہ پیش کرے گا۔ بلاشبہ،اس دنیاکی نوعیت استخراجی ہوگی مگر اس سے انکارلاحاصل ہوگاکہ اس کابنیادی تصورجس تمثیل سے ماخوذ ہے، وہاں استقرائی اُسلوب کاہاتھ ہے۔ استقرائی استدلال کی ضرورت (Need Of Inductive Reasoning) استقرائی استدلال ہمیشہ کسی نہ کسی درپیش سنجیدہ مسئلے سے شروع ہوتاہے اوربہت سے شعوری مراحل طے کرنے کے بعدکسی فیصلہ کن نتیجے پرختم ہو جاتا ہے۔ اگرروزمرہ کے معمولاتِ زندگی پرنگاہ دوڑائی جائے تومعلوم ہوگا کہ عام طورپردن کابیشترحصہ معمولی طرزکے استدلال کے سوا یونہی گزرجاتاہے لیکن اگر کبھی کوئی سنجیدہ مسئلہ درپیش ہو تو اسے حل کرنے کے لیے ایک دن تو کجاکئی کئی روزصرف کرنے پڑتے ہیںتاوقتیکہ اس کاحل نہ مل جائے۔ چونکہ لوگوںکی ذہنی سطح میںفرق ہے اورہرایک کے استدلال کاانداز بھی جداگانہ ہے جوعامیانہ سے حکیمانہ درجوںتک پھیلاہوا ہے۔ اس لیے ہر ایک کے حل ڈھونڈنے کادرجہ اور دورانیہ مختلف ہوتا ہے۔اس سے قطعِ نظر کہ کوئی اپنے مسئلہ کا حل کیا اور کیسے نکالتا ہے۔یہاں یہ سوال پیدا ہوتاہے کہ معمولات ِزندگی میں اس کی ضرورت کیوںپیش آتی ہے؟ بادی النظر میںیہ سوال احمقانہ لگتاہے کیونکہ انسان استدلال کا انتخاب نہیںکرتے۔بس،استدلال کرتے ہیں۔ مثلاً اگرکسی شخص کواستدلال کی ضرور ت پیش آ جائے توفوری طورپراس کے سامنے دوراستے ہوتے ہیں۔اول ،وہ مسئلے کوسرے سے نظرانداز کر دے۔اسے وقت اور حالات پر چھوڑدے اورقسمت پرتکیہ کئے بیٹھا رہے تاآنکہ کوئی بہتر حل از خود نکل آئے۔دوم،وہ مسئلے کاکوئی نہ کوئی سدباب کرئے تاکہ اس کا تسلی بخش حل نکل آئے۔ اس صور ت میں کئی متبادل ہو سکتے ہیں،مثلاً یہ کہ وہ مسئلے کے حل کے لیے ذاتی مشاہدہ کرئے،ماہرین کی فراہم کردہ جدید معلومات سے واقفیت حاصل کرئے، انہیں سنے، ان کی تصانیف پڑھے ، مستعملہ شواہد سے رجوع کرئے،بذریعہ سیاحت معلومات اکٹھی کرئے، مستند نظریات اورمروجہ روایا ت سے استفادہ کرئے،وغیرہ۔بالفرض دوسرے ذرائع سے مسئلے کا حل معلوم کرنے کے متباد ل دستیاب ہوںتو پھر یہ سوال پیداہوتاہے کہ اس کی ضرورت کیوںپڑتی ہے ؟ بنظرغائر دیکھا جائے تویہی سوال احمقانہ نہیںرہتا معنی خیزبن جاتاہے۔بعض اوقات استدلال کی ضرورت کایہ جواز پیش کیاجاتاہے کہ یہ ایسی ذہنی فعلیت ہے جس سے سرور ملتا ہے۔ یعنی مستند روایات اورمستعملہ نظریات میںمسئلے کا بہتر اورموزوںحل مل سکتاہے مگراستدلال کو شغلاً ترجیح دی جاتی ہے۔ دریں چہ شک،ایساجواب قابلِ قبول نہیںہوسکتاکیونکہ سنجیدہ استدلال کبھی شغل کے طور پر اختیار نہیںکیا جاتا۔سنجیدگی اور بالغ نظری سے دیکھا جائے تواستقرائی استدلال کی ضرورت۶۹ ہمہ جہتی ہے۔ جیسے: .1انسانی حالات کی ڈگرایسی ہے کہ ہرشخص نے اپنی زندگی میںکوئی نہ کوئی مقصدچن رکھاہے، جس کے حصول کے لیے وہ کوشاں رہتاہے۔ کسی کامقصداُسے ڈھونڈناہے جواُس کے پاس موجود نہیں۔کسی کامقصداُس سے گلوخلاصی کراناہے جواُس کے پاس موجودہے۔کسی کامقصدکسی مستند عقیدے کو قبول کرناہے۔کسی کامقصداپنے آبائی عقیدے کورَدکرنا ہے ۔کسی کامقصداچھے گھر کی تلاش ہے ۔کسی کامقصداپنی نوکری کی ضمانت حاصل کرناہے ۔کسی کا مقصداپنی بیماری سے نجات پاناہے۔کسی کا مقصداپنی غربت سے چھٹکاراحاصل کرناہے۔غرضیکہ، مقصد کی نوعیت خواہ کیسی ہی کیوں نہ ہو، ہر کوئی اُس کے حصول کے لیے سرگرداں رہتا ہے ۔لیکن اُس صورت میںجب ایک طرف مقاصد کے حصول میں مشکلات درپیش ہوںاورالجھنیں بڑھتی جائیںاور دوسری طرف مقاصد کے حصول کی شدت میں بھی اضافہ ہوتا جائے اور اسے ازحدلازمی خیال کیا جا رہاہو تب ہر کوئی اپنی عجلت،پریشانی اورجھنجلاہٹ میںفوری طور پرمستندروایات،مستعملہ نظریات اورمروجہ عقائد سے رجوع کرتاہے لیکن علم کی وُسعت زندگی کے پھیلتے ہوئے ٹھوس مسائل کے سامنے کم پڑتی ہے۔کیونکہ علم کاہرشعبہ عمومیت اورتجریدکارنگ لیے ہوئے ہے۔وہ زندگی کی ہرمخصوص اورٹھوس صورت حال کو اپنے میںنہیںسموسکتا۔مثلاًاگرکسی شخص کاکوئی مخصوص کیس عدالت میں دائر ہو توقانون کاکوئی بھی اصول ان لمحات میں اس کی مصیبت کامداوانہیںکرسکتاجس سے وہ دوچار ہوتاہے۔اگرکوئی خطرناک بیماری کا شکارہو تواس وقت طب کا کوئی اصول اس کی تکلیف کوکم نہیںکرسکتا۔اگرکسی کا آلۂ راڈاربوقت ضرورت صحیح کام نہ کررہا ہوتوانجینئرنگ کاکوئی اصول اس وقت اس کے کام نہیںآسکتا۔اس طرح کے ٹھوس حالات میںاستقرائی استدلال کی ضرورت پیش آتی ہے چاہے یہ بہترین طریقہ ثابت نہ ہو لیکن کم از کم فوری اور معتبر ضرور ثابت ہوتا ہے۔ .2زندگی میں ہرآن مشکلات اورمسائل کا سامنارہتاہے۔بے شک ان سے بچنے کے لیے نظریات، روا یا ت اورعقائد رہنمائی کرتے ہیںلیکن بعض اوقات صورتِ حال اس طرح کی پیدا ہو جاتی ہے کہ جہاںمشکلات اور مسائل کا فوری حل دستیاب ذرائع سے نہیںمل پاتا، وہاںاستقرائی استدلال گو کامیابی کی ضمانت نہ بھی دے رہا ہو مگرپھربھی کامیابی کی اُمیدضروردلاتاہے۔بالفرض اگر کسی شخص کابچہ بیمارہو،علاقے میںکوئی طبیب موجودنہ ہو اور اتنا وقت بھی نہ ہو کہ بچے کودوسرے علاقے کے کسی طبیب کو دکھایا جاسکے تو ایسی صورت میںبچے کو قسمت کے رحم وکرم پر نہیں چھوڑا جاسکتا وہاںاستقرائی استدلال ہی معاونت کرتاہے۔بعینہٖ اگر کسی غریب کورات کے وقت بجلی کی اشد ضرورت ہواوراس وقت بجلی کانظام بگڑاہواہو،رات کے اس لمحے میںکوئی الیکٹریشن نہ مل سکتا ہویا اس کی غریبی آڑے آتی ہواورایسی صورت ِحال کوتقدیرکے حوالے بھی نہ کیاجاسکتاہوتواس لمحے میںاستقرائی استدلال بہترین سہاراثابت ہوتاہے۔ .3جن معاملات میںعلم کے مروجہ ذرائع ناکافی ثابت ہوں،وہاںصاحبِ فکر کواپنے موقعِ محل کی مناسبت سے خودہی استدلال کرناپڑتاہے ۔مثلاًکوئی مینوفیکچرراپنے کاروباری تناظر کو دوسروںکی بہ نسبت بہتر جانتاہے کیونکہ اسے اتنامعلوم ہوتاہے کہ ملک کی مجموعی اقتصادی حالت کیسی جارہی ہے،کن حربوںسے اس کاکاروبار چمک سکتاہے، کس طرح مارکیٹ میں اس کی مصنوعات بک سکتی ہیں،اپنے ملازمین سے کیسارویہ روارکھناہے وغیرہ۔بالفرض اُس مینوفیکچرر کو کوئی کاروباری مسئلہ پیش آجائے تو اسے بزنس ایڈمنسٹریشن کے مستندماہرین سے ایسی رہنمائی اور مشاورت ضرورمل سکتی ہے جوکاروبار کے اصولوں اورقوانین کی روشنی میںبہترحل تجویز کرسکے۔ لیکن اپنے مسئلے کے مجموعی جائزے اور تحقیق وتفتیش کاطریقۂ کاراسے خود ہی طے کرنا پڑتا ہے جس کے لیے استقرائی استدلال کی ضرورت پڑتی ہے۔ .4جب معاملات کی نوعیت اس قسم کی ہو کہ نت نئے مسائل ابھررہے ہوں، روایات کوچیلنج کاسامنا ہو ، روایت کی جگہ درایت درآئی ہو،معاشرتی تغیرات میںتیزی آگئی ہو،تب ایسے مواقع پرزندگی کے ہر شعبہ کے ذمہ دار ناظم کو ان تبدیلیوں اور مسائل سے نپٹنے کے لیے استقرائی استدلال کاسہارالیناپڑتاہے۔ان کی ضرورت اس وقت اور بھی شدت پکڑ لیتی ہے جب ان مسائل کا حل مروجہ ذرائع اور ہم عصرماہرین کی مشاورت سے نہ مل سکے۔بالفرض مسئلہ مقامی ہویا معمولی نوعیت کا،ذمہ دار فردِواحد کے مغالطۂ آمیزاستدلال کے مضر اثرات ضرور برآمد ہوںگے اگرچہ ان کادائرہ کاراِتناوسیع نہیںہوگالیکن اگر مسئلہ قومی یابین الاقوامی نوعیت کا ہو تواُس وقت صورتِ حال بڑی خطرناک ہو سکتی ہے، اس لیے بہتر یہی خیال کیاجاتاہے کہ مختلف ماہرین مسئلے کے حل کے لیے استقرائی استدلال کریں،جہاں بڑی احتیاط سے مطلوبہ حقائق وشواہدکی تفتیش کی جائے۔شماریاتی، احتمالی،نمونہ بندی،استصواب رائے جیسے منہاجات سے کام لیاجائے اوربالآخر ایک دوسرے کی تحقیقات کو منظم اورمربوط شکل میںترتیب دے کر مسئلے کے حل کی راہ نکالی جائے۔ .5علمی تحقیقات میں استقرائی استدلال کا کردار سب سے زیادہ کارآمد ثابت ہوا ہے، جہاںماہرین نے نامعلوم کی سرحدوںکوچھولیاہے۔مفکرین کے استدلال نے ایسے نتائج پیداکئے ہیںجو علم کے اضافے کے لیے چراغ راہ ثابت ہو ئے ہیںکیونکہ مفکرین کی نسل نے اپنے اسلاف کے استدلال سے استفادہ کیاہے اور انہی کے نتائج کو مدنظر رکھتے ہوئے علم کو فروغ دیا ہے۔علمی تحقیق کے ہرماہر نے نامعلوم کے سربستہ راز بے نقاب کرنے کی جستجوکی ہے گووہ مختلف درجوںپرکی گئی ہے۔بعضوں نے زندگی کے مخصوص شعبوںسے متعلق اور بعضوں نے عمومی نوعیت کے مسائل پراستدلال کیاہے۔یہ سچ ہے کہ ایک جانب بعض سائنسی محققین مشکل مگر معمول کے مسائل میںاتنے محوہوجاتے ہیںکہ انہیںوہاںاستدلال سے کہیںزیادہ عملی مہارت درکار ہوتی ہے اوربعض کے تحقیقی حلقے ایسے بھی ہیں جہاں استقرائی استدلال کی ضرورت دوچند ہو جاتی ہے۔ استقرائی استدلال خواہ کسی درجے پرہی کیوںنہ کیاجائے،اس کاعمل ا ورانداز، عارضی اور ناپائیدار ہوتاہے لیکن اس کے نتائج اورحاصلات،دیرپااوردائمی اثرات کے حامل ہوتے ہیں۔ادھر ایک بات ضمنی طورپرتوجہ کی طالب ہے۔استقرائی استدلال کی سوجھ بوجھ اور قابلیت کا اہل کوئی بھی ہو سکتاہے خواہ وہ معمولی ذہن کامالک ہو یا غیرمعمولی ذہن کا،لیکن اس کے باوجود ان میں حدِ امتیاز رہتی ہے۔عام آدمی کااستقراء اس کے کسی نہ کسی ذاتی مسئلے کا حل ثابت ہوتا ہے اور بس۔اس کے برعکس،کسی صاحبِ بُرہان ودانش کا استقراء انسانیت کودرپیش مسائل میں سے کسی نہ کسی مسئلے کا حل پیش کرتاہے اور اتنا ہی نہیں کہ نہ صرف بلاواسطہ یا بلواسطہ پوری انسانیت پر اپنے گہرے اثرات چھوڑ جاتا ہے بلکہ دیگر ذہین و فطین ذہنوں کو بھی اس قدر متاثر کر جاتا ہے کہ ان کی معیت میں فکرو نظرکا کارواں آگے ہی آگے بڑھتا چلاجاتاہے،جس سے مستقبل کے نوبنو افق روشن ہوتے چلے جاتے ہیں۔ حاصل کلام،انسان کے لیے اپنے مقاصد کے حصول اورمسائل سے فوری طور پر نپٹنے ، اپنے موقعِ محل کی مناسبت سے فوری اقدام کرنے،نت نئے مسائل کامقابلہ کرنے اور علمی تحقیقا ت کی ترقی کے لیے استقرائی استدلال ناگزیرہے۔ روسی مفکرآئزک ایسی موف (Issac Asimov)۷۰ کے مطابق،جب سے انسان نے استقرائی استدلال کو اپنایا ہے، تب سے جدید عہدکاآغازہواہے اوریہ عہداس وقت تک چلے گاجب تک کہ کوئی دوسرا بہتر طریقۂ کاردریافت نہیںکرلیاجاتا۔ استقرائی استدلال اور فکراقبال:Inductive Reasoning and Iqbal's Thought (چندباتیں،چندوضاحتیں )(Some comments, Some clarifications) : استقرائی استدلال کے سیاق و سباق میںفکرِ اقبال کے متعلق کچھ باتیں ایسی ہیںجن کی پہلے سے ہی وضاحتیں کر دینا بہت ضروری ہے تاکہ آگے کسی موڑپراس سے متعلق کوئی دُشواری پیش نہ آئے اوربآسانی یہ معلوم ہوسکے کہ استقرائیت کے بارے میںاقبال کے کیاخیالات رہے اور خود اس کے خیالات میںاستقرائیت کوکتنادخل حاصل ہے۔ اس سلسلہ میںحسب ِذیل گزارشات کو محلِ نظررکھناضروری ہے: .1 جب کبھی استقراء کوزیرِبحث لایاجاتاہے،ذہن میںفوری طورپرمنطق کاخیال کوندتاہے اور یہ صحیح بھی ہے کیونکہ استقراء کامطالعہ منطق کاخاص موضوع ہے۔مگرنجانے کیوں یہ خیال پس انداز کرد یاجاتاہے کہ استقراء کے اَسرارورموزسے آگہی رکھنااوربات ہے اور اس کے زورپراپنی فکری بساط بچھاناایک دوسرامعاملہ ہے۔کہنے کامطلب یہ ہے کہ استقراء کی ہیئت اورنوعیت سے واقفیت رکھنے کے لیے منطق کاماہرہوناضروری ہے لیکن اس کی زمین میں دلائل کو پیش کرنے کے لیے کسی قسم کی منطقی کاریگری سے واقف ہونا قطعی لازم نہیں۔بسااوقات ایساہوتاہے کہ مفکر منطقی باریکیوں سے آگاہ نہیںہوتامگراپنا استدلال خوب جاندارپیش کرتاہے اوردوسری جانب منطق داں اپنے استدلال کے منطقی تقاضوںکوبالالتزام پوراکرتا ہے مگراس کے دلائل میںوزن نہیںہوتا۔یہ بھی غلط نہیںکہ بنیادی طور پرمنطقی استدلال بے کیف اورخشک ہوتاہے کیونکہ انسانی جذبات کو چھو کر گزرتاہے اورنہ اس چاشنی سے لبریز ہوتا ہے جو ابلا غیا ت کے لیے درکارہوتی ہے۔اس پیرائے میں،اقبال کافکرپیشہ ور منطق داں کے طرزاستدلال جیسا نہیں اور نہ ہی کبھی خوداقبال نے اس کی سعی کی حالانکہ وہ فلسفے کاطالب علم تھااورمنطقی اُسلوب اورقرینوںسے بخوبی واقف تھا۔اس کا اپنا اعتراف ہے: مرا از منطق آید بوے خامی دلیلِ او دلیلِ ناتمامی! ۷۱ مجھے منطق سے کچے پن کی بو آتی ہے۔اس کی دلیل ناقص دلیل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اقبال کی فکرمیںکسی ماہرِمنطق کی طرح نہیںبلکہ ایک دانشورکے درجہ کا استقرائی استدلال ملتا ہے۔یہاں ضمنی طورپرایک اوروضاحت ضروری ہے۔ اقبال نے منطقی رُموز اور قواعدکی نازک باریکیوں اورتقاضوں کو کبھی ملحوظ ِخاطر نہیں رکھا اس لیے اس کے استدلال میں منطقی مین میکھ نکالنا بے کار ہوگا۔بیشک اس کے شعرونثر میں منطقی استقراء کی خامیاں موجود ہیں ۔ مثلاًاس کے اِس شعرمیںتمثیلِ کاذب(False Analogy)۷۲کی خا می موجودہے جس سے مراد منطقی طور پر دو یا دو سے زیادہ مختلف چیزوںکے درمیان اُن کے فروعی اختلافات کوپسِ پشت ڈالتے ہوئے صرف اُن کی سطحی مشابہتوںکی بنیادپرکوئی نتیجہ اخذکرناہے۔ تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا، ناپایدار ہوگا ۷۳ یہاںان سطحی مشابہتوں پرزوردیاگیاہے کہ جس طرح کسی پرندے کانرم وکومل سی ٹہنی پر اپنا گھونسلابنالینا اس کی خودکشی کرنے کے مترادف ہے، اُسی طرح مغربی تہذیب اپنے لادینی افکار و اعمال کے ہاتھوںاپنی بربادی کے خود سامان پیداکررہی ہے جو اس کے لیے اتنا ہی مہلک ثابت ہو سکتے ہیں جتنا اپنے آپ کو ختم کر نے کا قصد کئے ہوئے شخص کے لیے اُس کا خنجر۔ لار یب،اس مثال میں’ مغربی افکار اورآشیانے‘اور ’مغربی تہذیب اورخنجر‘کے مابین سطحی مشابہتو ں کو نظراندا ز کر دیا جائے توان میںکوئی اورقدرمشترک نہیںہے ۔لہٰذااستقرائی استدلال کے حوالے سے، ایسا نتیجہ مغالطہ آمیزہے حالانکہ شاعری کی رُوسے یہ شاعرکے احساس اورخیال کوبخوبی اجاگر کرتاہے۔ اسی طر ح ایک مثال اقبال کی نثرسے بھی مد ِنظررکھتے ہیں،جیسا کہ اقبال کے دوست فقیر سید وحیدا لدین لکھتے ہیں ہے کہ ایک روز علامہ نے فرمایا: ’’ایک بڑے استاد اور معلم کی حیثیت سورج کی سی ہے جو اپنی روشنی اورحرارت ہرچیزتک بے کم وکاست پہنچاتاہے،لیکن اس کا اثر مختلف چیزوں پر مختلف ہوتا ہے۔ کسی پراچھا،کسی پربرا۔آفتاب کی روشنی اورگرمی سے پودوں کی نشوونماہوتی ہے۔ انسانی جسم قوت اورتوانائی حاصل کرتاہے اوربوسیدہ چیزیںپہلے کی نسبت زیادہ بوسیدہ اورفاسد ہوجاتی ہیں ۔ گویاجس چیزمیںاچھی یابری جوصلاحیت ہوتی ہے،اس کی نشوونماہوتی ہے اوروہ منظرعام پر آ جاتی ہے۔علامہ نے گفتگوجاری رکھتے ہوئے فرمایا…اس اصول کے تحت کسی بڑے استادکے شاگرد و ں کا یکساں ہونا ضروری نہیں۔ہرایک شخص میں جو صلاحیت موجودہوگی ،استادکی توجہ اور کوشش سے اسی میںترقی ہوگی ۔ علامہ نے اس سلسلے میںامام موفق نیشاپوری کی مثال پیش کی جن کے متعلق بیان کیاجاتاہے کہ ان کے تین اکٹھے پڑھے ہوئے شاگردعملی زندگی میںبالکل مختلف راہو ںپرنکل گئے ۔ ان میںسے ایک عمرخیام،دوسراحسن بن صباح اورتیسرانظام الملک طوسی بنا ۔ ‘‘ ۴ ۷ اس مثال میںآفتاب اورمعلم کے درمیان ایک سطحی سی مشابہت سے یہ نتیجہ اخذکیاگیاہے کہ آفتاب کی حدت سب اشیاء کے لیے مساوی ہوتی ہے اس لیے جس شے میںجتنی صلاحیت ہوتی ہے وہ اتنی ہی نموپاتی ہے۔اسی طرح استاد کی تعلیم وتربیت اپنے شاگردوںکے لیے برابر ہوتی ہے لیکن جس میںجتنی قابلیت ہوتی ہے وہ اتناہی فیض اٹھاتا ہے۔بالفرض آفتاب اورمعلم کی دیگر خصوصیات کی طرف بھی توجہ مرکوزکی جائے توان کے درمیان کوئی باہمی خصوصیت دکھائی نہیں دیتی۔لہٰذااسے بھی تمثیل کاذب کی استقرائی خامی کے زمرے میںشمارکرناپڑے گا۔ یہاں دو باتو ں کی وضاحت ضروری ہے۔اوّل ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ا قبال نے جومثال پیش کی ہے وہ اس کی اپنی ذہنی اختراع نہیں،بلکہ آنحضورؐکی ایک حدیثِ مبارکہ سے ماخوذہے جو حضرت ابو موسیٰ سے یوں روایت ہے۔آپؐ نے فرمایا،’’جس علم اور ہدایت کے ساتھ اﷲتعالیٰ نے مجھے مبعوث کیااس کی مثال اس بارش کی سی ہے جو چھماچھم برسے،جوزمین عمدہ ہوتی ہے اُسے جذب کر لیتی ہے اور گھا س اور سبزہ اُگاتی ہے اور جو زمین سخت ہوتی ہے وہ پانی روک لیتی ہے،پھر اﷲتعالیٰ اس سے لوگوں کو فائدہ پہنچاتا ہے۔ لوگ(خود بھی)پیتے اور (جانوروں کو بھی) پلاتے ہیں اور زراعت کو سیراب کرتے ہیں اور کچھ بارش(زمین) کے دوسرے حصے پر ہوئی جو بالکل چٹیل تھا۔ نہ پانی کو رو کتا ہے نہ سبزی اُگاتا ہے۔پس ایسی ہی مثال اُس شخص کی ہے جس نے خدا کے دین میں تفقہ حاصل کیا۔ پڑھے اور پڑھائے اور(دوسری)مثال اس شخص کی ہے جس نے اس طرف سر (تک )نہ اُٹھایا (یعنی دھیان نہ دیا)اوراﷲ نے جو ہدایت مجھے دی،اُسے قبول نہ کیا۔‘‘۷۵ دوم، اس مثال میں ادبی تمثیل کااستعمال کیاگیاہے استقرائی تمثیل کانہیں۔ایسااہتمام ادبی تمثیل کی صنف تشبیہ میںبرتا جاتا ہے جہاںکسی سطحی مشابہت کی بناء پرکسی ایک شے کو دوسری کی مانند ٹھہرایا جاتا ہے۔اس کے برعکس،استقرائی تمثیل میںحتی الامکان زیادہ سے زیادہ مشابہتوںکو مدنظررکھ کر کسی ایک شے کو دوسرے کے مثل قرار دیا جاتا ہے۔اس اعتبارسے تشبیہ استقرائی استدلال کی خامیٔ تمثیلِ کاذب ہے۔پیچھے جو شعری مثال دی گئی ہے، اس کا بھی یہی معاملہ ہے۔ ظاہرہے کہ فکرکی ایسی نزا کتیں کوئی منطقی تواُٹھاتاہے مگرعام اہل ِدانش نہیں۔اس لیے فکراقبال کوایسی منطقی ٹکٹکی پہ چڑھا نا کوئی دانشمندانہ قدم نہ ہوگا۔ویسے بھی کم ازکم شاعری کا منطقی آپریشن کرنااس کے جمالیاتی حسن و تاثر کو سبوتاژکر دیتاہے۔اس لیے اسے منطقی پیمانوںسے ناپناصریحاً زیادتی ہوگی۔ بہر کیف، محولہ با لا مثالوںکے تذکرے کا مطلب یہ ہے کہ آئندہ ایسی کوئی بھی بات نہیںکی جائے گی ۔ صرف اقبال کے افکارمیںاستقرائی استدلال کی طرف اس کے لگائو کی نشان دہی کی جائے گی ۔ .2استقراء کااپناایک تاریخی پس منظرہے جوفکرانسانی کے طویل ارتقائی سفرسے وابستہ ہے ۔ اقبال نے اس ضمن میںبراہ ِراست نہیں، بلکہ بالواسطہ لب کشائی ضرورکی ہے۔گواس کی تفصیلات آئندہ ابواب میں پیش کی جائیں گی،لیکن یہاں ،فکراقبال کے حوالے سے استقراء کے ارتقائی ادوار سے مختصرواقفیت حاصل کرنا مفید رہے گا۔ یہ طے شدہ بات ہے کہ استقرائی استد لا ل ،معلوم سے نامعلوم کی طرف بڑھنے کافکری منہاج ہے ،جس کاظہور فکری شعور کے ارتقاء سے ہوا۔جیسے جیسے انسانی مشاہدات وتجربات کی نوعیت میںتغیرات رونماہوتے گئے، ویسے ویسے استقرائی استدلال کی معنویت میںگہرائی اورگیرائی پیدا ہوتی گئی۔قدیم دور کے انسان نے استقراء کوقیاس میں جگہ دی۔وہ فطری آفات سے گھبرایاتوفطری مظاہرکواپنے ہی جذبات پر قیاس کیا، جس کا نتیجہ یہ نکلاکہ اس نے دیوی دیوتاتراشے اور دیومالاکی دلفریب مذہبی عمارت قائم کرڈالی۔ اس نقطۂ نظر کی صراحت میں خلیفہ عبدالحکیم نے لکھاہے’’انسانی زندگی کے حوادث اورفطرت کے مظاہر کو انسانی جذبات اورضروریات کی بناء پرسمجھنے کی کوشش نے انسان کے عالم تصورکودیوتاؤں سے آباد کردیا تھا جیسے ہرانسان، دوسرے انسانوںکواپنی فطرت پرقیاس کرتاہے۔اسی طرح نوع انساں نے فطرت کی قوتوںکوانسانی جذبات پرقیاس کیا۔جتنے دیوتاتصورمیںیالکڑی پتھروغیرہ میںتراشے،وہ سب اس کے اپنے جذبات اورامیدوبیم کی صورتیںتھیں۔‘‘۷۶اس حساب سے دیومالائیت انسانی زندگی اور خارجی فطرت کی پہلی توجیہ تھی جس کے درپردہ استقرائی استدلال کار فرماتھا جو نہ صرف ایک لمبے عرصے تک قیاس کے بھیس میں چھپا رہا،بلکہ اس کے مسخ شدہ روپ کو سنوارنے میںبھی انسانی عقل کوصدیوں کاایک طویل دورانیہ طے کرناپڑا۔ بنیادی طور پر،تاریخی تجزئیے کی رُو سے استقرائی استدلال کو اپنے اصل رنگ روپ میں آ نے کے لیے تین ادوار۷۷سے گزرناپڑا۔پہلادور قدیم یونان سے یادگارہے۔اس زمانے میں منطقی استدلال کے زور پر مروجہ مذہب سے ٹکرلی گئی۔آزاد فکر کے چلن کوعام کیاگیا۔استخراجی استدلال کو اس قدرفوقیت دی گئی کہ تفکرکامنشور یہ طے پایاکہ اپنے عقائدکواپنے ہی خیالات سے ہم آہنگ رکھاجائے۔اس طرح فکر کے صوری رجحانات کوہوادی گئی اورفکرکے مادی پہلوکے حامل استقرائی استدلال کوطرزقیاس پر محمول کیا گیا۔دوسرادورازمنۂ وسطی سے منسوب ہے جس میں یونانی استدلا ل کوآسمانی مذہب کی تشریح وتفسیرکے لیے مختص کیاگیا اور استخراجی استدلال کے زیر اثر تفکر کا نیا منشور طے پایا کہ عقائد کومذہب کے روائیتی استنادسے ہم آہنگ رکھاجائے۔اُس دور میںبھی فکر کے صوری رجحانات کو پذیرائی ملی۔ اگرچہ مسلمانوںنے استقرائی استدلال کے معاملے میں برسوں تک اچھی خاصی پیش رفت کی، مگرمجموعی طورپر اس کی نمواورترقی کی طرف کوئی خاص نگاہ ِالتفات نہ کی گئی ۔تیسرادورنشاۃ ثانیہ سے متعلق ہے جس میںتحریک احیائے علوم کا زور تھا۔سائنس نے اپنی الگ حیثیت منوالی تھی، مذہب کے روایتی استناد کازورٹوٹ چکاتھا، حسی مشاہدات اورمحتاط تجربات کی طرز عام ہوچکی تھی،استخراجی استدلال کی گرفت ڈھیلی پڑچکی تھی اور صحیح معنی میں استقرائی استدلال بڑے کرّوفرکے ساتھ نما یاںہورہاتھا۔جب اس نے پورے شدومد کے ساتھ سراٹھایا تو تفکرکا انقلابی منشوریہ طے پایاکہ عقائدکوفطری حقائق سے ہم آہنگ رکھاجائے۔استقرائی استدلا ل کی مقبولیت سے تجربی سائنس میںتوبے پناہ ترقی ہوئی مگراس کے مذہب پربڑے سلبی اثرات مر تب ہوئے۔اشتراکیت، لادینی وجودیت،منفی اثباتیت، تحلیل نفسی، غرضیکہ مادیت پرستی پرمبنی دہریت کے نظریات کوفروغ ملاجس سے سائنس اورمذہب کے مابین مناقشت کی فضاقائم ہوئی۔ درحقیقت استقرائی استدلال کے زورپر،مادیت کے نقطۂ نظرکومسلّمہ مان لیاگیااوربزبان خلیفہ عبد الحکیم ، ’’ حقیقت اورمادیت مترادف ہوگئے۔جوشے حقیقی ہے وہ مادی ہے اورجومادی نہیںوہ حقیقی نہیں ‘‘ ۷۸۔اس نقطۂ نظر کو حیاتیات میں چارلس ڈارؤن کے نظریۂ ارتقائ، نفسیات میںسگمنڈفرائڈ کے نظریۂ لاشعو ر اورطبیعیات میں آئزک نیوٹن کے نظریۂ میکانکیت سے خاصی تقویت ملی۔ اس طرح مجموعی طورپریہ مؤقف اپنالیاگیاکہ کائنات اندھے معروضی قوانین کے تحت چل رہی ہے، اس کی کوئی غایت اور کوئی منزل نہیںاوراس میںقدروںکاکوئی وجود نہیں۔اقبال کے زمانے میں میکانکی سائنس انقلابی نوعیت کی کروٹ لے رہی تھی جس سے مادیت کے اساسی اصولوں پر کاری ضرب لگی تھی۔ شروڈنگر،پلانک، ہائز ن برگ،آئن سٹائن جیسے سائنس دانوں کے نظریات نے فطریت کے بنیادی عنصر’’مادہ‘‘ کے مروّجہ تصورکوبدل کررکھ دیا۔ مثال کے طور پرآئن سٹائن کے نظریۂ اضافیت نے مادہ کے بطور مستقل شے اور مکاں مطلق کے تصور کو یکسربدل ڈالااوریہ ثابت کر دکھایاکہ مادہ کوئی مستقل، قائم بالذات شے نہیں جس کی شکلیں بدلتی رہتی ہوں،بلکہ یہ حوادث کاایک مربوط نظام ہے جس میں ہرواقعہ ایک دوسرے سے جڑا ہوا ہے۔نیز مکاںفی نفسہٖ کوئی مطلق حیثیت نہیں رکھتابلکہ اس کا انحصارمادّے پرہے۔۷۹ یہاںپربطورجملۂ معترضہ ایک وضاحت ضروری ہے۔اقبال شناس،ڈاکٹررضی الدین صد یقی نے لکھاہے کہ پروفیسرایڈنگٹن(Eddington)نے میکانکی سائنس کے خلاف اٹھنے والی نئی تحریک کو ایک دلچسپ مثال کے ذریعے ثابت کیاہے کہ اس کے پسِ پردہ استقراء کا نہیں، استخراج کاہاتھ ہے۔ان کاخیال ہے کہ ’’فرض کروایک سائنسدان کسی تالاب سے ایک جال کے ذریعے مچھلیا ں پکڑرہاہے تاکہ ان مچھلیوںکے طول سے متعلق کوئی قانون بناسکے۔ جب تمام دن کی محنت کے بعد وہ ان مچھلیوںکوجوپکڑی گئی ہیں،ناپتاہے توبزعم خویش ایک قانون کاانکشاف کرتاہے کہ اس تالا ب میںکوئی مچھلی ایک انچ طول سے کم نہیںہے۔اس کے اس کام کوجب کوئی دوسرا سائنس دان دیکھتا ہے تواس کوبتاتاہے کہ تمہیںاس قانون کے اخذکرنے کے لیے تمام دن اتنی محنت کرنے کی کیا ضرورت تھی؟تم محض اپنے جال کودیکھ کرجس کے تمام خانے ایک انچ طول کے ہیں،شروع ہی میںیہ نتیجہ اخذکرسکتے تھے کہ اس جال سے کوئی ایسی مچھلی نہیںپکڑی جاسکتی جس کاطول ایک انچ سے کم ہو۔‘‘۸۰بلاشبہ،ان کی بات میںوزن ہے کیونکہ اگرجال کاہرخانہ ایک انچ طول کا ہو تو لامحالہ اس میں پھنسی کسی بھی مچھلی کاطول ایک انچ سے کم نہیں ہو سکتا اور یقینا یہ فکرکا استخراجی معاملہ ہے ،استقرائی نہیں۔مگر نجانے کیوں،محترم پروفیسرکادھیان ادھرنہیںگیاکہ جال کے خانوںکے مساوی سائز سے آگہی استخراج کانہیں، استقراء کا مسئلہ ہے ۔جیسے کہ پیچھے بیان ہوا ہے کہ ہندسی استقراء کااندازوہ ہے جس میں مشاہدے کے زورپرجومفروضہ قائم کیاجاتاہے اس سے ایسے اُمورکااستخراج ممکن الحصول ہوتاہے جن کی بعدازاں تجرباتی تصدیق کی جاسکتی ہے۔ اس مثال میںبھی ہندسی استقراء شامل حال ہے کیونکہ مشاہدہ شدہ جال کے خانوں کے مساوی سائز کے مفروضے سے مچھلیوںکی جسامت کا قیاس ممکن ہوا ہے،جس کی تجرباتی تصدیق مچھلیوں کی پیمائش سے کی جاسکتی ہے۔ پس،یہ بات درست معلوم نہیںہوتی کہ میکانکیت مخالف سائنس کااستقراء سے تعلق نہیں۔ ثانیاً،ڈاکٹررضی الدین نے پروفیسر صاحب کی مثال سے یہ نتیجہ بھی اخذکیاہے۔’’اس کامطلب یہ ہواکہ قوانینِ فطرت کی تشکیل کے لیے علم کی نوعیت اور علم حاصل کرنے کے طریقوں پر غورکر کے استقرائی قوانین کی بہ نسبت زیادہ دُور رس اور دیرپاقانون بنائے جاسکتے ہیں،کیونکہ استقرائی قوانین توایک بھی مخالف مثال کی بناء پرغلط ثابت ہوسکتے ہیں۔‘‘۸۱پہلی بات،اس مثال میں استقراء کاپہلوپنہاںہے جس کی وضاحت پہلے ہو چکی ہے۔دوسری بات ، اگر کسی بھی طرح استقرائی قانون کے خلاف کوئی ایک مثال پیش کردی جائے تواس سے اس کانتیجہ ان معنی میںغلط ثابت نہیںہوتاکہ اسے یکسرترک کردیاجائے یعنی اس سے نتیجہ کمزورپڑسکتاہے، صدفی صدغلط نہیں ہوتا۔لہٰذا یہ کہناکہ استقرائی قوانین کی بہ نسبت زیادہ دُوررَس اوردیرپاقانون بنائے جاسکتے ہیں، فی الحال،اس پر سوالیہ نشان ہی لگایا جا سکتاہے۔ بہرکیف، اس طرز کی انقلابی لہر کا نتیجہ یہ نکلاکہ میکانکی سائنس کے مسلّمات، مسلّمہ نہ رہے۔ یعنی مادیت کو اندھے معروضی قوانین سے باندھنا،اسے کسی غایت اور منزل سے محروم رکھنا، اور اسے کسی قسم کی قدر سے بے بہرہ کرنا، آسان نہ رہا جس سے دہریت کے رجحانات کوخاصہ دھچکا لگا۔اقبال کے زمانے میںسائنسی استقراء کی جدیدروش میںجہاں مغرب بہت آگے نکل چکا تھا وہاںمشرق اب بھی ازمنہ وسطی کی فکری دہلیزپارنہیںکرپایاتھا۔استخراجی استدلال کے زور پر مذہبی صداقتوںکی تشہیرایسی روایت بن چکی تھی جس کی مخالفت کودین کی مخالفت کے مترادف سمجھا جاتا تھا۔ مغرب میںاستقرائی فکرکی ترقی اورمشرق پراستخراجی فکرکے طاری جمود نے اقبال کی فکر کو شدید متاثر کیا۔ نتیجتاً زمانۂ طالب علمی کے دوران میں وہ مشرقی روایت کی محدودفضاسے تنگ آ کر انیسویں صدی کے یورپی مفکر کی طرح ذہنی خلفشارسے دوچار ہوااورعارضی طورپرمادیت پسندانہ دہریت کے سحر۸۲میںمبتلارہا۔لیکن جلدہی اسے احساس ہوگیاکہ بے شک ،اہل مغرب نے استقراء کے سہارے انسان کے مادی تقاضوں اورآسائشوںکے معاملات کواحسن طریقے سے پوراکیا ہے مگروہ اس سے اس کی روحانی آسودگی اورطمانیت کے حصول میںناکام رہے ہیں۔ صحیح معنی میں،مادی اور روحانی حقیقت کے عرفان کے لیے مذہبی صداقتوں کو استقرائی استدلال کی رُوسے اجاگرکرناضروری ہے۔نتیجتاً اقبال کے ہاں،استقرائی استدلال ایک وسیع کینوس پر نمودار ہوا جس میںہر طرح کے خارجی اور داخلی تجربات کے ذریعے علم سے رجوع کیا گیا اور بالآخراس کی بدولت خودشناسی، خارج شناسی اور خدا شناسی کے درجوں کا عرفان حاصل کرنے پر اصرار کیا گیا۔اس کا فائدہ یہ ہواکہ سائنسی تحقیقات کے امکانی نتائج کو مذہبی صداقتوںسے ہم آہنگ کرنے کی جہت بیدار ہوئی اور ان میںتیقن کی کیفیت پیدا ہوئی جس سے انسان کی مادی ترقی میں، روحانی فلاح کا دروَا ہوا۔ مجموعی طورپر،اقبال نے استقرائی استدلال کے ہردورکو اپنے افکارمیںخوب سمویا ہے۔ اُس نے تسلیم کیا ہے کہ’’ شروع شروع کے انسان کے لیے توسب مشاہدات فوق العادۃ تھے۔ زندگی کی فوری ضروریات سے مجبور ہو کر وہ اپنے محسوسات و مدرکات کی تعبیرپرآمادہ ہوا اور تعبیر سے رفتہ رفتہ اس نے فطرت کاوہ تصورقائم کیا،جس سے اب ہم مانوس ہوچکے ہیں۔‘‘۸۳ لیکن فکری بالغ نظری کے تحت مشاہدات کی نوعیت فوق العادۃ نہ رہی توقدیم یونان کے مفکرین نے مقرون دنیا کے حسی تجربات کی نفی کردی۔اسے التباسات اورتوہمات کا حامل گردانااورعقلی کلیات اور تعمیمات کوقطعی صداقت اورحقیقت کی بنیاد قراردیاجس سے فکرکاجھکاؤلامحالہ استخراجی فکرکی طرف بڑھتاگیا اوراس روش میںاستقرائی فکرقابل ِاعتنانہ رہی۔یونانی مفکرین کے یک رخی فکری میلان کاتجزیہ کرتے ہوئے اقبال نے لکھا ہے ۔’’اس میںکوئی شک نہیںکہ دنیائے قدیم نے بڑے بڑے عظیم نظام ِفلسفہ پیدا کئے مگریہ اس وقت کی بات ہے، جب انسان اپنی زندگی کے ابتدائی مراحل سے گزر رہا تھا اور اس پر ایمائیت اور اشاریت کا غلبہ تھا۔ لہٰذاماضی کے یہ فلسفیانہ نظام مجرد فکرکی بناء پرمرتب ہوئے۔لیکن مجردفکرکی بناء پرہم زیادہ سے زیادہ کچھ کرسکتے ہیں،تویہ کہ مذہبی عقائداورمذہبی روایات میںتھوڑا بہت ربط پیداکردیں۔رہی یہ بات کہ عملی زندگی میںہمیںجن حالات سے فی الواقع گزرنا پڑتا ہے، ان پر کیسے قابو پایا جائے تواس کافیصلہ فکرمجرد کی بناء پرنہیںکیاجاسکتا۔‘‘۸۴ قرونِ وسطیٰ کے مذہبی مفکرین نے یونانی طرز کے استخراجی استدلال کوالہامی حقائق کی تعبیر کے لیے ناگزیر متصورکیا۔اس کانتیجہ یہ نکلاکہ ان کے ہاںمذہب کی حیثیت منطقی تصورات کے نظام سے بڑھ کرکچھ نہ رہی۔جس سے محسوسات ومدرکات پرمعقولات کی دھاک بیٹھ گئی اوربقول اقبال وہ مذہبی مفکریہ سمجھنے سے عاجزرہے کہ ’’فکرکے لیے یہ ممکن ہی نہیں کہ عالمِ محسوسات سے اپنا رشتہ کلیتاًمنقطع کرلے‘‘۸۵۔لیکن یہ دانائی مسلمانوں کے چندجیّدمفکرین نے بھانپ لی۔اوروہ قرآن کی دعوت ِفکرکے مفہوم کوپاگئے اورانہوںنے بالآخریہ باورکرانے کی حتی الوسع کوشش کی کہ یونان کا استخراجی استدلال قرآنی تعلیمات کے منافی ہے۔ خصوصاًنشاۃ ثانیہ کے دورتک پہنچتے پہنچتے مغربی مفکرین استقرائی استدلال کی افادیت سے روشناس ہوچکے تھے۔لہٰذاانہوںنے استقرائی فکر کواس نہج پرفروغ دیاکہ خارجی کائنات کے سربستہ رازظاہرہوتے چلے گئے او ر تسخیر کائنات کا خواب شرمندۂ تعبیرہوا۔لیکن اقبال کے نزدیک،المیہ یہ ہواکہ مغربی مفکرین نے استقراء کو خارجی اور حسی مشاہدات و تجربات ہی کاحاصل کل سمجھ لیا اور داخلی اورباطنی تجربات وواردات کواختلالِ ذہنی اورخام خیالی کی مختلف صورتیں خیال کیا۔حالانکہ مغرب کااستقراء حقیقت کاآدھاسچ ہے۔کیونکہ مغربی استقراء کائنات کے ظاہرکو توروشن کر رہا ہے مگر اس کے باطن کونہیں۔اس کی بدولت،متفرق تجربات کو ایک کل کی شکل میں سمویاجاسکتاہے مگر کل کی کنہ کونہیںپہنچا جاسکتا۔ اس ضمن میں اقبال نے یہ دلیل دی ہے کہ مغربی استقراء حقیقت کے بارے میںجزوی تجربات کامحض مجموعہ ہے ، ان طبیعی علوم سے مختص ہے جومخصوص نتائج تک پہنچاتے ہیں۔بالفرض اگر تمام علوم کے نتائج کوایک ہی فکری پلیٹ فارم پر مجتمع کر لیا جائے، انہیں ایک ہی فکری وحدت میںپرولیاجائے،تب بھی وہ حقیقت کی اندرونی ماہیت کواجاگر کرنے سے محروم رہتے ہیں۔اقبال کے الفاظ میں:’’کہنے کوسائنس کاموضوع مادہ بھی ہے،حیات اورنفس بھی۔لیکن جہاںآپ نے یہ سوال کیاکہ مادہ ،حیات اورنفس کاباہم کیاتعلق ہے تویہ حقیقت آشکارا ہوجائے گی کہ ان سے جن علوم میںبحث کی جاتی ہے ان کی حیثیت محض ٹکڑوںکی ہے۔لہٰذاوہ اس قابل ہی نہیں کہ اس سوال کاکوئی مکمل جواب دے سکیں‘‘۸۶۔اسی بنیادپر،اقبال اس نتیجے پرپہنچا کہ طبیعی علوم میں اختصاص نے انسان کی حالت کو بہت ناگفتہ بہ بناڈالا ہے۔اس نے قوائے فطر ت کی تسخیرتوکرلی ہے مگراپنے ایمان اوراعتمادکی دولت سے ہاتھ دھو بیٹھا ہے۔۸۷ اس بنیاد پر یہ واضح ہوتا ہے کہ اقبال کو بخوبی شعور تھاکہ استقراء کامقام کیاہے؟اس کی افادیت کیاہے؟ صحیح معنوںمیں اس کے داعی کون تھے؟اس کے افکارمیںایسے سوالوںکے نہ صرف موزوں جواب ملتے ہیںبلکہ وہ عصرِجدید کے مسلمانوںکوجھنجھوڑتے ہوئے نظرآتاہے کہ وہ فکری لحاظ سے خوابِ غفلت میںگم ہیںاور یہ سمجھنے سے قاصرہیںکہ عقل پر قفل ڈالنے سے فکرمحفوظ نہیں رہتی،زنگ آلودہوجاتی ہے، نیزتقلید سے تحقیق کی کمی کبھی بھی پوری نہیں ہوتی اور زندگی کی دوڑمیںانسان اتنا پیچھے رہ جاتاہے کہ بالآخریادِرفتہ کے مزارمیںمدفون ہوجاتاہے۔استقراء کے تناظرمیں فکرِاقبال کے مطالعے سے مسلمانوںکی فکری زبوںحالی کااندازہ لگانامشکل نہیں، جہاں یہ جانناآسان ہوتاہے کہ مسلم اپنے حال سے مستقبل کی طرف بڑھنے کے باوجودایک طرف پندار ِما ضی میں گرفتارہیںاور دوسری طرف یورپی مرعوبیت کا شکار ہیں ۔ اس کے خیال میںماضی کے تجربات اس لیے نہیں ہوتے کہ انھی کے نشے میںگم رہاجائے۔یہ اس لیے قابلِ توجہ ہیںکہ ان کی روشنی میںحال کی تعمیرِنوکی جائے اورمستقبل کوسنواراجاسکے ۔ چنانچہ اسی طرح مغربی اثر پذیری کایہ مطلب نہیں کہ ان کی تحقیق کو حرفِ آخر مان لیا جائے بلکہ ان کے نظریات کو ناقدانہ طریقے سے پرکھتے ہوئے اپنی سوچ کو آگے بڑھاناہوگا ۔اقبال نے استقرائی تناظرمیںاسی فکرکوآگے بڑھایا ہے۔ .3اقبال کاسرچشمہ فکرقرآن مقدس ہے جس کاطرز ِاستدلال مولانااحسن اصلاحی کی زبان میں’’منطقیوں کے ڈل کردینے والے اندازبحث واستدلال سے بالکل مختلف ہے۔اس کاطریقہ یہ نہیںکہ صغریٰ وکبریٰ بتائے اور پھرنتیجہ نکال کرمخاطب کوچپ کرادے۔قرآن پاک چپ کرانے کے لیے نہیںآیاہے بلکہ عقل انسانی کی تربیت کے لیے آیاہے۔وہ یہ کرتاہے کہ آدمی کے فکر و استدلال کی قوتوںکوشہہ دے کراُبھارتاہے اورپھران کواس راہ پرلگادیتاہے جوفطرت کی راہ ہے جس میںکوئی کج وپیچ نہیںہے۔‘‘۸۸اس کامطلب یہ ہواکہ قرآن استخراج سے نہیںبلکہ استقراء سے کام لیتاہے یعنی اس کامنصب ایسے نتائج پیش کرنانہیںجودعوت ِفکرسے انسان کوروکے رکھیںاوراسے اندھے اعتقاد پرکاربندرکھیں۔اس کافریضہ ایسی مثالوںکوسامنے رکھناہے جن کی رُو سے انسان اپنے ہرآن متغیرحالات وواقعات کی رُوسے اَزخودبہتراور موزوںنتائج اخذکرسکے جن سے وحی کی صداقت کی شہادت بھی حاصل ہواورانسان کی زندگی بھی سنورسکے۔اس ضمن میں، قرآن نے تاریخی قصوں اورروزمرہ کے معمولاتِ حیات سے کافی مثالوں کو پیشِ نظر رکھا ہے تاکہ اہلِ فکرونظر ان سے ہدایت پکڑ سکیں۔تاریخی ا ستقراء کے حوالے سے، دومثالیں مدنظر رہنی چاہیں : سورۃ المائدہ(۵:۳۱)میں حضرت آدمؑ کے دوبیٹوں (ہابیل اور قابیل) کے قصہ کا ذکر آیا ہے جس میں ایک بھائی دوسرے کوقتل کرڈالتاہے،مقتول کی لاش ٹھکانے لگانے کی کیاسبیل ہو؟ اسے نہیںسوجھتی۔ اس کے بارے میں الفاظ آئے ہیں،ـ’’ خدا نے ایک کوا بھیجا جو زمین کو کریدنے لگا تاکہ اُسے دکھائے کہ اپنے بھائی کی لاش کو کیونکر چھپائے‘‘۔ پس اُس کوے کو زمین کھودتا دیکھ کر وہ لاش کوزمین میںدفنانے کے نتیجے پر جاپہنچا۔لاریب،اس واقعہ میں استقرائی عقل کااظہار ملتا ہے ۔ یعنی کس طرح ایک شخص محض مشاہدے کی مثال پرلاش کو دفنانے کااہتمام کرتاہے جس کے بارے میںوہ قطعاً لاعلم تھا۔ سورہ الانعام(۶:۷۶-۷۸) میںحضرت ابراہیم ؑکے واقعہ کاتذکرہ ہے جس کے مطابق، انھوںنے رات کو ایک چمکتاہواتارہ دیکھااورکہایہ میرارب ہے۔جونہی تارہ ڈوبا،انہوںنے اپنا خیال جھٹک دیا۔کیونکہ وہ کہتے تھے کہ ڈوب جانے والوںکامیںگرویدہ نہیںہوں۔پھرجب چاند چمکتا نظرآیا،کہایہ میراربّ ہے، اسے ڈوبتادیکھاتواس خیال سے بھی اعراض کرنا پڑا۔اورجب روشن سورج کوچمکتے دیکھا،توکہایہ میرارب ہے کیونکہ یہ سب سے بڑاہے۔مگر جب وہ بھی ڈوب گیاتوبالآخراس نتیجے پرپہنچے کہ رب وہ ہے جس نے زمین اورآسمانوںکوپیداکیاہے۔ اس کے علاوہ کسی شے کورب قراردینے والے مشرک ہیں۔لاریب،اس واقعے میںیہ اشارہ مستورہے کہ استقرائی عقل کامالک،جس نے سراسر شرک کے ماحول میں آنکھیں کھولی تھیں،کس طرح آثارِ ِ کائنات کے گہرے مشاہدے سے امر حق معلوم کرنے میںکامیاب رہا۔ بحیثیت مجموعی ،ان قصوںسے دوعقدے کھلتے ہیں،اوّل،استقرائی فکرکوئی نئی چیزنہیں۔انسان زمانۂ آفرینش ہی سے اس کے قابل ہے۔دوم،درپیش مسئلے کے حل کے لیے کس طرح استقرائی استدلال کارگرثابت ہوتاہے۔ بنیادی طور پر، قرآن کااندازِاستدلال انسان کی استقرائی عقل کو بیدار کرتا ہے۔ اس سلسلے میں وہ تاریخی قصوں اور قدرتی مثالوں کی مددسے حساس معاملات کی نشان دہی کرتاہے اوران سے متعلقہ بعض پہلوؤںکوایسے انداز میںبے نقاب کرتا ہے کہ انسان مجبور ہو جاتاہے کہ وہ ان نشانیوں سے پہلے مقدمات بنائے، پھر ان کی کڑیاں ملائے اور ان سے بالآخرفیصلہ کن نتیجے اخذکرے جن کی طرف بین السطوراشارہ کیا گیا ہوتاہے۔ اس سلسلے میںقرآن سے تمثیلی استقراء کی دو مثالوں کو مد نظر رکھنا چاہیے:۔ .iسورۃ المؤمنون میںارشاد ہوا ہے ۔ ’’اورہم نے انسان کو مٹی کے خلاصے سے پیداکیاہے،پھر اُس کوایک مضبوط (اورمحفوظ) جگہ میں نطفہ بنا کر رکھا، پھرنطفے کا لوتھڑا بنایا،پھر لوتھڑے کی بوٹی بنائی،پھربوٹی کی ہڈیاں بنائیں، پھرہڈیوں پرگوشت چڑھایا،پھراُس کو نئی صورت میں بنادیا۔‘‘(۲۳:۱۲-۱۴) مادرِ رحم میں یکے بعددیگرے ایسی کس طرح تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں کہ بے جان اور بے حس مٹی سے ذی شعور انسان نکل کھڑا ہوتا ہے۔اس کے بارے میں قرآن نے بہت پہلے فکری خاکہ مہیا کردیا تھا جس کو عہد جدید کی طبی سائنس کے طرزِ استقراء نے باقاعدہ عملی لحاظ سے تسلیم کیا۔ .iiسورہ نحل میں ارشاد ہوا ہے:۔ ’’وہی توہے جس نے آسمان سے پانی برسایا جسے تم پیتے ہو اوراُس سے درخت بھی (شاداب ہوتے) ہیں جن میں تم اپنے چوپایوںکوچَراتے ہو۔ اسی پانی سے وہ تمہارے لیے کھیتی اور زیتون اور کھجور اور انگور(اور بے شمار درخت) اُگاتاہے اور ہرطرح کے پھل (پیداکرتاہے) غور کرنے والوں کے لیے اس میں(قدرت ِخداکی بڑی ) نشانی ہے اور اسی نے تمہارے لیے رات اوردن اورسورج اورچاندکوکام میںلگایا اور اُسی کے حکم سے ستارے بھی کام میںلگے ہوئے ہیں۔سمجھنے والوںکے لیے اس میں (قدرت ِخداکی بہت سی)نشانیاںہیں اور جو طرح طرح کے رنگوںکی چیزیں اس نے زمین میں پیداکیں(سب تمہارے زیر ِفرمان کردیں)۔نصیحت پکڑنے والوں کے لیے اس میںنشانی ہے۔‘‘(۱۶:۱۰- ۱۳) غورکرنے والوں،سمجھنے والوں اور نصیحت پکڑنے والوںکے لیے قرآن نے استقرائی فکر کا دروازہ کھلا چھوڑ رکھاہے لیکن کیوں؟مولاناحمیدالدین فراہمیؒکے نزدیک،اس میںقرآن کی حکمت مستورہے۔ان کے الفاظ میں،’’اگر کسی شخص کووہ باتیںجو غوروفکرسے حاصل کرسکتاہے پہلے ہی بتادی جائیںتواس کی قوت ِفکرضائع ہو جائے گی اوراس بتائی ہوئی بات کوبھی اس تیقن کے ساتھ نہ سمجھے گاجیساکہ چاہئیے اورآئندہ کی ترقی سے محروم رہے گا۔اسی لیے خدائے تعا لیٰ نے نظام عالم میںکوشش کوضروری قراردیاتاکہ انسان اپنی اعلیٰ ترقی تک پہنچ سکے ۔‘‘۸۹ تمثیلی استقراء کے اسلوب کو خدائے بزرگ وبرترنے نہ صرف استعمال کیا ہے بلکہ سورۃ ا لنو ر میںاعتراف بھی کیا ہے کہ ’’خدا(جو)مثالیں بیان فرماتاہے (تو) لوگوں کے(سمجھانے کے) لیے۔ ‘‘(۲۴:۳۵)اور پھر سورۃ العنکبوت میں اس کا جواز بھی پیش کیا ہے، جہاں ارشاد ہوا ہے۔ ’’اوریہ مثالیںہم لوگوںکے(سمجھانے کے) لیے بیان کرتے ہیںاور اسے تواہل ِدانش ہی سمجھتے ہیں۔‘‘ (۲۹:۴۳)اور یہی نہیں جو لوگ عقل کو چھوڑ کر محض اپنے قیاس ، قیافوں،وہم و گمان اور تخیلات میں پڑے ہوئے ہیں۔ ان کے بارے میں بارہا اظہارِ افسوس کیا ہے،جیسے، سورۃ یونس میںآیا ہے،’’اور اُن میں سے اکثر صرف ظن کی پیروی کرتے ہیںاورکچھ شک نہیںکہ ظن حق کے مقابلے میں کچھ بھی کارآمد نہیں ہوسکتا ۔‘‘ (۱۰: ۳۶) اسی طرح پھرسورۃ روم میں آیا ہے،’’ ہم عقل والوںکے لیے اپنی آیتیں کھول کھول کر بیان کرتے ہیں مگرجوظالم ہیںبے سمجھے اپنی خواہشوںکے پیچھے چلتے ہیں۔ ‘‘ (۳۰:۲۸-۲۹)اورپھرسورۃ النجم میںآیا ہے،’’حالانکہ ان کو اس کی کچھ خبرنہیں۔وہ صرف ظن پر چلتے ہیںاور ظن یقین کے مقابلے میں کچھ کام نہیںآتا۔ ‘‘ (۵۳:۲۸) استقراکا تمثیلی انداز حضورِاکرمؐنے بھی اختیار کیا۔آپؑ اسی طرزِاستدلال سے لوگوں کو معلومات فراہم کرتے تھے۔مثلاً حضرت ابوھریرہؓ سے روایت ہے کہ آپؑ نے صحابہ کو نمازِ پنجگانہ کی حکمت سے رُوشناس کرانے کے لیے یہ تمثیل پیش کی۔’’اگر تم میںسے کسی کے دروازے پر نہر ہو اوروہ ہرروز اس میں پانچ مرتبہ نہائے دھوئے،تمہارا کیا خیال ہے کوئی میل کچیل باقی رہ جائے گا ؟ صحابہ بولے، کچھ بھی میل کچیل باقی نہ رہے گا ،فرمایا، پانچوں نمازوں کی یہی مثال ہے، اﷲتعا لیٰ ان کے ذریعہ سے گناہوں کو مٹاتا ہے۔‘‘۹۰ظاہر ہے کہ آنحضورؑنے پہلے ایک مخصوص واقعے کو گوش گزار کیااور پھر اس سے ایک عام اصول اخذکیا۔ قرآن میں قدرتی اور تاریخی آثار کی مناسبت سے محض تمثیلی استقراء ہی موجود نہیں، بلکہ اس میں استقرائے تام کا اسلوب بھی موجود ہے۔اس کی طرف اقبال نے بالخصوص توجہ دلائی ہے۔۹۱ مثلاً سورۃشعرا میں حضرت موسیٰؑ، حضرت ابراہیمؑ،ُ حضرت نوحؑ،حضرت ہودؑ،حضرت صالحؑ،حضرت لوطؑ اور حضرت شعیب ؑکے مختصراحوال کو بالترتیب شمار میں لایا جائے تو اُن سے یہ عمومی نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ انبیاء کی تکذیب سے عذابِ الٰہی لازم آتا ہے۔اس مد میں سورۃ الاعراف اور سورۃ قمر کا حوالہ بھی پیش کیا جا سکتا ہے۔ قرآن واحادیث کے اس اندازِ استدلال کو اقبال نے خوب سمجھاہے۔ وہ بھی اپنے افکار میںقاری کومنطقی موشگافیوںمیںنہیں الجھاتا۔اسے محض دلائل کے زور پرقائل کرنے کے درپے نہیںہوتابلکہ تاریخی اورقدرتی مثالوں کے سہارے حقائق کے بارے میں اَزسرِ نو غور و فکر کرنے پر مجبورکرتاہے تاکہ اس کے فکرکی وہ کج فہمیاں دورہوجائیں، جنہیںوہ بدیہیات ومسلمات کی صورت میں حرفِ آخر متصور کئے بیٹھا ہے۔ مثلاًاقبال نے ان اشعارمیںمشاہدہ ٔفطر ت کی قرآنی دعوت کواستقراء میںاس طرح ڈھالاہے۔ کھول آنکھ، زمیں دیکھ، فلک دیکھ، فضا دیکھ! مشرق سے ابھرتے ہوے سورج کو ذرا دیکھ! اس جلوۂ بے پردہ کو پردوں میں چھپا دیکھ! ایاّمِ جُدائی کے ستم دیکھ، جفا دیکھ! ۹۲ اس کے ان اشعار سے بھی استقرائی دعوتِ فکر کی جھلک ملتی ہے۔ پالتا ہے بیج کو مٹی کی تاریکی میں کون؟ کون دریاؤں کی موجوں سے اُٹھاتا ہے سحاب؟ کون لایاکھینچ کر پچھم سے بادِ ساز گار؟ خاک یہ کس کی ہے؟ کس کا ہے یہ نُورِ آفتاب؟ کس نے بھر دی موتیوں سے خوشۂ گندم کی جیب؟ موسموں کو کس نے سکھلائی ہے خوے انقلاب؟ ۹۳ یاپھرجو لوگ اسی ظاہری دنیائے رنگ وبو کو حقیقت ِقطعی شمارکئے بیٹھے ہیں، انہیں ازسرِنو استقرائی دعوتِ فکر دیتے ہوئے کہاہے۔ مجھ کو بھی نظر آتی ہے یہ بوقلمونی وہ چاند، یہ تارا ہے، وہ پتھر، یہ نگیں ہے دیتی ہے مری چشمِ بصیرت بھی یہ فتوے وہ کوہ، یہ دریاہے، وہ گردوں، یہ زمیں ہے حق بات کو لیکن میں چھپا کر نہیں رکھتا تو ہے، تجھے جو کچھ نظر آتا ہے، نہیں ہے! ۹۴ اقبال کے نزدیک حسی مشاہدات پر مبنی فکر تمثیلی استقراء کے لیے ناگزیر ہے۔ لیکن اس حسا ب سے متناہی کائنات سے لامتناہی الوہیت تک پہنچنا ممکن الحصول نہیں،کیونکہ اصول مشابہت کی بناء پر کوئی نتیجہ صرف اُس صورت میںنکالاجاسکتاہے بشرطیکہ کبریٰ وصغریٰ قضایاکے مابین ایک جیسی نسبت ہو ۔یقینا،متناہی کائنات اورلامتناہی خداکے درمیان ایسی کوئی نسبت نہیںہوسکتی۔بادی النظر میں یہ اعتراض معقول معلوم ہوتاہے مگراقبال کی گہری نظرسے دیکھاجائے تواس کی معقولیت خام ثابت ہوتی ہے۔اقبال نے حسی مشاہدات پرمبنی فکرکو اصل میںایک طرح کی کونیاتی بصیرت مرادلیاہے جہاںحقائق کی کنہ اورماہیئت کے بارے میںنظریات محض مابعدالطبیعی غوروفکرسے نہیںبلکہ انسان کے فیضانِ باطن کی بناء پرقائم کئے جاتے ہیں۔۹۵یہ بات آئی ۔ٹی ۔ ریمزی (I.T.Ramsey)کی پیش کردہ اس چھوٹی سی وضاحت۹۶سے بخوبی سمجھ میں آ سکتی ہے۔بالفرض ایک ایسے شخص کو دائر ے کے وجودسے متعارف کرانامقصود ہو جودیگرہندسی اشکال سے بخوبی شناسا ہے مگرخمیدہ خطوط کی کوئی آگہی نہیںرکھتا۔اگراسے بہت سی مخصوص اورمساوی کثیرالاضلاع (polygons)شکلیںاس طرح کھینچنے کوکہاجائے کہ ہربار کھنچی گئی شکل میںایک ضلع کااضافہ ہوتا چلا جائے توزودیابدیر،ایک وقت ضرورایساآئے گاجب اس پردائرے کی ایک نئی شکل آشکاراہوگی۔گو وہ شخص کثیرالاضلاع شکلوںکے سہارے دائرے کے تصورسے آشناہوجائے گامگراصلی دائرہ پھر بھی اس سے مخفی رہے گا۔کچھ ایساہی معاملہ مشاہدۂ کائنات کے ذریعے وجودِ الٰہی کے وقوف کا ہے۔ اس اعتبارسے دیکھا جائے تومتناہی اورلامتناہی کے مابین نسبتوں کافرق،فرق نہیںرہتااوراقبال کے حوالہ سے،فیضان باطن سے کائنات کاسائنسی مطالعہ کرنے والااس متلاشی حق سے کسی طوربھی پیچھے نہیںرہتاجومذہبی تجربات وواردات سے گزرکروجودالٰہی کاکشف حاصل کرتاہے۔ .4سائنس کی ترقی وترویج کی بدولت یہ خیال زبان ِزدخاص وعام ہوگیاکہ استقراء تجربہ گاہوںکے مشاہدات وتجربات کے دائرہ کارتک محدودہے کیونکہ یہ سوائے سائنس کے اورکچھ نہیں ۔ روسی مفکرایسی موف اس دعوی کے اظہارمیںلکھتاہے’’سائنس کے معانی عام طور پر استقرائی طریقِ کا رہی کے ہیں۔‘‘اس کی وضاحت میں اس نے لکھاہے کہ ’’یہ طریق ِکارکوئی ایسا عمومیہ نہیںبناتاجس کا مشاہدہ نہ کیاگیاہو۔مثال کے طورپرانسانی روح چونکہ جب تک معلوم شدہ علم کی بنیادپرکسی بلاواسطہ ذریعے سے بھی مشاہدے میںنہیںآسکی،اس لیے یہ مضمون استقرائی طریقِ کا ر کے دائرے میں نہیں آتا۔‘‘۹۷اس کامطلب یہ ہواکہ استقراء طیبعی حدوںتک قابل ِعمل ہے، مابعدالطبیعی تک نہیں۔ کیونکہ یہ خیال انیسویںصدی کے اواخرتک زیادہ ترسائنسی ذہنوں پر چھایا رہاکہ فطرت میںایساکوئی وجودنہیںہوسکتاجوحسی ادراکات کے احاطے سے باہر ہو۔خوردبینی یا دوربینی مشاہدات میںآنے سے عاجزہواورجس کا ناپ تول ممکن نہ ہو۔لہٰذاکسی قسم کے غیرمرئی وجودکی کوئی گنجائش موجودنہیں۔جو شخص اس حقیقت کوتسلیم نہیںکرتاوہ اختلالِ ذہنی کا مریض ہے یا خودفریبی کا شکار ہے۔ اس خیال کی بنیاد مادّے کاوہ معروف نظریہ تھاجس کے مطابق کائنات کی ہر شے انتہائی چھوٹے اور ناقابل ِتقسیم ایٹموں سے مل کر بنی ہے جومیکانکی اصول وضوابط کے پابند ہیں،مگرعصرِاقبال میںایٹم کے ٹوٹنے اورتقسیم ہو جانے کاانکشاف ہواجس سے خودایٹم غیرمرئی حقیقت میںتحلیل ہوگیا۔کسی نے اسے محض امکانی لہروںکا توکسی نے واقعات کاایک سلسلہ قراردیا۔نتیجتاًصورت حال یہ بنی کہ سائنسی حضرات کل تک جسے محض خیالی بھوت سمجھ رہے تھے، وہ ان کے لیے سچ مچ کابھوت نکل آیا ۔اس تبدیلی کااثرعلمیاتی لحاظ سے بہت اہم ثابت ہوا۔ جونہی حسی اور طبیعی تجربات کااثرذہنوںسے فرو ہوگیا،داخلی اور مابعدالطبیعی تجربات کی طرف ازسر ِنو نگاہِ التفات کی گئی لیکن پھربھی عصرِاقبال تک ان تجربات کومتضاد متصورکیاجاتارہا۔اس کے برعکس،اقبال نے ان تجربات کی حقانیت کادوٹوک اعتراف کرتے ہوئے یہ خیال پیش کیاکہ محض خارجی تجربات پر اعتماد اور انحصار کرنا اپنے داخلی تجربات سے غافل ہونا ہے۔ حقیقت کے ہردرجے کے انکشاف کے لیے یہ دونوں ضروری ہیں۔خارجی مشاہدات کوجونسبت فکر سے ہے، وہی داخلی تجربات کووجدان سے ہے ۔یہ دونوںایک دوسرے کی ضد نہیںبلکہ ان دونوں کا سرچشمہ ایک ہی ہے۔دونوںایک دوسرے کی تکمیل کاسبب ہیں۔جہاںفکرحقیقت کوقطرہ قطرہ سمیٹتی ہے وہاں وجدان اس کاایک ہی باراحاطہ کرلیتا ہے۔اقبال نے اپنے مدعا کو شاعرانہ ترنگ میں اس طرح بیان کیاہے۔ نگہ دید و خرد پیمانہ آورد کہ پیماید جہانِ چار سو را مے آشامے کہ دل کردند نامش بخویش اندر کشید ایں رنگ و بو را ۹۸ نگاہ نے دیکھااورعقل پیمانہ لائی تا کہ چار اطراف والے جہاں کی پیمائش کرئے ۔وہ شراب پینے والا جس کا نام انہوں نے دل رکھ دیا، اُس نے اِس رنگ و بُوکواپنے اندر سمیٹ لیا۔ بہرطور،اقبال کے ہاں اکتشافِ حقیقت کا سفر فکر سے وجدان کی طرف چلتا ہے۔ جہاں فکر ایک خاص مقام کے بعدوجدان بن جاتی ہے۔اُس کے اِسی مؤقف کی وضاحت میں ڈاکٹر وزیر آغا کے الفاظ ہیں :’’عقل کاایک خاص استقرائی مزاج ہے۔وہ تجزیے کے عمل سے آگے بڑھتی اور تعقلات قائم کرتی ہے۔جب اس کی قلب ِماہیت ہوتی ہے تو وہ عقلی اوصاف کوترک کر کے آگہی کی ایک خاص سطح میںمنتقل ہوتی اور پھراپنے اس خاص روپ میں’’وجدان‘‘ کا جزوِ ِبدن بن جاتی ہے‘‘۹۹۔اس طرح اقبال کے ہاںاستقرائی اندازکادائرہ پھیل جاتاہے اوروجدان فکرہی کی ایک ترقی یافتہ شکل قرارپاتاہے۔جہاںفکراوروجدان میں نوع کانہیںبلکہ محض درجے کافرق رہ جاتا ہے۔اس فرق کو وزیر آغا نے کولن ولسن(Collin Wilson)کی مثال۱۰۰سے بخوبی اجاگر کیا ہے ۔ کولن ولسن لکھتاہے کہ اگرایک نابینا شخص اورایک آنکھوںوالے شخص کوایک کمرے میںلایاجائے اوران سے کہا جائے کہ دس منٹ کے بعد انہیں کمرے سے باہر لے جاکریہ پوچھا جائے گاکہ انہوںنے کمرے میںکیا کچھ دیکھاتوایسی صورت میںنابینا شخص تو کمرے کی ہر چھوٹی سے چھوٹی شے کی بھی نشاندہی کرسکے گاکیونکہ وہ محض باصرہ پرانحصار نہیںکرے گابلکہ چل کر،چھوکر اورپیمائش کر کے کمرے کے بارے میںتمام تر معلومات حاصل کرے گا، مگر آنکھوں والا شخص محض ایک اُچکتی سی نظر ڈال کرکمرے کے بارے میںایک تصویرسی ذہن میں محفوظ کرلے گا۔ اس تصویر میں تفاصیل بہت کم ہوںگی مگر یہ کمرے کے ’’معنی‘‘ کوضرور پیش کرے گی، جب کہ نابیناشخص کے پاس کمرے کے تمام کوائف ہوں گے لیکن پورے کمرے کی تصویر موجود نہیں ہوگی۔ فکراوروجدان کے فرق کااندازہ اقبال کی اس سادہ اورچھوٹی سی مثال سے بھی لگایاجاسکتاہے جوانہوںنے انائے فعال(efficievt ego) اورانائے بصیر(appreciative ego) کے فرق کوپیش نظررکھ کردی تھی، لیکن بہ ادنیٰ تصرف،اس مثال کو یہاں فکر اور وجدان کے امتیاز کو اجاگر کرنے کے لیے پیش کیا جاتا ہے۔انائے فعال اورانائے بصیرکے مفہوم کا ذکرآگے آئے گا۔مثال کچھ اس طرح ہے کہ طبیعی سائنس کے مطابق جوسرخ رنگ دکھائی دیتاہے وہ روشنی کی لہروں کے اس ارتعاش کانتیجہ ہے جس کی سرعت کی رفتار چارکھرب فی سیکنڈاور جس کا مشاہدہ بہ حساب دولاکھ ارتعاشات فی سیکنڈہے اگر خارج سے کیا جائے تو ان کی گنتی میںلگ بھگ چھ ہزاربرس صرف ہوںگے لیکن ادراک کے اس آنی فعل میں جس کا تعلق نفس ِانسانی سے ہے، لہروںکے اس ارتعاش کوآناًفاناً دیکھ لیاجاتاہے ۔ گویاادراک کے اس آنی فعل میںگنتی کے قریباً چھ ہزار سال ایک وحدت میںسمٹ آتے ہیں۔۰۱ ۱ اس مثال میں سرخ روشنی کی لہروںکی گنتی کا شمار فکر کا ترجمان ہے جب کہ ادراک کا آنی فعل وجدان کے عمل کا غماز ہے۔دوسرے لفظوںمیں ، فکرکا وظیفہ عملِ تحلیل ہے، جس میں کسی وحدت کے اجزاء کاجائزہ لیا جاتاہے جب کہ وجدان کاوظیفہ عملِ تالیف ہے جس میں کسی وحدت کے مجموعی تاثر کو مدنظر رکھا جاتا ہے۔اقبال کے اسی نقطۂ نظر کی وضاحت کرتے ہوئے محمدرفیع الدین لکھتے ہیں: ’’وحدتوں کا باہمی تعلق معلوم کرنے کے لیے عقل ایک وحدت سے دوسری وحدت کی طرف اور دوسری سے تیسری کی طرف اور تیسری سے چوتھی کی طرف جاتی ہے اور ان سب کے باہمی تعلق کو ٹٹولتی ہے۔عقل کا کام صرف یہ ہے کہ کسی وحدت تک پہنچنے کے لیے ہمارے وجدان کواکسائے وہ فقط کسی وحدت کے اجزاء کے تعلقات پر غورکرتی ہے پوری وحدت کااحساس نہیں کرسکتی۔ وحدت کااحساس یاعلم اس کا وظیفہ نہیں۔جب ہماراوجدان کسی وحدت کے علم تک پہنچتاہے تواس سے بہت پہلے عقل اس سے رخصت ہو چکی ہوتی ہے اور ہمیں پتا بھی نہیں ہوتا کہ ایسا ہوا ہے۔عقل وہ راستہ دکھاتی ہے جو منزل کو جاتاہے خود ہمار ے ساتھ منزل پرنہیں پہنچتی‘‘۔۱۰۲ قصہ کوتاہ ،جہاںعقل کی پہنچ ختم ہوجاتی ہے،وہاںسے وجدان اپنی اٹھان لیتاہے اوربالآخراس کا دائرہ عمل عقل کی تمام تر جزئیات کواپنے میںمحیط کرلیتاہے۔ اس نسبت سے اقبال کے بارے میںڈاکٹرجمیلہ خاتون کی رائے کو حرف ِآخر تسلیم کرناغلط نہ ہوگا۔وہ رقم طراز ہیں:’’اس کے نظریۂ علم میںحسی ادراک، تفکر اور وجدان سبھی ایک عضوی کل کی صورت میںمجتمع ہوجاتے ہیں۔وہ بخوبی آگاہ تھاکہ تنہاکسی ایک سمت کی روشنی،کلی حقیقت کی تمام تجلیات کومنورنہیںکرسکتی۔‘‘۱۰۳ویسے بھی ہرذریعۂ علم طیف(spectrum)کی ایک پٹی (band)کی مانندہوتاہے اوراگرکوئی شخص صرف ایک ہی ذریعۂ علم پراکتفا کرے گا تووہ یک رنگی بصارت (monochromatic vision)کاشکار ہو جائے گا اور اس طرح پورے طیف کی خوبصورتی سے محروم رہے گا۔فکرِاقبال کی خاص بات یہی ہے کہ اس میںاستقرائی طیف کی پوری خوبصورتی جھلکتی ہے۔ مزیدبرآں،اقبال نے واضح کیاکہ جس طرح کوئی سائنسدان اپنے خارجی اور حسی تجربات کے دوران خطرات اورالتباسات کاشکارہوسکتاہے،اسی طرح اپنے داخلی اوروجدانی تجربات کے دوران اُن کا اہل بھی خطرات اور التباسات سے دوچارہوسکتاہے اوریہی نہیں،جس طرح کوئی سائنسدان اپنے حسّی تجربات میںکھرے سے کھوٹے کوالگ کرنے کااہتمام کرلیتاہے، بعینہٖ وجدانی تجربات کا اہل بھی اسی قرینے کا متحمل ہوتاہے۔۱۰۴دوسرے لفظوں میںاقبال نے اس غلط فہمی کورفع کرنے کی طرف خصوصی توجہ مبذول کرائی کہ وجدان کے داخلی تجربات کومافوق الفطرتشمارکرنادرست نہیں۔وہ بھی فکر کے خارجی تجربات کی مانند فطری ہیں۔جس طرح خارجی مشاہدات کی کڑی جانچ پرکھ کی جا سکتی ہے،بعینہٖ ان پر بھی ناقدانہ نظردوڑائی جاسکتی ہے۔۱۰۵ اقبال کے نزدیک،داخلی تجربات کی پرکھ کے دو معیار ہیں۔ 1۔عقلی معیار : (intellectual test) اس سے مرادداخلی تجربات کی تنقیدی تعبیرہے جومفروضات کاسہارانہیںلیتی اورجس کامقصدیہ معلوم کرناہے کہ آیاوضع کردہ تعبیر سے کسی ایسی حقیقت کا پتا چلتا ہے جس کاانکشاف باطنی تجربات سے براہِ راست ہوتا ہے۔عقلی معیار سے فلسفی کام لیتا ہے۔ 2۔عملی معیار : (pragmatic test) اس سے مرادداخلی تجربات کواس کے نتائج سے پرکھناہے۔عملی معیار سے پیغمبرکام لیتا ہے۔ ضمناً،اقبال کے ہاںایک طرف داخلی اور باطنیتجربات کے متعلق یہ وضاحت توجہ طلب ہے کہ جہاں تک ان کوذہنی عصبانیت کے مضحکہ خیز خاکے قراردینے کی بات ہے تواس زمرے میںبالفرض تھوڑی دیر کے لیے یہ مان بھی لیاجائے کہ باطنی تجربات کی صورت میںبعض اوقات ابتداً عضوی طورپرکچھ اختلال رونماہوجاتاہے لیکن پھربھی اس کی کچھ زیادہ اہمیت نہیں۔اصل افادیت توان مقاصداوراعلیٰ اخلاقی اعمال کی ہے جن کاپیش خیمہ یہ تجربات بنتے ہیں۔کہا جاتاہے کہ جارج فاکس(George Fox)کواعصابی مرض لاحق تھا۔لیکن اس نے انگلستان کی مذہبی زندگی میں جو حیرت انگیز تبدیلیاںپیداکیں،ان سے کوئی بھی منکر نہیںہو سکتا۔ کچھ مستشرق توحضرت محمدؐ کے بارے میںبھی سوء ظن رکھتے ہیں۔حالانکہ تاریخ گواہ ہے کہ انہوںنے نہ صرف عرب اوردیگراقوام کے طوراطواربدلے بلکہ ایک مکمل انقلاب کے ذریعے اسلام کی حقانیت سے بھی روشناس کرایا۔۱۰۶ اور دوسری طرف جہاں خارجی اور حسی تجربات کی کوتاہیوں سے شناسا ہونے کی ضرورت ہے ،اس ضمن میںاقبال نے قطعی رہنمائی کے لیے نبوت سے رجوع کرنے کی طرف زور دیا ہے۔ا س کے مؤقف کی تائیدقرآن میں بیان کردہ حضرت سلیمان ؑاورسورج پرست قبیلہ سباکی ملکہ بلقیس کے اِس قصہ۱۰۷ سے بھی ہو تی ہے جس کے مطابق جب ملکہ حضرت سلیمانؑ کے محل میںداخل ہوئی تو اسے گمان ہواکہ محل کا فرش پانی کا حوض ہے۔ اس نے اپنی پنڈلیوںسے کپڑا سمیٹا تاکہ بھیگے نہیں۔ حضرت سلیمانؑ نے کہا یہ حوض نہیں۔شیشے کا چکنا فرش ہے۔اس پر ملکہ نے کہا اے پروردگار میں اپنی جان پرظلم کرتی رہی،اب میںحضرت سلیمانؑ کی طرح اﷲ رب العالمین پرایمان لاتی ہوں۔ اس واقعے سے بخوبی پتا چلتاہے کہ ملکہ کواحساس ہواکہ جس طرح وہ اپنے حسی تجربے کے وقوف میں مغالطہ کاشکار ہوئی یعنی شیشے کے فرش کو پانی سمجھ بیٹھی، بعینہٖ ہوسکتاہے وہ اپنے معبود حقیقی کے بارے میںبھی غلطی کاارتکاب کررہی ہواورسورج کوخداسمجھ رہی ہو۔اس حوالے سے غور کیا جائے توانسان کووجدانی استقراء کی غلطیوں سے بچانے کے لیے نبوت قدرت کا مؤثر انتظام ہے۔ خلاصۂ کلام یہ کہ اقبال نے حقیقت کی ظاہری ماہیئت کے لیے خارجی، اور اس کی باطنی ماہیئت کے لیے داخلی، ہردوطرح کے مشاہدات و تجربات کواستقرائی استدلال کے لیے ضروری خیال کیا ہے اوراس طرح خارجی اور داخلی تجربات کوایک ہی قوسین میںباندھ کراستقراء کووسعت دی ہے۔اس کے یہ اشعار اسی مفہوم کے بہترین غماز ہیں : بچشمے خلوتِ خود را بہ بیند بچشمے جلوتِ خود را بہ بیند اگر یک چشم بر بندد گناہے است اگر با ہر دو بیند شرطِ راہے است ۱۰۸ فکرایک آنکھ سے اپنی خلوت کودیکھتاہے اورایک آنکھ سے اپنی جلوت کودیکھتاہے۔اگر فکر اپنی ایک آنکھ بندکر لے تویہ گناہ ہے اوراگراپنی دونوںآنکھوںسے دیکھے تویہ شرط ِراہ ہے۔ یہاںایک اور وضاحت کردینابھی ضروری ہے۔ایسا نہیں ہے کہ اقبال نے خارج کومحض حسی تجربے اور باطن کومحض باطنی تجربے پرموقوف کرتے ہوئے انہیںدو علیحدہ علیحدہ خانوںمیں بانٹ دیاہو۔اس کے ہاں،خارج سے باطن اورباطن سے خارج کاسلسلۂ آگہی بالآخرجس حقیقت کے وقوف پرمنتج ہوتاہے، وہاںخارج اورباطن کی تفریق ہی قائم نہیںرہتی۔اس حساب سے،مشاہدہ فطرت کے سائنسدان اورمشاہدۂ نفس کے صوفی کارستہ مختلف سہی مگر منزل ایک ہی ہوجاتی ہے جہاںجس حقیقت واحدہ کااکتشاف ہوتاہے ، اقبال اسے لفظ ’’خودی‘‘ سے موسوم کرتا ہے ۔ لیکن یہ خودی ہے کیا؟اقبال کے الفاظ میں’’خودی تمام انواع واقسام کے تجربات کے پس پردہ ایک ایسی باطنی قوت ہے جو تمام تاثرات وتجربات کے بہاؤ کومحسوس کرتی ہے۔اپنی قدروقیمت کااندازہ کرتی ہے،اورزندگی کو زندگی کاشعور بخشتی ہے‘‘۔۱۰۹اسے ویدک مذہب کے پرچارک یاجناواکیہ کی تمثیل سے سمجھا جا سکتا ہے:’’ اس کی مثال ایک نمک کی ڈلی سی ہے جسے پانی میں ڈبو دیاجائے۔ تو اگرچہ اس کاہاتھ آناناممکن ہے مگرجہاںبھی انگلی ڈبو کر دیکھاجائے پانی نمکین ہوگا۔اسی طرح سے خودی ہمارے اندر موجود ہے۔ہم دیکھتے ہوئے بھی یہ نہیںدیکھ سکتے کہ ہمارے اندر کون دیکھ رہا ہے یاسوچتے ہوئے یہ نہیںسوچ سکتے کہ ہمارے اندر کون سوچ رہاہے، یہ خودی ہے جوہر شے کے اندر موجودہے ،یہ ہمارااندرونی منتظم ہے۔‘‘۱۱۰اقبال کے نزدیک خودی کااظہار خارجی دنیا میں انائے فعال جبکہ باطنی دنیا میں انائے بصیر کی صورت میں متشکل ہے۔ ڈاکٹر علامہ طاہر القادر ی ۱۱۱ نے اقبال کے تصور خودی کوانتہائی ژرف نگاہی سے ہے پرکھا ۔ان کے خیال میںاقبال نے انسان کوتین حالتوںمیںتقسیم کیاہے: .i حالت بشریت جوانسان کاظاہرہے اوربصورت جسم متشکل ہے۔ .ii حالت ملکیت جوانسان کاباطن ہے اوربصورت روح متجلی ہے۔ .iii حالت مظہریت جوانسان کا بطن البطون ہے گویا حالت بشریت وحالت ملکیت، دونوں سے تعبیرہے۔ حالت بشریت ناسوتی شخصیت کے آدم خاکی سے،حالت ملکیت ملکوتی شخصیت کے آدم نوری سے اور حالت مظہریت لاہوتی شخصیت کے آدم حقیقی سے مخصوص ہے۔آدم خاکی، انائے فعال ہے۔آدم نوری،انائے بصیر ہے اور آدم حقیقی، انائے فعال اورانائے بصیر، دونوںکی حامل خودی ہے۔ بغرض ِسہولت،علامہ طاہر القادری کے نقطۂ نظر کا خاکہ یوںکھینچا جاسکتاہے : انسان حالتیں مرکزہ صورتیں پیکر حالت بشریت انائے فعال ناسوتی شخصیت آدم خاکی حالت ملکیت انائے بصیر ملکوتی شخصیت آدم نوری حالت مظہریت خودی لاہوتی شخصیت آدم حقیقی دراصل،ہوتایوںہے کہ انسان جب جنم لیتاہے اورخود شعوری کی آنکھ کھولتاہے توبذریعہ حواس خمسہ اپنے آپ کوآدم خاکی پاتاہے پھرذہنی بالیدگی حاصل کرتاہے اوربذریعہ تفکراپنے آپ کو آدم نوری پاتاہے،اور کبھی معرفت کے درجے پرپہنچ جائے تو بذریعہ وجدان اپنے آپ کوآدم حقیقی پاتاہے۔اس طرح اقبال کے ہاں، حواس، تفکراور وجدان میںسے ہراک کی نوعیت استقرائی ہے کیونکہ مشاہدت وتجربات سے مستفید ہوئے بغیر کسی بھی درجے کی حقیقت کاوقوف ممکن نہیں۔ دراصل،اقبال کی فکر کااصل منتہا ومقصود وحی کی صداقتوںکاانکشاف ہے۔اس کے خیال میںتجربات خواہ حسی نوعیت کے ہوںیاوجدانی،ان کی صداقت تبھی مستند اورقابل اعتبارہوسکتی ہے جب وہ وحی کی تعلیمات سے ہم آہنگ ہوں۔ارشاد ِربانی کاپیام بھی یہی ہے :’’ہم عنقریب ان کو اطراف(عالم) میں بھی اور خود ان کی ذات میں بھی اپنی نشانیاںدکھائیںگے یہاں تک کہ ان پر ظاہر ہو جائے گاکہ (قرآن) حق ہے۔‘‘ (۴۱:۵۳) اقبال نے اسی پیغام سے متاثرہوکریہ مؤقف اپنایاہے کہ’’ قرآن مجیدنے آفاق وانفس،دونوںکوعلم کاذریعہ ٹھہرایاہے اوراس کا ارشاد ہے کہ آیات الہیہ کاظہور محسوسات ومدرکات میں،خواہ ان کاتعلق خارج کی دنیا سے ہویاداخل کی،ہر کہیں ہو رہا ہے۔ لہٰذا ہمیںچاہئیے اس کے ہرپہلوکی قدروقیمت کاکماحقہ اندازہ کرلیں اور دیکھیں کہ اس سے حصولِ علم میںکہاںتک مددمل سکتی ہے۔‘‘۱۱۲ .5اسلام اس دینِ الٰہی کانام ہے جس کی تبلیغ احکامِ ربّانی کے مطابق ہرنبی اوررسول نے اپنے زمانے اور حلقۂ بعثت میںسرانجام دی۔گویااس کے داعی اوّل ابوالبشرحضرت آدمؑ سے لے کرداعی آخرخیرالبشرحضرت سیدعالمؐ تک اسلام کی تعلیمات کاسلسلہ اپنے پایۂ تکمیل کوپہنچا۔اس طرح اسلام کی عمارت ختم نبّوت پرمنتج ہوئی ۔اس کے بارے میں بحوالہ حضرت ابوہریرہ ،آپ ؐنے فرمایا،’’میری اور دوسرے انبیائے کرام کی مثال ایک خوبصورت عمارت جیسی ہے جس میںایک اینٹ کی جگہ خالی چھوڑدی گئی ہے۔دیکھنے والے اُس کے گردگھومے اوراس کے حسن تعمیرپر تعجب کرنے لگے، سوائے اُس اینٹ کی جگہ کے۔وہ میں ہوں جس نے اس اینٹ کی جگہ پرُکردی ہے۔ مجھ پر عمارت مکمل ہوگئی اور رسول پورے ہو گئے۔ دوسری روایت میںہے کہ وہ اینٹ میں ہوںاورمیںسب نبیوں میں آخری ہوں۔‘‘۱۱۳اس پیرایے میں،پروفیسر بشیرمتین کی تحقیق۱۱۴ کے مطابق آپؐ کوبانی اسلام قراردیناخلاف ِحقیقت بات ہوگی کیونکہ آخری اینٹ آخرہی میں نصب کی جاتی ہے،شروع میںنہیں۔اس نسبت سے اقبال نے بھی ٹھوکرکھائی ہے۔پروفیسر صاحب نے اس کی وضاحت میں لکھاہے کہ اقبال کی پرورش مغربی ماحول اورتہذیب ِجدیدکے گہواروں میں ہوئی لیکن پھربھی وہ اپنے ملی تشخص سے غافل نہ رہاجیسے کہ اسی کے شعرسے عیاںہے: خیرہ نہ کر سکا مجھے جلوۂ دانشِ فرنگ سرمہ ہے میری آنکھ کا خاکِ مدینہ ونجف ۱۱۵ لیکن اس کے باوجوداقبال سے علمی لغزش سرزدہوئی ہے ۔مثلاًمرزائیت سے برأت کے سلسلے میںایک اعتراض کاجواب دیتے ہوئے اُس نے لکھاہے۔’’ذاتی طورپراس تحریک سے میں اس وقت بے زارہواتھاجب ایک نئی نبوت …بانی ٔ اسلام کی نبوت سے اعلیٰ ترنبوت …کادعوی کیا گیااورتمام مسلمانوںکوکافرقراردیاگیا۔‘‘۱۱۶ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اقبال کے ہاں،آغازِاسلام کے بارے میں تصورکچھ مبہم سا ہے۔ اِس خیال کو تقویت اُس وقت ملتی ہے جب اُس کے ان لفظوں پر غور کیاجائے جواُس نے اپنے خطبۂ پنجم’’اسلامی ثقافت کی روح‘‘ "The Spirit of Muslim Culture"میں لکھے ہیں۔ایک جانب وہ لکھتا ہے،’’یہ آپؐ ہی کا دجود ہے کہ زندگی پر علم و حکمت کے وہ تازہ سرچشمے منکشف ہوئے جو اس کے آئندہ کے عین مطابق تھے لہٰذا اسلام کا ظہور جیسا کہ آگے چل کر خاطرخواہ طریق پر ثابت کر دیا جائے گا،استقرائی عقل کا ظہور ہے۔‘‘یہاں یہ تاثر ملتا ہے کہ آپؐ پر علم و حکمت کے جن تازہ سر چشموں کا انکشاف ہوا ،ان میں استقرائی عقل شامل ہے اور اگر ایسا ہے تواس کا مطلب یہ ہوا کہ اسلام کاآغاز حضرت محمدؐ کی بعثت مبارکہ سے ہوا۔اسی بیان کے ساتھ ہی اقبال نے یہ بھی لکھا ہے ’’اسلام میںنبوتؐ چونکہ معراج کمال کو پہنچ گئی لہٰذااس کا خاتمہ ضروری ہوگیا۔‘‘۱۱۷یہاں یہ نکتہ اخذ ہوتا ہے کہ اسلام کاآغاز حضورؐ کی بعثت مبارکہ سے پہلے ہو چکا تھا۔اس مبہم صورتِ حال میں قرین قیاس یہ معلوم ہوتا ہے کہ اقبال نے اسلام اور پھراستقراء کے لیے’ ظہور ‘کا لفظ باقاعدہ آغاز کے معنوں میں نہیں بلکہ ’ندرتِ فکر‘ کے مفہوم میں استعمال کیا ہے ۔اس کا ثبوت اس کے ان اشعار سے ملتا ہے۔ از حدیث مصطفی داری نصیب؟ دین حق اندر جہاں آمد ’غریب‘ با تو گویم معنیٔ ایں حرفِ بکر غربت دیں نیست فقر اہل ذکر بہرآں مردے کہ صاحب جستجو است غربت دیں ندرتِ آیاتِ اوست غربت دیں ہر زماں نوعِ دگر نکتہ را دریاب اگر داری نظر دل بآیاتِ مبیں دیگر بہ بند تابگیری عصر نو را در کمند! ۱۱۸ کیا تومحمدمصطفیؐکی حدیث سے بہرہ مند ہے؟ خدا کا دین دنیا میں غریب (اجنبی) ہوگیا؟ میں تجھ سے اس تازہ حرف کے معنی بیان کرتا ہوں۔اہل ذکرکاغریب ہونادین کے اجنبی ہونے کی دلیل نہیں ہے۔اس مردکے لیے جو صاحب جستجو ہے، غربت دین سے مراداس کی آیات کی ندرت ہے۔دین کی غربت ہرزمانے میں مختلف ہے اگر تواہل نظر ہے تو اس نکتے کو پالے۔اپنے دل کو آیاتِ مبین سے لگالے تاکہ تو عصرنو کو اپنی کمند میں لے سکے۔ اس کی خوب وضاحت شاہ معین الدین احمد ندوی کے بیان سے ہوتی ہے ۔وہ اپنی تصنیف دینِ حقمیں رقمطراز ہیں،’’ابتدائے آفرینش سے اﷲ تعالیٰ نے جس قدر پیغمبر مبعوث فرمائے اور ان کے ذریعے جس قدر مذاہب بھیجے ۔ان سب کا مقصد معرفت الٰہی،انسانوں کااخلاقی وروحانی تزکیہ وتطہیر اور ان کی دنیاوی و اُخروی فلاح وسیادت تھی،جس کے بغیردنیا کا نظام بھی قائم نہیں رہ سکتا تھا۔اس لیے یہ سب مذہب انسانوں کے لیے رحمت تھے لیکن انسانیت کے ابتدائی دور میں ان کا کوئی عالمگیر تصور نہ تھا۔خدا کی مخلوق،جغرافیائی، نسلی اورقبائلی حد بندیوں میں بٹی ہوئی تھی جن کے دیوی دیوتا جداجدا تھے بلکہ ایک ہی قوم اور قبیلہ کی مختلف ضرورتوں کے لیے مختلف دیوتا تھے۔ان میں کسی مشترک رب العالمین کا عقیدہ نہ تھا۔اس لیے اُس زمانہ میں جو پیغمبر مبعوث ہوئے اور جو مذاہب آئے، وہ خاص خاص قوموں کی اصلاح اور ہدایت و رہنمائی کے لیے تھے۔ان کی تعلیمات اس زمانے کے انسانوں کی عقل و شعوراورضروریاتِ زندگی کے مطابق سادہ اور محض موٹی موٹی اخلاقی باتوں پر مشتمل تھیں،اس لیے ان کی رحمت بھی محدود تھی،پھر جس قدرزمانہ گزرتا گیا، انسانوں کی عقل و فہم ترقی کرتی گئی اور زندگی کی ضروریات میں وسعت اور مسائلِ حیات میں پیچیدگی پیدا ہوتی گئی،اسی نسبت سے اس دور کے مذاہب کی تعلیمات میں بھی وسعت اور گہرائی آتی گئی،اسلام انسانوں کے عقلی بلوغ اور تمدنی ترقی کے دور کا مذہب ہے اس لیے اس کی تعلیمات میں جو وسعت اور جامعیت ہے، اس لیے اﷲتعالیٰ نے اُس کو دنیا کاآخری اور مکمل مذہب قرار دیا اور اس پر اپنی نعمت تمام کر دی۔‘‘۱۱۹جیسا کہ سورۃالمائدہ میں ارشاد ہوا ہے۔’’آج ہم نے تمہارے لیے تمہارا دین کا مل کر دیا اور اپنی نعمتیں تم پر پوری کردیںاور تمہارے لیے اسلام کو دین پسند کیا۔‘‘(۵:۳) آخری بات،اقبال نے بھی کہا ہے کہ’’اسلام نے خوب سمجھ لیا تھا کہ انسان ہمیشہ سہاروں پر زندگی بسر نہیں کر سکتا اس کے شعورِذات کی تکمیل ہو گی تو یونہی کہ وہ خود اپنے وسائل سے کام لینا سیکھے۔یہی وجہ ہے کہ اسلام …نے بار بار عقل اور تجربے پرزوردیا‘‘۱۲۰اس مقصد کے لیے آفاق، نفس اور تاریخ کو ایسے ذرائع علم ٹھہرائے ہیں کہ جن کی مددسے انسان کو استقراء کرنا ہے۔ لیکن یہ نکتہ بھی بھولنے کا نہیں کہ ختمِ نبوتؐ سے یہ غلط فہمی نہ ہو کہ اب صرف عقل ہی کا عمل دخل ہے، جذبات کے لیے اس میں کوئی جگہ نہیں۔اقبال نے اس کا اظہاران لفظوں میں کیا۔’’ ختمِ نبوتؐ سے یہ نہ سمجھ لیناچاہئے کہ زندگی کی انتہا بس یہ ہو کہ عقل جذبات(emotion)کی قائم مقام ہو جائے ۔یہ چیز نہ ممکن ہے نہ مستحسن۔اس عقیدے کی عقلی افادیت اتنی ہے کہ اس سے باطنی واردا ت کو آزاد تنقیدی رنگ ملتا ہے کیونکہ اس یقین سے یہ لازم آتا ہے کہ انسانی تاریخ میں فوق الفطرت سر چشمہ کا منصب ختم ہو چکا۔یہ یقین ایک نفسیاتی قوت ہے جو ایسے منصب کی پیدائش کو روکتا ہے اور اس خیال سے انسان کے اندرونی تجربات میں علم کی نئی راہیں کھلتی ہیں۔‘‘۱۲۱ سوچنے کی بات یہ ہے کہ آخرایسا کیوں ہے کہ اسلام نے تو بہترین حالت میںاستقراء کی دعوت دی مگر اس کے علمبرداروں اور پیرؤں نے اس سے خاطرخواہ فائدہ نہیں اُٹھایا۔وہ آج بھی فکری لحاظ سے اُسی کنوئیں کے مینڈک ہیں جن میں گزشتہ صدیوں سے مسلمان مدّبر محصور ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس کی بہت سی وجوہات ہیںجن کے بارے میں آئندہ ابواب میں تفصیل سے بات ہوگی۔سرِ دست، اُس بات کاتذکرہ کرنا بالخصوص ضروری ہے کہ جوتقریباً غلط العام ہو چکی ہے کہ ایمان(faith)اورایقان(belief)میں بُعدہے۔جہاں ایمان ہووہاںایقان نہیں ہوسکتا کیونکہ ایمان کا تعلق اندھے اعتقاد سے ہے اور ایقان کا تعلق فکرواستدلال سے ہے ۔لہذاان کا آپس میں کوئی تال میل نہیں ہو سکتا جیسے کہ اس خیال کی صدائے بازگشت قنوطی مفکر ابوالعلامعری کے اس شعر۱۲۲ میںسنائی دیتی ہے۔ اثنان اھل الارض : ذو عقل بلا دین و آخر دین لا عقل لٍٍہ اس زمین پر بسنے والوں کی دو قسمیں ہیں،ایک عقل والے جو بے دین ہیں،دوسرے دین دار جو بے عقل ہیں۔ اگراقبال کا خیال درست ہے کہ اسلام سے استقراء کو جلا ملی توسوال پیدا ہوتا ہے کہ ایسی صورت میں انسان کے ایمان اورایقان کو ہم آہنگ رکھنے کی کیاسبیل ہوسکتی ہے؟اس کا جواب دینے کے لیے پہلے یہ جاننا ضروریہے کہ ایمان کی اصل حقیقت کیا ہے؟اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ ایمان غیب سے متعلق ہے، اس لیے یہ اندھے اعتقاد کا نام ہے۔عقلی طور پر دیکھا جائے تو یہ خیال در ست نہیں مانا جاسکتا۔پروفیسرڈاکٹرعبدالخالق نے اس کی وضاحت میں ایک سادہ سی مثال۱۲۳ پیش کی ہے جس کے مطابق بالفرض میں کسی ٹیلی فون ڈائریکٹری میں سے کوئی نام چن لوں اور کہوں کہ میرا اس پر ایمان ہے۔یقینا،یہ بات مضحکہ خیز ہوگی۔ایمان اندھا نہیں ہوتا۔یہ بھی ایک طرح سے تجربے کا ہی انداز ہے۔مثال کے طور پرجب میں کہتا ہوں کہ مجھے اپنے طبیب پر ایمان ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ مجھے اپنے طبیب سے جو واسطہ پڑا ہے، اس کی رُو سے مجھے یہ تجربہ ہوا ہے کہ وہ بہت ماہر اور مہربان ہے اور اس کے ہاتھ میں بڑی شفا ہے۔کچھ یہی معاملہ خدا پرایمان رکھنے کا ہے۔اس سلسلے میںاقبال کامؤقف درست ہے کہ’’ایمان سے مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم چند ایک قضیوں کو بے چوں و چرامان لیں۔برعکس اس کے یہ تیقن اوراعتماد کی وہ کیفیت ہے جس کے لیے انسان کو بڑی نادرواردات اور تجربات سے گزرنا پڑتا ہے اور جس کی اہل صرف وہی شخصیتیںہو سکتی ہیں جونہایت مضبوط ہوں۔‘‘۱۲۴ اقبال ایمان کو اُس پرند کے مثل سمجھتا ہے جو بے منت عقل کے بغیر اپنا بے نشان راستہ دیکھ لیتا ہے۔۱۲۵اس کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ایمان محض احساس نہیں بلکہ اس سے کہیں بڑھ کر ہے۔ اس میں ایک ایسا وقوفی عنصر شامل ہے جس سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ ایمان کے لیے فکرو استدلال کا وجود ناگزیر ہے۔ایمان مذہب کا جوہر ہے۔لہٰذا یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ انسانی تجربات و واردات کی دنیا میں جو تضادات پائے جاتے ہیں،انہیں اندھے اعتقاد کی رُو سے لاینحل چھوڑدیاجائے۔ایمان کے لیے ایسے ایقان کی ضرورت رہتی ہے جسے بذریعہ وجدان حاصل کیا گیا ہو۔ ضمنی طور پر یہ وضاحت کر دینا بھی ضروری ہے کہ ایمان اور ایقان کی دو مختلف صورتیں ہیں۔۱۲۶ .1 ایک صورت وہ ہے جب کسی شے کا شعور اُس وقت حاصل ہو کہ جب وہ شے مادی لحاظ سے موجود ہو۔مثال کے طور پر،’’میراایمان ہے کہ وہ میرا سب سے زیادہ پُر خلوص دوست ہے‘‘ یا پھر’’ میراایقان ہے کہ بادشاہی مسجد لاہور دنیا کی سب سے بڑی مسجد ہے۔‘‘ان قضایا کی صداقت یا جھوٹ کو خارجی شواہد کی رُو سے جاناجاسکتا ہے۔ .2دوسری صورت وہ ہے جب کسی شے کا شعور اُس وقت حاصل ہو کہ جب وہ شے موجود ہو مگرمادی لحاظ سے نہیں۔مثال کے طور پر،’’میراخدا پر ایمان ہے۔‘‘یا پھر’’میراقومی یکجہتی پر ایقان ہے۔‘‘اولاً،یہ قضایا نہیں جملے ہیں کیونکہ قضایا صرف بیانیہ جملے ہوتے ہیں جو کسی خارجی اور طبیعی حقیقت کے گواہ ہوتے ہیں۔لیکن ان جملوں کا تعلق کسی خارجی اور طبیعی حقیقت سے نہیں بلکہ اس فوری ، گہرے اورحضوری نوعیت کے تجربے سے ہے جس کی بنیاد پر کوئی عقیدہ اُستوار کیا جاتا ہے۔ ثانیاً،ان قضایا کی صداقت یا جھوٹ کو خارجی شواہد کی رُو سے نہیں بلکہ محض باطن کی گہرائیوں سے جاناجاسکتا ہے۔ اقبال نے بالخصوص اس تجربے کے خواص گنوائے ہیں۔۱۲۷جیسے، .iیہ تجربہ فوری اور بلاواسطہ ہوتا ہے اور دیگر تجربات سے مختلف نہیں ہوتا۔جس طرح عالم خارجی کے علم کے لیے روحانی واردات کی توضیح کی جاتی ہے بعینہٖ ذاتِ باری کے علم کے لیے رُوحانی واردات کی توضیح کی جاتی ہے۔ .iiیہ تجربہ ترکیبی اور تالیفی ہوتا ہے اس کے دوران مختلف قسم کے مہیجات باہم متحد ہو کر ایک ناقابلِ تحلیل وحدت کی شکل اختیار کر جاتے ہیں۔ .iiiیہ تجربہ عارضی اور انفعالی ہوتا ہے جس کے دوران تجربہ کر نے والی ذات پر تھوڑی دیر کے لیے صرف اور صرف ذاتِ الٰہی ہی کی قربت کا احساس چھایا رہتا ہے۔ نتیجتاً،وہ اس کے دوران دیگرمعاملات سے بے نیاز ہو جاتا ہے۔ .ivیہ تجربہ ناقابلِ ابلاغ ہوتا ہے کیونکہ یہ فکر کی بہ نسبت احساس کے زیادہ قریب ہے۔اس لیے اس کی تعبیر کو کم و بیش تصورات کی صورت میں دوسروں کے سامنے پیش تو کیا جا سکتا ہے مگر بعینہٖ دوسروں کو اسے منتقل کرناممکن نہیں۔ .vیہ تجربہ ذاتی اور منفرد ہوتاہے کیونکہ تجربہ کر نے والی ذات کوقربِ الٰہی کے احساس کے دوران اپنا تجربہ غیر حقیقی محسوس ہونے لگتا ہے۔ اسی ضمن میںپروفیسریوسف سلیم چشتی لکھتے ہیں کہ جب میںنے اقبال سے ایمان اور عقل کے بارے میں استفسارکیا تواس کاکہنا تھا کہ’’یہ دونوں جداگانہ چیزیںہیں۔ بعض لوگ خیال کرتے ہیںکہ یہ ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ بعض کہتے ہیںکہ ایک دوسرے کے معاون ہیں، بعض کی رائے میںعقل بمنزلہ خادم ہے اورایمان مخدوم ہے وغیرہ۔لیکن میری رائے یہ ہے کہ ان کو مخلوط نہ کیاجائے ،دونوںاپنی اپنی جگہ ہیں۔‘‘ان کایہ بھی کہناتھاکہ ’’ایمان کے جس قدرارکان ہیں وہ سب کے سب عقل کے حیطۂ اقتدارسے باہرہیں۔عقل زیادہ سے زیادہ یہ کرسکتی ہے کہ ان کے ممکن یاغیرممکن ہونے کافتوی دے دے۔‘‘البتہ ’’عقل کواس حالت میںمذہبی عقائدیامسلمات پر تنقیدکا حق حاصل ہے جب وہ مسلمات،تحکمانہ(dogmatic)رنگ میںپیش کئے جائیں۔ مثلاً فلاں بات پرایمان لے آؤورنہ نجات نہیںہوگی۔‘‘اقبال کے ان فرمودات سے یہ کھلتاہے کہ اس کے نزدیک ایمان اورایقان کوہم آہنگ رکھنے کی ضرورت اس وقت محسوس ہوتی ہے جب تحکمانہ طرزکے مذہبی مسلمات کے دعوی کئے جائیں۔بے شک اقبال کایہ کہنااپنی جگہ صحیح ہے کہ ’’الحمدﷲ، اسلام میں کوئی dogmaنہیںہے یعنی اسلام کسی بات کوزبردستی نہیںمنواتا۔قرآن میںجس قدر عقائد کی تلقین کرتاہے ان کی راستی پردلائل عقلیہ مرتب کرتاہے۔‘‘۱۲۸اس اعتبار سے دیکھاجائے تواس صورت میںبھی ایقان ایمان کی فکری بصیرت کاباعث ٹھہرتاہے۔ خلاصہ کلام یہ کہ اقبال کے حساب سے ایمان اورایقان کے اپنے حلقے ہیںمگراس کامطلب یہ نہیںکہ ایمان والا بے عقل یاایقان والابے دین ہوتاہے۔ایک توایمان میںوجدانی طورپرایقان کا عنصرموجودہوتاہے۔دوسرے ،فکری لحاظ سے بھی ان دونوں میںہم آہنگی کی سبیل نکلتی ہے کہ جب عقل دین کے دفاع میںیااس کی راستی کوثابت کرنے میں مؤثردلائل پیش کرتی ہے۔اس نسبت سے،اقبال شناس ڈاکٹرجمیلہ خاتون کا کہنانامناسب نہیںکہ’’اقبال عقل کو خیرباد نہیں کہتا، استقرائی طریقۂ کارکو زیادہ سراہتاہے گو اس کاسارازوروجدان اور مذہبی واردات کی طرف مرکوز رہتا ہے لیکن ان کے نتائج کے جوازوہ عقل اورحتی کہ سائنسی علم کی ہی روشنی میںپیش کرنے کی کوشش کرتا ہے۔‘‘۱۲۹ اس حساب سے دیکھاجائے تو لاریب ایمان اس عمیق ترتجربے سے عبارت ہے جس کے لیے جوازبہرحال استقرائی استدلال کے سہارے ہی ڈھونڈا جاتا ہے۔ حواشی ۱۔ ڈاکٹرمحمداجمل،(مترجم)،نشاطِ فلسفہ،وِل ڈیورانٹ،(مصنف)،ص:۵۲ ۲۔ اصل متن یوں ہے : "Reasoning "means" the kind of mental activity in which an individual is trying to arrive at a conclusion on the basis of reasons." see,Richard B.Angell,Reasoning and Logic,p.2 & same is repeated in,p.447 ۳۔ Ibid,p.3 ۴۔ Ibid,p.477 ۵۔ اس مثال کا مرکزی خیال مصنف کی بیان کردہ مثال سے ماخوذہے۔دیکھئے،Ibid,p.478 ۶۔ Ibid,p.449 ۷۔ L.S Stebbing,A Modern Introduction to Logic,p.2 ۸۔ یہ مصنفہ کی بیان کردہ مثال کی تلخیص دیکھئے ، Ibid,pp.1-2 ۹۔ تفکر کے دونوں پہلو حسبِ ذیل تصنیف سے ماخوذ ہیں۔دیکھئے، Irving M.Copi,Introduction to Logic,p.5 ۱۰۔ Sydeny Herbert Mellone,An Introductory Book of Logic,p.6 ۱۱۔ اصل متن یوں ہے: "Logic neither observes,nor invents,nor discovers,but judges.",see, John Stuart Mill,A System of Logic,p.5 ۱۲۔ L.S Stebbing,op.cit,pp.466-468 ۱۳۔ Irving M.Copi,op.cit,p.33 ۱۴۔ John Stuart Mill,op.cit,p.120 ۱۵۔ Irving M.Copi,op.cit,p.33 ۱۶۔ اس خیال کا مرکزی خیال مصنف کی بیان کردہ مثال سے ماخوذ ہے۔دیکھئے،Ibid,p.34 ۱۷۔ اِرونگ ایم کوپی نے اِسے تعمیم شتابی(Hasty Generalization) یا(Reverse Accident) کاعنوان دیا ہے،دیکھئے،IrvingM.Copi,op.cit,pp.67-68 ۱۸۔ ڈاکٹرآغاافتخار حسین،قوموں کی شکست و زوال کے اسباب کا مطالعہ،ص:۱۱۶ ۱۹۔ Sydeny Herbert Mellone,op.cit,p.212 مصنف نے اپنے اسی خیال کااعادہ اپنی دوسری تصنیف میں بھی کیا ہے۔دیکھئے، Sydeny Herbert Mellone,Elements of Modern Logic,p.189 ۲۰۔ William Minto,Logic Inductive and Deductive,p.237 ۲۱۔ John Stuart Mill,op.cit,p.122 ۲۲۔ Issac Asimov,The Intelligent Man's Guide to Science,vol,one,p.10 ۲۳۔ برٹرینڈرسل کے مطابق،جان لاک کے الفاظ یوں ہیں: "God has not been so sparing to men to make them barely two-legged eatures,and left it to Aristotle to make them rational.",see, Bertrand Russell,History of Western Philosophy, p.587 ۲۴۔ W.Stanley Jeavons,Elementary Lessons in Logic:Deductive and Inductive,pp.231-232 ۲۵۔ Sydney Herbert Mellone,An Introductory Book of Logic,p.254 ۲۶۔ William Minto,op.cit,p.286 ۲۷۔ Ibid ۲۸۔ پروفیسرحمیدعسکری،نامورمغربی سائنسدان،ص ص:۱۶۳-۱۶۴ ۲۹۔ عبدالمجیدسالک،(مترجم)،تشکیلِ انسانیت،رابرٹ بریفالٹ،(مصنف)،ص:۲۵۱ علاوہ ازیں،برٹرینڈرسل نے اپنے لیکچر ’’سائنس اورروایت‘‘میںاس کاذکران لفظوں میں کیا ہے، ’’ارسطونے وثوق سے کہا ہے کہ مردوںکی بہ نسبت عورتوںکے دانت کم ہوتے ہیںاگرچہ اس نے دو دفعہ شادی کی لیکن اسے یہ خیال نہیںآیاکہ اپنی بیگمات کے منہ کامشاہدہ کرکے اس بیان کی تصدیق کرے۔‘‘دیکھئے،بشیراحمدچشتی،(مترجم)،معاشرے پر سائنس کے اثرات ، برٹر ینڈرسل، (مصنف) ،ص:۸ ۳۰۔ پروفیسرحمیدعسکری،کتابِ مذکورہ،ص ص:۱۷۸-۱۷۹ ۳۱۔ تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو،ا یضاً،ص ص:۱۶۸-۱۷۰ ۳۲۔ ایضاً،ص:۱۹۷ ۳۳۔ L.S Stebbing,op.cit,p.249 ۳۴۔ John Stuart Mill,op.cit,p.369 ۳۵۔ Thomas Fowler,The Elements of Inductive Logic,p.8 ۳۶۔ Sydney Herbert Mellone,op.cit,p.249 ۳۷۔ L.S Stebbing,op.cit,p.249 ۳۸۔ W.T Stace,A Critical History of Greek Philosophy,p.268 ۳۹۔ John Stuart Mill,op.cit,chapter v,pp.211-239 ۴۰۔ Sydney Herbert Mellone,op.cit,p.246 ۴۱۔ William Minto,op.cit,p.273 ۴۲۔ W.Stanley Jeavons,op.cit,p.224 ۴۳۔ John Stuart Mill,op.cit,p.204 ۴۴۔ Sydney Herbert Mellone,op.cit,pp.247-248 ۴۵۔ Ibid,p.248 ۴۶۔ Thomas Fowler,op.cit,pp.32-37 ۴۷۔ Sydney Herbert Mellone,op.cit,p.250 ۴۸۔ Ibid ۴۹۔ W.E Johnson,Logic,part II,p.197 ۵۰۔ L.S Stebbing,op.cit,p.244 ۵۱۔ Ibid ۵۲۔ W.E Johnson,op.cit,p.197 ۵۳۔ L.S Stebbing,op.cit,p.247 ۵۴۔ Ibid ۵۵۔ Sydney Herbert Mellone,op.cit,p.229 ۵۶۔ Irving M.Copi,op.cit,p.379 ۵۷۔ Sydney Herbert Mellone,op.cit,p.228 ۵۸۔ L.S Stebbing,op.cit,p.254 ۵۹۔ Warren Chase & Fred Bown,General Statistics,pp.236-237 ۶۰۔ William Minto,op.cit,p.366 ۶۱۔ L.S Stebbing,op.cit,pp.384-385 ۶۲۔ Ibid,p.384 ۶۳۔ W.Stanley Jeavons,op.cit,p.219 ۶۴۔ Ibid,p.220 ۶۵۔ Sydney Herbert Mellone,op.cit,p.235 ۶۶۔ John Stuart Mill,op.cit,p.190 ۶۷۔ L.S Stebbing,op.cit,pp.231-232 ۶۸۔ مزید وضاحت کے لیے دیکھئے ،پروفیسرڈاکٹر چوھدری عبدالقادر،تاریخِ سائنس،ص:۲۸ ۶۹۔ Richard B.Angell,op.cit,pp.607-611 ۷۰۔ شہزاداحمد، تیسری دنیاکے مسائل اورسائنسی اِنقلاب،ص:۱۶۴ ۷۱۔ محمداقبال،کلیاتِ اقبال فارسی/ارمغانِ حجاز،ص:۸۵۸ ۷۲۔ For more details,see,William Minto,op.cit,pp.371-373 ۷۳۔ محمداقبال،کلیاتِ اقبال اُردو/بانگِ درا،ص:۱۶۷ ۷۴۔ فقیر سیدوحیدالدین، رُوزگارِفقیر،جلددوم،ص:۱۰۷ ۷۵۔ فاضل شہیرمولٰیناعبدالحکیم خاں اخترشاہجہانپوری،(مترجم)،بخاری شریف، جلداوٌل، امام المحدثین اُبوعبداﷲمحمدبن اسمٰعیل بُخاریؒ،(مصنف) ،کتاب الوحی،ص ص:۱۳۱-۱۳۲ ۷۶۔ خلیفہ ڈاکٹرعبدالحکیم،داستانِ دانش،ص:۱ ۷۷۔ William Minto,op.cit,p.14, and same is repeated in, p.243 ۷۸۔ خلیفہ ڈاکٹرعبد الحکیم،مقالاتِ حکیم،متفرقات،جلد سوم،ص: ۱۳۶ ۷۹۔ اقبال کے الفاظ ہیں: " 'Substance' for modern Relativity-Physics is not a persistent thing with variable states,but a system of interrelated events.",&,"Secondly,the theory makes space dependent on matter.", see, Allama Muhammad Iqbal,The Reconstruction of Religious Thought in Islam, p:31 ۸۰۔ ڈاکٹررضی الدین صدیقی،اقبال کاتصور ِزمان ومکان اوردوسرے مضامین،ص:۱۸۷ ۸۱۔ ایضاً،ص:۱۸۷-۱۸۸ ۸۲۔ شذراتِ فکرِ اقبال، صفحہ نمبر۱۰۵ کے شذرہ بعنوان ’’ہیگل، گوئٹے، غالب، بیدل، ورڈ زورتھ‘‘کے آخرمیںاقبال کا لکھنا ہے کہ ’’ورڈزورتھ نے طالبعلمی کے زمانے میںمجھے دہریت سے بچالیا‘‘اسی تصنیف کے تعارف میں جاویداقبال نے اقبال کے اس بیان کی وضاحت کی ہے کہ وہ دہریت کی طرف کیوںکرمائل ہوئے حالانکہ ان کی تعلیم و تربیت روائیتی اسلامی نہج پر ہوئی تھی اورانہیں ورڈ زورتھ نے کیسے متاثر کیا جس کی بدولت وہ دہریت سے بچ گئے؟‘‘دیکھئے، افتخار احمد صدیقی، (مترجم)، شذراتِ فکرِ اقبال،محمداقبال،(مصنف)،ڈاکٹرجسٹس جاویداقبال،( مرتب)،ص:۲ ۵ ۸۳۔ سیدنذیرنیازی،(مترجم)،تشکیلِ جدید الٰہیاتِ اسلامیہ،ص:۲۴، اصل اقتباس یوں ہے: "To the primitive man all experience was supernatural. Prompted by the immediate necessities of life he was driven to interpret his experience, and out of his interpretation gradually emerged 'Nature' in our sense of the word. "see,Allama Muhammad Iqbal,op.cit,p.13 ۸۴۔ اقبال کے الفاظ ہیں: "There is no doubt that the ancient world produced some great systems of philosophy at a time when man was comparatively primitive and goverend more or less by suggestion.But we must not forget that this system-building in the ancient world was the work of abstract thought which cannot go beyond the systematization of vague religious beliefs and traditions,and gives us no hold on the concrete situations of life." see, Ibid, p.100 ۸۵۔ سیدنذیرنیازی،(مترجم)،کتاب مذکورہ،ص:۷،اصل اقتباس یوں ہے: "...complete independence of thought from concrete experience is not possible."see,Ibid,p.4 ۸۶۔ ایضاً،ص:۶۴،اصل اقتباس یوں ہے: "Natural science deals with matter,with life,and with mind; but the moment you ask the question how matter,life,and mind are mutually related,you begin to see the sectional character of the various sciences that deal with them and the inability of these sciences,taken singly,to furnish a complete answer to your question."see,Ibid,pp.33-34 ۸۷۔ اقبال کے الفاظ ہیں: "The modern man with his philosophies of criticism and scientific specialism finds himself in a strange predicament. His Naturalism has given him an unprecedented control over the forces of Nature,but has robbed him of faith in his own future."see,Ibid,p.147 ۸۸۔ مولاناامین احسن اصلاحی،مبادیٔ تدبرِقرآن،ص:۱۱۲ ۸۹۔ ایضاً،ص:۱۳۲ ۹۰۔ فاضل شہیرمولٰیناعبدالحکیم خاں اخترشاہجہانپوری،(مترجم)،بخاری شریف، جلداوٌل، امام المحدثین اُبوعبداﷲمحمدبن اسمٰعیل بُخاریؒ،(مصنف) ،کتاب مواقیت الصلوۃ،ص ص:۱۳۱-۱۳۲ ۹۱۔ اقبال کے الفاظ ہیں: "...the Quranic Surah known as Shu'ara where the proposition that retribution follows the gainsaying of prophets is established by the method of simple enumeration of historical instances."see,Allama Muhammad Iqbal, op.cit,p.103 ۹۲۔ محمداقبال،کلیاتِ اقبال اردو/بال جبریل،ص:۴۶۰ ۹۳۔ ایضاً،ص:۴۴۶ ۹۴۔ محمداقبال،کلیاتِ اقبال اردو/ضربِ کلیم،ص:۵۵۰ ۹۵۔ اقبال کے الفاظ ہیں: "...positive views of ultimate things are the work rather of Inspiration than Metaphysics."see,Allama Muhammad Iqbal,op.cit,p.91 ۹۶۔ یہ مثال I.T.Ramsey کی تصنیف"Religious Language-an empirical placing of theological phrases"کے صفحہ نمبر69سے مستعار ہے ،جو ڈاکٹر عبدالخالق کے مضمون بعنوان، "Logic of the Qur'an and God-Consciousness" میں حوالہ نمبر۲۵کے تحت مندرج ہے، دیکھئے،Dr.Abdul Khaliq,Qur'an Studies,A Philosophical Exposition, pp.23-24 ۹۷۔ Issac Asimov,op.cit,p.17 ۹۸۔ محمداقبال،کلیاتِ اقبال فارسی/ارمغانِ حجاز،ص:۸۴۹ ۹۹۔ ڈاکٹروزیر آغا،تصواراتِ عشق و خرِد،اقبال کی نظر میں،ص:۱۰۹ ۱۰۰۔ ایضاً،ص:۷۷ ۱۰۱۔ Allama Muhammad Iqbal,op.cit,p.39 ۱۰۲۔ محمدرفیع الدین،حکمتِ اقبال، ص: ۱۱ ۱۰۳۔ اصل اقتباس یوں ہے: "In the history of knowledge,sense perception,reason and intuition, all are combined in an organic whole.He knew fully well that light from one direction alone could not illumine the whole of reality in all its manifestations."see,Jamila Khatoon,The Place of God,Man and Universe in the Philosophic System of Iqbal,p.3 ۱۰۴۔ اقبال کے الفاظ ہیں: " No doubt he has his pitfalls and illusions just as the scientist who relies on sense-experience has his pitfalls and illusions.A careful study of his method, however,shows that he is not less alert than the scientist in the matter of eliminating the alloy of illusion from his experience."see,Allama Muhammad Iqbal,op.cit,p.150 ۱۰۵۔ اقبال کے الفاظ ہیں: "...I call the intellectual test and the pragmatic test.By the intellectual test I mean critical interpretation,without any presuppositions of human experience,generally with a view to discover whether our interpretation leads us to a reality of the same character as is revealed by religious experience.The pragmatic test judges it by its fruits.The former is applied by the philosopher,the latter by the prophet."see,Ibid,pp.21-22 ۱۰۶۔ اقبال کے الفاظ ہیں: "George Fox may be a neurotic;but who can deny his purifying power in England's religious life of his day.?Muhammad,we are told,was a psychopath.Well,if a psychopath has the power to give a fresh direction to the course of human history,it is a point of the highest psychological interest to search his original experience which has turned slaves into leaders of men,and has inspired the conduct and shaped the career of mankind."see,Ibid,p.150 ۱۰۷۔ دیکھئے ،قرآنِ مجید کی سورۃ النمل(۲۷-۴۴) ۱۰۸۔ محمداقبال،کلیاتِ اقبال فارسی/زبورِعجم،ص:۴۳۳ ۱۰۹۔ سیدنذیرنیازی،(مترجم)،کتاب مذکورہ،ص:۱۵۳،اصل اقتباس یوں ہے: "The appropriation of the passing pulse by the present pulse of thought and that of the present by its successor is the ego."see,Allama Muhammad Iqbal,op.cit,p.81 ۱۱۰۔ ریحان اصغرمنیر،خودی:ایک نفسیاتی جائزہ،ص:۱۷، مصنف نے یاجناواکیہ کے بیان کا حوالہ مندرجہ ذیل کتاب سے اخذ کیا،دیکھئے، Dagobert D.Runes,(editor),Treasury of World Philosophy,p.1246 ۱۱۱۔ ڈاکٹر طاہرالقادری، اقبال کا تصورِخودی، مشمولہ، ڈاکٹر وحید عشرت، (مرتب)، اقبال ۱۹۸۵ء ، ص : ۳۰۹-۳۱۰ ۱۱۲۔ سیدنذیرنیازی،(مترجم) ،کتاب مذکورہ ،ص:۱۹۴،اصل اقتباس یوں ہے: "Indeed,the Quran regards both Anfus(Self) and Afaq (World)as sources of knowledge.God reveals His signs in inner as well as outer experience,and it is the duty of man to judge the knowledge-yielding capacity of all aspects of experience." see, Allama Muhammad Iqbal,op.cit,p.101 ۱۱۳۔ فاضل شہیرمولاناعبدالحکیم خاں اخترشاہجہانپوری،(مترجم)، مشکٰوۃ شریف، جلد سوم، امام ولی الدین محمدبن عبداﷲلخطیبؒ، (مصنف) ،کتاب الفتن،ص:۱۲۰ ۱۱۴۔ دیکھئے ،پروفیسرمحمد بشیر متین کامضمون’’بانیٔ اسلام …ایک گمراہ کن اصطلاح‘‘،مشمولہ، فاران ۲۰۰۰ئ،مجلہ ،گورنمنٹ اسلامیہ کالج،سول لائنز،لاہور،ص ص:۳۹-۴۸ ۱۱۵۔ محمداقبال،کلیاتِ اقبال اردو/بال جبریل،ص:۳۷۳ ۱۱۶۔ لطیف احمد شیروانی،(مرتب)،حرفِ اقبال،ص:۱۳۲ ۱۱۷۔ سید نذیر نیازی، (مترجم)، کتاب مذکورہ، ص:۱۹۳ ، اقبال کے الفاظ یوں ہیں: "The birth of Islam,as I hope to be presently to prove to your satisfaction, is the birth of inductive intellect.In Islam prophecy reaches its perfection in discovering the need of its own abolition." see, Muhammad Iqbal,Allama,op.cit,p.101 ۱۱۸۔ نو ٹ :- یہاںلفط’’غربت‘‘ بطورتلمیح بحدیث’’اِ لاَسلامُ جآئَ غریب‘ ‘ استعمال ہوا ہے۔ دیکھئے، محمداقبال،کلیاتِ اقبال فارسی/جاویدنامہ،ص ص:۵۵۰ ۱۱۹۔ شاہ معین الدین احمد ندوی،دین رحمت،ص ص:۱-۲ ۱۲۰۔ سیدنذیر نیازی،(مترجم)،کتاب مذکورہ،ص ص:۱۹۳-۱۹۴،اقبال کے الفاظ یوں ہیں: ...life cannot for ever be kept in leading strings;that,in order to achieve full self-consciousness,man must finally be thrown back on his own resources.The abolition of priesthood and...,the constant appeal to reason and experience in the Qur'an,...are all different aspects of the same idea of finality."see,Allama Muhammad Iqbal,op.cit,p.101 ۱۲۱۔ لطیف احمد شیروانی،(مرتب)،کتاب مذکورہ،ص :۱۳۲-۱۳۳ ۱۲۲۔ یہ شعر ابوالعلاء المعری کے کوائف بیان کرتے ہوئے متن کے حاشیہ میں بیان کیا گیا ہے۔ دیکھئے، عبدالرحمن طاہر سورتی ، (مترجم) ،تاریخ ادب عربی،اُستاذاحمد حسن الزیات، (مصنف)، ص: ۴۶۳ ۱۲۳۔ Dr.Abdul Khaliq,op.cit,p.28 ۱۲۴۔ سیدنذیر نیازی،(مترجم)،کتاب مذکورہ،ص :۱۶۵-۱۶۶ ،اقبال کے الفاظ یوں ہیں: "Iman is not merely a passive belief in one or more propositions of a certain kind;it is living assurance begotten of a rare.Strong experience personalities alone are capable of rising to this experience."see, Allama Muhammad Iqbal,op.cit,p.87 ۱۲۵۔ اقبال کے الفاظ ہیں: "...and faith,like the bird,sees its 'trackless way' unattended by intellect which, in the words of the great mystic poet of Islam,'only waylays the living heart of man and robs it of the invisiable wealth of life that lies within'.",see,Ibid,p.1 اقبال نے اس خیال کو کسی مسلم صوفی کے حوالہ سے قلمبند کیا ہے۔اس کی وضاحت میں سید نذیر نیازی نے حاشیہ میں لکھا ہے، ’’حضرت خواجہ فریدالدین عطار،منطق الطیر میں:- زانکہ ایںعلم لزج چوںرہ زند بیشتر راہ دل آگہ زند اس شعر کی طرف دورانِ گفتگو میں حضرت علامہ نے خود ہی اشارہ کر دیا تھا اور مجھے خوب یاد ہے حضرت علامہ نے یہ شعر اس درد بھرے دل سے نشید فرمایا کہ آنکھوں میں آنسو آ گئے۔‘‘ دیکھئے، ایضاً، ص:۲ لیکن یہی وضاحت ایم۔سعید۔شیخ نے خطبہ اوّل کے حواشی میںیوں بیان کی ہے، "Reference here is to the following verse from the mystical allegorical work : Mantiq al-Tair (p, 243, v. 5) generally considered the magnum opus, of one of the greatest sufi poets and thinkers Farid al- Din 'Attar (d. c.618/1220); لیک آںعلم جدل چُوں رَہ زند بیشتر بر مر دُم آ گہ زند see,Ibid,p.158 ۱۲۶۔ اس سلسلہ میں ڈاکٹر عبدالخالق کے حسبِ ذیل مضمون سے استفادہ کیا گیا۔ "Logic of the Qur'an and God-Consciousness",included in ,Dr.Abdul Khaliq,op.cit,p.28 ۱۲۷۔ اقبال نے اپنے خطبہ اوّل میں بڑی تفصیل کے ساتھ صوفیانہ تجربات وواردات کی خصوصیات بیان کی ہیں، دیکھئے، Allama Muhammad Iqbal,op.cit,pp.14-21 ۱۲۸۔ اقبال کے ان فرمودات کے لیے دیکھئے، پروفیسر یوسف سلیم چشتی،اقبال کے بعض ملفوظات، مشمولہ، اقبال ریویو، مجلہ اقبال اکادمی پاکستان،کراچی،جلد۵،شمارہ نمبر۲، جولائی ۱۹۶۴ئ، ص ص:۳۸-۳۹ ۱۲۹۔ اصل اقتباس یوں ہے: "[Iqbal]does not discard reason and very much appreciates the inductive method,but his whole emphasis is upon intuition and religious experience,the results of which he tries to justify through reason and even in the light of scientific knowledge." see, Jamila Khatoon, op.cit,p.167 باب دوم کلاسیکی استدلال اور فکرِ اقبال (CLASSICAL REASONING AND IQBAL'S THOUGHT) ’’استدلال کی تمام تر بیماریوں کا صرف ایک علاج ہے اور وہ ہے مزید استدلال‘‘ (سقراط) "There is only one remedy for the ills of thoght, and that is, more thought." (Socrates) (W.I Stace, A critical History of Greek Philosophy, P.152) کلاسیکی استدلال کاتاریخی جائزہ (Historical Survey of Classical Reasoning) قبل مسیح دور کا انسانی فکر جس نہج پرمنتج ہوا، اسے کلاسیکی استدلال قرار دیا جاتا ہے۔ عموماً اسے قدیم یونانی استد لال سے منسوب سمجھاجاتاہے جوکافی حدتک صحیح ہے۔کیونکہ تاریخی جائزے سے معلوم ہوتاہے کہ یونانی مفکرین کا استدلا ل دیگر اقوام کے استدلال سے بدرجہاممتاز اور افضل رہا۔اس کی وجوہات ہیںجیسے : .1استدلال کوبحیثیت استدلال متعارف کرانے والے یونانی تھے۔انھوں نے باقاعدہ اس کے منطقی قواعد اور اسالیب کووضع اورمدون کیا۔ .2استدلال کواساطیری روایات اورمذہبی تعلیمات سے ہٹ کرخالص آزادخیالی اوربالغ نظری میںپروان چڑھایا۔ بے شک،قدیم یونانی استدلال، کلاسیکی استدلال کی پہچان ہے لیکن بہت کچھ ہوتے ہوئے بھی اس کا سب کچھ، نہیںکیونکہ قدیم چینی اور ہندوستانی مفکرین کے ہاں بھی کلاسیکی استدلال کا بڑا جانداراوربھرپوراظہارملتاہے،بے شک وہ اسطوری یا مذہبی لبادے میں لپٹا ہوا ہے۔ ویسے بھی کہیںنہ کہیںقدیم چینی اورہندوستانی استدلال،یونانی استدلال سے خاصا قریب ہے۔ عمرانی تحقیقات کے مطابق،کلاسیکی استدلال کاسلسلہ اس وقت اجاگرہواجب قدیم انسان نے اپنے اردگرد کی اشیا ء اور واقعات کاحسی مشاہدہ کیااوران کے متعلق اپنے ذہن میں شبیہیں (images)قائم کیںجس طرح شیشے میں خارج اشیاء کے عکس بنتے ہیں۔ اس وقت کا انسان تجریدی تصورات قائم کرنے سے یکسرنابلدتھا۔وہ ذہنی شبیہوںکی بنیادپر استدلال کرتا تھا ۔انھی کی صورت میں اپنااظہارخیال پیش کرتا تھا۔اس کانتیجہ یہ نکلاکہ قدیم انسان کی زبان بہت زرخیز ثابت ہوئی۔ہر چھوٹی سے چھوٹی شے اورواقعے کے لیے علیحدہ اورمنفردالفاظ وضع کئے گئے اورتو اور آثارِقدیمہ کی کھدائی سے جن عجیب و غریب اشکال کاسراغ ملا ان سے بخوبی واضح ہوتاہے کہ قدیم انسان کی فکر خارجی اشیاء و واقعات سے کس قدرقریب تھی یہاںتک کہ جن شکلوںمیںانسانی سروںکوشکرے نمادکھایاگیاہے یا جن جانوروں کے دھڑ پر انسانی سرجڑا نظر آتاہے یا پھر جہاں کہیںپرندوںکی طرح انسان کی چونچ اورپربنائے گئے ہیں ، وہ ان کے ایسے تخیلات کے ترجمان ہیںجواردگرد کی اشیاء وواقعات کی ذہنی شبیہوں سے تشکیل پائے ہیں۔دراصل اجتما عی زندگی کے بنیادی تقاضے شبیہوں کے آفاقی طرزکے اظہارکاسبب بنے۔جس کانتیجہ یہ نکلاکہ فکر معاشرتی پیداواربن گئی ۔ اگر چہ ہرقبیلے کی بولی منفرد اورمختلف ہوتی مگران کے اظہارکی ذہنی شبیہیں یکساںہوتیں۔ان کی بولیاںان کی ذہنی شبیہوںکا وسیلہ بنتیں ۔ بہت سی قدیم بولیوں کے تجزئیے کے بعدمشہورعمرانی مفکر لیوسین لیوی بروہل(Lucien Levy-Bruhl)اس نتیجے پر پہنچا کہ قدیم معاشروںکی بولیاںمقررین کے اشیاء وواقعات کے بارے میںخیالات و تصورات کوہمیشہ اس طرح بیان کرتی ہیںجس طرح وہ خود مقررین کی آنکھوںسے دکھائی اور کانوں سے سنائی دے رہی ہوں۔چونکہ استدلال کا وا سطہ ذہنی شبیہوںسے تھا،اس لیے ان میںتنوع اور تضادہونے کی وجہ سے استدلال کااظہارمعضلاتی(Paradoxical) روپ میں متشکل ہواجسے الیکٹرون کی ماہیئت کی مثال پر سمجھا جاسکتاہے۔جدیدطبیعیات کے مطابق الیکٹران کاعمل معضلاتی ہے، جو کبھی ذرّوںتوکبھی لہروںکی صورت میں نظر آتاہے۔گویااس کی فطرت دوہری ہے۔کچھ ایسی ہی حالت قدیم زمانے کے فکر ی استدلال کی بھی تھی جس کے اثرات ہرزمانے کے استدلال میںکسی نہ کسی روپ میں موجودہیں۔۱ گذرتے وقت کے ساتھ،معضلاتی روپ کے حامل استدلال نے مکالماتی آہنگ اختیارکیاجہاںقائل ہونے یاقائل کرنے کی روایت نے زور پکڑا اور بالآخر ہندسی اورریاضیاتی اثرات کے تحت استخراجی اسلوب کے روپ میںنمودارہوا جوخصوصاًیونانی مفکر ارسطو کے زمانے تک اس قدر استناد کا درجہ اختیار کرگیا کہ بقول برٹرینڈ رسل، استخراجی استدلا ل کاجمود ٹوٹنے میںکوئی دو ہزاربرس کاعرصہ لگا۔۲ جہاں تک استقرائی اسلوب کا تعلق ہے،اگرچہ وہ استخراجی استدلال کی طرح سند کے درجے تک نہ پہنچ سکا ،مگر ایسا نہیں ہوا کہ اس نے نشو و نما نہ پائی ہو۔وہ ثانوی سہی،موہوم سہی،پھر بھی کسی نہ کسی طور مفکرین کے افکار میں اپنی جگہ بناتارہا۔اس کا انداز ہ قدیم چینی،ہندوستانی اورخصوصاً یونانی استدلال کے جائزے سے بخوبی ہو سکتا ہے ۔ چینی استدلال :(Chinese Reasoning) قدیم چین کے حکیمانہ افکارمیںمستنبط استدلال کی صورتیںموجودہیں۔اگرچہ چینی حکماء نے استدلال کوکبھی باقاعدہ علم کی حیثیت سے متعارف نہیںکرایا۔ان کافکری رجحان زیادہ تر باطن شناسی کی طرف منعطف رہااوروہ انسانی بصیرت اوراخلاقی اقدار کے فروغ کاپرچارکرتے رہے۔اس حوالے سے فنگ یولان(Fung Yu Lan)کا بیا ن قابل ذکر ہے کہ’’سارے کے سارے چینی فلسفی کسی نہ کسی درجے کے سقراط (Socrates) تھے۔‘‘۳ان کے فکری استدلال کا تجزیہ کیاجائے تووہ بڑاجچاتلا،جامع اورمعضلاتی نوعیت کاحامل دکھائی دیتاہے۔وہ اپنے استدلال کو زیادہ تر کہاوتو ں اورضرب الامثال کے روپ میںپیش کرتے تھے،جیسے کہ تاؤتی چنگ (Tao Te Ching) کی ضرب المثل مشہور ہے: ’’جو جانتاہے وہ بولتانہیں،جوبولتاہے وہ جانتا نہیں‘‘۔۴ گویا چینی مفکر دریاکوکوزے میںبندکرنے کے ما ہر تھے۔ان کا مرکزی تصور ہی یہی ہوتاکہ اختصار تفہیم کی جان ہے۔وہ محدودالفاظ میںلامحدودتصورات کوبیان کرنے کی قدرت رکھتے۔زبان کی بہ نسبت فکر کو فوقیت دیتے۔ اس نقطۂ نظر کی وضاحت میںچوانگ تسو (Chuang Tzu) اپنی تصنیف میں لکھتاہے’’ایک جال مچھلیوںکو پکڑنے کے لیے بچھایاجاتاہے۔ایک دفعہ مچھلیاں پکڑی گئیں تو اب کوئی بھی جال کے لیے متفکرنہیںہوتا۔ایک پھندے کو خرگو ش پکڑنے کے لیے تیار کیا جاتا ہے۔ایک بارخرگوش پکڑے گئے تواب پھندے کے بارے میں پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیںرہ جاتی۔الفاظ تصورات کومتعین کرتے ہیں۔ایک دفعہ تصور تصرف میں آگیا تو پھر الفاظ کے بارے میں سوچنے کی کوئی ضرورت نہیں‘‘۔۵ چینی مفکرین کے استخراجی استدلال میں خاصی بوقلمونی ملتی ہے۔ جیسے کنفیوشس (Confucius)کے استدلال میںایک طرح سے قیاسِ مسلسل(sorites) ۶کارنگ غالب ہے۔ مثلاًاس کاخیال تھاکہ ریاست اپنے معاملا ت کی چھان بین کرتی رہے توسلطنت میںامن وامان، خوشی اور راحت قائم رہ سکتی ہے۔اپنے اس خیال کے بار ے میںوہ یوںاستدلال کرتاہے۔ ’’معاملات کی تحقیقات ہوںتوعلم کامل ہوا،علم کامل ہوا تومفکرین کے خیالات میں صداقت پیدا ہوئی، مفکرین کے خیالات میں صداقت پیدا ہوئی تومفکرین کے دلوںکی تقطیر ہوئی۔ مفکرین کے دلوں کی تقطیرہوئی تو لوگ سدھرگئے۔ لوگ سدھر گئے توخاندانوںکی اصلاح ہو گئی خاندانوںکی اصلاح ہو گئی تو ریاستوں کا درست نظام وضع ہوگیا،ریاستوں کادرست نظام وضع ہوگیاتوپوری سلطنت میںامن وسکون اورخوشی وراحت قائم ہوگئی‘‘۔۷ کنفیوشس کے برعکس،چینی سوفسطائی ہوشی تسو(Hui Shih Tzu)کااستخراجی استدلال جدلی نوعیت کاہے اور حسنِ اتفاق سے یونان کے ایلیائی مفکرین سے بے حدمشابہ ہے۔اس نے بھی ایلیائی مفکرزینو(Zeno)کی طرح زمان ومکان،حرکت اورکثرت ِاشیاء کے بارے میں معضلات پیش کئے،مثلاًزمان کوغیرحقیقی ثابت کرتے ہوئے اس کا استدلال یہ ہے ۔’’اگرایک فٹ لمبی چھڑی روزانہ اسکی لمبائی کے نصف کے مطابق چھوٹی کردی جائے تو اگلی دس ہزارنسلوں تک بھی اس چھڑی کی تقسیم کاعمل مکمل نہ ہوگا۔‘‘۸بعینہٖ حرکت کے امکان کو ردکرتے ہوئے ہوشی تسو کااستدلال ہے۔’’ایک تیر انداز دوسرا تیر چھوڑتاہے جوپہلے چھوڑے گئے تیر کی دم سے جا ملتا ہے، بعینہٖ تیسر ا تیر دوسرے تیرکی دم سے جاملتاہے۔علیٰ ہذالقیاس،تیردرتیرایک دوسرے سے جاملتے ہیںحتی کہ تیروںکی ایک قطارسی بندھ جاتی ہے اور ایسامعلوم ہونے لگتاہے جیسے کہ کمان کی رسی تک ایک ہی تیر بندھاہے‘‘۔۹دوسرے لفظوںمیںایک ہی لمبا تیر بندھاہے جس کی لمبائی بڑھتی چلی جاتی ہے۔یہاںتک کہ اس کی دم کمان کی رسی سے جاملتی ہے۔جہاںپروہ ، ستقلاً ساکت ہے۔برٹرینڈرسل کی تحقیقات کے مطابق اسی طرح ہوئی زو(Hi Tzu)ایک خاص طرز کی پہیلیوںکابہت شوقین تھاجویونان کے سوفسطائیوںکوبھی محظوظ کیاکرتی تھیں۔مثلاًاُس کاکہنایہ تھا کہ ایک سرخ گھوڑا اور بھوری گائے تین ہوتے ہیں۔ ان کوالگ الگ شمار کیا جائے تو یہ دو ہیں، دونوںکوملالیاجائے توایک ہوتاہے،دواور ایک مل کرتین ہوتے ہیں۔۱۰ہوشی تسو کاناقدچیونگ تسو (Chiung Tzu)۱۱اس کے طرز استدلال کے بارے میںکہتاہے کہ’’ہوشی تسو نے اتنی تصانیف رقم کیںکہ آپ انہیںتین چھکڑوںپرتولادسکتے ہیںلیکن اس کے استدلال کی قطعاً کوئی وقعت نہیں اور اس کے الفاظ بالکل بے اثرہیں۔‘‘ایک طرح سے دیکھا جائے تو چیونگ تسو کی یہ تنقیدقریباًسبھی سوفسطائیوں کے استدلال پرعائدہوتی ہے۔ چینی استدلال کومنطقی علم کی صورت میںفروغ دینے کاسہراکنفیوشس کے ہم عصراورفکری حریف ماؤ تسو(Mao Tzu) کے سرباندھاجاتاہے،جس نے چینی استدلال کے کچھ بنیادی اصول و ضوابط طے کئے۔اپنے فن بلاغت کوجدلی استدلال کے رنگ میںرنگاتاکہ حریفوںکوبحث ومباحثہ میںمات دی جاسکے۔وہ جدلی مفکرکی تعریف وضع کرتے ہوئے لکھتاہے ۔’’جدلی مفکرسچ اورباطل میںتفریق کرتاہے،منضبط اوربے ترتیب کے بارے میں استفسا ر کرتاہے،الفاظ اور حقیقت کے مابین تعلق کوتلاش کرتاہے،نفع اورنقصان کافیصلہ کرتاہے،شکوک وشبہات کورفع کرتا ہے۔اشیاء کی ماہیت کے بارے میں غوروخوض کرتاہے،بیانات کی مشابہت کوزیر بحث لاتا ہے۔ ناموںکی بدولت حقیقت پر تصرف رکھنے کی کوشش کرتاہے۔الفاظ کی مددسے مفہوم بیان کرتا ہے، تنقید کے باعث کنہ کودریافت کرتا ہے ، کچھ کو مشابہت کے زورپرقبول کرتاہے اوردیگرکومشابہت کے بعد تسلیم کرتاہے۔‘‘۱۲ماؤاستدلال کوایسی کشمکش قرار دیتاہے جوکسی نزاع کی صورت میں پیدا ہو اور بحث مباحثہ کے اختتام پرجوفریق اپنے استدلال کے زور پر جیت جائے، اسی کااستدلال حق پر ہوتاہے۔ اگرچہ چینی مفکرین کااستخراجی استدلال یونانی مفکرین کے استخراجی استدلال کے قریب ہے،لیکن ان کااستقرائی استدلال ان سے خاصا مختلف ہے۔چینی مفکرکیاہوائے(Kia Hway) چینی استقراء کوسریتی استقرائ(Penetrating Induction)۱۳سے تعبیرکرتاہے۔یہ یونانی استقراء کے طرزکانہیںہے جس میںایک جزسے دوسرے جزکی طرف بڑھتے ہوئے بالآخرکوئی تجریدی کلیہ اخذکرلیاجاتاہے۔چینی استقراء ایساتمثیلی استدلال ہے جس میںکسی ایک جزسے دوسرے جزکی طرف بڑھنے کی بجائے ایک ہی جزکی مثال پرایسا کلیہ اخذ کیاجاتاہے جواس جیسے تمام جزئیات پر محیط ہو۔ یہ ایک طرح کا وجدانی استقراء ہے جس کا مقصد اشیاء کی ماہیت (essence)کو آشکارا کرنا نہیں بلکہ اس کے وجود(existence)کے قوانین کومنکشف کرناہے۔ درحقیقت چینی مفکرین کے ہاں،تجریدی تعقلات کاتصور ہی مفقود ہے۔ان کے نزدیک الفاظ قریبی اشیاء کی محض شبیہیں ہیں۔مثال کے طورپرچینی زبان میں’’بوڑھے آدمی‘‘کاتعقل نہیں ملتا۔یعنی چینی زبان میںایساکوئی لفظ مو جود نہیں جوہر طرح کے بوڑھے آدمی کے لیے مستعمل ہو۔ایسا بوڑھا جسے سانس لینا دشوار ہو، ایسا بوڑھا جسے عمدہ خوراک کی ضرورت ہو، ایسا بوڑھا جسے گوشت والی غذا درکار ہو، ایسا بوڑھا جسے فوجی ملازمت سے مستثنی قراردے دیا گیا ہو، ایسا بوڑھا جو اپنی پیرانہ سالی کے باعث قریب المرگ ہو،ایسا بوڑھاجسے اپنے قصبے میںبید کے استعمال کی اجازت مل گئی ہو، وغیرہ۔چینی زبان میںہرایک کے لیے مختلف نام موجودہیںجب کہ بوڑھے آدمی کے عمومی تصورکے لیے ایک بھی لفظ موجودنہیں۔۱۴اس بناء پرچینی مفکرین کے نزدیک، الفاظ شبیہوں کے غمازہیں،تجرید کے نہیں۔اس حوالے سے ان کے خیال میںعمومی کلیہ دراصل وہ لفظ ہے جوہر اس شبیہہ کاترجمان ہے جوایک ہی قسم کی شے سے متعلق ہے۔ اسی خیال کو بڑھاتے ہوئے مشہورچینی سوفسطائی کنگ سن لنگ۱۵(Kung Sun Lung)کاکہناہے کہ عمومی کلیہ کبھی ترکیبی نہیںہوتا۔مثال کے طورپرسفیدگھوڑا،گھوڑانہیںہے کیونکہ گھوڑامخلوق ہے اور سفید محض رنگ۔ بلاشبہ،دنیا میںکئی رنگوں کے گھوڑے موجودہیںاورسفیدرنگ کاگھوڑا بھی ہوتاہے لیکن سفیدرنگ ، گھوڑا نہیںہوتا۔ سفید گھوڑاایسی تر کیب ہے جس میںگھوڑابیک وقت گھوڑابھی ہے اور سفیدبھی۔یوںیہ ترکیب معضلاتی ہے، اس لیے حقیقی نہیں۔دراصل کنگ سن لنگ کے نزدیک گھوڑا،گھوڑاہے اورسفید،سفیدہے۔یہ ایسے عمومی کلیات ہیںجومفردبھی ہیںاور حقیقی بھی۔ ان کی ترکیب سے ہمیشہ ایساجز تشکیل پاتاہے جو نہ مفرد ہے نہ حقیقی ،لہٰذا سفید گھو ڑ ا مخصوص گھوڑے کا مظہرہے۔ اسے عمومی کلیہ قرارنہیںدیاجاسکتا۔کنگ سن لنگ کالکھنا ہے کہ عمومی کلیے کے بغیر دنیا میں کچھ بھی موجودنہیں،لیکن کلیات بذات خودکسی کلیات کے محتاج نہیں۔ مجموعی طورپرچینی مفکرین کاخیال ہے کہ کائنات تضادات سے پُرہے۔ایک طرف مخصوص اشیاء کی نوع(species) ہیںجومرئی ہیں،جن میں تغیرات واختلافات ہیں۔نوع ایسامقرون جزئیہ ہے جوکسی مختلف اور مرکب مقرون شے کی شبیہہ کامظہرہے تودوسری طرف ان کی جنس اعلیٰ (supreme genus)ہے جوغیرمرئی ہے، تغیرات واختلافات سے مبراہے،جنس اعلیٰ ایسا مقرون کلیہ ہے جوایک جیسی مفرداشیاء کی مقرون شبیہوںپرمحیط ہے۔ ایسا تصوروجدانی طورپرکسی مخصوص شے کی تمثیل پرقائم ہوتاہے،اس لحاظ سے چینی مفکرین کااستقرائی استدلال معلوم سے نامعلوم کی طرف نہیںبڑھتا بلکہ نامعلوم سے معلوم کی طرف بڑھتاہے۔کیونکہ بقول فنگ یولان (Fung Yu-Lan) ۱۶چینی روایت کے مطابق،فلسفے کا مقصدطبیعی علم میںخاطرخواہ اضافہ کرنا نہیں بلکہ اس جذبے کوابھارناہے جس کی بدولت اس دنیاسے ماوراہوکراور حتی کہ اخلاقی اقدارسے بڑھ کر اقدار کوحاصل کیاجاتاہے اوربقول لاؤ تسو(Lao Tzu) ایسے فلسفیانہ استدلال کی بدولت، ’’مطالعہ بتدریج پھیلتاہے،صداقت کاراستہ بتدریج سمٹتاہے‘‘۔۱۷ ہندوستانی استدلال :(Indian Reasoning) قدیم ہندوستان میںاستدلال کی باقاعدہ تشہیر نیایا(Nayaya) مکتب فکرمیںنظرآتی ہے۔ نیایاکامطلب ہے، ’’بحث ومباحثہ کاطریقۂ کار‘‘۔نیایاکی مناسبت سے ہندی منطقین نیایکہ۱۸ (Nayayika) کہلاتے ہیں۔ نیایکہ کا استدلال ان کے فلسفے کے لیے ریڑھ کی ہڈی کے مثل ہے اوران کافلسفہ ان کی مذہبی زندگی کے حصول کامحض ایک ذریعہ ہے۔ نیایاکااستقرائی استدلال اپامتیUpamitti) (۱۹ کہلاتاہے جوایساتمثیلی استدلال ہے جس میں ایک جز کی تقسیم کسی دوسرے مشابہ جزکی تفہیم سے کی جاتی ہے۔مثال کے طورپر،اگرکسی شخص نے رینوسر(Rhinoceros)کو کبھی نہ دیکھا ہو اورنہ کبھی اس کے بارے میںسناہو،تواسے سمجھانے کی خاطریہ بتایاجائے کہ رینوسر ایسے ننھے ہاتھی کی مانندہوتاہے جس کے سرپردوسینگ لگے ہوں۔ جس دن اس شخص کوفی الواقع کسی رینوسرکودیکھنے کااتفاق ہو جائے تواس کی یادداشت میںہاتھی کی تمثیل فوراً بازیافت ہوگی اوروہ پہچان لے گا کہ وہ رینوسرہے۔ نیایاکا استخراجی استدلال انومتی۲۰(Anumitti) کہلاتاہے۔جوایساقیاسی استدلال ہے جو پانچ ممبران کاحامل ہے :- .1پراتجنا(Pratijna) :اس سے مراد اقراری قضیہ ہے۔ .2ہیتو(Hetu)اس سے مراداقرارکی وجہ ہے۔ .3ادھارنا(Udaharana) اس سے مراد کوئی مخصوص مثال ہے۔ .4اپانیا(Upanaya) اس سے مراد دئے گئے قضیہ پراطلاق ہے۔ .5نگامانا(Nigamana) اس سے مراد نتیجہ ہے۔ ایسااستخراجی استدلال یوںہوگا : سقراط فانی ہے۔(پراتجنا)یا(اقرار) کیونکہ وہ انسان ہے۔(ہیتو)یا(وجۂ اقرار) ماضی میںتمام انسان فانی تھے جیسے کہ تھیلیز،زینووغیرہ(ادھارنا)یا(مثال) سقراط اسی قسم کاانسان ہے۔(اپانیا)یا(اطلاق) لہٰذاوہ فانی ہے۔(نگامانا)یا(نتیجہ) نیایا نے انومتی کوتین زمروںمیںبانٹاہے : .1پورواوت انومانا (Purvavat Anumana) :اس سے مراد ایسا نتیجہ ہے جواپنے مقدمات سے اخذہو،جیسے کہیں دھواںنکلتے دیکھاجائے تونتیجہ اخذہوگاکہ وہاںآگ بھی ہوگی۔ .2شیساوت انومانا(Sesavat Anumana) :اس سے مراد ایسا نتیجہ ہے جو مطابقت و موافقت کی بناء پرنکالا جائے، جیسے دیگ کے کسی پکے ہوئے چاول کے دانے کودیکھ کریہ نتیجہ اخذ کیا جائے کہ ساری دیگ کے چاول پک گئے ہیں۔ .3سامانیاتودرشٹاانومانا(Samannyatodrsta Anumana) :اس سے مرادایسانتیجہ ہے جو مشترکہ صفت یا خوبی کی بناء پراخذکیا جائے، جیسے سورج کی روزمرہ گردش کودیکھ کرمستقل حرکت کا قانون وضع کر لیاجائے۔ یونانی استدلال :(Greek Reasoning) قدیم یونانی استدلال کامیلان تجریدی تعقلات کی طرف راغب رہا۔اس کی معقول وجہ سائنسی طرز کے تجربات ومشاہدات کی کمیابی اور قیاسی طرزکی ہندسی توضیحات کی فراوانی معلوم ہوتی ہے۔قدیم یونان میںعلم ہندسہ کے ریاضیاتی دعوؤں کو کچھ اسی اندازمیںثابت کیاجاتا تھا جو استخراجی استدلال کے قواعد وقیاس سے مماثل ہے،ویسے بھی یہ حقیقت مسلمہ ہے کہ علم ہندسہ اور استخراجی استدلال دونوںکے اخذ کردہ نتائج میںموادکافرق ہے،طریقۂ استدلال کا نہیں۔اُن دِنوں،علم ہندسہ کے مبلغ مصری تھے۔وہ اس میںطاق تھے اوراس کی خاص وجہ تھی۔۲۱اس زمانے میں مصری اُمراء کی بڑی بڑی زمینیںدریائے نیل کے کنارے آبادتھیں۔جب کبھی نیل میںطغیانی آتی،تواس کاراستہ کچھ نہ کچھ تبدیل ہوجاتا،جس کی وجہ سے زمین کے بعض حصے دریابردہوجاتے اوربعض دریابردحصے دوبارہ خشکی بن جاتے،اس لیے ہر سال زمینوں کی پیمائش کرنا پڑتی۔ اس عملی ضرورت کے باعث مصر میں علم ہندسہ(Geometry)کی بنیا د پڑی،جس کامطلب ہی زمین کی پیمائش ہے۔بہر حال،ان کی وساطت سے یہ علم یونانیوںتک پہنچاتھا۔ اس کا بین ثبوت اہرام مصر کی عظیم تعمیر سے ملتاہے۔فلسفۂ یونان کے جدامجدتھیلیز (Thales)۲۲نے جب مصری مہندس کی طرح علم ہندسہ کی ریاضیاتی باریکیوںپرعبورحاصل کرلیاتواس نے اہرامِ مصر کے سایوں کی نسبت سے ان کی پیمائش کر ڈالی۔ ساحل سمندر سے جہازوںکے فاصلے کوماپنے کاطریقہ ڈھونڈ نکالا۔علم ہندسہ کی بدولت،۲۸مئی۵۸۵قبل مسیح میںسورج گرہن کی ٹھیک ٹھیک پیشین گوئی کی۔ سورج کے قطرکولاکھوںمیل کاقراردیا۔شمسی سال کو۳۶۵دنوں پر محیط کیا۔مہینے کے آخری دن کو تیسواںدن شمار کیا۔جب لڈیاکاحکمران کروسیس(Croesus)اوراس کی فوج دریا ئے ہیلس (Halys) کے پاراترنے میںکامیاب نہیںہورہی تھی تواس نے ایساحربہ استعمال کیاجس سے اس نے دریا کے بہاؤ کارخ موڑدیا۔تھیلیز کے ہم وطن اور شاگرد انیکسی مینڈر (Anaximander)۲۳ نے بھی ہندسی باریکیوں کے بل پر دنیا کا پہلا شمسی گھڑیال،پہلانقشہ اورپہلاگلوب تیارکیا۔تیسرا آیونی مفکر انیکسی منیز(Anaximenes)۲۴ تو علم ہندسہ کے بانیوںمیں شمار ہوتاہے۔چونکہ یہ تینوںآیونی مفکرین علم ہندسہ کی باریکیوں سے بخوبی آگاہ تھے اس لیے ان کے استدلال میںتجریدی رنگ نمایاں ہوا۔انہوں نے پہلی مرتبہ فطرت اوراس کے مظاہر کے بارے میں کسی تجریدی علت کو ڈھونڈنے کی روش اپنائی۔ایک طرف یہ خیال کیا جاتاہے کہ تھیلیزنے میسوپوٹیمیا (Mesopotamia) کے ایکی یا ایا (Eki or Eia)، مصر کے ننNun) (اوریونان کے اوقیانوس (Okeanos)پانی کے نمائندہ دیوتاؤں سے یہ علت اخذ کی۔۲۵دوسری طرف ارسطو لکھتا ہے کہ تھیلیزنے غالباًکائنات کے دقیق اورطویل مشاہدے اور سوچ بچارکے بعد پانی کاتجریدی تصور اخذکیا۔۲۶استدلال ہی کا طریقہ اپنا کرانیکسی مینڈرنے مادے اورانیکسی منیزنے ہوا کو کا ئنات کی بنیادی علت ثابت کیا۔لیکن صحیح معنوں میں ہندسہ کی ریاضیاتی توضیحات اوراستخراجی استدلال کا بانی مبانی فیثا غورث کو قرار دیا جاتاہے۔ اسی نے سب سے پہلے ریاضیات (Mathematics) اور فلسفے (Philosophy)کی اصطلاحات بھی متعارف کرائیں۔اس کے ہاں استخراج،ریاضیاتی استقراء کی نام نہاد صورت میںملتاہے۔ اس معاملے میں پروفیسر برنیٹ (Burnet)بتاتاہے۲۷کہ فیثا غورث اوراس کے حامیاں کا مؤقف تھاکہ اشیاء اعدادہیں۔ان کے نزدیک اگرصرف طاق اعداد کو ’۱‘ سے شروع کرکے بتدریج چو کور طرزمیںترتیب دیتے جائیںتوہمیشہ مربع اعدادحاصل ہوںگے۔مربع اعدادوہ ہوتے ہیںجوکسی مربع شکل کے مساوی اطراف کا حاصلِ ضرب ہوں۔ مثلاً: ۰ ۰ ۰ ۰ ۰ ۰ ۰ ۰ ۰ طاق اعداد (odd numbers) (1) (3) (5) 3 ×2 3× 2 مربع اعداد(4) (9) (square numbers) سی طرح’۵‘ کے بعداگر’۷‘ کاطاق عددلیاجائے تواس کے تمام نقاط کامجموعہ’۱۶‘حاصل ہوگا بعینہ’۹‘کامربع عدد ’۲۵‘،’۱۱‘ کامربع عدد ’۳۶‘ ہوگا اور علیٰ ہذالقیاس۔ اوراگرصرف جفت اعدادکو’۲‘سے شروع کرکے بتدریج مستطیل طرزمیںترتیب دیتے جائیںتوہمیشہ مستطیل اعدادحاصل ہوںگے۔ مستطیل عددوہ ہوتے ہیںجوکسی مستطیل شکل کے غیرمساوی اطراف کاحاصل ضرب ہوں۔مثلاً: ۰ ۰ ۰ ۰ ۰ ۰ ۰ ۰ ۰ ۰ ۰ ۰ جفت اعدا د (2) (4) (6) (even Numbers) 3×2 4× 3 مستطیل اعد اد (6) (12) (oblong Numbers) اسی طرح’۶‘ کے بعداگر’۸‘کاجفت عددلیاجائے تواس کے تمام نقاط کا مجموعہ ’۲۰‘ حاصل ہوگاجو’۵×۴‘ کامستطیل عددہوگا۔بعینہٖ’۱۰‘کامستطیل عدد’۳۰‘،’۱۲‘کامستطیل عدد’۴۲‘ہوگاعلیٰ ہذالقیاس۔ بہرحال اس کے استدلال کاماحصل یہ تھاکہ کائنات کی بنیاداعدادہیں۔اس کی ریاضیاتی تعلیمات سے یہ اخذ ہواکہ فکرحواس سے برترہے اور معقولات محسوسات سے زیادہ حقیقی ہیں۔ بعدازاںیہی نقطہ نظرایلیائی مفکرین کے استدلال میںثابت ہوگیا،جب پارمینڈیزنے ایلیائی مکتب فکرکے باواآدم زینوفینیز(Xenophanes)۲۸کے اس تصور کو ثابت کرناچاہاکہ کثرت میں وحدت اور وحدت میںکثرت ہے،تواس نے ہستی کاتصورپیش کیااوراستخراجی دلائل کے زور پر ثابت کیاکہ وحدت ریاضیاتی معقولات کی طرح مجردہے،جوازلی،ابدی اورحقیقی ہے جو صرف فکر کے ذریعے فہم میںآتی ہے جب کہ کثرت کاتعلق محسوسات سے ہے جو قابل تغیر ہونے کے باعث ازلی،ابدی اورحقیقی نہیں۔پارمینڈیز کے استدلال کے بارے میںویلہلم کیپلے۲۹ (Wilhelm Capelle)کاتجزیہ ہے کہ اس نے خارجی دنیا کے مشاہدے سے استفادہ نہیں کیا، بلکہ اپنی ہی فکر کے بل بوتے پرعمل تجریدکیا۔ جہاںپارمینڈیزنے اپنے استدلال کا سارا زور وحدت کو ثابت کرنے پر صرف کیا، وہاں اس کے پیرو زینو (Zeno)۳۰نے کثرت کوفریب ثابت کرنے کے لیے بڑے پیچیدہ دلائل پیش کئے جن کابنیادی اصول یہ تھا ، ’’اگرکسی مفروضے کومان لیاجائے اوراس مفروضے سے دو متناقض قضیے حاصل ہوں جوبیک وقت صحیح نہیںہوسکتے تووہ مفروضہ جس سے یہ متناقض قضیے اخذہوتے ہیں، غلط ہوگا۔‘‘ زینو کے دلائل کی نوعیت کوجاننے کے لیے ہم ایک انتہائی سادہ سی مثال کاجائزہ لیتے ہیں۔ اس کے نزدیک اگر الف متغیرہوکرب میںتبدیل ہوگیاہے توپھروہ الف نہیںرہا۔اگرالف کا تشخص برقرارہے تووہ تبدیل ہوکرب نہیںبنا۔ گویاحرکت تناقض کوجنم دیتی ہے یعنی جب یہ کہا جاتاہے کہ الف تبدیل ہوکرب بن گیا توگویایہ کہاجارہا ہے کہ الف، الف ہے بھی، اور نہیں بھی۔ اس لیے حرکت کاتصورمنطقی اعتبارسے ناقابل قبول ہے۔زینوکی استخراجی دلیل کومنطقی اصطلاح میںمرکب اقراری معضلہ(Compound Constructive Dilemma)کہاجاتاہے۔منطقی انداز میں اس کی وضاحت یوںکی جاسکتی ہے : اگرالف،ب ہے توالف،الف نہیں۔ اگرالف،الف ہے توالف،ب نہیں۔ یاالف،ب ہے یاالف،الف ہے۔ لہٰذا یاالف،الف نہیں یاالف،ب نہیں۔ نتیجے کی رُوسے اگرالف،الف نہیں تواس کا مطلب یہ ہوا کہ الف کبھی الف نہیںرہ سکتا، اس میںتغیرہے اور اگرالف،ب نہیںتواس کامطلب یہ ہواکہ الف ہمیشہ الف ہی رہتاہے اوراس میں تغیرنہیں۔یوںنتیجے میںدو متناقض متبادلات کااقرارکیاجارہاہے جومنطقی لحاظ سے ممکن نہیں۔ ایک طرح سے تو یہ’ گویم مشکل وگرنہ گویم مشکل‘ والی بات ہو گئی۔ زینو نے کثرت اورحرکت کے بارے میںاسی نہج کے دلائل پیش کئے،مثلاًکثرت کے بارے میںاس کا استدلال ہے: اگرکائنات کی جملہ اشیاء گنی جاسکتی ہیںتوکائنات محدودہے۔ اگرکائنات کی جملہ اشیاء نہیںگنی جاسکتی ہیںتوکائنات لامحدودہے۔ یاکائنات کی جملہ اشیاء گنی جاسکتی ہیںیانہیںگنی جاسکتیں۔ لہٰذا یاکائنات محدودہے یاکائنات لامحدودہے۔ چونکہ نتیجے میںدومتناقض متبادل بیک وقت حاصل ہوئے ہیںلہذاکائنات کی کثرت کا مفروضہ لغوہے۔زینوکی اس دلیل کوبرٹرینڈرسل ۳۱نے نثری اندازمیںیوںپیش کیاہے : ’’اگراشیاء کثیرہیںتوان کی تعداداتنی ہی ہونی چاہئیے جتنی وہ ہیں،نہ کم ہونگی نہ زیادہ۔ اگر ان کی تعداداتنی ہے جتنی وہ خودہیںتوان کی تعدادمحدودہوگی۔‘‘ ’’اگراشیاء کثیرہیںتوان کی تعدادلامتناہی ہوگی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے درمیان ہمیشہ مزیدچیزیں داخل ہوں گی ،اورپھر ان کے درمیان بھی اورہوںگی، لہٰذااشیاء کی تعدادلامتناہی ہے‘‘۔ اس دلیل کی رو سے،اگراشیاء تعدادمیںہیںتوان کی تعدادمحدودبھی ہونی چاہئیے اورلا محدود بھی،اوریہ ناممکن ہے۔چنانچہ کثرت کامفروضہ درست نہیں۔بعینہٖ حرکت کے متعلق زینو کے مشہوردلائل۳۲ یہ ہیں : (1)رسل کے مطابق،زینو کی پہلی دلیل میدانِ مسابقت کی دلیل ہے جسے پروفیسر برنیٹ نے یوں بیان کیاہے ، ’’میدان مسابقت کے سرے پر نہیں پہنچا جا سکتا۔آپ ایک محدودوقت میں لامحدود تعدادکے نقاط کو عبور نہیں کر سکتے۔کسی بھی معلوم فاصلے کے کُل کوطے کرنے سے قبل اس کے نصف کوطے کرنالازمی ہوتا ہے۔ اسی طرح اس نصف فاصلہ کے کل کو طے کرنے سے پہلے اس کے نصف کوطے کرنا ہوتا ہے۔یہ سلسلہ لامتناہی ہوتاہے۔کسی بھی معلوم مکان میں لامحدود تعداد میں نقاط ہوتے ہیں اورآپ ایک محدودوقت میںایک ایک کرکے ان نقاط کوچھونہیںسکتے۔‘‘اس دلیل کی روسے،اگرکسی فاصلے کوطے کرناہے تووہ متناہی بھی ہے،اورلامتناہی بھی،اوریہ ناممکن ہے۔ چنانچہ حرکت کا مفروضہ صحیح نہیں۔ (2)یہ دلیل ایکلز اور کچھوے سے متعلق ہے۔رسل کے مطابق، پروفیسر برنیٹ نے اسے یوںپیش کیا ہے ، ’’ایکلز کچھوے کوکبھی نہیںجاپکڑے گا۔پہلے اسے وہاں پہنچناہے جہاںسے کچھوے نے آغازکیاہے۔اس کے پہنچنے کے دوران کچھوا کچھ آگے بڑھ جائے گا۔ایکلزکوپھریہ فاصلہ پہلے طے کرناہے۔اس دوران میںکچھوا مزید آگے نکل جائے گا۔وہ ہردفعہ نزدیک سے نزدیک ترہوتاجائے گالیکن اس تک پہنچ نہیںپائے گا۔‘‘ اس دلیل کامعاملہ بھی پہلی دلیل جیسا ہے۔کیونکہ ایکلز اور کچھوے کے درمیان حائل فاصلہ متناہی ہونے کے ساتھ لامتناہی بھی ثابت ہوتاہے اور اسی تناقض سے حرکت کامفروضہ قابلِ قبول نہیں رہتا۔ .3رسل کے مطابق،ایک طرف پروفیسربرنیٹ، پروفیسر زیلر(Zeller)کی تجویزکردہ تبدیلیوںکو قبول کرنے کے بعدزینو کی اس دلیل کویوںپیش کرتاہے ،’’پرواز کے دوران میں تیر ساکن ہوتاہے ۔ اگر ہر شے جب اپنی ذات کے برابرجگہ کوگھیرتی ہے توحالتِ سکون میںہوتی ہے، تویہی حال ایک معلوم لمحے میںپروازکرنے والی چیزکابھی ہوتا ہے۔وہ ہمیشہ اپنی ذات کے مساوی جگہ گھیرتی ہے۔اس لیے یہ حرکت میںنہیںہوسکتی۔‘‘ جب کہ دوسری طرف پروفیسر پرانتل (Prantl)نے اسی دلیل کو یوں پیش کیاہے،’’اگرہرشے،جب وہ یکساں طورپرعمل کررہی ہو،مسلسل یا تو حالت سکون میںہویاحرکت میں۔لیکن حرکت کرنے والی چیزہمیشہ حال میںہوتی ہے،تواس صورت میںمتحرک تیر غیرمتحرک ہے‘‘۔رسل کے نزدیک، پروفیسر پرانتل کا نثری اظہار پروفیسر برنیٹ کے نثری ا نداز کی بہ نسبت اپنی قوت زیادہ صاف طورپرسامنے لاتاہے۔ بہرطور،اس دلیل کی رُوسے،ایک ہی وقت میںتیرلامتناہی نقطوں سے گذر ے اور ہر نقطے پرساکن رہے،عقلاًمحال ہے۔ لہذا حرکت کامفروضہ نامعقول ہے۔ (.4)رسل کے نطابق،زینوکی چوتھی اورآخری دلیل سٹیڈیم کی ہے جسے پروفیسربرنیٹ یوں بیان کرتا ہے : ’حرکی اجسام‘ ’پہلی حالت‘ ’احوال اجسام‘ ’دوسری حالت‘ ا ۰ ۰ ۰ (ساکن) ۰ ۰ ۰ ب ۰ ۰ ۰ (متحرک) ۰ ۰ ۰ ج ۰ ۰ ۰ (متحرک) ۰ ۰ ۰ ’’نصف وقت دوگناوقت کے برابر بھی ہوسکتاہے۔ہم اجسام کی تین قطاریں فرض کرتے ہیں۔ان میں سے ایک’ا‘حالت سکون میں ہے جب کہ دوسرے دونوں’ب‘’ج‘ یکساںولاسٹی سے مخالف سمتوںمیںمتحرک ہیں ایسے وقت جب کہ وہ تینوںایک ہی راستے کے کسی خاص حصہ میںہیں،’ب‘جسم’ا‘ کی نسبت’ج‘کے اجسام کی دگنی تعدادسے گزرچکاہوگا۔لہذاوہ وقت جو ’ب‘ جسم’ج‘کے پاس سے گزرنے میںلگاتاہے وہ اس سے دگناہے جتنا وہ جسم’ا‘کے پاس سے گزارنے میں لگاتا ہے۔ لیکن وہ وقت جواجسام’ب‘ اور’ج‘جسم’ا‘کی جگہ تک پہنچنے میںلگاتے ہیں، یکساں ہے۔ لہٰذادوگناوقت نصف وقت کے مساوی ہے۔‘‘اس دلیل کی رُوسے،ایک طرف ’ب‘ اور’ج‘کو’ا‘کی جگہ طے کرنے میںمساوی وقت لگاہے تودوسری طرف اکیلے’ب‘کو’ا‘کی بہ نسبت ’ج‘کوطے کرنے میںدوگناوقت لگا ہے ۔ جس سے بیک وقت وقت کاآدھا اس کے کل کے برابر ثابت ہوتاہے،جوعقلاًمحال ہے۔لہٰذاحرکت کامفروضہ لغو ہے ۔ اس طرح زینوکے معضلاتی دلائل نے جدلیات(dialectics)کو فروغ دیا،جس کے لغوی معنی ہیں ’’بحث کرنے کافن‘‘۔اصطلاحاًاس کامطلب ہے کہ اشیاء مجموعۂ اضدادہیںگویاہرشے میںاس کی ضدموجودہے۔زینونے تو اپنے استدلال میںثابت کیاتھاکہ ایسی جدلیات کاحقیقت سے واسطہ نہیں۔اس کے برعکس، ہراقلیتوس نے اپنے استد لا ل میںاسی جدلیات کوحقیقت عین ثابت کیاجس کے مطابق حقیقی علم وہ ہے جوتناقضات کاحامل ہو۔ہراقلیتوس۳۳جدلیات سے مراد دعویٰ (thesis) اورجواب دعویٰ(Syntithesis)کے باہمی تضادسے ترکیب کاوضع ہونالیتاہے اور اسے کائنات کے تغیرات کابنیادی اصول قراردیتاہے ۔ ایمپیڈوکلیز(Empedocles)۳۴نے استدلال میں اصطفائیت(eclecticism) کو جگہ دی جس سے یہ نئی فکری جہت نمودارہوئی کہ مختلف متضاداورمتناقض نظریات کوکسی مربوط نظام فکر میں سمویاجاسکتاہے۔ایبل رے(Abel Rey)۳۵کی رائے میںدیکھاجائے توسائنس کے بے شمار نظریات کی ترکیب کے رجحان کا آغاز ایمپیڈوکلیزکے استدلال سے ہوا۔اسی نے ایسافکری ڈھانچا مہیاکیاہے جس کی بنیادپرگزشتہ صدیوںکی سائنسی تحقیقات کی ترکیبی صورت تشکیل پائی ہے۔دوسری طرف دیوجانس لیریشیس(Diogenes Laertius)اورتھریسی لس (Thrasyllus) کے مطابق دیمقراطیس(Democritus)وہ پہلایونانی مفکرہے جس نے استدلال کے متعلق کوئی تصنیف تحریرکی۔۳۶جس میںاس نے واضح کیا :- .1وہ علم جوحسی ادراک کی بدولت حاصل ہوتاہے،غیرحقیقی اورمبہم ہے۔ .2وہ علم جوغوروفکرکی بدولت حاصل ہوتاہے،حقیقی اورواضح ہے۔ اسی نے پہلی مرتبہ تعقل کی تعریف وضع کی اوراسے فکری تحقیقات کامعیار قراردیا۔اگرچہ دیگرمفکرین کا استدلال بھی یہی رہا کہ وہی وجودحقیقی ہے جس کاتعلق فکر سے ہو۔لیکن اُن میںسے کوئی بھی مفکر یہ واضح نہ کرسکا کہ حقیقت کو جا ننے کی بنیادآخرفکرہی کیوںہے؟ یہ انکساغورس (Anaxagoras)۳۷کے فکری قیاس کاکمال ہے کہ اس نے پہلی با ر اپنے استدلال میںاس بات کی وضاحت پیش کی کہ حقیقت کاتعلق فکرسے ناؤس(Nous)یعنی عالم گیر یا کائناتی عقل کی وجہ سے قائم ہوتاہے جوکہ تمام ترموجودات کی تشکیل،ترتیب اورتواترکاموجب ہے۔ قدیم یونان کے سیاسی اورمعاشرتی انحطاط کی وجہ سے سوفسطائیہ(Sophists) کاگروہ اپنے جدلی استدلا ل کی وجہ سے بہت مشہورہواتھا۔اُن سے پیشتراستدلال کافن صرف کونیاتی مفکرین کاخاصہ تھااور عوامی سطح پر ابھی کوئی خا ص متعارف نہ ہوا تھا۔ لیکن سوفسطائیہ کے بانی پروٹاگورس (Protagoras)۳۸نے اس فن کو پہلی بارعوام میںعام کر دیا۔یعنی مکالمے کے جس انداز کوزینو ایلیائی نے اپنایاتھا ،سوفسطائی مفکرین نے اسے عوام الناس میں ایک طرح کی ذہنی کشتی کا فن بنا دیا۔جس کے مطابق ،اگرحریف جدلی استدلال کے داؤ پیچ سے واقف نہ ہوتاتواس کی جیت ناممکن ہوتی۔یونانی عوام میںجدلی استدلال کس قدرعام تھا،اسے جاننے کے لیے یہ مثال ہی کافی ہے جس میںایتھنز کی ایک ماں اپنے بیٹے کوسیاسی زندگی سے دوررکھنے کے لیے یہ معضلہ پیش کرتی ہے :۳۹ اگرتم سچ کہوگے تولوگ تم سے ناراض ہوں گے۔ اگر تم سچ نہیںکہو گے تودیوتاتم سے ناراض ہوں گے۔ چاہے تم سچ کہوچاہے، تم سچ نہ کہو۔ لہٰذایالوگ تم سے ناراض ہوں گے یادیوتا۔ اور بیٹے نے جوابی استدلال کیا : اگرمیںسچ کہوںگاتودیوتامجھ سے خوش ہوںگے۔ اگرمیںسچ نہیںکہوںگاتولوگ مجھ سے خوش ہوںگے۔ یامیںسچ کہوںگایامیںسچ نہیںکہوںگا۔ لہٰذایادیوتامجھ سے خوش ہوںگے یالوگ۔ سوفسطائیہ معروف معنوں میں فلسفی نہیںتھے۔ان کابنیادی مقصد بحث ومباحثہ میںمیدان جیتنااورخوب پیسے کماناتھا۔اس ضمن میںاس مکالمے۴۰ کاتذکرہ دلچسپی سے خالی نہ ہوگاجس کے مطابق پانچویںصدی قبل مسیح میں ایوتھلس(Euathlus) پروٹاگورس کے پاس علم قانون کے مطالعے کی غرض سے آیا۔چونکہ ایوتھلس،پروٹاگورس کی فیس اداکرنے کے قابل نہ تھااس لیے دونوںکے درمیان یہ معاہدہ طے پایاکہ جب تک ایوتھلس عدالت میںاپنا پہلا مقدمہ نہ جیت لے،پروٹاگورس اس سے فیس نہیںلے گا۔پڑھائی سے فارغ ہونے کے بعدایوتھلس نے کوئی مقدمہ نہ لیا۔ کافی انتظارکے بعد،پروٹا گورس نے اپنی فیس کے حصول کی خاطرایوتھلس کے خلاف کیس دائرکردیا۔ پروٹاگورس نے عدالت کے سامنے یہ زوردار معضلہ پیش کیا : اگرایوتھلس یہ مقدمہ ہار گیاتواسے عدالت کے حکم کے مطابق مجھے معاوضہ اداکرناہوگا۔ اگرایوتھلس یہ مقدمہ جیت گیاتواسے ہمارے طے شدہ معاہدہ کے مطابق مجھے معاوضہ ادا کرنا ہوگا۔ چاہے ایوتھلس مقدمہ ہار جائے چاہے جیت جائے۔ لہٰذاایوتھلس کویاتوحکم عدالت کے مطابق یاپھرہمارے معاہدے کے مطابق مجھے معاوضہ اداکرناہوگا۔ ایوتھلس کے لیے صورت حال خاصی پریشان کن تھی،مگراس نے اسی سے فن بلاغت کے معضلات سیکھے تھے۔اس نے جوابی استدلال داغ دیا : اگر میںمقدمہ جیت گیاتوعدا لت کے حکم کے مطابق مجھے پروٹاگورس کومعاوضہ نہیں دینا پڑے گا۔ اگر میں مقدمہ ہارگیاتوہمارے طے شدہ معاہدہ کے مطابق مجھے پروٹاگورس کومعاوضہ نہیں دیناپڑے گا۔(کیونکہ معاہدے کے مطابق ابھی تک میںنے کوئی کیس عدالت میں دائر نہیں کیا ) چاہے میںیہ مقدمہ ہارجاؤںیایہ مقدمہ جیت جاؤں۔ لہٰذاحکم عدالت کے مطابق یاہمارے معاہدے کے مطابق مجھے پروٹاگورس کومعاوضہ نہیں دینا پڑے گا۔ آیولس گیلیس(Aulus Gellius)کے مطابق اس زمانے میں،عدالت کے سامنے اس قسم کے منطقی معضلات کوپیش کرنا،یونانی معیوب نہیںسمجھتے تھے کیونکہ سوفسطائیہ کابنیادی مقصد صرف اورصرف دلائل کے فن کومشتہر کرناتھا۔مجموعی طورپر،سوفسطائیہ کی وجہ سے استخراجی استدلال کے یہ اثرات برآمدہوئے : .1علم ہندسہ اورریاضی کی ہیئت سے پیدا ہونے والے،منطقی استدلال پرلسانیت اور خطابت کابلیغ رنگ روپ چڑھ گیا ۔ .2ریاضی کے کلیوں کی طرح استخراجی استدلال کوقطعی اورحقیقی علم کے حصول کی خاطر کارآمد سمجھاجاتا تھا، اب یہ موضوعی اوراضافی حقائق کی تفہیم تک محدود ہوگیا۔ .3استخراجی استدلال کے متناقض دعوؤںکو معنویت دے دی گئی۔اسے لغوقراردینے کا رجحان تبدیل ہوگیا۔ .4استخراجی استدلال کے نتائج توحتمی اورفیصلہ کن رہے مگراس کے بل پرحتمی اورکلی علم کا حصول، تشکیک کاشکارہوگیا۔ .5استخراجی استدلال کاطریقۂ کارخواص سے عوام تک عام ہوگیا۔ دراصل استدلال کے زورپر،دولت کمانے کی روش پروٹاگورس کی قائم کردہ تھی۔اس کی وجہ صاف ظاہرہے کہ اپنی ابتدائی زندگی میںپروٹاگورس لکڑیاںڈھونے والاغریب قلی تھا۔لیکن دیمقراطیس سے استدلال کافن سیکھنے اور فن بلاغت پرعبور حاصل کرنے کے بعدیونان کے بدلتے ہوئے حالات کے تناظر میںاس نے خوب مالی فائدہ اٹھایا۔وہ ہراقلیتوس کے جدلی استدلال سے بہت متاثرہوااوراس نتیجے پرپہنچاکہ حقیقی علم کی ریاضی کے کلیوں سے کوئی مشابہت نہیں۔حقیقی علم صرف محسوسات کاماحصل ہے۔اس کے نزدیک،ہوتایوںہے کہ جب کسی کوکسی شے کااحساس ہوتاہے تو ایک حرکت خارج سے آتی ہے اورایک حرکت باطن کے اندر سے ابھرتی ہے۔ان دوحرکتوں سے محسوسات کی تشکیل ہوتی ہے۔حرکت چاہے خارجی ہویاباطنی،اس کی اصل ماہیت سے آگہی نہیں ہوسکتی،صرف اس مظہر سے شناسائی ہوسکتی ہے جوان دوحرکتوںکانتیجہ ہے۔اس بناء پرجو فرد جو بھی محسوس کرے،وہ اس کے لیے سوفیصد صحیح ہوگا اور یوںغلطی کا احتمال نہیں ہوگا۔ نتیجتاً ہر انسان ہر شے کاپیمانہ ہوگا۔اس کابھی کہ جوکچھ ہے اوراس کابھی کہ جو کچھ نہیںہے۔اس طرح پروٹاگورس نے موضوعیت کوحرف آخرشمارکرکے ریاضیاتی کلیات کی معر وضیت کے لیے کوئی جگہ نہ چھوڑی۔ معروضیت کے تابوت میںآخری کیل گورجیس(Gorgias)۴۱کے دعوؤںنے ٹھونک دی۔اس نے معضلاتی دلائل ہی کی بنیاد پرثابت کردکھایاکہ : .1قطعی طورپرکچھ بھی موجودنہیں۔ .2اگرکچھ موجود ہے توقطعی طورپرجانانہیںجاسکتا۔ .3اگرکچھ جاناجاسکتاہے توقطعی طورپرقابل ابلاغ نہیں۔ سو فسطائیہ کی موضوعیت اورتشکیک نے علم کی صداقت کوجس قدرگزندپہنچایا،اسے سقراط کی فکری بصیرت نے پہچان لیا۔اس نے ازسرنوعقل کوعلم کامعیارقراردینے کے لیے اپنے زمانے کے مکالماتی طریقۂ کار کا جائزہ لیااور اس نتیجے پرپہنچاکہ ہردواشخاص کے درمیان متفق نظریات و خیالات ہوسکتے ہیں،بشرطیکہ ان کی گفتگو کے مابین تعقلات کی نشاندہی کرلی جائے،جن کے متعلق بحث مطلوب ہو۔تعقلات کووضع کرنے کی خاطراس نے مخصوص طنزیاتی طریقۂ کا ر وضع کیا جس میں ایک طرح کے استقرائی استدلال کی طرح ڈالی اورمختلف اشیاء کے مابین تعمیم پیدا کی، جس سے علم کو معروضی صداقت اورایقان نصیب ہوا۔نتیجہ یہ نکلاکہ عقل کاکھویاہوااعتمادبحال ہوا۔ دراصل سقراط نے زینوسے جدلیات کافن سیکھاتھا۔سوفسطائیوں سے جدلیاتی طرزبلاغت کی شناسائی حاصل کی تھی۔بنیادی طورپراسے ریاضی،علم ہندسہ، فلکیات، طبیعیات، مابعدالطبیعیات، وغیرہ میںکوئی دلچسپی نہ تھی۔اس کاپسندیدہ موضوع مطالعۂ انسان تھا۔وہ خودشناسی کے حوالے سے ان اخلاقی اقدار کی معروضی اقدارکومتعین کرنے کامتمنی تھاجن کی بنیادوںکو سوفسطائیہ نے خاکستر کرکے رکھ دیا تھا۔ اسی حوالے سے،اس نے اپنا مخصوص طنزیاتی اسلوب وضع کیاتھا،جواس طرز۴۲ کا ہوتا جیسے :- ’’سقراط ،بقراط(Hippocrates)سے ہم کلام ہے اورپوچھتاہے،اگرکوس(Cos)کابقراط تمہیں پڑھائے اورپڑھانے پرتم اسے معاوضہ دو،تووہ کس حیثیت میںتم سے رقم لے گا،بقراط نے جواب دیا۔’’ایک طبیب کی حیثیت سے‘‘۔لیکن اگرتم چاہوکہ پولی قلیتھس(Polycletus) یا فیڈاس(Phidias)تمہیں پڑھائیں اور تم انہیںاس کا معاوضہ دو توکس حیثیت سے وہ اسے لیں گے،بقراط کاجواب تھا۔’’بحیثیت مجسمہ ساز‘‘۔اسی طرح کے سوالات کے بعدایک دم سقراط پوچھتا ہے۔ لیکن کس حیثیت سے پروٹاگورس تم سے رقم لے گا، بقراط نے جواب دیا۔ ’’وہ ایک سوفسطائی کے طورپرمشہورہے۔‘‘گویاتم اسے سوفسطائی ہونے کی حیثیت میں معاوضہ دینا چا ہو گے؟ سقراط نے پوچھا۔بقراط نے جواب دیا۔’’یقینامیں دوں گا‘‘۔سقراط کا اگلا سوال تھا ’’اور بقراط اگر تم سے پوچھا جائے،تم بننا چا ہو گے ،کیا ایک چوکناپروٹاگورس ؟اوراگریہ صورت حال گذشتہ احوال سے مختلف نہیںتویقیناتم سوفسطائی بن جاؤگے۔‘‘ یہاںمسئلہ درپیش یہ ہے کہ سوفسطائیہ کی تعریف کیاہو،سوفسطائیہ کس فن میںسبقت رکھتے ہیں،بیان کردہ تمام مثالوںکوشمارمیںلانے کے بعدسقراط بقراط کویہ تسلیم کرلینے پرمجبورکرلیتاہے کہ پروٹاگورس بیان کردہ مثالوںکے زمرے میںنہیںآتا۔سقراط پھرپوچھتاہے’’وہ کون سا موضوع ہے جسے پروٹاگورس اپنے شاگردوں کو پڑھاتا ہے۔‘‘ بقراط کہتا ہے۔’’میںنہیںجانتا کہ اس کاکیاجواب دوں۔‘‘یہ سقراط کاوہ طنزیاتی طریقہ کارہے جس میںوہ کئی وضاحتی قسم کے سوالات پوچھتا ہے، پھر اپنے مخاطب کے تناقضات کو اجاگر کرتاہے اور بالآخر اسے ان تناقضات سے آشنا کرتاہے۔ اپنے طنزیاتی طریقۂ کارمیںسقراط نے’’تعریف‘‘کواہمیت کیوںدی،اس کی وضاحت افلاطون نے اپنی تصنیف فیڈو (Phaedo) میںبیان کی ہے جس کے مطابق سقراط نے خارج شناسی کے بارے میںکونیاتی مفکرین کے افکار کا بغورجائزہ لیاتھااور اس نتیجے پرپہنچاتھاکہ وہ ہر شے کی قطعی علت ڈھونڈتے رہے اوران کی میکانکی توجیہہ پیش کرتے رہے،گویاوہ یہ جاننے کے متمنی رہے کہ ہر شے ویسی کیوں ہے جیسی کہ وہ ہے اوروہ ویسے کیوںبن جاتی ہے جیسے کہ اسے بننا ہوتاہے۔اس بناء پرمختلف النوع نظریات وضع ہوئے۔اس کے برعکس،سقراط یہ جاننے کا خواہاں تھا کہ ہر شے کی علت کو جاننے سے کہیں ضروری یہ ہے کہ اس کی منطقی تعریف کو ڈھونڈا جائے کیونکہ اسی کی بدولت ہر شے جو ہے،وہ ہے اوروہ ویسی ہے کیونکہ اس کے لیے موزوںترین ہی یہ ہے کہ وہ ویسی ہو۔منطقی تعریف کے لیے اس شے کی جنس(genus)اور فصل(differentia) درکار ہوتی ہے۔جنس سے مراد ایسی بڑی جماعت ہے جس میں چھوٹی جماعتیں شامل ہوں جیسے حیوان کی جماعت میںانسان کی جماعت شامل ہے ۔جب کہ فصل سے مرادوہ صفت ہے جونوع (species) کو اس کی جنس سے ممیزکرتی ہے۔نوع سے مرادوہ چھوٹی جماعتیںہیںجوکسی بڑی جماعت میںشامل ہوںجیسے انسان کی جماعت حیوان کی جماعت میںشامل ہے ۔ظاہر ہے کہ نوع ’انسان‘ کی جماعت کوجنس ’حیوان‘کی جماعت سے ممیز کرنے والی صفت انسان کاعاقل ہونا ہے۔اس لیے ’عاقل ہونا‘فصل ہوا۔اب چونکہ ’تعریف‘ برابرہے ’جنس‘جمع ’فصل‘،اس لیے انسان کی منطقی تعریف عاقل حیوان ہوئی جس کی بدولت ہرکوئی اختلاف سے محفوظ رہے گا۔مختصر یہ کہ اس کے ایسے طنزیاتی اسلوب کامقصودکسی بھی شے کی تعریف کو اجاگر کرنا ہوتا جو درحقیقت ایساتعقل ہوتا جو کثیرمتغیر جزئیات کی مشترکہ صفت کی بدولت بطورسرمدی کلیہ کے اخذہوتا۔اس کا ایقان تھا کہ ایسا تعقل کبھی وضع نہیںہوتابلکہ محض دریافت ہوتاہے۔ اس حساب سے سارے کا سارا علم محض بازیافت کاعمل ہے۔ صداقت کاانحصارتعقلات پرہے۔ریاضیات کے شیدائی افلاطون نے سقراط کے اسی تصور پراستدلال کیااورپارمینڈیزکے طرزپرحواس کی دنیائے موجودات کوفریب اورعقل کی دنیائے امثال کوحقیقت ثابت کیا۔جہاںدنیائے موجودات کے لیے بصارت اوردنیائے امثال کے لیے بصیرت درکار ہے۔اس سلسلے میں دیوجانس لیریشیس لکھتا ہے کہ ایک دفعہ دیوجانس نے افلاطون سے استفسارکیا۔’’کہ میںپیالے اورمیزکوتودیکھ سکتاہوںمگرمیںپیالے اورمیز کاتعقل نہیںدیکھ سکتا‘‘۔افلاطون نے جواب دیا۔یہ سمجھناتوبہت آسان ہے۔میزاورپیالے کودیکھنے کی حسی بصارت تم رکھتے ہومگرپیالے اورمیزکے دیکھنے کی عقلی بصیرت تم نہیں رکھتے۔‘‘۴۳اس نے تعقلات کے مراتب کاایسانظام وضع کیاجس میںمقرون اشیاء سے مجرد تعقلات اخذہوتے اوران اخذشدہ تعقلات کوان سے بھی وسیع ترتعقلات میں ضم کیاجاسکتا۔مجرد تصورات کی تحویلیت کا سلسلہ چلتے چلتے بالآخر ایک ایسے وسیع ترمجرد تعقل پر پہنچ کر رکتا جہاں تعقلات کی تحویلیت کی گنجائش نہیںرہتی۔افلاطون نے ایسے اعلیٰ وارفع مجردتعقل کوخیراعلیٰ سے عبارت کیا۔سادہ سی شکل میں تعقلات کے مراتب کویوںسمجھاجاسکتاہے : خیراعلیٰ عملِ جماعت بندی عملِ تقسیم کثرت میںوحدت شے وحدت میںکثرت بے جان جاندار ٹھوس،مائع،گیس انسان،پودے،جانور دراصل،عمل جماعت بندی(classification) اورعمل تقسیم(division) افلاطون کی جدلیات کے دو متناقض روپ ہیں کیونکہ عمل جماعت بندی کی نوعیت ترکیبی اورعمل تقسیم کی نوعیت تحلیلی ہے۔عمل جماعت بندی سے استقرائی اورعمل تقسیم سے استخراجی استدلال کا جواز نکلتا ہے۔ زیلر(Zeller) کی رائے میں،مابعدافلاطونی منطق کے تخم افلاطون کے ہاں ملتے ہیں۔اگرچہ منطقی استدلال کی کوئی مربوط اورجامع تعمیروترقی کہیں نہیںملتی۔۴۴ افلاطون کی وفات کے بعداس کی درسگاہ کے پیروؤںمیںسے ارسطو اور سپیوسیپس (Speusippus)کے ماسوا کسی نے بھی منطقی استدلال میںکوئی خاص دلچسپی نہیںدکھائی۔ جہاںتک سقراط کے دیگرپیروؤںکاتعلق ہے تووہ صرف سقراط کے نظریۂ اخلاق سے متاثر ہوئے اوراس میںخاطر خواہ اضافہ بھی کیامگرانہوںنے سقراط کے استدلالی طرز کونہ صرف نظرانداز کیابلکہ اسے گزندبھی پہنچایا۔ کیونکہ وہ سوفسطائیوں کے استدلالی سحرمیںہی گرفتار رہے۔ سقراط کی وفات کے بعد اس کے پیروکارتین مکاتب میں بٹ گئے :- .1مکتب سیرینہ (Cyrenaic School) .2 مکتب میگاریہ (Magarian School) .3 مکتب کلبیہ (Cynic School) ان میںسے مکتب سیرینہ نے تواستدلال کی طرف سرے سے دھیان ہی نہیں دیا۔ میگار یہ نے استدلال کا ایک نیاطرزمتعارف کرایاجس میںحریف کے استدلالی نتائج کونا معقولیت میں تحویل کردیاجاتا۔دیوجانس لیریشیس کاکہناہے۴۵ کہ یہ حضرات مدمقابل کے مقدمات پہ فکری دھاوانہ بولتے بلکہ ان کے نتائج کو ہدف تنقید بناتے اور ان کااپنااستدلال ایسے سوالات پر مشتمل ہوتاجن سے بالآخر تناقضات ابھرتے۔یہ حضرات جدلیات کے زورپر بحث و مباحثہ کو کار زار بنانے کا ملکہ رکھتے۔مثلاً : ایوبیولائیڈزEubulides) (کااستدلال بعنوان جھوٹا (The Liar)۴۶بہت مشہور ہے جس کا انداز یہ ہے۔ ’’کیاکوئی جھوٹ بولتاہے،جب وہ یہ کہہ رہاہوکہ وہ جھوٹ بولتاہے؟‘‘ یہ جانناکوئی مشکل نہیںکہ اس کے دوہی جواب ہوسکتے ہیں۔ یاتوکوئی جھوٹ بولتاہے یاکوئی جھوٹ نہیںبولتا۔ اس کے ثبوت میںان کااستدلال ہے : .1اگرکوئی جھوٹ بولتاہے،تووہ جھوٹ نہیں بولتاکیونکہ وہ کہہ رہاہے کہ وہ جھوٹ بولتاہے لہٰذاوہ جھوٹ نہیں بولتا۔ .2اگرکوئی جھوٹ نہیںبولتا،جبکہ وہ کہہ رہاہے کہ وہ بولتاہے تواس کامطلب یہ ہواکہ وہ جھوٹ بولتاہے۔ ایسے استدلال سے دونتیجے سامنے آتے ہیں۔ .iجوجھوٹ بولتاہے وہ جھوٹ نہیںبولتا۔ .iiجوجھوٹ نہیںبولتاوہ جھوٹ بولتاہے۔ یہ ایسامعضلہ ہے جوبالکل واضح ہے لیکن ابھی تک تسلی بخش طریقے سے حل نہیںہوا۔یہی استدلال’جھوٹے حلف‘(Perjury)کے عنوان سے بھی جاناجاتاہے۔جس کااندازیہ ہے : ’’کیاکوئی جھوٹاحلف اٹھانے والاواقعی جھوٹا حلف اٹھانے والاہے؟جب کہ وہ یہ قسم اٹھاتا ہے کہ وہ جھوٹا حلف اٹھانے والاہے۔‘‘ان کے سبھی معضلات اسی نوعیت کے ہوتے۔ کلبیہ۴۷نے بھی سقراطی استدلال سے انحراف کیا۔ان کے نزدیک،حقیقت کا تعلق فردسے ہے، کلیات کا کوئی وجودقرین قیاس نہیں۔تصورات اشیاء کے اظہارکے لیے محض نام ہیںجن میں کسی صفت کوشامل نہیںکیاجاسکتا گویا’’انسان نیک ہے‘‘کہناصحیح نہیںکیونکہ’’انسان،انسان ہے‘‘ اور ’’نیک،نیک ہے۔‘‘دونوںمختلف تصورات کے نمائندہ نام ہیں۔اس لحاظ سے سقراطی طرز کے تعقل کو وضع کرنے کاسوال ہی پیدانہیںہوتا۔تعقل تومحض نام ہے اور بس۔ کلبیہ کے نزدیک، ان کے استدلال کاافادہ یہ ہے کہ تناقضات سے چھٹکارا ملے گا۔بحث مباحثہ فضول رہے گا۔ مغالطے نہ ہوںگے جس سے صداقت کاحصول آسان رہے گا۔کلبیہ کاایقان ہے کہ دوحریفوں کے درمیان تناقضات تبھی پیداہوتے ہیںجب ان کی آراء دومختلف اشیاء کے بارے میںمختلف ہوں۔ ایک ہی شے کے بارے میں دو آراء ہوہی نہیںسکتیں بشرطیکہ اس شے کے نام کا تعین یعنی تعقل وضع ہوچکا ہو۔دیو جانس لیریشیس لکھتا ہے۴۸ کہ کلبیہ کابانی اینٹی ستھنیز(Antisthenes) وہ پہلایونانی مفکرہے جس نے حکم(judgment)کے منطقی تصور کی باقاعدہ تعریف وضع کی ۔جس کے مطابق ’’حکم وہ ہے جو یہ ظاہرکرے کہ کوئی شے کیاہے اور کیا تھی‘‘۔ یہاںشے سے مراداس کے نام کے بارے میںفیصلہ کرناہے۔ فکری استدلال کوباقاعدہ علم کی سندعطاکرنے والاارسطوہے جس نے استدلال کے بارے میںباقاعدہ قواعدوضوابط طے کئے اوربقول اینگلز(Engels)۴۹،دیمقراطیس کی ان منطقی تصانیف سے قطعِ نظر،جوحوادثِ زمانہ کی نذرہوئیںاوردستیاب نہ ہوسکیں،ارسطونے انسانی فکرو استدلال کے قواعدوضوابط کومطالعے کامقصودبنایا۔اس نے جدلیاتی استدلال کے مبادیات کاتجزیہ کیا۔ بحوالہ انڈرونیکس(Andronicus)۵۰ارسطونے استدلال کے علم کوچھ علیحدہ علیحدہ تصانیف میںرقم کیاجن کوبعدازاںبعنوان آرگنون(Arganon)ایک ہی تصنیف کے روپ میںمدون کیا گیا۔ آرگنون کامطلب ہے آلہ(instrument)۔آرگنون ان تصانیف پرمشتمل ہے : .1 مقولات (Categories) :یہ تعقلات کی بنیادی جماعتوں سے متعلق ہے ۔ .2تعبیر(On Interpretation): یہ حکم اور قضیہ کے تجزئیے سے متعلق ہے۔ .3 اول تحلیلیات(The First Analytics) :یہ قیاس کے نظریے سے متعلق ہے۔ .4آخری تحلیلیات(The Second Analytics) :یہ سائنسی توضیحات سے متعلق ہے ۔ .5موضوعات (Topics) : یہ فن جدلیات سے متعلق ہے ۔ .6متعلق سفسطی تردیدوتغلیط (On Sophistical Refutations) : یہ سفسطی دلائل کی تردید اور تغلیط کے متعلق ہے ۔ آرگنون کے علاوہ،مابعداالطبیعیات(Metaphysics) اور ڈی اینما (De Anima) وغیرہ میں بھی ارسطوکے منطقی استدلال کے بارے میںمواد ملتاہے۔ارسطو نے باقاعدہ طور پر استخراجی اور استقرائی استدلال کے بارے میںقواعد۵۱وضع کئے۔ اس کاخیال تھا،استخراجی استدلال ایسا قیاس(syllogism)ہے جس میں بالترتیب کبریٰ(major)اورصغریٰ minor) ( مقدمات (premises) سے نتیجہ(conclusion) اخذکیا جاتاہے۔مثلاً : وہ تمام جو پتیّ کے بغیرہیں،طویل العمر ہوتے ہیں۔ (مقدمہ کبریٰ) وہ تمام جوپتیّ کے بغیرہیں،انسان، گھوڑااورخچرہیں۔ (مقدمہ صغریٰ) لہٰذاانسان،گھوڑااورخچرطویل العمرہوتے ہیں۔ (نتیجہ) مقدمہ کبریٰmajor premise) (وہ مقدمہ ہے جس میںحدِاکبرmajor term) (پائی جائے۔حدِاکبروہ حدہے جومقدمہ کبریٰ بطورموضوع یامحمول اور نتیجہ میں لازماً بطورمحمول موجود ہو جیسے، طویل العمرکالفظ اس مثا ل میںحدِاکبرہے۔مقدمہ صغریٰminor premise) ( وہ مقدمہ ہے جس میںحدِاصغر(minor term)پا ئی جائے ۔ حدِاصغروہ حدہے جو مقدمہ صغریٰ میں بطور موضوع یا محمول اورنتیجہ میں لازماً بطورموضوع موجود ہو جیسے ،انسا ن ، گھوڑااورخچر کے الفاظ اس مثال میں حدِاصغرہیں۔نتیجہ(conclusion)وہ قضیہproposition) (ہے جس میںحد ِمشترک (middle term)غائب ہو۔حدِمشترک وہ حدہے جو مقدمہ کبریٰ اور مقدمہ صغریٰ دونوںمیں مشترکہ طور پر موجود ہو لیکن نتیجے میںغائب ہو۔جیسے،پتاّکالفظ مثال میںحد ِمشترک ہے۔اس کے برعکس،اس کا خیال تھاکہ استقرائی استدلال میںحدِاکبریاحدِاصغرمیںسے ایک حدِمشترک کاکام دیتی ہے جب کہ دوسری نتیجہ کی بنیادبنتی ہے۔مثال کے طورپر :- انسان،گھوڑااورخچرطویل العمرہوتے ہیں۔ وہ تمام جوپتیّ کے بغیرہیں،انسان،گھوڑااورخچرہیں۔ لہٰذاوہ تمام جوپتیّ کے بغیرہیں،طویل العمرہوتے ہیں۔ استخراجی اوراستقرائی استدلال کوعلامتی اندازمیںڈھالنے سے ان کاواضح فرق نمایاں ہو جاتا ہے۔ (حدِاکبر) =P طویل العمری، (حدِمشترک) =M پتاّ، (حدِاصغر)=S انسان،گھوڑااورخچر (قضایا) استخراجی استدلال استقرائی استدلال (مقدمہ کبریٰ) P M P S (مقدمہ صغریٰ) S M S M (نتیجہ) P S P M اس کا موازنہ کر نے سے ظاہرہوتا ہے کہ استقراء میںاستخراج کانتیجہ،مقدمہ کبریٰ اور استخراج کا مقدمہ کبریٰ، نتیجہ بن جاتاہے جبکہ استخراج کے مقدمہ صغریٰ کی حدِا صغر،استقراء میں حد ِمشتر ک بن جاتی ہے۔بعینہٖ استخراج کے مقدمہ صغریٰ کی حدِمشترک استقراء میںحدِاصغربن جاتی ہے۔یوںاستقرائی قیاس میںحد ِاصغر،حد ِمشترک کاکام دکھاتی ہے اورحدِا کبرنتیجے کی بنیادبنتی ہے۔ اسی کوایک اورسادہ سی مثال سے سمجھتے ہیں : استخراجی استدلال استقرائی استدلال تمام انسان فانی ہیں۔ سقراط فانی ہے۔ سقراط انسان ہے۔ سقراط انسان ہے۔ لہٰذاسقراط فانی ہے۔ لہٰذاتمام انسان فانی ہیں۔ بطورماحصل،استخراجی استدلال میںحدِمشترک کے توسط سے حد ِاکبر کا حد اصغر سے رابطہ قائم ہوتاہے جبکہ استقرائی استدلال میںچونکہ حدِاصغرحدِمشترک کاکام دکھا رہی ہے، اس لیے اس کے توسط سے حدِاکبرکا حدِمشترک سے رابطہ قائم ہوتاہے، یہاںحدمشترک حداصغرکاکام دکھارہی ہے۔ارسطولکھتاہے کہ’’استقرائی استدلال وہ ہے جس میں کسی فردسے کوئی عمومی نتیجہ اخذ کیا جائے۔ مثلاً،اگرکوئی بہترین پائلٹ اپنے پیشہ میںانتہائی ماہرہواوروہی شخص ایک کوچ چلانے کابھی بہترین ماہرہو تواس سے یہ عمومی نتیجہ نکلے گاکہ ہرتجربہ کاراپنے پیشے میںانتہائی ماہر ہے۔ استقرائی استدلال زیادہ قابل اعتماد،واضح،قابل ادراک اورعمومی ہوتاہے جبکہ استخراجی استدلال زیادہ سخت گیر،مشکل اورحریفانہ آراء سے قابل تردیدہوتاہے۔‘‘۵۲ارسطواستخراجی قیاس کے فروغ کے لیے کوشاں رہا۔ اس نے استقرائی قیاس پر زیادہ توجہ صرف نہیںکی کیونکہ اس کے نزدیک استخراج سے قطعی صداقت، جبکہ استقراء سے احتمالی صداقت ہاتھ آتی ہے۔ لیکن صحیح معنی میں جزئیات سے کلیات اخذکرنے کے مروّجہ استقرائی استدلال کوارسطو کے پیروکارٹولے مشائین(Peripatetics)نے فروغ دیااور اسے جدلیاتی استقرائ۵۳(Dialectical induction)قرا ر دیا۔ارسطوکے نزدیک،جہاں احتمالی صداقتوںسے واسطہ ہو،متعارفات Axioms) (یعنی بدیہی صداقتوں سے شناسائی ممکن نہ ہو،تناقضات ابھرتے ہوں،وہاںجدلیات کار آمدہے۔مشائین نے ارسطوکے جدلیات کو استقر ا ء میں جگہ دے دی اوراسے فرد کی بجائے افرادپرمحیط کرکے عمومی نتیجہ اخذکیا۔ثانیاًمشائین میں خصوصاً تھیوفراسٹس (Theophrastus)اور ایوڈمسEudemus) (نے ارسطوکے تصورقیاس کوخاصی وسعت بخشی۔ خصوصاً مشرو ط قیاس کا بڑی گہرائی سے تجزیہ کیاجس کی طرف ارسطونے محض اشارتاً ہی بات کی تھی۔انہوںنے خصوصاً دلالتی اور اجتما عی قیاس پراچھاخاصاکام کیا ۔ ارسطوکے بعدمشائین کی بدولت استخراجی استدلال کی طرف رجحان اس قدر بڑھاکہ سارا اصرار فکر کی اندرونی ساخت ہی پر مرکوزہوکررہ گیاجس میںمنطقی لحاظ سے قضایاکی سچائی اورصحت کو مقررکردہ اصول وقواعدکی روشنی میںپر کھا جاتا اور پھر نتائج اخذکئے جاتے۔اگرچہ یہ رجحان قدیم مفکرین اورخصوصاًپارمینڈیزکے افکا ر میں موجو د تھا مگر مشائین نے اسے خصوصی طورپراپنایا۔لیکن اس رجحان کونقطۂ عروج پر رواقیوں(Stoics)نے پہنچایا۔ انہوںنے استدلال کو علامتوںکے منضبط نظام میںڈھال دیا۔اگرچہ اس کی ابتداء ارسطواورمشائین کے استدلال سے ہوچکی تھی۔ استدلال میں،ارسطوکے برعکس،رواقیوںنے غیرمشروط قیاس کی بجائے مشروط قیاس کوترجیح دی اورسیکسٹس ایمپیریکس (Sextus Empiricus)۵۴کے مطابق انہوںنے مشروط قیاس کی پانچ اقسام وضع کیں :- .1[مثبت ]متبادر قیاس(Implicative Syllogism)میںجب مقدمہ صغریٰ میں مقدمہ کبریٰ کے مقدم کااقرارپایاجائے اورنتیجے میںتالی کااقرارخودبخودلازم آئے تویہ دلیل وضع ہوتی ہے :- اگرصبح کاوقت ہے توروشنی ہے۔ لیکن صبح کاوقت ہے۔ لہٰذاروشنی ہے۔ .2[منفی ]متبادر قیاس(Implicative Syllogism)میںجب مقدمہ صغریٰ میںمقدمہ کبریٰ کی تالی کا انکار پایا جائے اورنتیجے میںمقدم کاانکارخودبخودلازم آئے تویہ دلیل وضع ہوتی ہے:- اگرصبح کاوقت ہے توروشنی ہے۔ لیکن روشنی نہیںہے۔ لہٰذاصبح کاوقت نہیںہے۔ .3منفصلہ قیاسAlternative Syllogism) (میںجب مقدمہ صغریٰ میںمقدمہ کبریٰ کے کسی ایک بدل کااقرارپایاجائے اورنتیجے میںمقدمہ کبریٰ کے دوسرے بدل کاانکارلازم آئے تویہ دلیل وضع ہوتی ہے :- بیک وقت صبح کاوقت اوررات کاوقت نہیںہے۔ لیکن صبح کاوقت ہے۔ لہٰذارات کاوقت نہیںہے۔ .4[انکاربالاقرار]اجتماعی قیاس(Disjunctive Syllogism) میںجب مقدمہ صغریٰ میںمقدمہ کبریٰ کے کسی ایک بدل کااقرارپایاجائے اورنتیجے میںمقدمہ کبریٰ کے دوسرے بدل کاانکارلازم آئے تویہ دلیل وضع ہوتی ہے :- یاصبح کاوقت ہے یارات کاوقت ہے۔ لیکن صبح کاوقت ہے۔ لہٰذارات کاوقت نہیںہے۔ .5[اقراربالانکار]اجتماعی قیاس(Disjunctive Syllogism) میںجب مقدمہ صغریٰ میں مقدمہ کبریٰ کے کسی ایک بدل کاانکارپایاجائے اورنتیجے میںمقدمہ کبریٰ کے دوسرے بدل کااقرارلازم آئے تویہ دلیل وضع ہوتی ہے :- یاصبح کاوقت ہے یارات کاوقت ہے۔ لیکن رات کاوقت نہیںہے۔ لہٰذاصبح کاوقت ہے۔ اس آخری دلیل کے بارے میںکریسیپس(Chrysippus)۵۵ لکھتاہے کہ بالفرض کوئی کتا ایسی جگہ پرآکررکتاہے جہاںسے سہ طرفہ سڑکیںنکلتی ہیں،اس مقام پرکتیّ کوبھٹکنے کی ضرورت نہیںبشرطیکہ اس کاقیاس یہ ہو : شکارنے یہ،یاوہ،یاوہ تیسری سڑک پکڑی ہوگی۔ لیکن اس نے یہ یا، وہ سڑک نہیںپکڑی۔ لہٰذااس نے وہ تیسری سڑک پکڑی ہوگی۔ رواقیوں نے میگاریہ کے طرز کے جدلیاتی استدلال کو اپنے استدلالی نظریے کے ثبوت میں استعمال کیا۔ خصوصاًکریسیپس نے میگاریہ کے مشہوراستدلال بعنوان جھوٹا (The Liar) پر چند مونوگراف رقم کئے۔یونانیوں کی منطقی فضامیںسفسطہ(Sophism)کاچلن بہت قدیم تھا۔ سفسطہ۵۶ وہ دانستہ مغالطہ ہے جس میںخودمغالطہ کرنے والے کو اپنے مغالطے کاعلم ہوتاہے گویا ایسا مغالطہ جان بوجھ کرکسی کودھوکادینے کی نیت سے کیاجاتاہے۔مثال کے طور پر، سوفسطائی سفسطہ میںطاق تھے۔ اس کاایک نمونہ رسل۵۷نے پیش کیاہے کہ کس طرح ڈائیونائی سوڈورس (Dionysodorus)اورایوتھائی ڈیمس(Euthydemus) دونوں مل کرکلیسیپس(Clesippus) نامی سادہ لوح شخص کومخمصہ میںڈالتے ہیں۔ڈائیونائی سوڈورس کے مکالمے سے آغازہوتاہے : تم کہتے ہوکہ تمہارے پاس ایک کتاّہے؟ کلیسیپس نے کہا،ہاںایک ولین نسل کاہے اوراس کے پلے ہیں؟ ہاں،وہ سب اس سے بہت مشابہ ہیں گویا،کتاّان سب کاوالدہے؟ ہاں،اس نے کہا،یقینامیںنے اسے اوران پلوںکی والدہ کوایک ساتھ آتے ہوئے دیکھا اور کیا وہ تمہارا نہیں؟ دریں چہ شک،وہ میراہے۔ اچھا،وہ ایک والدہے اور وہ تمہاراہے،اس کا مطلب یہ ہواکہ وہ تمہارا والدہے اور وہ پلے تمہارے بھائی ہیں۔ رواقیوںنے اپنے استدلال کی مہارت سے اس میںخاطرخواہ اضافہ کیا۔پرانتل۵۸ Prantl) (کے مطابق، رواقیوںنے سفسطہ کے یہ اندازپیش کئے : .1انسان سقراط نہیں ہے۔(یہاںانسان کاعمومی تصورمرادہے) سقراط انسان ہے لہٰذاسقراط،سقراط نہیںہے .2اگرکوئی ایتھنزمیںہو،تووہ میگارامیںنہیںہے ایتھنزمیںایک انسان ہے لہٰذامیگارامیںکوئی انسان نہیںہے یاپھر، جومیںہوں،تم نہیںہو میںانسان ہوں لہٰذاتم انسان نہیںہو .3تھیون (Theon) کہاںرہتاہے؟جہاںڈیون(Dion)رہتاہے۔ ڈیون (Dion)کہاںرہتاہے؟جہاںتھیون (Theon) رہتاہے۔ .4اگرتم کل فصل بوؤگے،تویہ کوئی آسان کام نہیںہے اگرتم کل فصل نہیںبوؤگے،تویہ کوئی آسان کام نہیںہے کسی بھی صورت میں،یاتم کل فصل بوؤگے یانہیںبوؤگے لہٰذاآسانی سے کچھ بھی نہیںہونے والا رواقیوںکایہ سفسطہ توبہت مشہورہوا :۔ ایک مگرمچھ نے ایک انسانی بچہ چرایا۔پھراس کے والدسے وعدہ کیاکہ وہ اسے واپس کر دے گا بشرطیکہ وہ یہ اندازہ لگائے کہ اس نے کیافیصلہ سوچ رکھا ہے۔ آیا وہ واقعی بچہ اسے واپس کرے گایانہیں۔اگروالدیہ کہے کہ مگر مچھ کا فیصلہ یہ ہے کہ وہ بچے کوواپس نہیںلوٹائے گاتومعضلاتی صورت حال یوںبنتی ہے :- ’’اگریہ بات درست ہے کہ مگرمچھ بچہ نہیںلوٹائے گاتواسے بچہ واپس لوٹانا چاہیئے،اگروہ بچہ لوٹادے تووالد نے صحیح اندازہ نہیںلگایا۔لہذامگرمچھ کوبچہ نہیں لوٹانا چاہیئے۔‘‘۵۹ ارسطو، مشائین اور پھر رواقیوں کے بعد استدلال کے علم میں کوئی نیا پن نہیں ملتا۔ اپیقوریت (Epicureanism)تشکیک(Scepticism)اورجدیداکیڈمی(The New Academy) کے یونانی افکار کے دور انحطاط کے آخری نمائندہ مکاتب فکر ہیں انہوں نے استدلال کے سلسلے میں کوئی خاطر خواہ استدلال نہ کیا۔ اپیقوریت کے بارے میں سینیکا (Seneca)۶۰لکھتا ہے کہ ان کے قریب طبیعیات اوراخلاقیات،فلسفے کے دواہم حصے ہیں۔استدلال کے علم یعنی منطق کوانہوںنے فلسفے سے خارج کردیا۔کیونکہ ان کے خیال میںاستدلال کافن فلسفے کامحض ثانوی سا حصہ ہے، جو دلائل کے سچ اورجھوٹ کے مطالعے تک محدودہے۔اسی طرح زیلر (Zeller)۶۱ کے لفظوں میں اپیقور یت کے نزدیک،استدلال کاعلم فلسفے کے دونوںاہم حصوں طبیعیات اوراخلاقیات کامحض تعارف ہے۔ اپیقوریت کا بانی اپیقور (Epicurus)صداقت کے حصول کے لیے استدلال سے کہیںزیادہ یہ مناسب سمجھتاہے کہ حسی ادراک پربھروسا کیا جائے۔ اس کے خیال میںکسی شے کاتصورحسی ادراک کے بغیر نہیں کیا جاسکتا اور نہ سمجھا جا سکتاہے اور نہ بیان کیا جاسکتا ہے۔ اس نے ارسطوئی اوررواقی استدلال کویکسر نظر اندازکردیا۔اپیقورنے دیمقراطیس سے مادیت پسندی کا فلسفہ تواپنایامگراس کے اس نقطۂ نظرسے انحراف کیاکہ وہ علم جو غور و فکرکی بدولت حاصل ہو تا ہے ، حقیقی ہے اورواضح ہے ۔ اس نے وہ علم جو حسی ادراک کی بدولت حاصل ہو،حقیقی اورواضح قراردیا۔جہاںتک تشکیک کاتعلق ہے توانہوں نے ہرقسم کے عقائد (dogmas)کے خلاف آوازاٹھائی۔ان کے نزدیک،ہردلیل کے خلاف کوئی نہ کوئی موثردلیل ضرورموجودہے اوربقول دیوجانس لیریشیس،ان کے نقطۂ نظر میں پروٹا گورس ہی کی صدائے بازگشت سنائی دیتی ہے جس نے کہاتھا،’’ہرشے کے بارے میںدوطرح کے استدلال ہوسکتے ہیں،جوایک دوسرے سے قطعی متضاد ہوں ۔‘‘۶۲ متشککین نے رواقیوں کے مشروط قضایا کی پانچوں اقسام کو ہدف تنقید بنایا۶۳ اوریہ ثابت کیاکہ ان تمام اقسام کے مقدمہ کبریٰ’’زائدازضرورت‘‘ہونے کی وجہ سے بے کارہیں۔صبح کا وقت ہو تولامحالہ روشنی بھی ہوگی ۔ صبح کے ساتھ روشنی کاتذکرہ ضرورت سے زائدہے کیونکہ یہ قبل از تجربی صداقت ہے بعینہٖ متشککین نے مشائین کے غیرمشروط قضایاکو’’زائدازضرورت‘‘ کے زمرے میںرکھا۔مثلاً : ہر حسین شے خیر ہے عدل ایک حسین شے ہے لہٰذاعدل خیرہے متشککین کے نزدیک،یہ واضح نہیںکہ آیانتیجے کی صورت میںاخذشدہ قضیہ قبل ازتجربی ہے یانہیں۔اگریہ واضح ہی نہیںتواستدلال کانتیجہ ماننے کے قابل نہیںرہے گا۔چنانچہ قیاس سے نتیجہ اخذکرنے کامقصدہی فوت ہوجائے گا۔لیکن اگریہ واضح ہے کہ ہرحسین شے خیرہے تولامحالہ یہ بھی واضح ہے کہ خیرحسین ہے ۔کیونکہ عدل اگرحسین ہے تو یقینا حسین ہونے کے ناطے خیر ہے۔ یہاں ’’ہرحسین شے خیرہے۔‘‘زائدازضرورت‘‘قضیہ ہے یعنی اس کے ذکرکی ضرورت نہیںتھی۔یہ قبل از تجربہ معلوم تھا۔ تشکیک کے بانی پروہو(Pyrrho)کے شاگردٹائمن۶۴ (Timon)نے توکھلم کھلا یونانیوں کے استخر ا جی استدلال کوہدف ِتنقیدبنایا۔رسل کے مطابق،اس کامؤقف تھاکہ استخراجی استدلال کامعاملہ اقلیدس کے علم جیسا ہے ۔ جہاںبدیہی اصولوںسے قضیوںکاآغازکیاجاتاہے۔ٹائمن نے بدیہی اصولوںکے امکانات کاانکار کیا۔ اس کاخیال تھا کہ ہرشے کسی نہ کسی دوسری شے کے توسط سے ثابت ہوتی ہے اوراس بناء پرہرطرح کی دلیل ایک ایسی دَوری زنجیر میں جکڑی ہے جس کی انتہا نہیں۔چونکہ ہر دلیل کو اپنا جواز درکار ہے لہٰذا قطعی طور پر کوئی نتیجہ بھی برآمد نہیں کیا جاسکتا۔ خود، پرو ہونے ذہن کوپرسکون رکھنے کے لیے ہرطرح کے استدلال سے گلوخلاصی ضروری خیال کی۔وہ سقراط کے پائے کی قابل احترام شخصیت تھالیکن اس کے پیرواس کی حکمت کے رتبے کونہ پہنچ سکے اور نظری بحث و مباحث میںالجھے رہے۔ ژرف نگاہی سے دیکھاجائے تومتشککین کامعاملہ میگاریہ کے معضلے’’جھوٹا‘‘کی طرح تناقضات کا شکارہے۔ جدیداکیڈمی(New Academy)رواقیوںکے خلاف شدیدردعمل کے طور پر ابھری۔ رواقیت کے کرسیپس(Chrysippus)اورجدیداکیڈمی کے کارنیاڈیز(Carneades)کے شعلہ فشاں مناظرے۶۵بہت مشہورہوئے۔زینو،رواقی(Zeno,the Stoic)کے پیرو ،ارسٹن (Ariston)۶۶نے ہومرHomer) (کی تصنیف الیڈ(Iliad) کے ایک مصرعے کی نقالی میں جدید اکیڈمی کی فلسفیانہ حیثیت کواجاگرکیاہے۔ہومرنے ایک خیالی دیوہیکل بلا(Chimera Monster)کے بارے میں یہ مصرع کہا تھا۔’’اس کااگلاحصہ شیر، پچھلا حصہ اژدھا اور درمیانی حصہ بکرے جیساہے۔‘‘اسی کی نقالی میںارسٹن جدیداکیڈمی کے بارے میںکہتاہے،’’اس کا اگلا حصہ افلاطو ن ، پچھلاحصہ پرو ہو اور درمیانی حصہ ڈاؤڈورس (Cronus Diodorus) جیسا ہے۔‘‘ دراصل میگاریہ مکتب فکرکے نمائندہ کرونس ڈاؤڈورس کی جدلیات کو آرسیسیلاس(Arcesilaus) نے استعمال کیا تھا جس کی سرکردگی میںتشکیکی رجحانات افلاطون کی اکیڈمی میںداخل ہوئے اور اس کانام جدید اکیڈمی پڑا۔ ’’میںجانتاہوںکہ میںنہیںجانتا‘‘،سقراط کے مشہورمقولے کوآرسیسیلاس۶۷نے تشکیکی رنگ دیااوراس خیال میںبدل دیاکہ’’میںکچھ بھی نہیںجانتا‘‘اس نے پرچارکیاکہ ہرنظریہ احتمالی ہے۔لہٰذاحتمی علم کاحصول ممکن نہیں۔ چونکہ کاروبارحیات چلاناہے، اس لیے یقین کامل کی بجائے احتمالیت سے کام چلاناہوگا۔یہی سب سے عمدہ اصول ہے۔ کارنیاڈیز،آرسیسیلاس کاہمنواہے کہ کسی بھی صورت میںقطعی علم ممکن نہیں۔ چونکہ کسی شے کا قطعی علم حاصل نہیں ہوسکتا،اس لیے استدلال کے زورپراسے ثابت بھی نہیں کیا جاسکتا۔ کارنیاڈیز کے خیال میںاستخراجی استدلال کے نتیجے کو اگراس لیے درست ماناجائے کہ وہ اپنے مقدمات سے اخذہواہے توپھرثبوت کاایک لامتناہی سلسلہ چل نکلے گا۔ جن مقدمات سے وہ اخذ ہواہے،وہ بھی بطورنتیجہ اپنے سے پہلے مقدمات سے اخذہوں گے۔اس دلیل سے کارنیاڈیز استخراجی استدلال کے خلاف ثابت کرتاہے کہ اس کاعلم ممکن نہیں۔اس کے خیال میں،کامل یقین کاکوئی جوازنہیںبنتا۔کہتے ہیں ۱۵۶قبل مسیح میںکارنیاڈیز۶۸ایک سفارتی مشن پرروم گیا۔ وہاں اس نے افلاطون اور ارسطو کے نظریات عدل و انصا ف کے حق میںبڑی مبسوط تقریرکی۔جسے سن کرلوگ بہت متاثرہوئے۔اگلے ہی روز اسی مقام پرانہی سامعین کے سامنے اس نے افلاطون اور ارسطو کے نظریات ِ عدل وانصاف کے خلاف بڑی مدلل تقریرکی جسے سن کرلوگ بہت حیران ہوئے۔ کارنیاڈیزکامقصدصرف یہ واضح کرناتھاکہ قطعی دلائل ممکن نہیں۔ہرطرح کی دلیل احتمالی ہے یعنی اس کے علاوہ بھی بہت کچھ کہاجاسکتاہے۔استدلال کے خلاف ہونے کے باوجود، جدید اکیڈمی اور تشکیک دونوں کے نظریات میں بنیادی فرق یہی ہے کہ جدید اکیڈمی کے مفکرین احتمالیت کے عقیدے پرکاربند رہے جبکہ متشککین نے کسی قسم کے عقیدے سے اعتنانہ کیا۔ یونانی استدلال روم پہنچتاہے توروبہ زوال نظرآتاہے۔رومیوںنے فن استدلال پرفن بلاغت کوفوقیت دی۔ مزاجاًرومی علمی مفکر کی بجائے عملی قسم کے مُدبّرتھے۔ان کے ہاں،استدلال لفظوںکی ساخت اورقواعدسے تیارکردہ دلائل کا ایساعلم تھاجس کابنیادی مقصدصرف اتناتھاکہ مبادا سچ کے ہوتے ہوئے جھوٹ نہ نکل جائے۔لیوسییس اناؤس سینیکا(Lucius Annaeus Seneca)۶۹یونانیوںکے علم استدلال کے بارے میںکہتاہے کہ یہ’’بولنے کافن تو جانتے ہیں، کچھ کر دکھانے کانہیں۔‘‘اس کے خیال میں پارمینڈیز ہویا پروٹاگورس، زینو ہو یا پروہو،میگاریہ ہوں یا جدید اکیڈمی، عملاًانہوںنے ایساکوئی علم نہیںدیاجس میںکوئی وزن ہو۔ان کاجانناتوکچھ نہ جاننا ہوا۔یونانی سفسطہ کووہ مداریوں کے کرتبوں کی طرح دھوکااورفریب گردانتا۔اس کے نزدیک، جو ان لفظوںکے ہیرپھیرکوجان لے، اس کے لیے بھی بے فائدہ اورجونہ جان پائے اس کے لیے بھی بے ضرر۔وہ یہاںتک کہا کرتاکہ سفسطہ توایسی نزاکت ہے جس سے بڑھ کرحکمت کے لیے کچھ بھی نفرت انگیزنہیںہوسکتا۔ اگرچہ مجموعی طورپررومیوںنے استدلال کے بارے میںکوئی قابل ذکرکام نہیںکیا،لیکن پھربھی چندمفکرین نے انفرادی کوشش کی ہے جیسے مارکس ٹیلیس سیسرو۷۰ (Marcus Tullius Cicero)نے فنِ استدلال کی یونانی اصطلاحات کی جگہ لاطینی اصطلاحات وضع کیں اور رواقیوں کے منطقی استدلال کوعام کیا۔اسی طرح مارکس فیبس کوینٹیلینس(Marcus Fabius Quintilanus) ۷۱نے رواقیوںکے پانچوںدلائل پر گرانقدرکام کیااوران میںاستخراجی اور استقرائی استدلال کی تمیزقائم کی۔ مروجہ استدلال کی بہت سی لاطینی اصطلاحیں اسی کی قائم کردہ ہیںجیسے قضیہproposition))قیاس) syllogism ( وغیرہ۔استدلال کے بارے میں اس کی تعلیمات کے اثرات قدیم مدرسیت(Scholasticism)، ازمنہ وسطی(Middle Ages) اور نشاۃ ثانیہ (Renaissance) کے ادوارتک پھیلے ہوئے ہیں۔ سفسطہ کی مخالفت کے باوجودرومیوںمیںسے آیولس گیلیسAulus Gellius) (نے اس پر فکری طبع آزمائی کی ہے مگر اس کااندازتقریباًوہی ہے جومیگاریہ کے ہاں نظر آتا ہے۔مثلاًوہ میگاریہ کے مشہورسفسطہ’’جھوٹا‘‘کی طرزپربعنوان’’دھوکا باز‘‘۷۲(The Cheater)اپنا سفسطہ پیش کرتاہے جس کے مطابق،وہ جس کایہ دعو ٰی ہو کہ وہ بڑی عیاری سے کسی کودھوکا دے سکتا ہے، اپنے آپ کودھوکا دیتے ہوئے کہتاہے کہ جسے وہ دھوکا دے رہاہے اسے دھوکا ہوگیا۔درحقیقت ایسا نہیں ہوابلکہ خوددھوکے میںآگیا۔علاوہ ازیں،اس کایہ سفسطہ بہت مشہورہے :- ’’ایک مدعاعلیہ کی قسمت کے بارے میںسات ججوں نے فیصلہ کرناہے۔ اکثریت کی بناء پر سزاسنائی جانی ہے معاملے کی چھان بین کے بعد دو جج جلا وطنی، دوجج بھاری جرمانے اور تین جج سزائے موت کی تجویز کرتے ہیں۔یہاں موت کی سزا دینے یا نہ دینے کا معضلہ پیدا ہوتا ہے۔‘‘۷۳ اگرچہ رومیوںنے یونانی استدلال کونظراندازکیامگرقدیم مدرسیت کے ارسطوئی شارحین نے ارسطو،مشائین اوررواقیوںکے استدلال پرخاصاکام کیا۔عیسوی صدی کے آغازسے ناصحانہ اورپندآموز،مذہبی تعلیمات کے درس کا سلسلہ چل نکلاتھا۔جس کے واسطے استدلال کو مفید اور کارآمدخیال کیاگیا۔نتیجتاًکوئی چھ صدی عیسوی تک ارسطوکے استدلال پرمختلف شارحین (commentators)نے گاہے بگاہے اس قدرکام کیاکہ ارسطوئی استدلال کاسحرفکر انسانی پرچھا گیا جواز منہ وسطی اور نشاۃ ثانیہ تک قائم رہا۔ ان شارحین میں سے انڈرونیکس (Andronicus) کا شاگرد اور سیڈون(Sidon)کا باسی بوتھس(Boethus)،حکیم جالینوس(Galen)،پورفیری (Porphyry)، سینٹ آگسٹائن(Saint Augustine)، اپولیوس (Apuleius)، الکیناؤس (Alcinous)، افورڈیسیاس(Aphrodisias)کا الیگزینڈر(Alexander)، مارٹینس کیپلے (Martianus Capella)وغیرہ قابلِ ذکرہیں۔ یونانی استدلال کا تجزیہ اور فکرِاقبال ( (Evaluation of Greek Reasoning & Iqbal's Thought یونانی استدلال کے جائزے سے واضح ہوتاہے کہ مجموعی طورپرقدیم یونانی مفکرین نے تجربے سے زیادہ تجریدکو،جزئیات سے زیادہ کلیات کو،مدرکات سے زیادہ معقولات کواورتغیر کی بہ نسبت ثبات کوحقیقت کا غماز گردا نا۔ نتیجتاًوہ اپنی فکرکی اندرونی ہیئت پراس قدراصرارکرتے رہے کہ منطقی موشگافیوںکے گرداب میںپھنسے رہے۔جہاں کہیں انہوںنے تجربے سے تعرض کرنا چاہا وہاںبھی اس بھنور سے نہ نکل سکے۔انہوںنے عملی قسم کے تجربات کو اس قد ر اہمیت کبھی نہ دی جس قدرکہ ان قواعدوضوابط کوجوان تجربات کے پس پشت کارفرماہوتے۔تجربات سے کنی کتر ا نے کے فکری چلن سے بتدریج استخراجی استدلال کوجلاملی۔نتیجتاًاستقرائی استدلال کارنگ پھیکا رہا اور بالآخریہ غلغلہ زبان زد خاص وعام ہواکہ یونانی استدلال اپنی کُنہ میںتمام تراستخراجی ہے۔یقینا، یونانی افکارپراستخراجی استدلا ل کاٹھپہ ثبت ہونے کے معقول جوازموجودہیںجیسے : .1یونانی مفکرین علم ہندسہ کے معترف رہے۔جس میں کلیات کوجزئیات پر فوقیت دی جاتی ہے۔کلیات کو بدیہی صداقتیںمان کرنتائج اخذکئے جاتے ہیں۔حسن اتفاق سے،استخراجی استدلال کے طریقۂ کارمیںعلم ہندسہ جیساطرز ِعمل موجودتھا،اس لیے اسے خوب پذیرائی حاصل ہوئی۔ .2یونانی مفکرین کا معاشرتی نظام غلامانہ نوعیت کا تھا جہاںکچھ آقا ہوتے توکچھ غلام۔آقا غلاموں کو انسان ہی نہ سمجھتے، علمی حلقوں میں یہ بحث ہوتی رہتی کہ غلاموں میں روح ہوتی بھی ہے یانہیں؟آقااپنے ہاتھوںسے کوئی کام کرناگناہ سمجھتے۔ چھوٹے موٹے تمام عملی کام غلاموں کے ذمے لگاتے،ایسے معاشرے میں تجربات کرنے کو معیوب مانا جاتا جس سے لامحالہ استخراجی استدلال کے لیے راستہ ہموارہوا۔ .3یونانی مفکرین کے عہدمیںڈرامے اورشاعری کوعروج حاصل تھا،جس میںزبان کی فصاحت اوربلاغت کا خصوصاًاہتمام رکھاجاتا۔اس کے اثرات نے فکری قیاس کوآراستہ ہونے میںخوب مددکی جس سے استخراجی استدلال کی بنیادیںاورمضبوط ہوئیں۔ .4یونانی مفکرین کے ہاں مباحثے اور مناظرے ہواکرتے، تقاریر اور مکالمات کا اسلوب اپنایاجاتا، نتیجتاً اپنے حلیف کو جتوانے، حریف کو پچھاڑ نے اور اپنے مؤقف کو منوانے کی خاطر سفسطہ،جدلیات اورمنطقی قیاس جیسے نت نئے اندازاپنائے جاتے جس سے استخراجی استدلال کو خاطرخواہ نموحاصل ہوئی۔ .5یونانی مفکرین کے افکارمیںدومتضاداورمتوازی دھارے موجودتھے۔ ایک دھاراکسی حد تک صوفیانہ اور نظریاتی طرزکی داخلیت پسندی کے رجحانات کاحامل ہے تودوسرا،مشاہداتی اورعملی نوعیت کی خارجیت پسندی کے میلانات کاترجمان تھا۔اپنے تمام ترتضادکے باوجود،ان دونوں دھاروںکی کسوٹی عقلیت پسندی رہی جس میں تجریدی تعقلات کو فکری انتہا قرار دیاگیا،ایسے معیار نے استخراجی استدلال کی اہمیت کو دو چند کر دیا۔ اس مقام پربطورجملۂ معترضہ ایک وضاحت ضروری ہے۔استخراجی استدلال کے بارے میںجویہ راسخ عقیدہ اپنایاگیاکہ یونانی فکرمیںقیاس نے مشاہدے پربلاشرکت غیرے حکمرانی کی ہے،توبعض مبصرین کے خیال میں ، یہ درست نہیں۔مثلاًبائرن جیونز(Byron Jevons)۷۴ کا مؤقف ہے کہ بقراط کے طبی کارنامے اسے غلط ثابت کرتے ہیں۔اس کے خیال میں، یہ درست ہے کہ بقراط عملی تجربات سے یکسرنابلدتھا،نہ موجودہ سائنس کی طر ح اس کے سامنے ہزاروںبرس کے عملی مشاہدات کانچوڑموجودتھا۔اس کے باوجوداس کی قوت ِمشاہدہ بہت تیز تھی۔وہ اولمپیائی کھیلوں(olympic games)کے کثیرالوقوع حادثات کوژرف نگاہی سے لیتا،اپنے طورپر سرجیکل اپریشن بھی کرڈالتا۔ وہ قوت ِمشاہدہ سے پہلے نتائج اخذکرتااورپھران پراپنی عقل آزماتا۔اس طرح وہ استخراج کی بہ نسبت استقراء سے زیادہ کام لیتا۔ جیونز کاتجزیہ اگرچہ درست ہے مگرپھربھی یہ بات پیش نظررہنی چاہئیے کہ اس زمانے میںاول توبقراط جیسے مفکرین معدودے چندنظرآتے ہیں،دوم انہیںاپنے قوت ِمشاہدہ کے بل پرجو نتائج مرتب کرناپڑتے ان کا اندازہ بھی استخراجی قیاس سے کچھ مختلف نہ ہوتا۔گویاان کے استقرائی دلائل کی منطقی شباہت استخراجی دلائل سے قریب ترہوتی۔ اس حوالے سے،یہ کہنامبالغہ آمیزی نہیںکہ یونانی استدلال میںاستخراج نے استقراء کوپنپنے نہیں دیا۔سچی بات تو یہی ہے کہ قدیم یونانی دانشورتجربے پرتفکرکوترجیح دینے کے اس قدرراسخ العقیدہ تھے کہ وہ معمولات ِزندگی کے تجربات کومعمولی،فضول اورناقص قرار دیتے۔ریاضی سے بے پناہ شغف رکھنے کی بدولت،وہ کبھی بھی استقرائی تجربات سے بہرہ ورنہ ہوپائے اورہمیشہ بدیہی حقائق سے استخراجی نتائج کو اخذ کرنے میںلگے رہے۔استخراج کی طر ف ان کارجحان اس حدتک بڑھاکہ انہوںنے پھرپلٹ کریہ جاننابھی گوارا نہ کیا کہ آیاروزمرہ کاتجربہ اس حقیقت کی تائید کرتا بھی ہے یانہیںجسے قیاس پر منتج کیا گیا ہے۔ الٹا،وہ کسی کٹرمتعصب پسندکی طرح یہ ایقان رکھتے کہ قطعی حقیقت کے اکتشاف کے لیے بس اتنا کافی ہے کہ قضایا سے ماخوذنتیجہ قوانین قیاس کی روسے صحیح ہے یاغلط۔یونانی دانشوروں کے استدلال کی نوعیت اورروایت کوپروفیسربرنیٹ۷۵نے زینواورپروٹاگورس کے اس مکالمے سے خوب واضح کیا ہے: زینوایلیائی، پروٹاگورس سے پوچھتاہے،’’باجرے کاایک دانہ یااس دانے کادس ہزارواں حصہ فرش پرگرے تو کیا کوئی آوازپیداکرتاہے؟‘‘’’قطعی نہیں۔‘‘پروٹاگورس کے اس جواب پر زینو پھرپوچھتاہے،لیکن اگرباجرے کا ایک بشل(Bushel)،(ایک بشل =۹۲سیر) فرش پرجاگرے تو کیاوہ کوئی آواز پیداکرتا ہے؟‘‘ ’’یقیناکرتا ہے ۔‘ ‘ یہ جواب سننے پر،زینواب کی بار پوچھتا ہے۔ ’’اچھایہ بتاؤکیاباجرے کے ایک بشل کی باجرے کے ایک دانے یااس کے دس ہزارویںحصے کے ساتھ کوئی نسبت نہیںہوتی؟‘‘جب اس نے کہانسبت توہوتی ہے،تب زینونے جواب دیا۔ ’’کیاآوازوںکا تناسب ایک دوسرے کے ساتھ یکساںنہیںہوتا؟جس طرح صوتی اشیاء کی ایک دوسرے کے ساتھ مناسبت ہوتی ہے،بعینہٖ آوازوںکی بھی ایک دوسرے کے ساتھ ہوتی ہوگی۔ اوراگرایساہے توجہاںباجرے کا ایک بشل آوازپیداکرتاہے وہاںباجرے کاایک دانہ یااس کادس ہزارواںحصہ بھی آوازپیداکرے گا۔‘‘ظاہرہے،کہ یہاں صوتی اشیاء اوران کی آوازوںکے مابین نسبت تناسب کوبدیہی حقیقت مان کریہ نتیجہ اخذکیاگیاہے کہ خواہ باجرے کا ایک دانہ گرے یابشل، آواز توپیداہوگی۔اب غورطلب نکتہ یہ ہے کہ اس مکالمے کے آغازمیںپروٹاگورس کاتجربہ زینو کے نتیجے کی تائیدنہیںکررہا، جہاںاس نے کہاکہ باجرے کاایک دانہ یااس کادس ہزارواں حصہ گرکرآواز پیدا نہیں کرتا۔اس کے باوجودقدیم یونان کے اس دورمیںزینوکانتیجہ حقیقت پر موقوف ماننا پڑتا ، کیونکہ استخراجی استدلال نے ایسی دھاک بٹھارکھی تھی کہ تجربہ قابل اعتنانہ رہا اور بے وقعت ہوکررہ گیا۔ اقبال کے نزدیک،یہی بات یونانی فکر کی ناکامی کا باعث ہوئی کہ اس میںٹھوس اورمخصوص حقائق کی بجائے تجریدی اورتعمیمی نظریا ت کی طرف رغبت رہی ۔خوداُس نے قرآنی تعلیمات کو حقیقت کی ترجمانی کاقطعی معیارمانتے ہوئے یونانی استدلال کاتجزیہ کیاجودوطرح کے فکری زاویوںپرمحیط ہے : .1انفرادی زاویہ،جس میںاس نے چنندہ مفکرین کے بعض اہم افکارکوناقدانہ نگاہ سے جانچا۔ .2عمومی زاویہ،جس میںاُس نے مجموعی طورپریونانی فکرکے مبادی تصورات کوناقدانہ نگاہ سے جانچا۔ یہاںبطور جملۂ معترضہ ایک وضاحت ضروری ہے کہ اُس نے بلاواسطہ یونانی استدلال کے بارے میںکبھی لب کشائی نہیںکی لیکن جہاںکہیںضرورت محسوس کی، وہاںپورے شدومدسے نہ صرف یونانی افکارکاتذکرہ کیابلکہ ان کاناقدانہ تجزیہ بھی پیش کیا۔ اس مقام پریقینا،ضرورت اس امر کی ہے کہ اقبال کے ان دونوں زاویوں کو باری باری پرکھا جائے تاکہ اُس کایہ مؤقف واضح ہوپائے کہ یونانی استدلال اپنے استخراجی میلان کے باعث فکری ناکامی پرمنتج ہوا۔ اقبال کاانفرادی زاویۂ فکر : (Iqbal's individual viewpoint) انفرادی زاویہ کے اعتبارسے اقبال نے جن مخصوص یونانی مفکرین کے افکار سے حسب ِضرورت رجوع کیا ہے،ان میں زینو ’ایلیائی‘، ہر اقلیتوس، دیمقراطیس، سقراط،افلاطون اور ارسطو شامل ہیں۔فکراقبال کے تناظرمیںان مفکرین کے افکار کا فرداًفرداًتجزیہ کیاجاتاہے تاکہ اقبال کے نقطۂ نظرمیںیونانی استدلال کے جوسقم ہیں، عیاں ہوں۔ زینو’ایلیائی ‘اوراقبال : (Zeno,'Eleatic' & Iqbal) دریںچہ شک،زینوایلیائی بالخصوص اپنے ان معضلاتی دلائل کی وجہ سے پہچاناجاتاہے جن کا تذکرہ پیچھے کیاجا چکاہے۔ جہاں تک اقبال کا تعلق ہے اس نے حرکت کے بارے میں زینو کی پہلی اور تیسری دلیل کے استخراجی میلان کی کج روی کو اپنے خطبۂ دوم بعنوان: "The Philosophical Test of The Revelations of Religious Experience"آشکارا کیا ہے۔ زینو کے ان دلائل کواقبال نے اپنے لفظوںمیںاس طرح پیش کیاہے:۷۶ ’’اس سے پہلے کہ ہم اپنی منزل مقصودتک پہنچیںضروری ہے کہ ہمارے سفر کا آغازجس نقطے سے ہواتھااس کے انجام تک نصف فاصلہ طے کرلیںاوراس نصف سے پہلے اس کانصف،علیٰ ہذالقیاس۔اس سے پہلے کانصف تاخیر نہایت۔گویاجب تک ہم نقطوںکی اس لامتناہی تعدادسے گزرنہیںلیتے جو ہمارے اورکسی دوسرے مقام کے درمیان واقع ہیںہم ایک نقطۂ مکانی سے دوسرے نقطۂ مکانی تک حرکت نہیں کرسکتے۔لیکن مشکل یہ ہے کہ زمانے کے ایک متناہی وقفے میںلامتناہی نقطوںسے گزرنا ناممکن ہے۔بعینہٖ یہ عام خیال بھی کہ تیرپروازکرتاہے صحیح نہیں۔اس لیے کہ دورانِ پروازاس کاکسی نہ کسی نقطے پرہوناضروری ہے۔یوںزینونے حرکت کاابطال کرتے ہوئے اسے محض فریب ِنظرٹھہرایااوریہ رائے قائم کی کہ حقیقت ایک ہے اورتغیرسے پاک۔‘‘ زینوکے ان دلائل کوپیش کرنے کے فوراًبعداقبال نے اشاعرہ، برگساں اور برٹرینڈرسل کے ناقدانہ دلائل کا اجمالی احاطہ کیاہے تاکہ زینوکے دلائل کی قلعی کھل سکے۔ایساکرتے ہوئے اقبال نے ان ناقدین کے دلائل کوبھی اپنی ناقدانہ نگاہ سے دیکھاہے تاکہ حرکت کاصحیح تصور اجاگر ہوسکے۔اس طرح کی تنقیدسے جومجموعی تاثر ابھرتاہے، اس میں زینوکے استخراجی رجحان اور اقبال کے استقرائی میلان کا فرق چھپا نہیںرہتا۔بہرحال،اقبال نے زینو کے دلا ئل کا جوناقدانہ تجزیہ کیا ہے اس کے حساب سے،اشاعرہ کامؤقف تھا۷۷کہ زمان ومکاںاورحرکت ایسے آنات پرمشتمل ہیں جن کو تقسیم نہیںکیاجاسکتا۔ناقابلِ تقسیم پذیری کے وصف کوماننے سے زمان ومکاں کی حد کا تعین خارج ازامکان نہیں رہتا جس کی بدولت صفاری حرکت کاجوازنکل آتاہے اورزینوکی دلیل بے وزن ہوجاتی ہے۔ظاہرہے جب زمان ومکاں کی حدہوگی توزمانے کے ایک متناہی وقفے میں کسی ایک نقطۂ مکانی سے کسی دوسرے نقطۂ مکانی تک حرکت قابل فہم ہوگی۔ اس مقام پر، اقبال ابنِ حزم۷۸ کے اس ناقدانہ استدلال کوسامنے رکھتاہے جسے حسن اتفاق سے جدید ریاضیات کی تائیدحاصل ہے۔اس کے مطابق،زمان ومکاںکوناقابل تقسیم آنات پرمحمول سمجھناصحیح نہیں۔ اشاعرہ کے مؤقف سے زینوکے معضلات کاردّ نہیںہوتا۔ البتہ فرانسیسی مفکرہنری برگساں(Henry Bergson)نے زینو کے دلائل کے بارے میں جونقدوتبصرہ پیش کیا،اقبال اُس سے بہت حدتک متفق ہیں۔برگساں۷۹کے مطابق،زینوکے معضلات اس کے زمان و مکاں سے متعلق غلط تفہیم کی بدولت وجودمیںآئے ہیں۔اگرحرکت کی تفہیم کے لیے عقل کوحاصل کل سمجھ لیاجائے توزینوکے دلائل کا جواز پیدا ہوتاہے، کیونکہ عقل کا خاصہ ہی منطقی الجھاؤ میں پڑنا ہے، لیکن اگرعقل سے بڑھ کروجدان کوتفہیم کا ترقی یافتہ درجہ قرار دے دیاجائے توزینوکے دلائل کے اٹھنے کاسوال ہی پیدانہیںہوتا۔حقیقت کی صحیح تفہیم کے لیے وجدان،عقل کی طرح اس کے حصے بخرے نہیںکرتابلکہ اسے بطورکل اپنے دائرہ گرفت میں لیتا ہے۔ اس اعتبارسے کائنات کی اصل حقیقت حرکت ثابت ہوتی ہے۔جہاںتک برٹر ینڈرسل کی تنقیدکا تعلق ہے، وہاںاقبال نے اسے اطمینان بخش نہیںسمجھا۔رسل۸۰نے کانٹور (Cantour) کے نظریۂ تواصل کی روسے وضاحت کی ہے کہ زمان و مکاں کے آنات و مقامات منفصل نہیں، متصل ہیں۔لہٰذازمان ومکاںہی کی لامتناہی تقسیم ایک دوسرے سے پیوستہ اور وابستہ آنات و مقامات پرمشتمل ہے جہاںحرکت کے لیے ہرمقام کے مقابلے میںایک آن ضرور موجود ہوتا ہے۔اس حوالے سے غور کیاجائے توبقول رسل، زینو کایہ کہناتوٹھیک ہے کہ دورانِ پروازتیرہرآن ساکن ہوتاہے لیکن اس کی یہ دلیل کہ تیر پرواز نہیںکرتاغلط ہے۔ اقبال کے نزدیک،زمان ومکاںکے آنات ومقامات کے تسلسل اوراس کی لامتناہی تقسیم پذیری کو ہو بہو مان لینے سے بھی حرکت کی مشکل کاحل نہیںنکلتا۔ایسے تمام تجزیے کے بعداقبال اس نتیجے پرپہنچتاہے کہ حرکت درحقیقت دوطرح سے قابل فہم ہے: .1اگرحرکت کے عمل کاتجزیہ کیاجائے توتیرکی پروازآنات ومقامات پرمشتمل قابل تقسیم معلوم ہوگی۔ .2اگرحرکت کے عمل کاتجربہ کیاجائے توتیرکی پرواز ناقابل تقسیم وحدت معلوم ہوگی۔ اس حوالے سے دیکھاجائے توزینواپنے استخراجی رجحان کے باعث حرکت کاابطال کرتا ہوانظرآتاہے کیونکہ اس نے اپنے پیشِ نظریہ بدیہی اصول رکھاتھاکہ’’اگرکسی مفروضے سے دو متناقض قضایابیک وقت اخذہوتے ہوں تو وہ مفروضہ باطل ہوگا۔‘‘اسی کی روسے اس نے حرکت کا فکری تجزیہ کیا۔اس کے برعکس،اقبال نے کبھی کسی بدیہی اصول کو اپنی فکر کی بنیاد نہیں بنایا ۔اُس نے ہمیشہ تجربوں کو مدِنظر رکھااوراپنے اسی استقرائی میلان کی بدولت بالآخرحرکت کااثبات کیاجس کی تائید قرآنی تعلیمات سے حاصل ہوتی ہے۔ ہراقلیتوس اوراقبال:( & Iqbal Heraclitus) ہراقلیتوس وہ پہلا مفکرہے جس نے باقاعدہ حرکت اورتغیرپرزوردیا۔اس نے اپنے عہد کے ایلیائی مفکرین کے برعکس،یہ مؤقف اپنایاکہ کوئی شے بھی ساکن نہیںہرشے تغیرپذیرہے،کچھ بھی تغیرسے معرانہیں،پوری کائنات ایک سیلِ بے پناہ میںبہے چلی جارہی ہے،سکون حسی ادراک کا واہمہ ہے،ہردولمحوںکے درمیان کوئی شے وہ نہیںہوتی جو لمحہ پہلے یالمحہ بعد ہوتی ہے۔ایسابھی نہیں ہے کہ پہلے کوئی شے ہوتی ہے اور بعد میں ویسے نہیںہوتی۔معاملہ کچھ ایساہے کہ بیک وقت کوئی شے ہوتی بھی ہے اورنہیںبھی۔یعنی کسی شے کاوجوداس کے لمحہ بہ لمحہ ہونے اورنہ ہونے کے باہمی اورمسلسل پیکار سے عبارت ہے۔دوسرے لفظوںمیں،کسی شے کاوجودبیک وقت اس کے ہونے یعنی دعوی اور نہ ہونے یعنی جواب ِدعوی کے مابین کشمکش ہے۔اپنے اس اصول تغیر کو ہر اقلیتوس نے ان الفاظ میں سمویاہے کہ’’کوئی بھی شخص ایک ہی ندی میںدوبارنہیںنہاسکتا۔کیونکہ ہر لحظہ بہتاپانی نیاہے۔‘‘۸۱ہراقلیتوس کایہ اصول فکر ِاقبا ل کے ہاںکچھ اس طرح کے شعری روپ میںمجسم ملتاہے: سکوںمحال ہے قدرت کے کارخانے میں ثبات ایک تغیُرّ کو ہے زمانے میں! ۸۲ بادی النظرمیں،اقبال ہراقلیتوس کافکری ہمنوانظرآتاہے کیونکہ اس نے بھی بارہا تغیرات کو حقیقت پرمحمول کیاہے جیسے : فریب ِنظرہے سکون وثبات تڑپتا ہے ہر ذرّۂ کائنات ٹھہرتا نہیں کاروانِ وجود کہ ہر لحظہ ہے تازہ شانِ وجود ۸۳ یاپھر، قیام کس کو ہے اِس انقلاب خانے میں کوئی بِنا نہیں ایسی کہ پائیدار رہے ۸۴ لیکن دقیق النظر تجزیئے سے اندازہ ہوتاہے کہ صورت حال ایسی نہیں،اگرچہ ہراقلیتوس اور اقبال،دونوں نے تغیرات کی اہمیت کو سمجھاہے مگر دونوںکی فکری اپج میںبہت بُعدہے۔ جب ہراقلیتوس،اپنااصول تغیرپیش کرتاہے تووہ یہ سمجھتاہے کہ تغیرات بندھے ٹکے اوربے لچک ضابطے کے پابندہیںان کی کوئی نہ کوئی ایسی نہایت ضرورہے جس سے آگے وہ تجاوز نہیں کرسکتے۔ایک دوری گردش کی صورت میں ان کامتوازن اتارچڑھاؤہوتارہتاہے جیسے ابھرتے سورج کی نہایت اس کاڈوبناہے اورپھرڈوبتے سورج کی نہایت اس کااُبھرناہے۔ایسی دَوری گردش میں روزاِک نیاسورج اُبھرتااورڈوبتاہے۔یہی حال کائنات کی جملہ اشیاء کا ہے ، یہ زمانے کاایسادَائراتی چکرہے جس میںسونے جاگنے،گرمی سردی،روشنی تاریکی،حیات وموت وغیرہ تغیرات کااَبدی ناٹک کھیلا جا رہاہے۔۸۵ جس میںبے جان سے جاندارتک ہرکوئی شریک ہے۔ ہراقلیتوس کے اصولِ تغیرسے دوقابل ِغور نکات سامنے آتے ہیں : .1زمانے کی گردش دَوری ہے۔ .2پوری کائنات کی جملہ اشیاء بشمول انسان کامقدرجبریت ہے۔ ان دونوںنکات سے اقبال اختلاف کرتا ہے۔باری باری ان کاجائزہ لیتے ہیں۔اقبال کو طبیعی قوانین سے ا نکا ر نہیں۔اس کے نزدیک،یہ درست ہے کہ تغیرات کسی نہ کسی ایسے ضابطے کے پابندہیںجو انہیںایک مخصوص اور مقررہ حد سے متجاوز نہیں ہونے دیتے،اوریہ بھی غلط نہیںکہ ایک متوازن اتارچڑھاؤ سے تغیرات کا تکرار ہوتا رہتاہے۔اقبال کو اختلاف صرف اتناہے کہ تغیرات کو جدلیات کاحاصل سمجھنے سے بالآخر اس کادَوری اورایک طرح کامیکانکی تصور تسلیم کرناپڑتاہے جس سے زمانے کی رجعت تکرارلازم ٹھہرتی ہے جوقرآنی تعلیمات کے یکسر خلاف ہے کیونکہ از رُ و ئے قرآن،کائنات اضافہ پذیرہے۔ارشادِربانی ہے ۔’’وہ (اپنی) مخلوقات میں جو چاہتا ہے بڑھاتا ہے۔‘‘(۳۵:۱) اور دوسرے،تغیرات کے طبیعی قوانین اس کے بدیہی قوانین نہیں بلکہ یہ ایک خدائے برتر کے مقررکردہ قوانین ہیںجیسے کہ قرآن الفرقان میں ارشادہواہے ۔ ’’اورسورج اپنے مقررہ رستے پرچلتارہتاہے۔یہ (خدائے)غالب (اور) دانا کا (مقررکیا ہوا) اندازہ ہے اور چاندکی بھی ہم نے منزلیںمقررکر دیں یہاںتک کہ (گھٹتے گھٹتے )کھجورکی پرانی شاخ کی طرح ہو جاتاہے۔ نہ توسورج ہی سے ہوسکتا ہے کہ چاندکوجاپکڑے اورنہ رات ہی دن سے پہلے آسکتی ہے اور سب اپنے اپنے دائرے میں تیررہے ہیں۔‘‘(۳۶: ۳۸۔۴۰ ) تغیراتِ کائنات عمل مختتم کے کوئی معین اصول نہیں بلکہ ایک علیم وبصیرہستی کے مقررکردہ اصول تخلیق ہیں۔اس حوالے سے ہراقلیتوس کے نقطۂ نظرکوردکرتے ہوئے اقبال لکھتا ہے کہ بالفرض زمانے کی ’’حرکت کاتصور ایک د ائرے کی صورت میں کیاگیاتواس کی خلاقی کالعدم ہوجائے گی۔دوامی رجعت دوامی تخلیق نہیں، اسے دوامی تکرار ہی کہاجائے گا۔‘‘۸۶ دیکھاجائے توہراقلیتوس کا نظریۂ جدلیات، تاریخ فکر یونان کے اس دورسے متعلق ہے جب انسانی ذہن کونیاتی اور میکانکی انداز فکر کی طرف مرکوز تھا اور جہاں استخراجی قیاس ہی سے زیادہ ترکام چلایاجاتاتھا۔اس تناظرمیں ہراقلیتوس نے یہ جاننا چاہاتھاکہ کس طرح سونے اٹھنے، بھاگنے رکنے، ہنسنے رونے،کھانے پینے جیسے متضاد تغیرات کے باوجود انسان،انسان ہی رہتاہے گویاکسی شے کے تغیرات کے درپردہ اس کی مستقل عینیت کیونکربرقراررہتی ہے۔اس زمانے میں جب زینوفینیزنے اپنے آباء کے نظریۂ تجسیم کا مضحکہ اڑایا تھا اوردیومالائیت کے خلاف فکری محاذِ جنگ کاباقاعدہ اعلان کیا تھا، اورایلیائی مفکرین پارمینڈیز اور زینونے اس کے نظریۂ وحدت الوجودکو ثابت کرنے کے لیے تمام کوششیں صرف کیںاوروہ اس نتیجے پرپہنچے تھے کہ تغیراتِ کائنات فریب ہیںجوبذریعہ حواس قابل ادراک ہیں جب کہ اصل حقیقت سکون و ثبات کی ہے جس کی تفہیم صرف عقل وفکرکی بدولت ہی ممکن ہے۔ایلیاؤںسے نظری اختلاف کے سبب ہراقلیتوس نے زینوفینیزکے نظریہ وحدت الوجودکوایک نیا فکری زاویہ دیناچاہا،جس کے مطابق، سکون وثبات درحقیقت کائناتی فریب ہے جو محض حواس کی پُرکاریاں ہیں، وگرنہ حقیقت تغیراتِ کائنات کا وہ سلسلہ ہے جو صرف فکر ی کاوش کاثمر ہے۔اس طرح وحدت میں تضاد اور تضاد میں وحدت کی تلاش میںوہ اصول جدلیات تک جا پہنچاجس سے زمانے کی دوری گردش کا تصور اخذ ہوا۔ پروفیسر برنیٹ کی رائے میںہراقلیتوس کی فکرکاالمیہ یہ ہے کہ ’’اپنے پیغمبرانہ طرزکے لب ولہجہ اور مذہبی زبان کواستعمال کرنے کے باوجودوہ اپنے عہدکے نظریۂ وحدت الوجود اورسیکولرازم سے پیچھانہ چھڑاسکا۔‘‘۸۷ ہراقلیتوس کویہ خیال قرین قیاس اورقرین انصاف نہیںلگتاکہ تغیرات کی کوئی نہایت نہ ہو۔وہ اپنی سوچ میںدرست تھاکہ تغیرات کی بالآخرکوئی نہ کوئی حدہوتی ہے اورتغیرات کاتواترکسی نہ کسی توازن سے رواںرہتا ہے مگروہ تغیرات کے نشیب وفرازکی تکراری کیفیت کوہی حقیقت کاحاصل کل سمجھ کرزمانے کی دَوری گردش کے فکری گرداب سے باہرنہ نکل سکا۔ اقبال کی فکرکامعاملہ ہراقلیتوس سے کافی مختلف اس لیے ہے کہ وہ اسلامی تعلیمات سے اپنی فکری ہم آہنگی رکھتاہے۔دوسرے وہ استقرائی فکرکوترجیح دیتا ہے، اس حوالے سے،اس نے یہ مؤقف اپنایاکہ زمانے کاتعین کسی نہ کسی خارجی شے کی مناسبت سے کیاجائے تووہ گھڑی کے ڈائل کی طرح ایک مسلسل اورمتواتردوری گردش میںمحوِ سفر رہتا ہے، جیسے کہ زمانے کی رفتارکوسورج کی نسبت سے ماپاجائے تواسے گھنٹوں،منٹوںاورسیکنڈوںمیںناپاجا سکتاہے اوراس سے ماضی،حال اورمستقبل کے آنات و لمحات کی تقسیم لازم آتی ہے لیکن اگرزمانے کونفس کی نسبت ماپاجائے تو اسے آنوں اور لمحوںمیںمنقسم نہیںکیاجاسکتا،کیونکہ نفس کوئی ایساوجودتوہے نہیںکہ جسے دائیں بائیں یا اوپرنیچے کے تصورات سے پہچانا جاسکے۔اوّل الذکرزمانے کاتصورزمان مسلسل(Serial time) ہے جسے انسان کی عقل وخردنے معمولات زندگی کی انجام دہی کی خاطر گھڑلیا ہے جبکہ مؤخرالذکر زمانے کا تصور زمان خالص(Pure duration)ہے جسے وجدانی استقراء سے جانا جاسکتاہے، جو گھڑا نہیں جاسکتا، بلکہ فی الحقیقت موجود ہے۔بنیادی طورپرزمان مسلسل،زمان خالص سے متفارق نہیں بلکہ محض اس کا فکری اظہار ہے جہاںتغیرات کا احصاممکن ہوا۔چونکہ اول توزمان خالص کاتعلق حیاتِ نفسی سے ہے اوراس کے بغیر حرکت کا تصورممکن نہیں،اس لیے زمان خالص کاوجودحرکت کے مقابلے میںزیادہ اساسی ہے۔۸۸ دیکھاجائے تواس مؤقف کی روسے اقبال ہراقلیتوس کی بہ نسبت فکری لحاظ سے کہیںآگے ہے۔اقبال کے نقطۂ نظرسے موازنہ کیاجائے تو،اولاً،ہراقلیتوس استخراجی فکرسے آگے نہ جاسکا اور تغیراتِ زمانہ کو زمان ِمسلسل متصور کرتا رہا، ثانیاً وہ زمانے کو معین اور بے لچک قوانین تغیر کا پنڈار سمجھتارہاجہاںاصولِ تغیروجودِزمانہ کی اساس ہے۔اس کے برعکس،اقبال کے نزدیک،زمانے کا اصل تصور زمان خالص ہے جوایک تو استخراجی فکر سے بالا ہے، دوسرے زمانِ مسلسل کے جس روپ میں بزور فکر متشکل ہوتاہے، وہاںاس کے قوانین وضوابط ظاہری طورپرمعین اوربے لچک دکھائی دیتے ہیں،مگراپنی کنہ میںوہ لچکدارہیںان میںاضافے اورارتقاء کی گنجائش بدرجۂ اتم موجودہے، اس لیے زمانے کی گردش دَوری نہیںبلکہ تخلیقی ہے اوراس حساب سے وجود زمانہ، دراصل اصول تغیرکی اساس ہے۔ ہراقلیتوس کے نزدیک۸۹،کائنات عالمِ کبیرہے اورانسان اُسی کی طرز پرعالمِ صغیر ہے۔ کائنات آگ اور پانی کاایساآمیزہ ہے جہاں وُقعت آگ کی ہے ،پانی کی نہیں۔ کیونکہ آگ زندگی کی تابناکی ہے جب کہ پانی اس کی تاریکی ۔جس قدر آگ زور پکڑتی ہے اسی قدرپانی کا زور ٹوٹ جاتاہے اورجس قدرپانی زورپکڑتاہے اس قدرآگ کا زور ٹوٹ جاتا ہے۔آگ اور پانی کا کھیل ایک متوازن اُتارچڑھاؤسے چلتارہتاہے۔کچھ یہی صورت حال انسانی روح کی ہے جو بمثلِ کائنات ہے، یعنی آگ اورپانی کاملاپ ہے۔وہ کوئی بھوت پریت کے موافق نہیںاورنہ ہی کسی دیوی دیوتا کا سایہ۔وہ صحیح معنی میںحقیقی ہے اوراس کا سب سے بہترین وصف دانش ہے جو اصل میںروح کی آگ ہے جس کے سبب انسان کی قدرسب سے افضل ہے۔ روح کی چاہت نمدارہوجاناہے، یعنی خواہشوں اورجبلتوں کی تسکین کا حصول ہے،ان سے بھڑنابہت کٹھن ہے۔ جودانش کے زورپراپنی خواہشات پہ پالیتا ہے، وہ زندگی کامقصدپاجاتاہے۔لیکن جس کی خواہشات دانش پہ غلبہ حاصل کرلیتی ہیںوہ زندگی سے تہی دامن رہتاہے۔بے کنار روح اپنی کنہ میں اس قدرعمیق ہے کہ اس کی گہرائی کااندازہ نہیں کیاجاسکتا۔ یہاں،ہراقلیتوس نے انسانی روح کوکائنات کی تمثیل پراسے بھی ان قوانین کاپابندکر دیا ہے جو کائنات میں رَواں دَواں ہیں۔دوسرے انسان کے جبرو اختیار کو اس کے جبلتوں وخواہشوں اور فکرودانش کے مابین کشاکش میں محصورکردیاہے جو جدلیاتی اصول تغیرکی جبری صورت ہے۔جس طرح سورج طلوع ہوتواس کے اختیار میںنہیں،اسے بہر حال غروب ہوناپڑتاہے،اوراگلے روز پھرنیاسورج طلوع ہوتاہے اور طلوع وغروب کاچکرچلتارہتاہے۔ بعینہٖ روز انسان اپنی جبلتوں اور خواہشوںسے مغلوب ہوتاہے،دانش اور فکروتدبرسے ان پہ غالب آتاہے اوریہ اس کے اختیار میں نہیںکہ اپنی جبلتوںاورجذبوںکی فکرودانش سے کشمکش کوکسی انجام تک پہنچادے۔اس لحاظ سے انسان ہوناکوئی فطری امرنہیںبلکہ اس کی ہمہ وقتی کاوش کاحاصل ہے جو جبلتوں اورجذبوں سے فکری ٹکراؤ کی صورت میںوقوع پذیر ہوتاہے۔ اقبال کامطمح نظرہراقلیتوس سے کافی مختلف ہے۔اس کے نزدیک،انسان کائنات کی وہ واحدمخلوق ہے جس کی خارجی زندگی پرطبیعی اثرات بعینہٖ مرتب ہوتے ہیں جیسے دیگر فطری مظاہر پر۔مگراس کی باطنی زندگی کائناتی اصول و ضوابط سے یکسر آزادہے،اوراس کی آزادی کوبزبان قاضی قیصرالاسلام کچھ اس طرح سمجھایا جاسکتا ہے۔فرض کریں کہ ایک گائے کھونٹے سے بندھی ہے، یہ اُس حدتک حرکت کرسکتی ہے جہاںتک اس کی رسی کاطول ہولیکن رسی کے طول سے با ہر جانے سے وہ قاصررہتی ہے۔ بعینہٖ انسان آزادتوہے مگران حدودکے اندرجوسماج،قانون،اس کے نفسی عوامل اور مذہب کی جانب سے عائد ہوتی ہیں۔۹۰ اقبال کی زبان میں،انسان انائے فعال کے سیاق وسباق میںتوطبیعی قوانین کی جبریت کا پابند ہے مگر انائے بصیرکے تناظرمیںاس آزادی کاحامل ہے جہاںمستقبل کے امکانات کادروازہ اس کے لیے کھلا پڑاہے۔ انسا ن چاہے تواپنی جبلتوں اور جذبوں کو اس قدر مسخر کرلے کہ وہ اس کی فکر و دانش کے باضابطہ تصرف میں رہے۔ انسان کا انائے بصیر کسی اصول کا پابند نہیں بلکہ وہ خود کو کسی بامقصد اصول کا پابند بناتا ہے۔اس غرض کے لیے انائے بصیرکو استقرائی تجربہ درکار ہے، جس کی معاونت سے جبلتوںاورجذبوںپہ مبنی جادو،ٹونے ٹوٹکے، توہم پرستی اساطیری تصورات، دیو مالائی طرزِفکر،بے جاتعصبات جیسے غیر عاقلانہ تفکرسے گلوخلاصی ہوسکتی ہے اوراپنے خارجی اور باطنی ماحول کو مسخر کیا جا سکتاہے۔اقبال کی رائے میں۹۱استقرائی تجربہ دوگونہ سرچشمۂ علم ہے، یہ اس شے کی بصیرت عطاکرتاہے جوانسان کے وجود سے خارج ہے اورساتھ ہی اس شے کی بھی، جو اس کے وجودکے اندرہے۔ اس حوالے سے یہ بات درست ہے کہ انائے فعال کی طبیعی زندگی اورانائے بصیرکی نفسیاتی زندگی میںرسہ کشی ہوتی رہتی ہے مگر یہ رسہ کشی ہراقلیتوس کے جبلتوں اور خواہشوںاوردانش وتدبر کے مابین کشمکش کی مانند نہیں۔ کیونکہ ہراقلیتوس کے ہاں انسان اصول تغیرکاپابندہے۔وہ اتنا اختیار نہیںرکھتاکہ مستقلاً جبلتوں اورخواہشوں کواپنی دانش کے مطیع کرلے جب کہ اقبال کے مطابق، انسان کی انائے بصیر بااختیارہے بشرطیکہ وہ مسلسل تگ ودوسے انائے فعال پہ تصرف برقراررکھے اوراپنے داخلی تجربے سے ایک علیم وبصیر ہستی پرایمان لے آئے اوراس کے احکامات پر برضاو رغبت عمل کرے۔اقبال کایہ شعردراصل اسی مؤقف کی تائید ہے :- تقدیر کے پابند نباتات و جمادات مومن فقط احکامِ الٰہی کا ہے پابند ۹۲ سقراط اوراقبال : (Socrates & Iqbal) سقراط کے فکرواستدلال کواقبال نے پسندیدگی کی نگاہ سے نہیںدیکھا۔اس کامؤقف ہے کہ سقراط مطالعۂ انسان میںاس قدرمستغرق رہاکہ اسے مطالعۂ کائنات کی طرف کبھی رغبت ہی نہیں ہوئی حالانکہ خارجی فطرت ایسی مسلمہ حقیقت ہے جس کے مشاہدے کی دعوت قرآن حکیم نے بار بار دی ہے اورمظاہرفطرت کوخداکی نشانیاں قرار دیا ہے۔ اقبال کے الفاظ میں ،’’سقراط نے اپنی ساری توجہ دنیاکے انسان پرمرکوزکردی تھی۔ اس کی نظرمیںانسانی مطالعہ سے مرادفقط انسان کا مطالعہ تھانہ کہ وہ دنیابھی،جو نباتات، حشرات،ستاروںسے آبادہے۔یہ مطالعہ قرآن کی روح کے منافی ہے جوایک شہدکی مکھی میںبھی ربّانی فیضان جلوہ نمادیکھتاہے اورقدم قدم پرقاری سے مطالبہ کرتاہے کہ وہ لمحہ بہ لمحہ تبدیل ہونے والی ہواؤں،دن رات کی تشکیل،بادلوں،تاروںبھرے آسمان اوران سیاروںکامطالعہ کرے جو خلائے بے کراںمیںسرگرم سفرہیں۔‘‘۹۳ سقراط کی فکرپرجزبزہونے کے ساتھ ہی اقبال نے اس کے طرزِ استدلال پربالواسطہ چوٹ بھی کی ہے۔وہ لکھتاہے ،’’افلاطون،سقراط کے صحیح شاگردرشیدہونے کے ناطے حواسی ادراک سے متنفر ہے جواس کے نقظۂ نظر سے علم نہیںبلکہ محض رائے تک پہنچاتا ہے۔‘‘۹۴اقبال کایہ بیان خاصہ معنی خیزاورتوجہ طلب ہے۔اس کے بین السطوریہ مفہوم ابھرتاہے کہ جس طرح سقراط تعقلات کو حسی مدرکات پرفوقیت دیتااورحسی علم کو محض رائے زنی گردانتا تھا،بعینہٖ اس کے چہیتے شاگرد افلاطون کا بھی وطیرہ رہا۔یہاںاقبال نے جواعتراض اٹھایاہے، اس میںکہاںتک وزن ہے،اس کا اندازہ کرنے کے لیے اس تاریخی پس منظرکومدنظررکھناضروری ہے جس میںسقراط کے فکرو استدلال نے نموپائی۔اس ضمن میں، یونانی استدلال کے جائزے میں سقراطی طریقۂ کارکاتذکرہ کیا گیاہے۔اُس کوپیش نظررکھاجائے تومعلوم ہوگاکہ سقراط کاتفکر سوفسطائی افکارکے خلاف ایک شدیدردعمل تھا۔ یہ سوفسطائیہ ہی تھے جنھو ںنے خارج شناسی کی طرف بیزاری اورخودشناسی کی طرف رغبت دکھائی۔’’انسان ہرشے کاپیمانہ ہے‘‘۔پروٹاگورس کے اس قول نے خصوصاًفردکی اہمیت کومبالغہ آمیز حدتک اس طرح اچھالاکہ اپنے باطنی حسیات کی بناء پرہرمعاملے میںہرشخص اتھارٹی بن بیٹھا۔ ’’اپنے آپ کوپہچانو‘‘کے نعرے میںسقراط نے بھی اگرچہ سوفسطائیوںکی دعوت مطالعۂ انسان کو پیش پیش رکھامگراس نے ہرفردکوہرشے کامعیارنہیںبننے دیا۔اسے عقلی لحاظ سے بیدار کیا کہ وہ خود سے جان لے کہ حقیقت کاتعلق باطنی حسیات سے نہیں،بلکہ اُن تعقلات سے ہے جو جزوی حسیات کی بنیادی صفات کی تعمیم سے فہم میںآتے ہیں۔اس حوالے سے،اقبال نے مطالعۂ انسان کی دعوت کا سزاوارسقراط کوٹھہرایاہے جواوّل تواس لیے درست نہیںکہ یہ سلسلہ اس کا نہیں بلکہ سوفسطائیوںکاقائم کردہ تھا ۔ ثانیاًدعوت ِمطالعہ ٔ انسان کسی صورت میںبھی قرآن کی تعلیمات کے منافی نہیں،جیساکہ خوداقبال نے وضاحت کی ہے زندگی جہد است و استحقاق نیست جز بعلمِ انفس و آفاق نیست ۹۵ زندگی کوشش ہے اور(اس پرکسی کاکوئی )حق نہیں۔انفس اورآفاق کے علم کے سواکچھ نہیں۔ اورجیسے : اے انفس و آفاق میں پیدا ترے آیات حق یہ ہے کہ ہے زندہ وپایندہ تری ذات ۹۶ اس بناء پر حصول علم کے لیے جس قدرمطالعۂ باطن کی ضرورت رہتی ہے اس قدرمطالعہ خارج کی بھی ضرورت رہتی ہے۔سقراط دعوت ِقرآن کی اس حقیقت سے یقینا دوررہا۔اقبال نے بالخصوص اسی نقطہ نظرکوشعری آہنگ میں پیش کرتے ہوئے واضح کیاکہ حقیقت خودشناسی،پھرخارج شناسی اور بالآخرخداشناسی کے درجوںپرمحیط ہے۔ شاہدِ اوّل شعورِ خویشتن خویش رادیدن بنورِ خویشتن شاہدِ ثانی شعورِ دیگرے خویش رادیدن بنورِ دیگرے شاہدِ ثالث شعورِ ذاتِ حق خویش رادیدن بنورِذاتِ حق ۹۷ شاہد اوّل اپنا شعور ہے (یعنی) اپنے آپ کو اپنے نورسے دیکھناہے۔شاہد دوم دوسروں کا شعور ہے (یعنی) اپنے آپ کو دوسروںکے نورسے دیکھناہے۔شاہدسوم حق تعالیٰ کاشعورہے (یعنی) اپنے آپ کوحق تعالیٰ کے نورسے دیکھناہے۔ ٹھیک ہے،سقراط خودشناسی سے آگے نہیںبڑھ پایا،لیکن اس کایہ مطلب توہرگزنہیںکہ اس کی دعوت ِفکر قرآن سے بُعدرکھتی ہے۔ اس کے ہاںحقیقت کا پورانہ سہی، آدھا سچ تو موجودہے البتہ جہاں تک اس کے طرزِ استدلال کی بات ہے، وہاںاقبال کے اعتراض کی گنجائش نکلتی ہے۔ سقراط کے طرزِاستدلال کواستخراجی کہاجائے یااستقرائی،خاصا گنجلک معاملہ ہے۔کیونکہ سقراط نے ذاتی طورپرتوکوئی تصنیف نہیںچھوڑی جہاں سے ٹھیک ٹھیک اندازہ لگایاجاسکتا۔اب صورت حال ایسی بن چکی ہے کہ افلاطون کی تصانیف کومدنظررکھاجائے توسقراطی استدلال میں استخراجی رجحان جھلکتا ہے اورارسطوکی تحریروںسے، اس کا استقرائی میلان ثابت ہوتاہے۔مجموعی طورپرافلاطون اورارسطو،دونوںکی رو سے سقراطی استدلال کاتجزیہ کیا جا ئے تو بالآخر اقبال کے مؤقف کوتائیدحاصل ہوتی ہے۔ افلاطون کے نزدیک،سقراط کاخیال تھاکہ دوران گفتگووہ اپنے مخاطب کوجس تعقل پرلے آتاہے،اس میں کوئی نیاپن نہیںہوتابلکہ وہ تواس کے ذہن میںپہلے سے موجودہوتاہے۔اس بناء پروہ کہاکرتا تھا کہ اس کاحال تودایہ جیساہے جودوران زچگی بچہ جننے میں زچہ کی صرف مددکرتی ہے اور بس۔بعینہٖ دورانِ گفتگووہ اپنے مخاطب کی محض اتنی معاونت کرتاہے کہ اس کے ذہن سے اس کے خوابیدہ علم کوبیدارکردے۔اس حساب سے سقراط علم کوبازیافت کاعلم سمجھتا ہے،جہاں علم کی نوعیت وہبی ہے جومشاہدات و تجربات کاحاصل نہیںبلکہ ازلی وابدی سچائی ہے۔افلاطون کے مکالمہ مینو(Meno) سے اس کی خوب وضاحت ملتی ہے۔اس مکالمے میںسقراط کوایک ایسے غلام لڑکے سے محو گفتگو دکھایاگیاہے جوریاضی کی الف ب بھی نہیںجانتا،حتی کہ اسے یہ بھی معلوم نہیںکہ چوکورکیاہوتی ہے۔انتہائی مہارت او ر کمال ہنرمندی سے سقراط اس لڑکے سے اس طرح کے سوالات پوچھتاہے کہ اس میں چھپے اشاروںکی مدد سے بالآخر وہ اس کے ذہن سے چوکورکے خصائص کے بارے میںتھیورم نکلوانے میںکامیاب ہوجاتاہے۔یہاں،غورطلب بات یہ ہے کہ سقراط نے نہ تو اسے کچھ بتایااور نہ اسے معلومات دیں۔بس،محض سوالات پوچھے۔لہٰذااس تھیورم کے بارے میں لڑکے کے علم کی وجہ نہ تو سقراط کی تعلیمات ہیںاورنہ تو اس کااپناکوئی ذاتی تجربہ، تو پھریہ صرف عملِ بازیافت ہی ہوسکتاہے۔۹۸ علاوہ ازیں،افلاطون کے مطابق۹۹،سقراط کو یقین تھاکہ حسّی مدرکات سے جزئیات اور فکری معقولات سے کلیات کی تفہیم حاصل ہوتی ہے۔جزئیات کاعلاقہ بدن سے اور کلیات کاروح سے ہے۔بدن حقیقی وقطعی علم کے حصو ل میںرکاوٹ بنتاہے لہٰذاجس قدربدن سے چھٹکاراحاصل ہوگا،اسی قدر حقیقت وصداقت سے قربت بڑھے گی۔ثانیاً، حسی مدرکات تغیرپذیرہیںاس لیے ان پر مبنی علم رائے تو ہوسکتا ہے، لیکن صحیح معنوںمیںعلم نہیں۔اس دنیاوی زندگی میں حقیقی علم حاصل کرنا ہے تو روز مرنا ہوگایعنی دنیائے حس سے نکل کر دنیائے فکرمیںمحورہناہوگا۔اس حوالے سے دیکھا جائے تو سقراط کااستدلال استخراجی ہے۔ دوسری طرف،ارسطومانتاہے۱۰۰ کہ یہ سہرا سقراط کے سر بندھتاہے کہ اس نے استقرائی استدلال کومتعارف کرایاجس کے مطابق وہ اپنے مخاطب کی بات چیت سے عمومی نتائج اخذکرتا تھا۔جیسے کہ پہلے ذکرکیاجاچکاہے کہ ارسطو کے استقرائی انداز میں استخراجی قیاس غالب تھا، اس لیے سقراطی طرزِ استقراء معروف معنوں میں استقراء نہیں۔ثانیاً، برٹرینڈرسل کی رائے میں۱۰۱ سقراط کے استدلال کو استقراء قراردینامناسب نہیںکیونکہ سقراط کے ہاں،علم وہبی ہے اورعملِ بازیافت ہے اس لیے مخاطب کی گفتگوسے جوبھی عمومی نتیجہ حاصل ہوگاوہ ایساتعقل ہوگاجوپہلے سے طے شدہ حقیقت کاترجمان ہے،کسی نئی حقیقت کا دعویدار نہیں۔ لیکن اگرمنطقی اعتبارسے سقراط کاطرزِاستدلال استقرائی نہیںتواس کایہ مطلب تونہ ہواکہ وہ استقراء سے یکسرمعرّاہے۔اس میںوجدانی نوعیت کے استقراء کی جھلک موجود تھی اوراس کا ثبوت اس کی سوانح حیات سے ملتا ہے۔جہاںدوواضح قسم کے اشارے موجودہیں : .iبقول زینوفون۱۰۲،سقراط کاکہناہے کہ زمانہ لڑکپن ہی سے اسے غیب سے صداآتی ہے جو اسے نامنا سب اورنامعقول اقدام سے روکتی ہے۔ اس طرح اس کی رہنمائی کرتی ہے۔ .iiبحوالہ افلاطون۱۰۳، سمپوزیم(Symposium)کے مطالعے سے پتا چلتاہے کہ ایک دفعہ سقراط پوٹیڈائیا(Poteidaia) کے کیمپ میںکسی مسئلے کے حل کے سلسلے میںغورکررہاتھاکہ اسی حالتِ استغراق میںپورادن ایک ہی جگہ کھڑارہا۔اس کے ساتھی حیرانگی سے اس کی حالت دیکھنے کے لیے جمع ہوئے، وہ اس کی حالت میں تبدیلی کے منتظررہے یہاںتک کہ رات بیت گئی، صبح ہوئی تووہ اپنی جگہ سے ہلا۔ سورج کے رخ نمازاداکی اور اپنے معمولات کی طرف چلا گیا۔ان شواہد سے یہ اشارہ ملتاہے کہ وہ منطقی فکر کے علاوہ وجدانی ملکہ بھی رکھتاتھا۔ لیکن یہ بھی غلط نہیںکہ وجدانی استطاعت رکھنے کے باوجود،سقراط نے اپنے طنزیاتی طریقۂ کار میںزینوایلیائی کے طرزمکالمات کواپنے مصرف میںرکھااوراپنے عہد کے عقلیت پسندحکماء کی اس فکری ڈگر پر کار بند رہا جو کُلیہ کو جزئیے پرفوقیت دیاکرتے تھے،اس لیے یہ کہنابے جانہ ہوگاکہ بنیادی طورپروہ اپنے عہدکے استخراجی سحرسے نہ نکل پایا حالانکہ اس نے استقرائی نوع کے تعقلات کو پیش کیا۔اس کی تائیدافلاطون کے بیان ۱۰۴سے ہوجاتی ہے، جس کے مطابق سقراطی طریقۂ کار حقائق کی بجائے قضایا کے نقطۂ نظرسے اشیاء کوپیش نظررکھنے پرمبنی تھا۔اس تمام تر تجزئیے سے بالآخریہ ثابت ہوجاتاہے کہ اوّل،اس کے فکرکی طاقت پرواز مطالعۂ انسان تک محدودرہی اور دوسرے، وہ ادراکات و تجربات سے تعرض نہ کرپایا،اس لیے اس زاویۂ نگاہ سے اقبال اپنے اعتراض میںحق بجانب ہے۔ تھوڑی دیرکے لیے یہ مان بھی لیاجائے کہ سقراط کی فکر استقرائی بصیرت کی حامل ہے، پھر بھی اقبال کی فکر میںاس کی بہ نسبت گہرائی کہیںزیادہ ہے کیونکہ’’ اپنے آپ کوپہچانو‘‘کی فکری دعوت میں، ایک توسقراط تعقلات کی تفہیم سے آگے نہیںبڑھ پایا،دوسرے بقول ارسطو،وہ یہ نہیںسمجھ پایا کہ علم اورعمل کے درمیان قوت ِارادہ درکارہوتاہے۔کئی دفعہ انسان بخوبی جانتاہے کہ صحیح کیاہے مگر اس کے باوجود وہ اس کے عین مطابق عمل پیرانہیں ہوتا کیونکہ بعض اوقات انسان کے جبلی اور جذباتی تجربات وواقعات کا اثراس قدرشدیدہوتاہے کہ انسانی عقل اس کے آگے بے بس ہو جاتی ہے۔ اس کامطلب یہ ہواکہ عقلی سطح پرعلم حاصل کرنااوربات ہے اورحاصل کردہ علم کے مطابق عمل پیرا ہونا ایک دوسرا معاملہ ہے۔ اس اعتبارسے سقراط کاعلم کوعمل سے الگ متصورنہ کرنا،حقیقت پسندانہ نقظۂ نظر نہیں۔ اس کے برعکس،جب اقبال ’اپنے آپ کوپہچانو‘ کی فکری دعوت پیش کرتے ہوئے کہتاہے : بخود گم بہرِ تحقیق ِخودی شو ۱۰۵ خودی کی تحقیق کے لیے خود میںگم ہوجا۔ یاپھرکہتاہے: اپنے مَن میں ڈوب کر پا جا سراغِ زندگی ۱۰۶ یہاںاس کازورمحض تعقلات کی تفہیم پرنہیںبلکہ انسان کے داخلی وقوف کی طرف ہے۔ دوسرے اُسے یقین ہے کہ انسان انائے بصیرکی نفسیاتی زندگی اورانائے فعال کی طبیعی زندگی کا امتزاج ہے۔جہاںانائے فعال کی طبیعی زندگی جبلات وجذبات کی شدت سے رنگین ہے مگران کی تشفی و تکمیل کافیصلہ انائے بصیرکی نفسیاتی زندگی سے وابستہ ہے۔اگر نفسیاتی زندگی،طبیعی زندگی کے تقاضوںکواپنے دائرہ اختیارمیںکرلے توطبیعی زندگی کاجبرٹوٹ جاتاہے لیکن اگرطبیعی زندگی نفسیاتی زندگی کے تقاضوں پر حاوی ہوجائے تونفسیاتی زندگی کی اختیاریت زائل ہوجاتی ہے۔ نفسیاتی زندگی کی فتح ضروری ہے جوصرف استقرائی بصیرت کی بدولت ممکن ہے لیکن استقرائی علم عمل مسلسل کا متقاضی ہے،آخر کیوں؟اس ضمن میںاقبال کے یہ الفاظ قابل غورہیں ،’’فرض کیجئے ہم ایک غلط تصور قائم کرتے ہیں، اس سے اتناہی تو ہوگاکہ ہمارافہم وخردگمراہ ہوجائے لیکن ایک ناسزا فعل کے ارتکاب سے توہماری تمام ہستی نہ صرف قعرِ مذلت میں جا گرتی ہے،بلکہ اندیشہ ہوتاہے کہ ہم شایداپنی خودی کی دولت بھی کھوبیٹھیں۔’خیال‘ سے زندگی صرف ایک حدتک متاثر ہوتی ہے برعکس اس کے’عمل‘کوحقیقت سے ایک حرکت زانسبت ہے۔ لہٰذاعمل کاسرچشمہ ہے انسان کاوہ رویہ جوحقیقت کے بارے میںبالعموم مستقلاًاختیارکیا جاتا ہے۔‘‘۱۰۷گویاعمل کے بغیرعلم ساقط ہے اور علم کے بغیر عمل بے کار ۔ اگر علم وعمل آپس میںباہمی مشروط ہیںتوسقراط نے انہیںمتفارق متصور نہ کرکے کوئی غلطی تونہیںکی۔لیکن دوسری طرف ارسطوکااعتراض بھی بے جانہیںکہ علم وعمل کی تفریق کسی بھی ایسے شخص کے ہاںدیکھی جاسکتی ہے جس کے قول وفعل میں تضادہو۔خلیفہ عبدالحکیم نے سقراط اورارسطو کے نقطۂ نظرکے مابین امتیازکوواضح کرنے کی خاطرعلم کی قسمیںاوریقین کے مدارج معین کئے ہیںجوتین ہیں :۱۰۸ .1علم الیقین،علم کاوہ درجہ،جہاںسنی سنائی بات پریقین کرلیاجائے،جیسے پتہ چلے کہ فلاںکودردِشکم ہوا۔ .2عین الیقین،علم کاوہ درجہ،جہاںآنکھوںدیکھی بات پریقین کر لیا جائے، جیسے خود دیکھا جائے کہ فلاںکو دردِشکم ہوا۔ .3حق الیقین،علم کاوہ درجہ،جہاںذاتی تجربہ ہو،جیسے خودکودردِشکم ہو۔ خلیفہ عبدالحکیم کے خیال میں سقراط علم سے مراد حق الیقین لیتارہا جہاں قول وفعل میں تضاد نہیںرہتاجب کہ ارسطوحق الیقین کے علاوہ دیگردرجوںکومدنظررکھتے ہوئے سقراط کوموردِالزام ٹھہراتارہا۔حالانکہ دونوںاپنی جگہ حق بجانب ہیں۔اس کے برعکس،یہ اقبال کی فکری ہنرمندی ہے کہ اس کے ہاں،انائے بصیر کی نفسیاتی زندگی اورانائے فعال کی طبیعی زندگی کی کشمکش میںعلم کے سبھی درجے سموئے رہتے ہیں۔جہاںجس قدرنفسیاتی زندگی طبیعی زندگی پر تصرف حاصل کرتی ہے، اُسی قدر علم وعمل میںاشتراک قائم ہوتاہے۔ اس لیے اُس کے نزدیک علم عمل ہے۔ ما کہ اندر طلب از خانہ بروں تاختہ ایم علم را جاں بدمیدیم و عمل ساختہ ایم ْْ۱۰۹ ہم جوجستجومیںگھرسے نکل کھڑے ہوئے ہیں۔ہم نے علم میںروح پھونک کراسے عمل بنالیاہے۔ افلاطون اوراقبال :(Plato and Iqbal) افلاطون،وہ واحدیونانی مفکرہے جسے اقبال نے خصوصاً ہدفِ تنقید بنایا اور اس کی فکرکے بارے میں کئی بار اس قسم کااظہارخیال کیا : تکیہ بر عقلِ جہاں بینِ فلاطون نکنم ۱۱۰ میں افلاطون کی جہاںبیں عقل پربھروسہ نہیںکرتا۔ آخرکیوں؟اس کے لیے،یہ جانناضروری ہے کہ اوّل،فکرِافلاطون نے کن مفکرین کے خیالات سے نمو پایا۔دوم، افلاطون کی فکر کا مرکزی خیال کیا تھا۔ جہاں تک،اوّل الذکرکاتعلق ہے،اس حوالے سے،فرینک تھلی (Frank Thilly)کاتجزیہ کافی موثراورمعاون ہے جس سے یہ ثابت ہوتاہے کہ افلاطون کی فکری نمو میں تقریباً ان تمام یونانی حکماء کی تعلیمات کااثرموجودہے جو اس سے پہلے یا پھر اس کے زمانے میں موجودتھے۔وہ لکھتاہے:۔ ’’نظام افلاطون کے فکری ڈھانچے میںہمیںفکریونان کے رہنماؤںکی تعلیمات کا انتقال اورامتزاج ملتاہے۔ افلاطون متفق ہے سوفسطائیوںسے کہ قطعی علم ناممکن ہے بشرطیکہ اسے ظواہرکاپابندخیال کیا جائے۔ سقراط سے کہ حقیقی علم ہمیشہ تعقلات سے حاصل ہوتاہے،ہراقلیتوس سے کہ دنیا لگاتار تغیرپذیرہے کیونکہ اس کے حسی ظواہرتغیروتبدل سے عبا ر ت ہیں،ایلیاؤںسے کہ حقیقی دنیاجامدوساکن ہے جواس کی اپنی نظرمیںدنیائے امثال ہے،جوہریت پسندوں سے کہ ہستی گوناگوںہے کیونکہ وہ خود تصورات کی کثرت کو مانتا ہے۔ ایلیاؤںسے کہ ہستی واحدہے کیونکہ اس کے قریب خیرِاعلیٰ کا تصور ایک وحدت ہے۔انکساغورس سے کہ ذہن حاکم ہے اورذہن مادے سے متفارق ہے۔اس کا نظام اس کے اپنے عہدتک کے یونانی فلسفے کی تاریخ کاوقیع ثمرہے۔‘‘۱۱۱ لیکن برٹرینڈرسل نے افلاطون پرفیثاغورث، پارمینڈیز،ہراقلیتوس اورسقراط کے فکری اثرات کوبالخصوص اہمیت دی ہے، لہٰذارسل،افلاطون کے بارے میں لکھتا ہے۱۱۲کہ فیثا غورث سے اس نے آرفک مت کامذہبی رجحان قبول کیاجواُخروی دنیاکی ابدیت کا حامل تھا۔ مزید برآں، فیثاغورث ہی سے اس نے ریاضی کی اہمیت اور عقل و عشق کے امتزاج کامیلان اپنایا۔پارمینڈیز سے اس نے یہ نظریہ برآمدکیاکہ حقیقت ازلی وابدی ہے اورتمام تغیرات غیرحقیقی اورفریب ہیں۔ہراقلیتوس سے اس نے یہ سلبی اُصول کشید کیاکہ عالم محسوسات میںکوئی شے بھی پائیدارنہیں۔پھرہراقلیتوس کے اس اصول کو پارمینڈیز سے اخذکردہ نظریے کے ساتھ یکجا کرکے یہ نتیجہ اخذکیاکہ حقیقی علم حواس سے نہیں،صرف عقل سے حاصل ہوتاہے۔یہ نتیجہ بالآخر، فیثاغورثیہ کے مؤقف سے موافقت پر منتج ہوا۔سقراط سے اس نے غالباًاخلاقی مسائل سے شغف رکھنے کاقرینہ سیکھااور کائنات کی میکانیت کی بجائے غایتی توجیہات کوتلاش کرنے کاسلیقہ سمجھا، جس سے اس کی فکرمیںخیراعلیٰ کاتصوراس قدر مسلط ہوا جو اس سے پہلے سقراطی مفکرین کے ہاںنہیںملتا۔اس معاملے میںیہ اندازہ کرنا مشکل نہیںکہ دَر پردہ سقراط کی فکر کا کس قدر ہاتھ ہے۔ گزشتہ صفحات میں ’سقراط اوراقبال‘ کے اجمالی تجزیے سے سقراطی استدلال کے بارے میںحسبِ ذیل نکات سامنے آئے تھے :- .1حقائق کاتعلق حس سے نہیں،تفکرسے ہے۔ .2تعقل کی بنیادتعریف ہے،تجربہ نہیں۔ .3علم بازیافت کاعمل ہے۔ اس معاملے میںافلاطون،سقراط کافکری ہمنواہے۔اس کا ذاتی کارنامہ یہ ہے کہ سقراط کے ہاں جن تعقلات کی حیثیت علمیاتی تھی،اس نے اسے وجودیاتی بناڈالا۔یعنی اس نے یہ ثابت کر دکھایاکہ تعقلات ذہن میںنہیںبلکہ اس سے کہیںخارج میںفی نفسہٖ بستے ہیں۔ان تعقلات کی تفہیم کے لیے اس نے دواہم قدم اٹھائے : .1اس نے سقراطی اندازِاستقراء اپنایاجس کے تحت وہ کثیر اشیاء کے مابین مشترکہ خصوصیت کو ڈھونڈتا،ان کی منطقی اعتبارسے فصل اورجنس کا تعین کرتااوربالآخر فصل اورجنس کے تعلق سے ان اشیاء کی ایک تعریف وضع کرلیتاجو ان کاتعقل قرارپاتی۔ .2اس نے عمل جماعت بندی اورعمل تقسیم پرمبنی مختلف النوع تعقلات کے مراتب کا ایک ایسا نظام وضع کیاجس میںتعقلات ایک دوسرے میںتحویل ہوجاتے ہیں۔ان کامختصر ساتذکرہ کلاسیکی استدلال کے جائزے میںپہلے بیان کیا جاچکا ہے۔ وہاںتعقلات کے مراتب کوجس سادہ سی شکل میںدکھایاگیاہے، ایک وضاحت نہیںکی گئی تھی جس کی طرف پروفیسرسٹیس نے توجہ دلائی ہے۔ اس کے مطابق۱۱۳،افلاطون نے عمل تقسیم کوہمیشہ دوشاخہDichotomy) (طریقے سے مد نظر رکھا۔مثلاً رنگ کے تعقل کو تقسیم کرنے کا ایک سادہ طریقہ تو یہ ہے کہ رنگ، سرخ، نیلا اور سفید، وغیرہ ہوتاہے۔ دوسرا طریقہ دوشاخہ ہے جس میں رنگ کے تعقل کو سرخ اور غیر سرخ میں،پھر غیرسرخ کو سفید اور غیر سفید میں، پھر غیر سفید کو نیلے اور غیرنیلے میں، اور ہذا القیاس تقسیم کرتے چلے جاتے ہیں۔ ا فلاطون نے مؤخرالذکر عمل تقسیم کو اختیار کیاکیونکہ اس کے خیال میں، ایساعملِ تقسیم اگرچہ مشکل اوردقت طلب ہے لیکن بہت ہی منظم اورجامع ہے۔ دیکھا جائے تویہ اسلوب سقراط کے تعریف وضع کرنے ہی کی ایک ترقی یافتہ اور گنجلک شکل ہے۔ جہاںتک فکرافلاطون کے مرکزی خیال کی بات ہے تواسے انتہائی اختصار سے یوںبیان کیا جاسکتاہے کہ دنیائے موجودات اوراس کی جملہ اشیاء سب کی سب دنیائے امثال کاظل ہیں۔ دنیائے موجودات تغیروتبدل،زمان و مکاں،کثرت ورنگارنگی، تنزل وارتقاء پرمبنی محسوسات و مدرکات کا فریب ہے۔اس کے برعکس، دنیائے امثال حقیقت ہے، کامل ہے، اصل الوجود ہے، زمان ومکاںسے ماورا ہے، کثرت ورنگارنگی سے معراہے، تنزل وارتقاء سے مبراہے، تغیروتبدل سے منزہ ہے، جو صرف فکری معقولات سے گرفت میںآتاہے۔اس لیے انسان کاوظیفہ یہ ہونا چاہیے کہ وہ محسوسات کی دنیائے موجودات کوعملاً تیاگ دے اوراپنی لگن دنیائے امثال سے قائم کرے۔اپنے تفکرمیںمقرون کی بجائے مجردکواورتجربے کی بہ نسبت تجرید کوجگہ دے،حقیقی طمانیت کایہی درماںہے۔دیکھاجائے توفکر ِافلاطون کے مرکزی خیال میں دیوتیما (Diotima) کی فکری صدائے بازگشت سنائی دیتی ہے۔پروفیسربرنیٹ کے مطابق۱۱۴دیوتیما، مانٹینیا (Mantineia)کی وہ دانشمندخاتون تھی جس سے سقراط نے علمی استفادہ کیا۔افلاطون نے اپنی تصنیف مکالمات (Dialogues)میںاس کے نقطۂ نظرکوبیان کیاہے جس کے مطابق،عشق کوئی دیوتانہیںبلکہ خالق ومخلوق کے درمیان صرف ایک رشتہ ہے۔انسان ہرحسین شے سے صرف اس لیے محبت کرتا ہے کہ دراصل حسنِ فانی،حسنِ لافانی کا ایک عکس ہے۔حسن ازل خیرہے تواس کاعکس بھی خیر ہے۔ اسی لیے انسان چاہتا ہے کہ وہ حسن کوجوخیرہے،حاصل کرے اورخیرکے ذریعے لافانی ہو جائے۔ انسان کی زندگی راحت اوراذیت سے عبارت ہے۔فطری طورپرحصول ِمدعاسے راحت اور محرومی سے اذیت ہوتی ہے۔عشق دومرحلوںپرمشتمل ہے۔پہلامرحلہ عشق مجازی ہے اور دوسرا مرحلہ عشق حقیقی ہے۔یہ صرف اہل ِفکرہے جوعشق مجازی کوعشق حقیقی کازینہ سمجھتاہے اوروہ اس کے ذریعے بذات ِخود یا کسی مرشد کی نگرانی میں، بالآخربعدازتگ وتازاس حسن ازل تک جاپہنچتاہے جواول و آخر،نشیب وفراز،تغیروتبدل اور عروج و زوال سے یکسر بے نیاز ہے۔اس تک پہنچنے میںجودکھ اٹھائے جاتے ہیں،وہ اس کی جھلک کے ساتھ ایک ہی لمحے میں حرفِ غلط بن جاتے ہیں۔جولوگ اہل ِنظرنہیں،ان کایہ المیہ ہے کہ وہ عشق مجازی کی ابتدائی منزلوں میں بھٹکے رہتے ہیں اورنتیجتاً سچی خوشی اورراحت سے تہی دامن رہتے ہیں۔بطورجملۂ معترضہ،اقبال نے افلاطون پردیوتیماکے اسی اثر کو بھانپتے ہوئے، اس کی عظمت میںیہ شعرکہاتھا ، مکالماتِ فلاطوںنہ لکھ سکی لیکن اسی کے شعلہ سے ٹوٹا شرارِ افلاطوں! ۱۱۵ ویوتیما کے ہاں،حسنِ فانی اورحسنِ لافانی یاعشق مجازی اورعشق حقیقی کی جوتفریق دکھائی دیتی ہے بعینہٖ ویسا فرق افلاطون کی دنیائے موجودات اوردنیائے امثال کے درمیان نظرآتاہے۔اس کے نزدیک بھی صرف وہ لوگ جو فکری لگاؤرکھتے ہیںدنیائے امثال کی تفہیم میںکامیاب ہوتے ہیں۔ بقول سٹیس یہ فکری لگاؤوہی ہے جسے افلاطونی عشق(Platonic Love)کا نام دیا جاتا ہے۔۱۱۶ فکرِافلاطون کے بارے میںمحولہ بالاتصریحات کواقبال کے زاویۂ نگاہ سے دیکھاجائے تو اس سے ایسے نکا ت سامنے آتے ہیںجواسلامی تعلیمات کے برعکس ہیں۔اقبال کے حساب سے، افلاطون کے ہاںدنیائے موجودات اور دنیائے امثال کے امتیاز سے پہلے کی نفی اوردوسرے کا اثبات مقصودہے۔یعنی دنیائے موجودات مایاہے اوردنیائے امثال حقیقت ِعین۔اس طرح تصورات کومادی اشیاء پرمنطقی سبقت حاصل ہے یعنی جیساتصورویساوجود،یوںدنیائے موجودات دنیائے امثال کا عکس ہے۔اقبال کے نزدیک یہاںخودافلاطون کی فکرمیںرجعت معکوس ہے۔ اصل صورت ِحال ایسی نہیںجو اس نے اختیار کی ہے۔تصور وجود پر تقدم نہیں رکھتا، بلکہ تصور وجود پر موقوف ہے۔اس دنیا ئے موجودات کاسرچشمہ کوئی دنیائے امثال نہیں بلکہ اس کامنبع ایک حی وقیوم وجود ِربانی ہے اوریہ دنیائے موجودات اسی وجودِقدس کی ایک مقدس کتاب ہے جس کی بظاہرآیات کی بدولت اس تک رسائی ممکن ہے۔لہٰذا یہ دنیائے موجود ا ت کسی اصل کی نقل نہیںبلکہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کے باطن میںآفرینش کارازپنہاںہے اوراس کے ٹھوس اور مقرو ن حقائق ہر کسی کو یہ دعوت ِعام دیتے ہیںکہ بزبانِ اقبال، اس جلوۂ بے پردہ کو پردوں میں چھپا دیکھ! ۱۱۷ لہٰذایہ ہرگزمناسب نہیںکہ نظری طورپردنیائے موجودات سے تعقلات کواخذکرکے اسے دنیائے امثال کی پرچھائیاں شمارکرلیاجائے۔ضرورت اس امرکی ہے کہ اس دنیائے موجودات کو تجربے اورمشاہدے کی گہری نظر سے دیکھاجائے کیونکہ اس سے مقصودبھی یہی ہے ، یہ دنیاد عوت ِدیدارہے فرزندِ آدم کو کہ ہرمستورکوبخشاگیاہے ذوقِ عر یانی ۱۱۸ تھوڑی دیر کے لیے افلاطون کے نقطہ نظرکودرست تسلیم کرلیاجائے کہ دنیائے موجودات کی ہر مادی شے اپنے تصورکی نقل ہے تواس کامطلب یہ ہوگاکہ ہرشے کی غایت اس کاتصورہی ہے کیونکہ کسی نقل کی اصل ہی اس کی غایت ہوتی ہے۔اس نسبت سے،دنیائے موجودات کی ہرشے دنیائے امثال کے کسی نہ کسی تصورکی مادی شبیہہ ہے۔اقبال کے حوالے سے،افلاطون کے مؤقف کوماننے سے غائتیت کاایسا تصورابھرتاہے جس کی رُوسے دنیائے موجودات پر جبریت کااطلاق لازم آتاہے۔ یعنی دنیائے موجودات ان امکانات کی پابندٹھہرتی ہے جو تصورات کی صورت میں، دنیائے امثال میںآبادہیں۔علاوہ ازیں،نقل کواصل کاعکس قراردینے سے عمل تخلیق کے تصور پر کاری ضرب لگتی ہے۔اس ضمن میںاقبال کایہ اقتباس بہت معنی خیزاورتوجہ طلب ہے :’’اس میں کوئی شک نہیںکہ غایت سے مراداگرکسی ایسے مقصد یا منزل کی طرف بڑھنے کامنصوبہ ہے جوپہلے ہی سے طے ہے توزمانے کاوجودباطل ٹھہرے گاکیونکہ اس صورت میںیہ ماننالازم آئے گاکہ کائنات کسی سابق الوجود اورابدی منصوبے یامصنوع کی زمانی تکرارہے جس میںہرحادثے کی جگہ شروع ہی سے متعین ہے اورجس کوانتظارہے توصرف یہ کہ جونہی اس کی باری آئے، زمانے کے سیل میںجسے ہم تاریخ سے تعبیرکرتے ہیں،رونماہوجائے۔جوکچھ ہے،ہمیشہ سے تھااور حوادث کی زمانی ترتیب کسی ازلی اورابدی سانچے کی ایک نقل ہے۔لیکن کائنات کے اس تصور اور اس کے اس میکانکی نظریے میںجس کوہم اس سے پہلے ردّکر آئے ہیں،کچھ بہت زیادہ فرق نہیں۔ یہ بھی درحقیقت ایک قسم کی مخفی مادیت ہے جس میں قسمت یاتقدیر اس نہایت درجہ کڑی اوراٹل جبریت کی قائم مقام بن جاتی ہے جس کے اثبات پرہم ازروئے مادیت مجبورہیںلیکن جس میں خدا ہی کاہاتھ آزادی سے کام کرتا نظرآتاہے، نہ انسان کوکوئی قدرت اوراختیارحاصل ہے۔اس لیے اگرکائنات فی الواقعہ کسی ایسی منزل کی طرف بڑھ رہی ہے جوپہلے سے متعین ہے تواس میں اختیارکی گنجائش ہوگی نہ ذمہ دارانہ اخلاقی عوامل کی۔وہ ایک تماشا گاہ ہوگی جہاں گویاعقب سے کوئی ہاتھ کٹھ پتلیوںکونچایاکرتاہے۔‘‘۱۱۹اس حوالے سے کہاجاسکتاہے کہ وجود کو کسی معین تصور پر موقوف کر دینا یقینا میکانکی جبریت کی بھیس بدلی ہوئی شکل ہے۔ اب ایسابھی نہیںکہ اقبال تصور ِغایت کاسرے سے مخالف ہے،وہ اسے عملِ تخلیق کے پس منظرمیںدیکھتاہے جس کے تحت دنیائے موجودات وجود ِربانی کے ارادوں سے متعین ہوتی ہے اور اس کے ارادے پہلے سے طے شدہ نہیںبلکہ اس دنیائے موجودات میںاس کی کارفرمائی کاایک لامتناہی سلسلہ جاری و ساری ہے۔ اقبال شناس بشیر احمد ڈار نے اپنی تصنیف ’’Iqbal and Post-Kantian Voluntarism‘‘میںاقبال کے اس تصورِغایت کو بڑی سادہ سی مثال ۱۲۰سے واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔مثال کچھ یوںہے کہ کالج کاایک طالبعلم ایسے موضوع پر مقالے کی تیاری میںمصروف ہے جس کے لیے مطالعہ،تفکراورذہنی اپج ضروری ہے، ممکن ہے کہ وہ ایک دھند لے سے خاکے کوذہن میںرکھ کر مقالہ لکھناشروع کردے۔ اس دوران میںخیالات بڑھتے ہیں اوراسے محسوس ہوتاہے کہ وہ اصل خاکے کے مطابق نہیں لکھ رہا۔لکھتے لکھتے وہ مضمون کے خاکے میں ضروری تبدیلیاں کرتاچلاجاتاہے اوراس بات کا بھی امکان رہتاہے کہ یہ مقالہ اشتہارنہ بن جائے۔لیکن جب اس نے مقالہ لکھناشروع کیا تھا اس وقت تمام خاکوں اورمنصوبوں کے باوجود وہ یہ نہیںبتاسکتاتھاکہ وہ کیالکھنے والاہے۔اس قسم کے داخلی ارادے کواقبال نے غایت مراد لیا ہے۔یہ وہ غایت ہے جہاں مستقبل پہلے سے موجود توہوتاہے مگر صرف امکان کے لحاظ سے، اسے معین نہیں کہا جا سکتا ۔ دنیائے موجودات کے ایسے تصور ِغایت کے بارے میںخوداقبال لکھتا ہے ،’’عمل کائنات،یاکائنات کامرورفی الزما ن بے شک مقصدسے خالی ہے اگر مقصد عبارت ہے کسی پہلے سے جانی پہچانی،یابہت دورکی منزل سے جس کی طرف یہ عالم بڑھ رہا ہے۔اسے اس لحاظ سے غائی ٹھہراناگویاابداع اورخلاقی دونوںسے محروم کرناہے۔لیکن اس کی غایات اس کے سفر کی نہایات ہیں،یعنی یہ وہ غایات ہیںجن کوابھی آناہے اورجو ضروری نہیں پہلے سے متعین ہوں۔ لہٰذا ہم زمانے کی حرکت کاتصورایک پہلے سے کھنچے ہوئے خط کی شکل میںنہیںکریں گے،کیونکہ یہ خط ابھی کھنچ رہاہے اوراس سے مطلب ہے وہ امکانات جوہوسکتاہے وقوع میں آئیں اور ہوسکتا ہے نہ آئیں۔ ہم اس کوبامقصد ٹھہراتے ہیںتواس لیے کہ اس عمل کی نوعیت انتخابی ہے اوروہ ماضی کی حفاظت بلکہ اس میں اضافے کے ساتھ ساتھ اپنی کوئی غرض پوری کرتارہتاہے۔ ہمارے نزدیک قرآن مجید کے مطمح نظرسے کائنات کاکوئی تصوراتنابعیدنہیںجتنایہ کہ وہ کسی پہلے سے سوچے سمجھے منصوبے کی زمانی نقل ہے۔‘‘۱۲۱اورجہاںتک زمان کا تعلق ہے افلاطون نے اسے زینوایلیائی کی طرح غیرحقیقی قراردیاہے ۔اس کے نزدیک،زمان حرکت کی پیمائش کادوسرانام ہے۔ فی نفسہٖ وہ بے وقعت ہے اوربالفرض اس کی وقعت ہے توصرف اتنی کہ اس کی بدولت زندہ اورباشعور حیوان اس قابل ہوجاتے ہیں کہ تغیروتبدل کے احصا سے عددکوپہچان سکیں۔رسل۱۲۲نے اس کی تفصیل میںجاتے ہوئے واضح کیاہے کہ افلاطون کے حساب سے ، دنیا ئے امثال کاہرتصور ایسی ابدیت کاحامل ہے جسے سکون و ثبات حاصل ہے۔ لیکن جب اس کاظل یعنی دنیائے موجودات وجودمیںآیاتواسے ایسی ابدیت عطانہیںہوئی جسے قرارحاصل ہو۔اس میںحکمت یہ کارفرماتھی کہ نقل اوراصل کا امتیاز ضروری تھا۔اگرنقل ہرلحاظ سے بعینہٖ اصل ہوجاتی تووہ نقل کیونکر رہتی۔اس لیے ضروری تھاکہ نقل کی ابدیت سے سکون کاعنصرخارج کردیاجاتا۔لہٰذااصل نے نقل کو ایسی ابدیت سے نوازاجس میںتغیروتبدل اس نہج کاہے کہ اس کے دَرپردہ دنیائے موجودات کی وحدت برقرار رہتی ہے۔ یعنی تغیراتی بہاؤکے باوجود دنیائے موجودات کی اصل عینیت نہیں بدلتی۔اس نسبت سے،زمان ابدیت کی متحرک شبیہ ہے۔یہی وجہ ہے کہ دنیائے موجودات میں سورج بناتاکہ جانورریاضی سیکھ سکیں۔رات اوردن کے تواترکے بغیراعدادفہم میںنہ آسکتے تھے۔ پس رات اوردن،ماہ وسال نے زمان کے تصور کو اجاگرکیااورعددکے علم سے روشناس کرایاوگرنہ زمان بذات ِخودفریب ہے،حقیقت ِعددکے فہم کامحض زینہ ہے ۔ایک بارحقیقت ِعدد پکڑ میں آ جائے توزمان بے وقعت کابے وقعت ہی رہ جاتاہے۔ اقبال کوایسے خیال سے کد ہے ۔ زینو ایلیائی کے سلسلے میں،اقبال کاتصورزمان واضح کیاجاچکاہے جس کے مطابق،زمان عددکی تقسیم کاذریعہ محض نہیںہے بلکہ تسخیرکائنات کے لیے بغرض سہولت مستعمل ہے۔لیکن ایسازمان بھی محض فکری پرواز کانتیجہ ہے جسے زمانِ مسلسل سے عبارت کیاگیا۔حقیقی زمان توزمان ِخالص ہے جونفس سے متعلق ہے اوراتناہی حقیقی ہے جتناکہ نفس کی اپنی ماہیت ۔ یہ صرف وجدانی استقراء ہے جس کی بدولت زمانِ خالص کی موجودگی کا احساس ہوتاہے۔جہاںرات دن اورماہ و سال کی اہمیت ہی نہیںرہتی۔عددکاوجودمعنی نہیںرکھتا۔صرف خودکاعرفان مقصودرہتاہے۔اس حوالے سے اقبال نے ہراہلِ خرد کو شاعرانہ لہجے میںمخاطب کرتے ہوئے کہا ، کھو نہ جا اس سحر و شام میں اے صاحب ِ ہوش اک جہاں اور بھی ہے جس میں نہ فردا ہے نہ دوش! ۱۲۳ یہاں ایک غلط فہمی رفع کرنا ضروری ہے۔ بادی النظر میں لگتا ہے کہ افلاطون اور اقبال، دونوں فکری لحاظ سے ہم قدم ہیںجوآنات ولمحات کے جہاںکوچھوڑکراس جہاںکی طرف توجہ دلا رہے ہیں جوآنات و لمحات سے منزّہ ہے۔ لیکن دقیق النظری سے دیکھاجائے تو ایسا ہرگز نہیں۔ افلاطون سحروشام کومطلق فریب سمجھتاہے اورایسے جہاںکی طرف توجہ مبذول کراتاہے جوبصورت عدد،ساکت ہے اورآنات ولمحات سے عاری ہے۔اس کے برعکس،اقبال سحروشام کو فریب نہیں سمجھتا،اسے زمانِ مسلسل کامظہری روپ گردانتاہے جس کی اپنی اہمیت مسلم ہے لیکن اسی کوقطعی حقیقت شمار کر لینا،فکرکی مجبوری مانتاہے،وگرنہ قطعی حقیقت تووجدانی استقراء کی بدولت فہم میںآتی ہے۔جہاںزمان کاوقوف ہی بدل جاتاہے۔زمان آنات ولمحات کی بجائے ایک دائمی بہاؤ میں متشکل محسوس ہوتاہے۔ درحقیقت افلاطون نے زمان کواستخراجی فکرکی ٹکٹکی پرچڑھاکرزمان کوجانناچاہا ہے۔ نتیجتاً، وہ دنیائے امثال اور دنیائے موجودات کے درمیان الجھ کررہ گیا ہے۔ ایک طرف وہ ابدیت کے سکونی تصورسے دونوں دنیاؤں کو باندھناچاہتاہے تاکہ نقل اور اصل میںفرق نہ رہے تودوسری طرف وہ زمان کوابدیت کی متحرک شبیہ قراردے کر نقل اور اصل میں فرق بھی رکھناچاہتاہے،اس طرح وہ ایسے مقام پرآپھنساہے کہ ’نہ جائے رفتن،نہ پائے ماندن‘۔ اقبال، افلاطون کی ایسی حالت کے بارے میں کہتا ہے : تڑپ رہا ہے فلاطوں میانِ غیب و حضور ازل سے اہلِ خرد کا مقام ہے اَعراف! ۱۲۴ مجموعی طورپر،اقبال نے افلاطون کے نظامِ فکرکوخاص ژرف نگاہی سے جانچااوراس کے منطقی مضمرات کو مہلک اور مضرت رساںپایا۔ظاہرہے جب دنیائے موجودات کے ٹھوس حقائق کو فریب اورغیرحقیقی ٹھہرایاجائے گااور ان سے رُوگردانی کی روش اپنائی جائے گی تو لامحالہ جدو جہد کی تمنااورجینے کی تڑپ ٹھنڈی پڑجائے گی جس سے رہبانیت، نفس کشی اوربے عملی کوفروغ حاصل ہوگا۔انسان اپنے تخیلات میںتصورات کی دنیاآبادکرنے لگے گا،اسے حقیقی اور اصلی جاننے لگے گا اور اس کی حالت یہ ہوجائے گی کہ اپنے نقصان کونفع اورحاضرکوغائب سمجھنے لگے گا۔اقبال نے اسی خیال کو شعروںمیںاداکیاہے :۔ فکرِ افلاطوں زیاں را سود گفت حکمت او بود را نا بود گفت فطرتش خوابید و خوابے آفرید چشمِ ہوشِ او سرابے آفرید ۱۲۵ افلاطون کی فکرنے نقصان کوفائدہ قراردیا۔اس کے فلسفہ نے موجودکو ناموجود قرار دیا۔ اس کی فطرت(سلیم) سو گئی او ر اس نے ایک خواب تخلیق کیا۔اس کے ہوش (عقل) کی آنکھ نے ایک سراب پیدا(تخلیق)کیا۔ دیکھاجائے توافلاطون نے عقل کوعمل پرترجیح دینے کاپیام دیاہے جواقبال کے نزدیک اس لیے درست نہیں کہ وجودکی حقیقت عقل نہیںبلکہ عمل ہے۔عقل عمل سے پیداہوتی ہے اورپھراس کاآلۂ کاربنتی ہے۔زندگی کا مقصود مقاصدآفرینی اور تسخیرو تخلیق میں مضمرہے ۔یہ جوکچھ پیداکرتی ہے عقل اس کاجائزہ لے کراس میں قواعدو ضوابط کو ڈھونڈتی ہے اس واسطے زندگی مقدم ہوئی نہ کہ فکر،یہ وہ نکتہ ہے جسے افلاطون نہیںجان پایااوراپنی فکرمیںرجعت معکوس کا شکارہوا ۔اقبال اس کی فکری کج روی کا اظہارکرتے ہوئے کہتاہے : رخشِ او در ظلمتِ معقول گم درکہستانِ وجود افکندہ سم آنچناں افسونِ نامحسوس خورد اعتبارازدست وچشم وگوش برد ۱۲۶ اس کاگھوڑافلسفے کی تاریکی میںگم ہے۔ ہستی کے کوہستان میںعاجزہوکررک گیاہے۔ وہ قیاسی علم کے افسوں سے اس قدر مسحور ہواکہ ہاتھ، آنکھ اورکان (جوتجرباتی علم کے ذرائع ہیں) پر سے اس کا اعتبارجاتا رہا۔ استخراجی فکرکے زورپرافلاطون نے عالم موجودات کوایک طرح کاعقوبت خانہ سمجھاہے جہاںحیات کے مادی تقاضے اسے عالم امثال سے دوررکھتے ہیںلیکن جوحیات کے سراب سے نکل جاتاہے وہ دنیائے امثال کے وصال اور اس سے دوبارہ اتصال کی تڑپ میں گرفتارہوکرموت کا متمنی رہتاہے کیونکہ موت ہی اسے حیات کی قیدسے رہائی دلا سکتی ہے۔ گفت سِّرِز ندگی در مُردن است شمع را صد جلوہ از افسردن است ۱۲۷ اس نے کہازندگی کاراز مرجانے میںہے شمع کے بجھ جانے میں سینکڑوں جلوے ہیں۔ اقبال کے نزدیک،افلاطون کایہ خیال صریحاًغلط ہے۔ یہ دنیائے موجودات دارالتکلیف نہیں،محض دارالامتحان ہے۔جہاں حیات کامقصوداعمال کی فوزوفلاح ہے اور موت قنطرۃالحیاۃ ہے یعنی زندگی کاپل ہے جس کا مقصودیہ ہے کہ حیاتی اعمال کی شیرازہ بندی کااندازہ ہوسکے۔ اگر حیاتی اعمال جوش و جہد کی حالت میںسرزد کئے گئے ہوں اورنفس کومسخرکرنے میںصرف ہوتے ہوںتوموت کاجھٹکا بھی انہیں متاثرنہیںکرسکتااوردوسرے خودموت ایک زندگی سے دوسری زندگی میںخاموشی کے ساتھ سرک جانے کانام ہے یہ کوئی سکوت کا مقام نہیں۔زندگی موت سے پہلے ہو یا بعد میں، سراسر عمل ہے اور وہ بھی ایسا جو لگاتار جاری وساری رہتاہے۔لہٰذا،افلاطون کا خیال درست نہیں، حیات ہے شبِ تاریک میں شرر کی نمود ۱۲۸ یہاں،ایک اعتراض کا جواب دیناضروری ہے۔فکر اقبال کے مصنف خلیفہ عبدالحکیم نے لکھا ہے۔’’میری ناچیز رائے یہ ہے کہ اقبال نے افلاطون کے ساتھ انصاف نہیںکیا۔اقبال نے فقط یہ دیکھا کہ افلاطونی افکارکااثربعض لوگوں پراچھانہیںہوااوراس کے نظریۂ وجودسے فرارعن الحیات کانتیجہ ازروئے منطق حاصل ہوتاہے۔ جس قسم کے حیات گریز تصوف کواقبال نے مسلمانوں کے لیے افیون قراردیا،وہ افلاطون سے کہیںزیادہ فلاطینوس اسکندروی سے حاصل کردہ ہے،جس کے افکارکااسلامی فلسفہ اشراق اورعیسوی تصوف پرگہرانقش نمایاں ہے۔افلاطون راہب نہیںتھااورنہ زندگی کے تمام پہلوؤںسے متوازی اورمتناسب طورپرلطف اٹھانے والے یونانی اس مزاج کے تھے۔وہ خودبھی اپنے مجرد تصورات میںگم ہو کر علائق حیات سے بے تعلق نہیں ہوا۔ اس کا گھر ایتھنیاکی تمام علمی اورعملی زندگی کا مرکز تھا۔ ایسے شخص کے متعلق جو عدل کا ایک انقلابی تصور قائم کرکے اس کوعملی جامہ پہنانے کی کوشش میںسائراکیوزکی ریاست سے خارج کیاگیاہواوربحری ڈاکوؤں کے ہاتھ فروخت کردیاگیاہو،یہ کہناناانصافی معلوم ہوتی ہے۔‘‘۱۲۹ کم لفظوںمیںاسی رائے کااعادہ سیدعلی عباس جلالپوری نے اپنی تصنیف اقبال کاعلم الکلاممیںکچھ ان الفاظ میںکیاہے۔’’افلاطون یونانی کوگوسفندقدیم قراردیناانصاف سے بعید ہے۔ افلاطون کے افکار میںبے شک کہیں کہیںکشف وعرفان کے عناصر موجودہیںلیکن اس کا نظریۂ امثال خالص عقلی اورمنطقی ہے۔اس کے علاوہ افلاطون صاحب عزیمت تھا۔اس نے سائراکیوز میں اصلاحات نافذ کرنے کی کوشش کی۔جس پر وہاںکاجابر حاکم اس سے خفاہوگیااور اسے قزاقوں کے ہاتھ غلام بناکربیچ دیا۔‘‘۱۳۰ظاہری طور پر ان حضرات کے اعتراض میںوزن لگتا ہے مگربنظر غائر ان کے اعتراض کاجائزہ لیاجائے تواس میںجان نہیںرہتی۔پہلی بات تویہ ہے کہ اس ضمن میںاقبال کی تصنیف اسرارخودی کے شارح پروفیسر یوسف سلیم چشتی کی وضاحت غور طلب ہے، ان کالکھناہے’’افلاطون راہب نہیںتھا لیکن اس کی بنیادی تعلیم کانتیجہ یہ نکلاکہ رہبانیت کو تقویت حاصل ہوئی۔‘‘۱۳۱ظاہرہے کہ اقبال جب بھی افلاطون پر معترض ہوا ہے تواس نے ناقدانہ حملہ اس کی ذات پرنہیںبلکہ اس کے افکارپرکیاہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ایک دفعہ اقبال نے اپنے اوربنگالی شاعررابندرناتھ ٹیگورکی شاعری کا موازنہ کرتے ہوئے کہاتھا کہ ٹیگورکی شاعری بے عمل ہے جب کہ وہ باعمل انسان ہے اور میں بے عمل انسان ہوں جب کہ میری شاعری باعمل ہے۔۱۳۲ اقبال کے اس بیان سے یہ ثابت ہوتاہے کہ مفکرکی ذاتیات اوراس کی فکریات کے دومختلف حلقے ہیںجن کوآپس میں ملانانہیں چاہئیے۔ یقینا، افلاطون کی ذات نے نہیں بلکہ اس کے افکارنے گہرے اثرات چھوڑ ے ہیںاورانہیںکی بنیاد پر اقبال کو اس کے متعلق یہ کہنا پڑا : گوسفندے در لباسِ آدم است حکمِ او بر جانِ صوفی محکم است ۱۳۳ انسان کے لباس میںایک بھیڑہے ۔اس کا حکم صوفی کی جان پرمسلط ہے۔ اورپھراقبال نے یہ اعتراض اکیلے افلاطون کی فکرپرعائدنہیںکیااسے حافظ شیرازی جیسے عظیم المرتبت شاعرپر بھی لاگو کیااوروہاںبھی ان کی ذات کونہیں،بلکہ فکرکوہدف ِتنقید بنایا۔اقبال کے نزدیک،ان دونوںحضرات کے افکار نے انسانوںکوبھیڑوںکے موافق زندگی گزارنے پر اُکسایا ہے،اسی لیے وہ ان دونوںکو’’گوسفنداں‘‘ کانمائندہ قرار دیتا ہے۔افلاطون کے بارے میںاقبال کاشعر ہے۔ راہبِ دیرینہ افلاطوں حکیم از گروہِ گوسفندانِ قدیم ۱۳۴ حکیم افلاطون جوایک قدیم زمانے کا راہب ہے،وہ قدیم بھیڑوں کے گروہ میں سے تھا۔ اورحافظ شیرازی سے متعلق،اس کاشعرہے : بے نیاز از محفلِ حافظ گذر الحذر از گوسفنداں الحذر ۱۳۵ حافظ( شیرازی )کی محفل سے لاتعلق ہوکرگذرو،(اور)ہوشیار،(ان) بھیڑوںسے ہوشیار(رہو)۔ ارسطواوراقبال :(Aristotle and Iqbal) ارسطو،وہ واحد یونانی مفکر ہے جسے اقبال نے دیگر یونانی مفکرین سے نسبتاً بہترپایاہے۔ اس کی فکری پروازنے اسے ایک خاص حدتک متاثر کیاہے لیکن جہاںتک اس کے طرز ِاستدلال کا دخل ہے،اس سے اسے مایوسی رہی ہے۔ عموماً، ارسطوکے فکرواستدلال کوافلاطون کے افکار کا ناقدانہ ردعمل خیال کیاجاتاہے،اس لیے اقبال نے بھی اسے اسی تناظرمیںدیکھاہے۔اس ضمن میں،اقبال کایہ شذرہ ملاحظہ ہو؛ ’’ارسطوکے لیے میرے دل میںبغایت عقیدت واحترام کے جذبات ہیں۔نہ صرف اس لیے کہ میں (بیسویں صدی کاانسان ہونے کی حیثیت سے)اپنے اسلاف کے مقابلے میںاسے بہتر طورپرسمجھتاہوں،بلکہ اس لیے بھی کہ میری ملت کے خیالات پرزبردست اثرڈالاہے۔لیکن افلاطون کے نظریہ اعیان پراس کی تنقیدمیں ناسپاسی کا جو شائبہ نظرآتاہے،وہ مجھے اس کے استحسان سے بازرکھتاہے۔اپنے استادکے نظریات پراس کی نکتہ چینی میں صد ا قت کا جوعنصرہے،اس سے مجھے انکارنہیںلیکن جس ذہنیت سے، وہ ا ن کاجائزہ لیتاہے،اس سے مجھے نفرت ہے ۔ ‘ ‘۱۳۶ اس حوالے سے،اقبال شناس جگن ناتھ آزادنے یہ رائے قائم کی ہے کہ’’اقبال افلاطون سے خفا ہیںاور ارسطوسے خوش ہیں۔‘‘۱۳۷جب کہ پروفیسرعطیہ سیداس رائے پرمعترض ہیں،ان کاخیال ہے کہ’’اس میںشک نہیں ، اقبال ا فلاطون کے نظریہ امثال پرارسطوکی تنقیدکوسراہتے ہیں، لیکن اس سے یہ ثابت نہیںہوتاکہ وہ ارسطاطالیسی فلسفے کااثبات کرتے ہیں۔‘‘۱۳۸اُن کایہ بھی کہناہے کہ’’اقبال بے شک ارسطوکی اس نکتہ چینی کوسراہیں جس کاہدف افلاطون کانظریۂ امثال ہو، لیکن وہ ارسطوکے افکارکومن وعن قبول نہیںکرسکتے،کیونکہ وہ قرآن کی روح، اس کے طریق کار اور تصورات کے منافی ہیں۔‘‘۱۳۹مزیدبرآں ان کی رائے یہ ہے کہ ’’اقبال نہ صرف ارسطوکے تصورِ کائنات اور عقل فعال کواسلامی تصورات کے خلاف سمجھتے ہیںبلکہ اس کے منطقی طریق کار کو قرآنی استدلال کے طریق کارسے جدا جانتے ہوئے فقہ کے سلسلے میںارسطاطالیسی منطق کے استعمال کومضر قراردیتے ہیں۔‘‘۱۴۰پروفیسرعطیہ سیّدکی رائے میںکہاںتک وزن ہے، اسے جاننے کی خاطرایک توارسطوکے افکارکااجمالی ساجائزہ درکارہے، ساتھ ہی ساتھ اس کے افکار سے اقبال کے فکری تصادم کواجاگرکرنے کی ضرورت ہے۔ ارسطو۱۴۱،افلاطون کے برعکس،اس سوچ کامالک ہے کہ دنیائے موجودات بذات ِخودحقیقی ہے۔اسے کسی دنیائے امثال کاظل سمجھنادرست نہیں۔حقیقت مطلق واحدہے،اسے عمومی روپ عطاکرناصحیح نہیں۔دنیائے موجودات کی ہرشے کامثالی تصوراسی کے باطن میں مضمرہے،اس سے باہرنہیں۔اسے آسان ترین اندازمیںکچھ اس طرح سمجھایا جاسکتاہے کہ کیاسفیدی کا تصور کاغذ کے بغیراورکاغذکاوجودسفیدی کے بغیرسو چا جاسکتا ہے؟ سفیدی، اپنے سفیدی پن کے بغیر قائم نہیںرہ سکتی۔ہاں اتنا ضرورہے کہ وہ کاغذ میں نہیں توچاک میں ظاہر ہو، چاک میںنہ سہی،کسی کپڑے میں ظاہر ہو،لیکن کہیںبھی ظاہرہواس کی حقیقی ہیئت تبدیل نہیں ہوگی، یعنی، سفیدی، سفیدی ہی رہے گی۔اس کے برعکس، کاغذسے سفیدی غائب کردی جائے،تووہ نیلا ہوسکتا ہے، پیلاہوسکتاہے،لیکن اگر کاغذسے ہرطرح کے رنگ توکجا اسے ہرطرح کی صفت سے محروم متصور کیا جائے توپھرکیاکاغذکاوجودقابل ِتفہیم رہے گا؟ یقینا نہیں۔اس سے یہ ثابت ہوا کہ سفیدی کی حیثیت’ مثالی تصور‘کی ہے توکاغذکی حیثیت ’مادے‘ کی ہے۔ انسان اپنی دانست میں صورت اور مادے کو متفارق متصورکرسکتاہے مگرحقیقی دنیامیںیہ ناممکن ہے کیونکہ یہاں یہ دونوں ہمیشہ ایک ساتھ مل کر کسی نہ کسی مقرون فردکی صورت میں ہی متشکل ہوتے ہیں۔ اقبال کوارسطواس لیے پسندہے کہ وہ حقیقت کوثنویت سے پاک کرنے کا خواہاںہے اور حقیقت واحدہ کے نظریے کاموئید ہے،دوسرے وہ دنیائے موجودات کے مقرون اورٹھوس حقائق کواہم سمجھتاہے اورانہیںفریب نہیںگردانتا۔محسوسات ومدرکات کے عالم کوقابلِ نفرین نہیں سمجھتا۔فطری اشیاء کی تفتیش و تحقیق کوناگزیرخیال کرتاہے۔ یہاںایک وضاحت ضروری ہے جس کی نشاندہی پروفیسرسٹیس(Stace)۱۴۲نے کی ہے وہ لکھتے ہیں کہ فرانسس بیکن(Francis Bacon)نے اپنی تصنیف نووم آرگینم(Novum Organum)میںارسطو کے بارے میں جابجاحقارت آمیز حوالے پیش کئے ہیںجن کالب لباب یہ ہے کہ ارسطو طبیعی حقائق سے کوئی لگاؤ نہ رکھتاتھاوہ اپنی فکر میںقبل ازتجربی نظریات بناتا، صبر و استقامت کے ساتھ فطری حقائق کی تفتیش وتحقیق کی بجائے وہ نام نہادعقلی بنیادوںپرفیصلہ کرتا کہ فطرت کو کیسا ہونا چاہئیے اور پھر اپنے فیصلے کو اپنے نظریات کے ساتھ یکجاکرلیتا۔بطور جملۂ معترضہ، مزے کی بات یہ ہے کہ بیکن نے جو اعتراض ارسطوکی فکرکے بارے میںاٹھایاہے وہ خوداس سے مبرا نہیں ۔ منٹو کے مطابق،بیکن حقائق سے کشیدہ خام خیالیوں کو حقائق سے اخذکردہ تعمیمات سمجھتارہا لیکن خودسے کبھی بھی ان کی تصدیق نہ کرپایا۔وہ لکھتا ہے، ’’انصاف کی رُوسے جانچاجائے توبیکن کامعاملہ پچھلے فلسفیوںکی روایت سے مختلف نہیںکیونکہ وہ بھی ازمنہ وسطی کی طبیعی سائنس کی قائم کردہ روایت سے استفادہ کرتاہے۔وہیں سے کچھ تجربات و مشاہدات پر مبنی تصریحات اکٹھی کرتا ہے انہی سے فکری تعمیمات اخذکرتا ہے اورانہیں فطرت کے سربستہ رازوں کا حرف ِآخرقانون مان لیتاہے۔ وہ کبھی یہ جستجونہیں کرتاکہ براہ ِراست فطرت کا مشاہدہ اور غوروفکرکرے اوروہاںسے تازہ بہ تازہ اورنو بہ نو مثالیںاکٹھی کرے۔وہ اس فریب سحر میںمبتلارہا کہ وہ روایت کوتیاگ چکاہے اور مشاہدات سے آغاز ِنوکررہاہے حالانکہ اس کافکری کمال بھیس بدلی روایت کاشاخسانہ رہااوربس۔‘‘۱۴۳ گویابیکن بھی ارسطوکی طرح زبانی جمع خرچ پرحقائق کی تفتیش کرتارہا لیکن کچھ بھی ہو،اقبال کوپھربھی ان حضرات کی یہ ادابھاتی ہے کہ وہ عالم محسوسات کی طرف ملتفت توہوئے۔اقبال ان کے طرز ِاستدلال کو تلاش حق کی ابتدائی منزل سے زیادہ مقام نہیں دیتااورہرمتلاشیان حق کو خبردار کرتاہے ؛ زمانے با ارسطو آشنا باش دمے باسازِ بیکن ہم نوا باش ولیکن از مقامِ شاں گذرکن مشو گم اندریں منزل، سفرکن ۱۴۴ تھوڑی دیر کے لیے ارسطوسے آشنائی رکھ،کچھ وقت بیکن کے سازکاہمنوارہ لیکن ان کے مقام سے آگے نکل ،اس منزل میں گم نہ ہو سفر جاری رکھ۔ دوسری طرف اقبال کوارسطو ناپسند بھی ہے کہ وہ اپنے نقطۂ نظرکی صراحت میںاورافلاطون کے نظریے کی تنقید میں جس طرز استدلال کواختیارکرتاہے وہاںوہ استنتاج کی اسی سطح پراترآتاہے جس کاافلاطون عادی رہا۔یعنی وہ بھی دنیائے موجودات کو تجربی شواہدکے زورپرثابت کرنے کی بجائے قیاسی استخراج کا منہاج اپناتا ہے جسے اقبال تحسین کی نظروں سے نہیں دیکھتا۔ارسطوکاالمیہ یہ ہے کہ وہ صحیح سمت کی نشاندہی کرکے صراط مستقیم سے بھٹک گیا۔دنیائے موجودات کی اصلیت کو تو بے نقاب کرگیامگراس کے ثبوت میںطرز ِاستدلال،غلط اختیارکرگیا۔ ارسطونے افلاطون کے نظریۂ امثال کوجن شانداردلائل کے ساتھ رگیداہے،وہ اس کے طرزِ استدلال کی اچھی بھلی مثالیں ہیں۔بقول رسل،ان میں سب سے زیادہ مضبوط اور مؤثر دلیل ’تیسرے آدمی‘ کی دلیل۱۴۵ہے جس کے مطابق،اگرانسان اس لیے انسان ہے کہ وہ اپنے تصور مثالی انسان سے مشابہ ہے توپھرلازماًایک ایسامثالی انسان بھی ہوناچاہئیے جس کے ساتھ عام انسان اوراس کاتصورمثالی انسان دونوںکے دونوںمشابہ ہوں۔ بعینہٖ اگریہ سوچا جائے کہ سقراط بیک وقت ایک انسان بھی ہے اورجانوربھی،تویہاںیہ سوال اٹھتاہے کہ آیامثالی انسان ایک مثالی جانوربھی ہے اوراگروہ ہے توہرصورت میں مثالی جانوروںکی اتنی ہی کثرت ہونی چاہئیے جتنی کہ جانوروں کی نسلیں موجودہیں۔اس طرح دنیائے امثال معین اورجامدنہیںرہتی،وہاںایک سے ایک بڑھ کرایک مثالی تصور بنتا چلاجائے گااوررہی مادے کی بات،تووہ بے کار ہے۔ دراصل، ارسطویہ بتاناچاہتاہے کہ جب بہت سے افرادکے مابین محمول مشترک ہو تو اس کی وجہ ان کاایک جیسا مثالی ہوناہے،ایک جیسامشابہ ہونانہیں۔ یہاں،اقبال کے بیان کردہ شذرے کے آخری جملے کااعادہ کرلیاجائے تواس کی معنویت کو واضح کرنے کی چنداںضرورت نہیںرہتی کیونکہ محولہ بالا تیسرے آدمی کی دلیل ہی اس کے لیے کافی ہے۔اقبال کاجملہ تھا’’اپنے استاد کے نظریات پراس نکتہ چینی میںصداقت کاجوعنصرہے،اس سے مجھے انکارنہیں۔لیکن جس ذہنیت سے وہ ان کاجائزہ لیتا ہے،اس سے مجھے نفرت ہے۔‘‘۱۴۶ ظاہر ہے تیسرے آدمی کی دلیل میںاسی فصل اورجنس کے مخصوص منطقی طریقہ کار کومصرف میںلایاگیاہے جوسقراط اورافلاطون کامرغوب اندازتھا۔اس سلسلہ میںپروفیسرسٹیس کی رائے۱۴۷ غلط نہیں کہ افلاطون اورارسطو کے درمیان فرق ان کے الفاظ کے گھماؤ پھیراؤکاہے بنیادی فکر کا نہیں۔ ارسطو جب کہتاہے کہ صورت حقیقی ہے توافلاطون کاہمنوا معلوم ہوتاہے اورجب کہتاہے کہ صورت فی نفسہٖ خارج میںکہیں موجود نہیں توافلاطون کا ہم خیال نہیںلگتا۔لیکن جب کہتاہے کہ حقیقی وجود صرف فردکاہے جو صورت اورمادے کامرکب ہے اور ایسے مرکب کی حقیقت کااصل دارومدار صورت پرہے تووہاںاس کے تفکراورافلاطون کے نظریے کی روح میں کوئی بین فرق نہیں رہتا۔ دونوں مادے کو درخوراعتنانہیںجانتے۔دونوں صورتوںکو حقیقت کاغماز شمارکرتے ہوئے ان کامنبع ایک تصور ِخالص کو ٹھہراتے ہیں جسے افلاطون خیراعلیٰ اورارسطو خالصتاً بے مادہ صورت قرار دیتا ہے۔ایسے تصور کوکم وبیش مثل خدا ماناجاتا رہا ہے۔اس سلسلے میںاقبال کاملفوظہ ہے کہ کچھ بھی ہو خداکو مجردتعقل کی بنیادپرکبھی نہیںجاناجاسکتا۔اس کے ثبوت میںپروفیسریوسف سلیم چشتی کابیان ہے کہ جب’’ان سے پوچھاگیاکہ تصورذات باری عقلاًممکن ہے یا نہیں ، توان کا جوا ب تھا،ہم خداکو مجردعقل سے نہیںپاسکتے۔(عقل اس کا ادراک نہیںکرسکتی)اسے باطنی مشاہدے یاتجربے کی بدولت جان سکتے ہیں۔‘‘۱۴۸ساتھ ہی ساتھ، انہوں نے یہ بھی وضاحت کی، ’’چونکہ خدا لامتناہی ہے اوروہ ہرلمحہ نئی تجلی فرماتا رہتا ہے اس لیے اس کی ہستی سے متعلق ہمارے مشاہدات اور تجارب باطنی بھی لامتناہی ہیں۔‘‘۱۴۹ ارسطوکی افلاطون سے فکری مفاہمت کوایک اورزاویہ سے بھی جانچنا چاہیے۔ افلاطون نے اصل کونقل کی غایت قراردے کربنظراقبال،کائنات کوطے شدہ منزل کی طرف بڑھنے کی جبریت کا شکارکردیا۔کچھ اسی نوعیت کی جبریت کو ارسطونے بھی پیش کرنے میںتامل نہیںکیا۔اس کے حساب سے،خالصتاًبے صورت مادہ اوربے مادہ صورت کی دو انتہاؤںکے درمیان کائنات فی الواقع موجودہے جہاںمادے اور صورت کاملاپ اٹوٹ اورابدی ہے لیکن اضافی نوعیت کاہے یعنی اگر کوئی شے یا مظہر مادہ کامتحمل ہے توکسی دوسرے حوالے سے وہی صورت کاحامل ہوسکتا ہے۔مثلاً درخت، تختے کی نسبت سے مادہ ہے توبیج کے حوالے سے صورت،بعینہٖ تختہ کرسی کے لیے مادہ ہے تودرخت کے لیے صورت۔ اس بناء پر،بے صورت مادہ سے بے مادہ صورت تک جو مراتبی نظام تشکیل پاتاہے اس میں ہمیشہ صورت، مادے کے لیے غایت کادرجہ رکھتی ہے چونکہ کائنات کی قطعی غایت خالصتاً بے مادہ صورت ہے اس لیے کائنات کے امکانات اس کی رُوسے طے شدہ اورمعین ہیں۔اس طرح،افلاطون کی دنیائے امثال کے مراتبی نظام کی مانند ارسطو کے ہاں، مراتبی صو رتوںکاصعودی چڑھاؤکائنات پرجبریت کومسلط کردیتاہے۔ ارسطوکی فکرمیںایک اورقباحت بھی نمایاںہے۔افلاطون کے برعکس،کائنات کے حقیقی مقام کو پہچاننے کے باوجودوہ منکرہے کہ کائنات میںذرہ بھراضافے کی گنجائش ہے۔اس کے نزدیک،کائنات کاارتقائی روّیہ ایک بندھے ٹکے ضابطے کا پابندہے۔یہ ایک طرح کابنابنایا مصنوع ہے جو خلاء میںمقیم ہے اورنموسے یکسرعاری ہے۔اس میںاس قدر ثبات ہے کہ لحظہ بہ لحظہ تغیروتبدل کے باوجوداپنی کُنہ میںوہ غیر مبدل ہے۔اس کی صراحت میں،ارسطونے جودلیل سامنے رکھی،اس کے تحت، اگرچہ صورت اورمادہ دونوںفی نفسہٖ حرکت سے معراہیںمگرصورت کی غایت بطور ِکشش مادے کوہرلمحہ متحرک رکھنے کاسبب ہے۔نتیجتاًمادے سے صورت کی طرف بڑھنے کاارتقائی روّیہ ایک صعودی جہت میں ابدی طورپرمتعین ہے۔ یہی نہیں، اگر کائنات کے ارتقائی رویے کو صورت سے مادے کی الٹی سمت میںمتصورکیاجائے ، تب بھی یہ معین رہتاہے کیونکہ ہر صورت کے پیچھے کوئی مادی علت ضرورموجودہوتی ہے، جیسے تختہ درخت کے بغیر ، اور درخت بیج کے بغیر وجودنہیںرکھ سکتا۔اس طرح کائنات کاارتقائی روّیہ ہردولحاظ سے معین ہے اور حرکت و ارتقاء سے عبارت ہونے کے باوجوداضافہ پذیرنہیں۔ ارسطو نے اپنے مؤقف کوایک دوسرے انداز میں بھی پیش کیاہے اس کاکہناہے کہ مادے اورصورت کاساتھ درحقیقت بالقوۃ،(potentiality)اوربالفعل(actuality) کاسنجوگ ہے۔ بالفرض، بیج مادہ ہے تواس میں موجود وہ قوت جو اسے مکمل درخت بننے کے لیے تیار رکھتی ہے، بالقوۃ ہے اوراگردرخت اس کی صورت ہے تووہ قوت جو بالآخر بیج کودرخت سے ارتقائی عمل سے گزار نے پرمجبورکرتی ہے،بالفعل ہے۔اس حساب سے،بالقوۃ امکانی طور پرکچھ بن جانے یا ہو جانے کی قوت ہے جبکہ بالفعل عملی طورپرکچھ ہوجانے یابن جانے کی قوت ہے۔بالقوۃ سے بالفعل کی طرف منتقلی کاارتقائی عمل ابدالاباد سے جاری ہے جو بے صورت مادہ سے بے مادہ صورت تک محیط ہونے کے سبب معین ومقررہے۔۱۵۰ اقبال، کائنات پرجبریت کے انطباق کاحامی نہیںجیساکہ افلاطون سے فکری ٹکراؤکے ضمن میںواضح کیا جا چکاہے۔وہ توکائنات کی خلّاقی اورنموپذیری کاقائل ہے اور اسے غایت سے باندھتاہے جو پہلے سے مقررشدہ نہیںبلکہ کائنات کے لمحہ بہ لمحہ تغیروتبدل کے ہمراہ ہی بصورت امکانات متعین ہوتی رہتی ہے۔اقبال کے نزدیک،افلاطون سے ہٹ کربھی ارسطوکاخیال پرکشش اوردرست نہیںکیونکہ اس نے بھی محض فکرپراکتفاکیاہے جب کہ خالی فکراس قابل ہی نہیںکہ حقیقت کی صورت کوپہنچ سکے۔اس کی وجہ اس کے الفاظ میں یہ ہے ،’’فکر کادارومدار سرتاسر علامات پر ہے،اس لیے وہ زندگی کی اصل حقیقت پرایک پردہ ساڈال دیتاہے، کیونکہ وہ اس کاتصورکسی ایسی عالمگیر رو کی شکل میںکرسکتاہے جوہرشے میںجاری وساری ہو۔‘‘۱۵۱ یہ ارسطو ہی نہیں،سبھی یونانی مفکرین کاالمیہ ہے۔جس طرح حسّی ادراک کائنات کی صحیح تصویرکشی نہیں کرتا، یہی حال خالص فکرکاہے۔صحیح منظرکشی کے لیے وجدانی استقراء درکار ہے جسے نفس انسانی کی تکمیل پرپہچانا جا سکتا ہے ۔ انسان امنگوں، آدرشوںاورامیدوںبھری حیات کا پیکر ہے جو فکر اور ارادے سے گندھا ہے اور اپنی ہی ذات کے بے پایاں تکرار میں سدارواں دواں رہتا ہے۔زندگی آزادہے،خلاق ہے،حقیقی ہے اوراس کے سا منے بصورت امکانات مستقبل کادروازہ کھلاپڑاہے۔اس کارستہ موت درموت سے گزرتاہے مگراس رستے کاتسلسل بے قاعدہ نہیں۔اس میں نظم و ضبط ہے۔سادہ لفظوںمیں،انسانی نفس کی زندگی ایسے اغراض ومقاصدکی تشکیل سے عبارت ہے جوپہلے سے متعین نہیں بلکہ جیسے جیسے زندگی کادائرہ عمل بڑھتا اور پھیلتاہے ویسے ہی نئے نئے اغراض ومقاصد وضع ہوتے رہتے ہیں اوراس طرح زندگی کی وسعت بے پایاں ہے۔ بالکل یہی صورت کائنات کی ہے۔وہ بھی ایک طرح کی نامیاتی عضویہ ہے جس کی وسعت پرکوئی خارجی حدقائم نہیںکی جاسکتی اور داخلی اعتبارسے وہ فکرمحض نہیںجواپنے بارے میں تفکرکاماحصل ہو، وہ تواس ذات مشہود کے ارادے کامظہرہے جس کے بارے میںقرآن الفرقان کاارشادہے ،’’ اور یہ کہ تمہارے پروردگار ہی کے پاس پہنچنا ہے۔‘‘(۵۳ :۴۲)۔اپنے پھیلاؤ اور کشادگی کے حساب سے کائنات کی خارجی حد بالفعل نہیںبلکہ بالقوۃ ہے اوراس کی داخلی حداس ارادے سے مشروط ہے جس نے اسے سہارا دے رکھاہے د ر حقیقت، ارسطواپنی قیاسی منطقی عینک کو اتارہی نہیں سکا اور کبھی جان نہیںپایاکہ حقیقت فکری استخراج میں نہیںمل سکتی، اس کے لیے باطنی تجربے اور وجدانی استقراء کی ضرورت ہے۔ اقبال، ارسطو اور ان جیسے فکرکے پرستاروں کی لاعلمی پرچوٹ کرتے ہوئے کہتاہے ، زمانہ عقل کو سمجھا ہوا ہے مشعلِ راہ کسے خبرکہ جنوںبھی ہے صاحب ِادراک! ۱۵۲ اقبال کاعمومی زاویۂ فکر :(Iqbal's General Viewpoint) اقبال نے یونانی مفکرین کے افکارسے جوتعرض کیاہے۔ یہاں اس کابحیثیت مجموعی تجزیہ کیاجاتاہے تا کہ اقبال کی نظرمیںجوان کے سقم ہیں،عیاںہوں۔ غورکیاجائے تواقبال کویونانی فکرمیںکوئی جاذبیت دکھائی نہیںدیتی۔اگرچہ اس نے اعتراف کیاہے کہ’’فلسفۂ یونان کی حیثیت تاریخِ اسلام میںایک زبردست ثقافتی قوت کی رہی ہے۔‘‘۱۵۳ لیکن مسلم فکر و نظر میں وسعت بخشنے کایہ مطلب تو ہرگز نہیں نکلتا کہ مسلم مفکرین نے یونانی استدلال کومن وعن وقبول کر لیاہو۔ دراصل، متاثر اور مرعوب ہونے میں بڑا فرق ہے۔ متاثر ہونے سے مرادہے کسی کے نظریات کو ممکنہ حد تک اپناتے ہوئے اپنی فکر میں جذب کرلینا،جبکہ مرعوب ہونے سے مرادہے کسی کے نظریات کوحتی الوسع اپناتے ہوئے اپنی فکر کو اسی کے رنگ میں رنگ دینا۔اقبال کے نزدیک مسلم مفکرین قدیم یونانی حکماء سے متاثر ضرور ہوئے لیکن مرعوب نہیں۔جیسے جیسے قرآن فہمی کازیادہ تعمق اورتفصیل سے مطالعہ کیا گیا، ویسے ویسے یونانی فکرکاپول کھلتاچلاگیااور بالآخرمسلم دانشوراس بھیدکوپاگئے کہ یونانی افکارکاقرآنی تعلیمات سے کس قدر بعد ہے۔یونانی افکارسے اقبال کی ناگواری اورمایوسی کی خاص وجہ اس کے ان الفاظ سے ظاہر ہے۔ ’’یونانی فلسفہ نے مفکرین اسلام کے مطمح نظرمیںاگرچہ بہت کچھ وسعت پیداکردی تھی مگربحیثیت مجموعی قرآن مجیدمیںان کی بصیرت محدودہوکررہ گئی۔‘‘۱۵۴ گزشتہ صفحات میںقدیم یونانی استدلال کے جائزے سے یہ صورت حال ظاہرہوئی کہ اس زمانے کے دانشور زیادہ ترمکالمات کی شکل میںاپنامدعاپیش کرتے اوراس دوران بعض کا زور زبان کے ہیرپھیرکی طرف رہتا،ان کامقصودلفاظی کی اوٹ میںاپنے حریف کومخمصے میںڈالنا ہوتا، تاکہ ان کی دانشوری کی دھاک بیٹھ جائے اوردوسراان کی من پسند حقیقت کو حقیقت سمجھنے پر مجبور ہو جائے،لفاظی کاایساکھیل عموماً سفسطہ جیسے فکری مغالطہ کے پردے میںکھیلا جاتا،جہاںدیدہ دانستہ لفظوںکے الجھاؤمیںاصل حقیقت کویاتوگم کردیاجاتایاپھراسے کچھ کاکچھ بنا دیاجا تا۔ اقبال کے نزدیک،لفظوںکے ایسے کھلاڑی دانانہیںہوتے،داناکی نظرالفاظ کے داؤپیچ پرنہیںبلکہ ان کے معنی،مفہوم اورمطالب کی گہرائی اورگیرائی پرہوتی ہے۔اقبال اپنے ایک شعرمیںکہتاہے : الفاظ کے پیچوں میں، اُلجھتے نہیں دانا غوّاص کو مطلب ہے صدف سے کہ گہر سے؟ ۱۵۵ اقبال کے اس نقطۂ نظرسے ایک بارپھردھیان چینی مفکرچنگ زوکی طرف پلٹتاہے جس کا اقتباس چینی استد لال کے جائزے میںپیش کیاجاچکاہے۔یہاںیہ جملہ دھرانے میںحرج نہیں کہ ’’ایک دفعہ تصور تصرف میںآگیا تو پھر الفاظ کے بارے میں متفکرہونے کی کوئی ضرورت نہیں۔‘‘۱۵۶ایسا بھی نہیںہے کہ یونانی حکماء اس خرابی سے نا آشنا رہے ہوں۔مثلاًسقراط سوفسطائیوںکوان کے لفظی استدلال پردانش فروش خطیب خیال کرتا۔وہ ان کے بارے میں کہا کرتاکہ’’یہ لوگ پیتل کے برتنوں کی طرح ہیں جنہیں ایک دفعہ ٹھونکا جائے تودیرتک بجتے ہیں۔‘‘۱۵۷ وہ ان کے استدلال کو خوشامد اور دروغ گوئی کی مشق قرار دیتا اور کہا کرتا، ’’سوفسطائی خطیب ایک خوشامدی باورچی کی طرح ہوتا ہے جومریضوںکے سامنے چٹخارے دارکھانے پیش کرتا ہے۔ ان کوتھوڑی دیرتک یہ خوشامدی باورچی سچے طبیب کے مقابلے میںقابل تعریف آدمی معلوم ہوتاہے کیونکہ سچاطبیب مریضوں کے لیے کڑوی دوائیںاورسادہ غذائیں تجویز کرتا ہے۔‘‘۱۵۸اس کاایقان تھاکہ لذت آمیزجھوٹ سے کڑواسچ کہیںبہترہوتاہے اورایساکبھی نہیں ہوا ہے کہ لفاظی کی قوت سے حقیقت وصداقت ہاتھ آئی ہو۔کچھ ایساہی اظہاررومی مفکرسینیکاکابھی تھا، جس کاتذکرہ پیچھے یونانی استدلال کے جائزے میں کیاجاچکاہے۔ اس زمانے میںجن حضرات کااصرارزبان کی بجائے فکرکی طرف ہوتاان کامقصودفکری ہیئت کے پردے میںاپنے مدمقابل کواپنی دلیل منواناہوتا،تاکہ ان کے مؤقف کوحقیقت کاعکاس تسلیم کرلیاجائے، خواہ تجربے سے اس کی تائیدحاصل ہویانہ ہو۔گویامنطقی اعتبارسے وہ قضایاکے مادی پہلوکی بہ نسبت اس کے صوری پہلو میں زیادہ دلچسپی دکھاتے اورجہاںکہیںمادی پہلو کو مد ِنظر رکھتے، اسے بالآخرصوری پہلو میں تحویل کر دیتے۔یوں وہ زیادہ تر قیاسی استخراج کے سہارے نتائج کو اخذ کرتے۔ جہاں ٹھوس اورمقرون حقائق پرمجرداورتعمیمی نظریات وتعقلات کوفوقیت دیتے اور اس کا ماحصل یہ نکالتے کہ عقل کوعمل پرسبقت حاصل ہوگئی،ثبات تغیرپرمقدم ہو گیا، معقولات مدرکات سے زیادہ اہم ہوگئے،موت حیات پرحاوی ہوگئی،انسان اپنے ہی خودساختہ تصورحقیقت مطلقہ کااسیرہوگیا۔ اقبال کے نزدیک یونانی مفکرین استخراجی استدلال سے پیچھانہ چھڑاسکے اوراسی کوسند ِعظیم سمجھتے رہے۔ان کی عقلی نہج نے انہیںعقل ہی کی الجھنوںمیںپھنسائے رکھاجس سے وہ نکلنے کی بجائے مزید الجھتے چلے گئے، جس کی بدولت وہ حقیقت کے پہلوکاکامل احاطہ نہ کرپائے۔اس الجھن کورفع کرنااستخراجی عقل کے بس کی بات نہیں کہ وہ حقیقت کاوقوف کرسکے،اس کے لیے وجدانی استقراء درکارہے۔اقبال رسول کریمؐکے حضورملتجی ہوکریہ نکتۂ دقیق اٹھاتاہے : چہ کنم کہ عقلِ بہانہ جو گر ہے بروے گرہ زند نظرے! کہ گردشِ چشمِ تو شکند طلسمِ مجازِ من نرسد فسوں گریٔ خرد بہ تپیدنِ دلِ زندۂِ ز کُنِشتِ فلسفیاں در آ بحریمِ سوز و گداز من ۱۵۹ میںکیاکروں؟میری بہانہ سازعقل گرہ پرگرہ لگارہی ہے،(حضور ﷺ)مجھ پر نظر(کرم) فرمائیںکہ آپ کی نگاہ سے میرے مجازکاطلسم ٹوٹ جائے۔خردکی جادوگری دل زندہ کی تڑپ کو نہیں پہنچتی۔ فلسفیوں کے کنشت(یہودیوںکامعبد) سے نکل کر میرے سوزوگدازکے حرم میں آجا۔ محمدرفیع الدین کی رائے میں۱۶۰،یونانی فلسفیوںکامسئلہ یہ ہے کہ جب وہ محسوسات و مدرکات کی دنیا میں جھانکتے ہیں تو انہیں حسی و مادی اشیاء و مظاہر میں تغیرات کا سیل رواں ملتا ہے۔ نتیجتاًجب کسی شے یامظہرکے اوصاف و خواص میںتبدیلی رونماہوتی ہے تب اس سے منسلکہ منظرنامے کے تصورکوبھی تبدیل کرناپڑتاہے۔لہٰذا ضرورت اس امر کی ہوئی کہ تغیرات کے دَرپردہ اس اصول حقیقت کوڈھونڈاجائے جونہ صرف حال بلکہ مستقبل کے متغیرہ ٹھوس حقائق سے بھی مکمل مطابقت رکھے۔اسی کھوج میںجس کسی نے بھی اپنافلسفہ تراشا ،اسی زعم میںمبتلارہا کہ اس نے حقیقت کوپالیاہے۔حالانکہ اس کاحال تواس مثال کی مانند ہے کہ بالفرض،کسی کمرے کے اندراس کے سائز سے بڑاقالین اس طرح بچھانا ہو کہ وہ پورے کمرے میں پھیل بھی جائے اور اس کے گوناگوں نقوش بھی صاف نظرآتے رہیں،لیکن کمرے کی تنگی کی وجہ سے قالین میں جابجا شکنیں ابھر آئیںجن کے باعث قالین کے نقوش کا منظربگڑجائے یانظروںسے اوجھل شکنوںمیںگم ہو جائے، جب کبھی کسی ایک طرف کی شکنیں ہٹانے سے قالین کے کچھ نقوش درست طورپرنظرآنے لگیںتو دوسری طرف سے شکنیںادھرکے نقوش کوخراب کردیں۔اس طرح ہزارہا جتن کے باوجود نہ تو قالین کی شکنیں مٹنے میںآئیںاورنہ نقوش کابھرپورمنظرقابل دیدبن سکے،کچھ یہی حال فلسفی کاہے جس کی تنگیٔ فکرمیںوسیع وعریض کائنات کے دلکش حقائق سمانہیںسکتے۔وہ کچھ بھی کرلے اپنے تصورِحقیقت سے ان الجھنوں کودور نہیں کر پاتاجو کائنات پر استخراجی استنتاج کی صورت میں پیدا ہوتی ہیں۔اگر کبھی وہ ان ا لجھنوںکو اپنے نظریۂ حقیقت کے کسی ایک پہلوسے دورکرنے کی کوشش بھی کرتا ہے تووہ کسی اورپہلوسے نمودارہو جاتی ہیں، اس طرح وہ ان کاکماحقہ خاتمہ نہیں کر پاتا۔یہ سقم یونان کے ہرمفکرمیںکہیںنہ کہیںموجودہے۔مثلاً،زینوجس اصولِ حقیقت کا دعویدار ہے، وہ حقیقت کے پہلو پر منطبق نہیں ہوتا جیسے کہ یونانی استدلال کے جائزے میں ذکر ہو چکا۔اس کا دعوی تھا اگر دو متضاد قضایابیک وقت کسی مفروضہ سے برآمدہوں،تووہ مفروضہ صحیح نہیں ہوتا۔اس نے یہ اصول حرکی دنیا کوفریب ثابت کرنے کے لیے پیش کیا لیکن یہی اصول سکونی دنیاکے لیے بھی موزوں نہیں رہتا۔بشرطیکہ اسے رشتوں کی اضافی نسبت کے حوالے سے سمجھاجائے۔مثال کے طورپر،ریاضی کاہرہندسہ بیک وقت اپنے سے پہلے ہندسہ سے بڑا اور اپنے سے بعدکے ہندسہ سے چھوٹا ہوتا ہے، جیسے’5‘کاہندسہ بیک وقت’4‘سے بڑااور’6‘سے چھوٹا ہے ۔ یہی حال دیگر رشتوںکے اضافی تعلقات کاہے جس طرح کہ منجھلا بھائی بیک وقت چھوٹے بھائی سے بڑا اور بڑے بھائی سے چھوٹاہوتاہے۔۱۶۱بالفرض زینوکااصول صحیح ہے تواس کامطلب یہ ہوگاکہ ریاضی کے ہندسوں اورمنجھلے بھائی جیسے اضافی رشتوںکی اہمیت بھی مہمل اور لغو ہوگی اوراگرایساہے توحقیقت سکون وثبات کی غمازکیونکر ہوسکتی ہے۔ جہاں ریاضی اوراس جیسے سکونی تصورات کی حیثیت بھی باطل ثابت ہوتی ہے۔دراصل،یونانی مفکر استقراء کی حیثیت اور افادیت کوسرے سے سمجھ ہی نہیں سکے۔ ان کے ہاںاس کاتھوڑابہت جتنابھی استعمال کیاگیا منطقی منہاج کے روپ ہی میں کیاگیا جس کی وجہ سے وہ کسی نہ کسی طور فکری قیاس کی بھیس بدلی ہوئی شکل میں رہا۔ جس طرح کبھی دیومالائی تصورات جذباتی قیاس آرائی کی خرافات تھے، اسی طرح تجریدی تصورات فکری قیاس کی محض توجیہات ثابت ہوئے ۔جیسے اساطیری تصورات کوکبھی حقیقت پرموقوف سمجھاجاتا تھا ، ویسے ہی استخراجی نظریات کو بھی حقیقت کاعکاس ماناگیا۔اس دوران کسی یونانی مفکرکویہ خیال ہی نہیںسوجھاکہ استخراج سے بڑھ کربھی کچھ ہوسکتا ہے۔ دیکھاجائے توان کاحال اس بیمارجیساہے جوایک بیماری کاعلاج کرتے ہوئے کسی دوسری بیماری میںمبتلاہو جائے اور اس سے بے خبررہے۔اس تناظرمیںاقبال کایہ بیان بڑازبردست ہے،جسے فقیرسیدوحیدالدین نے لکھاہے۔’’اس کائنات میںخردبلاشرکت غیرے حکمران ہے۔ خرد وہ حاسداستانی ہے جوکسی کی شرکت یامداخلت گوارانہیںکرتی۔تم خرد کی طاقت کااندازہ اس سے کرسکتے ہوکہ انسان خدابھی وہی پوجتاہے جسے اس کی عقل پسندکرتی ہے۔حدیہ ہے کہ ظالم خدا تک تراش لیتی ہے‘‘۱۶۲یہ صحیح ہے کہ فکر کی انتہاہمیشہ قطعی حقیقت کی تلاش پرمنحصرہے۔اس ضمن میں،کبھی حقیقت مطلقہ کے اسطوری نظریے تراشے جاتے تھے،ان کی پرستش کی جاتی تھی، پھر تجریدی نظریات نے ان کی جگہ لے لی اور یہ ضروری سمجھاگیاکہ ان سے عقیدت رکھنے سے پیشتر عقلی جوازبھی مہیاہونے چاہئیں۔مجموعی طورپر، حقیقت مطلقہ کے بارے میں تین عقلی دلائل مقبول ہوئے جنہیںیونانی افکارکے دورزوال کے بعدبھی پذیرائی ملتی رہی۔اقبال نے ان کاناقدانہ جائزہ لے کریونانی دلائل ۱۶۳کے نقائص کوبے نقاب کیا۔پہلے ان دلائل کامفہوم دیکھتے ہیں۔ 1۔کونیاتی دلیل : (Cosmological argument)اس دلیل کے مطابق ہرکائناتی مظہر اور واقعہ کے درپردہ اس کی کوئی نہ کوئی علت ضرورہوتی ہے۔ہرعلت خودکسی اورعلت کامعلول ہوتی ہے اورجس علت کاوہ معلول ہوتی ہے، وہ بھی کسی اور علت کی وجہ سے ہوتی ہے۔علل ومعلول کا ایسا سلسلہ کسی ایسی علت پرآکر ضرور رکتا ہے جو آگے کسی اورعلت کامعلول نہیںجوگویا علت العلل ہے۔ یہی حقیقت مطلقہ ہے جواس کے موجودہونے کا ثبوت ہے۔ 2۔وجودیاتی دلیل :(Ontological argument)اس دلیل کے مطابق انسانی ذہن میں ایک مکمل ہستی کا تصور موجودہے اگریہ ہستی وجود نہیںرکھتی تویہ تصورایک مکمل ہستی کانہیںہوسکتا کیونکہ غیرموجود ہونا ایک نقص ہے۔ جس ہستی میںوجودجیسی بنیادی صفت بھی موجودنہیںوہ مکمل ہستی کیونکرہوسکتی ہے۔مکمل ہونے کے لیے ضروری ہے کہ اس میں کسی قسم کا نقص یاکمی نہ ہو چہ جائیکہ وجود جیسی صفت سے عاری ہو۔اس سے یہ لازم آتاہے کہ انسانی ذہن میںحقیقت ِمطلقہ کا تصورہونااس کی موجودگی کاثبوت ہے۔باالفاظ دیگر حقیقت مطلقہ کے تصورسے ہی اس کا موجود ہوناثابت ہوجاتاہے۔ 3۔غایتی دلیل:(Teleological argument)اس دلیل کے مطابق کائنات میں حسن، تدبراور مقصدکوشی کی علامات کائنات جومنظم،مربوط اورجامع نقشہ بحیثیت کل کے پیش کررہی ہیںوہ کسی حقیقت مطلقہ کی موجودگی کابین ثبوت ہے۔دوسرے لفظوںمیںانتخاب وتدارج اورنظم وضبط کے مظاہرے سے اس امرکی واضح نشاندہی ہوجاتی ہے کہ ان مظاہرکاخالق ایک صانع و عاقل وجودرکھتاہے۔چنانچہ ان مظاہرکی توجیہ اندھے میکانکی قوانین کی بنیاد پرنہیںکی جاسکتی، بلکہ یہ کسی نہ کسی اصول عاقل کی ہدایت کانتیجہ ہیں۔عاقل کاایساتصورحقیقت مطلقہ کے وجودکاثبوت ہے۔ اب ان تینوںدلائل کے خلاف اقبال کے اعتراضات۱۶۴ کوباری باری دیکھتے ہیں۔ کونیاتی دلیل کے بارے میںاقبال کے اعتراضات یہ ہیں : .1اگرمعلول محدودہے توعلت بھی محدودہوگی، یا یہ علت محدودعلل کاایک سلسلہ ہوگی۔ اگر کائنات کو محدود متصور کیاجائے تواس سے لامحالہ علت کاپتا نہیںچلے گا۔ .2اگرعلت ومعلول کے سلسلے کوکسی ایک مقام پرختم کردیاجائے اوراس میںکسی ایک کوایسے درجہ پر فائز کر دیا جائے کہ جہاںاسے بے علت کہہ دیاجائے تویہ بذات خودقانون تعلیل کی نفی ہوگی جس پرسارے استدلال کی بنیاد ہے ۔ .3جس علت کاعلم استدلال سے ہوتاہے اس کاکوئی معلول نہیںہوسکتا۔معلول چونکہ محدود ہے، لہٰذااس کی علت بھی محدودہونی چاہئیے حالانکہ علت توغیرمحدودہے۔اگریہ علت بصورت حقیقت ِ مطلقہ ہے اور معلول بصورت کائنات محدود ہے، تویہ استدلال بے معنی ہوجاتاہے۔ .4جوعلت اس طرزاستدلال سے دستیاب ہوتی ہے، اسے واجب الوجودکہاجاسکتاہے کیونکہ جس طرح معلول علت کامحتاج ہوتاہے اس طرح علت بھی معلول کی محتاج ہوتی ہے۔ .5اگرمنطقی طورپرایسی علت کاوجودثابت ہوجاتاہے تواس کایہ لازمی نتیجہ نہیںنکلتاکہ وہ درحقیقت موجودہے مثلاً منطقی طورپریہ ثابت کیاجاسکتاہے کہ دولت کی مساوی تقسیم ہونی چاہیے، لیکن اس کایہ مطلب نہیںکہ دنیامیں درحقیقت ایساہورہا ہے۔ ان دلائل کی بناء پراقبال اس نتیجے پرپہنچاکہ جولامحدودمحدودکی نفی سے بنتاہووہ نہ تواس کی توجیہ پیش کرسکتاہے اورنہ کسی اورشے کی۔ غایتی دلیل کے بارے میںاقبال یوںمعترض ہے کہ بادی النظرمیںکائنات کے نظم وضبط، باہمی ربط،ہم آ ہنگی اوریگانگت سے یہ نتیجہ نکالاجاسکتاہے کہ اس کاخالق ذی شعور اورصاحب قدرت ہے۔لیکن اس دلیل سے صرف یہ ثابت ہوتاہے کہ کائنات کو بنانے والاایک صانع ہے جو مادہ کولے کراس کوترتیب دیتاہے اوراسے کسی قابل بناتاہے۔ اقبال کاکہناہے کہ ایساصانع ایک کاریگر توہوسکتاہے لیکن وہ حقیقت مطلقہ نہیں،جومذہب کے نزدیک مسلمہ ہے۔اس کاریگر کے لیے مادہ کا پیشتر وجود ضروری ہے۔اگراس کاریگرکو مادہ کاخالق مان بھی لیا جائے تویہ سمجھ میں نہیں آتاکہ اس سے پہلے تومادے میں مشکلات بھردیںپھران کودورکرنے میںلگ پڑا۔ اس سے یہ تاثر ملتاہے کہ مادہ صانع سے الگ غیرہے اورصانع اس کی ترتیب وتشکیل میں لگا ہوا ہے۔لیکن اس طرح صانع جسے مذہب کی زبان میں حقیقت مطلقہ کہتے ہیں، محدودہوجائے گا۔جس موادپراسے کام کرناپڑتاہے وہ موادہی اس کی حدبندی کردے گا۔اقبال کے نزدیک، حقیقت مطلقہ کوانسانی کاریگرکی مثل قراردیناغلط تمثیل کانتیجہ ہے۔انسانی مصنوعات اورمظاہرفطرت ایک نہیں۔انسانی صانع قدرت سے کچھ چیزیں یاواقعات اپنی مرضی کے مطابق منتخب کرلیتاہے تاکہ وہ ان سے کچھ بناسکے جس کی ضرورت ہو۔صانع اس موادکے بغیرکام نہیںکرسکتالیکن حقیقت ِمطلقہ کاریگر یاصانع نہیںبلکہ خالق ہے۔ موادبھی اسی کی تخلیق ہے اور مظاہر بھی۔بطور جملۂ معترضہ،دیکھاجائے توغایتی دلیل سے جس قسم کی حقیقت مطلقہ کاوجودثابت ہوتا ہے وہ قدیم یونانی مفکر انکساغورث کے نظریہ ناؤس (Nous)۱۶۵کے مصداق ہے جودنیا کی تشکیل توکرسکتاہے مگرتخلیق نہیں،کیونکہ ناؤس کافریضہ پہلے سے موجود مادے میں ہم آہنگی،یگانگت،باہمی ربط قائم کرناہے۔ وجودیاتی دلیل کے بارے میںاقبال کااعتراض یہ ہے کہ کسی شے کی ہستی کاتصوراس کے خارجی وجودکا ثبوت نہیں۔دراصل فلسفیوںنے صرف فکرکوایساآلۂ کارسمجھ رکھاہے جوبظاہرفطرت سے الگ ہواوراسی حیثیت سے مظاہر سے نپٹتا ہو۔ اگر یہ بات سچ ہوتوفکرکی حیثیت کاریگر جیسی ہو جائے گی۔ اس طرح خیالی اورحقیقی کے درمیان دوئی آ جاتی ہے جسے مٹانا ممکن نہیں۔سادہ لفظوں میںاگرکسی شے کے بارے میںیہ سوچاجائے کہ وہ وجودبھی رکھتی ہے تو یقیناایسا تصوراس تصور کی بہ نسبت زیادہ مکمل ہوگاجووجودکے بغیر کسی شے کے بارے بنایاجائے۔ایک موجودشے میںایک غیرموجود شے کے مقابلے میںیقیناایک صفت زیادہ ہوتی ہے اوریوںاسے زیادہ مکمل قرار دیا جاسکتاہے، لیکن ایک مکمل شے کے تصورسے یہ بات اخذکرلیناکہ وہ فی الواقعی موجودبھی ہے، صریحاً مغالطہ ہے۔کانٹ نے اس دلیل کی تنقید میں بجاطور پرکہاتھاکہ’’تین سوڈالرکے تصورسے یہ ماننا کہاں لازم آتاہے کہ تین سوڈالر فی الواقعی میری جیب میں موجود ہیں۔‘‘۱۶۶ لہٰذا کسی شے کاتصورخواہ وہ کامل شے ہی کاکیوںنہ ہو،اس بات کاضامن نہیںکہ وہ شے حقیقت میں موجود ہے۔ تصوراورفی الواقعہ موجود ہونے کے درمیان ایک خلیج ہے جسے خیال کے علاوہ کسی سے عبورنہیںکیاجاسکتا۔اگرخالی خولی تصور سے حقیقی شے کاتصورثابت ہوتاہوتووجودیاتی دلیل کاحال غایتی دلیل جیساہوجائے گا۔جہاں تصورایک کاریگر کی طرح شے کے وجودکاصانع ہوگااورپھروہی تشکیل اور تخلیق کے فرق کامسئلہ کھڑاہوجائے گا۔منطقی لحاظ سے، اسے مغالطۂ مصادر علی المطلوب قراردیاجاسکتاہے جس میںاس دعوی کوجسے ثابت کرنا مقصود ہوتاہے، پہلے ہی سے ثابت شدہ تسلیم کرلیاجاتاہے اوریوںمنطقی خیال کوحقیقی شمارکرلیاجاتاہے۔ اقبال کی نظرمیں،یونانی مفکرسراسرلاعلم رہے کہ استخراجی استدلال کی بدولت ثنویت ان کے نظریات میںدر آئی ہے۔اس کاپہلانمایاںاظہارفیثاغورثیہ کے ہاں دکھائی پڑتاہے جنہوں نے انسانی جسم وروح کودوایسی متغائر اکائیاں فرض کیاجہاںروح جسم میںقیدہے اور ہندوؤں کے نظریۂ آواگون کی طرح ایک جسمانی پیکرسے رہائی کے بعد دوسرے جسمانی پیکرکواختیارکرکے بار باراس دھرتی پرلوٹتی ہے تآنکہ اس کی تطہیرنہ ہوجائے کیونکہ آلودہ جسم نے اسے آلودہ کر دیا ہوتا ہے۔ثنویت کوفروغ پارمینڈیز کے افکارسے ہُواجس نے حواس اورعقل میںتفریق قائم کرکے روح کوحقیقت اورجسم کوفریب ظاہرکیا۔جسے ہندوؤںکے تصوربرہمن اورمایاکی فکری صدائے بازگشت قراردیاجاسکتاہے۔ ہراقلیتوس نے توحقیقت کی بنیادہی ثنوی قوتوںپرایستادہ کی لیکن صحیح معنوںمیںثنویت کی شکل انکساغورس کے نظریۂ ناؤس اورمادہ کی دوئی سے آشکاراہوئی جہاں ناؤس ایک کائناتی ذہن کے طورپر پہلے سے موجود مادہ کی نت نئی صورتوں میںتشکیل پاتا رہتا ہے۔ اس نے ذہن اورمادے،دونوںکوازلی وابدی،جداجدامگرلازم وملزوم قراردیا۔ثنویت کا بھر پور اعادہ پھرسقراط کے ہاںملتاہے جس نے سوفسطائیوںکی مانندروح کو جسم کے پیچیدہ ترین تغیرات کا حاصل کل نہیںجانابلکہ اس کی ابدی زندگی کو جسمانی حیات پرمقدم جانا،جہاںروح جسم کی فنائیت کے بعدہواکے ذروںمیں تحلیل نہیںہوجاتی بلکہ اپنی عینیت برقراررکھتی ہے۔افلاطون نے تو ثنویت کی جڑیںاوربھی گہری کردیںجب اس نے دنیائے امثال بطورحقیقت اوردنیائے موجودات بطورفریب میںتفریق قائم کیاورانسانی روح کوجسم میںاس طرح حلول متصورکیاجس طرح شراب بوتل میںبندہوتی ہے۔جس طرح شراب مختلف بوتلوںمیںبھری جاسکتی ہے، اسی طرح روح مختلف جسمانی پیکروںمیںحلول کرتی رہتی ہے۔یہاںافلاطون نے ایک مرتبہ پھر سے فیثا غورثیہ کے مؤقف کااعادہ کیا۔اس کایہ بھی خیال تھا،اگرچہ روح جسم کی مالک ہے مگراس میںحلول ہونے کے بعدوہ جسم کی کٹھ پتلی بن کررہ جاتی ہے۔بشرطیکہ وہ دنیائے امثال کی حقیقت کوجاننے سے قاصررہے،لیکن جواس حقیقت کوپاجائے، صرف وہی روح جنم جنم کے چکرسے نجات حاصل کرپاتی ہے۔اورتواورثنویت کی روایت کوارسطونے بھی قائم رکھا۔ حالانکہ وہ افلاطون کے نظام فکرکاشدیدمخالف تھا۔اس نے روح کوعقلی اورغیرعقلی حصوںمیںبٹاثابت کیا جہاںعقلی حصہ جسمانی موت کے بعد بھی زندہ وپائندہ رہتاہے۔ارسطونے افلاطون کی طرح یہ تو نہیںماناکہ روح شراب کی مانندبوتل نماجسم میںانڈیلی گئی ہے لیکن اس نے یہ مفروضہ اپنایاکہ روح جسم سے منسلک عضوی عمل ضرورہے اوروہ بھی ایسا جہاں دونوں باہم دگرمدغم نہیں۔ بہر طور، ثنویت کی گرہ ایسی پڑی کہ یونانیوںکے بعدمابعدالطبیعی تصورات میںایک لمبے عرصے تک کھلتی دکھائی نہیںدیتی۔ اقبال کے نزدیک یونانی فکرمیںثنویت کی شمولیت ان کے استخراجی قیاس کاشاخسانہ ہے۔ اس نے پروفیسر آرتھرسٹینلے اڈنگٹن(Arthur Stanley Eddington)کی تصنیف(Space,Time and Gravitation) سے ایک اقتباس ۱۶۷ پیش کیاہے جس سے بخوبی اندازہ ہوتاہے کہ کس طرح فکرثنویت کاباعث بنتی ہے۔اس اقتبا س کا مرکزی خیال یہ ہے کہ کسی افتادہ زمین میں پوشیدہ پگڈنڈیوں کی طرح عالم فطرت میںگوناگوںصفات چھپی ہوئی ہیںجوتبھی ظاہرہوسکتی ہیں جب کوئی ذہن ان میںسے کسی نہ کسی صفت کودیگرصفات سے چن کرالگ کرلے۔جیسے کسی پگڈنڈی پر حقیقتاً چلا جائے، تب وہ ظاہرہوتی ہے۔ذہن عالم فطرت کی مخفی صفات کے چناؤ سے مادے کی تقطیر ایسے کرلیتاہے جیسے کوئی منشورسفیدرنگ کی روشنی کے بے راہ ارتعاشات سے قوس و قزح کے رنگ تقطیرکرلیتاہے نتیجتاً ذہن عالم مدرک کی ہردائمی صفت کواس کادائمی جوہرقراردے لیتاہے اوراسے زمانِ مدرک اور مکانِ مدرک میںکوئی جگہ بخش دیتا ہے۔ جس سے عالم فطرت قانون کشش ثقل اورقوانین میکانیات وہندسہ کی پابندی پرمجبورہوجاتاہے۔ یہی طبیعیاتی طرز فکر کا حاصل ہے جس سے ثنویت کے آغاز کا اندازہ ہوتاہے۔بعینہٖ یونان کی استخراجی فکر کا حال ہے جس کے تحت ذہن اپنے عملِ مدرک میںزمان ومکان کے سانچے وضع کرلیتاہے جس سے مادے کا ایسا تصورابھرتاہے جوآنات ولمحات میںمنقسم ہے اورجس میں تعلیلی قوانین کاسلسلۂ عمل رواںدواںمعلوم ہوتاہے جو بالآ خر مادے کی ایسی تقطیرپرمنتج ہوتاہے جہاں ثنویت کاظہورلازم ٹھہرتاہے۔یوںاستخراجی استدلال کے تحت زمان و مکان، صورت اور مادہ،جسم وروح،علت ومعلول جیسے ثنویت کے تصورات نمودار ہوئے۔جن کولاشعوری طریق پر گزرتے وقت کے ساتھ اصول متعارفہ کادرجہ تفویض کردیاگیا۔ اقبال کی رُو سے،حقیقت کادارومدار روحیتی وحدت پرہے۔نہ ہی کائنات زمان و مکاں میں بٹی دوئی کا منظر نا مہ ہے اورنہ ہی انسان جسم وروح کادورُخامرقع۔کائنات اور انسان،دونوںکے دونوں محض عملِ تسلسل ہیں جنہیں فکری قیا س کامنطقی روپ بغرض تفہیم مدرک کرلیتاہے۔اس سلسلے میں اقبال کے یہ اقتباسات بطورثبوت کافی ہیں۔ کائنات کے بارے میںوہ لکھتاہے،’’اشیاء دراصل حوادث ہیںاوریہ حوادث ہی کاوجودہے جو فطرت کا تسلسل قائم رکھتاہے لیکن فکران کوقیدمکانی میں لے آتااورسہولت ِعمل کے لیے باہم منفصل قراردیتاہے۔لہذایہ کائنات جو یوں دیکھنے میںاشیاء کا مجموعہ ہے کوئی ٹھوس جسم ہے،نہ خلاء میںواقع۔وہ شے نہیںہے،عمل ہے۔‘‘ ۱۶۸ اورانسانی وجود کے متعلق اس نے لکھاہے،’’جسم کوئی شے نہیںکہ ہم اسے خلائے مطلق میںواقع سمجھیں،بلکہ ایک نظام حوادث یانظام اعمال جس سے روح اوربدن کا امتیاز تو دور نہیں ہوتا، مگر جس سے وہ ایک دوسرے کے قریب ضرورآجاتے ہیں ۔ ‘‘۱۶۹ کچھ بھی ہو، حقیقت کوثنویت کے روپ میں ڈھالنے کا یہ مطلب توہرگزنہیںکہ اسے قطعیت کی سند عطاکردی جائے۔چونکہ حقیقت تجربے کی متقاضی ہے،خالی خولی تفکرمحض کی نہیں،اس لیے حقیقت کی تفہیم کے لیے وجدانی استقراء ناگزیر ہے جوثنویت کے اس سراب کومٹاڈالتاہے جس کاشکارقریباًوہ سبھی یونانی مفکرین ہوئے جواپنے مخصوص استخراجی میلان پر کار بند رہے۔ایسے اہل دانش جو استقراء پراستخراج محض کوفوقیت دیتے ہیں،ان کے بارے میںاقبال کایہ شعرحسبِ حال ہے : اے اہلِ نظر ذوقِ نظر خوب ہے لیکن جو شے کی حقیقت کو نہ دیکھے، وہ نظر کیا! ۱۷۰ حواشی ۱۔ Anton Dumitriu,History of Logic,vol:1,pp.4-10 ۲۔ Bertrand Russell,History of Western Philosophy,p.206 ۳۔ اصل اقتباس یوںہے : "The Chinese philosophers were all Socrates in different degrees." بقول مصنف فنگ یولان(Fung Yu Lan)نے یہ بیان کن یوئی لن(Kin Yue-Lin)کی کسی غیرمطبوعہ تصنیف سے لیاہے۔دیکھئے،Anton Dumitriu,op.cit,p.12 ۴۔ اصل اقتباس یوںہے : "He who knows is silent,he who speaks does not know." see, Ibid .p .37 ۵۔ اصل اقتباس یوںہے: "A net serves to catch fish,but once the fish is caught, no one thinks about the net any longer. A trap serves to catch rabbits, but once the rabbits are caught, there is no need to think about the trap any longer.The words serve to fix the ideas,but once the idea is grasped,there is no need to think about the words.I wish I could find somebody who has ceased to think of words and have him with me to talk to."see, Ibid, p.13 ۶۔ قیاس مسلسلsorites))استدلال کی ایسی زنجیرہے جس میںہرایک قیاس کانتیجہ اپنے سے اگلے مقدمے کے ساتھ مل کر ایک اورقیاس کانتیجہ وضع کرتاہے اورقیاس درقیاس کے نتائج کاسلسلہ چلتا چلا جاتا ہے۔ مثلاً:- تمام M،Pہے۔ تمامS،Mہے۔ لہٰذا تمامS،Pہے۔ لیکن تمامR،Sہے۔ لہٰذ ا تمامR،Pہے۔ see,Sydney Herbert Mellone,An Introductory Text-Book of Logic, p.158 مزید تفصیلات کے لیے دیکھئے، i.Irving M.Copi,Introduction to Logic,pp.246-247 ii.L.S.Stebbing,A Modern Introduction to Logic,p.10 ۷۔ اصل اقتباس یوںہے: "Things being investigated,knowledge became complete. Their knowledge being completed, their thoughts were sincere. Their thoughts being sincered, their hearts were then rectified. Their hearts being rectified, their persons were cultivated. Their persons cultivated, being their families were regulated.Their families being regulated, their states were rightly goverend. Their states being rightly goverened, the whole empire was made tranquil and happy."see,Dagobert D.Runes, (editor), Treasury of World Philosophy,pp.273-274 ۸۔ اصل اقتباس یوںہے: "If a one-foot long stick is shortened daily by half its length, this [process] will not be completed even after ten thousand generation."see, Anton Dumitriu.cit,p.25 ۹۔ اصل اقتباس یوںہے: "An archer can make his second arrow reach the tail of the one he shot first,and similarly,this third one reach the tail of the second,proceeding in the same manner,he might obtain a continuous line of arrows,so that it would seem that there is only one arrow from the first one to the string of the bow." see, Ibid, p.26 ۱۰۔ خالدمسعود،(مترجم) ،خارجی دنیاکاعلم،برٹرینڈرسل،(مصنف)،ص:۱۷۷ ۱۱۔ اصل اقتباس یوںہے : "Hui-Tzu wrote [so many books]that you could fill three carts, but his science has no value at all and his words no application." see,Anton Dumitriu,op.cit,p.27 ۱۲۔ اصل اقتباس یوںہے: "The dialectican distinguishes between true and false,queries what is ordered and what is not, clears up equality and difference, searches for the relation between words and reality, decides upon what is advantageous or not, clears doubt, meditates upon the essence of things, discusses the similarity of expressions, attempts to seize reality by names,to express meanings by words, to discover the grounds by criticism, accepting some by analogy and conceding others after analogy."see,Ibid,p.18 ۱۳۔ سریتی استقرائ(Penetrating Induction)کی مزیدتفصیلات کے لیے دیکھئے، Ibid,pp.33-34 ۱۴۔ Ibid,p.31 ۱۵۔ Ibid,p.27 ۱۶۔ نوٹ :-’’یہاںسائنس کے لفظ سے مراداس کاطریقۂ استدلال ہے۔‘‘،اصل اقتباس یوںہے: "According to Chinese tradition,philosophy is aimed not at increasing positive science,but at elevating the spirit that is an attempt to transcend, the present world and attain values even beyond the moral ones."see,Ibid,p.37 ۱۷۔ اصل اقتباس یوںہے: "Study is progressive growth,Tao (The path,The truth),is progressive diminution."see,Ibid,p.37 ۱۸۔ نیا یاآسٹکہ(Astica) نقطۂ نظرکاحامل مکتب نظرہے جس نے حقیقت کے گیان کے لیے منطقی استدلال پرزوردیا،تفصیلات کے لیے دیکھئے،Ibid, pp.41-43 ۱۹۔ Ibid,p.53 ۲۰۔ Ibid,pp.51-53 ۲۱۔ پروفیسرحمید عسکری،نامورمسلم سائنسدان،ص:۲۰ ۲۲۔ John Burnet,Greek Philosophy,Thales to Plato,p.15 ۲۳۔ Ibid,p.17 ۲۴۔ انیکسیمنیزکی تصویرکے اوپریہ درج ہے:"One of the Fathers of Geometry"دیکھئے، Dogobert D.Runes,Pictorial History of Greek Philosophy, pp.21 -22 ۲۵۔ G.S.Kirk,The Nature of Greek Myths,p.295 ۲۶۔ اصل متن یوںہے: "Aristotle says that Thales"probably derived his opinion from observing that the nutrient of all things is moist, and that even actual heat is generated therefrom and that animal life is sustained, and from the fact that the seeds of all things possess a moist nature, and that water is a first principle of all things that are humid." see,W.T.Stace, A Critical History pp.21-22 Philosophy, of Greek ۲۷۔ John Burnet,op.cit,pp.11-42 ۲۸۔ زینوفینیز(Xenophanes)کامرکزی خیال یہ تھا: "All is one" and "The One is God." see, i.Anton Dumitriu, op.cit, p. 76, and ii.W.T.Stace,op.cit,p.42 ۲۹۔ ویلہلم کیپلے(Wilhelm Capelle)کے الفاظ یہ ہیں: "He did not start from the outer world but thinking itself, he fundamentally and completely abstracted it from any human xperience, wanting to realize truth in itself. "see,Anton Dumitriu, op. cit, p.77 ۳۰۔ W.T.Stace,op.cit,p.55 ۳۱۔ خالدمسعود،(مترجم) ،کتاب مذکورہ،برٹرینڈرسل،(مصنف) ،ص :۱۵۰ ۳۲۔ زینوکے دلائل کے لیے دیکھئے،ایضاً،ص ص:۱۵۰تا۱۵۶،مزیدتفصیلات کے لیے دیکھئے، i.John Burnet,op.cit,pp.67-68, and ii.W.T.Stace,op.cit,pp.53-55 ۳۳۔ Ibid,pp.74-76 ۳۴۔ Ibid,p.81 ۳۵۔ ایبل رے(Abel Rey)کے الفاظ یوںہیں: "Empedocles is thus placed at the direct origin of one of the most tremendous theoretical syntheses science ever knew.This will be the great working hypothesis till as late as the sixteenth century,or even the beginning of the seventeenth as it is simultaneously the main figurative and explicative hypothesis of the real.Being a purely rational and rationalizing hypothesis it will offer a logical frame (irrespective of its remote origines),where the scientific findings of mankind will easily find their place for two millennia, in a comprehensible way."see, Anton Dumitriu, op.cit,p. 87 ۳۶۔ Ibid,p.81 ۳۷۔ انکساغورس’’ناؤس‘‘(Nous)سے مرادعالمگیرذہن لیتاہے۔دیکھئے،Ibid,p.85 ۳۸۔ مزیدتفصیلات کے لیے دیکھئے،W.T.Stace,op.cit,pp.112-116 علاوہ ازیںدیکھئے،Anton Dumitriu,op.cit,pp.96-97 ۳۹۔ ماںکے مکالمہ کااصل اقتباس یوںہے: "If you say what is just,men will hate you;and if you say what is unjust, the gods will hate you, but you must either say the one or the other, therefore you will be hated." اوربیٹے کے جوابی مکالمہ کااصل اقتباس یوںہے: "If I say what is just,the gods will love me;and if I say what is unjust, men will love me.I must say either the one or the other.Therefore I shall be loved!",see,Irving M.Copi ,op. cit, p. 57 ۴۰۔ پروٹاگورس اورایوتھلس کے مکالمات کے لیے دیکھئے، i.Irving M.Copi,op.cit,p.259 ii.Anton Dumitriu,op.cit,p.99 ۴۱۔ گورجیس کے دلائل کے لیے ملاحظہ ہو، i.Anton Dumitriu,op.cit,p.98 ii.W.T.Stace,op.cit,pp.117-118 ۴۲۔ سقراط اوربقراط کے مکالمات کے لیے دیکھئے،Anton Dumitriu,op.cit,p.105 ۴۳۔ اصل متن یوںہے: "When Diogenes told Plato,"I can see the table and the cup,but I can't see, O!Plato, the table-idea and the cup-idea",Plato answered, "This is easy to understand for you have eyes to see the sensible table and cup, but you lack reason you see the table-idea and the cup-idea."see,Ibid, p.114 ۴۴۔ Ibid,p.120 ۴۵۔ Ibid,p.130 ۴۶۔ اصل متن یوںہے: "The Liar-- Does someone Lie when saying he lies? It is easy to see there are but two answers:(1)One does lie,(2)One does not. (1)If someone lies,then he does not lie when saying he does,ergo he does not lie. (2)If someone does not lie when saying he does,then he lies. The paradox is obvious, and,to this day, it has not been satisfactorilly solved."see,Ibid,p.130 ۴۷۔ Ibid,p.138 ۴۸۔ اصل اقتباس یوںہے: "He was the first to define the judgement in logic saying" judgement is that which shows what is or what was a thing." See, Ibid, p.138 ۴۹۔ Ibid,p.142 ۵۰۔ Ibid,p.145 ۵۱۔ Ibid,pp.191-192 ۵۲۔ اصل اقتباس یوںہے: "If the best pilot is the best skilled at his job, and if the same is valid for a coachman too, then the best, in general, is the best skilled in his profession. Induction is more convincing,clearer, more easily known by senses, and so more familiar to the most people, reasoning, however, is more rigorous and better at refuting adversaries' opinions."see,Ibid, p. 192 ۵۳۔ Ibid,p.192 ۵۴۔ Ibid,pp.243-244 ۵۵۔ Ibid,p.244 ۵۶۔ مصنف نے اپنی تصنیف کے ’Index‘میںسفسطہ(Sophism)کی تعریف ان لفظوںمیںبیان کی ہے: "Sophism, a false argument, the name often implies that a false argument is consciously used for deception." see, W .Stanley Jeavons, Elementary Lessons on Logic,Deductive and Inductive, p.340 ۵۷۔ Bertrand Russell,op.cit,p.93 ۵۸۔ Anton Dumitriu,op.cit,pp.246-247 ۵۹۔ اصل متن یوںہے: "A crocodile has stolen a child and it promises the father to give him the child, if he guesses what decision it has taken, whether to return the child or not. If the father says the crocodile has decided not to give him the child,the following paradox arises: if it is true that it has decided so, then it must give the child back, if it will give him the child, then the father has not guessed rightly,and therefore it must not return the child."see,Ibid,p.247 ۶۰۔ Ibid,p.257 ۶۱۔ Ibid,p.257 ۶۲۔ اصل متن یوںہے: "Protagoras was the first to uphold that about each thing there are two reasonings, opposed to each other."see,Ibid,p.262 ۶۳۔ Ibid,p265 ۶۴۔ Bertrand Russell,op.cit.p.244 ۶۵۔ انہی شعلہ فشاں مناظروںکی وجہ سے کارنیاڈیز(Carneades)جدلی مفکرکے طور پر مشہور ہوا۔ دیوجانس لریشیس(Diogenes Laertius)کالکھناہے کہ کارنیاڈیزاپنے حریف کرسپپس کے بارے میں عمربھرمعترف رہا، Without Chrysippus, I assure you,neither will I be alive.", see, Anton Dumitriu,op.cit,p.262 ۶۶۔ ہومر(Homer)کامصرعہ یوںہے: "The forepart lion, the hind part dragon,the middle goat." ارسٹن(Ariston)کامصرعہ یوںہے: "The forepart Plato, the hind part Pyrrho,the middle Diodorus." see,Ibid,p.267 ۶۷۔ Ibid,p.267 ۶۸۔ Bertrand Russell,op.cit,p.245 ۶۹۔ Anton Dumitriu,op.cit,p.277 ۷۰۔ Ibid,p.275 ۷۱۔ Ibid,p.279 ۷۲۔ اصل اقتباس یوںہے: "He who claims cunningly to cheat another,deceitfully says to himself the one he is cheating is cheated; for of the one whom he is cheating feels he is cheated, he who is cheating is cheated himself, because the other one is not cheated."see,Ibid,p.282 ۷۳۔ Ibid,p.282 ۷۴۔ Frank Byron Jevons,A History of Greek Literature,p.303 ۷۵۔ John Burnet,op.cit,pp.92-93 ۷۶۔ سیدنذیرنیازی ،(مترجم)،تشکیلِ جدیدالٰہیاتِ اسلامیہ،ص ص:۵۳۔۵۵،اقبال کے الفاظ ہیں: "Before the moving body can reach the point of its destination it must pass through half the space intervening between the point of start and the point of destination, and before it can pass through that half it must travel through the half of the half,and so on to infinity.We can not move from one point of space to another without passing through an infinite number of points in the intervening space.But it is impossible to pass through an infinity of points in a finite time.He further argued that the flying arrow does not move,because at any time during the course of its flight it is at rest in some point of space.Thus Zeno held that movement is only a deceptive appearance and that Reality is one and immutable."see,Allama Muhammad Iqbal,The Reconstruction of Religious Thought in Islam, pp.28-29 ۷۷۔ Ibid,p.29 ۷۸۔ Ibid ۷۹۔ Ibid ۸۰۔ Ibid,p.30 ۸۱۔ Bertrand Russell,op.cit,p.63 ۸۲۔ محمداقبال،کلیات اقبال اردو/بانگ درا،ص:۱۷۳ ۸۳۔ محمداقبال،کلیات اقبال اردو/بال جبریل،ص:۴۵۴ ۸۴۔ دیکھئے،سیدعبدالواحدمعینی،(مرتب)،اورمحمدعبداﷲقریشی،(ترمیم واضافہ کنندہ)، باقیاتِ اقبال، علامہ ڈاکٹرمحمداقبال ، (مصنف)،ص:۵۳۴،اور فقیر سید وحیدالدین، رُوزگارفقیر،جلددوم،ص: ۳۴۲،اقبال نے یہ خیال اپنے کئی اشعار میں متعدد بارباندھاہے،جیسے دیکھئے، ۱۔ ہرشے مسافرہرچیزراہی! کیاچاند تارے،کیامرغ وماہی! محمداقبال،کلیات اقبال اردو/بالِ جبریل،ص:۳۸۲ ۲- ایک صورت پر نہیں رہتا کسی شے کو قرار ذوقِ جدّت سے ہے ترکیبِ مزاجِ روزگار محمداقبال،کلیات اقبال اردو/بانگ درا،ص:۱۷۹ ۳۔ بیتاب ہے اس جہاںکی ہر شے کہتے ہیںجسے سکوں، نہیں ہے رہتے ہیں ستم کش سفر سب تارے،انساں،شجر،حجر، سب جنبش سے ہے زندگی جہاں کی یہ رسم قدیم ہے یہاں کی محمداقبال،کلیات اقبال اردو/بانگ درا،ص:۱۴۵ ۸۵۔ John Burnet,op.cit,p.49 ۸۶۔ سیدنذیرنیازی،(مترجم)،کتاب مذکورہ،ص:۲۱۷،اقبال کے الفاظ ہیں: "...the movement itself, if conceived as cyclic, ceases to be creative. Eternal recurrence is not creation; it is eternal repetition." , see,Allama Muhammad Iqbal,op.cit,p.113 ۸۷۔ John Burnet,op.cit,p.50 ۸۸۔ اقبال نے زمانِمسلسل کو انائے فعال اورزمان ِخالص کوانائے بصیرکی نسبت سے واضح کیا ہے، دیکھئے، Allama Muhammad Iqbal,op.cit,pp.37-40 ۸۹۔ ہراقلیتوس کایہ خیال یہاںسے ماخوذہے،دیکھئے،John Burnet,op.cit,p.47 ۹۰۔ قاضی قیصرالسلام،فلسفے کے بنیادی مسائل،ص:۱۹۸ ۹۱۔ افتخاراحمدصدیقی،(مترجم)،شذراتِ فکرِ اقبال، محمد اقبال، (مصنف)، جسٹس ڈاکٹر جاوید اقبال، (مرتب)،ص:۱۶۹ ۹۲۔ محمداقبال،کلیات ِاقبال اردو/ضرب کلیم،ص:۵۷۸ ۹۳۔ سیدنذیرنیازی،(مترجم)،کتاب مذکورہ،ص:۵ op-cit,p.3, Allama Muhammad Iqbal, ۹۴۔ Ibid ۹۵۔ محمداقبال،کلیات اقبال فارسی/پیام ِمشرق،ص:۲۰۱ ۹۶۔ محمداقبال،کلیات اقبال اردو/بال جبریل،ص:۴۳۳ ۹۷۔ محمداقبال،کلیات اقبال فارسی/جاویدنامہ،ص:۴۹۲ ۹۸۔ W.T Stace,op.cit,p.216 ۹۹۔ John Burnet,op.cit,pp.129-130 ۱۰۰۔ Ibid,p.128 ۱۰۱۔ رسل کی اس رائے کواس کے جس اقتباس سے اخذکیاگیاہے،اس کے لیے،دیکھئے، Bertrand Russell,op.cit,pp.110-111 ۱۰۲۔ W.T Stace,op.cit,p.132 ۱۰۳۔ John Burnet,op.cit,p.105 ۱۰۴۔ Ibid,p.118 ۱۰۵۔ مکمل شعر یوں ہے۔ بخود گم بہرِ تحقیق خودی شو اناالحق گوے و صدیقِ شو محمداقبال،کلیات اقبال فارسی/زبورِعجم،ص:۴۵۳ ۱۰۶۔ مکمل شعر یوں ہے۔ اپنے مَن میں ڈوب کر پا جا سراغِ زندگی تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بَن، اپنا تو بَن! محمداقبال،کلیات ِاقبال اردو/بال جبریل،ص:۳۶۷ ۱۰۷۔ سیدنذیرنیازی،(مترجم)،کتاب مذکورہ،ص:۲۸۶،اقبال کے الفاظ ہیں: "A wrong concept misleads the understanding; a wrong deed degrades the whole man, and many eventually demolish the structure of the human ego,The mere concept affects life only partially; the deed is dynamically related to Reality and issues from a generally constant attitude of the whole man towards reality.",see,Allama Muhammad Iqbal,op.cit,p.146 ۱۰۸۔ تفصیلات کے لیے دیکھئے،ڈاکٹرخلیفہ عبدالحکیم، داستان دانش،ص:۱۷۴ ۱۰۹۔ محمداقبال،کلیات اقبال فارسی/پیام مشرق،ص:۲۷۷ ۱۱۰۔ مکمل شعر یوں ہے۔ تکیہ بر عقلِ جہاں بینِ فلاطون نکنم درکنارم دلکے شوخ و نظر بازے ہست محمداقبال،کلیات اقبال فارسی/زبورِعجم،ص:۳۶۰ ۱۱۱۔ مصنفنےFrank Thillyکی تصنیفHistory of Philosophyکے صفحہ نمبر73سے یہ اقتباس نقل کیاہے،دیکھئے، M.M.Sharif,(editor),A History of Muslim Philosophy vol:1,p.93 ۱۱۲۔ Bertrand Russell,op.cit,p.123 ۱۱۳۔ W.T.Stace,op.cit,p.200 ۱۱۴۔ John Burnet,op.cit,p.105 ۱۱۵۔ محمداقبال،کلیات اقبال اردو/ضربِ کلیم،ص:۶۰۶،اقبال نے یہ شعردیوتیماکی عظمت میںکہا،بطور ثبوت شہیرنیازی کے یہ مقالات دیکھئے .1شہیرنیازی ،اقبال اوردیوتیما،مشمولہ، اقبال ریویو،مجلہ اقبال،جلد۱۵،شمارہ نمبر۲،جولائی۱۹۷۴ء ص : ۹ ۵ 2. Shaheer Niazi,Diotima,"Tahira and Iqbal", Iqbal Review, ournel of the Iqbal Academy,Pakistan,vol xv, no.3, Oct 1974, p.23 ۱۱۶۔ افلاطونی عشق کی تفصیلات جاننے کے لیے دیکھئے،W.T.Stace,op.cit,pp.204-205 ۱۱۷۔ محمداقبال،کلیات اقبال اردو/بال جبریل،ص:۴۶۰،مکمل شعردیکھئے،باب اوّل،حوالہ نمبر92 ۱۱۸۔ محمداقبال،کلیات اقبال اردو/ارمغان حجاز،ص:۷۵۵ ۱۱۹۔ سیدنذیرنیازی،(مترجم)،کتاب مذکورہ،ص:۸۳،اقبال کے الفاظ ہیں: "No doubt, if teleology means the working out of plan in view of a predetermined end or goal, it does make time unreal. It reduces the universe to a mere temporal reproduction of a pre-existing eternal scheme or structure in which individual events have already found their proper places, waiting, as it were, for their respective turns to enter into the temporal sweep of history. All is already given somewhere in eternity, the temporal order of events is nothing more than a mere imitation of the eternal mould. Such a view is hardly distinguishable from mechanism which we have already rejected in fact, it is a kind of veiled materialism in which fate or destiny takes the place of rigid determinism, leaving no scope for human or even Divine freedom.The world regarded as a process realizing a preordained goal is not a world of free, responsible moral agents, it is only a stage on which puppets are made to move by a kind of pull from behind.", see, Allama Muhammad Iqbal,op.cit,p.43 ۱۲۰۔ Bashir Ahmad Dar,Iqbal and Post-Kantian Voluntarism,p.239 ۱۲۱۔ سیدنذیرنیازی،(مترجم)،کتاب مذکورہ،ص:۸۴،اقبال کے الفاظ ہیں: "The world-process, or the movement of the universe in time, is certainly devoid of purpose, if by purpose we mean a foreseen end-a far-off fixed destination to which the whole creation moves. To endow the world-process with purpose in this sense is to rob it of its originality and its creative character. Its ends are terminations of a career, they are ends to come and not necessarity premediated. A time process cannot be conceived as a line already drawn.It is a line drawing---an actualization of open possibilites. It is purposive only in this sense that it is selective in character,and brings itself to some sort of a present fulfilment by actively preserving and supplementing the past. To my mind nothing is more alien to the Quranic outlook than the idea that the universe is the temporal working out of a preconceived plan."see, Allama Muhammad Iqbal,op.cit,p.44 ۱۲۲۔ Bertrand Russell,op.cit,p.158 ۱۲۳۔ محمداقبال،کلیاتِ اقبال اردو/بال جبریل،ص:۲۹۹ ۱۲۴۔ محمداقبال،کلیاتِ اقبال اردو/بال ِجبریل،ص:۴۰۲ ۱۲۵۔ محمداقبال،کلیاتِ اقبال فارسی/اسرارورموز،ص:۵۰ ۱۲۶۔ محمداقبال،کلیاتِ اقبال فارسی/اسرارورموز،ص:۴۹ ۱۲۷۔ ایضاً ۱۲۸۔ مکمل شعر یوں ہے۔ نگاہ موت پہ رکھتا ہے مردِ دانشمند حیات ہے شبِ تاریک میں شرر کی نمود محمداقبال،کلیات ِاقبال اردو/ضرب ِکلیم،ص:۵۸۲ ۱۲۹۔ ڈاکٹرخلیفہ عبدالحکیم، فکراقبال،ص:۴۵۹ ۱۳۰۔ سیدعلی عباس جلالپوری،اقبال کاعلم الکلام،ص:۹۲ ۱۳۱۔ پروفیسریوسف سلیم چشتی،(مؤلفہ)،شرح اسرارخودی،ص:۳۴۶ ۱۳۲۔ فقیرسیدوحیدالدین کے بیان کے مطابق اقبال کے اصل الفاظ یہ ہیں: "Tagore preaches rest, practices action, Iqbal practices rest, preaches action.", see, فقیرسیدوحیدالدین،روزگارفقیر،جلداول،ص:۱۴۸ علاوہ ازیں،اس کی تائید میاں بشیر احمدکے مضمون’’اقبال کی یادمیں‘‘ میںمندرج اس بیان سے بھی ہوتی ہے۔’’ایک روزمیںنے ٹیگورکاذکرکیاتوفرمایاکہ دیکھوٹیگورعملی آدمی ہے اوراس کی شاعری امن و خاموشی کاپیغام دیتی ہے ادھر میری شاعری میںجدوجہدکاذکرہے لیکن میںعملی آدمی نہیں ہوں۔‘‘، دیکھئے، محمودنظامی،(مرتب)،ملفوظات،ص ص:۲۷-۲۸ ۱۳۳۔ محمداقبال،کلیاتِ اقبال فارسی/اسرارورموز،ص:۵۰ ۱۳۴۔ محمداقبال ،کلیاتِ اقبال فارسی/اسرارورموز،ص:۴۹ ۱۳۵۔ سیدعبدالواحدمعینی،(مرتب)،اورمحمدعبداﷲقریشی،(ترمیم واضافہ کنندہ)،کتابِ مذکورہ،علامہ ڈاکٹر محمداقبال، (مصنف ) ، ص: ۶۰۳،علاوہ ازیں، دیکھئے، فقیر سیدوحیدا لدین،روزگار فقیر،جلددو م، ص:۴۲۲ ۱۳۶۔ افتخار احمد صدیقی، (مترجم)،کتاب مذکورہ، محمد اقبال، (مصنف)، جسٹس ڈاکٹر جاوید اقبال، (مرتب)، ص:۹۴ ۱۳۷۔ جگن ناتھ آزاد،اقبال اور مغربی مفکرین،ص:۳۷ ۱۳۸۔ عطیہ سیّد،اقبال۔۔۔ مسلم فکرکاارتقائ،ص:۱۹ ۱۳۹۔ ایضاً،ص:۲۲ ۱۴۰۔ ایضاً ۱۴۱۔ یہاںارسطوکے نظریے کی وضاحت درج ذیل کتاب سے ماخوذہے: W.T Stace,op.cit,pp.266-267 ۱۴۲۔ Ibid,pp.257-258 ۱۴۳۔ William Minto,Logic: Inductive and Deductive,p.251 ۱۴۴۔ محمداقبال،کلیات ِاقبال فارسی/زبورعجم،ص:۴۳۹ ۱۴۵۔ Bertrand Russell,op.cit,pp.175 ۱۴۶۔ دیکھئے اسی باب کاحوالہ نمبر:۱۳۶ ۱۴۷۔ W.T.Stace,op.cit,p.267 ۱۴۸۔ یوسف سلیم چشتی،’’اقبال کے بعض ملفوظات‘‘،مشمولہ، اقبال ریویو،مجلہ اقبال اکادمی پاکستان، کراچی،جلد۵،شمارہ نمبر۲ ، جولائی ۱۹۶۴ئ،ص:۳۹ ۱۴۹۔ ایضاً ۱۵۰۔ بالقوۃ اور بالفعل کی تعریفات و تصریحات درج ذیل کتاب سے ماخوذ ہیں، دیکھئے، W.T.Stace,op.cit,pp.279-280 ۱۵۱۔ سیدنذیرنیازی،(مترجم)،کتاب مذکورہ،ص ص:۹۲۔۹۳،اقبال کے الفاظ ہیں: "The operation of thought which is essentially symbolic in character veils the true nature of life, and can picture it only as a kind of universal current flowing through all things. "see, Allama Muhammad Iqbal,op.cit,p.48 ۱۵۲۔ محمداقبال،کلیاتِ اقبال اردو/بال جبریل،ص:۳۹۴ ۱۵۳۔ سیدنذیرنیازی،(مترجم)،کتاب مذکورہ،ص:۴،اقبال کے الفاظ ہیں: "Greek philosophy has been a great cultural force in the history of Islam."see, Allama Muhammad Iqbal,op.cit,p.3 ۱۵۴۔ ایضاً،ص:۵،اقبال کے الفاظ ہیں: "While Greek philosophy very much broadened the outlook of Muslim thinkers, it, on the whole, obscured their vision of Quran,"see,Ibid ۱۵۵۔ محمداقبال،کلیاتِ اقبال اردو/ضرب کلیم،ص:۵۵۵ ۱۵۶۔ دیکھئے، اسی باب کاحوالہ نمبر:۵ ۱۵۷۔ سیدعلی عباس جلالپوری،روایات ِفلسفہ،ص:۳۷ ۱۵۸۔ ڈاکٹرخلیفہ عبدالحکیم، کتاب مذکورہ،ص ص :۸۴-۸۵ ۱۵۹۔ محمداقبال،کلیاتِ اقبال فارسی/پیام مشرق،ص:۳۱۱ ۱۶۰۔ محمدرفیع الدین نے اپنی رائے کے سلسلے میںجوتمثیل پیش کی ہے،اس کے لیے دیکھئے،محمدرفیع الدین، حکمتِ اقبال،ص:۳۰ ۱۶۱۔ ان مثالوںکامرکزی خیال حسب ِذیل تصنیف سے ماخوذہے جہاںسقراط زینوسے دوبدوہے کہ اگراشیاء کثیرہیںتوکیاوہ بیک وقت ایک جیسی اورمختلف النوع ہوسکتی ہیں؟دیکھئے، John Burnet,op.cit,p.207 ۱۶۲۔ فقیرسیدوحیدالدین،روزگار ِفقیر،جلداول،ص:۱۸۶ ۱۶۳۔ Allama Muhammad Iqbal,op.cit,pp.23-25 ۱۶۴۔ اقبال کے کونیاتی،غائتی اوروجودیاتی دلائل کے خلاف اعتراضات کی تلخیص وتفہیم کے لیے جہاں سے استفادہ کیا گیاہے،اس کے لیے دیکھئے،ڈاکٹرسی اے قادر،تسہیل نگار،خطبہ دوم، مشمولہ،شعبۂ اقبالیات، (مرتب)، تسہیل خطباتِ اقبال، علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی،اسلام آباد، کونیاتی دلیل کے لیے؛ص :۵۳-۵۴ ،غائتی دلیل کے لیے؛ص:۵۵ ،وجودیاتی دلیل کے لیے؛ ص:۵۸ 165- The words of Stace are,"The nous and matter exit side by side from eternity, it does not create matter, but only arranges it." see, W.T Stace, op.cit,p.101 ۱۶۶۔ سیدنذیرنیازی،(مترجم)،کتاب مذکورہ،ص:۴۵،اقبال کے الفاظ ہیں: "...the notion of three hundred dollers in my mind cannot prove that I have them in my pocket."see,Allama Muhammad Iqbal, op.cit, p.25 ۱۶۷۔ پروفیسراڈنگٹن’’Professor Eddington‘‘کی تصنیفSpace,Time and Gravitation سے اقبال کے پیش کردہ اقتباس کے لیے دیکھئے،Allama Muhammad Iqbal,op.cit,p.53 ۱۶۸۔ سیدنذیرنیازی،(مترجم)،کتاب مذکورہ،ص:۷۹،اقبال کے الفاظ ہیں: "The universe which seems to us to be a collection of things is not a solid stuff ocuppying a void."see,Allama Muhammad Iqbal, op.cit, p.41 ۱۶۹۔ نوٹ:مصنف ترجمے میں اقبال کے الفاظ کا صحیح احاطہ کئے ہوئے نہیں ملتا۔ دیکھئے، سید نذیر نیازی، (مترجم)،کتاب مذکورہ ، ص:۱۵۹،اقبال کے الفاظ ہیں: "...body is not a thing situated in an absolute void, it is a system of events or acts. The system of experiences we call soul or ego is also a system of acts. This does not obliterate the distinction of soul and body;it only brings them closer to each other. The body is accumulated action or habit of the soul,and as such undetachable from it.",see, Allama Muhammad Iqbal, op.cit, p.84 ۱۷۰۔ محمداقبال،کلیاتِ اقبال اردو/ضرب ِکلیم،ص:۶۳۰ باب سوم مسلم استدلال اور فکرِ اقبال (Muslim Reasoning and Iqbal's Thought) ُُ استدلال سے جوعلم حاصل ہوتا ہے،وہ ایسا یقینی نہیں ہوتاجس کاازالہ نہ ہو سکے۔ (حضرت شیخ شہاب الدین سہروردیؒ) (علامہ شبیراحمدعثمانی،العقل والنقل،ص:۳۲) مسلم استدلال کا تاریخی جائزہ ( of Muslim Reasoning Historical Survey ) مسلم استدلال کی تفصیلات میںجانے سے پیشتراُس غلط فہمی کاازالہ ضروری ہے جو مستشر قین نے پیدا کی ہے۔ انہو ں نے عمرانیات اورانسانیات کی تحقیقات کی آڑمیںاس خیال کوغلط العام کیا کہ اسلام اصل میںوہ ہے جواس کے پیروئو ں کے افعال میںجھلکتاہے۔گویااسلام کاجائزہ لینا ہو تومسلمانوںکے روّیوںکوپیشِ نظر رکھناہوگا۔اس پیرایے میں مسلم استدلال کو اسلامی استدلال سے خلط ملط کر دیا گیا اور ان میںقائم تمیزجاتی رہی،حالانکہ مسلم استدلال، اسلا می استدلال سے ایک مختلف چیز ہے۔اسلامی استدلال خالصتاًقرآن واحادیث کی تعلیمات سے مخصوص ہے،یعنی اسلامی نظریات کے قضایاتک محدودہے۔بنیادی طور پرقرآن کی مابعدالطبیعی بصیرت کی تفسیرو تشریح اور تشکیل جدید کی اس سعی سے عبارت ہے جو کسی نہ کسی فلسفیانہ منہاج اور منطقی قواعد و ضوابط کی رُوسے پایۂ تکمیل تک پہنچائی جاتی ہے۔اس کا مقصودمذہب اور فلسفے کے امتیازات کو اُجاگر کرنا اور فلسفیانہ چیلنجوں کابے باکانہ مقابلہ کرناہے،خواہ اس کی خاطراسے جارحانہ انداز ہی سے محاکمہ کیوںنہ کرناپڑے۔اسے افتخارحاصل ہے کہ اپنی حمایت میںدوسرے مصادرومنابع سے رجوع نہیں کرتا۔تعلیماتِ وحی کی فکری تفہیم کے لیے دیگرفلسفیوںکے مابعدالطبیعی نظامات کا سہارانہیں لیتااور بالفرض غیر مسلموں کے لیے نہ سہی ، مگر مسلم اُمہ کے لیے ضرورمشعلِ راہ ہے۔ اس کے برعکس،مسلم استدلال قرآن واحادیث کے ساتھ ساتھ دیگرمسلم و غیر مسلم فلا سفہ سے وابستہ ہے ۔یعنی اسلامی تعلیمات اور اُس سے ہم آہنگی رکھنے والے افکار ونظریات تک محیط ہے۔ بنیادی طور پر قرآن کی مابعدالطبیعی بصیرت کی تفسیروتشریح اور تشکیلِ جدید کی اُن کوششوں پر مبنی ہے جو دیگر فلسفیانہ فکرونظرسے مطابقت رکھنے کی صورت میں رُوبۂ عمل میں لائی جاتی ہیں۔ اس کا مدعا مذہب اور فلسفے کے اختلافات کو مٹانا اوران کے مابین مشابہتوں کو ڈھونڈناہے، اس مقصدکی خاطر چاہے اسے مدافعانہ یاجارحانہ ،کوئی ساطرزہی کیوں نہ اپنانا پڑے ۔اسے اعجازحاصل ہے کہ اپنی حمایت میں دیگرمصادر و منابع سے نہ صرف رجوع کرتا ہے بلکہ ہراُس طریق کوا ختیار کرتا ہے جس سے مقصودہاتھ آجائے۔مختصر لفظوں میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ اسلامی استدلال کا مطلب ہے اسلام کو فلسفیانہ اور مسلم استدلال کا مطلب فلسفے کو اسلامیانا۔۱ بعض اوقات یہ سوال ذہن میںکھٹکتاہے کہ قرآن اوراحادیث مبارکہ کی موجودگی میں اسلامی استدلال اور پھرمسلم استدلال کی ضرورت آخرکیوںپیش آئی؟تاریخِ اسلام کے پس منظر میںاس کاجواب ڈھونڈنااتنامشکل بھی نہیں۔۲نبی کریمؐنے جس عہدمیںربِّ جلیل کی تعلیمات کو عام فرمایا،اس وقت کے مسلمانوں نے آنحضرت صلعم کو خود دیکھاتھا،ان کے اقوال اوران کی باتیںسنی تھیں۔وہ ان پرکاربندہوناعین ایمان خیال کرتے تھے،ان کے لیے یہ ممکن نہیںتھاکہ وہ کسی تذبذب کاشکارہوجائیںلیکن خلافتِ راشدہ کے بعدجب سیاسی ڈھانچے میںتغیرات رونما ہوئے تومسلمانوںکی سماجی،معاشی اورفکری وعلمی فضاپربھی اس کے دورس اثرات مرتب ہوئے۔ فکری اعتبارسے عقائد اسلامی کے متعلق نکتہ آفرینیوں کا باب واہوا۔ مذہبی مباحثوں اور مناظروں میں فصاحت وبلاغت اورمبالغہ آمیزی نے طرح پکڑی۔عقل اورنقل کے امتیازپر فرقہ بندیوں کا بازار گرم ہوا۔غیرمسلموںکی دریدہ دہنی سے مسلمانوں کے یقینِ محکم میںاختلال کاامکان بڑھنے لگا ، تو لامحالہ اسلامی استدلال کااحیاء ہوا۔ ضرورت محسوس ہوئی کہ اسلامی تعلیمات کامحاکمہ کیا جا ئے ، ایمان کو متزلزل ہونے سے بچایاجائے غیرمسلموںکی فکری یلغارکادندان شکن جواب دیا جائے اور مبہم اور غیر واضح آیاتِ قرآنی کے مفہوم کوبالصراحت عیاںکیاجائے۔لیکن جوں جوں اسلامی فتوحات میںاضافہ ہوا، نو مسلموںکاحلقہ بڑھنے لگا۔غیرمسلموںسے تہذیبی وثقافتی رشتے اُستوار ہوتے چلے گئے، غیر اسلامی فلسفہ اورفنونِ لطیفہ سے شغف کاچلن عام ہوا،غیراسلامی حکمت وادب کے تراجم اورشرحوںکا رواج بڑھا،تو نتیجہ یہ نکلاکہ مسلمانوںکے مذہبی خیالات میںایک بھونچال سا آگیا۔بالخصوص،تعلیم یافتہ مسلم طبقہ غیرمسلم تہذیب وفنون سے قریباً مرعوب سا ہو کر رہ گیا۔مغربی علوم کاسحرگھر گھر میں چھا گیا،آزادی فکرکے نام پرحق کہنااس قدرسہل نہ رہاجس قدرکہ ناحق کہنا آسان ہو گیا اس تناظرمیںمسلم استدلال نے اپنی راہ پیداکی۔اسلامی عقائد اور غیراسلامی فلسفیانہ افکارکے مابین، مفاہمت اورمطابقت کے رستے تلاش کئے گئے تاکہ ایک طرف دین کی تجدیدِ نو ہو سکے،ایمان کی روح میں ازسرِنوتازگی پیداکی جاسکے اوردوسری طرف غیر اسلامی حکمت ودانش سے بہرہ ور ہواجاسکے اورفکرودانش کے نئے اُفق تلاش کئے جاسکیں۔ دوسرے لفظوںمیں،مسلم استدلال کی بدولت اسلامی اورغیراسلامی استدلالات میںایک طرح کے سمجھوتے کی راہیں نکالی گئیںتاکہ ایک طرف اسلامی عقائدپرایمان متزلزل نہ ہوتودوسری طرف غیراسلامی افکارسے بھی بھر پور استفادہ کیا جا سکے ۔ ضمناً اس مقام پر ایک اور نکتہ بھی قابلِ غورہے۔بعض ناقدین نے مسلم استدلال کے تصور کو منطقی لحاظ سے خودتردیدی پرمحمول گرداناہے،ان کااعتراض۳ہے کہ مسلم استدلال کے تصور سے ذہن میںکچھ وہی تاثرابھرتاہے جو چوکوردائرے یاگول مربع کے تصورِتناقض میں پایا جاتا ہے۔ اس پیرایے میںان کامئوقف ہے کہ مسلم تووہ ہے جوکسی دلیل اورحجت کے بغیراسلام کے بنیادی عقائدپرایمان رکھے،اس کے برعکس،مسلم استدلال کی بنیادہی دلیل و حجت پرقائم ہے۔مسلم کا واسطہ تعلیماتِ ربانی سے ہے،استدلال کاتعلق فکرِانسانی سے ہے۔ایک شکوک و شبہات سے منّزہ ہے، دوسراتخمین وظن سے مبرا نہیں۔لہٰذایہ کس طرح ممکن ہے کہ مسلم استدلال کی بات کی جاسکے۔ بادی النظرمیںیہ اعتراض جاذبِ توجہ دکھائی دیتاہے۔مگرقرآن الفرقان کا بنظرغائر مطالعہ کیاجائے تواس اعتراض میںجاذبیت تودرکنار اس کی وقعت تک باقی نہیںرہتی۔ اس ضمن میں،قرآن کی رُو سے یہ جوازملتے ہیں: .1ایمان بالغیب اگرچہ انسانوں کی ہدایت کے لیے لازمی شرط ہے جیسے کہ حکم ِربی ہے: ’’یہ کتاب (قرآن مجید)اس میںکچھ شک نہیں(کہ کلامِ خداہے۔خداسے) ڈرنے والوںکی رہنماہے جوغیب پرایمان لاتے …ہیں۔‘‘(۲ـ:۲۔۳) لیکن اس کایہ مطلب ہرگزنہیں کہ وہ فکر واستدلال کے سرے سے خلاف ہے۔قرآن نے بارہا غوروفکرکی دعوت دی ہے جیسے کہ ارشادِربانی ہے: ’’بھلایہ قرآن میںغورکیوںنہیںکرتے۔‘‘(۴:۸۲) قرآن کامقصودیہ ہے کہ انسان اپنے استدلال کی بدولت کائنات کی مادی،حیاتی اورذہنی سطحوںمیںچھپی خدائے بزرگ وبرترکی نشانیوںکوپہچانے تاکہ اسے ایمان بالغیب کی ہدایت سمجھ میںآسکے۔ . 2قرآن میںارشادہواہے: ’’وہی ہے جس نے تم پرکتاب نازل کی جس کی بعض آیتیں محکم ہیں(اور)وہی اصل کتاب ہیںاوربعض متشابہ ہیں۔‘‘(۳:۷) محکمات وہ آیات ہیںجن کے معانی متعین اورواضح ہیںلیکن متشابہات وہ آیات ہیںجن کے معانی نہ متعین ہیںاورنہ ہی واضح۔ان کی حیثیت رموزواشارات کی سی ہے جن میںمعنویت کی کئی تہیںپوشیدہ ہیں۔ان کی تفہیم کے لیے انتہائی فکرواستدلال درکارہے۔ .3قرآن نے بہ تکرار فکرواستدلال کی اس قدردعوتِ عام دی ہے کہ غوروخوض سے اجتناب کرنے والوںکو چوپایوںسے ابترقراردیاہے اور جہنم کاسزاوارٹھہرایاہے۔قرآن کے الفاظ میں: i۔’’ان کے دل ہیںلیکن اُن سے سمجھتے نہیںاوران کی آنکھیںہیںمگر اُن سے دیکھتے نہیںاوراُن کے کان ہیںپر اُن سے سنتے نہیں۔یہ لوگ (بالکل)چارپایوںکی طرح ہیںبلکہ اُن سے بھی بھٹکے ہوئے۔یہی وہ ہیںجوغفلت میںپڑے ہوئے ہیں۔‘‘(۷:۱۷۹) ii۔’’اورکہیںگے اگر ہم سنتے یاسمجھتے ہوتے تودوزخیوں میںنہ ہوتے۔‘‘(۶۷:۱۰) عموماً یہ خیال کیاجاتاہے کہ مسلم استدلال،یونانی استدلال کا عربی چوغہ ہے کیونکہ مسلم افکار میںیونانی استدلال کی جھلک نمایاںہے جویونانی استدلال سے تعرض یا پھراعراض کی صورت میں ہویداہوئی۔یہ خیال کس حد تک درست ہے،اسے جاننے کے لیے یونانی استدلال کے پھیلاؤ او ر اس کے اثرات کااجمالاًجائزہ لیناہوگا۔ تہذیب و تمدن کی رو سے یونانی استدلال کے دو رنگ روپ دکھائی دیتے ہیں: .1ہیلانی انداز(Hellenic Version)ــ: یہ استدلال کاوہ اندازہے جوخالصاً یونان کی اپنی تہذیب وتمدن میںپروان چڑھا۔ .2ہیلانیاتی انداز:(Hellenistic Version)یہ استدلال کاوہ اندازہے جو یونان کی تہذیب تمدن میں دیگر قوموں کے تہذیبی اثرات کے اشتراک سے وجودمیںآیا۔ تاریخی اعتبار سے،یونانی استدلال کا ہیلانی سے ہیلانیاتی اندازمیںبدلناتین ادوار۴پرمحیط دکھائی دیتاہے۔ .1پہلادوریونان کی آزادی اوربدنظمی کا زمانہ ہے جو مقدونیہ کے حکمران فلپ اور سکندر اعظم کی عظیم سلطنتو ں سے قبل کاعہدتھا۔اس وقت یونان چھوٹی چھوٹی آزاد اور خود مختار ریاستوں میںمنقسم تھا۔فکری استدلال کے حوالے سے یہ خالصاً ہیلانی اندازکادورتھا۔ .2 دوسرادوریونان کی محکومی اوربدنظمی کازمانہ ہے جورومی سلطنت کے حصولِ عروج کا عہد تھا۔جب مصرکی ملکہ قلوپطرہ کی وفات کے بعدمصرکاروم کے ساتھ الحاق ہوااوریونان میںمقدونیہ کے آخری فرمانرواکاچراغ بھی گل کر دیا گیا۔فکری استدلال کے حوالے سے یہ ہیلانی سے ہیلانیا تی اندازمیںڈھلنے کادورتھا۔ .3تیسرادوریونان کی محکومی اورنظم وضبط کازمانہ ہے جورومی سلطنت کی جاہ وحشمت اور دبد بہ وسطوت کے اوجِ کمال کاعہدتھامگرانتہائی خاموشی کے ساتھ رُو بہ زوال تھا۔فکری استدلال کے حوالے سے یہ خالصاًہیلانیاتی انداز کا دورتھا۔ اگرچہ سکندراعظم کی فتوحات کے بعدیونان کاہیلانی انداز ِفکرہیلانیاتی انداز میں بدلتا چلا گیا لیکن اس دوران میںوہ کبھی بھی یونانی مفکرین کے افکار کے تراجم اورشرحوں سے آگے نہ بڑھ پایا۔اس روایت کے خصوصی امین رومی مفکرین نکلے۔ مصر میںسکندراعظم کے تعمیرکردہ شہراسکندریہ اور شام و عراق کے حکماء نے بھی اسی روایت کو برقراررکھا۔ مسیحیت کی آمد سے ایک بہت بڑافکری انقلاب بپا ہوا۔ جو استدلال کبھی یونانی حکماء کے مابعدالطبیعی نظامات کی تشریح و توضیح کے لیے استعمال کیاجاتاتھا،اب اسے صرف الہام ووحی کی تفاسیروتوجیہات کے لیے مختص کردیاگیا۔فکرکی آزاد روش، کبریائی تعلیمات کے دائرے میںمحصورکردی گئی۔نتیجہ یہ نکلا کہ بتدریج یونانی استدلال کی دوفکری شاخیں پھوٹیں، ان میںسے ایک افلاطون کے پیروکار اشرافین کے توسط سے تصوف کی صورت میں،تودوسری ارسطو کے مقلد مشائین کی وساطت سے مدرسیت یا علم الکلام کی شکل میں پھلی پھولی۔ ہر دو صورتوںمیں،فکرکوایمان سے ہم آہنگ کرنے کا رجحان عام ہوااوراس طرح اقبال کے الفاظ میں، ’’مسیحیت کی پھونکوں کے آگے یونانی تفکرکاپھول مرجھاگیا‘‘۵۔اوروِل ڈیورانٹ(Will Durant) کے خیال میں،’’عقل مر گئی اور ایمان (جو کبھی نہیںمرتا) نے یونان کے عہد زریں کو ختم کر دیا۔‘‘۶ دوسرے لفظوںمیںعقلیت الٰہیات کے تابع ہوگئی۔یہ ازمنہ وسطی کا دور تھاجو استنادیت سے عبارت ہوا۔ مسیحی حکمت ودانش اور الہام و معرفت کے پس پردہ چار جہتی فکری دھارے۷ کار فرما رہے۔ ان سب میںیہ مشترکہ صلاحیت کم و بیش ملتی ہے کہ سبھی نے دین اوردنیامیںتفریق قائم کی۔ عالم حواس وادراک کی مذمت کی،خدائے برتر کے تصورکووراء الوراخیال کیا۔خدااورکائنات کے مابین عقلی یا روحانی واسطوںکاایک سلسلۂ صدور متعارف کرایا۔ رہبا نیت کو مستحسن گردانا اور ایمان کو اطمینانِ قلب کا سزاوار ٹھہرایا۔ یہاںان چارفکری دھاروں کے مبادیات کو زیر ِنظر رکھنا ضروری ہے تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ مسلم افکارپران کی چھاپ کس حدتک نمایاںرہی۔ .1نوفیثاغورثیت:(Neo-pythagoreanism) نوفیثا غورثی محض قدیم فیثا غورثیہ کے مقلد نہیں تھے۔ انھوں نے افلاطون، ارسطو اور رواقیوںکے فکرواستدلال کی روشنی میںفیثاغورثیہ تعلیمات کوازسرِنوفکری روپ دیناچاہاتھا۔رومی مفکرسینیکاکے مطابق،روم میںکسی قابل رہنما کی عدم دستیابی کے باعث نوفیثاغورثیوںکوپذیرائی نہ مل سکی لیکن مصرمیںاسکندریہ شہرکے ادبی مرکز بننے سے انہیںخوب پذیرائی حاصل ہوئی۔ جہاں انھوںنے یہ تعلیمات عام کیںکہ خدائے برترناقابلِ بیان حدتک ایسی واحدہستی ہے جسسے بالترتیب اوربتدریج عقلِ کائنات،روحِ کائنات اورمادہ کاصدورہواہے۔ انسان کی روح عارضی طور پر انسانی بدن میںمقیدرہتی ہے اوراس سے چھٹکاراپانے کی متمنی رہتی ہے تاکہ اپنے منبع ابدی سے متصل ہوسکے۔وہ اپنی فکری بصیرت میںبنیادی طورپرمذہبی تھے۔ علمیاتی اعتبار سے ان کا خیال تھاکہ روحانی ادراک کا تعلق رویت باری تعالیٰ سے،ا ستنتا ج کارائے سے،طولانی عقل کا سائنس سے اور دنیائے رنگ وبوکاحسی ادراک سے ہے۔ .2یہود-اسکندری فلسفہ:(Jewish-Alexandrian Philosophy) یہ مصری شہراسکندریہ کے یہودی حکماء سے منسوب فکری دھاراہے جس کی قدآورشخصیت فلو (Philo)نامی مفکرہے جویسوع مسیح کی ولادت سے چند ہی سال پہلے پیداہواتھا۔وہ یونانی فلسفے سے بخوبی آگاہ تھا۔اس کاایقان تھاکہ یونانی حکماء خصوصاً افلاطون اور ارسطونے اپنے نظریات میں حضرت موسیٰ کی تعلیمات سے استفادہ کیا۔وہ تورات کو یونانی فلسفے کامنبع سمجھتا،اس کا مقصد یہودی مذہب اورفلسفۂ یونان میںمطابقت پیداکرناتھا۔اس نے فلسفے کومذہبی عقائد کا پابند کرنا چاہا اور دیکھا جائے تواسی نے مسیحی علم الکلام کے لیے رستہ ہموارکیا۔اس نے اپنی تعلیمات میںان خیا لات کا پر چار کیاکہ خدائے برترانسانی احاطٔ فکرسے یکسرباہرہے لیکن صرف کشف ووجدان کے زور پر اسے جانا جاسکتاہے۔ خدااورکائنات کے مابین بہت سے روحانی واسطے ہیں جن کی بدولت وہ کائنات کی تخلیق کرتاہے۔ان روحانی واسطوں میںسب سے بالالوگوس(Logos)ہے جو کارخانۂ قدرت کے انتظام وانصرام کافکری اہتمام کرتاہے۔خداسے لوگوس اورلوگوس سے کائنات کارشتہ یک طرفہ ہے جیسے کہ سورج سے اس کی کرنوںکے پھوٹنے کاہوتاہے۔ .3نوفلاطونیت:(Neoplatonism) یہ یونانی فلسفے کاآخری مکتبِ فکرخیال کیاجاتاہے جسے افلاطونی افکارکی تجدیدِنوسمجھنے کی غلط فہمی کے باعث نوفلاطونیت کانام دیاگیاحالانکہ اسے افلاطون کے فلسفیانہ افکارکامحض نیم مذہبی جامہ قراردیاجاسکتاہے اوربس۔اس کے بارے میں پروفیسرسٹیس کی رائے ہے کہ’’نوفلاطونیت میں قدیم فلسفے نے خودکشی کرلی۔‘‘۸کیونکہ اس نے عقل کو تیاگ کروجدان کوفوقیت دی۔ اس کا بانی امونییس ساکاس (Ammonius Saccas) ماناجاتاہے مگراس کا مشہور منّاد فلاطینوس (Plotinus) ہے جواسکندریہ میںساکاس کاشاگردرہا۔فلاطینوس نے اپنی تعلیمات میں واضح کیا کہ خدائے واحدانسانی فکرکی رسائی سے ماوراء ہے۔اسے صرف وجدانی استقراء اوراستغراق سے ہی جاناجا سکتا ہے۔وہ ایسی ذاتِ احد ہے جس سے ناؤس کاصدورہوا۔ناؤس ایک طرح کی کائناتی عقل ہے جسے فوری آگہی کے مثل تو قرار دیا جا سکتاہے مگر فلسفیانہ فکرکے مترادف نہیں۔ ناؤس سے روحِ کائنات کا صدور ہوا جو زمان و مکاںسے مبّرا اورناقابلِ تقسیم ہے۔روحِ کائنات سے متعددارواح کا صدور ہوا جومادے سے مل کرکائنات کی جملہ مخلوقات کی صورت میںمتشکل ہیں۔مادہ فی نفسہٖ کوئی حیثیت نہیںرکھتا۔ذاتِ احد سے مادہ تک کاعملِ صدورکسی سورج سے پھوٹنے والے نورکے مصداق ہے۔جس طرح نورسورج سے دورہٹتاجائے توسورج کوتوکوئی فرق نہیںپڑتاالبتہ سورج کا نور دنیا تک نہ پہنچ پائے وہاںتاریکی ہوجاتی ہے، اس حساب سے سورج ذاتِ احدہے توتاریکی مادہ۔کائنات میںذاتِ احد کے سواکچھ موجودنہیں۔اگرچہ کائنات خود ذاتِ احد نہیںلیکن اس سے متغائربھی نہیں۔یہ بالکل اسی طرح ہے جس طرح کہ سورج کا نور خود سورج نہیںلیکن سورج سے جدابھی نہیں۔ .4 ابتدائی عیسائیت:(Early Christianity) مذہب اورفلسفے کی جس تطبیق کاآغازیہوداسکندری دورِفکرمیںہوچکاتھا،اس روش کو عیسا ئیت کے ابتدائی دور سے ہی مسیحی حکماء نے آگے بڑھایا۔عیسائی مذہب کویونانی حکمت کے رنگ میں سب سے پہلے پیش کرنے والوں میں سے اسکندریہ کے پادری کلیمنٹ(Clement) اور اور یجین (Origen)خصوصاً نمایاں رہے۔مجموعی طور پر یونان کے ہیلانی افکار سے مسیحی علم الکلا م اور ہیلانیاتی افکارسے مسیحی تصوف نے جلاپائی اور ہر دو اعتبار سے، عیسائیت میںیہ تصور نفوذ کرگیا کہ دنیائے کون وفساد،دنیائے اخروی وابدی کے سامنے سرتاپاہیچ ہے،یہاںانصاف ملتاہے نہ دولت کی مساویانہ تقسیم،یہاںنہ افلاس، استحصال اورامراض جیسے مسائل سے گلوخلاصی ہوپاتی ہے اورنہ حسد،حرص اور ہوس جیسی سفلی خواہشات سے چھٹکارا،چونکہ انسانی روح دنیائے کون و فساد میں مکدر اور مقید ہے اس لیے ضروری ہے کہ تزکیۂ نفس اور نفی ٔ ذات کے عملیات سے روح کا رابطہ دنیائے اُخروی وابدی سے استواررکھاجائے۔ عیسائی پادریوںنے یہود اسکندری حکمت ودانش کواختیار کیاخصوصاً نو فلاطونی اور ارسطوئی مابعدالطبیعی افکار کو اپنے مذہبی عقائدمیںجگہ دی۔مثلاًگرجاگھروںمیںیہ عقیدہ فروغ پایا کہ حضرت یسوع مسیح خداکی طرح سرمدی ہیں، ان کا خداسے صدور ہواہے۔منطقی موشگافیوں اور قیاس آرائیوںکے زورپرپادریوںکے درمیان ذہنی فاصلے بڑھے،نتیجتاًشام کے نسطوری معبدوں نے حضرت یسوع مسیح کی سرمدیت کے بارے میںیہ حجت پیش کی کہ ان کے صدور سے قبل صرف خدا ہی خداتھاخداحضرت یسوع مسیح کی علت بنا،لیکن مصرکے اسکندری معبدوںنے یہ دلیل اپنائی کہ سر مدیت کاتصورقبل یابعدکی تخصیص کامتقاضی نہیں،لہٰذاخداکوحضرت یسوع مسیح کی علت کیونکر قراردیاجاسکتا ہے۔ اسکندری اورنسطوری گروہوںکے درمیان علمی مجادلے ہوتے رہے جس سے یونانی فلسفے کے استخراجی استدلال کوبڑی تقویت حاصل ہوئی۔ ارسطوکی پیروی میںدونوں گروہوںنے یہ تسلیم کیاکہ انسانی روح نباتی،حسی،حرکی اور عقلی حصوں کاامتزاج ہے۔پہلے تینوں حصوںسے انسانوںاورجانوروںکامساویانہ اشتراک ہے لیکن عقلی حصہ صرف اورصرف انسانوں سے مخصوص ہے جومادی جسم سے متغائرہے اوراس کا مخرج بدن سے ماوراہے۔ اس معاملے میںہرگروہ نے لوگوس کوانسانی روح کامخرج تسلیم کیامگرحضرت یسوع مسیح کی ذات کے حوالے سے ان میںبڑازبردست فکری اختلاف کھڑاہوا۔اسکندریوںنے انہیں انسانی روح اورلوگوس کاابدی امتزاج خیال کیا،یعنی انہیںبیک وقت ربانی اوربشری عناصر کا امتزاج گردانا۔اس کے برعکس نسطوریوں نے انہیں ابتداتا انتہا، ایسا بشر متصور کیا جنہیں دنیائے کون و فساد میں جزوقتی طورپرلوگوس کاقرب نصیب ہوا۔ ۴۳۱ء بمقام ایفی سوس(Ephesus) ایک کونسل منعقد کی گئی تاکہ ان گروہوںکا فکری تنازعہ ہمیشہ کے لیے اختتام پذیر ہو۔اس میں اسکندری، نسطوریوں پر بازی لے گئے، کونسل نے نسطوریوں کو ملاحدہ قراردے کر مصر سے دربدر ہونے پر مجبورکردیا وہ پہلے مفصلاتِ شام میں پاؤں جمانے کی سعی کرتے رہے،مگرناکام رہے اور وہاں سے بھی جلاوطن ہوئے اوربالآخرانہیںایران کے علاقے نصیبین میں مستقلاً جائے پناہ ملی۔ وہاںانہوںنے اپناعلیحدہ اور منفرد مکتب قائم کیا۔ جہاں وہ یونانیوںکی فکری میراث سے خاطرخواہ فیض یاب ہوئے۔اس حوالے سے پروفیسر میاں محمد شریف لکھتے ہیں’’نسطوری اپنے عیسائی عقائدکی فلسفۂ یونان سے استنباط کردہ نظر یوںکے ذریعے مدافعت کیاکرتے تھے۔اس طرح تبلیغ نہ صرف ان کی الٰہیات کے پروپیگنڈے کی صورت اختیارکرگئی بلکہ وہ ہیلانیاتی فلسفے کی اشاعت کا ذریعہ بن گئی تھی۔‘‘۹ ادھرنسطوری اپنے نظریات کی تبلیغ میںمصروف تھے۔ادھربشریتِ مسیح کے تصور کے حوالے سے اسکندری گروہ میںفکری پھوٹ پڑ گئی۔ان میںسے ایک جماعت وحدت فطری کے نام سے علیحدہ ہوئی جوبعدازاںیعقوب سروغی کی مناسبت سے یعقوبی کہلائی۔انہوںنے یہ خیال عام کیا کہ حضرت یسوع مسیح بشرتھے اوران کالوگوس سے وصال ہمہ وقتی تھا۔گویاجہاںنسطوریوںنے حضرت یسوع مسیح کوبشرمان کران کا لوگوس سے قرب عارضی متصور کیا تھا وہاںیعقوبیوںنے اسے مدامی تصورکیا۔۴۴۸ء میںبمقام کالسی دون ایک مجلس کاانعقادکیاگیا،تاکہ اسکندریوں اور وحدتِ فطری کے داعیان کاتصفیہ ہوسکے۔نتیجتاً وحدت فطریوں کو جلا وطن کیاگیااورانہوںنے کالکس کے مقام پر ڈیرہ جمایااوربتدریج یونانی مطالعہ وتحقیق کے نئے مرکزکی صورت اختیارکر گئے۔اس طرح نسطوری اور یعقوبی فرقے مسیحی الٰہیات کے حوالے سے یونان کے استخراجی استدلال کی ترقی اور ترویج کاباعث بنے کیونکہ انہی کے توسط سے وہ اپنے الٰہیاتی مسائل کا حل نکالتے اور عقائد کی حفاظت ومدافعت کرتے۔ نسطوریوں کا فکری جھکاؤ ارسطو کے افکار کی طرف زیادہ تھا جبکہ یعقوبیوں کا میلان نو فلا طو نیت کی طرف رہا۔لیکن ان دونوں گروہوںکی خاص بات یہ تھی کہ انہوں نے یونانی زبان پر شامی اور مصری زبانوںکوفوقیت دی،نتیجتاً یونانی علوم کے ضخیم سرمایے کا ترجمہ ہوااوران پر شرحیں لکھی گئیں۔ اسی طرح قریباًچھٹی صدی کے وسط میں ایک نومسلم زرتشتی عیسائی ماراحبانے سلوقیہ میں، شاہ ایران نوشیرواںنے جندی شاپورمیںجن مکاتب کی بنیادیں رکھیں وہ بھی یونانی ترجموں اور شرحوں کافریضہ انجام دیتی رہیں۔علاوہ ازیں،حران میںبھی ایک ایسامدرسہ موجود تھا جو سکندر کے زمانے سے قائم چلاآرہا تھااورجونوفلاطونیت کی تشہیرکاسبب بناتھا۔وہ بھی یونانی علوم کی اشاعت کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے تھا۔ جس زمانے میںابھی عیسائی تعلیمات کی یونانی فکرواستدلال کی بدولت ترویج و اشاعت کا سلسلہ شروع ہواتھاعرب یونانی فکر و استدلال سے قطعی نابلدتھے۔وہ تو ماورائے کائنات کسی مابعدالطبیعی تصور کو اپنے تخیل میںلانے تک سے عاجز تھے۔ حد یہ تھی کہ یہودیت اورمسیحیت کے جوبھی اثرات ان تک مسخ شدہ حالت میںپہنچے انہوں نے ان کے تصورات کو بھی مادی اورطبعی حیثیت سے قبول کیا۔ نتیجتاً وہ کوکب پرستی اور اصنام پرستی جیسے خرافات سے پیچھانہ چھڑا سکے ۔اس کے باوجود، ان میںایک خاص بات تھی،ان کی فکرمیںاستقرائی قیاس کادم خم تھا۔وہ قوتِ مشاہدہ اور تجربات کی بنیاد پرقیافہ کے بہت ماہرتھے۔ان کے فکری مزاج کی تفہیم کے لیے نذارکایہ واقعہ۱۰ قابلِ ذکر ہے: جب نذارکی موت کا وقت آیا تو اس نے اپنے چاروں بیٹوں ایاد، ربعیہ، انمار،مضرکوجمع کرکے وصیت کی کہ میری وفات کے بعدتم لوگ اسقف نجران کے پاس جانا۔وہ عرب کاحکیم اور قاضی ہے۔چنانچہ جب نذارمرگیا۔تویہ لوگ اس کے پاس روانہ ہوئے۔راہ میںانہوںنے اونٹ کے نشانات دیکھے۔ایادنے کہایہ بھینگے (احول)اونٹ کے نشانات ہیں۔مضرنے کہاوہ دُم کٹا اونٹ ہے۔ربیعہ نے کہا، ترچھا چلنے والابھی ہے۔انماربولا،وہ بھگوڑابھی ہے۔اس کے بعد انہیں اونٹ کا مالک ملا۔ اس نے دریافت کیا۔کیاآپ نے میرااونٹ دیکھاہے؟ایادنے اس سے پوچھا کیاوہ بھینگاہے؟جواب ملاہاں۔مضرنے کہا،کیاوہ دُم کٹاہے؟اس نے کہاجی ہاں۔ غرض سب نے جیساپوچھاویساہی نکلا۔ آخراونٹ والے نے کہا،وہ کہاںہے؟انہوںنے جواب دیا۔ہم نے تو نہیںدیکھا۔اونٹ والاساتھ ہوگیااوراسقف نجران سے شکایت کی ان لوگوںنے جواب دیا،ہم نے اونٹ کے نشان دیکھے اوران سے اونٹ کی صفات پہچان لیں۔ اسقف نے پوچھا۔تم نے کیاصفات بیان کیں۔چاروں نے اپنے اپنے نشانات بتادئے۔ اسقف نجران نے ایادسے پوچھااس کی کیادلیل ہے کہ وہ بھینگا ہے؟ کہا میں نے دیکھاکہ وہ اپنی درست آنکھ کی طرف چلتاہے اوراس پر چارالداہواہے۔مضرسے پوچھاتمہاری کیادلیل ہے کہ وہ دُم کٹاہے؟جواب دیاکہ اس کی مینگنیاںایک جگہ جمع تھیں۔ اگردُم ہوتی تواس سے پھیلا دیتا، اور بکھر جاتیں۔ربیعہ سے پوچھاتم نے کیسے جاناکہ وہ ترچھاچلتاہے؟کہا کبھی اس کے پاؤں ایک دوسرے پرپڑتے ہیں اورکبھی دونوں مخالف پڑتے ہیں۔میںنے سمجھ لیاکہ وہ ترچھاچلتاہے۔انما ر سے پوچھا تمہیں اس کے بھگوڑے ہونے کاکیسے علم ہوا؟جواب دیاکہ اس کے پاؤںکے نشانات عموماًرستے سے ہٹ جاتے ہیں۔میں نے سمجھ لیاکہ اگرکوئی سامنے آئے تووہ رستے سے ہٹ جاتا ہے۔ اگر بھگوڑا نہ ہوتا توہم سب اس کی جگہ پرپہنچ جاتے۔ عربوںکااستقراء خالصاًحسیات ومدرکات پرموقوف تھا۔وہ کبھی بھی یونانیوںکی طرح ویسے مجردتصورات وضع نہ کرپائے جومرئیات ومحسوسات سے متمائزہوں۔ان کی فکر میں حضرت محمد ؐکی تعلیماتِ الٰہیہ کی تبلیغ اورترویج سے انقلابی تبدیلی رونماہوئی کیونکہ قرآن نے علم کوبالترتیب تین درجوں۱۱پرمحیط کیاجن میںسے ہردوسرادرجہ پہلے سے زیادہ تیقن کاامین ہے۔ .1علم الیقین:یہ علم کاوہ درجہ ہے جومنطقی طرزکے استدلال واستنتاج سے متعلق ہے،اس میںعلمی معلومات کا انحصارمسلمہ اوراخذکردہ منطقی نتائج پرہوتاہے جیسے یہ مسلّم ہے کہ آگ ہمیشہ جلاتی ہے۔ .2عین الیقین:یہ علم کاوہ درجہ ہے جوحسی مشاہدات و مدرکات سے منسوب ہے،اس میں علمی معلومات کا دارومدارسنی سنائی یاآنکھوںدیکھی کیفیات پرہوتاہے جیسے سننے یادیکھنے سے یہ معلوم ہوجائے کہ فلاںشخص کی انگلیاں آگ سے جل گئیں۔ .3حق الیقین:یہ علم کاوہ درجہ ہے جوذاتی اوروجدانی تجربات وواردات پرموقوف ہے،اس میںعلمی معلومات کاآسرافردکے خودپربیتے احوال پرہوتاہے جیسے معلوم کرنے والے کی اپنی انگلیا ں آگ سے جل جائیں۔ علم الیقین کاعلاقہ استخراجی اوراستقرائی نوعیت کے منطقی استدلالات سے، عین الیقین کا علاقہ سائنسی تجربات و تحقیقا ت اور تاریخی حالات و واقعات پر مبنی بیانات و دستاویزات سے اورحق الیقین کا علاقہخودشناسی اور مشا ہد ہ ٔ باطن جیسی انسانی خصو صیا ت سے ہے۔ غورکیاجائے توقرآن کی دعوتِ علم کے اس ہردرجے میںاستقرائی استدلال کااشارہ مضمر ملتا ہے،جسے بغرضِ سہولت نظری ومنطقی،حسی وتجربی اورالہامی ووجدانی کے عنوانات سے عبارت کیا جاسکتا ہے۔جس کی تفہیم کے لیے مسلمانوں کو طویل وقت لگا۔اس کی وجہ مولاناشبلی نعمانی کے اس اقتباس سے سمجھ میںآتی ہے۔’’اسلام جب تک عرب میںمحدود رہا،عقائد کے متعلق کسی قسم کی کدو کاوش، چھان بین،بحث ونزاع،نہیںپیداہوئی۔جس کی وجہ یہ تھی کہ عرب کااصلی مذاق تخیل نہیں، بلکہ عمل تھا۔یہی وجہ ہے کہ نماز،روزہ،زکوٰۃ،حج،یعنی عملی امورکے متعلق ابتداہی سے تحقیقات اور تدقیقات شروع ہوگئی تھیں۔یہاں تک کہ صحابہ ہی کے زمانہ میںفقہ کاایک مجموعہ تیار ہو گیا تھا۔ لیکن جو باتیں اعتقاد اور ایمان سے تعلق رکھتی تھیں،ان کے متعلق زیادہ کرپزی اورنکتہ چینی نہیںکی گئی بلکہ اجمالی عقیدہ کافی سمجھاگیا۔‘‘۱۲ مسلمانوں کے عقائد میں فکری اختلافات کاایک جواز، جو پروفیسر میاں محمد شریف کی رائے میں ملتا ہے، وہ نہایت معقول ہے،اپنی تصنیف مسلمانوںکے افکارمیںانہوںنے لکھا ہے: ’’اگرچہ قرآن مجیدنے کائنات کے مجمل خاکے کی ایک واضح توحیدی تشریح پیش کی لیکن اس نے اس خاکے کی تفصیلات کوتعبیروتوضیح کے لیے کھلاچھوڑدیا۔‘‘۱۳ ظاہر ہے فلسفیانہ طرزکے متجسس ذہن رکھنے والوںمیںایسے سوالات اٹھے کہ ایسامذہب جوعالمگیرہونے کادعوی کرتا ہے، ایک خدا کے عالم قادرکی دعوتِ عام دیتاہے،وہاںاس خداکوعالم مادی سے ماوراء خیال کیاجائے یانہیں، اسے زمان و مکان میںمحیط ماناجائے یانہیں،اس کی صفات کواس کی ذات سے متمائز متصور کیا جائے یا نہیں،اسے تمام ترافعالِ انسانی کامختارِ کل تسلیم کیاجائے یانہیں،ایسے الٰہیاتی مسائل کے بارے میںانتہائی راسخ العقیدہ مسلم مفکرین میںبھی شدید ترین اختلافات پیدا ہوئے۔جن کی بدولت مختلف النوع فکری گروہ تشکیل پائے اوران کے مابین باہمی بحث وتمحیص سے مسلم کلام کا باقاعدہ آغازہواجواسلامی استدلال سمیٹے ہوئے تھا۔ مسلم اختلافات کا دوسرا جواز دینِ اسلام کے پھیلاؤ اور نموپذیری کے دور میں ملتا ہے۔ جب اسلامی فتوحات کادائرہ وسیع ہوا،دیگراقوام حلقۂ بگوش اسلام ہوئیں،غیر مسلموںسے میل ملا پ اور رواداری کاحسنِ سلوک پروان چڑھا تولامحالہ اس کے ایجابی اورسلبی ہردوطرح کے اثرات نے مسلم فکر کومتاثرکیا۔بالخصوص الٰہیاتی مسائل کے بارے میں نکتہ آفرینیوںاورنکتہ چینیوں کاسلسلہ چل نکلا،جس کی وجہ سے اسلامی عقائدکی فکری حفاظت اورالٰہیاتی مسائل کے موزوں و مناسب حل کی اشدضرورت محسوس ہوئی،جس سے مسلم استدلال کوتقویت ملی۔اس مقام پر بطور جملۂ معتر ضہ، ایک وضاحت ضروری ہے،مسلم حکماء کے ہاںجس طرزکے کلام کاآغازہواوہ عیسائی مفکرین کے علم الکلام یامدرسیت سے یکسرمختلف چیزتھا۔مسلمانوںنے ہمیشہ اپنے بنیادی مذہبی عقائدکامحاکمہ کیا۔کبھی بنیادی تصورات پرکوئی ضرب نہ آنے دی۔اس معاملے میںکبھی کسی قسم کی سودے بازی یاسمجھوتے کی راہ نہ پکڑی،خواہ کوئی نظریہ کتنا ہی دلکش اور جاذبِ توجہ کیوں نہ معلوم ہوتاہو۔اس کے برعکس،عیسائی مفکرین نے اپنے مذہبی عقائد میں حتی الوسع تحریف کی،ان میں یونانی نظریات کی جابجاآمیزش کی،مثلاًعیسائیت میں،خدابحیثیت باپ،مسیح بحیثیت بیٹا اورروحِ مقدس بحیثیت انسان کانظریہ تثلیث فلاطینوس کے ذاتِ احد،ناؤس اورروحِ انسانی کی بالترتیب فکری بازگشت بن کر رہ گیا۔ مسلم کلام جوبعدازاںمسلم علم الکلام کے نام سے مشہورہوا۔اس کی وجہ تسمیہ کے بارے میں علامہ شہرستانی نے اپنی تصنیف ملل و نحلمیںلکھاہے،’’ ُ اس کی وجہ یاتویہ تھی کہ مسائل عقائد میںجس مسئلہ پربڑے معرکے رہے،وہ کلام الٰہی کامسٔلہ تھا۔ یا اس وجہ سے کہ چونکہ یہ علم فلسفے کے مقابلے میںایجادہواتھا،اس لیے فلسفے کی ایک شاخ (یعنی منطق) کاجونام تھاوہی اس فن کابھی نام رکھا گیا،کیونکہ منطق اور کلام مترادف اور ہم معنی الفاظ ہیں۔‘‘۱۴ بنیادی طورپرمسلم علم الکلام تین مختلف درجوںپرپروان چڑھا: .1ابتدائی درجے میںاس کامقصودنومسلموںکے دلائل کی تردیدوتغلیط کرناتھاتاکہ وہ صحیح العقیدہ مسلمانوں کی صف میںآشامل ہوں۔ .2ثانوی درجے میںاس کامقصودمسلمانوںکی فکری وعقلی صلاحیتوںکوجلابخشناتھاتاکہ بدلتے ہوئے حالات و واقعات کے تناظرمیںوہ زیادہ سے زیادہ آزادیٔ ارادہ اورانتخابِ عمل سے کام لے سکیں۔ .3آخری درجے میں،اس کامقصودعقلی فیصلوںاورمذہبی عقائدکے مابین مصالحت اور مطابقت پیداکرنا تھا تاکہ معقول منقول سے متناقض نہ رہے۔ یہی وہ سطح تھی جس کی مناسبت سے اسے مسیحی علم الکلام کے مشابہ سمجھنے کی غلطی کی گئی۔ مسلم علم الکلام کے ان درجوںکی نسبت مسلم فتوحات کے ساتھ رہی ہے۔آنحضورؐکے وصال کے بعد ، جب مسلمان دوردرازعلاقوںتک پھیل گئے توان کی ابتدائی فتوحات شام اورعراق کے وہ خطے تھے جہاںنسطوری اور یعقوبی گروہ عیسائی معبدوںکے زیرِ عتاب تھے۔انہوں نے ان پرکفرکے فتوے لگارکھے تھے۔مسلم اقتدارکے بعدان اقلیتی فرقوںکے مذہبی عقائدپرکوئی فکری قد غن نہ رہی۔نتیجتاًانہوںنے یونانی استدلال سے خوب استفادہ کیا۔ مسلمانوںکوانہی کے توسط سے یونا نی حکمت کا گنجینہ ہاتھ لگا۔انہوںنے بھی رومی،مسیحی روایت کومزیدفروغ دیا۔یونانی حکمت و دانش کو عربی زبان میںمنتقل کیا،نہ صرف ان کے عربی تراجم کئے بلکہ شرحیںبھی لکھیں۔ مسلم مترجمین اورشارحین کی سرپرستی وقت کے خلیفہ المسلمین بھی کیاکرتے ۔انہوںنے تو باقاعدہ دارالترجمہ،بیت الحکمت،رصدگاہیں،کتب خانے،دبستان جامعات اور مدارس وغیرہ قائم کئے۔ اس حوالے سے خلفائے بنوعباسیہ اور بالخصوص خلفائے ہارون الرشیداورمامون الرشید کا دور ممتاز اور نمایاں مقام رکھتاہے۔یہاں بطور ثبوت پر وفیسرحتی کے یہتوصیفی کلمات نقل کئے جاسکتے ہیں ’’یہاں مشرق میںہارون الرشیداورالمامون یونان وفارس کے فلسفے کی چھان بین کررہے تھے تو وہا ں مغرب میںان کے ہم عصرشارلیمان اوراس کے اُمرا وعمائدین حروفِ تہجی لکھناسیکھ رہے تھے۔‘ ‘ ۱۵ لیکن ایسابھی نہیںہواکہ رومیوںکی طرح مسلمانوںنے یونانی گنجینہ علوم سے صرف ترجمو ں اورشرحوںکی حدتک ہی استفادہ کیاہو۔انہوںنے اس میں نہ صرف خاطرخواہ معلوماتی اضافے کئے بلکہ اس نئی اورتازہ فکری روایت کابھی آغازکیاجسے موجودہ سائنسی مفہوم کے استقراء سے تعبیر کیا جا سکتاہے ۔اس کے تذکرے سے پیشتریہ وضاحت ضروری ہے کہ مسلمان اہلِ بصیرت نے یونانی استدلال کی روایت سے کس حدتک استفادہ کیا۔اس پیرایے میں دیکھا جائے تو مسلم استدلال دو شاخہ فکری راہوںمیںبٹاہوامعلوم ہوتاہے۔۱۶ .1راہِ ظاہر: یہ حصولِ علم الٰہیہ کاخارجی منہاج ہے جوایجابی طرزکے ایسے استدلال پرمبنی ہے جس میںہر مظہر کیعلّت تلاش کی جاتی ہے، پھر اس علّت کی علّت ڈھونڈی جاتی ہے اورعلیٰ ہذا لقیا س یہ سلسلہ اس وقت تک چلتارہتا ہے جب تک کہ کسی ایسی علّت پر پہنچ کرنہ رک جائیں جو اپنی علّت خودہویعنی علّت العلل ہو۔راہ ِ ظاہر کاایسا استخراجی طریق آگے چل کرمسلم علم الکلام اورمسلم حکمت و فلسفہ میں بٹ گیا۔ .2راہ ِ باطن: یہ حصول علم الٰہیہ کا داخلی منہاج ہے جوسلبی طرزکے ایسے استدلال پرمبنی ہے جس میںہراس مظہر کو خارج از نظر کر دیا جاتاجس میں کوئی نقص پایا جاتا ہو یا جو عرض کی حیثیت رکھتا، تآانکہ کسی ایسے وجود پر نہ پہنچا جائے جو ہرقسم کے عیب سے پاک ہواورازخودمختارکل ہو۔راہ ِباطن کا ایسا استخراجی طریق بعدازاںتصوف کی صورت میں پروان چڑھا۔ اس طرح مسلم استدلال کی سہ جہتی صورتیںمنظرعام پرآئیںجن کے پس پردہ یونانی استدلال کے اثرات پنہاںرہے۔یہاںباری باری ان کااجمالاًجائزہ لیاجاتاہے۔ .1مسلم علم الکلام :(Muslim Ilm-ul-Kalam) تھوڑی دیرکے لیے مسلم اورغیرمسلم علم الکلام کی تخصیص کوبالائے طاق رکھ دیاجائے تو تاریخی شواہدسے معلوم ہوتاہے کہ علم الکلام کی اصطلاح کو سب سے پہلے ارسطوکے مشائی تلامذہ تھیوفراسٹس(Theophrastus)نے متعارف کرایااوراس اصطلاح سے مرادیونان کے فلسفیانہ مدارس میںزیرِبحث متفرق مسائل کے موزوںحل کی خاطرمختلف النوع اورمعقول منطقی جواز ڈھونڈنا لیاگیا۔۱۷ لیکن جب یونانی فکر کا دور انحطاط پذیرہوااورمذہبی والہامی تعلیما ت میںتیزی آئی توازمنہ وسطی کے دورمیںاس سے مرادمذہبی اداروںمیںمروّجہ الہامی مسائل ایمانیہ کے حق میں یونانی طرزکے معقول اورمنطقی جوازڈھونڈنالیاگیا۔جہاںمسائل تو متفرق نہ ہوتے مگران کے حل کے لیے متضاد اور متناقض عقلی جوازضرورسامنے آتے۔ازمنہ وسطی کے علم الکلام کی بھرپور صورت اسکندریہ کے یہودی فلو(Philo)کی تعلیمات سے اُبھری،جوبعدازاںعیسائی مبلغوں کے ہاتھوں باقاعدہ اور منظم طریقے سے پروان چڑھی۔علامہ شبلی نعمانی کی تحقیقات کے مطابق۱۸، مسلمانوں کے ہاںاس کی بنیادخلیفہ مہدی کے زمانے میںابوالہذیل علاف نے رکھی جس نے سب سے پہلے اس کے بارے میںکوئی تصنیف رقم کی۔اس حوالے سے دیکھاجائے تواسے مسلم علم الکلام کا بانی قرار دیا جا سکتا ہے۔ علم الکلام کی موہوم پرچھائیںمسلم افکارمیںپہلے ہی سے خوابیدہ تھی جو الٰہیاتی مسائل کے پس منظر میںظاہر ہوئی۔یہ وہ دورتھاجب اسلامی عقائدکی نت نئی توجیہیںکی جانے لگیںاورکئی طرح کی فرقہ بندیاںقائم ہونے لگیں۔علامہ شہرستانی کی تحقیقات کے مطابق۱۹ مجموعی طورپراس کی وجہ مسلمانوںکے مابین چار نوعیت کے نظری مسائل بنے۔وہ مسائل یہ تھے : .1مسئلہ جبروقدر:جوانسان کی آزادیٔ ارادہ اورانتخابِ عمل کے بارے میںتھاکہ آیاانسان اپنے افعال و اعمال کی تکمیل وتخلیق میںآزادوخودمختارہے یانہیں۔ .2مسئلہ ذات وصفات الٰہیہ:جوخداکی صفات کے بارے میںتھاکہ آیاخدا صفات کاحامل ہے اوراگرہے تو کیااس کی صفات اس کی ذات کاجزولاینفک ہیںیانہیں۔ .3مسئلہ ایمان وعمل:جوانسانی قول وفعل کے بارے میںتھاکہ آیاعمل کے بغیرایمان کادرجہ بر قراررہتاہے یا نہیں۔ .4مسئلہ عقل ونقل:جوانسانی اورالوہی ذریعہ ہائے علم کے بارے میںتھاکہ آیاحقیقت و صداقت کاقطعی معیارعقلِ انسانی کوقراردیاجائے یاوحی کو۔ جہاںتک انسان کی عملی زندگی کاتعلق ہے توان متنازعہ مسائل میںسے مسئلہ جبروقدرسب سے زیادہ اہمیت کا حامل رہاہے۔حضرت محمدؐکی تعلیماتِ الٰہیہ سے قبل،عربوںمیں زیادہ تر تقدیر پر ستی کاتصوررائج تھا۔لوگ خدا کو ایسا مطلق العنان حاکم سمجھتے تھے جوانسان کے خیروشرکامالک ہے اور اپنی مرضی سے کٹھ پتلی کی طرح نچاتاہے۔البتہ محدود پیمانے پرکچھ لوگ،ایسے بھی تھے جویہ خیال رکھتے تھے کہ خدانے انسان میںاتنی صلاحیتیںاورقوتیںودیعت کردی ہیں کہ وہ چاہے تواپنی مرضی سے خیرکرے اورچاہے توشر۔گویااس زمانے میںدوانتہاپسندانہ نظریات مروج تھے۔ایک طرف انسان مکمل طورپرتقدیرالٰہی کاپابند اور مجبورمحض تھاتودوسری طرف مکمل طورپراپنی قسمت کامالک و مختار اور اپنے اعمال کامکلف اورذمہ دارتھا۔اس طرح ایک طرف تقدیرپرستوںنے خداکامقام اس قدربلندکردیا تھاکہ انسان کا رتبہ پست ترین معلوم ہوتا،جہاںوہ اپنی قسمت کوخودسنوارنے سے عاجز لگتا۔دوسری طرف تدبیرپرستوں نے انسان کا رتبہ اس قدربڑھادیاتھاکہ یوںمعلوم ہوتاجیسے انسان کی ودیعت شدہ صلاحیتیںا ور قوتیں خدا کی قدرت سے متجاوز ہو گئی ہیں۔امام جعفرصادقؒ ان دونوں نظریات کے خلاف تھے۔مسئلہ جبرکی بابت انہوںنے یہ رائے ظاہرکی،’’جولوگ جبر کے معتقدہیںوہ خداکواپنے گناہوںمیںشریک کرتے ہیں اور اسے ایک حاکم جابرقرار دیتے ہیں جوانہیںایسے گنا ہو ں کی سزادیتاہے جن کے کرنے پر وہ فطرتاًمجبورہیں،یہ کفرہے۔‘‘اپنی رائے کے بعد انہوں نے ایک ایسے نوکرکی مثال پیش کی جسے اس کے مالک نے بازارسے کوئی شے لانے کے لیے بھیجامگراس شے کی قیمت ادا کرنے کے لیے پورے پیسے نہ دیئے۔جب نوکرخالی ہاتھ بازارسے واپس لوٹا توآقانے اسے سزادی۔اس مثال کی بنیادپرانہوںنے یہ واضح کرنا چا ہا کہ ’’مسئلہ جبرکی روسے توخداایک غیرمنصف آقاثابت ہوتاہے۔‘‘جہاں تک مسئلہ قدر کامعاملہ ہے اس کے بارے میںانہوںنے یہ مؤقف سامنے رکھاکہ’’اس قسم کا اصول اخلاق کی بنیادیں اکھیڑ کر رکھ دے گا اور تمام انسانوں کو اذنِ عام دے دے گاکہ جی کھول کراپنی نفسانی خواہشات پوری کریں کیونکہ اگرہرشخص کویہ اجازت دے دی جائے کہ چاہے تو نیکی پراورچاہے توبدی پرکاربندہوتوکسی قسم کی تکلیفِ شرعی باقی ہی نہیںرہتی۔‘‘۲۰ آنحضورؐکے توسط سے قرآن نے ان دوطرفہ انتہاپسندانہ نظریوںکے مابین اعتدال پسندانہ مؤ قف اختیار کیا۔جہاںتقدیرالٰہی اورتدبیرانسانی میںتوازن قائم کیاگیا،جہاںمشیتِ ایزدی کے ساتھ ساتھ انسان کے احساسِ ذمہ داری اورجواب دہی کے لیے محدودآزادی کوبھی تسلیم کیا گیا۔لہٰذاقرآن نے ایسی آیات بھی پیش کیں جو تقدیر الٰہی کے تصورجبرکی غماز ہیںاورایسی آیات بھی پیش کیںجوانسانی آزادیٔ ارادہ کے تصورقدرکی عکاس ہیں۔اس حوالے سے جوشخص اسلامی موضوعات اورعربی زبان کے قواعدوضوابط سے بے بہرہ اورناواقف ہو،اسے لگتاہے جیسے قرآنی آیات میںتضادہے،لیکن جوان پرعبوررکھتاہے وہ بخوبی جان سکتاہے کہ قرآنی آیات میں کہیں بھی قطعاًکوئیتضادنہیں ۔ دراصل قرآنی آیات کوان احوال وواقعات کے سیاق وسباق میںرکھ کر سمجھنا چاہئیے جن میںان کانزول ہوا۔ جب قرآن انسانی معاملات کے بارے میں فیصلہ کن انتظام و انصرام کی بات کرتاہے تووہاںاس سے مرادتقدیرالٰہی ا نظریہ ٔجبر لیتا ہے۔ جیسے،’’… تم اپنے دلوں کی بات کو ظاہرکروگے تواورچھپاؤ گے توخداتم سے اس کاحساب لے گا۔پھروہ جسے چاہے مغفر ت کرے اورجسے چاہے عذاب دے اور خدا ہرچیزپرقادرہے ۔‘‘(۲:۲۸۴)اور جیسے:’’وہ جسے چا ہے بخشے اور جسے چاہے عذاب دے ۔‘‘(۵:۱۸)لیکن جب قرآن انسان کے احساسِ جوابدہی اور ذمہ داری کاتصور زیرنظر رکھتا ہے تو وہاںاس سے مراد انسان کے آزادیٔ ارادہ اور انتخابِ عمل کا نظریۂ قدرلیتاہے جیسے:’’اورجب کوئی بے حیائی کا کام کرتے ہیںتوکہتے ہیں کہ ہم نے اپنے بزر گو ں کو اسی طرح کرتے دیکھاہے اورخدا نے بھی ہم کویہی حکم دیاہے کہہ دو کہ خدا بے حیائی کے کام کرنے کاحکم نہیں دیتا۔‘‘(۷:۲۸)اور جیسے: ’’وہاں ہر شخص (اپنے اعمال کی)جواس نے آگے بھیجے ہوںگے، آزمائش کرلے گا۔‘‘ (۱۰:۳۰) قرآن کے اس نظریۂ جبروقدرکوامام علی رضا نے بڑے اختصاراور جامعیت کے ساتھ سمیٹاہے۔ وہ انسان سے گویاہیں،’’خدانے تمہیں دو راستے دکھائے۔ ایک تمہیںاس کی طرف اور دوسرا تمہیںاس کے کمال سے دورلے جاتاہے۔ خوشی یا رنج، جزا یا سزا کادارومدارتمہارے اعمال پرہے لیکن انسان میںیہ طاقت نہیںکہ بدی کونیکی میں اور گناہ کو ثواب میںتبدیل کرسکے۔ ‘‘۲۱ عرب کے وہ مسلمان جن کاتعلق بنواُمیہ سے تھا،وہ مزاجاً عرب پہلے تھے اور مسلمان بعد میں۔ ان کے آباء میںتقدیرپرستی کاتصورمروج رہا تھا۔قبول اسلام کے بعد انہوںنے اس موروثی تصورکوخصوصاًاپنایا۔جب واقعاتِ کر بلا کومنشائے ایزدی قرار دے کراپنی بریت ثابت کرناچاہی ۔ انہوںنے اپنے نقطۂ نظرکے حق میںقرآن کی ان آیا ت سے بالخصوص رجوع کیاجن سے انسان مجبورِمحض ثابت ہوتا۔ جہم بن صفوان نے باقاعدہ جبریہ مکتبِ فکرکی بنیاد رکھی اور اس نظریے کاکھلم کھلا پر چار کیا کہ’’انسان اپنے اعمال میںقطعاًآزادنہیں،نہ ارادے میںاورنہ ہی ارادے کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے میں۔انسان ہراعتبارسے بے بس اورمجبورمحض ہے۔اس کی حیثیت ایک کل پرزے کی سی ہے وہ وہی کرتا ہے جوروز ِازل سے لوحِ محفوظ میں لکھ دیاگیاہے۔ اس کی اپنی رضا، ارادہ یانیت ہرگزشریکِ عمل نہیں۔جوکچھ ہو تا ہے خداکی طرف سے ہوتا ہے۔‘‘۲۲ جبریہ نے ان آیاتِ ربّانی کونظراندازکردیاجوانسان کی آزادی اورخودمختاری کے تصورکوپیش کرتی ہیں۔لیکن معبدالجہینی نے جبریہ مکتبِ فکر کے خلاف قدریہ مکتبِ فکر کی اساس استوار کی۔ اس نے برملایہ تصور پھیلانا شروع کیا کہ انسان اپنی سوچ، اپنے ارادے اورانتخاب وعمل میں آزاد ہے۔وہ اپنے کیے کا خودذمہ دارہے۔قدریہ نے ان قرآنی آیات کو ملحوظ ِ خاطرنہ رکھا جن میں تقدیر الٰہی کا تصور سمجھایا گیا تھا۔ معبدالجہینی کامقصدبنواُمیہ کے ظلم و بربریت اورحق تلفیوں کو اجاگر کرنا تھا تاکہ انہیں احساس ہوسکے کہ وہ اپنے کیے کے ذمہ داراورجوابدہ خودہیں۔چونکہ اس زمانے کی قیادت بنواُمیہ کے ہاتھ میںتھی لہٰذامعبدالجہینی کوخلیفہ ٔوقت عبدالملک بن مروان کے اُکسانے پر عراق کے گورنر حجاج بن یوسف نے بالآخرموت کے گھاٹ اتاردیالیکن اس کی موت قدریہ گروہ کی موت نہ ثابت ہوسکی۔اس کے بعدغیلان دمشقی نے اس کے خیالات کے دائرہ کارکواوروسیع کر دیااوراس میںبالخصوص یہ اضافہ کیاکہ امربالمعروف و نہی عن المنکرہرمسلمان کافرضِ عین ہے، فرضِ کفایہ نہیں۔نتیجتاًاُمویوںنے اسے بھی اپنے اقتدارکے لیے خطرہ سمجھا۔ لہٰذا خلیفہ ہاشم بن عبدالملک کے حکم کے تحت بمقام دمشق اسے موت کی سزادی گئی۔۲۳ لیکن اس کے باوجودجبریہ اورقدریہ کانظری تنازعہ طول پکڑتاگیاجواس وقت کہیںزیادہ شدت اختیار کر گیا جب دمشق کی بجائے بصرہ علوم وفنون کاگہوارہ بنا۔ بالآخراس تنازعے کے حتمی اختتام کی خاطرمسلم سلطنت کے تمام حصوںسے فضلاء و حکماء کو اکٹھا کیا گیا۔ نتیجتاً جبریہ کاگروہ صفاتیہ گروہ میںضم ہوگیاجومسئلہ تقدیرکے ساتھ ساتھ یہ دعوی بھی کرتے تھے کہ خدا میںچندصفات ایسی ہیںجواس کی ذات سے علیحدہ ہیں۔اگرچہ جبریہ اس کے منکرتھے مگرخدامیں چنددائمی صفات جیسے علم، قدرت، زندگی، ارادہ،سمع،بصر،کلام وغیرہ کے معتقدہوگئے۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ، صفاتیہ مشبہ بن گئے جوصفات باری تعالی کوانسانی صفات سے تشبیہ دیتے اور جنہوں نے خدا کوذاتِ انسانی کی تمثال بنا کے رکھ دیا۔بطورجملۂ معترضہ، علامہ شہرستانی کے مطابق،۲۴ جبر یہ کے تین گروہ تھے۔جہمیہ،نجاریہ اورضراریہ،جن میں چھوٹے چھوٹے جزئی اختلافات تھے لیکن مسئلہ جبرکے متعلق تینوںکااتفاق تھا۔ان تینوںگروہوںمیںسے نجاریہ،دو صدیوںکی تبدیلی کے بعد اشاعرہ مکتب فکرمیںتبدیل ہوگیا۔دوسری طرف قدریہ کاگروہ غیرمذہبی اُموی حکمرانوں کے تعینات کردہ سرکاری عہدیداروںکے ہاتھوںایذا اٹھاتا رہا۔لیکن اُس کے اراکین اپنی اُولوالعزمی اورعزم و استقلال کی بدولت ڈٹے رہے اوربعدازاںواصل ابن عطاء الغزال کے ہاتھوں’معتزلہ‘ مکتب ِفکر کی صورت میںمتشکل ہوئے۔ دراصل،ان دنوںبصرہ میںحقیقت ایمان کامسئلہ بھی زیربحث تھاجس کے متعلق مرجیئہ اور وعیدیہ نام کے دو گروہ بن چکے تھے۔مرجیئہ کامؤقف تھاکہ ایمان کاتعلق توحیدورسالت کے اقرار سے ہے،اعمال ایمان کاجزنہیں۔ لہٰذااگرایک مومن گناہ ِکبیرہ کاارتکاب بھی کرلے تواس کاایمان سلامت رہے گا۔اس کے برعکس،وعیدیہ کاخیال تھا کہ ایمان کاتعلق محض اقرارباللسان ہی سے نہیںبلکہ تصدیق بالقلب اوراعمال حسنہ کے ساتھ بھی ہے۔لہٰذاگناہ کبیرہ کا مرتکب اس لائق نہیں رہتاکہ اسے مومن کہاجائے۔شریعت کی رُوسے وہ کافرہے اورسزاوار ِجہنم ہوگا۔ اس زمانے میںجوعلماء قضاو قدر کے مخالف تھے ان میںامام حسن بصری پیش پیش تھے۔ ایک روزوہ اپنے اِرادت مندوںکے حلقے میںوعظ فرمارہے تھے کہ کسی نے ان سے استفسارکیاکہ آیا گناہ کبیرہ کے مرتکب کومومن کہنادرست ہوگایانہیں؟سائل کواندازہ تھاکہ وہ مرجیئہ کے حامی ہیں، لہٰذا اثبات میںجواب دیں گے جس سے بات بڑھے گی۔لیکن حسن بصری ابھی جواب دینے کے لیے سوچ میںگم تھے کہ ان کے شاگرد واصل بن عطانے بداہتا ًجواب داغا کہ گناہ ِکبیرہ کامرتکب شخص کافرہوگانہ مومن،بلکہ دونوںکے درمیان کی منزل میںہوگا۔مرجیئہ اوروعیدیہ کے انتہا پسندانہ نظریات کے مابین واصل کاجواب مصالحت پسندانہ تھالیکن امام حسن بصری کوپسندنہ آیا اور انہوں نے اسے اپنے درس سے نکال دیا۔واصل نے ان کی محفل سے کنارہ کشی کرلی اور مسجد کے دوسرے گوشے میںجاکرالگ حلقۂ تدریس قائم کیا۔اس پرحسن بصری نے فرمایا ’اعتزل عنا‘یعنی واصل بن عطانے علیحدگی اختیارکی۔اس بناء پران کے متبعین ان کی مخالفت کے باعث’ معتزلہ‘ یعنی ’اختلاف کرنے والے‘ کہلائے۔حالانکہ وہ اپنے آپ کو ’اہل التوحیدوالعدل‘کہاکرتے۔۲۵ معتزلہ نے جلدہی شہرت حاصل کرلی اورمسلمانوںکے عقلی وفکری ارتقاء کوایسامحرک بہم پہنچایا جو اس سے قبل کبھی بہم نہ پہنچاتھا۔جونہی معتزلہ نے اپنے عقائدکی تبلیغ میںشدت کاروّیہ اپنایا ، انہیں مخالفانہ نظریات کی تردیدوتغلیط کے لیے فکری اور منطقی دلائل کی ضرورت محسوس ہوئی، لہٰذاان میں سے جن کویونانی فلسفہ ومنطق پرکامل عبور تھا،انہوںنے یونانی حکمت سے اخذکردہ نظریات کو اسلامی خیالات سے ملا دیا تاکہ مسلمانوںکے فلسفیانہ تفکرکوایک نئے سانچے میںڈھال دیاجائے اور اسلام کے خارجی اورداخلی،سبھی دشمنوںکامقابلہ کیاجاسکے۔اس طرح،معتزلہ نے علم الکلام کی بنیاد رکھی۔ اس کے متبعین متکلمین کہلائے اوران کاصحیح معنوںمیںمؤئسس اورسرخیل ابوالہٰذیل علاف ثابت ہوا۔ اس مقام پرایک وضاحت بہت ضروری ہے۔مستشرقین نے معتزلہ کی عقلیت پسندانہ تحریک کویونان کے ہیلانی استدلال کاچربہ قراردے رکھاہے کیونکہ ان کا دعوی ہے کہ اُموی دربار میں عیسائیوں کا آنا جانا لگا رہتا تھا۔ان کے اور مسلمانوں کے مابین مناظروں اور مجادلوں کا بازار اکثرگرم رہا کرتا۔جہاں عیسائی حکماء یونانی استدلال کو بھرپور استعمال میں لاتے جس کی حِظ مسلمان حکماء اٹھاتے اوراس طرح یونانی استدلال سے متاثرہوکرانہوںنے اسلام میںعقلیت پسندی کی بنیادرکھی اور اسے فروغ دیا۔سیدمظفرالدین کی رائے میں،۲۶اگرغیرجانبدارانہ طور پر، مستشرقین کے اعتراض کاجائزہ لیاجائے تو اس کا کوئی جاندارجواز نہیں ملتا۔ بالفرض علّت اور معلول کے رشتے کودرست تسلیم کر لیا جائے تواس کے ثبوت میںیہ دلیل ناکافی ہوگی کہ مقدم رونما ہونے والاواقعہ علّت اورمؤخروقوع پذیرہونے والا معلول ہے۔ ہرمقدم واقعہ ضروری نہیںکہ مؤخر واقعہ کی علّت ہو۔دیکھاجائے تواس پیرائے میںمستشرقین کامؤقف ہے کہ مسلم عقلیت پسند ی یونانی استدلال ہی کا اظہارہے کیونکہ تاریخی اعتبارسے یونانیوںکے استدلال کا ظہور مسلمانوں کے خطِوںمیںپھیلنے پر مقدم ہے۔ لیکن اس دلیل کو کافی ثبوت نہیں کہا جاسکتا۔ جب تک کہ ٹھوس تاریخی شواہدکی بنیاد پر یہ ثابت نہ ہوجائے کہ مسلمان عقلیت پسندوںنے یونانیوں سے نظریات مستعارلئیے۔اس وقت تک کسی کوبھی معتزلہ کو یونانی فلسفے کی پیداوار قرار دینے کاکوئی اختیار نہیں دیا جاسکتا۔اپنی رائے کی تائید میں سیدمظفرالدین کالکھتے ہیں کہ دیکھا جائے تو تاریخی اعتبارسے اسلام میںعقلیت پسندی کا آغاز عیسائی مفکرین کی اُموی درباروں میں موجودگی، مسلمانوں کے ساتھ ان کے مذہبی مباحث ومناظرے اور مسلمانوںکے یونانی حکمت ودانش کے مطالعے سے بہت پہلے ہو چکاتھا۔آنحضورؐکے وصال۶۳۲ء کے بعدفلسفیانہ ذہنیت کے حامل وہ مسلم حکماء جنہوںنے قدریہ گروہ کے نام سے شہرت پائی،یونانی فلسفے کی ابجدسے ہی ناواقف تھے۔اس کے ثبوت میںتاریخی حقائق کوجانناہوگا۔ رسول اﷲ ؐؐکی وفات کے بعد،مسلمان فکری لحاظ سے دو گروہوںمیںبٹ گئے۔ایک نے نقل و ایمان کا دامن تھاما تو دوسرے نے عقل و استدلال کی راہ پکڑی۔اس دوسرے گروہ نے اسلامی عقائدواحکامات کو فلسفیانے کا بیڑہ اُٹھایا۔ مثلاً حضرت عائشہ ؓنے اس عقیدے سے انکارکیاکہ حضرت محمد ؐکو آسمانوں میں معراجِ جسمانی نصیب ہوا۔ انہوںنے یہ استدلال پیش نظررکھاکہ ایسا ہونابعیدازقیاس ہے۔ان کا صرف معراج روحانی پر اعتقادتھا۔بعینہٖ حضرت محمدؐ کے چند صحابہ کا مؤقف تھاکہ مردے سن نہیںسکتے کیونکہ ایساہونافہم عامہ سے بعیدہے۔اسی طرح بہت سے صحابہ کا خیال تھاکہ مردے اپنے پیارو ں کی اونچی آہ وبکاسے ایذا اُٹھاتے ہیںلیکن حضرت علی ؓنے اسے ماننے سے انکار کیا۔ ایسی اوراس جیسی کئی مثا لیں ، صریحاً یہ نشاندہی کرتی ہیںکہ حضرت محمد ؐکے صحابہ عقلیت پسندانہ رجحان رکھتے تھے۔ حالانکہ یہ وہ دور تھا جب اسلام ابھی خطۂ عرب تک ہی محدود تھا اور مسلمانوںکی مختلف قومیتوںکے مابین باہمی میل ملا پ اور رشتوں کی بابت سوچا نہیںجاسکتاتھا۔ عقلیت کے بیج توقرآنی تعلیمات میں،پہلے ہی بوئے جا چکے تھے۔ اسلام کے پہلے تین فرقے خارجیہ، مرجیئہ اورشیعہ تھے جن میں باہمی اختلافات مذہبی نہیںبلکہ سیاسی نوعیت کے تھے ۔ فکر و استدلال کے حوالے سے پہلا مکتبِ فکرجبریہ کاتھااورپھراس کافکری حریف قدریہ سامنے آیا جو بعدازاںمعتزلہ کی شکل اختیار کر گیا جیسا کہ بیان کیا جا چکاہے۔ اُموی سلطنت کے انحطاط وزوال تک معتزلہ شاہی دربارمیںاپنی جگہ بناچکے تھے اوراپنے فکرو استد لال کو منواچکے تھے۔یہی نہیں انہوں نے اپنے عقائدونظریات کو بزور طاقت منوانے کو جائز قرار دیا تھا ۔ کیونکہ ا ن کاایقان تھاکہ یہ ہر مسلمان کا انفرادی فرض ہے کہ امربالمعروف ونہی عن المنکرکا پر چار کرئے ،خواہ اس کے لیے اسے سختی کاروّیہ ہی کیو ں نہ اپنانا پڑے۔خلیفۂ وقت الولیدکا فرزند شہزادہ یزیدان کاپکاپیروکار تھا۔ جب اس کا والد عیاشی اورشراب نوشی کی حدوں کوپارکرگیاتواس نے والدکے خلاف معتزلہ کے اصول امربالمعروف و نہی عن المنکرکو فرضِ عین سمجھتے ہوئے علم بغاو ت بلندکیا۔نتیجتاًخلیفہ الولید کو پہلے محبوس رکھا گیا پھرقتل کر دیا گیااوریزید خود تخت پرجلوۂ افروز ہوگیا۔ یزیدکے خلیفہ بننے سے معتزلہ کو طاقت نصیب ہوئی اور اسے بے پناہ فروغ حاصل ہوا۔لیکن جب عباسیوںنے اُموی سلطنت کوتاراج کیا تو حکومتی ڈھانچے میںانقلابی تغیرات رونما ہوئے۔ مسلمانوں کے رسم و رواج اورادارے جوکبھی اموی اقتدارکے زیر سا یہ عربی رنگ ڈھنگ کے حامل تھے،اب عجمی وضع قطع میںڈھل گئے۔ عباسیوں کا خلیفہ ثانی المنصورآزادخیال اور رو شن دما غ طبیعت کامالک تھااس نے آزادیٔ اِرادہ اورآزادیٔ فکر وا ستد لا ل کی خوب پذیرائی کی حالانکہ وہ خود کسی مکتبِ فکر سے مخصوص نہ تھا۔اگرچہ وہ پہلا مسلم حکمران تھاجس نے مختلف موضوعات پر مبنی غیرملکی کتب کے مطالعے کی حوصلہ افزائی کی۔ فلسفیانہ اور سائنسی موضوعات پرمبنی تصنیفات کو عربی میں منتقل کروایا۔ لیکن اس کی شاہی سرپرستی نے صحیح العقیدہ مسلمانوںکی قدامت پسندی کو ضعف پہنچایااورا نہیں معتزلی فکرواستدلال کی طرف مائل ہونے پر مجبور کیا ۔ جب انہوںنے محسوس کیاکہ غیرمسلم اعتراضات کے خلاف جس حساب سے مذہبی محاکمے کی اشدضرورت ہے اس کے لیے معتزلہ کے طرزِاستدلال کو اختیار کرنا ہوگا، لہٰذا راسخ العقیدہ مسلمانوںکی کثیرتعداد معتزلہ مکتبِ فکر میں داخل ہونے پر مجبورہوگئی۔ عباسی خلفاء میں خلیفہ ہارون الرشیدبذاتِ خودمعتزلہ مکتب کامخالف تھامگراس کے برمکی عہدیداران کے زیر ِسایہ معتزلہ پروان چڑھتے رہے۔لیکن جب ہارون کے فرزندمامون کادور ِحکومت آیاتومعتزلہ کوخوب شاہی پذیر ا ئی حاصل ہوئی کیونکہ المامون خودمعتزلی نظریات کامعترف تھا۔اسی کے دورمیںغیرمسلم فلسفے کی آڑمیںاسلامی اصولوں اور عقیدوں پر ضرب لگائی گئی۔ جواباً مسلم حکماء نے یہی بہترجاناکہ انہی کے فلسفیانہ استدلال کوڈھال بناکراسی کے ذریعے ان کی تنقید کاردّکریں۔تاریخ میںکوئی ایک بھی ایساثبوت نہیںملتاجس سے یہ دعوی کیاجاسکتاہوکہ مسلم عقلیت پسند ایسے مناظروں میںغیرمسلم حکماء سے کبھی کوئی نظری مات کھاگئے ہوں۔المامون کے بعدالمعتصم اورواثق باﷲنے بھی عقلیت پسندمکتب کی شاہی سرپرستی جاری رکھی لیکن واثق کی وفات کے بعدتقریباًسبھی خلفاء معتزلہ کے خلاف ہوگئے اور یہاںتک کہ ان میں سے کچھ کوصرف اس بنیاد پر فرمانِ موت صادرہواکہ وہ عقلیت پسندتھے۔دراصل،معتزلہ کے زوال کے تین عناصر تھے۔ .1ابوالحسن اشعری کاعقلی کی بجائے اسنادی علم الکلام کاپرچار۔ .2شاہی سرپرستی کااُٹھ جانا۔ .3تصوف کے طریقۂ راہ ِباطن کااحیا۔ اس طرح مذکورہ بالاتاریخی جوازسے یہ ثابت ہوتاہے کہ مسلم عقلیت پسندی کی ابتدا یونانی حکمت و دانش کے زیر سایہ نہیںہوئی بلکہ اس کاآغاز و اظہار قرآن سے ہوا جو دعوت فکر انسانی کا موئید ہے۔ اس حوالے سے مزیدبرآں، سیدمظفرالدین ندوی لکھتے ہیں کہ وان کریمر (Van Kremer) کا یہ مؤقف قطعاً درست نہیںکہ اپنے آغاز سے ہی معتزلہ عیسائی الٰہیات سے متاثر تھے۔ ثانیاً، سٹینر (Steiner)کا نقطئہ نظربھی صحیح نہیںکہ اپنے آغاز میں معتزلہ کا فکری خمیر خالصاًاسلام کے سیاق وسباق میں تیارہوااوراس کی فکری اٹھان خارجی اثرات سے محفوظ رہی۔ مگر بعد از ا ں بالغ نظری کی سطح پر پہنچ کریونانی حکمت ودانش کے اثرات سے متاثر ہوئے بغیرنہ رہ سکی۔سید مظفرالدین کی رائے میں ایسا نقطۂ نظر اس لیے صحیح نہیںکہ تاریخ شاہدہے کہ معتزلہ کاظہوراُموی عہدمیںاس وقت ہوا جب یونانی حکمت ودانش سے مسلما ن یکسرنابلدتھے۔عباسیوںسے پیشتر تو مسلمان یونانی حکمت کے مطالعے میںسنجیدہ بھی نہیںتھے۔بلاشبہ،خلیفہ المنصوروہ پہلاشخص تھا جس نے یونانی کتب کے عربی تراجم کرائے لیکن یہ بھی نظراندازنہیںکرناچاہئیے کہ زیادہ تر مسلمان ان عربی تراجم سے اتنے ہی ناواقف تھے جتنا کہ اصلی یونانی تصانیف سے۔قریباًآدھی صدی گزرنے کے بعد،خلیفہ مامون کے عہدمیں،سائنس وفلسفہ کی تصانیف کوبکثرت عربی میںمنتقل کیا گیا۔ حالانکہ ان تراجم کا معیار ابتدائی دورکے تراجم سے کہیںبہترتھا،پھربھی وہ عام مسلمانوںکی تفہیم کے لیے دشوارتھا۔کیونکہ ان تراجم کا ندازمعنوی نہیں،لفظی تھا جہاں ہریونانی لفظ کی جگہ اس کا متبادل عربی لفظ لایا گیا تھا۔ نتیجتاً معدودے چندمسلم مفکرین ہی اس سے استفادہ کرسکتے تھے اور اکثریت اسے سمجھنے سے قاصر تھے۔ اس حساب سے یہ ثابت ہوتاہے کہ معتزلہ اپنی فکری پرواز کے دور ِ اختتام میں یونانی تفکرکی طرف منعطف ہوئے اوروہاںبھی انہوںنے یونانی فکرواستدلال کی روح کو کبھی نہیںاپنایا۔ صرف اس کی ظاہری ہیئت سے استفادہ کیا۔ یونانی استدلال کے اثرات رفتہ رفتہ مسلم علم الکلام میںنفوذکرتے گئے اورمعتزلہ اسی کے جوش میںہوش گنوا بیٹھے، انہوںنے اِکراہ فی الدینکے اسلامی اصول کوبھی طاقِ نسیان میںرکھ دیا اور بزورِطاقت اپنے افکاروعقائدکومنوانے پرکمربستہ ہوگئے۔خلیفہ ِوقت کی پشت پناہی کی بناء پر انہوںنے ہراس عالم وفاضل کوشدیدتشدد کانشانہ بنایاجوان سے فکری ونظری ختلاف رکھتا تھا، حالانکہ ان میںفقہا اور محدثین بھی شامل تھے اوراہلِ سنت علماء بھی۔لیکن ان کے مخالفین بڑے عزم واستقلال اورثابت قدمی سے اپنے مؤقف پرڈٹے رہے۔اجتماعی طورپربھی معتزلہ کے خلاف چند مزاخمتی تحاریک۲۷نے سراٹھایاجن میںسے ابنِ حزم کامکتب ِخیال ھسپانیہ میں،الطحاوی کا مصر میں،منصورکاماتردیدی مکتب، سمرقندکے قریب ماتردیدیہ میںاورالاشعری کامکتب عراق میںقائم ہوئے۔لیکن اپنی اثرکاری اورجدت خیال کے باعث ابوالحسن علی بن اسماعیل الاشعری کامکتب ان سب پربازی لے گیا۔اشعری کی بابت بحوالہ ابنِ خلکان،یہ روایت۲۸ بیان کی جاتی ہے کہ وہ اپنے معتزلی استادعلی محمدبن عبدالوہاب الجبائی کاانتہائی پکاپیروکارتھا۔ایک روز اس نے اپنے استاد سے معتزلہ کا مسئلہ ’’صالح واصلح‘‘ چھیڑاکیونکہ وہ جانناچاہتاتھاکہ آیا خداکے اعمال عقلی تقاضوںپرمبنی ہیں اور آیا وہ دوسروںکی بھلائی وخیر چاہنے کا پابند ہے؟یہ معلوم کرنے کے لیے اس نے اپنے استاد الجبائی سے سوال کیا۔تین ایسے بھائی فوت ہوجاتے ہیں جن میںسے ایک مومن، دوسرا کافر اور تیسراابھی بچہ ہی تھا۔روز ِآخرت،ان تینوںکے ساتھ کیا معاملہ پیش آئیگا؟الجبائی کاجواب تھامومن جنت میں،کافرجہنم میںاوربچہ اعراف میںجائے گا۔اس پراشعری کا استفسا رتھاکہ فرض کیجیے بچہ مومن کے مقام تک پہنچنے کاخواہاںہے،توکیاوہ کامیاب ہوسکے گا؟الجبائی کا استدلال تھا ، نہیں، کیونکہ اس کے مومن بھائی کی طرح اس کے پاس کوئی ایساعملِ اطاعت نہیںجواسے اس مقام تک پہنچا دے۔ اب کی باراشعری کااستفہام تھا،فرض کیجیے کہ بچہ کہتاہے،کہ اس میں میرا کیا قصور، کیونکہ مجھے مزیدزندہ رہنے کاموقع دیا گیا اورنہ ہی اطاعت کی مہلت عطاکی گئی۔جواباًالجبائی کی دلیل تھی،ربِّ دوجہاںکہے گاکہ میں جانتا تھااگروہ مزیدزندہ رہتاتونافرمانی کامرتکب ہوتا اور لامحالہ دوزخ کا سزاوارٹھہرتا۔اُلٹا ،اسے پہلے موت دے کر میں نے تواس کا بھلاکیا۔یہ سن کر اشعر ی نے کہا،ٹھیک ہے اگرمعاملہ ایسا ہی ہے توذرافرض کیجیے کہ کیاکافرربِ دو جہاں سے یہ نہ پوچھے گا کہ اگرتوجانتاتھاکہ میںآگے چل کرکفروعصیان اختیارکرنے والا ہوں تو پھر میرا بھلا کیوں نہ سوچا ۔ مجھے کیوں دیرتک زندہ رہنے دیا۔ اشعری کی اس دلیل کا الجبائی کے پاس کوئی موزوں جواب موجودنہ تھا۔جس کی وجہ سے اشعری کاعقلیت کی استنادیت سے ایمان اٹھ گیااوروہ اس نتیجے پر پہنچاکہ مذہبی معاملات میںکچھ باتوں پرفقط ایمان لانا پڑتاہے، وہاںعقل سے کام نہیں چلتا۔ ضرورت محض اتنی ہے کہ ایمان بالغیب کی بنیادوںکومستحکم کیا جائے۔ اشعری کی ذہنی تبدیلی کی ایک اوروجہ بھی بیان کی گئی ہے جس کے مطابق ایک روزاس نے اچانک بصرہ کی مسجدکے منبر پر چڑھ کر اعلان کیا،’’وہ لوگ جومجھے جانتے ہیںانہیںمعلوم ہے کہ میںکون ہوں۔جولوگ نہیں جانتے میں ان سے اپنا تعارف کراتاہوں۔میںعلی بن اسماعیل الاشعری ہوں۔میرا یہ عقیدہ تھاکہ قرآن مخلوق ہے،انسانوں کی آنکھیں خدا کو نہ دیکھ پائیںگی ،اورہم خو داپنے بدافعال کے موجد اور مختار ہیں ۔ اب میںحق کی طرف واپس آتا ہوں، ان عقائد سے توبہ کرتا ہوںاورمعتزلہ کی تردید ، ان کی غلط اند یشیو ںاورغلط بیانیوںکی قلعی کھولنے کا بیڑا اٹھاتا ہوں۔‘‘۲۹ اشعری کے ذہن میںیک دم تغیرکیوں کر رونماہوا ،اس کے بارے میں قطعی طورپرکچھ نہیں کہا جاسکتا۔مگرشبلی نعمانی کے مطابق،۳۰اس کی وجہ اشعری کاوہ خواب تھاجس میںاسے آنحضورؐ کی طرف سے ہدایت ہوئی کہ وہ اسلا می عقائدکادفاع کرے۔اس طرح اشعری نے علم الکلام کی جگہ اسنادی علم الکلام کی اساس رکھی اوراس کے متبعین اشاعرہ کہلائے۔جنہوںنے اسے وسعت بخشنے میںدامے درمے سخنے معاونت کی۔اس مقام پرایک وضاحت ضروری ہے کہ معتزلہ اور اشا عر ہ کے مابین تفاوت کااصل سبب یہ نہیں تھاکہ معتزلہ نے عقلیت کی طرفداری کی،جب کہ اشاعرہ نے اس کی مخالفت۔ حقیقت یہ ہے کہ دونوںنے اپنے اپنے افکاروعقائدکے حق میںدلائل وبراہین کا استعمال کیا ۔ فرق صرف اتناہے کہ معتزلہ نے وحی پر عقل کی برتری تسلیم کی، گویا صداقت کاقطعی معیارعقل کوٹھہرایاجس کے مطابق ہر وہ نظریہ باطل سمجھا گیاجوعقل کی میزان پرپورانہ اترتا ہو۔اس کے برعکس،اشاعرہ نے وحی کوعقل پرفوقیت دی۔ عقل کو صداقت کاقطعی معیارقبول کرنے سے انحراف کیا۔عقل کووحی کی تفہیم کے لیے ضروری سمجھا مگر جہاں کہیں عقل تعلیماتِ ربانی کی فہم و فراست سے عاجزرہے،وہاںوحی کوہراعتبارسے فائق گردانا۔ اشاعرہ کو ایک طرف معتزلہ کی مخاصمت کا سامنا تھا تو دوسری طرف قدامت پسند مذہبی گروہو ں کی مخالفت بھی درپیش تھی جن میںاس زمانے کے فقہا، محدثین، ظاہریہ،مجسماتیہ،سبھی شامل تھے۔ قدامت پسندگروہ معتزلہ کے برعکس، مذہبی عقائدکی عقلی تشریح وتعبیرکے کلیتاًمخالف تھے اور اس کو بدعت شمارکرتے تھے۔ان سب کامؤقف تھاکہ آنحضورؐنے اپنی وفات سے قبل ہروہ بات واضح کر دی تھی جس کی مذہبی نقطہ نظرسے ضرورت تھی اورانہوں نے کوئی بھی امرایسا نہیں چھوڑا تھا جوباعثِ نزاع ہو،لہٰذاالٰہیاتی مسائل کے بارے میںمنطقی موشگافیاں،صریحاًبدعت ہیں۔ ثانیاً جہاں تک الٰہیا تی مسائل کے بارے میںیہ سوال اٹھتاہے کہ آنحضورؐ اوران کے اصحاب کوالٰہیاتی مسائل خوب معلوم تھے لیکن انہوںنے ان کے بارے میںخاموشی اختیارکئے رکھی۔اس لیے ہمیں بھی ان کے اتباع میںخاموش رہناچاہیے وگرنہ دوسری صورت میںیہ بدعت ہوگی۔اشعری نے ان اعتراضات کا جائزہ تین انداز۳۱سے لیا: .1اولاً،یہ کہ روایت پرستوںکے اعتراض کوخودانہی کے خلاف استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اگر آ نحضرتؐ نے ان مختلف مسائل پراظہار ِخیال نہیںفرمایاتو آپؐ نے ان پرگفتگوکرنے کوممنوع بھی توقرار نہیںدیا۔اگرمعترضین اسے ممنوع قراردیتے ہیںتودراصل وہ خودایک بدعت کاارتکاب کرتے ہیں۔ .2ثانیاً،یہ ٹھیک ہے کہ کلام کے مسائل اپنی تمام جزئیات کے ساتھ آنحضرت ؐاورصحابہ کبار رضوان اﷲ علیہم اجمٰعین کے عہد ِمبارک میںموجودنہ تھے لیکن بنظر ِغائردیکھاجائے توان کے اساسی اصول خودقرآن اوراحادیث میں موجودہیں۔اس موضوع پراشعری نے کئی مثالیںپیش کیں۔ .3ثالثاً،یہ مسائل آنحضرت ؐکے احاطۂ علم میںموجودتھے۔لیکن آپؐ نے ان پراس لیے اظہار ِخیال نہ فرمایا کہ یہ واقعتاًاس دورمیںپیداہی نہیںہوئے تھے اوران پرکوئی بات کرنے کی ضرورت ہی پیش نہ آئی تھی۔ محولہ بالادلائل سے اشعری نے یہ نتیجہ اخذکیاکہ الٰہیاتی مسائل میں فکرو تدبر کو بروئے کارلانے میںکوئی مضا ئقہ نہیں۔اُلٹا،ایمان کے لیے عقلی جوازڈھونڈنا،اسلام کی ضرورت ہے۔اس نسبت سے،اشاعرہ نے قدامت پسند اور معتزلہ،دونوںکے بیچ میںجگہ بنائی اوروحی کوعقل پرسبقت دلاکر عقلی علم الکلام کواسنادی علم الکلام میںبدل دیا۔ بنیادی طورپر،معتزلہ اوراشاعرہ کے مابین اہم اختلافی مسائل۳۲یہ تھے: .1خداکاتصوراوراس کی ذات وصفات کی نوعیت .2انسانی اختیارکامسئلہ .3نیکی اوربدی کامعیار .4دیدار ِجمال باری تعالیٰ .5قرآن کاخلق یاغیرخلق ہونا .6خداکامخلوق کواس بات کامکلف کرناجس کی وہ استعدادنہیںرکھتی .7جزاوسزاکامسئلہ .8خداکے اعمال کی عقلی اورغیرعقلی بنیادیں .9کیاخداوہ کرنے کامکلف ہے جوکہ مخلوق کے لیے بہترین ہے یہاںان کے باہمی اختلافات سے قطع نظر استدلال کے حوالے سے دونکات توجہ طلب ہیں: .1دونوںنے اپنے اپنے دلائل کے لیے قرآن سے ہدایت اورتحریک حاصل کی۔مثلاً مسئلہ رویتِ باری تعالیٰ کے بارے میںمعتزلہ کاعقیدہ تھاکہ روزِآخرت انسان کے لیے دیدارِ الٰہی محال ہوگا۔بطورثبوت،انہوںنے ان آیاتِ قرآنی سے استدلال کیا:- .i(اے محمدؐ)اہلِ کتاب تم سے درخواست کرتے ہیںکہ تم ان پرایک (لکھی ہوئی )کتاب آسمان سے اتار لاؤتویہ موسیٰ ؑسے اس سے بھی بڑی بڑی درخواستیںکرچکے ہیں(ان سے)کہتے تھے ہمیںخدا کوظاہر(یعنی آنکھو ں سے) دکھادو۔سوان کے گناہ کی وجہ سے ان کوبجلی نے آپکڑا۔ (۴:۱۵۳) .ii(وہ ایساہے کہ) نگاہیںاس کاادراک نہیںکرسکتیںاوروہ نگاہوںکاادراک کر سکتا ہے۔ (۶:۱۰۳) بعینہٖ اشاعرہ نے قرآنی آیات سے استدلال کرتے ہوئے یہ حجت نکالی کہ روزِآخرت انسان کے لیے دیدارِ الٰہیہو گا۔بطورثبوت،انہوںنے ان قرآنی آیات سے رجوع کیا:- .iاُس روزبہت سے منہ رونق دار ہوںگے( اور)اپنے پروردگار کے محوِ دیدارہوں گے۔ (۷۵: ۲۲ ۔ ۲۳) .iiاورجب موسیٰ ؑ ہمارے مقررکئے ہوئے وقت پر(کوہ طورپر)پہنچے اوران کے پروردگار نے ان سے کلام کیاتوکہنے لگے اے پروردگارمجھے (جلوہ )دکھاکہ میں تیرا دیدار (بھی ) دیکھوں۔ پروردگارنے کہاتم مجھے ہرگزنہ دیکھ سکوگے۔ہاںپہاڑکی طرف دیکھتے رہواگریہ اپنی جگہ قائم رہا تو تم مجھ کو دیکھ سکوگے۔ (۷:۱۴۳) .2دونوںنے اپنے اپنے دلائل کویونان کے منطقی طرزِاسلوب کے رنگ ڈھنگ میںپیش کیاجیسے،رویت باری تعالیٰ کے مسئلہ کے متعلق معتزلہ کامنطقی قیاس تھاکہ: طبعی اشیاء کادیدارکچھ مخصوص احوال واوصاف جیسے حجم، سائز، رنگ، روشنی، فاصلہ وغیرہ کی بنیادپرممکن ہے۔ خداکوئی طبعی شے نہیں۔ لہٰذاخداکادیدارممکن نہیں۔ جس طرح معتزلہ نے منطق سے ثابت کیاکہ خداکادیدارممکن نہیںاسی طرح اشاعرہ نے بھی منطق سے ثابت کیاکہ خداکادیدارممکن ہے۔مثلاًاشاعرہ کے استدلالات تھے : (1) ۔وہ جواشیاء کودیکھ سکتاہے وہ اپنی ذات کوبھی دیکھ سکتاہے (2) ۔خدااشیاء کودیکھتاہے (3) ۔پس خداخودکودیکھتاہے اور (1) ۔وہ جوخودکودیکھتاہے وہ اپنادیداردوسروںکوبھی کراسکتاہے (2) ۔خداخودکودیکھتاہے (3) ۔پس خدااپنی ذات کاجمال دوسروںکوبھی دکھاسکتاہے اور (1)۔اعلیٰ ترین شے اعلیٰ ترین دنیامیںہی ممکن ہے (2)۔دیدارجمال باری تعالیٰ خداکاسب سے اعلیٰ انعام ہے (3)۔پس جمال باری تعالیٰ سب سے اعلیٰ دنیامیںہی ممکن ہوگا قابلِ قدر بات یہ ہے کہ اشاعرہ کے افکارکوایک امتیازحاصل ہے جو انہیں یونانی افکارسے دورلے جاتاہے۔ وہ ان کی سوچ کااستقرائی رجحان ہے جوان کے نظریۂ جواہرکی تفہیم سے جھلکتا ہے۔اشاعرہ کاخیال ہے کہ کائنات کی جملہ ٔاشیائ، بشمول زمان ومکاں دراصل ایسے جواہر ہیں جو عدم سے مشہودمیںآتے ہیںاورواپس مشہودسے معدوم ہو جاتے ہیں۔یہ جواہر یونانی مفکر دیمقراطیس کے ایٹموںکی مانند نہیں جو مادی اور ازلی وابدی ہوں،بدیہی حرکت سے معمور ہوں، میکانکی انداز میں متحرک ہوںاورازخوداشیاء کے بننے اوربگڑنے کاسبب ہوں۔اس کے برعکس، جواہر غیر مادی ہیں، عارضی ہیں، فنا پذیر ہیں، متفارق ہیںاور غیر متغیر ہیں۔مگر اپنے مشہود ومعدوم ہونے کی بناء پر تغیرکاباعث ہیں۔ مشیت ِایزدی جواہرکے وجودکااصلی سبب ہے۔اسی کے حکم سے جواہر اور اس کے جملۂ خواص کے کون وفسادکاسلسلہ چلتا ہے۔چونکہ کائنات میںنت نئے جواہرکی تخلیق ہوتی جارہی ہے،اس لیے منشائے الٰہی کی رُوسے کائنات اضافہ پذیر ہے۔ اشاعرہ کایہ تصور ارسطو کے نظریہ کائنات کے بالکل برعکس ہے جس نے کائنات کوفکری لحاظ سے خالص صورت اور مادہ، دونوں کے مابین جامدوساکت متصورکیااورجملہ کائنات کوقانونِ تعلیل کا پابند ٹھہرایا۔جیسے کہ گزشتہ باب میں وضاحت کی جاچکی ہے کہ یونانی مفکرین کافکری استدلال استخراجی قیاس کا شکار رہا،اس بناء پروہ کائنات کی وسعتوںکا صحیح اندازہ لگاہی نہ سکے۔ان کی بہ نسبت اشاعرہ کافکری استدلال قرآنی تعلیمات سے مَس رکھنے کی وجہ سے استقرائی جہت کابھی حامل تھا۔اس لیے انہوںنے کائنات کی وسعتوںاورپھیلاؤکے اُن دیکھے امکانات کا دروازہ کھلا رکھا۔ اشاعرہ کے استدلال کومشرق میںشیخ الاسلام وامام الحرمین ابوالمعالی الجوینی اور کسی حدتک ان کے تلامذہ امام الغزالی اور پھر امام رازی نے، اورمغرب میںابنِ تو مرت نے بالخصوص،عام کیا۔مگریہ ان کی بدقسمتی کہ مسلم سلطنت کے دور ِزوال، قدامت پسند فقہا کے اعتراضات، تصور اجتہاد پہ جمود اور فلسفیانہ و مذہبی تفکر میں پیدا شدہ مناقشت کی فضانے انہیںبہت ضعف پہنچایا۔ لیکن اس کے باوجود یونانی استدلال کااثرورسوخ زائل نہ ہوا۔وہ کسی نہ کسی صورت میں اپنی جگہ بناتارہا۔مسلم فلسفہ اورمسلم تصوف،دونوںاس کے شاہدہیںجوعلم الکلام کے دورمیںہویداہوئے اور اپنا علیحدہ اورمنفردتشخص قائم کرنے میںکامیاب ہوئے۔دیکھاجائے توان کے خوابیدہ عناصر اس دورمیںبھی موجود تھے جب اشاعرہ نے ابھی آغاز کیا تھا۔مثلاًجس زمانے میںمعتزلہ کا زور، عروج پرتھااوراسے مزاحمتی تحاریک کا سامنا تھا،ان کے جو روستم اورآئے روزکی مناقشت سے تنگ آکر بصرہ اور بغدادکے چندہم خیال فلسفیوںاور سائنسدانوں نے باہم مل کربمقام بصرہ ایک خفیہ تنظیم قائم کی تاکہ مسلمانوںکے باہمی اختلافات کوفروکیا جا سکے اور تعصبات سے بالا صحیح العقیدہ مسلمانوں کے مابین فکری سمجھوتے کی راہ نکالی جاسکے۔اس خفیہ تنظیم کا نام’’اخوان الصفا‘‘ رکھا گیا۔بنیادی طور پراس کے ارکان کامیلان شیعیت اوراعتزال کی طرف تھاجواپنے سربراہ زیدبن رفاعہ کی رہائش میںحکومت وقت یاعوام الناس سے خائف ہوکرانتہائی رازداری سے اپنے اجلاس منعقد کر تے۔ وہ صرف اُنھی کواپنا رکن بناتے جن پرمکملاعتماد ہوتا۔ان کے مسلک کااصول خذماصفا و دع ماکدر تھا۔ان کا مقصود منقول ومعقول کے مابین مصالحت اور مطابقت پیدا کرنا تھا۔ انہیں یونانی، مسیحی ، مجوسی اورآریائی افکارمیںبلاکی دسترس حاصل تھی۔ان کی تحریک یونانی مفکر فیثا غورث کے پیروکار وں کی تحریک کے بہت مماثل تھی۔مجموعی طورپرانہوںنے متعددرسالوںکی صورت میں ایک معلوماتی انسائیکلوپیڈیامدون کیا جسے’’ رسائل اخوان الصفاوخلان ا لوفا‘‘کاعنوان دیا گیا۔اس میںانسانی مطالعے کے تقریباًہر نوع کے موضوع کااحاطہ کیاگیا۔بلاتامل،اسے ایک طرح کی قاموس قرار دیا جاسکتا ہے،علاوہ ازیں،ان کے رازداں ابوحیان التوحیدی کی تصانیف سے ان کے نظریات کے بارے میںخاصی معلومات ملتی ہیں۔ قاضی قیصرالاسلام لکھتے ہیں کہ ان کا مرکزی خیال یہ تھاکہ ’’شر یعتِ محمدیہ جہالت وگمراہی کاشکارہے اور اس کی تطہیرصرف فلسفہ ہی سے ممکن ہے، کیونکہ فلسفہ حکمت اعتقادیہ اورمصلحت اجتہادپرغالب ہے اورجس وقت فلسفۂ یونان اور شریعتِ محمدیہ میں آہنگ و امتزاج پیداہوجائے گا،اس وقت کمال حاصل ہوجائیگا۔‘‘۳۳ انہوں نے اپنے مابعدالطبیعی افکار میں نوفلاطونیت کے نظریۂ صدور اور ارسطو کے نظریۂ تعلیل کو جگہ دی اوراپنے سائنسی افکاار میںفیثاغورثیہ کے تصورِاعداداورآیونی مفکرین کے تصورِ تکوینِ کائنات کی تائیدکی۔اچنبھے کی بات یہ ہے کہ اپنے سائنسی نظریات کووضع کرتے وقت انہوںنے اسی نہج کی استقراء سے کام لیاجویونانی مفکرین کاخاصہ تھا۔ یعنی انہوںنے مشاہدے کی بجائے محض مشاہدے کے قیاس پر اپنے نظریات کواخذکیا۔اس طرح بحیثیت مجموعی ان کے ہاںیونانی استدلال کا استخراجی رنگ ڈھنگ پورے طمطراق سے غالب رہا۔ .2 مسلم حکمت وفلسفہ:(Muslim Hikmat-and-Philosophy) مسلمانوں میں ایسے روشن دماغ اور آزاد خیال مفکر بھی آگے آئے جنہوں نے خدا، انسان اورکائنات سے متعلق بنیادی مسائل کوفکری ومنطقی استدلال کی مددسے اس طرح حل کرنے کی کوشش کی جونہ صرف انسانیت کے حق میںبہترہوبلکہ ایمانیات سے بھی ہم آہنگ ہو۔بادی النظر میںان کاانداز ِاسلوب اورزاویۂ فکرمسلم متکلمین سے کچھ زیادہ مختلف محسوس نہیںہوتا۔لیکن پھربھی ان کے مابین ایسے اختلافات ہیںجنہیںنظراندازنہیںکیاجاسکتا۔جیسے: .1مسلم حکماء نے صداقتوںکے حصول کے وقت کبھی بھی عقل کی وحی سے مطابقت وہم آہنگی کے مسئلہ کو پیش نظر نہیںرکھاجبکہ متکلمین اس کابالالتزام اہتمام کرتے۔ .2مسلم حکماء نے اپنے فکری استدلال کومحض الٰہیاتی مسائل ومباحث تک محدودنہ رکھا، جبکہ متکلمین ان سے کبھی متجاوزنہ ہوپائے۔ .3مسلم حکماء کاسامنامذہبی مباحث ومجادلوںسے نہیںتھا،ان کادائرہ عمل دوسروںکے فلسفیانہ نظریات کوناقدانہ دلائل سے پرکھناضرورتھا۔مگران کوفکری طور پر زیر کرنا نہیں تھا۔ جبکہ متکلمین کا سارازوراپنے حریف کے خیالات کو ہر لحاظ سے مات دینااوررگیدناتھا۔ .4مسلم حکماء کے استدلال میںبڑی کاٹ ہوتی۔وہ تیکھے اورپراثردلائل وبراہین کا استعمال کرتے، مگربزورِ طاقت اورتشدد،اپنے دلائل کومنوانے کے درپہ نہ ہوتے،جبکہ مسلم متکلمین اپنے استدلال اورروّیے،ہردولحاظ سے بڑے سخت گیراورمتعصب واقع ہوئے تھے۔ .5مسلم حکماء نے صحیح معنوںمیںسائنسی طرزکے استقرائی استدلال کااحیاء کیااوراس کے فروغ میںخاطر خواہ قدم اٹھائے،جبکہ متکلمین اس جہت سے بہرہ ورنہ ہوپائے۔ مسلم حکماء میںسب سے پہلی شخصیت ابویوسف یعقوب ابن اسحق الکندی۳۴ہے جسے’ حکیم الحکمائ‘اور ’فیلسوف العرب‘ کے القابات سے نوازاگیا۔اس کے زمانے میںفلسفے اورمذہب کے درمیان مطابقت کا مسئلہ ایک سوالیہ نشا ن کی صورت اختیارکرچکاتھا۔یہ خیال تقریباًعام ہو چکا تھا کہ فلسفے کی وجہ سے مذہب سے دوری پیدا ہوئی ہے۔اس میںمذہب سے ہم آہنگی کا رجحان مفقود ہے۔ اس کاثبوت ان فلسفیوںکی تعلیمات سے ملتاہے جونہ صرف اسلامی عقائدکے خلاف ہیں بلکہ مسلم اُمہ کے حق میںزہرِقاتل ہیں۔کندی نے اس تاثرکوبدلا،اس نے یہ ثابت کردکھایاکہ فلسفے او ر مذہب میںکوئی مغائرت نہیں۔ قرآن کی صحیح سوجھ بوجھ کے لیے یہ لازم ہے کہ اس کی فلسفیانہ تو جیہا ت بیان کی جائیںکیونکہ اولاًفلسفے کامقصودبھی انہی حقائق کی پردہ کشائی ہے جن کومذہبی تعلیما ت میں اشارتاً بیان کیاگیاہے۔ثانیاًمذہب کی دعوتِ فکر خود فلسفیانہ توجیہات کی متقاضی ہے۔اس پیرائے میںاس نے یہ ضروری خیال کیاکہ سب سے پہلے فلسفے کی واضح اور غیرمبہم تعریف کا تعین کر لیا جائے۔نتیجتاًاس نے کہاکہ فلسفے سے مرادممکن حدتک اشیاء کی ماہیت کاعلم حاصل کرنااوراس کی مطابقت میںعمل پیراہوناہے۔اس مناسبت سے فلسفی وہ ہے جواپنے علم کے مطابق عمل پربھی کار بند ہو۔یہاں بادی النظرمیںکندی سقراط کاہمنوانظرآتاہے مگرعمیق النظری میںمعاملہ ایسا نہیں کیونکہ سقراط نے علم وعمل میںمطابقت کوانسان کی قطعی منزلِ مرادقراردیاتھاجب کہ کندی اسے حصولِ مشیتِ ایزدی کا محض موثروسیلہ سمجھتاہے۔علاوہ ازیں، کندی ناواقف نہیںتھا کہ فلسفہ اپنی حدوداورقیودکے باعث ہرقسم کی کماحقہ تفہیم سے عاری ہے۔وہ فلسفے کی نارسائی کا معترف تھا ۔ اسے معلوم تھاکہ فلسفہ حقیقت مطلقہ کی جانب پیشقدمی ضرورکرتاہے مگراس کااحاطہ کرنے سے قاصر ہے جہاںتعلیماتِ ربّانی کی تفہیم عقل وخردکی دسترس سے دوررہے وہاںوحی کو عقل پر مقدم گرداننا چاہئیے اس کاایقان تھاکہ انسانی علم،الوہی علم کے آگے فروترہے۔اس نے بڑے اعتمادکے ساتھ یہ بات کہی کہ قرآن کااسلوب منطقی طرزِاستدلال سے زیادہ بہتراورموثرہے کیونکہ یہ جذباتِ انسانی کو براہِ راست چھوکرمطلوبہ نتائج حاصل کر لیتا ہے اس کے برعکس خا لص فلسفیانہ استدلال بے کیف اور خشک ہوتا ہے مثلاًہڈیاں بوسیدہ ہو جائیںگی تو انہیں کون دوبارہ زندہ کرئے گا۔ اس سوال کے جواب میں قرآن کوئی فلسفیانہ استدلال پیش نہیں کرتاجیسے کہ ارشادِربانی ہے،’’کہنے لگا کہ ( جب) ہڈ یا ں بوسیدہ ہوجائیںگی توان کوکون زندہ کرے گا؟کہہ دوکہ ان کو وہ زندہ کرے گا جس نے ان کو پہلی بار پیدا کیا تھا ۔‘ ‘ (۳۶: ۷۸۔ ۷۹ ) لیکن مذہبی تعلیمات کی فلسفیانہ توجیہات کی ضرورت پرزوردینے اوریونانی حکمت ودانش پربلاکاعبوررکھنے کے سبب کندی نے جہاںمناسب سمجھا،یونانی مفکرین بالخصوص ارسطوکے منطقی دلائل کو اپنے فلسفیانہ خیالات میںجگہ دی جیسے کہ اس نے وجودباری تعالیٰ کے ثبوت میںارسطوکے کونیاتی اورغایتی دلائل کوقرآنی آیات کی روشنی میں استعمال کیا ۔لیکن اس کے باوجوداسے ارسطوئی فکرکا نقال قرار نہیں دیا جاسکتا،کیونکہ اس نے ارسطوکی مانند خدا کو محض تصورِ مجرد کبھی نہیں سمجھا جو محرک المحرک ہونے کے ناطے سرچشمۂ مخلوقات توہے مگرنہ ہی قادرمطلق ہے اورنہ ہی خدائے علیم و بصیر، اس کے ہاں،خداایک حی وقیوم ذاتِ مشخص ہے جواپنی مشیت سے مخلوق کوعدم سے تخلیق کرتا ہے اور اس سے لاعلم بھی نہیں رہتا۔ کندی نے یونانی فلسفے کی ہیلانیاتی وراثت کواسلامی تعلیمات کے ساتھ یکجاکرکے ایک نئی روا یت کی داغ بیل ڈالی جسے مسلم حکمت وفلسفہ کے عنوان سے تعبیر کیاجاتاہے۔ وہ یونانیوں کاہم خیال تھا کہ فلسفہ حصولِ صداقت کا علم ہے اورصداقت تجربے سے بالاتر ہے جس کا ناطہ ناقابلِ تغیر سرمدیت سے ہے۔یہ وہ مقام ہے جہاں فلسفے اورمذہب میں مغائرت کاجوازباقی نہیں رہتا اور اس طرح ان دونوں میں مفاہمت پیداہوجاتی ہے۔کندی کی قائم کردہ روایت جس فکری نشیب و فراز سے دو چار ہوئی،اس کی بدولت تین طرح کے انداز ِفکرنمودار ہوئے: .1بڑے شدومدکے ساتھ ان یونانی نظریات کواپنایاگیاجن میںاسلامی تعلیمات کے ساتھ ہم آہنگی کی گنجائش محسوس کی گئی۔ 2 .بڑے زوروشورکے ساتھ ان یونانی نظریات کورگیداگیاجنہیں کبھی اسلامی تعلیمات سے ہم آہنگ متصور کیاگیاتھا۔ .3بڑے ردّوکدکے ساتھ یونانی نظریات کواس بنیادپرازسرنوسراہا گیاکہ انسانی فکرکے درجوں میں تفاوت ہے۔صرف وسیع النظرمفکرین ہی جان سکتے ہیںکہ یونانی نظریات اوراسلامی تعلیمات میںکیونکراورکہاںتک ہم آہنگی موجودہے۔ چونکہ مسلم حکمت وفلسفے کاپورامنظرنامہ انہی انداز ِفکرکے زاویوںپرمحیط ہے،اس لیے ان کااجمالاًجائزہ لینا ضروری محسوس ہوتا ہے۔ .1کندی کی روش کوبڑھانے والاابونصرالفارابی۳۵ہے جس نے یہ خیال اپنایا کہ فلسفہ، فلسفہ ہے خواہ مشا ئین کاہویااشرافین کا۔رواقیوںکاہویاایپی کیورنیزکا۔فلسفہ میں گونا گوں مکا تبِ فکر تو ہوسکتے ہیںلیکن فلسفہ خود اختلافِ فکر کاشکارہو،اس کاسوال ہی نہیں اٹھتا۔فلسفے کے جس قدر مکاتب ِفکر موجودہیںوہ اصلاًایک ہی عرفانِ حقیقت کے حصول کی طرف گامزن ہیں۔ اس حساب سے دیکھا جائے توفلسفہ ایک ایسے شجرکی مانندہے جس میںبرگ وبارکی توبہت بہتات ہے،رنگارنگی ہے مگر اپنی کنہ میںسب کے سب ایک ہی شجرکاوجودہیں،اسی کاحصہ ہیںبعینہٖ سارے کے سا ر ے تفلسف اپنے فکری اختلافات کے باوجودایک ہی حقیقت کے متلاشی ہیں۔اسی نقطۂ نظر سے فارابی نے یونانی فلسفے سے رجوع کیااوربالآخراس نتیجے پرپہنچاکہ یونانی حکماء بالخصوص افلاطون اور ارسطو میںصرف انداز ِبیاںکااورعملی طرز ِزندگی کا فرق ہے۔ ان کی حکمت ایک ہی ہے جوقرآنی تعلیمات سے قریب ہے۔اس ضمن میںایک بات قابل توجہ ہے۔ فارابی کامختلف مکاتبِ فکر کو ایک ہی فلسفۂ حقیقت میںسمونے کاخیال کوئی نئی بات نہ تھی۔کیونکہ مابعد یونانی مکاتب کے حکماء خصوصاًاسکندریہ کے صاحبِ فکروکمال،اسی سوچ کے مالک تھے۔مثال کے طورپرپور فیر ی (Porphyry)اپنے پیرومرشد کے بارے میںبتاتاہے کہ فلا طینوس کی تصانیف میں مشائین اور رواقیوںکے خیالات آپس میں گندھے ہیں۔خودپورفیری نے اپنی تحریروں میں کئی دفعہ افلاطون اورارسطوکے فلسفوںکوملانے کی کوشش کی اوراس کے بعدتوحکماء کی ایک کثیر تعداداسی کے نقشِ قد م پرچلتی ہوئی ملتی ہے۔لیکن ان میںسے کسی نے بھی تمام یونانی حکماء کو کسی ایک مکتبِ فکر میںمجتمع کرنے کی کبھی کوشش نہ کی۔یہ ان کی ایسی فروگذاشت تھی جسے فارابی نے اپنی تحریروں میں بڑی کثر ت کے ساتھ با رہا دہرایا۔اس کااصل مقصدظاہری اختلافات کے باوجود مذہبی اور فلسفیانہ صداقتوں میں چھپی ہو ئی معروضی عینیت کوڈھونڈناتھا۔گویامذہب اور فلسفہ، دونوںکوایک ہی صدا قت کا دعویدار ٹھہرانا تھا۔اپنے اس خیال کی بنیاد پر اس نے فلسفے کی ایک نئی عمارت تعمیر کرنا چاہی۔ اس مقصدکے لیے اس نے یونانی نظر یا ت سے اتنا ہی استفا دہ کیا جتنی اُن میںگنجائش موجود تھی کہ وہ اسلامی تعلیمات کاساتھ دے سکیں۔مثلاًاس نے وجود ِباری تعالیٰ کے ثبوت کے ضمن میںارسطوکی کونیاتی دلیلوں کومؤثر پایا۔لہٰذااُس نے انہیں نہ صرف اپنایا بلکہ ان میںایک تیسری دلیل کابھی اضافہ کیا۔ اس کی پیش کردہ دلیلیںاجمالاًحسب ِذیل ہیں: .1کائنات میں ہر شے متحرک ہے۔ہر متحرک کے لیے کسی محرک کا ہونا ضروری ہے۔ اگر محرک خودبھی متحرک ہوتواس کے لیے بھی کسی محرک کاہونالازمی ہے۔ظاہرہے کہ ایساسلسلہ لامتناہی نہیںہوسکتا۔کسی ایسے محرک کا وجود ناگزیرہے جو خود متحرک نہ ہو۔ایساغیرمتحرک محرک خدا ہے۔ .2ہرمعلول کی علّت ہوتی ہے اورہر علّت کسی اور علّت کامعلول ہوتی ہے۔اس طرح کا ئنا ت میںعلل و معلولات کاایک تسلسل موجودہے جوکہیں نہ کہیں ضرور رکنا چاہئیے۔ لہٰذاایسی علّت العلل ناگزیرہے جومزیدکسی اور علّت کامعلول نہ ہواورایسی علّت العلل خدا ہے۔ .3کائنات ممکن الوجود ہے، کیونکہ اسے فناحاصل ہے اوراپنے وجودکے لیے کسی ایسے وجود کی محتاج ہے جو خود کسی کامحتاج نہ ہو،الٹاسب اس کے محتاج ہوں۔ایساوجود،واجب الوجود ہونا چاہئیے جو اس حدتک لابدی ہوکہ اس کی غیر موجودگی کاتصور بھی محال ہو۔ایسا واجب الوجود خدا ہے۔ اسی طرح فارابی نے کائنات کے بارے میںمروجہ اسلامی نظریۂ تخلیق پرفلاطینوس کے نظریۂ صدورکو فوقیت دی ۔نظریۂ تخلیق کے مطابق کائنات حادث ہے جوبحکم الٰہی عدم سے وجودمیںآئی ہے،جبکہ نظریۂ صدورکے مطابق، کائنات قدیم ہے جوحقیقتِ مطلقہ کی روح کل سے اسی طرح مترشح ہوتی ہے جیسے سورج سے شعاعیں نکلتی ہیں۔ فارابی کاایقان تھاکہ عمل صدورمیںایک سے صرف ایک کاظہورہوتاہے جس کے تحت سلسلہ یوںبنتاہے کہ خداکی خودآگہی سے عقلِ اوّل،عقلِ اوّل کی خدا شناسی سے عقلِ دوم اور خودشناسی سے فلکِ اوّل اوراس کی روح کاظہور ہوا۔ بعینہٖ عقلِ دوم تاعقلِ دہم کی خداشناسی اورخودشناسی کی بدولت عقول اورافلاک وارواح کی مسلسل زنجیر بنتی ہے جو بالآخر عقلِ دہم سے ارواح انسانی اور عناصراربعہ معرضِ وجودمیںآنے تک محیط ہے۔اس کاخیال تھاکہ خداکی روح خالص ترین صورت ہے اوراس سے نکلی ہوئی روح جتنی دور ہوتی ہے، اتنی ہی اس سے بیگانہ ہوتی جاتی ہے۔ اس نوعیت کے یونانی نظریات سے استفادہ کرنے کے سلسلے میںفارابی کندی سے یقینادوہاتھ آگے ہے کیونکہ کندی کے برعکس، اس کاخیال تھاکہ اگرکبھی وحی عقل سے متصادم معلوم ہوتوحتمی ترجیح عقل کو دینی چاہئے بشرطیکہ عقل وحی سے مطابقت کا سفرجاری رکھے۔مزے کی بات یہ ہے کہ یونا نی استدلال میںرغبت رکھنے کے باوجود وہ اس کے سحر میںگرفتار نہیںہوتا وہ ایسا صاحب ِحکمت دکھائی دیتاہے جوبزبان ،ٹ۔ج۔دوبوئر،’’طلبِ حق پرہرصورت میںزوردیتاہے خواہ اس میں انسان کوارسطوکی مخالفت ہی کیوںنہ کرنا پڑے۔‘‘۳۶اس کی تائید پروفیسر میاںمحمد شریف کے ان الفاظ سے ہوجاتی ہے۔’’الفارابی ہی نے سب سے پہلے ارسطوکے اس نظریے کی مخالفت کی تھی کہ جسم فی نفسہٖ اصل حرکت کاحامل ہے ۔ الفارابی کے اس انداز ِفکرنے اسے جدید سائنس کے نقطۂ نظر سے بہت قریب کردیا۔اگر اس باب میںتحقیق جاری رکھی جاتی تووہ بڑی ثمرآور ثابت ہوتی‘ ‘ ۔۳۷ مزیدبرآں،اس کے استدلال میں سائنسی نوعیت کے تجربات کی وکالت ،علم الغیب اورعلم النجوم کی مخالفت ملتی ہے جس کی بنیادپریہ اندازہ کرنا مشکل نہیں رہتاکہ اس نے کہاںتک یونانیوں کا اثر قبول کیااورکہاںتک ان سے متاثر نہ ہوا۔ فارابی کے فکری خطوط کااتباع کرتے ہوئے ابن ِسینا۳۸نے بھی اپنافکری خاکہ تیارکیا۔اس نے بھی ارسطوئی اورنوافلاطونی اسالیب ِفکرکواپنے نظام میںسمویا،لیکن اس کاکمال یہ ہے کہ اس نے یونانی افکارکے اعادے سے ممکنہ حدتک پہلوتہی کی اوراپنے انفرادی خیالات کو ان میں زیادہ جگہ دی۔مثال کے طور پر ابنِ سینا نے فارابی کی مانند ارسطو کی کونیاتی دلیل اورفلاطینوس کے نظریۂ صدورکوقبول کیالیکن فارابی کے برخلاف اس میںاپنی دانست کے مطابق تحریف وتردید کی اور اسے اپنے حساب سے اسلامی سانچے میںڈھالنے کی سعی کی۔ابنِ سینا کے استدلال کامرکزی خیال یہ تھا کہ ارسطو کی کونیاتی دلیل کو جیسے کہ فارابی نے پیش کیاہے، ہوبہوتسلیم کرلیاجائے تووہ ہستی باری تعالیٰ کو ثابت کرنے کے لیے ناکافی ہے کیونکہ اس میںمنطقی طورپریہ دعوی کیاگیاہے کہ کائنات کا وجود خدا کے وجودکی دلالت کرتا ہے۔ گویا کائنات خداسے ایک منطقی لزوم کے ساتھ مترشح ہے۔ حالانکہ منطقی قیاس کے قواعد کے مطابق تسلیم شدہ امرہے کہ اگرکسی دلیل میںبہ اعتبار نوعیت مقدمات اپنے نتیجے سے یکسر مختلف ہوں تو ایسا قیاس جائزقرار نہیں دیا جاسکتا۔اب چونکہ وجودِ کائنات کی نوعیت بحیثیت مقدمات ممکن الوجود ہے، جب کہ وجود ِخدا کی نوعیت بحیثیت نتیجہ واجب الوجودہے، لہٰذا ارسطو کی کونیاتی دلیل کیونکرجائزقرارپاسکتی ہے۔ابن سیناکے نزدیک اس سقم کو دور کرنے کا واحد حل یہ ہے کہ مان لیاجائے کہ کائنات خداسے ایک تیسرے عنصرکی وجہ سے صادر ہوئی ہے جسے’’ عرض ‘‘کہاجاسکتاہے کیونکہ بحوالہ ارسطو،وجود ِکائنات کی ترکیب صورت اور مادے سے ہوئی ہے جب کہ خالص صورت اورخالص مادہ،دونوںدجود سے عاری ہیں،محض تجریدات و کلیات ہیں اور زمان ومکان سے آزاد ہیں۔اس کے برعکس،کائنات کی ترکیب و تجسیم واقعی ہے، وجود رکھتی ہے اورزمان ومکاںمیںمحیط ہے، لہٰذاخالص صورت اورخالص مادے کا ملاپ، خود سے نہیں ہو سکتا۔ ان کی تجسیم کے لیے ضروری ہے کہ دونوںمیںباہمی رشتہ قائم ہو۔ ایسارشتہ عرض ہے جو خدا کی ذات پرمنحصر ہے اورکائنات کے مشتملات سے ممیزہے ۔سادہ لفظوں میں عرض کی حیثیت کو یوں بیان کیا جاسکتاہے۔ بالفر ض کسی شے کو بحوالہ خدا مدنظررکھاجائے تو یقینا وہ موجودہے اوراس کاوجود مفہوم رکھتاہے لیکن اگر اسی شے کو بحوالہ خدا ملحوظ ِخاطرنہ رکھاجائے تو اس کا وجود اپنامفہوم کھوبیٹھتاہے۔ایسا نسبتی پہلو،ابنِ سیناکی اصطلاح میں عرض ہے جو کسی وجود سے منسوب ہے۔ لیکن جہاںتک نظریۂ صدورکاتعلق ہے اس معاملے میںابن سینا کا فارابی سے مکمل اتفاق تھا کہ کائنات خدا سے ایک لزوم کے ساتھ صادرہوئی اورصدورکاعمل کئی واسطوںسے گزرکراس کائنا تِ رنگ وبوپرمنتج ہوا۔اس لیے ایک سے ایک کے ظہورہونے کانوافلاطونی اصول درست ہے ۔لیکن اس کے ساتھ ہی ساتھ ابن ِسینانے یونان کی ہیلانیاتی روایت سے یہ خیال بھی مستعار لیا کہ خداصرف کلیات کوجان سکتاہے،جزئیات کونہیںکیونکہ جزئیات کی تفہیم حسی ادراکات سے مشروط ہے اور زمان و مکاں کی متقاضی ہے۔ اس کے برعکس،خداکی ذات زمان ومکاںسے ورا الوراء ہے، تغیرات سے پاک ہے،اس لیے وہ حسّی ادراکات کا علم رکھتا ہو،یہ نہیںہو سکتا۔ یونانیوں کے اس خیال کواسلامی نقطۂ نگاہ سے قابلِ نفرین سمجھاجاتا تھاکیونکہ ایسے خیال سے خدائی علم کی شانِ اکملیت پرضرب لگتی ہے اور جن مخلوقات کاوہ ربّ ہے،ان کے لیے وہ بے سودہوکررہ جاتاہے۔ابنِ سینا نے یونانیوںکے اس خیال کواسلامی نقطۂ نظر سے ہم آہنگ کرنے کی ایک تدبیرکی۔اس نے یہ مؤقف اختیارکیاکہ اگرچہ خدا جزئیات کو نہیںجانتا کیونکہ وہ حسی ادراکات کاعلم نہیںرکھ سکتا۔ لیکن وہ کلیات کے توسط سے جزئیات کوجانتاہے۔ اسے اس تمثیل پرسمجھاجاسکتاہے۔سورج گرہن کاواقعہ کن مخصوص مقدم اورمؤخرعوامل کے سلسلہ پر محیط ہے،خدااس سے بخوبی آگاہ ہے۔گویاوہ گرہن لگنے کی خصوصیات اورکیفیات کو ایک معین اندازمیںجانتاہے اوراسے اسی قبیل کے دیگر واقعات و عوامل سے ممیز کر سکتا ہے۔ اگرچہ وہ زمان ومکان سے وراالوراء ہونے کے باعث،وقت کے اس مخصوص لمحے میں سورج کوگرہن لگنے کے عمل سے آگاہ نہیں ہوسکتا۔ خدا کولمحاتِ کائنات میںاسے جاننے کی ضرورت بھی نہیںکیونکہ وہ پہلے ہی سے اس عمل سے نا واقف نہیں ہوتا۔ ابنِ سینانے اپنی کونیات میںعمل ارتقاء کی تشریح بھی پیش کرنے کی کوشش کی جس کا حاصل ماحصل یہ ہے کہ کائنات کی ہرشے نامکمل ہے۔ اس وجہ سے ہر شے اپنی تکمیل ذات کے لیے کوشاں ہے۔ایسی کاوش کادوسرانام عشق ہے جوارتقاء کااصل راز ہے۔عشق کانصب العین حسن اعلیٰ ہے جو کامل ترین ذات ہے جس کی طرف ہرشے حرکت کر رہی ہے۔بزورِ عشق مادہ بتدریج جمادی، نباتی، حیوانی اور انسانی صورتیں اختیار کرتاجاتاہے اگرچہ صورت ِانسان کرۂ ارض پرارتقاء کی آخری کڑی معلوم ہوتی ہے لیکن ایسانہیں ہے ،یہ سلسلہ یہیں نہیںرک سکتا۔جوشِ عشق کے ایما پر مادہ اس سے بھی بالاترمراحل میںاوربھی کامل صورتیں اختیارکرناچاہے گاجن کاابھی حضرت ِانساں کوعلم نہیں۔ دیکھا جائے توابنِ سینا کے نظریۂ ارتقاء کے پس پردہ ارسطوکے نظریۂ ارتقاء کی تبدیل شدہ صدائے بازگشت سنائی دیتی ہے کیونکہ ارسطوکا مؤقف اجمالاًیہ تھا کہ کائنات خالص صورت اور خالص مادے کی جن دو ا نتہاؤںکے درمیان پھیلی ہے، وہ دونوں حرکت سے عاری ہیں لیکن خالص صورت مادے کے لیے نصب العین ہے۔صورت کی کشش مادے کو متحرک رکھتی ہے۔مادہ جب کسی صورت کو اختیار کر لیتا ہے توپھراپنے سے بلندترصورت کے لیے مادہ کی حیثیت اختیار کر لیتا ہے۔اس طرح ارتقاء کا سفر جاری رہتاہے جو کرۂ ارض پر جمادی، نباتی، حیوانی اورانسانی مراحل میںظاہر ہواہے لیکن کائنات کے وسیع و عریض تناظر میں ارتقاء کا سفر وجودِ ارضی سے وجودِ سماوی کی طرف مڑ جاتا ہے ۔جہاں ستارے ،سیارے وغیرہ ہویدا ہوتے ہیں۔مجموعی طورپرارتقاء کا سلسلہ عقلِ کل کی جلوہ نمائی کاسلسلہ ہے جومنطقی طورپرکائنات کے ہروجودسے بتدریج نمایاںہورہا ہے۔ لیکن ابنِ مسکویہ۳۹نے اسی نظریۂ ارتقاء کوایک دوسرے اندازسے لیا۔اس نے یہ اجاگر کیا کہ ارتقاء نباتی سے انسانی مرحلے تک خداکی طرف پلٹنے کے روحانی میلان کاسبب ہے۔اس کا خیال تھا کہ ارتقاء کومتحرک کرنے والا عنصر ارتقاء پذیر شے کے اندر موجودہوناچاہئیے۔ارسطوکی غایت کی طرح اس سے ماوراء نہیں۔انسان جوارتقائی عمل میں سب سے زیادہ ترقی یافتہ مرحلے کا نمائندہ ہے، روحانی طورپرترقی پذیر ہے اوراس بات کاثبوت ہے کہ روحانی میلان ہی وہ عنصرہے جوارتقاء کامحرک ہے۔ مولاناشبلی نعمانی نے اپنی تصنیف علم الکلام میںابنِ مسکویہ کے نظریۂ ارتقاء کا خلاصہ اِن الفاظ میں بیان کیاہے۔’’ابتدائی جواہرکے اتحادسے فلزاتی اقلیم وجودمیںآئی جو حیات کی ادنیٰ ترین صورت ہے۔اقلیم نباتی ارتقا کا اعلیٰ زینہ ہے۔پہلا ظہور خودروگھاس کاہے، پھرپودے اورمختلف قسم کے درخت وجودمیںآتے ہیں۔ان میںسے بعض کے ڈانڈے اقلیم حیوانی سے مل جاتے ہیںکیوں کہ ان میں بعض کے اندرحیوانی خصوصیات ظہورپذیرہوتی ہیں۔ نباتی اور حیوانی اقالیم کے درمیان حیات کی ایک اورصورت پائی جاتی ہے جو نہ حیوانی ہے نہ نباتی بلکہ دونوں خصوصیات اس میں مشترک ہیں، مثلاً مرجان۔حیات کی اس درمیانی منزل کے بعد قوت حرکت اورزمین پر رینگنے والے کیڑوں کے حاسۂ لمس کے نشو ونماکادرجہ ہے۔عملِ تفریق کے ذریعے سے حاسۂ لمس سے حواس کی دوسری صورتیں نمو پاتی ہیں یہاں تک کہ ہم اعلیٰ درجے کے حیوانات کے طبقے تک پہنچ جاتے ہیں جہاں عقل ایک ارتقائی حا لت میںظہورپذیرہونے لگتی ہے۔ بندر میں انسانیت کی کچھ جھلک سی آجاتی ہے جومزیدنشو ونماکے بعدبتدریج راست قا مت ہو جاتاہے اورانسان کی طرح اس میں بھی قوت فہم پیداہوجاتی ہے۔ یہاںحیوانیت کااختتام اور انسانیت کا آغاز ہوتا ہے ۔‘‘۴۰ لیکن جب ابنِ مسکویہ اپنامابعد الطبیعی استدلال پیش کرتا ہے توفارابی اورابنِ سینا کی طرح ارسطو اور فلاطینو س سے اتفاق رکھتاہے۔وہ ارسطو کی کونیاتی دلیل کے سہارے خداکو غیرمتحرک محرک تسلیم کرتاہے اورنوافلاطونی روایت کے مطابق بالواسطہ صدور کے ایک طویل سلسلہ کو بیان کرتاہے جوزیادہ سے زیادہ حیرت انگیز ہوتاچلاجاتاہے حتی کہ وہ مادے کے مختلف عناصر تک پہنچتا ہے جن کی ترکیب سے زندگی کی اعلیٰ شکلیں ظاہرہوتی ہیں۔ .2کندی نے یونانی فلسفے کی ہیلانیاتی وراثت کواسلامی تعلیمات کے ساتھ یکجا کرنے کی جو نئی روایت ڈالی تھی،بعد میں آنے والے مسلم حکماء کی منطقی موشگافیوںکے باعث اس مقام تک جا پہنچی جس کے بارے میں عموماً کہا جاتاہے’’ہرکمالے رازوالے‘‘۔دیکھاجائے تو یونانی فلسفے کے زیرِ اثرمسلم حکمت وفلسفہ،پنپنے کی روایت حسب ِذیل وجوہات کی بناء پرتعطل کاشکارہوئی: .1مسلم حکماء کے فلسفیانہ خیالات اس قدرگمبھیراورگنجلک ہو گئے تھے کہ قدامت پسند فقہا اور متکلمین نے انہیں مذہبی تعلیمات کے لیے خطرہ خیال کیا، نتیجتاً انہوں نے ان پرکفروبدعت کے فتوے صادر کئے جوبالآخرمسلم حکمت وفلسفے کے لیے زہر قاتل ثابت ہوئے۔ .2مسلم حکماء کے فلسفیانہ استدلال کی منطقی باریکیوںکی بہ نسبت مسلم صوفیاکے طرزاستدلال میںسادگی اور اثر پذیری کو ضعیف الاعتقاد عوام نے کہیں زیادہ بہتر محسوس کیا۔اس طرح مسلم تصوف کی ترویج وتشہیر مسلم حکمت و فلسفہ کولے بیٹھی۔ .3مسلم حکمائ، جیسے فارابی،ابنِ سینا،وغیرہ جس نہج کی تخلیقی فکرکے مالک تھے،وہ بعدازاں مفکرین کے ہاں مفقودتھی جس کی وجہ سے قاموسوں، حاشیوں اور حاشیوںپرحاشیے لکھنے کاچلن عام ہواجس نے مسلم حکمت وفلسفہ کی شہرت کوضعف پہنچایا۔ .4مسلم حکماء کے استدلال کوان حاکمین وقت نے اپنے حق میںمہلک اورخطرناک محسوس کیا جو جمہورکی آزادی ٔفکرکواپنی حاکمیت کے لیے خطرہ متصورکرتے تھے۔اس لیے انہوںنے مسلم حکمت و دانش کے گنجینہ تک کو نذرِآتش کروانے میںکوئی کسرنہ چھوڑی۔اس وجہ سے مسلم حکمت و فلسفہ کونقصان پہنچناایک فطری امرتھا۔ .5مسلم حکماء کے فلسفیانہ فکرواستدلال پرپہلی اورکاری ضرب امام غزالی کی طرف سے لگی جنہوںنے اپنے متشککانہ مزاج کے باعث مسلم حکمت وفلسفہ کواسی کے منطقی اسلوب سے ڈھیر کر ڈالا۔ آخر،حجتہ الاسلام،ابوحامد،الغزالی کومسلم حکمت وفلسفہ سے کیاپرخاش تھی؟اس کاجواب انہی کی تحریروں سے مل جاتاہے۔ان کااعتراف ہے کہ وہ تشکیک سے تیقن کی طرف سرگرداں رہے۔انہوںنے اپنی شہرۂ آفاق تصنیف ا لمنقد من الضلالمیںلکھاہے ۔’’میںاپنے بچپن ہی سے اشیاء پربطورخودغوروفکرکرنے کی طرف مائل تھا۔اس میلان کانتیجہ یہ نکلاکہ میں نے سند کے خلاف بغاوت کی اوران تمام عقائدکی ابتدائی اہمیت زائل ہوگئی جو بچپن ہی سے میرے ذہن میں راسخ ہو گئے تھے۔میںنے خیال کیاکہ ایسے عقائدجومخفی سندپرمبنی ہوں۔یہودیوں، عیسائیوں اور دیگرمذاہب کے پیروؤںمیںبھی پائے جاتے ہیں۔حقیقی علم کافرض ہے کہ تمام شکوک کی بیخ کنی کردے مثلاًیہ بالکل بد یہی ہے کہ دس تین سے بڑاعدد ہے۔اگرکوئی شخص اس کے خلاف ثابت کرناچاہے،اور اس کی تائید میں عصا کو سانپ بنا دے تویہ فعل محیرالعقول ضرور ہوگا لیکن اس سے زیربحث قضیہ کے متعلق ذرہ بھر بھی تیقن پید انہ ہوگا۔‘‘۴۱ابتداً ان کامقصود نہ تو آفرینش کائنات کی کھوج لگاناتھا اورنہ ہی اپنی قوتِ خیال کی ماہیت کو معلوم کرناتھا ۔ ان کا ملجا و ماوا اطمینانِ قلب اور معرفتِ الٰہی کاایساحصول تھاجوشک وشبہ سے بالاہو۔مدرسۂ نظامیہ، بغداد میں الٰہیات و فلسفہ کی درس وتدریس کے دوران وہ ان کی باریکیوںاورموشگافیوںمیںغوروخوض کرتے ہوئے اتنی دور تک اُتر گئے کہ تذبذب اورتشکیک کاشکارہوگئے۔اس کیفیت سے چھٹکار ا پانے کی خاطرہرمکتب ِفکرکے مبصر سے ہمکلام ہوئے ۔ متکلم،ملا،زاہد،عالم،صوفی،تارک الدنیا، فلسفی، کافر، زندیق، ملحد غرضیکہ ایساکوئی صاحبِ فکرنہ چھوڑا جس سے دوبدو استدلال نہ کیا۔ نتیجتاً انہوںنے تصوف میں اطمینانِ قلب اورایقانِ علم کی گنجائش محسوس کی۔دورانِ ارتیابیت، انہیں اندازہ ہواکہ ایسامسلم حکمت وفلسفہ مذہبی تعلیمات کے لیے انتہائی مضرت رساںہے جس کا خمیر یونانی فکر و استدلال سے اٹھایا گیاہے کیونکہ یہی سب سے زیادہ فکری الجھنوں اورمنطقی مغالطوں سے پُرہے، اس لیے اس کا ناقدانہ تجزیہ کرنا ضروری ہے تاکہ مذہب کو اس کے سلبی اورمتعدی اثرات سے محفوظ رکھا جاسکے۔ اس مقصد کے تحت، غزالی نے مقاصدالفلاسفہ لکھی جس میں قریباًسبھی حکماء کے پیچیدہ اوردقیق فلسفیانہ خیالات کو سلاست اورفصاحت سے اجاگرکیااوراس میںاپنی ذاتی رائے سے اجتناب کیا تاکہ حکماء کی خامیوںکومنصہ شہودپرلایا جاسکے۔ کچھ ہی عرصے کے بعدانہوںنے اپنی تصنیف تہافتہ الفلاسفہ تحریرکی جس میںمتفرق مسائل کے بارے میںمسلم حکماء کے فلسفیانہ نظریات کا خود انہی کے منطقی اسلوب کے ساتھ بطلان کیا۔ پس،ایسا نہیں ہے کہ غزالی کو فلسفے سے کوئی کدتھی یا وہ فلسفے کے بطورعلم مخالف تھے۔انہوںنے تو خوداپنے افکار کو بیان کرنے کے لیے فلسفیانہ اسلوب اور منطقیانہ استدلال اپنایا تھا۔یہ بھی ہے کہ کسی متکلم کی مانند، انہوںنے فلسفہ پرعبور اس لیے حاصل نہیںکیاتھاکہ فلسفہ کو سرے سے رد کرناہے یا اس کے مطا لعے کوخطرہ عظیم قراردیناہے یاپھر اسے مناظروںاورمجادلوں کے لیے استعمال کرناہے۔ ان کا ہدف صرف اور صرف مذہب کے بنیادی مسائل کے حل ڈھونڈنے کے لیے اسے فلسفے کی مغالطہ آمیز توجیہات سے محفوظ رکھنا تھا ۔ یہی وجہ تھی کہ غزالی نے محسوس کیاکہ فارابی، ابن سینا اور ان کے حواری اسلامی تعلیمات کوارسطوئی اور نوافلاطونی سانچے میں ڈھالنے کے عمل میں،اس کی روح کو ضرر پہنچارہے ہیں۔غزالی نے پہلے یونانیوں کی کونیات کے مبادی نظریۂ تعلیل کوسب سے زیادہ ہدفِ تنقید بنایا اوریہ نتیجہ اخذکیاکہ علّت اور معلول میںکوئی منطقی لزوم ہو،یہ ضروری نہیں ۔گویا علّت کی کارفرمائی سے معلول ضرور وقوع پذیرہویا علّت کی غیرموجودگی سے معلول رونمانہ ہو،یہ ماننا ضروری نہیںکیونکہ عین ممکن ہے کہ آگ لگی ہواورکچھ نہ جلائے یاکچھ جلے مگرآگ نہ لگی ہو۔ واقعات کے مابین اگر کوئی رشتہ سوچا جا سکتا ہے توصرف تقدم اورتاخرکاممکن ہے کیونکہ کچھ واقعات پہلے توکچھ بعد میںوقوع پذیرہوتے رہتے ہیںاوران کے مشا ہدے سے یہ گمان ہونے لگتاہے کہ ان کے مابین کوئی لابدی رشتہ ہے حالانکہ ایسانہیں ہے۔ثانیاًغزالی نے فلا طینو س کے نظریۂ صدو ر کوخداکی وحدت اورخلاقی کے سراسرمنافی قراردیاکیونکہ اس سے عالمگیر جبریت کاتصورلازم ٹھہرتاہے جو خداکے تصوراحکم الحاکمین کے برعکس ہے۔غزالی کے حساب سے،یونانی حکماء کی مشکل یہ ہے کہ انہوںنے خداکی ماہیت کوفکرکے عمل تجریدکے تحت سمجھناچاہاہے جوکہ درست نہیں کیونکہ خداکی ماہیت فکرنہیں ارادہ ہے۔جو منطقی استدلال سے نہیںبلکہ صوفیانہ استدلال سے جانا جا سکتا ہے کیونکہ ان دونوں طرز استدلال میںدرجے کاہی نہیں،نوع کابھی فرق ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ منطقی استدلال پرصوفیانہ استدلال کوترجیح دینے کی جوروش غزالی نے اختیارکی ۔قریباً ایک صدی بعدکم وبیش اسی کااتباع فخرالدین رازی۴۲کے ہاںملتاہے۔اسے دوسرا غزالی کہا جاسکتاہے کیونکہ غزالی کی طرح وہ بھی یونانی استدلال کے کئی پہلوؤں سے بے زار تھا ۔ مسلم حکماء کاناقد اورتصوف کاشیدائی تھا۔ اپنی تصنیف مباحث المشرقین میںاس نے یہ خیال پیش کیاہے کہ مسلم حکماء کے گروہ، دوہیں۔ ایک وہ جویونانی حکمت کے نقال ہیں اور دوسر ے وہ جو اس کے منکرہیں،حقیقتاً،دونوںغلطی پرہیں۔کرنے کاکام یہ ہے کہ قدیم یونانی حکما کے سلبی اور تخریبی طرزکے نظریات کوردکیاجائے اوران کے ایجابی اورتعمیری طرزکے نظریات کو سراہاجائے اور اس طرح ان میںتازہ اورنو بنوخیالات کی جگہ بنائی جائے۔لیکن اس معاملے میںانہوں نے اس قدرغلوسے کام لیا کہ فلسفے کے جو مسائل مذہب کے خلاف نہ تھے،ان کوبھی ہدف ِتنقید بنایا اور یہاں تک کہ جن مسائل پراعتراض کی گنجائش نہیںتھی،ان کے بارے میںبھی یوںمعترض ہوئے کہ اگرچہ مسائل فی نفسہٖ صحیح ہیںلیکن ان فلاسفہ کااستدلال صحیح نہیں ۔ سیدحسین نصر نے امام رازی کے زوراستدلال کے بارے میںخوب کہاہے کہ وہ ایسے شخص کی مانندہے جو مسائل کھڑا کرنے میں تو بڑا مشاق ہے مگران کے حل میںنہیں،بحث وتمحیص میںتوکودپڑتاہے مگرکسی فیصلہ کن نتیجہ پرنہیںپہنچ پاتا۔۴۳ امام رازی کے ہم وطن وہم عصرشیخ شہاب الدین سہروردی مقتول۴۴نے بھی یونانی حکماء کے حکمت وفلسفہ پر نکتہ چینی کی۔ان کاخیال تھاکہ افلاطون اورارسطوکے افکارپرفلسفہ کا آغاز نہیں، انجام ہواہے۔کیونکہ انہوںنے فلسفہ کومحض خردافروزی کا لبادہ اڑھا رکھاہے حالانکہ فلسفے کی کیمسٹری روحانیت ہے۔جہاںحکمت میںباطنیت کا عنصر عقلیت سے خارج نہیں۔یونانی علم و تہذیب کے ادوارمیںایساہواکہ عقلیت کو باطنیت سے متمائزکردیا گیااور فلسفے کو صوری اورتجریدی استدلال تک محدود کر لیا گیا۔ اس کی انتہائی پختہ شکل ارسطوکے افکارمیںنمودارہوئی جس نے فلسفے کو فکرِ محض میں ڈھال کراسے قدیم گیانیوںکی روحانی حکمت سے بہت دورکردیا۔حالانکہ فلسفے کا باوا آدم، حضرت ادریس علیہ السلام تھے جن پرآسمانوںسے بصورت وحی،اس کانزول ہوا۔اس لیے فلسفے کاتعلق فکری اورمنطقی طرفہ طرازیوں سے نہیں،روحانی اورباطنی کار پردازیوںسے ہے۔ اپنے ایک خواب کاتذکرہ کرتے ہوئے انہوںنے لکھاہے کہ میریملاقات ارسطو سے ہوئی میں نے پوچھا کیا مسلم مشائین کو فلسفی قرار دیا جاسکتا ہے؟ارسطوکاجواب تھا۔نہیں،ہزار میں سے ایک ڈگری بھی نہیں۔ان سے بہتر تو بسطامی اورتثتری جیسے صوفی،فلسفی کہلانے کے حقدار ہیں۔ ارسطو نے سہروردی سے کہا کہ من کی آنکھ کھولواورعلم صوری سے نکل کرعلم حضوری یاشہودی کے دائرے میں قدم رکھو۔اپنی فکرکی ایسی تاثیرکے باعث بالآخرانہوںنے اپنافلسفۂ اشراق مرتب کیاجس کا مرکزی خیال ہی یہ تھاکہ حصول علم کا بہترین وسیلہ ذوق ہے جوقیاسی وطولانی نہیں، وجدانی وباطنی نوعیت کاحامل ہے،جسے باطنی ادراک کے نام سے پکارا جاسکتا ہے۔ یہی بیک وقت فکری علم اور قلبی اطمینان کاباعث بنتاہے اوراسی کی بدولت معلوم ہوتا ہے کہ خداکوئی تفکرِفکر نہیںبلکہ مطلق نور ہے۔ یونان کے منطقی استدلال سے اختلاف رکھنے والوںمیںایک اور قدآورنام امام ابنِ تیمیہ۴۵ کاہے جن کا ایقان تھاکہ یونانیوںکی خودساختہ اوربے جان اصطلاحوںکواستعمال کئے بغیربھی صداقت کی منزلوں تک رسائی ممکن ہے۔ انہوںنے یونان کے منطقی طرز ِاسلوب کو بالخصوص تنقید کا نشانہ بنایا۔اپنی تصنیف الردّعلی المنطقین میںارسطو کی منطق کی طرفہ طراز یوںکاپول کھول ڈالا اور ٹھوس دلائل دے کرثابت کردکھایاکہ منطقی استدلال کس قدربے کیف اوربے مصرف ہے ۔ اس کا اظہار ان کے اس حکیمانہ قول میںبھی مستورہے۔’’ذہین آدمی کواس کی ضرورت نہیںاورغبی اس سے استفادہ نہیںکرپاتا۔‘‘۴۶ ابنِ تیمیہ کے نزدیک منطقی استدلال کی اصل خرابی یہ ہے کہ وہ اپنے مقدمات کی ترتیب اور ساخت سے آ گے نہیںبڑھ پاتی اوراس سے مطلق بحث نہیںکرتی کہ وہ مقدمات جن حقائق پر مشتمل ہیں،خودان کی حکیمانہ قدروقیمت کیاہے۔اس لیے،ایسے منطقی استدلال کومحض ایک ایسا فکری مشغلہ قراردیاجاسکتاہے جس کاحقیقت خارجیہ سے کوئی واسطہ نہ ہو۔ایسااستدلال یقینا استخراجی ہے جوعلم وآگہی کے لیے کارآمدنہیں۔ضرورت اس امرکی ہے کہ نظری قیاس کادامن چھوڑ دیاجائے اورحقیقی اورتجربی احوال کی طرف ملتفت ہواجائے تاکہ کارآمدعلم کاحصول ممکن ہو باالفاظ دیگر، ابنِ تیمیہ نے یہ باورکرایاکہ حصول علم کے لیے استخراجی نہیں،استقرائی استدلال کی ضرورت ہے۔ان کا خیال تھاکہ اجتہادکے لیے استقراء کی ضرورت دوچند ہے کیونکہ جہاںقرآن وسنن اور دیگراسنادی ذرائع سے کوئی مذہبی مسئلہ حل ہوتا ہوانظرنہ آئے وہاںتحقیقی اورتنقیدی نوعیت کی استقرائی چھان پھٹک کے بعدہی کوئی ذاتی رائے قائم کی جاسکتی ہے۔ .3کندی نے جس نئی روایت کی طرح ڈالی تھی،اس کی نئے ولولے اورتازگی کے ساتھ پذیرائی اُندلس کے مسلم حکماء نے کی،مگرکیوں؟یہ سوال فوری طورپرذہن میںاٹھتاہے۔جب امام غزالی نے بڑی وضاحت کے ساتھ مسلم حکمت وفلسفہ میںیونانی افکارکی آمیزش سے پیداشدہ خرابیوںاورنقائص کوبے نقاب کرڈالاتھااوررہی سہی کسران کے پیشروحکماء نے پوری کر دی تھی تو پھر اُندلس کے مسلم حکماء نے کندی کی روایت کوازسرنوکیوںچھیڑا۔تاریخ کے اوراق پلٹنے سے اس کا جو اب مل جاتاہے۔کندی کی روایت کی حمایت اورپھرمخالفت ان خطِوںمیںہوئی جوعالمِ اسلام کے مشرقی خطے جیسے عرب،عجم،عراق،شام اورمصروغیرہ ہیں۔اس کے برعکس،اُندلس کا علا قہ شمالی افریقہ میںواقع ہے جو عالم ِسلام کامغربی حصہ ہے اورجس زمانے سے مسلمانوںنے اسے فتح کر رکھا تھا،اس وقت سے اس کی مجموعی صورتِ حال یوںبن چکی تھی کہ مسلمان فرقہ بندیوںسے ابھی آشنا نہیںہوئے تھے۔صرف فقہ مالکی کا مسلک رائج تھا۔معتزلہ کاعلم الکلام تک موجودنہ تھا جو عقائدمیںخلل ڈالتا۔انہیںفکرکی آزادخیالی اورتصوف کی بلندپروازی کابھی شعورنہ تھا۔ لیکن جب ۱۰۱۳ء میںاندلس کاشہرقرطبہ بربریوں کے ہاتھوںتاراج ہواتووہاںطوائف الملوکی کادور دورہ ہوا۔یہی وہ زمانہ تھاجب مشرقی خطوںسے طبعی فلسفہ،اخوان الصفا،فارابی اورسیناوغیرہ کی تصانیف کی رسائی یہاں ممکن ہوئی۔ فلسفیانہ غوروفکرکوپہلے پہل خوش آمدیدکہنے والوںمیںاُندلس کے کثیرالتعدادپڑھے لکھے یہودی تھے۔ان میں بالخصوص ابنِ جبرول( Avencebrol) سب سے زیادہ اخوان الصفاکی تعلیمات سے متاثر ہوا۔ مسلمانوں میں فلسفے سے شغف ابھی عام نہیں ہوا تھا۔اِکادُکاایسے حکماء ضرورتھے جویہودیوںکی وساطت سے اس کی طرف متوجہ ہوئے مگران کا عوام الناس سے ذہنی فاصلہ کبھی کم نہ ہوسکاکیونکہ عوام کی اکثریت ضعیف الاعتقاداورمتعصب تھی۔ ثانیاً،۱۱۲۱ ء میں جب مراکش میںابنِ تو مرت نے مہدی بن کرخروج کیااوراس کے جانشینوں نے دین کے علم میںتجدیدِنوکی تو اشعری اورغزالی کومغرب میںپذیرائی حاصل ہوئی نتیجہ یہ نکلاکہ بیک وقت فلسفے اور مذہب میںمخاصمت اورمفاہمت کے دوہرے روّیوں کی وجہ سے وہاںکے راسخ ا لعقیدہ مسلمانوںکی تسکین نہ ہوسکی اورنہ روشن خیال حضرات کی۔ اس طرح مسلم حکماء اورعوام میں ذہنی فاصلوں کابڑھنا،ایک قدرتی امرتھا۔اس پس منظر میں مسلم حکماء نے اسی میں عافیت محسوس کی کہ ان کوعوام الناس کے عقائد کو نہیںچھیڑناچاہئیے۔چونکہ انسانی ذہن کے درجوںمیںتفاوت ہے اس لیے اپنافکرواستدلال اپنے فکری حلقوںتک محدودرکھناہوگا۔غورکرنے پرمعلوم ہوتاہے کہ یہ نقطۂ نظراصل میںاخوا ن الصفاسے مستعار ہے جو عوام الناس سے چوری چھپے اپنے افکاروخیالات کی تشہیرو ترویج کیاکرتے۔ ابوبکرمحمدابن یحییٰ ابنِ باجہ۴۷،اندلس کا وہ پہلا نامور مسلم مفکرہے جو فارابی کا پکا پیرو تھا۔اسی کی طرح ارسطو کا مداح اورشارح تھااس لیے اس کے افکارمیںارسطوکے افکار کااعادہ بکثرت ملتا ہے۔مجموعی طورپروہ عقلیت کی اہمیت کامعترف تھااوریہ ایقان رکھتا تھاکہ عقل عطیہ خداوندی ہے۔ اس کے علاوہ انسان کے تمام میلانات ورحجانات اکتسابی ہیں۔غزالی کے برعکس،اس کاخیال تھا کہ مذہبی باطنیت کے محسوس تصورات حقیقت کومنکشف نہیںبلکہ مستورکرتے ہیں، اس لیے فلسفی کا فریضہ یہ ہے کہ حق کی خاطر اس لطف کو ترک کردے جوباطنی مشاہدے سے حاصل ہوتا ہے۔ معرفتِ الٰہی کا موزوںذریعہ حسّی لذات سے پاک فکر خالص ہے اوربس۔دیکھاجائے توابنِ باجہ کا یہ خیال آئینہ دارہے یونانی استخراج کی طرف رجعت کا۔لیکن قابل غور بات یہ ہے کہ کندی کی روایت کامقصودفلسفے اورمذہب میںحائل خلیج کاخاتمہ تھامگرابن باجہ کے زمانے میںیہ خلیج بدستور قائم تھی۔اس میں شک نہیں کہ عوامی سطح پرایساہی تھامگرابن باجہ کا مؤقف تھاکہ فلسفے اورمذہب کے درمیان اختلاف ظاہری نوعیت کاہے جسے عوام الناس کے ذہنوںسے فرونہیں کیا جاسکتاکیونکہ وہ فکرخالص کی خوبی سے محروم ہیں۔یہ عنایت خاص صرف حکماء کونصیب ہوتی ہے اس لیے صرف وہ جان سکتے ہیں کہ فلسفے اورمذہب کاظاہری اختلاف،حقیقی اختلاف نہیں۔ جس وقت ابنِ تومرت اوراس کے جانشینوںکی تعلیمات اندلسی عوام میں مقبول ہوئیں، وہاںقدامت پسندی کی جگہ عقلیت پسندی نے لے لی،مگرپھربھی عوامی سطح پرفلسفے اورمذہب کے فرق میںکمی نہ ہوئی۔ادھرمسلم حکماء بھی قائل رہے کہ عوامی سطح پر فلسفے اور مذہب میںحدِفاصل کاقائم رہناضروری ہے۔ایسی صورتِ حال میں ابوبکر محمد ابن عبدالمالک ابنِ طفیل۴۸ کی تصنیف حی ابنِ ِیقظان منصہ شہودپرآئی جس نے یہ واضح کردکھایاکہ فکرکے ہردرجے میں سچائی چھپی ہے ۔یہ صرف ذوقِ نظراورنقطۂ نظرکاکمال ہے کہ انسان اسی کوحقیقت قطعی سمجھتاہے جہاںتک کہ اس کا فکرو استدلال کام کرتاہے۔بظاہر،حی ابنِ یقظان ایک فلسفیانہ رومان ہے جس میںدکھایاگیاہے کہ دو جزیرے آباد ہیں۔ ایک جزیر ے میںانسانی معاشرہ آبادہے جہاںانسانی جبلتوں اور خواہشوں کو مذہب،مہذب بناتاہے۔اس معاشرے میں دو بھائیو ں کے کردارسلامان اورابسال ملتے ہیں جو اپنی خواہشات ِنفس کوقابورکھنے میںدرجۂ کمال رکھتے ہیں۔سلامان نے یہ درجہ مذہبی تعلیمات کی فکری توجیہات کے زورپرجبکہ ابسال نے اسے اپنے عمیق مشاہدۂ باطن کی مددسے حاصل کیا ہے ۔ دوسرے جزیرے میںہیرو،حی ابن ِیقظان انسانی معاشرے سے الگ تھلگ جانوروں کی بستی میں پلا بڑھا ملتا ہے جو اپنے مشاہدۂ خارجی اورمشاہدہ باطنی کے استقرائی استدلال کے سہارے اسی اعلیٰ مرتبے پرجاپہنچتاہے جہاں سلامان اورابسال فائزہیں۔پھرکہانی میںایساموڑ آتاہے جہاں ابسال اور حی کی ملاقات ہوتی ہے اوردونوںباہم مل کر عوام الناس کواپنے تجربات وتعلیمات کے ذریعے حقیقت ِمحض سے آگاہ کرناچاہتے ہیں مگرجلدہی انہیںاس مصلحت کا احساس ہوتاہے کہ عوام حقیقتِ محض کوسمجھنے سے قاصرہیں۔مذہب میںیہ بڑی خوبی ہے کہ عوام کی فکری سطح تک اترکر حقیقتِ محض کومحسوسات ومدرکات میںبیان کردیتا ہے اوراسے رموزواستعارات کی صورت میں پیش کردیتا ہے۔ عوام سلامان کی فکری توجیہات وتاویلات کوسمجھ سکیں،ان کے لیے یہی بہت ہے۔ اس طرح ابن طفیل اس قصے میں یہ ثابت کردکھاتاہے کہ فلسفہ،تصوف اور مذہب،سب کے راستے جدا سہی،منزلِ مقصودایک ہی ہے۔تینوں کا مقصود حقیقت محض کی رسائی اورانسانی کردار کی اصلاح و تہذیب ہے۔یہ صحیح ہے کہ ابنِ طفیل کی داستان نئی نہیںبلکہ ابن سینا کی حکایت حی سے ماخوذہے، خود ابنِ طفیل نے اس کی طرف اشارہ بھی کیاہے لیکن سوال یہ پیداہوتاہے کہ ایساکیوںہے کہ ابنِ سیناکی نہیں،ابن طفیل کی داستان زیادہ مشہور ہوئی۔ اس کی ایک وجہ دوبوئرکے اس اقتباس سے سمجھ میں آتی ہے،’’اس (ابنِ سینا)کے حی کی ذات میںانسانی صفات زیادہ نمایاںہیں۔ابنِ سینانے جو تصویر کھینچی ہے وہ فوق الانسان عقل فعال کی مظہرہے لیکن ابن طفیل کارستم داستان نوع انسانی کی عقل کانمائندہ ہے جسے عالمِ بالاسے بصیرت حاصل ہوئی ہے۔اگر غور سے دیکھئے تومعلوم ہوگاکہ یہ اصل میںمحمدؐ کی ذات پاک ہے۔ جو اقوال اس پیکرِمثالی کی طرف منسوب ہیں،ان کی تعبیربھی تمثیلی رنگ میںکرناچاہئے۔‘‘۴۹ بلا تامل کہاجاسکتاہے کہ ابن طفیل کا قصہ اس زمانے میں فلسفے اور مذہب، دونوںکی حقانیت کے جوازپیش کرنے کی عمدہ کاوش تھا۔جہاںتک یونانی استدلال سے رغبت رکھنے کاسوال ہے، اس ضمن میں وہ،ابنِ سینا سے کسی طورپیچھے نہ تھا۔مثلاًوہ ارسطوکے نظریۂ تعلیل اورنوفلاطونی نظریۂ صد و ر کوصحیح متصورکرتاتھا،البتہ یہ اس کاکمال تھا کہ مشکل نظریات کوسادگی سے بیان کیاکرتا،جیسے کہ نظریۂ صدورکے بارے میںاس کا استدلال تھاکہ بالفرض سورج کاعکس کسی شیشے میںبنے تووہ لگتا ضرورسورج ہے مگر اصل میںہوتانہیں۔بعینہٖ اس شیشے میںبناسورج کاعکس کسی اورشیشے پر جا پڑے تو وہ بھی ظاہراًاصل سورج لگے گاحالانکہ حقیقی ہوگانہیں،محض اصل سورج کے عکس کاعکس ہوگا ۔ اس تمثیل پر بخوبی اندازہ ہوسکتاہے کہ نظریۂ صدورکے تحت کس طرح ایک سے ایک کا صدور ہوتا ہے۔ کہتے ہیں۵۰ایک روزابنِ طفیل نے ابنِ رشدکوبلوایااوراس کے گوش گزارکیاکہ امیروقت ابویعقوب چاہتا ہے کہ کوئی ارسطوکی تصانیف کی انتہائی سلیس شرح لکھے کیونکہ ارسطواوراس کے مترجمین کاانداز ِبیان عوام الناس کے لیے مشکل بھی ہے اورمبہم بھی۔ابنِ طفیل نے اپنی پیرانہ سالی اور سرکاری ذمہ داریوںکے باعث خود اس کام سے معذوری ظاہرکی لیکن ابنِ رشدسے درخواست کی کہ وہ اسے سرانجام دے۔ابنِ رشدنے اس مشکل کام کو آسان کر دیا اورارسطوکاعظیم المرتبت شارح قرارپایا۔اس حیثیت سے،اس کا تجزیہ تھاکہ فارابی اورابنِ سیناکی شرحیںاطمینان بخش نہیں۔البتہ ابنِ باجہ کاکام تسلی بخش ہے مگرموت نے اسے مہلت نہ دی کہ وہ اسے پوراکرڈالتا۔ زندگی بھراس کی فلسفیانہ تگ وتازارسطوتک محدودرہی،نتیجتاًاسے یقین ہوگیاکہ ارسطوفوق الانسان ہے اوراس کامنطقی استدلال انسانی عقلیت کی معراج ہے۔دوبوئرکی رائے میں،’’ابنِ رشداپنے استاد]ارسطو[کونوع انسان کی عقل کا اعلیٰ مجسمہ سمجھ کراسے دیوتابناناچاہتاہے۔‘‘۵۱ اس کے زمانے تک امام غزالی نے مسلم عوام کی نظروںمیںحکماء کی قدر و منزلت کو گرا رکھا تھا۔اس کے برعکس ، ابنِ باجہ اورابنِ طفیل نے عوام اور حکماء کے مابین ذہنی فاصلوںکوگھٹانے کی خاطر یہ باورکرانے کی کوشش کی تھی کہ حکماء کی قدرومنزلت کا اندازہ حکماء ہی لگاسکتے ہیں،عوام نہیں۔اس تناظرمیں،اولاًابن رشد۵۲نے غزالی کی تصنیفتہافتہ الفلاسفہکے جواب میں تہافتہ التہافتلکھی تاکہ مسلم عوام کے ذہنوںمیںحکماء کاکھویاہوامقام بحال ہو سکے اوران کو بتایا جائے کہ اسلامی تعلیمات کومخصوص فکری اورمنطقی اندازمیںبیان کرنا جرم نہیں کہ اس بنیادپرحکماء کو کافر قرار دیاجاسکے۔ثانیاً،اس نے ابنِ باجہ اورابنِ طفیل سے اتفاق کیاکہ اصل حقیقت ایک ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اس کا اظہارجداجداہے۔یعنی مذہب اور فلسفہ، ایک ہی حقیقت کو آشکارا کرتے ہیں مگر مذہب اسے تمثیلی استدلال کے روپ میں،جب کہ فلسفہ اسی کومنطقی استدلال کے رنگ میںپیش کرتاہے۔ اب چونکہ عوام الناس کی فکری حدتمثیلی استدلال پرہی ختم ہوجاتی ہے اس لیے منطقی استدلال کی صداقت ان کے لیے معنویت کھودیتی ہے۔ اس پیرایے میںبہتریہی ہے کہ عوام اور حکماء دونوںکے استدلالات کوالگ الگ رکھاجائے اوربلاجھجک یہ بات قبول کر لی جا ئے کہ مذہبی استدلال عوام کے نزدیک صداقت تامہ کادرجہ رکھتاہے اورفلسفیانہ استدلال، حکماء کے لیے۔ ابنِ رشد کے نزدیک بہ حیثیت مجموعی انسانوںکی فکری سطح کی مناسبت سے استدلال کی تین قسمیں بنتی ہیں: .1برہانی استدلال،جس میںتعلیلی بنیادوںپرمعلوم سے نامعلوم کی کھوج لگائی جاتی ہے یعنی اس استدلال میںہرمعلول کی علّت کوڈھونڈتے ہوئے بالآخراس علّت العلل پر پہنچا جاتا ہے جوحقیقتِ مطلق کا منبع ہے۔یہ استدلال صرف حکماء سے مخصوص ہے۔ .2جدلی استدلال،جس میںقیاسی بنیادوںپرمعلوم سے نامعلوم کی کھوج لگائی جاتی ہے یعنی اس استدلال میںپہلے سے قائم شدہ تصور خالق کے بارے میں اس طرح کی حجتیں اورتاویلیںلائی جاتی ہیںکہ جن کی رُوسے ثابت ہو جائے کہ مفروضہ تصورکس قدرصادقِ کل ہے۔یہ استدلال صرف متکلمین سے مخصوص ہے۔ .3خطابی استدلال،جس میںتمثیلی بنیادوںپرمعلوم سے نامعلوم کی کھوج لگائی جاتی ہے۔ یعنی مذہب کے بیان کردہ قصوں کہانیوں، مثالوں، تشبیہوں، استعاروں وغیرہ کی روشنی میں اس تصورِ ہستیٔ برترپرایمان کومضبوط بنا یا جاتا ہے، جسے لاریب صادقِ کل ماناگیاہوتاہے۔ ابنِ رشدکافلسفہ اوراستدلال،بدلتے زمانوںمیںکئی نشیب وفرازسے گزرا۔ کبھی اُندلس کے تعلیم یافتہ یہودیوںنے اس کے تراجم کئے کبھی اُندلس کے راسخ عیسائیوںکی پرخاش کے سبب ممنو ع ٹھہرا،لیکن چاہے کچھ بھی ہوا، اسے جھٹلاناممکن نہیںکہ ابن رشدنہ رہامگراس کاسلسلۂ رشد و ہدایت عقلیت پسندی کی روایت میںایسامستوررہاجس کی بدولت مغرب کے سائنسی استدلال نے نموپائی۔ جہاں تک مسلم حکماء کی بات ہے اندلس میںابن رشدکاکوئی پکاپیروکار نظر نہیں آتا اور نہ کسی قابل ذکرفلسفی ہی کاسراغ ملتاہے۔شایداس بنیادپریہ خیال غلط العام ہواکہ مسلم استدلال کا باب ابنِ رشد پرپہنچ کرختم ہوگیا۔حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ بقول ڈاکٹرسی اے قادر۵۳،اس غلط فہمی کی ایک وجہ یہ ہے کہ مؤرخین فلسفۂ اسلام، جب کبھی مسلم فلسفے کواحاطۂ تحریرمیںلائے ہیںتوصرف ان عرب خطوںتک محدود رہتے ہیں جہاںفلسفے کاآغازاوراس کی آبیاری ہوئی اوراسے خالصاًعربی زبان میں قلمبندکیاگیا۔دوسری وجہ یہ ہے کہ مستشرقین کی نظروںسے ان مسلم حکماء کی تصانیف اوجھل ہی رہیںجوعربی زبان پرعبوررکھتے تھے مگرفلسفہ کسی اورزبان میںلکھا کرتے۔ تیسری وجہ یہ تھی کہ یہ خیال ہی غلط ہے کہ مسلم فلسفہ عرب خطوںتک محیط رہا۔سقوط اندلس کے بعدمسلمانوں کا اسلامی کلچر ، دیگرثقافتوںاورتہذیبوںمیںبھی پھیلا ہوا ملتا ہے۔جہاںمسلم استدلال کے بارے میں گرانقدر کام کئے گئے مثلاً ایران میں ناصر خسرو، ناصر الدین طوسی، ملا صدرہ وغیرہ اور ہندو ستا ن میںشیخ احمد سرہندی،شاہ ولی اﷲ، سر سید احمد خان وغیرہ کااستدلال اس کی عمدہ مثالیں ہیں۔ بے شک یہ کہناغلط ہے کہ ابنِ رشدکے بعدمسلم استدلال کاسلسلہ ختم ہوگیا،مگریہ کہنا یقینا غلط نہ ہوگا کہ اس کے بعد مسلم استدلال پر یونانیوںبالخصوص ارسطوکے استدلال کی چھاپ مٹتی گئی۔ .3مسلم تصوف:(Muslim Mysticism) مسلمانوںمیںایسے عبادت گزاراورصالح طبع بزرگان ِدین بھی موجودتھے جنہوںنے حکمت ِالٰہی سے بڑھ کرقربت ِالٰہی کے حصول کوضروری خیال کیا۔فکری اور منطقی قیاس آرائیوں پر وجدانی اور باطنی کار پردازیوں کو فوقیت دی اوراستدلال کے راہ ِباطن کوراہ ِظاہرپرمقدم ٹھہرایا۔ان ہی کے توسط سے مسلم تصوف۵۴بنوامیہ کے دورمیں ایک مسلک کے طورپرممتازہوا۔مولاناجامی کی تصنیف نفحات الانسکے مطابق اس مسلک کاپہلاشخص جوباقاعدہ صوفی کے لقب سے نوازا گیا، وہ ملک شام میںسکونت پذیرکوفہ کاعرب نژادمسلمان ابوہاشم تھااور امام حسن بصری ،جس کا مرزبوم مدینہ مگر مستقل مسکن بصرہ تھا۔ وہ پہلا مسلمان تھاجس کی بحیثیت صوفی قدر افزائی کی گئی۔ اس کااسلامی موضوعات کا مطالعہ وسیع تھا جو اس نے خاندانِ نبویؐسے حاصل کیاتھا۔اس میں بیک وقت صوفی اورفلسفی،دونوںکی خصوصیات بدرجہ اتم موجودتھیں۔وہ متلاشیانِ حق کی سہولت کی خاطرانہیںدرس بھی دیاکرتا۔وہ معتزلہ مکتبِ فکر کے بانی واصل بن عطا کا استادبھی رہا ۔ بہر طور، مسلم تصوف کے تذکرے سے ایک سوال معاًذہن میںاٹھتاہے۔آخراُموی دور میں ہی یہ مسلک کیوں ابھرا ؟اس کاموزوںجواب تاریخِ اسلام کے مطالعے۵۵سے ہی ملتا ہے۔ جس کے مطابق، اُموی دور کے سیاسی حالات کی ابتری،دولت وثروت کی کثرت و فراوانی سے معاشرے میںمذہبی زندگی سے بے اعتنائی، فقہاکے استدلال کی تنگ دامنی،متکلمین میںبڑھتے ہوئے تلخ د ینی مناقشے،غیرمسلموںکے فکری و ثقافتی اثرات کی یلغاروغیرہ کی وجہ سے مسلمانوںمیںاس طبقے نے خصوصی جگہ بنائی جودنیاداری کے بکھیڑوںسے بے نیازاورمتنازع بحث مباحثوں سے بے زار ہو کر ازرُوئے شریعت،خودشناسی کے ایسے تجربے پرمرتکزہوئے جوخداشناسی سے بہرہ ور کر دیتا ہے ۔ یہاںایک وضاحت بہت ضروری ہے۔ایسا نہیںہے کہ یہ طبقہ صرف اُموی دور میں نمودار ہوا، ا سے اُموی دورمیںپذیرائی ملی اور تقویت حاصل ہوئی،حالانکہ اس کی بنیاد اس وقت رکھ دی گئی تھی جب آنحضورؐ پراس طرح کی آیات کا نزول ہوا جن میں صوفیانہ رجحانات کے بلیغ اشا ر ے ملتے ہیں۔ مثلاً: .1سورہ’ الزاریات‘ میںارشادہواہے: ’’اوریقین کرنے والوں کے لیے زمین میں(بہت سی)نشانیاںہیںاورخود تمہارے نفوس میں۔‘‘) ۵۱:۲۰-۲۱( .2سورہ’الحدید‘ میںارشادہواہے: ’’وہ (سب سے)پہلااور(سب سے )پچھلااور(اپنی قدرتوںسے سب پر) ظاہر اور (اپنی ذات سے ) پوشیدہ ہے اوروہ تمام چیزوںکوجانتاہے۔‘‘ (۵۷:۳) .3سورہ ’نور‘ میںارشادہواہے: ’’خدا آسمانوںاورزمین کانورہے‘‘۔ (۲۴:۳۵) .4سورہ ’البقرہ‘ میںارشادہواہے: ’’اورمشرق اورمغرب سب خدا ہی کاہے۔توجدھرتم رخ کروادھرخداکی ذات ہے ۔ ‘‘ (۲:۱۱۵) .5سورہ’ق‘میںارشادہواہے: ’’اورہم ہی نے انسان کوپیداکیاہے اورجوخیالات اس کے دل میں گزرتے ہیںہم ان کو جانتے ہیںاورہم اس کی رگِ جان سے بھی اس سے زیادہ قریب ہیں۔‘‘ (۵۰:۱۶ ) .6سورہ’مزمل‘ میںارشادہواہے: ’’تواپنے پروردگار کے نام کاذکرکر اورہرطرف سے بے تعلق ہوکراسی کی طرف متوجہ ہوجا۔‘(۷۳:۸) اور رسولِ اکرمؐ کی احادیث میں بھی صوفیانہ افکار کی جھلکیاں نمایاں ہیں، جیسے، حدیث قدسی ہے، ’’میں چھپا ہواخزانہ تھا،میں نے چاہاکہ پہچاناجاؤںچنانچہ میںنے کائنات کی تخلیق کی۔‘‘ ایک اورحدیثِ قدسی ہے،’’میرابندہ مجھ سے قریب سے قریب ترہوتاچلاجاتاہے یہاںتک کہ میںاسے اپنامحبوب بنالیتاہوںاور جب میںاسے اپنامحبوب بنالیتاہوںتومیںاس کے کان بن جاتاہوںجن سے وہ سنتاہے،اس کی آنکھیںبن جاتا ہوں،جن سے وہ دیکھتاہے اوراس کے ہاتھ بن جاتاہوںجن سے وہ پکڑتاہے۔‘‘ایسے ہی ایک اور حدیث قدسی ہے،’’جس نے اپنے نفس کو پہچان لیا، اس نے اپنے رب کوپہچان لیا۔‘‘اوراس سلسلہ میں،حضرت علی ہجویری نے رسولِ ِکریمؐ کایہ قول بالخصوص نقل کیاہے،’’جس نے اہلِ تصوف کی آواز سن کران کی دعوت کو قبول نہ کیا وہ اﷲکے نزدیک غافلوںمیںلکھاگیا۔‘‘ ۵۶ یہی نہیں،حضورؐکی عملی زندگی میںبھی اس کی نشانیاںدیکھی جاسکتی ہیںجیسے،آپؐ رات بھر محو عبادت رہتے، غارِحراکی خلوتوںمیںمراقبے کرتے،انتہائی سادہ زندگی بسرکرتے۔اخلاقی قواعدِ الہٰیہ کے پابندرہتے اوراپنے قول و فعل میںکبھی تضادنہ آنے دیتے۔آپؐ کے قریبی رفقاء کے مطابق،آپ کوبارہا خداکے حضورجذب وسرورکی کیفیت میںپایاگیا۔آپؐ کی اتباع میںآپؐ کے صحابہ بھی صوفیانہ احوال سے بہرہ ورہوئے۔خصوصاًاصحابِ صفہ تودنیاوی معاملات سے الگ تھلگ آپؐ کی تعمیرکردہ مسجدمیںمحوعبادت رہا کرتے۔ اور تواورخلفائے راشدین،اپنی انتہائی سرکار ی ذمہ داریوں کے باوجودصوفیانہ کیفیات میںسرشارپائے گئے۔حضرت علی ہجویری کے نزدیک، انصاف کی رُو سے اگر کوئی تصوف کاپیشواکہلانے کاحقدارہے تووہ حضرت ابوبکرصدیقؓ کی ذاتِ مبارکہ ہے۔آپ نے کشف المحجوب میں لکھا ہے، ’’اگرتوواقعی صوفی کامتلاشی ہے تو یاد رہے کہ صوفی ہونے کی شان صفا تو صرف صدیقِ اکبررضی اﷲتعالیٰ عنہ میںتھی۔اس لیے کہ صفا حقیقی کے لیے ایک اصل اورایک فرع ہے۔اصل تودل کاماسوااﷲسے منقطع ہوناہے اور فرع دل کا دنیا غدارکی محبت سے خالی کردینااوریہ دونوںصفتیںصدیقِ اکبررضی اﷲتعالیٰ عنہ میں تھیں، جن کا نام حضر ت عبداﷲابوبکربن ابی قحافہ رضی اﷲتعالیٰ عنہ ہے۔اس لیے کہ صدیقِ اکبرؓ ہی کی وہ ہستی ہے جسے امام اہل طریقت اور مقتدااہل تصوف کہاجائے اوریہی وہ پاک باطن تھے جن کادل اغیار سے اس قدر صاف تھاکہ صحابہ کرام میںبھی آپ کی ہستی کاہمسرکوئی نہ تھا۔‘‘۵۷ ابتداًمیں صوفیانہ رجحانات مسلمانوںکے ایک قلیل طبقے تک محدودرہے لیکن بالخصوص حضرت عثمان غنیؓ کی شہادت کے بعدجب مسلمانوںکے ایمان متزلزل ہوئے، بھائی چارے کی فضا مکدر ہوئی،تلواریں نیاموںسے باہر نکل آئیں، مسلمان ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہوگئے، تو دہشت اوربربریت کی فضامیںمعاشرے کے طبقۂ صالحین میں خلوت نشینی اورعزلت گزینی نے زور پکڑا۔جیسے ہی خلافت راشدہ کادورختم ہوا،بنوامیہ اقتدار میں آئے تو معاشرے کے دگرگوں حالات وواقعات نے ایسی صورت حال پیداکی کہ ایساطبقہ عوام الناس میںسے منصہ شہودپر آیا جس نے معمولات ِحیات کوتیاگ کرگوشہ نشینی اختیارکی۔زندگی کی دنیاوی رعنائیوںاورلہو ولعب کو چھوڑ کر خدائے بزرگ و برترکے حضور اپنے آپ کووقف کردیا۔بتدریج اس طبقہ کی تعداداورقوت میںاضافہ ہوتاگیا۔اس طبقے کاحاصلِ کل منشائے ایزدی کاحصول تھاتاکہ طمانیتِ قلب میسر آ سکے،اس لیے یہ طبقہ عبادت میںاس قدرمحورہا کہ اسے ذاتِ باری تعالیٰ اوروجود کائنات کے حقائق کوجاننے کی کبھی ضرورت پیش نہ آئی نتیجتاًیہ طبقہ فلسفیانہ طرفہ طرازیوںسے محفوظ رہا اور علمائے اسلام کواس کے خلاف ہرزہ سرائی کی کبھی جرآت نہ ہوئی۔ لیکن جب امام موسی علی الرضا کے تربیت یافتہ تلامذہ حضرت معروف کرخی ابن فیروزاں نے قربتِ الٰہی کے جوش میںغلوسے کام لیا،دنیاسے تقریباًکنارہ کشی اختیارکرلی،اوران کے پیرو حضرت ذوالنون مصری نے اس سے بڑھ کرقربتِ الٰہی کے لیے وجدکوناگزیرقراردے دیاجوگوشۂ خلوت میںدھیان کی ایسی کیفیت کانام ہے جس کے دوران صوفی پریہ واردات گزرتی ہے کہ اس کی ذات،ذاتِ برترمیںمدغم ہو جائے گی۔ تاریخِ تصوف میںیہ پہلاموقع تھاکہ کسی صوفی نے میدانِ تصوف سے فلسفیانہ حقائق کی طرف قدم بڑھایاہو۔پہلی بار محسوس کیاگیاکہ ذات ِباری تعا لیٰ اور وجودِ کائنات جیسے حقائق کی ماھیت کومعلوم کیاجائے۔گویاحضرت ذوالنون مصری نے سکون روحانی کے ساتھ ساتھ معرفتِ ربّانی پر بھی زور دیااور اس طرح بقول مولاناجامی سب سے پہلے علمِ باطن کے اشارات کوعبادت میںمنتقل کیا۔ بطورجملہ معترضہ،یہاںیہ وضاحت ضروری ہے کہ اکتشافِ حقیقت کا طریقۂ معرفت یقینا طریقۂ حکمت سے مختلف ہوتاہے۔کہتے ہیں۵۸ایک دفعہ ابوالسعید ابن ابوالخیر اوربوعلی سیناکی باہمی ملاقات ہوئی۔بوعلی سینا، ابوالخیر کو منطقی استدلال کے ساتھ اسرار کائنات کی باریکیاںسمجھا رہے تھے جسے ابوالخیر خاموشی سے سن رہے تھے۔ سارے استدلال کو سن لینے کے بعد ابوالخیرنے فقط اتناکہا،جس شے کوتم جانتے ہو،میں اسے دیکھتاہوں۔دیکھنے اورجاننے کا ہی فرق، معرفت اور حکمت کافرق ہے۔ذوالنون مصری نے معرفت کے بارے میںکئی اصول اورنظریات وضع کئے۔ اس کے ہم عصربایزیدبسطامی نے فنافی اﷲ کے اصول کومتعارف کرایاجوذوالنون مصری کے طریقۂ وجدکامنطقی ماحصل تھا۔بایزد نے علی الاعلان کہاکہ جب تک انسان خداکے حضوراپنے آپ کی نفی نہیںکرتا،وہ اسے نہیںپاسکتا۔نفی ٔذات کے اس اصول نے آگے چل کرتصوف میںوحدت الوجود کے نظریے کے لیے راہ ہموارکی،جس کے تحت یہ ماناجاتاہے کہ جب بندہ خالق ِکائنات سے اتصال کی خاطراپنے آپ کوفناکرڈالتاہے تولامحالہ ایسی سطح آتی ہے جب من اورتوُ کا احساس مٹ جاتاہے اورمعلوم ہوتاہے کہ خدا کے ما سواکچھ نہیں۔چونکہ اس کا کوئی غیرنہیںلہٰذاخداہی کائنات ہے اور کائنات ہی خداہے۔حضرت امیرخسرونے اس خیال کواپنے اس شعرمیںامرکردیاہے۔ من تو شدم تو من شدی ،من تن شدم تو جاں شدی تا کس نہ گوید بعد ازیں من دیگرم تو دیگری ۵۹ میں توُ ہوا، توُ میں ہوا، میںجسم ہواتوجاںہوا۔تاکہ اس کے بعدکوئی نہ کہے کہ میں اور ہوں تو اورہے۔ وجودی تصوف کو حضرت حسین بن منصورحلاج کے نعرۂ اناالحق نے زبردست تقویت پہنچائی اوربعدازاں حضرت محی الدین ابن ِعربی نے اسے باقاعدہ مسلک کے طورپر متعارف کرایا۔جیسے جیسے صوفیا کے دائرہ ٔ انتخاب میں حقا ئقِ عا لم اورخالق ِدوعالم کے اسرار کی عقدہ کشائی کارجحان بڑھتاگیا،ان کے خلاف علمائے اسلام کی ہمت ِلب کشائی بھی بڑھتی گئی اورمسلم تصوف کا تاثر جو طمانیت ِقلب کے خواہاں صوفیاء نے کبھی چھوڑاتھا،وہ رفتہ رفتہ زائل ہوتاگیالیکن ایسا کیوںہوا؟ وجہ یہ تھی کہ اسلام کے ظاہریعنی شریعت کواس کے باطن یعنی حقیقت سے جدا کر دیا گیا۔ اسلا می لحاظ سے شریعت دین کے ظاہری شعائراوراوامرونواہی کی بجا آوری کا،اورحقیقت،دین کی شر یعت کے پس پردہ حکمتوںسے بہرہ ورہونے کانام ہے۔تصوف کی اصطلاح میںجو طریقہ شر یعت کو حقیقت سے ملاتاہے، وہ طریقت ہے۔ حضرت جنیدبغدادی کے زمانے میں بعض عقلیت پسند مسلما نوںکے ہاںروشن خیالی اس عروج پرجاپہنچی کہ انہوںنے دین کے ظاہرپراس کے باطن کو فوقیت دینا شروع کردی اوراس کے جوازمیںحجت یہ نکالی کہ جوحکمت اعلیٰ وارفع حقیقت سے بہرہ و ر ہو جائے اس کے لیے ظاہری شعائراوراوامرونواہی کی بجاآوری،چہ معنی دارد؟ حضرت جنیدبغدادیؓ کوتشویش لاحق ہوئی کہ اہلِ طریقت صوفیامیںبھی یہ رواج اپنی جگہ بنا رہا ہے،لہٰذاانہوںنے اس کی پُرزورمذمت کی اورمتنبہ کیاکہ’’راہ ِطریقت سے وہی گذرسکتاہے جس کے دائیںہاتھ میںقرآن اوربائیںہاتھ میںسنتِ رسولؐ ہو۔‘‘۶۰گویاحقیقت کوشریعت کے بغیر اپنانا،طریقت نہیں۔لیکن ان کے انتباہ کے باو جو د طویل عرصے تک یہ صورت حال نہ بدلی اور تصوف کا بگاڑ بڑھتاگیا۔البتہ اس دوران میںامام غزالی کویہ شرفِ مقام حا صل ہواکہ انہوں نے اسلام کے ظاہراورباطن کے امتیازکومربوط کیااورتصوف کو بام شہرت تک پہنچایا۔مجموعی طورپر، اسلام کے ظاہراورباطن کے امتیازات کوملحوظ ِخاطررکھتے ہوئے چارطرح کے مکاتب ِتصوف ابھرے جوان کے موئسس صوفیا کے ناموںپرمشہورہوئے۔وہ ہیں:- .1عبدالقادرجیلانی کامسلک قادریہ .2بہاؤالدین نقشبندیہ کامسلک نقشبندیہ .3ابواسحاق شامی اورخواجہ معین الدین چشتی کامسلک چشتیہ .4شہاب الدین سہروردی کامسلک سہروردیہ ان مسلکوںسے پھرکئی ذیلی مسلک وجودمیںآئے،جورفتہ رفتہ دنیابھرمیںپھیل گئے۔ اسلام،فطرتاًعالمگیرنوعیت کادین ہے جس میںبنیادی عقائد کے سوا ہر معاملے میں آزادی اور رواداری کی گنجا ئش موجود ہے۔ اس بناء پر مسلمانوں میں دیگر تہذیبوںسے کچھ نہ کچھ اخذ اور قبول کرنے کاسلسلہ جاری رہا جوکئی شعبۂ حیا ت میں نوبہ نوخیالات کی صورت میں ظاہر ہوا ۔ میدانِ تصوف میںبھی یہی کچھ ہوا۔اس میں ایسے ایسے خیالات اُ بھر ے جو ابتدائی مسلم صوفیاء کے ہاں مفقودتھے۔ان خیالات کی آمدسے مسلمانوںکی تاریخِ تصوف میںدوطرح کی قابلِ ذکر تبدیلیا ں رونماہوئیں: .1نئے خیالات کے ایجاب وقبول سے نظریۂ وحدت الوجودنے جگہ بنائی۔ .2نظریۂ وحدت الوجود کے خلاف ردعمل ہوا، جس کے نتیجہ میں نظریۂ وحدت الشہود سامنے آیا۔ اس مقام پر یہ تقاضاپیدا ہوتاہے کہ معلوم کیاجائے اولاً،وہ کونسے خارجی عوامل تھے جنہوں نے نظریۂ وحدت الوجودکی تشکیل میں معاونت کی اورثانیاًنظریۂ وحدت الوجودکی موجودگی میں نظریۂ وحدت الشہودکی ضرورت کیوں پیش آئی۔ذیل میں باری باری ان کاجائزہ لیاجاتاہے۔ مجموعی طورپرمستشرقین نے یہ دعویٰ کیاکہ مسلم تصوف کی پوری تحریک جن خارجی عوامل کا ماحصل ہے ان میں ویدانت،بدھ مت، مسیحیت، مانویت اور نوفلاطونیت کے اثرات شامل رہے۔جبکہ مسلم تصوف کی پوری تحریک کیتناظر میں اس کاجائزہ لیاجائے توان کادعویٰ،صرف مغالطۂ استقرائی زقندثابت ہوتاہے کیونکہ کچھ صوفیاء میں غیراسلامی خیالات کے فروغ پانے کوتمام صوفیاء کے خیالات کا قطعی ترجمان قرارنہیںدیاجاسکتا۔درحقیقت،مستشرقین کادعویٰ ایک حدتک درست ہے مگر اس سے زیادہ نہیں۔ اصل میںتصوف۶۱کوئی نیامسلک نہیں۔اس کاتعلق ہرتہذیب سے ہے۔اسے ہمیشہ سے روحانی طما نیت کے حصول کا معتبرومستندوسیلہ سمجھاگیا۔ یہ بات اورہے کہ اسے ہرآنے والے صوفی نے اپنے اپنے انداز میں سنوارا۔ چونکہ ہرکہیںاس کا ہدف ایک سا ہے، اس لیے بعض مستشرقین نے گمان کیا کہ ہر تہذیب کے مذہبی ظواہر و شعائر کو نظر اندازکردیاجائے تو ہر ایک کا حال ایک دوسرے سے مختلف نہ ہوگا۔اس حوالے سے،شریعت ِاسلامیہ کوپس ِپشت رکھ کرغورکیاجائے تو مسلم تصوف کا تصوردوسری تہذیبوںکے تصورِتصوف سے مختلف نہیں رہتا۔ ویسے بھی مسلم تصوف کا ظہور دیگر مسالکِ تصوف کے مقابلے میںبہت بعدمیںہوا،اس لیے یہ بعیدازقیاس نہیںکہ اس کے بننے سنورنے میںدیگرمسالک ِتصوف کے اثرا ت نے اہم کرداراداکیاہو۔بادی النظرمیںیہ ممکن ہے کہ ایسے مسالک جن کے احوال اوراہداف بعض بنیادی معاملات میںایک جیسے ہوں اور ان میںایک دوسرے کے اثرات کے جذب وقبول کی صلاحیت بھی بہت قوی ہومگر اس کے باوجود یہ نتیجہ اخذکرناکسی طوربھی مناسب نہیں کہ ان میں سے جو مسلک قدیم ترہے اس کے اثرات سے بعدمیں آنے والے مسلک ظہورپذیر ہوئے۔ظاہر ہے کہ جس قسم کی صوفیانہ کیفیات کا اشارہ قر آ ن نے پیش کیاہے اورجس طرح کے صوفیانہ احوال کاتذکرہ رسول کریمؐ،صحابہ،تابعین اورتبع تابعین میں ملتا ہے،اس حوالے سے یہ بات ہرگزنہیںمانی جاسکتی کہ مسلم تصوف غیراسلامی صوفیانہ اثرات کا ماحصل ہے البتہ اتناضرورہے کہ غیر مسلم صوفیانہ کیفیات مسلم تصوف کی بہت سی کیفیات کے مماثل ہیں۔ مثال کے طور پرویدانت ہندوتصوف کاایک قدیم مسلک ہے جس میںانسان کے نفسِ سفلی کی سرزنش کرکے اور علائقِ دنیاسے یکسرقطع تعلق ہوکرروحانی تسکین حاصل کی جاتی ہے تاکہ اس حقیقت ِمطلقہ تک رسائی ممکن ہوسکے جسے ’’برہما‘‘ کہا جاتاہے۔اس منزل تک پہنچنے کی صوفیانہ کیفیت کو ایک تمثیل کی صور ت میںظاہرکیاجاتاہے۔’’جب نمک کاایک ٹکڑاسمندرمیںپھینک دیاجائے تووہ بالکل گھل جا تا ہے اور پھر اس کاکوئی جزوکسی طرح بھی اس کی اصلی شکل و حالت میں دوبارہ حاصل نہیں کیا جا سکتا لیکن پا نی کے ہرقطرے میںاس کاذائقہ آجاتاہے۔اس طرح جب شعورِاعلیٰ (supreme consciousness) حاصل ہوجاتا ہے جسے ’’پراجنا‘‘کہاگیاہے توتمام معمولی تجربات اور شعورا س بے انتہا،عظیم الشان اوریکساںتجربے میں ڈوب جاتے ہیں۔اس منزل پرپہنچ کردوئی کاکوئی شائبہ باقی نہیںرہتا۔علم کی تمام دوسری حالتوںمیں’’دوئی‘‘موجود رہتی ہے ایک عالم کی ذات ہوتی ہے اور دوسرا معلوم کا وجود،لیکن یہ تجربہ ایساہوتاہے جہاںپہنچ کردوئی معدوم ہوجاتی ہے۔‘‘۶۲ اس تمثیل میںنظریۂ ویدانت کی جوتصویرکشی کی گئی ہے اس کی بناء پریہ گمان گذرتاہے کہ مسلم تصوف کا نظریہ ٔوحدت الوجوداسی سے متاثرہوکروضع کیا گیا۔ مزید برآں،اس گمان کومزیدتقویت ان شہادتوںسے حاصل ہوتی ہے جوویدانت سے متعلقہ تالیفات سے ظاہرہیںجیسے نظریۂ ویدا نت کے بارے میںمنڈک اپنشدمیں آیا ہے،’’بر ہما ہمار ے سامنے ہے،برہماہمارے پیچھے ہے، برہما ہی ہمارے دائیں اور بائیں طرف ہے۔‘‘۶۳بعینہٖ نظریۂ وحدت الوجودکی حمایت میں یہ قرآنی آیت پیش کی جاتی ہے۔’’اورمشرق اورمغرب سب خداہی کاہے توجدھر تم رخ کرو ادھر خداکی ذات ہے۔‘‘(۲:۱۱۵) ویدانت اوروحدت الوجود میںایسی بے بہامشابہتیںموجودہیںلیکن ان مشابہتوںکی بنیاد پریہ فیصلہ کرلیناکہ وحدت الوجودویدانت کانتیجہ ہے،یقیناایک مغالطہ آمیزفیصلہ ہے۔شومئی قسمت،یہی غلطی بدھ مت کے ضمن میںکی گئی ہے۔بدھ مت کی تعلیمات کاخلاصہ ہے کہ دنیائے چندروزہ ،دُکھوںکاگھرہے۔ایک طرح سے دارالعذاب ہے۔اس کی وجہ خواہشاتِ نفسانی ہیں جن کاعموماًانسان اسیررہتاہے۔اگران خواہشات پرتصرف حاصل کرلیاجائے توانسان کوزندگی کے دردوآلام سے نروان یعنی نجاتِ کلی حاصل ہوسکتی ہے اس کے لیے ضبط ِنفس،تزکیۂ باطن،نفی ذات ، ترک ِعلائق اورعزلت نشینی ناگزیرشرائط ہیں۔چونکہ یہ خصائص مسلم صوفیامیںبدرجۂ اتم پائے جاتے ہیں،اس لیے بدھ مت کے اثرات کادعویٰ کیا گیا اور رہی سہی کسرحضرت ابراہیم بن ادہمؒ کے حالات و واقعات نے پوری کردی۔ روایت۶۴بیان کی جاتی ہے کہ ریاست کپل وستوکے راج کمارسدھارتھ ناتھ نے گیان اورنروان کے سلسلے میںشاہی جاہ وحشمت کوتیاگ دیااوربالآخرگوتم بدھ بن بیٹھا۔عجیب اتفاق ہے کہ علاقہ بلخ کے شہزادے ابراہیم بن ادہمؒ نے بھی حقیقت و معرفت کے حصول میں شاہی تخت وتاج کو چھوڑدیااور بالآخر صوفی کا مقام پالیا۔بہرحال،ظاہری مشابہتو ں کو مدنظر رکھ کروحدت الوجود کو بدھ مت کے خارجی اثرات کاسزاوارٹھہرانا،قطعی مناسب نہیں۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہاجاسکتاہے کہ وحدت الوجودویدانت اوربدھ مت کے اثرات کا جزوقتی ردعمل ہے،ان کا ہمہ وقتی ماحصل نہیں۔ کیونکہ تاریخی اعتبارسے ثابت ہے کہ مسلمانوں کے ظہورسے بھی بہت پہلے ویدانت اوربدھ مت کی تعلیمات کے اثرات عرب وعجم کی سرحدوں تک پھیل چکے تھے۔اس کی وجہ عربوںکے ہندوستان سے تجارتی تعلقات تھے جن کے دوران میں افکار و خیالات کا تبادلہ ہوتارہتا تھا۔ جہاںتک صوفیانہ مسلک،’’مانویت‘‘ کے اثرات کاتعلق ہے تواس کی تہہ میںبھی مغالطہ آمیز خیال کار فرما ہے جس کی نشاندہی محولہ بالامسالک کے ضمن میںکی گئی۔کیونکہ مانویت میںانتہا درجے کے مجاہدے،نفس کشی،ترک دنیا،تجریدِ حیات اورکڑی ریاضت کی قریباًوہی صوفیانہ صورتیں موجود تھیںجووجودی صوفیاء میںرواج پائیں۔حالانکہ مابعدالطبیعی لحاظ سے مانویت مسلم تصوف سے قطعاً مختلف ہے۔ مانویت کے بانی،مانی کے مابعدالطبیعی تصورکے مطا بق عالم کو ن وفسادکی آفرینش نوراورظلمت کی باہمی پیکارکاایسانتیجہ ہے جہاںبدفطرت ظلمت کے ذرات نے، نیک فطرت نورکے ذرات کواپنے اندرقیدکرلیاہے۔نورکے پاس اس کی قیدسے بچ نکلنے کاایک ہی ذریعہ ہے اوروہ ہے نفس کشی کی مشقیں۔ظاہرہے مانویت کے محض صوفیانہ خصائص،کی بناء پر وحدت الوجودکواس کاشاخسانہ ٹھہرانا،زیادتی ہے۔لیکن نوفلاطونیت کے اثرات کامعاملہ اوربھی گمبھیرہے۔اس مسلک کے موئسس فلاطینوس نے افلاطون، نوفیثاغورثیہ اور فلو یہودی کی تعلیمات کے زیرِاثراپنامابعدالطبیعی نظام وضع کیاجس کاتذکرہ گزشتہ صفحات میںکیاجاچکاہے۔تصوف کے اعتبارسے،اس کے نظام کی خاص بات یہ ہے کہ اس نے یہ باور کرایاکہ منطقی وعقلی استدلال سے کسی بھی صورت میں حقیقتِ مطلقہ کونہیںپہنچاجاسکتا۔اس کے لیے واحدراستہ وجدانی استقراء کا ہے۔اسے فلاطینوس کے شاگرداورسوانح نگار، پورفیری(Porphyry)نے اپنی تحریر التسعہ میں جن الفاظ سے بیان کیاہے،یہاں انہیںبعینہٖ نقل کیاجاتاہے ،’’عقل استدلالی اس مقصوداعلیٰ بسیط مطلق تک کیسے پہنچ سکتی ہے؟اس کے لیے توصرف ابھی وجدان کی ضرورت ہے۔ لیکن اس تجربہ کے متعلق کچھ کہناہماری قدرت سے ماوراء ہے۔جب واردات ختم ہوجائے توپھر استدلا ل سے اسے بیان کرنے کی کوشش کی جاسکتی ہے۔اس حقیقت کامشاہدہ ہی اس کے وجودکی دلیل ہے کیونکہ اچانک روشنی ہماری روح کومنورکردیتی ہے۔یہ نوراسی وحدت مطلقہ کی طرف سے آتاہے بلکہ یوں کہنابہترہوگا کہ یہ نورہی وحدتِ مطلقہ ہے۔ یوںمحسوس ہوتاہے کہ وہ وحدت،ہرجگہ موجود ہے۔ جب قلب میںاس کانورچمکتاہے توگویااس نے اپنے مقصودکو پالیا۔ روح کاصحیح مقصد اور انجام یہی ہے کہ اسی نورکی روشنی میںنور ِمطلق کامشاہدہ کرے اسی طرح جس طرح سورج کی روشنی میںسورج کا مشاہدہ کیاجاتاہے۔یہ چیزکیسے حاصل ہوسکتی ہے؟اپنے نفس کوہرچیزسے پاک کرنے سے‘‘۔۶۵ پاکیزگی نفس کے لیے لازم ہے کہ انسانی روح میں ایسا احساس نجات جاگزیں ہو کہ اس عارضی دنیا میں بھی اس کی ذات نور مطلق میں فنا ہو جائے یہ احساص صرف عالم وجد میں پیدا ہوتا ہے۔ اس دوران، انسان کویوںلگتاہے کہ نور ِمطلق اوروہ دونہیں،ایک ہیں۔اس کی مبہم سی صورت مرد اور عورت کے وصال سے سمجھی جاسکتی ہے۔دورانِ وجد، انسان کے قلب میںنور مطلق کاجوش اس قدر غالب ہوتاہے کہ اس کے سواکسی کاہوش قائم نہیںرہتا۔فنائے ذات کی یہی کیفیت وجود ی صوفیاء کے ہاںبھی پائی جاتی ہے۔نوفلاطونیت نے جہاںمسلم حکمت وفلسفہ پراپنے دیرپااثرات چھوڑے تھے ، مسلم تصوف بھی اس سے محفوظ نہ رہ سکا۔لیکن مسلم تصوف کی ساری تحریک کواسی کا ثمر گرداننا،بلاشبہ غلط ہے۔ البتہ مسیحیت کامعاملہ قدرے مختلف ہے۔ یہ عیسائی تصوف کامسلک ہے جودیگرمسالک تصوف کے مقابلے میںاسلام سے کہیںزیادہ قریب ہے۔ اس کی وجہ صاف ظاہرہے کہ عیسائیت اوراسلام،دونوںالہامی مذاہب ہیں۔ اہلِ کتاب ہیں۔حقوق العبادکوحقوق اﷲپرفوقیت دیتے ہیں۔محبت وآشتی اورانسان دوستی کے خواہاںہیں۔صوفیانہ احوال کے اعتبارسے بھی ان میںخاصی قدریںمشترک ہیں۔مثلاًحضرت عیسیٰ کامشہورفقرہ ہے۔’’آسمانی بادشاہت تمھارے اندرہے اور جوکوئی اپنے نفس کوپہچانتاہے وہ اس کوپالے گا۔‘‘۶۶دیکھاجائے تو یہی مفہوم،اس حدیثِ مبارکہ میںملتاہے،’’جس نے اپنے نفس کو پہچان لیااس نے اپنے رب کو پہچان لیا۔‘‘ رسول کریمؐ کی آمدسے پہلے بھی عرب کے کئی باشندے عیسائی راہبوںکی سادگی،خلوت نشینی، عزلت گزینی او ر ذکرواذکارکے طورطریقوںسے بہت متاثرتھے اورپھرجب اسلامی عہد میں یورشیںبڑھیں،طوائف الملوکی کادور دورہ ہوا،مذہبی فتنوںنے سراٹھایا،فقہی مسائل نے جھگڑے پیداکئے،فکری اضمحلال بڑھا،نتیجتاًاس دور کے صوفیاء میں حدود شریعت سے متجاوز ہونے کے رجحان نے زور پکڑا۔اس دور میںبعض صوفیاء نے عیسائی راہبوںکے سے انداز اختیار کئے۔ جیسے ان کی پیروی کرتے ہوئے اپنے پہناوے کے لیے صوف کالباس اوڑھا، خانقاہیں تعمیر کیں، خا نقا ہو ں میں حلقے باندھ کربیٹھنے کی ریت ڈالی۔جہاںعالم وجدکی کیفیت طاری کی جاتی، گوشۂ خلوت میںعبادت ور یاضت کے دوران صوم سکوت کااضافہ کیا،غرض یہ کہ عیسائیت اور اسلام میںدنیاوی لہو ولعب سے گریزکاجوسبق دیاگیاہے،اس معاملے میںعیسائی راہبوںکی طرح مسلم صوفیاء نے اس قدرغلوسے کام لیاکہ ایک طرح کی رہبانیت اختیارکرلی جو اسلامی شریعت کے سراسرخلاف ہے۔قصہ کوتاہ،وجودی صوفیاء میںکم وبیش وہ سبھی خصائص نمایاںہوئے جومسیحی راہبوں سے مخصوص ہیں۔اس کے باوجود،یہ بات نظرانداز کرنے کی نہیںکہ مسیحیت کبھی مسلم تصوف کی پوری روایت پر محیط نہیںرہی صرف وجودی صوفیاء کامخصوص حلقہ اس سے متاثرہوا۔ جہاں تک وحدت الوجودکی موجودگی میں وحدت الشہود کی ضرورت کے سوال اٹھنے کاسوال ہے ،اس سلسلے میںیہ مناسب رہے گاکہ پہلے انتہائی اختصار کے ساتھ ان دونوںتصورات۶۷کے مابین امتیازات کی شناخت کی جائے۔وحدت الوجود کانظریہ ہمہ اُوست (Pantheism)کا قائل ہے جس کے مطابق خداکائنات ہے اور کائنات خداہے۔ جب کہ وحدت الشہود کانظریہ ہمہ از اُوست (Pan-en-Theism)کاقائل ہے جس کے مطابق خداکائنات کا خالق ہے اور اس سے ماوراء ہے۔وحدت الو جو د کا رجحان تصوف سکون کی طرف مائل ہے جس میںانسان بمثل بوند حقیقت مطلقہ بمثل سمندرمیںفناہوجاتاہے جب کہ وحدت الشہود کا رجحان تصوف جوش کی طرف مائل ہے جس میں انسان بمثل موتی حقیقت مطلقہ بمثل سمندر میں فنا ہوکراپنی بقااور شناخت قائم رکھتاہے۔ وحدت الوجود میں صوفی کا اعتقاد اناالحق پر ہوتاہے۔یعنی وہ اپنے آپ کو عارف سمجھتا ہے۔جب کہ وحدت الشہودمیںصوفی کااعتقاد اناعبدہ پر ہوتاہے۔یعنی وہ اپنے آپ کوعاشق سمجھتاہے۔ وحدت الوجود میں صوفی شرعی ظواہروشعائر کی پروا نہیںکرتا جب کہ وحدت الشہود میں صوفی شرعی ظواہروشعائرکی باقاعدہ پابندی کرتاہے۔وحدت الوجود کے پیرو دیگر صوفیانہ مسالک کے ساتھ اپنے مسلک کی باہمی مشابہتوںاوریک رنگیوں کو مدنظررکھتے ہیںجب کہ وحدت الشہود کے پیرو اس سلسلہ میں صرف اختلافات اورتضادات کوملحوظ ِخاطررکھتے ہیں۔ ان امتیازات سے واضح ہوجاتاہے کہ وحدت الشہودکے پیرو توحیدی صوفیاء نے یہ بھانپ لیاکہ وجودی صوفیاء شریعت ِاسلامیہ کی ڈگر سے ہٹے جاتے ہیںاور غیراسلامی تصوف کے مابعد الطبیعی نظام فکر کو سمجھے بغیر محض اسے ظاہری اورعملی طرز کے صوفیانہ احوال وکیفیت کی باہمی مشابہتوں پر ان سے جذب وایجاب کاسلسلہ روارکھتے ہیںاور اگریہی سلسلہ چلتارہا تواس سے بہت نقصان ہوگا۔ جیسے: .1عوام الناس راہ ِشریعت سے بھٹک جائیںگے .2اتباع ِرسولؐ کے تصورکونقصان پہنچے گا .3اسلامی تصوف کاوہ تشخص مجروع ہو گا جو رسول کریمؐ،صحابہ اکرام،تابعین اورتبع تابعین کے زمانے میں ہویداتھا .4اسلامی تصوف اورغیراسلامی تصوف کے مابین تمیزجاتی رہے گی .5مسلم معاشرے میںبے عملی اورانتشاربڑھے گاجولامحالہ مسلم اُمہ کے لیے خطرناک ہوگا مسلم استدلال کاتجزیہ اورفکرِاقبال (Evaluation of Muslim Reasoning & Iqbal's Thought) مسلم استدلال کے جائزے سے یہ واضح ہوتاہے کہ مجموعی طورپرمسلم مفکرین کا استدلال، ہیلانیاتی استدلال سے مفاہمت یا پھر مخاصمت کی صورت میںفروغ پایا۔علم الکلام میںان کا زور ہیلانیاتی استدلال کی مخالفت کی طرف تھاتاکہ اسلامی تعلیمات کامحاکمہ کیاجاسکے۔اس مقصد کے لیے یونان کے استخراجی استدلال کوسراہاگیاکیونکہ حریف کو حریف کے منطقی ہتھیاروںسے مات دینا مقصود تھا۔اس کے برعکس،مسلم حکمت وفلسفہ میںان کاجھکاؤ ہیلانیا تی استدلال سے مفاہمت کی طرف بڑھاتاکہ اس غلط فہمی کاازالہ کیاجاسکے کہ مذہب اورفلسفہ میںٹکراؤہے جوکہ متکلمین کے مناظروںاورمجادلوںسے غلط العام ہوچکاہے۔لیکن جب اس کاوش کے نتیجے میں ہیلانیاتی استدلال اسلامی استد لا ل پر حاوی ہونے لگاتواس کاشدیدردعمل ہوااوراب کی دفعہ یہ تاثر عام کیا گیاکہ مذہب اورفلسفے کوایک ہی پلیٹ فارم پر مجتمع کرنا،مذہب کے حق میںبہترنہیںکیونکہ فلسفے کے مضراثرات مذہبی عقائدمیںاس خاموشی سے سرایت کر جاتے ہیںکہ عوام الناس کواس کی خبر تک نہیںہوتی۔مگراندلس کے مسلم حکماء نے ازسرنوہیلانیاتی دانش کی معنویت کو اجاگر کیا بالخصوص انسانوںکے ذہنی درجوںکی تفاوت کے پیشِ نظراس تاثرکوابھاراکہ کے مذہب پر فلسفے کے سلبی اثرات مرتب نہیں ہوتے بشرطیکہ اہل فکرکے ذہنی اُفق بہت کشادہ ہوں۔صرف وہی جان سکتے ہیںکہ مذہب اورفلسفے میں کہاںتک مفاہمت ہے اوراس کاکیامفہوم ہے۔بہرطور،مسلم حکمت و فلسفے کا سارااصرارمذہب اورفلسفے کی مفاہمت یا مخالفت پرصرف ہوا،اس لیے استخراجی استدلال اختیار کیا گیاتاکہ نتائج کے یقینی ہونے میںکوئی کسرنہ رہ جائے ۔ مسلم تصوف کامعاملہ ذرامختلف رہا۔ابتدامیںاس کاسلسلہ عبادت وریاضت کی طرف مرکوز تھاجس کی بدولت شریعت اورحقیقت کے مابین فرق کے مابعدالطبیعی تنازعے نے کبھی سر نہ اٹھایا۔ لیکن جیسے جیسے زمانے میں تغیرات بپا ہوئے،مجموعی طورپرغیراسلامی تصوف کے مابعدالطبیعی افکار نے ایسے اثرات چھوڑے جس کے نتیجے میں وحدت الوجود کاصوفیانہ مسلک پروان چڑھا۔ اس مسلک نے وجدانی تجربات وواردات اورصوفیانہ احوال وکیفیات کو جن مقدمات میںڈھال کر پیش کیا، اُن سے ایسے نتائج برآمدہوئے جواسلامی شریعت سے میل نہ کھاتے تھے۔لیکن صوفیانہ کیفیات وواردات کے نشے میںمعموروجودی صوفیاء کواحساس تک نہ ہواکہ ان کااستدلال عوام النا س کے لیے کس قدرخطرناک ثابت ہوسکتاہے۔لیکن پھرایسے صوفیائے کرام بھی سامنے آئے جنہوںنے تصوروحدت الوجودکے نقصانات کو بھانپ لیااوراس کی اصلاح کابیڑا اٹھایا اور صوفیانہ تجربات و واردات کواستدلال کاایساآہنگ بخشاجس سے ایسے نتائج اخذ ہوئے جواسلامی شریعت کے مخالف نہ تھے۔الغرض،مسلمان مفکرین کاعلم الکلام ہو،حکمت وفلسفہ ہو، یاپھر تصوف، انہوں نے جب بھی استدلال کیا اس میںاستخراج کو جگہ دی۔ ضمناً، توجہ طلب بات یہ ہے کہ محولہ بالا ماحصل کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ مسلمانوں کے ہاں،استقرائی استدلال کافقدان تھا جیسے کہ بیان کیا جا چکا، عربوں کا تو بعثت ِمحمدیہؐ سے قبل بھی مزاج استقرائی تھا،انہوںنے اس سلسلے میںکس قدر گرا نقدرکارہائے نمایاںسرانجام دئیے، اسے اگلے باب میں بیان کیا جائے گا۔ آخرمیں ایک وضاحت ضروری ہے کہ مسلم دانشوروں میں ایک نمایاں مقام ابنِ خلدون کو حاصل ہے جس کاتذکرہ مسلمانوںکے علم الکلام،حکمت وفلسفہ اور تصوف میںکہیںبھی نہیں کیا گیا ۔ آخرکیوں؟اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کازمانہ تاریخ کے اس دور سے تعلق رکھتاہے جب مسلمانو ںکے ہاں، علم الکلام، حکمت وفلسفہ اور تصوف،اپنی اپنی جگہ بناچکے تھے اوران کے زیروبم سے مسلمان متاثرہورہے تھے۔ اپنی محققانہ ژرف نگہی کے تحت وہ اس نتیجہ پر پہنچاتھاکہ سبھی مکاتب فکر،مجموعی طور پر اس قابل نہیںکہ ان کااقتضاکیاجائے۔اس کی رائے میںمسلم علم الکلام کا نقص۶۸ یہ ہے کہ اس میںعقل کی ترازوسے امورعقائدجیسے توحیدوآخرت وغیرہ کوتولنے کی کوشش کی جاتی ہے، یہ بالکل ایسے ہے جیسے کسی شخص نے کانٹے سے سونے کوتلتے دیکھاہو تویہ خیال راسخ کر لیاہوکہ چلو اس سے پہاڑبھی تولتے ہیں۔کیاا س کا خیال عقل کے دائرے میں شمار کئے جانے کے لائق ہوگا؟ ظاہرہے کانٹااپنی طاقت کے مطابق ہی کام کرسکتاہے بعینہٖ عقل بھی اپنی استطاعت کے مطابق کام کرسکتی ہے۔اس پیرائے میںکیامتکلمین کااستدلال اس لائق ہے کہ خاطر میں لایاجائے؟یقینایہ سوال ہی احمقانہ ہے۔ دراصل ابنِ خلدون کوکلام اورعلم الکلام کے فرق کااندازہ تھا۔وہ یہ بات مانتاہے کہ جس دورمیںکفار کے بالمقابل عقائد ایمانیہ کادفاع مقصود تھا، کلام ضروری تھا، لیکن جب کلام میں فلسفیانہ مسائل کوآپس میںخلط ملط کردیاگیا توکلام کی حسب ِمنشا افادیت مفقود ہوگئی۔ جہاں کلام عقائدکے لیے پختہ عقلی دلائل بہم پہنچاتا اور بدعت کاراستہ مسدودکرتا،وہاںعلم الکلام نے ایسے عقلی دلائل پیش کئے جن کی بدولت مسلمانوںمیںتفرقے بازی کوہواملی ا ور غیر شعوری طور پر بعض نے بدعت کوفروغ دیا۔دوسری بات،جب مسلمانوں کے مدمقابل کفارنہ رہے توپھرعلم الکلا م کی ضرورت کا کوئی جوازنہیںبنتاتھالیکن مسلمان آپس کی لاگت بازی میںاسے کھینچتے رہے۔ مسلم حکمت وفلسفے کانقص۶۹یہ ہے کہ اس حقیقت ِمطلقہ کے اکتشاف کوخارجی عالم محسوسات پر نہیں، فکرِذہنی پرموقوف سمجھاجاتاہے۔گویافکرِذہنی کے عملِ تجریدکی بدولت،بتدریج ایسے صوری کلیہ پر پہنچاجاتاہے جوحقیقت ِمطلقہ کا ترجمان ٹھہرتا ہو اور جوخارجی عالمِ محسوسا ت کی قطعی منزل قرار پاتا ہو۔ابنِ خلدون کے نزدیک،یہ حکماء کی کوتاہ فہمی ہے،دانائی ،نہیں۔کیونکہ عمل تجریدکے تحت جو صوری کلیہ اخذ کیا جاتا ہے، ضروری نہیںکہ وہ خارج کاعین اظہارہو۔ثانیاًصوری کلیہ محض تجریدی تصورہے اور تجریدی تصور ہمیشہ خارجی محسوسات کے توسط سے تشکیل پاتاہے جبکہ روحانی حقائق کے اسرارورموزخارجی محسوسات کے دائرہ عمل سے یکسرباہرہیں،ان کوتھوڑابہت اگرجاناجا سکتا ہے،توصرف نفسی محسوسات کی بدولت۔اس حوالے سے حقیقت مطلقہ کے متعلق پیش کردہ فکری دلائل کوکبھی بھی تیقن کی نگاہ سے نہیںدیکھاجاسکتا۔اورجہاںظن ہی ظن ہو وہاں سرکیوںکھپایا جائے۔پس،مابعدالطبیعیات بے کارہے۔البتہ اس کا فائدہ صرف اتناہے کہ عقلی دلائل کوترتیب دینے اورکھرے کھوٹے کوجانچنے کے لیے ذہن میںخوب تیزی اورروانی آجاتی ہے۔ پھرمسلم تصوف کانقص یہ ہے کہ جب اس میںکلام اورفلسفے کے موضوعات ومسائل کو شامل کر لیاگیا تو اس کا وہ رنگ مفقودہوگیاجواس کاطرہ امتیازتھا۔ابن خلدون لکھتا ہے کہ متاخرین صوفیاء نے ’’کلام،فلسفہ اورتصوف ہرسہ کو ایک کرکے رکھ دیا۔چنانچہ انہوںنے نبوت،اتحاد،حلول و وحدت پربحثیں اٹھائیں۔حالانکہ ہرسہ علوم اپنے اپنے موضوع ومسائل جدا جدا رکھتے ہیں۔ اور پھر صوفیاء کے مدارک توبالخصوص سب ہی علوم وفنون سے جداہیں۔کیونکہ وہ تواپنی بناء وجدان پر رکھتے ہیں۔دلیل وحجت سے ان کوکیاعلاقہ وواسطہ۔وجدان تودرحقیقت دلیل وعقل کی رسائی سے بالاتر ایک چیزہے۔پھراس میںعلمی بحثوںاورعقلی موشگافیوںکی ضرورت ہی کیا۔‘‘۷۰ جہاں تک اقبال کامعاملہ ہے ،وہ مسلمانوںکے علم الکلام،حکمت وفلسفہ اور تصوف،سب کو ناقدانہ دلائل سے پرکھنے کے بعدان کواس قابل سمجھتاہے کہ ان کااقتضاکیاجائے۔اس کاجائزہ لینے کے لیے مسلم استدلال کی سہ جہتی صورتوںکوباری باری فکراقبال کے پیرایے میںجانچتے ہیں: .1مسلم علم الکلام اورفکراقبال :(Muslim Ilm-ul-Kalam & Iqbal's Thought) قابلِ توجہ بات یہ ہے کہ اقبال نے مسلمانوں کے کلام کوعلم الکلام سے ممیز رکھا۔اس کاثبوت ان بیانات سے ملتاہے جوسیدنذیرنیازی۷۱نے رقم کئے ہیں۔ اقبال کابیان ہے’’کلام اسکولاسٹسزم نہیںہے کہ عقائدِ مذہب کی تطبیق کسی مخصوص فلسفے سے کی جائے جیساکہ مسیحی کلام سے مقصود تھا ۔ عالمِ اسلام میں کلام سے مقصود تھا مذہب پر فلسفیانہ گفتگو۔پھراس کے مسائل بھی علم وحکمت کے مسائل تھیـ، عقائد نہیں تھے کہ ان میںعقل کومطلقاً دخل نہ ہوتا۔‘‘ اوراس کا کہنا ہے ’’کلام مسلمانوںکی ایجاد ہے اوراس کا نشو ونماعالم اسلام سے مخصوص۔‘‘ مزید کہناہے’’یہ صحیح ہے کہ یہود اور عیسائیوں میںبھی متکلمین پیدا ہوئے اور انہوں نے کوشش کی کہ اپنے عقائدکی تطبیق فلسفہ یونان سے کریں۔لیکن بات دراصل یہ ہے کہ مسلمانوںسے پہلے الٰہیات کا کہیںوجود ہی نہیں تھا۔ عیسائیوںکے یہاںتوعقل کانام لینابھی جرم تھا ۔ رہے دوسرے مذاہب سوان کے یہاںبعض مسائل میںایک علمی روش ضروراختیارکی گئی، لیکن ایساکبھی نہیںہواکہ الٰہیات کاارتقاء بطورالٰہیات کے ہوتا۔‘‘اقبال کے نزدیک، مستشرقین کی غلطی یہ ہے کہ انہوںنے مسیحی عقائد اور یونانی فلسفے کی تطبیق کو کلام سے تعبیر کیا۔یہ کلام نہیںہے،اسکولاسٹسزم ہے۔ان دونوںمیںفرق کرناچاہیے۔ کلام مسلمانوںکی خاص چیزہے۔اقبال کے لفظوں میںاس کااندازہ صرف اس ایک بات سے بآسانی لگایا جا سکتا ہے کہ ’’اس]اسلام[کی عقلی اساسات کی جستجو کا آغاز آنحضرت صلعم ؐکی ذات مبارکہ ہی سے ہوگیاتھا۔آپؐ ہمیشہ دعافرماتے۔’’اے اﷲ مجھ کواشیاء کی اصل حقیقت سے آگاہ کر!۔‘‘۷۲ اس مناسبت سے کوئی ابہام نہیں رہتا کہ مذہبی عقائدکی عقلی بنیادوں کو ڈھونڈنا کلام ہے جبکہ مذہبی عقائدکی فلسفیانہ تعبیرات وتاویلات کرنا علم الکلام ہے۔ اقبال کی تحقیقات کے مطابق جب خاندان ِعباسیہ کوعروج حاصل ہوااوریونانی فلسفے کے مطالعے کے بعد ایران کی عقلی قوت نے آزادفکراورروشن خیالی کاچلن اپنایا تواس کے حیرت انگیز انقلابی اثرات رونما ہوئے۔خصوصاً اسلام کے نظریۂ توحید کاناقدانہ جائزہ لیاجانے لگا،نتیجتاًکلام نے علم الکلام کاروپ دھارنا شروع کیااورعلم الکلام مذہبی جوش سے متاثرہوکرفلسفہ کی زبان بولنے لگا۔اس سلسلہ میں،متکلمین نے ہوبہو کلاسیکی استدلال کے طرزپراپنے دلائل کی عمارت استوار کی۔مثلاًیہ دلیل۷۳ ملاحظہ ہو: اگروہ کسی جہت میںہوتوتعین لازم آئے گا جوشے متعین ہوتی ہے، وہ مشخص اورمتشکل بھی ہوتی ہے جوشے مشخص ہوتی ہے، وہ محدودبھی ہوتی ہے اورجوشے محدود ہوتی ہے اس کے اجزاء نکل سکتے ہیں اورجس میںاجزاء ہوتے ہیںوہ مرکب ہوتی ہے اورہرمرکب شے حادث ہوتی ہے اورجو حادث ہے وہ خدانہیںہوسکتا صاف ظاہرہے کہ یہاںقیاسِ مسلسل کااستخراجی اندازمصرف میں لایا گیا ہے۔ قدیم یونانی اور چینی دورمیں مروج تھاجیسا کہ باب اوّل میںکنفیوشس کے طریقۂ استدلال۷۴ میںواضح کیا گیا۔اسی باب میںیہ بھی وضاحت کی جاچکی ہے کہ اقبال کویونانیوںکے استخراجی انداز سے کس قدر چڑتھی۔اس کے نزدیک،مسلم متکلمین سے غلطی یہی ہوئی ہے کہ وہ اپنے عقیدے کی ایمانی حرار ت کچھوڑکراس کی فلسفیانہ موشگافیوںمیںالجھ کررہ گئے۔ نتیجہ یہ نکلاکہ مسلمانوں میں بے عملی اورتفرقہ با ز ی کوجلاملی۔ اس لیے بڑے دُکھ سے کہناپڑتاہے: زندہ قوت تھی جہاں میں یہی توحید کبھی آج کیا ہے؟ فقط اک مسئلہ علمِ کلام! ۷۵ گویاتوحیدکااقتضائے ایمان تازہ نہیںرہا۔اس کے برعکس،اس کے بارے میںفلسفیانہ طرفہ طرازیوںنے تازگی پائی ہے اوراس کی ساری ذمہ داری اس طرز ِاستدلال پرعائدہوتی ہے جومسلم علم الکلام کاخاصّہ ہے اورجس کا جادوسرچڑھ کر بولتا ہے۔متکلمین کے استدلال سے سامع کی حالت یہ ہوجاتی ہے کہ وہ دلائل کی صوری ہئیت،اس کے زیروبم اور چاشنی ٔاسلوب میں کھو جاتا ہے اوراس نشے میںحقیقت حال سے بیگانہ ہوجاتاہے۔نتیجتاًاس میںقوت ِعمل اورذوق ِجہاد کے جذبات سردپڑجاتے ہیں۔اسے یوںسمجھاجاسکتاہے کہ جس طرح قوالی سننے والے کواس کے کیف و سرور کانشہ اردگرد سے بیگانہ کردیتاہے بعینہٖ علم الکلام کے استدلال کی تاثیرسے بیگانگی کا تاثر ابھرتا ہے۔اقبال کی نظر میںایسااستدلال، یقیناًابلیسی شاخسانہ ہے۔اس کااظہار’’ابلیس کی مجلس شوریٰ‘‘کے اس شعر میںملتاہے جہاں ابلیس کا پہلا مشیر گویا ہے: طبعِ مشرق کے لیے موزوںیہی افیون تھی ورنہ ’قواّلی‘ سے کچھ کمتر نہیں’علمِ کلام‘ ۷۶ علم الکلام کے مباحثوںومناظروںمیںتیزی آجائے توفردکیا،پوری قوم ہی ذوق ِعمل سے محروم ہوجاتی ہے: قوم کے ہاتھ سے جاتاہے متاعِ کردار بحث میں آتا ہے جب فلسفہ ٔذات و صفات! ۷۷ مولانا سعیداحمداکبرآبادی نے مسلم علم الکلام میںایسے تین عیوب۷۸ کی نشاندہی کی ہے جس کے اقبال خلاف تھا۔ .1اس کاتاروپودیونانی فلسفہ ومنطق سے تیارہواتھاجو کہ بہت کمزوراورناپائیدارتھا۔ .2اس کے مسائل ومعاملات عالمی نوعیت کے حامل نہ تھے۔ .3اس میںوحی اورعقل کے مابین اختلاف کی خلیج کووسیع کیاگیا۔ فکراقبال کے تناظرمیںذراغورکیاجائے توباآسانی معلوم ہوجاتاہے کہ ان عیوب کے پسِ پردہ استخراجی استدلال کی کارفرمائی مستورہے۔یہاں اقبال کے دلائل کی روسے محولہ بالا نکات کا بالترتیب جائزہ لیاجاتاہے: .1جیساکہ گذشتہ باب میںتفصیل سے واضح کیا جاچکاہے کہ یونانی فلسفے کا دارومدار منطقی طر ز کے استدلال پر ہے اوراس میںمحسوسات ومدرکات کی حیثیت محض فریب اورواہمہ کی ہے۔ اقبال کے الفاظ میں’’یہ حقیقت تھی جسے شروع شروع کے مسلمانوں نے قرآن مجیدکے مطالعہ میں یونانی ظن وتخمین سے مسحور ہو کر نظر انداز کر دیا۔بہ الفاظ دیگر انہوں نے اس کامطالعہ بھی فکر ِیونان ہی کی روشنی میں کیا اور پھر کہیں دوسوبرس میںجاکرسمجھے اوروہ بھی پورے طورسے نہیںکہ قرآن ِپا ک کی روح اساساً یونانیت کے منافی ہے۔‘‘۷۹بریفالٹ سے اتفاق کرتے ہوئے اس نے اسی مطمح نظر کا اعادہ خطبۂ پنجم میںبھی کیا،جہاںلکھاہے،’’یونانیوںکودرحقیقت نظریوںسے دلچسپی تھی، حقائق سے نہیں۔ لہٰذا ان کے افکارایک طرح کی روک تھے جس نے مسلمانوںکوکوئی دو سوبرس تک یہ سمجھنے کاموقع ہی نہ دیاکہ قرآن پاک کی حقیقی روح کیاہے۔ان افکارنے عربوںکے عملی ملکات کو بھی دبائے رکھا۔‘‘۸۰یہ غزالی اورابن ِتیمیہ جیسے صاحب بصیرت مفکر تھے جنہوںنے یونانی فلسفے کی کمزوریوںاورمغالطوںکوفاش کیااوریونانی استدلال کے کمزور اور ناپائیدارہونے کے جواز پیش کئے۔یونانی اوراسلامی،نقطہ ہائے نظرکے فرق کو اجاگرکرنے کے لیے اس کایہ شعر یقینا حسبِ حال ہے: حقائقِ ابدی پر اساس ہے اس کی یہ زندگی ہے، نہیں ہے طلسمِ افلاطوں! ۸۱ .2 مسلمانوںکے علم الکلام کامکتبِ فکرخواہ کوئی ہو،ان کامقصوداپنے مقابل مکتبِ فکرکوقائل کرناتھاکہ عقائد ِایمانیہ کے مسائل ومعاملات کے بارے میںان کے دلائل صحیح نہیں،صرف انھی کااستدلال درست ہے۔اس دھن میں انہوںنے کبھی یہ غورہی نہ کیاکہ اسلام کے مسائل و معا ملا ت کاتعلق صرف مسلمان سے نہیں،بلکہ پوری بنی نوع انسان سے ہے۔اس مناسبت سے مسلم متکلمین ایک دوسرے کوضعف پہنچانے میںاستخراجی دلائل کاسہارالیتے رہے اور کبھی اس صورت ِحال سے اوپراٹھ کریہ نہ سوچاکہ اسلامی مسائل ومعاملات کواستقرائی استدلال کی رُوسے نبٹناچاہیے جوکہ اصل میںمطلوب ومقصودہے۔متکلمین کے استدلال سے مولوی صاحبان نے سب سے زیادہ فیض پایاہے اوربزبان اقبال ’’ان کی یہ حالت ہے کہ اگرکسی شہر میں اتفاق سے دو جمع ہو جا ئیں تو حیات ِمسیح یاآیات ِناسخ ومنسوخ پربحث کرنے کے لیے باہمی نامہ وپیام ہوتے ہیںاوراگربحث چھڑ جائے،اوربالعموم بحث چھڑجاتی ہے، تو ایسی جوتیوںمیں دال بٹتی ہے کہ خدا کی پناہ۔پرانا علم وفضل جوعلمائے اسلام کاخاصہ تھا نام کوبھی نہیں،ہاںمسلمان کافروںکی ایک فہرست ہے کہ اپنے دستِ خا ص سے اس میںروزبروز اضافہ کرتے رہتے ہیں۔‘‘۸۲یہ وہی روش تھی جوجبریہ اور قدریہ،معتزلہ اور اشاعرہ، وغیرہ سے منسوب تھی ۔بلاشبہ، اقبال نے ایسے علم الکلام کو پسند نہیں کیا اور اس کے برعکس ایسے علم الکلام کی ضرورت پرزوردیاہے جوفرداورملت کی روحانی ضرورتوںکوعصرجدیدکے تناظر میںپوراکرے۔اقبال کے الفاظ میں ’’زندگی کے متعلق ملت کے زاویہ نگاہ کے دوش بدوش ملت کی روحانی ضرورتیںبھی بدلتی رہتی ہیں۔فردکی حیثیت سے اس کی دماغی نجات وآزادی اورطبعی علوم کی غیرمتناہی ترقی،ان چیزوںمیںجوتبدیلی واقع ہوتی ہے اس نے جدیدزندگی کی اساس کو یکسر متغیر کر دیا ہے۔چنانچہ جس قسم کاعلم کلام اورعلم دین ازمنہ وسطی کے مسلمانوںکی تسکین ِقلب کے لیے کافی ہوتا تھا وہ آج تسکین بخش نہیں ہے۔اس سے مذہب کی روح کو صدمہ پہنچانا مقصود نہیں ہے … آج ضرورت ہے کہ دماغی اور ذہنی کاوش کو ایک نئی وادی کی طرف مہمیزکیاجائے اور ایک نئی دینیا ت اور کلام کی تعمیر و تشکیل میںاسے بروئے کار لایا جائے۔‘‘۸۳ اقبال نے مضمون’’قومی زندگی‘‘میں،کم لفظوںمیں اسی کااظہاراِس طرح کیاہے۔’’اگر موجودہ حالات زندگی ِپر غوروفکر کیاجائے تو…اس وقت ہمیںتائید ِاصولِ مذہب کے لیے ایک جدیدعلم الکلام کی ضرورت ہے۔‘‘۸۴ بقول سید نذیرنیازی،اقبال کے خطبات کاحاصل بھی یہی تھا۔لکھتے ہیں ’’خطبات کا مدار بحث ہستی باری تعالیٰ ہی کااثبات ہے اوروہی اس ساری محنت اور کاوش کاحاصل۔مگرالٰہیات یا کلام کے ایک مسئلے کی حیثیت سے نہیںجیسا کہ عام طور پرسمجھا جاتاہے،بلکہ حقیقت کی اس مابعدالطبیعی جستجو کے ماتحت جس میںایک عقلی تقاضے کی تسکین کے ساتھ ساتھ ان مسائل کاحل بھی ضروری ہوجاتاہے جن کاتعلق انسان اورکائنات سے ہے اورجوہمارے مابعد الطبیعی غور و فکر کا ویسا ہی جزوہیںجیسے حقیقت مطلقہ کے ادراک اورماہیت کی بحث۔‘‘۸۵ .3جیسے کہ پیچھے دیکھا جاچکاہے ،معتزلہ اور اشاعرہ کے مابین بنیادی اختلاف طرز ِاستدلال کانہیںتھا، نقطۂ نظر کا تھا۔معتزلہ عقلیت پسند تھے جواس بات پر مُصرتھے کہ انسانی عقل کوقطعی سند حا صل ہے کہ کسی بھی معاملے کے حسن وقبح میںامتیازکرے۔اس کے برعکس،اشاعرہ استنادیت پسندتھے اوران کااصرارتھاکہ وحی کوانسانی عقل پرفوقیت حاصل ہے اورصرف وہی کسی بھی معاملے کے حسن و قبح میںامتیازرکھنے کی مجازہے۔یقینا ان کے اس جھگڑے سے یہ تاثراُبھرتا ہے کہ عقل اور وحی میں تصادم وتزاحم ہے،دُوری ہے۔دراصل،استخراجی استدلال کے زورپرایک دوسرے کو مات دینے کے چکرمیں،متکلمین یہ جان ہی نہ پائے کہ عقل کااستقرائی طریق وحی کی تعلیمات پر جا پہنچتاہے جہاں دونوں میںاختلاف کاسوال ہی نہیںاٹھتاکجایہ کہ دونوںمیںخلیج کاگمان گزرے۔ یہ نکتے سمجھنے کے لیے اقبال کے یہ بیانات کافی ہیںجن کو سید نذیرنیازی نے اپنی بیاض اقبال کے حضورمیںدرج کیاہے۔ ’’بات اصل میں یہ ہے کہ قرآن مجیدقلب کے راستے سے بھی شعور میں داخل ہوتاہے اور دماغ کی راہ سے بھی سمجھ میںآتاہے۔دماغ کی راہ سے سمجھ میں آنے کامطلب ہے حقائق کا ادراک،علم اورفکر،تجربے اورمشاہدے کی روشنی میں … حقائق کاادراک ہمیشہ سے جاری تھا۔کبھی ایک حقیقت سمجھ میںآئی کبھی دوسری، کبھی جزواً،کبھی تماماً۔اب اگر انسان وہ سب حقائق جواس نے اپنے علم اورتجربے کی روشنی میںحاصل کئے،یاجن تک عقل اورفکرکے ذریعے اس کی رسائی ہوئی باہم فراہم کرلے اورایک مربوط ومنظم شکل میںپیش کرے توان سے قرآن پاک ہی کے ارشادات کی تصدیق اورترجمانی ہوگی…حقائق کاادراک ہوتارہااورہوتارہے گا۔ قرآن مجیدان سب حقائق کا جامع ہے جوہمارے ادراک میںآچکے ہیںاوران کابھی جن کاادراک باقی ہے۔ خواہ یہ حقائق سنوسی کی زبان سے اداہوں،خواہ لینین کی۔ حقائق بہرحال حقائق ہیں۔ان کوسمجھنے کی جس طرح بھی کوشش کی جائے اپنی جگہ پر ٹھیک ہے۔مقصدہے ان کاسمجھنااور قبول کرنا۔ لہٰذا انہیں جس طرح بھی سمجھیںیہ قرآن پاک ہی کا سمجھناہوگا،اس کی تعلیم سے بہرہ ور ہونا … کبھی ایک حقیقت زرتشت کو ملی،دوسری بدھ کو۔ایسے ہی اوربھی حقائق ہیں۔وہ انسان کے فہم وادراک میں آتے رہے،خواہ کسی راستے سے،لیکن پھرحقائق کے ساتھ افسانے میںشامل ہوتے گئے اوریہ ایک قدرتی تقاضاتھااس مرحلے کاجس سے ذہن انسانی کاگزرہورہا تھا۔ لہٰذاجیسے جیسے کسی قوم نے کسی حقیقت کوماناویسے ہی کوئی افسانہ بھی قبول کرلیا،لیکن افسانوںکوتوافسانہ ہی سمجھنا چاہیئے۔ انہیںحقیقت پرمحمول کرناغلطی ہے۔افسانے ہمارے دل ودماغ کی اختراع ہیں۔ ان کووضع کیا گیا توکسی مطلب کے لیے۔یہی وجہ ہے کہ قرآن پاک نے جہاںحقائق کی تصدیق کی وہاں افسانوں کو نظر انداز کر دیا اوراگرنہیںبھی کیاتو اس حدتک ترمیم اورقطع بریدکے ساتھ کہ ان سے جن حقائق کی ترجمانی مقصود ہے ان کی طرف واضح طورپراشارہ ہو جائے…مثال کے طورپرآدم وحوا کا افسانہ ہے قرآن مجیدنے اس کے بیان میں ایک نیااندازاختیارکیا…مگرلطف کی بات یہ ہے کہ اگرقرآن کسی افسانے کاذکرنہ کرے جب بھی معلوم ہوجاتاہے کہ اس کااشارہ کس افسانے کی طرف ہے،مثلاًقرآن میںہے ہم نے کائنات کو کھیلتے ہوئے پیدانہیںکیا۔اس سے ہماراذہن خود بخوداس افسانے کی طرف منتقل ہو جاتا ہے جو ہندوؤںمیںرائج ہے اورجس سے یہ بیان کرنا مقصود ہے کہ دنیاکیاہے؟ایک کھیل جسے رام نے اپنی دل لگی کے لیے رچایا…ہندوؤںکے یہاںایک دیوتا ہے جس کانام ہے’نٹ راجن‘،یعنی کھلاڑیوں کا راجہ۔وہ اس کی مورتی بھی تیار کرتے ہیں تو اس طرح جیسے یہ دیوتا راگ رنگ میں مشغول ہے…ایسے ہی صفات باری تعالیٰ کے ذکر میں جب قرآن یہ کہتا ہے’’لاتاخذہ سنۃ و لا نوم‘‘[اسے نہ اُونگھ آتی ہے نہ نیند۔ (البقرہ) ۲:۲۵۵] توبے اختیار ہندوؤں کایہ قول یادآجاتاہے کہ کائنات پرماتما کاخواب ہے۔ادھراس کی آنکھ کھلی اوراُدھریہ خواب پریشان ہو گیا…ہمارے ہاں بعض صوفیہ نے بھی اسی قسم کے خیالات کا اظہار کیا ہے۔‘‘۸۶ ڈاکٹررفیع الدین کے ان اقتباسات میںاقبال کے بیانات کانچوڑملتاہے: .i’’خدا کی وحی ہمیںانسان اورکائنات کی حقیقت کے متعلق ایک نظریہ عطاکرتی ہے اور فلسفے کی صورت میں عقلِ انسانی بھی انسان اورکائنات کاصحیح نظریہ بہم پہنچانے کی کوشش کرتی ہے۔ عقل کایہ وظیفہ جواس نے خودبخوداپنے لیے تجویز کرلیاہے بیک وقت خداکی وحی کاوظیفہ بھی ہے لہٰذاعقل انسانی جوخداکی وحی کے بیانات کوقبول کر لینے کے بعدبھی ان کوزیرغورلانے کی طرف مائل رہتی ہے،یہ چاہتی ہے کہ جن سوالوں کاقطعی جواب خدا کی وحی پہلے ہی دے چکی ہے ان سوالات کاکوئی ایساجواب بھی ڈھونڈنکالے جواس کے اپنے لیے مکمل طورپر تسلی بخش ہو۔‘‘۸۷ .ii’’سائنس اورفلسفہ کی ہرترقی خواہ وہ دنیاکے کسی مقام پراورکسی شخص کی باتوںسے ظہور میں آئے قرآن کے درخت کاایک نیاپتہ،ایک نئی شاخ،ایک نیاپھول یاپھل ہے۔چونکہ علم کی ترقی جاری رہے گی اورعلم نبوت(یعنی علمِ بالوحی) کی رہنمائی میںآخرکاراغلاط سے پاک ہوتا رہے گا اور ظاہرہے کہ قرآن کی شاخیں اورپھل پھول قیامت تک نوع ِ انسانی کوبہاردکھاتے رہیںگے اوراس قسم کی ترقیوںکوممکن بناتے رہیںگے اورایک وقت ایسابھی آئے گا جب قرآن کے علم کادرخت تمام کائنات کااحاطہ کرلے گااوردنیاکاساراعلم اپنی ساری وسعتوں کے باوجود فقط قرآن کاعلم ہوگا۔‘‘۸۸ تھوڑی دیرکے لیے یہ جانناغیراہم نہ ہوگاکہ قدیم علم الکلام کے بارے میںاقبال نے جو استدلال قائم کیا، وہ کہاںتک صحیح ہے؟اس سلسلے میںاقبال کی تحریروںکوکھنگالاجائے تواس میں معتزلہ اوراشاعرہ کاخاص طورپرتذکرہ ملتا ہے جہاں معتزلہ کواسلامی فکرکی دنیامیںعقلیت پسندی کی دلچسپ تحریک قراردیاہے اور اشاعرہ کو معتزلہ کی عقلیت پسند ی کے خلاف قدامت پسندردعمل ٹھہرایاہے۔جہاںتک معتزلہ مفکرین کاتعلق ہے ،اقبال نے خداکی وحدا نیت اور مادے کے متعلق ان کے دلائل کا تجزیہ کیاہے۔جس کالب لباب۸۹یہ ہے کہ معتزلہ مفکرین خداکے تصور ِوحدت میں ترامیم کرتے چلے گئے حتی کہ ایک طرف معمربن عباداورابوہا شم نے اسے مکمل طور پر تجرید کا روپ دے ڈالاجس سے خداکے بارے میںکسی بھی صفت کاامکان خارج ازامکان ہو گیا،کیونکہ ان کی حجت تھی کہ خداکے علم کے متعلق کوئی بات نہیںکہی جاسکتی کیونکہ اس کوجس چیز کا علم ہوگاوہ خود اس کی ذات میںہوگی۔اقبال کے نزدیک،یہ وہ دلیل تھی جس نے مسلم تصوف میں نظریہ ٔوحدت الوجود کے لیے رستہ ہموار کیا۔دوسری طرف معتزلہ مفکرنظام کے شاگرد،احمداورفضل وحدانیت کے جواز ڈھونڈتے ہو ئے ثنویت کی طرف نکل گئے۔ انہوںنے یہ حجت اپنائی کہ خد ا کی ذات ازلی وابدی ہے اورکلام الٰہی یعنی روح اﷲ ہستی ممکن ہے گویاحادث ہے۔اقبال کی رائے میں خدا کی ذات میں ایسی ثنویت ہو،یہ سراسر ناممکن ہے۔ مادے کے بارے میں،معتزلہ مفکرین کے تصورات میںبہت تنوع ملتا ہے۔مثلاًنظام مادے کو لامحدود طور پر قابل تقسیم سمجھتاہے جہاںوہ ’شے‘ (substance) اور ’عرض‘ (accident) کی تخصیص کو مٹاڈالتا ہے۔ اس کاخیال تھاکہ خدانے پہلے سے موجودجواہرکووجودکی ایسی صفت عطا کی جس کے بغیران کاادراک ممکن نہ تھا۔ایک اور معتزلہ مفکرمحمدابنِ عثمان کاخیال تھاکہ جوہر وجود میںآنے سے پیشترایک جسم ہے مگراس حالت میںوہ نہ متحرک ہوتاہے اورنہ ہی ساکت۔’شے‘، ذائقہ،رنگ،خوشبوجیسی خاصیتوں کاایک مجموعہ ہے اوراپنی ذات میں مادی صلاحیتوںکے علاوہ کچھ بھی نہیں۔روح مادے کی ایک نفیس شکل ہے اورذہنی اعمال ایک قسم کی مادی حرکات ہیں۔ تخلیق کامطلب پہلے سے موجود صلاحیتوںکوحقیقت کاروپ بخشتاہے۔کسی شے کی انفرادیت اس کے تصور کا لازمی جزو نہیںاورخارجی اشیاء کامجموعہ یعنی کائنات ایسی قابل ادراک خارجی حقیقت ہے جو ادراک کے بغیربھی موجود ہے۔خدا کاعمل اس بات پر مشتمل ہے کہ وہ مادے کوقابل ِادراک بنا دے۔ورنہ مادے کے خواص خوداس کی ذات سے ظہور پذیر ہوتے ہیں ۔ مثلاًایک پتھرجب اُچھالاجاتاہے تووہ اپنی اندرونی خاصیت کے باعث نیچے کو گرتاہے۔قصہ کو تا ہ، اقبال نے معتزلہ کو اس حوالے سے مادیت پسندبھی شمارکیااوربالآخرعطیہ سیّد کے الفاظ میںیہ رائے قائم کی۔’’معتزلہ مسلمانوں کاوہ مکتب ِفکرہے جس کے نظریات میںسے کچھ سچائی کے حامل تھے اورانہوںنے بعد میںظاہر ہونے والے مکا تبِ فکر پردورس اثرات مرتب کئے۔مگرمجموعی طور پر وہ چند بنیادی کو تاہیوںکی بناء پر مسلمان ذہن کو منفیت ، تشکیک اور انتشار کی جانب لے گئے اور اس کاایک بہت بڑا سبب ان کایونانی فلسفے اورقرآنی تعلیمات کے تناقص کو نظرانداز کرنا تھا ۔‘‘۹۰ اقبال کے خیال میںمعتزلہ نے فطرت انسانی کو نظر انداز کیا اور مذہب اسلام کی اصابت میں انتشار پیدا کیا۔اس لیے راسخ العقیدہ اذہان کے مالک اشاعرہ مفکرین نے ان کے خلاف ردعمل ظاہر کیا۔ ان کا بنیادی مقصد منطقی طریقۂ کارکومذہب کے تحفظ کے لیے استعمال کرناتھا۔اس طرح اشاعرہ نے معتزلہ کے فکری استدلال کا توڑانھی کے طریقۂ استدلال سے نکالا۔اشاعرہ کے ہاں، خدا انتہائی واجب الوجود ہستی ہے اس کا وجود اور ماہیئت ایک دوسرے کے مماثل ہیں۔اس کے وجود کوثابت کرنے کے دلائل۹۱حسب ِذیل ہیں: .1جہاںتک وجودکے مظاہرکاتعلق ہے تمام اجسام یکساںہیں۔لیکن اس مشترکہ وصف کے علاوہ ان اجسام کی دیگر صفات آپس میںمخالف اورمتخالف ہیں۔اس لیے ایک ایسی انتہائی علّت کے وجودکومتصورکرنالازم ہے جس کی بدولت اجسام کی متضاداورمتناقض صفات کی توجیہہ کی جاسکے۔ .2ہرممکن ہستی کے لیے ایک علت ناگزیرہے تاکہ اس کے وجودکی توجیہہ ہوسکے۔کائنات ممکن ہے لہٰذااس کی علّت ہونی چاہئیے،جویقیناخداہے۔ یہاںتک غورکیاجائے توبآسانی معلوم ہوتاہے کہ یہ دلائل ایک طرح سے ارسطوکی ہی کونیاتی دلیل کی صدائے بازگشت ہیں،مگریہ پوراسچ نہیںہے۔اقبال نے وضاحت کی ہے کہ دوسری دلیل کی صحیح تفہیم کے لیے اشاعرہ کے نظریہ علم کوپہلے سمجھنا بہتررہے گاکیونکہ چیزوںکی نوعیت کو جاننے کے لیے اشاعرہ نے ارسطوکے مقالات فکرپر نقدونظر کی اوراس نتیجے پرپہنچے کہ اجسام خوداپنے اندرخواص نہیں رکھتے۔سب خاصیتیں ذہنی علائق ہیں، انہیںابتدائی اورثانوی خصائص کی تخصیص میں نہیں بانٹا جا سکتا۔خاصیت کے بغیرکوئی جسم موجودہو،یہ محال ہے۔اقبال کی نظرمیں،اشاعرہ نے درحقیقت، تخلیق ربّانی کے تصورکی حمایت میںیہ تنقیداپنائی ہے۔کائنات کو موضوعیت میںڈھال دیاہے جس کی آخری توجیہہ صرف خداکے ارادے کی رہین منت ٹھہرتی ہے ۔ مادے کے بارے میں،اشاعرہ نے نظریۂ جواہر۹۲پیش کیاجس کے مطابق کائنات انتہائی چھوٹے چھوٹے ناقابل تقسیم جواہرکامرکب ہے۔ان کی تعدادلامحدودہے کیونکہ خداکاتخلیقی عمل مسلسل ہے۔لمحہ بہ لمحہ اور نو بہ نو جواہر وجود میںآتے رہتے ہیں۔اس لیے کائنات لگاتارپھیلتی جا رہی ہے۔جوہرکاعین(essence)اُس کے وجود(existence)سے جدا ہے۔ خدا جوہر کو وجود عطا کرتا ہے۔دوسرے لفظوںمیںجوہروجودمیںآنے سے پہلے خوابیدہ ہوتاہے اور جب خدا کی قدرت اسے بیدارکرتی ہے تووہ مادی روپ میںظاہرہوجاتاہے۔لیکن یہاں قابلِ غوربات یہ ہے کہ اکیلا جوہراپنی ماہیت میںجسامت کی خاصیت نہیںرکھتا،اس لیے مکاںسے بے نیازہے لیکن جب مختلف جواہر اکٹھے ہوتے ہیں توپھیلاؤکے حامل بھی ہوتے ہیںاورمکاںکے اہل بھی۔ اقبال نے اشاعرہ کامعتزلہ سے تقابل کرتے ہوئے یہ نتیجہ اخذکیاہے کہ معتزلہ کی منطق نے خداکی شخصیت کے تصورکومنہدم کردیااور الوہیت کو ایک ناقابل تحدیدکلیہ میںتحویل کردیا،لیکن اشاعرہ نے خدا کی شخصیت کے عقیدے کو تو برقرار رکھالیکن فطرت کی خارجی حقیقت کے تصورکومٹادیاحالانکہ معتزلہ مفکر نظام نے فطرت کی خارجی حقیقت کوبرقراررکھاتھا۔اس طرح معتزلہ نے تو فطرت کی حمایت میںعلم الکلام کے تصور کاابطال کر دیااوراشاعرہ نے مذہبی تصورکی تائیدمیںفطرت کوقربان کر دیا ۔ ۳ ۹ اگرچہ ان دونوںمکاتب فکرکے نظریات عیوب سے پاک نہیںلیکن پھربھی اقبال نے اشاعرہ کو معتزلہ سے بہترگرداناہے کیونکہ اشاعرہ نے مذہبی عقائد کوعقلیت پسندی سے جوضررپہنچ رہا تھا،اُس کادفاع کیااوریونانی افکار پر تنقید کاراستہ ہموارکیا۔اس مقام پرعطیہ سید کے تجزئیے۹۴ کے مطابق غورکیاجائے تواشاعرہ اوراقبال کے فکرو استدلال میںبیک وقت قرب وبعدنظرآتاہے کیونکہ ایک طرف دونوں مذہبی شعوراورمذہبی فکرکوہم آہنگ کرنے میںکوشاںہیں جب کہ دوسری طرف،اشاعرہ کاسارازورروائتی مذہبی عقائدکاتحفظ کرناہے۔اس کے برعکس اقبال کااصرارمذہبی فکرکی تشکیلِ نوکرناہے۔اس حوالے سے،یہ سمجھنادشوارنہیںرہتا،کہ اشاعرہ کافکری روّیہ استخراجی کیوں تھا اوراقبال کا استقرائی کیوںہے۔ظاہرہے جہاںمذہبی عقائدکے تحفظ کے لیے استدلال کیا جائے گا ، وہاں ، گویامعلومہ حقائق کی تصدیق درکارہوگی،جس کے لیے استخراجی استدلال کارآمدرہتاہے اورجہاں مذہبی فکرکی تشکیل نوکی بات کی جائے، وہاںدستیاب حقائق کے ٹھوس تجربات و واقعات کی روشنی میںایسے نتائج نکالناہوں گے جومذہبی فکرسے ہم آہنگی رکھتے ہوں، اس کے لیے استقرائی استدلال کاسہارامفیدرہتاہے۔اشاعرہ کے ہاں،یونانی فکرسے بغاوت کے نمایاں آثار موجودتھے مگراس کے باوجودوہ ان کے سحرسے مطلقاًپیچھانہ چھڑاسکے اس لیے مجموعی طورپرمسلم متکلمین کے فکرو استدلال کوپیش ِنظررکھتے ہوئے اقبال کویہ کہناپڑا : کلام و فلسفہ از لوحِ دل فروشستم ضمیرِخویش کشادم بہ نشترِ تحقیق ۹۵ میں نے کلام(علم الکلام )اور فلسفے کو اپنے دل کی تختی سے دھو ڈالا اور اپنا ضمیر نشتر تحقیق کے لیے کھول دیا۔ .2مسلم حکمت وفلسفہ اورفکرِاقبال: (Muslim Hikmat-and-Philosophy & Iqbal'sThought) پہلی بات، اقبال کسی حد تک اس قبیل کا نمائندہ ہے جس نے ہیلانیاتی حکمت ودانش کو مستحسن نہیںجانا۔پچھلے باب میں،ہیلانی استدلال کے متعلق،اس کی ناگواری کا ذکر آچکا ہے۔ جہاں تک ہیلانیاتی استدلال کا تعلق ہے، اس سلسلے میں اقبال کی ناگواری زیادہ تران مسلم مفکرین کی وجہ سے ہے جنہوںنے یونانی حکمت ودانش سے استفادے پرخوب زور دیا۔ آخر اقبال نے ایسا کیوں کیا؟ دوسری بات،یہ جاننا ضروری ہے کہ اقبال نے مسلم فلسفہ کو کس سیاق و سباق میں ملحوظ ِخاطر رکھا اور کہاں تک اس سے تعرض کیا۔اس ضمن میں،مؤخر الذکر کا موزوں جواب ڈھونڈنے کی کوشش پہلے کی جاتی ہے تاکہ اول الذکر کی تفہیم میںاس کاپس منظرسامنے رہے۔ اقبال نے اپنے خطبہ ہفتم ’’Is Religion Possible?‘‘میںمذہبی زندگی کوتین ادوار ۹۶ میں منقسم کیاہے: :۱۔ایمان ۲۔فکر ۳۔معرفت ایمان، اعتقادکی سطح ہے جہاں حقیقت کو من و عن قبول کر لیا جاتا ہے۔ غیر مشروط طور پر اعتقادات کے ظاہری پہلوؤں پر بہت زیادہ زور دیا جاتا ہے۔ اوامرو نواہی کی پابندی کوکافی تصور کیاجاتاہے۔ان کے بارے میںسوالات نہیںپوچھے جاتے،بس فرض کوفرض جان کر ادا کیا جاتا ہے جیسے وقت مقررہ پرنمازپنجگانہ ادا کرنا، مقررہ ایام میںروزے رکھنا،طے شدہ شرع کے مطابق فریضہ ٔحج ادا کرنا، وغیرہ۔ فکر منطقی استدلال کی سطح ہے جہاںحقیقت کوعقلیت کی کسوٹی پرپرکھ کر قبول یا رد کیا جاتا ہے گویا بزورقواعدعقلیہ،اسرار ِحکمت ِایمانیہ کی عقدہ کشائی مطلوب ومقصود ہوتی ہے۔ یہ سطح خطرے سے خالی نہیںکیونکہ اس میںبھٹکنے اورگمراہ ہونے کااندیشہ لاحق رہتا ہے۔ معرفت وجدان کی سطح ہے جہاں حقیقت کوقلبی بصیرت سے مدرک کیاجاتاہے اس سطح پرعقلی دلائل وبراہین پر مبنی مسائل کی گمبھیر اور متنازعہ فیہ حیثیت قائم ہی نہیں رہتی۔باالفاظ دیگر ’’شنیدہ کے بود مانند دیدہ‘‘کے مصداق جہاں کبھی قیاس آرائی سے کام چلایا جاتا تھا، وہاں اب براہِ راست مشاہدے سے محاکمہ کیا جاتا ہے۔ یہ سطح شریعت کے حدودوقیودمیںرہ کرصوفیانہ کیفیات واحوال سے متصف ہے۔ ظاہرہے کہ مسلم حکمت وفلسفہ کی نسبت فکرکی سطح سے بنتی ہے اوریہاںاسی کاتجزیہ مطلوب ہے۔اقبال نے فکر کی سطح کومذہب کی تفہیم کے لیے ایک ناگزیرمابعد الطبیعی اساس قراردیاہے۔وہ لکھتاہے۔’’اس دورمیںمذہب کوکسی ایسی مابعدالطبیعیات کی جستجورہتی ہے جواس کے لیے ایک اساس کاکام دے سکے یعنی منطقی اعتبارسے کائنات کے کسی ایسے نظریے کی جو تضادوتناقض سے پاک ہواورجس میںخدا کے لیے بھی کوئی جگہ ہو۔‘‘۹۷ اس تناظر میںدیکھنایہ ہے کہ اقبال نے مابعدالطبیعیات سے کس حدتک تعرض کیااورکس قسم کے استدلال کوقابل ِاعتناسمجھا۔اقبال نے خطبہ ٔہفتم میںجرمن مفکرعمانوئیل کانٹ کے استدلال کا مرکزی خیال پیش کیاہے جس کے مطابق مابعدالطبیعیات کاامکان صفرہے۔کانٹ کے نزدیک، ہر موجودشے کے دو پہلو۹۸ہیں: .1شے بظاہر(phenomena)جوموضوعی نوعیت کے زمان ومکاںسے متصف ہے۔ .2شے بذاتہٖ (noumena)جوزمان ومکاں سے مبّراہے۔ انسانی تجربہ بتاتاہے کہ ہرموجودشے کے لیے لازم ہے کہ وہ کسی مخصوص جگہ پرمقیم ہو اور اس کے تغیرات کسی مخصوص وقت میںوقوع پذیرہوں۔اس حساب سے،زمان ومکاں کے بغیر،کسی شے کاادراک ممکن ہو،یہ محال ہے۔ زمان ومکاںکی اپنی حیثیت معروضی نہیں،موضوعی ہے گویایہ ادراک حقیقت محض شیئون ہیں اور ناظر سے علیحدہ اپنا کوئی وجود نہیں رکھتے۔ یا یوں کہا جا سکتاہے کہ زمان ومکاںانسانی ذہن کا ایساسانچا ہے جس میںتمام ادراک ڈھل جاتے ہیں،یعنی بصورت شے بظاہرمدرک ہوتے ہیں،لیکن شے بذاتہٖ کازمان ومکاںسے مبّراہونے کے باعث ادراک نہیںہوپاتا۔ظاہرہے کہ جوکچھ محسوسات وتجربات کے حلقے سے باہرہے، اس کے بارے میں ایجاب وقبول کیوں کر ہو سکتاہے۔لہٰذاشے بذاتہٖ کاانکارکرکے کانٹ نے مابعدالطبیعیات کاامکان صفرکردیا۔ یہاںتک تواقبال نے کانٹ سے اتفاق کیاہے کہ انسانی فکرکسی شے کواس کے زمان ومکاں کے حوالے کے بغیرکبھی فہم وادراک میںنہیںلاسکتی اورزمان و مکاں کاسانچا موضوعی ہے۔مگرجب کانٹ یہ مؤقف اپناتاہے کہ شے بذاتہٖ، شئے بظاہرکی طرح قابل ادراک نہیںکیونکہ محسوسات و تجربات کے حلقہ سے باہرہے،وہاںاقبال کوتامل ہوتا ہے۔ اس کے مطابق کانٹ کامؤقف صرف اس صورت میںتسلیم کیاجاسکتاہے بشرطیکہ معمولات ِحیات میںاشیاء کے مشاہدے کا جو تجربی طریق مستعمل ہے،اس کے علاوہ کوئی اورتجربی ذریعہ موجودنہ ہو۔مگرصورت حال یوںہے کہ روزمرہ کے نارمل تجربے کے علاوہ بھی محسوسات ومدرکات موجودہیںجن کی وجہ سے مابعد الطبیعات کا انکار، محکم نہیں ٹھہرتا۔اس کااظہاراندلسی صوفی محی الدین ابن عربی کے اس قول سے بخوبی عیاںہے۔’’وجودِ مدرک تو خداہے، کائنات معنی‘‘۹۹ مزیدبرآں،اقبال نے عراقی کے حوالہ۱۰۰ سے لکھاہے کہ زمان ومکاں کے مختلف نظامات ہیں۔ ایک زمان و مکاں مادی اشیاء سے، ایک غیرمادی اشیاء سے اورایک ذات ِالٰہیہ سے وابستہ ہے۔اورجیسے جیسے کسی ہستی کی نفسی قوت کم و بیش ہوتی ہے،ویسے ویسے اس کازمان ومکاں متعین ہوتاہے۔اس ضمن میںعراقی نے جودلائل پیش کئے،اجمالاً حسب ِذیل ہیں: .1جوزمان ومکاں مادی اشیاء سے وابستہ ہے،اس کی تین اقسام ہیں: .iبڑی جسامت والی مادی اشیاء کی نفسی قوت کے تقاضے کے مطابق،ان کامکاںایساہے جومخصوص جگہ پر محصورہے جس میںحرکت ومزاحمت موجودہے اوراس کازمان ایساہے کہ جب تک ایک مکمل دن اپناوقفہ پورانہ کر لے اگلادن نہیںچڑھتا۔ .iiلطیف مادی اشیاء جیسے ہوااورآوازکی نفسی قوت کے تقاضے کے مطابق اس کا مکاں ایسا ہے جومخصوص جگہ پرمحصورنہیںمگرحرکت اورمزاحمت،اس میں موجودہے اوراس کازمان ایساہے کہ جس سے اس کی حرکت کی پیمائش کی جاسکتی ہے۔ .iiiلطیف ترین مادی اشیاء جیسے روشنی کی نفسی قوت کے تقاضے کے مطابق اس کا مکاں ایسا ہے جو مخصوص جگہ پرمحصورنہیں،مزاحمت سے عاری ہے، مگرفی الفوراورتیزترین حرکت سے عبارت ہے اوراس کازمان ایساہے جوفی الفور تیزترین حرکت کی صورت میںصفرہوجاتاہے۔ .2جومکاںغیر مادی اشیاء سے وابستہ ہے وہ ایساہے جہاںحرکت کی پیمائش لمبائی،چوڑائی اورگہرائی سے ہوتی ہے۔ہرجاندارنسل پہ اس کااطلاق اس کی حسی ونفسی قوت کے اعتبارسے ہوتا ہے۔ اس کازمان ایساہے جومسلسل ہے جہاں بڑی جسامت والی مادی اشیاء ایک سال میں اپناوقت گزارتی ہیں،وہاںوہی وقت غیرمادی اشیاء کے لیے ایک دن سے زائدنہیںہوتا۔ .3جومکاںذات ِالٰہیہ سے وابستہ ہے، وہ ایسا ہے جوہر متعین سمت سے آزاد ہے اور اس میں سب لامتناہیاں آپس میں مل جاتی ہیں۔اس کازمان ایساہے جس میںمرورکامطلقاًدخل نہیں۔ نہ اس میںتواترہے نہ ہی تغیر۔اس کی نہ ابتداہے نہ انتہا۔ بہرطور،اقبال نے روحانی تجربے کے زورپرمابعدالطبیعیات کااثبات کیا اوریہ باورکرایا کہ ذات کاوجدان فکروعقل سے جدااپناراستہ بناتاہے جواگرچہ پیچدار اورمشکل ہے مگرحقیقت کی اساسی ماہیئت کے اکتشاف کی امیددلاتا ہے۔ یہاں حقیقت ظن وقیاس کی بجائے ایک حقیقی امکان کی صورت میںمتشکل ہوتی ہے۔اس اعتبارسے،عام حسی و فکری تجربہ مابعدالطبیعی سطح پر نظری، قیاسی اوراستخراجی قسم کی توجیہات توپیش کرسکتاہے مگرویسا حقیقی حرکی اور استقرائی قسم کی توجیہات پیش نہیںکرسکتاجوباطنی وروحانی تجربے کاخاصہ ہے۔ مابعدالطبیعیات کے امکان کے اثبات کے باوجود،اقبال نے اسے کمال خوشدلی سے قبول نہیںکیا۔اس کایہ شذرہ،اس کابین ثبوت دیتاہے،’’مجھے اعتراف ہے کہ مابعدالطبیعیات سے میں کچھ اُکتاساگیاہوںلیکن جب کبھی لوگوںسے بحث کرنے کااتفاق ہوتاہے تومیںدیکھتا ہوںکہ ان کے دلائل ہمیشہ ایسے قضیوںپرمبنی ہوتے ہیںجنہیںوہ تنقیدکے بغیرمان لیتے ہیںلہٰذامیںان قضیوںکی قدروقیمت جانچنے پرمجبورہوجاتاہوں۔مسائل کی تمام عملی صورتوں میںخواہ مخواہ نظری تحقیق کی طرف رجوع کرناپڑتاہے مجھے ایسامعلوم ہوتاہے کہ مابعدالطبیعیات سے مطلق پیچھا چھڑا لیناناممکن ہے۔‘‘۱۰۱ ظاہرہے کہ وجدانی وروحانی تجربات وواردات کی نوعیت انسان کوجس قسم کے عملی پہلوسے روشناس کراتی ہے،حقیقت کے اس پہلو کی توجیہہ نظری وعقلی دلائل کے بغیرممکن نہیں۔ثانیاً،عقلی دلائل کے خلاف بھی عقل ہی نظری دلائل پیش کرتی ہے اورحسی تجربات کے قابل مدرک حقائق کی تشریح وتوجیہہ توکرتی ہی عقل ہے یہ انسانی فکرکی وہ مجبوری ہے جس کی وجہ سے مابعدالطبیعیات سے مطلقاًچھٹکارالاحاصل ہے۔کم لفظوںمیںاقبال کے مؤقف کااعادہ یوںکیاجاسکتاہے کہ حقیقت کے وقوف کے لیے وجدانی وروحانی تجربہ ہی قطعی سندکادرجہ رکھتاہے البتہ اس کی توجیہہ و تاویل کی خاطرمابعدالطبیعیات کی فکری سطح پراترناپڑتاہے لیکن اس کایہ مطلب بھی ہرگزنہیںکہ حقیقت کوجاننے کے لیے دیگرذرائع علوم سے کنارہ کشی کرلی جائے۔ دراصل، حقیقت میں کارفرما سبھی مظاہر کی تفہیم کے لیے کوئی نہ کوئی ذریعۂ علم ناگزیر ہوتا ہے۔ لیکن اس سے یہ نتیجہ اخذکرنابھی درست نہیںکہ ہرذریعۂ علم ایک دوسرے سے متغائر ہے۔ ان میںدرجوںکااختلاف توہوسکتاہے مگرنوع کانہیں۔ مجموعی طورپراقبال کے مقالات وخطبات کا تجزیہ کیاجائے توحسب ِذیل نکات سامنے آتے ہیںجن سے اقبال کی مابعدالطبیعیات سے بددلی کااندازہ ہوتاہے۔ .1مابعدالطبیعیات کی حیثیت نظری ہے، عملی نہیں۔ .2مابعدالطبیعیات کاانحصارفکری مفروضات پرہے، روحانی اورباطنی تجربات واردات پر نہیں۔ .3مابعدالطبیعیات ظن وقیاس کاشکاررہتی ہے، محکم ایمان کی اہل نہیں۔ .4مابعدالطبیعیات کا مقصود ا نسان کی منطقی فکرپرپورااترناہے،انسانی احساسات و جذبات کو چھو کرگزرنا نہیں۔ .5مابعدالطبیعیات کااصرارانسان کی عقلی توجیہات کی تشفی کرنا ہے، اس کی روحانی توجیہا ت کی تسکین کرنانہیں۔ مرقومہ بالا نکات کی روشنی میںاقبال کے چیدہ چیدہ دلائل کاجائزہ لیتے ہیں تاکہ مابعد ا لطبیعیا ت کے بارے میں اس کی فکری اُپج کااندازہ ہوسکے۔ فکرِیونان سے فکرِ جدیدتک نظریۂ تعلیل کوکائنات کی توجیہہ کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔ جس کے مطابق یہ متصور کیاجاتاہے کہ ہروقوعہ اپنے سے پہلے وقوعہ سے متعین ہوتاہے یعنی کائنات علّت ومعلول کے نتیجے کی ایک متعین کڑی ہے۔ارسطو سے لے کر بعد میں آنے والے فلسفیوں نے کائنات کی مابعدالطبیعی توجیہہ کواسی رنگ میں پیش کیا، جیسے کہ اس کااچھا بھلا اظہار، فارابی، ابنِ سینا،ابنِ رشد کے سلسلے میںہم پیچھے دیکھ آئے ہیں ۔اقبال کے مطابق،نظریۂ تعلیل جس کائنات کی منظرکشی کرتاہے، اس سے کائنات کی حرکت ثابت ہوتی ہے نہ پھیلاؤ۔ایسا تصور یقینا اسلام کے حرکی نظریہ کائنات کے منافی ہے۔کیونکہ ازرُوئے قرآن،کائنات اضافہ پذیر ہے۔ اس ضمن میں ڈاکٹرعشرت حسن انور نے وضاحت کی ہے کہ اقبال یہاںفرانسیسی مفکر ہنری برگساں کاہمنوا نظر آتاہے جس نے یہ نکتہ سمجھانے کی کوشش کی تھی کہ’’ ارسطوکے زمانے سے لے کر موجودہ دورتک کے سارے فلسفی کائنات کومستقل اورٹھوس سمجھتے ہیں۔نظریۂ تعلیل کی روسے اسے جامداور مقرر و معین کردارکاحامل فرض کرتے ہیں۔اس طرح تمام فلسفی کائنات کی ماہیت کے بارے میں ایک فطری تعصب سے آغازکرتے ہیں۔ساری مابعدالطبیعیات اسی نقص کی حامل ہے کہ اس کی تفتیش سکونی اور مستقل حقیقت کی تلاش میںایک پہلے سے طے شدہ سفر ہے۔‘‘۱۰۲ مابعدالطبیعیات کی اس خامی کو اقبال نے دور کرنے کے لیے نفسِ انسانی کے دو پہلو گنوائے۔ انائے فعال جو جلوت کا پہلو ہے اور انائے بصیر جو خلوت کا پہلو ہے۔ انائے فعال سے کانٹ کی شئے بظاہر،انائے بصیر سے اس کی شے بذاتہٖ کافہم وادراک حاصل ہوتاہے جب کہ انائے فعال زمانِ متسلسل میں،انائے بصیرزمانِ خالص میں متشکل ہے۔ انائے فعال پرعلّیت کا اطلاق ہوتا ہے۔انائے بصیراس کاپابندنہیں،وہ علّت ومعلول کے میکانکی تصورسے دور، کائنات کے حرکی وتخلیقی پہلوکواپنی فہم میںلے لیتاہے۔ثانیاً انکساغورث،ارسطواورکندی نے کائنات کے متعلق جس طرز کی غائیتی توجیہہ پیش کی وہ بھی کائنات کوحرکی وتخلیقی ثابت نہیںکرتی۔ان مفکرین کی غائیتی دلیل کالب لباب یہ تھا کہ کائنات کاایک مقصدہے۔اس میںبے مثال نظم ونسق کا موجو د ہونا اس بات کی دلالت کرتاہے کہ کوئی عظیم ہستی اس کو چلانے والی موجودہے۔قوانین ِقدرت کمال یکسانی کے ساتھ اس میںکارفرماہیں۔گویاکائنات ایک مصنوع ہے جس کے صانع نے اسے اپنے تدبرسے تخلیق کیاہے جہاںاس کاہرقانون اس طرح سے مقررکردیاگیاہے کہ یہ تادم قیامت اس پرچلتی رہے گی۔ڈاکٹرعشرت حسن انورکے مطابق اقبال نے یہاںبھی برگساں سے اتفاق کرتے ہوئے یہ رائے سامنے رکھی ہے کہ’’اس تصور غایت اور میکانکی علّیت میںصرف یہ فرق ہے کہ میکانکی علّیت ہمیںپیچھے سے دھکیلتی ہے اورغائتیت ہمیں آگے سے اپنی طرف کھینچتی ہے ۔‘‘۱۰۳ بحوالہ انائے بصیر،اقبال نے غائیتی دلیل کی جوشکل پیش کی، اس کا ذکر گزشتہ باب میں بعنوان ’افلاطون اور اقبال‘میںکیاجاچکاہے ،بہرطور،اقبال کامطمح نظریہ رہاکہ کائنات نہ تو پہلے سے متعین شدہ واقعات وحوادث پر مشتمل ہے اورنہ ہی پہلے سے متعین کسی ہدف کے حصول پرمبنی ہے۔ ان کے برعکس، کائنات ان واقعات و حوادث اوراہداف پر منحصرہے جن کی تخلیق لمحہ بہ لمحہ ہورہی ہے اوریہ عمل کسی بھی سطح پر نہیںرکتا۔دوسرے لفظوں میںکائنات ایسے عمل ارتقاء سے عبارت ہے جونہ میکانکی قوتوںکی جبریت کاشکارہے اورنہ ہی طے شدہ غایت کی طرف جکڑی ہے۔یہ ایسے آزاد، تخلیقی اور ترقی پذیرعمل پر موقوف ہے جو مختلف سطحوںسے بڑھتا اور پھیلتا جا رہا ہے۔نہ تومادی قوتیںاسے پیچھے سے دھکیل رہی ہیںاورنہ ہی مقاصدکی جاذبیت وکشش اسے اپنی طرف کھینچ رہی ہے بلکہ یہ اپنی فطرت کے مطابق نئی سے نئی صورت حال میںظہورپذیرہوکرآگے بڑھ رہی ہے۔ ظاہر ہے کہ کائنات کاایساحرکی نقطۂ نظر صریحاً مختلف ہے۔ اس کی تفہیم باطنی تجربے کے بغیر ممکن نہیں۔ جیسے کہ پیچھے بیان کیاگیاکہ کانٹ نے مابعدالطبیعیات کاانکار اس لیے کیاتھاکہ وہ وجدانی تجربا ت کو نہ پہنچ سکا۔ اقبال کی نظرمیں،مسلم مفکرالغزالی نے بھی پہلے پہل حقیقت کی تفہیم کے لیے کانٹ ہی کی طرزپراپنی فکرکوپروان چڑھایا مگراپنی صوفیانہ طبع کے باعث وہ کانٹ والی غلطی سے بچ گیا۔اقبال کے الفاظ میں،’’کانٹ اورغزالی کے درمیان ایک بڑااہم فرق ہے اوروہ یہ کہ کانٹ نے اپنے اصول وکلیات کاساتھ دیتے ہوئے یہ تسلیم نہیں کیاکہ ذات الٰہی کاادراک ممکن ہے ، برعکس اس کے غزالی نے فکر تحلیلی سے مایوس ہوکرصوفیانہ واردات کارخ کیااوریہ رائے قائم کی کہ ان کے اندرمذہب کاایک مستقل سرمایہ موجودہے، لیکن جس کامطلب گویایہ تھاکہ مذہب کو سائنس اور مابعدالطبیعیات سے الگ رہتے ہوئے بھی اپناآزاداورمستقل وجودبرقراررکھنے کاحق حاصل ہے ۔‘‘۱۰۴ اقبال کی رائے میں،غزالی وجدان اورفکر میںصحیح تمیزنہ کرسکا،وہ ان میںنوع کا فرق سمجھتارہا حالانکہ ان میںنوع کانہیں، درجے کافرق ہوتاہے۔ اپنے مقالے’’The Development of Metaphysics in Persia‘‘میں اقبال نے جہاںغزالی کاتذکرہ کیا ہے، وہاں صراحت پیش کی ہے کہ یونانی فلسفے کے اثرات نے عجمی مفکرین کو عقلیت پسندی کی نظری سطح پہ روک رکھا، جیسے ارسطو کے نظریۂ تعلیل کو کائناتی توجیہہ کے لیے استعمال کرنا،فلاطینوس کے نظریۂ صدور کی بناء پرکائنات اورخدا کے تعلق کو ثابت کرنا،ارسطوکی تقلیدمیںنظریۂ ارتقاء پیش کرنا،کئی مسلم مفکرین کاشیوہ رہا مگریہ غزالی تھاجس نے یونانی استدلال کی غلط کاریوںکوبے نقاب کیااورانسان کے دل میں چھپی اس باطنی آنکھ۱۰۵ کوآشکاراکیا جوبرخلاف مادی آنکھ کے،اپنے آپ کواسی طرح دیکھ سکتی ہے جس طرح دیگراشیاء کو۔یہ ایسی آنکھ ہے جو محدودسے بڑھ کر مظاہر کا بھی پردہ چاک کردیتی ہے۔گویااسی کی بدولت کانٹ کی شے بذاتہٖ کوجانناممکن ہے۔ بقول اقبال کچھ اسی نہج پر شیخ شہاب الدین سہروردی نے اپنے فلسفہ الاشراق میںیہ تصورپیش کیا،’’[حاسۂ باطنی]کاوظیفہ یہ ہے کہ جس چیز کوعقل محض نظری حیثیت سے سمجھ لیتی ہے اس کی تصحیح وتصدیق کرے۔تنہاعقل ادراک کرنے کے قابل نہیں۔اس کو ہمیشہ’’ذوق‘‘ سے(جواشیاء کے جوہر کا پُر اَسرارادراک ہے ) مددلینی چاہئیے جوبے چین روح کوعلم و سکون بخشتاہے اورتشکیک کوہمیشہ کے لیے مٹادیتاہے۔‘‘۱۰۶ اقبال نے مابعدالطبیعیات میںیہ خوبی پائی تھی کہ یہ انسان کی عقلی توجیہات کی ممکنہ حدتک تشفی توکردیتی ہے مگرروحانی توجیہات کے معاملے میںیکسرعاجزرہتی ہے۔اس سلسلے میںاقبال کا اصرار ہے کہ روحانی تشفی کی خاطر مابعدالطبیعیات کے استدلال سے نکل کراس باطنی احساس کی طرف ملتفت ہوناچاہئیے جوخداسے دعاکی صورت میں پیداہوتاہے۔ڈاکٹرعشرت حسن انورنے دعاسے متعلق تین نظریے۱۰۷ سامنے رکھے ہیں: .1دعاکا تجسیمی نظریہ: ( (Anthropomorphic conception of Prayer اس کے مطابق دعا کی مددسے معجزات رونما کئے جاسکتے ہیںجیسے کہ دعا بجلی کے کوندے یا گولی کے رخ کو موڑ سکتی ہے یاآسمان سے آگ برساسکتی ہے، وغیرہ۔ اقبال کے حساب سے یہ تصور سراسرغیراسلامی ہے۔ .2 دعاکاہمہ اوستی نظریہ:(Pantheistic conception of Prayer) اس کے مطابق دعاکی مددسے حاجات پوری کی جاسکتی ہیں مگراس کابنیادی قضیہ یہ ہے کہ خداسب کی حاجات سے پہلے ہی باخبرہے۔ وہ دعامانگنے والے کی مرضی سے نہیںبلکہ اپنی مرضی سے ان کوپوراکرتاہے۔اقبال کے حوالے سے اس تصور کا سقم یہ ہے کہ اس میں خدابندے پر اس طرح مسلط معلوم ہوتاہے جیسے کہ بندے کی خودی خدا کے حضور ختم ہوکررہ گئی ہو۔ .3اقبال کانظریۂ دعا: (Iqbal's conception of Prayer) اس کے مطابق،دعاکی مددسے انسان اپنی حاجات خداکے سامنے رکھتا ہے۔وہ اس کی حاجات سنتاہے اور یوںاس کی خودی کواستحکام نصیب ہوتاہے۔خدااوربندے میں ایسا رشتہ قائم ہو جاتا ہے، جس سے انسانی جذبات اور ارادوں میں تسکین اور تشفی کا پہلو برآمد ہوتا ہے۔اقبال کے الفاظ میں: دعاخواہ انفرادی ہو،خواہ اجتماعی،ضمیرانسانی کی اس نہایت درجہ پوشیدہ آرزوکی ترجمان ہے کہ کائنات کے ہولناک سکوت میںاپنی پکارکاکوئی جواب سنے۔یہ انکشاف وتجسس کاوہ عدیم المثال عمل ہے جس میںطالب حقیقت کے لیے نفی ذات ہی کالمحہ اثبات ِ ذات کالمحہ بن جاتاہے اورجس میںوہ اپنی قدروقیمت سے آشناہوکربجاطور پریہ سمجھتاہے کہ اس کی حیثیت کائنات کی زندگی میںسچ مچ ایک فعال عنصرکی ہے۔۱۰۸ اپنے خطبۂ چہار م ’’The Human Ego-His Freedom and Immortality‘‘ میں اقبال نے مابعدالطبیعیات کی بے بسی کواُجاگرکرنے کے لیے ایک اوردلیل پیش کی ہے۔لکھا ہے،’’حیات بعدالموت کی حمایت میںصرف مابعدالطبیعی دلائل سے کام نہیںچل سکتا۔مابعدالطبیعی دلائل سے دل کی تشفی نہیں ہوتی،نہ یہ کہ ان سے ہمارے دل میں اطمینان اور اعتماد کی کیفیت پیدا ہو۔‘‘اس کے ثبوت میںاقبال نے ابنِ رشدکاحوالہ دیا ہے جس نے اپنے مابعدالطبیعی نقطۂ نظرکے مطابق حواس اورعقل میںایک امتیازقائم کیا۔عقل کوجسم سے بالاتر، مفرد، عا لمگیر اور دوامی خیال کیا ، جوکسی اورہی مرتبہ وجودسے وابستہ ہے۔اس نے یہ متصور کیا کہ عقل انفرادیت سے ماورا ہے اس لیے عقل جوعام انسانوںمیںپائی جاتی ہے،کبھی موت سے ہمکنار نہیں ہوتی۔ تھوڑی دیرکے لیے بقول اقبال،ابنِ رشد کے نقطۂ نظرکو’’اگر مان بھی لیاجائے تواس کامطلب بجزاس کے کیاہوگاکہ وارداتِ اتحادمیںچونکہ انفرادیت سرے سے کالعدم ہو جاتی ہے لہٰذاانسانوںکی کثرت میں بطور ایک وحدت اس کاظہورمحض فریب ہے۔‘‘۱۰۹سیدھے سادے لفظوںمیں،ابنِ رشد کے ہاں، نوع انسانی کی بقاکاتصورملتاہے،کسی انسانی فردکا نہیں۔ یقینا ایساتصور انسان کے اخلاقی نظام کے تقاضے پورے نہیں کر سکتا کیونکہ اخلاقی اعمال اس بات کے متقاضی ہیں کہ دنیاوی زندگی کے اچھے برے کاموں کااُخروی زندگی میںپورا پورا صلہ ملے،عدل وانصاف کے لوازمات پورے ہوں، اگرانسان شخصی بقا ہی کا اہل نہ ہو تو اخلاقی اصولوں کی بنیاد کیونکرقائم رہ سکتی ہے اقبال کے نزدیک، اس کی صحیح اورمناسب تفہیم یاتوقرآن سے حاصل ہوسکتی ہے یاپھرروحانی تجربات و واردات سے۔ اس معاملے میںمابعدالطبیعیات اس کی اہل نہیں۔مجموعی طور پر، اقبال نے ابنِ خلدون کے بارے میںجو جملہ بولاتھا،اوپر پیش کردہ دلائل کی روشنی میں،یہ کسی حد تک خود اُس پر صحیح لاگو ہوتا ہے،’’ابنِ خلدون کومابعدالطبیعیات سے مطلق دلچسپی نہیںتھی۔‘‘۱۱۰ اس تناظرمیںاندازہ ہوتاہے کہ اقبال کوان مسلم مفکروں کے قبیل میں کیوں شمار کیا جاسکتا ہے جو ہیلانیاتی استدلال کے خلاف تھے۔ضمناً، یہ نکتہ وضاحت طلب ہے کہ مسلم مفکروںنے بالخصوص ارسطوکواپنی فکرکامحورکیوں بنائے رکھا۔آخراسے اتنی اہمیت کیوںدی گئی حالانکہ غزالی اور اس کے ہمنوادانشوروںنے اس کے سقم عیاںکردئے تھے، پھر بھی اُندلس کے مسلم حکماء نے اس کی فکرکی خاصی پذیرائی کیوں کی؟عام طورپراس کایہ جواب دیاجاتاہے کہ ارسطوکے خیالات حقیقت کے قریب تھے۔افلاطون کے دنیائے امثال کی طرح کسی گم گشتہ دنیائے تخیلات پرموقوف نہ تھے۔ جان ولیم ڈریپر کے اس اقتباس سے اس کااندازہ ہوتاہے۔’’افلاطون کے مذہب کی بنیاد تخیل پرتھی اورارسطوکی تعقل پر ۔ افلاطون ایک ابتدائی خیال کوسامنے رکھ کراس کے تجزیہ سے اس کی تفصیلات تک پہنچتاتھااورارسطوجزئیات و تفصیلات سے نتائج استخراج کرکے ایک کلیہ قائم کرتا تھا۔اسی لیے افلاطون کے طریقے سے بہت جلدبظاہرنہایت شاندار مگر دراصل ناقابل اعتبارنتائج پیداہوجاتے تھے حالانکہ ارسطوکے طریقہ سے اگرچہ نتائج دیرمیںنکلتے تھے اوران کے استخراج میں بے انتہا دقت اٹھانی پڑتی تھی لیکن ہوتے بہت زیادہ مستحکم اوردیرپاتھے۔ان نتائج کے استخراج کے لیے واقعات کے جمع کرنے میںجس کنج کاوی اوردیدہ ریزی سے کام لینا پڑتاتھااورتجربہ اور مشاہدہ میںجوجانکاہی اور عرق ریزی گواراکرنی پڑتی تھی وہ محتاج بیان نہیں۔یہی وجہ تھی کہ افلا طو ن کا فلسفہ گویاایک شاندارقلعہ ہے جس کی بنیاد ہواپرہے اورارسطوکی حکمت ایک مضبوط اور سنگین عمارت ہے جوبہت سی محنتیں برداشت کرنے اور بہت سی ناکامیوں کا رنج اٹھانے کے بعد ایک ٹھوس اورمستحکم چٹان پربنائی گئی ہے۔‘‘۱۱۱ اقبال نے بھی ارسطوکواسی لیے پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھاتھا جیسا کہ ’’ارسطواوراقبال‘‘ کے عنوان کے تحت گزشتہ باب میں پہلے ہی واضح کیاجاچکا ہے،یہاںسوچنے کی بات یہ ہے کہ بیشک ، تعقل،تخیل سے بہتر ہوتا ہے مگر کیا اکتشاف حقیقت کے لیے تعقل فیصلہ کن وسیلہ ہے۔یقینا نہیں ۔ اقبال نے ارسطوکے مقلد مسلم حکماء کی اسی غلطی کوپکڑاہے کہ انہوںنے تعقل پرتکیہ کئے رکھا حالانکہ تجربہ،تعقل سے کہیںبڑھ کرہے،تجربہ نہ ہوتوتعقل، تجرید ہے، تصورمحض ہے اورجس قدربھی حقیقت کاترجمان ہو،تخیل کی طرح وقعت کاحامل نہیں۔مثلاًارسطو افلاطون کی مانند کسی مثالی دنیاکا نقشہ تونہیںکھینچتامگرجس دنیاکاتعقل پیش کرتاہے وہ کسی صورت بھی حرکی ثابت نہیں ہوتی۔حالانکہ تجر بہ ایسے تعقل کی گواہی دیتاہے جس کے مطابق کائنات جامد نہیں۔یہ وہ نکتہ ہے جسے سمجھنے میں ارسطوکے پیرومسلم حکماء نے مار کھائی ہے۔ .3مسلم تصوف اوراقبال :(Muslim Mysticism & Iqbal's Thought) اقبال کی فکری بصیرت کاکمال اعجازیہ ہے کہ اس نے مسلم تصوف کے رموزواسرارکے بارے میںبڑی ژرف نگاہی سے کام لیاہے اوراس کے صحیح اسلامی تشخص کونام نہاداسلامی تصوف سے ممیزکیاہے۔تاریخ تصوف کے بارے میںاس نے جونامکمل مسودہ چھوڑاہے،اس میںبیان کیاہے کہ تصوف علم باطن کی اسلامی اصطلاح ہے جس نے عوام کے تخیلات کوہمیشہ متاثر کیا ہے۔ پھر اقبال نے اسے ایک ایسے کُرے سے تشبیہ دی ہے جس کاقطب شمالی اعلیٰ درجے کی فلسفیانہ موشگافی اور قطب جنوبی ذلیل ترین توہم پرستی ہے۔۱۱۲دیکھاجائے توانہی دوقطبین میںتصوف کا وہ علاقہ ہے جوصحیح معنوںمیںاسلامی تشخص کاامین ہے اوراسی کی نشاندہی ،اقبال کی سخن طرازی کا مرغوب استدلال رہا ہے جواس کی تخلیقات وفرمودات میںجابجابکھراپڑاہے لیکن اس سلسلے میں اُس کے خیالات کاصحیح جائزہ لینے کے لیے ازبس ضروری ہے کہ اس کے فکروشعورکے تدریجی مراحل کو پیش نظررکھاجائے کیونکہ ڈھلتی عمرکے ساتھ ساتھ اس کے مطالعہ اور فکرکاتعمق بڑھا اور بالآخراس نے اس علاقے کوڈھونڈلیاجوتصوف کے قطبین میںکھوچکاتھا۔اس گوہر مقصودکوپانے کے لیے اسے ذہنی کشمکش سے گزرنے کاایک بڑاعرصہ لگاجس کالاشعوری اظہاراس کے اس شعر سے عیاں ہے: اسی کشمکش میں گزریں مری زندگی کی راتیں کبھی سوز و سازِ رومی، کبھی پیچ و تابِ رازی! ۱۱۳ اقبال کے سوانح حیات۱۱۴ کومدنظررکھاجائے توبخوبی اندازہ ہوتاہے کہ اس کو تصوف سے فطری لگاؤ ورثے میںملا تھا۔اس کے کشمیری برہمن خاندان کے جداعلیٰ نے جب بابالول حج سے کلمۂ حق پڑھا،اسلام قبول کیا، اور بعدازاںکشمیرکے سلطان زین العابدین بڈشاہ کے زمانہ میں بابا نصیرالدین کے مریدہوئے،فقراختیار کیا اور مرشد کے آستانے میںاپنی عمربِتاکرمدفون ہوئے۔ خوداقبال کے والدبزرگوارشیخ نور محمدکو صوفیاء اورعلماء کی مجلسوںمیںاٹھنے بیٹھنے کاشوق تھا۔وہ شریعت اورطریقت کے رموزونکات سے خاصے آگاہ تھے اور ان پرروحانیت کی گہری چھاپ تھی۔ اسی کا اثر اقبال کی ابتدائی تخلیقات میںنمایاںہوا۔اقبال کے والد بزرگوار اور ابتداً خود اقبال بھی، قادری سلسلے کے ایک بزرگ قاضی سلطان محمود کے دستِ حق پر بیعت رکھتے تھے لیکن اقبال کی فکر نے عمر کے ساتھ ساتھ جیسے جیسے ذہنی ترقی کی منزلیں طے کیںوہ سلسلہ قادریہ کے گدی نشینوںکے طرزِعمل سے ناخوش ہوتاگیا۔اس کے مکتوب بنام سید سلیمان ندوی محررہ ۱۳نومبر۱۹۱۷ء کے ان الفاظ سے اس کاباقاعدہ اظہار ملتا ہے، ’’خواجہ نقشبندیہ مجدد سرہندکی میرے دل میں بہت بڑی عزت ہے مگرافسوس ہے کہ آج یہ سلسلہ بھی عجمیت کے رنگ میںرنگ گیاہے یہی حال سلسلہ قادریہ کاہے جس میںمیںخودبیعت رکھتاہوں۔حالانکہ حضرت محی الدین(عبدالقادرگیلانی)کا مقصود اسلامی تصوف کو عجمیت سے پاک کرناتھا‘‘۔۱۱۵دراصل اقبال ابتدائی فکرمیں وحدت الوجودی مسلک کے بہت قریب تھا اوراس دور میں خدا کو الوہی حسن متصور کیاکرتا اوراس حسنِ ازلی کو ہر منظر فطرت میں مستورپاتا۔اپنی شاعرانہ طبع کے باعث اس خیال کو ان مصرعوں میںپرُویا۔ محفلِ قدرت ہے اک دریاے بے پایانِ حسن آنکھ اگردیکھے توہرقطرے میںہے طوفانِ حسن حسن کوہستاں کی ہیبت ناک خاموشی میں ہے مہرکی ضَوگستری، شب کی سیہ پوشی میں ہے آسمان صبح کی آئینہ پوشی میں ہے یہ شام کی ظلمت،شفق کی گل فروشی میںہے یہ عظمتِ دیرینہ کے مٹتے ہوئے آثار میں طفلکِ نا آشنا کی کوششِ گفتار میں ساکنانِ صحنِ گلشن کی ہم آوازی میں ہے ننھے ننھے طائروں کی آشیاںسازی میں ہے چشمۂ کہسارمیں ، دریاکی آزادی میں حسن شہرمیں،صحرا میں، ویرانے میں،آبادی میں حسن ۱۱۶ اوریہی نہیں،اقبال نے بتکراراس خیال کودہرایاجیسے: حسنِ ازل کی پیدا ہر چیز میں جھلک ہے انساں میں وہ سخن ہے، غنچے میں وہ چٹک ہے ۱۱۷ تھوڑی دیرکے لیے اگراقبال کے خاندانی پس منظرکوبالائے طاق رکھ دیاجائے توبھی اندازہ ہوتاہے کہ زمانۂ طالب علمی میں جب اس کے زیرِمطالعہ یونانی فلسفہ،مسلم فکرو ادب اور انگریزی رومانونی شاعری رہی تواس کے شاعرانہ ذوق کا میلان وحدت الوجودی نقطۂ نظرکی طرف ہی مائل رہاجس کے اظہارکے لیے اس نے تخلیقی فنِ مہارت کاثبوت دیا۔مثلاًوہ یہ کہنے پر مصر رہا: اندازِ گفتگو نے دھوکے دئیے ہیں، ورنہ نغمہ ہے بوئے بلبل،بوپھول کی چہک ہے کثرت میں ہو گیا ہے وحدت کا راز مخفی جگنو میں جو چمک ہے، وہ پھول میں مہک ہے یہ اختلاف پھر کیوں ہنگاموں کا محل ہو؟ ہر شے میں جبکہ پنہاں خاموشیٔ ازل ہو؟ ۱۱۸ لیکن اس ضمن میںاس کی فکرمیںنمایاںتبدیلی اس وقت رونماہوئی جب اس کوڈاکٹریٹ کے حصول کی خاطرتحقیقی مقالہ ’’The Development of Metaphysics in Persia‘‘ لکھنے کاموقع ملا۔اس کی تمہیدمیںاس نے بالخصوص یہ نقطہ پیش نظررکھاکہ تصوف کے موضوع پراس نے زیادہ سائٹیفک طریقے سے بحث کی ہے اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ تصوف ان مختلف عقلی واخلاقی قوتوںکے باہمی عمل واثرکالازمی نتیجہ ہے جو ایک خوابیدہ روح کوبیدارکرکے زندگی کے اعلیٰ ترین نصب العین کی طرف اس کی رہنمائی کرتی ہیں۔ اس زمانے میںاقبال نے عرق ریزمطالعے اورتجزئیے کے بعدیہ جان لیا تھاکہ وجودی صوفیاء کے نزدیک انتہائی حقیقت حسن ازلی ہے جواپنے چہرے کو کائنات کے آئینے میںمنعکس کرتا ہے اس طرح کائنات حسن ازلی کی منعکس شبیہہ یاپر توہے۔اس سے اقبال نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ کائنات کوخدایاخدا کوکائنات قراردینے سے براہِ راست غیرشخصی جذب کاتصورقائم ہوتاہے جو ویدانت اور بدھ مت کے اثرات کا نتیجہ ہے۔لیکن نسفی کی بدولت اقبال کو اس نکتے سے مزید شناسائی حاصل ہوئی کہ کائنات کوحسن ازلی کاآئینہ قراردیاجائے تواس کی دوقسمیں۱۱۹ممکن ہیں: .1ایک آئینہ کی وہ قسم ہے جوشبہیہ منعکسہ کوظاہرکرتی ہے یہ قسم خارجی فطرت کی صورت ہے۔ .2ایک آئینہ کی وہ قسم ہے جوجوہراصلی کوظاہرکرتی ہے یہ قسم انسانی وجودکی صورت ہے جواصل میںہستی مطلق کی تحدیدہے اورانسان غلطی سے اپنے آپ کوایک مستقل وآزاد ہستی خیال کرتاہے۔ مجموعی طورپراقبال نے اپنے تحقیقی مقالے میںصوفیانہ فکرکے تین پہلوؤںکااحاطہ کیا ہے: .1حقیقت بطورشعورالذات ارادے کے(Reality as Selfconscious Will) .2حقیقت بطورجمال کے (Reality as Beauty) .3حقیقت بطور نوریافکرکے (Reality as Light or Thought) اقبال نے واضح کیاکہ ابتدائی دورکے مسلم صوفیاء کامقصودفلسفیانہ غوروفکرنہ تھا،ان کا مقصد زندگی کاایسانصب العین تھا جواحساسِ گناہ سے اٹھنے والے تقدس، دنیا سے بے تعلقی، اور خدا سے گہری محبت کے باعث قائم ہوتا ہے۔اس لیے اس نے خدا کو ارادہ اورکائنات کواس کی محدود فعلیت خیال کیا۔لیکن جب غیراسلامی فلاسفہ نے مسلم تصوف پراپنے اثرات چھوڑے توکائنات کو خدا کے حسن وجمال کامحض پرتو قرار دیاگیااورجیسے کہ پہلے بیان کیاگیا، اس سے غیرشخصی جذب کاتصور ظاہرہوا۔مگرایک طویل عرصے کی غفلت کے بعدمسلم صوفیاء میںیہ خیال جاگزیںہوا کہ کائنات جن کثیر مظاہرکی سزاوارہے وہ وحدت مطلقہ کی محض جلوہ گری نہیںبلکہ ایسی قوت تفریق سے عبارت ہے جواسے کائنات میں جلوۂ افروزبھی رکھتی ہے اوراس سے ماورابھی۔ایسی وحدت مطلقہ کو نور یا فکرکے روپ میںمتصورکیاگیا۔ اپنے مقالے کے ختتام پراقبال اس نتیجے پرپہنچاکہ اصل میںکائنات کی کثیرا کائیاں اعلیٰ سے اعلیٰ صورتوں سے گزرتے ہوئے بالآخراپنے کمال کوبڑھتی ہیں۔اس نتیجے سے اس نے جو فکری تبدیلی محسوس کی اس کی بدولت اسے اندازہ ہوگیاکہ ایک حسن وہ ہوتاہے جوموجودات کائنات میںجلوہ افروزہے اورایک حسن وہ ہے جس کی چاہت اور قربت موجودات کا فطری تقاضا ہے اورمؤخرالذکرحسن ہی اصل میںمسلم تصوف کامقصودہے۔اس کی فکرمیںاس تبدیلی کے اظہار نے ایسے شعروںکاروپ دھارا: جلوۂ حسن کہ ہے جس سے تمناّ بیتاب پالتاہے جسے آغوشِ تخیل میں شباب ابدی بنتاہے یہ عالمِ فانی جس سے ایک افسانۂ رنگیں ہے جوانی جس سے ۱۲۰ بعدازاںاس نے اپنی اصطلاح’’ خودی‘‘ متعارف کرائی تومسلم تصوف کے بارے میں اپنا نقطۂ نظرکہیںزیادہ صاف اورواضح پیش کیا۔اس کااپنابیان ہے’’مجھے اس امر کا اعتراف کرنے میںکوئی شرم نہیںکہ میںایک عرصے تک ایسے عقائدو وسائل کاقائل رہا جوبعض صوفیاء کے ساتھ خاص ہیںاورجوبعدمیںقرآن شریف پرتدبرکرنے سے قطعاً غیراسلامی ثابت ہوئے۔ مثلاً… وحدت الوجود۔‘‘۱۲۱اوراس نے یہی اعتراف خواجہ حسن نظامی کے نام ایک خط میں کچھ ان الفاظ میں اداکیاہے’’میری نسبت بھی آپ کومعلوم ہے کہ میرافطری اورآبائی میلان تصوف کی طرف ہے اور یورپ کافلسفہ پڑھنے سے یہ میلان اوربھی تیز ہو گیاتھاکیونکہ یورپین فلسفہ بہ حیثیت مجموعی ’’وحدت الوجود‘‘ کی طرف رخ کرتاہے۔مگر قرآن میںتدبرکرنے اور تاریخ اسلام کابغورمطالعہ کرنے سے مجھے اپنی غلطی کااحساس ہوگیااور میں نے محض قرآن کی خاطراپنے قدیم خیال کو ترک کر دیااوراس مقصدکے لیے مجھے اپنے فطری اورآبائی رجحانات سے ایک خوفناک دماغی اورقلبی جہادکرناپڑا۔‘‘۱۲۲ اقبال کووحدت الوجودمیںجوسقم محسوس ہوئے مجموعی طورپران کااحاطہ کیاجائے تووہ حسب ِذیل سامنے آتے ہیں: .1یہ نظریہ انسان کی شخصی انفرادیت کے منافی ہے۔کیونکہ عبدیت کاتقاضا ہے کہ عبد اور معبودکے درمیان حدِفاصل قائم رہے لیکن وجودی صوفیاء کے مطابق، ایک بوند جیسا انسان سمندر جیسے خدا میں فنا متصور کیا جائے توعبداور معبود کا رشتہ کیونکر استوار ہوسکتا ہے۔ ضمناً دعا، شخصی بقائے دوام،جزاوسزاکے وعدہ ووعیدجیسے تصورات کی اہمیت کہاں باقی رہ سکے گی۔اس لیے اقبال یہ ضروری سمجھتاہے کہ انسان خداکی ذات میںگم نہ ہو،بلکہ اپنے اندراس جیسی صفات پیدا کرے تاکہ اپناذاتی تشخص برقرار رکھ سکے۔ بہ بحرش گم شدن انجامِ ما نیست اگر او را تو در گیری فنا نیست ۱۲۳ اس(سمندر)کی موج میںگم ہوناہمارامقصدنہیںہے اگرتو اسے اپنے اندرجذب کرلے (یعنی اس کی صفات اپنے ا ندرپیدا کرلے) توتجھے فنانہیںہے (یعنی توابدی زندگی حاصل کرلے گا)۔ اقبال کے نزدیک،رسول کریمؐ نے’’تخلقوباخلاق اﷲ‘‘۱۲۴یعنی’’اپنے اندرصفات الٰہیہ پیداکرو‘‘کی تعلیم اسی مقصد سے دی تھی۔ رنگِ او بر کن مثالِ او شوی در جہاں عکسِ جمالِ او شوی ۱۲۵ اس(اﷲتعالیٰ) کارنگ اپنا،تاکہ تواس جیسا ہو جائے اور دنیا میں اس کے جمال کاعکس بن جا ئے ۔ .2یہ نظریہ خداکے تصورشخصیت کے منافی ہے کیونکہ الوہیت کاتقاضا ہے اسے محض تصور مجرد متصور نہ کیا جائے لیکن وجودی صوفیاء کے ہاں، کائنات ہی خدا اور خدا ہی کائنات ہے،یعنی خدا کائنات سے ماورانہیں،اسی کے اجزاء پرمحیط کل ہے، ایسی صورت میں خدا یقینا شخصیت کاحامل نہیںرہتا،محض تصورمجردبن جاتاہے جس سے عبدیت کاناطہ ایک سوالیہ نشان بن جاتاہے۔اس لیے اقبال خداکوغیرشخصی نہیں مانتا،اسے شخصیت کاحامل گردانتاہے۔اس سلسلے میں اس کا استدلال ہے کہ ’’یہ رجحان رہاہے کہ خداکوغیرشخصی(impersonal) خدامانیںاوراس کی انفرادیت کو وحدت الوجودمیںبسیط ومنسبط کردیں،لیکن قرآن کریم اس رجحان کامخالف ہے۔ سورہ ’’النور‘‘ میں خداکو ارض و سموات کا نورکہاگیاہے جوبظاہروحدت الوجودکی زبان معلوم ہوتاہے،لیکن اس نورکے مرکزکوچراغ میںاور چراغ کو فانوس کے اند ر ایک طاق میںرکھنے کی تشبیہ خداکے فردہونے پردلالت کرتی ہے اور ہمہ اوستی تصورکے برعکس ایک تصور پیش کرتی ہے لیکن چونکہ یہ فردماورائے زمان ومکاں ہے اس لیے فردکہنے سے اس کی تناہی یامحدودیت لازم نہیں آتی ۔ ‘‘۱۲۶ تیسرے خطبہ''The Conception of God and the Meaning of Prayer" میں اقبال نے اس کی وضاحت ذرا تفصیل سے کی ہے جہاں اس نے بالآخریہ نتیجہ اخذ کیاہے کہ ’’ذات الٰہیہ کی لامتنا ہیت اس کی افزونی اور توسیع میںہے،امتداداورپنہائی میںنہیں۔وہ ایک سلسلۂ لامتناہیہ پرتوضرورمشتمل ہے لیکن بجائے خود یہ سلسلہ نہیں۔‘‘۱۲۷ .3یہ نظریہ شریعتِ اسلامیہ کے تشخص کے منافی ہے کیونکہ دین کاتقاضا ہے کہ مسلم کی غیر مسلم سے پہچان قائم رکھنے کے لیے دینی ظواہروشعائرکی پابندی روارکھی جائے لیکن وجودی صوفیاء کے نزدیک،دین کے باطن کوجان لیاتوپھراس کے ظاہرکی کیا ضرورت؟ یقینا ایسا خیال بہت خطرناک صورت اختیار کرتاہے،خصوصاًجب مختلف مذاہب کے صوفیائے اکرام اپنے عوام کے کردار اور سیرت کومتاثرکررہے ہوں۔ وہ ان کی طرح دین کے باطن سے باخبرتو ہوتے نہیں، ان کی پیروی کرنے لگ جائیںتوپھرباطن چھوڑ،ظاہرسے بھی گئے۔یوںشریعت چھوڑنے سے لامحالہ، ان کا دینی تشخص بھی گیا۔ بقول سیدنذیرنیازی،اقبال نے اس کی صراحت میں کہا تھا کہ ’’وحدت الو جو د‘‘ سے احکامِ شریعت کی حیثیت محض ظواہرکی رہ جاتی ہے۔لہٰذافردان سے بے اعتنا ئی برتتا اور جماعت وحدتِ ادیان کے چکرمیں اپناتشخص کھوبیٹھتی ہے۔اسلام ہی میںکوئی بات رہ جاتی ہے ، نہ اُمت اسلامیہ کے جداگانہ وجودمیں۔‘‘۱۲۸اورسب سے بڑھ کرسو باتوںکی ایک بات یہ ہی کافی ہے: تاشعارِ مصطفی از دست رفت قوم را رمزِ بقا از دست رفت ۱۲۹ جب حضوراکرمؐ کاشعار(شریعت)ہاتھ سے گیاتوقوم کی بقاکارازبھی ہاتھ سے گیا۔ اس لیے اقبال نے طریقت کوکبھی شریعت سے جدانہیںجانا،ہمیشہ طریقت کوشریعت سے مشروط کیاہے۔ پس طریقت چیست اے والا صفات شرع را دیدن بہ اعماقِ حیات ۱۳۰ اے اچھی صفات رکھنے والے پس طریقت کیاہے؟شرع کوزندگی کی گہرائیوںسے دیکھنے کا نام ہے ۔ اقبال نے اسی خیال کواپنے خطبۂ ہفتم"Is Religion Possible?"میںان الفاظ میں پیش کیا ہے ۔ ’’انسان کے اندریہ صلاحیت پیداہوتی ہے کہ ایک آزاد اور بااختیار شخصیت حاصل کرے،شریعت کے حدود و قیود کو توڑ کرنہیںبلکہ خوداپنے اعماق شعور میںاس کے مشاہدے سے۔‘‘۱۳۱ ویسے بھی اتباع رسولؐ کے لیے شریعت کی پیروی لازم ہے خواہ طریقت کی راہ اختیارکی جائے یانہ کی جائے کیونکہ بقول اقبال،نبی کریمؐ نے دین کی وساطت سے دنیا میںحصہ لینا سکھایا، خداتعالیٰ نے مسلم کوہدایت کی کہ’’لاتنس نصیبک فی الدنیا‘‘یعنی دنیامیںاپناحصہ فراموش نہ کر۔پھراس حصے کوحاصل کرنے کاطریق بھی بتایااور اس کانام شریعت اسلامیہ کاوہ حصہ ہے جو معاملات سے تعلق رکھتاہے۔۱۳۲اس پیرائے میںشریعت کو پسِ پشت کیونکر ڈالاجاسکتا ہے۔اس معاملے میں،اُس کے یہ اشعار فیصلہ کن ہیں۔ در شریعت معنیٔ دیگر مجو غیر ضو در باطن گوہر مجو ایں گہر را خود خداگوہرگراست ظاہرش، گوہر بطونش گوہر است علمِ حق غیرازشریعت ہیچ نیست اصلِ سنّت جز محبت ہیچ نیست ۱۳۳ شریعت میںکوئی اورمعنی نہ ڈھونڈ۔گوہرکے باطن میں چمک کے سواکچھ مت ڈھونڈ۔ اس موتی کوخدانے بنایاہے اس کا ظاہربھی موتی ہے اور باطن بھی موتی ہے۔سچاعلم شریعت کے علاوہ اورکچھ نہیںاورسنت ِرسول ِپاک ؐ کی بنیادمحبت کے علاوہ اورکچھ نہیں۔ .4یہ نظریہ انسانی اختیارکے منافی ہے کیونکہ اخلاقیات کاتقاضا ہے کہ خدانے خیروشر کے بدلے میں جزا و سزا کے جوراستے انسان کوسجھائے ہیں،ان کے انتخاب میںوہ آزاد وخودمختار ہو او ر آخرت میںاپنے کئے کا جواب دہ ہو۔ وجودی صوفیاء کے حوالے سے اگرخدااوراس کی جملہ کا ئنا ت میںتخصیص نہ کی جائے گی تو لامحالہ آزادی اختیار اور اجرو ثواب کے مفہوم بے اثر ہو جا ئیں گے ۔اس لیے اقبال نے اسے قرآن وسنن کے خلاف جانااوراپنے مدعا کی وضاحت میں بر ملا کہا : تو ھر مخلوق را مجبور گوئی اسیر بند نزد و دور گوئی ولے جاںازدم جاں آفرین است بچندیں جلوہ ہا خلوت نشین است ز جبر او حدیثے درمیاں نیست کہ جاںبے فطرتِ آزادجاںنیست شبیخوں برجہانِ کیف و کم زد ز مجبوری بمختاری قدم زد ۱۳۴ توہر مخلوق کو مجبور کہتا ہے۔ نزدیک و دور (یعنی زمان ومکان) کی قیود میں مقید کہتا ہے۔ لیکن جان روح پیداکرنے والے کے دم سے ہے۔یہ جان اتنے جلوؤںکے باوجودخلوت نشین ہے۔ (یعنی جان کے آثارہرجسم سے ظاہرہیںلیکن جان کوکوئی نہیںدیکھ سکتا ۔)کیونکہ جان آزاد فطرت کے بغیرجان نہیں ہے۔اس نے کیف وکم کے جہان پربے خبری میںحملہ کیا۔مجبوری سے مختاری کی طرف قدم بڑھایا۔ اقبال کے خیال میںانسان کااصل مقصدجبرکواختیارمیںبدلناہے جوتبھی ممکن ہے کہ انسان اپنے اختیار کو خدا کے اختیار کا ہم کنار کرلے، مطلب یہ ہے کہ اپنے اختیارسے اپنی سیرت کو منشائے ایزدی کے مطابق ڈھال لے۔ اقبال نے اس سارے خیال کوشعرمیںاس طرح سمویا ہے: در اطاعت کوش اے غفلت شعار می شود از جبر پیدا اختیار ۱۳۵ اے غافل فرماںبرداری کی کوشش کرکیونکہ جبروضبط سے اختیارپیدا ہوتاہے۔ .5یہ نظریہ انسان کے معاشرتی نظام کے منافی ہے کیونکہ معاشرت کاتقاضاہے کہ حقوق اﷲ کے ساتھ حقوق العبادکواحسن طریقے سے پوراکیاجائے لیکن وجودی صوفیاء کوحالتِ بے خودی بہت مرغوب ہے،جوکشف ووجدان کی ایسی حالت مدہوشی ہے جس میں بندہ اپنے خدا کے ساتھ قر ب کی لذت میں مستقلاً کھویا رہنا چاہتا ہے۔ اس کی خاطر معاشرتی معاملات وحاجات کو پسِ پشت ڈال کررہبانیت تک اختیار کرنے کومعیوب نہیںسمجھتا۔اس لیے اقبال کو وجودی صوفیاء کا ایسا رجحان خوب کھٹکتا ہے۔اس کے نزدیک،اس سے مسلمانوںمیںبے عملی اور تقدیر پرستی کوفروغ ملتا ہے۔ اس سلسلے میںاقبال نے بڑی دلچسپ مثال پیش کی ہے۔لکھاہے،’’وحید خان ایک پنجابی شاعرتھاجوکسی ہندوجوگی کا مریدہوکرفلسفہ ویدانت(ویدانت اوروحدت الوجود ایک ہی چیز ہے) کاقائل ہوگیااس تبدیلی خیال وعقیدہ نے جو اثر اس پرکیا،اسے وہ خودبیان کرتاہے: تھے ہم پوت پٹھان کے دَل کے دَل دیں موڑ شرن پڑے رگناتھ کے سکیں نہ تنکا توڑ یعنی میںپٹھان تھااورفوجوںکے منہ موڑسکتاتھامگرجب سے رگناتھ جی کے قدم پکڑے ہیںیاباالفاظ دیگر یہ معلوم ہواہے کہ ہرچیزمیںخداکاوجودجاری وساری ہے میںایک تنکابھی نہیں توڑسکتاکیونکہ توڑنے سے تنکے کودکھ پہنچنے کااحتمال ہے۔‘‘۱۳۶ظاہر بات ہے کچھ ایسی کیفیت وجودی صوفیاء میںعام ہوجائے توعام آدمی کاپھراﷲ ہی حافظ ہے وجودی تصوف کی وجہ سے مسلمانوںکی جوحالت ہوئی ہے،اقبال کے نزدیک کچھ ایسی ہے: آنکہ کشتے شیر را چوں گوسفند گشت از پامالِ مورے دردمند آنکہ از تکبیرِ او سنگ آب گشت از صفیرِ بلبلے بیتاب گشت آنکہ عزمش کوہ راکاہے شمرد با توکل دست و پاے خود سپرد آنکہ ضربش گردنِ اعدا شکست قلبِ خویش از ضربہاے سینہ خست آنکہ گامش نقشِ صدہنگامہ بست پاے اندر گوشۂ عزلت شکست آنکہ فرمانش جہاں را ناگزیر بردرش اسکندر و دارا فقیر کوششِ او باقناعت ساز کرد تا بہ کشکولِ گدائی ناز کرد ۱۳۷ وہ جوشیرکوبھیڑ کی طرح مارڈالتاتھا۔ایک چیونٹی کے پاؤں تلے کچلے جانے پردکھی ہوگیا۔ وہ جس کی تکبیر سے پتھرپانی بن گیا، ایک بلبل کی آواز سے بے تاب ہوگیا۔وہ جس کے عزم نے پہاڑ کوایک تنکاسمجھا اس نے اپنے ہاتھ پاؤںتوکل کے سپردکردئیے(یعنی سعی ترک کردی)۔ وہ جس کی ضرب نے دشمنوں کی گردن توڑ ڈالی،سینہ کوبی سے اپنے دل کوزخمی کردیا۔وہ جس کے قدم نے سینکڑوںہنگامے برپاکئے، اس نے گوشۂ عزلت میںپاؤںتوڑلیے۔وہ جس کاحکم دنیامانتی تھی، جس کے دروازے پرسکندراوردارا ، فقیر تھے ۔ اس کی کوشش(سعی)نے قناعت کے ساتھ سازگاری کرلی ۔یہاںتک کہ گدائی کے کشکول پرفخرکیا۔ وحدت الوجودکی خامیوںکواجاگرکرنے کایہ مطلب ہرگزنہیںکہ اقبال مسلم تصوف سے کلی طو ر پربے زار تھا۔ خوداس کاکہناہے کہ’’تصوف کے مقاصدسے مجھے کیونکراختلاف ہوسکتاہے کوئی مسلمان ہے جوان لوگوںکوبرا سمجھے جن کانصب العین محبت رسول اﷲؐہے اورجواس ذریعے سے ذا تِ باری تعالیٰ سے تعلق پیدا کرکے اپنے اور دوسروں کے ایمان کی پختگی کا باعث ہوتے ہیں ۔‘‘ ۳۸ ۱ حقیقت میںاس کواختلاف اس بات سے تھا کہ تصوف کاوجودی مسلک ایسے مسائل کی ترغیب کا سبب بناہے جو شریعت اسلامیہ سے متغائرہیںحالانکہ ان مسائل کاتعلق فلسفے سے بنتا ہے، تصوف سے نہیں۔اس کااظہاراس کے مضمون’’اسرار خودی اورتصوف‘‘میںان بیانات سے بخوبی عیاں ہے۔ جیسے، ’’میں اگر مخالف ہوںتوصرف ایک گروہ کاجس نے محمدعربی صلعم کے نام پر بیعت لے کردانستہ یانادانستہ ایسے مسائل کوتعلیم دی ہے جومذہب اسلام سے تعلق نہیں رکھتے۔‘‘ ۱۳۹ پھر آگے چل کرلکھاہے’’مجھے بعض ایسے مسائل سے اختلاف ہے جو حقیقت میںفلسفے کے مسائل ہیں مگر جن کوعام طورپرتصوف کے مسائل سمجھاجاتاہے۔‘‘۱۴۰ اورمسلم تصوف کے بارے میںاقبال کامطمح نظر۱۷ مئی ۱۹۱۹ء کے مکتوب بنام حافظ محمداسلم صاحب جیراجپوری کے اس اقتباس سے کھل کرسامنے آ جاتا ہے، ’’تصوف سے اگر اخلاص فی العمل مراد ہے(اوریہی قرون اولیٰ میںاس کا لیا جاتا تھا)توکسی مسلمان کو اس پر اعتراض نہیں ہو سکتا۔جب تصوف فلسفہ بننے کی کوشش کرتا ہے اورعجمی اثرات کی وجہ سے نظام عالم کے حقائق ا ور باریتعالیٰ کی ذات کے متعلق موشگافیاں کر کے کشفی نظریہ پیش کرتاہے تومیری روح اس کے خلاف بغاوت کرتیہے۔‘‘۱۴۱ اس مقام پر ایک سوال اٹھتاہے۔ اگرقرونِ اولیٰ میں تصوف جن فلسفیانہ موشگافیوںسے منّزہ تھا، بعدازاں وہ تصوف میں کیونکر داخل ہوئیں؟اقبال نے اس پربھی تحقیقی نگاہ دوڑائی ہے اور حسب ِذیل نکات کواس کاذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ .1مسلم فتوحات کادائرہ وسیع ہونے سے مسلم مفکرین میںمفتوح اقوام کے علوم وفنون کی طرف ملتفت ہونے کارجحان بڑھا۔خصوصاًارسطواورفلاطینوس کے افکار نے انہیں بے حد متاثر کیا نتیجتاًمسلم مفکرین کے خیالات میںدورس تبدیلیاںرونماہوئیں۔اس حوالے سے یہ گمان بعد از قیاس نہیںکہ مسلم تصوف جودائرہ اسلام میںنمو پا رہا تھا،اس پران کے اثرات مرتب نہ ہوئے ہوں۔ .2یونانی فلسفے کی ترویج سے مسلم کلام کی جن تحریکوںنے سراٹھایا،ان میںسے معتزلہ نے مذہبی حقائق کو عقلی ترازو میںتولنے کی سعی کی۔اس کے برعکس، اشاعرہ نے معتزلہ کے ہی منطقی ہتھیاروںسے ان سے مقابلہ کی ٹھانی۔ان کی باہمی چپقلش کانتیجہ یہ نکلاکہ متفرق فرقے وجود میں آئے۔بعض نے نقل کوعقل پر ترجیح دینے کی طرح پکڑی،کچھ نے تشکیک کی راہ لی اورچند ایک لاادریت کاشکار ہوئے۔ لیکن جوپاک طینیت عبادت گذارتھے وہ فرقہ آرائیوںسے گھبرا اٹھے، انہوںنے تصوف میں پناہ ڈھونڈی اور فلسفے کواس میں سمودیا۔ .3اسلامی عہدتک شام ومصرمیںنوفلاطونیت اورعیسائیت کے ایسے معلمین اورامام موجودتھے جوفوق الادراک حقائق کے عرفان کے مدعی تھے۔ ان حضرات کی تعلیمات کالب لباب یہ تھاکہ ہر شے میںایک ہی روح جاری وساری ہے اورجب انسان کوئی چیزکھاتاپیتاہے تواصل میںاس چیز کی روح کوانسان اپنی روح میںجذب کرلیتاہے۔یقینایہ ’من توشدم تومن شدی‘ والی کیفیت ہے۔اس کے زیراثربہت سے مسلم صوفیائ،کچھ اس قسم کے نتائج پرپہنچے۔ .4مسلمانوں کی مذہبی رواداری کی وجہ سے غیراسلامی مذہبی تحاریک نے بھی خوب نمو پائی ۔ عیسائیت، مانویت ،ویدانت جیسے صوفیانہ مسالک کے طریقۂ ریاضت نے مسلم صوفیاء کوبہت متاثر کیا ،نتیجتاًان کے طوراطوارمسلم تصوف میںشامل ہوگئے۔ .5بنوامیہ کوجس شوکت وثروت سے عروج نصیب ہوا،انہوںنے اس کی بناء پراسلام کی سادہ طرز ِحیات کوچھوڑکرکچھ ایسے قواعدوضع کئے جس کانتیجہ یہ برآمدہواکہ مسلمانوںکامذہبی جوش ٹھنڈاپڑگیااوردوسرے،ان کے طرزِحیات سے متانت اورسادگی کاوہ رنگ اڑگیاجوکبھی نبوت کی فیوض وبرکات سے ان پر چڑھ چکاتھا۔نیزسیاسی اکھاڑپچھاڑ،ایرانی کذابوںکی بغاوتوں،مامون اورامین کے عہدمیںخانہ جنگی جیسے حالات میںصوفیانہ طرزاختیار کرنے والوںمیںاپنے سماجی ماحول سے منافرت کااحساس ابھرا،نتیجتاًعیش پرستانہ تکلفات اورخانہ جنگیوں کے خلاف جو بھی صوفیانہ تحریک بطورصدائے احتجاج ابھری،وہ ایک طرح کی عملی وعلمی نصب العین اختیارکرگئی اس کے تحت پھرایسی ایسی اصطلاحات گھڑی گئیںجواس سے پیشترقرون اولیٰ کے مسلمانوں میں سرے سے مروج نہ تھیں۔ اقبال کی تحقیقات کے مطابق،وجودی تصوف کاسزاوارسرزمین عجم ٹھہرتاہے کیونکہ محولہ با لا اسباب اسی سر زمین میںپیدا ہوئے اوراس پرطرہ یہ کہ یہیںکے شعرانے اسے شاعری کے پیرہن میںاتارااوروجودی تصوف کواس قدررنگین اورپرکشش بنادیاکہ عوام کے دل ودماغ مسحور ہوکررہ گئے۔ہوایوںکہ وحدت الوجود کے علم بردارابنِ عربی کی تعلیمات سے اوحدالدین کرمانی اور فخر الدین عراقی جیسے شعرا انتہائی متاثرہوئے اوررفتہ رفتہ تمام ایرانی شعرااس رنگ میںرنگ گئے ۔ اقبا ل کے خیال میںاس کانتیجہ بڑاخوفناک نکلا۔وہ لکھتاہے،’’ایرانیوںکی نازک مزاج اور لطیف الطبع قوم اس طویل دماغی مشقت کی کہاںمتحمل ہوسکتی تھی جوجزوسے کل تک، پہنچنے کے لیے ضروری ہے۔انہوںنے جزواورکل کا دشوارگذاردرمیانی فاصلہ تخیل کی مدد سے طے کر کے ’’رگ چراغ‘‘ میں ’’خون آفتاب‘‘ کا ’’شرارسنگ‘‘ میں ’’جلوہ طور‘‘ کابلاواسطہ مشاہدہ کیا۔‘‘۱۴۲ اس طرح تخیل کی تجربے پرگرفت مضبوط ہوگئی،یعنی تخیل،تجربے پرحاوی ہو گیا۔فلسفیانہ افکارونظریات کی وجودی تصوف میںآمیزش سے جوصورت ِحال بگڑی سوبگڑی، شاعری کے تخیلانہ مزاج نے رہی سہی کسربھی نکال کررکھ دی۔دوسرے لفظوںمیںفلسفیانہ افکار و نظریات کے زیرِسایہ وحدت الوجودکی جونیورکھی گئی اس میںتجربہ کم تجریدکاعمل دخل زیادہ تھالیکن شاعری کے تخیلانہ مزاج نے تجربے کی ویسے ہی چھٹی کرادی۔اس تناظرمیںوجودی تصوف کا استدلال استقرائی نہ رہا،استخراجی ہوگیا۔اس اعتبارسے اقبال یہ کہنے میںحق بجانب ہے: ہے شعرِ عجم گرچہ طربناک و دل آویز اس شعر سے ہوتی نہیں شمشیر خودی تیز ۱۴۳ اب ایک اُلجھن رفع ہوناباقی ہے۔وجودی تصوف کی کھل کر مخالفت کرنے کے باوجود، جب منصورحلاج کے نعرہ اَناالحق کاذکرآتاہے تواقبال کے بیانات میںتضادمعلوم ہوتا ہے۔ مثلاً ایک طرف، اس کے ڈاکٹریٹ کے مقالے ’The Development of Metaphysics in Persia‘کایہ جملہ منصورحلاج کووجودی تصوف کاداعی ٹھہراتا ہے،’’…اس مکتب کوحسین منصور نے بالکل وحدت الوجودی بنا دیا اور ایک سچے ہندؤ ویدانتی کی طرح اَناالحق (اہم برہمااسمی) چِلا اُٹھا۔‘‘۱۴۴تودوسری طرف ،خطبۂ چہارم (The Human Ego His Freedom and Immortality) کے یہ الفاظ منصورحلاج کووجودی تصوف کے دائرے سے خارج کردیتاہے۔ ’’اب اگر صرف مذہبی نقطئہ نظر سے دیکھا جائے توان واردات کا نشوونما حلاج کے نعرہ ’اَناالحق‘میںاپنے معراج کمال کوپہنچ گیااورگوحلاج کے معاصرین،علی ہذامتبعین نے اس کی تعبیر وحدت الوجودکے رنگ میںکی،لیکن مشہورفرانسیسی مستشرق موسیومے سنیوںنے حلاج کی تحریروں کے جواجزاحال ہی میںشائع کئے ہیںان سے تویہی ظاہرہوتاہے کہ اس شہیدصوفی نے اَناالحق کہا تواس سے یہ نہیںسمجھناچاہئے کہ اسے ذات الٰہیہ کے وراء لوراہونے سے انکارتھا۔لہٰذاہمیںاس کی تعبیراس طرح کرنی چاہئیے جیسے قطرہ دریامیںواصل ہوگیا۔‘‘۱۴۵ان الفاظ کااس سے بھی کہیں جامع اظہاراس بیان سے ہوتاہے جسے ڈاکٹرسعیداﷲنے رقم کیاہے۔’’اَناالحق کے معنے یہ نہیں، کہ میں خدا ہوں بلکہ اس کو یوںسمجھناچاہئیے کہ’’اَنا‘‘ہی اصلی چیزہے۔بندہ اگرخدامیںگم ہوگیا۔ تو اس نے اپنی ہستی مٹادی۔‘‘۱۴۶ مرقومہ بالا بیانات کے حوالے سے جواُلجھن پیداہوتی ہے وہ مزیددونکات کی حامل ہے: .1منصورحلاج کواقبال نے پہلے توویدانتی تصوف کی مانندوجودی تصوف کا دعویدار ٹھہرایا اورپھراسے موسیو مے سنیوںکی تحریروںکے حوالے سے وجودی تصوف سے مبرّاکرڈالا۔ .2خطبۂ دوم کے بیان میںاَناالحق کی توجیہہ قطرے کے دریامیںواصل ہونے کی تمثیل پر پیش کی،جس کا سادہ مفہوم خدامیںگم ہوناہے۔جب کہ ڈاکٹرسعیداﷲ کے بیان میںواشگاف الفاظ میںوضاحت ملی ہے کہ اگربندہ خدامیںگم ہواتواس کی ہستی گئی،گویافناہوا۔اس لیے اصلی شے اَناہے۔ جہاںتک پہلے نکتے کی بات ہے، اقبال کے مطالعے اورتجربے میںجیسے جیسے وسعت آتی گئی اس کے خیالات میںانقلابی تبدیلیاںرونماہوتی چلی گئیں۔جیسا کہ ابتدا میں وضاحت کی گئی کہ ڈھلتی عمرکے ساتھ اقبال وحدت الوجود سے وحدت الشہود کی طرف ملتفت ہوا۔ثانیاً،اقبال نے اپنے مقالے کے مترجم،’’میرحسن الدین‘‘کو اس کے ترجمے کی اجازت دیتے وقت لکھاتھا۔’’یہ کتا ب اس سے اٹھارہ سال پہلے لکھی گئی تھی۔اس وقت سے نئے اُمور کا انکشاف ہوا ہے اور خود میرے خیالات میںبھی بہت ساانقلاب آچکاہے۔جرمن زبان میںغزالی،طوسی وغیرہ پرعلیحدہ کتابیں لکھی گئی ہیں جومیری تحریرکے وقت موجودنہ تھیں۔میرے خیال میںاب اس کتاب کا صرف تھوڑاساحصہ باقی ہے جو تنقید کی زد سے بچ سکے۔‘‘۱۴۷اس لیے منصورحلاج کے بارے میں مقالے میںدرج شدہ الفاظ اقبال کے دیگر حوالوں کی نسبت سے اہم نہیںرہتے۔رہی دوسرے نکتے کی بات،تواس ضمن میں اقبال کے یہ الفاظ رہنماثابت ہو تے ہیں، ’’خودی ایک حقیقت ہے جو اگرایک عمیق اورپختہ ترشخصیت پیداکرلی جائے توثبات واستحکام حاصل کرسکتی ہے اس لحاظ سے دیکھا جائے توکچھ یوںمعلوم ہوتاہے جیسے حلاج ان الفاظ میںمتکلمین کودعوتِ مبارزت دے رہا تھا ۔ ‘ ‘ ۱۴۸ اس کا مطلب یہ ہواکہ حلاج کے قول اَناالحق کایہ دعویٰ نہ تھاکہ وہ خداکے ساتھ متحدہوگیا،جیساکہ عموماًوجودی صوفیا کا خیال ہے،بلکہ اس کے معنی یہ تھے کہ میںتخلیقِ حق ہوں۔ اسی مفہوم کوپیشِ نظر رکھتے ہوئے اقبال نے ایسے اشعارکہے: حلاّج کی لیکن یہ روایت ہے کہ آخر اِ ک مرد ِ قلندر نے کیا رازِ خودی فاش خودگیری وخودداری وگلبانگ ِاَناالحق آزادہوںسالک توہیںیہ اس کے مقامات ۱۴۹ دراصل منصور نے کلمہ اَناالحق ایک ایسے عالمِ شوق کے دوران اداکیاجس کا تعلق ذاتی احساس و تجربے سے ہے اورجوانسانی فکرکی گرفت سے باہر ہے۔اس لیے اقبال کایہ ایقان ہے’’ہمارے پاس کوئی ایساذریعہ نہیںجس سے اس قسم کے احوال اور مشاہدات کی تحقیق علمی نہج پر کی جائے،جیسے مثلاًحلاج کوپیش آئے اورجواگرعلم کاایک سرچشمہ ہیں بھی توہم ان سے کوئی فائدہ نہیں اٹھا سکتے ۔‘‘ ۱۵۰ اس اُلجھن کورفع کرنے سے یہ عقدہ کھلتاہے کہ منصورحلاّج کووجودی تصوف میں شمار کرنا درست نہیںکیونکہ اس کانعرۂ حق فلسفیانہ قیاس آرائیوں پر محیط نہیں تھا،محض محسوسات وواردات کا ردعمل تھا یعنی اس کے ہاں مابعدالطبیعی حقیقت کااستخراج نہیں تھا،بلکہ احساس تھا،ذات کاوجدان تھا۔ایک طرح کااستقرائی روّیہ تھاجہاںجز کومحض محسوس ہوتاہے کہ وہ کُل میں سماگیاہے۔اس لیے اقبال کو اَناالحق نے فنافی اﷲ کاتصوریاتخیل نہیں بلکہ بقافی اﷲ کے رمزکااشارہ ملتاہے۔ آخر میں ایک وضاحت کر دینا ضروری ہے۔مسلمانوں کے علم الکلام، حکمت وفلسفہ اور تصوف کوناقدانہ تجزیے کی کسوٹی پرپرکھتے ہوئے اقبال بادی النظر میںابنِ خلدون کاہم خیال معلوم ہوتاہے کیونکہ اُس نے بھی اپنے ناقدانہ تجزیے میںیہ نتیجہ نکالاتھاکہ علم الکلام کے مسئلوں کو عقل انسانی کے زورپرحل کرنا،مسلم حکمت وفلسفہ کی گتھیوں کو فکر مجرد کی بناء پرسلجھانااورمسلم تصوف کی باریکیوں کو فلسفیانہ قیاس آرائیوں کے بل پرٹٹولنا،وہ فاش غلطیاںہیں جن کے المیہ سے مسلم فکر دوچار ہوئی ۔لیکن گہری نظرسے دیکھاجائے تو ان دونوں کی فکرکے بنیادی فرق کو نظراندازنہیں کیا جا سکتا۔ابنِ خلدون نے انسانوں کے افکارونظریات کی تہہ میں کارفرما عقل اوروجدان کو جدا جدا وسیلۂ علم متصور کیا جہاںہرایک کادائرہ عمل اپنااپنا رہتاہے۔اس کے برعکس ،اقبال نے اُن دونوں ذرائع علم کو ایسے آب بند خانوں(water-tight compartments)میںنہیںبانٹا،بلکہ ان میں ایک ایسی زنجیر باندھی ہے، جہاںعقل کی کڑی ختم ہوتی ہے، وہاںوجدان کی کڑی شروع ہوجاتی ہے اور زنجیرایسی بنتی ہے جہاں، زیرکی از عشق گردد حق شناس کارِعشق از زیرکی محکم اساس عشق چوں با زیرکی ہمبر شود نقشبندِ عالمِ دیگر شود ۱۵۱ دانشِ عشق سے اﷲتعالیٰ کی پہچان حاصل کرتی ہے اورعشق کے کام کی بنیادہوشیاری سے مستحکم ہوتی ہے۔جب عشق دانش سے ہم پہلوہوتاہے تووہ ایک اورجہان کاصورت گربنتاہے۔ اس حساب سے،اقبال کی فکرمیںاستقرائیت کے جراثیم ابنِ خلد ون کی فکرسے کہیںزیادہ پائے جاتے ہیں۔ حواشی ۱۔ اسلامی اورمسلم،استدلالات میںتفریق کے لیے، دیکھئے، M.Saeed Sheikh,Reorientation of Muslim Philosophy,included in,Proceedings of The Pakistan Philosophical Congress,11th Session,14-17April,1964,Hyderabad,pp.158-160 ۲۔ اس ضمن دیکھئے،علامہ شبلی نعمانی ،علم الکلام اور الکلام،ص ص:۱۱-۱۲ ۳۔ مثلاً،مستشرق جارج سارٹن لکھتاہے،’’…عقل اورمذہب کے درمیان مصالحت…ایک خودساختہ اوربے بنیادسامسئلہ ہے اورجس کی مثال ایسی ہے جیسے کسی دائرے کومربعے میںبدلنے میںیادوامی حرکت پیدا کرنے کی کوشش۔‘‘دیکھئے ،سید نذیر نیازی،مقدمہ تاریخ سائنس (ہومر تا عمر خیام)، جلداوّل، جارج سارٹن،(مصنف)،ص:۴۶،علاوہ ازیں، دیکھئے ، ڈاکٹر عبدالخالق اور پروفیسر یوسف شیدائی، مسلم فلسفہ،ص:۱۶ ۴۔ Bertrand Russell,History of Western Philosophy,p.229 ۵۔ میرحسن الدین،(مترجم)،فلسفۂ عجم،محمداقبال،(مصنف)،ص:۱۰۶،اقبال کے اصل الفاظ یوںہیں: "The flower of Greek thought faded away before the breath of Christianity,"see,Muhammad Iqbal,The Development of Metaphysics in Persia,p.82 ۶۔ محمداجمل،(مترجم)،نشاط ِفلسفہ،ول ڈیورانٹ،(مصنف)،ص:۴۸ ۷۔ ان چارجہتی فکری دھاروںکی تلخیص درج ذیل آرٹیکل سے لی گئی: Dr C.A.Qadir,Alexandrio-Syriac thought, included in ,M.M Sharif, (editor),History of Muslim Philosophy, vol,1, pp.111 -126 ۸۔ W.T Stace,A Critical History of Greek hilosophy,p.377 ۹۔ پروفیسرمیاںمحمدشریف، مسلمانوںکے افکار،ان کی ابتدااورحاصلات،ص:۱۹ ۱۰۔ عبیداﷲقدسی،تصوراتی عرب قبل اسلام،ص ص:۸۸-۸۹ علاوہ ازیں دیکھئے، عبیداﷲ قدسی، عرب میںاسلام سے پہلے دھرکاتصور،ص ص:۲۱-۲۲، مشمو لہ،The Pakistan Philosophical Journal,vol 2,No 4,April 1959 ۱۱۔ علم الیقین کے لیے دیکھئے،(۱۰۲:۵)،عین الیقین کے لیے دیکھئے،(۱۰۲:۷)،حق الیقین کے لیے دیکھئے، (۶۹:۵۱) see,"Philosophical teachings of the Quran", included in, M.M Sharif, (editor), op.cit, vol 1, pp.146-147 علاوہ ازیںدیکھئے، پروفیسرمیاں محمدشریف،کتاب مذکورہ،ص:۱۱،اوردیکھئے،خلیفہ عبدالحکیم،داستان دانش،ص:۱۷۴ ۱۲۔ علامہ شبلی نعمانی،کتاب مذکورہ،ص:۲۰ ۱۳۔ پروفیسرمیاںمحمدشریف ،کتاب مذکورہ،ص ص:۱۴-۱۵ ۱۴۔ علامہ شبلی نعمانی،کتاب مذکورہ،ص ص:۳۵-۳۶ ۱۵۔ پروفیسرمیاںمحمدشریف،کتاب مذکورہ،ص:۳۰ ۱۶۔ Syed Muzaffar-ud-din,Muslim Thought and its Source,pp.10-11 ۱۷۔ Anton Dumitriu,A History of Logic,vol,2,p.4 ۱۸۔ علامہ شبلی نعمانی،کتاب مذکورہ،ص:۳۸ ۱۹۔ Syed Muzaffar-ud-din,op.cit,pp.18-19 ۲۰۔ محمدھادی حسین،(مترجم)،روحِ اسلام،آنریبل سیدامیرعلی،(مصنف)،ص:۵۹۸ ۲۱۔ ایضاً، ص ص:۵۹۸-۵۹۹ ۲۲۔ ڈاکٹرعبدالخالق اورپروفیسریوسف شیدائی،کتاب مذکورہ،ص:۳۲ ۲۳۔ Syed Muzaffar-ud-din,op.cit,pp.18-19 ۲۴۔ محمدھادی حسین،(مترجم)،کتاب مذکورہ،ص ص :۵۹۹-۶۰۰ ۲۵۔ تفصیلات کے لیے دیکھئے، Mir Valiuddin, "Mutazilism", included in,M.M Sharif,(editor), op.cit, pp.199-200 ۲۶۔ تفصیلات کے لیے دیکھئے،Syed Muzaffar-ud-din,op.cit,pp.35-48 ۲۷۔ پروفیسرمیاںمحمدشریف،کتاب مذکورہ،ص ص :۸۵-۸۶ 28- M.Abdul Hye,"Asharism",included in,M.M Sharif, (editor), op. cit, p.223 علاوہ ازیں،دیکھئے، Dr. C. A Qadir, Philosophy and Science in the Islamic World, p.61 ۲۹۔ محمدھادی حسین،(مترجم)،کتاب مذکورہ،ص:۶۸۴ ۳۰۔ علامہ شبلی نعمانی،کتاب مذکورہ،ص:۵۲ ۳۱۔ اشعری کے اعتراضات کی تلخیص مندرجہ ذیل مضمون سے ماخوذ ہے، دیکھئے، وحید عشرت، اشاعرہ، مشمولہ، اقبال ریویو، مجلہ اقبال اکادمی،پاکستان،جلد۲۵،شمارہ نمبر۴، ۱۹۸۵ئ،ص ص:۱۴۶-۱۴۷ ۳۲۔ ایضاً،ص:۱۴۸ ۳۳۔ قاضی قیصرالاسلام،فلسفے کے بنیادی مسائل،ص ص :۴۰۴-۴۰۵ ۳۴۔ الکندی کے بارے میںمندرجہ ذیل مضمون سے استفادہ کیاگیا،دیکھئے، Ahmed Fouad El-Ehwany,"Al-Kindi",included in,M.M Sharif, (editor), op.cit,pp.423-424 ۳۵۔ فارابی کے بارے میںمندرجہ ذیل مضمون سے استفادہ کیاگیا،دیکھئے، Ibrahim Madkour,"Al-Farabi", included in, Ibid,pp.456-464 ۳۶۔ ڈاکٹرسیدعابدحسین،(مترجم)،تاریخ فلسفۂ اسلام،ٹ۔ج۔دوبوئر،(مصنف)،ص:۸۲ ۳۷۔ پروفیسرمیاںمحمدشریف،کتاب مذکورہ،ص :۱۱۹ ۳۸۔ ابنِ سیناکے بارے میںمندرجہ ذیل مضمون سے استفادہ کیاگیا،دیکھئے، Fazlur Rahman,"Ibn-Sina", included in M.M Sharif,(editor), op.cit,pp. 480-486 ۳۹۔ ابنِ مسکویہ کے بارے میںمندرجہ ذیل مضمون سے استفادہ کیاگیا،دیکھئے،علامہ شبلی نعمانی،کتاب مذکورہ،ص:۱۰۸ ۴۰۔ پروفیسرمیاںمحمدشریف،کتاب مذکورہ،ص ص:۱۲۲-۱۲۳ نوٹ:مصنف نے علامہ شبلی نعمانی کی تصنیف علم الکلام سے اقتباس نقل کیاہے،جب کہ ان کی دستیاب شدہ تصنیف علم الکلام اورالکلام کے متن میںدرج شدہ اقتباس کے الفاظ میںخاصافرق ہے ،دیکھئے، علامہ شبلی نعمانی،کتاب مذکورہ، ص: ۶۲ ۴۱۔ میرحسن الدین،(مترجم)،کتاب مذکورہ،ص ص:۷۸-۷۹،اقبال نے اپنی تصنیف میںحسب ذیل اقتباس کونقل کیا: "From my childhood I was inclined to think out things for myself.The result of this attitude was that I revolted against authority; and all the beliefs that had fixed themselves in my mind from childhood, lost their original importance. I thought that such beliefs based on mere authority were equally entertained by Jews, Christians, and followers of other religions. Real knowledge must eradicate all doubt. For instance, it is self-eveident that ten is greater than three. If a person, however, endeavours to prove the contrary by an appeal to his power of turning a stick into a snake,the performance would indeed be wonderful, though it cannot touch the certainty of the proposition in quesition." see, Muhammad Iqbal, op.cit,pp.59-60 42- Seyyed Hossein Nasr,"Fakhr-al-Din Razi",included in,M.M Sharif, (editor),op.cit,p.642 & p.649 علاوہ ازیں،دیکھئے،علامہ شبلی نعمانی ،علم الکلام اورالکلام،ص:۶۲ ۴۳۔ Ibid,p.645 ۴۴۔ شیخ شہاب الدین سہروردی مقتول کے سلسلے میںمندرجہ ذیل مضمون کے متن اوراس کے حاشیے، دونوں سے استفادہ کیا گیا،دیکھئے، Seyyed Hossein Nasr,"Shihab al-Din Shrawardi Maqtul", included in, M.M. Sharif,(editor),op.cit, pp.376 -377 ۴۵۔ ڈاکٹرسی اے قادر کے اس مضمون سے ابنِ تیمیہ کے بارے میں استفادہ کیاگیا،دیکھئے، "The renaissance of philosophical knowledge in the Islamic world", included in,Dr C.A Qadir,op.cit,pp.136-139 ۴۶۔ ایضاً،ص:۲۱ ۴۷۔ ابنِ باجہ کے بارے میںمندرجہ ذیل مضمون سے استفادہ کیا گیا، دیکھئے، ڈاکٹر سید عابد حسین، (مترجم)،کتاب مذکورہ ،ص:۱۲۷ 48- Bakhtyar Husain Siddiqi,"Ibn Tufail",included in, M.M Sharif, (editor),op.cit,pp.528-532 ۴۹۔ ڈاکٹرسیدعابدحسین،(مترجم)،کتاب مذکورہ،ص :۱۳۲-۱۳۳ ۵۰۔ یہ روایت حسب ذیل مضمون سے ماخوذہے،دیکھئے، Ahmed Fouad El-Ehwany,"Ibn Rushd",included in,M.M. Sharif, (editor),op.cit,p.542 ۵۱۔ ڈاکٹرسیدعابدحسین،(مترجم)،کتاب مذکورہ،ص:۱۳۶ ۵۲۔ ابنِ رشد کے بارے میںمندرجہ ذیل مضمون سے استفادہ کیاگیا،دیکھئے، Ahmed Fouad El-Ehwany,Ibn Rushd,included in,M.M.Sharif, (editor),op.cit,p.546 53- see,Muslim philosophers and their problems, included in, Dr C.A Qadir,op.cit,pp.72-73 ۵۴۔ Syed Muzaffar-ud-din,op.cit,p.99 علاوہ ازیںدیکھئے، پروفیسرصابر کلوروی،(مرتب)،تاریخ تصوف، محمداقبال، (مصنف)، ص: ۵۳ ۵۵۔ ایضاً،ص ص:۱۴-۲۴ ۵۶۔ ابوالحسنات سید محمد احمد قادری ، (مترجم) ، کشف المحجوب(نسخۂ سمرقند )، ابوالحسن سید علی بن عثمان، ہجویری ؒ،(مصنف) ، ص: ۱۱۲ ۵۷۔ ایضاً،ص:۱۱۴ ۵۸۔ پروفیسرصابر کلوروی،(مرتب)، کتاب مذکورہ،ص:۵۵،علاوہ ازیںدیکھئے،ڈاکٹرخلیفہ عبدالحکیم کامضمون،’’اقبال کی شاعری میںعشق کامفہوم‘‘،مشمولہ،شاہدحسین رزاقی،(مرتب)، مقالاتِ حکیم ،جلددوم،اقبالیات،مصنف نے مختصراً لکھا ہے :’’…بوعلی اَزرُوئے حکمت حیات وکائنات کی حقیقت بیان کرتے رہے اورجب بہت کچھ کہہ چکے توابوسعیدابوالخیرنے بس اتناکہاکہ ہرچہ تومی دانی، من می بینم۔‘‘ ایسامعلوم ہوتاہے کہ اقبال نے ’بانگ ِدرا‘میںنظم بعنوان’’عقل ودل‘‘کایہ شعر اسی سے متاثرہوکرلکھا، راز ِہستی کوتوسمجھتی ہے اور آنکھوں سے دیکھتا ہوںمیں محمداقبال،کلیات ِاقبال اردو/بانگِ درا،ص:۷۳ ۵۹۔ امیرخسرو کاشعرمندرجہ ذیل تصنیف سے نقل کیاگیا،دیکھئے،سیدنذیرنیازی،اقبال کے حضور ، ص: ۶۴ ۱ ۶۰۔ اصل اقتباس یوںہے: "According to him,only he can truly traverse the Path (tariqah)who walks with the Book of God(al-Qur'an) in his right hand and the Sunnah of the Holy Prophet in his left hand."See,B.A Dar,"Sufis before Hallaj", included in, M.M Sharif, (editor), op.cit,p.344 ۶۱۔ ’تصوف‘کے مادۂ اشتقاق کے بارے میںکوئی حتمی رائے موجودنہیں۔مختلف آراء کے مطابق گمان کیاگیاہے کہ تصوف لفظ’صف‘، معنی، ’قطار‘، یا، ’صفا‘، معنی، ’صفائی باطن‘، یا، ’صفہُ‘، معنی، ’چبوترہ‘، یا، ’سوف‘، معنی، ’حکمت‘،یا،’ثیوصوفیا‘،معنی،’حکمتِ الٰہی‘، یا ،’صوفہ‘، معنی،’ایامِ جاہلیت میں خانۂ کعبہ کی خدمت پر مامور قبیلہ‘،یا،’ صوف‘، معنی،’ اُون‘ ، سے مشتق ہے۔زیادہ تر آخری رائے، یعنی’صوف‘ کو معتبر اور مستندماناگیاہے۔ تفصیلات کے لیے دیکھئے،قاضی قیصرالاسلام،کتاب مذکورہ،ص ص : ۴۰۸ - ۴۱۰ ۶۲۔ ڈاکٹرابواللیث صدیقی،اقبال اورمسلکِ تصوف،ص:۶۰ ۶۳۔ ایضاً،ص:۶۲ ۶۴۔ ’گوتم بدھ کی شخصیت حقیقت نہیں رکھتی۔اس کا قصہ ہی حضرت ابراہیم بن ادھمؒ کے نام سے صوفیوں میں مشہور ہوگیا‘مصنف نے اس خیال کوپروفیسرآرنلڈنکلسن کی کتابMystics of Islam کے صفحہ نمبر۶ کے حوالے سے پیش کیا۔ دیکھئے،ایضاً،ص:۳۶ ۶۵۔ بشیر احمدڈار،تاریخ تصوف،ص:۶۹ ۶۶۔ ایضاً،ص:۱۴۱ ۶۷۔ مصنف کے مطابق،نواب سراحمدحسین نظام جنگ بہادرنے اپنی کتاب فلسفۂ فقراء میں ان دونوںکے فرق کوایک نقشے کی مددسے نمایاںکیاہے۔ وحدت الوجود(ہوالکل ) وحدت الشہود(ہوالہادی) نظریہ:ہمہ اوست یااندرہمہ اوست نظریہ:ہمہ از اوست رجحانِ تصوف :سکون کی طرف مائل رجحانِ تصوف :جوش کی طرف مائل میںاوروہ جدانہیں(وہ دریاتومیں اس کے ساتھ میںاورمیرے ساتھ قطرہ ہوں) وہ ہے وصل عشق اعتقاد:میںکون؟اناالحق(عارف) اعتقاد:میںکون؟اناعبدہ‘(عاشق) دیکھئے ،ڈاکٹرشیخ محمداکرام، رُودِ کوثر،ص:۳۱۲ ۶۸۔ یوسفی سعد حسن خاں،(مترجم)،مقدمہ ابنِ خلدون،ص:۴۸۰ ۶۹۔ ایضاً،ص:۵۴۵ ۷۰۔ ایضاً،ص:۵۰۹ ۷۱۔ سیدنذیرنیازی،کتاب مذکورہ،ص ص:۱۱۱-۱۱۳ ۷۲۔ سیدنذیرنیازی،(مترجم)،تشکیل جدیدالہٰیاتِ اسلامیہ،ص:۴،اقبال کے الفاظ ہیں: "The search for rational foundations in Islam may be regarded to have begun with the Prophet himself. His constant prayer was:'God! grant me knowledge of the ultimate nature of things!", see, Allama Muhammad Iqbal, The Reconstruction of Religious Thought in Islam,p.2 ۷۳۔ پروفیسریوسف سلیم چشتی،(مؤلفہ)،شرح اسرارخودی،ص:۲۱۰ ۷۴۔ کنفیوشس کے استدلال کے لیے دیکھئے ،باب دوم،حوالہ نمبر:۶ ۷۵۔ محمداقبال ،کلیات اقبال اردو/ضرب ِکلیم،ص:۵۳۷ ۷۶۔ محمداقبال،کلیات اقبال اردو/ ارمغان حجاز،ص:۷۰۳ ۷۷۔ محمداقبال،کلیات اقبال اردو/ضرب کلیم،ص:۵۹۰ ۷۸۔ سعیداحمداکبرآبادی،خطبات اقبال پرایک نظر،ص :۱۱-۱۲ ۷۹۔ سیدنذیرنیازی ،(مترجم)،کتاب مذکورہ،ص:۵،اقبال کے الفاظ ہیں: "This is what the earlier Muslim students of the Quran completely missed under the spell of classical speculation. They read the Quran in the light of Greek thought. It took them over two hundred years to perceive__though not quite clearly__that the spirit of the Quran was essentially anticlassical---", see, Allama Muhammad Iqbal,op.cit,p.3 ۸۰۔ ایضاً،ص:۲۰۲،اقبال کے الفاظ ہیں: "In fact,the influence of the Greeks who,as Briffault says,were interested chiefly in theory,not in fact,tended rather to obscure the Muslims' vision of the Quran,and for at least two centuries kept the practical Arab temperament from asserting itself and coming to its own.",see,Ibid,p.104 ۸۱۔ محمداقبال،کلیات اقبال اردو/ضرب کلیم،ص:۵۶۲ ۸۲۔ دیکھئے ،محمداقبال کامقالہ، ’’قومی زِندگی‘‘،مشمولہ،سیدعبدالواحدمعینی،(مرتب)،مقالات ِاقبال، ص: ۵۲ ۸۳۔ دیکھئے ،خط بنام، صاحب زادہ آفتاب احمد خاں، مشمولہ،شیخ عطا اﷲ، (مرتب)، اقبالنامہ، حصہ دوم، ص :۲۱۶-۲۱۷ ۸۴۔ دیکھئے ،محمداقبال کامقالہ، ’’قومی زِندگی‘‘،مشمولہ،سیدعبدالواحدمعینی،(مرتب)،کتاب مذکورہ،ص:۵۵ ۸۵۔ سیدنذیرنیازی ،(مترجم)،کتاب مذکورہ،دیباچہ ،ص:’ی‘ ۸۶۔ سیدنذیرنیازی ،اقبال کے حضور،ص ص :۵۷ -۵۹ ۸۷۔ مصنف کے حوالہ کے مطابق ، یہ اقتباس محمدرفیع الدین کی تصنیف اسلامی تحقیق کا مفہوم، مدعا اور طریقِ کارکے صفحہ نمبر۹ سے نقل کیاگیا،دیکھئے،مظفرحسین،اقبال شناسی کا انحطاط، ص: ۱۸ ۸۸۔ مصنف کے حوالہ کے مطابق ، یہ اقتباس محمدرفیع الدین کی تصنیف ملک پاکستان کامستقبل کے صفحہ نمبر ۶۵سے نقل کیاگیا، دیکھئے،ایضاً،ص:۱۹ ۸۹۔ میرحسن الدین،(مترجم)،کتاب مذکورہ،ص :۵۸ Muhammad Iqbal,op.cit,p.41 ۹۰۔ عطیہ سیّد،اقبال…مسلم فکرکاارتقائ،ص:۴۳ ۹۱۔ میرحسن الدین،(مترجم)،کتاب مذکورہ،ص :۷۴، Muhammad Iqbal,op.cit,p.56 ۹۲۔ اشاعرہ کے نظریہ ٔجواہر کے لیے دیکھئے،سیدنذیرنیازی ،(مترجم)،تشکیل جدیدالہٰیاتِ اسلامیہ، ص:۱۰۴ ۹۳۔ میرحسن الدین،(مترجم)،کتاب مذکورہ،ص :۸۱، Muhammad Iqbal,op.cit,p.61 ۹۴۔ یہ تجزیہ مندرجہ ذیل تصنیف سے ماخوذہے۔دیکھئے،عطیہ سیّد،کتاب مذکورہ،ص ص :۵۴-۵۵ ۹۵۔ محمداقبال،کلیات اقبال فارسی/زبور ِعجم،ص:۴۱۱ ۹۶۔ سیدنذیرنیازی ،(مترجم)،کتاب مذکورہ،ص: ۲۷۸ ۹۷۔ ایضاً،ص ص:۲۷۸-۲۷۹،اقبال کے الفاظ ہیں: "In this period religious life seeks its foundation in a kind of metaphysics__a logically consistent view of the world with God as a part of that view.", see, Allama Muhammad Iqbal, op.cit, p.143 ۹۸۔ ایضاً،ص: ۲۸۱ ۹۹۔ ایضاً،ص: ۲۸۱،اقبال کے الفاظ ہیں: "The great Muslim Sufi philosopher,Muhyddin Ibn al-Arabi of Spain, has made the acute observation that God is a percept; the world is a concept.", see, Allama Muhammad Iqbal, op.cit, p.144 ۱۰۰۔ ایضاً،دیکھئے،(زمانی مراتب کے لیے)ص ص:۱۱۴-۱۱۵،(مکانی مراتب کے لیے)ص ص:۲۰۷- ۲۰۹نیز،اشارتاًدیکھئے،ص ص:۲۸۱-۲۸۲,علاوہ ازیں،دیکھئے،علامہ اقبال کاتحریرکردہ مضمون ’’حکمائے اسلام کے عمیق ترمطالعے کی ضرورت‘‘، مشمولہ، بشیر احمد ڈار، (مرتب)، انوارِاقبال، ص ص: ۲۴۷تا ۲۶۷ ۱۰۱۔ افتخاراحمدصدیقی،(مترجم)،شذرات ِفکراقبال، محمد اقبال، (مصنف)، ڈاکٹر جسٹس جاوید اقبال، (مرتب)، ص:۸۰ ۱۰۲۔ شمس الدین صدیقی،(مترجم)،اقبال کی مابعد الطبیعیات،عشرت حسن انور،(مصنف) ،ص:۶۰ ۱۰۳۔ ایضاً،ص:۷۲ ۱۰۴۔ سیدنذیرنیازی ،(مترجم)،کتاب مذکورہ،ص: ۸،اقبال کے الفاظ ہیں: "There is, however,one important difference between Ghazali and Kant. Kant,consistently with his principles,could not affirm the possibility of a knowledge of God. Ghazali,finding no hope in analytic thought, moved to mystic experience,and there found an independent content for religion.In this way he succeeded in securing for religion the right to exist independently of science and metaphysics.",see.Allama Muhammad Iqbal,op.cit,p.4 ۱۰۵۔ میرحسن الدین،(مترجم)،کتاب مذکورہ،ص :۸۳ Muhammad Iqbal,The Development of Metaphysics in Persia, p.63 ۱۰۶۔ ایضاً،ص:۱۲۶،اقبال کے اصل الفاظ یوںہیں: [inner sense] verifies and corrects what intellect understands only as theory. Unaided reason is untrustworthy; it must always be supplemented by "Dhauq"...the mysterious perception of the essence of things...which brings knowledge and peace to the restless soul, and disarms Scepticism for ever." see, Ibid, p.98 ۱۰۷۔ شمس الدین صدیقی،(مترجم)، کتاب مذکورہ،ص ص:۹۱-۹۳ ۱۰۸۔ سیدنذیرنیازی ،(مترجم)،کتاب مذکورہ،ص: ۱۳۹،اقبال کے الفاظ ہیں: "Prayer, then, whether individual or associative, is an expression of man's inner yearning for a response in the awful silence of the universe.", see, Allama Muhammad Iqbal, The Reconstruc- tion of Religious Thought in Islam, p.74 ۱۰۹۔ ایضاً،ص:۱۶۹،اقبال کے الفاظ ہیں: "Purely metaphysical arguments, however, can not give us a positive belief in personal immortality. "---" This obviously means that, since unitary intellect transcends individuality, its appearance as so many unities in the muliplicity of human persons is a mere illusion." see, Ibid, p.89 ۱۱۰۔ ایضاً،ص:۲۱۶،اقبال کے الفاظ ہیں: "Ibn Khaldun was not a metaphysician.Indeed he was hostile to Metaphysics.", see, Ibid, p.113 ۱۱۱۔ مولاناظفرعلی خاں،(مترجم)،معرکہ مذہب وسائنس،جان ولیم ڈریپر،(مصنف)،ص : ۱۱۸-۱۱۹ ۱۱۲۔ پروفیسر صابر کلوروی،(مرتب)، کتاب مذکورہ، ص:۲۸ ۱۱۳۔ محمداقبال،کلیات اقبال اردو/بال جبریل،ص:۳۵۴ ۱۱۴۔ محمدعبداﷲقریشی،حیات اقبال کی گم شدہ کڑیاں،ص ص:۲۷-۲۸ ۱۱۵۔ خط بنام، سید سلیمان ندوی، مؤرخہ ۱۳ نومبر ۱۹۱۷، مشمولہ، شیخ عطااﷲ، (مرتب)، اقبالنامہ، حصہ دوم، ص :۷۹ ۱۱۶۔ محمداقبال،کلیات اقبال اردو/بانگ ِدرا،ص:۱۲۰ ۱۱۷۔ ایضاً،ص:۱۱۱،علاوہ ازیں،بانگ ِدراکا ایک اورشعر دیکھئے،جیسے، چمک تیری عیاں بجلی میں،آتش میں ، شرارے میں جھلک تیری ہویداچاندمیں،سورج میں،تارے میں ایضاً،ص:۱۶۴ ۱۱۸۔ ایضاً،ص:۱۱۱ ۱۱۹۔ میرحسن الدین،(مترجم)،کتاب مذکورہ،ص :۱۱۶ Muhammad Iqbal, The Development of Metaphysics in Persia, p.90 ۱۲۰۔ محمداقبال،کلیات اقبال اردو/بانگ ِدرا،ص:۱۵۴ ۱۲۱۔ دیکھئے ،محمداقبال کامقالہ ’’اسرارِخودی اور تصّوف‘‘،مشمولہ،سیدعبدالواحدمعینی،کتاب مذکورہ،ص :۱۶۱ ۱۲۲۔ ڈاکٹر ابواللیث صدیقی،کتاب مذکورہ،ص:۵۴۹ ۱۲۳۔ محمداقبال، کلیات اقبال فارسی/زبور ِعجم(گلشن رازجدید)،ص:۴۴۲ ۱۲۴۔ اس سلسلہ میںاقبال کے الفاظ ہیں: "The prophet said, Takhallaque bi-akhlaq Allah, create in yourself the attributes of God, thus man becomes unique by becoming more and more like the most unique individual.", see, Reynold. A Nicholson, (Eng.tr), The Secrets of The Self, p.xix of introduction. ۱۲۵۔ محمداقبال، کلیات اقبال فارسی /اسرارورموز،ص:۱۶۳ ۱۲۶۔ سعیداحمداکبرآبادی، کتاب مذکورہ،ص :۳۲ ۱۲۷۔ سیدنذیرنیازی ،(مترجم)،کتاب مذکورہ،ص: ۹۹،اقبال کے الفاظ ہیں: "God's infinity is intensive,not extensive. It involves an infinite series, but is not that series.", see, Allama Muhammad Iqbal, The Reconstruction of Religious Thought in Islam,p.52 ۱۲۸۔ سیدنذیرنیازی،اقبال کے حضور،ص: ۲۶۳ ۱۲۹۔ محمداقبال، کلیات اقبال فارسی/اسرارورموز،ص:۱۳۷ ۱۳۰۔ محمداقبال، کلیات اقبال فارسی/پس چہ بایدکرد،ص:۷۰۲ ۱۳۱۔ سیدنذیرنیازی ،(مترجم)،تشکیل جدیدالٰہیاتِ اسلامیہ،ص: ۲۷۹،اقبال کے الفاظ ہیں: "It is here that religion becomes a matter of personal assimilation of life and power; and the individual achieves a free personality, not by releasing himself from the fetters of the law, but by discovering the ultimate source of the law within the depths of his own consciousness.", see, Allama Muhammad Iqbal, op.cit,p.143 ۱۳۲۔ دیکھئے ،محمداقبال کامقالہ ’’سراسرارخودی‘‘،مشمولہ ،سیدعبدالواحدمعینی،(مرتب)، کتاب مذکورہ، ص : ۱۷۲ ۱۳۳۔ محمداقبال، کلیات اقبال فارسی/اسرارورموز،ص:۱۳۵ ۱۳۴۔ محمداقبال، کلیات اقبال فارسی /زبور ِعجم(گلشن راز ِجدید)،ص:۴۴۶ ۱۳۵۔ محمداقبال، کلیات اقبال فارسی /اسرارورموز،ص:۵۷ ۱۳۶۔ دیکھئے ،محمداقبال کامقالہ، ’’اسرارِخودی اور تصّوف‘‘،مشمولہ،سیدعبدالواحدمعینی، (مرتب)، کتاب مذکورہ، ص ص :۱۶۳-۱۶۴ ۱۳۷۔ محمداقبال، کلیات اقبال فارسی /اسرارورموز،ص: ۱۳۸ ۱۳۸۔ دیکھئے، محمداقبال کامقالہ، ’’اسرارِخودی اور تصّوف‘‘،مشمولہ،سیدعبدالواحدمعینی،(مرتب)، کتاب مذکورہ ، ص : ۱۶۴ ۱۳۹۔ ایضاً،ص:۱۶۱ ۱۴۰۔ ایضاً،ص:۱۶۴ ۱۴۱۔ دیکھئے ،خط بنام،حافظ محمداسلم صاحب جیراجپوری ،محررکردہ ،۱۷مئی ۱۹۱۹ئ،مشمولہ،شیخ عطااﷲ، (مرتب)،اقبال نامہ،حصہ اوّل،ص ص :۵۳-۵۴ ۱۴۲۔ دیکھئے ،محمداقبال ،’’دیباچہ مثنوی اسرارِ خودی(اشاعتِ اوّل ۱۹۱۵ئ)‘‘،مشمولہ،سیدعبدالواحد معینی، (مرتب) ،کتاب مذکورہ ، ص :۱۵۶ ۱۴۳۔ محمداقبال ،کلیات اقبال اردو /ضرب ِکلیم،ص:۶۳۹ ۱۴۴۔ میرحسن الدین،(مترجم)،کتاب مذکورہ،ص : ۱۱۶،اقبال کے اصل الفاظ یوںہیں: "The school became wildly pantheistic in Husain Mansur who,in the true spirit of the Indian Vedantist, cried out, "I am God"...Aham Brahma asmi.", see, Muhammad Iqbal, The Development of Meta- physics in Persia, p.89 ۱۴۵۔ سیدنذیرنیازی،(مترجم)،کتاب مذکورہ،ص: ۱۴۴،اقبال کے الفاظ ہیں: "The development of this experience in the religious life of Islam reached its culmination in the well-known words of Hallaj__ 'I am the creative truth. 'The contemporaries of Hallaj, as well as his successors, interpreted these words pantheist -ically; but the fragments of Hallaj, collected and published by the French Orientalist, L. Massignon, leave no doubt that the martyrsaint could not have meant to deny the transcendence of God.The true interpretation of his experience, therefore, is not the drop slipping into the sea---", see, Allama Muhammad Iqbal, The Reconstruction of Religious Thought in Islam,p.77 ۱۴۶۔ دیکھئے، ڈاکٹر سعیداﷲ کا مضمون، ’’اقبال کے ہاں ایک شام‘‘، محمودنظامی، (مرتب)، مشمولہ، ملفوظات، ص ص:۱۰۷-۱۰۸ ۱۴۷۔ دیکھئے،مکتوب بنام،تصدق حسین تاج،محررکردہ،۱۱جنوری۱۹۲۷ئ،مشمولہ،شیخ عطااﷲ، (مرتب)، اقبالنامہ،حصہ دوم، ص :۰۰ ۱، نوٹ:-اس مکتوب کے بارے میں بشیراحمدڈار کا لکھنا ہے،’’یہ خط میر حسن الدین کے نام ہے جنہوں نے اقبال کی کتابThe Development of metapyhsics in Persiaکااردوترجمہ(فلسفۂ عجم) کیا تھاجوبعدکوتصدق حسین صاحب تاج نے شائع کیا۔اس خط میں اسی ترجمہ کاذکر ہے۔‘‘دیکھئے، بشیراحمدڈار، (مرتب) ، اَنوارِ اقبا ل ، ص :۲۰۱ ، علاوہ ازیں،میرحسن الدین نے اس کاحوالہ’فلسفہ ٔ عجم‘کے دیباچہ میں دیا ہے۔دیکھئے،میرحسن الدین،(مترجم)،کتاب مذکورہ،دیباچہ ،ص : ۵ ۱۴۸۔ سیدنذیرنیازی ،(مترجم)،کتاب مذکورہ،ص: ۱۴۴،اقبال کے الفاظ ہیں: "---the realization and bold affirmation in an undying phrase of the reality and permanence of the human ego in a profounder personality.",see,Allama Muhammad Iqbal,op.cit,p.77 ۱۴۹۔ محمداقبال،کلیات اقبال اردو/ضرب ِکلیم،ص:۶۳۰ ۱۵۰۔ سیدنذیرنیازی ،(مترجم)،کتاب مذکورہ،ص: ۱۴۵،اقبال کے الفاظ ہیں: "Not being yet in possession of a scientific method to deal with the type of experience on witch such judgements as that of Hallaj are based,we can not avail ourselves of its possible capacity as a knowledge-yielding experience."see,Allama Muhammad Iqbal,op .cit,pp77-78 ۱۵۱۔ محمداقبال، کلیات اقبال فارسی /جاویدنامہ،ص:۵۳۸ باب چہارم مغربی استدلال اور فکرِ اقبال (Western Reasoning and Iqbal's Thought) ’’سنہرے مستقبل کی خاطر،سائنسی طرزکے استدلال کوبروقت،انسانی ذہن پراپنی حاکمیت جتاناہوگی۔‘‘ (سگمنڈفرائڈ) "Our best hope for the future is that the intellect ... the scientific spirit, reason…should in time establish a dictatorship over the human mind." (Sigmund Freud) (Sigmund Freud,New Introductory Lectures on Psychoanalysis,p.219) مغربی استدلال کا تاریخی جائزہ (Historical Survey of Western Reasoning) غلطیاںاہم نہیںہوتیں۔ان کاشعوراہم ہوتاہے۔اسی سے علم وآگہی کے اُفق وسیع ہوتے ہیں۔ نفسیات کے ماہر، ڈاکٹر سگمنڈ فرائڈ (Dr.Sigmund Freud) کاکہناغلط نہیںکہ آج کاسچ مستقبل کے سچ کے سامنے جھوٹ ہے اورمستقبل کا یہی وہ سچ ہے جسے کھوجنے کے لیے سائنسی تگ وتاز کرناپڑتی ہے ۔۱انسان غلطیوںسے سیکھتاہے اور سیکھتے ہوئے غلطیاں کرتاہے۔ اس مناسبت سے دیکھاجائے توفکر ِانسانی کی تاریخ گواہ ہے کہ تخیل اورتجریدکی غلطیو ں سے انسان نے تجربے اورتحقیق کاقرینہ سیکھااوراسے سیکھتے ہوئے فطری قوانین وضع کرنے کی غلطیاں کیں جن کی بدولت سائنس کی وضع قطع وجودمیںآئی اورایک طویل ارتقائی منزل طے کرنے کے بعداس قابل ہوئی کہ مذہب، تصوف، علم الکلام اور فلسفہ سے جداگانہ اپنامقام بناسکے۔اس کی وجہ اس کامخصوص استقرائی مزاج ہے جو بالآخرمغربی استدلال کا طرۂ امتیاز قرارپایااوراس وصف پراہل مغرب کوآج بھی نازہے۔لیکن دیکھنایہ ہے کہ کون سے عوامل تھے جن کی بنیاد پر سائنس کاخمیر تیارہوا،اس کے ایسے کون سے خصائص ہیںجن کی وجہ سے اس کا منفرد تشخص برقرار ہوا اور اس میں کہاں تک صداقت ہے کہ اسے مغربی استدلال سے واقعتاًمختص سمجھاجائے۔یہ جاننے کے لیے سائنس کو تاریخ کے یونانی، مسلم اورمغربی تناظرمیںدیکھناہوگا۔ .1یونانی سائنس(Greek science): سائنس کی کہانی اس وقت شروع ہوئی جب انسان نے اپنے گرداگردپھیلی ہوئی وسیع و عریض کائنات کے بارے میںبالارادہ مشاہدات کئے اور ان کے زور پر کچھ معنی خیز نتائج برآمد کئے تاکہ ان کے عملی اطلاق سے درپیش مسائل کے فوری اورموزوںحل ڈھونڈے جاسکیں ۔مثلاً مشہورہے کہ مصرکے فرمانرواںنے تھیلیزکوحکم دیاکہ اہرام مصرکی بلندی ناپ کردو۔حکم کی تعمیل میں وہ اہرام مصرکے پاس سارادن اس انتظارمیںبیٹھارہا تاوقتیکہ اہرام کے سایے کی لمبائی اس کی اصل لمبائی کے برابرنہ ہوجائے،اس نے اہرام کے سایے کوناپاجوبلاشبہ اس کی اصل لمبائی کے مساوی تھا۔۲ اسی طرح اس نے ساحل کے دومختلف حصوں کے مشاہدے کو بروئے کارلاتے ہوئے سمندرسے جہازکے فاصلے کو ماپنے کاطریقہ ڈھونڈنکالا۔۳ہم باب دوم میںیونانی استدلال کی وضاحت میںآیونی مفکرین کے سائنسی کارناموں کا ہلکا سا تذکرہ کر چکے ہیں۔اس کی روشنی میںیہ بات برملاکہی جاسکتی ہے کہ انہوںنے اپنے طورپربھرپورکوشش کی کہ مشاہدات کے سہار ے نظام کائنات کی مکمل توجیہات پیش کی جائیں۔یہ دوسری بات ہے کہ ان کی توجیہات، گو بڑی ناقص تھیںمگرکچھ بھی ہو، خلاف ِعقل نہ تھیں۔ مستشرق جارج سارٹن کے حساب سے،وہ بے سر و پا خیالات کی بجائے پیش از مفروضات اورعاجلانہ استقراء کانتیجہ تھیں۔۴اس کے ساتھ ساتھ،یہ نکتہ بھی نظراندازکرنے کانہیں کہ یونانیوں کی سائنس میںمشاہدات کا عمل دخل ضرور موجود تھا مگر اس کارتبہ،دوسرے درجے کاحامل تھا۔اصل فوقیت خالص فکرکوحاصل تھی اوراس کی وجہ علم ہندسہ اورریاضی کے وہ اثرات تھے جویونانیوںنے مصروبابل کی تہذیبوںسے قبول کئے تھے۔ مثال کے طورپرعلم ہندسہ جس مثالی دائرے کا تصور پیش کرتاہے وہ فی الواقع تو کہیں موجود نہیں،مگرانسانی فکرکی گیرائی میںموجودہے اورحقیقی دنیا کی گول اشیاء کے مشاہدے سے فہم وادراک میں آتا ہے۔ دوسرے لفظوںمیں، دائرے کا تصور مشاہدے سے وجود میںنہیںآتابلکہ مشاہدے سے محض اس کے وجود کاپتا چلتا ہے۔ گویا مشاہدہ خواہ کیاجائے یا نہیں،مثالی دائرے کے تصور کی حقیقت بدیہی ہے جس سے انکارمحال ہے۔اس کا مطلب یہ ہواکہ استدلال کا سروکار مشاہدات سے نہیںبلکہ ان تصورات سے ہے ،جوبدیہی ہیںیعنی جن کی صداقت قطعی ہے۔ کلاسیکی استدلال کی سائنس میںہندسی تصورات کی بدیہی شان کا عنصربے حدغالب تھا۔تھوڑی دیرکے لیے یہ بات یقیناسوچنے کی ہے کہ اس زمانے کی سائنس جیسی بھی تھی،کیا یونانیوں کے علاوہ دیگرقومیںاس سے شناسانہ تھیں؟محققین کے ہاںاس کا موزوں جواب یہ ملتاہے کہ سائنس اس حیثیت میں موجودنہ تھی جو یونانیوںنے وضع کی تھی۔اسے معروف معنی میںسائنس کہنا دشوار ہے، اسے زیادہ سے زیادہ سائنسی معلوما ت کامجموعہ کہنا شاید غلط نہ ہو کیونکہ بقول سید نذیر نیازی، اس وقت صورت حال کچھ ایسی تھی کہ انسان کے سامنے ’’ہر طرح کے حقائق تھے جن سے بظاہروہ آشنا بھی ہو چکا تھا لیکن اس کا شعوراتناسادہ اور پست تھاکہ اس نے ان حقائق کواس نظرسے نہیں دیکھا جس نظرسے اہلِ علم کوفی الواقعہ دیکھناچاہئیے اس کے پاس کچھ معلومات تھیں اور تجربے اوراختیار نے بے شک اس میںچندعلمی اورعملی صلاحیتیں پیدا کر دی تھیںلیکن علم کو علم کی حیثیت سے سمجھنایا سمجھاناکہ وہ حقائق کاایک نظام ہے جسے پھرہم الگ الگ نظامات میںترتیب دے سکتے ہیں،اس کے کچھ اصول ہیں،کچھ قوانین، لہٰذا یہ عین ممکن ہے کہ ان سے ہمیشہ کے لیے کچھ نتائج اخذ کئے جا سکیں،یہ باتیں ہیں جن سے ان کاذہن ناآشناتھا۔‘‘۵ علاوہ ازیں، یونانیوںکے ماسواکسی قوم نے سائنس کو اپنے اسطوری مذہب سے جداجگہ نہ دی۔وہ طبعی مظاہر کا مشاہدہ کرتے اور انہیں اپنے دیومالائی تصورات کی توجیہات کے لیے پیش کرتے مثلاً ہندوؤں کی اپنشدوںمیںمذکورہے،’’ جس طرح مکڑی سے اس کاجال پھیلتاہے یاآگ سے اس کے شرارپھوٹتے ہیں،اسی طرح ایک مہا آتما سے تمام دیوی دیوتا،تمام عالم اور تمام ذی حیات نکلتے ہیں۔‘‘۶ مجموعی طورپریونانیوںکے ہاں،سائنس کی ترقی قریباًساقط رہی۔اس کی وجہ پارمینڈیز اور زینوکے افکارکی اشاعت وترویج بنی جس کے اثرات پورے ہیلانی اورحتی کہ کافی حدتک ہیلانیاتی استدلال پرمرتب ہوئے۔پارمینڈیز نے فکرکوحقیقت اورحواس کوفریب قراردے کران میںایک ناقابل عبورخلیج پیداکی تھی اورحواس کوفریب ثابت کرنے کے خیال پرزینوکے منطقی اسلوب نے ایسا فیصلہ کن ٹھپہ لگایاتھاکہ بجزسوفسطائیہ،کسی کوبھی حواس کی طرف ملتفت ہونے کی جرأت نہ ہوئی۔ حدیہ ہے کہ علم ریاضی کے زورپرافلاطون کے شاگردان ِرشید،ارکیاطس(Archytas) اور مینا کومس(Menachmus) چندسرکنے والے پیمانے اورپرکاریںاختراع کرنے میںکامیاب ہوجاتے ہیںتوبقول پلوٹارک(Plutarch)،افلاطون انہیںلعن طعن کرتے ہوئے کہتاہے کہ ’’انہوںنے علم ہندسہ کے تمام حسن کوتباہ کردیاہے کیونکہ اس طریقے سے یہ علم غیرجسمانی اور خالص ذہنی بلندی سے گر کر محسوس اشیاء پراترآیاہے۔‘‘۷ سائنس کی سانسیںتوحواس ہی سے چلتی ہیں،جب حواس کاگلاگھونٹنے میںکوئی کسر نہ چھوڑی گئی،تو ظاہری بات ہے سائنس کوایسے ماحول میںحیات کہاں سے ملتی۔یہی وجہ ہے کہ ارسطوجیسا حقیقت پسندفلسفی بھی جب سائنسی مسائل کو چھیڑتا ہے تواستخراجی استدلال کے خرخشوںسے جان نہیںچھڑاپاتا۔سچ بات تویہ ہے، اگر ارسطو کی اعلیٰ پایے کی فلسفیانہ خدمات موجود نہ ہوںتوسائنسی لحاظ سے اسے دانشورقراردینے والوںکے نارمل ہونے پر شبہ ہو۔اس کااندازہ بریفالٹ کے بیان کردہ اس اقتباس سے بآسانی لگایا جاسکتا ہے۔ مثلاً ارسطو کاخیال تھا’’شیرکی گردن میں صرف ایک ہڈی ہوتی ہے،انسان کی آٹھ پسلیاں ہوتی ہیں،مردوںکے دانت عورتوںسے زیادہ ہوتے ہیں، دھڑکتا ہوا دل صرف مردوںہی کے سینے میںہوتاہے۔ماد ینوںکی کھوپڑیوں میں (نروں سے بالکل مختلف) ایک گول درزہوتی ہے۔ انڈے سمندرکے پانی پر تیرتے ہیںاوراگرسمندر کاپانی لاکھ کے برتن میںرکھاجائے تووہ پینے کے قابل ہوجاتاہے۔‘‘۸ گمان غالب یہی ہے کہ حواس کوفریب اورالتباس جاننے کے باعث بیشتر یونانی مفکر مشاہدات وتجربات سے کنّی کتراتے رہے اورفکرکوحقیقت کاآئینہ دارگرداننے کی بدولت سائنسی معاملات میںنظری قیاسات سے کام چلاتے رہے۔ بریفالٹ نے اس کی خوب وضاحت کی ہے۔ وہ لکھتاہے’’چونکہ یونانیوںکواپنی استدلالی آزادی اور لچک پربڑا پندارواعتمادتھا۔اس لیے یونانی ذہن میںمشاہدے کے حقائق کے تقدس کاشعورکبھی پیدانہ ہوا۔یہ ذہن بالکل نظری اور مجردتھا۔اس کے نزدیک صحت فکر کا مطلب صرف منطق واستدلال کی صحت تھی۔ لیکن اس نے استدلالی عمل کی بنیاد میں ، فکرکے موادوحقائق میںاورحاصل شدہ تجربے میںصحت کاکوئی تصورکبھی قائم ہی نہ کیا تھا۔یونانی مفکرین ہرمضمون پراور ہرصغریٰ کبریٰ پرمنطق و استدلال کے جوہر دکھا سکتے تھے اور جب تک یہ صغریٰ کبریٰ منطقی اعتبارسے معین رہتے وہ لوگ ان کی فی نفسہٖ معقولیت کے متعلق زیادہ پروا نہ کرتے۔انہیںتجسس کاشوق ضرورتھالیکن علم کے سکوّں کو جمع کرنے کی پیاس یا ان سکوّں کو کسوٹی پرکس کر ان کی قدروقیمت معلوم کرنے کاشغف نہ تھا۔ یونانیوں کا پورا ذہن خود ذہنی روش ہی پر مرتکزتھا لیکن جس موادپروہ روش عمل کرتی ہے اس سے وہ قریب قریب پوری غفلت کرتے تھے۔وہ غوروفکرکے سمندروںمیںطالع آزمایانہ جہازرانی توکرتے تھے لیکن نہ ان کے پاس کمپاس ہوتاتھانہ مقناطیس۔وہ اجنبی سرزمینوں کی تلاش میںروانہ توہوجاتے تھے لیکن ان کے پاس سمت سفر معین کرنے کاکوئی ذریعہ نہ تھا۔‘‘۹ اس کاایک جوازشاید یہ بھی بنتاہے کہ یونانی معاشرے میںغلامی کارواج عام تھااوراپنے ہاتھ سے کرنے والے کاموں کو پسندیدگی کی نگاہ سے نہیںدیکھاجاتاتھا،اس لیے محتاط مشاہدات وتجربات سے ارادتاً اغماض برتا گیا۔۱۰ ویسے بھی تخیل، تجربے سے سہل ہوتاہے ۔اس لیے برٹرینڈ رسل کی رائے میںبھی وزن ہے کہ یونانیوں نے دنیاکو سائنسد ا ن کی نظرسے نہیںبلکہ شاعر کی نظرسے دیکھاہے۔جہاںتک سوفسطائیہ کامعاملہ ہے، انہوں نے حواس سے مرادانسان کے باطنی احساسات لیے تھے جن کی بدولت سائنس کے معروضی حقائق کو بے نقاب کرناتودرکناران کی بات بھی نہیںکی جاسکتی کیونکہ سائنس انسانی احساسات کی پابندنہیں۔اس حوالے سے یہ ثابت ہوتاہے کہ یونانیوں کو نظریات سے دلچسپی تھی،ٹھوس حقائق سے نہیں۔ اس لیے ان کے ہاں سائنس کووہ مقام نصیب نہ ہوسکاجس کی وہ اہل تھی۔ویسے بھی اس زمانے میںعلوم کی تخصیص کاری کاشعور پیدا نہ ہوا تھا۔اس حوالے سے رسل لکھتاہے،’’چوتھی اور پانچویںصدیوںکے خودمختاریونانی شہروںمیں،ایک قابل شخص سے یہ توقع رکھی جاتی کہ وہ ہرکام میںقابلیت رکھتاہوگا۔جیساموقع محل ہوتا،اس مناسبت سے اسے ایک سپاہی، سیاستدان، قانون دان یاایک فلسفی کافریضہ انجام دیناپڑتا۔مثلاًسقراط جسے سیاست سے دلچسپی نہ تھی،سیاسی تنازعات میںکودنے سے جان نہ چھڑاسکا،عہدجوانی میں اسے سپاہی کی خدمات بھی سرانجام دینا پڑیں اور طبعی سائنس کاطالب علم بھی رہا۔پروٹاگورس جب اپنے اشرافی طلباکو نظریہ تشکیک پڑھالیاکرتاتو لمحات فرصت میںعلاقہ تھرائی(Thurii)کے لیے ضابطہ ٔقانون تیار کیا کرتا۔ افلاطون اگرچہ کبھی سیاست میں کامیاب نہ ہوا،سیاسیات سے دل بہلاواکرلیاکرتا۔زینوفون نے جب سقراط کی سوانح مرتب کی تھی اورنہ ابھی وہ سپاہی بنا تھا،اس نے اپنافالتووقت جنرل کی حیثیت سے گزارا تھا۔ فیثا غو رثی ریاضی دانوں نے شہروںکی حکومت پر قابض ہونے کی کوشش کی تھی اور ہرکسی کو عدالتی اورانتظامی ذمہ داریاںسنبھالنا پڑی تھیں۔‘‘۱۱گویااس زمانے کاصاحب بصیرت، فلسفہ، ہندسہ، ریاضی، طبیعیات،طب،فلکیات،قانون، سیاسیا ت، غرضیکہ قریباً سبھی علوم پرتھوڑی بہت دسترس رکھتا تھا اور ہر معاملے میںایک طرح کاہرفن مولاسمجھاجاتا تھا۔چونکہ مجموعی لحاظ سے فکرکی صوری سچائی کومادی سچائی پرفوقیت دینے کا رجحان عام تھاجیسا کہ باب دوم میںیونانی استدلال کے تاریخی جائزے میںبالتفصیل بیان کیاجاچکاہے، اس لیے سائنس کوصحیح معنوں میں پذیرائی حاصل نہ ہوسکی۔اس کے باوجودیہ امر باعث تعجب ہے کہ معدودے چند یونانی مفکرین نے سائنسی مفروضات اورمشاہدات میںبڑاکمال کردکھایا جیسے انکساغورس نے واضح کیاکہ سورج ایک دہکتا ہوا پتھرہے جس کاحجم پیلپونیسی(Pelponese)کے علاقہ سے بڑا ہے۔چاندسورج سے کسب ِنور کرتاہے اور اس سے بہت نیچے واقع ہے۔سورج اورچاند گرہن کی علّت یہ ہے کہ چاند زمین اور دوسرے اجرام فلکی ایک دوسرے کے درمیان حائل ہوجاتے ہیں۔دریائے نیل کے سالانہ تموج کی وجہ اثوبیہ(Aethiopia)میںبرف کاپگھلناہے۔نظریہ گرہن کی طرح دریائے نیل کے تموج کی بھی یہ نہایت درست توجیہہ تھی۔۱۲ کوس(Cos)کے بقراط(Hippocrates)نے تو فنِ طب میںحیران کن سائنسی معرکے مارے۔سارٹن لکھتاہے کہ’’بقراط نے ان توہمات کاازالہ کیاجوطب میںپھیلے ہوئے تھے اور پھر مصراورمذاہب کوس اورکنی ڈیوس میں جو معلومات اختیاراًجمع ہورہی تھیںان میںنظم وترتیب پیدا کرتے ہوئے اس کے استقرائی اورایجابی علم کی بناء رکھی اسے طب میںوہی درجہ حاصل ہے جو فلسفے میںسقراط کو۔طبی اخلاقیات کی تاسیس جس کی صحت آج بھی مسّلم ہے۔صحتِ عامہ کے اوّ لیں اصول۔اصول قوت طبعیہ شفائیہ،علاج بہ حفظ ِماتقدم،لیکن سوچ سمجھ کے ساتھ،بحرانی ایام کا نظریہ۔نظریۂ اخلاط ِاربعہ،کیفیت مرض کا نہایت صحیح بیان۔(مثلاًدق اُم صبیان، صرع، ’حمیات‘ اورعلامات نزع وغیرہ) بقراط نے اپنے مریضوں کاحال نہایت صحت کے ساتھ قلم بند کیا ہے (کل مریض۴۲-صرف۲۵جانبرہو سکے)اس کی جراحیات کاایک طرح سے انیسویں صدی تک کوئی مقابلہ نہیں ہوسکا۔(مثلاًکولہوں،کاندھوںاورجبڑوں کااترجانا)۔‘‘۱۳ بقراط کے ایک جانشین کاکہناہے کہ وہ پہلاشخص تھاجس نے سائنس کوفلسفے سے جدا کیا۔ ہیلانی دورکے تمام تریونانی حکماء میںسے واحد ایسا مفکر تھا جس کا سائنسی رویہ بہت حد تک استقرائی تھااورجودرج ذیل خصائص کاحامل تھا: .1وہ ہمیشہ ٹھوس حقائق وعلائق پرمبنی تجربات سے عمومی نتائج اخذکرتااورکبھی کسی ایسے نظریے کوقبول نہ کرتاجو محض قیاس یاقیافہ کاحاصل ہواوراس نظریے کی صحت کوہمیشہ شک وشبہ کی نظرسے دیکھتاجس کی تجربی تصدیق نہ کی جا سکتی ہو۔ .2وہ ہمیشہ اپنے مشاہدات وتجربات کے حاصلات کاریکارڈمحفوظ رکھتاتاکہ ان کی روشنی میںمزیدتجربات کرنے میںآسانی رہے۔نیزآئندہ آنے والوںکواس کے تجربی حاصلات سے بھرپورفائدہ اٹھانے کاموقع ملے۔ .3وہ ہمیشہ محتاط اورصبرآزماتجربات کیاکرتا۔عجلت اورسہل پسندی کامظاہرہ نہ کرتااورحتی الو سع اس کوشش میں رہتاکہ تجربات سے ممکنہ حدتک درست نتائج حاصل ہوں۔ .4وہ اپنے تجربات کوبارہا دہراتا،ان کی کڑی پرکھ کرتا،تاکہ ان سے کشیدکردہ حتمی نتائج میںغلطی کی گنجائش کا امکان ختم ہوجائے۔ .5وہ فطری واقعات کی وجہ صرف فطری عوامل میںڈھونڈتااورمروجہ دستورکے مطابق، دیومالائی عوامل کوان کاذمہ دارنہ ٹھہراتا۔مثلاًاس نے اپنے مشاہدے اورتجربے کی بناء پریہ نتیجہ اخذ کیاکہ مرگی کے مرض کی وجہ بدروحیںنہیںبلکہ ذہنی بگاڑہے۔یعنی مرگی کسی شرپسنددیومالائی ہستی کا شاخسانہ نہیںبلکہ محض جسمانی عارضہ ہے۔ بقراط کے سائنسی رویے کی خصوصیات آخرہیلانی مفکرین کے ہاں کیوں معدوم ہیںجب کہ وہ انہی کے دورکامفکرہے۔تاریخی شواہدسے اس کی بنیادی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ انسانی فکر نے ابھی تک کائنات کے بارے میںتحلیلی اور تجزیاتی نقطۂ نظرنہیںاپنایاتھااوراس کا سارا انحصار کائنات کاترکیبی وتالیفی طورپرجائزہ لیناتھااوراس سلسلے میںاستخراجی قیاس کا طریق احسن ثابت ہواتھا،نیزسقراط کے عہدتک اوّل تواستخراجی استدلال کارنگ ڈھنگ پختہ ہوچکاتھا،دوم، مطالعۂ خارج کو بیکار مشغلہ سمجھا جانے لگا تھا۔ مثلاً سقراط کے شاگرد اور سوانح نگار زینوفون (Xenophon) نے خود سقراط کے متعلق لکھاہے کہ اس کے نزدیک علم الفلکیات روزوشب اورماہ وسال کے اوقاتِ کارکومتعین کرنے کی حد تک توگواراہے مگرستاروں کے احوال کوجاننا،زمین سے ان کے فاصلوں کوماپنا،یاان کی حرکات وسکنات کی علتیں ڈھونڈنا، وقت کاضیاع ہے اورکچھ نہیں۔اس لیے ایسے قیاس شناس جواجرام سماوی کے قوانین اورمطالعہ کائنات میں سرکھپاتے ہیں، پاگلوںسے کسی طور سے بھی کم نہیں۔۱۴بہرکیف،آیونی مفکرین کے زمانے سے جس قسم کی سائنسی لہر اٹھی تھی اور جس میںبے اندازہ سدھاربقراط لایاتھا،اسے سقراطی دورکے چلن نے اچھا خاصا ضعف پہنچایا اور اس صورت حال میں افلاطون اورارسطوجیسے جید فلسفیوںکے افکار نے جلتی آگ پرتیل چھڑ کنے کاکام کردکھایاحالانکہ انہوںنے مطالعہ کائنات سے کبھی اعراض نہ برتا۔ان کے بارے میںرسل رقمطرازہے۔’’افلاطون اوراس سے بھی بڑھ کرارسطو کے اخلاقی اورجمالیاتی تعصب نے یونانی سائنس کوختم کرنے میںکوئی کسرنہ چھوڑی۔‘‘۱۵ معلوم ہوتاہے کہ یونان کے ہیلانی دورکاسائنسی روّیہ فلسفیانہ مزاج کی بھینٹ چڑھ چکا تھا کیونکہ کائنات کے مختلف اور متنوع گوشوں میں کھوئے رہنا مقصود نہ تھا،مطلوب صرف یہ تھا کہ کائنات بحیثیت کل کوجاناجائے اوراس کاوش کے دوران اگرکہیںکائناتی جزوکا مطالعہ ضروری ٹھہر جائے تواس سے بھی ذراتعرض کر لیا جائے۔ مثال کے طورپرارسطو تکوین کائنات کی جب توجیہہ۱۶ پیش کرتاہے تواسے کائنات کی جملہ اشیاء کے بارے میںنظریۂ ارتقاء سے سابقہ پڑتا ہے جس کی وضاحت میںوہ سائنسی طرزکانظریہ سامنے رکھتاہے جس میںاجسام ارضی کی بے جان اشیاء سے متنوع جاندار اشیاء میںدرجہ بہ درجہ ایساارتقائی زینہ سابنتاہوامحسوس ہوتاہے جویہیںخطہ ارض پر اختتام پذیر نہیں ہوتا بلکہ اس سے آگے اجرام سماوی کی جملہ اشیاء سے جاملتاہے اوربالآخر ارتقائی اقدام کاحامل زینہ تیارہوتاہے جوپوری کائنات کی تکوین کا منظرنامہ پیش کرتا ہے۔اس لحاظ سے یہ صحیح ہے کہ ہیلانی فکرکابنیادی مرکزفلسفہ تھا،سائنس نہیں۔ یعنی سائنس کاشمارثانوی اور ضمنی تھا۔دوسری طرف یہ بھی غلط نہیںکہ جہاںتک انسان کے معمولات حیات کاتعلق ہے، اس ضمن میںجن مسائل سے دوچارہونا پڑتا،ان کے موزوںحل کے لیے سائنسی طرزکے فکر کوبروئے کار لایاجاتامثلاًجنگ وجدل کے لیے آلات ِحرب، بیماریوںکے علاج کے طورطریقے،بغرض پرستش بتوںکی سنگ تراشی کے کمالات، مختلف النوع اورمحیرالعقول تعمیراتی کرشمات وغیرہ ضرورت اور سہولت کی خاطرروبہ عمل لائے گئے۔ اس مناسبت سے پہلی نظر میںبقراط اسی سائنسی حلقے میں کھڑانظرآتاہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ضرورت ایجادکی ماںہے۔ مگریہ پورا سچ نہیں۔بقراط اپنے دور کے فلسفیانہ دائرہ عمل میںمحبوس سائنسی حلقے میںبھی مقیم ہے کیونکہ وہ اپنے ہم عصر فلسفی ایمپیڈوکلیز کے نظریۂ کائنات سے بے حدمتاثرتھا۔اس کاخیال تھاکہ جس طرح یہ کائنات آگ، مٹی، پانی اور ہوا جیسے جواہر اربعہ پرمشتمل ایک عالمِ اکبرہے اسی طرح انسان، دموی (sanguine)سوداوی(melancholic)صفراوی(choleric)اوربلغمی(phlegm)رطوباتِ اربعہ کاحامل عالمِ اصغرہے۔جس طرح جواہراربعہ کے ملاپ کی کمی بیشی سے کائنات کی مختلف النوع اشیاء معرض وجودمیںآتی ہیںاسی طرح انسانوںمیںرطوباتِ اربعہ کی کمی بیشی سے مختلف النوع مزاج تشکیل پاتے ہیں۔۱۷یہاں توجہ طلب نکتہ یہ ہے کہ بے شک بقراط کاہدف مطالعۂ انسان تھا مگرسقراط کی طرح نہیںجو محض انسان کے اکتشاف ِذات کے درپے تھا۔اس کاسارازورانسان کے طبعی اورنفسی عوارض کاعلاج ڈھونڈناتھا۔نقطۂ نظرکایہ فرق سقراط کوفلسفی اوربقراط کوسائنسی مزاج کاطبیب ثابت کرتاہے۔ مجموعی طورپرہیلانی فکرکارواج سقراط کے حق میںتھا،اس لیے بقراط کی سائنسی طرح کو پذیرائی حاصل نہ ہو سکی، لیکن یہ منظرنامہ اس وقت تبدیل ہواجب ہیلانی فکرہیلانیاتی رنگ میں ڈھل گئی۔اس کاآغازاس وقت ہواجب ۳۲۳ قبل مسیح میںسکندراعظم نے دار ِفانی سے کوچ کیا، اس کی عظیم الشان سلطنت کاشیرازہ بکھرا اور مصر کاعلاقہ اس کے یونانی جرنیل بطلیموس (Ptolemy) کے قبضۂ اختیار میں چلا گیا جس کی وجہ سے خاندانِ بطلیموس کی شاہی مملکت قائم ہوئی جوتین صدیوںتک برقرار رہی۔اس خاندان کے بیشترافرادبڑے ذہین وفطین تھے۔ان کی پہلی نسل نے مصرمیںاسکندرکے قائم کردہ شہراسکندریہ میںتعلم وتعلیم کی یونانی روایت کوجاری رکھااوردوسری نسل نے وہاںعجائب خانہ اورکتب خانہ تعمیرکروایاجس کی بدولت اسکندریہ سائنسی دنیاکامرکزبن گیا۔بطلیموس شہنشاہوں کی سرکاری سرپرستی اورمالی معاونت،نیزغیرملکی ہنرمندوںکی آمد اور آباد کاری سے اسے چارچاند لگ گئے جسے بالآخرزوال پذیر ہوتے ہوتے بھی قریباًایک پوری صدی لگی۔ سائنسی اعتبارسے،اسکندریہ کویہ اعزازحاصل ہے کہ یہیںپرسائنس فلسفے کے حلقہ سے باقاعدہ علیحدہ ہوئی اوراس نے اپناجداگانہ مقام حاصل کرناشروع کیا۔گویاپہلی دفعہ کائنات کے مجموعی مطالعے کے علاوہ کائنات کے جزوی گوشوں کا بھی بنظرغائرجائزہ لیاجانے لگا۔اگرچہ ابتداء میںسائنس نے علوم ہندسہ وریاضی کی وساطت سے فلکیات کے میدان میں اپنے کل پرزے نکالنے شروع کئے مگر طب کے میدان میںیہ بہت آگے نکل گئی۔ہندسہ وریاضی کی مناسبت سے اقلیدس(Euclid)۱۸کی خدمات ناقابلِ فراموش ٹھہرتی ہیںجس نے علم ہندسہ سے متعلقہ جس قدریونانی مفکرین کاکام دستیاب تھا،اسے اکٹھاکیا،اسے ایک منطقی سلیقے سے ترتیب دیا، اس میںقابلِ قدراضافے کئے،اسے احسن طریقے سے پیش کیااوراس طرح علم ہندسہ کو قریباً ہر لحاظ سے کامل بناڈالا۔اس کے اس کارنامے سے ماہرین فلکیات کواجرام سماوی کو جاننے کے بارے میں بڑی مدد ملی۔اس زمرے میں سمیاس(Samos)کے ارسطاکس (Aristarcus)۱۹کو بڑی کامیابی نصیب ہوئی۔جواسکندریہ کی قدآورسائنسی شخصیت کے روپ میں نظر آتا ہے۔اس نے انکساغورس کے خیال کوآگے بڑھاتے ہوئے یہ تصورپیش کیا کہ زمین لٹو کی طرح نہ صرف اپنے محورپرگھومتی ہے بلکہ سورج کے گرداگرد بھی ایک دائرے کی شکل میںچکرکاٹتی ہے۔یہی نہیں، زمین کے علاوہ مریخ،عطارداوردیگرسیارے بھی سورج کے گرد دائروں کی صورت میں گردش کرتے ہیں۔البتہ سورج اپنی جگہ پر ساکت طور پرمقیم ہے۔یہ بڑے ظلم کی بات ہے کہ جس طرح کوئی دو صدیوں پیشتر انکساغورس اپنے زمانے کے مذہبی تعصب کی زدمیںآیاتھابعینہٖ ارسطارکس کوبھی اپنے زمانے کے مذہبی تعصب کاسامناکرناپڑا۔ اس پربھی کفروالحادکاالزام لگایا گیا۔ نتیجتاً اس کے نظریے کی قدرافزائی نہ کی گئی اورایک طویل ترین عرصے کے لیے وہ تاریخ کے دھندلکوں میںکھوگیاتاوقتیکہ مغرب میںکوپرنیکس نے اسی کے نظریے کااپنے طور پراحیاء کیاجس کی بناء پر ارسطارکس قدیم زمانے کاکوپرنیکس کہلایا۔اسی نے پہلی مرتبہ زمین سے سورج اور چاندکے فاصلوںکوماپنے کی سائنسی کوشش کی اوراس دوران میںوہ اس نتیجے پر پہنچاکہ سورج چاندسے کئی گنا بڑا ہے۔ ارسطارکس کے ہم عصر ماہرفلکیات نے بھی انہیں خطوط پراجرام ِسماوی کے سائنسی مطالعہ کئے اور انہوں نے ان کے مابین فاصلوںکوان کے مقررہ مقامات کے حوالے سے ناپا اور اس طرح سیاروںکی حرکات وسکنات کے بارے میں ٹھیک ٹھیک مشاہدات کوآئندہ آنے والوں کی سہولت کے لیے محفوظ کیا۔یہ ابھی سائنسی ترقی کی ابتدائی منزل تھی۔ جہاں تک میدانِ طب کامعاملہ ہے تواسکندریہ میںاس کاسائنسی آغازاناٹومی اور فزیالوجی کے شعبہ جات میںہوا۔اقلیدس کا ہم عصر،کالسی دون(Chalcedon)۲۰کاہیروفی لس (Herophilus) وہ پہلا اناٹومسٹ ہے جس نے سر عام انسانی بدن کی چیرپھاڑکاعمل کیااورانسانی جسم کی اناٹومی کی وضاحت کرتے ہوئے اسے جانوروں کے جسم کے مماثل قراردیا۔اس نے ذہن کواعصابی نظام کامرکز تسلیم کیااوراسے ذہانت کی آماجگاہ قراردیا۔آج بھی انسانی دماغ کے کچھ حصے اسی کے نام سے منسوب ہیں۔مثلاًسرکے پچھلے حصے میں جہاں چاروں بڑی وریدیں آ کر ملتی ہیں، اسے ’’ہیروفی لس‘‘کہاجاتاہے۔ برسبیل ِتذکرہ،یہاںایک وضاحت ضروری ہے یونانی سائنس میں اصطلاحات وضع کرنے کا رواج نہیں تھا۔ اسے سب سے پہلے ارسطوکے مشائی تلامذہ،ایری سوس (Eresos)کے تھیوفریسٹس(Theophrastus)۲۱نے شعبۂ نباتات (Botany) میںمتعارف کرایا۔ اصطلاحات سے مراد الفاظ کووہ خاص معنی بخشنا ہیںجوہمیشہ کے لیے اسی سے مختص ہوکررہ جائیں۔اسکندریہ کے سائنسی مفکرین کی اصطلاحات سے شناسائی موجودتھی مگرابھی ان کااستعمال،انہوںنے کم کم ہی کیا تھا۔ ہیروفی لس،نے اپنے استاد پیر اکساغورس (Paraxagoras) کی طرح خون کی شریانوں اور وریدوں کے فرق کو اجاگرکیااور یہ مشاہدہ کیاکہ شریانیں، وریدوں سے مختلف ہیںکیونکہ شریانوںمیںنبض چلتی ہے۔ اس کابھی خیال تھاکہ نبض شریانوںکاذاتی فعل ہے،وہ بھی یہ نہ سمجھ سکاکہ شریانوںکی نبض کاواسطہ دل کی حرکات وسکنات سے ہے۔ البتہ اس نے پراکسا غورس کے ان خیالات سے ہٹ کراس میں یہ اضافہ کیاکہ شر یا نیں وریدوںکی بہ نسبت چھ گنادبیزہیں۔ان میںخون بھرارہتاہے نہ کہ ہوا۔وہ موت کے بعد خالی اور کھلی رہ جاتی ہیں۔ ہیروفی لس کے بعدکیوس(Cios)کے ماہرعضویات ایراسس ٹر اٹوس Erasistratus) ( ۲۲ کامقام ہے جودیمقراطیس کے نظریۂ جواہر کا پیرو تھا،اس کاخیال تھاکہ انسانی عضو شریانوں، وریدوں اور اعصاب کی سہ گونہ نالیوںکاپیچیدہ نظام ہے جو سارے بدن میںاس قدر پھیلا ہے کہ پھیلتے پھیلتے نظرسے اوجھل ہوجاتاہے۔اس زمانے میںاعصاب کوخالی نالیوں کے مثل سمجھا جاتاتھا۔جس طرح آج معلوم ہے کہ شریانوںاوروریدوںمیںخون بھرا ہوتا ہے، بعینہٖ اس زمانے میںیہ خیال عام تھا کہ ان نالیوںمیں اعصابی مائع بھراہے۔ایراسس ٹر اٹوس نے بھی ہیروفی لس کی مانندانسانی دماغ اکبریعنی سیری برم(cerebrum)اوردماغ اصغریعنی سیری بیلم (cerebellum)میںتفریق کی۔اس نے مشاہدہ کیا کہ انسانوںاور جانوروں، دونوں کے دماغ میںسلوٹیںہوتی ہیں،چونکہ انسان کے دماغ کی سلوٹوںمیںپیچیدگی زیادہ ہے، اس لیے ان میں ذہانت کا عنصربھی زیادہ ہے۔ اس نے جانوروںپرکچھ تجربات بھی کئے جن کی وجہ سے اس نے حرام مغز(spinal cord) کے اگلے اورپچھلے عصبی ریشوں میںامتیازکیا۔اسے معلوم ہواکہ اگلے عصبی ریشے جسم کی مختلف سطحوں سے بیرونی حسیات کی اطلاع دماغ کوپہنچاتے ہیںجبکہ پچھلے عصبی ریشے دماغ کی حرکی اطلاع کوجسم کے متاثرہ حصے کو پہنچاتے ہیں۔یہ وہ عظیم دریافت تھی جوانیسویں صدی تک سرچارلس بیل(Sir Charles Bell)کے زمانے تک فراموش کی جاتی رہی۔ سسلی کے علاقے سائراکیوز(Syracuse)کاارشمیدس(Archimedes)۲۳وہ واحد ریاضی دان ہے جس نے لوگوںکوسائنس کی میکانکی جہت سے روشناس کرایااورروزمرہ کے عملی امورمیںسائنس کے میکانکی اصول لاگو کئے۔مثلاًمصری لوگ نہیں جانتے تھے کہ دریاکے پانی کو بلندی پرکیسے چڑھایاجاسکتاہے۔ارشمیدس نے انہیںایک ایساسکریو(screw)بناکردیاجس کی میکانکی قوت کے سہارے پانی کوبآسانی اونچائی پرپھینکاجاسکتاتھا۔یہی نہیں اس نے مصریوںکویہ طریقہ بھی سمجھایاکہ کس طرح لیور(lever)کی مددسے انتہائی کم طاقت صرف کرکے بھاری بھرکم اشیاء کوان کی جگہ سے سرکایاجاسکتاہے۔قابل غورنکتہ یہ ہے کہ مصری لیورزکے استعمال سے ناواقف نہ تھے اورقدیم زمانے سے انہیںہلکی پھلکی اشیاء کواوپراٹھانے کے لیے استعمال میں لاتے رہے تھے مگربھاری بھرکم اشیاء کو اوپراٹھانے کے طریقہ سے ناآشنا تھے۔کہتے ہیں خود ارشمیدس نے ایک لدے پھندے بحری جہاز کوایک کمپاؤنڈلیور(compound lever)کی مدد سے تھوڑی سی قوت لگاکراسے متحرک کردکھایا۔وہ اکثرکہاکرتاکہ اگرمجھے کھڑا ہونے کی جگہ دے دی جائے تو میںدنیاکواس کی جگہ سے سرکاسکتاہوں۔ارشمیدس نے ہی، انہیںتوازن سطح کامیکانکی اصول سمجھایا۔ اس نے ثابت کردکھایا کہ کسی شے کے سرے پردھرے تختہ کے دونوںاطراف کے مساوی فاصلوں پر مساوی اوزان رکھے ہوںتوتختے کی سطح کاتوازن قائم رہتاہے،لیکن اگر تختے کے دونوںاطراف کے فاصلے غیرمساوی ہوںگے تومساوی اوزان کے باوجود تختے کی سطح کا توازن برقرار نہیں رہیگا۔ تختے کاجھکاؤہمیشہ اس وزن کی طرف ہوگا جس کافاصلہ دوسری طرف کے وزن کے فاصلہ سے زیادہ ہوگا۔اس اصول کی بنیادپرارشمیدس نے کسی شے کے مرکزِ ثقل (center of gravity)کوڈھو نڈ نکالاجومیکانکی امورکے لیے بہت افادہ بخش دریافت ثابت ہوئی۔ عملی نوعیت کے معمولاتِ حیات میںارشمیدس کاعلم کس قدرکارآمدثابت ہواہے اس کی عمدہ مثال خوداسی کی زندگی کے اس واقعے سے ملتی ہے۔مشہورہے کہ سائراکیوز کے جابرحکمران ہائیرو(Hiero)نے دیوتاکی تاجپوشی کے لیے خالص سونے کے تاج بنوانے کی قَسم کھائی اورایک سنارکومخصوص وزن کاخالص سونے کاتاج بنانے کاحکم دیا۔ طے شدہ وزن کے مطابق سنارنے تاج بناکربادشاہ سلامت کے حضورپیش کردیامگرشاہی مخبروںکی طرف سے اس پریہ الزام عائدکیا گیا کہ اس نے اس تاج میںچاندی کی کھوٹ ملاکراس کاوزن پوراکردیاہے اوراس طرح کچھ سونا نکال لیا ہے۔ہائیرونے اس مسئلے کو حل کرنے کا ذمہ ارشمیدس کو سونپا جسے وہ سردست حل نہ کر پایا مگر مسئلہ اس کے سرپر سواررہا۔ایک روزوہ حسب ِمعمول ٹب میںنہانے کی غرض سے گیا۔ابھی وہ ٹب میںلیٹاہی تھاکہ اچانک اسے مسئلے کاحل سوجھا اوروہ خوشی کے مارے یوریکا،یوریکا یعنی میں نے اسے پالیا، میں نے اسے پالیا،پکارتے ہوئے محل کو بھاگا تاکہ بادشاہ کو مسئلے کاحل بتا سکے۔ دراصل،جب ٹب میںوہ لیٹا،تواس نے مشاہدہ کیاکہ جس قدر جسم پانی میںڈوبتاہے،اتناہی ٹب کاپانی کناروں سے بہہ نکلتاہے۔یہی اس کے مسئلہ کاحل تھا۔ بادشاہ کے حضوراس نے تاج کے وزن کے برابر خالص سونااورخالص چاندی منگوائی۔پہلے چاندی کولبالب بھرے پانی کے برتن میںگرایاجتنی چاندی اس میںگرائی گئی اس کے مساوی پانی برتن سے باہرگراجس کی ٹھیک ٹھیک پیمائش کرلی گئی۔پھریہی طریقہ کارخالص سونے کے ساتھ دہرایاگیااورآخرمیںجب اسی طریقہ سے اس تاج کوپانی کے برتن میںڈبویاگیاتویہ عقدہ کھلاکہ جس قدرپانی تاج کے ڈوبنے سے باہر گراوہ خالص سونے کے ڈبونے کی وجہ سے گرے ہوئے پانی کی مقدارکے مساوی نہ تھا،اس کا مطلب یہ ہواکہ ملاوٹ ہوئی تھی۔ تاج کی وجہ سے گرے ہوئے پانی کی مقدارخالص سونے کی وجہ سے گرے ہوئے پانی کی مقدارسے زیادہ تھی جبکہ خالص چاندی کی وجہ سے گرے ہوئے پانی کی مقدارسے کم تھی۔اس طرح ارشمیدس نے ثابت کردکھایاکہ اس سونے کے تاج میںچاندی کی کتنی ملاوٹ کی گئی تھی۔چونکہ سوناوزن میںبھاری اورچاندی ہلکی ہوتی ہے، اس لیے سونے کی وجہ سے پانی کم گرااور چاندی کی وجہ سے پانی زیادہ گرا۔اس مناسبت سے تاج کے پانی کاسونے کے پانی سے زیادہ اورچاندی کے پانی سے کم گرنا،اس میں کھوٹ کی مقدارکوثابت کرتاتھا۔دوسرے لفظوںمیںارشمیدس نے خالص سونے،پھر خالص چاندی اور پھرسونے چاندی دونوںکی ملاوٹ کی وجہ سے چھلکے پانی کی مقداروں کوعلیحدہ علیحدہ شمار کرکے اوران کاآپسی موازنہ کرکے ان تینوں کے مخصوصز اوزان کا تناسب معلوم کیاتھا۔ اسکندریہ کی سائنسی کامیابیوںکے لیے رومن سلطنت کاعروج بہت تباہ کن ثابت ہوا۔ رومن فوج یونانیوں کو تاراج کرتے ہوئے جب سائراکیوزمیںداخل ہوئی،اس وقت ارشمیدس زمین پرچندہندسی اشکال اور لکیریں بنا کر کسی مسئلہ کے حل میںمگن تھا،ایک رومی فوجی نے اسے نیزہ مارنا چاہا،ارشمیدس نے اسے لمحہ بھررکنے کوکہاتاکہ مرنے سے پہلے وہ ہندسی مسئلہ حل کرجائے مگرفوجی نے ایک نہ سنی۔رسل کے نزدیک،جس رومی فوجی نے ارشمیدس کوقتل کیا،وہ اصل میں اس حقیقی فکرکی موت کی علامت تھاجو پوری ہیلانی دنیاکی پہچان تھی۔۲۴رومیوںکے لیے سائنس ہمیشہ ایک غیرملکی اورباہرکی چیز رہی،اس لیے ان کے ہاںسائنس کوزیادہ پذیرائی حاصل نہ ہوسکی۔اس کی ایک وجہ تورومی قوم کامجموعی مزاج تھاجوحکمرانی اورفتوحات کے خمار میں مبتلا رہا۔ دوسرے،رومیوںمیںرواقیوںاور اپیقوریت کے اخلاقی نظریات کی طرف رغبت اوریونانی فن بلاغت کے ذوق وشوق نے رہی سہی کسرنکال کررکھ دی ۔فلسفیانہ عقائدکے مطابق رواقی تقدیر پرست ، جبکہ اپیقوریت تدبیر پرست تھے۔لیکن دونوںکے نظریات کازورعقل کی بدولت انسانی روح کی تہذیب کرناتھا،جہاںسائنسی روّیوںکی طرف منعطف ہونے کی کوئی گنجائش موجودنہ تھی۔ البتہ کچھ شاہی تقاضے ایسے تھے جن کوپوراکرنے کی غرض سے رومیوںکوکچھ سائنسی اقدام کرناپڑے۔مثلاًرومیوںکی فوجی مہمات اورجنگوں نے انہیںمجبورکیاکہ دنیاکانقشہ ہوناچاہئیے تاکہ فتوحات میںآسانی رہے۔اس ضمن میں امیصیہ(Amasia)کے سیاح سٹرابو (Strabo) نے بے پناہ ممالک کی طویل سیاحت کرتے ہوئے رومی فوجیوںکودنیاکانقشہ تیارکرکے دیا۔اسی طرح،روم (Rome)کے جولیس سیزر (Julius Caesar)نے رومیوںکی وسیع و عریض سلطنت کے سروے کاآغازکیا۔اس کی موت کے بعداس کے جانشین آگسٹس (Augustus)نے اسے کافی حد تک مکمل کیالیکن اس کی وفات کے بعداس کے متبنٰی بیٹے وسپانیس اگریپا (Vispanius Agrippa)نے باقی ماندہ کام پوراکیا۔اس طرح کوئی تیس سال کے عرصے میں یہ سروے پایۂ تکمیل کوپہنچاجس میںرومی سلطنت کے صوبوں،تجارتی مراکز،بحری جہازوں کے ٹھکانوں، سڑکوں اور ان کے سنگ میل کتبوںوغیرہ ہرطرح کی جزئیات تک کی نشاندہی اس میںموجودتھی۔اس سروے کی بدولت انہیںاپنے انتظامی مسائل کو حل کرنے میںبڑی مددملی۔۲۵ طب کے حوالے سے رومیوںکوایسے علاج معالجے کی ضرورت تھی جس میںان کے الٰہیاتی عقائدکا غلبہ برقرار رہے۔ابتداء میںان کاخیال تھاکہ انسان کے نفسی وطبعی عوارض کی ذمہ دار آسیبی قوتیں ہیں جن سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ عبادت خانوں میں دیوی دیوتاؤںکے حضور مریضوں پر کڑا تشدد کیا جائے تاکہ ان کے جسم میں گھس بیٹھی روحیں دفعان ہوں اورمریض صحت یاب ہوسکیں۔لیکن یونان کی ہیلانیاتی فکرکے اثرات نے رومی طب کے طریقہ علاج کو یقینامتاثرکیامگرطب میںالٰہیاتی عنصرکی بے جا شمولیت کوخارج نہ کرسکے۔یہی وجہ تھی کہ اتناضرورہوا کہ اسکندریہ کے نمونے پرمریضوںکے لیے شفاخانے بنے،ان کے علاج کے لیے تشددکاطریقہ ترک کر دیا گیامگر رومی طبیب سائنسی لحاظ سے طبی معاملات میںکوئی ترقی نہ کر سکے۔ مثلاًاس دورمیں پیرگامم(Pergamum)کے عظیم طبیب جالینوس(Galen)۲۶نے بقراطی طریقۂ علاج کے برعکس عوارض کی وجہ طبعی عوامل میںتلاش نہ کی۔اس کاایقان تھاکہ دواؤںسے امید اور اعتماد کہیںزیادہ موئثر ثابت ہوتے ہیں،کیونکہ انسانی جسم کے تمام افعال خدا کی منصوبہ بندی کے زیر اثر سرانجام پاتے ہیں۔خداکی مشّیت کے سامنے سب ہیچ ہے لہٰذا ضرورت اس امرکی ہے کہ منشائے ایزدی کوسمجھاجائے اوراس کی روشنی میںعلاج معالجہ کیاجائے۔لیکن اس کایہ مطلب بھی ہرگزنہیںکہ عوارض کوگناہ سے منسوبسمجھاجائے۔ان کے علاج کی خاطرخداکے بنائے ہوئے انسانی جسم کے نظام ِعظیم کوسمجھناہوگا۔اس نے اس نقطۂ نظرسے اناٹومی اورفزیالوجی میں خاصاکام کیا،اس مسئلے میںجانوروں کی قطع برید تک کی اورمیدان طب میںایک شاندارعضویاتی نظام پیش کیا۔مگریہ رومیوںکے الٰہیاتی سحرکی شدت کااثرتھاکہ جالینوس کے سائنسی ثمرات بعدازاں صداب صحرا ثابت ہوئے جب کہ اس کے الٰہیاتی عقائد کی روش کوہاتھوںہاتھ لیا گیا۔ نتیجتاًطب میںسائنسی تجسّس کادورقریباًختم ہوگیا۔اگرچہ اس دوران چندایک طبیب ایسے گذرے جنہوںنے سائنسی لحاظ سے قابل قدر کام کیامگر ان کا ذکر آٹے میں نمک کے برابر رہا ۔ مثلاًاریلیئس کورنیلیئس کیلسس(Aurelius Cornelius Celsus)۲۷نے دندان سازی، اناٹومی، جراحیات اور انسانی ڈھانچے کی اکثرتصریحات بڑے اعلیٰ پائے کی بیان کیں۔اسی طرح منیکریٹس (Menecrates) نے ادویات کاایک رسالہ تصنیف کیاجس میںرفعٔ انتشار کے خیال سے اس نے خوراکوںکی تعیین بھی صاف صاف الفاظ میںکردی۔اس نے کئی ایک دوائیں بھی رائج کیںجن میں سے ایک کانام آج بھی مستعمل ہے یعنی مردہ سنگ۔۲۸ رومیوںکو فلکیات سے ویسے تو کوئی خاص لگاؤ نہ تھا مگر زراعت، جہازرانی، کیلنڈرجیسے عملی مقاصد کے لیے اس سے نظرِالتفات ضرورکرتے۔جیسے جولیس سیزرکے زمانے تک رومیوں کے ہاں جو شمسی کیلنڈر رائج تھا، اس کا پہلا سا ل355دن کا، دوسرا سال 377 دن، تیسراسال پھر 355 دن اورچوتھاسال378دن کاہواکرتا۔اس طرح ہر چارسال کے چکر میں 1465دن مکمل کئے جاتے جن کے تحت ایک سال کے اوسط دن14651/4یعنی3661/4، نکلتے۔ چونکہ ہرسال میں دنوںکا تغیر و تبدل رہتا،اس لیے رومی کسانوںکواپنی کھیتی باڑی کے اوقات پر کار بند رہنا دشوار رہتا۔اگرچہ بہت سے ریاضی دانوںنے اس کیلنڈرکی اصلاح کے لیے کوششیں کیں مگر یہ سہرا جولیس سیزرجیسے ریاضی دان اورمہندس کے سربندھاجس نے اسکندریہ کے ایک ریاضی دان کی نصیحت پرعمل کرتے ہوئے شمسی سال کو365دنوںپرمحیط کیا اورجس کے ہرچوتھے سال میںایک دن کااضافہ کیاجسے لیپ(Leap)کاسال کہاجاتاہے۔اس کے مطابق کسانوںکو کاشتکاری کے کاموںمیںبہت سہولت میسرآئی کیونکہ اب ہرسال کے دنوںمیںتبدل نہ آتا۔ یہ کیلنڈرجس کا آغازماہ مارچ سے ہواکرتا،بالآخرپوپ گریگوری سیزدہم(Gregory XIII)کی طرف سے اس میںکی گئی اصلاحات تک روم میںرائج رہا۔۲۹ اسکندریہ کے مہندس بطلیموس۳۰نے بالخصوص جوسائنسی اقدامات کیے،انہوںنے رومن دورسے لے کر مغرب میںتجرباتی سائنس کے صحیح تشخص تک بہت دُور رَس اثرات چھوڑے۔ یہاںایک غلط فہمی کا رفع کرلیناضروری ہے۔ یہ کہ اسکندریہ کے مہندس بطلیموس کاروم کے بطلیموس شہنشاہوںسے دورکابھی واسطہ نہیں۔ناموںکی مماثلت کی وجہ سے بعض اوقات یہ گمان گذر جاتا ہے کہ مہندس بطلیموس کاشاہی خاندان سے کوئی تعلق تھا۔بہرکیف،بطلیموس آخری مفکر تھاجس نے قدیم زمانے کے ارضیاتی اورفلکیاتی علوم کوتالیفی روپ عطاکیا۔اس نے انعطافِ نورکااصول سمجھایا جس کے تحت اس نے ثابت کیاکہ زمین سے نظرآنے والاستارہ عین اسی جگہ پر نہیں ہوتا جہاں نظر آرہاہوتاہے۔اصل میں ستارے کی روشنی کو فضائے ارض سے گزرنا ہوتا ہے، جیسے جیسے روشنی فضا کے کثیف اوردبیزحصوںسے گزرتی ہے، اس کی کرنوںمیںخم آتاہے جس کی وجہ سے ستارہ اس مقام پرنظرنہیںآتاجہاںپراصل میںوہ ہوتاہے۔ثانیاًاس نے یہ نظریہ۳۱ اپنایاکہ زمین کے گرد آسمان ایک گنبدکی طرح ہے جس میںسورج ٹکاہواہے۔یہ گنبدتیزی سے زمین کے گرد گردش کرتا ہے،جس کے باعث زمین پردن رات واقع ہوتے ہیں۔سورج کے علاوہ دیگراجرام فلکی کے اپنے اپنے گنبدیافلک ہیںجوایک دوسرے کے گردتہہ بہ تہہ پائے جاتے ہیں۔ان میںسے پہلا فلک،جوسب کے اندرواقع ہے،چاندیا قمر کاگنبدہے۔چاندکے فلک کے باہردوسرافلک یا گنبد عطارد(Mercury)کا ہے۔ عطارد کے فلک کے باہر تیسرا فلک یاگنبدزہرہ (Venus) کاہے۔ زہرہ کے فلک کے باہرچوتھافلک یاگنبدسورج کاہے۔سورج کے فلک کے باہر پانچواں فلک یا گنبد مریخ (Mars)کاہے۔مریخ کے فلک کے باہرچھٹا فلک یاگنبدمشتری(Jupiter) کا ہے اور مشتری کے فلککے باہرساتواںفلک یاگنبدزحل(Saturn)کاہے۔ان سات افلاک کے باہر آٹھواںفلک کواکب کاہے، جس میں ہزاروںتارے جڑے ہوئے ہیں۔ان کے باہر نواں فلک ان سب پراحاطہ کئے ہوئے ہے،مگروہ آنکھوں کو نظر نہیں آتا۔ مزیدبرآںاس نے سیاروں کے تعینِ مدار کی توضیح اس طرح کی کہ وہ دوائرجن میںسیارے زمین کے گرد گردش کرتے ہیں مختلف المرکزہیں۔اورجہاں ہر چھوٹے دائرے والے سیارے کا مرکزہمیشہ اپنے سے بڑے دائرے والے سیارے کے محیط پرگردش کرتاہے۔بطلیموس کی خاص بات یہ تھی کہ سیاروںکے مدار کے تعین میںاس نے ماضی کے فلکی مشاہدات سے اپنے مشاہدات کا مقابلہ کرنے کے بعد اسے قائم کیا۔اس نے خصوصاًتماکرس، نیقیہ(Nicaea)کے ہپار کوس(Hipparchus) اور پیرگا (Perga) کے اپولونیس(Appolonius)کے بیان کردہ اجرام فلکی کے ہندسی اصولوںکو اپنے پیش نظر رکھا۔ بے حس وحرکت زمین اجرام فلکی کا مرکزہے،اسے ہندسی اشکال کی بنیادپرثابت کر کے بطلیموس نے اپنے زمانے کے مروجہ مذہبی جذبات کی حمایت حاصل کرلی تھی اورجیسے کہ گزشتہ باب میں ہم دیکھ آئے ہیںکہ یہود اسکندری فلسفہ،نوفیثاغورثیت،نوفلاطونیت اورابتدائی مسیحیت کے پنپتے رجحانات نے فلسفے کومذہب کامطیع کردیا اور بالآخرعقل ایمان کی نذرہو گئی۔مذہبی سختی کے اثرات سے بطلیموس کے نظریہ کائنات کواس قدرتقویت پہنچی کہ اسے تو استنادیت کابام عروج نصیب ہوگیامگرسائنسی ترقی کاراستہ مسدودہوگیا۔کہاجاسکتاہے کہ جہاںنوفلاطونیت میںفلسفے نے خودکشی کرلی،وہاںسائنس کاتوسیدھا سیدھاقتل کردیاگیا۔یہ ازمنہ وسطی کادور تھاجب مغرب فکر کی تاریکی میں مکمل طورپرڈوب چکاتھاکہ مشرق نے آگے بڑھ کر اس میں پھرسے اُجالاکردیا۔ .2مسلم سائنس(Muslim science): مسلم استدلال کے باب میںیہ وضاحتیںکی جاچکی ہیںکہ ابھی عرب کے بدّومسلمان نہیں ہوئے تھے لیکن پھربھی ان کافکری قیافہ استقرائی مزاج کاحامل تھاجیسے کہ واقعہ نذارسے معلوم ہوتا ہے۔دوسرے، مسلمانوںکااصل مزاج تخیل نہیں،عمل تھااورقرآن کی دعوت ِفکرنے بالخصوص اسے جلابخشی تھی۔سائنسی حوالے سے دیکھاجائے توقرآن کی مندرجہ ذیل آیات اس کابین ثبوت ہیں۔مثلاً: .1سورہ رعدمیںارشادہوا : ’’اوروہی ہے جس نے زمین کوپھیلایا اوراس میںپہاڑاوردریاپیداکئے اور ہر طرح کے میووںکی دو دو قسمیں بنائیں۔ وہی رات کو دن کا لباس پہناتا ہے۔ غور کرنے والوںکے لیے اس میںبہت سی نشانیاںہیںاور زمین میںکئی طرح کے قطعات ہیں ایک دوسرے سے ملے ہوئے اور انگورکے باغ اورکھیتی اورکھجورکے درخت ،بعض کی بہت سی شاخیںہیںاوربعض کی اتنی نہیں ہوتیں (باوجودیہ کہ)پانی سب کوایک ہی ملتاہے اورہم بعض میووںکوبعض پرلذت میں فضیلت دیتے ہیں اور اس میںسمجھنے والوں کے لیے بہت سی نشانیاںہیں۔‘‘(۱۳:۳-۴) .2سورہ النحل میںارشادہوا : ’’اورخداہی نے آسمان سے پانی برسایااورپھراس سے زمین کواس کے مرنے کے بعدزندہ کیابے شک اس میں سننے والوںکے لیے نشانی ہے اورتمہارے لیے چارپایوں میںبھی(مقام) عبرت(وغور)ہے کہ ان کے پیٹوں میںجو گوبر اورلہوہے اس سے ہم تم کوخالص دودھ پلاتے ہیں جوپینے والوںکے لیے خوشگوارہے اور کھجور اورانگورکے میووںسے بھی(تم پینے کی چیزیں تیار کرتے ہو)کہ ان سے شراب بناتے ہو اور عمدہ رزق (کھاتے ہو) جولوگ سمجھ رکھتے ہیںان کے لیے ان(چیزوں)میں(قدرت خداکی) نشانی ہے اورتمہارے پروردگارنے شہدکی مکھیوں کو ارشاد فرمایا کہ پہاڑوں میں اور درختوںمیں اور(اونچی اونچی) چھتریوںمیں جو لوگ بناتے ہیں گھر بنا اور ہرقسم کے میوے کھااوراپنے پروردگارکے صاف رستوںپرچلتی جا۔اس کے پیٹ سے پینے کی چیزنکلتی ہے جس کے مختلف رنگ ہوتے ہیںاس میںلوگوں(کے کئی امراض)کی شفاہے بے شک سوچنے والوںکے لیے اس میںبھی نشانی ہے ۔‘‘(۱۶:۶۵-۶۹) قرآن کی ایسی اور بھی بہت سی آیات سائنسی مطالعے کے جوازمیںپیش کی جاسکتی ہیں۔ بہرکیف باب دوم میں یہ بھی وضاحت کی جاچکی ہے کہ جب ہیلانیاتی استدلال قریباًرُوبہ زوال ہو چکا تھا، مسلمانوںنے اسے پھرسے رُوبہ کمال کیا اور ترجموںاورشرحوںکی بدولت ا ُس کا نہ صرف اَز سرِنو اَ حیاء کیابلکہ اس میںخاطرخواہ اضافے بھی کئے جو مسلم علم الکلام،حکمت وفلسفہ اورتصوف کے حوالے سے گزشتہ باب میںبیان ہو چکے ہیں،اب مسلمانوںکی سائنس میں خدمات و عنایات کا جائزہ لیا جاتا ہے تاکہ یونانی سوچ کے ساتھ ان کے سائنسی طرزاستدلال کافرق واضح ہو سکے۔ اس سلسلے میں تھوڑی دیرکے لیے اس زمانے کی تاریخ کی طرف پلٹتے ہیں۔اس دور میں بطلیمو س کا تصوراجرام فلکی، نو فلاطونیت کا نظریۂ صدور،ارسطو کاتصورِکائنات اورروزمرہ کے مشاہدے میں یہ یقینی معلوم ہوتاتھا کہ انسان جس زمین کا باشندہ ہے،وہ ساکن ہے۔سورج روزانہ اس کے مشرق سے نکل کر اس کے مغرب میںغروب ہوجاتاہے۔آسمان کے دیگر سیارے بھی اسی کے گردگردش کر تے ہیں۔جب اس مسلّمہ حقیقت کوعیسائیت کی آشیرباد حاصل ہوگئی تومعاملہ اوربھی سنگین ہو گیاکیونکہ تاریخ کے اس موڑ پریہ واحدایساموقع تھاجہاںعوام الناس کاسطحی تجربہ،فلسفے کی کار پرد از یاں ، سائنس کے کلیات، اور مذہب کے اعتقادات ایک ہی فکری سطح پر مجتمع ہوگئے تھے۔ نتیجتاً ، مذہبی اجارہ داری کے زیراثراس خیال کوتقویت حاصل ہوگئی کہ تمام قسم کے دینی اوردنیاوی علوم انجیل مقدس کے صفحات میںبند ہیںاوراس کے باہرجوکچھ ہے، وہ صریحاً باطل ہے۔ اندریں صورت، سائنسی فکر کے خرخشے کہاںبرداشت کئے جاسکتے تھے۔یہ کیونکر ممکن تھا کہ ایسے مشاہدات وتجربات کوخاطرمیںلایاجائے جوسیدھے سیدھے ایمان سے جاٹکراتے ہوں۔ بدیہی صداقتوں کے مذہبی تانے بانے میںفکرکی تجربی صداقتوںکے لیے کوئی جگہ کیسے ہوسکتی تھی۔لہٰذااس سارے مسیحی عہد میںسائنسی ترقی کالعدم رہی۔ فلکیات کامطالعہ توپہلے ہی بطلیموسی نظام پر کامل سمجھا جاچکا تھا ۔ ادھر علم طب میں مذہبی راسخ العقیدگی شدت اختیارکرگئی جس سے یہ خیال عام ہواکہ بیماریاں نیک بندوںکی آزمائش اوربرے بندوں کوسزادینے کے لیے آتی ہیں،اس لیے ہر دو صورتوں میں علاج فضول ہے۔سائنس زیادہ سے زیادہ کیمیاگری کے اس گرتک محدودہوکررہ گئی جس کے مطابق لوگ دولت مند بننے کی آس میں تانبے،پارے یاچاندی کوسونے میںتبدیل کرنے کے خواہش مندہوتے۔اگرچہ یہ سلسلہ کوئی نیانہ تھااورنہ محض یونانیوںسے مخصوص تھا۔اس کاتصورتو صدیوں سے ہی موجودتھا،البتہ یہ بات دوسری ہے کہ کبھی اسے روحانی عملیات سے توکبھی محض کیمیاوی عملیات سے منسوب کیا گیا۔اس کی حقیقت خواہ کچھ ہو،یہ بات پکی ہے کہ ہردورمیںکسی کم قیمت دھات کوسونے میںبدلنے کی کوشش رائیگاںہی رہی لیکن اس کے باوجودسونابنانے کا بھوت لوگوں کے سرپرسواررہا۔ مسلمان بھی اس لت کاشکار ہوئے۔ان میںجابربن حیان۳۲کا بھی شمار ہوتا ہے۔لیکن اس کامعاملہ مختلف رہا۔اس نے اپنی اس کوشش ناکام کے دوران جوطریقہ کاراپنایا، وہ تجرباتی وتحقیقی تھا جس کے نتیجے میںوہ بالآخرجان گیاتھاکہ گندھک اورپارے کوملاکر شنگرف (cinnabar) تو حاصل ہوجاتاہے،سوناکبھی نہیں۔عمربھرکی تگ وتاز کے دوران اس نے اور بھی بہت کچھ کیا۔ مثلاً اس نے عمل تبخیر(evaporation)، عمل کشید(filteration)، عمل تصعید (sublimation)، عمل پگھلاؤ،(melting)،عمل تکثیف(distillation)اورعمل قلماؤ (crystallisation) کے طریقوںکو مزیدبہتر بنایا اس نے سفیدہ(lead carbonate)، سنکھیا(arsenic)اور کحل (antimony)کو گندھک (sulphide)کے مرکبات سے علیحدہ کرنے کے طریقے بتائے۔ اس نے پہلی دفعہ گندھک کا تیزاب(sulphuric acid)اور شورے کاتیزاب(nitric acid)تیارکرنے کا طریقہ وضع کیا اور ان دونوں تیزابوںکوملانے سے ماء الملک(aqua regia)کامحلول تیارکیاجس میںسوناچاندی بھی تحلیل کئے جاسکتے تھے۔یہی نہیںاس نے دھاتوںکے کئی کشتے بنائے۔ نیز، فولاد بنانے،چمڑا کو رنگنے،دھاتوںکو مصفیٰ کرنے،موم جامہ بنانے،لوہے کوزنگ سے بچانے کے لیے اس پروارنش کرنے، بالوںکوسیاہ کرنے کے لیے خضاب تیارکرنے اوراس قسم کی بیسیوں مفید اشیاء بنانے کے طریقے بیان کئے۔ الغرض جابر نے سب سے پہلے لوگوںکو تجربات کی اہمیت کا احساس دلایا اور اپنی تصنیف میںاس نکتے پرزوردیتے ہوئے لکھا کہ ’’جوشخص اپنے علم کی بنیاد تجربے پرنہیںرکھتاوہ ہمیشہ غلطی کھاتاہے۔پس اگرتم کیمیاکاصحیح علم حاصل کرناچاہتے ہو توتجربوں پرانحصارکرواورصرف اسی علم کوصحیح جانوجو تجربے سے ثابت ہوجائے۔ایک کیمیادا ن کی عظمت اس بات میں نہیں ہے کہ اس نے کیاکچھ پڑھاہے بلکہ اس بات میںہے کہ اس نے کیا کچھ تجربے کے ذریعے ثابت کیاہے۔‘‘۳۳ جابرنے تجربات کی جس سائنسی طرز کاآغاز کردیاتھا،اس کے نقش ِقدم پرچلتے ہوئے مثال کے طورپر،کیمیادان الجاحظ۳۴نے مویشیوںکے فضلے سے، خشک کشیدکے ذریعے، امونیاحاصل کرنے کا طریقہ معلوم کیا۔اسی طرح زکریارازی۳۵نے کیمیاوی مادوںکوجمادات،نباتات اور حیوانات میںتقسیم کرکے آئندہ کے لیے غیرنامیاتی inorganic)اور نامیاتی (organic) کیمیا کی ترقی کا راستہ ہموارکیا۔مزیدبرآں،اس نے ایک ماسکونی ترازو(hydrostatic balance) کی مددسے،جسے وہ خود’’المیزان الطبعی‘‘سے موسوم کرتاہے،چنداشیاء کاوزنِ مخصوص (specific gravity)معلوم کیا۔اس مقام پریہ وضاحت کردیناضروری ہے کہ اُس کے سائنسی تجربات کا طریقۂ کار صرف کیمیاتک محدودنہ تھا،اس کے دائرہ عمل نے سائنس کے دیگرشعبوں کوبھی متاثر کیا تھاکیونکہ سا ئنس کے حوالے سے ابھی اس قسم کی کڑی تخصیص کاری معرض ِوجودمیںنہیںآئی تھی جو آج مغربی سائنس کاخاصا ہے،اس لیے ایک کیمیادان صرف کیمیاہی کا ماہرنہ ہوتا۔وہ اپنے طبع میلان کے باعث بیک وقت طب،طبیعیات،فلکیات،ریاضی یاکسی بھی اپنے پسندیدہ سائنسی شعبے میںخاصی مہارت رکھتا۔لیکن اس سے یہ مطلب نکالنادرست نہ ہوگاکہ مسلم سائنسدانوں کا حال یونانی سائنسدانوںسے مختلف نہ تھاجوبیک وقت کئی سائنسی امورپردسترس رکھتے۔ ٹھیک ہے کہ مسلم سائنسدان بھی بیک وقت متنوع سائنسی علوم کے ماہرتھے مگرانہوںنے جس جانفشانی اور احتیاط سے عملی تجربات کابیڑا اٹھایاتھا، ان کی بدولت سائنسی علوم میںواضح امتیازات کا شعور بیدار ہواتھا،جس کے نتیجہ میںبعدازاںسائنسی علوم میںکڑی تخصیص کاری کا عمل ممکن الحصول ہو سکا تھا ۔ ضمناًیہاںایک اوروضاحت کردینے میںمضائقہ نہیںکہ سائنسی اصطلاحات سازی کی ضرورت بے شک ہیلانیاتی دورمیںمحسوس کرلی گئی تھی مگرجس سرعت اورکثرت سے مسلم سائنسدانوںنے اصطلاح سازی میں گرانقدر کام کئے،یونانی اس سے قریباًمحروم رہے جب کہ اہلِ مغرب احسان مند رہے،جیسے کہ فلپ کے ہتی بتاتاہے۳۶یورپی زبانوںمیںستاروںکے جتنے نام ہیںان میںسے زیادہ ترعربی سے لیے گئے ہیں۔ مثلاً، ’Acrab‘ ’عقرب‘ سے، ’Algedi‘ ’الجدی‘ سے ، ’Altair‘ ’الطائر‘ سے، ’Deneb‘ ’ذنب‘سے، ’Phekad‘ ’فرقد‘سے،لیے گئے ہیں۔ بعینہٖ بعض اصطلاحات جیسے ’AZIMUTH‘’السموت‘سے، حاصل کی گئیں۔اسی طرح ریاضی کی دلچسپ اصطلاح ’Cipher‘ بھی عربی اصطلاح’صفر‘سے لی گئی ہے۔اگرچہ عربوںنے صفرایجاد نہیںکیا۔لیکن اہل ِیورپ کو عربی اعداد سے روشناس کرایاتواس میںصفرکوبھی شامل کردیا۔ کہتے ہیں ،مسلم خلیفہ المنصورکے در بار میںہندوستان کاایک عالم’مانکہ‘ اپنے ساتھ سنسکرت زبان کی تصنیف سدھانتلایا تھا ۔ جس کا عربی میںترجمہ کرنے کاکام محمدبن ابراہیم الفرازی۳۷ کو سونپاگیاجس نے مانکہ کی مددسے کوئی پانچ سال کے عرصہ میںسندہندالکبیرکے نام سے مکمل کیا اوراس ترجمے کے وسیلے سے مسلمان صفراورہندی اعدادکے استعمال سے روشناس ہوئے۔ ابوعبداﷲ محمدبن موسیٰ الخوارزمی ۳۸ وہ پہلا ریاضی دان تھاجس نے یہ اعداداستعمال کئے۔یونانیوںاور رومیوںکے زمانے سے اہلِ مغرب اعدادکورومن طریقے سے لکھتے تھے جن سے حساب کے مختلف عمل مثلاً جمع، تفریق، ضرب، تقسیم اورتحویل سخت مشکل اورپیچیدہ ہوجاتے تھے۔مثال کے طور پر فرض کروکہ ایک سوساٹھ میںسے اڑتیس کوتفریق کرنامطلوب ہے۔رومن اورعربی طرزوںمیں یہ سوال یوںلکھاجائے گا۔ عربی طرز رومن طرز ۱۶۰ CLX ۳۸ XXXVIII ان دونوںتحریروںکودیکھنے سے معلوم ہوجاتاہے کہ عربی طریق میںتفریق کاجوعمل چشم زد ن میں ہو جاتا ہے، رومن طرزمیںوہ سخت دقت طلب بن جاتاہے۔پھرفرض کروکہ ان دونوں رقموں یعنی ایک سو ساٹھ اور اڑتیس کو ضرب دینا مطلوب ہے۔ عربی طرزمیںیہ عمل تین سطروں میں سادہ طورپرہوجائے گالیکن رومن طرزپراسے سرانجام دینے کے لیے بے حد مشکل ہوگی۔ ریاضی میں مساوات کی مشکلات کے آساںحل ڈھونڈنااپنی جگہ،الخوارزمی نے بالخصوص الجبرے کے متعدد سوالات کو ہندسی اشکال سے حل کرنے کی جواختراع نکالی اس کااعتراف مغربی ریاضی دانوں نے اس کے اتباع کی صورت میںآج بھی کیاہے۔خوارزمی کے بعداحمدالہناوندی۳۹ کا نام آتاہے جس نے ریاضی میںکسور کی تقسیم اور جذرالمربع دریافت کرنے کے طریقوں کی وضاحت قریب قریب جدید انداز میں پیش کی،پھر عمر خیام،ابوبکر محمد دیو فنطائینی، ثابت ابن قرۃ صائبنی، ابو جعفر الخازن، البستانی، البغدادی، البیرونی جیسے کئی ریاضی دانوںکی طویل فہرست ملتی ہے جنہوںنے علم ریاضی میں ایسی مساواتوں اور اصولوںکے اضافے کئے جن سے یونانی ناآشنا تھے۔ریاضی جسے سائنسی علوم کی بنیاد تسلیم کیا جا تا ہے،عربوںنے اس میںاضافے نہ کئے ہوتے توسائنس میںوہ ترقی کیونکر ممکن ہوتی جوآج دکھائی دیتی ہے۔ دراصل،علم ہندسہ وریاضی کی دو صورتیں۴۰ہیں: .1ایک صورت وہ ہے جس میںمسلمات وبدیہیات کے صدق وکذب کی جانچ پڑتال کئے بغیران سے کڑے منطقی قواعد کی روسے معقول اورلزومی نتائج برآمدکئے جاتے ہیںاس کوقبل تجربی صورت کاعنوان دیاجاسکتاہے۔ .2دوسری صورت وہ ہے جس میںپہلے باقاعدہ مقداری پیمائشوںکی جانچ پڑتال اورٹھیک ٹھیک ماپ تول کے بعدایسے نتائج اخذکئے جاتے ہیں جو بالآخر بدیہیات ومسلمات کادرجہ اختیار کرجاتے ہیںاس کوبعدازتجربی صورت کا عنوان دیا جاسکتا ہے۔ اس حساب سے دیکھاجائے تویونانی ریاضی وہندسہ کی پہلی صورت پردسترس رکھتے تھے، اس لیے ان کی سائنسی خدمات کی نوعیت محض اطلاقی رہی۔اس کے برعکس،مسلمانوںنے پہلی کے علاوہ دوسری صورت پربھی عبور حاصل کیاجس کی وجہ سے ان کے سائنسی ثمرات محض اطلاقی نہ رہے،تخلیقی بھی ثابت ہوئے۔مثال کے طورپرارشمید س نے سونے کے تاج میںچاندی کی کھوٹ کامسئلہ جس حساب سے حل کیاوہ ماقبل تجربی صورت کی عمدہ مثال ہے جہاں نہانے کے دوران اُسے بدیہی اورمسلمہ صداقت کاالقاہواکہ جب کوئی ٹھوس شے مائع میںڈوبتی ہے تواس شے کے وزن میںکمی آتی ہے اوریہ کمی اس شے کے مساوی الحجم مائع کے وزن کے برابر ہوتی ہے۔ اس مسلّمہ اصول کی پڑتال کے لیے اس نے خالص چاندی،خالص سونے اور چاندی کی کھوٹ ملے سونے کے تاج کوعلیحدہ علیحدہ پانی میںڈبویا اور بالآخر اپنے بدیہی خیال کاعملی مظاہرہ کرکے اسے سچ ثابت کردکھایاجس کے مطابق سونے کے تاج میںچاندی کی کھوٹ کا پتہ چل گیا۔اس کی بہ نسبت مسلم سائنسدان مظفراسفرازی نے سونے میںچاندی کی کھوٹ کے مسئلہ کومابعدتجربی صورت میں حل کیا۔جس کے لیے اس نے بڑی محنت سے ایک طرح کی ماسکونی ترازوتیارکی جو کثافتِ اضافی (specific gravity)کے اصول پرمبنی تھی۔اس کے مطابق سونے کی کثافت ۳ئ۱۹ نکلتی ہے۔ جو دھاتیں سونے میںملائی جاتی ہیں،سونے سے ہلکاہونے کے سبب، ان کی کثافت ۳ئ۱۹ سے ہمیشہ کم نکلتی ہے۔اس کمی کی وجہ سے یہ معلوم ہوجاتاہے کہ سونے میںکھوٹ ملاہے۔اگر ملاوٹی دھات کی نوعیت معلوم کرلی جائے تویہ بھی پتہ چل سکتاہے کہ اس شے میںکتنے حصہ سونا اور کتنے حصہ ملاوٹی دھات شامل ہے۔اس مقصد کے لیے دوتجربے کرنے ضروری ہیں۔ایک اس شے کا عام وزن معلوم کیاجائے اوردوسرے اس شے کاوزن پانی کے اندردریافت کیاجائے اور پھر پانی میںاس کے وزن کی کمی نکالی جائے۔سفرازی کے اس اصول کوایک ریاضیاتی وضاحت سے معلوم کیاجائے توسونے میںملاوٹ کی مقدارکچھ یوںنکالی جائے گی۴۱: فرض کرو کہ سونے کے ایک زیورکاعام وزن۸۰اوقیہ(ounce)ہے اورپانی میں اس کا وزن ۷۵ اوقیہ ہے، یعنی پانی میںاس کے وزن کی کمی۵اوقیہ ہوجاتی ہے۔اس شے میںخالص سونے کے ساتھ کچھ حصہ چاندی بطور کھوٹ کے ملی ہے اوریہ معلوم کرنامطلوب ہے کہ اس زیور میںکتنے اوقیہ خالص سونااورکتنے اوقیہ خالص چاندی ہے۔سونے کی کثافت ِاضافی ۳ئ۱۹ اور چاندی کی کثافتِ اضافی۵ء ۱۰پہلے سے معلوم ہے۔ زیورکاعام وزن=۸۰اوقیہ زیور کاپانی میںوزن=۷۵اوقیہ پانی کے وزن کی کمی=۸۰-۷۵=۵اوقیہ زیورکی کثافت=۵/۸۰=۱۶ زیورکاحجم=کثافت/وزن=۱۶/۸۰=۵ زیورمیںسونے کاوزن=لا زیورمیںچاندی کاوزن=۸۰-لا سونے کی کثافت=۳ئ۱۹ زیورمیںسونے کاحجم=کثافت/وزن=۳ئ۱۹/لا چاندی کی کثافت=۵ئ۱۰ زیورمیںچاندی کاحجم=کثافت/وزن=۵ئ۱۰/۸۰-لا سونے کاحجم+چاندی کاحجم=زیورکاحجم ۳ئ۱۹/لا+۵ئ۱۰/۸۰-لا=۵ یا۱۹۳/۱۰لا+۱۰۵/۸۰۰-۱۰لا=۵ یا۲۰۲۶۵/۱۰۵۰لا+۱۵۴۴۰۰-۱۹۳۰لا=۵ یا۱۰۵۰لا+۱۵۴۴۰۰-۱۹۳۰لا=۱۰۱۳۲۵ یا۸۸۰لا-۵۳۰۷۵ یا لا=۸۸۰/۵۳۰۷۵=۳ئ۶۰اوقیہ سونے کاوزن=۳ئ۶۰اوقیہ چاندی کاوزن=۸۰-۳ئ۶۰=۷ئ۱۹اوقیہ اس کے بعد اس نے سینکڑوں،بلکہ ہزاروںتجربے کرکے متعددچارٹ سونے میںچاندی کی ملاوٹ کے متعلق بنائے۔ان میںچارخانے تھے۔پہلاخانہ دی ہوئی اشیاء کے اوزان کا تھا دوسراخانہ پانی میںاوزان کی کمی کا تھاتیسرا خانہ ان اشیاء میںسونے کی مقدارکاتھااورچوتھاان اشیاء میںچاندی کی مقدارکاتھا۔ جب سونے کی شے میںچاندی کی ملاوٹ ہواوراس شے کاعام وزن اورپانی میںوزن کی کمی معلوم کرلی جائے توان چارٹوںکی مددسے اس شے میںسونے اور چاندی کی مقدارمعلوم کی جاسکتی تھی۔اسی طرح کے الگ چارٹ سونے میں تانبے کی ملاوٹ کے متعلق بھی بنائے گئے تھے۔ ان چارٹوںکابنانابہت صبرآزماکام تھاجس میںمظفراسفرازی نے اپنی عمرکے کئی سال صرف کئے تھے۔ چونکہ مسلمانوںنے بغداد، مصر، شیراز، نیشاپور، سمرقند، جندی شاہ پور، اشبیلیہ، مراغہ اور دیگر مقامات پر رصد گاہیں تعمیر کروا رکھی تھیںاس لیے ہندسہ وریاضی کاپیمائشی منہاج فلکیات میں استعمال کیا گیا تو اس کے بڑے مفید نتائج نکلے۔ مثلاً۴۲ احمد کثیر فرغانی نے کرۂ ارض کے گھیرکی تقریباًسوفی صد درست پیمائش کی۔موسیٰ بن شاکر کے فرزندوںنے مدارشمسی کے میل کلی کو دریافت کیااورسب سے پہلی مرتبہ اعتدال لیل ونہاراورحرکت اوج شمسی کے مشاہدے کئے جن سے اہل یونان ناواقف تھے۔الکوہی نے اعتدال ربیعی اوراعتدال خریفی کی تحقیق کی۔ابومعشرنے مدوجزر کے قوانین بتائے جو حرکت قمری بہ لحاظ ارض پر مبنی تھے۔ ابستانی نے چانداور دیگر سیاروں کے مدار کے احصا کی وہ غلطیاں دورکیںجو بطلیموسی تصنیف المجسطی(Almigisti) میں موجود تھیں۔نیزاس نے سال میںایک سے زائد کسوف شمسی کے امکان کو بھی ثابت کیا اور مدار شمسی کے میل کلی،اعتدال ربیعی کے طول اورسورج کے حقیقی اوراوسط مدارکابڑی صحت کے ساتھ تعین کیا۔ البیرونی نے زمین کی محوری گردش کے نظرئیے پربحث کی اورطول البلداورعرض البلد کا صحیح تعین کیا۔ابراہیم جنداب نے ترقی یافتہ اصطرلاب بنائی جو ایسا آلہ تھاجس کے ذریعے سے دو ستاروں کادرمیانی زاویہ یاایک ستارے اورافق کادرمیانی زاویہ ماپاجاسکتاتھا۔اسی آلہ کی مزید ترقی یافتہ صورت’سدس‘علی بن عیسیٰ اصطرلابی نے ایجاد کی۔ زرقالی نے بھی جدید اصطرلاب بنائی۔اسی نے اوج شمس بہ لحاظ کواکب کی حرکت کوثابت کیااورکسوف شمسی کے متعلق اپنی توضیح میں دنیاکو سب سے پہلی مرتبہ سطح بحرسے بلندی کے ذریعے تعین وقت کے طریقے سے روشناس کرایا۔ الغرض،مسلم فلکیات دانوں نے اس سلسلے میںایسے بیسیوںگرانقدرکارنامے سرانجام دئیے۔مگریہ بڑا عجیب اتفاق ہے کہ ابراہیم بن سنان نے بطلیموس کی تصنیف المجسطیکی شرح بیان کر دی تھی اور البستانی نے اس میں بہت سی ترمیمیں بھی کی تھیں،لیکن مسلمان بطلیموس کی اس غلطی کو نہیں پکڑ پائے تھے کہ زمین نظام فلکی کامرکزنہیں۔غالباًاس کی وجہ یہ ہوکہ قرآن میںظاہری طور پر زمین نہیں،سورج کی گردش کے اشارے موجود ہیںجیسے سورہ بقرہ میںذکرآیاہے کہ حضرت ابراہیم ؑایک منکرِحق سے سوال کرتے ہیں۔’’خداتوسورج کومشرق سے نکالتاہے آپ اسے مغرب سے نکال دیجئے۔‘‘(۲:۲۵۸) یا پھر سورہ کہف میںجن اصحاب غارکاتذکرہ آیا ہے، وہاں مذکور ہے: ’’اورجب سورج نکلے توتم دیکھوکہ(دھوپ)ان کے غار سے دا ہنی طرف سمٹ جائے اور جب غروب ہوتوان سے بائیں طرف کتراجائے اوروہ اس کے میدان میںتھے ۔‘‘ (۱۸: ۱۷ ) ظاہرہے مسلمان اس وقت تک کائنات کے ان اسرارتک نہیںپہنچ پائے تھے جوان آیات کے بین السطور مستور ہیں۔لیکن اس کے باوجود،مسلمانوںنے کائنات کے سربستہ رازوں کو جاننے کے تجربی منہاج کاآغازکردیاتھا ابن الہیثم اسی سلسلے کی ایک کڑی تھاجس نے یونانی حکماء کی ایک بہت بڑی غلطی کوفاش کیا۔ان کاخیال تھاکہ بصیرت ِاشیاء کادارومداربصارت ِچشم کاکمال ہے۔ہوتایوںہے،جب کسی اندھیرے کمرے میںچراغ روشن کیاجاتاہے توآنکھ میںسے نظر کی کرنیںنکلتی ہیں۔یہ کرنیںجس شے پرپڑتی ہیںوہ شے آنکھ کونظرآجاتی ہے۔اس کے برعکس ابن الہیثم نے تجربات کی روشنی میںثابت کیاکہ بصیرت ِاشیاء توانعکاس ِنورکانتیجہ ہے۔جس کے تحت اصل میںہوتایوں ہے کہ روشنی کی مختلف شعاعیںکسی بیرونی شے سے ٹکراکرفضامیںپھیل جاتی ہیںان میںسے جوشعاعیںکسی ناظرکی آنکھ میں داخل ہوجائیںتوان کی وجہ سے اسے وہ شے دکھائی دینے لگتی ہے۔یہی نہیںاس نے انعکاسِ نو رکی بدولت قدرتی مظاہر، مثلاً قوسِ قزح اور شفق شمس کوبطلیموس سے کہیں بہتر اور مؤثراندازمیںبیان کیا۔نیزاس نے فضائی انعطاف اور کروی آئینوں کے بارے میںبھی تحقیقات کیں۔اس نے اشیاء کی سطحوںکے فرق کوبھی اجاگر کیا جس کے مطابق جس شے میںسے ساری روشنی گذرجائے اس کی سطح شفاف (transparent) ہوتی ہے،جس میںسے کچھ روشنی گزرے اور کچھ نہ گزرے،وہ نیم شفاف(translucent)ہوتی ہے اورجس میںسے بالکل نہ گذرسکے،وہ غیرشفاف(opaque)ہوتی ہے۔پہلی دفعہ اسی نے یہ راز پا لیاتھاکہ روشنی کی شعاع ہمیشہ خط ِمستقیم میںچلتی ہے اوراسی بنیادپراس نے سوئی چھید کیمرے (Pinhole Camera)کے اصول کودریافت کیاتھاجسے عربی میںثقبالہ کہاجاتاہے۔اس نے صاف طورپربیان کیاہے کہ اگر کسی منورجسم سے آنے والی شعاعوںکوباری باری چھیدیعنی نقب میںسے گزرنے دیاجائے تواس کی دوسری طرف رکھے ہوئے پردے پراس منورجسم کاایک الٹا عکس نمایاںہوجاتاہے۔اس کایہ بھی اعجازہے کہ اس نے انسانی آنکھ کی ساخت کی جوتشریح بیان کی ہے وہ موجودہ زمانے کی تحقیقات کے مطابق بالکل صحیح ہے۔اس کی تصنیفتحریرالمناظر، بصریات(Optics)کاایساشاہکارہے جسے روشنی پردنیاکی پہلی جامع کتاب کہلانے کا شرف حاصل ہے۔اگرچہ اس سے پہلے کندی کی بصریات کے بارے میں تصانیف موجودتھیںمگرابن الہیثم کی تصنیف کے سامنے ان کی وقعت ماندپڑجاتی ہے لیکن اس کا یہ مطلب ہرگزنہیںکہ وہ سرے سے بے کارہیں۔جارج سارٹن جیسے مستشرق معترف ہیںکہ انگریز سائنسدان وٹلو (Witelo) اور راجربیکن(Roger Bacon)کندی کی تصانیف سے بہت متاثرہوئے۔۴۳وہ سائنسی اعتبار سے صرف طبیعیات تک مخصوص نہ تھا۔اسی نے پہلی بارموسیقی کے سُروںکی تکرارمعلوم کی۔اس کے زیروبم کومتعین کیا۔اسی نے پہلی دفعہ کم قیمت دھاتوںکو سونے میںبدلنے کے علم کوشعبدہ بازی قراردیااوراسی نے پہلی مرتبہ ریاضی کے سہارے طبی دواؤں کی صحیح صحیح مقدارخوراک کاتعین کرنے کی کوشش کی۔وہ آنکھوں کامعالج بھی رہا۔ لیکن مسلم طب کی پہلی عظیم المرتبت شخصیت فخرالدین رازی کی ہے جواپنے مشاہدات و تجربات میں بہت محتاط تھا۔فلپ۔کے۔ہتی لکھتاہے۴۴ ’’وہ بغدادکے عظیم ہسپتال کاطبیب ِاعلیٰ تھا۔ جب اس سے کہاگیاکہ ہسپتال کی عمارت کے لیے مناسب جگہ کاانتخاب کرئے تواس نے کئی مقامات پر گوشت کے لوتھڑے لٹکادئیے اورکچھ عر صہ بعد انہیں دیکھا۔جس جگہ گوشت سب سے کم سڑا ہواپایااس جگہ کومنتخب کرلیا۔‘‘وہ علاج بالغذا کا بہت قائل تھا۔اس کایہ قول مشہورہے کہ جب تک غذاؤںسے علاج کیا جاسکتا ہے۔ دواؤںکااستعمال نہیںکرناچاہئیے۔اس نے چیچک اور خسرے کے اسباب، علامات، علاج اور حفظ ِماتقدم کو تفصیلاً بیان کیا۔ المنصوریاور الحاویاس کی دیگر طبی تصانیف میں سے سب سے زیادہ مشہورہوئیں۔رازی کے علاوہ مسلم طب میںایک اہم شخصیت ابوالقاسم زہراوی۴۵ کی نظرآتی ہے جس نے مسلمانوںمیںعلاج بالدوا اورعلاج بالجر ا حت کے دونوںطریقوںکوترویج دی۔عملی جراحت کے حوالے سے بالخصوص اس کے تجربات بڑے ناد ر اوراُچھوتے تھے۔جسے اس نے اپنی تصنیف تصریف میںبڑے سلیس اور سہل طریقے سے بیان کئے۔جن میںدانت نکالنے، آنکھوںکااپریشن کرنے،حلق کا کوّا کاٹنے ، مثانے میںسے پتھری نکالنے،بواسیرکے مسّوں کو کاٹنے، خنازیر کا اپریشن کرنے، ٹوٹی ہڈی کو جوڑنے،اترے ہوئے جوڑوںکوچڑھانے،ماؤف عضو کو کاٹنے اور ہر قسم کے پھوڑوں کو چیرنے وغیرہ کی تفصیلات درج ہیں۔ایک اورمسلم طبیب علی ابن عباس۴۶نے نظامِ عروق شعریہ کا ابتدائی تصورپیش کیااورثابت کیاکہ ولادت کے وقت نومولودازخودرحم مادرسے باہرنہیںآتابلکہ رحم کااعصابی انقباض اس کوباہر کی طرف دھکیلتاہے۔ابن رشدنے اپنی قاموسی تصنیف الکلیات فی الطبمیںسب سے پہلے یہ حقیقت واضح کی کہ کوئی شخص چیچک کے مرض میںدوبارہ مبتلا نہیں ہوتا۔نیزاس نے آنکھ کے پردہ شبکی کے صحیح وظائف کی تفصیل بھی بیان کی۔امراض ومعالجات ِچشم پراسی طرح یوحناابن ماسویہ،علی بغدادی اورعمارموصلی نے اپنے اپنے تجربات کی روسے تصانیف لکھیں۔یوںتومسلم شعبۂ طب میںعلی بن ربن،اسحاق اسرائیلی،احمدجذار،ابن الوافد،علی بن عیسیٰ جیسے اطباء کی ایک طویل فہرست موجودہے جن کے تجرباتی کارنامے لائقِ تحسین ہیں۔لیکن ان میںسے بوعلی سینا کا نام خصوصاً قابلِ ذکرہے کیونکہ اس نے القانوننامی کتاب میں اناٹومی، فزیالوجی، مفرد ادویات کے خواص،نظری اور عملی معالجات ، متنوع بیماریوں کے مجربات ونسخہ جات کوجس عرق ریزی اور احتیاط سے قلمبندکیا اس کی نظیر اس سے پہلے نہیں ملتی۔ سارٹن کے نزدیک، اگرچہ ابن سیناکارتبہ بہ حیثیت طبیب جالینوس کونہیںپہنچتالیکن پھر بھی اُسے لامحالہ اعتراف کرنا پڑا کہ ’’ابن سینا کو جالینوس پر فضیلت ہے اس لیے کہ اس نے اطبائے اسلام کے وسیع تجربات سے فائدہ اٹھایا۔‘‘۴۷بلاشبہ جالینوس،پہلا طبیب تھا جس نے علاج معالجے میں دوا اور دعا کو ایک ساتھ اہمیت دی اورمسلم اطباء بھی اسی خیال پر کاربند رہے مگرجو تجربی اورعملی نوعیت کے طبی کام مسلم اطباء نے کر دکھائے، جالینوس اس سے تہی دامن تھا۔ اب تک مسلمانوںکی خدمات وعنایات کاجو مختصر تذکرہ کیاگیا،اس کابنیادی مقصدایک طرف تو مسلمانوں اوریونانیوںکے مابین سائنسی سوچ کے فرق کو نمایاں کرنا تھا اور دوسری طرف یہ دیکھنا تھا کہ مسلمانوں نے کس نہج پر سائنسی ترقی کوعروج بخشا۔اس تمام مدعا کو سمیٹاجائے تو حسب ِذیل نکات برآمدہوتے ہیں: .1مسلمانوںنے کبھی ایسے مشاہدات سے تعرض نہیںکیاجن کے لیے محتاط تجربات کی ضرورت پیش نہ آئی ہو۔یہی وجہ ہے کہ ان کے دورمیںبے بہاتجربہ گاہیںتعمیراورآبادہوئیں۔ .2مسلمانوںنے کبھی مسلمات وبدیہیات سے اپنی سائنسی تحقیق کاآغازنہیںکیا۔وہ سب سے پہلے ایک مفروضہ بناتے،پھرتجربات کی روشنی میںاس کی تصدیق کرتے اوربالآخراسے مسلمہ وبدیہی قانون کی سند عطا کرتے۔ .3مسلمانوںنے کبھی سائنس کو خالی خولی معلومات کا ڈھیر نہیں سمجھا۔انہوں نے معلومات کو ہمیشہ ایک منظم،جامع اورمربوط شکل میںترتیب دیااورپھران کوعالمگیر قانون کے درجہ میںتحویل کیا۔ .4مسلمانوںنے کبھی لاپروائی اور غیرذمہ داری کا ثبوت نہیں دیا۔ انہوں نے بھی تجربات کئے،ان کی جزئیات تک کو نہایت سلیقے سے قلمبندکیاتاکہ آئندہ آنے والوں کو ان پر عملدرآمد کرنے میںکوئی دقّت نہ ہو۔ .5مسلمانوںنے کبھی تقلیدی روش نہیںاپنائی۔اپنے پیشروؤںسے بالفرض فیض بھی حاصل کیا تو پہلے ان کی سائنسی تحقیقات کوناقدانہ زاوئیے سے دیکھا،انہیںتجربات کی کسوٹی پر پرکھا، پھرکہیںجاکران کوقبول کیا۔ .3مغربی سائنس(Western science): یونانی استدلال کوحیات ِنوبخشنے میںمسلم مفکرین جوفکری انقلاب لائے وہ استخراجی سے استقرائی استدلال کی طرف منتقلی کامؤثراورطاقتوررجحان تھاجسے مسلمانوںکے زوال ِاقتدارکے بعدمغربی مفکربھی جھٹلاسکے، نہ بدل سکے مسلمانوںکے اقتدار اورعروج کا وہ بھر پور اور آخری زمانہ جب سرزمینِ ہسپانیہ(Spain) کی درسگاہوںمیںمسلم حکماء کی تعلیمات سے مغرب کے چند روشن دماغ طالب علم زیور ِتعلیم سے آراستہ ہو رہے تھے۔ اُن میںسے ایک ممتازشخصیت راجربیکن (Roger Bacon)کی تھی جسے مغرب کی تاریک فکر میںپہلاروشن چراغ ماناجاتاہے۔وہ اپنے عمیق مطالعے کے بعد اس نتیجہ پرپہنچاتھاکہ جہالت کی وجوہ چار ہیں۴۸: .1ناپائیداراورگریزپاطرزکی استنادیت کومستحکم کرنا۔ .2معاشرے کے فرسودہ رسم ورواج پہ کاربندرہنا۔ .3نااہل لوگوںکادوسروںپراپنے قیاسات وخیالات کوتھوپنا۔ .4کسی فردکااپنے افلاس ِعلم کولاف زنی کے پردے میںچھپانا۔ یہ آخری وجہ اس کے خیال میںسب سے زیادہ مہلک ہے اورصحیح معنی میںانسانی برائیوںکی جڑہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ استنادیت ہو یامعاشرتی روایات، عوامی خیالات ہوں یافرد کے استدلالات، سب کو تجربات کی بھٹی سے گزار ا جائے۔وہ اپنی تصنیف اوپس میجس (Opus Majus)میںبطورِخاص یہ باورکراتاہے کہ’’علم حاصل کرنے کے دو طریقے ہیں۔دلائل اور تجربات۔ دلائل سے ہم بعض نتائج اخذکرسکتے ہیں، لیکن یہ نتائج صحیح بھی ہو سکتے ہیں اور غلط بھی۔ اس لیے علم کے حصول میںمحض منطقی دلائل پرانحصارنہیںکیاجاسکتا،البتہ جوعلم تجربے سے حاصل ہوتاہے وہ یقینی ہوتا ہے جس میںکسی شک وشبہ کی گنجائش باقی نہیںرہتی۔اس لیے علم حاصل کرنے کایہ دوسراطریقہ ہی صحیح اورقابل وثوق ذریعہ ہے۔‘‘۴۹اس اقتباس میںمسلمانوںکے استقرائی استدلال ہی کی صدائے بازگشت سنائی دیتی ہے۔راجربیکن کا طبعی میلان تجرباتی سائنس میں عملی مہارت حاصل کرنا تھا۔اس نے اپنی کتابوں میں دخانی جہازوں، ریلوں، موٹر گاڑیوں، ہوائی جہازوں کی ایجادات کے متعلق واضح طورپرپیشین گوئیاںکی تھیںجواگرچہ کئی صدیوں بعد جاکر شرمندۂ تعبیرہوسکیں۔اس کاسب سے قابلِ تعریف کارنامہ روشنی کے اصولوںکی صحیح وضاحت کرنا تھا۔ اس نے انعطاف ِنورکی ماہیت،کُروی سَطحوںپرروشنی کے حاصلات،محدب عدسوں اور شمسی آئینوںمیں سے گزرتی شعاعوںکے خطوط اور زاویوں کو ٹھیک طورپرمعلوم کر لیا تھا۔ یہ بھی خیال کیا جاتاہے کہ اس نے عینکوںکے لیے عدسوںکے استعمال اور دو عدسوں کو پاس پاس رکھ کر دورکی چیزوںکونزدیک لانے کے اصولوںکوبھی جان لیاتھا۔ اپنے زمانے کی مذہبی اجارہ داری کوبھانپتے ہوئے اس نے مسلم مفکرالکندی جیسی دانشمندی کامظاہرہ کیا۔جس طرح کندی نے اپنے زمانے میںمذہب اورفلسفے کے بُعد کو دورکرنے کا بھرپورجتن کیاتھا۔اسی طرح اپنی تصنیف قاموس سائنسمیں اس نے لوگوںکویہ یقین دلانے کی پوری کوشش کی کہ مذہب اورسائنس میںکوئی بُعد نہیں۔ اس کی دلیل۵۰یہ تھی کہ انجیل مقدس کو پوری طرح سمجھنے کے لیے صرف زبان کاجانناہی ضروری نہیںہے بلکہ اس مقصد کے لیے سائنس کی تعلیم بھی لازمی ہے تاکہ مظاہرفطرت کے متعلق جوحوالہ جات انجیل میںآتے ہیں انہیں صحیح طورپر سمجھا جا سکے ۔ لیکن بیکن کازمانہ فکرکے جس تاریک دورسے گذررہاتھا،اس میںسائنسی تجربات کی وقعت شعبدہ بازی سے زیادہ نہ تھی۔نتیجہ یہ نکلاکہ بیکن ’’جادوگر بیکن‘‘ سمجھا جانے لگااوروقت کی ستم ظر یفی یہ ہے کہ قریباًچارصدیوںتک اس کے اہل ِوطن نے اس کے ساتھ انصاف نہ کیا۔ مگر ۱۷۳۲ عیسوی میںجب اس کی تصنیف اوپس میجسشائع ہوئی تو سائنسی مفکرین پر یہ کھلا کہ وہ کوئی ساحر نہیں تھا بلکہ مغرب کو تجرباتی سائنس سے متعارف کرانے والا پہلا دانشور تھا، لیکن اس کا مطلب یہ نہیںکہ بیکن کے وصال اوراس کی تصنیف چھپنے کے درمیان چاردھائیوںمیںسائنس کا سلسلہ منقطع ہو گیا اور اس کی تصنیف کے بعدسائنس نے دفعتاًاپنے کل پرزے نکالے اوریونانی دور سے چلے آنے والے استخراجی استدلال کے طریقۂ کار کایکسرقلع قمع کردیااورمذہب کے ایمانی مسائل سے تصادم کیا۔ یقیناایساکچھ بھی آناًفاناًنہیںہوا۔راجربیکن کے بعد بھی تجرباتی سائنس کا سلسلہ مسلمانوںکی سائنسی تصانیف کے تراجم اور ان کی عملی مہارت کے نقش پاکی صورت میں آگے بڑھتارہا۔مثلاًسالیرنو(Salerno)کے راجر(Roger)۵۱نے بولوگنا(Bologna)کے طبی مراکز میںعربوںکے طرزکی جراحت کو اوّل اوّل متعارف کرایا۔اٹلی کے موندینو دالوزی (Mondino Da Luzzi)نے بوعلی سینا کی عربی تصنیف کے تراجم سے مستفید ہوتے ہوئے اناٹومی کے بارے میںایسی تصنیف کی جوازمنہ وسطیٰ کے آخری دورتک طبی درسگاہوںمیںپڑھائی جاتی رہی۔مونٹ پیلیئر(Montpellier)کے طبی دانشکدہ میںویلانوا(Villanova)کے آرنلڈ(Arnald)نے بقراطی طریقۂ مشاہدہ کواسی طرح بروئے کارلاتے ہوئے کئی بیماریوں کا بڑی احتیاط سے ریکارڈ محفوظ کیاجوعربوںنے اپنارکھاتھا۔اس نے علم کیمیامیںبھی مؤثر کردار ادا کیا۔چونکہ اہل مغرب کے نزدیک کیمیا کو ہمیشہ سے عربوںکی مخصوص سائنس سمجھاگیا،اس لیے چیسٹر(Chester)کے رابرٹ(Robert)نے یروشلم(Jerusalem)کے عرب نثراد عیسائیوں کے ہم عصرمورینس رومانس (Morienus Romanus)کی اس تصنیف کالاطینی زبان میں ترجمہ کیا جوعربوںکے کیمیاوی کارناموںسے ماخوذتھی۔بعینہٖ کاسٹائل(Castile)کے شہنشاہ حکیم الفانسو، دانا (Alfonso, the Wise)نے عربوںکے منابع سے فیض اٹھانے والے یہودی علماء کو اکٹھاکیا اور ان سے فلکیاتی جدول اور قاموسی نہج کا فلکیاتی علم مرتب کروایا۔یورک شائرمین (Yorkshireman)واقع پیرس(Paris)کے ناموراستاد جون ہالی وڈ(John Holywood)نے مسلم مفکرین البیطانی اور الفرغانی کے فلکیاتی کارناموںکے تراجم کوباہم ملاکرایسی درسی کتاب تیارکی جسے اس زمانے میں فلکیات کی معتبراورمستندکتابوںمیں شمار کیاگیااورجس کے وہاںکی مقامی زبانوںمیںبے شمار تراجم کئے گئے حالانکہ اس میں عربوںکے نظریات کے سوا کوئی نیاپن نہ تھا۔ہالی وڈنے ریاضی پر بھی جوتصنیف کی، وہ بھی محض عربوںکے نظریات کی صدائے بازگشت تھی۔بصریات کے معاملے میں صورت حال ایسی تھی کہ بالفرض اس زمانے کی دستیاب کتابوںکو ایک جااکٹھاکرلیاجائے تو اپنی قدروقیمت کے اعتبارسے وہ ساری کی ساری مسلم سائنسدان ابن الہیثم کی اکیلی کتاب کے مساوی ہوں گی۔بطور ماحصل،ان مثالوں سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ اپنے دور میں مسلمانوں نے ہیلانیاتی فکرکے علمی ورثے کوعربی زبان میںمنتقل کیاتواس میں خاطرخواہ اورقابل قدر اضافے بھی کئے اور سائنسی اعتبارسے بالخصوص ان کے استخراجی استدلال کواستقرائی روّیے سے بدل ڈالا۔اس کے برعکس،مغربی سائنس دانوںنے اپنے زمانے میں جب عربوںکے فکری سرمایے کولاطینی زبان میںمنتقل کیا،ان میں کوئی خاص اضافے نہ کرسکے، البتہ عربوںکے استقرائی استدلال کاجوشعورراجربیکن کوہواتھاکوئی چارصدیاںگذرنے کے بعد انگلستان کے فرانسس بیکن نے اس کااعادہ اس شدومدسے کیاکہ اب کی دفعہ اس کی صدا،راجربیکن کی طرح صداب صحراثابت نہ ہوئی،اس کا شدید نوٹس لیا گیا اور سائنسی فکرکے راستے میںحائل ہر رکاوٹ سے کھل کرٹکرلی گئی خواہ وہ مذہبی ہی کیوںنہ ہو۔ آخرکار،اہل مغرب نے یہ طے کرلیاکہ سائنس کادائرہ عمل اس کااپناہے لہٰذااسے مذہب سے جدارکھنا ہوگااوراس کی آزادانہ تحقیق کو ہر طرح کے انسانی تعصبات سے محفوظ رکھناہوگا۔ جس طرح راجربیکن نے کبھی استنادیت، معاشرتی روایات، عوامی رائے اور فرد کی لاف ز نی کو انسانی جہالت کی وجوہاتِ اربعہ ٹھہرایاتھا،کچھ اُسی طرزپرفرانسس بیکن۵۲نے انسانی جہالت کو جن انسانی تعصبات پرموقوف کیا، انہیں اس نے چارقسموںمیںبیان کیاہے: .1قبائلی بت:(Idols of the tribe)یہ وہ تعصبات ہیںجن کی بنیاد انسانی فطرت پر ہوتی ہے جو انسان کی پوری نسل،قوم یاقبیلہ میںپائے جاتے ہیں۔مثلاًکسی فردکاصرف ان مثالوں کو دیکھناجواس کے ذاتی نظریات کے عین مطابق ہوںاور ان مثالوں کو نظراندازکردینا جو اس کے نظریات کے خلاف ہوں۔یونانی حکماء میں سے سوفسطائی مسلک کے پیروؤںکایہ محبوب وطیرہ تھا ۔ .2غارکے بت:(Idols of the cave)یہ وہ تعصبات ہیںجوہرفردکی ذاتی اور جسمانی ساخت، تعلیم وتربیت اور عادات وخصائل سے پیدا ہوتے ہیں۔ مثلاًبعض لوگ ہمیشہ اشیاء کے مابین اختلافات کو توجہ طلب سمجھتے ہیںاوربعض لوگ اشیاء کے مابین مشابہتوں کو مدنظر رکھنے پر ترجیح دیتے ہیں۔ .3بازارکے بت:(Idols of the market)یہ وہ تعصبات ہیںجوانسان کی گفتگو میں روزمرہ الفاظ کے غلط استعمال کے باعث پیدا ہوتے ہیں۔لفظوںکے ناجائزاستعمال ان کے مفہوم کو بگاڑ دیتے ہیں،انسانی ذہن میںابتری کی سی حالت پیدا کر دیتے ہیں اور انسانوںکوبے شما ر مغالطوں اور بے سُود بحثوں میں مبتلا کر دیتے ہیں مثلاً’’جمہوریت‘‘،’’سرمایہ داری‘‘، ’’کمیونزم‘ ‘ ، ’’دہشت گردی‘‘،اوراس جیسے بیسیوںایسے الفاظ ہیںجن کے ذریعے سیاسی لیڈرعوام کو کسی مخصوص نظریے کے خلاف یااس کی حمایت میںابھارتے ہیں۔عوام ان الفاظ کی وجہ سے نت نئے خوف، امیدوں ،قربانیوںاورجذبوںکی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔عوام کوان الفاظ کے مفہوم کی صحیح شناسا ئی ہواوراس سے متعلق ان میںباہمی اتفاق ہو،ایساکم ہی ہواہے۔ .4تھیٹرکے بت:(Idols of the theater)یہ وہ تعصبات ہیںجوانسانی ذہنوں میں مخصوص قسم کے فلسفیانہ عقائد کواپنانے کی وجہ سے پیداہوتے ہیں۔انسان اپنے عقائدکواس قدر مسلّمہ سمجھتاہے کہ ان کے خلاف کسی قسم کی رائے سنناتک گوارانہیںکرتا،بلکہ اسے اپنے عقیدے کی توہین سمجھتاہے۔مثلاًازمنہ وسطیٰ کے دورمیں مذہبی لوگوںنے ارسطوکے فلسفیانہ نظریات کواس قدر مسلّمہ حیثیت دے رکھی تھی کہ جوسائنسی نظریہ اس کے نظریے سے مطابقت نہ رکھتا، اسے جانچ پرکھ کے بغیرہی ردّکردیاجاتااوراگرکوئی اسے غلط ثابت کرنے کے دَرپے ہوجاتاتواس پرکفرکافتوی لگایا جاتا اور وہ قابل ِسزا قراردیاجاتا۔ جس طرح راجربیکن کا خیال تھا کہ انسان کو فطرت پراپنے قیاسات نہیں تھوپنا چاہئیں کیونکہ وہ تواس کا محض شارح ہے۔اس کے سربستہ راز محض دلائل سے وا نہیں ہوسکتے، اس کے لیے مشاہدات وتجربات کی ضرورت ہے۔بعینہٖ فرانسس بیکن کا اصرارتھاکہ فطرت کی شرح کے لیے استقرائی استدلال ناگزیرہے کیونکہ فکرانسانی کا یہ واحدایساہتھیار ہے جس کی مدد سے فطرت کے راز،راز نہیںرہتے۔اس کے حق میںاس کی دلیل۵۳ہے کہ جیسے کوئی بھی شخص محض اپنی قوتِ بازوکے زورپربھاری بھرکم چٹانوںکوان کی جگہ سے نہیںہلاسکتابالکل ویسے ہی کوئی بھی مفکرکسی مؤثرطریقۂ کار کو اپنائے بغیرمحض اپنے تفکرکے بل پرفطرت کے رازافشا نہیںکرسکتا۔بہرکیف فرانسس بیکن اس نتیجے پرپہنچا تھا کہ استقرائی طریقہ کارکے تحت بالترتیب کثیرالاتعداد مثالوں کو اکٹھا کرنا چاہئیے،انہیںکسی ترتیب سے منظم کر لینا چاہئیے، ان کا تقابلی جائزہ لینا چاہیے، ان میں موجودعمومی اورعلمی صفات کوکشیدکرلیناچاہئیے،ان کی بنیادپرمؤثر تشریحات و تصریحات قائم کرنا چاہیے، لیکن اس کے باوجودفرانسس بیکن کے ناقدین نے اسے ان قدیم فلسفیوں کی فکری روایت سے مختلف نہیں پایا جو محض قیاس آرائی کے بل پر چند بدیہی مشاہدات وتجربات پہ مبنی تصریحات اکٹھی کرتے، انہی سے فکری تعمیمات اخذ کرتے اور انہیں فطرت کے سربستہ رازوںکاحرف ِآخر قانون مان لیتے۔دراصل ناقدین کاکہناہے کہ فرانسس بیکن نے کبھی یہ جستجو ہی نہیںکی کہ اس نے براہ ِراست فطرت کامشاہدہ کیاہو،اس کے بارے میں غور و فکر کیا ہو اورپھروہاںسے تازہ بہ تازہ اور نو بہ نو مثالیںاکٹھی کی ہوں۔وہ تواس فریب وسحرمیںمبتلارہاکہ وہ استخراجی روایت کوتیاگ چکا ہے اور مشاہدات سے آغازنوکررہاہے حالانکہ سچ یہ ہے کہ وہ اس معاملے میںارسطوسے کوئی انچ بھی آگے نہ تھااوراس کا فکری کمال بھیس بدلی ہوئی قدیم روایت کا بہروپ رہا اور بس۔ بلاشبہ، فرانسس بیکن حقائق سے کشیدہ خام خیالیوںہی کو حقائق کی تعمیمات سمجھتارہااورخودسے کبھی ان کی تصدیق نہ کرپایااورمحض زبانی جمع خرچ سے کام چلاتارہا۔لیکن اسے اپنی اس خامی کاشعورتھا،اس کا اندازہ اس کی سیکریٹری کے اس بیان۵۴سے ہوتاہے کہ بیکن اکثریہ شکایت کیاکرتاکہ اسے سائنس کے ایک مزدورکی حیثیت سے ضرورتسلیم کیاجاناچاہیے کیونکہ وہ سائنس کی عمارت کے خاکے کا معمار ہونے کا استحقاق تورکھتاہے۔ تاریخِ سائنس میںوہ پہلا شخص جوصحیح معنی میںاستقرائی استدلال کے معیار پر پورا اترتا ہے، اٹلی کالیونارڈ وڈاونسی(Leonardo da Vinci)ہے۔اس کے حق میںولیم ڈریپر لکھتا ہے ’’سائنس کے احیا کاسہرا لارڈبیکن کے سرنہیںبلکہ ڈاونسی کے سرہے۔‘‘۵۵ڈریپرکی رائے غلط نہیں ہے کیونکہ وہ بیکن کی طرح خالی خولی نظریات گھڑنے کاقائل نہ تھا وہ تجربات کی زبانی طرفداری کی بجائے ان کی عملی آزمائشوںکامشتاق تھا،وہ کہاکرتا’’اگرنظریے جرنیل ہیں توتجربات سپاہی ہیں۔‘‘۵۶دراصل،اس کاخیال تھاکہ سائنسی مشاہدات،عام مشاہدات نہیں، تجربات ہیں اور تجربات فطری ہوںیامصنوعی،ان کے مفروضات آزمائشی ہوتے ہیں،اس لیے عملی مہارت اور نظری بصیرت دونوں ساتھ ساتھ ہوں تو سائنس کاسلسلہ قائم رہ سکتاہے ورنہ نہیں۔چارلس سنگر (Charles Singer) ڈاونسی کے بارے میں لکھتاہے کہ’’اس کے ذاتی مضامین میںنہ صرف منفرد قسم کی سائنسی بصیرت بلکہ تقریباًناقابل ِ یقین حد تک مسلسل محنت کے شواہدملتے ہیں۔وہ ریاضی سے فزیالوجی تک سائنس کے سبھی شعبۂ جات کواحاطہ میںلاتاہے اور ان میںسے کوئی بھی شعبہ ایسا نہیںجس کااس نے تذکرہ کیاہواورپھراسے تشنہ طلب چھوڑدیا ہویااس پر خاطرخواہ روشنی نہ ڈالی ہو۔‘‘۵۷بنیادی طورپروہ ایک ہمہ دان مفکرتھا۔اس نے انجینئیر،مصور،مجسمہ ساز،ماہر تعمیرات، ماہرفلکیات وطبیعیات کی حیثیت میںکمال کارنامے سرانجام دیئے تھے۔خالصاًسائنسی حوالے سے دیکھا جائے تو اس نے اڑان بھرنے والی مشین کا نمونہ پیش کیا۔پیراشوٹ اورہیلی کاپٹرکے بارے میںتجاویزسامنے رکھیں،چونکہ وہ ہوامیں اڑنے کے خواب کو شرمندہ تعبیرکرنے میںدلچسپی رکھتا تھا اس لیے اس نے پرندوںکی اڑان کا اس خوبی سے جائزہ لیاکہ آخری عمرمیںوہ اس خواب کوپورا کرنے میںقریباًبازی مار چکا تھامگرزندگی نے وفانہ کی۔اس نے شلجم نما قطب نما (parabolic compass)کوایک ایسے اصول پروضع کیاجسے سترھویںصدی کے اواخر میں ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔ اس نے دنیا کے بارے میں شمسی المرکز(heliocentric)نظریے کابھی اشارہ دیا۔اس نے فوری داغنے والی بندوقوںکے خاکے بھی بنائے۔انجینیئرنگ کے آلات کے بارے میں بڑی شاندار آراء پیش کیں۔ اسے بصریات کے نظری اصولوںپرعبورحاصل تھا۔ریڑھ کی ہڈی والے ڈھانچے کی چند مشابہتوں(homologies)کو اس نے ڈھونڈ نکالا۔اس نے قمرہلالی کی مدھم چاندنی کی وجہ ٹھیک ٹھیک بیان کی۔وہ قوانین حرکت کے بارے میںبھی لب کشا ہُوا۔ الغرض ایسے اوربھی بہت سے سائنسی امورتھے جواس نے سرانجام دیئے،لیکن ان سب میں خاص بات یہ تھی کہ انہیں استقرائی استدلال کے سہارے پایۂ تکمیل پہنچانے کی کوشش کی گئی تھی۔ اس کا سائنسی عمل، اہلِ مغرب کی طرف سے استقرائی بیداری کا بھرپوراظہارتھا۔اس دورمیںوہ اکیلانہ تھا ۔ نیورمبرگ (Nuremberg)کاجرمن مفکرالبرخت بریر(Albrecht Burer)،سوئزر لینڈ کا طبیب پیراسیلسس(Paracelsus)، جرمنی کاماہر معدنیات جیورگ اگریکولا(Georg Agricola)،اورریاضی دان جیروم کاردان(Jerome Cardan) جیسے دانشور اس کے ہم رکاب تھے جن کی بدولت مغرب کی سائنسی بنیادیں بالآخر صحیح خطوط پراستوارہوئیں۔ مغرب کے سائنسی شعورکے پس ِپردہ اگرچہ عربوںکاسائنسی روّیہ کار فرما تھا اورانہی کی بدولت وہ یونانیوں کی سائنسی سوچ سے متعارف ہوئے تھے مگرتوجہ طلب بات یہ ہے کہ عربوں کے استقرائی روّیے کوفکری لحاظ سے اختیار کرنے کے با وجود وہ اپنی ذہنی ترکیب اورکیفیت میں یونان وروماکے قریب رہے۔اس سلسلے میںبریفالٹ لکھتاہے۔’’یونان کی روحیت،اس کی آزادہ روی،اس کی کامل آزادی،اس کالاعلاج ذوقِ تجسس،اس کاغیرمذہبی اوردنیادارانہ زاویۂ نگاہ، اس کی تنقیداورانسانی عقل و ادراک کے تمام واقعات اورحقائق پربے تکلف اورآزادانہ تنقید،یہی وہ چیزیں ہیں جن کی وجہ سے مغربی دنیاکاوجودممکن ہوگیا۔یورپ نے اس لیے ترقی کی کہ وہ اس ’’قدامت‘‘سے باہرنکل آیاجو یونانی ذہن کی تہذیب تھی اورتنزل وتباہی کے عمیق ترین اندھیرے میںبھی اس دنیاکے گرد و غبار میں اس کی اصلی اور بنیادی کیفیت کاکچھ نہ کچھ عنصرضرورمحفوظ رہ گیا تھا۔‘‘۵۸ لیکن قدامت پسندی سے نکلناسہل نہیںہوتا۔جس طرح یونانیوں کو دیومالائی صنمیات کے سحر کو توڑنے میں طویل عرصہ لگا،اسی طرح مغربی دانشوروں کو یونانیوںکے سائنسی تعصبات کی بت شکنی میںلمبی مدت صرف کرنا پڑی جن کی قدر و منزلت پوجا کے مقام تک جاپہنچی تھی۔اس کی بہترین مثال فلکیات کی تاریخ میں ملتی ہے۔ جہاںمرقوم ہے کہ بطلیموس، ارسطو اور عیسائیت کے ملے جلے ارض المرکزی نظریۂ کائنات کو باطل ثابت کرنے میں کو پرنیکس سے گلیلیو گلیلی تک کوئی چار صدیاں لگیں مگر پھربھی قدامت پسندی کے دیوہیکل دبدبے کے سامنے سائنسی صداقت کوگھٹنے ٹیکنے پڑے اورپھر کہیں دو صدیاںگذرجانے کے بعدسائنس کووہ قوت نصیب ہوئی کہ قدامت پسندانہ استنادیت کوفتح کرسکے۔ یہ صورت ایسے بنی کہ کوپرنیکس۵۹نے بطلیموس کے نظریۂ کائنات کوزمین المرکزی سے شمس المرکزی نظریے سے بدل دیاجس کے مطابق یہ ثابت ہوتاتھاکہ سورج زمین کے گرد نہیں بلکہ زمین سورج کے گردگردش میںہے۔اس امرکی شہادت میں اس کے پاس بطلیموس کے کھینچے دائروںکاموادتھا،یونانی عہدکے گئے گذرے آلات ِ فلکیات تھے یاپھراپنے استادنوویرا (Novara)کی بدولت یہ آگہی تھی کہ یونانی مفکر ارسطاکس گردش زمین کی بات کر چکا ہے۔اس نے فرانزبرگ (Franzberg)کے پہاڑی مقام میںواقع گرجے سے کچھ ہی فاصلے پرموجودایک بلندوبالا مینارپراپنے آلات ِرصد نصب کئے اور وہاںبے شمارفلکی مشاہدات کرنے کے بعد بالآخر اس نتیجے پرجا پہنچاکہ بطلیموس کا نظریہ درست نہیںجس کا نقش عموماًذہنوںپرسکہ بند ہو چکاہے۔ چونکہ اس زمانے میںچرچ بہت طاقتور تھا،اس لیے اپنے محاسبے کے ممکنہ خوف سے اس نے اپنا نظریہ دنیا سے چھپائے رکھالیکن اپنے دوستوںاور مداحوںکے پیہم اصرار پر ایک جرمن نوجوان ریٹی کس (Rheticus)کواپنے نظریۂ گردشِ زمین کامسودہ بھجوایاجس نے اسے جرمنی میں چھپوایا جب اس کا مطبوعہ نسخہ اسے پولینڈ بھجوایا گیا اس وقت وہ مرض الموت میںمبتلاتھا۔کہتے ہیںاپنی تصنیف کو دیکھنے کے چند ہی گھنٹوں کے بعدوہ دارِفانی سے کوچ کرگیااوریوںچرچ کے اس ممکنہ احتساب سے بچ گیاجس کا خوف اس نے عمربھردل میں بسائے رکھا۔اگرچہ اس کی موت کے بعداس کا نظریہ کوئی دوصدیوںتک،سردخانے کی نذر ہو گیامگراس دوران میں دوبہت اہم تبدیلیاں و قوع پذیرہوئیں،ایک فلکیاتی آلات ِرصدمیںکافی بہتری اور ترقی ہوئی۔ مثلاً مڈل برگ (Middleberg) کے جان لیپرشے(John Lippershey)۶۰نے دونوں آنکھوںسے دیکھنے والی (binocular) دور بین بنا ڈالی جس کی بدولت بہت بہتراوربہت دورتک دیکھا جا سکتا تھا۔ دوسرے پاپائیت کے مذہبی تعصبات کے خلاف خرد افروزطبقے میںبغاوت کی لہرمیںتیزی آئی۔ مثال کے طورپراس کا اندازہ گلیلیوکے والدونشن زیو(Vincenzio)کی کتاب قدیم اور جدید موسیقی میں مندرج ان الفاظ سے ہوتاہے: ’’جولوگ کسی بات کے ثبوت میںصرف قدماکے اقوال پرانحصارکرتے ہیں خود تجربہ و مشاہدہ اور غوروفکر کا سہارا نہیں لیتے، وہ درست نتائج تک پہنچنے میں اکثر اوقات دھوکاکھاجاتے ہیں۔‘‘۶۱ اس سلگتی ہوئی صورت ِحال کی چنگاری نے ہوااس وقت پکڑی جب گلیلیوگلیلی نے اپنی خودساختہ او رترقی یافتہ طرزکے آلۂ رصدکی مددسے کوپرنیکس کے نظریے کوعملی طورپرسچ ثابت کر دکھایا۔ نتیجتاً پادریوںنے سچ کوسچ ماننے سے انکارکردیاکیونکہ ان کے قدیم، روایتی مذہبی تصورکی توہین ہوتی تھی ۔اس کارد ِعمل بجھتے ہوئے چراغ کی اس لوکی مانندہواجوبجھنے سے پیشتر خوب بھڑکتا ہے اگرچہ دُور اندیشی اورمصلحت آمیزی کے باعث گلیلیوگلیلی کوپادریوںکے سامنے ان کے نقطۂ نظرکے مطابق اپنے سائنسی گناہ سے توبہ کرنا پڑی اورقیدوبندکی صعوبتیںبرداشت کرناپڑیں۔لیکن یہ سچ ہے کہ سچ کو زیادہ دیرتک دبایانہیںجاسکتا۔لہٰذاکچھ ہی عرصے بعدسائنس کی قوت نے مذہبی تعصب کے فکری بت کوپاش پاش کر دیااوراس کی اک نئی صبح کا آغازہواجس کی کرنوںنے مادیت اورمیکانکیت کی ایسی سنہری چادر تیارکی جس میں مذہب کے عمل دخل کی کوئی گنجائش نہ تھی۔ اس کی وجہ گلیلیواپنے مقالہ انجیل مقدس اورسائنسمیںبہت پہلے بیان کر چکا تھا۔ اُس نے لکھا تھا۔ ’’انجیل مقدس میںکوئی غلطی نہیںہوسکتی،لیکن انجیل کے ترجمان اورمفسر غلطی کاشکارہوسکتے ہیں،خاص طور پر اس سے یہ مطلب لینا کہ اﷲتعالیٰ کے واقعی ہاتھ اورپاؤںہوتے ہیں صریحاً غلطی ہے۔دراصل انجیل مقدس کے مخاطب عوام ہیںجن کوسمجھانے کے لیے ایسے پیرائے سے کام لیا گیا ہے جوان کی ذہنی استعدادکے مطابق ہے۔ایسا کرناضروری تھا،لیکن اس سے یہ لازم نہیںآتاکہ انجیل مقدس کے الفاظ سے ہمیشہ ان کے لغوی معنی ہی لیے جائیں۔ خاص طورپر انجیل مقدس کے فقروںسے سائنس کے کلّیات کی تردیدکرناجوتجربے اورمشاہدے سے ثابت ہوچکے ہیں، کسی طرح درست نہیں ہے۔اگرانجیل مقدس خداکاکلام ہے توسائنس کے مشاہدات بھی قدرت خداوندی ہی کے مظاہرہیں۔دونوںکا منبع ایک ہے ،اس لیے یہ دونوںایک دوسرے کے مخالف نہیںہوسکتے۔انجیل مقدس میںاگرسورج چانداورستاروں کے حوالہ جات آتے ہیںتوان سے مقصودعام لوگوں کے سامنے ایسی مثالیںپیش کرناہے جن سے وہ پہلے سے متعارف ہیں۔ان حوالہ جات کوعلم ہیئت کے مسائل کے لیے دلیل بنانادرست نہیںہے۔انجیل مقدس کاکام لوگوں کے اخلاق سنوارنااورانہیںنیکی کی تعلیم دیناہے جومحض ایک الہامی کتاب ہی دے سکتی ہے،لیکن سائنسی حقائق کا انکشاف اس کے حدودمیںشامل نہیںہے۔اس کی ایک ادنیٰ مثال یہ ہے کہ انجیل مقدس میںپورے پانچ سیاروںکے نام بھی مذکور نہیںہیں،حالانکہ ہیئت کاپہلا سبق ہی ان سیارو ں سے شروع ہوتاہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ سائنسی علوم کی تحصیل اورتحقیق اﷲتعالیٰ نے ہمارے دماغ اورحواس خمسہ پرچھوڑرکھی ہے۔اس لحاظ سے انجیل مقدس اورسائنس دونوںکے میدان الگ ہیں۔ دونوںزندگی کے لیے ضروری ہیں،مگرایک سے دوسرے کاکام نہیں لیا جا سکتا ۔ ‘ ‘ ۶۲ یہ خالی گلیلیوکاخیال نہیںتھابلکہ اس سارے عہدکے سائنسدانوںکابھی نقطۂ نظریہی تھا حالانکہ اکثرکلیساکے اطاعت گذارتھے اورمذہب سے مخالفت کاکوئی ارادہ بھی نہ رکھتے تھے۔ مثلاًلوئیس پاسچر(Louis Pasteur)جس کا زہد و اتقامسلم ہے، کہاکرتاتھا’’وہ شخص یقیناًگمراہ ہے جو مذہب کوعلم میںداخل کرتاہے،لیکن جس کسی نے علم کو مذہب میں داخل کیاوہ گمراہ تر۔کیونکہ اس کامطلب یہ ہوگاکہ علم کومذہب پرترجیح حاصل ہے۔‘‘۶۳ مذہب اورسائنس کی علیحدگی کے رجحان سے بتدریج ایسی سوچ پروان چڑھی جس سے استقرائی استدلال صرف طبعی احوال تک محدودہوکررہ گیااوراس کی بدولت میکانکی سائنس کوخوب پذیرائی حاصل ہوئی۔ بالخصوص نڈسٹرپ(Knudstrip)واقع سویڈن(Sweden)کے ٹائکوبراہے (Tycho Brahe)،ویل(Weil)واقع ورٹم برگ(Wurtemberg) کے جوہان کیپلر (Johann Kepler)اورانگلستان کے گاؤں وولز تھروپ(Woolsthrop)کے سرآئزک نیوٹن (Sir Isac Newton)کے نظریات سے اس کی بنیادیںمضبوط اور مستحکم ہوئیں۔ مختصراً، ہوا یوںکہ ٹائیکوبراہے عمربھربطلیموس کودرست اورکوپرنیکس کوغلط سمجھتارہا مگراس غلطی کے باوجود اس نے یہ عمدہ کام کیاکہ اپنے مشاہدات کے زورپرایسی فلکیاتی جدولیں تیار کیں جو کیپلر اور نیوٹن، دونوں کے لیے بہت رہنماثابت ہوئیں۔ان کی بنیاد پر کیپلرنے اجرام سماوی کی حرکت کے تین اصول۶۴ وضع کئے : .1ہرسیارہ سورج کے گردایک بیضو ی مدارمیںحرکت کرتاہے جس کے دومرکزی نقاط میں سے ایک نقطے پر سورج ہوتاہے۔ .2سیارے کوسورج سے ملانے والافرضی خط مساوی وقفوںمیںمساوی رقبہ طے کرتاہے ۔ .3سورج کے گردکسی سیارے کے عرصہ گردش کامربع سورج سے اس کے اوسط فاصلے کے مکعب کے متناسب ہوتاہے۔ پروفیسرحمیدعسکری کے الفاظ میں’’ان قوانین کی وجہ سے نظام شمسی کی تصویرمکمل ہو گئی اور پچھلے ہیئت دانوں، مثلاًبطلیموس، کوپرنیکس اور ٹائیکوبراہے کے پیش کردہ نظاموںکی ساری خامیاںیک بارختم ہوگئیں۔‘‘۶۵ کیپلرکے ان قوانین پرنیوٹن کی گہری نگاہ تھی ۔وہ ابتداء سے ہی کوپرنیکس کے نظریہ گردش زمین کودرست خیال کرتاتھا۔البتہ وہ اس معمہ کوحل کرنے کامتمنی تھاکہ وہ کون سی قوت ہے جو سورج کے گرددورانِ گردش زمین اور دیگرسیاروںکوان کے الگ الگ مداروںمیںقائم رکھتی ہے۔ جس زمانے میںاس کے سرپرسیب گراتھا،اس نے بالآخر یہ رازجان لیاتھاکہ اس کی وجہ کشش زمین کی قوت (gravity)ہے ۔پھراس نے کیپلرکے قوانین کے عملی اطلاق سے تجاذب (gravitation) کی قوت کومعلوم کرلیاجواصل میںکشش زمین کی قوت کا عالمگیر روپ تھی۔ یوں اس نے ثابت کر دکھایاکہ اجرام فلکی ایک دوسرے سے الگ نہیںبلکہ سب کے سب تجاذب کی رسّی میںبندھے ہوئے ہیں۔گویا یہ تجاذب کی قوت ہے جوسورج کے گرددوران گردش زمین اور دیگر سیاروںکوان کے الگ الگ مداروںمیںقائم رکھتی ہے۔اس طرح اجرامِ فلکی کایہ تصورمیکانکی سائنس کی بنیاد بنا جہاںکائنات کی حیثیت ایک ایسی دیوہیکل مشین کی سی ہو کررہ گئی جس کے اندر اجرام فلکی مختلف پرزوںکی طرح مصروف عمل ہیں۔۶۶بعدازاں، حیاتیات میں انگلستان کے چارلس ڈارون (Charles Darwin)،نے اپنی تصنیف اصل انواع (Origin of Species) میں یہ تین اصول۶۷ پیش کئے : .1تنازع اللبقا:(struggle for existence)اس کے مطابق صرف وہ نسل زندہ رہتی ہے جواپنی بقاکی جدوجہدکے لیے قوت اورحوصلہ رکھتی ہے ۔ .2بقائے اصلح :(survival of the fittest)اس کے مطابق صرف وہ نسل زندہ رہتی ہے جواپنی بقا کی جدوجہدکے دوران خارجی ماحول سے موافقت کی صلاحیت رکھتی ہے۔ .3انتخاب طبیعی :(natural selection)اس کے مطابق صرف وہ نسل زندہ رہتی ہے جو فطرت کے ہاتھوںاس کے نامساعدحالات کے باوجودزندہ رہنے کے لیے منتخب ہوجائے ۔ ان اصولوںسے ایک ہی چیزثابت ہوتی ہے کہ انسان کا ظہور میکانکی طورپراپنے سے کم تر جانوروںسے ہوا۔یہ ترقی یافتہ حیوان ہے۔اس طرح اس کے نظریۂ ارتقاء (evolution)نے اس سلسلے میں سونے پرسہا گے کا کام کیا۔اوریوںمجموعی طورپراس سائنسی فضانے ایسے فلسفے کوجنم دیا جس نے مابعدالطبیعی حقائق کاسرے ہی سے انکار کر ڈالا۔ مثلاًسگمنڈفرائڈبڑے بے باک لہجے میں کہتا ہے کہ’’یہ بات ماننے کے لائق نہیںکہ انسان کی فکری سرگرمی کاایک میدان توسائنس ہے اور دوسرے مذہب اور فلسفہ، جن کی تھوڑی بہت وقعت ہے۔سائنس کاان دونوںسے کوئی سروکار نہیں، اگرچہ ان میںسے ہرایک اپنے تئیںصداقت کادعویدارہے ۔ہرشخص کوآزادی حاصل ہے کہ جس سے چاہے تعرض کرے اور جس پر چاہے ایمان رکھے۔ایسارجحان قابل ِاحترام،روشن خیال،تحمل پسندانہ اور تعصبانہ تنگ نظری سے مبّرا ضرور ہے مگربدقسمتی سے یہ مؤقت نہیں،کیونکہ یہ پوری غیرسائنسی روح کی سبھی مضررساں خوبیوںکاحامل ہے اورعملاًایک جیسے نتیجہ پر جا پہنچتا ہے۔ اظہرمن شمس حقیقت تویہ ہے کہ صداقت کبھی مک ّمکانہیںکرسکتی،کوئی سمجھوتہ یاحدبندی قبول نہیں کر سکتی، سائنسی تحقیق اپنے طورپرانسانی سرگرمی کے تمام ترشعبے پرنظردوڑاتی ہے اور اسے ہراس قوت کی طرف ناقدانہ رویہ اختیارکرناچاہئیے جواس کے کسی بھی حصے کو غصب کرنے کی کوشش کرتا ہو ۔‘ ‘۸ ۶ مابعد الطبیعی حقائق پرفرائڈکایہ حملہ بہت شدیدتھا۔نتیجتاًاس نے اوراس کے پر ستاروں نے مذہب اور مابعدالطبیی فلسفے کو انسانی ذہن کے مضحکہ خیز خاکے (caricatures) قرار دیااور جس کی وجہ سے یہ خیال کیاجانے لگاکہ کا ئنا ت اندھے معروضی قوانین کے تحت چل رہی ہے،جس کی کوئی غایت اورمنزل نہیںاوراس میں قدروں کا کوئی وجودنہیں۔ کائنات میںانسان کامقدراسی کے بے حس اوربے جان طبیعی عوامل سے طے پاتاہے،اُسے کسی ماورائی ہستی سے منسوب کرنامحض اختلالِ ذہنی ہے اور کچھ نہیں۔غورطلب بات یہ ہے کہ میکانکی سائنس کے روبرو ابتداً مذہب کا اثر و رسوخ صرف زائل ہواتھا،لیکن فرائڈنے اس کے وجودکوہی مٹانے کی کوشش کی اوردیکھاجائے تو ایک طرح سے اس نے فکری طورپرمذہب کے پیروؤںسے اُس تاریخی توہین آمیزروّیہ کابدلہ لے لیا جو اہلِ کلیسانے کبھی بصورت گلیلیوسائنس سے رَوارکھا۔ فر ائڈ نے اپنے لیکچر’’A philosophy of life‘‘ میںمیکانکی سائنس سے متاثر ہو کرجن خصائص کواپنے خیالات میں جگہ دی ، انہیں وہاںسے اخذ کیاجائے تووہ حسب ِذیل۶۹ سامنے آتے ہیں: .1سائنسی فکرانسانی ذاتیات اورجذبات کواپنے احاطے میںکسی طورپربھی مخل نہیںہونے دیتی۔ .2سائنسی فکران چیزوںکی سچائی کوجاننے کے بارے میںبھی متمنی ہوتی ہے جوظاہری طورپرفوری اورواضح افادے کی معلوم نہیںہوتیں۔ .3سائنسی فکرحسی ادراک کے سہارے اپنے نتائج وضع کرتی ہے بشرطیکہ اس کی مناسب اورمحتاط جانچ پڑتال کرلی گئی ہو۔ .4سائنسی فکربالارادہ تجربات کے زورپرایسے ایسے نظریات سامنے لاتی ہے جوروزمرہ کے مسائل سے شایدکبھی بھی حاصل نہ کئے جاسکتے۔ .5سائنسی فکرصداقت کے نظریۂ مطابقت (Correspondence theory of truth)کے علاوہ اور کوئی معیارقبول نہیںکرتی۔اس نظریہ کی روسے صرف وہی بیان صحیح ماناجاتاہے جوخارجی حقائق اورمادی علائق سے مطابقت رکھتا ہو۔ .6سائنسی فکرکی تجربات پرمبنی قائم شدہ صداقت مشروط اورعارضی ہوتی ہے۔ عین ممکن ہے کہ مستقبل کے تجربات کی روسے آج کی صداقت آنے والے کل کی صداقت سے بدل جائے۔ اس لیے اس کی استنادیت میںکوئی مستقل اور دیرپا ٹھہراؤ نہیں۔ .7سائنسی فکر کے اثرات وثمرات انسانوںکے کسی بھی مخصوص طبقے تک محدودنہیں،یہ سب کے لیے یکساںہیں۔ .8سائنسی فکرتحلیلی نوعیت کی حامل ہے۔حقائق کوجزئیات میںبانٹ کران سے ایسے عالمگیر اورعمومی قوانین وضع کرتی ہے جوان حقائق کی کامل توضیح کرتے ہیں۔ .9سائنسی فکرناقدانہ تجزئیے کی بھی حامل ہے۔دیومالائیت،اساطیر،توہم پرستی، اوہام، کشف ووجدان،مذہبی واردات وتجربات،وحی اور نام نہاد سائنسی دعوؤںکی بناوٹی اصلیت اور صداقت کاجھوٹاچوغہ اتارپھینکتی ہے۔ .10سائنسی فکرکافریضہ سندتھوپنانہیںجیسے کہ مذہب میں بصورت اوامرو نوا ہی نظر آتا ہے۔ البتہ اس کے استقرائی استدلال سے وضع کردہ قوانین ،اپنی مجرّد اور عالمگیرحیثیت کی بناء پر سند کا درجہ ضرور حاصل کرجاتے ہیں۔اس حساب سے، سند سائنسی فکرکادعوی نہیںبلکہ اس کامحض نتیجہ ٹھہرتا ہے اوروہ بھی ایساجہاںاس کی کیفیت تجربات در تجربات کے عمل سے گزرتے ہوئے بدلتی رہتی ہے۔ سگمنڈفرائڈنے میکانکی سائنس کے نشہ میںسرشاریہ دعوی۷۰تک کرڈالاکہ انسانی انا کو پہلا دھچکا کوپرنیکس کے اس نظریے سے لگاکہ انسان جس زمین پربستاہے وہ کائنات کامرکزنہیں۔ دوسرا دھچکا چارلس ڈارون کے اس نظریے سے لگاکہ خود انسان دھرتی کابھی نقطہ امتیازنہیںکیونکہ وہ اپنے سے کم تر جانوروںسے نکلاہوامحض ارتقاء یافتہ حیوان ہے۔تیسرا اور فیصلہ کن دھچکاخود اُس نے لگایا ہے کہ انسان تواپنے نفس کا بھی آقا نہیں، محض غلام ہے۔ دراصل سگمنڈ فرائڈ نے اپنی عمیق نفسیات میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ انسان کے روّیے اس کے لاشعوری ذہن کے پابند ہیں۔ بہرکیف،میکانکی سائنس کی ترقی نے الوہیت سے دہریت کی طرف جوپلٹاکھایاوہ اپنی جگہ اہمیت طلب ہے لیکن اس دوران خا لصاًسائنسی شعبہ جات میںجو گرانقدرتحقیقات اور ایجادات ہوئیں، وہ یقینا ناقابل فراموش ہیں۔جیسے انگلستان کے ولیم ہاروے Williem Harvey)نے دورانِ خون،ہالینڈکے لیوون ہک Leeuwen Hock)نے خورد بین(microscope)،اٹلی کے ایوان جلستاتاری سیلی Evangelista Torricelli)نے بیرومیٹر،جرمنی کے اوٹوگوریکے(Otto Guericke)نے ہواپمپ(air pump)،فرانس کے بلے پاسکل(Blaise Pascal) نے شکنجۂ آبی(hydraulic press)، ہالینڈ کے کرسچین ہائی گن (Christian Huygenes)نے پنڈولم وال کلاک،ایجادکئے۔ایسی ایجادات کی فہرست بہت طویل ہے اس لیے اس سے پہلوتہی کرکے آگے بڑھیںتو سگمنڈفرائڈ کے زمانے تک میکانکی سائنس اپنے بام عروج پرپہنچ چکی تھی اوربقول ہیلم ہولٹز (Helm Holtz)یہ خیال عام ہوچکاتھاکہ ’’تمام فطری علوم کاآخری مقصد بالآخراپنے آپ کو میکانکس میںمنتقل کرلیناہے۔‘‘۷۱اس میکانکس کے پس پردہ دراصل دوایسے نظریے کارفرماتھے جنہیںمسلّمہ قرار دے دیا گیا تھا۔ .1ہرمادی شے علت ومعلول کے نظریۂ تعلیل میںبندھی ہے۔لہٰذاکسی شے کی موجودہ حالت معلوم ہو تواس کی سابقہ یاآئندہ حالت قطعی طورپرمتعین ہوسکتی ہے اورنیوٹن کے قوانین حرکت کی بناء پرعلم ریاضی کی مددسے ازل تا ابد اس کی تمام حالتوںکی پیش بندی کی جاسکتی ہے۔ .2مادہ اورتوانائی ایک دوسرے کے متضادتصورات ہیں۔مادہ اصل میںایک جسمانی شے ہے جوایک محدود فضاکوبلاشرکت غیر ے گھیرتی ہے اور جس کاایک مستقل وزن ہے ۔جس کونہ تو کم وبیش کیاجاسکتاہے اورنہ ہی معدوم۔ نیز جب کوئی مادی شے حرکت کرتی ہے تووہ ایک ہی خط میں ایک ذرے کے موافق حرکت کرتی ہے۔آوازیاروشنی کی طرح پوری فضامیںنہیںپھیل جاتی۔اس کے برعکس، توانائی نہ توکوئی جسمانی شے ہے اورنہ کسی محدودفضاکوبلاشرکت غیرے گھیرتی ہے۔ اس کا کوئی وزن نہیںہے اورنہ وہ ذرے کے موافق حرکت پذیرہے،وہ تومحض موجوں کی صورت آگے بڑھتی ہے۔بنیادی طورپرتوانائی مادے کااضافی مظہرہے اور بس۔ اس کااپناالگ سے کوئی وجودنہیں۔ لیکنفرائڈکے دورمیںپروفیسرمیکس کارل ارنسٹ لڈوگ پلانک(Prof Max Karl Ernst Ludwig Planck)نے علم الطبیعیات میںنظریۂ کوانٹم(quantum theory)پیش کرکے میکانکی سائنس کازورتوڑدیاجس سے ایک انقلابی اورنئے سائنسی دور کا آغاز ہوا۔پلانک نے اپنے نظریۂ کوانٹم میںیہ زبردست انکشاف کیاکہ مادہ اورتوانائی کی حالتوں میں تضاد نہیں۔ دونوں ایک دوسرے میںمنتقل ہوتی رہتی ہیں۔اس لیے کسی بھی مادی شے کی کمیت مستقل نہیں بلکہ اس کا دارومداراس کی حرکت پرہے،رفتارکے حساب سے وہ گھٹتی بڑھتی ہے۔نیزمادی شے کبھی ذرے کی طرح ایک ہی خط میں حرکت کرتی ہے اورکبھی موجوںکی طرح پھیلتے ہوئے آگے بڑھتی ہے۔ پلانک کے اس نظریے سے پروفیسر ورنرکارل ھائزن برگ (Prof.Werner Karl Heisenberg)نے یہ نتیجہ اخذکیاکہ ایسانہیںہے۔قدرت ایک ہی متعین رخ پرنہایت صحت کے ساتھ رواںدواں ہے۔سچ تویہ ہے کہ کل کائنات توبہت دورکی بات،اس کے کسی ننھے سے ذرے کامستقبل بھی متعین نہیںہے۔لیکن البرٹ آئن سٹائنAlbert Einstein))کی نظرمیں، پلانک کانظریۂ محض عدم تعین(discontinuity)سے بھی کہیںزیادہ انقلابی نوعیت کاحامل ہے۔کیونکہ اس نے میکانکی سائنس کے پس پردہ کار فرما دونوںشقوںکوغلط ثابت کردیاہے۔یعنی اس نے اصول تعلیل کابھی خاتمہ کردیا اور مادے اورتوانائی کی حالتوںکے مابین تضادکاتصوربھی رفع کردیا۔۷۲ خودآئن سٹائن کے نظریۂ اضافیت(theory of relativity)نے بھی اس سلسلے میںکافی پیش رفت دکھائی۔اس نظریے کے مطابق،ہرنظام کے لیے وقت اورفاصلے کے پیمانے مختلف ہوتے ہیں،بشرطیکہ دو نظاموں میں یکساں یا غیریکساںاضافی حرکت ہورہی ہو۔نیزاس فاصلے اوروقت کے پیمانے مختلف نظاموںمیںایسی مناسب قیمتیںاختیار کرتے ہیںکہ کسی ناظرکواس نظام کی حرکت بالکل معلوم نہیںہوتی۔اس کامطلب یہ ہواکہ زمان ومکاں کی نوعیت عالمگیر نہیں، محض اضافی ہے۔ مزید برآں، اس نظریے سے یہ نکات بھی اخذکئے گئے: .1جب کوئی مادی شے حرکت کرتی ہے تواس کی جسامت کم ہوجاتی ہے۔ .2جب کوئی مادی شے حرکت کرتی ہے تواس کی کمیت کی مقداربڑھ جاتی ہے۔ .3کسی مادی شے کی رفتار،روشنی کی رفتارسے زیادہ نہیںہوسکتی۔ .4مادے کوتوانائی میںتبدیل کیاجاسکتاہے۔۷۳ حاصل کلام،آئن سٹائن کے نظریے نے میکانکی سائنس کی دھجیاں اُڑادیں اورسائنس کو ایک انقلابی جہت سے روشناس کرایاجسے استقرائی استدلال کی ایک اور کامیابی قراردیاجاسکتا ہے جومستقبل کے مزیدامکانات کوبے نقاب کرنے میں تاحال مصروفِ عمل ہے۔اس پراہل ِمغرب آج بھی نازاںہیںمگرسائنسی ترقی کی مجموعی صورت حال کومدنظررکھا جائے تومغرب کے سائنسی تکبرکے بارے میں یہ دو باتیں قابلِ ذکر ہیں: .1جہاںسائنس نے کائنات کے مطالعہ وتحقیق کی خاطراپنادائرہ عمل بڑھایا تھا،اب اس میںکائنات کی تسخیرکا رنگ ڈھنگ بھی شامل ہوگیاہے جویقینا قابل ستائش امر ہے۔ لیکن سائنسی قوانین کی دریافت،تکنیکی امورمیں مہارت اور سائنسی نظریات کے عملی اطلاقات کی وجہ سے سائنسی ماحول،انسان پراس قدر اثراندازہواہے کہ انسان،انسان نہیں رہا۔ مشین بناتے بناتے خود مشین بن گیا ہے۔ سائنسیت کادیو،انسانیت کونگل رہاہے۔ثانیاًسائنس کے شعبوں میں بڑھتی ہوئی تخصیص کاری نے اس قدر شدت اختیار کرلی ہے جس کی بناء پران شعبوں نے خاطر خواہ کامیابیاں تو ضرور حاصل کیںہیںمگرسائنس کے مختلف شعبے ایک دوسرے کے لیے بیگانہ ہوکررہ گئے ہیں۔ .2جہاںتک انسانی زندگی کاتعلق ہے تومغربی سائنس نے اس پرمثبت اور منفی، ہر دو طرح سے اپنے اثرات مرتسم کئے ہیں۔ایک طرف انسانی فوزو فلاح کے لیے خوب سہولیات مہیا کی ہیں تودوسری جانب انسانی تباہی اورہولناکی کاساماںبھی فراہم کیاہے۔اس طرح مجموعی تناظر میں سائنس نے ایک عجیب دُبدہا (dilemma)قائم کردیاہے جو آج ایک اور لمحۂ فکریہ کی صورت اختیار کرچکاہے۔لہٰذااہل ِمغرب کوجلدیابدیراپنے سائنسی فخرونازپرنظرثانی کرناہوگی۔ مغربی استدلال کا تجزیہ اورفکراقبال (Evaluation of Western Reasoning & Iqbal's Thought) مغربی استدلال کے مندرجہ بالاجائزے سے بخوبی عیاںہوتاہے کہ اس کی روح کلاسیکیت مخالف (anti-classical)ہے جوصرف استقرائی طرز ِاستدلال کوحقیقت وصداقت کے اکتشاف کاقطعی دعویدارٹھہراتی ہے اور مشاہدات وتجربات کے بغیرکچھ ماننے کوتیارنہیں۔اپنی جدیدیت کے زعم میں اس نے اس قدرغلوسے کام لیا،مبالغہ آمیزی کی ان حدوںکو چھولیا، جہاں میکانکی احوال کے زورپرمابعدالطبیعی حقائق کی چھٹی کرادی گئی اوراستقرائی غوروفکرکوطبیعی حقائق تک محصور کر دیا گیا۔لیکن سچائی پرزیادہ دیرتک بند نہیں باندھا جاسکتا۔ استقرائی فکر کی قوت نے ہی میکانکس کے ہّواکو اُتار پھینکا،اس نے مادے کے اس تصورکوبدل ڈالاجس کی بناء پراسے مادی علائق تک محدود کیاگیاتھا۔اقبال کے حوالے سے دیکھاجائے تویہ استقرائی استدلال کی وہ سائنسی فتح ہے جو مغربی استدلال کوصحیح سمت میں لے جاسکتی ہے بشرطیکہ اس جانب پیش قدمی جاری رکھی جائے۔ اگرچہ اقبال نے سائنسی فکرکی تاریخ کوباقاعدہ طورپر کبھی اپنی تحریرکی زینت نہیں بنایالیکن اپنے افکارونظریات میںجابجایونانی مسلم اور مغربی سائنس کے بارے میں ایسے فکرآموزخیالات پیش کئے ہیںجنہیںایک ترتیب سے مدنظررکھاجائے تو مغربی استدلال کے سائنسی میلان کی تفہیم میں تنگی نہیں رہتی، جہاںیہ جاننے میںتامل نہیںرہتاکہ اہل ِمغرب کاسائنسی استقراء کس حدتک قابلِ ستائش ہے اور کہاںتک اس پراظہار افسوس واجب ہے۔ذیل میںاقبال کے افکار کا اسی نقطۂ نظر سے جائزہ لیاجاتاہے۔ .1یونانی سائنس اورفکرِاقبال:(Greek science & Iqbal's thought) یونانی سائنس کے چندمعروضات ایسے ہیںجوفکراقبال کے تناظرمیںبڑی معنویت کے حامل ہیںکیونکہ ان کے اثرات نے مسلم اورمغربی سائنس کی نمواورتشکیل میںخاصا اہم کردار ادا کیا ہے۔مثلاًیونانی حکمت کاتجزیہ کرتے وقت اقبال اس نتیجے ۷۴ پرجاپہنچاتھاکہ: .iیونانیوںکودرحقیقت نظریوںسے دلچسپی تھی،حقائق سے نہیں۔ .iiیونانیوںکوعموماًادراک بالحواس سے نفرت ہی رہی ۔ یہ دونوںقضیے ایسے ہیںجن کے حوالے سے یونانی عہدمیںسائنس کی مجموعی صورت حال کومدنظررکھاجائے تو بخوبی معلوم ہوتاہے کہ اس کی حیثیت فلسفے کی موجودگی میںہمیشہ طفیلی اورضمنی رہی۔جس طرح کنگروکابچہ اپنی ماںکے پیٹ کی تھیلی میںپڑاباہرکانظارہ کرتارہتاہے صرف بوقت ضرورت باہرنکلتاہے وگرنہ وہیں دبکارہتاہے اوراس دوران وہ خارجی خوف وخطرسے کوئی سروکار نہیںرکھتا،اپنے ماحول کی نزاکت سے بے پرواہ ماںکے سایہ میںمگن رہتاہے،بالکل یہی معاملہ یونانی سائنس کاہے۔ آیونی مفکرین نے مشاہدۂ فطرت کے زورپرجس آزاد فکر کا آغاز کیاتھا،اس کااصل مقصودکائنات بحیثیت کل کی تفہیم حاصل کرناتھا۔البتہ اس کے ٹھوس اورمقرون زمینی مسائل محض ضمنی نوعیت کے حامل تھے جن سے کبھی واسطہ پڑتا تو ان کے فوری حل ڈھونڈنے کے تقاضے بھی سر اٹھاتے۔گویا فلسفیانہ مسائل سے نبردآزما ہوتے وقت جوجزوقتی مسائل سرراہے درپیش آ جاتے،ان سے نپٹنے کے لیے سائنسی فکرکی ضرورت لاحق ہوتی مگر اس کی جو بھی کارسازی ہوتی فلسفیانہ طرز ِاستدلال کے چھپرچھایاتلے ہوتی۔جیسے جیسے فلسفیانہ نظریات نے تنوع اورگیرائی اختیارکی، اسی حساب سے ان سے سائنسی خیالات نے اثرقبول کیا۔مثلاً سوفسطائیہ اورسقراط سے ماقبل فلسفی خارجی کائنات کی قطعی علّت ڈھونڈنے میںمصروف رہے،نتیجتاًسائنس کوموقع ملاکہ اجرامِ سماوی کے رازبے نقاب کرسکے، لیکن سوفسطائیہ اورسقراط کے عہدمیںفلسفے کارخ کائنات کے مطالعے سے ہٹ کرانسان کے باطن کی طرف مڑ گیا۔نتیجتاً سائنسی لحاظ سے اجرامِ سماوی کا مشاہدہ وقت کاضیاع سمجھاجانے لگا۔لیکن سوفسطائیہ اورسقراط کے مابعدفلسفیوںکے فلسفیانہ نظریا ت نے پھر سے خارجی کائنات کے مطالعے کواپنے قیاس میںجگہ دی توسائنس کوایک نئے اندازسے اجرامِ سماوی سے فکرو نظرکرناپڑی نتیجتاً ارسطوکوزمین سے آسمان تک ارتقاء کاایک مضبوط سلسلہ چلتاہوامحسوس ہوا۔لیکن اس سب کے باوجود،ایلیائی مفکرین پارمینڈیزاورزینونے دنیائے رنگ و بوکو حسّی تجربات کافریب اور واہمہ ثابت کرنے کا جوفلسفہ پیش کیا،اس سے سائنس کی قدر و منزلت کے گراف کاگرجاناکوئی بعیدازقیاس نہ تھا۔حسّی مشاہدات سے مشروط ہونے کے باعث سائنس اعلیٰ درجے پر فائز نہیںرہ سکتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ یونانی فکرکے قریباًایک طویل دورانیے تک سائنس کوصحیح معنوںمیںقدرومنزلت نصیب نہ ہوسکی ۔دوسری طرف ،دنیائے رنگ وبوکے مسائل خواہ کس قدر واہمے ہی کیوںنہ ہوں،اپنے حاجات اورتقاضے تورکھتے ہیں،زندگی سے ان مسائل کابراہ راست واسطہ ہے،اس لیے ان سے گریزبھی توممکن نہیں۔اس حوالے سے سائنس کسی نہ کسی طوراپناسلسلہ آگے بڑھاتی رہی اگرچہ اس کے اپنے تشخص اوررنگ روپ کی کوئی واضح سبیل نہ بن پائی تھی لیکن پھربھی فلسفے کے دھندلکوںمیںگم سائنس اپناسفرجاری رکھے ہوئے تھی۔ بادی النظرمیںایسے لگتاہے کہ سائنسی حقائق میںایسی کوئی بات نہیںہوتی جواچنبھے والی ہو، نئی ہو،مثلاًارشمیدس نے سونے کی ملاوٹ معلوم کرنے کاجوحل بتایا،اس سے پہلے بھی چیزیںپانی میںڈوبتی تھیںاوران کے ڈوبنے سے زائد پانی چھلکتاتھا۔یقیناظاہری طورپراس میںکوئی نیاپن نہیںمگر سائنسی نقطۂ نگاہ سے خاص بات یہ تھی کہ ارشمیدس سے پہلے کبھی کسی نے اس حقیقت سے کسی ایسے اصول کو متعین نہیںکیاتھاجواس جیسی آئندہ صورت حال پرہو بہو منطبق ہو سکتاہو۔ایسے اصول،اصل میںوہ ’’یوریکا‘‘تھے، وہ نئے انکشافات تھے جن کی بدولت بالآخر سائنس کے خدوخال نمایاںہوئے۔حقائق نئے نہیںہوتے،ان سے ماخوذ اصول نئے ہوتے ہیں اور انہی اصولوںکی کھوج سائنس کافریضہ ہے۔موت جیسے عالمگیراصول کے بارے میںاقبال کاشعر ہے: ایک ہی قانونِ عالمگیر کے ہیں سب اثر بوئے گل کا باغ سے، گلچیں کا دنیا سے سفر ۷۵ لاریب،ایسے عالمگیر قوانین کی دریافت میںسائنس مصروف ہے مگریونانی سائنس کی مشکل یہ رہی کہ وہ فلسفے کے حصارسے کبھی نکل نہیںپائی۔اس کی وجہ ہیلانی فکرکاوہ تعصب تھا،جویونانی فلسفے کومقامِ سند نصیب ہونے پرقائم ہوا۔ مثال کے طورپرجامدکائنات کے یونانی تصورنے طویل صدیوںتک انسانی ذہنوںکوشل کئے رکھا۔نتیجتاًسائنس کاجو بھی نظریۂ حرکت یاارتقاء پیش کیا گیا، اسے جامدکائنات کے خاکے میںاتاراگیا۔جیسے دیموقریطیس کے مادی ذرات بدیہی حرکت رکھنے کے باوجودمادی ذرات کے رہین منت رہے یعنی مادے کو حرکت سے نہیںبلکہ حرکت کو مادے سے ماخوذثابت کیاگیا۔انکساغورث کامادہ اورناؤس،دونوںاپنی جگہ جامد تصورات ہیں اگرچہ ناؤس کی کشش سے مادہ متحرک ہوتاہے۔بعینہٖ ارسطوکے ہاں خالص صورت سے خالص مادہ تک پھیلی فکری کائنات جامدہے اگرچہ اس میں صورت سے مادہ تک ارتقائی منازل کاایک کامل خاکہ موجودہے۔قصہ مختصر،یونانی فلسفے کے فیصلہ کن عالمگیری قوانین کے دعوؤںکے سامنے سائنس کی کبھی پیش نہ چلی کہ ایسے قوانین کی بات بھی کرے۔یہی وجہ ہے کہ سائنس کاعمل دخل صرف اس حدتک تھاجہاںتک مقرون مسائل کاحل مطلوب ہوتاجیسے سائنس کے حساب سے اس زمانے میںیہ کافی تھاکہ اہرامِ مصرکی بلندی ناپ لی جائے،اجرامِ فلکی کی کچھ مناسب سی پیمائشیں کرلی جائیںیاان کے بارے میںچند پیشین گوئیاںکی جاسکیں،کھرے کھوٹے سونے میں تمیز کرلی جائے،طبی عوارض کے موزوںعلاج ڈھونڈلیے جائیں یا پھر کچھ میکانکی آلات بنالیے جائیں تاکہ امور ِحیات کی مشکلات آسان ہوسکیں۔لیکن سائنس کے ایسے عالمگیر قانون جو فلسفیانہ تعقلات کی تیاری میںمعاون ثابت ہوسکتے ہوںیاجن کی مددسے فلسفیانہ نظریات کوتقویت حاصل ہوسکتی ہو، فلسفے کی طفیلی حیثیت رکھنے کے باعث اس کے سزاوارنہ ٹھہرائے گئے۔ دوسرے لفظوںمیںتمام تریونانی عہد میںفلسفے کے زیراثرسائنسی نظریات تووضع کئے جاسکتے تھے مگرسائنس کے زیراثرفلسفیانہ نظریات کو وضع کرنے کاتصور سرے سے مفقودتھا۔ اس وجہ سے دوباتیںہوئیں۔اولاًاسی ہندسی وریاضی طریقہ ٔاستخراج کی طرزپرسائنسی امور کونپٹایاجاتا،جس کی بدولت فلسفیانہ تصورات وضع کئے جاتے۔ ثانیاًان کی سائنس کبھی اس قابل نہ ہوپائی کہ مذہبی عقائدسے اُلجھ سکے۔ اس طرح اوّل الذکرکی وجہ سے سائنس کی ترقی محدود اور مسدودرہی۔جبکہ مؤخرالذکرسے سائنس مذہبی عقائدیا مابعدالطبیعی نظریات کی نہ ہی تعریف و توصیف کرپائی اورنہ ہی تکذیب وتعذیب۔ایک حساب سے دیکھاجائے تو یونانی سائنس پراقبال کے یہ مصرعے اچھی چوٹ ہیں۔ جس سے دلِ دریا متلاطم نہیں ہوتا اے قطرۂ نیساں وہ صدف کیا، وہ گہر کیا ! بے معجزہ دنیا میں ابھرتی نہیں قومیں جو ضربِ کلیمی نہیں رکھتا وہ ہنر کیا! ۷۶ بہرطور،یونانی سائنس کی حالت جیسی بھی تھی،مسلم ومغربی فکرونظرکے ادوار سے پیشتریہ خیال عام ہوچکاتھا کہ ارسطواوراس کے معتقدین کافکری مزاج سائنسی ہے۔کیونکہ ان کے فلسفیانہ استدلال کادرس یہ تھاکہ حقیقت کوباطن میںنہیں،خارج میںڈھونڈاجائے تاکہ معلوم شدہ معلولات سے نامعلوم علتوںکاسراغ لگایاجاسکے۔ اس حوالے سے اگرچہ ان کی فکری کاریگری میں کسی حدتک مغربی دور کی میکانکی سائنس کے تخم موجودتھے اوردوسرے، ان کے ہاں سائنسی جستجو کا کافی ذوق وشوق پایاجاتاتھاجیسے کہ ارسطوکے بارے میںمشہور۷۷ہے کہ اسے مطالعۂ حیوانات ونباتات کے بارے میںخصوصی دلچسپی تھی۔اس نے دنیائے سائنس کی تاریخ میںپہلی مرتبہ ایک ایسا وسیع وعریض چڑیاگھر(zoological garden)تعمیرکروایاجس کے لیے یونان اورایشیاکے قریباًایک ہزار آدمیوںکو اس کام پرمامور کیا گیا کہ وہ اپنے اپنے علاقوںسے مختلف النوع جانور اورپودے وہاںبھجوائیں۔وہاںان جمع شدہ جانوروںاورپودوں کی حدبندی کی جاتی تاکہ ان کے امتیازی خصائص کے مطالعے میںآسانی رہے۔مگراس کے باوجودیہ بات فراموش نہیںکی جاسکتی کہ اس زمانے کی سائنسی تحقیق اورجستجو استخراج کے فلسفیانہ لبادے میں ملفوف تھی،نیزاپنے تہذیبی تعصبات کاشکار تھی اور صبرآزما عملی تجربات سے بڑی حد تک عاری تھی۔اس لیے ارسطوکی فکر کا سائنسی مزاج اس سائنسی روح کو بیدار نہ کر سکا جسے مسلمانوں اور بعدازاں مغربی سائنسدانوںنے محسوس کیا۔تاریخی سیاق وسباق میں دیکھاجائے تویہ اکیلے ارسطوکانہیںبلکہ اس زمانے کی مذہبی فضاکاکمال تھاکہ لوگوںکے ذہنوںپرارسطوکی فکری دھاک بیٹھ چکی تھی اوراس کی استنادیت اس قدر مستحکم ہوچکی تھی کہ اگرکسی عالم کواپنی بات ثابت کرناہوتی تواس کے لیے لازم تھا کہ وہ پہلے اسے ارسطوکے کسی قول کے حوالہ سے پیش کرے اورپھراپنے منطقی دلائل سے اس کی تطبیق کرے۔یہی معاملہ ،سائنسی موضوعات کے ساتھ درپیش تھا۔لیکن تاریخ گواہ ہے کہ مسلم اور مغربی مفکروںنے اس کی مسلط شدہ فکری اجارہ داری کو توڑڈالا۔مثلاًارسطوکاخیال تھاکہ خلاکو عملی طور پر پیدا کرنامحال ہے کیونکہ قدرت خلاکی دشمن ہے۔ لیکن مغربی سائنسدان تاری سیلی نے شیشے کی نلی کے اندر حقیقی خلاپیدا کرکے دکھایا۔اسے ذہن میں رکھتے ہوئے گوریکے نے دنیا کا پہلا ہواپمپ ایجاد کیا،اسی طرح،پہلے سپلان زینی (Spallanzani)اورپھر لوئیس پاسچر نے ارسطوکے نظریۂ از خود حیات (abiogenesis)کے برخلاف نظریۂ حیات درحیات (biogenesis) کو تجربا تی طورپرسچ ثابت کر دکھایا اورجیسا کہ باب اوّل میںذکرہو چکاکہ گیلی گلیلیونے کئی حوالوںسے ارسطوکے خیالات کو باطل ثابت کیا۔اس نسبت سے،مسلم مفکرالبیرونی کی ژرف نگاہی کااندازہ ہوتا ہے، کیونکہ اس نے ارسطوکے متعلق برملا کہا تھا،’’زیادہ ترلوگوںکے ساتھ مشکل یہ ہے کہ وہ ارسطوکے خیالات کاحدسے زیادہ احترام کرتے ہیں۔ان کا خیال ہے کہ ارسطوکے خیالات میںغلطی کاکوئی امکان نہیںحالانکہ وہ خوب اچھی طرح جانتے ہیںکہ ارسطونے صرف اپنی بساط بھر ہی نتیجے اخذکئے ہیں۔‘‘ ۷۸ باب دوم میںبعنوان’’ارسطواوراقبال‘‘یہ صراحت کی جاچکی ہے کہ اقبال کوارسطوکے خیالات اس نسبت سے پسندتھے کہ اس نے عالم محسوسات کی طرف نگاہ التفات کی اور رموز کائنات کوجاننے کی خاطرمشاہدے اور غوروخوض کی ضرورت پرزور دیا۔مگرساتھ ہی اس کے استخراجی قیاس کے طور طریقے کو ناپسند کیا جو سائنسی لحاظ سے بھی معیوب تھا۔ مجموعی طور پر اقبال نے ایک مصرعے میںجہاںیہ تلقین کی، ’زمانے باارسطوآشناباش‘ یعنی تھوڑی دیرکے لیے ارسطوسے دوستی رکھو،وہاںاگلے ہی ایک مصرعے میںیہ تنبیہ بھی کی،’ولیکن ازمقام شاںگذرکن‘یعنی ان کے مقام سے آگے نکل جاؤ۔۷۹اقبال کی نظرمیں،سائنس کامقصدصرف اتناہی نہیںکہ حسی استقراء کے سہارے زمان ومکاںکی پابند کائنات کی حقیقت کوڈھونڈے،یعنی اس کی پہنچ یہیںتک نہیں، اس کا ہدف اس سے کہیںآگے ہے۔جس کی طرف اس کی حکمت اشارے کرسکتی ہے اگرچہ خود سے نہیںپہنچ سکتی کیونکہ اس کے لیے بہرطور وجدانی استقراء درکارہوتا ہے۔ اس پیرائے میں، ارسطواتنا توسمجھ گیاکہ حقیقت کی جانب بڑھنے کے لیے عالم محسوسات کامشاہدہ صراط مستقیم ہے مگر وہ یہ نہ جان سکا کہ اس کاقیاسی استدلال اس رستے پرچلنے کے لیے کارسازنہیں۔یہی وجہ ہے کہ سائنس کے لیے اس نے جوبھی قیاس کیا،وہ بعدازاں تجرباتی منہاج کی رُوسے غلط ثابت ہوا۔ اس سبب سے ،اقبال کے نزدیک،سائنس کامقام اس قدر بلند ہے کہ اس کی بدولت اس نہج کی پیش قدمی بھی کی جاسکتی ہے جہاںانسان شب وروزکے چکرسے آزاداس حکمت کوتلاش کرسکتاہے جوزمانے کے آغازوانجام سے بے نیازہے۔ بآں عقلے کہ داند بیش و کم ر ا شناسد اندرونِ کان و یم را جہانِ چند و چوں زیرِ نگیں کن بگردوں ماہ و پرویں را مکیں کن و لیکن حکمتِ دیگر بیاموز رہاں خود را ازیں مکرِ شب و روز مقام نو بروں از روزگار است طلب کن آں یمیں کو بے یسار است ۸۰ وہ عقل جوبیش وکم جانتی ہے اورجوکان اورسمندرکے اندرون کوپہچانتی ہے۔(تواس کی مددسے) اس جہانِ چندو چوں کو اپنے تحت لااورآسمان کے ماہ وپرویںکی گھات میںبیٹھ۔لیکن اورحکمت بھی سیکھ اوراپنے آپ کو رات دن کے فریب سے رہا کر۔ تیرا مقام (اس) کائنات سے باہرہے،تووہ یمین طلب کرجویسارکے بغیرہے۔ .2مسلم سائنس اورفکرِاقبال:(Muslim science & Iqbal's thought) فکراقبال میںمسلم سائنس کی پرکھ چارجہتوںمیںنمایاںہے۔اولاً،اس نے کس حدتک یونانی سائنس کے اثرات کوقبول کیا۔ثانیاًاس نے مطالعۂ فطرت کی قرآنی دعوت سے کس قدرفیض پایا۔ثالثاًاس نے مغربی سائنس کی نمو اورتشکیل میںکس درجے کاساتھ دیااوررابعاًاس نے ترقی کی جس راہ کواپنایاتھا،اسے تنزل اور زوال کیوںپیش آیا،نیز اسے وہی مقامِ عروج پھرسے کبھی نصیب نہ ہوسکا، آخر کیوں؟ ذیل میںانہی جہتوںکوبالترتیب پیش کیاجاتاہے۔ جہاںتک مسلم سائنس پریونانی اثرات کاتعلق ہے تواس ضمن میںاقبال نے اس تاریخی حقیقت سے اعراض نہیںبرتاکہ یونانی علوم کے تراجم اورشرحوںکی بدولت مسلمانوں نے خوب علمی استفادہ کیااوران میںگہری دلچسپی دکھائی جواس حدتک بڑھی ہوئی تھی کہ خوداس کے الفاظ میں،’’یونانی فلسفہ،جو ایران کی سرزمین کے لیے ایک بدیسی پودا تھا بالآخر ایرانی تفکر کا ایک جزولاینفک بن گیااورمابعدکے مفکرین جن میںناقدین اوریونانی حکمت کے حامی بھی شامل تھے ارسطواور افلاطون کی زبان بولنے لگ گئے تھے۔‘‘۸۱ مگردوسری طرف اقبال نے یہ حقیقت بھی سامنے رکھی ہے کہ یونانی حکمت کی طرف رغبت رکھنے میں بلاشبہ مسلمانوں سے کوتاہیاں ہوئیں۔ لیکن اس کے باوجودانہیںان کی کورانہ تقلید کا سزاوار ٹھہرانا سراسر زیادتی اورناانصافی ہوگی۔اقبال مسلم مفکرین کے متعلق اپنے مؤقف کے بارے میں لکھتاہے’’ان کی تاریخ فکراس مجموعہ خرافات میںسے نکل آنے کی ایک مسلسل کوشش ہے جویونانی فلسفہ کے مترجمین کی لاپروائی کانتیجہ تھا،ان کو ارسطواورافلاطون کے نظامات فلسفہ پرازسرنوفکرکرناپڑا،گویاان کی شرحیںانکشاف کی کوششیں تھیں نہ کہ تشریح وتوجیہہ کی۔‘‘۸۲ فلسفیانہ رنگ میںرچی بسی یونانی سائنس مسلمانوںکے ہاںایک نئے افق سے بیدار ہوئی، جہاںنہ توعقل اورحواس کی تفریق کاثنوی میلان موجودتھااورنہ ہی استخراجی استدلال کی رنگ بازیاں۔وہاںموجودتھاتوصرف قرآن کااستقرائی پیغام جونہ توسقراط کی طرح جہان ِرنگ وبوکے مطالعہ کوضیاع ِوقت قراردیتاہے اورنہ ہی افلاطون کی مانند اسے واہمہ یاالتباس ِفکرٹھہراتاہے۔وہ توحقیرسمجھے جانے والے جاندارتک کے باریک بیںمشاہدے سے سبق اٹھانے کادرس دیتا ہے۔ اس معاملے میںاقبال کے مؤقف کی اچھی خاصی وضاحت باب دوم میں ہو چکی ہے،لہٰذااس سے صرفِ نظرکرتے ہوئے یہاںاس کے اس شعرپراکتفاکیاجاتاہے جس میںقرآن کی دعوت کا اظہار ملتا ہے: رکھتے ہو اگر ہوش تو اس بات کو سمجھو تمشہد کی مکھی کی طرح علم کو ڈھونڈو ۸۳ مسلم مفکرین نے قرآن کی اس دعوت سے بھرپورفیض اٹھایا،نتیجتاًوہ بڑے فخرسے کہتا ہے۔ ’’یہ مسلمان ہی تھے جنہوںنے صحیح معنی میں’’علمی روح‘‘پیداکی اورعلوم وفنون کوان کے اصل راستے پر ڈال دیا۔علم کا وجود جسے آج کل سائنس کہتے ہیں،انہیںکامرہون ِمنت ہے۔‘‘۸۴ اقبال نے کئی بارایسی مثالیں۸۵پیش کی ہیںجن کی روسے بخوبی اندازہ ہوتاہے کہ مسلم مفکروںکے نظریات یونانی مفکروںکی بہ نسبت صحیح معنوںمیںسائنسی نوعیت کے حامل ہیں مثلاً وہ تاریخی حوالوںسے وضاحت کرتاہے کہ بطلیموس سے لے کر نصیرالدین طوسی تک ریاضی کے میدان میں جمودکی کیفیت طاری تھی جسے پہلی بارطوسی نے توڑنے کی کوشش کی۔پھرالبیرونی نے کائنات کے وجودکوساکن تسلیم کرنے سے انکارکیا۔اس کاخیال تھاکہ کائنات کوئی بنی بنائی شے نہیںبلکہ بننے کے عمل سے گذررہی ہے اورالخوارزمی نے ریاضی سے الجبرے کی طرف قدم بڑھایاتواس نے عدد کے تصورکونسبت سے بدل دیا۔مطلب یہ ہے کہ ریاضی میں اعدادکی قیمتیںپہلے سے متعین ہونے کی بناء پرساکن ہوتی ہیںجبکہ الجبرے میںجوعلامتیںاستعمال کی گئیںان کی قیمتیںپہلے سے متعین نہیںہوتیں۔سادہ لفظوںمیں،ریاضی کی قیمتیںثوابت ہوتی ہیںاس لیے سکونی کائنات کی غمازہیں، اس کے برعکس الجبرے کی قیمتیںمتغیرات ہیں،لہٰذاحرکی کائنات کی عکاس ہیں۔سکونی سے حرکی کائنات کی طرف تبدیلی کااشارہ مسلمانوںکی سائنسی اپج کی عمدہ دلیل ہے۔ یہی نہیںریاضی کے ساتھ ساتھ مسلمانوںنے ارتقاکاجونظریہ پیش کیاوہ بھی حرکی کائنات کے حق میںجاتاہے۔مثلاًمشہورمسلم مفکرجاحظ نے سب سے پہلے ان تبدیلیوںکی طرف اشارہ کیا جوایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونے کی وجہ سے جانوروںمیںرونماہوتی ہیں۔الجاحظ کے اس تصورکوالبیرونی کے ہم عصرمفکرابن مسکویہ نے اسے باقاعدہ ایک نظریے کی شکل دی ۔اس نے اپنی تصنیف الفوزالاصغرمیںزندگی کی ارتقائی سطح کے چاردرجے گنوائے: .1معدنیات :اس مرحلے میںچیزیںحرکت کی صلاحیت سے عاری ہوتی ہیں۔یعنی ان میںپودوںاور جانوروں کی طرح خودحرکت پذیری نہیںپائی جاتی۔ .2نباتات :اس مرحلے میںتھوڑی بہت حرکت کی طاقت موجودہوتی ہے جیسے پودے بیجوں کے ذریعے اپنی نوع کا سلسلہ جاری رکھتے ہیں۔ بڑھتے ہیں۔ شاخیںنکالتے ہیں۔ تناور درخت کی صورت اختیارکرجاتے ہیں۔ان میںسے کھجور کی بعض خصوصیات بالخصوص حیوانی زندگی کے خصائص سے ملتی جلتی ہیں۔ .3حیوانات :اس مرحلے میںچیزیںشعوری طور پر حرکت کرنے کے قابل ہوجاتی ہیں۔ چوپایوںمیںگھوڑا اور پرندوںمیںعقاب حرکت کے اعلیٰ ترین نمونے ہیں۔بندرارتقاء کے اس مقام پرانسان سے محض ایک درجے پیچھے ہے۔ .4انسان :اس مرحلے میںزندگی کے اندرشعوری حرکت کے ساتھ قوت ِتمیزاورروحانیت کے اعلیٰ پیمانے نمودار ہوتے ہیں۔انسان وحشت کے دائرے سے نکل کرتہذیب وتمدن کے دائرے میںداخل ہوجاتاہے۔ کائنات کے حرکی تصورکوجہاںابنِ مسکویہ نے نظریۂ ا رتقاء میںپیش کیاوہاںابنِ خلدون نے اسے نظریۂ تاریخ میںثابت کیا۔اس سے پہلے زمانے کے بار ے میںیونانیوںکے ہاں دوقسم کے تصورات مروج تھے: .iزمانے کی کوئی حقیقت نہیں۔یونانی مفکرین میںسے زینواورافلاطون اس خیال کے پیروکارتھے ۔ .iiزمانہ ایک دائرے میںگردش کرتارہتاہے۔یونانی مفکرین میںسے ہراقلیتوس اوررواقی اس خیال کے نمائندے تھے۔ قرآن پاک کی رُوسے ابنِ مسکویہ اورالبیرونی زمانے کی حرکت پذیری اورارتقائی حالت کا نظریہ متعارف کراچکے تھے لیکن ابنِ خلدون نے اسی نظریے کوتصورتاریخ پراس طرح منطبق کیاکہ محولہ بالایونانیوںکے دونوںخیالات کا استرداد کرڈالا۔زمانے کے بارے میںاس نے یہ قضیہ پیش کیاکہ زمانہ ایک مسلسل اورمستقل حرکت سے عبارت ہے جومتواترتبدیل اورتخلیق ہوتا رہتا ہے۔ اورجہاںتک زمان ومکاںکے مسئلہ کاتعلق ہے ،وہاںاقبال نے فخرالدین عراقی اورخواجہ محمدپارساکے نظریات کا حوالہ دیاہے۔خصوصاًعراقی کے حوالے سے وضاحت کی ہے کہ زمان و مکاں کے مختلف نظامات ہیں،جیسے ایک زمان ومکاں مادی اشیاء سے ،دوسراغیرمادی اشیاء سے اور تیسرا ذاتِ الٰہیہ سے وابستہ ہے۔جیسے جیسے کسی ہستی کی نفسانی قوت میں کمی یازیادتی ہوتی ہے اسی حساب سے اس کازمان ومکاں متعین ہوتاہے۔اگرچہ عراقی نے زمان ومکاں کاایک حرکی تصور پیش کیا ہے مگراقبال کوافسوس ہے کہ وہ ریاضی سے نابلدہونے کی وجہ سے یونانیوںکے سکونی نظریہ کائنات کے تاثرسے نہ نکل سکااورنہ جان سکاکہ کائنات اضافہ پذیرہے۔اقبال کی پیش کردہ ان مثالوں کے علاوہ بھی اس کے ثبوت پچھلے صفحات میںبیان کردہ مسلم جائزے میں ڈھونڈے جاسکتے ہیں۔ یہی نہیں،یونانی اورمسلم سائنس کے مابین تفاوت کواجاگر کرتے ہوئے بریفالٹ نے جوتجزیہ پیش کیاہے،اس کی رُوسے بھی اقبال کے مؤقف کوتائیدحاصل ہوتی ہے۔ اس نے لکھاہے،’’اس میں شک نہیںکہ یونانی اپنے علوم کومرتب کرتے تھے،عمومیت دیتے تھے، نظریات قائم کرتے تھے لیکن صابرانہ تحقیق و تفتیش منت علم کی فراوانی،سائنس کی باریک بینی، مفصل وطویل مشاہدات اورتجربی تجسس،یہ سب لوازم علمی یونانی مزاج سے قطعاًبعیدتھا۔قدیم کلاسیکی دنیامیںصرف ہیلانی اسکندریہ کے اندرسائنسی عمل کی سعی کاسراغ ملتاہے۔ہم جس چیز کو سائنس کے نام سے موسوم کرتے ہیںوہ ان اُمورکانتیجہ ہے کہ تحقیق کی نئی روح پیداہوگئی۔تفتیش کے نئے طریقے معلوم کئے گئے۔تجربے ،مشاہدے اورپیمائش کے اسلوب اختیارکئے گئے۔ ریاضیات کو ترقی دی گئی یہ سب کچھ ایسی شکل میں نمایاںہوا جس سے یونانی بالکل بے خبر تھے۔ دنیائے یورپ میں اس روح کو اوران اسالیب کورائج کرنے کاسہراعربوںکے سر ہے۔‘‘۸۶ اس حوالے سے اقبال مسلمانوںکوباورکرانے میںحق بجانب ہے کہ انہیںکسی قسم کی احساسِ کمتری میں مبتلا ہونے کی ضرورت نہیں،سائنس انہی کی عنایات میںسے ہے جس سے مغرب نے جلاپائی ہے۔اقبال کہتاہے۔’’ہم کیوں نہیںسمجھتے،یہ اسلام ہی تھاجس نے وہ شرائط بہم پہنچا ئیں جن پرعلم کی ترقی اور نشوونما کا دارومدار ہے۔ یہ شرائط کیا تھیں؟ مشاہدہ، معائنہ، فکرونظر،محسوس اورمرئی کااحترام،تجربہ،تحقیق،تفتیش،حقائق کااثبات،ان کامطالعہ اوران کی مسلسل تاویل و تعبیر ! یہ شرائط پوری نہ ہوتیںتوعلم کاراستہ دیرتک رُکارہتا۔‘‘۸۷ اسی تسلسل میںدیکھاجائے توبریفالٹ کایہ کہناٹھیک ہے کہ ’’عربوںکے علم ہیئت نے کوئی کوپرنیکس یانیوٹن پیدانہیںکیالیکن انہوںنے جوکچھ کیااس کے بغیرکوپرنیکس اور نیوٹن پیداہوہی نہ سکتے تھے۔‘‘مزیدبرآںاسی کی وضاحت کرتے ہوئے اس کایہ کہنابھی درست ہے کہ’’سائنس پر عربوںکاجواحسان ہے وہ چونکادینے والے اکتشافات یاانقلابی نظریات پر مشتمل نہیںبلکہ سائنس اس سے بھی زیادہ عربی ثقافت کی ممنون ِاحسان ہے کیونکہ دراصل سائنس کو اسی ثقافت نے جنم دیا ہے۔‘‘۸۸یہاںاقبال کوبریفالٹ سے سوفیصداتفاق ہے کہ موجودہ مغربی سائنس کے منہاج کا کارنامہ مسلمانوںکارہینِ منت ہے اور یہ جومستشرقین کی طرف سے شوروغوغا ہوتارہتاہے کہ موجودہ سائنسی منہاج کاکرتادھرتا راجر بیکن اور فرانسس بیکن ہیں۔صریحاًان کی متعصب سوچ اور علمی بددیانتی ہے ۔وگرنہ حقیقت یہ ہے کہ بزبان اقبال، ’’انگریزی کتابوںمیںہم ہندی مسلمانوں کویہ سکھایاگیاہے کہ منطق استقرائی کاموجدبیکن(Bacon)تھالیکن فلسفہ اسلامی کی تاریخ بتاتی ہے کہ یورپ میںاس سے بڑاجھوٹ آج تک نہیںبولاگیا۔‘‘۸۹ اس کی تصدیق،اقبال کے خطبۂ پنجم میںبریفالٹ کے ان الفاظ سے ہوجاتی ہے،جن کو اس نے بالخصوص نقل کیاہے۔اس نے لکھاہے’’یہ آکسفورڈاسکول میںان کے جانشین تھے جن سے راجربیکن نے عربی اورعلوم عربیہ کی تعلیم پائی۔ لہٰذا تجربی منہاج کی اشاعت پرفخرکرنے کا حق راجربیکن کوپہنچتاہے،نہ کہ اس کے مشہور ہم نام کو۔راجربیکن کی حیثیت اس سے زیادہ نہیں کہ مسیحی یورپ میںاس کا شمارا سلامی سائنس اورمنہاج سائنس کے مبلغین میںہوتاہے۔ وہ یہ کہتے کبھی نہیںتھکاکہ اگراس کے معاصرین کوسچ مچ علم کی تلاش ہے توانہیںچاہئیے عربی زبان اورعربی علوم کی تحصیل کریں۔‘‘۹۰اتناہی نہیں،جہاںتک اس بحث کاتعلق ہے کہ سائنس کاتجربی اسلوب کس کی ایجاد ہے۔اس معاملے میںبریفالٹ نے یورپی مفکرین کی غلط بیانیوںکوبھی بے نقاب کیا ہے۔ اس نے چند مثالوں سے وضاحت کی ہے کہ عربوںکے ہراکتشاف اوران کی ہر ایجاد کا سہرا اسی یورپین کے سر باندھ دیاگیاجس نے پہلے پہل اس کاتذکرہ کیا۔مثلاً’’قطب نما کی ایجادایک فرضی شخص فلیویو گیوجا (آف امالفی) کے سرمنڈھ دی گئی۔الکحل کا موجدولّے نوف کے آرنلڈ کو قرار دیا گیا۔ عدسہ اوربارودکوبیکن یاشوارزکی ایجادبتایاگیا۔‘‘ ۹۱اس سے بڑھ کر اور کیا اعتراف ہو سکتاہے کہ خودایک مغربی دانشور اپنوںکی غلط بیانیوںکاپردہ چاک کررہا ہے۔ سیدنذیرنیازی کابیان ہے کہ اقبال سے انگریز مستشرق جارج سارٹن کے حوالے سے بات ہوئی کہ اس کا مدعاہے کہ تجربی سائنس کے منہاج استقراء کی روایت یورپ کی دریافت ہے اور اس کے پیچھے فرانسس بیکن کی تصنیف نووم آرگینان(Novum Organon)کاہاتھ ہے۔اقبال کو سن کرملال ہوااورجواباًوضاحت کی ’’استقراء کی روایت عالمِ اسلام سے شروع ہوتی ہے۔بیکن نے بے شک اس موضوع پرقلم اٹھایا،لیکن مسلمانوںکی تحریروںسے استفادہ کرتے ہوئے۔ ’نووم آرگینان‘نام ہی کے اعتبارسے ایک نئی منطق ہے لیکن مطالعہ کیجیے تو معلوم ہوگاکہ اس میں ابنِ تیمیہ اورسہروردی کی عبارتیںجوںکی توںموجودہیں۔مصنف نے یہ کیسے کہہ دیاکہ منہا ج استقراء یورپ کی دریافت ہے۔ استقراء اورتجربے کاسہرامسلمانوںکے سرہے۔‘‘۹۲اسی پیرائے میں اقبال نے جابجامثالوں سے نمایاںکیاہے کہ کس طرح مغربی مفکرین نے ابتداًمسلم مفکرین سے استفادہ کیاجیسے: .1جدیدفلسفہ کے بانی ڈیکارٹ(Descartes)نے اپنے جس کارتیسی منہاج (Cartesian method)کوپیش کیا،وہی خیال مسلم صوفی ومفکرغزالی بہت پہلے اپنی تصنیف احیائے علوم میں پیش کرچکے تھے۔ .2موجودہ زمانے میںمشہورمنطقی جان اسٹورٹ مل نے جواعتراض ارسطوکے استخراجی استدلال کی قسم قیاس کی شکل اوّل پرعائدکیاوہ اس سے بہت پہلے مسلم مفکرابوبکررازی کرچکے تھے۔ .3جان اسٹورٹ مل کے فلسفے کے تمام بنیادی اصول شیخ بوعلی کی مشہورکتاب الشفا میں موجودہیں۔ .4البیرونی نے زمان ردعمل(reaction time)اور کندی نے احساس کا ہمہ وقتی مہیج (stimulus)سے متناسب ہونا،جیسے انکشافات کئے جوجدیدعلم النفسیات میںعملاًجس طرح لاگو ہوئے، ان سے بخوبی اندازہ کیاجا سکتاہے کہ مسلمانوںکے تجربی اسلوب نے مغربی اذہان کوکس قدرمتاثرکیا۔ .5راجربیکن کی تصنیف اوپس میجس(Opus Majus)کاپانچواںباب مرا یا (Perspectives)کے بارے میں ہے جوکہ مسلم سائنسدان ابن الہیثم کی بصریات (Optics) کا چربہ ہے ۔نیزاس کی تصنیف پہ ابن ِحزم کے اثرات بھی نمایاںہیں۔ ان مثالوںاوران جیسی بہت سی مثالوںسے،جیسے کہ پچھلے صفحات میں ’مغربی سائنس‘ کے زمرے میںزیربحث آئیں، بالآخر بریفالٹ کی یہ بات سند کو پہنچتی ہے کہ ’’سائنس حقیقت میں دنیائے حاضرپرعربی تہذیب کابہت بڑا احسان ہے لیکن اس کے ثمرات بہت آہستہ آہستہ پختہ ہوئے۔‘‘۹۳اس معاملے میں،اقبال اسی سوچ کامالک ہے۔ یہاںفطری طورپریہ سوال پیدا ہوتاہے کہ مسلمان سائنسی لحاظ سے ترقی کی صحیح سمت میں گامزن ہوچکے تھے، یونانی نابغہ کے کمزوراورناقص پہلوؤںکی کمی کودورکرچکے تھے،قرآنی دعوت کے صراط ِمستقیم سے آشناہوچکے تھے،پھر ان کی سائنسی ترقی ساقط کیوںہوگئی؟بلندی کوچھوڑپستی میںکیوںجاگری؟اقبال نے اپنے افکارمیںجن حوادث کو اس کاذمہ دار ٹھہرایا ہے،وہ حسب ِذیل نظرآتے ہیں: .1اقبال کے نزدیک،’’مسلمانوںپرایک ایساتصوف مسلط تھاجس نے حقائق سے آنکھیں بندکرلی تھیں جس نے عوام کی قوت ِعمل کوضعیف کردیاتھااوران کوہرقسم کے توہم میں مبتلا کر رکھا تھا۔ تصوف اپنے اس اعلیٰ مرتبہ سے جہاںوہ روحانی تعلیم کی ایک قوت رکھتاتھا،نیچے گر کر عوام کی جہالت اورزوداعتقادی سے فائدہ اٹھانے کا ذریعہ بن گیا تھا۔‘‘۹۴ایسے صوفیانہ طریق کی طرف حدسے بڑھاہواجھکاؤسائنسی روح کے لیے بڑاصدمہ ثابت ہوا۔دراصل ضرورت اس امرکی تھی کہ صحیح معنوںمیںصوفیانہ طرزکے مطالعۂ باطن کے ساتھ ساتھ مطالعۂ خارج کابالالتزام اہتمام روا رکھاجاتامگرافسوس،ایک تواعتدال پسندی سے اغماض برتاگیا،دوسرے اس تصوف کی طرف رغبت بڑھی جو فلسفیانہ آمیزش کی حامل تھی،جسے اقبال نے غیراسلامی اثرات کاثمرقراردیاجس کی گذشتہ باب میںتفصیلاًوضاحت کی گئی، بحیثیت مجموعی غیراسلامی تصوف کی حالت روزبروزاس قدرابترہوتی چلی گئی کہ ایساوقت بھی آیاکہ جس کسی کاظاہری حلیہ صوفیوںسے ملتاجلتاہوتااوران جیسے ظاہری طوراطواراوررکھ رکھاؤاختیارکئے ہوتا،اس مشابہت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ سادہ لوح عوام کوبے وقوف بنالیتااورضعیف الاعتقادلوگ اسے ولی یاپیرسمجھ کراپنے سرآنکھوںپربٹھالیتے اور اس کی خدمت کوسعادت جان کرنہال ہوئے جاتے۔اقبال کے اس شعرمیںایسے مسلمانوںکی ذہنیت کی ترجمانی ملتی ہے: گداگر ہو اور بال ہوں سر کے لمبے مسلمان اس کو ولی جانتے ہیں ۹۵ ایسے ولی کوکم فہم مسلمان اپنی جسمانی بیماریوںاورروحانی عوارض کامسیحااورنجات دہندہ سمجھتے۔اس معاملہ میںاس حدتک غلوسے کام لیتے کہ شرک کاشائبہ گذرنے لگتا۔ تصوف کی اس نام نہاد صورت کے بڑے مہلک اورمضراثرات مرتب ہوئے۔اس کی وجہ سے مسجدوںکے مقابلے میںخانقاہوںکاقیام عمل میںآیا،پیری فقیری،مجاوری اورگدی نشینی جیسے رجحانات کوفروغ اور تقویت حاصل ہوئی۔اس سے اورمعاملات میںجوخرابیاںپیداہوئیں،سوہوئیںسائنسی لحاظ سے بہت گزندپہنچا،مثلاً اس حوالے سے بقول ڈاکٹرسعیداﷲ، اقبال نے اس کااظہاران لفظوں میںکیا ہے کہ ’’تصوف نےscientificروح کوبہت نقصان پہنچایاہے۔ڈاکٹرکے پاس نہیں جاتے تعویذ تلاش کرتے ہیں۔گوش وچشم کو بند کرنااورصرف چشم ِباطن پرزوردیناجموداورانحطاط ہے۔‘‘۹۶ .2مسلمانوںکی سائنسی ترقی کوبہت بڑادھچکا یورپ میں اسلام کے سیاسی زوال کی بدولت بھی لگا جو مسلمانوں کے اندرونی تفرقوں،مُورشہزادوںکی حریصانہ چالوں،انگریزوںکی عیاریوں، یورشوںاورمنافقانہ چالبازیوں کی بدولت رُوبہ عمل ہوا۔یہ ایساحادثہ تھاجومیاںمحمدشریف کے لفظوںمیں’’ایسے سیاسی انقلابات کی صورت میںپیش آیا جس کے ہاتھوں شہر کے شہر مسمار ہوگئے، آبادیوں کی آبادیاں موت کے گھاٹ اترگئیں۔ہزاروں کتب خانے نذرآتش ہو گئے، سینکڑوں درسگاہوںاورجامعات کوتالے لگ گئے اورقوموںکی قومیںآزادی کی نعمت سے محروم اورغلامی کی لعنتوںمیںمبتلاہوگئیں،نتیجہ یہ ہواکہ سماجی معائب و خبائث مسلم معاشرے کے رگ وریشے میں سرایت کرگئے۔آ زا د یٔ فکروعمل کا گلاگھونٹ دیا گیا، اہلِ تقویٰ اوراہلِ دانش تصوف کے ویرانوں میںجاچھپے اوران کی اولادرقص، درویشی، مجاوری اور قبرپرستی کے تنگ وتاریک غاروںمیںگرتی چلی گئی۔ایک مملکت عظیم ٹکڑے ٹکڑے ہوگئی جس کاہرٹکڑامعمولی سی ریاستوں میںاورہرریاست طبقوںاورقبیلوں میںبٹ گئی تھی۔امتدادزمانہ کے ساتھ ساتھ روح ملت بیضاء رسومات کی برفانی تنگنائے میںٹھٹھرکررہ گئی،حیات قومی روایت پرستی کے سانچے میںمنجمدہوگئی اور قضاوقدرنے علم کی مشعل نور افشاں کومسلم مشرق کے ہاتھوںسے چھین کر مسیحی مغرب کے ہاتھوںمیںتھمادیا۔جھوٹے اوربے عمل تصوف کے میلان نے مشرق کوسائنسی اعتبارسے مفلس وقلاش بنادیا۔‘‘۹۷اور اقبال کے لفظوں میںیہ سب کچھ ’’ایسے وقت میںرونماہوا جب مسلم حکماء کواس حقیقت کااحساس ہونے لگا تھا کہ استخراجی علوم لایعنی ہیںاورجب وہ استقرائی علوم کی تعمیرکی طرف کسی حد تک مائل ہوچکے تھے۔دنیائے اسلام میںتحریک ذہنی عملاًاس وقت سے مسدودہوگئی اوریورپ نے مسلم حکماء کے غورو فکر کے ثمرات سے بہرہ اندوزہوناشروع کیا۔‘‘۹۸اقبال نے خیال کے اسی احساس کوشعری انداز میں یوں ڈھالا ہے: ہے زمینِ قرطبہ بھی دیدۂ مسلم کا نور ظلمتِ مغرب میں جوروشن تھی مثلِ شمعِ طور بجھ کے بزم ملتِ بیضا پریشاں کر گئی اور دیا تہذیبِ حاضر کا فروزاں کرگئی قبر اس تہذیب کی یہ سرزمینِ پاک ہے جس سے تاکِ گلشنِ یورپ کی رگ نمناک ہے ۹۹ .3تاریخ شاہدہے کہ اسلام کے ذہنی مرکزکوسب سے شدید ضرب سقوط ِبغدادکے سانحہ سے پہنچی جب تاتاریوں کے ہاتھوںمسلم سلطنت تاراج ہوئی۔اس وقت کے قدامت پسند مسلمانوں نے اپنی تمام ترفکری توجہ قوانینِ شریعت کوبدعات سے محفوظ رکھنے کی طرف مرکوزرکھی۔اقبال کے نزدیک۱۰۰ایساکرنے میںوہ یقیناحق بجانب تھے مگر اس کے ساتھ ساتھ وہ یہ نہ سمجھ سکے کہ قوموں کی تقدیراورہستی کاانحصارصرف اس بات پرنہیںہوتاکہ ان کاوجودکہاں تک منظم ہے بلکہ اس بات پرہوتاہے کہ اس قوم کے افرادکی ذاتی خوبیاں کیا ہیں، قدرت اورصلاحیت کیاہے ، دوسرے لفظوںمیںشریعت ِاسلامیہ کی حفاظت کرتے ہوئے ایسی فضابرقراررکھنی چاہئیے جہاںافراداپنی ذاتی صلاحیتوںکو بروئے کارلا کر ایسے نت نئے معیارپیش کرسکتے ہوںجن کی روسے یہ اندازہ ہو کہ فطری ماحول سرے سے ناقابل تغیروتبدل نہیں،مگرمسلم علماء نے ایسی فضاقائم نہ رکھی۔ نتیجتاً ایک طرف اجتہاد کا دروازہ بندکر دیا گیا اور دوسری طرف مسلمانوںکو دیگر علوم میں اپنی عقلی صلاحیتوںکوبروئے کارلانے کی فرصت نہ ملی ۔لہٰذاسائنسی معاملات بھی سرد خانے کی نذر ہوگئے۔ فطرت کی اس ستم ظریفی پراقبال نوحہ کناںہوا: گنوا دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی ثریا سے زمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارا ۱۰۱ کبھی ایساوقت تھا کہ سائنس و ٹیکنالوجی کے خلاف کوئی قدامت پسندمولوی فتوی صادر کرتا تومسلمانوںمیں سے عالی دماغ مفکراس کی خوب خبر لیتے۔ مثلاً مشہور ہے کہ البیرونی کے کسی ہمعصر مولوی نے اس پریہ فتویٰ لگایاکہ اس نے اوقات ِنماز معلوم کرنے کے لیے جوآلہ ایجاد کیا ہے، اس میںبازنطین(Byzantine)جنتری سے مددلی گئی ہے۔البیرونی نے جواب میںبڑے مدلل اندازمیںبگڑکرکہا’’بازنطین توروٹی بھی کھاتے ہیںتوکیاآپ روٹی کے خلاف بھی مذہبی اعتراض کریں گے۔‘‘۱۰۲ مسلم مفکروںمیںسائنسی علم کے محاکمے کے لیے ایسی جرأت کافقدان ہو گیا۔ لہٰذابے جامذہبی فتوؤںاوراعتراضات کے سامنے سائنسی علمیت کوجہالت پر محمول کر دیا گیا۔ اس حساب سے اقبال کا کہنا سچ ہے کہ ’ ’ملا کی نظر نورِ فراست سے ہے خالی‘‘۔۱۰۳ .4سائنسی ترقی کواس وقت زبردست مشکلات کاسامناکرناپڑاجب سقوط بغدادکے بعد تحصیلِ علم کے شیدائی اورسائنسی امورکی ترقی وترویج کی سرکاری سرپرستی کرنے والے حکمران نا پید ہوگئے۔اس کی وضاحت کرتے ہوئے میاںمحمدشریف نے لکھاہے۔’’زوال ِبغدادسے پہلے اسلا م کے اکثراکابرمفکرین یاتوحکومت کے مناسب جلیلہ پرمامور کئے جاتے یا وہ دوسرے طریقو ںسے حکومت کی سرپرستی سے نوازے جاتے تھے۔مثال کے طورپر،الرازی کومتعددشاہی دربارو ں میںرہنے کے مواقع ملے جن میںایک دربارمنصورساسانی کابھی تھا۔ابنِ سینا کو علاء الدو لہ اصفہانی کی سرپرستی حاصل تھی۔ابن مسکویہ عضدالدولہ کاندیم اورخزانچی تھا۔اسی طرح ابن طفیل ابویعقوب یوسف کا وزیراورابن باجہ علی واکی سارا غورسہ کا وزیرتھا۔ابن رشدابویعقوب یوسف کا طبیب تھا اورابنِ خلدون متعدددرباروں میںسفارت ومعتمدی کے عہدوں پر فائز ہوتا رہا۔لیکن جب انقلا بِ دہرنے بغداد کے قصرامارت وشوکت کی اینٹ سے اینٹ بجادی توعلم و فضل ایسے خانہ برباد ہوگئے کہ کسی مسلم حکومت نے نہ توان کے سروںپرہاتھ رکھااورنہ ان کی طرف کوئی التفات ہی کیا۔‘‘ ۱۰۴ لیکن سوال یہ پیداہوتاہے کہ مسلم حکمرانوںنے شاہی سرپرستی سے ہاتھ کیو ں کھینچ لیا؟ اسے سمجھنے کے لیے اقبال کے یہ کم الفاظ ہی بہت ہیں۔’’مسلمان سلاطین کی نظراپنے خاندان کے مفادپرجمی رہتی تھی اوراپنے اس مفاد کی حفاظت کے لیے وہ اپنے ملک کو بیچنے میںپس وپیش نہیںکرتے تھے۔‘‘۱۰۵ظاہری بات ہے،جہاں حکمران خود نفسانفسی اور خود غرضی کا شکار ہوں، وہاںانسانی بھلائی سے منسلکہ سائنسی اُمور جیسے بے لوث معاملات کی قدرافزائی کے مواقع کہاں پنپ سکتے ہیں۔ .5سائنسی ترقی کوایک ضرب مسلمانوںمیںبڑھے ہوئے نفاق سے بھی لگی۔ تاریخ شاہد ہے کہ مسلم علماء کے فرقہ دارانہ جھگڑوںنے یہاںتک طول پکڑاکہ خلفااورسلاطین کے درباروں میںراہ پاگئے۔لاریب،ابتدا میںان کی خوب قدر و منزلت ہوئی اوران کے کام کوبڑھاناسعادت خیال کیاگیا۔مگرجب درباروں میں ریشہ دوانیاں شروع ہوئیںتوان کے اثرات زندگی کے ہر شعبے پرمرتب ہوئے۔ اس سے سائنسی تحریک کوبھی خاصاگزندپہنچا۔تحقیق وتخلیق کی وہ فضاایسی مکدر ہوئی کہ سائنس کی جومشعل مسلمانوںنے روشن کررکھی تھی،وہ غیرمحسوس طریقے سے ان کے ہاتھو ںسے چھن گئی۔تحقیق وتفتیش کے معاملے میںان کی دلچسپیاںاورجوش وخروش کس قدر دھیما اورٹھنڈاپڑ چکاتھا۔اس کا اندازہ محض اس امرسے لگایاجاسکتاہے کہ جب ابنِ خلدون جیسے روشن دماغ محقق کویہ معلوم ہواکہ فرانس میں ایک علمی مرکز کام کررہا ہے،تواس کے دل میں اس مرکزکے بارے میںجاننے کی خواہش ہی بیدارنہ ہوئی۔خود اس نے اپنی بے رخی کااظہاران لفظوں میں کیا ہے’’ہم نے حال میں سنا ہے کہ فرنگیوںکے ملک،بحرروم کے شمالی ساحل کے علاقوںمیں طبیعیاتی فلسفہ کا بڑا چرچاہے۔اس کی تعلیم مختلف درجوںمیںبارباردی جاتی ہے اوران علوم کی تشریح مفصل کی جاتی ہے، ان کے جاننے والے بہت ہیںاورطلباء کی تعدادبھی بے شمار ہے۔ واﷲاعلم۔لیکن ہم اتناجانتے ہیںکہ ان علوم سے ہماری مذہبی معلومات میں کوئی اضافہ نہیں ہوتا۔ اس لیے ان سے دور ہی رہنا بہتر ہے۔‘‘۱۰۶ کہاں مسلمانوںکی یہ علمی روایت تھی کہ علم جہاںسے ملے،حاصل کرلواوران کے شوق کایہ عالم تھاکہ اس کی تلاش میںجندی شاپوراورحران تک جاپہنچے تھے اور کہاں علم سے ایسی بے اعتنائی بڑھی کہ وہ اس کے حصول کی خاطراپنے علاقے سے،ٹس سے مس ہونے کو تیار نہ ہوئے۔ غرضیکہ، مسلمانوں میں تحقیق وتفتیش کی جستجو گھٹتی چلی گئی اوربالآخرایساوقت آیاکہ سائنسی وعلمی لگن قصہ پارینہ بن کررہ گئی۔ مسلمانوںکی ایسی زبوںحالی کو اقبال نے شعروںکی زبان سے اس طرح بیان کیاہے: بدلی زمانے کی ہوا، ایسا تغیّر آ گیا تھے جو گراں قیمت کبھی، اب ہیں متاعِ کس مخر وہ شعلۂ روشن ترا، ظلمت گریزاں جس سے تھی گھٹ کر ہوا مثل شرر، تارے سے بھی کم نور تر ۱۰۷ ٹھیک ہے کہ مسلمانوں کے ہاتھوںعلم وفن کاچراغ نکل گیامگرسوچنے کی بات ہے کہ صدیاں گزرنے کے بعدجب انہیںاپنی کوتاہیوںاورغلطیوںکاشعورہونے لگاتووہ پھرسے اسی سائنسی فکر کے خوشہ چیںکیوںنہ بن سکے جو اصل میںان کی میراث تھی۔ حالانکہ مغرب کی سائنسی ترقی ان کے سامنے تھی جس نے انہی کے اسلاف سے جلاپائی تھی۔اس بارے میںاقبال کی آراء بھی توجہ کی طالب ہیں۔اس کے خیال میں، ایک وجہ تویہ ہے کہ مسلمانوںمیںتحقیقی وتخلیقی صلاحیتیںنہ پنپ سکیںکیونکہ انہوںنے مغرب کی کو رانہ تقلیدپراکتفاکیااوراسی میںبڑائی محسوس کی۔یہاںیہ صراحت ضروری ہے کہ اقبال کے نزدیک،مغربی علوم وفنون سے استفادہ کرنے میںکوئی عیب نہیں، بلاشبہ جدت پسندی خوش آئین بات ہوتی ہے اوراسے اپنانے میںکوئی مضائقہ نہیں ہوتا، مگراس معاملے میںذاتی صلاحیتوں سے کام نہ لینااورمحض غیروںکی کاوشوںسے بہرہ یاب ہونا، کسی طوربھی لائق ِتحسین نہیںہوتا۔زمانے میںصرف اسی کی قدرہوتی ہے جواپنے زور ِفکرپرتحقیق و تخلیق کے جھنڈے گاڑے۔ جو عالمِ ایجاد میں ہے صاحبِ ایجاد ہر دور میں کرتا ہے طواف اس کا زمانہ! ۱۰۸ یقینایہ سچائی جھٹلانے کی نہیں،اس لیے جوبھی صاحب ایجادہوگا،زمانہ اسی کاہوگا۔اس بناء پرسائنسی معاملات کومسلم اورغیرمسلم کی تخصیص میںبانٹنابھی درست نہیں۔البتہ اتناضرورہے کہ کسی بھی قوم کے لیے یہ صحت مندانہ اور مستحسانہ قدم نہیںکہ وہ دوسروںکی نقالی اورسرقہ پرتکیہ کئے رکھے۔اس مناسبت سے اقبال نے مسلمانوںکے شیوۂ تقلید ِفرنگ کوبھانپتے ہوئے یہ خطرہ محسوس کیا: لیکن مجھے ڈر ہے کہ یہ آوازۂ تجدید مشرق میں ہے تقلیدِِ فرنگی کا بہانہ ۱۰۹ اس نے مسلمانوںکے اس طرز ِتقلیدکے بارے میںاظہارکرتے ہوئے مولوی انشاء اﷲ کے نام خط میں بڑے دکھ سے لکھاہے۔’’ہم کتاب کے کیڑے ہیں اور مغربی دماغوںکے خیالات ہماری خوراک ہیں۔‘‘۱۱۰ لیکن ایسا ہوا کیوں؟ فکر اقبال کی روسے،اس کی وجہ یہ ہوئی کہ مسلمان ایک طرف انتھک محنت اورتحقیقی لگن کی عادت نہ ڈال سکے اوردوسری طرف ان میں تقدیر پرستی کا فکری رجحان روز افزوں بڑھتا گیا، اورمجموعی طورپرمسلم معاشرے کی صورت حال ایسی قائم ہوئی جس کے بارے میں اسے کہناپڑا’’جہاںعلم وہنرکاچرچانہیں،جہاںدماغوںسے سوچنے اور غور کرنے کا کام نہیںلیاجاتاوہاںایک فلاسفر،ایک عالم اورایک موجدکس طرح پیدا ہوسکتا ہے۔‘‘۱۱۱ مسلمانوںکاالمیہ یہ ہے کہ انہوںنے غوروفکرکرنابالکل چھوڑدیاہے،زندگی کے تلخ حقائق کا مردانہ وار مقابلہ کرنے سے گریزاںہیں،بالکل ویسے جیسے کوئی شتر مرغ شکاری کودیکھ کراپنامنہ ریت میںچھپالیتاہے۔۱۱۲بحیثیت مجموعی،مسلمانوںکی یہ ذہنیت بن چکی ہے کہ روایات پرزندگی بسرکرناافضل سمجھتے ہیںاوراس نکتہ کونہیںسمجھ پارہے کہ محض اسلاف کے کارناموںپہ تکیہ کئے رکھنا،عزت کانہیں،ذلت کامقام ہوتاہے۔ جینا جو ہے ہمارا وہ ذلت کا ہے جینا ہم نے تو بزرگوں کی عزت ہے گنوائی ۱۱۳ مسلمانوںمیںعلمی تجسس کاجو فقدان ہے اس سے عالم اسلام کا ذہنی انحطاط حددرجہ اندوہ نا ک ہے۔ان میںنہ توعلمی روح باقی ہے اورنہ ہی علم وحکمت سے دلی شغف کی کوئی رمق موجود ہے۔ مغربی تعلیم کے زیراثرجوتھوڑی بہت بیداری معدودے چندمسلمانوںکے ہاںپیداہوئی ہے، اس کا نتیجہ بھی کچھ اچھا نہیں نکلا۔ انہوںنے مغرب کے علم و حکمت سے اچھاتاثرقبول نہیںکیا۔نہ ہی وہ اس کی صحیح روح کوسمجھ سکے ہیںنہ ہی اس کے ماضی،عہدبعہدارتقائ، انقلابات وتغیرات کو جان پائے ہیں۔انہوںنے یاتومغرب کی تقلیدکی ہے یاپھران سے چندایک مستعارلیے ہوئے نظریات کا اعادہ کیاہے۔ حالانکہ مسلمانوں کو اس معاملے میں پیش پیش ہوناچاہئیے تھا۔کیونکہ ان کا علمی ورثہ بڑاعظیم اورقابلِ فخرہے۔مگرافسوس کامقام ہے کہ مسلمانوں کواپنی اس حالت زار کا احساس نہیں ۔ حالانکہ ان کے سامنے کئی ممالک مثلاً جاپان کی مثال موجودہے،جس کی سرے سے کوئی علمی روایت نہ تھی اورجوعلم وحکمت میںمکمل کورے تھے لیکن دیکھتے ہی دیکھتے اس میدان میں اتنے آگے بڑھے کہ اہلِ یورپ کے مدمقابل بن گئے۔کیونکہ ساری بات محنت اورلگن کی ہے۔ وہی لوگ پاتے ہیں عزت زیادہ جو کرتے ہیں دنیا میں محنت زیادہ ۱۱۴ ڈاکٹر پروفیسرمحمدعبدالسلام کی تصنیف سائنس اورجہانِ نومیںاس کی خوب وضا حت ملتی ہے۔وہ لکھتے ہیں کہ ’’جاپان کودیکھئے جس کی آبادی عرب ممالک کی آبادی کے تقریباً برابرہے اور جس نے پیٹر وکیمیکلز مشینوں کے میدان میںابھی صرف بیس برس ہوئے کہ قدم رکھاہے۔پہلے دن سے ہی جاپانیوںنے طے کرلیاتھاکہ وہ ان مشینوںکی برآمد کریںگے۔ چنانچہ پچھلے بیس برسو ں میں ہر تین میںسے ایک مشین برآمدکردی گئی۔جاپانی قوم نے اس کاعزم بھی کر لیاتھااوروہ اس قا بل بھی تھے کہ ایساکردکھائیں۔اگراس کام کے جاننے والے شروع میں وہاںنہ بھی ہوتے تو ایسے لوگو ں کاتیارکرناکچھ مشکل نہیںتھا۔کیونکہ وہاںبنیادی سائنسوں کے جاننے والے لوگ کافی تعداد میں موجودتھے اوریہ معززسائنسدان ایسے قابل تھے کہ وہ بہت آسانی سے ٹیکنالوجی کی تر بیت دے سکتے تھے۔‘‘سوال یہ ہے کہ جاپانی قوم کی ترقی کا راز کیاہے؟پروفیسرصاحب نے اس کی وضاحت میںلکھاہے کہ جب میجی(Meiji) انقلاب آیا تو شہنشاۂ جاپان متسو شیتو(Mutsushito)نے قسم کھائی کہ علم ہرقیمت پراورہرجگہ سے حاصل کیا جائے گاچاہے وہ دنیاکے کسی بھی کونے میں کیوں نہ ہو۔لہٰذا حصول علم کی خاطرجاپانی اٹھے، آگے بڑھے اورپھرچھاگئے۔اس کے برعکس، مسلمانوں نے کیاکیا،اس کی ہلکی سی جھلک برطانوی سفیرولیم ایملٹن(William Amelton)کے ان تاثرات میںدیکھی جا سکتی ہے جواس نے ترکی حکومت کی علمی کارکردگی کے بارے میںدئیے۔وہ لکھتاہے کہ’’کسی کوجہاز رانی کے متعلق کچھ نہیںمعلوم ہے اورنہ ہی وہ مقناطیس کااستعمال جانتے ہیں۔سفرکرنے والوںکی کوئی ہمت افزائی نہیںکی جاتی اور وہ یہ نہیںسمجھتے کہ سفرسے روشن خیالی آتی ہے ۔اس میںکچھ دخل توان کے مذہبی غرورونخوت کوہے اورکچھ دخل اس حسدکوبھی ہے جو بغیر سرکاری کام کے غیرملکیوں سے رابطہ قائم کرنے والوںسے ہوجاتاہے۔اس کانتیجہ یہ ہے کہ ایسے لوگ جن کوہم سائنسدان کہہ سکیں یہاں مفقودہیں۔اگر کوئی توپ ڈھالنے یاجہازبنانے یااسی قسم کے کسی اورکام کے علاوہ بھی کوئی دلچسپی رکھتاہوتوعام طورسے لوگ اسے پاگل سمجھتے ہیں۔‘‘اس کے بعدوہ اپنی تحریرکے خانے پرایک ایسی بات کہتاہے جوبدقسمتی سے آج بھی صحیح معلوم ہوتی ہے،وہ لکھتا ہے ’’وہ ایسے لوگوںسے تجارت کرنا پسندکرتے ہیںجوان کے لیے ایسابیش قیمت سامان مہیا کرسکیںجسے تیارکرنے کی زحمت انہیںنہ اٹھاناپڑے۔‘‘۱۱۵ مسلمانوںکی اس قسم کی ذہنی روش پر اقبال کوسخت ملال ہے۔اس کے خیال میں، مسلمانوںکویہ احساس ہوجاناچاہئیے۔’’اگرکسی قوم کی قوت کا اندازہ کرنا مطلوب ہو تو اس قوم کی توپوں اور بندوقوں کا معائنہ نہ کرو بلکہ اس کے کارخانوں میںجاؤاوردیکھوکہ وہ قوم کہاں تک غیرقوموںکی محتاج ہے اورکہاںتک اپنی ضروریات کواپنی محنت سے حاصل کرتی ہے۔‘‘اس کے نزدیک ، جب تک مسلمان صنعت وحرفت کی تعلیم کے حصول میں اپنی بھرپورتوانائیاںخرچ نہیں کرتے،وہ ذلیل وخوار اور رسوا رہیںگے اورکوئی بعید نہیںکہ ایسی قوم کا نام و نشان صفحہٗ ہستی سے ہی مٹ جائے۔اقبال بڑے دکھ سے لکھتا ہے ’’افسوس ہے کہ مسلمان بالخصوص اس سے غافل ہیںاور مجھے اندیشہ ہے کہ وہ غفلت کاخمیازہ نہ اٹھائیں۔ میںصنعت و حرفت کو قوم کی سب سے بڑی ضرورت خیال کرتاہوں اوراگرمیرے دل کی پوچھوتوسچ کہتا ہوں کہ میری نگاہ میں اس بڑھئی کے ہاتھ جوتیشے کے متواتراستعمال سے کھردرے ہوگئے ہیں ان نرم نرم ہاتھوںکی نسبت بدرجہا خوبصورت اورمفید ہیں جنہوں نے قلم کے سواکسی اورچیزکا بوجھ کبھی محسوس نہیںکیا۔‘‘۱۱۶اورآج کے مسلمان نے قلم کبھی پکڑاہے تواس کی نوک سے تخلیق نہیں، سرقہ نکلا ہے۔ وہ باتوں کادھنی ضرور بن گیاہے مگرعمل سے فارغ ہے ۔اس حوالے سے علمی جستجو اور تجسّس کا فقدان مسلمانوںکولے ڈوبا ہے اور وہ اسلام کایہ سبق بھلابیٹھے ہیںکہ مہدسے لحدتک علم کاحصول جاری رکھو۔ کہاں مسلمانوں کا یہ عالم ہواکرتاکہ بسترمرگ پربھی علم کی تڑپ انہیںستاتی رہتی۔مثال کے طورپر،البیرونی کے بارے میں ان کے ایک ہم عصرکالکھناہے’’جب مجھے معلوم ہواکہ وہ مرض الموت میںمبتلا ہیں تو میںان کی آخری زیارت کے لیے گیا۔ انہیںدیکھتے ہی یہ اندازہ ہوگیا کہ وہ اب زیادہ دیرتک زندہ نہیںرہیںگے۔جب لوگوںنے انہیںمیرے آنے کی اطلاع دی توانہوں نے آنکھیںکھول دیں اورمجھ سے پوچھاکہ تم فلاںہو۔میںنے کہاجی ہاں۔ انہوںنے فرمایا۔ میںنے سناہے کہ تمہیںاسلامی وراثت کے پیچیدہ مسائل کاعلم ہے،اوراس کے بعدانہوںنے ایک مشہورمسئلہ کا ذکر کیا۔ میں نے کہا،’’ابوریحان!اس وقت اس بات کا کیا تذکرہ؟‘‘ اور ابوریحان البیرونی نے جواب دیا۔کیا تمہیںنہیںمعلوم کہ کسی بات کوجان کرمرنااس سے بہتر ہے کہ انسان بغیراس کو جانے ہوئے مرجائے۔دل غمزدہ میں نے ،جوکچھ مجھے معلوم تھا، ان سے بیان کردیا۔اجازت لے کرمیںنے ابھی دہلیزپرقدم رکھاہی تھاکہ اندرسے آہ وبکا کی آوازیں آئیں۔ البیرونی ختم ہو چکے تھے۔‘‘۱۱۷اقبال کورنج ہوتاہے کہ مسلمانوں میں ایسی تڑپ اب نہیںرہی۔اس لیے اس نے انہیںاس خواب ِغفلت سے جھنجوڑتے ہوئے کہاہے: کبھی اے نوجواں مسلم! تدبر بھی کیا تو نے؟ وہ کیا گردوں تھا، تو جس کا ہے اک ٹوٹا ہوا تارا؟ تجھے آبا سے اپنے کوئی نسبت ہو نہیں سکتی کہ تو گفتار، وہ کردار، تو ثابت، وہ سیارا ۱۱۸ دوسری وجہ یہ ہے کہ سائنسی ترقی نے مغرب میںایسے فلسفوںکوجنم دیاجودین سے بے زاری اورالحادپرستی پر منتج ہوئے لہٰذامسلم قدامت پسندعلماء نے جدیدسائنسی تعلیم کومسلمانوںکے لیے رحمت کی بجائے زحمت کاباعث گردانا اوراس کی کھلم کھلامخالفت کی۔نتیجتاًسائنس سے منافرت کا فکری چلن عام ہونے لگااورضعیف الاعتقادلوگوںنے عافیت اسی میںجانی کہ سائنسی علوم کی تحصیل سے کنّی کترائی جائے۔چنانچہ مسلمانوںمیںسائنس کوپذیرائی نہ مل سکی۔ اقبال کواس سے اختلاف نہیںکہ مغربی سائنس کے ملحدانہ خیالات نے انسانی زندگی پرایجابی اثرات مرتب نہیں کئے اورنہ وہ اس قابل ہیںکہ ان کی مدح سرائی کی جاسکے،مگراس کایہ مطلب بھی ہرگز نہیں کہ سائنس کی افادیت کاہی سرموانحراف کردیاجائے۔ضرورت اس امرکی ہے کہ مغرب کے سائنسی منہاج کو ہو بہونہ اپنایا جائے بلکہ اسے اپنے مذہبی ماحول کے مطابق ترمیمات کرکے اختیار کیا جائے۔ گویاسائنسی علوم کاحصول اس طرح ممکن بنایا جائے کہ ان پردینی عقائدکی چھاپ موجودرہے۔مثال کے طورپر،شارح فکراقبال بختیارحسین صدیقی لکھتے ہیں کہ ’’حیاتیات میںیہ پڑھانے کے بعدکہ زندگی زندگی سے پیدا ہوئی یابے جان مادے سے اس کاارتقاء ہوایہ بتانا ضروری ہوگاکہ پہلی مرتبہ زندگی کوخدانے پیداکیا،اس کے بعدزندگی سے زندگی کے پیداہونے کا سلسلہ شروع ہوا ۔ اس عقیدے کے ساتھ جب نظام عصبی کامطالعہ کیاجائے گاتوخداکی قدرت ِکاملہ میںایمان اورپختہ ہوگااور قوانین قدرت آیاتِ الٰہیہ بن کرابھریںگے‘‘۱۱۹جن کے بارے میںخوداﷲکافرمان ہے کہ اس میںبہت سی نشانیاں ہیں ان لوگوںکے لیے جوعقل سے کام لیتے ہیں۔(دیکھئے،۱۶:۱۰-۱۲ ، اوردیکھئے،۳۰:۲۱-۲۴) دوسرے لفظوںمیںسائنسی تعلیم وتحقیق کومذہبی تعلیم وتربیت کے ساتھ ہم آہنگ رکھاجائے توسائنس کا مطالعہ ملحدانہ نہیںرہتا،موحدانہ خیالات کی آماجگاہ بن جاتاہے اوریہی وہ لطیف نکتہ ہے جسے مسلمان محسوس نہیںکر پائے اورسا ئنسی ترقی میںاپناکھویاہوامقام بحال کرنے میںناکام رہے۔اقبال کی حساس طبیعت کو مسلمانوںکی ناکامی بری طرح کھٹکتی ہے،جسے اس نے شعری روپ میںمجسم کیاہے۔ مگر وہ علم کے موتی، کتابیں اپنے آبا کی جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سیپارا ۱۲۰ .3مغربی سائنس اورفکراقبال: (Western science & Iqbal's thought) اقبال کے فکری تعمق سے مغربی سائنس کاجوبنیادی خاکہ ابھرتاہے اس میں یونانیوںکاثنوی رجحان اورمسلمانوں کا استقرائی میلان ملتاہے۔ان کی قدرے وضاحت ضروری ہے۔جیسے کہ یونانی استدلال کے عنوان سے باب دوم میں تفصیلاً دیکھاگیاکہ یونانی فکرکاثنوی رجحان ذہن اور مادے کے تصورات سے ہویدا ہوا اور اس قدر قوی ثابت ہوا کہ اس کی مناسبت سے عقل اور حواس،روح اورجسم،دین اور دنیا،کلیسااورریاست جیسے وثنی نظریات نے فروغ پایا۔ جہاں تک سائنس کامعاملہ ہے،وہ دوربہت توجہ کاطالب ہے،جب ایک طرف عیسائی مذہب کازمین المرکز نظریۂ کائنات اور دوسری جانب سائنس کاشمس المرکزنظریۂ کائنات اپنی اپنی جگہ بناچکے تھے۔ ان کے باہمی نزاع سے اہل مغرب کے ذہنوںمیںیہ عقیدہ راسخ ہوگیاکہ دین پاک ہے،مقدس ہے اوردنیاناپاک ہے،غیرمقدس ہے،اس لیے مغرب کے سائنسی علمبرداروں نے یہ طے کرلیا کہ ضروری ہے دینوی اوردنیاوی معاملات کوایک دوسرے سے الگ تھلگ رکھا جائے، ان کوباہم ملانے کی کوشش بہت غلط بات ہوگی۔جونہی یہ بات ان کی سمجھ میںآگئی انہوںنے اپنی توجہ مذہبی اورسائنسی مسائل کے مابین نزاع سے ہٹالی اورانہیںآب بند خانوںمیںبانٹ کرسائنسی تحقیق وتفتیش میںمگن ہوگئے۔ اس اعتبا ر سے،ان کامؤقف تھاکہ مشاہدۂ کائنات کاخداسے کیا تعلق؟یہ مسئلہ سائنس کاہے،مذہب کانہیں۔ابتداً مغربی سائنس طبیعی احوال کے مشاہدات وتجربات تک محدودرہی مگرجوںجوںان کی روسے عالمگیرنوعیت کے قوانین وضع کئے گئے ایک وقت ایسا بھی آیاکہ ان کی مددسے ایسے ایسے فلسفے تراشے گئے، جن کی روسے سائنس مابعدالطبیعی اسرار و ر مو ز کے عقدے کھولنے کی بھی کلید قرارپائی۔کبھی مذہب اورسائنس کے ثنوی رجحان میںمذہب کا پلڑا بھاری تھا، پھر سائنس نے سبقت حاصل کرلی۔یقیناًیہ مغربی سائنس کی فتح تھی اورمذہبی ضعیف الاعتقادی کی شکست۔ ا قبا ل کے نزدیک، مغرب کاالمیہ یہ ہے کہ وہ یہ سمجھ ہی نہیںسکے کہ مذہب اور سائنس کوآب بند خانوں کی طرح، نہیںبانٹا جاسکتا۔دراصل،دونوںکی منزل مقصودایک ہے اگرچہ ان کے منہاجات ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ دونوںکی آرزوہے کہ محسوسات ومدرکات کی چھان پھٹک کرتے ہوئے حقیقت کی تہہ اورکنہ تک پہنچیں۔فرق صرف اتناہے کہ سائنس حقیقت کواس کے خارجی اوربیرونی کردارکی رعایت سے،جب کہ مذہب اس کی داخلی اور اندرونی ماہیت کی مناسبت سے جاننے پہ مصرہے۔۱۲۱ازروئے اسلام،حقیقت اپنے داخلی اورخارجی پہلوؤںپہ محیط وحد ت کی حامل ہے اورثنویت سے کلیتاًپاک ہے۔حقیقت کی صداقت وحدت ہے توپھرثنویت کا شائبہ کیوںپیداہوتا ہے؟ اقبال نے اس کے جوازمیںیہ مؤقف۱۲۲سامنے رکھاہے کہ انسانی فکر کے عمل کی مجبوری یہ ہے کہ وہ دوئی کا متقاضی ہے،نفس ِمدرکہ اور وجودمدرکہ میںتمیزکھڑی کر دیتا ہے جس سے ذہن اورمادے کی ثنویت کوتقویت ملتی ہے اوراس عالم رنگ وبومیں رہتے ہوئے یہ امرمسلمہ معلوم ہونے لگتاہے کہ ثنویت اصل حقیقت ہے۔حالانکہ فکری ژرف نگاہی سے کام لیا جائے توثنویت کی وقعت وحدت کے محض داخلی وخارجی اظہارکی رہ جاتی ہے اوربس۔یونانی حکماء کی غلطی یہ ہے کہ وہ فکر انسانی کے عمل کی پیداکردہ ثنویت کوحاصل کل سمجھ بیٹھے ہیں۔باب دوم کے آخرمیںاس کی وضاحت پہلے ہی کی جاچکی ہے جہاںاقبال نے بالخصوص پروفیسراڈنگٹن کی تصنیف کے ایک اقتباس۱۲۳ کی رُوسے یہ بتانا چاہا ہے کہ انسانی ذہن اپنے عمل مدرک میںزمان ومکاں کے سانچے وضع کرلیتا ہے جس میں مادے کا ایسا تصور ابھرتا ہے جو وقفوں، نقطوں، لمحوں، آنوں، زمانوں اورجگہوںمیںمنقسم کیاجاسکتاہے اورجس میں میکانکی و تعلیلی قوانین کاسلسلۂ عمل چلتاہوامعلوم ہوتاہے جومادے کی ایسی تقطیرپہ منتج ہوتاہے جوثنویت کے تصورکوابھارتاہے۔جسے بالآخربدیہی سندبخش دی جاتی ہے۔ جب تک مغربی مفکرین نے میکانکی وتعلیلی طرزکی سائنسی فکرپرکماحقہ تکیہ کئے رکھا، یونانی ثنویت اس میں شامل رہی،لیکن جب سے میکانکیت مخالف سائنسی فکرنے زور پکڑا ہے، اقبال کے مطابق،اب یہ سمجھنا دشوار نہیںرہا کہ فکری طورپرمیکانکی سائنس کواس کے بدیہی مقام سے ہٹا دیاجائے توبآسانی سمجھ میں آسکتاہے کہ فطرت میں ثنویت کودخل نہیں۔مثلاًپلانک کے نظریۂ کوانٹم۱۲۴سے واضح ہواہے کہ ایٹمی جوہرمکاںمیںکسی تسلسل کے ساتھ اپنا راستہ طے نہیںکرتابلکہ بصورتِ زقندمشہودومعدوم ہوتارہتاہے،اس وجہ سے جوہرمکاںکے اس معروف تصورسے آزاد ہے جس میں حرکت کے لیے تسلسل کا عنصر مکاں کے وجود کی دلیل سمجھا جاتا رہا ہے۔ ثانیاً، میکانکیت مخالف سائنس کی رُوسے ایٹمی جوہرکوئی شے نہیںرہا بلکہ اعمال کامجموعہ بن کررہ گیا ہے۔ یعنی اس کی حقیقت برق آلودشے کی نہیںرہی بلکہ وہ خودبرق بن گیاہے۔۱۲۵اس کاسہراآئن سٹائن کے سَربندھتاہے جس نے اس نقطۂ نظرکونظریۂ اضافیت کے تحت بیان کرکے مادے کے قدیم تصورکوبدل کے رکھ دیاہے۔کبھی مادے سے مرادایسی شے لی جاتی تھی جوزمان میںثابت قدم ہو اور مکاں میں حرکت پذیر ہو۔لیکن اب نظریۂ اضافیت نے زمان کو زمان و مکاںکی اکائی میں مدغم کردیاہے۔ جہاںمادہ باہم مگرحوادث کامحض مجموعہ بن کررہ گیاہے۔یہاںاقبال نے وائٹ ہیڈ (Whitehead) سے اتفاق کیاہے کہ ’’عالم فطرت کوئی ساکن شے ہے نہ کسی غیرمتحرک خلامیںواقع،بلکہ حوادث کی ترکیب جس کی نو عیت ایک مسلسل اورتخلیقی حرکت کی ہے،مگرجس کو فکر الگ تھلگ سکنات میںتقسیم کردیتاہے اور جن کو ایک دوسرے سے جو نسبت ہے اس سے زمان و مکاںکے تصورمتشکل ہوتے ہیں۔‘‘۱۲۶ اس پیرایے میںدیکھاجائے تومیکانکیت اورمیکانکیت مخالف سائنس کافرق یونانی ثنویت کے اقرار اور انکارپرمنحصرہے۔جب تک مادے اورذہن،زمان اورمکان جیسے قدیم تصورات بدیہیات سمجھے جاتے رہے، اس کے تحت میکانکی سائنس پنپتی رہی۔لیکن جب ان بدیہی تصورات کوتجربات کے نئے زاویوںسے پرکھا گیا تومیکانکی سائنس کا تعمیرکردہ قلعہ مسمار ہوگیا۔ المختصر، جب تک بدیہیات تجربات کی پہنچ سے باہررہے،مستند ومصدقہ سمجھے جاتے رہے۔جونہی تجربات کی زَد میںآئے،ان کا استناد جاتا رہا۔میکانکیت سے میکانکیت مخالف طرز سائنس کی فکری تبدیلی استقرائی استدلال کی شاندارکامیابی ہے۔ یہاںغورطلب نکتہ یہ ہے کہ مغرب کویونانی علوم وفنون منتقل کرنے والے مسلمان تھے جب کہ ان کے ہاں ثنویت کاتصورسرے سے معدوم ہے۔جس کا اندازہ اقبال کی اس مثال سے لگتا ہے جواشاعرہ کے نظریۂ جواہرکے نقاد ابنِ حزم کی طرف سے پیش کی گئی ہے۔اس نے کہا۱۲۷ہے کہ اصطلاح قرآنی میںعمل تخلیق اورشے مخلوق،میںکوئی فر ق نہیں۔اس سے لامحالہ شے اعمال کا مجموعہ متصورہوتی ہے جس کااظہارالبتہ جواہرکی صورت میںہورہا ہے۔ اس کی یہی بات میکانکیت مخالف سائنس کے نظریات سے بھی ثابت ہورہی ہے۔ اس مقام پرفطری طورپرسوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مسلمانوںکے اس رجحان کومیکانکیت مخالف سائنس اب پہنچ رہی ہے،یہ خیال اہل مغرب کے ہاںاس وقت جا گز یں کیوںنہ ہواجب وہ مسلمانوںکے استقرائی میلان کواختیارکررہے تھے؟اس کی وجہ یہ ہوئی کہ ازمنہ وسطی میں کلیسا کے پادریوںاورمغربی سائنسدانوںکے مابین جس شمس المرکزی نظریۂ کائنات پرجھگڑابڑھا،اس کے متعلق مسلما نوںنے کوئی تحقیق وتفتیش نہ کی ،ان کے ہاںسورج کے مشرق سے مغرب کی طرف طلوع وغروب ہونے کابادی النظرتصورہی مروج تھا،ثانیاً بقول ڈاکٹر سی۔اے۔قادر،یہ بات قابل غوراورقابل ذکربھی ہے کہ’’مسلمانوں کے ہاں سائنس اور ان کے مذہب میںلبھی تصادم نہیں ہوا۔‘‘۱۲۸اورپروفیسرمحمدعبدالسلام کے لفظوں میں، ’’پوری اسلامی تاریخ میں ایک بھی ایسا واقعہ نہیںملتاجس میںکسی سائنسدان کوعیسائی دنیاکے گلیلیو کی طرح اپنی سائنسی تحقیقات کی بناء پرمسلسل اذیت کاشکارہونا پڑاہو۔‘‘۱۲۹یہ مسلم معاشرے کا وصفِ رواداری تھاجس کی بدولت سائنسی تحقیقات کے لیے کسی کو طعنہ وتشنیع کانشانہ نہ بنایا گیا۔ جہاںتک مطالعۂ فلکیات کاتعلق ہے اس کاایک بہت بڑافائدہ یہ تھا کہ اس کی مدد سے قبلے کی صحیح سمت متعین ہوسکتی تھی۔ویسے بھی سیاروںکی حرکات وپیمائش کے لیے فلکی جدول تیار کرنا، فلکی مشاہدات کے لیے رصدگاہیں تعمیر کرانا،قطب نما اوراصطرلاب ایجادکرنے،ایسی تحقیقات و ایجادات تھیںجن کامذہب اورسائنس کی مناقشت سے کوئی سروکارنہ تھا چونکہ مسلمانوںکوکسی ایسے نزاع کاسامنانہ رہا،اس لیے اہل ِمغرب مسلمانوںکی اس حکمت کونہ پہنچ سکے جس کے متعلق اقبال نے کہاہے کہ ’’دراصل علم کی جستجوجس رنگ میںبھی کی جائے،عبادت ہی کی ایک شکل ہے اور اس لیے فطرت کا سائنسی مشاہدہ بھی کچھ ویساہی عمل ہے جیسے حقیقت کی طلب میںصوفی کاسلوک وعرفان کی منزلیں طے کرنا۔‘‘۱۳۰ اقبال کی نظرمیںمذہب اورسائنس میںکسی قسم کااختلاف ہوہی نہیں سکتا کیونکہ اس کے خیال میں،’’سائنس کاموضوع بحث ہونے کی حیثیت سے فطرت کا وجود دراصل ایک مصنوعی چیز ہے جس میںیہ مصنوعی کیفیت اس وجہ سے پیداہوتی ہے کہ سائنس اس کے ایک چھوٹے حصے کا انتخاب کرتی ہے تاکہ پوری صحت کے ساتھ اس کامطالعہ کر سکے۔جوںہی سائنس کے موضوع کو مکمل انسانی تجربے کے زیراثرملاحظہ کیاجاتاہے تواس کی مکمل نوعیت یک لخت بدلی ہوئی معلوم ہوتی ہے لیکن مذہب چونکہ حقیقت کلی کاطلب گارہے اس لیے ان معطیات کی شیرازہ بندی میںجو انسانی تجربوں اور مشاہدوںنے بہم پہنچائے ہیں،ایک مرکزی مقام حاصل کرتاہے۔اس لیے مذہب کوحقیقت کے جزوی نظریوںسے کوئی خوف نہیں۔‘‘۱۳۱ چونکہ مغربی مفکریہ نکتہ سمجھنے سے عاجز رہے،اس لیے ان کے ہاں، یونانی ثنویت کاتصورپورے طمطراق سے موجودرہا۔جس کی وجہ سے اہل مغرب کی طرف سے مذہب اورسائنس میں کھینچی گئی حدِفاصل بڑھتی چلی گئی اورپھرایساوقت بھی آیاجب میکانکی سائنس کے ثمرات سے متاثرہو کرفرائڈ۱۳۲جیسے مفکرنے مذہب پر شدید وار کیا اوریہ تصورابھارنے میںکوئی کسرنہ چھوڑی کہ مذہب انسان کامن گھڑت افسانہ ہے اورخودانسان کی اپنی حیثیت کائنات کے اندرایک معمولی کل پرزے کی ہے۔اس کی اصل حقیقت یہ ہے کہ وہ اپنے ذہن کے نہاں خانے یعنی لاشعور میںاُبلتی ہوئی جبلتوںاورخواہشوں کااسیرہے،ان ہی کی بدولت اس کی زندگی کے اچھے برے روّیے تشکیل پاتے ہیں۔اس کاخمیرمادے سے اٹھاہے اس لیے مرنے کے بعداسے دوبارہ اسی کی طرف پلٹناہے۔ لیکن زندگی بھر موت کے انجانے خوف اور قدرتی آفات کے ڈرسے وہ اُخروی زندگی اورکسی ماورائی الوہی ہستی کی موجودگی کے واہموں میں مبتلا رہتاہے۔اختلالِ ذہنی کی وجہ سے وہ پوری زندگی اس جھوٹی انا میں بسر کر دیتا ہے کہ وہ اشرف المخلوقات ہے۔ اقبال فرائڈکی تعلیمات سے اتفاق نہیں رکھتا۔سب سے پہلے وہ اس کے مرکزی خیال ۱۳۳ کومختصراًواضح کرتاہے کہ انسان اپنے ماحول سے توافق وتطابق کے دوران طرح طرح کے مہیجات قبول کرتاہے اورپھران کے زیرِاثر رفتہ رفتہ ایک ایسے مقررہ نظام ایجاب کاعادی ہوجاتاہے جس کی پیچیدگی میںبعض تحریکات کوقبول کرلیاجاتاہے اوربعض کو مبطون (repressed)کر دیاجاتا ہے۔مبطون تحریکات ذہن کے لاشعورمیںدبکی رہتی ہیںاورکسی مناسب موقعے کی منتظررہتی ہیں تاکہ ادراکی شعور میںابھرسکیں۔مبطون تحریکات کاانعکاس انسانی افعال کانقشہ بگاڑکے رکھ دیتا ہے جس سے انسان کے خیالات مسخ ہوجاتے ہیں۔رنگ برنگے خواب،نت نئی خیالی صورتیں اور ذہنی خلل نمودارہونے لگتے ہیں۔انسان ان تصورات اور طور اطوار کو تراشتا ہے جسے وہ اپنے فکرکے ارتقائی عمل میںبہت پیچھے چھوڑچکاہے۔بعینہٖ مذہب ایک افسانہ ہے جومبطون تحریکات کی وجہ سے انسانی ذہن کے قرطاس پررقم ہوا۔گویااس کا مطلب یہ ہواکہ مذہب انسانی ذہن کا حسین تصوراتی پرستان ہے جس میںانسان اپنے سخت وسنگین مصائب سے بچنے کی پناہ ڈھونڈتا ہے۔ دوسرے لفظوں میںانسان اپنی زندگی کوخوشگوارطریقے سے بسرکرنے،اپنے وجودکوخارجی ماحول میںقابلِ برداشت بنانے اور فطرت کی خرابیوںاورآفتوںپہ غالب آجانے کی آس پوری کرنے کے لیے کسی ماورائی الوہی ہستی کاتصورگھڑلیتاہے۔ ایساتصور اس کی تکمیلِ خواہش کا تو آئینہ دار ہو سکتاہے مگراس کی تصدیق زندگی کے درپیش معروضی حقائق ومسائل سے نہیں ہوتی۔ اقبال کی رائے میں،فرائڈکے اس نظریے کوتعمیمی اصول جان کرمذہب کی ہرقسم پر عائد نہیں کیا جاسکتاکیونکہ مذہب میکانکی سائنس سے یکسر مختلف ہے۔ یہ نہ طبیعیات ہے نہ کیمیاکہ ان علوم کی طرح حقائقِ فطرت کی ترجمانی علت ومعلول کے رنگ میںکرتاپھرے۔دراصل،فرائڈکی مشکل یہ ہے کہ وہ ہمیشہ انفس اورآفاق کوسائنس کے میکانکی قوانین کی بندش میںجکڑادیکھتاہے جب کہ اقبال انفس اورآفاق کے قوانین میںایسی تفریق روارکھتاہے جسے بالآخرمیکانکیت مخالف سائنس کی طرف سے تقویت حاصل ہوتی ہے اورجومذہبی واردات سے محسوس ہوتی ہے۔فرائڈاوراقبال کے اس نقطۂ نظرکا فرق،اقبال کے اس شعرسے بخوبی سمجھ میںآتاہے: کافر کی یہ پہچان کہ آفاق میں گم ہے مومن کی یہ پہچان کہ گم اس میں ہیں آفاق ۱۳۴ فرائڈنے زمان و مکاںکی دوئی میںجہاںانسان کودرجۂ اشرف المخلوقات سے گرایا، وہاں اقبال نے زمان و مکاںکی اکائی میںاسے گرنے سے بچالیا۔ سائنسی تناظرمیںدیکھاجائے تواقبال نے انسان کے اس عظیم المرتبت مقام کوشاعرانہ انداز میںبخوبی عیاں کیاہے،اپنی شعری تصنیف پیام مشرق کی نظم ’’محاورہ مابین خد اور انسان‘‘ میں انسان کے منہ سے کہلوایاہے: تو شب آفریدی چراغ آفریدم سفال آفریدی ایاغ آفریدم بیابان و کُہسار و راغ آفریدی خیابان و گلزار و باغ آفریدم من آنم کہ از سنگ آئینہ سازم من آنم کہ از زہر نوشینہ سازم ۱۳۵ تونے رات بنائی میںنے چراغ بنایا۔تونے مٹی پیداکی میں نے اس سے پیالہ بنالیا۔ تو نے صحرااورپہاڑاورجنگل پیداکئے میںنے کیاری اور پھلواری اورباغ بنائے،میںوہ ہوں جو پتھر سے آئینہ بنالیتاہوں۔میںوہ ہوںجوزہرسے مشروب (پینے کی چیزیں ) بنا لیتاہوں۔ سائنس انسانی عزم وہمت اورمصمم ارادے کے زورپروجودمیںآئی ہے جس کی بدولت انسان اپنی پوشیدہ اورخوابیدہ صلاحیتوںکوبروئے کارلاکرخداکی اضافہ پذیرکائنات کے عمل ِتخلیق میںتعمیری حصہ ادا کرتا ہے ۔ مغربی سائنس نے اس سلسلے میںاچھی خاصی پیش رفت دکھائی ہے اور سائنسی سفر کومحض مطالعۂ کائنات سے وسیع کرکے تسخیر کائنات تک لے گئی ہے۔یعنی مغربی سائنس نے نہ صرف فطرت کے قوانین کو ڈھونڈ نکالاہے بلکہ ان پراپنے فن و ہنر سے قابو پانا بھی سیکھ لیا ہے۔ اس سلسلے میںاقبال کے حضوراس نشست کاتذکرہ کرناخالی ازد لچسپی نہ ہوگاجس میں بقول سید نذیر نیازی روزبروزبڑھتی ہوئی آبادی کامسئلہ زیربحث تھا۔جب پوچھا گیا ’’اگر انسان مرض پرغالب آ گیا تو کیااس طرح وہی حالات پیدانہیںہوجائیںگے جن کی طرف مالتھس (Malthus) نے اشارہ کیا ہے۔‘‘۱۳۶ اس کا نظریہ تھا کہ دنیاکی آبادی برابربڑھ رہی ہے اوراس لیے ایک وقت آئے گاجب یہ ساراکرہ ٔارض بھی اس کے لیے ناکافی ہوگا ۔ لہٰذااس کی ابھی سے پیش بندی کرلینی چاہیے۔ اقبال کاجواب تھاکہ’’اس صورت میںانسان ستارو ںکارخ کر سکتاہے ستاروںتک پہنچناناممکن تو نہیں۔‘‘جواباً استفسارکیاگیاکہ ’’اس خلائے محض سے انسان کاگذرکیسے ہوگاجو ہماری زمین اور دوسرے سیاروںکے درمیان واقع ہے۔‘‘اس کے جواب میںانتہائی بصیرت افروز دلیل سننے کوملی کہ ’’یہ امرمشکل ضرورہے لیکن فاصلوںکی تسخیرسرے سے ناممکن نہیں۔اس کاکوئی نہ کوئی ذریعہ دریافت ہوجائے گا۔ایسا ذریعہ جوابھی تک ہماری فہم سے پوشیدہ ہے ۔قرآن کریم کی رُوسے ایساہونابہرحال ممکن ہے۔‘‘۱۳۷نیازی صاحب کے مطابق ، یہاں اقبال کااشارہ قرآن کی سورہ الرحمان کی اس آیت کی طرف تھا،’’اے گروہ جن وانس اگرتم زمین اور آسمانوںکی سرحد و ں سے نکل کربھاگ سکتے ہوتوبھاگ دیکھو۔نہیںبھاگ سکتے اس کے لیے بڑازورچاہئیے ۔ ‘‘ (۵۵:۳ ۳ ) اقبال کامحولہ بالابیان چہارشنبہ ۹مارچ ۱۹۳۸ء کو ریکارڈ میں لایا گیا اور دنیا میںروس کا پہلا خلانورد،یوری گیگارین(Yuri Gagarin)۱۲اپریل ۱۹۶۱ء میںخلاء کو جا پہنچا اور پھر ۱۹۶۹ء میں امریکی خلابازنیل آرم سٹرونگ (Neil Armstrong)کی قیادت میںانسان چاندکی سطح پرجا اترا۔ سائنس دانوںکی اس کامیاب فتح مندی سے تسخیرکائنات کے بارے میں اقبال کے فکرکی بلندپروازی کااندازہ ہوتاہے۔۱۳۸بیشک انسان کے اشرف المخلو قا ت ہونے کی یہ بھی ایک دلیل ہے کہ وہ فطرت پرتسخیرحاصل کرنے کی قابلیت رکھتاہے۔اسی لیے اقبال کاانسان کو باور کرانا صحیح ہے۔ فطرت کو خرد کے رُوبرو کر تسخیر مقام رنگ و بو کر بے ذوق نہیں اگرچہ فطرت جو اس سے نہ ہو سکا، وہ تو کر! ۱۳۹ اگرچہ مغربی سائنسدانوںنے اس ضمن میںایک حدتک کامیابی حاصل کرلی ہے لیکن پھربھی یہ بات بھولنے کی نہیں کہ ان کی اس کامیابی کے پیچھے مسلمانوںسے حاصل کردہ استقرائی منہاج کاہا تھ ہے جس کااچھاخاصا ذکر گزشتہ صفحات میں کیا جا چکاہے۔یہاںبطورجملۂ معترضہ ایک وضاحت ضروری ہے کہ محترم سیدعلی عباس جلالپوری نے اقبال پریہ اعتراض اٹھایا ہے کہ اس نے اسلاف پرستی اورتقلیدآباء پربے جازوردیاہے اور اس طرح مغربی سائنس کی تحقیق و تفتیش کو گزند پہنچایا ہے۔ جلالپوری صاحب کے الفاظ میں’’پرانی کتابوںمیںجدیدنظریات کاکھوج لگانافعل عبث ہے۔اس سے خوداطمینانی اورفخربے جاکی پرورش ہوتی ہے اورلوگ عظمت ِرفتہ کے تصور میںاس درجہ مگن رہتے ہیں کہ علمی تحقیق کو غیر ضروری سمجھنے لگتے ہیں۔ہمارے ہاںاس بات کی ذمہ داری اقبال پرعائد ہوتی ہے۔‘‘۱۴۰ مزید براں ،ان کی رائے ہے کہ اقبال جیسے’’مسلمان اہل ِفکرو نظرکی نگاہیں حال اور مستقبل کے تقاضوں کا سامنا کرنے کی بجائے ماضی بعیدکے دھندلکوں میں کھوکررہ گئی ہیں۔ نتیجتاً وہ’’کیسے اچھے دن تھے‘‘کے مغالطہ فکری میںمبتلاہو گئے ہیں اورہر وقت قرون ِرفتہ کے تصورمیں مگن رہتے ہیں۔‘‘۱۴۱حاصل کلام یہ کہ اقبال عہدِ ماضی (nostalgia)کا شکار ہے اور مغربی فکرکی ترقی اور تحقیق سے قطعی بدظن ہے۔لیکن فکر اقبال کا عمیق مطالعہ اس اعتراض کے حق میںنہیں جاتا کیونکہ اولاًاقبال نے مسلم اسلاف کے کارناموںکے گن اس لیے نہیںگائے کہ وہ موجودہ مسلمانو ںکو ماضی کے سنہری دنوں میںمست رکھناچاہتا ہے،اس کامقصدصرف اتناہے کہ موجودہ دورکے مسلمان بزرگوںکی علمی و عملی خدمات سے تحریک حاصل کریں اوراپنا کھویا ہوامقام دوبارہ حاصل کرسکیں۔سوچنے کی بات ہے کہ جس مفکر کے دوٹوک الفاظ یہ ہوں،’’ایک دوسری بات جس پر میںزوردیناچاہتا ہوں وہ ہماراانکشافِ ماضی ہے۔ میں ان لوگوںمیںسے نہیںہوںجوصرف اپنے ماضی سے محبت کرتے ہیں۔میں تومستقبل کا معتقد ہوںمگرماضی کی ضرورت مجھے اس لیے ہے کہ میںحال کوسمجھوں۔اس بات کی سخت ضرورت ہے کہ سرچشمۂ تہذیب وشائستگی کوسمجھاجائے تاکہ یہ معلوم ہوسکے کہ آج دنیائے اسلام میں کیا ہو رہا ہے یہی وجہ ہے کہ میںچاہتاہوںکہ آپ ماضی کوسمجھیںچونکہ ہم تہذیب وشائستگی کے اصولوںسے ناواقف ہیںاس لیے ہم علوم جدیدہ کو حاصل کرنے میںدیگراقوام سے پیچھے پڑے ہوئے ہیں۔ میں چاہتا ہوںکہ آپ ان گم گشتہ رشتوں پر نظر ڈالیںجن کے ذریعے سے ہم ماضی ومستقبل سے وابستہ ہیں۔‘‘۱۴۲، جو مفکر مسلمانوںکوتلقین کرتاہو،’’گزشتہ، گزشتہ تھا۔ اس پر واویلا مفید نہیں ہو سکتا۔عہدحاضرکے مسلمان علماء زعماء کو’’قدیم و نو‘ ‘ اسی طرح ’’تربیت‘‘ دینا چاہئیے کہ تمام گزشتہ کوتاہیوںکی تلافی ہوجائے اور دنیا پھر اس ’’مسلم‘‘کودیکھ سکے جس کا دنیا میںپیداکرناقرآن کا مقصد، پیغمبراسلام کا مقصد اور خدائے دوجہاں کامقصد تھا۔‘‘۱۴۳اور اتناہی نہیںجس کی یہ نصیحت بھی ہو: باپ دادا کی بڑائی پہ نہ اِترانا کبھی سب بڑائی اپنی محنت کی بدولت چاہئیے ۱۴۴ اورپھرجس کاخیال ہوکہ اگرانسان کالمحۂ حاضرمحض گذشتہ لمحات کی تصویربن کررہ جائے تو اسے زندہ شمارکرنا نامناسب ہوگا۔ اگر امروزِ تو تصویر دوش است بخاکِ تو شرارِ زندگی نیست ۱۴۵ اگرتیراآج گزرے کل کی تصویرہے( تواس کایہ مطلب ہے کہ) تیری خاک میںزندگی کا شرر موجود نہیں۔ ایسامفکرمحض ماضی پرست کیونکرہوسکتاہے؟اورپھراقبال عہدحاضرکے مسلمانوںسے اتنا مایوس بھی نہیںتھا کہ گزرے وقتوںمیںکھویارہتا،اس نے بڑے رجائی اندازمیںکہاہے: نہیںہے ناامیداقبال اپنی کشت ِویراںسے ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی! ۱۴۶ پھریہی نہیں،عہدرفتہ کے گن گاتے ہوئے وہ خودبھی معترف ہے: ہاںیہ سچ ہے،چشم برعہدکن رہتاہوںمیں اہل محفل سے پرانی داستاںکہتاہوںمیں یادِ عہد ِرفتہ میری خاک کو اکسیر ہے میرا ماضی میرے استقبال کی تفسیرہے سامنے رکھتاہوںاس دور نشاط افزاکومیں دیکھتاہوںدوش کے آئینے میں فرداکومیں ۱۴۷ نیز،باعث ِتعجب ہے کہ اقبال شناس ہونے کے باوجود جلالپوری صاحب نے یہ دعوی کر ڈالا ہے کہ ’’مذہب اورسائنس کے میدان عمل جدا جدا ہیں۔ مسلمانوں کی موجودہ معاشرتی زبوںحالی اورعلمی پسماندگی کودورکرنے کے لیے علوم جدیدہ کی تحصیل ازبس لازمی ہے۔‘‘۱۴۸ حالانکہ گذشتہ صفحات میںاقبال کے بیان کردہ نقطۂ نظرکی رُو سے یہ کہاں ضروری ہے کہ علوم جدیدہ کی تحصیل تبھی ہوسکتی ہے بشرطیکہ مذہب اورسائنس کے دائرہ عمل کوعلیحدہ علیحدہ رکھاجائے۔ ایسالگتاہے کہ جلالپوری صاحب جارج سارٹن کے ہمنواہیںجس کامؤقف تھا،’’جب تک یہ خیال قائم ہے کہ اشیائے فطرت کاعلم روحانیات اورسائنس کاالٰہیات کے تابع رہنا چاہئیے، کلام کا وجود بھی قائم رہے گا۔لیکن جوں ہی اس امر کا احساس ہواکہ اس قسم کی تبعیت اورپابندی نہ صرف غیرممکن بلکہ ایک فضول اورلایعنی سی بات ہے ، کلام کا ازالہ خودبخودہوجائے گا۔یہ اس لیے کہ علم وحکمت اورالٰہیات کاتعلق الگ الگ حلقوںسے ہے اورہمیںاس بات کا مطلق خیال نہیں کرناچاہئیے کہ فلسفۂ کلام کی عمارت کس خوبی سے تعمیرہوئی۔‘‘۱۴۹گویااس سے ثابت یہ ہواکہ سائنس اورمذہب کوہم آہنگ رکھنے کی غلطی مغربی مفکروںکی دانست میںتوآگئی مگر مسلم اس سے کور مغزہی رہے اور اقبال کی فکربھی ان سے چنداںمختلف نہیں۔ جلالپوری کا اقبال کے بارے میں ایسی رائے اپنانا صحیح نہیں ۔ کیونکہ اقبال نہ تو قدامت پسند مسلم متکلم کی طرح محض الٰہیاتی مسائل میںغلطاںرہتاہے اورنہ جدید مغربی مفکرکی مانندایسی فطرت پسندی میں الجھا رہتاہے جہاں سے الوہیت کی کرنوںکاکبھی گزرنہیںہوتا۔اس کے خیال میںیہ جائزنہیں ہے کہ علم الکلام کے مسائل کے حلقۂ اثرمیںسائنسی مسائل کی افادیت زائل کردی جائے اورنہ ہی یہ مناسب ہے کہ مغربی سائنس کی ترقی کو دائرہ الٰہیات سے خارج رکھاجائے۔کیونکہ اوّل الذکرصورت میںانسان کی روحانی تشفی تو ہوتی رہے گی مگرمادی ترقی مسدود ہوکررہ جائے گی۔جبکہ مؤخرالذکرصورت میں مادی ترقی کے امکانات تو بڑھتے جائیں گے مگرروحانی تسکین کبھی نہ ہو پائے گی۔اقبال نے اعتراف کیاہے: مشرق خراب و مغرب ازاں بیشتر خراب عالم تمام مردہ وبے ذوق جستجوست! ۱۵۰ مشرق تباہ حال ہے اورمغرب اس سے زیادہ تباہ حال ہے۔ساری دنیا مردہ اورجستجوکے شوق سے عاری ہے۔ اس کے نزدیک،مسلمان کااصل ذوق تواس جستجوکاحامل ہے جوروحانی اورمادی تقاضوں کو ایک ساتھ پورا کرتاہواورجس کاراستہ حضرت محمدﷺنے سجھایا ہے۔اس پیرائے میں یہ ثابت ہوتاہے کہ جلالپوری نے اپنے من پسند نقطۂ نظر کو مد نظر رکھ کراقبال کوخرددشمن قرار دیا ہے۔ اس کے چندمخصوص افکارسے مطلوبہ نتیجہ اخذکرنے کی کوشش کی ہے جودرحقیقت فکراقبال کی غلطی نہیں،بلکہ جلالپوری کی فکرکامغالطہ ٔاستقرائی زقند ہے۔ رڈیارڈکپلنگ(Rudyard Kipling)نے کہاتھا’’مشرق مشرق ہے اورمغرب مغرب اور دونوںکا جوڑمحال ہے۔‘‘۱۵۱سارٹن کی رائے میںیہ خیال درست ہے کیونکہ اہلِ مشرق مغربی مفکرین کی طرح یہ نہ سمجھ سکے کہ سائنس کو الٰہیات سے الگ رکھناضروری ہے ۔اس کے برعکس، اقبال کی فکری بصیرت میںیہ خیال اس لیے درست ہے کہ اہل ِمغرب مشرقی مفکرین کی طرح یہ نہیںسمجھ سکے کہ سائنس کوالٰہیات سے الگ نہیں رکھا جاسکتا۔ ایسے فکری تضادکافیصلہ کیا ہو؟اس کا حل ڈھونڈنااتنادشواربھی نہیں۔غیرجانبدارانہ طور پرغورکیاجائے تو اندازہ ہوتاہے کہ پادریوں اور گلیلیوکے زمانے سے علم الکلام اور سائنس کے مابین نزاع سے جوصورت حال پیداہوئی تھی اس کا حل یہ نہیں تھا کہ مذہب اور سائنس کوایک دوسرے سے جداکردیاجاتا۔ضروری یہ تھا کہ ضعیف الا عتقاد متکلمین کے تعصب کودُورکیا جاتا۔سائنس کی مذہب کے ساتھ ہم آہنگی کی راہ ہموارکی جاتی۔ یقینا یہ کٹھن فریضہ تھا،مغربی مفکرین نے اسے سرانجام دینے کی بجائے فرارکی راہ اپنائی۔ جس کانتیجہ یہ نکلا کہ سائنسی ترقی میں توسرعت آئی مگرانسان کواس کی بہت بھاری قیمت چکانا پڑی، اسے روبوٹ بننا پڑا اور اپنے روحانی وقلبی سکون واطمینان سے ہاتھ دھوناپڑے،جدید مغربی معاشرہ اسی سائنسی سودے کی پیداوارہے جومذہب سے علیحدگی کے باعث وجود میں آیا ہے۔ اس اعتبارسے اقبال کا یہ کہنا بنتا ہے: یورپ میں بہت روشنی ٔ علم و ہنر ہے حق یہ ہے کہ بے چشمۂ حیواں ہے یہ ظلمات! ۱۵۲ یہ مغربی سائنس کاالمیہ ہے کہ ایک طرف اس نے سماجی مساوات کوحاصلِ کل سمجھ کر جدوجہد کی ہے جس سے تخلیقی قوتوںکی حوصلہ افزائی ہوئی ہے، علمیت، تسخیر فطرت، انسانیت، خدمتِ خلق جیسے کارخیرکے جذبوںکوتقویت ملی ہے،اوردوسری طرف اس نے مادیت اورفطرت پسندی کوسب کچھ سمجھ کرروحانیت سے رُوگردانی کی ہے جس سے انسان کا انسان کے ہاتھوںاستحصال ہوا ہے، تہذیبی تفرقے کوہواملی ہے اورانسانیت کومشینی مشن نے روندڈالاہے۔ گویااس نے تن کی دنیاکو خوش اور تروتازہ بنالیاہے لیکن من کی دنیا کی مایوسی اورپژمردگی کودورنہیںکرپائی۔ مغربی سائنس نے انسانی فوزوفلاح اورانسانی تباہی وہولناکی کے بیک وقت سامان مہیا کرکے جودُبدھا قائم کر رکھاہے،اس نے انسان کو گومگوکی ایسی فکری کیفیت میں مبتلا کر دیا ہے کہ نہ جائے رفتن نہ پائے ماندن۔ اقبال کی نظر میں اس کا حل ہے، جب تک مغرب مذہب کو سائنس سے دور رکھے گا،ایسے دُبدھاکا اژدھا اسے نگلتارہے گا۔لہٰذااس سے بچناہے توسائنس کے شید ا ئیوں کو جلدیابدیریہ حقیقت تسلیم کرنا پڑے گی کہ جب تک انسان کی ترقی یافتہ عقل حُبِ الٰہی کے ساتھ شریکِ کارنہیںبنتی،اس کے مسائل اورمشکلات دور نہیں ہو سکتیں۔ یہ عقل‘ جو مہ و پروین کا کھیلتی ہے شکار شریکِ شورشِ پنہاں نہیں تو کچھ بھی نہیں ۱۵۳ سائنس کی مذہب کے ساتھ د ل بستگی صرف اس لیے ضروری نہیں کہ انسان جو رحمان اور شیطان کامرکب ہے، اس کاشیطان قابومیںرہے۔سائنس کی کچھ اپنی قباحتیںبھی ہیںجن کا مداوا صرف مذہب ہی کرسکتاہے۔مثلاًسائنس کا بنیادی فریضہ تجزیہ وتحلیل کرناہے،کُل کواس کے اجزا ء میںبانٹ کران کابالتفصیل مشاہدہ وتجربہ حاصل کرناہے،اس لیے بغرض تحقیق وتفتیش سائنسدانوں نے کائنات بحیثیت کل کو مختلف ومتفرق شعبوںمیںبانٹ رکھاہے جہاںان سے متعلقہ امور میں مصروف ِعمل ہیں۔اس اختصاص کافائدہ یہ ہواہے کہ انسان قریباًہرشعبہ سے وابستہ حقائق سے کافی باریک بیں حد تک آگاہ ہوگیاہے،مگراس کانقصان یہ ہواہے کہ وہ حقیقتِ کلی کی حکمت کوپسِ پشت ڈال گیاہے۔یقیناکل اور اس کے اجزاء کی تفہیم اورافادیت میں بڑافرق ہوتا ہے۔مثال کے طورپراسے یوں سمجھا جاسکتاہے کہ اگرکوئی ماہرحیوانات (Zoologist)کسی مخصوص مینڈک کواپنی تجربہ گاہ میںلے جائے اوراس کی قطع بریدکرے ، تو بتادے گاکہ اس کے ہرجسمانی عضوکی سا خت کیاہے اورفعلیت کیسی ہے لیکن اس تمام ترعمل ِقطع بریدمیںمینڈک کے پورے بدن کی پھرتی اور اس کے حیاتی نظام کی سرگرمی نظرانداز ہو جائے گی۔اسی طرح اگرکوئی ماہر نباتات (Botanist)کسی مخصوص پھو ل کواپنی معائنہ گاہ میںلے جائے تووہ پھول کے حصے بخرے کرکے یہ تو بتادے گاکہ اس میںسبزپتیاں(sepals)کتنی اور رنگین پتیاں(petals)کتنی ہیں۔زیرہ دان (anthers)اور بیضہ دان(ovaries)کس نوعیت کے ہیں،دیگر اجزاء کس قدر اور کیسے ہیں،مگراس سارے تجربے کے بعد پھول کے اجزاء ہی رہ جائیں گے۔ پھول بذاتِ خود غائب ہوجائے گا۔بعدازاںتمام اجزاء کویکجابھی کردیاجائے تو پھول نہیںبن پائے گا۔پھول بننے کا عمل بے حد پیچیدہ ہوتا ہے۔اس عمل میںکچھ ایسی قوتیںبھی شامل ہوتی ہیںجن کا ماہر نباتات کوپوری طرح اندازہ نہیںہوتا۔یہی حال اس مینڈک کاہے جس کی حیاتی قوتوںکوقطع بریدکے بعدماہر حیوانا ت واپس نہیں لوٹا سکتا ۔ چاہے کتنی بھی کوشش کردیکھے۔ ان مثالوں سے یہ ثابت ہوتاہے کہ سائنس تحلیل وتجزیے کی تفصیلا ت توفراہم کرسکتی ہے مگرترکیب وتالیف کی ماہیت کوبیان نہیںکرسکتی۔کسی شے کی حقیقت کی تحلیل کو جاننا حقیقت کا ایک رخ ہے اوراس کی ترکیب کو جانناایک دوسرا۔ تحلیل کے لیے حسّی استقراء مؤثر اورمفیدہے جبکہ ترکیب کے لیے وجدانی استقرا ء کی طرف رجوع کرناضروری ہے۔ بالفرض سائنس ،مذہب سے مَس نہ رکھے تواس کے وضع کردہ اصول وضوابط بے شک قا بلِ اعتماداورقابلِ توثیق رہیںگے مگروہ جن جزئیات کی بابت آگہی دیتے ہیں،وہاںسے ان کی حقیقت تمام غائب رہے گی۔اسے یوں سمجھاجاسکتاہے کہ اقبال نے آئن سٹائن کی سائنسی فکر کواس لیے سراہاہے کہ اس نے مروجہ میکانکی سائنس کے تحلیلی نوعیت کے تصورات مادہ اورزمان ومکاں کو یکسربدل کے رکھ دیاہے۔ اس نے انہیں ناظر سے وابستہ کرکے اضافی بنا دیاہے۔دوسرے لفظوں میں،یہ ناظر پر منحصر ہے کہ کسی شے کی رفتار،کمیت،شکل،حجم،وغیرہ کیاہو۔جونہی ناظرکی پوزیشن بدل دی جائے اس سے خارج ہرشے کامنظرنامہ بھی بدل جاتاہے۔اس نظریۂ اضافیت کی رُو سے بقول ا قبال، ولڈن کار(Wildon Carr)کویہ غلط فہمی ہوگئی کہ سائنس زمان ومکاں بصورتِ اکائی،ترکیب کوجاپہنچی ہے،جہاں اضافیت کی انتہابھی حی ومدرک افرادکے اثبات پرہوئی ہے لیکن اس غلطی کوپروفیسرپرسی نن(Percy Nunn)کی ژرف نگاہی نے بھانپ لیااورواضح کیاکہ زمانی مکانی قالب کاانحصارناظرکے ذہن پرنہیںبلکہ اس نقطے پرہے جس سے ناظرکا جسم وابستہ ہے۔اس لیے ناظرکی جگہ پرکوئی روبوٹ طرزکامشینی آلہ بھی رکھ دیاجائے تواس نظریے کے مطمح نظرمیںسرمو انحراف نہ ہوگا۔۱۵۴اس اعتبارسے ثابت ہوتاہے کہ سائنس اشیاء کی ساخت پرروشنی ڈال سکتی ہے مگراس کی قطعی حقیقت بتانے سے محروم رہتی ہے۔سائنس کی اس بے بسی کاعلاج صرف مذہب کے پاس ہے۔ سائنس کی ایک اورقباحت یہ ہے کہ اس کااختیار محسوسات ومدرکات سے آگے نہیں چلتا۔ محسوس مظاہرکے حقائق سے اس کی ابتداء ہوتی ہے اور انہی پر انتہا۔ اس کے پاس محسوسات و مدرکات سے ماوراء اپنے نظریات کی تائید کا کوئی ذریعہ ہے نہ تصدیق کا۔دوسرے لفظوںمیں، سائنسدان کو حقائق کی تحقیق وتفتیش کی خاطرپہلے مقرون مشا ہد ا ت و تجربات کرناپڑتے ہیں، پھر ان کے بل بوتے پر مجرد اور عالمگیر قوانین وضع کئے جاتے ہیںمگرانہیںپرکھنے کے لیے پھرسے مشاہدات وتجربات کی طرف لوٹناپڑتاہے،اس طرح سائنس محسوسات ومدرکات کے دوری کے چکر میں پھنسی رہتی ہے لیکن اس کے باوجود،سائنس کوکچھ ایسی اشیاء کے تصور فرض کرناپڑتے ہیں جوناقابل ِمشاہدہ اور غیرمرئی ہیںجیسے کہ برقیے کاتصور۔ سائنس کی مشکل دراصل اس وقت بڑھ جاتی ہے جب یہ غورکیاجائے کہ کوئی بھی محسوس شے بذات ِخود کیا ہے؟ یقیناوہ شکل، رنگ، لمبائی، چوڑائی وغیرہ رکھتی ہے۔گویاشے اوراس کی صفات میں فرق ہے۔صفات سے شے کی موجودگی کا احساس ہوجاتاہے لیکن کیاشے فی نفسہٖ کاپتہ چلتاہے؟یقینانہیں۔یہ وہی مسئلہ ہے جسے جرمن مفکر عمانویل کانٹ۱۵۵ نے شئے بظاہر(phenomena)اورشئے بذاتہٖ(noumena)کے اختصاص سے واضح کیا۔ حقیقت کو جاننے کے دوران شے بذاتہٖ سائنس کے ہاتھ سے بچ نکلتی ہے۔صرف شئے بظاہرقابومیںآتی ہے۔ اس شے بذاتہٖ کے بارے میں سائنس کوئی بھی دعوی کرے یہ زیادتی ہوگی۔اسے جاننے کے لیے مذہب کے آستانے پر دستک دینا ہوگی۔مگر مغربی سائنس کے متوالوں نے اس کی قباحتوں اور کمزوریوں کا جواز ڈھونڈرکھاہے، ان کے مطابق موجودہ سائنس ابھی نوخیزہے لیکن اس کے باوجود صرف اسی کی انگلی تھامے مستقبل کے راز افشاہوسکتے ہیں اور اتنا ہی نہیں ترقی اورنمو کے دوران سائنس خود کی کمزوریوںاورکوتاہیوںکو بھی دورکرنے کے قابل ہو سکے گی۔ لہٰذاحقیقت کو کھوجنے کی واحددعویدار وہی ہے۔اس کے حلقے میں جو کچھ نہیں سما سکتا وہ حقیقت سے بھی عبارت نہیں ہو سکتا۔ مغربی سائنس کے اس تکبرکومدنظررکھتے ہوئے اقبال نے کہا: محسوس پر بنا ہے علومِ جدید کی اس دور میں ہے شیشہ عقائد کا پاش پاش ۱۵۶ لیکن مغربی سائنس کایہ جوازاس وقت بے معنی ہوجاتاہے جب سائنس ہی کے پیش کردہ نظریۂ ارتقاء کوملحوظ خاطر رکھاجائے۔اس سلسلے میںاقبال نے ولڈن کارکی تصنیف۱۵۷سے ایک اقتباس نقل کیاہے جس کے مطابق، ہرشے بتدریج بڑے میکانکی اندازمیںترقی کی منازل طے کرتی جارہی ہے۔حیات کاظہوراسی سفرکانتیجہ ہے اورپھراس سے آگے عقل حیات کی ارتقائی پیداوارہے۔یہاںغورطلب نکتہ یہ ہے کہ حیاتی ارتقاء کی وہ تبدیلیاںجن کے باعث عقل کا ظہور ہوا،یقیناعقل سے افضل اور اعلیٰ ہوںگی۔ دوسرے،اگرعقل واقعی ارتقائے حیات کا نتیجہ ہے تو اس کو مطلق ٹھہراناغلط ہوگا،کیونکہ وہ تواس میکانکی فعالیت پر اضافی ہوگی جس نے اسے نشو و نما دی۔ لہٰذایہ کیونکر ممکن ہے کہ سائنس علم کے داخلی پہلوکوتونظراندازکر دے مگراس کے خارجی معروض کو مطلق ٹھہراکراس پراپنی عمارت کی بنیادرکھے۔اس حوالے سے مغربی سائنس کیسے یہ دعویٰ کر سکتی ہے کہ اپنی خامیوں اور کوتاہیوںپرکبھی خودسے قابوپاسکے گی اورصرف وہی مستقبل کے حقیقی اُفق بے نقاب کرسکے گی۔سچ یہ ہے کہ مغرب کی سائنسی فکرحقیقت کوجاننے کے لیے’ ’بہت کچھ‘ ‘ضرور ہے،’’سب کچھ‘‘ ہرگزنہیں۔اس کامخصوص دائرہ عمل ہے اوربعض مسائل ایسے ہیںجوآج بھی اس سے باہرہیںاورمستقبل میں بھی رہیںگے۔ ایک اور اعتبار سے بھی اقبال کے خیال کو ڈاکٹر عبدالبصیرپال کے مقالہ سائنس کے حدود۱۵۸میںپیش کردہ اس تجزیے سے تقویت ملتی ہے جس کی رُوسے کائنات کاسائنسی مشاہدہ تین صورتوںمیںممکن ہے اور کہیں بھی یہ ممکن نہیں ہو سکا کہ سائنس سو فیصد حتمی دعوے دائر کر سکے۔ .1پہلی صورت میںانسان ایسی چیزوںکا مشاہدہ کرتاہے جن کا قد آدمی کے قدکے لگ بھگ ہوتاہے۔اس قسم کی چیزوںوالی دنیاکوقد آدم دنیا(man sized world)کہا جاسکتا ہے۔ یہ وہ دنیاہے جس میںانسان نے ہوائی جہاز بنایا،راکٹ بنایا،ایٹم بم بنایا،خلائی سفرتک کرلیا۔اس دنیاسے انسان بڑی حدتک آشناہے۔ .2دوسری صورت میںانسان ایسی چیزوںکامشاہدہ کرتاہے جن کاقدایٹم کے قدکے لگ بھگ ہوتاہے۔ اس قسم کی دنیاکوایٹمی دنیا(atomic world)کہاجاسکتاہے۔اس دنیاسے انسان بڑی حدتک ناآشناہے اوراس کی جو خاصیتیںانسان نے اب تک دریافت کی ہیں،وہ محض حسّاس آلات کی مددسے کی ہیں۔لیکن اس دنیاکاانسان کوکوئی بلاواسطہ تجربہ نہیںہے۔ .3تیسری صورت میںانسان ایسی چیزوںکامشاہدہ کرتاہے جن کاقدبہت وسیع ہے۔ مثلاً ستاروںکے گروہ یاسدیم(nebulae)جن کے لیے دور بینیں(telescopes)استعمال کی جاتی ہیں۔اس تیسری دنیاکوسدیمی دنیا(nebular world)کہاجاسکتاہے۔اس دنیاکے بارے میں انسان بہت کچھ جان چکاہے اوربہت کچھ ابھی جانناباقی ہے۔ قد آدم دنیا،ایٹمی دنیااورسدیمی دنیاکے ہر محاذپرسائنس کادائرہ عمل محدود اورمعین ہے کیونکہ بہ حیثیت مجموعی کائنات کی ابتدااورانتہادونوںنامعلوم ہیں۔ان انتہاؤںکے درمیان سائنس نے بڑی حیرت انگیزترقی کی ہے ،بڑے معرکے مارے ہیں۔مگران انتہاؤںسے پرے جوحقیقت چھپی ہے،اسے جاننے سے آج بھی بے خبرہے۔ ایک اور بات ، سائنسی علم میں جتنی بھی ترقی کی جا چکی ہے یا ہو رہی ہے، امریکہ کے راکٹ انجینیئربلیر فاؤلر(Blair Fowler)۱۵۹کے بقول وہ انسان کوحقیقی علم تک،نہیںپہنچاسکتی کیونکہ علم جتنا ترقی کرتاہے اتناہی انسان کواپنی جہالت کا احساس ہوتا ہے۔ ثانیاً سائنسی علم کاتیارکردہ ماحول انسان کوروحانی وقلبی آسودگی نہیںدے سکتا۔خودفاؤلرکا اعتراف ہے کہ اسے ایک ایسے احاطہ میں کام کرناپڑتاجس کے چاروںطرف تین فٹ کی مضبوط دیواریںکھڑی ہوئیں تھیںوہاں اسے اپنے ساتھیوںکی مددسے ہائیڈروجن گیس کومائع ہائیڈروجن میںتبدیل کرنے کاکام کرنا ہوتا۔ اس کے لیے بڑے سخت حالات میں کام کرناپڑتا۔نیز،ہروقت یہ ڈرلگارہتاکہ گیس کاذخیرہ کہیں پھٹ نہ جائے۔یہ صورتِ حال ایک مستقل ذہنی تناؤکاباعث بنی رہتی۔ظاہرہے سائنسی ماحول کے پیداکردہ خطرات کوخودسائنس دور نہیں کرسکتی،اس کے پاس اس کا کوئی توڑنہیں۔اس سلسلے میں،مذہب ہی وہ واحدقوت ہے جوانسان کوسکون عطا کر سکتی ہے۔ خدا پر ایمان کامل ہو، اُخروی زندگی کاایقان مضبوط ہوتوایسے خطرات،خطرات نہیںرہتے،عبادت کادرجہ اختیار کرجاتے ہیں۔ انسان کاخوف وخطرجاتارہتاہے اور وہ ان سائنسی سرگرمیوںمیںمنہمک ہوجاتاہے۔اس معا ملے میںاقبال یہاںتک کہتا ہے کہ خارجی فطرت کے اسرارورموزکوجاننے میںانسان کی جو صلاحیتیں صرف ہوتی ہیں، وہ اسے ان عقدوںکے موزوںحل سجھانے میں الجھائے رکھتی ہیں،نتیجتاًفطرت چارسوکے انتشارسے حیران وپریشان انسان کے پاس جب سکون وطمانیت کاکوئی چارہ نہیں بچتا تو وہ مذہب کی عطاکردہ ذات الٰہیہ میںپناہ ڈھونڈتاہے اور اسی کے سہارے اپنی پریشانیوںسے چھٹکارے کاآسرالیتاہے۔اقبال کہتاہے: نگہ الجھی ہوئی ہے رنگ و بُو میں! خرد کھوئی گئی ہے چار سُو میں! نہ چھوڑ اے دل فغانِ صبحگاہی اماں شاید ملے اﷲ ھُو میں! ۱۶۰ حواشی ۱۔ فرائڈکے اصل الفاظ یوںہیں: "What is prized to-day as the highest wisdom is overthrown tomorrow and experimentally replaced by something else.The latest error thus given the name of truth. And to this truth we are asked to sacrifice our highest good!'' see, Sigmund Freud,New Introductory Lectures on Psychoanalysis,Eng tr by,W.J.H Sprott,p.221 2- Bertrand Russell,History of Western Philosophy,p.218 3- Ibid,p.45 ۴۔ سیدنذیرنیازی،(مترجم)،مقدمہ تاریخ سائنس،مجلد اوّل،جارج سارٹن، (مصنف)، ص: ۱۴۴ ۵۔ ایضاً، (دیکھئے،مقدمہ ازمترجم)،ص:ذ 6- W.T Stace, A Critical History of Greek Philosophy,p.15 ۷۔ عبدالمجیدسالک،(مترجم)،تشکیلِ انسانیت،رابرٹ بریفالٹ،(مصنف)،ص:۱۸۹ ۸۔ ایضاً،ص:۱۸۸ ۹۔ ایضاً،ص:۱۸۷ ۱۰۔ شہزاداحمد،تیسری دنیا کے مسائل اورسائنسی انقلاب،ص:۱۳،علاوہ ازیں،رسل نے اپنے لیکچر’’سائنسی طریق کارکے عام اثرات ‘‘میںلکھاہے :’’غلاموںسے کام لینے کی وجہ سے مہذب طبقہ چونکہ آرام وآسائش کی زندگی بسرکرتاتھا،اس لیے سائنس کے طریق کار سے انہیںکوئی دلچسپی نہیں تھی۔‘‘ دیکھئے،: بشیر احمد چشتی، (مترجم)، معاشرے پرسائنس کے اثرات، برٹرنیڈ رسل، (مصنف)،ص:۲۳ ،اسی ضمن میں آئزک ایسی موف کالکھنا ہے: "---this lofty view arose from the Greeks slave-based culture,in which all practical matters were relegated to the slaves. ",see,Issac Asimov, The Intellegent Man's Guide to Science,vol one,The Physical Sciences, p.12 11- Bertrand Russell,op.cit,p.234 12- Ibid,p.80 مزید برآں، دیکھئے، سیدنذیرنیازی، (مترجم)، کتاب مذکورہ، مجلداوّل، جارج سارٹن، (مصنف)، ص:۱۸۸ ۱۳۔ ایضاً،ص:۲۰۹ 14- Charles Singer,A Short History of Science to the Nineteenth Century, p.31 علاوہ ازیں،سقراط کے بارے میںرابرٹ بریفالٹ نے اسی خیال کااعادہ ان لفظوں میں کیا ہے: ’’سقراط فلسفہ کوآسمان سے زمین پرلایا۔اس نے کہا(اورہم بھی اپنے آس پاس اس دلیل کواکثرسنتے ہیں(آخر ہمیں کیا ضرورت ہے کہ ہم اپنا وقت اور اپنا فکر آسمانوں کے مطالعہ میں صرف کریں۔ ستاروں کے فاصلوں کونا پیں۔ مادہ کی ماہیت اورکائنات کی ترکیب کے متعلق جھگڑتے رہیں اور پرندوں، چرندوں اور درختوںکی تحقیق میںمین میکھ نکالاکریں ۔ہمارے لیے جوبات اہم ترین ہے وہ یہ ہے کہ ہم زندگی کامطالعہ کریں۔اس انسانی زندگی کاجس سے ہماراہردم کاسابقہ ہے نہ کہ جانوروں،کیڑوں اور پودوںکا۔ہمیںصرف انسانوںکامطالعہ کرنا چاہئیے۔ ستاروں، گھونگھوںاور درختوںکے متعلق تحقیق کرنے سے پیشترہم اس موضوع کاعلم حاصل کرنے کی کیوںکوشش نہ کریںجوہمارے قریب ترہے یعنی خوداپنے متعلق انوع انسانی کامناسب موضوع مطالعہ صرف انسان ہے۔‘‘ دیکھئے، عبدالمجید سالک، (مترجم)، کتاب مذکورہ،ص:۱۹۰ 15- Bertrand Russell,op.cit,p.146 16- Charles Singer,op.cit,p.40 17- Gordon W.Allport,Personality:A Psychological Interpretation, p.63 18- Ibid,p.158 19- Ibid,p.59 20- Ibid,p.61 21- Ibid,p.51 22- Ibid,p.61 علاوہ ازیں، دیکھئے، سیدنذیرنیازی، (مترجم)،کتاب مذکورہ، مجلداوّل، جارج سارٹن، (مصنف)، ص: ۳۳۷- ۳۳۸ 23- Charles Singer,op.cit,pp.61-66 24- Bertrand Russell,op.cit,p.226 25- Charles Singer,op.cit,pp.101-102 26- Dr.Syed Azhar Ali Rizvi,Muslim Tradition in Psychotherapy and Modern Trends,p.12 ۲۷۔ سیدنذیرنیازی،(مترجم)،کتاب مذکورہ،مجلداوّل،جارج سارٹن،(مصنف)،ص:۵۰۰ ۲۸۔ ایضاً،ص:۵۰۳ 29- Charles Singer,op.cit,p.115 30- Ibid,p.83 ۳۱۔ پروفیسرحمیدعسکری،نامورمسلم سائنسدان، ص:۸۱-۸۲ ۳۲۔ دیکھئے،دوسراباب،جابربن حیان،ایضاً، ص:۹۴ تا۱۰۴ ۳۳۔ ایضاً،ص:۹۸ ۳۴۔ میاںمحمدشریف،مسلمانوںکے افکار،ص:۶۷ ۳۵۔ پروفیسرحمیدعسکری،کتاب مذکورہ،ص:۲۲۷ ۳۶۔ عبدالسلام خورشید،(مترجم)،عربوںکاعروج وزوال،فلپ ۔کے۔ ہتی،(مصنف)،ص:۱۷۳ ۳۷۔ پروفیسرحمیدعسکری،کتاب مذکورہ،ص:۱۰۸ ۳۸۔ ایضاً، ص :۱۶۱-۱۶۲ ۳۹۔ میاںمحمدشریف،کتاب مذکورہ،ص:۵۷ 40- Bertrand,Russell,op.cit,p.688 ۴۱۔ پروفیسرحمیدعسکری،کتاب مذکورہ، ص:۳۷۷-۳۷۸ ۴۲۔ ایضاً،مسلم سائنسدانوںکی یہ مثالیںاس کتاب کے مختلف ابواب سے ماخوذہیں،مجموعی طورپرابن الہیثم کے بارے میںدرج ذیل صفحات سے استفادہ کیاگیا۔ ص:۳۰۲ تا۳۰۴ ۴۳۔ سیدنذیرنیازی،(مترجم)،مقدمۂ تاریخ سائنس،مجلد اوّل-حصہ سوم،جارج سارٹن، (مصنف)، ص:۱۲۰۴ ۴۴۔ عبدالسلام خورشید، (مترجم)،کتاب مذکورہ، فلپ ۔کے۔ ہتی، (مصنف)، ص: ۱۳۷، نوٹ: مسلمانوں میں استقرائی استدلال کس قدرعمدہ نہج کا تھا،اس کااندازہ فلپ۔کے۔ہتی کے اس اقتباس سے بھی لگایا جا سکتا ہے۔’’چودھویں صدی عیسوی کے وسط میںیورپ ’’سیاہ موت‘‘کی وبا میںمبتلاتھا۔اس بیماری کے سامنے عیسائی مجبورتھے۔وہ اسے ’خداکی کرنی‘سمجھتے تھے۔اس پرغرناطہ کے طبیب ابنِ الخطیب نے چھوت کے نظریے کے حق میںایک کتاب لکھی۔جس میںایک حقیقی سائنسی رنگ موجودتھا۔اس نے لکھا،’’کچھ لوگ کہتے ہیں___ہم چھوت کاامکان کیسے تسلیم کرسکتے ہیںجب مذہبی قانون اس سے انکارکرتاہے___ہم جواب دیتے ہیںکہ چھوت کا وجود تجربہ، تحقیق، حسیات کی شہادت اورقابلِ اعتمادمعلومات سے ثابت ہے۔یہ حقائق ایک دلیلِ قاطع کاکام دیتے ہیں۔چھوت کی حقیقت اس تحقیق کرنے والے پرواضح ہوجاتی ہے جودیکھتاہے کہ جس شخص کارابطہ بیمارسے ہوتاہے وہ خود بیمار ہو جاتا ہے اور جو شخص بیمارسے نہیںملتا،تندرست رہتاہے۔وہ یہ بھی دیکھ لیتاہے کہ کپڑوں، برتنوںاور کانوںکے زیوروںسے چھوت کس طرح پھیلتی ہے۔‘‘، دیکھئے، ایضاً، ص ص:۱۷۵-۱۷۶ ۴۵۔ پروفیسرحمیدعسکری،کتاب مذکورہ،ص:۲۸۸ ۴۶۔ میاںمحمدشریف،کتاب مذکورہ،علی ابنِ عباس کے لیے دیکھئے ،ص:۷۴اورابنِ رشد کے لیے دیکھئے ، ص:۷۶ ۴۷۔ سیدنذیرنیازی،(مترجم)،کتاب مذکورہ،مجلد اوّل-حصہ سوم،ص:۱۵۰۲ 48- Bertrand,Russell,op.cit,p.456 ۴۹۔ پروفیسرحمیدعسکری،نامورمغربی سائنسدان،ص ص :۱۱-۱۲ ۵۰۔ ایضاً،ص:۱۳ ۵۱۔ یہ مثالیںدرج ذیل کتاب سے ماخوذہیں۔دیکھئے، Charles Singer,op.cit,pp. 158 to160 ۵۲۔ تفصیلات کے لیے دیکھئے، خالدمسعود، (مترجم)، منہاج جدیدمع نواطلانتہ، فرانسس بیکن، (مصنف)،ص ص:۲۳-۲۴ 53- Minto,William,Logic Inductive and Deductive,p.251 مزیدبرآں،فرانسس بیکن کے اس مؤقف کی بھرپور تفصیل کے لیے دیکھئے، خالدمسعود، (مترجم)، کتاب مذکورہ،ص:۱۲ 54- Ibid,p.250 ۵۵۔ ظفر علی خاں، مولانا، (مترجم)، معرکہ ٔمذہب و سائنس، ڈاکٹر جان ولیم ڈریپر، (مصنف)، ص: ۳۰۶ 56- Minto,William,op.cit,p.262 57- Charles Singer,op.cit,p.173 نوٹ:یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ لیونارڈوڈاونسی سے بہت پہلے اندلس کے مسلم حکیم قاسم ابنِ فرناس نے دنیا میں سب سے پہلی مرتبہ ہوا میں اڑان بھری گوناکام رہا۔دیکھئے،سیدنذیرنیازی،اقبال کے حضور،ص:۴۱۴ ۵۸۔ عبدالمجیدسالک،(مترجم)،کتاب مذکورہ، ص :۲۹۳-۲۹۴ ۵۹۔ کوپرنیکس کے بارے میںدرج ذیل تصنیف کے چوتھے باب سے استفادہ کیاگیا۔ دیکھئے، پروفیسر حمید عسکری ، نامورمغربی سائنسدان،ص ص:۶۸ تا۹۱ ۶۰۔ شہزاداحمد،کتاب مذکورہ،ص:۷۹ ۶۱۔ پروفیسرحمیدعسکری،کتاب مذکورہ،ص:۱۵۸ ۶۲۔ ایضاً،ص ص :۱۹۸-۲۰۰ ۶۳۔ سیدنذیرنیازی،(مترجم)،کتاب مذکورہ،مجلد اوّل،جارج سارٹن،(مصنف)،ص:۵۲ ۶۴۔ پروفیسرحمیدعسکری،کتاب مذکورہ،پہلے اصول کے لیے دیکھئے،ص:۲۴۱،دوسرے اصول کے لیے ، ص: ۲۴۴،تیسرے اصول کے لیے،ص:۲۴۶ ۶۵۔ ایضاً،ص:۲۴۷ ۶۶۔ ایضاً،ص:۴۵۵ ۶۷۔ ڈارون کے اصول ارتقاء اس کتاب سے ماخوذہیں، دیکھئے ، سید علی عباس جلالپوری، روایاتِ فلسفہ، ص ص:۱۲۱-۱۲۲ 68- Sigmund Freud,op.cit,pp.203-204 69- Ibid,pp.202-233 70- Sigmund Freud, Introductory Lectures on Psychoanalysis, Eng tr by, Riviere Joan,p.241 ۷۱۔ مولاناوحیدالدین خاں،عقلیاتِ اسلام،ص:۱۱۳ ۷۲۔ ایضاً،ص:۱۱۵ ۷۳۔ ڈاکٹرعبدالبصیرپال، ’’آئن سٹائن‘‘، مشمولہ، ڈاکٹرسیدعبداﷲ، (مرتب)، سائنسی موضوعات، مجلہ، مغربی پاکستان اردو اکیڈیمی ،لاہور،سلسلۂ مطبوعات۴،۱۹۶۲ء ،ص:۵ 74- Allama Muhammad Iqbal,Reconstruction of Religious Thought in Islam,p.104 for no.i, & p.3 for no.ii ۷۵۔ محمداقبال،کلیاتِ اقبال اردو/بانگ درا،ص :۹۰ /۹۰ ۷۶۔ محمداقبال،کلیاتِ اقبال اردو/ضربِ کلیم،ص:۵۸۰-۵۸۱/۱۱۸-۱۱۹ 77- Rubina Kausar Lodhi,"The existence of purpose and end in Aristotlian Biology",included in, Al-Hikmat,2000, a research journal of Department of Philosophy,University of the Punjab, Lahore,Pakistan,vol 20,2000,p.63 ۷۸۔ محمدعبدالسلام،سائنس اور جہانِ نو،ص:۱۹۱ ۷۹۔ دیکھئے،باب دوم،حوالہ نمبر:۱۴۴ ۸۰۔ محمداقبال،کلیاتِ اقبال فارسی/زبورِعجم(گلشن رازِجدید)،ص:۵۴۸/۱۵۶ ۸۱۔ میرحسن الدین،(مترجم)،فلسفۂ عجم،تمہید ، ص:۱۰ ۸۲۔ ایضاً،ص:۳۶ ۸۳۔ سیدعبدالواحد معینی،(مرتب)، اور محمد عبداﷲقریشی،(ترمیم واضافہ کنندہ)،باقیاتِ اقبال،ص:۵۵۴ علاوہ ازیںدیکھئے،فقیر سیدوحیدالدین،روزگارِفقیر،جلددوم،ص:۳۹۸ ۸۴۔ سیدنذیر نیازی،کتاب مذکورہ،ص:۳۷۴ 85- Iqbal has pointed out these examples in a concise manner in his lecture v,The Spirit of Muslim Culture,see,Allama Muhammad Iqbal, op. cit, pp. 106-107 ۸۶۔ عبدالمجیدسالک،(مترجم)،کتاب مذکورہ،ص :۲۴۷-۲۴۸ ۸۷۔ سیدنذیر نیازی،کتاب مذکورہ،ص:۳۷۴ ۸۸۔ عبدالمجیدسالک،(مترجم)،کتاب مذکورہ،پہلے حوالہ کے لیے دیکھئے،ص:۲۴۶ اوردوسرے حوالہ کے لیے دیکھئے،ص:۲۴۷ ۸۹۔ دیکھئے، خط بنام، ماسٹرمحمدعبداﷲچغتائی، محررکردہ، ۱۳جون ۱۹۳۷ئ، مشمولہ، شیخ عطااﷲ، (مرتب)، اقبال نامہ،حصہ دوم، ص: ۳۴۳ ۹۰۔ سیدنذیر نیازی،(مترجم)،تشکیل جدیدالٰہیاتِ اسلامیہ،ص:۱۹۹۔ علاوہ ازیں، دیکھئے، عبدالمجید سالک،(مترجم)،کتاب مذکورہ،ص :۲۶۱-۲۶۲ ۹۱۔ ایضاً،ص :۶۲۶ ۹۲۔ سیدنذیر نیازی، کتاب مذکورہ،ص :۱۱۷-۱۱۸ ۹۳۔ عبدالمجید سالک،(مترجم)،کتاب مذکورہ،ص :۶۲۴ ۹۴۔ دیکھئے،اقبال کا مضمون، ’’پنڈت نہرو کے سوالات کا جواب‘‘، مشمولہ، لطیف احمدشیروانی، (مرتب)، حرف ِاقبال،ص: ۱۶۳ ۹۵۔ سیدعبدالواحدمعینی (مرتب)اورمحمدعبداﷲقریشی(ترمیم واضافہ کنندہ)،باقیات ِاقبال،ص:۳۹۴ علاوہ ازیں،دیکھئے،فقیر سیدوحیدالدین، کتاب مذکورہ،ص :۲۶۲ ۹۶۔ دیکھئے،ڈاکٹرسعیداﷲکامضمون،’’اقبال کے ہاںایک شام‘‘، محمودنظامی، (مرتب)، ملفوظات، ص: ۱۰۷ ۹۷۔ میاں محمدشریف،کتاب مذکورہ،ص :۱۵۸-۱۵۹ ۹۸۔ دیکھئے،خط بنام،صاحب زادہ آفتاب احمدخاں،مشمولہ،عطااﷲ،شیخ،(مرتب)، کتاب مذکورہ،حصہ دوم، ص:۲۱۴ ۹۹۔ محمداقبال،کلیاتِ اقبال اردو/بانگ درا،ص :۱۷۲ ۱۰۰۔ Allama Muhammad Iqbal,op.cit,p.120 ۱۰۱۔ محمداقبال،کلیاتِ اقبال اردو/بانگ درا،ص :۲۰۷ ۱۰۲۔ محمدعبدالسلام،کتاب مذکورہ،ص:۲۰۵ ۱۰۳۔ مکمل شعر یوں ہے، ملاّ کی نظر نورِ فراست سے ہے خالی بے سوز ہے میخانۂ صوفی کی میٔ ناب! اے وادیٔ لولاب! دیکھئے،محمداقبال،کلیاتِ اقبال اردو/ارمغانِ حجاز،ص :۷۳۸ ۱۰۴۔ میاں محمدشریف،کتاب مذکورہ، ص :۱۵۷-۱۵۸ ۱۰۵۔ اقبال کے ان الفاظ کے لیے دیکھئے،اس کا مضمون’’پنڈت نہرو کے سوالات کا جواب‘‘،مشمولہ،لطیف احمد شیروانی، (مرتب)، حرفِ اقبال،ص:۱۶۴ ۱۰۶۔ محمدعبدالسلام،کتاب مذکورہ،ص:۲۳۹ ۱۰۷۔ محمداقبال،کلیاتِ اقبال اردو/بانگِ درا،ص :۲۷۲ ۱۰۸۔ محمداقبال،کلیاتِ اقبال اردو/ضربِ کلیم،ص:۶۷۹ ۱۰۹۔ ایضاً ۱۱۰۔ دیکھئے ،خط بنام ،مولوی انشاء اﷲ خاں، مدیروطن، مورخہ۱۲ستمبر، ازعدن، مشمولہ، سیدعبدالواحدمعینی، (مرتب)،مقالات ِاقبال، ص:۶۶ ۱۱۱۔ دیکھئے،محمددین صاحب فوق اورعلامہ اقبال کے مابین ’’ایک دلچسپ مکالمہ‘‘،مشمولہ،عبدالواحد معینی، (مرتب)،کتاب مذکور ہ ، ص:۱۵۰ ۱۱۲۔ اقبال کے الفاظ یوں ہیں،’’زندگی کے تلخ حقائق کا مردانہ وار مقابلہ کرؤ،اس شترمرغ کی طرح نہیں جو شکاری کو دیکھ کر ریت میں منہ چھپا لیتا ہے۔‘‘دیکھئے،فقیر سیدوحیدالدین، روزگارِفقیر،جلداول،ص :۱۸۸ ۱۱۳۔ سیدعبدالواحدمعینی ،(مرتب)،اورمحمدعبداﷲقریشی،(ترمیم واضافہ کنندہ)، کتاب مذکورہ،ص:۵۴۷ علاوہ ازیں،دیکھئے،فقیر سیدوحیدالدین، روزگارِفقیر،جلددوم،ص:۳۹۰ ۱۱۴۔ سیدعبدالواحدمعینی ،(مرتب)،اورمحمدعبداﷲقریشی،(ترمیم واضافہ کنندہ)،کتاب مذکورہ، ص: ۲۶۰، علاوہ ازیں، دیکھئے ، فقیر سیدوحیدالدین، روزگارِفقیر،جلددوم،ص:۳۸۱،اس شعر سے پیشتر مندرج دلائل کو اقبال کے جن بیانات سے اخذ کیا گیا، اس کے لیے دیکھئے،سیدنذیر نیازی،کتاب مذکو ر ہ، ص:۳۷۳ ۱۱۵۔ محمدعبدالسلام،کتاب مذکورہ،ص:۲۱۳،اقبال نے بھی جاپان کی ترقی کا خصوصی ذکر کیا ہے، دیکھئے، اقبال کا مضمون بعنوان’’قومی زِندگی‘‘،مشمولہ،سیدعبدالواحدمعینی،(مرتب)،کتاب مذکورہ،ص ص: ۴۹-۵۰،یہاںاقبال لکھتا ہے، ’’جاپانیوں کو دیکھو کس حیرت انگیزسر عت سے ترقی کر رہے ہیںابھی تیس چالیس سال کی بات ہے کہ یہ قوم قریباًمردہ تھی۔۱۸۶۸ ء میںجاپان کی پہلی تعلیمی مجلس قائم ہوئی اس سے چار سال بعد یعنی۱۸۷۲ میں جاپان کا پہلا تعلیمی قانون شائع کیا گیااور شہنشاہِ جاپان نے اس کی اشاعت کے موقع پر مندرجہ ذیل الفاظ کہے،’’ہمارامدعا ہے کہ اب سے ملک جاپان میں تعلیم اس قدر عام ہو کہ ہمارے جزیرے کے کسی گاؤں میں کوئی خاندان جاہل نہ رہے۔ ‘‘ ۱۱۶۔ دیکھئے،اقبال کا مضمون بعنوان’’قومی زِندگی‘‘،مشمولہ،سیدعبدالواحد معینی،(مرتب)،کتاب مذکورہ، ص:۶۱ ۱۱۷۔ محمدعبدالسلام،کتاب مذکورہ،ص:۲۳۱ ۱۱۸۔ محمداقبال،کلیاتِ اقبال اردو/بانگِ درا،ص :۲۰۷ ۱۱۹۔ بختیار حسین صدیقی،اقبال بحیثیت مفکرِتعلیم،ص:۵۷ ۱۲۰۔ محمداقبال،کلیاتِ اقبال اردو/بانگِ درا،ص :۲۰۷ 121- Allama Muhammad Iqbal,op.cit,p.155 122- Ibid,p.25 ۱۲۳۔ دیکھئے،باب دوم،حوالہ نمبر:۱۶۷ 124- Allama Muhammad Iqbal,op.cit,p.56 125- Iqbal states,"The essential nature of the atom in modern science is electricity and not something electrified."see,Ibid,p.42 ۱۲۶۔ سیدنذیر نیازی،(مترجم)،کتاب مذکورہ،ص:۵۲،اقبال کے الفاظ یوں ہیں: "Nature is not a static fact situated in an a-dynamic void, but a structure of events possessing the character of a continuous creative flow which thought cuts up into isolated immobilities out of whose mutual relations arise the concepts of space and time.", see, Allama Muhammad Iqbal,op.cit,p.28 127- Ibid,p.55 ۱۲۸۔ پروفیسرڈاکٹرچودھری عبدالقادر،تاریخ سائنس،ص:۴۴ ۱۲۹۔ محمدعبدالسلام،کتاب مذکورہ،ص :۲۲۰-۲۲۱ ۱۳۰۔ سیدنذیر نیازی،(مترجم)،کتاب مذکورہ،ص:۱۳۷،اقبال کے الفاظ یوں ہیں: "The truth is that all search for knowledge is essentially a form of prayer.The scientific observer of Nature is a kind of mystic seeker in the act of prayer."see,Allama Muhammad Iqbal,op.cit,p.73 ۱۳۱۔ ایضاً،ص:۶۴،اقبال کے الفاظ یوں ہیں: "Nature as the subject of science is a highly artificial affair, and this artificiality is the result of that selective process to which science must subject her in the interests of precision. The moment you put the subject of science in the total of human experience it begins to disclose a different character. Thus,Religion,which demands the whole of Reality and for this reason must occupy a central place in any synthesis of all the data of human experience, has no reason to be afraid of any sectional views of Reality." see, Allama Muhammad Iqbal, op. cit, p.34 132- Freud has tried to prove religion as the obsessessional neurosis of humanity,see,Sigmund Freud,The Future of an illusion,Eng tr by Robson W.P Scott,pp.75-76,at the other side,where Freud has tried to equate religion with child's fairy-tales,see,pp.50-51 133- Allama Muhammad Iqbal,op.cit,pp.19-20 ۱۳۴۔ محمداقبال،کلیاتِ اقبال اردو/ضربِ کلیم،ص:۵۵۶ ۱۳۵۔ محمد اقبال،کلیات ِاقبال فارسی/پیام مشرق،ص:۲۶۹ ۱۳۶۔ سیدنذیرنیازی،اقبال کے حضور،ص:۳۰۸ ۱۳۷۔ ایضاً ۱۳۸۔ استدراک متن میں(مصنف) کالکھناہے،’’انسان خلائے بسیط سے گذر کر چاند میں پہنچ گیا تو ذہن بے اختیارحضرت علامہ کے اس ارشاد کی طرف منتقل ہو گیا جو انہوں نے راجہ حسن اخترسے فرمایا تھا۔ راجہ صاحب کاکہناتھاانسان کاگذرخلاء سے کیسا ہوگا۔ ستاروںتک کیسے پہنچے گا۔حضرت علامہ نے فرمایا انسان اس کاکوئی نہ کوئی راستہ تلاش کرلے گا۔تسخیرمکان ناممکن نہیںہے یہ۱۹۳۸ ء کی بات ہے۔ ۱۹۶۹ء میںانسان نے یہ راستہ تلاش کرلیا،چاندپرپہنچ گیا۔حضرت علامہ کی بات پوری ہوگئی۔‘‘ دیکھئے، ایضاً، ص: ۴۱۵ ۱۳۹۔ محمداقبال، کلیات ِاقبال اردو /بال ِجبریل،ص:۳۸۷ ۱۴۰۔ سیدعلی عباس جلالپوری،اقبال کاعلم الکلام،ص:۲۴۸ ۱۴۱۔ ایضاً ،ص:۲۰۹ ۱۴۲۔ محمدرفیق افضل،(مرتب)،گفتارِاقبال،ص:۱۰۴ ۱۴۳۔ ایضاً ،ص:۲۱۹ ۱۴۴۔ فقیرسیدوحیدالدین،روزگار ِفقیر،جلددوم،ص:۳۸۷ ۱۴۵۔ محمداقبال،کلیات ِاقبال فارسی/پیام ِمشرق،ص:۲۱۴ ۱۴۶۔ محمداقبال،کلیات ِاقبال اردو/بال ِجبریل،ص:۳۵۰ ۱۴۷۔ محمداقبال،کلیات ِاقبال اردو /بانگ ِدرا،ص:۲۲۲ ۱۴۸۔ سیدعلی عباس جلالپوری،کتاب مذکورہ،ص:۲۴۷ ۱۴۹۔ سیدنذیرنیازی،(مترجم)،مقدمہ تاریخ سائنس،مجلداوّل،جارج سارٹن،(مصنف)،ص:۵۱ ۱۵۰۔ محمداقبال،کلیات ِاقبال فارسی/زبور ِعجم،ص:۳۷۶ ۱۵۱۔ سیدنذیرنیازی، (مترجم)، کتاب مذکورہ، مجلداوّل، جارج سارٹن، (مصنف)، ص:۶۷ علاوہ ازیں، ریڈیارڈکپلنگ کے اصل شعریوںہیں: "Oh,East is East and West is West,and never the twain shall meet, Till Earth and Sky stand presently at God's great judgment Seat; But there is neither East,nor West,Border,nor Bread,nor Birth, When two strong men stand face to face,tho' they come from the ends of the earth!" see,"The Ballad of East and West", (1889), included in, Rudyard Kipling,The Collected Verses, p.136 ۱۵۲۔ محمداقبال،کلیات ِاقبال اردو/بال ِجبریل،ص:۴۳۴ ۱۵۳۔ محمداقبال،کلیات ِاقبال اردو/ضرب ِکلیم،ص:۵۴۷ 154- Allama Muhammad Iqbal,op.cit,pp.30-31 ۱۵۵۔ اقبال نےphenomenaکوthing-as-it-appears اور noumena کو thing-in-itself لکھا ہے ،دیکھئے،Ibid,p.144 نیز،دیکھئے،باب سوم ،حوالہ نمبر:۹۸ ۱۵۶۔ محمداقبال،کلیات ِاقبال اردو/بانگ ِدرا،ص:۲۷۷ 157- Allama Muhammad Iqbal,op.cit,p.36 ۱۵۸۔ مولاناوحیدالدین خاں،کتاب مذکورہ،ص:۵۹ ۱۵۹۔ عبدالبصیرپال،’’سائنس کے حدود‘‘،مشمولہ،اقبال،سہ ماہی مجلہ بزم اقبال، جلد نمبر ۱۷، شمارہ نمبر۲، اکتوبر ۱۹۶۸ ء ۱۶۰۔ محمداقبال،کلیات ِاقبال اردو/بال جبریل،ص:۴۰۸ پانچواں باب ماحصل (Conclusion) [استقرائی استدلال] وہ نعمت ہے جو قرآن شریف نے دنیا بھر کو عطا فرمائی ہے۔ اس طریقۂ استقرا ئی کے نتائج و ثمرات ہم کو آج نظر آ رہے ہیں۔ میں گذشتہ بیس برس سے قرآن پاک کا بغور مطالعہ کرتاہوں ، ہر روز تلاوت کرتا ہوں، مگر میں ابھی یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس کے کچھ حصوں کو سمجھ گیا ہوں۔ )محمداقبال( (محمد اقبال ،’’علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سٹوڈنٹس یونین کے سپاسنامہ کا جواب‘‘، مشمولہ، محمد رفیق افضل، (مرتب) گفتار ِاقبال، ص:۱۰۴) تلخیص (Recapitulation) استدلال، معقول وجوہات کی بناء پر مشاہدات و تجربات سے خیالات و تعقلات کوتشکیل دینے کا ذہنی عمل ہے جس میں کسی بامقصد شعوری مسئلے کا موزوںحل تلاش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔اس سلسلے میں،تجربوں پر مبنی مقدمات کی رُو سے ایسے فیصلہ کن نتائج تک پہنچا جاتا ہے جو دَرپیش مسئلے کابہترین حل ثابت ہوتے ہوں اور جن پر بالآخر یقین کیاجاسکتاہو۔اس نسبت سے استدلال کا تعلق منطق سے قائم ہوتا ہے جوواحدایسا علم ہے جس میں مقدمات سے نتائج کو اخذ کرنے اوران کوجانچنے کے قواعدوضوابط موجودہیں۔استدلال میں مطلوبہ نتائج تک پہنچنے کے لیے جو مقدمات درکار ہوتے ہیں ان کی صداقت پہلے ہی سے طے کی جاتی ہے جس کی دو صورتیں ہو سکتی ہیں۔ یاتو مقدمات کی مطابقت خارجی حالات وواقعات سے ہو یاپھر ان کی اپنی ترکیبی ساخت سے ہو۔پہلی صورت مادی صداقت کی ہے جس میںقضایا ان تجربات وواقعات کے آئینہ دارقراردئیے جاتے ہیں جو ہرزمانے کے ساتھ بدلتے رہتے ہیں۔ دوسری صورت صوری صداقت کی ہے جس میںقضایا ان حقائق کے غماز سمجھے جاتے ہیں جو ہرزمانے میں ایک سے رہتے ہیں،کبھی نہیں بدلتے۔علاوہ ازیں، استدلال میںمقدمات سے نتیجہ اخذ کرنے کے لیے جو دلیل وضع کی جاتی ہے اس کی صوری صحت کادارومدار مقدمات اور نتیجے کے مابین تعلق پر قائم ہوتا ہے۔ اگر ان کا تعلق خودتردیدی سے پاک ہو تو دلیل کی صوری صحت صحیح،وگرنہ غلط شمار ہوتی ہے۔ مجموعی طور پر، استدلال کے لیے قضایا کی صداقت اور دلیل کی صحت،دونوں کی مناسب موجودگی ضروری ٹھہرتی ہے۔ بنیادی طور پر،کسی استدلال میں مستعمل حقائق دو طرح کے ہوتے ہیں۔ اوّل، ابدی سچائیوںکے حامل تجریدی حقائق اوردوم ،عارضی سچائیوں کے حامل جزوی حقائق۔استدلال میں ان حقائق کو مخصوص قواعدوضوابط کی رُو سے یک جا کرکے جو نتائج اخذ کئے جا سکتے ہیں،ان کی کل چار صورتیں ممکن ہیں۔اولاً،جزوی مقدمات سے عمومی نتیجہ اخذ کرنا،ثانیاً،جزوی مقدمات سے جزوی نتیجہ اخذ کرنا،ثالثاً،عمومی مقدمات سے عمومی نتیجہ اخذ کرنا،رابعاً،عمومی مقدمات سے جزوی نتیجہ اخذ کرنا۔ان صورتوں کو پیشِ نظر رکھا جائے تو استدلال کی دو اقسام وجود میں آتی ہیں۔ ایک، استخراجی استدلال،جس میں مقدمات اپنے نتیجے کی صحت کے لیے کلی جواز فراہم کرتے ہیں۔ دوسرا،استقرائی استدلال،جس میں مقدمات اپنے نتیجے کی صحت کے لیے جزوی جوازمہیا کرتے ہیں۔اصل میں یہ دونوں استدلال انسانی فکر کی وحدت کے دو مختلف روپ ہیں جو ایک دوسرے سے جدااپنے اپنے دائرۂ کارمیں مصروفِ عمل ہیں۔استقرائی استدلال کے مسلمات مشاہدہ،تجربہ اور یکسانیٔ فطرت ہیں اور ان کے چھ منفرد اسلوب، وجدانی استقرائ، استقرائے تام،استقرائے ناقص،تمثیلی استقرائ، تاریخی استقرائ،نسبتی استقرائ،ہندسی استقراء اورریاضیاتی استقراء مستعمل ہیں۔ نیز باوررہے کہ ہندسی ا ورریاضیاتی، اسالیب میں اور اُن جیسے نام نہاد استقراء سے امتیاز رکھنے میں احتیاط برتنا بہت ضروری ہے۔ استقرائی استدلال کی ضرورت ہمہ گیر افادیت کی حامل ہے۔ زندگی کے مسائل سطحی ہوں یا گہرے،معمولی ہوں یاغیر معمولی ، علمی ہوں یا عملی،داخلی ہوں یا خارجی،ان کے مناسب اور موزوں حل کے واسطے استقراء کرنا پڑتا ہے۔ استقرائی استدلال کے حوالے سے فکرِاقبال کے بارے میں چندباتیںاوروضاحتیں توجہ طلب ہیںجیسے: i۔عموماً ایساہوتاہے کہ استقراء کے تصورسے ذہن فی الفور علم منطق کی طرف منتقل ہو جاتا ہے کیونکہ یہ اس کا خاص موضوع ہے لیکن غورطلب نکتہ یہ ہے کہ ضروری نہیںکہ ہرمفکرمنطقی باریکیو ںسے بھی آگاہ ہویاہرمنطق دان،منطقی رُموز سے آگہی کے باوجودجانداراستدلال پیش کرسکتا ہو۔ منطقی رموزسے شناسائی رکھنا اور بات ہے اوراس کے رنگ میں استدلال پیش کرناایک الگ معاملہ ہے۔اس سیاق وسباق میںبے شک اقبال فلسفے کے طالب علم کی حیثیت سے منطقی رُموزوقواعد سے آگاہ تھا مگراستقرائی استدلال میںاس نے کبھی بھی منطقی لطافتوں کو درخور اعتنا نہیں سمجھا۔اسی لیے اس کے استدلال میںمغالطۂ تمثیلِ کاذب جیسی منطقی خامیاں موجود ہیں۔اب چونکہ خوداقبال نے کبھی ان کی پرواہ نہیںکی اس لیے اس کے استدلال کوکسی پیشہ ور منطق دان کی حیثیت سے مد نظر رکھنا مناسب نہ ہوگا۔ ii۔اقبال نے اپنے افکار میں استقرائی فکر کے تاریخی پس منظرکے بارے میں بالواسطہ ناقدانہ نظر کو ملحوظ رکھاہے۔اس کے مطابق پہلے دور میں یونانیوںنے اپنے دیومالائی نظام فکر پر تجرید سے قابوپایامگرایساکرتے ہوئے وہ زندگی کے ٹھوس احوال سے اغماض برت گئے جس سے استخراج کاطلسم قائم ہواجودوسرے دورمیںبھی چھا یا رہا کہ جب الہامی حقائق کی تعبیر کا مسئلہ پیش آیا۔البتہ اس دورمیںکچھ مسلم مفکرایسے بھی تھے جن کویہ احساس ہواکہ یونانی استدلال قرآنی تعلیمات کے منافی ہے نتیجتاًاستقراء کے لیے رستہ ہموارہوا۔تیسرے دورمیںطبیعی علوم کے فروغ سے سائنسی طرزکے استقراء کو خوب پذیرائی حاصل ہوئی۔مگراس کے زور پر جہاں اہلِ مغرب نے خوب مادی ترقی حاصل کی،وہاںروحانی اورمذہبی تجربات کی حقانیت کو خاصا دھچکا لگا۔ گویا قوائے فطرت کی تسخیرکی قیمت پردولت ِایمان کو داؤ پر لگا دیا گیا۔ بہرحال اس تیسرے دور کی وجہ سے غیرمسلم کہیںسے کہیںجاپہنچے ہیںمگرمسلم کہیںکے بھی نہیں رہے،وہ زیادہ سے زیادہ غیرمسلموںکی فکری تقلید پرتکیہ کئے بیٹھے ہیں۔ اقبال کے نزدیک،یہ تکلیف دہ صورت ِحال تاحال جاری وساری ہے ۔اس سے واضح ہوتاہے کہ اقبال کواستقرائی فکرکی افادیت اورمسلمانوںکی فکری زبوںحالی کاکس حد تک شعورتھا۔اس کی یہ فکری جہت خصوصاً قابل توجہ ہے۔ iii۔قرآن کاطرز ِاستدلال منطقی قواعدوضوابط کے اس کڑے اندازسے بالکل مختلف ہے جس میںمخاطب کو بزوردلائل اپنے دعوی کومنوایاجاتاہے۔قرآن اپنے مخاطب کی قوت ِفکرو استدلال کوسلب نہیںکرتابلکہ اسے ابھارتاہے تاکہ وہ ازخودتاریخی قصوںاورفطری مثالوں سے ربانی مؤقف کوتسلیم کرسکے۔قرآن میں، تمثیلی استقراء اوراستقرائے تام کے استقرائی اسلوب کا استعمال بالخصوص دکھائی دیتا ہے۔استقراء کاتمثیلی اندازحضوراکرمؐ کی احادیث میںبھی ملتا ہے۔ اقبال نے قرآن و احادیث کے اس اندازکوخوب سمجھاہے۔اس لیے وہ بھی اپنے قاری کو منطقی ہتھکنڈوں میں نہیںالجھاتا۔زبردستی اپنے دلائل منوانا نہیں چاہتابلکہ تاریخی اورفطری تمثیلوں کے سہارے قاری کومجبورکرتا ہے کہ وہ اپنی فکری کج فہمیوںسے خودہی آگاہ ہواوراپنے حسّی ادراکات وتجربات کی بدولت فطرت کارازداںبنے۔ جہاں تک اس خیال کا تعلق ہے کہ لامتناہی ذاتِ خداوندی کومتناہی فطرتِ کائنات کے حسی ادراکات سے کیونکرپہچاناجا سکتاہے جبکہ دونوں کے مابین کوئی ایسی قدرِمشابہت موجودنہیںجوتمثیلی استقراء کے لیے ناگزیرہوتی ہے۔اقبال کے نزدیک،انسان اپنے باطن کی گہرائیوں سے کائنات کاوقوف حاصل کرے تواس وجدانی سطح پر محولہ بالااعتراض قابلِ قبول نہیںرہتاکیونکہ ایسی صورت میںلامتناہی اورمتناہی کے مابین نسبتوں کا فرق کوئی معنی ہی نہیںرکھتا۔ iv۔ سائنس کی ترقی سے یہ خیال عام ہواہے کہ استقراء صرف طبیعی اورمرئی اشیاء کے حسی مشاہدے تک محدودہے۔اس لیے اگرکوئی کسی بھی قسم کے غیرمرئی وجود کا اقرارکرے تو یقینا وہ اختلالِ ذہنی یاخودفریبی کاشکار ہوگا۔اقبال کے نزدیک، ایسا خیال خودمیکانکیت مخالف سائنس کے نظریات کی رُوسے غلط ثابت ہوتاہے۔جب سے ایٹم کے ٹوٹنے کاانکشاف ہوا ہے، مرئی مادہ غیرمرئی توانائی میںتحلیل ہوکررہ گیا ہے جس سے غیرمرئی وجودکے اثبات کاجوازنکل آیا ہے۔ اقبال کے زمانے میںحسی اورباطنی تجربات کواگرچہ تسلیم کرلیاگیامگرپھربھی طبیعی اور مابعد الطبیعی حقائق کومتفارق ہی متصورکیاگیا۔اقبال نے اس تفریق کواس بنیادپرردّکیاکہ جس قدر خارجی تجربات حقیقت ِکائنات کوجاننے کے لیے ضروری ہیں،اسی قدرداخلی تجربات بھی اہم ہیں۔ دونوںقسم کے تجربات ایک دوسرے کے متفارق نہیںبلکہ موافق ہیں۔حقیقت کے قطعی وقوف کے لیے خارجی سے باطنی تجربات کااستقرائی سفر طے کرناپڑتاہے جہاں دونوںکو بند خانوں میں نہیں بانٹا جاسکتا۔اس بات کاانکشاف خودی کی ماہیئت کی تفہیم سے اجاگر ہوتاہے۔ v۔تصورختم نبو ّت کی رُوسے رسول اکرمؐ کوبانی ٔاسلام قراردینادرست نہیںجیساکہ خودان کی حدیث مبارکہ سے ثابت ہے کہ اسلام کی عمارت ان کی نبو ّت پرکامل ہوئی۔ اس حوالے سے اقبال سے بھی تسامح ہواہے۔اس لیے جب وہ اسلام کے ظہورسے استقرائی عقل کے ظہورکی مناسبت طے کرتاہے توابہام پیداہوتاہے کہ آیااسلام کے آغازکو حضرت محمدؐ کی بعثتِ مبارکہ سے گمان کیا جائے یااس سے بہت پہلے۔بہرکیف ،قرین قیاس یہ معلوم ہوتاہے کہ اقبال نے اسلام کو ندرتِ فکر کے مفہوم میںاستعمال کیاہے تاکہ اپنے زمانے کے تقاضوںکے حساب سے انسان قرآنی تعلیما ت کی روشنی میں،آفاق،نفس اورتاریخ کی بدولت حقیقت کی تفہیم کااستقراء کرتا رہے۔اس مقام پر یہ سوال پیداہوتاہے کہ جب اسلام نے استقراء کی ایسی شاندار دعوت عام دی ہے تو پھر مسلم اُمہ فکر ی جمودکاشکارکیوںہے؟ اس کی بہت سی وجوہات ہیں لیکن عام طورپراس کاایک جواز یہ پیش کیا جاتاہے کہ ایمان اور ایقان آپس میںہم آہنگ نہیں۔اقبال کے نزدیک گو ان دونوں کے حلقۂ عمل جداجداہیںمگراس کے باوجودایمان میںایقان کاعنصر موجود ہوتا ہے بشرطیکہ اسے بزورِ وجدان محسوس کیاجائے۔ثانیاً،فکری لحاظ سے بھی ان دونوں میںہم آہنگی کی سبیل نکلتی ہے کہ جب عقل دین کے دفاع میںیااس کی راستی کوثابت کرنے میں مؤثردلائل پیش کرتی ہے۔اس مناسبت سے ایمان اور ایقان کوہم آہنگ متصورنہ کرنے کا جواز بلا جواز ہے۔ اس نے ایسے مذہبی تجربے کے چند یہ خواص گنوائے ہیںجیسے یہ تجربہ.i فوری اوربلاواسطہ ہے۔iiترکیبی اورتالیفی ہے۔ .iiiعارضی اور انفعالی ہے۔ .iv ناقابلِ ابلاغ ہے۔.vذاتی اور منفرد ہے۔ مختصر یہ کہ ایسے تجربے ہی سے ایما ن اور ایقا ن میںہم آہنگی کی صورت پیداہوتی ہے جس سے اندھے ایمان کا تصورغلط ثابت ہوتا ہے۔ بغرض سہولت، ِاستقر ا ئی استدلال کی ترقی وترویج کو تاریخی اعتبارسے کلاسیکی،مسلم اورمغربی استدلال میں تقسیم کیاجاتاہے تاکہ ان کابالترتیب جائزہ لیا جا سکے۔ کلاسیکی استدلال کے صحیح داعی یونانی تھے کیونکہ انہوں نے سب سے پہلے استدلال کے منطقی قواعدوضوابط وضع کئے اور اپنے زمانے کی مروجہ تعلیمات سے ہٹ کر آزادخیالی کی روش اپنائی۔ اگرچہ عمرانیاتی تحقیقات کی رُو سے، استدلال کا آغازاس وقت سے شروع ہو گیا تھا جب انسان نے اپنے مشاہدے کے زور پرٹھوس اشیاء کی ذہنی شبہیں تیار کیں اوران کے اظہار کے لیے منا سب الفاظ گھڑے۔قدیم دور کے چینی اور ہندوستانی استدلال میں فکری دلائل کی خاصی بو قلمو نی اور زرخیزی ملتی ہے مگران میں یونانی مفکرین جیسی روشن خیالی مفقودہے کیونکہ ان کے نظریات اپنے اساطیری نوعیت کے مذہبی تصورات سے کبھی پیچھا نہ چھڑا سکے۔یونانی مفکروں نے اٹل صداقتوں کو کھوجنے کی خاطرعلمِ ہندسہ اور ریاضی کے طرز پر استخراجی استدلال کوجلا بخشی۔جس کا بھرپور اظہار تقریباً سب ہی یونانی حکماء کے فلسفیانہ دلائل میں ملتا ہے جن میں مکالمات، جدلیات،سفسطہ اور قیاس جیسے استخراجی طرز کو خوب پذیرائی حاصل ہوئی۔ان کا طرزِاستدلال ان کے تہذیبی زوال کے بعد بھی دوسری قوموں کے لیے فکری سبیل کا راستہ ہموار کر تا رہا۔اس ضمن میںان کے سب سے پہلے پیروکاررومی قوم کے دانشور نکلے۔ مجموعی طور پریونانی استخراجی استدلال کے شائق رہے کیونکہ اولاً وہ کلیات کو جزئیات پرترجیح دیتے رہے ، ثانیاً اپنی تہذیبی خوبو کی وجہ سے خود سے تجربات کرنے سے گریزاں رہے، نتیجتاً ، تجربات کی جگہ محض مکالمات سے کام چلاتے رہے، ثالثاً، فنونِ لطیفہ کے رسیا ہونے کے ناطے ان کے فصاحت و بلاغت کے فن نے عملی کاموں سے جی چرانے کی بقیہ رہی سہی کسربھی نکال کر رکھ دی، رابعاً مباحثوں اور مناظروں کی ریت نے بھی منطقی قیاس کو خوب جلا بخشی اورخامساً فکری طور پر داخلیت اور خارجیت پسندی کے متضادرجحانات کوجگہ دینے کے باوجود،وہ عقلیت پسندی کے تجریدی تعقلات سے بڑھ کرنہ سوچ سکے۔اس طرح دور ِیونان میں،استقرائی استدلال ضمنی اور ثانوی حیثیت سے منطقی قیاس کے طرزپر پنپتارہامگراسے وہ درجہ حاصل نہ ہو سکا،جس کاوہ اہل تھا ۔ اقبال نے اپنے افکار میں یونانی استدلال کے بارے میں بالخصوص کبھی کوئی بات نہیں کی مگر ان کواپنے انفرادی اورعمومی زاویۂ فکر کے موضوعِ سخن بنایا ہے۔انفرادی زاویۂ فکر کے تحت اقبال نے حرکت کے مخالف ، زینو ایلیائی کے معضلاتی دلائل کو بے اثرپایا ہے کیونکہ اس نے اپنے مؤقف میںجودلائل پیش کئے ان سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ زمان کے آنات و لمحات کی صورت میںتقسیم پذیری کے عقلی تجزیے میں پھنسا رہا اور اس سے بڑھ کرکبھی نہ جان پایاکہ زمان صرف آنات و لمحات کی تقسیم سے متعلق نہیں، اسے اگروجدان سے محسوس کیاجائے تووہ ایک ناقابل ِتقسیم وحدت کے روپ میں مدرک ہوتاہے۔اس حوالے سے زینوکے دلائل کی حیثیت نہیں رہتی۔ دوسرے لفظوں میں ، عمل حرکت کے استخراجی تجزیے کی بہ نسبت اس کااستقرائی تجربہ کہیں زیادہ اہم ہوتا ہے ۔ زینوکے نظریاتی مخالف،ہراقلیتوس نے حرکت کوحقیقت ثابت کرنا چاہا مگر وہ اسے قطعی اورابدی اصول ٹھہراتے ہوئے زمانے کی نوعیت کو دوری اورانسان کی فطرت کومجبورِمحض ثابت کر بیٹھا اور اس طرح فکر ِاقبال کی رُوسے وہ بھی دراصل زمانِ مسلسل کے تصورسے آگے اس زمانِ خالص کاتجربہ حاصل نہ کرسکاجس کااحساس انسانی نفس کے وجدان سے ہوتاہے اورجس کی بدولت انسان کا مقدر جبر نہیں، اختیار ٹھہرتا ہے۔ ثانیاً، زمانے کی گردش دَوری نہیں،تخلیقی ثابت ہوتی ہے۔ سقراط نے اپنے استدلال میںمشاہدۂ کائنات سے دانستہ اعراض برتااور صرف مطالعۂ انسان کی طرف توجہ مبذول رکھی جودعوت ِقرآنی کامحض ایک پہلوہے۔ اس نسبت سے اقبال کو سقراط کااستدلال ناپسندہے۔اصل میں سقراط کامسئلہ یہ تھاکہ وہ ایسے تعقلات وضع کرنے کے دَر پہ تھاجوعملِ تعمیم کے باعث ایک ہی جیسی اشیاء میں موجودکسی ناگزیرصفت کی بنیاد پر استوار ہوتے ہوں۔اس کاایقان تھاکہ علم محض سچی اورازلی تعقلات کی بازیافت کاعمل ہے جنہیں ذہنِ انسانی نے عملِ تعمیم سے اخذکیاہے۔بادی النظر میںدیکھاجائے تواس کا بیان کردہ عملِ تعمیم تجربی حقائق کا نچوڑ معلوم ہوتا ہے مگر گہری نظر سے غورکیاجائے تومعاملہ ایسا نہیں ہے کیونکہ عملِ بازیافت وہبی ہوتا ہے،تجربی نہیں۔دوسری جانب،یہ بھی غلط نہیں کہ اس کی زندگی سے ایسے واقعات کی نشاندہی ہوتی ہے جن سے وجدانی طرز کے استقراء کی جھلکیاں ملتی ہیںحالانکہ اس کے طرزِ تکلم کا رنگ ڈھنگ زینو،ایلیائی کے استخراجی طرز کے مکالماتی آھنگ سے قریب تھا۔اس بناء پراب یہ مانا جاتا ہے کہ اس کے طریقۂ استدلال میں اختلافِ رائے کی اچھی خاصی گنجائش موجود ہے۔ بالفرض، اگر تھوڑی دیر کے لیے اس کے استدلال کو استقرائی ٹھہرا بھی لیا جائے تو اقبال کی رُو سے ایسا خیال مناسب نہ ہوگاکیونکہ کچھ بھی ہو،سقراط تعقلات کے عملِ تعمیم سے کبھی آگے نہ بڑھ پایا،علم اور اس کے مطابق عمل کرنے کو کبھی ایک دوسرے سے جدا جدا متصور نہ کر سکا،گویاکبھی نہ جان پایا کہ کیوں لوگ دیدہ دانستہ وہ کچھ نہیں کر تے جن کے بارے میں وہ بخوبی آگاہ ہوتے ہیں۔ چونکہ اقبال کو استقراء سے مَس تھا ، اس لیے اس کے ہاں اس کا جواز موجود ہے کہ کس طرح مادی تقاضوں پر فتح حاصل کرنے کا مشکل کھیل کھیلا جاتا ہے تاکہ علم اور اس کے مطابق عمل کرنے میںمطابقت قائم ہو ۔ افلاطون اپنے استاد سقراط کا ہمنوا تھا کہ حقائق کا تعلق حواس سے نہیں،تفکر سے ہے۔ تعقل کی بنیاد قیاس ہے، تجربہ نہیں اور علم بازیافت کاعمل ہے۔اس نے سقراط کے نظامِ تعقلات کی علمیاتی حیثیت کووجودیاتی بناڈالا جس کے تحت،دنیائے حواس،دنیائے امثال کا ظِل ثابت ہوا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ اس کی قائم کردہ دنیائے مجازاور دنیائے حقیقت کے دَرپردہ دیوتیما کے عشقِ مجازی اور عشقِ حقیقی کی گونج موجود ہے۔اقبال کو اس کے افکار واستدلال قطعی ناپسند ہیںکیونکہ ان کا قرآنی تعلیمات سے بہت بُعدہے۔قرآنِ حکیم دنیائے حواس کو مجازی نہیں،حقیقی قرار دیتاہے جہاں اہلِ فکرونظر کے لیے خالقِ دو جہاں کی نشانیاں موجود ہیں۔ثانیاً،دنیائے حواس کو دنیائے امثال کا ظل ماننے سے قرآن کے تخلیقی تصور ِکائنات پرضرب لگتی ہے اورکائنات ایک بندھی ٹکی غائیت کی جبریت کاشکارہوجاتی ہے۔ثالثاً تغیرات ِزمان کوفریب قراردینے سے قرآن کے تصورزمان کی نفی ہوتی ہے۔رابعاًدنیائے حواس کومجازٹھہرانے سے انسانوں میںزندگی کی تڑپ اورجدوجہدکاجذبہ سرد پڑ جاتاہے اوربے عملی درآتی ہے۔ مجموعی طورپرافلاطون کے فکرکی ان جملۂ خرابیوں کاسبب اس کے استدلال کااستخراجی مزاج ہے۔البتہ اقبال ارسطوکے افکارسے کسی حدتک مطمئن ہے مگر اس کے طرز استدلال سے خوش نہیں۔اسے ارسطوکی یہ بات بھلی لگتی ہے کہ وہ عالم ِمحسوسات کو فریب نہیںسمجھتااورٹھوس حقائق کی اہمیت کا معترف ہے مگرساتھ ہی ساتھ اسے اس کی یہ ادا نہیں بھا تی کہ وہ سبھی دیگریونانیوںکی طرح قیاس سے کام چلاتاہے اور کائنات کی ایسی توجیہہ پیش کرتا ہے جس میںاضافہ کی ذرہ بھرگنجائش نہیںنکلتی اورجس میںایک بندھے ٹکے ضابطہ ارتقاء کی جبریت مسلط ہے۔اس طرح وہ بھی اپنے قیاسی دلائل کی روسے کائنات کی تخلیق کے نظریے تک نہیں پہنچ سکا۔ عمومی زاویۂ فکرکے اعتبارسے اقبال کویونانی استدلال میںکوئی جاذبیت دکھائی نہیںدیتی۔ اگرچہ تاریخی لحاظ سے انہوںنے مسلم فکر پر بڑے دیرپااورقوت بخش اثرات چھوڑے ہیں۔تاریخِ اسلام شاہد ہے کہ مسلم حکماء ان کے فکر واستدلال سے بہت متاثر ہوئے مگرقرآن فہمی کے عمیق تر مطالعے کے زیراثران پران کے فکرواستدلال کی کج فہمیاں آشکاراہوتی چلی گئیںاوروہ ان کے دائرہ اثرسے بتدریج نکلتے چلے گئے۔مجموعی طور پریونانیوںسے کئی غلطیاں ہوئیں جیسے،وہ معقولات کو محسوسات پرترجیح دیتے رہے،خداشناسی کی جہت کو کونیاتی،غایتی اوروجودیاتی دلائل کی رُوسے ثابت کرتے رہے حالانکہ ان سب میںالہامی خداسے منسوب تصورِ خالق صحیح ثابت نہیں ہوتا۔اقبال کے نزدیک یونانیوں کی مشکل یہ ہے کہ وہ حقیقتِ واحد کے تصورکی طرف صحیح معنی میں پہنچ ہی نہیںسکے کیونکہ ان کافکرواستدلال ثنویت سے جان نہ چھڑاسکا،جس کے دَرپردہ اصل میں ان کا مخصوص استخراجی میلان کارفرماتھا۔ یونانیوںکااستدلال جوخالصتاًاپنے تہذیب و تمدن میںپروان چڑھا،ہیلانی کہلایا اور جو استدلال دیگر قوموں کے تہذیبی اثرات کے اشتراک سے نموپایا، ہیلانیاتی کہلایا۔تاریخی اعتبار سے سکندراعظم کی فتوحات کے زمانے سے ہیلانی استدلال ہیلانیاتی استدلال میں تبدیلی کاباعث بنا۔ہیلانیاتی استدلال کے ابتدائی وارث رومی دانشورثابت ہوئے اگرچہ وہ اس میںکسی خاطر خواہ ترقی اوراضافے کاموجب نہ بن سکے۔مسیحیت کے ظہورسے ہیلانیاتی استدلال نے علم الکلام کا روپ دھاراجہاںالہامی مذہب کے مسائل کوفلسفیانہ دلائل کے روپ میںحل کیا جاتا ۔ اس دوران ایسی صورتِ حال میںنوفیثاغورثیہ،یہوداسکندری فلسفہ،نوفلاطونیت اورابتدائی مسیحیت کے مکا تب ِفکرنے بہت معاونت فراہم کی کیونکہ ان سب کامقصوددین اور دنیامیںتفریق،عالم ِحواس کی مذمت،وراء الوراء خدا کا پرچا ر ، خداا ورکائنات کے درمیان روحانی واسطوںکے سلسلہ ٔصدور، رہبا نیت کااستحسان اورایمان کوذریعہ طمانیت ٹھہراناتھا۔ جس زمانے میںعیسائی تعلیمات کاسلسلہ پھیل رہاتھا،عرب اس سے قریباً نابلد تھے۔وہ مابعدالطبیعی تصورات کو تخیل میںلانے سے عاجزتھے۔لیکن اس کے باوجود ان کا فکری مزاج استقرائی تھاکیونکہ مشاہدہ اور تجربہ کی بنیادپر قیافہ کے وہ بہت ماہرتھے۔بعثت ِرسول ؐکے بعدعرب مسلمانوںکے فکرونظرمیںبہت تبدیلی آئی، خصوصاًمسلمانوںکی فتوحات ،قرآنی تعلیمات کی نشرو اشاعت اور دیگرقوموںسے علمی مباحث کی بدولت صورت ِحال کافی حدتک تبدیل ہوئی۔ مسیحیت کے عَلم برداروں کانسطوری فرقہ جس قسم کی مذہبی توجیہات کی ترویج میں کمربستہ تھا،ان سے سرکاری سرپرستی کامذہبی فرقہ نالاںتھا۔نتیجتاً،انہیںزیر ِزمین سرگرمیوںمیںاپنافریضہ سرانجام دینا پڑالیکن عیسائی علاقوں پر مسلمانوںکی فتوحات سے انہیں آزادی ٔفکر نصیب ہوئی جس نے مذہبی مسائل کواس حدتک بڑھاوادیاکہ مسلمانوں کو اپنے مذہب کے محاکمے کے لیے ان منطقی اسالیب اور قواعدو ضوابط سے شناساہوناپڑاجن سے وہ حضرات کام لیتے تھے۔نتیجہ یہ نکلاکہ مسلمانوںکے ہاںبھی علم الکلام کاسلسلہ چل نکلاجس میںیونانیوںکے استخراجی استدلال کا بے دریغ استعمال کیا جاتا،تاکہ حریف کوقائل اورمائل کیاجاسکے۔یہاںیہ بات یادرکھنے کی ہے کہ مسلم علم الکلام،مسیحی علم الکلام سے یکسرمختلف ہے۔عیسائی اپنے عقائدکے لیے جب کبھی یونانی استدلال کے طورطریقے استعمال کرتے تو جہاںمناسب سمجھتے،عقائدمیںتحریف کرلیتے۔اس کے برعکس مسلمانوں نے اپنے عقائدپرکبھی ضرب نہ آنے دی ۔یہی وجہ ہے کہ مسلمانوںکے ہاں صحیح معنی میںمحض کلام تھا،علم الکلام کبھی نہ تھا۔بہرکیف،حاکمین ِوقت کی پشت پناہی اور سرکاری سرپرستی میںجب تک غیر مسلمو ںکے فلسفے اور علوم کے عربی تراجم کا سلسلہ جاری ر ہا ، مسلمان رومیوںکے بر عکس ان میں خاطرخواہ اضافے اورجدّتیں کرتے رہے۔ یہ نکتہ خصوصی طورپرقابل توجہ ہے کہ اسلامی استدلال اورمسلم استدلال میںفرق ہے۔ اسلامی استدلال قرآنی تعلیما ت کی ایسی تشریح اورتوضیح سے عبارت ہے جہاںاسے مذہبی عقائد کے محاکمے کی خاطرخواہ دیگرفلسفیانہ نظر یا ت سے جارحانہ تنقید کاسامنا کیوں نہ کرنا پڑے،وہ اس سے پیچھے نہیںہٹتا۔اس کے برعکس، مسلم استدلال قرآنی تعلیمات کی ایسی توجیہات پرموقوف ہے جہاں اسے مذہبی عقائدکی دیگر فلسفیانہ نظریات سے ہم آہنگی کے لیے چاہے مدافعانہ یا جار حانہ انداز کیوںنہ اختیار کرنا پڑے،وہ اس سے دریغ نہیںکرتاتاکہ آئندہ ان میںکبھی بھی تصادم کی صورت ِحال پیدانہ ہو۔ مجموعی طور پر، مسلمانوں کا استدلال تین صورتوں میں نمودا ر ہوا۔ .iمسلم علم الکلام:یونانی دورمیںعلم الکلام یامدرسیت کی اصطلاح ارسطوکے شاگرد تھیو فریسٹس نے متعارف کی جس سے مراد مذہبی اداروںمیںمروجہ مذہبی مسائل ِایمانیہ کے حق میںمنطقی جواز ڈھونڈنالیا گیا۔اس ضمن میں مسلمانوں کے ہاں،معتزلہ اوراشاعرہ کے بالخصوص دوقابل ِقدر اور متضادمکاتب ِفکرظاہرہوئے جنہوںنے یونانی استدلال کے منطقی ہتھیاروںسے ایک دوسرے کو فکری طورپرزیرکرنے کاوطیرہ اپنائے رکھا۔ اشاعرہ پرڈھائے جانے والے معتزلہ کے ظلم وستم سے بیزارایک گروہ اخوان الصفابھی وجودمیں آیاجوچوری چھپے معقول کی منقول سے ہم آہنگی کافریضہ سرانجام دیتارہا۔اس معاملے میںانہوںنے یونانی استدلال سے خوب استفادہ کیا۔ .iiمسلم حکمت وفلسفہ :مسلمانوںکے ایسے آزادخیال اورروشن دماغ مفکرجنہوںنے الہامی مسائل ایمانیہ اورفلسفیانہ خیالات ونظریات کے مابین ہم آہنگی پیداکرنے کی حتی الوسع کوشش کی،ان کاآغازالکندی کی فکر و نظر سے ہوا۔اس کی قائم کردہ روایت کوتین طرح کے فکری نشیب وفرازسے گذرناپڑا۔اس معاملے میں اولاً، الکندی کے ہم خیال حکمائ،ثانیاً،اس کے مخالف ِفکرحکماء اورثالثاً،ایسے حکماء سامنے آئے جنہوںنے انسانی ذہنوںکے درجوںکی تفاوت کو پیش ِنظررکھتے ہوئے یہ نکتہ اٹھایاکہ مذہب اورفلسفے کی تعلیمات میںہم آہنگی کامسئلہ عوام الناس کی فہم وفراست سے بالا ہے، اس لیے الکندی کی قائم کردہ روایت کوصرف وسیع النظرحکماء تک محدود رکھنا ضروری ہے۔یہ وہ لطیف نکتہ ہے جسے الکندی روایت کے مخالفین نہ سمجھ پائے۔ مسلمانوں میں فکری اختلافات پنپنے کافائدہ یہ ہواکہ ان پریونانی استدلال کی کج رویاں آشکارا ہوگئیں۔ .iiiمسلم تصوف:منطقی استدلا ل سے بیزارمسلمانوںمیںایک ایسا طبقہ بھی وجود میں آیا جس نے حکمت ِالٰہی سے بڑھ کر قربت ِالٰہی کوفوقیت دی اوراس کے لیے تزکیۂ باطن کوضروری خیال کیا۔اس مقصدکے حصول کی خاطر بعض مسلم صوفیاء اسلامی شریعت کی حدودسے تجاوزکرگئے اور غیراسلامی طریقوںپرعمل پیراہوگئے جہاں خاص طور پر ویدا نت، بدھ مت،مسیحیت،مانویت اور نوفلاطونیت کے خارجی عوامل اثرانداز ہوئے۔نتیجتاً،مسلمانوں کے ہاں تصوف کے دو مسلک وحدت الوجود اور وحدت الشہود منظر عام پہ آئے۔اول الذکر مسلک کے وجودی صوفیوںنے یہ مؤقف اپنایاکہ طریقت شریعت سے ارفع ہے۔اس دعویٰ کے خطرناک اثرات کو بھانپتے ہوئے مؤخر الذ کرمسلک کے توحیدی صوفیاء نے ان کی سخت مخالفت کی۔ مسلمانوں اور عیسائیوں کے علم الکلام میںجو فرق ہے اقبال اُس سے آگاہ تھا اوراسے یہ بھی بخوبی اندازہ تھاکہ مسلم متکلمین نے یو نانی استدلال سے کس قدراستفادہ کیا۔مجموعی طورپراس کے افکارمیںمسلم علم الکلام کے تین عیوب کی نشان دہی ملتی ہے۔ایک، یونانی فلسفہ اورمنطق سے بے پناہ رغبت رکھنے کے باعث اس کی بنیادیںغیرمستحکم اورغیرتسلی بخش ثابت ہوئیں، دوسرے، اس کے مسائل میںآفاقی اور عالمگیر طرزکارنگ مفقودرہا اور تیسرے ،اس نے وحی اورعقل کے درمیان اختلافات کی خلیج کوکہیںزیادہ وسیع کرڈالا۔نتیجتاً،مسلم علم الکلام کی مددسے مسلمانوںکے مذہب کامحاکمہ توکیا ہوتا، خود مسلم فرقوںمیںمخاصمت زیادہ بڑھی۔اقبال کی رائے میںعصرِ جدید کا تقاضا اب یہ ہے کہ مذہبی الٰہیات کا تحفظ نہیں،بلکہ اس کی تشکیل نوکی جائے تاکہ حیات ِانسانی کے نئے مسائل کی توجیہہ ان کے حوالے سے ہوتی رہے ۔گویا عصرِ جدید میں اس بات کی ضرورت نہیںکہ مصدقہ حقائق کی تصدیق کی جائے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ٹھوس تجربات و واقعات کی رُوسے ایسے نتائج کشیدکئے جائیں جو مذہبی حقائق سے ہم آہنگ ہوں۔ یقینا، ایساامر استقرائی استدلال کامتقاضی ہے۔ مسلم حکمت وفلسفہ کے ضمن میں،اقبال کی رائے ہے کہ اس کی نسبت مذہبی زندگی کی فکری سطح سے پیوستہ ہے جہاںخدائے واحداوراس کے رشتۂ کائنات سے متعلق معقول جوازڈھونڈنے کی ضرورت پیش آتی ہے،ایسے مابعدالطبیعی تصور قائم کرناناممکن نہیںبشرطیکہ ان کی طرف نظری نہیں بلکہ تجربی نقطہ نظرسے نگاہ دوڑائی جائے۔اس سلسلے میں،مغربی مفکرکانٹ نے مابعدالطبیعیات کا انکارکیا۔کیونکہ وہ اسے زمان ومکاںکے خارجی سانچوںکی نسبت سے مدنظر رکھتا رہا حالانکہ مسلم مفکر عراقی کے پیش کردہ زمان ومکاںکے داخلی واردوںکوملحوظ ِخاطررکھاجائے تو مابعدالطبیعیات کا انکار محال ہوجاتاہے۔خوداقبال نے مابعدالطبیعیات کے امکان کونظریۂ تعلیل کے ردّمیںانائے بصیر کے حوالہ سے اجاگر کیا اور واضح کیاکہ امام غزالی اورشیخ شہاب الدین سہروردی جیسے جیّدمسلم اس حقیقت کوپاگئے۔نیزاس زاویۂ فکرکی تائیددعا کے نظریے سے بھی ملتی ہے۔مابعدالطبیعیات کونظری قیاس تک محدودرکھنے کی غلطی ابنِ رشدسے بھی ہو ئی جس نے عقل کوحواس سے متغائر اور ممتازسمجھتے ہوئے یہ خیال کیاکہ عقل انفرادیت سے ماوراء ہے۔اس لیے بقائے انسانی کاتعلق اس کی نوع سے ہے کسی مخصوص فردسے نہیں۔اس کی توجیہہ اُخروی نظام ِعدل کے جزاو سزاجیسے مابعدا لطبیعی تصورات کی روشنی میںانسان کے اخلاقی تقاضوںکے جوازمیں درست نہیں۔اس کی غلطی کااندازہ یاتو قرآنی تعلیمات کی درست تفہیم سے ہو سکتا ہے یاپھرباطنی اورقلبی واردات کی گہرائیوں سے۔ اس ضمن میںاقبال کی ہیلانیاتی رجحانات سے ناپسندیدگی یقینا قابل ِفہم ہے۔ اقبال نے مسلم تصوف کواعلیٰ درجے کی فلسفیانہ موشگافیوںاورادنیٰ حیثیت کی توہم پرستی کے بین بین پایا۔اس نقطۂ نظرتک پہنچنے کے لیے اُس کاایک طویل عرصہ صرف ہوا،کیونکہ ابتدا میں اس کا فکری میلان اپنے خاندانی پس منظر کی بدولت وحدت الوجودکی طرف مرکوز تھا مگر بعدازاں وسعت ِفکرونظرکے باعث اس کاذاتی رجحان وحدت الشہود کی طر ف ہو گیااور اسے معلوم ہوا کہ وجودی تصوف انفرادیت بشری، شخصیت الوہی،تشخص شریعت اسلامیہ، اختیاریت انسانی، معاملات حقوق العبادی کے لیے زہر قاتل کادرجہ رکھتی ہے۔وجودی تصوف کے پھلنے پھولنے کے ذمہ دار غیرمسلموں کے فکری و علمی رجحانات، علم الکلام کے مسائل ،نوفلاطونیت کے میلانات، عیسا ئیت کی تعلیمات، مسلمانوں کی مذہبی رَواداری کے اثرات،مسلم حاکمین اوراُمراء کے غیر اسلامی طرز ِبود وباش جیسے عوامل تھے۔اقبال کے نزدیک اسلامی تصوف میں اس تبدیلی کا سزاوار سر زمین عجم ہے جہاںتخیل تجربے پر اس قدرحاوی رہاکہ تصوف کو شاعرانہ تخیل میںڈھال کر اس کی بچی کھچی صورت کو بھی مسخ کرکے رکھ دیا گیا۔اقبال نے ضمنی طورپریہ صفائی پیش کی ہے کہ منصور حلاج کے نعرہ ٔانالحق کووجودی تصوف کا پیش خیمہ قراردینا درست نہیںکیونکہ اس کانعرہ مابعدالطبیعی حقیقت کا استخراج نہ تھابلکہ اپنی ذات کا محض وجدانی استقراء تھا۔ علم الکلام،حکمت وفلسفے اورتصوف کے بارے میںناقدانہ تجزئیے کرتے ہوئے جہاںمسلم مفکرابنِ خلدون نے عقل اوروجدان کو ایک دوسرے سے جدا جدا متصورکیا،وہاںاقبال نے انہیں ایک ایسی زنجیرمیںبندھا ہوامتصور کیا جہاں عقل کی کڑی ختم ہوتی ہے وہاں سے وجدان کی کڑی شروع ہوتی ہے۔گویا اقبال نے استقراء کوکہیںزیادہ وسیع تناظرمیںمدنظررکھا۔ جہاںتک مغربی استدلال کامعاملہ ہے ،اس کاطرۂ امتیازسائنس قرارپائی جو طویل ا ستقرا ئی فکر کے ارتقائی منازل طے کرنے کے بعداس قابل ہوئی کہ مذہب تصوف،علم الکلام اور فلسفے سے جدااپنامقام بناسکے۔اس کے خدوخال بالترتیب یونانی،مسلم اور پھر مغربی ادوار میں ظاہر ہوئے۔ زمانۂ قدیم میںیونانیوںکے ہاں سائنس دوسرے درجے کی حیثیت سے نمایاںہوئی کیونکہ اس زمانے میںعلم ہندسہ وریاضی کے زیراثرمّجردتصورات کومقرون احوال پر ترجیح دی گئی، تخیل تجربے پرحاوی رہا۔سائنسی علوم کی تخصیص کاری کاشعورمفقودرہا۔غلامی کی وجہ سے مشقت طلب تجربات سے ارادتاًچشم پوشی کی جاتی رہی اور یہاںتک ہواکہ مطالعۂ خارج کو بیکار مشغلہ سمجھ کراس کی حوصلہ شکنی کی گئی ۔ اس کے باوجودبقراط جیسے معدودے چند مفکروں نے سائنسی معاملات میںدلچسپی دکھائی۔ دراصل ان کوزندگی کے بعض مسائل نے مجبور کیاکہ وہ ان کے عملی حل کی خاطر سائنسی اقدام کریں۔ہیلانی دورکی بہ نسبت ہیلانیاتی دور میں سائنس کی ترقی وترویج میں کہیں زیادہ بہتری آئی حالانکہ اس وقت بھی استخراج،استقراء پرمقدم تھا۔سب سے پہلے اسکندریہ میں سائنس کو فلسفے سے جدا اپنے کل پرزے نکالنے کاموقع نصیب ہوا۔وہیںکائنات بحیثیت کل کے علاوہ اس کے جزوی گوشوںکوجاننے کاسلسلہ شروع ہوا۔اس تبدیلی کی وجہ شاہی سرپرستی،غیرملکی ہنر مند و ں کی آبادکاری اور ذہین لوگوںکی سائنس میںرغبت جیسے عوامل بنے۔ ہیلانیاتی دور میں طب، جغرافیہ،فلکیات،ارضیات، طبیعیات جیسے علوم میںخاطر خواہ سائنسی نوعیت کے کام ہوئے۔ لیکن جب یہوداسکندری فلسفے،نوفیثاغورثیت، نوفلاطونیت اور ابتدائی مسیحیت کے رجحانات نے فلسفے کومطیع کرلیا،یعنی عقل ایمان کی نذرہوگئی،تب اس مذہبی سختی نے سائنس کی ترقی کوبہت ضعف پہنچایا۔یہ ازمنۂ وسطی کادورتھاجب مغرب مکمل طورپرفکری تاریکی میں غرق تھا۔ اس کے برعکس،مشرق کی صورت حال مختلف تھی۔استقرائی مزاج کے حامل عرب مسلمان ہوئے توقرآنی تعلیمات نے ان کے استقرائی روّیے کو مزید جلا بخشی۔ نتیجتاً انہوں نے ترجموں اور شرحوںکی بدولت نہ صرف ہیلانیاتی استدلال کی گرتی ہوئی ساکھ بحال کی بلکہ اس کی اصلاح بھی کی۔کلیسائی عہدمیںجس زمین المرکزی نظریے کے مذہبی پرچارنے سائنس اور فلسفے کوفکری لحاظ سے جکڑرکھاتھا،اس سے یہ خیال عام ہواکہ ایسے مشاہدات وتجربات کوخاطرمیں نہ لایاجائے جو ایمان سے ٹکراتے ہوں۔ لہٰذاسائنس کی ترقی محض کیمیاگری تک سکڑکے رہ گئی۔ جہاںدولت مند بننے کے ارادے سے کم قیمت دھاتوںکوسونے میںبدلنے کی ترکیبیںکی جاتیں۔گویہ سلسلہ قدیم یونانیوںسے چلاآرہاتھا مگرمسلم دورتک اس میںکافی تیزی آچکی تھی۔مسلم سائنسدان جابربن حیان بھی اس کار ِلاحاصل کاشکارہوا۔اس معا ملے میں اس کا طریقۂ کار اپنے پیشرؤوں سے خاصا مختلف رہا۔اس نے صحیح معنی میں سائنسی طریقۂ کاراپنایااورپھر کئی تجربات کئے۔اس کے نقشِ قد م پرچلتے ہوئے علم الکیمیاکے میدان میںکئی مسلم سائنسدانوںنے تجربات کئے اور اس طرح ریاضی، فلکیات،طبیعیات،طب جیسے دیگرعلوم میںبھی سائنسی روش کادائرہ عمل پھیل گیا،جس سے بعدازا ں اہل مغرب مستفیدہوئے۔مجموعی طورپرمسلمانوںہی نے سائنس کو حیات ِنوبخشی اور یونا نی سائنس کی قبل تجربی صورت کو بعدازتجربی صورت میں ڈھالا۔ یعنی جہاںیونانی مفکر بدیہیا ت سے منطقی قواعد کی رُوسے لزومی نتائج اخذکرتے، وہاں مسلم مفکر مفروضات سے تجربوںکی روشنی میںبدیہی اصولوںتک جاپہنچے۔ مسلمانوں کی استخراجی سے استقرائی استدلال کی طرف تبدیلی کے اس واضح قدم کومغربی مفکر کبھی نہ جھٹلاسکے۔سرزمین ہسپانیہ میںمسلمانوں کے اقتدارِ زوال تک راجربیکن جیسے مغربی مفکرمسلمانوںکی سائنسی تعلیمات سے بہرہ ورہوچکے تھے اوراسے زندہ رکھے ہوئے تھے۔البتہ مسلم اورمغربی مفکروںمیںیہ واضح فرق ضرورتھاکہ مسلمانوںنے جب یونانیوںکے علم کوعربی میںمنتقل کیاتھاتواس میںخاطرخواہ اضافے بھی کئے تھے جب کہ انہوںنے عربی سرمائے کولاطینی میںمنتقل کیاتواس میںکوئی قابل ِقدر اضا فہ نہ کرسکے۔بہرکیف راجربیکن کے گزر جانے کے کوئی چارصدیوںبعدجب فرانسس بیکن نے سائنسی فکر کا اعادہ کیا تواس کاشدت سے نوٹس لیا گیا۔آخرکارایک ایساوقت آیاجب مغرب نے یہ طے کرلیاکہ سائنس اور مذہب کے دائرہ عمل جدا جداہیں،اس لیے سائنسی تحقیق کومذہبی تعصبات سے محفوظ رکھناہوگا۔یہ صحیح ہے کہ مغرب کویہ فیصلہ کرنے میںصدیوں کاعرصہ لگاجس کی وجہ کوپرنیکس،گیلی گلیلیو، ٹائیکوبرا ہے، کیپلر، نیوٹن وغیرہ کے سائنسی تحقیقات اورتجربات بنے۔ سا ئنسی ترقی کی بدولت آخر کار کائنات کی حیثیت ایک میکا نکی مشین کی صورت میں ہویدا ہوئی۔ڈارون نے اس کا اطلاق حیات پرثابت کرکے میکانکی سائنس کی استنادیت کومزیدمستحکم کرڈالا۔اسے بنیاد بناتے ہوئے سگمنڈفرائڈ نے یہ دعوی کیاکہ انسان محض اپنے نفس کاغلام ہے اور مذہبی سچائیاںاصل میںاس کے ذہنی اختلال کاثمر ہیں۔یہ سائنس کی طرف سے مذہب پرشدیدوارتھا۔بہر کیف،میکانکی سائنس کی ترقی سے دواصول مسلمہ قرار پائے، اوّل،ہر واقعہ علت معلول کے سلسلہ میںبندھاہے۔دوم،مادہ اورتوانائی دو متضاد تصورات ہیںکیونکہ مادہ جسمانی شے ہے جومحدود فضا کو بلا شرکت غیرے گھیرے ہوئے ہے جب کہ توانائی نہ توجسمانی شے ہے اور نہ ہی فضا کو گھیرے ہوئے ہے ۔وہ تو محض موجوں کی مسلسل صورت ہے۔لیکن طبیعیات کے ماہرین میکس پلانک،ھائزن برگ اور آئن سٹائن نے ایسے سائنسی نظریات پیش کئے جن سے میکانکی سائنس کے دونوںاصول غلط ثابت ہوئے۔میکس پلانک نے واضح کیاکہ مادے اورتوانائی کے تصورات متضادنہیں۔ہائزن برگ نے اس تصورکومزیدتقویت بخشی اور آئن سٹائن نے نہ صرف مادے اور توانائی کوایک دوسرے میںبدلنے کاعندیہ دیابلکہ یہ انکشاف بھی کیاکہ ہر واقعے کے رونما ہونے کے لیے علّت معلول کارشتہ ضروری نہیں۔بلا شبہ میکانکی سائنس کی مخالفت سے مغربی استدلال کوایک نئی جہت عطاہوئی ہے جس کی وجہ سے تابنا ک مستقبل کی نئی امیدبندھی ہے۔بنیادی طورپرمغربی استدلال کی سائنسی ترقی سے دوباتیںسامنے آئی ہیں۔ اوّ ل ، علوم میںتخصیص کاری کی شدت سے جہاںسائنسی شعبے ایک دوسرے سے بیگانہ ہوگئے ہیں وہاں انسان بھی اس قدر مادی ترقی حاصل کر گیاہے کہ انسان نہیںرہا،مشین بن کے رہ گیا ہے ۔ دوم ، تعمیری اور تخریبی،بیک وقت ہر دولحاظ سے قدم اٹھا کر سائنس نے انسان کوایک عجیب دُبدھا میں پھنسا دیا ہے۔اس حوالے سے اہل ِمغرب کوسائنسی فکرپہ تکبرکرنے سے پہلے نظرثانی کرنا ہوگی۔ اقبال نے یونانی حکمت کے تجزیے سے دونتیجے برآمدکئے تھے۔ اوّل، انہیں نظریوںسے دلچسپی تھی،حقائق سے نہیں۔دوم،انہیںادراک بالحواس سے نفرت رہی۔ ان نتائج کی رُوسے سائنس کودوسرے درجے کی حیثیت حا صل رہی۔بے شک سائنسی حقائق میںظاہری طورپرکوئی نئی بات نہیںہوتی مگراس کے دریافت کردہ اصول نئے انکشافات کے لیے ضروراہم ہوتے ہیں۔ یونانی فلسفیانہ فکر کے زیراثرسائنس کی معنویت کونہ جان سکے اور صرف نظریۂ ضرورت کی غرض سے اس کی طرف ملتفت ہوئے۔بہرکیف،فلسفے کے زیرسایہ پنپنے سے دواہم طلب باتیں ہوئیں ۔ اوّل، سائنسی استقراء کوبھی استخراجی طرزپرنپٹایاجاتارہا۔دوم،سائنسی استقراء مذہبی معاملات میں دخل انداز ی سے محفوظ رہا۔ نتیجتاً اوّل الذکرکی بدولت سائنس کی ترقی محدودرہی اور مؤخرالذکرکے تحت مذہبی نظریات ایجابی یاسلبی طورپرفکری بصیرت سے تہی دامن رہے۔اقبال کے خیال میں، ایسی صورت حال صحت مندنہیںہوتی کیونکہ جب تک خیالات میںتلاطم اورہنرمیںانقلابی نوعیت کے اقدامات نہ کئے جائیں،سائنسی استقراء بے کاررہتی ہے۔بہرکیف،وقت گذرنے کے ساتھ یونانی حکمت اورسائنس کواستنادیت کے اس رتبہ پرفائزکردیاگیاکہ خصوصاًارسطوکے خیالات کے خلاف بات کرناکسی جرم سے کم نہ سمجھاجاتا۔اس کے باوجودمسلم اورمغربی سائنسدانوں نے اس کی استنادیت کے زور کو توڑ ڈالااوراس کے کئی سائنسی سقم عیاں کئے۔یہ سائنسی استقراء کی فتح مندی کی طرف ایک مؤثرقدم تھااگرچہ اس میں صدیاںصرف ہوئیں۔اقبال کے نزدیک،ارسطوئی سائنس کے خلاف اٹھنے والی صدائیںبلاسبب سائنسی ترقی کی راہ میںسنگ میل ثابت ہوئیں اور آخرکار یہ راز کھلاکہ میکانکی شب وروزسے آزاد اس حکمت کوبھی پہنچاجاسکتاہے جہاں زمانہ آغاز و انجام سے بے نیازہوتاہے۔ مسلم سائنس کے حوالے سے اقبال کی فکر چار جہتوں میں نمایاں ہے۔ اوّل،مسلم سائنس دانوںنے یونانی سائنس سے بے شک استفادہ کیامگران کی اندھی تقلید نہ کی جیسے کہ انہوں نے عقل اورحواس کی ثنوی تفریق اور استخراجی استدلال کو کبھی درخوراعتنانہ سمجھا۔دوم،سائنسی معاملا ت میں بھی قرآنی رہنمائی حاصل کی جو مشاہدہ ٔ کائنات کی دعوت ِفکرسے لبریزہے۔اسی بنیاد پر اقبال نے سقراط کے پیام کو ناپسندکیاتھاجس نے مطالعۂ فطرت کوضیاع وقت قرار دیا اور افلاطون کے افکار کو گمراہ کن سمجھاتھاجوفطرت ِخارجی کوحقیقت نہیں،واہمہ گردانتا تھا۔سوم، اقبال نے فخریہ طور پر اعتراف کیاہے کہ یہ مسلم مفکرہی تھے جنہوںنے صحیح معنی میںسائنس کی علمی روح کو بیدار کیا اور مشاہدات و تجربات کے استقرائی اسلوب کوتقویت بخشی۔ مثلاً طوسی، الجاحظ، البیرونی، ابنِ مسکویہ، ابن خلدون،عراقی جیسے مفکرین کے افکارسے اس کا اندازہ ہوتاہے۔چہارم،بے شک مغربی مفکرین نے مسلم سائنس دانوںسے سائنسی ترقی کے گرُسیکھے مگرپامال تصوف کی طرف بے جا عقیدت، مسلمانوںکے سیاسی زوال،سانحہ سقوط ِبغدادکے اثرات، شاہی سرپرستوںکی عدم دلچسپی،سائنسی ذوق و شوق میںکمی جیسے عوامل سے مسلم سائنس کی ترقی کو تنزل آگیا۔ اس کے برعکس، مغربی مفکروںنے سائنسی تجسس میںاس قدرتیزی دکھائی کہ بالآخرمسلمان ان کے محض خوشہ چیں بن کر رہ گئے۔ اقبال کی رائے میں،مسلمانوںکواگر سائنسی میدان میںاپنا مقام اَز سرِ نو پیداکرناہے تو انہیں دو کام کرناہوںگے۔اوّل،سائنسی صنعت وحرفت میںدلجمعی سے عملاًکام کرنا ہوگا۔ دوم، مغربی علوم و فنو ن میںضروری ترمیمات کرکے ان کے ملحدانہ خیالات کوموحدانہ بنانا ہو گا ۔ اقبال کے حساب سے یونانیوںکی فکرکاثنوی رجحان اورمسلمانوںکی فکر کا استقرائی میلان مل کرمغربی سائنس کا جوازبناہے۔مذہب اورسائنس کی چپقلش سے جب اہل ِمغرب نے یہ نتیجہ نکالاکہ ان دونوںکادائرہ عمل جداجداہے اس لیے سائنسی معاملات میںمذہب سے رجوع کرنا ضروری نہیں۔اس مذہبی لاتعلقی کی وجہ سے میکانکی سائنس کوبامِ عرو ج نصیب ہواجہاںمادہ اور ذہن کی ثنویت کواس حدتک پذیرائی حاصل ہوئی کہ مادہ،ذہن پرسبقت لے گیا، نتیجتاً مذہب سائنس کی ناقدانہ زد میں آ گیا۔یہاںتک کہ فرائڈکے افکارمیںمذہب حقیقت نہ رہا،افسانہ بن گیا۔ خدا خالق نہ رہا،انسان کی تکمیلِ خواہش کامحض عکس بن گیا۔لیکن جونہی میکانکی سائنس کی گرفت ڈھیلی پڑنے لگی، میکانکیت مخالف سائنسی تصورات نے ثنوی نظریات کی خام خیالیوں کو بے نقاب کرناشروع کیا۔اقبال کے نزدیک، سائنسی تبد یلی کایہ پہلو مذہب کی حقانیت کوثابت کرنے کی طرف مؤثرقدم ہے۔درحقیقت،اہل ِمغرب سے غلطی یہ ہوئی کہ انہو ںنے مذہب اورسائنس کو الگ الگ خانوںمیںبانٹ لیا۔بے شک ان دونوںکے منہاجات ایک دوسر ے سے مختلف ہیں مگر ان دونوںکاحاصلِ مقصود جدا نہیں۔یہ نکتہ فرائڈنہ سمجھ سکاکیونکہ وہ میکانکی سائنس کے طلسمی پندار میں گرفتار رہا۔ تاریخ سے ثابت ہے کہ مغرب کوعلوم وفنون منتقل کرنے والے مسلمان تھے جن کے ہاں ثنو ی میلان فکرموجودہی نہیںتھا۔جیسے کہ مسلم مفکرابنِ حزم کے اس خیال سے اشارہ ملتاہے کہ عمل تخلیق اورشئے مخلوق میں چنداں فرق نہیں۔یہاںسوال پیدا ہوتاہے کہ اہل مغرب کویہ نکتہ اس وقت کیو ں سمجھ میںنہ آیاجب وہ مسلمانوںسے مستفیدہورہے تھے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ پادری اور سا ئنسد ا ن جس نزاع میںاُلجھے رہے،مسلمانوںکوکبھی ایسی مشکل سے واسطہ نہ پڑا۔دوسرے مسلمانوںکے وصفِ رَواداری کی بدولت،مذہب سائنسی نظریات کی راہ میںکبھی سنگ ِراہ نہ بنا۔ ان وجوہ کی بنا پر،اہل مغرب کواس نکتہ کاکبھی شعورنہ ہوپایااوربقول اقبال ،وہ یہ سمجھ ہی نہ سکے کہ فطر ت کا سائنسی مشاہدہ بھی عبادت ہی کی شکل ہوتاہے، البتہ اب کہیںجا کر میکانکیت مخالف سا ئنس سے یہ اُمید بندھی ہے کہ شاید سائنس کو صراطِ مستقیم مل جائے۔ اقبال تسخیرِ کائنات کے حوالے سے مغربی سائنس کی پیش رفت سے انکاری نہیں ہے،بلکہ اسے اُمیدتھی کہ ایک دن انسان ستاروںپرکمندڈال لے گا۔ خلا اور چاند تک رسائی نے آج اسے ممکن بنادیاہے۔اس پیرائے میں،اقبال جب مغربی سائنس کی اس ترقی کا ذمہ دار مسلم سائنسدا نو ں کوٹھہراتاہے اورعصرحاضرکے مسلمانوںکوان کے نقشِ پاپرچلنے کی تلقین کرتاہے تواس کایہ مطلب ہرگزنہیںکہ وہ عہدِماضی کامریض ہے۔اس کامقصودمسلمانوںکوبیدارکرناہے تاکہ وہ اپنے اسلا ف کی خدمات سے فیض یاب ہوںاوراپناکھویاہوامقام اَزسرِنوبحال کریں۔ اہلِ مغرب مسلمانوںکی سائنسی بصیرت سے آشناہوئے مگریہ نہ جان پائے کہ سائنسی میدا ن میں کلیسائی تعصب کا توڑ مذہب سے فراریت کی راہ پکڑنا نہ تھا بلکہ اس کا سامنا کرنا تھا جو وہ کرنہ سکے۔اس کے نتیجے میں انہوں نے جس طرز کی سائنسی ترقی کی ہے اس سے آج کاانسان مشین بن کے رہ گیا ہے اوراس کاروحانی سکون غارت ہوگیا ہے۔ثانیاًاس سائنس نے انسانی فلاح او ر انسانی تباہی کی جس دوگونہ صورت حال کوجنم دیاہے اس سے انسان ایک عجیب سی الجھن میںمبتلا ہوگیاہے۔علاوہ ازیںسائنس کی کچھ اپنی قباحتیںبھی ہیںجیسے کہ اوّل، اس کی رُو سے مطالعۂ کا ئنا ت جزوی اورتحلیلی طورپرتوممکن ہے مگرکُلّی اورتالیفی لحاظ سے نہیں۔ دوم، محسوسات و مدرکات کے دائرے سے باہراس کابس ہی نہیں چلتا اور مزے کی بات یہ ہے کہ خود اسے ایسے غیرمرئی تصورات کااقرارکرناپڑتاہے جن کی تصدیق سے اسے مفرہے۔بے شک خوردبین سے دوربین کی انتہاؤ ں میںسائنس نے بہت کچھ پالیاہے مگرابھی بہت کچھ پاناباقی ہے۔سوم،وہ اس قابل نہیںکہ اپنے پیداکردہ خطرات اوردھڑکوںکاکوئی سدباب کرسکے۔ اقبال کی رائے میںان قباحتوں کا مداوا صرف اور صرف مذہب کے دامنِ پناہ سے مل سکتاہے اس لیے زودیابدیرمغربی سائنس کو مذہب سے رجوع کرناہوگا۔ نقطۂ نظر اورتبصرہ (View & Review) انسان کی فکر اپنی نقاد خود ہے۔استقرائی استدلال کے تاریخی تناظر سے یہ عقدہ کھلا ہے کہ جو ں جوں انسان اپنے خارج اور باطن کے گہرے ادراکات وتجربات سے اُمورِحیات میںعلم و عمل کے نئے افق ڈھونڈتاہے،جدیدیت کی ایک سدابہارصورت اُبھرتی رہتی ہے جس میں گزشتہ سے پیوستہ خیالات کاسلسلہ آگے ہی آگے بڑھتارہتاہے یہاںتک کہ متغیرہ حالات وواقعات کی نئی نزاکتوںکے تحت انہیںنئے سے نئے پیرائے میںڈھالناپڑتاہے۔نتیجتاًاستقراء کاعمل فکرِ انسانی کو بوسیدہ نہیںہونے دیتابلکہ اسے ہردم توانارکھتاہے اورمجموعی طورپرانسان کواس لائق بناتا ہے کہ وہ تغیراتِ زمانہ کاسامناکرسکے۔اس حوالے سے استقراء کاکردارایک ققنس(Phoenix) کی طر ح معلوم ہوتا ہے۔ جس طرح ہرنیاققنس اپنے آبائی ققنس کی راکھ سے نمودارہوتاہے اسی طرح استقرا ء کاہرنظریہ اپنے گذشتہ نظریوں کے استردادسے اُبھرتاہے۔الغرض،استقرائی عمل میں مشاہدات و تجربات کے سہارے خیالات ونظریات کی نو بنوتشکیل کاسدابہارعمل جاری وساری رہتا ہے۔جیسے کہ فکرواستدلال نے دیومالائی سے تجریدی،تجریدی سے علم الکلامی،علم الکلامی سے سائنسی نظریوں کی طرف تبدیلی کاسلسلہ اس کابیّن ثبوت ہے۔اصل میںساری بات ذوق اورضرورت کی ہوتی ہے۔جس قدرانسان اپنے فکراوروجدان میںترقی کرتاہے اس قدراس پرحقیقت عیاںہوتی ہے اورخیالات میں تغیرات آتے ہیں۔حکیم محمدحسین عرشی کے حوالے سے اقبال کے اس بیان سے۱ اس نکتے کی خوب وضاحت ہوتی ہے ۔ اقبال بتاتاہے کہ ایک بارلندن میںمنعقددوستوںکی ایک ضیافت میںاس کی ملاقات ایک ماہرِحجریات سے ہوئی جودراصل اس محفل کے مہمانِ خصوصی تھے۔ اس موصوف کے ہمراہ ساحل سمندرپرکوئی پندرہ روزسیرکوجاناہوا۔اس دوران میںاس نے ساحل پر گرے پڑے ایک چھوٹے سے سنگ پارہ کے بارے میںخاصی دلچسپ اورباریک بیں معلومات فراہم کیںجواس سے پہلے اُس کے لیے اس علم سے ناواقفیت کی بناء پرپردۂ خفا میں تھیں یاپھرایک طرح سے متشابہاتِ قرآنی کے مثل تھیں،جب کہ وہی معلومات اس ماہرحجریات کے لیے راسخ فی العلم تھیں۔اس کامطلب یہ ہواکہ جوشخص اپنے متعلقہ میدانِ فکروعمل میںجس حدتک مشاہدات وتجربات کی گہرائی میںاترتاہے اتناہی استقرائی فکرسے کام لیتا ہے۔ اس ضمن میںعام طورپر صرف حسّی و خارجی مشاہدات وتجربات ہی کو ترجیح دی جاتی رہی ہے مگر اقبال نے اس میں باطنی اور داخلی تجربات وواردات کوبھی شامل کر کے ایک تو اسے وسعت دے دی ، دوسرے اسے منطق کے روایتی قرینوںکی نذر نہ ہونے دیا۔ اس کی دانست میں تجربہ خواہ فکری ہو یاقلبی، بڑی چیز ہو تا ہے، بڑی قدر کاحامل ہوتا ہے ۔انسان کے خارجی و باطنی حقائق کاآئینہ دار ہوتا ہے۔وہ لکھتا ہے ،’’ہر تجربہ انسانی روح کی گہرائیوں سے کچھ نہ کچھ برآمد کرتا ہے حتی کہ گناہ کا تجربہ بھی آپ کی روح کے بعض ایسے پہلوبے نقاب کرتاہے جن سے آپ پہلے بے خبرتھے ۔اس طرح تجربہ دوگونہ سرچشمۂ علم ہے یہ آپ کواس شے کی بصیرت عطاکرتاہے جوآپ کے وجودسے خارج ہے اورساتھ ہی اس شے کو بھی جو آپ کے وجودکے اندرہے ۔‘‘۲یہ بات مطالعۂ قرآن کے گہرے مطالعے سے معلوم ہوتی ہے یا پھر اپنے خارج یاباطن کے گہرے شعور سے ہاتھ آتی ہے۔اقبال کے زاویۂ نظر سے تجربے کے اس مفہوم کومدنظر رکھا جائے تو استقراء کے مندرجہ ذیل خواص بالخصوص جاذب توجہ دکھائی دیتے ہیں: .1استقراء کی بدولت مستند بدیہیات کی آمریت کاخاتمہ کیاجاسکاجس کی وجہ سے روحِ فکر کو کسی قسم کے تحفظات کے بغیرعملی طور پر کارفرما لایا جا سکا۔ .2اس کی بدولت طبیعی سے مابعدالطبیعی حقائق وعلائق کووحدت کی ایک لڑی میںپرویاجاسکا جس کی وجہ سے مذہب،فلسفہ اورسائنس کے تصورات میں ہم آہنگی پیدا ہو سکی۔ .3اس کی بدولت انسان کے مادی اورروحانی تقاضوںکے تسلی بخش جوازڈھونڈے جاسکے جس کی وجہ سے انسان کے جسمانی اور نفسیاتی مسائل کو بہترطور پرحل کیاجاسکا۔ .4اس کی بدولت مستقبل کے بارے میںنظریوںکی ٹھیک ٹھیک پیشین گوئیاںکرناممکن ہو سکا جس کی وجہ سے گذشتہ اورموجودہ حالات پر اعتماد اور تیقن کی صورت زیادہ پختہ ہو سکی۔ .5اس کی بدولت انسان کے احساس، تفکراوروجدان کے حاصلات کوایک ہی فکری پلیٹ فارم پرمجتمع کیاجاسکا جس کی وجہ سے علمیاتی طور پرانسانی افکارکے کثیرالجہتی تضادات کورفع کیا جاسکا۔ مجموعی طور پراقبال کی ژرف نگاہی نے استقراء کونئے فکری زاویے اورنئے روپ میں ڈھا لا۔ اس کے افکار سے پہلی باریہ تاثرابھراکہ استقراء محض معروضی نوعیت کے محتاط مشاہدات وتجربات کے تمثیلی اورتعمیمی نتائج کووضع کرنے کاطریقہ نہیں،بلکہ حقیقت ِقطعی کے وقوف کاوہ رستہ بھی ہے جوبذات ِخودمحدودسہی مگرحقیقت ِقطعی کے لامحدودکومحیط کرنے کی آس میںہے۔اس بنیاد پرفکر کا وجدان سے نوع کانہیںبلکہ محض درجے کافرق رہ جاتا ہے۔یہ وہ خاص نکتہ ہے جواس سے پیشترکسی بھی مفکرکے ہاںاتنی وضاحت اورمعنویت سے سامنے نہیںآیا۔اگرچہ استقرائی فکرکی یہ مجبوری ہے کہ وہ مشاہدات وتجربات کے دائرہ عمل تک محصورہے اوراسی میںرہتے ہوئے وہ حقیقت کے ظاہرکوروشن رکھے ہوئے ہے مگراس کی عظمت بھی اس کی اسی مجبوری میںپوشیدہ ہے کہ جہاںوہ حقیقت کے باطنی احکامات کوبے نقاب کرنے میںکوشاںہے اوراس کی جستجواس قدر لاانتہاہے کہ بقول اقبال: نہ من انجام و نے آغاز جویم ہمہ رازم، جہانِ راز جویم گر از روے حقیقت پردہ گیرند ہماں بوک و مگر را باز جویم ؔ ۳ نہ میں انجام کی جستجو کرتاہوںاور نہ آغاز کی۔ میں خود سراپا راز ہوں۔ راز کاجہاںمیری جستجو ہے۔اگرحقیقت سے پردہ اٹھائیں تو پھربھی میںکیوںاورکیسے کے بارے میںجستجوکروںگا۔ یقینا انسان کی ایسی کیفیت استقرائی استدلال کی متقاضی ہے کیونکہ لامتناہی جستجو اس کی سرشت کاحصہ ہے۔ اس اعتبارسے غورکیاجائے تواستقراء کاوظیفہ متغیر کائنات کی کثیراوربے ربط اشیاء میں محتاط مشاہدات وتجربات کی مد د سے یکسانیت اور موزونیت کو تلاش کرتے رہناہے تاکہ ان میں وحدت اورہم آہنگی کا تاثرقائم رہے۔ اس کوشش کے دوران میںٹھوس اورمقرون اشیاء اوران سے ماخوذمجرّد اورعمومی نتائج کے مابین لامحالہ ایک دوئی آکھڑی ہوئی ہے ۔ نتیجتاً اشیاء اور تصورات کی دنیاؤں کا تصورابھرتاہے جس سے مادے اورذہن،عمل اورفکرجیسے ثنوی خیالات فروغ پاتے ہیں اوراس طرح انسان کثیرلاتعداداشیاء کوکسی اصولِ وحدت میںسموتے سموتے اصل منزلِ مقصود ہی سے ہٹ جاتا ہے۔اقبال کے نزدیک یہ وہ غلطی تھی جویونانیوںسے سر زدہوئی۔اوّل تو انہوںنے استقراء سے بڑا سرسری ساکام لیا ۔ دوسرے انہوںنے ہندسی اور ریاضیاتی شکلوں کو بدیہیات خیال کرتے ہوئے استخراج سے کام چلایا، نتیجتاً وہ کبھی یہ نہ جان پائے کہ مادہ ذہن کے اورفکرعمل کے بغیر نہیں ہو سکتا۔ دونوں کی حقیقت اصل میںایک ہے۔مغرب میں پنپتی میکانکی سا ئنس تک فکری غلطی کایہ رنگ غالب رہا مگرمیکانکیت مخالف سائنس کے نظریات سے اقبال کویہ آس پیدا ہوئی کہ استقراء اب کچھ صحیح سمت میںبڑھنے لگا ہے کیونکہ ان نظریات سے یہ حقیقت عیاں ہونے لگی ہے کہ ٹھوس حقائق اور ان سے ماخوذمجردتصورات میںکسی بھی قسم کی تفریق فروعی ہے۔ گو ارسطو نے اس نقطۂ نظرکوکسی حدتک پا لیا تھا مگر اس کی بد قسمتی کہ وہ اپنی فکر کے استخراجی روّیے کی بدولت اس کی صحیح ماہیئت واضح نہ کرسکا۔ارسطوئی سحرکی وجہ سے طویل عرصے تک مسلمان بھی اس سچائی سے خاصے غافل رہے مگرجونہی انہیںاپنی کوتاہی کا احساس ہوا،انہوںنے بطور خاص اس میںپیش رفت دکھائی۔مگرزمانے کی ستم ظریفی کہ اپنے کام کوجاری وساری رکھنے کے زیادہ مواقع انہیں نصیب نہ ہو سکے۔ آخر، مغرب نے مسلمانوںکے چھوڑے ہوئے اس سلسلے کوآگے بڑھایا مگر وہ اپنی فکرسے یونانی ثنویت کی چھا پ نہ دور کر سکے۔ لہٰذا ان کے ہاںطبیعی درجہ کااستقراء میکانکی سائنس کے بڑے ہی بھیانک روپ میںسامنے آیا جہاں زمان و مکاںمیں پابند جہانِ رنگ وبو کے مادی اورمیکانکی قواعدوضوابط کو خارجی و معروضی مشاہدات و تجربات کی رُو سے حقیقتِ قطعی کادرجہ دے دیا گیا۔ اس سے دوسرے درجے کے مابعدالطبیعی استقراء کاوجودخطرے میں پڑ گیا ۔یہ دوسرا درجہ وہ ہے جہاںحقیقت کوکائنات کے زمان ومکاںکی پابندیوں سے بالااپنے باطن کی گہرائیوں سے محسوس کیا جاتا ہے ، جہاںنہ رنگ وبوکی کثرت کااحساس رہتاہے اورنہ کسی قسم کی کوئی دوئیت قائم رہتی ہے۔ داخلی تجربات و و ا ر د ا ت کی یہ وہ سطح ہے جسے کانٹ نے شیٔ بذاتہ ٖ قراردیااورطبیعی درجے کے استقراء کی بنیادپراس کاا نکار کر دیا ۔اس کے برعکس ، امام غزالی اورشیخ شہاب الدین سہروردی نے اسے بالترتیب باطنی آنکھ اورذوق سے تعبیرکیااوراپنے اپنے وجدانی استقراء کے زو ر پراس سطح کا ا ثبات کردکھایا۔ یہ صحیح ہے کہ بعض یونانیوںکے ہاںداخلی احساسات کا ملکہ موجودتھالیکن وہ اپنے زمانے کے مذہبی اوراپنی فکر کے استخراجی رجحانات کے زیراثراس کی حقیقی روح کوکبھی نہ پہنچ سکے۔کلیسائی دورمیںاس کاشعورکہیںزیادہ موجود تھا مگر عیسائیت میںعلم الکلامی مباحث کے استخراجی رواج کی سختی نے ان کے باطنی واردات کوشدت نہ پکڑنے دی اور یوں صدیوں بعد مغرب نے سائنسی طرز کے استقراء کی طرف رغبت بڑھائی تواس عرصے میںصورتِ حال کچھ ایسی بن چکی تھی کہ طبیعی درجے کے استقراء ہی کو حقائق بے نقاب کرنے کا واحد اور قطعی معیار تسلیم کیا جانے لگا اور مابعد الطبیعی درجے کے استقراء کو اس معاملے میں سرے ہی سے منہم کر دیا گیا۔ یوں مابعدالطبیعی سے طبیعی درجہ تک استقراء کی تبدلی ایک انتہاسے دوسری انتہاپرمنتج ہوئی۔ گو اس تبدیلی کے دوران، ایک وقت ایسابھی آیاجب مسلمانوں نے ان انتہاؤں کے بیچ میںاعتدال کی راہ پکڑی اور دونوں درجوںکے استقراء سے مساوی اور بھرپور تعرض کیا، مگر انہیںاپنے اس کارخیر کو مزید کامیاب بنانے کی مہلت نہ مل سکی۔ نتیجتاً، اب مسلمانوںکے ہاںاستقراء کی صورتِ حال یہ ہوچکی ہے کہ مابعدالطبیعی درجے کا استقراء صرف نام کورہ گیاہے جب کہ طبیعی درجے کااستقراء نام کوبھی نہیں بچا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اوّل الذکردرجے پرمسلمانوںمیںوجدانی استقراء قریب قریب عنقا ہو گیا ہے اور مؤخرالذکردرجے پرسائنسی استقراء مغرب کے سائنسی افکارکامحض سرقہ بن کے رہ گیا ہے۔مجموعی طورپرمسلمانوںکی استقرائی فکری حالت اس قدرپتلی ہوچکی ہے کہ نہ تو قرآن کی دعوت ِاستقراء کوبالائے طاق رکھ سکے، نہ اپنی فکری میراث کی روایات کوزندہ رکھ پائے ہیںاورنہ ہی غیروںکے صحت مندانہ استقرائی اقدام سے کوئی تحریک اورتازگی حاصل کرپائے ہیں ۔ اقبال کے حوالے سے یہ بڑے دکھ کاموقع ہے کہ آج مسلمان دوسروںکے سامنے دیدۂ عبرت بن کے رہ گئے ہیں۔ جہاں کو ہوتی ہے عبرت ہماری پستی سے نظامِ دہر میں ہم کچھ تو کام کرتے ہیں ۴ اقبال کو مسلمانوںکی اس حالتِ زار پرافسوس ضرورہے مگروہ اس سے مایوس نہیںہے کیونکہ جوملّت قرآن کی دعوت ِفکرکی حامل ہو،وہ ہمیشہ کے لیے راندۂ درگاہ نہیں ہوسکتی۔ ضرورت صرف اس امرکی رہتی ہے کہ ان کی خوابیدہ صلاحیتوں کو پھر سے بیدار کیا جائے۔ اسی جذبۂ احساس کے تحت خوداس نے اسی فریضے کوسرانجام دینے کی کوشش کی ۔ آزما کر تم ذرا دیکھو مرے اعجاز کو ڈھونڈتی ہیں جس کو آنکھیں وہ دکھا سکتا ہوں میں گوش بر آواز تھا مغرب کبھی جس کے لیے وہ صدا پھر اس زمانے کو سنا سکتا ہوں میں ناز تھا جس پر کبھی غرناطہ و بغداد کو پھر وہی محفل زمانے کو دکھا سکتا ہوں میں گھر کسی کا جن کی ضو سے غیرت مشرق بنے اس انوکھی شان کے موتی لٹا سکتا ہوں میں کارواں سمجھے اگر خضر رہِ ہمت مجھے منزلِ مقصود کا رستہ دکھا سکتا ہوں میں ۵ کس قدرافسوس کی بات ہے کہ آج بھی مسلمانوںکواقبال کی اس خدمتِ عظیم کے بارے میںاحساس د لا نے کی اشدضرورت ہے جب کہ اُسے یہ پیشکش کئے ہوئے آدھی صدی سے زیادہ کا عرصہ بیت چکا ہے۔بہرکیف، اقبال نے یہ بھانپ لیا تھا کہ فکری اُمور میں دونوں درجوں کے استقراء کو ایک ساتھ ملحوظ خاطر رکھنا اشد ضروری ہے کیونکہ قرآن نفس اورفطرت کے حوالے سے دونوںکے مشاہدے اور تجربے کا اصرار کرتا ہے۔اسی مقصدکے حصول کی خا طر اس نے ’’خودی‘‘ کا تصورمتعارف کرایاجوخارجی دنیامیںانائے فعال اورباطنی دنیامیںانائے بصیرکے طورپر متشکل ہے۔انائے فعال سے طبیعی اورانائے بصیرسے مابعدالطبیعی درجے کے استقرائی رویے ظاہر ہوتے ہیں۔اس سلسلے میں،اس کی یہ سادہ مگرجامع وضاحت خوب ہے۔’’یہ وحدت ِوجدانی یا شعور کا روشن نقطہ جس سے تمام تخیلات و جذ بات و تمنیات ِمُستنیر ہوتے ہیں۔یہ پُراسرار شے جو فطرت ِانسانی کی منتشر اور غیر محدود کیفیتوںکی شیرازہ بندہے۔یہ ’’ خو د ی ‘ ‘ یا ’’انا‘‘یا’’میں‘‘جو اپنے عمل کی رُوسے ظاہر اوراپنی حقیقت کی رُوسے مضمرہے۔جوتمام مشاہدات کی خالق ہے ۔ اورجوعمل سے لازوال ہو سکتی ہے۔‘‘۶اس نسبت سے،خودی کاوصف’شیرازہ بندی‘دراصل استقرا ئی فکر کا کمال ہے۔ یہ اقبال کاکمال اعجاز ہے کہ ایک طرف اس نے خودی کے آفاقی تصور میں استقرائی فکر کو کوزے میں دریا بند کرکے پیش کیا اور دوسری طرف خودی کا تصور تو کجا قریباًسبھی تصورات کو استقرائی طرزپروضع کیا جس سے اس کے تصورا ت میںہرقسم کے حالات وواقعات کی مناسبت سے مطابقت اورہم آہنگی کے امکانات بڑھ گئے اور اس کے فکر و نظر میں وسعت اورکشادگی آگئی۔اس کی وجہ مولانا سعید احمد اکبر آبادی کے اس اقتباس سے بآسانی سمجھ میںآتی ہے : ’’اقبال نے مشرق ومغرب کے قدیم وجدید،مسلم اورغیرمسلم حکمائ،فلاسفہ،صوفیا، ماہرین ِنفسیات او ر علمائے سائنس کے افکارونظریات کوکھنگالا،تنقیدی اورتجرباتی شعوروادراک کی روشنی میںان کی صحت وسقم کو جانا اور پرکھا اور پھر خذ ما صفا دع ماکدرکے مطابق ان کے عطرسے اپنے مذہبی فکر کاخاکہ مرتب کرکے قرآن واحادیث،اقوال و اعمال صحابہ او ر ا کا برصو فیا ئے اسلام کے تجربات ومشاہدات سے اس کے لیے سندوتصدیق وتوثیق حاصل کی۔‘‘۷ اس سے یہ بات عیاںہوتی ہے کہ اقبال نے اپنے کسی بھی تصورکووسیع مطالعے اور نقد و جر ح کے بغیرقائم نہیںکیا۔اپنے نقطۂ نظرکے بارے میںدستیاب سبھی نظریوںکی کانٹ چھانٹ کی،ان کاتقابلی وتنقیدی جائزہ لیااور ٹھیک ٹھاک تجزیے کے بعداپنے تصورکوکوئی حتمی شکل دی۔ لیکن اتنا خیال لازمی طورپرملحوظ خاطررکھاکہ کسی بھی صورت میںاس کاتصوراسلامی تعلیمات سے متناقض نہ ہو۔بعض حضرات نے اس کے اس وصف کو یونانی مفکرایمپیڈوکلیزکی فکر کی طرح اصطفائی (eclectic)نوعیت کاخیال کیاجس میںاپنے پیشروؤںکے نظریوںسے اپنے نقطۂ نظر کے مطلب کے نکات اکٹھاکرکے ان کے اختلاط سے ایک من پسند نظریہ وضع کیاجاتاہے جو اصل میں نیا نہیں ہوتابلکہ ایک مرکب الالوان قسم کی چیزہوتاہے اورمحض گزشتہ نظریات کی ملی جلی بازگشت ہو تا ہے ۔ ۸ ان کایہ خیال سطحی اوربے وزن ہے۔ کیونکہ اقبال کافکری زمانہ ایمپیڈوکلیز کے عہد سے یکسر مختلف تھا۔ ایمپیڈوکلیزکادوراستخراجی فکرکادورتھاجہاں تجربی بصیرت کااستقرائی فقدان تھا۔ اس کے برعکس،اقبال کادوراستقرائی شعورسے بے بہرہ نہ تھا،نیزاستقرائی اور استخرا جی استدلال کے مابین نمایاںفرق بخوبی سامنے آ چکاتھا۔اس حساب سے ،جب اقبال مشرقی ومغربی نظریات سے کوئی نکات قبول کرتاہے،ان کی مناسب کانٹ چھانٹ کرتاہے،انہیںنئے زاویوں سے دیکھتا اور پرکھتا ہے، اسلامی تعلیمات سے ملاتاہے،اورآخرمیںکسی ارتباطی نوعیت کے تصور کو تشکیل دیتاہے ایسی صورت میں اسے اصطفائی قراردینا بلاشبہ اس کے فکری طرزِعمل کے ساتھ زیادتی ہوگی۔ پروفیسر نکلسن کے نام ایک خط میںاقبال نے خودبھی یہ اعتراف کیاتھاکہ ’’میںبیس سال سے دنیاکے افکارکا مطالعہ کررہاہوںاوراس طویل عرصہ نے مجھ میںاس قدرصلاحیت پیدا کر دی ہے کہ حالات و واقعات پر غیر جانبدارانہ حیثیت سے غورکرسکوں۔‘‘۹پس اس پیرائے میں کوئی اندیشہ باقی نہیں بچتا کہ اقبال نے تصورخودی کواپنے پیشروؤں کے خیالات سے محض اخذ نہیںکیابلکہ بڑی جانچ پرکھ کے بعد اسے وضع کیا۔ اس سلسلے میںڈاکٹرخلیفہ عبدالحکیم نے بڑا نادر نکتہ نکالا ہے، جوقابلِ داد ہے۔لکھاہے،’’اقبال سے پہلے خودی کافلسفہ نطشے، فشٹے، برگساں اور ولیم جیمز پیش کرچکے تھے مگر اقبال ان کامقلدنہیں۔ہرتعمیرمیںچوب وخشت توایک جیسی ہوتی ہے لیکن معمارکاہنراسے منفرد بنا دیتاہے۔بعینہٖ اقبال نے خودی کے مفہوم کوان مفکرین کے تصورسے خاصا منفرد اور ممتا ز بنایا ہے ۔‘ ‘ ۰ ۱ مجموعی طور پراستقرائی استدلال فکراقبال سے عیاںبھی ہے اوراس میںپنہاںبھی ہے۔ پہلی صور ت میں استقراء کے متعلق اقبال کی لب کشائی قابل ِغور ہے جواس کے خیالات سے ظاہر ہے۔ دوسری صورت میںاس کی بصیرت افروزی قابل توجہ ہے جو اس کے افکار میں مضمر ہے۔ لیکن ان صورتوںکوپیش ِنظررکھنے سے پیشترانسان کے فکر واستدلال کے اس المیے کی طرف دھیان دینا ضروری ہے جوآئینہ تاریخ سے منعکس ہواہے۔اس کے مطابق، فکرو استد لال کوکئی حالتو ں سے گزرنا پڑاجیسے کہ قدیم زمانے کی دیومالائی توجیہات،یونانیوںکے فلسفیانہ نظریات،الہامی مسائل کی مشکلات، تصوف کے داخلی رجحانات،سائنس کے معروضی انکشافات نے فکرو استدلال کونئے سے نئے قالب میں ڈھالا۔گواس تبدیلی ہیئت کے دوران استقراء نے اپنی جگہ بنائی لیکن افسوسناک بات یہ ہوئی کہ فکری لحاظ سے جس قسم کابھی استدلال کیاگیا،اسے بالآخراستنادیت کے اس رتبہ پر فائز کیا گیاجہاںسے تعصب کاگزر ہوتا ہے ۔ مثلاً دیو مالا ئی دورمیںفطرت کو جذبوں پر قیاس کیا گیا تو دیوی دیوتاؤںکی ایک ایسی دنیاآبادکی گئی،جس کے خلاف بات کرنااتناگناہ ِعظیم سمجھاگیاکہ اس کے مخالف کی سزا موت سے کم تجویزنہ کی گئی ۔سقراط کوشوکران(زہر)پینے پرمجبور کرنا اس کی منہ بو لتی مثال ہے۔اس کاجرم صرف اتناتھاکہ اس نے عقل کومذہبی دیوتاؤںکے خوف سے بلند کر دیا تھا ۔ فکری درشتی اور سخت گیری کایہ عالم اس وقت بھی دکھائی دیتاہے جب یونانی حکماء اپنے افکار کوحرف ِآخرتسلیم کرنے لگے ۔ مثلاًاقلیدس کواس بات سے سخت نفرت تھی کہ کوئی یہ سوچے کہ کیوں نہ علم ھندسہ سے عملی فائدہ اٹھایاجائے۔ افلاطون اس کی حقارت سے بہت متاثرتھا۔کہتے ہیں ھندسہ کے بارے میںکچھ ہدایات حاصل کرلینے کے بعدایک طالبعلم نے بڑی بے تابی سے پوچھا،آخران سب باتوںسے اُسے ملے گاکیا؟یہ سنتے ہی اقلیدس نے غصہ سے ایک غلام کو بلایا اور اسے کہاکہ اس نوجوان کوتین سکّے دے دوکیونکہ اس نے جوکچھ سیکھاہے،آخراسے اس سے کچھ تو حاصل ہونا چاہئیے۔ اس کے ساتھ ہی اقلیدس نے اس طالبعلم کووہاںسے چلتاکیا۔۱۱خودافلاطون کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ بھڑ ک اُٹھاجب اسے معلوم ہواکہ اس کے چند شاگردوںنے اصول ھندسہ کی بناء پرکچھ پیمانے اور پرکاریں اختراع کرلی ہیں اس کی رائے میںانہوںنے ایساکرکے علم کے حسن کاستیاناس کردیاہے،یعنی علم کو بلندیٔ فکرسے پستی پر جا گرایا ہے۔۱۲درحقیقت اس کی نظرمیںاس کے افکاراس قدرقطعی تھے کہ ان کی مخالفت اس کی قوت ِبرداشت سے باہر تھی ۔ یہی معاملہ اس سے بھی زیادہ شدت کے ساتھ اس وقت پیش آیاجب ہیلانیاتی دور میں ارسطوئی افکار کے ساتھ خدائی احکامات کی طرح کاسلوک کیاگیا۔ہرصاحبِ خردسے یہ توقع رکھی جاتی کہ اپنا خیا ل پیش کرنے سے پہلے وہ یہ ضروردیکھ لے گاکہ کہیںاس کی سوچ ارسطوکے کسی قول سے تو نہیں ٹکراتی۔تاریخ کاوہ موڑ خصوصاًتوجہ کاطالب ہے جب ارسطوئی، بطلیموسی اورکلیسائی نظریۂ کائنات میںفکرواستدلال کی مطابقت کارنگ اس قدر گاڑھا ہوا کہ طویل عرصے تک سائنس دانوںکی ایک نہ سنی گئی حالانکہ وہ حق پر تھے۔ ارسطو اور بطلیموس کے نظریات کی قلعی کھول دینے کے باوجود گیلی گلیلیوکاکلیساکے سامنے گھٹنے ٹیک لینا،اس کی دلخراش مثال ہے۔ پھرایساوقت آیاجب سائنس کامیابی سے ہمکنارہوئی اوراس نے کلیسائی تعصب کے بتوں کوتوڑڈالا۔پہلی باربڑے وثوق سے یہ خیال جاگزیںہواکہ استدلال کوآزادفضامیسرآگئی ہے جہاںآئندہ کبھی کوئی تنگی ٔ فکر دامن گیرنہ ہو گی، مگر جلد ہی یہ خیال بھی خام ثابت ہوا۔اسے بھی تعصب نے آلیالیکن اب کی بارسائنس پر اس کاوارکسی اور طرف سے نہ ہواتھابلکہ خودسائنس ہی کے اندرسے ہواتھا۔اس کی اچھی خاصی وضاحت مولوی عبدالحق کے اس اقتبا س سے ہوتی ہے۔ ’’جب کبھی اور جہاںکہیں سائنس میںکوئی نئی دریافت یاتحقیقات ہوئی توسب سے اوّل اس کی مخالفت میں اہلِ سائنس آستینیںچڑھاکرآئے۔کوپرنیکس،گلی لیواورہاروے کے نام سے کون واقف نہیں،انہوں نے سائنس میں ایسے ایسے انکشافات کئے جوتاقیامت یادگاررہیںگے۔لیکن ان کی مخالفت سب سے اوّل نہایت شد و مد کے ساتھ ان کے ہم عصراہل سائنس نے کی۔ جب بنجمن فرینکلن نے رائل سوسائٹی کے سامنے براقہ کی بحث کی توتمام اہلِ سائنس نے اُسے بے و قعت بنایااوررسالہ فلاسوفیکل ٹرنیز ایکشن نے اس مضمون کودرج کرنے سے انکار کیا ۔ حالانکہ وہی چیز آج کل کس قدر مفیداورکارآمدثابت ہوئی ہے اوراس کااستعمال عام ہوگیاہے۔جب ینگ نے روشنی کے نظری انتعاشیہ کے عجیب وغریب ثبوت پیش کئے توسائنسدانوںنے اس کی خوب ہنسی اُڑائی۔سرہمفری ڈیوی نے جب یہ خیال ظاہرکیاکہ لندن میںگیس کی روشنی ہو سکتی ہے تو اہل سا ئنس نے اس کامضحکہ اڑایا۔اسٹیون نے جب یہ تجویز کی کہ لورپول اورمانچسٹرکی ریلوے روڈپرانجن گاڑی چلائی جائے تواس وقت کے بڑے بڑے اہل سائنس نے شہادت میںبیان دیا کہ یہ نا ممکن ہے کہ اس کی رفتاربارہ میل فی گھنٹہ بھی ہوسکے۔جب ناموراورمشہورمنجم ارے گو نے برقی ٹیلی گرا ف کے متعلق بحث کرنی چاہی توفرنچ اکاڈیمی آف سائنس نے اس کی خوب ہنسی اڑائی اوراسے بحث نہ کرنے دی۔یہ چندعام اورمعمولی نظیریںپیش کی گئی ہیںورنہ سائنس کی ہر شاخ کے متعلق سینکڑوں مثالیںموجودہیںکہ جب کسی نے کوئی نئی تحقیقات کی توسب سے اوّل اہلِ سائنس نے اس کی مخالفت کی۔‘‘۱۳ فکرواستدلال کے اس سانحے پراس وقت زیادہ افسوس ہوتا ہے جب تاریخ شواہدپیش کرتی ہے کہ مسلمان بھی تعصب سے نہ بچ سکے۔حالانکہ اسلامی تعلیمات نے تعصب کی کبھی تلقین نہیں کی۔ اسلام تنگ نظردین نہیںہے۔ اس کی وضاحت میںاقبال نے مستشرق استاذھارٹن کے ایک اقتباس کو بالخصوص نقل کیاہے۔’’اسلام کی روح بڑی وسیع ہے،اتنی وسیع کہ اس کے حدودہی نہیں۔ لادین افکارسے قطع نظرکرلی جائے تواس نے گردوپیش کی اقوام کے ہراس فکرکوجذب کرلیاہے جو اس قابل تھاکہ اسے جذب کرلیاجائے اورپھراسے اپنے مخصوص انداز میں نشوونما دی۔‘‘۱۴ باور رہے کہ لادینی افکارسے صرفِ نظرکرنے کے باوجود اسلام پرپھربھی تعصب کالیبل نہیں لگایا جاسکتا ہے کیونکہ اسلام جس کسی کے مؤقف کوپسندنہیںکرتا،اس کی آزادی پرپھربھی قدغن نہیںلگاتا۔جیسے کہ قرآن الفرقان کی سورہ کافرون کی ان آیات مبارکہ سے ظاہرہے:’’اے پیغمبر(ان منکرانِ اسلام)سے کہہ دوکہ اے کافرو! جن (بتوں)کوتم پوجتے ہو ان کومیںنہیںپوجتااور جس(خدا)کی میںعبادت کرتاہوںاس کی تم عبادت نہیں کرتے۔ا ور (میںپھر کہتاہوں) کہ جن کی تم پرستش کرتے ہوان کی میںپرستش کرنے والانہیںہوںاورنہ تم اس کی بندگی کرنے والے معلوم ہوتے ہو جس کی میںبندگی کرتاہوں۔تم اپنے دین پرمیںاپنے دین پر۔‘‘(۱۰۹:۱-۶)اس نسبت سے ، مسلمانوںکی وسعت ِفکرپرکسی کوانگلی تک اٹھانے کی جر ٔات نہیںہوناچاہئیے تھی مگرمسلمان غیروں سے کیاتعصب رکھتے ۔خودایک دوسرے کے خلاف اسی فکری روش کاشکارہوئے جس کی وجہ سے اقبال کویہ شکوہ کرناپڑا: یوں تو سیّد بھی ہو، مرزا بھی ہو، افغان بھی ہو تم سبھی کچھ ہو، بتاؤ تو مسلمان بھی ہو ۱۵ حالانکہ رسول ِکریمؐ نے اپنے خطبہ حجتہ الوداع میںاس کی مکمل بیخ کنی کردی تھی۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کیوںہوا؟فکراقبال کی رُوسے،اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ مسلمانوںکے فکری استدلال میںاس قدرتیزی اورطراری آچکی ہے کہ ان کے لیے حق کوناحق ثابت کرنا دشوار نہیں رہا۔ احکام تیرے حق ہیں مگر اپنے مفسر تاویل سے قرآں کو بنا سکتے ہیں پاژند ۱۶ اور اتنا ہی کیا آزادیٔ فکر کی بناء پرجب چاہیں،آیاتِ قرآنی میں سے اپنے مطلب کے نئے معنی اور مفہوم بھی نکال سکتے ہیں۔ قرآن کو بازیچۂ تاویل بنا کر چاہے تو خود اک تازہ شریعت کرے ایجاد! ۱۷ دراصل جب سے مسلمانوںنے ذاتی مفادات کی عینک پہن لی ہے وہ اس حدتک قعر مذ لت میںجاگرے ہیںکہ مطالب ِقرآن کوبھی ذاتی مفادکے رنگ میں بدلنے سے گریز نہیں کر تے ۔ یعنی وہ خود کودین کے سانچے میں نہیں ڈھالتے،بلکہ دین کواپنے خیالات کے سانچے میںڈھالنے کااستدلال کرتے رہتے ہیں۔ خود بدلتے نہیں، قرآں کو بدل دیتے ہیں ہوئے کس درجہ فقیہانِ حرم بے توفیق! ۱۸ اور ان کی مطلب پرستی اس قدر بڑھ چکی ہے کہ انہوںنے قرآن کے سیدھے سادھے رستے کو بھی ٹیڑھی ترچھی راہوں میں بدل لیا ہے۔ زمیں کیا آسماں بھی تیری کج بینی پہ روتا ہے غضب ہے سطرِ قرآں کو چلیپا کر دیا تو نے! ۱۹ حق سے ناحق کوثابت کرنا اصل میںتعصب کوہوادیناہے جو استقرائی فکر کے استحقاق کو مجر و ح کرتاہے اور اس حوالے سے المیہ کاسبب بنتاہے ۔استقرائی طریقۂ کار میں مشاہدات و تجر بات کی مددسے جن نتائج کوپہنچاجاتاہے وہ سو فی صدسچ نہیںہوتے مگرانہیںاس وقت تک صادق شمار کیا جاتاہے ،جب تک ان کی صداقت پر کوئی حرف نہ آئے۔ گویا استقرائی نتائج میں تبدیلی کاامکان موجودرہتاہے لہٰذااس میںمزیدفکرواستدلال کادروازہ ہمیشہ کھلا رکھنا چاہئیے مگر متعصب کا اپنے استدلال کے بل پریہ گمان کرلیناکہ ان کے نتائج فکری قطعی ہیں ، حرف ِآخر ہیں، ناقابل تبدّل ہیں،لہٰذاان کے خلاف کسی کے نقطۂ نظرکوسننانہ صرف جائزنہیںبلکہ اس قدرقابلِ مذمت ہے کہ اگرکوئی ایسا کرنے کی کوشش بھی کرئے تواُسے سختی سے روکناہوگا۔ یہاںغورطلب بات یہ ہے کہ کیا ایسا زاویۂ فکرمنصفانہ ہے؟ یہ وہ المناک سوال ہے جس کی چبھن اقبال نے محسوس کی ہے اوراس روّیے کے حامل ہراہل خرد کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے: تعصب چھوڑ ناداں!دہر کے آئینہ خانے میں یہ تصویریں ہیں تیری جن کو سمجھا ہے برُا تو نے ۲۰ جس وقت انسان اپنے افکارونظریات کی حقانیت کے زعم میں مبتلا ہو جاتا ہے تو اپنے تمام تر استقرائی رویے کے باوجوداس کے خیالات سے وابستہ تعصب کا رنگ اس خاموشی سے اس پر چڑ ھ جاتاہے کہ خوداس کوبھی اس کا اندازہ نہیں ہوتا۔ دیکھا جائے تواس کاایساروّیہ اس کی قوتِ فکر و استد لا ل کے لیے دیمک کاکام کرتاہے اورپھراس کی فکرمیںتعصب رہ جاتاہے اور استقراء کا عنصر رخصت ہو جاتا ہے۔ نتیجتاً اپنے نظریات کے سواکسی دوسرے کی فکر میں اسے کچھ اچھانہیں سوجھتا۔استقراء کے ہردورمیںیہ ہوااورافسوس کامقام ہے کہ تاحال ہورہاہے۔اس حوالے سے اقبال کی اس پکار پر سخت دھیان دینے کی ضرورت ہے ۔ ’’اختلاف رائے ایک طبعی امرہے اس لیے کہ طبائع مختلف ہوتی ہیں۔ہرشخص کی نظرمختلف ہے،اسلوب فکرمختلف ہوتی ہے لیکن اس اختلاف کواس طریقے پر رکھناچاہئیے جس طرح ہمارے آباؤ اجداد نے اسے رکھا۔اس صورت میں اختلاف رحمت ہے۔ جب لوگوںمیںتنگ نظری آجاتی ہے تویہ زحمت بن جاتا ہے۔ مسلمانو! میں تمہیںکہتاہوںکہ اگر زندہ رہناچاہتے ہو تو متحد ہوجاؤ۔اختلاف بھی کروتواپنے آباء کی طرح، تنگ نظری چھوڑ دو۔ میں کہتا ہوںکہ تنگ نظری چھوڑنے سے سب اختلافات مٹ سکتے ہیں۔‘‘۲۱ اور تعصب کی بیماری کا بہترین مداوارَواداری ہے لیکن افسوس کا مقام ہے کہ لوگوں نے اس کے مفہوم کو سمجھنے میں بھی ٹھوکر کھائی ہے۔اقبال نے بڑے جامع اورمختصر الفاظ میں اس کی حقیقی روح کو اجاگرکیاہے،اُس نے لکھا ہے’’حقیقی رَواداری عقلی اورروحانی وسعت سے پیدا ہوتی ہے۔یہ رَوا دا ر ی ایسے شخص کی ہوتی ہے جورُوحانی حیثیت سے قوی ہوتا ہے اور اپنے مذہب کی سرحدوں کی حفاظت کرتے ہوئے دوسرے مذاہب کورَوارکھتا ہے اوران کی قدر کر سکتا ہے۔ایک سچا مسلمان ہی اس قسم کی رَواداری کی صلاحیت رکھتا ہے اوران کی قدر کر سکتا ہے۔‘‘۲۲درحقیقت یہ کوئی ضروری نہیں کہ صرف مذہبی معاملات ہی میں رَواداری سے کام چلایا جائے۔زندگی کے ہر معاملے میں اس کو اختیار کرنا ضرور ی ہے کیونکہ اسی سے تعصب کی بیخ کنی ہوتی ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ تعصب انسانی فکرکی ترقی میںتنزلی اورتوقف کاباعث بنتارہاہے مگر پھر بھی یہ استقرائی عقل کاکمال اعجازہے کہ وہ کسی نہ کسی صورت میںآگے بڑھتی رہی اوراس دوران میں اس کی وضع قطع جس ہیئت میں بھی نمودارہوئی،اس نے بالآخرجس قسم کی بھی سچائیوں کو بے نقا ب کرنے کادعوی کیااس کے بارے میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخرکہاںتک اس کے دعوے قابلِ جو از اور صحیح ہیں۔اس کافیصلہ انسانی فکرکی کسی بھی کسوٹی سے نہیں کیا جاسکتا کیونکہ انسان اس بات کی کوئی ضمانت نہیںدے سکتاکہ اس کے مقررکردہ قواعدوضوابط سب کے لیے تا ابد قابل قبول رہیں گے ۔ یہ بات تجربے میںآئی ہے کہ انسان کے حالات بدلنے سے اس کے خیالات اور خیالات کے بدلنے سے اس کے حالات بدلتے رہتے ہیں۔اس بات کی وضاحت میںایک انتہائی سادہ سی مثال کو سامنے رکھتے ہیں۔ بالفرض کوئی شخص اپنے گھرکے آنگن میںلگے ہوئے نیم کے پیڑ کو کٹوانے کی فکرمیںمحض اس لیے مبتلاہے کہ اس پیڑکے پتے اورنمکولیاںبہت جھڑتے ہیں جن کی وجہ سے آنگن میںغلاظت جمع ہوئی رہتی ہے اورپیڑکی گھنی چھاؤں کی وجہ سے دھوپ بھی آنگن میںنہیں آتی۔اتفاق سے وہ شخص کسی ایسی بیماری میںمبتلاہوجاتاہے جس کے علاج کے لیے اس کا طبیب نیم کے تازہ پتّے اور نمکولیوںکے مغزدوامیںاستعمال کرنے کی تجویز کرتا ہے، لامحالہ اس شخص کی درخت کٹوانے کی سوچ بدل جائے گی۔لہٰذا انسان اپنے دعوؤںکی پرکھ کے لیے اگرکوئی بھی معیار اپنی فکرکے بل بوتے پر قائم کرے گاتواس کی نوعیت زمانے کی طرح سیال ہوگی اورجس میںٹھہراؤ نہ ہووہ اپنے آپ کا معیارکیونکرہوسکتی ہے ۔ اس لیے استقرائی نتائج کے صدق وکذب کو جاننے کی پرکھ صرف وحی کی بدولت ہی ممکن ہے جس کی سچائیاں ابدی ہیں، تغیرزمانہ سے محفوظ ہیں اورسب سے بڑھ کرفکرانسانی کی حاصلات نہیںبلکہ حکمت ِالٰہی کی تعلیمات ہیں، چونکہ وحی کا سلسلہ ختم رسلؐ پر آ کر پایۂ تکمیل کوپہنچا،اس لیے صرف دین ِاسلام کی تعلیمات فکرانسانی کے لیے قطی مشعل راہ ہیں اور تاقیامت رہیںگی۔ اس معاملے میںایک مشکل یہ ہے کہ انسانی استقراء کاتعلق فطرت خارجیہ اورنفوس انسانیہ کے متغیرہ اُمورسے ہے جب کہ ربانی تعلیمات کاواسطہ کلام الٰہیہ کے حکمت افروز غیرمتغیرہ حقائق سے ہے۔ لہٰذاکسی متغیرہ کے لیے غیرمتغیرہ کومعیارکیسے ٹھہرایاجائے۔ظاہرہے اس کاامکان صرف اس صورت میںپیدا ہوتاہے جب متغیرہ غیرمتغیرہ کے خلاف نہ جاتاہو۔اس کا مطلب یہ ہواکہ استقرائی نتائج مذہبی صداقتوں سے کلی یاجزوی طورپرمطابقت رکھتے ہوں اوران کی اچھی خاصی وضاحت پیش کرتے ہوں،توپھرقابل ِقبول ہیںوگرنہ نہیں۔عدم مطابقت کی صورت میںیہ متصور ہوگاکہ استقرائی نتائج نے مذہبی صداقتوںکی تغلیط نہیںکی بلکہ ان کے تفصیلی تعین میں ضرور کہیں ٹھوکرکھائی ہے ۔۲۳ لہٰذاناقدانہ استدلال سے ان نتائج کاجائزہ لیناہوگا۔اسی نقطۂ نظر کے تحت اقبال نے فکراسلامی کی تجدید نوپراصرارکیا۔اس کے زمانے میںمغربی سائنس کے روپ میں استقرائی استدلال کامصرف زوروںپرتھا،اس لیے اس نے یہ ضروری سمجھاکہ وقت کاتقاضا ہے کہ معقول سائنسی حاصلات کی رُوسے مذہبی سچائیوں کواندازِ نومیںپیش کیاجائے ۔مذہب سے قریب محسوس ہوتے ہوئے میکانکیت مخالف سا ئنسی نظریات کی تفہیم سے اقبال کویہ اُمیدبندھی کہ ’’وہ دن دورنہیںکہ مذہب اورسائنس میںایسی ایسی ہم آہنگیوں کا انکشاف ہوجوسردست ہماری نگاہوںسے پوشیدہ ہیں۔‘‘۲۴اس کاارتقاء وحرکت زمان ومکاںاورتسخیر کائنات جیسے سائنسی نظریات کو مذہبی تعلیمات وتجربات سے ہم آہنگ ظاہرکرنا،اسی سلسلے کی ایک کڑی تھا۔اس کی ذاتی رائے میںسائنس اورمذہب کوہم آہنگ رکھنے کی کاوش اس لیے کی گئی کہ عصر جدید کاانسان محسوس کاحددرجہ خوگرہوچکاہے لہٰذایہ خیال کرنا غلط نہ ہو گا کہ ’’مذہب کی بدولت جس قسم کاعلم ہوتا ہے اسے سائنس کی زبان میں سمجھا جائے۔‘‘۲۵ کیااقبال کی رائے در ست ہے اورمزیدپیش رفت کی حامل ہے؟اس ضمن میںاب تک دو طرح کے فکری رویے سامنے آئے ہیں: ایک طرف ایسے مذہبی سکالرہیںجنہوںنے اسی فریضے کوحتی المقدور پورا کرنے کی کوشش کی ہے جیسے کہ مولاناوحیدالدین نے اپنی تصنیف مذہب اور جدید چیلنجمیںان خطوط پریہ مؤقف۲۶ اپنایاہے کہ ’’مذہب اور سائنس دونوںہی ایمان بالغیب پرعمل کرتے ہیں،مذہب کااصل دائرہ اشیاء کی اصلی اورآخری حقیقت متعین کرنے کا دائرہ ہے،سائنس اسی وقت تک مشاہداتی علم ہے جب تک وہ ابتدائی اورخارجی مظاہرپرکلام کررہی ہو، جہاںوہ اشیاء کی آخری اورحقیقی حیثیت متعین کرنے کے میدان میںآتی ہے جوکہ مذہب کااصلی میدان ہے تووہ بھی ٹھیک اسی طرح ’’ایمان بالغیب‘‘کاطریقہ اختیار کرتی ہے،جس کاالزام مذہب کودیاجاتاہے کیونکہ اس میدان میںاس کے سواچارہ نہیں‘‘۔مولانانے اس دعوی کے ثبوت میںساتھ ہی سرآرتھراڈنگٹن کی پیش کردہ یہ مثال بھی سامنے رکھی ہے۔’’ دورِ جدیدکا سائنسدان جس میزپرکام کررہاہے،وہ بیک وقت دومیزیںہیں۔ایک میزتووہی ہے جوہمیشہ سے عام انسانوں کی میز رہی ہے اور جس کو چھونا اور دیکھناممکن ہے۔دوسری میزاس کی علمی میز(scientific table) ہے،اس کا بیشترحصہ خلاہے اور اس میںبے شمارناقابل مشاہدہ الکٹران دوڑرہے ہیں،اسی طرح ہرچیزکے مثنی(duplicate) ہیں جن میںسے ایک توقابلِ مشاہدہ ہے اوردوسرا صرف تصوراتی ہے،اس کوکسی بھی خوردبین یا دوربین سے دیکھا نہیں جاسکتا۔‘‘ پس ،کسی شے کی تصوراتی شکل سائنسی استقراء کی وہ دریافت قرارپاتی ہے جسے اس نے اسی شے کی مرئی شکل کی مددسے ڈھونڈاہوتاہے۔یہی معاملہ مذہب کا ہے جس میںفطرت کے طبیعی مظاہر،ان مابعدالطبیعی حقائق کے شواہد پیش کرتے ہیںجن کابڑے وثوق سے دعوی کیاگیاہوتاہے۔اپنی تصنیف میںمولانانے جابجاسائنسی نظریات کی رُوسے مذہبی صداقتوں کو اجاگرکیاہے۔ دوسری طرف ایسے سائنسی سکالرزہیںجنہوںنے اس فریضے کوسرے سے عبث جاناہے اور ایسی کاوش کوغیر سائنسی ماناہے۔مثلاًاپنے مقالے سائنس اوراسلامی دنیامیں ارشد محمود لکھتے ہیں کہ’’ اسلامی دنیامیں’’علم‘‘سے مر اد مقدس متن کی نئی تشریحات تلاش کرناہے۔ان کا دعو ی ہے کہ جدیدسائنس نے جوبھی دریافت کیاہے ان کی پیش گوئی مقدس آیات میںپہلے سے ہی دی جاچکی ہے۔چنانچہ ان کی ’’علمی کاوش‘‘سے مرادایسی ٹوہ میںرہناہے جس سے سائنسی حوالوں کو استعمال کرکے مقدس آیات کے سچاہونے کوثابت کیاجائے۔‘‘۲۷احیائے دین کے نام پر مسلمانوں کی اس کاوش سے سائنسی ساکھ کوضعف پہنچاہے۔اسی نقطۂ نظرکی وکالت میں ڈاکٹر پرویز امیرعلی ہود بھائی نے اپنی تصنیف مسلمان اورسائنس میںواضح ۲۸کیاہے کہ مسلمان اپنی اس کاوش کو ’’اسلامی سائنس‘‘کہتے ہیںجس کے لیے کبھی کوئی مشین یااوزارنہیںبنائے گئے۔نئے کیمیاوی مرکبات تیارنہیںکئے گئے۔کسی نئے تجربے کاڈیزائن نہیں بنایاگیا۔کسی نئی حقیقت کو دریا فت نہیں کیاگیا۔محض ایسے ناقابل آزمائش معاملات سے طبع آزمائی کی گئی جوصحیح معنی میں سائنس کے میدان سے باہرہیں۔مثلاًرفتار ِفلک،دوزخ کا درجۂ حرارت،جنّات کی کیمیاوی ساخت، منا فقت کے حساب لگنے کافارمولا،پیغمبرؐکے واقعہ معراج کی نظریۂ اضافیت پرمبنی تشریح،وغیرہ کے عنوانات سے متعددعالمی کانفرنسوں میںمقالے پڑھے گئے جو نہ تو دین اسلام کے مطابق ہیں اور نہ ہی سائنسی معیارپرپورے اترتے ہیں ۔ ڈاکٹر ہود بھائی نے اپنی اسی تصنیف میںایک اورجگہ یہ بھی وضاحت۲۹ کی ہے کہ’اسلامی سائنس‘لفظ سائنس کے فریب کارانہ استعمال کے سوااورکچھ نہیں۔یہ ابتدائی دور کے مسلمان سائنسدانوںکے کام کی بنیادپراپنی بڑائی جتانے کی کوشش ہے حالانکہ اس دور کے مسلم سائنسدان راسخ العقیدہ مسلمان تھے اوران کی سائنس حقیقت پسندانہ تھی ۔ انہوںنے طبیعیاتی کلیے دریافت کئے۔کیمیاوی تجربات کئے۔پیچیدہ مشینیںاختراع کیں۔کبھی منافقت یا ثوا ب کے ریاضیا تی کلیے تلاش نہیںکئے۔ جنات کی سائنسی ہیئت کو جاننا گوارا نہیں کیا۔ اس لیے بزبانِ ار شد محمود،’’دانشمندانہ رستہ یہی ہے کہ ہم سائنس اورمذہب کوایک کہنابندکریں۔سچ یہی ہے ان کاایک دوسرے سے کوئی تعلق نہیں۔یہ تفہیم کائنات کے دوالگ الگ خودمختارنظام ہیں۔‘‘۳۰ پہلی بات،اگرکچھ لوگ اسلام اورعلوم کویکجاکرنے کی درست سبیل نہیں کر پا رہے تواس کایہ مطلب ہرگز نہیں کہ اس کاوش کوسرے سے ہی ترک کردیاجائے۔اسے یوںسمجھاجاسکتاہے کہ بالفرض بازارمیںکچھ لوگ ملاوٹی غذا ئیں فروخت کرنے لگیںتوان سے واقف ہونے کے بعد انسان یقیناان غذاؤںسے بے زارہوجائے گامگراس کا یہ مطلب نہیںکہ انسان خالص غذاسے بھی بے زارہوجائے۔اقبال کے نزدیک،یہ بات ویسے ہی اچنبھے کی ہے کہ اگر کوئی یہ خیال کرے کہ اسلام اورعلوم یکجانہیںہوسکتے۔اس کاکہناہے کہ’’مجھے تعجب ہے کہ علوم اسلام اور تاریخ اسلام کے موجود ہونے کے باوجودکوئی شخص کیونکرکہہ سکتاہے کہ علوم اوراسلام ایک جگہ جمع نہیں ہوسکتے۔‘‘۳۱ تاریخ خودبولتی ہے کہ ر اجر بیکن،رینی ڈیکارٹ ،جان اسٹورٹ مل جیسے مغربی حکماء نے کس طرح مسلمانوںکی استقرائی تعلیمات سے کسب ِفیض اٹھایا ۔ دوسری بات، اقبال سائنس کانہیں،فلسفۂ سائنس کاحکیم تھا۔اس لیے وہ کائنات کاتالیفی نوعیت کا مطالعہ کرنے کا خواہاں تھاتاکہ سائنس کے فراہم کردہ طبیعی شواہدکی رُوسے مذہب کے مابعدالطبیعی حقائق کی گواہی ملتی رہے۔یقینااس نے کبھی نہیںچاہاکہ کسی طبیعی وجودکی سائنسی تحقیق سے کسی مابعدالطبیعی وجودکی ہیئت کوثابت کیا جائے یاکسی مخصوص سائنسی کلیے کی روشنی میںکسی مابعدالطبیعی واقعہ کی توجیہ کی جائے۔اس حدتک ڈاکٹرہودبھائی کی وضاحت غلط نہیں ۔ بلاشبہ ابتدائی دورکے مسلمان نہ تو سائنس اورنہ فلسفۂ سا ئنس کے اعتبارسے کبھی ایسی نام نہاد تحقیقات کاشکارہوئے لیکن جہاں ڈاکٹرہودبھا ئی نے مذہب اورسائنس کی باہمی لاتعلقی پرزوردیاہے، وہاںسوچنے کی بات یہ ہے کہ بالفرض کسی مسلم کی فکرمیںفتورہوتوکیا اس کا سزاوار اسلام ہو گا؟یقینا نہیں۔ان سائنسی سکالرز نے اسلام کے نام پر کی جانے والی کاوشوں کا قصوروار دین کو ٹھہرادیا۔ کیا یہ منصفانہ عمل ہے؟یہ وہی غلطی ہے جوفکر اقبال کی رُو سے اہلِ مغرب نے کی ہے۔انہوں نے کلیسائی اور سائنسی نظریات کے تصادم کا حل یہ نکالا کہ سائنس کو مذہب سے جدا کر ڈالا حالانکہ اس کا حل کلیسائی کٹر پسندی کا جرآت مندانہ سامنا کرنا تھا،تاکہ مذہب اور سائنس کے مابین کوئی فاصلہ نہ رہے۔ درحقیقت،مذہب اورسائنس میںغلط مبحث کی فضااس وقت پیداہوتی ہے جب دونوں میںسے کسی ایک طرف سے دوسرے کی حدمیںدراندازی کی جائے۔کبھی اہل ِمذہب کی جانب سے یہ زیادتی کی گئی اوراب اہل سائنس بھی اسی غلطی کے مرتکب ہوئے ہیں۔انصاف کے تقاضے ملحوظِ خاطررکھے جائیںتوان دونوںمیںعدم مطابقت کی صورت پیدانہیںہوسکتی۔اقبال کے نزد یک مذہب اورسائنس میںہنگامہ آرائی کاجوشورمچایاجاتاہے وہ اصل میں مذہب اورسائنس کا نہیںبلکہ عیسائیت اورسائنس کاتاریخی تصادم ہے کیونکہ جیسے جیسے مغربی حکماء نے مسلمانوں کی علمی ترقی سے استفادہ کیا،ان کے خیالات میںانقلاب پیداہوا،جس کے نتیجے میںان کارومن کیتھولک عیسائیو ں سے فکری ٹکراؤ شروع ہوا، جسے مذہب اورسائنس کے مابین تصادم سے موسوم کردیا گیا اورپھریہ تاریخی غلطی کئی باردھرائی گئی جس سے تنگ آکربعض سائنس شناسوںنے یہ نتیجہ اخذ کر لیا کہ جب تک مذہب اورسائنس کے درمیان قطعی طور پر کوئی حد فاصل نہیںکھینچ لی جاتی اس وقت تک سائنسی ترقی کی راہیںمسدودرہیںگی۔ان کے خیال میںآخریہ مان لینے میں حرج ہی کیا ہے کہ مذہب کا سائنس سے کوئی تعلق نہیں۔اس مؤقف کی تائیدمیں ڈاکٹر پرویزہود بھائی نے فلسفۂ سائنس کے انگریز مفکر سرکارل پوپرکے وضع کردہ اصول تکذیب کوپیش نظررکھاہے تاکہ سائنسی اور غیر سائنسی کاوشوں میں تمیزکی جاسکے اورہمیشہ کے لیے یہ جھگڑاہی مٹ جائے کہ آیا مذہب اور سائنس میں مطابقت کی کوئی گنجائش نکل سکتی ہے یا نہیں۔ ڈاکٹرہودبھائی نے اصول تکذیب کوان لفظوں میںپیش کیاہے۔’’اگرہم کسی نظریے کوسائنسی تسلیم کراناچاہتے ہیں تو ضروری ہے کہ وہ نظریہ ایسی پیش گوئیوںکاحامل ہوجن کی تصدیق مشاہدے اور تجربے کے ذریعہ کی جا سکے۔اگر نظریہ کوئی قابل تصدیق پیش گوئی نہ کرے تواسے غلط ثابت کرنے کاکوئی طریقہ نہیں ہوتا۔ناقابل تکذیب نظریات سائنسی نہیں ہوتے۔ اس سے مرادیہ نہیںکہ ناقابل تکذیب نظریہ خراب،غلط یاکچھ اور ہے۔اس کامطلب صرف یہ ہے کہ غلط ثابت کرنے کی کسوٹی نہ ہونے کی وجہ سے یہ غیرسائنسی ہے۔ یقینا بہت سی اچھی چیزیں…بلکہ شایدزندگی کی بہترین چیزیں …غالباً سائنس سے کوئی تعلق نہیںرکھتیں۔‘‘۳۲ڈاکٹرصاحب نے اصول ِتکذیب کی تشریح کے لیے ساتھ ہی یہ مثال پیش کی ہے۔’’ارسطوکویقین تھاکہ پتھراس لیے زمین پرگرتاہے کہ زمین اس کی ماںہے اوروہ اپنی ماںکی گود میںگرناچاہتاہے۔اس نظریے کے متعلق دوسوال کئے جاسکتے ہیں: اوّل، کیا یہ سائنسی نظریہ ہے؟ دوم، ارسطو صحیح تھا یا غلط؟ پہلے سوال کاجواب ہے:’’نہیں۔‘‘ارسطوکانظریہ ہمیںیہ نہیںبتاتاکہ وقت کے ساتھ پتھرکی رفتارکس طرح بڑھتی ہے اورکیاہلکی یابھاری چیزوںکے گرنے کی رفتارمیںفرق ہوتاہے،وغیرہ وغیرہ۔یہ نظریہ بتاتاہے کہ چیزیںکیوںگرتی ہیں۔لیکن ایسی کوئی پیش گوئی نہیںکرتاجس کی تصدیق تجربہ کرکے کی جا سکے۔کیونکہ اسے غلط ثابت کرنے کا کوئی طریقہ نہیں،اس لیے یہ یقیناًسائنسی نظریہ نہیںہے۔جہاں تک اس کے صحیح یاغلط ہونے کا سوال ہے تو اس کاتعجب خیزجواب یہ ہے کہ ’’کوئی نہیںجانتا۔‘‘قاری کواپنے جواب کی صحت پر یقین ہوسکتاہے۔لیکن کیاوہ ثابت کر سکتاہے کہ پتھر کو ماتربھومی سے محبت نہیںہے؟‘‘۳۳ اس طرح اسلامی سائنس کے مختلف نظریات پراس اصول کے اطلاق سے خود بخود اندازہ ہوجائے گاکہ وہ سائنسی کہلانے کے کیونکرحقدارنہیں۔یقینا یہ اصول بہت شاندارہے اور اس کے تحت اسلامی سائنس کے نام پر پڑ ھے جانے والے مقالات کے غیرسائنسی ہونے کا پول کھل جاتاہے۔لیکن اگر تھوڑی دیرکے لیے اس اصول کااطلاق مذہبی پیشین گوئیوں کے حامل نظریات پر کیاجائے اور اگر ان کی سائنسی تصدیق بھی ممکن الحصول ہو تو پھر اس صورت میںیہ شبہ نہیںہونا چاہیے کہ مذہب اورسائنس کوعلیحدہ نہیں کیاجاسکتا۔اس سلسلہ میں،مولاناوحیدالدین نے کچھ مثالیں پیش کی ہیں ۔ یہاں ان میںسے صرف ایک کوچنتے ہیںتاکہ مؤقف واضح ہوسکے۔ مثلاً قرآن پاک کی سورۃ الفرقان میںیہ بیان آیا ہے۔ ’’اوروہی تو ہے جس نے دودریاؤں کو ملا دیا۔ ایک کاپانی شیریںہے پیاس بجھانے والا اور دوسرے کاکھا ری چھا تی جلانے والا او ر دونوں کے درمیان ایک آڑاورمضبوط اوٹ بنادی۔‘‘(۲۵:۵۳)اورقرآن پاک کی سورۃالر حمٰن میں اسے پھر سے دہرایا گیا ہے: ’’اسی نے دودریارواںکئے جوآپس میںملتے ہیں۔دونوںمیں ایک آڑ ہے کہ (اس سے ) تجاوز نہیںکر سکتے۔‘‘(۵۵ : ۱۹ -۲۰ ) ان آیات مبارکہ کی رُوسے مختلف خواص کی حامل رقیق اشیاء آپس میں کبھی حل نہیںہوتیں ۔یہ بات زمانہ قدیم سے ہی انسان کے مشاہدے میں آتی رہی ہے مگرسائنسی رُوسے یہ مسئلہ حل طلب رہاکہ آخرکس قانون کے تحت ایساہوتا ہے ۔ تحقیقات کی رُو سے اس کی تصدیق اس وقت ممکن ہوئی جب سطحی تناؤ (surface tension)کا قانون دریافت ہو ا ۔ سادہ لفظوںمیںاسے یوںسمجھاجاسکتاہے کہ بالفرض ایک گلاس لبالب پانی سے بھراجائے تو وہ کنارے تک پہنچ کر فوراً نہیںبہے گابلکہ ایک سوت کے بقدراٹھ کرگلاس کے کناروںکے اُوپر گولا ئی میںٹھہرجائے گا۔ کیونکہ رقیق اشیاء کی سطح کے سالمات (molecules) کے بعدچونکہ کوئی چیز نہیںہوتی اس لیے ان کارخ اندرکی طرف ہوجاتاہے،اس طرح سالمات کے درمیان کشش اتصال بڑھ جاتی ہے اورقانون اتصال کے عمل کی وجہ سے پانی کی سطح کے اوپر ایک قسم کی لچک دار جھلی (elastic film)سی بن جاتی ہے اورپانی گویا اس کے غلاف میں ملفوف ہو جاتاہے۔جیسے پلاسٹک کی سفید جھلی میںپساہوانمک ملفوف ہوتاہے۔سطح کا ہی پردہ اُبھرے ہوئے پانی کوروکتا ہے۔یہ پردہ اس حد تک قوی ہوتاہے کہ اگراس کے اوپرسوئی ڈال دی جائے تووہ ڈوبے گی نہیں بلکہ پانی کی سطح پرتیرتی رہے گی،اسی کوسطحی تناؤکہاجاتاہے اوریہی وہ سبب ہے جس کی بناء پرتیل اورپانی ایک دوسرے میں حل نہیںہوتے اوریہی وہ آڑہے جس کی وجہ سے کھاری پانی اور میٹھے پانی کے دو دریامل کربہتے ہیں مگر ایک کاپانی دوسرے میںشامل نہیں ہوتا ۔ ۳۴ عصر جدید میں مذہبی علم کی سائنسی زبان میںتفہیم حاصل کرنے سے اقبال کی مراداسی طرزکے فریضوںکوسرانجام دینا تھا ۔ لیکن اس سے یہ مطلب ہرگزنہ لیاجائے کہ اس کی دانست میں کچھ ایسا تھاکہ قرآنی آیات کو بہر صور ت سائنسی ثابت کرناہے۔اس کامطمح نظرصرف یہ تھاکہ اسلام کو جدید تعلیم یافتہ سائنسدان اورفلسفی کے زاویۂ نگاہ سے دیکھاجائے اور اس کے بارے میںایسی زبان اختیارکی جائے جسے زمانۂ حال کے علمی حلقے سمجھتے ہوں۔ زندگی نے وفانہ کی وگرنہ وہ خوداسی کارِخیر کو "Islam as I Understood It"کے عنوان سے پایۂ تکمیل تک پہنچانے کا آرزو مند تھا ۔۳۵ بعض علمی حلقوں کی جانب سے یہ اعتراض سامنے آیاہے کہ دین اسلام اور سائنس میں مطابقت ڈھونڈنے والے یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ یہ عظیم کاوش دوسرے مذاہب کے علمبردار بھی کرتے رہے ہیں اورابھی تک کر رہے ہیں۔مثلاً۳۶ہندوؤں کوزعم ہے کہ سائنس کاقانون بقائے مادہ وتوانائی ان کی مقدس کتاب بھگوت گیتا کے اس اشلوک سے ثابت ہے۔’جوموجود نہیںوہ وجود میںنہیں آسکتااورجوموجودہے وہ تباہ نہیں ہو سکتا۔‘ایسے ہی ان کو فخر ہے کہ ان کا مذہبی وید اس راز کو بہت پہلے ہی بیان کر چکا تھا جسے سائنس نے حال ہی میں کائنات کی تخلیق کی بگ بینگ تھیوری "Big Bang theory" کے طور پر پیش کیا ہے۔دیگر مذاہب کے حوالوں سے بھی ایسی مثالوں کی کمی نہیں۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہر مذہب کے ساتھ سائنسی حقائق کی مطابقت ڈھونڈنا ایک مضحکہ خیز صورت نہیں ؟ بادی النظر میں یہ سوال بڑا گھمبیر معلوم ہوتا ہے اور گھبرا کے یہ ماننے کے سوا چارہ نہیں رہتا کہ مذہب سے سائنس کی مطابقت کا خیال ہی فضول ہے ،یہ زیادہ سے زیادہ مذہبی بنیاد پرستوں کا شاخسانہ ہے اور بس۔لیکن عمیق نظر سے کام لیا جائے تواس مسئلے کی الجھن رفع ہونے لگتی ہے۔اس سلسلے میں،ذرادیر کے لیے تاریخ فکر انسانی کی طرف توجہ مرکوز کی جائے تودو نمایاں باتیں سامنے آتی ہیں۔پہلی بات یہ ہے کہ استقرائی فکرجب تک استخراجی فکرکے زیراثرپنپتی رہی اسے یہ مقام نصیب نہ ہوسکاکہ اس کے رازسب پرافشاںہوسکیں۔مثال کے طورپرقدیم یونانیوںکی نظر میں مجرّد تصورات کے مقابلے میںتجربی نوعیت کے اُمورثانوی حیثیت کے حامل تھے اس لیے وہ اپنے عملی کام رازداری میں رکھتے جیسے کہ سائراکیوزکے ارشمیدس کے بارے میں کہا جاتا ہے۳۷ کہ اس نے اپنی عملی ایجادات اوردریافتوںکے بارے میں کچھ بھی تحریر کرنے سے انکارکردیاتاکہ ان کی غیرپیشہ وارانہ حیثیت قائم رہے۔بالفرض ،یونانیوںکوکبھی عملی کار گزاریوں کوبیان کرنے کی ضرورت بھی پڑتی توانہوںنے ہندسہ وریاضی کے مجرّد کُلیّوںہی کا سہارا لیا۔زمانۂ عتیق میں دیگر قوموںکا فکری حال بھی اس سے مختلف نہ تھا۔مثلاًہندوقوم استخراجی فکرواستدلال کی اس قدراسیرچلی آرہی تھی کہ انہیں کبھی یہ ہوش نہ آیاکہ اپنے عملی تجربات کوعام کرتے۔ان کے بارے میںمغربی دانشور آلڈوس ہکسلے لکھتا ہے۔ ’’ یہ ہندو کیسے ممتاز مقام کے مالک تھے۔ جوایجادات وانکشافات ہم لوگوںنے کئے ہیںیاجنہیںہمارے کرنے کا امکان ہے کم ازکم ہندوستان کے آزادہونے تک ،سب انہیںمعلوم تھے۔بدقسمتی سے ان لوگوںنے اختصار بے جا سے کام لیااورحقائق کو بہ تصریح بیان نہیںکیا۔وہ اس ایجازوحجاب سے کام نہ لیتے توآج ہندواپنے مغربی حریفوںسے صدیاںآگے ہوتے لیکن وہ کھل کربات نہ کرپائے۔‘‘۳۸اسی طرح سونابنانے کے خواہاںکیمیاگروںکے بارے میں عام تھاکہ وہ جان بوجھ کراپنی تحریروںکواتنا ادق بناڈالتے تا کہ ان کی دریافتیںان کے مخصوص حلقوںتک محدود رہیں ۔ الغرض پرانے زمانے میں سائنسی معاملات کوصیغہ ٔرازمیںرکھے جانے کی حتی الوسع کوشش کی جاتی۔لیکن یہ سہرا صرف مسلمانوںکے سربندھتاہے کہ انہوںنے استقرائی فکرکواستخراجی فکرکے مقابلے میںکبھی ہیچ نہیں جانا،اپنے عملی تجربوں کو دوسروںکی تصدیق وتوثیق کے لیے ہمیشہ کھلاچھوڑے رکھااورسائنسی حاصلات کو تمام بنی نوع انسان کامشترکہ سرمایہ سمجھا۔انہوںنے اپنے عملی کارناموںکی تشہیرکونہ تو براجانااورنہ ہی اس میںکوئی عارمحسوس کی ۔ انہوں نے پورے خلوص اورنیک نیتی کے ساتھ اپنے تجربات کوسب کے لیے عام کیااوریہاںتک کہ سونابنانے کے متعلق کیمیاگری کے جونسخے قدیم زمانوںسے سینہ بہ سینہ چلے آرہے تھے،انہیں بھی نہ چھپایا۔ اس مقام پریہ اعتراض اٹھایا جاسکتا ہے کہ ابتدائی دورمیںاخوان الصفانامی مسلم مفکرین کے گروہ نے اپنی کارگذاریوںکوعوام سے خفیہ رکھا۔بے شک یہ تاریخی حقیقت ہے مگرژرف نگاہی سے کام لیاجائے تواندازہ ہوتاہے کہ ایسا اعتراض اٹھاناواجب نہ ہوگاکیونکہ اخوان الصفاکی زیر زمین سرگرمیوںکی بڑی وجہ اس عہدکے سیاسی اورملکی حالات وواقعات تھے۔اس کاکوئی بھی تعلق استدلال کی نوعیت سے نہ تھاحالانکہ اس گروہ کے اراکین یونانیوںکے فکرواستدلال سے بے حدمتاثرتھے۔نیزان کے ہاںاس نہج کے تجربی اُمورمفقودتھے جن کومسلمانوںکے وضع کردہ استقرائی اسلوب میں شمار کیا جا سکے۔بہرطور، بنیادی طورپر یہ مسلمانوںکاایقان ہے کہ صداقت نہ کبھی چھپ سکتی ہے اورنہ کبھی چھپائی جاسکتی ہے۔ اس پیرائے میںیہ نکتہ واضح ہوتا ہے کہ جب مسلمانوں کے بارے میں مذہب اورسائنس میںمطابقت کاذکرآتاہے تواس کا آغاز دیگر مذاہب کے برخلاف سائنسی علوم کی ترقی وترویج کے غلغلے سے نہیںہوتا بلکہ اس وقت سے ہوتاہے جب خودانہوںنے استقرائی بنیادوںپرعلی الاعلان عملی اورتجربی کاموں کافریضہ سرانجام دیناشروع کیا۔یہ وہ فرق ہے جودین اسلام کودیگرمذاہب سے ممتاز کرتا ہے اوراقبال کاکہنا ہے : حکمتِ اشیا فرنگی زاد نیست اصلِ او جُز لذّتِ ایجاد نیست نیک اگر بینی مسلماں زادہ است ایں گہر از دستِ ما افتادہ است چوں عرب اند را روپا پر کشاد علم و حکمت را بنا دیگر نہاد دانہ آں صحرا نشیناں کاشتند حاصلش افرنگیاں برداشتند ایں پری از شیشۂ اسلافِ ماست باز صیدش کن کہ او از قافِ ماست ۳۹ اشیاء کی حکمت فرنگی زادنہیںہے۔اس کی بنیادلذتِ ایجادکے سواکچھ نہیں۔ اگر تو غور کرے تو یہ مسلمانوںکی تخلیق کردہ ہے ۔ یہ موتی ہمارے ہاتھوںسے گرگیاہے۔جب عربوںنے یورپ میں پَر کھولے توعلم وحکمت کی ایک اوربنیادرکھی۔ان صحرا نشینوں نے بیج بویا،جس کی فصل انگریزوںنے اٹھائی۔یہ پری ہمارے اسلاف کی بوتل سے ہے۔اسے دوبارہ قیدکرکیونکہ یہ ہمارے کوہ قاف سے ہے ۔ دوسری بات یہ ہے کہ استقرائی استدلال کاتعلق انسان کی عقلی اوروجدانی صلاحیتوں سے ہے جن کی مددسے کوئی بھی اپنے مذہبی عقائدکے ساتھ سائنسی نظریوںکی مطابقت ڈھونڈ سکتا ہے۔ یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔درحقیقت مسئلہ یہ ہے کہ آخرمختلف النوع مذہبی عقائدکے پیرؤوں میں سے کون فی الواقعی حق پرہے۔اس کافیصلہ کرنااب مشکل نہیںرہاکیونکہ جب سے اسلام کاسلسلہ ختم نبوتؐ پر منتج ہواہے، اس سے گزشتہ تمام مذاہب کی تحریف لازم ٹھہرتی ہے۔ اس کے باوجود اب اگر کوئی محرّف شدہ مذہب کوترجیح دیتا پھرے اور اس سے سائنسی مطابقت کے جواز ڈھونڈنے پر مُصر رہے تو اس سے ماسوائے مذہبی رَواداری کے اور کوئی چارہ نہیں رہتا۔اس ضمن میں اقبال کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ قدیم وقتوں میںاستقرائی حقائق کو افسانوں کے رنگ میں بیان کیا جاتا، جس کی وقتاً فوقتاً تشریح کا سلسلہ جاری وساری رکھا جاتااور پھر استخراجی رنگ بازی میں حقیقت کو بیان کرتے کرتے اس کا اختتام بالعموم کسی نہ کسی افسانے پر جا کر ہوتا ،نتیجتاً حقیقت نظرانداز کر دی جاتی لیکن افسانہ باقی رہ جاتا۔قرآن کے سواالہامی مذاہب میں بالعموم اورغیرالہامی مذاہب میں بالخصوص کچھ ایسی ہی صورتِ حال روارکھی گئی کیونکہ اقبال کے لفظوں میں ’’قرآن پاک نے جہاں حقائق کی تصد یق کی وہاںافسانوں کو نظرانداز کردیااوراگرنہیںبھی کیاتواس حدتک ترمیم اورقطع بریدکے ساتھ کہ ان سے جن حقائق کی ترجمانی مقصودہے ان کی طرف واضح اشارہ ہو جائے۔‘‘۴۰ ثانیاً ختم نبوتؐ کے معنی صرف یہ ہیں کہ اب کسی شخص کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ لوگوں کواپنے الہامات پر ایمان لانے کی تلقین کرتا پھرے۔اب ہر شخص پر علم وحکمت کے دروازے کھلے ہیں تاکہ وہ اپنی استقرائی صلاحیتوں کی بدولت وحی کی تکمیل کرسکے اور فطرت کو مسخر کر سکے۔اس نسبت سے مسلمانوں کا صرف یہی فرض نہیں بنتا کہ مذہب اور سائنس میں مطابقت ومماثلت کے پہلوؤں کو ڈھونڈتے پھریں ، ان کا فریضہ یہ بنتا ہے کہ مذہبی تعلیمات سے تحریک پکڑتے ہوئے سائنسی خدمات سرانجام دیں۔ مسلمانوں میںدانش وبینش کی ارزانی کبھی نہیںرہی،خصوصاًاستقرائی عقل توان کی میراث رہی ہے۔پھر ایسا کیوں ہوا کہ انہیںسائنسی استقراء کی رو سے تجدید دین کاخدشہ لاحق ہوا؟مطالعۂ فکرِانسانی کے مطابق ظلم یہ ہواکہ تاریخ میںکئی ایسے موڑ آئے جہاںانہیںبحرانِ دانش کامسئلہ درپیش ہوا۔پہلے یونانی استخراج نے ان کی فکر میںتعطل پیدا کئے رکھا،پھرعلم الکلامی مناظروںنے اتنا زور پکڑاکہ قرآنی تعلیمات کا استقرائی جذبہ ویسے ہی سردپڑگیااور استخراجی طُرفہ طرازیاںبازی لے گئیں۔اس سے بیزارمسلمانوںنے تصوف کی صورت میںوجدانی استقراء کارستہ ہموار کیا مگر اسے بھی غیراسلامی تصوف کے اثرات نے صراط ِمستقیم سے بھٹکا دیا اور پھراس پر ایسا وقت ِزوال آیا کہ تصوف صرف نام کو رہ گیا اور فکرِاستدلال اندھی عقیدت کی بھینٹ چڑھ گیا۔اس دوران میںجن مسلمانوںنے سائنسی استقراء کی طرف درست سمت میں قدم اٹھانے شروع کئے، انہیں سیاسی فتنہ آرائیوں، اندرونی اور بیرونی خلفشاروں نے آگے بڑھنے سے روک دیا۔ادھرمغرب نے کلیسائی عتاب سے چھٹکاراحاصل کیا مگر اس کے نتیجے میں مذہب کو سائنس کا سنگ راہ سمجھ بیٹھے۔ نتیجتاً یونانیوں کے ثنوی اور مسلمانوںکے استقرائی رجحانات کے سہارے مذہب سے لاتعلق سائنسی ترقی کی راہ پر گامزن ہوگئے۔ان کی ترقی نے آخرکارایسے فلسفے کوجنم دیا جس سے مذہب سائنس کے عتاب میںآگیا۔ اقبال کے زمانے میںمغربی استقراء کی لہرروشن خیال مسلمانوں کو اپنی لپیٹ میں لے رہی تھی لہٰذا اسے بھی یہ خدشہ لاحق ہواکہ کہیں مسلمانوں میں مذہبی راہ روی نہ پھیل جائے اس لیے اس نے یہ ضروری سمجھا کہ یہ وقت کی نزاکت ہے کہ سائنسی نظر یوںکی رُوسے تجدید دین کاکام کیاجائے۔لیکن اس مقام پریاد رہے کہ اقبال نے کبھی یہ نہیںچاہاکہ مسلمان مغربی سائنس سے مستفیدنہ ہوںاور خا لصتاًمذہبی قدامت پسندی کے نرغے میں گھرے رہیں۔اس کاایقان تھا کہ انسانی فکرکی ارتقائی ترقی کے ساتھ مذہب کی تسویدکرتے رہنا ضروری ہے تاکہ فکر دہریت کی طرف مائل نہ ہو جائے۔ بے شک یہ فطری اصول ہے کہ انسانوںکے زاویۂ نگاہ باہم مختلف ہوتے ہیں۔ خیال ایک ہی ہوتاہے مگر ہر کوئی اس سے مختلف اثرقبول کرتاہے۔اسی اصول کواقبال نے اپنے لفظوں میں بیان کرتے ہوئے کہاکہ ’’خیال تو ایک ہی ہوتاہے مگرزمانہ ہے کہ اپنے اپنے ذوقِ حیات اور احوال کے مطابق اسے مختلف شکلوںمیںپیش کرتاہے۔ ‘‘ ۴۱ یہی وجہ ہے کہ ایک ہی نظریہ کسی کے استدلال میںمواحدانہ رنگ لیے ہوتاہے توکسی کے لیے ملحدانہ۔مثال کے طورپر سائنس میں ڈارون کانظریۂ ارتقاء ایک ہی ہے مگراس پراقبال نے غورکیاتواسے اس میںقدرت کی گلکاریاں نظر آئیںاوراسی پرفرائڈنے نگاہ ڈالی تواسے اس میںمحض فطری قوانین کی شہ زوریاںدکھائی دیں۔ اس لیے ساری بات صرف نظریوںکی نہیںہوتی،کچھ معاملہ اپنی قوتِ فکرکے زورپران نظر یوںکی توجیہہ کابھی ہوتا ہے۔ گویااس مقصدکے لیے بھی استقرائی استدلال کیاجاتاہے۔اقبال نے اس فطری اصول کو بڑے خوبصورت شاعرانہ انداز میں اس طرح بیان کیاہے: ممکن ہے کہ تو جس کو سمجھتا ہے بہاراں اوروں کی نگاہوں میں وہ موسم ہو خزاں کا! ہے سلسلہ احوال کا ہر لحظہ دگرگوں اے سالکِ رہ فکر نہ کر سود و زیاں کا! شاید کہ زمیں ہے یہ کسی اور جہاں کی تو جس کو سمجھتا ہے فلک اپنے جہاں کا! ۴۲ یہ دُکھ کی بات ہے کہ اس سیاق وسباق میںعام طورپراس امرکاخیال نہیںرکھاجاتاکہ سائنس کافی نفسہٖ فریضہ محض کائنات کے مادی آثارو شوا ہد کواپنے احاطۂ تحقیق میںاس طرح لاناہے کہ ان کی جزئی معلومات ایک لزومی کڑی کی صورت میں اظہرمن الشمس ہو جا ئیں۔ اس کا وظیفہ یہ نہیںہے کہ اپنے دریافت شدہ یااختراع کردہ نظریوںکی توجیہہ بھی بیان کرے۔مثال کے طورپر ڈارون کا اصول انتخابِ طبیعی یہ توواضح کردیتاہے کہ زندگی کے بہتر مظاہرکے باقی رہنے کی وجہ کیاہوتی ہے لیکن وہ یہ توجیہہ پیش نہیںکرتاکہ بہترزندگی کے امکانات ازخودکیسے وجودمیںآتے ہیں۔فطری قوانین کی توجیہہ سائنس کانہیں،فلسفۂ سائنس اورمذہب کامسئلہ ہے۔سائنسی تجربہ گاہ میںمذہب کویقیناکوئی دخل نہیں ہوتالیکن سائنسی نظریے کی توجیہہ پیش کرتے وقت فلسفۂ سائنس کامذہبی تعلیمات سے مطابقت رکھناضروری ہے تاکہ سائنسی حاصلات صراط ِمستقیم پر کا ر بند رہیں۔ بالفرض میکانکی سائنس کے حاصلات کی تو جیہہ کومذہبی بنیادوں پرپیش نہ کیاجائے تو انسان کائناتی مشین کا محض ایک کل پرزہ بن کررہ جائے گااوردیگرمادی اشیاء کی ماننداس کی زندگی میکانکی قواعد و ضوابط کی پابند ہو کررہ جائے گی جس سے انسان کامقدرجبریت اورقنوطیت ٹھہرے گا،نتیجتاًانسان سے انسان بننے کی امیدچھن جائے گی اور انسا نیت کو مشینی سائنسیت کادیونگل جائے گا جس کے اظہار میںاقبال نے کہا: ہے دل کے لیے موت مشینوں کی حکومت! احساس مروت کو کچل دیتے ہیں آلات! ۴۳ ایسے تناظرمیںانسان محض ترقی یافتہ حیوان کے علاوہ اورکچھ نہیںرہے گا۔اس میںانسان کی عظمت نہیں ، ہزیمت ہوگی۔کیاایسی صورت حال میںسائنسی نظریے کی غیرمذہبی توجیہہ قابل قبول ہونی چاہئیے؟غورطلب بات ہے کہ نظریے ہی انسان کوانسان بناتے ہیں۔اسے زندگی کی مصیبتوںاورمشکلات کاسامناکرنے کی جرأت بخشتے ہیں ۔ اسے دیگرحیوانات سے ممتازاورافضل ثابت کرتے ہیںاورحتی کہ کائنات میںاشرف المخلوقات کادرجہ عطا کرتے ہیں ۔ اس میںکوئی شک نہیںکہ سائنسی بنیادوںپروضع کردہ دہریت تک کے نظریے انسانیت کو زندہ درگورنہیںہونے دیتے لیکن منبعٔ انسانیت کے تصورکو نیست ونابودکردیتے ہیں۔وہ سائنسی کا مرانیوں کے مادی پہلوؤںپرتونظررکھتے ہیںمگران کے بدلے میںروحانی پہلوؤںسے یکسر پہلوتہی برت جاتے ہیں۔وہ انسانیت کامادی علاج کرتے کرتے انسان کی روحانی شہ رگ کوکاٹ ڈالتے ہیں۔اقبال نے کارل مارکس اورنطشے کے بارے میںکہاتھا: قلب اُومومن دماغش کافراست!۴۴ اُس کادل مومن اوردماغ کافر ہے۔ اس مصرعہ کامفہوم سائنسی نظریات کی غیرمذہبی توجیہہ کرنے والوںپربعینہ چسپاں کیا جا سکتا ہے۔سائنس کے کسی بھی نظریے کی توجیہہ جوبے شک انسانیت کے لیے سودمند ہومگرمنبعٔ انسانیت کے لیے مضرت رساںہو،مجموعی طورپرانسان کے لیے کبھی آسودۂ خاطرثابت نہیںہوتی ہمیشہ کبیدہ خاطر رہتی ہے۔تاریخ اس کی گواہ ہے کہ مذہب سے لاتعلق سائنسی نظریوںنے انسان کی آسودگی اوربہتری کے لیے بہت کچھ کیاہے مگرمجموعی طورپروہ اسے ویسا اطمینان اورراحت نہیںدے پائی جو مذہب کی قربت سے حاصل ہوتا ہے۔ کیا سائنسی استقراء کے لیے مذہب سے تحریک حاصل کرناضروری ہے؟ تاریخ بتاتی ہے کہ اگلے وقتوںمیںکم قیمت دھاتو ں سے سونابنانے کی شدیدخواہش نے انسان کوکیمیائی تحقیقات پر مجبورکیا۔وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ صورت ِحال ایسی بدلی کہ سونابنانے کی خواہش توقصہ پارینہ بن کے رہ گئی مگرکیمیائی تحقیقات کاجوش کہیںآگے نکل گیا۔اس زمرے میں،مسلم مفکر جابر بن حیان کا تذکرہ بالخصوص کیا جاتاہے جس نے سونابنانے کی لت میںسونے سے بھی کہیں زیادہ قیمتی تحقیقا ت کا ذخیرہ اپنے ہم فکرمعاصرین کی رہنمائی کے لیے چھوڑا۔اس مثال کی رُوسے دیکھا جائے توثابت ہوتاہے کہ سائنسی تحقیقات کے واسطے مذہبی دعوت فکرسے تحریک پکڑنا ضروری نہیں۔ ظاہری طورپر حقیقت ِ حال یہی ہے۔مگرایک بات جو نظر اندازکردی جاتی ہے کہ آخر جابر بن حیان کے زمانے تک کیمیاگری کے فن نے خاص بہتری اور ترقی کیوںنہ کی جوسائنسی تحقیقات کے حوالہ سے ضروری تھی۔ گویا جس سائنسی روش کو جابرنے جلا بخشی تھی،وہ اس سے پیشتر ناپید کیوں تھی۔ استقرائی استدلال کے تاریخی تناظرکے حوالہ سے اس کاجوازیہی سامنے آتا ہے کہ قدیم دور میں کیمیا گری کے متعلق محتاط تجربات کی بجائے تخیلات اورقیاسات سے کام لیا جاتا۔ جب مسلم مفکر جابربن حیان نے اس میدان میںقدم رکھا تواسے جلدہی احساس ہوگیاکہ استقرائی فکرکے بغیر گوہر مقصود ہاتھ آنے والا نہیںاورظاہرہے اس نے جب تدبرقرآن سے صحیح معنی میں رجوع کیا،اسے تحریک ہوئی کہ سونا بنانے کی مادی خواہش سعی لاحاصل ہے۔ضرورت اس امرکی ہے کہ تجربات کے سہارے تحقیقات کا آغاز کیا جائے اور ایسے اُمورکی طرف نگاہ ِالتفات کی جائے جو عملاًممکن الحصول ہوںاورسودمند ثابت ہوسکتے ہوں۔ اس مناسبت سے یہ نکتہ بھی غور طلب ہے کہ جس محرک سے عمدہ نتائج حاصل کرنے میںطویل صدیاںصرف ہوئیں،کیااس سے بہتروہ محرک نہیں جو ضیاع وقت سے محفوظ رکھے اورمنزل ِمرادکاحصول زیادہ یقینی اور مؤثر بنائے ۔ تدبر قرآن کی خوبی یہی ہے کہ وہ مفکر کو ایسی تحریک بخشتاہے کہ اسے ہرآن یہ شعوررہتاہے کہ وہ کس طرح کی تحقیق سے کس طرح کا بھرپوراو ر برمحل فائدہ اٹھا سکتا ہے۔قرآن انسان کو ہوس پرستانہ اور محض مادہ پرستانہ تحقیقات کی ترغیب کبھی نہیں دیتا،وہ اسے ایسی حقیقت پسندانہ تجربات کی تحریک دیتاہے جس سے مادی ضرورتوںکے ساتھ روحانی فلاح و بہبودبھی ہوتی رہے اورفکرکسی بھی طور پر توحیدکی سیدھی راہ سے ہٹ نہ پائے۔اقبال نے اسی پیرائے میںیہ خیال پیش کیاکہ دین اسلام استقرائی فکرکی دعوت کے ذریعے ایسی ہی تحریک کابالالتزام اہتمام ملحوظ ِخاطررکھتاہے۔ختم نبوتؐ سے پیشتر انسانوں کو ایسی تحریک کی طرف ملتفت کرنے کے لیے نبی ؐمبعوث فرمائے جاتے رہے مگر آخرالزمان نبیؐکے بعد اس کی ضرورت نہ رہی کیونکہ شعور انسانی اس حدتک ترقی پذیر ہو چکا تھا کہ ازخودتعلیمات ربّانی سے تحریک پکڑکے اپنے مسائل کااحسن طریقے سے حل ڈھونڈ سکے۔بے شک ،ابتدائی دورکے مسلمانوںنے استقرائی دعوت ِ فکرسے فیض اٹھایا مگرجیسے کہ تاریخی شواہدسے معلوم ہوتاہے کہ مسلمان اپنی فکری توانائیوں کو کیسے زائل کربیٹھے اورتاحال اپنے بے حال استدلال کوبحال نہیںکرپائے۔اب ان کی حالت یہ ہو چکی ہے کہ بعض نے ترقی کی چکا چوند میں اپنی فکر کا قبلہ ہی بدل لیا ہے۔ مسلمانوں کی اس فکری زبوںحالی کومحسوس کرتے ہوئے اقبال کو بڑے کرب سے کہنا پڑا: چنیں دَور آسماں کم دیدہ باشد کہ جبریلِ امیں را دل خراشد چہ خوش دَیرے بنا کردند آنجا پرستد مومن و کافر تراشد ۴۵ ایساعہدآسمان نے کم دیکھاہوگاجو جبریل امین کے دل کومجروح کرے۔انہوںنے وہاں کتناا چھا بت کدہ بنایاہے مومن پوجاکرتاہے اورکافر (بت )تراشتاہے۔ اورجنہوںنے اپناقبلہ نہیںبدلا،مغرب کی افزونی فکرسے مبہوت نہیں ہوئے،جدت طرازی کی کسی بھی طر ح کوخوش آمدیدنہیںکہا،اپنے اسلاف کے طریقہ قیاس واستخراج کوسینے سے لگائے بیٹھے ہیں،ماضی کے پندار ِدانش میں گرفتارہیں،ان کی فکرزمانے کی رفتارکامقابلہ نہیںکرپائی،یعنی زمانہ آگے نکل گیاہے اوران کی فکراسی نسبت سے پیچھے رہ گئی ہے۔اقبال کوان کی اسی کج فہمی پرملال ہے۔اس کااظہاراس کے ان شعروںسے بخوبی عیاںہے۔ لا ٓااِلٰہ، گو یاں چو انجم بے شمار بستہ چشم اندر ظلامِ روزگار پانبردہ از عدم بیروں ہنوز از سوادِ کیف و کم بیروں ہنوز ۴۶ لاالہ کہنے والے( مسلمان) ستاروںکی طرح بے شمار ہیں۔ انہوںنے زمانے کی تار یکیو ں میںآنکھیںبندکررکھی ہیں۔انہوںنے ابھی تک عدم سے پاؤں باہر نہیں رکھے۔ وہ ابھی تک کم و کیف (کم اورزیادہ) کے علم سے باہرنہیںنکلے۔ مغربی فکرکی سائنسی ترقی اورمسلم فکرکی تنزلی سے جوفکری خلیج پیداہوئی ہے اسے موجودہ دور کے بعض سائنسی ذہن کے مسلم مفکرین نے پاٹنے کی اپنے تئیںسعی کی ہے تاکہ ان کابھی سائنسی تشخص قائم ہوسکے۔اس سلسلے میں انہوں نے مغرب کے بعض سائنسی حاصلات کی رُوسے مذہب کے کچھ مابعدالطبیعی تصورات کے متعلق سائنسی طرز کے تخمینے لگائے ہیںجیسے کہ جن، حور، جنت،دوزخ وغیرہ کی ماہیت کوسائنسی نظریوںکی رُوسے جاننے کی کوشش کی گئی ہے۔ان کی یہ کاوش فکراقبال کے حساب سے تانگے کوگھوڑے کے آگے جوتنے کے مصداق ہے۔کیونکہ انہوں نے مغربی سائنس سے تحریک پکڑکرمذہبی تصورات کوسائنسی بنیادوںپرسمجھنے کی کوشش کی ہے۔ حالانکہ اقبال کامقصوداس کے برعکس تھا۔اس طرح دیکھاجائے توانہوںنے فکرکااستقراء نہیںبلکہ اس کااستحصال کیاہے۔فکراقبال کے مطابق،وہ یہ سمجھ ہی نہیں پائے : دگر است آنسوے نہُ پردہ کشادن نظرے ایں سوے پردہ گمان ظن و تخمیں دگر است ۴۷ نوپردوںکے اس طرف کچھ اورمنظرہے اورپردے کے اس طرف اورسوچ،گمان اورخیال ہے۔ قصہ مختصر،اس تمام ترپس منظرمیںفکری لحاظ سے مسلمان کیاتھے اوراب کیاہوکے رہ گئے ہیں۔اقبال کے اس شعرمیںیہی صدائے حیف مستورہے۔ شعلہ بودیم، شکستیم و شرر گردیدیم صاحبِ ذوق و تمنّا و نظر گردیدیم ۴۸ ہم شعلہ تھے،ٹوٹ گئے اورچنگاری رہ گئے۔صاحب نظر،تمنااورذوق بن گئے۔ گویاجس فکرواستدلال کے مسلمان پیشواہواکرتے تھے اب اس کی صرف تڑپ ان میں بچی ہے جس کی وجہ سے وہ غیروںکے طفیلیاہوکررہ گئے ہیں۔ مسلمانوںکے استقرائی فکرواستدلال کوان کاکھویاہوامقام کیسے حاصل ہو؟اقبال نے اس کے بارے میں اپنے خیالات ونظریات میںجواقدامات کرنے کی ترغیب دی ہے وہ خصوصی طور پرتوجہ کے طالب ہیں۔ (.1)مسلمانوں کی استقرائی فکر کو صحیح معنی میںکار آمد بنانے کے لیے ان کی تعلیمی اصلاحات کی طرف خصوصی توجہ مبذول کرنے کی ضرورت ہے۔اس ضمن میں،یہ فرق ملحوظ ِخاطر رکھنا ضرور ی ہے کہ تعلیم کا تصور دو طرح کے مفہوم کاحامل ہے۔ اولاً، اس سے مراد ایساعلم سکھاناہے جو فردکی فکری صلاحیتوںکونکھارے ۔ دوم، اس سے مرادایساعلم سکھاناہے جونہ صرف انسان کی فکری صلاحیتوں کو ابھارے بلکہ ساتھ ہی اسے بہترسے بہترانسان بھی بنائے۔ اقبال کے خیالات کی رُوسے،مسلمان اوّل الذکرقسم کی تعلیم حاصل کرنے کے پیچھے پڑے ہیںجس کی وجہ سے مختلف معلومات اورمہارت کا حصول توانہوںنے حاصل کرلیاہے مگروہ معراج ِانسانیت کوحاصل نہیں کر پائے۔ محض معاشی ترقی اورسائنسی سہولیات میںکامیابی حاصل کرناتعلیم کا مقصد پورانہیںکرتاجب تک کہ وہ انسانیت کی بنیادی قدروںکی ضمانت نہ دیتاہو۔اسی وجہ سے اس نے سائنس اورمذہب میںمطابقت پید ا کرنے کی ضرورت پرزور دیا۔ اگر خالی پیٹ ،بے چھت اوربے لباس لوگوں میں روحانی اقدار نہیںپنپ سکتیںتومحض روٹی، کپڑے اور مکان جیسے مسائل کوحل کردینے سے بھی روحانی قدروں کی بارآوری نہیںہوسکتی۔اقبال کے نزدیک،مسلمانوںکویہ باور کرانے کی اشد ضرورت ہے کہ جتنی جلدوہ یہ نکتہ سمجھ لیںگے،اتنی ہی جلداپنی استقرائی فکرکی آبیاری کرپائیںگے اور تعلیم کے ذریعے یہ مقصدبخوبی پوراکیاجاسکتاہے۔اس لیے یہ ضروری ہے کہ نہ تو مشرق کی روحانی تعلیمات سے چشم پوشی کی جائے اورنہ مغرب کی مادی تعلیمات سے اغماض برتا جائے۔ پورے جذبے اور جتن کے ساتھ مشرق و مغرب کے تعمیری اور تحقیقی فکر وفن سے استفادہ کرتے ہوئے علم وعرفان کے اَن دیکھے اُفق روشن کئے جائیں۔اس کا اظہاراس نے شعری انداز میں کیا ہے۔ مشرق سے ہو بیزار نہ مغرب سے حذر کر فطرت کا اشارہ ہے کہ ہر شب کو سحر کر ۴۹ (.2)مسلمانوںکی فکری افزونی کاتیربہدف نسخہ کورانہ تقلیدسے پرہیزہے۔عموماًکورانہ تقلید کے دومفہوم مراد لیے جاتے ہیں۔.iغیرشرعی نقالی،.iiمحض سرقہ،اقبال ہردولحاظ سے تقلیدکے خلاف ہے۔کیونکہ پہلے معنی میں مسلمان اپنی اسلامی تعلیمات اور مشرقی روایات سے دورہٹ سکتے ہیں اور دوسرے معنی میںمسلمانوںکی تخلیقی صلا حیتیں دم توڑ سکتی ہیں۔ غیرمسلموں کے نظریات اورتحقیقات سے استفادہ کرنے میںکوئی عیب نہیں۔جدت پسندی کے حوالے سے یہ ایک خوش آیند امرہے مگر اس کے نام پرانہی کاسرقہ کئے جاناکسی صورت میںبھی مستحسن نہیں۔وہ بڑے سخت لہجے میںکہتاہے: تقلید کی روش سے تو بہتر ہے خودکشی رستہ بھی ڈھونڈ، خضر کا سودا بھی چھوڑ دے ۵۰ اصل میںاقبال ایسی تقلیدکاقائل ہے جس میںغیروںکے افکارسے استفادہ صرف اس صورت میںکیا جا ئے جہاںشرعی مسائل سے کوئی تصادم پیدانہ ہو، اور جہاںتصادم کاکوئی خطرہ لاحق ہو، وہاںتقلیدکوخیربادکہہ کرفکری اجتہادکی راہ اپنائی جائے۔اس نوعیت کی بصیرانہ تقلیدسے ہی مسلمانوںمیںاستقرائی فکر کو اُبھارا جا سکتا ہے۔ اقبال کے نزدیک،مغربی فکرکی کورانہ تقلیدکاذمہ دارمغرب کو نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔اس کے سزاوارمسلم خود ہیں اورجب تک ان کو اس کااحساس نہیںہوگاوہ اپنی پستی ٔفکرسے نہیںنکل سکیں گے۔ یورپ کی غلامی پہ رضامند ہوا تو مجھ کو تو گلہ تجھ سے ہے،یورپ سے نہیں ہے ۵۱ (.3)مسلمانوںکی فکری سربلندی کے لیے ان کی خودی کااستحکام ناگزیر ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے لازم ہے کہ ہرشخص محض اپنے حواس اورعقل جیسی خوبیوںپراکتفانہ کرے بلکہ اپنی زندگی کی خفیہ صلاحیتوںکوبھی بیدارکرے،یعنی اپنے اندرایسی باطنی بصیرت پیداکرے جس کی بدولت وہ ان علوم حاضرہ سے بھی فیضیاب ہوسکے جو صداقت اورحقیقت کے امین نہیں۔ جو ہر میں ہو لَااِ لٰہ تو کیا خوف تعلیم ہو گو فرنگیانہ! شاخِ گل پر چہک و لیکن کر اپنی خودی میں آشیانہ ! ۵۲ خودی کی تقویت ضروری ہے کیونکہ اس کی زندگی اختیارکی زندگی ہے جس کاہرعمل ایک نیا مؤقف پیداکرتاہے اور اپنی خلّاقی اور ایجاد و طباعی کے لیے نئے نئے مواقع بہم پہنچاتاہے۔اس لیے محض ذہن کی نہیںبلکہ خودی کی نشوونما مقصودبالذات ہونی چاہئیے۔ اگرمسلمانوںنے یہ صفت پھر سے اپنالی توانہیںفکری ترقی سے کوئی نہیںروک سکتا۔ ( .4)مسلمانوںمیںفکری شعورکواجاگرکرنے کے لیے جبری تعلیم کابندوبست کرنابہت ضروری ہے تاکہ ناخواندگی کی شرح بھی کم ہواورخودی کی نشوونماکی حاجت بھی رواہو۔اقبال کی رائے میں’’لفظ جبرسے کسی کوکھٹکنانہ چاہئیے۔ جس طرح چیچک کاٹیکہ لازمی اورجبری قراردیاگیاہے اوریہ لزوم وجبراس شخص کے حق میںکسی طرح مضر نہیں ہو سکتاجس کے ٹیکہ لگایاجاتاہے، اسی طرح جبریہ تعلیم بھی قابل اعتراض متصورنہیںہوسکتی۔جبریہ تعلیم بھی گویاروحانی چیچک کاٹیکہ ہے، اسلام میں جبر کی تعلیم موجودہے۔مسلمانوںکوحکم ہے کہ وہ اپنے بچوںکوزبردستی نماز پڑھا ئیں۔‘‘۵۳ اس معاملے میںاقبال ماہرتعلیم جے۔اے۔کامینوس (J.A.Comenius) کا ہمنوامعلوم ہوتاہے جس کا کہنا ہے کہ ’’تمام بچے انسان بننے کے لیے پیداہوتے ہیںاس لیے ان کوتعلیم کی سہولت میسرہونی چاہئیے۔‘‘۵۴اس کارِخیر کی خاطرحکومت اور معاشرے ،دونوںکاجبری تعلیم پرکار بند ہوناضروری ہے۔تعلیم سے فردکی فکری نشوونماہوتی ہے۔ بالفرض اسے تعلیم سے محروم رکھاجائے تو اس کی فطری صلاحیتیںاورفکری قوتیںضائع ہوسکتی ہیں جو فرد او ر معا شر ے دونوںکے لیے نقصان دہ ہیں۔اس مطمح نظرکواقبال نے بچوںکی تعلیم وتربیت کے زمرے میںبڑی سادگی سے واضح کیا ، ’’بچہ ایک متعلم ہستی نہیںبلکہ سراپاایک متحرک ہستی ہے جس کی ہرطفلانہ حرکت سے کوئی نہ کوئی تعلیمی فائدہ اٹھانا چاہئیے۔ مثلاًاینٹوں کے گھربنانا،لڑی میںمنکے پرونا،گانا،وغیرہ ،وہ زائد اعصابی قوت جو رونے اوربے جاشورکرنے میں صرف ہوتی ہے ایک باقاعدہ شوریاراگ میں آسانی سے منتقل ہوسکتی ہے اوروہ قوت جوضرررساںاشیاء کے چھونے او ر دیگر چیزوںکو ادھر اُدھر پھینکنے میںصرف ہوتی ہے،اینٹوںکے گھربنانے میں سہولت سے صرف ہوسکتی ہے ۔‘‘۵۵ الغرض اوائل عمرمیں جسمانی،ذہنی اوراخلاقی نموکاواحداصول مسلسل مشق ہے جوجبری تعلیم کے بغیرممکن الحصول نہیں اوریہ باور کئے بغیرگزارہ نہیںہوگا۔ اس دور میں تعلیم ہے امراضِ ملّت کی دوا ہے خونِ فاسد کے لیے تعلیم مثلِ نیشتر ۵۶ (.5)مسلمانوںنے فکری عروج حاصل کرناہے توانہیںپھرسے خلوص نیت، محنت، دیانت اور ریاضت سے تحقیق وتفتیش کے میدان ِعمل میں اترنا ہوگا۔ فکر و استدلال کے تاریخی تناظرسے دو باتیںسامنے آئی ہیں۔اپنے زوال اقتدارکے بعد تک مسلمانوںنے یونانی طریقۂ استخراج کے زیرِاثراپنی حسِ ذکاوت کواس قدر تیز کر لیاتھاکہ وہ مشقت طلب تحقیقی کاموںسے جی چرا گئے، اپنی خودساختہ دنیائے تخیلات میںمگن ہوگئے اورحتی کہ تصوف کی آڑمیںبے عملی اور رہبانیت تک کاشکار ہوئے۔ اس کے سبب ان کے ہاںمنفی ادب نے فروغ پایاجس سے زندگی کے تلخ حقائق سے گریزکاپیام عام ہوااورلوگوںکے مزاج میںسختی اورصلابت کی بجائے نازکی اور نفاست کے رجحانات کوپروان چڑھایا گیا۔ لیکن جس زمانے میںمغربی سائنس نے انسانی زندگی پر آسائشوں اور سہولتوں کے درواز ے کھول دیے تومسلمانوںکے ہاں اور بھی گنجلک صورت حال پیدا ہوئی،امارت پسند مسلمانوںنے دولت کے زورپرغیروںکے تحقیقی کاموںسے فائدہ اٹھانے ہی کو اپنی بڑائی سمجھا، عقلیت پسند مسلمانوںنے یونانی طرزِاستدلال سے مائل اورقائل کر نے کاوطیرہ اپنائے رکھا اور قدامت پسند مسلمانوںنے مذہبی عقائد پر اندھے ایمان کی بدولت فکرواستدلال کوہی خیرباد کئے رکھا۔ نتیجتاً مسلمانوں میں حصول علم کاذوق وشوق اس سخت کوشی کے وصف سے محروم ہوگیاجس کے بغیر استقرائی استدلال کارگذارنہیںرہتا۔مسلمانوںکے اس سقم کواقبال نے شدت سے محسوس کیااور کہا، کور ذوق و نیش را دانستہ نوش مردۂ بے مرگ و نعشِ خود بدوش ۵۷ وہ بے ذوق ہے اوردانستہ زہرپیتاہے۔وہ موت کے بغیرمرگیاہے اورکندھوںپراپنی لاش اٹھائے ہوئے ہے۔ آج مسلمانوںکے ہاںتعلیم کامعیارپست ہے۔خواندگی کی شرح کم ہے۔خودی ان کی ضعیف ہے۔تقلیدِفر نگ کی وجہ سے ذاتی فہم وفراست کافقدان ہے۔انتھک محنت اورکڑی لگن مفقودہے۔جس سے اہلِ مٖغرب کو طنزکے نشترچلانے کاموقع مل گیاہے۔مثلاًوہ کہتے ہیں۔ تخلیق کے وقت خالق نے کائنات کی ساری صداقت دائیںہاتھ میںاور اس کی ابدی جستجوکوبائیںہاتھ میںلے کراقوامِ عالم سے پوچھا،چنو!کیاچاہتے ہو۔مغربی اقوام نے خداکے بائیں ہاتھ کو چھو دیا اورکہا۔اے خالق کائنات،ہمیںصداقت کی ابدی تلاش دے دوکہ مطلق صداقت تمہاری ذات کا منصب ہے لیکن مسلمان بنی بنائی ریڈی میڈصداقت کوپانے کے لیے خداکے دائیں ہاتھ کی طرف جھپٹے۔۵۸ حقیقت پسندا نہ نقطۂ نظرسے دیکھاجائے توان کے طنزمیںکسی حدتک صداقت موجود ہے کیونکہ فی الواقعی انہوںنے بڑی دیانت اور محنت سے استقرائی طرزکی علمی کھوج اورجستجوکوآگے بڑھایاہے اورتسخیر کائنات کے معاملے میںبالخصوص کامیابیوںکے جھنڈے گاڑے ہیں۔ یہاں تک تواقبال کوبھی ان سے اختلاف نہیں۔وہ مانتاہے کہ صرف مسلمان استقرائی فکر کے وارث نہیں اوریہ ان کی اپنی غفلت اورکوتاہیاںہیںکہ جن کی بدولت ان کے مقدرمیںاب بلندنامی بھی نہیں رہی۔یہ حقیقت اظہرمن الشمس ہے۔ مسلمان استقرائی فکرکے وارث نہیںاوران کے مقدر میں اب بلندنامی نہیں رہی ۔ اﷲ کی دین ہے، جسے دے میراث نہیں، بلند نامی ۵۹ قرآن پاک کی سورۃ الرعد میںخدائے بزرگ وبرترکی طرف سے بڑے سادہ اوربلیغ الفاظ میں یہ وضاحت کردی گئی ہے ۔ ’’خدا اس ( نعمت)کوجوکسی قوم کو (حاصل) ہے، نہیں بدلتا جب تک کہ وہ اپنی حالت کونہ بدلے۔‘‘(۱۳:۱۱)اور خود اسی پیام کا اعادہ ان لفظوں میں کیا ہے، ’’اقوام شرق کویہ محسوس کرلیناچاہئیے کہ زندگی اپنے حوالی میں کسی قسم کاانقلاب پیدا نہیںکرسکتی جب تک کہ پہلے اس کی اندرونی گہرائیوںمیںانقلاب نہ ہواورکوئی نئی دنیاخارجی وجوداختیار نہیں کر سکتی جب تک کہ اس کاوجود پہلے انسانوںکے ضمیرمیںمتشکل نہ ہو۔‘‘۶۰اس طول کلامی کاحاصل یہ ہے کہ استقرائی فکرصرف اسی کی ملکیت ہے جس نے اپنی باطنی بصیرت کی قوت کوتیزکرلیااورنیک نیتی، محنت اورلگن سے اپنی جستجومیںجتارہا،نتیجے میںخدا نے نیک نامی کو اس کامقدرکیا۔ اس مناسبت سے مغرب کے طنزیہ نشتر مسلمانوں کی قوت فکرواستدلال کے خوابیدہ امکانات کو تو نہیں جھٹلاسکتے البتہ ان کوخواب غفلت سے بیدارکرنے میں ضرور مددگار و معاون ثابت ہوسکتے ہیں۔ اس بناء پراقبال مسلمانوں سے گویاہے: غمیں نہ ہو کہ پراگندہ ہے شعور ترا فرنگیوں کا یہ افسوں ہے، قم باذن اﷲ ۶۱ مسلمانوںنے اپنی فکرمیںاَزسرِنوحرارت اورتازگی کوجلابخشنی ہے تواس کے لیے یہ ناگزیر ہے کہ وہ اپنے فکر اورعمل میںسوفیصدہم آہنگی پیداکریں کیونکہ قرآن نے زندگی کے عملی پہلوؤں کو کبھی نظراندازنہیںکیا۔اقبال نے اسی بات کویوں بیان کیا ہے کہ ’’قرآن پاک کارجحان زیادہ تر اس طرف ہے کہ ’فکر‘کی بجائے ’عمل‘ پرزور دیا جائے۔‘‘۶۲مثال کے طورپرقرآن کی سورۃالصف میںخدائے پاک نے بڑے تاکیدی الفاظ میںفرمایاہے۔’’مومنو!تم ایسی باتیں کیوں کہا کرتے ہو جو کیا نہیںکرتے۔خدااس بات سے سخت بیزارہے کہ ایسی بات کہوجوکرونہیں۔‘‘(۶۱:۲-۳) اس ہدایت ربّانی سے معاًسقراط کی طرف دھیان جاتاہے۔جس نے یہ خیال پیش کیاتھاکہ وہ زندگی جس میںغوروفکرنہ ہو،جینے کے لائق نہیں۔اس کامطلب یہ ہواکہ وہ زندگی جو غوروفکرکے بغیرگذاردی جائے،بے کار ہے۔ اس کے اس خیال کواستخراجی استدلال کے اندازمیںپیش کیا جائے تویہ نتیجہ سامنے آتاہے۔ زندگی عمل ہے غوروفکرکے بغیرزندگی بے فائدہ ہے لہٰذا غوروفکرکے بغیرعمل بے فائدہ ہے سقراط کے ہاںفکروعمل کی ہم آہنگی جزولاینفک ہے۔لیکن ارسطوکے نزدیک یہ ضروری نہیں ہے کیونکہ عام آدمی کے جذبے اورجبلتیں بسا اوقات اس کے فکرو استدلال کے آڑے آتے ہیں جس سے عمل فکرکے مطابق ادانہیں ہوتا۔ہدایت ربّانی کے مطابق سقراط صحیح ہے لیکن ارسطوبھی غلط نہیں۔کیونکہ روزمرہ کی زندگی میںکئی انسان ایسے ملتے ہیںجواپنی فکرکے مطابق عمل پیرا نہیں ہو تے ۔ اقبال نے اس معمہ کا حل یہ نکالا کہ اگر انسان اطاعت، ضبط ِ نفس اورنیابتِ الٰہی کے مراحل۶۳ کو بخوبی طے کرلے تونہ صرف اس میںاستقرائی عقل کوجلاملے گی بلکہ اس کاعمل فکرکے عین مطابق ہو جائے گا۔اطاعت کامرحلہ شرعی اصول وضوابط پرسختی کے ساتھ عمل پیراہونے کا مرحلہ ہے۔اس مرحلہ پرجو شخص اپنے آپ کوشرعی قوانین کاپابندنہیںبناتااس میںنہ ہی سخت کوشی کا وصف پید ا ہو سکتا ہے اورنہ اس کی خودی تقویت حاصل کرسکتی ہے۔اقبال کے نزدیک یہ ایسامرحلہ ہے جہاں انسان اپنی مرضی سے پہلے کسی آئین ومسلک کا چناؤ کرتاہے اورپھراس پرسختی سے کاربند ہو جاتا ہے۔ اس طرح اپنی مرضی کے جبرسے انسان اس لائق ہوجاتاہے کہ اپنے گردوپیش پر تفوق حاصل کرلے۔ ضبطِ نفس کامرحلہ اطاعت کے مرحلے پرکامیابی سے فائز ہونے کے بعد شروع ہوتا ہے۔ اس مرحلے میںانسان کاوظیفہ اپنے شعورونظرکے ساتھ ان احکام کی بجاآوری لانا ہے جس کاحکم دیا گیا ہے ۔ اس مرحلے میںانسان اپنی نفسانی اوردنیاوی کمزوریوںپرقابوپانے کی حتی ا لمقدورکوشش میں لگارہتاہے۔نتیجتاً وہ ہر قسم کی دنیاوی محبت اورخوف جیسے جذبوں اور جبلتوں سے بیباک ہو جاتا ہے ۔ اطاعت اور ضبطِ نفس کے مراحل کواحسن طریقے سے پارکرلینے کے بعد نیابتِ الٰہی کامرحلہ شروع ہوتاہے جہاںانسان خداکی مشیت کے عرفان سے اپنے آپ کو استوار کرتاہے اوراپنی جملہ سرکش قوتوںپرقابوپالیتاہے۔ان تینوںمراحل کوطے کر لینے کے بعدانسان اس درجے پرپہنچ جاتاہے جہاںفکراورعمل میںفرق نہیںآتا۔خودی کی تربیت کے یہ تینوںمرحلے اگرآج بھی مسلمان طے کر لیں توکوئی وجہ نہیںکہ وہ پھرسے فکری عروج حاصل نہ کرپائیں۔آج مسلمانوں کو یہ احساس دلانے کی سخت ضرورت ہے۔ رونقِ ہنگامۂ ایجاد شو در سوادِ دیدہ ہا آباد شو ۶۴ توہنگامے کی رونق ہے(اس دنیاپر)چھاجااورآنکھوںکی سیاہی میںآبادہوجا۔ یعنی اپنے استقرائی علم کوبروئے کارلاتے ہوئے دین ودنیاپرچھائے ہوئے جہالت اور تعصبات کے ماحول کو دور کر دے اور علم کے نور سے عملاً دنیا کو منور کر دے اوراقبال کی اس حکمت کو پایۂ تکمیل تک پہنچادے کہ جس طرح مسلمانوںنے کسی زمانے میںیونانیت کاداغ دھویاتھا،اب فرنگیت کاداغ دھویاجائے۔یعنی جس جوش اورہوش سے یونانیوںکے استخراجی طلسم کوتوڑاتھا،اسی طرزپرانگریزوںکے استقرائی استدلال کے مضر سحرکوزائل کرناضروری ہے۔ بے شک اقبال کو مسلمانوںکادردہے لیکن کیااس کایہ مطلب لیاجائے کہ اس کی استقرائی فکرصرف مسلمانوںکی خیروعافیت تک محدودہے؟اس کاجواب ہے کہ ایسا نہیں ہے ۔مسلمان کا تصورایسے انسان کاتصورہے جس نے دین اسلام قبول کر لیاہواوراسلام کوئی مخصوص مذہب نہیں او ر نہ ہی کسی مخصوص قوم سے منسوب ہے۔ مولاناامین احسن اصلاحی لکھتے ہیں، ’’آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کوجودین عطا فرمایا گیاوہ بنیادی طورپرتھاتووہی جوحضرت آدم علیہ اسلام سے لے کر حضرت مسیح علیہ اسلام تک تمام انبیاء کودیاگیاتھالیکن یہ جس شکل میںآنحضرت صلی اﷲعلیہ وسلم کو عطا فرمایاگیاوہ اس کی کامل عقلی شکل ہے اوریہ فطرت انسانی کے عین مطابق ہے۔ یہ دین کی آفاقی شکل ہے اور ابد تک رہنے والی ہے ۔‘‘۶۵اس حساب سے اسلام اصل میں ایک ہی ہے جسے رب ذوالجلال نے وقتاً فوقتاًاپنے پیغمبروں پرنازل کیااوراس میں بدلتے ہوئے حالات کی نزاکتوں کے تحت تبدیلیاںکیں۔مثلاًالہامی تعلیمات جب یہودیوں پر نازل ہوئیں تو اس زمانے کے لوگوںکی فکری نفسیات ایسی تھی کہ پورے قبیلے تعصبات اورتفریعات کا شکار تھے۔ اس لیے یہودی تعلیمات کوتحکمانہ انداز میں پیش کیاگیا۔جس دورمیںلوگوںکی سرکشی اورہٹ دھرمی میں حلیمی اور نرمی کے آثار پیدا ہوئے توحکیمانہ اورتصوف آمیزلہجے پرمبنی مسیحی تعلیمات نازل کی گئیں۔ لیکن جب یونانی اورصنمیاتی دخل اندازیوں سے الہامی تعلیمات میںتحریفات کا زور بڑھا توبالآخر عربوں کے استقرائی شعورکے باعث اعلیٰ پائے کی اخلاقیات اور بصیرت افروز قرآنی تعلیمات کا نزول کیا گیا۔اوراسلام کی اس قطعی شکل کوپوری بنی نوع انسان کے لیے محفوظ رکھنے کا بھی عندیہ دے دیا گیا جیسے کہ سورۃالحجرمیںارشادہواہے ،’’بے شک یہ (کتاب) نصیحت ہمیں نے اتاری اورہم ہی اس کے نگہبان ہیں۔‘‘(۱۵:۹) اقبال نے اسی حوالے سے ختم نبوت کواستقرائی عقل کے ظہورسے مشروط کیاتھا۔اس کے اس مؤقف کو مولانا محمد حنیف ندوی ۶۶نے واضح کیاہے جس کے مطابق اصل میںعنایت الٰہی کے سامنے دوہی راہیںکھلی تھیںیاتووحی کے ذریعے انسانی فکرکی دستگیری کی جاتی اورمعاشرے کی تکمیل وارتقاء کاسلسلہ آگے بڑھایاجاتایاانسان کو آزاد چھوڑ دیا جاتا اور موقع دیاجاتاکہ خودان حالات میںعقل وخرد کی روشنی میںزندگی کی حقیقتوںسے بہرہ ورہو جب کہ خودعقل وخرد کے تقاضے ہنوزمکمل نہیںہوپائے تھے۔اﷲ تعالیٰ کی مہربانیوںاورعنایتوںنے پہلاراستہ اختیارکیااورانسان کوایک چکر اور بھنورمیںپڑنے سے بچالیاجس سے عہدہ برآہونااس کے لیے آسان نہ تھا۔انسان کا استقرائی شعورتب سے قرآنی تعلیمات سے کسب ِفیض اٹھارہاہے۔اقبال نے بھی اسی سے رہنمائی لی ہے۔لہٰذایہ کس طرح ممکن ہے کہ وہ انسان کا دردنہ رکھتاہو۔مسلمان کی تکلیف مسلمان کی تکلیف نہیں،وہ اصل میںانسان ہی کی تکلیف ہے۔اقبال نے مسلمان کے مفہوم کو مخصوص قوم کے محدود معنی میںلیاہوتاتوکبھی کسی دوسری قوم کی خوبی کونہ سراہتا۔مثلاًاسرارِ خودی کے دیباچے میں جہاںاس نے سری کرشن اورسری رام نوج جیسے ہندو مفکرین کے انداز ِفکرکوسراہا ہے وہاں انگریز قوم کی عملی نقطہ رسی کوبھی استحسان کی نظروںسے دیکھاہے۔اس نے جہاںکارل مارکس اورنطشے جیسے دہریوںکے افکارکے مثبت پہلوؤںکوپسندکیاہے وہاںحافظ شیرازی اورابن عربی جیسے الہٰ پسندوںکے افکارکے منفی پہلوؤںکوبھی ناپسندکیاہے۔ لہذااقبال کی فکریقیناًوسیع النظری اور آفاقیت کے درجے پرفائز ہے اورکسی طورپربھی استقرائی استدلال کی خوبی سے عاری نہیں۔اس کے یہ شعراس کی فکری اُپج کے گواہ ہیں: فطرت نے مجھے بخشے ہیں جوہرِ ملکوتی! خاکی ہوں مگر خاک سے رکھتا نہیں پیوند! درویشِ خدا مست نہ شرقی ہے، نہ غربی گھر میرا نہ دلّی نہ صفاہاں، نہ سمرقند! کہتا ہوں وہی بات سمجھتا ہوں جسے حق نے ابلہ مسجد ہوں، نہ تہذیب کا فرزند! اپنے بھی خفا مجھ سے ہیں، بیگانے بھی ناخوش میں زھرِ ہلاہل کو کبھی کہہ نہ سکا قند! مشکل ہے کہ اک بندۂ حق بین و حق اندیش خاشاک کے تُودے کو کہے کوہِ دماوند! ۶۷ اقبال کی فکرونظرکاکینوس جتنا عمیق ہے اتناہی اس کے افکارونظریات میں وسعت ہے۔فکری تعمق کے حوا لے سے اسے سقراط کی وجدانی قوت کے مثل قرار دینا بے جانہ ہوگاجوکہاکرتاتھاکہ اسے ایک غیبی آوازآتی ہے جو اس سے راہِ ہدایت کاکام لیتی ہے۔اقبال نے بھی اسی قسم کا اظہار اپنی تصنیف اسرارِخودیکے حوالے سے کیاہے کہ ’’قسم ہے اس خدائے واحدکی جس کے قبضے میںمیری جان ومال وآبرو ہے،میں نے یہ مثنوی ازخودنہیںلکھی بلکہ مجھ کواس کے لکھنے کی ہدایت ہوئی ہے اور میں حیران ہوںکہ مجھ کوایسامضمون لکھنے کے لیے کیوں انتخاب کیا گیا۔‘‘۶۸ اور کشادگی افکارکے نقطۂ نظرسے اس کاقدفی الواقع بہت بلندہے کیونکہ وہ اپنے خیالات کو کسی مخصوص ثقافت،تہذیب، معاشرے،نسل، طبقے یاقوم تک محدودنہیںرکھتا،وہ سقراط کی طرح ایک بڑمکھی (gadfly) دکھائی دیتاہے جو لوگوں کو جہالت اورغفلت کے خواب سے جھنجھوڑتا ہے، انہیں بیدار کرتاہے کہ وہ اپنے آپ کو پہچانیں ، اپنی خودی کومضبوط کریں۔لیکن امرتاسف یہ ہے کہ بعض ارادت مندوںنے اس کاجواقبال بلندکیاہے، اس سے وہ کچھ اسی قسم کے مسنداستنادیت پر جاگزیں نظر آتاہے جہاںکبھی ارسطوکے شیدائیوںنے اسے متمکن کیاتھا۔دوسری طرف کچھ ایسے جودت طبع شناورانِ اقبال بھی ہیںجواپنے خاص نظریاتی تحفظات کی بدولت اسے تنقیدکی ایسی زد میںلاتے ہیںجہاںسے یہ تاثرابھرتاہے کہ فکراقبال بعض حوالوںسے صرف اس لیے صحیح نہیںکہ ان کے مخصوص نقطہ نظرکے حق میںنہیںجاتا۔الغرض،اقبال کے فکرکی غیرجانبدارانہ اورمنصفانہ طور پرتنقیدی مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے۔اس مناسبت سے ڈاکٹربرہان احمد فاروقی کی رائے غلط نہیں،’’اقبال کی عظمت ایک رہنمایا مفکرکی طرح تسلیم نہیںکی جاتی بلکہ اس کی مفکرانہ حیثیت ایک عصبیت کی سی ہوگئی ہے۔کیونکہ آج تک بہت کم صاحب الرائے اشخاص نے یہ اہتمام کیا ہے کہ فکراقبال کاتنقیدی جائزہ لیں۔ ہروہ خیال جواس سے منسوب کیاجائے وہ یاتو ولی کی طرح خطا سے بالا تر سمجھا جاتاہے یابغیرسمجھے بوجھے اس پر اعتراضات واردکئے جاتے ہیں۔پرستش کایہ طرزِ عمل خوداقبال کی فلسفیانہ روح سے بھی سازگارنہیں۔‘‘۶۹ ذرادیرکے لیے اقبال کے نقدوتنقیدکے طریقے پرغورکرلیاجائے توبڑی سہولت ہوسکتی ہے۔جیسا کہ پچھلے صفحات میں وضاحت کی جاچکی ہے کہ اقبال کے نزدیک خواہ کوئی کیساہی عظیم مفکرکیوںنہ ہواورخواہ کوئی کتناہی قوت آمیزنظریہ کیوں نہ رکھتاہو،اس نے ہمیشہ بڑی سنجیدگی اور ذمہ داری سے اس کے تعمیری اور تخریبی پہلوؤں پر غور کیا۔ انہیںاسلامی اقدار کی کسوٹی پر پرکھا اور کہیںبھی کسی کی اتنی عزت افزائی نہیں کی کہ اس کوتنقیدسے بالاعقیدت کا دیوتا بنا دیاہویاپھرکسی پر بے حساب تنقیدکی ہوکہ جس سے یہ یوں محسوس ہو کہ وہ اپنے ہی مؤقف کومنوانے پر بضد ہے۔اس اعتبار سے اقبال فکرکی استقرائی نزاکتوںسے بخوبی واقف تھا۔ اس کااندازہ اس کے ان الفاظ سے بھی کیا جاسکتاہے جواس نے اپنے انگریز ی خطبات کے بارے میںلکھے ہیں۔’’غوروفکرمیں قطعیت کوئی چیزنہیں۔ جیسے جیسے علم میںہماراقدم آگے بڑھتا ہے اور فکر کے لیے نئے نئے راستے کھل جاتے ہیںجو نظریے ان خطبات میںپیش کئے گئے ہیں، ان سے بہتر نظریے ہمارے سامنے آتے جائیںگے ۔ہمارافرض بہرحال یہ ہے کہ فکرانسانی کے نشوونماپرباحتیاط نظر رکھیں اور اس بات میںآزادی کے ساتھ نقدوتنقیدسے کام لیتے رہیں۔‘‘۷۰اوراسی نقطۂ نظر کا اظہار اس کے مقالہ برائے پی ایچ ڈی "The Development of Metaphysics in Persia"کے اردو مترجم میرحسن الدین کو تحریر کردہ مکتوب ۷۱سے بھی ملتاہے جس کے مطابق کوئی اٹھارہ سال پہلے یہ کتاب لکھی گئی اوراس وقت سے لے کراب تک نہ صرف علمی دنیامیںبلکہ خود اقبال کے فکرو نظر میںبہت سی تبدیلیاںآچکی ہیں،اس لیے نئے سے نئے علمی ماخذات کی صورت میںبہت ہی مشکل ہے کہ اس کے تحقیقی کام کاشاذہی کوئی حصہ تنقیدکی زد سے بچا رہے۔کل کے مقابلے میں آج علمی دنیامیںتحقیقات کی رفتارکہیںزیادہ تیزہوچکی ہے،آج استقرائی استدلال کا استعمال کہیںزیادہ بڑھ چکاہے،اس لیے فکراقبال کونت نئے نظریوںکے تقابل میں دیکھنا اور غیرجانبد ار ی سے اس کے توصیفی اورتنقیدی پہلوؤںکے مطالعے کی واقعی ضرورت ہے۔کسی عظیم مفکر کو پوجاکی حیثیت دے دینایاپھراس سے مخاصمت برتنا ، ہر دو لحاظ سے جہاں اس مفکرکے ساتھ زیادتی ہے وہاںفکری رویے کی علمی نزاکتوںکے ساتھ بھی صریحاً ناانصافی ہے۔کم از کم استقرائی فکرو ا ستد لا ل کے تقاضے اس کی قطعاًاجازت نہیںدیتے۔ مزے کی بات ہے کہ اقبال کو خود بھی احساس تھا کہ اس کے قدرشناس کیسے ہیں،اس کااظہاراس نے شعروںمیںکچھ ایسے کیاہے: ہوں وہ مضمون کہ مشکل ہے سمجھنا میرا کوئی مائل ہو سمجھنے پہ تو آساں ہوں میں رند کہتا ہے ولی مجھ کو، ولی رند مجھے سن کے ان دونوں کی تقریر کو حیراں ہوں میں زاھد تنگ نظر نے مجھے کافر جانا اور کافر یہ سمجھتا ہے مسلماں ہوں میں کوئی کہتا ہے کہ اقبال ہے صوفی مشرب کوئی سمجھا ہے کہ شیدائے حسیناں ہوں میں ہوں عیاں سب پہ مگر پھر بھی ہیں اتنی باتیں کیا غضب آئے نگاہوں سے جو پنہاں ہوں میں دیکھ اے چشمِ عدو مجھ کو حقارت سے نہ دیکھ جس پہ خالق کو بھی ہو ناز وہ انساں ہوں میں ۷۲ مگر پھربھی سخنوروںکے کیاکہنے کہ انہوںنے اقبال کی نکتہ دانی کواپنے اپنے نظریوں کے تحفظات کی بھینٹ چڑھادیا۔یہی وجہ ہے کہ ترقی پسندوںکواقبال سوشلسٹ، وجودیت پسندوں کو وجودی، ارادیت پسندوں کو ارادی، رومانوی پسندوں کو رومانوی،کلاسیکیت پسندوں کو کلاسیکی نظر آتاہے۔حالانکہ سچ یہ ہے کہ اس نے اپنی فکرمیں ہرایک نظریے سے مَس کیا ،مگر رکا کہیںبھی نہیں ۔ کیونکہ اس کاہدف کوئی اور نہیں،صرف اسلام تھاجیسے کہ مکتوب بنام آل محمد سرور میں اس نے اعتراف کیا ہے۔ ’’میرے نزدیک فاشزم،کمیونزم یازمانۂ حال کے اورازم کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔ میرے عقیدے کی رُوسے صرف اسلام ہی ایک حقیقت ہے جوبنی نوع انسان کے لیے ہر نقطۂ نگاہ سے موجب نجات ہوسکتی ہے۔‘‘۷۳بقول خلیفہ عبدالحکیم اپنی زندگی کے آخری ایّام میں اقبال نے بڑے واشگاف لفظوں میں اقرار کیاتھاکہ’’میں نے اپنا نظریہ ٔحیات فلسفیانہ جستجوسے نہیںحاصل کیا۔زندگی کے متعلق مجھے ایک خاص زاویۂ نگاہ ورثے میںمل گیا تھا بعد میں، میںنے عقلی استدلال کواس کے اثبات میںصرف کیا۔‘‘۷۴گویااس نے پہلے اسلام کوخاندانی ماحول سے قبول کیا،پھراس کے بارے میںفکری بصیرت حاصل کی۔ اُس کے اِس گوہرسفتہ کوبنیادبناتے ہوئے بعض خردپسندوںنے اسے متکلم ٹھہرایا ہے۔ مثال کے طورپر سید علی عباس جلالپوری کے خیال میںجوشخص پہلے کسی عقیدے کا معتقد ہو اورپھراس کے ثبوت میںدلائل پیش کرے، لامحالہ وہ متکلم ہوتاہے۔اپنے اس خیال کے حق میںاس نے ایک عیسائی متکلم انسلم(Anslem) کایہ قول نقل کیاہے۔’’میںپہلے عقیدہ رکھتا ہوں پھر غور وفکر کرتا ہوں۔ غوروفکر کے بعد عقیدہ اختیارنہیںکرتا۔‘‘۷۵اوراقبال نے بالکل ایساہی فکری فریضہ انجام دیا ہے۔بادی النظرمیںیہ نکتہ دل کولگتاہے مگر عمیق نظرسے دیکھاجائے توپتا چلتاہے کہ معاملہ ایسا نہیں جیساکہ کہا گیاہے۔کسی عقیدے پرپہلے اعتقادرکھنا،اورپھراس کے حق میں دلائل پیش کرنا،کسی مفکر کو متکلم صرف اس صورت میںثابت کرتے ہیںکہ اس کافکری روّیہ استخراجی ہو۔یعنی وہ اپنے عقیدے کی بدیہی صداقتوںسے ڈھونڈ ڈھونڈکے جوازلائے، انہیں ایک منطقی قرینے سے پیش کرے اوران کے زورپراپنے مخالف کو قائل اور مائل کرنے کے پورے جتن کرے۔اقبال نے تو ایسا کبھی نہیں کیا۔وہ اپنے عقیدے کی صداقت کے لیے اپنے پرائے سبھی کے تجربوںسے استفادہ کرتا ہے، ان کے نظریات اورخیالات کوناقدانہ طورسے دیکھتاہے،پھراپنی باطنی بصیرت سے انہیں پرکھتاہے اورتب کہیںجاکرایک ایسے نظریے کوتشکیل دیتاہے جواس کے عقیدے کے حق میں جاتا ہو اس کے مدمقابل کوسوچنے پر مجبورکرتاہواور اسے یہ فیصلہ کرناپڑے کہ اس کی فکری بصیرت میںکتنی گہرائی ہے اوراس کا عقیدہ کیونکرعمدہ ہے۔پس اقبال متکلم کس طرح ہوسکتاہے۔اس نے جوحسن سلوک مغربی حکماء کے افکارکے ساتھ روا رکھا ویساہی برتاؤ مسلم متکلمین کے دلائل کے ساتھ برتا۔ یعنی جس نظرسے مغربی افکار کو اسلام کے بنیادی اصولوں پر پرکھابعینہٖ مسلمانوںکے کلامی مسائل پر نگاہ دوڑائی۔ اور ایسابھی نہیںہے کہ اسے متصوف صرف اس لیے قراردے دیاجائے کہ اس کی فکرجس طرزکے استقرائی ملکہ کی حامل ہے اس کے متعلق اس نے صوفیانہ تجربات وواردات سے رجوع کرنے پربے حد اصرار کیاہے۔ اس کی وجہ سمجھ میں آ جاتی ہے، بشرطیکہ کشف المحجوب سے استفادہ کیا جائے جس میں حضرت داتاگنج بخش نے وضاحت کی ہے کہ تصوف کے حوالے سے لوگوںکی تین قسمیں ہیں۔’’ایک صوفی،دوسرامتصوف اور تیسرا مستصوف۔ صوفی وہ ہے جو اپنے وجودسے فانی ہوکر باقی بہ حق ہوگیا۔ قیدمزاج وطبائع سے آزادہوکرحقیقت حقائق کے ساتھ مل گیا ۔ متصوف وہ ہے جواس درجہ کے حاصل کرنے کی آرزومیںتکلیف ومشقت ومجاہدہ کررہاہے اور صوفی بننے کاخواہش مند ہے اورصوفیائے کرام کے رسم و روا ج کی پیروی میںاپنی اصلاح کرتا ہے۔ مستصوف وہ ہے جومال ومنال دنیاوی حاصل کرنے کی غرض سے صوفیہ کرام کے اعمال و افعال و حرکات کی نقل کرتاہے،صوفیہ کے اقوال کہتاپھرتاہے مگرخودمحض بے خبرہے اورکچھ نہیں جانتا ۔ ‘‘ ۷۶ اس مناسبت سے،اقبال یقینا کسی صورت بھی صوفی اورمستصوف نہیںہے۔لیکن اسے متصوف بھی قرار نہیں دیا جا سکتا کیونکہ صوفیانہ نظریوں اور طریقوںپرگہری نظررکھنے کے باوجوداس میںوہ عملی روح نہیں ملتی جواس مقصدکے لیے لازم ہوتی ہے۔اس سلسلہ میںاس کے رفیق کار مرزاجلال الد ین کے یہ تاثرات خاصے معقول اور متوازن معلوم ہوتے ہیں ۔’’اقبال آخرانسان تھے۔ پیغمبرانہ اعجاز رکھنے کے باوجودپیغمبرنہ تھے۔اس لیے ان کو ایسی باتوںسے معّرا سمجھنا جو بشریت کا لازمہ او ر انسانیت کاخاصہ ہیں۔ایک ایساتمسخرانگیزدعویٰ ہے جس میںنہ تو حقیقت کو دخل ہے نہ خود ڈاکٹر صاحب کی روح کے لیے مسّرت کاسامان موجود ہے۔اقبال زاہد خشک تھے نہ ریا کار صوفی ۔اس میں شک نہیں کہ آخری ایاّم میںوہ گوشہ نشینی اور درویشانہ زندگی کی وجہ سے دنیا اوراس کے افراد سے بڑی حدتک کنارہ کش ہوگئے تھے اوران کی کیفیت اس مردفقیرکی سی تھی جو اس مادی دنیاسے بے نیا ز ہوکرکسی اور ہی عالم میں کھویارہتاہو۔لیکن ان کے چہرے پرتقدس کا جوہالہ ہروقت نظر آتا تھا۔ اس سے یہ کسی طورپرلازم نہیں آتا کہ انہیںان کے اصل مرتبے سے محروم کرکے صوفیائے کرام اور اولیائے عظام کے زمرے میںشامل کر لیا جائے ۔ حالانکہ ان سے علیٰحدہ رہ کربھی اقبال کے عظمت ووقارمیںکسی قسم کی کمی واقع نہیں ہوسکتی۔‘‘۷۷ اقبال اصل میں متکلم نہیں،متصوف بھی نہیں،صرف فلسفی ہے جس نے اپنے نثری اورشعری طرز ِاظہارمیں طبیعی سے مابعدالطبیعی تک ہرمعاملے کوایک ترکیبی اورتالیفی روپ میںمدرک کیا اور اپنے خارجی اورداخلی تجربات سے خارج اورباطن کے ہرمظہرکوکسی نہ کسی وحدت میں پرویا۔ آخرش ان وحدتوںکودانوںکی صورت میںایک کلی وحدت کے دھاگے میںپرویاجس سے’’ خودی محیط برکل‘‘’’All Embracing Ego‘‘کاوہ تصورانسان کے فکر و وجدا ن میں ابھرتاہے جسے قرآن نے’ ’اﷲ نورالسموٰت والارض‘ ‘۷۸کے طورپرپیش کیاہے۔استقرائی استدلال کے اس اعجاز کی بدولت تالیفی یاکلیتی (Holistic)فلسفیوںمیںاقبال کافکری مقام سب سے نمایاں دکھائی دیتا ہے ۔ لیکن اس مقام پر سید علی عباس جلالپوری کے اس مؤقف ۷۹کو دیکھا جائے تو اسے کس طرح فلسفی قراردیا جاسکتاہے کیونکہ ایک جانب اس نے خود فلسفے سے بے زاری کااظہارکیا ہے، جیسے کہ : انجام خرد ہے بے حضوری ہے فلسفہ زندگی سے دوری ۸۰ یاپھرکہتاہے کہ : مرا درسِ حکیماں دردِ سر داد کہ من پروردۂ فیضِ نگاہم! ۸۱ داناؤں کے سبق نے مجھے سردرددیا(اُلجھنوں میں ڈال دیا)کیونکہ میں تو فیضِ نگاہ کاپروردہ ہوں۔ اوریاپھر،اس نے کہاہے: حکمت و فلسفہ کرد است گراں خیز مرا خضر من! از سرم ایں بارِ گراں پاک انداز ۸۲ حکمت اور فلسفہ نے مجھے بوجھل بنادیا۔اے میرے خضر!میرے سرسے یہ سنگین بوجھ مکمل طور پر ہٹا دے۔ دوسری جانب ڈاکٹرقاضی عبدالحمیدکے اس اقتباس سے بھی اس کاثبوت ملتا ہے۔ ’’وہ (اقبال)اپنے آپ کو کبھی بھی فلسفی کہناپسندنہیںکرتے تھے۔دورانِ گفتگومیںبعض مرتبہ میرے منہ سے بلاارادہ اگران کے لیے فلسفی او ر ان کے خیالات کے لیے نظامِ فلسفہ کے الفاظ نکل گئے تو انہوںنے مجھے یہ کہہ کرٹوک دیا کہ ان کاکوئی نظامِ فلسفہ نہیںہے۔وہ کہاکرتے تھے کہ فقیری ان کووراثتاً ملی ہے اورفلسفہ وغیرہ انہوںنے صرف اِنہیںحقائق کوجن کااُنہیںکلی یقین ہے، عقلی طور پر سمجھنے کے لیے سیکھ لیاہے۔‘‘۸۳ اس کے باوجودشارحینِ اقبال کے کیا کہنے کہ وہ اسے پھر بھی عظیم فلسفی قراردینے پر مُصر ہیں ۔ ظاہری طورپر سیدعلی جلالپوری کامؤقف درست لگتاہے مگرغورکیا جائے تومعاملہ کافی مختلف نظرآئے گا۔بات یہ ہے کہ ضروری نہیں ہوتاکہ کوئی مفکراپنے فلسفی ہونے کااعتراف بھی کرے۔مثال کے طور پر ڈاکٹر سگمنڈ فرائڈ طب اورنفسیات کاحکیم تھا۔ طالب علمی کے دوران یونانی اورمغربی فلسفے کے گہرے مطالعہ سے بہرہ ور ہواتھا۔وہ شوپنہاراورنطشے کے فلسفیانہ افکار سے بالخصوص متاثر تھا۔ اپنی زندگی میںاس نے جس نہج کے نظریات کا پرچار کیا تھا، اس کے مطابق اس کافکری مقام کسی فلسفی سے کم نہ تھاحالانکہ وہ زندگی بھرفلسفے سے متنفررہا۔وہ برملاکہاکرتا،’’مجھے فلسفوںکے الٹ پھیرسے ہمیشہ نفرت رہی ہے۔‘‘اوراس نے کہا تھا۔ ’’میں نے کسی فلسفیانہ خیال کواپنی سیدھی سادی زندگی کی مسرتوںکوخراب کرنے کی اجازت نہیں دی۔‘‘۸۴اس کے باوجود اس کے مداحین اسے فلسفۂ نفسیات کاایک عظیم مفکرمانتے ہیں ،جہاںوہ نفسیات دان کم اورفلسفی کہیںزیادہ نظر آتا ہے۔اس حوالے سے توراکینہ قاضی کاکہناغلط نہیں،’’خودتردیدی کے باوجو د فرائڈایک فلاسفربن گیاتھا۔‘‘۸۵اس پیرائے میں،اگراقبال نے اپنے آپ کوفلسفے سے دوررکھنے کاعندیہ دے بھی دیا ہے تواس کایہ مطلب نکالنادرست نہ ہوگاکہ وہ فلسفی نہیںرہا۔ درحقیقت، مجموعی طورپر دنیامیںچارہی طرح کے لوگ ہیں۔ایک وہ جو زباںسے سچائی کانہ توپرچار کرتے ہیںاورنہ ہی اسے دل سے محسوس کرتے ہیں۔ دوسرے،وہ جو زباںسے سچائی کا پرچار توکرتے ہیںمگردل سے اسے محسوس نہیں کرتے۔ تیسرے،وہ جو زباںسے سچائی کاپرچارتو نہیںکرتے مگردل سے اسے محسوس کرتے ہیںاورچوتھے وہ جو زباںسے سچائی کا پرچار بھی کرتے ہیںاور دل سے اسے محسوس بھی کرتے ہیں۔پہلی طرح جاہل کی ہے،دوسری بے عمل عالم کی ہے، تیسری تارک الدنیاصوفی کی ہے اورچوتھی مومن کی ہے۔استقرائی فکرکے اعتبارسے اقبال کو نسبت اس آخری طرح سے ہے کیونکہ خوداس نے اپنے بارے میںبڑی صاف گوئی سے کام لیتے ہوئے یہ اعتراف کیاہے کہ ’’میں سیدھی سادی دیانتدارانہ زندگی بسر کرتا ہوں۔ میرادل اور میری زبان ایک دوسرے کے ساتھ کلیتاً ہمنوا ہیں۔‘‘۸۶اوراس نے اس سچائی کوبھی کسی پردے میں نہیں رکھاکہ جس کااظہارغلام بھیک نیرنگ کے نام مندرج ایک مکتوب سے ملتا ہے ’’اقبال کی زندگی مومنانہ نہیں،لیکن اس کادل مومن ہے۔‘‘۸۷اس کا یہ احساس اس کے مداحین کے نزدیک کیا حرفِ آخر ہوناچاہئیے؟یقینا استقرائی فکر کے تقاضے اس کی اجازت نہیں دیتے۔اس ضمن میں ڈاکٹر قاضی عبدالقادر کی رائے خاصی معقول ہے کہ اقبال کی فکری اورفلسفیانہ زندگی کواس کی شخصیت سے جداکرکے دیکھنا چاہئیے اوراس کی فکرسے حقیقی معاملہ بندی کے لیے ضروری ہے کہ ارسطوکے اس جملے کوپیش نظررکھاجائے جواس نے اپنے استادکے فلسفے پر تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’افلاطوں ہمیں عزیزہے لیکن صداقت عزیزترہے۔‘‘۸۸ باوجودتمام اختلافات کے، اقبال ایک ایسے مفکرکے طورپرنظرآتاہے جس کااستدلال حیات ِجاوداںکی وہ شکل لیے ہے جسے بادنما کے مثل قراردینابے جانہ ہوگاکیونکہ جس طرح باد پیما تازہ ہواؤںکے رخ پرآئندہ کے موسمی حالات کی پیشین گوئی کرتارہتاہے تاکہ مستقبل کے درپیش خطرات سے نپٹنے کی پیش بندی کی جاسکے۔اسی طرح اقبال کااستقرائی استدلال ایک سمت نما رہبرہے جس کی بدولت کسی بھی دورکے جدیدتقاضوںکاجائزہ لیتے ہوئے اس کے مستقبل کی ممکنہ مشکلات کے بہترحل تلاش کئے جاسکتے ہیں اور ماضی کے تجربات سے مستفیدہوتے ہوئے مستقبل کے نئے اُفق روشن کئے جاسکتے ہیںتاکہ اسلام کی اٹل اوردورجدیدکی بدلتی ہوئی صداقتوں کا فرق، فرق نہ رہے۔اقبال نے اپنے زمانے کے دگرگوںحالات کومحسوس کرتے ہوئے اپنے فکرو استدلال کے زورپرجواعتراف کیاتھا،وہ تاحال اہلِ فکرونظرکے لیے لمحۂ فکریہ ہے: سُرودِ رفتہ باز آید کہ ناید؟ نسیمے از حجاز آید کہ ناید؟ سر آمد روزگارِ ایں فقیرے دگر دانائے راز آید کہ ناید؟ ۸۹ بیتے نغمے دوبارہ آئیںیانہ آئیں؟حجاز کی بادنسیم دوبارہ آئے کہ نہ آئے؟اس حقیرو فقیر کا زمانہ ختم ہوگیا،پتہ نہیںکوئی اور ُدنیامیںدانائے راز آئے کہ نہ آئے؟ حواشی ۱۔ دیکھئے،محمدحسین عرشی کامضمون،’’علامہ اقبال کی صحبت میں‘‘، مشمولہ، محمود نظامی، (مرتب)، ملفوظات، ص:۴۰ ۲۔ افتخاراحمدصدیقی،شذرات ِفکراقبال،محمداقبال،(مصنف)،ڈاکٹرجسٹس جاوید اقبال، (مرتب)، ص: ۱۶۰ ۳۔ محمداقبال،کلیاتِ اقبال فارسی/پیام مشرق،ص:۲۰۹ ۴۔ دیکھئے،خط بنام مولوی انشاء اﷲ خاں، ایڈیٹر، وطن، مؤرخہ ۲۵نومبر ۱۹۰۵ئ، از کیمبرج، مشمولہ، سید عبدالواحدمعینی،( مر تب) ، مقالاتِ اقبال،ص:۸۲ ۵۔ سیدعبدالواحدمعینی،(مرتب)، اورمحمدعبداﷲقریشی،(ترمیم واضافہ کنندہ)،باقیاتِ اقبال،ص:۱۲۰ ۶۔ دیکھئے،محمداقبال کامقالہ،’’دیباچہ مثنوی اسرارِخودی‘‘،مشمولہ،سیدعبدالواحد معینی ،(مرتب)،کتاب مذکورہ،ص:۱۵۳ ۷۔ سعیداحمداکبرآبادی،خطباتِ اقبال پرایک نظر،ص:۱۲ ۸۔ دیکھئے،حفیظ ہوشیارپوری کامضمون،’’عمرِعزیز کے بہترین لمحے!‘‘،مشمولہ ،محمودنظامی،(مرتب)، کتاب مذکورہ، ص:۱۳۲ ۹۔ دیکھئے،خط بنام، پروفیسرنکلسن،اقبالنامہ ،حصہ اوّل،شیخ عطااﷲ،(مرتب) ،ص:۴۷۲ ۱۰۔ ڈاکٹرخلیفہ عبدالحکیم،فکرِاقبال،ص:۵۴ ۱۱۔ برٹرینڈرسل نے اس حکایت کواقلیدس سے منسوب کرتے ہوئے لکھا ہے: "There is in the contempt for practical utility which had been inculcated by Plato.It is said that a pupil, after listening to a demonstration, asked what he would gain by learning geometry, whereupon Euclid called a slave and said, 'Give the young man three pence, since he must needs make a gain out of what he learns.",see, Bertrand Russell, History of Western Philosophy, p.221 نوٹ:-آئزک ایسی موف نے یہی حکایت اقلیدس کی بجائے براہِ راست افلاطون سے منسوب کی ہے۔اس نے لکھا ہے: "There is a story that a student of Plato, receiving mathematical instruction from the master, finally asked impatiently; "But what is the use of this? Plato, deeply offended, called a slave and ordered him to give the student a coin."Now,"he said," you need not feel your instruction has been entirely to no purpose." With that, the student was expelled.",see,Issac Asimov,The Intelligent Man's Guide to Science, volume one,The physical sciences,p.12 ۱۲۔ دیکھئے،باب چہارم،حوالہ نمبر:7 ۱۳۔ مولانا ظفر علی خاں،(مترجم)،معرکۂ مذہب و سائنس،جان ولیم ڈریپر، (مصنف)، ص: ۵۸- ۵۹ ۱۴۔ سیدنذیرنیازی،(مترجم)،تشکیل جدید الٰہیاتِ اسلامیہ، ص:۲۵۳-۲۵۴،اصل اقتباس یوں ہے: "The spirit of Islam is so broad that it is practically boundless. With the exception of atheistic ideas alone it has assimilate all the attainable ideas of surrounding peoples, and given them its own peculiar direction of development,"see, Allama Muhammad Iqbal,The Reconstruction of Religious Thought in Islam, p.130 ۱۵۔ محمداقبال،کلیاتِ اقبال اردو/بانگِ درا،ص:۲۳۲ ۱۶۔ محمداقبال،کلیاتِ اقبال اردو/بال جبریل،ص:۳۵۷ ۱۷۔ محمداقبال،کلیاتِ اقبال اردو/ضربِ کلیم،ص:۵۷۵ ۱۸۔ محمداقبال،کلیاتِ اقبال اردو/ضربِ کلیم،ص:۵۳۴ ۱۹۔ محمداقبال،کلیاتِ اقبال اردو/بانگِ درا،ص:۱۰۱ ۲۰۔ محمداقبال،کلیاتِ اقبال اردو/بانگِ درا،ص:۱۰۱ ۲۱۔ محمدرفیق افضل،(مرتب)،گفتار اقبال،ص:۱۸ ۲۲۔ لطیف احمدشیروانی،(مرتب)،حرفِ اقبال،ص:۱۴۴ ۲۳۔ یہ خیال اس تصنیف سے ماخوذہے،دیکھئے،مولاناوحیدالدین خاں،مذہب اور جدید چیلنج، ص: ۱۶۷ ۲۴۔ سیدنذیرنیازی،(مترجم)،کتاب مذکورہ،دیباچہ،ص :’اح‘،اقبال کے اصل الفاظ یوں ہیں: "...the day is not far off when Religion and Science may discover hitherto unsuspected mutual harmonies.",see,Allama Muhammad Iqbal,op.cit,preface,p.(xxii) ۲۵۔ ایضاً،اقبال کے اصل الفاظ یوں ہیں: "...to reconstruct Muslim religious philosophy with due regard to the philosophical traditions of Islam and the more recent developments in the various domains of human knowledge." see, Ibid,pp.(xxi-xxii) ۲۶۔ دیکھئے،مولاناوحیدالدین خاں،کتاب مذکورہ،ص ص:۵۳-۵۴ ۲۷۔ دیکھئے،’’سائنس اور اسلامی دنیا‘‘،مشمولہ،ارشدمحمود،تعلیم اورقومی اُلجھنیں،ص:۷۳ ۲۸۔ یہ وضاحت اس تصنیف سے ماخوذہے،دیکھئے،پرویزامیرعلی ہودبھائی،مسلمان اورسائنس، ص:۱۳۰ ۲۹۔ ایضاً،ص:۲۳۲ ۳۰۔ دیکھئے،’’سائنس اور اسلامی دنیا‘‘،مشمولہ،ارشدمحمود،کتاب مذکورہ،ص:۷۶ ۳۱۔ دیکھئے، محمد اقبال کا مقالہ،’’اسلام اورعلوم جدیدہ‘‘،مشمولہ، سیدعبدالواحدمعینی،(مرتب)،کتاب مذکورہ،ص:۲۳۹ ۳۲۔ پرویزامیرعلی ہودبھائی،کتاب مذکورہ،ص:۲۲۸ ۳۳۔ ایضاً، ص ص:۲۲۸-۲۲۹ ۳۴۔ یہ وضاحت اس تصنیف سے ماخوذہے،دیکھئے،مولاناوحیدالدین خاں،کتاب مذکورہ، ص ص: ۱۶۹- ۱۷۰ ۳۵۔ دیکھئے،خط بنام ،صوفی غلام مصطفی تبسم، محررکردہ، ستمبر۱۹۲۵ئ، ازلاہور، مشمولہ، شیخ عطااﷲ، (مرتب)، اقبالنامہ، حصہ اوّل،ص:۴۷ ۳۶۔ دیکھئے،پرویزامیرعلی ہودبھائی،کتاب مذکورہ، ص:۱۱۱-۱۱۲ 37- "Archimedes of Syracuse, refused to write about his practical inventions and discoveries; to maintain his amateur status, he broadcast only his achievements in pure mathematics."see, Issac Asimov, op.cit, pp.12-13 ۳۸۔ آلڈوس ہکسلے(Aldous Huxley) کایہ اقتباس،سید علی عباس جلالپوری نے اپنی تصنیف میںنقل کیاہے۔ دیکھئے،سید علی عباس جلالپوری،اقبال کاعلم الکلام،ص:۱۹۶ ۳۹۔ محمداقبال،کلیاتِ اقبال فارسی/مثنوی پس چہ بایدکرداے اقوام شرق مع مسافر،ص:۸۸۰/۸۴ ۴۰۔ سیدنذیرنیازی،اقبال کے حضور،ص:۵۹،مزید تفصیلات کے لیے دیکھئے،باب سوم،حوالہ نمبر86 ۴۱۔ ایضاً،ص:۶۶ ۴۲۔ محمداقبال،کلیاتِ اقبال اردو/ضربِ کلیم،ص:۵۳۱ ۴۳۔ محمداقبال،کلیاتِ اقبال اردو/بال جبریل،ص:۴۳۵ ۴۴۔ نطشے کے بارے میں یہ مصرعہ یوں استعمال ہوا ہے۔ نیشتر اندر دلِ مغرب فشرد دستش از خونِ چلیپا احمر است آنکہ برطرحِ حرم بت خانہ ساخت قلب ِاو مومن دماغش کا فر است دیکھئے،محمداقبال،کلیات اقبال فارسی/پیام ِ مشرق،ص:۳۲۹ اورکارل مارکس کے بارے میںیہ مصرعہ یوںاستعمال ہواہے۔ صاحبِ سرمایہ از نسلِ خلیلؑ یعنی آں پیغمبر بے جبرئیل زانکہ حق و باطلِ او مضمراست ’ قلبِ او مومن دماغش کافر است‘ دیکھئے،محمداقبال،کلیات اقبال فارسی/جاویدنامہ،ص:۵۳۶ ۴۵۔ محمداقبال،کلیات ِاقبال فارسی/ارمغان حجاز،ص:۷۷۶ ۴۶۔ محمداقبال،کلیات اقبال فارسی/اسرارورموز،ص:۱۵۸ ۴۷۔ محمداقبال،کلیات اقبال فارسی/پیام مشرق،ص:۳۲۲ ۴۸۔ ایضاً ۴۹۔ محمداقبال،کلیات اقبال اردو/ضرب کلیم،ص:۶۱۹ ۵۰۔ محمداقبال،کلیات اقبال اردو/بانگِ درا،ص:۱۳۳ ۵۱۔ محمداقبال،کلیات اقبال اردو/ضرب کلیم،ص:۶۶۳ ۵۲۔ محمداقبال،کلیات اقبال اردو/ضرب کلیم،ص:۶۰۰ ۵۳۔ محمدرفیق افضل،(مرتب)،کتاب مذکورہ،ص:۴ ۵۴۔ بختیارحسین صدیقی،اقبال بحیثیت مفکرتعلیم،ص:۱۶۷-۱۶۸ ۵۵۔ دیکھئے،محمداقبال کا مقالہ،’’بچوںکی تعلیم وتربیت‘‘، مشمولہ، سیدعبدالواحد معینی، (مرتب)،کتاب مذکورہ، ص:۴ ۵۶۔ محمداقبال،کلیات اقبال اردو/بانگِ درا،ص:۲۷۲ ۵۷۔ محمداقبال،کلیات اقبال فارسی/زبورعجم،ص:۴۶۰ ۵۸۔ دیکھئے،’’دانش کابحران‘‘،مشمولہ،ارشدمحمود،کتاب مذکورہ،ص:۱۸۸ ۵۹۔ محمداقبال،کلیات اقبال اردو/ضرب کلیم،ص:۶۰۱ ۶۰۔ محمداقبال،کلیات اقبال فارسی/پیام مشرق،دیباچہ،ص:۱۸۲/۱۲ ۶۱۔ محمداقبال،کلیات اقبال اردو/ضرب کلیم،ص:۵۷۹ ۶۲۔ سیدنذیرنیازی،(مترجم)،تشکیل جدید الٰہیاتِ اسلامیہ،دیباچہ،ص:’از‘،اقبال کے اصل الفاظ یوں ہیں: "The Qur'an is a book which emphasizes 'deed' rathar than 'idea'." see, Allama Muhammad Iqbal, op.cit,preface,p.(xxi) ۶۳۔ اس سلسلہ میںملاحظہ ہو ،’’دربیان ایںکہ تربیت خودی راسہ مراحل است،مرحلۂ اوّل رااطاعت و مرحلۂ دوم راضبط ِ نفس و مر حلۂ سوم رانیابت الٰہی نامیدہ اند۔ ‘‘دیکھئے،محمداقبال،کلیات اقبال فارسی/اسرارورموز، ص:۴۰/۴۰تا۴۶/۴۶ ۶۴۔ محمداقبال،کلیات اقبال فارسی /اسرارورموز،ص:۴۶/۴۶ ۶۵۔ امین احسن اصلاحی،فلسفے کے بنیادی مسائل،قرآن حکیم کی روشنی میں، ص: ۲۴۰ ۶۶۔ محمدحنیف ندوی،’’اسلام میںنبوت کاتصور‘‘،مشمولہ،The Pakistan Philosophical Journal,vol 1,October 1957,No 2,p.54 ۶۷۔ محمداقبال،کلیات اقبال اردو/بال جبریل، ص:۳۵۷ ۶۸۔ دیکھئے،مکتوب بنام، مہاراجہ کشن پرشاد،محررکردہ۱۴اپریل۱۹۱۶ء ،ازلاہور،مشمولہ،صحیفہ،مجلس ترقی ادب لاہورکاعلمی مجلہ ، اقبال نمبر(حصہ اوّل) ،شمارہ :۶۵،اکتوبر۱۹۷۳ء ،ص:۱۶۸،جومحمدعبداﷲقریشی کے مضمون،’’نوادرِاقبال،اقبال کے پچاس غیرمطبوعہ خطوط‘‘،میںشائع ہوا۔ ۶۹۔ ڈاکٹر برہان احمدفاروقی،قرآن اورمسلمانوںکے زندہ مسائل،ص:۲۱۹ ۷۰۔ سیدنذیرنیازی،(مترجم)،کتاب مذکورہ،دیباچہ،ص:’۱ح‘،اقبال کے اصل الفاظ یوںہیں: "It must, however, be remembered that there is no such thing as finality in philosophical thinking.As knowledge advances and fresh avenues of thought are opened, other views, and probably sounder views than those set forth in these lectures, are possible.Our duty is carefully to watch the progress of human thought and to maintain an independent critical attitude towards it."see,Allama Muhammad Iqbal,op.cit, preface,p.(xxii) ۷۱۔ دیکھئے،باب سوم،حوالہ نمبر:147 ۷۲۔ سیدعبدالواحدمعینی،(مرتب)، اورمحمدعبداﷲقریشی،(ترمیم واضافہ کنندہ)،کتاب مذکورہ،ص:۱۴۲ ۷۳۔ دیکھئے،خط بنام، آل احمدسرور، محررکردہ ۱۲مارچ۱۹۳۷ئ، مشمولہ،شیخ عطااﷲ، (مرتب)، اقبالنامہ، حصہ دوم، ص:۳۱۴ ۷۴۔ ڈاکٹرخلیفہ عبدالحکیم،کتاب مذکورہ،ص:۲۳ ۷۵۔ سید علی عباس جلالپوری،کتاب مذکورہ،ص:۱۵ ۷۶۔ ابوالحسنات سیدمحمداحمدقادری،(مترجم)،کشف المحجوب(نسخۂ سمرقند)،ابوالحسن سیدعلی بن عثمان،ہجویری ، (مصنف) ، ص:۱۲۰ ۷۷۔ دیکھئے،مرزاجلال الدین کا مضمون، ’’میرا اقبال‘‘، مشمولہ، محمود نظامی، (مرتب)، کتاب مذکورہ، ص:۸۴ نوٹ:اس ضمن میں خود،محمودنظامی کے یہ کم الفاظ، بہت ہیںجواسی مرتب شدہ تصنیف کے ’دیباچہ ،ص:۶‘ میں یوںرقم ہیں ، ’ ’ہم نے اسے پیغمبر سمجھا لیکن اس کے اپنے سامنے جس پیغمبرؐ کی زندگی مشعلِ راہ تھی وہ خود اس کا ایک ہلکا سا پرتو تھااور اس کی طرح اسے خود بھی تسلیم تھا کہ میں بھی تمہارے ہی جیسا ایک انسان ہوں۔‘‘ ۷۸۔ دیکھئے،قرآن پاک کی’ سورۃ النور‘،( ۲۴:۳۵) ۷۹۔ سیدعلی عباس جلالپوری،کتاب مذکورہ، ص ص:۱۹-۲۰ ۸۰۔ محمداقبال،کلیات اقبال اردو/ضرب کلیم،ص:۵۳۰ ۸۱۔ محمداقبال،کلیات اقبال فارسی/ارمغان حجاز،ص:۷۹۸ ۸۲۔ محمداقبال،کلیات اقبال فارسی/زبورعجم،ص:۳۶۶ ۸۳۔ ڈاکٹرقاضی عبدالحمیدکے اقتباس کواس تصنیف سے نقل کیاگیا،دیکھئے،سیدعلی عباس جلالپوری،کتاب مذکورہ، ص : ۱۹ - ۰ ۲ ۸۴۔ مصنفہ نے سگمنڈ فرائڈکے یہ دونوںحوالے اُس کی تصنیف ’’آٹوبیوگرافی‘‘سے نقل کئے، دیکھئے، تورا کینہ قاضی، سگمنڈ فرائڈ ،بیسویں صدی کاعظیم ماہرِ نفسیا ت ، ص:۱۵۱ ۸۵۔ ایضاً ۸۶۔ دیکھئے،مکتوب بنام،عطیہ فیضی، محرر کردہ، ۱۷جولائی۱۹۰۹ئ، از لاہور، مشمولہ، ضیاالدین احمد برنی، (مترجم) ،اقبال ازعطیہ بیگم ، ص : ۴۵،نوٹ:اس مکتوب کی یہی عبارت شیخ عطااﷲکے مندرج شدہ خط ،مشمولہ، اقبالنامہ،حصہ دوم،ص: ۱۲۴،میںحذف ہے ۔ ۸۷۔ دیکھئے، مکتوب بنام،میرسید غلام بھیک نیرنگ،محررکردہ ۱۷جولائی ۱۹۰۹ئ،ازلاہور،مشمولہ،شیخ عطااﷲ، (مرتب)،اقبالنامہ، حصہ اوّل، ص:۲۰۷ ۸۸۔ دیکھئے،ڈاکٹرقاضی عبدالقادر،’’اقبال کی فلسفیانہ زندگی‘‘،مشمولہ،اقبال ریویو،مجلہ اقبال اکادمی، پاکستان، جلدنمبر۱۶،شمارہ نمبر ۲ ، جولائی ۱۹۷۵ئ،ص:۶۰ ۸۹۔ محمداقبال،کلیات اقبال فارسی /ارمغانِ حجاز،ص:۷۷۵ کتابیات:(Bibliography) کتب اردو(Urdu Books): .1 آغاافتخار حسین،ڈاکٹر،قوموں کی شکست و زوال کے اسباب کا مطالعہ،طبع سوم، جون ۱۹۹۲ئ،لاہور:مجلس ترقی ادب، کلب روڈ .2 ابواللیث صدیقی،ڈاکٹر،اقبال اورمسلک ِتصوف،طبع اوّل،۱۹۷۷ئ،لاہور:اقبال اکادمی پاکستان .3 ارشدمحمود،تعلیم اورقومی اُلجھنیں،۱۹۹۹ئ،پاکستان،لاہور:مشعل بکس،نیوگارڈن ٹاؤن .4 افتخاراحمدصدیقی،(مترجم)،شذراتِ فکرِ اقبال، محمد اقبال، (مصنف)، جاوید اقبال، ڈاکٹر جسٹس،(مرتب)،طبع دوم،۹۸۳ ۱ئ، لا ہو ر:مجلس ترقی ادب،کلب روڈ .5 امین احسن اصلاحی،مولانا،فلسفے کے بنیادی مسائل،قرآن حکیم کی روشنی میں، طبع دوم،اکتوبر ۱۹۹۷ء ، پاکستان ، لاہور:فاران فاؤنڈیشن .6 امین احسن اصلاحی،مولانا،مبادیٔ تدبرِقرآن، بار سوم، اپریل ۱۹۷۱ئ،لاہور:دارالاشاعتِ اسلامیہ،کوثر روڈ ، اسلام پورہ .7 بختیار حسین صدیقی،اقبال بحیثیت مفکرِتعلیم،طبع اوّل،۱۹۸۳ئ،لاہور:اقبال اکادمی پاکستان .8 برہان احمدفاروقی،ڈاکٹر،قرآن اور مسلمانوں کے زندہ مسائل،طبع دوم، ۱۹۹۱ئ، لاہور: ادارۂ ثقافتِ اسلامیہ ، کلب روڈ .9 بشیر احمدڈار،(مرتب)،اَنوارِاقبال،طبع دوم،۱۹۷۷ئ،لاہور:اقبال اکادمی پاکستان .10 بشیر احمدڈار،تاریخ تصوف،قبل ازاسلام،اکتوبر ۱۹۶۲ئ،پاکستان:ادارۂ ثقافت اسلامیہ .11 بشیراحمدچشتی،(مترجم)،معاشرے پرسائنس کے اثرات،برٹرینڈرسل،(مصنف)،طبع اوّل، مئی۱۹۶۵ء ، لاہور:مجلس ترقی ادب ، کلب روڈ، .12 پرویز امیرعلی ہودبھائی،مسلمان اورسائنس،۲۰۰۲ئ، پاکستان،لاہور:مشعل بکس،نیوگارڈن ٹاؤن .13 توراکینہ قاضی،سگمنڈفرائڈ،بیسویںصدی کاعظیم ماہرِنفسیات،طبع وسن ندارد، کراچی:شاہکاربک فاؤنڈیشن .14 جگن ناتھ آزاد،اقبال اور مغربی مفکرین،پاکستان میں اشاعتِ دوم،۱۹۸۷ئ، لاہور:مکتبۂ عالیہ .15 حمید عسکری، پروفیسر،نامورمسلم سائنسدان،طبع دوم،جون۱۹۹۶ئ،لاہور:مجلس ترقی ادب، کلب روڈ .16 حمید عسکری، پروفیسر،نامور مغربی سائنسدان،طبع وسن ندارد،لاہور:مجلس ترقی ادب،کلب روڈ .17 خالدمسعود،(مترجم)،خارجی دنیا کاعلم،برٹرینڈرسل،(مصنف)،طبع اوّل، جون ۱۹۹۸ئ، پاکستان :مقتدرہ قومی زبان .18 خالدمسعود،(مترجم)،منہاج جدیدمع نواطلانتہ،فرانسس بیکن،(مصنف)،طبع اوّل۱۹۹۸ئ، پاکستا ن : مقتدرہ قومی زبان .19 رضی الدین صدیقی،ڈاکٹر،اقبال کاتصور ِزمان ومکان اوردوسرے مضامین،طبع اوّل ۱۹۷۳ئ، لاہور: مجلس ترقی ادب،کلب روڈ .20 ریحان اصغرمنیر،خودی:ایک نفسیاتی جائزہ،اپریل۱۹۹۳ئ،لاہور:ادارۂ تالیف وترجمہ، پنجاب یونیورسٹی .21 سعیداحمداکبرآبادی،خطبات ِاقبال پرایک نظر،باراوّل،مارچ۱۹۸۳ئ،سری نگر:نمبر۶،اقبال انسٹی ٹیوٹ ، کشمیریونیورسٹی .22 سیدمحمداحمدقادری ،ابوالحسنات ،(مترجم) ،کشف المحجوب(اردو ترجمہ :نسخٔہ سمرقند)،ابوالحسن سیدعلی بن عثمان ، ہجویری ؒ، (مصنف)،۱۹۸۰ء لاہور:اسلامک بک فاؤنڈیشن .23 شاہ معین الدین احمد ندوی،دینِ رحمت، سلسلہ دارلمصنفین (نمبر۹۷)، طبع گردید، ۱۳۸۶ھ/۱۵ مارچ ۱۹۶۷ء ، اعظم گڑھ:درمطبع معارف .24 شبلی نعمانی ،علامہ،علم الکلام اورالکلام،طبع سوم،نومبر۱۹۷۹ ئ،کراچی:نفیس اکیڈیمی،اسٹریچن روڈ .25 شبیر احمدعثمانیؒ،علامہ،العقل والنقل،طبع وسن ندارد،لاہور:ادارۂ اسلامیات،انارکلی .26 شعبۂ اقبالیات،(مرتب)،تسہیل خطبات اقبال،اشاعت دوم،۱۹۹۷ئ،اسلام آباد:علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی .27 شمس الدین صدیقی،ڈاکٹر،(مترجم)،اقبال کی مابعدالطبیعیات،عشرت حسن انور، (مصنف) ،طبع اوّل ، ۱۹۷۷ئ،لاہور:اقبال اکادمی پاکستان .28 شہزاداحمد،تیسری دنیاکے مسائل اورسائنسی اِنقلاب،۱۹۸۸ئ،لاہور:سنگ میل پبلی کیشنز .29 صابر کلوروی، پروفیسر، (مرتب)، تاریخ تصوف، محمداقبال، (مصنف)، طبع اوّل، مارچ ۱۹۸۵ئ، لاہور:مکتبہ تعمیرانسا نیت، اردو بازار .30 ضیاالدین احمدبرنی،(مترجم)،اقبال ازعطیہ بیگم،باراوّل،ستمبر۱۹۵۶ئ،کراچی:اقبال اکیڈمی .31 ظفر علی خاں،مولانا،(مترجم)،معرکۂ مذہب وسائنس،ڈاکٹرجان ولیم ڈریپر،(مصنف)،طبع وسن ندارد ، لاہو ر : الفیصل ، اردو بازار .32 عابدحسین،ڈاکٹرسید،(مترجم)،تاریخ فلسفۂ اسلام، ٹ۔ ج۔ دوبوئر، (مصنف)، ۱۹۹۴ئ، لاہور:فکشن ہاؤس .33 عبدالرحمن طاہر سورتی،(مترجم)،تاریخ ادب عربی،استاذاحمد حسن الزیات،(مصنف)،طبع اوّل ۱۹۶۱ئ،لاہور: شیخ غلام علی اینڈ سنز .34 عبدالحکیم خاں اخترشاہجہانپوری،فاضل شہیرمولٰینا،(مترجم)،بخاری شریف، جلداو ٌل،امام المحدثین اُبوعبداﷲ محمدبن اسمٰعیل بُخاریؒ،(مصنف) ،سید حامد لطیف چشتی، تصحیح و تہذیب،طبع باراول، ۱۴۰۲ھ، ۱۹۸۲ ء ،لاہور:۲، فرید بُک سٹال،اُردُو بازار .35 عبدالحکیم خاں اخترشاہجہانپوری،فاضل شہیرمولانا،(مترجم)،مِشکٰوۃ شریف،جلدسوم،امام ولی الدین محمدبن عبداﷲ لخطیب ؒ ،(مصنف)،طبع باراول، جمادی الاولیٰ، فروری، ۱۴۰۶ھ، ۱۹۸۶ئ، لاہور: ۲، فرید بُک سٹال،اُردُو بازار .36 عبدالحکیم،ڈاکٹرخلیفہ ،داستانِ دانش،۱۹۴۳ئ،(ہند)دہلی:انجمن ترقی اردو .37 عبدالحکیم،ڈاکٹرخلیفہ ،فکرِاقبال،باردوم،۱۹۶۱ئ،لاہور:بزم اقبال،کلب روڈ .38 عبد الحکیم،ڈاکٹرخلیفہ،مقالاتِ حکیم،جلد دوم،اقبالیات ،شاہدحسین رزاقی،(مرتب)،طبع اوّل ۱۹۶۹ ئ،پاکستان، لاہور:ادارۂ ثقافت اسلامیہ،کلب روڈ .39 عبد الحکیم،ڈاکٹرخلیفہ ،مقالاتِ حکیم،جلد سوم،متفرقات،شاہدحسین رزاقی،(مرتب)،طبع اوّل ۱۹۶۹ء ،پاکستان، لاہور:ادارۂ ثقافت اسلامیہ،کلب روڈ .40 عبدالخالق،ڈاکٹر،اورپروفیسریوسف شیدائی،مسلم فلسفہ،اشاعت اوّل،۱۹۸۱ء ،لاہور : عزیز پبلشرز ، اردو بازار .41 عبدالسلام خورشید،(مترجم)،عربوں کاعروج و زوال،فلپ کے ہتی،(مصنف)،اشاعت اوّل، ۱۹۵۲ئ، لاہور:قومی کتب خانہ، ریلوے روڈ .42 عبدالقادر،پروفیسرڈاکٹرچوھدری،تاریخ سائنس،باراوّل،جون۱۹۸۳ئ،لاہور:ادارۂ تالیف وترجمہ، پنجاب یونیورسٹی .43 عبدالمجیدسالک،(مترجم)،تشکیلِ انسانیت،رابرٹ بریفالٹ، (مصنف)، ۱۹۵۸ئ، لاہور: مجلس ترقی ادب، کلب رو ڈ .44 عبدالواحدمعینی،سید،اورمحمدعبداﷲقریشی،(مرتب)،باقیاتِ اقبال،ڈاکٹرعلامہ محمد اقبال، (مصنف) ، بار سوم، ۱۹۷۸ء ، لاہور: آئینۂ ادب،انارکلی .45 عبدالواحدمعینی،سید،(مرتب)،مقالات ِاقبال،محمداقبال،(مصنف)،۱۹۶۳ئ،لاہور:شیخ محمد اشرف، کشمیری بازار .46 عبیداﷲقدسی،تصوراتِ عرب قبل اسلام،طبع اوّل،جولائی۱۹۴۹ئ،لاہور:ادارۂ ثقافتِ اسلامیہ،کلب روڈ .47 عطااﷲ،شیخ،(مرتب)،اقبال نامہ،حصہ اوّل،طبع وسن ندارد،شیخ محمداشرف،لاہور:کشمیری بازار .48 عطااﷲ،شیخ،(مرتب)،اقبال نامہ،حصہ دوم،۱۹۵۱ئ،لاہور:شیخ محمداشرف،کشمیری بازار .49 عطیہ سیّد،اقبال …مسلم فکرکاارتقائ،۱۹۹۴ئ،لاہور:سنگ میل پبلی کیشنز .50 علی عباس جلالپوری،سید،اقبال کاعلم الکلام،طبع اوّل،جولائی۱۹۷۲ئ،لاہور:مکتبۂ فنون،انارکلی .51 علی عباس جلالپوری،سید،روایاتِ فلسفہ،طبع اوّل،دسمبر۱۹۶۹ئ،لاہور:المثال .52 فتح الحمید، (مترجم) ،القراُن الحکیم،طبع وسن ندارد،پاکستان،لاہور:تاج کمپنی لمیٹڈ .53 فقیرسیدوحیدالدین،رُوزگارفقیر،جلداول،بارششم،اپریل۱۹۶۶ئ،کراچی:لائن آرٹ پریس (کراچی) لمٹیڈ ،فریرروڈ .54 فقیرسیدوحیدالدین،رُوزگارفقیر،جلددوم،باردوم،اگست۱۹۶۵ئ،کراچی:لائن آرٹ پریس (کراچی)لمٹیڈ ، فریرروڈ .55 قیصرالاسلام،قاضی،فلسفے کے بنیادی مسائل،طبع اوّل،۱۹۷۶ئ،اسلام آباد:نیشنل بک فاؤنڈیشن .56 لطیف احمد شیروانی،(مترجم)،حرفِ اقبال،نومبر۱۹۴۵ئ،لاہور:المنار اکادمی .57 محمداجمل،ڈاکٹر،(مترجم)،نشاطِ فلسفہ،وِل ڈیورانٹ،(مصنف)،۱۹۹۵ئ،لاہور:فکشن ہاؤس .58 محمداقبال،کلیاتِ اقبال اردو،۲۰۰۶ء ،لاہور، اقبال اکادمی پاکستان .59 محمداقبال،کلیاتِ اقبال فارسی،۱۹۷۳ء ومابعد،لاہور:شیخ غلام علی اینڈسنز .60 محمداکرام،ڈاکٹرشیخ ،رُودِکوثر،چوتھاایڈیشن۱۹۶۸ئ،لاہور:فیروز سنزلمیٹڈ .61 محمدرفیع الدین،حکمتِ اقبال،طبع وسن ندارد،لاہور: علمی کتاب خانہ،اردوبازار .62 محمدرفیق افضل،(مرتب)،گفتاراقبال،چاپ اوّل،جنوری ۱۹۶۹ئ،لاہور:ادارۂ تحقیقات پاکستان، دانشگاہ پنجا ب .63 محمدعبداﷲقریشی،حیات ِاقبال کی گم شدہ کڑیاں،طبع اوّل،مئی۱۹۸۲ئ،لاہور:بزم ِاقبال، کلب روڈ .64 محمدعبدالسلام،سائنس اورجہانِ نو،اشاعت اوّل،۱۹۹۲ئ،لاہور:فرنٹئیرپوسٹ پبلی کیشنز .65 محمودنظامی،(مرتب)،ملفوظات،باراوّل ،سن ندارد،لاہور:سکرٹری حلقہ نقدونظر .66 مظفرحسین،اقبال شناسی کاانحطاط،طبع اوّل،۱۹۹۹ئ،لاہور:آل پاکستان اسلامک ایجوکیشن کانگرس،ملتان روڈ .67 میاںمحمدشریف،پروفیسر، مسلمانوںکے افکار،ان کی ابتدااورحاصلات،طبع اوّل، مئی ۱۹۶۳ئ،لاہور: مجلس ترقی ادب .68 میرحسن الدین،(مترجم)،فلسفہ ٔ عجم، محمد اقبال، (مصنف)، چھٹا ایڈیشن، جولائی ۱۹۸۴ئ، کراچی: نفیس اکیڈیمی ، اسٹریچن روڈ .69 محمدھادی حسین،(مترجم)،روح ِاسلام،آنریبل سیدامیرعلی،(مصنف)،طبع اوّل، اگست ۱۹۷۲ئ، لاہور:ادارۂ ثقافت ِاسلامیہ، کلب روڈ .70 نذیرنیازی،سید،اقبال کے حضور،طبع دوم،۱۹۸۱ئ،لاہور:اقبال اکادمی پاکستان .71 نذیرنیازی،سید،(مترجم)، تشکیل جدیدالٰہیاتِ اسلامیہ،علامہ اقبال، (مصنف)، ۱۹۵۸ئ، لاہور:بزم اقبال،کلب روڈ .72 نذیرنیازی،سید،(مترجم)،مقدمہ تاریخ سائنس(ہومرتاعمرخیام)،مجلداوّل،جارج سارٹن، (مصنف)، ۱۹۵۷ئ، لاہور: مجلس ترقی ادب،کلب روڈ .73 نذیرنیازی،سید،(مترجم) ،مقدمۂ تاریخ سائنس(ہومرتاعمرخیام)،مجلداوّل-حصہ سوئم، جارج سارٹن، (مصنف)، طبع اوّل ۱۹۶۸ء ، لاہور:مجلس ترقی ادب،کلب روڈ .74 وحیدالدین خاں،مولانا،عقلیاتِ اسلام،۲۰۰۰ئ،لاہور:دارالتذ کیر،اردوبازار .75 وحیدالدین خاں،مولانا،مذہب اورجدیدچیلنج،۲۰۰۳ئ،لاہور:دارالتذکیر،اردوبازار .76 وحیدعشرت ،ڈاکٹر،(مرتب)،اقبال۸۵ئ،(۸۵ء میںعلامہ پرچھپنے والے مضامین کاانتخاب)،طبع اوّل، ۱۹۸۹ ء ، لاہور:اقبال اکادمی پاکستان .77 وزیر آغا،ڈاکٹر،تصواراتِ عشق وخِرد،اقبال کی نظر میں، طبع اول ۱۹۷۷ئ، لاہو ر: اقبال اکادمی پاکستان .78 یوسف حسین خان،ڈاکٹر،روحِ اقبال،۱۹۴۱ئ،حیدرآباد(دکن):اعظم اسٹیم پریس گورنمنٹ ایجوکیشنل پرنٹرز .79 یوسف سلیم چشتی،پروفیسر،(مؤلفہ)،شرح اسرارخودی، طبع وسن ندارد،لاہور:عشرت پبلشنگ ہاؤس،اردوبازار .80 یوسفی سعد حسن خاں،(مترجم)،مقدمہ ابن خلدون،طبع وسن ندارد،کراچی:نور محمدکارخانہ تجارت اردومجلے :(Urdu Journals) .81 اقبال،سہ ماہی مجلہ بزم اقبال،جلدنمبر۱۷،شمارہ نمبر۲،اکتوبر۱۹۶۸ء .82 اقبال ریویو،مجلہ اقبال اکادمی پاکستان، کراچی،جلدنمبر۵،شمارہ نمبر۲،جولائی ۱۹۶۴ء .83 اقبال ریویو،مجلہ اقبال اکادمی پاکستان،جلدنمبر ۱۵،شمارہ نمبر۲،جولائی ۱۹۷۴ء .84 اقبال ریویو،مجلہ اقبال اکادمی پاکستان،جلدنمبر۱۶،شمارہ نمبر۲،جولائی ۱۹۷۵ء .85 اقبال ریویو،مجلہ اقبال اکادمی پاکستان،جلدنمبر ۵ ۲،شمارہ نمبر۴،۱۹۸۵ء .86 سائنسی موضوعات،مغربی پاکستان اردواکیڈیمی ،لاہور،سلسلۂ مطبوعات۴،۱۹۶۲ء .87 صحیفہ،اقبال نمبر(حصہ اوّل)،مجلس ترقی ادب لاہورکاعلمی مجلہ،شمارہ نمبر۶۵،اکتوبر۱۹۷۳ء .88 فاران۲۰۰۰ئ،مجلہ،گورنمنٹ اسلامیہ کالج،سول لائنز،لاہور (کتب انگریزی) :English Books Abdul Khaliq,Dr,Qur'an Studies,A Philosophical Exposition,July 1990, Lahore:Victory Book Bank 89. Allport,Gorden W, Personality:A Psychological In ter pr eta ti o n, 1938, London:Constable and Company Ltd 90. Angell,Richard B,Reasoning and Logic,1964,New York,Appleton -Century-Crofts 91. Asimov,Issac,The Intelligent Man's Guide to Science,volume one,The Physical Sciences,3rd ed,1961,New York:Basic Books , Inc 92. Bashir Ahmad Dar,Iqbal and Post-Kantian Voluntarism,2nd 93. ed ,1965, Lahore:Bazm-i-Iqbal,Club Road Burnet,John,Greek Philosophy(Thales to Plato),13th ed(reset and reprinted edition),1964,MaCmillian & Co,Ltd 94. Chase,Warren & Fred Bown,General Statistics,N.Y,John Wiley & Sons,Inc 95. Copi,Irving M,Introduction to Logic,5th ed,1978 New York, N.Y, Macmillian Publishing Co,Inc,New York, and London:Collier Macmillian Publishers 96. Dumitriu,Anton,History of Logic,vol:1,1991,New Delhi:Heritage Publishers 97. Dumitriu,Anton,History of Logic,vol:2,1991,New Delhi:Heritage Publishers 98. Fowler,Thomas,The Elements of Inductive Logic,6th ed,1892, Oxford:At the Clarendon Press 99. Freud,Sigmund,The Future of an Illusion,Eng tr.by W.D. Robson -Scott,7th ed,1955,London:The Hogarth Press,Ltd, and the Institute of Psychoanalysis 100. Freud,Sigmund,Introductory Lectures on Psychoanalysis,Eng tr.by,Riviere Joan,8th ed,1949,George Allen and Unwin,Ltd, and International Institute 101. Freud,Sigmund,New Introductory Lectures on Psychoanalysis, Eng tr.by W.J.H Sprott,1st ed, 1933 , London : Hogarth Press,Ltd, and the Institute of Psychoanalysis 102. Jamila Khatoon,The Place of God,Man and Universe in the Philosophic System of Iqbal,1st ed,1963,Karachi:Iqbal Academy Pakistan 103. Jeavons,W.Stanley,Elementary Lessons in Logic.Deductive and Inductive,23rd ed,1905,London:MaCmillian & Co 104. Jevons,Frank Byron,A History of Greek Literature,2nd ed,1889, London:Charles Griffin and Company 105. Johnson,W.E,Logic,part II,1922,Cambridge,at the University Press 106. Kipling,Rudyard,The Collected Verses,October,1907,New York:Doubleday,Doran & Company,Inc 107. Kirk,G.S,The Nature of Greek Myths,1974,Middlesex,Penguine Books 108. Mellone,Sydeny Herbert,An Introductory Book of Logic,9th ed, N.YLondon:William Blackwood & Sons Ltd 109. Mellone,Sydeny Herbert,Elements of Modern Logic,1934, London:University Tutorial Press Ltd 110. Mill,John Stuart,A System of Logic,Ratiocinative and Inductive , 1986,people ed,London: Longmans Green and Co 111. Minto,William,Logic Inductive and Deductive,6th ed,1909, London:John Murray,Albemarle Street 112. Muhammad Iqbal,The Development of Metaphysics in Persia , N.Y,Lahore:Bazm-i-Iqbal,Club Road 113. Muhammad Iqbal,Allama,The Reconstruction of Religious Thought in Islam,edited and annotated by,M.Saeed Sheikh,2nd ed,April 1989,Iqbal Academy Pakistan and Institute of Islamic Culture 114. Muzaffar-ud-din,Syed,Muslim Thought and its Source, 1933, Calcutta:Syed Zahirullah Nadvi,4 Syed Ismail Lane 115. Nicholson,Reynold .A,(Eng.tr),The Secrets of The Self, 1955, Lahore:Sh.Ashraf,Kashmiri Bazar 116. Qadir,Dr.C.A,Philosophy and Science in the Islamic World,1988, London:Croom Helm 117. Rizvi,Dr.Syed Azhar Ali,Muslim Tradition in Psychotherapy and Modern Trends,1st ed,1989,Lahore:Institute of Islamic Culture, Club Road 118. Runes,Dogobert D,Pictorial History of Greek Philosophy, 1959, New York:Philosophical Library, 119. Runes,Dogobert D,(editor),Treasury of World Philosophy , 1959 , New Jersey:Paterson,Littlefield,Adams & Co 120. Russell,Bertrand,History of Western Philosophy,1961, London: George Allen & Unwin Ltd 121. Sharif,M.M,(editor),A History of Muslim Philosophy,vol:1,1963, West Germany:Otto Harrassowitz,Wiesbaden 122. Singer,Charles,A Short History of Science to the Nineteenth Century, reprinted edition,1943,Great Britain:Oxford at the Clarendon Press 123. Stace,W.T,A Critical History of Greek Philosophy , 1962 ,London : MaCmillian & Co,Ltd 124. Stebbing,L.S,A Modern Introduction to Logic,8th ed,1953, London: Methven & Co,Ltd 125. English Journals (انگریزی مجلے) : 126. Al-Hikmat, A research journal of Department of Philosophy , University of the Punjab, Lahore:Pakistan,vol 20, 2000 127. Iqbal Review,Journal of the Iqbal Academy,Pakistan,vol xv,No 3,Oct 1974 128. The Pakistan Philosophical Journal,vol 1,No 2,October 1957 129. The Pakistan Philosophical Journal,vol 2,No 4,April 1959 130. Proceedings of The Pakistan Philosophical Congress,11th session,14-17 April,1964 Hyderabad