افغانستان میں اقبال شناسی کی روایت ڈاکٹرعبدالرئوف رفیقی ؔ اقبال اکادمی پاکستان لاہور انتساب خالد مندو خیل زاہد مندوخیل اور شاہد مندوخیل کے نام ڈاکٹر رفیقی فہرست نمبر شمار عنوان صفحہ نمبر ۱ تمہید باب اول اقبال کی افغان دوستی اور افغانوں کی اقبال دوستی (الف) : اقبال کی افغان دوستی ۱ ۱ ۲ افغانستان کا مختصر تاریخی جائزہ ۱ ۳ کلامِ اقبال میں مشاہیر افاغنہ کا تذکرہ ۴ i ۔ احمد شاہ ابدالی ۴ ii ۔ جلال الدین بلخی رومیؒ ۷ iii ۔ سید جمال الدین افغانی ؒ ۹ iv۔ حکیم سنائی غزنویؒ ۱۱ v۔ خوشحال خان خٹکؒ ۱۴ vi ۔ سلطان محمود غزنویؒ ۱۵ vii ۔ شیرشاہ سوریؒ ۱۸ viii ۔علی ہجویریؒ ۱۹ ix۔ فخرالدین رازیؒ ۲۱ x۔ محمد نورالدین جامیؒ ۲۳ ۴ کلامِ اقبال میں معاصر افغان شخصیات کا تذکرہ ۲۴ نمبر شمار عنوان صفحہ نمبر i۔ غازی امان اللہ خان ۲۴ ii۔ اعلیٰ حضرت محمد نادرشاہ غازی ۲۹ iii۔ المتوکل علی اللہ محمد ظاہر شاہ ۳۳ iv۔ مکتوبات اقبال میں افغان، افغانستان اور پشتو زبان کا تذکرہ ۵ اقبال کے افغانوں سے وابستہ توقعات ۳۷ (ب): افغانوں کی اقبال دوستی ۴۰ ۶ اقبال سے افغانوں کے مراسم ۴۰ ۷ علامہ کا سفرِ افغانستان ۵۳ ۸ افغانوں کی پذیرائی ۷۴ باب دوم افغانستان میں اقبال شناسی کی روایت کا آغاز الف: افغانستان کے پہلے اقبال شناس ب: افغانستان میں اقبال شناسی آغاز تا ۲۱ / اپریل ۱۹۳۸ء ج: افغانستان میں پہلا اقبال ڈے اور دیگر تقاریبِ اقبال ۸۶ ۸۶ ۸۷ ۱۰۹ ۹ الف: افغانستان میں اقبالیاتی کتب کا مختصر تحقیقی جائزہ ۱۱۲ i ۔ ƒ'„پنہ د علامہ اقبال پہ نظر œ'* ۱۱۲ ii۔ آثاراُردوی اقبال جلد اول آثار اُردوی اقبال جلد دوم ۱۱۴ ۱۲۷ iii۔ افغانستان و اقبال ۱۴۰ iv۔ یارِ آشنا ۱۴۲ v۔ از سنائی تا مولانا و اقبال ۱۴۳ نمبرشمار عنوان صفحہ نمبر vi۔ لالی ریختہ ۱۴۳ vii۔ معنی عشق نزد اقبال ۱۴۴ viii۔ افغانستان از زبان علامہ اقبال ix۔ علامہ اقبال در ادب فارسی و فرھنگ افغانستان x۔ اکسیر خودی ب: افغانستان میں اقبال شناسی چند دیگر منابع i۔ اقبال اور افغانستان ii۔ سیر اقبال شناسی در افغانستان iii۔ اقبال افغان اور افغانستان باب سوم افغانستان میں اقبال شناسی کا ارتقاء ۱۵۱ ۱۰ پہلا دور ۲۲/ اپریل ۱۹۳۸ء تا ۱۹۵۰ء ۱۵۱ ۱۱ دوسرا دور ۱۹۵۱ء تا ۱۹۷۷ء ۱۶۴ ۱۲ تیسرا دور ۱۹۷۸ء تا ۲۰۰۲ء ۱۸۴ باب چہارم افغانستان کے پشتون اقبال شناس ۲۱۷ ۱۳ احمد صمیمؔ ۲۱۷ ۱۴ احمد علی خان درانی ؔ ۲۱۹ ۱۵ حبیب اللہ رفیع ؔ ۲۲۰ ۱۶ خلیل اللہ خلیلیؔ ۲۲۳ ۱۷ سرور خاں گویا اعتمادی ۱۸ عبدالباری شہرت ننگیال ۲۴۱ نمبر شمار عنوان صفحہ نمبر ۱۹ علامہ عبدالحی حبیبیؔ ۲۴۴ ۲۰ عبدالرحمن پژواکؔ ۲۵۸ ۲۱ عبدالرئوف بینواؔ ۲۶۱ ۲۲ سر محقق عبداللہ بختانی خدمتگار ۲۶۵ ۲۳ عبدالہادی داوی پریشانؔ ۲۷۱ ۲۴ عزیز الدین وکیلی پوپلزئی ۲۷۴ ۲۵ غلام دستگیر خان مہمندؔ ۲۷۵ ۲۶ قیام الدین خادم ۲۷۷ ۲۷ گل باچا الفتؔ ۲۸۲ ۲۸ محمد رحیم الہامؔ ۲۸۶ ۲۹ محمد صادق فطرت ناشناسؔ ۲۹۱ باب پنجم افغانستان کے فارسی گو اقبال شناس ۲۹۸ ۳۰ ڈاکٹر اسد اللہ محقق ۲۹۸ ۳۱ حیدری وجودی ۳۲ رحمت اللہ منطقی ۳۳ ڈاکٹر سعید ۳۴ صلاح الدین سلجوقی ؔ ۳۰۲ ۳۵ صدیق رھہپوؔ ۳۱۴ ۳۶ صوفی عبدالحق بیتابؔ ملک الشعراء ۳۱۵ ۳۷ قاری عبداللہ ملک الشعراء ۳۱۷ ۳۸ عزیز اللہ مجددی نمبر شمار عنوان صفحہ نمبر ۳۹ غلام جیلانی اعظمی ؔ ۳۲۳ ۴۰ پروفیسر غلام حسن مجددیؔ ۳۲۴ ۴۱ غلام ربانی ادیب ۴۲ غلام رضا مائل ہرویؔ ۳۲۵ ۴۳ محمد ابراہیم خلیلؔ ۳۲۸ ۴۴ سید محمد قاسم رشتیا ؔ ۳۳۲ ۴۵ میر بھادر واصفی باب ششم افغانستان میں مقالاتِ اقبال کے مشمولات ۳۳۹ ۴۶ پیامِ مشرق از عبدالہادی داویؔ ۳۳۹ ۴۷ دکتور اقبال (فارسی) از سرور خان گویاؔ ۳۴۴ ۴۸ علامہ اقبال (فارسی) از احمد علی خان درانی ۳۴۶ ۴۹ تنزل و انحطاط اسلام (فارسی) از محمد سکندر خان ۳۵۲ ۵۰ تقریظ بر’’مسافر‘‘ (فارسی) از سرور خان گویا ۳۵۴ ۵۱ وفاتِ اقبال شاعر و فیلسوف شہیر(فارسی) از سید قاسم رشتیا ۳۵۷ ۵۲ اقبال و افغانستان (فارسی) از غلام جیلانی اعظمی ۳۵۷ ۵۳ اقبال (آریانا دائرۃ المعارف) (فارسی و پشتو) از عبدالرزاق فراہی ۳۶۱ ۵۴ افغانستان و اقبال (فارسی) از سرورخان گویا ۳۶۴ ۵۵ د خوشحال او اقبال د اشعارو حٔنی مشترکہ خواوی(پشتو) از عبداللہ بختانی خدمتگار ۳۶۹ ۵۶ فلسفۂ اقبال(فارسی) از پروفیسر ڈاکٹر غلام حسن مجددی ۳۷۴ نمبر شمار عنوان صفحہ نمبر ۵۷ د علامہ اقبال پہ باب (پشتو) از پروفیسر عبدالشکور رشاد ۳۷۷ ۵۸ د ختیحٔ ستر شاعر (پشتو) از سوبمن ۳۸۰ ۵۹ اقبال و افغانستان (فارسی) از دکتور حق شناس ۳۸۴ ۶۰ بزرگ داشت اقبال بزرگ (فارسی) از دکتور سید خلیل اللہ ہاشمیان ۳۸۸ ۶۱ امروز زدای برای فردا(فارسی) از نائل لاجورد بنشہری ۳۹۳ ۶۲ افغانستان در آئینہ قرآن (فارسی) از احمد جان امینی ۳۹۶ ۶۳ ساعتی درخدمت علامہ اقبال (فارسی) از سید قاسم رشتیا ۳۹۹ ۶۴ قلب آسیا گذرگاہ ، و نظر گاہ علامہ اقبال(فارسی) از سر محقق عبداللہ بختانی خدمتگار ۴۰۳ ۶۵ اقبال د خوشحال ر'„¤ * مینہ وال (پشتو) از محمد آصف صمیم ۴۰۷ ۶۶ متعلقاتِ مقالہ i جدول نمبر ۱۔ علامہ سے ملاقات کرنے والے افغان ادباء و شعراء اور دانشور ۴۱۸ ii جدول نمبر۲۔ علامہ سے ملاقات کرنے والے افغان خواص زعماء اربابِ اختیار اور دیگر حضرات ۴۱۹ iii جدول نمبر۳۔ افغانستان کے پشتون اقبال شناس ۴۲۱ iv جدول نمبر۴۔ افغانستان کے فارسی گو اقبال شناس ۴۲۲ v جدول نمبر۵۔ مجلہ کابل کی اقبالیاتی خدمات ۴۲۳ vi جدول نمبر۶۔ دیگر مطبوعات کے اقبالیاتی خدمات ۴۲۵ نمبر شمار عنوان صفحہ نمبر vii جدول نمبر۷۔(الف)۔ افغانستان میں اقبال کو منظوم خراجِ تحسین فارسی ۴۲۶ viii (ب)۔ افغانستان میں اقبال کو منظوم خراجِ تحسین پشتو ۴۲۷ ix جدول نمبر ۸۔ علامہ کا سفرِ افغانستان ۴۲۸ x جدول نمبر۹۔(الف)افغانستان میں اقبالیاتی کتب (ب) افغانستان میں اقبال شناسی چند دیگر منابع باب ہفتم ۶۷ کتابیات ۴۳۰ فہرست عکوس متعلقہ ۱ علامہ کے روحانی مرشد جلال الدین بلخی رومیؒ ۲ علامہ کے سیاسی مرشد جمال الدین افغانی ؒ ۳ علامہ کے ادبی پیشرو حکیم سنائی غزنویؒ ۴ جاوید منزل لاہور۔ علامہ کی خواب گاہ میں نادرشاہ کا عکس ۵ مجلہ کابل ۵/ مارچ ۱۹۳۱ء بعض متعلقہ صفحات ۶ مجلہ کابل ۲۲/ جون ۱۹۳۲ء بعض متعلقہ صفحات ۷ مجلہ کابل ۲۲/ اگست ۱۹۳۲ء بعض متعلقہ صفحات ۸ مجلہ کابل ۲۲/ دسمبر ۱۹۳۲ء بعض متعلقہ صفحات ۹ سالنامہ کابل ۲۲/ اگست ۱۹۳۲ء بعض متعلقہ صفحات ۱۰ مجلہ کابل ۲۲ / دسمبر ۱۹۳۲ء بعض متعلقہ صفحات ۱۱ جلال آباد کے شاہی باغ کا منظر۱۹۳۳ء ۱۲ علامہ اور ان کے ہمسفر باغ بابر کا بل ۱۹۳۳ء ۱۳ علامہ اور ان کے میزبان کابل ۱۹۳۳ء نمبر شمار عنوان صفحہ نمبر ۱۴ علامہ کے اعزاز میں انجمن ادبی کابل کی ضیافت ۱۹۳۳ء ۱۵ مزارِ حکیم سنائی غزنوی ۱۹۳۳ء ۱۶ مزارِحکیم سنائی غزنوی موجودہ حالت ۱۷ حکیم سنائی غزنوی کے مزار کا اندرونی منظر ۱۸ سلطان محمود غزنوی کے مزار کا بیرونی منظر ۱۹ سلطان محمود غزنوی کا سنگِ مزار ۲۰ حضرت داتا گنج بخش ؒکے والد عثمان ہجویریؒ کے مزار کا گنبد ۲۱ حضرت داتا گنج بخش ؒکے والد کے مزار کا اندرونی منظر ۲۲ قندہار کا جادہ ارگ شاہی ۱۹۳۳ء ۲۳ اعلیٰ حضرت احمد شاہ ابدالی کے مزار کا بیرونی منظر ۱۹۳۳ء ۲۴ احمد شاہ ابدالی کے مزار کا اندرونی منظر ۱۹۳۳ء ۲۵ قندہار کی سرکاری رہائش گاہ ۱۹۳۳ء ۲۶ قندہار کے بعض حکومتی دفاتر ۱۹۳۳ء ۲۷ بعض افغان اقبال شناس ۱۹۳۳ء ۲۸ انجمن ادبی کابل کے اراکین کا گروپ فوٹو ۱۹۳۳ء ۲۹ لاہور ریلوے اسٹیشن پر علامہ کا صلاح الدین سلجوقی کے ساتھ گروپ فوٹو ۳۰ علامہ عبدالحئی حبیبی ۳۱ عبدالحق بیتاب ملک الشعراء افغانستان ۳۲ مجلہ کابل ۲۳/ دسمبر ۱۹۳۴ء مثنوی مسافر کی تقریظ ۳۳ مجلہ کابل ۲۲/ مارچ ۱۹۳۵ء بعض متعلقہ صفحات نمبر شمار عنوان صفحہ نمبر ۳۴ مجلہ کابل مئی جون ۱۹۳۸ء علامہ کے وفات سے متعلق بعض مشمولات کے عکوس ۳۵ مجلہ کابل ستمبر اکتوبر ۱۹۳۹ء ’’خودی در نظراقبال‘‘ ۳۶ مجلہ کابل دلو ۱۳۲۳ھ ش خطاب بہ او قیانوس ۳۷ افغانستان سے بھیجاگیا علامہ کا سنگِ مزار ۳۸ کابل کے پاکستانی سفارتخانے میں یومِ اقبال کی تقریب: ڈاکٹر غلام حسن مجددی مقالہ پیش کررہے ہیں ۳۹ کابل کے پاکستانی سفارتخانے میں یومِ اقبال کے موقع پر پروفیسر عبدالشکور رشادؔ مقالہ پیش کررہے ہیں ۴۰ افغانستان میں اقبال پر پہلی کتاب لکھنے والا سکالر عبد اللہ بختانی ۴۱ علامہ پر شائع ہونے والی پہلی کتاب کا سرورق ۴۲ بختانی کا مقالہ خوشحال اوراقبال کے مشترک نکات ۴۳ افغان صدر سردار داور خان شہید کے ہاتھ کی لکھی ہوئی نشری تقریر جس میں ارمغانِ حجاز کا شعر موجود ہے ۴۴ مجلہ کابل دسمبر ۱۹۷۷ء اقبال پر مقالہ ۴۵ فارسی میں علامہ پر دو جلدوں میںکتاب لکھنے والا سکالرعبدالہادی داویؔ ۴۶ ’’آثار اردوی اقبال‘‘ جلد اول کا سرورق ۴۷ ’’آثار اردوی اقبال‘‘ جلد دوم کا سرورق ۴۸ مجلہ کابل نومبر دسمبر ۱۹۷۷ء علامہ کے صد سالہ جشن ولادت کے لئے صدر افغانستان کا پیغام نمبر شمار عنوان صفحہ نمبر ۴۹ علامہ کی صد سالہ جشن ولادت کی تقریبات کے سلسلے میں صدیق رھہپو کی کتاب ’’افغانستان و اقبال ‘‘کا سرورق ۵۰ بعض افغان اقبال شناس ۵۱ دکتور حق شناس کے مقالے ’’اقبال و افغانستان ‘‘مطبوعہ مجلہ میثاق خوں ایک صفحہ ۵۲ اخبار’’ شہادت ‘‘میں علامہ سے متعلق تحریر کا عکس ۵۳ اخبار ’’قلب آسیا ‘‘کا عکس ۵۴ اخبار’’ افغانان‘‘ کا عکس ۵۵ ’’خون کی پکار‘‘کے بیک ٹائٹل کا عکس ۵۶ اقبال شناس سید قاسم رشتیا سابق افغان بادشاہ اعلیٰ حضرت محمد ظاہر شاہ کے ساتھ ۵۷ مجلہ ’’سپیدی‘‘ کا عکس ۵۸ ’’مجلہ منبع الجہاد‘‘ علامہ کے اشعار ۵۹ مجلہ ’’ہجرت‘‘ افغان مجاہدین نماز کے دوران کیپشن میں علامہ کا شعر ۶۰ مجلہ ’’د شہید زیری‘‘ علامہ کے اشعار ۶۱ مجلہ ’’شفق‘‘ علامہ کی رباعی ۶۲ مجلہ ’’شہید پیغام‘‘علامہ کا ’’از پیام مصطفی آگاہ شو‘‘ ۶۳ مجلہ ’’قلم‘‘’’علامہ کا جنگ است ہنوز‘‘ ۶۴ مجلہ ’’WUFA ‘‘اقبال کا آسیایک پیکر آب و گل است ۶۵ کلیات خلیل اللہ خلیلی میں دمی با اقبال اور دیگر اقبالیاتی منظومات نمبرشمار عنوان صفحہ نمبر ۶۶ ’’دردِ دل و پیامِ عصر‘‘ عبدالحئی حبیبی کی کتاب کے بعض اقبالیاتی حوالے ۶۷ ہفت روزہ ’’وفا‘‘ میں ڈاکٹر الہام کا ’’جواب مسافر‘‘ ۶۸ سید قاسم رشتیا کا ۱۹۳۵ء میں علامہ سے ملاقات کی یاداشت پر مبنی تحریر’’ ساعتی درخدمت علامہ اقبال‘‘ ۶۹ افغانستان کے مشہور خطاط عزیز الدین وکیلی پوپلزائی ہفت قلمی کے خطاطی کردہ کلامِ اقبال کے چند نمونے خخخخخخ سپاس وتشکر ’’افغانستان میں اقبال شناسی کی روایت‘‘ تحقیقی مقالہ لکھتے وقت مختلف احباب نے علمی و تحقیقی تعاون فرمایا۔ جس کے لئے میں ان سب حضرات کا شکر گزار ہوں ۔ان حضرات میں اسلام آباد، پشاور اور کراچی کے وہ کرم فرما شامل ہیں جن کو میں وقتاً فوقتاً علمی معا ونت کی زحمت دیتا رہا ۔ ان تمام حضرات نے تحقیق کی پُرپیچ راہوں کو مسلسل حوصلے اور رہنمائی سے میرے لئے سہل بنایا۔ ان کے علاوہ محمد ظاہرحٔرک قندھار، آصف صمیم ننگرہار جلال آباد، جناب اسد اللہ دانش پشاور، جناب اکرام اللہ شاہدؔ مردان،جناب میاں وکیل شاہ فقیر خیل ساول ڈھیر مردان، غلام رسول بلوچ ؔلائبریرین گورنمنٹ کالج چمن، جناب عیسیٰ کریمیؔ ڈائریکٹر خانہ فرہنگ ایران کوئٹہ، پروفیسر شرافت عباس سربراہ شعبہ فارسی جامعہ بلوچستان نے وقتاً فوقتاً حصولِ مواد میں کافی مدد فرمائی ہے۔ اس کے لئے ان سب حضرات کا سپاس گزار ہوں۔ جناب حمداللہ صحافؔ کا خاص طور پر تہہ دل سے مشکور ہوں جن کے غنی کتب خانے سے مجھے استفادہ حاصل کرنے کا موقع میسر ہوا۔ رفیقۂ حیات رحمت اچکزئی کاذکر کرنا چاہتا ہوں جن کا تعاون مقالہ کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے میں معاون ثابت ہوا۔ عبدالرئوف رفیقی حبیبی اکیڈیمی حاجی مدد خان مینہ نئی آبادی چمن ۶ اگست ۲۰۰۳ء مقدمہ افغانستان سے متعلق حضرت علامہ کے گراں قدر منظوم افکار حصہ تاریخ بن چکے ہیں۔ یہ والہانہ اور عقیدت مندانہ افکار افغانستان اور افغانوں سے علامہ کی محبت اور توقع کے مظہر ہیں۔ انہی افکار اور خیالات کے جائزے سے متعلق افغانستان اور اقبال کے حوالے سے اربابِ علم و دانش کی متعدد تحریریں موجود ہیں۔ جن میں ذیل خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں: ۱۔ ’’ƒ'„پنہ د علامہ اقبال پہ نظر œ'* ‘‘(افغان اقبال کی نظر میں) از سر محقق عبداللہ بختانی مطبع دولتی کابل۱۳۳۵ھ ش ۲۔ ’’اقبال افغانستان میں ‘‘ از ڈاکٹر محمد ریاض ماہانہ المعارف لاہور مئی ۱۹۷۷ء ۳۔ ’’اقبال و افغانستان ‘‘ غلام جیلانی اعظمی مطبوعہ مجلہ کابل مئی جون ۱۹۳۸ء ۴۔ ’’اقبال اور افغان ‘‘ از میر عبدالصمد یونیورسٹی بک ایجنسی پشاور ۵۔ IQBAL & THE AFGHANS" " از ڈاکٹر ظہور احمد اعوان مقالہ پی ایچ ڈی ایریا سٹڈی سنٹرپشاور یونیورسٹی ۶۔ ـ’’اقبال اور افغانستان ‘‘ از اکرام اللہ شاہد مقالہ ایم فل علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد ۱۹۹۸ء ۷۔ ’’پشتو شاعر ی پر اقبال کے اثراتــ‘‘ از عبدالروف رفیقی مقالہ ایم فل علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد ۲۰۰۰ء البتہ افغانستان میں اقبال شناسی کے حوالے سے تحقیقات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اس موضوع پر صرف ایک ہی مقالہ افغانستان اور ایران میں اقبال پر مقالات اور کتب (مطبوعہ اقبال ممدوح عالم مرتبہ ڈاکٹر سلیم اخترمطبوعہ بزم اقبال لاہور ۱۹۷۷ئ) میں ڈاکٹر ریاض مرحوم نے بعض ابتدائی کام کی نشاندہی کی ہے۔ اس کے علاوہ افغانستان میں صدیق رھہپو نے ’’افغانستان و اقبال‘‘ کے نام سے ایک کتاب شائع کی جس میں افغانستان میں علامہ پرلکھی جانے والی بعض تحریرات کو یکجا کیا گیا ہے۔ اس وقت جب دنیا کے گوشے گوشے میں اقبال شناسی کے حوالے سے منظم تحقیقات ہو رہی ہیں۔ اور اقبالیات ایک مستقل موضوع بن گئی ہے۔ تو گویا اقبال کے محبوب دیار اور ان کے باسیوں کے لئے اپنے اس مربی و محسن کی خدمات سے بے خبر ہونا کیسے ممکن تھا انہی نکات کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے افغانستان میں اقبال شناسی کی روایت پر اس مقالے میں تحقیق کی گئی ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ افغانستان میں اقبال شناسی کی ابتداء حیاتِ اقبال ہی میں ہوچکی تھی۔ مگر یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ گذشتہ ڈھائی دھائیوں کے دوران افغانستان میں مسلسل جنگ نے دیگر شعبوں کی طرح وہاں اقبال شناسی کو بھی کافی نقصان پہنچایا ہے۔ مقالے کے لکھنے کے دوران مجھے کافی دقتوں کا سامنا کرنا پڑا۔ مگر الحمداللہ تقریباً پچانوے فیصد مأ خذات میری ذاتی لائبریری میں موجود تھیں بقیہ پانچ فیصد مأخذات کے حصول کے لئے میں جن صعوبتوں سے گزرا ہوں اس کا اندازہ تحقیق کے پُر پیچ راہوں سے آشنا ارباب تحقیق ہی کرسکتے ہیں۔ مقالے کا پہلا باب اقبال کی افغان دوستی اور افغانوں کی اقبال دوستی کے حوالے سے ہے۔ اقبال کی افغان دوستی کے سلسلے میں پہلے افغانستان کا مختصر تاریخی جائزہ پیش کیا گیاہے۔ پھر کلامِ اقبال میں مشاہیر افاغنہ کے تذکرے پر تحقیق کی گئی ہے۔ ان مشاہیر میں احمد شاہ ابدالی ، جلال الدین بلخی رومیؒ، سید جمال الدین افغانی،حکیم سنائی غزنویؒ، خوشحال خان خٹک، سلطان محمود غزنوی، شیر شاہ سوری، علی ہجویری، فخرالدین رازی اور محمد نورالدین جامیؒ شامل ہیں۔اور ان کے ناموں کی ترتیب حروفِ تہجی کے اعتبار سے ہے۔ اس کے علاوہ معاصر افغان شخصیات میں غازی امان اللہ خان اعلیٰحضرت محمد نادر شاہ اور المتوکل علی اللہ محمد ظاہر شاہ پر کلامِ اقبال میں ان کے تذکرے کی روشنی میں تحقیق کی گئی ہے۔ جبکہ افغانوں کی اقبال دوستی کے سلسلے میں حضرت علامہ سے افغانوں کے مراسم، علامہ کا سفرِ افغانستان اور افغانوں کی پذیرائی کے حوالے سے تحقیق کی گئی ہے۔ باب دوم میں افغانستان میں اقبال شناسی کی روایت کے آغاز پر تحقیق موجود ہے۔ اس باب کے ضمنی عنوانات کے تحت افغانستان کے ابتدائی اقبال شناسوں پر تحقیق کی گئی ہے اس کے علاوہ افغانستان میں حضرت علامہ کی شخصیت ، فکر اور فن کے حوالے سے لکھی جانے والی مطبوعہ کتابوں پر تحقیق کی گئی ہے۔ باب سوم افغانستان میں اقبال شناسی کی ارتقاء سے متعلق ہے اس ارتقائی سفر کو مزید تین ادوار میں تقسیم کیا گیا ہے ۔ ان ادوار کی تقسیم مختلف ترجیحات کی بنیاد پر کی گئی ہے۔ جن میں پہلا دوربعد از وفات حضرت علامہ۲۲ٌاپریل ۱۹۳۸ء تا ۱۹۵۰ء ہے دوسرا دور ۱۹۵۰ء تا ۱۹۷۷ء ہے جس میں علامہ کے صد سالہ جشن ولادت کی تقریبات ہوئی تھیں۔ تیسرا دور ۱۹۷۸ء سے شروع ہوکر ۲۰۰۳ء (تادمِ تحقیق) پر مشتمل ہے۔ ۱۹۷۸ء میں افغانستان ایک خونی انقلاب سے دو چار ہوتا ہے۔ مختلف جہادی تنظیمیں افغانستان میں روسی فوجوں کو پسپائی پر مجبور کردیتی ہیں جو قندہار و غزنیں کے کوہساروں اور بیابانوں سے بلند ہونے والی تکبیر کی ان صدائوں نے کریملن کے غرور کو خاک میں ملا دیا۔ وسطی ایشیا ئی ریاستوں کو اسی طفیل ایک بار پھر پروردگار نے نعمتِ آزادی سے سرفراز فرمایا۔ اس دوران افغان جہاد اور ان کے محرکات میں فکرِ اقبال کے اثرات پر بھی تحقیق کی گئی ہے۔ باب چہارم افغانستان میں پشتون اقبال شناسوں کے تعارف اور ان کے اقبالیاتی خدمات سے متعلق ہے۔ جو حروف تہجی کے لحاظ سے ترتیب دئے گئے ہیں ان میں سردار احمد علی خان درانی، حبیب اللہ رفیع، خلیل اللہ خلیلی، عبدالباری شہرت ننگیال، علامہ عبدالحئی حبیبی، عبدالرحمن پژواک، عبدالرئوف بینوا، سرمحقق عبداللہ بختانی، خدمتگار، عبدالہادی داوی پریشان، عزیز الدین وکیلی پوپلزئی، غلام دستگیر خان مہمند، قیام الدین خادم، گل باچا الفت ، محمد رحیم الہام اور ڈاکٹرمحمد صادق فطرت ناشناس شامل ہیں۔ جبکہ باب پنجم میں افغانستان کے فارسی گو اقبال شناسوں اور ان کے اقبالیاتی خدمات پر تحقیق پیش کی گئی ہے۔ یہاں بھی حروفِ تہجی کی ترتیب کو مدِ نظر رکھا گیا ہے۔ اور ان اقبال شناسوں میں سرور خان گویا، صلاح الدین سلجوقی، صدیق رھہپو، صوفی عبدالحق بیتاب ملک الشعرائ، قاری عبداللہ ملک الشعرائ، غلام جیلانی اعظمی، پروفیسر غلام حسن مجددی، غلام رضامائل ہروی، محمد ابراہیم خلیل اور سید محمد قاسم رشتیا شامل ہیں۔ باب ششم افغانستان میں مقالات اقبال کے مشمولات پر تحقیق کی گئی ہے ۔ ان افغانستان میں حضرت علامہ کے فکر و فن اور شخصیت کے مختلف پہلوئوں سے متعلق بیس منتخب مقالات کے مشمولات و مباحث پر تحقیق موجود ہے ان مقالات کا انتخاب ان کے معیار اور ان کے مباحث و مشمولات کی بنیاد پر کی گئی ہے۔ باب ہفتم میں کتابیات کی تفصیل دی گئی ہے۔ مقالے میں شامل مواد پر تحقیق کے دوران جن کتب سے استفادہ کیا گیا ہے۔ ان کی درجہ بندی جدید تحقیقی اصولوں کے مطابق کی گئی ہے۔ ان میں پہلے ہر زبان کے کتب کو الگ کرکے ان مصنفوں ، مؤلفین یا مرتبین کے ناموں کے الفبائی ترتیب سے ایک منظم فہرست بناتی ہے۔ اس کے بعد کتاب کا نام اور آخر میں ناشر، مطبع اور سنِ اشاعت ترتیب وار دئے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ مقالے میں سات عدد جدول بھی دئے گئے ہیں جن میں جدید ترین سائنسی تحقیقی اصولوں کے تحت نہایت اختصار کے ساتھ مقالے کے مختلف ابواب کی سمری پیش کی گئی ہے۔ ان جدولوں کی تفصیل ذیل ہے: جدول نمبر۱: حضرت علامہ سے ملاقات کرنے والے افغان ادباء ، شعراء اور دانشور ، نام ملاقات کنندہ ، تاریخ ملاقات، مقامِ ملاقات، مقصدِ ملاقات مأخذات، کیفیت۔ جدول نمبر۲: علامہ سے ملاقات کرنے والے افغان خواص ، زعمائ، اربابِ اختیار اور دیگر حضرات ، ملاقات کنندہ ، تاریخ و مقامِ ملاقات ، مقصد ملاقات ، مأخذات، کیفیت۔ جدول نمبر۳: افغانستان کے پشتون اقبال شناس۔ نام ،ولدیت، پیدائش تاریخ ومقام، وفات تاریخ و مقام، تصانیف ، اقبالیاتی خدمات جدول نمبر۴: افغانستان کے فارسی گو اقبال شناس۔ نام ، ولدیت، پیدائش ، تاریخ و مقام، وفات تاریخ و مقام، تصانیف، اقبالیاتی خدمات، کیفیت۔ جدول نمبر۵: مجلہ کابل کی اقبالیاتی خدمات۔ جدول نمبر۶: دیگر مطبوعات کے اقبالیاتی خدمات ۔ جدول نمبر۷: (ا) افغانستان میں اقبال کو منظوم خراج تحسین (فارسی)۔ (ب) افغانستان میں اقبال کو منظوم خراج تحسین( پشتو)۔ جدول نمبر۸: علامہ کا سفرِ افغانستان۔ جدول نمبر۹: (ا) افغانستان میں اقبالیاتی بحث۔ (ب) افغانستان میں اقبال شناسی چند دیگر مصادر۔ مقالے کے آخر میں مقالے کے مختلف مشمولات سے منطق نادر و نایاب مأخذات کے بعض متعلقہ حصہ جات کے عکوس بھی منسلک کئے گئے ہیں جن سے مقالے کے استناوی اہمیت میں اضافہ مقصود ہے۔ اب جبکہ مقالے کی تکمیل (۲۰۰۳ئ) اور اشاعت (۲۰۱۰ئ) میں عرصہ سات سال کا دورانیہ گذر گیا ہے۔ ان سات سالوں میں اس موضوع سے متعلق ذیل کتب شائع ہوئی ہیں: - اقبال اور افغانستان از اکرام اللہ شاہد ادارئہ اشاعت مدارالعلوم مردان نومبر ۲۰۰۲ء - سیراقبال شناسی در افغانستان از ڈاکٹر عبدالرئوف رفیقی مطبوعہ اقبال اکادمی پاکستان ۲۰۰۴ء - اقبال افغان اور افغانستان از محمد اکرام چغتائی۔ سنگ میل پبلی کیشنز لاہور ۲۰۰۴ء - علامہ اقبال در ادب فارسی و فرھنگ افغانستان از دکتر اسد اللہ محقق مرکز تحقیقات فارسی ایران و پاکستان اسلام آباد ۲۰۰۵ء - یار آشنا پیوند علامہ اقبال با افغانستان از خلیل اللہ خلیلی پیشگفتار و حواشی عارف نوشاہی۔ کتابخانہ استاد خلیل اللہ خلیلی انستتیوت شرقشناسی و میراث خطی اکادمی علوم جمھوری تاجیکستان دہ شنبہ ۲۰۱۰ء - اکسیر خودی جوھر پیام علامہ اقبال از داکتر سعید انجمن حمایت از انکشافات اجتماعی۔ مطبوعہ فجر موسۃ شراقی صبا کابل ۱۳۸۹ھ ش لہٰذا ان مصادر کو بھی بعد از تکمیل مقالہ میں شمال کیا اور جہاں ضروری سمجھا گیا وہاں ان مصادر سے استفادہ کیا گیا تا کہ مقالہ اپ ڈیٹ رہے لہٰذا محققین اور ناقدین حضرات سے اس امر کو بھی ملحوظ خاطر رکھنے کی استدعا ہے۔ پروردگار سے علمی دنیا کے لئے اس کاوش میں کمی بیشی و تقصیر ات کے لئے عفوہ اور سعی کو مشکور فرمانے کا خواستگار ہوں۔ ڈاکٹر عبدالرئوف رفیقی باب اول اقبال کی افغان دوستی اور افغانوں کی اقبال دوستی (الف): اقبال کی افغان دوستی:۔ (۱): افغانستان کا مختصر تاریخی جائزہ:۔ افغانستان ۲۹ درجے ۳۰ دقیقے اور ۳۸ درجے ۳۰ دقیقے طول البلد شمالی اور ۶۱درجے اور ۷۵ درجے عرض البلد مشرق کے درمیان واقع ہے۔ (۱) افغانستان کا رقبہ آٹھ سو مربع کلومیٹر ہے۔ (۲)جو زیادہ تر کوہستانی سلسلوں پر مشتمل ہے۔ معروف کوہستانی سلسلہ کوہِ ہندو کش شمال مشرق سے جنوب مغرب کی طرف تقریباً چھ سو کلومیٹر تک پھیلا ہوا ہے۔ جبکہ اسی کوہستانی سلسلے کا عرض سو کلومیٹر تک پہنچتا ہے۔ افغانستان کے اکثر دریا اسی کوہستانی سلسلے سے نکلتے ہیں ۔ افغانستان کے شمال میں وسطی ایشیائی مسلم ریاستیں۔ تاجکستان ازبکستان اور ترکمانستان جبکہ مغربی جانب ایران اور جنوب مشرق میں پاکستان واقع ہے۔ اسی طرح شمال مشرق کی طرف سے ایک پٹی واخان کے ذریعے چین اور پاکستان کے شمالی علاقہ جات سے ملتی ہے۔ شمال مشرق تا جنوب مغرب رقبہ ۱۳۵۰ کلومیٹر جبکہ عرض شمال تا جنوب نو سو کلومیٹر بنتا ہے،۔ افغانستان کی جنوبی سرحد بحیرہ عرب سے ۴۵۰ کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ (۳) افغانستان ایک قدیم تاریخی مملکت ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ’’قدیم وسط ایشیا سے ہندوستان آنے کا صرف ایک ہی زمینی راستہ تھاجو افغانستان کے شمال مغربی سرحدوں سے گزرتا ہے۔ عظیم ہمالیائی سلسلے کو پارکرکے اگرچہ چین کی حملہ آور فوجیں ضرور ہندوستان آئیں ۔ کبھی کبھی ان غیر متعین اور دشوار گزار راہوں سے منگول اور تاتار نسلوں کے لوٹ مار کرنے والے گروہ بھی ہندوستان کے علاقوں میں گھس آتے تھے اس کے باوجود یہ پہاڑی علاقے تاریخ میں کسی بھی مرحلے پر باہر سے آنے والوں کے لیے باقاعدہ اور مستقل گزرگاہ نہیں بن سکے۔(۴) عظیم ہمالیہ کے ان سلسلوں نے بہرحال مشرق کی طرف سے آنے والے تاتاری قبائل اور ان جیسے حملہ آوروں کو ہمیشہ ہندوستان میں آنے سے روکے رکھا ۔ عربوں کو چھوڑ کر جو سمندری راستوں سے ہندوستان میں داخل ہوئے تھے۔ آریا ، ترک، تاتار ، منگول، افغان، ستھین (Scythian )ان سے ملتے جلتے گروہ اور ایران اور توران کے حکمران ،خراسان ، ہرات قندہار، بلخ، دریائے کابل کے ذریعے اور ان علاقوں سے جنہیں اب ہم برطانوی بلوچستا ن کہتے ہیں، ہندوستان آئے تھے۔(۵) قدیم آریائی دور کا ایک اہم شہر بلخ جو ہزاروں سال قبل آریائی بادشاہوں کا مرکز تھا افغانستان میں واقع ہے۔ بلخ ہی اتنا متمدن تھا جو بعد از اسلام ام لبلاد مشہور ہوا۔ (۶) یہ وہی بلخ ہے جس میں علامہ کے مرشد جلال الدین بلخی رومی پیدا ہوئے جو مرید ہندی کے روحانی مرشد ٹھہرے۔ بلخ پر کشتاسب کے حامیوں کے قبضے سے افغانستان میں زردشت دور کا آغاز ہوتا ہے۔ پانچ سو قبل از مسیح کے اس مذہبی تحریک نے عوام کے ذہنوں سے فرسودہ خیالات کا صفایا کیا ۔ اس تبدیلی نے ان لوگوں کو نئی فکر ی روش سے آشنا کردیا۔ آریانا (قدیم افغانستان کا نام)میں تہذیب اقوام کے آریائی وزردشتی دور کے بعد آسوریوں اور ہخامنشیوں کا دور شروع ہوتا ہے۔ سیر وس کبیر (۵۴۹ - ۵۲۹ ق م) اور داریوش (۵۲۲ - ۴۸۵ق م) نے آریانا کی سرزمین کو دو حصوں قندھار اور باختر میں تقسیم کیا۔ اس کے بعد یہ علاقہ سکندر اعظم کی یلغار کا شکار ہوا۔ یہ سرزمین یونانی تہذیب و زبان سے بھی آشنا ہوئی ہے ۔ اشوکا مذہب بودائی اکثر مشرقی علاقوں میں ترقی کرتا ہے۔ (۷) ۱۲۰ قبل از مسیح میں کوشانیوں کے دوسرے دور کا عروج ہوتا ہے۔ کانیکشا سلطنت آریا کے تحت و تاج کا وارث بنتا ہے۔ کاپیسا یا موجودہ بگرام اس دور کے اہم تجارتی مراکز میں شمار ہوتا ہے۔ جو چین اور ہندوستان کے سنگم پر واقع ہے۔ بدھ مت مذہب کو ترقی ملتی ہے اور اس دور کے یادگار ۱۷۵ فٹ اور ۱۱۵ فٹ بلند بودھای ٔ مجسمے تعمیر ہوتے ہیں۔ جو تقریباً دو ہزار سال بعد ۲۰۰۱ء میں افغانستان میں طالبان حکومت کے ہاتھوں مسمار ہوئے۔ بدھائی دور کے بعد افغانستان میں اسلامی دور کا آغاز ہوتا ہے۔ روم و فارس کی فوجیں اسلامی جہادی لشکروں سے شکست کھاتی ہیں ۔ نویں صدی عیسوی میں جنوبی ہندوکش کے راستے اسلام بڑی کامرانی سے افغانستان میں داخل ہوتا ہے اور افغانستان سے ہوتا ہوا ہندوستان کا رُخ کرتا ہے۔ طاہر ہراتی اور یعقوب لیث صفاری زابلی کے ذریعے ۸۷۱ء میں کابل اسلامی سلطنت کے زیرِ نگین آتا ہے۔ طاہرہراتی بغداد اور دیگر عربی خطوں کا رُخ کرتا ہے اور خراسان اسلامی سلطنت کا مرکز بن جاتا ہے۔ ۲۰۶ ھ میں طاہر افغانستان کو عباس خلیفہ کے حوالے کردیتا ہے۔ یہاں سے افغانستان میں سامانیوں کا دور شروع ہوتا ہے جس کے جد امجد کا نام سامان خدا تھا۔ اموی دو رمیں بلخ میں یہ حکمران رہا۔ خراسان میں ان کے بیٹوں نے فتنہ انگیزوں کی سرکوبی کرکے عباسی خلیفہ مامون کا اعتماد حاصل کیا۔ علمی خدمات انجام دینے والا یہ خاندان تقریباً ایک سو دو سال تک حکمران رہا۔ (۸) عباسی دور میں افغانستان میں زبردست ترقی ہوتی ہے۔ اقتصادیات ، زراعت، صنعت ، تجارت ،مسکوکات،انتظامی امور ، جدید انتظامی ڈھانچہ وجود پاتا ہے۔ جبکہ مساجد کی تعمیر علم و ادب ، فکر و فرہنگ میں بھی اضافے ہوتے ہیں۔ (۹) اس کے بعد افغانستان میں غزنویوں کے درخشان اسلامی دور کا آغاز ہوتا ہے۔ جو ۳۵۱ ھ ق سے ۵۸۳ ھ ق تک رہتا ہے۔ سلطان محمود غزنوی خطبہ سے خلیفہ بغداد کا نام حذف کرکے اپنا نام شامل کرتا ہے۔ البیرونی ، ابنِ سینا، ابوالفتح بستی، ثعالبی، عبدالجبار العتبی، ابونصر مشکان، ابوالفضل بیہقی ، نصراللہ صاحب کلیلہ و دمنہ اور عبدالحئی گردیزی وغیرہ ، اس دورکے مشاہیر اربابِ علم و ادب تھے اور ابوالحسن ہجویری غزنویؒ کی’’ کشف المحجوب‘‘ اس دور کی یادگار ہے۔ (۱۰) آریانا کی سرحدیں اصفہان و ہمدان کے علاوہ ہندوستان تک پھیلیں۔ محمود نے اسلام کی احیاء و سربلندی کے لئے ہندوستان پر سترہ حملے کئے۔ اس کے بعد آریانا میں غوریوں کے اقتدار کا سورج طلوع ہوتا ہے۔ ۱۲۳۳ء میں افغانستان میں آخری غوری سلطان کی ہلاکت مغلوں کے ہاتھوں ہوئی ہے۔ تیموریوں کے دور کا آغاز ہوتا ہے۔ دسویں صدی ہجری کے اوائل میں کابل میں بابر کی حکومت ہوئی ہے۔ ۹۳۲ھ میں بابر ہندوستان کا رُخ کرتا ہے وہاں لودھی افغانوں کے سلطنت کو تاراج کرکے اپنی حکمرانی کا اعلان کرتا ہے۔ اس سلسلے کی کڑی شیرشاہ سوری کی سخت کوششوں اور کھٹن جدوجہد کے بعد دوبارہ ہندوستان میں افغان حکمرانی تک پہنچتی ہے۔ لیکن آہستہ آہستہ افغان کمزور ہوتے رہے اور صفویوں نے آریانا پر قبضہ جمایا۔ صفویوں کے مقابلے میں ایک مدبر افغان شخصیت میرویس خان نیکہ نبردآزما ہوتا ہے۔ صفویوں کو شکست دے کر افغانستان میں ہوتکیوں کے حکومت کادور شروع ہوتا ہے ۔ نادرشاہ افشار کی ہلاکت کے بعد ۱۱۶۰ھ ق میں احمد شاہ درانی افغانستان کا بادشاہ بن جاتا ہے۔ (۱۱) احمد شاہ درانی حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے درخواست پر اسلام کی سربلندی اور مسلمانوں کے تعاون کے سلسلے میں ہندوستان پر حملہ آور ہوتے ہیں۔ قندہار سے ہوتے ہوئے لاہور تا دہلی افغان حکومت کی داغ بیل ڈالتا ہے۔ اس نکتے کی طرف حضرت علامہ نے یوں اشارہ کیا ہے۔ جس کے دم سے دلی و لاہور ہم پہلو ہوئے آہ ! اے اقبال وہ بلبل بھی آج خاموش ہے (۱۲) احمد شاہ ابدالی نے ۲۵ سال تک برسرِ اقتدار رہنے کے بعد زمامِ حکومت اپنے بیٹے تیمور شاہ درانی کے حوالے کردی۔ احمد شاہ درانی کے گھرانے کے پاس تقریباً سو سال تک افغانستان کے تخت و تاج کا اختیار رہا۔ اس کے بعد محمد زئی خاندان کی حکمرانی شروع ہوئی ۔ امیردوست محمد خان ، امیر شیرعلی خان، امیر عبدالرحمن خان ، امیر حبیب اللہ خان ، امیر امان اللہ خان ، اعلیٰ حضرت محمد نادر شاہ شہید اور المتوکل علی اللہ محمد ظاہر شاہ افغانستان کے سربراہانِ حکومت رہے۔ (۱۳) افغانستان میں محمد زئی خاندان کا آخری حکمران سردار محمد دائود خان تھا جو تادمِ مرگ مادرِوطن کی نگہبانی کرتا رہا۔ ۲۷/ اپریل ۱۹۷۸ء کو ان کی شہادت کے بعد روس نواز پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی آف افغانستان نے نورمحمد ترکئی کی سربراہی میں زمامِ حکومت سنبھالی۔ (۱۴) ۸ / اور ۹/ اکتوبر ۱۹۷۹ء کی درمیانی شب پولیٹیکل بیورو کے حکم سے نور محمد ترکئی ہلاک کردیئے گئے۔ ۱۶ستمبر ۱۹۷۹ء کو حفیظ اللہ امین برسرِ اقتدار آئے مگر ۲۷ دسمبر ۱۹۷۹ء کو انہیں زخمی ہونے کے بعد پھانسی دی گئی۔ اس روز روس کے وفادار کمیونسٹ افغان رہنما ببرک کارمل کو اقتدار سونپا گیا۔ جن کے دورِ حکومت میں ۲۴ اور ۲۷دسمبر ۱۹۷۹ء کے درمیانی عرصہ میں سوویت فوجی افغانستان میں داخل ہوئے۔(۱۵) روسیوں کے خلاف افغانستان میں جہاد کااعلان کیا گیا۔ لاکھوں افغان مہاجر ہوئے۔ ہزاروں شہداء نے قربانیاں دیں۔ ببرک کارمل کے بعد ڈاکٹر نجیب اللہ برسرِ اقتدار آئے جنہیں ۱۹۹۸ء میں طالبان حکومت کے وجود میں آنے کے بعد کابل میں پھانسی دی گئی۔ چھ سال تک طالبان برسرِ اقتدار رہے۔ ۲۰۰۱ء میں یہاں ایک اور سپرپاور امریکہ نے روس کے انجام کے عبرت سے بے خبر ہوکر حملہ کیا۔ طالبان حکومت کے سقوط کے بعد اپنے من پسند حکومت کو تشکیل دیا۔ جس کے سربراہ حامد کرزئی ہیں۔ کلامِ اقبال میں مشاہیر افاغنہ کا تذکرہ:۔ علامہ چونکہ افغان قوم سے خاصے متاثر تھے چنانچہ ان کے کلام میں جا بجا افغان مشاہیر کے لئے توصیفی و تعریفی نکات ملتے ہیں۔ ذیل میں حروفِ تہجی کے ترتیب سے ان مشاہیرِ افاغنہ کا مختصر سوانحی تذکرہ اور ان سے منسوب پہلے اقبال کا اردو کلام اور بعد میں فارسی کلام درج کیا جاتا ہے۔ ۱۔ احمد شاہ ابدالیؔ:۔ نام: ا حمد خان مشہور بہ احمد شاہ درانی ابدالی ولدیت: زمان خان سدوزئی تاریخ و مقامِ پیدائش: ۱۱۳۵ھ ق / ۱۷۲۳ء ہرات وفات تاریخ و مقام: ۲۰ رجب المرجب ۱۱۸۶ھ ق بمقام توبہ اچکزی درہ کوژک ضلع قلعہ عبداللہ تدفین بمقام قندھار۔ دورانیہ حکومت: ۲۵ سال و فاتح پانی پت آثار و تالیفات: (۱): دیوان احمد شاہ ابدالی (پشتو) مطبوعہ قندہار،کابل،پشاور، کوئٹہ۔ (۲): علم گنج ( موضوع تصوف)۔ (۳): احمد شاہ بابا کے فارسی و عربی اشعار ۔ (۱۶) کلام اقبال میں تذکرہ احمد شاہ ابدالی:۔ نادر ابدالی سلطان شہید حصہ ابدالی: ؎ مرد ابدالی و جودش آیتی داد افغان را اساس ملتی آن شہیدان محبت را امام آبروی ہند و چین وروم و شام نامش از خورشید و مہ تابندہ تر خاکِ قبرش از من و تو زندہ تر عشق رازی بود بر صحرا نہاد توندانی جاں چہ مشتاقانہ داد از نگاہِ خواجۂ بد رو حنین فقر و سلطان وارثِ جذبِ حسین (۱۷) ابدالیؔ ؎ آں جوان کو سلطنت ہا آفرید باز در کوہ و قفارِ خود ر مید آتشی درکوہ سارش برفروخت خوش عیار آمد برون یا پاک سوخت (۱۸) ابدالیؔ ؎ درنہادِ ماتب و تاب از دل است خاک رابیداری و خواب از دل است تن زمرگِ دل د گر گوں می شود درمسا ماتش عرق خون می شود از فسادِ دل بدن ہیچ است ہیچ دیدہ بردل و جز بردل مپیچ آسیا یک پیکر آب و گل است ملتِ افغان درآن پیکر دل است از فسادِ او فسادِ آسیا درکشاد او کشادِ آسیا تادل آزاد است آزاداست تن ورنہ کا ہی در رہِ باد است تن ہمچو تن پابندِ آئین است دل مردہ از کین زندہ از دین است دل قوتِ دیں از مقامِ وحدت است وحدت از مشہود گردد ملت است (۱۹) برمزار حضرت احمد شاہ بابا علیہ الرحمۃ موسس ملتِ افغانیہ ؎ تربتِ آں خسرو روشن ضمیر از ضمیرش ملتی صورت پذیر گنبدِ او را حرم داند سپہر بافروغ از طوفِ او سیمائی مہر مثلِ فاتح آن امیر صف شکن سکہ بئی زد ھم با قلیم سخن ملتی را داد ذوقِ جستجو قدسیاں تسبیح خواں برخاکِ او از دل و دست، کہر ریزی کہ داشت سلطنت ہابر دو بی پروا گذاشت نکتہ سنج و عارف و شمشیرزن روحِ پاکش بامن آمد درسخن گفت می دانم مقام تو کجا ست نغمۂ تو خاکیاں را کیمیا ست خشت و سنگ از فیض تو دا رائے دل روشن از گفتارِ تو سینای دل پیشِ ما ای آشنا ی کوی دوست یک نفس بنشین کہ داری بوی دوست اے خوش آں کو از خودی آئینہ ساخت وندر آن آئینہ عالم را شنا خت پیر کردید این زمین و این سپہر ماہ کور از کور چشمیہائی مہر گرمئی ہنگامۂ ئی می باید ش تا نخستین رنگ و بو باز آیدش بندۂ مومن سرافیلی کند بانگِ او ہر کہنہ را برھم زند اے ترا حق داد جانِ ناشکیب تو ز سرِّ ملک و دیں داری نصیب فاش گو باپورِ نادر فاش گوی باطنِ خود را بہ ظاہر فاش گوے (۲۰) از تو ای سرمایۂ فتح و ظفر تختِ احمد شاہ را شانی دگر (۲۱) ۲۔ مولانا جلال الدین بلخی رومیؒ:۔ نام: جلال الدین محمد، ترکی میںمولانا اور ایران میں مولوی سے مشہور ہیں۔ (۲۲) ولدیت: بہائو الدین سلطان العلماء تاریخ و مقامِ پیدائش: ۶۰۴ھ / ۱۲۰۷ء بمقام بلخ تاریخ و مقام وفات: ۵ جماد ی الآخر ۶۷۲ھ/ ۱۷دسمبر ۱۲۷۳ء بمقام قونیہ آثار و تالیفات: (۱): دیوان، فارسی و ترکی اشعار غزلیات و رباعیات۔ (۲): مثنوی معنوی ۔ چھ دفاتر پر مشتمل اخلاقی منظوم تصنیف۔ (۳): فیہ مافیہ۔ مولانا کے اقوال کا مجموعہ عنوان ابن العربی کے ایک شعر سے ماخوذ۔ (۴): مواعظ مجالس سبعہ۔ مولانا تک مے اغودو دور دو زلتن احمد رمزی آقیوزق۔ (۵): مکتوبات۔ (۲۳) کلامِ اقبال میںعلامہ کے روحانی مرشد رومیؔ کا تذکرہ:۔ ؎ جولانگہ سکندررومی تھا ایشیا گردوں سے بھی بلندتر اس کا مقام تھا (۲۴) ؎ گفت رومی ہر بنائے کہنہ کا ٓباداں کنند می ندانی اول آں بنیاد را ویراں کنند (۲۵) ؎ نہ اٹھا پھر کوئی رومی عجم کے لالہ زاروں سے وہی آب و گلِ ایراں ،وہی تبریز ہے ساقی (۲۶) ؎ اسی کشمکش میں گزریں مری زندگی کی راتیں کبھی سوز و سازِ رومی ،کبھی پیچ و تاب رازی! (۲۷) ؎ علاجِ آتشِ رومی کے سوز میں ہے ترا تری خرد پہ ہے غالب فرنگیوں کا فسوں! (۲۸) ؎ صحبتِ پیرؔ روم سے مجھ پہ ہوا یہ راز فاش لاکھ حکیم سر بجیب ،ایک کلیم سر بکف! (۲۹) ؎ عطار ہو، رومی ہو ،رازی ہو ،غزالی ہو کچھ ہاتھ نہیں آتا بے آہِ سحرگاہی! (۳۰) ؎ یا حیرتِ فارابیؔ، یا تاب وتبِ رومی یا فکرِ حکیمانہ، یا جذبِ کلیمانہ (۳۱) ؎ نے مُہرہ باقی، نے مہرہ بازی جیتا ہے رومیؔ، ہارا ہے رازی ! (۳۲) ؎ ملتِ رومی نژاد کہنہ پرستی سے پیر لذتِ تجدیدہ سے وہ بھی ہوئی پھر جواں (۳۳) بالِ جبریل میں نظم پیر و مرید میں مولانا رومی اور اقبال کا طویل مکالمہ (۳۴) ؎ ہم خوگرِ محسوس ہیں ساحل کے خریدار اک بحرِ پُر اشوب و پر اسرار ہے رومی ؔ! تو بھی ہے اسی قافلۂ شوق میں اقبالؔ! جس قافلۂ شوق کا سالار ہے رومیؔ اس عصر کو بھی اس نے دیا ہے کوئی پیغام؟ کہتے ہیں چراغِ راہِ احرا ر ہے رومیؔ (۳۵) جبکہ فارسی کلام میں علامہ نے مولانا روم کو پیرِ روم ، پیرِ حق سرشت، پیرِ یزدانی، پیر عجم ، مرشد روم وغیرہ القابات سے یاد فرمایا ہے ۔ ۷۶ صفحات پر کلیات اقبال فارسی میں مولانا کا تذکرہ آیا ہے۔ بعض درج ذیل ہیں۔ ؎ پیر رومی خاک را اکسیر کرد از غبارم جلوہ ہا تعمیر کرد (۳۶) ؎ ذرہ کشت و آفتاب انبار کرد خرمن از صد رومی و عطار کرد (۳۷) ؎ مرشدِ رومی چہ خوش فرمودہ است آنکہ ہم در قطرہ اش آسودہ است (۳۸) ؎ مرشدِ رومی حکیم پاک زاد سرِّ مرگ و زندگی بر ما کشاد (۳۹) ؎ بوعلی اندر غبارِ نا قہ گم دستِ رومیؔ پردئہ محمل گرفت این فروتر رفت و تاگوہر رسید آں بگر دا بی چوخس منزل گرفت حق اگر سوزی ندارد حکمت است شعر میگردد چو سوز ازدل گرفت (۴۰) ؎ شراری جستہ ئی گیراز درو نم کہ من مانندِ رومی گرم خونم (۴۱) ؎ رازِ معنی مرشدِ رومی کشود فکرِ من بر آستانش در سجود (۴۲) ؎ روحِ رومیؔ پردہ ہا را بر درید از پسِ کۂ پارہ ئی آمد پدید! (۴۳) ؎ رومی آں عشق و محبت را دلیل تشنہ کاماں را کلامش سلسبیل (۴۴) ؎ پیرو رومی مرشد روشن ضمیر تشنہ کاماں را کلامش سلسبیل (۴۵) ؎ نکتہ ہا از پیرِ روم آموختم خویش را درحرف او وا سوختم (۴۶) ؎ عطا کن شورِ رومے، سوزِ خسرو عطا کن صدق و اخلاصِ سنائے چناں با بندگی درسا ختم من نہ گیرم گرمرابخشے خدائی (۴۷) ؎ چورومے در حرم دادم اذاں من از و آموختم آسرارِ جان من بہ دورِ فتنۂ عصرِ کہن او بہ دورِ فتنۂ عصرِ روان من (۴۸) ۳۔ سید جمال الدین افغانیؔ :۔ نام: سید جمال الدین افغانی ولدیت: سید صفدر تاریخ و مقامِ پیدائش: اسعد آباد کنڑ ننگرہارافغانستان ۱۲۵۴ھ ق / ۱۸۳۹ء تاریخ و مقام وفات: استنبول ترکی ۵ شوال ۱۳۱۴ھ ق / ۹مارچ ۱۸۹۷ء آثار و تالیفات: (۱): ’’الردعلی الدھریین‘‘۔ محمد عبدہ نے فارسی سے عربی میں ترجمہ کیا۔ (۲): العروۃ الوثقیٰ۔ پیرس سے آپ کا جریدہ جس کے ۱۸ شمارے شائع ہوئے۔ (۳): تمۃ البیان فی تاریخ الافغان (۴): ضیاء الخافقین۔ مقالات (۵): ’’مصر ‘‘اور التجارہ جرائد میں آپ کے مطبوعہ مقالات (۶): فرانس کے جریدے ’’الدیبا‘‘ میں آپ کا مقالہ (۷): مکتوبات وغیرہ (۴۹) سید جمال الدین افغانی پان اسلام ازم نظرئیے کا بانی، عالمگیر اسلامی سیاسی وحدت کا علم بردار علامہ اقبال کا سیاسی پیشرو۔ کلامِ اقبال میں سید جمال الدین افغانیؔ کا تذکرہ:۔ جاوید نامہ میں فلک عطارد پر پیر رومی کی رہنمائی میں زیارتِ ارواح جمال الدین افغانی و سعید حلیم پاشا نہایت اہمیت کی حامل ہے۔ ۲۴ صفحات پر مشتمل اس پوری نظم کا حوالہ باعثِ طوالت ہوگا۔ البتہ چیدہ چیدہ اشعار درج ذیل ہیں۔ ؎ رفتم و دیدم دومرد اندر قیام مقتدی تاتار و افغانی امام پیر رومی ہر زمان اندر حضور طلعتش برتافت از ذوق و سرور گفت ’’مشرق زین دو کس بہتر نزاد ناخنِ شان عقدہ ہائے ما کشاد سید السادات مولانا جمال زندہ از گفتارِ او سنگ و سفال ترک سالار آں حلیم دردمند فکرِ او مثلِ مقامِ او بلند با چنین مردان دو رکعت طاعت است ورنہ آں کاری کہ مزدش جنت است‘‘ (۵۰) افغانی ؎ زندہ رود ! از خاکدان ما بگوی از زمین و آسمان ما بگوی خاکی و چون قدسیاں روشن بصر از مسلمانان بدہ ما را خبر (۵۱) افغانی (دین و وطن) ؎ لُردِ مغرب آں سراپا مکر و فن اہل دین را داد تعلیم وطن او بفکر مرکز و تودر نفاق بگذر از شام و فلسطین و عراق تواگر داری تمیز خوب و زشت دل نہ بندی باکلوخ و سنگ وخشت چیست دیں برخاستن از روی خاک تاز خود آگاہ گردد جان پاک می نگنجد آنکہ گفت اللہ ھُ در حدودِ ایں نظامِ چار سُو پرِکہ از خاک و بر خیزد زخاک حیف اگر درخاک مرد جان پاک گرچہ آدم برومید از آب و گِل رنگ ونم چوں گُل کشید از آب و گِل حیف اگر در آب و گل غلطد مدام حیف اگر برتر نپرد زین مقام گفت تن در شو بخاکِ رہگذر گفت جان پہنا ی عالم رانگر! جاں نگنجد در جہات اے ہوشمند مردِ حُر بیگانہ از ہر قید و بند حُر ز خاکِ تیرہ آید در خروش زانکہ از بازاں نیا ید کارمُوش (۵۲) ۴۔ حکیم سنائیؔ:۔ نام ، کنیت و لقب: ابوالمجد مجدود بن آدم سنائی غزنوی ولدیت: آدم سنائی غزنوی تاریخ و مقامِ پیدائش: حدود ۴۶۴ ھ ق/ ۱۰۷۱ء غزنین تاریخ و مقامِ وفات: حدود ۵۴۵ھ ق/ ۱۱۵۰ء غزنین (۵۳) آثار و تالیفات: (۱): مثنوی حدیقۃ الحقیقہ باالہی نامہ یا فخری نامہ۔ (۲): دیوان حکیم سنائی ۔ مشتمل قصائد، غزلیات ، مقطعات، رباعیات وغیرہ۔ (۳): سیرالعباد الی المعاد۔ (۴): کارنامہ بلخ یا (مطائیہ نامہ)۔ (۵): تحریمۃ القلم۔ (۶): مجموعہ نامہ ہائی او۔ سنائی سے منسوب آثار : (۱): مثنوی بہرام و بھرور یا ارم نامہ۔ (۲): مثنوی طریق التحقیق۔ (۳): عشقنامہ۔ (۴): مثنوی عقل نامہ۔ (۵): مثنوی سنائی آباد۔ (۵۴) کلامِ اقبال میں تذکرہ سنائیؔ:۔ اقبال نومبر ۱۹۳۳ء میں سفرِ غزنی کے دوران زیارت حکیم سنائی سے مستفیض ہوئے۔ بالِ جبریل میں ان کے مشہور قصیدے کے تبتع میں ایک طویل غزل لکھی۔ (۵۵) جو سنائی سے عقیدت کا آئینہ دار ہے۔سنائی کے اس قصیدے کا مطلع و مقطع درج ذیل ہے: مکن در جسم و جان منزل کہ ایں دون است و آن ولا قدم زین ھہر دو بیرون نہ نہ اینجا باش و نی آنجا بھرجہ از اولیا گورندار زفتی و و فقنی بہجہ از انیسا گویند امنا و صدقنا (۵۶) اقبال کا مطلع و مقطع درج ذیل ہے: ؎ سما سکتا نہیں پنہائے فطر ت میں مرا سودا غلط تھا اے جنون شاید تر ا اندازۂ صحرا! سنائی کے ادب سے میں نے غواصی نہ کی ورنہ ابھی اس بحر میں باقی ہیں لاکھوں لولوے لالا! (۵۷) سفر بہ غزنی و زیارتِ مزار حکیم سنائی ؎ آہ غزنی آں حریمِ علم وفن مرغزارِ شیر مردان کہن دولتِ محمود را زیبا عروس از حنانبدانِ او دانائی طوس خفتہ در خاکش حکیم غزنوی از نوای او دل مردان قوے آں ’’حکیمِ غیب‘‘ آن صاحب مقام ’’ترک جوش‘‘ رومی از ذکرش تمام من ز’’پیدا‘‘اوز’ پنہاں‘ در سرور ہر دورا سرمایہ از ذوقِ حضور او نقاب از چہرۂ ایمان کشود فکرِمن تقدیرِ مومن وانمود ہر دو را از حکمتِ قرآن سبق اوز حق گوید من از مردانِ حق در فضای مرقدِ او سوختم تا متاع نالہ ئی اندوختم گفتم ای بینندۂ اسرار جان بر توروشن این جہاں و آن جہاں عصرِ ما وا رفتۂ آب و گل است اہلِ حق را مشکل اندر مشکل است مومن از فرنگیان دید آنچہ دید فتنہ ہا اندر حرم آمد پدید تا نگاہِ او ادب از دل نخورد چشمِ او راجلوۂ افرنگ برد اے حکیمِ غیب امام عارفان پختہ از فیضِ تو خامِ عارفان آنچہ اندر پردۂ غیب است گوی بوکہ آبِ رفتہ باز آید بجوی (۵۸) اس کے بعد ۳۰ ابیات میں حکیم سنائی کا جواب ’’روحِ حکیم سنائی از بہشت بریں جواب می دہد‘‘ زینتِ مثنوی مسافر ہے۔ ؎ عطاکن شورِ رومے، سوزِ خسرو عطا کن صدق و اخلاص سنائے چناں بابندگی در ساختم من نہ گیرم گرمرابخشی خدائی (۵۹) مئے روشن زتاکِ من فرو ریخت خوشامر دی کہ درد امانم آویخت نصیب از آتشی دارم کہ اول سنائی از دلِ رومی بر انگیخت (۶۰) ۵۔ خوشحال خان خٹک:۔ نام: خوشحال خان خٹک ولدیت: شہباز خان خٹک تاریخ و مقامِ پیدائش: ربیع الثانی ۱۰۲۲ھ ق / مئی جون ۱۶۱۳ء اکوڑہ ضلع نوشہرہ تاریخ و مقامِ وفات: ۲۸ربیع الثانی ۱۱۰۰ھ ق/ فروری ۱۶۸۹ء دُمبرہ تیراہ آثار و تالیفات: (۱): دیوان خوشحال خان خٹک( پشتو و فارسی)۔ (۲): باز نامہ ۔ باز سے متعلق ان کی افزائش نسل، شکار، بیماریوں اور علاج سے متعلقہ۔ (۳): ھدایہ۔ مشہور فقہی کتاب کا پشتو ترجمہ۔ (۴): آئینہ۔ فقہی کتاب کا پشتو ترجمہ۔ (۵): فضل نامہ۔ منظوم ، فقہی و دیگر مذہبی امور۔ (۶): سوات نامہ۔ سوات کی منظوم تاریخ۔ (۷): طب نامہ۔ منظوم طبی اصول۔ (۸): فرخنامہ۔ تلوار اور قلم کا مناظرہ۔ (۹): فراقنامہ۔ قید کے زمانے کا منظوم اثر۔ (۱۰): دستار نامہ۔ قبائلی سرداری اور رہبری کے اصولوں سے متعلق نثری اثر، (۱۱): بیاض۔ منثور سوانحی و خاندانی تذکرہ۔ (۱۲): زنحٔیر+ ۔ پشتو شارٹ ہینڈ (۶۱) کلامِ اقبال میں تذکرہ خوشحال خان خٹک:۔ خوشحال خان کی وصیت ؎ قبائل ہوں ملت کی وحدت میںگم کہ ہو نام افغانیوں کا بلند محبت مجھے ان جوانوں سے ہے ستاروں پہ جو ڈالتے ہیںکمند! مغل سے کسی طرح کمتر نہیں کہستان کا یہ بچۂ ارجمند کہوں تجھ سے اے ہم نشین دل کی بات وہ مدفن ہے خوشحالؔ خان کو پسند اڑکر نہ لائے جہاں بادِ کوہ مغل شہسواروں کی گردِ سمند (۶۲) خوش سرود آں شاعرِ افغان شناس آنکہ بیند ،باز گوید بے ہراس! آں حکیمِ ملت افغانیان آن طبیب علتِ افغانیان! رازِ قومی دید و بے باکانہ گفت حرفِ حق با شوخی ٔ رندانہ گفت! ’’اشترے یا بد اگر افغانِ حُر یا براق و ساز و با انبارِ دُر ہمتِ دونش ازاں انبارِ دُر می شود خوشنود بازنگِ شتر‘‘! (۶۳) ۶۔ سلطان محمود غزنویؔ:۔ نام ، لقب و کنیت: یمین الدولۃ امین الدولۃ ابوالقاسم محمود بن ابو منصور سبکتگین غزنوی ولدیت: ابو منصور سبکتگین غزنوی تاریخ و مقامِ پیدائش: ۱۰محرم الحرام ۳۶۱ ھ ق/ ۲ نومبر ۹۷۱ء غزنہ تاریخ و مقامِ وفات: ۲۳ ربیع الثانی۴۲۱ھ ق/ ۳۰اپریل ۱۰۳۰ء غزنہ (۶۴) وجۂ شہرت: فاتح سومنات، ہندوستان پر سترہ حملے اور معروف مسلمان فرمانروا ۔ کلامِ اقبال میں تذکرہ سلطان محمود غزنویؔ:۔ ؎ سن اے طلب گارِ دردِ پہلو ! میں ناز ہوں تو نیاز ہوجا میں غزنوی سومناتِ دل کا ہوں تو سراپا ایاز ہوجا (۶۵) ؎ آگیا عین لڑائی میں اگر وقتِ نماز قبلہ رو ہوکے زمیں بوس ہوتی قومِ حجاز ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمود و ایاز نہ کوئی بندہ رہا اور نہ کوئی بندہ نواز بندہ و صاحب و محتاج و غنی ایک ہوئے! تیری سرکار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے! (۶۶) ؎ درِ حکام بھی ہے تجھ کو مقامِ محمود پالسی بھی تری پیچیدہ تر از زلفِ ایاز (۶۷) ؎ جادو ئے محمود کی تاثیر سے چشمِ ایاز دیکھتی ہے حلقۂ گردن میں ساز دلبری (۶۸) ؎ کوئی دیکھے تو میری نَے نوازی نفس ہندی، مقامِ نغمہ تازی! نگہ آلودۂ اندازِ افرنگ! طبیعت غزنوی قسمت ایازی! (۶۹) ؎ کیا نہیں اور غزنوی کار گۂ حیات میں بیٹھے ہیں کب سے منتظر اہلِ حرم کے سومنات! (۷۰) ؎ فرو فالِ محمود سے درگذر خودی کو نگہ رکھ ، ایازی نہ کر (۷۱) ؎ وہ کچھ اور شے ہے، محبت نہیں ہے سکھاتی ہے جو غزنوی کو ایازی! (۷۲) ؎ چوں زیاں پیرایہ بنددسود را می کند مذموم ہر محمود را (۷۳) ؎ جملہ عالم ساجد و مسجود عشق سومناتِ عقل را محمود عشق (۷۴) ؎ مملکتِ را دینِ او معبود ساخت فکرِ او مذموم را محمود ساخت (۷۵) ؎ بر ہمنے بہ غزنوی گفت کرامستم نگر تو کہ صنم شکستۂ بندہ شدی ایاز را (۷۶) ؎ بمتاعِ خود چہ نازی کہ بہ شہر درد مندان دلِ غزنوی نیر زد بہ تبسم ایازے (۷۷) ؎ محمودِ غزنوی کہ صنم خانہ ہا شکست زُناری بتانِ صنم خانۂ دل است (۷۸) ؎ یکے کار فرما، یکے کار ساز نیا ید ز محمود کارِ ایاز (۷۹) ؎ ایں خراباتِ فرنگ است و زتاثیر مئیش آنچہ مذموم شمارند نماید محمود (۸۰) ؎ من بیسمائے غلامان فرِّ سلطان دیدہ ام شعلۂ محمود از خامِ ایاز آید بروں! (۸۱) ؎ کسے این معنی ٔ نازک نداند جز ایاز اینجا کہ مہر غزنوی افزوں کند دردِ ایازی را (۸۲) ؎ کافری را پختہ تر ساز د شکستِ سومنات گرمی ٔ بتخانہ ہنگامۂ محمود نے (۸۳) ؎ چہ گوئیمت کہ چہ بودی چہ کردئی چہ شدی کہ خوں کند جگرم را ایازیٔ محمود (۸۴) ؎ بطرزِ دیگر از مقصود گفتم جوابِ نامۂ محمود گفتم (۸۵) آہ غزنی آں حریم علم و فن مرغزارِ شیر مردانِ کہن دولتِ محمود را زیبا عروس از حنا بندانِ او دانائے طوس (۸۶) برمزارِ سلطان محمود علیہ الرحمۃ خیزد از دل نالہ ہا بے اختیار آہ! آں شہرے کہ این جابود پار آں دیار و کاخ و کو ویرانہ ایست آں شکوہ و فال و فر افسانہ ایست گنبد ے! در طوفِ او چرخِ بریں تربتِ سلطان محمود است ایں! آنکہ چوں کودک لب از کوثر بشست گفت در گہوارہ نامِ او نخست! برقِ سوزاں تیغ بے زنہارِ او دشت و در لرزندہ از یلغارِ او زیر گردوں آیت اللہ رائتش قدسیاں قرآن سرا بر تربتش شوخی ٔ فکرم مرا از من ربود تانبودم درجہاںِ دیر و زود رخ نمود از سینہ ام آں آفتاب پردگیہا از فروغش بے حجاب مہر گردوں از جلالش در رکوع از شعاعش دوش می گردد طلوع وار ہیدم از جہاںِ چشم و گوش فاش چوں امروز دیدم صبح دوش شہر غزنین ! یک بہشتِ رنگ و بو آبجو ہا نغمہ خواں در کاخ و کو حقہ ہائے ا و قطار اندر قطار آسماں باقبۂ ہایش ہم کنار نکتہ سنجِ طوسؔ را دیدم ببزم لشکرِ محمودؔ را دیدم برزم آں ہمہ مشتاقی و سوز و سرور در سخن چوں رند بے پروا جسور تخمِ اشکے اندراں ویرانہ کاشت گفتگوہا باخدائے خویش داشت ؎ تانبودم بے خبر از رازِ او سوختم از گرمیٔ اوازِ او (۸۷) ۷۔ شیر شاہ سوریؔ:۔ نام و لقب: فرید الدین خان شیرشاہ سوری ولدیت: حسن خان تاریخ و مقامِ پیدائش: بہار سہسرام تاریخ و مقامِ وفات: ۲۲مئی ۱۵۴۵ء کانجر (۸۸) وجۂ شہرت: سوری افغان خاندان کا بانی ،ہندوستان کا حکمران اور جدید مواصلاتی نظام کا بانی۔ کلامِ اقبال میں تذکرہ شیر شاہ سوریؔ:۔ ؎ یہ نکتہ خوب کہا شیر شاہ سوری نے کہ امتیازِ قبائل تمام تر خواری عزیز ہے انہیں نامِ وزیری و محسود ابھی یہ خلعتِ افغانیت سے ہیں عاری ہزار پارہ ہے کہسار کی مسلمانی کہ ہر قبیلہ ہے اپنے بتوں کا زناری وہی حرم ہے وہی اعتبارِ لات و منات خدا نصیب کرے تجھ کو ضربتِ کاری! (۸۹) درفنِ تعمیر مردانِ آزاد ؎ یک زمان با رفتگان صحبت گزیں صنعتِ آزاد مرداں ہم بہ بیں خیز و کار ایبکؔ و سوریؔ نگر وانما چشمے اگر داری جگر خویش را از خود بروں آوردہ اند ایں چنیں خود را تماشا کردہ اند سنگ ہا با سنگ ہا پیوستہ اند روزگارے را بآ نے بستہ اند دیدنِ او پختہ تر سازد ترا در جہاں دیگر اندازد ترا نقش سوئے نقشگرمی آورد از ضمیرِ او خبر می آورد ہمت مردانہ و طبعِ بلند دردلِ سنگ ایں دو لعل ارجمند سجدہ گاہِ کیست ایں از من مپرس بے خبر! رودادِ جاں از تن مپرس وا ئے من از خویشتن اندر حجاب از فراتِ زندگی ناخوردہ آب وائے من از بیخ وبُن برکندئہ از مقامِ خویش دور افگندئہ محکمی ہا از یقینِ محکم است وائے من شاخِ یقینم بے نم است درمن آں نیروے الا اللہ نیست سجدہ ام شایانِ این درگاہ نیست (۹۰) ۸۔ علی ہجویری حضرت داتا گنج بخشؒ:۔ نام وکنیت: شیخ علی ہجویریؒ ابوالحسن الجلابی الغزنوی ثم الہجویری ولدیت: عثمان ابنِ علی یا بوعلی تاریخ و مقامِ پیدائش: حدود ۴۰۰ھ / ۱۰۱۰ء ہجویر غزنی تاریخ ومقامِ وفات: حدود ۴۵۶ھ یا ۴۶۴ھ لاہور آثار: (۱): کشف المحجوب۔ (۲): دیوان۔ (۳): منہاج الدین۔ (۴): اہلِ صفہ۔ (۵): منصور حلاج۔ (۶): رسالۃ اسرار الخرق والمؤنات۔ (۷): کتاب فناو بقا۔ (۸): کتاب الابیان لاہل العیان۔ (۹۱) (۹): بحرالقلوب۔ (۱۰): الرعایۃ الحقو ق اللّٰہ کلام اقبال میں علی ہجویریؒ کا تذکرہ:۔ حکایتِ نوجوانے از مرو کہ پیشِ حضرت سید مخدوم علی ہجویریؒ آمدہ از ستم اعد افر بہ یاد کرد ؎ سید ہجویر مخدوم اُمم مرقدِ او پیر سنجر را حرم بند ہائے کوہسار آساں گسیخت در زمینِ ہند تخم سجدہ ریخت عہدِ فاروق از جمالش تازہ شد حق زحرف او بلند آوارہ شد پاسبانِ عزت اُم الکتاب از نگاہش خانۂ باطل خراب خاکِ پنجاب از دمِ او زندہ گشت صبح ما از مہر او تابندہ گشت عاشقِ و ہم قاصدِ طیار عشق از جنبش آشکار اسرارِ عشق داشتے از کمالش سرکنم گلشنے در غنچۂ مضمر کنم نوجوانے قامتش بالا چو سرو واردِ لاہور شد از شہر مرو رفت پیشِ سید والا جناب تار باید ظلمتش را آفتاب گفت محصورِ صفِ اعداستم درمیانِ سنگہا میناستم بامن آموز اے شہہ گردوں مکان زندگی کردی میانِ دشمنان پیرِ دانائے کہ در ذاتش جمال بستہ پیماںِ محبت با جلال گفت اے نامحرم از راہِ حیات غافل از انجام و آغاز حیات فارغ از اندیشۂ اغیار شو قوتِ خوا بندۂ بیدار شو سنگ چوں بر خود گمانِ شیشہ کرد شیشہ گردید و شکتن پیشہ کرد ناتواں خود را اگر رہر و شمرد نقد جانِ خویش با رہزن سپرد تاکجا خود را شماری ماء وطین از گلِ خود شعلۂ طور آفریں بہ عزیزاں سرگرداں بودن چرا شکوہ سنج دشمناں بودن چرا راست میگویم عدو ہم یار تست ہستی او رونقِ بازار تست ہر کہ دانائے مقاماتِ خودی است فضلِ حق داند اگر دشمن قوی است کشتِ انسان راعدو باشد سحاب ممکناتش رابر انگیزد زخواب سنگ رہ گردد فسانِ تیغ عزم قطعِ منزل امتحانِ تیغِ عزم مثلِ حیواں خوردن آسودن چہ سود گر بخود محکم نہ بودن چہ سود خویش راچوں از خودی محکم کنی تو اگر خواہی جہاں برہم کنی گرفنا خواہی از خود آزاد شو گر بقا خواہی بخود آباد شو چیست مردن از خودی غافل شدن توچہ پنداری فراق جان و تن؟ در خودی کن صورتِ یوسف مقام از اسیری تا شہنشاہی خرام از خودی اندیش و مردِ کار شو مردِ حق شو حاصلِ اسرار شو شرحِ راز از داستانہا می کنم غنچہ از زورِ نفس و امی کنم ’’خو شتر آں باشد کہ سرِّ دلبران گفتہ آید درحدیثِ دیگران‘‘ (۹۲) ۹۔ امام فخرالدین رازیؔ:۔ نام ، کنیت و لقب: محمد ابو عبداللہ ابوالفضل فخرالدین الرازی ولدیت: ابوالقاسم ضیا ء الدین تاریخ و مقامِ پیدائش: ۲۵ رمضان ۵۴۳ ھ یا ۵۴۴ ھ بمقام رے تاریخ و مقامِ وفات: ۶۰۶ھ ق بمقام ہرات (۹۳) آثار : (۱): تفسیرِ کبیر (مفاتح الغیب)۔ (۲): اسرار التنزیل و انوار التاویل۔ (۳): تفسیر سورۃ الفاتحہ۔ (۴): تفسیر سورۃ البقرہ۔ (۵): تفسیر سورۃ الاخلاص۔ (۶): لوامع البنات۔ (۷): محصل۔ (۸): معالح۔ (۹): الاربعین فی اصول الدین ۔ (۱۰): الحمنین فی اصول الدین۔ (۱۱): نہایۃ العقول ۔ ّ (۱۲): کتاب القضاء والقدر۔ (۱۳): اساس التقدیس۔ (۱۴): لطائف الغیاثیہ۔ (۱۵): عصمۃ الانبیائ۔ (۱۶): مطالب العالیہ۔ (۱۷): رسالہ فی النبوت۔ (۱۸): الریاض المؤنقۃ (۱۹): کتاب الملل و النحل۔ (۲۰): عقیل الحق۔ (۲۱): کتاب الزیدہ وغیرہ آثار کی تعداد ۸۰۔ (۹۴) کلامِ اقبال میں امام رازیؒ کا تذکرہ:۔ اسی کشمکش میں گزریں مری زندگی کی راتیں کبھی سوز و سازِ رومیؔ کبھی پیچ و تابِ رازی!(۹۵) علاجِ ضعفِ یقین ان سے ہو نہیں سکتا غریب اگرچہ ہیں رازی کے نکتہ ہائے دقیق!(۹۶) عطا رؔ ہو رومیؔ ہو رازیؔ ہو غزالی ؔ ہو کچھ ہاتھ نہیں آتا بے آہِ سحر گاہی!(۹۷) نے مُہرہ باقی، نے مُہرہ بازی جیتا ہے رومیؔ ہارا ہے رازیؔ!(۹۸) تیرے ضمیر پہ جب تک نہ ہو نزولِ کتاب گرہ کشا ہے نہ رازیؔ نہ صاحبِ کشّاف(۹۹) جمال عشق و مستی نے نوازی جلالِ عشق و مستی بے نیازی کمالِ عشق و مستی ظرفِ حیدر زوالِ عشق و مستی حرفِ رازی!(۱۰۰) ذوقِ جعفر، کاوش رازی نماند آبروئے ملتِ تازی نماند(۱۰۱) ز رازی معنیٔ قرآن چہ پرسی ضمیر ما بآیاتش دلیل است خرد آتش فروزد، دل بسوزد ہمیں تفسیرِ نمرود خلیل است(۱۰۲) بہر نرخے کہ ایں کالا بگیر سود مندافتد بزورِ بازوئے حیدر ؓ بدہ ادراک رازیؔ را(۱۰۳) دراں عالم کہ جزو از کل فزون است قیاسِ رازیؔ و طوسیؔ جنوں است(۱۰۴) تر سم کہ تومے دانی زورق بسراب اندر زادی بہ حجاب اندر میری بہ حجاب اندر چوں سُرمۂ رازیؔ را از دیدہ فروشتم تقدیرِ امم دیدم پنہاں بکتاب اندر(۱۰۵) ز رازی حکمتِ قرآن بیا موز چراغے از چراغِ او بر افروز ولے ایں نکتہ را از من فرا گیر کہ نتواں زیستن بے مستی و سوز(۱۰۶) خرد بیگانۂ ذوقِ یقین است قمارِ علم و حکمت بد نشین است دو صد بوحامدؔ و رازی نیرزد بنا دانے کہ چشمش را ہ بین است(۱۰۷) ۱۰۔ محمد نورالدین جامیؔ:۔ نام : محمد نورالدین عبدالرحمن جامیؔ ولدیت: نظام الدین احمد دشتی بن شمس الدین محمد تاریخ و مقامِ پیدائش: ۲۳ شعبان ۸۱۷ھ خرجِرد جام (خراسان) تاریخ و مقامِ وفات: ۱۸ محرم الحرام ۸۹۸ھ / ۹ نومبر ۱۴۹۲ء ہرات آثار: ہفت اورنگ جامی، شواہد نوبت، اشعۃ اللمعات، شرح فصوص الحکم، لوامع، لوائح، مناقب خواجہ عبداللہ انصاری، شرح لا اِلہَ اِ لاّ اللہ ، تحفۃ الاحرار، سجتہ الاحرار، رسالہ کبیر، نفحات الانس، وغیرہ ۔ آثار کی تعداد ۴۹ بتائی جاتی ہے۔ (۱۰۸) کلامِ اقبال میں تذکرہ مولانا جامیؔ:۔ ؎ نایاب نہیں متاعِ گفتار صد انوری و ہزار جامی(۱۰۹) خاکِ یثرب از دو عالم خوشتر است اے خنک شہرے کہ آنجا دلبر است کشتۂ انداز ملا جامیم نظم و نثرِ او علاجِ خامیم شعر لب ریز معانی گفتۂ است در ثنائے خواجہ گوہر خفتہ است ’’نسخۂ کونین را دیباجہ اوست جملہ عالم بندگان و خواجہ اوست‘‘ (۱۱۰) ؎ گہے شعرِ عراقیؔ را بخوانم گہے جامیؔ زند آتش بجانم ندا نم گرچہ آہنگِ عرب را شریکِ نغمہ ہاے ساریا نم(۱۱۱) ؎ مرا از منطق آید بوے خامی دلیلِ او دلیلِ ناتمامی! برویم بستہ درہا راکشاید دوبیت از پیرِ رومیؔ یا ز جامیؔ (۱۱۲) کلامِ اقبال میں معاصر افغانی شخصیات کا تزکرہ:۔ ۱۔ غازی امان اللہ خان:۔ نام: اعلیٰحضرت غازی امان اللہ خان ولدیت: امیر حبیب اللہ خان تاریخ و مقامِ پیدائش: جمعرات ۵ ذیقعدہ ۱۳۰۹ھ ق/ ۱۸۹۱ء / ۱۳ دلو ۱۲۷۰ھ ش پغمان (۱۱۳) تاریخ و مقامِ وفات: سوموار ۱۳۸۰ھ ق/ ۲۵, اپریل ۱۹۶۰ئ/ ۵ ثور ۱۳۳۹ھ ش زور یخ اٹلی وجۂ شہرت: افغانستان کا فرمانروا اور استقلالِ افغانستان کا مؤسس کلامِ اقبال میں تذکرہ غازی امان اللہ خان :۔ پیشکش پیامِ مشرق بحضور اعلیٰحضرت امیر امان اللہ خان فرمانروا دولت مستقلہ افغانستان خلد اللہ ملکہ و اجلالہ‘۔ ؎ اے امیرِ کامگار اے شہریار نوجوان و مثلِ پیراں پختہ کار چشمِ تو از پردگیہا محرم است دل میانِ سینہ ات جامِ جم است عزمِ تو پایندہ چوں کہسارِ تو حزمِ تو آساں کند دشوارِ تو ہمت تو چوں خیالِ من بلند ملتِ صد پارہ را شیرازہ بند ہدیہ از شاہنشہاں داری بسے لعل و یاقوتِ گراں داری بسے اے امیر ،ابن امیر ،ابنِ امیر ہدیۂ از بے نواے ہم پذیر! تا مرا رمزِ حیات آموختند آتشے در پیکرم افروختند یک نواے سینہ تاب آوردہ ام عشق را عہد شباب آوردہ ام پیرِ مغرب شاعرِ المانوی آں قتیلِ شیوہ ہاے پہلوی بست نقشِ شاہدانِ شوخ و شنگ دادِ مشرق را سلامے از فرنگؔ در جوابش گفتہ ام پیغامِ شرق ماہ تابے ریختم برشامِ شرقؔ تا شناساے خودم، خود بیں نیم باتو گویم او کہ بود و من کیم او ز افرنگی جواناں مثلِ برق شعلۂ من از دمِ پیرانِ شرقؔ او چمن زادے، چمن پروردئہ من دمیدم از زمین مردہِ او چو بلبل در چمن ’’فردوسِ گوش‘‘ من بصحرا چوں جرس گرمِ خروشی ہر دو دانائے ضمیرِ کائنات ہر دو پیغامِ حیات اندر ممات ہر دو خنجر صبح خند، آئینہ فام او برہنہ، من ہنوز اندر نیام ہر دو گوہر ارجمند و تاب دار زادۂ دریاے ناپیدا کنار اوز شوخی درتہِ قلزم تپید تا گریبانِ صدف را بر درید من بہ آغوشِ صدف تابم ہنوز در ضمیر بحرِ نایابم ہنوز آشنائے من زمن بیگانہ رفت از خمنانم تہی پیمانہ رفت من شکوہِ خسروی او را دھم تخت کسریٰ زیر پائے او نہم او حدیثِ دلبری خواہد زمن رنگ و آبِ شاعری خواہد زمن کم نظر بیتابیٔ جانم ندید آشکارم دید و پنہانم ندید فطرتِ من عشق را در برگرفت صحبتِ خاشاک و آتش درگرفت حق رموزِ ملک و دین برمن کشود نقشِ غیر از پردۂ چشم ربود برگ گل رنگین زمضمونِ من است مصرعِ من قطرۂ خونِ من است تانہ پنداری سخن دیوانگیست درکمالِ ایں جنوں فرزانگیست از ہنر سرمایہ دارم کردہ اند در دیارِ ہند خوارم کردہ اند لالہ و گل از نوایم بے نصیب طائرم در گلستانِ خود غریب! بسکہ گردوں سفلہ و دوں پرور است واے برمر دے کہ صاحب جوہر است ؎ دیدہِ اے خسروِ کیواں جناب آفتاب ما توارت بالحجاب! ابطحی در دشتِ خویش از راہِ رفت از دمِ او سوزِ اِلاّ اللہ رفت مصریاں افتادہ در گردابِ نیل سست رگ تورانیانِ ژندہ پیل آلِ عثمان در شبکخ روزگار مشرق و مغرب زخونش لالہ زار عشق را آئینِ سلمانی نماند خاکِ ایراں ماند و ایرانی نماند سوز و سازِ زندگی رفت از گِلش آں کہن آتش فسرد اندر دلش مسلمِ ہندی شکم را بندۂِ خود فروشے، دل زدیں برکندۂِ درمسلماں شانِ محبوبی نماند خالدؓ و فاروق ؓ و ایوبیؓ نماند اے ترا فطرتِ ضمیر پاک داد از غمِ دیں سینۂ صد چاک داد تازہ کن آئین صدیقؓ و عمرؓ چون صبا بر لالۂ صحرا گذر ملتِ آوارۂ کوہ و دمن در رگِ او خونِ شیراں موجزن زیرک و روئیں تن و روشن جبیں چشمِ او چوں جرّہ بازاں تیز بیں قسمتِ خود از جہاں نایافتہ کوکبِ تقدیر او ناتافتہ در قہستاں خلوتے ورزیدۂِ رستخیزِ زندگی نادیدۂِ جانِ تو بر محنتِ پیہم صبور کوش در تہذیبِ افغانِ غیور تاز صدیقانِ این اُمت شوی بہر دیں سرمایۂ قوت شوی زندگی جہد است و استحقاق نیست جز بعلمِ انفس و آفاق نیست گفت حکمت را خدا خیرِ کثیر ہر کجا ایں خیر رابینی بگیر سیدِ کل، صاحبِ ام الکتاب پردگیہا بر ضمیرش بے حجاب گرچہ عینِ ذات را بے پردہ دید رَبِّ زِدْنیِ از زبانِ چکید علم اشیا علم الاسما ستے ہم عصا و ہم یدِ بیضا ستے علم اشیا داد مغرب را فروغ حکمتِ او ماست می بندد زدوغ جانِ ما را لذتِ احساس نیست خاکِ رہ جُز ریزۂ الماس نیست علم و دولت نظمِ کارِ ملت است علم و دولت اعتبارِ ملت است آں یکے از سینۂ احرار گیر واں دگر از سینۂ کہسار گیر دشنہ زن در پیکرِ ایں کائنات درشکم دارد گہر چوں سومنات لعل ناب اندر بدخشانِ تو ہست برقِ سینا در قہستان تو ہست کشورِ محکم اساسے بایدت؟ دیدۂ مردم شناسے بایدت اے بسا آدم کہ ابلیسی کند اے بسا شیطان کہ ادریسی کند رنگ او نیرنگ و بودِ او نمود اندرونِ او چو داغِ لالہ دود پاکباز و کعبتین او دغل ریمن وغدر ونفاق اندر بغل درنگر اے خسرو صاحب نظر نیست ہر سنگے کہ می تابد گہر مرشدِ رومی حکیم پاک زاد سِرّ مرگ و زندگی برما کشاد ’’ہر ہلاکِ امتِ پیش کہ بود زانکہ بر جندل گماں بر دند عود‘‘ سروری در دین ما خدمت گری است عدلِ فاروقیؔ و فقرِ حیدریؔ است در ہجوم کار ہائے ملک و دیں بادلِ خودیک نفس خلوت گزیں ہر کہ یک دم در کمین خود نشست ہیچ نخچیر از کمندِ او نجست در قبائے خسروی درویش زی دیدہ بیدار و خدا اندیش زی قائدِ ملتؔ شہنشاہِ مرادؔ تیغِ او رابرق و تندر خانہ زاد ہم فقیرے، ہم شہہ گردوں فرے اردشیرےؔ باروانِ بوذرےؔ غرق بودش در زرہ بالا ؤ دوش درمیانِ سینہ دل موئینہ پوش آہ مسلماناں کہ میری کردہ اند در شہنشاہی فقیری کر دہ اند در امارت فقر را افزودہ اند مثلِ سلمان ؓ در مدائن بودہ اند حکمرانے بود و سامانے نداشت دستِ او جز تیغ و قرآنے نداشت ہرکہ عشق مصطفی سامانِ اوست بحر و بر درگوشۂ دامانِ اوست سوزِ صدیقؓ و علیؓ از حق طلب ذرہ عشقِ نبیؐ از حق طلب زانکہ ملت را حیات از عشقِ اوست برگ و سازِ کائنات از عشقِ اوست جلوۂ بے پردۂ او وا نمود جوہر پنہاں کہ بود اندر وجود روح را جز عشق او آرام نیست عشقِ او روزیست کُورا شام نیست خیز و اندر گر دش آور جام عشق در قہستان تازہ کن پیغامِ عشق (۱۱۴) ۲۔ اعلیٰحضرت محمد نادر شاہ شہید:۔ نام : محمد نادر شاہ غازی ولدیت: تاریخ و مقامِ پیدائش: ۲۱ حمل ۱۲۶۲ ھ ش/ ۹ ، اپریل ۱۸۸۳ء تاریخ و مقامِ وفات: ۱۶ عقرب ۱۳۱۲ھ ش/ باغِ دلکشا کابل وجۂ شہرت: سقوی انقلاب کے بعد افغانستان کا بادشاہ مدتِ حکومت: چار سال ۲۳ دن ۔ (۱۱۵) کلامِ اقبال میں تذکرہ محمد نادر شاہ غازی:۔ ؎ حضورِ حق سے چلالے کے لولوے لالا وہ ابر جس سے رگِ گل ہے مثلِ تارِ نفس! بہشت راہ میں دیکھا تو ہوگیا بے تاب عجب مقام ہے جی چاہتا ہے جاؤں برس صدا بہشت سے آئی کہ منتظر ہے ترا ہرات و کابل و غزنی کا سبزۂ نورس! سر شکِ دید نادر ؔبہ داغِ لالہ فشاں چناں کہ آتشِ آور دگر فرو نہ نشان(۱۱۶) (آں سوئے افلاک) حرکت بہ کاخِ سلاطین مشرق نادر، ابدالی ،سلطان شہید ؎ خسروانِ مشرق اندر انجمن سطوتِ ایرانؔ و افغانؔ و دکنؔ نادرؔ آں دانائے رمزِ اتحاد با مسلمان داد پیغامِ وداد(۱۱۷؎) نادرؔ ؎ خوش بیا اے نکتہ سنج خاوری اے کہ می زیبد ترا حرفِ دری محرمِ راز یم با ما راز گوے آنچہ میدانی ز ایراں باز گوے (۱۱۸) ابدالیؔ ؎ آنچہ بر تقدیر مشرق قادر است عزم و حزم پہلویؔ و نادرؔ است پہلویؔ آں وارثِ تختِ قباد ناخنِ او عقدۂ ایران کشاد نادر آں سرمایۂ درانیاں آں نظامِ ملت افغانیان از غمِ دین و وطن زار و زبوں لشکرش از کوہسار آمد بروں ہم سپاہی، ہم سپہ گر، ہم امیر باعدو فولاد و بایاران حریر! من فداے آنکہ خود را دیدہ است عصرِ حاضر رانکو سنجیدہ است! غریباں را شیوہ ہاے ساحری است تکیہ جز برخویش کردن کافری است (۱۱۹) فردوس بریں میں سلطان شہید اور زندہ رودکے طویل مکالمے کے بعد سلطان شہید کا پیغام بنام رود کاویری حقیقت حیات و مرگ شہادت کے نام سے طویل نظم موجود ہے۔ (۱۲۰) ۱۹۳۳ء میں اعلیٰحضرت محمد نادر شاہ غازی کی دعوت پر علامہ افغانستان تشریف لے گئے ۔ وہاں کے تاثرات و کیفیات کو مثنوی مسافر میں بیاں کیا جہاں جا بجا نادر شاہ غازی کا تذکرہ ملتا ہے۔ ؎ نادرِؔ افغاںؔ شہِ درویش خو رحمتِ حق بر روانِ پاکِ او کارِ ملت محکم از تدبیر او حافظِ دین مبین شمشیر او چوں ابوذرؔ خود گداز اندر نماز ضربتش ہنگامِ کیں خارا گداز! عہدِ صدیقؓ از جمالش تازہ شد! عہدِ فاروقؓؔ از جلالش تازہ شد ! از غمِ دیں در دلش چوں لالہ داغ در شبِ خاور وجودِ او چراغ! در نگاہش مستیٔ اربابِ ذوق جوہرِ جانش سراپا جذب و شوق خسروی شمشیر و درویشی نگہ ہر دو گوہر از محیط لَا اِلہ! فقر و شاہی وارداتِ مصطفی ست این تجلیہاے ذاتِ مصطفی ست! ایں دو قوت از وجودِ مومن است ایں قیام و آں سجودِ مومن است فقر سوز و درد و داغ و آرزو ست فقر را درخوں تپیدن آبرو ست فقرِ نادرؔ آخر اندر خوں تپید آفریں بر فقرِ آں مرد شہید! اے صبا اے رہ نوردِ تیزگام در طوافِ مرقدش نرمک خرام شاہ در خواب است پا آہستہ نہ غنچہ را آہستہ تربکشا گرہ از حضورِ او مرا فرماں رسید آنکہ جانِ تازہ در خاکم دمید ’’سوختم از گرمیٔ آوازِ تو اے خوش آں قومے کہ داند رازِ تو از غمِ تو ملتِ ما آشنا ست می شناسیم ایں نواہا از کجا ست اے باآغوشِ سحابِ ما چو برق روشن و تابندہ از نورِ تو شرق یک زماں در کوہسار ما درخش عشق را باز آں تب و تابے بہ بخش تا کجا در بند بندہا باشیٔ اسیر تو کلیمی راہِ سیناے بگیر!‘‘ طے نمودم باغ و راغ و دشت و در چوں صبا بگذشتمِ از کوہ و کمر (۱۲۱) مسافر واردمی شود بہ شہر کابل و حاضر می شود بحضورِ اعلیٰحضرت شہیدؒ: ؎ شہر کابل ! خطۂ جنت نظیر آبِ حیواں ازرگِ تاکش بگیر! قصرِ سلطانی کہ نامش دلکشاست زائراں را گردِ راہش کیمیاست شاہ را دیدم دراں کاخِ بلند پیش سلطانے، فقیرے درد مند خُلقِ او اقلیم دلہا را کشود رسم وآئین ملوک آنجا نہ بود من حضورِ آں شہر والا گہر بے نوا مردے بدربارِ عمرؓ جانم از سوزِ کلامش در گداز دستِ او بوسیدم از راہِ نیاز بادشاہے خوش کلام و سادہ پوش سخت کوش و نرم خوے و گرم جوش صدق و اخلاص از نگاہش آشکار دین و دولت از وجودش استوار خاکی و از نوریاں پاکیزہ تر از مقامِ فقر و شاہی باخبر در نگاہش روزگار شرق و غرب حکمتِ او را زدارِ شرق و غرب شہریارے چوں حکیمان نکتہ دان رازدانِ مدوجزرِ امتاں پردہ ہا از طلعتِ معنی کشود نکتہ ہاے ملک و دین را وا نمود گفت ازاں آتش کہ داری دربدن من ترا دانم عزیزِ خویشتن ہر کہ او را از محبت رنگ و بو ست در نگاہم ہاشمؔ و محمودؔ او ست درحضورِ آں مسلمانِ کریم ہدیہ آوردم زقرآنِ عظیم گفتم ایں سرمایۂ اہلِ حق است در ضمیر او حیاتِ مطلق است اندر و ہر ابتدا را انتہا است حیدرؓ از نیروے او خیبر کشاست نشۂ حرفم بخونِ او دوید دانہ دانہ اشک از چشمش چکید گفت ’’نادرؔ در جہاں بے چارہ بود از غمِ دین و وطن آوارہ بود کوہ و دشت ازاضطرابم بے خبر از غمانِ بے حسابم بے خبر نالہ بابانگِ ہزار آمیختم اشک باجوے بہار آمیختم غیرِ قرآن غمگسارِ من نہ بود قوتش ہر باب رابرمن کشود‘‘ گفتگو بے خسرو والا نژاد باز بامن جذبۂ سرشار داد وقتِ عصر آمد صدائے الصلوٰت آن کہ مومن را کند پاک از جہات انتہائے عاشقان سوز و گداز کردم اندر اقتدائے او نماز راز ہائے آں قیام و آں سجود جُز بزمِ محرماں نتواں کشود (۱۲۲) برمزارِ حضرت احمد شاہ بابا علیہ الرحمۃ موسسِ ملت افغانیہ ؎ فاش گوبا پورِ نادر فاش گوے باطنِ خود رابہ ظاہر فاش گوے (۱۲۳) ۳۔ اعلیٰحضرت المتوکل علی اللہ محمد ظاہر شاہ :۔ نام و لقب: المتوکل علی اللہ محمد ظاہر شاہ ولدیت: اعلیٰحضرت محمد نادر شاہ غازی تاریخ و مقامِ ولادت: ۲۲ میزان ۱۲۹۳ھ ش/ ۱۹۱۴ء (۱۲۴) الحمد اللہ تادمِ تحریر مقالہ ھذا (۲۰۰۳ئ)افغانستان میں اقبال شناسی کی روایت اعلیٰحضرت بقیدِ حیات ہیں۔ اعلیٰحضرت محمد نادر شاہ غازی کی شہادت کے بعد افغانستان کے بادشاہ بنے اور تقریباً چالیس سال تک افغانستان کے فرمانروا رہے۔ روم میں کئی سال جلاوطنی کے بعد حال ہی میں عازمِ وطن ہوئے ہیں۔ آج کل کابل میں تماشہ گاہِ زمان کا نظارہ کررہے ہیں۔ تاریخ وفات: ۲۳ جولائی ۲۰۰۷ء تدفین کابل کلامِ اقبال میں تذکرہ المتوکل علی اللہ محمد ظاہر شاہ:۔ خطاب بہ بادشاہِ اسلام اعلیٰحضرت محمد ظاہر شاہ اَ یَّدَہُ اَللہ بِنَصرِہِ ؎ اے قبائے پادشاہی بر تو ر است سایۂ تو خاکِ مارا کیمیا ست خسروی را از وجودِ تو عیار سطوتِ تو ملک و دولت راحصار از تو اے سرمایۂ فتح و ظفر تختِ احمد شاہ را شانے دگر سینۂ ہا بے مہرِ تو ویرانہ بہ از دل و از آرزو بیگانہ بہ آبگوں تیغے کہ داری در کمر نیم شب از تابِ او گردد سحر نیک می دانم کہ تیغِ نادرؔ است من چہ گویم باطنِ او ظاہرؔ است حرفِ شوق آورہ ام ازمن پزیر از فقیرے رمزِ سلطانی بگیر اے نگاہِ تو زشاہیں تیز تر گردِ ایں ملکِ خدا دادے نگر ایں کہ می نبینیم از تقدیر کیست؟ چیست آں چیزے کہ می بأست و نیست؟ روز و شب آئینۂ تدبیرِ ماست روز و شب آئینہ ٔ تقدیر ماست باتو گویم اے جوانِ سخت کوش چیست فردا؟ دخترِ امروز و دوش! ہر کہ خود را صاحبِ امروز کرد گردِ او گردد سپہرِ گرد گرد او جہانِ رنگ و بو را آبرو ست دوش ازو، امروز ازو فردا ازوست مردِ حق سرمایۂ روز و شب است زاں کہ او تقدیرِ خود را کوکب است بندۂ صاحب نظر پیرِ امم چشم او بینائے تقدیرِ امم از نگاہش تیز تر شمشیر نیست ماہمہ نخچیر! او نخچیر نیست لرزد از اندیشۂ آں پختہ کار حادثات اندر بطونِ روزگار چوں پدر اہلِ ہنررا دوست دار بندۂ صاحب نظر را دوست دار ہمچو آں خلد آشیاں بیدار زی سخت کوش و پُردم و کرار زی می شناسی معنیٔ کرار چیست ایں مقامے از مقاماتِ علیؓ است امتاں را در جہانِ بے ثبات نیست ممکن جز بکرّاری حیات سرگذشتِ آل عثمان رانگر از فریب غریباں خونیں جگر تا زکرّاری نصیبے داشتند درجہاں دیگر علم افراشتند مسلم ہندی چرامیداں گذاشت؟ ہمتِ او بوئے کراری نداشت! مشتِ خاکش آنچناں گردیدہ سرد گرمیٔ آوازِ من کار ے نکرد! ذکر و فکرِ نادری درخونِ تست قاہری با دلبری درخونِ تست اے فروغِ دیدۂ برنائو پیر سرِّ کار از ہاشمؔ و محمودؔ گیر ہم ازاں مردے کہ اندر کوہ و دشت حق ز تیغ او بلند آوازہ گشت روز ہا شب ہا تپیدن میتواں عصر دیگر آفریدن میتواں صد جہاں باقی است در قرآں ہنوز اندر آیاتش یکے خود را بسوز باز افغان را ازاں سوزے بدہ عصرِ او را صبح نوروزے بدہ ملتے گم گشتۂ کوہ و کمر از جبینش دیدہ ام چیزے دگر زانکہ بود اندر دل من سوز و درد حق ز تقدیرش مرا آگاہ کرد کاروبارش رانکو سنجیدہ ام آنچہ پنہاں است پیدا دیدہ ام مردِ میداں زندہ ز اللہ ھو ست زیرپائے او جہانِ چارسوست! بندۂ کو دل بہ غیراللہ نہ بست می تواں سنگ از زجاجِ او شکست اونگنجد درجہانِ چون و چند تہمتِ ساحل بایں دریا مبند چوں زورے خویش برگیرد حجاب اوحساب است او ثواب است او عذاب! برگ و سازِ ما کتاب و حکمت است ایں دو قوت اعتبارِ ملت است آں فتوحاتِ جہانِ ذوق و شوق ایں فتوحاتِ جہانِ تحت و فوق ہر دو انعامِ خدائے لایزال مومناں را آں جمال است، ایں جلال! حکمتِ اشیا فرنگی زاد نیست اصلِ او جُز لذتِ ایجاد نیست نیک اگر بینی مسلمان زادِہ است ایں گہر از دستِ ما افتادہ است چوں عرب اند اروپاؔ پر کشاد علم و حکمت را بنا دیگر نہاد داند آں صحرانشیناںؔ کاشتند حاصلش افرنگیاں برداشتند ایں پری از شیشۂ اسلامِ ماست باز صیدش کن کہ اوازقافِ ماست لیکن از تہذیب لا دینی گریز زاںکہ اوبا اہل حق دارد ستیز فتنہ ہا ایں فتنہ پردار آورد لات و عزیٰ در حرم باز آورد از فسونش دیدۂ دل نابصیر بلکہ دل زیں پیکرِ گل می برد کہنہ دُز دے غارتِ او برملاست لالہ می نالد کہ داغِ من کجاست! حق نصیب تو کند ذوقِ حضور باز گویم آنچہ گفتم در زبور ’’مردن وہم زیستن اے نکتہ رس ایں ہمہ از اعتبارات است و بس مردِ کر سوزِ نوا را مردۂ لذتِ صوت و صدا را مردۂ پیشِ چنگے مست و مسرور است کور پیش رنگے زندہ در گور است کور روح باحق زندہ و پایندہ است ورنہ ایں رامردہ آں را زندہ است آنکہ حیُّ لاَ یَمُوت آمدحق است زیستن باحق حیاتِ مطلق است ہر کہ بے حق زیست جز مردار نیست گرچہ کس در ماتمِ او زار نیست‘‘ برخور از قرآں اگر خواہی ثبات در ضمیرش دیدہ ام آبِ حیات می دھد ما را پیامِ لاَ تَخَفْ می رساند بر مقامِ لاَ تَخَفْ قوتِ سلطان و میر از لاَ اِلہَ ہیبت مردِ فقیر از لاَ اِ لہَ تادو تیغِ لاَ و اِلاَّ داشیتم ماَ سِوَا اللّٰہ رانشاں نگذاشیتم! خاوراںؔ از شعلۂ من روشن است اے خنک مردے کہ در عصرِ من است از تب و تابم نصیب خود بگیر بعد ازیں ناید جو من مردِ فقیر! گوہر دریائے قرآں سفتہ ام شرح رمزِ صِبغَۃُ اللّٰہ گفتہ ام با مسلماناں غمے بخشیدہ ام کہنہ شاخے رانمے بخشیدہ ام عشقِ من از زندگی دارد سراغ عقل از صبہائے من روشن ایاغ نکتہ ہائے خاطر افروزے کہ گفت؟ با مسلماں حرفِ پُر سوزے کہ گفت؟ ہمچو نے نالیدم اندر کوہ و دشت تا مقامِ خویش برمن فاش گشت حرفِ شوق آموختم واسوختم آتشِ افسردہ باز افروختم بامن آہِ صبحگاہے دادہ اند سطوتِ کو ہے بکا ہے دادہ اند دارم اندر سینہ نورِ لَا اِلہَ در شرابِ من سرورِ لَا اِلہَ فکرِ من گردوں مسیر از فیض اوست جوئے ساحل نا پذیر از فیض اوست پس بگیر از بادۂ من یک دو جام تا درخشی مثلِ تیغ بے نیام!(۱۲۵) اقبال کے افغانوں سے وابستہ تعلقات:۔ علامہ افغانوں سے بے پناہ محبت رکھتے تھے۔ اس محبت کی وجہ افغانوں کی وہ سخت کوشی اور دین و مذہب سے وہ عشق ہے جو اقوامِ عالم میںنبستاًکم قوموں کے حصے میں آیا ہے۔ مذہب سے اس عشق اور سماجی طور پر مضبوط و مستحکم قوم ہونے کی بنا پر علامہ کی افغانوں سے کئی توقعات وابستہ تھیں۔ چونکہ غلام ہندوستان اور عالمِ اسلام میں مسلمانوں کی ابتلاء کے زمانے میں اقبال کو حریت ، جرأت اور آزادی کی صورتیں افغانستان میں نظر آئیں لہٰذا اقبال نے افغانوں کی تعریف کی۔ تاکہ افغانوں کی تقلید میں دوسرے مسلمانوں میں بھی حریت ، جرأت اور آزادی کی تڑپ پیدا ہو۔ بقول میر عبدالصمد خان: ’’علامہ اقبال جیسے شاہانہ مزاج قلندر کو افغانوں کی یہی ادائیں پسند آئیں ۔ اور انھوں نے ایک سچے دردمند مسلمان کی طرح ان کی آرزوئوں اور تمنائوں کو اپنی آرزوئوں اور امنگوں میں شامل کرکے ان کا اظہار کیا۔ اور اس طرح افغاں ملت کو اپنا ایک خاص موضوع بناکر ابدیت بخشی‘‘۔(۱۲۶) علامہ کو افغانوں کی نااتفاقی کا بڑا صدمہ تھا۔ جا بجا اس صدمے کا اظہار کیا: اقبال نے پیامِ مشرق ، جاوید نامہ، بالِ جبریل، مثنوی مسافر اور ضربِ کلیم میں افغانوں کی خوب تمدیح و توصیف کی ہے۔ ضربِ کلیم میں ’’محراب گل افغان کے افکار‘‘ کے عنوان کے تحت اقبال نے خوشحال خان خٹک کے ہی درسِ اتحاد کو دہرایا ہے۔ ملت افاغنہ کا کل بھی اور آج بھی سب سے بڑا مسئلہ ان کی اندرونی اور باطنی عدم اتحاد ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اقبال محراب گل افغان کے فرضی شاعرانہ کردار کے ذریعے افغانوں میں بیداری ، اتحاد اور انقلاب پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ ’’محراب گل افغان کے افکار‘‘ میں افغانوں کی نسلی اور تاریخی روایات کی ترجمانی کے علاوہ افغانوں کی روحانی تمنائوں اور افغان قومیت کی اسلامی شناخت کی بھرپور عکاسی کی گئی ہے۔ (۱۲۷) ؎ تری خودی میں اگر انقلاب ہو پیدا عجب نہیں کہ یہ چارسو بدل جائے! تری دعا ہے کہ ہو تیری آرزو پوری مری دعا ہے تیری آرزو بدل جائے!(۱۲۸) اقبال افغانوں کو بار بار وحدت ، مرکزیت اور خودی کا سبق یاد دلاتے ہیں کہ یہی راز حیات وبرگ و ساز کائنات ہے۔ وہ افغانوں کی پستی اور پسماندگی کا سبب ان کی حال پر قناعت اور مستقبل سے غفلت قرار دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ قوموں کی ترقی کے لئے امید و آرزو اور ایک متفقہ نصب العین ضروری ہے۔ ’’۔۔۔۔ حضرت اقبال بعد از ۹۰۰ سال آنرا ترجمانی می نماید و جذبات و اشتعالاتی کہ دربارۂ وطن محبوب ما زوی در ہر وقت و ہر پیش آمدی مشاہدہ میشد فزون تراز آن است کہ دریں چند کلمہ ادا میشود۔ او را پندار و گفتار مخصوص درین بارہ بود ما رابہ خودی میخواند و بہ داشتن اتکاء بخود و اعتماد بہ نفس کہ جبلی افغانہاست تمجید میگفت۔ نگاہ عقابانِ مادر تنظروی نافذ تر و برندہ تر از شمشیر و خنجری نمود، عزم مارا محکم تراز کوہسار ما میخواند و باشاہ مارا مرد پاک نہاد و صاحب نظر خطاب میکرد : ؎ بیا بیا کہ بد امانِ نادر آویزم کہ مرد پاک نہاد است و صاحب نظر است و درحق ملت ما میگفت: ؎ آسیا یک پیکر آب و گلِ است ملت افغان در آں پیکر دل است او فساد گتی را در فساد آسیا و فتورآسیا را در فسادِ دیار مامعانیہ میکرد و میگفت: ؎ از فساد او فساد آسیا در کشادِ او کشاد آسیا او معتقد بود تا فرزندان افغاں یعنی دل پیکر آسیا آزاد بنا شد تن آزاد نگردد ؎ تادل آزاد است آزاد است تن ورنہ کاہی در رہ باد است تن (۱۲۹) ان کی انہی توقعات کو ظاہر کرنے کے لئے مجلہ کابل کو ایک نظم اپنی تصویر کے ساتھ ارسال کرتے ہیں۔ مجلہ کابل اس نظم کا عکس شائع کرتا ہے’’پیغام بہ ملت کوہسار‘‘۔ ؎ صبا بگوی بہ افغانِ کوہسار از من بمنزلی رسد ملتی کہ خود نگر است (۱۳۰) افغانوں کو خود اعتمادی کا پیام دیتے ہوئے انہیں منزلِ مقصود کے کعبے تک پہنچنے کی نوید عطاکرتے ہیں۔ بقولِ اکرام اللہ شاہد: افغان حکمرانوں سے اقبال نے بڑی بڑی توقعات وابستہ کیں ۔ ان کی خواہش تھی کہ افغانی حکمران مختلف قبائل میں افہام و تفہیم کے ذریعے اتحاد پیدا کریں۔ اور ان کو مختلف قبائل میں بٹے ہونے کے باوجود مرکز ملت پر اکٹھے کرکے افغانستان کو ایک عظیم اسلامی فلاحی مملکت میں ڈھال دیں۔ جس طرح کہ ماضی میںمحمود غزنوی ، شہاب الدین غوری اور پھر ماضی قریب میں احمد شاہ ابدالی نے کیا۔ ان تین عظیم حکمرانوں نے برصغیر میں اسلام کی قوت کو تقویت پہنچائی۔ (۱۳۱) اسی وجہ سے ہر اس افغان رہنما کو تحسین کی نگاہ سے دیکھا جس نے افغانوں کو ایک ہی پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنے کی کوشش کی تھی۔ اقبال خوشحال خان خٹک اور احمد شاہ ابدالی سے لے کر امان اللہ خان اور نادر شاہ تک ہر اس شخص کو تحسین کی نگاہ سے دیکھتے ہیں جس نے باہم متحارب قبائل کو متحد کرکے عظیم منظم افغان مملکت کی بنیاد رکھنے کی کوشش کی۔ (۱۳۲) پیامِ مشرق کا اعلیٰحضرت غازی امان اللہ خان کے نام منسوب کرنا انہی توقعات کا آئینہ دار ہے۔ اس طویل فارسی منظوم انتساب کے علاوہ پیامِ مشرق کا دیباچہ بھی نہایت اہمیت کا حامل ہے جس میں افغانستان اور افغانوں سے وابستہ توقعات کے اشارے موجود ہیں۔ مشرق اور بالخصوص اسلامی مشرق نے صدیوں کی مسلسل نیند کے بعد آنکھ کھولی ہے۔ مگر اقوامِ شرق کو یہ محسوس کرلینا چاہیئے کہ زندگی اپنے حوالی میں کسی قسم کا انقلاب پیدا نہیں کرسکتی جب تک کہ اس کا وجود پہلے انسانوں کی ضمیر میں متشکل نہ ہو۔ فطرت کا یہ اٹل قانون جس کو قرآن نے اِنَّ اللّٰہ لَا یُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰی یُغَیّرُوا مَا بِاَنْفُسِھِمْ کے سادہ اور بلیغ الفاظ میں بیان کیا ہے۔ زندگی کے فردی اور اجتماعی دونوں پہلوئوں پر حاوی ہے اور میں نے اپنی فارسی تصانیف میں صداقت کو مدّنظر رکھنے کی کوشش کی ہے۔ اس وقت دنیامیں اور بالخصوص ممالک مشرق میں ہر ایسی کوشش جس کا مقصد افراد و اقوام کی نگاہ کو جغرافیائی حدود سے بالاتر کرکے ان میں ایک صحیح اور قومی انسانی سیرت کی تجدید یا تولید ہو قابلِ احترام ہے۔ اس بنا ء پر میں نے ان چند اوراق کو اعلیٰحضرت فرمانروائے افغانستان کے نام نامی سے منسوب کیا ہے۔ کہ وہ اپنی فطری ذہانت و فطانت سے اس نکتے سے بخوبی آگاہ معلوم ہوتے ہیں۔ اور افغانوں کی تربیت انہیں خاص طور پر مدّ نظر ہے اس عظیم الشان کام میں خدا تعالیٰ ان کا حامی و ناصر ہو۔ (۱۳۳) میر عبدالصمد کے خیال میں اقبال کا پیامِ مشرق کا انتساب غازی امان اللہ خان کے نام کرنے کی ’’وجہ یہ تھی کہ افغانستان مسلمانوں کی ایک ایسی مملکت تھی جو بڑی طاقتوں کی ریشہ دوانیوں کے باوجود اپنی قومی خود مختاری قائم رکھنے کی جدوجہد کررہی تھی۔ نوجوان اور جوشیلا امیر امان اللہ خان خود مختاری و آزادی کا علم بلند کئے ہوئے تھے ۔ اسی زمانے میں ہزاروں مسلمانوں نے ہندوستان کو دارالحرب سمجھتے ہوئے افغانستان ہجرت کی۔ مولانا عبیدا للہ سندھی اور مولانا محمود انصاری جیسے حریت پسند بزرگوں نے افغانستان جا کر ہندوستانی مسلمانوں کی آزادی کے لئے کام کیا۔ افغانوں کی مہمان نواز اوراسلام پسند قوم نے اپنی بے بضاعت اور پسماندگی کے باوجود ان مہاجروں کو گلے لگایا اور حتی المقدور خاطر داری کی۔(۱۳۴) اقبال جب اقوام سرحد سے مخاطب ہوتے ہیں تو وہ دراصل افغانوں سے خطاب کر رہے ہوتے ہیں۔ اقبال انھیں جھنجھوڑتے ہیں کہ اپنی عظمت رفتہ اور اپنی خودی کی بازیافت کرے اسلام میں تجاہل اور تغافل حرام ہے۔ خود آگاہی دین و زندگی کا پیام اور خود فراموشی موت کا نام ہے۔ خودی کی تعمیر کرتے ہوئے اپنی سرزمین کی خاک کو اکسیر بنادے اور ملتِ اسلامیہ کی تعمیر میں اپنا کردار ادا کرو۔(۱۳۵) ؎ اے زخود پوشیدہ خود را بازیاب در مسلمانی حرامست ایں حجاب! تو خودی اندر بدن تعمیر کن مشتِ خاک ِ خویش را اکسیر کن (۱۳۶) مکتوبات اقبال میں افغان افغانستان اور پشتو زبان کا تذکرہ۔ ذیل میں صرف علامہ کے ان مکتوبات کو شامل کیا جا رہا ہے جن میں افغان افغانستان یا پشتو زبان کا ذکر کیا گیا ہے۔ جبکہ افغان مشاہیر، زعما، اہل قلم اور سفر افغانستان سے متعلق مکتوبات متعلقہ عنوانات کے تحت شامل تحقیق کئے گئے ہیں۔اور یہ مکتوبات حواشی اور تحقیق اکرام چغتائی کے اقبال افغان اور افغانستان سے لیے گئے ہیں۔ مکتوب اقبال بنام نجم الغنی رامپوری (بابت ۱۴ دسمبر ۱۹۱۸ئ) ’’’اخبار الصنادید‘ کی دو جلدوں کے لئے سراپا سپاس ہوں۔ میں نے پہلی جلد کو بالخصوص نہایت دلچسپی کے ساتھ پڑھا ہے۔ قوم افغان کی اصلیت پر آپ نے خوب روشنی ڈالی ہے۔ کشا مرہ غالباً افاغنہ یعنی اسرائیلی الاصل ہیں۔ قاضی میر احمد شاہ رضوانی جو خود افغان ہیں‘ ایک دفعہ مجھ سے فرماتے تھے کہ لفظ ’’فغ‘‘ قدیم فارسی میں ’’ہست‘‘ آیا ہے اور افغان میں الف سالبہ ہے۔ چونکہ ایران میں بود و باش کے وقت افغان بت پرست نہ تھے‘ اس واسطے ایرانیوں نے انہیں افغان کے نام سے موسوم کیا ہے۔ میرے خیال میں حال کی پشتو زبان میں بہت سے الفاظ عبرانی اصل کے موجودہیں۔ اگر تحقیق کی جائے تو مجھے یقین ہے‘ نہایت بار آور ہو گی۔‘‘ ------ مکتوب اقبال بنام شیخ نور محمد (والد) (بابت ۱۲ مئی ۱۹۱۹ئ) ’’چونکہ سرکار انگریز کی جنگ افغانستان سے شروع ہوگئی ہے‘ اس واسطے خطوط کے ملنے میں دیر ہوئی۔ امید ہے کہ اس صورت حال کا خاتمہ جلد ہوجائے گا۔ میں نے ان کو لکھا تھا کہ گرما کے مہینوں کے لئے رخصت لے لیویں‘ مگر اب بوجہ جنگ چونکہ ان کا کام زیادہ ہو جائے گا‘ اس واسطے ان کو رخصت نہ مل سکے گی۔‘‘ ]بحوالہ مکتوب اعجاز احمد بنام ڈاکٹر جاوید اقبال: اقبال کے بڑے بھائی شیخ عطا محمد کی سروس بک کے مطابق وہ پنشن پا کر۲۲ ستمبر ۱۹۱۲ء کو ملازمت سے سبکدوش ہوئے۔ جب انگریزی حکومت کی افغانستان کے ساتھ جنگ شروع ہوئی تو انہیں پھر ملازمت پر واپس بلا لیا گیا اور ڈیڑھ دو سال بعد غالباً ۱۹۱۹ء میں فارغ ہو کر گھر آئے۔ دیکھئے زندہ رود از ڈاکٹر جاوید اقبال[ ------ مکتوب اقبال بنام گرامی (بابت ۱۲ جولائی ۱۹۲۰ئ) ’’سندھی مہاجرین کابل کا نظارہ بڑا رقت انگیز تھا۔ لوگ ہزاروں کی تعداد میں سٹیشن پر ان کے استقبال کو حاضر تھے۔ اہل لاہور نے بڑے جوش سے ان کا خیر مقدم کیا۔ ‘‘ ]جنگ عظیم اول کے بعد انگریزوں نے مسلمانوں سے خلافت اور جزیرۃ العرب کے حوالے سے وعدہ خلافی کی‘ جس کے نتیجے میں تحریک ہجرت شروع ہوئی۔ جس کا مقصد دنیا پر یہ ظاہر کرنا تھا کہ مسلمانان ہند برطانیہ سے اتنے بیزار ہیں کہ ملک چھوڑ کر جانے کو تیار ہو گئے ہیں۔ ہمسایہ ملک افغانستان نے مہاجرین کا خیر مقدم کیا۔ چنانچہ یہاں سے لوگ قافلہ در قافلہ جانے لگے۔ ان میں سے ایک بڑا قافلہ سندھی مہاجرین کا تھا‘ جس کے سالار مرحوم جان محمد جونیجو بیرسٹر تھے۔ اقبال کے مکتوب میں اسی قافلہ مہاجرین کا ذکر ہے جولاہور سے گذرا تھا۔ افغانستان کے وسائل اس زمانے میں ایسے نہ تھے کہ لامحدود مہاجرین کے لئے اسباب معیشت مہیا ہو جاتے‘ اس لئے مہاجرین کو روکنا پڑا۔[ ------ مکتوب اقبال بنام محمد اکبر منیر (بابت۴ -اگست ۱۹۲۰ئ) ’’ہندوستان اور بالخصوص پنجاب سے بے شمار لوگ (مسلمان) افغانستان کی طرف ہجرت کر رہے ہیں۔ اس وقت تک پندرہ بیس ہزار آدمی (اور ممکن ہے کہ زیادہ) جا چکاہو گا۔‘‘ ------ مکتوب اقبال بنام عطا محمد (برادر کلاں) (بابت ۳- اپریل۱۹۲۱ئ) ’’شاید اب اس نے ]چراغ دین[ افغانستان جانا چھوڑ دیا ہے اور کپڑے کا روزگار شروع کر دیا ہے۔‘‘ ------ مکتوب اقبال بنام شیخ عطا محمد (برادر کلاں) (بابت ۲۸ ستمبر ۱۹۲۲ئ) ’’ایشیا میں ایک لیگ اقوام کی قائم ہونے والی ہے‘ جس کے متعلق افغانی اور روسی گورنمنٹ کے درمیان گفتگو ہو رہی ہے۔ یہ سب اخباروں کی خبریں ہیں اور مجھے یقین ہے کہ حقیقت اس سے بھی زیادہ ہے۔ غالباً اب مسلمانانِ ایشیا کا فرض ہے کہ تمام اسلامی دنیا میں چندہ کر کے کابل اور قسطنطنیہ کو بذریعہ ریل ملا دیا جائے اور یہ ریل ان تمام اسلامی ریاستوں میں سے ہو کر گذرے جو روس کے انقلاب سے آزاد ہوئی ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ یہ تجویز ضرور عمل میں آئے گی۔‘‘ (بحوالہ زندہ رود از ڈاکٹر جاوید اقبال) ]ایسی ہی تجویز اقبال نے دورئہ افغانستان کے دوران میں بھی پیش کی تھی[ ------ مکتوب اقبال بنام خالد خلیل بے (بابت نومبر/دسمبر ۱۹۲۴ئ) ’’میری رائے ہے کہ مثال کے طور پر افغانوں پر خطبات کا ایک سلسلہ شروع کیا جائے۔ خطبہ اول: افغان‘ افغانستان میں نسلوں کا خلط ملط۔ فارسی بولنے والے افغان اور پشتو بولنے والے افغان۔ کیا افغان اور پٹھان میں کوئی چیز مابہ الامتیاز ہے؟ کیا افغان عبرانی ہیں؟ اپنی اصلیت کے متعلق ان کی اپنی روایات۔ کیا پشتو زبان میں عبرانی الفاظ ملتے ہیں؟ کیا وہ ان یہودیوں کے خلاف ہیں جن کو ایرانی کسریٰ نے اسیرین کی غلامی سے نجات دلائی تھی۔ جدید افغانستان کے بڑے بڑے قبائل‘ ان کی تخمینی آبادی۔ خطبہ دوم: افغانوں کے اسلام لانے کے زمانہ سے ان کی سیاسی تاریخ پر سرسری تبصرہ۔ خطبہ سوم: افغانوں کو متحد کرنے کی جدوجہد (الف) مذہبی۔ پیر روشن اور ان کے اخلاف (ب) سیاسی۔ مشہور افغان شیر شاہ سوری جس نے افغانان ہند کو متحد اور عارضی طو پر حکومت مغلیہ کو برطرف کر دیا تھا۔ اس کی تگ و دو کا صرف ہندوستان تک محدود ہونا۔ (ج) خوشحال خاں خٹک۔ سرحدی افغانوں کا زبردست سپاہی شاعر جس نے ہندوستان کے مغلوں کے خلاف افغان قبیلوں کو متحد کرنا چاہا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ افغان عبرانی النسل تھے۔ اس نے آخر شہنشاہ اورنگ زیب سے شکست کھائی اور کسی قلعہ میں نظر بند کر دیا گیا۔ افغانوں کا شاید اولین قومی شاعر تھا۔ (د) احمد شاہ ابدالی (ھ) مرحوم امیر عبدالرحمن خاں۔ موجودہ امیر اور افغانوں میں قومی تشخص پیداکرنے کی جدوجہد۔ خطبہ چہارم: موجودہ افغانی تمدن۔ ان کی قدیم اور جدید صنعت و صناعت۔ ان کی ادبیات ان کی آرزوئوں اور حوصلہ مندیوں کی ترجمان کی حیثیت سے۔ خطبہ پنجم: افغانی نسل کا مستقبل۔ ‘‘ ------ مکتوب اقبال بنام چودھری محمد حسین (بابت۱۵- اگست ۱۹۲۵ئ) ’’افغانستان کے متعلق اخباروں میں بھی کوئی ایسی خبر نہیں لیکن کچھ نہ کچھ ہے ضرور۔‘‘ ------ مکتوب اقبال بنام چودھری محمد حسین (بابت ۲۵ -اگست ۱۹۲۵ئ) ’’افغانستان کے متعلق پرسوں کے اخبار میں جو خبر شائع ہوئی تھی‘ اس سے معلوم ہوا کہ کوئی دعویدار سلطنت کا پیدا ہوا ہے۔ غالباً وہاں انقلاب پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے‘ جس کا منشا شاید یہ ہے کہ موجودہ نظام کو درہم برہم کر کے ملک کو اپنی پرانی حالت پر لوٹا دیا جائے‘ لیکن یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ افغانستان اور سرحدی اقوام ایشیا کا بلقان ہے۔‘‘ ------ مکتوب اقبال بنام صاحبزادہ آفتاب احمد خاں (بابت ۴ جون ۱۹۲۵ئ) ’’میری رائے میں جدید اسلامی مملکتوں کے لئے جدید دینیاتی افکار کی توسیع اور ترویج ضروری ہے۔ قدیم اور جدید اصولاتِ تعلیم کے مابین اور روحانی آزادی اور معبدی اقتدار کے مابین دنیائے اسلام میں ایک کشاکش شروع ہو گئی ہے۔ یہ روحِ انسانیت کی تحریک افغانستان جیسے ملک پر بھی اثر ڈال رہی ہے۔ آپ نے امیر افغانستان کی وہ تقریر پڑھی ہو گی ‘جس میں انہوں نے علماء کے اختیارات کے حدود متعین کرنے کی کوشش کی ہے۔‘‘ ------ مکتوب اقبال بنا م صوفی غلام مصطفی تبسم (بابت ۲ ستمبر ۱۹۲۵ئ) ’’میرا عقیدہ یہ ہے کہ جو شخص اس وقت قرآنی نقطۂ نگاہ سے زمانۂ حال کے ’’جورس پروڈنس‘‘ پر ایک تنقیدی نگاہ ڈال کر احکامِ قرآنیہ کی ابدیت کو ثابت کرے گا‘ وہی اسلام کا مجدد ہو گا اور بنی نوع انسان کا سب سے بڑا خادم بھی وہی شخص ہو گا۔ قریباً تمام ممالک میں اس وقت مسلمان یا تو اپنی آزادی کے لئے لڑ رہے ہیں یا قوانین اسلامیہ پر غور و فکر کر رہے ہیں (سوائے ایران اور افغانستان کے) مگر ان ممالک میں بھی امروز فردا یہ سوال پیدا ہونے والا ہے…‘‘ ------ مکتوب اقبال بنام سید سلیمان ندوی (بابت ۱۸ مارچ ۱۹۲۶ئ) اسلام میں تحریک اصلاح دین ’’…عنقریب ایران اور افغانستان میں بھی اس کا ظہور ہو گا۔‘‘ ------ مکتوب اقبال بنام محمد عبدالجلیل بنگلوری (بابت ۴ نومبر ۱۹۲۹ئ) ’’افغانستان کا استقلال و استحکام مسلمانان ہندوستان اور وسطی ایشیا کے لئے وجہ جمعیت و تقویت ہے۔ بچہ سقہ اپنے گیارہ ساتھیوں سمیت قتل ہو چکا ہے اور نادر شاہ بادشاہ بتدریج استحکام حاصل کر رہے ہیں۔ ‘‘ (۱۳۷) ------ (ب): افغانوں کی اقبال دوستی:۔ (۱): اقبال سے افغانوں کے مراسم:۔ افغانوں کی اقبال دوستی کی تاریخ خاصی پرانی ہے۔ ان مراسم کا آغاز تحقیق طلب ہے۔ البتہ باقاعدہ شکل میں ان مراسم کا آغاز ۱۹۲۳ء سے کیا جاسکتا ہے کیونکہ اسی سال پیامِ مشرق شائع ہوتی ہے اور اس کا انتساب غازی امان اللہ خان فرمانروائے مملکتِ افغانستان کے نام کی جاتی ہے۔ ۸۱ اشعار پر مشتمل یہ طویل منظوم فارسی انتساب علامہ کے غازی امان اللہ خان سے مراسم کا آئینہ دار ہے۔ (۱۳۸) اس انتساب کا سبب ڈاکٹر عبداللہ چغتائی نے محفوظ کیا ہے: ایک مرتبہ میں نے علامہ سے سوال کیا کہ آپ نے ’’پیامِ مشرق‘‘ کو امیر امان اللہ خان کے نام ہی کیوں معنون کیا ہے۔ آپ نے مسکراکر جواب دیا کہ میں اس کتاب کو کسی آزاد مسلمان کے نام معنون کرنا چاہتا تھا اور اس ضمن میں امیر امان اللہ سے زیادہ موزوں شخصیت کس کی ہو سکتی تھی؟ اس پر میں لاجواب ہوکر خاموش ہوگیا کیونکہ ’’پیامِ مشرق‘‘ کے جذبے کو فعال بنانے کے لئے اس کا کسی مردِ آزاد کے نام معنون ہونا نہایت ضروری تھا۔ (۱۳۹) چنانچہ افغانستان میں علامہ کی پیامِ مشرق کے نسخے تقسیم ہوتے ہیں۔ علامہ کے افکار سے شناسائی حاصل ہوتی ہے۔ حافظ و بیدل کا شیدائی افغان قوم اقبال کاگرویدہ بن جاتا ہے اور بقول عبدالسلام ندویؔ: اسلامی ممالک میں اقبال کی شاعری نے خاص طور پر شہرت حاصل کی۔ مئی ۱۹۲۴ء میں جبکہ افغانستان کے شاہ امان اللہ خان اپنی حکومت کے انتہائی عروج کی منزلیں طے کررہے تھے۔ ڈاکٹر صاحب کا کلام کابل کی ایک عظیم الشان مجلس میں پڑھا گیاجس میں شاہ ممدوح ، سفرائے دول خارجہ ، عمائدین شہر وزیرِ تعلیم اور دوسرے وزراء بھی شامل تھے۔ یہ جلسہ طلبہ کے تقسیم انعامات کا تھا۔ اس میں ہمارے ملک الشعراء ہند کا مشہور قومی ترانہ ’’مسلم ہیں ہم وطن ہے سارا جہاں ہمارا‘‘بچوں نے اپنے پیارے اور سادے لہجے میں سنایا۔ پھر جب فوجی بینڈ نے اسے دہرایا تو حاضرین پر رقت طاری ہوگئی۔(۱۴۰) امیر امان اللہ خان جدید مترقی سوچ کے مالک تھے۔ تقلید مغرب کے سحر میں گرفتار ہوئے۔ چنانچہ یورپ کے طویل دورے کا پروگرام بنایا۔ وہ ۱۴دسمبر ۱۹۲۷ء کو براستہ چمن پاکستان یورپ کے سفر پر روانہ ہوئے۔ اور اس سفر سے واپسی پر ایران ہرات قندھار اور غزنی سے ہوتے ہوئے یکم جولائی ۱۹۲۸ء کو واپس کابل پہنچے ۔ اس سفر میں امیرا مان اللہ خان مغربی دنیا کی حیرت انگیز مادی ترقی سے بے حد متاثر ہوئے۔ اور اصلاحات کا خاکہ بنایا۔ انھوں نے اس حقیقت کو پیشِ نظر نہ رکھا کہ افغان قوم پسماندہ اور انتہائی قدامت پرست قوم ہے اور صدیوں سے جن عقائد اور اعمال پرجمی ہوئی ہے ان سے بآسانی اسے ہٹایا نہیں جا سکتا۔ امیر امان اللہ نے ملک میں جدید اصلاحات نافذ کرنے میں عجلت سے کام لیا۔ علماء ابتدائی زمانے سے افغان معاشرہ پر پوری گرفت رکھتے تھے ۔ امھوں نے اپنی مقبولیت سے کام لے کر عوام کو امیر امان اللہ کے خلاف برانگیختہ کردیا۔۔۔۔۔۔ انگریزوں نے ان حالات سے فائدہ اٹھایا۔ انھوں نے بحالت مجبوری افغانستان کی آزادی تسلیم کی تھی۔ اور اُن کے سیاسی مقاصد کے لئے ضروری تھاکہ افغانستان آزاد اور خود مختار مملکت نہ رہے ۔ اور اس ملک میں امن و سکون قائم نہ ہو سکے۔ انگریزوں نے ایک سازش کے ذریعے ملکہ ثریا کی ہزاروں نیم برہنہ تصاویر افغانستان میں تقسیم کردیں ۔ نتیجہ یہ نکلا کہ جاہل عوام یہ خیال کرنے لگے کہ امیر امان اللہ اسلام سے منحرف ہوگئے ہیں۔ علماء نے امان اللہ خان کے خلاف فتویٰ دے کر جلتی پر تیل کا کام کیا ان حالات کی تاب نہ لاکر امان اللہ خان اپنے خاندان سمیت ۲۲ جون ۱۹۲۹ء کو یورپ چلے گئے۔ اور افغانستان ایک غیر معروف شخص امیر حبیب اللہ المعروف بہ بچہ سقہ کے ہاتھ میں آگیا۔(۱۴۱) علامہ ان حالات میں اپنے محبوب رہنما غازی امان اللہ خان اور آزاد افغانستان میں جاری اضطراب سے کیسے بے خبر رہ سکتے تھے اور نہ ہی ہندوستان کے بیدار مسلمان اس حقیقت سے بے رہ سکتے تھے اور وہ سمجھتے تھے کہ افغانستان میں جاری حالات کا تقاضا ہے کہ شہر یار غازی کی مالی اعانت کی جائے۔ اس سلسلے میں علامہ ہی اہم کردار ادا کر سکتے تھے۔ چنانچہ پروفیسر سید عبدالقادر شاہ صاحب کا ایک مکتوب روزنامہ انقلاب کے ایڈیٹر کے نام ۲۳ فروری کو انقلاب میں شائع ہوتا ہے۔ اس مکتوب میں انہی نکات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ مکرم بندہ جناب ایڈیٹر صاحب اخبار انقلاب السلام علیکم۔ آپ کے اخبار میں شہر یار غازی کی مالی امداد کے متعلق مولانا قرشی صاحب کا مضمون ابھی نظر سے گذرا۔ تجویز نہایت اہم ہے میرے خیال میں اس کو عملی جامہ پہنانے کی فوراً کوشش ہونی چاہیے۔ شہریار غازی کی جلالت شان شہر یار خان غازی نہایت روشن دماغ اور روشن ضمیر تاج دار ہیں۔ اور ہم مسلمان جس قدر بھی ان کی ذات بابرکات پر فخر اور ناز کریں کم ہے۔ غازی نے افغانستان کی مدتوں کی چھنی ہوئی آزادی کو انگریزوں جیسی قوم سے چند ماہ کے اندر واپس لے لیا۔ یہ اتنا بڑا کارنامہ ہے کہ اس کی نظیرتاریخ عالم میں بہت کم نظر آتی ہے۔ اس کا شکریہ میں مسلمان شہر یار غازی کی جس قدر بھی عزت و توقیر کریں بجا ہے۔ شہر یار غازی نے ایک گم نام ملک کو اقصائے عالم میں مشہور کر دیا اور افغانوں کی قومی خود داری اور تدبر کی دھاک اقوام یورپ کے دل پر بٹھا دیا۔ شنواریوں کی کافر نعمتی خدائے تعالیٰ نے پورے ڈیڑھ دو سو سال کے بعدافغانوں کو ایک نعمت عطا کی تھی لیکن افسوس کہ ناشکرگزار اور تیرہ بخت شنواریوں نے اس نعمت کی کوئی قدر نہ کی۔ اگر اس وقت پٹھانوں نے آنکھیں نہ کھولیں اور اپنی خوفناک غلطی کا ازالہ نہ کیا تو اس کا وبال تمام قوم پر پڑے گا۔ اور افغانستان کو وہ روز بد دیکھنا نصیب ہو گا جس کے تصور سے بھی انسان کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ مسلمانان ہند سے گزارش آخر میں مسلمانان ہند سے گزارش ہے کہ اگر وہ افغانستان کو آزاد اور متحد دیکھنے کے آرزو مند ہیں اگر وہ نہیں چاہتے کہ کابل و قندہار کی گلیوں میں مسلمانوں کے خوں کی ندیاں بہیں اگر وہ نہیں چاہتے کہ افغانستان اغیار کی ایک معمولی سی باج گزار ریاست بن جائے اور اس کے زن و فرزند کی عزت و ناموس کسی غیر قوم کے رحم پر ہو تو انہیں اس وقت ہمت سے کام لینا ہوگا اور دل کھول کر شہریار غازی کی امداد کرنی ہو گی۔ علامہ اقبال کام سنبھالیں میرے خیال میں مولانا شوکت علی مولانا محمد علی اور مولانا ظفر علی خاں بعض وجوہ سے چندہ جمع کرنے کا کام اپنے ذمہ لینا نہیں چاہتے۔ اس لئے علامہ اقبال اس کام کو اپنے ہاتھ میں لے لیں تو بہترہے۔ پہلا جلسہ بھی علامہ موصوف کے دولت کدہ پر ہونا چاہیے اور وہیں مجلس انتظامیہ کے ارکان کا انتخاب کر کے فورا کام شروع کر دینا چاہیے جیسا کہ جناب قرشی صاحب نے تجویز فرمایا ہے میں اس کام میں ہر قسم کی امداد بسر و چشم دینے کے لیے حاضر ہوں۔ والسلام سید عبدالقادر ایم اے پروفیسر اسلامیہ کالج لاہور ]انقلاب جلد ۳۔ نمبر ۲۰۵ شنبہ ۲۳ فروری ۱۹۲۹ئ[ ۱۴ نومبر ۱۹۲۸ء کو افغانستان میں بغاوت کی ابتدا ہوئی۔ انگریزوں نے اپنی سیاسی مصلحتوں کے تحت باغیوں کی مدد کی اور ۱۷ جنوری کو بچہ سقہ نے کابل کے تخت پر قبضہ کر لیا تھا اس ڈاکو کے دور حکومت میں افغانوں کو ناقابل بیان مصائب کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ (۱۴۳) اس حقیقت کو سمجھتے ہوئے غازی امان اللہ خاں کی امداد کے لئے ۲۴ فروری ۱۹۲۹ء کو لاہور میں مسلم اکابرین کا اجلاس ہوا۔ اس اجلاس کی روداد انقلاب اخبار نے یوں شائع کی ہے۔ غازی امان اللہ خاں کی امداد کے لئے سرگرمیاں اکابر مسلمین کا ایک اجتماع لاہور ۔ ۲۴ فروری : آج شام چار بجے اکابر مسلمین کا ایک اجتماع برکت علی مسلم ہال میں ہوا۔ اکابرین میں سے سر شفیع، علامہ اقبال اور شیخ حسن صاحب امرتسری خاص طو ر پر قابل ذکر ہیں۔ سر شفیع اس جلسہ کے اعلان کردہ صدر تھے۔ لیکن جلسے کے باقاعدہ آغاز سے پیشتر صورت حال پر مذاکرہ ہوتا رہا۔ بعد ازاں سر شفیع نے ایک مختصر سی تقریر فرمائی جس میں بتایا کہ افغانستان کی موجودہ حالات کا ہر مسلمان کو درد ہے اور ہر مسلمان کی خواہش ہے کہ اس وقت ہر ممکن مدد انجام دے۔ خیال یہ تھا کہ تمام مسلمان جماعتوں اور طبقوں کے اتحاد سے ایک کمیٹی بنائی جائے۔ لیکن معلوم ہوا ہے کہ کل ہمارے بعض معزز بھائیوں کی ایک کمیٹی بن چکی ہے]’’زمیندار ‘‘ اور ’’مسلم آئوٹ لک‘‘ نے سرمایہ امان اللہ فنڈ کا اعلان کر دیا تھا اور اس مقصد کے لئے انہوں نے ایک کمیٹی بھی بنائی تھی [ اگر مزید مشورہ و غور کئے بغیر آج ایک نئی کمیٹی کا اعلان کر دیا جائے تو اندیشہ ہے کہ تفرقہ پیدا ہوجائے گا۔ افغانستان جیسے معاملے میں تفرقہ بہت برا ہے۔ کم از کم میں تو یہ کہہ دیتا ہوں کہ میں کسی تفرقہ میں شریک ن ہوں گا۔ بہرحال مشورے سے یہ قرار پایا کہ جو کمیٹی بن چکی ہے اس سے تبادلہ خیال کیاجائے کہ وہ کس حد تک کام کر سکتی ہے اور کیا کرنا چاہیے ۔ لہٰذا اس جلسے کا ملتوی ہونا تجویز ہوا ہے۔ شیخ صادق حسن نے ایک مختصر سی تجویز میں اس مسئلہ کی مزید وضاحت کی۔ اور آخری تجویز پیش کی اس جلسے کی طرف سے جنرل نادر خاں کو تار دیاجائے کہ وہ اغازی امان اللہ کی امداد کریں۔ (جنرل نادر خاں نے ۲۴ فروری ۱۹۲۹ء کو اخباری نمائندوں سے فرمایا کہ افغانستان روپیہ بھیجنا درست نہیں۔ اس سے غلط فہمیاں پیدا ہونے کا امکان ہے۔ اس لئے مسلمانوں کو چاہیے کہ صرف دعائے خیر ہی کریں۔ انقلاب جلد ۴ نمبر ۲۰۷ سہ شنبہ ۲۶ فروری ۱۹۲۹ئ) شیخ محمد صادق مولانا قرشی ڈاکٹر مرزا یعقوب اور بعض دوسرے اصحاب نے بھی تقریریں کیں۔ آخر ایک کمیٹی بنا دی گئی تا کہ وہ اس معاملے کے متعلق غور و فکر اور بحث و مشورہ سے ایک نتیجے پر پہنچیں۔ اس سلسلے میں مرتبہ کمیٹی سے بھی مل کر مشورہ کرے ۔ مندرجہ ذیل اصحاب اس کمیٹی کے ارکان منتخب ہوئے۔ (۱) سر محمد شفیع (۲) علامہ اقبال (۳) ڈاکٹر مرزا یعقوب (۴) شیخ صادق حسن (۵) سید حبیب شاہ (۶) حاجی میر شمس الدین (۷) مولانا غلام مرشد۔ شیخ صادق حسن کی تجویز (جنرل نادر خاں کو تار بھیجا جائے) کی ڈاکٹر مرزا یعقوب نے تائید کی اور صدر جلسہ نے اس کے متعلق حاضرین سے پوچھا تو سب نے بالاتفاق اس کی تائید کی ۔ سوا پانچ بجے کے قریب جلسہ ختم ہو گیا۔ (انقلاب جلد ۳ نمبر ۲۰۷ سہ شنبہ ۲۶ فروری ۱۹۲۹ئ)(۱۴۴) ۲۶ فروری ۱۹۲۹ء کو اخبار ’’ٹریبیون‘‘کے نمائندے نے افغانستان کے حالات کے بارے میں علامہ سے ملاقات کی ۔ اور علامہ نے اس بارے میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے فرمایا۔ اہلِ ہند افغانستان کی آزادی اور اس کے اتحاد اور استحکام کے ساتھ گہری دلچسپی رکھتے ہیں۔ عرب اور وسط ایشیا کا سیاسی انحطاط ہندوستان اور چین کی ترقی پر رجعت پسندانہ اثر کرے گا اس لئے اب ان ممالک کے سیاستدانوں سے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ سیاسی نصب العین کی تنگ نظری کو ترک کرکے معاملات کو زیادہ وسیع نگاہ سے دیکھیں اور اپنی حکمت عملی کی تشکیل اس کے مطابق کریں ۔ میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ صرف افغانستان کے مفاد بلکہ ایشیا کے وسیع تر مقاصد کے لحاظ سے ضروری ہے ۔ شاہ امان اللہ خان کی حکومت بحال رکھی جائے لیکن اس معاملے کے متعلق کوئی رائے ظاہر کرنا بے انتہا مشکل ہے کہ موجودہ حالات کے رونما ہونے کے اسباب ووجوہ کیا ہیں جوکچھ ہم اخبارات میں دیکھتے ہیں میرے خیال میں اس کا بڑا حصہ قابلِ اعتماد نہیں اور نہ ہی میں ان اصلاحات پر کوئی اعتماد ہی رکھتا ہوں جوکابل سے آنے والے اشخاص کی زبانی ہم تک پہنچتی ہیں۔ شاہ امان اللہ کے متعلق یہ کہنا ناممکن ہے کہ اس وقت قندھار میں اُن کی اصل پوزیشن کیا ہے۔ یا اُن کے ہرات تشریف لے جانے کی اطلاعات کہاں تک درست ہیں۔(۱۴۵) یہ دریافت کرنے پر کہ آپ کے خیال میں اعلیٰ حضرت شاہ امان اللہ کی ناکامی کے اسباب کیا ہیں؟علامہ نے فرمایا۔ جو کچھ میں نے اوپر ظاہر کیا ہے اس کو مد نظر رکھتے ہوئے اس کا شافی جواب دینا ناممکن ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ شہریار غازی کی ناکامی کا سبب بڑی حد تک یہ ہے کہ انھوں نے اصلاحات نافذ کرنے میں عجلت اور فوج کی طرف توجہ کرنے میں غفلت سے کام لیا ہے اور ملائوں کے نظریہ کے خلاف ملک کی حقیقی ترقی میں گہری دلچسپی لی۔ اس سے بلاشبہ افغانستان کے چند علماء ناراض ہوگئے لیکن اس بات کی اطلاع بھی موصول ہوئی کہ وہی ملا صاحب شور بازار جن کی نسبت خیال کیا جاتا ہے کہ اس شورش کے سرغنہ ہیں انھوں نے اصلاحات کے اعلان پر جن کو ’’نظام نامہ‘‘کہا جاتا ہے خود بھی دستخط کئے تھے۔ اگر یہ خبر صحیح ہے تو ہم نہیں کہہ سکتے کہ وہ کون سے اسباب ایسے پیدا ہوئے جن کے باعث ملا صاحب مذکور نے اپنی رائے بدل کر اصلاحات کی مخالفت شروع کردی۔ مشکل یہ ہے کہ وہ تمام حالات جو افغانستان کی موجودہ حالت سے تعلق رکھتے ہیں ہمارے سامنے نہیں ہیں اور ایسے حالات کے متعلق قیاس کی بناء پر کوئی نتیجہ نکالنا بالکل لاحاصل ہے۔ (۱۴۶) حضرت علامہ نے مزید فرمایا ’’اس امر کے یقینی ہونے میں کوئی شبہ نہیں کہ عالم اسلام میں قدامت پسندانہ جذبات اور لبرل خیالات میں جنگ شروع ہو گئی ہے۔ اغلب ہے کہ قدامت پرست اسلام بغیر جدوجہد کے سر تسلیم خم نہیں کرے گا۔ اس لیے ہر ایک ملک کے مسلم مصلحین کو چاہیے کہ نہ صرف اسلام کی حقیقی روایات کو غور کی نگاہ سے دیکھیں بلکہ جدید تہذیب کی صحیح اندرونی تصویر کا بھی احتیاط سے مطالعہ کریں۔ جو بے شمار حالتوں میں اسلامی تہذیب کی مزید ترقی کا درجہ رکھتی ہے۔ جو چیزیں غیر ضروری ہیں۔ ان کوملتوی کر دیناچاہیے کیونکہ صرف ضروری چیزیں فی الحقیقت قدامت پسندانہ طاقتوں کو بالکل نظر انداز کر دیاجائے کیونکہ انسانی زندگی اپنی اصلی روایات کا بوجھ کندھوں پر اٹھا کر منزل ارتقاء طے کرتی ہے۔ انسان نے اپنی معاشرتی تہذیب کو تشکیل دینے کا سبق حال ہی میں سیکھاہے۔ اس لئے جائز حدود سے تجاوز نہیں کرنا چاہیے۔‘‘(۱۴۷) علامہ نے امیر امان اللہ غازی سے سلسلہ مراسم آخر وقت تک جاری رکھا۔ اکتوبر ۱۹۳۱ء میں لندن میں دوسری گول میز کانفرنس میں شرکت کرنے کیلئے علامہ ۸ ستمبر کو لاہور سے نکلے۔ دہلی بمبئی سے ہوتے ہوئے ۱۲ ستمبر کو بحری جہاز سے یورپ روانہ ہوئے۔ ۲۷ ستمبر کو انگلستان پہنچ گئے۔ گول میز کانفرنس کے علاوہ کئی اہم علمی مجالس میں بھی اقبال شریک رہے۔ ۱۶اکتوبر کی شام کو افغان قونصل خانہ میں سردار احمد علی خان وزیر مختاردولت افغانیہ کی طرف سے محمد نادر شاہ غازی کی تاج پوشی کی سالگرہ منائی گئی ۔ اس موقع پر خصوصی اجتماع ہوا۔ جس میں مندرجہ ذیل حضرات شریک ہوئے۔ اقبال، مہر، مولانا شفیع دائودی، سردار اقبال علی شاہ، مولانا عبدالمجیب ، آغاخان بمع اہلیہ، نواب احمد سعید خان چھتاری، مائکل روڈائر، لارڈ ہیڈلے، سر ہنری میک موہن ، حافظہ وہبہ سفیر دولت نجد و حجاز ، معتمد قونصل خانہ ایران اور مولانا شوکت علی وغیرہ۔(۱۴۸) ۲۱ نومبر کو علامہ اقبال اطالوی (اٹلی) حکومت کی دعوت پر روم تشریف لے گئے جہاں انہوں نے مسولینی کے علاوہ امیر امان اللہ غازی سے بھی ملاقات کی۔ حمزہ فاروقی لکھتے ہیں: ۲۴ نومبر کو دوپہر کے وقت معلوم ہوا کہ امان اللہ خان سابق شاہ افغانستان روم میں تھے مولانا مہر نے ٹیلی فون کرکے ملاقات کی اجازت چاہی۔ تھوڑی دیر بعد جواب ملا کہ اقبال اور مہر ۲۵نومبر کو ساڑھے تین بجے مل سکتے ہیں۔ اور شاہ موصوف اس ملاقات سے بھی بہت خوش ہوں گے۔۔۔۔ ۲۵ نومبر کو تین بجے بعد دوپہر اقبال اور مہر سابق شاہ افغانستان امان اللہ خان سے ملاقات کے لئے ان کے مکان پر گئے۔ ان حضرات کا خیال تھا کہ آدھ گھنٹے میں ملاقات کرکے واپس آجائیں گے۔ لیکن شاہ موصوف نے خواہش ظاہر کی کہ اگر کوئی کام نہ ہو تو مزید ٹھہریں۔ چنانچہ ملاقات تین گھنٹے جاری رہی۔ امان اللہ خان بہت محبت سے پیش آئے۔ زیادہ تر بات چیت انقلاب افغانستان کے بارے میں ہوئی۔ آپ نے فرمایا۔ ’’جب میں یہ دیکھتا تھا کہ جو بندوقیں ، توپیں اور کارتوس میں نے اعدائے اسلام و افغانستان کے لئے جمع کئے تھے وہ خود افغانوں کے ہاتھوں افغانوں پر استعمال ہو رہے تھے تو میرا کلیجہ ٹکڑے ٹکڑے ہوجاتا تھا۔ میں یہ برداشت نہ کرسکا کہ اپنے تاج و تحت کی خاطر افغانوں کو باہمی جنگ میں الجھائوں لہٰذا میں باہر چلا آیا۔ گفتگو کے دوران شاہ نے بتایا کہ انہوں نے اپنی سوانح کا ایک حصہ مکمل کرلیا اور پوری کتاب تین حصوں پر مشتمل ہوگی۔ شاہ امان اللہ خان کی قیام گاہ پر سردار عنایت اللہ خان سے بھی ملاقات ہوئی آپ اپنے بھائی امان اللہ خان سے ملنے ایران سے تشریف لائے تھے۔ سردار محمود طرزی کے چھوٹے صاحبزادے عبدالوہاب طرزی بھی شاہ موصوف کے ساتھ رہتے تھے۔ آپ بہت ذکی اور فہیم تھے۔ ۲۷ نومبر کو آپ شاہ امان اللہ خان کی طرف سے ملاقات بازدید کے لئے اقبال اور مہر کی قیام گاہ پر آئے اور دو گھنٹے تک مختلف مسائل پر باتیں کرتے رہے ۔ رخصت کے وقت اقبال نے ان سے کہا شاہ امان اللہ کو میرا یہ پیغام دے دیجئے۔ ؎ پیرِ ما گفت جہاں بر روشے محکم نیست از خوش و ناخوش او قطع نظر باید کرد (۱۴۹) افغان سیاسی شخصیات میں غازی امان اللہ خان کے بعد دوسری شخصیت اعلیٰ حضرت محمد نادر شاہ غازی ہیں جن سے علامہ کی پہلی باقاعدہ ملاقات کا پتہ تو نہیں چل سکا البتہ علامہ سے جنرل نادر خاں کی پہلی ملاقات میں ایک دلچسپ لطیفہ بھی ہوا۔ جسے ڈاکٹر سعید اللہ صاحب نے ملفوظات اقبال میں اقبال کی زبانی محفوظ کیا ہے۔ ’’نادر خان سے جب اول مرتبہ ملاقات ہوئی تو وہ کابل جاتے ہوئے لاہور میں ٹھہر گئے تھے۔ اور وہ میری صورت دیکھ کر بہت حیران ہوئے کہنے لگے آپ اقبال ہیں میں تو سمجھتا تھا کہ آپ لمبی داڑھی والے بزرگ صورت ہوں گے۔ میں نے کہا ’’آپ سے زیادہ مجھے حیرانی ہے آپ تو جرنیل ہیں میں سمجھتا تھا آپ دیو ہیکل ہوں گے مگر آپ میں جرنیلی کی کوئی شان نہیں۔ اس قدر دبلے پتلے۔‘‘(۱۵۰) علامہ کی نادر خاں سے ایک ملاقات ۱۵ جولائی ۱۹۲۴ء میں ہوئی جس کا حوالہ علامہ کے ایک مکتوب بنام چودھری محمد حسین (بابت ۱۶ جولائی ۱۹۲۴ئ) میں موجود ہے ’’جنرل نادر خاں صاحب نے لاہور میں ایک روز قیام کیا۔ وہ اردو بہت اچھی بولتے ہیں اور نہایت بے تکلف اور سادہ آدمی ہیں۔ کل شام میں نیڈو ہوٹل میں ان سے ملا۔ وہ خود ہی میرے مکان پر آنے والے تھے۔ چٹھی میرے نام کی لکھ کر بھیجنے والے تھے کہ میں خود وہاں جا پہنچا۔ ان کی دعوت چائے کی تھی اور مجھے بھی میزبان نے مدعو کیا تھا۔ نہایت اخلاص اور محبت سے ملے اور جب میں نے ان کی عسکری قابلیت کی تعریف کی تو کہا آپ نے جو کچھ لکھا ہے‘ دنیا کی کوئی توپ اور بندوق اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ ایک ایک لفظ ایک ایک بیٹری کا حکم رکھتا ہے۔ وہ پیرس میں سال یا دو سال رہیں گے۔ اپنے چھوٹے بچے کو بھی ساتھ لے جا رہے ہیں جس کی عمر تقریباً دس سال کی ہو گی۔ سنا ہے‘ وزیر خاں کی مسجد میں انہوں نے کوئی تقریر بھی کی ہے۔ عصر کی نماز انہوں نے وہاں ادا کی تھی۔ کل شام ساڑھے سات بجے وہ گاڑی سے بمبئی تشریف لے گئے۔ ان کا خیال ہے کہ تمام ممالک کے مسلمانوں کو ایک خاص جگہ جمع ہو کر اپنے لئے ایک مشترک پروگرام تجویز کرناچاہیے جس پر تمام ممالک اسلامیہ عمل کریں۔ باقی مقامی اور خاص حالات کے لئے ہر ملک اپنا اپنا پروگرام تجویزکرے جو ان کے مناسب حال ہو۔ غرض کہ چند منٹ ان سے خوب صحبت رہی۔ ان کو وزیر خاں کی مسجد میں جانے اور لوگوں سے ملنے کے لئے جو ان کا دیر سے انتظار کر رہے تھے‘ جلدی تھی‘ اس واسطے وہ ہم سے بادل نخواستہ رخصت ہو گئے۔‘‘(۱۵۱) ان سے ایک ملاقات علامہ نے فروری ۱۹۲۹ء میں لاہور ریلوے سٹیشن میںکی تھی ۔ بقول فقیر سیدوحید الدین : ڈاکٹر صاحب تنگدستی کے باوجود اپنی ساری پونجی کئی سو روپوں کی صورت میں لے کر نادرخان سے ملے اور کہا ’’آپ جس نیک مقصد کے لئے جارہے ہیں اس کے لئے روپے کی اشد ضرورت ہوگی۔ اس لئے میرا یہ ہدیہ قبول فرمائیے ۔ نادر خان اس پیشکش پر حیران رہ گیا۔ (۱۵۲) ڈاکٹر ظہیر الدین یہی رقم کئی سو کے بجائے پانچ ہزاربتاتے ہیں: گاڑی کے روانہ ہونے سے کچھ دیر پہلے اقبال نے ان سے تخلیہ میںکہا تم ایک بڑی مہم پر جارہے ہو۔ میں ایک فقیر آدمی ہوں نیک تمنائوں سے ہی تمہاری خدمت کرسکتا ہوں ۔ اتفاق سے پانچ ہزار کی رقم میرے ساتھ ہے اگر یہ تمہارے کام آسکتے تو مجھ کو بڑی خوشی ہوگی ۔ نادر خان نے جو چشم پُر آشوب تھا فقیر کی اس دین کو بڑا ہی نیک شگون سمجھا اور بڑے احترام سے اس ہدیہ کو قبول کرلیا۔(۱۵۳) نادر خان لاہور سے پشاور چلے گئے جہاں سے وہ کُرم ایجنسی سے نکل کر علی خیل میں اپنے سیاسی امور چلاتے رہے۔ اس دوران نادرشاہ اور حضرت علامہ میں خط و کتابت ہوتی رہی۔ بقولِ اللہ بخش یوسفی ’’دورانِ علی خیل نادر خان اور علامہ ڈاکٹر سر محمد اقبال میں خفیہ نوعیت کی خط کتابت جاری رہی۔ علی خیل سے ان کے خطوط ایم اے حکیم تک پہنچائے جاتے تھے وہاں سے لاہور پہنچانا میرا کام تھا۔ اور اس کام میں میرے دوست عبدالمجید سالک میرے ممدو معاون تھے۔ ۔۔۔۔۔۔ علی خیل سے نادر خان نے سائیکلو اسٹائل پر ’’اصلاح‘‘ نامی اخبار بھی جاری کیا تھا۔ اس کا پہلا پرچہ جب میں نے علامہ اقبال کی خدمت میں پیش کیا تو اسے دیکھتے ہی فرمانے لگے نادرخان کامیاب ہے۔ (۱۵۴) علامہ اور نادر خان کے درمیان یہ خطوط ممکن ہے کہ آج بھی انڈیا آفس لائبریری میں محفوظ ہوں کیونکہ یہ خطوط برطانوی حکومت کے ہاتھ آلگے تھے ۔ علامہ کے عزیر خالد نظیر صوفی نے یہ انکشاف یوں کیا: علامہ اقبال اور شاہ افغانستان نادر شاہ کے مابین خط کتابت تھی مگر یہ خطوط ایک معتمد نے چوری کرکے برطانوی گورنمنٹ کے ہاتھ فروخت کردیئے۔ (۱۵۵) ان خطوط میں ایک خط ’’ انقلاب‘‘ میں اشاعت کی بہ دولت محفوظ ہوگیا ہے۔ یہ خط جنرل نادرخان نے علی خیل سے ۹ ربیع الثانی ۱۳۴۸ھ کو تحریر کیا تھا: ’’ھواللّٰہ‘‘ تحریر روزشنبہ ۹ ربیع الثانی ۱۳۴۸ھ مقام علی خیل جناب فاضل محترم ایم اے ۔ پی ایچ ڈی بیرسٹر ایٹ لاء محمد اقبال صاحب افغانستان نزدیک تباہی و ملت بیچارہ اش دو چار تہلکہ بزرگ است و خیلی احتیاج بہ ہر گونہ معاونت برادرانہ ہمدردان و برادران ہندی خود دارد۔ اقدامات خیر خواہانہ جناب شما دریں وقت خیلی بما معاونت می نماید۔ خصوصی مسئلہ اعانت مالی کہ آنرا بیشتر ذریعہ ’’اصلاح‘‘ ہم بہ برادراں ہندی خود اشاعہ کروم امید آست کہ آن فاضل محترم کہ بایں مصیبت افغانستان روحا شرکت دارند از حدیث خویش دریں موقعہ کار گرفتۂ ملت متالم افغانستان را مشکور و ممنون ابدی فرمائید۔ بااحتراماتِ لائقہ محمد نادر خان ترجمہ: جناب فاضل محترم سر محمد اقبال صاحب آپ نے اپنے ان عالی جذباتِ ہمدردانہ سے جو آپ افغانستان کی موجودہ تباہ حالی کے متعلق رکھتے ہیں مجھے اور افغانستان کے عام بہی خواہوں اور فداکاروں کو ممنون و متشکر بنادیا ہے۔ افغانستان تباہی کے نزدیک ہے اس کی بے چارہ ملت کو بہت بڑے تہلکہ کا سامنا ہے افغانستان اپنے بھائیوںکی امداد و اعانت کا محتاج ہے آپ ایسے وقت میں جو خیر خواہانہ قدم اٹھا رہے ہیں۔ وہ ہمارے لئے ڈھارس کا موجب ہے۔ خصوصاً مالی امداد کا مسئلہ جس کے متعلق اخبار’’اصلاح ‘‘ کے ذریعے اپنے ہندی بھائیوں کے لئے شائع کرچکاہوں بہت حوصلہ افزا ہے۔ امید ہے کہ جناب فاضل محترم پر’’روحا‘‘ افغانستان کی موجودہ مصیبت میں شریک ہیں اس موقع پر انہی مساعی سے کام لے کر افغانستان کی رنج زدہ قوم کو ہمیشہ کے لئے ممنون و مشکور فرمائیں گے۔ بااحتراماتِ لائقہ محمد نادر خان (۱۵۶) جس وقت جنرل نادر خان بچہ سقہ کے خلاف مصروفِ جہاد تھے مسلمانانِ ہند نے ان کو مالی امداد بہم پہنچانے کا سلسلہ شروع کیا۔ جنرل نادر خاں کی امداد کی حصولی کے لئے حضرت علامہ پیش پیش رہے۔ چنانچہ یکم ستمبر ۱۹۲۹ء کو روزنامہ انقلاب لاہور میں ذیل خبر شائع ہوئی۔ جنرل نادر خان کی امداد مندرجہ ذیل دو رقمیںجرنیل نادر خان غازی کی امداد کے سرمائے میں موصول ہوئی ہیں: (۱)حافظ عبدالجبار محمد صابر، صدر بازار ہر دوی (معرفت علامہ اقبال مد ظلہ العالی) سولہ روپے بارہ آنے (۲)عبدالرب صاحب، نمبر ۶۔ نخاس کہنہ ‘الہ آباد (معرفت دفتر انقلاب) دو روپے کل اٹھارہ روپے بارہ آنے دونوں معطیوں اور دیگر مسلمانوں کی خدمت میں گذارش ہے کہ عنقریب لاہور میں نادر خان غازی کی امداد کے لیے ایک مجلس مرتب ہونے والی ہے۔ یہ رقوم اس مجلس کے سپرد کر دی جائیں گی۔ آئندہ کوئی صاحب اس قسم کا روپیہ کسی فرد کے نا م یا کسی اخبار کے دفتر ارسال نہ فرمائیں۔ (انقلاب ۔ جلد ۳۔ نمبر ۸۱۔ پنجشنبہ ۔ ۱ ستمبر ۱۹۲۹ئ) جناب غلام رسول مہر ایڈیٹر انقلاب نے افغانستان میں بچہ سقہ کی جانب سے غیر یقینی صورت حال اور لاہور کے بادرد مسلمانوں کی فکر مندی اور علمی امداد اور معاملے کی غرض و غایت پر تفصیلی روشنی روزنامہ انقلاب لاہور میں ڈالی ملاحظہ ہو جرنیل نادر خان غازی کی امداد کا کام اکابر لاہور کی خاموش کوشش جرنیل نادر خان غازی کی امداد و اعانت کا اکثر اکابر لاہور کو پہلے ہی خاص احساس تھا ۔ جب غازی موصوف کی طرف سے ان کے معزز جریدے "اصلاح"میں اپیل شائع ہوئی تو مذکورہ احساس نے فوراً عملی شکل اختیار کر لی۔مختلف حلقوں میں مختلف تجویزیں ہونے لگیں کہ مالی امداد کو مؤثر و وقیع بنانے کے لیے کیا طریق اختیار کیا جائے۔ حضرت علامہ اقبال مدظلہ العالی اس باب میں خاص طور پر کوشاں تھے۔ اس سلسلے میں منجملہ اور تجاویز کے ایک تجویز یہ پیش ہوچکی تھی کہ محفوظ سرمایہ ٔتنظیم کی جو رقم حضرت قرشی کی تحویل میں ہے‘ اسے معطیانِ سرمایۂ مذکور کی اجازت سے غازی موصوف کی خدمت میں پیش کر دیا جائے (۴)۔ اس خیال سے کہ موجودہ حالات میں ایک معتدبہ اور گراں قدر رقم جمع کرنا قدرے دقت طلب ہے اور جرنیل نادر خاں کے حالات فوری امداد کے متقاضی ہیں‘ محفوظ سرمایۂ تنظیم کو فی الفور غازی موصوف کی خدمت میں ارسال کرنے کی تجویز تو جہاتِ خصوصی کا مرکز بن گئی ۔ حضرت علامہ اقبال نے سب سے پہلے مقامی اسلامی اخبارات سے اس معاملے کے متعلق استصواب کی ضرورت محسوس کی اور مولانا ظفر علی خاں صاحب، مولانا سید حبیب شاہ صاحب ، ملک عبدالحمید صاحب (ایڈیٹر ’’مسلم آؤٹ لک‘‘) کو اور خاکسار کو اپنے دولت کدے پر بلایا، ساتھ ہی چند اور اصحاب کو دعوت بھیج دی، جن میں سے پروفیسر سید عبدالقادر شاہ صاحب ایم اے، مولانا احمد علی صاحب ناظم خدام الدین اور مولانا غلام مرشد صاحب خاص طورپر قابل ذکر ہیں۔ پروفیسر سید عبدالقادر شاہ صاحب اور مولانا غلام مرشدصاحب اس وقت لاہور سے باہر تھے ، اس لیے شوریٰ میں شریک نہ ہوسکے۔ باقی اصحاب کے علاوہ حضرت قرشی اور ملک لال دین قیصر بھی تشریف لے آئے۔ سب نے اس تجویز کو پسند کیا اور اس کے ساتھ کامل اتفاق کا اظہار کیا۔ چند روز بعد اکابر لاہور کا ایک جلسہ برکت علی محمڈن ہال میں منعقد ہوا، جس میں حضرت علامہ اقبال، حضرت قرشی ، حاجی میر شمس الدین صاحب، مولانا غلام محی الدین صاحب قصوری، مسٹر محمد دین صاحب ہیڈ ماسٹر اسلامیہ ہائی سکول، شیخ عظیم اللہ صاحب ایڈووکیٹ ، ڈاکٹر محمد سلطان صاحب، سید محسن شاہ صاحب، مولانا سید حبیب شاہ، مولانا مرتضیٰ احمد خان صاحب، مولانا سید عنایت شاہ صاحب،میاں فیروز الدین احمد صاحب ، مولانا نورالحق صاحب مالک ’’مسلم آؤٹ لک‘‘،ملک عبدالمجید صاحب اور بعض دوسرے اصحاب شریک تھے۔ اس میں بھی تمام اصحاب نے مذکورہ بالا تجویز سے کامل اتفاق کا اظہار کیا اور قرار پایا کہ سب کی طرف سے ایک اپیل محفوظ سرمایہ ٔتنظیم کے معطیوں سے کی جائے کہ وہ اس روپے کو جو بہ حالت ِموجودہ غیر مستعمل پڑا ہے، ایک اسلامی سلطنت کے جہاد امن و استقلال میں صرف کرنے کی اجازت مرحمت فرمائیں ۔ عام رائے یہ تھی کہ محفوظ سرمایہ ٔتنظیم کو مالی امداد کی پہلی قسط کے طور پر بھیج دیا جائے اور ساتھ ہی فراہمی سرمایہء اعانت کا کام پورے زور کے ساتھ شروع کردیا جائے۔ معلوم ہوا ہے کہ محفوظ سرمایۂ تنظیم کے لیے اکابر کی اپیل کل یا پرسوں شائع کی جائے گی۔ تمام غیرت مند مسلمانوں کا فرض ہے کہ وہ جرنیل نادر خاں کے لیے فراہمی زر اعانت کا کام فی الفور شروع کردیں ۔ مذکورہ بالا اپیل کے ساتھ ہی خدا کے فضل سے ایک مختصر سی کمیٹی بن جائے گی جو بلا تامل کام شروع کردے گی اور امید واثق ہے کہ تمام اسلامی اخبار اتحاد و اتفاق کامل کے ساتھ اس تحریک کو کامیاب بنائیں گے۔والامر بیداللہ تعالیٰ۔ نیاز مند مہر (انقلاب۔ جلد ۔۴۔ نمبر ۸۶۔ چہار شنبہ۔ ۲۵ ستمبر ۱۹۲۹ئ) اگلے روز پھر روزنامہ انقلاب میں ایک اور خبر ’’جرنیل نادر خاں کی مالی امداد اور محفوظ سرمایہ تنظیم معطی حضرات سے ایک ضروری التماس ‘‘ کے عنوان سے شائع ہوتی ہے۔ برادران اسلام کو معلوم ہے کہ جرنیل نادر خان بہ نفس نفیس دو مرتبہ اہل ہند سے امداد کی اپیل کر چکے ہیں اور اگر انہیں حسبِ ضرورت مالی امداد مل جائے تو امید واثق ہے کہ افغانستان کے اضطراب انگیز حالات کا عقدہ احسن طریق پر حل ہو جائے گا اور اس کے امن اور استقلال کو اس وقت جو خطرات در پیش ہیں‘ وہ رفع ہو جائیں گے۔ہندوستان کے مسلمان ہمیشہ اپنی اسلامی سلطنتوں کی حفاظت کے لیے گراں بہا خدمات انجام دیتے رہتے ہیں۔ ان کی ہمسایہ اسلامی سلطنت افغانستان ان خدمات کی بدرجہ اولیٰ مستحق ہے۔ ہماری ناچیز رائے میں ضرورت ہے کہ افغانستان کے موجودہ مصائب میں مسلمان اپنی ملّی و مذہبی غیرت و حمیت کا بیش از پیش ثبوت دیں ۔اس وقت محفوظ سرمایۂ تنظیم کی معتدبہ رقم بنکوں میں غیر مستعمل پڑی ہے، چونکہ جرنیل نادر خاں کو فوری امداد کی ضرورت ہے اور مسلمانان ہند کی طرف سے جلد سے جلد ایک معتدبہ رقم کا ان کی خدمت میں پہنچ جانا، ان کی مجاہدانہ کوششوں کے لیے خاص تقویت کا سامان بن سکتا ہے،اس لیے ہمیں یقین ہے کہ محفوظ سرمایۂ تنظیم کے معطیوں کو یہ رقم بلا تامل جرنیل ممدوح کی خدمت میں ارسال کرنے پر کوئی اعتراض نہ ہوگا۔ تنظیم مساجد کا کام بلا شبہ ضروری ہے ‘لیکن اس کے مقابلے میں ایک ترقی پذیر اسلامی سلطنت کی حفاظت بہت زیادہ ضروری ہے‘ لیکن اس کے مقابلے میں ایک ترقی پذیر اسلامی سلطنت کی حفاظت بہت ضروری اور اہم و اقدم ہے اور مسلمان اس کام سے فارغ ہو کر تنظیم مساجد کے لیے از سر نو مناسب رقم کی فراہمی کا انتظام کر سکتے ہیں(۵)۔ اس کے ساتھ ہی ہم عام مسلمانوں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ اپنے اپنے حلقوں میں جرنیل نادر خاں کی مالی امداد کا کام پورے زور کے ساتھ شروع کردیں ۔ محفوظ سرمایۂ تنظیم کے معطیوں میں سے اگر خدانخواستہ کسی صاحب کو ہماری محولہ بالا تجویز سے اختلاف ہو (جس کے وجود کا ہمیں ایک لمحہ کے لیے بھی خیال نہیں آسکتا، اس لیے کہ افغانستان کے امن و استقلال کی حفاظت کا مسئلہ ہر حال میں تنظیم مساجد سے بدرجہا زیادہ اہم ہے) تو براہ کرم اس کی صراحت فرمادیں۔ آٹھ روز تک اگر کسی صاحب کی طرف سے کسی اختلاف کا اظہار نہ ہوا تو سمجھا جائے گا کہ سب کو اس سے اتفاق ہے ۔ اس کے بعد محفوظ سرمایہء تنظیم کا روپیہ جنرل نادر خاں کی خدمت میں بھیج دیا جائے گا۔ مزید سرمایہ کی فراہمی کا کام بلا تامل شروع ہو جانا چاہیے۔ یہ اعلان برکت علی محمڈن ہال کے ایک جلسہ کے متفقہ فیصلہ کے مطابق کیا جاتا ہے جس میں ہم سب شامل تھے: (ڈاکٹر سر)محمد اقبال (پی ایچ۔ ڈی‘ بیرسٹر ایٹ لا)‘ (حاجی میر)شمس الدین ‘(سید) عبدالقادر شاہ (پروفیسر اسلامیہ کالج)، (مولوی ) غلام محی الدین ایڈووکیٹ‘ (شیخ) عظیم اللہ ایڈووکیٹ ‘(سید)محسن شاہ ایڈووکیٹ‘ (مولانا)نورالحق (مالک’’ مسلم آؤٹ لک‘‘)، (مولانا) غلام رسول مہر ایڈیٹر ’’انقلاب‘‘، (مولانا سید) حبیب آف ’’سیاست‘‘، (مولانا سید)عنایت شاہ منیجر ’’سیاست‘‘، (مولوی)محمد دین ہیڈ ماسٹر اسلامیہ ہائی اسکول شیراں والا دروازہ، (میاں)فیروز الدین موچی دروازہ، (مولانا )عبدالمجید قرشی، (شیخ) گلاب دین ایڈووکیٹ، (چودھری) معراج دین‘ (میاں)فضل دین کنٹریکٹر، (ڈاکٹر) سلطان احمد، (مولوی) فضل دین وکیل‘ (آقائے) مرتضیٰ احمد خاں ایڈیٹر "افغانستان"۔ (انقلاب ۔ جلد ۴۔ نمبر ۸۷۔ پنجشنبہ۔ ۲۶ ستمبر ۱۹۲۹ئ۔)(۱۵۷) اسی مقصد کے لئے ۳ / اکتوبر ۱۹۲۹ء کو علامہ اقبال کی زیرِ صدارت ایک جلسہ منعقد ہوا۔(۱۵۸) اس جلسے میں جو لاہور میں خان سعادت خان کے مکان پر ہوا تھا میں باہمی مشورہ سے باتفاق رائے یہ طے پایا کہ امداد مہیا کرنے کے لئے نادر خان ہلالِ احمر فنڈ قائم کیا جائے۔ سرمایہ کی فراہمی کے لئے ایک مجلس عاملہ بنائی گئی اور اس طرح افغانستان کی تعمیر نو کے لئے لاہور میں جرنیل نادر خاں کی مالی امداد کا کام باقاعدگی سے شروع ہوتاہے۔ ملاحظہ ہو روزنامہ انقلاب لاہور کے ۵ ستمبر ۱۹۲۹ء کا بیان جس میں اجلاس اور اس میں بنائی گئی کمیٹی کے عہدیداروں کی تفصیل اور ان سے جمع شدہ رقم کی تفصیلات درج ہیں۔ لاہور میں جرنیل نادر خاں کی مالی امداد کا کام شروع ہوگیا نادر خاں ہلال احمر فنڈ کا افتتاح‘ فراہمی سرمایہ کے لیے کمیٹی کا قیام لاہور ۔۳‘اکتوبر ۔ چند دنوں سے لاہور کے سرکردہ اصحاب میں سپہ سالار غازی جنرل نادر خاں کی مالی امداد کے لیے عملی قدم اٹھا نے کے موضوع پر بڑا سرگرم چرچا ہورہا تھا۔ چنانچہ سب سے پہلے چند سرکردہ اکابر شہر نے قوم کے سامنے یہ تجویز پیش کی کہ محفوظ سرمایہ تنظیم جو مولانا قرشی صاحب کی تحویل میں بنکوں میں پڑا ہے، وقت او رموقع کی نزاکت اور کام کی اہمیت کے پیش نظر معطی حضرات سے استصواب کرکے سپہ سالار غازی کی خدمت میں مجاہدین کی امداد کے لیے بھیج دیا جائے۔ یہ امر موجب اطمینان ہے کہ یہ تحریک بھی بار آور ہورہی ہے اور معطی حضرات بہ کمال خوشی اس تجویز پر پسندیدگی اور رضامندی کا اظہار کر رہے ہیں۔ ابھی مزید سرمایہ کی فراہمی کے لیے کمیٹی بنانے کے مسئلہ پر غور کیا جارہا تھا کہ خان عبدالغفار خاں اتمان زئی رئیس افغان ریلیف کمیٹی پشاور یہاں پہنچ گئے اور فیصلہ ہوا کہ ان کی موجودگی ہی میں کمیٹی بنا دی جائے اور سرمایہ کھول دیا جائے۔ چنانچہ آج شام کے ساڑھے چار بجے خان سعادت علی خاں کے دولت کدہ پر شہر کے عماید و اکابر کا جلسہ علامہ سر محمد اقبال کے زیر صدارت منعقد ہوا ۔ مولوی غلام محی الدین خاں، خان عبدالغفارخاں ، سید محسن شاہ‘ خان سعادت علی خاں ، مولانا غلام رسول مہر، مولانا سید حبیب شاہ مالک اخبار ’’سیاست‘‘، حاجی شمس الدین ، مولانا قاضی عبدالمجید قرشی، خواجہ فیروزالدین، مسٹر فرخ، مولانا محمد دین، سید عنایت شاہ اور راقم الحروف (۸) کے علاوہ اکثر دیگر اصحاب بھی شریک ہوئے۔ کمیٹی کا قیام باہمی مشورہ کے بعد اتفاق آرا سے قرار پایا کہ جنرل نادر خاں کی امداد کے لیے فی الفور"نادر خاں ہلال احمر فنڈ"کے نام سے ایک سرمایہ کھول دیا جائے اور اس سرمایہ کی فراہمی کے لیے حسب ذیل اصحاب کی ایک مجلس عاملہ بنا دی جائے، جو پیش نظر مقصد کے لیے ضروری انتظامات اور اقدامات کرے ۔ مجوزہ کمیٹی کے ارکان اور عہد داروں کے اسما حسبِ ذیل ہیں: علامہ سر محمد اقبال ۔ بیرسٹر ایٹ لا۔ رکن کونسل پنجاب صدر مولانا قاضی عبدالمجید قرشی سکریٹری خان سعادت علی خاں، رئیس اعظم لاہور فنانشل سکریٹری مسلم بنک آف انڈیا لمیٹڈ خازن ارکان: مولوی غلام محی الدین خاں ایڈووکیٹ، سید محسن شاہ ایڈووکیٹ، سید عبدالقادر شاہ ایم اے‘ حاجی شمس الدین، مولانا احمد علی، مولانا غلام مرشد، ملک میراں بخش خاں صاحب، مولوی محمد دین، حافظ حسین بخش ، مولوی صدر الدین۔ اس کے بعد کام کی تفصیلات کے متعلق گفتگو ہوئی اور آخر میں مولانا سید حبیب کی تحریک پر حسب ذیل رقوم چندہ کی جمع ہوئیں: علامہ سر محمد اقبال ۱۰۱ روپیہ خان سعادت علی خاں ۲۰۱ روپیہ سید محسن شاہ ۲۵ روپیہ سید حبیب شاہ ۱۱ روپیہ سید عنایت شاہ ۱۰ روپیہ حاجی شمس الدین ۱۰ روپیہ جناب نازش رضوی ۵ روپیہ خان نور احمد خاں ۱ روپیہ مولانا غلام رسول مہر نے مبلغ ۹۰ روپے ۱۲ آنے کی رقم جو علامہ سر اقبال اور اخبار ’’انقلاب‘‘ کی وساطت سے فراہم ہو چکی تھی، خان سعادت علی خاں فنانشل سکریٹری کو پیش کردی۔جلسہ صاحب صدر اور خان سعادت علی خاں کا شکریہ ادا کرنے کے بعد برخاست ہوگیا۔ (مرتضیٰ احمد خاں) (انقلاب ۔ جلد ۴۔ نمبر ۹۵۔ شنبہ ۔ ۵اکتوبر ۱۹۲۹ئ) ۸ اکتوبر کو ایک اور اجلاس ہونا قرار پایا جس کی اطلاعی رپورٹ بھی انقلاب لاہور نے شائع کی۔ ایک ضروری مشورت۔ مسلم میونسپل کمشنران و ممبران انجمن ہلال احمر‘ لاہور ۸- اکتوبر کو بروز منگل بعد نماز مغرب "نادر خان ہلال احمر فنڈ"کے ممبران کا ایک اہم جلسہ برکت علی محمڈن ہال میں منعقد ہوگا۔ ڈاکٹر سر محمد اقبال اور خان سعادت علی خاں کی طرف سے بعض نہایت ہی اہم اور ضروری امور پر مشورہ کرنے کے لیے مقامی میونسپل کمشنروں کو اس جلسہ میں شامل ہونے کی دعوت دی گئی ہے۔ تمام ممبران اور میونسپل کمشنر صاحبان سے بہ ادب استدعا ہے کہ اس ضروری جلسے کے لیے ضرور تھوڑی سی فرصت نکالیں اور وقت مقررہ پر تشریف لا کر مشکور فرمائیں۔ (عبدالمجید قرشی) (انقلاب ۔ جلد ۴۔ نمبر ۹۸۔ چہار شنبہ ۔ ۹ اکتوبر ۱۹۲۹ ئ)(۱۵۹) علامہ اقبال نے ۱۱/ اکتوبر ۱۹۲۹ء کو قوم سے حسبِ ذیل اپیل کی : برادرانِ ملت و جوانانِ اسلام۔ افغانستان کے حالات آپ کو معلوم ہیں۔ اس وقت اسلام کی ہزار ہا مربع سرزمین اور لاکھوں فرزندانِ اسلام کی زندگی اور ہستی خطرے میں ہے۔ اور ایک ہمدرد اور غیور ہمسایہ ہونے کی حیثیت سے مسلمانانِ ہند پر ہی یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ افغانستان کو بادِ فنا کے آخری طمانچے سے بچانے کے لئے جس قدر دلیرانہ کوشش بھی ممکن ہو کر گزریں۔ لاہور میں جنرل نادرخان اور افغانستان کے زخمی سپاہیوں، بیوہ عورتوں اور یتیم بچوں کی امداد و اعانت کے لئے ’’نادر خان ہلالِ احمر سوسائٹی ‘‘قائم ہوچکی ہے جس کا دفتر بالعموم صبح ۶ بجے سے لے کر دس بجے رات تک برکت علی اسلامیہ ہال میں کھلا رہتا ہے۔ حالات کی نزاکت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے انجمن نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ وہ کم سے کم وقت میں لاہور اور ہندوستان سے زیادہ سے زیادہ روپیہ جمع کرنے کے لئے اپنی قوت و کوشش صرف کردے۔ اس غرض کے لئے ایسے ایثار پیشہ کارکنوں کی ضرورت ہے جو رضاکارانہ حیثیت سے مقرر ہ وقت پر اور منظم طریق سے لاہور میں کام کریں۔ اس کے علاوہ دفتر کو تمام ملک سے خط کتابت کرنا ہے ہزاروں اپیلیں بھیجنی ہیں سینکڑوں اخبارات اور ہر ایک شہر کے رئوسا ، امراء اور اسلامی انجمنوں کو خطوط لکھنے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس قدر وسیع کار جو لاہور کے ہر ایک گلی کوچہ پرمسلط ہو اور دوسری طرف تمام ملکی اخبارات اور تمام اسلامی انجمنوں اور بستیوں پر محیط ہو مستقل مزاج ، سنجیدہ ، دردمند، زی عزم اور بااحساس کارکنوں کی امداد کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ جنرل نادر خان کی امداد کو اس کی حقیقی اہمیت کے مطابق وسعت دینے کے لئے ایسے جواں ہمت کارکنوں کی ضرورت ہے جو مقامی طورپر وارڈ وار پبلک جلسوں کے انعقاد اور ملکی اخبارات ، انجمنوں اور قومی کارکنوں اور تمام فیاض اور ذی استطاعت اصحاب سے خط و کتابت کرنے میں انجمن کوا مداد دیں۔ میں اپنے تمام سنجیدہ اور مخلص عزیزوں سے جن کے دل میں اسلام کا درد ہے جو آزاد اور متحد افغانستان کی اہمیت کو سمجھتے ہیں ان تمام مقامی انجمنوںکے اراکین سے جو ’’نادر خان ہلالِ احمر سوسائٹی‘‘ سے تعاون و اشتراکِ عمل کے لئے آمادہ ہوں بڑے زور سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ برکت علی اسلامیہ ہال میں قریشی صاحب سے ملیں اور اپنے وقت کا کچھ حصہ معمولی تفریح یا کم ضروری مشا غل سے بچا کر انجمن ہلالِ احمر کے کام میں صرف کریں اور یقین کریں کہ یہاں لاہور میں آپ کا ایسا کرنا وہاں افغانستان میں پہنچ کر نادرخان صاحب کی امدادکرنے کے مترادف ہوگا۔‘‘ (۱۶۰) ۱۶ اکتوبر ۱۹۲۹ء کو لاہور کے انقلاب اخبار میں اس فنڈ اور جنرل نادر خاں کے حوالے سے ایک اور خبر شائع ہوتی ہے محفوظ سرمایۂ تنظیم اور جنرل نادر خاں -عالمِ بالا کی سخن فہمی ۸‘ اکتوبر ۱۹۲۹ ء کے ’’زمیندار‘‘ اور ’’انقلاب ‘‘میں قرشی صاحب کے نام ایک اعلان نکلا ہے۔ اس اعلان کا عنوان دونوں پرچوں میں مختلف ہے۔ مگر عبارت ایک ہی ہے اور مولانا محمد عبداللہ صاحب کی نسبت لکھا ہے کہ "خاکسارکے استفسار پر مولانا نے فرمایا:…" میری اپنے محترم دوست سید غلام بھیک صاحب نیرنگ سے بھی یہی استدعا ہے کہ وقت کی تنگی اور حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے اس بارے میں تاخیرو التوا پر زور دینا مناسب نہیں "۔ چونکہ یہ مولانا محمد عبداللہ کا کوئی دستخطی بیان نہیں اور میں نہیں کہہ سکتا کہ اس اعلان کا ہر لفظ انہی کا ہے یا نہیں ، اس لیے میں حیران ہوں کہ سخن فہمی عالم بالا کی شکایت کروں تو کس کی نسبت کروں ۔ میں نے تاخیر و التوا پر کب زور دیا اور میرا مقصد تاخیر و التوا کب تھا؟ میں نے تو صرف یہ کہا کہ معطیوں کو کافی نوٹس دینا ضروری ہے اور اپنے اس خیال کے بعض وجوہ بھی اجمال و اختصار کے ساتھ لکھ دیے۔ مفصل وجوہ ایک نج کے خط میں ڈاکٹر سر محمد اقبال کو لکھ بھیجے اور ان سے درخواست کی کہ ان کے ساتھ جن جن حضرات نے اعلان پر دستخط کیے تھے، میرے خط کو ان کی خدمت میں گشت کرا دیں ۔ میں قرشی صاحب ، مولانا محمد عبداللہ صاحب ، مولانا ظفر علی خاں صاحب اور مولانا غلام رسول مہر صاحب سے درخواست کرتا ہوں کہ میرے اس خط کو ڈاکٹر سر محمد اقبال سے لے کر ملاحظہ فرمالیں ۔ اس خط سے خاص طور پر معلوم ہوجائے گا کہ میری طرف التوا و تاخیر کی کوشش کو منسوب کرنا سخت بے انصافی ہے۔ آخر میں امکانی غلط فہمی کو رفع کرنے کے لیے میں ان جملہ حضرات اور تمام مسلم پبلک کی خدمت میں صاف صاف عرض کردینا مناسب سمجھتا ہوں کہ میں جنرل نادر خاں کی امداد کاپورے طور سے حامی ہوں اور ہرگز ہرگز ایک لمحے کے لیے مخالف نہیں ہوں ۔ میرا مقصد تاخیر و التوا نہیں ہے‘ بلکہ اصول امانت کی پابندی اور قومی اتحاد کا تحفظ ہے۔ (سید غلام بھیک نیرنگ۔ معتمد عمومی جمعیت مرکزیہ تبلیغ الاسلام ۔ انبالہ شہر ۔) (انقلاب ۔ جلد ۴۔ نمبر ۱۰۴۔چہار شبنہ ۱۶‘ اکتوبر ۱۹۲۹ئ)(۱۶۱) بچہ سقہ کی فوجوں کو شکست ہوتی ہے اور اعلیٰ حضرت محمد نادر شاہ غازی ۲۳ میزان ۱۳۰۸ھ ش بمطابق ۱۷ اکتوبر ۱۹۲۹ء افغانستان کے بادشاہ بن جاتے ہیں۔ (۱۶۲) اس کے ساتھ ہی محمد نادر شاہ غازی پر اعتماد کے اظہار اور ان کی بادشاہت کو تسلیم کروانے کی خبریں شائع ہونا شروع ہوتی ہیں۔ اس میں بھی حضرت علامہ پیش پیش نظر آتے ہیں۔ ملاحظہ ہو انقلاب لاہور کے ۲۰ اکتوبر سنڈے ایڈیشن کی یہ خصوصی رپورٹ۔ اعلیٰ حضرت نادر خاں غازی پر پورا اعتماد ۔ لاہور کے مقتدر مسلمان رہنماؤں کا اعلان مدیر ِ’’انقلاب ‘‘نے ہم سے دریافت کیا ہے کہ جرنیل نادر خاں کے بادشاہ افغانستان منتخب ہوجانے کے متعلق ہمار ا کیا خیال ہے۔ اس کے جواب میں گذارش ہے کہ ہمیں نادر خاں غازی کی ذات پر کامل اعتماد ہے اور ہم تمام مسلمانوں کی خدمت میں استدعا کرتے ہیں کہ وہ بھی اس غیور محب وطن پر پورا اعتماد رکھیں ۔ اس وقت اس کے کسی فعل پر ایک لمحہ کے لیے بھی عدم اعتماد کا اظہار خطرناک ہوگا اور خدانخواستہ از سرِ نو خانہ جنگی میں الجھا دے گا۔ ہمیں یقین ہے کہ تمام مسلمان اس موقع پر بے حد حزم و احتیاط سے کام لیں گے۔ دستخط: (۱) محمد شفیع (۲) محمد اقبال (۳)سید محسن شاہ (۴) ملک محمد حسین (۵) ملک برکت علی (۶) سعادت علی خاں (۷) خواجہ فیروزالدین بیرسٹر ایٹ لا (۸) ڈاکٹر غلام محمد (۹) (مولوی)غلام محی الدین ۔ (نوٹ) سر شام اس اعلان کی اشاعت کا خیال پیدا ہوا ‘لہٰذا محض متذکرہ صدر اصحاب کے دستخط حاصل کیے جاسکے۔ مسلمانوں کے تمام مقتدر رہنماؤں کی رائے یہی ہے‘ جو اوپر ظاہر کی گئی ہے۔ نادر شاہ کی بادشاہت کو تسلیم کر لیا جائے علامہ سر محمد اقبال صدر اور خان سعادت علی خاں سیکریٹری نادر خان ہلال احمر سوسائٹی اخبارات اور اہل ہند سے پُر زور اپیل کرتے ہیں کہ ’’جنرل نادر خاں کی ، جن کو افغانستان کے قومی جرگے نے بالاتفاق بادشاہ منتخب کر لیا ہے، پوری حمایت کریں ۔ ہمارے خیال میں یہ انتخاب افغانستان اور ایشیا کے بہترین مفاد کا حامل ہے۔ نیز ہم حکومت برطانیہ سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ جنرل نادر خاں کو فی الفور افغانستان کا بادشاہ تسلیم کر لے تاکہ ہمسایہ ملک میں مزید بدامنی کے انتظامات کا خاتمہ ہوجائے‘‘۔ (انقلاب ۔ جلد ۴۔ نمبر ۱۰۷۔ یکشنبہ ۲۰ ‘اکتوبر ۱۹۲۹ئ۔ سنڈے ایڈیشن) سبحان اللہ کتنی درد مندی ہے خطے کی ایک آزاد اسلامی مملکت سے جن سے علامہ کی کئی توقعات وابستہ تھیں تا کہ یہ مملکت مزید خونریزی فساد اور تباہی و بربادی سے بچ سکے۔ اگر ایک طرف انگریزوں کی ریشہ دوانیوں کی وجہ سے افغانستان میں بچہ سقہ کا انقلاب غازی امان اللہ خاں کی خلاف کامیاب ہوگیا تھا تو دوسری طرف افغانوں کی ملی غیرت اور وطن و دین پرستی کی بنیاد پر اس قوم نے یکسر انگریزوں کے اس مہرے حبیب اللہ کلکانی بچہ سقہ کی نہ صرف حکومت ختم کی بلکہ ان کو نشان عبرت بنا کر تاریخ میں غداری کی علامت بنا دیا۔ علامہ اور ہندوستان کے مسلمان زعما کو حالات کی نزاکت کا پورا ادراک تھا۔ چنانچہ دوسرے روز ہی روزنامہ انقلاب میں خبر شائع ہوئی کہ افغانستان ہلا ل احمر فنڈ۔ ایک ضروری استدعا ۔۔۔۔درد مند مسلمان ایک منٹ ضائع کرنے کے بغیر اپنے اپنے دیہات ، قصبات ، شہروں اور محلوں میں روپوں کی فراہمی کا کام شروع کر دیں۔ لاہور میں اس کام کا افتتاح ہوچکا ہے۔ آج ڈاکٹر سر محمد اقبال صاحب ، حاجی شمس الدین صاحب، خان بہادر شیخ امیر علی صاحب اور دیگر اصحاب نے طے کیا ہے کہ وہ بصورت وفد روزانہ شہر کا دورہ کریں گے۔۔۔۔ ’’لاہور ہلال احمر‘‘آج مقامی معززین کی خدمت میں حاضر ہوا ‘جنہوں نے کمال فیاضی سے وفد کی استدعا کو شرف قبول بخشا۔ محترم میاں عبدالعزیز بیرسٹر ایٹ لاء سے بسم اللہ کی گئی ۔ جناب نے کمال مہربانی سے ایک صد روپیہ نقد ، مولوی فیروز الدین صاحب مالک فیروز پرنٹنگ پریس نے ۵۰ روپیہ عطا فرمائے۔ جناب میاں نظام الدین صاحب مدظلہ العالی نے پانصد کا وعدہ فرمایا۔۔۔ پائی آنے روپے میزان ۰ ۱۱ ۱۰۱۴ تمام رقوم مسلم بینک لاہور اور اس کی شاخوں میں "ہلال احمر فنڈ"کی صراحت میں بھیجی جائیں۔ خان سعادت علی خاں ، سکریٹری ہلال احمر سوسائٹی لاہور ۔ (انقلاب ۔ جلد ۴۔ نمبر ۱۰۸۔سہ شنبہ ۲۲ ‘اکتوبر ۱۹۲۹ء ) ۲۲ اکتوبر تک درج ذیل رقوم جمع ہوئی تھیں ۲۰ اکتوبر کو چندہ جمع ہوا ۶۵۰ روپے ۲۱ اکتوبر کو چند جمع ہوا ۳۵۵ روپے ۲۲ اکتوبر کو چندہ جمع ہوا ۳۱۰ روپے خاں سعادت علی خاں کے پاس جمع شدہ سرمایہ ۱۱۱۰-۱۱۲۰ (انقلاب جلد ۴ نمبر ۱۰۔ ۲۴ اکتوبر ۱۹۲۹ئ) یہاں اگر ایک طرف افغانستان کی تعمیر نو کے لیے چندہ اکٹھا کیا جا رہا تھا تو دوسری طرف افغانستان کے سیاسی مستقبل سے متعلق بھی مسلم زعما فکر مند تھے اور برطانیہ کو نادر شاہ کی بادشاہت تسلیم کروانے پر زور دیاجاتا رہا۔ افغانستان اور حکومتِ برطانیہ کا اولین فرض ۔ اعلیٰ حضرت نادر خاں کو بادشاہ تسلیم کرنے میں تاخیر نہ کرو ۔ اکابر پنجاب کا اعلان ۱۷ -اکتوبر ۱۹۲۹ء ملک کے طول و عرض میں یہ مسرت انگیز اعلان شائع ہوچکا ہے کہ افغانستان کے قومی جرگہ نے بطل حریت غازی محمد نادر خاں کو ان کے عدیم المثال ایثار اور قربانی کی بنا پر افغانستان کا بادشاہ انتخاب کرلیا ہے۔ ہم اس انتخاب کو اسلام اور افغانستان کے لیے صد ہزار برکات و حسنات کا موجب خیال کرتے ہیں اور سپہ سالار غازی کی خدمت میں تہ دل سے مبارک باد عرض کرتے ہیں کہ خداوند پاک نے اپنی ذرہ نوازی سے ان کے وجود باجود کو نجات دہندہ افغانستان کی حیثیت سے قبول فرمایا۔ سپہ سالار غازی کا سیاسی اور مذہبی رسوخ ان کی عدیم النظیر شجاعت و کار دانی اور فقیدالمثال خدمت و بے نفسی ہمارے سامنے موجود ہے او ر ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ تمام ہندوستانی جنہیں آزاد اور متحدہ افغانستان کی اہمیت کا احساس ہے، اس اعلان میں ہمارے ہم آہنگ ہیں کہ موجودہ حالات میں قیام ِامن و انتظام اور اصلاحِ احوالِ ملتِ افغان کے لیے اس سے بہتر انتخاب ممکن نہیںہے۔ ہم افغانستان کے قومی جرگہ کی دانائی اور مآل اندیشی اور بیدار مغزی کی تعریف کئے بغیر نہیں رہ سکتے‘ جن کی نگہ انتخاب نے جنرل نادر خاں جیسے رجلِ عظیم ، جن کی دین داری، وطن دوستی، تدبر و صالحیت ہر قسم کے اشتباء سے بالا تر ہے‘ افغانستان کے تخت حکومت کے لیے چنا ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ یہ قابل احترام انتخاب، جس طرح ہندوستان میں ایک سرے سے دوسرے سرے تک مسرت و شاد مانیِ عام کا داعی بن رہا ہے، اسی طرح افغانستان کے جملہ قبائل و ملوک‘ خوانین اور علمائے اسلام کو بھی ایک نقطہ پر جمع کر دے گا۔ ہم اس موقع پر افغانستان کے سرداران قبائل، علمائے اسلام اور خوانین عظام کی خدمت میں عرض کرنا چاہتے ہیں کہ وہ آزاد اور متحدہ افغانستان کی اہمیت کو محسوس کرتے ہوئے جسور و غیور ملت افغانیہ کو اندرونی تفرقہ پردازیوں سے محفوظ رکھنے کے لیے ہر ممکن کوشش عمل میں لائیں۔ بچہ سقہ کی تباہی اور سپہ سالار غازی کے اعلان بادشاہت کے بعد حکومت انگریزی کا فرض بالکل واضح ہے۔ ہمارے قریب ترین ہمسایہ ملک میں جو ایک سال سے جنگ و جدل کا بازار گرم ہے، اس سے ہندوستان اور افغانستان یکساں طور پر نقصان اٹھا رہے ہیں ۔ گورنمنٹ انگریزی کا فرض ہے کہ ہندوستان اور افغانستان کے باشندوں کی متحدہ خواہشات کے مطابق سپہ سالار غازی جنرل محمد نادر خاں کو افغانستان کا جائز بادشاہ تسلیم کرنے میں کسی قسم کی تاخیر و التوا کو راہ نہ دے۔ آخر میں ہم دست بدعا ہیں ۔ اے خدا ! افغانستان کی مشکلات کو آسان کردے اور سپہ سالار غازی کو توفیق دے کہ ان کی ہمت و کوشش سے ملتِ افغان اپنے اسلامی شرف و اقارب کو دنیا میں قائم رکھ سکیں۔ دستخط سر میاں محمد شفیع۔ سر علامہ محمد اقبال۔ خان سعادت علی خاں۔ خلیفہ شجاع الدین۔ خواجہ فیروزالدین احمد بیرسٹر ایٹ لا۔ میاں عبدالعزیز بیرسٹر ایٹ لا۔ مولانا غلام رسول مہر۔ مولانا عبدالمجید سالک۔ سید حبیب آف ’’سیاست‘‘۔ ملک لال دین قیصر ۔ حاجی شمس الدین ۔ ملک برکت علی ایم اے۔ پروفیسر عبدالقادر شاہ ایم اے۔ مولوی غلام محی الدین خان۔ ملک میراں بخش (سوداگر چوب)۔ چودھری دین محمد (رئیس اعظم)۔ چودھری عبدالکریم (میونسپل کمشنر)۔ چودھری فتح شیر (میونسپل کمشنر)۔ مولوی فیروزالدین مالک فیروز پرنٹنگ پریس۔ سید محسن شاہ۔ (انقلاب ۔ جلد ۴۔ نمبر ۱۰۹۔ چہار شنبہ۔ ۲۳‘ اکتوبر ۱۹۲۹ئ) افغانستان ہلال احمر فنڈ سوداگر ان چرم لاہور ۔۔۔آج کا وفد جو ڈاکٹر سر محمد اقبال ، خان سعادت علی خاں، میاں عبدالعزیز اور حاجی شمس الدین پر مشتمل تھا، لاہور کے سوداگرانِ چرم کی خدمت حاضر ہوا۔۔۔۔ پائی آنے روپے ۔۔۔آج تک کی صحیح میزان۔۰---۱۱---۱۸۴۵ ہے ۔ درد مند مسلمان تمام رقوم’’مسلم بینک لاہور‘‘ اور اس کی شاخوں میں جمع کروائیں ۔ (عبدالمجید قرشی، سکریٹری ) (انقلاب ۔ جلد ۴۔ نمبر ۱۱۵۔ چہار شنبہ ۔ ۳۰ ‘ اکتوبر ۱۹۲۹ئ)(۱۶۳) نادر خان ہلالِ احمر فنڈ کے لئے محمد جمیل صاحب کے دس روپے کا چندہ ملتا ہے ۔ علامہ شکرئیے کے طورپر انہیں ۴ نومبر ۱۹۲۹ء کو انگریزی میں مکتوب بھیجتے ہیں۔ متن درج ذیل ہے: ہلالِ احمر فنڈ کے لئے دس روپے کے عطیے کا شکریہ۔ مجھے امید ہے احبابِ بنگلور جن سے میں نے اس سلسلے میں اعانت کی درخواست کی ہے فراخ دلی سے چندہ دیں گے۔ ہمارے اٹک پار کے بھائیوں کی طرف سے جو ذمہ داری ہم پر عائد ہوتی ہے وہ ان حضرات کو یاد دلائیے۔ افغانستان کا استحکام مسلمانانِ ہندوستان اور وسطی ایشیا کے لئے وجہ جمعیت و تقویت ہے۔ بچہ سقہ اپنے گیارہ ساتھیوں سمیت قتل ہوچکا ہے اور نادرخان بادشاہ بتدریج استحکام حاصل کررہے ہیں۔ میرے خطبات مکمل ہوچکے ہیں۔ (۱۶۴) یاد رہے کہ اس مکتوب کے تحریر سے ایک روز بیشتر۳ نومبر ۱۹۲۹ء بمطابق ۱۱ عقرب ۱۳۰۸ھ ش کو بچہ سقہ اور ان کے درج ذیل ساتھیوں کو پھانسی دی گئی۔ ۱۔ حمید اللہ (بچہ سقہ حبیب اللہ کا بھائی) ۲۔ سید حسین وزیر جنگ ۳۔ ملک محسن گورنر کابل ۴۔ شیر جان وزیر دربار ۵۔ محمد صدیق فرقہ مشر (فوجی سربراہ) ۶۔ محمد محفوظ قوماندان امنیہ ۷۔ قلعہ بیگی وغیرہ (۱۶۵) افغانستان میں اعلیٰ حضرت محمد نادر شاہ غازی کے برسراقتدار آنے کے بعد کابل میں مجلس امدادیہ ملی کا قیام عمل میں آتا ہے۔ حکومت کی یہ خبر ۹ نومبر ۱۹۲۹ء کے اخبارات کی زینت بنتی ہے۔ کابل میں مجلس امدادیہ ملّی کا قیام ۔ حکومت کے استحکام کے لیے فراہمی سرمایہ (کابل سے ’’انقلاب‘‘ کے لیے خاص برقی پیغام) کابل‘ ۷ نومبر۔ مولانا عزیز ہندی سکریٹری مجلس امدادیہ ملّی کابل سے بذریعہ برقی پیغام رقم طراز ہیں: نوجوان افغانوں نے افغانستان کے لیے سرمایہ فراہم کرنے کی غرض سے کابل میں مجلس امدادیہ ملّی قائم کی ہے۔ مجلس مذکور برادران ِہند کی گراں بہا اور بر وقت امداد کا اعتراف اور ان تمام حضرات کا بے حد شکریہ ادا کرتی ہے، جن کی سرگرمیاں اس نازک حالت میں حکومتِ افغانستان اور قوم افغان کی بہبود کا مرکز بنی ہوئی ہیں ۔ مجلس مذکور کی طرف سے میں استدعا کرتا ہوں کہ آپ ہمارے ساتھ تعلقات قائم کریں ۔ ’’انقلاب‘‘۔ اس مضمون کا ایک تار جناب علامہ اقبال ( صدر مجلس ہلال احمر لاہور) کی خدمت میں بھی موصول ہوا ہے۔ یہ بے انتہا مسرت کا مقام ہے کہ کابل کے نوجوان افغانوں نے اپنی حکومت کی مشکلات محسوس کرکے فراہمیِ سرمایہ کا کام شروع کر دیا ہے۔ ہم خواجہ غلام محمد عزیز ہندی امرتسری کو یقین دلاتے ہیں کہ تمام بہی خواہان افغانستان اس سعی میں ان کے ہم قدم ہوں گے۔ ۔۔۔ (انقلاب ۔ جلد ۴۔ نمبر ۱۲۳۔ شنبہ ۔ ۹ نومبر ۱۹۲۹ء ) چنانچہ مخیر حضرات کی طرف سے دل کھول کر نادر خاں ہلال احمر فنڈ میں عطیات جمع ہوتے ہیں۔ نادر خاں ہلال احمر فنڈ میں سات ہزار سے زیادہ روپیہ فراہم ہوگیا۔ محفوظ سرمایۂ تنظیم کی باضابطہ وصولی ۔۔۔۔راقم الحروف نے محفوظ سرمایہء تنظیم کے معاونین کرام کی مخصوص اجازت کے مطابق تمام جمع شدہ روپیہ افغانستان ہلال احمر سوسائٹی لاہور کے نام منتقل کر دیا تھا تاکہ اسے غازی محمد نادر خاں کی خدمت میں بھیج دیا جائے۔ آج مسلم بینک امرتسر نے ۵۴۶ روپے ۴آنے ۵پائی کی رقم باضابطہ طور پر نادر خاں ہلال احمر فنڈ میں منتقل کر دی ہے۔ دلّی امرتسر سنٹر ل کوآپرٹیو بنک امرتسر سے خط و کتابت ہو رہی ہے۔۔۔۔ کل میزان ۳۷۷،۷ روپیہ ۱۱(آنے) ۵ پائی۔ تمام رقوم مسلم بنک لاہور اور اس کی شاخوں میں بھیجی جائیں۔ (عبدالمجید قرشی، سکریٹری افغانستان ہلال احمر سوسائٹی‘ لاہور) (انقلاب ۔ جلد ۴۔ نمبر ۱۲۸۔ جمعہ ۱۵ نومبر ۱۹۲۹ئ) برطانیہ عظمیٰ مجبور ہو جاتی ہے کہ جدید افغانستان کو تسلیم کرے چنانچہ وزیر خارجہ کابل کے نام برطانیہ عظمیٰ کا پیغام جاری ہوتا ہے جس کی کاپیاں وزیر خارجہ کے ساتھ ساتھ حضرت علامہ اقبال اور دیگر اہل درد حضرات کو بھی ملتے ہیں۔ برطانیہ عظمیٰ نے جدید حکومت افغانستان کو تسلیم کر لیا۔ مسٹر ہینڈر سن کا پیغام وزیر خارجہ کابل کے نام ۔۔۔۔رگبی ۱۵ نومبر ۔ مسٹر آرتھر ہینڈرسن وزیر خارجہ برطانیہ نے وزیر خارجہ کابل کے نام حسب ذیل برقی پیغام ارسال کیا ہے: ’’میں ہزمیجسٹی کی گورنمنٹ یعنی دولت متحدہ اور حکمت ہند کی طرف سے اور ہزمیجسٹی کی حکومتوں یعنی کینیڈا، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کی کامن ویلتھ ، جنوبی افریقہ کی یونین اور آئرلینڈ کی آزاد حکومت کے ایما سے یورایکسیلینسی کو مطلع کرتا ہوں کہ مذکورہ حکومتیں اس حکومت کے بادشاہ محمد نادر شاہ کو جو بادشاہ محمد نادر شاہ نے افغانستان میں قائم کی ہے‘ تسلیم کرتی ہوئی اس مخلصانہ امید کا اظہار کرتی ہیں کہ پہلے کی طرح جدید حکومت کے ساتھ بھی محبانہ تعلقات جاری رہیں گے۔‘‘ پیغامات تبریک و تہنیت بخدمت جلالت مآب وزیر خارجہ افغانستان ’’بیرونی حکومتوں اور علی الخصوص برطانیہ کی طرف سے تسلیمِ حکومت پر اعلیٰ حضرت کی خدمت میں مخلصانہ مبارک باد عرض کر دیجیے۔‘‘ مندرجہ صدر مضمون کے برقی پیغامات آج حضرت علامہ اقبال‘ حضرت سعادت علی خاں صاحب، حاجی میر شمس الدین صاحب، افغانستان ہلال احمر اور ادارہ ’’انقلاب ‘‘کی طرف سے وزیر خارجہ افغانستان کی خدمت میں بھیجے گئے ہیں۔ (انقلاب ۔ جلد ۴۔ نمبر ۱۳۱۔ سہ شنبہ ۔ ۱۹ نومبر ۱۹۲۹ئ) ۲۸ نومبر ۱۹۲۹ء انقلاب جلد نمبر ۱۳۹ پنجشنبہ کی خبر۔ لاہور سے کل رقم افغانوں کی امداد کے لئے روانہ ہوئی تھی۔ ۵-۱۱-۸۱۱۲ روپے۔ نادر خاں فنڈ کابل پہنچ جاتا ہے اور وہاں سے مجلس امدادیہ ملی کی جانب سے علامہ کے نام خط بھی آتا ہے۔ نادر خاں ہلال احمر فنڈ ۔ آٹھ ہزار روپیہ کابل پہنچ گیا۔ مجلس امدادیہ ملّی کا خط علامہ اقبال کے نام قارئین کرام کو یاد ہوگا کہ لاہور میں نادر خاں ہلال احمر فنڈ کے نام سے ایک سرمایہ جمع کیا گیا تھا۔ ہلال احمر فنڈ کی مجلس نے اس سرمایہ کے متعلق ارباب حکومت افغانستان اور مجلس امدادیہ ملّی کابل سے خط و کتابت کی اور بالآخر آٹھ ہزار روپیہ خواجہ ہدایت اللہ خاں صاحب جنرل قونصل افغانی (مقیم شملہ)کی وساطت سے افغانستان بھیج دیا گیا ۔ حال ہی میں جناب محمد ابراہیم صاحب رئیس مجلس امدادیہ ملّی اور جناب محمد اسلم صاحب بلوچ ناظم مجلس کی جانب سے حضرت علامہ اقبال مدظلہ العالی کی خدمت میں ایک مکتوب موصول ہوا ہے، جس میں وہ لکھتے ہیں کہ مبلغ آٹھ ہزار روپیہ وزارت خارجہ افغانستان سے مجلس کو وصول ہوچکا ہے۔ اعلیٰ حضرت غازی اور ملت افغانستان برادرانِ ہند کی اس ہمدردی کی بہت قدر کرتے ہیں۔ اس مکتوب میں ان دونوں حضرات نے علامہ اقبال کی اس تعلیم کو بے انتہا سراہا ہے کہ مسلمانون کو وطنیت و قومیت کے جال میں نہ پھنسنا چاہیے‘ بلکہ اول و آخر مسلمان ہی رہنا چاہیے ۔ آخر میں لکھا ہے کہ افغانستان کے باشندے آپ کی (علامہ اقبا ل کی )زیارت کا بے انتہا اشتیاق رکھتے ہیں اور اگر آپ یہاں تشریف لائیں تو حکومت و ملت دونوں کی طرف سے آپ کی نہایت مخلصانہ عزت و پذیرائی کی جائے گی۔ (انقلاب ۔ جلد ۵۔ نمبر ۴۸۔ پنج شنبہ ۔ یکم اگست ۱۹۳۰ئ) اس دوران افغانستان کے سفیر اعلیٰ لاہور تشریف لاتے ہیں اور حضرت علامہ ان کی خدمت میں ضیافت کا اہتمام کرتے ہیں۔ ملاحظہ ہو روزنامہ انقلاب لاہور کی خبر۔ افغانستان کے سفیرِ اعلیٰ کی تشریف آوری لاہور ۲۸ جنوری۔ آج صبح آٹھ بجے افغانستان کے سفیر اعلیٰ جلالت مآب ہدایت اللہ خاں صاحب دہلی سے لاہور تشریف لائے ۔قونصل خانہ افغانستان کے میر منشی جناب محمد فاضل ساتھ تھے۔ جلالت مآب ہدایت اللہ خاں صاحب قبل ازیں روس، ترکی اور ایران میں رہ چکے ہیں۔دور انقلاب میں جلالت مآب نے ملک و ملت کی فلاح و بہبود کے لیے جو فداکاریاں کیں‘ وہ فدا کارانِ افغانستان کی تاریخ کا نہایت شان دار باب ہیں ۔ جلالت مآب نے ہزارہ قبائل میں نہایت شان دار کام کیا اور آخر تک بچہ سقہ کے مقابلے میںڈٹے رہے ۔ بچہ سقہ نے ان کی گرفتاری کے لیے ایک لاکھ روپے کا انعام مقرر کیا ، بعد ازاں حکم دے دیا کہ انہیں جس طرح بھی ہو‘ شہید کر دیا جائے۔ مگر اللہ تعالیٰ جلالت مآب کا حامی و ناصر تھا اور آپ بالکل محفوظ رہے۔ جلالت مآب دو تین روز لاہور میں قیام فرمائیں گے۔ اس وقت سٹفلز ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے ہیں۔ آج شام کو حضرت علامہ اقبال کے یہاں دعوت طعام ہے۔ کل چار بجے سر شفیع کے یہاں دعوت چائے ہوگی ، غالباً کل شام کو مولانا غلام محی الدین صاحب قصوری کے ہاں کھانا ہوگا۔ کل ساڑھے گیارہ بجے کے قریب بعض اخبارات کے نمائندوں کو انٹرویو کے لیے وقت دیا گیا ہے۔ (انقلاب ۔ جلد ۴۔ نمبر ۱۸۹۔ پنج شنبہ۔ ۳۰ جنوری ۱۹۳۰ئ۔ ) لاہورمیں افغانستان کے قونصل جنرل کے مصروفیتوں کے رپورٹس مسلسل اخبارات میں شائع ہوتے رہیں۔ اس دوران حضرت علامہ کی ان پروگراموں میں شمولیت اور ان کی کردار کا خصوصی تذکرہ ملتاہے۔ لاہور میں قونصل جنرل افغانستان کی مصروفیتیں لاہور ۲۸ جنوری۔ آج جلالت مآب ہدایت اللہ خاں صاحب قونصل جنرل افغانستان نے بعض مقامی معزز احباب سے ملاقات فرمائی اور شام کو حضرت علامہ اقبال کے ہاں کھانا تناول فرمایا۔ اس مختصر صحبت ضیافت میں جلالت مآب اور ان کے سکریٹری منشی محمد فاضل صاحب، مولانا شوکت علی صاحب، چودھری محمد حسین صاحب، مدیران ’’انقلاب ‘‘اور مسٹر شمس الدین حسن مدیر ’’خاور‘‘ شریک تھے۔ مسائل مہمہ پر مذاکرے کا سلسلہ دیر تک جاری رہا اور سب احباب قونصل جنرل صاحب کی فراست و دانش مندی اور خیر خواہی سے بہت متاثر ہوئے۔ ۔۔۔ (انقلاب ۔ جلد ۴ ۔ نمبر ۱۹۰۔ جمعہ ۔ ۳۱ جنوری ۱۹۳۰ئ۔ ) جناب قونصل جنرل کی مصروفیتیں لاہور ۳۰ جنوری۔ جلالت مآب قونصل جنرل افغانستان نے آج بھی بعض سے فرداً فرداًملاقات فرمائی۔ پانچ بجے سٹفلز ہوٹل میں مجلس خلافت پنجاب کی طرف سے آپ کو دعوت چائے دی گئی جس میں علامہ اقبال، سر محمد شفیع ، میاں عبدالعزیز صدر بلدیہ لاہور، مولانا شوکت علی اور دیگر معززین و اکابر کے علاوہ مالک و مدیر ’’مسلم آؤٹ لک‘‘مولانا سالک‘ مولانا سید حبیب اور تمام کارکنان خلافت بھی موجود تھے۔ ۔۔۔۔ (انقلاب ۔ جلد ۴۔ نمبر ۱۹۱۔ شنبہ ۔ یکم جنوری ۱۹۳۰ئ)(۱۶۶) ۴ مارچ ۱۹۳۰ء کو ایک بار پھر محمد جمیل صاحب سے ایک اور مکتوب میں افغانستان میں امن و امان اور محمد نادر شاہ سے متعلق خوش بینی کا اظہار یوں کرتے ہیں: ’’۔۔۔۔ افغانستان میں دوبارہ امن قائم ہوتا جاتا ہے نادرخان ملک کو شاہراہِ ترقی پر ڈالنے کی بے حد کوشش فرما رہے ہیں۔ وہ افغانوں کے محبوب ہیں ۔ اور نیم پنجابی بھی ۔ ان کی والدہ لاہور میں پیدا ہوئیں اور یہیں پرورش پائی۔ (۱۶۷) نادر خان غازی علامہ سے دیرینہ رفاقت کا حق ادا کرتے ہوئے انہیں افغانستان آنے کی دعوت دیتے ہیں ۔ جس کی تفصیلات پر علامہ کے سفرِ افغانستان کے عنوان میں تحقیق کی جائے گی۔ بدھ ۸ نومبر ۱۹۳۳ء بمطابق ۱۶ عقرب ۱۳۱۲ھ ش کابل کے دلکشا میں اعلیٰحضرت محمد نادر خان کوشہید کیا جاتا ہے اور حضرت علامہ ۱۵/ نومبر ۱۹۳۳ء کو نادرشاہ شہید کے جانشین محمد ظاہر شاہ اور وزیر اعظم افغانستان کو تعزیتی خطوط بھجواتے ہیں۔ محمد ظاہر شاہ کے نام علامہ کے مکتوب کا تذکرہ ان کے عنوان کے تحت کیا جائے گا البتہ نادر شاہ کی شہادت پر افغانستان کے وزیرِ اعظم کے نام علامہ کے تعزیتی مکتوب کا متن درج ذیل ہے: میں نے اعلیٰحضرت محمد نادر شاہ کے غدارانہ قتل کی خبر سے نہایت شدید رنج و اندوہ محسوس کیا۔ اللہ تعالیٰ اعلیٰحضرت شہید کی روح کو خلعتِ مغفرت عطا فرمائے۔ آپ نجات دہندہ ٔ افغانستان اور زمانۂ حاضر کے جلیل ترین حکمرانوں میں سے تھے اور آپ کے انتقال کا نقصان تمام دنیائے اسلام میں محسوس کیاجائے گا۔ اعلیٰحضرت شہید کی ذاتی شجاعت ، ذاتی تقویٰ اور اسلام اور افغانستان سے محبت آئندہ نسلوںکے لئے بہت بڑی ہمت افزائی اور تحریک عمل کا باعث ہوگی۔ ازراہِ نوازش میری طرف سے دلی ہمدردی کا اظہار اعلیٰحضرت محمد ظاہر شاہ ، سردار شاہ محمود خان اور دیگر افرادِ خاندان شاہی کی خدمت میں پہنچادیجیے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ آپ کو اس صدمے میں صبر و ثبات کی توفیق عطا فرمائے۔ (۱۶۸) ۱۹۳۴ء میں جمال الدین احمد (بی اے آنرز) اور محمد عبدالعزیز نے افغانستان پر انگریزی زبان میں ایک کتاب لکھی۔ مقدمہ لکھنے کے لئے ان کی نگاہِ انتخاب علامہ اقبال پر پڑی۔علامہ نے اس کتاب کے دیباچے کو تحریر کیا۔ جس کے فارسی ترجمے کو بعد میں مجلہ کابل نے اہتمام سے شائع کیا۔ اس میں بھی اعلیٰحضرت محمد نادر شاہ غازی کا تذکرہ موجود ہے۔ علامہ لکھتے ہیں: ازمن خواہش شد دوسہ سطری بہ عنوان مقدمہ در اطراف این کتاب گراں قیمت کہ راجع بہ افغانستان نگارش یافتہ بہ نو سیم این تکلیف رابنظر رضا و استحسان می نگرم زیرا سرور و علاقہ ام با افغانستان نہ تنہا از جہتی است کہ من افغانہا را دا یما یک ملت غیور و دارای قوۂ خستہ گی ناپیذیر در زندگی میدانم بلکہ شر فیای بحضور اعلیٰحضرت شہید محمد نادر شاہ غازی آن پادشاہ صاحبِ شمشیر و تدبیر بیشتر مرا قانع نمودہ کہ نبوع او در پیکر ملت افغان روح تازہ دمید و چشمِ ملت را بمنظر عالم امروزہ با ز نمودہ۔ (۱۶۹) ترجمہ: ’’مجھ سے کہا گیا ہے کہ افغانستان پر اس نفیس کتاب کے پیشِ گفتار کے طور پر چند سطریں لکھ دوں۔ مجھے اس فرمائش کے پورا کرنے میں خوشی محسوس ہو رہی ہے نہ صرف اس لئے کہ میں افغانوں کا ایک جفاکش اور سخت کوش جاندار قوم کی حیثیت سے احترام کرتا ہوںبلکہ اس لیئے بھی کہ مرحوم نادرشاہ کو شخصی طور سے جاننے کی عزت بھی مجھے حاصل ہے۔ وہ مجاہد سیاست دان جسکی شخصیت نے اس کی قوم میں ایک نئی جان ڈال دی اور جدید دنیا کو سمجھنے کے لئے نئی نظر بخشی۔‘‘(۱۷۰) علامہ سے نادرشاہ کے قریبی مراسم اور نادرشاہ سے اقبال کی عقیدت کا یہ عالم ہے کہ جاوید منزل میں علامہ کی خوابگاہ میں علامہ کے سرہانے اپنی بڑی سائز کی تصویر کے علاوہ دائیں جانب محمد نادرشاہ غازی اور بائیں جانب سر راس مسعود کے نسبتاً چھوٹے سائز کی تصاویر رکھی ہیں جو آج تک اسی حالت میں محفوظ ہیں۔ اعلیٰحضرت نادر شاہ کے بعد افغانستان میں سیاسی حوالے سے علامہ کے قریبی مراسم ان کے جانشین المتوکل علی اللہ محمد ظاہر شاہ سے رہے تھے۔ اعلیٰ حضرت محمد ظاہر شاہ سے علامہ کی پہلی ملاقات اس وقت ہوئی تھی جب اعلیٰ حضرت کی عمر ابھی صرف تقریباً دس سال ہی تھی۔ جولائی ۱۹۲۴ء میں جب اعلیٰ حضرت محمد نادر خاں پیرس جا رہے تھے اور لاہور میں ایک روز کا قیام کیا تھا علامہ نے ان سے ملاقات کی تھی اور اس ملاقات میں اعلیٰ حضرت محمد ظاہر شاہ اپنے والد کے ساتھ تھے۔ اس ملاقات کا تذکرہ علامہ کے ایک مکتوب بنام چودھری محمد حسین بابت ۱۶ جولائی ۱۹۲۴ء میں موجود ہے۔ ’’جنرل نادر خاں صاحب نے لاہور میں ایک روز قیام کیا۔ وہ اردو بہت اچھی بولتے ہیں اور نہایت بے تکلف اور سادہ آدمی ہیں۔ کل شام میں نیڈو ہوٹل میں ان سے ملا۔ وہ خود ہی میرے مکان پر آنے والے تھے۔ چٹھی میرے نام کی لکھ کر بھیجنے والے تھے کہ میں خود وہاں جا پہنچا۔ ان کی دعوت چائے کی تھی اور مجھے بھی میزبان نے مدعو کیا تھا۔ نہایت اخلاص اور محبت سے ملے اور جب میں نے ان کی عسکری قابلیت کی تعریف کی تو کہا آپ نے جو کچھ لکھا ہے‘ دنیا کی کوئی توپ اور بندوق اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ ایک ایک لفظ ایک ایک بیٹری کا حکم رکھتا ہے۔ وہ پیرس میں سال یا دو سال رہیں گے۔ اپنے چھوٹے بچے کو بھی ساتھ لے جا رہے ہیں جس کی عمر تقریباً دس سال کی ہو گی……‘‘ (۱۷۱) ویسے بھی جب اعلیٰ حضرت محمد نادر شاہ غازی افغانستان کا حکمران بنا اور محمد ظاہر خان جب بھی ہندوستان کا سفر کرتے۔ افغان سفارت خانہ میں ان کی آمد اور دیگر مصروفیات کا برقی تار دیگر محکمہ جات کے علاوہ حضرت علامہ کو بھی ارسال کیا جاتا۔ اس حوالے سے ملاحظہ ہو روزنامہ ’’انقلاب‘‘ لاہور کی چند خبریں۔ محمد نادر شاہ غازی کے جگر بند کا نزول اجلال ۔ والا حضر ت شہزادہ محمد ظاہر خاں افغان قونصل جنرل ہندوستان دہلی کی طرف سے ایک برقی پیغام موصول ہوا ہے کہ اعلیٰ حضرت محمد نادر شاہ غازی کے شہزادہ عالی قدر ہزہائی نس محمد ظاہر خاں ۶- اکتوبر کو (فرانس سے) بمبئی تشریف لا رہے ہیں۔ افغانستان تشریف لے جاتے ہوئے ہزہائی نس جب دہلی سے روانہ ہوں تو آپ کو اطلاع دی جائے گی۔ اس مضمون کا ایک تار حضرت علامہ اقبال مدظلہ العالی کی خدمت میں بھی موصول ہواہے۔ (انقلاب۔ جلد ۵ ۔ نمبر ۹۷۔ پنجشنبہ۔ ۶ اکتوبر ۱۹۳۰ئ) شہزادہ محمد ظاہر خاں کا بمبئی میں نزول اجلال ۔ ۹- اکتوبر کو لاہور سے گذریں گے بمبئی ۔ ۵ اکتوبر۔ ہدایت اللہ خاں قونصل جنرل افغانستان متعینہ دہلی‘ حسب ذیل برقی پیغام ارسال فرماتے ہیں۔ ہزبائی نس شہزادہ محمد ظاہر خاں فرزند ارجمند اعلیٰ حضرت شہریارمحمد نادر شاہ غازی ۸- اکتوبر کو فرنٹیئر میل میں بمبئی سے روانہ ہوں گے۔ شدت گرما کے باعث سیدھے پشاور تشریف لے جائیں گے اور ۹- اکتوبر کو شام کے وقت لاہور میں نزولِ اجلال فرمائیں گے۔ اس مضمون کا ایک برقی پیغام علامہ سر محمد اقبال کی خدمت میں بھی موصول ہوا ہے۔ (انقلاب ۔ جلد ۵۔ نمبر ۱۰۰۔ سہ شنبہ ۔ ۷ اکتوبر ۱۹۳۰ئ) والا حضرت شہزادہ محمد ظاہر خاں کی تشریف آوری لاہور ریلوے اسٹیشن پر مسلمانوں کا ہجوم ۔ اعلیٰ حضرت محمد نادر شاہ غازی زندہ باد کے نعرے لاہور ۔ ۹- اکتوبر۔ آج ساڑھے نو بجے (شب) فرنٹیئر میل سے والا حضرت شہزادہ محمد ظاہر خاں اطال اللہ عمرہ ، لاہور ریلوے اسٹیشن پہنچے۔ ہزارہا مسلمان آپ کی زیارت کے لیے دیوانہ وار ایک دوسرے پر گرے پڑتے تھے۔ خان سعادت علی خاں صاحب سکریٹری انجمن اسلامیہ پنجاب اور حضرت محمد اقبال مدظلہ تعالیٰ کی دعوت پر شہر کے متعدد اکابر بھی موجود تھے، جن میں خاں صاحب موصوف اور حضرت علامہ کے علاوہ چودھری دین محمد صاحب، چودھری فتح محمد صاحب، چودھری عبدالکریم صاحب، خاں بشیر حسین خاں صاحب، میر سردار حسین صاحب، حکیم سید ظفریاب علی صاحب، میاں محمد دین(حزب الاحناف)‘سید عنایت علی شاہ صاحب، مولانا غلام مرشد، مولانا نجم الدین اور دیگر علمائے کرام، شہزادہ احمد علی درانی، شہزادہ صالح محمد خاں، شہزادہ محمد یوسف جان، سردار عبدالرحمن محمد زائی اور دیگر شہزاد گان و معززین خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ قونصل جنرل صاحب دہلی اور قونصل جنرل صاحب بمبئی منشی محمد فاضل صاحب اور دیگراحکام افغانی والا حضرت کے ہم رکاب تھے ۔مولانا سید حبیب نے شہزادہ صاحب اور ان کے رفقاء کے لیے نہایت پُر تکلف کھانے کا انتظام کیا تھا۔ تمام معززین و احباب مخلصین نے شہزادہ صاحب کو پھولوں کے بے شمار ہار پہنائے اور مسلمانوں کے پے درپے نعروں سے اسٹیشن گونج اٹھا۔ والا حضرت نے حضرت علامہ اقبال، خان سعادت علی خاں، مولانا سالک ، مولانا مہر، میر حبیب اللہ ( صاحب زادہ حاجی شمس الدین صاحب) اور دیگر اصحاب سے نہایت پرتپاک ملاقات فرمائی اور آخر میں مولانا سالک سے ارشاد فرمایا کہ میری طرف سے سب مسلمانوں کی اس تکلیف فرمائی اور محبت کا شکریہ ادا کر دیجیے ۔ چنانچہ مولانا سالک نے حکم کی تعمیل میں والا حضرت کی طرف سے مسلمانوں کا دلی شکریہ ادا کیا۔ والا حضرت نے عام مسلمانوں سے نہایت برادرانہ تپاک اور مخلصانہ گرم جوشی سے مصافحہ کیا اور چند ہی لمحے میں ہر شخص کو اپنے اخلاق عالیہ کا گرویدہ بنالیا۔ اللہ تعالیٰ والا حضرت کو صاحب عمر و اقبال کرے اور ان کی ذات کو افغانستان اور عالم اسلام کے لیے باعث برکات بنائے۔ (نامہ نگار) (انقلاب ۔ جلد ۵۔ نمبر ۱۰۴۔ شنبہ ۔ ۱۱ - اکتوبر ۱۹۳۰ئ) مثنوی مسافر میں اعلیٰحضرت محمد ظاہر شاہ کو پادشاہِ اسلام کا خطاب دیا گیا ہے اور ان کے نام ایک طویل فارسی نظم موجود ہے۔(۱۷۳) نومبر ۱۹۳۳ء میں اعلیٰحضرت محمد نادر شاہ غازی کی شہادت سے اقبال انتہائی رنجیدہ ہوئے تھے۔ اعلیٰحضرت محمد ظاہر شاہ کے نام اپنے ایک تعزیتی مکتوب میں شہید موصوف سے اپنے تعلق اور محمد ظاہر شاہ سے اظہارِ ہمدردی یوں کرتے ہیں: ۱۵ نومبر ۱۹۳۳ء اعلیٰحضرت محمد نادر شاہ کے قتل کی خبر سے مجھے ذاتی حیثیت سے بے حد صدمہ پہنچا ہے۔ اعلیٰحضرت شہیدکی خدمت میں گذشتہ کئی سال سے مجھے نیاز حاصل تھا اور میں ان کی شفقت اور محبت کو کبھی فراموش نہیں کرسکتا۔ اللہ تعالیٰ شہید کی روح کو اعلیٰ علیین میں جگہ دے اور آپ کے لئے اس جلیل القدر شہید کی یاد موجبِ رہنمائی ہو اور اللہ تعالیٰ آپ کو افغانستان کی خدمت کے لئے مدتِ دراز تک زندہ رکھے۔ ملتِ افغانی نے اتفاق آراء سے آپ کے حضور میں اطاعت کرکے جس دانشمندی اور جذباتِ تشکر کا ثبوت دیا ہے اس کی تحسین میں ساری دنیا ہم زبان و ہم آہنگ رہے گی۔(۱۷۴) اور اقبال کی یہ دعا قبول ہوئی اور الحمداللہ آج تک اعلیٰحضرت محمد ظاہر شاہ نے افغانستان کی خدمت کے لئے دراز عمر پائی ہے۔ موصوف نے اپنے والد کی شہادت پر حضرت علامہ کے تعزیتی مکتوب کا جواب یوں ارسال کیا: کابل ۲۳ نومبر از اظہار تعزیت و تالم شما بہ نسبت شہادت درد ناک اعلیٰحضرت محبوب افغانستان محمد نادر شاہ غازی متشکرم ۔ محمد ظاہر خان (۱۷۵) علامہ کے نام اعلیٰ حضرت کے اس تار کی خبر کو روزنامہ انقلاب نے مکمل کوریج دی ہے۔ اعلیٰ حضرت محمد ظاہر شاہ خلداللہ ملکہ و سلطنتہ کا تار ۔ حضرت علامہ اقبال کے پیغام تعزیت کا جواب حضرت علامہ اقبال کے برقیہ ٔ تعزیت کے جواب میں اعلیٰ حضرت محمد ظاہر شاہ خلداللہ ملکہ و سلطنۃ‘ نے مندرجہ ذیل تار بزبان فارسی بھیجا ہے:۔ (فارسی ورژن اوپر درج کیا گیا) اردو ترجمہ ذیل ہے: آپ نے اعلیٰ حضرت غازی محمد نادر شاہ محبوب افغانستان کی شہادت پر جو اظہار رنج و افسوس کیا ہے ، اس کے لیے ہم آپ کے شکر گذار ہیں ۔ (انقلاب ۔ جلد ۸۔ نمبر ۱۶۵۔ چہار شنبہ ۔ ۱۵ نومبر ۱۹۳۰ئ) شہر یار افغانستان اور صدر اعظم کے تار ۔ حضرت علامہ اقبال کے نام حضرت علامہ اقبال کے نام اعلیٰ حضرت محمد ظاہر شاہ کا جو تار اشاعتِ دیروزہ میں شائع ہوچکاہے ‘ وہ پرائیوٹ تھا، مندرجہ ذیل تار ’’دارالتحریر شاہی کابل‘‘کی طرف سے موصول ہوا ہے، جسے اعلیٰ حضرت کا سرکاری جواب سمجھنا چاہیے۔ ’’اعلیٰ حضرت ہمایوئی از ہمدردی و تعزیت شما بہ نسبت شہادت مونسہ اعلیٰ حضرت محمد نادر شاہ غازی و حسن عقیدت تاں بہ نسبت جلوس شاہانہ شاں ممنونیت و قدردانی فرمودند۔‘‘ ترجمہ:۔ اعلیٰ حضرت ہمایونی اس ہمدردی و تعزیت پر جو آپ نے اعلیٰ حضرت محمد نادر شاہ غازی کی الم انگیز شہادت پر ظاہر کی ہے اور اس حسن عقیدت پر جس کا اظہار آپ نے جلوس شاہانہ پر فرمایا ہے ‘ممنون ہیں اور قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ صدر اعظم کا تار صدر اعظم والا حضرت ہاشم خاں کا جواب درج ذیل ہے: از اظہاراتِ تعزیت و ہمدردی صمیمانہ شما نسبت بہ شہادت بادشاہ نامدار و محبوب افغانستان ذات شاہانہ و خدام و وزیر صاحب حربیہ و تمامی فیملی شاہی تشکر و قدر دانی می نماید۔ ترجمہ:۔ آپ نے افغانستان کے نام دار و محبوب بادشاہ کی شہادت پر تعزیت و ہمدردی کے جن مخلصانہ جذبات کا اظہار کیا ہے ، ان کے لیے اعلیٰ حضرت بادشاہ سلامت، خدام حضور ، وزیر صاحب حربیہ (شاہ محمود خاں ) و سارا خاندان شاہی تشکر و قدردانی کا اظہار کرتا ہے۔ صدر اعظم صاحب کا تار کابل سے آیا ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کابل پہنچ چکے ہیں ۔ (انقلاب ۔ جلد ۸۔ نمبر ۱۶۶۔ پنجشنبہ ۱۶ نومبر ۱۹۳۳ئ)(۱۷۶) مئی ۱۹۳۵ء میں علامہ کی رفیقۂ حیات کی وفات پر اعلیٰحضرت محمد ظاہر شاہ کی ہمدردی و تعزیت کا مکتوب بھی حصۂ تاریخ بن چکا ہے۔ ہندوستان میں مملکتِ افغانستان کے قونصل خانہ کے قونصل سردار صلاح الدین سلجوقی کو ہدایت کی کہ وہ بذاتِ خود علامہ کے پاس جاکر ان کو میری طرف سے تعزیتی پیغام پہنچا ئے۔ علامہ ۱۵ جون ۱۹۳۵ء کے ایک مکتوب میں سید راس مسعود سے اس تعزیتی تار کا تذکرہ یوں کرتے ہیں: کل اعلیٰحضرت ظاہر شاہ کا تار اور تعزیتی خط آیا تھا۔ اور آج سردار صلاح الدین سلجوقی اعلیٰحضرت کا زبانی پیغام لائے ہیں۔ بہت حوصلہ افزا اور دل خوش کن پیغام ہے۔ (۱۷۷) ۲۱ / اپریل ۱۹۳۸ء کو علامہ کے وفات پر ۲۴ اپریل ہی کو سردار محمد ہاشم خاں صدر اعظم افغانستان کا تعزیتی تار روزنامہ انقلاب لاہور کے مدیر کو ارسال ہوتا ہے: لاہور ۲۴- اپریل: عالی قدر جلالت مآب حضرت افخم سردار محمد ہاشم خاں صدر اعظم افغانستان نے مدیر روزنامہ ’’انقلاب‘‘کے نام حسب ذیل تار ارسال فرمایا ہے: علامہ اقبال کے انتقال سے متعلق آپ کا تار موصول ہوا، جس سے بے حد صدمہ ہوا۔ مرحوم کے پسماندوں سے میری طرف سے ہمدردی اور افسوس کا اظہار کیجیے اور انہیں تسلی دیجیے ۔ مغفور کے فرزند ارجمند کے نام علیحدہ تار بھی ارسال کیا گیا ہے۔ (انقلاب ۔ جلد ۱۳۔ نمبر ۳۷۔ سہ شنبہ ۲۶ اپریل ۱۹۳۸ئ۔ ہفتہ وار ایڈیشن)(۱۷۸) اس کے بعد اعلیٰ حضرت محمد ظاہر شاہ نے اپنی تعزیت کا اظہار کیا۔ ہندوستان کے مایہ ناز فرزند حکیم مشرق علامہ اقبال کی وفات حسرت آیات کی اطلاع اعلیٰ حضرت تک پہنچائی گئی تھی۔ اعلیٰ حضرت نے اس خبر کو سن کر بے حد تالم و تاسف کا اظہار کیا۔ (۱۷۹) (انقلاب ۔ جلد ۱۳۔ نمبر ۴۲ سہ شنبہ۔ ۳ مئی ۱۹۳۸ ئ۔ ہفتہ وار ایڈیشن ) اس کے بعد اعلیٰ حضرت محمد ظاہر شاہ نے اپنی تعزیت کا اظہار کیا: لاہور یکم مئی: عالی قدر جلالت مآب محمد نوروز خاں سر منشی اعلیٰ حضرت ہمایونی افغانستان نے کابل سے مدیر ’’انقلاب‘‘کے نام حسب ذیل تار ارسال کیا ہے۔ (مندرجہ بالا) (انقلاب ۔ جلد ۱۳۔ نمبر ۴۲ سہ شنبہ۔ ۳ مئی ۱۹۳۸ ئ۔ ہفتہ وار ایڈیشن )(۱۸۰) ۱۹۴۷ء میں اقبال کونسل کراچی کے زیرِ اہتمام یومِ اقبال کے سلسلے میں منعقدہ سیمنار کے لئے اعلیٰحضرت محمد ظاہر شاہ نے خصوصی پیغام ارسال کیا تھا جو سیمنار میںپڑھ کر سنایاگیا: On the occasion of the Iqbal day celebration I wish to express my own and that of the Afghan Nation appreciation of the personality of Iqbal Lahori who was an admirer of Maulana Jalal-ud-Din Balkhi Roomi and Syed Jamal-ud-Din Afghani. Iqbal during his life time carried on a struggle for the awakening of the nation of the east and the Muslims. The Muslims of the world him as one of the wise leaders of Islam and a man of graceful personality. Allama Iqbal loved Afghanistan and its people and as such he will eternally live in the memory and hearts of the people of this country. They consider themselves as participants in the meeting commemorating the memory of Allama Iqbal and pray for his soul. Muhammad Zahir Saha The King of Afghanistan (۱۸۱) اعلیٰحضرت محمد نادر شاہ غازی کے بھائی سردار شاہ ولی خان نے جب سقوی انقلاب کے خلاف لڑتے ہوئے کابل کو فتح کیا تو انہیں فاتح کابل کے خطاب سے نوازا کیا۔ دسمبر ۱۹۲۹ء کو جب وہ بمبئی سے لاہور تشریف لائے تو اقبال کی اپیل پر بے شمار لوگوں نے ان کا والہانہ استقبال کیا۔ ہز ہائی نس شاہ ولی خان کی لاہور آمد اور حضرت علامہ کے رول کی مکمل کوریج روزنامہ انقلاب میں ملاحظہ ہو۔ ڈاکٹر اقبال کا تار ہزہائی نس شاہ ولی خان کے نام ’’ازراہ نوازش تار کے ذریعے اطلاع دیجیے کہ آپ کس وقت لاہور پہنچیں گے۔ انجمن ہلال احمر کی طرف سے دعوت چائے قبول کر کے ہمیں مفتخر و ممتاز فرمائیے۔ ہزہائی نس کے سکریٹری کا جواب پشاور شہر۔ ’’آپ کا پیغام برقی موصول ہوا۔ سردار شاہ ولی خاں لاہور میں قیام نہیں فرمائیں گے اس لیے آپ ریلوے اسٹیشن لاہور پر تشریف لا کر سردار صاحب کو ممنون و مسرور فرمائیے۔پشاور سے جمعہ کے دن پونے آٹھ بجے روانہ ہونگے۔ (ذوالفقار) (انقلاب ۔ جلد ۴۔ نمبر۱۴۶۔ شنبہ ۷ دسمبر ۱۹۲۹ء ) فاتح کابل لاہور میں آج بروز جمعہ شام کے ۸ بجے بمبئی میل پر فاتح کابل ہزہائی نس سردار شاہ ولی خاں لاہور تشریف لائیں گے۔ مسلمانان لاہور کا فرض ہے کہ اسٹیشن پر سردار موصوف کا خیر مقدم کریں۔ خطیب حضرات سے درخواست ہے کہ نماز جمعہ کے بعد مساجد میں اس امر کا اعلان کریں۔ (سکریٹری افغانستان ہلال احمر کمیٹی) (انقلاب ۔ جلد ۴ ۔ نمبر ۱۴۶۔ شنبہ۔ ۷ دسمبر ۱۹۲۹ئ) ہزہائی نس سردار شاہ ولی خاں کا ورود لاہور ۔ اسٹیشن پر مشتاقان زیارت کا ہجوم۔ ’’ہم افغانستان کو آزاد دیکھنا چاہتے ہیں۔ خواہ اس میں ہمیں کتنی قربانیاں کرنی پڑیں ۔‘‘ لاہور ۔۶ دسمبر آج ۸ بج کر ۱۰ منٹ پر ہزہائی نس سردار شاہ ولی خاں فاتح کابل و سفیر افغانی متعینہ لندن ، بمبئی میل میں لاہور پہنچے ۔ گاڑی کے آنے سے پہلے ہی اسٹیشن پر مشتاقان زیارت کا جم غفیر پہنچ گیا تھا اور پلیٹ فارم کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ سرکردہ اصحاب میں سے علامہ سر محمد اقبال، حاجی شمس الدین، مولوی نجف علی معلم‘ امان اللہ خاں، سردار گل محمد خاں، شہزادہ صالح محمد خاں، شہزادہ محمد یوسف جان، مولانا اسمٰعیل غزنوی، شہزادہ احمد علی خان درانی ، مولانا غلام رسول مہر، مولانا عبدالمجید سالک، سید عنایت شاہ، آقائے مرتضیٰ احمد خاں وغیر ہ بے شمار حضرات موجود تھے۔ گاڑی کے آنے پر تمام لوگ قطار بنا کر کھڑے ہوگئے اور جونہی گاڑی پلیٹ فارم میں داخل ہوئی ‘لوگوں نے پائندہ باد استقلال افغانستان ، زندہ باد نادر شاہ غازی، زندہ باد سردار شاہ ولی خاں کے پُرجوش نعروں سے گاڑی کا استقبال کیا۔ گاڑی کھڑی ہوئی تو مشتاقان زیارت اس ڈبے کی طرف لپکے جس میں ہزبائی نس شاہ ولی خاں سوار تھے۔۔۔ شہزادہ اسد اللہ خاں کی عیادت سے فارغ ہو نے کے بعد سردار ممدوح پھر اسٹیشن پر واپس تشریف لائے۔ ان کے آنے سے پہلے ہی علامہ سر محمد اقبال ، حاجی میر شمس الدین، سردار گل محمد خاں ، ہزاکسی لینسی احمد علی خاں، ضیا ہمایوں ، ڈاکٹر محمد یعقوب ، مولوی نورالحق ، سید حبیب اور چند دیگر حضرات ان کی گاڑی میں جا بیٹھے۔ واپسی پر سردار ممدوح نے سب کے ساتھ معانقہ کیا اور نہایت گرم جوشی کے ساتھ ملے۔ مولانا غلام رسول مہر اور عبدالمجید سالک نے بھی شرف ملاقات حاصل کیا ۔ سردار ممدوح نے انہیں اعلیٰ حضرت محمد نادر شاہ غازی ‘سردار محمد ہاشم خاں اور سردار محمود جان کی طرف سے پیغامات محبت دیئے..... (انقلاب ۔ جلد ۴۔ نمبر ۱۴۷۔ یکشنبہ ۔ ۸ دسمبر ۱۹۲۹ء ۔ سنڈے ایڈیشن)(۱۸۲) سیاسی شخصیات کے علاوہ علامہ کے افغانستان کے ادبی شخصیات سے بھی گہرے ذاتی مراسم تھے۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر محمد ریاض مرحوم لکھتے ہیں۔ (افغانستان ) کے فضلاء کے ساتھ اقبال کے ذاتی مراسم بھی خاص اہمیت کے حامل رہے ہیں۔ ڈاکٹر صلاح الدین سلجوقی اور سرورخان گویاؔ ان کے خاص احباب میں شامل تھے۔ اور ان دونوں مرحومین کا سارا افغانستان ارادت مند اور معتقد رہا۔ اس کے علاوہ افغانستان کے سفر (اکتوبر ،نومبر ۱۹۳۳ئ) کے دوران اقبال نے متعدد افغانی فضلاء ادباء کو اپنے افکار اور تصانیف سے روشناس کروادیا تھا۔ (۱۸۳) جناب صلاح الدین سلجوقی کا نام اقبال کے کئی مکتوبات میں ذکر کیا گیا ہے ۔ افغان قونصل خانے میں اقبال کا قیام سلجوقی سے قریبی مراسم کا آئینہ دار ہے۔ ان زعماء کے علاوہ عبدالحئی حبیبی ، سید قاسم رشتیا، استاد خلیل اللہ خلیلی وغیرہ سے علامہ کے ذاتی مراسم تھے جو ان تمام حضرات کے سوانحی تذکروں کے تحت شاملِ تحقیق کیا گیا ہے۔ یہاںاس امر کی وضاحت ضروری ہے کہ عبدالہادی داویؔ کااور سرور خان گویاؔ کا شمار افغانستان میں اقبال شناسی کی کے بانیوں میں ہوتا ہے۔لیکن سرور خان گویاؔ نے ایران میں بھی اقبال شناسی کے آغاز کے سلسلے میں نہایت اہم کردار ادا کیا ہے۔ گویا کی اقبال شناسی پر تو اسکے سوانحی تذکرے میں تحقیق کی گی ہے۔ یہاں صرف ایران میں اقبال شناسی کے حوالے سے ان کے کردار کی نشاندہی کرنی ہے۔ جس کا اعتراف خود ایران کے معروف علمی شخصیت سید محمدمحیط طباطبائی نے کیا ہے۔ اقبال کی تصانیف چہارگانہ یعنی اسرا رِ خودی ، رموزِ بے خودی، زبورِ عجم و پیامِ مشرق کی ایران میں موجودگی اور اقبال کی فارسی شاعری اور ان کی شخصیت کے بارے میں داعی الاسلام مرحوم کے مقالے کے باوجود اقبال ہنوز ایران کے علمی و ادبی حلقوں میں زیادہ معروف نہ تھے۔ ایک رات رسالہ ’’مہر‘‘ کے دفتر میں جہاں ایران کے مشہور و معروف شاعر و ادیب جمع تھے مشہور افغانی شاعر سرور خان گویاؔ مرحوم نے جو جشنِ فردوس میں شرکت کی غرض سے تہران آئے ہوئے تھے اقبال کا ذکر چھیڑ دیا۔ مرحوم کے استفسار کے جواب میں ملک الشعرا بہار مرحوم نے اقبال کی صرف ایک تصنیف کی طرف اشارہ کیا جس کے حسن کتابت نے شاعر کے کلام کی معنوی خوبیوں پر پردہ ڈال رکھا تھا ۔ ایک اور شخص جس نے مسلمانانِ ہند کے قومی شاعر اور روحانی پیشوا اور ’’راحۃ الصدور راوندی‘‘ کے ناشر ڈاکٹر محمد اقبال کو ایک ہی آدمی سمجھ رکھا تھا۔ ’’راحۃ الصدور ‘‘ کے حسن طباعت کاذکر چھیڑ دیا۔ ان جوابات نے گویاؔ مرحوم کی آتش امید پر پانی چھڑک دیا۔ جہاں تک مجھے یاد ہے اس ادبی نشست میں صرف ایک ہی شخص تھا جسے اس پاکستانی شاعر کے فارسی کلام سے ایک گونہ تعلق خاطر تھا اور ایرانیوں کی اقبال سے اس بے اعتنائی پر افغان شاعر کی آزردہ خاطری سے وہی ایک شخص متاثر ہوا اور محفل برخاست ہونے کے بعد اس کو دلاسہ دیا کہ ایران کے کونوں کھدروں میں کچھ لوگ موجود ہیں جو کلام اقبال سے عقیدت رکھتے ہیں۔ (۱۸۴) ایرانی اس لئے بھی اقبال سے پوری طرح واقف نہیں تھے کہ ان کے خیال میں اقبال ایک افغانی شاعر تھے۔ استاد محترم ڈاکٹر محمد صدیق شبلی لکھتے ہیں: ایرانیوں نے سب سے پہلے اقبال کی چند نظمیں افغانی مجلات سے اپنے رسائل میں نقل کرکے شائع کیں اور وہ اقبال کو افغانی شاعر ہی سمجھتے رہے۔(۱۸۵) اس حقیقت کا اظہار ڈاکٹر سلیم اختر نے بھی کیا ہے: افغانستان کے ایک شاعر سرورخان گویاؔ نے علامہ سے خصوصی اثرات قبول کئے چنانچہ ان ہی کی زبانی سید محیط طباطبائی نے ذکرِ اقبال سنا۔ لطیفہ یہ ہے کہ کافی عرصہ تک علامہ اقبال کو افغانستان کا شاعر سمجھا جاتا رہا۔ افغانستان میں چند ادبی مجلات تھے( جن میں ’’کابل‘‘ سرفہرست ہے) ان میں علامہ اقبال کا کلام چھپتا رہا۔ شاید اس لیئے ۱۹۳۸ء میں علامہ کے انتقال کی خبر کے ساتھ ان کا جو ایک فارسی قطعہ شائع ہوا وہ مجلہ کابل سے لیا گیا تھا۔ (۱۸۶) مشہور ایرانی ادیب سید محیط طباطبائی نے سرور خان گویاؔ ہی کے روایت سے اپنے رسالے’’ عقیدہ دینی فردوسی‘‘ کے ترجمے کا ذکر کیا ہے جو بقولِ ان کے علامہ نے اردو میں کیا تھا۔ اقتباس یوں ہے: البتہ معاصر افغان شاعر ادیب سرورخان گویا کے ذریعے جس نے اقبال کو افغانستان میں نزدیک سے دیکھا تھا ہم ان سے ان کے اوصاف حمیدہ اور افکار کے بارے میں پوچھتے رہے اور جناب گویاؔ کی گفتگو سے معلومات افزا مسرت ملتی رہی۔ ۱۹۳۴ء کے موسم سرما میں ، میں نے سرورخان گویاؔ صاحب سے سنا کہ اقبال نے راقم الحروف کے رسالۂ عقیدہ دینی فردوسی کو اردو میں ترجمہ کیااور ایک مقدمہ لکھ کر اسے لاہور سے شائع کردیا ہے مگر اب مجھے ترجمہ شدہ کتاب نہ ملی کہ اس کے بارے میں عرض کرتا۔ (۱۸۷) علامہ کے آثار میں اس سے پہلے کہیں بھی اس ترجمے کا ذکر نہیں ہے۔ علامہ اقبال کا سفرِ افغانستان:۔ حضرت علامہ نے اگرچہ باقاعدہ طور پر سفرِ افغانستان اکتوبر ۱۹۳۳ء میں کیا لیکن اعلیٰحضرت جنرل محمد نادر شاہ غازی سے دیرینہ تعلقات اور افغانستان سے قلبی و روحانی تعلق و عقیدت کی بنیاد پر بہت پہلے سے اس پروگرام کے بارے میں سوچتے رہے۔ اس شدید خواہش کا اظہار ان کے ایک مکتوب بنام مولوی صالح محمد محررہ ۴/ اگست ۱۹۳۰ء میں ملتا ہے۔ ’’۔۔۔۔ کابل جانے کا امکاں ہے جشنِ استقلال وسطِ اگست میں ہے لیکن وسطِ اگست میں ، میں آل انڈیا مسلم لیگ کی صدارت کے لئے لکھنو جارہا ہوں اگر اس موقع پر کابل نہ جا سکا تو کسی اور موقع پر انشاء اللہ ضرور جائوں گا۔‘‘(۱۸۸) علامہ کی افغانستان روانگی سے قبل کئی مکتوبات میں اس سفر سے متعلق تذکرہ موجود ہے۔ مشہور ایرانی سکالرسعید نفیسی کے نام ایک مکتوب محررہ ۴ نومبر ۱۹۳۲ء میں لکھتے ہیں: یہ پڑھ کر کہ ’’پیامِ مشرق‘‘ اور ’’زبورِ عجم‘‘ آپ کو پسند آئی ہیں اور ان کی فارسی بھی معیاری ہے مجھے فخر محسوس ہوا ہے جس طرح ایران کے دانشمند نیازمند کے دیدار کے خواہش مند ہیں ۔ اس طرح مجھے بھی ان سے ملنے اور ایران پہنچے کی آرزو ہے لیکن کمزوری اور پریشانی سدِّ راہ ہے تھوڑے عرصے بعد افغانستان کا سفر درپیش ہے۔ آرزو ہے کہ ایران کو بھی دیکھوں اور آپ کا دیدار بھی خدا نصیب کرے۔(۱۸۹) چنانچہ علامہ جب اعلیٰحضرت محمد نادر شاہ غازی کی جانب سے افغانستان آنے کا باقاعدہ دعوت نامہ وصول کرتے ہیں تو اس کاذکر یوں کرتے ہیں: ؎ از حضور او مرا فرماں رسید آنکہ جانِ تازہ در خاکم دمید ’’سوخیتم از گرمیٔ آوازِ تو اے خوش آں قومے کہ داند رازِ تو از غمِ تو ملتِ ما آشنا ست می شناسیم ایں نواہا از کجا ست اے بآغوشِ سحابِ ما چو برق روشن و تابندہ از نورِ تو شرق یک زمان در کوہسارِ مادر خش عشق را باز آں تب و تابے بہ بخش تا کجا در بندہا باشی اسیر تو کلیمی راہِ سیناے بگیر!‘‘ طے نمودم باغ و راغ و دشت و در چوں صبا بگذشتم از کوہ و کمر (۱۹۰) کابل میں اعلیٰ تعلیم کے لیے یونیورسٹی کے قیام کی ضرورت علامہ اقبال ،سرسید راس مسعود اور سید سلیمان ندوی کو دعوت افغانستان کے بادشاہ اعلیٰ حضرت نادر شاہ غازی نے حضرت علامہ سرمحمد اقبال ،ڈاکٹر سرسید راس مسعود وائس چانسلر مسلم یونیورسٹی علی گڑھ اور علامہ سید سلیمان ندوی اعظم گڑھ کو کابل کا دورہ کرنے کی دعوت دی ہے۔ ان کے دورے کا مقصد یہ ہوگا کہ وہ وزیر تعلیم افغانستان کو کابل میں مجوزہ یونی ورسٹی کے قیام کے سلسلے میں مدد دیں اور انہیں اپنے مشوروں سے نوازیں ۔افغانستان میں اعلیٰ تعلیم کا انتظام نہ ہونے کے برابر ہے۔ چند ثانوی اسکول موجود ہیں، جن میں اساتذہ طلبہ کو فرانسیسی، انگریزی ، جرمن اور امریکی یونیورسٹیوں کے لیے تیار کیا جاتا ہے۔ موجودہ حکومت افغانستان کابل میں یونیورسٹی کے قیام پر غور کر رہی ہے، لیکن دشواری یہ ہے کہ اس یونی ورسٹی مین مذہبی تعلیم اور موجودہ سائنس کی تعلیم دینے پر قدامت پسند علماء کی جانب سے شدید مخالفت کی جارہی ہے۔ (انقلاب۔ جلد ۸۔نمبر ۱۳۷۔ پنجشنبہ۔ ۱۲- اکتوبر ۱۹۳۳ئ)(۱۹۱) اس سفر کے ہمرکاب مولانا سید سلیمان ندوی کو علامہ نے سفر سے متعلق کئی مکتوبات لکھے موضوع کی مناسبت سے ان مکتوبات کا یہاں اندراج ناگزیر ہے۔ ۱۔ لاہور ۱۰ /ستمبر ۱۹۳۳ء مخدومی جناب مولانا السلام علیکم ایک عریضہ پہلے ارسال کر چکا ہوں اس کے جواب کا انتظار ہے۔ اس عریضے میں یہ دریافت کرنا بھول گیا کہ ملا محب اللہ بہاری کی کتاب جوہر الفرد کہاں سے ملے گی؟ شاہِ افغانستان آپ سے تعلیمِ مذہبی کے بارے میں مشورہ چاہتے ہیں شاید اسی ماہ ستمبر میں آپ کو کابل سے دعوت آئے۔ میں یہ معلوم کرنا چاہتا ہوں کہ کیا آپ جانے کے لئے تیار ہوں گے؟ ممکن ہے کہ سید راس مسعود اور اقبال بھی آپ کے ہمراہ ہوں۔ امید ہے کہ مزاج بخیر ہوگا۔ جواب کا انتظار ہے۔ محمد اقبال لاہور (۱۹۲) ۲۔ لاہور ۱۷/ستمبر ۱۹۳۳ء مخدومی السلام علیکم آپ کا والانامہ ابھی ملا ہے جو ہم نے قونصل جنرل صاحب کی خدمت میں بھیج دیا ہے ۔ سید راس مسعود صاحب کی طرف سے ابھی تک جواب نہیں ہوا ہے۔۔۔۔۔۔۔ والسلام مخلص محمد اقبال (۱۹۳) ۳۔ لاہور ۵/اکتوبر ۱۹۳۳ء ’’دولت نامہ جو قونصل کی طرف سے مجھے موصول ہوا ہے ارسال خدمت ہے۔ تاریخ روانگی کے متعلق بعد میں عرض کر دوں گا کیونکہ پاسپورٹ لینے کے لیے کچھ دن لگیں گے۔ آج قونصل صاحب کو مزید تفصیلات کے لیے درخواست کر دیں۔ اس میں اگر یہ لکھ دیا جائے کہ آپ کو شاہ افغانستان نے تعلیمی امور میں مشورہ کرنے کے لیے طلب فرمایا ہے تو پاسپورٹ حاصل ہونے میں سہولت ہو اور جلد مل جائے گا۔ (۱۹۴) ۴۔ لاہور ۹/ اکتوبر ۱۹۳۲ء جناب مولانا السلام علیکم میں نے آپ کی خدمت میں دعوت نامۂ افغانستان ارسال کیا تھا مگر آپ کی طرف سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔ امید ہے کہ آپ نے پاسپورٹ کے لئے اپنے ضلع میں درخواست دائر کردی ہوگی۔ اگر کوئی ملازم آپ کے ہمراہ ہوجائے تو اس کے لئے علیٰحدہ درخواست پاسپورٹ کے لئے دینی ہوگی ۔ جب آپ کو پاسپورٹ مل جائے تو مہربانی کرکے مجھے بذریعہ تار مطلع فرمائیے۔ پاسپورٹ کی درخواست ایک خاص فارم پر دی جاتی ہے ساتھ فوٹو بھی دینا پڑتا ہے اگر کوئی اور امر دریافت طلب ہو تو قونصل جنرل افغانستان ۳۔ ہیلی روڈ نیو دہلی سے دریافت کریں۔ آپ کے مصارف افغان گورنمنٹ اداکرے گی۔ پشاور سے آپ شاہی مہمان ہوں گے۔ جواب جلد دیں۔ والسلام مخلص محمد اقبال لاہور (۱۹۵) ۵۔ لاہور ۱۱/ اکتوبر ۱۹۳۳ء پاسپورٹ مل جائے تو فوراً مجھے تار دے تاکہ تاریخِ روانگی مقرر کی جائے ۔ سردی کے موسم کے لئے موزوں بستر اور پہننے کے لئے کپڑے ساتھ لے جانے چاہئیں۔ پشاور سے آپ شاہی مہمان ہوں گے وہاں آٹھ دس روز سے زیادہ ٹھہرنے کی شاید ضرورت نہ ہوگی۔(۱۹۶) ۶۔ لاہور ۱۳/ اکتوبر۱۹۳۳ء سید راس مسعود اصرار کرتے ہیں کہ لاہور سے ۲۰/ اکتوبر کی صبح چل کر شام کو پشاور پہنچیں ۔ رات پھر وہاں ٹھہر کر ۲۱ کی صبح کو کابل روانہ ہوجائیں۔ آپ ایسا انتظام کریں کہ یا تو ۲۰ کی صبح یا ۱۹ کی شام کو لاہور پہنچ جائیں ۔ یہ بھی ممکن ہے کہ آپ اور ہم ۲۱ کی صبح کو پشاور میں مل جائیں۔(۱۹۷) ۵۔ ۱۴/ اکتوبر ۱۹۳۳ء اگر آپ کو پاسپورٹ ۱۷ کو مل جائے تو قونصل جنرل کو بذریعہ تار مطلع کردیں۔ اور لاہور ۱۹ کی شام کو پہنچ جائیں۔ (۱۹۸) علامہ کے اس مکتوب بنام سید سلیمان ندوی بابت ۱۴ -اکتوبر ۱۹۳۳ء کے مشمولات اقبال افغان اور افغانستان میں یوں آئے ہیں۔ ’’اس سے پہلے ایک کارڈ آپ کی خدمت میں لکھ چکا ہوں اور ایک ملفوف خط بھی لکھ چکا ہوں۔ پاسپورٹ ۱۹-اکتوبر سے ہم سب کو مل جائیں گے۔ اب فیصلہ یہ ہے کہ ہم ۲۰- اکتوبر کو لاہور سے صبح کی ٹرین سے پشاور کو روانہ ہوں۔ جلدی اس واسطے ہے کہ نومبر میں وہاں سردی ہو جاتی ہے۔ سید راس مسعود ۱۹ کی شام کو لاہور پہنچ جائیں گے۔ آپ بھی مہربانی فرما کر ۱۹ کی شام کو لاہور پہنچ جائیے یا ۲۰ کی صبح کو ایسے وقت پہنچئے کہ آپ ہمارے ساتھ ۲۰ کی صبح کی میل ٹرین میں سوار ہو سکیں۔ قونصل خانے سے جو آدمی ہمارے ہمراہ جائے گا‘ وہ بھی لاہور ہی سے ساتھ ہو گا۔ زیادہ کیا عرض کروں۔ جب ملاقات ہو گی تو مفصل عرض کروں گا۔ اس انتظام کے لئے قونصل جنرل صاحب کو اطلاع دے دی ہے۔‘‘(۱۹۹) ۶۔ مخدومی جناب مولانا السلام علیکم دعوت نامہ جو قونصل صاحب کی طرف سے مجھے موصول ہوا ہے ارسالِ خدمت ہے ۔ تاریخ روانگی کے متعلق بعد میں عرض کروں گا۔ کیونکہ پاسپورٹ لینے کے لئے ابھی کچھ دن لگیں گے امید ہے کہ مزاج بخیر ہوگا۔ آج قونصل صاحب کو مزید تفصیلات کے لئے خط لکھ رہاہوں اُن کا جواب آنے پر پھر خط لکھوں گا۔ آپ پاسپورٹ کے لئے درخواست کردیں اس میں اگر یہ لکھ دیا جائے کہ آپ کو شاہِ افغانستان نے تعلیمی امور میں مشورے کے لئے طلب فرمایا ہے تو پاسپورٹ حاصل ہونے میں سہولت ہو اور جلد مل جائے۔ والسلام ۱۵/ اکتوبر۱۹۳۳ئ مخلص محمد اقبال لاہور (۲۰۰) ۷۔ ۱۸/ اکتوبر ۱۹۳۳ء سید راس مسعود اور میں ۲۰ کی صبح کو لاہور سے روانہ ہوں گے۔ ڈین ہوٹل میں رات بسر ہوگی۔ اگر آپ ۲۱ کی صبح تک بھی پشاور پہنچ سکیں تو خوب ہے۔ (۲۰۱) اس مکتوب کا مفصل متن یوں ہے: ’’آپ کا تار کل ملا‘ جس سے معلوم ہوا کہ ۱۷-اکتوبر تک آپ کو پاسپورٹ نہیں مل سکا۔ ممکن ہے ۱۸ یا ۱۹ تک مل جائے۔ ہم یعنی سید راس مسعود اور میں ۲۰ کی صبح کو لاہور سے روانہ ہوں گے۔ تمام انتظامات مکمل ہو چکے ہیں۔ اگر آپ ۲۱ کی صبح تک پشاور پہنچ سکیں تو خوب ہے۔ ڈین ہوٹل میں رات بسر ہو گی۔ یہ ہوٹل پشاور چھائونی کے سٹیشن سے بالکل قریب ہے۔ آپ وہیں کے پتے پر ہم کو تار دے دیں۔ ہم آپ کی گاڑی کا انتظار کریں گے اور سٹیشن پر آپ کے لئے آدمی بھیج دیا جائے گا۔ آپ کی معیت سے ہم سب مستفید ہوں گے۔‘‘(۲۰۲) سفر افغانستان سے متعلق علامہ کے مکتوبات میں علامہ کے ایک اور ہمرکاب سر راس مسعود کے نام بھی علامہ کا ایک مکتوب محفوظ ہے: مکتوب اقبال بنام سر راس مسعود (بابت ستمبر ۱۹۳۳ئ) ’’افغانی قنصل سے جو دعوت نامہ ابھی ابھی ملا ہے‘ وہ روانہ کر رہا ہوں۔ میں نے ایم ۔سلیمان ندوی کو تاریخ وغیرہ کی بابت لکھا ہے۔ میں جاننا چاہتا ہوں کہ آپ کے لئے کونسی تاریخ مناسب رہے گی‘ لیکن پاسپورٹ مل جانے کے بعد ہی تاریخ کا تعین کیا جائے گا۔ قنصل کو پاسپورٹ کے بارے میں تحقیقات کے لئے لکھ رہا ہوں۔ میرا خیال ہے کہ ہمیں پاسپورٹ کے لئے برٹش حکام کو (ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ) درخواست دینا ہوگی۔ قنصل کا ایک نمائندہ ہمارے ساتھ ہوگا۔‘‘ (۲۰۳) ۱۹/ اکتوبر کو پروفیسر حافظ محمود خان شیرانی کے نام ایک اور مکتوب میں بھی سفرِ افغانستان کا تذکرہ ہے: میں کل کابل جارہا ہوں اس واسطے فرصت نہیں ہے ۔ آپ مہربانی کرکے اس خط کا جواب راقم کو دے دیں۔ ان کو یہ بھی لکھ دیں کہ میں کابل جارہا ہوں۔ اس واسطے خود جواب نہ لکھ سکا۔ (۲۰۴) چنانچہ ۱۹/ اکتوبر ہی کو علامہ کا سفرِ افغانستان سے متعلق درج ذیل اخباری بیان شائع ہوا: تعلیم یافتہ افغانستان ہندوستان کا بہترین دوست ہوگا کابل میں ایک نئی یونیورسٹی کا قیام اور ہندوستان کے شمال مغربی علاقہ میں اسلامیہ کالج پشاور کو ایک دوسری یونیورسٹی میں تبدیل کرنے کی سکیم ہندوستان اور افغانستان کے درمیانی علاقہ میں بسنے والے ہوشیار افغان قبیلوں کو سدھارنے میں بہت زیادہ ممد ثابت ہوگی۔ شاہ افغانستان نے ہمیں اس لئے دعوت دی تھی کہ ہم وہاں وزیرِتعلیم کو کابل میں یونیورسٹی کے قیام کے سلسلے میں مشورہ دیں۔ اعلیٰ حضرت کی دعوت کو قبول کرنا ہم نے اپنا فرض سمجھا۔ کابل سے شائع ہونے والے مختلف جرائد سے معلوم ہوتا ہے کہ وہاں کا نوجوان طبقہ نئے علوم کی تحصیل اور انہیں اپنے مذہب اور تمدن کے سانچے میں ڈھالنے کا بے حد خواہش مند ہے۔ افغان لوگ بہت خلیق ہوتے ہیں اور ہندوستانی ہونے کی حیثیت سے ہمارا یہ فرض ہے کہ ہم ان کی زیادہ سے زیادہ امداد کریں۔ اب یہ امر بالکل واضح ہے کہ افغان لوگوں میں ایک نئی بیداری پیدا ہو رہی ہے اور ہمیں اُمید واثق ہے کہ ہندوستان کے اندر تعلیمی تجربہ کی روشنی میں ہم انھیں تعلیمی مسائل میں مفید مشورہ دے سکیں گے۔ میرا اپنا خیال ہے کہ خالص دنیوی تعلیم سے اچھے نتائج پیدا نہیں ہوئے اور خصوصاً اسلامی ممالک میں مزید برآں کسی طریقہ تعلیم کو قطعی اور آخری نہیں کہا جاسکتا ہر ملک کی ضروریات مختلف ہوتی ہیں اور کسی ملک کو تعلیمی مسائل کے متعلق فیصلہ کرنے میں اس ملک کی خصوصی ضروریات کو خاص طور پر مدِ نظر رکھنا پڑتا ہے۔ (۲۰۵) علامہ کے اس بیان کو روزنامہ ’’انقلاب‘‘ نے یوں کوریج دی ہے: لاہور ۔۱۸ -اکتوبر ۔حضرت علامہ اقبال نے کابل روانہ ہونے سے قبل اپنے دورے کے بارے میں مندجہ ذیل بیا ن دیا ہے: آپ نے فرمایا’’میری رائے میں یہی مناسب ہے کہ عازمِ افغانستان ہوتے وقت ایک نہایت ہی مختصر بیان دیا جائے اور اپنے اہلِ ملک کو افغانستان کی ہمسایہ حکومت کے متعلق بالکل مجمل طور پر کچھ بتا دیا جائے۔ اعلیٰ حضرت نادر شاہ غازی نے ہمیں تعلیمی معاملات میں وزیر تعلیم کی رہنمائی اور کابل میں مجوزہ یونی ورسٹی کے قیام کے متعلق دعوت دی ہے۔ ہم اس دعوت کی قبولیت کو اپنا فرض تصور کرتے ہیں۔ کابل کی متعدد مطبوعات اور خاص کر ماہوار رسالہ ’’کابل‘‘ کے مضامین سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ افغانستان کا نوجوان طبقہ علومِ حاضرہ کے حصول اور ان کی اپنے مذہب و کلچر کے ساتھ مطابقت کے لیے بے حد آرزو مند ہے ۔ افغان ایک دل چسپ قوم ہے اور ایک ہندوستانی کی حیثیت سے ہمارا یہ فرض ہے کہ ہم بقدر استطاعت ان کی ہر ممکن امداد کریں ۔ اس قوم میں ایک جدید احساس کے ارتقاو احیا کی علامات بالکل نمایاں طور پر نظر آرہی ہیں اور ہم توقع کرتے ہیں کہ ہم اپنے ہندوستانی تجربات کی روشنی میں ان کی رہنمائی کرسکیں گے ۔ ذاتی طور پر میری یہ رائے ہے کہ تعلیم کو مکمل طور پر دنیوی بنا دینے سے کسی جگہ بھی کوئی خاص فائدہ نہیں ہوا اور اسلامی ممالک کی تو بالخصوص یہی کیفیت ہے کہ وہاں تعلیم کا کوئی خاص سسٹم بھی موجود نہیں۔ ہر ملک کی ضروریات جداگانہ ہیں‘ لہٰذا ان کے تعلیمی مسائل پر بھی ان ضروریات کی روشنی میں بحث کی جانی چاہیے ۔ کابل میں ایک جدید یونی ورسٹی کے قیام اور اسلامیہ کالج پشاور کو ایک یونی ورسٹی بنادینے سے افغانستان اور ہندوستان کی سرحدوں کے درمیان ذکی اور ذہین افغان آبادی کو بے انتہا فائدہ پہنچنے کی توقع ہے۔ ‘‘ (انقلاب ۔جلد ۸ ۔ نمبر ۱۴۳۔ جمعہ ۲۰- اکتوبر ۱۹۳۳ئ)(۲۰۶) یہاں یہ توضیح ضروری ہے جس کو محمد اکرام چغتائی نے قلم زد کیا ہے۔ یہ بیان Speeches, writings and statements of Iqbal edited by L. A. Sherwani, p. 238 میں موجود ہے ۔ اس کے انگریزی متن اور اردو ترجمے میں اختلاف ہے۔ یہاں کی ترتیب بھی مختلف ہے۔ ’’انقلاب‘‘ میں مکمل بیان ترجمہ ہو کر شائع ہوا جب کہ انگریزی اخبارات میں کچھ تبدیلی کے ساتھ شائع ہوا تھا۔(۲۰۷) علامہ ۲۰/ اکتوبر کو لاہور سے روانہ ہوئے علامہ کے ساتھ پروفیسر ہادی حسن(جو نواب محسن الملک کے بھتیجے تھے، انہوں نے لندن یونیورسٹی سے فارسی میں ڈاکٹریٹ کی تھی۔ اس زمانے میں آپ علی گڑھ یونی ورسٹی کے شعبہ فارسی سے وابستہ تھے) اور سرراس مسعود کے ساتھ بیرسٹر غلام رسول خاں(جو ۱۹۰۹ء میں امیر حبیب اللہ خاں کے دور میں چند سال افغانستان کے شعبہ تعلیمات میں رہ چکے تھے) بطورِ سیکرٹری ہمراہ تھے۔ ڈاکٹر اقبال کی روانگی کابل لاہور ۔۲۰- اکتوبر ۔ آج صبح فرنٹیر میل سے ڈاکٹر سر محمد اقبال اور سید راس مسعود لاہور سے بعزم کابل پشاور روانہ ہو گئے۔ سر محمد اقبال، سید راس مسعود اور سید سلیمان ندوی کو شاہ افغانستان نے کابل کی مجوزہ یونیورسٹی سے متعلق مشورہ کرنے کی غرض سے مدعو کیا ہے۔ یہ صاحبان غالباً دو ہفتے تک افغانستان میں قیام کریں گے ۔ (انقلاب ۔ جلد ۸۔ نمبر ۱۳۵ ۔ یکشنبہ ۔ ۲۲- اکتوبر ۱۹۳۳ئ) یہ لوگ اس شام پشاور پہنچے۔ (سید سلیمان ندوی اس وقت ساتھ نہ تھے کیونکہ انہیں حکومت ہند کی طرف سے پاسپورٹ ملنے میں دیر ہو گئی تھی اس لیے وہ ۲۳ اکتوبر ۱۹۳۳ء لکھنو سے پشاور کے لیے روانہ ہوئے اور ۲۵ اکتوبر ۱۹۳۳ء کو کابل پہنچے) اسی شام سر صاحبزادہ عبدالقیوم خاں، علامہ اقبال اور ڈاکٹر راس مسعود کو پشاور میں دعوت چائے دی ۔ اس دعوت چائے کا ذکر انقلاب اخبار کے علاوہ کہیں بھی نہیں ہے۔ علامہ اقبال اور ڈاکٹر راس مسعود پشاور میں دعوت چائے پشاور۔۲۱ -اکتوبر ۔ لاہور سے فرنٹیر میل سے روانہ ہوکر علامہ سرڈاکٹر محمداقبال ، سید راس مسعود اور ان کے رفقاء کابل جانے کے لیے کل شام پشاور پہنچے اورصاحبزادہ سر عبدالقیوم وزیر صوبہ سرحد کے دولت کدہ پر قیام فرما ہوئے۔ اسلامیہ کالج پشاور میں ممدوحین کو دعوت چائے دی جارہی ہے ۔ یہ حضرات کابل یونی ورسٹی کے سلسلے میں مدعو کیے گئے ہیں ۔غالباً وہ دو ہفتے وہاں قیام کریں گے۔ (انقلاب ۔جلد ۸۔ نمبر ۱۴۲۔ سہ شنبہ ۔ ۲۴ -اکتوبر ۱۹۳۳ئ)(۲۰۸) ڈین ہوٹل پشاور میں رات بسرکرنے کے بعد ۲۱/ اکتوبر کی صبح حکومت افغانستان کی طرف سے فراہم کردہ خصوصی موٹر کار میں پشاور سے کابل کے لئے روانہ ہوئے۔ پشاور سے نکل کر درہ خیبر سے گزرے ۔ بقول مولانا سید ابوالحسن علی ندوی مرحوم: وہ جب درہ خیبر سے گزرتے ہیں تو یہاں سے گزرنے والے مردانِ حق اور تاریخ کے صد ہزار افسانے یاد آجاتے ہیں۔ وہ بے سبزہ کوہساروں کو دیکھ کر خوش ہوتے ہیں۔ کہ ان کے سینوں سے رنگ و بو کی نزاکت نہیں آتی۔ جہاں کا مور بھی شاہی مزاج اور آہو شیران شکار ہوتا ہے۔ لیکن لامرکزیت نے ان بہادروںکو آشفتہ روز اور بے نظام و ناتمام و نیم سوز بنادیا ہے اور ان کے پتھروں سے خود ان کے مینائے وجود ہی کو خطرہ لاحق ہے۔(۲۰۹) یہاں سے گزرتے ہوئے علامہ کی خیبر سے متعلق تخلیقات مثنوی مسافر میں شائع ہوئی ہیں۔ مقالہ میں جابجا ان اشعار کے حوالے دیئے گئے ہیں۔ یہاں پھر ان اشعار کا حوالہ باعثِ طوالت ہوگا۔ رات جلال آباد میں بسر کی اگلے روز ۲۲/ اکتوبر ۱۹۳۳ء کو جلال آباد سے روانہ ہوکر شام کو کابل پہنچے ابھی کابل آٹھ میل دور تھا کہ حکومتِ افغانستان کے ایک وزیر احمد شاہ خان نے وفد کی پذیرائی کی اور انہیں شاہی مہمان کی حیثیت سے دارالامان میں رکھا گیا۔‘‘(۲۱۰) ؎ شہر کابل خطۂ جنت نظیر آبِ حیواں از رگِ تاکش بگیر! چشمِ صائبؔ از سوادش سرمہ چیں روشن و پائندہ باد آں سرزمین در ظلامِ شب سمن زارش نگر بربساطِ سبزہ می غلطد سحر! آں دیارِ خوش سواد آں پاک بوم بادِ او خوشتر زبادِ شام و روم آبِ او براق و خاکش تابناک زندہ از موج نسیمش مردہ خاک ناید اندر حرف و صوت اسرارِ او آفتاباں خفتہ در کہسارِ او ساکنانش سیرِ چشم و خوش گہر مثلِ تیغ از جوہرِ خود بے خبر! قصرِ سلطانی کہ نامش دلکشا ست زائران را گردِ راہش کیمیا ست (۲۱۱) علامہ کی کابل آمد اور وہاں ان کے پرجوش استقبال کی خبریں ہندوستانی اخبارات کی زینت بنیں۔ ملاحظہ ہو روزنامہ ’’انقلاب‘‘ لاہور کی خبر: علامہ اقبال اور سید راس مسعود کابل میں وزارتوں کی طرف سے شاندار استقبال کابل(بذریعہ ڈاک) کل شام حضرت اقبال ، ڈاکٹر سید راس مسعود ، پروفیسر ہادی حسن مسلم یونی ورسٹی علی گڑھ اور غلام رسول بیرسٹر ایٹ لاء کابل تشریف لائے۔ بگرام میں وزارت تعلیم ‘ وزارت خارجہ اور کابل کارپوریشن کے نمائندوں نے آپ حضرات کا خیر مقدم کیا۔ ان لوگوں کے ساتھ چائے پینے کے بعد مہمانان گرامی شاہی مہمان خانہ ’’دارالامان‘‘ تشریف لے گئے ۔ بوائے اسکاوٹس نے افغان کالجیٹ اتھلیٹک ایسوسی ایشن کلب کے باہر چمن حضوری کے سامنے مہمانوں کو گارڈ آف آنر کی سلامی دی ۔ آج کابل کارپوریشن اہالیانِ شہر کی طرف سے آپ حضرات کا استقبال کرے گی۔ جس یونیورسٹی کمیشن نے مدعو کیا ہے، اس کا اجلاس ۲۴- اکتوبر سے شروع ہوگیا۔ (انقلاب ۔جلد ۸۔ نمبر ۱۵۵۔ پنجشنبہ ۔ ۳- نومبر ۱۹۳۳ئ)(۲۱۲) ۲۴/ اکتوبر تا ۲۶/ اکتوبر ۱۹۳۳ء کابل میں علامہ اور ان کے ہمسفروں کے ساتھ تعلیمی مشاورت کے لئے چند اجلاس ہوئے جس میں حکومتِ افغانستان کے بعض سرکردہ افراد نے شرکت کی۔ ان اجلاسوں میں کارروائی سر راس مسعود نے نوٹ کی۔ ان میں سے ایک اجلاس کی خبر روزنامہ ’’انقلاب‘‘ لاہور نے شائع کی ہے: افغانستان میں ترقی تعلیم کے لیے مساعی جمیلہ حضرت علامہ اقبال اور ر سید راس مسعود کابل میں۔ تعلیمی امور کے تصفیہ کے لیے کانفرنس کابل ۲۴- اکتوبر ۔ ’’سول اینڈ ملٹری گزٹ‘‘کے نامہ نگار کی وساطت سے معلوم ہوا ہے کہ حضرت علامہ اقبال ، سر راس مسعود ، سردار فیض محمد خان اور افغانستان کے بورڈ آف ایجوکیشن کے دیگر ارکان کے درمیان پانچ گھنٹے تک افغانستان میں تعلیم کے موضوع سے متعلق کانفرنس ہوتی رہی۔ کل پھر اجلاس ہوگا، جس میں یونی ورسٹی کی تعلیم کے متعلق بحث ہوگی ۔ حضرت علامہ اقبال اور سید راس مسعود مقامی اداروں کا معائنہ بھی فرمائیں گے ۔ کل وزیر اعظم افغانستان کے ساتھ کھانا کھائیں گے۔ اعلیٰ حضرت نادر شاہ پنج شنبہ کو مہمانوں سے ملیں گے۔ (انقلاب ۔ جلد ۸۔ نمبر ۱۵۰۔ شنبہ ۔ ۲۸- اکتوبر ۱۹۳۰ئ)(۲۱۳) نیز علامہ اور راس مسعود کی ملاقات ۲۶ اکتوبر ۱۹۳۳ء کو نادرشاہ سے بھی ہوئی۔ اس ملاقات میں علامہ کے مطابق عصر کی نماز انھوں نے نادرشاہ کی اقتدا میں پڑھی۔ بقولِ علامہ : ؎ وقتِ عصر آمد صدائے الصلوٰت آں کہ مومن را کند پاک از جہات انتہائے عاشقانِ سوز و گداز کردم اندر اقتدائے او نماز (۲۱۴) جبکہ ڈاکٹر ظہورالدین اسے مغرب کا وقت قرار دیتے ہوئے تحریر کرتے ہیں: پہلی ملاقات میں مغرب کی نماز کے موقع پر نادر شاہ نے اقبال سے امامت کی درخواست کی ۔ اقبال نے کہا نادر ! میں نے اپنی عمر کسی شاہِ عادل کی اقتدا میں نماز پڑھنے کی تمنا میں گزاردی ہے۔ اب جب کہ خدا نے فقیر کی اس مراد کو پورا کرنے کے اسباب مہیا کردیئے ہیں تو کیا تو مجھے اس نعمت سے محروم کرنا چاہتاہے ! آج میں تیری اقتدا میں نماز پڑھوں گا۔ امامت تجھ کو کرنی ہوگی۔(۲۱۵) برادرم محترم اکرام اللہ شاہد نے علامہ کے سفرِ افغانستان سے متعلق کچھ نئی تحقیقات کیں جن میں روزنامہ مشرق پشاور یکم فروری ۱۹۷۷ء کے حوالے سے افغانستان کے ایک صحافی مقبول احمد کا ایک مضمون کا حوالہ ہے جو لکھتے ہیں: ’’راقم الحروف اس وقت کابل میں تھا اور اسے حضرت علامہ کے اس دورے میں کئی دفعہ شرفِ ملاقات بھی حاصل ہوا۔ علامہ اقبال نے کابل پہنچنے کے بعد ملتِ افغانیہ کے نام ایک پیغام روزنامہ ’’اصلاح‘‘ میں شائع کرایا تھا۔ جو ایک قطعہ تک محدود تھا لیکن وہ ادبی لحاظ سے بہت سی صفات کا مجموعہ تھا۔ کابل کے شعراء اور ادباء اس سے بڑے متاثر ہوئے تھے۔ میں اس ’’وقت اصلاح‘‘ ہی میں کام کرتا تھا۔ میں نے اپنے حافظے پر دبائو ڈالا مگر افسوس یہ قطعہ میری یاد سے محو ہوچکا ہے اور میں اسے پیش کرنے سے قاصر ہوں ۔‘‘(۲۱۶) علامہ کے دورانِ سفر افغانوں کے ساتھ گفتگو کی زبان کا مسئلہ بھی جناب مقبول احمد نے حل کیا ہے۔ اس لئے کہ علامہ فارسی روانی سے نہیں بول سکتے ہیں اور پشتو جانتے نہیں تھے جبکہ افغانوں کے عمومی طبقے میں انگریزی تک رسائی بہت محدود تھی لہٰذا جناب مقبول احمد تحریر کرتے ہیں: کابل میں بہت سے وفدوں نے حضرت علامہ سے ملاقات کی تھی جن میں اساتذہ ، تجار، علمائ، شعراء ، ادباء اور صحافیوں کے وفود شامل تھے۔ شاعروں ،ادیبوں اور صحافیوں کے وفد میں انجمن ادبی کے ارکان مجلہ’’ کابل ‘‘(انجمن ادبی کا ماہوار رسالہ )کے رکن روزنامہ ’’اصلاح‘‘ہفتہ وار ’’انیس‘‘ پانزدہ روزہ ’’ اقتصاد‘‘، جمعیت العلماء کے ہفتہ وار اخبار ’’حی علی الفلاح‘‘ کے ایڈیٹر اور کارکن صحافی شامل تھے۔ یہ وفد کوئی پینتیس چالیس ارکان پر مشتمل تھا ۔ وفد کے ارکان فارسی میں اظہار خیال کرتے تھے۔ اور علامہ اقبال سر راس مسعود اور غلام رسول بیرسٹر انگریز میں جواب دے رہے تھے۔ ترجمانی کے فرائض راقم الحروف ادا کررہا تھا۔ تبادلہ خیال کے دوران سرور خان گویاؔ، سرورجویا اور مستغنی نے علامہ اقبال کو مخاطب کرکے کہا’’آپ فارسی نثر ہی میں نہیں بلکہ فارسی نظم میں بھی ید طولیٰ رکھتے ہیں ۔ہم آپ کی خداداد ذہانت اور قابلیت کے معترف ہیں ۔طویل عرصے سے ہماری دلی خواہش تھی کہ آپ سے ہم کلام ہونے کی سعادت حاصل کریں۔ اگر بے ادبی پر محمول نہ ہو تو ہمیں یہ سوال کرنے کی اجازت دیں کہ آپ اتنی علمی و ادبی استطاعت رکھنے کے باوجود فارسی میں ہمارے سوالوں کا جواب کیوں نہیں دیتے اورانگریزی بولنے کا تکلف کیوں روا رکھتے ہیں۔ حضرت علامہ نے قہقہہ لگایا اور کہا میں فارسی لکھ سکتا ہوں مگر روانی کے ساتھ بول نہیں سکتا لہٰذا میں نے یہی مناسب سمجھا کہ میں انگریزی میں جواب دیتا رہوں۔ اس جگہ یہ ذکر کرنا نہایت ضروری معلوم ہوتا ہے کہ راقم الحروف علامہ اقبال کی انگریزی ہی کا ترجمہ کر رہا تھا۔ وفد کے ارکان فارسی میں جو کچھ کہہ رہے تھے علامہ اقبال اسے بخوبی سمجھ رہے تھے۔(۲۱۷) ملاقات میں علامہ نے جنرل نادرخان کو خود قرآنِ کریم کاایک نسخہ پیش کیا: ؎ در حضور آں مسلمان کریم ہدیہ آوردم ز قرآن کریم گفتم ایں سرمایۂ اہلِ حق است در ضمیر او حیاتِ مطلق است اندر و ہر ابتدا را انتہا است حیدر از نیروے او خیبر کشا است (۲۱۸) اس نسخے کی عطائیگی پر جنرل نادر خان نے علامہ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا ۔خود علامہ سے سنئے ؎ کوہ و دشت از اضطرابم بے خبر از غمانِ بے حسابم بے خبر نالہ بابانگِ ہزار آمیختم اشک با جوئے بہار آمیختم غیر قرآن آن غمگسارِ من نہ بود قوتش ہر باب را برمن کشود‘‘ (۲۱۹) اس لمحے کی روداد کو صاحبِ مکالماتِ اقبال نے یوں محفوظ کیا ہے: علامہ: اہلِ حق کی یہی دولت و ثروت ہے ا س کی بدولت باطن میں حیات مطلق کے چشمے بہتے ہیں یہ ہر ابتداء کی انتہااور ہر آغاز کی تکمیل ہے۔ اسی کی بدولت مومن خیبر شکن بنتا ہے میرے کلام میں تاثیر اور میرے دل کا سوز و گداز سب اسی کا فیضان ہے۔ نادرشاہ: جب میں جلاوطن تھا اور کوہ و صحرا میں غم زدہ وقت کاٹ رہا تھا جب میرے پاس زندگی کے وسائل کی کمی تھی اور مادی طاقت کا فقدان تھا جب کوئی ساتھی اور غم خوار نہ تھا تو یہی کتاب میری رفیق اور رہنما اور ہمدرد و غمگسار تھی۔ (۲۲۰) اعلیٰ حضرت نادر شاہ سے اقبال کئی مرتبہ ملے تھے۔ اغلب ہے کہ اقبال نے قرآن کریم کا نسخہ پہلی ملاقات میں پیش کیا ہو گا جو ۲۶ اکتوبر کو قعر دلکشا میں ہوئی تھی۔ (۲۲۱) سید سلیمان ندوی کو پاسپورٹ دیر سے ملا۔ چنانچہ وہ ۲۴/ اکتوبر کو پشاور ،۲۵/ اکتوبر کو جلال آباد اور ۲۶/ اکتوبر ۱۹۳۳ء کو کابل پہنچے۔ ندوی صاحب کو پروٹوکول آفیسر جناب سرورخان گویاؔ نے خوش آمدید کہا اور انھیں حلقہ یاران میں شامل کیا۔ اس رات مہمانوں کے اعزاز میں صدر اعظم سردار محمد ہاشم خان نے ضیافت کا اہتمام کیا ۔ سید سلیمان ندوی لکھتے ہیں: اس رات نو بجے شب کو سردار ہاشم خان صدرِ اعظم کے ہاں مہمانوں کی دعوت تھی ان کا ٹیلیفون آیا کہ ’’نووارد مہمان‘‘بھی شریکِ دعوت ہوں اور لوگ تیار ہوچکے تھے اس لئے تاخیر کے خیال سے میں بھی اسی حالت میں بلا تبدیل لباس ساتھ ہوگیا۔ ہم لوگ دو موٹروں میں روانہ ہوئے۔ ایک میں ڈاکٹر اقبال ،میں اور سرور خان گویاؔ اور دوسرے میں سرراس مسعود ، پروفیسر ہادی اور غلام رسول خان۔ تھوڑی دیر میں صدرِ اعظم صاحب کے محل تک پہنچے ۔ محل میں ہر جگہ بجلی کی روشنی تھی۔ جگہ جگہ سپاہیوں کے پہرے تھے۔ ایک دروازہ پر پہنچ کر اُترے ۔ دوسرے مہمان سب پہنچ چکے تھے۔ سب سے آخر میں ہم لوگ پہنچے تھے۔ محل میں ہر چیز یورپین طریق و قاعدہ سے تھی۔ایک گیلری سے ہوکر اندر وسیع دالان میں پہنچے ۔ سب سے تعارف و ملاقات ہوئی۔(۲۲۲) سردار ہاشم سے مہمانوں کا تعارف سردار فیض محمدخان وزیرِ خارجہ نے کرایا۔ اس کے بعد سردار ہاشم خان مہمانوں کو لے کر کھانے کے کمرے میں گئے ۔ کھانا میزوں پر تھا اور ہر چیز پوری طریقے کے مطابق آراستہ تھی۔ کھانا کھلانے کا طریقہ اور ملازمین کا سلیقہ ہر چیز یورپ کے تمدن جدید کے مطابق تھی(۲۲۳)۔ سردار فیض محمد خان وزیرِ خارجہ افغانستان کے بارے میں پتہ چلا کہ انھوںنے علامہ کے اردو کلام کے بعض حصوں کا منظوم فارسی ترجمہ بھی کیا ہے۔ اس بات کا انکشاف پروفیسر خاطر غزنوی نے کیا جن کے ساتھ میں نے ۲۹/ اپریل ۲۰۰۳ء کو صبح ساڑھے گیارہ بجے پشاور یونیورسٹی کے شعبۂ اردو کے سربراہ ڈاکٹر صابر کلوروی کے دفتر میں انٹرویو کیا تھا۔یہ نمونے خاطر غزنوی کے پاس محفوظ ہیں۔(۲۲۴) کھانے کے میز پر تبادلۂ خیال شروع ہوا۔ سید سلیمان ندویؔ نے افغانستان میں اشاعت اسلام کے بارے میںگفتگو کی۔ راس مسعود نے اپنے سفرِ جاپان کے پُرلطف تاثرات و واقعات بیان کئے اور علامہ نے فلسفہ و سیاست کے بعض نکات آسان اور دوستانہ انداز میں واضح کئے۔ (۲۲۵) جمعہ ۲۷/ اکتوبر ۱۹۳۳ء بادشاہ شہر کی مختلف مسجدوں میں باری باری جمعہ کی نماز ادا کرتے تھے ۔ اس روز شہر کی سب سے بڑی مسجد ’’پل خشتی‘‘ میں نماز پڑھنے والے تھے۔ علامہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ نماز ادا کرنے مسجد پل خشتی گئے۔ مسجد میں بادشاہ کے لئے مقصورہ بنا ہوا تھا۔ مہمانوں کو بھی مقصورہ میں جگہ دی گئی۔ نماز ِ جمعہ سے واپسی پر علامہ اور سید صاحب کے ساتھ ایک ذمہ دار شخص بھی تھے۔ ان سے چینی ترکستان کے واقعات کی نسبت گفتگو ہوتی رہی ۔ علامہ نے دوران گفتگو فرمایا: یورپ نے اپنی اس نئی ترقی میں سارا زور بحری طاقت پر صرف کیا۔ اور ہر قسم کی تجارتی آمد و رفت اور سیر و سیاحت کے راستے دریائی رکھے اور اپنے انہی جہازوں کے ذریعے سے مشرق کو مغرب سے ملا دیا۔ لیکن اب یہ نظر آرہا ہے کہ ان بحری راستوں کی یہ حیثیت جلد فنا ہوجائے گی۔ لیکن آئندہ مشرق و سطیٰ کا راستہ مشرق و مغرب کو ملائے گا۔ اور تری کی بجائے خشکی کا راستہ اہمیت حاصل کرے گا۔ تجارتی قافلے اب موٹروں ، لاریوں، ہوائی جہازوں اور ریلوں کے ذریعے مشرق و مغرب میں آئیں جائیں گے۔ اور چونکہ یہ پورا راستہ اسلامی ملکوں سے ہوکر گزرے گا۔ اس لئے اس انقلاب سے ان اسلامی ملکوں میں عظیم الشان اقتصادی و سیاسی انقلاب رونما ہوگا۔ (۲۲۶) سید سلیمان ندویؔ علامہ کے اس نظرئیے کو بالکل درست تسلیم کرتے ہوئے ثبوت بھی فراہم کرتے ہیں: پشاور سے کابل کو ،چمن سے قندھار کو ،کابل سے مزار شریف اور ہرات کو قندھار سے ہرات کو موٹریں اور لاریاں چل رہی ہیں۔ اُدھر راستہ یا بخارا ہوکر یا ایران ہوکر طے کیجئے۔ پہلے مشرق وسطیٰ کے لوگ خشکی کی راہ سے حج کو جاتے تھے اکبر کے زمانہ سے ہندوستان کی بندرگاہوں سے جانے لگے۔ اور انگریزوں کے عہد میں افغانستان اور ترکستان بلکہ اکثر مشرقی ملکوں کے مسلمان ہندوستان ہوکر بحری راستہ سے مکہ معظمہ جانے لگے۔ اگر خشکی کا راستہ ذرا درست ہوجائے۔ تو یقین کیجئے کہ ان حاجیوں کو پھر بدستور سابق خشکی کا راستہ پسند آنے لگے گا۔ اور پھر افغانستان یا بلوچستان ہوکر ایران ، ایران سے عراق، عراق سے نجد اور نجد سے حجاز کا راستہ کھل جائے گا۔ یہی وہ راستہ تھا جو خلفاء اور شاہانِ اسلام کے زمانے میں مستعمل تھا۔ (۲۲۷) اس دن چین ترکستان کے وفد سے ملاقات کے بعد علامہ اور ان کے ساتھیوں نے’’دارالامان ‘‘میں سردار فیض محمد خان ، اللہ نواز خان اور سرور خان گویاؔ کے ساتھ کھانا کھایا۔ اس روز شام کو علامہ نورالمشائخ سے ملاقات کرنے کے لئے سید سلیمان ندویؔ کے ساتھ ان کی قیام گاہ پر تشریف لے گئے۔ علامہ ان سے پہلے لاہور میں بھی مل چکے تھے۔ برصغیر کے حالات اور افغانستان میں بچہ سقہ حبیب اللہ کلکانی کے دورِ حکومت پر بحث ہوتی رہی۔ اس روز شام کو افغانستان میں مقیم برصغیر کے باشندوں نے اپنے ہم وطن دانشوروں کے اکرام میں کھانے کا انتظام کیا۔ اللہ نواز خان کے ہاں دعوت کا اہتمام تھا۔ مدعو ئین میں سردار فیض محمد خان وزیرِ خارجہ ، مولانا سیف الرحمان ، مولانا محمد میاں منصور انصاری (مؤلف علمائے ہند کا شاندار ماضی) و سیکرٹری جمعیت علمائے ہند اور مولانا محمد شبیر (صدر جماعت مجاہدین جن کا مرکز سمرقند تھا) نمایاں تھے۔ (۲۲۸) سردار محمد ہاشم خان صدرِ اعظم افغانستان ملاقات کے لئے اُن کی قیام گاہ آئے دیر تک گفتگو ہوتی رہی۔ راس مسعود نے ملک میں معدنیات کی ترقی اور سڑکوں کی تعمیر پر زور دیا۔ جبکہ سردار صاحب نے ترقیاتی پروگراموں پر روشنی ڈالی۔ مہمانوں کے ساتھ کھانا کھاکر تین بجے رخصت ہوئے۔ چاربجے شام وزیرِ جنگ شاہ محمود خان کے ہاں چائے کی دعوت تھی جس میں چیدہ افراد نے شرکت کی ۔ سات بجے تک اسی دعوت میں وقت گزرا اور افغانستان کے حالات پر گفتگو ہوتی رہی۔ ساڑھے سات بجے شب انجمن ادبی کابل کی طرف سے دعوتِ شب (ڈنر) طے شدہ تھی۔ کابل ہوٹل میں انجمن سے منسلک ادیب جمع ہوئے۔ (۲۲۹) انجمن ادبی کابل کی اس ضیافت پر تفصیلی تحقیق ’’افغانستان میں اقبال شناسی کا ارتقائ‘‘ کے باب میں شامل ہے۔ اتوار ۲۹/ اکتوبر ۱۹۳۳ئ: سردار احمد خان وزیرِ دربار کی دعوت پر شام تین بجے پغمان جانے کا پروگرام تھا۔ علامہ کو نادر شاہ سے آخری ملاقات بھی کرنا تھا۔ اس لئے پغمان جانے کا پروگرام ملتوی کردیا۔ وہ شام کو وزیرِ خارجہ سردار فیض محمد خان کے ساتھ شاہ سے ملنے اُن کی رہائش گاہ ’’دلکشا‘‘ گئے۔ رات مختلف حضرات ملاقات کی غرض سے آئے۔ مولوی محمد بشیر صاحب صدر جمعیت مجاہدین ، مولانا محمد میاں ، منشی میر شمس الدین(سابق ناظم انجمن حمایت اسلام لاہور) ان میں ممتاز تھے۔ (۲۳۰) جبکہ علامہ کے ہمرکاب علامہ کی ان مختلف مصروفیات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کابل کے مختلف مقامات کی سیر کے لئے گئے ،جن میں مکتب صنائع نفیسہ، سرکاری موٹر خانہ، ہوائی اڈہ، بالا حصار کا مکتب حربی، صحابیوں کے مزارات، دارالعلوم عربی، جدید مدارس اور سرکاری مطبع عمومی وغیرہ شامل ہیں۔ (۲۳۱) آج کے پروگرام میں ایک خاص پروگرام مزارِ بابر پر حاضری تھی۔ بابر مغل بادشاہوں میں اس لحاظ سے ایک منفرد شخصیت کا ملک تھا کہ رزم و بزم دونوں میں گہری دلچسپی لیتا تھا۔ رزم میں خارشگافی سے کام لیتا تھا اور جب بزم میں آتا تھا تو زندگی کی ایک ایک رگ کوخوشیوں سے بھر دیتا تھا۔ یہاں فضا کا تقاضا یہ تھا کہ علامہ عقیدتمندانہ سنجیدگی کے دائرے سے باہر نکل کر سراسر خوشی کا مظاہرہ کریں۔ اور اس کے لئے بہترین طریقہ غزل گوئی کو سمجھا جا سکتا ہے چنانچہ علامہ ایک ایسی غزل سناتے ہیں جو بلند آہنگ بھی ہے اور جس کے ایک ایک لفظ میں اندرونی جوش رواں دواں ہے ۔ ردیف اور قافیہ قاری کے دل میں ایک گونج کی سی کیفیت پیدا کردیتے ہیں۔ (۲۳۲) ؎ بیا کہ سازِ فرنگ از نوا بر افتاد است درونِ پردۂ او نغمہ نیست، فریاد است زمانہ کہنہ بتاں را ہزار بار آر است من از حرم نگذشتم کہ پختہ بنیاد است درفشِ ملت عثمانیاں دوبارہ بلند چہ گوئمت کہ بہ تیموریاں چہ افتاد است! خوش نصیب کہ خاکِ تو آرامید اینجا کہ ایں زمیں زطلسمِ فرنگ آزاد است! ہزار مرتبہ کابلؔ نکوتر از دلیؔ است ’کہ آں عجوزۂ عروسِ ہزار داماد است‘ درونِ دیدہ نگہ دارم اشکِ خونین را کہ من فقیرم وایں دولت خداداد است! اگرچہ پیرِ حرم وردِ لَا اِلٰہ دارد کجا نگاہ کہ برندہ تر زپو لاد است (۲۳۳) سرور خان گویاؔ اس موقع پر موجود تھے اور علامہ کی کیفیت کا حوالہ یوں دیتے ہیں: ہنگامیکہ بر تربت بادشاۂ زندہ دل مغل بابر رحمۃ اللہ علیہ فاتحہ میخواند اشک میریخت و رواں بادشاہ مغل را برا نیکہ پیکرش در آغوش قلل سنگینی کا بل آرامیدہ مسعود و خوش نصیب می دانست۔ (۲۳۴) ترجمہ: جس موقع پر وہ زندہ دل مغل بادشاہ بابر رحمۃ اللہ علیہ کے مقبرے پر فاتحہ پڑھ رہے تھے۔ ان کی آنکھوں سے آنسو مسلسل جاری تھے۔ وہ مغل بادشاہ کی روح کو باوجود یہ کہ ان کا جسم کابل میں یہاں کے پہاڑوں کی بھاری چوٹیوں کی آغوش میں آرام فرما رہا تھا۔ خوش نصیب اور مسعود سمجھتا تھا۔ علامہ کی اس کیفیت کی گواہی افغان صحافی مقبول احمد یوں دیتے ہیں: علامہ اور ان کی پارٹی کے دوسرے زعماء جب باغ تشریف لے جا رہے تھے فیض محمد خان وزیرِ خارجہ ، شاہی خاندان کے بعض ارکان ، شعرائ، ادبائ، اور چند صحافی بھی ان کی معیت میں تھے۔ مجھے یاد ہے کہ علامہ اقبال شہنشاہ ظہیرالدین بابر کی قبر پر فاتحہ پڑھتے پڑھتے زاروقطار رو رہے تھے۔ ان کے اشکوں سے ان کارومال بالکل تر ہوگیا تھا۔ (۲۳۵) آج کابل میں علامہ کی آخری رات تھی۔ علامہ کی دیگر مصروفیات کے علاوہ ایک نئی بات یہ سامنے آتی ہے کہ علامہ نے کابل میں قیام کے دوران نامور روحانی پیشوا اور جنگِ آزادی کے رہنما مولانا فضل واحد المعروف بہ حاجی صاحب ترنگزئی سے بھی ملاقات کی تھی۔ اکرام اللہ شاہد عزیز جاوید کی کتاب برصغیر میں تحریکِ آزادی کا ایک عظیم مجاہد حاجی صاحب ترنگزئی میں درج ترنگزئی حاجی صاحب کے بیٹے بادشا ہ گل پیر افضل اکبر شاہ کی زبانی لکھتے ہیں۔ اقبال جب افغانستان میں آئے تو اس وقت ہم بھی باباجی کے ساتھ کابل میں مقیم تھے ۔علامہ اقبال نے بابا جی صاحب کے ساتھ تنہائی میں ملاقاتیں کیں۔ وہ باباجی کا نہایت احترام کرتے تھے اور جب وہ باباجی صاحب سے ملنے آئے تھے باباجی کے پاس بیٹھنے سے پہلے جوتے اُتار کر نہایت مؤدب ہوکر باباجی کے پاس بیٹھے تھے۔ جب دونوں محو گفتگو ہوتے تو وہاں سے باقی تمام لوگوں کو اور ہمیں باہر نکال دیا جاتا۔(۲۳۶) کابل میں حاجی صاحب ترنگزئی سے حضرت علامہ کی اس ملاقات کا حوالہ اس کے علاوہ کہیں اور نہیں ملا اور نہ اس سے پہلے اس ملاقات کا ذکر کہیں کیا گیا ہے۔ سوموار ۳۰/ اکتوبر ۱۹۳۳ئ: علامہ اور ان کے ساتھی صبح آٹھ بجے کابل سے غزنی روانہ ہوئے ۔ حکومت افغانستان نے مہمانوں کے باسہولت سفر کا پورا اہتمام کیا تھا۔ متوقع قیام گاہوں میں پہلے سے پیغام بھجوادیئے گئے تھے۔ اور بطورِ میزبان سرورخان گویاؔ ساتھ تھے۔ سواری اور باربرداری کے لئے دو موٹریں اور دو لاریاں دی گئیں تھیں۔ ایک موٹر میں علامہ اقبال ، سید سلیمان ندویؔ اور بیرسٹر غلام رسول تھے۔ اور دوسری میں پروفیسر ہادی حسن، سرورخان گویاؔ اور عبدالمجید (نمائندہ سفارت خانہ افغانستان دہلی) تھے۔ ایک لاری کھانے کے سامان اور کھانا پکانے اور کھلانے والے ملازمین کے لئے تھی ۔ دوسری لاری پر مہمانوں کا سامان لدا تھا۔ اس قافلے میں اعزازی حفاظت کی غرض سے دس بارہ سپاہیوں کا دستہ بھی شامل تھا۔ (۲۳۷) کابل سے غزنی ۸۲ میل ہے۔ موٹریں دشت و جبل اور نشیب و فراز کو لمحہ بہ لمحہ طے کرتی ہوئی اور خاک اُڑاتی ہوئی رواں دواں تھیں۔ تقریباً ایک بجے غزنی پہنچے۔ یہاں مہمان سرکاری مہمان خانہ میں ٹھہرائے گئے۔ بازار کی مختصر سیر کے بعد مہمانوں نے کھانا کھایا۔ (۲۳۸) غزنیںکے آثارِ قدیمہ کی سیر کے لئے آفیسر مہمان دار سرور خان گویا نے ایک پیرِ فرتوت ’’ملا قربان‘‘ کو بلایا۔ یہ صاحب نوے سال کی عمر میں تھے۔ اور غزنیں کے گوشے گوشے سے آگاہ تھے۔ موجودہ شہر سے کئی میل ہٹ کر قدیم شہر کے نشانات ہیں جو سلاطین غزنیں کا پایہ تخت تھا۔ اس مقام کے مخالف سمت شہر کی دوسری طرف پرانا قبرستان ہے جہاں بیسوں عہد ساز ہستیاں محو خواب ہیں۔ (۲۳۹) ان ہستیوں میں اگر ایک طرف جہانِ معنوی کے سلطان حکیم سنائی غزنوی کا ذکر آتا ہے تو دوسری طرف فاتح سومنات محمود غزنوی کا نام نامی آتا ہے۔ سید سلیمان ندویؔ لکھتے ہیں: حکیم و شاعر اقبال کو حکیم شاعر سنائی کے مزار دیکھنے کا سب سے زیادہ اشتیاق تھا۔ خانہ سے نکل کر پیادہ ہم حکیم موصوف کے مزار کی طرف چلے۔ ۔۔۔ حکیم سنائی کی جلالتِ شان سے کون مہمان واقف نہیں ہم سب اسی منظر سے متاثر تھے۔ مگر ہم میں سب سے زیادہ اثر ڈاکٹر اقبال پر تھا۔ وہ حکیم ممدوح کے سرہانے کھڑے ہوکر بے اختیار ہوگئے اور دیر تک زور زور سے روتے رہے۔ (۲۴۰) جناب سرورخان گویا ؔاس لمحے کی یادداشت کو یوں محفوظ کرتے ہیں: تربت حکیم سنائی راچندان از اشک گلگون نمود کہ سنگ رابروی رقت آمد۔(۲۴۱) ترجمہ: حکیم سنائی کی قبر پر اس نے اتنے آنسوئوں کا پانی چھڑکا کہ وہاں کے پتھر بھی موم ہوگئے۔ مفکر عصر مولانا سید ابوالحسن علی ندوی نے علامہ کے حکیم سنائی کی مزار کے حاضری کو ایک اور نگاہ سے دیکھا ہے: وہ حکیم سنائی کے مزار پربھی گئے۔ اقبال سنائی کو رومی کے بعد شعر و حکمت میں اپنا دوسرا استاد مانتے تھے۔ اس نادر اور زریں موقع نے ان کی طبیعت پر مہمیز کا کام کیا۔ وہاں انہوںنے جو شعر کہے ہیں وہ ندرت اور معنویت کے ساتھ ان کے ذوق و شوق ، حسرتوں اور امیدوں کی سچی تصویر ہیں۔ ان نظموںمیں انھوں نے اپنے عہد پر ایک فلسفی شاعر اور انقلابی مسلمان کی طرح نظر ڈالی ہے۔ اور اپنی زیارت کو تاریخی حیثیت دے دی ہے۔ (۲۴۲) حکیم سنائی سے متعلق علامہ کے توصیفی و تعریفی افکار اردو و فارسی میں ’’ باب ہٰذا کے ضمنی عنوان ’’کلام اقبال میں مشاہیر افاغنہ کا تذکرہ‘‘ کے تحت شاملِ تحقیق کئے گئے ہیں۔ البتہ یہاں علامہ کی وہ یادداشت نقل کرنا ضروری سمجھتا ہوں جو انہوں نے بالِ جبریل میں افکارِ پریشان سے پہلے درج کی ہے اور حکیم سنائی غزنوی کی زیارت کا تذکرہ کیا ہے۔ اعلیٰحضرت شہید امیر المؤمنین نادر شاہ غازی رحمۃ اللہ علیہ کے لطف و کرم سے نومبر ۱۹۳۳ء میں مصنف کو حکیم سنائی غزنوی رحمۃ اللہ علیہ کے مزار مقدس کی زیارت نصیب ہوئی۔ بہ چندافکار پریشان جن میں حکیم ہی کے ایک مشہور قصیدے کی پیروی کی گئی ہے اس روز سعید کی یادگار میں سپرد قلم کئے گئے ہیں۔ ما از پئے سنائی و عطار آمدیم۔ (۲۴۳) خاکِ اولیاء غزنیں میں مردِ قلندر علامہ محمد اقبال کے ایک ایک لمحے کی تاریخ کو دانشوروں اور صاحبانِ دل نے محفوظ کیا ہے۔ مرزا ادیب حکیم سنائی کی زیارت کے بعد کا حال لکھتے ہیں : حکیم سنائی کے مزار سے نکل کر علامہ سلطان محمود کے مرقد پر جاتے ہیں۔ گویا ایک صاحبِ دل سے رخصت ہوکر ایک صاحبِ شمشیر کے ہاں پہنچے ہیں۔ مگر میں سمجھتا ہوں علامہ نے سلطان محمود کو بھی اپنی ہیرو گردانا ہے شاید اس موقع پر سوال کیا جائے کہ سلطان تو محض ایک حکمران تھا جس نے اپنی تیغ جوہر دار سے دشت و در کو لرزا دیا تھا۔ اور جس کے ہندوستان پر سترہ حملے ایک تاریخی حقیقت کو محیط ہیں۔ علامہ کی نظر میں کیا ایک فاتح ہی ہیرو بننے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یا یہ مقام و شرف حاصل کرنے کے لئے فاتح کے علاوہ اسے کچھ اور بھی بننا چاہیئے؟ علامہ فقط اس شخصیت کو اپنا ہیرو مانتے ہیں جو صاحبِ شمشیر ہو تو ساتھ ہی صاحبِ دل بھی ہو۔ سلطان محمود فاتح ہوں ،اورنگزیب عالمگیر ہوں ،نادرشاہ ہوں یا سلطان محمود غزنوی یہ شہسوار تو تھے ہی مگر شہسواری کے ساتھ ساتھ صاحبِ خلق عظیم اور صاحبِ صدق و یقین بھی تھے ان کی بادشاہی میں فقر تھا۔(۲۴۴) محمود غزنوی کی زیارت میںعلامہ کی کیفیات کا حال جانے کے لئے ہم پھر ان کے افغان دوست سرورخان گویاؔ سے رجوع کرتے ہیں: درپیش گاہ روضۂ شہنشاۂ بزرگ ما سلطان محمود غزنوی سر احترام فرود آورد۔(۲۴۵) ترجمہ: ہمارے عظیم شہنشاہ محمود غزنوی کے روضے کی ڈیوڑھی میں داخل ہوتے ہی اس نے اپنا سر فرطِ احترام سے جھکا لیا۔ کلامِ اقبال میں جا بجا محمود غزنوی کا تذکرہ ملتا ہے ان اشعار کے علاوہ غزنی میں ان کے مرقد پر علامہ کے کہے گئے اشعار باب ھٰذا کے ضمنی عنوان ’’کلامِ اقبال میں مشاہیر افاغنہ کا تذکرہ‘‘ کے تحت شاملِ تحقیق ہیں۔ سلطان محمود غزنوی کے مزار کی حاضری کے بعد علامہ کے اگلے روحانی منزل کا حال سید سلیمان ندویؔ صاحب لکھتے ہیں: ’’ان شاہی مزارات سے لوٹے تو ڈاکٹر اقبال صاحب کو لاہور کی مناسبت سے حضرت داتا گنج بخش جن کا مزار لاہور میں ہے ، کے والد ماجد کے مزار کی تلاش ہوئی ۔ ملا قربان نے کہا میں وہ مزار جانتا ہوں چنانچہ ان کی ہدایت کے مطابق موٹر نے پرانے غزنین کے ویران سنسان میدان کو طے کرنا شروع کیا۔ اور آخر ایک مقام پر لے جا کر توقف کیا۔ آگے موٹر کا راستہ نہ تھا چنانچہ ملاصاحب بمع ڈاکٹر صاحب وغیر ہ اتر کر پیادہ گئے اور زیارت کرکے واپس آئے۔ میں دردِ سینہ کی شکایت کے سبب نہ جا سکا۔‘‘(۲۴۶) روحانیت و معنویت کے مزار کے احاطے میں علامہ کی کیفیت کا حال کیا تھا۔ سرورخان گویاؔ لکھتے ہیں: وقتے کہ مابدین اماکن مقدس و پراز جلال و حشمت می رسیدیم ما دعامی نمودیم ولی شاعر اسلام رامی دیدیم کہ مثل تصویر بی جان استادہ و سیلاب اشک از چشمانش جارحیت حتیٰ از دیدن او حال ما دگر گوں میشد۔(۲۴۷) ترجمہ: جب ہم ان مقدس اور پر جلال مقامات پر پہنچے ہیں تو ہم تو دعا میں مشغول تھے لیکن شاعر اسلام کو ہم نے وہاں دیکھا کہ وہ ایک بے جان تصویر کی طرح کھڑا ہے اور آنسوئوں کا دریا اس کی آنکھوں سے اُمڈ رہا ہے۔ اس کی یہ حالت دیکھ کر ہم میں بھی یارائے ضبط نہ رہا۔ حکیم سنائی کی شخصیت میں تبدیلی غزنوی دربار سے خانقاہ لے آنے اور معنویت کی طرف میلان کا باعث بننے والا فقیر لائے خوار کے مزار پر بھی علامہ نے حاضری دی ۔سیرِ افغانستان میں ہے: ’’حکیم سنائی کی توبہ کی حکایت کے سلسلہ میں ایک مجذوب فقیر لائے خوار کا ذکر آتا ہے جس نے کہا تھا: ’’بکوری سنائی می خورم‘‘ کہ سنائی سے بڑ کر بے وقوف کون ہوگا جو اپنے ہی جیسے انسانوں کی مدح و ستائش میں خرافات نظم کرتا ہے اور ان کو جاکر سناتا ہے حکیم پر اس مجذوب کے اس فقرہ کا اثر ہوا اور توبہ کی ۔ ملا قربان موجودہ غزنین کے بازار سے گزرتے ہوئے ایک گلی سے ایک مسجد کے اندر لے گئے اور بتایا کہ یہ اس لائے خوار کا مزار ہے۔‘‘(۲۴۸) منگل ۳۱/ اکتوبر ۱۹۳۳ئ: شب غزنین میں گزارنے کے بعد صبح آٹھ بجے روانہ ہوئے۔ گیارہ بجے دوپہر مقر پہنچے۔ راستہ بہت صاف اورہموار تھا ۔ مقرمیں سرکاری آفیسروں کو مہانوں کے آنے کی اطلاع تھی جیسے ہی موٹریں آکر رکیں گارڈ آف آنرز نے سلامی دی ۔ ایک دو منزلہ عمارت میں قیام و طعام تھا۔(۲۴۹) ’’مقر یعنی پرانا بیہق ایک پرانے تاریخی شہر کا نا م ہے۔ جہاں سے بڑے بڑے أئمہ حدیث، مؤرخین اور اہلِ ادب و انشاء پیدا ہوئے ہیں۔۔۔ اس کا فارسی تلفظ بہیہ ہے مگر عربوں نے اپنے قاعدہ سے اس کو بیہق بنادیا۔ اور وہی مشہور ہوگیا۔ ابوبکراحمد بن حیسن مشہور بہ امام بیہقی شافعی جن کے سنن بیہقی اور دلائل النبوۃ مشہور کتابیں ہیں،یہیںکے تھے۔ ۔۔نوجوان افغانوں کا دعویٰ ہے کہ پرانا بیہق یہی ہے چنانچہ ہمارے فاضل افغان رفیق سفر سرور خان گویا ؔنے بڑے وثوق کے ساتھ مجھے اس کا یقین دلایا۔ مقر کے قریب دو قبروں کے روضے دکھائی دئیے ۔ فاضل مذکور نے بتایا کہ ان میں سے ایک ابوالفضل بیہقی کی قبر ہے اور دوسری ابوالنصر مشکانی کی۔ ابوالفضل بیہقی غزنوی خاندان کا مشہور مؤرخ ہے۔ ۴۷۰ھ میںوفات پائی ہے۔ ابو النصر مشکانی بھی اسی عہد کا ادیب و مؤرخ ہے جس کی تصنیف مقاما ت پچھلے مصنفین کا مأخذ ہے۔ ‘‘(۲۵۰) دوپہر کا کھانا مقر میں کھا کر مقر سے ایک بجے چل کر ۴ بجے شام قلات غلزی پہنچے ۔ کابل سے دوہزار فٹ اور غزنین سے ایک ہزار فٹ کی بلندی کی وجہ سے قلات میںٹھنڈک تھی۔ رات قلات میں بسر کی۔ جہاں رات کو رفقائے سفر پروفیسر ہادی اور سرورخان گویاؔ میں ایرانی اور افغان فارسی کے باہمی فضیلت پر ایک دلچسپ گفتگو ہوئی۔ بدھ یکم نومبر ۱۹۳۳ئ: صبح قلات غلزی سے بھی آٹھ بجے صبح روانگی ممکن ہوئی۔ قلات سے قندھار تک پرانی منزلیں حسبِ ذیل تھیں: ۱۔ قلعہ قلات سے تیر انداز تک ’جو ترنک‘ نام ایک ندی کے کنارے آباد ہے اور جہاں درانی قوم کا مسکن شروع ہوجاتا ہے۔ ۲۔ قلعہ تیر انداز سے شہر صفا تک اس شہر کو تیمور شاہ بن احمد شاہ ابدالی کے مدارالمہام قاضی فیض اللہ خان نے آباد کیا تھا۔ ۳۔ شہر صفا سے کاریز ملہدو تک یہ ایک چشمہ ہے۔ ۴۔ کاریز ملہدو سے شہر قندہار تک۔ راستہ کی خرابی کے باوجود قلات سے ۸ بجے چل کر ۱۲ بجے چارگھنٹوں میں قندہار پہنچ گئے۔(۲۵۱) جی ہائے قندہار سے متعلق علامہ کے درج ذیل ابیات امر ہوگئے ہیں: ؎ قندہار آں کشورِ مینو سواد اہلِ دل راخاکِ او خاکِ مراد رنگ ہا بو ہا آب ہا آب ہا تابندہ چوں سیماب ہا لالہ ہا درخلوتِ کہسار ہا نا رہا یخ بستہ اندر نار ہا کوئے آں شہر است مارا کوئے دوست! سارباں بربند محمل سوئے دوست می سرا یم دیگر از یارانِ نجد از نواے ناقہ را آرام بو جد! (۲۵۲) قندہار میں شاہی مہمان خانے میں ٹھہرنے کا پروگرام تھا۔ جہاں مہمانوں کی آمد پرشہر کے ممتاز افراد ملاقات کے لئے آئے۔ جن میں وزارتِ خارجہ افغانستان کا نمائندہ متعینہ قندہار اور یہاں کی ادبی انجمن کے ناظم عبدالحئی حبیبی بھی شامل تھے۔ ( عبدالحئی حبیبی سے ملاقات کااحوال ان کی سوانح میں ملاحظہ ہو)ابھی علامہ عبدالحئی خان سے باتیں کر رہے تھے کہ قندہار کے گورنر تشریف لائے۔ ان سے بھی کچھ دیر باہم دلچسپی کی گفتگو رہی۔ مہمان خانے کے قریب ہی خرقہ شریف کی زیارت اور احمد شاہ درانی کا مقبرہ تھا۔ ان مقامات کی زیارت کے لئے علامہ اور دوسرے افراد پیدل روانہ ہوئے۔ البتہ واپسی کے لئے موٹروں کو مقبرے کے دروازے پر پہنچ جانے کا حکم دیا گیا ۔ پہلے خرقہ شریف کی زیارت کی۔ مشہور ہے کہ یہ نبی اکرمﷺ کا ملبوسِ اقدس ہے۔ (۲۵۳) زیارت خرقہ مقدسہ کے دوران علامہ کی معنوی کیفیات و اسرار خود علامہ صاحب نے مثنوی مسافر میں بیان فرمائی ہیں: ؎ خرقۂ آں ’’بَرْزَخ’‘ لَا یَبْغِیَان‘‘ دیدمش درنکتۂ ’’لِیْ خَرَقْتَان‘‘ دین او آئینِ او تفسیر کل در جبینِ او خطِ تقدیرِ کل عقل را او صاحبِ اسرار کرد عشق اِ او تیغ جوہردار کرد کاروانِ شوق را او منزل است ماہمہ یک مشت خاکیم او دل است آشکارا دیدنش ’اسراے‘ ماست در ضمیرش مسجدِ اقصائے ماست آمد از پیراہنِ او بوے او داد ما را نعرۂ اللّٰہ ھُوْ بادلِ من شوقِ بے پروا چہ کرد! بادۂ پُرزور بامیناچہ کرد! رقصد اندر سینہ از زورِ جنوں تا زِراہِ دیدہ می آید بروں! گفت ’من جبریلم و نورِ مبین‘ پیش ازیں او را ندیدم ایں چنین! شعر رومیؔ خواندو خندید و گریست یا رب ایں دیوانۂ فرزانہ کیست در حرم بامن سخن رندانہ گفت از مے و مُغ زادہ و پیمانہ گفت! گفتمش ایں حرفِ بیباکانہ چیست لب فرو بند ایں مقامِ خامشی است من زخونِ خویش پروردم ترا صاحبِ آہِ سحر کردم ترا بازیاب این نکتہ را اے نکتہ رس عشقِ مرداں ضبطِ احوال است وبس گفت عقل و ہوش آزارِ دل است! مستی و وار فتگی کارِ دل است! نعرۂ ہا زدتا فتاد اندر سجود شعلۂ آوازِ او بود، او نبود! (۲۵۴) زیارتِ خرقہ مقدسہ کے دوران علامہ کی قلبی کیفیات کا جائزہ مرزا ادیب نے یوں پیش کیاہے: زیارت خرقہ مبارکﷺ نے شاعر کے دل و دماغ پر ایک وجد کا سا عالم طاری کردیا ہے اور اس کی ہونٹوں پر اس کے قلبی تاثرات ایک مترنم غزل کی صورت میں بکھر جاتے ہیں۔ اس غزل کی فضا میں جذب و مستی سرایت کئے ہوئے ہے۔ یہاں شوق فراواں کا کیف ہوش افگن پھیلا ہوا ہے۔ اس کے ایک ایک لفظ میں سوز و ساز و درد و داغ کی ایک دنیا آباد لگتا ہے۔ عشق صادق حسن کی بارگاہ میں سجدۂ ہائے شوق لٹا رہا ہے اور اس کی رگ رگ ایک پُراسرار نشے سے سرشار ہوگئی ہے۔ شاعر کا جذبہ بے اختیار غزل میں تڑپتا ہوا ،مچلتا ہوا، رقص کناں جب خرقہ مبارک ﷺکے قریب آتا ہے تو فی الفور سراپا عقیدت بن جاتا ہے۔ (۲۵۵) خرقہ شریف کی زیارت کے بعد معرکۂ پانی پت کے فاتح احمد شاہ بابا کے مزار پر حاضری دی۔ اس موقع کی مناسبت سے علامہ کے اشعار باب ھٰذا کے ضمنی عنوان ’’کلامِ اقبال میں مشاہیرِ افاغنہ کا تذکرہ‘‘ کے عنوان سے شاملِ تحقیق ہیں۔ احمد شاہ بابا کے مزار پر حاضری کے بعد علامہ اور ان کے شرکائے سفر قندہار کے سب سے خوبصورت اور دلکش طبعی منظر ارغنداب کی سفر کو روانہ ہوئے۔ ارغنداب کی سیر کرتے ہوئے بابا ولی قندہاری کے مزار پر فاتحہ پڑھی ۔ واپسی پرچہل زینہ گئے یہ ایک پہاڑی ہے جس کی چوٹی پر بابر نے اپنی ہندی فتوحات کا کتبہ لگایا ہے ۔ پہاڑی کے دامن سے اوپر تک پتھر کاٹ کر زینے بنائے گئے ہیں۔ جن کی تعداد چالیس مشہور ہیں۔ اس لئے اس پہاڑی کا نام چہل زینہ پڑگیا ہے۔ علامہ پہاڑی پر نہ چڑھے البتہ سید صاحب اور پروفیسر ہادی نے اپنے تاریخی ذوق کی تسکین کیلئے پہاڑی سر کی۔(۲۵۶) جمعرات ۲ نومبر ۱۹۳۳ئ: صبح آٹھ بجے چائے اور ناشتہ سے فارغ ہوکر نو بجے قندہار سے روانہ ہوئے ۔ گورنر قندہار نے مہمانوں کو کچھ خشک میوے اور قندہاری اناروں کے دو ٹوکرے تحفہ بھیجے اور قافلہ چل پڑا۔ اور بارہ بجے قلعہ جدید پہنچ گیا۔ یہ افغانستان کی آخری چوکی تھی۔ یہاں گویاؔ اور دوسرے شاہی ملازمین نے علامہ اور ان کے ساتھیوں کو الوداع کیا۔ چمن شہر کے دروازے پر مسلمانان شہر نے استقبال کیا۔ اور ایک رستوران میں چائے کا اہتمام کیا۔ اہالیان شہر کی خواہش تھی کہ علامہ اور سید صاحب اپنے سفر ملتوی کرکے یہاں کے مسلمانوں کے سامنے تقاریر کریں مگر ہر دو حضرات نے معذرت کردی۔ رستوران میں مختلف خیال کے مسلمان جمع ہوگئے تھے۔ جو سیاسیات کی مختلف راہوں سے آشنا تھے۔ علامہ اور سیدصاحب سے طرح طرح کے سوالات کرتے رہتے۔ علامہ کے سکول کے زمانے کے ہندو دوست جو چمن میںمطب کرتے تھے ، ملنے آئے۔ (۲۵۷) چمن میں علامہ کی آمد کے موقع پر جن لوگوں نے علامہ سے ملاقاتیں کی تھیں۔ ان میں چودھری نور الہٰی قریشی، ملا احمد جان قریشی اور حاجی خوشی محمد وغیرہ شامل تھے۔ حاجی خوشی محمد کے نام سے چمن میں ایک روڈ بھی منسوب ہے۔ نسلاً زدران پٹھان تھے مگر ثقافتی اعتبار سے ٹھیٹ پنجابی تھے۔ ان کے گھر سے علامہ کے لئے حقہ بھی لے جایا گیا تھا۔ (۲۵۸) علامہ کے ہندو کلاس فیلو سے متعلق معلوم ہوا کہ وہ موجودہ رام چندبازار میں سادھورام کی موجودہ کوٹھی کے بالمقابل ٹریچ روڈ سے۵ نمبر دکان واقع مغربی جانب میں مطب کرتے تھے۔ یہ دکان فی الحال حاجی تیمور ملیزی کا کلاتھ ہائوس ہے۔ اہالیانِ چمن ان سے علاج کراتے تھے۔ نام کا پتہ تو نہیں چل سکا البتہ خوبصورت شباہت اور سرخ رنگت کی بنیاد پر مقامی لوگ انھیں ’’سُرکئی‘‘ ہندو کہتے تھے۔ انکے بعد ان کے بیٹے مطلب چلاتے رہے ۔ قیامِ پاکستان کے بعد ان کے ایک مسلمان شاگرد ملا عبدالرحمن غبیزی اچکزی کچھ عرصے تک یہ مطلب چلاتے رہے جن کا ایک بیٹا عبدالمالک کسٹم میں انسپکٹرہے۔ ان کے والد راقم الحروف کے پھوپھا تھے۔ علامہ ۲ نومبر کو بعد از ظہر چمن سے روانہ ہو کر شام کوئٹہ پہنچے۔ علامہ کی کوئٹہ آمد کی خبر روزنامہ ’’انقلاب‘‘ لاہور میں بھی شائع ہوئی ہے: حضرت علامہ اقبال کی تشریف آوری ابھی اطلاع ملی ہے کہ حضرت علامہ اقبال کابل ے قندھار گئے تھے اور وہاں سے چمن اور کوئٹہ کے راستے واپس تشریف لائے۔ ۴ نومبر کو ۶بجے شام کراچی میل سے لاہور تشریف لائیں گے ۔ (انقلاب ۔ جلد ۸۔ نمبر۱۵۷۔ شنبہ ۔ ۵نومبر ۱۹۳۳ئ) چنانچہ علامہ کی لاہورآمد پر ان کا پرتپاک استقبال کیا جاتا ہے ملاحظہ ہو روزنامہ ’’انقلاب‘‘ لاہور کی یہ خبر: علامہ اقبال کی افغانستان سے مراجعت لاہور اسٹیشن پر استقبال لاہور ۔۶نومبر۔ حضرت علامہ اقبال جنہیں اعلیٰ حضرت نادر شاہ غازی بادشاہ افغانستان نے یونی ورسٹی کے قیام کے لیے مشورے کے لیے کابل بلایا تھا ، آج کراچی میل سے واپس تشریف لائے ۔ دوہفتہ قبل آپ سرراس مسعود کے ہمراہ کابل تشریف لے گئے تھے۔ اعلیٰ حضرت نادر شاہ سے آپ نے ملاقات کی اور انہیں یونیورسٹی کے قیام سے متعلق مشورے دیے۔ افغانستان سے واپسی پر آپ قندھار سے بذریعہ موٹر کار چمن پہنچے اور وہاں سے کوئٹہ روانہ ہوئے ۔کوئٹہ سے کراچی میل کے ذریعے آج شام ساڑھے چھ بجے لاہور واپس تشریف لائے۔ آپ کے استقبال کے لیے اسٹیشن پر آپ کے رفقاء اور عزیز موجود تھے۔ ان میں قابلِ ذکر مہر ‘سالک، شیخ نیاز علی ایڈووکیٹ ، چودھری محمد حسین اور ’’سول اینڈ ملٹری گزٹ‘‘ کے نمائندے سید نور احمد قابل ذکر ہیں۔ (انقلاب ۔ جلد ۸۔ نمبر ۱۵۸۔ سہ شنبہ ۔ ۷-نومبر ۱۹۳۳ئ) سفر افغانستان سے واپسی پر اس سفر کے شرکاء کے تاثرات اخبارات نے تفصیل کے ساتھ شائع کیے: افغانستان کے متعلق علامہ اقبال ،سر راس مسعود اور سید سلیمان ندوی کے تاثرات افغانی مُلّا اور اور نوجوان دوش بدوش میدان عمل میں۔ جدید سڑکوں کی تعمیر، تعلیمی اور اقتصادی پروگرام لاہور ۔۶نومبر۔ حضرت علامہ اقبال ، سر راس مسعود اور سید سلیمان ندوی نے افغانستان سے واپسی پر، افغانستان کی موجودہ صورت حال کے بارے میں ایسوسی ایٹڈ پریس کو مندرجہ ذیل بیان دیا: ہمارا خیال ہے کہ افغانستان میں اپنے دس روزہ قیام کے بعد ہم وہاں کے موجودہ حالات کے متعلق جو تاثرات لے کر واپس ہوئے ہیں، ان کو اپنے ہندوستانی اہالی وطن کے روبرو پیش کرنا خالی از دلچسپی نہ ہوگا۔ خوش قسمتی سے اپنے دوران قیام میں تمام وزراء اور اعلیٰ عہدے داروں سے جو نظم و نسق حکومت کے ذمہ دار ہیں، ملاقات کا موقع ملا۔ ہم نے وزراء سے تعلیمی مسائل پر طویل بحث و تمحیص کی۔ اس بحث و مباحثہ کے دوران میں افغانستان کی اقتصادی ترقی کے متعلق ہمیں اس لائحہ عمل کی نوعیت بھی معلوم ہوئی، جس میں وزرائے موصوف آج کل ہمہ تن مصروف ہیں۔ (انقلاب ۔ جلد ۸۔ نمبر ۱۵۹۔ چہار شنبہ‘ ۸-نومبر ۱۹۳۳ئ)(۲۵۹) علامہ نے ۶ نومبر ۱۹۳۳ء کو اپنے ہم سفروں کی ایما ء پر اپنے دورۂ افغانستان کے بارے میں درج ذیل اخباری بیان جاری کیا۔ سب سے پہلے جو قابلِ ذکر چیز ہمیں نظر آئی ہے وہ یہ ہے کہ افغانستان میں لوگوں کے جان و مال بالکل محفوظ ہیں۔ یہ ایک ایسی حکومت کے لئے بذاتِ خود ایک بہت بڑی کامیابی ہے جسے صرف چار سال پیشتر ملک میں عام بغاوت کو فرو کرنا پڑا ہو۔ دوسری بات جس سے ہم متاثر ہوئے وہ وہاں کے وزراء کی نیک نیتی اور اخلاص ہے جس سے وہ اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں سخت قسم کے قدامت پسند لوگ بھی ان وزراء کے حامی ہیں۔ اور نتیجتاً جیسا کہ ہمارے سامنے ایک مقتدر افغان عالم نے کہا کہ آج کے افغانستان میں ملائوں اور نوجوانوں میں کوئی اختلاف نہیں۔ حکومت افغانستان کا ارادہ ہے کہ سارے محکمہ تعلیم کو جدید طریقوں پرازسرِ نو ترتیب دیا جائے اور ساتھ ساتھ افغانستان اور ہمسایہ ممالک کے درمیان والی سڑکوں کی مرمت کی جائے۔ نئی یونیورسٹی بتدریج ترقی کررہی ہے اور اس کیلئے پہلے ہی ایک خوبصورت اور وسیع محل مخصوص کردیا گیا ہے۔ سب سے پہلے شعبہ طب قائم کیا گیا ہے اور اس میں اعلیٰ تعلیم شروع ہوگئی ہے۔ دوسرا شعبہ جس کا قیام زیرِ غور ہے وہ سول انجینئرنگ کا ہوگا۔ رہا سڑکوں کا سوال تو کابل کو پشاور سے ملانے والی ایک نئی سڑک آئندہ دو سال کے عرصہ میں تعمیر ہوجائے گی ۔ اور یہ سڑک اس لئے بہت اہم ہے کہ یہ وسطی ایشیا کو وسطی یورپ سے قریب کردیتی ہے۔ اعلیٰحضرت شاہ افغانستان نے ہمیںشرف بازیابی بخشااور کافی طویل گفتگو ہوتی رہی۔ اعلیٰحضرت کی سب سے بڑی خواہش یہ ہے کہ ان کا ملک پھلے پھولے اور اپنے ہمسایہ ممالک سے صلح اور آشتی قائم رکھے۔ افغانستان آج ایک متحد ملک ہے جہاں ہر طرف بیداری کے آثار پائے جاتے ہیں اور حکام کافی سوچ بچار کے بعد نئے پروگرام بنا رہے ہیں۔ افغانستان سے ہم اس یقین کے ساتھ واپس لوٹے ہیں کہ اگر موجودہ حکام کو دس سال تک اپنا کام جاری رکھنے کا موقع مل جائے تو بلاشک و شبہ افغانستان کا مستقبل شاندار ہوگا۔ (۲۶۰) حضرت علامہ کا سفر افغانستان کے دوران شاہ افغانستان کو قرآن کریم کا ہدیہ دینے پر روزنامہ ’’انقلاب‘‘ نے ایک اہم اداریہ لکھا ہے جس میں افغانستان میں علامہ کی پذیرائی اور اس دورے کے مضمرات پر بحث کی گئی ہے۔ (اداریہ) شاہ افغانستان کی بارگاہ میں قرآن حکیم کا ہدیہ۔ اقوام شرق و غرب کی تقدیروں کا آئینہ روزنامہ’’اصلاح‘‘کابل کی تازہ اشاعت میں حضرت علامہ اقبال، سید سلیمان ندوی اور نواب مسعود جنگ بہادر سید راس مسعود کے چند روزہ قیام کابل کی مصروفیتوں کا تذکرہ شائع ہوا ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان حضرات کی علمی صحبتوں سے ہمارے افغان بھائی بے حد متاثر ہوئے ۔ والا حضرت سردار ہاشم خاں صدر اعظم ، والا حضرت سردار شاہ محمود خان وزیر جنگ ، سردار احمد شاہ خان وزیر دربار و ریاست، بلدیہ، کابل اور انجمن ادبی کابل کی طرف سے ہمارے بزرگوں کو عظیم الشان پارٹیاں دی گئیں۔ اعلیٰ حضرت بادشاہ غازی کی بارگاہ میں بھی ان بزرگوں کو شرف باریابی حاصل ہوا۔ یہ تمام تفصیلات ہمارے لیے اور عام مسلمانوں کے لیے جس قدر دل خوش کن ہوسکتی ہیں ، اس کے اظہار کی ضرورت نہیں، لیکن جس چیز سے ہم بدرجہ ٔغایت متاثر ہوئے‘ وہ حضرت علامہ اقبال کا پیام ہے جو روزنامہ "اصلاح"کی وساطت سے ملت غیور افغان کو دیا گیا ہے اور جو جریدہ مذکور کی تازہ اشاعت میں شائع ہوا ہے۔ حضرت علامہ فرماتے ہیں: ’’الحمداللہ کہ میں نے یہ اسلامی سر زمین دیکھی اور بادشاہ غازی کی بارگاہ میں حاضری سے بھی مشرف ہوا، جس کے ہر کام کی بنیاد و اساس ’’بندگی خدا‘‘اور’’عشق وطن‘‘ہے‘ یعنی وہ بادشاہ جو شاہی قبا کے نیچے خرقۂ درویشی پہنے ہوئے ہے اور خداے بزرگ و برتر نے حضرت رسالت مآب ﷺکی روحانیت کے طفیل اس کی درویشی کو شرف قبولیت بخشا۔‘‘ اعلیٰ حضرت محمد نادر شاہ غازی کی یہ کتنی صحیح تصویر ہے اور اس مختصر سی تحریر میں اسلامی حکمرانی کے بہترین اصول کتنے عمدہ اور جامع الفاظ میں پیش کیے گئے ہیں ۔ اول خدائے بزرگ و برتر کی عبادت، دوم وطن کی محبت یعنی جس خطۂ ارض پر اختیار و اقتدار حاصل ہو‘ اس کی فلاح و بہبود اور بہتری و برتری کے لیے ہر ممکن سعی و کوشش جاری رکھنا اور بادشاہی کو نفس پروری یا غرض پرستی کا ذریعہ نہ بنانا۔ حضرت علامہ نے ’’پیام مشرق‘‘ کو شاہ امان اللہ خان کے نام پر معنون کرتے ہوئے ایک مثنوی لکھی تھی جو زریں نصائح سے لبریز تھی۔ اس میں یہ اشعار بھی تھے: سروری در دینِ ماخدمت گری است عدلِ فاروقی و فقرِ حیدری است در ہجومِ کار ہائے ملک و دیں با دلِ خود یک نفس خلوت گزیں ہر کہ یک دم در کمینِ خود نشست ہیچ نخچیر از کمندِ او نجست در قبائے خسروی درویش زی دیدہ بیدار و خدا اندیش زی قائدِ ملت شہنشاہِ مرادؔ تیغِ او رابرق و تندر خانہ زاد ہم فقیرے، ہم شہِ گردوں فرے اردشیرے باروانِ بوذرےؓ غرق بودش در زرہ بالا ئو دوش درمیانِ سینہ دل موئینہ پوش آں مسلماناں کہ میری کردہ اند در شہنشاہی فقیری کردہ اند در امارت فقر را افزودہ اند مثلِ سلماںؓ در مدائن بودہ اند حکمرانے بود و سامانے نداشت دستِ او جز تیغ و قرآنے نداشت ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان اشعار میں بادشاہی کا جو تصور حضرت علامہ کے سامنے تھا، اس کی عملی جھلک محمد نادر شاہ غازی کی ذات میں انہیں نظر آگئی اور اسی سے متاثر ہو کر حضرت علامہ نے مندرجہ بالا الفاظ ارشاد فرمائے۔ حضرت ممدوح فرماتے ہیں کہ میں بادشاہ غازی کی بارگاہ میں حاضر ہوا تو "شاہ غازی حرفے گفت کہ سینۂ من بیفروخت و جان مراسوخت۔ اے برادر افغان ہمیں یک حرفے را بہ تو مے رسانم کہ درآں بہ سوزی و سرمایۂ دین و دنیا را زاں بیندوزی۔‘‘ یعنی شاہ غازی نے ایک ایسی بات ارشاد فرمائی جس سے میرا سینہ روشن ہوگیا۔ افغان بھائیو! میں وہی بات آپ تک پہنچاتا ہوں تاکہ آپ بھی اپنی جانوں کو اس حرارت سے گرمائیں اور دین و دنیا کا سرمایہ اس سے حاصل کریں ۔ وہ بات کیا تھی؟ حضرت علامہ فرماتے ہیں کہ میں نے بارگاہِ خسروی میں قرآن حکیم کا ایک نسخہ بہ طور ہدیہ پیش کیا تھا اور ایک درویش کی طرف سے درویش منش بادشاہ کی خدمت میں اس سے بہتر ہدیہ کوئی نہیں ہوسکتا ۔ میں نے قرآن کو پیش کرتے ہوئے عرض کیا: ’’ایں کتابے ہست کہ تقدیر ہاے اسم شرق و غرب در بطون آں آشکار می بینم۔‘‘ (یہ ایسی کتاب ہے جس میں اقوام مشرق و مغرب کی تقدیریں صاف نظر آرہی ہیں)۔ محمد نادر غازی نے فرمایا:۔ ’’آیات بینات او پناہ گاہ من است‘‘ (اس کی آیات بینات میری پناہ گاہ ہیں) یہ الفاظ شاہ غازی کی زبان پر جاری تھے اور آنکھیں پُرنم تھیں۔ حضرت علامہ اقبال اپنے پیام کے آخر میں لکھتے ہیں کہ افغان بھائیو! آپ کو بھی چاہیے کہ اپنے بادشاہ کی طرح آپ قرآن عظیم کو اپنی پناہ گاہ بنائیں تاکہ خداے بزرگ و برتر ملت غیور افاغنہ کو اس مقام پر پہنچائے جو اس کے علم میں ملت مذکورہ کے لیے مقدر و مقرر ہے: پیش نگر کہ زندگی راہ بہ عالمے برد از سر آنچہ بود و رفت درگذر‘ انتہا طلب از خلشِ کرشمہ کار نمی شود تمام عقل و دل و نگاہ راجلوہ جدا جدا طلب (انقلاب ۔ جلد ۸۔ نمبر ۱۶۱۔ جمعہ ۔ ۱۰ نومبر ۱۹۳۳ئ)(۲۶۱) ابھی علامہ سفر افغانستان سے لاہور لوٹے ہی تھے کہ کابل میں اعلیٰ حضرت کی شہادت کا المناک سانحہ پیش آیا۔ علامہ سفر افغانستان کی خوشگوار یادوں اور نادر شاہ غازی کی الم ناک شہادت کے اضطراب سے پیش و تاب دکھائی دیتے ہیں۔ اس وقت علامہ کے دو مکتوبات بنام راغب احسن اس اضطراب کے آئینہ دار ہیں۔ مکتوب اقبال بنام راغب احسن (بابت۱۲ نومبر ۱۹۳۳ئ) ’’میں گذشتہ اتوار کابل سے براہ غزنی و قندھار واپس آیا…امیر نادر شاہ کی شہادت کی خبر ایک ناقابل برداشت صدمہ میرے لئے ہے اور یقینا ساری دنیائے اسلام کے لئے۔ یہ بڑا دیندار اور خدا پرست بادشاہ تھا۔ کابل میں اس کے متعلق ایسی حکایات مشہور ہیں کہ ان کو سن کر صدیقؓ اور فاروقؓ یاد آتے ہیں۔ جمعہ کی نماز میںنے ان کے ساتھ کابل کی جامع مسجد میں ادا کی۔ ان کے محل میں ایک روز عصر کی نماز ان کی امامت میں ادا کی۔ خدا ان کی مغفرت کرے۔ مجھے امید ہے کہ افغانستان دوبارہ کسی انقلاب میں مبتلا نہ ہو گا۔ جہاں تک میں اندازہ کر سکا ہوں ‘بادشاہ کی شہادت پرائیویٹ عداوت و رقابت کا نتیجہ ہے اور غالباً جنرل غلام نبی خاں کے قتل سے اس کا تعلق ہے۔ اس سے یہ نتیجہ نکالنا کہ لوگ امان اللہ خان کی واپسی چاہتے ہیں‘ غلط ہے۔ واللہ اعلم۔ دوران قیام افغانستان میں وہاں کے نوجوانوں میں اسلامی خیالات اور افکار کی اچھی تخم ریزی ہوئی۔ زیادہ گفتگو اس امر کے متعلق پھر کبھی ہوگی۔‘‘ ------ مکتوب اقبال بنام راغب احسن (بابت ۲۴ نومبر ۱۹۳۳ئ) ’’افغانستان میں امن و امان ہے۔ افغان پارلیمنٹ نے قرآنی الفاظ میں امان اللہ خان کے خلاف یہ ریزولیوشن پاس کیا۔’’انّہ لیس مِن اہلک‘‘ ۔ پنجاب کے اخبار محض اس وجہ سے امان اللہ خان کے حق میں بڑا پروپیگنڈہ کر رہے ہیں کہ موجودہ افغان حکومت نے ان کی ان تمام درخواستوں کو رد کر دیا جو انہوں نے روپے کے واسطے کی تھیں۔ مجھے اس کا ذاتی علم ہے اور میں نے وہ درخواستیں خود پڑھی ہیں… آج جو’’اصلاح‘‘ کابل سے آیا ہے‘ اس میں سردار محمد ہاشم کی ایک تقریر ہے‘ جو نہایت درد ناک ہے۔ مجھے اس تقریر نے بہت رلایا۔‘‘ (۲۶۲) ------ سفر افغانستان ۱۹۳۳ء کے بعد سے لے کر ۱۹۳۶ء تک علامہ کے مختلف مکتوبات میں سفر افغانستان اور مثنوی مسافر کا تذکرہ ملتا ہے۔ مکتوب اقبال بنام سید نذیر نیازی (بابت۶ -اگست ۱۹۳۴ئ) ’’’’مسافر‘‘ (سیاحت افغانستان) کاتب کو دے دی ہے۔‘‘ ]مکتوب الیہ یعنی سید نذیر نیازی مرحوم لکھتے ہیں کہ’’…آخر ستمبر ]آخری عشرئہ اکتوبر[میں جب وہ افغانستان تشریف لے گئے تو گو اُن کا ارادہ تھا کہ اس سفر میں ذاکر صاحب اور مجھے بھی اپنے ساتھ شریک کریں لیکن کچھ وقت کی تنگی اور سفر کی فوری تیاری کے باعث اور کچھ اس لیے کہ انہیں ٹھیک معلوم نہیں تھا میں ہوں کہاں‘ مجھے اطلاع نہ کر سکے۔‘‘ (مکتوب اقبال از سید نذیر نیازی‘ لاہور ۱۹۷۷ء (۱۹۵۷ئ‘ ص ۱۱۸)[ ------ مکتوب اقبال بنام سید نذیر نیازی (بابت۱۶- اگست ۱۹۳۴ئ) ’’فی الحال ’’مسافر ‘‘(سیاحت چند روزہ افغانستان) کی کتابت شروع ہے جو غالباً کل یا پرسوںختم ہو جائے۔‘‘ مکتوب اقبال بنام سید نذیر نیازی (بابت ۲۲-اگست ۱۹۳۴ئ) ’’…پہلے خط سے یہ نہیں معلوم ہوا کہ ڈاکٹر ]انصاری[صاحب ’’مسافر‘‘ کے متعلق کیا چاہتے ہیں۔ کمیشن پر رعایت مقصود ہے یا کچھ اور۔ یہ میں سمجھ نہیں سکا۔ وضاحت کیجئے… ’’مسافر‘‘ صرف ایک ہزار یا زیادہ سے زیادہ پندرہ سو کاپی چھاپنے کا ارادہ ہے۔ ڈاکٹر صاحب سے پوچھ لیجئے۔ اگر وہ زیادہ چاہیں تو زیادہ بھی چھپ سکتی ہیں۔ قریباً ایک سو کاپی کابل جائیں گی۔ چند کاپیاں جن کی تعداد دس سے زیادہ نہ ہو گی‘ خاص کاغذ پر چھپیں گی۔‘‘ ------ مکتوب اقبال بنام سید نذیر نیازی (بابت ۹ ستمبر ۱۹۳۴ئ) ’’سفر نامہ افغانستان کی کتابت ختم ہو گئی ہے۔ دو چار روز میں طباعت شروع ہو گی۔‘‘ ------ مکتوب اقبال بنام سید نذیر نیازی (بابت ۳ مارچ ۱۹۳۶ئ) ’’افغانستان والے معاملے کو بھی pursueکرناچاہیے۔‘‘(۲۶۳) علامہ کے لئے سفرِ افغانستان کی یادیں نشاطِ روح کا سامان فراہم کرتی رہیں۔ اس سفر کی یادمیں مثنوی مسافر ترتیب دی۔ اور افغانستان کے مناظر فطرت سے دل کھول کر لطف اٹھایا۔ جمال الدین احمد اور محمد عبدالعزیز کی تالیف افغانستان کے دیباچے میں لکھتے ہیں: جب افغانستان کے بارے میں سوچتا ہوں اور اکثر ایساہوتا ہے تو میرے سامنے افغانوں کے دیس کی وہ تصویر گھومنے لگتی ہے جسے میں نے پچھلے موسمِ خزاں میں دیکھی تھی۔ میں ایک سادے سے آرام دہ کمرے میں بیٹھا ہوا ہوں ۔آس پاس باغ ہے ۔ باغ سے پرے زمین کا ایک ٹکڑا۔ آہستہ آہستہ اوپر کو اُبھرتا چلا جاتا ہے۔ جہاں تک کہ پہاڑی سلسلے میں جا ملتا ہے۔ اس کے پیچھے بلند ہوتی ہوئی پہاڑی کی ایک قطار ہے۔ یہاں تک کہ یہ بلندیاں ہندوکش کے سلسلے تک بلند ہوتی ہوئی پہاڑیوں تک جا پہنچتی ہیں۔ دور تک پھیلے ہوئے میدانوں کے اس پار اُونچی اُونچی روشیں ہیں۔دور دراز سے آئی ہوئی طوفانی ہوائیںجنہیں چیرتی ہوئی آگے بڑھ جاتی ہیں۔ اوپر مغرب میں ڈوبتے ہوئے سورج کے حسین اور خوشنما رنگوں سے آراستہ آسمان نظر آتا ہے۔ نیچے وادیوں میں سائے تیزی سے رینگتے ہیں۔ لاتعداد پتلے لمبے سرو کے درخت ان سایوں کے درمیان اپنے پر پھیلائے کھڑے ہیں۔ سبک سیر ہوائیں ان کی پتیوں کو چومتی ہوئی آگے بڑھ جاتی ہیں۔ شفق کے سکون میں وادی وادی کے درخت دور افتاد گائوں اور دھندلے کہر کے سمندر میں بہتے ہوئے پہاڑ خوابوں جیسا حسین منظر پیش کرتے ہیں۔ پھر ایکاایکی شام کا جادو اذان کی آواز سے ٹوٹ جاتا ہے میرے سب ساتھی اپنی اپنی جگہیں چھوڑ دیتے ہیں۔ مؤذن کی دل میں اتر جانے والی آواز مجھے کہیں اپنے سے بھی دور لے جاتی ہے۔ اور میں مسجد میں سیر کے بعد پہنچتا ہوں جہاں میرے ساتھی مہمان اور مصاحبوں کے ساتھ شاہی میزبان جمع ہیں۔ (۲۶۴) افغانوں کی پذیرائی:۔ حضرت علامہ کی وفات کے بعد اعلیٰ حضرت المتوکل علی اللہ محمد ظاہر شاہ نے تمام افغان ملت کی قلبی عشق و محبت کی نمائندگی کرتے ہوئے حضرت علامہ کے مزار کے لئے سنگِ مرمر اور قیمتی پتھر بھجوائے۔ عقیدت و محبت کے اس لافانی اظہار سے ہمیشہ کے لئے اپنی قوم کے مجموعی اثرات کو تاابد محفوظ کیا۔ اقبال کے مزار کے کتبے پر اقبال ہی کے مندرجہ ذیل اشعار کندہ کئے گئے ہیں اور اس کے ساتھ اقبال کے سالِ ولادت اور سالِ وفات بھی کندہ کی گئی ہے۔ کتبے کا متن درج ذیل ہے: ھوالغفورالرحیم شاعر و فیلسوف شرق داکتر محمد اقبال کہ راہ سعی و عمل و روح اسلام را بہ ہم کناں روشناختہ و ازیں رومظہر قبول محمد نادر شاہ غازی ملت افغان واقع شد در ۱۲۹۴ھ ق تولد و بسنہ ۱۳۵۷ھ ق وفات یافت ان من الشعر لحکمۃ واں من البیان لسحرا ؎ نہ افغانیم و نہ ترک و تتاریم چمن زادیم و از یک شاخساریم تمیز رنگ و بو برما حرام است کہ ما پروردہ از یک نوبہاریم مأخذات باب اول:۔ ۱؎ دائرۃ المعارف اسلامیہ ،جلد ۲، ص ۹۳۹ ۲؎ آریانا دائرۃا لمعارف (پشتو) جلد۳، ص ۳۴۷ ۳؎ د افغانستان کالنی ٔ ، ۱۳۵۰ھ ش، ص ۷۱ ۴؎ ایضاً، ص ۷۲ ۵؎ افغانستان دارا سے امان اللہ تک ، ص ۳۳- ۳۴ ۶؎ د افغانستان کالنی ٔ ، ۱۳۵۰ھ ش، ص ۷۲ ۷؎ ایضاً، ص ۷۳ ۸؎ ایضاً ، ص ۸۴ ۹؎ افغانستان بعد از اسلام ، ص ۴۱۷ ۱۰؎ تاریخ مختصر افغانستان ، ص ۱۴۸ ۱۱؎ د افغانستان کالنی ٔ ، ۱۳۵۰ھ ش، ص ۷۵ ۱۲؎ بانگِ درا ، ص ۲۷۸ ۱۳؎ د افغانستان کالنی ٔ ، ۱۳۵۰ھ ش، ص ۷۵ ۱۴؎ فتح افغانستان ، ص ۱۰۵ ۱۵؎ اقبال اور افغانستان ،مقالہ اکرام اللہ شاہدؔ، ص ۱۴۳ تا ۱۴۹ ۱۶؎ پشتونوں کی فارسی شاعری ، ص ۱۹ - ۲۰ ۱۷؎ جاوید نامہ، ص ۱۷۲ ۱۸؎ ایضا، ص ۱۷۶ ۱۹؎ ایضا، ص ۱۷۷ - ۱۷۸ ۲۰؎ مثنوی مسافر، ص ۷۹ - ۸۰ ۲۱؎ ایضا، ص ۸۱ ۲۲؎ مکتوبات و خطبات رومی، ص ۱ ۲۳؎ دائرۃ المعارف اسلامیہ ،جلد ۷، ص ۳۲۴ - ۳۲۷ ۲۴؎ بانگِ درا، ص ۲۴۱ ۲۵؎ ایضاً، ص ۲۶۴ ۲۶؎ بالِ جبریل، ص ۱۱ ۲۷؎ ایضاً، ص ۱۷ ۲۸؎ ایضا، ص ۲۸ ۲۹؎ ایضا، ص ۳۹ ۳۰؎ ایضا، ص ۵۶ ۳۱؎ بالِ جبریل، ص ۶۷ ۳۲؎ ایضا، ص۷۱ ۳۳؎ ایضا، ص۹۹ ۳۴؎ ایضا، ص۱۳۴ تا ۱۴۲ ۳۵؎ ایضا، ص ۱۴۸ تا ۱۴۹ ۳۶؎ اسرارِ خودی، ص ۹ ۳۷؎ ایضاً، ص ۱۱ ۳۸؎ رموزِ بیخودی، ص ۱۳۱ ۳۹؎ پیامِ مشرق، ص ۲۰ ۴۰؎ ایضا، ص۱۰۶ ۴۱؎ زبورِ عجم، ص ۱۷۵ ۴۲؎ زبورِ عجم، ص۱۸۵ ۴۳؎ جاوید نامہ، ص ۱۹ ۴۴؎ ایضا، ص۴۳ ۴۵؎ مثنوی پس چہ باید کرد، اقوامِ شرق، ص ۷ ۴۶؎ ایضاً، ص۲۹ ۴۷؎ ارمغانِ حجازفارسی، ص ۱۵ ۴۸؎ ایضا، ص۵۶ ۴۹؎ د مشرق نابغہ، ص ۲۱۷ تا ۲۲۱ ۵۰؎ جاوید نامہ، ص ۶۰ ۵۱؎ ایضاً، ص ۶۱ ۵۲؎ ایضاً، ص۶۳ ۵۳؎ دائرۃ المعارف اسلامیہ، جلد ۱۱، ص ۳۱۴ - ۳۱۷ ۵۴؎ گزیدۃ اشعار سنائی، ص ۳۰ - ۳۱ ۵۵؎ یادنامۂ اقبال، ص ۷۵ ۵۶؎ کلیات اشعار حکیم سنائی غزنوی، ص ۲۹۷ - ۲۹۹ ۵۷؎ بالِ جبریل، ص ۲۲ - ۲۶ ۵۸؎ مثنوی مسافر، ص ۶۶ - ۶۷ ۵۹؎ ارمغانِ حجاز فارسی، ص ۱۵ ۶۰؎ ایضا، ص۷۸ ۶۱؎ د خوشحال خان خٹک کلیات، جلد اول، ص ۲۹ تا ۳۵ ۶۲؎ بالِ جبریل ، ص۱۵۴ ۶۳؎ جاوید نامہ، ص ۱۷۷ ۶۴؎ سلطنتِ غزنویان، ص ۲۰ و ۱۱۷ ۶۵؎ بانگِ درا، ص ۱۲۹ ۶۶؎ ایضاً، ص۱۶۵ ۶۷؎ ایضاً، ص۱۷۶ ۶۸؎ بانگِ درا، ص۲۶۱ ۶۹؎ بالِ جبریل، ص ۸۲ ۷۰؎ ایضاً، ص۱۱۲ ۷۱؎ ایضاً، ص ۱۲۸ ۷۲؎ ایضاً، ص ۱۴۶ ۷۳؎ اسرارِ خودی، ص ۳۷ ۷۴؎ ایضاً، ص۶۹ ۷۵؎ رموزِ بیخودی، ص ۱۱۶ ۷۶؎ پیامِ مشرق، ص ۱۴۹ ۷۷؎ ایضاً، ص۱۵۰ ۷۸؎ ایضاً، ص۱۷۲ ۷۹؎ ایضاً، ص۲۰۴ ۸۰؎ ایضاً، ص۲۱۳ ۸۱؎ زبورِ عجم،ص ۷۳ ۸۲؎ ایضاً، ص۱۰۴ ۸۳؎ ایضاً، ص۱۱۰ ۸۴؎ ایضاً، ص۱۱۸ ۸۵؎ ایضاً، ص۱۴۵ ۸۶؎ مثنوی مسافر، ص ۶۶ ۸۷؎ ایضاً، ص۷۱ - ۷۲ ۸۸؎ دائرۃ المعارف اسلامیہ، جلد ۱۱، ص ۸۸۰ - ۸۸۱ ۸۹؎ ضرب کلیم ، ص ۱۷۷ ۹۰؎ زبورِ عجم، ص ۱۹۳ - ۱۹۴ ۹۱؎ دائرۃ المعارف اسلامیہ،جلد ۹، ص ۹۱ تا ۹۶ ۹۲؎ اسرارِخودی، ص ۵۱ تا ۵۳ ۹۳؎ حکمائے اسلام، جلد دوم ، ص ۲۰۹ - ۲۱۳ ۹۴؎ امام رازی، ص ۲۷ تا ۴۳ ۹۵؎ بالِ جبریل، ص ۱۷ ۹۶؎ ایضاً، ص۳۴ ۹۷؎ ایضاً، ص۵۶ ۹۸؎ ایضاً، ص۷۱ ۹۹؎ ایضاً، ص ۷۸ ۱۰۰؎ ایضاً، ص ۸۳ ۱۰۱؎ رموزِ بیخودی، ص ۱۲۵ ۱۰۲؎ پیامِ مشرق، ص ۴۲ ۱۰۳؎ زبورِ عجم، ص ۱۰۴ ۱۰۴؎ ایضاً، ص۱۵۶ ۱۰۵؎ جاوید نامہ، ص ۴۲ ۱۰۶؎ ارمغانِ حجازفارسی ، ص ۶۹ ۱۰۷؎ ایضاً، ص ۱۳۷ ۱۰۸؎ دائرۃ المعارف اسلامیہ، جلد ۷، ص ۵۸ تا ۶۱ ۱۰۹؎ ضربِ کلیم، ص ۸۸ ۱۱۰؎ اسرارِ خودی، ص ۲۱ ۱۱۱؎ ارمغانِ حجاز فارسی، ص ۲۸۰ ۱۱۲؎ ارمغانِ حجاز فارسی، ص ۱۳۲۰ ۱۱۳؎ د افغانستان نومیالی، جلد ۳، ص ۴۷۸ - ۴۷۹ ۱۱۴؎ پیامِ مشرق، ص ۱۵ تا ۲۱ ۱۱۵؎ آریانا دائرۃ المعارف پشتو ، جلد ۷، ص ۹۸۳ - ۹۸۴ ۱۱۶؎ بالِ جبریل، ص ۱۵۳ ۱۱۷؎ جاوید نامہ، ص ۱۷۱ - ۱۷۲ ۱۱۸؎ ایضاً، ص ۱۷۳ ۱۱۹؎ ایضاً، ص۱۸۰ ۱۲۰؎ ایضاً، ص ۱۸۰ تا ۱۸۶ ۱۲۱؎ مثنوی مسافر،ص ۵۵ - ۵۶ ۱۲۲؎ ایضاً، ص ۶۱ تا ۶۳ ۱۲۳؎ ایضاً، ص ۸۰ ۱۲۴؎ آریانا دائرۃ المعارف ،جلد ۷، ص ۹۷۹ ۱۲۵؎ مثنوی مسافر، ص ۸۱ تا ۸۶ ۱۲۶؎ اقبال اور افغان، ص ۹۴ ۱۲۷؎ اقبال اور افغانستان، ص ۱۲۱ ۱۲۸؎ ضربِ کلیم، ص ۔۱۶۵ - ۱۶۶ ۱۲۹؎ مقالاتِ یومِ اقبال، ص ۲۸ - ۲۹ ۱۳۰؎ مجلہ کابل، ۲۲ جون ۱۹۳۲ئ، ص ۱۰ ۱۳۱؎ اقبال اور افغانستان ،مقالہ اکرام اللہ شاہدؔ، ص ۱۲۳ ۱۳۲؎ اقبال اور افغانستان (مقالہ) ، فتح محمد ملک، ص ۷ ۱۳۳؎ پیامِ مشرق، ص ۱۲ - ۱۳ ۱۳۴؎ اقبال اور افغان، ص ۱۱۱ ۱۳۵؎ اقبال اور افغانستان ، اکرام اللہ شاہد، ص ۱۳۳ ۱۳۶؎ مثنوی مسافر، ص ۵۸ ، ۶۰ ۱۳۷؎ اقبال افغان اور افغانستان ۱۷ تا ۲۱ ۱۳۸؎ پیامِ مشرق، ص ۱۵ - ۲۱ ۱۳۹؎ اقبال کی صحبت میں، ص ۱۴۰ ۱۴۰؎ اقبال کامل، ص ۲۴۲ ۱۴۱؎ اقبال اور عظیم شخصیات، ص ۱۶۱ - ۱۶۲ ۱۴۲؎ اقبال افغان اور افغانستان صفحہ ۷۹-۸۰ ۱۴۳؎ ایضاً صفحہ نمبر ۹۴ ۱۴۴؎ ایضاً صفحہ نمبر ۱۰-۸۱ ۱۴۵؎ اقبال اور عظیم شخصیات صفحہ نمبر ۱۶۳ ۱۴۶؎ ایضاً ،ص ۱۶۳-۱۶۴ ۱۴۷؎ اقبال افغان اور افغانستان صفحہ ۶۷ ۱۴۸؎ سفر نامہ اقبال، ص ۵۴ ۱۴۹؎ ایضاً ، ص ۱۴۵ ۱۵۰؎ سیرت اقبال، ص ۸۰-۸۱ ۱۵۱؎ اقبال افغان اور افغانستان ، ص ۱۹ ۱۵۲؎ روزگار فقیر، جلد اول، ص ۸۹ ۱۵۳؎ اقبال اور عظیم شخصیات (مقالہ علامہ اقبال اور نادرشاہ) از اختر راہی ؔ، ص ۱۶۵ ۱۵۴؎ سرحد میں جدو جہد آزادی، ص ۴۷۹ ۱۵۵؎ ہفت روزہ چٹان، ۱۸ فروری ۱۹۷۴ء ۱۵۶؎ اقبال اور عظیم شخصیات (مقالہ علامہ اقبال اور نادرشاہ) از اختر راہی ؔ، ص ۱۶۶ ۱۵۷؎ اقبال افغان اور افغانستان ، ص ۸۱ تا ۸۴ ۱۵۸؎ اقبال و افغان، ص ۱۱۷ ۱۵۹؎ اقبال افغان اور افغانستان، ص ۸۵تا ۸۷ ۱۶۰؎ اقبال اور عظیم شخصیات (مقالہ علامہ اقبال اور نادرشاہ) از اختر راہی ؔ، ص ۱۶۷ - ۱۶۸ ۱۶۱؎ اقبال افغان اور افغانستان، ص ۸۷-۸۸ ۱۶۲؎ د افغانستان ƒ*'‍¤œ ، ص ۲۶۴ ۱۶۳؎ اقبال افغان اور افغانستان، ص ۸۸ تا ۹۱ ۱۶۴؎ روحِ مکاتیب اقبال، ص ۳۹۴ ۱۶۵؎ د افغانستان ƒ*'‍¤œي ص ۲۶۴ ۱۶۶؎ اقبال افغان اور افغانستان، ص ۹۱ تا ۹۴ ۱۶۷؎ روحِ مکاتیب اقبال ص ۳۹۴ ۱۶۸؎ ایضاً، ص ۴۸۱ ۱۶۹؎ مجلہ کابل، ۲۲ مارچ ۱۹۳۵ئ، ص ۸۶ - ۸۷ ۱۷۰؎ اقبال اور عظیم شخصیات (مقالہ علامہ اقبال اور نادرشاہ) از اختر راہی ؔ، ص ۱۷۰ - ۱۷۱ ۱۷۱؎ اقبال افغان اور افغانستان، ص ۱۹ ۱۷۲؎ ایضاً ، ص ۹۸-۹۹ ۱۷۳؎ مثنوی مسافر، ص ۸۱ - ۸۶ ۱۷۴؎ روح مکاتیب اقبال، ص ۴۸۰ ۱۷۵؎ اقبال کا سیاسی سفر، ص ۲۰۵ ۱۷۶؎ اقبال افغان اور افغانستان، ص ۱۰۰ تا ۱۰۱ ۱۷۷؎ روح مکاتیب اقبال ، ص ۵۶۳ ۱۷۸؎ اقبال افغان اور افغانستان، ص ۱۰۱-۱۰۲ ۱۷۹؎ اقبال کا سیاسی سفر، ص ۲۰۷ ۱۸۰؎ اقبال افغان اور افغانستان، ص ۱۰۲ ۱۸۱؎ اقبال اور افغانستان ، اکرام اللہ شاہد، ص ۱۹۷ - ۱۹۸ ۱۸۲؎ اقبال افغان اور افغانستان، ص ۹۶-۹۷ ۱۸۳؎ اقبال ممدوح عالم، ص ۲۸۴ ۱۸۴؎ ایران میں اقبال شناسی کی روایت، ص ۱۴ (مقالہ ایران میں اقبال شناسی کا پس منظر ، سید محمد محیط طباطبائی) ۱۸۵؎ ایضاً، (مقالہ اہلِ ایران کی اقبال دوستی از ڈاکٹر محمد صدیق شبلی)، ص ۷۶ ۱۸۶؎ ایضاً، (مقالہ ایران میں اقبال شناسی کی روایت از ڈاکٹر سلیم اختر) ، ص۱۱۹ - ۱۲۰ ۱۸۷؎ ایضاً، (مقالہ ترجمانِ حقیقت فارسی شاعر علامہ محمد اقبال از سید محمد محیط طباطبائی ترجمہ ڈاکٹر محمد ریاض)ص ۱۳۵ ۱۸۸؎ روح مکاتیب اقبال، ص ۴۰۵ ۱۸۹؎ ایضاً، ص ۴۵۰ ۱۹۰؎ مثنوی مسافر، ص ۵۶ ۱۹۱؎ اقبال افغان اور افغانستان، ص ۷۰-۷۱ ۱۹۲؎ اقبال سید سلیمان ندویؔ کی نظر میں، ص ۲۰۴ ۱۹۳؎ ایضاً، ص ۲۰۵ - ۲۰۶ ۱۹۴؎ اقبال افغان اور افغانستان، ص ۲۲ ۱۹۵؎ اقبال سید سلیمان ندوی کی نظر میں ۱۹۶؎ روح مکاتیب اقبال، ص ۴۷۵ ۱۹۷؎ روح مکاتیب اقبال، ص ۴۷۶ ۱۹۸؎ ایضاً، ص ۴۷۷ ۱۹۹؎ اقبال افغان اور افغانستان، ص ۹۳ ۲۰۰؎ اقبال سید سلیمان ندویؔ کی نظر میں ، ص ۲۰۶ - ۲۰۷ ۲۰۱؎ روح مکاتیب اقبال، ص ۴۷۷ ۲۰۲؎ اقبال افغان اور افغانستان، ص ۲۳ ۲۰۳؎ ایضاً، ص ۲۲-۲۳ ۲۰۴؎ روح مکاتیب اقبال ،ص ۴۷۸ ۲۰۵؎ حرفِ اقبال، ص ۲۰۲ ۲۰۶؎ اقبال افغان اور افغانستان، ص۷۱ ۲۰۷؎ اقبال افغان اور افغانستان، ص ۷۷ ۲۰۸؎ ایضاً، ص ۷۱-۷۲ ۲۰۹؎ نقوشِ اقبال، ص ۲۵۷ ۲۱۰؎ سرگذشت اقبال، ص ۳۴۸ ۲۱۱؎ مثنوی مسافر، ص ۶۱ ۲۱۲؎ اقبال افغان اور افغانستان، ص ۷۲-۷۳ ۲۱۳؎ ایضاً، ص ۷۲ ۲۱۴؎ مثنوی مسافر، ص ۶۳ ۲۱۵؎ اقبال ریویو، جنوری ۱۹۷۶ئ، ص ۳۹ - ۴۰ ۲۱۶؎ اقبال اور افغانستان از اکرام اللہ شاہد، ص ۵۱ ۲۱۷؎ ایضاً، ص ۵۱ - ۵۲ ۲۱۸؎ مثنوی مسافر، ص ۶۲ ۲۱۹؎ ایضاً، ص ۶۳ ۲۲۰؎ مکالماتِ اقبال ، ص ۱۶۵ ۲۲۱؎ اقبال افغان اور افغانستان، ص ۷۸ ۲۲۲؎ سیرِ افغانستان، ص ۷ ۲۲۳؎ اقبال ریویو، جنوری ۱۹۷۶ئ، ص ۴۱ ۲۲۴؎ راقم کا انٹرویو خاطر غزنوی کے ساتھ، ۲۹ / اپریل ۲۰۰۳ء بمقام پشاور ۲۲۵؎ اقبال ریویو،جنوری ۱۹۷۶ئ، ص ۴۱ ۲۲۶؎ ایضاً، ص ۴۱ - ۴۲ ۲۲۷؎ سیرِ افغانستان ، ص ۹ ۲۲۸؎ اقبال ریویو، جنوری ۱۹۷۶ئ، ص ۴۱ - ۴۳ ۲۲۹؎ ایضاً، ص ۴۳ - ۴۴ ۲۳۰؎ ایضاً، ص ۴۷ - ۴۸ ۲۳۱؎ سیرِ افغانستان ، ص ۱۹ تا ۲۵ ۲۳۲؎ مطالعہ اقبال کے چند پہلو، ص ۵۳ ۲۳۳؎ مثنوی مسافر، ص ۶۴ - ۶۵ ۲۳۴؎ مقالاتِ یومِ اقبال ، ص ۳۰ ۲۳۵؎ اقبال و افغانستان از اکرام اللہ شاہد، ص ۶۶ ۲۳۶؎ ایضاً، ص ۵۲ ۲۳۷؎ اقبال ریویو،جنوری ۱۹۷۶ئ، ص ۴۸ ۲۳۸؎ سیرِ افغانستان ، ص ۲۷ - ۲۸ ۲۳۹؎ اقبال ریویو، جنوری ۱۹۷۶ئ، ص ۴۸ ۲۴۰؎ سیرِافغانستان ، ص ۶۸ ۲۴۱؎ مقالاتِ یوم اقبال ، ص ۳۰ ۲۴۲؎ نقوشِ اقبال، ص ۲۶۰ ۲۴۳؎ بالِ جبریل، ص ۲۲ ۲۴۴؎ مطالعہ اقبال کے چند پہلو، ص ۵۶ - ۵۸ ۲۴۵؎ مقالاتِ یوم اقبال، ص ۳۰ ۲۴۶؎ سیرِ افغانستان، ص ۳۰ ۲۴۷؎ مقالاتِ یومِ اقبال، ص ۳۰ ۲۴۸؎ سیر افغانستان ، ص ۳۰ ۲۴۹؎ اقبال ریویو، جنوری ۱۹۷۶ئ، ص ۴۹ ۲۵۰؎ سیرافغانستان، ص ۳۱ ۲۵۱؎ ایضاً، ص ۳۲ ۲۵۲؎ مثنوی مسافر، ص ۷۵ ۲۵۳؎ اقبال ریویو، ص ۵۰ ۲۵۴؎ مثنوی مسافر، ص ۷۷ - ۷۸ ۲۵۵؎ مطالعہ اقبال کے چند پہلو، ص ۶۳ ۲۵۶؎ اقبال ریویو، جنوری ۱۹۷۶ئ، ص ۵۱ ۲۵۷؎ ایضاً، ص ۵۱ ۲۵۸؎ خوشی محمد مرحوم کے بیٹے باوا سے انٹرویو ۲۵۹؎ اقبال افغان اور افغانستان، ص ۷۳تا ۷۵ ۲۶۰؎ حرفِ اقبال، ص ۲۰۳ - ۲۰۴ ۲۶۱؎ اقبال افغان اور افغانستان، ص ۷۶-۷۷ ۲۶۲؎ ایضاً، ص ۲۴ ۲۶۳؎ ایضاً، ص ۲۴-۲۵ ۲۶۴؎ اقبال ریویو، جنوری ۱۹۷۶ئ، ص ۵۳ - ۵۴ ــــــ باب دوم افغانستان میں اقبال شناسی کی روایت کا آغاز افغانستان میں اقبال شناسی کی روایت کاآغاز حضرت علامہ کی زندگی ہی میں ہواتھا۔ اس کے مختلف علل و اسباب ہیں۔ ایک تو یہ کہ علامہ کی شاعری کاایک تہائی حصہ فارسی زبان میں ہے اور فارسی اور پشتو افغانستان کی قومی زبانیں ہیں۔ ایک اور وجہ یہ بھی ہے کہ چونکہ حضرت علامہ افغانوں سے انتہائی محبت کرتے تھے ان سے کئی توقعات وابستہ تھیں اسی بنیاد پر ان کی شاعری میں جا بجا ملتِ افاغنہ سے متعلق افکار ملتے ہیں۔ اسی وجہ سے افغانوں کا اقبال سے محبت ایک فطری عمل ہے۔ (الف):افغانستان کے پہلے اقبال شناس:۔ افغانستان کے اقبال شناسوں میں پہلا نام عبدالہادی خان داویؔ کا ہے جبکہ دوسرا نام سرور خان گویاؔ کا آتا ہے۔ بقول ڈاکٹر محمد ریاض مرحوم ’’ افغانستان کے فضلاء کے ساتھ اقبال کے ذاتی مراسم بھی خاص اہمیت کے حامل ہیں۔ ڈاکٹر صلاح الدین سلجوقی اور سرورخان گویاؔ ان کے خاص احباب میں شامل تھے اور ان دونوں مرحومین کا سارا افغانستان ارادت مند اور معتقد ہے۔ (۱) جناب عبدالہادی داویؔنے غازی امان اللہ خان کے دور ہی میں پیامِ مشرق پر ایک طویل تبصرہ لکھ کر۲۴-۱۹۲۳ء میں ’’امان افغان‘‘ میں شائع کیا۔ جبکہ سرور خان گویاؔ کی پہلی باقاعدہ تحریر ’’ دکتور اقبال‘‘ کے عنوان سے مارچ ۱۹۳۱ء میں شائع ہوئی ہے۔ (۲) اقبال سے گویا ؔ کا یہ تعلق تادمِ مرگ جاری رہا۔ سردار صلاح الدین سلجوقی سے مراسم کے آغاز کا پتہ تو نہیں چل سکا البتہ حضرت علامہ کے مختلف مکتوبات میں سلجوقی کا تذکرہ ان کے باقاعدہ قریبی تعلق کا آئینہ دار ہے۔ ان میں پہلی مکتوب ۲۱ ستمبر ۱۹۳۱ء بنام منشی طاہرالدین کے نام ہے (۳) اور آخری مکتوب یکم اگست ۱۹۳۷ء بنام لیڈی مسعود کے نام ہے۔ (۴) سرورخان گویاؔ اور صلاح الدین سلجوقی کے بعد سردار احمد علی خان ایک اور افغان اقبال شناس ہیں جنہوں نے افغانستان میں اقبال شناسی کی بنیادوں کی آبیاری کی۔ آپ اسلامیہ کالج لاہور کے فارغ التحصیل تھے۔ اور انجمن ادبی کابل کے سیکرٹری اور روح رواں تھے۔ (۵) آپ کی تحریر ’’علامہ اقبال‘‘ کے عنوان سے جون ۱۹۳۲ء میں شائع ہوئی ہے۔ (۶) اس دوران دارالمعلمین کابل کے ایک استاد جناب محمد سکندر خان کا ایک مقالہ تنزل و انحطاطِ اسلام دسمبر ۱۹۳۲ء میں شائع ہوا ہے(۷)۔ یہ مقالہ علامہ کے اسلامی افکار و نظریات کی روشنی میں ترتیب دیا گیا ہے۔ جبکہ محمد سکندر خان کی دیگر تحریرات نظر سے نہیں گزریں۔ اکتوبر ۱۹۳۳ء میں حضرت علامہ کے سفرِ افغانستان کے بعد وہاں اقبال شناسی میں روز افزوں اضافہ ہوا۔ اس دور کے اقبال شناسوں کے سرخیل علامہ عبدالحئی حبیبی ہیں۔ جنہوںنے یکم نومبر ۱۹۳۳ء کو قندہار میں علامہ سے ملاقات کی۔(۸) اور علامہ حبیبی ؔجنوری ۱۹۳۴ء میں علامہ کے فکر کے زیرِ اثر ایک طویل فارسی نظم علامہ ہی کی تضمین پر شائع کی۔ (۹)مقالات کے علاوہ علامہ کے فکر ی اثر میں ’’ دردِ دل و پیامِ عصر‘‘ منظوم فارسی اثر یادگار چھوڑے ہیں۔ افغانستان کے پہلے اقبال شناسوں میں جناب قیام الدین خادم کا نام لینا بہت ضروری ہے کیونکہ آپ وہ پہلے پشتون شاعر ہیں جنہوں نے باقاعدہ حیاتِ اقبال ہی میں کلام اقبال کے پشتو منظوم تراجم کی بنیاد رکھی جس کا پہلا حصہ فروری ۱۹۳۷ء میں شائع ہوا۔ (۱۰) سید قاسم رشتیا بھی افغانستان کے پہلے اقبال شناسوں میں سے تھے ۔ آپ نے ۱۹۳۳ء میں علامہ سے ملاقات بھی کی تھی جبکہ بعد میں لاہور میں بھی ان کی صحبت سے فیض یاب ہوئے تھے۔ (۱۱) علامہ کی وفات پر طویل مقالات لکھے۔ (۱۲) گل باچا الفت کو بھی علامہ کا طویل پشتو مرثیہ انہیں افغانستان کے ابتدائی اقبال شناسوں میں شامل کراتا ہے۔ (۱۳) جبکہ غلام دستگیر خان مہمند بھی ’’رثای اقبال‘‘ (۱۴)کی بنیاد پر اس کے حقدار ہیں۔ افغانستان کے ان پہلے اقبال شناسوں کے سوانحی تذکروں میں ان کے طویل اقبالیاتی خدمات پر تحقیق کی گئی ہے۔ (ب):افغانستان میں اقبال شناسی: از آغاز تا وفات اقبالؒ ۲۱ / اپریل ۱۹۳۸ئ: ۲۴-۱۹۲۳ء کابل کے ’’امان افغان‘‘ اخبار میں پیام مشرق پر عبدالباری خان راوی کا تبصرہ مسلسل تین اقساط میں شائع ہوا۔(۱۵) یہ تبصرہ بعد میں افغانستان و اقبال(۱۶) از صدیق رہپو میں شائع ہوا اور ڈاکٹر عبدالرئوف رفیقی کے سیر اقبال شناسی در افغانستان میں بھی شائع ہوا۔ (۱۷) -------- مئی ۱۹۲۴ء افغانستان کے شاہ امان اللہ خاں اپنی حکومت کے انتہائی عروج کی منزلیں طے کر رہے تھے۔ ڈاکٹر صاحبہ (علامہ اقبال) کا کلام کابل کے ایک عظیم الشان مجلس میں پڑھا گیا جس میں شاہ ممدوح، سفراے رول خارجہ، عمائدین شہر وزیر تعلیم اور دوسرے وزرا بھی شامل تھے۔ یہ جلسہ طلبہ کے تقسیم انعامات کا تھا۔ اس میں ہمارے ملک الشعرا ہند کا مشہور قومی ترانی ’’مسلم ہیں ہم وطن ہے سارا جہاں ہمارا‘‘ بچوں نے اپنے پیارے اور سادے لہجے میں سنایا۔ پھر جب فوجی بینڈ نے اسے دہرایا تو حاضرین پر رقت طاری ہو گئی۔‘‘(۱۸) -------- علامہ کے اشعار کابل میں طلبہ تعلیمی اداروں میں ترانوں میں پڑھتے ہیں۔ اس کا حوالہ ایس تدریسات عمومی افغانستان نے اعلیٰ حضرت غازی امان اللہ خاں کی عظیم الشان چشم دید داستان افغان بادشاہ میں دیا ہے۔ پہلی دفعہ اس عہد میں طلبہ نے ترانے پڑھنے شروع کیے جن کا موضوع بیشتر استقلال و حریت آئین و قانون، اور علم و عرفان ہوتا ہے۔ جو ذات شاہانہ کی ہمت معدلت، اور روشن فکری سے حاصل ہو۔ نافذ اور جاری ہوئے ہیں۔ کہیں ملت کی تنگ مکانی کاگماں نہ ہو۔ حضرت اقبال کا ’’مسلم ہیں ہم وطن ہے سارا جہاں ہمارا‘‘ بھی ذوق و شوق سے پڑھا اور سنا گیا تھا۔ اگرچہ یہاں اردو جاننے والے ملح فی الطعام کے برابر بھی نہیں ہیں۔‘‘(۱۹) ۱۵ حوت ۱۳۱۰ ھ ش / ۵ مارچ ۱۹۳۱ئ: حضرت علامہ سے متعلق سرور خان گویاؔ کا پہلا مقالہ بعنوان ’’دکتور اقبال‘‘ مجلہ’’ کابل‘‘ میں شائع ہوا۔ (۲۰) یہ مقالہ بعد میں سید اقبال شناسی در افغانستان میں بھی شائع ہوا۔(۲۱) اول سرطان ۱۳۱۱ھ ش/ ۲۲ جون ۱۹۳۲ئ: حضرت علامہ کی شخصیت سے متعلق احمد علی خان درانی مدیر انجمن ادبی کابل کا مقالہ ’’علامہ اقبال‘‘ شائع ہوا۔ (۲۲) یہ مقالہ دوسری بار افغانستان و اقبال (۲۳)تیسری بارسیر اقبال شناسی در افغانستان اور چوتھی بار افغانستان و اقبال کے عنوان سے علامہ اقبال در ادب فارسی و فرھنگ افغانستان(۲۴) میں شائع ہوا ہے۔ اول سرطان ۱۳۱۱ھ ش/ ۲۲ جون ۱۹۳۲ئ: مجلہ کابل میں علامہ کا اپنے خط سے ارسال کردہ درج ذیل نظم ’’خطاب بہ ملت کوہسار‘‘ مع فوٹو شائع ہوئی۔ ؎ صبا بگوی بہ افغانِ کوہسار از من بمنزلی رسید ملتی کہ خود نگر است مریدِ پیرِ خرابائیانِ خودبین شو نگاہِ او ز عقابِ گرسنہ تیز تر است ضمیر تست کہ نقشِ زمانۂ نو کشید نہ حرکت فلک ست ایں، نہ گردشِ قمر است دگر بسلسلۂ کوہسارِ خود بنگر کہ تو کلیمی و صبحِ تجلیِ دگر است بیا بیا کہ بہ دامانِ نادر آویز یم کہ مرد پاک نہا داست و صاحبِ نظر است یکی است ضربت اقبال و ضربتِ فرہاد جز ایں کہ تیشۂ مارا نشانہ بر جگر است (۲۵) علامہ کا اپنے خط سے لکھا ہو اپنی نظم افغانستان اور اقبال میں بھی شائع ہوا ہے۔(۲۶) اول سنبلہ ۱۳۳۱ھ ش/ ۲۲، اگست ۱۹۳۲ئ: مجلہ ’’کابل ‘‘میں علامہ کے بھیجے گئے درج ذیل اشعار ’’افغان و ایران‘‘ کے عنوان سے شائع ہوئے: ؎ آنچہ بر تقدیر مشرق قادر است عزم و حزم پہلویؔ و نادرؔ است پہلوی آن وارث تخت قباد ناخن او عقدۂ ایران کشاد نادر آں سرمایۂ درانیان آن نظام ملت افغانیان از غم دین و وطن زار و زبون لشکر اش از کوہسار آمد برون ھم سپاہی، ھم سپہ گر، ھم امیر با عدو فولاد و بایاراں حریر! من فدای آنکہ خود را دیدہ است عصر حاضر را نکو سنجیدہ است! غریبان را شیو ھائی ساحری است تکیہ جز برخویش کردن کافری است (۲۷) متذکرہ بالا اشعار بعد میں جاوید نامہ میں’’ آں سوئے افلاک‘‘ میں ابدالیؔ کے ضمنی عنوان سے شائع ہوئے۔ (۲۸) اور یہ اشعار سید اقبال شناسی در افغانستان میں بھی شائع ہوئے ہیں۔(۲۹) اول سنبلہ ۱۳۱۱ ھ ش/ ۲۲، اگست ۱۹۳۲ئ: مجلہ کابل میں ملت افغان کے عنوان سے علامہ کے اشعار شائع ہوئے۔ (۳۰) ۱۱ - ۱۳۱۲ھ ش: سالنامہ کابل میں ’’تصاویر بعضی از اعضائی ممتاز کانفرنس میز مدور‘‘ نمائندہ ہائے مسلم کے سلسلے میں سر محمد اقبال صاحب اور والا حضرت سر آغاخان کی تصاویر چھپی ہیں۔ (۳۱) اسی طرح اس شمارے میں گول میز کانفرنس کا ایک اور گروپ فوٹو بھی چھپا ہے جس میں حضرت علامہ نمایاں ہیں۔(۳۲) اول جدی ۱۳۱۱ھ ش ۲۲ دسمبر ۱۹۳۲ء مجلہ کابل میں دارالمعلمین کابل کے معلم محمد سکندر خان کا مقالہ بعنوان تنزل و انحطاط اسلام کے عنوان سے شائع ہوا جس میں علامہ کو ’’ترجمان حقیقت‘‘ کا خطاب دیا گیا ہے۔(۳۳) یہی مقالہ بعد میں سیر اقبال شناسی در افغانستان(۳۴) میں شائع ہوا ہے۔ ہفتہ ۲۸/ اکتوبر ۱۹۳۳ئ: انجمن ادبی کابل کی طرف سے حضرت علامہ اور ان کے شرکائے سفر کے اعزاز میں رات ساڑھے سات بجے کابل ہوٹل میں ایک پُرتکلف ضیافت کا اہتمام کیا گیا(۳۵) ۔ اس کی تفصیلات مجلہ کابل کے ۲۲دسمبر ۱۹۳۳ء کے تحت آئیں گی۔ عقرب ۱۳۱۲ھ ش : مجلہ کابل میں ورود معارف ہند کے عنوان سے درج ذیل خبر چھپی ہے: شاعر شہیر و فیلسوف نامدار عالم اسلام علامہ داکتر سر محمد اقبال صاحب و جناب ڈاکٹر سر راس مسعود حمید صاحب رئیس مسلم یونیورسٹی علی گڑھ پروفیسر ہادی حسن صاحب معلم ادبیات فارسی و آقائی غلام رسول خان بیرسٹر معلم سابق مکتب حبیبہ کابل بروز ۲۹ میزان از طریق پشاور جلال آباد وارد کابل شدہ از طرف معززین و فضلاتی کابل با نہایت صمیمت پذیرائی شدہ میروند۔ این مہمانان محترم بعد چند روزہ توقف کابل دوبارہ معاودت بہ ہند خواھند فرمود ماقدوم این فضلائی نامور کشور ہند رادر خاک وطن عزیز خیلی مسعود دانستہ و امیدواریم روابط حسنہ علمی و ادبی ما و ہند بیشتر از بیشتر قایم شود ترجمہ: عالمِ اسلام کے مشہور شاعر و فلسفی علامہ ڈاکٹر سر محمد اقبال صاحب، وائس چانسلر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی جناب سر راس مسعود حمید صاحب ،ادبیات فارسی کے استاد پروفیسر ہادی حسن صاحب اور مکتب حبیبہ کابل کے سابق استاد بیرسٹر جناب غلام رسول خان صاحب مورخہ ۲۹ میزان پشاور اور جلال آباد کے راستے کابل تشریف لائے ۔جہاں کابل میں معززین اور علماء و فضلاء نے ان معزز مہمانوں کا نہایت پرجوش استقبال اور پذیرائی کی۔ ہمارے یہ معزز مہمان کابل میں چند روز قیام کے بعد دوبارہ ہندوستان تشریف لے گئے۔ ہم ہندوستان کے ان نامور ہستیوں کا وطن عزیز افغانستان میں تشریف آوری کو نہایت خوش بختی کی علامت سمجھتے ہیں۔ اور امید رکھتے ہیں کہ ہمارے اور ہند کے درمیان علمی رابطے مزید مستحکم و مضبوط ہوں گے۔ (۳۶) یہی خبر بعد میں افغانستان و اقبال میں بھی شائع ہوئی ہے۔(۳۷) اول جدی ۱۳۱۲ ھ ش/ ۲۲نومبر ۱۹۳۳ئ: مجلہ کابل میں حضرت علامہ کے سفرِ افغانستان کے دوران انجمن ادبی کابل کی تقریب کی تفصیلات شائع ہوئیں۔ یہ تقریب ۲۸، اکتوبر ۱۹۳۳ء بشب ساڑھے سات بجے کابل ہوٹل میں منعقد ہوئی تھی۔ اس تقریب میں اہلِ علم ، معززین شہر ، اربابِ اختیار اور علمی وادبی شخصیات شامل تھیں۔ سب سے پہلے انجمن ادبی کابل کے صدر نے فارسی میں مہمانوں کو خیر مقدمی کلمات کہتے ہوئے خطاب کیا۔ (۳۸) اس خطاب کا متن چونکہ نایاب ہوتا جارہا تھا اور میں نے پاکستانی مطبوعات میں کہیں نہیں پایا لہٰذا مجلہ کابل سے من و عن نقل کیا جاتا ہے: سواد بیانیۂ رئیس انجمن ادبی کابل فضلائی محترم اجازہ بفرمائید کہ ہیت انجمن ادبی کابل بنام ادباء و اہلِ قلم افغانستان، احساسات مملو از محبت و صمیمیت خود ھا را بحضور تان عرض واز تشریف آوری جنابان شما اظہار شکریہ کرد، (خوش آمدید) و صفا آوریدبگویند۔ کشور پنہاور ہند، کہ ہمیشہ مہد پرورش فضلائی نام آور و ادبای بزرگ بودہ، و در آغوش خود رجال معروف و سخنواران شہری از قبیل بیدلؔ ہمہ دل ، صائبؔ اصفہانی ، حکیمؔ ، سلیمؔ، طالبؔ آملیؔ، فیضؔ فیاضی، بالاخرہ شبلی نعمانی و امروز صاحبان قریحہ بلندی ہمچہ فیلسوف شہیر اجتماعی مثل اقبال سخنور و فرزندان بزرگ مثل سر راس مسعود وعلامہ سید سلیمان ندوی و پروفیسر معروف ھادی حسن بعرصۂ وجود آوردہ است۔ البتہ آن خاک بزرگ مستعد گہوارہ علم و فضل مشرق بشمار بودہ و ماخیلی آنرا بااحترام مینگریم ستارہ ھائی روشن افق ہند کبیر ہموارہ در فضائی گیتی پرتو انداختہ و برائی عزت و سربلندی مشرق و مشرقیان خدمات و مجہودات خیلی بزرگ و باقیمتی کردہ است۔ پس ما اگر فضلائی بزرگ فرزانہ آن کشورنامی امثال حضرت عالی شمارا درخاک خودی می بینیم بد یہیست خورسند و مسرور گردیدہ و بہ استعداد بلند مشرق افتحار میناییم۔ مشرق عظمت گذشتہ ، مشرق متمدن قدیمہ کہ مہد علم و تربیت جہان و منبع فضل و ادب آنروزہ بود، و ذخائر باقیمتش تا ہنوز بس ملل مترقیۂ دنیائی امروزہ را ثروتمند و غنی گردانیدہ است ممکن بود۔ شرق در اثر پس ماندگی ھائی امروزہ از خاطرھا فراموش شود ولی می بینیم قومیکہ امروز از شرقیان برایٔ احیائی نام شوون و افتحارات گذشتہ این سرزمین عزیز بانہایت جدیت و علاقہ مند خدمت میکند فرزندان و نام آوران صحیح ہند است۔ دارالفنون بزرگ علی گڑہ کہ امروز از بہترین مراجع تحصیل فضل و کمال اولادشرقی شمرد میشود، نتیجہ ہمت و شاہد فتوت و جوان مردی و شرق دوستی فاضل مغفور حضرت سید احمد کبیر یعنی یادگار برجستہ یکی از فرزندان نجیب کشور ہند است! آثار و مؤلفات پر قیمت حضرت اقبال کہ ہر کدام روح اخلاق ، سعی، عمل، اسرار مہمۂ اجتماعی و بالا خرہ عواطف نفیسہ شرق دوستی و اسلام پرستی را در اجساد افسردہ شرقیان مید مد ہمہ نمونہ ھائی ہمت و مجاہدات اولاد کشور ہند است۔ ہنگامیکہ شاہانِ علم دوست وادب پرور افغانستان یعنی عزنویان ، غوریان ازین کہسار رخت سفر بربستہ علوم و ادبیات را درکشور مایتیم گذاشتند فقط ملت قابل و مستعد ہند بود کہ باحیائی آثار پر قیمت شعرا و فضلائی آن سرزمین ہمت گذاشتند ، وآن جواہرات گران بہار تا امروز محفوظ نمودند۔ امروزمی بینم در مملکت شرق دوستداران شعرا و فضلائی بلخ و غزنی و قیمت شناسان رجال معروفہ افغانستان و تازہ کنندہ نام و آثار فضلا و بزرگان شرق و اسلام بیشتر ملت بزرگ و مردان حق شناس کشور ہند است۔ امروز کہ در اثر رحمت بیکرانہ حضرت باری، افغانستان ما از ورطہ ہائی خیلی خونین و ہولناکی نجات یافتہ و زمام ادارہ آن بکف باکفایت فرزند علم دوست و ادب پرور این کشور یعنی اعلیٰحضرت محمد نادر شاہ غازی و یگانہ مجدد شرافت و شوون افغانستان قدیم رسیدہ ، و درسایہ مجاہدات این شہر یار بزرگ میخواہد علم و ادب حیات و شوون تاریخی خود را تجدید نمایدمی بینیم ہمدردی و پذیرائی ھائی خوبی بیشتر از فضلائی ہند می شود۔ یعنی حساس و ادراک نفیس ملت نجیب ہند بہ ہمچہ مطالب سود مند عالم اسلام و شرق بیشتر اہمیت دادہ تقدیر مینماید ہند و ایران وافغانستان کہ وطن ادبیات فارسی و سرزمین شعرائی بزرگ و بلند قریحہ شرق اندا البتہ قیمت رجال و فضلائی ہمدیگر خود را خوبتر بہ نظر محبوبیت دیدہ و افتخار توامی درجہان دارند ۔ بالاخرہ میگویم: فضلائی محترم! کشور ہند نہ تنہا بلکہ عموم خاک شرق وطن معنوی شما ست و آن آرزو ھاو نہایت بلندی کہ دارید ھدف مقصود شما خاک شرق است شرقیان بالخاصہ افغانستان مامو فقیت ھارا در راہ این آمال بزرگ تان یعنی عظمت سرزمین شرق از خدا تمنامی نماید ۔ضمنا میگویم گرچہ کوہسار افغانستان خالی از تجملات مغرب است و این سرزمین برائی مسرت پرتکلف مادی ہنوز موقعی نیافتہ شاید خوشگذرانان ممالک خارجہ مسافرت و سیاحت اینجا را نپسند ندولی مایقین داریم حساسین و صاحبان فضل و قریحہ میدانند کہ این سرزمین وطن سلطان محمود غزنوی ، مرزوبوم غوریان و ابدالیان، مسقط الراس ابن سینائی بلخی، سنائی غزنوی، عنصری، عسجدی، دقیقی، فاریابی بالاخرہ سید جمال الدین افغانست۔ البتہ میدانند کشور افغانستان مامن ملتی است کہ افراد آں عموما اسلامیت و شرقیت رادوستدار صمیمی بودہ و محل حکمرانی پادشاہ شریفی مثل اعلیٰ حضرت محمد نادر شاہ غازی ویگانہ ھوا خواہ عزت و اعتلائی عالم اسلام و شرق است۔ آخر عرض میکنیم این مجلس کہ بہ افتخارشما ترتیب یافتہ نمونۂ ایست از ابراز عواطف و احساسات ادبا و فضلائی ملت و حکومت افغانستان وما آرزو داریم حضرت محترم شما در کشور عزیز خود این ھدیہ راکہ مقصد از محبت و صمیمیت خالصانہ ماست نمایندہ شدہ و بعموم برادران محترم ہندی سلام و احترام دوستانہ مارا برسانید، و ازین علایق قلبی و معنوی ما کہ از سالہا بہ نسبت ملت محترم ہند دردل دا ریم بہ آہنا تذکری بد ھید۔ درخاتمہ از قبول این زحمت کہ حضرت شما بما افتخار بخشیدہ و دعوت انجمن مار اپذیر فتہ اید خیلی ممنون و متشکر بودہ سعادت و موفقیت شما و ملت بزرگ ہند را از خدا تمنا مینا ییم۔ در آخر میگویم مترقی باد عالم شرق و مسعود باد عالم اسلام۔ (۳۹) اس بیانیے کا اردو ترجمہ اس محفل میں شریک اقبال کے ہمرکاب مولانا سید سلیمان ندویؔ نے سیرِ افغانستان میں یوں کیا ہے: خطابۂ خیر مقدم جناب رئیس انجمن ادبی کابل فضلائے محترم ! اجازت دیجئے کہ افغانستان کے ادباء اور اہلِ قلم کی یہ ادبی مجلس اپنے خلوص و محبت کے جذبات کو جناب کے سامنے پیش اور آپ کی تشریف آوری پر اظہار شکر کرتے ہوئے خوش آمدید اور صفا آورید کہے۔ ہندوستان کا وسیع ملک جو ہمیشہ سے نامور فاضلوں اور بڑے بڑے ادیبوں کا گہوارہ رہا ہے ۔ اور جس نے اپنی آغوش میں بڑے بڑے مشہور لوگوں اور معروف سخنوروں مثلاً سراپا دل بیدلؔ، صائبؔ، اصفہانیؔ، کلیمؔ ، سلیمؔ، طالب آملیؔ، فیض فیاضیؔ، اور آخر میں شبلی نعمانی اور آج صاحبانِ فکر بلند مثلاً مشہور اجتماعی فلسفی شاعر اقبال اور فرزندانِ جلیل القدر مثلاً سر راس مسعود علامہ سید سلیمان ندوی اور مشہور پروفیسر ہادی حسن کو پیدا کیا ہے۔ یقینا وہ خاک پاک ایشیا میں علم و فضل کا گہوارہ ہے۔ اور ہم اس کو بڑے احترام کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ ہندوستان کے اُفق کے روشن ستاروں نے ہمیشہ فضائے عالم پرپر توافگنی کی ہے۔ اور ایشیا و اہلِ مشرق کی عزت اور سربلندی کے لئے بہت بڑی اور قیمتی خدمتیں اور کوششیں کر دکھائی ہیں۔ پس اگر ہم اس مشہور ملک کے آپ جیسے بزرگ و فرزانہ فضلاء کو اپنے ملک میں دیکھتے ہیں تو یہ با لکل کھلی ہوئی بات ہے کہ ہم خوش اور مسرور ہوکر ایشیا کی بلند صلاحیت اور استعداد پر فخر کریں گے۔ ایشیا عظمت گذشتہ ایسا متمدن قدیم جو کسی زمانہ میں دنیا کے علم و تربیت کا گہوارہ اور فضل و ادب کا سرچشمہ تھا اور جس کے قیمتی ذخیرے آج تک دنیائے موجودہ کی بہت سی ترقی یافتہ قوموں کو دولت مند بنائے ہوئے ہیں ۔ ممکن تھا کہ وہ ایشیا موجودہ پستی و پسماندگی کی وجہ سے دلوں سے فراموش ہوجاتا لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ اہلِ ایشیا میں جو قوم اس سرزمین کے نام تاریخ اور مفاخر کو زندہ اور روشن کرنے میں بے انتہا جدو جہد سے خدمت کررہی ہے وہ ہندوستان ہی کے سچے اور نامور فرزند ہیں۔ علی گڑھ کا عظیم الشان دارالعلوم (یونیورسٹی) جو فرزندانِ ایشیا کا بہترین علمی مرکزشمار ہوتا ہے وہ کشور ہند کے ایک فرزند نجیب سر سید اعظم کی ہمت جوانمردی اور مشرق دوستی کی ایک یادگار ہے! حضرت اقبال کے قیمتی آثار و تالیفات جن میں سے ہر ایک نے اخلاق، سعی، عمل اسرار،اجتماع جذبات مشرق دوستی اور احساساتِ اسلام کی اہلِ ایشیا کے جسموں میں روح پھونکی ہے۔ یہ سب ملک ہند کے فرزندوں کی ہمت اور مجاہدات کے نمونے ہیں۔ جس زمانہ میں افغانستا ن کے علم دوست اور ادب پرور بادشاہ یعنی غزنوی اور غوری اس کہسار سے رختِ سفر باندھ کر علوم و ادبیات کو ہمارے ملک میں یتیم چھوڑ گئے تو اس وقت صرف ہندوستان ہی کی مستعد قوم تھی جس نے ہماری سرزمین کے شعراء و فضلاء کے قیمتی آثار اور گراں بہا جواہرات کو آج تک کے لئے محفوظ کردیا۔ آج ہم دیکھتے ہیں کہ اقلیمِ ایشیا میں بلخ و غزنی کے شعراء وفضلاء کے قدر دان ، مشاہیر افغانستان کے قیمت شناس اور اکابر ایشیا و اسلام کے نام و آثار کو تازہ کرنے والے زیادہ تر ہندوستان ہی کے بزرگ اور حق شناس افراد ہیں۔ آج جبکہ باری تعالیٰ کی بے انتہا رحمت کے فیض سے ہمارا افغانستان سخت خونین اور ہولناک بھنور سے نجات پاکر ایک علم دوست اور ادب پرور فرزند یعنی اعلیٰ حضرت محمد نادر شاہ غازی مجدد شرف و تاریخ افغانستانِ قدیم کے لائق ہاتھوں میںپہنچ گیا ہے۔ اور اس شہر یار بزرگ کی کوششوں کے سایہ میں اپنے علم و ادب اور تاریخ کی تجدید کرنا چاہتا ہے۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ زیادہ تر ہمدردی اور پذیرائی فضلائے ہند کی طرف سے ہورہی ہے۔ یعنی ہندوستان کی شریف قوم کا شریف احساس و ادراکِ اسلام و ایشیا کے متعلق تمام مفید مقاصد کا زیادہ اہمیت کے ساتھ اندازہ لگا رہا ہے۔ ہندوستان ، ایران اور افغانستان جو ادبیاتِ فارسی کا وطن اور شعرائے عظام و عالی خیال کے ملک ہیں آپس میں ایک دوسرے کے اکابر اور شعراء کو بہت محبوب نظروں سے دیکھتے ہیں ۔ اور اس پر دنیا کے سامنے تو ہم فخر کرتے ہیں۔ آخر میں ہم کہتے ہیں اے محترم فاضلو! نہ تنہا ملک ہندوستان بلکہ سارا ایشیا آپ کا معنوی وطن ہے اورآپ کی بلند تمنائیں اور ارادے جو آپ رکھتے ہیں ۔ اور آپ کے مقصود کا ہدف خاکِ مشرق ہے ۔ تمام اہلِ ایشیا خاص کر ہمارا افغانستان آپ کی بڑی امیدوں یعنی مشرق کی عظمت کی راہ میں خدا سے توفیق کی آرزو کرتا ہے۔ ضمناً ہم کہتے ہیں کہ اگرچہ افغانستان کا کوہستان یورپ کے تکلفات سے خالی ہے اور اس سرزمین نے اب تک مادی پرتکلف مسرت کا کوئی موقع نہیں پایا ہے ۔ اس لئے ممکن ہے کہ بیرونی ممالک کے خوش گزر یہاں کے سفر اور سیاحت کو پسند نہ کریںلیکن ہمیں یقین ہے کہ اربابِ علم خوب جانتے ہیں کہ یہ سرزمین سلطان محمود غزنوی کا وطن ہے ،غوریوں اور ابدالیوں کا مرزبوم ہے۔ ابن سینائے بلخی، سنائی غزنوی، عنصری، عسجدی، دقیقی، فاریابی اور آخر میں سید جمالدین افغانی کا مسقط الراس ہے۔ یقینا سب جانتے ہیں کہ کشورِ افغانستان اس قوم کا جائے پناہ ہے جس کے افراد عموماً اسلامیت اور ایشیائیت کے مخلص دوست تھے۔ اور ایک شریف بادشاہ اعلیٰ حضرت محمد نادر شاہ غازی کا پایہ تخت ہے جو دنیائے اسلام و ایشیا کی عزت و بلندی کے تنہا ہوا خواہ ہیں۔ آخر میں ہم عرض کرتے ہیں کہ یہ جلسہ جو آپ کے اعزاز میں منعقد ہوا ہے ایک نمونہ ہے افغانستان کی قوم اور حکومت کے ادباء و فضلاء کے اظہار جذبات و احساسات کا اور ہم کو آرزو ہے کہ آپ حضرات اپنے پیارے وطن میں اس ہدیہ کے نمائندے بنیں گے جس سے مراد ہماری، خالص احترام و اخلاص ہے۔ اور ہمارے معزز ہندوستانی بھائیوں کو عام طور پر ہمارا اسلام اور دوستانہ احترام پہنچائیں گے۔ اورہمارے معززان دلی و معنوی تعلقات کا ان سے تذکرہ کریں گے جو سالہاسال سے ہمارے دل کے اندر ہندوستان کے محترم قوم کی نسبت موجود ہیں۔ خاتمہ میں اس زحمت کو قبول کرکے جو آپ حضرات نے ہم کو بخشی اور ہماری انجمن کی دعوت کو قبول فرمایا اس کے ہم بہت ممنون اور متشکر ہوئے ہیں۔ آپ حضرات اور ہندوستان کی بزرگ قوم کی سعادت اور توفیق یابی کے خدا سے آرزومند ہیں۔ آخر میں ہم کہتے ہیںمترقی باد عالمِ شرق ! مسعود باد عالمِ اسلام۔ (۴۰) اس کے بعد افغانستان کے ملک الشعراء قاری عبداللہ نے مہمانوں کے اعزاز میں فارسی منظوم خیرمقدم پیش کیا۔ جو قاری عبداللہ کے اقبالیاتی خدمات میں درج کی جاتی ہے۔ اس کے بعد مہمانوں کی طرف سے پروفیسر ہادی حسن نے ایرانی فارسی زبان میں ایک تقریر کی جس میں نوجوان افغانوں کو شعر و سخن کی بجائے مغربی علوم و فنون کی تحصیل کی ترغیب دی تھی۔ (۴۱) پروفیسر ہادی حسن کے خطاب کے بعد جناب سر راس مسعود نے خطاب کیا۔ یہاں ایک نکتے کی طرف اشارہ ضروری سمجھتا ہوں کہ انجمن ادبی کابل کا خیر مقدم فارسی میں تھا۔ باقی حضرات سر راس مسعود ڈاکٹر علامہ محمد اقبال اور سید سلیمان ندویؔ کے خطاب کی زبانوں کا پتہ نہیں چلا۔ کیونکہ مجلہ کابل میں ان حضرات کے جو خطابات شائع ہوئے ہیں ان میںبھی ترجمہ نطق جناب۔۔۔(۴۲) درج ہے اور سید سلیمان ندویؔ نے سیر افغانستان میں مجلہ کابل کے متعلقہ شمارے کا حوالہ دے کر تحریر فرمایا کہ ’’ یہ تقریریںدسمبر ۱۹۳۲ئ(۱۹۳۲ء کتابت کی غلطی ہے اصل دسمبر ۱۹۳۳ء ہے) کے رسالہ کابل میں بزبانِ فارسی شائع ہوئی ہیں ۔ ہم ان کا ترجمہ رسالہ مذکور سے لے کر درج کررہے ہیں(۴۳)۔ بہر حال مجلہ کابل سے سرراس مسعود صاحب کے خطاب کا متن نقل کیا جاتا ہے: ترجمہ نطق جناب سر راس مسعود صاحب:۔ آقایان محترم و میزبان مہربان! از کمال خلوص اظہار مسرت و تشکر می نمایم و از عہد ہ شکرانہ ایں التفات و پذیرائی کہ درحق بندۂ مبذول فرمودید نمیتوانم بدر ایم میخوا ھیم احساسات و جذبات قلبی مسلمانان ہندوستان رابہ شما ھا برسانم۔ از میان ماھا علامہ سید سلیمان ندوی نمایندہ علما ی کشور ہند میبا شد و دوست محترم من علامہ اقبال نمائندہ آن طائفہ است کہ عناصر قدیم و جدید راباہم آمیختہ و یک معجون روح پرور از آں ترکیب نمودہ است۔ خودمن نہ از گرو علما میباشم و نہ از فرقہ شعرا، بلکہ دورۂ تعلیمات خودم رابیشتر درممالک اروپا طی کردہ ام۔ ولی قلب من از عظمت و احترام این دود زمرہ سرشار و لبریز است۔ شمارا یقین میدھم کہ مسلمانان ہند یک محبت و علاقہ مندی فوق العادہ نسبت بہ شما دارند و آرزوئی قلبی ما ہمین است کہ افغانستان عزیز را درحالت ترقی متمدن و رفاہ و آسایش و امینت کامل می بینیم ۔ از انجا کہ افغانستان از نقطۂ نظر جغرافیائی بین شرق و غرب واقع شدہ لہٰذا مامیل داریم کہ افغانستان بہترین نمونہ ازتہذیب و اخلاق اسلامہ بودہ و درعین حال تمام عناصر مفید و زیبائی ھائی غرب رابا خود منظم و ہمراہ داشتہ باشد۔ ہر چندکہ از الطاف عنایات شما خیلی محسس و ممنونیم اما شخصیت فوق العادہ این نابغہ کہ خوشبختا نہ پادشاہ کنوئی شما میبا شد چنان برقلب من اثر کردہ کہ از عہدہ وصف این عاجز بیرون است۔ ہیچگاہ ممکن نخواہد بود کہ بندہ آن ساعاتی رافراموش کن کہ خوش بختانہ درخدمت اعلیٰ حضرت اقدس ہمایونی برائی من دست داد۔ من یقین دارم ہر مملکتی کہ مانند پادشاہ ملت دوست شما پادشاہ داشتہ باشد حتما آن مملکت بمدارج ترقی ومعالی و تکامل خواہد رسید۔ اکنوں فریضۂ شما ست کہ باتمام موجودیت خود ھا بہر وسیلہ کہ ممکن است در خدمت و اطاعت او آمادہ و مہیا بودہ باشید۔ واین رایقین بدانید کہ اگر یک نفر مانند این عاجز بتواند در امور عرفانی شما خدمتی بنمایدہ پس برائی انجام ہمان خدمات بندہ ہمہ وقت حاضر و آمادہ خواھم بود۔ ولی این حرفِ را نگفتہ نگذارند کہ باید جوانان مملکت افغانستان عزت و احترام مو سفیدان راھمہ وقت مد نظر داشتہ نگذارند کہ از اختلاف رائی در وحدت ملی شان رخنہ پیدا شود۔ تاریخ شہادت میدھد کہ تمام خسارات مسلمانان نتیجہ نفاق و تفرقہ دربین شان بودہ است۔ پس از گذشتہ عبرت گرفتہ اکنون اتحاد و اتفاق راھدف آمال ملی و کمال مطلوب خود بسازید۔ درخاتمہ مجدد ا از الطاف پذیرائی صمیمانہ شما اظہار تشکر و امتناں مینا یم و ہیچگاہ عواطف صمیمانہ شما را فراموش نخواھم کرد۔ (۴۴) ترجمہ: نواب مسعود جنگ ڈاکٹر سید راس مسعود کی جوابی تقریر: ’’محترم بزرگوار اور مہربان میزبانو! میں نہایت خلوص سے خوشی کا اظہار اور شکریہ ادا کرتا ہوں اور اس توجہ کے ساتھ شکریہ کے فرض سے جوآپ نے خاکسار کے حق میں فرمایا میں عہدہ برآ نہیں ہوسکتا۔ میں چاہتا ہوں کہ مسلمانان ہند کے دلی جذبات و احساسات آپ تک پہنچائوں۔ ہمارے درمیان علامہ سید سلیمان ندوی علمائے ہند کے نمائندہ ہیں۔ اور میرے معزز دوست علامہ اقبال اس گروہ کے نمائندے ہیں جس نے قدیم و جدید عناصر کو ملا کر ان سے ایک روح پرور معجون تیار کیا ہے۔ میں نہ تو علماء کی جماعت سے ہوں اور نہ شعراء کے فرقہ سے۔ بلکہ میں نے اپنی تعلیم کا دور زیادہ تر یورپ کے ممالک میں ختم کیا ہے۔ لیکن میرا دل ان دونوں گروہوں کی عظمت و احترام سے سرشار اور لبریز ہے۔ آپ کو میں یقین دلاتا ہوں کہ مسلمانانِ ہند آپ حضرات سے غیر معمولی محبت اور تعلق رکھتے ہیں اور ہماری دلی آرزو ہے کہ پیارے افغانستان کو مکمل امن و امان اور ترقی و آسائش کی حالت میں دیکھیں۔اور چونکہ افغانستان جغرافیائی نقطۂ نظر سے ایشیا اور یورپ کے بیچ میں واقع ہے اس لیئے ہماری خواہش ہے کہ افغانستان اسلامی تہذیب و اخلاق کا بہترین نمونہ ہونے کے ساتھ ٹھیک اس وقت میں یورپ کے تمام مفید عناصر اور زیبائیوں کا جامع ہو۔ ہرچندکہ میں آپ حضرات کے عنایات کا بے حد ممنون ہوں لیکن میرے دل پر اس غیر معمولی شخصیت کا جو خوش قسمتی سے اس وقت آپ کا بادشاہ ہے ایسا اثر پڑا ہے کہ میں وہ وقت کبھی نہ بھولوں گاجب خوش قسمتی سے میری رسائی اعلیٰ حضرت کی خدمت تک ہوئی۔ مجھے یقین ہے کہ جو سلطنت آپ جیسا ملت دوست بادشاہ رکھتی ہو یقینا وہ سلطنت ترقی کے مدارج پر پہنچے گی۔ اب یہ آپ کا فرض ہے کہ ہمہ تن ہر ممکن ذریعہ سے ان کی خدمت اور اطاعت پر آمادہ رہے۔ اور اس کو باور کیجئے کہ اگر مجھ جیسا بندئہ عاجز تعلیمات کے سلسلہ میں آپ کی کوئی خدمت کرسکتا ہے تو ان خدمات کے انجام دینے کے لئے میں ہر وقت حاضر اور آمادہ رہوں گا۔ لیکن ایک بات کہے بغیر میں آگے نہیں بڑھ سکتاسلطنت افغانستان کے جوانوں کو چاہیے کہ سفید بال والوں کی عزت و احترام کا ہر وقت خیال رکھیں ایسا نہ ہو کہ اختلاف رائے سے ان کی قومی وحدت میں رخنہ پیدا ہوجائے۔ تاریخ شہادت دیتی ہے کہ مسلمانوں کے تمام نقصانات آپس کے نفاق اور تفرقہ کا نتیجہ رہے ہیں۔ پس ماضی سے عبرت پکڑ کر اب اتحاد و اتفاق کو اپنے مقاصد قومی کا مرکز بنائے۔ آخر میں دوبارہ آپ کی پرخلوص عنایات کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور میں کبھی آپ کی مخلصانہ مہربانیوں کو فراموش نہ کروں گا۔ (۴۵) اس کے بعد سید سلیمان ندوی ؔنے حاضرین سے خطاب کیا۔ اس خطاب کا متن بھی مجلہ کابل سے نقل کیا جاتا ہے۔ ترجمہ نطق علامہ سید سلیمان ندویؔموسس و مدیر مجلہ معارف اعظم گڑھ برادران ہمدین و ہموطن و عزیزان علم و فن! امروز ما خیلی خوش بخت استیم کہ درین مجمع خود را با شما می بینیم۔ دعوت اعلیٰ حضرت غازی چند نفر از خادمان علم و ادب را درین جا و باز اجتماع آنہا با فضلاو علمائی این مملکت عزیز درین انجمن ادبی نزد من آغاز یک دورہ باشان و شوکت تاریخی میباشد۔ برادران گرامی! ہندوستان و افغانستان مملکت جدا گانہ نبودہ بلکہ یکیست شاید پیش از یکنیم یا دو صد سال شدہ باشد کہ بین این دو مملکت تفرقہ حائل شدہ ولی این دو مملکت در عصر قدیم بودائی در یک رشتہ منسلک بودند۔ چنانچہ در ملک شما یاد گار ہائی سنگی این اتحاد در زیر زمین ھا بہر قدمی دستیاب می شود کہ موزہ خانہ شما نیز دارائی آن اسناد سنگی می باشد۔ از آغاز دورۂ اسلامی تنہا شما بودید کہ بوسیلۂ شمانہ فقط دیانت و کیش بلکہ علم و فن نیز در قلب ہندوستان (سرایت نمودہ است) سلاطین غزنی و شاھان غوری درینجامی زیستندولی دایرۂ حکمرانی شان الی ہندوستان ممتد بود کذا اہل بابر در ہندمی زیستند مگر دایرئہ حکومت شان الی افغانستان بود! واین دو مملکت مشابہ دو دست درجسم واحد یک حکومت شاہنشاہی قرار یافتہ بود۔ امروز بعد ازیک ونیم صد سال این وہلۂ اولین است و این ہر دودست بازبرائی اتحاد سیاسی نی بلکہ برائی اتحاد علمی و ادبی و برایٔ تشییدمودت باہم تماس صمیمانہ مینما یند۔ براداران افغان! بزرگان شما در ہندوستان تنہا حکمرانی جسمانی و مادی نکردہ اند بلکہ حکومت معنوی و ذہنی رانیز دارا بودند۔ زبان فارسی کہ سالیان قدیم لسان ادبی و علمی ہندوستان بودہ و حال نیز میباشد۔ این زبان فقط بوسیلہ شما بما رسیدہ است۔ از جملہ علمائی شما میر زاہدہروی کہ از ہرات شما است آثار و رسائل او از سہ صد سال قبل در درس گاھائی عربی ہندوستان معیار دروس فلسفہ انتہائی ما میباشد۔ شعر ائی شہیرو بزرگ فارسی زبان کہ درین ملک پیدا شدہ اندھم چنان کہ از لحاظ مولد نسبت بکداام شہر ھائی افغانستان دارند ہمچنان از لحاظ مسکن یامدفن منسوب بینی از شہر ھای ہندوستان میباشد۔ چقدر شعرائی ہستند کہ از غزنی ، بلخ، بدخشان، و یا از دیگر شہر ھا و علاقہ جات شما بودند بنام لاہوری و دہلوی مشہور گردیدند۔ من تذکرہ لباب الباب عوفی را مطالعہ کردہ ام و آنہا طوری وانمود میدارند کہ این شعراء دریک رشتہ وحدت چنان منسلک بودند کہ از تاریخ نیز فیصلہ لاہوری و غزنوی بودن شان بمشکل تضکیک میشود۔ این دو ممالک چناں رابطہ باہم داشتند کہ اگر فاضلی در اینجا پیدا میشد یک قسمت عمر خود را در آنجا بسر میبرد و کسی کہ در آنجا پیدا میشد برائی چندی درینجا استراحت مینمود۔ مثلاً مسعود سعد سلمان کہ از شعرائی دورہ دوم است ایشاں راہندی یاافغانستان گفتن و تمیز کردن مشکل است۔ من باغ ھائی جلال آباد و کابل رادیدم چشمہ سارھائی کوھی آہنا، فوارہ ھا آبشارھاراتما شا کردم کہ درہرنقطۂ خاک این مملکت آشکارمیبا شند وبمن یقین شد کہ اہل بابر درکشمیر و ہندوستان کہ بہ آن کثرت باغہا احداث کردہ اندو یا ہر جا چشمہ ھائی معنوعی ساختہ اند آنہمہ نقل از مناظر طبیعی افغانستان بودہ است۔ باغ ھنائی امیر شہید درجلال آباد و باغ بابر درکابل باغ ھائی پغمان دو دیگر باغہائی افغانستان یاشالامار لاہور چقدر مشابہت طبیعی دارد۔ و این ذوق مناظر طبیعی در آل تمیور فطری موجودہ بودہ کہ آن رادر ہند عملا بروئی کار آوردہ اندحتیٰ کہ دردیوان عام و خاص نیز جوی ھائی گنگ و جمن را ترتیب و گلکاری نمودہ اند۔ برادران علم و فن! چیزی کہ در سابق شدہ آیا حالا باز نمیتواند بشود؟تذکار تفرقہ سیاسی و دوری و علحیدہ رابگذارید! این سرنوشت انقلابات عالم است یعنی گاہی چنین و گاہی چنان! و حالات سیاسی ہموار، تغییر پذیر و تعلقات بہ آن درشرف شکستن و پیوند شدن است ولی تعلقات علم و ادب دایمی وبرقرار میباشد۔ از شمشیر سلطان محمود غزنوی عرصۂ گذشت کہ شکستہ و اوراق فتوحات شان از قرن ھا ست کہ از ہم متلاشی گردید ولی قلم حکیم سنائی غزنوی تا حال باقی و موجود و شیرازہ اوراق فتوحات ادبی شان تااکنون مرتب باقیست بیا ئید بنام سلطان محمود غزنوی شہاب الدین غوری و آل بابر نی بلکہ بنام سنائی غزنوی ، مسعود سعد سلمان لاہوری خسرو دہلوی، حسن دہلوی ، فیضی اکبر آبادی، و بیدل عظیم آبادی بجانب ہمہ گیر دست مودت و محبت را دراز کینم۔ افغانستان مدام تحسین طاقت جسمانی و نیروی مادی خود را از ددنیا حاصل کردہ است ولی اکنون لازم است کہ وی تحسین طاقت دماغی و پہلوانی ذہنی خود رانیز از عالم حاصل کند۔ انجمن ادبی شما مستحق تحسین و ستائیش است کہ او در راہ مذکور گامزن شدہ است و درہر ماہ طاقت نیروی کود را بطور بسیار خوب در معرض نمایش میگذارد۔ من بدون خوف و تردیدمی توانیم بگویم کہ مجلہ ’’کابل‘‘ دوش بدوش با بہترین مجلات علمی ہندوستان بلکہ مشرق میرود۔ و درنمائیش این دور بجہت افزا دست او ازھمہ زیادہ کار خدما ست۔ بردران ہمسایہ ! آیا این جائی تعجب نیست کہ ما یک یک شاعر و ادیب انگلستان فرانسہ و آلمان رابشنا سیم و بر شاہکار ھائی آہنا سر بشکینم ولی با ادبا و اہل قلم این دو مملکت ہمسایہ نا آشنا و بیگانہ باشیم۔ حال اینکہ بین بزرگان قدیم این ہر دو نقطہ نہ تنہا روابط بومی بلکہ شاید اتحاد ملی و نسبی نیز موجود باشد۔ ولی زیادہ تر اینکہ بین شان یک اتحاد نا قابل شکست علمی و ادبی بود و چقدر رجائی افسوس است کہ از دو قرن بین ما این قدر بعد و دوری واقع گردیدہ کہ نہ ما از شعرا و ادبائی شما واقف ھستیم و نما شما از ما۔ باید از مجلہ ’’کابل ‘‘انجمن ادبی ممنون شویم کہ مارا با اہل قلم لایق و شعرا و ادبائی معرفی گردا نیدہ و ما ہمدیگر کود را شناختیم۔ برادران علمی و فن ! سیاسیون را بگذارید کہ معروف شعبدہ بازی ھائی خود باشندو بیا یید کہ مابنام علم و فن با ہمدیگر پیماں محبت و دوستی تازہ کردہ و عہد رفاقت و آشنائی را مستحکم سازیم ۔ وما ھر دو مملکت در تعمیر یک شرق جدید علمی و ادبی دوش بدوش کار بکنیم ۔ اتحاد قلوب از ہرنو عیکہ باشد بد گمانی و غلط فہمی ھارا دور میسازد۔ ہندوستان بو سیلہ نوجوان ھائی خود بہ تعمیر خود معروف است و افغانستان نیز۔ لہٰذا درین تعمیر لازم و ضرور است کہ نوجوانان ہریک ازیں دو مملکت باجوانان مملکت دیگر حسن ظن و حسن اعتماد داشتہ باشتند! ہر چند کہ درین راہ اتحاد خیلی مشکلات میباشد ولی برائی حصول این مقصد عزیز ما راباید کہ صد نوع مشکلات را مقابلہ ینما ییم ؎ ’’ بہریک گل زحمت صد خار می باید کشید‘‘ و آخر دعوانا ان الحمد اللہ رب العٰلمین۔ در خاتمہ سعادت و ترقی مملکت عزیز افغانستان و صحت و موفقیت پادشاہ علم دوست و ادب بزوران اعلیٰ حضرت محمد نادر شاہ غازی کی این ہمہ پیشرفت افغانستان در تحت رایت و حسن تدابیر شان است از خدا تمنا داریم۔(۴۶) ترجمہ: سید سلیمان ندوی کی جوابی تقریر۔ برادران ہم دین و ہم وطن و عزیزانِ علم و فن ! آج ہم بہت خوش نصیب ہیں جو اس مجمع میں اپنے آپ کو آپ حضرات کے ساتھ دیکھ رہے ہیں۔ چند خادمان علم و ادب کو اعلیٰ حضرت غازی کا یہاں بلانا اور پھر ان کا اس ملک کے فضلاء و علماء کے ساتھ اس ادبی جلسہ میں جمع ہونا میرے نزدیک ایک پر شوکت تاریخی دور کا آغاز ہے۔ برادران گرامی !ہندوستان اور افغانستان دو جداگانہ سلطنتیں نہ تھیں بلکہ ایک تھیں شاید ڈیڑھ دو سو برس کا عرصہ ہوا ہوگا۔ جب ان دونوں ملکوں میں تفرقہ پیدا ہوا۔ یہ دونوں ملک قدیم بدھ دورِ حکومت میں ایک رشتہ میں منسلک تھے جیسا کہ آپ کے ملک میں اس اتحاد کی سنگی یادگاریں زمینوں کے اندر ہر قدم پر دستیاب ہوتی ہیں۔ جو آپ کے عجائب خانہ میں بھی موجود ہیں۔ آغاز عہد اسلام سے تنہا آپ ہی تھے جن کے ذریعے سے نہ صرف مذہب بلکہ علم و فن بھی ہندوستان کے قلب میں داخل ہوئے ہیں۔ سلاطین غزنی اور شاہان غوری یہاں رہتے تھے۔ لیکن ان کی حکومت کا دائرہ ہندوستان تک پھیلا ہوا تھا۔ اسی طرح بابر کا خاندان ہندوستان میں مقیم تھا لیکن اس کا دائرہ حکومت افغانستان تک تھا اور یہ دونوں حکومتیں ایک شہنشاہی کے لئے ایسے تھیں جیسے ایک جسم میں دو ہاتھ ہوتے ہیں۔ آج ڈیڑھ سو سال کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ یہ دونوں ہاتھ اگر اتحاد سیاسی کے لیئے نہیں تو اتحاد علمی و ادبی اور باہمی محبت کے استحکام کے لیئے پھر مخلصانہ بڑھ رہے ہیں۔ افغان بھائیو! آپ کے بزرگوں نے ہندوستان میں صرف جسمانی اور مادی حکمرانی نہیں بلکہ معنوی اور ذہنی حکومت بھی قائم کی ہے۔ فارسی زبان مدت تک ہندوستان کی ادبی اور علمی زبان رہی ہے اور اب بھی ہے یہ زبان صرف آپ کے وسیلہ سے ہم تک پہنچی ہے آپ کے علماء میں سے میر زاہد ہروی جو آپ کے ہرات سے تھے ان کے رسائل وتصنیفات تین سو سال سے ہندوستان کی عربی درسگاہوں میں فلسفہ کے اسباق کا انتہائی معیار ہیں۔ فارسی زبان کے مشہور اور بڑے شعراء جو اس ملک میں پیدا ہوئے، جس طرح جائے پیدائش کے لحاظ سے افغانستان کے کسی شہر کی طرف منسوب ہیں۔ اسی طرح سکونت یامدفن کے لحاظ سے ہندوستان کے کسی شہر سے نسبت رکھتے ہیں۔ کتنے شاعرہیں جو غزنی ، بلخ، بدخشان یا آپ کے دوسرے شہروں اور علاقوں سے تھے ۔ اور لاہوری اور دہلوی مشہورہوئے جس نے عوفی کی لباب الالباب کا مطالعہ کیا ہے اس کو معلوم ہے کہ یہ شعراء ایک رشتۂ وحدت میں اس طرح منسلک تھے کہ تاریخ بھی ان میں سے بعض کے لاہوری اور غزنوی ہونے کا فیصلہ مشکل سے کرسکتی تھی۔ یہ دونوں سلطنتیں باہم اس قدر مربوط تھیں کہ اگر کوئی فاضل یہاں پیدا ہوتا تو اپنی عمر کا کچھ حصہ وہاں بسر کرتا تھا۔ اور وہاں پیدا ہوتا تو کچھ عرصہ کے لیئے یہاں زندگی گزارتا تھا مثلاً مسعود سعد سلمان جو شعراء کے دوسرے طبقے سے ہیں اس کو ہندی یا افغانستانی کہنا اور تمیز کرنا سخت مشکل ہے۔ میںنے جلال آباد اور کابل کے باغات دیکھے، پہاڑی چشموں ،نہروں ،فواروں اور آبشاروں کا نظارہ کیا۔ جو اس سلطنت کی خاک کے ہر ذرہ سے نمایاں ہیں تو مجھے یقین ہوا کہ خاندانِ بابر نے کشمیر اور ہندوستان میں جو بکثرت باغ لگائے یا جگہ جگہ مصنوعی چشمے بنائے وہ سب افغانستان کے قدرتی مناظر کی نقل تھی۔ جلال آباد میں امیر شہید کے باغات ،کابل میں بابر کا باغ ،پغمان کے باغات نیز افغانستان کے دوسرے باغ، لاہور کے شالامار سے کیسی قدرتی مشابہت رکھتے ہیں۔اور مناظر فطرت کا یہ وطنی ذوق آلِ تیمور میں قدرتی طور پر ایسا موجود تھا کہ اس کو انھوں نے ہندوستان میں عملاً ظاہر کیا۔ یہاں تک کہ دیوان عام اور خاص میں بھی گنگا اور جمنا گلکاری کے ذریعے سے دکھائی گئی ہیں۔ برادرانِ علم و فن! جو کچھ پہلے ہوچکا کیا اب نہیں ہوسکتا؟ سیاسی تفرقہ دوری اور علیٰحدگی کا ذکر چھوڑئیے! یہ تغیرات عالم کی سرنوشت ہے ،گاہے چنین گاہے چناں ! سیاسی حالات ہمیشہ بدلتے رہتے ہیں۔ اور سیاسی تعلقات دائم اور برقرار رہتے ہیں۔ سلطان محمود غزنوی کی تلوار عرصہ ہوا کہ ٹوٹ گئی اور اس کی فتوحات کے اوراق صدیاں ہوئیں کہ بکھر گئے لیکن حکیم سنائی غزنوی کا قلم اب تک باقی اور موجود ہے اور ان کی ادبی فتوحات کے اوراق کا شیرازہ اب تک منتشر نہیں ہوا ہے۔ آئو سلطان محمود غزنوی شہاب الدین غوری اور آلِ بابر نہیں بلکہ سنائی، غزنوی، مسعود سعد سلمان لاہوری، خسرو دہلوی، حسن دہلوی فیضی ،ؔ اکبر آبادی اور بیدل عظیم آبادی کے نام سے ہم ایک دوسرے کی طرف مروت و محبت کا ہاتھ بڑھائیں۔ افغانستان نے ہمیشہ اپنے جسمانی اور اور مادی طاقت کے متعلق دنیا سے خراجِ تحسین وصول کیا ہے لیکن اب ضروری ہے کہ وہ اپنی دماغی طاقت اور ذہنی پہلوانی کا خراج بھی دنیا سے وصول کرے۔ آپ کی ادبی انجمن تحسین و ستائیش کی مستحق ہے کہ اس نے اس راستہ میں قدم اُٹھایا ہے اور ہر جگہ میں اپنی طاقت اور زور کا نہایت خوبی کے ساتھ مظاہرہ کرتی ہے۔ میں بلا خوف تردید کہہ سکتا ہوں کہ رسالہ’’ کابل‘‘ ہندوستان بلکہ ایشیا کے بہترین علمی رسالوں کے دوش بدوش جارہا ہے اور اس مسرت انگیز دورے کے ظہور میں اس کا ہاتھ سب سے زیادہ کارفرما ہے۔ پڑوسی بھائیو! کیا یہ تعجب کا مقام نہیں کہ ہم انگلستان ، فرانس اور جرمنی کے ایک ایک شاعر اور ادیب سے واقف ہوں اور ان کے شاہکاروں پر سر دھنیں لیکن ان دو ہمسایہ ملکوں کے ادباء اور قلم آپس میں ایک دوسرے سے نا آشنا اور اور اجنبی رہیں۔ حالانکہ ان دونوں کے قدیم بزرگوں کے درمیان نہ صرف وطنی تعلقات تھے بلکہ شاید مذہبی اور نسلی و اتحاد بھی موجود تھا۔ لیکن اس سے زیادہ یہ کہ ان کے درمیان ایک ناقابلِ شکست علمی و ادبی اتحاد تھا۔ اور کس قدر افسوس کا مقام ہے کہ وہ صدیوں سے ہمارے درمیان اس قدر بعد اور دوری ہوگئی ہے کہ نہ ہم آپ کے شعراء اور ادیبوں سے واقف ہیں اور نہ آپ ہمارے ۔ ہم کو ’’انجمن ادبی‘‘ کے رسالۂ’’ کابل‘‘ کا ممنون ہونا چاہیے جس سے یہاں کے لائق اہلِ قلم اور شعراء و ادباء سے ہمارا تعارف کرایا۔ اور ہم نے باہم ایک دوسرے کو پہچانا ہے۔ برادران علمی و فنی ! اہلِ سیاست کو ان کی شعبدہ بازیوں میں مصروف رہنے دیجیے ۔ اور آئیے کہ علم و فن کے نام سے پیمانِ محبت و دوستی کو تازہ اور عہد رفاقت و آشنائی کو مستحکم کریں۔ اور دونوں اپنے اپنے وطن کے اندر رہ کر علم و ادب کے ایک جدید مشرق کی تعمیر میں دوش بدوش کام کریں۔ دلوں کا اتحاد جس طرح کابھی ہو بدگمانیوں اور غلط فہمیوں کو دور کردیتا ہے۔ ہندوستان اپنے نوجوانوں کے ذریعہ سے اپنی تعمیر میں مصروف ہے اور افغانستان بھی لہٰذا یہ ضروری ہے کہ اس تعمیر میں دونوں ملکوں میں سے ہر ایک کے نوجوان دوسرے ملک کے نوجوانوں کے ساتھ حسن ظن اور حسنِ اعتماد رکھیں اگرچہ اس اتحاد کی راہ میں بہت سی مشکلات پیش آتی ہیں۔ لیکن اس مقصد عزیز کے حاصل کرنے کے لئے ہمیں سینکڑوں طرح کی مشکلات کا مقابلہ کرنا چاہئے۔ بہر یک گل زحمت صد خارمی باید کشید وآخر دعوانا عن الحمداللّٰہ رب العٰلمین ۔ (۴۷) تقریب کے آخر میں حضرت علامہ نے خطاب فرمایا ۔خطاب کا متن درجہ ذیل ہے۔ ترجمہ نطق علامہ سر محمد اقبال: بعد از بیانات سید سلیمان صاحب ندوی و داکتر سر راس مسعود کہ حسیات و عواطف مارا بصورت خوبی و ترجمنانی نمودہ اند۔ چیزی باقی نماندہ کہ من بگویم اما گمان میکنم اعضائی انجمن ادبی کابل ازین جانب توقع دارند کہ در جواب خیرمقدم و خوش آمدی ھائی کہ آزروئی لطف با بلیغ ترین وجہی شرح دادہ اند چیزی بگویم من از انجمن ادبی کابل خیل ممنونم کہ درحق من نظماً و نثرا ًحر فہائی خوب و سخن ھائی پر از حیات مہربانانہ گفتہ اند۔ من ہم میل دارم کہ فقط و فقط از فعالیت ھا و کارر وای ھائی جوان ھائی ھیت انجمن ادبی کابل بحث دانم۔ ہیچ شک ندارم کہ ھیات انجمن از اہمیت کار خود دومسوولیت آن بخوبی مسبو قند۔ عقیدہ من این است کہ آرت (فنون لطیفہ) یعنی ادبیات یارسامی یا موسیقی و یا معماری ہر چہ باشد ہر یک معاون و خدمتگار حیات است و بنا بر این را با ید ایجاد بگوییم نہ تفریح ، شاعر اساس زندگی یک ملت را آباد یا ویران میتواند ۔ وقتی مملکت سعی داردکہ در عصر حاضر تاریخ افغانستان در ساحہ حیات نوینی داخل شود پس بر شعرائی این مملکت لازم است کہ برائی اخلاف نوجوان رہنمائی حقیقی گردند۔ از زندگانی تمجید و تضخیم نمودہ مرگ را بزرگ جلوہ گر نسازندچہ آرت وقتیکہ ’’از مرگ‘‘تعریف نماید و آن را بزرگ نشان دہر درآن حال ’’خیلی مخوف و مہلک است وحسن عاری از قوت محض یک پیغام مرگ است۔ ؎ دلبری بیقاھری جادو گری است دلبری باقاھری پیغبری است میخواہم توجہ شما را بہ نقطہء ی معطوف و تمرکز دھم و آن عبارت است از یک واقعہ از وقائع حیات نبوی ﷺ مروی است وقتی از اشعار امراء القیس کہ از نوابغ بشعرائی عرب است بحضور اقدس نبویﷺ خواندہ شد فرمودند۔ ؎ الشعراء و قائدھم الی النار ازین ارشاد سراسر رشاد بہ طوری واضح روشن میشود کہ کمال شعر ھم گاہی محض یک شکل و صورت نیست چیز یکہ حقیقتاً بہ ملت مربوط است عبارت است از مفکورہ کہ شاعر بہ پیشگاہ ملت عرضہ میدارد و نظریات بلند یست کہ میخواھد درقوم خود پیدا کند۔ ملتہا بہ دستیارئی شعرا پیدا می شوندو بہ پامردی سیاسیون نشو ونما نمودہ می میرند ۔ پس تمنا میرو د کہ شعراء محررین نوجوان افغانستان دمندہ روحی در معاصرین گردند کہ آنہا رفتہ در آخیر خود راشناختہ بتوانند۔ انانیت ایک ملتی کہ بہ جادہ نہضت ی سپر است وابستہ بہ تربیہ می باشد ولی تربیتہ کہ شالودہ آن بردی احتیاط برداشتہ شود۔ پس وظیفہ انجمن اینست کہ مفکورہ ھائی نسلہا نوجوان رابو سیلہ ادبیات تشکیل و ترجم نمایند و بہ آنہا چنان یک صحت روحانی بہ بخشید کہ بالاخرہ انانیت خود را ادراک و قابلیتی بہ رساندہ بگویند۔ ؎ دو دستہ تیغم و گردون برہنہ ساخت مرا فسان کشید بر وئی زمانہ آخت مرا من آن جہان خیالم کہ فطرت ازلی جہان بلبل و گل را شکست و ساخت مرا نفس بہ سینہ گدازم کہ طاہر حریم توان زگرمی اوازمن شناخت مرا میخواہم یک نکتہ دیگر رانیز بگویم و بگزارم موسولینی یک نظریہ تشنگی را اراتۂ نمودہ است کہ مقصد آن اینست باید اتلی برائی حصول نجات خود یک ملیو نری پیدا کند کہ گریبان اتلی (ایتالیا) را از چنگ دیون ملل اینگلو ساکسونی خلاص کردہ بتواندو یا باید کدام دینتی (دانتہ) و کولمبس دیگری را بیا بد کہ یک براعظم دیگر راکشف نماید اگر شمارا رازِ نجات افغانستان را ازمن استفسار نمایید خواھم گفت کہ افغانستان محتاج بمر دست کہ باتمام موجودیت خود این مملکت را از حیات قبیلہ وی اخراج و بہ حیات وحدت ملی آشنا نماید ولی مسرورم از آنکہ افغانستان مردی رابدست آوردہ کہ از دیر بار انتظار اورا میکشد من یقین دارم کہ شخصیت ایجاد کار اعلیٰ حضرت نادرشاہ رابرائی این آفریدہ اندکہ افغانستان رایک ملت جدیدی در ایشیا ساختہ بدنیا معرفی نماید نوجوانان این وطن رباید کہ این قاید بزرگ را آموز گار و معلم تعلیم و تربیہ خود بشنا سند زیراہتمام زندگانی او پراز ایثار اخلاص و صداقت بہ مملکت خود محبت و عشق بہ اسلام است۔(۴۸) ترجمہ: ڈاکٹر سرشیخ محمد اقبال کی تقریر: سید سلیمان ندوی اور ڈاکٹر سر راس مسعود کی تقریروں کے بعدجن میں ہمارے جذبات کی نہایت خوبی سے ترجمانی کی گئی ہے اب کوئی چیز ایسی باقی نہیں ہے جس کو میں بیان کروں ۔میں سمجھتا ہوں کہ انجمن ادبی کابل کے ارکان مجھ سے بھی یہ توقع رکھتے ہوں گے کہ خیر مقدم اور خوش آمدید انھوں نے جس لطیف اور بلیغ ترین اندا ز میں کیا اور کہا ہے۔ اس کے جواب میں ، میں بھی کچھ عرض کردوں ۔ میں انجمن ادبی کابل کا بہت ممنون ہوں کہ اس نے اپنی مہربانی سے میرے متعلق نظم و نثر میں اچھے خیالات اور پر احساس جذبات ظاہر کئے ہیں۔ میں بھی خواہش رکھتا ہوں کہ میں صرف اور صرف انجمن ادبی کابل کے نوجوان ارکان کے عملی پہلو (فعالیت) اور کارروائیوں سے بحث کروں ۔کوئی شک نہیں کہ انجمن اپنے کام کی اہمیت اور ذمہ داری سے بخوبی آگاہ ہے۔ میرا یہ عقیدہ ہے کہ آرٹ یعنی ادبیات یا مصوری یا موسیقی اور یا معماری جو بھی ہو ہر ایک زندگی کی معاون اور خدمت گار ہے ۔ اور اسی بنا پر آرٹ کو چایئے کہ میں ایجاد کہوں نہ تفریح ، شاعر ایک قوم کی زندگی کی بنیاد کو آباد یا برباد کرسکتا ہے ۔ اس وقت جب حکومت کوشش کر رہی ہے کہ موجودہ زمانہ میں افغانستان کی تاریخ نئی زندگی کے میدان میں داخل ہو تو اس ملک کے شعراء پر لازم ہے کہ اخلاف نوجوان کے لئے سچے رہنما بنیں۔ زندگی کی عظمت و بزرگی کے بجائے موت کو زیادہ بڑھ کر نہ دکھائیں کیونکہ آرٹ جب موت کا نقشہ کھینچتا ہے اور اس کو بڑھا کر دکھاتا ہے اس وقت وہ ’’سخت خوفناک اور برباد کن‘‘ ہوجاتا ہے اور جو حُسن قوت سے خالی ہو وہ محض ایک پیغام موت ہے۔ ؎ دلبری بے قاہری جادو گری است دلبری با قاہری پیغمبری است میں چاہتا ہوں کہ آپ کی توجہ کو ایک مرکزی نقطہ کی طرف مبذول کرائوں ۔ حیاتِ نبویﷺ کی واقعات میں سے ایک واقعہ ہے، روایت ہے کہ ایک مرتبہ انحضرت ﷺ کے حضور امرائو القیس کے جو مشہور عرب شاعر ہے کچھ اشعار پڑھے گئے ارشاد ہوا۔ ’’اشعر الشعراء وقائد ھم الی النار‘‘ ترجمہ: تمام شاعروں میں بہتر شاعر اور ان کو دوزخ کی طرف لے جانے والا۔ اس ارشاد سراسر رشاد سے واضح طور پر روشن ہوتا ہے۔ کہ شعر کا کمال بعض اوقات لوگوں پر بر ااثر ڈالتا ہے ۔ ایک قوم کی زندگی کی موقوف علیہ چیزیں محض شکل و صورت نہیں بلکہ جو چیز حقیقتاً قوم کی زندگی کے ساتھ تعلق رکھتی ہے وہ’’تخیل‘‘ ہے جس کو شاعر قوم کے سامنے پیش کرتا ہے۔ اور وہ بلند نظریات ہیں جن کو وہ اپنی قوم میں پیدا کرنا چاہتا ہے ۔قو میں شعراء کی دستگیری سے پیدا ہوتی ہیں ۔ اور اہلِ سیاست کی پامردی سے نشوونما پاکر مرجاتی ہیں۔ پس یہ خواہش ہے کہ نوجوان افغانستان کے شعراء انشاء پرداز ہم عصروں میں ایسی روح پھونکیں جس سے وہ رفتہ رفتہ اخیر میں اپنے آپ کو پہچان سکیں۔ جو قوم ترقی کے راستہ پر چل رہی ہے اس کی انانیت خاص تربیت کے ساتھ وابستہ ہوتی ہے۔ اگروہ تربیت جس کا خمیراختیاط کے ساتھ اُٹھایا جائے ۔ پس انجمن کا کام یہ ہے کہ نوجوان نسلوں کی فکروں کو ادبیات کے ذریعہ سے متشکل کرے اور ان کو ایسی روحانی صحت بخشے کہ وہ بالآخر اپنی انانیت کو پاکر اور قابلیت بہم پہنچا کر پکار اُٹھیں: ؎ دو دستہ تیغم و گردون برہنہ ساخت مرا فسان کشید بر وئی زمانہ آخت مرا من آن جہان خیالم کہ فطرت ازلی جہان بلبل و گل را شکست و ساخت مرا نفس بہ سینہ گدازم کہ طاہر حریم توان زگرمی اوازمن شناخت مرا میں ایک اور نکتہ بھی کہنا اور گزر جانا چاہتاہوں۔ موسیولینی نے ایک اچھا نظریہ قائم کیا ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ اٹلی کو چایئے کہ اپنی نجات حاصل کرنے کے لئے ایک کروڑ پتی کو پیدا کرے جو اٹلی کے گریبان کو اینگلو سکن اقوام کے قرضہ جات کے چنگل سے چھڑا سکے یا کسی دوسرے دانتے کو پیدا کرے جو نئی جنت پیش کرے یا کسی نئے کولمبس کو حاصل کرے جو ایک نئے براعظم کا پتہ چلا ئے ۔ اگر آپ مجھ سے افغانستان کی نجات کے متعلق سوال کریں تو میں کہوں گا کہ افغانستان کو ایک ایسے مرد کی ضرورت ہے جو اس ملک کو اس کی قبائلی زندگی سے نکال کر وحدتِ ملی کی زندگی سے آشنا کرے لیکن مجھے خوشی ہے کہ اعلیٰحضرت نادر شاہ کی شخصیت ایجاد کار کو اسی لئے پیدا کیا گیا ہے کہ افغانستان میں ایک نئی قوم بناکر دنیا سے تعارف کرائیں۔ اس وقت کے نوجوانوں کو چایئے کہ اس بزرگ رہنما کو اپنی تعلیم و تربیت کا معلم سمجھیں کیونکہ ان کی تمام زندگی ایثار، اخلاص اور اپنے ملک کے ساتھ صداقت اور اسلام کے ساتھ عشق و محبت سے لبریز ہے۔(۴۹) سفر افغانستان سے متعلق مجلہ کابل کے مندرجہ بالا مشمولات شروع سے آخر تک افغانستان و اقبال(۵۰) اور اس کے بعد سیر اقبال شناسی در افغانستان میں شائع ہوئے ہیں۔(۵۱) دلو ۱۳۱۳ھ ش / ۲۱ جنوری ۱۹۳۴ئ: علامہ عبدالحئی حبیبی کی طویل فارسی نظم’’ قطرات سر شک دربارگاہ محمودو سنائی یا برخرابہ زار شہرستان تاریخی غزنی‘‘مجلہ کابل میں شائع ہوئی ہے۔ (۵۲) یہ نظم جناب حبیبی نے حضرت علامہ کے فنی و فکری اسلوب میںلکھی ہے اور جا بجا حضرت علامہ کے ابیات پر تضمین کی گئی ہے۔ ساتھ ہی درج ذیل اشاریہ درج کیاہے۔ ’’ابیا تیکہ بعد ازین در بین این علامت ’’ ‘‘ گرفتہ شدہ تضمین است از کلام حضرت علامہ دوکتور اقبال شاعر اسلامی ہند(۵۳) ۔ مزید تفصیل علامہ عبدالحئی حبیبی کے سوانحی نوٹ میں شامل ہے۔ اول جدی ۱۳۱۳ ھ ش/ ۲۳ دسمبر ۱۹۳۴ئ: انجمن ادبی کابل کی جانب سے سرور خان گویاؔ کی لکھی ہوئی تقریظ مثنوی مسافر پر مجلہ’’ کابل‘‘ میں شائع ہوئی۔ (۵۴) سرور خاں گویا کی یہ تقریظ سیر اقبال شناسی در افغانستان(۵۵) میں بھی شائع ہوئی ہے۔ ------ ۲۲ مارچ ۱۹۳۵ء مجلہ کابل میں تاریخ افغانستان پر حضرت علامہ کی لکھی ہوئی تقریظ کا فارسی(۵۶) ترجمہ بعنوان ’’تقریظ و انتقاد افغانستان بہ یک نظر اجمالی‘‘ شائع ہوا ہے۔ یہ تقریظ بعد میں سیر اقبال شناسی در افغانستان مین بھی شائع ہوئی ہے۔(۵۷) ------ اول ثور ۱۳۱۴ ھ ش/ ۲۲، اپریل ۱۹۳۵ئ: مجلہ کابل میں ’’بہار‘‘ سے متعلق مختلف شعراء کے بہاریہ اشعار و قصائد شائع کئے ہیں۔ ان شعراء میں متقدمین متوسطین اور متاخرین کے ساتھ ساتھ معاصر شعراء کے کلام بھی شامل ہیں۔ ان شعراء میں درج ذیل شامل ہیں: ملک الشعراء قاری عبداللہ خان (عضو انجمن ادبی ص۔ ۳ تا ۷) محمد سرورخان ص۔با (عضو انجمن ص۔ ۷ تا ۱۰)، شایق (ص۔ ۱۱ - ۱۲)، عبدالحکیم خان (ص۔۱۲- ۱۴)، عبدالسلام مجددی (ص۔ ۱۵- ۱۷)، رابعہ بلخی (قرن چہارم ص۔۱۸)، دقیقی بلخی (ص۔ ۱۸)، عنص۔ری بلخی، فرخی سیستانی، منو چہری دامغانی (ص۔۱۹)، مسعود سعد سلمان (ص۔۲۰)، ادیب ص۔ابرترمذی، عبدالواسع جبلی غرجستانی (ص۔۲۱)، سید حسن غزنوی، عبدالرافع ہروی، رشید الدین و طواط بلخی (ص۔۲۲)، انور ابیوردی، امیر معزی سمر قندی (ص۔۲۳)، ارزقی ہروی، ظہیر فاریابی (ص۔۲۴)، ابوالمفاتح ہروی حضرت سعدی (ص۔۲۵)، امامی ہروی (ص۔۲۶)، سلمان ساوجی (ص۔ ۲۷)، سلم تہرانی، کلیم ہمدانی (ص۔ ۲۸- ۲۹)، میر زا بیدل (ص۔ ۳۰- ۳۲)، شوکت بخاری (ص۔ ۳۳)، عاجز افغان (ص۔ ۳۴)، وص۔فی کابلی، الفت کابل (ص۔ ۳۵)، میر ہوتک خان افغان طرزی افغان ۳۶، ندیم مرحوم (ص۔ ۳۷)، مستغنی مرحوم ( عضو فقید انجمن ادبی کابل (ص۔ ۳۸)، جناب داکتر سر محمد اقبال (ص۔ ۳۹- ۴۰)، ص۔وفی عبدالحق خان بیتاب (ص۔ ۴۰- ۴۱)۔ حضرت علامہ کے درج ذیل بہاریہ اشعار شائع ہوئے ہیں۔ ؎ خوشا روزگاری، خوشا نوبہاری نجوم پریٔ رست از مرغزاری زمین از بہاران چو بال تدروی ز فوارہ الماس بار آبشاری نہ پیچدنگہ جز کہ در لالہ و گل نہ غلطد ھوا جز کہ بر سبزہ زاری چہ شیرین نوائی، چہ دلکش صدائی کہ می آید از خلوت شاخساری بہ تن جان، بجان آرزو زندہ گردد ز آوائی ساری، زبانگ ھزاری نواھائی مرغ بلند آشیانی در آمیخت بانغمۂ جو یباری تو گوئی کہ یزدان بہشت برین را نہاد است در دامن کوہساری کہ تا رحمتش آدمی زاد گان را رھا سازد از محنت انتظاری چہ خواہم درین گلستان گر نہ خواھم شرابی ،کبابی، ربابی، ، نگاری سرت کردم ای ساقی ماہ سیما بیار از نیاگانِ ما یادگاری بہ ساغر فرد ریز آبی کہ جان را فروزد چو نوری بسوزد ناری شایق برویان زخاک نژندم بہشتی فروچین بمشت غباری نہ بینی کہ از کاشغر تا بہ کاشان ہماں یک نوابالد ازہردیاری (۵۸) حضرت علامہ کے یہ اشعار پیامِ مشرق کے ساقی نامہ میں شائع ہوچکے ہیں۔ (۵۹) تذکرہ بالا بہاریہ نظم کے بعد حضرت علامہ کی ذیل بہاریہ غزل بھی اس شمارے کی زینت بنی ہوئی ہے۔ ؎ رخت بہ کا شمرؔ کشا، کوہ و تل و دمن نگر سبزہ جہاں جہاں ببین، لالہ چمن چمن نگر بادِ بہار موج موج، مرغِ بہار فوج فوج صلصل و سار زوج زوج، برسر نارون نگر تانہ فتدبہ زینتش چشم سپہر فتنہ باز بستہ بہ چہرۂ زمین برقع نسترن نگر لالہ زخاک برد مید، موج بآب جو تپید خاک شرر شرر ببین، آب شکن شکن نگر زخمہ بہ تار ساز زن، بادہ بہ ساتگین بریز قافلۂ بہار را انجمن انجمن نگر(۶۰) حضرت علامہ کے یہ اشعار ’’کشمیر‘‘کے عنوان سے’’ پیامِ مشرق‘‘ میں شائع ہوچکے ہیں۔(۶۱) جوزا ۱۳۱۴ھ ش/ ۲۳ مئی ۱۹۳۵ئ: مجلہ کابل نے دورہ ٔ چہارم کے مندرجات کی فہرست حروفِ تہجی کے ترتیب سے شائع کی ہے۔ اس فہرست میں حضرت علامہ سے متعلق درجہ ذیل یادداشت محفوظ ہیں: موضوع نگارندہ صفحہ مسلسل (الف) افغانستان بیک نظر اجمالی سرمحمد اقبال ۹۹۳ (ب) بہاریہ ھا داکتر اقبال ۱۰۴۵ (۶۲) ۱۳۱۴ھ ش/ جنوری ۱۹۳۷ئ: مجلہ کابل میں حضرت علامہ کے کلام کا منظوم پشتو ترجمہ شائع ہوا ہے:۔ پیامِ مشرق کی نظم ’’زندگی ‘‘ کا یہ منظوم پشتو ترجمہ قیام الدین کا خادم نے کیا ہے۔ زندگی ؎ شبے زار نالید ابر بہار کہ ایں زندگی گریۂ پیہم است درخشید برقِ سبک سیر و گفت خطا کردۂ، خندۂ یکدم است ندانم بہ گلشن کہ بُرد ایں خبر سخنہامیانِ گل و شبنم است(۶۳) پشتو منظوم ترجمہ: ژوند ؎ ور¤" د سپرلی یوہ شپہ $یرہ او'œ* توئی œ%ی دغہ دی ژوندون تمامی عمر پہ ژ%ا داسی کرندی بر¤ ‚ پ پہ مندہ ورتہ ووئیل زہ ئی خپلہ بولمہ پہ نیمہ خولہ خندا دا خبرہ خدای زدہ چا ‹ باغ پہ خولہ کی وœ%لہ دغسی مجلس د (‍ و پر خی و سبا(۶۴) (ج): افغانستان میں پہلا اقبال ڈے اور دیگر تقاریبِ اقبال:۔ پنجشنبہ ۸ ثور ۱۳۱۷ ھ ش/ ۲۸، اپریل ۱۹۳۸ئ: افغان علماء فضلاء اور اہلِ علم و ادب کی جانب سے حضرت علامہ کی وفات کے صرف ایک ہفتے بعد کابل میں وزارت معارف کے ہال میں ایک پروقار تقریب کا انعقاد کیا گیا۔ اس تعزیتی تقریب میں مشاہیر افغانستان، اعلیٰ سرکاری افسران ادباء اور اہلِ قلم حضرات نے حصہ لیا۔ علامہ کی تعزیت کی اور ان کی فکری اور علمی خدمات کو خراجِ تحسین پیش کیا۔ تقریب کا آغاز صبح ساڑھے دس بجے قرآن کریم کی تلاوت سے ہوا۔اس کے بعد سرورخا ن گویاؔ مدیر شعبہ ادبیات اور حفظ آثار انجمن ادبی کابل نے وزارت معارف اور انجمن ادبی کی نمائندگی کرتے ہوئے خطاب کیا۔ انجمن ادبی کے مدیر عمومی احمد علی خان درانی نے شرح حال اقبال اور غلام جیلانی خان اعظمی نے روابط اقبال با افغانستان سے متعلق اپنا مقالہ پیش کیا اس پروگرام کے دوران وقتاًفوقتاً حضرت علامہ کے چند متخبات بھی پیش کئے گئے ۔ غلام جیلانی خان اعظمی کے مقالے کے بعد جناب قیام الدین خادم عضو انجمن ادبی کابل نے اقبال کا پشتو مرثیہ پیش کیا۔ (۶۵) افغانستان میں علامہ سے متعلق منعقدہ اس پہلی تقریب کی رپورٹ مجلہ ’’کابل‘‘ کے علاوہ کابل کے اخبار ’’انیس ‘‘ میں شائع ہوئی۔ (۶۶) ۱۳۳۱ھ ش کابل میں ادارۂ مطبوعات کے زیرِ اہتمام حضرت علامہ کی برسی کی تقریب کا اہتمام کیا گیا تھا۔ اس تقریب میں دیگر امور کے علاوہ افغانستان کے مشہور شاعر اور خطاط محمد ابراہیم خلیل نے بھی حضرت علامہ کے حضور فارسی منظوم خراجِ تحسین پیش کیا ۔ اس خراجِ تحسین کو ابراہیم خلیل کے سوانح کے ساتھ شاملِ تحقیق کیا گیا ہے۔(۶۷) ۲ ثور ۱۳۴۶ ھ ش : پاکستانی سفارتخانہ کابل میں یومِ اقبال کے حوالے سے ایک تقریب منعقد ہوئی۔ اس تقریب کی تفصیلات کا پتہ تو نہیں چل سکا البتہ اس تقریب میں پڑھا گیا ایک مقالہ پشتومیں جناب عبدالشکور رشادؔ صاحب نے سنایا تھا۔ یہ مقالہ بعد میں افغانستان کے مجلہ’’و&ں¦‘‘ میں شائع ہوا۔ مقالے کے ساتھ مقالہ نگار کی متعلقہ تقریب کی تصویر بھی شائع ہوئی ہے۔(۶۸) ۱۹۶۶ء میں پاکستانی سفارتخانے میں یومِ اقبال کے حوالے سے ایک اور تقریب کا پتہ چلتا ہے جس کی صدارت مشہور افغان اقبال شناس استاد خلیل اللہ خلیلیؔ مرحوم نے کی تھی جبکہ اس میں کابل یونیورسٹی کے شعبہ ادبیات کے ڈین ڈاکٹر پروفیسر غلام حسن مجددی نے ایک مقالہ پیش کیا تھا۔ یہ مقالہ اقبال ریویو نے تقریب کی تصویر کے ساتھ شائع کیا ہے۔ (۶۹) ڈاکٹر محمد ریاض مرحوم نے پروفیسر غلام حسن مجددی کے دو مقالات کا حوالہ دیاہے جو بقول ان کے موصوف کے یہ دونوں مقالے ان کے وہ خطاب ہیں جو’’یومِ اقبال‘‘کے موقع پر پاکستانی سفارتخانے نے (کابل)کے زیرِ اہتمام انھوں نے پڑھے تھے۔ یہ مقالات (۱) دو ماہی ’’ادب ‘‘کابل جون جولائی ۱۹۶۵ء ’’یاد بود علامہ اقبال‘‘صفحہ ۳۰ تا ۳۸ ۔ (۲)اپریل تا جولائی ۱۹۶۷ئ’’ فلسفۂ اقبال ‘‘ صفحہ ۳ - ۸ شائع ہوچکے ہیں۔ (۷۰) ۳ دسمبر ۱۹۷۷ئ: حضرت علامہ کے صد سالہ جشن ولادت کی مناسبت سے افغانستان میں بھی تقاریب منعقد ہوئیں۔ اس موقع پر ریڈیو افغانستان کابل کے آڈیٹوریم میں ایک عظیم الشان سیمینار منعقد ہوا۔ جس میں سفار ت کاروں اور افغانستان کے ممتاز سکالروں ، شعراء اور ادباء نے کثیر تعداد میں شرکت کی ۔ سیمنار کے آغاز میں افغانستان کے صدر جناب سردار محمد دائو خان کا مندرجہ ذیل پیغام پڑھ کر سنایا گیا: I am pleased to express my sincere congritulation on the observation of the centenary of birth of Allama Muhammad Iqbal, the valiant thinker, poet and man of letters of east and the world of Islam. Allama Muhammad Iqbal undoubtedly, is one of the Humanist and pious figures who are bestowed upon the world of Humanity and occasionally. This renowned philosopher, as he endowed his valuable work to the richness of thought and human civilisation had a profound interest in our country. Afghanistan, and left as legacy part of his eloquent poems to our people The people of our country hold in respect this great son of east, who was amply inspired by the thought of our scholar such as Hakeem Sanai Ghaznawi and Maulana Jalal-ud-Din Bulkhi and has enmished their valuable teaching with this own propound thoughts and sensitiveness. With the expression of the best wishes I wish for the success of the scholars who have gathered in this scholarly meeting. Muhammad Daud President Of the Republic of Afghanistan اس کے بعد افغانستان کے وزیرِ اطلاعات و ثقافت پروفیسر ڈاکٹر عبدالرحیم نے اپنے افتتاحی خطاب میں اور سیمنار کے اعزازی چیئرمین پروفیسر عبدالہادی داویؔ اور کابل یونیورسٹی کے ری ایکٹر پروفیسر عبدالسلام عظیمیؔ نے اپنے خطبات میں مفکر اسلام شاعر مشرق علامہ محمد اقبال کو زبردست خراجِ تحسین پیش کیا ۔ جبکہ کابینہ کے وزیر سید محمد قاسم رشتیا نے ’’ اقبال و افغانستان‘‘ ڈاکٹر سید مخدوم رحیم نے ’’عظیم افغان مفکر اقبال‘‘ اور افغانستان کے نامور محقق پروفیسر آقائے حبیبیؔ نے ’’د اقبال نظریات و افکار‘‘ پر پرمغز مقالات پیش کئے۔ وزارت اطلاعات کی طرف سے اس موقع پر اقبال کے بارے میں مطبوعات بھی تقسیم کی گئیں۔ جبکہ ریڈیو کابل نے بھی اسی یوم کی مناسبت سے علامہ کے فارسی اور اردو اشعار برابر نشر کئے۔ The Kabul Times کے علاوہ روزنامہ جمہوریت (پشتو) اور روزنامہ ’’ھیواد‘‘ (پشتو) نے اپنے ۴ دسمبر ۱۹۷۷ء کی اشاعت میں سیمنار کی خبر کو صفحہ اول پر جلی سرخیوں سے شائع کیا۔ اور سیمنار کے فوٹو بھی شائع کئے۔ اس کے علاوہ روزنامہ انیس کابل (فارسی) یکم دسمبر اور ۳ دسمبر کی شمارو ںمیں ’’اثار اقبال‘‘ کے عنوان کے تحت فارسی میں ایک مقالہ دو قسطوں میں شائع ہوا۔اور سردار محمد دائود خان کے پیـغام کے علاوہ ’’‹ک‍پں¦ پ›‚پ‍ ‍ $¦ ƒ¤‘ ‹(‍¢‘‘(علامہ اقبال کا مختصر تعارف) کے عنوان سے ایک اداریہ بھی شائع کیا اور سیمنار کی خبروں کے علاوہ اقبال کے فوٹو بھی شامل اشاعت ہیں۔ اس سیمنار میں پڑھے گئے مقالات کو پروفیسر ڈاکٹر روان فرہادی نے مرتب کرکے ’’معنی عشق نزد اقبال ‘‘ کے نام سے کتابی شکل میں شائع کیا۔ (د): افغانستان میں اقبالیاتی کتب کا مختصر تحقیقی جائزہ:۔ افغانستان میں حضرت علامہ کے فکر و فن پر مختلف زبانوں میں وقتاً فوقتاً مختلف کتب شائع ہوتی رہی ہیں۔ سنِ اشاعت کی ترتیب کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ان کتب کی تفصیل و تحقیق حسب ذیل ہے۔ ۱۔ ƒ'„پ ¦ ‹ ک‍پں¦ پ›‚پ‍ ƒ¦  —ژ œ* ۔(پشتو) (پشتون علامہ اقبال کی نظر میں) از عبداللہ بختانی خدمتگار افغانستان میں حضرت علامہ سے متعلق لکھی جانے والی پہلی باقاعدہ پشتو کتاب ہے۔ جو پشتو ٹولنہ کابل کی مسلسل نمبر ۱۲۲ کے تحت ۱۳۳۵ھ ش میں شعبہ ترجمہ کی جانب سے شائع ہوئی ہے۔ مؤلف عبداللہ بختانی اور مصیحح و مہتمم راز محمد و¤' ہے۔ کتاب کے تعارفی کلمات پشتو ٹولنہ کابل کے سربراہ مشہور اقبال شناس گل باچا الفتؔ نے لکھے ہیں جس میں افغانستان میں اقبال شناسی کے حوالے سے جناب بختانیؔ کے اس ابتدائی کاوش کو سراہا گیا ہے۔ کتاب کے ٹائٹل پر دائیں جانب کونے پر حضرت علامہ کی تصویر ہے جبکہ ٹائٹل کے وسط میں درہ خیبر کی تصویر اور نیچے علامہ کا ذیل شعر درج ہے۔ ؎ خیبر از مردان حق بیگانہ نیست در دل او صد ہزار افسانہ ایست صفحہ الف، ب پر بختانی صاحب کا تعارفی دیباچہ ہے جبکہ درج ذیل عنوانات کے تحت حضرت علامہ کے فکر و فن کی روشنی میں بحث کی گئی ہے۔ جا بجا حسبِ ضرورت کلامِ اقبال کے حوالے دیئے گئے ہیں۔ - علامہ اقبال #¢œ ¢¢ (اقبال کون تھے) صفحہ ۱ - د اقبال نظریات (نظریاتِ اقبال) ۲ تا ۳ - پہ مغرب باند* انتقاد (مغرب پر تنقید) ۴ تا ۷ - مشرق تہ خطاب (مشرق کو خطاب) ۸ تا ۱۱ - ƒ'„ ¢ „¦ ٹ–پ‚ (پشتونوں کو خطاب) ۱۲ تا ۲۰ - د افغانستان سفر (سفرِ افغانستان) ۲۱ تا ۲۳ - خیبر ۲۳ - کابل ۲۴ تا ۲۵ - غزنی ۲۶ - قندہار ۲۷ - ƒ'„پ ¦ مشاہیر (پشتون مشاہیر) ۲۸ - المتوکل علی اللہ محمد ظاہر شاہ ۲۸ تا ۳۳ - اعلیٰ حضرت محمد نادر شاہ ۳۴ تا ۳۸ - والا حضرت امیرا مان اللہ خان ۳۸ تا ۴۱ - اعلیٰ حضرت احمد شاہ بابا ۴۲ تا ۴۶ - سوری شیر شاہ ۴۷ تا ۴۸ - خوشحال خان خٹک ۴۹ تا ۵۸ - اقبال د افغانی شاعرانوپہ نظر کی (اقبال افغان شعراء کی نظر میں) ۵۸ تا ۵۹ - اقبال کیست ( مرحوم ملک الشعراء قاری ) ۶۰ - برمزار اقبال در لاہور (استاد خلیلی) ۶۱ - د علامہ اقبال پہ تصویر (حمزہ شینواری) ۶۲ - اقبال تہ خطاب (قیام الدین خادم) ۶۳ تا ۶۴ - علامہ مشرق (ملک الشعراء بیتاب) ۶۵ - د اقبال ویر (مرثیہ اقبال) (گل باچا الفتؔ) ۶۶ - بہ یاد علامہ محمد اقبال (محمد ابراہیم خلیل) ۶۷ - مأخذات ۶۸ اس کتاب کے مأخذات میں علامہ کے (۱)۔مثنوی مسافر ، (۲)۔ پس چہ باید کرد اے اقوامِ شرق، (۳)۔ پیامِ مشرق، (۴)۔ جا وید نامہ، (۵)۔سیر تِ اقبال از محمد طاہر فاروقی، (۶)۔ دیوان خوشحال خان خٹک، (۷)خوشحال خان ٹ!œ #¦ واي از عبدالرئوف بینوا شامل ہیں۔ (۷۱) جناب بختانی صاحب کے ساتھ مأخذات کے سلسلے میں فضل محبوب مجددی نے مدد کی تھی۔ جبکہ مولانا قیام الدین خادمؔ نے علامہ کے اردو اشعار کے ترجمہ و تفہیم میں ان کے ساتھ مدد کی تھی۔ بحیثیت مجموعی افغانستان میں پشتو زبان میں تفہیم فکرِ اقبال کے سلسلے میں یہ ایک بہتر کاوش ہے جو کہ ابتدائی طور پر افغانستان میں فکرِ اقبال کو روشناس کرانے کے سلسلے میں بنیادی اہمیت کی حیثیت اختیار کرگئی ہے۔ ۲۔ آثار اردوی اقبال (جلد اول فارسی) از عبدالہادی داویؔ قوس۱۳۵۶ھ ش میں افغانستان میں بھی حضرت علامہ کی صد سالہ جشنِ ولادت کی تقریبات کا انعقاد ہوا۔ اس سلسلے میں کئی نشریات شائع ہوئیں ۔ اس میں ایک اہم کام افغانستان میں اقبال شناسی کے حوالے سے عبدالہادی داویؔ کا ’’آثار اردوی اقبال‘‘ کا شائع ہونا ہے۔ یہ کتاب دو جلدوں میں شائع ہوئی اور اس کی اشاعت کا اہتمام اٖفغانستان کے وزارت اطلاعات و کلتور کے موسسہ انتشارات بیہقی نے کیا تھا۔ جلد اول آثار اردوی اقبال اس جلد میں ۱۴ عنوانات اور ۷۶ ضمنی عنوانات کے ذریعے علامہ کی آفاقی شخصیت کے مختلف فنی و فکری نکات پر بحث کی گئی ہے۔ صفحات درج ذیل ہیں۔ ۵ (تذکر و فہرست) + ۱۳۰ (متن) + ۲۵ (تصاویر علامہ و خطاطی کے نمونے) جملہ = ۱۶۰ کتاب کی فہرست بلحاظِ عناوین ضمنی عناوین و صفحہ نمبر ذیل ہے۔ عنوان اجزائے عنوان صفحہ نمبر حمد و نعت حمد ۱ نعت ۲ مقدمہ اقبال ما ۳ لہجہ وطنیہ و محاورہ ۹ تشریح بعضی کلمات ۱۰ آثار اردو ی علامہ ۱۱ قدردانی ملت موسسات دایمی ۱۳ یومِ اقبال ۱۵ طبع آثار ۱۶ اقبالیست ھا ۱۶ ترجمۂ آثار ۱۶ در خارج ۱۶ حیات خاندان ۱۷ ازدواج ۱۹ تصوف علامہ صوفی است ۲۱ عنوان اجزائے عنوان صفحہ نمبر تفسیر خودی یا فلسفہ او ۲۴ مقاصد دفع استعمار ۲۶ اصلاح نوجوانان ۳۱ سیاست زبان وبیان علاقہ زبان دری با اردو ۳۱ - ۳۲ علت شعر گوئی ۳۳ کیف استعمال زبان دری ۳۴ مراحل شعر او ۳۵ پرنویسی ۳۶ اسلوب شعر آمد شعر ۳۷ سبک ۳۸ حوالہ بہ رجال ۳۸ نامھائی خیالی ۳۹ علامہ و ادبائی سلف ۳۹ بدیع و بیان ۴۱ ملاحت یا اغلاق ۴۲ عناوین اشعار ۴۴ تاریخ و مقام انشاد ۴۴ گریز از لفاظی ۴۵ جلد اول اقبال نامہ تمہید ۴۷ مولانا سید سلیمان ندویؔ ۵۱ سید راس مسعود ۵۸ عنوان اجزائے عنوان صفحہ نمبر محمد عباس لمعہ ۶۱ عبدالماجد ۶۳ مخدوم الملک ۶۵ غلام السیدین ۶۷ پروفیسر الیاس برنی ۶۸ مولوی مسعود ندویؔ ۶۹ پروفیسر شجاع ۷۰ صفر ا ہمایون بیگم ۷۰ منشی انجمن تبلیغ اسلام نیرنگ ۷۲ عشرت رحمانی ۷۳ جوابیہ انتقادات مقالہ بر فلسطین ۷۴ - ۷۵ جلد دوم اقبال نامہ تمہید ۷۶ قائد اعظم ۷۶ کش پرشاد ۷۷ عبدالرحمن و عبداللہ چغتائی ۸۱ مولوی صالح محمد ۸۴ مولوی محمد اکبر ۸۵ خواجہ حسن نظامی ۸۹ پیغلہ عطیہ فیضی ۹۱ پروفیسر محمد اکبر ۹۳ محمد جمیل ۹۵ عنوان اجزائے عنوان صفحہ نمبر مولوی عبدالحق ۹۶ شاطر ۹۷ محمد دین ۹۸ سید نذیر نیازی ۹۸ قاضی نذیر احمد ۹۹ صاحبزادہ آفتاب احمد خان ۱۰۱ خلیل خالد ۱۰۳ مکتوبات اقبال سید نذیر نیازی ۱۰۶ ضربِ کلیم تمہید ۱۰۸ اسلام و مسلمانان ۱۱۰ تعلیم و تربیت ۱۱۲ جنس لطیف ۱۱۳ ادبیات و فنون لطیفہ ۱۱۶ سیاسیات شرق و غرب ۱۱۹ محراب گل افغان ۱۲۱ ارمغانِ حجاز تمہید و تعریف ۱۲۵ مجلس مشاورۂ ابلیس ۱۲۶ نصیحت بلوچ ۱۲۸ (۷۲) بیاض ضیغم کشمیری ۱۲۹ اس جلد میں علامہ سے متعلق بعض تصاویر بھی شائع ہوئی ہیں۔ جن کی ترتیب وار تفصیل حسب ذیل ہے۔ نمبرشمار عنوان ملحقہ صفحہ نمبر ۱۔ علامہ اقبال ۱۶ ۲۔ شیخ نور محمد قبلہ گاہ ، علامہ اقبال ۱۷ ، اگست ۱۹۳۰ء وفات یافت ۱۷ ۳۔ مسجد حسام الدین در سیالکوت درس گاہ اول اقبال ۱۸ ۴۔ پوھنتون پنجاب کہ علامہ سالہا در آن ممتحن زبان عربی بود ۱۹ ۵۔ مزار مبارک حکیم سنائی در غزنی کہ سبب گریۂ زیاد علامہ مرحوم گردید ۲۲ ۶۔ مولانا جلال الدین بلخی ثم الرومی (۱۲۰۷ - ۱۲۷۳ م) ۴۰ ۷۔ ورود علامہ اقبال بہ الہ آباد برائی ریاست اجتماع آل انڈیا مسلم لیگ کہ دران برائی یک کشور مستقل مسلمانان ہندو حفظ آزادی افغانان صوبۂ سرحد (پشتونستان نطق داد) ۴۱ ۸۔ ریاض منزل بہوپال (۱۹۳۶ئ) ۴۴ ۹۔ علامہ را مرحوم صلاح الدین سلجوقی جنرال قونسل افغانستان درہند برسیشن لاہور مشایعت و وداع میکند وقتیکہ علامہ برائی روند تیبل کانفرنس بہ لندن رفتن میخواھد ۴۵ ۱۰۔ علامہ مرحوم باپسرش 'پغلی جاوید ۱۹۲۹ء ۱۰۴ ۱۱۔ علامہ مرحوم در مسجد شاہی لاہورآن شعر خود رامی شنواند کہ عنوان آن است بحضور حضرت رسالتمآب ۱۰۴ (الف) ۱۲۔ مولوی سید حسن متوفائی ۱۹۲۹ء معلم عربی و دری ور ہنمائی علامہ اقبال ۱۰۴(ب) ۱۳۔ لسان العصر سید اکبر الہ آبادی مرحوم ۱۰۴ (ج) ۱۴۔ علامہ اقبال در مسجد قرطبہ نمازی گزارد ۱۰۴(د) نمبرشمار عنوان ملحقہ صفحہ نمبر ۱۵۔ علامہ و سید سلیمان ندوی و سر راس مسعود رحمہم اللہ تعالیٰ در باغ بابر کابل ۱۰۴(ھ) ۱۶۔ دعوتی کہ بہ شرف ورود علامہ سید سلیمان ندوی و سر راس مسعود در کابل دادہ شدہ است ۱۰۴(و) ۱۷۔ حیات علامہ درلیسہ کمیبرج (انگلستان) باھموطنانش خصوصاً شیخ عبدالقادر و پیغلہ عطیہ ۱۰۴(ز) ۱۸۔ لیسۂ دولتی لاہور درس گاہ علامہ ۱۰۴ (ح) ۱۹۔ علامہ اقبال باھیت سیار الازھر (پوھنتون قدیم و مشہور مصر) کہ بہ لاہور بودند ۳۷ ۱۹ء ۱۰۴(ط) ۲۰۔ مرحومہ امام بی بی مادر علامہ اقبال کہ در ۹ نومبر ۱۹۱۴ء وفات یافت ۱۰۴ (ی) ۲۱۔ پوھان و لفگانگ فان گویتہ شاعر المانی (۱۷۴۹ - ۱۸۳۲ م) ۱۰۴(ث) ۲۲۔ علامہ بانواب ذوالفقار علی خان درشملہ ہند با محمد حیدر خان جنرال قونسوال افغانستان و ہمکاران افغان او ۱۳۰ ۲۳۔ منظرہ اشتراک اھالی لاہور در جنازہ علامہ مرحوم ۱۳۱ ۲۴ علامہ در وسط اعضائی ادارہ معارف اسلامیہ لاہور ۱۹۳۳ء آخر ۲۵ مزار علامہ کہ سنگ قبر آن در افغانستان لاجورد نشانی شدہ است آخر کتاب کے آغاز میں ’’تذکر‘‘ کے عنوان سے افغانستان کے وزیرِ اطلاعات و کلتور پوہاند نوین کے چند تعارفی کلمات شائع ہوئے ہیں۔ یکی از مردانیکہ در عصر حاضر تمام عمرش را وقف گستن زنجیر ھائی استعمار و خدمت بہ ملل مشرق زمین کردہ است علامہ اقبال میباشد۔ او نہ تنہابہ عنوان یکی از آغاز گران نہضت آزادیخواھی درنیم قارہ شہرت دارد بلکہ بہ حیثیت شاعر و فیلسوف و سخندانی بزرگ نیز حایز مرتبت والا ییست کہ بہ شخصیت و چہرۂ درخشانش ابعاد متنوع مید ہد۔ و اما احساس و قضاوت ما افغا نہا بر علاوۂ ارج گزاری بہ مقام سیاسی و ادبی این فرزند نامی خاور زمین از منبع دیگری نشان می کند از جائیکہ اقبال می گوید۔ ؎ آسیا یک پیکر اب و گل است کشور افغان در آن پیکر دل است او افغان دوستی بزرگ بود و ہمیشہ در امر بیداری مشرق زمین نظری خاص بسر زمین ماداشت و درآثار چون پیامِ مشرق، پس چہ باید کرد اقوام مشرق و مسافر و دیگر مجموعہ ھائی شعرش از ملت افغان بعنوان ملتی آزادہ سرفراز و زنجیر گسل استعمار و استبداد یاد کردہ است۔ ماھموارۂ یاد این بزرگ مرد را گرامی میدار یم و خوشحالیم کہ در ازاء آنھمہ محبت عالمانہ و شاعرانہ این کتاب ارزشمند رابہ کوشش و تدوین و تالیف استاد گرانمایہ بنباغلی عبدالہادی داوی بہ زیور طبع می آراییم و معنآ ادائی دین می کینم۔ (۷۳) ترجمہ: عصرِ حاضر کے ان مردان حق میں سے ایک علامہ محمد اقبال ہیں جنھوں نے زندگی بھر استعماری قوتوں کی زنجیروں کو توڑنے اور مشرقی اقوام کی خدمت کرنے میں انتھک جدو جہد کی ۔وہ نہ صرف بر صغیر کے جدوجہد آزادی کے بانیوں میں سے تھے بلکہ بحیثیت شاعر و فلسفی ان کے گران قدر خیالات نے ان کی شخصیت میں شاندار اضافہ کیا تھا۔ البتہ ہم افغانوں کے لئے ادبی و سیاسی مقام کے علاوہ بھی سرزمین مشرق کے اس عظیم فرزند کے احسانات ہیں جنہوں نے فرمایا : ؎ آسیا یک پیکر اب و گل است کشور افغان در آن پیکر دل است وہ افغانوں کے بہت بڑے دوست تھے۔ وہ مشرق کی بیداری میں ہمیشہ ہماری سرزمین کو ایک خاص توقع آمیز نگاہ سے دیکھتے تھے۔ اپنے آثار خاص کر پیامِ مشرق ، پس چہ باید کرد اے اقوامِ مشرق و مسافر اور دیگر شعری آثار میں ملتِ افغان کو ملتِ آزاد و سرفراز، زنجیر گسل استعمار و استبداد کے نام سے یاد کیا ہے۔ ہم اس عظیم محسن کے یاد کو احترام سے منا رہے ہیں۔ اور خوش ہیں کہ ان کی اس عالمانہ و شاعرانہ محبت کی بنیاد پر ہم جناب عبدالہادی داوی کے کوشش و تدوین سے یہ کتاب شائع کررہے ہیں۔ کتاب کے آغاز میں مولانا جامی قدس سرہ کے مثنوی یوسف زلیخا سے حمد شامل کیا ہے جس کا مطلع اور آخری بیت درج ذیل ہیں۔ ؎ الٰہی غنچۂ امید بکشائی گلی از روضۂ جاوید بنمائی بیا ساقی رہا کن شرمساری زصاف و درد پش آر آنچہ داری (۷۴) حمد کے ذیل میں حکیم سنائی غزنوی کے ۱۴ نعتیہ ابیات نعت کے عنوان سے شامل کئے ہیں پہلا اور آخری بیت درج ذیل ہے۔ ؎ چون تو بیماری از ھوا و ھوس رحمت اللعالمین طبیب تو بس در حریم وی سلامت جوئی شرم دار از حرام دست بشوئی مولانا جامی اور حکیم سنائی کے حمد و نعت کی اس اشاعت کو مؤلف نے افغانستان کے ان زعماء سے اقبال کے اخلاص و عقیدت کا سبب لکھا ہے۔ (۷۵) اس کے بعد جناب داویؔ کے پانچ صفحات پر مشتمل مقدمہ شروع ہوتا ہے جس میں واضح کیا گیا ہے کہ اس کتاب میں فقط علامہ کے اردو آثار کے نام وغیرہ درج کرانا نہیں بلکہ علامہ کے مقاصدِ حیات و افکار خصوصاً افغانوں کے لئے دلچسپی کے امور کو اجاگر کرنا ہے۔ ’’اقبال ما‘‘ کے عنوان کے تحت اقبال کو خالصتاً ایک مسلم شاعر ہونے کی بناء پر اپنا شاعر کہا ہے۔ علامہ کی اس رباعی کا حوالہ دیا ہے۔ ؎ ’’تو ای کودک منش خود را ادب کن مسلمان زادہ ئی ترک نسب کن برنگ احمر و خون و رگ و پوست اگر نازد عرب ترک عرب کن (۷۶) اقبال نے کبھی بھی مسلمانانِ ہند کی ہندی ہونے کی بناء پر خدمت نہیں کی ہے بلکہ فقط مسلمان ہونے کے ناطے ان کے لئے سرگرمِ عمل رہے۔ بقول سنائی: ؎ سخن کز بہر حق گوئی چہ عبرانی چہ سریانی مکان کز بہر حق جویٔ چہ جا بلقاء چہ جا بلساء اقبال افغانوں سے قلبی و صمیمی محبت رکھتے تھے ۔ جاوید نامہ میں افغانستان سے متعلق ارشاد فرمایا۔ پیامِ مشرق میں ملت اسلامیہ کے ممالک کی حالت پر افسوس کا اظہار کیا۔جبکہ افغانستان سے کئی توقعات وابستہ رکھتے ہوئے افغانوں کی تعریف و توصیف کی۔‘‘ (۷۷) داویؔ نے ان تمام دلائل کے اثبات میں جابجا علامہ کے اشعار کے حوالے دیئے ہیں ۔ ساتھ ہی جا بجا علامہ کے ان لغات ، اصطلاحات و تعبیرات کی نشاندہی کی ہے جو انھوں نے مثنوی معنوی ، عطارؔ، حدیقہؔ، حکیم سنائی اور آثار جامیؔ سے مستعار لئے ہیں۔ عبدالہادی داویؔ نے آثار اردوی اقبال میں علامہ کے درج ذیل اردو آثار متعارف کرائے ہیں۔ ۱۔ مکتوبات الف۔ اقبال نامہ دو جلد از پروفیسر شیخ عطا ء اللہ۔ ب۔ مکتوبا تِ اقبال ایک جلد از سید نذیر نیازی۔ ج۔ خطوط اقبال ایک جلد از عطیہ فیضی۔ ۲۔ ضربِ کلیم شعری مجموعہ۔ ۳۔ ارمغانِ حجاز حصہ اردو۔ ۴۔ خطباتِ اقبال مختلف تقاریر، بیانات و خطبات کا اردو ترجمہ۔ ۵۔ بانگِ درا اردو اشعار کا مجموعہ۔ ۶۔ اخبارت و رسائل کے لیئے لکھے گئے نثری مضامین۔ ۷۔ بالِ جبریل اردو شعری مجموعہ۔ ۸۔ شاد اقبال مجموعہ مکاتیب۔ ۹۔ مکاتیب اقبال رئیس جالندھر نیاز الدین خان کے نام ۷۹ مکاتیب کا مجموعہ۔ ۱۰۔ مضامین اقبال علامہ کے چودہ مضامین کا مجموعہ جو ۱۹۶۴ء میں شائع ہوا۔ ۱۱۔ علم الاقتصاد اردو میں لکھی گئی علامہ کہ پہلی کتاب لیکن چونکہ علامہ کے شاعرانہ و فلسفیانہ افکار سے ہم آہنگ نہیں اس لئے ان پر بحث نہیں کی جائے گی۔ ۱۲۔ فلسفہ عجم میر حسن الدین نے انگریزی سے اردو میں ترجمہ کیا۔ (۷۸) جناب عبدالہادی داویؔ نے جلد اول میں صرف ان چار کتب کو منتخب کیا ہے۔ (۱)۔ اقبال نامہ، (۲)۔ مکتوباتِ اقبال، (۳)۔ ضربِ کلیم، (۴)۔ ارمغانِ حجاز۔ مؤسسات دائمی کے عنوان سے علامہ اقبال کے نام پربنائے گئے مختلف انجمنوں کا حوالہ دیا گیا ہے۔ بزمِ اقبال، اقبال سوسائٹی، اقبال اکادمی، ادارہ اقبال وغیرہ۔ اس کے ساتھ اس شدید خواہش کا اظہار بھی کیا گیا ہے کہ کاش اگر افغانستان میں بھی علامہ کے نام سے منسوب کوئی تنظیم بنائی جائے ۔ یا علامہ کے نام سے کسی عمارت کو موسوم کیا جائے۔ تو اس عظیم شخصیت کے حق کی ادائیگی میں پیش رفت ہوجائے گی۔ (۷۹) آثار اردوی اقبال کے لکھنے تک اقبال پر کئے گئے بنیادی کام کو زیر تحقیق لایا گیا ہے۔ یومِ اقبال ، طبع آثار اقبال، اقبالست ھا، اقبالیات کے تراجم، عالمی سطع پر اقبال پر کیا گیا کام وغیرہ۔ اقبال کی حیات اور ازواج پر بحث کے ساتھ ساتھ تصوفِ اقبال ، تفسیر خودی یا فلسفۂ اقبال پر بحث کی گئی ہے۔ علامہ کے مقاصد کا تعین کیا گیا ہے، جن میں دفع استعمار و محکومیت از ہند،و اصلاح جوانان شامل ہیں۔ علامہ کی سیاست، اردو و دری کی مماثلت علامہ کی علتِ شعر گوئی ، علامہ و استعمال زبان دری، مراحل شعرء اقبال، پُر نویسی وغیرہ بھی زیرِ بحث لائے گئے ہیں۔ علامہ کے اسلوب شعر کو درج ذیل عنوانات میں تقسیم کیا گیا ہے: آمد شعر، سبک ، حوالہ بہ رجال گذشتہ، نام ہائی خیالی علامہ و ادبائی سلف ما، علامہ و بدیع و بیان، ملاحت یا اغلاق ، عناوین اشعار تاریخ و مقام، انشائ، گریزاز لفاظی و لسانی۔ اردو آثار کے سلسلے میں پہلے اقبال نامہ کا مجموعی تعارف تمہید کے عنوان سے پیش کیا گیا ہے اور ساتھ ہی بتایا گیا ہے کہ اقبال نامہ میں درج ذیل تین ہستیوں کے نام مکاتیب موجود ہیں: ۱۔ مولانا سید سلیمان ندویؔ ۷۰ مکتوبات۔ ۲۔ ڈاکٹر سید راس مسعود مرحوم اور ان کی اہلیہ اور اسی طرح ممنون حسن خان ۳۷ مکتوبات۔ ۳۔ ڈاکٹر محمد عباس علی خان المتخلص لمعہ ۲۹ مکتوبات۔ سیدسلیمان ندویؔ کے نام اقبال کے کئی مکتوبات کا فارسی ترجمہ جناب داویؔ نے پیش کیا ہے۔ ان مکتوبات میں مکتوب ۲۰ - ۲۵ - ۲۸ - ۳۳ - ۳۷ - ۳۸ شامل ہیں ۔ جبکہ جناب ندویؔ کے ساتھ علامہ کے ان تمام مکتوبات کا حوالہ دیا گیا ہے۔ ان مکتوبات میں مکتوب نمبر ۳۳ علامہ بنام سید سلیمان ندویؔ کا فارسی ترجمہ درج ذیل ہے: لاہور ۱۸، اگست ۱۹۲۴ء مخدومی السلام علیکم درین ایام پوھنتون مشہور جما ہیر متحدہ امریکا (کولمبیا) یک کتابی بنام (نظریات مسلمین درباب مالیات) شایع نمودہ درین کتاب نوشتہ است کہ اجتماع امت نص قرآنی رامنسوخ کردہ میتواند۔۔۔۔ مصنف علاوہ میکند کہ نزد بعضی حنفا و معتز لہ اجماع امت این اختیار رادارد۔ ولی او ھم حوالہ نمی دہد لہٰذا از حضور شما این سوال رامیکنم کہ ایا در آثار فقہی ازیں قبیل چیزی یافتہ میشود؟ سوال دیگر اینکہ رائی شخص شما درین باب چہ است؟ بندہ از حضور مولوی ابوالکلام صاحب نیز در عریضہ ئی پرسیدہ ام اگر جناب شما زود جواب بدھید نہایت ممنون خواھم شد۔ مخلص شما محمد اقبال بیرستر ۴۳ میکلودرود لاہور (۸۰) سر راس مسعود کے نام علامہ کے مکاتیب نمبر ۵ - ۳ - ۷ - ۸ - کے فارسی تراجم دیئے گئے ہیں۔ مکتوب نمبر ۸ کا فارسی ترجمہ پیش ہے۔ لاہور ۲۷ جولائی ۱۹۳۳ء جناب مکرم السلام علیکم نوازش نامۂ شما حال رسید۔ شکران مرا بپذیرید۔ من بہ بیسار خوشی مضمون راخواھم نوشت۔ ولی نہ درین دسمبر زیرا اولا شاید خارج بردم اگر باشم ھم برائی نوشتن یک مقالۂ دیگر وعدہ کردہ ام اگر سید راس مسعود برائی سال آئیندہ بخواھند من حاضرم۔ شمار در اخبار خود مضمون مراکہ در جراید انگلیسی طبع شدہ است ذکر کردہ اید۔ آن در اصل یک (مخاطبہ) بود کہ درجواب سوالات بانامہ نگار یک اخبار (ھنگری)کردہ بودم۔ چنان معلوم میشود کہ نامہ نگار مذکور آنرا بصورت یک مضمون مستقل ساختہ و بہ اخبارات انگلیسی فرستادہ است و بسی مطالب ضروری را کشیدہ و ترک نمودہ است شاید بجہت حفظ ربط مضمون خود عجبست کہ درجریدۂ (ھمدم) لکھنو کدام آقایٔ بران اعتراضات کردہ است زیرا مقاصد مضمون مذکور را درست فہمیدہ نتوانستہ است۔ شمار در مکتوب سابق خود بسبب ترجیح دادن من اصول اجتماعی اسلام رابراصول وطنیت مرا امام العصر خواندہ ایدمن عرض شکران میخایم۔ یک جریدئو نیشنلست (قوم پرست) کہ چھار مدیر مسلمان دارد و شمارۂ اول آن امروز در لاہور نشر شدہ است مینویسد کہ ’’اقبال عذر لنگ و طنیت تراشیدہ است‘‘ ببینید کہ نوجوانان مسلمانی کہ در کالج ھائی مغربی تحصیل کردہ از نقطۂ نظر روحانی چقدر فرو مایہ اند آنھا نمید انند کہ اسلامیت چیست و وطنیت چیست ۔ نزد آنھا وطنیت محض یک اشتقاق لفظ وطن است و بس۔ امید ست بعافیت باشید محمد اقبال (۸۱) داویؔصاحب نے پروفیسر خواجہ ایف ایم شجاع کے نام دو مکاتیب کا فارسی ترجمہ و تلخیص (محررہ ۲۰ جنوری ۱۹۳۱ء از لاہور و ۲۱ ، اگست ۱۹۳۲ئ) بھی پیش کئے ہیں۔ اس کے علاوہ میر سیدغلام بیگ نیرنگ کے نام ۵ دسمبر ۱۹۲۸ء کے مکتوب کا فارسی ترجمہ بھی کیا ہے ۔ ان مکتوبات کے علاوہ درج ذیل مکتوبات کے فارسی تراجم و تلخیصات بھی کتاب میں شامل ہیں۔ - بنام حافظ محمد فضل الرحمن انصاری - بنام سرکشن پرشاد محررہ یکم نومبر ۱۹۱۶ء - ایضاً محررہ ۳۰ جون ۱۹۱۷ء - بنام محمد عبداللہ چغتائی محررہ ۱۴ جون ۱۹۳۷ء - بنام مولوی صالح محمد - بنام لسان العصر مولوی اکبر اٰلہ آبادی محررہ ۹ نومبر ۱۹۱۱ء - ایضاً محررہ ۲۵جولائی ۱۹۱۸ء - بنام خواجہ حسن نظامی محررہ ۲۵ ، اپریل ۱۹۰۶ء - ایضاً محررہ ۱۰ فروری ۱۹۰۸ء - بنام عطیہ فیضی محررہ ۳۱ ، اگست ۱۹۲۰ء یہاں اس امرکی وضاحت ضروری ہے کہ متذکرہ بالا مکتوبات کے تراجم دیتے وقت جناب داویؔ نے وضاحتی نوٹ بھی تحریر فرمائے ہیں۔ متذکرہ بالا اور ان کے علاوہ علامہ کے مکتوبات کے حوالے سے بعض نکات پر جابجا تفصیلی تحقیقی و تنقیدی جائزے بھی پیش کئے ہیں۔ جن میں سے بعض خا صے اہم ہیں۔ بعض اشخاص سے متعلق اہم یاد داشتیں بھی اہمیت کی حامل ہیں۔ مکتوبات اقبال پر دو صفحات کے مختصر بحث کے بعد ضربِ کلیم کے مشمولات کا صفحہ نمبر ۱۰۸ تا ۱۲۴ کا عالمانہ و محققانہ جائزہ لیا گیا ہے۔ جا بجا مختلف اشعار کی تشریحات کی گئی ہیں۔ جبکہ حسبِ ضرورت بعض اشعار کے منظوم فارسی تراجم بھی پیش کئے ہیں۔ اگرچہ جناب داویؔ نے ’’لالی ریختہ‘‘ میں ضرب کلیم کے ۷۶ قطعات کے فارسی منظوم تراجم پیش کئے ہیں لیکن یہاں بھی بعض تراجم کے حوالے دیئے گئے ہیں مثلاً: ؎ خودی است تیغ فساں لا الہ الا اللہ دروست سر نھاں لا الہ الا اللہ بہ جستجوی براھیم خود بود ایں عصر صنم کدہ است جھان لا الہ الا اللہ (۸۲) کتاب کے آخر میں پانچ صفحات میں ارمغانِ حجاز کے مشمولات پر عالمانہ و محققانہ تجزیہ پیش کیا گیا ہے۔ آثاراردوی اقبال جلد دوم از عبدالہادی داویؔ یہ جلد بھی افغانستان کی وزارتِ اطلاعات و کلتور کے موسسۂ انتشارات بیہقی کی جانب سے قوس ۱۳۵۶ ھ ش (۱۹۷۷ئ) میں شائع ہوئی۔ صفحات ۲(فہرست ) + ۲ (تذکر) + ۴ مقدمہ بانگ درا + ۹۵ (متن کتاب) + ۶ (درست نامہ) جملہ = ۱۰۹ جلد دوم آثار اردو ی اقبال کی فہرست درج ذیل ہے: عنوان اجزائے عنوان صفحہ نمبر تذکر الف مقصدِ مترجم ب دیباچہ ۱ اطفال و جوانان ۱۳ ہمدردی ۱۳ سرود ملی ۱۴ مناظر طبیعیہ ۱۵ گل رنگیں ۱۶ گل پژمردہ ۱۷ عنوان اجزائے عنوان صفحہ نمبر نوید صبح ۱۸ موتر ۱۹ اسلامیات ۲۰ فاطمہ ۲۰ قطعہ ۲۱ ترانہ ملی ۲۲ غرہ شوال ۲۳ مسلم ۲۵ عشق و محبت ۲۶ عاشق ہرجائی ۲۸ وصال ۳۰ غزل ۳۲ ایقاظ و اخطار ۳۵ تصویر ۳۵ شکوہ ۴۳ جواب شکوہ ۴۹ شفا خانہ حجاز ۵۷ شمع و شاعر ۵۸ خضر راہ ۶۲ طلوع اسلام ۶۷ فلسفہ ۷۰ عنوان اجزائے عنوان صفحہ نمبر استفسار از خفتگان خاک ۷۰ عیدیہ ۷۴ پیام ۷۵ فلسفۂ غم ۷۵ مراثی ۷۷ غزلیات ۸۲ ظرافت ۸۴ مقالات ۸۷ کتاب کے آغاز میں افغانستان کے وزیر اطلاعات و کلتور داکتر پوھاند نوین کی تعریفی و توصیفی تحریر ’’تذکر‘‘ کے عنوان سے شائع ہوئی ہے: اقبال چہرہ ایست در خشان و الہام بخش کہ فلسفہ آزادی و وطن پرستی بانام آن رابطہ ناگسبتنی دارد۔ اقبال شاعر یست شیوا بیان و شیریں کلام کہ شعر و ادب دری وارو اذان رنگ جاویدان داشتہ وطنین آہنگ آن بردل ہرصاحب دل اثر می گزارد۔ اقبال فرزند ارجمند یست کہ مادر مشرق افتخار پرورش آنراداشتہ و خجستہ ترین آرزو ھا و آمال رادر شخصیت گرانما یہ او خلاصہ کردہ است۔ اقبال این شاعر و فیلسوف ھما پایۂ شرق بنا بر علایق و دلبستگی عمیقیکہ بہ مردم فرہنگ و آزادی کشور افغان داشتہ افغانستان را مشعلدار آزادی شرق و مایۂ امید و راستی از استعمار میداند۔ (ملتی آوارۂ کوہ و دمن در رگ او خون شیدان موجزن) (زیرک و روین تن و روشن جبین چشم او چون جرہ بازان تیز بین ) درپاسخ بہ نکو ترین و ژر فترین احساسات علامہ بافغانستان ما از اقبال رسالت انسانی اقبال۔ تابش نبوغ فکری و مبارزۂ اقبال در قبال تحریک حسن آزاد یخواھی جوامع شرق خاصا جنبش ھائی نجاتبخش از سلطۂ استعمار وقت در نیم قارہ بامنت داری خاصی ہموارہ استقبال می نمایم و در مقام تجلیل از شخصیت بزرگوارشان کہ خیرا باہمکاری موسسہ فرہنگی یونیسکو برگزاشد یاد آوری نمودہ رہبر انقلاب جمہوری افغانستان نباغلی محمد دائود در پیامیکہ بدین مناسبت بہ اجتماع لاہور فرستادند چنین ارشاد فرمودہ اند ’’علامہ اقبال بدون شبہ یکی از رجال بشر دوست و پاکیزہ سرشتیست کہ روزگار گاھہگاھی بہ جہان انسانیت ارمغان می نماید آن فیلسوف شہیر چنانکہ آثار گرانبہائی خود را وقف غنائی اندیشہ و ثقافت انسانی نمود علاقہ خاصی بہ کشور ما افغانستان ابراز میداشست و بخشی از اشعار ابدار خودبمردم ما بہ یاد گار گذاشت۔ باایں تذکر مختصر مسروریم جلد دوم آثار اردوی اقبال را کہ در نتیجہ سعی استاد عبدالہادی داویؔ گردیدہ واین دست آور دار زندہ مبین احساسات عمیق و احترام بی شائبہ ملت افغان بمقام والای علامہ می باشد جہت آشنائی بہتر ھموطنان عزیز با علامہ اقبال و افکار و آثارش تقدیم می نمائیم‘‘ پوھاند دکتور نوین وزیراطلاعات و کلتور (۸۳) ترجمہ: اقبال ایک ایساروشن و منور چہرہ ہے جس کی پر تو سے فلسفۂ آزادی و وطن پرستی کو روشنی عطا ہوئی ہے۔ اقبال ایک ایسا شاعر شیوا بیان ہیں جس کے کلام کی شیرینی سے فارسی شعر و ادب کو شیرینی ملی ہے۔ ان کے اشعار کے آہنگ نے ہر صاحبِ دل کے دل پر گہرے اثرات مرتب کئے ہیں۔ اقبال ایک ایسا فرزندِ ارجمند ہے جس کی پرورش مادرِ مشرق کے لئے باعثِ فخر ہے ۔ ان کی شخصیت کی تشکیل میں اعلیٰ اوصاف کو یکجا کیا گیا ہے۔ اقبال مشرق کے عظیم شاعر و فلسفی ہونے کے ساتھ ساتھ افغانوں، ان کی سرزمین آزادی اور تہذیب سے بھی محبت رکھتے تھے۔ وہ سرزمین افغانستان کو آزادی مشرق کا منبع اور استعمار سے نجات دہندہ تصور کرتے تھے۔۔۔۔۔۔ ’’بانگِ درا‘‘ پر جناب داویؔ نے فارسی میں مختصر مقدمہ تحریر کیا ہے۔ ان کے زیر مطالعہ ’’بانگِ درا‘‘ کے بائیسویں ایڈیشن ۱۹۶۳ء کا مطبوعہ نسخہ رہا ہے۔ بقول ان کے طبع اول ۱۹۲۴ء تا ان زیرِ استعمال نسخہ ۱۱۹۲۰۰ (ایک لاکھ انیس ہزار دو سو) نسخے شائع ہوچکے ہیں۔ اور بقول ان کے ہندوستان و پاکستان میں کسی بھی شاعر کوا تنی محبوبیت و مقبولیت نصیب نہیں ہوئی ہے۔ مقدمہ میں علامہ کی شاعری کے ادوار‘ ان کے اشعار‘ غزلیات‘ رباعیات‘ قطعات وغیرہ کی تعداد پر تحقیق کی گئی ہے۔ بانگِ درا کے مضامین کو نو اصنافِ عناوین میں تقسیم کیا گیا ہے۔ (۱)۔برائے اطفال، (۲)۔ مناظر طبعیہ، (۳)۔ اسلامیات، (۴)۔ عشق و محبت، (۵)ایقاظ، (۶)۔ فلسفہ ، (۷)۔ قدردانی ھا ہ و مراتی، (۸)۔ غزلیات، (۹)۔ ظرافت شیخ عبدالقادر بیرسٹر ایٹ لا کے مکمل دیباچے کا فارسی ترجمہ کیا گیا ہے۔ اس دیباچے کے ترجمے کے ساتھ ساتھ جناب داوی ؔنے جابجا علمی و معلوماتی تشریحات و حاشیے تحریر کئے ہیں۔ جناب داویؔ نے علامہ کی شاعری کو جن نو عناوین اصناف میں تقسیم کیا ہے اس میں سے ہر عنوان کے تحت بحث اور جا بجا حسبِ ضرورت منظوم فارسی تراجم کئے ہیں۔ ان عناوین کے تحت ان موضوعات سے متعلق علامہ کے فکری زاویوں کا جائزہ لیا گیا ہے۔ اقبال کے کلا م کے ان حصوں کی نشاندہی کی گئی ہے جو ان موضوعات سے متعلق ہیں۔ حصہ اول اطفال و نوجوانان میں نظم ہمدردی کا منظوم فارسی ترجمہ شامل کیا گیا ہے۔    ؎ ٹہنی پہ کسی شجر کی تنہا بلبل تھا کوئی اداس بیٹھا کہتا تھا کہ رات سر پر آئی اُڑنے چگنے میں دن گذارا پہنچوں کس طرح آشیاں تک ہر چیز پہ چھا گیا اندھیرا سن کر بلبل کی آہ و زاری جگنو کوئی پاس ہی سے بولا حاضرہوں مدد کو جان و دل سے کیڑا ہوں اگرچہ میں ذرا سا کیا غم ہے جو رات ہے اندھیری میں راہ میں روشنی کروں گا اللہ نے دی ہے مجھ کو مشعل چمکا کے مجھے دیا بنایا ہیں لوگ وہی جہاں میں اچھے آتے ہیں جو کام دوسروں کے (۸۴) نظم ہمدردی کا منظوم فارسی ترجمہ: ؎ بلبلی بر شاخۂ خشک درخت از غم تنہا پیش خاطر کرخت گفت روزم در پرید نہا گذشت شب رسید کل جہان تاریک گشت کی رسم تا آشیان خویشتن مشکلی دارد بہ شب رہ کافتن کرم شبتابی شنید اینقصہ را گفت من حل میکن این غصہ را شب شتیدم بلبلان فریاد را حاضرم با جان و تن امداد را گرچہ من چیزی نیم در تاب تن حق تعالیٰ روشنی دادہ بمن راہ را از بھرتو روشن کنم تاترہ آسودۂ مسکن کنم ہر کس کہ بد رد دیگران خورد وی بودہ بزرگ و دیگران خورد (۸۵) ہمدردی کے بعد جناب داویؔ نے ’’ہندوستانی بچوں کا قومی گیت‘‘ کا بھی فارسی منظوم ترجمہ کیا ہے۔ چشتی نے جس زمین میں پیغامِ حق سنایا نانک نے جس چمن میں وحدت کا گیت گایا تاتاریوں نے جس کو اپنا وطن بنایا جس نے حجازیوں سے دشتِ عرب چھڑایا میرا وطن وہی ہے، میرا وطن وہی ہے یونانیوں کو جس نے حیران کردیا تھا سارے جہاں کو جس نے علم و ہنر دیا تھا مٹی کو جس کی حق نے زرکا اثر دیا تھا ترکوں کا جس نے دامن ہیروں سے بھر دیا تھا میرا وطن وہی ہے، میرا وطن وہی ہے ٹوٹے تھے جو ستارے فارس کے آسماں سے پھر تاب دیکے جس نے چمکائے کہکشاں نے وحدت کی لے سنی تھی دنیا نے جس مکان سے میرِ عربؐ کو آئی ٹھنڈی ہوا جہاں سے میرا وطن وہی ہے، میرا وطن وہی ہے بندے کلیمؑ جس کے، پربت جہاںکے سینا نوحِؑ نبی کا آکر ٹھیرا جہاں سفینا رفعت ہے جس زمیں کی بامِ فلک کا زینا جنت کی زندگی ہے جس کی فضا میں جینا میرا وطن وہی ہے، میرا وطن وہی ہے(۸۶) منظوم فارسی ترجمہ: سرود ملی برائی بچہ ھائی ہندوستانی ؎ زمینی چشتیؒ دران پیغام حق شنواند چمنی کے نانک دران ترانہ وحدت خواند و تاتاریھا آنرا وطن خود ساختند حجاز ھادر شوق آن دشت عرب را فراموش کردند وطن من ھمان ست، وطن من ھمان ست آنجا کہ یونانی ھا را حیرت زدہ ساختہ بود ویتمام جھاں علم وہنر گستر دہ بود خاکش راحق تعالیٰ تا ثیر زربخشیدہ و دامن تر کھارا از الماس معلو نمودہ بود وطن من ھمان ست، وطن من ھمان ست جایکہ انجم شکستہ وریختہ فضائی فارس را دوبارہ چوں کہکشاں درخشانید جا یکہ دنیا را سرور وحدت شنوانیدہ و میر عربؐ رانیسم گوارا ازانسو رسیدہ وطن من ھمان ست، وطن من ھمان ست پربت سینائی کہ بندھا کلیم آیندہ و کشتی نوح آنجا آرامیدہ زمینی کہ در رفعت نرد پان فلک است و در فضائی آن حیات بہشتی موجود ست وطن من ھمان ست، وطن من ھمان ست (۸۷) عنوان دوم مناظرفطرت کے مد میں نظم’’ گل رنگین‘‘ کامنظوم فارسی ترجمہ کیا ہے: ؎ تو شناسائے خرابش عقدۂ مشکل نہیں اے گلِ رنگین ترے پہلو میں شاید دل نہیں زیب محفل ہے، شریکِ شورشِ محفل نہیں یہ فراغت بزمِ ہستی میں مجھے حاصل نہیں اس چمن میں میں سراپا سوز و ساز آرزو اور تیری زندگانی بے گدازِ آرزو توڑ لینا شاخ سے تجھ کو مرا آئیں نہیں یہ نظر غیراز نگاہِ چشم صورت بیں نہیں آہ ! یہ دستِ جفا جُو اے گلِ رنگین نہیں کس طرح تجھ کو یہ سمجھائوں کہ میں گل چیں نہیں کام مجھ کو دیدۂ حکمت کے الجھیڑوں سے کیا دیدۂ بلبل سے میںکرتا ہوں نظارہ ترا سوز بانوں پر بھی خاموشی تجھے منظور ہے راز وہ کیا ہے ترے سینے میں جو مستور ہے میری صورت تو بھی اک برگِ ریاض طورہے میں چمن سے دور ہوں تو بھی چمن سے دورہے مطمئن ہے تو، پریشان مثلِ بُو رہتا ہوں میں زخمیٔ شمشیرِ ذوقِ جستجو رہتا ہوں یہ پریشانی مری سامانِ جمعیت نہ ہو یہ جگر سوزی چراغِ خانۂ حکمت نہ ہو ناتوانی ہی مری سرمایۂ قوت نہ ہو رشکِ جامِ جم مرا آئینۂ حیرت نہ ہو یہ تلاشِ متصل شمعِ جہاں افروز ہے تو سنِ ادراکِ انساں کو خرام آموز ہے(۸۸) منظوم فارسی ترجمہ: ’’گلِ رنگین‘‘ ؎ چون شناسائی خراش عقدۂ مشکل نہ ئی ای گل رنگین مگر داری حسن و دل نہ ئی زیب بزم اما شریک شورش محفل نہ ئی ہمچو مشغول بزم ہستی عاجل نہ ئی من درین گلشن سراپا سوز و ساز آرزو زندگانی تو لیکن بی گداز آرزو کندنت از شاخسار ای گل مرا آئین نہ بود این نظر غیراز نگاہِ چشم صورت بین نہ بود اینچنین دست جفا یم ای گل رنگین نہ بود چون بفھمانم مرا خاصیت گلچین نہ بود کی برائی دیدۂ حکمت نما یم پارہ ات میکنم با چشمھہائی بلبلی نظارہ ات باوجود صد زبانست خامشی منظور شد این چہ اسرار کاندر سینہ ات مستور شد؟ صورت من نیز چون برگ ریاض طور شد بھر تو ہم ہمچو من طرف چمن ہا دور شد مطمئنی تو ولی آشفتہ من چون بو شدم زخمی شمشیر ذوق جستجو ہر سو شدم این پریشانی مگر سامان جمعیت شود این جگر سوزی چراغ خانہ حکمت شود ناتوانیھائی ما سرمایۂ قوت شود رشک جام جم ہمین آئینۂ حیرت شود این تلاش متصل شمع جھان افروز شد تو سن ادراک انسانی را خرد آموز شد(۸۹) گل پژمردہ ؎ کس زبان سے اے گلِ پژمردہ تجھ کو گل کہوں کس طرح تجھ کو تمنائے دلِ بلبل کہوں تھی کبھی موجِ صبا گہوارۂ جنباں ترا نام تھا صحنِ گلستاں میں گلِ خنداں ترا تیرے احسان کا نسیم صبح کو قرار تھا باغ تیرے دم سے گویا طبلۂ عطار تھا تجھ پر برساتا ہے شبنم دیدۂ گریاں مرا ہے نہاں تیری اداسی میں دلِ ویراں مرا میری بربادی کی ہے چھوٹی سی اک تصویر تو خواب میری زندگی تھی جس کی ہے تعبیر تو ہمچو نے از نیستانِ خود حکایت می کنم بشنو اے گل ! از جدائی ھا شکایت می کنم(۹۰) گل پژمردہ کا منظوم فارسی ترجمہ:۔ ؎ باچہ جرأت ای گل پژمردہ جان گل گویمت با تمنائی دل مشتاق بلبل گویمت یاد وقتی کت صبا گھوارہ جنباں بودہ ست ’’نو گل خندان‘‘ ترا درباغ عنوان بودہ ست ہرنسیم صبح احسان تر اقرار داشت نفخہ ات باغ و چمن را طبلۂ عطار داشت بر تو شبنم ریز باشد دیدۂ گریاں من شد نہاں در پاس تو گویا دل ویران من میمنائی می حال برباد سرا تصویر تو زندگانی جو خوایم رایکی تعبیر تو ہمچو نی از نی ستانِ خود حکایت می کنم بشنوای گل! کز جدائھا شکایت می کنم(۹۱) نظم نویدِ صبح کے منظوم فارسی ترجمے کے بعد نظم موٹر کا فارسی منظوم ترجمہ دیا گیا ہے۔ ؎ کیسی پتے کی بات جُگندر نے کل کہی موٹر ہے ذوالفقار علی خان کا کیا خموش ہنگامہ آفرین نہیں اس کا خرامِ ناز مانندِ برق تیز، مثالِ ہوا خموش میں نے کہا نہیں ہے یہ موٹر پہ منحصر ہے جادۂ حیات میں ہر تیز پا خموش ہے پا شکستہ شیوۂ فریاد سے جرس نکہت کا کارواں ہے مثالِ صبا خموش مینا مدام شورشِ قلقل سے پا بگُل لیکن مزاجِ جامِ خرام آشنا خموش شاعر کے فکر کو پرِ پرواز خامشی سرمایہ دارِ گرمیٔ آواز خامشی(۹۲) منظوم فارسی ترجمہ نظم موتر:۔ ؎ وی حرف پختہ ئی ز جگندر شیندہ ام موتور ذوالفقار علی شد خموش ھنگامہ آفرین نبود خرام ناز مانند برق تیز برنگ ہوا خموش گفتم کہ نیست منحصر موتر ایں کمال در راہ زندگی شدہ ہر تیز پا خموش کردہ ست پا شکستہ جرس رافغان خموش شد کارواں وی مثال صبا خموش میناست پا بہ گل ز فغانھائی قلقلش لیکن مزاج جام خرام آشنا خموش از بھر شاعران بر پرواز خامشی سرمایہ دار گرمی آواز خامشی(۹۳) یہاں پر جناب داویؔ نے حاشیہ میں نواب ذوالفقار علی خان کو علامہ کا دوست بتا یا ہے اور ان سے اپنی ملاقات کا حوالہ دیا ہے۔ عنوان ’’اسلامیات ‘‘کے تحت نظم’’ فاطمہ بنت عبداللہ ‘‘کا منظوم فارسی ترجمہ دیا گیا ہے۔ ؎ فاطمہ! تو آبروئے امتِ مرحوم ہے ذرہ ذرہ تیری مشتِ خاک کا معصوم ہے یہ سعادت حورِ صحرائی تیری قسمت میں تھی غازیانِ دیں کی سقائی تری قسمت میں تھی یہ جہاد اللہ کے رستے میں بے تیغ و سپر! ہے جسارت آفریں شوقِ شہادت کس قدر! یہ کلی بھی اس گلستانِ خزاں منظر میں تھی! ایسی چنگاری بھی یارب اپنی خاکستر میں تھی! اپنے صحرا میں بہت آہو ابھی پوشیدہ ہیں بجلیاں برسے ہوئے بادل میں بھی خوابیدہ ہیں! فاطمہ! گو شبنم افشاں آنکھ تیرے غم میںہے نغمۂ عشرت بھی اپنے نالۂ ماتم میں ہے رقص تیری خاک کا کتنا نشاط انگیز ہے! ذرہ ذرہ زندگی کے سوز سے لبریز ہے ہے کوئی ہنگامہ تیری تربتِ خاموش میں پل رہی ہے ایک قومِ تازہ اس آغوش میں بے خبر ہوں گرچہ ان کی وسعتِ مقصد سے میں آفرینش دیکھتا ہوں ان کی اس مرقد سے میں تازہ انجم کا فضائے آسماں میں ہے ظہور دیدۂ انسان سے نا محرم ہے جن کی موجِ نور جو ابھی ابھرے ہیں ظلمت خانۂ ایام سے جن کی ضو ناآشنا ہے قید صبح و شام سے جن کی تابانی میں اندازِ کہن بھی، نو بھی ہے اور تیرے کوکبِ تقدیر کا پرتو بھی ہے(۹۴) نظم ’’فاطمہ بنتِ عبداللہ‘‘ کا منظوم فارسی ترجمہ:۔ فاطمہ! تو آبروئی امت مرحومہ ئی ذرئہ محرومۂ خاکی ولی معصومہ ئی در صف غزاۃ سقائی نصیب گشتہ ئی خوش سعادت حور صحرائی نصیب گشتہ ئی بین جھاد فی سبیل اللہ بی تیغ و سپر شد جسارت آفرین شوق شہادت آنقدر غنچہ ئی در این گلستان خزان منظر عجب اینچنین آتش الٰہی بین خاکستر عجب آھوئی بسیار در صحرا ست پوشیدہ ھنوز برقھا در آبر باریدہ ست خوابیدہ ھنوز فاطمہ گر شبنم افشان ست چشم در غمت نغمۂ فرحت ہم آمد در زمین ما تمت تا ز سوز زندگی ھر ذرہ اش لبریز شد رقص ھائی خاک تو در دل نشاط انگریز شد زادہ ئی ھنگامہ ھا از تربت خاموش خود تاکہ قوم تازہ پروردہ ست در آغوش خود گرچہ ماندم بیخبر از وسعتِ این مقصدت آفرینش پیش بینی میکنم از مرقدت انجم تازہ کند در چرخ دیرینہ ظہور دیدۂ انسان بود نا محرم آنموج نور نو برآمد ھائی ظلمت خانۂ ایام ما تابشش نا آشنائی قید صبح و شام ما تابشش با کھنہ گی طرز نوی آرد دران کوکب تقدیر تو خرش پرتوی آرد دران(۹۵) عنوان اسلامیات کے تحت غزہ شوال یا ھلالِ عید اور نظم ’’مسلم‘‘ کے فارسی منظوم تراجم کئے گئے ہیں۔ جبکہ عنوان عشق و محبت کے تحت عاشق ہرجائی کا فارسی منظوم ترجمہ کیا گیا ہے۔ دونوں حصوں کے فارسی تراجم ذیل ہیں۔ (۱) بوالعجب مجموعۂ اضداد شد (اقبال) ما رونق ھنگامۂ محفل ہم و تنھا ھم است دارد آن دیوانۂ رنگین نواھنگامہ ھا زینت گلشن ھم و آرایش صحرا ھم است ہمنشین انجم آمد رفعت پرواز او کاک دان فرسا قدوم او فلک پیما ھم است باوجود می پرستی جبھہ دارد سجدہ ریز درمزا یائی مزاجش مشرب مینا ھم است از لباس رنگ عریان مست مثل بوئی گل طبع حکمت آفرینش ما بل سودا ھم است جانب منزل رواں ئی نقش پا مانند موج لیکن افتادہ مثال ساحل دریا ھم است حسن نسوانی بود چون برق بھر فطرتش وین عجب بنگر کہ عشقش بازی بی پروا ھم است گشتہ آبین تفنن ھستی او نامدار آہ بر یک استان گاھی جبین فرسا ھم است در حینان شھرت او شد وفا ناآشنا این تلون کیش سا مشہور ھم رسا ھم است آمدہ اندر جھان با خصلت سیمابي جان فدائی عادتش دارد عجب بیتابي (۲) ؎ کردہ مست آشوب عشق آنرا چو صحرائی وسیع مشت خاکی کش نھان زیر قبا آوردہ ام ھر سو یش پھلو و ھر پھلو رنگ دیگر است خوش تراش الماس در سینہ فرا آوردہ ام رستخیز کیفیت ھاگو دل شاعر مگو کی خبرداری کہ در سینہ چھپا آوردہ ام آرزوھا جلوۂ نو داشت در ھر کیف آن اضطرابم دل سکون آشنا آوردہ ام گرچہ روی نو بود ھر لحظہ مقصود نظر لیک بھر حسن پیمان وفا آوردہ ام تا مزاج فطرتم از بینیازی جان گرفت سوز و ساز جستجو مثل صبا آوردہ ام کی دھد تسکین تماشائی شرار جستہ ي تا دل خون گشتہ بی برق آشنا آوردہ ام ھر تقاضائی مزاج عشق را ساز و خموش تا تجلیٔ چنان کامل وفا آوردہ ام جستجوی کل درا جز ائی وجودم ساری ست حسن بیپایان و درد بیدوا آوردہ ام چون حیات من ز درد انجامی الفت بود عشق را از قید وفا آوردہ ام راست گر پرسی ز افلاس تخیل شد وفا محشر نو ھردمی دردل بے آوردہ ام فیض ساقی شبنم آسا ظرف دل دریا طلب عطش دایم دارم آتش زیر پا آوردہ ام حسن گر در محفل ہستی چنین کم جلوہ بود پس تخیل ئی نھایت من چرا آوردہ ام در بیابان طلب پیوست می کوشیم ما موج بھر یم و شکست خویش بردو شیم ما(۹۶) جناب داویؔ نے نظم تصویر درد کا مکمل فارسی منظوم ترجمہ کیاہے جبکہ شکوہ کا تعارف بڑے شد و مد کے ساتھ پیش کیا ہے۔ شکوہ پر بعض لوگوں کے اختلافات سے لے کر ملتِ اسلامیہ کی مجموعی بیداری تک مختلف نکات پر بحث کی گئی ہے۔ شکوہ کا تقریباً نصف یعنی ۳۱ میں سے ۱۵ بند منظوم ترجمہ ہوسکے ہیں۔فارسی ترجمہ شدہ بند نمبروں کے ترتیب سے درج ذیل ہیں: ۵ - ۶ - ۷ - ۸ - ۹ - ۱۱ - ۱۳ - ۱۵ - ۲۴ - ۲۵ - ۲۷ - ۲۸ - ۲۹ - ۳۰ - ۳۱ جبکہ جوابِ شکوہ کے سلسلے میں وجہ تخلیق او راس نظم سے وابستہ اسرار و رموز کا دقیق جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ درج ذیل بند فارسی منظوم ترجمہ ہوچکے ہیں۔ ۷ - ۹ - ۱۰ - ۱۱ - ۱۳ - ۱۴ - ۱۵ - ۱۶ - ۱۷ - ۱۸ - ۱۹ - ۲۰ - ۲۱ - ۲۲ - ۲۳ - ۲۴ - ۲۵ - ۲۷ - ۲۸ - ۲۹ - ۳۰ - ۳۱ - ۳۲ - ۳۴ - ۳۶ ذیل منظومات میں بعض کے مکمل اور بعض کے جزوی منظوم فارسی تراجم ہوئے ہیں۔ شمع و شاعر، خضرارہ، طلوعِ اسلام، فلسفہ ، فلسفہ عجم، مراثی، ظرافت مقالات علامہ کے عنوان سے ایک صفحے کی تحریر علامہ کے بعض مقالات کے تعارف میںہے جبکہ پیامِ مشرق اگرچہ فارسی میں ہے لیکن اس کا دیباچہ اردو میں ہے لہٰذا داویؔ نے کتاب کے آخر میں پیامِ مشرق کے اس دیباچے کا فارسی ترجمہ شامل کیاہے۔ ۳۔ ’’افغانستان و اقبال‘‘:۔ حضرت علا مہ کی جشنِ ولادت کے صد سالہ تقریبات کے سلسلے میں افغانستان میں بھی خصوصی انتظامات کئے گئے تھے۔ اخبارات نے خصوصی مقالات شائع کئے۔ اس سلسلے میں کتب بھی شائع ہوئیں۔ ان میں صدیق رہپو کا ترتیب کردہ افغانستان و اقبال بھی شامل ہے۔ جو وزارتِ اطلاعات و کلتور کے موسسہ بیہقی نے دولتی مطبع کابل سے ۱۳۵۶ ھ ش / ۱۹۷۷ء میں شائع کرایا۔ صفحات کی ترتیب و تفصیل درج ذیل ہے۔ ۶ (دیباچہ و تعارف) + ۸۷ (مقالات) + ۱۲ (خطاطی کے نمونے) + ۱۱ (تصاویر) = ۱۱۰ جملہ صفحات۔ سرورق پر حضرت علامہ کی تصویر ہے جبکہ کتاب کے آغاز میں افغانستان کے وزیرِ اطلاعات و کلتور پوھاند دکتور نوین کی ۱۱ قوس ۱۳۵۶ھ ش کے محررہ تعارفی کلمات ہیں۔ان کلمات میں جناب نوین نے بیسویںصدی کے آغازہی سے افغانستان میں معارف کی جدید معاصر دور کے آغاز اور اقبال شناسی کی ابتداء پر مختصراً بحث کی ہے۔ (۹۷) کتاب کا دیباچہ ’’پیش گفتار‘‘ کے عنوان سے دکتور عبدالحکیم طبیبی کا تحریر کردہ ہے۔ چار صفحات پر مشتمل اس دیباچے میں عالمانہ انداز میں علامہ کے اشعار کی روشنی میں علامہ کی افغانستان سے وابستگی پر بحث کی گئی ہے۔ علامہ کے عرفانی مأخذات حکیم سنائی، غزنوی ، مولانا رومی، مولانا جامی اور سیاسی پیشرو سید جمال الدین افغانی وغیرہ سے اقبال کے تعلق کا تذکرہ کیا گیاہے۔ (۹۸) اقبال کے نظریہ خودی، زبورِ عجم کی غزلیات اور پیامِ مشرق کا انتساب بنام غازی امان اللہ خان اور مثنوی مسافر اقبال کے ادبی شاہکار قرار دیئے گئے ہیں۔ کتاب میں افغانستان میں اقبال سے متعلق لکھے گئے ۱۹۷۷ء تک کے بعض مقالات اخباری بیانات اور دیگر منظومے شامل کئے گئے ہیں۔ افغانستان کے معروف خطاط عزیز الدین وکیلی فوفلزئی کے خطاطی کردہ حضرت علامہ کی مختلف رباعیات، منظومات اور ابیات درج ذیل صفحات پر شائع کئے گئے ہیں۔ ۱ د ۲ ۲ ۳ ۶ ۴ ۱۰ ۵ ۱۸ ۶ ۸ ۲ ۷ ۲۴ ۸ ۳۸ ۹ ۵۶ ۱۰ ۶۶ ۱۱ ۷۰ ۱۲ ۷۶ جبکہ کتاب میں جا بجا علامہ کی درج ذیل تصاویر بھی شائع ہوئی ہیں۔ ۱۔ ملحقہ صفحہ نمبر۱۴: اقبال پس آزانکہ درجہ ما ستری را درسال ۱۸۹۹ء بہ دست می آورد ۲۔ ملحقہ صفحہ نمبر۲۲: تصویری از اقبال بہ نام شاعر مشرق ۳۔ ملحقہ صفحہ نمبر۲۶: علامہ اقبال بہ جمعی از میزبانان افغان در کابل ۱۹۳۳ء ۴۔ ملحقہ صفحہ نمبر ۳۰: علامہ اقبال سید سلیمان ندویؔ و داکتر سر راس مسعود در کابل سال ۱۹۳۳ء ۵۔ ملحقہ صفحہ نمبر ۴۶: پیامی کہ اقبال بہ خط خویش بہ انجمن ادبی کابل فرستاد بود ۶۔ ملحقہ صفحہ نمبر ۵۰: شیخ نور محمد پدر اقبال ۷۔ ملحقہ صفحہ نمبر ۵۴: امام بی بی مادر اقبال ۸۔ ملحقہ صفحہ نمبر ۵۸: علامہ اقبال برائی شرکت در شورائی ملی مسلمانان می رسد ۹۔ ملحقہ صفحہ نمبر ۶۲: اقبال باد وستش دکتور سر راس مسعود در پوھنتون علی گر در سال ۱۹۲۹ء ۱۰۔ ملحقہ صفحہ نمبر ۷۴: علامہ اقبال ھنگام ادائی نماز در مسجدکور روای ھسپانیہ ۱۹۳۳ء ۱۱۔ ملحقہ صفحہ نمبر ۷۸: علامہ اقبال و پسرش جاوید اقبال درسال ۔ - کتاب کے صفحہ ۱ تا ۲۱ کابل کے اخبار امان افغان کے شمارہ ۹ - ۱۰ - ۱۱ - ۱۳ اور ۱۷ میں شائع شدہ پیامِ مشرق پر طویل تبصرہ شائع ہوا ہے۔ - صفحہ ۲۲ پر مجلہ کابل شمار ہ پنجم سال سوم عقرب ۱۳۱۲ ھ ش حضرت علامہ اور ان کے ہمسفرانِ افغانستان کی افغانستان آمد کی خبر شائع ہوئی ہے۔ - صفحہ ۲۳ تا ۳۷ مجلہ کابل سال سوم شمارہ ۷ جدی ۱۳۱۲ھ ش مقالہ’’ افغانستان از نقطہ نظر فضلایٔ ہندوستان‘‘ - صفحہ ۳۸ تا ۴۹ مجلہ کابل شمارہ اول سال دوم’’ علامہ اقبال ‘‘بہ قلم احمد علی خان مدیر انجمن ادبی - صفحہ ۵۰ - ۵۱ مجلہ کابل شمارہ سوم سال ہشتم جوزای ۱۳۱۷ھ ش وفات ’’داکتر اقبال شاعر و فیلسفوف شہیر ‘‘بہ قلم سید قاسم رشتیاؔ۔ - صفحہ ۵۲ تا ۶۰ مجلہ کابل سال ہشتم شمارہ سوم جوزای ۱۳۱۷ ھ ش ’’اقبال‘‘ از مدیر عمومی انجمن (احمد علی خان درانی) - صفحہ ۶۱ - ۶۲ قصیدہ در مرثیہ فیلسوف وطن خواہ پروفیسر اقبال غفراللہ از طبع ملک الشعراء قاری عبداللہ - صفحہ ۶۳ - ۶۸ مجلہ کابل سال سوم شمارہ ہشتم جوزای ۱۳۱۷ھ ش اقبال و افغانستان از غلام جیلانی اعظمی - صفحہ ۶۹ - ۷۰ منتخبات اشعار اقبال از سرورخان گویاؔ - صفحہ۷۱ - ۷۳ وفات۔ اقبال انیس چارشنبہ ۱۴ ثور ۱۳۱۷ ھ ش - صفحہ ۷۳ - ۷۶ وفات علامہ سر محمد اقبال اخبار ’’اصلاح ‘‘یک شنبہ ۴ برج ثور ۱۳۱۷ھ ش - صفحہ ۷۷ - ۷۸ فارسی نظم ’’اقبال ‘‘ از مایل ہروی کتاب کے آخر میں مؤلف صدیق رہپو کی درج ذیل یادداشت اہمیت کی حامل ہے۔ بہ نسبت تنگی فرصت تمام مقالاتی کہ درمورد اقبال در مطبوعات افغانستان نشر شدہ است جمع و نشر شدہ نتوانست باز ھم از کمک وزحمتکش کارکنان فعال مطبع دولتی درین فرصت کوتاہ کمال امتنان دارد۔ صدیق رہپو (۹۹) ترجمہ: مصروفیت اور وقت کم ہونے کی نسبت میں اقبال سے متعلق افغانستان کے مطبوعات میں شائع شدہ تمام مواد کو یکجا نہیں کر سکا۔ مگر قومی پریس کے انتھک اور محنتی کارکنوں کے تعاون پر تہہ دل سے مشکور ہوں۔ گویا اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس کتاب میں شائع شدہ مواد کے علاوہ بھی اقبال پر افغان پریس میں کئی مطبوعات آچکی تھیں جو صدیق رہپو کو نہیںملیں۔ میں ان سے متفق ہوں کیونکہ ۱۹۷۷ء تک افغانستان میں کئی اور مضامین اور مقالات بھی اقبال پر شائع ہو چکے تھے جو صدیق رہپو کو تو نہیں ملے لیکن الحمد للہ دورانِ تحقیق ھٰذا مجھے ان میںبعض چیزیں ملیںجو جابجا مقالہ ھذٰ میں مختلف عنوانات کے تحت شامل تحقیق کئے گئے ہیں۔ بحیثیت مجموعی یہ کتاب افغانستان میں اقبال شناسی کی روایت کے آغاز کے حوالے سے ایک اہم بنیادی مأخذ کی حیثیت رکھتی ہے۔ اور افغانستان میں اقبال شناسی کے سلسلے میں اس کتاب کے حوالہ جات مستند ہیں۔ لہٰذا صدیق رہپو افغانستان میں اقبال شناسی کے حوالے سے ایک بنیادی مأخذ کو مرتب کرنے پر سپاس و تحسین کے مستحق ہیں۔ ۴۔ ’’یارِ آشنا‘‘: افغانستان میں اقبال شناسی کے بانیوںمیں استاد خلیل اللہ خلیلیؔ کا شمار ہوتا ہے۔ آپ نے نہ صرف علاہ پر مقالات تحریر کئے تھے بلکہ آپ کی کلیات میں جابجا علامہ کے حضور منظوم خراجِ تحسین بھی ملتا ہے۔ افغانستان میں خونی انقلاب کے بعد جب استاد خلیل اللہ خلیلیؔ پاکستان مہاجر ہوئے ہیں تو علامہ پر ایک مستقل اثر ’’یار آشنا‘‘ کے نام سے شائع کرایا ہے۔ یہ کتاب ۱۹۸۲ء میں افغانستان کے جمعیت اسلامی کی جانب سے شائع ہوئی تھی۔ (۱۰۰) تلاشِ بسیار کے باوجود یہ کتاب مجھے نہیں مل سکی البتہ اس کتاب سے متعلق تفصیلات جا بجا ملیں جس کے مطابق یارِ آشنا کے صفحات کی تعداد ۸۰ ہے۔ (۱۰۱) اس کتاب میں دیگر امور کے علاوہ علامہ کے افغانستان سے تعلق پر بحث کی گئی ہے۔(۱۰۲) دکتور سید علی رضا نقوی اس کتاب کے مجموعی خدو خال کا جائزہ لیتے ہوئے لکھتے ہیں : ’’رسالہ ایست دارائی ۸۰ صفحہ دربارہ اقبال و علاقۂ وی بہ سرزمین افغانستان کہ بہ ھمت انجمن علمی و مشورتی اسلامی افغانستان بہ سال ۱۴۰۲ ھ ق/ ۱۹۸۲ء بطبع رسیدہ است۔ استاد درین رسالہ مسافرت اقبال باتفاق سر راس مسعود و سید سلیمان ندویؔ در سال ۱۳۱۲ھ ش / ۱۹۳۳ء و ملاقات وی بااقبال در کابل رابہ نثر شرح دادہ است۔ ھمچنین بعضی اشعار اقبال در مدح افغانستان و مشاہیر و عرفا و شعرائی آن سرزمین مانند شیخ ہجویری و سنائی و رومی و ھمچنین قصیدۂ وی در وصف کابل را آوردہ است۔ و بعضی قصائد و اشعار راکہ استاد در مدح اقبال سرودہ است نیز نقل کردہ است ۔ مخصوصاً ترجمۂ فارسی قصیدہ ای کہ اقبال بہ اردو سرو دہ است کاملاً نقل کردہ (ص ۳۴- ۳۹)کہ بیسار جالب است۔ (۱۰۳) جناب خلیلی کا یہ فارسی منظوم ترجمہ اصل کلامِ اقبال کے ساتھ سوانح خلیلی کے ساتھ شامل تحقیق ہے۔ جناب خلیل اللہ خلیلی کی یہ نگارش ’’یار آشنا‘‘(پیوند علامہ اقبال با افغانستان) ابھی حال ہی (جون ۲۰۱۰ئ) میں جناب عارف نوشاہی کی پیشگفتار اور حواشی کے ساتھ کتابخانہ استاد خلیل اللہ خلیلی انستیتیوت شرقشناسی و میراث خطی اکادمی علوم جمہوری تاجیکستان دو شنبہ کی جانب سے دوبارہ شائع ہوئی ہے۔ اس کتاب کی فہرست کے مطالب ذیل ہیں - پیشگفتار (عارف نوشاہی) سفر علامہ محمد اقبال بہ افغانستان۔ نگاہی بہ تحقیقات در موضوع ’’پیوند محمد اقبال با افغان و افغانستان‘‘۔ بر رسی یار آشنا نگاشتہ استاد خلیل اللہ خلیلی ۔ حواشی۔ - یار آشنا (خلیل اللہ خلیلی) با یار آشنا سخن آشنا بگو۔ آسنائی با احرار ہندوستان۔ دولت دیدار۔ خواستۂ ما ازین نگاشتہ اقبال، پاکستان ہندوستان۔ افغانستان و اقبال۔ - رھبران نخستن علی بن عثمان بن علی جلابی ہجویری غزنوی ’’داتا گنج بخش‘‘ ۔ حکیم سنائی۔ مولانا جلال الدین محمد بلخی رومی۔ سید جمال الدین اسعد آبادی افغانی۔ اقبال و ملت افغانستان۔ در وصف کابل گوید۔ در وصف غزنی و مزار سلطان محمود۔ شوریدئہ غزنی۔ خرقہ مبارک پیغمبر اسلام و شہر قندہار۔ افکار محراب گل افغان۔ اقبال در دل مردم افغانستان۔ حواشی (عارف نوشاہی) - شگوف ھائی شجرہ اخلاص تربت اقبال۔ چشم عقاب۔ کعبہ و اقبال۔ بلال عصر۔ - پیوست ھا دمی با اقبال۔ سفیر ماتم۔ مشاہدئہ رئویا۔ - نمایدھا اعلام تاریخی (کسان، ادیان، مذاہب، فرق، اقوام) اعلام جغرافیائی (کشورھا، شھرھا، موسسات) کتاب ھا و مجلہ ھا - عکس ھا و نمونہ ھا (۱۰۴) ۵۔ ’’از سنائی تا مولانا و اقبال‘‘:۔ افغانستان میں حکیم سنائی غزنوی کے نو سو سالہ جشنِ ولادت کی تقریبات کے سلسلے میں کئی تقاریب کا نعقاد کیا گیا تھا۔ اس سلسلے میں بعض اہم کتب بھی شائع ہوئی ہیں ۔ان کتابوں میں کابل یونیورسٹی کے نشرات پوھنحٔی کے زیرِ اہتمام دیگر کتب کی اشاعت کے ساتھ ساتھ ایک کتاب از سنائی تا مولانا و اقبال کا بھی ذکرملتا ہے۔ افغانستان میں گذشتہ ڈھائی عشروں کی جنگ کی وجہ سے کتب خانوں کی بربادی کی وجہ سے انتہائی تلاش کے باوجود میں متعلقہ کتاب کو حاصل نہیں کرسکا۔ اس لئے سوائے کتاب کے نام کے حوالے سے اس کتاب کے مشمولات پر مزید کچھ لکھنے سے قاصر ہوں۔ اس کتاب کا نام حکیم سنائی و جہان بینی او کے بیک ٹائیٹل پر شائع ہے۔ (۱۰۵) ۶۔ ’’لالی ریختہ‘‘:۔ یہ کتاب بھی افغانستان کے معروف اقبال شناس عبدالہادی داویؔ کی تحریر کردہ ہے۔ جو ابھی تک زیورِ طبع سے آراستہ نہیں ہوئی۔ اس کتاب میں داویؔ نے حضرت علامہ کے اردو منظومات کی فارسی منظوم تراجم پیش کئے ہیں۔ (۱۰۶) آثار اردو اقبال کی دونوں جلدوںمیں جا بجا مختلف موضوعات پر تحریر کے دوران لالی ریختہ کا حوالہ دیتے ہیں۔ مثلاً آثار اردوی اقبال جلد اول میں ضربِ کلیم کی بعض منظومات سے متعلق لکھتے ہیں: قسمت اول تحت عنوان (اسلام و مسلمانان) ۶۷ حصہ یا قطعہ دارد کہ اکثر آن عاید بہ احوال ہندوستان در ھمان عصر میباشد۔ ابتدائی آن باقطعہ (صبح) نام آغاز میشود کہ اذان بندۂ مومن را موجد چنان سحر و صباح می بیند کہ لرزا نندہ شبستان وجود است و در قطعہ دوم آخرہر بیت جملہ جمیلہ لا الہ الا اللہ راذ کر نمودہ از آں خطو جوشی کہ می گیرد قارئین رانیزد ذاکر و متذکر میسا زد۔۔۔۔ (۱۰۷) یہاں پر حاشیے میں تحریر کرتے ہیں: ’’در لالی ریختہ کامل ترجمہ شدہ است نہ تنھا ھمین قطعہ بلکہ یہ تعداد ۷۶ قطعہ دیگر نیز از ضربِ کلیم نظماً ترجمہ شدہ اند‘‘ (۱۰۸) بانگِ درا کو جناب داویؔ نے فکری و معنوی اعتبار سے نو عناوین اصناف میں تقسیم کیا ہے۔ ان عناوین میں ایک عنوان اسلامیات ہے۔ اس موضوع سے متعلق فکرِ اقبال اور لالی ریختہ میں اپنے تراجم کے حوالے سے تحریر کرتے ہیں: ’’اگرچہ تمام غم و ھم علامہ مرحوم برائی اسلام و اسلامیان ست مقصد اصلی حیات خود راھمین میداند و ہر قلم و قدم و درم او مصروف ھمین مدعائی عالی و مقبول ست ولو عنوان شعر اواز (مناظرطبیعیہ) یا (ایقاظ) باشد۔ (غزل) و (ظرافت) یا (عشق) و (جدیت) باشد غایۂ آں برائی مسلمانان و اسلامیات میباشد ولی بعض از ینھا از عنوان گرفتہ تا شرح و بیان و از ابتدا تا انتھا ی آن بصراحت ئی ایما و اشارت بی ابھام و کنایت خالص اسلامی است لہٰذا من آنرا عنوان اسلامیات دادہ ام ازین قبیل قطعات در ھر سہ حصۂ بانگِ درا بطورِ متفرق موجودند ۔ درحصہ اول و دوم دو قطعہ و درحصہ سوم ۲۷ اقطعہ ست بندہ چند تائی آنرا نظماً یا نثراً ترجمہ میکنم عنوانھائی باقی آنھارا در فہرست آخرین و ترجمۂ بعضی قطعات آنرا دور لالی ریختہ قارئین گرامی یافتہ خواھند توانست۔۔۔ (۱۰۹) ۷۔ ’’معنی عشق نزد اقبال‘‘:۔ حضرت علامہ کے صد سالہ جشنِ ولادت کی تقریبات کے سلسلے میں ۳ دسمبر ۱۹۷۷ء کو ریڈیو افغانستان کابل کے آڈیٹوریم میں ایک عظیم الشان سیمنار کا انعقاد کیا گیا تھا۔ اس سیمنار میں مختلف پڑھے گئے مقالات کو جناب ڈاکٹر روان فرہادی نے یکجا کرکے معنی عشق نزد اقبال کے نام سے کتابی شکل میں شائع کیا۔ یہ کتاب اگرچہ مجھے نہیں ملی البتہ اس کتاب کے مشمولات سے متعلق برادرم اکرام اللہ شاہدؔ کے مقالے سے پتہ چلا جس کے مطابق: افغانستان کے وزیرِ اطلاعات و ثقافت ڈاکٹر عبدالرحیم کے افتتاحی خطاب اور سیمنار کے اعزازی چیئرمین پروفیسر عبدالہادی داویؔ کابل یونیورسٹی کے ری ایکٹر پروفیسر عبدالسلام عظیمی کے خطبات کے علاوہ درج ذیل مقالات شامل تھے۔ سید قاسم رشتیا (وزیرِ کابینہ) اقبال و افغانستان ڈاکٹر سید مخدوم رحیم عظیم افغان مفکر اقبال آقائے عبدالحئی حبیبی اقبال نظریات او افکار۔ (۱۱۰) معنی عشق نزد اقبال مجلہ آریانا میں بھی شائع ہوا ہے۔(۱۱۱) ۸۔ افغانستان از زبان علامہ اقبال نامور افغان اقبال شناس م۔ لمر احسان کی یہ تالیف مجھے نہیں مل سکی البتہ محقق برادر دکتر اسد اللہ محقق نے علامہ اقبال در ادب فارسی و فرھنگ افغانستان میں اس کتاب کے حوالے دیئے ہیں اور یہ کتاب مذکر انشرات اسلامی ، صبور پشاور کی طرف سے ۷۶ ھ ش میں شائع ہوئی ہے۔ (۱۱۲) ۹۔ علامہ اقبال در ادب فارسی و فرھنگ افغانستان افغانستان کے معروف محقق جناب ڈاکٹر اسد اللہ محقق کے ڈاکٹریٹ کا مقالہ جو مرکز تحقیقات فارسی ایران و پاکستان اسلام آباد کی جانب سے ۱۳۸۴ھ ش ۱۳۲۶ق/۲۰۰۵ء میں ۳۲۵ صفحات پر شائع ہوا ہے اس کتاب کے مشمولات ذیل ہیں: فصل اول اندیشہ ٔ اقبال و زبان شعر ۱۔ آثار منظوم فارسی ۲۔ اسرار خودی ۳۔ رموز بیخودی ۴۔ پیام مشرق ۵۔ زبور عجم ۶۔ جاوید نامہ ۷۔ پس چہ باید کرد اے اقوام شرق ۸۔ ارمغان حجاز ۹۔ جوھری شعر اقبال فصل دوم فکرش اقبال بہ جھان اسلام ۱۔ اقبال و ملت ایران ۔ پیام سید جمال الدین افغانی بہ ملت روسیہ۔ پیام امام خمینی بد گور باچف ۲۔ اقبال و ملت ترکیہ ۳۔ اقبال و ملت افغانستان ۴۔ اقبال و جھان عرب ۔ حرفی چند با امت عربیہ ۵۔ اقبال و ترکستان ۶۔ عصر اقبال و اشغال سرزمین ھائی اسلامی توسط اتعمار گرانی ۸۔ ناسیونالیزم و جھان وطنی اسلام از دید گاہ اقبال فصل سوم اوضاع سیاسی افغانستان در وایل قرن بیستم انتظار اقبال از مردم افغانستان ۱۔ ماہر القادری ۲۔ شکوہ قرآن دیدار اقبال ازافغانستان۔ ۱۔ باز دید از مزار بابر در کابل ۲۔ دیدار علامہ اقبال از مزار حکیم سنائی ۳۔ علامہ اقبال بر مزار سلطان محمود ۴۔ مناجات مر شوریدہ در ویرانہ غزنی ۵۔ اقبال و نادر شاہ ۶۔ خطاب بہ اقوام سرحد فصل چہارم جانگاہ افغانستان در اشعار اقبال ۱۔ اقبال و زیارت خرقہ مبارک در قندھار ۲۔ غزل جایگاہ افغانستان در آثار منظوم اردوی علامہ اقبال ۱۔ افکار محراب گل افغان۔ لا شریک لہ۔ دعائی نو۔ تقدیر ملت۔ ہنر مند۔ تجدد خود شناسی۔ شھباز۔ تربیت قلب ۔ افتخار قبیلہ۔ شتر تقدیر۔ رستخیز افکار۔ خلوت کوہسار۔ فقر غیور۔ حفظ مرکز۔ آسمان و زمین۔ تفریق قبائل۔ منزل مرد مومن۔ صھبان مسلمانی فصل پنجم پیوند فکری اقبال با بزرگان شعر و ادب و رجال سیاسی افغانستان و مسالہ تاثیر پذیری اواز آنھا ا۔ تاثیر مولوی در ہنر و اندیشہ اقبال۔ در کلیات فارسی۔ در کلیات اردو۔ ۲۔ تتبع و استقبال اقبال از مولانای روم۔ ۳۔ تضمین ۴۔ پیوند فکری اقبال با سنائی و مسالہ تاثیر پذیری و از حکیم غزنہ ۵۔ اقبال و جامی ۶۔ علامہ اقبال و حکیم ناصر خسرو ۷۔ فلسفہ خود شناسی ناصر خسروو فلسفۂ خودی علامہ اقبال ۸۔ بیدل ۹۔ اقبال و بیدل ۱۰۔ علامہ اقبال و سید جمال الدین ۱۱۔ زیارت ارواح جمال الدین و سعید حلیم پاشا۔ فصل ششم باز ناب اندیشہ ی اقبال در فرھنگ افغانستان ا۔ جھش ھا۔ ۲۔ ھنرمندان و آھنگ خوانان افغانی ۳۔ شکوہ ۴۔ جواب شکوہ ۵۔ یار آشنا ۶۔ علامہ اقبال مرحوم ۷۔ سھم افغانستان در اقبال شناسی۔ فصل ھفتم علامہ اقبال از نظر دولتمردان و سیاستمداران افغانستان ۱۔ پیام جلالتماب آقائی محمد دائود رئیس جمہور فقید و اسبق افغانستان۔ ۲۔ استاد نعمت اللہ شھرای معاون رئیس جمہور ۳۔ دکتور سیدمخدوم رھیں وزیر اطلاعات فرھنگ ۴۔ استاد دکتر نوری وزیر اطلاعات و فرھنگ علامہ اقبال از دید گاہ بعض از استادان دانشجویان و عامہ مردم افغانستان فصل ہشتم علامہ اقبال از دید گاہ شاعران افغانستان ۱۔ قاری عبداللہ ملک الشعرا ۔ ۲ ۔ غلام دستگیر خان مھمند۔ ۳۔ ابراہیم خلیل۔ ۴۔ مایل ھروی ۵۔ عبدالحئی شیدا ۶۔ ملک الشعرا بیتاب ۷۔ دکتر محمد رحیم الھام ۸۔ استاد خلیل اللہ خلیلی ۹۔ ترجمہ قصیدہ در اردوی اقبال بہ زبان دری۔ ۱۰۔ عبدالہادی راوی پریشان ۱۱۔ میر بہادر واصفی ۱۲۔ غلام ربانی ادیب ۱۳۔ عزیز اللہ مجددی ۱۴۔ استاد رحمت اللہ منطقی فصل نھم علامہ اقبال از دید گاہ نویسندگان افغانستان ۱۔ شہزادہ احمد علی خاں درانی ۲۔ جاوید نامہ۔ ۳۔ پیام اقبال بہ ملت کہسار۔ ۴۔ پروفیسر سرور خاں گویا اعتمادی ۵۔ استاد خلیل اللہ خلیلی ۶۔ پروفیسر غلام حسن مجددی۔ ۷۔ استاد عبدالسلام عظیمی ۸۔ استاد عبدالحی حبیبی ۹۔ دکتر عبدالحی حبیبی ۱۰۔ دکتر روان فرھادی ۱۱۔ دکتر حق شناس۔ اقبال در کابل۔ اقبال در غزنہ و برتربت سنائی۔ اقبال بر ویرانہ ھا و خرابہ ھای غزنہ۔ اقبال در قندہار۔ اقبال بر تربت احمد شاہ۔ اقبال و ظاہر شاہ۔ نتیجہ۔ ۱۲۔ دکتر خلیل اللہ ھاشمیان۔ اقبال بزرگ ریک چمن گل۔ یک نیستان نالہ۔ یک خمخانہ می۔ ایمای اقبال۔ اقبال و زبان دری۔ اقبال و افغانستان۔ ۱۳۔ آقای حیدری وجودی۔ اسرار خودی و رموز بیخودی از دید گاہ اقبال۔ جلوہ ھای سبز آزاددی در بندگی نامہ علامہ اقبال ۱۴۔ دکتر ار دائود راوش۔ ۱۵۔ عبدالقیوم قیومی ۱۶۔ پروفیسر دکتر عبدالقیوم قویم ۱۷۔ عبدالقھار جویا ۱۸۔ قاضی عبدالغفار مظفری ۱۹۔ آقای تقوی جار اللہ ۲۰۔ آقای غلام ربانی ادیب ۲۱۔ آقای جلال فرھیختہ ۲۲۔ جناب محبوب اللہ حامد۔ ۲۳۔ پوھبالی سید روضت اللہ فصل دھم علامہ اقبال در بر نامہ ی درسی افغانستان مومن خود کافر افرنگ شو۔ ذلت و غلامی۔ نغمہ مولانا۔ بھار آرنروی شاعر۔ نتیجہ۔ الف۔ فھرست اعلام۔ اسامی اشخاص۔ اسامی اماکن۔ اسامی کتاب ھا مجلہ معاو خبرید۔ ھا فہرست منابع و مآخذ۔ ب۔ تصاویر (۱۱۳) ۱۰۔ اکسیر خودی جوھر پیام علامہ اقبال مشہور افغان اقبال شناس سکتر سعید کی یہ تحقیقی و تنقیدی کتاب حال ہی ۲۰۱۰ئ/۱۳۹۸۹ھ ش میں انجمن حمایت از انکشاف اجتماعی (کابل مطبعہ فجر) کی جانب سے ۱۸۵ صفحات پر شائع ہوئی۔ اس کتاب کے مشمولات ذیل ہیں شناخت خودی ۱۹ داشتن وجود مستقل مستلزم خودی است ۲۲ شناخت خودی متقاری بہ انکشاف آن است ۲۲ خودی بلا واسطہ قابل درک است ۲۴ انکشاف خودی ۲۴ علامہ صلاح الدین سلجوقی انکشاف خودی را بہ سہ مرحلہ تقسیم کردن است ۲۵ کمال انکشاف در حفظ خودی است ۲۸ جاودانہ گی خودی ۳۴ زیبای اصلی در خودی است ۳۹ لذت اصلی در شناخت خودی است ۳۹ خودی منبع تمام نشدن امکانات نہھفتہ است ۴۰ درک کامل خودی ضرورت بہ تجربہ شخصی دارد ۴۱ پیام منصور حلاج تصدیق خودی است ۴۴ خودی از تکبر و خود خواھی فرق دارد ۴۵ انکشاف خودی شرطی برای داشتن صحت کامل است ۲۵ خودی از نظریہ موناد گرامی لا ینبتیز فرق دارد ۴۶ خودی اقبال شباھت بہ فلسفہ خود شناسی ناصر خسرو دارد ۴۶ ریشۂ بیساری مشخلات عدم شناخت خودی و دوری از آن است ۴۷ ھرانساں یک موجود منحصر بہ فرداست ۴۸ خودی اجتماعی ۵۳ خودی از دروں در حال انکشاف است ۵۴ تاریخ ھمچوں حافظہ اجتماع است ۵۵ جامعہ دیدہ آل محمد عربی از افراد خود آگاہ است ۵۶ ارزش ھمراھی با اجتماع ۵۶ برآمدن بہ اجتماع ۵۷ ارزش طرز فکر و پنداشت شخص در انکشاف خودی ۶۰ انساں یعنی طرز افکارش ۶۰ ریشۂ اکثریت ناتوانی ھا در طرز فکر ماست ۶۳ یک طرز فکر نادر ست این است کہ عدہ ی عصر حاضر راید و پراز شیطنت می داند ۶۴ ترس از جن زدگی جارو و سایر تاثیرات غیر مرئی ۶۵ دلیل کامیابی ھا و ناکامی ھا در خود ماست ۶۶ باید متوجہ اھداف بلند بود ۶۷ مخالفان و دشمنان ھجر می توانند بہ نفع انساں باشند ۶۸ دین اسلام بخش عمدہ خودی ماست ۶۹ اسلام دین فطرت است ۶۹ ارادت بہ قرآن میخست رھنمود عالی بشریت ۷۰ قرآن انساں را دگر گوں می سازد ۷۱ ھر کس باید در معنی آیات قرآں نعمق کند ۷۲ درک درست آیات قرآن میسر نمی شود مگر اینکہ بہ تلاوت کنندہ و می را پید ۷۴ قرآن وجہ مشترک اقبال با ساید عرفائی اسلامی است ۷۶ نظریات اقبال مرھوم از قرآن اند ۷۶ قرآن کتاب تشریح فطرت انسان است ۷۷ استفادئہ عامیانہ از قرآن ۷۷ تشویق بہ اسلام تحقیقی بہ جای اسلام تقلیدی ۷۸ تعالیم قرآن غیر از آرای فلسفی یونان است ۷۹ مسلمانان آگاز گرد اساس گذار تمدن و علوم جدیدہ بودہ اند ۸۱ علم و تکنالوژی امروزی در دامان تمدن اسلامی بہ دنیا آمدہ اند ۸۳ حضرت محمدؐ اساس گذار جھان نو است ۸۵ فھم و دانش حقیقی از اتحاد عقل و عشق حاصل می گردد جمع سائنس و دینداری ۸۶ مولانا مظھر آمیزش عقل و عشق است ۸۸ تشویق مسلمانان بہ فدا گیری علوم جدید ۸۸ فراگیری علم و سائنس نباید از دین غافل مان سازد ۸۹ خودی راہ مطمئن خدا شناس است ۹۱ فردیت شخص دلیل مستحکم بدای وحدت معبود حقیقی است ۹۱ از ’’لا‘‘ بہ ’’الا‘‘ باید رفت ۹۲ وحدت اندیشی ۹۳ وحدت افکار و کردار شرط اساسی انکشاف خودی است ۹۳ وحدت روح و جسم ۹۴ وحدت دنیا و آخرت ۹۵ وحدت علم و دین ۹۸ اثبات ادعای وحدت ھمانا موجودیت خدای واحداست ۹۸ وحدت عشق و عقل ۹۹ وحدت دین و سیاست ۱۰۰ شیطان کرام نیروی مستقل نیست ۱۰۱ زمان و مکان مظاھر خودی انسان اند ۱۰۲ درک زمان ضرورت بدیک موجود خود آگاہ دارد ۱۰۳ انکشاف خودی ضرورت بہ حرکت و تلاش دو امداد دارد… ۱۰۷ عناد و آشتی ناپذیری ابا ایستابودن و بہ اصطلاح بہ مقام فزیدی ۱۰۷ خودی و حرکت دائمی است ۱۰۸ بھشت انسانھای بزرگ در سیر و حرکت مداوم است ۱۰۹ آرامش اصلی در نا آرامی است ۱۱۰ عمل ملاک اصلی علم و دانش است ۱۱۲ بیم و ترس مانع از حرکت و عمل می شود ۱۱۴ حرکت وآزاد و خلاق ۱۱۴ نیکی ھا (ثواب) بہ اثر اقدام عملی بہ انجام کار حیاتی شایستہ حاصل می شوند ۱۱۸ خودی مربوط بہ عالم دل است ۱۲۰ موضوعات دنیای دل توسط نطق و سخن بیاں شدہ نمی توانند ۱۲۱ انسان موجود خیلی پیچیدہ است ۱۲۳ دنیای دل دنیای انفرادی است ۱۲۳ موضوعات دنیای دل در چوکات استدلال محض نمی گنجند ۱۲۴ درک موضوعات دنیای دل ضرورت بہ تجربہ شخصی دارد ۱۲۵ تلاش برای درک کامل موضوعات دنیای دل با عقل و استدلال محض می تواند گمراہ کنندہ باشد ۱۲۷ پس ضرورت بہ این ھمہ قیل و قال در مورد موضوعات دنیای دل چیست؟ ۱۳۰ وضاحت بیش از حد موضوعات دنیای دل باعث تولید ابھام در موجودیت آنھا شدہ است ۱۳۴ طرز پرورش و عادت تیز باعث بی توھجھی بہ موضوعات دنیای دل شدہ است ۱۳۴ بزرگان اسلام جز پرشکوہ خود ما ھستند ۱۳۶ عشق بہ حضرت محمدؐ شرط مسلمان است ۱۳۶ ارادت بہ مولانا ۱۳۷ رقص سماع ۱۳۹ ارادت بہ شیخ احمد سرھندی مشہور بہ حضرت مجدد الف ثانی ۱۴۰ ارادت بہ سید جما ل الدین افغانی ۱۴۳ فقر و بی نیازی لازمہ انکشاف خودی اند ۱۴۵ فقر و بی نیازی سرط برای آزادی ۱۴۷ فقیر یعنی شخص خود آگاہ ۱۴۷ فقر حقیقی اختیاری است نہ از مجبوری ۱۴۸ راہ خوشبختی و انکشاف خودی تنھا بہ وسائل مادی متکی نیست ۱۴۸ رضا نشانہ مراحل پیشرفتہ انکشاف خودی است ۱۴۹ مرحلہ رضا ھما نامرحلہ نفس مطمئنہ است ۱۵۱ رضا خوشبینی آفرین است ۱۵۱ دنیا بیھودہ نیست ۱۵۲ دنیا میدان مبارزہ است ۱۵۴ تشویق بہ قدر تمند شدن ۱۵۴ عشق منبع قدت و ارادہ است ۱۵۶ ھدف آموزش و تعلیم و تربیہ تولید ارادہ است ۱۵۷ ھنر باید در خدمت اعتلای زندگی بشر و انکشاف خودی باشد ۱۵۸ ارزش دوست واقعی در انکشاف خودی ۱۶۲ شکست و غم از نظر خودی ۱۶۸ عبادت و نیایش ۱۷۲ نزدیکی باری تعالیٰ بہ نیدہ ۱۷۴ خاتمہ ۱۷۶(۱۱۴) (ب) افغانستان میں اقبال شناسی کے چند دیگر مصادر اقبال اور افغانستان ادارہ اشاعت مدارالعلوم مردان کی جانب سے اکرام اللہ شاہد کے ایم فل کا یہ مقالہ نومبر ۲۰۰۲ء ۲۸۱ صفحات میں شائع ہوا۔ اس کے مشمولات ذیل ہیں نمبر شمار عنوانات صفحہ ۱ تقریظ پروفیسر محمدنواز طائر ۱ ۲ دیباچہ پروفیسر فتح محمد ملک ۴ ۳ پیش لفظ ۷ ۴ باب اول اقبال اور افغان (پس منظر و پیش منظر) ۱۶ ۵ باب دوم اقبال کا سفر افغانستان ۶۱ ۶ باب سوم اقبال اور سید جمال الدین افغانی ۱۲۰ ۷ باب چہارم اقبال کی افغانوں سے محبت ۱۵۰ ۸ باب پنجم افغانوں کی اقبال سے محبت (افغان ادبیات کی روشنی میں) ۱۸۱ ۹ باب ششم اقبال اور جہاد افغانستان (منظر و پیش منظر) ۲۲۴ ۱۰ خلاصہ بحث ۲۶۹(۱۱۵) سیر اقبال شناسی در افغانستان راقم الحروف (ڈاکٹر عبدالرئوف رفیقی) نے افغانستان میں اقبال شناسی کی روایت پر ڈاکٹریٹ کا مقالہ لکھتے وقت افغانستان میں علامہ پر لکھے گئے مواد اکٹھے کرنے شروع کیے۔ ان میں سے فارسی مقالات کو مرتب کر کے سیر اقبال شناسی در افغانستان کے نام سے اقبال اکادمی پاکستان کی جانب سے ۲۰۰۴ء میں ۲۶۴ صفحات میں شائع کیا۔ اس کتاب کے مشمولات ذیل ہیں: الف ابتدائیہ ۵ --باب اول--(حیات اقبال، تحریرات) ۱ دکتور اقبال۔ سرور خاں گویا ۱۳ ۲ علامہ اقبال۔ شہزادہ احمد علی خاں دران (مدیر انجمن ادب) ۱۹ ۳ افغان و ایران۔ علامہ محمد اقبال ۲۸ ۴ زوال و انحطاط اسلام۔ محمد سکندر خاں معلم دارالمعلمین ۲۹ ۵ افغانستان از نقطہ نظر فضلای ھندوستان ۳۴ الف۔ سوادبیانیہ رئیس انجمن ادب ۳۶ ب۔ خیر مقدم جناب قاری عبداللہ خان ۳۹ ج۔ ترجمہ نطق جناب سر راس مسعود ۴۲ د۔ ترجمہ نطق جناب سید سلیمان ندوی ۴۳ ھ۔ ترجمہ نطق جناب علامہ سر محمد اقبال ۴۶ ۶ تقریظ و انتقاد بر مسافر۔ سرور خاں گویا ۴۸ ۷ افغانستان بہ یک نظر اجمالی تقریظ از علامہ محمد اقبال ۵۴ --باب دوم--(وفات اقبال تا ۱۹۷۷ء تحریرات) ۸ وفات دکتور اقبال شاعر و فیلسفوف ھند۔ سید قاسم رشتیا ۵۹ ۹ اقبال۔ شہزادہ احمد علی خاں ۶۰ ۱۰ اقبال و افغانستان ۔ غلام جیلانی اعظمی ۶۷ ۱۱ منتخبات اشعار اقبال۔ سرور خاں گویا ۷۳ ۱۲ مجلس یاد بود علامہ در معر و علاقہ مندی انجمن ادبی بہ آن ۸۶ ۱۳ خودی در نظر اقبال از دکتور عبد حسین ترجمہ خیام الدین خادم ۸۷ ۱۴ خطاب او قیانوس بہ قطرہ -- علامہ اقبال ۱۲۰ ۱۵ اقبال۔ آریانا دائرہ المعارف ۱۲۳ ۱۶ اقبال و افغانستان۔ دکتور عبدالحکیم لحبیبی ۱۴۴ ۱۷ پیام مشرق۔ جریدہ امان افغان (عبدالہادی داوی) ۱۴۸ --باب سوم--(۱۹۷۸ء تا ۲۰۰۰ئ) ۱۸ اقبال و افغانستان دکتور حق شناس ۱۶۹ ۱۹ بر گزاشت اقبال بزرگ۔ دکتور سید خلیل اللہ ہاشمیان ۱۷۹ ۲۰ امروز ز دای ہران فردا لا جوابنھشری ۱۹۵ ۲۱ افغانستان در آئینہ قرآن احمد جان امینی ۲۰۷ ۲۲ ساعتی در خدمت علامہ اقبال۔ سید قاسم رشتیا ۲۱۴ ۲۳ قلب آسیا گذرگاہ نظر گاہ علامہ اقبال۔ سرمحقق عبداللہ خدمتگار ۲۱۷ --باب چہارم -- (عقیدت منظوم افغانہا بہ حضور اقبال) ۲۴ علامہ شرق۔ بیتاب ملک الشعرا ۲۲۶ ۲۵ قصیدہ در مرثیہ فیلسفوف وطن خواہ۔ پروفیسر اقبال غفر اللہ ملک الشعرا قاری عبداللہ ۲۲۷ ۲۶ اقبال کیست ملک الشعرا ۔ قاری عبداللہ ۲۲۹ ۲۷ بیاد علامہ محمد اقبال۔ محمد ابراہیم خلیل ۲۳۰ ۲۸ رثائی اقبال۔ غلام دستگیر خاں مہمند ۲۳۲ ۲۹ خطابہ بہ اقبال۔ عبدالہادی راوی ۲۳۴ ۳۰ امام مشرق و شاعر مشرق سید جمال الدین و علامہ اقبال عبدالحئی حبیبی ۲۳۵ ۳۱ علامہ اقبال مرحوم عبدالحی حبیبی ۲۳۸ ۳۲ بیاد اقبال مایل ہروی ۲۴۰ ۳۳ غزل حکیم شرق علامہ اقبال۔ استاد خلیل اللہ خلیلی ۲۴۲ ۳۴ بہ پیشگاہ علامہ دکتور محمد اقبال لاہور۔ استاد خلیل اللہ خلیلی ۲۴۳ ۳۵ آموزگار بزرگ برمزار اقبال در لاہور۔ استاد خلیل اللہ خلیلی ۲۴۷ ۳۶ بر آرامگاہ عارف شرق علامہ محمد اقبال لاہوری استاد خلیل اللہ خلیلی ۲۴۹ ۳۷ کعبہ و اقبال۔ استاد خلیل اللہ خلیلی ۲۵۱ ۳۸ دمی با اقبال استاد خلیل اللہ خلیلی ۲۵۴ ۳۹ جواب مسافر دکتورمحمد رحیم الیاس ۲۵۸ کتابیات ۲۶۳(۱۱۶) اقبال افغان اور افغانستان (اردو، فارسی، پشتو، انگریزی) ترتیب ، تدوین وتالیف محمد اکرام چغتائی اقبال افغان اور افغانستان سے متعلق چغتائی صاحب کی اس تالیف میں (مطبوعہ سنگ میل پبلی کیشنز لاہور، ۲۰۰۴ء تعداد صفحات ۲۵۶+۸۸۰=۱۱۳۶) ذیل عناوین کے مطابق مواد شامل ہے: پیش گفتار ۸ --حصہ اول-- اقبال افغان اور افغانستان ۱۷-۱۰۲ ۱ مکتوبات‘ منظومات اور دستاویزات ۱۷-۶۴ ۲ گفتار اقبال مرتبہ رفیق افضل ۶۷-۷۰ ۳ حیات اقبال کے چند مخفی گوشے مرتبہ محمد حمزہ فاروقی ۷۰-۷۸ ۴ اقبال کا سیاسی سفر مرتبہ محمد حمزہ فاروقی ۷۹-۱۰۲ --حصہ دوم-- مثنوی ’’مسافر‘‘ ۱۰۳-۲۷۸ ۱ ’’مسافر‘‘(بیاض و طبع اول)از مرتب ۱۰۳-۱۰۴ ۲ ’’مسافر‘‘- طبع اول‘ ۱۹۳۴ء ۱۰۵-۱۳۳ ۳ ’’مسافر‘‘-بیاض (مخزونہ اقبال میوزیم‘ لاہور) ۱۳۴-۱۴۶ ۴ منظوم اردو ترجمہ از محمد رفیق خاور ۱۴۸-۱۶۱ ۵ ’’مسافر‘‘ از پروفیسر یوسف سلیم چشتی ۱۶۱-۲۱۰ ۶ ’’پس چہ باید کرد مع مسافر--ایک جائزہ ‘‘از محمد رفیق خاور ۲۱۰-۲۵۹ ۷ علامہ اقبال کی ایک مثنوی ’’مسافر‘‘ از میرزا ادیب ۲۶۰-۲۷۴ ۸ مثنوی ’’مسافر‘‘ کے مترجمین و شارحین از محمد اکرام چغتائی ۲۷۵-۲۷۷ --حصہ سوم-- اقبال کے رفقائے سفر ۲۷۹-۳۰۳ ۱ علامہ اقبال اور سید سلیمان ندوی از ڈاکٹر محمدعبداللہ چغتائی ۲۷۹-۲۹۰ ۲ اقبال اور سر راس مسعود از ڈاکٹررحیم بخش شاہین ۲۹۰-۲۹۸ ۳ پروفیسر ہادی حسن از محمد اکرام چغتائی ۲۹۸-۳۰۰ ۴ غلام رسول خاںاز محمد اکرام چغتائی ۳۰۰-۳۰۳ --حصہ چہارم-- اقبال اور افغانی شخصیات (بحوالہ ’’مسافر‘‘) ۳۰۵-۴۰۶ ۱ سنائی اور اقبال از بشیر احمد ڈار ۳۰۴-۳۲۶ ۲ سنائی و اقبال از صوفی غلام مصطفی تبسم ۳۲۶-۳۳۲ ۳ اقبال اور سنائی از پروفیسر ڈاکٹر محمد باقر ۳۳۲-۳۳۶ ۴ سنائی (مصادر) از محمد اکرام چغتائی ۳۳۷-۳۳۹ ۵ جمال الدین افغانی اور اقبال از ڈاکٹر محمد ریاض ۳۳۹-۳۵۲ ۶ اقبال اور سید جمال الدین افغانی از ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار ۳۵۲-۳۶۸ ۷ سید جمال الدین افغانی اور اقبال از ڈاکٹر معین الدین عقیل ۳۶۸-۳۹۱ ۸ جمال الدین افغانی اور اقبال از ایس-ایم-عمر فاروق ۳۹۱-۳۹۵ ۹ علامہ اقبال مزار بابر پر از ڈاکٹر عبدالغنی ۳۹۵-۴۰۰ ۱۰ علامہ اقبال اور نادر شاہ از اختر راہی ۴۰۰-۴۰۶ --حصہ پنجم-- اقبال اور افغانی دانشوراز محمد اکرام چغتائی ۴۰۷-۴۲۷ ۱ سردارصلاح الدین سلجوقی ۲ سرور گویاؔ اعتمادی ۳ استاد خلیل اللہ خلیلیؔ ۴ عبدالہادی داوی ۵ عبداللہ بختانی ۶ قاری عبداللہ ۷ متفرقات (الف) انجمن ادبی کابل (ب) مجلہ ’’کابل‘‘(ج) ’’اصلاح‘‘ (د) ’’امان افغان ‘ ‘ (ھ) افغانستان و شاہان افغانستان (بہ عہد اقبال) (و) اقبال کے دورئہ افغانستان کی تاریخ وار تفصیل (۱۹۳۳ئ) (ز)خرقہ در قندھار --حصہ ششم-- اقبال ‘ افغان اور افغانستان (مطالعات) ۴۲۹-۸۳۶ ۱ اقبال کا سفر افغانستان از ڈاکٹر جاوید اقبال ۴۲۹-۴۴۳ ۲ اپنی خودی پہچان: اقبال اور افغانستان از پروفیسر فتح محمد ملک ۴۴۳-۴۵۶ ۳ سفر افغانستان از فقیر سید وحید الدین ۴۵۶-۴۵۷ ۴ مسافر غزنی و افغانستان از ابوالحسن علی ندوی ۴۵۷-۴۶۷ ۵ افغانستان اور اقبال از خلیل اللہ خلیلیؔ ۴۶۷-۴۹۶ ۶ اقبال اور افغانستان از سرور گویاؔ اعتمادی ۴۹۶-۵۰۰ ۷ اقبال کا سفرافغانستان از مقبول احمد ۵۰۰-۵۰۲ ۸ اقبال اور افغان از میر عبدالصمد خان ۵۰۳-۵۶۸ ۹ افغانستان کا سفر از ڈاکٹر محمد عبداللہ چغتائی ۵۶۸-۵۷۱ ۱۰ علامہ اقبال اور افغان از میاں رسول رسا ۵۷۲-۵۸۲ ۱۱ اقبال اور سرزمین سرحد از ڈاکٹر عبدالسلام خورشید ۵۸۲-۵۸۶ ۱۲ اقبال کا سفر افغانستان از ڈاکٹر افتخار احمد صدیقی ۵۸۶-۵۸۹ ۱۳ اقبال افغانستان میں از حافظ عباد اللہ فاروقی ۵۸۹-۶۰۰ ۱۴ علامہ اقبال کا سفر افغانستان از اختر راہی ۶۰۰-۶۱۴ ۱۵ اقبال اور افغانستان از ڈاکٹر محمد ریاض ۶۱۴-۶۲۱ ۱۶ اقبال اور ملت افغانیہ از عابد پشاوری ۶۲۱-۶۳۳ ۱۷ اقبال کا سفر افغانستان از محمد علی خان ۶۳۴-۶۶۶ ۱۸ اقبال‘ افغانستان اور اشتراکیت از نعیم صدیقی ۶۶۶-۶۷۶ ۱۹ اقبال اور خوشحال خاں خٹک از پریشان خٹک ۶۷۷-۶۸۲ ۲۰ خوشحال خان خٹک اور اقبال از اختر راہی ۶۸۲-۶۸۷ ۲۱ نور المشائخ مُلّاشور بازار از ڈاکٹر محمد عبداللہ چغتائی ۶۸۷-۶۸۸ ۲۲ علامہ اقبال اور شاہان افغانستان از محمد امین زبیری ۶۸۸-۶۹۴ ۲۳ علامہ اقبال اور شاہان افغانستان از ایوب صابر ۶۹۵-۶۹۸ ۲۴ اقبال افغانستان اور ایران میں از ڈاکٹر محمد ریاض ۶۹۹-۷۱۱ ۲۵ افغانوں سے اقبال کی محبت از اکرام اللہ شاہد ۷۱۱-۷۳۱ ۲۶ سیر افغانستان از سیدسلیمان ندوی ۷۳۲-۸۳۲ ۲۷ تعویذ مزار از غلام رسول عدیمؔ ۸۳۲-۸۳۶ --حصہ ہفتم--: فارسی مضامین‘ منظومات اور تعزیت نامے ۸۳۷-۸۶۶ ۱ اقبال در کشور افغان از سید محمد موسیٰ رضوی ۸۳۷-۸۳۹ ۲ علامہ اقبال و رفقای سفرش ۸۴۰-۸۴۱ ۳ رابطۂ فکری لاہور با بلخ ۸۴۲-۸۴۹ ۴ علامہ اقبال در افغانستان ۸۴۹-۸۵۲ ۵ یوم اقبال در افغانستان از غلام حسین مجددی ۸۵۲-۸۵۹ ۶ بہ پیش گاہ علامہ دکتور محمد اقبال لاھوری از خلیل اللہ خلیلیؔ (نظم) ۸۶۰-۸۶۴ ۷ تعزیت نامے (صلاح الدین سلجوقی‘ مبشر طرازی) ۸۶۴-۸۶۶ فہرست مآخذ ۸۶۷-۸۷۶ حصۂ انگریزی(۱۱۷) مأخذات باب دوم:۔ ۱؎ اقبال ممدوح عالم ، ص۔ ۲۸۴ ۲؎ مجلہ کابل ، مارچ ۱۹۳۱ئ، ص۔ ۱۹ تا ۲۳ ۳؎ خطوط اقبال، ص۔ ۲۰۴ ۴؎ اقبال اور بھوپال، ص۔ ۲۴۳ ۵؎ اقبال ریویو ، اپریل ۱۹۶۷ئ، ص۔ ۴۴ ۶؎ مجلہ کابل، جون ۱۹۳۲ئ، ص۔ ۱۲ - ۲۰ ۷؎ ایضاً، دسمبر۱۹۳۲ء ، ص۔ ۳۲ ۸؎ سیرِ افغانستان ، ص۔ ۷ ۹؎ مجلہ کابل ، جنوری ۱۹۳۴ئ، ص۔ ۶۵ - ۷۱ ۱۰؎ ایضاً، جنوری فروری ۱۹۳۷ئ، ص۔ ۱۰۸۹ ۱۱؎ ہفت روزہ وفا، ۱۱ جدی ۱۳۷۵ھ ش ۱۲؎ مجلہ کابل، مئی جون ۱۹۳۸ئ، ص۔ ۷۸ ۱۳؎ ایضاً، ص۔ ۹۲ - ۹۳ ۱۴؎ ایضاً، ص۔ ۹۳ ۱۵؎ افغانستان و اقبال ، ص ۱ ۱۶؎ ایضاً، ص ۱ ت ۲۱ ۱۷؎ سیر اقبال شناسی در افغانستان، ص ۱۴۸ تا ۱۶۶ ۱۸؎ اقبال کامل، ص ۲۴۲ ۱۹؎ افغان بادشاہ، ص ۲۲ ۲۰؎ مجلہ کابل، ۵ مارچ ۱۹۳۱ئ، ص۔ ۱۹ تا ۲۳ ۲۱؎ سیر اقبال شناسی در افغانستان، ص ۱۳ تا ۱۸ ۲۲؎ ایضاً، ۲۲ جون ۱۹۳۲ئ، ص۔ ۱۲ تا ۲۰ ۲۳؎ افغانستان و اقبال، ص ۳۸ تا ۳۹ ۲۴؎ سیر اقبال شناسی در افغانستان، ص ۱۹ تا ۲۷ ۲۵؎ مجلہ کابل ۲۲ جون ۱۹۳۲ئ، ملحقہ ص ۲۰ ۲۶؎ افغانستان و اقبال ملحقہ ص ۷۶ ۲۷؎ مجلہ کابل، ۲۲، اگست ۱۹۳۲ئ، ص۔ ۱۷ ۲۸؎ کلیاتِ اقبال ، شیخ غلام علی اینڈ سنز، ۱۹۸۵ئ، ص۔۷۶۸ ۲۹؎ سیر اقبال شناسی در افغانستان، ص ۲۸ ۳۰؎ مجلہ کابل، ۲۲/ اگست ۱۹۳۲ئ، ص۔ ۳۷ ۳۱؎ سالنام کابل ۱۱ - ۱۳۱۲ھ ش، ص۔ ۱۸۰ ۳۲؎ ایضاً، ملحقہ ص۔ نمبر ۱۸۰ ۳۳؎ مجلہ کابل ۲۲ دسمبر ۱۹۳۲ئ، ص ۹ تا ۳۲ ۳۴؎ سیر اقبال شناسی در افغانستان ، ص ۲۹ تا ۳۴ ۳۵؎ اقبال ریویو، جنوری ۱۹۷۶ئ، ص۔ نمبر ۴۴ ۳۶؎ مجلہ کابل، عقرب۱۳۱۲ھ ش ، ص۔ ۳۷؎ افغانستان و اقبال، ص ۲۲ ۳۸؎ سیرِ افغانستان، ص۔ ۱۵ ۳۹؎ مجلہ کابل ، ۲۲ دسمبر ۱۹۳۳ئ، ص۔ ۸۳ - ۸۴ ۴۰؎ سیرِ افغانستان ، ص۔ ۱۵ ۴۱؎ ایضاً، ص۔ ۱۶ ۴۲؎ مجلہ کابل، ۲۲ دسمبر ۱۹۳۳ئ، ص۔ ۸۷ - ۸۸ - ۹۲ ۴۳؎ سیرِ افغانستان، ص۔ ۱۵ ۴۴؎ مجلہ کابل، ۲۲دسمبر ۱۹۳۳ئ، ص۔ ۸۷ ۴۵؎ سیرِ افغانستان، ص۔ ۱۶ ۴۶؎ مجلہ کابل، ۲۲ دسمبر ۱۹۳۳ئ، ص۔ ۸۸ تا ۹۱ ۴۷؎ سیرِ افغانستان، ص۔ ۱۷ - ۱۸ ۴۸؎ مجلہ کابل، ۲۲ دسمبر۱۹۳۳ئ، ص۔ ۹۲ ۴۹؎ سیرِ افغانستان ، ص۔ ۱۸ ۵۰؎ افغانستان و اقبال، ص ۲۳ تا ۳۷ ۵۱؎ سیر اقبال شناسی در افغانستان ، ص ۵۲؎ مجلہ کابل ، ۲۱ جنوری۱۹۳۴ئ، ص۔ ۶۵ تا ۷۱ ۵۳؎ ایضاً، ص۔ ۶۸ ۵۴؎ مجلہ کابل، ۲۳ دسمبر ۱۹۳۴ئ، ص۔ ۴ ۸ تا ۸۹ ۵۵؎ سیر اقبال شناسی در افغانستان ، ص ۴۸ تا ۵۳ ۵۶؎ مجلہ کابل ۲۲ مارچ ۱۹۳۵ئ، ص ۸۶ تا ۹۰ ۵۷؎ سیر اقبال شناسی در افغانستان ، ص ۵۴ تا ۵۷ ۵۸؎ مجلہ کابل ، ۲۱ / اپریل ۱۹۳۵ئ، ص۔ ۳۹ ۵۹؎ پیامِ مشرق، ص۔ ۱۱۵ - ۱۱۶ ۶۰؎ مجلہ کابل، ۲۱ / اپریل ۱۹۳۵ئ، ص۔ ۴۰ ۶۱؎ پیامِ مشرق، ص۔ ۱۳۲ - ۱۳۳ ۶۲؎ مجلہ کابل، ۲۳ مئی ۱۹۳۵ئ، ص۔ ۳ - ۴ ۶۳؎ پیامِ مشرق، ص۔ ۹۶ ۶۴؎ مجلہ کابل، جنوری فروری ۱۹۳۷ئ، ص۔ مسلسل ۱۰۸۹ ۶۵؎ ایضاً، مئی جون ۱۹۳۸ء ، ص۔ ۷۸ ۶۶؎ اخبار انیس کابل، چارشنبہ ۱۴ ثور ۱۳۱۷ھ ش ۶۷؎ ƒ'„پ ¦ ‹ ک‍پں¦ پ›‚پ‍ ƒ¦  —ژ œ*ي ”ڑ‰¦ ×ض ۶۸؎ ں‡‍¦ ¢&ں¦يœپ‚‍ ۱۹۶۷ئيص۔ ۱۳ ۶۹؎ اقبال ریویو، اپریل ۱۹۶۷ئ، ص۔ ۱۶۵ تا ۱۷۰ ۷۰؎ اقبال ممدوح عالم، ص۔ ۲۸۸ ۷۱؎ ƒ'„پ ¦ ‹ ک‍پں¦ پ›‚پ‍ ƒ¦  —ژ œ*ي ”ڑ‰¦ طز ۷۲؎ آثار اردوی اقبال، جلد ۱، ص۔ الف تا د ۷۳؎ ایضاً، ص۔ آغاز ۷۴؎ ایضاً، ص۔۱ ۷۵؎ ایضاً، ص۔۲ ۷۶؎ ایضاً، ص۔۵ ۷۷؎ آثار اردوی اقبال، جلد ۱، ص۔۷ ۷۸؎ ایضاً، ص۔۱۲ ۷۹؎ ایضاً، ص۔۱۶ ۸۰؎ ایضاً، ص۔۵۴ ۸۱؎ ایضاً، ص۔۶۴ - ۶۵ ۸۲؎ آثار اردوی اقبال، جلد ۱، ص۔ ۱۱۰ ۸۳؎ آثار اردوی اقبال ، جلد ۲، ص۔ آغاز ۸۴؎ بانگِ درا، ص۔ ۳۵ ۸۵؎ آثار اردوی اقبال، جلد ۲، ص۔ ۱۳ - ۱۴ ۸۶؎ بانگِ درا، ص۔ ۸۷ ۸۷؎ آثار اردوی اقبال، جلد ۲، ص۔ ۱۴ - ۱۵ ۸۸؎ بانگِ درا، ص۔ ۲۴  - ۲۵ ۸۹؎ آثار اردوی اقبال، جلد ۲، ص۔ ۱۶ - ۱۷ ۹۰؎ بانگِ درا، ص۔ ۵۱ ۹۱؎ آثار اردوی اقبال، جلد ۲، ص۔ ۱۷ - ۱۸ ۹۲؎ بانگِ درا، ص۔ ۱۷۸ ۹۳؎ آثار اردوی اقبال، جلد۲، ص۔ ۱۹ ۹۴؎ بانگِ درا، ص۔ ۲۱۴ - ۲۱۵ ۹۵؎ آثار اردوی اقبال ، جلد ۲، ص۔ ۲۰  - ۲۱ ۹۶؎ ایضاً، ص۔۲۸ تا ۳۰ ۹۷؎ افغانستان و اقبال، ص۔ آغاز ۹۸؎ ایضاً، ص۔ د ۹۹؎ افغانستان و اقبال، ص۔ آخر ۱۰۰؎ ‹ ¢&ں¢  ٹ'*ي ”ڑ‰¦ ×ط ۱۰۱؎ ’’دانش‘‘ زمستان، ۱۳۶۶ھ ش، ص۔ ۲۵ ۱۰۲؎ ’’قلم‘‘ اپریل مئی ۱۹۸۷ئ، ص۔ ۶۹ ۱۰۳؎ دانش زمستان، ۱۳۶۶ھ ش، ص۔ ۲۵ ۱۰۴؎ یار آشنا،ص ۲-۳ ۱۰۵؎ حکیم سنائی و جہان بینی او بیک ٹائیٹل ۱۰۶؎ ƒ'„پ ¦ “کژپي ‡‍‹ صي ”ڑ‰¦ طزس ۱۰۷؎ آثار اردو ی اقبال، جلد ۱، ص۔ ۱۱۰ ۱۰۸؎ ایضاً، ص۔ ۱۱۰ ۱۰۹؎ آثار اردوی جلد ۲، ص۔ ۲۰ ۱۱۰؎ افغانستان اور اقبال ،اکرام اللہ شاہدؔ، ص۔ ۲۰۲ ۱۱۱؎ مجلہ آریانا میدان قوس ۱۳۵۶ھ ش ، ص ۵ ۱۱۲؎ علامہ اقبال در ادب فارسی و فرھنگ افغانستان ، ص ۳۳۸ ۱۱۳؎ ایضاً، ص ۹ تا ۱۴ ۱۱۴؎ اکسیر خودی جوھر پیام علامہ اقبال ، ص ت تا خ ۱۱۵؎ اقبال اور افغانستان ص ھ ۱۱۶؎ سیر اقبال شناسی در افغانستان ، ص۱ تا ۳ ۱۱۷؎ اقبال افغان اور افغانستان ، ص۵ تا ۷ ئئئئئء باب سوم افغانستان میں اقبال شناسی کا ارتقاء افغانستان میں اقبال شناسی کی ارتقاء کو درج ذیل تین ادوار میں تقسیم کیا گیا ہے: پہلا دور: ۲۲ / اپریل ۱۹۳۸ء تا ۱۹۵۰ء دوسرا دور: ۱۹۵۱ء تا ۱۹۷۷ء تیسرا دور: ۱۹۷۸ئ تا ۲۰۱۰ء پہلا دور: ۲۲/ اپریل ۱۹۳۸ئ ۳ثور ۱۳۱۷ھ ش ۱۳۵۹ھ ق تا ۱۹۵۰ئ ۱۳۲۹ ھ ش ۱۳۷۱ ھ ق یہ دور حضرت علامہ کی وفا ت کے بعد سے شروع ہوتا ہے۔ حضرت علامہ کی وفات کی خبر نشر ہوتے ہی دیگر ممالک کی طرح افغانستان میں بھی اخبارات و رسائل نے خصوصی خبریں ، مضامین ومقالات شائع کیں۔ کابل کے ’’اصلاح‘‘ اور ’’انیس‘‘ اخبارات نے حضرت علامہ کے تعزیتی بیانات کے علاوہ حضرت علامہ کے سوانحی تذکرے، ادبی خدمات اور عالمی و آفاقی شخصیت پرعلمی و ادبی مقالات شائع کئے۔ انجمن ادبی کابل کے زیرِ اہتمام حضرت علامہ کی وفات کے صرف آٹھ روز بعد کابل میں ایک تعزیتی کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔ جس میں حضرت علامہ کی وفات پر تعزیت کے ساتھ ساتھ ان کی عالمگیر شخصیت کو خراجِ تحسین پیش کیا گیا۔ مجلہ کابل نے خصوصی اقبال نمبر شائع کیا۔ جس میں حضرت علامہ کے فن و شخصیت کے حوالے سے افغان سکالروں کے علمی و تحقیقی مقالات کے علاوہ علامہ کے پشتو و فارسی مرثیے شائع کئے۔ مجلہ کابل میں ڈاکٹر سید عابد حسین کے اردو مقالے کا فارسی ترجمہ ’’ خودی در نظر اقبال ‘‘ شائع ہوا۔ اس کے علاوہ مختلف رسائل میں حضرت علامہ کے متفرق ابیات شائع ہوتے رہے۔ اس دور کا تفصیلی تحقیقی جائزہ یوں ہے: یکشنبہ ۴ ثور ۱۳۱۷ھ ش حضرت علامہ کی وفات پرکابل، افغانستان کے اخبار’’ اصلاح‘‘میں صرف دو دن بعددرج ذیل تعزیتی خبرشائع ہوئی۔ وفاتِ علامہ سرمحمد اقبال:۔ شب جمعہ دو ثور بذریعہ منابع خبر رسانی خبرِ دل خراش شنیدیم کہ عبارت از وفات داکتر سر محمد اقبال متفکر بزرگ و فلیسوف معروف ھند بود۔ سرمحمد اقبال درسنہ ۱۸۷۷ء در شہر سیالکوت ( پنجاب) کہ وطن و مولد سعد سلمان، امیرخسرو فیضی، غنی ، واقف، غنیمت و امثال آن ھابودہ متولد شد۔ ابا و اجداد این مردِ نامور از مسلمانان منور کشمیر بود اند چنانچہ خود گفتہ بود: مرا بنگر کہ درہندوستان دیگر نمی بینی بر ہمن زادہ، رمز آشنائی روم و تبریز است اقبال بعد از فرا گرفتن تعلیمات مقدماتی درگورنمنت کالج لاہور داخل، و علاوہ برزبان انگلیسی و علوم آن زبان تعلیمات فارسی را در سایہ عاطفت شمس العلماء مولوی سید میر حسن صاحب مرحوم بہ پایان رساند۔ چون ازا یام طفولیت استعداد زیادی شعری رادادہ بود ازین جہت و جود معلم مذکور برائی اوو سیلہ تحریک استعداد نہفتہ اش گرددید۔ و بعد از آن از نزد پروفیسور آرنلدکہ درس فلسفہ و حکمت گرفتہ بہ حکمت قدیم و جدید آشنا شد۔ درین وقت اقبال روز بروز شہرت پیدا میکرد ہمان بود کہ بہ گورنمنت کالج لاہور بہ معلمی فلسفہ پر دافت۔ از آن درسنہ ۱۹۰۵ء عازم اروپا شدہ ۔بعد از مرور سال در آلمان حائیزدیپلوم (پی ایچ دی) ولقب دکتوری شدہ بو طن خودعودت گرد۔ اقبال از خورد سالی اشعار خوب و رشیقی بزبانِ ہندی می گفت واز آن آوان اولیہ تاکنون ہر مصرعی از آثار او فاش کنندہ اسراریک عالم عشق و جمال بودہ وہست ، چوں پروردہ آغوش یک خانوادہ متصوف بود ازین جہت کلا مش رابہ چا شنی تصوف چنان تزئین میداد کہ چشم تعقل رادر امواج حیرت می غلطاندو بہ انکشاف اسرار کائنات و کشف غوامض الٰہیات ازعالم رموز حکمت بہ آسانی عبور و مرورنمودہ، معما ہای لاینحل مظاہر حقیقی را بہ تخیلات فلک پیمای، خود صورت سہل تری می بخشد۔ اقبال عموما در مظاہر عشق و حسن ذوق را باچا شنی تصوف بہم آمیختہ کاروان خود را باقافنہ سالاری رومیؒ درکنا ررکن آباد و مفلی گلگشت میداد و درعلو تفکر و نزاکت تخیل کلیم و بیدل ر ابیا دمی آورد۔ و درحسن تخاطب روح بلبل شیراز راخورسند میساخت و درمثالیہ غنی را از کشمیر و صایب را از اصفہان و میانگیخت و پیمانہ تغزل رامثل خواجہ حافظ و نظیری سرشارمینمود۔ علاوہ از محاسن شعری در فلسفہ و تاریخ حیات اقوام و امم و جملہ نکات حکمت والہیات کہ موجب انبتانہ بشراست بہ علوم دینیہ اسلامیہ معلوماتی وسیع و زیادی داشت۔چون معلومات عمومیہ اواز ہر جنبہ کامل بود و بدستیاری فلسفہ و علوم بہ حقائق روحی ملل اقوام آگاہی کاملی داشت لہٰذا درزمینہ خدمت و اصلاح قدرت ونیروی مطلوبی رادارا بودہ است و مینوانست نبض ملت رادیدہ بہمان طور یکہ مقفی است امراض اورا تداوی نماید۔ اقبال دارای کتب، رسائل ، آثار متعدد و ضخیمی است کہ نام بردن تمام آہنا از احاطہ ھمچویک مقالہ کوچکی کہ بغرض اظہار تاسف نوشتہ شدہ خارج می باشد۔ روی ھمر فتہ از جملہ آثار معروف و ذیقیمت او کہ بزبان فارسی طبع شدہ و شخصیت بلند و افکار ارجمند اقبال مرحوم راترجمان مینماید کتب ذیل است۔ پیامِ مشرق جواب پیام مغرب گویتہ آلمانی ، زبورِ عجم، رموز خودی، اسرار بیخودی ، جاوید نامہ، مسافر وغیرہ۔ گرچہ داکتر اقبال مردی از سرزمین پنہاور ہند بود اما مقام علمی موثرات ادبی تعلیمات اخلاقی و فلسفی اورانہ تنہا اولاد ہند بلکہ یک عضو مفید و صالح تمام دنیائی اسلام و حتیٰ بشریت جلوہ دادہ، بود۔ زیرا داکتر اقبال از پر تو فروزان معارف سرچشمہ عرفان بحدی سہم داشت کہ نہ خود ش و نہ دیگران برای او وطنی قایل نمیشد ندو و جود او را درما ورای ذہنیت محدود وطنیت و ملیت محصور نمیدا نستند۔ بلی اقبال فیلسوف ، شاعر، متصوف، مربی اخلاق بود و طبیعی است کہ این طور اشخاص کرہ ارض را وطن و بشریت را ملت خود میدا نند۔ از ہمیں جہت خدمات او بہ تمام عالم اسلام و شرق و عموم گروہ، بیچارہ و مظلوم بشریت انحصار داشت و دلیل تاسف و حزین بزرگی کہ از فقدان او بما دتست دادہ زیادہ تراز حسن ھم جواری شخصیت بزرگ بین المللی اومی باشد۔ داکتر ااقبال بچندین زبان مقتدر بخدمت فکری و قلمی بود بوسیلہ کتب رسالہ ہا۔ مقالات منظوم و منثور حقائق امور را بہ گوارا ترین طرزی بسمع عالمیان افشاء میکرد۔ اگر داکتر اقبال رادر زمرۂ حکما حساب کینم واسطہ قدرتیکہ درافادہ مرام خود بوسیلہ شعر دارابود او را ممتازتر از حکمای سایرہ نشان مید ہد و اگر اقبال رامرد ادیب و شاعر نام بگذاریم دہان فلسفہ او کہ یگانہ منبع و منشاء الہامات بدیعی و ادبی او بود او را در صنف ممتاز ترین ادبا و شعرائی بشریت قرارخواہد داد۔ و اگر بگوییم اقبال مربی اخلاق و عالم اجتماع و مصلح ملی بود بواسطہ شوق و عشق و جذبہ و ہیجان کہ از تصوف دروجودش مرکوز بود او راجایگاہی بلند تراز مصلحین اخلاقیون و مربیون زمان می بخشد۔ اقبال درلفافہ اخلاق و تصوف و شعر و فلسفہ ملت ہندرا بہ مفہوم وطنیت و دنیائی اسلام رابہ معنی وحدت اسلام و گروہ سایر بشر رابہ مضار مجز بہ اخلاق مادیٔ آشنا کردہ میخواست۔ دورۂ درخشندہ تمدن اخلاقی قدیم اسلام راکہ نمونہ ازیادگاری ہایٔ اسلاف نامور مسلمین است احیا نماید۔ پس مازیک طرف بنام ہمجوری و زطرف دیگر بنا برمقام بزرگ علمی، ادبی، فلسفی، اجتماعی، بین المللی او اظہار تاثر و تاسف نمود، از خداوند متعال برایش طلب غفران استدعا نمودہ، بہ بازماندگان و آقائی جاوید اقبال پسرشان و تمام علاقہ مندان شان مراتب تسلیمت خود مانرا اظہار میداریم۔ (۱) ترجمہ: جمعرات دو ثور کو خبررساں ایجنسیوں نے ایک دل خراش خبر نشر کی جو ہندوستان کے مشہور مفکر اور عظیم فلسفی ڈاکٹر سر محمد اقبال کی وفات سے عبارت تھی۔ سر محمد اقبال ۱۸۷۷ء میں سیالکوٹ ( پنجاب) میں پیدا ہوئے جو سعد سلمان ، امیرخسرو، فیضی، غنی، واقف، غنیمت اور ان جیسے کئی ہستیوں کا مولد ہے۔ اس نامور ہستی کے آباو اجداد کا تعلق کشمیری مسلمانوں سے تھا چنانچہ خود فرماتے ہیں۔ ؎ مرا بنگر کہ درہندوستان دیگر نمی بینی برہمن زادہ ئی رمز آشنائی روم و تبریز است اقبال نے ابتدائی تعلیم کے بعد گورنمنٹ کالج لاہور میں داخلہ لیا۔ اس کے علاوہ انگریزی اور فارسی زبانوں میں تعلیم شمس العلماء مولوی سید میر حسن مرحوم کے زیرِ سایہ پایہ تکمیل تک پہنچائی۔ چونکہ بچپن ہی سے بہتر شعری استعداد کے مالک تھے اسی بنا پر مذکورہ استاد جیسے ہستی کی وساطت سے ان کی صلاحیتوں کو نکھار عطا ہوئی۔ اس کے بعد پروفیسر آرنلڈ کے ذریعے جو انہیں فلسفہ پڑھاتے تھے قدیم و جدید فلسفے سے آشائی حاصل کی۔ اس زمانے میں اقبال کی شہرت میں روز بروز اضافہ ہوتا رہا۔ اور گورنمنٹ کالج لاہور میں فلسفہ کے استاد مقرر ہوئے۔ ۱۹۰۵ء میں یورپ چلے گئے اور تین سال کے بعد جرمنی سے پی ایچ ڈی کا اعزاز حاصل کرنے کے بعد دوبارہ وطن تشریف لائے۔ اقبال پچپن ہی سے اردو زبان میں بہترین اشعار کہتے تھے۔ ابتدائی دنوں ہی سے ان کے ہر مصرعہ سے عشق و جمال کے اسرار فاش ہوتے تھے۔ چونکہ ایک روحانی گھرانے کی آغوش میں تربیت پائی تھی اسی وجہ سے ان کے کلام کو تصوف کی ایک ایسی چاشنی عطا ہوئی کہ تعقل کی نگاہ سراپا حیرت بن کر رہ جاتی۔ اسرارِ کائنات کا انکشاف اور الہیات کے عمیق نکتوں کے ادراک کو ایک آسان راز دارانہ سبیل عطا کی۔ مظاہرِ حق کے لا ینحل معمات کو اپنے وسیع تخیلات سے نہایت آسانیاں عطا کیں۔ اقبال نے عام طور پر مظاہر حسن و عشق کو تصوف کی چاشنی سے نوازا۔ اپنے کاروان کو رومی کی سالاری میں منزل کامرانی تک پہنچانے کی سعی فرمائی۔ تفکر و نزاکت میں کلیمؔ اور بیدلؔ کی یاد تازہ کی حسن تخاطب سے بلبل شیراز ؔکی روح کو سرور عطا کیا۔ استعمالِ امثال کے سلسلے میں کشمیر کے غنیؔ اور اصفہان کے صائبؔ سے اکتساب لیا۔ اور پیمانہ تغزل خواجہ حافظؔ و نظیریؔ کی طرح سرشاری سے لبریز کیا۔ شاعرانہ محاسن کے علاوہ فلسفہ تاریخِ اقوام اور ملتوں کے تمام امور حکمت اور الہیات جو بشر کے انبتانہ کے موجب ہیں میں وافر دینی واسلامی معلومات رکھتے تھے۔ چونکہ عام معلومات پر واضح دستر س رکھتے تھے ۔ اور فلسفہ اور علوم کی رو سے اقوام کی نفسیات سے پوری آگاہی رکھتے تھے۔ اس لئے ان کی خدمت اور اصلاح کے لئے مطلوبہ نہج پر پرکھ کر اورملت کے نبض پر ہاتھ رکھ کر ان کے مرض کی دوا تشخیص کرتے رہے۔ اقبال کئی کتب و رسائل اور مختلف ضخیم آثار کے مالک تھے۔ ان تمام کا یہاں نام لینا اس چھوٹے سے مقالے میں جو اظہار افسوس کے طور پر لکھا جا رہا ہے ناممکن ہے۔ اقبال کے مشہور اور قیمتی آثار جو فارسی میں لکھے گئے ہیں اور ان کی شخصیت اور بلند افکار کا احاطہ کئے ہوئے ہیں درج ذیل ہیں: پیامِ مشرق ،(جوجرمن شاعر گوئٹے کے دیوانِ مغرب کے جواب میں لکھی) ۔ زبورِ عجم، رموزِ خودی اسرارِ بیخودی، جاوید نامہ اور مسافر وغیرہ۔ ڈاکٹر اقبال کا تعلق اگرچہ سرزمین ہندوستان سے تھا اپنے علمی مقام، ادبی تعلیمات ، اخلاق اور فلسفیانہ افکار کی بدولت وہ نہ صرف ہند کے لئے بلکہ عالم اسلام کے لئے بالخصوص اور عالمِ انسانیت کے لئے بالعموم ایک مفید اور صالح فرد کی حیثیت رکھتے تھے۔ وہ معرفت ،عرفان اور آگہی سے اس طرح سرفرازتھے کہ نہ وہ خود اپنے آپ کو اور نہ کوئی دوسرا ان کو کسی وطن سے منسوب کرسکتا ہے۔ ان کا وجود وطنیت اور ملت کے محدود ذہنیت سے ماورا تھا۔ یقینا اقبال فلسفی ،متصوف شاعر اور مربی اخلاق کے مالک تھے۔ ایسے افراد کرۂ ارض کو اپنا وطن اور بشریت کو اپنی ملت سمجھتے ہیں۔ اسی مناسبت سے ان کے خدمات عالمِ اسلام ، مشرق اور عام مظلوم انسانی حلقوں کے لئے وقف ہیں۔ ان کے بچھڑنے سے اس افسوس اور عظیم صدمے کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ وہ ایک بین الاقوامی شخصیت کے مالک تھے۔ ڈاکٹر اقبال نے کئی زبانوں میں گرانقدر فکری اورعلمی خدمات انجام دیئے ہیں۔ مختلف منظوم اور منثور کتب، رسائل اور مقالات کے ذریعے مختلف حقائق نہایت عالمانہ انداز میں بیان فرمائے ہیں۔ اگر اقبال کو حکماء کے زمرے میں شمار کروں تو اعلیٰ شاعرانہ اوصاف کی بنا پر وہ حکماء سے ممتاز ترین مقام کے حقدار ہیں۔ اور اگر اقبال کو ادیب و شاعر کے نام سے یاد کروں تو ان کے بلند فلسفیانہ افکار جو بدیعی و ادبی الہامات کا منبع ہیں ان کو عالمِ انسانیت کے اُدباء اور شعراء میں ممتاز مقام عطا کر دیتا ہے۔ اور اگر کہوں کہ اقبال ایک مربی اخلاق اور عالمِ اجتماع اور قومی مصلح ہیں معشوق اور عشق کے جذبہ تصور کا وہ ہیجان جو ان کے وجود میں شامل ہے ان کو یگانہ بنا کر انہیں زمانے کے مصلحین ،اخلاقیوں اور مربیوں سے ممتاز بنادیتا ہے۔ اقبال نے اخلاق، تصوف، شاعری اور فلسفہ کے ذریعے ملتِ ہند کو مفہوم وطنیت اور دنیائے اسلام کو وحدتِ اسلامی اور عالمِ انسانیت کو مادی اخلاقی نقائص سے آگاہ کیا۔ مسلمانوں کے روشن تمدن قدیم اخلاقی دور جو نامور اسلامی اسلاف کی یادگار ہے کی احیاء پر زور دیا۔ پس ہمیں ایک طرف ان کی قربت اور دوسری طرف ان کی اعلیٰ علمی و ادبی، فلسفی ،معاشرتی اور بین الاقوامی حیثیت کے ساتھ ارتحال کا دکھ ہے۔ پروردگار سے ان کی مغفرت طلب کرتے ہیں اور پسماندگان ،ان کے بیٹے جناب جاوید اقبال اور تمام عقیدت مندوں سے ان کی تعزیت کرتے ہیں۔ ‘‘ اصلاح اخبار کی یہ تعزیتی خبر و مقالہ حضرت علامہ کے تعزیتی و توصیفی امور پر مشتمل ہے۔ جو کہ لکھنے والے کی علامہ سے عقیدت کا آئنہ دار ہے۔ ’’اصلاح‘‘ کابل میں شائع شدہ حضرت علامہ کی وفات کی یہ خبر بعد میں ’’افغانستان و اقبال‘‘ میں بھی شائع ہوئی ہے۔(۲) چارشنبہ ۱۴ ثور ۱۳۱۷ھ ش: کابل کے انیس اخبار نے حضرت علامہ کی وفات پر درج ذیل تعزیتی خبر شائع کی۔ وفات: ؎ ہر آنکہ زاد بہ ناچار بایدش نوشید زجام دہر می کل من علیہا فان شاعر اقبال ، ادیب اقبال، حکیم اقبال،ڈاکٹر اقبال، علامہ اقبال بتاریخ ۲ ثور در شہرلاہور مرکز ولایت پنجاب بہ سن شصت و دو سالہ گی خلت فرمود۔ انا للّٰہِ و انا الیہ راجعون تحصیلات: داکتر اقبال بسال۱۸۷۷ء در شہر سیالکوت تولد یافتہ بعد از فراغ دورۂ ابتدای در دارالعلوم حکومتی (گورنمنٹ کالج)لاہور شامل تحصیل گردید۔ چون اقبال طبع شعری داشت ذوق ادیب باعث گشتہ نزد معلم خود جناب سید میر حسن شمس العلماء علوم ادبی رابصورت خصوصی کمال نمود ھکذا تحصیلات علوم فلسفی رانزد پروفیسر آرنلد بہ پایۂ عالی رسانیدہ درگورنمنت کالج لاہور بہ معلمی فلسفہ مستخدم گردید۔ پس درسال ۱۹۰۵ء عازم آروپا گردیدہ درالمان تحصیلات خود را ادامہ دادہ، شہادت نامہ پی ایچ دی ولقب داکتری را حاصل کردہ بوطن خود مراجعت نمود ۔ داکتر اقبال درفلسفہ قدیم و جدید و درمباحث الہیات و تاریخ ارتقاء و انحطاط اقوام و تشخیص امراض اجتماعی وعلاج و تداوی آن مہارت نامی داشت۔ خدمات:۔ معنی قومیت، وطنیت ، ملیت را در تالیفات خود روشن ساختہ زحمات تمدن غرب رابا زلال تمدن مشرق آمیختہ زہر پرتو انوار قرآن اسرار عروج عالم متمدن رابہ عالم اسلامِ بصورت ارمغان سفر ورہ آورد خویش تقدیم نمود این نطاق معروف و مفکر مشہور شرق درشیوا بیان خود شہرت سزاواری راحاصل کردہ، زبور عجم و رموز خودی و اسرار بیخودی، جاوید نامہ و رسالہ مسافر بزبانِ فارسی و ترانہ ھای ملی خود رابزبان ہندی با بسیاری از آثار دیگر خویش یادگار گزاشت۔ قدردانی:۔ داکتر اقبال درحال حیات خویش ازروی افکار و علوم درمملکت پنہاور ہند دارای اعتبار بزرگ درقلوب ادباء و ارباب حل و عقد دول اسلامی صاحب محبت سرشاری بود۔ ضیاع ایں مشعل انوار علم و ادب درہر گوشہ از گوشہ ھایٔ عالم تاثرات اسف آوری راتولید نمودہ۔ داکتر سر محمد اقبال مرحوم بہ استقلال ملت افغان افتخاری نمود وہ بہ خیر خواہی افغانستان معروف بود بادشاہ افغانستان اعلی حضرت محمد نادر شاہ کبیر افغان رحمت اللہ علیہ ارادت مندہ ھای مخلصانہ داشت و بہ یادگار سفر افغانستان و افتخار ملاقات شاہ افغان بنام مسافر رسالۂ تالیف نمودہ کہ احساسات محبت سرشار اورانمودار میسازد۔ علامہ اقبال درحال ممات خویش ہمچوحال حیات او از طرف ملت قدر شناس ہند بہ کمال اجلال تجلیل دیدہ بعد از مراسم تجہیز و تکفین بمقابل مسجد شاہی لاہور بکمال احترام دفن گردیدہ ولی درحال اقبال سزاواراست کہ گفتہ آید۔ ؎ بعد از وفات مد فن مادر زمین مجو درسینہ ھای مردم عارف مزار ماست (۳) ترجمہ: شاعر اقبال ، ادیب اقبال، حکیم اقبال ، ڈاکٹر اقبال ، علامہ اقبال نے مورخہ دو ثور صوبہ پنجاب کے مرکزی شہر لاہور میں باسٹھ سال کی عمر میں رحلت فرمائی۔ انا للّٰہِ و انا الیہِ راجعون۔ تحصیلات:۔ ڈاکٹر اقبال ۱۸۷۷ء کو سیالکوٹ شہر میں پیدا ہوئے ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد گورنمنٹ کالج لاہور میں داخلہ لیا۔ چونکہ اقبال شعری طبیعت اور ادیبانہ ذوق رکھتے تھے اسی لئے اپنے استاد شمس العلماء جناب سید میر حسن سے ادبی علوم خصوصیت کے ساتھ پایۂ تکمیل تک پہنچائے۔ اس طرح پروفیسر آرنلڈ سے فلسفہ میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد گورنمنٹ کالج لاہور میں فلسفہ کے استاد مقرر ہوئے۔ ۱۹۰۵ء میں یورپ تشریف لے گئے جہاں جرمنی میں حصولِ علم کا سلسلہ جاری رکھا جہاں سے پی ایچ ڈی کرکے ڈاکٹریٹ کا اعزاز پاکر وطن واپس ہوئے۔ ڈاکٹر اقبال قدیم و جدید فلسفہ کے نکات الہیات ، تاریخ کی ارتقا ء اقوام کی تشخص اور اجتماعی امراض کے علاج اور تشخیص میں مکمل مہارت رکھتے تھے۔ خدمات:۔ قومیت و طنیت اور ملیت کے معنی پر اپنی تالیفات میں روشنی ڈالی۔ مغربی ثقافت کے نقائص مشرقی ثقافت کے لئے آفت قرار دیئے۔ قرآنی تعلیمات کے انوار اور اسرار کی روشنی میں عالمی ثقافتی ترقی کو اسلام کی صورت میں دیکھنے کی تلقین فرمائی۔ یہ عظیم شخصیت اور مشرق کا مشہور مفکر اپنی شعلۂ بیانی میں بھی یکتا تھا۔ زبورِ عجم، رموز خودی اور اسرار بیخودی، جاوید نامہ اور رسالہ مسافر فارسی زبان میں ہیں، اس کے علاوہ اردو میں بھی قومی ترانے اور دیگر آثار یادگار چھوڑے ہیں۔ قدردانی:۔ ڈاکٹر اقبال اپنی زندگی میں ہی اپنے افکار اور علوم کی وجہ سے تمام ہندوستان کے ارباب اختیار، خواص اور ادباء اور اسلامی زعماء کے دلوں میں نہایت قابلِ قدر مقام کے مالک تھے۔ علم و ادب کے میدان سے اس مشہور ہستی کی رحلت پر سارے جہان کے گوشے گوشے سے افسوس کا اظہار کیا گیا ہے۔ ڈاکٹر محمد اقبال مرحوم افغان ملت کی آزادی پر فخر کرتے تھے۔ اور افغان دوستی میں مشہور تھے۔ افغانستان کے بادشاہ اعلیٰ حضرت محمد نادر شاہ کبیر سے نہایت عقیدت و نیازمندی تھی۔ افغانستان کے سفر اور افغان بادشاہ سے ملاقات کی یادگار میں رسالہ مسافر تالیف کیا جس میں محبت سے بھرپور جذبات کا اظہار کیا گیاہے۔ علامہ اقبال وفات کے بعد بھی ان کی زندگی کی طرح ہندوستان کی قدر شناس ملت کی جانب سے نہایت اعزاز کے ساتھ بادشاہی مسجد لاہور کے بالمقابل نہایت احترام کے ساتھ سپردِ خاک کئے گئے ۔ ایسے میں اقبال یہ کہنے کا حق رکھتے ہیں: ؎ بعد از وفات مدفن مادر زمین مجو درسینہ ھائی مردم عارف مزار ماست اس خبر کے ساتھ کابل میں اقبال کی وفات کے بعد انجمن ادبی کابل کے تعزیتی جلسے کی روداد ہے جوتقاریب اقبال میں ملاحظہ ہو ’’انیس‘‘ کی اس رپورٹ کے لب و لہجہ پر بھی علامہ اقبال کی عقیدت کا عنصر غالب ہے۔ ’’انیس‘‘ کابل میں علامہ کی وفات کی یہ خبر بعد میں ’’افغانستان و اقبال‘‘ میں بھی شائی ہوئی ہے۔(۴) جوزا ۱۳۱۷ء ھ ش مئی جون ۱۹۳۸ء حضرت علامہ کی وفات کے فوراً بعد مجلہ کابل کا خصوصی اقبال نمبر شائع ہوا۔ اس نمبر کے ٹائٹل پر سفرِ افغانستان کے دوران کابل میں اتاری گئی حضرت علامہ کی تصویر شائع کی گئی ہے اور چہرے سے نہایت توانا صحت مند اور تروتازہ لگ رہے ہیں۔ ان کی یہ تصویر پاکستانی مطبوعات میں اب تک نہیں پہنچی۔ اس خصوصی نمبر میں درج ذیل مطالب شامل ہیں: وفات داکتر اقبال شاعر و فیلسوف شہیر بہ قلم سید قاسم رشتیاؔ۔ خبر جگر خراشی کہ بشب اول ثور از ہند بدست آمد، حاکی از فوت داکتر سر محمد اقبال شاعر و فیلسوف بزرگ ہند بود کہ باثر مرض ضیق النفس بہ تاریخ مذکور درشہر لاہور بعمر شصت و سہ سالگی پدرود حیات گفت ۔ (انا للّٰہِ و انا الیہِ راجعون) مرحوم داکتر اقبال نہ تنہا یک ادیب و یک فیلسوف عالی مقام بود، بلکہ علاوہ بتمام معنی یک عالم عصری و درعین زمان از پیشوایان ملت ہند بشمار میرفت و ازطرفی ہم علاقہ معرفی بہ افغانستان داشتہ ، درتمام اشعار و آثار خود از ملت افغان ستایش و بسی اندر زھای خویش را بہ افغانیان خطاب کردہ است۔ باوصف تمام اینہا طبیعی است کہ فقدان ہمچہ یک رجل نامور چہ اندازہ اسبا تاثر ملت و حکومت افغانستان گردیدہ و قلوب ہمہ را دا غدار ساختہ است۔ خصوصا وزارت معارف و انجمن ادبی کہ روابط قدی تری با فقید مذکور داشت از ین سانحہ بیش از ہمہ متاثر و بمجرد شنیدن خبر اسف انگیز ند بود بہ اظہار مراتب تالم عمیق خویش و ابراز ہمدردی بہ ملت ہند و بازماندگان آں مغفور پرداخت علاوہ برای آنکہ از شخصیت و خدمات ادبی و اجتماعی داکتر اقبال مرحوم تذکاری بعمل آمدہ باشد بتاریخ پنجشنبہ ہشت ثور مجلس یادبود باشکو ھای درسالون مقابل وزارت معارف ترتیب۔۔۔۔(۵) ترجمہ: ’’ہندوستان سے ثور کی یکم شب کو ایک رقت انگیز خبر موصول ہوئی وہ ہندوستان کے عظیم فلسفیشاعر داکتر سرمحمد اقبال کی وفات کی خبر تھی جو متعلقہ تاریخ کو دمہ کی مرض سے لاہور میں تریسٹھ سال کی عمر میں وفات پاگئے۔ ( انا للّٰہِ و انا الیہِ راجعون) مرحوم ڈاکٹر اقبال نہ صرف ایک ادیب اور اعلیٰ درجے کے فلسفی تھے۔ بلکہ بحیثیت مجموعی اپنے دور کے ایک بے بدل عالم تھے اور خاص کرہندوستان کے صفِ اول کے رہنمائوں میں شمار ہوتے تھے۔افغانستان سے ایک خاص تعلق تھا ان کے اشعار میں افغان ملت کے لئے تحسین اور اپنے مخصوص انداز میں افغانوں کے لئے خطاب موجود ہے۔ ان تمام امور کی بنا پر یہ ایک فطری امر ہے کہ ایک ایسی عظیم ہستی کا ہم سے جدا ہونا افغان حکومت اور افغان ملت کے لئے کتنا باعث افسوس ہوگا۔ ان کے مفارقت سے ہمارے دل داغدار ہوگئے۔ خصوصاً افغانستان کے وزارت معارف اور انجمن ادبی کو مرحوم سے قریبی روابط تھیں۔ حضرت علامہ کے سانحہ ارتحال سے ناقابل تلافی صدمہ ہوا۔ دل کی گہرائیوں سے ملت ہند اور مرحوم کے پسماندگان سے دلی تعزیت کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہم نے حضرت علامہ کے شخصیت ، علمی و ادبی خدمات کی اعتراف کے سلسلے میں ۸ ثور کو وزارت میں ایک پروگرام منعقد کرایا۔۔۔۔‘‘ مجلہ کابل نے حضرت علامہ کی تاریخ وفات یکم ثور لکھی ہے جبکہ انیس کابل اور اصلاح کابل اخبارات نے یہ تاریخ دو ثور تحریر کی ہے جبکہ ۲۱، اپریل کو ثور کی یکم تاریخ تھی۔ اس کے بعد کی رپورٹ تقاریب اقبال میں ملاحظہ ہو۔ سید قاسم رشتیا کی یہ فارسی تعزیتی تحریر ’’افغانستان و اقبال‘‘(۶) اور بعد میں ’’سیر اقبال شناسی در افغانستان‘‘(۷) میں بھی شائع ہوئی ہے۔ مئی جون ۱۹۳۸ء مجلہ کابل کے خصوصی اقبال نمبرمیں مدیر عمومی انجمن ادبی کابل کے علی احمد خان کا مقالہ افغانستان و اقبال شائع ہوا ہے (۸)جس پر مقالات کے مباحث میں بحث ہوگی۔ احمد علی خاں درانی کا یہ مقالہ ’’افغانستان و اقبال‘‘(۹) اور ’’سیر اقبال شناسی در افغانستان‘‘(۱۰) میں بھی شائع ہوا ہے۔ مجلہ کابل کے اقبال نمبر میں افغانستان کے ملک الشعراء قاری عبداللہ کا قصیدہ درمرثیہ وطن خوا پروفیسور اقبال غفراللہ شائع ہوا ہے۔ (۱۱) جو قاری عبداللہ کی سوانح میں نقل کیا گیاہے۔ قاری عبداللہ کا یہ کلام ’’افغانستان و اقبال‘‘(۱۲) اور ’’سیر اقبال شناسی در افغانستان‘‘(۱۳) میں بھی شائع ہوا ہے۔ متذکرہ بالا نمبر میں غلام جیلانی اعظمی کا مقالہ اقبال و افغانستان شائع ہوا ہے۔ (۱۴) اس کے مشتمولات پر بھی مباحث مقالات میں بحث ہوگی۔ یہ مقالہ ’’سیر اقبال شناسی در افغانستان‘‘(۱۵) میں بھی شائع ہوچکا ہے۔ مجلہ کابل کے اس شمارے میں سرور خان گویا نے منتخبات اشعار اقبال پیش کئے ہیں۔ (۱۶) یہ منتخب اشعار آپ نے کابل میں وزارتِ معارف کی جانب سے ۸ ثور/ اپریل ۱۹۳۸ء منعقدہ تقریبِ اقبال میں سنائے تھے۔یہ اشعار اختصار کے ساتھ ’’افغانستان و اقبال‘‘(۱۷) اور بعد میں ’’سیر اقبال شناسی در افغانستان‘‘(۱۸) میں بھی شائع ہوئے ہیں۔ مجلہ کابل کے اس شمارے میں حضرت علامہ سے متعلق پہلا پشتو مرثیہ ’’ د اقبال پہ وفات‘‘ از قیام الدین خادم شائع ہوا ہے۔ (۱۹) جو خادم کے سوانح کے ساتھ شاملِ مقالہ ہے۔ حضرت علامہ سے متعلق گل باچا الفت ؔ کا پشتو مرثیہ ’’د اقبال ویر‘‘بھی اس خصوصی نمبر کی زینت ہے۔ (۲۰) یہ مرثیہ بھی گل باچا الفتؔ کے سوانح کے ساتھ شاملِ مقالہ ہے۔ غلام دستگیر خان مہمند کا لکھا ہوا حضرت علامہ کا فارسی مرثیہ ’’رثائی اقبال ‘‘بھی اس نمبر میں شامل ہے۔ (۲۱) جو مہمند کے سوانح میں نقل کیا گیا ہے۔ ۱۳۱۷ھ ش/فروری مارچ ۱۹۳۹ء مجلہ کابل میں ’’مجلس یار بود علامہ اقبال در معر و علاقہ مندی انجمن ادبی آن‘‘ کی رپورٹ شائع ہوئی ہے۔(۲۲) یہ خبر بعد میں ’’سیر اقبال شناسی در افغانستان‘‘ میں بھی شائع ہوئی ہے۔(۲۳) میزن ۱۳۱۸ء ھ ش ستمبر اکتوبر ۱۹۳۹ء مجلہ کابل میں ڈاکٹر سید عابد حسین کے اردو مقالے کا فارسی ترجمہ جناب قیام الدین خادم نے ’’خودی درنظر اقبال ‘‘ کے عنوان سے شائع کرایا۔ (۲۴) یہ مقالہ بعد میں ’’سیر اقبال شناسی در افغانستان‘‘ میں بھی شائع ہوچکا ہے۔(۲۵) دلو ۱۳۲۳ ھ ش ۱۰ جدی ۱۳۲۳ھ ش (۱۹۴۴ئ) استنبول سے حضرت علامہ کے سیاسی مرشد سید جمال الدین افغانی کا تابوت کابل لاکر یونیورسٹی کے احاطے میں دفن کیا گیا۔ (۲۶) اسی مناسبت سے مجلہ کابل سے خصوصی شمارہ شائع کرایا اس شمارے میں علامہ عبدالحئی حبیبیؔ کی تین عدد پشتو رباعیات ’’خپل اصل تہ رجوع‘‘ (اپنے اصل کی طرف رجوع) کے عنوان سے شائع ہوئیں ہیں۔ اس کے نیچے حضرت علامہ کے درج ذیل سات اشعار ’’خطاب او قیانوس بہ قطرہ‘‘ شائع ہوئے ہیں۔ ؎ تماشای شام و سحر دیدئی چمن دیدہ ئی دشت و در دیدہ ئی بہ برگ گیاہی بہ دوش سحاب در خشید ی از پرتو آفتاب گہی ہمدم تشنہ کامان راغ گہی محرم سینہ چا کان باغ گہی خفتہ درتاک و طاقت گداز گہی خفتہ درخاک و بی سوز و ساز زموج سبک سیر من زادہ ئی زمن زادہ ئی درمن افتادہ ئی بیا سای درخلوت سینہ ام چو جوہر وخشِ اندر آئینہ ام گہر شو در آغوش قلزم بزی فروزان تراز ماہ و انجم بزی (۲۷) یہ نظم ’’سیراقبال شناسی در افغانستان‘‘ میں بھی شائع ہوا ہے۔(۲۸) ۱۸۔اسد ۱۳۲۴ھ ش ’’الماس اوسکور‘‘ کے عنوان سے جناب محمد نسیم نوری نے حضرت علامہ کے کلام کا منظوم پشتو ترجمہ قندھار کے اخبار ’’طلوع افغان‘‘ میں شائع کرایاہے۔(۲۹) ۱۳۲۹ھ ش عبدالرئوف بینواؔ نے خوشحال خان خٹک کی تعلیمات ،سیاسی نظریات ، پشتونوں کی سیاسی صورتحال اور دیگر فکری حوالوں سے ایک تحقیقی و تنقیدی کتاب مرتب کی جو ’’خوشحالٹپ  ٹ!œ #¦ وائی ‘‘(خوشحال خٹک کیا کہتے ہیں) کے نام سے پہلی بار ۱۹۳۷ ھ ش میں ہندوستان سے طبع ہوئی جو پاکستان میں بعض سیاسی وجوہات کی بنا پر یہاں سے کابل لے جاتے ہوئے نذرِ آتش کی گئی۔ بعد میں یہ کتاب ۱۳۲۹ ھ ش میں کابل سے دوبارہ شائع ہوئی۔ اس کتاب میں خوشحال کے افکار کی پختگی اور ان کے نظریات کے استحکام کے طور پر جابجا اقبال کے کلام کے حوالے دیئے گئے ہیں جن سے عبدالرئوف بینوا کی اقبال شناسی اورحضرت علامہ کی افکار سے آشنائی کا پتہ چلتا ہے۔ چنانچہ ایک مقام پر حضرت علامہ کے اشعار نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اقبال سرحد کے پشتونوں سے مخاطب ہوکر فرماتے ہیںـ: ؎ ای زخود پوشیدہ خود رابازیاب درمسلمانی حرامست این حجاب رمز دین مصطفی دانی کہ چیست؟ فاش دیدن خویش راشاہنشہی نیست چیست دین؟ دریا فتن اسرار خویش زندگی مرگست بی دیدار خویش بندۂ حق وارث پیغمبران اونگنجددرجہاں دیگران تاجہانی دیگری پیداکند این جہاں کہنہ را برہم زند اندکی گم شو بہ قرآن و خبر بازای ناداں بخویش اندر نگر درجہان آوارہ ئی بیچارہ ئی وحدتی گم کردہ ئی صد پارہ ئی بند غیراللہ اندر پای تست داغم از داغی کہ درسیمای تست میر خیل از مکر پنہانی بترس از ضیاع روح افغانی بترس زآتش مردان حق می سوزست نکتہ ئی از پیر روم آمو زست رزق زحق جو مجواز زیدوعمر مستی از حق جو، مجو از بنگ و خمر شکوہ کم کن از سپہر لاجورد جز بہ گر د آفتاب خود مگرد عالم مو جو درا اندازہ کن درجہاں خود را بلند آوازہ کن برگ و ساز کائنات ززوحدتست اندریں عالم حیات از وحد است درگذر از رنگ و بوھای کہن پاک شواز آ رزو ھایٔ کہن پور آذر کعبہ راتعمیر کرد از نگاہی خاک را اکسیر کرد تو خودی اندر بدن تعمیر کن مشت خاک خویش را اکسیر کن (۳۰) اقبال خیبر کی بے مرکزیت پر یوں افسوس کرتا ہے: ؎ خیبر از مردانِ حق بیگانہ نیست دردل او صد ہزار افسانۂ ایست جادہ کم دیدم از و پیچیدہ تر یاوہ گر دددرخم و پیچش نظر سرزمینی کبک او شاہین مزاج آہوی او گیرداز شیران خراج لیکن از بی مرکزی آشفتہ روز بی نظام و ناتمام و نیم سوز فربازان نیست درپر واز شان از تذ روان پست تر پرواز ان آہ قومی بی تب و تاب حیات روز گارش بی نصیب از واردات آن یکی اندر سجود این درقیام کاروبارش چون صلوٰۃ بی امام ریز ریز از سنگ او میخائی او آہ از امروز بی فردای او (۳۱) دوسرا دور: ۱۹۵۱ئ ۱۳۳۰ھ ش ۱۳۱۷۲ھ ق تا ۱۹۷۷ء ۱۳۵۶ھ ش اس دور میں افغانستان میں اقبال شناسی کو زبردست ترقی حاصل ہوئی۔ اقبال پر پہلی باقاعدہ پشتو کتاب ’’ƒ'„پ ¦ د علامہ اقبال ƒ¦ نظر œ'*‘‘ (پشتون علامہ اقبال کی نظر میں)عبداللہ بختانی نے کابل سے شائع کرائی۔ افغانستان کے آریانا دائرۃ المعارف (پشتو ۔فارسی) میں حضرت علامہ کے فن و شخصیت پر ایک نہایت علمی و ادبی مقالہ شائع ہوا۔ وقتاً فوقتاً افغانستان کے مختلف مجلات، اخبارات اور دیگر مطبوعات میں حضرت علامہ کے اشعار شائع ہوتے رہے۔ کابل کے پاکستانی سفارتخانے میں تقاریب اقبال منعقد ہوئیں جن میں مختلف افغان سکالروں نے حضرت علامہ نے مختلف فکری گوشوں کو اُجاگر کرنے کی کوشش کی۔ مختلف افغان شعراء نے فکری و فنی لحاظ سے حضرت علامہ کے اثرات قبول کئے۔ کابل میں خوشحال خان خٹک کے ۲۸۶ ویں اور ۲۹۰ء یومِ وفات کی مناسبت سے دو بین الاقوامی کانفرنسیں منعقد کئے گئے۔ جن میںمختلف سکالروں نے خوشحال اور اقبال کے مختلف مشترکہ نکات پر مقالات پیش کئے جن میں ان کے مختلف فکری جہتوں کی ہم آہنگی پر بحث کی گئی۔ کابل یونیورسٹی کے شعبۂ ادبیات کے غلام حسن مجددی کے مختلف مقالات حضرت علامہ سے متعلق شائع ہوئے۔ سردار دائود خان نے منصب اقتدار سنبھالتے ہی حضرت علامہ کے اشعار کا حوالہ اپنے ابتدائی خطاب میں دے کر اقبال شناسی کا ثبوت دیا۔ افغانستان کے مشہور خطاط عزیز الدین وکیلی فوفلزئی نے حضرت علامہ کے کئی رباعیات و ابیات کو فنِ خطاطی کی زینت بخشی۔ حضرت علامہ کے صد سالہ جشنِ ولادت کے سلسلے میں افغانستان میں کئی تقاریب کاا نعقاد کیا گیا۔ عبدالہادی داویؔ کا ’’آثار اردوئی اقبال‘‘ دو جلدوں میں فارسی میں شائع ہوئی ۔ صدیق رھہپو کی تالیف ’’افغانستان و اقبال‘‘ منظرِ عام پر آئی۔ سنائی غزنوی کی نو سو سالہ جشنِ ولادت کی تقریبات کے سلسلے میں ’’ ازسنائی تا مولانا و اقبال‘‘ شائع ہوئی۔ افغان شاعر ڈاکٹر محمد رحیم الہام نے حضرت علامہ کے مثنوی مسافر کا جواب تحریر کیا۔ جواب مسافر مختلف کتب میں اقبالیات کے منظوم پشتو تراجم کا تعارف کرایا گیا۔ اس دور کا تفصیلی تحقیقی جائزہ یوں ہے۔ ۱۳۳۱ھ ش کابل کے شعبہ مطبوعات میں اقبال کی سالگرہ کی تقریب ہوئی۔ اس تقریب میں دیگر امور کے ساتھ ساتھ محمد ابراہم خلیل نے فارسی میں حضرت علامہ کو فارسی منظوم خراج تحسین ’’ بیادِ علامہ محمد اقبال‘‘ پیش کیا جو ابراہم خلیل کے سوانحی تذکرے میں نقل کیا گیا ہے۔ (۳۲) ۱۳۳۱ھ ش پشتون اقبال شناس عبداللہ بختانیؔکا پشتو مقالہ ’’پہ حٔان ویسا د علامہ اقبال پہ نظر œ'*‘‘ جریدہ ’’زیری‘‘ کابل شمارہ ۲۹ - ۳۰ میں شائع ہوا۔ (۳۳) ۱۳۳۳ھ ش /۱۹۵۴ء آریانا دائرۃ المعارف افغانستان کے جلد سوم میں ’’اقبال‘‘ کے عنوان سے علامہ کی فن و شخصیت پر ایک پرمغز علمی مقالہ شائع ہوا(۳۴) یہ مقالہ بعد میں ’’سیر اقبال شناسی در افغانستان‘‘ میں شائع ہوا ہے۔(۳۵) ۳۱ جوزا / ۱۳۳۴ھ ش افغانستان کے پشتون اقبال شناس عبداللہ بختانی خدمتگار نے کابل میں ا قبال سے متعلق اپنی تالیف ’’ƒ'„پ ¦ د علامہ اقبال ƒ¦ نظر œ'*‘‘ (پشتون علامہ اقبال کی نظر میں) کا دیباچہ تحریر کیا۔ (۳۶) اسد ۱۳۳۵ھ ش اگست ۱۹۵۶ء انجمن آریانا دائرۃ المعارف افغانستان کی جانب سے آریانا دائرۃ المعارف فارسی کی جلد سوم (اسپ او کراین) شائع ہوئی جس میں حضرت علامہ کے فن و شخصیت سے متعلق ایک طویل مقالہ شائع ہوا۔ (۳۷) ۱۳۳۵ھ ش افغانستان میں اقبال پر پہلی باقاعدہ کتاب ’’ƒ'„پ ¦ د علامہ اقبال ƒ¦ نظر œ'*‘‘(پشتون علامہ اقبال کے نظر میں) از عبداللہ بختانی پشتو ٹولنہ کابل کی جانب سے ۶۸ صفحات میں شائع ہوئی۔ (۳۸) جوزاٌ ۱۳۳۷ھ ش انجمن آریانا دائرۃالمعارف افغانستان کی جانب سے آریانا دائرۃ المعارف پشتو کی جلد سوم شائع ہوئی۔ حضرت علامہ سے متعلق آریانا دائرۃ المعارف فارسی میں حضرت علامہ سے متعلق مقالہ کا پشتو ترجمہ شائع ہوا۔ (۳۹) اول حمل ۱۳۳ھ ش ۱۲ رمضان المبارک ۱۳۷۸ھ ش ۲۲ مارچ ۱۹۵۹ء کابل سے شائع ہونے والے ماہانہ پیامِ حق کے صفحات پر حضرت علامہ کے درج ذیل ابیات شائع ہوئے : ؎ این نکتہ کشانیدئہ اسرار نہان است ملک است تن خاکی و دین روح روان است تن زندہ و جان زندہ زربط تن و جان است باخرقہ و سجادہ و شمشیر و سنان خیز از خواب گراں خواب گرں خواب گراں خیز از خواب گراں خیز (۴۰) ؎ برونِ آرز مسلمانان گریز اندمسلمانی مسلمانان روا دارند کافر ماجدائی ھا (۴۱) ؎ کہنہ رادر شکن و باز بہ تعمیر خرام ہر کہ در ورطہ ی ’لا‘ ماند بہ ’الا‘ نرسید از کلیمی سبق آموز کہ دانائی فرنگ جگر بحر شکافید و بہ سیتاند سید (۴۲) ۱۳۳۷ ھ ش پشتو ٹولنہ کابل کے زیر اہتمام راز محمد ویش کی تالیف ’’پشتو کتابونہ‘‘ شائع ہوئی۔ اس کتاب میں پشتو زبان میں مطبوعہ و غیر مطبوعہ کتب کا تعارف پیش کیا گیا ہے۔ جس میں سیریل نمبر ۸۸ کے تحت عبداللہ بختانی کی کتاب ’’ƒ'„پ ¦ د علامہ اقبال ƒ¦ نظر œ'*‘‘متعارف کی گئی ہے۔(۴۳) اول ثور ۱۳۳۸ء ۱۴ شوال ھ ق ۲۲ ٌاپریل ۱۹۵۹ء کابل کے مجلہ پیامِ حق کے بیک ٹائٹل سے پہلے حضرت علامہ کے ذیل رباعیات طبع ہوئی ہیں۔ ؎ زآب و گل خدا خوش پیکری ساخت جہانی از ارم زیبا تری ساخت ولی ساقی بہ آن آتش کہ دارد زخاک من جہان دیگری ساخت نہاں در سینۂ ما عالمی ھست بخاک ما دلی در دل غمی ھست از آن صہبا کہ جان مابرا فروخت ہنوز اندر سبوی مانمی ھست (۴۴) اول جوزاٌ ۱۳۳۸ھ ش۱۵ ذیقعدہ /۱۳۷۸ھ ق ۲۳ مئی ۱۹۵۹ء کابل کے مجلہ ’’پیامِ حق‘‘ کے مختلف صفحات پر حضرت علامہ کے ذیل رباعیات شائع ہوئی ہیں۔ ؎ تومی گوی کہ من ہستم خدانیست جہان آب و گل را نتہا نیست ہنو ز این راز برمن نا کشود است کہ چشم آنچہ بیند ہست یانیست (۴۵) ؎ برون از و رطۂ بود و عدم شو فزون تر زین جھان کیف و کم شو خودی تعمیر کن درپیکر خویش چو ابراہیم معمار حرم شو (۴۶) ۳۸-۱۳۳۹ھ ش ’’دافغانستان کالنی‘‘ میں حبیب اللہ اولس یار کا ایک مقالہ معاصر افغانی ادب کے عنوان سے شائع ہوچکا ہے اور مقالے میں عبدالرئوف بینواؔ کے تذکرے میں ان کے اقبال کے مثنوی مسافر کے منظوم پشتو ترجمے کا ذکر کیا گیاہے۔ اس کے ساتھ ساتھ خود ان کی اپنی شاعری پر اقبال کے گہرے اثرات کا ذکر کیا گیا ہے۔ ‚¤ ¢پ ‹ ¦ ‹ ‹’„ژ¢ ‍¤œ¢پ‍¢ ƒ¦ „¤ژ¦ ‚¤پ ‹ !پ(¢ژ پ¢پ›‚پ‍ ‹ ب†پژ¢#ٹ¦ ƒ¢ژ¦ ں„پ†ژ ‹¤ ‹ !پ(¢ژ ‹ (¤„پ ‡‍¤ پ¢ ‹ پ›‚پ‍ ‹ ں’پڑژ ‹‹¦ پ‹‚¤ „ژ‡ں* ‹¤ ترجمہ: ’’بینواؔہندوستان کے لکھنے والوں خاص کر ٹیگور اور اقبال کے آثار سے خاصے متاثرہیں۔ ٹیگور کی گیتانجلی اور اقبال کے مسافر کے ادبی تراجم کئے ہیں۔ ‘‘ (۴۷) اس سالنامہ کے مضمون میں قیام الدین خادمؔ کے فن و شخصیت کے حوالے سے بھی اقبال کے تراجم اورخود خادم کے حضرت علامہ سے متاثر ہونے کا تذکرہ ملتا ہے۔ ٹپ‹ں ¦ں ‹ !پ(¢ژ پ¢ پ›‚پ‍ ‹ ب†پژ¢ $¤ژ ’ٹ„ ں„پ†ژ ‹¤ پ¢ 'پ£’„¦ گ¤پ„¤ „ژ‡ں* ¦ں ‹‹¢¤ ‹ ب†پژ¢#ٹ¦ œ%¤ ‹¤ ترجمہ: خادم بھی ٹیگور اور اقبال کے آثار سے بہت ہی زیادہ متاثر ہے ان کے آثار کے کئی تراجم کئے ہیں۔ (۴۸) ۱۳۴۰ھ ش نامور افغان اقبال شناس عبدالرئوف بینوا کی افغان معاصر اہل قلم ادبا و شعرا کی سوانحی تذکروں پر مشتمل تذکرہ ’’اوسنی لیکوال‘‘ کی پہلی جلد شائع ہوئی ہے اس تذکرہ میں ذیل حوالوں سے تذکرہ اقبال موجود ہے۔ ٭ عبداللہ جان اسیر کی مطبوعہ و غیر مطبوعہ آثار کے تعارف میں ’’بال جبریل‘‘ کے منظوم پشتو مطبوعہ ترجمے کا ذکر کیا گیا ہے۔(۴۹) ٭ عبداللہ بختانی کی مطبوعہ آثار کے تعارف میں ان کی تالیف ’’ƒ'„پ ¦ د علامہ اقبال ƒ¦ نظر œ'*‘‘کا ذکر ہوا ہے۔(۵۰) ٭ قیام الدین خادم کے سوانحی تذکرے میں ان کے افکار پر اقبال کے فلسفیانہ افکار کے اثرات کا تذکرہ کیا ہے۔(۵۱) ٭ راحت اللہ راحت زا خیلی کے سوانحی تذکرے میں زاخیلی کے علامہ کے شکوہ اور جواب شکوہ کے اولین منظوم پشتو ترجمے کا ذکر کیا گیا ہے(۵۲) اور ساتھ ہی زاخیلی کے ’’افغان‘‘ اقبال کی شہرت کا بھی ذکر کیا ہے۔(۵۳) ۱۳۴۳ھ ش افغانستان کے نامور اقبال شناس شاعر خلیل اللہ خلیلیؔ نے لاہور میں مزارِ اقبال پر حضرت علامہ کو فارسی میں منظوم خراجِ تحسین ’’ آموز گار بزرگ برمزار اقبال‘‘ کے عنوان سے پیش کیا ہے۔ اس نظم کو جناب خلیلی کے سوانح کے ساتھ شامل کیا گیا ہے۔ (۵۴) جون ،جولائی ۱۹۶۵ء کابل میں پاکستانی سفارتخانے میں منعقدہ یومِ اقبال کی تقریب میں کابل یونیورسٹی کے شعبہ ادبیات کے سربراہ پروفیسر غلام حسین مجددی کا فارسی مقالہ ’’یاد بود علامہ اقبال‘‘ کابل کے مجلہ دوماہی ’’ادب ‘‘میں شائع ہوا۔ (۵۵) جدی ۱۳۴۴ھ ش جنوری ،فروری ۱۹۶۶ء مجلہ قندھار میں سڑبن کا ترجمہ شدہ مضمون ’’قندھار او علامہ اقبال‘‘ پشتو زبان میں شائع ہوا۔ (۵۶) ۱۳۴۴ھ ش کابل کے مطبع معارف کی جانب سے عبدالرحمن پژواک کافارسی شعری مجموعہ گلہایٔ اندیشہ شائع ہوا۔ اس کتاب کا دیباچہ ڈاکٹر روان فرہادی نے لکھا۔ اس دیباچے میں پژواک کی غزلیات سے فارسی مشاہیر اساتذہ رودکی، سعدی، دیوان شمس، حافظ اور صائب جبکہ قصیدوں اور مثنویوں سے فرخی، مولانا بلخی اور اقبال لاہوری کی یادکو منسوب کیا گیا ہے۔ ’’غزل پژواک یادی از رودکی، سعدی، دیوان شمس، حافظ و صائب مبدھہد قصیدہ و مثنوی او مانند فرشی، مولانا بلخی و اقبال لاہور یست‘‘(۵۷) جوزا ۱۳۴۴ھ ش مستقل ریاست قبائل افغانستان کی جانب سے خوشحال خاں خٹک کی فن و شخصیت پر گل پاچا الفت کی کتاب ’’ملی متھرمان‘‘ شائع ہوئی۔ اس کتاب میں خوشحال خاں خٹک کی شخصیت سے متعلق حضرت علامہ کے ذیل منظومات کا حوالہ دیا گیا ہے: خوش سرود آں شاعر افغان شناس آں حکیم راز قومی ھمت(۵۸) سوموار ۲۴ / اسد ۱۳۴۵ھ ش ۱۵/ اگست ۱۹۶۶ء تا ہفتہ ۳۰/ اسد ۱۳۴۵ھ ش بمطابق ۲۱ / اگست ۱۹۶۶ء کابل میں پشتو ٹولنہ کے زیرِ اہتمام خوشحال خان خٹک کے ۲۸۶ویں یومِ وفات کی مناسبت سے ایک بین الاقوامی سیمنار میں مختلف سکالروں نے وقتاً فوقتاً خوشحال اور اقبال کے فکری ہم آہنگی اور ان کے مشترک نکات پر گفتگو کی۔ (۵۹) منگل۲۵ اسد ۱۳۴۵ھ ش بمطابق ۱۶ / اگست ۱۹۶۶ء سید رسول رساؔ نے خوشحال خان خٹک سے متعلق اس سیمنار میں مقالہ پیش کیا’’د خوشحال خان اسلامی کردار‘‘ (خوشحال خان کا اسلامی کردار)۔ خوشحال خان کے کلام کی روشنی میں بہتر و اعلیٰ انسانی کردار کے حوالے سے اشعار اکٹھے کئے گئے ہیں۔ اس دوران جا بجا اقبال کے اشعار کے حوالے سے دئے گئے ہیں۔ اور بتایا گیا ہے کہ خوشحال کے اعلیٰ انسان کا کردار ہی اقبال کے مردِ مومن کا کردار ہے۔ ؎ ہاتھ ہے اللہ کا ،بندۂ مومن کا ہاتھ غالب و کار آفرین ، کار کشا، کاساز خاکی و نوری نہاد، بندۂ مولا صفات ہر دو جہاں سے غنی ، اس کا دلِ بے نیاز اس کی امیدیںقلیل ،اس کے مقاصد جلیل اس کی ادا دلفریب اس کی نگاہ دلنواز نرم دمِ گفتگو ،سے گرم دمِ جستجو رزم ہو یا بزم ہو، پاک دل و پاکباز (۶۰) بدھ ۲۶ /اسد ۱۳۴۵ ھ ش ۱۷ / اگست۱۹۶۶ء خوشحال خان کے سیمنار میں امیر حمزہ شینواری نے مقالہ پیش کیا عنوان تھا’’د خوشحال خان د فلسفی او تصوفی اشعارو خوا‘‘ (خوشحال خان کے کا فلسفیانہ و صوفیانہ گوشہ) اس مقالے کے آغاز میں خوشحال خان خٹک کی شخصیت اور آفاقی حیثیت متعین کرتے ہوئے حضرت علامہ کا ذیل شعر پیش کیا ہے: ؎ ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا مقالے میں حضرت علامہ کے ان مطالعات کا ذکر کیا گیا ہے جو انہوں نے خوشحال خان خٹک سے متعلق کئے تھے۔ اور خان بابا کے افکار سے خودی کے فلسفے کا مرکزی خیال اخذ کیا۔ حضرت علامہ نے اپنے آثار میں خان بابا کے افکار محراب گل افغان کے نام سے بیان کئے اور ملی وحدت کا تصور پیش کیا۔ اقبال افغانوں سے اس لئے بھی محبت رکھتے تھے کہ اقبال کے خیال میں افغانوں سے اسلام کی سربلندی ،احیاء اور ایشیاء کے امن کا تصور وابستہ ہے۔ ؎ آسیا یک پیکر آب و گل است ملت افغان در آن پیکر دل است اس مقالے میں امیر حمزہ شینواری نے جا بجا خوشحال اور اقبال کے افکار کی مماثلت کے حوالے دئے ہیں۔ مثلاً خوشحال فرماتے ہیں: ؎ راشہ عشقہ راشہ ˆ* وربوز ں* راتہ مات œ%* بـــیــا نــارسـا عـقـل پـہ تـدبــیــر را™‍*دی ترجمہ: آجا عشق آجا اس کا منہ توڑ آج پھر ناقص عقل تدبیر لے کر آئی ہے۔ یہی مضمون علامہ کے اشعار میں بھی نمایاں ہے انھوں نے عشق کو عقل پر فوقیت دی ہے۔اس مقالے کے دوران وجود کے حوالے سے حضرت علامہ کے خطبات کے اقتباس بھی پیش کئے گئے۔ (۶۱) جمعہ ۲۸ / اسد ۱۳۴۵ھ ش بمطابق ۱۹ / اگست۱۹۶۶ئ: خوشحال کے سیمینار میں انوارالحق گران نے ’’خوشحال خان خٹک دا فغانی ملیت علمبردار‘‘کے عنوان سے پیش کیا۔ اس مقالے میں خوشحال خان خٹک کے توصیف و تعریف اور ان کے افکار کے تشہیر میں حضرت علامہ کے نظم کے ذیل ابیات کا حوالہ دیا گیا ہے: ؎ قبائل ہوں ملت کی وحدت میں گم کہ ہو نام افغانیوں کا بلند محبت مجھے ان جوانوں سے ہے ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند! مغل سے کسی طرح کمتر نہیں قہستان کا یہ بچۂ ارجمند کہوں تجھ سے اے ہم نشین دل کی بات وہ مدفن ہے خوشحال خان کو پسند اڑاکر نہ لائے جہاں باد کوہ مغل شہسواروں کی گرد سمند (۶۲) اسی سیشن میں عبداللہ بختانی نے ’’خوشحال اور اقبال کے چند مشترک نکات‘‘ کے عنوان سے مقالہ پیش کیا۔ اس مقالے کے مشمولات پر حصہ مقالات اقبال میں بحث کی جائے گی۔ (۶۳) اسی روز پریشان خٹک نے ننگیالی خوشحال خان خٹک (غیرت مند خوشحال خان خٹک) کے عنوان سے مقالہ پیش کیا۔ جس میں حضرت علامہ کے درج ذیل اشعار خوشحال کے حضور پیش کئے گئے : ؎ خوش سرود آن شاعر افغان شناس آنکہ بیند باز گوید بی ہراس آن حکیم ملت افغانیان آن طبیب علت افغانیان راز قومی دید و بیباکا نہ گفت حرف حق با شوخی رندا نہ گفت آگے فرمایا: ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حضرت علامہ کو خوشحال بابا اس لئے بھی پسند تھا کہ خوشحال غیرت مند تھا۔ اور علامہ اقبال یہ چاہتے تھے ۔ کہ پشتون اس غیرت مند ہیرو کو پہچانتے تب ہی تو ان سے یہ توقع رکھتے تھے۔ ؎ فطرت کے مقاصد کی کرتا ہے نگہبانی یا بندۂ صحرائی یا مردِ کہستانی اس مقالہ کے ایک ضمنی عنوان ’’توحید کیا ہے‘‘ میں بھی حضرت علامہ کا حوالہ دیا گیا۔ ۔۔۔۔ یہ اوصاف درحقیقت الٰہی اوصاف میں‘ مردِ مومن کی مکمل شکل رسول اللہ ﷺ کی اپنی شخصیت ہے۔ اقبال کے مردِ مومن کا تصور بھی یہی ہے وہ مردِمومن میں یہی صفات دیکھنا اور پیدا کرنا چاہتا ہے۔ اسی وجہ سے اقبال کا مردِ مومن ، مردِ آزاد، مردِ قلندر اور بندہ مولا صفات ہے۔ وہ نقشے کی محض ایک خیالی انسان کی طرح نہیں۔ بلکہ ایک عملی انسان ہے۔ اسلام نے ایسے افرد پیدا کئے ہیں اور ہمیشہ پیدا کرتا رہتا ہے۔ اقبال مردِ مومن کی شان یوںبیان کرتے ہیں: ؎ ہاتھ ہے اللہ کا ،بندۂ مومن کا ہاتھ غالب و کار آفرین، کار کشا، کارساز خاکی و نوری نہاد، بندۂ مولا صفات ہر دو جہاں سے غنی ،اس کا دلِ بے نیاز اس کی امیدیںقلیل ،اس کے مقاصد جلیل اس کی ادا دلفریب اس کی نگاہ دلنواز نرم دمِ گفتگو ، گرم دمِ جستجو رزم یا بزم ہو، پاک دل و پاکباز (۶۴) ہفتہ۳۰ / اسد۱۳۴۵ھ ش بمطابق ۲۰/ اگست ۱۹۶۶ئ: کابل میں خوشحال خان خٹک سے متعلق منعقدہ ، بین الاقوامی سیمنار سے فضل احمد غازی نے خطاب کیا۔ اس خطاب میں پشتونوں کے وسیع و عریض خطے کے حوالے سے حضرت علامہ کا ذیل شعر پیش کیا۔ ؎ سرزمین کبک اوشاہین مزاج آہوی او گیر داز شیران خراج خطاب میں جابجا حضرت علامہ کا تذکرہ کیا۔ فرمایا کہ اقبال کو خوشحال کی جوانمردی پسند تھی۔ اور پشتونوں سے بے پناہ عشق رکھتے تھے۔ یہی اقبال ہے جس نے خوشحال کے باز (شاہین) کا تصور مستعار لیا۔ فلسفۂ شاہین اور خودی جذبات کے ترجمان قرار دیئے۔ مشرق کے اس نابغہ پر آج اگر مسلم امہ کو فخر ہے تو دوسری طرف مشرق کا یہ ترجمان خوشحال بابا پر ناز کرتے ہیں۔۔۔‘‘ خطاب میں جابجا حضرت علامہ کے اشعار بھی پیش کئے گئے۔ ؎ اگر یک قطرۂ خون داری اگر مشت و پرداری بیامن باتو آموزم طریق شہبازی را خوش سرود آں شاعر افغان شناس آنکہ بیند باز گوید بی ہراس آن حکیم ملت افغانیان آن طبیب علت افغانیان راز قومی دید و بیباکا نہ گفت حرف حق با شوخی رندا نہ گفت خطاب کا اختتام بھی حضرت علامہ کے ذیل اشعار پر کیا۔ ؎ جہاں میں اہلِ ایمان صورت خورشید جیتے ہیں ادھر ڈوبے، اُدھر نکلے، ادھرڈوبے، اُدھر نکلے! (۶۵) ۱۳۴۵ھ ش/ ۱۹۶۶ء کابل میں خوشحال خان خٹک کے ۲۸۶ویں یومِ وفات کی مناسبت سے منعقدہ بین الاقوامی سیمنار (اسد/ اگست) میں پڑھے گئے۔ مقالات محمد اکبر معتمد کے زیرِ اہتمام پشتو ٹولنہ کابل نے ننگیالی پشتونکے عنوان سے شائع کئے۔ اس کتاب کے صفحات کی تعداد ۳۳۱ہیں جبکہ جابجا سیمنار کے بعض اہم تصاویر بھی شامل کئے گئے ہیں۔ مختلف مقالات میں حضرت علامہ کے فن و شخصیت سے متعلق نکات شائع ہوئے ہیں۔ جن کی تفصیل ترتیب سے شاملِ تحقیق کی گئی۔ (۶۶) قوس جدی ۱۳۴۵ ھ ش نومبر دسمبر ۱۹۴۴ء انجمن تاریخ افغانستان کے زیر اہتمام شائع ہونے والی ’’آریانا‘‘ مجلہ میں پوھاند علامہ عبدالحی حبیبی کی تالیف ’’رہنماے تاریخ افغانستان‘‘ کی ایک قسط شائع ہوئی ہے۔ اس میں افغانستان اور افغانوں سے متعلق شعر فارسی، اردو ، عربی اور ترکی زبانوں لکھی گئی کتب کا تذکرہ کیا گیا ہے اور ان میں شامل افغانستان اور افغانوں سے متعلق مباحث کی نشاندہی کی گئی ہے۔ ان کتب کی فہرست میں حضرت علامہ سے متعلق ’’اقبال نامہ‘‘ (اردو) کا تعارف بھی کیا گیا ہے۔ ’’مجموعہ مکتوبات اقبال لاہوری شاعر معروف در دو جلد بزبان اردو طبع لاہور۔ دریں مجموعہ آراء علامہ اقبال راجع با افغانستان دولت افغان و رجال آن موجود است دربارہ اعلیٰ حضرت محمد نادر شاہ افغان در چند مکتوب ذکری دارد و در مکتوب ۸۷ ج ۲ ص ۲۳۱ رای او دربارہ سید جمال الدین افغان موجود است کہ بہ عقیدہ وی مستحق لقب مجدد درین عصر است۔‘‘(۶۷) اپریل ۱۹۶۷ء کابل میں پاکستانی سفارتخانے میں منعقدہ یومِ اقبال کی تعزیت میں کابل یونیورسٹی کے شعبہ ادیبات کے سربراہ پروفیسر غلام حسن مجددی کا فارسی مقالہ اقبال ریویو لاہور میں شائع ہوا۔ اس تقریب کی صدارت مشہور افغان اقبال شناس استاد خلیل اللہ خلیلی نے کی تھی۔ (۶۸) کابل یونیورسٹی کے شبعہ ادبیات کے سربراہ پروفیسر غلام حسن مجددی کا مقالہ’’ فلسفۂ اقبال‘‘ کابل کے دوماہی ’’ادب‘‘ میں شائع ہوا۔ (۶۹) ۱۹۶۷ء اقبال کونسل کراچی کے زیرِ اہتمام یومِ اقبال کی مناسبت سے منعقدہ تاریخی سیمنار میں معروف افغان اقبال شناس سرور خان گویانے اپنا مقالہ ’’اقبال و افغانسان‘‘ پیش کیا۔ (۷۰) ثور ۱۳۴۵ ھ ش: افغان اقبال شناس شاعر استاد خلیل اللہ خلیلی کو لاہور میں حضرت علامہ سے متعلق کانفرنس میں شرکت کی دعوت ملی مگر وہ دیدارِ حرمین شریفین کے لئے رختِ سفر باندھ چکے تھے۔ لہٰذا اپنی مشہور نظم’’ کعبہ و اقبال‘‘ لاہور میں منتظمین کانفرنس کو ارسال کی جو سوانح خلیلی کے ساتھ شامل مقالہ ہے۔ (۷۱) ۱۲ ثور ۱۳۴۷ھ ش کابل کے ’’انیس‘‘ اور ’’ھیواد‘‘ اخبارات میں پاکستانی سفارت خانہ کابل میں منعقدہ علامہ کے ۳۱ ویں یومِ وفات کی مناسبت سے پشتو ٹولنہ کے مدیرِ اعلیٰ عبداللہ بختانیؔ کی تقریر کا متن شائع ہوا۔ (۷۲) اسد ۱۳۴۷ھ ش: عبدالرحمن پژواکؔ کے فارسی شعری اثر’’گلہایٔ اندیشہ‘‘ پر معروف افغان اقبال شناس سید خلیل اللہ ہاشمیان نے نقد لکھا۔ جو مجلہ’’ عرفان‘‘ میں شائع ہوا۔ اس دیباچے میں پژواکؔ کے مثنوی اور قصیدے پر اقبال کے اثرات کا تذکرہ کیا گیا ہے ۔ اس کے علاوہ ادبی نقد میںجا بجاپژواکؔ کے فکر و فن پر حضرت علامہ کے اثرات کا ذکر کیا گیا ہے۔ (۷۳) ۱۳۴۷ھ ش: جناب سیلاب صافی نے خیبر سے متعلق مختلف پشتون شعراء کے منظومات کو یکجا کرکے دولتی مطبع کابل سے شائع کرایا۔ اس کتاب کے آغاز میں خیبر سے متعلق حضرت علامہ کے درج ذیل اشعار شامل کئے گئے: ؎ خیبر از مردان حق بیگانہ نیست دردل او صد ہزار افسانہ ایست جادہ کم دیدم ازو پیچیدہ تر یاوہ گردد درخم و پیچش نظر سبزہ در دامان کہسارش مجوی از ضمیرش برنیاید رنگ و بوی سرزین کبک روشاہین مزاج آہوی او گیرداز شیران خراج در فضائش جرہ بازان تیز چنگ لرزہ برتن ازنہیب شان پلنگ (۷۴) منگل ۲۷ / اسد ۱۳۴۹ھ ش بمطابق ۱۸ / اگست ۱۹۷۱ء تا ۳۰/ اسد ۱۳۴۹ھ ش بمطابق ۲۱ / اگست ۱۹۷۱ئ: خوشحال خان خٹک کے ۲۹۰ ویں یومِ وفات کی مناسبت سے ایک بین الاقوامی سیمنار کا انعقاد کیا گیا۔ خوشحال سے متعلق مقالات میں جابجا حضرت علامہ کا تذکرہ کیا گیا۔ (۷۵) جمعرات ۲۹ / اسد ۱۳۴۹ھ ش بمطابق ۲۰ / اگست ۱۹۷۱ئ: سلطان محمد صابرؔ نے کابل میں خوشحال خان خٹک سے متعلق منعقدہ سیمینار میں’’ خوشحال خان خٹک اور انسانی کرامت‘‘ کے عنوان سے مقالہ پیش کیا۔ اس مقالے میں مختلف حوالوں سے حضرت علامہ اقبال کا درج ذیل شعر پیش کیا گیا: ؎ تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات! جفاکشی اور جہدِ مسلسل کے سلسلے میں اقبال نطشے سے سخت متاثر ہے چنانچہ اقبال شاہین کی زبانی کہتے ہیں: ؎ ہے شباب اپنے لہو کی آگ میں جینے کا نام سخت کوشی سے ہے تلخ زندگانی انگبین اقبال پیر رومی اور مرید ھندی کے مکالمے میں پیر رومی سے پوچھتے ہیں۔ ؎ کاروبار خسروی یا راہبی؟ کیاہے آخر غایت دین نبی ؐ؟ پیر رومیؒ جواب دیتے ہیں: ؎ مصلحت در دین ما جنگ و شکوہ مصلحت در دین عیسیٰ خار و کوہ مغل سیم و زر کے بدلے پشتونوں کو زیر کرنا چاہتے تھے۔ اسی مطلب کی مناسبت سے خوشحال کے ابیات کا حوالہ دیا۔ اس کے بعد اپنی مادی مفادات کے نقائص کو اقبال کے درج ذیل ابیات کی روشنی میں بیان فرمایا: ؎ دل کی آزادی شہنشاہی، شکم سامان موت فیصلہ تیرا تیرے ہاتھوں میں ہے دل یاشکم؟ ؎ اے طائرِ لاہوتی اس رزق سے موت اچھی جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی اپنی مادی نقائص سے نجات اور ان پر غلبہ پانے کے لئے خودی کا ہونا از حد ضروری ہے۔ ؎ خودی کو نہ دے سیم و زر کے عوض نہیں شعلہ دیتے شرر کے عوض (۷۶) اسی روز امیر حمزہ شینواری نے بھی اپنا مقالہ ’’ د خوشحال پہ شاعر+ œ'* باز او باتور‘‘(خوشحا ل کی شاعری میں باز اور بہادر کا تذکرہ) پیش کیا۔ اس مقالے میں اقبال اور خوشحال کے بعض مشترک نکات پر سیر حاصل گفتگو کی گئی ہے۔ (×۷) بدھ ۲۸/ اسد ۱۳۴۹ھ ش ۱۹/ اگست ۱۹۷۱ئ: خوشحال خان کے سیمنار میں فضل احمد غازی کا مقالہ ’’خوشحال خان خٹک د خپلو افکارو پہ ہندارہ کسی‘‘ (خوشحال خان خٹک اپنے افکار کے آئینے میں) پیش ہوا۔ اس میں علامہ کا درج ذیل شعر پڑھا گیا: ؎ نگاہِ عشق دل زندہ کی تلاش میں ہے شکار مردہ سزاوار شہباز نہیں خوشحال خان سے متعلق حضرت علامہ کے فارسی تعریفی ابیات کے علاوہ حضرت علامہ اور خوشحال کے مشترک نکات پر بحث کی گئی۔ (۷۸) میزان ۱۳۵۰ ھ ش مجلہ ’’لمر‘‘ نے حکمت زندگی کے عنوان سے خط سکنہ کی خوبصورت خطاطی میں حضرت علامہ کے ذیل ابیات شائع کیے ہیں: شنیدم شبی در کتب خانہ من بہ پروانہ می گفت کرم کتابی بہ اوراق سیانیش گرفتم کی دیدم از نسخہ فاریابی نضہمین ام حکمت زندگی جاں تیرہ روزم زبی آفتابی نگو گفت پروانہ ی نسیم سوزی کہ ایں نکتہ را در کتابی نیابی تپش میکند زندہ تر زندگی را تیش می دہد بال و پر زندگی را (۷۹) حمل ۱۳۵۱ھ ش صفر ۱۳۹۲ ھ اپریل ۱۹۷۲ئ: کابل کے مجلہ’’ اوقاف‘‘ میں میلاد مبارکﷺ کی مناسبت سے محمد انور جانبازؔکا مقالہ ’’طلوع حقیقت یاد میلاد یا ارز شتیرین عنصر ہستی‘‘شائع ہوا۔ اس مقالے کے آغاز میں حضرت علامہ کی درج ذیل رباعی دی گئی ہے: ؎ نعرہ زد عشق کہ خونین جگری پیدا شد حسن لرزید کہ صاحب نظری پیدا شد خبری رفت زگردوں بہ شبستان ازل حذرای پردہ گیان پردہ دری پیدا شد (۸۰) اس مقالے کا اختتام بھی حضرت علامہ کے اس شعر پر ہوا ہے: ؎ ہر کہ عشق مصطفی سامان اوست بحرو بر در گوشۂ دامان اوست (۸۱) یکم سنبلہ ۱۳۵۲ھ ش: افغانستان کے سابق صدر سردار محمد دائود خان نے منصب اقتدار سنبھالتے ہی ریڈیو اور ٹی وی پر قوم سے خطاب کیا۔ اس خطاب کا اختتام حضرت علامہ کے ’’ارمغانِ حجاز‘‘ کے ذیل شعر پر کیا گیا: ؎ مذہب زندہ دلان خواب پریشانی نیست از ہمین خاک جہان درگری ساختن است (۸۲) افغانستان کے معروف خطاط عزیز الدین وکیلی فوفلزئی خطاط ہفت قلمی نے حضرت علامہ کے ارمغان حجاز کی درج ذیل رباعی کی خطاطی کی: ؎ مرا از منطق آید بوی خامے دلیل او دلیلِ ناتمامے برویم بستہ درہا را کشاید دوبیت از پیررومی یاز جامی (۸۳) سنبلہ ۱۳۵۳ھ ش افغان اقبال شناس عبداللہ بختانیؔ خدمتگار نے کابل میں علامہ کی مدح و تضمین پر ایک طویل فارسی نظم ’’بہ استقبال اقبال‘‘ تحریر کی۔ (۸۴) میزان ۱۳۵۴ھ ش: عزیز الدین وکیلی فوفلزائی خطاط ہفت قلمی افغانستان نے چار راہی کابل میں قندھار سے متعلق حضرت علامہ کے ذیل چار اشعار خطِ شکستہ میں خطاطی کئے: ؎ قندھار آن کشور مینو سواد اہلِ دل را خاکِ او خاکِ مراد کوی آن شہرا ست مار کوی دوست ساربان بربند محمل سوی دوست خرقہ آن برزخ لایبغیان دیدمش درنکتہ لی خرقتان آمد از پیراہن او بوے او داد مارا نعرہ اللہ ہو (۸۵) جناب وکیلیؔ کی جانب سے درج ذیل اشعار کی خطاطی بھی میزان ۱۳۵۴ھ ش میں عمل میں آئی۔ ؎ عمرھاد ر کعبہ و بتخاندمی نالدحیات تاز بزم عشق یک دانائی راز آید بیرون طرح نو می ا فگند اندرضمیر کائنات نالہ ہا کز سینۂ اہل نیاز آید بیرون (۸۶) ۱۳۵۴ھ ش: جناب وکیلی فوفلزائی نے درج ذیل رباعی کی خطاطی کی: ؎ مسلمان آںفقیر کج کلاہی رمید از سینۂ اوسوز آہی دلش نالد چرانالد نداند نگاہے یا رسول اللہ نگاہی (۸۷) میزان ۱۳۵۴ھ ش: جناب وکیلی فوفلزائی نے حضرت علامہ کی درج ذیل رباعی و اشعار خطاطی کئے: ؎ عارف بوجودخود چو بینا گردد ہر چیز دلش خواست میھاگردد دریاب حباب رادر بحر وجود پر داخت چو مل ز خوش دریا گردد (۸۸) ؎ سحر می گفت بلبل باغبان را درین گل جز نہال غم نگیر د بہ پیری میر سدخار بیابان ولی گل چون جوان گردد بمیرد (۸۹) ۱۳۵۴ھ ش: افغانستان میں عالمی ادارہ تحقیقات پشتو کے زیر اہتمام پشتو تحقیقات کے حوالے سے ایک بین الاقوامی سیمینار منعقد ہوا ۔ اس سمینار میں پشتوزبان و ادب کے حوالے سے مختلف سکالروں نے گراں قدر علمی و ادبی اورتحقیقی مقالات پیش کئے۔ ان مقالات میں ایک افغان سکالر خاتون وسیمہ حکیمی نے ’’ناز و انا‘‘ سے متعلق مقالہ پیش کیا۔ ناز و انا (دادی نازو) سلطان ملخی کی صاحبزادی تھی۔ سلطان ملخی کے سلطنت کا قلمرو غزنی سے جلدک تک پھیلا ہوا تھا۔ نازو انا کی پیدائش ۱۰۶۱ھ ق بمقام تازی کلات سے مشرقی جانب ہوئی۔(۹۰) آپ کا بیٹا جاجی میرویس خان نیکہ افغانستان کی تحریک آزادی کا ہیرو ثابت ہوا اور افغانستان کو ۱۱۱۹ھ ق میں ایرانیوں کے تسلط سے آزاد کرایا۔ (۹۱) نازو انا افغان تاریخ میں ایک مدبر خاتون کی حیثیت سے مشہور ہے۔ آپ ایک کہنہ مشق شاعرہ تھیں لیکن افسوس کہ آپ کی صرف ایک ہی رباعی پٹہ خزانہ میں محفوظ ہے۔ باقی کلام ابھی تک جہاں علم و ادب سے طاق اخفا میں اوجھل ہے ۔ وسیمہ حکیمی نے نازو انا کے اس رباعی کا حوالہ دیا ہے۔ ؎ سحر (پہ وہ د نر(’ لیمہ لاندہ #پ#œ¤ #ب#œ¤ ي د ستر(¢ ##¤‹ہ ما وئیل #¦ دی 'œ‍¤ (‍¦ ولی ژا%* دہ وئیل ژوندمی د* یوہ خولہ خندیدہ فارسی ترجمہ پٹہ خزانہ نے یوں کیا ہے: ؎ سحر گہ چشم نرگس تربود قطرہ قطرہ از چشمش میچکید گفتمش چیست اے گل زیبا چرامیگری گفت زندگانی من یکد ھن خندہ است (۹۲) وسیمہ نے اس ناقابلِ فراموش فلسفہ کو بیسیوں صدی میں اقبال کے حوالے سے بیان کیا ہے۔ جو کہ صرف اور صرف نازو انا سے اقبال کی توارد فکری کے طور پر تخلیق ہوئی ہے۔ اقبال اسی مفہوم کو یوں ادا کرتے ہیں: ؎ شبی زار نالید ابر بھار کہ این زندگی گریہ پیھم است درخشید برق سبک سیر و گفت خطا کردہ ئی خندئہ یکدم است ندانم بہ گلشن کہ برداین خبر سخنہامیان گل و شبنم است (۹۳) ۱۳۵۴ھ ۱۹۷۵ئ: رابندرناتھ ٹیگور کے مشہور نوبل انعام یافتہ گیتانجلی کا پشتو ترجمہ عبدالرئوف بینواؔ نے دولتی مطبع کابل سے شائع کرایا۔ اس کتاب کا تفصیلی علمی دیباچہ عبدالشکور رشاد نے تحریر کیا ہے۔ جس میں بینواؔ کے آثار واور تصانیف کے سلسلے میں ان کے پردیس کا درج ذیل انداز سے ذکر کیا ہے: یہ علامہ اقبال لاہوری ۱۲۹۱ھ ق - ۱۳۵۸ھ ق کے مسافرنامی منظوم کتاب کا منظوم پشتو ترجمہ ہے جو ۱۳۲۱ ھ ش کے روزنامہ انیس کے مختلف شماروں میں شائع ہوچکا ہے۔ (۹۴) میزان ۱۳۵۶ھ ش ۱۹۷۷ئ: افغانستان میں حکیم سنائی غزنوی کے نو صد سالہ جشنِ ولادت کی تقریبات کے سلسلے میں مختلف اداروں نے خصوصی اشاعتوں کا اہتمام کیا۔ اس سلسلے میں نشریات پوہنحئی ادبیات پوہنتون کابل نے ایک کتاب از سنائی تا مولانا و اقبال بھی شائع کی۔ (۹۵) میزان قوس ۱۳۵۶ھ ش ۱۹۷۷ء : مجلہ ’’آریانا‘‘ میں علامہ سے متعلق ڈاکٹر روان فرہادی کامقالہ ’’معنی نزد علامہ اقبال‘‘ شائع ہوا۔ (۹۶) یہ مقالہ بعد میں علامہ اقبال در ادب فارسی و فرھنگ افغانستان میں بھی شائع ہوا۔(۹۷) میزان قوس ۱۳۵۶ ھ ش۔ ۱۹۷۷ئ: حضرت علامہ کے صد سالہ جشن ولادت کی مناسبت سے افغانستان میں منعقدہ تقریبات کے سلسلے میں ریڈیو افغانستان کابل کے ہال میں ایک تقریب منعقد ہوئی اس میں کابل یونیورسٹی کے سابق رئیس عبدالسلام عظیمی کا نشر کردہ مقالہ ’’اقبال شخصیتی علمی ادبی و فکری جھان‘‘ مجلہ ادب میں شائع ہوا۔(۹۸) بعد میں یہ مقالہ ’’علامہ اقبال در ادب فارسی و فرھنگ افغانستان‘‘ میں بھی شائع ہوا۔(۹۹) ۱۱قوس ۱۳۵۶ھ ش: افغانستان کے وزیرِ اطلاعات پوہاند دکتور نوین نے صدیق رھہپوکی تالیف افغانستان و اقبال کے تذکرہ کے عنوان سے تعارفی کلمات تحریر کئے۔(۱۰۰) ۱۲ قوس ۱۳۵۶ھ ش ۱۹۷۷ئ: افغانستان کے معروف ہفت قلمی خطاط جناب عزیز الدین وکیلی فوفلزائی نے کابل میں حضرت علامہ کے صد سالہ جشنِ ولادت کی تقریبات کے سلسلے میں خطاطی کے مختلف اسلوبوں میں حضرت علامہ کی درج ذیل رباعیات و ابیات خطاطی کئے: ؎ قبای زندگانی چاک تاکی چوموران آشیان درخاک تاکی بہ پرواز آوشاہینی بیاموز تلاش دانہ در خاشاک تاکی (۱۰۱) اہل حق رازندگی از قوت است قوت ہر ملت از جمعیت است (۱۰۲) ؎ رای بی قوت ہمہ مکر وفسوں قوت بی رای جہل است و جنون ؎ جہان ماکہ نابود است بودش زیان توام ہمی زایدبسودش کہن رانوکن و طرح دگرریز دلِ ما برتابد دیر و زودش (۱۰۳) ؎ دلارمز حیات از غنچہ دریاب حقیقت در مجاز ش بی حجاب است زخاک تیرہ میرو ید و لیکن نگاہش بر شعاع آفتاب است (۱۰۴) ان اشعار کے درمیان میں مندرجہ بالا رباعی بھی خطِ شکستہ سے تحریر کی گئی ہے: ؎ اقبال ز صورت چو بمعنی پرداخت و آن پر او بدیدۂ حقیقت شناخت پس آئینہ زفکر خود تعبیر کرد و آن صورت و معنی اندر آن طاہرساخت (۱۰۵) ؎ جہاں مشکل گل و دل حاصل اوست ہمین یک قطرۂ خون مشکل اوست نگاہ ما دربین افتادہ ورنہ جہاں ہر کسی اندر دل اوست (۱۰۶) قوس۱۳۵۶ھ ش ۱۹۷۷ئ: حضرت علامہ کے صد سالہ جشنِ ولادت کی تقریبات کے سلسلے میں افغانستان میں وزارت اطلاعات کلتور کے مؤسہ انتشارات بیہقی کی جانب سے عبدالہادی داوی کے آثار اردوی اقبال کی جلداول و دوم شائع ہوئی جس میں بانگِ درا اور دیگر آثار کے مشمولات پر بحث کے علاوہ ان کے اردو کلام کا منظوم فارسی ترجمہ کیا گیا ہے۔(۱۰۷) قوس ۱۳۵۶ھ ش نومبر دسمبر ۱۹۷۷ئ: لاہور میں حضرت علامہ کے صد سالہ جشنِ ولادت کی مناسبت سے منعقدہ بین الاقوامی کانفرنس میں افغانستان کے صدر محمد دائود خان کا پیغام افغان وفد نے پڑھ کر سنایا تھا اس کا متن مجلہ کابل میں شائع ہوا : خوشحالہ یم ˆ* د ختیز او اسلامی  %+ د نومیالی پوھ مفکر شاعر او ادیب علامہ محمد اقبال د ز¤&ید * د سلم کال د ¤پدؤ * غو $* پہ مناسبت خپل صمیمانہ نکا„ #ژ( ‹وم۔ علامہ اقبال ‚* لہ شکہ یو بشر دوست او پاک سرشت شخصیت د* ˆ* زمانہ ي کلہ کلہ د انسانیت  %+ تہ سوغات ورکوی۔ ھغہ مشہور فلیسوف ہمدا ر (¦ خپل قیمتی آثار د انسانی اند¤'¢ او ثقافت شتمنی تہ وقف œ%ل۔ زمو &ہ §*¢اد افغانستان سرہ ي خاصہ مینہ #ژ( ‹ولہ دخپلو خوندورو شعرونو یوہ برخہ ي زمو & خلکو تہ یاد(پر پر*'¢ولہ۔ زمونر د ھیواد خلک د ختیز دغہ پیاو%ی بچی تہ ˆ* زمو & د لویانو لکہ حکیم سنائی۔ غزنوی، مولانا جلال الدین بلخی د فکر او اند*' * لہ زیرمو#ٹ¦ ي زیاتہ (!¦ اخستی د ھغوی ارز'„ پکی '¢دنی ی د خپل ژور فکر او لطیف احساس سرہ یو حٔایœ%ی دی بہ درنہ ستر(¦ (¢ری۔ د نیکو ھیلو پہ #ژ( ‹ولو سرہ د ھغو یو پوھانو لہ پارہ ˆ* پہ د* علمی غو $ہ œ'* ي ($ون œ%* د* بری غوا%م۔‘‘(۱۰۸) ترجمہ: ’’خوش ہوں کہ مشرق اور اسلامی دنیا کے مشہور و معروف دانا مفکر شاعر اور ادیب علامہ محمد اقبال کے صد سالہ جشنِ ولادت کے اعترافی سیمنار کو اپنے پر خلوص نکات پیش کررہا ہوں۔ علامہ اقبال بلا شبہ ایک بشر دوست اور پاک سرشت شخصیت کے مالک تھے جو زمانہ کبھی عالمِ انسانیت کو بطور تحفہ عطا کردیتا ہے۔ اس مشہور فلسفی نے اسی طرح کے قیمتی افکار انسانی وجدان اور ثقافتی سرمائے کو عطاکئے۔ ہماری سرزمین افغانستان سے خصوصی عشق رکھتے تھے۔ اور اپنے شیرین اشعار کا ایک حصہ ہمارے لئے یادگار چھوڑا ہے۔ ہمارے مملکت کے افراد مشرق کے اس عظیم فرزند کو جنہوں نے ہمارے اسلاف حکیم سنائی، غزنوی اور مولانا جلال الدین بلخی کے افکار و عقائد سے استفادہ کرکے اپنے گرانقدر تعلیمات کو اپنے افکار اور لطیف احساسات کے ساتھ یکجا کرکے پیش کئے کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ نیک جذبات کے اظہار کے ساتھ ان تمام اہلِ قلم حضرت کے لئے جو اس علمی سیمنار میں شریک ہیں ، کامیابی کا خواہاں ہوں۔ ‘‘ ۱۳۵۶ھ ش۱۹۷۷ئ: افغانستان میں حضرت علامہ کے صد سالہ جشنِ ولادت کی مناسبت سے فارسی میں صدیق رھہپوکی تالیف افغانستان و اقبال ایک سو دس صفحات میں شائع ہوئی۔ (۱۰۹) ۱۳۵۶ھ ش ۱۹۷۷ئ: پنجاب یونیورسٹی لاہور کی جانب سے منعقدہ اقبال سے متعلق کانفرنس میں شرکت کرنے کے لئے افغانستان کے مشہور و معروف اقبال شناس استاد خلیل اللہ خلیلی کو دعوت نامہ موصول ہوا۔ مگر حکومتِ وقت کی جانب سے اجازت نہ ملنے کے باعث وہ اس تقریب میں شرکت کرنے سے قاصر رہے۔ لہٰذا متعلقہ کانفرنس کو جناب خلیلی نے اپنی منظوم تہنیت ’’بہ پیشگاہ علامہ دکتور محمد اقبال لاہوری‘‘ ارسال کی(۱۱۰) جسے سوانح خلیلی کے ساتھ نقل کی گئی ہے۔ میزان قوس ۱۳۵۶ھ ش ۱۹۷۷ئ: مجلہ ادب کابل (سال ۲۵ شمارہ ۳) میں عبدالحئی حبیبیؔ کا مقالہ خودی و بیخودی داندیشۂ اقبال شائع ہوا۔ (۱۱۱) اسد ۱۳۵۶ھ ش: افغانستان کے ماہنامہ ’’نبی‘‘ میں آقائی حیدری وجودی کا مقالہ ’’جلوہ سبز آزادی در بندگی نامہ علامہ اقبال‘‘ شائع ہوا۔ یہ مقالہ بعد میں ’’علامہ اقبال در ادب فارسی و فرھنگ افغانستان ‘‘ میں بھی شائع ہوا۔(۱۱۲) ۱۳۵۶ھ ش ۱۹۷۷ئ: افغانستان میں جمہوریت کی چوتھی سالگرہ کے جشن کی مناسبت سے عبدالکریم پتنگ ؔ کے زیرِ اہتمام پشتو ٹولنہ کابل کا ایک تاریخچہ شائع ہوا۔ جس میں اس مشہور و معروف علمی و ادبی ادارے کے تاریخچہ کے علاوہ اس ادارے کی اکیڈیمک حیثیت ، لائحہ عمل ، تشکیلات، تدریسات، نشریات، کتب اور منتظمین و اراکین سے متعلق بنیادی تحقیقات شائع ہوتی ہیں۔ اس ادارے کی جانب سے شائع شدہ کتب کے ۱۹ویں نمبر پر حضرت علامہ کے متعلق افغانستان میں پشتو میں پہلی باقاعدہ شائع شدہ کتاب’’ پستانہ د علامہ اقبال پہ نظر کی‘‘ کا ذکر آیا ہے جوعبداللہ بختانیؔ نے پشتو ٹولنہ کابل سے ۱۳۳۵ھ ش میں شائع کرایا۔ (۱۱۳) ۱۳۵۶ھ ش ۱۹۷۷ئ: افغانستان میں متاخردو صدیوں میں پشتو کے مطبوعہ کتب سے متعلق ایک سیمنار منعقد ہوا تھا۔ اس سیمنار کی مناسبت سے حبیب اللہ رفیع نے’’پشتو کتاب شود‘‘(پشتو معارف کتاب) مرتب کرکے بیہقی کتاب موسسہ کی جانب سے شائع کی۔ اس کتاب میں پشتو کے ۱۵۵۸ شائع شدہ کتب کا اختصار کے ساتھ تعارف شائع کیاگیا ہے۔ جدید تحقیقی اصولوں کی روشنی میں آثار کا تعارف ان کے مؤلفین ، مصنفین یا مرتبین کے تخلص کے الفبائی ترتیب سے دیا گیا ہے۔ اس میں حضرت علامہ کے بعض پشتو منظوم تراجم کا تعارف پیش کیا گیا ہے۔ ان تراجم کی تفصیل مترجمین کے ترتیب سے یہاں شامل کرنا ناگزیر ہے۔ پہلے کتاب کا سلسلہ نمبر پھر مترجم کا تخلص اس کے بعد نام اور پھر کتاب کا نام اور شائع کردہ ادارے کا نام ، سنِ اشاعت، سائز، صفحات ، پریس وغیرہ کی تفصیل درج ہے۔ ۴۸۔ اثرؔ عبدالحلیم مترجم بالِ جبریل شاعر علامہ اقبال لاہور ،اقبال اکادمی بوساطت پشتو اکیڈیمی پشاور ۱۹۶۷ء ۹+ ۲۲۴ = ۲۳۳ ۱۴ x ۲۲ شاہین پریس پشاور۔ (۱۱۴) ۴۳۹۔ حمزہ شینواری مترجم ارمغانِ حجاز شاعر علامہ اقبال لاہور اقبال اکادمی بوساطت پشتو اکیڈیمی پشاور ۱۹۶۴ء ۱۱ + ۲۸۰ = ۲۹۱ ۱۴ x ۲۲ شاہین پریس پشاور ۔(۱۱۵) ۴۴۲ ۔ حمزہ شینواری مترجم جاوید نامہ شاعر علامہ اقبال لاہور اکادمی بوساطت پشتو اکیڈیمی پشاور سن ندارد = ۲۵۰ ۱۵ x ۲۳ پبلک آرٹ پریس پشاور۔(۱۱۶) ۵۵۷۔ راحت زاخیلیؔ راحت اللہ مترجم بانگِ درا شاعر علامہ اقبال اقبال اکادمی بوساطت پشتو اکیڈیمی پشاور ۱۹۶۳ء = ۳۳۶ ۱۴ x ۲۲ پبلک آرٹ پریس پشاور۔ (۱۱۷) ۵۶۱۔راحت زاخیلیؔراحت اللہ مترجم شکوہ و جوابِ شکوہ شاعر علامہ اقبال یونیورسٹی بک ایجنسی پشاور سن ندارد = ۲۹ ۱۲ x ۱۷ منظورِ عام پریس پشاور۔ (۱۱۸) ۶۹۱۔سمندرؔخان سمندر مترجم اسرارِ خودی شاعر علامہ اقبال کراچی پاکستان پبلیکیشنزکراچی ۱۹۵۴ء = ۲۳۷ ۱۲ x ۱۸ ہیرالڈ پریس کراچی۔ (۱۱۹) ۱۰۴۱۔کاکاخیل تقویم الحق مترجم پس چہ باید کرد مع مسافر شاعر علامہ اقبال اقبال اکادمی بوساطت پشتو اکیڈیمی پشاور ۱۹۶۹ء ۸ + ۷۱ = ۷۹ ۱۴ x ۲۲ شاہین پریس پشاور ۔ (۱۲۰) ۱۰۴۳۔ کاکاخیل تقویم الحق مترجم زبورِ عجم شاعر علامہ اقبال اقبال اکادمی بوساطت پشتو اکیڈیمی پشاور ۱۹۶۱ء ۲۲ + ۲۰۸ = ۲۳۰ ۱۵ x ۲۲ مطبع پشاور یونیورسٹی پریس ۔(۱۲۱) ۱۳۴۶۔ مینوشؔ شیر محمد مترجم پیامِ مشرق شاعر علامہ اقبال اقبال اکادمی بوساطت پشتو اکیڈیمی پشاور ۱۹۶۳ء ۸۴ + ۱۴ + ۲۱۲ = ۳۶۲ ۱۵ x ۲۲ پبلک آرٹ پریس پشاور۔(۱۲۲) ۱۳۴۷۔ مینوشؔ شیر محمد مترجم ضربِ کلیم شاعر علامہ اقبال یونیورسٹی بک ایجنسی پشاور سن ندارد = ۱۵۲ ۱۲ x ۱۸ (۱۲۳) ۱۳۵۶ ھ ش ۱۹۷۷ئ: افغانستان کے پشتون اقبال شناس حبیب اللہ رفیع نے پشتو کے مطبوعہ کتب کی ایک طویل فہرست مرتب کی۔ جو کہ پشتو ٹولنہ کابل کی جانب سےƒ'„¢ ƒپ (¦کے نام سے دو جلدوں میں شائع ہوئی۔ دوسری جلد میں حضرت علامہ کے آثار کے منظوم پشتو تراجم کا تعارف یوں پیش کیا گیا ہے۔ تعارف کی ترتیب یوں ہے ۔ کتاب کا سلسلہ نمبر(کتاب کا نام)۔ مؤلف۔ مترجم۔ ناشر۔ سنِ اشاعت۔ سائز۔ صفحات اور موضوع کا مختصر تعارف۔ ۵۲۱۔ ارمغانِ حجاز علامہ اقبال پشتو مترجم امیر حمزہ شینواری ناشر اقبال اکادمی بوساطت پشتو اکیڈیمی پشاور سنِ اشاعت ۱۹۶۴ء شاہین پرنٹنگ پریس سائز ۱۴ x ۲۳ سنٹی میٹر صفحات ۱۱ + ۲۸۰ = ۲۹۱ موضوع۔ علامہ اقبال کے ارمغانِ حجازکا منظوم پشتو ترجمہ جو میٹھے رواں انداز میں ہوا ہے۔ (۱۲۴) ۵۲۳۔ اسرار خودی شاعر علامہ اقبال پشتو مترجم سمندر خان سمندرؔ ناشر پاکستان پبلیکیشنز کراچی ۱۹۵۴ء ہیرالڈ پریس کراچی سائز ۱۲ x ۱۸ سنٹی میٹر صفحات۲۲۷ موضوع علامہ اقبال کی مشہور اسرارخودی کا منظوم پشتو ترجمہ جو پورے ادبی انداز سے انجام پذیر ہوا ہے۔ (۱۲۵) ۵۶۷۔ بالِ جبریل شاعر علامہ اقبال مترجم قاضی عبدالحلیم اثرؔ ناشر اقبال اکادمی بوساطت پشتو اکیڈیمی پشاور نومبر۱۹۶۷ء شاہین پرنٹنگ پریس پشاور سائز ۱۴ x ۲۲ سنٹی میٹر صفحات ۹ + ۲۲۴ = ۲۳۳ موضوع ۔ علامہ اقبال کے منظوم اثر بالِ جبریل کا منظوم پشتو ترجمہ۔ (۱۲۶) ۵۶۹۔ بانگِ درا شاعر علامہ اقبال مترجم سید راحت زاخیلیؔ ناشر اقبال اکادمی بوساطت پشتو اکیڈیمی پشاور ۱۹۶۳ء پبلک آرٹ پریس پشاور سائز ۱۴ x ۲۲ سنٹی میٹر صفحات ۴ + ۲۷ + ۳۳۶ = ۳۶۷ موضوع ۔ اقبال کے بانگِ درا کا شیرین سادہ منظوم پشتو ترجمہ۔ (۱۲۷) ۵۹۱۔ پس چہ باید کرد مع مسافر شاعر علامہ اقبال مترجم سید تقویم الحق کاکاخیل ناشر اقبال اکادمی بوساطت پشتو اکیڈیمی پشاور ۱۹۶۹ء شاہین پرنٹنگ پریس پشاور سائز ۱۴ x ۲۲ سنٹی میٹر صفحات ۸ + ۷۱ = ۷۹ موضوع ۔ علامہ اقبال کے مشہور مثنوی پس چہ باید کرد ۱ے اقوام مشرق اور مسافرکا منظوم پشتو ترجمہ۔ (۱۲۸) ۵۹۶۔ƒ'„پنہ د علامہ اقبال پہ نظر œ'* مؤ لف عبداللہ بختانیؔ ناشر ۔ پشتو ٹولنہ کابل ۱۳۳۵ھ ش سائز ۱۶ x ۲۳ موضوع ۔ اس رسالے میں علامہ اقبال کے تعارف کے علاوہ وہ اشعار پیش کئے گئے ہیں جو انہوں نے پشتون مشاہیر کی مدح میں کہے تھے۔ اس رسالے کے مضامین درج ذیل ہیں: علامہ اقبال کون تھا۔ اقبال کے نظریات۔ مغرب پر تنقید۔ مشرق کو خطاب ۔ پشتونوں کو خطاب۔ سفرِ افغانستان۔ پشتون مشاہیر اور آخر میں اقبال افغان شعراء کی نظر میں۔ (۱۲۹) ۶۳۲۔ پیامِ مشرق شاعر علامہ اقبال مترجم شیر محمد مینوشؔ ناشر اقبال اکادمی بوساطت پشتو اکیڈیمی پشاور نومبر ۱۹۲۳ء پبلک آرٹ پریس پشاور سائز۱۵ x ۲۱ سنٹی میٹر صفحات ۱۴ + ۱۴ + ۲۶۴ = ۲۹۲ موضوع علامہ اقبال کے پیامِ مشرق کا منظوم پشتو ترجمہ۔ (۱۳۰) ۲۷۵۔جاوید نامہ شاعر علامہ اقبال پشتو ترجمہ امیر حمزہ شینواری ناشر اقبال اکادمی بوساطت پشتو اکیڈیمی پشاور جولائی ۱۹۶۷ء پبلک آرٹ پریس پشاور سائز ۱۵ x ۲۲ صفحات ۴ + ۲۴۶ = ۲۵۰ موضوع علامہ اقبال کی جاوید نامہ کا منظوم پشتو ترجمہ۔ (۱۳۱) ۹۸۹۔ رموزِبیخودی شاعر علامہ اقبال مترجم سمندر خان سمندرؔ ناشر پاکستان پبلیکیشنز کراچی ہیرالڈ پریس کراچی سائز ۱۲ x ۱۸ سنٹی میٹر صفحات ۲۰۲ موضوع ۔علامہ اقبال کے رموزِ بیخودی کا منظوم پشتو ترجمہ۔ (۱۳۲) ۱۰۰۳۔ زبورِ عجم شاعر علامہ اقبال مترجم سید تقویم الحق کاکاخیل ناشر اقبال اکادمی بوساطت پشتو اکیڈیمی ۱۹۶۱ء پشاور یونیورسٹی پریس سائز ۱۵ x ۲۲سنٹی میٹر صفحات ۲۲ + ۲۰۸ = ۲۳۰ موضوع۔ علامہ اقبال کے زبورِ عجم کا منظوم پشتو ترجمہ ۔ (۱۳۳) ۱۰۸۶۔ ضربِ کلیم شاعر علامہ اقبال مترجم شیر محمد مینوشؔ ناشر یونیورسٹی بک ایجنسی پشاور سن ندارد سائز ۱۲ x ۱۸ سنٹی میٹر صفحات ۱۵۲ موضوع ۔ علامہ اقبال کے ضربِ کلیمکا منظوم پشتو ترجمہ‘ نہایت بھاری ہے جس میں روانی کی کمی پائی جاتی ہے۔ (۱۳۴) ۱۱۰۳۔ علامہ اقبال مؤلف عبدالرحمان بیتاب ناشر۔ شجاعت پبلشرز مقام و سن اشاعت تعمیر پرنٹنگ پریس ۱۹۶۶ء سائز ۱۲×۱۸ سنٹی میٹر صفحات ۹۶۔ موضوع۔ علامہ اقبال کے حالات زندگی اور خیالات پر بحث کی گئی ہے۔ عنوانات ذیل ہیں۔ اقبال کی پیدائش۔ تعلیم و تربیت۔ اقبال اور اسلام۔ نظریہ ادب۔ خودی اور زندگی۔ موت اور حیات۔ سیاسیات۔ معاشرہ کا حل۔ انسان کامل۔ اسلامی حکومت۔ آزادی قومیت۔ عورت۔ مغربی تہذیب۔ پشتون اور اقبال۔ عملی زندگی اور سفر افغانستان(۱۳۵) ۵ دسمبر ۱۹۷۷ئ: حضرت علامہ اقبال کے صد سالہ جشنِ ولادت کے بین الاقوامی کانگریس میں افغان اقبال شناس ڈاکٹر محمد رحیم الہام نے حضرت علامہ اقبال کے مثنوی مسافر کے جواب میں جواب مسافر پیش کیا۔ (۱۳۶) یہ جواب جناب ڈاکٹرالہام کے سوانح کے ساتھ شامل مقالہ ہے۔ جدی ۱۳۵۶ھ ش دسمبر جنوری ۸ - ۱۹۷۷ئ: مجلہ کابل میں حضرت علامہ سے متعلق جناب سوبمن کا پشتو مقالہ د ختیحٔ ستر شاعر( مشرق کا عظیم شاعر) شائع ہوا۔ (۱۳۷) تیسرا دور : ۱۹۷۸ئ ۱۳۵۷ھ ش تا ۲۰۱۰ئ ۱۳۸۹ھ ش ۱۴۳۰ ھ ق افغانستان میں کمیونسٹ انقلاب برپا ہوا ،سمرقند و بخارا کو روند ڈالنے والوں نے کابل و غزنین پر چڑھائی کی۔ سویت یونین کی جارحیت کے خلاف اعلانِ جہاد کیا گیا۔ مختلف جہادی تنظیموں نے مختلف نشریاتی مطبوعات کا اجراء کیا۔ ان آثار رسائل، اخبارات اور جرائد میں شوقِ شہادت، جذبۂ جہاد، شانِ مومن، انسانی کرامت، عالمگیریت اسلام اور ایمان کی شان و شوکت وغیرہ سے متعلق حضرت علامہ کے افکار وقتاً فوقتاً شائع ہوتے رہے۔ حضرت علامہ کے فکر وفن کے حوالے سے مختلف مقالات شائع ہوتے رہے۔ افغان جہاد کے دوران تمام جہادی مطبوعات پر حضرت علامہ کے فکر و فن کا پر تو جلوہ گر رہا۔ افغانستان میں بھی مختلف مطبوعات میں حضرت علامہ سے متعلق مواد شائع ہوتا رہا۔ اس دور کا تفصیلی تحقیقی جائزہ یوں ہے۔ ۱۳۵۷ھ ش: کابل کے اکادمی علوم کی جانب سے پشتون شعرا کا تذکرہ ’’پشتانہ شعرا‘‘ جلد چہارم (مرتب سر محقق عبداللہ بختانی خدمتگار) شائع ہوا۔ اس میں ذیل اقبالیاتی حوالے موجود ہیں۔ - ابو سعید فضل احمد غرکی فن و شخصیت کے حوالے سے علامہ کا تذکرہ۔ ’’غرنےؔ، پشتونوں کی شان میں ایک قصیدہ لکھا اور علامہ کی خدمت میں پیش کیا۔ علامہ نے اس قصیدے کی انگریزی ترجمے کا اصلاح خود اپنے دست مبارک سے فرمایا۔(۱۳۸) - راحت اللہ راحت زاخیلی کے تذکرے میں ان کی شکوہ اور جواب شکوہ کے منظوم پشتو تراجم کا ذکر آیا ہے۔(۱۳۹) ۱۳۵۸ ھ ش: خوشحال خان خٹک کی وفات کے تین سو سال پورے ہونے کی مناسبت سے کالمی خوشحالی کانفرنس کے لئے محمد ابراہیم ستوری اور احمد ضیا مدرسی کا مرتب کردہ خوشحال شناسی کا ایک اہم منبع ’’خوشحال خاں خٹک د مطبوعاتو پہ ھندارہ کی‘‘ جلد دوم شائع ہوا۔ اس کتاب میں بھی ذیل اقبالیاتی حوالے موجود ہیں۔ ٭ƒ'„پنہ د علامہ اقبال پہ نظر œ'*مرتب عبداللہ بختانی ۔ کتاب میں تذکرہ خوشحال خان(۱۴۰) ٭ دخوشحال او د اقبال دا شعار وحنی مشترکی خواوی۔ عبداللہ بختانی۔ مطبوعہ ننگیالی پشتون میں تذکرہ خوشحال خان(۱۴۱) ٭د خوشحال پہ شاعری کی باز اور اقبال کے شاہین کے تصورات (از امیر حمزہ شنواری مطبوعہ توریالی پشتون) کا تذکرہ(۱۴۲) ٭خوشحال و اقبال۔ میر عبدالصمد۔ خوشحال اور اقبال کا مفصل تذکرہ (۱۴۳) ٭باز پہ خوشحالیات او اقبالیات کی (خوشحالیات اور اقبالیات میں باز(شاہین) کا تذکرہ مقالہ دوست محمد خان کامل مومند (۱۴۴) ٭خوشحال خان خٹک حیات حالات اور شاعری سے متعلق سید رسول رسا کا مقالہ اس میں بال جبریل میں خوشحال خاں خٹک کی وصیت بھی نقل کی گئی ہے۔(۱۴۵) ۱۳۵۸ - ۱۳۵۹ھ ش: افغانستان کالنی (سالنامہ)میں عبدالہادی داویؔ کا سوانحی تذکرہ شائع ہوا جس میں ان کی فارسی نظم ’’خطاب بہ اقبال‘‘ بھی شائع ہوئی ہے جو داویؔ کے سوانح کے ساتھ شامل مقالہ ہے۔(۱۴۶) دلو حوت ۱۳۵۹ھ ش: ماہنامہ شفق (جریدہ حزب اسلامی افغانستان) میں حضرت علامہ کی ایک رباعی اور ذیل اشعار شائع ہوئے: ؎ خدا آن ملتی را سروری داد کہ تقدیر ش بدست خویش بنوشت بہ آن ملت سرو کاری ندارد کہ دہقانش برائی دگیران کشت (۱۴۷) غلامی ؎ آدم از بی بصری بندگی آدم کرد گوہری داشت ولی نذر قباد و جم کرد یعنی از خوی غلامی زسگاں خوار تر است من ندیدم کہ سگی بیش سگی سرخم کرد (۱۴۸) ؎ میا رابزم برساحل کہ آنجا نوائی زندگانے نرم خیز است بہ دریا غلت و باموجش درآویز حیات جاودان اندر ستیز است (۱۴۹) اسد ۱۳۵۹ھ ش: عبدالباری شہرت ننگیال نے افغانستان میں روسی انقلاب کے بعد اپنا ایک پشتو شعری مجموعہ د افغان مجاہدآواز شائع کرایا۔ ایک رباعی میں مزار اقبال پر حضرت علامہ کو یوں خراج تحسین پیش کرتے ہیں: ؎ ˆ* خاوند د ژور فکرولو% خیال دی فلسفی شاعر دانا د ژوند پہ حال دی خود بہ اوسی لاہور لو% سر ہسکہ غا%ہ ˆ* روزلی ی نامتو ادیب اقبال دی (۱۵۰) ترجمہ: گہرے تفکر اور بلند خیالات رکھنے والا ہے یہ فلسفی شاعر رموزِ زندگی کا دانائے راز ہے۔ لاہور یقینا اپنا سر بلند رکھنے کا حقدار ہے جس نے مشہور زمانہ ادیب اقبال کو پروان چڑھایا ہے۔ حمل ثور ۱۳۶۰ھ ش: ماہنامہ ’’شفق‘‘ میں حضرت علامہ کے درج ذیل اشعار شائع ہوئے: ؎ زندگی در صدف خویش گہر ساختن است دردل شعلہ فرورفتن و نگداختن است عشق ازیں گنبددر بستہ بیرون تاختن است شیشہ ماہ زطاق فلک انداختن است (۱۵۱) جوزا سرطان ۱۳۶۰ھ ش: ماہنامہ ’’شفق‘‘ میں حضرت علامہ کی درج ذیل رباعی شائع ہوئی: ؎ ساحل افتادہ ای گفت بسی زیستم آہ نہ معلوم شد ہیچ کہ من چیستم موج زخود رفتہ ای تیز خرامید و گفت ہستم اگرمی روم گر نہ روم نسیتم (۱۵۲) میزان ۱۳۶۰ھ ش: ماہنامہ ’’د شہید زیری‘‘ (نویدِ شہید)میں حضرت علامہ کے ذیل اشعار شائع ہوئے: ؎ بگو شم آمد از خاک مزاری کہ در زیر زمین ہم می توان زیست نفس دارد و لیکن جان ندارد کسی کو برمراد دیگران زیست (۱۵۳) میزان عقرب ۱۳۶۰ھ ش: ماہنامہ’’ سیمائی شہید‘‘حضرت علامہ کی درج ذیل رباعی و اشعار شائع ہوئے: ؎ زندگی در صدف خویش گہری ساختن است دردل شعلہ فرورفتن ونگداختن است عشق ازیں گنبددر بستہ بیرون تاختن است شیشہ ماہ زطاق فلک انداختن است ؎ بگوشم آمد از خاک مزاری کہ در زیرِ زمین ہم میتوان زیست نفس دارد و لیکن جان ندارد ی کو برمزار دیگران زیست (۱۵۴) قوس جدی ۱۳۶۰ھ ش: ماہنامہ ’’شفق‘‘ میں حضرت علامہ کی درج ذیل رباعیات شائع ہوئیں: ؎ مسلمان فاقہ مست و ژندہ پوش است زکارش جبرائیل اندر خروش است بیا نقش دیگر ملت بریزم کہ این ملت جہان رابارِدوش است (۱۵۵) ؎ نواا زسینۂ مرغ چمن برد زخون لالہ آں سوز کہن برد بہ این مکتب، بہ این دانش چہ نازی کہ نان درکف نداد و جان زتن برد (۱۵۶) قوس ۱۳۶۰ھ ش افغان مجاہدین کے جریدہ ’’میثاق خون‘‘ میں ڈاکٹر حق شناس کا مقالہ ’’اقبال اور افغانستان‘‘ شائع ہوا۔(۱۵۷) یہ مقالہ بعد میں ’’سیر اقبال شناسی در افغانستان‘‘ میں بھی شائع ہوا۔(۱۵۸) صفر ربیع الاول ۱۴۰۲ھ ق: حضرت علامہ کی ذیل رباعی ’’ د شہید زیری ‘‘ میں شائع ہوئی: ؎ برون از سینہ کش تکبیرِخودرا بخاک خویش زن اکسیر خودرا خودی راگیر و محکم گیر و خوش زی مدہ دردست کس تقدیر خود را (۱۵۹) ۱۹۸۲ئ: افغانستان کی جمعیت اسلامی کی جانب سے استاد خلیل اللہ خلیلی کا حضرت علامہ اقبال سے متعلق منثور و منظوم اثریارِ آشنا شائع ہوا۔(۱۶۰) دسمبر ۱۹۸۲ئ: افغان اقبال شناس پشتو شاعر حبیب اللہ رفیع کی پشتو نظم د آسیا ز%ہ (قلبِ آسیا) شائع ہوئی۔ جس میں حضرت علامہ کو تحسین پیش کیا گیا۔ (۱۶۱) عقرب ۱۳۶۱ھ ش محرم الحرام ۱۴۰۲ھ ق: مجلہ’’ شہید پیغام‘‘ میں حضرت علامہ کی درج ذیل رباعی شائع ہوئی: ؎ مسلمانے کہ داندرمز دین را نساید پیش غیر اللہ جبین را اگر گردون بہ کام او نگردد بکام خود بگر داندز مین را (۱۶۲) دلو۱۳۶۱ھ ش: مجلہ’’ شہید پیغام‘‘ میں حضرت علامہ کے درج ذیل ابیات بعنوان’’از پیغام مصطفی آگاہ شو‘‘ شائع ہوئے ہیں: ؎ ابکے در یوزہ ی منصب کنی صورت طفلان زنی مرکب زنی فطرتی کو بر فلک بند د نظر پست می گردد زا حسان دگر گرچہ باشی تنگ روز و تنگ بخت دررۂ سیل بلا افگندہ رخت رزق خویش از نعمت دیگر مجو موج آب از چشمۂ خاور مجو ؎ مسلم استی بی نیاز از غیر شو اہلِ عالم را سراپا خیر شو رزق خود را از کف ونان مگیر یوسف استی خویش را ارزان مگیر پشت پازن لخت کیکا وس را سربدہ از کف مدہ ناموس را از پیام مصطفی آگاہ شو فارغ از ارباب غیر اللہ شو عشق را آتش زن اندیشہ کن رو بحق می پاش و شیری بیشہ کن خوف حق عنوان ایمان است وبس خوف غیراز شرک پنہاں است وبس فارغ از اندیشۂ اغیار شو قوت خوابیدہ یٔ بیدار شو (۱۶۳) جنوری ۱۹۸۳ء ربیع الاول ۱۴۰۳ھ ق: ماہنامہ ’’ہجرت‘‘ میں افغان مجاہدین کی ایک تصویر شائع ہوئی ہے۔ جس میں وہ نماز پڑھ رہے ہیں اور اس تصویر کے کیپشن میں حضرت علامہ کا یہ شعر درج کیا گیا ہے۔ ؎ آگیا عین لڑائی میں اگر وقتِ نماز قبلہ رو ہوگئے زمین بوس ہوئی قوم حجاز (۱۶۴) شعبان۱۳۰۳ھ ق: جناب ف م فائض نے افغانستان میں روسی مداخلت کے بعد افغانوں کو اپنی بقا و سالمیت کے لئے اس جنگ میں غافل نہ رہنے کی تلقین کی ہے اور ’’حل سیاسی یا حیلۂ سیاسی‘‘ کے عنوان سے اپنے ایک مقالے میں اپنے موضوع کی دلیل و اثبات میں حضرت علامہ کا حوالہ دیا ہے۔ ’’۔۔۔۔۔ اگر بازغفلت نمائیم آئندہ اش ہلاکت بار از وضعی خواہد بود کہ درآن بسر میبریم و آنگہ دیگر موقع نخواہد بودتاسہل انگار یہای مانی راحیران کنم ہم اکنون فرصتی است کہ بناید آندا از دست دادو بنا پر درراز جہاد و مبازرہ احساس خستگی کینم کہ بقول اقبال ’’ حیات جاوداں اندر ستیز است‘‘ باید دانست کہ درعقب سکوں مرگ است و درعقب ستیز حیات جاوید۔۔۔۔‘‘(۱۶۵) ۱۳۶۲ھ ش: امیر کروڑ سوری کے بارہ سو پچاس ویں سالگرہ (۱۵۴ - ۱۴۰۴ھ ق) کی مناسبت سے پشتو ٹولنہ کابل نے عبدالرئوف بینواؔ کی ایک تحقیقی کتاب آریای فارسی اور پشتو مرثیے شائع کرائی ہے ۔ اس کتاب کے مدون و مرتب حضرت محمدویاڑؔ نے کتاب کے محقق عبدالرئوف بینواؔ کے آثار و تالیفات کا ذکر کیا گیا ہے جو ’’انیس ‘‘اخبار کابل کے ۱۳۲۱ ھ ش کے مختلف شماروں میں پردیس کے نام سے شائع ہوا ہے۔ (۱۶۶) اسد ۱۳۶۳ھ ش: سہ ماہی ’’ سپیدی‘‘ کے شمارہ اول میں بیک ٹائٹل سے پہلے حضرت علامہ کا کلام شائع ہوا ہے: جنگ است ہنوز ؎ لالہ ی این چمن آلودئہ رنگ است ہنوز سپراز دست مینداز کہ جنگ است ہنوز فتنہ ی را کہ دوصدفتنہ بآغوش بود دختری ہست کہ در عہد فرنگ است ہنوز ای کہ آسودہ نشینی لب ساحل برخیز کہ ترا کا ربہ گرداب نہنگ است ہنوز از سرتیشہ گذشتن زخرد مندی نیست ای بسا لعل کہ اندر دل سنگ است ہنوز باش تا پردہ گشایم زمقام دگری چہ دھم شرح نواھا کہ بہ چنگ است ہنوز نقش پرداز جہان چون بہ جنونم نگریست گفت ویرانہ بہ سودائی توتنگ است ہنوز (۱۶۷) عقرب ۱۳۶۳ ھ ش: سہ ماہی’’ سپیدی‘‘ کے سال اول شمارہ چار کے بیک ٹائٹل سے پہلے حضرت علامہ کی فارسی ’’ دعا‘‘ شائع ہوئی ہے : ؎ یارب درون سینہ دل باخبرہ بدہ دربادہ نشہ رانگرم آن نظر بدہ این نبدئہ اکہ بانفس دیگران نہ زیست یک آہ خانہ زاد مثال سحر بدہ سلیم، مرا بجوی تنک مایہ ئی مپیچ جولا نگہے بوادی وکوہ و کمربدہ سازی اگر حریف یم بیکران مرا بااضطراب موج سکون گہر بدہ شاہین من بعید پلنگان گذاشتی ہمت بلند و چنگل ازین تیز تر بدہ رفتم کہ طائران حرم راکن شکار تیری کہ نافگندہ فتدکار گر بدہ خاکم بہ نور نغمہ دائود برفروز ہر ذرئہ مراپروبال شرر بدہ (۱۶۸) فروری ،مارچ ۱۹۸۴ئ: ماہنامہ’’ ہجرت‘‘ میںحضرت علامہ کے درج ذیل اشعار شائع ہوئے: ؎ یہ بندگی خدائی، وہ بندگی گدائی یابندۂ خدا بن یا بندۂ زمانہ غافل نہ ہو خود ی سے کر اپنی پاسبانی شاید کسی حرم کا تو بھی ہو آستانہ ! (۱۶۹) جوزا / ۱۳۶۴ھ ش جون ۱۹۸۵ئ: سہ ماہی ’’سپیدی ‘‘سال اول شمارہ ۱۱ میں ’’انداز‘‘ کے عنوان سے حضرت علامہ کے درج ذیل دو ابیات شائع ہوئے: ؎ زپیری یاد دارم این دوانداز نباید جز بجان خویشتن زیست گریز از تپش آن مرد فرودست کہ جان خود گرو کرد وبہ تن زیست (۱۷۰) سرطان ۱۳۶۴ ھ ش جولائی ۱۹۸۵ئ: افغان جہاد کے دوران مجاہدین کا ایک ماہنامہ جریدہ’’ قلب آسیا‘‘ کے نام سے شائع ہوتا رہا۔ اس جریدے کا شمارہ پنجا و ہشتم میرے سامنے ہے۔ جریدہ کے نام کے بالکل ساتھ ہی حضرت علامہ کے درج ذیل اشعار کندہ ہیں: ؎ آسیا یک پیکر آب و گل است ملت افغان درآن پیکر دل است از فساد اوفساد آسیا در گشاد او گشاد آسیا (۱۷۱) جوزا سرطان ۱۳۶۵ھ ش: مجلہ’’ شفق‘‘ کے مختلف صفحات پر حضرت علامہ کے درج ذیل اشعار و رباعیات شائع ہوئے: ؎ جوہر ما بامقامی بستہ نیست بادہ ی تندش بہ جامی بستہ نیست قلب ما از ہند و روم و شام نیست مرز و بوم او بجز اسلام نیست (۱۷۲) ؎ بیا ساقی نقاب ازرخ برافگن چکیداز چشم من خون دل من بہ آن لحنی کہ نی شرقی نہ غربی است نوای از مقام لاتخف زن (۱۷۳) ؎ تن مرد مسلمان پا یدار است بنای پیکر اواستوار است طبیب نکتہ رس دیداز نگاہش خودی اندر وجودش رعشہ داراست (۱۷۴) ؎ ہنوز اندر جہان آدم غلام است نظا مش خام و کارش ناتمام است غلام فقیر آن گیتی پناہم کہ دردینش ملوکیت حرام است (۱۷۵) ؎ مسلمانی غم دل در خریدن جو سیماب از تپ یاران تپیدن حضور ملت از خود درگذشتن دگر بانگ اناالمللت کشیدن (۱۷۶) ۱۳۶۵ھ ش: زرین انحٔورؔ نے افغانستان کی صحافت کی پیشرو د افغانستان د ژور نالیزم مخکشان دولتی مطبع کابل سے شائع کرائی۔ اس کتاب میں دیگر مشاہیر کے علاوہ عبدالہادی داویؔ کی صحافتی خدمات کا تذکرہ موجود ہے اور ان کے مشہور و معروف اثر آثار اردوی اقبال سے متعلق درج ذیل عبارت درج کی گئی ہے: استاد عبدالہادی داوی د شرق د لویٔ شاعر او مسلمان فیلسوف علامہ داکتر اقبال لہ آثارو سرہ زیاتہ د ز%ہ مینہ لرلہ۔ د ہغہ پہ حٔینو شعری آثارو œ'* دد™* ں¤ * #ژ( ‹¢ ¦ او اغیزی را#ژ( ‹¤&ی پہ د* ‍% œ'* ہغہ غو'„‍ ˆ* د علامہ داکتر اقبال لاہوری آثار لہ اردو #ٹ¦ پہ فارسی راوژبا%ی دد* ’‍’‍* دوہ !¢کہ یی پہ ۵۵س۱ھ ش کال œ'* د اطلاعاتو او کلتوژ د وزارت د بیہقی د کتاب چاپولو د مو’’¦ لہ خوا چاپ شوی دی۔ نور !¢کونہ نہ دی خپارہ شوی ۔ (۱۷۷) ترجمہ: استاد عبدالہادی داویؔ کا مشرق کے عظیم مسلمان فلسفی شاعر علامہ ڈاکٹر اقبال کے آثار کے ساتھ گہرا تعلق تھا۔ ان کے بعض آثار میں اقبال سے اسی تعلق کا پر تو جلوہ گر ہے اس سلسلے میں وہ چاہتے تھے کہ علامہ اقبال لاہوری کے اردو آثار کے فارسی میں تراجم کریں۔ اسی سلسلے کی دو جلدیں ۱۳۵۵ ھ ش میں اطلاعات کلتور وزارت کے بیہقی نشراتی ادارہ کی جانب سے شائع ہوئیں۔ جبکہ باقی جلدیں تشنۂ اشاعت ہیں۔‘‘ ۱۳۶۵ھ ش: مجلہ’’ شفق ‘‘سال دوم شمارہ اول و دوم میں حضرت علامہ کی درج ذیل رباعیات و اشعار شائع ہوئے ہیں: ؎ مسلمان گرچہ بی خیل وسپاہی است ضمیر او ضمیر پاد شاہی است اگر اورا مقامش باز بخشند جمال او جلال بی پناہی است ؎ مومنان راتیغ با قرآن بس است تربت مارا ہمین سامان بس است گرتو می خواہی مسلمان زیستن نیست ممکن جزبہ قرآن زیستن ؎ خلافت برمقام ماگواہی است حرام است آنچہ برما بادشاہی است ملوکیت ہمہ مکر است و نیرنگ خلافت حفظ ناموس الٰہی است (۱۷۸) ۱۳۶۵ھ ش: وزارت اقوام و قبائل افغانستان کے ریاست فرھنگ و نشریات نے پشتو زبان میں سرفراز خان خٹک کا خوشحال نامہ شائع کیا۔ اس کتاب کی تدوین و تحقیق اور تعلیقات جناب زلمی ھیواء مل نے کی ہے۔ اس میں تقریباً ساڑھے چار صفحات پر مشتمل ایک عنوان ’’خوشحال اور اقبال‘‘ ہے۔ اس کے مطابق خوشحال کی اصطلاح ’’ننگیالی‘‘ کے تحت انسان کامل کا جو تصور اقبال نے پیش کیا ہے اس نظریے کو المانی حکیم نطشہ (۱۸۴۴ئ-۱۹۰۰ئ) نے فوق البشر اور خود ارادیت کا نظریہ وضع کیا اس کے بعد ہندی حکیم اقبال نے مرد مومن اور نظریہ خودی کے اختراعات کیے ہیں۔ اس نظریے کے بانی خوشحال خاں خٹک ہے اور اقبال ہی نے خوشحال خاں خٹک کے باز سے شاہین کا تصور اخذ کیا ہے۔(۱۷۹) حمل ثور ۱۳۶۶ھ ش اپریل مئی ۱۹۸۷ئ: مجلہ’’ قلم‘‘ میں حبیب اللہ رفیع نے مشہور و معروف افغان اقبال شناس استاد خلیل اللہ خلیلی کی وفات کے مناسبت سے ایک طویل مقالہ تحریر کیا ہے۔ اس مقالہ میں استاد خلیل اللہ خلیلی آثار و تراجم کے تعارف کے سلسلے میں دیار آشنا (علامہ اقبال بہ افغانستان) کا ذکر کیا ہے۔ (۱۸۰) اس طرح ملت کی بیداری میں استا خلیلی کو اقبال کی راہ کا راہی بتایا گیا ہے۔ (۱۸۱) جوزا سرطان ۱۳۶۶ھ ش شوال ۱۴۰۷ ھ ق: مجلہ میثاق خوں میں نایل لاجور بنشہری کا مقالہ امروز برای فردا شائع ہوا ہے اس میں مستقبل کے حوالے سے اقبال اور خواجہ حافظ شیرازی کے افکار سے متعلق بحث کی گی ہے۔(۱۸۲) یہ مقالہ بعد میں ’’سیر اقبال شناسی در افغانستان‘‘ میں بھی شائع ہوا۔(۱۸۳) عقرب ۱۳۶۶ھ ش اکتوبر نومبر ۱۹۸۷ئ: مجلہ’’ قلم‘‘ میں افغانستان کے معروف اقبال شناس داکتر سید خلیل اللہ ہاشمیان نے یومِ اقبال کی مناسبت سے ’’بزرگداشت اقبال بزرگ‘‘ کے عنوان سے علامہ کے فکر و فن پر ایک نہایت پرمغز اور طویل مقالہ شائع کرایا ہے۔ (۱۸۴) یہ مقالہ بعد میں ’’سیر اقبال شناسی در افغانستان‘‘ میں بھی شائع ہوا۔(۱۸۵) ۱۳۶۶ھ ش: کابل میں حضرت علامہ کے کلام کا منظوم پشتو مترجم بابائے پشتو غزل امیر حمزہ شنواری کا اسی سالہ جشن ولادت منایا گیا۔ اسی مناسبت سے کابل میں ایک علمی سمینار منعقد ہوا۔ جس میں مختلف مقالات پیش کیے گئے۔ فارسی میں کاندید اکارمسین میر حسین شاہ نے ’’محمد اقبال اور حمزہ‘‘ کے عنوان سے مقالہ پیش کیا۔ یہ مقالہ بعد میں اس سمینار کے مشمولات پر مشتمل مجموعہ ’’حمزہ یاد‘‘ میں شائع ہوا۔(۱۸۶) ۱۸ عقرب ۱۳۶۶ھ ش: افغان’’ اخبار شہادت‘‘ کے صفحہ چار پر حضرت علامہ کی ایک بڑی تصویر ذیل نوٹ اور ان کے ذیل کلام کے ساتھ شائع ہوئی ہے: بہ مناسبت تجلیل از روز تولد علامہ اقبال شاعر و فیلسوف نامدار جہان اسلام امروز درست در برابر روز تولدی علامہ اقبال فیلسوف و شاعر نامدار جہان اسلام و شبہ جزیرۂ ہند قرار داریم۔ بزرگداشت از تولد علامہ اقبال ای بخش ماموریت مان را تشکیل می دھد کہ در دشوار ترین ،لحظات مبارزہ و تلاش انقلابی ملت خود بہ آن توجہ باید کرد ادبیات معاصر اسلامی و روند کنون فلسفۂ اسلام نسبت بہ ہر زمان دلگیر نیاز دارد تا شعر و اندیشہ ہای این بزرگ مرد دنیای اسلام رابا سرودہ ہای انقلابی و اندیشہ ہای توحیدی راہبان این نسل و نسل ہای دلگیری پیوندن دھیم۔ اینک بخاطر یاد بود علامہ اقبال یکی از اشعارہ ی را انتخاب نمودہ یم کہ خدمت خوانندگان عزیز تقدیم می گردد۔ ؎ نغمہ ام از زخمہ بی پروا ستم من نوای شاعر فرد استم عصر من دانندئہ بی اسرارنیست یو سف من بھر این بازارنیست نا امید ستم زیاران قدیم طور من سوز د کہ مے آید کلیم قلزم یاران چوشبنم بی خروش شبنم من مثل یم طوفان بدوش نغمہ ی من ازجھان دیگر است این جرس راکاروان دیگر است ای بسا شاعر کہ بعد از مرگ زاد چشم خو بربست و چشم ما گشاد رخت باز ازنیستی بیرون کشید چوں گل از خاک مزار خوددمید کا روان ہا گرچہ زین صحرا گذشت مثل گام ناقہ کم غوغا گذشت عاشقم فریاد ایمان من است شور حشر از پیش خیزان من است نغمہ ام نغمہ ام زاندازئہ تار است بیش من نتر سم از شکست عود خویش قطرۂ از سیلاب من بیگانہ بہ قلزم از آشوب او دیوانہ بہ در نمے گنجد بجو عمان من بحر ھا باپے طوفان من غنچہ کز بالید گی گلشن نشد درخور ابر بھار من نشد برقھا خوابیدہ در جہان من است کوہ و صحرا بابِ جولان من است پنجہ کن بابحرم از صحراستی برق من درگیر اگر سیناستی چشمۂ حیوان براتم کردہ اند محرم راز حیاتم کردہ اند زرہ از سوز نوایم زندہ گشت پر گشودو کرمک تابندہ گشت ھہیچکس رازی کہ من گویم نگفت ہمچو فکرمن درمعنیٰ نسفت سرعیش جاودان خواہی بیا ہم زمین ہم آسمان خواہی بیا پیر گردون بامن این اسرار گفت از ندیمان راز ھا نتوان نہفت (۱۸۷) ۱۳۶۶ھ ش: ن لاجور پنشھری نے امروز براہ فرداکے عنوان سے ایک کتابچہ لکھا جو جمعیت اسلامی افغانستان کی جانب سے شائع ہوا۔ اس کتابچہ میں خواجہ حافظ شیرازی اور اقبال لاہوری کے افکار کی روشنی میں مستقبل کے حوالے سے بحث کی گئی ہے۔ (۱۸۸) حمل تا سنبلہ ۱۳۶۷ھ ش اپریل، جولائی ۱۹۸۸ئ: مجلہ’’ قلم‘‘ کے بیک ٹائٹل کے پشت پر ’’فالِ قلم ‘‘ کے طور پر حضرت علامہ کا کلام شائع ہوا ہے۔ جنگ است ہنوز ؎ لالۂ این چمن آلودۂ رنگ است ہنوز سپر از دست مینداز کہ جنگ است ہنوز ای کہ آسودہ نشینی لب ساحل بر خیز کہ ترا کاربہ گرداب و نھنگ است ہنوز از سرتیشہ گذشتن زخرد مندی نیست ای بسا لعل کہ اندر دل سنگ است ہنوز باش تا پر دہ گشایم زمقام دگری چہ دھم شرح نواھا کہ بچنگ است ہنوز نقش پرداز جہان چون بجنونم نگرسیت گفت ویرانہ بہ سودائی تو تنگ است ہنوز (۱۸۹) دلو حوت ۱۳۶۷ھ ش فروری، مارچ ۱۹۸۹ئ: مجلہ ’’قلم ‘‘کے اس شمارے میں بھی قلم کا فال حضرت علامہ کا کلام ہے: ؎ زخاک خویش طلب آتشی کہ پیدانیست تجلی دگری در خور تقاضا نیست نظر بخویش چنان بستہ ام کہ جلوۂ دوست جہان گرفت ومرا فرصت تماشا نیست بملک جم ندھم مصرع نظیری را کسی کہ کشتہ نشداز قبیلۂ مانیست زقید وصید نہنگان حکایتی آور مگو کہ زورق ما روشناس دریانیست مرید ہمت آن رہر وم کہ یانگذاشت بہ جاوہ ئی کہ درو کوہ و دشت صحرا نیست (۱۹۰) ۱۳۶۷ھ ش: کابل میں عالمی ادارہ تحقیقات پشتو کے قیام کی دسویں سالگرہ کی مناسبت سے پشتو تحقیقات کے حوالے سے سیمنار ہوا تھا۔ƒ'„¢ #¤% *کے عنوان سے اس سیمنار کے مقالات کے مجموعے کی پہلی جلد شائع ہوئی۔ مرتب محقق شہزادہ زیارن و مطبوعہ افغانستان کا اکادمی علوم ہے۔اس میں ایک مقالہ محقق عبدالجبار نادر کا ’’پشتانہ د بھر نیو لہ نظر‘‘ (پشتون بیرون زعماء کی نظر میں) شامل ہے۔ اس مقالے میں موصوف نے حضرت علامہ کی مثنوی مسافر سے چند اشعار کا حوالہ لیا ہے جو انہوں نے پشتونوں کے دشت و کوہسار کو سراہتے ہوئے کہتے ہیں: ؎ خیبر از مردان حق بیگانہ نیست دردل او صد ہزار افسانھا ایست سرزمینی کبک و شاہین مزاج آہوی او گیرداز شیران خراج درفضا ئش جرہ بازان تیز جنگ لرزہ برتن از نہیب شان پلنگ (۱۹۱) جوزا سرطان ۱۳۶۸ھ ش جون جولائی ۱۹۸۹ئ: مجلہ’’ قلم‘‘ میں عبدالرئوف نوشہرویؔ کا مقالہ’’ اتحاد بین المسلمین وقت کی اہم ضرورت‘‘کے عنوان سے شائع ہوا۔ جو حضرت علامہ کے اشعار و افکار کی بنیاد پر ترتیب دیاگیاہے۔ (۱۲۱) اسد سنبلہ ۱۳۶۸ھ ش اگست ستمبر ۱۹۸۹ئ: افغان مجلہ’’ قلم‘‘ میں افغان جہاد کے حوالے سے راقم الحروف (عبدالرئوف رفیقی ) کا مکتوب شائع ہوا ہے۔ جس میں حضرت علامہ کے افکار کی روشنی میں افغان جہاد کو تحسین پیش کیا گیا ہے۔ اور حضرت علامہ کا درج ذیل شعر نقل کیا ہے: ؎ لاہور و دہلی جن کے دم سے ہم پہلو ہوئے اے اقبال وہ بلبل بھی آج خاموش ہیں (۱۹۳) ۲۸ حوت ۱۳۶۸ھ ش: افغانستان کے ایک ریٹائرڈ فوجی آفیسر ارکانحرب ڈگروال متقاعد عبدالحنان مینہ پال نے تپش قلب آسیا افغانستان در آزمون بزرگ کے نام سے ایک کتاب تحریر کی۔ جو بعد میں دانش کتاب خانہ قصہ خوانی پشاور کی جانب سے ۱۳۷۷ھ ش میں طبع ہوئی۔ کتاب کے آغاز میں مؤلف کی ایک خوبصورت تصویر اور اس کے بعد مکمل صفحے پر حضرت علامہ کے درج ذیل اشعار طبع ہوئے ہیں: ؎ آسیا یک پیکر آب و گل است ملت افغان در آن پیکر دل است از فساد او فساد آسیا در گشاد او گشاد آسیا تادل آزاد است آزاد است تن ورنہ کاہی دررہ باداست تن ہمچوتن پاپند آئین است دل مردہ از کین زنداز دین است دل قوت دین از مقام وحدت است وحدت از مشہود گرددملت است (۱۹۴) ۱۳۶۸ھ ش نومبر۱۹۸۹ئ: افغان اقبال شناس عبدالباری شہرت ننگیال ؔ نے افغان جہاد سے متعلق اردو اشعار و منظومات یکجا کرکے خون کی پکار کے عنوان سے شائع کرائی ہے۔ اس کتاب کے بیک ٹائٹل پر بائیں جانب حضرت علامہ کی تصویر اوپر شاہین اور دائیں جانب درج ذیل اشعار شائع ہوئے ہیں: ؎ آسیا یک پیکر آب و گل است ملت افغان در آن پیکر دل است از فساد او فساد آسیا در گشاد او گشاد آسیا تادل آزاد است آزاد است تن ورنہ کاہی دررہ باداست تن (۱۹۵) عقرب قوس ۱۳۶۹ھ ش: مجلہ’’ قلم‘‘ میں قاضی محمد صدیق صادقؔ نے مرحوم گل باچا الفتؔ اور ان کے نظریات کے حوالے سے ایک مقالہ تحریر کیا ہے۔ اس مقالے میں الفتؔ کی تالیفات کے حوالے سے ذکر کرتے ہوئے الفتؔ کے نظریات کو اقبال کے نظریات سے معادل گردانا ہے۔ ترجمہ: ’’ایک بلند نظر شخصیت کے مالک جن کے بلند خیالات اور گہرے افکار نے زندگی کے نشیب و فراز کا احاطہ کیا ہے ان کے ہر جملہ، ہر حرف، ہر کلمہ یا ہر شعر پر کتابیں رقم کی جاسکتی ہیں ایسی شخصیت کا تذکرہ ایک مقالے یا مجلے میں کرنا ان کے حیات و طرز تفکر پر لکھنا یقینا قابلِ جرأت اقدام ہے۔ کیونکہ اگر ان کے اشعار کا علامہ اقبال کے فارسی اشعار سے موازنہ کیا جائے تو بالکل ان کے ساتھ معادل کلیات کی ترتیب اور لطافت زماں و مکان کی مطابقت میںکبھی بھی ان کے افکار سے کم نہ ہونگے۔ یہاں مرحوم علامہ اقبال او رمرحوم الفتؔ صاحب کا ایک ایک شعر نقل کیا جاتا ہے۔ علامہ اقبال فرماتے ہیں: ؎ عمرہا درکعبہ و بتخانہ می نالہ حیات تا زبزم عشق یک دانائی راز آید بیرون اور یہی مقصد مرحوم الفتؔ نے نابغہ مشرق سید جمال الدین افغانیؔ سے متعلق مدح میں یوں ادا فرمایا ہے: ؎ د قدرت د کار خانو نہ کلہ کلہ پہ جہان پیدا یو بل ر (¦ بشر شی ترجمہ: قدرت کے کارخانے سے کبھی کبھی اسرارِ جہان میں ایک منفرد قسم کا بشر پیدا ہوجاتا ہے۔(۱۹۶) ۱۳۶۹ھ ش: حبیب اللہ رفیع نے افغان جہاد کے دوران شائع شدہ ادبی کتب کا تعارف ’’د وژمو بھیر‘‘ (کاروانِ مہک) شائع کیا جس میں ۱۶۸ کتب متعارف کے گئے ہیں ان میں درج ذیل دو کتابیں حضر ت علامہ سے متعلق ہیں: ۱۔ امروز زدای برای فردا از لاجور پنشہری یہ کتاب افغانستان کی جماعتِ اسلامی کی جانب سے ۱۳۶۶ھ ش کو شائع ہوئی۔ اس میں مستقبل کے بارے میں فلسفیانہ اور ادبی بحث موجود ہے۔ مستقبل کے بارے میںخواجہ حافظ شیرازی اور اقبال لاہوری کے افکار و نظریات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ ایک مترقی و کامیاب مستقبل کے لئے جہدِ مسلسل کو شرط قرار دیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ مستقبل سے خوش بینی منسوب کی گئی ہے۔ (۱۹۷) ۲۔ یارآشنا از استاد خلیل اللہ خلیلی جمعیت اسلامی افغانستان علمی و مشاورتی انجمن کی جانب سے استاد خلیل اللہ خلیلی کا منظوم و منثور اثر ۱۹۸۲ء میں شائع ہوا۔ یہ کتاب اسی صفحات پر مشتمل ہے اور اس میں حضرت علامہ کی یاداور ان کے فن و شخصیت سے متعلق نکات بیان کئے گئے ہیں۔ (۱۹۸) ۱۳۶۹ھ ش: مجلہ’’ قلم‘‘ میں زلمی ھیواد ملؔ نے حضرت علامہ کے مقالے (Khushal Khan Khattak the Afghan Warrior Poet ) مطبوعہ (Islamic Culture ) حیدرآباد دکن جولائی ۱۹۲۸ء کے حوالے سے تحقیقی مقالہ ’’ د علامہ اقبال لاہوری مقالہ افغان ‡ (¤پلی شاعر ‘ ‘ شائع ہوا۔ (۱۹۹) ۱۳۶۹ھ ش: مشہور افغان محقق زلمی ھیواد ملؔ نے سر محقق Great Researcher کے عہدے کے لئے اپنا تحقیقی مقالہ ’’ پہ ہند œ'* د ƒ'„¢ ژ‚* او ادبیاتو دودی او ایجادƒ%اؤنہ‘‘ (ہندوستان میں پشتو زبان و ادب کے ارتقائی مراحل) تحریر کیا۔ اس مقالے میں حضرت علامہ کو ہندوستان میں خوشحال شناسی کا سب سے پہلا سکالر قرار دیا ہے۔ خوشحال سے متعلق علامہ کے ذیل اشعار بھی شاملِ مقالہ کئے ہیں۔ ؎ خوش سرود آن شاعر افغان شناس آنکہ بیند باز گوید بے ہراس آن حکیم ملت افغانیان آن طبیب علتِ افغانیان راز قومی دید و بیباکانہ گفت حرف حق باشوخی رندانہ گفت ’’اشتری با ید اگر افغان حر با یراق و ساز و بار انبار در ہمت دونش از آن انبار در می شود خوشنو د بازنگ شتر‘‘ منقولہ بالا اشعار کے آخری دو اشعار کو خوشحال خان خٹک کے ذیل پشتو اشعار کا ترجمہ قرار دیا گیا ہے: ؎ اوس لہ بارہ پہ خپل کور کی ورغلی پہ ولجہ د اوس د غا%* د جرس دی خوشحال خان خٹک سے متعلق حضرت علامہ کے انگریزی مقالے (Khushal Khan Khattak the Afghan Warrior Poet )مطبوعہ اسلامک کلچر حیدر آباد دکن جولائی ۱۹۲۸ء کے مشمولات کا نہایت تفصیلی و تحقیقی انداز سے جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ اقبال کے شاہین کے تصور کا منبع فکر ِ خوشحال کو قرار دیا گیا ہے۔ اس مقالے کے پشتو تراجم پر بھی بحث کی گئی ہے۔(۲۰۰) اسد سنبلہ ۱۳۷۰ھ ش: افغان جریدہ’’ منبع الجہاد‘‘ میں جناب محمد عالم ایزدیارؔ نے فارسی میں’’ بخشی ازیک بخش پربار تاریخ ہندوستان برنقشِ مسلمانا ن درتحولات تاریخی و سیاسی ہند‘‘ کے عنوان سے ہندوستان کی تاریخی و سیاسی تبدیلیوں میں مسلمانوں کے کردار کے حوالے سے بحث کی ہے۔ اس مقالے میں تشکیل جشنِ آزادی ہند کے ضمنی عنوان میں لکھتے ہیں: ’’ابتداء رہبران مسلمانان و ہندو ھا متحداً حزب کانگریس رابرای رہبر ی جنبش آزادی ہند تشکیل داند شخصیت ہایٔ مسلمان کہ رہبری جنبش ہند رابہ عہدہ داشتہ عبارت بودند از محمد علی جناح ، شوکت علی، سرسید احمد خان ، نواب محسن ، سلطان محمد، عبدالغفار خان ، علامہ اقبال لاہوریؔ وغیرہ اما بعد از یکیہ گاندھی در راس حزب کانگریس قرار گرفت بنا بر سیاست ہایٔ طلباء و انصاری ایکہ داشت مسلمانان حزب کانگریس راترک و دست بہ تاسیس حزب جدید بنام مسلم لیگ زدند۔‘‘ ترجمہ: شروع میں مسلمان لیڈروں نے ہندو رہنمائوں کے ساتھ مل کر آزادی ہند کے لئے مشترکہ سیاسی جماعت کانگریس بنائی جس میں مشہور مسلمان لیڈروں میں محمد علی جناح، شوکت علی، سرسید احمد خان، نواب محسن، سلطان محمد، عبدالغفار خان ، علامہ اقبال لاہوری وغیرہ شامل تھے۔ جنہوں نے ہندوستان کی آزادی کے لئے جدو جہد کی ۔ لیکن بعد میں گاندھی جی کے رویے اور سیاست میں جانبداری کے باعث مسلمانوں نے کانگریس کو خیر آباد کہہ کر اپنی ایک جدا سیاسی پارٹی مسلم لیگ کی بنیاد ڈالی ۔‘‘ (۲۰۱) میزان ۱۳۷۰ھ ش ربیع الاول ،ربیع الثانی ۱۴۱۲ھ ق: ٍ افغان جریدہ’’ منبع الجہاد‘‘ میں حضرت علامہ کی درج ذیل رباعی شائع ہوئی : ؎ مسلمانے کہ داند رمز دین را نسا ید پیش غیراللہ جبین را اگر گردوں بہ کام اونگر دد بہ کام خود بگرداندازمین را (۲۰۲) ۱۰ میزان ۱۳۷۰ھ ش ۲ / اکتوبر ۱۹۹۱ئ: جریدہ ’’د جہاد ہندارہ‘ ‘ میں حضرت علامہ کے درج ذیل اشعار شائع ہوئے: ؎ میارابزم برساحل کا نجا نوائی زندگانے نرم خیز است بہ دریا غلط و باموجش درآویز کہ حیات جاودان اندر ستیزاست ؎ ہر کہ عشق مصطفی سامان اوست بحر و بر درگوشۂ دامان اوست سوز صدیق ؓ و علیؓ از حق طلب ذرہ عشق نبیﷺ از حق طلب (۲۰۳) یکم عقرب ۱۳۷۰ھ ش ۲۳/ اکتوبر ۱۹۹۱ئ: جریدہ ’’د جہاد ہندارہ‘‘ میں حضرت علامہ کی درج ذیل رباعی شائع ہوئی: ؎ قبای زندگانی چاک تاکی چو موران آشیان درخاک تاکی بہ پرواز آو شاہینی بیا موز تلاشی داند درخاشاک تاکی (۲۰۴) عقرب قوس ۱۳۷۰ھ ش: منبع الجہاد کے اگلے شمارے میں بھی حضرت علامہ کی مندرجہ بالا رباعی شائع ہوئی۔ (۲۰۵) دلو حوت ۱۳۷۰ھ ش فروری مارچ ۱۹۹۲ئ: مجلہ قلم میں افکارِ اقبال کی روشنی میں احمد جان امینیؔ کا فارسی زبان میں نہایت علمی و ادبی مقالہ’’ افغانستان در آئینہ قرآن ‘‘شائع ہوا۔(۲۰۶) یہ مقالہ بعد میں ’’سیر اقبال شناسی در افغانستان‘‘ میں بھی شائع ہوا ہے۔(۲۰۷) ۲۸ قوس ۱۳۷۱ھ ش ٌ ۱۹دسمبر ۱۹۹۲ء پشتون افغان اقبال شناس شاعر سر محقق عبداللہ بختانی خدمتگار نے خیر خانہ کابل میں دنیا کی بے ثباتی پر ایک طویل پشتو نظم ’’د غم زخم‘‘ تحریر کی۔ اس نظم میں مشاہیر پشتو و فارسی شعراء کے مرثیے بھی کہے گئے ہیں۔ جبکہ علامہ کے درج ذیل اشعار کے حوالے بھی دیئے گئے ہیں۔ ؎ سحر می گفت بلبل باغبان را درین گل جز نھال غم نہ گیرد بہ پیری می رسد خار بیابان ولی گل چون جوان گرد د بمیرد (۲۰۸) جولائی اگست ۱۹۹۴ئ: افغان اہل قلم تنظیم (The Writers Union of Free Afghanistan - WUFA )کی جانب سے (The WUFA ) کے نام سے انگریزی میں اس کادوماہی جرنل شائع ہوا۔ اس کے سال اول شمارہ اول جولائی اگست ۱۹۹۴ء کے بیک ٹائٹل پر حضرت علامہ کے درج ذیل اشعار انگریزی ترجمے کے ساتھ شائع ہوئے: ؎ آسیا یک پیکر آب و گل است ملت افغان درآن پیکر دل است از فساد اوفساد آسیا در گشاد او گشاد اسیا Asia is comparable to a living body. The heart that beat inside the body is the nation of Afghanistans. The destruction of Afghans would be destruction of Asia and in thier progress and propentylies well being of Asia. (۲۰۹) ۱۳۷۲ھ ش: جریدہ ’’مجاہد‘‘ میں آقای حیدری وجودی کا مقالہ ’’اسرار خودی و رموز بیخودی از اید گا اقبال‘‘ شائع ہوا۔(۲۱۰) یہ مقالہ بعد میں ’’علامہ اقبال در ادب فارسی و فرھنگ افغانستان‘‘ میں بھی شائع ہوا۔(۲۱۱) ۱۳۷۳ ھ ش ۱۹۹۴ئ: زلمی ھیواد ملؔ کی پشتو تحقیقی کتاب ’’پہ ہند œ'* د ƒ'„¢ ژ‚* او ادبیاتو دودی او ایجادƒ%اؤنہ‘‘ (ہندوستان میں پشتو زبان و ادب کے ارتقائی مراحل) شائع ہوئی۔ خوشحال خان خٹک سے متعلق حضرت علامہ کے نظریات اور خوشحال سے متعلق ان کے مقالے پر بحث کی گئی ہے۔(۲۱۲) سرطان ۱۳۷۵ھ ش جولائی ۱۹۹۶ئ: مجلہ’’ افغانستان‘‘ میں سید سلیمان ندویؔ کے سیرِ افغانستان کے پشتو ترجمے کی ایک قسط از شہرت ننگیال ؔ شائع ہوئی۔ جو سفرِ افغانستان میں حضرت علامہ کے ہمرکاب تھے۔(۲۱۳) ۱۱ جدی ۱۳۷۵ھ ش: حضرت علامہ کے مثنوی ’’مسافر ‘‘کے جواب میں افغان اقبال شناس ڈاکٹر محمد رحیم الہامؔ نے جواب مسافر شائع کرائی۔ (۲۱۴) جو جناب الہامؔ کے سوانح کے ساتھ شاملِ مقالہ ہے۔ ۱۱جدی ۱۳۷۵ھ ش: حضر ت علامہ سے لاہور میں ملاقات کی یادوں کے سلسلے میں حضرت علامہ کے کابل میں میزبان انجمن ادبی کے ممبر سید قاسم رشتیاؔ کا مقالہ’’ ساعتی در خدمت علامہ اقبال ‘‘شائع ہوا۔ (۲۱۵) یہ مقالہ بعد میں ’’سیر اقبال شناسی در افغانستان‘‘ میں بھی شائع ہوا۔(۲۱۶) ۲۰نومبر ۱۹۹۶ء پشتون اقبال شناس شاعر عبداللہ بختانی خدمتگار نے ننگرہار بختان میں پشتو شاعر غلام رحمن جرار کا پشتو مرثیہ تحریر کیا جس میں علامہ کے حوالے کے ساتھ درج ذیل اشعار کا منظوم پشتو ترجمہ کیا۔ ؎ چو رخت خویش بربستم از ین خاک ھمہ گفتند با ما آشنا بود و لیکن کس ندانست این مسافر چہ گفت و باکہ گفت و از کجا بود منظوم پشتو ترجمہ: ؎ لہ د* ں¤ * ˆ* ي و„%لہ œ%§ !¢لو و* زمو & کگ¤گاو (ژان آشنا و خو#¢ک پوھ نہ شو ˆ* دغہ مسافرٍ #¦ وئیل چاتي وئیل د کوں* خواو (۲۱۷) ۱۰ جدی ۱۳۷۶ھ ش: معروف افغان اقبال شناس سر محقق عبداللہ بختانیؔخدمتگار کا فاسی زبان میں آسیا گذرگاہ و نظر گاہ علامہ اقبال شائع ہوئی۔(۲۱۸) یہ مقالہ بعد میں ’’سیر اقبال شناسی در افغانستان‘‘ میں بھی شائع ہوا۔(۲۱۹) ۱۳۷۶ھ ش: م۔ لمر احسان کی تالیف ’’افغانستان از زبان علامہ اقبال‘‘ مرکز نشرات اسلامی صبور پشاور کے زیر اہتمام شائع ہوئی۔(۲۲۰) ۱۳۷۶ھ ش: پوھہیالی اسماعیل یونؔ نے کابل یونیورسٹی کے شعبہ زبان و ادبیات کے گولڈن جوبلی ۱۳۲۳ھ ش ۱۳۷۳ھ ش) کی مناسبت سے اس ادارے کے مطبوعہ آثار اساتذہ ، فارغ التحصیل افراد، اور یہاں کے لکھے گئے مختلف تحقیقی مقالوں (ایم اے لیول) کا تذکرہ ’’ƒ'„¢ کتاب '¢د ‘‘شائع کیا۔ اس کتاب میں عبدالرئوف بینواؔ کے تعارف کے دوران ان کے آثار و مطبوعات کے سلسلے میں حضرت علامہ کی مثنوی مسافر کا تذکرہ کیا ہے۔ جس کا منظوم پشتو ترجمہ جناب بینواؔ نے ’’پردیس‘‘ کے نام سے کیا تھا اور کابل کے اخبار انیس کے ۱۳۲۱ھ ش کے مختلف شماروں میں قسطوں میں شائع ہوتا رہا۔(۲۲۱) یکم سرطان ۱۳۷۷ھ ش ۲۷ صفر ۱۴۱۹ھ ق ۲۲جون ۱۹۹۸ئ: جریدہ’’ ادب و معرفت‘‘ میں پشتو میں رحمان بابا ،خوشحال خان خٹک، حمید بابا اور احمد شاہ بابا کے اشعار شائع ہوئے ہیں جبکہ فارسی میں سعدیؔ شیرازی، حکیم سنائی ،غزنوی اور حضرت علامہ اقبال کا درج ذیل شعر شائع ہوا ہے۔ ؎ حفظِ قرآن عظیم آئین تست حرفِ حق رافاش گفتن دین تست (۲۲۲) (علامہ اقبال) یکم اسد ۱۳۷۷ھ ش ۲۹ ربیع الاول ۱۴۱۹ھ ق ۲۳ جولائی ۱۹۹۸ئ: افغان اقبال شناس احمد صمیمؔ قندھاری کے زیرِ ادارت چلنے والے جریدے ’’ادب و معرفت‘‘ میں پشتو و فارسی مشاہیر اساتذہ شعراء کے چیدہ چیدہ ابیات شائع ہوئے ہیں۔ پشتو میں رحما ن بابا، خوشحال خان خٹک، کاظم خان شیداؔ، مرزا خان انصاری، شمس الدین کاکڑؔ جبکہ فارسی میں حکیم سنائی غزنوی، نظامی عروضی گنجوی ،مرزا عبدالقادر بیدلؔ، مولانا روم اور دانائے راز اقبال لاہوری کے ابیات شامل ہیں ۔ حضرت علامہ کا درج ذیل شعر ہے: ؎ ہر کہ عشق مصطفی سامان اوست بحر و بر درگوشۂ دامان است (۲۲۳) یکم سنبلہ ۱۳۷۷ ھ ش جما د الاول ۱۴۱۹ھ ق ۲۳/ اگست ۱۹۹۸ئ: جریدہ ادب و معرفت: فارسی شعراء کے چیدہ چیدہ ابیات شائع ہوئے۔ سنائی ،غزنوی، شاہ شرف قلندرؔ، نظامی عروضی، دانائے راز علامہ اقبال ، مولانا بلخی، سعدی شیرازی۔ حضرت علامہ کا درج ذیل بیت ہے: ؎ جنگ مومن چیست ہجرت سویٔ دوست ترکِ عالم اختیار کوی دوست (۲۲۴) یکم میزان ۱۳۷۷ھ ش ۲ جمادی الاول ۱۴۱۹ھ ق ۲۳ ستمبر ۱۹۹۸ئ: جریدہ ’’ادب و معرفت‘‘ کے پہلے ہی صفحے پر حکیم غزنوی ،نظامی گنجوی ،سعدی شیرازی اور دانائے راز علامہ مشرق اقبال کے ابیات شائع ہوئے ہیں: ؎ جنگ شاہان جنگ غارت گری است جنگِ مومن سنتِ پیغمبری است (۲۲۵) عقرب ۱۳۷۷ھ ز: جریدہ ’’ادب و معرفت ‘‘میں حضرت علامہ کا درج ذیل شعر شائع ہوا ہے: ؎ نوجوانی راچوبینم بی ادب روزِمن تاریک مگیر دد چوشب (۲۲۶) ۱۳۷۷ھ ش: افغانستان کے فوجی آفیسر ارکانحرب ڈگروال متقاعد عبدالحنان مینہ پال کی کتاب ’’ تپش قلب آسیا افغانستان در آزمون بزرگ کاریخ‘‘ پشاور کے دانش کتابخانہ کی جانب سے شائع ہوئی۔ ٹائٹل کے بعد مؤلف کی ایک خوبصورت تصویر اور اس کے ایک مکمل صفحے پر اقبال کے درج ذیل کے اشعار شائع ہوئے: ؎ آسیا یک پیکر آب و گل است ملت افغان در آن پیکر دل است از فساد او فساد آسیا در گشاد او گشاد آسیا تادل آزاد است آزاد است تن ورنہ کاہی دررہ باداست تن ہمچوتن پاپند آئین است دل مردہ از کین زندہ از دین است دل قوت دین از مقام وحدت است وحدت ار مشہور دگردد ملت است (۲۲۷) ۱۳۷۸ھ ش: افغان اقبال شناس سید اسماعیل اکبر کا مقالہ ’’سھم افغانستان در اقبال شناسی‘‘ مجلہ دانش میں شائع ہوا۔(۲۲۸) ۱۳۷۸ھ ش: افغانستان کے مشہور و معروف اقبال شناس افغان شاعر استاد خلیل اللہ خلیلی کی کلیات شائع ہوئی ان میں حضرت علامہ کو فارسی میںمختلف چھ منظومات کے تحت منظوم خراجِ تحسین پیش کیا گیا ہے۔(۲۲۹) ۹ سنبلہ ۱۳۷۹ھ ش ۳۱ / اگست ۲۰۰۰ئ: ہفت روزہ’’ افغانان‘‘ میں حضرت علامہ کی درج ذیل نظم الحذر منت غیرالحذر شائع ہوتی ہے: ؎ ای فراہم کردہ از شیران خراج گشتہ ی ٔروبہ مزاج از احتیاج خستگی ھای توازناداری است اصل درد توہمین بیماری است می رباید رفعت از فکر بلند می کشد شمع خیال ارجمند از خم ہستی می گلفام گیر نقد خود از کیسہ ی را ایام گیر خود فرود آاز شتر مثل عمرؓ الحذر ازمنت غیر الحذر تابکے دریوزہ ی منصب کنی صورت طفلان زنی مرکب کنی فطرتی کو برفلک بند د نظر بست می گردد زاحسان دیگر مشت خاک خویش را ازہم مپاش مثل مہ رزق خویش از پھلو تراش گرچہ باشی تنگ روزہ تنگ بخت دررہ سیل بلا افگندہ رخت رزق خویش از نعمت دیگر مجوی موج آب از چشمۂ خاور مجو ہمت از حق خواہ و باگردون ستیز آبروی ملت بیضا مریز وای برمنت پذیر خوان غیر گردنش خم گشتہ ی احسان غیر چون حباب از غیرت مردانہ باش ہم بہ بحرندر نگون پیمانہ باش (۲۳۰) ۲۴ عقرب ۱۳۷۹ھ ش: ہفت روزہ ’’افغانان‘‘ میں حضرت علامہ کی تصویر کے ساتھ درج ذیل اشعار شائع ہوئے: شعلۂ آشفتہ ؎ چون چراغ سوزم درخیابان شما ای جوانان عجم جانِ من و جان شما غوطہ ھا زد در ضمیر زندگی اندیشہ ام تابدست آوردہ ام افکار پنہان شما مہرومہ دیدم نگاہم برتراز پروین گذشت ریختم طرح حرم درکافرستان شما تاسنانش تیز تر گردد فرو پیچید مش شعلہ ئی آشفتہ بوداند ربیابان شما فکر نگینم کند نذر تہی دستان شرق پارۂ لعلی کہ دارم ازبدخشان شما مپرسد مردی کہ زنجیر غلامان بشکند دیدہ ام ار زون دیوار زندان شما حلقۂ گردمن زیندای پیکر آں آب و گل آتشی درسینہ دارم از نیاکان شما (۲۳۱) ۱۳۷۹ ھ ش ۲۰۰۰ئ: مرکز تحقیقات علامہ حبیبیؔ کی جانب سے ادارہ خدمات کلتوری افغانستان پشاور نے علامہ عبدالحئی حبیبیؔ قندھاری کا منظوم فارسی اثر دردِ دل و پیامِ عصر شائع کیا۔ اس کتاب کے حصہ اول میں بھی حضرت علامہ کے بعض تضمینوں پر اشعار لکھے گئے ہیں۔ اور جابجا حضرت علامہ کے حوالے دیئے گئے ہیں۔ جبکہ حصہ دوم حضرت علامہ اقبال کے شعری اسلوب میںلکھے گئے فارسی اشعار کا مجموعہ ہے۔ اس حصے میں جابجا حضرت علامہ کا حوالے دینے کے علاوہ ان کو دو منظوم خراج تحسین بھی پیش کئے گئے ہیں۔(۲۳۲) ۱۳۸۰ھ ش: عبداللہ بختانیؔ کی ایک کتاب ’’خوشحال خان او یو#¢ نور فر¦ (¤پلی ƒ'„پنہ‘‘ شائع ہوئی۔ اس کتاب میں خوشحال خان خٹک کے افکار کی ترجمانی کے سلسلے میں حضرت علامہ کے ان اشعار کا حوالہ دیا گیا ہے: ؎ قبائل ہوں ملت کے وحدت میں گم کہ ہو نام افغانیوں کا بلند محبت مجھے ان جوانوں سے ہے ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند! مغل سے کسی طرح کمتر نہیں کوہستان کا یہ بچۂ ارجمند کہوں تجھ سے کیا ہم نشین دل کی بات وہ مدفن ہے خوشحال خان کو پسند اڑاکر نہ لائے جہاں بادِ کوہ مغل شہسواروں کا گردِ سمند (۲۳۳) اسی عنوان کے تحت خوشحال خان سے متعلق بالِ جبریل کے ذیل اشعار نقل کئے ہیں: ؎ خوش سرود آن شاعر افغان شناس آنکہ بیند باز گوید بے ہراس آں حکیم ملت افغانیان آن طبیب علت افغانیان راز قومی دید و بیباکا نہ گفت حرف حق با شوخی رندا نہ گفت اشتری با ید اگر افغان حر با یراق و ساز و با انبار در ہمت دونش از آن انبار در می شو خوشنو د بازنگ شتر (۲۳۴) متذکرہ بالا کتاب میں جناب بختانی کا پہلے سے مطبوعہ مقالہ’’ د خوشحال او اقبال د اشعارو حٔنی مشترکی خواوی ‘‘( خوشحال اور اقبال کے اشعار کے چند مشترک نکات) بھی شامل کیا گیا ہے۔(۲۳۵) ۱۳۸۰ ھ ش ۲۰۰۱ئ: قندہار کے شعرا سے متعلق صالح محمد صالحؔ نے ایک تذکرہ دارغند د #¤¢ ژبہ شائع کرایا۔ اس میں احمد صمیم کے سوانحی تذکرے میں ان کے کلام پر اقبال کے اثرات کا ذکر کیا گیا ہے۔ (۲۳۶) ۱۳۸۰ھ ش افغان سکالر عبداللہ بختانی کے حیات و خدمات سے متعلق لال باچا ازمون کی مرتب کردہ ’’رشتینی خدمتگار‘‘ شائع ہوئی۔ اس میں جناب بختانی کے علمی خدمات کے حوالے سے جا بجا ان کے اقبالیاتی خدمات کا جائزہ لیا گیا ہے۔ (۲۳۷) حمل ثور۱۳۸۱ ھ ش اپریل مئی ۲۰۰۲ئ: افغان مجلہ بیان کے ٹائٹل پر سابق افغان بادشاہ ظاہر شاہ کی ایک خوبصورت رنگین تصویر اور بیک ٹائٹل پر نالۂ ابلیس حضرت علامہ کی نظم شائع ہوئی ہے۔ ؎ ای خداوند صواب و ناصواب من شدم از صحبت آدم خراب ہیچ گہ از حکم من سربرنتافت چشم از خود بست و خودرا درنیافت خاکش از ذوق ’’ ابا‘‘بیگانہ ئی از شرار کبریا بیگانہ ئی صید خود صیاد راگوید بگیر الامان از بندۂ فرمان پذیر از چنین صیدی مرا آزاد کن طاعت د یروزۂ من یادکن پست از و آن ہمت والای من وای من ،ای وای من ،ای وای من فطرت او خام و عزم او ضعیف تاب یک ضربم نیارداین حریف بندۂ صاحب نظر باید مرا یک حریف پختہ تر باید مرا لعبت آب و گل ازمن باز گیر من نیا ید کودکی از مرد پیر ابنِ آدم چیست یک مشت خس است مشت خس رایک شرار ازمن بس است اندرین عالم اگر جز خس نبود این قدر آتش مرا دادن چہ سود شیشہ رابگداختن عاری بود سنگ رابگداختن کاری بود آنچنان تنگ از فتوحات آمدم پیش تو بہر مکافات آمدم منکر خود از تومیخواہم بدہ سوی آن مرد خدارا ہم بدہ بندہ ئے باید کہ پیچید گردنم لرزہ انداز دنگاہش درتنم آن کہ گوید ’’از حضور من برو‘‘ آن کہ پیش او نیرزم بادو جو ای خدایک زندہ مرد حق پرست لذتی شاید کہ یابم درشکست (۲۳۸) جدی ۱۳۸۱ھ ش: افغان اقبال شناس سر محقق عبداللہ بختانی خدمتگار کے پشتو فارسی اور عربی مرثیوں پر مشتمل مجموعہ ’’ویرنی‘‘ شائع ہوا۔ اس میں جا بجا حضرت علامہ کے اشعار اور حوالے دیئے گئے ہیں۔(۲۳۹) جدی ۱۳۸۱ ھ ش: سر محقق عبداللہ بختانی کا فارسی مجموعہ کلام ترنم دل کے نام سے شائع ہوا ۔ اس میں علامہ سے متعلق طویل فارسی نظم ’’بہ استقبال اقبال‘‘ شائع ہوئی ہے۔(۲۴۰) ۱۳۸۱ھ ش ۲۰۰۳ئ: عبدالرئوف رفیقی نے ڈاکٹریٹ کے لیے اپنا مقالہ ’’افغانستان میں اقبال شناسی کی روایت‘‘ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹے اسلام آباد کو پیش کر دیا۔ ۸ ثور ۱۳۸۳ھ ش: افغان شاعر رحمت اللہ منطقی نے علامہ کو ’’چو بحر بیکراں‘‘ کے عنوان سے منظوم فارسی خراج تحسین پیش کیا۔(۲۴۱) ۱۳ ثور ۱۳۸۳ ھ ش: مشہور افغان شاعر میر بھار واصفی نے حضرت علامہ کو ’’ب علامہ اقبال لاہوری‘‘ کے عنوان سے منظوم فارسی خراج تحسین پیش کیا۔(۲۴۲) ۲۰ ثور ۱۳۸۳ھ ش: افغان شاعر غلام ربانی ادیب نے کابل میں حضرت علامہ کو منظوم خراج تحسین پیش کیا۔(۲۴۳) ۱۵ حمل ۱۳۸۳ ھ ش: عزیز اللہ مجددی افغان شاعر نے علامہ کے حضور کابل میں منظوم خراج تحسین پیش کیا۔ ۱۳۸۳ھ ش ۲۰۰۴ء : اقبال اکیڈمی پاکستان لاہور کی جانب سے عبدالرئوف رفیقی کا مرتب کردہ ’’سیر اقبال شناسی در افغانستان‘‘ شائع ہوئی۔ ۱۳۸۳ھ ش ۲۰۰۴ئ: اسد اللہ محقق نے اپنا مقالہ ’’علامہ اقبال در ادب فارسی و فرھنگ افغانستان‘‘ ڈاکٹریٹ کے لیے پیش کر دیا۔ ۱۳۸۳ھ ش ۲۰۰۵ئ: ڈاکٹر عبدالرئوف رفیقی کو ’’افغانستان میں اقبال شناسی کی روایت‘‘ پر ڈاکٹریٹ کی ڈگری ملی۔ ۱۳۸۴ھ ش ۲۰۰۵ئ: ڈاکٹر اسد اللہ محقق کا مقالہ برائے ڈاکٹریٹ ’’علامہ اقبال در ادب فارسی و فرھنگ افغانستان‘‘ مرکز تحقیقات فارسی ایران و پاکستان اسلام آباد کی جانب سے شائع ہوا۔ ۱۳۸۹ھ ش: کابل کے انجمن حمایت از انکشاف اجتماعی (مطبعہ فجر موسسہ نشراتی صبا؛ کی جانب سے ڈاکٹر سعید کی ’’اکسیر خودی جوھر پیام علامہ اقبال‘‘ ۱۷۶ صفحات پر شائع ہوئی۔ سرطان ۱۳۸۹ ھ ش جون ۲۰۱۰ئ: خلیل اللہ خلیلی کی نگارش یار آشنا (پیوند علامہ اقبال با افغانستان) عارف نوشاہی کی پیشگفتار اور حواشی کے ساتھ کتابخانہ استاد خلیل اللہ خلیلی انستتیوت شرق شناسی و میراث خطی اکادمی علوم جمہوری تاجیکستان دو شنبہ کی جانب سے دوبارہ ۱۵۰ صفحات پر شائع ہوئی۔ مأخذات باب سوم:۔ ۱؎ اخبار ’’اصلاح ‘‘ کابل یکشنبہ ۴ ثور ۱۳۱۷ھ ش ۲؎ افغانستان و اقبال ، ص ۷۳ تا ۷۶ ۳؎ اخبار’’انیس‘‘ کابل چارشنبہ ۱۴ ثور ۱۳۱۷ھ ش ۴؎ افغانستان و اقبال، ص ۷۱ تا ۷۳ ۵؎ مجلہ ’’کابل‘‘ مئی جون ۱۹۳۸ء ص۔ ۷۸ ۶؎ افغانستان و اقبال، ص۵۰-۵۱ ۷؎ سیر اقبال شناسی در افغانستان ، ص ۵۹ ۸؎ مجلہ کابل مئی جون ۱۹۳۸ئ، ص ۷۹ تا ۸۲ ۹؎ افغانستان و اقبال، ص۵۲ تا ۶۰ ۱۰؎ سیر اقبال شناسی در افغانستان ، ص ۶۰ تا ۶۶ ۱۱؎ مجلہ ’’کابل‘‘ مئی جون ۱۹۳۸ء ص۔ ۹۴ ۱۲؎ افغانستان و اقبال، ص۶۱-۶۲ ۱۳؎ سیر اقبال شناسی در افغانستان ، ص ۲۲۷-۲۲۸ ۱۴؎ افغانستان و اقبال، ص ۶۴-۶۸ ۱۵؎ سیر اقبال شناسی در افغانستان ، ص ۶۷-۷۳ ۱۶؎ مجلہ کابل مئی جون ۱۹۳۸ئ، ص ۹۲ ۱۷؎ افغانستان و اقبال، ص۶۹-۷۰ ۱۸؎ سیر اقبال شناسی در افغانستان ، ص ۷۳-۸۶ ۱۹؎ مجلہ کابل مئی جون ۱۹۳۸ئ، ص ۹۴ ۲۰؎ ایضاً ص۔۹۳ ۲۱؎ ایضاً ص۔۹۳ ۲۲؎ مجلہ کابل شمارہ ۱۲ حوت ۱۳۱۷ھ ش ۲۳؎ سیر اقبال شناسی در افغانستان ، ص ۸۶ ۲۴؎ مجلہ ’’کابل‘‘ ستمبر اکتوبر ۱۹۳۹ء ص۔ ۲۲ تا ۴۰ ۲۵؎ سیر اقبال شناسی در افغانستان ، ص ۸۷ تا ۱۱۹ ۲۶؎ دافغانستان ƒ*'‍¤œ ص۔ ۲۸۶ ۲۷؎ مجلہ ’’کابل‘‘ دلو ۱۳۲۳ھ ش ص۔ آخر ۲۸؎ سیر اقبال شناسی در افغانستان ، ص ۱۲۰ ۲۹؎ مجلہ کندھار ۳۰ جولای ۱۹۴۵ئ، ص ۲۲ ۳۰؎ خوشحال خان ٹ!œ #¦ وائی ص۔ ۴۹ - ۵۰ ۳۱؎ امان افغان شمارہ ۹، ۱۰، ۱۱، ۱۳، ۱۷ ۳۲؎ ƒ'„پنہ د علامہ اقبال پہ نظر œ'* ص۔ ۶۷ ۳۳؎ رشتینی خدں„(پر، ص۔ ۱۳۶ ۳۴؎ آریانا دائرہ المعارف جلد ۳ ، ص ۲۷۲-۲۸۱ ۳۵؎ سیر اقبال شناسی در افغانستان ، ص ۱۲۱-۱۴۳ ۳۶؎ ƒ'„پنہ د علامہ اقبال پہ نظر œ'* ،ص۔ الف، ب ۳۷؎ آریانا دائرۃ المعارف (فارسی) جلد ۳، ص۔ ۶۷۲ تا ۶۸۱ ۳۸؎ ƒ'„پنہ د علامہ اقبال پہ نظر œ'*، ص۔ ۱۳۳۵ھ ش ۳۹؎ آریانا دائرۃ المعارف (پستو) جلد ۳، ص۔ ۹۱۴ تا ۹۲۳ ۴۰؎ ’’پیامِ حق‘‘ شمارہ اول یکم حمل ۱۳۳۸ھ ش ۲۲ مارچ ۱۹۵۹ء ص۔ ۳ ۴۱؎ ایضاً ص۔ ۳۳ ۴۲؎ ایضاً ص۔ ۳۳ ۴۳؎ پشتو کتاب شود ، ص ۳۵ ۴۴؎ ’’پیامِ حق‘‘ شمارہ دوم ،۲۲ / اپریل ۱۹۵۹ء ، ص۔ بیک ٹائٹل سے پہلے ۴۵؎ ’’پیامِ حق‘‘ شمارہ سوم ، ۲۳ مئی ۱۹۵۹ء ، ص۔ ۴۶ ۴۶؎ ’’پیامِ حق‘‘ شمارہ سوم ، ۲۳ مئی ۱۹۵۹ء ، ص۔ ۶۰ ۴۷؎ دا فغانستان کالنی، ۳۸ - ۱۳۳۹ھ ش ،ص۔ ۴۶۱ ۴۸؎ ایضاً ص۔ ۴۶۱ ۴۹؎ اوسنی لیکوال جلد ۱ ص ۶۱ ۵۰؎ ایضاً، ص ۱۱۷ ۵۱؎ ایضاً، ص۲۹۱ ۵۲؎ ایضاً، ص۴۲۲ ۵۳؎ ایضاً، ص۴۲۲ ۵۴؎ کلیات خلیل اللّٰہ خلیلی ، ص۔ ۱۵۳ - ۱۵۴ ۵۵؎ اقبال ممدوح عالم، ص۔ ۲۸۸ ۵۶؎ مجلہ’’ قندھار‘‘ جنوری فروری ۱۹۶۶ء ، ص۔۶ - ۷ ۵۷؎ مجلہ’’ عرفان‘‘ کابل، ۵ / اسد ۱۳۴۷ھ ش ، ص۔ ۵۸؎ ملی قھرمان ، ص ۱۱ ۵۹؎   (¤پلی ƒ'„¢ن ، ص۔ الف ، ب ۶۰؎ ایضاً ص۔ ۱۳۸ - ۱۳۹ ۶۱؎ ایضاً ص۔۱۴۴ ۶۲؎   (¤پلی ƒ'„¢ن ، ص۔ ۱۶۷ ۶۳؎ ایضاً ص۔۴۶ تا ۶۶ ۶۴؎ ایضاً ص۔ ۲۳۸ ۶۵؎ ایضاً ص۔۲۸۵ ۶۶؎ ایضاً ص۔۴ ۶۷؎ مجلہ آریانا دورہ ۲۴ شمارہ مسلسل ۲۶۸ ،ص ۶۴۰ ۶۸؎ اقبال ریویو اپریل ، ۱۹۶۷ئ، ص۔ ۱۶۵ ۶۹؎ اقبال ممدوح عالم، ص۔ ۲۸۸ ۷۰؎ مقالات یومِ اقبال ، ص۔ ۲۷ - ۳۱ ۷۱؎ کلیات خلیل اللہ خلیلی، ص۔ ۱۸۲ - ۱۸۳ ۷۲؎ رشتینی خدں„(پريص۔۱۲۳ ۷۳؎ مجلہ ’’عرفان‘‘ کابل ۵/ اسد ۱۳۴۷ھ ش ص۔ ۷۴؎ خیبر ، ص۔ ابتدائی ۷۵؎ توریالی ƒ'„¢ن، ص۔۲ ۷۶؎ توریالی ƒ'„¢ني ص۔۴۶ - ۴۷، ۵۰ - ۵۱ ۷۷؎ ایضاً ص۔۱۶۵ - ۱۶۸ ۷۸؎ ایضاً ص۔۱۸۵ - ۱۸۹ - ۱۹۰ ۷۹؎ مجلہ ’’لمر‘‘ کابل میزان ۱۱۳۵۰ ھ ش ، ص ۱۳ ۸۰؎ مجلہ ’’اوقاف‘‘، کابل، اپریل ۱۹۷۲ء ،ص۔ ۳ ۸۱؎ ایضاً ص۔ ۵ ۸۲؎ د افغانستان کالنی، ۵۲ - ۱۹۵۳ھ ش، ص۔ ز ۸۳؎ افغانستان و اقبال، ص۔ ۱۸ ۸۴؎ ترنم دل، ص۔ ۶۹ تا ۷۲ ۸۵؎ افغانستان و اقبال، ص۔ ملحقہ ۲۸ ۸۶؎ ایضاً ص۔ ملحقہ ۷۱ ۸۷؎ ایضاً ص۔ ملحقہ ۷۶ ۸۸؎ افغانستان و اقبال، ص۔ ملحقہ ۵۶ ۸۹؎ ایضاً ص۔ ملحقہ ۶۶ ۹۰؎ ƒ!¦ خزانہ ، ص۔ ۱۷۵ ۹۱؎ ƒ'„¢ #¤% *، ص۔ ۳۸۸ ۹۲؎ ƒ!¦ خزانہ، ص۔ ۱۸۰ ۹۳؎ ƒ'„¢ #¤% ¤، ص۔ ۳۸۹ ۹۴؎ گیتانجلی ، ص۔ ۹۷ ۹۵؎ کلیات اشعار حکیم سنائی غزنویؔ ، ص۔ بیک ٹائٹل ۹۶؎ مجلہ آریانا کابل میزان قوس ۱۳۵۶ھ ش ۹۷؎ علامہ اقبال در ادب فارسی و فرھنگ افغانستان، ص ۲۲۶ تا ۲۵۵ ۹۸؎ مجلہ ’’ادب‘‘ کابل میزان قوس ۱۳۵۶ھ ش ۹۹؎ علامہ اقبال در ادب فارسی و فرھنگ افغانستان، ص ۲۱۷-۲۱۹ ۱۰۰؎ افغانستان و اقبال، ص۔ آغاز ۱۰۱؎ ایضاً ص۔ ملحقہ د ۱۰۲؎ افغانستان و اقبال، ص۔ ۲ ۱۰۳؎ ایضاً ص۔ ۶ ۱۰۴؎ ایضاً ص۔ ۱۰ ۱۰۵؎ ایضاً ص۔ ۳۴ ۱۰۶؎ ایضاً ص۔ ۳۸ ۱۰۷؎ آثار اردوی اقبال ،جلد ۲، ص۔ ۲ ۱۰۸؎ مجلہ ’’کابل‘‘ نومبر دسمبر ۱۹۷۷ئ، ص۔ ۱ ۱۰۹؎ افغانستان و اقبال، ۱۳۵۶ھ ش ۱۱۰؎ کلیات استاد خلیل اللہ خلیلی ، ص۔ ۵۰ - ۵۲ ۱۱۱؎ ماہنامہ پشتو پشاور ، ستمبر ۱۹۸۴ئ، ص۔ ۲۷ ۱۱۲؎ علامہ اقبال در ادب فارسی و فرھنگ افغانستان ، ص ۲۸۹-۲۹۷ ۱۱۳؎ د ƒ'„¢ٹولنی تاریخچہ، ص۔ ۲۴ ۱۱۴؎ ƒ'„¢ کتاب '¢د، ص۔ ۱۴ ۱۱۵؎ ایضاً ص۔ ۸۹ ۱۱۶؎ ایضاً ص۔ ۹۰ ۱۱۷؎ ایضاً ص۔ ۱۱۵ ۱۱۸؎ ایضاً ص۔ ۱۱۶ ۱۱۹؎ ƒ'„¢ کتاب '¢د ص۔ ۱۳۷ ۱۲۰؎ ایضاً ص۔ ۱۹۵ ۱۲۱؎ ایضاً ص۔ ۱۹۶ ۱۲۲؎ ایضاً ص۔ ۲۳۹ ۱۲۳؎ ایضاً ص۔ ۲۳۹ ۱۲۴؎ ƒ'„¢ ƒپ (¦ي جلد ۲، ص۔ ۳۲۱ ۱۲۵؎ ƒ'„¢ ƒپ (¦ي ص۔ ۳۲۲ ۱۲۶؎ ایضاً ص۔ ض۳۴ ۱۲۷؎ ایضاً ص۔ ۳۴۷ ۱۲۸؎ ایضاً ص۔ ۳۵۹ ۱۲۹؎ ایضاً ص۔ ۳۶۲ ۱۳۰؎ ایضاً ص۔ ۳۸۴ ۱۳۱؎ ایضاً ص۔ ۴۰۹ ۱۳۲؎ ایضاً ص۔ ۵۹۶ ۱۱۳۳؎ ایضاً ص۔ ۶۰۵ ۱۳۴؎ ایضاً ص۔ ۶۵۶ ۱۳۵؎ ایضاً، ص ۶۶۵-۶۶۶ ۱۳۶؎ ہفت روزہ’’ وفا‘‘، ۱۱ جدی ۱۳۸۵ھ ش ۱۳۷؎ مجلہ ’’کابل‘‘، دسمبر جنوری ۸ - ۱۹۷۷ء ص۔ ۱ تا ۴ ۱۳۸؎ پشتانہ شعرا جلد ۴ ، ص ۳۱۸-۳۱۹ ۱۳۹؎ ایضاً، ص ۱۲۵۳ ۱۴۰؎ خوشحال خان خٹک و مطبوعاتو پہ ھندارہ کی جلد ۲ ، ص ۲۲۹ ۱۴۱؎ ایضاً، ص ۲۳۰ ۱۴۲؎ ایضاً، ص ۲۶۰ ۱۴۳؎ ایضاً، ص ۳۳۱ ۱۴۴؎ ایضاً، ص ۲۴۶ ۱۴۵؎ ایضاً، ص ۳۶۲ ۱۴۶؎ سالنامہ ’’کابل‘‘ ۵۸ - ۱۳۵۹ھ ش، ص۔ ۱۰۰۸ ۱۴۷؎ ماہنانہ ’’شفق ‘‘دلو حوت ۱۳۵۹ھ ش ۱۴۸؎ ایضاً ص۔ ۵۰ ۱۴۹؎ ایضاً ص۔ ۵۳ ۱۵۰؎ د افغان مجاھد آواز، ص۔ ۳۶ ۱۵۱؎ ماہنامہ’’ شفق‘‘ حمل ثور ۱۳۶۰ھ ش، ص۔ ۳۶ ۱۵۲؎ ماہنامہ’’ شفق‘‘ جوزا سرطان ۱۳۶۰ھ ش، ص۔ ۳۷ ۱۵۳؎ ماہنامہ ’’د شہید زیر*‘‘ ، یکم میزان ۱۳۶۰ھ ش، ص۔۴۲ ۱۵۴؎ ماہنامہ’’ سیمائی شہید ‘‘، میزان عقرب ۱۳۶۰ھ ش، ص۔ ۴۹ ۱۵۵؎ ماہنامہ ’’شفق ‘‘قوس جدی ۱۳۶۰ھ ش، ص۔ ۶۲ ۱۵۶؎ ماہنامہ ’’شفق ‘‘قوس جدی ۱۳۶۰ھ ش، ص۔۷۷ ۱۵۷؎ میثاق خون قوس ۱۳۶۰ ھ ش ، ص ۱۷ تا ۲۲ ۱۵۸؎ سیر اقبال شناسی در افغانستان، ص ۱۶۹ تا ۱۷۰ ۱۵۹؎ ماہنامہ ’’د شہید زیر*‘‘، صفر المظفر ربیع الاول ۱۴۰۲ھ ق، ص۔ ۲۶ ۱۶۰؎ د و&موبھیر، ص۔ ۸۷ ۱۶۱؎ ماہنامہ’’ پشتو‘‘ پشاور ، دسمبر ۱۹۸۲ء ، ص۔ ۷ ۱۶۲؎ ماہنامہ ’’د شہید پیغام‘‘ ، عقرب ۱۳۶۱ھ ش، ص۔ ۳۴ ۱۶۳؎ ماہنامہ ’’د شہید پیغام‘‘، دلو ۱۳۶۱ھ ش، ص۔ ۴۴ ۱۶۴؎ ماہنامہ’’ ہجرت‘‘، جنوری ۱۹۸۳ئ، ص۔ ۹ ۱۶۵؎ ماہنامہ ’’د شہید پیغام‘‘، شعبان ۱۴۰۳ھ ق، ص۔ ۴ تا ۹ ۱۶۶؎ آریائی فارسی پشتو ویریٰ، ص۔ ۲۸ ۱۶۷؎ ماہنامہ ’’سپید*‘‘،یکم اسد ۱۳۶۳ھ ش ، ص۔ بیک ٹائٹل سے پہلے ۱۶۸؎ ماہنامہ ’’سپید*‘‘، چہارم عقرب۱۳۶۳ھ ش ، ص۔ بیک ٹائٹل سے پہلے ۱۶۹؎ ماہنامہ’’ ہجرت‘‘، فروری مارچ ۱۹۸۴ئ، ص۔ ۱۱ ۱۷۰؎ ماہنامہ ’’سپید*‘‘، جون ۱۹۸۵ئ، ص۔ ۶۰ ۱۷۱؎ قلب آسیا(اخبار) ،سرطان ۱۳۶۴ھ ش ۱۷۲؎ ماہنامہ’’ شفق‘‘ ، جوزا سرطان ۱۳۶۵ھ ش، ص۔ ۵۱ ۱۷۳؎ ایضاً ص۔ ۷۸ ۱۷۴؎ ماہنامہ’’ شفق‘‘ ، جوزا سرطان ۱۳۶۵ھ شيص۔ ۸۱ ۱۷۵؎ ایضاً ص۔ ۸۶ ۱۷۶؎ ایضاً ص۔ ۱۰۰ ۱۷۷؎ د افغانستان د ژور نالیزم مخکشان، ص۔ ۷۵ ۱۷۸؎ مجلہ ’’شفق ‘‘سال دوم، شمارہ اول دوم ۱۳۶۵ھ ش، ص۔ ۸۶ ۱۷۹؎ د حمزہ بابا یاد، ص ۶ تا ۲۸ ۱۸۰؎ مجلہ ’’قلم ‘‘اپریل مئی۱۹۸۷ئ، ص۔ ۶۹ ۱۸۱؎ مجلہ ’’قلم ‘‘اپریل مئی۱۹۸۷ئ، ص۔ ۷۱ ۱۸۲؎ مجلہ ’’میثاق خون‘‘، جوزا سرطان ۱۳۶۶ھ ش، ص۔ ۱۸ تا ۲۴ ۱۸۳؎ سیر اقبال شناسی در افغانستان، ص ۱۹۵ تا ۲۰۶ ۱۸۴؎ مجلہ’’ قلم‘‘، عقرب ۱۳۶۶ھ ش،ص۔ ۴۸ تا ۷۲ ۱۸۵؎ سیر اقبال شناسی در افغانستان، ص ۱۷۹ تا ۱۹۴ ۱۸۶؎ د حمزہ بابا یاد ، ص ۶ - ۲۸ ۱۸۷؎ اخبار ’’شہادت‘‘، ۱۸ عقرب ۱۳۶۶ھ ش، ص۔ ۴ ۱۸۸؎ د و&مو بھیر، ص۔ ۹ ۱۸۹؎ مجلہ’’ قلم‘‘، اپریل جولائی ۱۹۸۸ئ، ص۔ بیک ٹائٹل ۱۹۰؎ مجلہ ’’قلم ‘‘، فروری مارچ ۱۹۸۹ئ، ص۔ بیک ٹائٹل ۱۹۱؎ ƒ'„¢ #¤% *، جلد اول، ص۔ ۲۷۸ ۱۹۲؎ مجلہ ’’قلم‘‘، جون جولائی ۱۹۸۹ئ، ص۔ ۱۱ تا ۱۴ ۱۹۳؎ مجلہ ’’قلم‘‘، اگست ستمبر ۱۹۸۹ئ، ص۔ ۱۱۴ ۱۹۴؎ تپش قلب آسیا افغانستان دا آزمون بزرگ تاریخ، ص۔ آغاز ۱۹۵؎ خون کی پکار، ص۔ بیک ٹائٹل ۱۹۶؎ مجلہ’’ قلم‘‘، عقرب قوس ۱۳۶۹ھ ش، ص۔ ۱۴۹ - ۱۵۰ ۱۹۷؎ د و&مو بھیر، ص۔ ۹ ۱۹۸؎ ایضاً ص۔ ۸۷ ۱۹۹؎ پہ ہند œ'* د ƒ'„¢ ژ‚* دودی او ایجاد ƒ%اؤنہ، ص۔ ۶۲۲ ۲۰۰؎ پہ ہند œ'* د ƒ'„¢ ژ‚* دودی او ایجاد ƒ%اؤنہيص۔ ۵۱۱ - ۵۱۳ ۲۰۱؎ مجلہ’’ منبع الجہاد‘‘ ، اسد سنبلہ ۱۳۷۰ھ ش ، ص۔ ۸ - ۱۰ ۲۰۲؎ مجلہ ’’منبع الجہاد‘‘، میزان ۱۳۷۰ھ ش، ص۔ ۵۰ ۲۰۳؎ د ’’جہاد ہندارہ‘‘ (اخبار)، ۱۰ میزان ۱۳۷۰ھ ش، ص۔ ۴ ۲۰۴؎ د ’’جہاد ہندارہ‘‘ (اخبار)، یکم عقرب ۱۳۷۰ھ ش۴ ۲۰۵؎ مجلہ ’’منبع الجہاد‘‘، عقرب قوس ۱۳۷۰ھ ش، ص۔ ۵۳ ۲۰۶؎ مجلہ ’’قلم‘‘، دلو حوت ۱۳۷۰ھ ش، ص۔ ۲۲ تا ۳۰ ۲۰۷؎ سیر اقبال شناسی در افغانستان، ص ۲۰۷-۲۱۳ ۲۰۸؎ ویرنی، ص۔ ۴۲ تا ۵۳ ۲۰۹؎ The WUFa ، جولائی اگست ۱۹۹۴ئ، ص۔ بیک ٹائٹل ۲۱۰؎ علامہ اقبال در ادب فارسی و فرھنگ افغانستان، ص ۹۷۷ ۲۱۱؎ ایضاً، ص ۲۷۷ تا ۲۸۹ ۲۱۲؎ پہ ہند œ'* د ƒ'„¢ ژ‚* او ادبیاتو د ایجاد او ‹ودی ƒ%اؤنہ، ص۔ ۵۱۱ - ۵۱۳ ۲۱۳؎ مجلہ’’ افغانستان‘‘ ، سرطان ۱۳۷۵ھ ش، ص۔ ۷۸ - ۸۰ ۲۱۴؎ ہفت روزہ’’وفا‘‘ ، ۱۱ جدی ۱۳۷۵ھ ش ۲۱۵؎ ایضاً ۲۱۶؎ سیر اقبال شناسی در افغانستان، ص ۲۱۴-۲۱۶ ۲۱۷؎ ویرنی، ص۔ ۵۸ تا ۶۷ ۲۱۸؎ ہفت روزہ ’’وفا‘‘، ۱۱ جدی ۱۳۷۶ھ ش ۲۱۹؎ سیر اقبال شناسی در افغانستان، ص ۲۱۷ تا ۲۲۲ ۲۲۰؎ علامہ اقبال در ادب فارسی و فرھنگ افغانستان، ص ۳۳۸ ۲۲۱؎ ƒ'„¢ کتاب '¢د، ص۔ ۱۶ ۲۲۲؎ ’’ادب‘‘،جریدہ،کابلي ۲۲ جون ۱۹۹۸ء ، ص۔ ۱ ۲۲۳؎ ایضاً، ۲۳جولائی ۱۹۹۸ء ، ص۔۱ ۲۲۴؎ ایضاً، ۲۳ / اگست ۱۹۹۸ء ، ص۔۱ ۲۲۵؎ ایضاً، ۲۳ ستمبر ۱۹۹۸ء ، ص۔۱ ۲۲۶؎ ایضاً، ۲۳ اکتوبر ۱۹۹۸ء ، ص۔۱ ۲۲۷؎ تپش قلب آسیا افغانستان درآزمون بزرگ تاریخ ، ص۔ ۹ ۲۲۸؎ مجلہ دانش شمارہ ۵۸-۱۳۵۷ ھ ش ، ص ۱۳۰-۱۳۸ ۲۲۹؎ کلیات خلیل اللہ خلیلی، ص۔ ۲۳۰؎ ہفت روزہ’’ افغانان‘‘ ، ۹ - ۶ / ۱۳۷۹ھ ش، ص۔ ۴ ۲۳۱؎ ایضاً، ۲۴ عقرب ۱۳۷۹ھ ش، ص۔ ۴ ۲۳۲؎ دردِ دل و پیامِ عصر، ص۔ ۲۳۳؎ خوشحال خان ٹ!œ او یو #¢ نور فر¦ (¤پلƒ'„پ ¦ ، ص۔۲۴ ۲۳۴؎ ایضاًص۔ ۲۶ ۲۳۵؎ خوشحال خان ٹ!œ او یو #¢ نور فر¦ (¤پلƒ'„پ ¦ ،ص۔ ۲۷ تا ۶۰ ۲۳۶؎ د ارغند د #¤¢ ژبہ، ص۔ ۱۹ ۲۳۷؎ رشتینی خدمتگار، ص۔ ۱۵ - ۵۱، ۵۳  - ۱۲۳ -  ۱۳۶ ۲۳۸؎ مجلہ’’ بیان‘‘،اپریل مئی ۲۰۰۲ئ، ص۔ بیک ئٹل ۲۳۹؎ ویرنی ، ص۔ ۵۳ - ۶۰ ۲۴۰؎ ترنم دل، ص۔ ۶۹ - ۷۲ ۲۴۱؎ علامہ اقبال در ادب فارسی و فرھنگ افغانستان ، ص ۱۹۱ ۲۴۲؎ ایضاً، ص ۱۸۸-۱۸۹ ۲۴۳؎ ایضاً، ص ۱۹۰ ضضضضض باب چہارم افغانستان کے پشتون اقبال شناس احمد صمیمؔ احمد صمیمؔ افغانستان کے تاریخ ساز خطہ قندھار شہر کے ناحیہ اول میں حاجی عبدالغفور خروٹی کے گھر ۱۳۳۳ھ ش میں پیدا ہوئے۔ قندھار کے دارالمعلمین سے گریجویشن کرکے ۱۳۶۵ھ ش میں افغانستان میں انقلاب کے باعث پاکستان ہجرت کی۔ کوئٹہ میں ہجرت کی صعوبتیں برداشت کرتے رہے اور علم و ادب کی آبیاری سے وابستہ رہے۔ جو ۸ثور ۱۳۷۸ھ ش تک جاری رہا۔(۱) آپ کے والد ماجد حاجی عبدالغفور خروٹی پشتو کے لکھنے والوں میں سے تھے۔ قندھار میںجب انجمن ادبی کی تاسیس ہوئی تو خروٹی صاحب اس انجمن کے بانی اراکین میں سے تھے۔(۲) یکم نومبر ۱۹۳۳ء کو جب حضرت علامہ سفرِ افغانستان کے دوران قندھار پہنچے وہاں کے زعماء اور ادبی شخصیات سے ملاقاتیں کیں انجمن ادبی کے کلیدی اور بینادی ممبرہونے کے ناطے عین ممکن ہے کہ عبدالغفور خروٹی نے بھی حضرت علامہ سے ملاقات کی ہو۔ احمد صمیمؔ مذہبی علوم کے ساتھ ساتھ عصری علوم سے بھی بہرہ مند ہیں۔ آپ قندھاری مکتبِ فکر (School of Thought ) کے نمائندہ شاعر ہیں۔ پہلے رومانیت اور موسیقیت کا شکار تھے ۔ بعد میں حضرت علامہ کے فکری اثرات نے احمد صمیمؔ کے فکری قبلہ کو درست کرکے انہیں مقصدیت سے آشنا کیا ہے۔ پہلی ملاقات میں انہوں نے مجھ سے پوچھا تھا کہ شعراء میں کس شاعر سے سب سے زیادہ متاثر ہوں۔ میں نے جب اقبال کا نام لیا توچونک گئے اور کہا کہ اس خطے میں آپ پہلے پشتون شاعر ہیں جو اقبال سے متاثر ہیں چونکہ صمیمؔ صاحب پہلے سے بعض محدود قوم پرست شعراء کے ڈسے ہوئے تھے اسی لئے ایک آفاقی شاعر سے متاثر ہونا ان کے لئے باعثِ حیرت تھا۔(۳) دوسری طرف میرے لئے یہ بات بھی باعثِ حیرت تھی کہ یہ قندھاری شاعر تو فنا فی الاقبال ہیں ۔ میں نے اقبال کے منظوم پشتو تراجم اور دورانِ گفتگو ہر دوسری بات پر اقبال کے کسی نہ کسی شعر کا حوالہ دینا اور اقبال کی عالمگیر اسلامی وحدت کی تڑپ ان کے سینے میں کوٹ کوٹ کر بھری پائی ۔ رومانیت سے یکسر نکل کر مقصدیت اور عین اسلامی اقدار سے بھرپور شاعری پر اقبال کے اثرات ان کے اندر آب و تاب سے چمکتے ہیں۔ راقم الحروف کے نام ایک مکتوب میں اقبال سے اپنے تعلق کے بارے میں وہ تحریر کرتے ہیں: قریباً بیس سال پہلے (قندھارمیں) میرے ایک استاد حاجی فضل محمد شیواؔ صاحب نے اقبال کا ’’پیامِ مشرق ‘‘ دکھایا اور لالۂ طور کے چند رباعیات سبقاً پڑھائے۔ کبھی کبھی تو پڑھاتے ہوئے رو پڑتے تھے۔ اور مجھے فرماتے کہ غزالیؒ اور رومیؒ کے بعد کسی نے بھی قلب اور روح سے متعلق اتنے عمیق حقائق منکشف نہیں کئے جتنا اقبال نے اس بارے میں سیر کیا ہے۔۔۔ وہ مجھے کہتے کہ یہ کتنی عظیم شخصیت ہیں ان کی پیروی کرو۔ ان جیسا گفتار نہ کسی نے کیا ہے اور نہ کوئی کرے گا اوریہ کوئی بشری کام نہیں۔ ؎ تل تاثیرات اخلاقی تر ہر #¦ لو% و(!¦ ژبہ او دود د قومیت وا%ہ تری #¢%  و(!¦ (۴) ترجمہ: ’’اخلاقی اقدار و تاثیرات کو ہر چیز سے عظیم تر سمجھ زبان او قومیت سارے ان سے کمتر ہیں۔‘‘ یہ شعر شیواؔ صاحب مرحوم کا تھا جو انہوں نے حضرت علامہ کی درج ذیل رباعی کے زیرِ اثر لکھا تھا: ؎ نہ افغانم و نہ ترک و نہ تتاریم مسلمانم وما ازیک شاخساریم تمیز رنگ و بوبرما حرام است کہ ماپروردہ یک نوبہار یم جناب احمد صمیمؔ اپنے اس مکتوب میںمزید لکھتے ہیں: اس بار میں نے اقبال کے فارسی آثار پر طائرانہ نگاہ ڈالی اور کچھ نہیں پایا۔ دوسری بار پھر پندرہ سال پہلے قندھار میں اقبال کے فارسی آثار ہاتھ آئے۔ سوچا کہ ایک بار پھر پڑھوں ۔ شیواؔ صاحب محض ان کے شاقی تو نہیں تھے۔ اس بار پھر ان کے تمام فارسی آثار کا دقیق مطالعہ کیا۔ اس مرتبہ صرف حقیقتِ قرآن اور حقانیت لا الہ ہاتھ آئے۔ اس سے بڑھ کر کچھ نہیں سیکھا۔ تیسری بار جب میں بارہ سال قبل پاکستان آکر مہاجر ہوا تو اس بار ان کے اردو و فارسی آثار کاعمیق مطالعہ کیا اور ذیل نتائج اخذ کئے: - اقبال جمال افغانی اور جلال رومی کا مجموعہ ہیں۔ - اقبال ایک عظیم متصوف اور عاشق رسول ﷺ ہیں۔ ظاہراً شیو کرتے تھے لیکن باطن میں وہ بایزید ہیں۔(۵) جناب احمد صمیمؔ اپنے فکر پر حضرت علامہ کے اثرات سے متعلق مزید لکھتے ہیں: ’’اقبال صاحب کو ایک بار میں نے خواب میں دیکھا تو میں نے انہیں ایک شعر سنایا انہوں نے تشویق اور نوازش کے ساتھ میرے سر پر ہاتھ پھیر دیا تب میں نے کہا: ؎ د لاہور اقبال بہ وائی مولانا تہ بہ پہ رو™‚% œ'* ˆ* دا ہم دی زمو & ہمرازہ پہ کو#¢ د معرفت œ'* (۶) ترجمہ: لاہور کا اقبال مولانا بلخی کو مصافحہ میں میرا تعارف کراتے ہوئے کہے گا کہ یہ صاحب بھی معرفت کی گلیوں میں ہمارا ہمراز ہے۔ جناب صالح محمد احمد صمیمؔ کے فکر وفن کے خدو خال سے متعلق لکھتے ہیں کہ صمیمؔ کی شاعری کافکری حصہ غنی اور ان کا شاعرانہ بغاوت نہایت متاثر کن ہے۔ آپ کا ہر شعر ایک مستقل درد اور کرب کے اظہار کا آئینہ دار ہے جن کو رحمان بابا، سعدی شیرازی، گل باچا الفتؔ اور اقبال لاہوری کے کلام کے اثرات نے مزید رعنائی عطا کی ہے۔(۷) احمد صمیمؔ صاحب نے ہجرت کے دوران ایک جریدے ’’ادب و معرفت ‘‘ کا اجراء کیا تھا۔ جس کے بارہ شمارے شائع ہوئے۔ ہر شمارے کی سرورق پر پشتو و فارسی کے اساتذہ شعراء کے کلام کے چیدہ چیدہ اشعار شائع کرتے تھے ۔ اس سلسلے میں تقریباًہر شمارے میں حضرت علامہ کے ابیات ادب و معرفت کے سرورق کی زینت بنے ہیں۔ تفصیل افغانستان میں اقبال شناسی کی ارتقاء کے باب میں شاملِ مقالہ ہے۔ جناب احمد صمیمؔ کے انتقادی و اجتماعی اشعار کا پہلا مجموعہ’’ د شاعر فریاد‘‘ ۱۳۷۴ھ ش میں شائع ہوا۔ اس مجموعے میں جابجا حضرت علامہ کے گہرے فکری اثرات احمد صمیمؔ نے قبول کئے ہیں خصوصاً نمونہ خلافت، نوای شہدی، یہ تو وہی قوم ہے وغیرہ پر حضرت علامہ کے فکری اثرات نمایاں ہیں۔(۸) احمد علی خان درانی شہزادہ احمد علی خان درانی کا شمار افغانستان میں اقبال شناسی کے عناصر خمسہ میں ہوتا ہے۔ آپ اسلامیہ کالج لاہور کے تعلیم یافتہ اور سیکرٹریٹ افغانستان کے ایک معزز عہدیدار تھے۔آپ انجمن ادبی کابل کے سیکرٹری اور روح رواں تھے۔(۹) عین ممکن ہے کہ شہزادہ احمد علی خان درانی کی حضرت علامہ سے شناسائی اسلامیہ کالج لاہور کے زمانے سے ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ کسی حوالے سے حضرت علامہ کے حلقۂ تلامذہ میں رہے ہوں۔ آپ نے انجمن ادبی کابل میں ایک نئی روح پھونکی تھی اور اس وجہ سے اس انجمن نے بڑھ چڑھ کر علمی و ادبی سرگرمیوں میں حصہ لیا تھا۔ ویسے بھی اس انجمن کی رکنیت ایک شاہی اعزاز ہے۔ ہر رکن کو سلطنت کی طرف سے علمی وظیفہ ملتا ہے۔ تاکہ وہ علم و فن اور شعر و سخن کی خدمت آزادی اور خوش دلی کے ساتھ انجام دے سکے۔ یہاں تک کہ سرکاری ملازمین بھی جب اس انجمن کی رکنیت سے سرفراز ہوتے ہیں تو ان کو تنخواہ کے علاوہ وظیفہ کی رقم الگ ملتی ہے۔(۱۰) سرور خان گویاؔ کے بعد افغانستان میں اقبال پر دوسری تحریر ہمیں سردار احمد علی خان کی ملتی ہے۔ یہ تحریر مجلہ کابل میں جون ۱۹۳۲ء میں ’’علامہ اقبال‘‘ کے عنوان سے شائع ہوئی تھی جس میں حضرت علامہ کے سوانح کے ساتھ ساتھ ان کے فکر وفن پر دقیق انداز میں خیال افشانی کی گئی ہے۔(۱۱) اکتوبر ۱۹۳۳ء میں جب حضرت علامہ اعلیحضرت محمد نادر شاہ غازی کی دعوت پر افغانستان کی سیاحت کرنے کے لئے تشریف لے گئے تھے۔ تو کابل میں انجمن ادبی کابل کی ایک شاندار ضیافت میں حضرت علامہ سے سردار احمد علی خان درانی کی ملاقات بھی ہوئی تھی۔ اس انجمن نے مہمانوں کے اعزاز میں ۲۸/ اکتوبر ۱۹۳۲ء کو شب ساڑھے سات بجے کابل ہوٹل میں ایک شاندار ضیافت کا اہتمام کیا تھا گویا کابل میں سردار احمد علی خان درانی کو حضرت علامہ کی میزبانی کا شرف بھی حاصل رہا۔ (۱۲) حضرت علامہ کی وفات پر انجمن ادبی کابل کے زیرِ اہتمام اپریل ۱۹۳۸ء کے اواخر میں جو تعزیتی تقریب ہوئی تھی۔ اس میں بھی سردار احمد علی خان درانی نے بحیثیت مدیر انجمن ادبی کابل حضرت علامہ کی شخصیت سے متعلق خطاب کیا تھا۔ (۱۳) حضرت علامہ کے فکروفن اور عالمی آفاقی شخصیت سے متعلق احمد علی خان درانی کا یہ خطاب مجلہ کابل کے خصوصی اقبال نمبر مئی/ جون ۱۹۳۸ء میں شائع ہوا۔(۱۴) اس مقالے کے مشمولات پر افغانستان میں مقالاتِ اقبال کے مشمولات پر بحث ہوگی۔ حبیب اللہ رفیع جناب حبیب اللہ رفیع مولانا نصراللہ نقشبندی کے فرزند ارجمند ۱۳۶۴ھ ش میں عیدالفطر کے دوسرے روز صوبہ وردگ کے سید آباد ضلع کے گلی آبدرہ میں پیدا ہوئے ۔ نسلاً وردگ (میر خیل) ہیں اور والد عالم دین اور طریقۂ نقشبندیہ کے صوفی تھے۔ جو بقولِ حبیب اللہ رفیع پشتو اور فارسی کے شاعر بھی ہیں۔ رفیع بچپن میں یتیم ہوگئے او ر چچا نے پرورش کی۔ ۱۳۳۳ھ ش کو کابل کے دارالعلوم میں تحصیلات کا آغاز کیا۔ مشہور علماء مثلاً شیح الحدیث مولوی یار محمد مرحوم ، شہید مولوی عبدالرب احدی وردگ مرحوم، الحاج حبیب اللہ حٔلاند مرحوم، مولوی عبدالحمید طیب مرحوم، شہید مولوی عبدالسلیم فرقانی مرحوم، ملا اختر محمد مرحوم ، ملا فیض محمد عبدالسلام اور مولوی سخی داد فائز سے مختلف علوم پڑھے۔ ۱۳۳۹ھ ش میں جب اصول پڑھ رہے تھے اور دارالعلوم کے امتحان میںناکام ہوئے تو بسلسۂ ملازمت تعلیم کو خیر باد کہا اور ملازمت سے وابستہ ہوئے۔(۱۵) ۱۳۳۴ھ ش میں باقاعدہ شاعری کا آغاز کیا۔ ادارہ تالیف اور تاریخ کے شعبوں میں ملازمتوں سے وابستہ رہے۔ افغانستان کے تاریخ ٹولنہ میں پشتونوں کی علمی شخصیت عبدالحئی حبیبیؔ سے ملاقات ہوئی ان سے فیض یاب ہوتے رہے۔ عرفان، پوہنہ اور آریانا مجلات اورتاریخ کے شعبے کے نشریات کے مہتمم رہے۔ دوسال تک ریڈیو افغانستان کابل کے پشتو شعبے سے بھی منسلک رہے۔ بقولِ بینواؔ ’’آپ پشتو و فارسی دونوں زبانوں میں لکھتے ہیں ۔ عربی سے کئی تراجم کئے ۔ پشتو شعر و ادب اور پشتون فولکلور سے خاصی شغف رکھتے ہیں۔‘‘(۱۶) ۱۳۵۱ھ ش میں جب وزارت اطلاعات و کلتور نے ادارہ فولکلور و ادب قائم کیا۔ تو رفیع کو فولکلور مجلے کا مسول مدیر مقرر کیا گیا۔ ۱۳۵۷ھ ش میں افغانستان میں کیمونسٹ انقلاب کے بعد کئی صعوبتوں سے دوچار ہونا پڑا۔ ۱۳۵۸ھ ش میں انقلاب کو ناکام بنانے کی کوشش کے بعدجرم میں جیل بھیج دیئے گئے۔ ۱۳۶۱ھ ش میں پشاور ہجرت کی۔ ۱۹۸۴ء میں راقم الحروف کی رفیع صاحب سے علمی ، ادبی اور تحقیقی تعلقات قائم ہوئے ۔ ۱۳۶۵ھ ش میں پشاور میں ادارہ تحقیقات جہاد کی بنیاد رکھی مجلہ قلم کا اجرا ء کیا۔ جناب رفیع کے آثار و مطبوعات کی تفصیل بڑی طویل ہے ۔ مختلف علمی ادبی موضوعات پر تحقیقات کئے ہیں۔ جن میں ابھی تک تقریباً سو سے زائد زیورِ طبع سے آراستہ ہوچکے ہیں۔ رفیع صاحب نے پانچ سو سے زائد مقالاجات لکھے ہیں جن میں زیادہ تر شائع ہوچکے ہیں۔ ۱۳۵۹ ھ ش میں سعودی عرب سعادت حج حاصل کرنے کے لئے تشریف لے گئے۔ ۱۳۶۵ھ ش میں کچھ عرصہ کے لئے ریڈیو مصر کے پشتو شعبہ سے منسلک ہوئے۔ جناب حبیب اللہ رفیع پشتو اور فارسی میں شاعری کرتے ہیں۔ آپ کی کئی منظومات وقتاً فوقتاًاخبارت و رسائل میں شائع ہوتی رہی ہیں۔ اس کے علاوہ آپ کے کئی شعری مجموعے شائع ہوچکے ہیں۔ بعض مجموعوں میں پشتو کلام کے ساتھ ساتھ فارسی کلام بھی شامل ہے۔ رفیع معاصر ادبیات کے پیچ و خم سے آشنا عالمی ادب کے تخلیقی رُخ سے باخبر با استعداد ادیب و شاعر ہیں۔ ان کی تخلیقی قوتیں انہوں نے ملی و دینی نظرئیے کے تحت صرف کی ہیں۔ رفیع افغانستان میں اقبال شناسی میں بھی کردار ادا کررہے ہیں۔ آپ کے مجموعی فکر وفن پر حضرت علامہ کے اثرات نمایاں ہیں۔ آپ نے نہ صرف اقبال کے اثرات قبول کئے ہیں بلکہ بعض اوقات تو اقبال سے ماخوذ شاعری بھی کرتے ہیں۔ ایک قطعہ میں اقبال سے مخاطب ہوتے ہیں کہ تو نے جلال الدین رومی بلخی سے جلال لیا۔ فکری جمال جمال الدین افغانی سے حاصل کیا۔ نبضِ ملت کا رمز خوشحال خان خٹک سے لیا تب تیری قسمت کا ستارہ اقبال چمکا۔ ˆ* رومی جلال د* بیا موندلہ جلالہ(۱) ˆ* فکری جمال د* واخیست لہ جمالہ(۲) ˆ* د* نبض د ملت زدہ œ%لہ خوشحالہ(۳) د اقبال ستوری د* و"‍¤‹ اقبالہ(۴)(۱۷) حبیب اللہ رفیع کی ایک نظم ’’د آسیا ز%ہ‘‘(قلب آسیا) حضرت علامہ کے درج ذیل بیت کی روشنی میں ترتیب دیا گیا ہے: ؎ آسیا یک پیکر آب و گل است ملت افغان در آن پیکر دل است اس نظم کا اھدا بھی حضرت علامہ کے نام سے کیا گیا ہے۔ ؎ لہ غورز (¦ لویدلی وینہ نہ دہ پہ دنیا œ'* ˆ* وی ز%ہ نو ہمدا ز%ہ د* دآسیا د ژوندون مزی پر* „%لی دافغان 'œ‍¤ ھیواد بسیاز%ہ د* لا تر اوسہ ہیچا نہ دی ‍%زولی پہ د* ز%ہ œ'* د ™*ژت وینہ ˆ‍¤&ی نہ لہ چا #ٹ¦ $ار¤&ی نہ لرز¤&ی د غیرت میدان ˆ* وینی لاں’„¤&ی د پردو د ککرو دانی دل شو* او%ہ شوی دی پہ د* ز%ہ دآسیا ˆ* راغلی بیرتہ نہ دی " * تللی دا * ہم دونی پا¤&ی پہ آسیا œ'* آسیا تش کالبوت د خاورو اوبو نہ د* خو دا ز%ہ د* ور‚ٹ'‍¤ ˆ* ی ساہ دہ د خپلواک ژوندون نصیحت د* پیرزوکر پہ رشتیا ˆ* پہ د* ز%ہ د آسیا دہ (۱۸) ترجمہ: ان کے خون میں جوش و جذبہ ابھی تک باقی ہے۔ دنیا میں اگر کوئی دل ہے تو وہ یہی ہے۔ ایشیا کی زندگی کے تانے بانے انہی کے مرہونِ منت ہیں۔ افغانوں کی حسین مملکت ایشیا کا دل ہے۔ ابھی تک کسی نے اس میں ہنگامہ برپا نہیں کیا۔ کیونکہ اس دل میں غیرت کا خون دوڑ رہا ہے۔ نہ کسی سے ڈرتا ہے نہ لرزتا ہے۔ میدانِ غیرت جب دیکھتا ہے تو مزید مست ہوجاتا ہے۔غیروں کے سروں کے یہاں ڈھیر لگ گئے ہیں ۔ وہ اسی قلبِ آسیا میں نیست و نابود ہوگئے ہیں۔ ایشیا فقط آب و گل کا بت نہیں ہے یہ تو قلب ہے جس سے روح عطا ہوتی ہے۔ آزاد اور خود مختار زیست کا منبع ہے اور یہ حقیقت ہے کہ یہ ایشیا کی زندگی کا دل ہے۔ خلیل اللہ خلیلی ؔ استاد خلیل اللہ خلیلی کا شمارافغانستان کے ان چند معروف علمی ہستیوں میں ہوتا ہے جنہوں نے افغانستان کے لئے بالخصوص اور عالمِ انسانیت کے لئے بالعموم گرانقدر علمی و ادبی خدمات انجام دیئے ہیں اور زندگی بھر جستجو ئے فکر اور تلاشِ تفہیم میں مصروفِ عمل رہے۔ آپ شوال ۱۳۲۵ھ ق / نومبر ۱۹۰۷ء میں کابل کے باغِ جہاں آرا میں میرزا محمد حسین کے گھر پیدا ہوئے ۔ آپ نسلاً پشتونوں کے مشہور قبیلے صافی سے تعلق رکھتے تھے۔ والدہ کا تعلق کوہستان (پروان) کے خوانین کے گھرانے سے تھا جو عبدالرحیم خان نائب سالار ہرات وزیرِ فوائدِ عامہ اور معاون صدارت عظمی کی بیٹی تھی۔ (۱۹) سات سال کی عمر میں والدہ وفات پاگئی۔ گیارہ سال کی عمر میں غازی امان اللہ خان کے حکم پر آپ کے والد کو قتل کردیا گیا۔ حکومت نے جائیدادیں ضبط کیں۔ خلیلی عرصہ تین سال تک کابل و کوہستان میں نہایت دربدری کے عالم میں حکومت کے زیرِ عتاب رہے۔ اسی وجہ سے باقاعدہ تعلیم سے محروم رہے۔ اس کے باوجود خلیلی نے مشہور و معروف معاصر اساتذہ سے تفسیر، منطق، فقہ ، حدیث اور ادبی علوم پڑھیں۔ (۲۰) ابتداء ہی سے شعر و ادب اور عرفان سے تعلق پیدا ہوا تھا۔ کیونکہ والد ماجد نے انہیں سب سے پہلے مثنوی معنوی اور دیگر عارفوں سے شناسائی کی طرف مائل کیا تھا۔ چنانچہ تدریس کے شعبے سے منسلک ہوئے۔ مختلف مدارس میں پڑھاتے رہے۔غازی امان اللہ خان ہی کے دور میں وزارت مالیہ میں محاسب مقرر ہوئے۔ سقوی انقلاب کے دوران آپ مزار شریف کے گورنر اورمستوفی تھے۔ محمد ہاشم خان کی صدارت کے دوران ۱۹۴۵ء میں قندھار آئے۔ اور قندسازی کے ایک کارخانے میں خدمات انجام دیتے رہے۔ دوبارہ کابل آنے پر کابل یونیورسٹی کے استاد اور معاون مقررہوئے۔(۲۱) ۱۹۴۹ء میں شاہ محمود خان کے کابینہ کے منشی بنائے گئے۔ ۱۹۵۰ء میں وزیرِ مطبوعات بنے۔ ۱۹۵۳ء کے بعد جھبہ ملی کی تاسیس کی۔ حجاز ، عراق، شام ، بحرین، کویت، اردن، قطر اور ابو ظہبی میں افغانستان کے سفیر رہے۔ واپسی پر کابل یونیورسٹی میں ادبیات کے استاد رہے۔ افغانستان میں انقلاب ثور کے فوراً بعد جب آپ عراق میں افغانستان کے سفیر تھے استعفیٰ دے کر افغانستان کے جہادی کارواں کے راہی بنے۔ آپ کے علمی و ادبی خدمات کی اعتراف میں آپ کئی ملکی و غیر ملکی علمی و ادبی عہدوں اور اعزازات سے نوازے گئے۔ نشانِ اول معارف افغانستان سے لیا۔ اور فرانس کے جنرل ڈوگل کی جانب سے نشانِ اکیڈیمک ملا۔ ایشیا اور افریقہ کے بین الاقوامی اہلِ قلم تنظیم کے ممبر رہے۔ اکیڈیمی تاریخ افغانستان کے اعزازی رکن رہے۔(۲۲) استاد خلیل اللہ خلیلی نے کئی علمی و ادبی کانفرنسوں میں شرکت کی تھی جن میں بعض ذیل ہیں: ۱۔ رودکی کانفرنس منعقدہ تاجکستان ۲۔ محمد فضولی کانفرنس منعقدہ باکو ۳۔ بوعلی کانفرنس منعقدہ سوربون ۴۔ علمی کانفرنس منعقدہ علی گڑھ ۵۔ اہلِ قلم کانفرنس برائے ایشیا و آفریقہ منعقدہ تاشقند ۶۔ ایشیا ئی و یورپی اہلِ قلم کانفرنس (دوبار) ۷۔ جامی کانفرنس ۸۔ کانفرنس تحلیل از مولوی منعقدہ قونیہ (تین بار) ۹۔ اسلامی وزرائے خارجہ کانفرنس منعقدہ جدہ، استنبول و لیبیا(۲۳) ان کانفرنسوں میں استاد خلیلی نے مختلف علمی و ادبی مقالات و خطبات کے علاوہ منظومات بھی پیش کیں۔ جناب خلیل اللہ خلیلی نے اسلام آباد کے علی میڈیکل سنٹر میں مختصر علالت کے بعد ۱۴/ اردہشت ۱۳۶۶ھ ش/ ۴ مئی ۱۹۸۷ء میں ۸۳ سال کی عمر میں وفات پائی۔ پشاور کے رحمان بابا قبرستان میں دفن ہوئے۔(۲۴) استاد خلیل اللہ خلیلی کے اثار و تالیفات کی فہرست طویل ہے جن میں بعض کا مختصر تعارف ذیل ہے: الف: پشتو زرین گوربت، مطبوعہ وزارت اطلاعات و فرہنگ جمہوری افغانستان اس کتاب کا فارسی ترجمہ عقاب زریں کے نام سے ۱۳۵۳ھ ش / ۱۹۷۴ء میں شائع ہوا۔ ب: عربی ۱۔ ابنِ بطوطہ فی افغانستان ۔ ۶۶ صفحات کا یہ رسالہ ابنِ بطوطہ کے سفرنامے کا وہ حصہ ہے جو افغانستان سے متعلق ہے ۔ یہاں کے تاریخی جغرافیائی اہمیت سے متعلق استاد خلیلی نے ۱۹۷۱ء میں بغداد سے اس وقت شائع کرایا جب آپ عراق اور کویت میں افغانستا کے سفیر تھے۔ ۲۔ ہرات تاریخہا آثار ہا و رجالہا۔ ہرات کے تاریخ آثار و شخصیات سے متعلق خلیلی کی یہ کتاب قبل از اسلام اور بعد از اسلام کے ادور پر محیط ہے۔ ۱۹۷۴ء میں بغداد سے طبع ہوئی۔ ج: فارسی(نثر) ۱۔ سلطنت غزنویان۔ غزنوی دورکے تاریخی اسناد مسکوکات تصاویر وغیرہ کی مدد سے مرتب کیا گیا ۔ یہ اثر ۱۳۳۳ھ ش میں انجمن تاریخ افغانستان کی طرف سے شائع ہوئی۔ ۲۔ آثار ہرات۔ ہرات کے تاریخی آثار سے متعلق یہ اثر تین جلدوں پر مشتمل ہے۔ جلد اول ۱۳۰۹ھ ش ۱۹۵ صفحات ۔ جلددوم ۱۳۰۹ھ ش ۳۱۵ صفحات ۔ جلد سوم ۱۳۵۰ھ ق / ۱۳۱۰ھ ش ۲۸۱ صفحات۔ ۳۔ احوال و آثار حکیم سنائی غزنوی۔ مطبوعہ ۱۳۵۶ھ ش صفحات ۲۳۲ وزارت فرہنگ افغانستان۔ ۴۔ فیض قدس۔ میرزا عبدالقادر بیدلؔ کے احوال وآثار سے متعلق ۱۰۲ صفحات پر مشتمل یہ کتاب ۱۳۳۴ ھ ش میں شائع ہوئی۔ ۵۔ نی نامہ۔ مولانا چرخی کے نی نامہ پر استاد خلیلی نے حاشیہ و تعلیقات لکھے۔ ۱۹۷۳ء میں انجمن تاریخ افغانستان کی جانب سے ۱۹۰ صفحات پر مشتمل کتاب شائع ہوئی۔ ۶۔ عیار از خراسان۔ (افغانستان کے امیر حبیب اللہ ملقب بہ خادم دین رسول ﷺ مشہور بہ بچہ سقہ سے متعلق) ۱۹۸۰ء میں نیو جرسی امریکہ سے شائع ہوئی۔ ۷۔ یار آشنا۔ علامہ اقبال سے متعلق کتاب ۱۴۰۲ ھ ق/ ۱۹۸۲ء میں شائع ہوئی۔ اس میں اقبال کے سفرِ افغانستان سے متعلق یادداشت اقبال کے چند منظومات اور استاد کا منظوم خراجِ تحسین شامل ہے۔ اس میں استاد خلیلی کی اقبال سے ملاقات کا ذکر بھی موجود ہے۔ ۸۔ قہرستان کوہستان۔ (نائب سالار عبدالرحیم خان کی خدمات) ۱۹۸۴ء اسلام آباد ۹۔ مادراز خون فرزندمی گزرد (فارسی داستان) ۱۳۶۵ھ ش ۱۹۸۶ء (۲۵) استاد خلیل اللہ خلیلی کے دیگر آثار و تالیفات درج ذیل ہیں: ۱۔ یمگان ۔ شرح آرامگاہ ناصر خسرو مطبوعہ کابل ۲۔ داستان زمرد خونین ۳۔ از بلخ تا قونیہ ۴۔ شرح دیوان سنائی مطبوعہ کابل و ترکی ۵۔ آرامگاہ بابر (کابل میں مغل سلاطین کے آثار کی شرح) ۶۔ قرأت فارسی برائی صنوف یازدہ و دوازدہ ۷۔ کتابہای نوریان ۔ سفر نامہ ایران ۸۔ قرآن کریم کے ۱۳ پاروں کا فارسی ترجمہ مشہور بہ تفسیر کابل ۹۔ دوشنبہ نامہ ۱۰۔ مراسلات زندگانی در اوستا ۱۱۔ رویت ہا وروایت ہا ۱۲۔ بلخ در ادب عربی ۱۳۔ بوزید بلخی و سفر افغانستان ۱۴۔ از محمود تا محمود ۱۵۔ درویشان چرخان (فارسی ترجمہ) ۱۶۔ نیا شین ۱۷۔ مسجد جامع ہرات ۱۸۔ پنجشیر و قہرماں سعود ۱۹۔ ماتمسرا ۲۰۔ تخستن تجاوز روسیہ دا افغانستان ۲۱۔ ایاز از نگاہ صاحبدلان ۲۲۔ ناہید و دختران قہرمان کابل(۲۶) آپ کے منظوم آثار میں آپ کا دیوان سب سے زیادہ مشہور ہے۔ اولین شعری مجموعہ کابل سے ۱۹۶۱ء میں شائع ہوا۔ اس سے پہلے ایک اور شعری مجموعہ ۱۹۵۵ئ/ ۱۳۳۴ھ ش میں کابل سے شائع ہوچکا تھا۔ ۱۹۶۱ء میں کابل سے رباعیات اور شعری مجموعہ ۵۱۰ صفحات پر شائع ہوا تھا۔ یہ تمام مجموعے ’’دیوان اول استاد خلیلی‘‘ کے نام سے ۱۹۶۲ء میں تہران سے بھی شائع ہوئے۔ استاد خلیلی کے فن سے متعلق معاصرین استادانِ سخن کے زرین آرا اور تقریضات شامل ہیں جن میں استاد سرور خان گویاؔاعتمادی ، استاد صلاح الدین سلجوقیؔ گل باچا الفتؔ اور عبدالرحمن پژواک نے استاد خلیلی کے فن کے مختلف پہلوئوں کو اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے۔ افغان دانشوروں کے علاوہ ایرانی مدبروں بدیع الزمان فروز انفر، استاد سعید نفیسی ، دکتور رضا زادہ شفق، دکتور لطف علی صورت گر، حبیب پغمانی اور نوح سمنانی وغیرہ کے آرا موجود ہیں۔ ہجرت کے بعد دیگر مطبوعہ آثار درج ذیل ہیں: یاد گلکون کفنان، گزیدہ آثار تاگور از گیتانجلی و داستان کابل والا، زمزم اشک، از سجادہ تا شمشیر، فرہاد، اشک ہا و خون ہا، شب ہائی آوارگی، غوث الاعظم ، شیخ الاسلام صاحب مبارک ثکاب۔(۲۷) استاد خلیل اللہ خلیلی معتقد اقبال تھے۔ آپ نے حضرت علامہ کو پڑھا خوب سمجھا ۔ علامہ کے صحبت بابرکت سے فیض یاب ہوئے۔ (۲۸) اسی بناء پر علامہ کے فلسفہ اور نظریہ سے بے حد متاثر تھے۔ اقبال کے فلسفۂ خودی کے قائل اور ملتِ اسلامیہ کی نشأۃِ ثانیہ کے لئے ان کی گراں قدر خدمات کے معترف تھے۔ چنانچہ جابجا منظوم خراجِ تحسین پیش کرکے قلبی تسکین پائی۔ استاد خلیلی افغانستان کے پہلے فارسی شاعر ہیں جنہوں نے حضرت علامہ کے حضور سب سے زیادہ خراجِ تحسین پیش کیا ہے۔ کابل کے پاکستانی سفارتخانے میں حضرت علامہ کی ستائیسویں برسی کے موقع پر جو تقریب منعقد ہوئی تھی اس کی صدارت استاد خلیل اللہ خلیلی نے کی تھی۔(۲۹) اس تقریب کے لئے پاکستانی سفارتخانے کے جناب خلیلی کا انتخاب حضرت علامہ سے ان کے لگائو کا بین ثبوت ہے۔ آپ نے ۱۳۴۳ھ ش میں لاہور میں حضرت علامہ کے مزار پر حاضری دی دل سوختہ کو ’’ آموز گار بزرگ‘‘کے ابیات سے تسکین بخشی۔ ؎ ای کہ مارا گرش چشم عقاب آمو ختی دیدۂ دیدار خودرا از چہ خواب آموختی شام جمعی رانمودی از فروغ فیض روز تیرہ شب را روز کردن ز آفتاب آموختی خفتگان رابا صریر شعلۂ انگیز قلم صد تکان دادی و چند ین انقلاب آموختی گردن اصرار دریوغ اسارت بودخم بند بگستن بہ مردم از رقاب آموختی زندگی گفتی خط فاصل بود بابندگی این دلیل قاطع از فصل الخطاب آموختی ہر سؤالی راکہ مشکل بود برعقل سلیم از دبستان دل آنرا صد جواب آموختی بار سوز بیخودی راز خودی آمیختی مشت خاک مردہ دار فتار آب آموختی کاروان درراہ و منزل دور و دشمن درکمین رہروان شرق را درس شتاب آموختی عقل رارہ شوق راجان قلب راذوق حضور این بہ درواماندگان رافتح باب آموختی خواجہ راگفتی تو شد بعد ازیں خون فقیر بینوا را راہ و رسم اعتصاب آموختی آہ از آن ملت کہ باشد یاس دراہش حجاب ایں امید قوم تو رفع حجاب آموختی مولوی درگوش جانب گفت رازی بس بزرگ زان معلم معنی ام الکتاب آموختی ملت توحید را از مکر دنیای فرنگ حرف حرف و فصل فصل و باب باب آموختی درکہن تاریخ شوق انگیختی شورنوین شوکت پارینہ را عہد شباب آموختی (۳۰) ثور ۱۳۴۵ھ ش میں لاہور کے دانشوروں کی جانب سے حضرت علامہ سے منسوب پروگراموں کے سلسلے میں جناب خلیل اللہ خلیلی کو دعوت دی گئی لیکن عین اسی وقت آپ حرمین شریفین کے دیدار کے لئے رختِ سفر باندھ چکے تھے۔ چنانچہ ’’کعبہ و اقبال‘‘ کے عنوان سے درج ذیل نظم کے ذریعے اپنی معذرت دائر کی: ؎ شوکت پارینہ را عہد شباب آموختی وی مجمع دوستان اقبال بودیم بہ آرزو کہ اماں آییم بہ آستان اقبال صدبومہ زینم از سرشوق برخاک سپھر شان اقبال اسرارخودی زسر بخوانیم درنامۂ جاوداں اقبال جوئیم رموز بیخودی را باردگر از زبان اقبال راز دل درد مند گویم بامردم را ز دان اقبال بینم کہ باز شہر لاہور گردید مدیحہ خوان اقبال بینم کہ باز آن کھن شہر ناز دبہ دل جوان اقبال گویم پیام از سنای ہر روز بہ گوش جان اقبال خوانیم زمولوی سخن ھا تا مست شود روان اقبال بودیم بدین امید شادان کامد خبری زکشور جان گفتند حرم درش گشادہ بر خلق صلای عام دادہ لیلای سیاہ پوش کعبہ از چھرہ نقاب برگشادہ آنجا کہ ہنرار ماہ و خورشید سربردر ہزش نہادہ آنجا کہ امین وحی جبریل دربان صفت از ادب ستادہ آنجا کہ کلاہ فخر شاہان برخاک نیاز او فتادہ برگردن سرکشان گیتی بنھادہ شکوہ وی تلادہ برپایۂ آستانہ آں کردہ فلک از ادب و سادہ آن مہد مہین کہ خاک پایش رشک مہ و آفتاب زادہ یعنی کہ جمال نور احمد زین طور جلال جلوہ دادہ زین قلہ ھای فخر و اقبال بگر فتہ جہان جان تہ بال این مژدہ چو آفتاب یکبار تابید بہ کلبۂ دل تار ہم حافظہ رخت بست و ہم ہوش ہم دست فتاد و ھم دل ازکار عشق آمد و شد بہ یک تجلی سلطان قلمرو دل زار احرام حریم شوق بستیم پرواز کنان بوی دلدار ماند یم رُخ نیازبر در سودیم سر ادب بہ دیوار پروانہ صفت طواف کردیم برشمع برین خانہ ٔیار این عذر من ار بہ خاک اقبال ای باخبران کنید تذکار از تربت او صدا بر آید کاحسنت بہ این خجۃ کردار چون یافت خلیل بتگرما درکوی خلیل بت شکن بار این خلعت تو مبارکش باد وین تاج طراز تارکش باد (۳۱) ٍ ۱۳۵۶ ھ ش/ ۱۹۷۷ء میں پنجاب یونیورسٹی نے حضرت علامہ کی صد سالہ جشن ولادت کی تقریبات کی مناسبت سے منعقدہ پروگرم کی دعوت ارسال کی لیکن استا د خلیل اللہ خلیلی کو حکومتِ افغانستان کی جانب سے اس سیمنار میں شرکت کی اجازت نہ ملی چنانچہ جناب خلیلی نے پنجاب یونیورسٹی کو حضرت علامہ کے حضور اپنی تہنیت ’’بہ پیشگاہ علامہ محمد اقبال لاہوری‘‘ کے عنوان سے ارسال کی۔ باد آبان آمد و آور د باخود مشک ناب خوش بخندالی صبحدم خرم بتاب ای آفتاب قاصد آمد نامۂ لاہور دارد در بغل نامۂ اینک نغمۂ فردوس دارد در خطاب نامۂ شوق است باید برسرچشمش نہاد قاصد یا راست ازمن بوسہ خواہدبی حساب شہر لاہور است شہر دوستان ازباستان دوستان رایاد کردن نبود ازصواب داستان غزنہ و لاہور بس دلکش بود ای حریف نکتۂ دان از حرف حق ابر ومتاب این دو شہر سالخورد از خرد سالی بودہ اند چوں دو حرف از یک عبارت چوں دو باب ازیک کتاب قاصد آمد خواند برگوش دلم پیغام جان عاشق لب تشنہ راداد از نوید وصل آب گفت آنجا انجمن برپا نمودہ اہل دل انجمن با انجمن تابان زجمع شیخ و شاب گفت بربالین قالین است روشن شمع فیض ماہ و انجم دوروی پروانہ سان در پیچ و تاب چون کشد منت زنور شمع بالین کسی کزدل روشن بر آوردہ ہزاران آفتاب درسیہ عصری کہ شد درپردہ لیلای سخن شاہد معنی بہ رخ افگنداز دہشت نقاب کعبۂ حق پایمال لشکر دجال شد لانۂ طاووس دین شد جای پرواز عذاب درسیہ عصری کہ استعمار شد درشرق و غرب برھمہ گردن فرازان جہان مالک رتاب خاصہ برآزاد مردان دیار مصطفی قافلۂ سالار اُمی حامل ام الکتاب شہسواران عجم راتیغ ہمت شد زکف پاسداران حرم راچشم غیرت شد بخواب روز میدان بود اما جنگجو یان خفتہ خوش وقت جولان بود اما بال و پربستہ عقاب مغزھای اہل فکر آشفتہ اندر جزو بحث لفظ ھا جای معانی قشر ھا جای لباب باز ماند از اوج مؤمن باپرو بال یقین شد فرو آسیمہ سرباپا ی شک در منجلاب راہزن شد میر شب تار اجگر شد تاجور خانۂ خلق خدا از جورانیاں شد خراب آن ذریوبی خبر این نا خدای بی خدا کرد از خون ستمکش جام عشرت پر شراب اختلاف اہل قدرت کرد یکبارہ تباہ خرمن این را در آتش حاصل آنرا درآب سود خوار سنگدل زاشک یتیم بیگناہ بست خلخال نگار خویش رالعل مذاب بیوۂ فرزند مردہ جان سپرد از فرط جوع خواجہ راخوناب اشکش زینت زین ورکاب درسیہ عصری کہ د ر اکلیل فرما ندار ہند دا ندھای اشک می تابید چون درخوشاب (بانو گیتی) زنخوت داشت برسر کوہ نور مہر رایکدم نبود از کشور حکمش غیاب درچنین عصر سیہ تابید ناگہ اختری نور افشان از ورای ظلمت چندین حجاب اخترہ (اقبال) مؤمن جلوہ افز اشد زشرق کز فروغش دیدہ و دل جاودان شد بہرہ باب برگرامی نامہ ٔ وی ثبت آثار عمر برنگارین خاتم وی نقش نام بو تراب نعرہ زد کامی ملت افسردہ تاکی خواب ناز صبح شد برپای شود دردہر افگن انقلاب گردن آزادگان راتیغ بہتر جای طوق مرد حق راسرفرازی باشد از دار و طناب درمسلمانی غلامی نیست فرمانش بدر درمسلمانی اسارت نیست زنجیرش بتاب قفل رابشکن کہ فرمان خدا دردست تست بندرا بگل کہ مومن رابنا شد بند و باب ای علم دارحرم راہ کجا داری بہ پیش زمزم این جائشتہ تاکہ می روی جویای آب چون توی معمار فطرت خود جہاں خویش ساز از بہشت اجنبی الاجتناب الاجتناب از شکوۂ نعرۂ وی چاک شد حبیب سحر ہم جرس جنبید و ہم موکب روان شد باشتاب نعرۂ ای توفندہ طوفانی کہ لرز اندزمین نعرہ ی برق جہا نسوزی کہ بشگافد سحاب واعظ از میدان مسلمان رابہ خلوت دادراہ رندما بردش بہ میدان ماز چون عہد شباب گفت مومن رابو دراہ حق فخر از جہاد داغ خون برسینہ اش بہتر بود از لعل ناب ای مجدد ! ای زتو آرایش کاخ کہن ای معلم ای زتو روشن چراغ جدو ناب ای بلال قرن ماخاموش گردیدی چرا لب گشایکدم کہ جان آمد بلب از اضطراب بانگ لاالہ برکش تا بلرز د کاخھا روی این فرش رمادی زیر این بنیلی قباب ای خلیل حق نواں کش کہ از تائید آن جان بتنگر سوز دازغم پیکر وی از عذاب حرف زن تعلیم دہ تدبیر کن تکبیر گو ای جبینت صبح امت صبح شد یکدم بتاب دیدہ بگشا تاز تاثیر نگاہ نافذت دیو عصر ماگریز د ہمچو شیطان از شہاب بردہ راشو جنون آموز کز فریاد وی خواجہ راچتر مرصع پوچ گر ددچون حباب عشق راباز دگر افروز درقندیل دل تانماید رھہر و ماراحقیقت از سراب نوجوان عصر را آموز اسرار خودی تا ستا ندجام از جم تیغ از افراسیاب تاشناسہ مھرۂ بازیگران دھررا مہرہ ما از مھر برکف مارھا زیرثیاب مشت خاری داشتم کردم نثار روضہ ات مشت خادم رابہ لطف خویش کن بویا گلاب (۳۲) اس کے علاوہ کلیات خلیل اللہ خلیلی کے حصہ مثنویات میں ہمیں ایک مثنوی حضرت علامہ کے حضور ملتی ہے جس کا عنوان ہے’’دمی اقبال‘‘۔ اس مثنوی میں حضرت علامہ کے سفرِ افغانستان کے موقع پر اپنی ملاقات کی یاد داشتوں کو محفوظ کیا ہے۔ ؎ یادایامی کہ با شعر و کتاب آشنا گشتم در آغاز شباب بستہ بودم با سخن پیو ندنو دادہ بودم دل بہ مھوش درگرو مشق می کردم غزلھای دری بال افشان ھمچو پروازپری درجوانی شعر قصان می شود پایکوبان دست افشان می شود با جوانی شعرر چو یکجا شود مست و شور انگیز و جان افزا شود بود عصری برگریزان و خزان شھر کابل رشک گلزارجنان نور خورشید ش زھرروزی فزون آسمانش صاف ونغزو نیلگون آرمیدی دردل تالاب ھا ہمچو آیینہ فروزان آب ھا بادھا یش در کمال اعتدال مشک افشان ازجنوب و از شمال بر گھاراکیمیا ساز خزان کردہ با ذرات طلا زر فشان بانم بابر شاہ باذوق مغل زر بہ بار آوردہ جاں خاروگل من درین فرخندہ روز دلنواز گشتم ازبخت ھمایون سرفراز حکم شداز سوی دولت ناگھان تابہ باغ آیم بہ نام میزبان بار صیقان و گر شامل شوم ھمدم مردان صاحبدل شوم میھمانان وار دبستان شدند درسرای خویشتن میھمان شدن سید والا سلیمان زمان عالم دین عارف ھندوستان واںدگر سر راس مسعود شھیر ازعلوم شرقی و غربی خبیر درمیانہ حضرت اقبال بود آفتاب شعرر اتمثال بود از جنینش نور قرآن آشکار وزلقای وی خزان ما بھار با سنائی کردہ ساغرھانگون در بساط لای خواران جنون عارف راز آشنائی مولوی عصر حاضر را چراغ معنوی شرق را خلاق غیرت خامہ اش درس امت جاودانی نامہ اش آنکہ بعداز کشور پاک حجاز بادرو دیوار افغان گفت راز دیدہ در چشم عقاب خشمگین ملت کہسار رانقش جبین آسیارا خواندہ نقش آب و گل گفتہ افغان راداران پیکر چوں دل ہر سہ تن بستند صف بر قبر شاہ شاہ خفتہ بی خبردر خوابگاہ مشت خاک وی نھای در جوف سنگ نی نوای نغمہ نی شہپر جنگ نی بساط خسروی نی تخت عاج نماز کوہ نور برقی نی زتاج زایران دست دعا افراشتند عرضہ کردند آنچہ دردل داشتند منظر خورشید و لوان خزان صفحہ سیما بگون آسمان زایران را جذب سوی خویش کرد خاکیان را آسمان اندیش کرد مہر رادید ند پویا سوی شام می نہد لرزان بہ بام چرخ گام می رو دتابوسہ ھای آخرین کوہساران راگزارد برجبین باغ مانند بہشت آراستہ برگ برگش شستہ و پیراستہ گفت سید این مناظر این جمال این بہشت روح بخش بی مثال قلب بابر رابہ خود تسخیر کرد شاہ رابر دست و پازنجیر کرد زان جہت فرمود کزھندوستان جا د ہندش دردل این بوستان شاعر آزادۂ بالغ نظر از رموز حال و ماضی باخبر سبز گون سیمای وی شد لالہ گون جوش زد دررگ رگ وی موج خون خامہ را بگرفت برجای عصا خاصہ ای جا دوکش معجز نما اہل دل راخامہ جای اژدھاست حرف حق برھان مردان خداست گاہ چشمش بود سوی آسمان برفضای نیلگون بیکران گاہ سوی قلہ ہای برف پوش محمل خورشید شان برروی دوش گاہ سوی کابل جنت نظیر مولد آزادگان شیر گیر گاہ سوی تربت خاموش شاہ جای مسند سنگ گورش تکیہ گاہ خامہ با انگشت وی ہمکار بود آسمان پرواز و اختر باربود راہ خود رابہ قلم اظہار کرد قول سید رابہ شہر انگار کرد این غزل رو شنگرسیمای ماست ماضی ما حال ما فرد ای ماست (۳۳) اس طرح ایک اور چھوٹی سی مثنوی حضرت علامہ کے حضور ہے جس کا عنوان ہے: برآرامگاہ عارف مشرق علامہ اقبال لاہوری ؎ تربت اقبال راکردم طواف دولتی دیدم درانجا بی خلاف دیدۂ بیدار از اندر منام دان دوستی تیغ خفتہ درنیام مشت خاکش بردہ برگدوں سبق تابدار ہر زرہ اش انوار حق آسمان برخا ک او پیرایہ ای ’’آفتابی درمیان سیایہ ای‘‘ خلوت آرای رموز بیخودی محرم اسرار آیات خودی تابہ حشر او سینۂ آگاہ او بشنو ی فریا الا اللہ او زندہ از وی رسم و راہ معنوی روشن ازوی خانقاہ مولوی از سنائی سوز ھا درسینہ اش وزنی بلخی نوادر نغمہ اش این نواھا از نوای کبریاست کاروان خفتہ را بانگ دراست این نوابیرون امداز نای عشق ویں گہرہا زایہ دریای عشق ز سبوی بادہ نوشان فرنگ از غریو نعرہ وحدت سنگ نعرۂ او دردل ما کار کرد خفتگان شرق رابیدار کرد برمزارش بود لوحی تابدار یادگار سرزمین کوہسار دردل آن سنگ ازافکار وی باز خواندم بہترین اشعار وی (۳۴) استاد خلیل اللہ خلیلی کی کلیات کے حصہ غزلیات میں ایک غزل موجود ہے جس کا عنوان ہے’’’’غزل حکیم شرق علامہ اقبال‘‘۔ یہ غزل خلیلی نے حضرت علامہ کی تضمین پر لکھی ہے جو ’’مسافر‘‘ میں ’’برمزارِ شہنشاہِ بابر خلد آشیانی ‘‘کے عنوان سے موجود ہے۔ خلیلیؔ کی غزل یہ ہے: ؎ بیا کہ ساز فرنگ از نوابر افتاد است درون پردۂ اونغمہ نیست فریاد است زمانہ کہنہ بتان راہزاربار آراست من از حرم نگذشتم کہ پختہ بنیاد است درفش ملت عثمانیان دوبارہ بلند چہ گویمت کہ بہ تیمور یان چہ افتاد است خوشانصیب کہ خاک تو آرمید اینجا کہ این زمین زطلسم فرنگ آزاد است ہزار مرتبہ کابل نگوتراز دھلی است ’’کہ آن عجوزہ عروس ہزار داماد است‘‘ درون دیدہ نگہ دارم اشک خویش را کہ من فقیر م راین دولت خداد است اگرچہ پیر حرم درد لا الہ دارد کجا نگاہ کہ برندہ تر زپولا د است (۳۵) استاد خلیل اللہ خلیلیؔ نے مندرجہ بالا منظومات میں حضرت علامہ کو عارف شرق، حکیم شرق وغیرہ کے خطابات دیئے ہیں۔ اور حضرت علامہ کے فن و شخصیت سے متاثر ہوکر ایک مستقل کتاب یار آشنا لکھی۔ یہ منظوم و منثور کتاب افغانستان کی جمعیت اسلامی کی علمی و مشاورتی انجمن کی جانب سے ۱۹۸۲ء میں شائع ہوئی کتاب اسی(۸۰) صفحات پر مشتمل ہے اور حضرت علامہ کی یاد ،ان کی فن و شخصیت سے متعلق متعدد نکات پر بحث کی گئی ہے۔ (۳۶) اس کتاب کا نام حبیب اللہ رفیع نے ایک او رمقالے دیارِ آشنا لکھا ہے جو علامہ اقبال اور افغانستان سے متعلق ہے۔(۳۷) جبکہ اسی مقالے میں استاد خلیل اللہ خلیلی کو ملت کی بیداری کے سلسلے میں اقبال کی راہ کا راہی قرار دیا ہے۔(۳۸) حضرت علامہ نے سفرِ افغانستان کے دوران نومبر ۱۹۳۳ء میں غزنی میں حضرت حکیم سنائی غزنوی کے مشہور و معروف قصیدہ کے بحر و ردیف میں ایک اور نظم تخلیق کی ۔ جو بالِ جبریل میں شائع ہوئی۔ حکیم سنائی غزنوی کے قصیدے کا مطلع درج ذیل ہے: ؎ مکن درجسم و جان منزل کہ این دو نیست و آن والا قدم زین ہر دو بیرون نہ نہ این جاباش نی آنجا اور حضرت علامہ کی اردو نظم درج ذیل ہے: سماسکتا نہیں پنہائے فطرت میں مراسودا غلط تھا اے جنوں شاید ترا اندازۂ صحرا! خودی سے اس طلسم رنگ و بو کو توڑ سکتے ہیں یہی تو حید تھی جس کو نہ تو سمجھا ،نہ میں سمجھا نگہ پیدا کر اے غافل تجلی عین فطرت ہے کہ اپنی موج سے بیگانہ رہ سکتا نہیں دریا رقابت علم و عرفان میں غلط بینی ہے منبرکی کہ وہ حلاج کی سولی کو سمجھا ہے رقیب اپنا نہ کر تقلید اے جبریل میرے جذب و مستی کی تن آساں عرشیوں کو ذکر و تسبیح و طواف اولیٰ بہت دیکھے ہیں میں نے مغرب و مشرق کے میخانے یہاں ساقی نہیں پیدا ،وہاں بے ذوق ہے صہبا! نہ ایران میںرہے باقی، نہ تو راں میں رہے باقی وہ بندے فقر تھا جن کا ہلاکِ قیصر و کسریٰ یہی شیخ حرم ہے جو چراکر بیچ کھاتا ہے گلیم بوذرؓ و دلقِ اویسؓ و چادر زہراؓ؟ حضورِ حق میں اسرافیل نے میری شکایت کی یہ بندہ وقت سے پہلے قیامت نہ کردے برپا ندا آئی کہ آشوب قیامت سے یہ کیا کم ہے ’’گرفتہ چینیاں احرام و مکی خفتہ دربطحا! لبالب شیشۂ تہذیب حاضر ہے مے ’لا‘ سے مگر ساقی کے ہاتھوں میں نہیں پیمانہ ’الا‘ دبا رکھا ہے اس کو زخمہ ور کی تیز دستی نے بہت ینچے سروں میں ہے ابھی یورپ کا واویلا اسی دریا سے اُٹھی ہے وہ موج تند جولاں بھی نہنگوں کے نشیمن جس سے ہوتے ہیں تہ وبالا غلامی کیا ہے؟ ذوق حسن و زیبائی سے محرومی جسے زیبا کہیں آزاد بندے، ہے وہی زیبا! بھروسہ کرنہیں سکتے غلاموں کی بصیرت پر کہ دنیا میں فقط مردانِ حُرکی آنکھ ہے بینا! وہی ہے صاحبِ امروز جس نے اپنی ہمت سے زمانہ کے سمندرسے نکالا گوہرِ فردا فرنگی شیشہ گر کے فن سے پتھر ہوگئے پانی مری اکسیر نے شیشے کو بخشی سختیٔ خارا! رہے ہیں اور ہیں فرعون میری گھات میں اب تک مگر کیا غم کہ میری آستین میں ہے یدِ بیضا! وہ چنگاری خس وخاشاک سے کس طرح دب جائے جسے حق نے کیا ہو نیستاں کے واسطے پیدا! محبت خویشتن بینی، محبت خویشتن داری محبت آستانِ قیصر و کسریٰ سے بے پروا عجب کیا گرمہ و پرویں مرے نخچیر ہوجائیں ’’کہ برفتراک صاحب دولتے بستم سرخودرا‘‘ وہ دانائے بستم سر خودرا‘‘ غبار راہ کو بخشا فروغِ وادی سینا نگاہ عشق و مستی میں وہی اول، وہی آخر وہی قرآن، وہی فرقان، وہی یٰسین ،وہی طٰہٰ! سنائیؔ کے ادب سے میں نے غواصی نہ کی ورنہ ابھی اس بحر میں ہیں لاکھوں لولوے لالا (۳۹) جناب خلیل اللہ خلیلی نے اس منظومے کا یوں فارسی منظوم ترجمہ کیا: نگبخد و سعت سودای من در پہنہ دنیا خطا بود ای جنون شاہد تر اندازہ صحرا شکستِ این طلسم رنگ و بورا از خودی می جوی کہ این توحید بوداما نکردش فہم عقل ما نگاہی کن توای غافل تجلی نیست جز فطرت کہ دریانیست غیراز موج نبود موج جز دریا چہ چوب دار حلاج و چہ چوب پایہ منبر خلاف علم و عرفان از غلط بینی شدہ بیدار تو ای روح القدس از جذبۂ مستاں مکن تقلید تن آسان عرشیا نرا ذکر و تسبیح و طواف اولیٰ بسا میخانہ ہا دیدم من اندر مغرب و مشرق درین جا بزم بی ساقی، در انجا بادہ ناگیرد نہ در ایران اثر پیدا نہ درتوران نشان باقی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قیصر و کسریٰ ببین شیخ حرم گیرد فروشد مال خود سازد گلیم بو ذرؓ و دلق اویسؓ و چادر زہرؓا بہ یزدان کرد اسرافیل شکوہ کای خدا تر سم قیامت بیشتر از وقت گردد درجہان برپا ندا آمد کز آشوب قیامت کی بود کمتر ’’گرفتہ چنیان احرام و مکی خفتہ دربطحا لبالب جام تہذیب زمان از بادہ ’لا‘ بشد نبا شد درکف ساقی مگر پیمانہ ’الا‘ چو سرکش موجہا کز قلب این دریا برون تازہ کند کاخ نہنگان رابیک جنبش تہ و بالا غلامی چیست محرومی ز ذوق حسن و زیبائی بود زیبا اگر آزاد مردی گویدش زیبا غلامان رابصیرت قابل باور نمی باشد بجز آزادہ در دنیا ندارد دیدہ بینا زمامِ حال دردست کسی باشد کہ از ہمت زدریای زمانہ بازگیرد گوہر فردا فرنگ از شیشہ سازی سنگ خارا را نماید آب ببخشد کیمیای من بہ شیشہ سختی خارا ندارم غم اگر فرعون باشد درکمین من چومن در آستین خویشتن دارم یدِ بیضا چہ ممکن کاین خس و خاشاک برقی راکند خاموش کہ از بہر نیستانش نمودہ وسعت حق پیدا محبت خویشتن بینی محبت خویشتن داری محبت زاستان قیصر و کسریٰ ست بے پروا عجب نبود اگر پروین ومہ گر دد شکارِمن کہ بر فتراک صاحب دولتی بستم سرخودرا شناساں سُبل ُ ختم رُسل مولای کل ذاتی کہ خاک راہ رابخشد فروغ وادی سینا بچشم عشق و مستی اوست ہم آغاز ہم انجام بود قرآن بود فرقان بود یٰسین بود طٰہٰ زغواصی مر پاس سنائی بازمی دارد وگرنہ اندرین بحر ست چند ین لولوی لالا (۴۰) اقبال سے متعلق منظومات اور تراجم کے علاوہ جناب خلیلی کی شاعری میں جا بجا حضرت علامہ کا تذکرہ ملتا ہے۔ ۱۹۸۳ء میں اسلام آباد میں جناب خلیلی کے اعزاز میں منعقدہ ایک تقریب میں آپ نے نظم’’سفیرِ ماتم‘‘ سنائی۔ اس نظم میں افغانستان میں خونی انقلاب اور اپنی دربدری او مہاجرت کے درد انگیز جذبات کو درد انگیز انداز میں بیان فرمایا۔ یہاں بھی علامہ کا ذکر ہے۔ ؎ بندۂ حق درجہان آزادہ است مست وی فارغ زجام وبادہ است خواستم تا اندرین شام سیاہ سایۂ اقبال را سازم پناہ (۴۱) گویمیش کابل بخون گلکون شدہ پرچم اقبال آن واژون شدہ زادگاہ مولوی را آب برد کعبہ العشاق را سیلاب برد شہر غزنی جلوہ گاہ علم وفن مسند محمود شاہ بت شکن در شرار ظلم دشمن درگرفت منبر تو حیرت کافر گرفت ’’سید السادات مخدوم امم خود بلا ھو راست خفتہ در حرم (۴۲) کابل و لاہور باہم تو امند این دولت غمگساران ہمند این دو گلشن خوردہ ازیک چشمہ آب ہر دور روشن گشتہ از یک آفتاب دوری از یاران گناہی بودہ است سخت مضحک اشتبا ہی بودہ است اینک این آوارگان بیگناہ غیر ازین کشور کجا جو ئندہ را (۴۳) سرزمین پاک باما آشنا ست این نظر باترجمان راز ماست ہر نگہ این جازبان الفتاست ہرلب این جا بازگوی وحدست من عیان بینم بہ برق ہر نگاہ پرتوی از آفتاب لا الہ تا سحرمی آیدم جا بگوش نغمۂ توحید از بانگ سروش می سراید از زبان حال تان درد مارا حضرت اقبال تان می شود از تربت باکش بلند نعرہ شیری کہ افتادہ بہ بند زملتی آوارہ کوہ ودمن دررگ او خون شیران موجزن آسیا یک پیکر آب و گل است ملت افغان در آن پیکر دل است (۴۴) سید السادات و مخدوم امم ام لقبی است کہ دکتر علامہ اقبال بہ علی بن عثمان ہجویری غزنوی صاحب کشف المحجوب دادہ۔ سرور خان گویاؔ میری تحقیق کے مطابق سرور خان گویاؔ کو افغانستان کے دوسرے افغان اقبال شناس سکالر ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ بقولِ ڈاکٹر محمد ریاض مرحوم: افغانستان کے فضلاء کے ساتھ اقبال کے ذاتی مراسم بھی خاص اہمیت کے حامل ہیں۔ ڈاکٹر صلاح الدین سلجوقیؔ اور سرورخان گویاؔ ان کے احباب میں شامل تھے اور دونوں مرحومین کا سارا افغانستان ارادت مند اور معتقد ہے۔(۴۵) افغانستان میں اقبال کے فن و شخصیت سے متعلق عبدالہادی داویؔ کے بعد پہلی تحریر ہی سرور خان گویاؔ کی ملتی ہے۔ جو کہ ’’دکتر اقبال‘‘ کے عنوان سے مجلہ کابل میں مارچ ۱۹۳۱ء میں شائع ہوئی۔ (۴۶) حضرت علامہ اور ان کے رفقائے سفر کے لئے سفرِ افغانستان کے دوران آپ ہی حکومتِ افغانستان کی جانب سے ان فضلاء کے پروٹوکول آفیسر تھے۔ کابل کے شاہی مہمان خانہ ’’باغ‘‘ کے پھاٹک پر وہ صاحب ملے جو ہم نووارد مہمانوں کی خاطر مدارت اور دیکھ بھال کے لئے مقرر تھے ان کا نام سرور خان اور گویاؔ تخلص۔(۴۷) آپ اس تمام سفر میں حضرت علامہ کے ہمرکاب رہے کابل کے بعد غزنین کے پر کیف روحانی اسرار سے بھرپور سفر میں ہمرکاب ہونے کا اعزاز حاصل رہا۔ (۴۸) قندھار کے تاریخی شہر اور زیارتِ خرقہ آنحضرت محمد مصطفی ﷺ کے دوران بھی سرور خان گویاؔ ساتھ تھے۔ افغان قہرمان اور فاتح پانی پت احمد شاہ ابدالیؔ کے مزار پر حاضری کے وقت بھی شریکِ سفر رہے۔ تا آنکہ افغانستان کے آخری بارڈر بابِ چمن تک گویاؔ نے ساتھ دیا۔ یوں حضرت علامہ کے ساتھ قربت اور جستجو ئے آگہی کا یہ سفر اختتام پذیر ہوا۔ ملتِ اسلامیہ کے عظیم فلسفی‘ شاعرِ مشرق اور افغانوں کے عظیم محسن سے فرقت کا احساس ان کے لئے ایک ناقابلِ برداشت المیے کے برابر تھا۔ اس لمحے کو سید سلیمان ندویؔ نے تا ابد یوں محفوظ کیا ہے۔ اب ہم افغانستان کی آخری سرحد میں تھے۔ اور اپنے میزبانوں سے شاید ہمیشہ کیلئے جدا ہو رہے تھے ۔ ایک اسلامی حکومت کے روح افزا مناظر کی سیر ابھی دل بھر کرنے بھی نہ پائے تھے کہ موسمِ بہار آخر ہوگیا ۔ قلعہ کے تمام آفیسر اور عملہ نے رخصتاً ہاتھ ملائے ۔ رفیقِ سفر سرور خان گویاؔ جو اتنے دنوں تک جلوت و خلوت میں ساتھ رہے تھے ہم کو حسرت بھری نگاہوں سے دیکھ رہے تھے ۔ اور ہم ان کو تک رہے تھے۔ ؎ روئے گل سیر نہ دیدم و بہار آخر شد بے چارہ گویاؔ قفس کی طرح ابھی تک افغانستان سے باہر نہیں گیا ہے۔ اور باہر کی دنیا کو صرف کتابوں کی آنکھوں سے دیکھا ہے وہ اس سرحد کے پاس پہنچ کر پھڑک کر رہ گیا ۔ زبانِ حال یہ کہہ رہی تھی۔ ؎ اگر یک سرِ موئے برتر پرم فروغ تجلی سوز د پرم سب سے زیادہ ۔۔۔۔ افغانستان کا چہکتا بلبل گویاؔ اس وقت خاموش تھا اور مصافحہ و معانقہ کے بعد باہم مکاتیب و مراسلت کے وعدہ پر ہماری چند روزہ ملاقات ختم ہوگئی۔ موٹروں نے آگے کو حرکت کی اور چند منٹ کے اندر افغانستان کی سرحد کو پھاند کر انگریزی علاقہ میں داخل ہوگئے۔(۴۹) تو گویا جناب گویاؔ صاحب کو اپنے آئیڈیل اقبال سے خلوت و جلوت میں ساتھ رہنے کا اعزاز حاصل رہا۔ تصورات و خیالات میں آئیڈیلائز (Idealized )کرنے والے ممدوح سے براہِ راست استفادہ کرنے کا موقع ملا۔ ان کو سمجھنے اور ان کی عالمی آفاقی شخصیت سے براہِ راست مستفید ہونے کا موقع ملا جس کی بدولت گویاؔ کو حضرت علامہ سے خلوص و نیاز کا عطیہ ان کی زندگی ہی میں نصیب ہوا۔ مجلہ کابل کے قدیم شماروں میں حضرت علامہ کے حیات میں ہی حضرت علامہ کے فکر وفن پر جناب سرور خان گویا کی کئی تحریرات ملتی ہیں۔ انجمن ادبی کابل کی جانب سے مثنوی مسافر پر تقریظ شائع کی۔(۵۰) ڈاکٹر محمد ریاض مرحوم لکھتے ہیں: ’’اقبال افغانوں کی نظر میں رومیؔ، سعدیؔ، حافظؔ اور بیدلؔ کے بعد فارسی کے پانچویں بڑے شاعر ہیں۔(۵۱) ڈاکٹرصاحب اس بات کی توثیق میں سرور خان گویاؔ مرحوم ہی کے تاثرات کا حوالہ دیتے ہیں: یکی از فضائل عمدہ و بزرگ علامہ ممدوح کہ مارا بہ مد حش اختیاری نماید، این است کہ وی فضل و استعداد خودرا مخصوص بہ ہند نساختہ بلکہ از جملہ فضلا و خدام بین المللی اسلام بشمارمی رود۔ این فاضلِ شہید یک سوز حقیقی ہموارہ برای معارف گذشتہ و عظمت رفتہ اسلام دستہ و باتمام قومی و موجودیت خود در صدر رہنمونی و سنجیدن جادہ ھا برای عورت ترقی و عظمت اسلام می باشد۔(۵۲) ڈاکٹر ریاض مرحوم نے اپنی تحریر میں اس اقتباس کاحوالہ مجلہ کابل میں صفحہ نمبر ۸۴ لکھا ہے جو کہ صحیح نہیں ۔ درست صفحہ نمبر ۸۵ ہے۔(۵۳) ۲۱ / اپریل ۱۹۳۸ء کو حضرت علامہ کی وفات کے بعد اپریل ہی کے آواخر میں کابل میں انجمن ادبی کی جانب سے تعزیتی تقریب میں سرور خان گویاؔ ہی نے نظامت کے فرائض سرانجام دیئے تھے جس میں حضرت علامہ کا سوانحی تذکرہ گویاؔ نے پیش کیا تھا۔(۵۴) جبکہ اسی محفل میں سرور خان گویاؔ نے حضرت علامہ کی فارسی منتخبات ترنم سے سنا کر محفل کوپرکیف بنادیا تھا۔(۵۵) اسی محفل کی روداد اور سرورخان گویاؔ کی طرف سے حضرت علامہ کی انہی سنائی گئی منتخبات کو مجلہ کابل نے اہتمام کے ساتھ شائع کیا۔(۵۶) اسی موقع پر میں انتہائی افسوس کا اظہار کرنا اپنا فرض سمجھتا ہوں جو کہ نہ صرف علمی دیانت کا تقاضا ہے بلکہ تحقیقی اصولوں کے تحت اس کا اعتراف کرنا میرے لئے ناگزیر ہے کہ میں حضرت علامہ کے اس بڑے افغان اقبال شناس کا مستقل سوانحی تذکرہ حاصل کرنے سے محروم رہا۔ افغانستان میں جاری پچیس سالہ خانہ جنگی ، کتب خانوں کی آتشزدگی اور بربادی کی وجہ سے بعض مأخذات تک رسائی ممکن نہ ہوسکی۔ تلاشِ بسیار کے باوجود گویاؔ کی سوانحی مواد کا ملنا ناممکن رہا۔ البتہ جناب گویاؔ کی علمی شخصیت کو مردم شناس سید سلیمان ندویؔ نے یک نگاہِ طائرانہ میں یوں محفوظ کیا ہے: ان کا نام سرور خان اور گویاؔ تخلص ہے ۔ یہ امیر عبدالرحمن مرحوم کے زمانے کے مشہور سردار عبدالقدوس خان کے پوتے ہیں ۔ پچیس تیس کے درمیان عمر ہوگی۔ یہ فارسی کے علاوہ عربی اور انگریزی بھی جانتے ہیں۔ شعر و شاعری کا بہت اعلیٰ مذاق رکھتے ہیں۔ فارسی میں کم کوئی اچھا شعر ہوگا جو ان کو یاد نہ ہو۔ شعرالعجم اور میرزا مظہر کے’’ خریطۂ جواہر‘‘ کے تمام منتخب اشعار ان کی نوک زبان ہیں۔ اندازہ ہے کہ پچیس تیس ہزار شعران کو یاد ہوں گے۔ اخلاقِ پسندیدہ اطوار شائستہ ، ذہن رسا،مذاق عالی، تذکروں کے حافظ اور قلمی کتابوں کے جویا، فارسی تحریر کا سلیقہ بہت خاصہ رکھتے ہیں۔ کابل کی شاہی انجمن ادبی (جس کو رائل اکادمی کہنا چاہیئے اور جس کو موجودہ حکومت نے قائم کیا ہے) کے رکنِ رکین ہیں۔ رسالہ’’ کابل ‘‘میں ان کے مضامین چھپا کرتے ہیں۔(۵۷) سرور خان گویاؔ نے ۱۹۶۷ء میں جس وقت وہ افغانستان میں مشیرِ تعلیم کے عہدے پر فائز تھے اقبال کونسل کراچی کے زیرِ اہتمام تقریب یومِ اقبال میں شرکت کی تھی۔ اس تقریب میں آپ نے مقالہ’’اقبال اور افغانستان‘‘ پیش کیا تھا۔ بالخصوص حضرت علامہ کے سفرِ افغانستان کے دوران اپنی ذاتی یادداشتوں کے ذریعے حضرت علامہ سے متعلق یادوں کو نہ صرف تازہ کیا بلکہ ہمیشہ کے لئے محفوظ بھی کیا۔(۵۸) یہ مقالہ فارسی میں ’’علامہ اقبال در ادب فارسی و فرھنگ افغانستان‘‘ میں بھی شائع ہوا ہے۔(۵۹) گویاؔ مرحوم کی صحیح تاریخ وفات کا پتہ نہیں چل سکا البتہ اقبال ممدوح عالم مطبوعہ بار اول نومبر ۱۹۷۸ء میں استادِ محترم مرحوم ڈاکٹر محمد ریاض کے مقالے ’’افغانستان اور ایران میں اقبال پر مقالات و کتب‘‘ میں جناب گویاؔ کو مرحوم لکھا گیا ہے۔(۶۰) جس سے پتہ چلتا ہے کہ جناب گویاؔ۱۹۷۸ ء سے پہلے ہی وفات پاچکے تھے۔ افغانستان میں اقبال شناسی کے علاوہ بھی جناب سرور خان گویاؔ کی کئی علمی و ادبی خدمات ہیں۔ جن کا یہاں مختصر تذکرہ ضروری سمجھتا ہوں۔ آپ نے شبلی نعمانیؔ کی شعر العجم حصہ سوم(از فغانی تا ابو طالب کلیم) کا فارسی ترجمہ کیا ۔ جو کابل کے انجمن ادبی کی جانب سے ۱۳۱۵ھ ش کو ۱۵۲ صفحات پر مطبع عمومی کابل سے شائع ہوئی۔(۶۱) اس باقاعدہ اشاعت سے قبل مجلہ کابل کے مختلف شماروں میں متذکرہ اثر قسط وار شائع ہوتا رہا۔ - آخرین درہ شاعری فارسی دلو ۱۳۱۳ھ ش (۶۲) - از فغانی تا ابو طالب کلیم حوت ۱۳۱۳ ھ ش(۶۳) - فغانی، شیرازی حمل ۱۳۲۴ ھ ش(۶۴) - ملک الشعراء فیضی جوز ا / ۱۳۱۴ھ ش (۶۵) - ملک الشعراء شاہجہان جوزا/ ۱۳۱۵ھ ش (۶۶) سرور خان گویاؔ کا دوسرا اثر’’آیدات نفیسہ ہرات‘‘ انجمن تاریخ افغانستان کی جانب سے ۱۳۲۶ھ ش میں شائع ہوا۔ جبکہ اس کی دوسری اشاعت مولانا جامی کی ساڑھے پانچ سو سالہ جشنِ ولادت کی مناسبت سے کابل کے انجمن جامی کی جانب سے ۱۳۴۳ھ ش میں مطبع معارف کی جانب سے ہوئی۔(۶۷) عبدالباری شہرت ننگیال الحاج عبدالباری شہرت ننگیال ۱۳۳۷ھ ش افغانستان کے میں ولایت وردگ کے چک ضلع کے قریہ بمبئی میں پیداہوئے ۔ ابتدائی تعلیم یہیں حاصل کرنے کے بعد کابل کے امام ابو حنیفہ مدرسہ میں داخل ہوئے۔ ۱۳۵۶ھ ش میں انٹرمیڈیٹ کرنے کے بعد افغانستان میں کمیونسٹ انقلاب پربا ہوا۔ چنانچہ پاکستان ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے۔ یہاں پشاور میں جمعیت اسلامی افغانستان کے نشریاتی شعبے سے منسلک ہوئے اورجریدہ ’’مجاہد‘‘ کے رائٹر منتخب ہوئے۔ مجاہد تنظیموں کے اتحاد کے بعد’’قیامِ حق‘‘ مجلہ کے مدیر مقرر ہوئے۔ اس کے بعد ’’مجاہد‘‘ جریدہ اور’’ بصیرت ‘‘کے مسؤل مدیر بنے۔(۶۸) ۱۳۶۸ھ ش میں صوبہ پکتیا کے مجاہد کمانڈر جلال الدین حقانی کے فرہنگی کمیٹی کے چیف مقرر ہوئے۔ ’’جہاد‘‘ اخبار ، دجہاد ہندارہ (آئینہ جہاد) او رمنبع الجہاد پشتو ، اردو ، فارسی اور عربی مجلات کے مدیر مقرر کئے گئے۔ کئی سال تک یہاں خدمات انجا م دیتے رہے، اس دوران اسلام آباد میں قائم جہادی ثقافتی شوریٰ اور مرکز تحقیقات افغانستان سے بھی وابستہ رہے۔ ننگیال صاحب سے راقم الحروف کی کوئٹہ اور پشاور میں کئی بار ملاقاتیں ہوئی ہیں۔ آپ ایک مستعد لکھاری ہیں کئی مجلات کے علاوہ اخبارات (افغان مجاہد، مجاد اولس، شہادت، سھار، اور وحدت وغیرہ) میں مقالات اورکالم چھپتے رہے ہیں۔ آپ بیک وقت عربی فارسی اردو اور پشتو میں لکھتے رہے ہیں۔ آپ کے مطبوعہ آثار و تالیفات کی تفصیل درج ذیل ہے: ۱۔ پہ افغانستان œ'* د کمونستانو قدرت تہ ر’*‹ل۔ ۲۔ دا فغان مجاہد آواز (شعری مجموعہ)۔ ۳۔ د افغانستان سیاسی احزاب۔ ۴۔ د مجاہد پیغام(شعری مجموعہ)۔ ۵۔ پہ افغانستان œ'* روان سیاسی جہاد۔ ۶۔ دوی مشاعری۔ ۷۔ جراید غیر دولتی افغانستان۔ ۸۔ خبر* (شعری مجموعہ)۔ ۹۔ شارقی د خپلو انقلابی ‍¥œ ¢ƒ¦ ژ %پ œ ‚* ۱۰۔ د کیحٔ یاد۔ ۱۱۔ احدی و احدیت پہ لار د ابدیت پہ لور۔ ۱۲۔ بہ یاد سخن آفرین د سخنور بزرگ استاد خلیلی ۔ ۱۳۔ اسناد تاریخی افغانستان ۔ ۱۴۔ جہادی فتویٰ (پ *۔ ۱۵۔ او ھغوی ˆ* مر( ی نہ شی وژلای۔ ۱۶۔ سنگرداران قلم۔ ۱۷۔ معرفی جرائد و مجلات مقاومت۔ ۱۸۔ ھلتہ ˆ* تاریخ تکرار¤&ی۔ ۱۹۔ مزلونہ او منزلونہ (شعری مجموعہ)۔ ۲۰۔ داور ترا * د ژوند شعر و ¦۔ ۲۱۔ تیار* لار* ر)* کر'*۔ ۲۲۔ وینہ پہ قلم œ'* (تذکرہ) ذرط صفحات۔ ۲۳۔ کارتون سخن میگوید۔ ۲۴۔ او (¢‍+ وچلید*۔ ۲۵۔ دا ور"* او دا یادونہ۔ ۲۶۔ قھرمان شہید عزیز الرحمان الفتؔ۔ ۲۷۔ خوست د آزاد+ ƒ¦ لمر #ژک œ'*۔ ۲۸۔ د تاریخ پہ سپیدہ داغ œ'*۔ ۲۹۔ نہ ہیریدونکی چہر*۔ ۳۰۔ تاریخی معرœ* سترہ فتح۔ ۳۱۔ خون کی پکار۔ ۳۲۔ نبوی لیکونہ۔ ۳۳۔ د دوزخونو پہ لمبو œ'* سو"*‹لی جنت۔ ۳۴۔ گنگ سخنگو۔ ۳۵۔ اسناد و نامہ ہای تاریخی افغانستان۔ ۳۶۔ ترھیدلی خاطری نا آشنا حقیقتونہ۔ ۳۷۔ ستوری ولویدل۔ ۳۸۔ کابل د ز¤%و (‍¢باغ وو۔ ۳۹۔ ما لا (‍ بویٔ œ%* نہ و وبہار „*ژشو(ترجمہ)۔ ۴۰۔ اسلامی قانون جو%ؤنہ۔ ۴۱۔ د مر( پہ وزرو۔ (۶۹) شہرت ننگیال کے فکر وفن پر حضرت علامہ کے افکار کا پرتو جلوہ گر ہے۔ آپ کی عمومی شہ پاروں پر حضرت علامہ کے گہرے اثرات کا غالب ہونا آپ کے اقبال سے قلبی لگائو کا بین ثبوت ہے۔ آپ کی شاعری ایمان جذبے اور جہاد کی شاعری ہے اور شاعری میں جابجا حضرت علامہ کی تراکیب کا استعمال کیا ہے۔ افغان جہاد سے متعلق اردو اشعار و منظومات کو یکجا کرکے ننگیال نے’’خون کی پکار‘‘ کے عنوان سے شائع کیا ہے۔ اس کتاب کے بیک ٹائٹل پر حضر علامہ کی تصویر اور عقاب کے ساتھ ذیل ابیات شائع کئے ہیں: ؎ آسیا یک پیکر آب و گل است ملت افغان در آن پیکر دل است از فساد او فساد آسیا در گشاد او گشاد آسیا تادل آزاد است آزاد است تن ورنہ کاہی دررہ باداست تن (۷۰) شہرت ننگیال نے سید سلیمان ندوی کا سفر نامہ سیرِافغانستان پشتو میں ترجمہ کیا ہے جو قسط وار مجلہ’’ افغانستان‘‘ میں شائع ہوتا رہا۔ جابجا حضرت علامہ کا ذکر موجود ہے۔ (۷۱) آپ نے لاہور میں حضرت علامہ کے مزار پر حاضری دی اور پشتو میں یوں خراجِ تحسین پیش کیا: ؎ ˆ* خاوند د ژور فکر او لو% خیال د* فلسفی شاعر دانا د ژوند پہ حال د* خو د بہ اوسی لاہور لو% سر ھسکہ غا%* ˆ* روزلی ئی نامتو ادیب اقبال د* (۷۲) ترجمہ: جو گہرے فکر اور بلند خیالات کا مالک ہے وہ فلسفی شاعر اور رمزِ حیات کا دانا ہے۔ لاہور یقینا فخر سے بلند سررکھنے کا حقدار ہے جس نے معروف ادیب اقبال کو پیدا کیا۔ عبدالحئی حبیبیؔ پشتو زبان و ادب اور تاریخ اس حوالے سے نہایت خوش قسمت ہے کہ علامہ حبیبیؔ جیسے نابغہ روزگار شخصیت اس کے حصے میں آئی۔ آپ کے رشحاتِ قلم اور تحقیقات علمی ہمیشہ پشتو ادب کے بنیادی مأخذات کے طور پر یادگار رہیں گے۔ علامہ حبیبیؔ کا تعلق قندھار کے علمی و ادبی گھرانے سے رہا۔ آپ ملا عبدالحق اخوندزادہ بن مولوی عبدالرحیم بن علامہ مولوی حبیب اللہ کاکڑ مشہور بہ محقق کندھاری بن ملا فیض اللہ بن ملا بابڑ کے گھر کندھار کے کوچہ بامیزی بروزِ پنجشنبہ ۱۷ ربیع الثانی ۱۳۲۸ھ ق ثور ۱۲۸۹ھ ش/ مئی ۱۹۱۰ء میں پیدا ہوئے۔ (۷۳) پچپن ہی میں والد دارِ فانی سے کوچ کرگئے ۔ میراث میں حبیبیؔ صاحب کو کچھ کتابیں اور بعض رسائل و مجلات کے کلیکشن ملے۔ (۷۴) حبیبی ؔ صاحب کا سوانحی تذکرہ تقویمی لحاظ سے کچھ یوں ہے: ۱۲۹۹ھ ش/ ۱۹۲۰ء کندھار کے شالیمار مکتب میں داخلہ لیا۔ ۱۳۰۴ھ ش/ ۱۹۲۵ء کندھار کے شالیمار سکول سے فارغ ہوئے۔ ۱۳۰۴ھ ش سے ۱۳۰۶ ھ ش / ۱۹۲۸ء تک قندھار کے پرائمری سکول میں پڑھاتے رہے جبکہ اس دوران خود بھی شہر کی بڑی بڑی مساجد میں حصولِ علم میں مصروف رہے۔ مولوی عبدالواسع سے مبادیات ، صرف و نحو، عربی، ریاضی و ہیئت، اصول و قواعد فقہ عروض فصاحت و بلاغت پڑھے۔ مشہورِ عالم دین ابو الوفا کندھاری (جو مدرسہ نظامیہ دکن کے فارغ تھے اور فقہ والہیات کے مانے ہوئے استا دتھے) کے حلقہ تلامذہ میں شامل ہوئے۔ سراج الاخبار افغانیہ (کابل ) حبل المتین(کلکتہ) اور علامہ محمود طرزی کی تصنیفات و تالیفات ، حافظ شیرازی، سعدی،جلال الدین بلخی رومی وغیرہ کا مطالعہ کیا۔ ایرانی دانشوروں سید حسن تقی زادہ، علامہ میرزا محمد قزوینی، سید کاظم ، ایرانشہر سیدمحمد علی جمالزادہ وغیرہ ۔ مصری دانشوروں جرحی زیدان اور ہندی علماء شبلی نعمانی اور سید سلیمان ندوی کے علمی و ادبی خدمات سے مستفید ہوتے رہے۔(۷۵) ۱۳۰۶ھ ش سے ۱۳۱۰ھ ش / ۱۹۳۱ تک جریدہ ’’طلوع افغان‘‘قندھار کے مدیرمعاون رہے۔ ۱۳۱۰ھ ش / ۱۹۳۱ء تا ۱۳۳۹ھ ش / ۱۹۴۰ء اس جریدے کے مسؤول مدیر ہے۔ ۱۳۱۹ھ ش/ ۱۹۴۰ء تا ۱۳۲۰ھ ش / ۱۹۴۱ء پشتو ٹولنہ کے رئیس اور مطبوعات کے مستقل ریاست کے معاون رہے۔ ۱۳۲۰ھ ش/ ۱۹۴۱ء تا ۱۳۲۳ھ ش/ ۱۹۴۴ء وزارت معارف کے مشاور رہے۔ ۱۳۲۳ھ ش/ ۱۹۴۴ تا ۱۳۲۵ھ ش/ ۱۹۴۶ء کابل یونیورسٹی کی دانشکدہ ادبیات کے سربراہ رہے اس کے ساتھ ساتھ پشتو ادب اور تاریخ کے استاد اور پشتو ٹولنہ کے صدر رہے۔ ۱۳۲۵ھ ش/ ۱۹۴۶ء تا ۱۳۲۶ھ ش/۱۹۴۷ء کندھار کے معارف کے رئیس اور تاریخ کے استاد رہے۔ ۱۳۲۶ھ ش/ ۱۹۴۷ء چمن میں افغان وکیل التجا ر رہے۔ ۱۳۲۷ھ ش/ ۱۹۴۸ء تا ۱۳۳۰ھ ش/ ۱۹۵۲ء افغانستان کی ملی شوریٰ (پارلیمنٹ ) کے ممبر رہے۔ ۱۳۳۰ھ ش/ ۱۹۵۲ء تا ۱۳۴۱ھ ش/ ۱۹۶۲ء افغان حکومت سے سیاسی اختلافات کی بناء پر پاکستان میں سیاسی جلاوطن رہے۔ ۱۶ سنبلہ ۱۳۴۱ ھ ش/ ۱۹۶۲ء دوبارہ عازم وطن ہوئے۔ ۱۳۴۴ھ ش/ ۱۹۶۶ء کابل یونیورسٹی میں پوھاند کے اعلیٰ علمی رتبے تک پہنچ گئے۔ ۱۳۴۵ھ ش/ ۱۹۶۶ء افغانستان کے انجمن تاریخ کے رئیس رہے۔ ۱۳۵۱ھ ش/ ۱۹۶۷ء صدرِ اعظم افغانستان کے فرہنگی مشاور رہے۔ اس کے بعد کئی عرصے تک پوھنحٔی ادبیات پشتو ادب و تاریخ کے استاد رہے۔ اس دوران زیادہ عرصے تک شعبہ پشتو ادیبات کے سربراہ رہے۔ ۱۳۵۸ھ ش/ ۱۹۸۰ء افغانستان کی اکیڈیمی علوم میں پشتو ادبیات کے علمی رکن بنے۔ اس کے بعد مختلف علمی و ادبی حیثیتوں سے خدمات انجام دیتے رہے۔ ۲۰ ثور ۱۳۶۳ھ ش / ۱۹۸۴ء علم و ادب کا یہ درخشندہ آفتاب غروب ہوا اور اگلے روز شہدائے صالحین کے قبرستان میں دفن ہوئے۔(۷۶) علامہ عبدالحئی حبیبیؔ نے کئی ملکی و عالمی نوعیت کے کانفرنسوں ، سیمناروں اور مباحثوں و مذاکروں میں مختلف حیثیتوں سے شرکت کی ہے۔ خود علمی و ادبی جواہر ریزے سمیٹے اور دوسروں کو چشمہ علم و عرفان سے فیض یاب کیا۔ ان کانفرنسوں کامختصر تذکرہ ضروری سمجھتا ہوں: ۱۔ مراسم بسیت وپنجمین سال بیانگذاری تاشکند یونیورسٹی ۱۳۲۵ھ ش ۲۔ ہیئت کلتوری افغانی، دہلی ۱۳۲۶ھ ش ۳۔ اورینٹل کانفرنس (Oriental Conference ) لاہور ۱۳۳۶ھ ش ۴۔ اجتماع یاد بودخواجہ عبداللہ انصاری کابل ۱۳۴۱ھ ش ۵۔ مجلس یاد بود و گرامیداشت مولانا عبدالرحمن جامی، دوشنبہ تاجکستان ۱۳۴۳ھ ش ۶۔ کنفرانس ایرانشناسی ، تہران ۱۳۴۵ ھ ش ۷۔ سیمینار ترجمہ ، کابل ۱۳۴۵ھ ش ۸۔ کنفرانس کوشانیان شناسی، دوشنبہ تاجکستان ۱۳۴۷ ھ ش ۹۔ کنفرانس وسیع نسخ خطی، کابل ۱۳۴۶ ھ ش ۱۰۔ سمپوزیم ہنر عہد تیموریان، سمرقند ازبکستان ۱۳۴۸ھ ش ۱۱۔ گردہم آبی بزرگداشت خواجہ رشید الدین فضل اللہ وزیر، تہران وتبریز ۱۳۴۸ھ ش ۱۲۔ سیمنار کوشانیان ، کابل ۱۳۴۹ھ ش ۱۳۔ مجلس ہزارہ شیخ طوسی ، مشہد یونیورسٹی ۱۳۴۹ھ ش ۱۴۔ کنفرانس ہزارہ ابو ریحان البیرونی، دہلی ۱۹۷۱ء / ۱۳۵۰ھ ش ۱۵۔ سیمنار فتح پور سیکری، آگرہ ہندوستان ۱۳۵۱ھ ش ۱۶۔ گردہم آی فسیح و بزرگ بہ مناسبت تجلیل ہزارۂ البیرونی، کابل ۱۳۵۲ھ ش ۱۷۔ مراسم یاد و بود مولوی جلال الدین بلخی،کابل ۱۳۵۳ھ ش ۱۸۔ محفل گرامیداشت بایزید روشان، کابل ۱۳۵۳ھ ش ۱۹۔ جلسۂ بزرگداشت و تجلیل از شخصیت امیر خسرو ، کابل ۱۹۷۵ئ/ ۱۳۵۳ھ ش ۲۰۔ مراسم تجلیل از شخصیت فرہنگی ابو نصر فارابی ، کابل ۱۹۷۵ئ/۱۳۵۴ھ ش ۲۱۔ کنفرانس یونیسکو دربارہ السنہ و ادبیات کشور ھای آسیای میانہ، تہران ۱۳۵۴ھ ش ۲۲۔ کنفرانس ہزارہ دقیقی بلخی، کابل ۱۹۷۵ئ/۱۳۵۴ھ ش ۲۳۔ مراسم تجلیل و گرامیداشت امیر خسرو، دہلی ۱۹۷۵ئ/ ۱۳۵۴ھ ش ۲۴۔ سیمنار تحقیقات بین المللی پشتو ، کابل ۱۹۷۵ئ/ ۱۳۵۴ھ ش ۲۵۔ گردہم آی ہزارہ مین سالگرہ تولد خواجہ عبداللہ انصاری، کابل ۱۳۵۵ھ ش ۲۶۔ مراسم تجلیل از شخصیت نخبہ و برگزیدہ افغان سید جمال الدین افغانی، کابل ۱۳۵۵ھ ش ۲۷۔ سیمنار آثار چاپ شد پشتو درد و قرن آخر، کابل ۱۳۵۶ھ ش ۲۸۔ مجلس بزرگداشت نہصدمین سال تولد سنائی غزنوی، کابل ۱۳۵۶ھ ش ۲۹۔ محفل تحقیقات دربارہ کوشانیان در کابل ۱۳۵۷ھ ش ۳۰۔ کنفرانس تجلیل ازشخصیت علمی و فرہنگی کشور این سینادر کابل ۱۳۵۹ھ ش ۳۱۔ جلسہ بزرگداشت میافقیر اللہ جلال آبادی، کابل ۱۳۵۹ھ ش ۳۲۔ کنفرانس یونیسکو، بلگراد ۱۳۵۹ھ ش ۳۳۔ سیمنار سوم خوشحال خان خٹک ،کابل ۱۳۵۸ھ ش ۳۴۔ سیمنار ۲۲۰من سالمرگ میاں فقیراللہ جلال آبادی، کابل۱۳۵۹ھ ش ۳۵۔ گردہم آی بزرگ درخصوصی تاریخ و تمدن آسیای میانہ دوشنبہ تاجکستان ۱۳۶۱ھ ش ۳۶۔ مجمع بزرگ و وسیع کوشانیان ، کابل ۱۳۶۱ھ ش ۳۷۔ سیمنار ادبیات انقلابی، کابل ۱۳۶۲ھ ش ۳۸۔ سیمنار د زرغونی یاد، کابل ۱۳۶۲ ھ ش (۷۷) جناب عبدالحئی حبیبیؔ زندگی بھر مختلف علمی ادبی و تحقیقی موضوعات پر لکھتے رہے۔ان کے ایک معاصر ادیب جناب عبدالرئوف بینواؔ ان کی جامع شخصیت کے حوالے سے لکھتے ہیں: جناب حبیبیؔ کو فارسی اور پشتو کے علاوہ عربی ،اردو اور انگریزی پر بھی پوری قدرت حاصل ہے۔ کافی مطالعہ رکھتے ہیں اور خصوصاً ان کا افغانی و اسلامی تاریخ اور پشتو زبان و ادب کے حوالے سے مطالعہ غنی ہے۔ (۷۸) ان کے ایک اور معاصر افغان ادیب و شاعر عبداللہ بختانیؔ بھی ان کی جامع شخصیت اور علمی تحقیقات کے حوالے سے لکھتے ہیں: آخر دم تک پشتو فارسی اور اردو زبان و ادبیات و تاریخ پر افغانستان ہندوستان اور ایران کے حوالے سے تحقیق کرتے رہے۔ ان ممالک سے متعلق ادبی و تاریخی مشاہیر کے نسخہ جات کو متعارف کراتے رہے۔(۷۹) جناب عبدالحئی حبیبیؔ کے آثار و تالیفات کی فہرست کافی طویل ہے اور اگر پوری فہرست دی جائے تو تحقیقی اصولوں کی بنیاد پر موضوع سے ہٹ کر بے جا طوالت واقع ہوجائے گی۔ البتہ ہارون خپل نے حضرت علامہ کے ۱۱۸ آثار و تالیفات مطبوعہ وغیرہ مطبوعہ کی تفصیل درج کی ہے۔ موضوعاتی اعتبار سے آثار کی تعداد درج ذیل ہے: الف: ادبیات و زبان شناسی (پشتو و فارسی) تعداد آثار ۳۵ عدد ب: تاریخ و جغرافیائی تاریخی(پشتو فارسی) تعدا د آثار ۳۷ عدد ج: تصحیحات مقالات، حواشی، تراجم، تعلیقات وترتیب ہا (پشتو وفارسی) تعداد آثار ۲۱ عدد د: علمی و اجتماعی(پشتو و فارسی) تعداد آثار ۱۰عدد ھ: آثار غیر مطبوعہ(پشتو و فارسی) تعداد آثار ۱۵عدد(۸۰) یہ آثار ایران افغانستان ہندوستان اور پاکستان میں وقتاً فوقتاً شائع ہوتے رہے ہیں۔ آپ کی خدمات کے اعتراف میں راقم الحروف نے چمن پاکستان میں حبیبی ؔ اکیڈیمی قائم کی ہے اور افغانستان کے اہلِ قلم حضرات نے ادارہ تحقیقات حبیبیؔ بنایا ہے جو آپ کے آثار و تالیفات کو شائع کرائے گی اور آپ کی تحریرات پر مزید تحقیقات کرائے گی۔ حبیبیؔ کو جہاں قدرت نے دیگر علمی فیاضیوں سے نوازا تھا وہاں اقبال شناسی بھی ان کے حصے میں آئی تھی۔ آپ کو حضرت علامہ سے ملاقات کا شرف بھی حاصل تھا۔ سفرِ افغانستان کے دوران جب حضرت علامہ قندھار پہنچے تھے وہاں ان کے ساتھ ملاقات کرنے والوں میں جناب حبیبیؔ بھی شامل تھے۔ یکم نومبر ۱۹۳۳ء کو اس ملاقات کے احوال ملاحظہ ہو حضرت علامہ کے ہمرکاب سید سلیمان ندوی کے قلم سے ہم لوگوں کے پہنچنے کے بعد شہر کے کچھ ممتاز اصحاب ملنے آئے جن میں قابل ذکر دو صاحب ہیں۔ وزارت خارجہ افغانستان کے نمائندہ متعینہ قندھار اور یہاں کے انجمن ادبی کے ناظم اور پشتو رسالہ طلوع افغان کے اڈیٹر عبدالحئی خان ۔وزارت خارجیہ کے یہ نمائندے پہلے ترکی کی افغان سفارت میںکسی عہدہ پر رہ چکے ہیں۔ اور اب یہاں متعین ہیں۔ عبدالحئی خان ہندوستان میںشاید سندھ اور بندر کراچی میں کچھ دنوں مقیم رہے ہیں ۔ اردو خاصی بولتے ہیں وہ اس تحریک کے کہ افغانوں کی قومی زبان پشتو کو ترقی دے کر یہاں کی تعلیمی و علمی سرکاری زبان بنائی جائے ، علمبردار ہیں۔ انہوں نے آتے ہی ڈاکٹر اقبال سے اسی موضوع پر گفتگو شروع کی۔ ڈاکٹر صاحب نے جواب میں زبانوں کی نشوونما اور ترقی پر اصولی بحث فرمائی اور اس بات پر زور دیا کہ زبان ایک قوم کے مختلف افراد کی باہم پیوستگی کا سب سے ضروری اور مؤثر ذریعہ ہے ۔ لیکن اگر اس تحریک سے قوم کے افرادکے درمیان اتحاد کے بجائے اختلاف رونما ہونے کا اندیشہ ہو تو وہ پیوستگی کا پیغام ہونے کی جگہ نزاعات اور اختلافات کا ترانۂ جنگ ہے۔(۸۱) مجلہ کابل ۲۱ جنوری ۱۹۳۴ء کے شمارے میں جناب عبدالحئی حبیبیؔ کی ایک طویل فارسی نظم ’’قطرات سرشک دربارگاہ محمود و سنائی‘‘شائع ہوئی ہے۔ اسلوبی لحاظ سے مثنوی بحر میں اس نظم کا منبع و مأخذ حضرت علامہ کی مثنوی ’’مسافر‘‘ کو قرار دیا جاسکتا ہے جبکہ فکری و معنوی اعتبار سے حضرت علامہ کے اسرار و رموز کا پر تو اس نظم میں جلوہ گر ہے۔ چنانچہ اس بات کا اشارہ خود حبیبی ؔ صاحب نے اس نظم کے بعض اشعار کے فٹ نوٹ میں کیا ہے۔ اس بیت ؎ خیز واندر گردش آور جام عشق درقہستان تازہ کن پیغام عشق کے نیچے اس بیت کی وضاحت میں لکھتے ہیں: ’’ابیا تکیہ بعد از یں دربین این علامت ’’ ‘‘گرفتہ شدہ تضمین است از کلام حضرت علامہ دکتور اقبال شاعر اسلامی ہند‘‘(۸۲) چنانچہ بقیہ نظم میں قوسین کے تحت درج ذیل ابیات کہے گئے ہیں: ؎ ’’باز این اوراق راشیرازہ کن باز آئین محبت تازہ کن یارب آن آشکی کہ باشد دلفروز بی قرار و مضطر و آرام سوز‘‘ ’’کارمش درباغ و روید آتشی از قبایٔ لالہ شوید آتشی‘‘ ’’من شنیدم ستم زنبا ض حیات ’’اختلاف تست مقراض حیات‘‘ ’’ازیک آئینی مسلمان زندہ است پیکر ملت زقرآن زندہ است‘‘ شعلۂ وحدت بکوشش برفروز ’’رند کی خود را دریں آتش بسوز‘‘ ای امانت دار تہذیب کہن پشت پا برمسلک آبامزن‘‘ مسلم استی دل باکلیمی مبند گم مشواندر جہان چون وچند‘‘ سیردل کن ھای کہ درپنہاں دل می شود گم این شراری آب و گل‘‘ (۸۳) اس نظم میں فکری وابستگی کے علاوہ ویسے بھی مجموعی طور پر قوسین میں مندرجہ ابیات کے علاوہ بھی جابجا اقبالیاتی تراکیب کا استعمال کیا گیا ہے۔ ؎ تیغ ’’لا‘‘ را از نیا مشن آختی آشکارا رمز ’’الا‘‘ساختی مسلم از تو’’قاہری‘‘ آموختہ ہم ز فیضت ’’دلبری‘‘ اندوختہ ’’قاہری بادلبری‘‘ آئین تو زاد عقبیٰ از جہاد تمکین تو (۸۴) زندگانی رابقا از کوشش است رمز و سیر زندگانی کوشش است ؎ رمز و سیر زندگانی کوشش است واقف اسرار الا اللہ شو‘‘ (۸۵) ۱۹۵۱ء میں جب علامہ حبیبیؔ افغانستان کے شاہی خاندان سے اختلاف اور اپنے سیاسی عزائم کی بنیاد پر سردار شاہ محمود خان کے دورہ ٔصدارت کے دوران پاکستان مہاجر ہوئے تو پشاور میں رہنے لگے تھے چونکہ اس وقت ویش زلمیان کی تحریک شروع ہوئی تھی اور افغانستان میں اخبارات کو بند کردیا گیا تھا ۔ پارلیمنٹ کے نویں دورے کے لئے کابل کے عوامی نمائندے ڈاکٹر عبدالرحمن محمودی کو گرفتارکرلیا گیا تھا اور قندھار کے عوامی نمائندے علامہ عبدالحئی حبیبیؔ چمن کے راستے افغانستان سے جلاوطن ہوکر پشاور آئے تھے اسی لئے آپ نے پشاور میں ایک سیاسی تنظیم ’’آزاد افغانستان‘‘ کی بنیاد ڈالی یہاں سے اپنے مقاصد کے حصول کے لئے ایک پندرہ روزہ جریدے ’’آزاد افغانستان‘‘ کا اجرا کیا۔ اخبار کے عنوان کے ساتھ حضرت علامہ کا یہ شعر کندہ ہوتا تھا: ؎ آسیا یک پیکر آب و گل است ملت افغان درآن پیکر دل است (۸۶) اگرچہ علامہ حبیبی ؔ اپنی تحقیقی تحریرات سے بہت کم فرصت پاتے تھے۔ لہٰذا ان کی تخلیقات کی تعداد بہت کم ملتی ہے۔ فارسی شاعری کیساتھ ساتھ ان کی پشتو شاعری پر بھی حضرت علامہ کے فکری اثرات نمایاں ہیں۔ جدی ۱۳۲۳ھ ش ۱۹۴۴ء میں جب استنبول سے علامہ سید جمال الدین افغانی کا جسدِ خاکی لاکر کابل یونیورسٹی کے احاطے میں دفن کردیا گیا تھا تو اسی مناسبت سے مجلہ کابل نے ایک خصوصی شمارہ جاری کیا تھا اس میں بیک ٹائٹل پر علامہ حبیبیؔ کی درج ذیل تین رباعیات شائع ہوئی تھیں۔ خپل اصل تہ رجوع ؎ ملت دریاب د* فردیٔ قطرہ دہ لہ د* قطر* نہ جو%ہ د جلہ دہ قطرہ ˆ* بیلہ شی لہ دریا بہ تل ي د* لور ی تہ تلو سہ دہ ترجمہ: ملت دریا ہے اور فرد قطرہ ۔ انہی قطرات سے دجلہ بنتا ہے۔ جب قطرہ دریا سے جدا ہوتا ہے۔ پھر بھی انہیں ہمیشہ واپس دریا سے الحاق کی جستجو رہتی ہے۔ ؎ د اوبو #پ#œ¤ لہ بحرہ بیل شو فضا تہ ولا%ی بیرتہ راکیل شو بیلتون ی ولید پہ غرودروœ'* تیز شو ھم توی شوٹژو شانہ سیل شو ترجمہ: پانی قطرہ بحر سے جدا ہوتی ہے فضا میں جاکر واپس آجاتی ہے۔ دشت و کوہسار میں فرقت کی بے تابیاں جھیلیں بحر سے مل کر تند و تیز ہوجاتا ہے۔ ؎ چی ‚¤ژتہ راغی د دریاب مل شو پہ سینہ کی ($ شو پہ ’¤ ‹ کی حل شو بیا یٔ حٔای ورœ%§ پخپلہ ™¤‘ کی راستو  شوہیر شو اصل تہ خپل شو (۸۷) ترجمہ:بحرسے جداقطرہ جب دوبارہ دریا سے ملا اور دریا سے مل کر اس میں حل ہوا دریانے اسے آغوش میں جگہ دی گویا اس نے اصل کو رجوع کیا۔ حضرت علامہ کے مشہور و معروف فلسفہ فرد و ملت کے مفاہم و مباحث کے اثرات متذکرہ بالا رباعیات میں عیاں ہیں۔ انہی رباعیات کے نیچے حضرت علامہ کے ‹ژ‡ ذیل اشعار ’’خطاب بہ اوقیانوس‘‘ شائع ہوئے ہیں۔ جو کہ موضوعی و معنوی لحاظ سے علامہ حبیبیؔکے فکری منبع کا اعتراف ہے۔ ؎ تماشای شام و سحر دیدہ ئی چمن دیدہ ئی دشت و در دیدہ ئی بہ برگ گیاہی بدوش سحاب درخشیدی از پرتو آفتاب گہی ہمدم کامان راغ گہی محروم سینہ چاکان باغ گہی خفتہ درتاک وطاقت گداز گہی خفتہ درخاک و بی سو زوساز زموج سبک سیرمن زادہ ئی زمن زادہ ئی درمن افتادہ ئی بیا سای درخلوت سینہ ام چو جوہر درخش اندر آئینہ ام گہر شودر آغوش قلزم بزی فروزاں تر ازماہ و انجم بزی (۸۸) ۱۳۵۶ ھ ش ۱۹۷۷ء میں حضرت علامہ کی صد سالہ جشنِ ولادت کی مناسبت سے کابل میں حبیبیؔ صاحب کا مقالہ’’خودی و بیخودی دراندیشہ اقبال‘‘شائع ہوا۔ (۸۹) حال ہی میں ۱۳۷۹ھ ش ۲۰۰۰ء افغانوں نے علامہ حبیبیؔ کے نام سے ایک تحقیقاتی اشاعتی مرکز ’’د علامہ حبیبیؔ د حیرونو مرکز‘‘ (مرکز تحقیقات علامہ حبیبی) قائم کیا ہے۔ اس ادارے کی جانب سے پہلی کتاب علامہ حبیبی کا منظوم فارسی اثر ’’درددل وپیامِ عصر‘‘ شائع ہوا۔ (۲۰۰۰ء میں)اس کتاب کے دوحصے ہیں۔ حصہ اول ’’درددل‘‘ جو حبیبیؔ صاحب نے ۱۳۱۶ھ ش میں تخلیق کیا ہے اور حصہ دوم ’’پیامِ عصر‘‘ حبیبی ؔ صاحب نے ۱۳۲۰ھ ش / ۱۹۴۱ء میں تخلیق کیا ہے۔ اس کتاب کی اشاعت کے بعد ہم پر یہ حقیقت برملا منکشف ہوئی کہ علامہ حبیبیؔ نے حضرت علامہ کی فن و شخصیت کا کتنا اثر قبول کیا ہے۔ ذرا ملاحظہ ہو ادارہ تحقیقات علامہ حبیبی ؔ کی جانب سے اس کتاب سے متعلق چند تعارفی کلمات: ’’دد* اثر لوں%ی برخہ د مولانا جلال الدین بلخی د مثنوی پہ بحر œ'* ویل “¢¤ او حٔا* پہ حٔا* د مثنوی تضمینونہ لری۔ او د مثنوی سلاست او صلابت پہ بشپڑہ قوت سرہ ساتی۔ دو¤ں¦ برخہ ی د ہند د انقلابی شاعر علامہ اقبال د شعری !¢!¢ پہ ‚)¦ دہ۔ د موضوع لہ ا%#¦ رشتینی اسلامی سیاست شرح کوی ۔ او د علامہ سید جمال الدین افغانیؔ د ھغہ اسلامی نظام ‚)¦ رو'پنوی ˆ* باید د تمدن !¢ل وسائل ددا’* نظام پہ خدمت œ'* و(¢مارل شی اولہ کورنی استبداد او زبیشاک او بیرونی شکیلاک او استعمار سرہ مبارزہ وشی‘‘(۹۰) ترجمہ: اس اثر کا حصہ اول مولانا جلال الدین رومی بلخی کی مثنوی کی بحر میںکہی گئی ہے۔ اور جابجا مثنوی کی تضمین پر اشعار لکھے گئے ہیں۔ مثنوی کی سلاست اور صلابت پوری آب و تاب کے ساتھ اس میں جلوہ گر ہے۔ جبکہ حصہ دوم ہندوستان کے مشہور انقلابی شاعر علامہ اقبال کے اشعار کی طرز پر ہے ۔ جو موضوع کی اعتبار سے اسلامی سیاست کی تشریح ہے اور علامہ سید جمال الدین افغانی کے اس اسلامی نظام کے خدووخال کو واضح کرتا ہے جس کے تحت تمدن کے تمام وسائل ایک مربوط نظام کے تابع ہونے چاہے۔ اندرونی استبداد اور بیرونی استعمار کے خلاف نبرد آزما ہونا چاہیئے۔‘‘ کتاب کے حصہ اول میں عشق و عقل کے عنوان سے ایک طویل نظم شامل ہے۔ مختلف مشاہیر کی تضمینوں سے آراستہ ہے۔ مثلاً پہلے حصے میں امام رازی کے اس بیت کی تضمین ہے: ؎ ’’نھایۃإقدام العقول عقال وغایۃسعی العالمین ضلال دلم نستفد من بحثنا طول عمرنا سوی ان جمعنا فیہ قیل و قال‘‘ (۹۱) (امام رازی) پھر حضرت رومی کی درج ذیل تضمین کا حوالہ ہے: ؎ آموز م عقل در اندیش را بعد ازین دیو انہ سازم خویش را ہست دیوانہ کہ دیوانہ نشد ایں عسس رادید و درخانہ نشد (۹۲) (مولانا رومی) متعلقہ موضوع پر مزید اکیس اشعار حضرت علامہ کے درج ذیل بیت کے حوالے اور تضمین پر لکھی گئی ہے۔ ؎ ھیچ قومی زیر چرخ لاجورد بی جنون ذو فنون کاری نکرد(۹۳) (علامہ اقبال) اس حصے میں ایک اور نظم ’’دربیان آنکہ حق ہموارہ درکثرت نیست‘‘ آیا ہے۔ اس میں بھی اقبال کے مـصرع کی تضمین شامل ہے: ؎ می فریبد مشرقی را از فسوں از تمدن گوید و علم و فنون لیک این بجز دھانا بدرگ است ’’مشک ایں سوداگر از ناف سگ است (مصرع دوم تضمین است از کلام علامہ اقبال مرحوم ) (۹۴) ’’ملت افغان‘‘ کے عنوان سے ایک دلچسپ نظم حصہ اول کی زینت بنی ہوئی ہے۔ نظم کے پہلے چوتھائی میں حضرت علامہ کے منظوم قول کو یوں منظوم رمز میں ادا فرمایا ہے: ؎ آنکہ دا ند مردما نش مروراد آفرین بروی ہمی یزدان کناد شاعر مشرق ادیب نامور اینچنین فرمود نکتہ چون گہر آسیا یک پیکر آب و گل است کشور افغان در آں پیکر دل است درمیان آسیا قومی است حر قلب او از مہر یزدان است پر (۹۵) نظم ’’اشک‘‘ میں اقبال کی تراکیب تیغ ’’لا‘‘ اور ’’رمز الا‘‘ اور ’’دلبری و قاہری‘‘ کو کتنے دلچسپ اندا ز میں بیان کیا ہے: ؎ آنکہ برق تیغ او پر توفگند تیرگی برداز جہان پر گزند تیغ ’’لا ‘‘از نیامش آمواختہ آشکار را رمز’’ الا‘‘ ساختہ مسلم از ’’او قاہری‘‘ آموختہ ’’دلبری‘‘ ھم زاو اندوختہ ’’قاہری با دلبری‘‘ آئین وی مسند شرع نبی تمکین وی (۹۶) کتاب کا حصہ دوم’’پیامِ عصر‘‘ ہے جو کہ ۵ حمل ۱۳۳۰ھ ش/ ۱۹۵۱ء میں کہی گئی نظموں پر مشتمل ہے۔اس حصے میں کئی دلچسپ منظومات شامل ہیں۔ کتاب زندگانی، جوان مشرق، دخت مشرق، نظام نو، سیپارہ اہرمن، الھام سروش، شاعر نو، پیامِ عصرہنر روشن، پیامِ ابدالی، امام مشرق و شاعر مشرق، مبادیٰ ثلاثہ، وحدتِ اسلای، جنگ بہ استعمار مغرب‘ جنگ با استبداد علامہ اقبال مرحوم اور خطاب بہ مسلمان۔ نظام نو میں اقبال کے مصرعوں کو حوالے کے ساتھ اپنے کلام میں پرو دیا گیا ہے۔ ؎ تنازع را اساس زندگی گفت(۱) چنین از پیر مغرب من شنیدم ’’نشستم با خرد مند فرنگی (۲) ازاں بی سوز تر روزی ندیدم‘‘(۹۷) ’’شاعرنو‘‘ کو خطاب کرتے ہوئے علامہ حبیبیؔ انہیں علامہ اقبال ،قاضی نذرالاسلام اور رحمان بابا سے الہام حاصل کرنے کی تلقین کرتا ہے: ؎ زاقبال و نذر و فکر رحمان(۳) بگیر الہام نوای نغمہ پرداز زترکان عرب خوش نغمہ ای چند حجازی راسرا درلمن شیراز(۹۸) اس کتاب میں امام مشرق و شاعر مشرق سید جمال الدین افغانیؔ و علامہ اقبال مرحوم شامل ہیں۔ ذیل میں نقل کیا جاتا ہے جبکہ حضرت علامہ اقبال کے عنوان سے الگ نظم کی نقل بھی ضروری سمجھتا ہوںتاکہ افغانستان کے اقبال شناسی میں علامہ حبیبیؔ کے خدمات کو بقائے دوام نصیب ہو۔ امام مشرق و شاعر مشرق (سید جمال الدین افغانیؔ و علامہ اقبال مرحوم) ؎ فراوان خفت مرد مشرقی زاد نکرد از مجد دور رفتگان یاد فروغِ شعلۂ دل باز افسرد بقید بندگیٔ آزادہ افتاد نیامد از نجف آوای حیدرؓ نگفت اسرارِ بلخی راکسی باز زردشت خاوران و زطورسینا نیامد بال شہبازی بہ پرواز زدل آن جوشش وسوز کہن رفت تب و تاب ازروان انجمن رفت نوای بلبلان گردید خامش ازان صرصرکہ بالای چمن رفت نگو ن شدپر چم ترک دلاور ستم افسرد روح تر کیا نرا شرار جور قاجاری بہ ایران سراپا سوخت آں مرزیلانرا نمید انم چہ آمد بر خراسان بہ مرز سور آن شاہان جفارفت چگو یم از دم افسوں افرنگ ہمو ماراز خود بیگانہ تر ساخت زخو دوا رفتگان وادیٔ جھل بنادانی عدو را راہبر ساخت چمن افسرد و بلبل گشت خامش خزان آمد کنون آنجا گلی نیست تہی شد آن قدح بشکست ساغر بہ بزم اندر ھما نا قلقلی نیست نماند آن شورو ذوق آن دردجاوید نخیزد آہ گرم از سینۂ سرد ننالم از فسوں غرب تنہا کہ بامن ہر چہ کرد آن آشنا کرد زدست شاہ و میر افغان و نالہ فروان تا خت این قوم جفاکار چو شد شرقی اسیر قید شاہان غلامی را ومردان راکند خوار نہ بد در شرق یک مردل آگاہ کہ خیزد برخلاف جور شاہان سراید پیش ما مزمار نہضت فروز د شعلۂ فرنیا کان برآمد یک شہواری ز افغان جمال افزود مشرق راز نورش عصائی وی طلسم سحر غربی بخاک افگند با افسون و زورش ندائی قم از و شد وزندہ از نو بہ شرقی داد درس مجد و رفعت بکاخ شاہ و میر آتش در افگند نوایش سوزناک و دل پر الفت زتاثیر نوایش واژگونہ فتاد آئین استبداد و بیداد زبطن مام مشرق سالھا بعد چنین فرخ اثر نیکو سپر زاد شکست از ضرب او اصنام واہام وجودیش جامدان رامرگ نوبود بایران و بمصر و ترک وافغان ندای قم از و ہر خفتہ بشنود رضا و کامل وزغلول وعبدہ از و خواند ند درس زندگانی کہن فکر ملوکیت از و خوار ندایش انقلاب آورد انی ہما نافکراین مردفدا کار بمشرق روشنی دادوضیاداد یکی مرد غیور و راد و آزاد بہ ندرت ہمچووی اندر جہان زاد روان روشن دلی پردرد و دانش پیام انقلاب آورد مارا نوایش محشر خوابیدگان بود ازاں مرگی امیر و کد خدارا (۹۹) علامہ اقبال ؎ پس از چندی چو سید ا ز جہان رفت درآمد بر افق رخشندہ خورشید برھمن زادۂ رمز آشنائی(۱) فراز چرخِ چوں اختر بتا بید برآمد مرد دانائی زکشمیر(۲) دلش گرم و روانش شعلہ انگیز پیامی داد مشرق را سراز نو ’’کہ ای شرقی زخواب ژرف بر خیز‘‘ زاسرار خودی درس بماداد(۳) رموز زندگی راکرد افشاء زبورش نغمہ داود بودی درایش کاروان راکرد احیاء نمیدانم چی مشوری دردلش بود؟ سرودی نغمہ ھا درنامی رومی نیا ید بعد از و دانای رازی(۱) کزو بازار عشق آید بگرمی بما اسرار عشق جاودان گفت زدل گفت از مقام روح و جان گفت شب تاریک مارانور افزود ازین گیتی سرود و ا زآن جھاں گفت فقیری بدولی دانائی رازی دل در سینہ ٔ ش پر درد و شوری نگاہش تیز بین و فکر صائب بکاخ انجماد ازوی فتوری خود آگہ مرد حق بین کہ وی داد نکودرس خودی مرشرقیانرا بائیں و ثقافت پای بندی ازو رونق فزودی این و آنرا الا باد صبااز مادرودی رساں برمرقدش درخاک لاہور دیار عشق جلابی و مسعو د(۲) خدایا باد چشم بد آزان دور (۱۰۰) عبدالرحمن پژواکؔ پشتو ادب کی مشہور شخصیت ہیں۔ نام عبدالرحمن تخلص پژواکؔ ہے۔ آپ کے والد کا نام قاضی عبداللہ خان ہے۔ آپ غزنی میں ۱۲۹۷ھ ش میں پیدا ہوئے۔ جب آپ کی عمر دو برس ہوئی تو آپ کے والد صاحب کابل میں قاضی مقرر ہوئے ۔ اور آپ کو کابل بلایا گیا۔ ابتدائی تعلیم ننگرہار کے سرخ رود گائوں باغوانی میں اپنے والد سے حاصل کی۔ پر مطلع دانش میں دوسری جماعت تک پڑھا۔ تیسری جماعت خوگیانی کے کژہ نامی مقام سے پاس کی۔ والد کے بلانے پر کابل میں اندرابی سکول میں چوتھی جماعت میںداخلہ لیا۔ وہاں سے فراغت کے بعد حبیبیؔ سکول سے وابستہ رہے۔ بارہویں تک حبیبیہ لیسہ میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد طبی کالج کابل میں داخل کئے گئے ۔ عدمِ دلچسپی کی بناء پر دو سال کے بعد وہاں سے نکلے۔ والد کا انتقال ہوا مجبور اً سلسلہ تعلیم کو خیرباد کہنا پڑا۔ کابل میں انجمن ادبی کے شعبہ تاریخ میں انگریزی زبان کے مترجم مقرر ہوئے ،جب مطبوعات کا مستقل ریاست تشکیل پایا۔ تو وہاں سے وابستہ ہوئے ۔ اصلاح اخبار کابل کے مسؤل مدیر مقرر ہوئے۔ اس کے علاوہ افغانستان کے سرکاری اطلاعاتی ادارے باختر اژانس کے مدیر اعلیٰ کا منصب عطا ہوا۔ کچھ عرصے کے بعد پشتو ٹولنہ کے مدیر اعلیٰ اور پھر ریاست مطبوعات کے نشریات کے مدیراعلیٰ مقرر ہوئے۔ اس عہدے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے لند ن میں افغانستان کے سفارتخانے میں سیکنڈ سیکریٹری کی حیثیت سے تعینات ہوئے اور وہاں پر یس اتاشی کا عہدہ سنبھالا۔ مجموعی طور پر اقوام متحدہ کی جانب سے منعقدہ بین الاقوامی اجلاسں میں جناب پژواک ؔہی افغانستان کی نمائندگی کرتے ہوئے ۱۹۵۴ء میں وزارت خارجہ سے منسلک ہوئے۔ اس کے بعد اقوامِ متحدہ میں افغانستان کے نمائندے کی حیثیت سے تعیناتی عمل میں آئی۔ جناب پژواکؔ پشتو اور فارسی میں نئے افکار سے آشنا شاعر اور ادیب تھے خاص کر فارسی شاعری کے حوالے سے کہا جاسکتا ہے کہ ان کا شمار فارسی کے درجہ اول کے شعراء میں ہوتا ہے۔(۱۰۱) جناب پژواکؔکے مطبوعہ آثار کی تفصیل درج ذیل ہے: ۱۔ کلیمہ دارہ روپی پشتوڈرامہ مطبوعہ پشتوٹولنہ کابل ۔ ۲۔ افسانہ ہای مردم۔ فارسی میں ملی افسانے مطبوعہ ریڈیو افغانستان کابل۔ ۳۔ آریانا انگریزی مطبوعہ لندن۔ ۴۔ پشتونستان انگریزی مطبوعہ لندن۔ ۵۔ زو% افغانستان انگریزی مطبوعہ لندن۔ ۶۔ د ƒ'„¢نستان ورح ٔ انگریزی مطبوعہ لندن۔ ۷۔ د ƒ'„¢نستان مسئلہ انگریزی مطبوعہ لندن۔ ۸۔ پیشوا ۔ خلیل جبران کے پیامبر کا فارسی ترجمہ۔ ۹۔ باغبان۔ ٹیگور کافارسی ترجمہ۔(۱۰۲) جناب پژواکؔ کا شمار افغانستان کے اقبال شناسوں میں ہوتا ہے آپ کی شاعری پر اقبال کے فکر وفن کے گہرے نقوش ثبت ہوچکے ہیں اس کا پرتو آپ کی فارسی شاعری کے مجموعے گلہایٔ اندیشہمیں نمایاں ہیں۔ یہ مجموعہ ۱۳۴۴ھ ش میں مطبع معارف کابل کی جانب سے شائع ہوا ہے۔ اس مجموعے پر معروف افغان اقبال شناس سید خلیل اللہ ہاشمیان نے ادبی نقد لکھا ہے جو افغانستان میں عرفان مجلہ کے خصوصی شمارے میں شائع ہوچکا ہے۔(۱۰۳) اس کتاب کے دیباچے میں ڈاکٹر روان فرہادیؔنے پژواکؔ کی غزلیات، قصائد اور مثنویوں میں اساتذہ فارسی شعراء کے یاد کو پایا ہے۔ ان اساتذہ کی قطار میں حضرت علامہ اقبال بھی نمایاں ہیں۔ ملاحظہ ہو ڈاکٹر روان فرہادیؔ کے تاثرات: غزل پژواکؔ یاد از رودکی ، سعدی، دیوان شمس ، حافظ و صائب میدھد و قصیدہ ومثنوی او مانند فرخی ومولانای بلخی ؒ و اقبال لاہوریست۔۔۔ جناب ہاشمیان نے اس ادبی نقد میں جابجا پژواکؔ کے فکر و فن پر حضرت علامہ کے حوالے سے تذکرہ کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں: و یادریں مثنوی کہ درمقاسیہ شرق و غرب از اقبال نیز جلوتر رفتہ است کلمات ہر کدام مرو ارید وار تلالؤدارد۔ ؎ زساحل سوی دریارہ بریدم درآن دریا بی ہنگامہ دیدم بدریا گرشوی باری زساحل شگفتی دریں آب و گل چہ گویم زاں محیط بی کرانہ گروگانش دل من جاودانہ لمبوحبش برفنون قوت و زور بہ قلبش درجنون جذبہ و شور بہ شور و شوق و مستی چون دل بود چو دل اور انہ پیدا ساحل بود روان بر آب ہائی او سفینہ چو لغزان مہرہ ای برآبگینہ زعکس اختران از ہر کنارہ شدہ آغوش اوپر از ستارہ زانجم دامنش چون چرخ اخترہ برش پراز فراوان درو گوہر گہی آئینہ آرایش شید دگر گہ جلوگاہ نور ناہید زما ہ نویدست او سوارہ زروشن کوکبانش گوشوارہ جمال دختران آسمانی درو تابان چورح شادمانی (۱۰۴) ایک اور مقام پر ہاشمیان صاحب پژواکؔ کے کلام کی روشنی میں حضرت علامہ اور پژواکؔ کے دردوں کو مشترک بتاتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’درچکامہ مقاسیہ شرق و غرب کہ قسمتی ازاں نقل میشود جہان بینی و دردی کہ شاعرازپمائی شرق دارد پدیدار است پژواکؔ نیز مانند اقبال بدبختی مردم این سامان رابدوستی تشخیص نمودہ است۔‘‘ ؎ زمغرب سوی خاور شد خیالم دگر گوں گشت زیں اندیشہ حالم گراں اندیشہائی شرق چون خاک سبک اندیشہ ہائی غرب و چالاک مثال شرق چوں کوہ گرانست محیط غرب چوں بحر روان ست مثال این و آن چوں بحر و ساحل چو ساحل ماندہ بر جامشرق کاہل کہ ماہ و نور بیانید و بتابند بہ قلب کوہسار ش رہ نیابند چو دریا غرب مگیر دد شتابان سرراہ مہ و خور شید تابان کہ دریا بد فروغ زندگی را بشوید ننگ برجاماندگی را سبک روح و سبک پرواز چوں باد سبک خیز و سبک جولانی و آزاد دل شرقی دل است اما فسردہ فروہا شمع آزادیش مردہ زبانش بستہ وروحش اسیر است زبرجاماند گہباناگزیر است (۱۰۵) عبدالرئو ف بینواؔ عبدالرئوف بینواؔکا شمار پشتو شعر و ادب کے عناصر خمسہ میں ہوتا ہے۔ آپ مفتی عبداللہ علیزئی ولد عبدالحق علیزئی کے گھر واقع کوچہ سید حسن نزد خرقہ مبارکہ شہر قندھار ۱۲۹۲ھ ش میں پیداہوئے۔ گھریلو تعلیم کے علاوہ کئی علوم پڑھے۔ پشتو کے علاوہ فارسی، اردو اور عربی پر عبور حاصل تھا جبکہ تحریرات پشتو اور فارسی میں موجود ہیں۔ ۱۳۱۸ھ ش میں پشتو ٹولنہ سے منسلک ہوئے۔ ۱۳۲۳ھ ش میں پشتو ٹولنہ کابل کے سربراہ منتخب ہوئے۔ ۱۳۲۷ھ ش پشتو ٹولنہ کے صدر اور تا حیات ممبر ۔ کابل یونیورسٹی کے لسانیات و ادبیات کے پشتو شعبہ کے استاد کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے رہے۔ ۱۳۳۰ھ ش تا ۱۳۳۲ھ ش مطبوعات کے مستقل ریاست میں مدیر رہے۔ ۱۳۳۴ھ ش ریڈیو افغانستان کے رئیس بنے۔ ۱۳۴۰ھ ش مصر میں افغان سفارتخانے کے کلچرل اتاشی بنے۔ ۱۳۴۳ھ ش دہلی میں افغان سفارتخانے کے پریس مشاور بنے۔ ۱۳۴۵ھ ش افغانستان کے وزیر اطلاعات و کلچر منتخب ہوئے۔ ۱۳۵۵ھ ش مرکز تحقیقات پشتو کے مشیر رہے۔ ۱۳۵۷ھ ش افغانستان کی اکیڈیمی علوم سے وابستہ رہے۔ ۱۳۵۸ ھ ش صدر افغانستان کے فرہنگی مشیر بنے۔ ۱۳۵۹ھ ش لیبیا میں افغانستان کے سفیر کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے رہے۔(۱۰۶) ۱۳۶۳ھ ش سفارت چھوڑ کر امریکہ مہاجر ہوئے۔ ۱۳۶۳ - ۱۰- ۱۴بمطابق ۴ جنوری ۱۹۸۵ء نیویارک میں وفات پائی اور نیو جرسی میں سپرد خاک ہوئے ۔ استاد بینواؔپشتو و فارسی میں لکھتے تھے۔ جبکہ اردو و عربی سے تراجم کئے ہیں۔ مختلف علمی و ادبی اور تحقیقی موضوعات پر تقریباً پانچ سو مقالات تحریر کرچکے تھے۔(۱۰۷) جناب عبدالرئوف بینواؔ کے مطبوعہ آثار و تالیفات کی مختصر تفصیل درج ذیل ہے: ۱۔ اوسنی لیکوال، مطبوعہ جلد اول ۱۳۴۰ھ ش، جلد دوم ۱۳۴۱ھ ش ،جلد سوم۱۳۴۶ھ ش۔ مجموعی صفحات ۱۵۰۹پشتو زبان کے ۲۲۹شعراء و ادباء کا تعارف ۔ ۲۔ د افغانستان نومیالی،مطبوعہ جلد اول و دوم ۱۳۵۳ھ ش سوم ۱۳۵۶ ھ ش چہارم ۱۳۶۳ ھ ش ۔افغانستان کے مشاہیر کاتعارف اوران کے کارنامے۔ ۳۔ ہوتکی ھا، مطبوعہ انجمن تاریخ کابل ۱۳۳۵ھ ش صفحات ۱۷۷۔ ۴۔ پریشانہ افکار ۔ پشتو شعری مجموعہ پشتو ٹولنہ کابل ۱۳۳۵ھ ش۔ ۵۔ پشتونستان۔ ریاست منقل مطبوعات کابل ۱۳۳۰ھ ش۔ ۶۔ ‍ $+۔ پشتو لنڈی فارسی اور انگریزی تراجم کے ساتھ کابل ۱۳۳۷ھ ش۔ ۷۔ د ز%ہ خوالہ۔ کابل ۱۳۴۵ھ ش۔ ۸۔ ƒ'„¢ #¤% *۔ پشتو ٹولنہ کابل ۱۳۲۶ھ ش۔ ۹۔ خوشحال خان ٹ!œ #¦ وائی۔ ۱۳۲۷ھ ش محمدی چاپخانہ بمبی۔ ۱۰۔ پردیس۔ حضرت علامہ کی مثنوی مسافر کا منظوم پشتو ترجمہ ۱۳۲۱ھ ش انیس اخبار کابل ۔ ۱۱۔ د کاظم خان شیدا ؔدیوان۔ پشتو ٹولنہ کابل۱۳۳۳ھ ش۔ ۱۲۔ د رحمان بابا دیوان۔ پشتو ٹولنہ کابل۱۳۲۸ھ ش۔ ۱۳۔ باچا خان۔ فارغ بخاری کے اردو اثر کا پشتو ترجمہ ۱۳۳۸ھ ش انیس اخبار کابل۔ ۱۴۔ د لسم !¢‍(¤ پشتو قرأت۔ وزارت تعلیم کابل ۱۳۴۴ھ ش۔ ۱۵۔ پشتو کلی۔ پشتو ٹولنہ کابل۱۳۲۰ھ ش۔ ۱۶۔ نظری بہ پشتونستان فارسی۔ کابل ۱۳۲۹ھ ش۔ ۱۷۔ خوشحال او پسرلی ۔ کابل ۱۳۳۷ھ ش۔ ۱۸۔ د گیتا نجلی ژبا%ہ ۔پوہنحٔی ادبایت کابل ۱۳۵۴ ھ ش۔ ۱۹۔ افغانستان الیوم (عربی) ۱۳۴۲ھ ش قاہرہ۔ ۲۰۔ اربعین حقیقۃ عن افغانستان ۔ قاہرہ ۱۳۴۳ھ ش۔ ۲۱۔ آثار افغانستان۔ قاہرہ ۱۳۴۲ھ ش۔ ۲۲۔ ہدیۃ العام الحدید۔ قاہرہ ۱۹۶۶ئ۔ ۲۳۔ المراۃ الافغانیہ۔ قاہرہ ۱۹۶۴ئ۔ ۲۴۔ آشیانہ عقاب۔ فارسی تاریخی ڈرامہ۔ ۲۵۔ لیڈران امروز پشتونستان۔ کابل ۱۳۳۱ھ ش۔ ۲۶۔ برگ سبز۔ فارسی فکاہی۔ ۲۷۔ د چین سفر۔ محررہ ۱۳۳۶ھ ش غیر مطبوعہ۔ ۲۸۔ خوشحال خان از زبان خوشحال خان فارسی انیس اخبار کابل۔ ۲۹۔ د پیر محمد کاœ% دیوان ۔ پشتو ٹولنہ کابل ۱۳۲۵ھ ش۔ ۳۰۔ چند آہنگ ملی۔ کابل ۱۳۲۵ھ ش۔ ۳۱۔ ادبی فنون۔ پشتو ٹولنہ کابل ۱۳۲۶ھ ش۔ ۳۲۔ ویش زلمیان ۔پشتو ٹولنہ کابل ۱۳۲۶ھ ش۔ ۳۳۔ ƒ'„¢ د شاھہانو پہ دربار œ'*۔ کابل ۱۳۲۲ھ ش۔ ۳۴۔ ƒ'„ * میرں *۔ ریاست مطبوعات کابل ۱۳۲۳ھ ش۔ ۳۵۔ د ہوتکو پہ دورہ œ'* ƒ'„¢۔ کابل ۱۳۲۴ھ ش۔ ۳۶۔ میرویس نیکہ۔ پشتو ٹولنہ کابل ۱۳۲۵ھ ش۔ ۳۷۔ د غنمو و&ی ۔ پشتو ٹولنہ کابل ۱۳۲۵ھ ش۔ ۳۸۔ ƒ'„¢ روزنہ۔ کابل ۱۳۵۷ھ ش۔ ۳۹۔ ƒ'„¢ ‍ $+۔ کابل ۱۳۵۸ھ ش۔ ۴۰۔ ƒ'„¢ متلونہ۔ عالمی مرکز تحقیقات پشتو ۱۳۵۸ھ ش ۔ ۴۱۔ د ا فغانستان تاریخی ƒ*'*۔ جلداول ۱۳۵۶ھ ش جلددوم ۱۳۵۸ھ ش۔ ۴۲۔ آریایٔ پارسی ƒ'„¢ ویرنی۔ پشتو ٹولنہ کابل ۱۳۶۲ھ ش۔ ۴۳۔ د ہسک پیغلہ ۔ انجمن نوسیندکان افغانستان ۱۳۶۷ ھ ش۔ ۴۴۔ زو% ( (¦پژ۔ کابل ۱۳۶۷ھ ش۔ ۴۵۔ د افغانستان ‍ $ تاریخ۔ عبدالحئی حبیبیؔ کے تاریخ مختصر افغانستان کے دونوں جلدوں کا ترجمہ۔ ۴۶۔ د بینواؔ شعری کلیات۔ صحاف نشراتی موسسہ کوئٹہ ۱۳۷۸ھ ش۔ بینواؔ کے غیر مطبوعہ آثار درج ذیل ہیں: ۱۔ خو&ہ ژبہ۔ ۲۔ د ƒ'„¢ د لرغونی او اوسنی ادب منتخبات۔ ۳۔ د جامی کتا‚'¢د۔ ۴۔ ادبی و%ا (*۔ ۵۔ ƒ'„¢نخوا (تیرہ ہزار لغات)۔ ۶۔ کچکول ۔ ۷۔ عربی پشتو فرہنگ۔(۱۰۸) عبدالرئوف بینواؔ کے اشعار و افکار پر جابجا حضرت علامہ کے گہرے اثرات دیکھنے کو ملتے ہیں۔ حضرت علامہ سے فکری و معنوی ہم آہنگی اور ان کی سوچ سے یکسانیت کی بنیاد پر حضرت علامہ سے کافی شغف رکھتے تھے۔ حبیب اللہ اولس یارؔ کے ایک مقالے’’معاصر افغانی ادب ‘‘میں یہ حوالہ یوںدیا گیا ہے: بینواؔ د ہند د سترو لیکوالو پہ تیرہ بیا د !پ(¢ر او اقبال د آثارو #ٹ¦ پورہ متاثر د*۔ د!پ(¢ژ د (¤„پنجلی او د اقبال ’’مسافر‘‘ ددہ ادبی تر‡ں* دی۔(۱۰۹) ترجمہ: ’’بینواؔ ہندوستان کے لکھنے والوں خاص کر ٹیگور اور اقبال کے آثار سے خاصے متاثر ہیں۔ ٹیگور کے گیتانجلی اور اقبال کے مسافر کے ادبی تراجم کئے ہیں‘‘۔ حضرت علامہ کی فارسی مثنوی مسافر کا منظوم پشتو ترجمہ کرکے بینواؔ نے افغانستان میں اقبال شناسی کی راہ کو مزید ہموار کردیا۔ آپ کا یہ اثر قسط وار کابل کے انیس اخبار میں شائع ہوتا رہا۔ البتہ باقاعدہ طور پر تشنہ طبع رہا۔ سرمحقق عبداللہ بختانی خدمتگار عبداللہ بختانی ؔکا نام نامی پشتو ادب میں تحقیق کے حوالے سے معتبر ہے۔ آپ ننگرہار کے علاقے سرخ رود کے قریب بختان میں ۱۳۰۵ھ ش میں پیدا ہوئے۔ والد کانام ملا آغا جان تھا۔ ابتدائی تعلیم پشتو فارسی اور عربی ننگرہار کے مدارس سے حاصل کی۔ ۱۳۲۵ھ ش میں ننگرہار کی وزارتِ تعلیم سے منسلک ہوئے۔ ۱۳۳۱ھ ش میں پشتو ٹولنہ کابل کے رکن منتخب ہوئے اور پشتو ہفت روزہ ’’زیری‘‘ کے مدیر مقرر ہوئے۔ ۱۳۳۶ھ ش میں ’’ننگرہار‘‘ مجلہ کے مدیر بنے اور ۱۳۳۸ھ ش میں مطبوعات کے مستقل ریاست کے رکن بنے۔(۱۱۰) سوانحی تفصیلات مزید معلوم نہیں ہوسکے البتہ افغانستان میں کمیونسٹ انقلاب کے بعد کچھ عرصہ کے لئے پاکستان مہاجر ہوکر پشاور میں رہتے تھے۔ اب پھر عازم وطن ہوکر ننگرہار میں رہتے ہیں۔ مارچ ۲۰۰۳ء کے اوائل میں میرے محقق دوست میاں وکیل شاہ فقیر خیل کے گھرآئے تھے ساول ڈھیر مردان تو راقم الحروف نے ان سے فون پر ان کی اقبال شناسی کے حوالے سے گفتگو کی۔ آپ پشتو و فارسی میں نظم و نثر لکھتے ہیں۔ (۱۱۱) آپ کے درج ذیل آثار و تالیفات ہمارے علم میں آئے ہیں: ۱۔ شعر و ادب۔ مطبوعہ کابل ۱۳۳۲ھ ش۔ ۲۔ پشتنی خویونہ۔ مطبوعہ کابل ۱۳۳۷ھ ش۔ ۳۔ دزڑہ راز(پشتو شعری مجموعہ)۔ کابل ۱۳۳۵ھ ش۔ ۴۔ پشتانہ د علامہ اقبال پہ نظر کی۔کابل ۱۳۳۵ھ ش۔ ۵۔ عبدالرحیم رحیمی۔ مطبوعہ کابل ۱۳۳۵ھ ش۔ ۶۔ خوژی ترخی۔ بعض حصے مجلد کابل میں شائع ہوئے ہیں۔ ۷۔ شرنگ۔ مطبوعہ ۱۳۴۶ھ ش۔ ۸۔ مصائب الدخان عربی سے پشتو ترجمہ ۹۔ سید ملنگ ڈرامہ ۱۰۔ خوژی نغمی۔ملنگ جان مرحوم کے دیوان کا تدوین ۱۳۳۵ ھ ش۔ ۱۱۔ پشتانہ شعراء جلد ۵۔ مطبوعہ کابل ۱۳۵۷ ھ ش۔ ۱۲۔ پشتانہ شعراء جلد۶۔ مطبوعہ کابل ۱۳۶۷ ھ ش۔ ۱۳۔ تور بریش۔ مطبوعہ کابل ۱۳۴۷ھ ش۔ ۱۴۔ د پشتو پت۔ مطبوعہ کابل ۱۳۵۲ھ ش۔ ۱۵۔ راز۔ مطبوعہ کابل ۱۳۴۲ھ ش۔ ۱۶۔ مرغلری۔ مطبوعہ کابل ۱۳۵۱ ھ ش۔ ۱۷۔ کلید افغانی از پادری ھیوز۔(۱۱۲) ۱۸۔ خوشحال خان خٹک او یو حو نور فرہنگیال پشتانہ ۱۳۸۰ھ ش۔ ۱۹۔ د باچا خان لیکونہ جلد اول ۱۳۶۳ھ ش۔ ۲۰۔ فراقنامہ ۲۱۔ ترنم دل ۔ جدی ۱۳۸۱ ھ ش۔ ۲۲۔ ویرنی۔ جدی ۱۳۸۱ھ ش۔ ۲۳۔ شمس الدین قلعٹکی۔ جدی ۱۳۸۱ ھ ش۔ جناب عبداللہ بختانیؔ وہ پہلے افغان اقبال شناس ہیں جنہوں نے پہلی مرتبہ افغانستان میں(پشتوزبان) میں اقبال کے فکر وفن پر مستقل کتاب لکھی۔ƒ'„پ ¦ د علامہ اقبال پہ نظرœ'* (پشتون علامہ اقبال کے نظر میں) یہ کتاب ۱۳۳۵ ھ ش کو کابل کے پشتو ٹولنہ کی جانب سے شائع ہوئی ۔ اس کتاب پر افغانستان میں اقبالیاتی کتب میں مفصل تحقیق کی ہے۔ جناب بختانی ؔنے خوشحال خان خٹک اور حضرت علامہ اقبال کے بعض مشترک فکری نکات پر ایک طویل اور عالمانہ مقالہ تحریر کیا ۔ جو خوشحال خان خٹک سے متعلق کابل میں منعقدہ سیمنار ۱۳۴۵ھ ش میں سنایا گیا۔(۱۱۳) اس مقالے پر ’’افغانستان میں مقالاتِ اقبال کے مشمولات‘‘میں تفصیلی بحث کی جائے گی۔ حال ہی میں (۱۳۸۰ھ ش) جناب بختانیؔ کی ایک اور کتاب ’’خوشحا ل خان او یو حو نور فرہنگیال خٹک‘‘ شائع ہوئی ۔ اس کتاب میں وہی مقالہ خوشحال خان خٹک اور اقبال کے افکار کا تقابلی جائزہ شامل کیا گیا ہے۔(۱۱۴) اس کتاب میں خوشحال خان خٹک کے سوانحی نوٹ میں بھی حضرت علامہ کے پانچ اردو اشعار اور خوشحال خان سے متعلق ’’بالِ جبریل ‘‘کے پانچ فارسی اشعار اور بالِ جبریل کے حاشیے میں درج حضرت علامہ کا خوشحال کے تراجم سے متعلق یادداشت کا ترجمہ شامل ہے۔(۱۱۵) ۱۹۷۲ء کو یونیسکو نے کتاب کا بین الاقوامی سال قراردیا تھا۔ اسی مناسبت سے حمل ۱۳۵۱ ھ ش میں جناب بختانیؔ کا فارسی شعری مجموعہ ابر بھار بھی شائع ہوا۔ اس شعری مجموعے پر افغانستان کے مختلف نقادوں نے تحریرات شائع کیں۔ افغانستان کے اقبال شناس ادیب و شاعر قیام الدین خادمؔ نے بھی ابر بھار پر اپنا نقد تحریر کیا۔ اور بختانی ؔ کے فکر پر حضرت علامہ کے پرتو کا جلوہ دیکھا۔ ما چی د بختانیؔ فارسی اشعار ولؤستل ڈیر کرتہ بہ می د استاد علامہ اقبال اشعار خاطر ی تہ راتلل۔(۱۱۶) ترجمہ: میں جب کبھی بختانیؔ کے فارسی اشعار پڑھتا تو حضرت علامہ اقبال کے اشعار اور یادیں میرے ذہن میں آتے۔ ؎ بہ موج بحر حوادث چہ غوطہ ھا خوردم بہ آرزوی نجاتی کہ مدعای من است بہ زاہدان زمان نیست اعتماد مرا مرید خویش شدم عشق رھنمای من است نی خبر گشتم از عصر جدید نی عمل برنص قرآن کردہ ایم باہمہ تن پروری و تنبلی کسر شان نام افغان کردہ ایم(۱۱۷) ترنم دل جناب بختانیؔ کا دوسرا فارسی شعری مجموعہ ہے جو حال ہی میں زیورِ طبع سے آراستہ ہوچکا ہے۔ اس مجموعے کی شاعری پر حضرت علامہ کے فکری اثرات نہایت نمایاں ہیں۔حتیٰ کہ مختلف نظموں کے عنوانات ہی فکرِ اقبال کے پرتو کا جلوہ گر ہیں۔ راز دل، نوای من، چہ کردہ ایم، شاعر و بلبل، باغبان درگوشم خفت، بعد ازیں ، زبانِ عشق، ای صبا، داستان زندگی ، ترنم دل، صدای دل، اغتشاش و انقلاب، داغ نو، الٰہی خلق خود راخود نگہ دار۔ جناب بختانی نے حضرت علامہ کی تضمین پر ’’ترنم دل‘‘ میں ’’بہ استقبال اقبال‘‘ کے عنوان سے نظم میں حضرت علامہ کو تحسین بھی پیش کی ہے اور ان کے افکار کی مدح سرائی بھی کی ہے۔ ’’بہ استقبال اقبال‘‘ ؎ معنی سربستہ ای دارم بہ دل گوہر ناسفتہ ای دارم بہ دل گفتہ را گربازمیگو یم رواست مطلب ناگفتہ ای گر مدعا است شاعر افغان شناس زندہ دل* از دم اورندہ صد ھا مردہ دل آنکہ بابا گفت پاکستان ورا مرحباھا گفتہ افغانان ورا حضرت اقبال مرد خوش مقال ’’زندہ از گفتار او سنگ و سفال‘‘(۱) شاعر خوش مشرب و صاحب دلی گفتہ با صاحب دلان راز دلی ازتہ دل گفت و دردل کارکرد درد دل راوہ چہ خوش اظہار کرد بحر الفاظ و معانی ’’زندہ رود‘‘(۲) حرف دل ازدل بگفت و خوش سرود (آسیا یک پیکر آب و گل است ملت افغان درآں پیکر دل است از کشاد او کشاد آسیا در فساد او فساد آسیا تادل آزاد است آزاد است تن ورنہ خاکی دررۂ بادست تن) ؎ بشنو از من نغمۂ اقبال را یک کمی بگذار قیل و قال را یک دمی خاموش و رازدل شنو راز آں صاحب دل از بیدل شنو زندگی ٔ تن زکار دل بود رنج تن رنج و غبار دل بود سکتۂ دل ختم دوران حیات درحقیقت قطع شریان حیات دل اگر زخمی بود تن بی سبب می شود دررنج و در دو تاب و تب اندگی دل رابہ دل نزدیک کن دقتی درنکتہ ٔ باریک کن یاد داری آنکہ درایام یار ما راستعمار و استثمار مار حملہ ھا بر پیکر مشرق نمود جامہ را جامہ دان از ماربود نان ربود و جامۂ مارا برید جامہ مارا بگذار حلق ما برید گوشت مارا خورد وضربت روپنہاں تا رسیدہ کار دھا براستخوان کاردھا در پیکر ماکار کرد قلب مارا استعمار کرد شب چو آخر شد سرما روزشد بخت ما درتیرگی پیروزشد آسیا از خواب خوش بیدار شد ہم رہا ازظلم استعمار شد رفت استعمارو قلب ما تپید نیم زندہ نیم مردہ می جہید داغ زخم تیغ استعمار ماند زہر قاتل از ہاں مار ماند قلب مشرق پارہ پارہ شد چنین پیکر آب و گلشن زار و حزین تابہ کی باز خم قلب آسیا ملت اقبال ہچ بی اعتنا ای صبا از ما بگو اقبال را ترجمان غیرت خوشحال را روح تو خوشنود و قبرت مرغزار بر مزارت لالہ ھا گلھا نثار شاد باش آرام وفارغ باش بی غم و بی غصہ خود خوشحال باش خود تو گفتی رقوم افغان غیور جان او برمحنت پیھم صبور خاکش از مردان حق بیگانہ نیست در ضمیر صد ہزار افسانہ ایست سرزمین کبک  پو  شاہین مزاج آہوی او گیرد از شیران خراج در فضا یش جرہ بازان تیز چنگ لرزہ برتن از نہیب شان پلنگ دربلوچستان بلوچان شجاع پشتونستان در نبرد و در دفاع آسیا با قلب خود درارتباط می گزار مرہمش با احتیاط می کند پیوند قلب ریش را می زداید زھر مار ونیش را آسیا دانستہ سرکاررا درک کردہ رمز این اشعار را (آسیا یک پیکر آب و گل است ملت افغان درآں پیکر دل است از کشاد او کشاد آسیا در فساد او فساد آسیا تادل آزاد است آزاد است تن ورنہ خاکی دررۂ بادست تن)  (۱۱۸) (کابل سنبلہ ۱۳۵۳ھ ش) جناب عبداللہ بختانیؔ کا حضرت علامہ پر ایک اور فارسی مقالہ شائع ہوا’’قلب آسیا گزر گاہ و نظر گاہ علامہ اقبال‘‘ جو نہایت علمی انداز سے مرتب کیا گیا ہے۔ اس پر مشمولات مقالات میں بحث کی گئی ہے۔(۱۱۹) عبدالہادی داوی پریشانؔ عبدالہادی داویؔ امیر حبیب اللہ کے زمانے سے افغانستان کے معروف لکھیاری رہے ہیں۔ (۱۲۰) آپ کا تخلص پریشان ؔاور پشتون قبیلہ داوی سے تعلق ہے۔ والد کا نام عبدالاحد خان تھا جو قندھار کے مشہور اطبا ء میں سے تھے جن کو امیر عبدالرحمن خان نے کابل بلا کر اطباء میں شامل کیا تھا۔(۱۲۱) آپ کابل کے باغ علی مردان میں ۱۳۱۳ھ ق /۱۴ جماد الاول / ۱۲۷۲ھ ش / ۱۸۹۵ء کو پیدا ہوئے۔ ۱۲۷۹ھ ش کابل کے حبیبہ لیسہ میں داخل ہوئے اور ۱۲۹۰ھ ش میں یہاں سے سند فراغت عطاہوئی۔ یہاں آپ مولوی عبدالرب اور مولوی محمد آصف سے پڑھے جن کی خصوصی توجہ سے آپ کی سیاسی فکر کو تقویت نصیب ہوئی۔ اس کے علاوہ یہاں پر فارسی کے اساتذہ ملک الشعراء ،قاری عبداللہ اور عبدالغفور ندیم کی صحبتوں میں ادبی ذوق کو جلا نصیب ہوئی۔ مولوی محمد ظفر اور مولوی محمد حسین خان نے آپ کے سیاسی اور مجموعی ذوق کو پروان چڑھایا۔ اور اردو زبان سے آشنا کروایا۔ ۱۲۹۰ھ ش میں علامہ محمود طرزی کے بلانے پر ’’سراج الاخبار ‘‘افغانیہ کے ادارہ میں محرر مقرر ہوئے۔ یہاں آپ نے ترکی زبان علی آفندی جو کہ کابل میں حربیہ شعبے کے مدیر تھے سے سیکھی۔ عربی صرف و نحو تو طالب علمی میں پڑھی تھی لیکن شام اور مصر کی جدید عربی سے جناب محمود طرز ی کے ذریعے جو کہ عربی کے دانشور تھے سے آشنائی حاصل کی۔(۱۲۲) ۱۲۹۶ھ ش میں امیر حبیب اللہ خان پر کسی نے قاتلانہ حملہ کیا ۔ داوی اس پاداش میں سات مہینے تک جیل بھیج دیئے گئے۔ آپ نظر بند ہی تھے کہ امیر حبیب اللہ خان ایک اور قاتلانہ حملے میں مارے گئے۔ اس دوران آپ کے والد صاحب بھی دارِ فانی سے کوچ کر گئے۔ جیل سے رہائی کے بعد ’’سراج الاخبار افغانیہ‘‘ جس کا نام اس وقت ’’امان افغان‘‘ رکھا گیا کے مسؤل مدیر مقرر ہوئے۔ ۱۳۰۰ ھ ش میں وزارت خارجہ میں ہندوستان اور یورپی شعبے کے مدیر مقرر ہوئے۔ اس دوران افغانستان کے مستقل آزادی اور خود مختاری کے لئے علامہ محمود طرزی کی قیادت میں ایک وفد برطانیہ بھیج دیا گیا تھا اس وفد میں عبدالہادی داوی بھی شامل تھے۔ ۱۳۰۱ھ ش میں خارجہ امور میں متشاور دوم کی حیثیت سے مقر ر ہوئے۔ ۱۳۰۲ھ ش میں افغان حکومت کی جانب سے بخارا میں سفیر مقررہوئے۔ ۱۹۲۰ء کے آواخر تک وہیںرہے افغان اور برطانوی حکومتوں کی مذاکرات کے نتیجے میں انگریزوں نے افغانستان کی آزاد حیثیت تسلیم کرلی۔ تو ۱۳۰۲ھ ش میں عبدالہادی داوی افغانستان کے سب سے پہلے مختار وزیر کی حیثیت سے لندن میں تعینات ہوئے۔ (۱۲۳) ۱۳۰۵ھ ش میں وہاں سے مستعفی ہونے کے بعد افغانستان کے وزیرِ تجارت کی حیثیت سے خدمات انجام یتے رہے۔ اس دوران افغانستان میں بچہ سقہ کا انقلاب برپا ہوا۔ داوی کچھ عرصے کے لئے جیل بھیج دئے گئے۔ رہائی کے بعد حکومت سے مقابلہ کرنے کے لئے قندھار، قلات اور شاہ جوی تک گئے لیکن نامساعد حالات سے مایوسی کے بعد بمبئی چلے گئے۔ اقتصادی بحران کی وجہ سے کراچی آئے ۔ افغان ملت کے لئے سیاسی سرگرمیوں میں اضافہ کیا لاہور سے ’’ افغانستان ‘‘ کے نام سے ایک فارسی جریدہ جاری کیا۔ ۱۳۰۸ھ ش میں نادر شاہ کی حکومت کی بحالی کے بعد آپ کو کابل بلا کر جرمنی میں افغانی وزیرِ مختار مقرر کیاگیا۔ ایک سال وہاں رہنے کے بعد حج کی سعادت بھی حاصل کی اور واپس وطن آئے۔ ۱۳۰۸ھ ش انجمن ادبی کے اعزازی رکن منتخب ہوئے۔ ۱۳۱۲ھ ش نادر شاہ کی شہادت کا واقعہ ظہور پذیر ہوا ۔ داوی تیرہ سال تک جیل کی صعوبتیں برداشت کرتے رہے۔ (۱۲۴) ۲۵ قوس ۱۳۲۵ھ ش میں رہائی ملی۔ ۱۳۲۷ھ ش میں ظاہر شاہ کے دربار سے منسلک ہوئے۔ ۱۳۲۸ھ ش میں دہ سبزکے عوام کی جانب سے ملی شوریٰ (پارلیمنٹ) کے رکن منتخب ہوئے۔ اور وہاں نمائندگانِ شوریٰ کی جانب سے ملی شوریٰ کے رئیس منتخب ہوئے۔ ۱۳۳۲ھ ش میں افغانستان کے سفیر کی حیثیت سے مصر تشریف لے گئے۔ ۱۳۳۴ھ ش میں افغان سفیر کی حیثیت سے انڈونیشا تبادلہ ہوا۔ چار سال وہاں رہنے کے بعد خرابی صحت کی بناء پر واپس وطن آئے۔(۱۲۵) ۱۳۴۴ ھ ش کابل جرگہ مشران میں سینیٹر اور پھر اس جرگہ کے رئیس منتخب ہوئے۔ جہاں چارسال تک خدمات انجام دئے۔ جسمانی معذوری لاحق ہوگئی۔ قوت سامعہ جواب دے گئی۔ تحریر اور اشاروں سے آپ کے ساتھ باتیں ہوا کرتی تھیں۔ ۱۳۶۰ھ ش میں ضعف و معذوری کے باوجود پلار وطنہ ملی جبہ کے کانفرنس میں شرکت کی۔ ۲۷ / اسد ۱۳۶۱ھ ش / ۱۴۰۲ ھ ق/ ۱۹۸۲ء کو کابل میں وفات پائی۔ اور اگلے روز پورے اعزاز کے ساتھ شہدائے صالحین کے قبرستان میں دفن ہوئے۔(۱۲۶) عبدالہادی داوی کی شخصیت پشتو و فارسی ادبیات میں ایک قابلِ قدر حیثیت رکھتی تھی ۔ لاہور سے افغانستان مجلے کا اجراء کیا اور اسی نام سے مصر سے عربی مجلے کا اجراء بھی کیا۔ آپ پشتو و فارسی کے مقتدر ادیب و شاعر تھے۔ آپ نے سینکڑوں موضوعات پر مقالات لکھیں ۔ مقالہ نگار ی کے علاوہ کئی مستقل آثار و تالیفات بھی یادگار ہیں۔ ۱۔ زما پاک رسولﷺ (اردو کے’’ پیغمبر اسلام‘‘ از عبدالحمید قریشی کا پشتو ترجمہ) مطبوعہ لاہور ۱۳۳۸ھ ش۔ ۲۔ تجارت ماباس ۔ س۔ س۔ س۔ ر۔ فارسی مطبع انیس کابل ۱۹۲۲ئ۔ ۳۔ غیاصہ۔ منظوم پشتو ۱۳۶۵ ھ ق۔ ۴۔ گلخانہ بامجموعہ پریشان ۔ شعر ی مجموعہ جس میں بعض متاخرین اور متقد میں شعراء کا کلام بھی شامل ہے۔ ۵۔ نغمہ۔ شعری مجموعہ۔ ۶۔ اجال وطن۔ افغانستان کے بعض مشاہیر ادباء و شعراء کا تذکرہ۔ ۷۔ لالی ریختہ۔ شاعرِ مشرق حضرت علامہ کے اردو اشعار کا منظوم فارسی ترجمہ۔ ۸۔ آثار اردوی اقبال۔ ۲ جلد مطبوعہ کابل۔(۱۲۷) جناب عبدالہادی داوی وہ پہلے افغان اقبال شناس تھے جنہوں حضرت علامہ پر فارسی میں افغانستان میں سب سے پہلے باقاعدہ کتابیں لکھیں۔ اقبال شناسی کے سلسلے میں آپ کی خدمات ناقابلِ فراموش ہیں۔ آپ نے حضر ت علامہ کے اردو اشعار کے منظوم فارسی تراجم کئے ہیں ۔ جابجا حاشیہ و تشریح بھی رقم کی ہے۔ اور ان کا وشوں کی دو جلدیںآثار اردوی اقبال ابھی تک زیورِ طبع سے آراستہ ہوچکی ہیں۔ جن پر افغانستان میں کتابیات اقبال کے باب میں بحث کی گئی ہے۔ البتہ لالی ریختہ کے طباعت یا غیر مطبوعہ ہونے کا حوالہ نہیں ملا۔ آپ کے بیاض میں حضرت علامہ کے نام منظوم فارسی خراج تحسین محفوط ہے: ’’خطاب بہ اقبال‘‘ ؎ صبا بگوی بہ اقبال خوش بیان ازمن کلام تست کے سر تا بہ پائی آن اثر است صدای زندگی از سرزمین مردہ خوش است کہ نالہ ہای اسیران زسوزش جگر است عجب نباشد اگر سرزدہ است از ظلمات کہ آب چشمہ حیوان و کوکب سحر است چگو نہ ظلمت آفاق راسخن ندارد کہ نہ سپیدہ مجزا’’امید‘‘ منفجر است چراخراب نساز د چگونہ درند ھہ چو سیل تند و چو صہبلی ناب شعلہ و راست چرا زمین دل آسیا نخند اند کذاب دیدہ ابر بہار پاکتر است جذو ر جامعہ را آب میدہد جودت ہم آن فروغ گرانما یہ را سرو ثمر است شعار نظم تو تریاق سم استعمار نظام نثر تو اسہام ظلم راسپر است چو تیشہ تو زبان اشنای کوہسار است بہ گوش کاہن مانیز گرم و پرشر است توبہ توبہ این ملت بلند خیال زرو شنای قلب و زپا کی گہراست خطا بہ توبہ عنوان’’ای جوان عجم‘‘ بہشت گوش پریشان سرمہ بصر است دل و دماغ منور کجاست تاداند چہ تپش گوی صادق چہ کشف معتبر است (۱۲۸) عزیز الدین وکیلی پوپلزائی افغانستان کا مشہور خطاط ، مؤرخ ، انشاء پرداز عزیز الدین وکیلی کا تعلق قندھار کے مشہور پوپلزائی گھرانے سے ہے۔ آپ فارسی کے کہنہ مشق شاعر ہیں ۔ آپ کی تفصیلی سوانحی معلومات حاصل نہ ہوسکیں۔ البتہ افغانستان میں کمیونسٹ انقلاب ۱۹۷۸ء کے بعد ہجرت کرکے ہندوستان چلے گئے۔ آج کل دہلی میں ہجرت کی تلخیوں سے نبرد آزما ہیں۔ آپ افغانستان میں ایک مستند محقق کے طور پر تسلیم کئے جاتے ہیں۔ آپ کے شائع شدہ بعض آثار و تالیفات کی تفصیل ذیل ہے: ۱۔ درۃ الزمان فی تاریخ شاہ زمان۔ مطبع دولتی کابل ۱۳۳۵ھ ش صفحات ۴۶۸۔ ۲۔ احمد شاہ درانی جلد۱ ۔مطبع دولتی کابل ۱۳۵۹ھ ش صفحات ۶۸۴۔ ۳۔ تیمور شاہ درانی جلد ۱ ۔انجمن تاریخ کابل طبع دوم ۱۳۴۶ھ ش صفحات ۳۱۲۔ ۴۔ تیمور شاہ درانی جلد ۲ ۔انجمن تاریخ کابل طبع دوم ۱۳۴۶ھ ش صفحات ۴۱۵۔ ۱۹۷۷ء میں حضرت علامہ کی صدسالہ جشنِ ولادت کے سلسلے میں آپ نے حضرت علامہ کے کئی اشعار و رباعیات کی خطاطی کرکے افغانستان کے اقبال شناسوں میں ممتاز مقام حاصل کیا۔ یہ نمونے دیگر آثار کے علاوہ صدیق رھہپوکے ’’افغانستان و اقبال‘‘ میں بھی شائع ہوئے ہیں۔(۱۲۹) عزیز الدین وکیلی پوپلزائی کے خطاطی کردہ حضرت علامہ کے یہ مختلف نمونے شاملِ مقالہ ہیں۔ غلام دستگیر خان مہمندؔ غلام دستگیر خان کا تعلق پشتون قبیلہ مہمند سے ہے۔ آپ بھی افغانستان کے ایک مقتدر اقبال شناس ہیں۔ حضرت علامہ کی وفات کے بعد مجلہ کابل کے خصوصی شمارہ مئی/ جون ۱۹۳۸ء میں آپ کا ایک فارسی مرثیہ شائع ہوچکاہے ۔ جس میں آپ نے حضرت علامہ کے دردِ فرقت کو نہایت درد انگیز انداز میں بیان کیا ہے۔ جبکہ غلام دستگیر خان کے دیگر سوانحی تفصیلات تلاشِ بسیار کے باوجود دستیاب نہ ہوسکے۔ رثای اقبال ؎ چیست این شورو شرمردم و آواز و خروش کہ رسد دمبدم از غمکدۂ ہند بگوش نالہ و شورو فغا نی کہ برداز سر ھوش شنود گوش دل این واقعہ از بانگ سروش می ندانی کہ بہ ھند این چہ خروش وزاریست شیون مرگ سراقبال بعالم طار یست شاعر ہند زدہر عدم آباد برفت رخت بستہ و باخاطر ناشاد برفت تاکہ از بزم سخن نامور استاد برفت ساز عشرت ہمہ رایک و بہ یک از یاد برفت نہ مسلمان بہ غمش ماتم و شیون دارد سینۂ چاک ببین گبرو برہمن دارد شاعری ہمچو سر اقبال بہ دنیاکم بود سخنا نش بدل خستہ دلان مرھم بود طبع او صاف زآئینہ و جام جم بود دیدہ اش ازغم ابنای وطن پرنم بود روزو شب فکر بہ بہبود مسلمان می داشت خانۂ قلب پراز جوھر ایمان می داشت کرد باطرز غزل تازہ روان سعدی از سخن لطف بہ بخشید بیان رومی ماند بنیاد سخن خوبتر از فردوسی گوی سبقت بر بوداز شعرای نامی روح دانتی شدی مبھوت ازان فکر رساش خاست از مرقد گویتی بہ فضا مدح و ثناش رفت آن قافلہ سالار ادب قافلہ ماند خاک غم رفتن او برسر گیتی افشاند اشہب مرگ بر انگیخت و تند برآند چشم پوشید ازیں غمکدہ ویر نماند پس ازین چشم نہ بیند رخ اقبال دگر نکتہ گوہر گفتار شود ابدال دگر مردعارف چورود دولت پائیندہ ازوست ہم دراقلیم سخن خاطرھا زندہ ازوست شمع عرفان بجہان روشن و تابندہ ازوست گوہر فیض بہر جای پراکندہ ازوست صاحب فیض دلامردم فرخندہ بود کشت روشان ثمر و حاصل آئیندہ بود وزفکرت و از عقل رسای اقبال آوخ از شیوہ و از حسن ادای اقبال حیف از طبع گہر ریز و صفائی اقبال می سزدنو حہ نمائیم برای اقبال حیف دانا کہ رود زودتراز دیر فنا نشود زود نظیرش بجہان ہم پیدا (۱۳۰) قیام الدین خادمؔ قیام الدین نام خادمؔ تخلص ملا حسام الدین کے فرزند اور ملا علی گل کے پوتے ۱۳۲۵ ھ ش کے میںپیدا ہوئے۔ اور ۵شوال ۱۳۹۹ ھ ق بروز سوموار۵سنبلہ ۱۳۵۸ ھ ش بمطابق۲۱ / اگست ۱۹۷۹ ء کو کابل کے علی آباد ہسپتال میں وفات پائی۔ ننگرہارکے کامہ میں اپنے آبائی گائوں میں سپردِ خاک ہوئے۔ نسلاً زاخیل مومند تھے اور کونڑ کے اخوند زادہ خاندان سے تعلق تھا۔ یہ خاندان دینی علماء اور دانشوروں کا خاندان ہے۔ (۱۳۱) ابتدائی تعلیم اپنے والد سے حاصل کی ،قرآن شریف اور فارسی ادبیات بھی انہیں سے پڑھے۔ پھر کونڑ بوڈیانی ، کامہ نعمان ، لڑ، موڑی، چپرہار، کنڈی باغ، آگام، خوگیانی، ارغچ، کیلفو حصارک، حصار شاہی ، کابل، پشاور ، ملاکنڈ، دہلی اور لودھیانہ کے دینی و مذہبی حلقوں اور مدارس سے مروجہ علوم صرف، نحو، منطق، کلام، حکمت، فقہ ، تفسیر ، حدیث، مناظرہ، اصولِ فقہ، یونانی طب اور دیگر علوم سیکھے۔ درج بالا مقامات میں حصولِ علم کے لئے مولانا نے پندرہ سال کا عرصہ گزارا۔ کچھ عرصے تک جلال آباد میں تدریس کے شعبے سے منسلک ہوئے۔ پھر پشاور کے لواڑگی میں طلباء کو درس دینے لگے۔ یہاں پر ادبی ذوق اور شاعری نے فروغ پایا۔ ۱۳۱۲ھ ش کے آواخر میں قندھار کی انجمن ادبی پشتو کی عفویت عطاہوئی۔ ۱۵/ اسد ۱۳۱۴ھ ش کو’’ انجمن پشتو‘‘ قندھار سے کابل منتقل ہو ئی اور ۱۳۱۵ھ ش میں کابل کی ادبی انجمن سے وابستہ ہوئے۔ اس انجمن سے بعد میں پشتو ٹولنہ بنا تو خادمؔ صاحب پشتو ٹولنہ میں تعلیمی جریدے ’’زیر*‘‘ کے مسؤل مدیر مقرر ہوئے۔ ۱۳۴۲ھ ش تک مختلف عہدوں پر رہنے کے بعد افغانستان کے ملی شوریٰ (پارلیمنٹ) کے سینئر ممبر منتخب ہوئے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد کچھ عرصہ تک اپنا ایک رسالہ ’’افغان اولس‘‘ بھی جاری کیا۔ خادم صاحب نے ویش زلمیان کے قیام اور اس کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا۔(۱۳۲) خادمؔ صاحب کا شمار پشتو کے چند اہم شعراء و ادباء میں ہوتا ہے۔ آپ عربی اور اردو بھی جانتے تھے ۔ جبکہ پشتو و فارسی میں نظم و نثر لکھتے رہے اور تراجم کرتے رہے۔ آپ کی مطبوعہ آثار و تالیفات درج ذیل ہیں: ۱۔ معلم پشتو۔ مطبوعہ قندھار ۲۔ ƒ'„¢ کلی۔جلد اول، جلد دوم ۳۔ د کوچیانو اخلاقی پالنہ۔ (ترجمہ) ۴۔ نو* ژوندون (مجموعہ ادبی نثر) ۵۔ روھی (‍¢نہ (قدیم پشتو شعراء کے اشعار کا انتخاب) ۶۔ ƒ'„¢نولی(پشتونوں کی ثقافت و اخلاق) ۷۔ بایزید رو'پن(تحقیقی تاریخی مقالہ) ۸۔ د شریف سر(چشت (اردو سے ترجمہ شدہ ناول) ۹۔ د مرغلر و امیل(شعری مجموعہ) ۱۰۔ #پروان(دوسرا شعری مجموعہ) ۱۱۔ خیالی دنیا(ادبی نثر) ۱۲۔ بنوغ اوعقبرت(اجتماعی فلسفی جائزہ) ۱۳۔ نو* ر)پ(مجموعہ مقالات) ۱۴۔ د ƒ'„¢ نننی لیکوال (تذکرہ کابل کالنی ۱۷- ۱۳۱۸ ھ ش شائع ہوا۔) ۱۵۔ د ƒ'„ ¢د تاریخ سر پا)¦ ۱۶۔ د خوشحال او د رحمان موازنہ ۱۷۔ مکارم اخلاق(عربی سے ترجمہ) ۱۸۔ ƒ'„¢ قرأت (چوتھی جماعت کے لئے) ۱۹۔ ƒ'„پ ¦ شعرا ء جلد اول ، دوم کے بعض حصے ۲۰۔ پارتیان #¢ک وو (تاریخی) ۲۱۔ تبصرہ برتذکرہ اولیائ۔ ۲۲۔ کوشانیان #¢ک وو(تاریخی) ۲۳۔ د بابا نصیحت(منظوم) ۲۴۔ سید کمال او ببوجانہ(داستان) ۲۵۔ د ƒ'„¢ !ƒ*۔ ۲۶۔ لو* اصحابان (مذہبی تاریخی) ۲۷۔ افغانی حکومت ۲۸۔ نیشنلزم او ا !ژنیشلزم(ملت او بین الملت) ۲۹۔ د ƒ'„¢ نثر تاریخی تصورات او د نثر لیکونو تذکرہ( کابل کالنی ۱۹- ۱۳۲۰ھ ش) ۳۰۔ معیاری ƒ'„¢ ۳۱۔ لرغونی ƒ'„پ ¦ قومونہ وغیرہ (۱۳۳) قیام الدین خادمؔ افغانستا ن کے پائے کے اقبال شناس تھے۔ چونکہ خادم ؔ صاحب کافی عرصے تک لنڈی کوتل میں رہے تھے اس لئے اردو سے شناسائی رکھتے تھے اور فارسی کے ساتھ ساتھ حضرت علامہ کے اردو کلام سے براہِ راست مستفید ہوسکتے تھے۔ چنانچہ آپ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ آپ نے حضرت علامہ کے حیات ہی میں کلامِ اقبال کے منظوم تراجم کا سلسلہ شروع کیا تھا۔ چنانچہ مجلہ کابل جنوری فروری۱۹۳۷ء کے شمارے میں حضرت علامہ کے پیام مشرق کی نظم ’’زندگی ‘‘ کا منظوم پشتو ترجمہ شائع کرایا۔ ؎ وریز د سپرلی یوہ شپہ $یر* او'œ* تو* œ%* دغہ د* ژوندون تمام عمر پہ ژ%ا دا’* (%ند* بر¤' پ پہ ں $ہ ¢رتہ ووئیل زہ یی بولمہ پہ نیمہ خولہ خندا دا خبرہ خدای زدہ چا پہ خوا œ'* وœ%لہ د™* مجلس د (‍ د پرٹ* و سبا (۱۳۴) قیام الدین خادم کے کلام میں جا بجا ہمیں کلام اقبال کے منظوم تراجم ملتے ہیں: ؎ چین و عرب ہمارا ہندوستان ہمارا مسلم ہے ہم وطن ہے سارا جہاں ہمارا کا منظوم پشتو ترجمہ ملا محمد شریف جانان کاکڑ قندہاری نے بہار جاناں میں محفوظ کیا ہے۔(۱۳۵) قیام الدین خادمؔ نے مجلہ کابل میں ۱۳۱۸ ھ ش/ ۱۹۳۹ء کے شمارے میں ڈاکٹر سید عابد حسین کے اردو مقالے کا فارسی میں ترجمہ ’’خودی در نظر اقبال ‘‘شائع کرایا۔ (۱۳۶) قیام الدین خادمؔ کے اپنے فن پر اقبال کے اثرات مرتب ہونا فطری عمل تھا چنانچہ سالنامہ کابل ۳۸- ۱۳۳۹ھ ش کے ایک مقالے میں اس حقیقت کا اظہار برملا کیا گیا ہے۔ فاضل مقالہ نگار نے خادمؔ کے فن و شخصیت پر اقبال کے اثرات اور خادمؔ نے اقبال کے تراجم کئے تھے اس کا ذکر ان الفاظ میں کیا ہے: خادمؔ ھم د !پ(¢ژ او اقبال د آثار و #ٹ¦  $ یر سخت متاثر د* یو 'پئست زیاتی تر‡ں* یی ھم د دوی دآثارو #ٹ¦ œ%ی دی۔(۱۳۷) آپ نے ۱۹۳۸ء میں حضرت علامہ کی وفات پر پشتو میں ایک دلکش مرثیہ تحریر کیا جو مجلہ کابل کے خصوصی اقبال نمبر مئی/جون ۱۹۳۸ء میںشائع ہوا۔ د اقبال پہ وفات # (¦ پہ مشرق نن د ر %پ و تیر* ‡ ( د¤ و‍* د فلک (ژیوان پہ وینو باند* ر ( دی غلی   پہ    طلسم     د    تیری    دی    ہر    بلبل    د باغ ز%ہ د ہر انسان ‍œ¦ غو!+ لہ غمہ „ ( دی نشتہ     د¤    ™ں*    د     زر  کوچیری  پہ  ژپغو ¢  œ'* نہ د چا پہ غو& œ'* د نسیم د رباب “% ( دی لکہ ‚* اسر* ˆ* ہر یو ژا%ی ƒ! لہ حٔان سرہ ستوری د مشرق ہر یو پری ا¤'¤ د بل # ( دی $وب پہ آہ و واہ œ'* لمر خاتہ  دی    سر   تر   پا   بہ   اوس پروت پہ ہر ز%ہ باند* د‍¢ بارد تیری ز ( دی حٔکہ ˆ* لویدلی د مشرق لمر د اقبال دی ٹ% آسمان دفن و د ادب او دکمال دی ای اقبالہ ستا پہ غم œ'* ژا%ی مسلمان !¢ل چین تر شام و رومہ ترکیہ ہند و افغان !¢ل تہ تمامی عمر ژ%یدلی د امت پہ غم زکہ دی ›¢مونہ ستا پہ تلو باندی (ژ¤‚پن !¢ل ں%اوی لالہ زار دی د خلیل تازہ پہ او'œ¢ œ%و مہ اوچوہ ستر(* چری اوچ نہ شی (‍پن !¢ل بیا دی ہر سبق امت یاد بہ زیر و زور œ%و ودی '¢دہ دوئی تہ محکمات د '¦ قرآن !¢ل ƒ¤!¤ وو درانہ او منز‍(پہ لری بیحدہ وہ ستاسو د نغمو نہ دمہ لودی کہ کاروان !¢ل پاتی ˆ* سید شبلی حالی #ٹ¦ وہ لارہ œ'* تا ہغہ بارونہ œ%ہ ا¢ چت پہ یوہ حٗا  !¢ل ںٹœ* ‍& مزل دی چہ یی پر* نہ &دی پہ لار œ'* دا’* لار¦ باند¤ §¤#¢ک نشتہ پہ قطار œ'* „پچی مخ œ%و ƒ! او پہ خندا لا%ی مو‍پ لرہ اوس بہ نور رھبر د خودیٔ "¢ک شی ایشیا لرہ پورتہ د کوشش پہ نغمہ ’„%ی د تقدیر œ%ہ دا قدرت درœ%ی دی خاوند یواز* تالرہ نن لہ بغاوت د عقلہ ویرہ پہ حرم œ'* دہ ‡ ( د ولایت د عشقہ فوج کہ دی ‚‍پ لرہ شعر  و  فلسفہ  تاریخ  دی  ($  œ%ہ   پہ  حکمت   سرہ جو%ہ د* نسخہ œ%¦ ترینہ ملتِ بیضا لرہ ای د ژوند حکیمہ ز%ہ د* $œ وو د بشر پہ غم تا ƒ¤پں راو%* تمامی وا%ہ دنیا لرہ شرق و غرب د* ںٹœ'* د یو* ں $* میدان وو حٔکہ د* نظر تل پہ حصار د کہکشاں وو(۱۳۸) ترجمہ: مشرق پر آج کیونکر اندھیرے اور اجالے کی جنگ ہے آج کیونکر فلک کا گریباں خون سے تر ہے۔ باغ کی ہر بلبل ظلم کے طلسم سے پریشان ہے ہر انسان کا دل کلی کی طرح غم سے تنگ ہے۔ باغوں میں چکوروں کے نغمے کہاںہیں۔ نہ کسی کے کان میں نسیم کے رباب کا سُر ہے۔ ہر ایک تنہائی میںاپنے ساتھ رو رہا ہے مشرق کے ستاروں نے ایک دوسرے کا ساتھ چھوڑ دیا ہے۔ مشرق آہ و فغان سے دو چار ہے۔ ہر دل پر اندھیرے کا رنگ لگا ہوا ہے۔ اس لئے کہ مشرق کے اقبال کا آفتاب غروب ہوا ہے۔ علم و فن و ادب کا آسمان پھیکا سا ہے۔ اے اقبال تیرے غم میں ساری ملت رورہی ہے۔ چین و شام و روم ترکی ہندوستان و افغان سب محو غم ہیں۔ تو تمام عمر ملت کے غم میں رویا اسی لئے تما اقوام تیرے غم میں نوحہ خواں ہے۔ تو نے مرجھائے ہوئے لالہ زار خلیل کو آنسوئوں سے تر کیا ۔ آنکھوں کو تر رہنے دے ایسا نہ ہو کہ یہ پھول مرجھا جائے۔ پھر ملت کو زیر و زبر سے سبق دیرینہ یاد دلا اور ان کو قرآنی محکمات سے آگاہ کر۔ ان کے بوجھ زیادہ تھے اور منزل بھی دور تھی۔ مگر تیرے نغمات نے انہیں تازہ دم رکھا۔ جو سرسید شبلی اور حالیؔ سے رہ گیا تو نے وہی بوجھ اکیلے اٹھایا۔ آگے تھوڑا سا فاصلہ ہے اس کو راستے میںنہ چھوڑ ان راہوں سے آشنا اور کوئی دوسرا امیر کاروان نہیں ہے۔ تو نے جب چہرہ ڈھانپا اور مسرور ہوکر پروردگار سے ملے اب خودی کا رہبر ایشیا کے لئے کون ہوگا۔ اُٹھا دو نغمہ کوشش سے تقدیر کے تھکے ہوئوں کو پروردگارنے یہ صلاحیت فقط تجھے بخشی ہے۔ آج بغاوتِ عقل سے حرم کے لئے ڈر ہے۔ ولایت سے عشق کی طرف فوج کو گامزن کر۔ تو نے شعر فلسفہ اور تاریخ کو حکمت سے یکجا کیا۔ اور ملت کے لئے نسخہ بنایا۔ اے حکیم حیات تو نے سارے جہاں کو پیغامِ نو عطا کیا۔ شرق و غرب تیرے سامنے ایک میدان تھا اسی لئے تیری نظر کا حصار کہکشاں پر تھا۔ گل باچا الفتؔ گل باچا الفتؔ پشتو ادب کے مشہور و معروف ادبی شخصیت ہیں۔ آپ کے والد کا نام میر سید باچا اور دادا کا نام سید فقیر باچا تھا۔ نسلاً سید پٹھان تھے۔(۱۳۹) عبدالرئوف بینواؔ نے آپ کا سن پیدائش ۱۲۸۷ھ ش لکھا ہے جبکہ پشتانہ شعراء میں سر محقق عبداللہ بختانیؔ خدمتگار نے آپ کا سن پیدائش ۱۲۸۸ ھش / ۱۹۰۹ء لکھا ہے۔(۱۴۰) آپ لغمان کے عزیز خان کچ میں پیدا ہوئے۔ حصولِ علم کے دوران مروجہ علوم صرف ، نحو، منطق،معانی ، فقہ ، تفسیر اور حدیث ننگرہار اورکابل کے مشہور اساتذہ سے پڑھے۔ جناب بختانیؔ نے آپ کی زندگی کے مختلف ادوار کا جائزہ لیا ہے: ۱۳۱۴ ھ ش: روزنامہ ’’انیس‘‘ کابل میں کاتب کی حیثیت سے مقرر ہوئے۔ ۱۳۱۵ھ ش: انجمن ادبی کابل کی رکن بنے۔ ۱۳۱۶ ھ ش: انجمن ادبی کابل کی رکنیت کے ساتھ ’’زیری‘‘ مجلہ کے ادارے سے منسلک رہے۔ ۱۳۱۸ ھ ش: پشتو ٹولنہ کے مدیر صحافت کے معاون رہے۔ ۱۳۱۹ ھ ش: پشتو ٹولنہ کے شعبہ لغات و قواعد میں مدیر کی حیثیت سے تقرری۔ ۱۳۲۰ ھ ش: روزنامہ’’ اصلاح کا بل‘‘ کے مشاور اور’’ مجلہ کابل‘‘ کے مدیر مسؤل رہے۔ ۱۳۲۵ ھ ش: اتحاد مشرقی ’’ننگرہار‘‘ کے جریدے کے مسؤل مدیر۔ ۱۳۲۷ ھ ش: ننگرہار میں قبائل کے عمومی مدیر بنے۔ ۱۳۲۸ ھ ش: جلال آباد کے شہریوں کی جانب سے ملی شوریٰ (پارلیمنٹ) کے رکن بنے۔ ۱۳۳۱ ھ ش: لغمان کے قرغی باشندوں کی جانب سے جرگہ کے نمائندہ منتخب ہوئے۔ ۱۳۳۴ ھ ش: جلال آباد کے باشندوں کی جانب سے لو یٔ جرگہ کے نمائندہ منتخب ہوئے۔ ۱۳۳۵ ھ ش: پشتو ٹولنہ کے رئیس۔ وزارت تعلیم میں رکن کی حیثیت سے انتخاب اور کابل یونیورسٹی کے حقوق و ادبیات کے شعبہ میں استاد کی حیثیت سے تقرری۔ ۱۳۳۸ ھ ش: افغان شوروی دوستی کے انجمن کی تاسیس کے ساتھ ہی اس انجمن کے رئیس منتخب ہوئے۔ ۱۳۴۰ ھ ش: جوزا کے شروع سے ۱۳۴۲ ھ ش عقرب کے آواخر تک ویش زلمیان کے نشراتی ارکان ’’اولس‘‘ جریدے کے اعزازی سربراہ رہے۔ ۱۳۴۲ ھ ش: قبائل کے مستقل رئیس کی حیثیت سے کابینہ کے رکن بنے۔ ۱۳۴۴ ھ ش: جلال آباد کے عوام کی جانب سے اولسی جرگہ کے بارہویں دور کے لئے وکیل منتخب ہوئے۔ وکالت کے چار سالہ عرصے کے بعد ریٹائیرڈ ہوئے۔(۱۴۱) ۱۳۵۶ ھ ش ۲۸ قوس - ۱۸ دسمبر ۱۹۷۷ء کو جناب گل باچا الفتؔ وفات پاگئے۔ عین اس وقت رحلت فرمائی جب حضرت علامہ کی صد سالہ جشنِ ولادت کی تقریبات منعقد کی جارہی تھیں۔ آپ جلال آباد کے شاہراہ کابل جی ٹی روڈ کے جنوبی جانب دفن کئے گئے۔ (۱۴۲) گل باچا الفتؔ کے آثار و تالیفات درج ذیل ہیں: الف: مطبوعہ:۔ ۱۔ د پسرلی نغمہ ۲۔ بلہ $یوہ ۳۔ لغوی #¤%نہ ۴۔ ƒ'„¢ سندر* ۵۔ عالی افکار ۶۔ #¦ لیکل یا لیک پوھنہ ۷۔ ادبی بحثونہ ۸۔ ƒ'„¢ کلی جلد ۵ ۹۔ د آزاد+ پیغام ۱۰۔ غورہ اشعار ۱۱۔ لو% خیالونہ او ژور فکرونہ ۱۲۔ منطق ۱۳۔ غورہ نثرونہ ۱۴۔ د ز%ہ دنیا ب: غیر مطبوعہ:۔ ۱۔ نو* #ژک ۲۔ شہ لمسون ۳۔ نو* سبک ۴۔ اجتماعی نظریات ۵۔ #¦ (¢رم او #¦ آورم ۶۔ د !¢‍ ¤ علم(ترجمہ) گل باچا الفتؔ افغانستان کے پشتون اقبال شناس تھے۔ آپ نے اپریل ۱۹۳۸ ء میں حضرت علامہ کا پشتو مرثیہ لکھا۔ جس سے آپ کی اقبال شناسی جھلکتی ہے۔ د اقبال ویر ؎ د ادب پہ مانی ولویدہ غدیٔ نن د اقبال لہ سرہ پریوتہ خولیٔ نن نن پہ شرق د مصیبت بلا راغلی د ادب پہ باغ و بن وشوہ ژلیٔ نن فلک بیا پہ ز%و ¢ کشیشوہ داغونہ بیا ہر چا پہ ز%ہ خو%لی دہ (¢لیٔ نن ƒ¦ مروژ د زمانی بہ ہضم نہ شی ˆ* لہ د* غمہ چا œ%ی دہ ں%+ نن د اقبال غم رپوی    ھغہ ز%ونہ ˆ* بہ حٔایٔ پہ حٔایٔ و‍پ% وہ ‍œ¦ غرونہ اقبال #¢ک وو فیلسوف و نازکخیال د ادب سرمایہ !¢لہ ددہ مال تیز قلم یی لکہ توپ و تیرہ تورہ مقابل œ'* ئی §¤# نہ وو سپرو$ال زمانہ بہ پہ §¤# طور پیدانہ œ%ی د ادب پہ مملکت œ'* ددہ سیال د خپل قرن پہ جبین باند* ئی œ*'¢د د „ڑ•¤‍ او سرلو% '¦ شکلی حال د دنیا پہ سرای کی دی نہ حٔائیدلو لہ ناکامہ ئی قصد وکہ د وتلو اقبال ولا% وینا ی پاتہ پہ غو&و œ'* محبت د اقبال شتہ د خلکو ز%و œ'* د اقبال د &غ اثرد* پاتہ شو* د ھر ملک او ھر وطن بیدار مغزو œ'* اقبال ں%ہ ز%ونہ پہ خپل آواز ژوندی œ%‍ #¢ک شمیرلی شی اقبال پہ چم د ں%و œ'* اقبال مو & تہ '¦ غذا د روح پر* ا¤'¤ پہ 'پئستہ 'پئستہ خو&و خو&و نغمو œ'* ربہ تہ ئی جنتونہ پہ نصیب œ%* وا%ہ سعی تہ مقبول دد* ادیب œ%* (۱۴۳) ترجمہ: ایوانِ ادب پر ڈاکہ ڈالا گیا جب اقبال کے سر سے ٹوپی گر گئی۔ آج مشرق پر مصیبت کا سیلاب آیا ہے ادب کے باغ و گلشن پر ژالہ باری ہوئی ہے۔ فلک نے آج پھر دلوں کو داغ دیئے ۔ پھر ہر سینے پر گولی لگی ہے ۔ ایسی گولی کا زخم زمانہ گزرنے سے بھی مندمل نہیں ہوگا۔ آج جس نے اس دسترخوانِ غم سے کھانا کھایا وہ زمانے گذرنے کے بعد بھی بغیر نہیں کرسکے گا۔اقبال کے غم نے آج ان دلوں کو ہلا دیا ہے جو اپنے جگہوں پر ہمیشہ پہاڑ کی مانند مستحکم قائم رہے۔ اقبال کون تھا ایک نازک خیال اور فلسفی تھے سرمایہ ٔ ادب ان کا مال تھا۔ ان کے قلم کی دھار تلوار اور توپ کی مانند تھی جس کے آگے زمانے کے کسی ڈھال کی حیثیت نہیں تھی۔ زمانہ کبھی بھی ادب کی مملکت میں ان کا ہمسر پیدا نہیں کرسکے گا۔ اپنے قرن کے جبین پر فضیلت فخر اور اعزاز کا دستار رکھا۔ اس فانی دنیا کے مکان میں نہیں سما سکے تب انہوں نے مجبوراً دائمی جہاں کا رخ کیا۔ اقبال چلے گئے لیکن ان کے فرمودات تا ابد رہیں گے ۔ لوگوں کے دلوں میں ان کی محبت گھر کر گئی ہے۔ اقبال کی آواز کا اثر ہر مملکت کے بیدار و روشن دماغوں میں تاابد رہے گا۔ کیونکہ اقبال ہی نے اپنی صدا سے مردہ دلوں کو حیات عطا کی تھی بھلا کون اقبال کو مردوں میں شمار کرے گا۔ اقبال نے ہمارے لئے پُر لطف نظموں اور پر کیف نغموں کے ذریعے روح کی بہترین غذا مہیا کی ہے۔ اے پروردگار تو انہیں جنت عطا فرما اور اس ادیب و مفکر کے تمام سعی کو مشکور فرما۔ محمد رحیم الہامؔ محمد رحیم نام الہامؔ تخلص فضل الدین کے فرزند ارجمند تھے۔ والد مومند اور والدہ کا تعلق توخی قبیلے سے تھا۔ ۱۳۱۰ ھ ش کو کابل کے چاردہی کے ریشمنور نامی گائوں میں پیدا ہوئے۔ پشتو و فارسی ادبیات پڑھے۔ فقہ تفسیر ، احادیث، علم الکلام ،منطق، صرف ، نحو اور اسلامی تصوف مقامی علماء سے پڑھے۔ ۱۳۳۲ ھ ش میں غازی کالج کابل سے بکلوریا کیا۔ ۱۳۳۵ ھ ش میں کابل کے ادارہ ابیات سے لسانس کی سند حاصل کی۔ ۱۹۶۴ء کو امریکہ کے مشیکانی یونیورسٹی سے ایم اے کیا۔ اور اسی یونیورسٹی سے انگریزی سپیشلائزیشن کی سند بھی لی۔ ۱۳۳۵ھ ش میں کابل کے ادارہ ادبیات سے منسلک ہوئے۔ ۱۳۳۶ ھ ش کویہیں استادمقرر ہوئے۔ ساتھ ساتھ ’’وژمہ‘‘ مجلہ بھی چلاتے رہے۔ ۱۳۴۰ ھ ش میں ادبیات کے پوہنحٔی میں لسانس کے آمر مقرر ہوئے۔ ۱۳۴۵ ھ ش میں ایران شناسی کے بین االاقوامی کانفرنس میں افغان وفد کے رکن کی حیثیت سے تہران گئے۔ وہاں سے واپسی پر وزارت عدل میں نشریات کے مدیر اعلیٰ مقرر ہوئے۔ تھوڑے عرصے کے بعد مساوات اخبار کے مدیر بننے کے بعد ملازمت سے مستعفی ہوئے۔ جناب الہامؔ پشتو اور فارسی کے پائے کے ادباء شعراء میں سے ہیں۔ انگریزی میں تو سپیشلائزیشن کی ہے جبکہ فرانسیسی اور سنسکرت بھی تھوڑی بہت جانتے تھے۔ جناب الہامؔ کے کئی تصنیفات و تالیفات ہیں۔ جن میں سے ۳۱ کی تفصیل ’’اوسنی لیکول‘‘ میں درج کی گئی ہے۔(۱۴۴) جناب الہام ؔ کے نظم و نثر سے ان کی علمیت اور کمالِ نظر کا اندازہ ہوتا ہے۔ آپ کی تحریرات آپ کی علمی بصیرت کی دلالت کے مظہر ہیں۔ بین الاقوامی ادبیات کا جو مطالعہ الہامؔ نے کیا ہے ان کا عکس ان کے آثار میں جابجا پایا جاتا ہے۔ الہامؔ ایک افغان اقبال شناس بھی ہیں۔ حضرت علامہ سے فکری وابستگی اور قلبی عشق آسانی سے آپ کے آثار میں دیکھی جا سکتی ہے۔ آپ نے جواب مسافر کے نام سے حضرت علامہ کی مثنوی مسافر کا جواب لکھا اور ۵ دسمبر ۱۹۷۷ ء کو علامہ کے صد سالہ جشنِ ولادت کی مناسبت سے بین الاقوامی کانفرنس اقبال منعقدہ لاہور میں سنایا ۔ یہ مشہور منظومہ پہلی بار ہفت روزہ ’’وفا‘‘ میں شائع ہوئی جو یہاں درج ذیل ہے: اھدا بہ علامہ داکتر محمد اقبال لاہوری ’’جواب مسافر‘‘ ؎ اندران وقتی کہ آن دانای راز حضرت اقبال پیر سرفراز آن خد یو ملک فقر و بے نیاز شمعسان روشن و لیکن بے گداز کرد سوی کشور افغان گداز دفتری بنوشت درختم سفر اندران دفتر بسی درسفتہ امت نکتہ ھای بہتراز درگفتہ است نزد ہر افغان شد آن دفتر عزیز ہمچو لعل و چون در و گوہر عزیز ؎ گرچہ آن پاکیزہ بُد ہمرازما باخبر ازدرد و سوز و سازما کام وی شیرین بد از جام جلال(۱) پیر بلخ آن راز دان با کمال گرچہ بود اندر کنار گنج بخش(۲) آن کہ از غزنین بہ لاہور راندہ رخش گرچہ بد لعل بدخشانش نگین کرد چون درکلک شعر انگشترین گرچہ آن دای راز انجمن گفت با دنیا بہ لفظ ما سخن (۳) گرچہ اندر شعر ش آن صاحب یقین گفتہ بود این نکتۂ مہر آفرین ’’آسیا یک پیکر آب و گل است ملت افغان در آن پیکر دل است از فساد او فساد آسیا در گشاد او گشاد آسیا گرچہ درس از بوعلی آمیختہ بود دیگ فکرت باسنای پختہ بود بازھم خودرا مسافر خواندہ بود وین لقب بردفتر خود ماندہ بود ؎ خواستم من ہم خطابی آورم واں مسافر راجوابی آورم گرچہ من مھجور ازنور و صال منیر نم اندھوای وصل بال اشک چشمی میفاشنم پرزدرد از رخم تا بسترد آہستہ گرد ؎ صبحگاہاں چون برید خوشخرام بہر ما آورد ایں خرم پیام گفت راہ خطۂ لاہور گیر مقصد نزدیک وراہ دور گیر رو بد انجامی کہ باشد مہر راز یادگار روز گاران دراز ہر درخت باغ وی افسانہ ی ہر گلشن بنشاندہ فرزانہ ی طوطیش منقار دارد پر شکر گلبنش بیجادہ دارد پر گہر دیدہ خاکش پس فراز و بس نشیب دارد اندر دفتر تاریخ زیب بس کہ ازخون شہید انبا شتہ ست نرگس آنجا چشم مردم کا شتہ ست آبھادرحو ضہائی شالمار می جہد مستانہ و سیماب راز تا رسد برتربت صاحبدلی راز دانی راد مردی مقبلی تا نہد برتربت اقبال سر گردداز ا سرا رہستی باخبر ؎ چون شنیدم این پیام خوشگوار شوق شد آتش بہ جانم زد شرار دردل من رازھا آمد پدید سوز جان راسازھا آمد پدید برگ بی برگی گرفتم دربساط لاف درویشی زدم از انسباط ہمچو شاہین از فراز کوہسار پر کشودم بیخبر دیوانہ وار شوق وصل از بس کہ مستی میفزود جانم از تن پیشدستی مینمود محمل من بود ’’بال جبریل‘‘ آن کہ ہست الہام یزدان رابدیل جرعہ جام سنائی دردھان درد ہجویری(۱)لا نھان اندربیان سید افغانیم (۲) بدرہ دلیل پر توم از شمع بلخی (۳) درسیل آن کہ درشبھای تار زندگی مھر وی دارد چو خورتابندہ گی خفتہ را گوید کہ بر خیز ای سپر از سراب وھم بگریز ای پسر تو ز دریابی سوی دریاشتاب موج زن چون ریگ در ساحل خراب گر خرد ہر چند باشد رہبرت عشق باید گاہ رفتن شہرت ؎ آمدم اینک بہ پیش شاہ عشق پیش اقبال این چراغ را ہِ عشق آن کہ از رمز خودی آگاہ بود درد بود و سوز بود و آہ بود آن کہ زنجیر غلامی پارہ کرد دردھای مردمان راچارہ کرد از کلام اللہ کلید تازہ یافت سوی باغ آرزو دروازہ یافت گشت فارغ از گزند بیش وکم سر کشید از دیر درکنج حرم رہبرِ خود جستجو را بر گزید در خطر ھا آرزو رابرگزید از رموز سرحق آگاہ گشت ہر کجا خلق او ہمراہ گشت نالۂ مظلوم در شعر اش درید دست گشت و دامن ظالم درید از شرابِ زندگی سرشارشد آن قدر شد نشہ تا ہشیار شد سنگ زد چندان بہ مینای فرنگ تاشکستش ریخت زان مینا سرنگ مردمان ہندرا بینش فزود گرد زلت از رخ مردم زدود برگرفت از حکمت قرآن سبق ہم زحق گفت و ہم از مردان حق باشد از افلاک برتر خاک او صد سلامم برروان پاک او من بہ درگاہش نیاز آورہ دام تحفہ ی از سوز و ساز آوردہ ام قطرہ ی چند ازدو چشم من چکید خون دل بُد شعر شد لوش شد تاشود گلدستہ برسنگ مزار تا ابد مساند در آنجا یادگار (۱۴۵) ڈاکٹرمحمدصادق فطرت ؔ’’ناشناس‘‘ ڈاکٹر محمد صادق فطرت افغانستان میں پائے کے گلوکار تسلیم کئے جاتے ہیں۔ آپ کا تعلق قندھار کے معروف علمی ، روحانی اور ادبی گھرانے سے ہیں۔ اس گھرانے کا سرخیل علامہ حبیب اللہ کاکڑ قندھاری (محقق قندھاری)المعروف بہ حبو اخوندزادہ (تولد قندہار کوچہ بامیزی ۱۲۱۳ھ ق وفات رمضان المبارک ۱۲۶۳ھ ق مدفن قبرستان عیدگاہ قندھار) تھے۔ جو اپنے دور کے پائے کے عالم، فاضل، معقول و منقول علوم کے جاننے والے تھے۔ جدید علوم فلسفہ تاریخ طب ریاضی اور الجبرا کے استاد تھے۔ عربی فارسی اور پشتو میں کئی تصنیفات یادگار ہیں۔ (۱۴۶) اس گھرانے میں کئی نامور علمی و ادبی ہستیاں پیدا ہوئیں ان میں مولانا عبدالواسع کاکڑ (امام اعلیٰ حضرت امان اللہ غازی) مولوی عبدالرئوف خاکی کاکڑ ، مولانا عبدالرب وغیرہ شامل ہیں۔ معاصر مقتدر علمی و ادبی شخصیت علامہ عبدالحئی حبیبیؔ کا تعلق بھی اس علمی گھرانے سے تھا۔ (۱۴۷) ڈاکٹر محمد صادق کا تخلص فطرت ہے تولد قندھار میں ہوئی ۔ پاکستان و ہندوستان سے علوم حاصل کیں۔ موسیقی کی ریاضت کے لئے بھی برصغیر پاک و ہند کے سفرکئے۔ آپ نے افغانستان میں اقبال شناسی کا حق افغان موسیقی کے ذریعے ادا کیا۔ علامہ کے کئی اردو اور فارسی غزلیات اور منظومات کو افغان موسیقی کے سُروں میں ہمیشہ کے لئے امر کئے ہیں۔ افغانستان میں ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے اہم عہدوں پر فائز رہے اور افغان انقلاب کے بعد پاکستان مہاجر ہوئے ۔ یہاں سے یورپ چلے گئے اور آج کل لندن میں رہتے ہیں۔ خخخخخخ مأخذات باب چہارم:۔ ۱؎ دار غند د #ƒ¢ژبہ ،ص۔ ۱۹ ۲؎ اوسنی لیکوال ، جلد ۳، ص۔ ۱۴۴۰ ۳؎ پشتو شاعری پر اقبال کے اثرات ، ص۔ ۲۷۵ ۴؎ مکتوب احمد صمیم بنام راقم الحروف، ص۔ ۱ ۵؎ ایضاً ،ص۔ ۱- ۲ ۶؎ ایضاً، ص۔ ۵ ۷؎ دارغند د #ƒ¢ ژبہ، ص۔ ۱۹ ۸؎ د شاعر فریاد ، ص۔ ۴- ۱۵- ۱۹ ۹؎ اقبال ریویو، اپریل ۱۹۶۷ء ، ص۔ ۴۴ ۱۰؎ سیر افغانستان ، ص۔ ۱۴ ۱۱؎ مجلہ’’ کابل‘‘، ۲۲ جون ۱۹۳۲ء ، ص۔ ۱۲- ۲۰ ۱۲؎ اقبال ریویو، اپریل ۱۹۶۷ ء ، ص۔ ۴۴ ۱۳؎ افغانستان و اقبال، ص۔۱۵ ۱۴؎ مجلہ ’’کابل‘‘، مئی جون۱۹۳۸ء ، ص۔ ۷۹- ۸۲ ۱۵؎ وینہ پہ قلم œ'*، ص۔ ۲۲۷- ۲۲۵ ۱۶؎ اوسنی لیکوال، جلد ۳، ص۔ ۱۴۴۷ ۱۷؎ ’’پشتو‘‘ ،پشاور، دسمبر ۱۹۸۲ء ، ص۔ ۷ ۱۸؎ ایضاً،ص۔ ۷ ۱۹؎ دانش مجلہ، ۱۳۶۶ھ ش، ص۔ ۹ ۲۰؎ ایضاً،ص۔ ۱۱ ۲۱؎ دانش مجلہ، زمستان ۱۳۶۶ھ ش، ص۔ ۱۳ ۲۲؎ ایضاً،ص۔۱۵ ۲۳؎ ایضاً،ص۔۱۴ ۲۴؎ ایضاً،ص۔۱۵ ۲۵؎ ایضاً،ص۔۱۶ تا ۲۸ ۲۶؎ وینہ پہ قلم œ'*، ص۔ ۱۶۸ تا ۱۷۱ ۲۷؎ ایضاً، ص۔ ۱۷۰ تا ۱۷۱ ۲۸؎ دانش ، زمستان، ۱۳۶۶ھ ش، ص۔ ۲۵ ۲۹؎ اقبال ریویو، اپریل ۱۹۶۷ء ،ص۔ ۱۶۵ ۳۰؎ کلیات اشعار استاد خلیل اللہ خلیلیؔ، ص۔ ۱۵۳ تا ۱۵۴ ۳۱؎ ایضاً،ص۔۱۸۲ تا ۱۸۳ ۳۲؎ ایضاً،ص۔۵۰ تا ۵۲ ۳۳؎ ایضاً،ص۔۵۸۴ تا ۵۸۵ ۳۴؎ ایضاً،ص۔۳۸۲ تا ۳۸۳ ۳۵؎ ایضاً،ص۔۵۸۶ ۳۶؎ د و&مو بھیر، ص۔ ۱۷ ۳۷؎ مجلہ’’ قلم‘‘ ، پشاور، اپریل مئی۱۹۸۷ء ، ص۔ ۶۹ ۳۸؎ ایضاً،ص۔۷۱ ۳۹؎ بالِ جبریل ،ص۔۲۲ تا ۲۴ ۴۰؎ مجلہ دانش زمستان ، ۱۳۶۶ھ ش ، ص۔ ۱۰۸ ۴۱؎ ایضاً،ص۔۹۰ ۴۲؎ ایضاً،ص۔۹۱ ۴۳؎ مجلہ دانش زمستان ، ۱۳۶۶ھ ش ، ص۔ ۹۲ ۴۴؎ ایضاً،ص۔۹۳ ۴۵؎ اقبال ممدوح عالم، ص۔ ۲۸۴۔ ۴۶؎ مجلہ ’’کابل‘‘ ، مارچ ۱۹۳۱ء ، ص۔ ۱۹ تا ۲۳۔ ۴۷؎ سیر افغانستان، ص۔ ۷۔ ۴۸؎ اقبال ریویو ، اپریل۱۹۶۸ئ، ص۔ ۴۸۔ ۴۹؎ سیر افغانستان، ص۔ ۳۹۔ ۵۰؎ مجلہ ’’کابل‘‘ ، دسمبر ۱۹۳۴ء ، ص۔ ۸۴ تا ۸۹۔ ۵۱؎ اقبال ممدوح عالم، ص۔ ۲۹۲۔ ۵۲؎ مجلہ ’’کابل‘‘ ، ۲۳ دسمبر ۱۹۳۴ئ، ص۔ ۸۵۔ ۵۳؎ اقبال ممدوح عالم،ص۔ ۲۹۲۔ ۵۴؎ اخبار’’انیس‘‘ کابل ۱۴ ثور ۱۳۱۷ھ ش۔ ۵۵؎ مجلہ ’’کابل‘‘، مئی جون ۱۹۳۸ئ، ص۔ ۷۸۔ ۵۶؎ ایضاً،ص۔ ۸۶ تا ۹۱۔ ۵۷؎ سیر افغانستان ، ص۔ ۷۔ ۵۸؎ مقالات یومِ اقبال ، ص۔ ۳۲ تا ۳۸۔ ۵۹؎ علامہ اقبال در ادب فارسی و فرھنگ افغانستان، ص ۲۰۲ تا ۲۰۵ ۶۰؎ اقبال ممدوح عالم، ص۔ ۲۹۲۔ ۶۱؎ مجلہ ’’آریانا ‘‘کابل ، ستمبر۱۹۷۶ء ، ص۔ ۹۱ تا ۹۲۔ ۶۲؎ مجلہ ’’کابل‘‘، ۲۱ جنوری ۱۹۳۴ء ، ص۔ ۷۵ تا ۸۲۔ ۶۳؎ ایضاً، ۲۰ فروری ۱۹۳۴ئ، ص۔ ۴۳ تا ۵۸۔ ۶۴؎ ایضاً، ۲۲مارچ ۱۹۳۵ء ، ص۔ ۵۹ تا ۶۱۔ ۶۵؎ مجلہ ’’کابل‘‘، ۲۳ مئی ۱۹۳۵ء ، ص۔ ۵۲ تا ۵۸۔ ۶۶؎ ایضاً، ۲۲ مئی ۱۹۳۶ء ، ص۔ ۴۱ تا ۵۶۔ ۶۷؎ مجلہ’’ آریانا ‘‘کابل، ستمبر ۱۹۷۶ء ، ص۔ ۹۱ تا ۹۲ ۶۸؎ ستوری د ادب پہ آسمان œ'*، ص۔ ۵۰۸ ۶۹؎ ایضاً،ص۔ ۵۱۰ تا ۵۱۱ ۷۰؎ خون کی پکار، بیک ٹائٹل ۷۱؎ مجلہ’’ افغانستان‘‘ ، جولائی۱۹۹۶ء ، ص۔ ۸۰ ۷۲؎ د افغان مجاہد آواز ، ص۔ ۳۶ ۷۳؎ آفریدہ ہای مہجور علامہ حبیبیؔ، ص۔ ۱۵ ۷۴؎ ƒ'„پنہ شعرائ، جلد ۵، ص۔ ۳۳۹ ۷۵؎ آفرید ہای مہجور علامہ حبیبیؔ، ص۔ ۱۶ ۷۶؎ ƒ'„پنہ شعرائ، جلد ۵، ص۔ ۱۶۷ - ۱۶۸ ۷۷؎ آفرید ہای مہجور علامہ حبیبیؔ، ص۔ ۲۱ - ۲۳ ۷۸؎ اوسنی لیکوال ، جلد ۱، ص۔ ۲۲۴ تا ۲۴۵ ۷۹؎ ƒ'„پنہ شعرائ، جلد ۵، ص۔ ۱۶۷ - ۱۶۸ ۸۰؎ آفرید ہای مہجور علامہ حبیبی، ص۔ ۳۴۲ - ۳۴۷ ۸۱؎ سیر افغانستان، ص۔ ۳۳ ۸۲؎ مجلہ ’’کابل‘‘ ، ص۔ ۲۱ جنوری ۱۹۳۴ئ، ص۔ ۶۸ ۸۳؎ ایضاً،ص۔۶۵ تا ۷۱ ۸۴؎ ایضاً،ص۔۶۱ ۸۵؎ ایضاً،ص۔۷۱ ۸۶؎ „*ژ وختونہ „*ژ یادونہ، ص۔ ۳۳- ۳۴ ۸۷؎ مجلہ’’ کابل ‘‘، دلو ۱۳۲۳ھ ش، ص۔ ۱۶۷ ۸۸؎ مجلہ ’’کابل‘‘ ، دلو ۱۳۲۳ھ ش، ص۔۱۶۷ ۸۹؎ مجلہ ’’پشتو ‘‘، پشاور، ستمبر ۱۹۸۴ ھ ش، ص۔ ۲۷ ۹۰؎ دردِدل و پیامِ عصر، ص۔ ھ ۹۱؎ ایضاً،ص۔۲۷ ۹۲؎ ایضاً،ص۔۲۸ ۹۳؎ دردِدل و پیامِ عصر،ص۔۲۹ ۹۴؎ ایضاً،ص۔۶۳ ۹۵؎ ایضاً،ص۔۶۵ ۹۶؎ ایضاً،ص۔۷۳ ۹۷؎ ایضاً،ص۔۸۹ ۹۸؎ ایضاً،ص۔۹۶ ۹۹؎ ایضاً،ص۔۱۰۸ تا ۱۱۰ ۱۰۰؎ ایضاً،ص۔۱۱۳ ۱۰۱؎ اوسنی لیکوال، جلد اول، ص۔ ۱۶۷ ۱۰۲؎ سیماھا آوارھا ، ص۔ ۱۲۸ ۱۰۳؎ مجلہ’’ عرفان‘‘ کابل، اسد۱۳۴۷ ھ ش، ص۔ ۹۹ تا ۱۱۲ ۱۰۴؎ ایضاً،ص۔۱۰۲ ۱۰۵؎ ایضاً،ص۔۱۰۹ ۱۰۶؎ ستوری د ادب پہ آسمان œ'*، ص۔ ۶۲۱ - ۶۲۲ ۱۰۷؎ فرہنگ زبان و ادبیات پشتو، جلد۲، ص۔ ۲۳۳ ۱۰۸؎ ستوری د ادب پہ آسمان œ'*، ص۔ ۶۲۲ - ۶۲۹ ۱۰۹؎ د افغانستان کالنی، ۳۸- ۱۳۳۹ھ ش، ص۔ ۴۶۱ ۱۱۰؎ اوسنی لیکوال، جلد اول، ص۔ ۱۱۶ ۱۱۱؎ رشد زبان و ادب دری در گسترہ فرہنگی پشتو زبانان، ص۔ ۱۵۸ ۱۱۲؎ ƒ'„¢ کتاب '¢د، ص۔ ۵۱ - ۵۲ ۱۱۳؎   (¤پلی ƒ'„¢ن، ص۔ ۴۶- ۶۶ ۱۱۴؎ خوشحال خان او یو #¢ نور فر¦ (¤پلی ٹ!œ، ص۔ ۲۷ - ۶۰ ۱۱۵؎ خوشحال خان او یو #¢ نور فر¦ (¤پلی ٹ!œ،ص۔۲۶ ۱۱۶؎ ترنم دل، ص۔ ۱۷ ۱۱۷؎ ایضاً ، ص۔ ۱۷ ۱۱۸؎ ایضاً،ص۔۶۹ تا ۷۲ ۱۱۹؎ ہفت روزہ ’’وفا‘‘، ۱۰ جدی۱۳۷۶ھ ش ۱۲۰؎ تاریخ ادبیات افغانستان، ص۔ ۱۱۰ ۱۲۱؎ د افغانستان د ژور نالیزم ںٹœ'پن ، ص۔ ۶۹ ۱۲۲؎ اوسنی لیکوال ،جلد ۱، ص۔ ۳۶۸ تا ۳۸۳ ۱۲۳؎ د افغانستان کالنی، ص۔ ۲۲۰ ۱۲۴؎ اوسنی لیکوال، جلد ۱، ص۔ ۳۷۳ ۱۲۵؎ ایضاً،ص۔۳۷۳ ۱۲۶؎ ƒ'„پنہ شعرائ، جلد۵، ص۔ ۳۲۲ ۱۲۷؎ ایضاً،ص۔۳۲۷- ۳۲۸ ۱۲۸؎ د افغانستان کالنی يشمارہ مسلسل۴۵- ۴۶- ۱۳۵۹ھ ش، ص۔ ۱۰۰۸ ۱۲۹؎ افغانستان و اقبال، ص۔ د،۲- ۶- ۱۰- ۱۸- ۲۸- ۳۴- ۳۸- ۵۶- ۶۶- ۷۰- ۷۶ ۱۳۰؎ مجلہ ’’کابل‘‘ مئی جون ۱۹۳۸ء ، ص۔ ۹۳ ۱۳۱؎ ƒ'„پنہ شعرائ، جلد۵، ص۔ ۲۶۹ ۱۳۲؎ ƒ'„پنہ شعرائ، جلد۵، ص۔ ۲۷۱ ۱۳۳؎ ایضاً،ص۔۲۷۲ تا ۲۷۴ ۱۳۴؎ مجلہ ’’کابل ‘‘جنوری فروری ۱۹۳۷ء ، ص۔ ۱۰۸۹ ۱۳۵؎ بہار جاناں قلمی صفحہ ۱۴۷ ۱۳۶؎ مجلہ ’’کابل‘‘ ستمبر اکتوبر ۱۹۳۹ء ، ص۔ ۲۲ تا ۳۹ ۱۳۷؎ د افغانستان کالنی، ۳۸- ۱۳۳۹ھ ش، ص۔ ۴۶۲ ۱۳۸؎ مجلہ’’ کابل‘‘ مئی جون ۱۹۳۸ئ، ص۔۹۲ - ۹۳ ۱۳۹؎ اوسنی لیکوال،جلد ۱، ص۔ ۹۱ ۱۴۰؎ ƒ'„پنہ شعرائ، جلد ۵، ص۔ ۲۳۸ ۱۴۱؎ ایضاً،ص۔۲۳۸ تا ۲۴۰ ۱۴۲؎ ایضاً،ص۔۲۳۸ ۱۴۳؎ مجلہ’’ کابل‘‘ مئی جون ۱۹۳۸ء ، ص۔ ۹۱ - ۹۲ ۱۴۴؎ اوسنی لیکوال،جلد ۱، ص۔ ۱۱۵۵ ۱۴۵؎ ہفت روزہ ’’وفا‘‘، ۱۱جدی ۱۳۷۵ ھ ش ۱۴۶؎ د قندھار مشاہیر،ص۔ ۱۶۴ تا ۱۷۴ ۱۴۷؎ آفریدہ ہای مہجور علامہ حبیبیؔ، ص۔ ۱۴ ززززز باب پنجم افغانستان کے فارسی گو اقبال شناس ڈاکٹر اسد اللہ محقق ڈاکٹر اسد اللہ محقق۔ جناب ڈاکٹر اسد اللہ محقق کی سن پیدائش ۱۳۳۹ ھ ش ہے۔ آپ افغانستان کے وہ خٍش قسمت سکالر ہیں جنہیں افغانستان میں اقبال کے حوالے سے تحقیقات کا باقاعدہ موقع ملا۔ آپ کے تفصیلی سوانح حالات نہیں مل سکے البتہ آپ نے افغانستان میں کمیونسٹ انقلاب کے بعد ۱۹۸۲ء میں پاکستان ہجرت کی۔ یہاں ۲۲ سال تک ۲۰۰۴ء کے اواخر تک رہے اور اس دران آپ نے اسلام آباد یونیورسٹی آف ماڈرن لینگوئجز کے شعبہ فارسی سے ڈاکٹر نور محمد خاں مہر کی نگرانی میں ’’علامہ اقبال در ادب فارسی و فرھنگ افغانستان‘‘ کے عنوان سے ڈاکٹریٹ کے لیے مقالہ لکھا۔(۱) یہ مقالہ ۱۳۸۳ھ ش/۱۴۲۶ھ ق ۲۰۰۴ء میں ادارہ تحقیقات فارسی ایران و پاکستان کی جانب سے ۳۲۵ صفحات پر شائع ہوا۔ اس کے مشمولات پر افغانستان میں کتابیات اقبال میں بحث کی گئی ہے۔ آقائی حیدری وجودی افغانستان کے مشہور و معروف معاصر اہل قلم جناب حیدری وجودی علمی دنیا میں نہایت قابل احترام شخصیت کے حامل ہیں۔ آپ افغانستان میں مولانا جلال الدین بلخی رومی میرزا عبدالقادر بیدل اور علامہ اقبال کے بارے میں کئی مقالات تحریر کر چکے ہیں۔ اسی وجہ سے آپ افغانستان میں مولانا شناس، بیدل شناس اور اقبال شناس کے حوالے سے شہرت رکھتے ہیں۔ آپ پر ہفتہ دو بار ان تین شخصیات کے فکر و فن کے حوالے سے کابل کے کتابخانہ عمومی میں لیکچر دیتے ہیں۔ اقبال پر آپ کے ذیل مقالات سامنے آئے ہیں: اسرار خودی و رموز بیخودی اقبال، جلوہ ہائی سبز آزادی در بندگی نامہ علامہ اقبال۔ یہ دونوں مقالات علامہ اقبال در ادب فارسی و فرھنگ افغانستان میں ہیں۔(۲) جھش ھا۔ رہ آورد اقبال از سفر افغانستان۔ رحمت اللہ منطقی استاد رحمت اللہ منطقی افغانستان کے معاصر ادیب و شاعر ہیں آپ نے اسلامی علوم میں ایم فل کیا ہے اور بلخ یونیورسٹی فاکولتہ شرعیات میں استاد ہیں ۔ آپ نے ثور ۱۳۸۳ھ ش میں علامہ کو فارسی میں منظوم خراج تحسین بھی پیش کیا ہے: چوں بحری بیکراں علامہ اقبال امیر کارواں علامہ اقبال خبیر کارواں علامہ اقبال امیر کارواں راستگاراں ظہیر راستاں علامہ اقبال امیر کارواں صدق و ایماں امین و رازداں علامہ اقبال رھبر دستور معمار حرم را بہ تعمیر جھاں علامہ اقبال ابر مردی کہ ھر گز تن نمی داد بہ بیداد زماں علامہ اقبال عجب بگذاشت در دنیای فانی سرور جاوداں علامہ اقبال چہ تحلیل بدیع و جالبی داشت زا و ضاع زماں علامہ اقبال علمبردار اسلام و عدالت بہ دست پر تواں علامہ اقبال قلم آورد و دراہ خدا کرد جھاد بی اماں علامہ اقبال بہ شرق آوردہ است از نقد افگار چہ نیکو ارمغاں علامہ اقبال کند در گلشن افکار پیدا بھار بی خزاں علامہ اقبال اگر اعلام عالم چون زمین اند بود چون آسماں علامہ اقبال بلاد شرق اگر چون آسمان است بود خورشید آں علامہ اقبال درین دنیا اگر دانای رازی است بود آں راز داں علامہ اقبال مرید پیر با تدبیر رومی مراد مار خاں علامہ اقبال انیس اہل دل در بزم الفت جلیس بی دلاں علامہ اقبال ھمیشہ داشت از الام امت الم در جسم و جاں علامہ اقبال بہ حال زار امت اشک ریزاں ز چشم خوں فشاں علامہ اقبال حکیمی، فیلسوف نامداری بہ مقیاس جھاں علامہ اقبال بر احساس خودی دارد پیامی بہ ھر پیر و جواں علامہ اقبال پیامش را رسانیدہ است تا ما ورای کھکشاں علامہ اقبال دلش کانوں راز و رمز قرآں علیم رمز داں علامہ اقبال کند اسرار بی پایاں آن را زھر پھلو بیاں علامہ اقبال علی التحقیق ممتاز است و یکتا در ابنای زماں علامہ اقبال نگوید ازگماں حرفی در اینجا نگند در گماں علامہ اقبال بود در دیدہ می دانا محقق بہ ھر معنیٰ عیاں علامہ اقبال چنین حضرت تواند آں کہ گوید ’’چنیں بود و چناں علامہ اقبال‘‘ چہ گویم ’’منطقی‘‘ وصفش کہ باشد چو بحری بیکراں علامہ اقبال (۳) ڈاکٹر سعید ڈاکٹر سعید افغانستان کے معاصر ادیب و نقاد ہیں۔ آپ کے سوانحی حالات معلوم نہ ہو سکے البتہ آپ نے حال ہی میں ’’اکسیر خودی - جوھر پیام علامہ اقبال‘‘ کے نام سے ایک علمی و تحقیقی کتاب شائع کی ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے علامہ کی فلسفہ خودی کا بہترین علمی و انتقادی انداز میں تشریح کی ہے۔ اس کتاب کے مشمولات پر افغانستان میں کتابیات اقبال میں بحث کی گئی ہے۔ صلاح الدین سلجوقیؔ صلاح الدین سلجوقیؔ افغانستان کی مشہور و معروف شخصیت تھے آپ نہ صرف افغانستان کے سیاسی افق کے درخشندہ ستارے تھے ۔ بلکہ علمی و ادبی جہاں میں بھی ممتاز حیثیت رکھتے تھے ۔ آپ حضرت علامہ کے معاصر اور ان سے گہرے مراسم رکھنے والے بھی تھے۔ بقولِ ڈاکٹر محمد ریاض مرحوم: افغانستان کے فضلاکے ساتھ اقبال کے ذاتی مراسم بھی خاصی اہمیت کے حامل رہے ہیں۔ ڈاکٹر صلاح الدین سلجوقیؔ اور سرور خان گویاؔ ان کے خاص احباب میں شامل تھے اور دونوں مرحومین کا سارا افغانستان ارادت مند اور معتقد ہے۔(۴) صلاح الدین سلجوقیؔ ۱۳۱۳ ھ ق/ ۱۲۷۶ ھ ش/ ۱۸۹۶کو ہرات کے گازر گاہ میں پیدا ہوئے۔ یہ وہی گازر گاہ ہے جہاں پیر ہرات حضرت خواجہ عبداللہ انصاری محوخواب ابدی ہیں۔(۵) آپ کے والد سراج الدین مفتی سلجوقیؔ ہروی کا شمار ہرات کے زعماء میں ہوتا ہے۔ (۶) سراج الدین سلجوقیؔ فارسی کے زبردست شاعر اور مکتبِ شیرازی کے مشہور پیرو تھے۔ (۷) صلاح الدین سلجوقیؔ نے عربی و فارسی کی ابتدائی کتب اپنے والد محترم سے پڑھیں۔ تحصیلِ علم کے بعد مختلف عہدوں پر فائز رہے۔ ۱۲۹۶ھ ش / ۱۹۱۴ء محکمہ شرعیہ ہرات میں مفتی (نائب قاضی مقرر ہوئے)۔ ۱۲۹۹ ھ ش مکتب حبیبہ کابل میں دینیات کے معلم مقرر ہوئے۔(۸) جبکہ بقولِ نعمت حسین آپ اس دوران مکتب حبیبہ میں استاد ادبیات فارسی و عربی مقرر ہوئے۔ (۹) ۱۳۰۰ھ ش مدیر معارف اور مدیر جریدہ ، فریاد ہرات مقرر ہوئے۔ ۱۳۰۲ ھ ش وزارت معارف میں دارالتالیف کے مصحح مقرر ہوئے۔ ۱۳۰۴ھ ش / ۱۳۰۵ھ ش کابل میں مکتب استقلال اور مکتب دارالمعلمین میں ادبیات کے استاد بنے۔ ۱۳۰۵ھ ش/ ۱۹۲۷ء تا ۱۳۰۷ھ ش شاہی دارالتحریر کے شعبہ سوم میں سرکاتب مقرر ہوئے۔ (۱۰) ۱۳۰۹ھ ش افغانستان کے کونسلر کی حیثیت سے بمبئی میں خدمات انجام دیتے رہے۔ ۱۳۱۲ھ ش دہلی میں افغان کونسلری کے کونسلر جنرل مقرر ہوئے۔ ۱۳۱۸ھ ش / ۱۹۳۹ء جب افغانستان میں پہلی بار مطبوعات کی مستقل ریاست وجود میں آئی تو صلاح الدین سلجوقیؔ اس کے پہلے رئیس تھے۔ آپ کے اس شاندار دور میں آپ کے درج ذیل کارہائے نمایاں افغانستان کی تاریخ میں یاد رکھے جائینگے۔ - آریانا دائرۃ المعارف کے ریاست کا آغاز ہوا۔ - ۱۳۲۰ھ ش ریڈیو افغانستان کی نشریات کا افتتاح ہوا۔ - ہفت روزہ’’انیس ‘‘نے روزنامہ کی حیثیت اختیار کی۔ - کابل میں کتب خانہ عمومی وجود میں آیا۔ - مختلف صوبوں میں فاریاب، پکتیا، بدخشان، سیستان (فراہ) اور دیگر صوبوں میں اخبارات اور مطبوعات کااجرا ہوا۔ ۱۳۲۷ھ ش پاکستان میں افغان سفارتخانے سے منسلک رہے۔ ۱۳۲۸ھ ش / ۱۹۴۹ء اہالیان ہرات کی جانب سے افغانستان کے شورائی دورۂ ہفتم کیلئے وکیل منتخب ہوئے۔ ۱۳۳۲ھ ش دوسری مرتبہ مطبوعات کے مستقل رئیس منتخب ہوئے۔ ۱۳۳۳ھ ش/ ۱۹۵۴ء قاہرہ میں جمال عبدالناصر کے دورِ حکومت میں افغانستان کے سفیر مقرر ہوئے۔ اس دوران سوڈان ، لبنان، اور یونان میں بھی افغانستان کے سفیر کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے رہے۔ یہ سلسلہ ۱۳۴۱ھ ش کے آواخر تک جاری رہا ۔ وہاں سے مستعفی ہوکر عازمِ وطن ہوئے۔ (۱۱) سرکاری عہدوں سے سبکدوشی کے بعد تصنیف و تالیف اور مطالعہ میں مصروف رہے۔ کابل کے دارالامان میں ۱۶ جوزا ۱۳۴۹ھ ش بمطابق ۶ جون ۱۹۷۰ء ہفتے کی شب حرکت قلب بند ہونے کی سبب خالق حقیقی سے جاملے اور کابل کے شہدائے صالحین کے قبرستان میں دفن کئے گئے۔(۱۲) علامہ سلجوقیؔ فارسی کے علاوہ عربی و انگریزی سے بھی استفادہ کرسکتے تھے۔ سفارتی زندگی میں مختلف ممالک کی سیاحتیں کیں۔ علامہ سلجوقی ؔکی تالیفات و تصانیف کا تذکرہ نہایت ضروری ہے۔ ۱۔ تاریخِ فتوحات اسلامیہ: سید حسن بن سید زین دحلانی کا یہ عربی اثر استاد صلاح الدین سلجوقیؔ ، حاجی عبدالباقی، میر غلام حیدر، ملا تاج محمد اور چند دیگر زعماء نے مشترکہ طور پر ترجمہ کیا۔ جو عبدالرحیم خان نائب سالار کی زیرِ نگرانی ملا فخر الدین سلجوقیؔ کے زیر اہتمام سے مطبع فخریہ سے ۱۳۰۹ھ ش ۵۴۰ صفحات میں شائع ہوئی۔ ۲۔ مقدمہ علم اخلاق جلد اول: استاد سلجوقی ؔ کی تالیف و ترجمہ ۱۳۳۱ھ ش میں ۴۰۲صفحات پر مشتمل کابل کے مطبع عمومی سے شائع ہوئی۔ اس کتاب کی جلد دوم بھی اسی سال ۳۵۲ صفحات پر شائع ہوئی۔ ۳۔ علم اخلاق (نیکو ماکوسی): علم اخلاق سے متعلق یونانی فلسفی ارسطو کا یہ اثر صلاح الدین سلجوقیؔ نے فارسی میں ترجمہ کیا ہے۔ جو ۱۳۷۱ھ ش میں ۳۳۰ صفحات پر شائع ہوا۔ ۴۔ تہذیب اخلاق: ابنِ مسکویہ کا یہ اثر بھی استاد سلجوقیؔنے ترجمہ کیا۔ اور موسسہ نشراتی اصلاح کی جانب سے ۱۳۳۴ھ ش میں ۸۶ صفحات پر مشتمل شائع ہوا۔ ۵۔ افکارِ شاعر: فارسی ادبیات کے کلاسیک شعراء کے آثار و افکار سے متعلق استادسلجوقیؔ کا یہ اثر اصلاح اخبار کے ادارے کی جانب سے پہلی بار ۱۳۲۶ ھ ش اور بعد میں ۱۳۳۴ ھ ش کابل کے مطبع عمومی کی جانب سے شائع ہوا۔ تعداد صفحات ۷۳ ہیں۔ ۶۔ جبیرہ: استاد سلجوقیؔکا یہ اثر کابل کی وزارت مطبوعات کے ریاست نشریات کی جانب سے ۳۲۴ صفحات میں شائع ہوا۔ ۷۔ نگاہی بہ زیباہی: سلجوقیؔ کی تالیف و ترجمہ کردہ یہ کتاب بھی کابل سے ۱۳۴۲ ھ ش ۱۷۳ صفحات میں شائع ہوئی ۔ ۸۔ محمد در شیر خوارگی و فرد سائی یا سرگذشت یتیم جاوید: مصر کے محمد شوکت التوی کی عربی اثر کا فارسی ترجمہ ۱۳۴۲ ھ ش میں شائع ہوا۔ ۹۔ نقد بیدل: بیدل شناسی کے حوالے سے استاد سلجوقیؔ کا یہ گراں بہا علمی اثر ۵۷۰ صفحات پر کابل سے ۱۳۴۳ھ ش میں شائع ہوا۔ ۱۰۔ تجلی خدا در آفاق و النفس: دینی و عرفانی مسائل پر مشتمل استاد سلجوقی کا یہ اثر ۱۳۴۴ ھ ش میں ۳۲۳ صفحا ت پر مشتمل کابل کے دولتی مطبع سے شائع ہوا ہے۔ اس کتاب میں مختلف موضوعات پر بحث کی گئی ہے۔ مثلاً فکرت خداجوئی، عقیدہ بوجود خدا، علم و معرفت خدا، فکرت خدای دینی قدیم و جدید، دین و تصوف و فلسفہ، الحاد و اقسام آن، تجلی خدا در آفاق ، تجلی خدا دارالنفس و غیرہ۔ ۱۱۔ اضواء علی میا دین الفلسفہ و العلم و اللغۃ و فن الادب: استاد سلجوقیؔ کا یہ عربی اثر ۱۳۸۱ھ ق میں مصر سے شائع ہوا۔ ۱۲۔ اثر الاسلام فی العلوم و الفنون (عربی): استادسلجوقیؔ کی یہ کتاب ۱۳۷۵ ھ ق میں مصر سے شائع ہوئی۔ ۱۳۔ تقویم الانسان: استاد سلجوقیؔ کا یہ اثر ان کی وفات کے بعد ۱۳۵۲ ھ ش میں کابل سے ۳۴۴ صفحات پر شائع ہوا۔ ۱۴۔ اخلاق: غازی امان اللہ خان کے دورِ حکومت میں رشیدیہ کلاسز کے لئے درسی کتاب۔ ۱۵۔ ادبیات: درسی کتاب معارف کے طالب علموں کے لئے غازی امان اللہ خان کے دور میں شائع ہوئی۔ ۱۶۔ ثروت: یہ بھی امانی دور کی درسی کتاب ہے۔ ۱۷۔ قواعد عربیہ (تدریس): استاد صلاح الدین سلجوقیؔقاری عبداللہ اور ہاشم شائق کی مشترکہ کاوش۔ ۱۸۔ آئینہ تجلی(رسالہ منظوم): استاد سلجوقی ؔ اور مایل ہروی کی مشترکہ تالیف شائع شدہ ۱۳۴۴ ھ ش ۔ اس رسالے میں بعض امورسے متعلق مائل ہروی کے منظوم سوالات اور سلجوقیؔ کے منظوم جوابات شامل ہیں۔(۱۳) جناب خلیل اللہ خلیلی نے آثار ہرات میں استاد صلا ح الدین سلجوقیؔ کو نہایت سپاس و تحسین پیش کی ہے۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب استاد سلجوقیؔ بمبئی میں افغانستان کے کونسلر تھے۔ ایک معاصر نقاد ادیب اور شاعر سے اتنا ز بردست اعتراف ہی استاد سلجوقیؔ ہی کے حصے میں آسکتی ہے۔ شاعر زبردستی کہ بایک روح شجاع و یک خامہ مقتدر در زمیہ نظم و نثر علم تصرف برافراشتہ بعبارت دیگر فرزند ہاہوشی کہ بہ مزایای علم و فضل و بباز دی یک فطرت زندہ و بیدار نام تاریخی در ادبیات ہرات گذاشتۂ آقائی سلجوقی است۔(۱۴) استاد سلجوقیؔ کی فکری بلندی، علمی بصیرت اوراستدلال کی وسعت ہی ان کے فن میں جھلکتی رہتی۔حضرت علامہ سے اتنے گہرے ذاتی مراسم پر جب بھی میں سوچتا ہوں تودونوں شخصیات میں گہرے فکری تعلق کے سوا کئی دوسرے عوامل کا بھی دخل ہے۔ مثلاً اقبال بھی فلسفی اور سلجوقی ؔ بھی فلسفی ، اقبال بھی شاعر اور سلجوقیؔ بھی شاعر، اقبال بھی عالمگیراسلامی وحدت کے شیدائی اور سلجوقی ؔ بھی اس ارمان کا شیدائی۔ چنانچہ یہ آئندہ کے مؤرخ و محقق کا کام ہے کہ وہ ان دونوں ہستیوں کے فکری مماثلتوں سے پردہ اٹھائے۔ صلا ح الدین سلجوقیؔ کی فارسی شاعری کے چند نمونے ذیل میں نقل کئے جاتے ہیں: ؎ شبی زکجر وشہای کنند گردون زساز شعبد ہای سپہر بوقلمون بدم بہ پیر فلک گرم در خطاب و عتاب کہ ای ستمگر بد فعل کج نہاد حرون زکین تست کہ کفار گشتہ متولی زکید تست کہ اسلام گشتہ خوار و زبون چرار واچ اقانیم در اقالیم است چرا شعایر توحید گشتہ است نگون چرا کراسۂ اسلام در حفیض بلاست باوجود دبدبہ وطنطنیہ است انگلیبون چراست حالت شامات اینقدر ویران زچیست حالت بطحا اینچنین واژون ہمہ بقاع مقدس بدست کفر اسیر فسردہ کشتہ زاثقال کا پیتو لاسیون زمین قدس و حکومت بدست متفقین جزیرۃ العرب و حکم نسا اکسون چراست است اسلام بوریای خموال چراست مسند کفار فرش سقیلاطون تونیز عیسوی کز معدل و محور شدہ است شکل چلیپا بہ چھرہ است مکنون توئی بصورت دجال ومن نمیدانم بعیسیٰ از چہ سبب گشتہ چنین مفتون نحوست توشدہ ہم ملت اسلام سعادت تو شدہ وقف ملت ملعون زگردش تو نشد ہیچ بندہ خرم زچنبر تو تشد ہیچ گردنی بیرون نز سیت شیردلی در جہان بدون گزند زروز و شب کہ دوسک بستہ درین ہامون تونیز بکذزی از خود کہ خون خلقی را ستاند از تویقین حکم خالق بیچون چوگوش کرد فلک ازمن این خطاب رمین جواب داد بمن کہ سیفہ سفلہ دون مزن تو طعنہ تر سا کہ نیستم ترسا کہ ہست مہر محمدؐ بینہ ام مدفون ازان مسخ بچشم اقامت افکندہ است کہ از صبلیش گشتم بشکل لا مظنون وجود نیست مراتاکہ خوانیم موجود ارادہ نیست مراتاکہ دانیم مطعون زکچ نہادی خود نحس گشتہ بجہان چراکنی تورخل رابہ نحسیت مطعون ازان زمان کنراوج شریعت افتادی بچادی ذلت ادبار رفتۂ واژون بآب دیدہ وضو ساز پنج نوبت را مباش در صف ہم عن صلوا تہم ساہون مباش منکر از نار الٰہی کہ دراین عصر زاستخوان تو فسفور ساخت شپلہ و غون گرانجیل او امرکہ عاقبت بری مرد بصوب مناہی کہ نیستی ماذون بطورِ قرب یرانی زصدق چون موسیٰ بقصر خاک درائی زنجل چون قارون دروغ شب سبب بہت در حقِ نمرود زصدق شد بجہان افصح اللسان ہارون ازان نمائی سرگشتہ در فضائی خمول کہ دور گشتہ از شمس فضل چون بنطون توی سوار کرخر جہل در رہ حرمان حریف برشدہ باز یلپسن و بربالون توبر شتر زدہ باربدید وخصم ظریف مہار کردہ ہوا را برشتہ سیمون ہمیشہ رخت بیرون کش زمحفل شعرا کہ ہست بہرہ شان یبتعہم الغاون اگر تو منزل الا الذین ہمی جوئی بدوی نہرو دنیاردرتخوم شبخون رسول گفت کہ حب الوطنی من الایمان سرای ذکر وطن را بنغمبہ محزون نمای مدحت او را تو در فراز و نشیب سرای منقتبش راتو در وہاد و قلون (۱۵) ؎ آہ و فغان سر نوشت نوع انسان بودہ است مطلع صبح ازل چاک گریبان بودہ است تربیت در سایہ آشوب طوفانی بودہ است قطرہ تاگوہر شود عمری بعمان بودہ است زد کیفیات امکان صفوت است وبس انعکاس است آنچہ درآئینہ پنہان بودہ است مشکل اینجا شد کہ ما مشکل پسند افتادہ ایم ورنہ حل راز امکان سخت آسان بودہ است رنج و راحت سر بہم دارد ببزم اعتبار می توان گفتن گل چشم گلستان بودہ است ہر کجا عشق است میناز دباو پست و بلند حلقہ ہا زین خاکدان برگوش کیوان بودہ است گردل صد پارہ ام صد چاک شد مغرور دار کاین کتان در تابش آن ماہ تابان بودہ است ہیچکس بیرون شدن نتوان ازاو ضاع محیط شیر اگر نالد زتاثیر نیستان بودہ است گرنبا شد عشرت امروز فردا حاضر است زندگی را مایہ امید سامان بودہ است وی عطا ردخامہ ام میدید واشکی میفشاند کاین نی افسردہ روزی چاہ ولگان بودہ است (۱۶) ؎ من کہ دارم بہ سینہ تنگی دلی باتار موی آونگی مغز آشفتہ در سرسنگی چہ سرایم زپردہ آہنگی عہد کردم دیگر کہ غم نخورم ہر چہ آید بفکر دم نخورم از نشیب و فراز رم نخورم کہ منم در زمانہ بی ننگی حسن بیغم مراغم نیست دربہارم گیاہ ماتم نیست درد و چشم سفید من نم نیست وزدو عالم نباشد رنگی تو بکو شم مخوان ندای وطن کہ گریز انم از صدای وطن موطنم جنت و درای وطن نہ ہرات و مزار و خوشنگی مبنم از تنبلان شہ عباس زرق و طامات موذی و کناس زجہان گشتہ ام خلاص و پلاس سرو برکم کدوئے و دنگی مقصدم دردوگیتی آمدہ پول نشنا سم کمال و ند زغلول خط ارشاد دارم از بہلول دربن غار یاسر سنگی (۱۷) ہم جب علامہ صلاح الدین سلجوقیؔ اور علامہ اقبال کے دیرینہ تعلقات اور گہرے مراسم کے آغاز پر تحقیق کرتے ہیں تو مولوی محمد علی قصوریؔ ہی ان تعلقات کا سبب معلوم ہوتے ہیں۔ ممکن ہے کہ حضرت علامہ کے فن و شخصیت سے علامہ سلجوقیؔ کو پہلے سے آگاہی حاصل ہوئی ہولیکن باقاعدہ مراسم کے آغاز سے متعلق ڈاکٹر عبداللہ چغتائی کی تحریر ہمیں مدد دیتی ہے ۔ وہ لکھتے ہیں: مولوی محمد علی قصوریؔ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے ۱۹۰۹ء سے لے کر ۱۹۱۱ء تک گورنمنٹ کالج لاہور علامہ اقبال سے پڑھاتھا جب وہ فلسفے کے پروفیسر تھے۔ انہوں نے کئی انگریزی نظمیں بھی علامہ اقبال سے پڑھی تھیں ان کا بیان ہے کہ علامہ اقبال دوران لیکچر اکثر مطالب سمجھانے کے لئے فارسی اشعار بطورِ مثال پیش کرکے انگریزی شعروںکا مفہوم واضح کیا کرتے تھے۔ انہوں نے بیان کیا تھا کہ ہم نے ملٹن کی نظم Paradise Lost اور ورڈز ورتھ کی نظم Ode to Immortaliaty علامہ ہی سے پڑھی تھی۔ آپ نے ان کو اس خوش اسلوبی سے سمجھایا کہ آج تک یاد ہے میں نے اپنی یادداشتوں کو ایک مرتبہ علامہ صلاح الدین سلجوقیؔ افغان کے سامنے بیان کیا جو اِ ن دنوں بمبئی میں افغان گورنمنٹ کے کونسلر تھے۔ تو ان کو بھی علامہ سے ملنے کا شوق پیدا ہوا۔ علامہ صلاح الدین سلجوقیؔ مرحوم اسلامی رنگ کے خاص شان کے مالک تھے۔(۱۸) مولانا محمد علی قصوریؔ ایم اے اقبال کے مشہور معاصر تھے ،ان دنو ں کینٹب بمبئی میں کاروبار کرتے تھے۔ وہاں افغان کونسل خانے میں علامہ اقبال اور علامہ سلجوقیؔ کے محفلوں کے حوالے سے روایت کرتے ہیں: جب میں نے بمبئی میں کاروبار شروع کیا تو افغانستان کی طرف سے علامہ صلاح الدین سلجوقیؔ بمبئی میں کونسلر افغانستان مقرر ہوئے۔ علامہ موصوف بعد میں کونسلر جنرل ہوگئے تھے۔ پاکستان بن جانے کے بعد سفیرِ مختار افغانستان کے مشیرِ خصوصی بن کرآئے تھے۔ آج کل کابل میں ہیں اور افغان پارلیمنٹ کے ممبر ہیں۔ انہیں ڈاکٹر اقبال سے بڑی محبت تھی۔ ڈاکٹرصاحب ولایت جاتے ہوئے اور واپس آتے ہوئے انہی کے پاس ٹھہرا کرتے تھے۔ میرے بھی علامہ کے ساتھ دوستانہ تعلقات تھے۔ ڈاکٹر صاحب ان کے پاس ٹھہرتے تو مجھے ضرور بلایا جاتا میں نے بھی ان کے اعزاز میں ایک پارٹی دی تھی۔(۱۹) مولوی محمد علی قصوریؔ ،علامہ سلجوقیؔ اور علامہ اقبال کی ملاقاتوں میں مترجم کا کام بھی سرانجام دیتے تھے ۔ اس سلسلے میں لکھتے ہیں: میں ایک خصوصیت بیان کردوں کہ ڈاکٹر صاحب اگرچہ متعدد فارسی نظم کی کتابوں کے مصنف تھے اور ان نظموں کی وجہ سے ان کے کلام کو تمام اسلامی ممالک میں ہمہ گیر شہرت حاصل تھی لیکن وہ فارسی میں گفتگو نہیں کرتے تھے انگریزی بولتے تھے یااردو۔ علامہ صلاح الدین سلجوقیؔ اس زمانے میں انگریزی سمجھ لیتے تھے لیکن بولتے نہیں تھے اس وجہ سے ان کی بات چیت میںمترجم کی خدمات مجھے سرانجام دینا پڑتی تھی۔(۲۰) مکاتیب اقبال کے مطالعے سے اقبال کے کئی ایسے مکتوبات ملتے ہیں جو یا تو صلاح الدین سلجوقیؔ کے نام ہیں اور یا ان مکاتیب میں علامہ سلجوقیؔ کا تذکرہ شامل ہے ۔ ملاحظہ ہو ایسے چند مکتوبات: اقبال کا پہلا مکتوب جس میں صلاح الدین سلجوقیؔ (کونسلر افغانستان مقیم بمبئی) کی دعوت کا ذکر ملتا ہے یہ خط اقبال نے ۲۱ ستمبر ۱۹۳۱ء کو ملوجا جہاز میں ساحلِ فرانس پر پہنچنے سے پہلے بحرِ روم سے گزرتے ہوئے منشی طاہرالدین کے نام لکھا ہے: بمبئی پہنچتے ہی سردار صلاح الدین سلجوقیؔ کونسلر افغانستان مقیم بمبئی نے دعوت دی ان کے ہاں پرلطف صحبت رہی اسی شام عطیہ بیگم صاحبہ کے ہاں سماع کی صحبت رہی۔ ۲۱ ستمبر کو ایک بجے کے قریب بمبئی سے روانہ ہوئے۔ ۱۶ کی شام کو عدن پہنچے۔ (۲۱) ۱۹۳۲ء میں جب علامہ نے تیسری گول میز کانفرنس میں ہندوستان کی سیاسی مستقبل پر غور و خوض کے سلسلے میں انگلستان کا سفر کیا سید امجد علی شاہ اس سفر میں آپ کا ہمر کاب تھا۔ لاہور سے سفر شروع کیا جب بمبئی پہنچے تو افغان کونسل خانے کے سربراہ مسٹر سلجوقیؔ نے آپ کا استقبال کیا۔۔۔(۲۲) حضرت علامہ نے سفرِ افغانستان کے دوران ’’التجا ئے مسافر‘‘ اور’’پس چہ باید کرد اے اقوامِ شرق‘‘ لکھی ۔ مثنوی مسافر بھی اس سلسلے کی ایک کڑی تھی ۔ سفرِ افغانستان ہی منظومات کی سبب بنی اور اگر میں یہ کہوں تو بے جا نہ ہوگا کہ سفرِ افغانستان کا سبب اگر ایک طرف خود علامہ کے جنرل نادر خان کے ساتھ مراسم تھے تو دوسری طرف علامہ سلجوقیؔ کی کاوشوں کا نتیجہ بھی تھا کیونکہ ’’دورانِ سفرِ کابل علامہ سلجوقیؔ بھی حضرت علامہ کے ہمراہ تھے۔(۲۳) سفرِ افغانستان کے سلسلے میں افغان کونسل خانہ بمبئی کا تذکرہ اقبال کے مکتوبات میں تواتر کے ساتھ پایا جاتا ہے جو اقبال اور ان کے ہمرکاباں کے درمیان واقع ہوا ہے۔ مکتوب بنا م سید سلیمان ندویؔ محررہ ۱۴ / اکتوبر ۱۹۳۳ئ: اگر آپ کو پاسپورٹ ۱۷ کو مل جائے تو کونسلر جنرل کو بذریعہ تار مطلع کردیں اور لاہور ۱۹ کی شام کو پہنچ جائیں۔(۲۴) اسی طرح اگلے روز یعنی ۱۵/ اکتوبر ۱۹۳۳ء کو حضرت علامہ نے پھر سید سلیمان ندویؔ کو لکھاکہ : دعوت نامہ جو کونسلر صاحب کی طرف سے مجھے موصول ہوا ہے ارسال خدمت ہے۔ آپ پاسپورٹ کے لئے درخواست دیں۔(۲۵) ان دنوں ہندوستان میں افغان کونسلر جنرل سردار سلجوقیؔتھے اور اس کے علاوہ دیگر سٹاف کی تفصیل درج ذیل ہے: جنرل کونسل ع۔ ص۔ صلاح الدین خان سرکاتب س۔ صالح محمد خان کاتب عبدالخالق خان کاتب صالح محمد خان(۲۶) سید نذیر نیازی کے نام بھوپال سے ۲۷ فروی ۱۹۳۵ء کو دہلی میں قیام کے دورا ن سردار صلاح الدین سلجوقیؔ کے ساتھ ٹھہرنے کے لئے نیازی صاحب کو اطلاع کی تاکید کرتے ہیں: میں ۷ یا ۸ مارچ کی شام یہاں سے چلوں گا اور ۸ یا ۹ کو ساڑھے نو بجے دہلی پہنچوں گا وہاں ایک دو روز قیام کروں گا۔ آپ سردار صلاح الدین سلجوقیؔ کو بھی مطلع کردیں۔(۲۷) سردار صلاح الدین سلجوقیؔ سے تعلقات اس حد تک بڑھے کہ حضرت علامہ باوجودلا محدود تعلقات کے دہلی میں قیام کے دوران صلاح الدین سلجوقیؔ کے ساتھ افغان کونسل خانے میں قیام فرماتے تھے۔ سیدنذیر نیازی کے نام ۳۰جنوری ۱۹۳۵ء کو لکھے جانے والے مکتوب میں حضرت علامہ تحریر فرماتے ہیں: بھوپال کے متعلق مفصل اطلاع دوں گا مگر ایک دو روز میں لیکچر کی صدارت ممکن ہوئی تو اس سے بھی انکار نہیں۔ دہلی ٹھہر سکا تو افغان کونسل خانے میں ہی ٹھہروں گا۔ مشرق کی روحانیت اور مغرب کی مادیت کے متعلق جو خیالات انھوں نے (خالدہ ادیب خانم نے) ظاہر کئے ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی نظریت محدود ہے انھوں نے اپنے خیالات کا اعادہ کیا ہے۔ جن کو یورپ کے سطحی نظر رکھنے والے مفکرین دہراتے ہیں۔(۲۸) بھوپال سے ۴مارچ ۱۹۳۵ء کو سید نیازی کے نام ایک دوسرے مکتوب میں لکھتے ہیں: میں ۷کی شام کو یہاں سے چلوں گا ۸ کی صبح کو دہلی پہنچ جائوں گا ۔ ۸ کا دن دہلی ٹھہروں گا اور ۹ کی شام کو لاہور روانہ ہوجائوں گا۔ آپ سردار صلاح الدین سلجوقیؔ صاحب کو مطلع کردیں حکیم صاحب سے بھی۹ کی صبح کا وقت مقرر کردیں۔ ان سے ملے بغیر لاہور جانا ٹھیک نہیں ہاںراغب احسن صاحب کو بھی مطلع کردیں۔(۲۹) متذکرہ بالا مکتوبات سے اقبال کے صلاح الدین سلجوقیؔ سے گہرے مراسم کا عندیہ ملتا ہے۔ بھوپال سے لاہور جاتے ہوئے راستے میں صلاح الدین سلجوقیؔ کو سید نذیر نیازی کے ذریعے اطلاع دینا کہ وہ ملنے کا اہتمام کرے تعلقات کے پختہ تر ہونے کی دلیل ہے۔ حضرت علامہ کے رفیقہ حیات کی رحلت پر تعزیت کے لئے صلاح الدین سلجوقیؔ نہ صرف خود اقبال کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے بلکہ شاہ افغانستان ظاہر شاہ کا پیغام بھی پہنچایا تھا۔ ملاحظہ ہو اقبال کا مکتوب بنام سید راس مسعود محررہ ۱۵ جون ۱۹۳۵ء از لاہور میں اس ملاقات کا تذکرہ: مجھے اس خط کا انتظار ہے جس کا ذکر میں نے اپنے گذشتہ خط میں کیا تھا۔ کل اعلیٰحضرت ظاہر شاہ کا تار اور تعزیتی خط آیا تھا۔ اور آج سردار صلاح الدین سلجوقیؔ اعلیٰحضرت کا زبانی پیغام لائے تھے۔ بہت حوصلہ افزا اور دل خوش کن پیغام تھا۔ لارڈلودین کا خط بھی لند ن سے آیا تھا وہ پوچھتے ہیں کہ’’اہوڈل لیکچر‘‘ کے لئے کب آئوگے؟ اب بچوں کو چھوڑ کر کہاں جاسکتا ہوں۔(۳۰) افغان کونسل خانہ میں قیام اقبال کا افغانوں سے عقیدت اور اقبال سے صلاح الدین سلجوقیؔ کی انتہائی محبت ہی کے باعث ممکن تھا۔ سلجوقیؔ کا اصرار اقبال سے ان کی بے تکلفی کی غمازی کرتا ہے۔ ملاحظہ ہو مکتوبِ اقبال بنام سید نذیر نیازی محررہ ۱۹ فروری ۱۹۳۶ء از مقام لاہور: ۲۸ فروری یا یکم مارچ کو بھوپال کا قصد رکھتا ہوں جاتی دفعہ دہلی نہ ٹھہروں گا۔ انشاء اللہ واپسی پر کونسل خانے میں ایک آدھ روز قیام رہے گا کہ سردار صلاح الدین سلجوقیؔ اصرار کرتے ہیں۔(۳۱) سر راس مسعود اور اقبال دیگر مراسم کے علاوہ سفرِ افغانستان کے دوان ہمرکاب بھی رہے تھے۔ موصوف کی وفات کے بعد سردار صلاح الدین سلجوقی ؔ کونسل جنرل افغانستان کے حیثیت سے شملہ میں تعینات تھے ۔ لیڈی مسعود کے نام تعزیتی تار سلجوقیؔ نے اقبال ہی کے ذریعے بھیجوایا تھااقبال ۳۱ جولائی ۱۹۳۷ء کو لاہور سے ممنون حسن خان کے نام لکھتے ہیں: صبح میں آپ کو لکھ چکا ہوں آج صبح سے دوپہر تک مرحوم کے جاننے والوں اور ان کے غائبانہ معترف تعزیت کے لئے آتے رہے راس مسعود کا رنج عالمگیر ہے یہ تار جو اس خط کے ساتھ بھیج رہاں ہوں سردارصلاح الدین سلجوقیؔ کونسل جنرل افغانستان مقیم شملہ کا ہے ۔ آپ یہ تار لیڈی مسعود اور مرحوم کی والدہ کو دکھادیں۔(۳۲) اسی طرح یکم اگست ۱۹۳۷ء کو لیڈی مسعود کے نام مکتوب میں پھر اس تعزیتی تار کا تذکرہ کرتے ہیں: اس کے بعد ہزایکسلنسی سردار صلاح الدین سلجوقیؔ کونسل جنرل افغانستان مقیم شملہ کا تعزیتی تار بھی میرے نام آیا جس میں انہوں نے خواہش کی تھی کہ ان کا پیغامِ ہمدردی مرحوم کے اعزہ تک پہنچادیا جائے یہ تار بھی میںنے بھوپال ہی بھیج دیا تھا امید ہے کہ آپ تک پہنچ جائے گا۔(۳۳) یہاں یہ اضافہ بھی کردوںکہ سرراس مسعود کی وفات پر مجلہ کابل نے ان کے تصویر کے ساتھ ان کی ایک تعزیتی رپورٹ بھی شائع کی ہے جس میں حضرت علامہ کے ساتھ ان کے سفرِ افغانستان کا خصوصی ذکر کیا گیا ہے۔(۳۴) حضرت علامہ کے فکر وفن سے متعلق مجھے سردار صلاح الدین سلجوقیؔ کی کوئی تحریر نہیںملی۔ البتہ سید عبدالواحد علامہ سلجوقیؔ اور علامہ اقبال کے تعلقات کا ذکر کرتے ہوئے ایک نیا انکشاف کرتے ہیں کہ سردار صلاح الدین سلجوقیؔ نے علامہ اقبال کی شاعری اور پیغام پر کئی مقالات لکھے تھے۔ اور اسے کتابی شکل دی تھی۔ سردار صلاح الدین جو پہلے دہلی اور بعد میں کراچی میں کئی برسوں تک افغانستان کے کونسل جنرل رہے ۔ علامہ اقبال کے بڑے گہرے دوست تھے۔علامہ جب کبھی بھی دہلی جاتے سردار صلاح الدین سلجوقیؔ کے ہاں قیام پذیر ہوتے۔ صلاح الدین نے علامہ کی شاعری اور پیغام پر کئی توضیحی مقالات سپردِقلم کئے جو اب کتابی روپ اختیار کرچکے ہیں۔ (۳۵) صدیق رھہپوؔ محمد صدیق رھہپو محمد حسین طرزی کے گھر ۱۵ حوت ۱۳۲۱ھ ش کو کوچہ حضرت ہائی شور بازار کابل میں پیدا ہوئے۔ ابھی آپ کی عمر بمشکل دو مہینے تک پہنچی تھی کہ آ پ کا گھرانہ ہرات چلاگیا۔ ابتدائی تعلیم گھر پر حاصل کی۔ دیگر تحصیلات لیسۂ سلطان غیاث الدین غوری ہرات اور لیسۂ ابو نصر فارابی میمنہ (باختر) و مزار شریف سے حاصل کیں۔ ۱۳۴۲ ھ ش کو تحصیلات سے فراغت حاصل کی۔ جبکہ ۱۳۴۳ھ ش میں اعلیٰ تحصیلات کیلئے کابل کا رخ کیا۔ ۱۳۴۴ھ ش کو حقوق و علومِ سیاسی کے فاکولتہ سے فارغ ہوئے۔ فراغت کے بعد محکمہ تعلیم سے وابستہ ہوئے۔ دارالمعلمین کندھار ، لیسۂ میرویس نیکہ کندھار، مکتب ابتدائی سپین بولدک، لیسہ ابو عبید جوزجانی جوزجان، لیسۂ محمود طرزی، لیسہ ادارہ عامہ اور لیسۂ تربیت بدنی کابل میں تدریسی خدمات انجام دیتے رہے۔ مجلہ ’’ژوندون‘‘ سے منسلک ہوکر صحافتی خدمات انجام دیئے۔ روزنامہ ’’انیس‘‘ اور ’’آریانا‘‘ سے بھی وابستگی رہی۔ ’’دہقان‘‘ مجلے کے مسؤل مدیر رہے۔۱۳۵۷ ھ ش میں ریٹائر ہوگئے۔ ۱۳۶۲ - ۱۳۶۵ھ ش کے درمیان بلغاریہ میں افغان سفارت خانے میں بھی خدمات انجام دیئے۔ مختصر عرصے کے لئے شعبہ اول سیاسی و زارت امورِ خارجہ سے منسلک رہے اس کے بعد کابل کے ’’نیوز ٹائمز‘‘ سے منسلک ہوئے۔ اس دوران صدیق رھہپو کے سیاسی، اقتصادی ، علمی و ادبی موضوعات پر مشتمل سینکڑوں مقالات شائع ہوئے۔ افسانوں کا مجموعہ ’’خندہ‘‘ اور ایک اور اثر’’نبرد اندیشہ و ادبیات‘‘ شائع ہوچکے ہیں۔ (۳۶) افغانستان میں اقبال شناسی سے متعلق آپ کا بہت ہی اہم کام آپ کی تالیف ’’افغانستان و اقبال‘‘ ہے جو اقبال کی پیدائش کی صد سالہ تقریبات کے سلسلے میں ۱۹۷۷ء میں بیہقی نشریاتی ادارے کی جانب سے دولتی مطبع کابل کی جانب سے شائع ہوئی ہے۔ آپ کی اس کاوش پر تفصیلی تحقیق ’’افغانستان میں کتابیات اقبال‘‘ کے حصے میں موجود ہے۔ صوفی عبدالحق بیتابؔ (ملک الشعرائ) عبدالحق بیتابؔ عبدالاحد عطار کے گھر گزر قصاب پل خشی ٔ کابل میں ۱۳۰۶ ھ ق میں پیدا ہوئے۔ آپ عہدِ امیر حبیب اللہ خان کے مشہور فضلا و شعراء میں شمار ہوتے تھے۔ (۳۷) ابھی بیتابؔ کی عمر آٹھ سال ہی تھی کہ والد کا سایہ سر سے گز رگیا لہٰذا ابتدائی تعلیم کا ذمہ آپ کے اساتذہ ملا عبدالغفور اخوندزادہ و ملا عبداللہ ملقب بہ مرشد نے سنبھالی۔ (۳۸) آپ نے یہاں سے عربی علوم سیکھے اور رجحان شاعری کی طرف ہوا اور ملک الشعراء قاری عبداللہ سے اس ضمن میں بھرپور استفادہ کیا۔ استادبیتابؔ تفسیر، حدیث، فقہ، منطق، صرف و نحو، معانی، بدیع، بیان، قافیہ اور نجوم کے علوم میں مہارت رکھتے تھے۔ عبدالحق بیتابؔ تقریباً پچاس سال تک مختلف تعلیمی اداروں میں خدمات انجام دیتے رہے۔ افغانستان بھر میں ایک قابلِ قدر استاد کی حیثیت سے تسلیم کئے جاتے تھے۔ مذہباً حنفی اور تصوف میں نقشبندیہ سلسلے سے تعلق تھا۔ تصوف میں خلیفہ کے درجے تک پہنچ چکے تھے۔(۳۹) ۱۳۳۱ ھ ش میں افغانستان کے ملک الشعراء منتخب ہوئے۔ کئی تصنیفات و تالیفات کے مالک تھے۔ تراجم میں بھی فعال کردار ادا کیا۔ بدیع، بیان اور مفتاح الفموض کے رسالے تالیف کئے۔ چند مطبوعہ کتب درج ذیل ہیں: ۱۔ ترجمان الشافعیہ (صرف) ۲۔ گفتار روان درعلم بیان ۳۔ دیوانِ بیتابؔ غیر مطبوعہ آثار درج ذیل ہیں: ۱۔ ترجمۃ الکافیہ (نحو) ۲۔ مفتاح الضموض (عروض) ۳۔ ترجمہ منطق ( مؤلفہ خیرالدین مصری) ۴۔ ترجمہ موجز (طب) رسالہ الفروق الامراض ۵۔ اصول الترکیب (ترجمہ) ۶۔ شیخ نجیب الدین سمرقندیؔ کے کتاب علم الاجتماع طبع مصر کے جز اول کا ترجمہ بھی کیا۔ پانچ سال تک شیخ الہند کے تفسیر کے ترجمہ و تصحیح کی کمیٹی کے ممبر بھی تھے۔ (۴۰) مشاہیر افغانستان میں عبدالحق بیتابؔ کے چند دیگر تالیفات کا ذکر ملتا ہے مثلاً: ۱۔ علم معانی ۲۔ علم بدیع ۳۔ تصوف (ادبیات کے طالبعلموں کیلئے) ۴۔ دستورِ زبان فارسی ۵۔ عربی (کالج نصاب کے لئے) تراجم: ۱۔ انشاء مقالات ۲۔ ترجمہ ابن عقیل ۳۔ مقدمہ سرخاب (علم رمل کا رسالہ) ۴۔ ایسا غوجی ۵۔ ترجمہ شافعیہ ۶۔ علمِ صنعت (۴۱) جناب عبدالحق بیتابؔ ۸۲ سال کی عمر میں افغانستان میں سینٹ کے ممبر منتخب ہوئے۔ آپ سہ شنبہ ۲۰ حوت ۱۳۴۷ ھ ش ۲۲ذی الحجہ ۱۳۸۸ ھ ق / ۱۱ مارچ ۱۹۶۹ء کو حرکت قلب بند ہونے کی وجہ سے کابل کے ابنِ سینا ہسپتال میں انتقال کرگئے۔ (۴۲) عبدالحق بیتابؔ اپنے استاد ملک الشعراء قاری عبداللہ کی طرح ایک معروف اقبال شناس تھے۔ آپ نے اقبال کو علامہ مشرق کا خطاب دیا اور ایک مستقل منظومے میں حضرت علامہ کو خراجِ تحسین پیش کیاجس میںآپ کے گہرے قلبی جذبات اقبال سے آپ کے گہرے عشق کا آئینہ دار ہیں۔ ’’علامہ مشرق‘‘ ؎ مرد آزادہ داکتر اقبال آن بہی خواہ قوم درہمہ حال تاکہ جان داشت گفت آزادی تادم مرگ خواست استقلال غیر خدمت برای ہمنوعان درسر او دگر بنود خیال خامۂ اوچو سور اسرافیل روح معنی د مید در اجیال باغم قوم خاطرش توام در وطن دوستی نداشت مثال برسرحق قوم بااعدا ہمہ اوقات داشت جنگ و جدال پی تامین وحدت ملنی عمر درباخت آن ستودہ خصال اندرین رہ کشیدز ہمتہا گشت سیمای بدر او چوہلال ثمر سعی او بود کہ شدہ ملکش آزاد بعد چندین سال کاش بودی حیات تادیدی آخرین آرزوی خود اقبال ابن زمان فرد فرد پاکستان ہست ممنونش از سا ورجال یادوبودی از و کنند مدام نمایند زین مدام اھمال بلکہ این نوغ شخص ملی را عالمی قدردان بود بکمال قوام افغان کہ خطرہ ہستند جملگی دوستدار استقلال مسلکا دوستدار اوباشند زوستایش کنند درہمہ حال روح این مرد دائما خواھد شاد و خرم زایزد متعال از برایش بہشت ازدر حق ہمچو بیتابؔ میکند سوال (۴۳) قاری عبداللہ( ملک الشعرائ) قاری عبداللہ امیر عبدالرحمن کے دور سے لے کر محمد ظاہر شاہ کے دورِ حکومت تک افغانستان کے شاہی دربار کی مدحہ سرائی میں ممتاز حیثیت رکھتے تھے۔ (۴۴) آپ کابل شہر میں حافظ قطب الدین کے گھر ۱۲۸۸ھ میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم اپنے والد سے حاصل کی۔ جبکہ اس وقت کے مشہور و معروف علماء سے قواعد ، صرف و نحو علوم متد اولہ فقہ، حدیث، تفسیر، منطق، حکمت، کلام وغیرہ پڑھے۔ قرآن مجید حفظ کیا اور خطِ نستعلیق میں خوش نویسی سیکھی۔ امیر امان اللہ خان کے والد امیر حبیب اللہ خان شہید کے استاد اور مربی مقرر ہوئے۔ ان کی بادشاہی کے دوران ان کے علمی و مطبوعاتی مشیر بھی رہے۔ جبکہ عرصہ چالیس سال تک ادبیات کے استاد کی حیثیت سے مختلف تعلیمی اداروں مکتب حبیبیہ ، مکتب حربیہ اور مکتب سراجیہ سے منسلک رہے۔(۴۵) آپ افغانستان کے جہانِ شعر و ادب میں جدا حیثیت کے مالک تصور کئے جاتے تھے۔ عربی و فارسی ادبیات پر دسترس کے ساتھ ساتھ مختلف درسی کتب کی تصنیف و تالیف اور ترجمہ سے وابستہ رہے جن کی تعداد اٹھارہ تک پہنچتی ہے اور زیادہ تر زیورِ طبع سے آراستہ ہوچکی ہیں۔(۴۶) ۱۳۰۲ھ ش میں قاری عبداللہ کا دیوان شائع ہوا۔ حمل ۱۳۱۴ ھ ش میں افغانستان کی حکومت کی جانب سے قاری عبداللہ کو ملک الشعراء کا خطاب عطا ہوا۔ (۴۷) کلیاتِ ملک الشعراء قاری عبداللہ ۱۳۳۴ھ ش میںکابل سے ۵۱۳ صفحات پر مشتمل شائع ہوئی۔ میر محمد عثمان نالاں آپ کی مختلف آثار و تالیفات کی تعداد اکتالیس بتاتے ہیں جن میں مشہور ترین درج ذیل ہیں: ترجمہ فصوص الحکم، شیخ اکبر، ترجمہ سرالتہ الصید شیخ محمود حسن ، ترجمہ سخندان فارسی، کتاب بلاغت، کلید الصرف، سراج النحو، ترجمہ منطق امام غزالیؒ، تذکرۃ الشعرائ، ترجمہ مغازی واحدیؒ، کتاب املائ، اصولِ تنقیط، دیوان اشعار قدیم طبع ہندو دیوان اشعار جدید بصورت کلیات وغیرہ۔ (۴۸) قاری عبداللہ کو افغان حکومت کی جانب سے کئی مطبوعاتی اعزازات ملے جبکہ ۱۳۱۷ ھ ش کو انہیں معارف کا نشان درجہ دوم عطا ہوا۔ آپ کی علمی شہرت افغانستان کے باہر بھی پہنچی تھی چنانچہ ایران کے مشہور نقاد اور ادبیات کے استاد ڈاکٹر شفیعی کدکنی نے آپ کے شعر ، فن اور علمیت پر ایک مقالہ ’’تہران‘‘ کے مجلہ ’’ہنر‘‘ میں شائع کرایا جس میں انہوں نے اعتراف کیا کہ: غزلہا و اشعار گہربار قاری ملک الشعراء افغانستان مانند غزلہا واشعار صائب و کلیم نفز و شیرین و قصائد ش چوں قصائد ظہیر انوری پر طنطنہ ، فاخرہ رنگین و استاد انہ میباشد۔ قضاوت ومحاکمہ کردرمور داشعار منتقدہ شیخ علی حزین صھبائی خان آرزوو مناظرہ و معارضہ مشار الھیم غودہ الحق ، قوی علمی برھانی دیالکتیک استادانہ و دلنشین و درتاریخ ادب بی نظیر است و ھکذا کتاب معروف فصوص الحکم اثر عالی عرفانی و تصوفی عالم ربانی و صوفی حقانی شیخ محی الدین عربی راترجمہ نمودہ کہ کار بزرگی انجام دادہ است۔(۴۹) قاری عبداللہ کی شعری استادانہ حیثیت سب پر عیاں تھی۔ کابل کے تقریباًتمام شعراء آپ سے اصطلاح لیتے تھے پھر مطبوعات میں کوئی شعر شائع کراتے۔ فردوسی طوسی کے ہزار سالہ جشنِ منعقدہ تہران میں فردوسی سے متعلق آپ کا لکھا ہوا قصیدہ سنایاگیا تھا۔ شعر و ادب میں آپ کا حلقہ بڑا وسیع تھا۔ اور آپ کے شاگرد فلک علم و ادب کے درخشندہ ستارے ثابت ہوئے جن میںدرج ذیل زیادہ مشہور ہیں: پوہاند بیتابؔ، استادخلیل اللہ خلیلیؔ، استاد عبدالہادی داویؔ، صفاؔ، شائق ؔ، جمالؔ، نویدؔ، استاد پژواکؔ، حکیم ضیائیؔ، آئینہؔ، لطیفیؔ، احمد اللہ کریمیؔ، قدیر ترکیؔ، صباؔ، جویاؔ، میوندوالؔ، عثمان صدقیؔ، رشتیاؔ، فرہنگ ،ؔ گویاؔ، ابراہیم خلیلؔ، ضیاؔ، قاریزادہؔ اورمیر محمد عثمان نالاںؔ ۔ (۵۰) افغانستان میں ملک الشعراء قاری عبداللہ کی اقبال شناسی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ آپ کو نہ صرف افغانستان کے فرمانروائوں امیر عبدالرحمن خان ، امیر حبیب اللہ خان ، امیر امان اللہ خان، اعلیٰحضرت محمد نادر شاہ غازی اور اعلیٰحضرت محمد ظاہر شاہ سے قربت کا شرف حاصل تھا بلکہ اقبال جیسے مردِ خود آگاہ اور صاحبِ فقر و اخلاص کی صحبت سے بھی مستفید ہونے کا موقع ملا۔ چنانچہ ۱۹۳۳ء میں فضلائے ہندوستان (حضرت علامہ اقبال ، سید سلیمان ندویؔ اور سرراس مسعود) کے دورۂ افغانستان کے دوران آپ نے ۲۸ / اکتوبر کی شام ساڑھے سات بجے شب انجمن ادبی کابل کی ضیافت میں ان مہمانوں کا منظوم استقبال کیا تھا۔ استقبالیہ فارسی منظومہ یوں ہے: ؎ عزیزان زہندوستان آمدند در افغانستان مہماں آمدند در آناں یکے دکتر اقبال ہند سخن پرور و واقف از حال ہند ادیب سخن گستر و نکتہ سنج کہ ہرنکتہ اش بہتر آمد زگنج چمن گروۂ طرز رنگین اوست شکرپارۂ حرفِ شیرین اوست کلامش چو اوج بلندی گرفت سخن رتبۂ ارجمندی گرفت زند طعنہ آہنگ او برق را کہ خواہاں بو نہضت شرق را نویں شیوۂ رابہ سبک کہن در آمیخت از قدرتِ علم و فن چون اندر سخن جاو دنو گزید پیامی زمشرق بمغرب رسید سخن را آمیخت چون باعلوم ازو زندہ شد طرزِ مولائے روم چو فکرش پئے فیلسوفی گرفت طرز سخن طرز صوفی گرفت نوایش ہم آہنگ بانفخ صور کہ آفسرد گان رادر آرد شور چو بلبل بآہنگ کہسارما زہند آمد این طوطی خوش نوا دگر آنکہ او نامور سید است گزین بخنۂ آلِ سر سید است ہنرمند سر راس مسعود نام کز و مکتب ِ ہند دارد نظام روان ہنرمندی و جانِ علم علی گڑھ بروزِ دبستان علم بعالم گرآن مکتب آواز یافت زجہد دے این قدر د اندازہ یافت رئیس دبستان ور آن مرز و بوم شناسائے قابل بطرزِ علوم سوم سیدھا کہ از ندوہ است زدانش بہ ہندوستان قدوہ است زفیض و دمش تازہ شد جانِ علم در اقلیم و اکش سلیمان علم چہ کلکش بمعنی طراز ندہ شد خیالاتِ شبلی ازو زندہ شد چہ درشاہ سراہ حقائق شتافت معارف ازو رونق تازہ یافت مضامین او جملہ محکم بود نگارش بکلکش مسلم بود دگر مرد دانائے ہادی حسن پروفیسرے واقف از علم و فن بہ انگلیسی و فرس عالم بود زبانِ دری رامعلم بود ادیب سخن پرورِ فارسی سخنہائے او گوہر فارسی بلظ دری چوں تکلم کند زشوقش شکر و ست و پاگم کند سخنہاش دلکش بیانش ملیح چوں ایرانیان لہجہ او فصیح زبہر سیاحت درین بوم وبر کشید نداز ہند رختِ سفر زرہ ایں عزیزاں رسید ندخوش بکابل کنوی آرمیاند خوش و رودِ مشاہیر ہندی نژاد بودرابط افزائے حُب وداد ازین آمدن دل چوں گل گل شگفت بصد خرمی خیر مقدم بگفت غنیمت بود دیدن دوستاں چو در فصل گل جلوۂ بوستان مسلمان زہر جابہم دوست بہ چو بادام توام بیک پوست بہ ہمسایہ ہمسایہ گردارسد برش بہرہ ٔ دین و دنیا رسد کہ از دیدو دادبہ زاید و داد زہم نگسلدر شتۂ اتحاد دل صاف احباب خرم بود چو دربیں ہم رشتہ محکم بود خوش است ادے عزیزان زہم پرس وجوئے کہ آید مگر آب رفتہ بہ جوئے (۵۱) یہ منظومہ سب سے پہلے مجلہ کابل میں شائع ہوئی۔(۵۲)سید سلیمان ندویؔ نے اسی مجلے سے استفادہ کرکے اسے سیرِ افغانستان میں شائع کیا جبکہ ملک الشعراء قاری عبداللہ کے ’’استقبالِ نظم ورود مہمانہای ہندو سروردہ شد‘‘ کلیات میں موجود ہے جو کہ مکمل نہیں ہے۔ آخری بیت ذیل ہے: ؎ ازین آمدن دل چوں گل گل شگفت بصد خرمی خیر مقدم بگفت(۵۳) اس کے بعدکے چھ ابیات شامل نہیں ہے اور کلیات کا حصہ نمبر چار’’مثنویات‘‘ کاآغاز ہوا ہے ۔ حضرت علامہ کی وفات پر قاری عبداللہ نے فارسی میں ایک شاندار مرثیہ لکھا جو دہلی ریڈیو سے نشر ہوااور ایران و ہندوستان کے علمی و ادبی اداروں میں بہت سراہا گیا۔(۵۴) یہ مرثیہ اپریل ۱۹۳۸ء کے آواخر میں حضرت علامہ کی تعزیتی مجلس ( انجمن ادبی کابل کی جانب سے منعقدہ) میں سنایا گیا تھا (۵۵) اور بعد میں مجلہ کابل کے خصوصی اقبال نمبر میں بھی شائع ہوا۔ قصیدہ در مرثیہ فیلسوف وطن خواہ پروفیسر اقبال غفراللہ از طبع ملک الشعراء قاری عبداللہ اقبال رخت بست و زہندوستان برفت کان فیلسوف عالم شرق از میاں برفت باید بنا رسائی بخت دژم گریست کاقبال راگذاشت کہ زود ازجہان برفت افتادہ گوہری زکف دہرروی خاک بیچارہ دہربین کہ براو این زیان برفت از دوست مفت دامن اقبال دادہ ی شرمی کن ای زمانہ زدست جسان برفت پیر و جوان چوطفل یتمیند اشکریز کان زندہ دل ادیب بطبع جوان برفت اقبال رفت ترسم ازا دبار روزگار می آید این بجای وی آری چو آن برفت دیگر کجا رسد بحریفان ’’پیام مشرق‘‘ کان نکتہ سنج شاعر شیرین زبان برفت وا اندہ تلخکام زحرمان خویش گوش کان منطق موثر و سحر بیان برفت آہ خیر خواہ عالم اسلام ناگہان نادیدہ ذوق رابطۂ این و آن برفت دلگیر رموز حکمت دین از کہ بشنویم آن کاشف حقائق راز نہاں برفت درس خوشش زمکتب مولوی روم بود در عقل و نقل زآن پی آن داستان برفت فکرش بان دوبال کہ از عقل و نقل داشت چندان گرفت اوج کہ برآسماں برفت از بسکہ داشت حب وطن درضمیر پاک چندان شناب کرد کزین آشیاں برفت دل راتوان شرح نباشد ازو مپرس کزر فتنش جہا سر ناتوان برفت رنگ ثبات درچمن دہر چون ندید چون بوی گل جریدہ ازیں گلستان برفت روحش بسان فکر بلند ش گرفت اوج زین خاکدان پست بباغ جنان برفت دیدہ است بایزید و جنید و فضیل را روحش چو درعروج بوادی جان برفت انجامقام سید افغان نمود کشف بارومیش حرف امام اذان برفت یکبارہ از نصائح پرسودلب بسبت شاید زمابچرخ برین گرفغان برفت درس خودی و خود نگری دادچون بقوم آنگاہ خود بمرحلۂ بیخودان برفت آثار خود برہرچو جاوید ماندہ است ہر گز نمرد گرچہ ازین خاکدان برفت آسود از گداز غم دہر خوش بخاک گوی چو اشک غمزدہ ازدید گان برفت جسمش بزیر خاک اگررفت باک نیست ردحش چون زین خرابہ بہ بدار جنان برفت یادش مقم خلوت دلہا و نام او از بسکہ زندہ است کران تاکران برفت ؎ تاریخ فوت خامہ الف برکشیدہ گفت اقبال ہند ماہ صفر از جہان برفت عدۂ حروف مصرع اخیر بحساب جمل ۱۳۵۷ھ ہزار و سہ صد و پنجاہ ہشت میشود و چون الف را کہ یکی است ازان کشید، شود ہزار سہ صد و پنجاہ و ہفت می ماند کہ تاریخ فوت اوست۔ (۵۶) مجلہ کابل میں اس مرثیے کی اشاعت کے تقریباً سترہ سال بعد ۱۳۳۴ ھ ش میں قاری عبداللہ کی کلیات میں شائع شدہ مرثیے میں درج ذیل تین ابیات زائد پائے گئے: ؎ رنگ ثبات درچمن دہر چون ندید چون بوی گل جریدہ ازین گلستان برفت روحش بسان فکر بلند اش کرفت اوج زین خاکدان پست بباغ جنان برفت یکبارہ از نصائح پر سود لب ببست شاید زما بچرخ بریں گر فغان برفت (۵۷) افغانستان کا یہ مشہورِ زمانہ اقبال شناس ملک الشعراء قاری عبداللہ ۹ ثور ۱۳۲۲ ھ ش بروزِ جمہ پچھتر سال کی عمر میں شہرِ کابل میں اس دارِ فانی سے کوچ کر گئے۔(۵۸) عزیز اللہ مجددی عزیز الہ مجددی افغانستان کے ضـلع کشم صوبہ بدخشاں میں پیداہوئے ہیں۔ دعوت و جھاد یونیورسٹی کے فارغ التحصیل ہیں اور اس وقت (۲۰۰۴ئ) افغانستان میں کابل کے نشرات دا دستان کے رئیس ہیں۔ آپ کا شمار افغانستان کے اقبال شناس شعرا میں ہوتاہے۔ آپ نے علامہ کو ۱۵ حمل ۱۳۸۳ھ ش کو منظوم فارسی خراج تحسین میں اس خطے کا نجات دہندہ قرار دیا ہے۔ آنکہ در مصر سخن از قرنھاتا قرنھا چلچراغ افروختہ تا حضر سوزد جانفزا درمیان مجمری ’’رومی‘‘ چنان پیچید و سوخت رازھا از پرنیان مولوی بگوشد ما در رموز بیخودی تفسیر صد اسرار کرد پر زدن آموخت بر پرواندن خلد فنا صد قبس افروخت دریناں دل باخامہ اش باحضور دل شکست عمران جسم بی بقا با فروغش صد خم جوش خودی ما پختہ شد زورق ’’ھیوی‘‘ طریقت برد ساحل لنگرا انحنا را جز بہ اللہ الصمد مردود خواند اقبالا فیلسوفا الی امام ای مقتدا بر جبین ھند بنوشت خط سرخ حریت پیکر وحشت بد خاک افتاد اندر آسیا باختد تا خاور و تا آسیا بیدار شد مرحبا اقبال شور و انقلاب نی نوا خاکروب آستانت توتیا ’’مجددی‘‘ کند باشد از فیض تو روشن چشم قربانی مرا (۵۹) غلام جیلانی اعظمی ؔ غلام جیلانی اعظمی ۱۳۱۶ھ ق کو کابل میں خوش دل خان کے گھر پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم اپنے والد اور دیگر گھریلو علمی زعماء سے حاصل کی۔ اعظمی نے ۱۳۳۲ھ ق میں عملی زندگی کا آغاز کیا اور ۱۳۰۸ ھ ش کو شوریٰ عالی دولت کے ممبر بنے اور ایک سال کے بعد محررین دربار میں شامل ہوگئے۔ (۶۰) اعظمی کا شمار انجمن ادبی کابل کے بانی اراکین میں ہوتا ہے اور انجمن کے معاون مقر ہوگئے ۔ آٹھ سال تک اس عہدے پر علمی خدمات انجام دیتے رہے۔ ۱۳۲۰ھ ش میں دولتی مطبع کابل کے معاون بنے ۔ اسی عہدے کے دوران دمہ کے مرض کے باعث ۲۶ قوس ۱۳۳۴ھ ش میں وفات پائی۔ اور کابل کے عاشقان و عارفان کے قبرستان میں دفن ہوئے۔(۶۱) حضرت علامہ کے سفرِ افغانستان کے دوران جناب غلام جیلانی اعظمی ادبی کابل کے معاون تھے اور اسی انجمن نے ۲۸ / اکتوبر ۱۹۳۳ء کو اقبال اور ان کے ہمسفروں کے اعزاز میں ایک ضیافت کا اہتمام کیا تھا۔ اپریل ۱۹۳۸ ء کے اواخر میں انجمن ادبی کابل کے زیرِ اہتمام حضرت علامہ کے تعزیتی پروگرام میں جناب اعظمی نے ’’اقبال و افغانستان‘‘ کے عنوان سے مقالہ پڑھا تھا۔(۶۲) جو بعد میں مجلہ کابل کے خصوصی اقبال نمبر میں شائع ہوا۔ (۶۳) اس مقالے پر افغانستان میں مقالاتِ اقبال کے مشمولات پر بحث کی جائے گی۔ جناب اعظمی کا شمار افغانستان کے صفِ اول کے اقبال شناسوں میں ہوتا ہے۔ اقبال سے ایک قدرِ مشترک دونوں کے دمہ کا مرض ہے اور دونوں اصحاب کی رحلت کا سبب یہی مرض تھا۔ پروفیسر غلام حسن مجددیؔ پروفیسر غلام حسن مجددی ایک جید عالم اور افغانستان کے مشہور اقبال شناس تھے۔ آپ کابل یونیورسٹی کے فیکلٹی ادبیات کے ڈین تھے ۔ آپ نے اقبال کے فلسفۂ خودی سے متعلق ایک شاندار مقالہ لکھا تھا۔(۶۴) یہ مقالہ کابل کے پاکستانی سفارتخانے کے زیرِ اہتمام یومِ اقبال کے پروگرام میں سنایا گیا تھا۔ یا درہے کہ اس تقریب کی صدارت مشہور اقبال شناس افغان شاعر استاد خلیل اللہ خلیلی نے کی تھی۔(۶۵) یہ مقالہ کابل کے دوماہی’’ ادب کابل‘‘ میں شائع ہوا تھا۔(۶۶) عنوان’’یاد بود علامہ اقبال‘‘ جبکہ یہی مقالہ پاکستان میں اقبال ریویو اپریل ۱۹۶۷ء کے شمارے میں شائع ہوا ہے۔ اس پر مقالاتِ اقبال کے باب میں بحث ہوگی۔ غلام حسن مجددی کا ایک اور مقالہ دوماہی’’ ادب ‘‘کابل اپریل تا جولائی ۱۹۶۷ء بعنوان ’’فلسفۂ اقبال‘‘ شائع ہوا۔ جو مجھے نہیں مل سکا۔(۶۷) مندرجہ بالا مقالات کی وجہ سے افغانستان میں اقبال شناسی کی تاریخ میں غلام حسن مجددی کا نام شامل کرنے کا حقدار ہے۔ پروفیسر صاحب کی سوانحی معلومات مجھے تلاشِ بسیار کے باوجود نہیں مل سکیں۔ البتہ ان کے درج ذیل آثارو تراجم کا پتہ چل سکا۔ الف ): تراجم:۔ ۱۔ ترجمہ کتاب منطق از حسن عالی یوجل ریاست تدریسات کابل ثانوی معارف مطبع عمومی کابل ۱۳۲۸ ھ ش ۷۹ صفحات۔ ۲۔ ترجمہ کتاب منطق وضعی جز اول تالیف دکتور ذکی نجیب محمود فاکولتہ ادبیات مبطع معارف فرانکلین کابل ۱۳۴۶ھ ش ۳۱۰ صفحات۔ ۳۔ ترجمہ کتاب فلسفہ علوم حصہ دوم منطق وضعی تالیف ذکی نجیب محمود فاکولتہ ادبیات مبطع معارف فرانکلین کابل ۱۳۴۷ھ ش۳۵۶ صفحات۔ ب): آثار: ۱۔ بیدل شناسی جلد اول کابل یونیورسٹی ۱۳۵۰ ھ ش صفحات ۳۵۶۔ ۲۔ بیدل شناسی جلد دوم کابل یونیورسٹی ۱۳۵۰ ھ ش صفحات ۲۶۵۔(۶۸) غلام ربانی ادیب غلام ربانی ادیب افغانستان کے مشہور نوجوان شعرا میں سے ہیں۔ آپ پنجاب یونیورسٹی کے فارغ التحصیل ہیں۔ اس وقت (۲۰۰۴ئ) افغانستان میں وزارت عدلیہ قضایان دولت کے رئیس ہیں۔ آپ نے ۲۰ ثور ۱۳۸۳ھ ش کو کابل میں حضرت علامہ کو فارسی میں یوں خراج تحسین پیش کیا ہے: عشق اقبال روح و جان ھا را بہ فریاد آورد رمز بیخودی او مارا بہ فریاد آورد کوکب عشقش فروزاں ساحل بحرش عریض موج وی بیتاب در یارا بہ فریاد آورد دعوتش بانگ اذان است و ھمہ از خواب بیدار شد وی کوش آن اندی کہ دنیا را بہ فریاد آورد رھہر والا گہر ھمت فزاں آسیا شیوہ ی از مند گیت ھر جارا بہ فریاد آورد ملت افغان و پاک و چین ھمہ ممنون تو طرح و فکر دین ات گیتی را بہ فریاد آورد لاجورد اندر بدخشان، کشور افغانستان در دماغ چرخ فردا را بہ فریاد آورد رمز اقبال رسخیز قل ھو اللہ احد رھروانش ملک دل ھا را بہ فریاد آورد رزم و بزم آھینست پردہ ی ظلمت درید ترک و تاتار تو اعدا را بہ فریاد آورد آفرین بر طبع والای تو می گوید’’ادیب‘‘ نکتۂ مست تو معنی را بہ فریاد آورد (۶۹) غلام رضامائل ہرویؔ جناب غلام رضا مائل ہرویؔ ۱۳۰۱ھ ش کو ہرات میں پیدا ہوئے ۔ ابتدائی علمی جواہر ریزے ہرات ہی کے علمی و ادبی اور تاریخی مٹی سے چُنے۔ اس کے بعد دارالمعلمین کابل میں سلسلۂ تعلیم پایۂ تکمیل تک پہنچایا۔ ادبیات شناسی ، کتاب شناسی اورتاریخ وغیرہ آپ کے موضوعات ہیں۔ جن پر آپ کی نگارشات افغانستان اور ایران میں چھپتی رہیں۔ ایک شعری مجموعہ انجمن نویسند گان کی جانب سے ققنوس کے نام سے شائع ہوچکا ہے۔ (۷۰) جبکہ دیگر آثار و تالیفات کی تفصیل ذیل ہیں: ۱۔ معرفی روزنامہ ہا جراید و مجلات افغانستان مطبع دولتی پروان ۱۳۴۱ھ ش صفحات ۱۴۴۔ ۲۔ امواج ہریوا (مجموعہ اشعار)۔ ادارہ نشریات داخلی مطبوعات مطبع دولتی کابل ۱۳۴۳ھ ش صفحات ۱۸۶۔ ۳۔ شرح حال و زندگی و مناظرات امام فخرالدین رازیؔ متوفی ۶۰۶ھ درہرات ریاست تنویر افکار مطبع دولتی کابل ۱۳۴۳ھ ش صفحات ۳۷۳۔ ۴۔ فہرست کتب مطبوع افغانستان از سال ۱۳۳۰ ھ ش الی ۱۳۴۴ھ ش مدیر یت تشویق آثار و ہنر مطبع دولتی کابل ۱۳۴۴ھ ش صفحات ۷۷۔ ۵۔ امیر حسینی غوری ہرویؔ متوفی ۷۱۸ھ مدیر یت تشویق آثار و ہنر مطبع دولتی کابل ۱۳۴۴ھ ش صفحات ۱۲۴۔ ۶۔ آئینہ تجلی (منظوم سوال و جواب) مائل ہرویؔ اور صلا ح الدین سلجوقیؔ کا مشترکہ کاوش مدیر یت تشویق آثار و ہنرکابل ۱۳۴۴ھ ش صفحات ۱۷۔ ۷۔ سیاہ مولی لتان مریم (سہ داستان منظوم) موسسہ طبع کتب مطبع دولتی کابل ۱۳۴۹ ھ ش صفحات۳۰۔ ۸۔ میرزایان برناد (تذکرہ شاعران) انجمن تاریخ افغانستان کابل ۱۳۴۸ھ ش صفحات ۸۴۔ ۹۔ تاریخ مختصر سلوک کرت با افسانۂ ہری موسسہ طبع کتب ہرات مطبع دولتی ۱۳۴۹ ھ ش صفحات ۳۴۔ ۱۰۔ راہنمائی تاریخ افغانستان جلد دوم (معرفی ۷۶۵ جلد کتب دربارہ تاریخ افغانستان) انجمن تاریخ کابل ۱۳۴۹ ھ ش صفحات ۱۳۵۔(۷۱) آپ کا شمار افغانستان کے اقبال شناسوں میں ہوتا ہے آپ کا ایک منظوم فارسی خراج تحسین بعنوان بیاد اقبال اقبال سے آپ کے قلبی تعلق کا آئینہ دار ہے آپ کی نظم حضرت علامہ کے صد سالہ جشنِ ولادت کی تقریبات کے حوالے سے ۱۹۷۷ء میں کابل سے شائع ہوئی۔ ؎ ’’بیادِ اقبال‘‘ ؎ شاعر شوریدۂ خود آگہی آسمان فضل و دانش راہمی درنیستان دلش سوز نفیر گرم رہ گرم تپش صاحب ضمیر دہ کہ دل شد سلسلہ جنبان او عشق آری عشق شد ایمان او کیست این شاعر کہ ذوق اور ساست نالہ اش سوزندہ جانش باصفا ست نام او اقبال و مقبول از نوا ہست آہنگ کلامش جانفزا ہمچو رومی مست جام عشق بود شہپر روحش بدام عشق بود این یکی نقش خودی درباختہ وان دگر دربیخودی پر داختہ صد خمستان نشۂ در صہبای اوست اینہمہ از عشق بی پروای اوست خامۂ پرتاب او تابندہ است ٓتش دلرابرون افگندہ است پختہ سوز و پر نوا و درد زا باتب و تاب خودی بود آشنا می ندانم عشق جان افروز او مہرومہ رامیفرو زد سوز او از جگر تا گوہر ناب آور د نالہ را از سینہ بیتاب آورد سوز آہنگ کلامش دلنواز پردۂ ہر ساز او سینہ گداز درخلال نغمۂ او شورہا میجہد از آتش او طور ھا آتشین شعرش شرر افزابود ہمچو مژگان بتان گیرابود بسکہ جولان میکند تاب وتپش برفروغ افتادہ ماہ بخشش لالہ از تاب و تبش داغ است داغ چوں فروز د دردل صحرا چراغ نغمہ اش جولان درد و آہ بود از دل خبیر نکو آگاہ بود من چگویم شوخی مضمون او از نوای او شرر جانم گرفت آتشی اندر نیسانم گرفت از نوای او شرر جانم گرفت نالہ ہای او سرا پایم بسوخت در دل پر ذوقم برفروخت در حق ماحق سرود ار تاب جان آن بلند آو ازۂ آتش بیان ’’آسیا یک پیکرآب و گل است ملت افغان در آں پیکر دل است‘‘ (۷۲) محمد ابراہیم خلیلؔ افغانستان کے معروف شاعر ادیب اور خطاط جناب محمد ابراہیم خلیل میرزافضل احمد بن میرزا محمد جان کے گھر گزر قاضی فیض الاسلام کابل ۱۳۱۴ ھ ق میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تحصیلات کے حصول کے بعد والد سے خطِ نستعلیق ، خطِ شکستہ، محاسبہ اور اصولِ دفترداری سیکھے۔ ۱۳۳۷ ھ ق میں سرکاری ملازمت اختیار کی۔ کچھ عرصہ تک ہندوستان اور نگلستان میں افغان سفارتخانے کے سیکرٹری رہے۔(۷۳) ہندوستان میں سفارتی ملازمت کے دوران ہی عربی علوم پر دسترس حاصل کی ۔ سفارتی عہدوں کے بعد وطن واپسی پر شاہی حرم سرا میں انتظامی خدمات انجام دیتے رہے۔ اس دوران دوبارہ صرف، نحو، بیان ، فقہ تفسیر وغیرہ پڑھے۔ اور غازی امان اللہ خان کے دورہ یورپ کے دوران آپ ملکہ ثریا کے منشی اور شہزادہ رحمت اللہ کے استاد کی حیثیت سے ان کے ہمرکاب رہے۔ یورپ سے واپسی پر افغانستان میں سقوی انقلاب برپا ہو۔ (۷۴) اس دوران آپ گھر پر رہے۔ ۱۳۰۸ھ ش میں اعلیٰحضرت محمد نادر شاہ کے دورِ حکومت میں کچھ عرصہ کے لئے ہرات کے ریاست تنظیمہ کے محاسبہ مدیر مقرر ہوئے۔ ۱۳۱۲ھ ش میں سہامی شرکت کے قیام کے وقت اس ادارت سے منسلک ہوئے۔ یہاں سے غازی امان اللہ خان کے ساتھ تعلقات کی پاداش میں چند سال تک جیل بھیجے گئے۔ یہاں جیل میں بھی علم و فن سے وابستہ رہے اور ۱۳۲۰ ھ ش میںجیل سے رہائی ملی(۷۵)۔ ۱۳۲۱ھ ش میں انجمن تاریخ کے ممبر بنے اور ۱۳۲۹ھ ش میں مجلہ’’ آریانا ‘‘ کے مدیر اور بعد میں انجمن تاریخ کے ریاست کے معاون رہے ۔ ۱۳۳۹ھ ش میں ریٹائر ہوئے۔ سیما ہاو آوارھا میں آپ کے ذیل آثار و تالیفات کا حوالہ دیا گیا ہے: ۱۔ کلیات اشعار ۲۔ مزارات کابل ۳۔ مزارات بلخ ۴۔ حالات سلطان ابراہیم ادھم ۵۔ شرح حال امیر خسرو دہلویؔ (۷۶) آپ کے متذکرہ بالا آثار کے علاوہ مشاہیر افغانستان میں درج ذیل آثار کا بھی پتہ چلتا ہے۔ ۱۔ شرح حال شیخ سعد الدین انصاری۔ ۲۔ رسالہ درفن استخراج تاریخ درنظم۔ ۳۔ رہنمائی حج۔ ۴۔ رسالہ عروج و نزول اسلام۔ ۵۔ رسالہ رہنمائی خط۔(۷۷) ان آثار میں ذیل زیورِ طبع سے آراستہ ہوئے ہیں۔ الف): منثور آثار:۔ ۱۔ یکمرد بزرگ حاوی شرح حال شیخ سعد الدین احمد انصاری مشہور بہ حاجی صاحب پاینمار انجمن تاریخ وزارت معارف کابل ۱۳۳۶ھ ش۔ ۲۔ استخراج تاریخ درنظم انجمن تاریخ وزارت معارف کابل ۱۳۳۷ ھ ش۔ ۳۔ مزارات کابل وزارت معارف کابل ۱۳۳۸ ھ ش۔ ۴۔ شرح حال و آثار امیر خسرو ریاست مستقل مطبوعات کابل ۱۳۴۹ھ ش۔ ب): منظوم آثار:۔ ۱۔ رباعیات ۱۳۲۹ ھ ش میں روزنامہ’’ انیس کابل‘‘ کے متعدد شماروں میں شائع ہوئے۔ جن کو بعد میں عبدالشکور حمید زادہ نے مرتب کرکے اپنی کتابت سے ۱۳۳۶ھ ش میں شائع کرائے۔ ۲۔ رسالہ عروج و زوال اسلام ریاست مستقل مطبوعات کابل کی جانب سے ۱۳۳۲ھ ش میں ان کی اپنی خطاطی سے شائع ہوا۔ بعد میں دوبارہ ۱۳۳۴ ھ ش میں شائع ہوا۔(۷۸) ابراہیم خلیل کے فن و شخصیت سے متعلق بھی ہمیں مختلف آثار ملتے ہیں جن میں دو زیادہ مشہور ہیں۔ ۱۔ اختصار منتجنی از آثار خلیل۔مختلف رسالوں اور اخبارات میں ایک ایرانی سکالر نے ۱۳۳۱ ھ ش میں شائع کرایا۔ ۲۔ گلچین از آثار و شرح حال محمد ابراہیم خلیل۔ جو پہلی بار ۱۳۳۴ ھ ش میں عبدالشکور حمید زادہ اور دوسری بار عتیق اللہ خواجہ زادہ کی کوششوں سے ۱۳۴۱ھ ش میں شائع ہوئی۔ محمد ابراہیم خلیل نے نو بار سفرِ حج کی سعادت حاصل کی تھی ۔ جبکہ افغانستان سے باہر پشاور، لاہور، لودیانہ، سرہند، دھلی، بمبئی، چمن اجمیر، کوئٹہ، مصر، لندن، پیرس،اٹلی ، سویزرلینڈ وغیرہ کے سفر کئے تھے۔(۷۹) آپ شاعر ادیب اور خطاط تھے۔ چنانچہ حضرت علامہ کے قریبی دوست علامہ صلاح الدین سلجوقیؔ استاد ابراہیم خلیل کے فن و شخصیت سے متعلق رقم طراز ہیں: طبع توانا و شیوا قلم مشکین رقمش رابایدتہنیت گفت کہ بھار قشنگ جوانی رابجز ان رساند کہ زیبا تر و پرزور تراست و زرو سیم راکہ نتوانست با او ہمراہی کند بجواہری منکشف ساخت کہ بجا ویرانی سرمایۂ ضمیرش و پیرایۂ روج است۔(۸۰) اسی طرح افغانستان میں عاشقِ اقبال استاد خلیل اللہ خلیلی اور سفرِ افغانستان کے دوران حضرت علامہ کے ہمرکاب سرور خان گویا ؔ استاد ابراہیم خلیل پر ایک تقریظ میںلکھتے ہیں: مجموعۂ نغز رباعیات شیوای استاد محترم محمد ابراہیم خلیل رابخط دلکش ایسان زیارت کردیم شاعر بزرگوار چنانچہ شائستہ استعداد طبع موھوب ایشان است درین مجموعہ مضامین لطیف را در قالب سخنان دلکش پرور دہ و بائد وین این مجموعہ ارمغان دلپذیر باریاب ذوق تقدیم داشتہ برکلک گہر نگارش آفرین میخوانیم۔(۸۱) استاد ابراہیم خلیل سنِ پیری کی وجہ سے آخر عمر میں بینائی سے محروم ہوگئے تھے چونکہ حافظ قرآن بھی تھے اسی لئے زیادہ تر تلاوتِ قرآنِ پاک ہی میں مصروف رہتے۔ آخر ۱۷ میزان ۱۳۶۷ھ ش کو کابل میں وفات پائی اور وہاں شہدائے صالحین کے قبرستان میں دفن ہوئے۔(۸۲) ابراہیم خلیل کا شمار بھی افغانستان میں اقبال شناسی کے بانیوں میں ہوتاہے۔ آپ فکری اعتبار سے حضرت علامہ سے کافی متاثر دکھائی دیتے ہیں۔ ۱۳۳۱ ھ ش میں ابراہیم خلیل نے حضرت علامہ کے حضور جو فارسی خراجِ تحسین پیش کیا تھا وہ حضرت علامہ سے ان کی قلبی تعلق کا آئینہ دا رہے۔ بہ یاد علامہ اقبال ؎ بیار بادہ کہ محفل بنام اقبال است بنام روز جہاں احتشام اقبال است چہ بادہ بادۂ پرزور عشق آزادی کہ وصف آن ہمہ جادو کلام اقبال است پیالہ گیر کہ تبلیغ دین و حریت بہ قلقل لب مینا و جام اقبال است بیا کہ ملت اسلام و کافۂ مشرق رہین نشۂ جام مدام اقبال است بیا کہ دوستی قوم و ملت کہسار بہر نکات و حروف پیامِ اقبال است بیا کہ خطۂ ماقلب آسیا موسوم بسلک نظم حقیقت نظام اقبال است خطاب ملت پشتون عقاب روئین چنگ زفکر صائب و عقل تمام اقبال است بہوش باش کہ غصب حقوق ہر قومنی خلاف رای صواب التزام اقبال است بیا کہ ملت پشتون و ہند وپاکستان اسیر غیرنبود ن مرام اقبال است بیا کہ بادہ عرفان و گردش ایام کنون بنزد حقیقت یکام اقبال است بیا بیا کہ زبوی گل بہار مراد بچار فصل معطر مشام اقبال است بیا کہ فلسفہ و منطق و سخندانی بہر ک از اثر اش بدام اقبال است زمہر تا بلحد خوب گفت و خوب نوشت کہ آنہمہ بجہان فیض عام اقبال است بیا کہ گرچہ تہ ٔ خاک رفتہ برسرخاک بہر کجا سخن از احترام اقبال است بقول خواجہ بغحوای حکم زندہ دلی رقم بصفحۂ عالم دوام اقبال است خطا بود کہ خطا ہش کینم لاہوری کہ قلب مردم عارف مقام اقبال است در اختتام ہدایای مغفرت زخلیل بجسم نامی و جان گرام اقبال است (۸۳) محمد قاسم رشتیاؔ سید محمد قاسم رشتیاؔ کا قلمی نام قاسم رشتیاؔ ہے۔ آپ کا شمار افغانستان کے معروف علمی ادبی اور سیاسی شخصیات میں ہوتا ہے۔ سید قاسم رشتیاؔ افغانستان میں انجمن ادبی کابل کے بانی اراکین میں سے ہیں۔(۸۴)نہ صرف افغانستان کی انجمن ادبی کے بانیوں میں سے ہیں بلکہ افغانستان میں اقبال شناسی کے بانیوں میں بھی آپ کا شمار ہوتا ہے۔ ۱۹۳۳ء میں حضرت علامہ کے سفرِ افغانستان کے دوران آپ انجمن ادبی کابل کے ممبر بھی تھے۔ اور حضرت علامہ کی پذیرائی کے وفد میں بھی شامل تھے۔(۸۵) آپ کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ آپ نے ۱۹۳۵ء میں لاہور میں حضرت علامہ کی خدمت میں حاضری دی تھی ۔ اس ملاقات میں علامہ نے افغانستان سے اپنے قلبی و فکری لگائو اور محبت کے حوالے سے چند بنیادی انکشافات بھی کئے تھے۔(۸۶) سید قاسم رشتیاؔنے علامہ کے وفات پر کابل مجلہ میں بھی ایک تعزیتی مقالہ تحریر کیا تھا۔(۸۷) جو بعد میں صدیق رھپو نے اپنی تالیف ’’افغانستان و اقبال‘‘ میں بھی شائع کیا ۔(۸۸) افغانستان میں آپ کئی اہم عہدوں پر فائز رہے۔ افغانستان کے سیاسی اور علمی افق پر درخشاں رہے۔ خصوصاً افغانستان کی سفارتی اور سیاسی تاریخ میں آپ کی خدمات ناقابلِ فراموش ہیں۔(۸۹) آپ کی بنیادی سوانحی معلومات تلاشِ بسیار کے باوجود نہیں مل سکیں۔ البتہ حال ہی میں ان کی شائع ہونے والی سیاسی یادداشتوں پر مشتمل کتاب خاطرات سیاسی سید قاسم رشتیاؔ از ۱۹۳۲ء تا ۱۹۹۲ء سے آپ کی بھرپور سیاسی زندگی کا پتہ چلتا ہے۔ آپ نے لاہور میں ۱۹۳۵ء میں حضرت علامہ سے ملاقات کے یادداشتوں کے حوالے سے ایک مقالہ تحریر کیا ’’ساعتی در خدمت علامہ اقبال‘‘ جو ہفت روزہ ’’وفا‘‘ میں شائع ہوا۔(۹۰) اس مقالے کے مباحث پر ’’افغانستان میں مقالاتِ اقبال کے مشمولات‘‘ میں تحقیق کی جائے گی۔ میر بھادر واصفی افغانستان کے مشہور فارسی شاعر میر بھادر واصفی ۱۳۱۵ ھ ش میں بدخشاں میں پیدا ہوئے۔ آپ نے کلیلہ و دمنہ اور سیصد انداز لقمان حکیم کو فارسی میں منظوم کیا ہے۔ آپ کے اشعار کی تعداد پچاس ہزار سے زائد ہے۔ دکتر اسد اللہ محقق کی فرمائش پر ۱۳ ثور ۱۳۸۳ھ ش کو علامہ کے حضور ذیل فارسی خراج تحسین پیش کیا ہے: ای عروج ناز اقبال سخن غرق نورِ از تو پر و بال سخن بر تو ای علامہ ی لاہور زاد عارف آزادی دی گوھر نھاد ملک معنی از تو ای صاحب نبونم یافتد شیرازہ مرفرو فروغ حق شناس حکمت ام الکتاب رند شو می وارھیدہ از حجاب مرد عشق و مرد سوزد مرد درد شرق را از معرفت فرزانہ مرد از بلوغ عشق قرآں و خدای سرفرازی یافتہ در دوسرای ای سخن را سرخی خون وقار او ج معنیٰ را ستون استوار ای طبیب نغمہ خواں سرّ راز ناز را محرم ز آیین نیاز یافتی تا عشق شمس و مولوی خاک را دادی فغاں معنوی ای بہ ھمت راز داں عشق حق پردہ ی او ھام را بنمودہ عشق نور حق می تابد از عرفان تو ھرد بان جان بود پیمان تو رفتہ از خود کردہ ی سیر خودی کعبہ را پیمودہ در دیر خودی آنچہ از تو در ’’زبور عجم‘‘ است در دل آئینہ ھا جام جم است تا دل شوق تو نور رب گرفت از تب عشقت جھان تب گرفت نالۂ مستاندات ای مرغ حق رفتہ گوش کراں رازد ورق سمع خود سوزی بہ جہان افروختی سوختن بر دیگراں آموختی طبع ہر شور توای عالی جناب در روان خفتگان زد انقلاب سوز تو در طور جانھا کار کرد ملت خوابیدہ ای بیدار کرد ای مسیح روح خاک مردگاں دادہ پیوند زمین بر آسمان ھر کہ را در دل بود درد بشر جاں او می سوزد از درد دکر حسن تعبیر بہ وصف آسیا حق انصاف سخن کردہ ارا کشور افغان دل ہر آرزوست عشق آزادی در و بال نموست ملت افغاں بہ افراد زمین باشد اندر کشتی حق ھمنشین تانبیند بی وفای زین و آں صلح را خواھد سپھدار جھان وا کند ھر لحظہ احساس خطر در جھان می افکند فصل دگر ’’واصفی در پھنہ روی جھان زندہ با را جنبش آزادگان (۹۱) مأخذات باب پنجم:۔ ۱؎ علامہ اقبال در ادب فارسی و فرھنگ افغانستان، ص ۲۴ ۲؎ ایضاً، ص ۲۸۹ ۳؎ ایضاً، ص ۱۹۱-۱۹۲ ۴؎ اقبال ممدوح عالم ، ص۔ ۲۸۴۔ ۵؎ علامہ صلاح الدین سلجوقیؔ، ص۔ ۸۔ ۶؎ د افغانستان د ژور نالیزم ںٹœ'پن، ص۔ ۲۱۹۔ ۷؎ آثار ہرات،جلد ۳، ص۔ ۱۴۴۔ ۸؎ مجلہ ’’کابل‘‘، فروری ۱۹۴۰ء ، ص۔ ۲۷۔ ۹؎ سیما ھا و آوارھا، ص۔ ۳۸۴۔ ۱۰؎ د افغانستان د ژور نالیزم ںٹœ'پن، ص۔ ۲۲۰۔ ۱۱؎ ایضاً، ص۔ ۲۲۱۔ ۱۲؎ آریانا دائرۃ المعارف، جلد ۶، ص۔ ۴۶۸ تا ۴۶۹۔ ۱۳؎ دا فغانستان د ژور نالیزم ںٹœ'پن، ص۔ ۲۲۲ تا ۲۲۶۔ ۱۴؎ آثار ہرات، جلد ۳، ص۔ ۱۴۹۔ ۱۵؎ ایضاً، ص۔ ۱۴۹ تا ۱۵۵۔ ۱۶؎ د افغانستان د ژور نالیزم ںٹœ'پن، ص۔ ۸ ۲۲ تا ۲۲۹۔ ۱۷؎ آثار ہرات، جلد ۳، ص۔ ۱۵۶ تا ۱۵۷۔ ۱۸؎ اقبال کی صحبت میں، ص۔ ۳۲۔ ۱۹؎ روایات اقبال، ص۔ ۱۷۱۔ ۲۰؎ ایضاً، ص۔ ۱۷۱۔ ۲۱؎ خطوط اقبال، ص۔ ۲۰۴۔ ۲۲؎ اقبال کی صحبت میں، ص۔ ۲۶۷۔ ۲۳؎ اقبال کی صحبت میں، ص۔ ۳۷۷۔ ۲۴؎ اقبال کی صحبت میں ، ص۔ ۱۷۵۔ ۲۵؎ ایضاً، ص۔ ۱۷۰۔ ۲۶؎ سالنامہ کابل۱۳۱۳ھ ش ، ص۔ ۴۴۔ ۲۷؎ روح مکاتیب اقبال، ص۔ ۵۵۰۔ ۲۸؎ ایضاً، ص۔ ۵۴۶۔ ۲۹؎ ایضاً، ص۔ ۵۵۱۔ ۳۰؎ اقبال نامہ، جلد ۱، ص۔ ۳۶۴ تا ۳۶۵۔ ۳۱؎ روح مکاتیب اقبال، ص۔ ۵۹۶۔ ۳۲؎ اقبال نامہ،جلد ۱، ص۔ ۳۲۷ تا ۳۲۸۔ ۳۳؎ اقبال اور بھوپال، ص۔ ۶۴۳۔ ۳۴؎ مجلہ’’ کابل ‘‘، اگست ستمبر ۱۹۳۷ء ، ص۔ ۸۹ تا ۹۰۔ ۳۵؎ اقبال ممدوح عالم، ص۔ ۳۱۔ ۳۶؎ سیما ھا و آوارھا ، ص۔ ۳۳۶۔ ۳۷؎ تاریخ ادبیات افغانستان، ص۔ ۹۲۔ ۳۸؎ سیماھا و آوارھا ، ص۔ ۷۱۔ ۳۹؎ آریانا دائرۃ المعارف، جلد ۶، ص۔ ۵۳۹۔ ۴۰؎ سیما ھا و آوارھا ، ص۔ ۷۲۔ ۴۱؎ مشاہیر افغانستان ، جلد ۲، ص۔ ۵۰۔ ۴۲؎ آریانا دائرۃ المعارف، جلد ۶، ص۔ ۵۴۰۔ ۴۳؎ ƒ'„پنہ د علامہ اقبال پہ نظر œ'*، ص۔ ۶۵۔ ۴۴؎ افغانستان در پنچ قرن آخر ، جلد اول قسمت دوم، ص۔ ۵۵۹۔ ۴۵؎ ہفت روزہ ’’وفا‘‘ ، ۱۰ جدی ۱۳۷۳ھ ش ، ص۔ ۱۲۔ ۴۶؎ آریانا دائرۃ المعارف، جلد ۶، ص۔ ۵۳۷۔ ۴۷؎ د افغانستان ƒ*'‍¤œ، ص۔ ۲۷۳۔ ۴۸؎ ہفت روزہ ’’وفا‘‘، ۱۰ جدی ۱۳۷۳ھ ش، ص۔ ۱۲۔ ۴۹؎ ایضاً، ص۔ ۱۲ ۵۰؎ ایضاًص۔ ۱۲ ۵۱؎ سیر افغانستان، ص۔ ۱۶۔ ۵۲؎ مجلہ ’’کابل ‘‘، ۲۲ دسمبر ۱۹۳۳ء ، ص۔ ۸۵ تا ۸۶۔ ۵۳؎ کلیات قاری عبداللہ ، ص۔ ۳۰۸۔ ۵۴؎ ہفت روزہ ’’وفا‘‘، ۱۰ جدی ۱۳۷۳ھ ش ، ص۔ ۱۲۔ ۵۵؎ افغانستان و اقبال، ص۔ ۵۱۔ ۵۶؎ مجلہ’’ کابل‘‘ ، مئی جون۱۹۳۸ء ، ص۔ ۹۴۔ ۵۷؎ کلیات قاری عبداللہ، ص۔ ۲۰۹۔ ۵۸؎ د افغانستان مشاہیر، جلد ۳، ص۔ ۳۴۔ ۵۹؎ علامہ اقبال در ادب فارسی و فرھنگ افغانستان، ص ۱۹۰-۱۹۱ ۶۰؎ سیما ھا و آوارھا، ص۔ ۳۹۔ ۶۱؎ معاصرین سخنور ، ص۔ ۲۹۔ ۶۲؎ افغانستان و اقبال،ص۔ ۵۱۔ ۶۳؎ مجلہ’’ کابل‘‘ مئی جون ۱۹۳۸ء ، ص۔ ۸۳ تا ۸۵ ۶۴؎ اقبال ممدوح عالم، ص۔ ۲۸۸۔ ۶۵؎ اقبال ریویو، اپریل ۱۹۷۶ئ، ص۔ ۶۶؎ دوماہی ’’ادب‘‘ کابل، جون جولائی ۱۹۶۵ئ، ص۔ ۳ تا ۸۔ ۶۷؎ اقبال ممدوح عالم، ص۔ ۲۸۸۔ ۶۸؎ مجلہ’’ آریانا ‘‘کابل ستمبر۱۹۷۶ئ، ص۔ ۹۷۔ ۶۹؎ علامہ اقبال در ادب فارسی و فرھنگ افغانستان، ص ۳۰۳ تا ۳۰۵ ۷۰؎ سیماھا و آوارھا، ص۔ ۶۲۴۔ ۷۱؎ مجلہ ’’آریانا‘‘ ، کابل ستمبر ۱۹۷۶ئ، ص۔ ۹۵ تا ۹۶۔ ۷۲؎ افغانستان و اقبال، ص۔ ۷۷ تا ۷۸۔ ۷۳؎ سیماھا و آوارھا، ص۔ ۲۶۸۔ ۷۴؎ گلچین از آثار و شرح حال محمد ابراہیم خلیل،ص۔ ۱۱۔ ۷۵؎ د افغانستان مشاہیر، جلد۳، ص۔ ۴۴۔ ۷۶؎ سیماھا و آوارھا، ص۔ ۲۶۸۔ ۷۷؎ د افغانستان مشاہیر ، جلد ۳، ص۔ ۴۵۔ ۷۸؎ گلچین از آثار و شرح حال محمد ابراہیم خلیل، ص۔ ۱۸۔ ۷۹؎ ایضاً، ص۔ ۲۰۔ ۸۰؎ ایضاً ،ص۔ ۲۳۔ ۸۱؎ ایضاً،ص۔ ۲۴۔ ۸۲؎ د افغانستان مشاہیر، جلد ۳، ص۔ ۴۶۔ ۸۳؎ ƒ'„پنہ د علامہ اقبال پہ نظر œ'*، ص۔ ۹۷۔ ۸۴؎ سالنامہ کابل، ۱۱- ۱۳۱۲ھ ش ، ص۔ ۱۰۹ ۸۵؎ ہفت روزہ ’’وفا‘‘، ۱۱ جدی ۱۳۷۵ھ ش ، ص۔ ۴ ۸۶؎ ہفت روزہ ’’وفا‘‘، ۱۱ جدی ۱۳۷۵ھ ش ، ص۔۴ ۸۷؎ مجلہ ’’کابل‘‘، مئی جون ۱۹۳۸ئ، ص۔ ۷۸ ۸۸؎ افغانستان و اقبال، ص۔ ۵۰ - ۵۱ ۸۹؎ خاطرات سیاسی ، سید قاسم رشتیاؔ، مختلف صفحات ۹۰؎ ہفت روزہ ’’وفا‘‘، ۱۱ جدی ۱۳۷۵ھ ش ، ص۔۴ ۹۱؎ علامہ اقبال در ادب فارسی و فرھنگ افغانستان، ص ۱۸۸ - ۱۸۹ ززززز باب ششم افغانستان میں مقالاتِ اقبال کے مشمولات مقالہ نمبر۱: پیامِ مشرق از عبدالہادی داویؔ افغانستان میں غازی امان اللہ خان کے دورِحکومت میں علامہ پر یہ پہلا مقالہ ہے جو ۱۹۲۹ء سے پہلے ’’امان افغان‘‘ *اخبار کابل کے مختلف شماروں ۹ - ۱۰ - ۱۱ - ۱۳ - ۱۷ میں ’’پیامِ مشرق‘‘کے مشمولات پر شائع ہوا ہے اگرچہ ہمیں ’’امان افغان‘‘ کے متعلقہ شمارے تو نہیں ملے ثانوی ماخذ ’’افغانستان و اقبال‘‘میں صدیق رھہپو نے متعلقہ مقالے کی اقساط کو شائع کیا ہے۔ البتہ مقالہ نگارکا نام نہیں دیا ہے۔ (۱) ۱۹۵۵ء میں قاضی احمد میاں اختر جونا گڑھی نے اقبالیات کا تنقیدی جائزہ میں اس مقالے کو آغا ہادی حسن سے منسوب کیا ہے۔ ’’آغا ہادی حسن صاحب وزیرِ تجارت جو پہلے انگلستان میں افغانستان کے سفیر تھے ’’امان افغان‘‘ کابل میں ’’پیامِ مشرق‘‘ پر تبصرہ کے طور پر مضامین کا ایک سلسلہ تحریر کیا تھا جو کئی نمبروں میں چھپا۔ (۲) اس مقالے کے حوالے سے الفاظ کے رد و بدل کے ساتھ ڈاکٹر محمد عبداللہ چغتائی نے یوں یاد آوری کی ہے۔ ’’امان افغان‘‘ کابل میں جناب آغا ہادی حسن صاحب وزیرِ تجارت جو پہلے انگلستان میں افغانستان کی طرف سے سفیر تھے ایک سلسلہ مضامین ’’ پیامِ مشرق‘‘ پر بطورِ تبصرہ لکھا تھا جو کئی نمبروں میں شائع ہوا۔(۳) متعلقہ مقالہ افغانستان میں اقبال کے حوالے سے ابتدائی مقالات میں شامل ہے۔ جبکہ ڈاکٹر محمد ریاض مرحوم نے اپنے تحقیقی مقالے ’’افغانستان اور ایران میں اقبال پر مقالات اور کتب‘‘ میں اس مقالے کا کوئی ذکر نہیں کیا ۔(۴) مشہور افغان اقبال شناس جناب عبدالہادی داوی قاضی احمد میاں اختر جونا گڑھی کے حوالے پر برہم ہوئے ہیں۔ عبدالہادی خان کے بجائے آغا ہادی حسن لکھنا ان کا سہو قرار دیتے ہیں۔ اور وضاحت کرتے ہیں کہ یہ مقالہ آغا ہادی حسن کا نہیں بلکہ عبدالہادی خان داویؔ کا ہے۔ آثار اردو اقبال جلد اول میں یہ افغان اقبال شناس اس مقالے کے حوالے سے لکھتے ہیں: بندہ از مدت ھا قبل با آثار دری علامہ علاقہ پیدا کردہ بودم چنانچہ در ’’امان افغان‘‘ نام مجلہ سابقہ مقالاتی عاید بہ علامہ و آثار اونوشتہ بودم ولی مجمل و مختصر چنانچہ مولف کتاب (جایزہ تنقیدی اقبال) غفراللہ لہ کہ از طرف (اکادمی اقبال) بہ زبان اردو در سنہ ۱۹۶۵ء طبع شدہ ست این مقالات مرا ذکر ولی نام مرا سہو نمودہ است ۔ (متذکرہ تحریر کے حاشیئے میں لکھتے ہیں کہ: درکتاب مذکور صفحہ ۳۵ نام مرا آغاہادی حسن نوشتہ اند غالباً نوشتہ یٔ کہ بمولف مذکور رسیدہ بخط شکستۂ مغشوشی بودہ کہ کلمہ ’’عبد‘‘ را ٓغاو ’’خان‘‘ راحسن خواندہ ست زیر اباین نام شخصی در محیط ما موجود نیست و نہ مقالہ یٔ در امان افغان نوشتہ ست بلکہ ترکیب این نام در وطن ما مروج نیست۔ البتہ وظایف رسمیہ مرا صحیح در کتاب مذکورہ کردہ کہ وزیر تجارت و قبل از آن سفیر افغانستان در لندن بودہ ام (داویؔ)۔(۵) جناب داویؔ کے اس دلچسپ انکشاف کے بعد اس بات میں کوئی گنجائش ہی نہ رہی کہ یہ مقالہ ان کا اپنا تحریر کردہ ہے اور اس لئے بھی کہ جناب داویؔنے بعد میں علامہ کے اردو آثار پر دو جلدوں میں کتاب بھی لکھی۔ انھوں نے علامہ کی بعض اردو منظومات کا فارسی منظوم ترجمہ بھی کیا ہے۔ مقالے کا آغاز حضرت بیدل کے درج ذیل ابیات اور جناب داویؔ کی اس تمہید سے ہوتا ہے۔ ؎ نہ تر نمی نہ جوشی نہ طپیدنی نہ در دی بہ خم سپہر تاکی می نا رسیدہ باشی (بیدلؔ) پیامِ مشرق نام مجموعہ اشعار و افکار یکی از مجموعہ ھای جدیدی است کہ در ادبیات فارسی در این عالم تاریک مثل ماہ طلوع نمودہ کاروان برای افتادہ مارا نجم اھتدا ’’میشود یا بانگ درراہ ۔ محرر پیامِ مشرق شاعر شہیر عالمِ اسلام ’’دوکتور اقبال‘‘ است اقبال از خطہ کشمیر بینظیر و مقیم لاہورہندوستان است (۶) ترجمہ: پیامِ مشرق نام ہے اس جدید شعری مجموعے کا جو اس عالم تاریک میں فارسی ادبیات میں چاند کی مانند طلوع ہوا ہے۔ پیامِ مشرق کا لکھیاری عالم اسلام کا مشہورشاعر ڈاکٹر محمد اقبال ہیں جن کا تعلق کشمیر کے بے نظیر خطے سے ہے مگر لاہور ہندوستان میں مقیم ہیں۔ اس کے بعد داویؔلکھتے ہیں کہ اقبال نے یورپ کے کیمبرج سے تکمیل تعلیم کے سلسلے کے بعد جرمنی سے فلسفہ میں پی ایچ ڈی کی ڈگری لی اور اس وقت تک فلسفہ میں شاید جرمنی سے بڑھ کر کوئی اور ملک نہیں۔ اقبال اپنی اس دردمندی اور قلبی آگاہی کا منبع حضرت محمد ﷺ کی محبت اور بعض اہلِ دل حضرات کی نگاہ بتاتے ہیں۔ ؎ خرد افزود مرا درس حکیمان فرنگ سینہ افروخت مرا صحبت صاحب نظران اسی بناء پر اقبال کی اپنے ملک میں بھی پذیرائی ہوئی لوگ انہیں ترجمانِ حقیقت اور مصورِ فطرت کہتے ہیں۔ جبکہ ملک کے باہر تو لوگوں نے ان کے افکار کو درسی کتب میں بھی شامل کردیا ہے۔ ابھی حال ہی میں حکومت نے انہیں ’’سر‘‘ کا خطاب دیا ہے جس کو منورین ہندوستان عجائب الخطابات گردانتے ہیں۔ جبکہ علامہ خود اس خطاب کو باعثِ ابتلا سمجھتے ہیں۔ داویؔ شعراء کی دو اقسام بتاتے ہیں۔ جن میں ایک گروہ ان شعراء کا ہے جن کے بارے میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَالشُّعَرَائُ یَنَّبِعُھُمْ الْغَاو‘نَ oط اَلَمْ تَرَ اَنَّھُمْ فِیْ کُلِّ وَادٍ یَّھِیْمُوْنَ oلا وَ اَنَّھُمْ یَقُوْلَوْنَ مَا لاَ یَفْعَلُوْنَ oالقرآن الشعراء ۲۶:۲۲۶ اور دوسرے وہ حضرات ہیں جو اعلیٰ مقاصد کے حصول کے لئے راہیں ہموار کرتے ہیں۔ جیسے سعدی ؔ، جامیؔ، رومیؔ، سنائیؔ رحمہم اللّٰہ تعالیٰ اجمعین ۔ آخر وقتوں میں شعراء کا ایک طبقہ ایسا بھی تھاجنہوںنے ملت کو خوابِ غفلت میں مبتلا کرنے کے سلسلے میں ایک لمحہ بھی غفلت نہیں دکھائی۔ یہ شعراء معاشرے کے تنزل اور معنویات کو مسمار کرنے بلکہ خود معاشرے کے چہرے پر داغ رہے ان کو پتہ نہیں تھا کہ انہوں نے افراد کے دل و روح کو کس طرح زہر آلود نشتر سے زخمی کردیا ہے۔ این شاعر ھا از تنزل و خرابی معنویات جامعہ خیلی ’’بلی خیلی‘‘ کمتر متحسس بودند بلکہ خود یکی از خرابی ھا بودنداین بدیعہ ’’شعری‘‘ راکہ دردست ناشستۂ شان زہرآگین شدہ بود نمیددانستندو درک نمی کردندکہ بہ دل و روح مردم چہ نشتر ھای زہر دارد میدر آورند راینہا کشتۂ الفاظ بودند تلازم و تناسب معنی بیگانہ صنایع دیوانگانہ مبالغات فوق الامکان تشبیہات و استعارات بیمعنی مقصد ان بیمقصد ھا بود ’’عشق‘‘ این عاطفۂ قدسی را بدرجہ ’’امرد پرستی‘‘تنزل دادہ بودند کلمہ ھای عربی در شعر آوردن را ثقالت و سخافت می نامیدند۔ تنہا کلمات بلکہ مضامین جدی و قو ر اخلاقی و سیاسی ہم برطبع وندو پریشان و میگسار غزل ھای شان مثل سنگ گران بود۔ شعر تنہا برای گل و مل چمن و بلبل و سراپا ھائی معشوق ناقابل تصور موھوم ایشان مخصوص بود۔(۷) اس کے بعد داوی نے خدا کی حمد کرتے ہوئے عالمی تہذیب کے ترتیب و شوکت میں بلند کردار اداکرنے والوں کو غنیمت سمجھا ہے۔ اس استدلال سے جناب داوی کے علمی پختگی و فہم و فراست کا آسانی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ولی الحمداللہ این بی مبالاتی این مدہ (مود) فرسودہ دیگر از قلمرو عالم میرود فنا شود۔ (اگرچہ بقدر لازم ھنوز رفتار فنای آں سرعت ندارد)حالا دیگر ملت اسلامیہ ایام غفلت خانحانان را تنفر میکنند۔ حالا دیگر بجای الفاظ بہ معنی و بجای کالبدبہ روح متوجہ میشوند حالا سیاسی استاد انہ دھر مارا از خواندن ’’واقف‘‘ بادیدہ ھای اشکبار منع کردہ میرود، مثلی کہ در ہر طرف لزوم راہ رہبر وراہ پیما داریم ھر چیز نشان منزل مقصود می جو ییم شعر را ھم از ھمہ زیادہ تر و شاید از ھمہ اولتر باید برای ھمین سفر ’’مسابقہ حیات‘‘ ’’تنازغ اللبقا‘‘ استعمال می کینم۔ بلی ما در دست چرخ تقدیر ’’خواہ خود را خبر کینم بانکینم ‘‘ بمسابقہ حیات آغاز کردہ اہم ہر کہ مسابقہ راباخت مثل عہد رومای کبریٰ غذای شیران گرسنہ می شود حیات دیگر با اوکاری ندارد۔ او صرف ادامۂ حیات دیگران میشود بلی حیات حیوانات بہ محو حیات انسان ھا اوامہ میشود ۔ ھمین است احکام نیرو ھای امروزہ کہ برتخت سطنت مدنیت نام و حشمت مطلقہ تمکن دارند۔ (۸) اس بحث کو خاصا طول دیا گیا ہے مگر اس طولانیت میں بھی علمی بصیرت و استعداد کو مسلسل قائم رکھا ہے۔ اس کے بعد داویؔ نے پیامِ مشرق کے تمہید پر بحث کی ہے اور لکھا ہے کہ چونکہ ’’پیامِ مشرق‘‘کی تمہید علامہ نے اردو میں لکھی ہے اس لئے انھوں نے اس تمہید کا تلخیص فارسی میں ترجمہ کرکے مقالے میں شامل کیا ہے۔ تمہید کے اس تلخیص کے بعد کتاب کے ابتدائیہ کی جانب توجہ مبذول کرائی گئی ہے۔ جو بقول ان کے درد سے بھرپور التماس اور نصائح پر مشتمل ہے جو ایک مردِ خود آگاہ غازی امان اللہ خان کے نام سے منسوب ہے۔ ابتدائیہ کو نقل کرنے کے بعد داویؔ نے لالۂ طور کی رباعیات کو یوں متعارف کرایا ہے۔ طبع فطرت دوست و صحرا پسند اقبال بیش از ھمہ گلہا لالۂ خود روی صحراي رامورد دقت ھائی شاعرانہ و جستجو ھایٔ حکیمانہ خود قرار دادہ است۔ سینۂ مسلم تجلیگاہ دیگر و نالہ او شعلہ دیگر است از ہر لالہ کہ ازین طور سرزند اثر ھمان جذوہ مامول است کہ موسی ؑامیدالعلہم یصطلون داشت بیدل علیہ الرحمہ درین موضوع یکقدم بیشتر می نہد کہ میفر ماید۔ شوق برکسوت ناموس جنون میلر زد عوض داغ مبار اید ییضا بحشند لالہ طور چہ زیبا نامی است برای آن نالہ ھای سوختہ برجستہ کہ از ’’وادی المقدس‘‘ روح بیتاب ایمان میخیزد این مجموعہ رباعیات کہ شعر و دین در آن مزوج است در چار چوبۂ ہر رباعی خود دروازہ شہراہ نو ’’حیات ‘‘بازمینما ید وحتیٰ بازدلہای بیخون رامایل تپش و نیاز۔(۹) داویؔ لکھتے ہیں کہ لالہ طور میں شامل رباعیات کی تعداد ۱۵۵ ہے اگرچہ میں ان رباعیات میںسے اپنی انتخاب پیش کر رہا ہوں لیکن بقیہ میں سے ہر ایک رباعی چھوڑتے ہوئے خونِ جگر پیتاہوں لیکن اس انتخاب سے پہلے داویؔ نے ان رباعیات کے موضوعات و مطالب سے پردہ کشائی کی ہے۔ مقالے کا ایک اور عنوان ہے ’’حضور و نیاز‘‘ ۔ اس عنوان کے تحت داویؔ نے ایک دلچسپ تاریخی واقعے کاذکر کیا ہے۔ کہ وہ ایک دن نجی محفل میں اعلیٰ حضرت محمد نادر شاہ شہید کے ساتھ بیٹھے تھے۔ موضوعِ اقبال شیرینی مجلس تھی۔ اعلیٰ حضرت علامہ کے افکار سے اظہار مسرت کررہے تھے مگر ایک جگہ پر کہا کہ ’’ اقبال کا ایک عیب ہے کہ اللہ کے حضور ان کی گفتگو قدرے گستاخانہ ہوجاتی ہے‘‘ مثلاخدا و انسان ، تو شب آفریدی چراغ آفریدم وغیرہ۔ داویؔ لکھتے ہیں کہ میں نے اس سلسلے میں بعض متقدمین شعرا ء کے حوالے بھی دیئے جنہوں نے پروردگار سے بے تکلفانہ انداز میں راز و نیاز کیا ہے۔اور عرض کیاکہ شاید اقبال نے انسان کو اپنا تشخص یاد دلانے کے لئے یہ سب کچھ کیا ہو۔ البتہ داویؔ کا بھی یہی خیال ہے کہ اقبال بعض اوقات تجاوز کر جاتا ہے۔ در یک وقت غیر رسمی خوشبختانہ بحضور اعلیٰحضرت غازی پادشاہ حقایق آگاہ ما شرف حضور داشتم و ذکر اقبال ’’شیرینی مجلس ‘‘ بود اعلیٰ حضرت از افکار اقبال اظہار خوشی میکردند و تقدیر میمودند اما خبر مودند ’’اقبال یک عیب دارد کہ بحضور الٰہی خطابہ ھای قدری گستاخانہ میکند مثلاً مکالمہ خدا و انسان تو شب آفریدی چراغ آفریدم وغیرہ، مضمون ھمایون زمینہ مبادلہ افکار حضار گرام مجلس در حق نظمہایٔ دیگر اقبال مثل ’’شکوہ‘‘وغیرہ شدند، منہم حصہ گرفتم و این را ارادۂ جدی اقبال نینگاشتم و گفتم شاید اقبال میخواھد ازین راہ بہ انسان ھا اہمیت و مکانت علُو کرامت حقیقی شان رابفہماند ۔ ولی من خود ھم قبول میکنم کہ تجاوزات اقبال یکقدری از اندازہ زیاداست ۔ افکار و احساسات تصحیحۂ پادشاہ ما اسباب صد مسرت و شکران است۔ اما اقبال از آداب و نیاز خالی نیست درہیجان حسیات و بزم بی تکلف و بعضا ادب ناشناسی شعر این گونہ زواید سرزدہ است ورنہ اقبال درہر چیز جلوہ او’’جل جلالۂ‘‘ می بیند در نظر او ہر ورقی معرفت است ہر موجو دی آئینہ تجلیات احدیت و ھمہ کائنات مصروف نیاز و عبادت۔(۱۰) داویؔؔ کو بجا طور پر یہ اعتراف بھی ہے کہ اقبال بار گاہ الٰہی میں آداب و نیاز سے خالی نہیں ۔ وہ ہر چیز میں اللہ جل جلالہ‘ کا جلوہ دیکھتے ہیں ان کی نگاہ میں ہر صفحۂ معرفت ہے ہر موجود آئینہ ہے ان کی تجلیات کا ۔ مقالے میں فلسفہ کے ضمنی عنوان میں داوی نے فلسفۂ اقبال کے بنیادی خدو خال کو واضح کرتے ہوئے لالۂ طور کے ۱۲ رباعیات کو اس موضوع سے منسلک قرار دیا ہے۔ ؎ چسان زاید تمنا در دل ما چسان سوز و چراغ منزل ما بچشم ما کہ می بنید چسان گنجید دل اندر گل ما بہ شبنم غنچہ نورستہ میگفت نگاہ ما چمن زادان رسا نیست در آن پنہا کہ صد خورشید دارد تمیز پست و بالا ہست یانیست(۱۱) داویؔ کے خیال میں تاریخ اگرچہ فلسفہ کی عمر تین ہزار سال سے زائد بتائی ہے لیکن ھنوز یہ معمہ حل ہونے سے قاصر ہے۔ حیرت ہی عرفاء کا آخری مقام ہے اور عقلِ سلیم بھی اس طرح۔ ؎ ھزاران سال بافطرت نشستم باو پیوستم و از خود گسستم و لیکن سرگذشتم این دو حرفست تراشیدم پرسیتدم شکستم خرد زنجیری امروز و دوش است پرستار بتاں چشم و گوش است صنم در آستین پوشیدہ دارد برھمن زادئہ زنار پوش است(۱۲) داویؔ نے ذیل چودہ موضوعات کو لالۂ طور کی رباعیات میں پنہاں پایا ہیں: ۱۔ عشق و درمندی، ۲۔ سخت جان زحمت دوستی، ۳۔ اعتماد نفس، تحقیق، اجتہاد، ۴۔ طلب و جستجو، ۵۔ آرزو پروری، ۶۔ ہمت عالی، ۷۔ تقدیر اہمیت و مکانت انسانی، ۸۔ ترک جبن فداکاری، ۹۔ گریز از پول دوستی، ۱۰۔ شناختن مواقع استعمال قوای خود، ۱۱۔ عدم خوف از مرگ، ۱۲۔ دقت، ۱۳۔ ترک نیشنلزم، ۱۴۔ احترام دین۔ داویؔ نے عشق و دردمندی کے سلسلے میں فکرِ اقبال کی ایک ہی جہت سے ترجمانی کی ہے۔ عشق از ’’آرزو‘‘و تولد شدہ است وخادم’’ آرزو‘‘و است نقط آتش است ’’پرورش آرزو‘‘وپرورش عشق است ھم چنانکہ ’’پرورش آرزو‘‘و و عشق’’ ھمت عالی‘‘ پیدا میکند ہمت عالی نیز آرزو و مطلب بلند تمنیہ مینماید اینہا لازم و ملزوم یک دیگرند انسان کہ صاحب ہمت عالی باشد باید’’ بہ اہمیت ‘‘خود مدرک شود تا’’ اعتماد نفس‘‘ کامل تر گردد و در راہ طلب پختہ تر برای اختیار کردن طرز صحیح برای’’ طلب ‘‘وموفق ’’شدن شناختن موافق استعمال قوای خود‘‘ و’’ دقت‘‘ در شناختن کیف و کم و خواص ہمہ ماحول خود ضروری است۔ (۱۳) مقالے کے دیگر ضمنی عنوانات عشق، سخت جان و زحمت دوستی ، خود اعتمادی نفس تحقیقی و اجتہاد، طلب و جستجو اور آرزو کے سلسلے میں پہلے موضوع پر مختصر اظہارِ خیال اور اس کے بعد متعلقہ موضوع سے متعلق علامہ کے اشعار کے حوالے دیئے گئے ہیں۔ مقالہ نمبر۲: دکتور اقبال از سرور خان گویاؔؔ افغانستان میںحضرت علامہ پر دوسرا مقالہ سرور خان گویاؔ نے ’’دکتور اقبال‘‘ کے عنوان سے لکھا جو مجلہ کابل کے مارچ ۱۹۳۱ء (سال اول شمارہ ۱۰، صفحہ ۹۱ تا ۲۲) شائع ہوا۔ اس مقالے میں پہلے تو گویاؔ نے مختصراً علامہ کی ہمہ گیر شخصیت اور عالمگیر فکر کے حوالے سے تحریر کیا ہے کہ کس طرح مشرق و مغرب کے علوم پڑھ کر اقبال نے اپنے گراں قدر خیالات و افکار کو بقائے دوام دیا۔ گویاؔ مغرب میں اقبال کو متعارف کرانے کا سہرا ڈاکٹر نکلسن کے حوالے کردیتا ہے کہ انھوں نے علامہ کے جاویدان افکار سے مغرب کو روشناس کرایا۔ اشعار اقبال دارای آن تعالیم اخلاقی عالی است ۔ کہ میتواند سر مشق زندگانی ونوید سعادت بشری قرار گیر د۔ اقبال علاوہ بر شہرت فوق العادہ کہ درخود مملکت بہناور ھند دارد در سائر مملکت اروپا و شرق نیزی نہایت مشہور است۔ دکتور نکلسن مستشرق شہیر انگلیس و معلم ادبیات رادر دارالفنون اکسفورد انگلستان کہ یگانہ متبتع و زندہ کنندہ نام و آثار اقبال در عالم فرنگ است ۔ میگوید کہ اقبال سرتاسر قارۂ ہند رامسخر نمود و درتصوف خویش نگاہداشت ۔ و اویگانہ شاعر و پیشوائی است کہ مملکت پیر ہنداز افکار جوان و تامی و پیروی کردہ است۔ (۱۴) ترجمہ: علامہ کے اعلیٰ اخلاقی اقدار اور عرفان سے بھرپور اشعاراس قابل ہیں کہ وہ زندگی اور حیاتِ انسانی کے مأخذ قرار دیئے جائیں ۔ اقبال اپنی مملکت میں نہایت شہرت کے علاوہ ہندوستان سے باہر یورپی ممالک اور دیگر مشرق ممالک میں بھی شہرت رکھتے ہیں۔ مشہور انگریزی مستشرق ڈاکٹر نکلسن استاد دارالفنون اکسفورڈ جس نے اقبال کے نام وآثار کو مغرب سے متعارف کرایا کہتے ہیں کہ اقبال نے خطۂ ہند کو مکمل تسخیر کیا ہے یہ وہ واحد شاعر ہیں جن کے جوان افکار کی پیرروی تمام قدیم ہندوستان میں کی جاتی ہے۔ گویاؔؔ کو اس مقالے کے لکھنے کے دوران علامہ کی درج ذیل کتب کے مطبوعہ ہونے کا پتہ چل سکا ہے۔ از آثار دکتور اقبال تا آنجا کہ نگارندہ اطلاع دارم آثار و کتب ذیل بطبع رسید ہنوز در تحت طبع است۔ پیامِ مشرق (بزبان فارسی بجواب گوتہ شاعر شہیر المان) نالہ یتیم (بزبان اردو) زبور عجم (بزبان فارسی) رموز بیخودی (فارسی) اسرار خودی (فارسی) بانگِ درا (اردو)جاوید نامہ (بزبان فارسی) بجواب دا نیتی شاعر ایطالیا کہ ہنوز در تحت طبع است) از تاریخ تولد و مسقط الراس و سنین عمر و خطوط مسافرت ودورہ ھائی تحصیل وغیرہ عوارض و خصوصیات حیات این شاعر شہیر چون دستم تہی است نتوانستم کہ بدقت درین باب چیزی بنوسیم ناچار بہ این و جیزہ اکتفا رفت و وعدۂ کہ دانشمند معظم و دوست محترم آقائی صلاح الدین خان سلجوقی دادہ اند امید قوی دارم کہ شرح حال مبسوط و کاملی او حضر تش بقلم توانا و مقتدخویش در بمبئی نگاشتہ و مادر آئینہ قریب درج صحایف مجلہ کابل نمائیم۔(۱۵) ترجمہ: نادمِ تحریر علامہ اقبال کے ذیل مطبوعہ آثار سے متعلق مجھے اطلاع ہے جبکہ کچھ اور زیرِ طبع ہیں۔ پیامِ مشرق (نامور جرمن شاعر گوتہ کے جواب میں ) نالۂ یتیم (بزبان اردو) زبورِ عجم (فارسی) رموزِ بیخودی (فارسی) اسرارِخودی (فارسی) بانگِ درا (اردو ) جاوید نامہ (فارسی میں اٹلی کے شاعر دانتے کے جواب میں زیرِ طبع)تاریخ پیدائش مسقط الراس سننِ زندگی حالاتِ سفر اور حصولِ علم کے ادوار وغیرہ اور ان کے دیگر حالات و امورِ زندگی سے متعلق میرے پاس کوئی معلومات نہیں جس کے بارے میں ، میں مزید تحریر کرسکوں۔ مجبوراً مجھے اتنے پر ہی اکتفا کرنا پڑ رہا ہے البتہ میرے محترم دوست جناب صلاح الدین خان سلجوقی نے وعدہ کیا ہے کہ انہوں نے علامہ کے اپنے قلم سے ان کے مکمل حالاتِ زندگی بمبئی میںلکھے ہیں۔ مجھے فراہم کریں گے۔ جو میں مستقبل قریب میں مجلہ کابل کے صفحات پر شائع کرادوں گا۔ اس مقالے میں گویاؔؔ نے نالۂ یتیم جو اردو زبان میں ہے کو بھی علامہ کی تصنیف بتایا ہے جس کاہمیں تا حال کوئی پتہ نہیں چل سکا ۔ اور یہ انکشاف صرف گویاؔؔ ہی کے اس مقالے کی زینت ہے۔ یہ ممکن ہے کہ گویاؔؔ کے حافظے کا سہو ہواسلئے کہ وہ برملا اعتراف کرتے ہیں کہ میرے پاس علامہ کی سوانح اوردیگر امور کا مکمل علم نہیں جس سے میں آگے تحریر کرسکوں۔ گویاؔؔ نے مقالے کے آخر میں اسرارِ خودی کے چیدہ چیدہ اشعار کا انتخاب ذیل ترتیب سے پیش کیا ہے۔ اطاعت:۱۷، ابیات ضبطِ نفس: ۲۲ ، ابیات نیابت الٰہی: ۲۷ ، ابیات مقالہ نمبر۳: علامہ اقبال از احمد علی خان درانیؔ علامہ کے فن و شخصیت کے حوالے سے افغانستان میں مطبوعہ تیسرا مقالہ سردار احمد علی خان درانی کا لکھا ہوا ہے اور مجلہ کابل کے جون ۱۹۳۲ء کے شمارے میں شائع ہوچکا ہے۔ یہ مقالہ بعد میں مجاز لکھنوی نے اردو میں ترجمہ کیا جس کو ڈاکٹر سلیم اختر نے اپنی کتاب اقبال ممدوحِ عالم میں شائع کیا ہے۔ یہ مقالہ قدرِ طویل ہے۔ تمہیدی پیراگراف بڑا دلچسپ ہے۔ ملتی کہ میخواھد از ھبوط پستی و نکبت نجات یافتہ شان و عظمت خود را در انظار اعالم و خاطر جہانیان روشن نماید،تخستین یک گونہ تموج پستی و ذلت را در خود احساس میکند و یکی از افراد آن جامعہ بیدار شدہ کاروان ساکت و صامت را از اثر کلام آں جامعہ بیدار شدہ کاروان ساکت و صامت را ز اثر کلام و سوز نالہ خود بشاہراہ صحیح سرگرم تلاش و جستجو میگرداند۔ آن ہمہ طوفانات غنودو جمودی کہ بر ملل اسلامیہ طاری و مستولی شدہ اکنون ہمہ کس حس کردہ و در اکثر ممالک قایدین ملت بعقل رسا و فھم دراک قوم خود راپیش میبر دند اقبال نیز یکی ازین قائدین بشمار میرو د کہ صدای پر سوز و ی برای ملت و قومش کار صور اسرافیل را دادہ است۔(۱۶) ترجمہ: ’’جس قوم میں پستی اور قصرِ ذلالت سے اُبھرنے کی صلاحیت پیدا ہونے لگتی ہے تو سب سے پہلے اس میں خود اپنی تباہ حالت کا احساس پیدا ہوتا ہے۔ اور پھر اس بیدار شدہ جماعت میں کوئی ایک فرد (جس میں سیادت و قیادت کی اہلیت ہوتی ہے) اس کاروانِ ساکت و صامت کو اپنا ’’بانگِ درا‘‘ سے صحیح جادے پر سرگرمِ عمل و جستجو بنادیتا ہے۔ چنانچہ وہ سارا جمود اور خوابِ غفلت جو کہ مللِ اسلامیہ پر طاری تھااب اس کا کافی احساس ہوتاجاتا ہے۔ اور اکثر ممالک میں قائدینِ ملت اپنی عقلِ رسا سے کام لے کر اپنی قوم کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ چنانچہ اقبال بھی اُنہی قائدین میں سے ایک ہیں جن کی درد بھری آواز نے قوم و ملت کے حق میں صورِ اسرافیل کا کام کیا ہے۔ (۱۷) اس کے بعد جناب درانی صاحب نے علامہ کے سنِ پیدائش ۱۸۷۰ء بمقام سیالکوٹ بتایا ہے۔(۱۸) جبکہ صدیق رھہپو نے جب ۱۹۷۷ء میں علامہ کے صد سالہ جشنِ ولادت کے سلسلے میں افغانستان و اقبال کو مرتب کیا۔ جس میں اس مقالے کو بھی شامل کیا ہے۔ اس وقت تک طویل تحقیقات کے بعد متفقہ طور پر یہ طے پایا گیا کہ علامہ کی صحیح سنِ ولادت ۱۸۷۷ء ہے لہٰذا صدیق رھہپو نے یہاں ۱۸۷۰ء کے بجائے علامہ کے سنِ ولادت کو ۱۸۷۷ء لکھا ہے۔(۱۹) جبکہ مجاز لکھنوی نے اس مقالے کے ترجمے میں علامہ کے سنِ ولادت کو ۱۸۷۶ء لکھا ہے۔ (۲۰) درانی نے علامہ کی پیدائش کا مژدہ علامہ کی زبانی ان کے اس رباعی سے تعبیر کیا ہے۔ ؎ نعرہ زد عشق کہ خونین جگری پیدا شد حسن لرزید کہ صاحب نظری پیدا شد فطرت آشفت کہ ازخاک جہاں مجبور خود گری خود شکنی خود نگری پیدا شد(۲۱) علامہ کے آباو اجداد کا تعلق کشمیر سے بتا یا گیا ہے۔ اسی مناسبت سے علامہ کے درج ذیل ابیات کا حوالہ دیا ہے۔ ؎ سرت گردم اے ساقیٔ ماہ سیما بیار از نیاکانِ ما یاد گاری از آن می فشاں قطرہ ئی مرکشیری کہ خاکسترش آفریند شرارے مرا بنگر کہ در ہندوستان دیگر نمی بینی برہمن زادہ ئی رمز آشنائی روم و تبریز است مقالے میں علامہ کی مختصر سوانحی تذکرہ کے بعد ان کی فکری تشکیل کے حوالے سے بحث کی گئی ہے۔ آغازِ جوانی سے اردو اشعار کی طرف میلان اور علمی و روحانی گھرانے میں پرورش و تعلق ہونے کی بنا پر ان کے کلام(۲۲) پر معنویت کے غلبے کا تذکرہ کیا ہے۔ ابتداء میں فطرت سے گہرے اثرات قبول کرکے فطری مناظر سے متعلق منظومات لکھیں۔ اس کے بعد حسن و عشق کے دلدادہ ہوتے ہوئے کلام میں فلسفہ تاریخ و الہیات جیسے دقیق موضوعات تک کے ارتقائی سفر کا ذکر کیا ہے۔ اقبال نے قیس اعشی (نابینا عرب شاعر) کی طرح ساکت شاعری کو کاروانِ ملت کی زوال کا باعث بتایا بلکہ ملت کو کار زارِ علم و عمل میں جدو جہد کی تلقین کی۔ اقبال بامہرہ ھائی فلسفہ تاریخ والہیات شطارت ومہارتش رابربساط سیاست چیدہ از یکسودرین عالم جدوجہد درین عرصہ کون و فساد درین فراخنای تنازع للبقاو دریں میدان میدانِ تگ و تاز با شاطران سیاسی وشیوا بیانان ہم عصر و فیلسوفان باریک بین دست و گریان است و از جانب دیگر ممکنات حیات را در اخلاق اللہ دیدہ بملت راہ راست اسلام راھدایت میکند۔ اقبال اضمحلال و سکون شاعری را کہ تنزل و حکم تنزل اقوام و امم را داردم در شکستہ کاروان ملت را مثل (قیس اعشی) بہ کار زارِ علم و عمل و گیر و دارد جدو جہد پیش میداند۔ ؎ بیا کہ غلغلہ در شہرِ دلبران فگنیم جنون زندہ دلان ہر زہ گرد صحرانیست مرید ہمت آن رہروم کہ پانگذاشت بجادہ ئی کہ در وکوہ و دشت و دریا نیست ترجمہ: اقبال فلسفہ، تاریخ ، الٰہیات اور سیاسیات سب میں کمال رکھتے ہیں اور اس لئے وہ ایک ہی وقت میں مدبر بھی ہیں شاعر بھی ہیں اور فلسفی بھی لیکن اس تصویر کا دوسرا رُخ بھی ہے یعنی مذہبیات ۔ چنانچہ علامہ موصوف مذہب اسلام کے بہت بڑے رہنما بھی ہیں۔ اقبال نے شاعری کے سکوں و اضمحلال (کہ شاعری کا زوال درحقیقت اقوام کے زوال کا پیش خیمہ ہوتا ہے) کی بیخ کنی کردی ہے اور کاروانِ ملت کو مثلِ قیس اعشیٰ کے جدو جہد اور علم و عمل کے میدان میں سرگرم کردیا ہے۔(۲۳) اقبال نہ مثل بعضی جادو نفسان سحر بیان کہ ملت شما نرا از تاثیر کلام خود مست و مبہوت ساختہ ، یک عالم حیات و یک جہان زندہ را (کہ عبارت از شور و شغف و زدو خورداست بموت مطلق سکون و حیرت خانہ جنون بادل شکستگی و مظلومیت جوگیانہ آشنا ساختہ اند بودہ بل میخواھد ہم آں اثراتی راکہ تعلیم مسلک قناعت و توکل شعرای متصوفین شرق و قادر الکلامان جادو رقم و سحر طرازان بہ تخلیات ناممکن الحصول خود ملت و قوم رادر و رطہ نگبت و فلاک بردہ اند برکشیدہ بجادہ محرک اعتلار ھنمونی کند از ھمین جاست کہ گرمی سخنش درمحاذ خوابیدہ کشاکش سعی و عمل و در عروق منجمد اقوام، تموج حیات و شور اضطراد راجریان دادہ درمصاف زندگی یا قوت ارادی مستنیرمیسازد۔(۲۴) ترجمہ: اقبال بعض اس قسم کے شعراء میں سے نہیںہیں جنہوں نے اپنی جادو بیانی کو کام میں لاکر اپنی قوم کو محو حیرت تو بنادیا ہو مگر بجائے زندگی کی روح پھونکنے کے موت کی تعلیم دے دی ہو چنانچہ وہ ان لوگوں کے خلاف ہیں جنہوں نے چند ناممکن الحصول تخلیات کی تخم ریزی کی ہے یا مثلِ صوفیان مشرق کے بیجا توکل و قناعت کی تلقین کی ہے۔ اس لئے کہ اس طرح قوم سعی عمل کے راستے میں بھٹک جاتی ہے۔ اور ادبار و پستی میں مبتلا ہوجاتی ہے۔(۲۵) حضرت علامہ نے ۱۹۱۶ء میں ایک مضمون بعنوان جمہوریتِ اسلام’’ نیوپرا‘‘ اخبار میں لکھا تھا جس میں انہوں نے نطشے سے اس سلسلے میں اختلاف کرتے ہوئے یورپ کی جمہوریت کا بھی نقشہ پیش کیا تھا۔ (۲۶) جناب احمد علی خان درانی نے اپنے اس خیال کہ علامہ کے کلام میں جادو بیانی اور سحر انگیزی کے باوجود ملت کی بقائے دوام کے لئے صرف اور صرف جہدِ مسلسل کو انحطاطِ سکوت اور جمود سے نجات کا راستہ بتاتے ہیں کی تصدیق کے لئے علامہ کے اس مقالے کے اقتباس کا حوالہ دیاہے جن سے جناب(۲۷) درانی کے احاطۂ مطالعہ کا پتہ چلتا ہے جو صرف کلامِ اقبال کے آثار تک محدود نہیں تھا بلکہ علامہ کے افکار سے آگاہی تک وہ ان کی دیگر تحریرات کا مطالعہ بھی کرتے تھے۔ جناب احمد علی خان نے مقالے میں جا بجا علامہ کے اشعار کے حوالے دیئے ہیں۔ جو تحریر کی مناسبت سے بہترین انتخاب کا مرقع ہیں۔ اقبال ملت رابہ نیشہای قلمی خود از نواقص نفاق و بی مروتی کہ مایہ نکبت و ادبار است آگاہ ساختہ ابواب بہ پند و نصائح را گاہ از زبان طبیعت و گاہ از زبان طیور و گاہ ازز بان احرام فلکی باز مینماید چنانچہ حالت نکبت و فلاکت جہاں ساکن و صامت را از زبان مہ گیتی فروش بتشبیہات دہشتناکی پیرایہ ذیل رسم میکند۔ ؎ شورہ بوم از نیش گژدم خارخار مور او اژ در گز و عقرب شکار صر صر او آتش دوزخ نژاد زورق ابلیس راباد مراد آتش اندر ھوا غلطیدہ شعلۂ در شعلۂ پیچیدہ آتشی از دود بیجان تلخ پوش آتشی تندر غوو دریا خروش در کنارش مارھا اندر ستیز مارھا یا گفچہ ھای زھر ریز شعلہ اش گیرندہ چون کلب عقور ھولناک و زندہ سوز و مردہ نور ای خدا چشم کبود و کوربہ ای خدا این خاکدان ي نور بہ ترجمہ: اقبال نے اپنے قلم کو ان نقائص سے جو قوم و ملت کے ادبار و پستی کا باعث ہوئے ہیں مثلاً نفاق و بے مروتی وغیرہ ۔ باز رکھا ہے اور پندو نصائح کا باب کبھی تو طیور کی زبانی اور کبھی اجرامِ فلکی کی زبان سے کھول دیا ہے۔ چنانچہ ایک جہانِ ساکت وسامت کے ادبار و فلاکت کو وہ چاند کی زبانی چند دہشتناک تشبیہوں کے وسیلے سے حسبِ ذیل انداز میں پیش کرتے ہیں۔(۲۸) یہ امر باعثِ مسرت ہے کہ علامہ کی زندگی ہی میں علامہ کے عالمگیر اسلامی سیاسی نظرئیے کو پذیرائی ملی۔ معاصرین اقبال نے علامہ کے اس تڑپ کو محسوس کیا۔ اور اس نظریہ کی ابلاغ و تشریح میں عالم اسلام کے گوشے گوشے سے آراء آنے لگے۔ ملتِ افغان بھی اس نظریہ کے ادراک میں پیش پیش رہا۔ چنانچہ احمد علی خان نے اپنے مقالے میں اس فکری حوالے کو یوں اشارہ کیا ہے۔ اقبال در اول نظر انحطاط عالم اسلام راحس کرد۔ پستی ملت زبونی قوم مصائب امت زوال مفاخر اسلامی و سکوت قائدین طلسم خاموشی را درھم شکست طبع خدادادوی آہ ھایٔ سینہ سوز و نالہ ھای جانگا ھش رابا حسن فصاحت و شور بلاغت بربستہ (نخست بزبان ہند باز بہ آہنگ فارس) بمشرق ر سانید۔ ؎ عشق پامال خرد گشت و جہان دیگر شد بود آیا کہ مرا رخصت آھی بخشید(۲۹) ترجمہ: اقبال نے ایک نظر میں انحطاط عالمِ اسلامی کا احساس کرلیا۔ اور پستی ملت زبونی قوم مصائبِ امت زوالِ مفاخر اسلامی اور قائدین کے مہر سکوت کو بھی توڑ دیا۔ ان کی خداد اد طبیعت نے سینہ سوز آہوں اور جاں کاہ نالوں کو نہایت فصاحت و بلاغت کے ساتھ پہلے اردو اور پھر فارسی کے ذریعے تمام مشرق میں پہنچا دیا۔(۳۰) جناب درانی صرف اس پر اکتفا نہیں کرتے بلکہ علامہ کے فکری درد و معنوی سوز کی مزید تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں: درحقیقت نوادھای شعری اقبال جذبات زخم خوردہ جدون پرورش رابشغل سینہ کاوی از اعماق دل بر فراز سخن برآوردہ تانالہ ھایٔ بیتابی کہ در جگر و داستان غم آلودی کہ درنظر داردو انمودہ تمام عالم اسلامی را از نتائج نواقص امتیاز ملت و وطن ( یعنی قیود ملی و نہایت مکانی) آگاہ نماید و سمند تخیلی ایشانرا بتا زیانہ ھای عبرت از حدود جغرافیای رنگ و بو توحید مطلق و ذوق طلب رھسپار جادہ رفعت و منازل ارتقاو اعتلا بگر داند بنابرین خواہش دارد کہ افراد و اقوام پریشان در سلک واحد منسلک گردیدہ برائی تمام عالم اسلامی یک قلب مشترک پدیدار آید۔ ؎ قلب ما از ہند وروم و شام نیست مرزبوم او بجز اسلام نیست گردشی باید کہ گردون از ضمیر روزگار دوش من باز آرد اندر کسوت فردای من گر تو میخواہی مسلمان زیستن نیست ممکن جز بہ قرآن زیستن دل بہ سلمای عرب باید سپرد؟ تادمد صبح حجاز از شام کرد اندکی از گرمی صحرا بخور بادہ ی دیرینہ از خرما بخور ترجمہ: اقبال نے نالہ ہائے بیتاب کو جو جگر میں رکے ہوئے تھے۔ آزاد کردیا اور اس داستانِ غم کو جو نظروں سے پوشیدہ تھی نمایاں کردیا۔ انہوں نے عالم اسلامی کو امتیازِ ملت و وطن کے نقائص اور ان کے نتائج سے متنبہ کیا۔ اقبال حدود جغرافیائی اور امتیاز ِ رنگ و نسل کو ذوق طلب توحید مطلق اور نیز مہذب اسلام کے ارتقاء میں رکاوٹ پاتے ہیں۔ اور اس بناء پر خواہش کرتے ہیں کہ تمام افرادو اقوامِ پریشان کو ایک ہی سلک میں منسلک ہونا چاہیئے اور تمام عالمِ اسلامی کے لئے ایک ہی قلبِ مشترک ہونا چاہیئے۔(۳۲) مقالے میں جا بجا علامہ کے اردو اشعار کا منطوم فارسی ترجمہ بھی دیکھنے کو ملتا ہے مثلاً: ؎ سبق پھر پڑھ صداقت کا ،عدالت کا، شجاعت کا لیا جائے گا کام تجھ سے دنیا کی امامت کا (۳۳) کا منظوم فارسی ترجمہ یوں کیا ہے: ؎ بخوان از برصداقت را عدالت را شجاعت را کہ عالم باز می گیر د زتوکار امامت را (۳۴) اس مقالے کے تحریر تک ’’جاوید نامہ‘‘ علامہ کی تازہ ترین شائع شدہ تصنیف تھی۔ جناب درانی لکھتے ہیں: تذکرۂ جمیل(جاوید نامہ) کہ تازہ ترین تصنیف و آخرین اثر علامہ اقبال است در نظر داشتم تحت (تقریظ و انتقاد) بیا وریم ولی نظر بلزوم تذکرہ آں درین مقالہ بی مناسب نخواھد بود اگر یک نگاہ سرسری بہ آں معطوف شدہ درقید نگارش بیاید۔ (۳۵) اس کے بعد جاوید نامہ پر مختصر تقریظ لکھی ہے اسی تقریظ میں جاوید نامہ کے مختلف مشمولات کا اجمالی جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ جبکہ مجاز لکھنوی کے ترجمہ شدہ مقالے میں یہ حصہ شامل نہیں ہے اور مجلہ کابل کے علاوہ صدیق رھہپو کی افغانستان و اقبال میں یہ پوری تقریظ شامل ہے۔ درانی کا یہ مقالہ مجلہ کابل کے مئی جون ۱۹۳۸ء کے شمارے میں دوبارہ شائع ہوا ہے۔جبکہ اس بار مقالے کا اختتام جاوید نامہ کے تقریظ کی بجائے علامہ کی بیماری اور سفرِ آخرت کے احوال پر ہوا ہے۔ (۳۶) مقالہ نمبر۴: تنزل و انحطاط اسلام از محمد سکندر خان ۱۹۳۲ء میں مجلہ کابل کی جانب سے انحطاط اسلام کے موضوع پر ایک تحریری مقابلہ ہوا تھا جس کے تحت پہلے مرحلے میں دو قصائد کو اول و دوم آنے پر انعامات دئے گئے تھے جبکہ دوسرے مرحلے پر نثر میںلکھی گئی تحریرات کو شامل مقابلہ کردیا کیا گیا جس میں پہلے انعام کے حقدار محمدسکندر خان معلم دارالمعلمین کابل اور دوسرے کا آقائے رجب علی خان معلم مکتب حبیبیہ کابل کو ٹھہرایا گیا تھا۔ مجلہ کابل نے دسمبر ۱۹۳۲ء میں جناب محمد سکندر خان کا مقالہ تنزل و انحطاط اسلام کو پورے اہتمام اور ان کی تصویر کے ساتھ شائع کیا ہے۔ یہ مقالہ اگرچہ عنوان کے لحاظ سے براہِ راست تو علامہ اقبال سے متعلق نہیںہیں۔ لیکن معنوی اور موضوعی لحاظ سے علامہ کے فکری و معنوی احساسات کا آئینہ دار ہے۔ اس مقالے کو یہاں افغانستان میں مقالات اقبال کے مباحث میں شامل کرنے کا دوسرا سبب یہ ہے کہ اس مقالے میں علامہ کے دیئے گئے اشعار کی بنا پر ۱۹۳۲ء تک افغانستان میں اقبال شناسی کا آسانی سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس وقت تک افغانستان میں علامہ کے افکار کو کتنی پذیرائی حاصل تھی۔ اور شاید انہی قوی دلائل کی بنیاد پر اسی مقالے کو اولیت انعام کا حقدار ٹھہرایا گیا تھا۔ اس مقالے کی ابتداء میں مسلمانوں کی مجموعی بدحالی انحطاد اور زبوں حالی کا جائزہ لیا گیا ہے۔ اس کے مضمرات علل و اسباب کی نشاندہی کی گئی ہے۔ جس میں ایک خاص وجہ جہالت جبکہ ایک اور وجہ مسلمان ممالک کی طرزِ حکومت بتائی گئی ہے جن میں طرزِ شورائی کے بجائے غیر شورائی نظام رائج ہے۔ اسی بناء پر وہاں امر بالمعروف و نہی عن المنکر سے روگردانی کی وجہ سے وہ ممالک پرا گندگی کے شکار ہیں۔ اور وہاں عزت ، غیرت ، نافع اخلاق، اعمالِ صالحہ وغیرہ کا فقدان اور جہالت افلاس عادات قبیحہ کی فراوانی ہے۔ جناب سکندر خان لکھتے ہیں: باید دانست کہ تعلیمات و اصول قرآنی تا ہنوز ہیچگاہ غلط و غیر صحیح نابت بالعکس در صحت قول و آیات قرآنی بسی شواہد و ثبوتہا وجود دارد لہٰذا الزام است اسلامیان من حیث القوم حالت موجودہ خود رابر مضامین و حکام قرآنی کی محک ہدایت است تحقیق و تفتیش نمایند کہ آیا سجیہ مسلمانان بحیثیت عمومی مطابق از اسلامیہ ھست باتغیر یافتہ با تعلیمات قرآنی مناسبتی ندارد؟ قرآن شریف مسلمانان راسخ العقیدہ، رانمژدہ سلطنت و حکومت مفتخر گردانیدہ است صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کہ مسلمانان ثابت قدم و اعمال شان موافق محک قرآنی بودہ حکومت۔۔۔ ترین و بزرگترین رادر عالم دارا بودند بعد از صحابہ کرام ہر قدر کہ مسلمین از تعلیم قرآنی غفلت نمودند بہمان اندازہ در حکومت و ترقی دینوی شان ضعف پدید آمدہ او عزت و اقبال شان زوال پذیر گردید و ذلت و ادبار در تجسس مسلمانان بودہ بر ایشان استیلا یافت تاریخ سیز دہ وینم صد سال برین مقال شاہداست کہ اسلامیان از منۂ مختلفہ ہنگامیکہ برخلاف او امر اسلامی اقداماتی بمودہ اندبر ایشان کامیانی ندادہ است۔(۳۷) اس کے بعد محمد سکندر خان نے نامور اسلامی سکالر سید جمال الدین افغانی کے افکار کی طرف توجہ دیتے ہوئے لکھا ہے۔ فیلسوف شہیرجمال الدین افغانی کہ نہ صرف عالم مبتحر بلکہ از ما بعد شرق بحساب میرفت در رسالہ رد نیچریت علت تنزل اسلام را ضعف عقائد قرار دادہ و چنین اظہار داشتہ’’چوں آداب و اخلاق و دیانت محمدیہ از غالب نفوس مسلمانان بلمرہ زایل نشدہ لہٰذا بہزار نوع کوشش بعد از سالہای دراز اراضی شامیہ از دستِ (صلیبیون) گرفتہ چنگیزیان را بشرف اسلام مشرف کردند و لیکن نتواند کہ ان ضعف را بکلی زائل سازند و آن سلطہ و قوۃ خود را اعادہ نمایند زیرا آن نتیجۂ آن عقائد حقہ و خصال پسندیدہ بودہ و بعد از تطرق فساد اعادۂ آں عقاید متصر و ازین است کہ ارباب تاریخ ابتدائی انحطاط مسلمانان را از محاربۂ صلیب میگیرند کہ آغاز ضعف مسلمانان و تفرق آنہارا از شروع آن تعلیمات فاسدہ اراتہ بگیرند۔ (۳۸) اپنے انہی دلائل کے اثبات میں محمد سکندر خان نے حضرت علامہ کے ابیات کا حوالہ دیا ہے اور ساتھ ہی حضرت علامہ کو ترجمانِ حقیقت کے خطاب سے یاد کیا ہے۔ ’’داکتر اقبال کہ ترجمان حقیقت است چنین مینوسید۔ ؎ لا الہ گوئی بگو از روی جان تا ز اندام تو آید بوے جان مہر و ماہ گردد زسوز لا الہ دیدہ ام این سوز رادر کوہ و کَہ ایں دو حرف لاالہ گفتار نیست لا الہ جز تیغ بی زنہار نیست ما پشیزی دین و ملت را فروخت ہم متاع خانہ و ہم خانہ سوخت لا الہ اندر نمازش بود و نیست نازہا اندر نیازش بود ونیست نور در صوم و صلوٰۃ اونماند جلوہ ئی در کائنات او نماند آنکہ بود اللہ او را ساز و برگ فتنۂ او حسب جان و ترس مرگ رفت از او آن مستی و ذوق و سرور دین او اندر کتاب و او بگور تاجہاد و حج نماند از واجبات رفت جان از پیکر صوم و صلوٰت روح چون رفت از صلوٰۃ و ازصیام فرد ناہموار و ملت بی نظام سینہ ہا از گرمی قرآن تہی از چنین مردان چہ امید بہی از خودی مرد مسلمان در گزشت ای خضر دستی کہ آب از سرگزشت اس مقالے میں جا بجا مختلف فارسی اشعار کے حوالے دیئے گئے ہیں جبکہ سید جمال الدین افغانی کے ایک اور اقتباس کے نقل کرنے سے پہلے انہیں رئیس الاحرار کا خطاب دیا گیا ہے۔جبکہ جمال الدین افغانی اور حضرت علامہ کے افکار کی مطابقت کے حوالے سے اگر ایک طرف علامہ کے اشعار کے حوالے دیئے ہیں۔ تو دوسری طرف افغانی کے افکار کے حوالے دیئے گئے ہیں۔ مقالہ نمبر۵: تقریظ برمسافر از سرور خان گویاؔ ۲۱/ اکتوبر تا ۲ نومبر ۱۹۳۳ء حضرت علامہ اور ان کے ہمسفر حضرات! اعلیٰ حضرت محمد نادر شاہ غازی کی دعوت پر افغانستان میں تعلیمی نظام کی مشاورت کے سلسلے میں وہاں تشریف لے گئے تھے۔ واپسی پر سید سلیمان ندویؔ نے اردو نثر میں ’’سیرِ افغانستان‘‘ قلمبند کیا۔ جبکہ حضرت علامہ نے فارسی میں مثنوی ’’مسافر ‘‘تحریر کرکے طبع کرایا۔ مجلہ کابل کے دسمبر ۱۹۳۴ء کے شمارے میں حضرت علامہ کی مثنوی ’’مسافر‘‘ پر تقریظ شائع ہوئی ہے۔ مجلہ میں تقریظ انجمن کی جانب سے دی گئی ہے جبکہ ڈاکٹر محمد ریاض مرحوم نے اس تقریظ کے نگارندہ کو سرورخان گویاؔؔ لکھا ہے۔(۴۰) بہر حال یہاں اس تقریظ کے مشمولات پر بحث مقصود ہے ۔ تقریظ کا آغاز یوں ہوتا ہے۔ آخریں اثر نفیس ستارۂ درخشانِ ہندو فاضل شہیرِ مشرق جناب علامہ دکتور سر محمد اقبال است کہ احساسات حقیقی جنابش رانسبت بمحبت عالم اسلام و رقت و افسوسیکہ راجع بترقیات و عظمت از دست رفتۂ کشور اسلامی داشتہ وامیدھا و آما لیکہ مخصوصا برای استقبال مثعشہ د این خاک پاک اسلامی دارند۔ جناب شانراو ادار ساختہ در ضمن مسافرت مختصر یکہ چندی قبل باافغانستان فرمودہ بودند انرا در حدود چند صد بیت برشتۂ نظم کشیدن اند۔ اقبال بزرگ اقبال سخن ور اقبال اسلام پر ست رانہ تنہا ما از سبب اتشاد این رسالہ کہ از تحریک وجدان پاک و عواطف سرشار و احساس صادقانہ و شریفانہ کہ خاصۂ آنمرد بزرگ بودہ و راجع بکشور و زمامداران لائق ما سرودہ اند تمجید میکنیم، بلکہ مقام و منزلت اقبال در مشرق امروزی خاصہ دنیای اسلام ہمچو آفتاب روشن است ہ نور وفیوضات حضرتش ہمہ مشرقیان رامستیز و مستفید میگرداند۔ (۴۱) ترجمہ: (مسافر) ہندوستان کے تابندہ ستارے اور مشرق کے مشہور فاضل علامہ دکتور سر محمد اقبال کا عمدہ اثر ہے جو عالم اسلام کی عظمت رفتہ ، ملت ِ اسلامیہ کے ممالک کی مجموعی شان و شوکت امید و توقعات سے متعلق علامہ کے حقیقی جذبات کا آئینہ دار ہے۔ مملکت افغانستان کی شان و شوکت اور مستقبل کے حوالے سے یہ وہ چند سو اشعار ہیں جو آپ نے کچھ عرصہ قبل سفرِ افغانستان کے دوران لکھے تھے۔ محمد اقبال، عظیم اقبال شاعر اقبال اسلام دوست کے نہ صرف ہم اس رسالے کے بہت شکر گزار ہیں جو ان کی اپنی ضمیر اور پاک، صادقانہ، شریفانہ احساسات اور جذبات کا آئینہ دار ہے جو ہمارے مملکت اور اربابانِ اختیار کے لئے بیان فرمائے بلکہ اقبال کا مقام اور مرتبہ آج کل مشرق میں بالعموم اور دنیائے اسلام میں بالخصوص اس آفتاب کی مانند ہے جس کی نور فیوضات سے اہلیانِ مشرق پوری طرح مستفید ہو رہے ہیں۔ اس تقریظ میں گویاؔ نے علامہ کو سعدی ، حافظ، مولوی وبیدل کے قطار میں کھڑا کیا ہے۔ امروز اگر ادبائی عالیمقامی از قبیل سعدی ، حافظ، مولوی، بیدل آفتاب ھای بزرگی از افق کشور اسلام افول نمودہ اند ملل اسلام می باید بوجود اقبال خود را مسلی سازند اقبال امروز سخن را جان و حیات تازہ بخشیدہ و آنہمہ ھدایات اخلاقی و اجتماعی کہ مقرون بعرفۂ امروزۂ ملل اسلام بودہ و ایراد آں بہر واعظ و ناطق و سخن سنجی مشکل است ، آفتاب بکمال مہارت و تردستی قوالب سخن یعنی سخن روح دارپر مغز ، سخن مطبوع سخن مؤثر و جان پرور رانہہ و آمادہ مینما ید۔(۴۲) ترجمہ: آج اگرچہ نامور ہستیاں جیسے سعدی ،حافظ ،مولوی اور بیدل اسلامی ممالک کے افق پر روشن آفتاب کی طرح چمکتی نظر آتی ہیں۔ ملتِ اسلامیہ کو اقبال کے وجود سے بھی استفادہ حاصل کرنا چاہیے۔ کیونکہ اقبال نے آج کے دور میں شاعری کو تازہ روح اور زندگی بخشی اور ان تمام اخلاقی اور معاشرتی عوامل کی جن سے اسلامی امہ دوچار ہے نشاندہی کی ان کی اصلاح اگرچہ مشکل ہے لیکن اقبال نے انتہائی مہارت کے ساتھ ان مواعظ کو شاعری کے قالب میں ڈھالا۔ شاعری کو روح مغز اور اثر عطا فرمایا۔ اس تقریظ میں علامہ کی شخصیت کی آفاقیت کی نشاندہی کی گئی ہے جس کی بناء پر انہیں عالمگیر شہرت نصیب ہوئی۔ یکی از فضائل عمدہ وزرک علامۂ ممدوح کہ مارا بمدحش بی اختیار می نماید اینست کہ وی فضل و استعداد خود را مخصوص ہند نساختہ بلکہ از جملۂ فضلاء و خدام بین المللی اسلامی بشمار میرود۔ این فاضل شہیریک شورش حقیقی ہموارہ برائی سعادت گذشتہ و از دست رفتۂ عالم اسلام داشتہ و بہ تمام قوام موجودیت خود در محدد و رہنموائی و سنجیاں چارہ ھاہ برای عودت ترقی و عظمت اسلام می باشد۔(۴۳) ترجمہ: علامہ کا ایک بڑا اور واضح وصف یہ ہے جن کی بنیاد پر ہم بے اختیار ان کی مدح کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ انہوںنے اپنی سعی و استعداد کو ہندوستان کے لئے مخصوص نہیں کیا بلکہ اپنے آپ کو بین الاقوامی طور پر اسلامی فضلاء اور خادمین کی صف میں کھڑا کردیا۔ اس معروف فاضل نے ماضی میں عالمِ اسلام کی سعادتِ رفتہ کی بازیابی کے لئے ایک راہ متعین فرمائی۔ اوراپنی تمام تر سعی مسلمانوں کی آئندہ ترقی اور اسلامی عظمت کے لئے وقف کی ہے۔ تقریظ کے آخر میں علامہ کی درازئی عمر کے لئے دعا کی گئی ہے۔ ان کی عظیم شخصیت کے لئے احترامات و تشکرات بجا لائے گئے ہیں اور اختتام پر مسافر کا انتخاب شائع کرایا ہے۔ اس انتخاب میں اعلیٰحضرت محمد نادر شاہ غازی کے توصیفی ابیات، مسافر واردمی شود بہ شہر کابل وحاضر میشودبحضورت اعلیٰ حضرت شہید، برمراز شہنشاہ باید خلا آشیاں ‘برمزار حضرت احمد شاہ بابا علیہ الرحمہ موسس ملت افغانیہ‘‘ کے ابیات پیش کئے گئے ہیں۔ مقالہ نمبر ۶: وفات اقبال شاعر و فیلسوف شہیر از سید قاسم رشتیاؔ حضرت علامہ کی وفات کی مناسبت سے مجلہ کابل کا تعزیتی مقالہ جو مجلے کے خصوصی اقبال نمبر مئی جون ۱۹۳۸ء میں شائع ہوا ہے۔ اس مقالے میں کابل میں منعقدہ پہلی تعزیتی کانفرنس کا حوالہ بھی ہے جو حضرت علامہ کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے علامہ کی وفات کے صرف ایک ہفتے بعد منعقد ہوا تھا ۔ (۴۴) اس مقالے کے مشمولات( متن مع ترجمہ) کو مقالہ ھٰذا کے باب سوم افغانستان میں اقبال شناسی کی ارتقاء کے ضمنی عنوان پہلا دور ۲۲ ، اپریل ۱۹۳۸ء تا ۱۹۵۰ء میں شامل کیا گیا ہے۔ یہاں مزید اس مقالے کے مشمولات کا ذکر باعثِ طوالت و تکرار ہوگا جو کہ تحقیقی اصولوں کے منافی ہے۔ مقالہ نمبر۷: اقبال و افغانستان از غلام جیلانی اعظمی ؔ حضرت علامہ کی وفات کے آٹھویں روز کابل میں جو تعزیتی کانفرنس منعقد ہوئی تھی۔ اس کانفرنس میں پڑھے گئے مقالات میں سے ایک مقالہ غلام جیلانی اعظمی کا یہی مقالہ ’’اقبال و افغانستان‘‘ ہے جس کو بعد میں مجلہ کابل نے مئی جون ۱۹۳۸ء کے خصوصی اقبال نمبر میں شائع کیا۔ اس مقالے میں اقبال کی افغانستان کے ساتھ عمومی محبت اور مراسم کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ مقالے کے آغاز میں علامہ کی عالمگیر شخصیت بالخصوص مشرق میں ان کی محبوبیت کا ذکر کیا گیا ہے۔ بعد میں جب افغانستان نے غازی امان اللہ خان کے سربراہی میں باقاعدہ طور پر اعلان استقلال کیا تو اس تاریخی کارنامے پر علامہ کے اظہار مسرت و شادمانی کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ موقعیکہ افغانستان بتحصیل استقلال خود موفق گردید اقبال خود را غرق یک عالم سرورو افتخارات دید و بایک جہان مسرت و ابتہاج محافل متعدد شادمانی در منزل خود ترتیب میداد و بدوستان خود از موفقیت افغانستان تبریک میگفت و ہرجا افغانی را مصادف میشد چون جان عزیز در برگرفتد صمیمانہ و احترام کا رانہ از وی پذیرائی می نمود۔(۴۵) ترجمہ: افغانستان کے حصولِ استقلال پر علامہ اقبال بے حد خوش اور پرافتخار تھے۔ انتہائی دلی جوش و مسرت سے اپنے گھر پر کئی محافل کا انعقاد کیا تھا۔ اور اپنے احباب کو افغانستان کے استقلال پر مبارکباد پیش کی۔ اور جہاں کہیں بھی کسی افغان سے ملے تو نہایت خلوص و احترام کے ساتھ ان کی پذیرائی کی۔ اعظمی لکھتے ہیں کہ جو لوگ اقبال اور افغانستان کی مناسبت سے واقف نہیں ہیں وہ علامہ کو چمن زار افغانستان کا خوش نوا بلبل تصور کرتے ہیں۔ کسانیکہ از عواطف ذاتی و احساسات فطری اقبال نسبت بہ افغانستان واقف نبودند تصورمی کردند کہ اقبال بلبلی است کہ از شاخسار گلش افغانستان پرواز نمودہ و درچمن ہند رحل اقامت افگندہ و این ھمہ تمایل و تپایش او نسبت با افغانستان باشی از علایق ذاتی و وحدت عرق و خون ملی است آری افکار نفیس و احساسات نجیب اقبال وی را در نظر یک افغان ہم جز افغان جلوہ نمیداد۔(۴۶) ترجمہ: وہ لوگ جو افغانستان سے علامہ کی ذاتی دلچسپی اور فطری احساسات سے واقف نہیں وہ تصور کرتے ہیں کہ اقبال ایک بلبل ہے جو گلشنِ افغانستان کے شاخسار سے پرواز کرکے چمن ہند میں اقامت پذیر ہوا ہے۔ افغانستان سے ان تمام ذاتی تعلقات و دلچسپیوں کا باعث ان کی قومی فکرِ وحدت ہے۔ یقینا علامہ کے نفیس ذاتی افکار اور بلند احساسات ایک افغان کی نگاہ میں افغانی جلوہ کی حدسے باہر نہیں۔ اعظمی نے تو علامہ کی فارسی شاعری کا سبب ان کے افغانستان سے عشق پر منتج کیا ہے: اقبال در آثار قیمت داریکہ بہ زبان فارسی دارد غالبا از اظہار این عشق و علاقہ مندی نسبت بہ افغانستان خود داری نتوانستہ چنانچہ در اثر معروف خود پیام مشرق شہامت افغانان راستایش نمودہ میفرماید۔ ؎ ملتِ آوارئہ کوہ و دمن در رگ او خون شیران موج زن زیرک و روئین تن و روشن جبین چشم او چون جرہ بازان تیز بین کذٰ موسیقی افغان راباین طور میستاید۔ ؎ بسی گذشت کہ در انتظار زخمہ وریست چہ نغمہ ہا کہ نہ خون شد بہ باز افغانی و درجاي علایق سرشار خود رابہ ممالک اسلامیہ شرقی نشان دادہ میفر ماید۔ ؎ اگرچہ زادۂ ہندم فروغِ چشمِ من است زخاکِ پاک بخارا و کابل و تبریز اعظمی نے افغانستان کی استقلال پر علامہ کی دائمی مسرت کا ذکر آگے بڑھایا’’ جاید نامہ‘‘ میں سید جمال(۵۰) الدین افغانی و سعید حلیم پاشاہ کی فلک عطارد پر پورے مکالمے کو مقالے کی زینت بنایاہے۔ افغانستان میں سقوی انقلاب پر علامہ کی رنجیدگی کی طرف بھی مقالے میں اشارہ کیا گیا ہے۔ موقعیکہ افغانستان در سال ۱۳۰۷ د چار نفاق داخلی و گرفتار شورش خانگی گردید اقبال باپر و بال شکستہ در زاویہ آشیانۂ خویش باحال پر از حزن و ملال پسر میبرد ۔ وبہ مصیبت افغانستان اشک حسرت می بارید، در طول آن مدت بدبختی ہر افغانیکہ اقبال را درہند ملاقات کردہ وی راجز بحال حزن و غمگین ور یختن سیلاب اشک نہ دیدہ۔ (۴۸) ترجمہ: جب ۱۳۰۷ھ ش میں افغانستان داخلی خانہ جنگی کا شکار ہوااقبال نے شکستہ بال و پر حزن و ملال سے اپنی آشیانہ کی طرف معنویت سے بھرپور سفر کیا۔ افغانستان کی مصیبت پر حسرت سے آنسو بہائے۔ اس دوران ہندوستان میں جو افغان علامہ سے ملا انہیں رنج و افسوس غم اور آنسوئوں کے بغیر نہیں پایا۔ اعظمی کے مطابق اس دوران اقبال پوری مستعدی سے افغانستان کی امداد کے لئے سرگرمِ عمل رہے۔ اور اپنے ہم وطنوں کے ایک بڑے گروہ سے اس صورتحال سے نمٹنے کے لئے چندہ اکٹھا کیا۔ اعظمی نے اپنے مقالے کو نہایت تلسل سے علامہ کی فکری و قلبی احساسات کا مرقع قرار دیا ہے۔ افغانستان کے سقوی انقلاب کے دربدری کے دوران ایک طرف علامہ کے حزن و ا لم اور دوسری طرف اس ملک کی امداد اور تعاون کے پروگرام کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ اس دوران انہیں دوبارہ افغانستان میں اپنے ایک محبوب دوست اعلیٰحضرت محمد نادر شاہ کے افغانستان آنے اور سقوی انقلاب کے سقوط کا مژدہ سنایا جاتا ہے۔ پس از غایلۂ مصیبت افغانستان و نجات آن بدست حق پرست اعلیٰ حضرت شہریار شہید اقبال نشاط تازۂ پیدا کردہ و دوبارہ بچمن کامرانی پرو بال گشود نظر بانیکہ تحصیل استقلال وطن و بالآخر ، نجات آن از اختلافات و خونریزی ھای داخلی بعزم مردانہ و شمشیر دلاور انہ اعلیٰ حضرت محمد نادر شاہ شہید صورت گرفتہ۔ (۴۹) افغانستان میں مصیبت سے نجات کے بعد عنانِ حکومت اعلیٰ حضرت محمد نادر خان غازی کے سپرد کیا جاتا ہے۔ اقبال نشاطِ تازہ پیدا کرکے دوبارہ چمنِ کامرانی کی طرف بال و پر کو پرواز کے لئے آمادہ کرتے ہیں۔ اقبال اپنی ایک تصویر کے ساتھ۱۳۱۲ ھ ش میں مجلہ کابل کے لئے چند اشعار ارسال کرتے ہیں۔ ؎ صبابگوی بافغان کو ہسار از من بمنزلی رسد آن ملتیکہ خود نگر است مرید پیر خراباتیان خود بین باش نگاہ او ز عقاب گرسنہ تیز تر است ضمیر تست کہ نقش زمانۂ تو کشد نہ حرکتی فلک است زین نہ گردش قمر است دگر بہ سلسلۂ کوہسار خود بنگر کہ توکلیمی و صبح تجلی دیگر است اعظمی دعوہ کرتے ہیں کہ علامہ اقبال نے خود افغانستان آنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔ جس کے بعد انہیں افغان حکومت کی طرف سے دعوت دی گئی۔ اقبال کہ قلب او درشورش خانمان پر انداز سال ۱۳۰۷ھ ش افغانستان خیلی خستہ و متاثر شدہ بود۔ پس از رفع آن بدبختی خواست تایک بار سعادت ما بعد افغانستان رابچشم خود دیدہ و بزیارت نجات بخشندہ آن شہر بزیارت نجات بخشند، آن شہر یارشہید مشرف شود لہٰذا این عشق و آرزو از چندی بود کہ درکانون دماغ اقبال روشن شدہ و بد وستان و ارادت مندان افغان خود ہر وقت اظہار می نمود۔ حکومت متبوع ما کہ از ارادۂ مسافرت اقبال ملتفت شد مقدم اور گرامی دانستہ بہ آمدن افغانستان دعوتش فرمود آن مرحوم بلا درنگ بکمال میل قلبی باد و نفر فضلایٔ نامور ہندی رفقای خود علامہ سید سلیمان ندوی وفاضل مغفور سر راس مسود از طریق پشاور و جلال آباد وارد کابل گردید۔ (۵۱) ترجمہ: ۱۳۰۷ ھ ش میں افغانستان کی شورش و بربادی کا اقبال کو دلی صدمہ ہوا تھا۔ لیکن ان بدبختون کے بعد علامہ کو خواہش ہوئی کہ ایک بار اپنی آنکھوں سے افغانستان کی سعادت کا نظارہ کر سکیں شہریار شہید سے مشرفِ ملاقات حاصل کریں لہٰذا یہی عشق و آرزو علامہ کے ذہن و دماغ پر حاوی رہی۔ اور اس کا تذکرہ اپنے افغانی ارادت مندوں اور دوستوں سے کرتے رہے۔ چنانچہ ہماری حکومت کو علامہ کی اس خواہش کا پتہ چلا اور انہیں افغانستان آنے کی باضابطہ دعوت دی۔ جو انہوں نے بلا توقف قبول فرمایا۔ اور اپنے دو ساتھیوں علامہ سید سلیمان ندوی اور سر راس مسعود کے ساتھ پشاور کے راستے جلال آباد و کابل تشریف لائے۔ مقالے کا اختتام علامہ کی انجمن ادبی کابل کی ضیافت میں ان کی تقریر کے حوالے پر ہوا ہے۔ مقالہ نمبر۸: اقبال (آریانا دائرۃ المعارف) از عبدالرزاق فراھیؔ افغان انسائیکلوپیڈیا’’آریانا دائرۃ المعارف ‘‘کے لئے حضرت علامہ سے متعلق یہ مقالہ عبدالرزق فراھہی کا تحریر کردہ ہے جو پہلے آریانا دائرۃ المعارف کے فارسی ایڈیشن میں اسد ۱۳۳۵ھ ش (۵۲) میں شائع ہوا اور بعد میں دائرۃ المعارف کے پشتو ایڈیشن میں جوزا ۱۳۳۷ ھ ش میں شائع ہوا۔ انسائیکلو پیڈیا کے اصولوں کے تحت سب سے پہلے علامہ کا سوانحی تذکرہ کیا گیا ہے جس کے تحت علامہ کا سنِ ولادت ۱۲۹۴ھ ق ٌ۱۲۵۴ھ ش ٌ۱۸۷۵ء لکھا گیا ہے۔(۵۳) علامہ کے حصولِ علم کے مختلف مراحل کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ علامہ کا سفرِ افغانستان نومبر ۱۹۲۳ء میں بتایا گیا ہے۔ جو کہ طباعتی غلطی ہے۔ علامہ نے افغانستان کا یہ سفر اکتوبر نومبر ۱۹۳۳ء میں کیا تھا۔ اس کے بعد آپ کے بعض فکری گوشوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔ جس کے مطابق آپ اسلام اور مسلمانوں کے دلدادہ تھے۔ داکتر اقبال یو متدین’%* وو او د اسلام او اسلامیانو سرہ * $یرہ مینہ لرلہ۔ دشرقی ملتونو سرہ * ھم علاقہ وہ ۔ د شرقی ھیوادونو د شاتہ بیرتہ پاتی کیدلو پہ وجہ $یر غمجن وو۔ اولہ د* ‍¦ املہ ي§#¦ کول او مخصوصا د اسلام د خوار+ او مخ پہ شا او نتلی تو‚ پہ حال * $یر ژ%ل لکہ ˆ* دہ پہ خپل یوہ اثر پہ نامہ د ’’ارمغانِ حجاز‘‘ د اسلام دستر مشر پہ دربار œ* ویر او فغان œ%¤ د¤۔ ؎ مسلمان فاقہ مست و ژندہ پوش است زکارش جبریل اندر خروش است بیا نقش دیگر ملت بریز یم کہ این ملت جہاں رابار دوش است(۵۵) ترجمہ: اقبال ایک سچے شخصیت کے مالک تھے۔ اسلام اور مسلمانوں سے نہایت محبت کرتے تھے۔ مشرقی ملتوں سے ان کی دلچسپی اور مشرقی ممالک کی پسماندگی کا انہیں از حد افسوس تھا۔ اسلام کے تنزل اور مسائل کی وجہ سے ہمیشہ افسردہ رہتے تھے اور انہی حسرتوں کا اظہار انہوں نے اپنے ایک اثر ’’ارمغانِ حجاز‘‘ میں کیا ہے۔ اقبال نے مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے پاکستان کی جدو جہدِ آزادی میں بھرپور حصہ لیا۔ سیاسی حوالے سے علامہ کی شخصیت سے متعلق قائد اعظم محمد علی جناح کا قول بھی نقل کیا ہے۔ ۱۹۳۰ء میں سر آغا خان کی سربراہی میں علامہ کے اس کانفرنس کے صدر منتخب ہونے کا حوالہ دیا گیا ہے۔ علامہ نے نظریہ پاکستان پیش کرکے ہندوستان کے مسلمانوں کے لئے ایک جدا مملکت کا تصور پیش کیا۔ علامہ افغانستان سے بھی محبت کرتے تھے۔ چنانچہ پیامِ مشرق میں احمد شاہ بابا کو افغان ملت کا موسس قرارد یا ہے۔ اور افغان ملت کو ایشیا کا دل قرار دیا ہے۔ ؎ آسیا یک پیکر آب و گلِ است ملت افغان در آں پیکر دل است از فساد او فساد آسیا در کشادِ او کشاد آسیا تا دل آزاد است آزاد ست تن ورنہ کاہی در رہ باد است تن آریانا دائرۃ المعارف علامہ کے موت کا سبب ملتِ اسلامی کا غم گردانتے ہیں۔ اور لکھتے ہیں۔ د ھغہٹڑ(پ  او تأثر لاملہˆ* د داکتر اقبال د مشرق او پہ تیرہ د عالم اسلام د بیرتہ پاتہ کیدو پہ باب œ'* در‍ژ¢ پہ آخر عمر œ'* ورتہ ضعف پیدا شو۔ او مخصوصاً پہ ۱۹۳۴ء کال œ'* ناجو%¢لو ورتہ مخہ اوœ%ہ۔ اور ورحٔ ƒ¦ ورحٔ ي ناروغی$یریدلہ #¢ˆ* د ۱۹۳۸ء اپریل پہ ۲۱ د ۱۳۱۷ ھ ش د ثور لہ ۲ سرہ سم ۱۳۵۷ ھ ق د سھار پہ  پنحٔہ نیمی بجو د œ‍œ* ساہ بند+ پہ اثر پہ ۶۲ کلنی œ'* وفات شو۔ (۵۶) ترجمہ: اس پریشانی اور تأثر کی وجہ سے جو حضرت علامہ کو مشرق اور بالخصوص عالم اسلام کے پسماندگی سے ان کو لاحق تھی آخر عمر میں اقبال کے لئے باعثِ ضعف ثابت ہوا۔ اور خصوصاً ۱۹۳۴ء میں صحت گرنے لگی ۔ دن بدن بیماری شدت اختیار کرتی رہی اور ۲۱، اپریل ۱۹۳۸ء بمطابق ۲ثور ۱۳۱۷ ھ شٌ ۱۳۵۷ ھ ق صبح ساڑھے پانچ بجے وفات پائی۔ مقالے میں علامہ کی تصانیف کاذکر سنِ اشاعت کی ترتیب سے دیا گیا ہے۔ تصانیفِ اقبال کی تفصیل کے بعد علامہ کے چند فکری جہتوں پر مباحث موجود ہیں۔ ۱۔ اقبال کے فلسفیانہ افکار:۔ اس ضمنی عنوان کے تحت علامہ کے فلسفیانہ افکار کا جائزہ لیا گیا ہے ۔ برصغیر جو انگریز استعمار کے زیرِ تسلط رہا تھا اور جہاں افکار بھی غلامانہ بن گئے تھے ۔ اسی میں ایک مردِ خود آگاہ نے صدا بلند کی۔ ؎ اي ھمالہ ای اطک ای رود گنگ زیستن تاکی چنان بی آب و رنگ شرق و غرب آزاد و مانخچیر غیر خشت ما سرمایۂ تعمیر غیر زندگانے بر مراد دیگران جاویدان مرگ است نی خواب گراں اقبال نے اگرچہ یورپی فلسفہ پڑھا تھا لیکن اس فلسفے سے بیزار ہوکر اسلامی فلسفے کی پرچار کا درس دیتے رہے۔ ؎ می از میخانۂ مغرب چشیدم بجان من کہ درد سر خریدم نشستم بانکویاں فرنگی از آن بے سوز تر روزی ندیدم اس بحث میں ایک اور مقام پر مغربی تہذیب پر علامہ کے تنقید کو یوں اشارہ کیاگیا ہے: ؎ علم اشیاء خاک مارا کیمیا ست آہ در افرنگ تاثیرش جدا ست عقل و فکرش بی عیار خوب و زشت چشم او بی نم دل او سنگ و خشت آہ از افرنگ و از آئین او آہ از اندیشۂ لا دین او مغربی طرزِمعاشرت و اندازِ فکر پر انتقادات کے بعد مقالے میں تصوف اور اسلامی تصوف اور ان سے اقبال کے تعلق پر ایک طویل بحث کی گئی ہے۔ روح کی حقیقت انسانی حیات فلسفۂ موت اور اسی موضوع سے متعلق ان کی اسرار و رموز کو زیرِ بحث لایا گیا ہے۔ مغربی فلاسفر سے فکرِ اقبال کا موازنہ کیا گیا ہے۔ اقبال ƒ!¦ خولہ او چپتیا د ›پں مر( بولی پہ ھغہ اولس œ'* ˆ* تبلیغ او موعظت نہ وی ھغہ ›پں دد ¦ ƒ¦ نظر œ'* د مر( سرہ مخامخ دی #¦ ژ (¦ ˆ* اقبال د مولانائے روم پہ ژبہ حٔان تہ دا’* وائیé ؎ آتش ھستی بزم عالم بر فروز دیگران راھم زسوز خود بسوز از نیستان ھمچونی پیغام دہ قیس را از قوم حی پیغام دہ نالہ را انداز نو ایجاد کن بزم را ازھای و ھوی آباد کن خیز و جان نوبدہ ہر زندہ را از قم خود زندہ تر کن زندہ را آشنای لذت گفتار شو ای در اے کاروان بیدار شو اقبال د حضرت جمال الدین افغانی د سوز و(‹پگ نہ الہام واخیست او بہ $یرو نارو سوروي مسلمانان د دراندہ خوب نہ راو¤' œ%¦۔ د اسلامی او لسونو مرائی توب او غلاں+ د باچاھانو د استبداد او خود پر’„+ او د ملایانو د جاہ –‍‚+ پہ وجہ بولی او دا’* وائی: ؎ آہ زان قومی کہ از پا بر فتاد میر و سلطان زاد و درویشی نژاد داستان اومپرس از من کہ من چون بگویم آنچہ ناید در سخن در گلو یم گریہ ھا گردد گرہ این قیامت اندرون سینہ بہ مسلم این کشور از خود نا امید عمر ہا شد با خدا مردی ندید لاجرم از قوت دین بدظن است کاروان خویش را خود رہزن است از سہ قرن این امت خوار و زبون زندہ بی سوز و سرور اندرون پست فکر و دوں نہاد و کور ذوق مکتب و ملای او محروم شوق زشتی اندیشہ او راخوار کرد افتراق او را ز خود بیزار کرد تا نداند از مقام و منزلش مرد ذوق و انقلاب اندر دلش طبع او بی صحبت مرد خبیر خستہ و افسردہ و حق ناپذیر ترجمہ: اقبال خاموشی کو اقوام کی موت سمجھتا ہے۔ وہ اقوام جو تبلیغ اور موعظت سے بے نیاز ہوتی ہیں۔ ان کے خیال میں موت سے دو چارہوجاتی ہیں اور اقبال مولانائے روم کے زبان میں کہتے ہیں: اقبال نے حضرت جمال الدین افغانی کے سوز و گداز سے الہام لیا اور پُرسوز نعروں سے مسلم امہ کو خواب گراں سے بیدار کیا۔ اسلامی ممالک کی غلامی کا وجہ بادشاہوں کا استبدادی رویہ ، خود پرستی اور علماء کی جاہ طلبی ہے۔ اشتراکیت اور اقبال کے ضمنی عنوان میں اشتراکی فلسفہ اشتراکی ممالک کی طبقاتی تضادات اور علامہ کے نظریات پر بحث کی ہے۔ مقالہ نمبر۹: افغانستان و اقبال از سرور خان گویاؔؔ جناب سرورخان گویاؔ کا یہ مقالہ یومِ اقبال ۱۹۶۷ء کے خصوصی پروگرام منعقدہ کراچی کے لئے تحریر کیا گیا تھا۔ یہ مقالہ یعقوب توفیق کے مرتب کردہ مقالات یومِ اقبال (اقبال کونسل کراچی ۱۹۶۷ئ) میں فارسی متن اور فاضل مشہدی کے اردو ترجمے کے ساتھ شائع ہوا ہے۔ اس محفل کے انعقاد کو گویاؔؔ نے ایک علمی سعادت قرار دیتے ہوئے لکھا تھا۔ انعقاد انجمن برای یاد بو د و ذکر آثار باافتخار زعیم شرق، عارف اسلام، شاعر خاور استاد و امام گویندگان فارسی واردو علامہ اقبال در دلہا شوری و درجانہا تاثیری پدیدمی آورد کہ زبان و بیان آزادی آںعاجزناتوان است۔(۶۱) ترجمہ: ایسی محفل کا انعقاد جس میں رہنمائے شرق، عارف اسلام ، شاعر مشرق، فارسی اور اردو کے سخن پردازی کے استاد اور امام علامہ اقبال کی یاد میں اور ان کی قابلِ فخر باقیات کے ذکر کرنے کا اہتمام کیا گیا ہو۔ دلوں میں ایسا جذبہ اور روح میں ایسی تاثیر پیدا کرتا ہے کہ زبان و بیان اسے لفظوں میں ادا کرنے سے عاجز ہیں۔ گویاؔ کو چونکہ حضرت علامہ سے گہری دوستی اور ذاتی مراسم تھے علمی عشق اور ادبی عقیدت سے مغلوب ہو کر علامہ کو نہ صرف خطابات سے سرفراز فرمایا بلکہ ان کے تعریف و توصیف میں اعتراف کی حدود کو پار کرتے ہوئے تعریف کی سرحدات سے بھی آگے نکل گئے ہیں۔ اقبال کو کب طالع، گویندۂ بزرگ، حکیم عصر، زیدۂ روزگار و ودیعۂ زمان و فرزند گیتی و شاعر بشریت و بیدار کنندۂ مشرق و دشمن استعمار و منادی آزادی و استقلال بود اقبال ستارہ فروزان بودکہ فروغ فلسفہ و دانش او بر جہاں اسلام می نافت و مقام او آثار او، قدرت قلم و قریحت او، عشق و شیدائی او فلسفہ و حکمت او بزرگترین و ازآن است کہ باکلمات چند حق آن بزرگوار راتواں گذارد۔ بقول مولانایٔ بلخی: ؎ یک جہاں خوا ھم بہ پنہای فلک تا بگویم وصف آن رشک ملک دریں بہار کہ بگفتۂ خود وی نجوم پرن از مرغزار رستہ زمین از بہاران چوں بال تذروشدہ نگہ جز در لالہ و گل نہ پیچید و ھوا جزبر سبزوسنبل نہ غلتہ نواھای این مرغ بلند آشیان از کنگرۂ آسمان سخن بہ گوش مامیر سد۔ نواھای کہ تا دل باقی و جہان باقی تا عشق باقی و شعرباقی تا توحید باقی و اسلام باقیست پایندہ و جاودان خواہد بود وی رموز و اسرار ارتقائی بشریت رامی شناخت و بہ راز سعادت اسلام و ملل شرق آشنا بود۔ او شرقیان رابہ برادری و برابری و حریت وآزادی و بہ خداشناسی و خود شناسی ترغیب میکرد۔(۶۲) ترجمہـ: اقبال نصیب کا ستارہ ،عظیم شاعر، دانائے عصر، خلاصۂ روزگار ، عہد کی امانت ، مادر گیتی کا ثبوت ، بشریت کا شاعر، مشرق کو بیدار کرنے والا سامرا ج کا دشمن آزاد ی اور استقلال کا نقیب تھا۔ اقبال ایک ایسا درخشندہ ستارہ تھا کہ اس کے فلسفے اور دانش کی روشنی اسلامی دنیا میں تنویر بکھیرتی رہی۔ اس کا مقام اس کی باقیات اس کے قلم کی طاقت و ندرت اس کا عشق ، شگفتگی اس کا فلسفہ و حکمت اس قدر بے پایاں ہے کہ ہم چند لفظوں کے کوزے میں اس دریا کو بند نہیں کرسکتے۔ بقول مولانا بلخی: ؎ یک جہاں خوا ھم بہ پنہای فلک تا بگویم وصف آن رشک ملک (یہ تنگ سا جہاں نہیں) آسمان جتنی وسعت کا ایک جہاں چاہیئے تاکہ اس رشک افلاک کا وصف بیان کرسکوں۔ اس موسم بہار میں جس کی تعریف میں وہی ممدوح یوں رطب اللسان ہے کہ عقد ثریا مرغزار سے اُبھرا زمیں تازگی بہارسے تدرو(چکور)کے پروں کی طرح خوش منظر ہے آنکھ لالہ و گل کے سواکہیں نہیں پڑتی۔ ہوا کی اٹھکیلیوں کو سبزہ و سنبل کا فرش میسر ہے۔ اس مرغ سے بلند آشیاں (یعنی اقبال) کی نوائیںآسمان سخن کے کنگروں سے ہمارے کانوں میں زمزمہ ریز ہوتی ہیں۔ نوائیں بھی ایسی کہ جب تک دل باقی ہے یہ جہاں باقی ہے عشق کا نام باقی ہے شعر کاوجود باقی ہے۔ توحید کا کلمہ باقی اور اسلام باقی ہے یہ بھی پائندہ و جاوداں رہیں گی۔ وہ ارتقائے بشریت کے رموز و اسرار کا جاننے والا تھا۔ وہ اسلام اور مشرق کی ملتوں کی خوش طالعی کے راز سے آشنا تھا وہ اہلِ مشرق کو اخوت مساوات حریت آزادی خداشناسی اور خود آگہی کی ترغیب دیتا رہا۔ گویاؔ سید جمال الدین افغانی کی پیروی میں علامہ کی عالمگیر اسلامی وحدت کے نظریئے کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ علامہ اقبال مانند استاد و پیشوای بزرگ خود سید جمال الدین افغانی بہ توحید مللِ اسلام عشق و سوز داشت ایران، ترک ، افغان مسلمانان ہند عرب و تاتار در نگاہ وی گلہای بودند کہ از یک چمن رستہ و دریک بہار پروردہ و ازیک سر چشمہ آب خوردہ باشند گویندگان کلمۂ لا الہ الا اللہ و جبین سایان وادی غیرزی زرع ام القرا رابہ یک راہ دعوت میکرد او عشق و بیخودی را برخوردہ کار ھای خرد ترجیح می نہاد او معتقد بعد تا مسلمانان ام الکتاب کہ عروۃ الوثقیٰ الٰہی است با ایمان غیر متزلزل و عقیدۂ کامل چنگ نز نندرستگار نخواہند شد۔(۶۳) ترجمہ: علامہ اقبال اپنے استاد اور عظیم پیشوا سید جمال الدین افغانی کی طرح ’’پان اسلام ازم‘‘کے عشق اور جذبے سے سرشار تھا۔ اس کی نظر میں ایرانی ، ترک، افغان، ہندی، مسلمان، عرب اور تاتاری ایک ہی باغ ایک ہی بہار اور ایک ہی سرچشمے کے پروردہ پھول ہیں۔ وہ کلمہ لا الہ الا اللہ پڑھنے والوں اور مکے کی وادی غیر ذی زرع کی خاک پر پیشانیاں رکھنے والوں کو ایک ہی مسلک پر گامزن ہونے کی دعوت دیتا تھا۔ وہ عقل کی باریک بینیوں پر عشق و بے خودی کو ترجیح دیتا تھا ۔ اس کا اعتقاد تھا کہ مسلمان جب تک ام الکتاب کو جو خدا کی مضبوط رسی ہے‘ سے غیر متزلزل ایمان اور کامل عقیدے کے ساتھ نہیں پکڑتے۔ ان کی نجات نہ ہوگی۔ سرور خان گویاؔ کا یہ مقالہ ایک افغان ادیب کے ان گہرے اور سچے جذبات کا آئینہ دار ہے جو ان کے دل میں علامہ کی عشق احترام اور پذیرائی کیلئے بے اختیار انکے قلم سے نکلے ہیں۔ اس جذباتی تعلق کا حال آگے بھی دیکھئے اس کا سبب علامہ کے افغانوں سے عشق کو بھی قرار دیا جا سکتا ہے۔ ارادت ما براقبال علامہ ما بر آثار و گفتہ حای آں شاعر بی ھمال چنان است کہ ارادت ما برسنائی و مولوی و جامی و سید جمال الدین افغانی۔ اقبال ما افغانہا را از صمیم قلب دوست میداشت بردرہ و دریای ما برخارہ و خار ای ما برکوہ و صحرای ما بر عرفان و ادبیات مابر آثار و آبدات ما بر تاریخ و روایات ما چناں بہ عشق و محبت می دید کہ کسی بہ خانہ و آثار خویش نگاہ کند و بر افتخارات و بہ بقایای تاریخی خود ناز نماید عشق و محبت فرزندان افغان و زادگان کوھسار دردل وی سخت متمد کز و نہایت راسخ بود۔ از مناظر و مرایای زیبا ی کشور ما چنانکہ شعرا و صاحب دلان ما وجدکردہ اندو لذت بردہ اند وی بہ ھمان اندازہ لذت ببرد و بہ شورمی آمد و برافتخارات و اعتلای کشور ما چنان کہ بزرگان ما متمتع میشد ند خویش را متمتع و برخود داری می پنداشت برشادی ما شادمی شد و بر اندوہِ ما میگریست۔ حضرت علامہ پیرو و پیر انصار شاگرد دبستان استاد بزرگ سنائی غزنوی و مولانا جلال الدین بلخی و مولانا عبدالرحمن جامی ھروی و سید جمال الدین افغانی و بالاخرہ یکی از مفاخر مشترک ما وملت دوست ما پاکستان بود۔ (۶۴) ترجمہ: اقبال سے ہماری ارادت مندی اور اس شاعر یکتا کی تخلیقات کے ساتھ وابستگی اس طرح ہے جس طرح سنائی مولوی جامی اور سید جمال الدین افغانی سے۔ اقبال ہم افغانوں کو صمیم قلب کے ساتھ دوست رکھتا تھا۔ ہمارے دروں اور دریائوں کو، ہمارے پرخار جنگلوں اور چٹانوں کو ،ہمارے پہاڑوں اور صحرائوں کو، ہماری عرفانیات اور ادبیات کو ،ہمارے آثار اور باقیات کو، ہماری تاریخ اور روایات کو وہ ایسے لگائو سے دیکھتا تھا جیسے کوئی اپنے گھربار کو دیکھے اور اپنے سرمایۂ افتخار اور تاریخی روایات پر پھولا نہ سمائے۔ فرزندانِ افغان اور کوہسار زادگان کا عشق اور ان کی محبت اس کے دل کے گوشے گوشے میں جاگزیں تھی۔ جس طرح ہمارے شاعر اور صاحبِ دل اپنی کشور حسین کے مناظر دلکش پر وجد کرتے اور لذتِ اندوز ہوتے ہیں عین اسی طرح اقبال بھی جھومتا اور نعرہ زن ہوتا تھا۔ اور جس طرح ہمارے بزرگ ہماری ولایت کے افتخار و رفعت سے اپنی تئیں بہرہ مند سمجھتے تھے۔ اسی طرح وہ بھی اپنے آپ کو ان سے بہرہ ور سمجھتا تھا اسے ہماری خوشی سے خوشی ہوئی اور ہمارے غموں پر وہ اشک ریز ہوجاتا تھا۔ حضرت علامہ بزرگ استاد سنائی غزنوی ، جلال الدین بلخی ، نورالدین جامی ہروی اور سید جمال الدین افغانی کے مکتب فکر کے طالب علم پیر انصار کے پیرو اور بالاخر یہ کہ وہ ہمارے اور ہماری دوست ملت پاکستان کے مشترکہ افتخارات میں سے ایک تھے۔ گویاؔ کو یہ بھی احساس ہے کہ علامہ افغانوں سے بھی عشق کرتے تھے۔ علامہ کے کلام میں افغانوں سے ان کے عقیدت اور محبت پر مشتمل کلام کے حوالے سے بحث کی گئی ہے۔ گویاؔ چونکہ سفرِ افغانستان کے دوران حکومت کی جانب سے علامہ اور ان کے شرکائے سفر کے پروٹوکول آفیسر تھے لہٰذا اس مقالے میں علامہ کے سفرِ افغانستان کے حوالے سے اپنے بعض دلچسپ مشاہدات بھی قلمبند کئے ہیں۔ گویاؔ لکھتے ہیں کہ اگرچہ علامہ نے اس سفر کے کیفیات کو مثنوی مسافر میں قلمبند کئے تھے۔ مگر ہم اس عظیم افغان شناس کو مسافر تصور نہیں کرتے تھے۔ انکی وفات پر ہم افغانوں نے بے شمار آنسو بہائے ۔ ہم نے سوگ منایا اور ہمارے خطیبوں نے خطابات کئے۔ مقالے کا اختتام بھی سرور خان گویاؔ کے علامہ سے جذباتی تعلق کا آئینہ دار ہے اس میں علامہ کے مزار کے لئے افغانستان کی جانب سے بھیجا جانے والا مزارِ اقبال کے تعویز کا تذکرہ بھی ہے۔ یاد اقبال درلوایح صدور و صفحات قلوب ماچون نقش برسنگ است نقشی کہ بہ گردش مہر و ماہ و تطورِ لیل و نہار و سیر قرون و اعصار در بنیاد استوار آن فتوری و ارد نگردد۔ ؎ خلل بدید بود ھہر بنا کہ می بینی بجز بنای محبت کہ خالی از خلل است‘‘ (۶۵) ترجمہ: اقبال کی یاد ہمارے سینوں کی لوح اور دلوں کے صفحات پر اسی طرح نقش ہے جیسے پتھر پر کوئی نقش بنا ہوا ہو یعنی ایسانقش کہ جس کی مضبوط بنیادوں میں مہر وماہ کی گردش سے روز و شب کی توالی سے اور نہ صدیوں اور زمانوں کے گزارنے سے خلل آسکتا ہے۔ ہر بنیاد جو نظرآتی ہے اس میں ایک روز خلل آجائے گا لیکن نہیں آئے گا تو اس بنیاد میں جسے محبت سے استوار کیا گیاہو۔ مقالہ نمبر۱۰: د خوشحال او اقبال د اشعارو " * مشترکہ خواوی (خوشحال اور اقبال کے اشعار کے چند مشترک پہلو) از عبداللہ بختانی خدمتگارؔ عبداللہ بختانی کا یہ مقالہ دراصل خوشحال خان خٹک کے ۲۸۶ ویں یومِ وفات کی مناسبت سے کابل میں منعقدہ پشتو ٹولنہ کے زیرِ اہتمام بین الاقوامی کانفرنس (از سوموار۵، اگست ۱۹۶۶ء تا ۲۱، اگست ۱۹۶۶ئ) میں جمعہ ۲۸ ، اسد ۱۳۴۵ھ ش بمطابق ۱۹ ، اگست۱۹۶۶ء کو پیش کیا گیا تھا۔ اس مقالے میں حضرت علامہ کے فکر وفن پر صاحبِ سیف و قلم عظیم پشتو شاعر خوشحال خان خٹک کے اثرات کا جائزہ لیا گیا ہے۔ اس تقابلی جائزے میں ان دونوں حضرات کے مشترک فکری نکات کا تحقیقی جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ مقالے کے آغاز میں خوشحال اور اقبال کے درج ذیل ابیات دئے گئے ہیں۔ خوشحال:۔ ؎ دا ر (¤ ¤ معنٰی چیری دی خوشحالہ ˆ* را درومی لکہ (‍ بہ بیاض ستا ترجمہ: یہ رنگین معنی کہاں سے ہیں خوشحال؟ جو تیری بیاض سے پھول کی مہک کی طرح اُڑ رہی ہے۔ اقبال:۔ ؎ برگ گل رنگین زمضمون من است مصرعِ من قطرۂ خون من است قوموں کی مجموعی تشکیل میں شاعری کے کردار و اثرات کا جائزہ لیا گیا ہے۔ خوشحال اور اقبال کے محیط ، ان کے سیاسی حالات کے اشتراک اور ان کی فکری تشکیل کے حوالے سے بختانی لکھتے ہیں: ’’خوشحال او اقبال دوا%ہ د مسلمانانو پہ جامعہ œ'* را پا#¤‹لی دی او د ھغو د پا#¢لو او و¤'¢لو سندر* ي ویلی دی۔ دغہ اولسونہ نوی ژوند غوا%ی ˆ* ھغہ یا د اسرافیل پہ “ƒ¤‍+ او یاد خوشحال او اقبال غوند* شاعرانو پہ نغمو او پیغورونو لاس تہ راحٔی۔ خوشحال پہ داسی وخت œ* سر اوچتوی ˆ* قوم ي د مغل د استعمار ترخہ ساعتونہ تیروی او اقبال د ا (ژیز د اقتدار او استعمار پہ عصر œ* ™& پورتہ کوی۔ خوشحال د خپل قوم د نجات دپارہ د شرق د سیاسی ادبیاتو پہ تاریخ œ* د لوں%¤ حٔل دپارہ د ملیت (نیشنلزمل  ™ں* ™&وی او اقبال د شرق د آزاد+ دپارہ د شرقی ملیت روح ژوند* کوی۔ #¦ ر (¦ ˆ* د اقبال او خوشحال د اولسونو ژوند او تاریخ تقریباً د مشابہو شرائط لاند* واقع شوی دی نو د دوا%و پہ نغمو او آ§ (¢نو œ* مشابہ سُر او تال تر غو& ہ œ¤&ی۔ اقبال تقریباً پہ ھم ھغہ محیط œ'* واقع د* ˆ* ھلتہ د خوشحال د ادبی مکتب زور او شور تیر شو* د*۔ نو ارو مرو د شعر یوہ منبع د خوشحال د تفکر نیزہ ()‍¤شو۔(۶۶) ترجمہ: خوشحال اور اقبال دونوں مسلم معاشرے کے پیدا کردہ ہیں۔ دونوں نے اس معاشرے کی بیداری اور حرکت کے نغمے لکھیں ہیں۔ یہ ملت حیات نو چاہتی ہے۔ جو یا تو اسرافیل کی صور سے یا خوشحال و اقبال جیسے شعراء کے نغمات کے طفیل ممکن ہے۔ خوشحال ایک ایسے دور میں سر بلند کرتے ہیں ۔ جب ان کی قوم مغل استعمار کے تلخ وقتوں کو گزار رہی ہوتی ہے اور اقبال انگریزی اقتدار کے استعمارانہ عصر میں صدا بلند کرتے ہیں۔ خوشحال اپنی قوم کی نجات کے لئے پہلی بار مشرقی ادبیات کی سیاسی تاریخ میںملت (نیشنلزم) کے نغمے بلند کرتے ہیں اور اقبال مشرق کی آزادی کے لئے مشرقی ملت کو زندہ روح عطا کرتے ہیں۔ جس طرح خوشحال اور اقبال کے ملتوں کی حیات اور تاریخ ایک جیسی تھی اس طرح دونوں کے نغمات میں مشابہت کی آہنگ سنائی دیتی ہے۔ اقبال تقریباً اسی خطے میں پیدا ہوئے جہاں خوشحال کا ادبی مکتب زور و شور سے گزرا تھا۔ لہٰذا اقبال کے فکر کے ایک گوشے پر خوشحال کے فکر کا اثر ناگزیر ہے۔ بختانیؔ کو اس بات کا اعتراف ہے کہ اقبال پشتو تو نہیں جانتے تھے مگر پشتونوں کی تاریخ و ادب سے پوری طرح باخبر تھے۔ کیونکہ ان کی اردو و فارسی کلام پر’’ پشتونولی ‘‘کے جلوے موجود ہیں۔ ’’بالِ جبریل‘‘ کے حاشیئے کی رو سے خوشحال خان کے بارے میں اقبال کی آگاہی کا پتہ چلتا ہے۔ کہ انہوں نے خوشحال کے تراجم پڑھے تھے۔ اس مقالے کو چودہ ضمنی عنوانات میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ۱۔ شاعر کے نظریات، ۲۔ بلند ہمتی، ۳۔ بلند خیال، ۴۔ گہری فکر، ۵۔ غیرت اور مجاہدہ، ۶۔ آزادی سے عشق، ۷۔ ریاکاری کی مزاحمت، ۸۔ عام شکایت، ۹۔ باز (شاہین)دونوں شعراء کی مشترک علامت، ۱۰۔ خوشحال کا باز، ۱۱۔ اقبال کا شاہین، ۱۲۔ افغان معاشرہ، ۱۳۔ اقبال کے اشعار میں خوشحال کا تذکرہ، ۱۴۔ اقبال کے اشعار میں خوشحال کا فکری اثر۔ ان موضوعات میں ہر موضوع پر مختصر تمہیدی نوٹ کے بعد پہلے خوشحال اور بعد میں اس موضوع سے متعلق اقبال کے ابیات دیئے گئے ہیں۔ شاعر کی آئیڈیالوجی کے ذیلی عنوان کے تحت پہلے خوشحال کے درج ذیل ابیات دیئے گئے ہیں: ؎ رخنہ (ژد ملک پر* مہ &دہ پہ خپل ملک œ'* پہ حکمت پہ زرو زور پہ ‍'œژونہ #¢ پہ تور¢ پہ توبریو پہ نیزو شی سد چندان شی پہ تدبیر پہ ھنرونہ(۶۷) ترجمہ: ملک کا رخنہ گرد اپنے خطے میں مت چھوڑ جو حکمت دولت اور قوت کے لشکروں سے براجمان ہونا چاہتا ہے۔ چند تو تلواروں کلہاڑوں اور نیزوں کا سہارا لیتے ہیں جبکہ سینکڑوں حکمت اور تدبیر کا راستہ لئے ہوئے ہیں۔ ‚* و تیغ لہ آبہ نور* او بہ نشتہ ˆ* ‡ (‡¢ی سر سا%ہ کا !!ژونہ #¢ وانخلی لہ غلیمہ انتقام مرد نہ خوب کا نہ خوا%ہ کا نہ آرام یا نیولی مخ ںœ* تہ یا مغلو سرہ رزم ƒ'„پنہ ˆ* نور #¦ فکر کانا پوھ دی ‚* لہ تور* خلاصی نہ شی پہ بل کار (۶۸) تیغ کی آب کے سوا کوئی آب نہیں جو جنگ کے بعد دھڑ کو ٹھنڈا کرلیتے ہیں۔ جب تک دشمن سے انتقام نہ لے مرد نہ سوتے ہیں نہ کھاتے اور نہ آرام کرتے ہیں۔ (قید کے بعد یہ آرزو ہے) کہ یا تو مکے کا رُخ کروں یا مغلوں کے ساتھ نبرد آزماہوجائو ۔ پشتون اگر کسی اور زاوئے سے سوچتے ہیں تو یہ ان کی کوتاہ اندیشی ہے تلوار کے علاوہ کسی اور شے سے نجات ناممکن ہے۔ ‘‘ بختانی ان ابیات کے بعد حضرت علامہ کے ذیل ابیات کا حوالہ دیتے ہیں۔ ؎ آدمیت زار نالید از فرنگ زندگی ہنگامہ برچید از فرنگ پس چہ باید کرد اے اقوام شرق؟ باز روشن می شود ایامِ شرق در ضمیرش انقلاب آمد پدید شب گذشست و آفتاب آمد پدید نقش نو اندر جہان باید نہاد از کفن دزدان چہ امید گشاد؟ اھل حق را زندگی از قوت است قوت ہر ملت از جمعیت است بلند ہمتی کے تحت خوشحال کے ذیل ابیات دیئے گئے ہیں: طمع بلا دہ اسیر بندہ کا '¦ '¦ ’%ی وی دا ي ( ‹¦ کا ما $یر لیدلی ˆ* طمع نہ لری پہ پادشا§پنو پور* خندہ کا د منت دارو کہ مرم پکار ں* نہ دی کہ علاج لرہ ں* راشی مسیحا ھم بخت د* کہ طالع دہ کہ دا خپلہ فقیری دہ خدایٔ ں* “%ی تورہ برابرہ د اطلس œ%ہ (۷۰) ترجمہ: طمع لالچ بری بلا ہے جو آزاد بندے کو غلام بناتا ہے۔ اسی نے اچھی ہستیوں کو برا بنایا ہے۔ میں نے کئی دیکھے ہیں جو لالچ سے بے نیاز ہیں اور بادشاہوں پہ ہنستے ہیں۔ مجھے منت کی دوا نہ چاہئے اگرچہ مر جائوں خواہ میرے علاج کے لئے مسیحا کیوں نہ آئے۔بخت ہے یا قسمت یا کہ میری فقیری کہ پروردگار نے میری سیاہ چادر میرے لئے اطلس بنایا ہے۔ علامہ اقبال کے درج ذیل ابیات موضوع کی مناسبت سے دیئے گئے ہیں: ؎ من فقیرم بی نیازم مشربم این است و بس مو میاي خواستن نتوان شکستن میتوان نازشہاں نمی کشم، زخم کرم نمی خورم در نگرای ہوس فریب ہمت این گدائی را نہ شیخ شہر نہ شاعر نہ خرقہ پوش اقبال فقیر راہ نشین است و دل غنی دارد خوشحال: ؎ ھغہ زر ترœپ  %¤لو!* لا بتر دی ˆ* ي وں $ی پہ زمکہ نہ خر #¤&ی ˆ* اوبہ پہ حٔاي ایسار* شی خو سا شی صفائی ي ھم پہ دادہ چہ ‚§¤&ی (۷۲) ترجمہ: وہ سونا پتھر ڈھیلے سے بدتر ہیں جو زمین میں دبا کے رکھ دیا جاتا ہے پھربِکتا نہیں۔پانی جب ساکن رہتا ہے تو بدبودار بن جاتا ہے اس کی صفائی اس کی حرکت کی مرہونِ منت ہے۔ اقبال:۔ ؎ اگر کردی نگہ بر پارئہ سنگ زفیض آرزوی تو گہر شد بہ زر خود رامسنج ای بندۂ زر کہ زر از گوشۂ چشم تو زر شد (۷۳) خوشحال:۔ ؎ د درویش برخہ خوشی غم د ھغو وی ˆ* پہ شمار د زرو ناست و¤ چون و چند کا ترجمہ: درویش کا حصہ فقط ان لوگوں کی غمخواری ہے جو دولت کے شمار میں چون و چند سے دوچار ہوتے ہیں۔ اقبال:۔ ؎ مرد درویش کا سرمایہ ہے آزادی و مرگ! ہے کسی اور کی خاطر یہ نصاب زر و سیم! خوشحال:۔ ؎ د سلیمان غوند* ي پاس پہ ز%(¤ œ¤&دہ نہ قارون غوند* ي &دہ د ز%ہ دننہ ترجمہ: سلیمان کی طرح مال و دولت دل کے اوپر رکھ ، قارون کی مانند اس کو دل میں نہ چھپا۔ اقبال:۔ ؎ ضمیرِ پاک و نگاہِ بلند و مستیٔ شوق نہ مال و دولتِ قارون، نہ فکر افلاطون! بلند خیالی کے تحت خوشحال اور اقبال کے ذیل اشعار مقالے میں دیئے گئے ہیں۔ خوشحال:۔ ؎ کہ لو* وتہ ں* (¢ری ماہ و خوژ زما پرچم دی آسمانونہ ں* ٹ¤ں* دی پر* د ستورو زینت تم دی لاں* لو% باغونہ نور دی ککی  باغ  ں*  د ارم د¤ (۷۴) ترجمہ: اگر میرے بلندی کو دیکھنا ہے تو ماہ و خور میرے پڑوس میں ہیں۔ آسمان میرا خیمہ ہے جس پر ستارے چمک رہے ہیں۔ بلند تر میرے باغ اور بھی ہیں باغِ ارم میرا ایک چھوٹا سا گلشن ہے۔ اقبال:۔ ؎ بلند بال چنانم کہ بر سپہر برین ہزار بار مرا نوریاں کمین کردند ؎ پرے ہے چرخِ نیلی فام سے منزل مسلمان کی ستارے جس کی گردِ راہ ہوں، وہ کاروان تو ہے مقالے میں پہلے ذکر شدہ چودہ عنوانات کے تحت ان دونوں عظیم شعرا کے افکار میں مماثلت کا جائزہ پیش کیا گیاہے۔ مقالہ نمبر ۱۱: فلسفۂ اقبال از پروفیسر ڈاکٹر غلام حسن مجددیؔ پروفیسر ڈاکٹر غلام حسن مجددی (سربراہ شعبۂ ادبیات کابل یونیورسٹی) کا یہ مقالہ دراصل حضرت علامہ کی ستائیسویں یومِ وفات کی مناسبت سے کابل میں پاکستانی سفارتخانے میں منعقدہ تقریب میں سنایا گیا تھا۔ اس تقریب کی صدارت مشہور افغان اقبال شناس جناب خلیل اللہ خلیلی نے کی تھی۔ یہ مقالہ دو ماہی ’’ادب‘‘کابل میں شائع ہوا تھا۔ بعد میں اقبال ریویو کے اپریل ۱۹۶۷ء کے شمارے میں شائع ہوا۔ مقالے کا پہلا پیراگراف علامہ کے تاریخ وفات اور حاضرین کے تشکر انہ کلمات بجالانے کے بعد دوسرا پیرا گراف ذیل ہے: علامہ اقبال یک فیلسوف مسلمان یک متفکر متدین و خدا شناس، یک ادیب عارف و یک شاعر بشر دوست و محب آزادی است۔ اقبال بہ حضرت پیغمبر اسلام سید الانام عقیدت و اخلاص کاملی دارد و بہ علویت و حقانیت دین مبین اسلام از صمیم قلب گرویدہ است وی بنای فلسفۂ خویش رابر اصول و سیاسیات متن اسلامی استناد دادہ و انسان رابر تزکیۂ نفس ، تصفیۂ ضمیر، تربیۂ خودی وتنصیف شخصیت ارشاد میکند۔ (۷۵) ترجمہ: اقبال ایک مسلمان فلسفی ایک پہنچے ہوئے خدا شناس مفکر ایک عارف ادیب اور ایک بشر دوست شاعر اور آزادی کے متوالے تھے۔ اقبال پیغمبر اسلام ﷺ سے انتہائی عقیدت و اخلاص رکھتے تھے۔ وہ دل کی گہرائیوں سے اسلام کی بالا دستی اور اس دین مبین کے حقانیت کے ماننے والے تھے۔ اسی لئے انہوں نے اپنے فلسفے کی بنیاد اسلامی اصول اور اساسات پر رکھی۔ اور انسان کو تزکیۂ نفس ، تصفیہ ضمیر پرورشِ خودی اور شخصیت کے نکھار کا درس دیا۔ جناب مجددی نے اپنے اس دعوے کے اثبات میں کہ علامہ نے اپنے فلسفے کی بنیاد اسلامی اصولوں پر رکھی تھی مزید دلائل دیئے ہیں۔ علامہ کے کلام میں اسلامی فلسفیانہ نظریات مشرق و مغرب کے حکما سے اکتساب فیض کے بارے میں بحث کی ہے۔ علامہ اقبال نہ تنہا بر اسرار و رموز متصوفین اسلام و سلوک ایشان بد رستی واقف است بلکہ راجع بہ جریانات فکری و فلسفۂ مشرق و مغرب درکتاب ’’پیام مشرق‘‘ خود در قسمت ’’نقش فرنگ‘‘ تبصرہ ھا نمودہ و افکار عارفانۂ خویش رانیز در برابرآنہا ابرار میدارد۔(۷۶) ترجمہ: علامہ اقبال‘‘ نہ صرف اسلامی متصوفین کے افکار اور تصوف کے اسرار و رموز سے واقفیت رکھتے تھے بلکہ مشرق و مغرب کے جاری فکری رجحانات پر بھی گہری نگاہ رکھتے تھے ۔ اسی وجہ سے انہوں نے مشرق و مغرب کے حکماء اور فلاسفہ کے عقائد و نظریات پر’’ پیامِ مشرق‘‘ کے حصہ’’ نقشِ فرنگ‘‘ میں اظہارِ خیال کیا۔ اور اس کے ضمن میں اپنے عارفانہ افکار کو بھی بقائے دوام بخشا۔ مقالے میں جا بجا علامہ کے اشعار کے حوالے دئے گئے ہیں۔ مثلاً فلسفۂ عشق کے حوالے سے ذیل اشعار نے جناب مجددی کے مقالے میں حوالے پائے ہیں۔ دربود و نبود من اندیشہ گمانہا داشت از عشق ہویداشد این نکتہ کہ ہستم من(۷۸) الحق عشق کالون فلسفۂ علامہ اقبال راتشکیل میدھد۔ ز شعر دلکش اقبال میتوان دریافت کہ درس فلسفۂ میداد و عاشقی و رزید و درھمۂ افکار و اشعارش جذبۂ عشق و عاطفۂ سو زو گداز محسوس است و در’’پیامِ مشرق ‘‘تحت عنوان ’’عشق ‘‘گوید: ؎ عقلی کہ جہاں سوزدیک جلوۂ بیباکش از عشق بیاموزد آئین جہان تابی عشق است کہ در جانت ہر کیفیت انگیزد از تاب و تب رومی تا حیرت فارابی ہر معنی پیچیدہ در حرف نمی گنجد یک لحظہ بدل درشو شاید کہ تو دریابی در ھمین مضمون در ’’جاوید نامہ‘‘ گوید: ؎ زندگی را شرع و آئین است عشق اصل تہذیب است دین، دین است عشق ظاہر او سوز ناک و آتشین باطن او نور رب العالمین از تب و تاب درونش علم و فن از جنون ذو فنونش علم و فن دین نگردد پختہ بی آداب عشق دین بگیر از صحبت ارباب عشق در جاں دیگری در’’ پیامِ مشرق ‘‘فرماید: ؎ بچشم عشق نگر تا سراغ او گیری جہان بچشم خرد سیمیا و نیرنگ است ز عشق در س عمل گیرو ہر چہ خواہی کن کہ عشق جوہر ہوش است و جان فرہنگ است مقالے میں عشق کے بعد علامہ کے فلسفۂ خودی کا جائزہ لیا گیا ہے۔ بعقیدۂ اقبال خودی نام مجموعۂ قوائی نہفتہ است کہ در ہر فردی از افراد کائنات (چہ ذی روح باشد و چہ غیرذی روح) وجود دارد بقا و استحکام پیکر ہستی نیز مربوط بہ ظہور و انکشاف آثار خودی است طوریکہ گوید: ؎ پیکر ھستی ز آثار خودی است ھرچہ می بینی ز اسرار خودی است وی معتقد است کہ انساں باید خویشتن را و ا نماید و نیروی خفتہ و نہفتہ خود رابیداروآشکار سازد۔ ؎ وانمود خویش را خوی خودی است خفتہ درھر ذرہ نیروی خودی است و در ’’ارمغانِ حجاز‘‘ خود چنین افادہ میکند: ؎ خودی را از وجود حق و جودے خودی را از نمود حق نمودے نمی دانم کہ این تابندہ گوہر کجا بودی اگر دریانبودے و نیز داستان عشق و محبت را درضمن’’ اسرار خودی‘‘ چنین اظہار میدارد: ؎ نقطۂ نوری کہ نام او خودی است زیرخاک ماشرارِ زندگی است از محبت میشود پایندہ تر زندہ تر سوزندہ تر تابندہ تر فطرت او آتش اندوزد زعشق عالم افروزی بیا موزد ز عشق علامہ اقبال برای بقا و قوم خودی د اشتن آرزو و تقویہ آنرا لازم میداند و یاس را نکوھش میکند چنانچہ گوید: ؎ آرزو ہنگامہ آرائی خودی موج بیتابی ز دریابی خودی آرزو صید مقاصد را کمند دفتر افعال را شیرازہ بند آرزو را دردل خود زندہ دار تانگردد مشت خاک تو مزار آرزو جان جہان رنگ و بو است فطرت ہرشی امین آرزو است مجددی نے اس کے بعد خودی کی تربیت اور تعامل کے لئے علامہ کے وضع کردہ درج ذیل تین اصولوں کا ذکر علامہ کے اشعار کے ساتھ کیا ہے۔ مرحلہ اول اطاعت، مرحلہ دوم ضبطِ نفس اور مرحلہ سوم نیابت الٰہی۔ مقالے میں سعی جہدِ مسلسل اور علم و عمل کے حوالے سے مباحث کئے گئے ہیں۔ علامہ کے سفر افغانستان کے دوران غزنی کے حوالے سے علامہ کے اشعار دیئے گئے ہیں۔ علامہ کے تقریباً تمام فارسی مجموعوں سے استفادہ کیا گیا ہے۔ اور جا بجا ان مجموعوں کا مختصر تعارف بھی شامل مقالہ ہے۔ مقالے کے آخر میں علامہ کے افغانی مشاہیر سے عقیدت اور تعلق کا ذکر کیا گیا ہے۔ اعلیٰحضرت محمد نادر شاہ غازی کے ساتھ علامہ کے مراسم اور ان کے حضور علامہ کے منظوم کلام کا نمونہ دیا گیا ہے۔ محمد ظاہر شاہ کے نام علامہ کا منظوم کلام بھی دیا گیا ہے۔ اختتام درج ذیل کلمات پر کیا گیا ہے۔ دربارۂ مرحوم علامہ اقبال ممکن بود مطالب زیادی عرض کرد و درشرح ھربیتی از آثار او صفحاتی نوشت۔ آنچہ ما بیان کردیم جست جستہ و بالا ختصار بود و برائی علاقمندان ھمیشہ میسر است کہ از مطالعۂ آثار این ادیب ارجمند استفادہ ھای فراوانی بنماید و از خطوط بدیعی ، تصوفی، عرفانی وفلسفی آہنا بقدر کافی متمتع شوند۔ (۷۹) مقالہ نمبر۱۲: د علامہ اقبال پہ باب (علامہ اقبال کے بارے میں) از پروفیسر عبدالشکور رشادؔ پروفیسر عبدالشکور رشادؔ کا شمار افغانستان میں پشتوکے نامور مورخین ، محققین اساتذہ اور شعراء میں ہوتا ہے۔ آپ نے یہ مقالہ ۲ ثور ۱۳۴۶ ھ ش کو کابل کے پاکستانی سفارتخانے میں منعقدہ یومِ اقبال کی تقریب میں پڑھاجو بعد میں کابل یونیورسٹی کے شعبۂ ادبیات کے دو ماہی رسالے ’’وژمہ‘‘ میں ۱۹۶۷ء کو شائع ہوا۔ مقالے کا آغاز ’’بانگِ درا‘‘ کے اس شعر سے کیا گیا ہے: ؎ گلشنِ در میں اگر جوئے مئے سخن نہ ہو پھول نہ ہو ،کلی نہ ہو ،سبزہ نہ ہو ،چمن نہ ہو ساتھ ہی چونکہ رشادؔ صاحب بنیادی طور پر مورخ ہیں سیالکوٹ کے تاریخی پس منظر کا جائزہ یوں لیتے ہیں: تقریباً اتہ سوہ کالہ پخوا کلہ ˆ* د غرج و غور او زابل و کابل ں¤%نی د لاہور لہ سوبی #ٹ¦ پہ ‡(¢غا%و درني ƒ'„¢نخوا تہ راستیندل د افغانی توریالیو نامتو مشر غازی شہاب الدین محمد بن سام (۶۰۲ ھ ق ں%) د پنجاب د'پیستی او سمسوری ’¤ں* پہ شمال (¢! œ* د چناب سیند جنوبی غا%* تہ نژد* ‹’’رچنا‘‘ پہ دوآبہ œ* د ’’سیال کو!‘‘ پہ نامہ د یو* فوجی کلا „¤&ہ œ'¤'¢دلہ او د ھغہ وخت د عادت سرہ سم ی د „¤&* د ا¤'¢دلو پہ وخت œ'* پہ یوہ خالصانہ عجز و نیاز د سیالکو! لہ پارہ د سیالو زامنو دعا وœ%ہ او د ھغو لہ پارہ ي ساھو ژوند لہ خدایہ وغو'„۔ #¢ ور"* پس د غور شاہنشہی ‍'œژی لہ غازی سلطان شہاب الدین سرہ د ƒ'„¢نخوا لوری نہ راتیر* شو* د سیالکو! ودانی د مخزن افغانی پہ قول دیوہ سیال ƒ'„پنہ جرنیل ملک ساھو لودی تہ وسپارلہ شوہ د سیالانوکو! د ساھو ں¤%نی پہ پام لرنہ ودان شو او پہ د* تو(¦ د افغانانو د سیالکو! تاریخی رابطہ منحٔ تہ راغلہ۔(۸۰) ترجمہ: تقریباً آٹھ سو سال پہلے جب غرج غور زابل اور کابل کے غیور لاہور کی فتح کے بعد فاتحانہ انداز میں پشتونخوا واپس لوٹ رہے تھے نامور افغان فاتح غازی شہاب الدین محمد بن سام متوفی ۶۰۲ھ ق نے پنجاب کے خوبصورت زرخیز خطے کے شمالی طرف دریائے چناب کے جنوبی کنارے ’’رچنا‘‘ کے دوآبہ میں سیال کوٹ نامی ایک فوجی قلعے کی بنیاد رکھی۔ اور اس وقت کے عادت کے مطابق سنگ بنیادرکھتے ہوئے سیالکوٹ کے لئے بہترین فرزندوں کی عاجزانہ اور نیاز مندانہ دعا کی تھی اس شہر کے باسیوں کے لئے پرسکوں زندگی کی دعا بھی کی۔ چند دنوں کے بعد غور کا شہنشاہی لشکر غازی شہاب الدین کے ساتھ پشتونخوا کی طرف واپس آیا سیالکوٹ کا قلعہ بقول مخزنِ افغانی ایک معزز پشتون جرنیل ملک ساھو لودی کے حوالے کیا گیا ۔ (سیال پشتو لفظ ہے معنی معزز گویاؔ سیالکوٹ کا مطلب ہے معززین کا شہر) معززین کا یہ شہر معزز ساھو کے توجہ سے آباد ہوا اور اس طرح افغانوں کا سیالکوٹ کے ساتھ تاریخی رابطہ وجود میں آیا۔ عبدالشکور نے سیالکوٹ کی افتتاح کے وقت کی گئی دعا کے ایجاب کو یوں اشارہ کیا ہے کہ سیالکوٹ کے حصے میں کئی نامور فرزند آئے۔ د سیالکو! لوں%ی نابغہ زوی پیاو%ی سیال عالم اعلم العلماء عبدالحکیم (۱۰۶۷ھ ق مڑ) ¢و ˆ* د تذکرۂ علمائے ہند پہ وینا د ختیحٔ نامتو عارف مجدد الف ثانی شیح احمد کابلی السرہندی(۹۷۱ھ - ۱۰۳۴ھ ق) بہ د پنجاب لمربالہ او ہمعصر ƒ'„¢ن نومیالی او حق ویونکی شاعر خوشحال خان ٹ!œ (۱۰۲۲ - ۱۱۰۰ ھ ق) بہ ( ˆ* د دستار نامی پہ شاھدی ي لہ علامہ سرہ ثقافتی ا%یکی درلودی) ددنیا او دین حکیم مانہ۔ ددغہ سیالکو! بل د فخرو% ز¢ی د اردو او پا%سی ژبو منلی شاعر او د شرق صوفی مفکر علامہ محمد اقبال (۱۲۹۰ - ۱۳۵۷ھ ق) دی ˆ* نن ي دلتہ مو & پہ یاد سرہ راغو $ ¤¢ او ددہ د ادبی او فلسفی ارز'„ پہ ‹رناوی سرہ ھغہ خپل زو% تاریخی او ثقافتی ا%یکی بیا تازہ کوو۔ (۸۱) ترجمہ: سیالکوٹ کا پہلا نابغہ فرزند عالم اعلم العلماء عبدالحکیم (متوفی۱۰۶۷ھ ق)تھا جسے تذکرہ ’’علمائے ہند‘‘ کے مطابق مشرق کے مشہور عارف مجدد الف ثانی شیخ احمد کابلی سرھندیؒ (۹۷۱ - ۱۰۳۴ھ ق)آفتابِ پنجاب کہتے تھے اور ان کے معاصر مشہور حق گو پشتون شاعر خوشحال خان خٹک (۱۰۲۲ - ۱۱۰۰ ھ ق) انہیں دنیا و دین کا حکیم مانتے تھے۔ اسی سیالکوٹ کے ایک اور قابلِ فکر فرزند اردو اور فارسی کے مانے ہوئے شاعر صوفی مشرق مفکر علامہ محمد اقبال (۱۲۹۰ - ۱۳۵۷ھ ق) تھے جن کی یاد منانے کے لئے ہم یہاں آج اکٹھے ہوئے ہیں۔ ان کے ادبی اور ثقافتی اعتراف کے ساتھ ہم اپنے پرانے تاریخی اور ثقافتی رابطوں کا یاد تازہ کرر ہے ہیں۔ رشادؔصاحب نے علامہ کے عالمگیر آفاقی شخصیت کے اعتراف کے حوالے سے ان کے چند ہمعصر مشاہیر کی آراء دیئے ہیں۔ جن میں پہلا منظوم اعتراف جالندھر کے ایک ککے زئی پشتون شاعر ملک الشعراء غلام قادر گرامی (متوفی ۱۳۴۵ھ ق) کا ہے۔ ؎ در دیدۂ معنی نگھان حضرت اقبال پیغمبری کہ دو پیمبر نتوان گفت اس کے بعد اقبال اور گرامی کے بارے میں مرحوم استاد سعید نفیسی( متوفی۱۳۸۶ھ ق)کا یہ تبصرہ ہے۔ ترجمہ: ’’اقبال اور گرامی کو فارسی شاعری میں وہ مقام حاصل ہے جن کو ہم اہلِ زبان قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ‘‘ اور ساتھ ہی ڈاکٹر یوسف حسین خان کی یہ رائے بھی نقل کی ہے کہ: ترجمہ: ’’اقبال ہی تھا جنہوں نے مشہور جرمن مفکر شاعر گویٹے (۱۱۶۳-۱۲۴۸ ھ ق) کی مانند اپنی شاعر ی کو ریالیزم ، ایڈیالزم ، رومانتیزم اور کلاسیزم کے رنگین امتزاج سے آشنا کیا۔ ‘‘ (ز۸) رشادؔ صاحب لکھتے ہیں کہ ان تمام افراد کا اقبال کا اعتراف کرنا ضرور کسی خاص وجہ سے ہے اور یہ حصہ اقبال کی وہ لافانی شاعری ہے جو انھوں نے ایک متعین فکری نصب العین اور اہم نظریاتی بنیا دپر کی تھی۔ علامہ نے ادب کو زندگی کے رمز سے آشنا کیا۔ شاعری کو مشہور مشرقی اندازِ فکر سے مبرا کرکے زندگی اور کائنات کے اسرار و رموز کے انکشاف کا ذریعہ بنایا۔ اسی لئے تو انھوں نے کہا تھا: مری نوا ئے پریشاں کو شاعری نہ سمجھ کہ میں ہوں محرمِ رازِ درونِ میخانہ! دد™* راز دانی او لطیف احساس برکت د* ˆ* د علامہ بالغ نظرد قام پہ غم œ* شاعر تہ د بینا ستر(* پہ ستر(¦ (¢ری او ر'„¤پنی شاعران د قام پہ ھر درددردمن اود اولس ƒ¦ ہرہ ژ%ا ژ%اندہ ()¤ ۔ ددہ دا نادرہ تشبیہ پہ د* بیتونو œ* پو(¢ر+۔ (۸۳) ترجمہ: اسی رازدانی اور لطیف احساس کی برکت ہے کہ علامہ کی بالغ نظر قوم کے غم میں شریک شاعر کو چشم بینا کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ اور سچے شاعر ہر دردمند کے درد میں شریک اور ہر گریہ گر کے ساتھ محو گریہ ہوتے ہیں۔ ملاحظہ ہو علامہ کی یہ نادر تشبیہ: ؎ محفل نظم حکومت، چہرۂ زیبائے قوم شاعرِ رنگین نواہے دیدۂ بینائے قوم مبتلائے درد کوئی عضو ہو، روتی ہے آنکھ کس قدر ہمدرد سارے جسم کی ہوتی ہے آنکھ علامہ کے مختلف فکری گوشوں پر بحث کے بعد اختتام ذیل شعر پہ کیا ہے: ؎ ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا مقالہ نمبر۱۳: د ختیحٔ ستر شاعر (مشرق کا عظیم شاعر) از سوبمن حضرت علامہ کی صد سالہ جشنِ ولادت کی تقریبات کے سلسلے میں پاکستان کی طرح افغانستان میں بھی خاص تقاریب کا اہتمام کیا گیا تھا۔ یہ مقالہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے جو مجلہ کابل کے مدیر جناب سوبمن صاحب نے اداریے کے طورپر پشتو زبان میںلکھا تھا۔ اور مجلہ کابل کے دسمبر جنوری ۸- ۱۹۷۷ء کے شمارے میں شائع ہوا۔ مقالے کاآغاز درج ذیل ابیات سے کیا گیا ہے: ؎ مذہب زندہ دلان خواب پریشان نیست از ہمین خاک جہان دیگر ساختن است آسیا یک پیکر آب و گل است ملت افغان در آن پیکر دل است مقالے کی ابتداء آزادی و حریت کے حوالے سے حضرت علامہ کے مساعی کو خراج تحسین پیش کرنے سے کیا گیا ہے۔ استعمار اور استثمار کے خلاف علامہ کے جدو جہد کو سراہا گیا ہے! علامہ محمد اقبال( ۱۸۷۳ - ۱۹۳۸ئ) د ٹ„¤"*  %+ ھغہ لو* مفکر او ستر شاعر د* ˆ* پہ خپلہ پوھہ او د خپلواœ+ پہ مستہ مینہ ي د استعمار او استشمار د جر%ود ویستلو دپارہ عملاً د ہند پہ نیمہ وچہœ* د نورو آزاد+ غو'„¢نکو سرہ د استقلال بیرغ اوچت œ%۔ د ختیحٔ د* بشر دوست او پہ خپلہ خاورہ مئین شخصیت د خپل ھدف دپورہ کیدو دپارہ دا’* ادبی او فلسفی افکار اقبال خپل اولس تہ و%اند* œ%ل ˆ* د ھغو پہ لیدلو سرہ ولس را‚*‹ار شو او نن ي پہ علمی شخصیت علمی غو $* œ¤&¤۔ اقبال پہ خپل وخت او زمانہ œ'* د استعمار او استشمار پرضد خپلہ مبارزہ جاری و ساتلہ۔ دہ پہ د* لار œ'* د مر( ترور¢’„+ ’‍(+ پور* خپلی §#¤ او کو'' تہ دوام ورœ%۔ د استعمار او استثمار د منحٔہ و%لو پہ خلاف ي $یر سخت شعرونہ ووئیل او د بشر د خدمت دپارہ ي حٔا (%ی ارز' پکی مرغلر* پہ ادبی 'œ‍¤ امیل œ'* وƒ¤‍*۔ (۸۵) ترجمہ: علامہ محمد اقبال(۱۸۷۳ - ۱۹۳۸ئ)دنیائے مشرق کے وہ عظیم مفکر اور بلند پایہ شاعر ہیں جنہوں نے مجموعی طورپراپنی تدبر سے برصغیر کے دیگر حریت پسندوں کے ساتھ مل کر پرچم استقلال بلندرکھا۔ مشرق کے اس بشر دوست اور اپنی دھرتی سے محبت کرنے والی شخصیت نے اپنی ارادوں کی تکمیل کے لئے اپنی ملت کو ایسے ادبی اور فلسفیانہ افکار پیش کئے جن کے دیکھنے سے ان کی ملت ایسی بیدار ہوئی کہ آج ان کی علمی شخصیت پر سیمنار منعقد ہو رہے ہیں۔ اقبال نے اپنے زمانے میں استعمار اور استحصال کے خلاف اپنی جدو جہد کو جاری رکھا اور استحصالی قوتوں کو ختم کرنے کے لئے اور عالمِ بشریت کی خدمت کے لئے نہایت قیمتی موتی ادبی ہار کے ساتھ مہارت سے پرو دیئے ۔ جناب سوبمن نے علامہ کے افکار پر افغان مشاہیر مفکرین کے افکار کے اثرات کا تذکرہ کیا ہے۔ افغانستان کے ساتھ علامہ کے فکری اور قلبی تعلق کا ذکر کیا ہے۔ افغانوں کے ساتھ علامہ کے دلچسپیوں کا جائزہ لیا ہے۔ ددہ پہ دغو ادبی شاہکارونو د (ژان ھیواد افغانستان د وتلیو او نومیالیو پوھانو د فکرونو حٔلاند* پلو“* لویدلی او پورہ تر* اغیزمن شوی دی ۔ لہ !¢لو نہ زیات د سنائی غزنوی مولانا جلال الدین بلخی د ƒ'„¢ ادب لو* اتل او د تور* د میدان ں¤%نی خوشحال خان ٹ!œ او نورالدین بن عبدالرحمن جامی ادبی، علمی ي روحانی او فکری آثارونہ ي پورہ (!¦ او علمی پا (¦ اخیستی دہ او ددہ پہ !¢لو آثارو œ* دا !œ¤ جوت او رو) حٔا* لری۔ د ٹ„¤"*  %+ د* حٔلاند ستوری د (ژان ھیواد افغانستان سرہ خاصہ اوحٔا (%ی مینہ درلودلہ ۔ ددہ دا مینہ د ھغہ لہ د* بیت نہ ˆ* د افغان ملت سرہ ي پہ وینہ او مغزوœ*اٹ'‍* شوی وہ '¦ #ژ( ‹یدلی شی۔ (۸۶) ترجمہ: آپ کے ان ادبی شاہکاروں پر افغانستان کے مشاہیر مفکرین کے منور آثرات مرتب ہوئے ہیں۔ اور کافی حد تک ان کے افکار سے مستفید ہوئے ہیں۔ سب سے زیادہ سنائی غزنوی، مولانا جلا ل الدین بلخی، پشتو ادب کے صاحبِ سیف و قلم خوشحال خان خٹک اور نورالدین بن عبدالرحمن جامی کے ادبی ، علمی ، روحانی اور فکری آثار سے علمی استفادہ کیا ہے۔ یہ اثرات ان کے تمام آثار پر چھائے ہوئے ہیں۔ مشرق کے اس تابندہ ستارے کا افغانستان کے ساتھ عشق و محبت مثالی تھی۔ افغان ملت کے ساتھ ان کی محبت اس بیت سے آشکارا ہیں۔ ؎ آسیا یک پیکر آب و گل است ملت افغان در آن پیکر دل است سوبمن نے اس مقالے میں ان علل و اسباب کا بھی جائزہ لیا ہے جن کی بنیاد پر علامہ افغانوں سے عشق رکھتے تھے۔ د اقبال مینہ د افغانانو سرہ لہ د* املہ وہ ˆ* ھغہ تہ دا 'œپرہ وہ ˆ* دا توریالی ملت §¤#œ‍¦ د چا ظلم او تیر* پر حٔان نہ منی او نہ د تاریخ پہ او&دو œ'* د پردیو تر سلطی او استعمار لاند* راغلی دی۔ کلہ کہ پردیو پر دو¤ تجاوزœ%¤ نو دھغوی د مقا‚‍* دپارہ دوی د ‡ ( $(ژ تہ وروتلی او پہ $یرہ ں¤%انہ ي پہ سرو وینو او د سر پہ قربا + او تش لاس دا’* ملا ماتی سختہ ماتی ورœ%* دہ ˆ* بیا ي د آسیا د پیکر د* ز%ہ ور ز%ہ تہ د شرمہ پورہ نہ دی کتلی او !¤! سرونہ پہ خپلہ مخہ تللی۔ دافغانانو تور* ں¤%ا * او د خپلواœ+ سرہ د* ں¤ * او سا„ * ںڑœژ* د اقبال پہ ز%ہ œ* دد* غیور ملت پہ باب خاصہ علاقہ پیاو%ی œ%ی دہ او دا علت وو ˆ* د* لو* شاعر د §ژ وخت لہ پارہ افغانان او ددوی تاریخی لرغونی خاورہ پہ خپلو شعرونو او نورو آثارو œ'* پہ در '„ سرہ یاد œ%* ۔ او ستائیلی دی۔ زمو & دد* !œ¤ د ثبات دپارہ د علامہ اقبال د مسافر کوچنوٹی اثر پورہ مرستہ کولائی شی ۔ دہ پہ دی وا%ہ اثر œ'* د افغان ملت پادشا§پن توریالی قھرمانان او دآسیا دد* ’¤ں* د ز%ہ ور اولس پہ تیرہ د ƒ'„¢ن !‚ژ ھر ا%خیز ہ کر¤œ!ژونہ پہ $یرہ مینہ یاد œ%ی دی او د ٹƒ‍* زیا„* ں¤ *لہ ںٹ* د (ژان ھیواد لیدلوتہ راغلی دی۔ د علامہ اقبال د لو% شخصیت یادونہ یواز* پہ #¢!œ¢œ* نہ ترسرہ œ¤&ی۔ دا حٔکہ د* ھغہ بشر دوست انسان وو ˆ* د بشری !¢‍ * تر منحٔ ي مینہ ، وروریي عدالت او یووالی غو'„۔ دہ ٹƒ‍* انسانی اند¤' ¤ پہ $یرہ مینہ او ویا% سرہ ترتیب او ں —ں* œ%* او پہ خوراخو'¤ سرہ ي دا  ¤œ* §¤‍* د بشر د سعادت او ھوساینی دپارہ پہ یاد(پر پر*'¢دلی دی ۔ دد* !œ¤ پہ یادولو سرہ مو & پہ $ا(¦ وایو ˆ* د* پہ خپل وخت œ'* د ہند د نیمی وچی دآزاد+ دلار* ھغہ ستر قدرت وو ˆ* د اولس د بیدار+ پہ لار œ'* چا نہ ھیریدونکی، او نہ ’„%ی کیدونکی §#* تر سرہœ%ی دی۔ پہ پا* œ'* مو & د علامہ اقبال د لو% علمی فلسفی او ادبی مقام یادونہ ددہ پہ د* بیت سرہ ختموو او د ھغہ روح تل 'پد غوا%و۔ ؎ قبای زندگانی چاک تاکی چوموران زیستن در خاک تاکی (۸۷) ترجمہ: اقبال کا افغانوں کے ساتھ عشق کا سبب یہ تھا کہ ان کو پتہ تھا کہ یہ غیور ملت کبھی کسی کے ظلم کو برداشت نہیں کرتی اور نہ ایسی قوم کبھی تاریخ میں کسی کی غلام رہی ہے جب کبھی کسی نے ان پر ظلم کرنے کی کوشش کی ہے ان سے نبرد آزمائی کے لئے افغان میدانِ جنگ میں اترے ہیں۔ نہایت بہادری کے ساتھ سروں کی قربانی دے کر دشمن کا مقابلہ کیا۔ بے سرو سامانی اور وسائل سے محرومی کے باوجود دشمنوں کو عبرتناک شکست سے دوچار کیا ہے۔ دشمن نے پھر کبھی بھی آسیا کے اس دلاور دل کو شرم کے مارے نہیں دیکھا اور جھکے ہوئے سروں کے ساتھ واپس چلے گئے ہیں۔ غیرت بہادری اور آزادی کے اسی محبت نے اقبال کے دل میں اس بہادر ملت کے ساتھ عشق پیدا کیا۔ یہی سبب ہے کہ اس عظیم شاعر نے افغانوں کی تاریخی ، ثقافتی اور بہادر سرزمین کو اپنے اشعار اور دیگرآثار میں جا بجا یاد کیا ہے۔ ہمارے اس دعوے کا ثبوت علامہ کا مختصر شعری اثر ’’مسافر‘‘ ہے۔ اس اثر میں علامہ نے افغان ملت کے بادشاہوں ، بہادروں اور آسیا کے اس خطے کے بہادر پشتون قوم کے ہمہ جہت کردار کو نہایت احترام کے ساتھ یاد کیا ہے۔ اپنی انتہائی محبت کے ساتھ انہوں نے افغانستان کا سفر کیا۔ علامہ کے عظیم شخصیت کا تذکرہ ان چند الفاظ میں نہیں کہا جاسکتا اس لئے کہ اقبال وہ بشر دوست انسان تھے جنہوں نے انسانی معاشرے کے درمیان اخوت، بھائی چارے، عدالت اور وحدت کو چاہا۔ انہو ں نے ان انسانی خدمات کو نہایت صمیمیت کے ساتھ ترتیب دیا ہے ان نیک خواہشات کو عالمِ انسانیت کی سعادت اور آرام کے خاطر یادگار چھوڑا ہے۔ اس نکتے کی یاد آوری کے ساتھ کہ انہوں نے ہندوستان کی آزادی کے خاطر گرانقدر خدمات انجام دیئے تھے۔ ہم علامہ اقبال کے بلند علمی، فلسفی اور ادبی مقام کے اعتراف کے ساتھ یہ تحریر ان کے اسی بیت پر ختم کردیتے ہیں ان کا روح شاد ہو۔ ؎ قبای زندگانی چاک تاکی چوموران زیستن در خاک تاکی‘‘(۹۰) مقالہ نمبر۱۴: اقبال و افغانستان از دکتور حق شناس جناب ڈاکٹر حق شناس کایہ مقالہ نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ اسلئے کہ یہ مقالہ آپ نے اس وقت لکھا جب افغانستان میں خونی انقلاب کے بعد روسی فوجیں براجمان تھیں ایک طرف سے کریملین کے سپاہی سمرقند و بخارا کی طرح غزنین و قندہار کو بھی کمیونزم کے حامی بنانے کے لئے اس سرزمین پر دندنا رہے تھے تو دوسری طرف بے سرومان ملت کے غیور فرزندان نعرۂ لا الہ سے سرشار کوہ و دمن میں جہاد فی سبیل اللہ میں مصروفِ عمل تھے چنانچہ علامہ پر یہ مقالہ قوس ۱۳۶۰ھ ش بمطابق ۱۹۸۱ء میں شائع ہوا۔ لہٰذا یہ ایک فطری امر ہے کہ اس مقالے کے مشمولات پر جاری حالات کے گہرے نقوش ثبت ہوئے ۔ آغاز میں تو اقبال کے ان قلبی بے قراریوں اور فکری اضطرابوں کا ذکر کیا گیا ہے جن سے اقبال دوچار تھے۔ اور جس کی بدولت انہوں نے رومی کی فکری خانقاہ میں پناہ لی۔ سیری در مدارس فکری شرق و مطالعۂ اندیشہ ھا و اندوختہ ھای حکما و عرفاو فلاسفۂ اسلام تر درخاطرش را بہ آرامش کشانید و نورامیدی سرا پایش را فر اگرفت و میسرش را ادامہ داد۔۔۔ و وادی ھا و صحرہ ھارا در ھم نور دید ہر قدر پش میرفت نور و روشنای بیشتر می شد و نقش قدم ھائی کاروان ھارا ھمای تعدادی رادر پھنۂ بیکران تصورات جلو حشمش مجسم می کرد کہ تشخیص و تمیز و انتخاب یکی از آن ھا برایش دشوار و متعسر مینمود۔ فریاد ھای نھانی ونالہ ھای شبانگاھی اش پردہ ھای یاس را از ھم درید و قافلہ سالار معرفت وخود آگاہی حضر مولانا جلال الدین بلخی رمز وراز سلوک رادرگوشش فرا خواند وشمعی فرار اھش افروخت کہ در پرتو آن اقبال رہ و رسم بندگی و زندگی را آموخت و بہ جان رسید کہ اینک از زبان خودش مطالعہ میفرماید: ؎ شب دل من مایل فریاد بود خامشے از یاریم آباد بود شکوہ آشوب غم دوران بدہم از تہی پیمانگی نالان بدم این قدر نظارہ ام بیتاب شد بال و پر بشکست وآخر خواب شد روی خود بنمود پیر حق پرست کو بحرف پہلوی قرآن نوشت گفت ای دیوانۂ ارباب عشق جرعہ ئی گیر از شراب ناب عشق برجگر ہنگامۂ محشر بزن شیشہ برسر دیدہ برنشتر بزن تابکی چون غنچہ می باشی خموش نگہت خودرا چوگل ارزان فروش در گرہ ھنگامہ داری چون پسند محمل خود بر سرآتش بہ بند چون جرس آخر زہر جزوی بدن نالۂ خاموش را بیرون فگن آتش استی بزم عالم برفروز دیگران راھم زسوز خود بسوز از نیستان ھمچونی پیغام دہ قیس را از قوم حی پیغام دہ نالہ را انداز نو ایجاد کن بزم را از ہائے و ہوی آباد کن زین سخن آتش بہ پیراہن شدم مثل نی ہنگامہ آبستن شدم چون نوا از تار خود برخاستم جنتی از بہر گوش آراستم ڈاکٹر حق شناس کے بقول رومی نے اقبال کو مادی جہان سے بالا تر ہوکر روحانی و معنوی جہان میں مسرور و مست مخمور رہنے کا گُر بتایا: مولانا بہ گونہ ای کہ اقبال بدان اشارہ می کند در خرمن ہستی و اندیشہ اش آتش زد واز گم گستگی و سر گستگی اش وار ھانیدو سرحقیقت رابرایش باز گفت و برحریم اسرارش رھنمای کرد۔ اقبال پس از این برخوردر روحانی دیگر شیفتۂ مولانا بلخ گردید وھمہ دشواری ھا و مشکلات فکری و فلسفی خود را در دانشگاہ اندیشۂ اول شدہ یافت و شوری در نہارش شعلہ و رگردید کہ آوریش کران تاکہ آن رافراگرفت و نور و گرمی اش برروان ھا ذوق و مستی بخشید و بر پیکر افسوں شدگان استعمار روح تازہ دمید۔(۸۹) تب اقبال کو عالمگیرفکر عطا ہوئی ۔ مولانا سے تعلیمات روح و معرفت کا اکتساب حاصل کرنے کے بعد توجاکر اقبال مشرق کو مخاطب کرنے کے قابل ہوا۔ اقبال نخستین و سوسہ ھای انقلاب و اثرات الہا ماتی راکہ از روح و معرفت و افکار مولانا کسب می کند و او رابہ ارشاد و رھنمایٔ مردم بہ قیام و آزادی خواھی برمی انگیز د ھمہ جادر آثارش بخوبی منعکس کرداست کہ این است نمونہ آں: ؎ پس چہ باید کرد اے اقوامِ شرق باز روشن میشود ایام شرق در ضمیرش انقلاب آمد پدید شب گذشت و آفتاب آمد پدید ؎ پیر رومی مرشد روشن ضمیر کاروان عشق و مستی را امیر منزلش برتر زما و آفتاب خیمہ را از کہکشان سازد طناب نور قرآن درمیان سینہ اش جام جم شرمندہ از آئینہ اش ازنے آن نی نواز پاک زاد باز شوری درنھاد من فتاد گفت جانہا محرم اسرار شد خاور از خواب گراں بیدار شد ڈاکٹر حق شناس لکھتے ہیں کہ حضرت علامہ کو اس غیور قوم یعنی ملتِ افاغنہ کے مجموعی خصائل عادات و اطوار کا بخوبی علم تھا۔ اسی وجہ سے جا بجا اپنے کلام میں اس کا جائزہ لیا ہے۔ ؎ ملتِ آوارۂ کوہ و دمن در رگ او خون شیران موج زن زیرک روئین تن و روشن جبین چشم او چون جرہ بازان تیز بین قسمت خود از جہان نایافتہ کوکب تقدیر او ناتافتہ ؎ سرزمین کبک او شاہین مزاج آہوی او گیرد از شیران خراج در فضایش جرہ بازان تیز جنگ لرزہ برتن از نہیب شان پلنگ لیکن ازبی مرکزی آشفتہ روز بی نظام و ناتمام و نیم سوز مقالے میں اقبال کے سفرِ افغانستان کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے اور مثنوی ’’مسافر‘‘ کی روشنی میں کئی امور کا جائزہ لیاگیا ہے۔ مثلاً ’’اقبال در کابل‘‘ کابل سے متعلق علامہ کے اشعاراور ان اشعار پر حق شناس کا تبصرہ، ’’اقبال درغزنہ و بر تربت سنائی‘‘ غزنی اور حکیم سنائی سے متعلق ابیات، ’’اقبال برویرانہ ھا و خرابھای غزنہ‘‘ غزنی کے ویرانوں اور خرابوں میں علامہ کے کہے گئے اشعار کیفیات اور محسوسات اور ساتھ ہی غزنی کی تاریخ پر مختصر بحث، ’’اقبال اور قندہار‘‘ قندہار سے متعلق علامہ کے اشعار ۔ اس کے علاوہ موجود جاری حالات کی تناظر میں اس امر پر افسوس کا اظہار کہ کاش آج اقبال زندہ ہوتے تو دیکھتے کہ قندہار میں آنسوئوں اور خون کے بہنے کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔ دریغا کہ اقبال زندہ نیست تامی دید کہ دیگر در قندہار جز اشک و کون از انار ولالہ اثری نیست و آن کوی و برزن کہ وی برای عشق می ور زیدند و شیفتہ اش بود بدست بیدار گران خون آشام پیمان ورشو چہرہ در خاک کشیدہ است و جز سوگ و ماتم ذوق و حالی دیدہ نمیشود۔ (۹۲) اقبال برتربت احمد شاہ۔ احمد شاہ بابا سے متعلق علامہ کے ابیات اور مقالہ نگار کا تبصرہ ۔ اقبال و ظاہر شاہ ڈاکٹر حق شناس نے اس عنوان کے تحت ظاہر شاہ کے دورِ حکومت پر تنقید کی ہے اور لکھا ہے کہ اگر وہ افغانستان میں علامہ کے تعلیمات پر عمل پیرا ہوتے تو ہم آج ان مصائب و مشکلات سے دو چار نہیں ہوتے۔ مقالے کے آخر میں بحث کا نتیجہ نکالا گیا ہے اور علامہ کی ابیات میں کچھ ترمیم کرکے اس پیش گوئی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ ؎ آسیا یک پیکر آب و گل است ملت افغان در آن پیکر دل است از حیات او حیات آسیا ست از ممات او ممات آسیا است (۹۳) روس کے ساتھ ساتھ ایشیا کی دیگر اقوام کو بالخصوص اور جہاں عالم کو بالعموم خبردار کیا ہے کہ ایشیا کی سربلند ی کا راز افغانستان کی سربلندی سے مشروط ہے اور علامہ کی پیشین گوئی کی مصداق پر یہاں کی فساد ایشیا میں فساد کا منبع ہے۔ مقالہ نمبر۱۵: بزرگداشت اقبال بزرگ از دکتور سید خلیل اللہ ہاشمیانؔ یومِ اقبال کی مناسبت سے ڈاکٹر سید خلیل اللہ ہاشمیان کا یہ تحریر کردہ مقالہ بھی افغانستان میں جہاد کے دور کی یاد گار ہے۔ خلیل اللہ ہاشمیان مشہور و معروف افغان اقبال شناس ہیں اور آپ نے علامہ کے فکر و فن سے گہرے اثرات قبول کئے ہیں۔ یہ مقالہ دو ماہی قلم میں (اکتوبر نومبر ۱۹۸۷ء کو) شائع ہوا۔ اس طویل مقالے کے آغاز میں مختصراً فارسی شاعری کے مختلف مکاتیبِ فکر کا جائزہ پیش کیا گیاہے۔ جن میں مکتب ادبی خراسان (افغانستان ماوراء النہر و ایران)مکتبِ ادبی عراق ( اشعار فلسفی تصوفی و حماسی) اور مکتبِ ادبی ہند کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ حضرت علامہ کو اگرچہ مکتب ادبی ہند سے منسوب کیا گیا ہے البتہ ان کے مکتبِ ادبی خراسان اور مکتب ادبی عراق سے بھی تعلق بتایا گیا ہے چنانچہ علامہ کے درج ذیل بیت کی روشنی میں ہاشمیان صاحب نے اپنے مقالے کو ترتیب دیا ہے۔ ؎ آنچہ من در بزم شوق آور دہ ام دانی کہ چیست یک چمن گل یک نیستان نالہ یک خمخانہ می(۹۴) یراث مکتب ہند میراث عرفان مولوی بلخی میراث مکتبھای خراسان و عراق ’’یک چمن گل ‘‘ صد چمن گل چمنستان، خونِ رگِ گل وغیرہ ایسے سینکڑوں تراکیب و اصطلاحات اور بھی ہیں جو مکتب ہندی کے زینت بنے ہوئے ہیں۔ جس کے بہترین نمونے میرزا عبدالقادر بیدل کے اشعار میں بکثرت پائے جاتے ہیں۔ اقبال نے بھی یک چمن گل کی ترکیب مکتب ہندی کی پیروی میں استعمال کی ہے۔ ’’یک نیستان نالہ‘‘۔ یہ اس نالے کا تذکرہ ہے جسے مولانا رومی نے آٹھ سو سال پہلے استعمال کیا تھا۔ ؎ آتشست این بانگ بای و نیست باد ہر کہ این آتش ندارد نیست باد (رومیؔ) اقبال کو چونکہ خداوند عالم نے چشم پر نور اور ’’دید جان ‘‘ نصیب فرمایا تھا اسی لئے جوش عشق اور شرح درد اشتیاق کے نواکو بلند کرتے ہیں: روی خود بنمود پیرِ حق سرشت کو بحرف پہلوی قرآن نوشت گفت اے دیوانہ ارباب عشق جرعہ ئی گیر از شراب ناب عشق از نیستان ھمچونی پیغام دہ قیس را از قوم حی پیغام دہ نالہ را اندازِ نو ایجاد کن بزم را از ہائے و ہوی آباد کن زین سخن آتش بہ پیراہن شدم مثل نی ہنگامہ آبستن شدم گرہ از کار این ناکارہ واکرد غبار رہ گذر را کیمیا کرد نی آن نی نواز پاکبازی مرا باعشق و مستی آشنا کرد ہاشمیان لکھتے ہیں کہ اقبال نہ تو صوفی تھے اور نہ عارف بلکہ اپنے پیشوا مولانا بلخی صاحبِ مثنوی معنوی کی پیروی میں سب کچھ کہا ہے چنانچہ اپنی استدلال کے لئے مثنوی کے چند اشعار پیش کرتے ہیں: جملہ معشوق است و عاشق پردہ ای زندہ معشوق است و عاشق مردہ ای چون نبا شد عشق را پروای او او چو مرغی ماند بی پروای او پر و بال ما کمند عشق او ست مو کشانش میکند تا کوی دوست من چگو نہ ہوش دارم پیش و پس چون نبا شد نور یارم پیش و پس نور او دریمن و یسر و تحت و فوق برسر و برگردنم چون تاج و طوق اقبال دل کو مرکز عشق قرار دیتے ہوئے مولانا کے’’ نالۂ نی‘‘ کو سنتے ہیں اور افلاطونی افسوس و اندیشہ کو رد کرتے ہوئے برملا کہتے ہیں۔ راھب دیرینہ افلاطون حکیم از گروہ گوسفندان قدیم رخش او در ظلمت معقول گُم در کہستان وجود افگندہ سُم آنچنان افسون نامحسوس خورد اعتبار از دست و چشم و گوش برد گفت سرِ زندگی در مردن است شمع را صد جلوہ از افسرون است عقل خود را برسرِ گردون رساند عالم اسباب را افسانہ خواند کار او تحلیل اجزای حیات قطع شاخ سرور عنای حیات فکر افلاطون زیان راسود گفت حکمت او بود را نابود گفت فطرتش خوابید و خوابی آفرید چشم ہوش او سُرابی آفرید منکر ہنگامہ موجود گشت خالق اعیان نامشہود گشت قوم ہا از سُکر او مسموم گشت خفت و از ذوق عمل محروم گشت یک خمخانہ مئی :مکتب ادبی عراق کا استعارہ جو اقبال نے شعر اء اور عرفاء کے کیفیت شور و سوز کے لئے استعمال کیا ہے۔ ؎ عطا کن شور رومے سوز خسرو عطا کن صدق و اخلاص سنائے ؎ گہی شعر عراقی را بخوانم گہی جامی زند آتش بجا نم میخانہ، خمخانہ: ساغر و مینا وغیرہ ادبی عرفانی علامات سنائی، رومی، سعدی اور حافظ کے افکار کے ذریعے فارسی ادبیات کے زینت بنے ہوئے ہیں ۔ بقول حافظ شیرازی: احوال شیخ و قاضی و شرب الیھود شان کردم سوال صبحدم از پیر می فروش گفتا نگفتنیست سخن گرچہ محرمی درکش زبان و پردہ نگہ دار و می بنوش چھ سو سال بعد اقبال پیر می فروش کے اسرار کا پردہ چاک کرکے موج مٹی کو کسوت و مینا کے ذریعے بیان کرتے ہیں۔ ؎ تابکی چون غنچہ می باشی خموش نگہت خود را چوگل ارزان فروش ؎ فاش گو اسرار پیر می فروش موج می شو کسوت مینا بیوش اس راہ کا راہی اقبال خواجہ حافظ شیرازی کے درج ذیل شعر کا جواب یوں دیتے ہیں۔ حافظ: مزرع سبز فلک دیدم و داس مہ نو یا دم از کشتۂ خویش آمد و ہنگامہ درو اقبال: تخم دیگر بکف آریم و بکاریم زنو کانچہ گشیتم زخجلت نتوان کرد درو مقالے میں’’ ایمان اقبال‘‘ کے ضمنی عنوان کے تحت علامہ کے مذہبی افکار کا جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ استدلال کے طور پر جا بجا علامہ کے اشعار کا استعمال کیا گیا ہے۔ ؎ در شبستان حرا خلوت گزید قوم و آئین و حکومت آفرید ؎ در جہان آئین نو آغاز کرد مسند اقوام پیشین در نورد از کلید دین دَر دنیا گشاد ہمچو او بطنِ ام گیتی نزاد در نگاہِ او یکی بالا و پست با غلام خویش بر یک خوان نشست ؎ امتیازاتِ نسب را پاک سوخت آتش او این خس و خشاک سوخت اسلام کے پنج بناء کے حوالے سے علامہ کے درج ذیل اشعار نقل کئے گئے ہیں۔ لا الہ باشد صدفِ گوہر نماز قلب مسلم را حج اصغر نماز در کف مسلم مثال خنجر است قاتل فحشا و بغی و منکر است روزہ بر جوع و عطش شبخون زند خیبر تن پرورے را بشکند مومنان را فطرت افروز است حج ہجرت آموز و وطن سوز است حج حب دولت را فنا سازد زکوٰۃ ھم مساوات آشنا سازد زکوٰۃ اقبال ان صوفی و ملا کے خلاف ہیں جو تلاشِ حلوا میں لگے رہتے ہیں۔ دل ملا گرفتار غمی نیست نگاہی ہست در چشمش نمی نیست از آن بگریختم از مکتب او کہ در ریگ حجازش زمزمی نیست اس عنوان کے تحت طویل گفتگو کے بعد ہاشمیان کے مقالے کا عنوان ہے ’’اقبال و زبان دری‘‘ ھاشمیان نے پنجابی کے بجائے اردو کو اقبال کی مادری زبان بتایا ہے جو کہ ایک علمی سھو ہے۔ انگریزی اور جرمن زبانیں ان کی تحصیلات کے زبانیں بتاتے ہیں البتہ اقبال کے عارفانہ آثار کی زبان ’’دری‘‘ بتاتے ہیں جو کہ بقول ہاشمیان اقبال کے لئے عطیہ خداوندی آہ صبحگاہی ہے۔ بامن آہ صبحگاہی دادہ اند سطوتِ کوہی بہ کاہی دادہ اند اقبال اس زبان میں خودی کے رموز بیان کرتے ہوئے خالقِ کائنات سے ہمکلام ہوتے ہیں۔ عشق سوہان زد مرا آدم شدم عالمِ کیف و کم عالم شدم حرکت اعصاب گردون دیدہ ام در رگ مہ گردش خون دیدہ ام دری افغانوں کی زبان ہے اور اقبال اس کی اہمیت سے باخبر ہیں۔ گرچہ ہندی در عذ و بت شکر است طرز گفتار دری شیرین تر است فکر من از جلوہ اش مسحور گشت خامۂ من شاخ نخل طور گشت ہاشمیان نے اس دلچسپ حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے کہ اقبال اگرچہ فارسی کا بہترین سخنور تھا لیکن فارسی میں گفتگو کرنے سے قاصر رہے۔ ہاشمیان لکھتے ہیں کہ سرور خان گویاؔ نے مجھ بتایا تھا کہ علامہ جب ۱۹۳۳ء میں افغانستان تشریف لائے تھے تو افغان شخصیات اور ادباء سے اردو اور انگریزی میں بات چیت کرتے تھے۔ ایک دو بارتو میزبانوںنے ان سے فارسی میں گفتگو کرنے کی استدعا کی تھی۔ علامہ نے خضوع اور شرمندگی کے ساتھ معذرت کی۔ اگرچہ اس سفرمیں علامہ نے سنائی ، محمود غزنوی، احمد شاہ ابدالی کے مزارات اور خرقہ مبارکہ پر حاضری دی تھی اور اس سفر کا منظوم اثر مسافر فارسی ہی میں تحریر کردہ ہے۔ (۱۰۶) اقبال و افغانستان:۔ اس عنوان کے تحت ھاشمیان نے افغانستان سے علامہ کے مختلف دلچسپیوں کا ذکر کیاہے ۔ علامہ کے معشوقۂ آزادی افغانستان سے جستجو اور ان سے قلبی تعلق کا ذکر کیا ہے: مسلم ہندی چرامیدان گذاشت ہمت او بوی کراری نداشت مشت خاکش آنچناں گردیدہ سرد گرمی آواز من کارے نکرد ایک طرف اقبال کو اس مبارز ملت کے جغرافیائی موقعیت کی اہمیت کا پورا پورا احساس تھا تو دوسری طرف ہندوستان میں غلاموںکی شبِ ناتمام پر پریشان رہتے۔ اسلام آزادی اور استعمار دشمنی کے حوالے سے علامہ افغانوں کے تمام کارناموں سے آگاہ ہیں ۔ سید جمال الدین افغانی کے صادقانہ جذبات کو پیامِ افغان ر ا بملت روس بیان کرکے بعض حقائق کی طرف اشارہ بھی کرتے ہیں۔ مقالے کے آخر میں لکھا ہے کہ اقبال کے بارے میں جنتا بھی لکھوں بہت کم ہے افغانستان میں پھر سے یومِ اقبال منانے کے آرزو کا اظہار کیاگیا ہے۔ کابل یونیورسٹی کے اساتذہ کی جانب سے اپنے اس مقالے کو علامہ کے حضور نمائندگی کی حیثیت سے اھدا کیا ہے۔ پرداختن بانسان متعدی چون اقبال کہ ھر لحظہ حیات عقلانی خود را وقف تربیت ھمنو عان خود خاصہ بیداری ملت ھا ی مسلمان نمودہ باین مختصر نا میسرات و آہنگی درمورد اقبال ہر قدر سخن بگویم سخن مانند او نگفتہ ایم و چون ھمہ سخن را او خود گفتہ متعال مادر مقدمہ نتمام است ولی بمنظور سھم گرفتن در روز اقبال کہ ھر سال در پاکستان تجلیل میشود و درافغانستان آزاد نیز برگرام میشد و من درآن زمان از زمرہ، استاذان پوھنتون کابل مقالاتی در سفارت پاکستان مقیم کابل خواندہ بودم اینک بہ نمائندگی استادان آوارۂ پوھنتون آزاد کابل این برگ سبز را میخث نمونہ ارادت مردم آزادۂ افغانستان با اقبال لاہوری و ھموطنانش تقدیم میدارم و برای ملت برادر پاکستان استحکام میانی اسلام و بقایٔ استقلال شانرا مثلث مینمایم۔ موفق باد جہاد و مقاومت ملی مردمِ افغانستان پائندہ باد افغانستان آزاد و مؤمن جاودان باد رہبری اسلام (۱۰۸) مقالہ نمبر۱۶: امروز زدایٔ فردا از نائل لاجورد بنشھریؔ نایل لاجورد بنشھری کا لکھا ہوا یہ مقالہ دقیق فلسفیانہ مباحث پر مشتمل ہے اور یہ مباحث فلسفۂ زمان اور فلسفۂ مستقبل سے عبارت ہیں ۔ مقالے کا آغاز افغانستان میں جہاد کے دوران جاری سفر کے حوالے سے جہدِ مسلسل اور آئندہ کے حوالے سے زمان کے بحرِ بیکران میں غواصی کے اسرار و رموز سے کیا گیا ہے۔ من ھنوز میروم ھنوز دراھم سر منزل اقامت دور و ناپید ااست شمعی درا مواج بیکرانۂ سیاسی درآن دور دستھای دور میلرزد نمی دانم کہ آتشی کاروان رفتہ است میابہ سپیدہ ھای بامداد ’’فردا‘‘ نزدیک می شویم اما در افق مینگرم ھنوز نشانۂ از ’’رسیدن‘‘وبارقہ از منزل ھویدا نیست۔ ھر قدم میروم ھنوز کہ ھنوز است خود را در امروز می یابم و چون غواصی از دست رفتہ ای در امروز شناورم ’’فردایٔ‘‘ کہ خواھد آمد ھنوز سربزانوی ادبیت غیب خوابیدہ است و ھنوز در سرمدیت زیبا و خاموش مکتوم است گویٔ ھرکز ’’بیدار‘‘ نخواھد شد و نخواھد آمد۔ (۱۰۹) اس طویل اور دقیق فلسفیانہ بحث کے دوران فلسفۂ امروز اور فلسفۂ فردا کو مختلف زایوں سے پرکھا گیا ہے۔ اس فلسفے کے باریکیوں پر عالمانہ اور فلسفیانہ اندازمیں روشنی ڈالی گئی ہے۔ انسانی حیات کے نشیب و فراز میں فلسفۂ امروز و فردا سے مرتب ہونے والے اثرات کا جائزہ لیا گیا ہے۔ مقالہ نگار نے موضوع کے نکات کی استدلال میں مشاہیرِ مفکرین مشرق کے افکار سے جا بجا استفادہ کیا ہے۔ اس سلسلے میں سب سے پہلا حوالہ خواجہ حافظ شیرازی کا دیا گیا ہے۔ بیا تا گل برا فشانیم و می در ساغر انداز یم فلک را سقف بشگانیم و طرح نودر انداز یم نایل لاجورد بنشھری نے موضوع سے متعلق مولوی، عطار اور سنائی کے افکار کو شامل مقالہ کیا ہے۔ یوں ان مشاہیر مفکرین کے تذکرے کے ساتھ ہی علامہ کے افکار کو بھی زینت موضوع بنایا گیا ہے۔ آری ، این شاعر نگر اینھای بزرگ ھمچون اقبال ھیجانات آتشین ھیچ اثری جز کینہ با امروز برای پیروزی فر دانیا فریدہ است۔ دشمنی و تضاد این دو برانگیختہ خدا با وضع موجود و مناسبت متداوم آن ناتشی از بیدار دلی درد و فھمیدن پیکرانہ ایشان از ضلالت و عمق آگاہی امروز و زیبائی و فضائل عالی فردا ھا میدا میکرد کہ ھیچ و سوسہ عزیزی و شیطانی نتوانستہ است جلو مبارزات مسلم ایشان راعلیہ امروز درجھت فردا سرکند بناء حماسہ بزرگ این روح ھای عظیم آنست کہ اتمامی ذرات اشراقی و عرفانی و آثار شان را بیداری روشنائی و مبارزہ علیہ امروز برای ساختن جامعۂ فردا و فردا ھا تشکیل می دہد۔ حافظ شیرازی چون مولوی و مولوی چون سنائی و سنائی چون اقبال و اقبال چون۔۔۔ رنج نامہ در جہت محکومیت امروز و رھائی از حصار ’’روزمرہ گی‘‘ امروز تقدیم جامعہ انسانی کردہ اندکہ بعنوان گنجینہ تجارب فرہنگی و مبارزاتی و بعنوان دستاور درنج و مجموعہ بینظیر ’’طرح نو‘‘ ’’فردا‘‘ برای ھمہ نسلھا ئیکہ علیہ امروز در تداوم تاریخ مبارزہ مینماید و مبرای فردا شکو ھمند آزادی تلاش می ورزند می تواند دستور العمل کارو مبارزۂ راھکشا قرار گیرد۔ (۱۱۱) اس مقالے میں اگر ایک طرف مستقبل کے بارے میں مشاہیر مفکرین کے افکار کا تقابلی جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ تو دوسری طرف موضوع سے متعلق علامہ کے افکار کا ایک عالمانہ جائزہ بھی لیا گیا ہے جو عمیق نظر اور علمی استدلال کا مظہر ہے۔ علامہ حال کو مستقبل کا کلید گردانتے ہیں۔ حال کی کامیابیاں کامرانیاں اور سعادت کو مستقبل کے سرخروی کا منبع قراردیتے ہیں۔ اقبال این فرزند فردا کہ حضور امروزی دارد و متولد امروز است بحساب فردا و نبغع فردا زندگی می کند او تبلور درخشان سمیای ’’آئندہ‘‘ در ’’حال‘‘ است و تجسم جامعۂ رشید فردا در امروز نگوں بخت و ذلیل جقاکہ او نسل فرد او قامت افراختہ ای ’’آئندہ ‘‘در حصار متروک و خفقان انگیز ’’حال‘‘ است در اعتقاد او ھیچکس جز ’’او‘‘در ساختن و باز آفریدن فردا ھمسوول نیست کہ باچنین تعبیر عظمت حالت ’’کار‘‘ برای فرد او تعھد ’’نسل انسان‘‘ در برابر جامعۂ نوین رانمائش میدہد اصولا او فرزند فردا و فراھا ست و او فرزند صحرا و صحراھا ست بینش او در محدودۂ امکان و درعرصۂ حیات جز تغیرو تحول نمی شنا سد وروی این باور عمیق تحول و حرکت رامظھر حضور ہستی و ناموس ازلی برای حیات ووجود می فھمد و دلیل بقا و استمرار وجود می شناسد از دیدگاہ او تاریخ فلسفی انسان ھمان با حرکت و پویائی آغازمی شود او در جوہر ہستی و در نھاد و ژرخاکی حیات بوجود مبداً تحول و منشا حرکت وایمان دارد۔(۱۱۲) اسی حرکت ہی کی بنیاد پر اقوام کامرانیوں ے منازل طے کرتے ہیں ۔ اور جاودانی و سرفرازی کے اعلیٰ مقامات پر جلوہ افروز ہوتے ہیں۔ یہ امر الٰہی بھی ہے اور منشا ایزدی بھی۔ عشق بہ حرکت را محوریت ہستہ ای کائنات می فھمد و اصل موج بودن را قاعدہ کلی ووجہ مشترک برای مطالعۂ خصلت ھای ذاتی و جوھری تمامی پدیدہ ھا و نمود ھامی یا بد۔ فلسفہ او حاوی طرح بزرگ در یک ناپذیری و استمرار حرکت ابدی بہ ’’الی اللہ المصیر‘‘ است و توقف و درنگ نمی پذیر د او لحظۂ توقف ھستی رامتساوی بامرگ و نیستی می انگارد۔ آری اقبال بنیاد باور منظر ھای فلسفی خود را بر بنای تحول فنا پذیر اعمار می کند و محور تغیر و حرکت رادلیل ابقاء وا حیای جامعہ می بیند ۔ (۱۱۳) اقبال کی فلسفیانہ نگاہ میں اثبات اور اثبات میں تغیر بھی فلسفیانہ امروز و فردا کے زمرے میں آتا ہے۔ فاضل مقالہ نگار لکھتے ہیں۔ دید گاھای فلسفی اقبال در کلیت حال تنھا بہ ا ثبات ’’ثبات اصل تغیر‘‘ نھی می شود و دیگر عالم ممکن را صحنہ تغیر مستمر و تحول ابدی می یابد۔ علی الیحال نگوش فلسفی اقبال در اعمار تفکر فرھنگی و تغیر بنای بنگھای سلیمی و اجتماعی او حیثیت مامتہ محوری دارد کہ ناگزیر جہان و ھستی راموجود ’’ھر لحظۂ شوندہ ‘‘و اسیر’’صیرورت ‘‘ دائمی می فھمد۔ (۱۱۴) علامہ کا ئنات کے اس دیدگاہ میں آدمی ہی کو حرکت ، فلسفۂ زمان فلسفۂ مکان، فلسفۂ عشق، فلسفۂ امروز اور فلسفۂ فردا و غیرہ کا مرکزی کردار تصور کرتا ہے۔ ان تمام فلسفوں سے وابستہ کیفیات اور محسوسات ، حقائق اور اسرار و رموز کو انسان ہی سے وابستہ بتاتے ہیں۔ اقبال آدمی رامجموعۂ بینظیر ھیا ھوھا، ھیجانھا و سازھا و آھنگھا می انگارد کہ باعبور از معتبر تحول و تکامل ھمشگی سبوی ’’شدن‘‘ و ’’ رشد‘‘ در حکرت و بیقرار یست، دائرۃ المعارف شناخت اقبال ’’آدمیت‘‘ آدمی راموج شتاب آلود ’’گذشتن‘‘ و ’’رفتن‘‘ می فھمد کہ اگر بیقراری و اضطراب و حرکت را از و حذف کنند بہ مبدای حیوانی خود باز میگیردد و سقوط می کند۔ و آنجا کہ میگوید: ؎ موج زخود رفتہ ئی تیز خر امید و گفت ھستم اگر میر وم گر نروم نیستم (۱۱۵) مقالہ نمبر۱۷: افغانستان در آئینہ قرآن از ا حمد جان امینیؔ احمد جان امینی کے اس مقالے کا عنوان اگرچہ افغانستان درآئینہ قرآن ہے لیکن اس مقالے میں جا بجا قرآن و احادیث کے علاوہ صرف اور صرف علامہ کے اشعار و افکار سے استفادہ کیا گیا ہے۔ لہٰذا اس بنیاد پر ہم اس مقالے کو افغانستان اقبال کے مقالات میں شامل کرتے ہیں۔ یہ مقالہ دو ماہی ’’قلم‘‘ (فروری مارچ ۱۹۹۲ء ) میں شائع ہوا ہے۔ مقالے کا آغاز علامہ کے اس رباعی سے ہوا ہے: ؎ عرب از سر شک خونم ہمہ لالہ زار بادا عجم رمیدہ بورا نفسم بھار بادا تپش است زندگانی تپش است جاودانی ہمہ ذرہ ہای خاکم دل بی قرار بادا مقالے کی ابتداء میں کائنات کی تشکیل اور اس میں انسانی زندگی کے ارتقاء سے متعلق بحث کی گئی ہے۔ اس خاکی سرزمین پر اقوام اور ملتوں کے آغاز تہذیب تمدن اور شاندار ترقی کے مختلف ارتقائی مدارج کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ افغانستان کے تذکرے کے ساتھ ہی اس مملکت کی تاریخی جغرافیائی اہمیت کا ذکر کیا ہے اور ساتھ ہی علامہ کے اشعار دیئے ہیں۔ حال باتحلیل مشخص از موقعیت فرد۔ اجتماع و پدیدہ ھای طبیعی بسراغ کشور و مردم خودمان افغانستان قھرمان و مسلمان می برآیم می بینم افغانستان ظاہراًموا ضع کوچک بشکل مشت گرہ خوردۂ رامینماید کہ درخریطہ و اطلس ھای جھان قرار گرفتہ است اما مطالعہ و اوجاع بہ متون تاریخی این خطہ درھر مقطع از زمان این رانشان میدھد کہ خصوصیت تسلیم نا پذیری جنگ و درھم کو بیدن متجاوزین طاغو طیان و افکار نا سازگار و نا سالم حاکم برزمان خصوصیات فطری این سامان بودہ و پیوستہ پیشگام نہفت ھای مترقی و آزادی بخش جھان بودہ است کہ باین کتلۂ کوچک معنویت و کیفیت بخصوص بخشیدہ است کہ چون قلۂ شامخ تبارزو وچون نگین در عرشہ اطلس جھان تلؤلؤ میکند۔ حضرت علامہ اقبال لاہوری شاعر و صوفی باکرامت اسلام و مشرق نقش افغانستان را در آسیا چہ موزون تحلیل و پیشگوی کردہ است۔ ؎ آسیا یک پیکر آب و گل است ملت افغان در آن پیکر دل است فساد او فساد آسیا در گشاد او گشاد آسیا چونکہ یہ مقالہ افغانستان میں روسی مداخلت کے دوران لکھا گیا ہے لہٰذا مقالہ نگار کے اندازِ تحریر پر اس وقت کے حالات کے مطابق جذبۂ جہاد غالب نظر آتا ہے۔ افغانوں کے حقِ خود ارادیت کی بحالی اور افغانستان کی خود مختاری ان کی اولین ترجیح ہے۔ اس بنیاد پر ایک بار پھر علامہ کے اشعار کی استدلال بھی پیش کرتے ہیں۔ گویاؔ حقیقتاً محدودۂ جغرافیائی این کشور حرم سرای آزاد گان و باشندگانی آن پاسداران امین بودہ اند کہ در طول تاریخ بہ جنایت کاران متجاوزین و بیگانگان و لجام گسپختگان فرصت و اجازۂ آن راندادہ اندکہ پای کثیف و جنایت کرشاں حریم پاک این خطۂ آزاد گان مسلمان را ملوث سازد حضرت اقبال صاحب باز ھم در لابلدی اشعارش شخصیت ھا و حتی حیوانات افغانستان راچنین تشریح و تشبیہہ نمودہ است۔ ؎ خیبر از مردان حق بیگانہ نیست در دل او صد ہزار افسانۂ یست سرزمین کبک او شاہین مزاج آہوی او گیرد از شیران خراج در فضایش جرہ بازاں تیز چنگ لرزہ برتن از نہیب شان پلنگ مقالے میں افغانستان پر روسی مداخلت کی نہ صرف مذمت کی گئی ہے بلکہ متجاوز قوتوں کو اپنے عبرتناک انجام سے بھی خبردار کیا گیا ہے۔ اور واقعی حالات نے یہ سچ ثابت کردیا کہ افغانستان پر حملے کے بعد کمیونزم کا انہدام ظہور پذیر ہوا۔ روسی ایسے شکست سے دو چار ہوئے کہ صفحۂ ہستی سے U.S.S.R کے نقوش مٹ گئے۔ اولین و آخرین مورد نبودہ است کہ ملت مسلمان افغانستان بانیروی ایمان و عقیدہ در قرن بسیت امپراطوری روسیۂ متجاوز ھم پیماناں آن را در میدان نظامی سیاسی و فکری شکست و چرخ تمدن جھان را بہ سود مسلمین و آزادی خواھاں پیش بردہ و ریکارد جدیدی رادر تاریخ معاصر برقرار نمودہ است بلکہ این ملت با ایمان درھر مقطع از زمان و در ھر شرائط ناھموار علمبردار نھفت ھایٔ مترقی بودہ است چنانچہ بہ شواھد تاریخ بیرق جھان کشایٔ اسکندر مقدونی در تعرض بہ ھمین خاک ما بزمین افتید و از پیشروی بعدی باز ماند۔ طلسم جھان کشایٔ و انسان کشی چنگیز خان مغل در تعرض قرن ششم ھجری بدست ھمین پد ران قھر مان ما شکست۔ امپرا طوری جھان کشایٔ انگلیس کہ باصطلاح آفتاب در نھای افقھای آن جای غروب ند اشت در قرن ۱۹، ۲۰ در زمین ما غروب کرد۔ و اینکہ این ملت و این زمین پیوستہ علمبردار نھضت ھایٔ اسلامی و سمبول آزادگی بودہ است بی گمان نصرت الٰہی فطرت مسلمہ این اولادھایٔ آدمؑ بودہ است۔ ملت ما بر صبر و استقامت و توصل بہ کلمۂ توحید و قربانی جگر گوشہ ھا و عزیزان و نثار خون پاک خویش در طول انقلاب اسلامی و مقاومت علیہ امپرا طوری خون آشام روسیہ شوروی آیہ ھایٔ قرآنی و احادیث نبویﷺ راتفسیر و ترجمہ عملی وواقعی نمودہ اند۔(۱۱۹) موضوع کی مناسبت سے مجاہد اسلام سید قطب شہید کا قول پیش کرتے ہیں جابجا جہاد ہجرت اور صبر و استقامت کے حوالے قرآنی آیات کا حوالہ دیتے ہیں۔ روسی آتشی طاقت کو آتش نمرود سے تشبیہہ دیتے ہیں۔ اور خلیل کے ایمانی قوت کی طاقت سے لیس افغانی ملت کو نویدِ کامرانی سناتے ہوئے ایک بار پھر علامہ کے کلام کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ باآنکہ در آتشکدہ ھای نمرودی زمان روسیہ ازشش جھت مور د اذیت و آلام قرار میگرفت بہ رجوع بہ بارگاہ خدا مردانہ استقامت کردند و یکبار دیگر این ملت ابراہیمی داستان ھایٔ ابراھیم خلیل رادر عصر ما زندہ و مجسم ساخت و سنگر اسلام راحفظ نمود مولانا اقبال می فرماید: ؎ زمانہ باز بر افروخت آتش نمرود کہ آشکار شود جوہر مسلمانی در آ بہ سجدہ و یاری زخسروان طلب کہ روز فقر نیا کان ماچنین کردند افغانوں کو اپنے دشمن کے مقالے میں وسائل کی لحاظ سے کمزوری کے دلدل سے نکال کر ایمان کی دولت سے مالا مال گردانتے ہیں اور یہی مسلمان کا طرۂ امتیاز ہے کہ وہ دوسروں کے آگے سر کو تسلیمِ خم نہیں کرتا۔ درقیام و روند مبارزاتی تان ھمچون خداشناسان سست عنصر و اندوہ ناک نباشد و این ایۂ کریمہ راپیوستہ بخاطر بیا ورید۔ وَ لَنْ یَّجْعَلَ اللّٰہُ لِلْکَافِرِیْنَ عَلٰی الْمُؤْمِنِیْنَ سَبِیْلاًo (القرآن، النسائ، ۴:۱۴۱) (و ہر گز نگر داند خداوند کافران را بر مومنان راھی برای غلبہ) و اگر در سنگر حجرہ و ضف و ھر کجائی قرار دارید باز مزمہ این اشعار مولانا اقبال لاہوری و جدان و شعور حلیم خویش را بیدار و برقص می آورید: ؎ مسلمانے کہ داند رمز دین را نساید پیش خلق اللہ جبین را اگر گردون بکام او نگردد بکام خود بگرداند زمین را مقالے کا اختتام اسلام کی بالادستی اور کمیونزم کے انہدام کی امید دعا اور یقین کے الفاظ پر کی گئی ہے۔ مقالہ نمبر ۱۸: ساعتی در خدمت علامہ اقبال از سید قاسم رشتیاؔ سید قاسم رشتیاؔ کا شمار افغانستان کے مشاہیر اہلِ قلم ، پیشہ ور سیاست دانوں اور مقتدر خواص میں ہوتا ہے۔ آپ کو نہ صرف کابل میں علامہ کی میزبانی کا شرف حاصل رہا بلکہ لاہور میں بھی علامہ سے ملاقات ہوئی تھی۔ اس آخری ملاقات کے احوال پر مشتمل رشتیاؔ کا یہ مقالہ ھفت روزہ ’’وفا‘‘ میں شائع ہوا (۱ ۱جدی ۱۳۷۵ ھ ش)۔ اس مقالے کے آغاز میں علامہ کے ۱۹۳۳ء کے سفرِ افغانستان کا ذکر کیا گیا ہے۔ علامہ اقبال در خزان ۱۹۳۳ء بہ معیت دو تن دگر از دانشمندان ھندی سید سلیمان ندوی و سر راس مسعود بنا بہ دعوت افغانستان از کابل و چند شھر دیگر افغانستان دیدن نمود کہ خاطرات این سفر دلچسپ او در مجموعۂ بہ نام ’’مسافر‘‘ در قالب شعر در اور دہ شدہ است و از ھر حیثیت قابل خواندن است۔(۱۲۲) ترجمہ: ۱۹۳۳ء کے خزان میں علامہ اقبال دو دیگرہندی زعماء سید سلیمان ندوی اور سر راس مسعود کے ساتھ افغان حکومت کی دعوت پر یہاں تشریف لائے۔ کابل اور چند دیگر شہروں کی سیاحت کی۔ اس سفر کی یادوں کو اشعار کی قالب میں ڈال کر مجموعہ ’’مسافر‘‘ رقم کیا جوکہ ہر اعتبار سے پڑھنے کے قابل ہے۔ قاسم رشتیا ؔ لکھتے ہیں کہ اس زمانے میں وہ انجمن ادبی کابل کے ممبر تھے۔ انھوں نے علامہ سے ملنے کے علاوہ اس سفر کی غرض و غایت پر مزید تفصیلات دی ہیں: من در آن زمان در جملۂ اعضایٔ انجمن ادبی کابل بودم و از حسن اتفاق در ھئیت پذیرائی این مھمانان عالی قدر نیز اشتراک داشتم ۔ سفرآنھا اساساً بہ غرض مشورہ در بارہ چگونہ گی تا سیس اولین پوھنتون افغانستان بود کہ از آرزوھایٔ اعلیٰ حضرت محمد نادر شاہ بہ شمار میرفت چنانچہ پوھنحٔی اول آن رابہ نام فاکولتۂ طب قبلاً تاسیس کردہ بودند ولی اندکی پس از بازگشت دانشمندان بلند پایہ ھندی کہ ھر یک در رشتۂ خود مقام برجستہ رادر کشور خود حایز بودند اعلیٰ حضرت نادر شاہ بہ شہادت رسید و پروگرام تاسیس پوھنتون تا چندین سال بہ تصویق افتاد۔ (۱۲۳) ترجمہ: میں اس زمانے میں انجمن ادبی کابل کا رکن تھا ۔ اور خوش قسمتی سے ان معزز مہمانوں کی پذیرائی کرنے والے وفد میں شامل تھا۔ یہ سفر دراصل اس مشاورت کے سلسلے میں تھی جو اعلیٰ حضرت کے آرزو کے مطابق تھی کہ کس طرح افغانستان میں پہلی یونیورسٹی کی ابتداء کی جائے۔ چنانچہ اس سلسلے میں ابتدائی ادارہ فاکولتۂ طب کے نام سے کھولا گیا لیکن ان دانش مندوں جن میں سے ہر ایک اپنے میدان میں ممتاز حیثیت کے مالک تھے ، کے جانے کے تھوڑے ہی عرصے بعد اعلیٰ حضرت محمد نادر شاہ شہید ہوگئے اور کابل یونیورسٹی کے قیام کا منصوبہ چند سال تک التوا میں پڑ ا رہا۔ اس تمہیدی نوٹ کے بعد رشتیاؔ نے ۱۹۳۵ء میںاپنی سفرِ لاہور اور وہاں حضرت علامہ سے ملاقات کا ذکر نہایت شدو مد سے کیا ہے: درسال ۱۹۳۵ء من بہ معیت مادرم کہ مریض بود برای بار اول بہ شبہ قارہ مسافرت نمودم و تداوی مادرم در لاھور صورت میگرفت درخلال مدت سہ ماہی کہ در آن شہر بہ سر میبردم تایک اندازہ لسان اردو را یاد گرفتم کہ برای محاورۂ عادی کافی بود درھمین بین بہ فکر افتادم تا از علامہ اقبال کہ در کابل بہ حضور شان معرفی شدہ بودم دیدن نمایم سراغ منزل شان راگرفتہ یک روز بہ انجارفتم منزل علامہ اقبال از عمارات یک کوچک روی پایہ چوبی نصب شدہ بود کہ روی آن این عبارت سادہ خواندہ میشد’’ محمد اقبال وکیل دعوٰی‘‘ ۔ زنگ دروازہ رافشار دادم شخصی بہ دروازہ ظاہر شد پرسید چہ میخواھی کارت خود را کہ در زیرنام آرزوی خود را برای ملاقات علامہ بہ قلم نوشتہ بودم برایش دادم کمی بعد برگشتہ مرا بہ داخل عمارت رھنمائی کرد۔ ترجمہ: ۱۹۳۳۵ء میں ، میں نے اپنی والدہ محترمہ جوکہ بیمار تھی کے ساتھ پہلی بار برصغیر کا سفر کیا۔ والدہ کی علاج کے لئے لاہور گیا۔ وہاں اپنے تین ماہ کی قیام کے دوران میں نے تھوڑی سی اردو بھی سیکھ لی جو کہ روزمرہ بول چال کے لئے کافی تھی۔ اس دوران میں نے سوچا کہ علامہ اقبال جن سے تعارف کابل میں ہوئی تھی سے ملاقات کرلوں۔ ان کے گھر کا پتہ معلوم کیا۔ علامہ کا نو تعمیر شدہ مکان لاہور شہر کے ایک رہائشی علاقے میں واقع تھا۔ دروازے کے تختے پر ان کے نام کا ایک سادہ سا لوحہ لگا تھا۔ جس پر یہ تحریر درج تھا۔ محمد اقبال وکیل دعویٰ (ایڈوکیٹ) دروازے کی گھنٹی بجائی ایک شخص باہر آیا آنے کا غرض پوچھا میں نے اپنے تعارفی کارڈ پر نام کے نیچے علامہ سے ملاقات کی آرزو لکھ کر ان کو دی۔ تھوڑی دیر کے بعد وہ شخص باہر آیا میری رہنمائی کرتے ہوئے مجھے اندر لے گیا۔ رشتیاؔ نے علامہ سے اپنی اس ملاقات کے پہلے تاثر کو یوں محفوظ کیا ہے: علامہ اقبال کہ در یک اطاق سادہ و بی حوا بہ روی بستر افتادہ بود بہ دیدن من روی بستر نشت و بامن مصافحہ کرد ازین کہ از یک جوان افغان در منزل خود پذیر ایٔ مینما ید اظہار خوشنودی نمود۔ صحبت ما بہ زبان اردو البتہ از طرف من بہ صورت شکستہ و ا بتدای ادامہ یافت علامہ با تبسم تشویق آمیز فرمود ’’اگر نمی دانستم کہ افغان استید فکر میکردم بایک کشمیری صحبت میکنم از این لطف و حسن نظرشان تشکر کردم۔ ترجمہ: علامہ اقبال چونکہ ایک سادہ سے کمرے میں بستر پر لیٹے ہوئے تھے ۔ مجھے دیکھتے ہی بستر پر بیٹھ گئے۔ مجھ سے مصافحہ کیا۔ اپنے مکان میں ایک نوجوان افغان کی آمد پر مسرت کا اظہار کیا ۔ ہماری گفتگو اردو زبان میں ہوئی۔ البتہ میری طرف سے گفتگو کا آغاز شکستہ اور ٹوٹی پھوٹی اردو میں ہوئی۔ میری حوصلہ افزئی فرماتے ہوئے علامہ نے مسکر ا کر کہا اگر میں یہ نہ جانتا کہ توایک افغان ہے میر ا خیال ہوتا کہ ایک کشمیری سے گفتگو کر رہا ہوں۔ ان کے اس حسنِ ظن سے میںنے ان کا شکریہ ادا کیا۔ علامہ کے ساتھ رشتیاؔ کی گفتگو کا موضوع کیا تھا اس کا جواب رشتیاؔ کے مقالے میں موجود ہے: بعد سخن راجانب افغانستان دور دادہ گفت من ازاول جوانی بہ افغا نستان عشق و علاقہ خاصی داشتم طبیعت کوہستانی و مردم آزادہ و تاریخ پر ماجرای آن مرابیش از ھر کشور دگر بہ سوی افغانستان جلب میکرد رجال بزرگ شمشیر و قلم را کہ از این سرزمین مرد خیز برخاستہ بہ حیثیت پیشوایان خود محسوب مینمودم محمود غزنوی شیر شاہ سوری و احمد شاہ درانی ھمیشہ قھرمان خیالی من بودہ اند درحالی کہ مولانای بلخی وسنائی غزنوی وسید جمال الدین افغانی رامرشدان راہ طریقت خود میدانم در دورۂ معاصر جنگھائی بید ریغ مردم آفغانستان برضد امپریالیزم انگلیس بہ خاطر دفاع از آزادی شان تا زمان حصولِ استقلال کامل این کشور الھام بخش اکثر سرود ھائی من میباشد بزرگ مردان مانند غازی امان اللہ خان و افکار روشن و آرزو ھای والای او برای آزادی و سربلندی مشرق زمین در قلب من ھموارہ جایگاہ بلندی دارد مسرورم کہ یک فرزند والا گہر دگر افغان اعلیٰ حضرت محمد نادر شاہ راھم شخصاً کمی بیش از شھادت شان زیارت کردم خلاصہ من شیفتہ کشور شما و دوستدار مردمان نجیب آن میباشم و برایم مایۂ خوشی است کہ در این شامگاہ زندگانی بار دیگر بہ دیدار یک جوان افغانی نایل گردیدم تا احساسات درونی و عشق و علاقہ عمیق قلبی خود را توسط او بہ مردم باجوھر افغانستان برسانم۔ (۱۲۴) ترجمہ: اس کے بعد علامہ نے موضوع افغانستان کی طرف موڑ کر فرمایا میں ابتدائی جوانی ہی سے افغانستان کے ساتھ انتہائی عشق اور تعلق رکھتا ہوں۔ افغانوں کا کوہستانی مزاج اور حریت پسندی اور ان کی ماجرائی تاریخ نے میری توجہ مملکتِ افغانستان کی طرف مبذول کرائی۔ اس مردم خیز سرزمین کے اربابانِ قلم کو میں اپنے لئے رہنما تصور کرتا ہوں۔ محمود غزنوی، شیرشاہ سوری اور احمد شاہ درانی میرے خیالات کے ہیرو رہے۔ مولانا بلخی ، سنائی غزنوی اور سید جمال الدین افغانی کو راہ طریقت میں اپنے مرشد گردانتا ہوں۔ موجودہ حالات میں انگریز استعمار کے مقالے میں افغانوں کی بے دریغ جنگیں مادرِ وطن کی دفاع اور حصولِ استقلال تک ان کی جدو جہد حریت میرے اکثر منظومات کے لئے الہام بخش ثابت ہوئے۔ اس سرزمین کے باہمت مرد میرے لئے قابلِ احترام ہیں۔ جیسے ۔غازی امان اللہ خان آزادی اور سربلندیٔ مشرق کے لئے بلند مقام کے حامل ہیں۔ اور خوش ہوں کہ ایک اور قابلِ قدر افغان فرزند اعلیٰ حضرت محمد نادر شاہ سے ان کی شہادت سے تھوڑے ہی عرصہ پہلے بذاتِ خود شرفِ ملاقات حاصل کرچکا ہوں۔ مختصر یہ کہ میں آپ کے مملکت کا شیدائی اور آپ کے غیور عوام کا مداح ہوں اور یہ امر بھی میرے لئے باعثِ مسرت ہے کہ زندگی کے ان آخری شاموں میں ایک بار پھر ایک افغان نوجوان سے ملاقات کررہا ہوں تاکہ اپنے اندرونی احساسات اپنی عشق و محبت اور گہری دلی وابستگی اس جوان کے ذریعے افغانستان اور ان کے باسیوں تک پہنچا سکوں۔ ایک طرف عاشقِ افغانستان اپنے معشوق مملکت کے باسیوں کے لئے یہ الفاظ ادا کررہا تھا اور دوسری طرف ایک جوان افغان اپنے محسن و مربی کے ان باتوں کو سننے کے لئے ہمہ تن گوش تھا۔ علامہ اقبال این جملات صمیمانہ رادر حالی کہ ھر دم صرفہ گلویش رامیگرفت یکی بعد دگر بالحن پرھیجانی یکایک ادا میکرد و من سراپا سکوت و محو گفتار سرگوش مانند این مرد بزرگ بودم و تنھا سرخود رابہ علامت اظھار امتنان شور میدادم این کہ گفتار بلند بالای او بہ پایان رسید مثل این کہ از عوالم دگری بہ زمین فرمود آمدہ باشد بانگاہ پرسش آمیزی بہ من نگرسیتہ گفت ببخشید انقدر از دیدن شما حظ بردم و بہ بیان احساسات و اندیشہ ھای درونی خود مشغول گردیدم کہ فراموش کردم بپرسم شما چای ھندی را میپسندیدیا بہ چای انگلیسی عادت دارید۔ من بدون تامل جواب دادم کہ چای ھندی رامیپسندم بہ زودی ملازم سینی چای را مقابلم قرار دادمن درحالی کہ ھنوز گفتار محبت آمیز و خوش ایند او در ذھنم طنین انداز بود خواستم یک قاشق کلان بورہ رابہ پیالی ٔ چامی بریزم کہ صدای علامہ بہ گوشم رسید کہ میگوید احتیاط کنید این شکر نیست نمک است و بعد با تبسم معنی داری بہ من نگرستہ افزود اکنون دانستم کہ شما بہ چای ھندی اشنا نیستید اجازہ بد ھیدبرای تان چائی انگلیسی فرمائش بدھم از این پیش آمد ناراحت شدم اما علامہ اقبال کہ ضمناً چاي بہ اصطلاح نگلیسی را فرمائش دادہ بودہ۔ (۱۲۵) ترجمہ: ’’علامہ اقبال یہ عقیدت مندانہ جملے ایک ایسے حالت میں ادا کرتے رہے جب ان کے گلے اور سینے میں تکلیف بھی تھی اور اس وجہ سے ان کی آواز بھی لرز جاتی مگر وہ یہ جملے مسلسل ادا کرتے رہے۔ اور میں سراپا خاموش اس مردِ دانا کے اس گفتگو میں ڈوبار ہا اور صرف عقیدتاً اور تشکر اً سر ہلاتا رہا یہاں تک کہ ان کی بلند و بالا اور گراں قدر گفتگوپایۂ تکمیل تک پہنچی۔ ایسے میں جیسے کسی اور عالم سے اس زمین پر آئے۔ دفتاً مجھے سوالیہ نظروں سے دیکھ کر پوچھا ۔ معاف کیجئے گا آپ کے آنے کی اس قدر خوشی ہوئی کہ اپنے خیالات اور ندرونی کیفیات کے بیان نے مجھے اس قدر مصروف رکھا کہ آپ سے پوچھوں آپ ہندی چائے پسند کریں گے یا انگریزی۔ میں نے توقف کئے بغیر کہا میں ہندی چائے پسند کرتا ہوں۔ ملازم نے جلدی سے چائے میرے سامنے رکھے میں ابھی تک ان کی محبت آمیز گفتگو کے اثر میں اس قدر محو رہا اور چاہا کہ ایک بڑا چمچہ چینی اپنے چائے میں ڈالوں علامہ سمجھ گئے اور کہا کہ احتیاط کریں۔ یہ چینی نہیں نمک ہے۔ اور معنی خیز انداز میں مسکرا کر کہا کہ اب میں سمجھ گیا کہ تو ابھی تک ھندی چائے سے آشنا نہیں ۔ اجازت دیجئے کہ آپ کے لئے انگریزی چائے کا آرڈر دے دوں۔ مجھے ان کو دوبارہ تکلیف دینے کی کوفت ہوئی۔ علامہ نے بہ اصطلاح انگریزی چائے کا آرڈر دے کر موضوع بدل دی۔علامہ نے رشتیاؔ سے افغانستان میں ان کے زیادہ پڑھے جانے والے کتب کے بارے میں پوچھا آخر میں رشتیاؔ کو آٹوگراف کے طور پر درج ذیل رباعی ان کے نوٹ بک میں لکھ کر دی۔ ؎ ز انجم تا بہ انجم صد جہان بود خرد ہر جا کہ ہرزد آسمان بود و لیکن چو بہ خود نگریستم من کران بیکران درمن نہان بود مقالہ نمبر۱۹: قلب آسیاگذرگاہ و نظرگاہ علامہ اقبال از سر محقق عبداللہ بختانی خدمتگار عبداللہ بختانی خدمتگار پشتو و فارسی کے ممتاز شاعر محقق اور مورخ ہیں۔ آپ نے افغانستان میں علامہ کے فن و شخصیت پر پہلاباقاعدہ تالیف ترتیب دیا تھا۔ اس کے علاوہ فارسی میں منظوم خراجِ تحسین اور دیگر مقالات کے ساتھ فارسی میں یہ مقالہ بھی لکھا۔ یہ مقالہ ویسے تو ھفت روزہ ’’وفا‘‘ (۱۰ جدی ۱۳۷۶ ھ ش) میںشائع ہوا لیکن آپ نے اس کو کابل کے خیرخانہ میں ۲۰ سرطان ۱۳۷۴ھ ش بمطابق ۱۱جولائی ۱۹۹۵ء لکھا تھا۔ مقالے کا آغاز علامہ کے ابیات ، تراکیب، مفاہیم اور اصطلاحات کی ترتیب سے مزین ہے۔ زندگی سالھا در کعبہ وبتخانہ نالید تا از بزم عشق دانای راز برون آمد رموز بیخودی رابی پردہ گفت اسرار خودی رافاش ساخت مغز قرآن برداشت زبور عجمش نامید بابانگِ درا پیامِ مشرق را باز گفت۔ پس چہ بایدکرد ای اقوام شرق (۱۲۷) ترجمہ: زندگی مدتوں تک کعبہ و بتخانے میں روتی رہی کہ بزمِ عشق سے ایک دانائے راز باہر آیا انہوں نے خودی کے اسرار کو فاش کیا۔ قرآن کے روح سے آگاہی کو’’ زبورِ عجم‘‘ سے موسوم کیا ’’بانگِ درا‘‘ سے اہلِ’’ مشرق کو پیام‘‘ دیا۔ اور کہا کہ اے ’’اقوامِ مشرق ‘‘اب کیا کرنا چاہیئے۔ مقالے میں اقبال کی اس دنیا میں آمد عالمِ انسانی کے لئے باعثِ سعادت قرار دیا۔ ستارہ اقبال درشب تیرہ و تار درجہان مشرق درخشید۔ بر مغرب نیز پر توافگند گویاؔ ستارۂ بخت انسان و نور انسانیت بود نوری بہ سان عاطفۂ انسانی ۔ باری این کوکب درخشان از افق مشرق مھین ما طالع گردید دانای راز راز دارماشد۔ آں کہ مشرق و غرب رانیک میدانیست واز سرشت سرگذشت ملل آگاہ بود، شیشۂ ناموس عالم در بغل داشت ہر کہ پاکج میکوشید ھر منکری را بادستانش تغیر دہد۔ باایمان راسخ قلم بہ دست میگرفت دم را باقلم یار میساخت۔ برانچہ منکر است انگشت میگذاشت حرفِ حق را بیھراس میگفت چیزی را در دل نگہ نمیداشت دمیکو شید کہ تا درجہ۔۔۔ الایمان تنزل نکند او بود کہ با خطرنا کترین منکرات زمین و زمانش ازمید از قبیل استعمار استشمار نادانی بزدلی گمراھی و بیراھی۔ (۱۲۸) ترجمہ: اقبال کا ستارہ فلکِ مشرق کی تاریکیوں میں اس طرح چمکا کہ اس کا پرتو مغرب میں بھی جلوہ گزیں رہا۔ گویاؔ یہ ستارہ انسانی سعادت اور انسانیت کے لئے نور کا وجہ بنا۔ انسانی وجدان پر اس روشن ستارے کے گہرے اثرات مرتب ہوئے اور یہ سعادت ہمارے مملکت کے حصے میں بھی آئی۔ یہ دانائے راز ہمارا راز دار بنا۔ مشرق و مغرب کا یہ بہی خوا ملتوں کے آغاز و انجام سے باخبر عالمی عزت کے شیشہ بغل میں لئے آیا۔ جس نے بھی کج روی کا مظاہرہ کیا تو اقبال نے خونِ دل کا پیالہ پیا۔ اقبال نے ہر منکر کو راہِ راست پر لانے کی کوشش کی۔ روح کو قلم سے آشنا کیا۔ ہر منکر پر تنقید کی اور حرفِ حق کو بلاخوف بیان فرمایا۔ کسی چیز کو دل میں پنہاں نہیں رکھا۔ اور حتی الامکان کوشش کی کہ ایمان کو زوال نصیب نہ ہو کیونکہ وہ زمین اور زمان کے خطرناک ترین دور میں جی رہا تھا۔ اور وہ استعمار ، استشمار کی نادانی بزدلی گمراہی اور بیراہی کا دور تھا۔ جناب بختانی اس دور میں اقبال کی آمد کو علم ادب اور سیاست حال، ماضی اور مستقبل کے لئے خوش بختی کا باعث گردانتے ہیں اقبال نے پیرِ مغرب جرمن نکتہ داں گوئیٹے کی جواب میں ’’پیامِ مشرق‘‘ لکھا اور بختانی نے افغانستان کے بادشاہ اعلیٰ حضرت غازی امان اللہ خان کے نام اس کتاب کے انتساب کو قابلِ تحسین اقدام قرار دیا۔ بلی علامہ محمد اقبال نور خورشید آسماں علم ادب و سیاست، کہ ماضی، حال وآئیندہ امم را بابیان تند‘ شیرین و روشن درمیان میگذاشت سخنوری کہ بہ جواب پیرِ مغرب نکتہ داں المانی گویتہ ’’پیامِ مشرق‘‘ را سرودہ و این ھدیہ ارجناکش راہ پادشاہ افغانستان اعلیٰ حضرت امان اللہ خان پیشکش نمود و در مقدمہ تصویر عین امت اسلامی راچنین کشید: ؎ دیدہ ئی ای خسرو کیوان جناب آفتاب ماتوارت بالحجاب ابطحی در دشت خویش ازراہ رفت از دم او سوز الا اللہ رفت مصریان افتادہ در گرداب نیل سست رگ تورانیان ژندہ پیل ال عثمان درشکنج روزگار مشرق و مغرب زخونش لالہ زار عشق را آئین سلمانی نماند خاک ایران ماند و ایرانی نماند سوز و ساز زندگی رفت از گلشن آن کہن اتش فسرد اندر دلش مسلم ہندی شکم را بندہ ائی خود فروشی دل ز دین برکندہ ائی جناب بختانی حضرت علامہ کے مادی اقدار سے بالاتر معنوی شخصیت سے کافی متاثر دکھائی دیتے ہیں۔ ان کے نظریات کو سراہتے ہوئے ان کے نژادی نسلی قیودات کے فلسفے سے بالاتری کو تحسین پیش کرتے ہیں۔ شاعر مسلمان ھندی و ترکی حجازی، و مصری، ایرانی وتورانی را با صراحت انتقاد کرد ناتوانیھای مادی معنوی و روانی شان راتشخیص داد قانونمندی ناتوانیھا دریافت آن را عمومیت بخشید و انتقادش راخلاصہ کرد۔ ؎ درمسلمان شأن محبوبی نماند خالد و فاروق و ایوبی نماند مگر درھمین فضا خطاب شاہ ما ملت ما راستود ؎ ای ترا فطرت ضمیرِ پاک داد از غم دین سینۂ صد چاک داد تازہ کن آئین صدیق و عمر چون صبا بہ لالۂ صحرا گذر بختانی اس کی تائید کرتے ہیں کہ حضرت علامہ نے پشتونوں کی پسماندگی کی علت نادانانی ، ناداری اور جہالت قراردے کر درست تشخیص کی ہے۔ اور شاہ افغانستان کو مشورہ دیا ہے کہ اس غیور ملت کی کوہساروں کے مکینوں کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کردے۔ گویاؔ حکیم مشرق مشخص ساخت کہ علت الملل پسما نیھای ملت افغان ناداری و نادانی است و بہ شاہ کشور مشورہ داد کہ برای تھذیب این ملت غیور علم را ازسینۂ احرار و ثروت را از سینہ کہسار مینھش برگیرد۔(۱۳۱) بختانی صاحب اگرچہ تحقیق کے اسرار و رموز سے آگاہ ہیں اور سرمحقق کے علمی رتبے تک پہنچ چکے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود چونکہ وہ بنیادی طور پر ایک شاعر ہیں اس لئے وہ علامہ کے سفرِ افغانستان (۱۹۳۳ئ) کو ایک شاعرانہ احساس کے ساتھ پرکھتے ہیں۔ اس مقالے میں سفرِ افغانستان کا جائزہ اگرچہ ایک طرف سے اپنی شاعرانہ انداز سے پیش کیا ہے تو دوسری طرف جابجا علامہ کے شعری کیفیات کو بھی پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ بلی شاید در آرزوی سیر و گلگشت کہسار مانیز بود تادر اکتوبر ۱۹۳۳ء ہفتا دو دو سال قبل ازا مروز چون صبا بر لالۂ صحرا خرامید در درہ خیبر باور ھایش را بہ تداعی گرفت و باز دریافت۔ ؎ خیبر از مردان حق بیگانہ نیست در ضمیرش صد ھزار افسانہ ایست جادہ کم دیدم ازو پیچیدہ تر یاوہ گردد درخم و پیچش نظر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بختانی صاحب نے علامہ کی اس براہِ راست سفر کے علاوہ اس دلچسپ روحانی و تخیلی سفر کا ذکر بھی کیا ہے جس میں علامہ کا روحانی مرشد بلخی آگے آگے ہیں اور مرید ہندی سراپا حیرت سراپا عقیدت ان کے پیچھے پیچھے اس حیرت کدے کے اسرار و رموز کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ شاعر سفر دگری نیز دارد وان عروج روحانی و یا سفر تخلیلی وسیت بہ اوج جھہان ، کیھان و فرا تر از اسمانھا اقبال در اثر جاودان خویش مثنوی ’’جاوید نامہ‘‘ داستان سفر شاعرانہ اش را با بداعت تام بہ سرر سانیدہ است او در عالم خیال بہ سیر سیاحت و سفر دورودرازی پرداختہ و درجریان سیر بہ عالم بالا توانستہ است با ارواح بزرگان دین و دولت اسلامی گفت و شنود ھایٔ داشتہ باشد۔ تعجب نباید کرد شاعر در این سفر خیالی خویشتن راہ زندہ او د نامیدہ و رومی یعنی مولانا جلا ل الدین بلخی رامرشد رھبر و رھنمایٔ سفرش معرفی کردہ است۔(۱۳۳) اس سفر کے دوران پھر بختانی کا مقصد اپنے موضوع سے متعلق افغان شخصیات سے علامہ کی ملاقاتوں کا تذکرہ ہے پہلے فلک عطار د پر سید جمال الدین افغانی کا حال ہے جو سعید حلیم پاشا کا امام بنا ہوا ہے۔ قصر سلاطین میں ابدالی سے ملاقات کی دلچسپ روداد کو بیان کیا گیا ہے۔ مقالے کے آخر میں افغانستان کے حالات کے پیشِ نظر علامہ کی اس پیش گوئی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جس میں افغانستان کی آبادی ایشیا کی آبادی اور افغانستان کی بربادی ایشیا کی بربادی سے تعبیر کی گئی ہے۔ بختانی نے جہانِ عالم بالخصوص اقوامِ ایشیا سے اس عظیم فلسفی کے اس پیش گوئی سے عبرت حاصل کرنے کی اپیل کی ہے۔ مقالہ نمبر۲۰: پ›‚پ‍ ‹ ٹ¢“‰پ‍ ژ'„¤ ¤ ں¤ ¦ ¢پ‍ (اقبال خوشحال کا حقیقی شیدائی) از  محمد آصف صمیمؔ جناب محمد آصف صمیمؔ کا یہ مقالہ اقبال کے خوشحال سے عقیدت ،محبت اور ان کے اثرات سے متعلق ہے۔ جو مجلہ ’’سپیدہ‘‘ میں ۱۳۷۸ھ شٌ ۱۹۹۹ء میں شائع ہوا۔ مقالے کا آغاز اقوامِ عالم میں مشاہیر کے ابدی و آفاقی احسانات سے متعلق ہے اور پشتون معاشرے میں خوشحال خان کے خدمات کے تعریف سے مشتق ہے۔ د  %+ ولسونہ پہ خپل تاریخ œ'* " * دا’* ’!¤ او ں¤%¢ ¦ لری ˆ* د مر( !œ¤ ورتہ #¢ک پر ٹ¢لہ نہ راو%ی خوزمانہ پر ولسونو د دا’* ں¤%و پہ ‚' ¦ œ'* پیالی نیولی او مو!¤کری لاس (بخل) کار اخلی ˆ* دد™’* ناویاتو لورو نویوہ ‚¤‍(¦ ھم د ƒ'„ ¤ افغانی او انسان  %+ مفکر او ں‚‍™ خوشحال ٹ!œ دہ۔ (۱۳۴) ترجمہ: اقوامِ عالم کی تاریخ میں بعض ایسی ہستیاں ہوتی ہیں جن کے لئے موت کا لفظ استعمال کرنا کسی کے بس کی بات نہیں ہوتی۔ مگر زمانہ پھر بھی ان ہستیوں کے اعتراف و کمال کے تحسین کے لئے بخل سے کام لیتی ہے۔ اس طرح کے نامور ہستیوں میں ایک پشتون افغانی اور انسانی معاشرے کا مفکر و مبلغ خوشحال خان خٹک ہیں۔ اپنے اس دعوے کی ثبوت میں فاضل مقالہ نگار نے خوشحال خان کے مختلف کارناموں پر روشنی ڈالی ہے۔ اور ساتھ ساتھ ان کے کلام کی روشنی میں ان کے مختلف افکار کا جائزہ لیا ہے۔ مغلوں کے خلاف ان کی نبرد آزمائی افغانوں کو متحد و متفق کراناحریت، غیرت اور استقلال کے پرچم کو سر بلند رکھنا خوشحال خان کے مقاصد میں شامل تھیں۔ مقالہ نگار نے پوھاند عبدالشکور رشادؔ کے مقالے سے براہِ راست استفادہ کیا ہے جن کے مباحث پر پہلے تحقیق کیا گیا ہے ۔ اور نبوغ اور ذہانت کے اعلیٰ اوصاف کے زنجیر کی کڑیوں کا سلسلہ خوشحال سے شروع کرکے مولانا عبدالحکیم سیالکوٹی اور پھر حضرت علامہ سے ملایا۔ خوشحال خان خٹک اور علامہ کے زمانے کے سیاسی ماحول کے اشتراک کے نکات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے: علامہ اقبال دا’* مھال ستر(* و ™%ولی ˆ* د خوشحال خان د عصر پہ #¤ژ ƒ'„پنہ مسلمانان د (¢ر(پنی شکیلا œ(ژو و د نارو او پہ ‚!¤¢ œ'* ¢رتیدہ د علامہ د سر راھسکولو پر وخت ھم اسلامی ملت او د نیمی وˆ* مسلمانان د پیر (¤ زور واکیو د تیری او بلوسی پہ سیخانوœ'* پیدلی وو۔ علامہ د غوبلوسو او ƒ¤ژ (¤ مریتیوبہ د مسلمانان ‹ ژغورنی لپارہ د درملنی پہ فکرœ'* وو۔ او درملنہ یي دا()‍¦ ˆ* د  %+ مسلمانان ‹ توحید پہ مزبوتہ ر’+ ں (¢‍* و‍(¢ی او بیا د توحید د خپراوی لپارہ د خدمت او ژمنی ملا و„%ی۔ (۱۳۵) ترجمہ: علامہ اقبال نے ایک ایسے دور میں آنکھ کھولی جو خوشحال خان خٹک کے دور کے مانند پشتون اور مسلمان گورگانی استعمار گروں کے ظلم و جبر کے بٹھیوں میں بون رہے تھیں۔ علامہ فرنگی استعمار کے خلاف مسلمانوں کی احیاء کے لئے ہر وقت متفکر رہتے تھے۔ مسلمانوں کا علاج ان کے خیال میں صرف اور صرف توحید کے رسی کو مضبوطی سے پکڑنے کی صورت میں ممکن تھا کہ مسلمان متحد ہونے کے بعد توحید کی اشاعت اور اسلام کی خدمت و حفاظت کے لئے کوشاں رہے۔ مقالے میں جا بجا حضرت علامہ کے اشعار کا حوالہ دیتے ہوئے ان کے منظوم پشتو تراجم کی طرف بھی رجوع کیا گیا ہے۔ شیر محمد مینوشؔ کا منظوم پشتو ترجمہ کنندہ ضربِ کلیم، ضربِ کلیم از سید محمد تقویم الحق کاکاخیل ، پس چہ باید کرد از سید محمد تقویم الحق کاکاخیل، جاوید نامہ از امیر حمزہ شینواری، بالِ جبریل از قاضی عبدالحلیم اثرؔ، پلوشی (بالِ جبریل) از عبداللہ جان اسیرؔ۔ متذکرہ بالا حضرات کے منظوم تراجم سے استفادہ کیاگیا ہے۔ مقالہ نگار لکھتے ہیں کہ علامہ نے خوشحال کے خیالات و افکار سے شناسائی ان سو منظومات کے ذریعے حاصل کی تھی جس کا انگریزی ترجمہ ۱۸۶۲ء میں لند ن سے شائع ہوا تھا۔ تب ان کے فن و شخصیت سے متاثر ہوکر علامہ نے ۱۹۲۸ء میں حیدرآباد دکن کے’’ اسلامی کلچر‘‘ کے سہ ماہی رسالے میں Khushal Khan Khattak the Afghan Warrior Poet کے عنوان سے شائع کیا۔ علامہ د راور!¤ د دغو ژبا%ولیو نظمونو پہ لؤستو دومرہ اغیزمن شو ˆ* پہ ’’اسلامی فرہنگ ‘‘ œ'* پہ دغہ خپرہ شوی لیکنہ œ'* ي د افغانستان لہ پوھنی وزیر نہ غوستنہ وœ%ہ ˆ* یو افغان پوھمن او #¤%ونکی د خوشحال د شاعر+ او نقادانہ افکارو تر #¤% * وروستہ د خوشحال پر ادبی او علمی کارنامو باند* یو کتاب لیکلو تہ و(¢ماری۔ د   اعلیٰ حضرت غازی امان اللہ خان لہ حکومت نہ دد™’* غو'„ * لامل دا وو ˆ* ھغہ د نیمی و ˆ* د مسلمانانو پہ ز%ونو œ'* حٔان تہ حٔایٔ درلود او یو !¢ل منلی مسلمان واکمن ي (پ)¦ او تر* ھیلہ من وو ˆ* لہ پیر (¤ مریتیوبہ  بہ ي د ھمدہ ں!¤ راوباسی۔ (۱۳۶) ترجمہ: علامہ راورٹی کے ان منطوم تراجم سے اس قدر متاثر ہوا کہ’’ اسلامک کلچر ‘‘کے اپنے مقالے میں افغانستان کے وزیر معارف سے اپیل کی کہ کسی افغان سکار محقق اور عالم کو خوشحال خان خٹک کے نقادانہ افکار پر تحقیق اور ان کے ادبی اور علمی کارناموں پر کتاب لکھنے کا علمی فریضہ سونپے۔ اعلیٰ حضرت امان اللہ خان کے حکومت سے اس طرح کی اپیل کی وجہ یہ تھی کہ برصغیر کے مسلمانوں کے دلوں میں امان اللہ خان کے لئے انتہائی عقیدت موجود تھا۔ اور انہیں ایک متفقہ مسلمان حکمران تصور کرتے تھے۔ اور تمام مسلمان ان سے توقع رکھتے تھے کہ وہ انگریز کی غلامی سے نجات دلائینگے۔ مقالے میں جابجا حضرت علامہ کے مقالے کے حوالے دیئے گئے ہیں۔ جن میں خوشحال خان کے گرانقدر علمی ادبی اور جرأتمندانہ شخصیت کا جائزہ مختلف حوالوں سے لیا گیا ہے۔ اور ساتھ ہی جا بجا علامہ کے افکار پر خوشحال کے اثرات کا بھی تقابلی جائزہ پیش کیا ہے۔ خوشحال:۔ ؎ ˆ* #ژ( ‹ہ سربازی کاندی پہ تورو زہ خوشحال ٹ!œ تر §’* ھنر جارشم ترجمہ: جو تلوار پر سربازی کا ہنر جانتا ہے میں خوشحال اس پر قربان ہو۔ اقبال:۔ ؎ وہی ہے بندہ حُر جس کی ضرب کاری نہ وہ کہ حرب ہے جس کی تمام عیاری! خوشحال:۔ ؎ لکہ باز پہ لو* لو* 'œپر زما نظر وی نہ ˆ* (ژحٔی (¢ ( نیی باد خورک یم ترجمہ: باز کی طرح بڑے بڑے شکار پر میری نظر مرکوز ہے ۔ میں کوئی کمزور پرندہ نہیں جو گذر بسر پر گزارا کرنا ہے۔ اقبال:۔ ؎ نگاہِ عشق دلِ زندہ کی تلاش میں ہے! شکارِ مُردہ سزاوارِ شہباز نہیں خوشحال:۔ ؎ د ’%ی ˆ* فرشتہ وی ھم شیطان وی کہ ’%ی و خپل عمل تہ  (ژان شی یو پہ بد عمل œ* حٔی تحت الثریٰ    تہ بل پہ '¦ عمل د پاسہ د آسمان   شی کہ دوزخ لرہ #¢ک بیايکہ جنت   لہ بلہ نہ وینم پہ منحٔœ'* خپل اعمال دی (۱۳۷) ترجمہ: اگر کوئی اپنے عمل کا نگران بن جائے تو اس کے بدولت وہ فرشتہ یا شیطان بن جاتا ہے۔ کوئی بد عمل کی وجہ سے تحت الثریٰ جاتا ہے اور کوئی بہتر عمل کی وجہ سے آسمان سے گزر جاتا ہے۔ کسی کو جنت لے جاتا ہے کسی کو دوزخ ۔ اس درمیان اپنے اعمال کے علاوہ کوئی چیز نہیں۔ اقبال:۔ ؎ عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے مقالے کے اختتام میں مأخذات کی تفصیل دی گئی ہے۔ جن کی تعداد ۱۵ ہیں۔ متذکرہ منظوم تراجم کے علاوہ مقالہ نگار کے مأخذات میں ذیل کتب شامل ہیں۔ کلیات خوشحال خان خٹک ۲ جلد، فراق نامہ، (پم پہ (پم لہ خوشحال سرہ،ƒ'„پ ¦ د علامہ اقبال پہ نظر œ'*، خوشحال او اقبال ، تقویم تاریخی، شاعر اسلام(۱۳۸) وغیرہ۔ خخخخخخ مأخذات باب ششم:۔ ۱؎ افغانستان و اقبال، ص۔ ۱ تا ۲۱ ۲؎ اقبالیات کا تنقیدی جائزہ، ص۔ ۴۴ ۳؎ اقبال کی صحبت میں ،ص۔ ۱۸۳ ۴؎ اقبال ممدوح عالم ، ص۔ ۲۸۴ - ۳۰۵ ۵؎ آثار اردوی اقبال ، جلد ۱، ص۔ ۸ ۶؎ افغانستان و اقبال، ص۔ ۱ ۷؎ ایضاً، ص۔۲ - ۳ ۸؎ ایضاً، ص۔۳ ۹؎ ایضاً، ص۔۱۲ ۱۰؎ ایضاً، ص۔۱۳ ۱۱؎ ایضاً، ص۔۱۵ ۱۲؎ ایضاً، ص۔ ۱۵ ۱۳؎ ایضاً، ص۔۱۷ ۱۴؎ مجلہ ’’کابل‘‘، ۲۲ مارچ ۱۹۳۱ئ، ص۔ ۱۹ ۱۵؎ ایضاً،ص۔ ۱۹ - ۲۰ ۱۶؎ ایضاً، جون ۱۹۳۲ ء ، ص۔ ۱۲ ۱۷؎ اقبال ممدوح عالم ،ص۔ ۴۳۹ ۱۸؎ مجلہ کابل، جون ۱۹۳۲ئ، ص۔ ۱۲ ۱۹؎ افغانستان و اقبال، ص۔ ۳۸ ۲۰؎ اقبال ممدوح عالم، ص۔ ۴۴۰ ۲۱؎ مجلہ ’’کابل‘‘، جون ۱۹۳۲ئ، ص۔ ۱۲ ۲۲؎ ایضاً، ص۔ ۱۶ ۲۳؎ اقبال ممدوح عالم ،ص۔ ۴۴۴ ۲۴؎ مجلہ ’’کابل ‘‘، شمارہ جون ۱۹۳۲ئ، ص۔۱۶ ۲۵؎ اقبال ممدوح عالم ، ص۔ ۴۴۴ - ۴۴۵ ۲۶؎ نیرنگ خیال، طبع ثانی، ص۔ ۲۳۳، مقالہ پیامِ مشرق (از ڈاکٹر نکلسن) ۲۷؎ مجلہ ’’کابل‘‘، جون ۱۹۳۲ئ، ص۔ ۱۸ ۲۸؎ اقبال ممدوح عالم ، ص۔ ۴۴۶ ۲۹؎ مجلہ ’’کابل‘‘، جون ۱۹۳۲ئ، ص۔۱۹ ۳۰؎ اقبال ممدوح عالم ، ص۔ ۴۴۷ ۳۱؎ مجلہ ’’کابل‘‘، جون ۱۹۳۲ئ، ص۔ ۱۹ ۳۲؎ اقبال ممدوح عالم ،ص۔ ۴۴۸ ۳۳؎ بانگِ درا، ص۔ ۲۷۰ ۳۴؎ مجلہ ’’کابل‘‘ ، شمارہ جون ۱۹۳۲ئ، ص۔ ۲۰ ۳۵؎ ایضاً،ص۔ ۲۱ ۳۶؎ مجلہ ’’کابل‘‘شمارہ مئی جون ۱۹۳۸ئ، ص۔ ۵۹ ۳۷؎ مجلہ ’’کابل‘‘، شمارہ دسمبر ۱۹۳۲ئ، ص۔ ۱۲ ۳۸؎ ایضاً، ص۔ ۱۲ - ۱۳ ۳۹؎ ایضاً، ص۔ ۱۳ ۴۰؎ اقبال ممدوح عالم ، ص۔ ۲۸۹ ۴۱؎ مجلہ ’’کابل‘‘، ۲۳ دسمبر ۱۹۳۴ئ، ص۔ ۸۴ ۴۲؎ ایضاً، ص۔ ۸۵ ۴۳؎ مجلہ ’’کابل‘‘،ص۔ ۸۵ ۴۴؎ مجلہ ’’کابل‘‘، مئی جون ۱۹۳۸ئ، ص۔ ۷۸ ۴۵؎ ایضاً، ص۔۸۳ ۴۶؎ ایضاً،ص۔ ۸۳ ۴۷؎ ایضاً، ص۔۸۳ - ۸۴ ۴۸؎ مجلہ ’’کابل‘‘، مئی جون ۱۹۳۸ئ، ص۔۸۴ ۴۹؎ ایضاً، ص۔ ۸۴ ۵۰؎ ایضاً، ص۔۸۵ ۵۱؎ ایضاً، ص۔ ۸۵ ۵۲؎ آریانا دائرۃ المعارف ، فارسی، جلد ۳، ص۔ ۶۷۲ - ۶۸۱ ۵۳؎ آریانا دائرۃ المعارف، پشتو، جلد ۳، ص۔ ۹۱۴ ۵۴؎ ایضاً، ص۔ ۴ا۹ ۵۵؎ ایضاً، ص۔۹۱۵ ۵۶؎ ایضاً، ص۔ ۹۱۵ ۵۷؎ ایضاً، ص۔ ۹۱۵ ۵۸؎ ایضاً، ص۔ ۹۱۵ ۵۹؎ ایضاً، ص۔ ۹۱۵ ۶۰؎ ایضاً، ص۔۹۲۱ ۶۱؎ مقالات یومِ اقبال، ص۔ ۲۷ ۶۲؎ ایضاً، ص۔ ۲۷ ۶۳؎ ایضاً، ص۔۲۸ ۶۴؎ ایضا، ص۔ ۲۸ ۶۵؎ مقالات یومِ اقبال، ص۔ ۳۱ ۶۶؎   (¤پلی ƒ'„¢ن ، ص۔ ۴۶ - ۴۷ ۶۷؎ ایضاً، ص۔۴۸ ۶۸؎ ایضاًيص۔ ۴۸ ۶۹؎ ایضاً، ص۔۴۸ - ۴۹ ۷۰؎   (¤پلی ƒ'„¢ن ، ص۔ ۴۹ ۷۱؎ ایضاً،ص۔ ۴۹ ۷۲؎ ایضاً، ص۔۵۰ ۷۳؎ ایضاً، ص۔ ۵۰ ۷۴؎ ایضاً، ص۔۵۱ ۷۵؎ اقبال ریویو ، اپریل ۱۹۶۷ئ، ص۔ ۱۶۵ ۷۶؎ ایضاً، ص۔۱۶۶ ۷۷؎ ایضاً، ص۔ ۱۶۶ ۷۸؎ ایضاً، ص۔۱۶۷ ۷۹؎ ایضاً، ص۔۱۷۰ ۸۰؎ دوہ میا“„ + و&مہ، کابل ۱۹۶۷ئ، ص۔ ۱۱ - ۱۲ ۸۱؎ ایضاً، ص۔۱۲ ۸۲؎ ایضاً، ص۔۱۳ ۸۳؎ ایضاً، ص۔۱۴ ۸۴؎ ایضاً، ص۔۱۵ ۸۵؎ مجلہ ’’کابل‘‘، دسمبر جنوری ۸- ۱۹۷۷ئ، ص۔ ۲ ۸۶؎ ایضاًيص۔ ۲ ۸۷؎ مجلہ ’’کابل‘‘، دسمبر ۸- ۱۹۷۷ئ، ص۔ ۳ - ۴ ۸۸؎ مجلہ ’’میثاق خون‘‘، سال دوم، شمارہ ۱۳، قوس ۱۳۶۰ ھ ش، ص۔ ۱۸ ۸۹؎ ایضاً، ص۔ ۱۸ ۹۰؎ ایضاً، ص۔۱۹ ۹۱؎ ایضاً، ص۔ ۱۹ ۹۲؎ مجلہ ’’میثاق خون‘‘، سال دوم، شمارہ ۱۳، قوس ۱۳۶۰ ھ ش، ص۔۲۱ ۹۳؎ ایضاً، ص۔۲۲ ۹۴؎ مجلہ’’ قلم‘‘ ، اکتوبر نومبر ۱۹۸۷ئ، ص۔ ۵۰ ۹۵؎ ایضاً، ص۔۵۱ ۹۶؎ ایضاً، ص۔۵۲ ۹۷؎ ایضاً، ص۔۵۳ - ۵۴ ۹۸؎ ایضاً، ص۔۵۴ ۹۹؎ ایضاً، ص۔۵۵ ۱۰۰؎ ایضاً، ص۔۵۶ ۱۰۱؎ ایضاً، ص۔۵۶ ۱۰۲؎ ایضاً، ص۔۵۷ ۱۰۳؎ ایضاً، ص۔۵۸ ۱۰۴؎ ایضاً، ص۔۵۹ ۱۰۵؎ ایضاً، ص۔۶۴ ۱۰۶؎ ایضاً، ص۔۶۶ ۱۰۷؎ ایضاً، ص۔۶۷ ۱۰۸؎ ایضاً، ص۔۷۲ ۱۰۹؎ مجلہ ’’میثاق خون‘‘، جوزا سرطان ۱۳۶۶ھ ش ، ص۔ ۱۸ ۱۱۰؎ ایضاً، ص۔۲۰ ۱۱۱؎ ایضاً، ص۔۲۱ ۱۲؎۱ ایضاً، ص۔۲۲ ۱۳؎۱ ایضاً، ص۔ ۲۲ ۱۱۴؎ مجلہ ’’میثاق خون‘‘، جوزا سرطان ۱۳۶۶ھ ش ، ص۔۲۳ ۱۱۵؎ ایضاً، ص۔ ۲۳ ۱۱۶؎ دو ماہی ’’قلم‘‘ ، فروری مارچ ۱۹۹۲ئ، ص۔ ۲۲ ۱۱۷؎ ایضاً، ص۔۲۴ ۱۱۸؎ ایضاً، ص۔۲۵ ۱۱۹؎ ایضاً، ص۔۲۶ ۱۲۰؎ ایضاً، ص۔۲۷ ۱۲۱؎ ایضاً، ص۔۲۹ ۲۲؎۱ ہفت روزہ ’’وفا‘‘، ۱۱ جدی ۱۳۷۵ھ ش ، ص۔ ۴ ۲۳؎۱ ایضاً، ص۔۴ ۱۲۴؎ ایضاً، ص۔ ۴ ۱۲۵؎ ایضاً، ص۔ ۴ - ۲۱ ۱۲۶؎ ایضاً، ص۔۲۱ ۱۲۷؎ ہفت روزہ ’’وفا‘‘، ۱۰ جدی ۱۳۷۶ ھ ش، ص۔ ۱۳ ۱۲۸؎ ایضاً، ص۔۱۳ ۱۲۹؎ ایضاً، ص۔ ۱۳ ۱۳۰؎ ایضاً، ص۔ ۱۳ ۱۳۱؎ ہفت روزہ ’’ وفا‘‘، ۱۰ جدی ۱۳۷۶ ھ ش، ص۔ ۱۳ ۳۲؎۱ ایضاً، ص۔ ۱۳ ۳۳؎۱ ایضاً، ص۔۱۸ ۱۳۴؎ مجلہ ’’سپیدہ‘‘ شمارہ یاز دھم ۱۳۷۸ھ ش، ص۔ ۴ ۱۳۵؎ ایضاً، ص۔۵ ۱۳۶؎ مجلہ ’’سپیدہ‘‘ شمارہ یاز دھم ۱۳۷۸ھ ش، ص۔۶ ۱۳۷؎ ایضاً، ص۔۸ ۱۳۸؎ ایضاً، ص۔۹ ـــــــ باب ہفم کتابیات (الف): اردو ۱۔ محمد اقبال علامہ، بانگِ درا، شیخ غلام علی اینڈ سنز، لاہور، ۱۹۸۹ء ۲۔ محمد اقبال علامہ، بالِ جبریل، شیخ غلام علی اینڈ سنز، لاہور،۱۹۹۱ء ۳۔ محمد اقبال علامہ، ضربِ کلیم، شیخ غلام علی اینڈ سنز، لاہور،۱۹۹۲ء ۴۔ محمد اقبال علامہ، ارمغانِ حجاز، شیخ غلام علی اینڈ سنز، لاہور، سن ندارد ۵۔ ابوالحسن علی ندوی، نقوشِ اقبال ، اردو ترجمہ شمس تبریز خان ، مجلس نشریات اسلام، کراچی، ۱۹۸۳ء ۶۔ احمد میاں قاضی اختر جوناگڑی، اقبالات کا تنقیدی جائزہ، اقبال اکادمی، کراچی، ۱۹۵۵ء ۷۔ اختر راھی، اقبال سید سلیمان ندوی کی نظر میں ، بزم اقبال ، لاہور، ۱۹۷۸ء ۸۔ اقبال احمد صدیقی ، علامہ محمد اقبال تقریریں، تحریریں اور بیانات، اقبال اکادمی پاکستان ، لاہور، ۱۹۹۹ء ۹۔ اکرام اللہ شاہد۔ اقبال اور افغانستان ادارہ اشاعت مدرارلعلوم مردان نومبر ۲۰۰۲ء ۱۰۔ اللہ بخش یوسفی، سرحد اور جدوجہدِ آزادی، مرکزی اردو بورڈ ، لاہور، ۱۹۶۸ء ۱۱۔ انعام الحق کوثر ڈاکٹر، علامہ اقبال اور بلوچستان، اقبال اکادمی ، لاہور / سیرت اکادمی کوئٹہ، طبع ثانی، ۱۹۹۸ء ۱۲۔ ایم سلطانہ بخش ڈاکٹر، اردو میں اصولِ تحقیق، جلد۱، مقتدرہ قومی زبان، اسلام آباد، طبع دوم، ۱۹۸۹ء ۱۳۔ ایم سلطانہ بخش ڈاکٹر، اردو میں اصولِ تحقیق، جلد۲، مقتدرہ قومی زبان، اسلام آباد، طبعدوم، ۱۹۸۹ء ۱۴۔ دائرۃ المعارف اسلامیہ، جلد۲، دانش گاہ ، پنجاب لاہور، ۱۹۷۱ء ۱۵۔ دائرۃ المعارف اسلامیہ، جلد۷، دانش گاہ ، پنجاب لاہور، ۱۹۷۱ء ۱۶۔ دائرۃ المعارف اسلامیہ، جلد۹، دانش گاہ ، پنجاب لاہور، ۱۹۷۲ء ۱۷۔ دائرۃ المعارف اسلامیہ، جلد۱۱، دانش گاہ ، پنجاب لاہور، ۱۹۷۲ء ۱۸۔ سلیم اختر ڈاکٹر، اقبال ممدوح عالم، بزمِ اقبال ، لاہور، ۱۹۷۷ء ۱۹۔ سلیم اختر ڈاکٹر، ایران میں اقبال شناسی، سنگِ میل پبلیکیشنز، لاہور، ۱۹۸۳ء ۲۰۔ سلیمان ندوی سید، سیرِ افغانستان ، شیخ غلام علی اینڈ سنز، لاہور، سن ندارد ۲۱۔ صبا لکھنوی، اقبال اور بھوپال، اقبال اکادمی ، پاکستان لاہور، طبع سوم، ۲۰۰۰ء ۲۲۔ ضیاء الدین لاہوری، جوہر تقویم، ادارہ ثقافت اسلامیہ ، لاہور، ۱۹۹۴ء ۲۳۔ طاہر تونسوی، اقبال اور عظیم شخصیات، تخلیق مرکز ، لاہور، ۱۹۷۹ء ۲۴۔ طاہر فاروقی پروفیسر، سیرت اقبال ، قومی کتب خانہ لاہور، طبع سوم ، ستمبر ۱۹۴۹ء ۲۵۔ عبدالحمید عرفانی ڈاکٹر خواجہ ، اقبال ایرانیوں کی نظرمیں، اقبال اکادمی ، پاکستان کراچی، ۱۹۵۷ء ۲۶۔ عبدالسلام خورشید ڈاکٹر، سرگذشت اقبال ، اقبال اکادمی پاکستان لاہور، طبع دوم، ۱۹۹۶ء ۲۷۔ عبدالسلام ندوی مولانا، اقبال کامل، نیشنل بک فائونڈیشن ، اسلام آباد، ۱۹۸۶ء ۲۸۔ عبدالسلام ندوی مولانا، حکمائے اسلام، جلد ۲، نیشنل بک فائونڈیشن ، اسلام آباد،۱۹۸۹ء ۲۹۔ عبدالسلام ندوی مولانا، امام رازی، نیشنل بک فائونڈیشن ، اسلام آباد، ۱۹۹۳ء ۳۰۔ عبدالصمد میر، اقبال اور افغان، یونیورسٹی بک ایجنسی پشاور، ۱۹۹۰ء ۳۱۔ عبدالقدوس ہاشمی، تقویم تاریخی، ادارہ تحقیقات اسلامی، اسلام آباد، طبع دوم ۱۹۸۷ء ۳۲۔ عطاء اللہ شیخ و محمد اشرف ،مرتبین، اقبال نامہ ، جلد ۱، لاہور، ۱۹۴۵ء ۳۳۔ عطاء اللہ شیخ و محمد اشرف ،مرتبین،اقبال نامہ ، جلد ۲، لاہور، ۱۹۴۵ء ۳۴۔ لطیف احمد خان شیروانی، مرتب، حرفِ اقبال، علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی ، اسلام آباد، سن ندارد ۳۵۔ محمد اکرام چغتائی۔ اقبال افغان اور افغانستان۔ سنگ میل پبلی کیشنز لاہور ۲۰۰۴ء ۳۶۔ محمد حسین خان۔ افغان بادشاہ مطبوعہ فیروز پرنٹنگ ورکس ۱۱۹ سرکلر روڈ لاہور سن ندارد۔ ۳۷۔ محمد حمزہ فاروقی، اقبال کا سیاسی سفر، بزمِ اقبال ، لاہور، ۱۹۹۲ء ۳۸۔ محمد حمزہ فاروقی، سفر نامہ اقبال، اقبال اکادمی ، پاکستان لاہور، ۱۹۹۸ء ۳۹۔ محمد خالد ابوالنصر، تقویم ہجری و عیسوی، انجمن ترقی اردو ، پاکستان کراچی، ۱۹۷۴ء ۴۰۔ محمد ریاض ڈاکٹر پروفیسر، مکتوبات و خطباتِ رومی، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور ،۱۹۸۸ء ۴۱۔ محمد عبداللہ چغتائی ڈاکٹر، اقبال کی صحبت میں، مجلس ترقی ادب لاہور، ۱۹۷۷ء ۴۲۔ محمد عبداللہ چغتائی ڈاکٹر ، روایات اقبال، اقبال اکادمی پاکستان ، لاہور، طبع ثانی، ۱۹۸۹ء ۴۳۔ محمد عبداللہ قریشی، روح مکاتیب اقبال، اقبال اکادمی پاکستان ، لاہور، ۱۹۷۷ء ۴۴۔ مصطفی کمال پاشا، فتح افغانستان، جنگ پبلیکیشنز، لاہور، ۱۹۹۲ء ۴۵۔ میکمن لیفٹننٹ جنرل سر ، افغانستان دارا سے امان اللہ تک ، ترجمہ ریاض صدیقی، یونائیٹڈپرنٹرز کوئٹہ، ۱۹۸۷ء ۴۶۔ نعمت اللہ ہروی، تاریخ خان جہانی و مخزن افغانی ، ترجمہ ڈاکٹر محمد شیر حسین ، اردو سائنس بورڈ لاہور، ۱۹۸۲ء ۴۷۔ وحید الدین خان سید فقیر، روزگارفقیر جلد دوم، لائن آرٹ پریس ، کراچی، بار دوم، ۱۹۶۵ء (ب): پشتوکتب ۴۸۔ آریانا دائرۃ المعارف ، ƒ'„¢، دریم !¢ک، د آریانا دائرۃ المعارف !¢لنہ دولتی مطبع ،کابل، ۱۳۳۷ھ ش ۴۹۔ آریانا دائرۃ المعارف ، ƒ'„¢، “ƒ&م !¢ک، مطبع دولتی ، کابل افغانستان ، ۱۳۵۵ھ ش ۵۰۔ آریانا دائرۃ المعارف، ƒ'„¢، اووم !¢ک، مطبع دولتی ، کابل افغانستان، ۱۳۵۵ھ ش ۵۱۔ احمد صمیمؔ، د شاعر فریاد، د کو!¤ چاپ، ۱۳۷۳ھ ش ۵۲۔ حبیب اللّٰہ رفیعؔ، ƒ'„¢ کتاب '¢د، بہقی کتاب خپرولو مؤسسہ،کابل ۱۳۵۶ھ ش ۵۳۔ حبیب اللہ رفیعؔ، ƒ'„¢ پا (¦ ، جلد۲، ƒ'„¢ !¢لنہ دولتی مطبع ، کابل، ۱۳۵۶ھ ش ۵۴۔ حبیب اللہ رفیعؔ، د و&مو  ٹ'* د جہاد ادبی کتاب '¢د ، د افغانستان د اوسنی ادبیاتو د پرمختیا !¢لنہ، ۱۳۶۹ھ ش ۵۵۔ حبیب اللہ رفیع، د و&مو بھیر، جہادی خپرو *، ƒ*'¢ر، ۱۳۶۹ھ ش ۵۶۔ خوشحال خان ٹ!œ، کلیات، جلد۱، د افغانستان د علومو اکادمی، کابل، ۱۳۵۸ھ ش ۵۷۔ د افغانستان کالنی، ۳۸- ۱۳۳۹ھ ش، عمومی مطبع، کابل، ۱۳۳۹ھ ش ۵۸۔ د افغانستان کالنی، ۴۲- ۱۳۴۳ھ ش، دولتی مطبع، کابل، ۱۳۴۳ھ ش ۵۹۔ د افغانستان کالنی، ۱۳۵۰ھ ش، دولتی مطبع،کابل، ۱۳۵۰ھ ش ۶۰۔ د افغانستان کالنی، ۵۲- ۱۳۵۳ھ ش، دولتی مطبع، کابل، ۱۳۵۳ھ ش ۶۱۔ راز محمد ویش پشتو کتاب شود پشتو ٹولنہ کابل ۱۳۳۷ ھ ش ۶۲۔ زرین انحٔور، د افغانستان د ژورنالیزم ںٹœ'پن، دولتی مطبع، کابل، ۱۳۶۵ھ ش/ ۱۹۸۷ء زلمی ھیواد مل مرتب۔ د حمزہ بابا یاد۔ دولتی مطبع کابل ۱۳۶۶ھ ش ۶۳۔ زلمی ھیوادملؔسر محقق، پہ ھند œ'* د ƒ'„¢ ژ‚* دودی او ایجاد ƒ%اؤنہ ، طبع دوم، شرکت پریس، لاہور، ۱۳۷۳ھ ش ۶۴۔ سرفراز خان خٹک۔ خوشحال نامہ۔ تدوین و تحقیق زلمی ھیواد مل وزارت اقوام و قبائل افغانستان کابل ۱۳۶۵ھ ش ۶۵۔ سعید افغانی دکتور، د شرق نابغہ ، وزارت اطلاعات و کلتور،بہقی کتاب خپرولو مؤسسہ،کابل، ۱۳۵۵ھ ش ۶۶۔ سیلاب صافیؔ، خیبر، دولتی مطبع،کابل، ۱۳۴۷ھ ش ۶۷۔ شہزادہ زیارن محقق و مہتمم، ƒ'„¢ #¤% *،جلد۱، د افغانستان د علومو اکادمی، کابل، ۱۳۶۷ھ ش ۶۸۔ شہزادہ زیارن محقق و مہتمم،ƒ'„¢ #¤% *،جلد۲، د افغانستان د علومو اکادمی، کابل، ۱۳۶۷ھ ش ۶۹۔ شیرعلی زمانیؔ، تیر وختونہ، دانش کتابتون، ƒ*'¢ر، ۱۹۹۹ء ۷۰۔ صالح محمد صالحؔ، د ارغند د #ƒ¢ ژبہ، ƒ'„¢ یون،نیویارک، ۱۳۸۰ھ ش/ ۲۰۰۱ء ۷۱۔ عبدالباری شہرت   (¤پلؔ، د افغان مجاھد آواز، ƒ*'¢ر، ۱۳۵۹ھ ش ۷۲۔ عبدالباری شہرت   (¤پلؔ، وینہ پہ قلم œ'*، د افغان د جہادی #¤%نو مرکز، ƒ*'¢ر ۱۳۶۸ھ ش ۷۳۔ عبدالحئی حبیبیؔ علامہ، د افغانستان ƒ*'‍¤œ، د بیہقی کتاب خپرولو مؤسسہ، کابل، ۱۳۵۳ھ ش ۷۴۔ عبدالرؤف بینواؔ، خوشحال خان ٹ!œ #¦ وائی، ƒ'„¢ !¢لنہ، کابل، ۱۳۲۹ھ ش ۷۵۔ عبدالرؤف بینواؔ، اوسنی لیکوال،جلد ۱، دولتی مطبع، کابل، ۱۳۴۰ھ ش ۷۶۔ عبدالرؤف بینواؔ، اوسنی لیکوال، جلد ۲، دولتی مطبع، کابل، ۱۳۴۱ھ ش ۷۷۔ عبدالرؤف بینواؔ، اوسنی لیکوال، جلد ۳، دولتی مطبع، کابل، ۱۳۴۶ھ ش ۷۸۔ عبدالرؤف بینواؔ، ژبا%ہ (¤„پنجلی د رابندر ناتھ !پ(¢ر، د ادبیاتو د پوھنحٔی د ƒ'„¢ #پ (¦ ، کابل، ۱۳۵۴ھ ش ۷۹۔ عبدالرؤف بینواؔ، د افغانستان نومیالی،جلد۳، وزارت اطلاعات وکلتور، آںژیت ترقی ƒ'„¢،کابل، ۱۳۵۴ھ ش ۸۰۔ عبدالرؤف بینواؔ، آریائی ƒ'„¢ پارسی ویرنی، د افغانستان د علومو اکادمی، ۱۳۶۲ھ ش ۸۱۔ عبدالکریم ƒ„ ( مہتمم، د ƒ'„¢ !¢‍ * تاریخچہ، ƒ'„¢ !¢لنہ دولتی مطبع،کابل، ۱۳۵۶ھ ش ۸۲۔ عبداللہ بختانی خدں„(پر، ƒ'„پنہ د علامہ اقبال پہ نظر œ'*، ƒ'„¢ !¢لنہ کابل ، ۱۳۳۵ھ ش ۸۳۔ عبداللّٰہ بختانی خدمتگار پشتانہ شعرا۔ جلد ۴۔ د افغانستان د علومو اکادمی د پشتو ٹولنی انستتیوت کابل ۱۳۵۷ھ ش ۸۴۔ عبداللہ بختانی ٹ‹ں„(پژ، ƒ'„پنہ شعرائ، جلد۵، د افغانستان د علومو اکادمی د ƒ'„¢ !¢‍ * ا ’!¤!¤¢!، کابل، ۱۹۸۸ء ۸۵۔ عبداللہ بختانی خدں„(پژ، ویرنی، دانش کتابخانہ، ƒ*'¢ژ، ۲۰۰۳ء ۸۶۔ گل باچا الفت۔ ملی قھرمان۔ ریاست مستقل قبائل کابل جوزا ۱۳۴۴ھ ش ۸۷۔ لال پاچا ازمون، ر'„¤ ¤ خدں„(پر، مطبوعہ، ƒ*'¢ر، ۱۳۸۲ھ ش ۸۸۔ محمد ابراہیمستودہ او احمد ضیا مدرسی۔ خوشحال خان خٹک د مطبوعاتو پہ ھندارہ کی دولتی مطبع کابل ۱۳۵۸ ھ ش ۸۹ محمد اسماعیل یون پوھیالی، ƒ'„¢ کتاب '¢د، دانش کتابتون، ƒ*'¢ر، ۱۳۷۶ھ ش ۹۰۔ محمد اکبر معتمد،   (¤پلی ƒ'„¢ن، ƒ'„¢ !¢لنہ، کابل، ۱۳۴۵ھ ش/ ۱۹۶۶ء ۹۱۔ محمد داؤد وفاؔ، ستوری د ادب پہ آسمان œ'*، دانش کتابتون،ƒ*'¢ر، ۱۳۷۹ھ ش ۹۲۔ محمد شیرین ’ (ژی مہتمم، توریالی ƒ'„¢ن، ƒ'„¢ !¢لنہ، کابل، ۱۳۵۰ھ ش/ ۱۹۷۱ء ۹۳۔ محمد ولی زلمی، د قندھار مشاہیر، حبیب اللہ، حمداللہ، صحافان، ار( بازار قندھار، طبع دوم، ۱۳۶۸ھ ش ۹۴۔ محمد ہوتک، ƒ!¦ خزانہ، تصحیح تحشیہ او تعلق عبدالحئی حبیبیؔ، ƒ'„¢ !¢لنہ ، کابل، ۱۳۲۳ھ ش/ ۱۹۴۴ء ۹۵۔ محی الدین ھاشمیؔ، د افغانستان مشاہیر، جلد ۲، د اریک (ژحٔندہ کتابونو ادارہ، ƒ*'¢ر، ۱۳۷۹ھ ش ۹۶۔ محی الدین ھاشمیؔ، د افغانستان مشاہیر، جلد۳، د اریک (ژحٔندہ کتابونو ادارہ، ƒ*'¢ر، ۱۳۷۹ھ ش (ج): فارسی کتب:۔ ۹۷۔ محمد اقبال علامہ، اسرار خودی ، شیخ غلام علی اینڈ سنز، لاہور، طبع چہاردھم، ۱۹۹۰ء ۹۸۔ محمد اقبال علامہ، رموزِ بیخودی، شیخ غلام علی اینڈ سنز، لاہور، طبع چہاردھم، ۱۹۹۰ء ۹۹۔ محمد اقبال علامہ، پیامِ مشرق، شیخ غلام علی اینڈ سنز، لاہور، نوزدھم، ۱۹۸۹ء ۱۰۰۔ محمد اقبال علامہ، زبورعجم، شیخ غلام علی اینڈ سنز، لاہور، یاز دھم، ۱۹۸۹ء ۱۰۱۔ محمداقبال علامہ، جاوید نامہ، شیخ غلام علی اینڈ سنز، لاہور، یاز دھم، اگست ۱۹۸۶ء ۱۰۲۔ محمد اقبال علامہ، مثنوی پس چہ باید کرد اے اقوامِ مشرق مع مسافر، شیخ غلام علی اینڈ سنز، لاہور، طبع نہم، ۱۹۸۵ء ۱۰۳۔ محمد اقبال علامہ، ارمغانِ حجاز، شیخ غلام علی اینڈ سنز، لاہور، طبع پانز دھم، ۱۹۹۱ء ۱۰۴۔ آریانا دائرۃ المعارف، فارسی، جلد۳، انجمن آریانا دائرۃ المعارف افغانستان، مطبع عمومی، کابل، ۱۳۳۵ھ ش ۱۰۵ اسد اللہ محقق علامہ اقبال در ادب فارسی و فرھنگ افغانستان مرکز تحقیقات فارسی ایران و پاکستان اسلام آباد ۱۳۸۴ھ ش ۲۰۰۵ء ۱۰۶۔ امین اللہ دریحٔؔ، افغانستان در قرن بیستم، انجمن نشراتی دانش ، پشاور، ۱۳۷۹ھ ش/ ۲۰۰۳ء ۱۰۷۔ بہاء الدین اورنگ، یادنامۂ اقبال، خانہ فرہنگ ایران، لاہور، ۱۳۵۷ھ ش ۱۰۸۔ حسین وفا سلجوقیؔ، علامہ صلاح الدین سلجوقیؔ، سلسلہ نشرات اتحادیہ ژورنالستان ، مطبع دولتی، کابل، ۱۳۶۶ھ ش ۱۰۹۔ خال محمد خستہ، عبدالشکور حمید زادہ، عتیق اللہ خواجہ زادہ، گلچین از آثار و شرح حال محمد ابراہیم خلیل، چاپ لالہ زار تہران، ۱۳۴۱ھ ش ۱۱۰۔ خلیل اللہ خلیلی استاد، آثار ہرات، جلد۳، مطبعہ فخریہ سلجوقی، چارباغ، ہرات ، قوس ۱۳۱۰ ھ ش ۱۱۱۔ خلیل اللہ خلیلی استاد ، سلطنت غزنویان، مطبع عمومی،کابل، ۱۳۳۳ھ ش ۱۱۲۔ خلیل اللہ خلیلی استاد، کلیات خلیل اللہ خلیلی، بکوشش عبدالحیٔ خراسانی، نشر بلخ تہران، ۱۳۷۸ھ ش ۱۱۳۔ خلیل اللہ خلیلی یار آشنا پیشگفتار و حواشی۔ عارف نوشاہی کتابخانہ استاد خلیل اللہ خلیلی انستتیوت شرقشناسی و میراث خطی اکادمی علوم جمہوری تاجیکستان دو شنبہ ۱۳۸۹ھ ش/۲۰۱۰ء ۱۱۴۔ زلمی ھیوادملؔ، فرہنگ زبان و ادبیات ، پشتو، جلد۲، انتشارات کمیتہ دولتی مطبع دولتی، کابل، ۱۳۶۵ھ ش ۱۱۵۔ زلمی ھیواد ملؔ، رشد زبان و ادب دری درگسترہ، فرہنگی پشتو زبانان اتحادیہ نوسیند گان، افغانستان ، آزاد، پشاور، ۱۹۹۷ء ۱۱۶۔ سرور ہمایون پوھنوال، حکیم سنائی و جہان بینی او ، وزارت اطلاعات و کلتورمؤسسہ انتشارات بیہقی، کابل، ۱۳۵۶ ھ ش ۱۱۷۔ سعید۔ ڈاکٹر۔ اکسیر خودی جوہر پیام علامہ اقبال انجمن حمایت از انکشافات اجتماعی مطبع فجر کابل ۱۳۸۹ھ ش ۲۰۱۰ء ۱۱۸۔ صدیق رھہپو، افغانستان و اقبال، وزارت اطلاعات و کلتور مؤسسہ انتشارات بیہقی، کابل ۱۳۵۶ھ ش/ ۱۹۷۷ء ۱۱۹۔ عبدالحنان مینہ پالؔ، تپش قلب آسیا، کتابخانہ دانش ،پشاور، ۱۳۷۷ ھ ش ۱۲۰۔ عبدالحئی حبیبی ؔعلامہ، افغانستان بعد از اسلام، انجمن تاریخ افغانستان ، کابل، ۱۳۴۵ھ ش ۱۲۱۔ عبدالحئی حبیبی ؔعلامہ، تاریخ مختصر افغانستان، سازمان مہاجرین مسلمان افغانستان، ۱۹۸۹ء ۱۲۲۔ عبدالحئی حبیبی ؔعلامہ، درد دل و پیامِ عصر، مرکز تحقیقات علامہ حبیبی ادارہ خدمات کلتوری، افغانستان، ۲۰۰۰ء ۱۲۳۔ عبدالرئوف خان رفیقی۔ سیر اقبال شناسی در افغانستان اقبال اکادمی پاکستان لاہور ۲۰۰۴ء ۱۲۴۔ عبداللہ بختانی خدمتگار، ترنم دل، کتابخانہ دانش ، پشاور، ۲۰۰۲ئ ۱۲۵۔ عبدالہادی داویؔ، آثاراردوی اقبال، جلد۱، وزارت اطلاعات و کلتور، مؤسسہ نشرات بیہقی، کابل، ۱۳۵۶ھ ش ۱۲۶۔ عبدالہادی داویؔ،آثار اردوی اقبال ، جلد ۲، وزارت اطلاعات و کلتور، مؤسسہ نشرات بیہقی، کابل، ۱۳۵۶ھ ش ۱۲۷۔ علی اصغر بشیر، مرتب، کلیات اشعار حکیم سنائی غزنوی، وزارت اطلاعات و کلتور، مؤسسہ نشرات بیہقی، کابل، ۱۳۵۶ھ ش ۱۲۸۔ غلام محمد غبار میر،تاریخ ادبیات افغانستان ، کتابخانہ آرش ، پشاور، طبع دوم، ۱۳۷۸ھ ش ۱۲۹۔ محمد بن حسین بیہقی خواجہ ابوالفضل، تاریخ بیہقی، تصحیح د کتور علی اکبر فیاض، مطبع دولتی ، کابل، ۱۳۶۴ھ ش ۱۳۰۔ محمد حسین نہفت، مرتب گزیدہ اشعار سنائی، وزارت اطلاعات و کلتورمؤسسہ نشرات بیہقی، کابل، ۱۳۵۶ ھ ش ۱۳۱۔ محمد رضا شیخ، ریاض الوداع غزنہ، انجمن تاریخ افغانستان مطبع دولتی ، کابل، ۱۳۴۶ھ ش ۱۳۲۔ محمد صدیق فرہنگ، افغانستان در پنج قرن آخر ، جلد اول، قسمت دوم مؤسسہ مطبوعاتی اسماعلیان قم ایران ، چاپ جدید، ۱۳۷۱ھ ش ۱۳۳۔ محمد قوی کوشان ، مرتب خاطرات سیاسی سید قاسم رشتیاؔ، (۱۳۱۱ھ ش، ۱۹۳۲ئ/ ۱۳۷۱ھ ش، ۱۹۹۲ئ)، کتابخانہ دانش ، پشاور، سن ندارد ۱۳۴۔ محی الدین ہاشمیؔ، مشاہیر افغانستان ، جلد۲، مترجم ادبیار، کتابخانہ سیار اریک ، پشاور، ۱۳۷۹ھ ش ۱۳۵۔ نعمت حسینی، سیماھا وآورھا ، جلد۱، مطبع دولتی، کابل، ۱۳۶۷ھ ش ۱۳۶۔ ہارون خپلؔ، آفرید ھای مہجور علامہ حبیبی، اکادمی علوم افغانستان ، کابل، ۱۳۶۷ھ ش/ ۱۹۸۸ء (د): رسائل، مجلات:۔ ۱۳۷۔ آریانا ماہنامہ فارسی انجمن تاریخ افغانستان کابل میزان قوس ۱۳۵۶ھ ش ۱۳۸۔ آریانا ماہنامہ فارسی انجمن تاریخ افغانستان و کابل دورہ ۴ شمارہ مسلسل ۲۶۸ ۱۳۹۔ آریانا ماہنامہ (فارسی)، انجمن تاریخ افغانستان، کابل، ستمبر، ۱۳۷۶ھ ش ۱۴۰۔ ادب، دو ماہی، کابل (فارسی و پشتو)، جون جولائی ۱۹۶۵ء ۱۴۱۔ ادب دو ماہی کابل (فارسی و پشتو) میزان قوس ۱۳۵۶ھ ش ۱۴۲۔ ادب، دو ماہی، کابل (فارسی و پشتو)، ۲۲جون ۱۹۹۸ء ۱۴۳۔ ادب، دو ماہی، کابل (فارسی و پشتو)، ۲۳ جولائی ۱۹۹۸ء ۱۴۴۔ ادب، دو ماہی، کابل (فارسی و پشتو)، ۲۳، اگست ۱۹۹۸ء ۱۴۵۔ ادب، دو ماہی، کابل (فارسی و پشتو)، ۲۳ ستمبر ۱۹۹۸ء ۱۴۶۔ ادب، دو ماہی، کابل (فارسی و پشتو)، ۲۳، اکتوبر ۱۹۹۸ء ۱۴۷۔ افغانستان ، سہ ماہی (پشتو و فارسی)، سرطان ۱۳۷۵ھ ش ۱۴۸۔ افغانستان ، سہ ماہی (پشتو و فارسی)، جولائی ۱۹۹۶ء ۱۴۹۔ اقبال ریویو، (اردو) ،اقبال اکادمی پاکستان، کراچی، اپریل ۱۹۶۷ء ۱۵۰۔ اقبال ریویو، (اردو) ، اقبال اکادمی پاکستان ، کراچی، اپریل ۱۹۶۸ء ۱۵۱۔ اقبال ریویو، (اردو)، اقبال اکادمی پاکستان ، کراچی، جنوری ۱۹۷۶ء ۱۵۲۔ اوقاف، ماہنامہ ، کابل، (پشتو و فارسی)، ادارہ عالی اوقاف ، کابل، صفر المظفر، ۱۳۹۲ھ ش ۱۵۳۔ بیان ، دو ماہی (پشتو و فارسی)، پشاور، اپریل ۲۰۰۲ء ۱۵۴۔ پشتو (ماہنامہ) پشتو اکیڈیمی پشاور یونیورسٹی، دسمبر ۱۹۸۲ء ۱۵۵۔ پشتو ،(ماہنامہ) پشتو اکیڈیمی پشاور یونیورسٹی، ستمبر۱۹۸۴ء ۱۵۶۔ پیامِ حق، (ماہنامہ) کابل پشتوو فارسی ریاست مطبوعات، ۲۲ مارچ ۱۹۵۹ء ۱۵۷۔ پیامِ حق، اپریل ۱۹۵۹ء ۱۵۸۔ پیامِ حق، مئی ۱۹۵۹ء ۱۵۹۔ دانش (سہ ماہی) (فارسی ، اردو)رانیرنی فرہنگی جمہوری اسلامی ایران ، اسلام آباد، زمستان، ۱۳۶۶ھ ش ۱۶۰۔ دانش سہ ماہی (فارسی اردو) رانیرنی فرہنگی جمہوری اسلامی ایران اسلام آباد شمارہ ۵۷-۵۸- ۱۳۷۸ھ ش ۱۶۱۔ د شہید پیغام، ماہنامہ، (پشتو فارسی)، کمیتہ فرہنگی، اتحاد اسلامی مجاہدین افغانستان، عقرب ۱۳۶۱ھ ش ۱۶۲۔ د شہید پیغام ، دلو ۱۳۶۹ ھ ش ۱۶۳۔ د شہید پیغام، شعبان، ۱۴۰۳ھ ش ۱۶۴۔ د شہید زیر*، جمعیت اسلامی مجاہدین، افغانستان، میزان ۱۳۶۰ھ ش ۱۶۵۔ د شہید زیر*،صفر المظفرربیع الاول، ۱۴۰۲ھ ق ۱۶۶۔ سپیدہ (ماہنامہ)کابل مرکز فرہنگی عرفان، ۱۳۷۸ھ ش ۱۶۷۔ سپید*(سہ ماہی)، پشتو و فارسی، اسد۱۳۶۳ھ ش ۱۶۸۔ سپید*، عقرب۱۳۶۳ھ ش ۱۶۹۔ سپید*، جون ۱۹۸۵ء ۱۷۰۔ سیمای شہید(دو ماہی)، فارسی، حزب اسلامی افغانستان، میزان عقرب، ۱۳۶۰ھ ش ۱۷۱۔ شفق،(دوماہی)(پشتو فارسی)کمیتہ فرہنگی حزب اسلامی، افغانستان ، دلو حوت ۱۳۵۹ھ ش ۱۷۲۔ شفق ، حمل ثور ۱۳۶۰ ھ ش ۱۷۳۔ شفق، جوزا سرطان، ۱۳۶۰ھ ش ۱۷۴۔ شفق، قوس جدی، ۱۳۶۰ ھ ش ۱۷۵۔ شفق، جوزا ۱۳۶۵ھ ش ۱۷۶۔ شفق، سال دوم ، شمارہ اول دوم، ۱۳۶۵ھ ش ۱۷۷۔ عرفان ،کابل (فارسی) فوق العادہ، شمارہ ۵/ اسد ۱۳۴۷ ھ ش ۱۷۸۔ قلم ، (دو ماہی)، (پشتو فارسی)، د افغانستان د جہادی #¤%ونو مرکز ، ƒ*'¢ر، اپریل مئی ۱۹۸۷ء ۱۷۹۔ قلم ، عقرب ۱۳۶۶ھ ش ۱۸۰۔ قلم، اپریل مئی ۱۹۸۸ء ۱۸۱۔ قلم ، فروری مارچ ۱۹۸۹ء ۱۸۲۔ قلم ، جون جولائی۱۹۸۹ء ۱۸۳۔ قلم ، اگست ستمبر۱۹۸۹ء ۱۸۴۔ قلم، عقرب قوس ۱۳۶۹ھ ش ۱۸۵۔ قلم، دلو حوت ۱۳۷۰ ھ ش ۱۸۶۔ کابل ، (ماہنامہ) (پشتو فارسی)، مطبع دولتی، کابل، ۵ مارچ ۱۹۳۱ء ۱۸۷۔ کابل، ۲۲ جون ۱۹۳۲ء ۱۸۸۔ کابل، ۲۲/ اگست ۱۹۳۲ء ۱۸۹۔ کابل، عقرب ۱۳۱۲ ھ ش ۱۹۰۔ کابل، ۲۲ دسمبر ۱۹۳۳ء ۱۹۱۔ کابل ، ۲۱جنوری۱۹۳۴ء ۱۹۲۔ کابل، ۲۰فرور½ ۱۹۳۴ء ۱۹۳۔ کابل، ۲۳ دسمبر ۱۹۳۴ء ۱۹۴۔ کابل، ۲۲مارچ ۱۹۳۵ء ۱۹۵۔ کابل، ۲۱/ اپریل ۱۹۳۵ء ۱۹۶۔ کابل، ۲۳مئی ۱۹۳۵ء ۱۹۷۔ کابل، جنوری فروری ۱۹۳۷ء ۱۹۸۔ کابل، اگست ستمبر ۱۹۳۷ء ۱۹۹۔ کابل ، مئی جون ۱۹۳۸ء ۲۰۰۔ کابل، ستمبر اکتوبر ۱۹۳۹ء ۲۰۱۔ کابل، فروری ۱۹۴۰ء ۲۰۲۔ کابل، دلو ۱۳۲۳ھ ش ۲۰۳۔ کابل، نومبر دسمبر ۱۹۷۷ء ۲۰۴۔ کابل، دسمبر جنوری ۸- ۱۹۷۷ء ۲۰۵۔ کابل ، سالنامہ، (پشتو فارسی) مطبع دولتی کابل، ۱۱- ۱۳۱۲ھ ش ۲۰۶۔ کابل، سالنامہ، ۱۳۱۳- ۱۳۱۴ھ ش ۲۰۷۔ کابل، سالنامہ، ۱۳۱۷ھ ش ۲۰۸۔ کابل، سالنامہ، ۱۳۱۸ھ ش ۲۰۹۔ کندھار ماہنامہ شمارہ مسلسل ۱۸۲۲ ادارہ طلوع افغان کندھار جولائی ۱۹۴۵ء ۲۱۰۔ کندہار، ماہنامہ، ادارہ طلوع افغان ، قندہار، جنوری فروری ۱۹۶۶ء ۲۱۱۔ ’’لمر‘‘ کابل قوس ۱۳۵۰ ھ ش ۲۱۲۔ منبع الجہاد، ماہنامہ (پشتو فارسی)، مجاہدین افغانستان ، اسد سنبلہ۱۳۷۰ھ ش ۲۱۳۔ منبع الجہاد، ماہنامہ ، میزان۱۳۷۰ھ ش ۲۱۴۔ منبع الجہاد، عقرب قوس، ۱۳۷۰ھ ش ۲۱۵۔ میثاقِ خون، ماہنامہ (پشتو فارسی)،جمعیت اسلامی افغانستان، جوزا سرطان۱۳۶۶ھ ش ۲۱۶۔ نقوش (اردو)، اقبال نمبر۲، ادارہ فروغ اردو ، لاہور، دسمبر ۱۹۷۷ء ۲۱۷۔ نیرنگِ خیال (اردو)، اقبال نمبر، ادارہ فروغ اردو ، لاہور، طبع ثانی، نومبر ۱۹۷۷ء ۲۱۸۔ و&مہ، ماہنامہ (پشتو)، کابل یونیورسٹی پوھنحٔی، ادبیات، ۱۹۶۷ء ۲۱۹۔ ہجرت، ماہنامہ (اردو)، کلچرل کمیٹی اتحاد اسلامی مجاہدین ، افغانستان، جنوری ۱۹۸۳ئ ۲۲۰۔ ہجرت، فروری مارچ، ۱۹۸۴ء ۲۲۱۔ The WUFA Incidental Issue1, July / August 1994, The Writer Union of Free Afgahanistan (WUFA). (و): اخبارات:۔ ۲۲۲۔ ’’افغانان‘‘، ہفت روزہ، (پشتوو فارسی)، ۹- ۶- ۱۳۷۹ھ ش ۲۲۳۔ ’’افغانان‘‘، ۲۴ عقرب ۱۳۷۹ھ ش ۲۲۴۔ ’’چٹان‘‘ ، (اردو)، ہفت روزہ،۱۸ فروری ۱۹۷۴ء ۲۲۵۔ ’’د جہاد ہندارہ‘‘ ، ہفت روزہ (پشتوٌفارسی)، ۱۰ میزان ۱۳۷۰ھ ش ۲۲۶۔ ’’دجہاد ہندارہ‘‘، یکم عقرب ۱۳۷۰ھ ش ۲۲۷۔ ’’شہادت‘‘، ہفت روزہ ، (پشتوو فارسی)، عقرب ۱۳۶۶ھ ش ۲۲۸۔ ’’قلب آسیا‘‘، (پشتوو فارسی)، سرطان ۱۳۶۴ ھ ش ۲۲۹۔ ’’وفا‘‘ ، ہفت روزہ، (پشتو و فارسی)، ۱۰ جدی ۱۳۷۳ھ ش ۲۳۰۔ ’’وفا‘‘ ، ۱۱ جدی ۱۳۷۵ھ ش ۲۳۱۔ ’’وفا‘‘، ۱۰ جدی، ۱۳۷۶ھ ش (ھ):غیر مطبوعہ کتب:۔ ۲۳۲۔ عبدالرؤف رفیقی، شکرستان روہ پشتونوں کی فارسی شاعری ۲۳۳۔ بہار جانان ملا جانان کاکڑ قندھاری (خ): غیر مطبوعہ مقالات:۔ ۲۳۴۔ اکرام اللہ شاہدؔ، اقبال اور افغانستان ، مقالہ ایم فل، علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی، اسلام آباد، ۱۹۹۸ء ۲۳۵۔ عبدالرؤف رفیقی، پشتو شاعری پر اقبال کے اثرات، مقالہ ایم فل، علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی ، اسلام آباد، ۲۰۰۰ء (و):مکتوبات:۔ ۲۳۶۔ مکتوب احمد صمیمؔ، بنام مقالہ نگار، محررہ ۵ ستمبر ۱۹۹۸ء (ز):انٹرویو:۔ ۲۳۷۔ خوشی محمد مرحوم کے صاحبزادے حاجی اللہ دتہ باوامرحوم سے انٹرویو، ۶/ اگست ۱۹۹۶ء ۲۳۸۔ پروفیسر خاطر غزنوی کے ساتھ مقالہ نگار کا انٹرویو، ۲۹/ اپریل ۲۰۰۳ء ، بمقام دفتر صدر شعبہ اردو پشاور یونیورسٹی تَمـّتْ بِاالْخَیْرِ جدول نمبر ۱: حضرت علامہ سے ملاقات کرنے والے افغان ادباء ، شعراء اور دانشور نمبرشمار نام ملاقات کنندہ تاریخ ملاقات مقامِ ملاقات مقصدِ ملاقات مأخذ کیفیت ۱۔ شہزادہ احمد علی خان (۱)۶ دسمبر ۱۹۲۹ء لاہور ریلوے سٹیشن ہز ہائی نس شاہ ولی خان کے استقبال کے موقع پر علامہ سے ملاقات انقلاب لاہور ۸ دسمبر ۱۹۲۹ء فاتح کابل کا پرجوش استقبال (۲) ۹ جنوری ۱۹۳۰ء نیڈو ہوٹل لاہور شہزادہ اسد اللہ کی طرف سے دعوت چائے انقلاب لاہور ۱۱ جنوری ۱۹۳۰ء غازی امان اللہ خان کے بھائی کی طرف سے لاہور کے معززین شہر کو چائے کی ضیافت (۳) ۹ اکتوبر ۱۹۳۰ء لاہور ریلوے اسٹیشن شہزادہ محمد ظاہر خان کا استقبال انقلاب لاہور ۱۱ اکتوبر ۱۹۳۰ء (۴) ۲۸/ اکتوبر ۱۹۳۳ء تا یکم نومبر ۱۹۳۳ء کابل ہوٹل کابل انجمن ادبی کابل کی ضیافت مجلہ کابل ۲۲جون۱۹۳۲ء و مجلہ کابل ۲۲ دسمبر ۱۹۳۳ء اسلامیہ کالج لاہورکے فارغ التحصیل اور انجمن ادبی کابل کے روح روان ۔ ۲۔ سرورخان گویاؔ ۲۴ تا ۲۸ اکتوبر نومبر ۱۹۳۳ء سفرِ افغانستان کے دوران کابل غزنی قندھار سیرافغانستان، ص۔ ۷ سفرِ افغانستان کے دوران افغان حکومت کاپروٹوکول آفیسر۔ ۳۔ علامہ صلاح الدین سلجوقیؔ ۱۱ستمبر ۱۹۳۱ء ۱۹۳۲ء ۲۴ تا ۲۸ اکتوبر ۱۹۳۳ء ۸ مارچ ۱۹۳۵ ۱۵جو ن ۱۹۳۵ء مارچ ۱۹۳۸ء افغان کونسل خانہ بمبئی افغان کونسل خانہ بمبئی کابل افغان کونسل خانہ دہلی لاہور افغان کونسل خانہ دہلی یورپ جاتے ہوئے قیام تیسری گول میز کانفرنس جاتے ہوئے قیام اقبال کا سفرِ افغانستان بھوپال جاتے ہوئے قیام علامہ کی رفیقۂ حیات کی تعزیت بھوپال سے واپسی پر قیام خطوطِ اقبال ، ص۔ ۲۰۴ اقبال کی صحبت میں ، ص۔ ۲۶۷ اقبال کی صحبت میں ، ص۔ ۳۷۷ مکتوباتِ اقبال، ص۔ ۲۶۲ اقبال نامہ، جلد۱، ص۔ ۳۶۴ مکتوباتِ اقبال، ص۔ ۳۲۵ ۴۔ عبدالحئی حبیبیؔ یکم نومبر ۱۹۳۳ء قندھار سفرِ افغانستان سیرِافغانستان، ص۔ ۴۹ حبیبیؔ اس وقت قندھار کے ’’افغان‘‘ رسالہ کے مدیر تھے ۵۔ غلام جیلانی اعظمی ۲۸/ اکتوبر ۱۹۳۳ء کابل انجمن ادبی کابل کی ضیافت مجلہ کابل ۲۲جون ۱۹۳۲ء اعظمی اس وقت انجمن ادبی کابل کے معاون تھے۔ ۶۔ ملک الشعراء قاری عبداللہ ۲۸/ اکتوبر ۱۹۳۳ء کابل ایضاً ایضاً خیر مقدمی فارسی منظوم اشعار سنائے ۷۔ سید محمد قاسم رشتیاؔ ۲۸/ اکتوبر ۱۹۳۳ء ۱۹۳۵ء کابل لاہور انجمن ادبی کابل کی ضیافت والدہ کی علاج کے سلسلے میں کابل سے لاہور آمد ’’وفا‘‘ ۱۱جدی ۱۳۷۵ ھ ش ایضاً ۸۔ خلیل اللہ خلیلیؔ ۲۴ تا ۲۷ اکتوبر ۱۹۳۳ء کابل اقبال کا سفرِ افغانستان مجلہ دانش زمستان ۱۳۶۶ھ ش ، ص۔۲۵ جدول نمبر۲: اقبال سے ملاقات کرنے والے افغان خواص ، زعمائ، اربابِ اختیار اور دیگر حضرات نمبرشمار ملاقات کنندہ تاریخ مقام مقصدِ ملاقات مأخذ کیفیت ۱۔ نادرخان جنرل (نادر شاہ) ۱۵ جولائی ۱۹۲۴ء نیڈو ہوٹل لاہور پیرس جاتے ہوئے لاہور ٹھہرے تھے اقبال افغان ، افغانستان ۱۹ ۲۸ فروری ۱۹۲۹ء ۲۴- ۲۷ / اکتوبر ۱۹۳۳ء ریلوے سٹیشن لاہور کابل سقوی انقلاب کے بعد افغانستان جاتے ہوئے علامہ کا سفرِ افغانستان اقبال اور عظیم شخصیات ص۔ ۱۶۵ اقبال ریویواپریل ۱۹۶۷ئ، ص۔ ۳۹ اقبال نے افغانستان کی تعمیر نو کے لئے پانچ ہزار روپے کا عطیہ پیش کیا۔ جنرل نادر کی اقتداء میں نمازِ عصرادا کی جمعہ ۲۷ / اکتوبر نمازِ جمعہ جنرل نادر کے ساتھ پل خشی ٔ مسجد میں ادا کی۔ ۲۔ اعلیٰ حضرت محمد ظاہر خان ۱۵ جولائی ۱۹۲۴ء نیڈو ہوٹل لاہور والد اعلیٰ حضرت محمد نادر خاں کی ساتھ پیرس جاتے ہوئے اقبال افغان، افغانستان ۱۹ اس وقت محمد ظاہر خان کی عمر تقریباً دس سال تھی۔ ۹ اکتوبر ۱۹۳۰ء لاہور ریلوے سٹیشن پر شاندار استقبال انقلاب لاہور۱۱ اکتوبر ۱۹۳۰ء ۲۴ تا ۲۸ اکتوبر ۱۹۳۳ء کابل علامہ کا سفر افغانستان ---- ۳۔ سردار شاہ ولی خان فاتح کابل اعلیٰحضرت محمد نادر شاہ کے بھائی جمعہ۶ دسمبر ۱۹۲۹ء لاہور اقبال کی قیادت میں مسلمانانِ لاہور کا استقبال اقبال اور افغانستان ، ص۔ ۱۳۱ ۴۔ سردار گل محمد خان سابق سفیر افغانستان ۱۷ نومبر ۱۹۲۹ء لاہور خان سعادت علی کاں رئیس اعظم لاہور فنانشل سیکرٹری افغانستان ہلال احمر فنڈ کی طرف سے دعوت چائے انقلاب ۱۹ نومبر ۱۹۲۹ء ۵۔ شہزادہ اسد اللہ خان برادر غازی امان اللہ خان ۹ جنوری ۱۹۳۰ء نیڈو ہوٹل لاہور شہزادہ اسد اللہ خاں کی طرف سے دعوت چائے انقلاب ۱۱ جنوری ۱۹۳۰ء ۶۔ سردار محمد نعیم خان برادر زادہ اعلیٰ حضرت محمد نادر خان ۹ جنوری ۱۹۳۰ء نیڈو ہوٹل لاہور شہزادہ اسد اللہ خاں کی طرف سے دعوت چائے انقلاب ۱۱ جنوری ۱۹۳۰ء ۷۔ ہدایت اللہ خان سفیر اعلیٰ افغانستان در ہند ۲۸ جنوری ۱۹۳۰ء رہائش گاہ اقبال لاہور دہلی سے لاہور تشریف لائے اقبال افغان، افغانستان۹۳ رات کے کھانے کا اہتمام حضرت علامہ کے گھر ہوا تھا۔ ۸۔ محمد فاضل میر منشی قونصل خانہ افغانستان ۲۸ جنوری ۱۹۳۰ء رہائش گاہ اقبال لاہور دہلی سے سفیر افغانستان کے ساتھ لاہور آئے تھے اقبال افغان، افغانستان۹۳ ۹۔ شہزادہ صالح محمد خان ۹ اکتوبر ۱۹۳۰ء لاہور بمبئی سے پشاور جاتے ہوئے لاہور میں قیام اقبال افغان، افغانستان۹۹ ۱۰۔ شہزادہ محمد یوسف خان " " " " " " ۱۱۔ سردار عبدالرحمان محمد زکی " " " " " " ۱۲۔ سردار احمدعلی خان وزیرِ مختار دولت افغانیہ انگلستان ۱۶، اکتوبر ۱۹۳۱ء انگلستان سالگرہ تاج پوشی محمد نادر شاہ غازی سفر نامہ اقبال، ص۔ ۵۴ ۱۳۔ امیر امان اللہ خان غازی ۲۵ نومبر ۱۹۳۱ء ۲۷ نومبر ۱۹۳۱ء روم روم انقلاب افغانستان کے بارے میں تبادلہ خیال ایضاً سفر نامہ اقبال ، ص۔ ۱۴۵ ایضا، ص۔ ۱۴۵ ۱۴۔ سردار عنایت اللہ خان اعلیٰحضرت امان اللہ خان کا بھائی مقیم ایران ۲۵ نومبر ۱۹۳۱ء روم گول میز کانفرنس سے واپسی پر ایضا، ص۔ ۱۴۵ ۱۵۔ عبدالوہاب طرزی ولد سردار محمود طرزی امان اللہ خان کا سالا ایضاً ایضاً ایضاً ایضاً ، ص۔ ۱۴۵ ۱۶۔ سردار ہاشم خان صدرِ اعظم افغانستان ۲۶/ اکتوبر ۱۹۳۳ء کابل ایضاً ایضاً ، ص۔۴۱ ہاشم خان نے عشائیہ دیا اور ۲۸/ اکتوبر کو دوبارہ مہانوں سے ملنے گئے۔ ۱۷۔ سردار فیض محمد خان وزیر خارجہ ۲۳ تا ۲۸/ اکتوبر ۱۹۳۳ء کابل ایضاً ایضاً ، ص۔۴۱ کئی ملاقاتیں ۔آپ نے علامہ کی بعض رباعیات کا منظوم فارسی ترجمہ بھی کیا ہے۔ ۱۸۔ فضل عمر نورالمشائح ملاشور بازار جمعہ۲۷/ اکتوبر ۱۹۳۳ء کابل ایضاً ایضاً ، ص۔۴۲ پہلی ملاقات لاہور میں بھی ہوئی تھی۔ ۱۹۔ اللہ نواز خان وزیر فوائد عامہ ایضاً کابل ایضاً ایضاً ، ص۔۴۲- ۴۳ ۲۰۔ مولانا سیف الرحمن ایضاً کابل ایضاً ایضاً ، ص۔۴۳ ۲۱۔ مولانا محمد میاں منصور انصاری مؤلف علمائے ہند کا شاندار ماضی ایضاً کابل ایضاً ایضاً ، ص۔۴۳ ۲۲۔ مولانا بشیر صدر جماعت مجاہدین ایضاً کابل ایضاً ایضاً ، ص۔۴۳ ۲۳۔ شاہ محمود خان وزیرِ جنگ ۲۸ / اکتوبر ۱۹۳۳ء کابل ایضاً ایضاً ، ص۔۴۳ ۲۴۔ سردارا حمدخان وزیر دربار ۲۹/ اکتوبر ۱۹۳۳ء کابل ایضاً ایضاً ، ص۔۴۷ شام کی دعوت ۲۶/ اکتوبر کو سردار ہاشم خان کی ضیافت میں بھی موجود تھے۔(سیرِ افغانستان ،ص۔ ۷) نمبر شمار ملاقات کنندہ تاریخ مقام مقصدِ ملاقات مأخذ کیفیت ۲۵۔ میر شمس الدین سابق ناظم انجمن حمایت اسلام ایضاً کابل ایضاً ایضاً ، ص۔۴۸ ۲۶۔ ملا قربان ۳۰/ اکتوبر ۱۹۳۳ء غزنی ایضاً ایضاً ، ص۔۴۸ غزنی کے قدیم خانقاہوں کا ماہر حضرت داتاگنج بخش کے والد کا مزار بتانے والا ۲۷۔ گورنر قندھار یکم نومبر۱۹۳۳ء قندھار ایضاً ایضاً ، ص۔۵۰ ۲۸۔ شہزادہ اسد اللہ خان کمانڈر افواج شاہی ۲۶/ اکتوبر ۱۹۳۳ء کابل ایضاً سیرِ افغانستان ،ص۔ ۷ امیر امان اللہ خان کے سوتیلے بھائی۔ سردار ہاشم خان کے عشائیے میں موجود تھے۔ ۲۹۔ میر عطا محمد خان صدر مجلس عیاں ایضاً کابل ایضاً سیرِ افغانستان ، ص۔ ۷ ۳۰۔ شاہ جی سید عبداللہ نائب سالار ۲۷/ اکتوبر ۱۹۳۳ء کابل ایضاً ایضاً ، ص۔۱۰ ۳۱۔ مقبول الحق غازی پوری ایضاً کابل ایضاً ایضاً ، ص۔۱۰ خخخخخخخ جدول نمبر ۳: فغانستان کے پشتون اقبال شناس نمبرشمار نام ولدیت تاریخ مقام تاریخ مقام تصانیف اقبالیاتی خدمات کیفیت ۱ حبیب اللہ رفیع ؔ مولانا نصراللہ نقشبند ۱۳۶۴ ھ ق صوبہ وردگ حیات ہیں۔ - سوانح میں ملاحظہ ہو اقبال سے متاثر و منظوم خراجِ تحسین ۲ خلیل اللہ خلیلیؔ محمد حسین خان نومبر ۱۹۰۷ء باغ جہاںن آرا کابل ۴مئی ۱۹۸۷ء اسلام آباد ایضاً بار آشنا کتاب۔ چھ منظوم خراج پشاور میں دفن ہیں۔ ۳ سرور خاں گویا اعتماد الدولہ عبدالقدوس خان -- -- -- -- سوانح میں ملاحظہ ہو افغانستان میں بانی اقبال شناسوں میں ہے سفر افغانستان کے دوران علامہ کے پروٹوکول آفیسر ۴ عبدالباری شہرت ننگیالؔ - ۱۳۳۷ھ ش وردگ چک حیات ہیں۔ - ایضاً سیرِ افغانستان کا پشتو ترجمہ و منظوم خراجِ تحسین ۵ عبدالحئی حبیبیؔ ملا عبدالحق کاکڑ ۱۲۸۹ھ ش قندھار ۱۹۸۴ء کابل ایضاً اقبال سے ملاقات ۔ دردِ دل و پیامِ عصر علامہ کے زیرِ اثر لکھاہے۔ ۶ عبدالرحمن پژواکؔ قاضی عبداللہ خان ۱۲۹۷ھ ش غزنی - پشاور ایضاً اقبال سے کافی متاثر ہیں۔ ۷ عبدالرئوف بینواؔ عبدالحق علیزئی ۱۲۹۲ھ ش قندھار ۱۹۸۵ء نیو جرسی امریکہ ایضاً مثنوی مسافر کا منظوم پشتو ترجمہ ۸ عبداللہ بختانیؔ ملا آغاجان ۱۳۰۵ھ ش سرخ رود ننگرہار حیات ہیں - ایضاً پشتانہ د علامہ اقبال پہ نظر کی، خوشحا ل اور اقبال کا تقابلی جائزہ، قلبِ آسیا گزرگاہ و نظرگاہ، علامہ اقبال - بہ استقبال اقبال (فارسی نظم) افغانستان میں اقبال پر پہلی پشتو کتاب ۹ عبدالہادی داویؔ عبدالاحد خان ۱۳۱۳ھ ق(۱۸۹۵ئ) باغ علی مردان کابل ۱۴۰۲ھ ق(۱۹۸۲ئ) کابل ایضاً آثار اردوی اقبال دو جلد افغانستان میں اقبال پر پہلی فارسی کتاب علامہ کے اردو کلام کا فارسی منظوم ترجمہ ۱۰ عزیز الدین وکیلیؔ - - - حیات ہیں۔ - ایضاً اقبال کے رباعیات خطاطی کئے ۱۱ غلام دستگیر مہمندؔ - - - - - - ۱۹۳۸ء میں اقبال کا فارسی مرثیہ لکھا ۱۲ قیام الدین خادمؔ ملا حسام الدین ۱۳۲۵ھ ق ننگرہار ۱۳۹۹ھ ق کابل ایضاً ۱۹۳۸ ء میں اقبال کا پشتو مرثیہ لکھا ، اقبال کے فارسی تراجم کئے۔ ۱۳ گل باچا الفتؔ سید باچا ۱۲۸۸ ھ ش(۱۹۰۹ئ) عزیز خان کچ لغمان ۲۸ قوس ۱۳۵۶ھ ش کابل ایضاً ایضاً ۱۴ محمد رحیم الہامؔ فضل الدین مومند ۱۳۱۰ھ ش رشیخور کابل - - ایضاً اقبال کی مثنوی مسافر کا جواب لکھا ۱۵ محمد صادق فطرت ناشناسؔ - - قندھار حیات ہیں۔ - سوانح میں ملاحظہ ہو اقبال کی کئی اردو و فارسی نظموں کو موسیقی میں گایا جدول نمبر ۴: افغانستان کے فارسی گو اقبال شناس نمبرشمار نام ولدیت تاریخ پیدائش مقام پیدائش تاریخ وفات مقام وفات تصانیف اقبالیاتی خدمات کیفیت ۱۔ دکتر اسد اللہ محقق ۱۳۳۹ ھ ش -- -- -- علامہ اقبال در ادب فارسی و فرھنگ افغانستان افغانستان میں اقبال پر پہلی ڈاکٹریٹ کرنے والی شخصیت یونیورسٹی آف ماڈرن لینگوئجز اسلام آباد ۲۰۰۴ء ۲۔ حیدری وجودی -- -- -- -- -- -- علامہ پر ۴ مقالات ۲۰۰۴ء فاکواند شرعیات دانش گاہ بلخ میں استاد ۳۔ رحمت اللہ منطقی -- -- بلخ -- -- -- علامہ کو فارسی میں منظوم خراج تحسین ۲۰۰۴ء میں کابل میں نشرات داد ستانی کے رئیس ۴۔ ڈاکٹر سعید -- -- -- -- -- اکسیر خودی جوہر پیام علامہ اقبال علامہ کے پیام خودی کی تحقیقی و تنقیدی تشریح میں مشکل کتاب مطبوعہ جون ۲۰۱۰ء ۵۔ صدیق رہپو محمد حسین طرزی ۱۵حوت ۱۳۲۱ ھ ش کوچہ شور بازار کابل - - ایضاً افغانستان و اقبال (تالیف) اقبال کے صد سالہ تقریبات کے موقع پر کابل سے شائع ہوئی۔ ۶۔ صلاح الدین سلجوقیؔ مفتی سراج الدین سلجوقی ۱۳۱۳ھ ق(۱۸۹۶ئ) گاذرگاہ ہرات ۱۶جوزا / ۱۳۴۹ھ ش(۶جون ۱۹۷۰ئ) دارالامان کابل ایضاً حضرت علامہ کا دوست دفن شہدائے صالحین کابل ۷۔ صوفی عبدالحق بیتابؔ ملا عبدالاحد عطار ۱۳۰۶ھ ق گذرقصاب کابل ۲۰حوت ۱۳۴۷ھ ش(۱۱مارچ ۱۹۶۹ئ) کابل ایضاً منظوم خراج تحسین اقبال کو علامہ مشرق کا خطاب ۸۔ ملک الشعراء قاری عبداللہ حافظ قطب الدین ۱۲۸۸ھ ق (۱۸۷۰ئ) کابل ۱۹۴۵ء کابل ایضاً اقبال کا خیر مقدم اور مرثیہ اقبال سے ملاقات ۹۔ عزیز اللہ مجددی -- -- کشم بدخشان -- -- -- علامہ کو فارسی میں منظوم خراج تحسین ۲۰۰۴ء میں افغان وزارت عدلیہ میں قضا کے رئیس ۱۰۔ غلام جیلانی اعظمیؔ خوشدل خان ۱۳۱۶ھ ش کابل ۲۶قوس ۱۳۳۴ء کابل ایضاً اقبال و افغانستان پر پہلا مقالہ ۱۱۔ غلام حسن مجددی ؔپروفیسر اقبال پر مقالات اقبال ڈے کابل ۱۹۶۷ء میں سنائے گئے ۱۲۔ غلام ربانی ادیب -- -- -- -- -- -- علامہ کو فارسی میں منظوم خراج تحسین پنجاب یونیورسٹی کے فارغ التحصیل ۱۳۔ غلام رضا مائل ہرویؔ ۱۳۰۱ھ ش ہرات ققنوس و دیگر اقبال کو منظوم خراجِ تحسین ۱۴۔ محمد ابراہیم خلیلؔ میرزا افضل احمد ۱۳۱۴ھ ش گذقاضی فیض اللہ کابل سوانح میں ملاحظہ ہو۔ اقبال کو منظوم خراجِ تحسین ۱۵۔ سید محمد قاسم رشتیاؔ اقبال سے کابل ولاہور میں ملاقاتیں اقبال پر مقالات ۱۶۔ میر بھادر واصفی -- ۱۳۱۵ھ ش بدخشان -- -- کلیلہ و دمنہ و سعید انداز لقمان حکیم علامہ کو منظوم خراج تحسین خخخخخ جدول نمبر۵: مجلہ کابل کی اقبالیاتی خدمات نمبر شمار عنوان از نثر/ نظم سن اشاعت سال شمارہ از تا کیفیت ۱۔ دکتور اقبال سرور خان گویاؔ نثر ۱۵ حوت ۱۳۱۰ ھ ش / ۵ مارچ ۱۹۳۱ء ۱ ۱۰ ۱۹ ۲۳ افغانستان میں اقبال پر دوسری تحریر ۲۔ علامہ اقبال احمد علی خان درانی نثر یکم سرطان ۱۳۱۱ ھ ش / ۲۲جون ۱۹۳۲ء ۲ ۱ ۱۲ ۲۰ ۳۔ پیامِ بملت کوہسار علامہ ڈاکٹر اقبال نظم ایضاً ۲ ۱ ۱۰ - حضرت علامہ کی اپنی تحریرسے مجلہ کابل کو ارسال کردہ نظم۔ ۴۔ افغان و ایران علامہ ڈاکٹر اقبال نظم یکم سنبلہ ۱۳۱۱ھ ش/ ۲۲،اگست۱۹۳۲ء ۲ ۳ ۱۷ - جاوید نامہ کے آں سوے افلاک میں ابدالی کے ضمنی عنوان کے اشعار ۵۔ ملت افغان علامہ ڈاکٹر اقبال نظم ایضاً ۲ ۳ ۳۷ - ۶۔ تنزل و انحطاط اسلام محمد سکندر خان معلم نثر یکم جدی ۱۳۱۱ھ ش/ ۲۲دسمبر ۱۹۳۲ء ۲ ۷ ۳۲ ۷۔ ورد و معارف ہند انجمن نثر عقرب ۱۳۱۲ھ ش ۳ ۵ اقبال اور انکے ہم سفرانِ افغانستان کی خیر مقدمی و خوش تہنیتی خبر۔ ۸۔ افغانستان از نقطۂ نظر فضلائے ہندوستان سو ادبیانیہ رئیس انجمن ادبی خیر مقدم ترجمہ نطق ترجمہ نطق ترجمہ نطق انجمن انجمن قاری عبداللہ سر راس مسعود سید سلیمان ندویؔ علامہ سر محمد اقبال نثر نثر نظم نثر نثر نثر یکم جدی ۱۳۱۲ھ ش/ ۲۲دسمبر ۱۹۳۳ء ایضاً ایضاً ایضاً ایضاً ایضاً ۳ ۳ ۳ ۳ ۳ ۳ ۷ ۷ ۷ ۷ ۷ ۷ ۸۱ ۸۳ ۸۵ ۸۷ ۸۸ ۹۲ ۸۲ ۸۴ ۸۶ - ۹۱ ۹۴ ۹۔ قطرات سرشک دربارگاہ محمود سنائی یا بر خرابہ زار شہر ستان غزنی عبدالحئی حبیبیؔ نظم دلو ۱۳۱۳ھ ش / ۲۱ جنوری ۱۹۳۴ء ۶۵ ۷۱ ۱۰۔ تقریظ بر مسافر انجمن ادبی کابل سرور خان گویاؔ نثر یکم جدی ۱۳۱۳ھ ش/ ۲۳ دسمبر ۱۹۳۴ء ۴ ۷ ۸۴ ۸۹ ڈاکٹر ریاض نے اس مضمون کا نگارندہ سرور خان گویاؔ بتایا ہے ۔ ممدوح عالم ص۔ ۲۸۹ ۱۱۔ افغانستان یک نظر اجمالی تقریظ از علامہ سر محمد اقبال نثر اول حمل ۱۳۱۴ھ ش/ ۲۲ مارچ ۱۹۳۵ء ۴ ۱۰ ۸۶ ۹۰ افغانستان سے متعلق مولانا جمال الدین احمد خان کی تالیف کا دیباچہ ۱۲۔ ساقی نامہ کے پہلے تیرہ ابیات ڈاکٹر علامہ محمد اقبال نظم ثور ۱۳۱۴ھ ش/ ۲۲،اپریل ۱۹۳۵ء پیامِ مشرق کے ابیات ۱۳۔ فہرست مندرجات دورہ چہارم افغانستان یک نظر اجمالی نظم نظم بہاریہ جوزالہ۴ ۱۳۱ھ ش/ مئی ۱۹۳۵ء ۳ ۴ ۱۴۔ پیامِ مشرق کی نظم زندگی کامنظوم پشتو ترجمہ پشتو ترجمہ قیام الدین خادمؔ نظم جنوری فروری ۱۹۳۷ء - ۱۰۸۹ حیاتِ اقبال میں پشتو میں اقبال کا پہلا منظوم ترجمہ ۱۵۔ وفات داکتر اقبال شاعر و فیلسوف شہیر سید قاسم رشتیاؔ نثر جوزا ۱۳۱۷ھ ش/ مئی جون ۱۹۳۸ء ۸ ۳ ۷۸ - علامہ کی وفات اور کابل میں پہلی تعزیتی تقریب کی رپورٹ ۱۶۔ اقبال احمد علی خان درانی نثر جوزا ۱۳۱۷ھ ش/ مئی جون ۱۹۳۸ء ۸ ۳ ۷۹ ۸۲ نمبر شمار ۱۶ تا ۲۲- ۲۸،اپریل ۱۹۳۸ئ/ ۸ ثور ۱۳۱۷ھ ش کو کابل میں حضرت علامہ کی وفات کے مناسبت سے تعزیتی پروگرام میں سنائے گئے۔ ۱۷۔ قصیدہ درمرثیہ فیلسوف وطن خواہ پروفیسر اقبال غفراللہ ملک الشعراء قاری عبداللہ نظم ایضاً ۸ ۳ ۹۴ - ۱۸۔ اقبال و افغانستان غلام جیلانی اعظمی نثر ایضاً ۸ ۳ ۸۳ ۸۵ ۱۹۔ منتخباتِ اشعار اقبال سرور خان گویا نظم ایضاً ۸ ۳ ۸۶ ۹۱ ۲۰۔ د اقبال پہ وفات (پشتو) قیام الدین خادم نظم ایضاً ۸ ۳ ۹۲ - پشتو میں حضرت علامہ کا مرثیہ نمبرشمار عنوان از نثر/ نظم سنِ اشاعت سال شمارہ از تا کیفیت ۲۱۔ د اقبال ویر (پشتو) گل باچا الفت نظم ًجوزا، ۱۳۱۷ھ ش، مئی جون ۱۹۳۸ء ۸ ۳ ۹۲ - پشتو میں حضرت علامہ کا مرثیہ ۲۲۔ رثائی اقبال (فارسی) ؔغلام دستگیر خان مہمند نظم ایضاً ۸ ۳ ۹۳ - علامہ کا فارسی مرثیہ ۲۳۔ خودی درنظر اقبال مترجم قیام الدین خادم نثر میزان ۱۳۱۸ھ ش/ ستمبر اکتوبر ۱۹۳۹ء ۹ ۷ ۲۲ ۴۰ ڈاکٹر سید عابدحسین کے اردو مقالے کا فارسی ترجمہ ۲۴۔ خطاب بہ او قیانوس علامہ اقبال مرحوم نظم دلو ۱۳۲۳ھ ش ۱۴ ۱۰ آخر سید جمال الدین افغانی کی جسدِ خاکی کی کابل منتقلی کی مناسبت سے ۲۵۔ صدر افغانستان کا پیام جمہور رئیس محمد دائود خان نثر قوس ۱۳۵۶ھ ش/ نومبر دسمبر ۱۹۷۷ء ۹ ۱ - حضرت علامہ کی صد سالہ تقریبات کے حوالے سے ۲۶۔ د ختیحٔ ستر شاعر سوبمن نثر مرغومی ۱۳۵۶ھ ش/ دسمبر جنوری ۸- ۱۹۷۷ء ۱۰ ۱ ۳ علامہ کی صد سالہ تقریبات کے حوالے سے مجلہ کابل کا اداریہ خخخخخخ جدول نمبر۶: دیگر مطبوعات کے اقبالیاتی خدمات (نثری) نمبرشمار عنوان نگارندہ اخبار/ جریدہ نظم/ نثر سنِ اشاعت سال شمارہ از تا کیفیت ۱۔ پیامِ مشرق پروفیسر عبدالہادی خان داویؔ اخبار امان افغان کابل نثر - - ۹ تا ۱۷ - - افغانستان میں علامہ کی کتاب پر پہلا باقاعدہ تبصرہ صدیق رھہپو کی تالیف افغانستان میں اقبال میں شامل ص۔ نمبر ۱ تا ۷۳ ۲۔ وفات (علامہ اقبال) (فارسی) - اخبار اصلاح کابل نثر ۴ ثور یکشنبہ ۱۳۱۷ ھ ش - - - - ایضاً ص۔ ۷۳ تا ۷۶ ۳۔ وفات(علامہ اقبال) (فارسی) - اخبار انیس کابل نثر ۱۴ ثور چارشنبہ ۱۳۱۷ھ ش - - - - ایضاً ۴۔ پہ حٔان ویسا د علامہ اقبال پہ نظر کی(پشتو) عبداللہ بختانیؔ مجلہ ’’زیری‘‘کابل نثر ۱۳۳۱ھ ش - ۲۹- ۳۰ - - ریشتنی خدمتگار، ص۔ ۱۳۶ ۵۔ اقبال (پشتو/ فارسی) عبدالرزاق فراھہی آریانا دائرۃ المعارف نثر اسد ۱۳۳۵ھ ش جلد ۳ (فارسی) جوزا ۱۳۳۷ھ ش (پشتو) - جلد ۳ فارسی۶۷۲ پشتو ۹۱۴ ۶۸۱ ۹۲۱ ۶۔ فلسفۂ اقبال (فارسی) پروفیسر غلام حسن مجددی دوماہی ’’ادب‘‘ کابل نثر اپریل جون ۱۹۶۵ء - - ۳ ۸ اقبال ممدوح عالم، ص۔ ۲۸۸ ۷۔ یاد بود علامہ اقبال (فارسی) پروفیسر غلام حسن مجددی دو ماہی ’’ادب‘‘ کابل نثر جون جولائی ۱۹۶۵ء - - ۳۰ ۳۸ اقبال ممدوح عالم، ص۔۲۸۸ ۸۔ خودی و اقبال پروفیسر غلام حسن مجددی دو ماہی ’’ادب‘‘ کابل نثر ۱۳۴۰ ھ ش - آخر ۱ ۲ ۹۔ اقبال او قندھار - مجلہ کندھار نثر جنوری فروری ۱۹۶۶ء ۶ ۱۰- ۱۱ ۶ ۷ ۱۰۔ د علامہ اقبال پہ باب (پشتو) پروفیسر عبدالشکور رشادؔ مجلہ ’’ورمہ‘‘کابل نثر ۱۹۶۷ء - - ۱۱- ۱۵ ۱۱۔ خودی و بیخودی در اندیشۂ اقبال (فارسی) عبدالحئی حبیبیؔ - - ۱۳۵۶ھ ش/ ۱۹۷۷ء - - - - پشتو ، پشاور ستمبر ۱۹۸۴ئ، ص۔ ۲۷ ۱۲۔ اقبال شخصیتی علمی ادب و فکری جھان عبدالسلام عظیمی دو ماہی ’’ادب‘‘ کابل نثر میزان قوس ۱۳۵۶ ھ ش - - ۱۳۔ معنی عشق نزد اقبال دکتر روان فرھادی آریانا کابل نثر میزان قوس ۱۳۵۶ ھ ش ۳۵ ۳ ۱۴۔ جلوہ ھای سبز آزادی در بندگی نامہ علامہ اقبال آقای حیدری وجودی ماہنامی مدنی کابل نثر اسد ۱۳۵۶ھ ش ۲ ۲ ۱۵۔ اقبال او افغانستان(فارسی) دکتور حق شناس مجلہ میثاق خون نثر قوس ۱۳۶۰ھ ش ۲ ۱۳ ۱۷ ۲۲ ۱۶۔ برگزاشت اقبال بزرگ(فارسی) دکتور خلیل اللہ ہاشمیان مجلہ قلم نثر میزان ۱۳۶۶ھ ش/ نومبر ۱۹۸۷ء ۲ ۴ ۴۸ ۷۲ ۱۷۔ امروز برای فردا (فارسی) نائل لاجورد پھنشہری مجلہ میثاقِ خون نثر جوزا ۱۳۶۶ھ ش ۳۳ ۱۸ ۲۴ ۱۸۔ اتحاد بین المسلمین (پشتو) پروفیسر عبدالرئوف نوشہروی مجلہ قلم نثر سرطان ۱۳۶۸ھ ش/ جون جولائی ۱۹۸۹ء ۱ ۲ ۱۱ ۱۴ ۱۹۔ افغانستان درآئینہ قرآن (فارسی) احمد جان ایمنی مجلہ قلم نثر حوت ۱۳۷۰ء ھ ش/ فروری مارچ ۱۹۹۲ء ۶ ۳ ۲۲ ۳۰ ۲۰۔ اسرار خودی ورموز بیخودی از دید گاہ اقبال آقای حیدری وجودی جریدہ مجاہد نثر ۱۳۷۲ھ ش ۳ ۷ ۲۰ ۲۷ ۲۱۔ سماعتی درخدمت علامہ اقبال(فارسی) سید قاسم رشتیا خبار وفا نثر ۱۱جدی ۱۳۷۵ھ ش - - - - ۲۲۔ قلب آسیا گزر گاہ و نزگاہ علامہ اقبال (فارسی) عبداللہ بختانی اخبار وفا نثر ۱۰ جدی ۱۳۷۶ھ ش - - - - ۲۳۔ اقبال د خوشحال رشتنی مینہ وال (پشتو) عبداللہ بختانی جملہ ’’سپیدہ‘‘ کابل نثر ۱۹۹۹ء - ۱۱ ۴- ۹ جدول نمبر۷(الف): افغانستان میں اقبال کومنظوم خراجِ تحسین (فارسی) نمبرشمار نظم شاعر مطبوعہ سنِ اشاعت سال شمارہ از تا کیفیت ۱۔ خیر مقدم ملک الشعراء قاری عبداللہ مجلہ کابل یکم جدی ۱۳۱۲ھ ش / ۲۲ دسمبر ۱۹۳۳ء ۳ ۷ ۸۵ ۸۶ اکتوبر ۱۹۳۳ء کابل میں حضرت علامہ کے حضور سنایا گیا۔ ۲۔ مرثیہ اقبال ایضاً ایضاً جوزا ۱۳۱۷ھ ش/ مئی جون ۱۹۳۸ء ۸ ۳ ۹۴ - ۳۔ رثائی اقبال غلام دستگیر خان مہمند ایضاً ایضاً ۸ ۳ ۹۳ - ۴۔ بیاد علامہ محمد اقبال محمد ابراہیم خلیل پشتانہ د علامہ اقبال پہ نظر کی ۱۳۳۵ ھ ش - - ۶۷ - ۱۳۳۱ھ ش کابل کے شعبہ مطبوعات میں یومِ اقبال کی تقریب میں سنائی گئی۔ ۵۔ علامہ مشرق عبدالحق بیتاب ایضاً ایضاً - - ۶۵ ۶۔ بیادِاقبال مائل ہروی افغانستان و اقبال ۱۳۵۶ھ ش / ۱۹۷۷ء - ۷۔ خطاب بہ اقبال عبدالہادی داوی سالنامہ کابل ۵۹/ ۱۳۵۸ھ ش ۴۵ - ۴۶ ۱۰۰۸ - ۸۔ جواب مسافر دکتور محمد رحیم الہام اخبار وفا ۱۱ جدی ۱۳۷۵ھ ش - - - - ۹۔ بہ پیشگاہ علامہ دکتور محمد اقبال ایضاً ایضاً ایضاً - ۵۰ ۵۲ ۱۰۔ آموز گار بزرگ برمزار اقبال خلیل اللہ خلیلی کلیات استاد خلیل اللہ خلیلی - - ۱۵۳ ۱۵۴ ۱۱۔ کعبہ و اقبال ایضاً ایضاً - - ۱۸۲ ۱۸۳ ۱۲۔ برآرامگاہ عارف مشرق علامہ اقبال لاہور ایضاً ایضاً ایضاً - - ۳۸۲ ۳۸۳ ۱۳۔ غزل حکیم مشرق علامہ اقبال ًایضاً ایضاً - - ۵۸۰ - ۱۴۔ دمی با اقبال ایضاً ایضاً - - ۵۸۴ ۵۸۵ ۱۵۔ امام مشرق و شاعرِ مشرق عبدالحئی حبیبی درددل و پیامِ عصر ۱۳۷۹ھ ش/ ۲۰۰۰ء - - ۱۰۸ ۱۱۰ ۱۶۔ علامہ اقبال مرحوم ایضاً ایضاً ایضاً - - ۱۱۳ - ۱۷۔ با استقبال اقبال سر محقق عبداللہ بختانی ترنم دل جدی ۱۳۸۱ھ ش - - ۶۹ ۷۲ ۱۸۔ اقبال لاہور میر بھادر واصفی علامہ اقبال در ادب فارسی و فرھنگ افغانستان ۱۳۸۳ھ ش/۲۰۰۵ء ۱۸۹ ۱۹۰ ۱۹۔ علامہ اقبال غلام ربانی ادیب " " " " ۱۹۰ ۲۰۔ علامہ اقبال عزیز اللہ مجددی " " " " ۱۹۱ ۲۱۔ چوں بحر بیکراں علامہ اقبال استاد رحمد اللہ منطقی " " " " ۱۹۱ ۱۹۲ جدول نمبر۷(ب): افغانستان میں اقبال کومنظوم خراجِ تحسین (پشتو) نمبرشمار نظم شاعر مطبوعہ سنِ اشاعت سال شمارہ از تا کیفیت ۱۔ دا قبال پہ وفات قیام الدین خادمؔ مجلہ کابل جوزا ۱۳۱۷ھ ش / مئی جون ۱۹۳۸ء ۸ ۳ ۹۱ ۲۔ د اقبال ویر گل باچا الفتؔ مجلہ کابل ایضاً ۸ ۳ ۹۲ ۹۳ ۳۔ د اقبال پہ مزار عبدالباری شہرت ننگیالؔ د افغان مجاہد آواز ۱۳۵۹ ھ ش - - ۳۶ - ۴۔ ‹ب’¤پگ%§ حبیب اللہ رفیع ؔ ماہنامہ پشتو پشاور دسمبر ۱۹۸۲ء ۷ - خخخخخخخ جدول نمبر۸: علامہ کا سفرِ افغانستان بمورخہ بروز بمقام خاص خاص پروگرام مأخذ ۴،اگست ۱۹۲۰ء بدھ لاہور مولوی صالح محمد کو کابل جانے کے امکان سے متعلق خواہش کا اظہار روح مکاتیب اقبال ، ص۔ ۴۰۵ ۴ ، نومبر ۱۹۳۲ء جمعہ لاہور سعید نفیسی (مشہور ایرانی سکالر) کے نام مکتوب میں سفرِ افغانستان کا تذکرہ ایضاً ، ص۔ ۲۰۴ ۱۰، ستمبر۱۹۳۳ء اتوار لاہور سیدسلیمان ندوی کے نام سفرِ افغانستان کی تیاری سے متعلق مکتوب اقبال سید سلیمان ندوی کی نظر میں ، ص۔ ۲۰۴ ۱۷، ستمبر ۱۹۳۳ء اتوار لاہور ایضاً ایضاً، ص۔ ۲۰۵، ۲۰۶ ۱۱، اکتوبر ۱۹۳۳ء بدھ لاہور ایضاً روح مکاتیب اقبال، ص۔ ۴۷۵ ۱۳، اکتوبر ۱۹۳۳ء جمعہ لاہور ایضاً ایضاً، ص۔ ۴۷۶ ۱۴، اکتوبر۱۹۳۳ء ہفتہ لاہور ایضاً ایضاً، ص۔ ۴۷۷ ۱۵، اکتوبر۱۹۳۳ء اتوار لاہور ایضاً اقبال سید سلیمان ندوی کی نظر میں ، ص۔ ۲۰۷ ۱۷، اکتوبر۱۹۳۳ء منگل لاہور حضرت علامہ اور سر راس مسعود کو پاسپورٹ ملے ایضاً، ص۔ ۲۴۷ ۱۸، اکتوبر۱۹۳۳ء بدھ لاہور سید سلیمان ندوی کے نام سفرِ افغانستان کی تیاری سے متعلق مکتوب روح مکاتیب اقبال، ص۔ ۴۷۸ ۱۹، اکتوبر ۱۹۳۳ء جمعرات لاہور ایضاً اقبال سید سلیمان ندوی کی نظر میں ، ص۔ ۲۰۷ ۱۹، اکتوبر ۱۹۳۳ء جمعرات لاہور پروفیسر محمود شیرانی کے نام مکتوب میں سفرِ افغانستان کا تذکرہ روح مکاتیب اقبال، ص۔ ۴۷۸ ۱۹، اکتوبر ۱۹۳۳ء جمعرات لاہور مجوزہ افغان یونیورسٹی سے متعلق اخباری بیان کی اشاعت حرفِ اقبال، ص۔ ۲۰۲ ۲۰،اکتوبر ۱۹۳۳ء جمعہ لاہور/ پشاور پروفیسر ہادی حسن ، سر راس مسعود اور بیرسٹر غلام رسول خان کے ساتھ لاہور سے روانگی ۔ ڈین ہوٹل پشاور میں قیام اقبال ریویو، جنوری۱۹۷۶ئ، ص۔ ۳۸ ۲۱، اکتوبر ۱۹۳۳ء ہفتہ پشاور/ جلال آباد پشاور سے روانگی، رات جلال آباد میں قیام سرگذشست اقبال، ص۔ ۳۴۸ ۲۲، اکتوبر۱۹۳۳ء اتوار جلال آباد/ کابل جلال آباد سے روانگی کابل آمد ایضاً ۲۳ تا ۲۵، اکتوبر۱۹۳۳ء سوموار تا بدھ کابل تعلیمی مشورت کے چند اجلاس افغانستان میں جنرل نادر خان سے پہلی ملاقات اقبال سید سلیمان ندوی کی نظر میں ، ص۔ ۲۵۰ ۲۶، اکتوبر ۱۹۳۳ء جمعرات کابل سردار ہاشم خان صدرِ اعظم افغانستان کا شبینہ ضیافت ایضاً، ص۔ ۲۵۳ ۲۷، اکتوبر۱۹۳۳ء جمعہ کابل - جنرل نادر خان کے ساتھ کابل کے جامع مسجد پل خشتی میں نمازِ جمعہ کی ادائیگی - چینی ترکستان کے وفد اور نور المشائح فضل عمر مجددی سے ملاقاتیں - برصغیر کے مسلمانوں کی جانب سے کھانے کا انتظام ایضاً ، ص۔ ۲۴۵ تا ۲۵۸ بقیہ جدول نمبر۸: علامہ کا سفرِ افغانستان بمورخہ بروز بمقام خاص خاص پروگرام مأخذات ۲۸، اکتوبر ۱۹۳۳ء ہفتہ کابل - صدرِ اعظم افغانستان سردار ہاشم خان سے ملاقات۔ وزیر جنگ سردار شاہ محمود خان کی دعوتِ چائے - انجمن ادبی کابل کی جانب سے کابل ہوٹل میں رات کے ضیافت کا پروگرام اقبال سید سلیمان ندویؔ کی نظر میں، ص۔ ۲۵۸ تا ۲۶۵ ۲۹، اکتوبر۱۹۳۳ء اتوار کابل باغِ بابر میں مزارِ بابر پر حاضری۔ اعلیٰ حضرت محمد نادر شاہ غازی سے آخری ملاقات، رات مختلف شخصیات سے ملاقاتیں اقبال سید سلیمان ندوی کی نظر میں ، ص۔۲۶۵ ۳۰، اکتوبر۱۹۳۳ء سوموار کابل/ غزنی کابل سے روانگی۔ غزنی آمد۔ حکیم سنائی غزنوی ، سلطان محمود غزنوی، حضرت علی ہجویری کے والد ماجد عثمان الہجویریؒ اور لائے خوار (مجذوب غزنوی) کے مزارات پر حاضری ایضاً، ص۔ ۲۶۶ تا ۲۶۷ ۳۱، اکتوبر ۱۹۳۳ء منگل غزنی/ مقر(قدیم بہق) غزنی سے روانگی۔ مقر (پرانے بہق ) میں ابو الفضل بہقی اور ابو النصر مشکانی کے مزارات کا دیدار۔ رات قلات میں قیام ایضا، ص۔ ۲۶۸ و سیرِ افغانستان ، ص۔ ۳۱ یکم نومبر ۱۹۳۳ء بدھ قلات/ قندہار قلات سے روانگی۔ قندہار آمد۔ افغان سکالر عبدالحئی حبیبی، گورنر قندہار اور معززین شہر سے ملاقاتیں، خرقہ مقدسہ کی زیارت ، احمد شاہ ابدالی اور بابا ولی قندہاری کے مزارات پر حاضری، چہل زینہ کی سیر سیرِ افغانستان ، ص۔ ۳۰ تا ۳۶ و اقبال سید سلیمان ندوی کی نظر میں ، ص۔۲۶۹ - ۲۷۱ ۲، نومبر ۱۹۳۳ء جمعرات قندہار/ چمن/ کوئٹہ صبح قندہار سے روانگی۔ چمن آمد۔ معززین شہر اور اپنے پرانے ہندو کلاس فیلو سے ملاقاتیں۔ شام کو چمن سے روانگی۔ درہ خوجک میں سید سلیمان ندوی کے ساتھ اپنی قرآن فہمی پر گفتگو ۔کوئٹہ آمد ایضاً و علامہ اور بلوچستان، ص۔ ۴۳ ۳، نومبر ۱۹۳۳ء جمعہ کوئٹہ کوئٹہ سے بذریعہ ریل براستہ ملتان لاہور روانگی (رات کوئٹہ میں قیام ڈاگ بنگلہ میں رہا) اقبال سید سلیمان ندوی کی نظر میں ، ص۔۲۷۳ ۶، نومبر ۱۹۳۳ء سوموار لاہور اپنے ہم سفروں کی ایما ء پر اپنے دورۂ افغانستان سے متعلق اخباری بیان حرفِ اقبال، ص۔ ۲۰۴ جدول نمبر ۹ (الف) : افغانستان میں اقبالیاتی کتب نمبر شمار نام مؤلف زبان سن اشاعت ادارہ اشاعت تعداد صفحات کیفیت ۱۔ ƒ'„پنہ د علامہ اقبال پہ نظر œ'* عبداللہ بختانی پشتو ۱۳۳۵ھ ش پشتو ٹولنہ کابل ۶۸ ۲۔ آثار اردوی اقبال جلد اول عبدالہادی داوی فارسی ۱۳۵۶ھ ش/۱۹۷۷ء وزارت اطلاعات و کلثور موسسہ انتشارات بیہقی کابل ۱۳۶ آثار اردوی اقبال جلد دوم عبدالہادی داوی فارسی ۱۳۵۶ھ ش/۱۹۷۷ء وزارت اطلاعات و کلثور موسسہ انتشارات بیہقی کابل ۱۰۲ ۳۔ افغانستان و اقبال صدیق رھہپو فارسی ۱۳۵۶ھ ش/۱۹۷۷ء وزارت اطلاعات و کلثور موسسہ انتشارات بیہقی کابل ۷۸ ۴۔ یار آشنا خلیل اللہ خلیلی فارسی ۱۹۸۲ء جمعیت اسلامی افغانستان ۸۰ یار آشنا (بار دوم) پیشگفتار و حواشی عارف نوشاہی خلیل اللہ خلیلی فارسی ۱۳۸۹ھ ش/۲۰۱۰ء کتابخانہ استاد خلیل اللہ خلیلی انستتیوت شرقشناسی و میراث فرھنگی اکادمی علوم جمہوری تاجکستان دو شنبہ ۱۶۴ ۵۔ از سنائی تا مولانا و اقبال -- فارسی ۱۳۵۶ھ ش/۱۹۷۷ء کابل یونیورسٹی نشرات پو ھنزی -- ۶۔ لالہ ریختہ عبدالہادی داوی فارسی غیر مطبوعہ -- -- علامہ کے اردو کلام کا پہلا با ضابطہ فارسی منظوم ترجمہ ۳ دسمبر ۱۹۷۷ء ۷۔ معنی عشق نزد علامہ اقبال ڈاکٹر روان فرہادی فارسی ۱۳۵۶ھ ش/۱۹۷۷ء -- -- ریڈیو افغانستان کابل کے آڈیٹوریم میں علامہ سے متعلق منعقدہ ۸۔ افغانستان از زبان علامہ اقبال م۔ لمر احسان فارسی ۱۳۷۶ھ ش مرکز انتشارات صبور پشاور -- سمینار کے مقالات ۹۔ علامہ اقبال در ادب فارسی و فرھنگ افغانستان ڈاکٹر اسد اللہ محقق فارسی ۱۳۸۴ ھ ش /۲۰۰۵ء مرکز تحقیقات فارسی ایران و پاکستان اسلام آباد ۳۴۵ ڈاکٹر اسد اللہ محقق کی ڈاکٹریٹ کامقالہ ۱۰۔ اکسیر خودی جوھر پیام علامہ اقبال ڈاکٹر سعید فارسی ۱۳۸۹ھ ش/۲۰۱۰ء انجمن حمایت از انکشاف اجتماعی مطبوعہ فجر کابل ۱۸۸ جدول نمبر ۹ (ب) : افغانستان سے باہر افغانستان میں اقبال شناسی کے اہم مصادر نمبر شمار نام مؤلف زبان سن اشاعت ادارہ اشاعت تعداد صفحات کیفیت ۱۔ اقبال اور افغان میر عبدالصمد اردو ۱۹۹۰ء یونیورسٹی بک ایجنسی پشاور ۲۔ اقبال اور افغانستان اکرام اللہ شاھد اردو نومبر۲۰۰۲ء ادارہ اشاعت مدرالعلوم مرادی ۲۸۱ اکرام اللہ شاہد کے ایم فل کا مقالہ ۳۔ سیر اقبال شناسی در افغانستان عبدالرئوف رفیقی فارسی ۲۰۰۴ء اقبال اکادمی پاکستان لاہور ۲۶۴ افغانستان میں علامہ پر لکھی جانے والے فارسی مقالات ۴۔ اقبال اور پشتو شاعری عبدالرئوف رفیقی پشتو ۲۰۰۴ء اقبال اکادمی پاکستان لاہور عبدالرئوف رفیقی کے مقالہ ایم فل کے چند ابواب ۵۔ اقبال افغان اور افغانستان محمد اکرام چغتائی اردو ۲۰۰۴ء سنگ میل پبلی کیشنز لاہور ۱۰۵۶ ۶۔ افغانستان میں اقبال شناسی کی روایت ڈاکٹر عبدالرئوف رفیقی اردو ۲۰۱۱ء اقبال اکادمی پاکستان لاہور ڈاکٹر عبدالرئوف رفیقی کی ڈاکٹریٹ کا مقالہ مع اضافہ تصاویر متعلقہ صفحہ نمبر: علامہ کا روحانی مرشد جلال الدین بلخی رومی (۱۲۰۷ء - ۱۲۷۳ئ) متعلقہ صفحہ نمبر: علامہ کا سیاسی مرشد جما ل الدین افغانی ( ) متعلقہ صفحہ نمبر: علامہ کا ادبی پیشرو حکیم سنائی غزنوی ( ) متعلقہ صفحہ نمبر: جاوید منزل لاہور علامہ کی خواب گاہ میں نادر شاہ غازی کا عکس متعلقہ صفحہ نمبر: مجلہ کابل ،۵ مارچ ۱۹۳۱ء سرور خان گویا کا مقالہ دکتور اقبال متعلقہ صفحہ نمبر: مجلہ کابل،۲۲ جون ۱۹۳۲ء شہزادہ احمد علی خان درانی کا مقالہ علامہ اقبال متعلقہ صفحہ نمبر: مجلہ کابل، ۲۲ جون ۱۹۳۲ئ، علامہ کی اپنی تحریر سے ارسا ل کردہ نظم پیام بملت کہسار متعلقہ صفحہ نمبر: مجلہ کابل، ۲۳، اگست ۱۹۳۲ء علامہ کے اشعار افغان و ایران متعلقہ صفحہ نمبر: مجلہ کابل، ۲۲ دسمبر ۱۹۳۲ء محمد سکندر خان کا مقالہ تنزل و انحطاط اسلام متعلقہ صفحہ نمبر: سالنامہ کابل، ۱۹۳۲ء حبیب اللہ اولس یار کا مقالہ معاصر افغانی ادب مختلف شعرء پر اقبال کے اثرات کا تذکرہ متعلقہ صفحہ نمبر: سالنامہ کابل ،۱۹۳۲ء گول میز کانفرنس کے مسلم مندوبین میں علامہ کی تصویر متعلقہ صفحہ نمبر: سالنامہ کابل، ۱۹۳۲ء گول میز کانفرنس کے شرکاء کا گروپ فوٹو متعلقہ صفحہ نمبر: مجلہ کابل، ۲۲ دسمبر ۱۹۳۳ء علامہ کے سفرِ افغانستان کی رپورٹ و تصاویر متعلقہ صفحہ نمبر: سالنامہ کابل، ۱۹۳۳ء علامہ کے سفرِ افغانستان سے متعلق تصاویر شاہی باغ جلال آباد متعلقہ صفحہ نمبر: سالنامہ کابل، دسمبر ۱۹۳۳ء علامہ کے سفرِ افغانستان کے دوران باغ بابر کابل میں سید سلیمان ندوی ؔاور سر راس مسعود متعلقہ صفحہ نمبر: علامہ کابل میں اپنے میزبانوں کے ساتھ متعلقہ صفحہ نمبر: کابل میں علامہ اور ان کے ساتھیوں کے اعزاز میں انجمن ادبی کابل کا ضیافت، ہفتہ، ۲۸ ،اکتوبر ۱۹۳۳ء متعلقہ صفحہ نمبر: سالنامہ کابل، ۱۳- ۱۳۱۴ھ ش حکیم سنائی غزنوی کا مزار متعلقہ صفحہ نمبر: حکیم سنائی غزنوی کے مزار کی موجودہ تصویر متعلقہ صفحہ نمبر: حکیم سنائی غزنوی کے مزار کا اندرونی منظر متعلقہ صفحہ نمبر: سلطان محمود غزنوی کے مزار کا بیرونی منظر متعلقہ صفحہ نمبر: سلطان محمود غزنوی کے مزار کا اندرونی منظر متعلقہ صفحہ نمبر: غزنی میں حضرت داتا گنج بخش کے والد عثمان ہجویری کے مزار کا گنبد، ۱۹۳۳ء متعلقہ صفحہ نمبر: غزنی میں حضرت داتا گنج بخش کے والد عثمان ہجویری کے مزار کا اندرونی منظر متعلقہ صفحہ نمبر: قندہار میں جادہ ارگ شاہی، ۱۹۳۳ء متعلقہ صفحہ نمبر: قندہار میں اعلیٰ حضرت احمد شاہ ابدالی کے مزار کا بیرونی منظر ۱۹۳۳ء متعلقہ صفحہ نمبر: قندہار میں اعلیٰ حضرت احمد شاہ ابدالی کے مزار کا اندرونی منظر ۱۹۳۳ء متعلقہ صفحہ نمبر: قندہار میں واقع سرکاری رہائش گاہ ۱۹۳۳ء متعلقہ صفحہ نمبر: قندہار میں بعض حکومتی دفاتر ۱۹۳۳ء متعلقہ صفحہ نمبر: افغان اقبال شناس سرورخا گویا ، سید قاسم رشتیا۱۹۳۳ء متعلقہ صفحہ نمبر: افغانستان کی انجمن ادبی کے اراکین کی تفصیل اوراحمد علی خان درانی و غلام جیلانی خان اعظمی کی تصاویر متعلقہ صفحہ نمبر: افغان اقبال شناس عبدالہادی داویؔ ۱۹۳۳ء متعلقہ صفحہ نمبر: انجمن ادبی کابل کے اراکین کا گروپ فوٹو۱۹۳۳ء متعلقہ صفحہ نمبر: انجمن ادبی کابل کے اراکین اور افغان اقبال شناسان قاری عبداللہ اور قاسم خان رشتیا ۱۹۳۳ء متعلقہ صفحہ نمبر: گول میز کانفرنس روانگی سے قبل علامہ صلاح الدین سلجوقی کے ساتھ ریلوے سٹیشن پر متعلقہ صفحہ نمبر: افغان اقبال شناس علامہ عبدالحئی حبیبی ( ) متعلقہ صفحہ نمبر: افغان ملک الشعراء عبدالحق بیتابؔ متعلقہ صفحہ نمبر: مجلہ کابل ۲۳ دسمبر ۱۹۳۴ء مثنوی مسافر پر سرور خا گویاکی تقریظ متعلقہ صفحہ نمبر: مجلہ کابل، ۲۲ مارچ ۱۹۳۵ء جمال الدین اور احمد خان کی انگریزی کتاب افغانستان پر علامہ کے مقدمے کا فارسی ترجمہ متعلقہ صفحہ نمبر: مجلہ کابل ، مئی جون ۱۹۳۸ء علامہ کی وفات پر مجلہ کابل کے بعض مشمولات متعلقہ صفحہ نمبر: مجلہ کابل ، دلو ۱۳۲۳ھ ش جمال الدین افغانی کے تابوت افغانستان منتقل کرنے کی مناسبت سے خصوصی شمارے میں علامہ کے اشعار خطا او قیانوس بہ قطرہ متعلقہ صفحہ نمبر: افغانستان میں خصوصی ماربل سے تیار کردہ علامہ کا سنگِ مزار متعلقہ صفحہ نمبر: کابل کے پاکستانی سفارتخانے میں منعقدہ یومِ اقبال کی تقریب ڈاکٹر غلام حسن مجددی مقالہ پیش کر رہے ہیں جبکہ استاد خلیل اللہ خلیلی صدارت کررہے ہیں ۱۹۶۷ء متعلقہ صفحہ نمبر: کابل کے پاکستانی سفارتخانے میں منعقدہ یومِ اقبال کی تقریب ۔ پروفیسر عبدالشکور رشادؔ مقالہ پیش کررہے ہیں۔ متعلقہ صفحہ نمبر: افغانستان میں علامہ پر پہلی باقاعدہ کتاب لکھنے والا اقبال شناس عبداللہ بختانی خدمتگار متعلقہ صفحہ نمبر: افغانستان میں علامہ پر شائع ہونے والی پہلی کتاب ’’ƒ'„پنہ د علامہ اقبال پہ نظر œ'*‘‘ کا سرورق متعلقہ صفحہ نمبر: خوشحال انٹرنیشنل سیمنار کابل میں پڑھا جانے والا مقالہ خوشحال اور اقبال کے چند مشترک نکات متعلقہ صفحہ نمبر: افغانستان کے سابق صدر شہید محمد دائود خان کے ہاتھ کی لکھی ہوئی تقریر جس میں ارمغانِ حجاز کا شعر دیا گیا ہے۔ ( د افغانستان کا‍ +، ص۔ ) متعلقہ صفحہ نمبر: مجلہ کابل ، دسمبر جنوری۸- ۱۹۷۷ء علامہ کے صد سالہ جشنِ ولادت کی تقریبات کے حوالے سے مجلے کا اداریہ ’’د ختیحٔ ستر شاعر علامہ اقبال(مشرق کا عظیم شاعر علامہ اقبال) متعلقہ صفحہ نمبر: افغانستان میں علامہ کے اردو آثار سے متعلق دو جلدوں میں کتاب لکھنے والا سکالر عبدالہادی داویؔ متعلقہ صفحہ نمبر: آثار اردوی اقبال از عبدالہادی داویؔ ،جلد اول کا سر ورق متعلقہ صفحہ نمبر: آثار اردوی اقبال از عبدالہادی داویؔ،جلد دوم کا سر ورق متعلقہ صفحہ نمبر: مجلہ کابل ، نومبر دسمبر ۱۹۷۷ء علامہ کے صد سالہ جشنِ ولادت کی تقریبات کے لئے افغانی صدر جناب محمد دائود خان کا پیغام متعلقہ صفحہ نمبر: افغانستان میں علامہ کے صد سالہ جشنِ ولادت کے سلسلے میں صدیق رھہپو کے مرتب کردہ ’’ افغانستان و اقبال‘‘ کا سر ورق متعلقہ صفحہ نمبر: چند افغان اقبال شناس عبدالرئوف بینواؔ، قیام الدین خادمؔ، ڈاکٹر روان فرہادیؔ متعلقہ صفحہ نمبر: مجلہ میثاقِ خون ، قوس ۱۳۶۰ھ ش ڈاکٹر حق شناس کا مقالہ ’’اقبال و افغانستان‘‘ متعلقہ صفحہ نمبر: اخبا رشہادت میں علامہ کی یومِ ولادت کے حوالے سے خصوصی تحریر متعلقہ صفحہ نمبر: افغان اخبار قلب آسیا ،سرطان ۱۳۶۴ھ ش لوح پر علامہ کے اشعار کندہ ہیں متعلقہ صفحہ نمبر: اخبار افغانان میں (۹-۶- ۱۳۷۹ھ ش ) شائع شدہ کلامِ اقبال متعلقہ صفحہ نمبر: عبدالباری شہرت ننگیالؔکی مرتب کردہ خون کی پکار کا بیک ٹائٹل متعلقہ صفحہ نمبر: افغان اقبال شناس سید قاسم رشتیاؔاور اعلیٰ حضرت محمد نادر شاہ ۱۹۸۳ء متعلقہ صفحہ نمبر: مجلہ سپید* ، عقرب ۱۳۶۳ھ ش علامہ کا دعا متعلقہ صفحہ نمبر: مجلہ منبع الجہاد، میزان ۱۳۷۰ھ ش علامہ کا رباعی متعلقہ صفحہ نمبر: مجلہ ہجرت، جنوری ۱۹۸۳ء افغان مجاہدین کے تصویر کا کیپشن علامہ کا شعر متعلقہ صفحہ نمبر: مجلہ ’’د شہید زیر*‘‘طلاء ۱۳۶۰ھ ش علامہ کے اشعار متعلقہ صفحہ نمبر: مجلہ’’شفق‘‘ دلو حوت ۱۳۵۹ھ ش علامہ کے اشعار متعلقہ صفحہ نمبر: مجلہ ’’د شہید پیغام‘‘ سلواغہ ۱۳۶۱ھ ش علامہ کا ’’پیامِ مصطفی آگاہ شو‘‘ متعلقہ صفحہ نمبر: مجلہ ’’قلم‘‘ حمل سنبلہ۱۳۶۷ھ ش علامہ کا کلام جنگ است ھنوز متعلقہ صفحہ نمبر: The WUFA علامہ کے اشعار کا انگریزی ترجمہ متعلقہ صفحہ نمبر: کلیات خلیل اللہ خلیلی میں دمی با اقبال و دیگر اقبالیاتی اشعار متعلقہ صفحہ نمبر: اخبار’’وفا‘‘ ڈاکٹر محمد رحیم الہامؔ کا جواب مسافر ، ۱۱جدی ۱۳۷۵ھ ش متعلقہ صفحہ نمبر: اخبار’’وفا‘‘ ۱۹۳۵ء میں علامہ سے ملاقات پر مبنی سید قاسم رشتیاؔکی یاداشتوں پر مشتمل تحریر ساعتی درخدمت علامہ اقبال