آئینہ خانۂ اقبال مرزا محمد اسلم اقبال اکادمی پاکستان لاہور   فہرست 1. آئنہ خانۂ اقبال 1 2. علامہ اقبال اور اہم معاشرتی مسائل 5 3. مولانا روم اور علامہ اقبال 26 4. اقبال بحتارو سااستدان ۔تحریک پاکستان کا خضرِ راہ 56 5. حضرت ماتں مر1 علہد الرحمۃ بحوالہ علامہ اقبال علہح الرحمۃ 86 6. حسنت بن منصور حلاج اور علامہ اقبال 101 7. اقبال کا نظریۂ توحدع و رسالت۔ ایمان و یںرِ اور زندگی 125 8. علامہ اقبال اور قائدِ اعظم کا آئۂلت استقبال۔ پاکستان 141 9. اقبال کی زندگی کی جمالاوتی پہلو۔ بے ناoزی، فقر اور استغنا 158 10. مجدد الف ثانی، محی الدین عربی اور علامہ محمد اقبال مںر مختصر تقابلی جائزہ 182 11. IJTEHAD WITH REFERENCE TO IQBAL AND PAKISTAN 204 علامہ اقبال اور اہم معاشرتی مسائل اس حقیقت میں کوئی شک نہیں کہ علامہ اقبال کو ترقی یافتہ و علمی دنیا میں ایک عظیم شاعر، فلاسفر، دینی ، سیاسی ، معاشی و معاشرتی رہنما تسلیم کیا جاتا ہے۔ ان کی الہامی شاعری میں تمام عالمِ انسانیت کی فلاح اور سربلندی کا پیغام ہے۔ اگرچہ ان کے کلام میں اسلامیانِ عالم کی عظمتِ رفتہ کو بحال کرنے کی طرف جھکاؤ زیادہ نمایاں ہے۔ مگر اس میں مصلحت یہ ہے کہ آج کل کے مختلف باہم برسرِ پیکار نظام ہائے زندگی جو فکری، نسلی ،علاقائی و طبقاتی نفرتوں اور عداوتوں سے دنیا کو جہنم راز بنا رہے ہیں اور طالع پسند حکمران، با اثر سرمایہ دار و جاگیر دار نام نہاد جمہوریت کی آڑ میں عام آدمی کی محنت و مشقت مکر و جبر کی چالوں سے استحصال کرکے انھیں مزید غربت، جہالت، بےچارگی اور ذلت کی طرف دھکیل رہے ہیں۔ انھیں اسلام کے دئیے ہوئے جہانبانی ا ور معاشرے میں باہم ربط و ضبط کے احسن اصولوں کی روشنی میں مذکورہ بالا استحصالی طبقات کے علاوہ شدّت پسند اور تنگ نظر نام نہاد مذہبی رہنماؤں کی متعصّبانہ سوچ اور معاشی و معاشرتی بدحالی اور جہالت سے آزادی دلا کر زندگی میں مثبت فکر و عمل کے ذریعے با وقار مقام دلایا جا سکے۔ اس ضمن میں اقبال کی مشہور نظم ‘‘خضرِ راہ’’ ذہن میں آتی ہے۔ جس میں اس نے غیبی رہنما حضرت خضر ؑ سے مکالمہ کی صورت میں چند نہایت اہم سوالات کے بارے میں وضاحت طلب کرنے کی غرض سے گفتگو کی ہے۔ (۱) زندگی کی حقیقت کیا ہے؟ (۲) سلطنت کیا چیز ہے؟ (۳) سرمایہ داری اور محنت کیا ہیں؟ (۴) ان میں باہم آویزش اور تضاد کس وجہ سے ہے؟ اقبال معاشرے میں عالمی سطح پر خوشحالی، باہمی خلوص و محنت کا بے حد ممتنی ہے۔ اس نظم میں اس نے نہایت خوبصورت، دل نشین انداز میں رہبرِ جہاں حضڑت خضر ؓ سے مکالمہ کے انداز میں گہرے فکر و اضطراب میں غرق سحر انگیز منظر پیدا کرکے شام کے گہرے سکوت میں خاموش دریا کے کنارے اپنے دل میں تلاطم پیدا کرنے والے سوالات کا جواب دریافت کیا ہے۔اس نظم کا آغاز دیکھیے: ساحل دریا پہ میں اک رات تھا محوِ نظر گوشۂ دل میں چھپائے اک جہانِ اضطراب شب و سکوت افزا ہوا آسودہ دریا نرم سیر [ تھی نظر حیراں کہ یہ دریا ہے یا تصویرِ آب [ جیسے گہوارے میں سو جاتا ہے طفلِ شیر خوار موجِ مضطر تھی کہیں گہرائیوں میں مستِ خواب رات کے افسوں سے طائر آشیانوں میں اسیر انجم کم ضَو گرفتارِ طلسم ماہ تاب شام کے گہرے سکوت کا یہ منظر دراصل اس دَور کے جمود کی غمازی کرتا ہے۔ جس کو توڑنے کے لیے اقبال کے دل میں اک جہانِ اضطراب ہے ایسے پر اسرار سکوت، خاموشی کے عالم اچانک پیکِ جہاں پیما: خضر ؓنمودار ہوتا ہے جسے اقبال نے یوں بیان کیا ہے: دیکھتا کیا ہوں کہ وہ پیکِ جہاں پیما خضر جسکی پیری میں ہے مانندِ سحر رنگ شباب کہہ رہا ہے مجھ سے اے جویائے اسرارِ ازل چشمِ دل وا ہوا تو ہے تقدیر عالم بے حجاب خضر کی جواں صورت پیری اور عالمی حقائق سے آگاہ شخصیت سے اقبال عالم انسانی کے بارے میں مذکورہ بالا سوالات کے جوابات سے زندگی کی حقیقت دنیا میں طرزِ حکومت سرمایہ اور محنت میں جنگ و جدل سے پیدا بےشمار مسائل جنھوں نے زندگی کو بھوک افلاس، جہالت، رنج و الم ظلم و استحصال کا عرصۂ کا راز دار بنا رکھا ہے۔ دُور کرکے ایک حسین پر امن اور پر مسرت جہاں کی صورت میں دیکھنا چاہتاہے چنانچہ سب سے پہلے خضر، اقبال کی الجھنوں کو دور کرنے کے لیے اپنے موجودہونے کو ہی مثبت زندگی کی دلیل کے طور پر یوں پیش کرتا ہے۔ کیوں تعجب ہے مری صحرا نووردی پر تجھے یہ تگا پوئے دما دم زندگی کی ہے دلیل پختہ تر ہے گردشِ پیہم سے جامِ زندگی ہے یہی اے بے خبر رازِ دوام زندگی زندگی کے موضوع سخن کو مزید اُجاگر کرنے کے لیے خضر یوں خطاب کرتا ہے۔ بر تر از اندیشۂ سُود و زیاں ہے زندگی ہے کبھی جاں اور کبھی تسلیم جاں ہے زندگی تو اسے پیمانۂ امروز و فردا سے نہ ناپ جادواں پیہم دواں ہر دم جواں ہے زندگی زندگائی کی حقیقت کو ہکن کے دل سے پوچھ جوئے شیر و تیشہ و سنگ گراں ہے زندگی یہ گھڑے محشر کی ہے تو عرصۂ محشر میں ہے پیش کر غافل عمل کوئی اگر دفتر میں ہے صحیح زندگی گویا اقبال کے نزدیک ایک مسلسل عمل ، عرصۂ مبارزت، جدوجہد ، سوز و ساز، تب و تاب کشمکش روز و شب کا مرقع ہے۔ یعنی ہر اک مقام سے آگے مقام ہے تیرا سوا حیاتِ ذوق سفر کے کچھ اور نہیں کاروانِ حیات ہر منزل کی طرف گامزن رہنا جس میں کوئی مستقل پڑاو نہیں ہے یہی زندگی کی اصل حقیقت ہے۔ اقبال کا خضر سے دوسرا استفسار ہے کہ سلطنت کیا چیز ہے؟ دنیا میں معاشرتی زندگی کے آغاز سے آج تک کئی طرح کے نظامہائے حکومت رائج رہے ہیں۔ جن میں زیادہ معروف ملوکیت، فاشزم، ڈکٹیٹرشپ، سوشلزم ، کمیونزم وغیرہ ہیں۔ مگر ترجیع کے لیے تان آکر سرمایہ دارانہ نظامِ جمہوریت یا ڈیموز کریسی پر ٹوٹتی ہے کہ یہ سب سے اعلی ٰ و ارفع اور مصنفانہ نظام حکومت ہے جس میں ہر شخص کو بذریعہ ووٹ حکومت میں شرکت کا حق دیا گیا ہے اور یہی نظام زیادہ تر اقبال کا ہدفِ تنقید ہے۔ ویسے تو اقبال کے نزدیک سب حکومتی نظاموں کی روح ایک جیسی ہے کہ جو بھی شخص یا گروہ یا خاندان برسر اقتدار ہو اس کا مقصد ہر حیلے سے اپنے اقتدار کو قائم رکھنا ہے جس کی حقیقت وہ خضر کی زبان سے اس طرح بیان کرتا ہے۔ آ بتاؤں تجھ کو رازِ آیۂ اِنّ الملوک سلطنت اقوامِ غالب کی ہے اک جادوگری خواب سے بیدار ہوتا ہے ذرا محکوم اگر [ پھر سلا دیتی ہے اس کو حکمران کی ساحری [ جادؤے محمود کی تاثیر سے چشمِ ایاز دیکھتی ہے حلقۂ گردن میں سازِ دلبری تاہم اقبال کو زندگی میں انگریزی جمہوری نظام سے واسطہ پڑا ہندوستان انگریزوں کا محکوم تھا مگرانھوں نے یہاں کے باشندوں کو جمہوری حکومت کے دلفریب ہتھکنڈوں میں الجھا دیا ہے جسے خضرنے یوں بیان کیا ہے۔ ہے وہی سازِ کہن مغرب کا جمہوری نظام جس کے پردوں میں نہیں غیز از نوائے قیصری دیو استبداد جمہوری قبائیں پائے کوب [ تو سمجھتا ہے یہ آزادی کی ہے نیلم پری؟ [ مجلسِ آئین و اصلاح و رعایات و حقوق طبِّ مغرب کے مزے میٹھے اثر خواب آفریں اس سرابِ رنگ و بو کو گلستان سمجھا ہے تُو؟ آہ اے نادان قفس کو آشیاں سمجھا ہے تُو بندہ خدا یہ تاج برطانیہ کی تقویت کی خاطر دیے گئے قوانین اور رعایات و حقوق۔کی نیلم پری ہے۔ وہ جموریت نہیں جس نے مغرب کو کلیسا و شہنشاہ کے تسلط سے نکالا۔ ان اشعار میں جمہوری نظام کی پُر کشش اصلاحات سے ظاہر ہے جیسے کہ مجلسِ آئین، قانونی اصلاحات، رعایات ، حقوق مجالس کی گرم گفتاری آزادئ رائے کا حق الیکشں کی شعبدہ بازیاں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے غیر اخلاقی حربے الزام تراشیاں جس کا اقبال کو ذاتی طور پر ۱۹۲۶ء میں پنجاب لیجسلیٹو کونسل کے الیکشن میں تجربہ ہو چکا ہے اور بھاری کامیابی کے باوجود انھوں نے آئندہ ہمیشہ کے لیے انتخاب لڑنے کو ترک کر دیا گویا یہ ایک ابلیسانہ نظام ہے اس کو انھوں نے ایک طنزیہ انداز نظم میں اس طرح بیان کیا ہے کہ ابلیس کے پیروکاروں نے ایک دفعہ دیکھا کہ وہ بڑے مطمئن انداز میں فارغ بیٹھا سگریٹ کے کش لگا رہا ہے پیروں کاروں نے پوچھا کہ کیا اس کا مشن دنیا میں برائیاں، فساد، جرائم وغیرہ پھیلانے کا پورا ہو گیا ہے؟ جس کے جواب میں ابلیس نے کہا اب اسے انگریزی پارلیمنٹ کے ارباب اختیار تم لوگوں سے بہتر انداز میں سر انجام دے رہے ہیں۔ جمہور کے ابلیس ہیں ارباب سیاست باقی نہیں اب میری ضرورت تہِ افلاک اپنے ملک کا موجودہ جمہوری دور حکومت محض کھوکھلے نعرے ہیں۔ بنیادی ضرورت با کردار لوگوں کو بلا تفریق امیری یا غریبی کے منتخب کرنے کی ہے جو تنزلی کو ملحوظ رکھیں۔ چنانچہ یہ کہنا کہ مغربی جمہوری نظام سب سے بہترین ہے کہ اس میں سب کے مساویانہ حقوق ہیں سراسر جھوٹ اور فریب ہے۔ اپنے ملک میں انتشار زدہ نا اہل سیاسی و حکومتی جماعتوں کی طرف سے ایک نعرے کی تکرار کی جاتی ہے کہ بدترین جمہوریت بہترین آمریت سے بہتر ہے جو قطعی غلط ہے یہ نعرہ دونوں ہاتھوں سے ملک کو لوٹنے اور اپنے اقتدار یا آیندہ اقتدار کی خواہش پوری کرنے کے لیے لگایا جاتا ہے کیا حضرت ابو بکر صدیق ؓاور حضرت عمر ؓاور حضرت عبدالعزیز عمر ثانی کا طرز حکومت جمہوری تھا ؟ تو کیا آمریت تھا؟ ان حکمرانوں کی کامرانی کی اصل وجہ اہلیّت دیانت عدل اوررض شناسی پر تھی جسے وہ بارامانت سمجھتے تھے ان کے اصحابِ شوریٰ کی بڑی اہمیت تھی جن کی دانش اور اصابت رائے مسلم تھی۔ موجودہ دور میں اقبال کے نزدیک بھی جمہوری نظام دوسرے کمتر نظاموں سے بہتر ہے مگر اس کی شرط ہے کہ نمائندگان صحیح نہایت قابل دیانتدار محنتی دوراندیش اور اپنے فرائض کو سمجھنے اور سر انجام دینے کے قابل ہوں اور سب سے زیادہ ضروری بات کہ نمائندگان عوام سے ہوں کہ نہ موروثی جاگیر دار سرمایہ دار خاندان سے ہوں اس حقیقت کو انھوں نے واشگاف انداز میں کہا ہے کہ سلطانئ جمہور کا آتا ہے زمانہ جو نقشِ کہن تم کو نظر آئے مٹا دو موجودہ طرزِ حکومت ایسی فرسودہ لڑکھڑاتی ہوئی عمارت ہے جو اقبال کے نزدیک نقشِ کہن ہے اورگرائے جانے کے بعد نئی جدید عمارت انصاف وعدل و مساوات کے تقاضوں کو پورا کرنے والی ہووہ مولانا روم کی حکمت پر یقین رکھتے ہیں جن کے بارے میں یہ شعر ہے: گفت رومی ہر بنائے کہنہ کا آباداں کنند می ندانی اول آں بنیاد درا ویراں کنند مولانا روم کے قول کے مطابق موجودہ نظام حکومت فرسودہ متروک ہو چکا ہے ۔ یہ مغربی جمہوری نظام کی تقلید میں پسپا ہوتی سے درست نہیں ہو سکتا۔ ہمارے لیے قرآن اور سنت کے اصولوں پر مبنی عادلانہ نظام کی ضرورت ہے۔ بقول اقبال: اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر خاص ہے ترکیب میں قومِ رسول ہاشمی اقبال نے اپنی شہرہ آفاق کتاب جاوید نامہ میں سید جمال الدین افغانی جنھیں وہ وقت کا مجدد مانتے ہیں کی زبانی فلک عطارد پر ملاقات کے دوران اسلامی حکومت کے خدوخال مندرجہ ذےل اشعار میں بیان کرتے ہیں : بندۂ بے حق نیاز بر مقام نے غلام اور نہ اونس را غلام بندۂ حق مردم آزاد است و میس ملک و آئینش خداداد است و بس رسم و راہِ دین و آئینش ز حق زشت وخوب و تلخ و نوشینش زحق عقل خودبیں غافل از بہبود غیر [ سُود خود بیند نبیند سُودِ غیر وحئ حق بینندۂ سُودِ ہمہ [ درّ نگاہش سُود و بہبود ہمہ عادل اندر صلح و ہم اندر مصاف [[ وصل و فصلش لا پراعی لا یخاف ان اشعار کا ترجمہ اس طرح سے ہے: خلافت ِ اسلامی میں مردِ مومن مقام و مرتبہ کی قید سے آزاد ہوتا ہے نہ کسی کو غلام بناتا ہے نہ کسی غلام بنانے والے کا اقتدار تسلیم کرتا ہے۔ مرد مسلمان در حقیقیت آزاد زندگی گزارتا ہے۔ اسے عہد نامہ کہنا چاہیے۔حضورؐ نے یہود مدینہ سے مل کر بنایااسی لیے اس کا نام میثاق مدینہ پڑا۔ اس کا ملک بھی خداداد ہوتا ہے اور آئین بھی خداداد ہوتا ہےؤ اس کا دین آئین طور طریقےنیک و بد کے پیمانے سب خدا کے احکام کے تابع ہوتے ہیں وہ ہوس اور خود غرضی کی کثافتوں سے پاک ہوتا ہے کیونکہ ان مکروہات کی حامل عقل دوسروں کی بہتری اور حقوق و فرائض سے غافل رہتی ہے یہ خداوندی حکمت و ہدایت ہی ہے جو سب کا فائدہ دیکھتی ہےاور بھلا چاہتی ہے امن کی حالت ہو یا جنگ کا زمانہ وحئ الٰہی کی تابع حکومت عدل و انصاف قائم کرتی ہے اور اس کا خصوصی امتیاز یہ ہے کہ کسی سے بے جارعایت کرتی ہے۔ نہ طاغوطی عناصر سے ڈرتی ہے۔ سلطنت کے دلفریب عوامل کا پول کھلنے کے بعد اقبال نظم خضر ِ راہ میں سرمایہ داری کو ہدفِ مذمت بناتا ہے ۔ جس میں سرمایہ دار طرح طرح کے حیلوں ہتھکنڈوں سے مزدوروں کی جان توڑ محنت کا فائدہ خود اڑا لیتا ہے اور مزدوروں کو صرف اتنا حصہ دیتا ہے ۔ جس سے وہ تارِ حیات کو چلتا رکھے اور بُرے حال میں زندہ رہ کر سرمایہ دار کے لیے مزید دولت پیدا کرتا رہے ۔ اس بارے میں چند اشعار دیکھیے: اے کہ تجھ کو کھا گیا سرمایہ دارِ حیلہ گر شاخ آہُو پر رہی صدیوں تلک تری برأت دستِ دولت آفریں کو مزدوری یوں ملتی ہے اہل ثروت جیسے دیتے ہیں غریبوں کو زکوۃ نسل، قومیت، کلیسا، سلطنت، تہذیب، رنگ خواجگی نے خون چن چن کر بنائے مسکرات مکر کی حالوں سے بازی لے گیا سرمایہ دار انتہائے سادگی سے کھا گیا مزدور مات اسلام میں خلافت کا تصور خلافت ادم اس کی مثال ہے اور اسی سے اصول و قواعد و شرائط مرتب ہوتے ہیں۔ حکومتِ الٰہی : نائبین حق کے اقتدار کا نام ہے جو یہودی تصورہے۔ اسلام اس کے خلاف آیا۔ جمہوریت تو جمہور کے اختیار کا نظام ہے جس کا جوڑ اسلام سے ہے سرمایہ داری سے نہیں۔ کمیونزم چند سرمایہ داروں کی بجائے ؟؟؟ لایا اور سب کو محرومی میں مساوات سے روکا۔ اقبال اپنے دور کے بڑے بڑے مفکروں سے ذہنی لحاظ سے زیادہ باخبر تھا۔ وہ سمجھ رہے تھے کہ غلام ہندوستان میں نفاذِ جمہوریت جس کا ماحصل چند سرمایہ داروں کے ذریعہ سلطنت برطانیہ کے تسلط کو استحکام بخشنا تھا۔ سرمایہ دارانہ نظام ہی کا بدل ہے۔ ورنہ وہ جمہوریت کے زمانۂ عروج میں سرمایہ داری نظام کے خلاف محنت کش مزدووں کے استحصال کے متعلق اس طرح واشگاف آواز بلند نہ کرتا جس سے صنعتی انقلاب سے پیدا شدہ بہمیمانہ طلسم میں یورپ، ہندوستان بلکہ جہاں جہاں مغربی طاقتوں نے نو آبادیاتی تسلط جمایا ہوا تھا۔مزدوروں ، غریبوں ، مزارعوں میں مرد، عورتیں بوڑھے، بچے سرمایہ داروں کے ہاتھوں انسانیت کش ظلم کی وجہ سے سسک سسک کر جی رہے تھے اس بے بس مخلوق کے دکھوں ، ذلّتوں اور بیچارگی کا مداواکرنے اور رونے والا کوئی نہ تھا۔ نہ مذحب، نہ قانون، نہ اشرافیہ بالخر اس کا ردعمل اشتراکیت کی صورت میں ظاہر ہوا۔ جو کارل مارکس کے اقتصادی اور معاشی نظریے اور حصول حقوق کا لائحہ عمل تھا۔ اس منشور میں مذہب کی کوئی جگہ نہ تھی۔ جس نے ہمیشہ حکمران اور جابر طبقے کا ساتھ دیا اور مظلوموں کو تقدیر پر شاکر رہنے کی تلقین کی کہ دنیا میں دکھ ، تکلیفیں سہنے والوں کو اگلی زندگی میں اعلیٰ مدارج حاصل ہوں گے۔ علامہ کے نزدیک اشتراکیت نے کلیسا کے حمایت یافتہ سرمایہ داری نظام کی تخریب کا کام نہایت کامیابی سے کیا جس نے سلطانی، جاگیرداری کلیسائی خواجگی کا خاتمہ کر دیا بلکہ اشتراکیت کے مساوات پر مبنی اصولوں کی اس نے یہاں تک تعریف کی اگر اشتراکیت میں الحاد نہ ہو لا کے بعد شامل کر دیا جائے تو یہ نظام اسلام کی شکل اختیار کر جات ہے مگر چونکہ الحاد صرف جسمانی فلاح پر زور دیتا ہے اور خدا کی ذات اور روحانی فلاح کا یکسر منکر ہے اور الحاد پر سختی سے کاربند ہے۔ اس لیے اقبال بغیر خدا کے صرف تن پرور معاشی نظام کو قبول نہ کر سکا تاہم اقبال اپنیمشہور نظم لینن ‘خدا کے حضور میں’ اسے خدا کے حضور پیش کر دیتا ہے جو مذہب کلیسا کے امیر اور غریب کی قسمت کے تضاد کو الحاد اختیار کرنے کاعذر کرتا ہے۔ جسے چند اشعار میں یوں بیان کیا گیا ہے۔ رعنائی تعمیر میں رونق میں صفا میں گرجوں سے کہیں بڑھ کے ہیں بنکوں کی عمارات ظاہر میں تجارت ہے حقیقت میں جواء ہے سُود ایک کا لاکھوں کے لیے مرگ مفاجات یہ علم، یہ حکمت، یہ تدبر، یہ حکومت پیتے ہیں لہو، دیتے ہیں تعلیمِ مساوات ہے دل کے لیے موت مشینوں کی حکومت احساسِ مروت کو کچل دیتے ہیں آلات اور آخر میں لینن کی زبان سے خدا سے غریبوں کے لیے اس طرح انصاف طلب کرتا ہے۔ تو قادر و عادل ہے مگر تیرے جہاں میں ہیں تلخ بہت بندۂ مزدور کے اوقات کب ڈوبے گا سرمایہ پرستی کا سفینہ دنیا ہے تیری منتظرِ روزِ مکافات روس میں راز شاہی اور کلیسا کے انسانیت کش گٹھ جوڑ کے خلاف کامیاب انقلاب لانے پر اقبال لینن کے کارنامے کو بنظر تحسین دیکھتا ہے اور شدید خواہش رکھتا ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام دنیا میں جہاں کہیں ہے اس کو مٹا دیا جائے۔ تاکہ اس سے انسانیتِ عالم کو جبر و استبداد، استحصال، غلامی کی ذلّت و رسوائی سے نجات حاصل ہو وہ اپنی اس آرزو کو مندرجہ ذیل نظم ‘فرمان خدا’ جو ایک طرح سے ملوکیت، جاگیری داری اور فرسودہ مذہب کے خلاف اعلان جنگ ہے اس میں خدا فرشتوں کو زمین پر ہونے والے مظالم کو مٹا دالنے کا حکم دیتا ہے۔ فرمان ِ خدا اٹھو میری دنیا کے غریبوں کو جگا دو کاخِ امرا کے در و دیوار ہلا دو گرماؤ غریبوں کا لہو سوزِ یقین سے کنجشکِ فرومایہ کو شاہین سے لڑا دو سلطانئ جمہور کا آتا ہے زمانہ جو نقشِ کہن تم کو نظر آئے مٹا دو جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہیں روزی اُس کھیت کے ہر خوشۂ گندم کو جلا دو کیوں خالق و مخلوق میں حائل ہیں پردے [ پیرانِ کلیسا کو کلیسا سے اٹھا دو حق را بسجودے صنماں رابطوفے بہتر ہے چراغِ حرم و دَیر بجھا دو میں نا خوش و بیزار ہوں مرمر کی سِلوں سے میرے لیے مٹی کا حرم اور بنا دو تہذیب نوی کارگہہ شیشہ گراں ہے آداب جنون شاعرِ مشرق کا سکھا دو یہ نظم ایک طرح سے اشتراکیت کا جامع منشور ہے۔ جو اشتراکی حُکّام ضرور اپنالیتے اگر نظم کا عنوان فرمانِ خدا فرشتوں سے، نہ کیا جاتا۔ کیونکہ اشتراکیت کے بانیوں نے کلیسائی رئیسوں کی بدولت خدا اور ماورائی نظریات پر پہلے ہی کلہاڑا چلاکر انھیں اشتراکی فلسفے سے نکال دیا ہے۔ کیونکہ مذہب کے ٹھیکداروں کو آلہ کار بنا کر ہی جابر مطلق العنان حکمران اور مقتدر طبقات عوام کے حقوق پر ڈاکہ ڈالتے اور ان کی محنت سے پیدا شدہ دولت کو لوٹ لیتے تھے اور یہاں اشارۃً ذکر کرنا مناسب لگتا ہے کہ اس وقت اپنے ملک میں بھی سرمایہ دار اورمحنت کش طبقات افراط و تفریط کی ناہمواری کے مظہر ہیں۔ ایک طرف بڑے زمیندار ، جاگیردار، بیوروکریٹس، صعنت کار کی آٖدنی اوجِ ثریا تک پہنچی ہوئی ہے جس میں مزید کی خواہش رہتی ہے دوسری طرف مزدوروں کی آمدنی صرف سات ہزار مقرر ہے جو صنعتکاروں کے نزدیک زیادہ ہے کہ اس سے ان کے منافع میں کمی آتی ہے۔ اور اس مکروہ نظام کی حفاظت اسلام اسلام کو شور مچا کر امریکی سرمایہ دار مادیت کی حمایت کی جارہی ہے۔ جب کہ مفکر پاکستان اسے سرابِ رنگ و بُو اور قفس سے مُشابہ قرار دیتے ہیں۔اقبال نے ۱۹۲۶ء میں پنجاب لیجسلیٹو کونسل میں منتخب ہونے پر اسمبلی میں پُر زور تقاریر سے واضع کیا کہ امیر غریب کی آمدنی میں فرق کم کرنا معاشرے کے استحکام اورملکی ترقی کے لیے بے حد ضروری ہے اگر اربابِ علم و اختیار نے جلدی توجہ نہ کی تو لینن کی طرح کوئی معاشی ظلم اور ناانصافی کے روزِ مکافات کے لیے ظہور پذیر ہو جائے گا۔ اہل خرد کی آگہی کے لیے اقبال کا یہ شعر پیشگی اطلاع کا حامل ہے: فطرت افراد سے اغماز بھی کر لیتی ہے کبھی کرتی نہیں ملت قوموں کے گناہوں کو معاف سرمایہ داری کے موضوع پر اقبال کے چند مزید اشعار درج ذیل ہیں : ابھی تک آدمی صیدِ زبُونِ شہریاری ہے قیامت ہے کہ انسان نوعِ انساں کا شکاری ہے نظر کو خیرہ کرتی ہے چمک تہذیبِ حاضر کی یہ صناعی مگر جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری ہے وہ حکمت ناز تھا جس پر خرد مندانِ مغرب کو ہوس کے پنجۂ خونین میں تیغ کار زاری ہے تدبر کی فسوں کاری سے محکم ہو نہیں سکتا جہاں میں جس تمدّن کی بنا سرمایہ داری ہے گیا دورِ سرمایہ داری گیا تماشہ دکھا کر مداری گیا پرانی سیاست گری خوار ہے زمیں میر و سلطان سے بزار ہے کارخانے کا ہے مالک مردکِ نا کردہ کار عیش کا پتلا ہے محنت ہے اسے ناسازگار حکمِ حق ہے لَیسَ للاِنسان اِلاّ ما سعیٰ کھائی کیوں مزدور کی محنت کا پھل سرمایہ دار کیا یہ ملوکیت یا اشتراکیت کے حق میں ہے؟ نہیں یہ جمہوری نظام کے حق میں ہے جس کے سراسر اسلام ہونے کے لیے اقبال کے نزدیک کسی دلیل کی ضرورت نہیں ۔ اب دیکھیں زمین کی ملکیت کے بارے میں اقبال کا کیا نظریہ ہے؟ اسلام میں ایک بڑا مسئلہ زمین کی ملکیت کا ہے موجودہ حالات میں سرمایہ داری نظام کے تحت مزارعوں محنت کشوں سے ناجائزہ فائدہ اٹھانے کی بدترین صورت ہے۔ اقبال جو ایک سچا مسلمان اور الارض للہ کی روشنی میں یہ یقین رکھتا ہے کہ زمین خدا کی پیدا کی ہوئی ہے اس کی حیثیت ہوا اور پانی کی سی ہے جس پر کسی کی بھی ملکیت نہیں ہونی چاہیے اگرچہ زمین انسان کی محنت کے بغیر خوراک پیدا نہیں کرتی مگر انصاف کی رُو سے پیداوار کا فائدہ اسی کو ہونا چاہیے جس نے اس پر ہل چلا کر آبیاری کی اور فصل اُگائی ہو۔ زمین کا غیر حاضر مالک اس کے لیے کچھ نہیں کرتا پھر وہ کس بنا پر اس کا کثیر حصہ وصول کرتا ہے ملکیت زمین کے بارے میں اسلامی فقہا کے درمیان ہمیشہ اختلاف رہا ہے- وَ تُعِزُّ مَنْ تَشَاءُ وَ تُذل من تشاء کی آڑ میں شاہوں ، سرداروں ، جاگیرداروں ، سرمایہ داروں نے اپنی حصول شدہ زمین کو خدا کی عطا کردہ ملکیت قرار دیا ہے۔ حالانکہ انفاق کی شرت کے تحت ان کے پاس زاید وسائل بے آسرا لوگوں کی امانت کہے گئے ہیں ۔ اس بارے میں ہر مفسّر اپنے مطلب کی آیت اور احادیث لے لیتا ہے زمین کے بارے میں قرآن کریم میں کہا گیا ہے۔ ‘‘الارض للہ’’ یعنی زمین اللہ کی ہے۔ لہٰذا اس کی ذاتی ملکیت جائز نہیں اس کے مخالف یہ حوالہ دیتے ہیں ‘‘للہ مافی السموات والارض’’ کہ دنیا اور آسمانوں جو کچھ ہے وہ اللہ تعالیٰ کا ہے۔ انسان نے کسی چیز کو پیدا نہیں کیا اس لیے وہ کسی چیز کا مالک نہیں ہو سکتا لیکن یہ سب کچھ خدا کا ہونے کے باوجود باقی تمام اشیاء میں اسلام نے متاعِ حیات کو تسلیم کیا ہے۔ اقبال نے جاوید نامہ میں اس مسئلے کو سید جمال الدین افغانی کی زبانی بیان کرنے کی کوشش کی ہے کہ ‘‘الارض للہ’’ کہا گیا ہے اور زمین کو انسان کے لیے امانت اور مفید متاع قرار دیا ہے ۔ اس امانت سے رزق، رہائش اور قبر کا استفادہ کرنا روا ہے اس کے علاوہ زمین سے پیوستگی اور ہوسِ ملکیت درست نہیں۔ اس بارے میں اقبال کی مشہور نظم بالِ جبریل سے بعنوان ‘‘الارض للہ’’ پیش خدمت ہے: الارض للہ پالتا ہے بیج کو مٹی کی تاریکی میں کون کون دریاؤ ں کی موجوں سے اٹھتا ہے سحاب کون لایا کھینچ کر پچھّم سے بادِ سازگار خاک یہ کس کی ہے کس کا ہے تو نُورِ آفتاب کس نے بھر دی موتوں سے خوشۂ گندم کی جیب موسموں کو کس نے سکھلائی ہے خوئے انقلاب وہ خدایا! یہ زمین تیری نہیں تیری نہیں تیرے آبا کی نہیں تیری نہیں میری نہیں اس مختصر سی بے مثال نظم کا مدعا یہی ہے کہ اقبال زمین کی عظیم ملکیتوں کے خلاف تھے نہ وہ فاتح بادشاہوں کا حق تسلیم کرتے تھے نہ ان کی اپنے زیر اثر سرداروں کو جاں نثاری کے صلہ میں جاگیریں اور نہ سرمایہ داروں کے وسیع قطعات پر قبضہ دلا کر ان پر مزارعوں کے ذریعے دولت سمیٹنے کو جائز سمجھتے تھے کیونکہ غیر محدود اراضی کے حقوق، سرمایہ داری، عیش پرستی، اور ظلم و استحصال کو فروغ دیتے ہیں۔ اسلام نے اسے قانونِ وراثت سے روک دی تھی لیکن نام نہاد جاگیر داروں نے تقسیم وراثت کے بجائے نیابت کو انایا۔ یہ جمہوریت کے لباس میں بد ترین آمریت اور جاگیر داروں کے تسلط کی وجہ سے ہے۔ حضرت عمر ؓکے دورِ خلافت میں بھی زمین کی ملکیت کا مسئلہ پیدا ہوا۔ جب قیصر و کسری کی سلطنتوں روم اور فارس میں اسلامی مجاہدین کی فتوحات سے وسیع و عریض مفتوحہ علاقے زیر نگین آ گئے تو بعض سرکردہ مجاہدین اور صحابہ کرام ؓنے مفتوحہ زمینوں کو مال غنیمت کی طرح فاتحین میں تقسیم کرنے کا مطالبہ کر دیا۔ اس سے پہلے ایسی صورت پیش نہیں آئی تھی۔ مگر عمر ؓکے عادلانہ ذہن نے اس مطلابہ کو تسلیم نہیں کیا انھوں نے قرآنی ہدایات کی روشنی میں اس مطالبہ کو سراسر ناجائز قرار دیتے ہوئے کہا تم لوگ خود اور اپنی اولاد کو مفتوحہ زمینوں کے مالک بن کر بغیر کوئی محنت، مشقت کے جاگیر دار بن کر ان کے اصل مالکوں کی محنت کا ثمر لوٹ کر عیش و عشرت کرنا چاہتے ہو جنھوں نے نسلوں سے پانی محنت سے ان کو آباد کیا ہوا ہے۔ وطن عزیز میں تو ‘‘جہاد ’’میں ہتھیار پھینکنے والوں اور معہادہ جنگ بندی کے ؟؟؟ کو جاگیروں پر جاگیریں (پلاٹس) دیے جا رہے ہیں۔اسی طرح حضرت عمر بن عبدالعزیز جنھیں عمر ثانی بھی کہا جاتا ہے انھوں نے اپنے پیش رو خلفا اوران کے اقربا سے لوگوں کی زبردستی چھینی ہوئی زمیں انھیں واپس کرکے ان کی ملکیت بحال کی۔ حضرت امیر معاویہ سے آخری معزول کردہ ترک خلیفہ ۱۹۲۱ء تک دین فردوس زرپرست ملائیت کی وجہ سے ملوکیت حاوی رہی اور عالم اسلام پر شخصی آزادی دیگر قدغنوں سے جدید علوم کے حصول سے محروم کرکے ترقی سے محروم رکھا۔ جس پر اقبال نے غمزدہ ہو کر کہا : مر گئے تثلیث کے فرند برات خلیل حیثیت بنیاد کلیسا بن گئی خاکِ حجاز یہ انتہائی المناک حقیقت ہے ہمارا ملک جو اللہ تعالیٰ کے عادلانہ نظام کے نفاذ کے لیے بنا تھا۔ تاکہ اسلامی تعلیمات کے مطابق ایک مضبوط مستحکم، ایثار کرنے والا معاشرہ تشکیل دیا جائے۔ آج تک زمین کے مسئلہ کو حل کرنے کی بجائے جُوں کا توں بڑے زمینداروں، جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کو صرف زمین کی ملکیت کے نام پر غریب و مجبور مضارعوں کی محنت، مشقت پرداد عیش دینے اور کمزوروں کے استحصال کو تحفظ دیتا آ رہا ہے۔ صرف دو سو بیس ایکڑکی حد رکھنے پر ایک منتخب وزیر اعظم جو خود بھی جاگیر دار تھا فوج کے ہاتھوں مطلوب ہو گیا۔ کیوں؟ فوج ہی تو اب جاگیردارسے پلاٹس پر پلاٹس لینے کے بعد فوج پارلیمان عہدے دار ، بیوروکریٹ ، اعلیٰ عدلیہ سبھی ملوث ہیں۔جس سے طبقاتی تقسیم کے اندیشے شدید تر ہوتے جارہے ہیں اور ملکی معیشت اور قومی اتحاد تباہ ہو رہے ہیں کاش کہ وہ غیر مسلم دشمن بھارت سے ہی سبق لے لیتے جس نے ہندوستان تقسیم ہوتے ہی جاگیرداروں اور ریاستی حکومتوں کا خاتمہ کر دیا اور آج ایک تیزی سے ترقی کرتا ہوا ملک بن گیا ہے۔ زمین کی ملکیت کے بارے میں اقبال نے ایک خط بنام مولانا راغب احسن کو ۱۹۳۴ء میں لکھا۔ اس کے متعلقہ مندرجات مختصراًعرض ہیں۔ قرآن میں زمین کے بارے میں کئی بار آیا ہے۔ ‘‘الارض للہ’’ حضرت آدم ؑ سے بھی کہا گیا کہ یہ تمھارے لیے مستقر اور متاع ہے۔ یعنی فائدے کی چیز ہے اسلام کے نزدیک زمین صرف اللہ کی ملکیت ہے۔ مسلمان صرف اس چیز کا امین ہے۔ جو اس کے سپرد کی گئی ہے میری رائے میں اگر کوئی مسلمان اپنی پرائیوٹ زمین کا غلط استعمال کرے تو حاکمیت اسلامیہ کا حق ہے کہ وہ اس بارے میں اس سے باز پرس کرے۔ امام ابویوسف سے خلفاء عباسیہ میں سے کسی نے زمین کی ملکیت کے متعلق فتویٰ طلب کیا تو انھوں نے فرمایا کہ زمین اس کی ہے جو اسے زندہ رکھ سکے۔ اس سے ظاہر ہے کہ امام کے نزدیک زمین کا مالک وہی ہے جو اسے محنت سے کاشت کرتا ہے نہ کہ وہ شخص جو گھر میں بیٹھا بٹائی لیتا ہے۔ مسلمان علماء عام طور پر عقاید و بحث و فتوی بازی کرتے رہتے ہیں مگر اسلام کے معاشرتی نظام کی طرف شاید شاہ ولی اللہ کے سوا کسی نے توجہ نہیں کی موجودہ زمانے میں اسلام کے معاڈرتی نظام پر ریسرچ کی ازحد ضرورت ہے۔ بحیثیت مذہب اسلام کی کامیابی کا دارو مدار اس پر ہے کہ اس کے معاشرتی نظام کی افضلیت زمانہ حال کی نظاموں پر ثابت کی جائے پہلے یورپ سے اسلام کی جنگ تلواروں سے ہوتی تھی۔ اب معاشرتی نظاموں کی جنگ ہے میری ناقص رائے میں اسلام حقیقی طور پر ابھی تک بے نقاب نہیں ہوا۔ میں یہ بھی کہنا چاہوں گا کہ قرآن نے تقسیم جائیداد کے متعلق جو قائدہ دیا ہے۔ وہ صرف جائیداد منقولہ کے لیے ہے زمین پر اس کا اطلق نہیں ہوتا۔ گویا اقبال زمین کی ملکیت کو خود کاشت کرنے والے یا اجتماعی یعنی اس کا انتظام و انصرام حکومت کی ذمہ داری سمجھتے ہیں تاکہ قومی سطح پر اس سے بہتر استفادہ کیا جا سکے۔ آخر میں ایک اورموضوع جسے اقبال اہم سمجھتے تھے وہ علم و حکمت کی تعلیم ہے جس میں سائنسی علوم بھی شامل ہیں۔ حصول علم کو اقبال خیرِ کثیر کہتے ہیں۔ جس کی طرف اسلامیانِ عالم کو اسلامی تعلیم کا روشن پہلو سمجھ کر غایت درجہ فروغ دینا چاہیے اقبال کے نزدیک سائنسی علوم غیر معمولی طورپر موثر و مفید ہیں ۔ اس ضمن میں موزوں لگتا ہے کہ ایک اہم تاریخی واقعہ کا مختصراًذکر کیا جائے جس سے بخوبی واضح ہو جاتا ہے کہ علامہ مسلمانوں کی اقتصادی ترقی کے لیے سائنس اور ٹیکنیکل تعلیم کا کتنا احساس رکھتے تھے۔ پہلی جنگ عظیم کے اختتام پر ترکی کو شکست ہوئی۔ فاتح حکومتِ برطانیہ اور دیگر اتحادیوں نے سلطنت ترکیہ کے وسیع زیرنگیں علاقاجات کے ٹکڑے کرکے بندربانٹ کر لی۔ ترک خلافت ختم ہو گئی۔ جس کا ہندوستانی مسلمانوں کو بہت صدمہ ہوا۔ علی برادران، مولانا آزاد اور دیگر ہمنواؤں کی سرکردگی میں بجائی خلافت چلانے کا فیصلہ ہوا۔ جس میں یہ اقدام بھی تھاکہ قائم شدہ مسلم اداروں ، مسلم یونیورسٹی علیگڑھ، اسلامیہ کالج لاہور اور اسلامیہ کالج پشاور کی بجائے جامعہ ملیّہ قائم کیا جائے۔ جس کی سربراہی کے لیے علامہ اقبال کو پرنسپل مسلمانوں کا ہمدرد بن کر تحریک مجالق خلافت کا مرکزی رہنما بن گیا۔ اس نے اقبال کو پرنسپل جامعہ ملیّہ کا عہدہ قبول کرنے کی سفارش کی۔ اقبال کی وجدانی بصیرت نے گاندھی کی رہنمائی اور تحریک کے انجام کو فوراًمحسوس کر لیااور تحریک کی کھلی مخالفت کی۔ اور گاندھی کو بھی پرنسپل کا عہدہ قبول کرنے سے معذرت کرلی اس کے ساتھ اپنے خط ۱۹۲۰۔۱۱۔۲۹کے متعلقہ اقتباس میں اس طرح لکھتے ہیں : ہم جن حالات سے دوچار ہیں ان میں سیاسی آزادی سے قبل معاشی آزادی ضرورہ ے اور اقتصادی لحاظ سے ہندوستانی مسلمان دوسرے فرقوں کے مقابلے میں بہت پیچھے ہیں۔ بنیادی طور پر انھیں ادب اور فلسفہ کی نہیں بلکہ ٹیکنیکل تعلیم کی ضرورت ہے جس کی بنا پر انھیں معاشی آزادی حاصل ہو سکتی ہے اس لیے فی الحال انھیں اپنی اپنی صلاحیتیں اور توجہ اسی موخر الذکر طریقۂ تعلیم پر مرکوز کرنی چاہیے۔ جن معزز حضرات نے علی گڑھ یونیورسٹی قائم کی ہے انھیں چاہیے کہ اس نئے ادارے میں خصوصی طور پر طبعی علوم کے ٹیکنیکل پہلو پر زور دیں اور اس کے ساتھ ساتھ حسبِ ضرورت مذہبی تعلیم کا بھی انتظام کریں۔ چلتے چلتے اقبال کی مشہور نظم ‘‘جاوید کے نام’’ جو لفظی و استعاراتی لحاظ سے نہایت پر اثر ہے کہ دو اشعار جو سائنسی اور ٹیکنیکل ترقی کے لیے ‘‘جاوید کو خطاب ’’ کے ذریعے تمام جوانان ہند کے نام ہیں ایک لمحہ کے لیے دیکھتے ہیں : خدا اگر دلِ فطرت شناس دے تجھ کو سکوتِ لالہ و گل سے کلام پیدا کر اٹھا نہ شیشہ گرانِ فرنگ کا احسان سلال ہند سے دنیا وجام پیدا کر پہلے شعر میں سکوت لالہ و گل سے کلام کرنے کے استعارے میں فطرت کی اشیا سے سائنسی علوم سے استفادہ کرنے کے لیے کہا گیا ہے اور دوسرے میں اپنے ملک کی خام اشیا سے فنی ہنر مندی سے ایجاد کرنے کی تحریک ہے تاکہ فرنگ یا غیر کی محتاجی نہ رہے۔مگر اس کا حقیقی فائدہ نوعِ انسانی کو اس وقت مل سکتا ہے۔ جب اس میں ابلیسیت اور طاغوطیت نہ ہو اور یہ انسانی درد مندی اور محبت کی محکم بنیاد پر استوار ہو اقبال بزبان سید جمال الدین افغانی کہتے ہیں کہ سوزِ دل اور انسان دوستی کی سائنس پیغمبرانہ منہاج رکھتی کیونکہ اس کی شےطانیت کو شمشیر ِ قرآن نے کاٹ رکھا ہے۔ اور اس میں جلال کے ساتھ جمال کی قوت دکھائی دیتی ہے نہ کہ اسے صرف مخالفین کی تباہی و بربادی کے لیے استعمال کیا جائے۔ اقبال بزبان سید جمال الدین افغانی متاسف ہیں کہ اسلام نے ملوکیتِ قیصر و کسریٰ کو مٹایا تاکہ عوام کے وقار کو تحفظ ملے مگر انھوں نے خود ملوکیت اپنالی جو چاہے شخصی جبر واستبداد کی شکل میں ہو یا سرمایہ اشتراک کی صورت میں پارٹی کی ملوکیت ہوگویا۔ یہ بھی جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کے حیلوں کا اثرہے۔ بالکل اسی طرح جس طرح فرہاد ،پرویز کی حیلہ بازی سے اپنے ہی تیشے سے مرا۔مزدور نے سرمایہ دارانہ نظام کی مخالفت میں اشتراکیت کو اپنا لیا جو سرمایہ دارانہ نظام کی بدترین صورت ہے بس نام مزدور کی کلویت کا ہے۔ نظام کار اگر مزدوروں کے ہاتھوں میں ہو پھر کیا طریق کوہکن میں بھی وہی حےلے ہیں پرویزی یعنی سیاست کو چند افراد یا طبقات کے ہاتھوں میں نہ ر ہنا چاہیے کہ وہ اپنی خواہش کو قانون کا درجہ دے ڈالتے ہیں اور کروڑوں انسانوں پر اپنی حاکمیت قائم کر رہے ہیں ۔ جلالِ پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشہ ہو جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی لہٰذا دنیا کے دانشوروں کو قرآن حکیم کی تعلیمات کی طرف توجہ کرنی چاہیے جس نے آقائیت مٹائی اور نے نواؤں کی مدد کی ارتکازِ زر کی حوصلہ شکنی کی اور انفاق کی تعلیم دی قرآن نے ربوا کو ختم کیا اور قرضِ حسنہ کی حوصلہ افزائی کی زمین کو خدا کی ملکیت بنایا لیکن اس سے جائزفائدہ اٹھانے کا حق دیا اس نے انسانوں کو نعمتوں کا امین بنایا تاکہ دوسروں کی مدد کرکے معاشرے میں محبت اور بھائی چارہ بڑھائیں اور معاشرے میں مضبوطی اور استحکام پیدا ہو قرآن حکیم نے مذہبی پیشواؤں، کاہنوں، پوپوں پروہتوں کے استحصال کا خاتمہ کیا کتاب اللہ کا ظاہر، باطن ، ناطق غیر مبہم زندہ و پایندہ ہے اس میں برائیوں کے خلاف جہاد اور ضرورت سے زیادہ دولت مندوں کو انفاق کی تعلیم دی ہے اور آخر میں یہ تلقین کی ہے کہ قرآنی تعلیمات کو صحیح عمل سے زندہ رکھا جا سکتا ہے جو مسلمانوں کی بقا کی ضمانت فراہم کرتا ہے۔ بصوریت دیگر اللہ تعالیٰ قادر و عادل ہے بے نیاز ہے وہ بہتر عمل والی قوم کو مسلمان پر حاکمیت دے سکتا ہے جیسا کہ اس وقت سب کو نظر آ رہا ہے اور اس کا حل یہی ہے جو حکیم الامت فرما گئے ہیں : کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں یہ جہان چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں حواشی مولانا روم اور علامہ اقبال ساتویں صدی ہجری اسلام کے لیے نہایت پُر آشوب اور ہولناک دور تھا۔ جو شمشیر و سناں آول کے فاتحانہ دور سے گزر کرطاؤس درباب آخر کے عیش پرستی، فسق و فجور اور زوال کے گرداب میں گھر چکا تھا۔جان و مال و عزت کوئی چیز محفوظ نہیں تھی۔ معاشرہ بے یقینی ، بیچارگی ، ماویسی و خوف و ہراس کا شکار تھا۔ طوائف الملوکی تھی۔ قتل و غارت گری عام تھی۔ اخلاقی دیوالیہ پن کا تسلط تھا۔ خوازی، غوری، غزنوی و سلجوقیوں کی باہم جنگ و جدل نے دنیائے اسلام کو تباہ و برباد کر دیا تھا۔ علماء فضلا بھی اس کا شکار ہو گئے۔ شیعہ، سنی و دگیر فرقے فساد کے باعث برباد ہو رہے تھے۔ اس پر تاتاری یلغار نے دنیائے اسلام کو تباہی کے دہانے تک پہنچا دیا۔ علوم و فنون کے مراکز ملیامیٹ ہو گئے۔ ثمر قند ، بخارا، بلخ، رے ہمدان، نیشاپور، عروس البلاد، بغداد ہلاکو خاں کی وحشی فوجوں کے ہاتھوں تباہ و برباد و خاکستر ہو گئے۔ آخری عباسی خلیفہ معتصم باللہ جو مسلم دنیا کے اتحاد کی روحانی ملامت تھا۔ پاؤں تلے روند کر ہلاک کر دیا گیا۔ تاہم اس ہولناک بربادی و آشفتگی کے دور میں اسلام کے علمی وقار کو خدا نے دین کے کچھ برگزیدہ مشاہیر جن میں مولانا روم بھی شامل تھے کے ذریعہ قائم رکھا۔ مگر مجموعی صورتِ حال نہایت ابتر تھی۔ کیونکہ شوق تحصیل علم، علمی تحقیق سے بے رخی ، ذوق قوت اختراع و جدت ، قوت مدافعت کی کمزوری، ماضی کے کارناموں پر بے جا افتخار نے اسلامی شان و شوکت و جاہ و جلال کا پول کھول دیا۔ ایسی مایوس کن صورتحال میں نوشتۂ تقدیر کو قضاء مبرم اور دنیاءے فانی سے بے رغبتی اور خانقاہی تصوف میں پناہ و روحانی طمانیت تلاش کی جانے لگی۔ چنانچہ ذات کی نفی اور الوہیت سے وصال زندگی کے معاشی و معاشرتی تقاضوں سے فرار کے نتیجہ میں حصولِ علم اور خود اختیاری کی سعی اور ارادہ و عمل کو مذموم اور قربِ الٰہی سے دوری کا سبب سمجھاجانے لگا۔ مولانا روم نے وقت کے تقاضوں کو سمجھا۔انھوں نے دیکھا کہ سقُوطِ بغداد کے بعد قوم نے زندگی کا منفی پہلو اپنا لیا ہے اور اپنی شکست، ذلت اور پستی کو تقدیر کا اٹل فیصلہ سمجھ کر بہتری کی امید چھوڑ چکے ہیں۔ مولانا روم نے اُن میں قرآن حکیم کی تعلیمات کی روشنی میں اپنے وسیع علم اور مثبت عمل سے زندگی کے روشن پہلوؤں کی طرف توجہ دلائی۔ خود کو فنا فی اللہ کرنے کی بجائے بقاءِ ذات کے لیے خدمتِ ظن، حسنِ عمل و جدوجہد کو شعار بنانے کی ترغیب دی۔عقیدہ جبر بے اختیاری کے بجائے قدر کا پہلو اجاگر کیاکہ انسان کو حدود کے اندر بااختیار اور نائب حق بنایاگیا ہے جہالت کے اندھیروں کو علم کے حصول، تحقیق و تخلیق سے دور کرنے کی طرف توجہ دلائی۔ ترکِ دنیا ، حکومت گزینی، جزب و مستی و بے عملی کی بجائے عبادات کے ساتھ دنیاوی فرائض کی ادائیگی اپنی فطری صلاحیتوں کوبروئے کار لانے کی تلقین کے ساتھ تعمیری و تخلیقی کارہائے نمایاں کرنے کا شوق دلایا۔ اقبال نے دیکھا کہ رومی نے اپنے بے کراں علم و عرفان ذات و وجدانی بصریت سے اپنے دور کے مسائل و فتنوں کا علاج کیا۔ اقبال کو اپنے زمانہ کے مسلمانوں میں ایسے ہی منفی پہلو نظر آئے جن کا علاج رومی کی تعلیمات کی روشنی ہی میں ممکن تھا۔ چنانچہ انھوں نے برملا کہا کہ رومی کی طرح میں بھی اپنے دور کے مسائل و فتنوں کا علاج کروں گا۔ پھر اقبال نے دیکھا کہ رومی اور کچھ دیگر صاحب عزیمت کردار علما و صوفیاکی تعلیمات کے اثر سے فاتح تاتاری مفتوح ہو کر خود ہی آغوش اسلام میں گر گئے اور اسلامی عظمت کے محافظ بن گئے جس پر اقبال نے متاثر ہو کر کہا: ہے عیاں یورشِ تاتار کے افسانے سے پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے چنانچہ اقبال نے مولانا روم کو اپنا مرشد معنوی تسلیم کرلیا اور انھی کے زیر اثر فلسفۂ خودی کو تشکیل دے کر اپنے در کے مسلمانوں کو تکمیل خودی کی دعوت دے کر بیدار کیا۔اور انھیں غلامی سے نجات کے لیے آزاد وطن کے حصول اور روشں مستقبل کے عزائم پر گامزن کردیا ۔غرضیکہ جس رومی کی علمی، فکری، عملی عظمت کو تسلیم کرکے اقبال نے اسے اپنا پیرومرشد رہنما تسلیم کیا مناسب لگتاہے کہ اس عظیم بے مثال ہستی کے بارے میں کچھ مزید ذکر اذکار کیا جائے۔ مولانا روم نے ساتویں صدی کے تصوف کے ماحول میں آنکھ کھولی ۔ سلوک کی منازل طے کیں۔ مشہور مشائخ کی صحبتوں میں شریک ہوئے۔ اُن میں سے ظاہری و باطنی فیوض حاصل کیے اور آخر میں مسندِ ارشاد و تقین کو مجتہد انہ زینت عطا کی۔ امامِ فن اور مرشد کلام کی صورت میں مریدوں کی تربیت کی اور مولویہ ، جلالیہ صوفیانہ سلسلہ کی بنیاد ڈالی۔ آپ کا نام محمد لقب جلال الدین اور مولانا روم خطاب تھا۔ والد کی طرف سے سلسلۂ نصب حضرت ابو بکر صدیق تک جاتا تھا۔ والدہ کا سلسلہ مشہور صوفی ابراہیم بن ادھم سے ملتا تھا۔ والد کا نام محمد بہاء الدین تھا اور لقب سلطان العلماتھا۔ رومی کے والد بلخ کے بہت موثر عالم دین اور باکرامت شیخ طرقیت اور عوام و امراء میں بے حد مقبول تھے۔ رومی کی پیدائش ۶۰۴ء ہجری بلخ میں ہوئی۔ سید برہان الدین محقق نے جو اُن کے والد کے خاص ارادتمندوں میں تھے، رومی کی تعلیم و تربیت کی۔ مولانا کے والد سلطان العلماکی عوام و امراء میں مقبولیت شاہ خوارزم کو بہت کھٹکتی تھی۔ اُس نے قلعہ اور خزانے کی کنجیاں سلطان العلما کے پاس بھیجیں کہ اہالیان پر تو پہلے ہی آپ کی حکومت ہے اب میرے پاس صرف قلعہ اور خزانے کی کنجیاں رہ گئی ہیں یہ بھی قبول فرماویں۔ سلطان العلماء بادشاہ کا اشارہ سمجھ گئے اور مع اہل خانہ بلخ سے نیشا پور ہجرت کر گئے۔ ہجرت کی دوسری وجہ تاتاریوں کی بے رحمانہ خونریزی بھی تھی۔ نیشاپور میں رومی کی ملاقات شیخ فرید الدین عطار سے ہوئی۔ انھوں نے رومی کو اپنی کتاب اسرار نامہ عطا کی اور ضروری تربیت کی۔ والد کے ساتھ بغداد اور پھر حجاز حچ کے لیے گئے۔ بالآخر سمر قند آئے اب اُن کی عمر ۱۸ برس تھی ۔ وہاں ایک باوقار گھرانے کی دوشیزہ گوہر خاتون سے عقد ہو گیا۔ جن سے رومی کے دو بیٹے سلطان اور علاوالدین پیدا ہوئے۔ ۶۲۴ء میں رومی کے والد قونیہ (ترکی) پہنچے جو انقرہ کے قریبہے اور اس کو وطن بنا لیا۔ دو سال بعد وفات پا گئے۔ رومی ۱۵ برس والد کے سفر وحضر میں ساتھ رہے اور ظاہری و باطنی علوم کی تکمیل کرتے رہے۔ ہاں بادشاہ کے اتالیق امیر بدرالدین نے مولانا روم کے درس دینے کے لیے مدرسہ مکتبۂ خداوند گار کے نام سے تعمیرکرایا اور ساتھ دارالاقامہ بھی تعمیر کروایا۔ والد کی وفات کے بعد مولانا کو بادشاہ اور دیگر مخلصین کے اسرار و اتفاق سے ۲۴ برس کی عمر میں جانشین بنا دیا گیا۔ جہاں مولانا درس دیتے۔ دیگر مشاغل کے لیے قونیہ سے باہر بھی آتے جاتے رہتے۔ مولانا اپنے اتالیق خلیفہ سید برہان الدین محقق ترمذی کے بلانے پر ملاقات کے لیے گئے جنھوں نے کہا ، کہ قال میں تم اپنے والد سے بڑھ گئے ہو۔ لیکن اُن کا ایک حال بھی تھا جب تک وہ حاصل نہ کرو گے والد کے مکمل وارث نہیں بن سکتے۔ رومی نے حضرت ترمذی محقق کے مرید ہو کر ان کی وفات تک ۹ سال تک فیوض باطنی حاصل کیے اور اس کے بعد قونیہ میں درس کا سلسلہ جاری رہا۔ رومی طلبِ علم کے لیے حلب و دمشق بھی گئے۔ شیخ اکبر ابن عربی اور دیگر بلند پایہ اصحابِ علم و فضل سے ملاقاتیں رہیں۔ مولانا اپنے عہد کے المشہورحنفی علماء میں شمار ہوتے تھے۔ انھیں مروجہ علوم میں کامل دستگاہ حاصل تھی۔ علم کلام میں اس کی مہارت کی شہادت ان کی شہرہ آفاق مثنوی ہے۔ علوم و حق کے لحاظ سے آپ کی حیثیت امام اور مجتہد کی تھی۔ وہ کئی جگہوں پر وعظ و تذکیر کا کام انجام دیتے۔ فتویٰ نویسی آپ سے باضابطہ متعلق تھی۔ جس کا معاوضہ ایک دینار روزینہ مقرر تھا۔ اس کو حلال رزق بنانے کے لیے آپ فتاویٰ کے جواب میں بڑا اہتمام کرتے۔ آپ کی ہدایت کے مطابق فتویٰ آنے پر فوراًپیش کیا جاتا۔ اور خدّام قلم و قرطاس ہر وقت تیار رکھتے ۔ ۶۲۴ہجری تک یہ مشاغل جاری رہے۔ آپ خالص عالمانہ طریقے سے سرپر کلاہ رکھ کر عمامہ باندھتے اور کشادہ آستینوں کی عبا زیب تن کرتے۔ ہر عمل میں زہد و تقویٰ وعظ و تقلین میں پروقار عالمانہ شان سے اظہار کرتے۔ مرشد محقق ترمذی کی وفات کی بعد ۴،۵ سال آپ پر بڑے گراں گذرے۔ ذہنی انتشار رہا۔ انھی دنوں شمس تبریزی قونیہ میں وارد ہوئے اورمولانا روم سے ملاقات ہوئی۔ اس ملاقات کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ شمس تبریزی جن کے والد کا نام علاؤ الدین تھا۔ مختلف شہروں کی سیاحت کرتے رہتے تھے۔ جہاں جاتے دروازہ بند کرکے مراقبہ میں مشغول رہتے۔ ایک بار دعا مانگی کے اے خدا کوئی بندۂ خاص ہونا جو میری محبت کا متحمل ہو سکتا ۔ اشار ہوا کہ روم چلے جاؤ ۔ چنانچہ یہ قونیہ پہنچے وہاں رومی جو خود کسی صاحب ِ علم ، ظاہر و باطن کی قربیت کی خواہش رکھتے تھے ۔ ایک تالاب کے کنارے کتب رکھ کر مطالعہ میں مشغول تھے۔ شمس تبریز پاس گئے اور کتب کی طرف اشارہ کے پوچھا کہ ایں چیست؟ رومی نے شمس کی معمولی وضع قطع دیکھ کر کہا کہ ایں چیزے ہست کہ تونمی دانی۔ شمس نے ہاتھ بڑھا کر وہ کتب پانی میں پھینک دیں۔ اس پر رومی نے ناراضگی کا اظہار کیا تو شمس نے کتابیں پانی سے نکال کر رومی کو دیں جو بالکل خشک تھیں۔رومی نے حیرت سے پوچھا کہ ایں چیست؟ تو جواب ملا کر ایں چیزے ہست کہ تونمی دانی۔ رومی کو محسوس ہوا اس کا گوہر مقصود خود ہی اُس کے پاس آ گیا ہے۔ اس موقع پر شمس نے رومی سے دریافت کیا کہ علم و ریاضت کیا ہے؟ رومی نے جواب دیا کہ اتباع شریعت، شمس نے کہا کہ یہ تو سب جانتے ہیں۔ مولانا رومی نے پوچھا کہ اس سے بڑھ کر اورکیا ہو سکتا ہے؟ شمس نے وضاحت کی کہ علم کی معنی تمھیں منزل تک پہنچائے اور پھر حکیم سنائی کا شعر پڑھا۔ جس کا مفہوم ہے کہ جو علم منزل تک نہ پہنچائے اُس سے جہالت بہتر ہے۔ یہ ایسا لمحہ تھا کہ گویا ولی راولیمی شناسد، دونوں گرم جوشی سی بغل گیر ہوئے۔ مولانا روم کی زندگی میں انقلاب آ گیا۔ عالمانہ نقات و جلال رخصت ہو گئے۔ شیخیت کا وقار بھی غائب اور ایک الگ ہی جوش و شوق کا غلبہ ہونے پر ایک نیا دَور شروع ہو گیا۔ یہ جذب و مستی کا دور تھا۔ مولانا رومی شمس کو ساتھ لے آئے تو دونوں شیخ صلاح الدین زرکوب کے حُجرے میں میں معتکف ہو گئے اور مہینوں عزلت نشیں رہے۔ شمس تبریز کی صحبت نے رومی کی کایا پلٹ دی۔ علمی قال و قول سے تعلق منقطع ہوگیا۔ کتابیں گویا دریا بُرد ہو گئیں۔ درس و تدریس و عناد و تلقین و تذکیر ترک ہوئے۔ عالمانہ لباس تیاگ دیا۔ مولویانہ نقاہت و تفاخر کے ساتھ سجادہ نشینی کا بوجھ بھی رخصت ہوا۔اور مریدوں کو تقلین و تربیت بھی بے التفائی کی نذر ہوئی۔ اس کے برعکس احوال و وجد کی منزل شروع ہوئی۔ سماع اور قوالی سے رغبت پیدا ہو گئی اور اس قدر انہماک ہوا کہ لوگ انگشت نمائی کرنے لگے۔ ہاتھوں کو فضا میں لہرانا، چرخ دینا، چکر کھانا، پائے کوبی اور رقص معمول ہو گئے۔ سماع نے مولانا کے خاص سلوک کی حیثیت اختار کرلی۔ شاعری مولانا کی فطرت تھی۔ لیکن یہ جو ہر عالمانہ شکوہ و سجادہ نشینی کے جاہ و جلال کے نیچے دبا ہوا تھا۔ شوق و مستی نے اس دباؤ کو اکھاڑ پھینکا تو یہ فطری جوہر غزلوں، رباعیوں اور عالمی شہرت کی مثنوی میں درخشاں و تاباں نمایاں ہو گیا۔ گویا شمس تبریز کی صحبت کے زیر اثر مولانا کی زندگی میں صوفیانہ وضع کا موڑ آ گیا۔ زندگی کا ڈھانچہ ہی بدل گیا۔ تصوف کے نئے افق ابھر کر سامنے آ گئے۔ تصورات عقاید وخیالات میں تغیر آگیااورنئی منزل دِکھنے لگیں اور مولانا پکار اٹھے: مولوی ہر گز نہ شد مولائے روم تا ملامِ شمس تبریزی نہ شد مولانا اتنی عقیدت کے باوجود شمس تبریزکے باقاعدہ مرید نہیں ہوئے۔ نہ ہی شمس تبریز نے انھیں ہدایت رہنمائی کا محتاج سمجھا۔ بلکہ اُن کے روحانی مرتبے کی عظمت و جلالت کا بار بار اعتراف کیا۔ ایسا لگتا ہے کہ ان دونوں بزرگوں کی صحبتیں بلند عروج کے لیے مشترک اقدام تھیں۔ دونوں ایک دوسرے سے فیض حاصل کر رہے تھے اور ایک دوسرے کو اپنی تکمیل کے لیے ناگزیر سمجھتے تھے۔ تاہم شمس تبریز کی غیر موجودگی میں رومی کی بے چینی اورجستجو سے یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ رومی ، شمس کی صحبت کو زیادہ ضروری جانتے تھے۔ شمس تبریز کوئی معروف روحانی عظمت کی شہرت نہ رکھتے تھے۔ نہ کسی معروف خاندان اور سلسلے سے تعلق رکھتے تھے۔ مولانا کے پیروکار اُن کے مولانا کے اس قدر قریب ہونے کے باعث شمس کے دشمن بن گئے اور اُن سے گستاخانہ رویہ سے پیش آنے لگے اس لیے ایک دن وہ خفیہ طورپر قونیہ سے نکل کھڑے ہوئے ۔ اس کا مولانا کو اتنا صدمہ ہوا کہ انھوں نے خواص و عوام سے بے تعلقی اختیار کرلی۔ مولانا کی گوشہ گیری اور بے تعلقی برابرقائم رہی کہ دمشق سے شمس تبریز کا خط آگیا۔ جس کے بعد مولانا کی حالت سدھرنے لگی اور اپنے پیروکاروں پر پھر سے شفقت کرنے لگے۔ مولانا اپنے فرزند سلطان کو شمس کے واپس لانے کے لیے بھیجا جن کے قونیہ دوبارہ آنے پر مولانا بے حد خوش ہو ئے اورپھر سماع کی مجالس زور و شور سے شروع ہو گئیں۔ مولانا نے اپنی بیٹی کیمیا خاتون سے شمس تبریز کا عقد کردیا اور وہ وہیں رہائش پذیر ہو گئے۔ مگر یہ قیام بھی زیادہ دیر قائم نہ رہ سکا۔ حلقہ بگوشانِ رومی کی رنجشیں دوبارہ اُبھر آئیں مفسدوں نے حالات مزید بگاڑ دیے۔ بیوی کیمیا خاتون بھی اس دوران چل بسی۔ شمس کی پاؤں کی بیڑے کٹ جانے سے اس کا قونیہ کا ہمیشہ کے لیے چھوڑنا آسان ہو گیا۔ چنانچہ ایک دن وہ بغیر کسی کو بتائے قونیہ سے رخصت ہو گئے۔ مولانا کو خبر ہوئی توحالت عیر ہو گئی ۔ شمس کو تلاش کرنے کی بہت کوشش کی مگر لا حاصل۔ اس بار مولانا نے گوشہ نشینی اختیار نہیں کی۔ تاہم عزادار کا لباس مستقل زیب تن رکھا۔ بے چینی و بے تابی کم نہ ہوتی تھی۔ جذبات فراقی غزلوں اور رباعیوں کی صورت میں اُمڈ آتے تھے اور کئی کئی دن سماع و مستی میں گزر جاتے۔ شمس تبریزکے گئے ہوئے تھوڑے عرصے بعد سُنا کہ وہ دمشق میں ہیں۔ مولانا نے فوراً خود دمشق جا کر تلاش شروع کی۔ مگرناکام رہے۔ مگر یہ تاثر بیدار ہو گیا کہ خود میری ذات کے ذرات میں اُسی آفتاب کی ایک چمک ہے۔ میرے ساغر میں اُسی مینا کا مشروب ہے۔ میری جوئے آب میں اُسی دریا کا پانی ہے۔ ابلِ قونیہ جو مولانا کی ذات سے بے حد محبت رکھتے تھے ۔ اُن کی اجتماعی درخواست پر مولانا واپس قونیہ آ گئے۔ مگر اس تصور کے ساتھ ہی خود میں شمس ہوں اور یہ ساری جستجو اور تلاش شمس کی نہیں خود اپنی تھی۔ اس کیفیت کا جب انھیں یقین ہو گیا کہ شمس دنیا سے رشتہ توڑ چکے ہیں توایک نہایت دلدوز مرثیہ لکھ ڈالا۔ اب مولانا ہمہ وقت شیخ صلاح الدین زرکوب کی طرف متوجہ ہو گئے اور باقی سب سے التفات ترک کردیا۔ لوگوں کے لیے مولانا کا یہ انداز بھی ناقابل برداشت تھا کہ مولانا سب سے منہ موڑ کر ایک مقامی کم علمی آدمی سے ناطہ جوڑ لیں۔ چنانچہ ا س بناء پر صلاح الدین زرکوب کے خلاف برہمی اور شورش بڑھ گئی۔ لوگ محسوس کر رہے تھے کہ نورِ باطن نے ان کا ساتھ چھوڑ دیا ہے۔ اتفاق سے لوگوں کے کھیت و باغ خشک ہونے لگے تو قحط کی سی حالت پیدا ہو گئی۔ لوگوں کو یقین ہو گیا کہ یہ وبال مولانا کی ناراضی کی وجہ سے ہے اورمولانا صدق دل سے نادم ہو کر عذر خواہی کی۔ جس کی پذےرائی کے بعد یہ شورش ہمیشہ کے لیے دب گئی اور مولانا نے رشد و ہدایت کا فرض سنبھال لیا اور آخری دم تک مشغول رہے۔ ۶۵۷ہجری میں زرکوب کے انتقال کے بعد مولانا نے شیخ حسام الدین جن کی فرمائش پر انھوں نے مثنوی لکھی تھی ۔ اپنا رفیق چن کر نا ئب اورخلیفہ کا اعزاز دیا۔ جسے لوگوں نے بے چون و چراں قبول کرلیا۔ مولانا کا زیادہ وقت عبادت و ریاضت اورسماع میں صرف ہونے لگا۔ انھوں نے باقاعدہ منبر پر وعظ و تذکیر کرنا تو ختم کردیا لیکن مجلسی صحبتوں میں معتقدین سے نصائح و مواعظ کو جاری رکھا۔ آخر کار روانگی کا وقت قریب آ گیا۔ خلافِ معمول ضعف اور اضمحال طاری رہنے لگا مشہور اطبا کے علاج کے با وجود مرض بڑھتا گیا ۔ امراء علماء، شیوخ معتقدیں مسلسل عبادت کو آ رہے تھے اور حالت دیکھ کر بے حد مغموم ہو کر جاتے۔ ایک دوست مزاج پرسی کے لیے آئے اور شفا کی دعا کی۔ مولانا نے کہا کہ شفا تمھیں مبارک ہو اب تو محبت اور محبوب میں بال برابر فرق رہ گیا ہے۔ تم نہیں چاہتے کہ وہ بھی ہٹ جائے۔ آخر ۶۷۲ہجری ۵؍جمادی الاول مولانا کی صورت میں ارضی آفتاب اپنے سوگواروں کو روتا چیختا چھوڑ کر ہمیشہ کے لیے جہانِ فانی سے غرب ہو گیا۔ صبح کو جنازہ باہر لاگیا گیاتو ہر مذہب و ملت کے لوگوں کا سیلاب روتا ، آہ و زاری کرتا جنارے کے ساتھ رواں تھا۔ جنازہ نقاروں ، نفیریوں کے ساتھ قبرستان جارہاتھ۔ا خوش الحان قاری قرآن مجیدکی تلاوت کر رہے تھے۔ خوش گلو موذن تکبیر کا ورد کر رہے تھے۔ کئی جوڑیاں سماع کرنے والوں کی گاتی ہوئی جارہی تھیں۔ لوگوں کی کثرت اور دھکم پیل سے چھ مرتبہ تابوت ٹوٹا اورمزار تک پہنچتے رات ہو گئی۔ شعراء نے درد ناک مرثیے لکھے اور خوب سوگ منایاگیا۔ مولانا اپنے والد سلطان العلما کے مقبرے میں مدفون ہوئے ۔ اس تناظر میں مولانا سے لوگوں کے دل میں بے پناہ محبت و عقیدت بخوبی عیاں ہوتی ہے۔ مولانا مذہب و ملل کے اختلاف کو محض رستوں کا اختلاف مانتے تھے۔ مگر اہلِ ظاہر کی نظر اس قدر کہاں وسیع نہ تھی۔ جو مولانا کے نظیرئیے سے اتفاق کرتے۔ مولانا دَف ، رباب وغیرہ کو رقص و وجود کے ساتھ سماع اور قوالی کا حصہ سمجھتے تھے اورانکار کو ناشکری جانتے تھے۔ مگر علماء مولانا کے اس عمل کو خلاف شریعت جانتے تھے۔ آپ مریدوں اور معتقدین کا خلوص سے سجدہ کرنا روا سمجھتے تھے۔ ان کے نزدیک یہ تشکر احسان مندی کے اظہار کا تھا اورسجدہ حقیقت میں خدا کوہوتا تھا۔ موت کی صورت میں روح کی جسم سے رہائی اور محبوب سے وصال کی خوشی منانے کے لیے جنازے کے جلوس کے ساتھ باجے، تاشے اور گانے کو مستحسن کہتے تھے۔ لیکن علماء اس کو بدعت شنیعہ قرار دیتے تھے۔ بہرکیف مولانا کی محبت و مقبولیت لوگوں کے دلوں میں ہمیشہ قائم رہی۔ مولانا کا باطنی سلسلہ اُن کے بڑے بیٹے سلطان ولد سے چلا جو اُن کے منتخب پہلے خلیفہ حسام الدین کے دور سے شروع ہوا۔ ان کے واسطے سے مولویہ یا جلالیہ شیخیت اور سجادہ نشینی آج تک آپ کی نسل میں قائم ہے آپ کے مزار کی تولیت اگرچہ ترکی حکومت کے ہاتھ میں ہے جس پر سرکاری عملہ متعین ہے تاہم مشیخییت مولانا کے خاندان میں باقی ہے۔ دوسرے مزارات اور مقابر کی طرح مولانا کی تربت کو بھی مرجع خلائق ہے اور زیارت کے لیے کھلا رکھا ہے۔ مولانا کی تصانیف میں ایک ضخیم دیوان ۵۰۰۰۰پچاس ہزار اشعار پر مشتمل ہے۔ ایک مجموعہ رباعیات، اقوال کا مجموعہ، فیہ مافیہ اورایک خطوط کا مجموعہ ملفوظات ہیں۔ مگر سب سے اہم عالمگیر شہرت کی حاصل تصنیف جس کے مولانا کو زندہ جاوید بنا دیا۔ مثنوی و معنوی ہے۔ جو ادبی اہمیت کے علاوہ شریعت، طریقت اور آداب و اخلاق کا مخزن ہے اوران کے عقاید، افکار ومشاہدات کا قابلِ اعتماد آئینہ ہے۔ یہ ہر طبقے میں مقبول ہے۔ وعظ و تذخیر کی مجالس میں حرارت ایمان پیدا کرنے کے لیے پڑھی جاتی ہے۔ سلسلہ مولویہ کا گویا یہ الہامی صحیفہ ہے۔ چنانچہ مثنوی خوانی نہ صرف رواج و شعار بن گیا ہے بلکہ مثنوی خوانی ایک فن کی صورت اختیار کر گئی ہے جو ہندو پاک میں بھی دیکھی جاتی ہے۔ اب مولانا کی فنی خوبیوں پر اجمالاًنظر ڈالتے ہیں۔ مولانا کی تعلیم وتربیت ایسے گھرانے میں ہوئی جہاں علوم ظاہری اور معارفِ باطنی ہر دو موجود تھے۔ وہ دونوں سے فیض یاب ہوئے وہ اپنے عہدکے ممتاز عالم اورکثرت سے ریاضت گزار صوفی تھے۔ شمس تبریز کی صحبت نے احوال کو کشف و وجد کی اصلیت سے آشنا کیا۔ قال سے زیادہ حال کو اہمیت دیتے جس سے زہد و درویشی میں جذب و شوق کی چاشنی پیدا ہوئی۔ عالمانہ عزو تفاخر نے فقر و استغنا کے لیے جگہ خالی کی۔ لفظوں سے زیادہ معانی پر توجہ ہو گئی اور پوست کی بجائے معزز پر توجہ دینے لگےؤ شاعرانہ جوہر جو ان کی فطرت میں مخفی تھا مثنوی میں پوری تابانی سے روشن ہوا۔ مثنوی ایک طرف مروجہ علوم میں مولانا کی مہارت کی شہادت ہے۔ دوسری طرف خانقاہی معارف و مشاہدات کا آئینہ ہے۔ اس میں اپنے زمانے کے عام مزاج کی طرف اشاروں کے علاوہ وقت کی تہذیب و مدنیت کے بارے میں بہت کارآمد و دلکش معلومات ہیں۔ شاعری کے اعتبار سے مثنوی قدرتِ کلام کا اعلیٰ و دلپذیر مرقع ہے جس میں تصنع اور معائب سخن کو چھپانے کی کوشش نہیں بلکہ نسیم بہار کی آمد کی طرح گلستانِ خیالات میں سرورانگریز روانی ہے۔ کہیں کہیں کلام میں ابہام دِقت فہم ہو سکتا ہے تاہم اُن کے بے تکلف اندازِ بیاں ، نظر کی گہرائی و شدتِ احساس سے اُن کا کلام اتنی بلندی پر نظر آتا ہے ، جہاں اساتذہ کا کلام بھی عام سا لگتا ہے۔ ان کے مصرعے اور اشعار مثالیں و کہاوتیں بن گئے ہیں۔ چنانچہ مجموعی حیثیت سے دنیائے ادب و میں شاہ نامہ، فردوسی، گلستانِ سعدی اور دیوانِ حافظ کی بعد فارسی میں چوتھی مؤثر ترین تصنیف مولانا کی مثنوی ہے اور یہ حددرجہ مسرت کی بات ہے کہ ان چار لازوال کتب میں پانچویں تصنیف علامہ اقبال کا جاوید نامہ قرار دی گئی ہے جو مطالب ، معانی، مقاصد اور فنی اوصاف میں کئی ارباب علم و ادب کے نزدیک ان سب سے ارفع ہے۔ بہرکیف کو فارسی میں قرآن کا درجہ دیا گیا ہے۔ مولانا جامی نے کہا ہے: مثنوی و مولوی و معنوی ہست قرآن در زبانِ پہلوی اگرچہ بعض معترض حضرات کے نزدیک مثنوی میں بعض تمثیلات و حکایات قرآں حکیم کے تقدس کو مجروح کرتی ہیں میرے خیال میں یہ غلط تاثر ہے۔ بعض آیات کی تاویل مولویانہ ہونے اور فلسفانہ ہونے کے باعث تو علماء کو منظور نہیں لیکن اس سے قرآن حکیم کا تقدس ہرگز ہرگز مجروح نہیں ہوا ۔معانی و مفہوم میں وسعت اور عقائد میں صفائی ہوئی ہے پہلے دفتر میں مسئلہ تقدیر اس کا ثبوت ہے۔مگر یہ سوچنا چاہیے کہ مثنوی لکھتےہوئے مولانا کے سامنے اپنے زمانے کے لوگوں کا مذاق اور مزاج تھا۔ جس کے لیے کبھی کبھی ویسا ہی انداز مؤثر تھا۔ جو مولانا نے اختیار کیا۔ غرضیکہ متنوع و مضامین و موضوعات، قصص و حکایات کی فراوانی کا بیان ظاہر و باطن کے بارے میں اسرار و الائف اور قادر الکلامی نے مثنوی رنگبرنگ پھولوں کا دلکش گلدستہ بنا دیا ہے۔ اور تعلیم و تاثیر کے اثرات کو قائم رکھا ہے۔ مثنوی کا اصل موضوع تصوف و سلوک ہے۔ کثرت موضوعات کی تفاصیل کے باوجود مثنوی کا یہ محو اپنی جگہ قائم رہتاہے۔ یہ ایک طویل منظم نامہ ہے جس کے چھ جزو ہیں۔ اور آٹھ سال میں تکمیل کو پہنچا۔ مثنوی کا طرز استدلال عقل سے زیادہ احساس کو متاثر کرتا ہے اور دماغ سے زیادہ دل کو۔ مولانا دقیق سے دقیق مسائل کو دلچسپ تفصیلات سے اس طرح واضح کر دیتے ہیں کہ ان میں کوئی ابہام نہیں رہتا۔ اور وہ روز مرہ کا تجربہ بن جاتے ہیں۔مولانا کے اصحاب اورمخلصین جن کا انھوں نے تفکر واثر قبول کیا ہےوہ ہیں حکیم سنائی کا الٰہی نامہ و معصیت نامہ ، شیخ عطار کی منتطق اطیر اور اپنے مرید خاص شیخ حسام الدین کی درخواست، جس پر انھوں نے اس انداز میں مثنویشروع کی ۔ ان کے علاوہ مولانا نے اپنے استاد مکرم سید برہان الدین محقق ترمذی اور اپنے والد گرامی سلطان العلماکے رسالے معارف بہار کو بھی مثنویکے ماخذوں میں شمار کیا ہے۔ علاوہ شمس تبریز کے بہت سے مقالات، افعال اور قفص کو بھی اپنے معارف و تاثرات کا ماخذ قرار دیا ہے۔ جن سے مولانا کا تعلق زندگی کا ایک تاریخی موڑ ہے جن کے رُوپوش ہونے کے بعد مولانا کا کہنا تھا کہ شمس کے کمالات میرے کمالات ہیں اور شمس تبریز میں خود ہوں۔ قیامِ دمشق کے دوران مولانا کی شیخ اکبر ابن عربی سے کافی صحبتیں رہیں ہیں یہ خیال بے جا نہیں کہ مثنوی میں ابنِ عربی کے فکرکے اثرات بہت نمایاں ہیں۔مگر اس کے ساتھ کچھ اور حقیقتیں بھی ہیں۔ جنھیں نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ کیونکہ واقع یہی ہے کہ مولانا کا باطنی سلسلہ ابن عربی سے الگ ہے اور تربیتیں بھی جدا جدا ہیں۔ کچھ معاصرانہ چشمک بھی وجہ ہو سکتی ہے مولانا کا اپنا انداز یہ ہے کہ حکیم سنائی، شیخ فرید الدین عطار اوران کی مثنویوں کی تعریف و توصیف اپنے اصحاب اورمخلصین کی مجالس میں کرتی تھے اور مثنوی میں ان بزرگوں اور کتابوں کا بڑی عقیدت سے ذکر کیا۔ لیکن ابن عربی یا اس کی کسی کتاب کا ذکر مثنوی میں نہیں کیا۔ چنانچہ کہا جا سکتا ہے کہ مولانا شیخ اکبر ابن عربی سے متاثر ہوں بھی تو ان کی خصوصی فکر سے نہیں۔ ابن عربی کے تاثرات میں بعض کے نزدیک یہ امر وضاحت طلب ہے کہ مولانا ابن عربی کے تصوّر وحدت الوجود کے حامی ہیں۔ ہرگز نہیں وحدت الوجود جبرے ارادہ اختیار کے قائل ہیں۔ ابن عربی مسلم صوفیا میں پہلے بزرگ ہیں جنھوں نے وحدت الوجود کو ایک واقعیت کی صورت میں پیش کیا اور روحانی و مادی کائنات کی اس خیال سے توجیہہ کی کہ مولانا کے اشعار کا خاصہ حصہ توحیدی اثرات سے تعلق رکھتا ہے اور غالباًاشعار کی بنا ء پر مولانا کو وجودی وحدت کے قائلین میں شمار کر لیا گیا ہے۔ مثنویکے شارحین نے بالعموم مثنوی کی شرح ابن عربی کے وحدت الوجود کے زیر اثر کر ڈالی ہے۔ اورمولانا کی مثنوی کو توضیحات و تاویلات سے وحدت الوجود کی معتقد بنا دیا ہے۔ بلاشبہ مثنوی میں ایسے اشعار کافی تعداد میں ہیں جن سے توحیدِ وجودی کا مطلب اخذ کیا جا سکتا ہے۔ لیکن اس کا اصل تعلق حال و قال و جذب و استغراق سے ہے نہ کہ ابن عربی کے فلسفہ وحدت الوجودسے۔ ان کی تالیفمناقب العارفین جس میں مولانا کے بہت سے ملفوظات ہیں۔ اس میں مولانا کا کوئی بیان نہیں جو اُن کے توحید وجودی کے عقیدے کو ظاہر کرتا ہو۔ مولانا کی تصنیف فیہ ما فیہ میں بھی اس خبال کا کوئی اظہار نہیں۔ اس لیے صریح رائے کے اظہار کے بغیر محض انفرادی تجربات و مشاہدات سے محسوس ہونے والی وجودی وحدت کو مولانا کا صوفیانہ مسلک نہیں قرار دیا جا سکتا۔ بلکہ مولانا اپنے کلام میں ارادتاًابن عربی کی اصطلاحات سے بچتے تھے تاکہ توحید وجودی کے متاثرین میں ان کا شمار نہ ہو اور وہ ابن عربی کی طرح کائنات کی ہر شے کو خدا تعالیٰ کی ذات کا حصہ نہیں سمجھتے تھے۔ بلکہ ناصر کائنات کو بحرِ حیات یعنی اللہ تعالیٰ کی ہستی کی سطح پر بلبلے، جھاگ، لہریں سمجھتے ہیں جو بنتے ، بگڑتے اور فنا ہوتے رہتے ہیں ۔ کچھ ایسا خیال غالب کے شعر سے بھی ظاہر ہے۔ ہے مشتمل نمودِ صور پر وجودِ سحر یاں کیا دھرا ہے قطرہ و موج و حباب میں؟ جب کہ ابن عربی کے نزدیک کل شیاء ھالک الا وجھہہ یعنی ہر فنا ہو جانے والی شے اصل شے سے مل جاتی ہے۔ گویا فنا ہونے والی شے اپنی ہستی کو کھو کر اصل ہستی سے مل جاتی ہے کیونکہ وہ باری تعالیٰ کا ہی حصہ ہے۔ مثنوی میں قرآنی آیات و احادیث کے بھی کافی حوالہ جات پائے جاتے ہیں اور اس کے علاوہ تقریباًایک تہائی حصہ حکایات ، قصص اور امثال پر مبنی ہے۔ جن میں کافی تعداد دوسری کتابوں سے ماخوذ ہے۔ مثلاًمقالاتِ شمس تبریز، خواجہ عطار ، امام غزالی اور انوری کے خیالات اور کلیلہ دمنہ جیسی تصفانیف سے ماخوذ ہیں۔ ان کو بیان کرنے کا مطلب مقصد صرف دلچسپی بڑھانا نہیں بلکہ حقائق و معرفت ، ارشاد، تلقین و ہدیت ہے جو مثنوی کا اصل مقصد ہے۔ رومی مثنوی میں صوفیانہ اسلام کا تصور پیش کرتے ہیں جس میں نہ متکلمانہ عقلیت ، نہ محققانہ ظاہریت ہے بلکہ فقیہانہ شدت و فلسفیانہ آزادی خیال سے الگ گہری جذباتیت، روداری، تحمل حلیمی اور ولاہانہ ایمان و ایقان، ارادت، خوش اعتقادی کی آٖیزش کا احساس پیدا ہوتا ہےؤ مولانا کا سلام تنگ نظری رسوم و قیود کی بے جاپابندی سے دور ہے۔ اصل اہمیت مغرومعنی کو حصل ہے ظاہری پوست، و عظمیت و عقلیت پرستی کی اس میں گنجائش نہیںؤ اب موضوعِ مضمون کے لحاظ سے اقبال کے مولانا روم کے ساتھ گہری وابستگی کا ذکر کرتے ہیں۔جو آٹھ سو برس پہلے جہانِ فانی سے کوچ فرما چکے ہیں۔ اقبال آغازِ شاعری سے رومی کے پرستار نہ تھے۔ اگرچہ اُن کے تمام اردو کلام میں۲۳بار رومی کا نام آتا ہے اور بانگِ درا میں جو ان کی شاعری کی ابتدائی کتاب ہے صرف ایک شعر ہے جس میں رومی کا ذکر ہے گفت رومی ہر بنائے کہنہ کا آباداں کنند می نہ دانی اوّل آں بنیاد را ویراں کنند اس کے برعکس فارسی شاعری میں رومی کا نام ۷۶جگہ آیا ہے ۔ وجہ یہ ہے کہ اقبال نے یورپ میں اعلیٰ تعلیم کے حصول کے دوران مفکرین اسلام کا وسیع مطالعہ کیا۔ جس کی نتیجے میں رومی نے انھیں سب سے زیادہ متاثر کیا اور رومی رفتہ رفتہ اقبال کے مرشد بن گئے اور اقبال مرید ہندی۔ اقبال کی اردو شاعری میں رومی کا تذکرہ جس انداز میں ملتا ہے اُس میں رومی قافلۂ عشق کا سالارہے۔ رومی بننے کے لیے آہِ سحر گاہی ضروری ہے ابال مزید کہتے ہیں۔ آج دنیا کے لیے رومی ناگزیر ہے۔ اتباع رسول ﷺرومی سے سیکھو۔ میں نے سوز و ساز اور تڑپ رومی سے حاصل کی ہے۔ میری فکر رومی کے افکار کی خوشہ چین ہے۔ رومی عشق، جگر کاوی اور عمل کا بہتا دریا ہے۔گذشتہ زمانے میں رومی تھا اور میں آج کے دور میں ہوں۔ میں نے سب کچھ رومی سے حاصل کیا ہےؤ چنانچہ اقبال نے عرفان اور سوزِ رومی کو فلسفۂ پیچ و تابِ رازی پر ترجیح دی اورپوری طرح رومی کے حلقۂ عقیدت میں آگیا اور یوں اعتراف کیا : نَے لہرہ باقی نَے مہرہ بازی جینا ہے رومی ہارا ہے رازی گویا اقبال نے حکیم فقیہہ کے مقابلے میں کلیم کو اعلیٰ مقام دیا ہے صحبتِ پیر روم سے مچھ پہ ہوا یہ راز فاش لاکھ حکیم سربجیت ایک کلیم سربکف حکیم عقل کا نمائندہ ہے جو تخمین وظن کے اندیشے میں مبتلا رہتا ہے۔ اورکلیم عشق کی مدد سے مسائلِ حیات حل کر دیتا ہے۔ رومی کو اقبال اعلیٰ روایات کا امین جانتا ہے۔ اگر آج مسلمان سحرِ فرنگ میں گرفتار ہو گئے ہیں اور اپنی درخشندہ روایات بھول چکے ہیں ۔ اس غلامی کاعلاج اقبال کے نزدیک رومی ہے علاج آتشِ رومی کے سوز میں ہے ترا تری خرد پہ ہے غالب فرنگیوں کا فسوں ہمیں فرنگی عقل کے بجائے رومی کی دانش نورانی پر بھروسہ کرنا چاہیے۔ جو علوم کے حصول کی تلقین کرنے کے ساتھ محبت اور اخلاص کے تابع رکھتی ہے۔ کیونکہ فرنگی دانش ملمع، استحصال، تباہی، استعماری ظلم اور غیر اخلاقی ہتھکنڈوں کی حامل ہے۔ اگرمسلمانوں میں رومی جیسا رہنما رونما ہو جائے تو ان کی کھوئی ہوئی عظمت پھر حاصل ہو سکتی ہے۔ نہ اٹھا پھر کوئی رومی عجم کے لالہ زروں سے وہی آب و گل ِ ایراں وہی تبریز ہے ساقی یہاں یہ ذکر مناسب ہو گا کہ رومی کو اپنا مرشد بنناے میں رومی نے خود اقبال کو منتخب کیاتھا۔ تفصیل اس طرح ہے کہ یورپ سے واپسی کے بعد اقبال کی شاعری کا آخری دور شروع ہوگیا۔ یورپ کی تعلیمی اور صنعتی ترقی سے اقبال ذہنی طورپر بہت متاثر تھےؤ اس کے مقابل اُس کے ہم وطن شکست خوردہ، مایوس، مفلس ، تقدیر اور قسمت کو ذلت و زوال کا سبب ٹھہرا رہے تھے۔ مگر اقبال کے نزدیک یہ حالت اُن کی تقدیر اور تقلید پرستی کے سبب سے تھی۔ جو علومِ جدید سے لا تعلقی کٹھ ملائیت اور وحدت الوجود کے علمبردار صوفیا کے پھیلائے ہوئے اور پیدا کردہ بے عملی کا نتیجہ تھی۔ اس انحطاطی اور مایوس ذہنی حالت سے نکالنا ہی مسلمانوں کا علاج تھااور یہ فریضہ اقبلا نے بطور حکیم الامت بڑی کامیابی سے سرانجام دیا۔ لوگوں کو مایوسی کے اندھیروں سے نکالنے اُن میں خود اعتمادی اورکھوئی ہوئی عظمت کے حصول کے لیے نیاعزم و ولولہ پیدا کیا اور یہ مقصد حاصل کرنے کے لیے انھیں خودی کا تصور دیا۔ چنانچہ وہ مثنوی روم کی طرح مثنوی لکھ کر عوام تک اپنا اپنا پیغام پہنچانا چاہتے تھے۔ اس ضمن میں واقعہ کا ذکر بے محل نہ ہوگا۔ جو یکم اگست ۱۹۱۲ء کو خواجہ حسن نظامی کے اخبار توحید میں شائع ہوا۔جو یوں ہے کہ اقبال نے خواب میں دیکھا کہ مولانا انھیں مثنوی لکھنے کو کہہ رہے ہیں۔ اقبال نے جواباًکہا کہ مثنوی کا حق تو آپ بخوبی ادا کر گئے ہیں۔ رومی نے کہا وہ چاہتے ہیں کہ اقبال بھی مثنوی لکھے۔ اقبال نے جوابا عرض کیا کہ آپ خود تو خودی مٹانے کی بات کرتے ہیں جب کہ مجھے محسوس ہوتا ہے کہ یہ قائم رکھنے کی چیز ہے۔ مولانا نے کہا اُن کا مقصد بھی وہی ہے جو اقبال سمجھتے ہیں ۔ اس خواب سے اقبال بیدار ہوئے تو ان کی زبان پر فارسی اشعار جاری تھے۔ چنانچہ خواب کے اس واقعے کو خواجہ حسن نظامی نے اسراری خودی کے عنوان سے شائع کر دیااور ۱۹۱۴ء میں اقبال کی مثنوی بھی اسرارخودی کے نام سے شائع ہو کر عوام کے سامنے آ گئی۔ اقبال کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انھوں نے مولانا روم کو ہی اپنا مرشد کیوں بنایا؟ جس کے بارے میں اہل فکر و بصیرت کا جواب ہے کہ اس خواب کی تعبیر کے لحاظ سے خود مولانا نے اقبال کو اپنے محبوب مرید کے طورپر منتخب کیا اور سب نے دیکھا کہ شاعرانہ زندگی کے اختتام تک اقبال مولانا روم کے ساتھ اس طرح چلتا ہے جیسے کوئی شاگرد اپنے مرشد کے ساتھ طالبعلمانہ چلتا ہے۔ بالِ جبریل میں اقبال کی مشہور نظم ‘‘پیرومرید’’ اور اُس کی آفاقی شاعری کی تصنیف ، جاوید نامہ جو اقبال کا رومی کی رہنمائی میں معراج ِ نامہ یا سیرِ افلاک ہے اس کا بین ثبوت ہے۔ ویسے بھی مولانا روم اور اقبال میں مشابہت کے واقعات لحاظ سے کئی پہلو ہیں۔ دونوں نے اپنے زمانے کے تقاضوں کے پیش نظر قرآنی تعلیمات کی توضیح کی ۔ انھوں نے اپنے علاقے کی زبان کی بجائے دوسری زبان میں شاعرع کی مولانا کے علاقے کے زبان ترکی تھی اور ہندوستان کے عام زبان اردو مگر دونوں نے فارسی کو ذریعۂ اظہار بنایا۔ اگرچہ اقبال کی اردو شاعری بھی بڑی وسیع او راہمیت کی حامل ہے۔ دونوں کی تخلیقات نے بےحد شہرت حاصل کی اوران کے تراجم دنیا کی مختلف زبانوں میں کے گئے۔ دونوں کے کلام پر قرآن پاک کی تعلیمات کے گہرے اثرات ہیں۔ دونوں نے اپنی بعد آنے والی نسلوں کو فکری طور پر بے حد متاثر کیا۔ دونوں اپنے زمانے کے سائنسی اور فلسفیانہ علوم سے آگاہ تھے اورانھیں کلام میں مقصد واضح کرنے کے لیے استعمال کیا۔ دونوں کے افکار کا منبع قرآنِ حکیم ہے۔ بقول اقبال رومی عصرِ کہن کے فتنوں کا علاج تھے اور وہ خود دورِ حاضر کے مسائل اور فتنوں کا۔ چو رومی دَر حرَم دادم اذاں من ازُو آمو ختم اسرارِ جاں من بہ دَورِ فتنۂ عصرِ کہن اُو بہ دَورِ عصر رواں من اقبال نے مثنوی اسرار خودیکی ابتدا ہی رومی کے اشعار سے کی دی شیخ با چراغ ہمی گشت گردِ شہر کز دام و دَد ملولم و انسانم آرزو است یعنی رومی کو معاشرے کے لیے ایسے انسان کی تلاش تھی جو اعلیٰ اخلاق حسنہ اورکمالات کا مرقع ہو اور زبانِ اقبال کے مطابق اپنی خودی کی تکمیل کی منازل طے کر چکا ہو۔ رومی اور اقبال نے افراد کی تعمیر کی اہمیت پر اس لیے زور دیا ہے کہ افراد سے ہی قومیں بنتی اور سر بلند ہوتی ہیں۔ افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ مولانا روم حکیم سنائی وعطار کو اپنا پیش رو قرار دیتے ہیں اور اُن کی مدح میں کئی اشعار کہے ہیں۔ اقبال بھی اُن کے مقام کا قائل ہے تاہم اُن کے تصورِ افلاس و جسمانی نقاہت، ضعف پسندی سے اتفاق نہیں کرتے کہ ایسے افراد اور قوم کمزور و بے عمل بنانے والے عناصر ہیں۔ وہی قوم اپنے دشمنوں، مخالفین اور زمانے کے چیلنجوں سے عہدہ براہ ہو سکے گی۔ جس میں اخلاقی اوصاف کے ساتھ دنیاوی وسائل، مال و متاع و قوی جسم کے افراد ہوں گےؤ مادی وسائل نہ صرف دنیاوی حاجات ، اصلاحی کاموں کے لیے کام آتے ہیں بلکہ زندگی کے ہر شعبے میں اُن کی ضرورت ہوتی ہے اور صحت مند و جفاکش مضبوط انسا ن ہی کیا امن کیا جنگ، کمزور و ناتواں سے بہتر کارگردگی دکھا سکتے ہیں۔ البتہ اقبلا نے ذاتی تعیش ، امیرانہ ٹھاٹھ بھاٹھ کی بے حد مذمت کی ہے اور طبیعت میں فقر و استغنا کو اختیر کرنے کے لیے تاکید کی ہے ۔اُن کے چند اشعار پیشِ خدمت ہیں : نہ فقر کے لیے موزوں نہ سلطنت کے لیے وہ قوم جس نے گنوایا متاعِ تیموری میں ایسے فقر سے اے اہلِ حلقہ باز آیا تمھارا فقر ہے بے دوستی و رنجوری بچھائی ہے جو کہیں عشق نے بساط اپنی کیا ہے اُس نے فقیروں کا وراثِ پرویز خدا کے پاک بندوں کو حکومت میں غلامی میں زِرہ اگر کوئی محفوظ رکھتی ہے تو استغنا میرا طریق امیری نہیں فقیری ہے خودی نہ بیچ غریبی میں نام پیدا کر کافر ہے مسلماں تو نہ شاہی نہ فقیری مومن ہے تو کرتا ہے فقیری میں بھی شاہی کافر ہے تو ہے تابع تقدیر مسلماں مومن ہے تو وہ آپ ہے تقدیرِ الٰہی بھروسہ کر نہیں سکتے غلاموں کی بصیرت پر کہ دنیا میں فقط مردانِ حُر کی آنکھ ہے بینا اُس کی شدید خواہش ہے کہ ماضی کی طرح مسلمانوں کو پھر شان و شوکت حاصل ہوا۔ اور وہ اس ضمن میں پُر امید تھے۔ عطا مومن کو پھر درگاہِ حق سے ہونے والا ہے شکوہِ ترکمانی، ذحنِ ہندی، نُطقِ اعرابی یا سنجر و طُغرل کا آئینِ جہانگیری یا مردِ قلندر کے اندازِ ملُوکانہ اس سے واضح ہوجاتا ہے کہ افلاس اور ضعف و ناتوانی کوئی قابل قدر اشیاء نہیں۔ ہاں دولت و اقتدار کے ہوتے ہوئے فقر و استغنا اصل جوہر ہیں۔ کمالِ ترک نہیں آب و گل سے مہجوری کمال ترک ہے تسخیر خاکی و نُوری رشی کے فاقوں سے ٹوٹا نہ برہمن کا طلسم عصا نہ ہو تو کلیمی ہے کارِ بے بنیاد غرضیکہ افلاس میں توکّل و ضعف و ناتوانی میں حُسن ، ترکِ دنیا میں معرفت، بیکاری و بے عملی میں شانِ بے نیازی۔ یہ دراصل وحدت الوجود کے مضرِ تحائف ہیں۔ جن سے رومی اور اقبال مسلمانوں کو چھٹکارا دلانا چاہتے ہیں ۔ اس کے علاوہ اقبال اپنے مرشد رومی کی رہنمائی میں اپنی عظیم تصنیف جاوید نامہ میں سیرِ افلاک کو جاتا ہے اورہر ملک پر مشاہیر سے الگ الگ ملاقات و سوال و جواب کرتا ہے۔ جو دراصل اہلِ زمین کی مشکلات و مسائل حل کرنے کے لیے ایک منظوم تمثیل اور حیرت انگیز مناظرے کا مرقع ہےگویا جاوید نامہ افلاکی سفر نامہ کی صورت میں محض ذحنی تعیش کے لیے نہیں لکھا گیا۔ بلکہ اپنی ملّت پر گزرے ہوئے کٹھن حالات و مصائب سے دو چار ہونے کے بعد موجودہ پس ماندگی، شکستہ اور پژمردہ قوم میں جذبہ آزادی، حریت و حمیّت بیدا کرنے اوران کے لیے درخشاں مستقبل کی نوید کا حامل ایک پیغمبرانہ صحیفہ ہے۔ اقبال نے اپنے عزیز معتقد ڈاکٹر محمد دین تاثیر نے خود کہا کہ اس تصنیف کے بعد میرے دل و دماغ نچڑ گئے ہیں۔ اقبال نے رومی کے کلام کی تشریح و توضیح اس طرح کی ہے کہ رومی درِ جدید کے رہنما کی حیثیت اختیار کر گئے ہیں۔ بقول استاد الاساتذہ ڈاکٹر سیّد عبداللہ۔ اقبال سے پہلے رومی کی نوعیت جزوی اور انفرادی تھی۔ ‘‘یہ اقبال ہی تھے جن کے طفیل رومی کے افکار کی تشریح ہوئی۔ جس سے وہ حیاتِ اجتماعی اور ارتقاء انسانی کے ایک بڑے ترجمان اور محرم اسرار ثابت ہوئے۔ ’’اقبال رومی کے کلام کی شرح کی طرف اس لیے متوجہ ہوئے کہ ان کے ہاں عصرِ حاضر کے مسائل کا حل ملتا ہے اور بڑی حد تک اقبال کے نظریات سے مطابقت بھی رکھتا ہے۔ چنانچہ وہ بالِ جبریل کی نظیم پیر و مرید میں رومی کے مرید کی طرح ان سے سوالات کرکے زندگی کی پیچیدگیوں کو حل کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر ایک مکالمہ یوں ہے : مرید ہندی: چشم بینا سے ہے جاری جوئے خُوں علم حاضر سے ہے دیں زار و زبُوں جواب رومی: علم را برتن زنی مارے بود علم را بر دل زنی یارے بود اقبال اور رومی دونوں کے ہاں دل کی بڑی اہمیت ہے۔ رومی بتاتے ہیں کہ خدا دل میں ہے۔ لہٰذا اُس کی تلاش دل میں کریں۔ اقبال خودی اور خدائی کو معنوی طور پر قریب لے آتے ہیں خودی کا نشمین ترے دل میں ہے فلک جس طرح آنکھ کے تِل میں ہے خودی میں گم ہے خدائی تلاش کر غافل یہی ہے ترے لیے اب اصلاحِ کار کی راہ خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے [ خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے رومی کے نزدیک خودی تکبر، غرور ، رعونت کے معنی رکھتی ہے جو مستحسن رویّے نہیں... مگر اقبال نے خودی کو انسان کی سب سے بڑی متاع قرار دیا ہے۔ دراصل یہ فرق رومی اور اقبال کے مختلف زمانوں کی وجہ سے ہے۔ رومی کے زمانے میں اسلامی حکومت تھی۔ مگر اقبال کے دَور میں ہندوستان غلام تھا۔ اقبلا نے خودی کو ذات کی تکمیل کے معنی دے کر قوم کو بیداری اور حصولِ آزادی کے عمل کے طورپر استعمال کرنے پر مائل کیا۔ اقبال کہتا ہے کہ جن کی خودی خام ہو وہ ناکام رہتے ہیں۔ خودی پختہ ہو تو اس کی مرضی خدا کی رضا ہو جاتی ہے۔ ہاتھ ہے اللہ کا بندۂ مومن کا ہاتھ غالب و کار آفریں کار کشا کارساز منصور حلال کے نعرۂ اناالحق کو رومی اور اقبال دونوں خودی کا مظہر قرار دیتے ہیں اور اُس کی سزا کو خون ناحق سمجھتے ہیں کم نگاہوں فتنہ ہا انگیختند بندۂ حق را بدار آویختند رومی و اقبال دونوں عشق کے پرستار ہیں۔ رومی خدا کے عشق میں فنا ہونے کے قائل ہونے کے باوجود بقا کے قائل ہیں اس کی مثال اس طرح دیتے ہیں کہ لوہا آگ میں پڑ کر آگ کی صفات پیدا کر لیتا ہے۔ مگر وہ لوہاہی رہتا ہے اور اپنا وجود برقرار رکھتا ہے۔ اس مثال میں اقبال کے تصورخودی کا عکس بھی موجود ہے ۔ اقبال قطرے کو دریا میں مل کر فنا ہونے کے برعکس صدف میں موتی کی حیثیت اختیار کرنے کو کہتے ہیں کہ سمندر میں ہوتے ہوئے اپنی انفرادیت، وجود و احساس بندگی کو زندہ رکھ کر خدا سے الگ اپنی ذات اور مقائم قائم رکھے ۔ بقول اقبال: گراں بہا ہے تو حفظِ خودی سے ہے ورنہ گہر میں آبِ گہر کے سوا کچھ اور نہیں متاعِ بے بہا ہے سوز و سازِ آرزو مندی مقامِ بندگی دے کر نہ ہوں شانِ خدا وندی [ گویا مولانا کے نزدیک عشق فناء ذات کی مانند ہے مگر اقبال کے ہاں عشق تعمیرِ ذات کا باعث ہے۔ رومی اور اقبال عشق کو انسانیت کی بیماریوں کا علاج اور طاقت، ہمت، عزم و استقامت کا ذریعہ جانتے ہیں ۔ رومی کہتے ہیں : شادباش اے عشقِ خوش سودائے ما اے طبیب جملہ عِلّت ہائے ما اے دوائے نخوت و نامُوسِ ما [ اے تو افلاطون و جالینوس ما اور اقبال یوں گویا ہیں: بیا اے عشق اے رمزِ دل ما اے کشتِ ما اے حاصل ما عشق خلیل بھی ہے عشق صبر حسین بھی ہے عشق معرکۂ وجود م یں بدر وحنین بھی ہے عشق عشق کے مضراب سے نغمۂ تارِ حیات عشق ہے نارِ حیات عشق ہے نورِ حیات عشق دمِ جبرئیل عشق دلِ مصطفی عشق خدا کا رسولؐ عشق خدا کا کلام رومی او ر اقبال عقل و عشق کی آویزش میں اگرچہ عشق کا ساتھ دیتے ہیں۔ مگر پوری طرح عقل کو رد نہیں کرتے اور اس کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہیں ۔ عقل کو اقبال جویائے راہ اور عشق کو دانائے راہ قرار دیتے ہیں۔ دونوں تسلیم کرتے ہیں کہ عقل ایک حد تک رہنمائی کرتی ہے اس کے بعد ساتھ چھوڑ دیتی ہے۔ جیسے واقعہ معراج میں جبرئیل سدرۃ المنتیٰ پر پہنچ کر کہتا ہے: اگر ایک سرِ مُوئے برتر پرم فروغ تجلی بسوزد پرم دونوں کے نزدیک عقل ایک حد تک کارآمد ہے خرد سے راہر و روشن بصر ہے خرد کیا ہے چراغ رہگزر ہے درُونِ خانہ ہنگامے ہیں کیا کیا چراغِ رہگزر کو کیا خبر ہے؟ عقل گو آستاں سے دُور نہیں اس کی تقدیر میں حضور نہیں گزر جا عقل سے آگے کہ یہ نور چراغِ راہ ہے منزل نہیں ہے مولانا کو مرشد بنانے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہ تقدیر کے مسئلہ پر اقبال کے ہم خیال ہیں۔ انھوں نے رومی کے مقابلے میں امام رازی کواس لیے مسترد کر دیا کہ وہ جبر کے قائل تھے۔ جب کہ رومی قدر کے حامی تھے۔ اقبال مسلمانوں کو جدوجہد کی تعلیم دینا چاہتے تھے۔ جو غلامی کی زنجیروں میں جکرے ہوئے تھے۔ انھیں غلامی سے نجات دلانا چاہتے تھے مگر تقدیر کا مسئلہ ان کی راہ میں حائل تھا کہ جو تقدیر میں خدا نے لکھ دیا ہے وہی ہوتا ہے ہمارے کرنے یا نہ کرنے سے کیا فرق پڑتا ہے۔ رومی اس کی وضاحت یوں کرتے ہیں کہ تقدیر کے لکھنے کا یہ مطلب نہیں کہ اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہو سکتی ہے بلکہ یہ کہ ہر کام کی جزاء اور تاثیر مقرر کردی گئی ہے۔ اگراچھا کام کروگے تو اچھا نتیجہ ہوگا اور بُرا کرو گے تو بُرا ہوگا ۔ یعنی لیس للاانسان الا ما سعی کہ انسان کو وہی ملے گا جس کی وہ کوشش کرے۔ چنانچہ اچھے اور بُرا کام کرنے کا نتیجہ مقرر کر دیا گیا۔ اقبال افسوس سے تقدیر پرستوں کی سوچ کے بارے میں کہتے ہیں کہ : خبر نہیں کیا ہے نام اس کا خدا فریبی کہ خود فریبی عمل سے فارغ ہوا مسلماں بنا کے تقدیر کا بہانہ بلکہ وہ جتلاتا ہے : عبث ہے شکوۂ تقدیرِ یزداں تو خود تقدیرِ یزداں کیوں نہیں ہے؟ اقبال رومی سے طلانی یا را ہبی کے بارے میں دریافت کرتے ہیں کاروبارِ خسروی یا راہبی کیا ہے آخر غایتِ دینِ نبی؟ تو رومی جواب میں کہتے ہیں : مصلحت در دین ما جنگ و شکوہ مصلحت در دینِ عیسیٰ غارِ کوہ اس سے تقدیر کے جبر کی حد اور عمل کی قوت تغیر و تسخیر کے بارے میں بات واضح ہو جاتی ہے۔ غرضیکہ اقبال کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کوبااختیار بنا کر خود اپنے آپ پر پابندی عاید کر رکھی ہے کہ وہ انسان کے عمل میں مداخلت نہیں کرے گا جو اپنے اعمال کا ذمہ دار ہوگا۔ یہ انسان پر منحصر ہے کہ نیکی، بدی، جبر واختیار میں کون سا راستہ اختیار کرتا ہے۔ اقبال اور رومی دونوں نظریہ ارتقاء کے قائل ہیں۔ اقبال نے مولانا کے شعر اپنے خطبات میں نقل کیے ہیں کہ زنگی کا ظہور جمادات سے ہوا تھا۔ پھر نباتات کی شل میں ، پھر حیوان اور آخر میں انسان کے قالب میں داخل ہوئی اقبال کے نزدیک نظریۂ ارتقاء انسان کو مستقبل سنوارنے کی تعلیم و ترغیب دیتا ہے۔ اُس کی اپنی شاعری میں یہی اصول کارفرما نظر آتا ہے۔ اس ارتقاکو بعض نا سمجھ مخالفین تضاد کہتے ہیں۔ حالانکہ اقبال ہر لمحہ تغیّر اور حرکت کا علمبردار ہے۔ تو اسے پیمانہ امروز و فردا سے نہ ناپ جاوداں پیہم دواں ہر دم جواں ہے زندگی دما دم رواں ہے یمِ زندگی ہر اک شے سے پیدا رمِ زندگی اقبال اور رومی میں ایک اختلاف یہ ہے کہ مولانا تو باطنی مفہوم کے قائل ہیں۔ مگر اقبال باطنی مفہوم کو تسلیم نہیں کرتے۔ ان کے نزدیک وہی معنی درست ہیں جن کو الفاظ کے مطابق عام لوگ سمجھتے ہیں۔ اس لیے انھوں نے حافظ شےرازی کے کلام پر تنقید کی تھی کہ اس کا ظاہری مفہوم قوم کے لیے غیر مفید ہے۔ گویا باطنی مفہوم کچھ ہی کیوں نہ ہو۔ اقبال کہتے ہیں کہ حقیقت میں مذہب یا قوم کے دستور العمل میں باطنی مفہوم پیدا کرنا اصل دستور العمل کو مسخ کر دیتا ہے۔ یہ ایک فنکارانہ یا منافقانہ طریقۂ تنسیخ ہے۔ یہ طریقہ وہی قومیں اختیار کرتی ہیں جن کی طبیعت میں گوسفندی ہو اور سردانگیِ عمل و جدوجہد کے اوصاف سے محروم ہو چکی ہوں۔ اسی بنا پر اقبال نے اسرار خودی کے دیباچہ میں حافظ کے کلام پر تنقید کرتے ہوئے اسے قوم کے لیے نہایت ضرر رساں قرار دیا۔ مگر جب اس کی حد درجہ مخالفت ہوئی تو مذمت کو یہ کہہ کر خارج کر دیا کہ لوگوں کو اصلیت سے آگاہی ہو گئی ہے۔ اس لیےاب اس کی ضرورت نہیں رہی۔ پھر اپنے آخری دور میں وہ خود بھی کسی حدتک وحدت الوجود اور ابن عربی کے نظریات سے اتفاق کرنے لگ گئے۔ اس طرح حافظ کے کلام پر تنقید سے جو تلخی پیدا ہوئی تھی اسے رومی کی دوستی نے ختم کردیا۔ رومی اور اقبال کے نظریات میں مماثلت کو ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم نے اس طرح سمیٹا ہے۔ ۱۔ اقبال کے نظریۂ خودی کا تصور رومی کے ہاں ملتا ہے۔ عام صوفیاء نے فنا اور ترک پر زور دینا عین دین بنالیا ہے۔ مثنوی نے اس کو بقا میں بدل دیا ہے۔ رومی اور اقبال دونوں کے ہاں خودی کا استحکام لازم ہے۔ ۲۔ عجمی تصوف نے ترک حاجات کو خدارسی کا ذریعہ قرار دیا تھا مگر رومی کے نزدیک حاجت منبوع اثبات وجود اور ذریعۂ بہبود ہیں بشرطیکہ حاجات پست اورحیات کُش نہ ہوں۔ اقبال کے کلام میں جا بجا اس نظریے کی توثیق میں اشعار ملتے ہیں۔ ۳۔ اقبال کا فکر، عقل، آرزو، جسجتو کا نظریہ رومی کے افکار میں بھی ملتا ہے کہ ناھی کی وجہ سے جذبوں کا تموج اور احساسات کی حرکت کبھی نہیں تھمتی۔ یعنی زندگی در جسجتو پوشیدہ است اصل اُو دَر آرزو پوشیدہ است ۴۔ رومی اور اقبال دونوں وجود کے فنا کے بعد بقاء دوام کے تصور پر یقین رکھتے ہیں۔ فنا حقیقت ہے مگر مرد مومن کے عمل میں رنگِ ثباتِ دوام ہے۔ ابن عربی کے نظریۂ وحدت الوجود سے دونوں کو اتفاق نہیں ہے۔ ۵۔ دونوں کے یہاں عقل و عشق کا باہمی ساتھ زندگی کا تقاضا ہے۔ عقل و عشق اپنے اپنے مقام پر عمل پیرا رہتے ہیں۔ عقل عشق کی اولین مظہر ہے جو مادرائی حد پر پہنچ کر عشق کے حق میں دستبردار ہو جاتی ہے۔ ۶۔ دونوں جبر کے منکر ہیں اور تقدیر کی اس تعبیر کوردّ کرتے ہیں جو انسان کی ذہنی و جسمانی ارتقا کی رفتار کو روکتی ہے۔ مندرجہ بالا معروضات سے واضح ہو گیا ہوگا کہ علامہ رومی سے کس قدر متاثر ہیں۔ اگرچہ زمانوں کے فرق کی وجہ سے بعص امور پر اقبال کو رومی سے ایک حد تک اختلاف بھی ہے۔ جو قدرتی امر ہے تاہم عام طورپر وہ رومی کے اخذکردہ نتائج سے اتفاق کرتے نظر آتے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ رومی اور اقبال دونوں نابغۂ عصر انسان ہیں۔ جو اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو عطا کیے ۔ اقبال کی محبت رومی سے خصوصاًاس سبب سے بھی ہے کہ وہ اپنے زمانے کے مروجہ علوم پر حاوی ہونے کے ساتھ اسلام کی عظٖت سے ہمارے دلوں کو معمور کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اقبال نے موجودہ زمانے کے لیے ایسے رہنما کی موجودگی کی آرزو کی ہے جو رومی کی طرح نہ صرف اسلام اور علوم جدید سے آگاہ ہو بلکہ ہم نسوں کے لیے اس کا دل محبت سے منوّر ہو۔ جو فلسفۂ رازی کی پیچیدگیوں میں اُلجھانے کی بجائے قوم کے نادر بے ہام کو سُوئے قطار لے آئے۔ جو منزل کی طرف جاتی ہو یعنی بقولِ ؟؟؟ شعر کجا و من کجا ساز سخن بہانہ ایست سوئے قطاری کشم ناقۂ بے زمام را حواشی اقبال بحیثیت سیاستدان ۔تحریک پاکستان کا خضرِ راہ علامہ اقبال علیہ الرحمت نے ۲۱ اپریل ۱۹۳۸ءکو اپنی جان آفریں کے سپرد کی اور ۲۳؍ مارچ۱۹۴۰ء کو ان کی ورفات کے ایک سال گیارہ ماہ بعد سر زمین لاہور میں قائد اعظم محمد علی جناح کی زیر قیادت وہ قراردادِ لاہور جسے قراردادِ پاکستان بھی کہا جاتا ہے منظور ہوئی اور ۱۴ اگست ۱۹۴۷ء کو اس قرار داد کی معنوی تعبیر پاکستان دنیا کے نقشے پر ظہورپذیر ہوگی۔ اوریوں حضرت علامہ اقبال کی قوم مسلم کو اُس خواب کی تعبیر مل گئی ۔ جو انھوں نے برصغیر پاک و ہند میں مسلمانوں کے لیے علیحدہ ریاست کی شکل میں دیکھا تھا۔ اقبال کثیر الجہت جامع صفات اورنابغہ روزگار شخصیت تھے ۔ انھیں عظیم شاعرِ مشرق، بلند پایہ فلاسفر، ماہر تعلیم ، حکیم الامت ، ماہر علوم شرق و غرب، ترجمان حقیقت وغیرہ کے القاب سے پکارا جاتا رہا ہے۔اور نیم دلانہ طورپر سیاستدان بھی کہا گیا ہے۔ مگر جہاں وہ نہایت عظیم شاعر فلاسفر و مفکر تسلیم کیے گئے۔ وہاں سیاستدان کے طور پر ایک ناکام سیاستدان تک کہہ دیا گیا۔ حالانکہ یہ بات قطعی طور پر غلط ہے۔ شاید اس لیے کہ انھوں نے مال و دولت اکٹھا نہیں کیا۔ نہ جاہ و حشمت کے عہدوں کی خواہش کی۔ بلکہ اُن سے ہمیشہ کنارہ کش رہے۔ آزاد زندگی کے لیے گورنمنٹ کی ملازمت ترک کر دی۔ قومی مسائل کی فکر میں وکالت تہ کرکے رکھ دی۔اور کسی عالیجاہ کی عنایات کی تمنا نہ کی بلکہ نعت رسول ﷺمیں یوں برملا کہا: میرا نشمین نہیں در گہہ میر و وزیر میرا نشیمن بھی تُو شاخِ نشیمن بھی تُو وہ اپنے فرزند جاوید اقبال سے کی گئی نصیحت پر زندگی بھر کاربند رہے۔ میرا طریق امیری نہیں فقیری ہے خودی نہ بیچ غریبی میں نام پیدا کر اگرچہ اقبال کی عملی سیاست پنجاب لیجسلیٹو اسمبلی میں ۱۹۲۶ء تا ۱۹۳۰ء سمجھی جاتی ہے۔ جب انھوں نے سیاسی مسائل حل کرنے کے لیے بھرپور محنت کی اور اسمبلی میں شعر و ادب سے ہٹ کر بطور پارلیمنٹرین اُن کا قابلِ رشک روپ سامنے آیا۔ جس میں ان کی تقاریر زیرِ غور۴ موضوع پر نہایت عالمانہ، مفکرانہ فلسفیانہ ادبی چاشی سے مملوفطری ظرافت کی مسکراہٹوں سے مرصع، ضروری اعداد و شمار سے آراستہ، جوابی جملہ میں برجستگی سے معمور ہوتی تھیں۔ جس کے نتیجے میں انھوں نےہر متعلقہ شعبے میں بطور سیاستدان نہایت قابل قدر خدمات سر انجام دیں۔ اقبال ۱۹۲۶ء میں عقیدت مندوں کے اصرار پر اپنے دوست عبدالعزیز مالواڈہ جو ارائیں برادری کی حمایت سے مستقل منتخب ہوتے آ رہے تھے۔ اقبال کے حق میں الیکشن سے دستبردار ہونے پر اقبال بھاری اکثریت سے منتخب ہوئے تو انھوں نے آغاز میں اپنا منشور پیش کرتے ہوئے کہا کہ ممبر کا سب سے بڑا وصصف یہ ہونا چاہیے کہ ذاتی اور قومی منفعت کے وقت اپنے ذاتی مفاد کو قوم پر قربان کر دے۔ میں آپ کو یقین دلاتاہوں کہ میں اپنے ذاتی مفاد کو قوم کے مفاد کے مقابلے میں ترجیح نہیں دوں گا اور رب العزت سے دعا کرتاہوں کہ وہ مجھے اس امر کی توفیق عطا کرے کہ میں آپ کی کما حقّہ خدمت کر سکوں میں اغراض ملّی کے مقابلے میں ذاتی خواہشات کے فوقیت دینے کو موت سے بدتر خیال کرتاہوں۔ ممبری کے دوران میں انھوں نے تعلیم اور فنانس کمیٹی کے رکن کی حیثیت سے مندرجہ ذیل تجاویز پیش کیں: ۱-دیہات میں تعلیم اور صفائی کے بہتر انتظامات ۲-عورتوں کو طبی امداد کی فراہمی۔ ۳-محاصل اور لگان میں کمی ۴-خاص طورپر چھوٹے کسانوں کو لگان کی معافی ۵-محصول کی وصولی میں ناانصافی کا تدارک ۶-ہر شخص پر اُس کی اہلیت کے مطابق ٹیکس اور ادائیگی کے لیے مناسب وقت دیاجانا۔ ۷-فروغِ تعلیم پر فکر انگیز تقاریر ۸-مفت ابتدائی جبری تعلیم کے نفاذ پر زور۔ ۹-آبادی میں تعلیم کی شرح اور معیار میں بہتری کی ضرورت۔ ۱۰- اداروں اور بلدیہ میں مسلم آبادی کے تناسب سے سیٹوں کا تعین۔ ۱۱- حکومت پنجاب ضلع منٹگمری میں ساڑھے تین لاکھ اراضی فروخت کر رہی تھی جس کا فائدہ بڑے زمیندار اٹھا رہے تھے۔ لہٰذا زمین کا نصف حصہ چھوٹے زمینداروں کے لیے مخصوص کیا جائے۔ ۱۲-انسداد شراب نوشی پر تجاویز ۱۳- سکھوں کو کرپان کے مقابلے میں مسلمانوں کو تلوار رکھنے کی آزادی۔ ۱۴-ٹیکس قانون میں ترمیم کرکے اسے انصاف کے اصولوں کے مطابق۔ ۱۵-یونانی اور مشرقی طب کی حوصلہ افزائی جو زیادہ آبادی کے موافق بھی ہے اور ارزاں بھی۔ ۱۶-عدالتی سٹیمپوں اور آبکاری کی آمدنی میں اضافہ حکومت کے لیے باعثِ اطمینان ہونا چاہیے جس کا مط لب ہے کہ مقدمہ بازی اور شراب نوشی بڑھ رہی ہے۔ ۱۷-صوبے کی حالت کی بہتری کے لیے ذرائع آمدنی میں اضافے کے لیے نئی قابل ادائیگی ٹیکس مدوں پر ٹیکس کا نفاذ۔ ۱۸-انگلستان کی طرح ہمیں بھی اموات پر وراثت ٹیکس لگانا چاہیے تاکہ صحت، فلاحی اور فراہمی روزگار جیسے شعبوں پر خرچ کیا جائے اور وارثان میں خود محنت کرکے کمانے کا جذبہ و شوق پیدا ہو۔ ۱۹- بڑی اور کم تنخواہوں میں فرق کم کیا جائے۔ ۲۰-مشینری ازراں ترین مارکیٹوں سے خریدی جائے۔ ۲۱-بزرگان دین کی توہین کا انسداد اور باہمی مذہبی رواداری کی حوصلہ افزائی ۔ ۲۲-صنعت کے لیے کارخانے اور جدید علوم کے لیے تعلیمی ادارے اور ریسرچ مراکز قائم کرکے ترقی کو فروغ دیا جائے۔ ۲۳-مسلم آبادی میں تعلیمی ناانصافی اور ملازمتوں سے محرومی کا تدارک اور بہتر معاشی بنیاد کی حوصلہ افزائی وغیرہ وغیرہ۔ اس دور میں سرغلام حسین کی یونینسٹ پارٹی کا غلبہ اور اجارداری تھی۔ اورمسلم لیگ کی طرف سے اقبال صرف تنہا رکن تھے تاہم انھوں نے مسلم لیگ کے مفادات کے تحفظ کی بھرپور کوشش کی اور کبھی اصولوں پر سمجھوتہ نہ کیا۔ وہ یونینسٹ پارٹی کے سراسر خلاف تھے۔ جس نے شہری، دیہاتی، زمیندار اور غیر زمیندار کی بنیاد پر سوسائٹی کو تقسیم کر دیا تھا۔ جس سے مسلمانوں کو ہندوستان کی اجتاعی حیثیت اور سیاست میں بے حد نقصان پہنچ رہا تھا۔ مگر اقبال کی کوششوں سے مسلم لیگ کے اثر میں بتدریج اضافہ ہوتا گیا۔ اقبال اگر چاہتے تو بے حد و حساب فائدے کے لیے سر غلام حسین کی یونینسٹ پارٹی میں شامل ہو جاتے۔ مگر ان کا مطمع نظر اٹل تھا کہ: باطل دوئی پسند ہے حق لا شریک شرکت میانہ حق و باطل نہ کر قبول رکنیت کی مدت ختم ہونے پر اقبال کو دوبارہ ممبری الیکشن کی استدعا کی گئی مگر اسمبلیوں میں بے کار شور شرابے تضیع اوقات کی بنا پر اقبال نے صوبائی اورمرکزی دونوں رکنیت کے لیے معذرت کرلی۔کیونکہ شدید اور بڑی حد تک بے فائدہ مصروفیات کے باعث اُن کی فطری شاعری کا جوہر وکالت اور دیگر نجی کام ٹھپ ہو کر رہ گئے تھے۔اور صحت بھی بری طرح متاثر ہو رہی تھی اور یہ ہونا ہی تھا کیونکہ وہ سیاسی عہدہ میں مالی فائدہ کے حصول کا سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ ہاں اپنی جان ضرور وقف کر دی آج کل کے سیاستدانوں سے موازنہ کریں تو اقبال کی بے لوث طمع لالچ سے پاک جگر کاوی اور عرق ریزی پر حیرت ہوتی ہے۔ اگرچہ ان کے کلام اور تحریر کے موضوعات خالصتاًسیاسی نہیں مگر مضمرات بڑی حد تک سیاسی ہیں۔ ان کا یہ حُسنِ کلام کسی حسنِ عمل سے کم نہیں۔ بلکہ بہت بڑے Dynamic Forceہے۔ اقبال کے اسلاف کشمیر سی ہجرت کرکے پنجاب میں سکونت پذیر ہوئے تھے۔ انھیں کشمیری قوم سے محبت اور ہمدردی تھی۔ انھیں غربت اور پسماندگی سے نکالنا چاہتے تھے وہ چاہتے تھے کہ وہ متحدہو کر جدوجہد کریں۔ ۱۸۹۸ءمیں جب وہ گورنمنٹ کالج میں زیر تعلیم تھے ، انجمن کشمیری مسلمانان کے جلسہ میں ان کے مطالبات کے حق میں نظم پڑھی۔ اس کے دوشعر ملاحظہ ہوں: سو تدابیر کی ہے اے قوم اک تدبیر چشم اغیار میں بڑھتی ہے اسی سے توقیر دُرِ مطلب ہے اخوت کے صدف میں پنہاں مل کے دنیا میں رہو مثلِ حروفِ کشمیر اس کے علاوہ جب بھی ضرورت پڑی وہ اہالیان کشمیر کے حقوق کے لیے جدوجہد کرتے رہے۔ ۱۹۹۰ء میں مسلمانوں کو خوابِ غفلت سے بیدار کرنے کے لیے انجمن حمایت اسلام کے جلسہ میں مظم نالۂ یتیم پڑھی جو نہایت مقبول ہوئی۔ ۱۹۰۱ء میں انجمن ہی کے جلسہ میں نظم تصویرِ درد سنائی جس نے تمام ہندوستان میں انھیں شہرت کی بلندیوں تک پہنچا دیا۔ نمونے کے چند شعر اس طرح ہیں: وطن کی فکر کر ناداں مصیبت آنے والی ہے تیری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں نہ سمجھو گے تو مٹ جاؤ گے اے ہندوستان والو تمھاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں محبت سے ہی پائی ہے شفاء بیمار قوموں نے کیا ہے اپنے بختِ خفتہ کو بیدار قوموں نے وہ ہر سال انجمن کے اجلاس میں جوش و جذبہ سے معمور اصلاحی مذہبی سیاسی نظمیں سناتے جن کا لوگ سال بھرانتظار کرتے رہتے۔ ۱۹۱۱ء میں انھوں نے معرکتہ آلاراء نظم شکوہ پڑھی اور کچھ عرصہ بعد جواب شکوہ ۱۹۲۲ء میں لاجواب نظم ‘‘خضرِ راہ’’ سنائی جو ایک جامع سیاسی منشور ہے۔ جس میں زندگی، سلطنت ، طرز حکومت، سرمایہ محنت کی باہمی آویزش، مغربی جمہوریت کا کھوکھلا پن آنکھیں کھول دینے والا ہے۔ اسی طرح شمع و شاعر، طلوع اسلام جیسی نظموں نے جنگ عظیم میں ترکوں کی شکست سے خلافت عثمانیہ کو ٹکڑے ٹکڑے ہونے پر بد دل شکستہ مسلمانوں کو بہت سہارا دیااور نوجوان ترکوں کی مجاہدانہ کوششوں سے خلافت کو جمہوریت میں بدلنے اور مصطفی کمال کے ہاتھوں اتحادیوں کی شکست پر اپنے کلام میں بے پایاں مسرت اور نوید صبح کا مسرت سے اظہار کیا ہے اس طرح کی کئی نظمیں مسجد قرطبہ، ذوق و شوق، ساقی نامہ، فاطمہ بنت عبداللہ، صقلیہ حضور رسالت مآب میں جنھوں نے اسلامیانِ ہند کی رگوں میں تازہ خون دوڑا دیا۔ اور وہ انگریزی سے آزادی حاصل کرنے کے جذبہ سے سرشار ہو گئے۔ اسی طرح ان کی اجتہادی کتابیں اسرار خودی، رموزِ بیخودی، بالِ جبریل، پیام مشرق،Reconstruction of Religious Thought in Islam،جاویدنامہ نے مسلمانوں کے جذبہ فکر و عمل حریت میں انقلاب پیدا کر دیا۔ اقبال کی پیغمبرانہ اورمجتہدانہ شاعری میں وہ تاثیر ہے جو کسی بھی خفتہ قوم کو راہ عمل پر گامزن کرسکتی ہے ۔ ان کے نہایت عزیز دوست مولانا گرامی فارسی کے بے بدل شاعر اقبال کو اپنے خطوط میں ہمیشہ مجدد عصر کہہ کر خطاب کرتے اقبال کے بارے میں ان کا مشہور شعر ہے: در دیدۂ معنی نِگہاں حضرتِ اقبال پیغمبری کرد و پیمبر نتواں گفت واقعی اقبال کا کلام الہامی ہونے میں کوئی شک نہیں اس بارے میں اقبال کے اپنے چند اشعار پیش ہیں ۔ کہہ گئے ہیں شاعری جزویست از پیغمبری ہاں سُنا دے محفلِ مِلّت کو پیغام سروش سرود رفتہ باز آید کہ ناید نسیم از حجاز آید کہ ناید سر آمد روزگارِ ایں فقیرے [ دِگر دانائے راز آید نہ آید (انھوں نے واقعی دانائے راز ہونے کا حق ادا کر دیا) حادثہ وہ جو ابھی پردہ افلاک میں ہے عکس اس کا مرے آئینہِ ادراک میں ہے آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آ سکتا نہیں محوِ حیرت ہوں کہ دُنیا کیا سے کیا ہو جائے گی میری نوائے پریشاں کو شاعری نہ سمجھ [ کہ میں ہوں محرمِ رازِ درُونِ میخانہ خدا نے اُن کو دیدہ بینا دیا تھا جو عقل کی فراست سے کہیں آگے تھا عقل کو کہتے ہیں ۔ رازِ ہستی کو تو سمجھتی ہے اور آنکھوں سے دیکھتا ہوں میں غرض کہ ان کی الہامی شاعری کا وہی مقصد ہے جو پیغمبروں کو دیا جاتا ہے یعنی بھٹکے ہوئے لوگوں کو راہ راست پر لانا ان کی اخلاقی مذہبی معاشرتی طرز زندگی کو سنوارنا اور صحت مند معاشرہ پیدا کرنا یعنی: شعر کجا و من کجا شعر و سخن بہانہ ایست سوئے قطار می کشم ناقۂ بے زمام را اقبال کی زندگی میں شعور تک پہنچتے ہی جذبہ عشق بیدار و نمودار ہو جاتا ہے۔ اسے حصول علم سے اوائل عمری سے عشق ہو جاتا ہے اور ہندوستان سے بھی جہاں اس نے جنم لیا اور اس کے تمام باشندوں سے بھی وہ ہندوستان کو دنیا کا سب سے اچھا ملک قرار دیتا ہے اور اس کے باسیوں کو بلا تفریق مذہب و ملت باہم رشتہ محبت و خلوص میں سرشاد و شادماں دیکھنا چاہتا ہے۔ اپنے جذبات کو اس نے نہایت خوبصورت نظموں میں بیان کیا ہے۔ جو سیدھی دل میں اتر جاتی ہیں۔ مثلاًترانہِ ہندی ، سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا اور ہندوستانی بچوں کا قومی گیت، چشتی نے جس زمین میں پیغام حق سنایا، مگر جب کبھی ہندو مسلم فساد کے واقعات ہوتے ہیں تواُسے بے حد دکھ اورملال ہوتا ہے کہ سب لوگ مذہب کی تفریق بھول کر آپس میں بھائیوں کی طرح کیوں نہیں رہتے۔ وہ اس تفرقہ کا الزام تنگ نظر مذہبی رہنماؤں کو دیتا ہے۔ اس کا اظہار اُس نے اپنی مشہور نظم شوالہ میں کیا ہے۔ جو سامعین کرام کے ذوق طبع کے لیے دہرانا مناسب سمجھتا ہوں۔ نیا شوالہ سچ کہہ دوں اے برہمن گر تو بُرا نہ مانے ترے صنم کدوں کے بُت ہو گئے پرانے اپنوں سے بیر رکھنا تو نے بُتوں سے سیکھا واعظ کو بھی سکھایا جنگ و جدل خدا نے تنگ آ کے میں نے آخر دَیر و حرم کو چھوڑا واعظ کا وعظ چھوڑا چھوڑے تیرے فسانے پتھر کی مورتوں میں سمجھا ہے تو خدا ہے خاک وطن کا مجھ کو ہر ذرّہ دیوتا ہے پھر اک انوپ ایسی سونے کی مورتی ہو اس ہر دوار دل میں لا کے جسے بٹھا دیں سندر ہو اس کی صورت چھب اس کی موہنی ہو اس دیوتا سے مانگیں جو دل کی ہوں مرادیں زُنار ہو گلے میں، تسبیح ہاتھ میں ہو یعنی صنم کدے میں شانِ حرم دکھا دیں پہلو کو چیر ڈالیں درشن ہو عام اس کا ہر آتما کو گویا اک آگ سی لگا دیں آنکھوں کی ہے جو گنگا لے لے کے اس کا پانی اس دیوتا کے آگے اک نہر سی بہا دیں ہندوستان لکھ دیں ماتھے پہ اس صنم کے بھولے ہوئے ترانے دنیا کو پھر سنا دیں ہر صبح اٹھ کے گائیں منتر وہ میٹھے میٹھے سارے پچاریوں کو مَے پیت کی پلا دیں مندر میں ہو بلانا جسدم پچاریوں کو آوازۂ اذان کو ناقوس میں چھپا دیں اگنی ہے وہ جو نِرگُن کہتے ہیں پِیت جس کو دھرموں کے یہ بکھیڑے اس آگ میں جلا دیں ہے ریت عاشقوں کی تن من نثار کرنا رونا ستم اٹھانا اور ان کو پیار کرنا آ غیرت کے پردے اک بار پھر اٹھا دیں ً بچھڑوں کو پھر ملا دیں نقشِ دوئی مٹا دیں سونی پڑے ہوئی ہے مدت سے دل کی بستی آ اک نیا شوالہ اس دیس میں بنا دیں دُنیا کے تیرتھوں سے اونچا ہو اپنا تیرتھ دامانِ آسماں سے اس کا کلس مِلا دیں شکتی بھی شانتی بھی بھگتوں کے گیت میں ہے دھرتی کے باسیوں کی مکتی پریت میں ہے آپ دیکھیں گے کہ اس میں اُردو ہندی آمیزش کتنی مٹھا اورجذبِ باہمی کی کیفیت ہے۔ ان آشتی پریم اور پیار کے گیتوں سے واضح ہو جاتا ہے کہ مخالفین اقبال اور ہندوں کا اقبال کو فرقہ پرست، متعصب، تنگ نظر اور جہاد پرست مسلمان کہنا کتنا غلط ہے۔ حالانکہ یہ نظم پڑھنے کے بعد اقبال پنڈت نہرو، راجگوپال اچاریہ اور ٹیگور سے زیادہ سیکولر نظر آتا ہے۔ یہاں سوال کیا جائے کہ ان کی نظموں کا سیاست سے کیا تعلق ہے تو عرض ہے کہ جو فکر کلام اور عمل کسی ملک اور اس کے باشندوں کے مذہبی ، سماجی، کاروباری، باہمی ربط و ضبط اور ثقافت میں ارتقاء کا باعث بنے وہ سیاست کے زمرے میں آتا ہے۔ اقبال معروضی حالات کے مطابق ان امور کی ترقی کے لیے باہمی ا تحاد کو بے حد اہمیت دیتا ہے جو یقینا سیاسی نکتہ نظر کے زمرے میں آتا ہے امن و آشتی کی فضا برہم ہو جائے تو وہ انتہائی دکھ درد سے اس طرح احساس ظاہر کرتا ہے۔ جل رہا ہوں کل نہیں پڑتی کسی پہلو مجھے ہاں ڈبو دے اے محیطِ آبِ گنگا تو مجھے سر زمیں اپنی قیامت کی نفاق انگیز ہے وصل کیسا یاں تو اک قُرب فراق آمیز ہے مگر اقبال کا ہندو مسلم امن و آشتی و اتحاد کی دلی تمنا کا یہ آبگینہ جسے اس نے ترانہ ہندی، ہندوستانی بچوں کا قومی گیت، نیا شوالہ، تصویر درد جیسی پریم بھری نظموں سے ایک سندر موہنی مورتی کی صورت میں بڑے چاؤ اور رجھاؤ سے من مندر کے استھان پر سجھا رکھا تھا۔ بہت جلد ہندو تعصب کی مسلم نفرت کے ہاتھوں کے چکنا چور ہو گیا۔ جس کے نتیجے میں اُسے ایک متحد قوم کے طورپر مل جل کر رہنے کا خیال ہمیشہ کے لیے ترک کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔ اور پھر دو قومی نظریہ اورجداگانہ انتخاب اُس کی سیاسی زندگی کا جزو لاینفک بن گئے۔ ہوا یوں کہ ۱۹۰۵ء میں لارڈ کرزن نے آبادی کی بنیاد پر بنگال کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا۔ جس سے مسلم اکثریت والے حصے کو اقتصادی، معاشی اور سیاسی طورپر فائدہ پہنچتا تھا اور پسماندہ مسلمان کاشتکاروں اورمزدوروں کو ہندو سرمایہ داروں کے استحصال سے بچ کر ترقی کا راستہ ملتا تھا۔ اس منصفانہ تقسیم کے خلاف ہندوؤں نے نہایت پرتشدد احتجاج و مظاہرے شروع کر دیے۔ مسلمانوں نے اپنے حقوق کے حفاظت کی خاطر ۱۹۰۶ء میں مسلم لیگ کی بنیاد رکھی۔ مگر طاقت ور ہندو لابی کے آگے حکومت جھک گئی اور ۱۹۱۱ء میں تقسیم بنگال منسوخ کر دی۔ جس سے ہندوؤں کی بدنیتی اور اصلیت کی قلعی کھل گئی اور واضح ہو گیا کہ وہ مسلمانوں کو ترقی کرتے دیکھنا نہیں چاہتے۔ بلکہ اپنی صدیوں کی محکومی کا بدلہ انھیں غلام بنا کر اتارنا چاہتے تھے۔ اس واقع نے ہندو مسلم تعلقات کو ہمیشہ کے لیے خراب کر دیا۔ اس سے یہ تاثر بھی پیدا ہوا کہ مسلمانوں کا بیرونی حاکم سے تعاون کرنا زیادہ بہتر ہوگای۔ بہ نسبت کہ وہ ہندو سامراج کے ساتھ مل کر تحریک آزادی میں تعاون کریں جو انھیں اپنا غلام بنا لے گی۔ اس دوران ۱۹۰۵ء میں اقبال گورنمنٹ کالج سے چھٹے لے کر اعلیٰ تعلیم کے لیے لندن چلے گئے۔ جہاں سے وہ بار ایٹ لا اور فلسفہ میں پی ایچ ڈی کی ڈگری لے کر تین سال بعد واپس وطن لوٹے۔ لندن میں اقبال کی زندگی نے نیا موڑلیا۔ انھوں نے مسلمان قوم کی پسماندگی اور یورپین قوموں کی ترقی کا فرق محسوس کیا وہ یورپ کی ترقی سےمتاثر ضرور ہو گئے۔ مگر ساتھ ہی یورپین قوموں کی مادیت پرستی ،باہمی قومی نفرت کے نتیجہ میں ایک دوسرے پر بالادستی کے لیے جنگی تیاریاں تجارتی منڈیوں پر قبضہ کے لیے رقابت ، نوآبادیات کو غلام بنا کر ان کا استحصال کرنا۔ ان مشاہدات کے نتائج نے انھیں سرمایہ داری نظام سے بدظن کردیا۔ جو ان اشعار سے ظاہر ہے۔ تدبر کی فسوں کاری سے محکم ہو نہیں سکتا جہاں میں جس تمدن کی بنا سرمایہ داری ہے دیارِ مغرب کے رہنے والو خدا کی بستی دکان نہیں ہے کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو اک زرِ کم عیار ہوگا تمھاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائدار ہوگا اور مسلمانوں کو مغربی تہذیب سے بچنے کے لیے کہا: گرچہ ہے دل کشا بہت حسنِ فرنگ کی بہار طائرکِ بلند بام دانہ و دام سے گذر وہ لندن میں مسلمان طالبعلم کے طور پر گئے تھے۔مگر مذکورہ مشاہدات کے زیر اثر پکے مومن بن کر لوتے ان کے دل میں اسلامیان عالم کی کھوئی ہوئی شان و شوکت دوبارہ حاصل کرنے کا جذبہ موجزن ہو گیا۔ ان کی شاعری نے نیا رخ اختیار کیا۔ جس میں مسلمانوں کو بیدار کرنے اور عالم انسانیت کی اصلاح کافریضہ اپنا لیا۔ لندن میں وہ سیاسی سرگرمیوں سے الگ نہیں ہوئے۔ ہندوستان میں ان دنوں سودیشی تحریک چل رہی تھی۔ اقبال نے اس میں دلچسپی لی اس کے حق میں ان کا مضمون ہندوستانی رسالہ زمانہ میں چھپا۔ انھوں نے کہا کہ کوئی بھی ملک سیاسی طورپر آزادی حاصل نہیں کرسکتا۔ جب تک اس کی اقتصادی حالت مضبوط نہ ہو انھوں نے سیاسی رہنماؤں پر واضح کیا کہ آزادی کی تحریک کی بنیادی ضرورت اقتصادی استحکام ہے۔ اس سے پیشتر وہ ۱۹۰۴ء میں نہایت اہم کتاب علم الاقتصاد لکھ چکے تھے کہ ہر فرد کو اقتصادی طورپر مضبوط ہونے کی کوشش کرنی چاہیے جس سے ملک کو بھی استحکام ملتا ہے۔ لندن میں قیام کے دوران اسلام کے خلاف الزامات اور غلط فہمیوں کو دور کرنے کے لیے ایک اسلامی سوسائٹی بنی جس میں انھوں نے سر گرمی سے حصہ لیا۔ ہندوستان میں ۱۹۰۶ء میں مسلم لیگ قیام کے بعد انگلینڈ میں سید امیر علی کی سرکردگی میں مسلم لیگ کی ذیلی شاخ بنی جس میں رکنیت حاصل کرکے مسلم لیگ کے پروگراموں میں شرکت کرتے رہے۔حالانکہ وہ کانگریس کے کسی جلسہ میں بھی شریک نہ ہوے تھے۔ اس لیے یہ کہنا کہ وہ مجبورانہ طورپر مسلم لیگ میں شامل ہوئے حقائق کو جھٹلانا ہے۔ لندن سے واپسی پر مسلمانوں کی پسماندگی اقبال کو بے چین رکھتی انھیں خواب غفلت سے بیدار کرنے کے لیے انھوں نے ۱۹۱۴ء میں پہلی فارسی مثنوی ، اسرار خودی شائع کی جس میں فلسفۂ خودی کی وضاحت کی کہ افراد پر لازم ہے کہ وہ خود کو پہچانیں اور ودیعت کردہ صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے کردار کی بلندی اورخودی کی تکمیل کریں یہ پیغام اس شعر سے واضح ہوتا ہے۔ افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر ہر فرد ہے مِلّت کے مقدّر کا ستارہ ۱۹۱۸ء میں دوسری فارسی مثنوی رموزبیخودی شائع کی کہ افراد کو اپنی نشوونما کرتے ہوئے اپنے انفرادی مفادات کو ملی مفادات کے تابع کر دینا چاہیے تاکہ افراد اور قوم دونوں کو سربلندی حاصل ہو۔ یعنی یوں کہنا چاہیے کہ : فرد قائم ربطِ مِلّت سے ہے تنہا کچھ نہیں موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں یہ دونوں کتابیں اگرچہ اصلاحی پیرایہ میں ہیں مگر ان کی روح سراسر سیاسی اور مسلمانوں کو روبہ عمل کرنے والی ہے ایک مشہور مستشرق نے کہا کہ اسرارخودی مسلمانوں کو جنگ و جدل پر ابھارنے کے لیے لکھی گئی ہے مگر ڈاکٹر نکلسن مترجم اسرار خودی نے اسے تمام انسانیت کے لیے مفید اور تعمیری قرار دیا۔ پہلی جنگ عظیم میں ترکوں کو اتحادیوں کے مقابلے میں شکست ہوی تو لیگ آف نیشن جسے اقبال کفن چوروں کی جماعت کہتے تھے۔ ان کفن چوروں میں برطانیہ، فرانس، روس باثر ممالک تھے انھوں نے مسلمانوں سے صلیبی جنگوں کی ناکامیوں کا بھرپور بدلہ لیا۔ خلافت عثمانیہ کو ترکی کے سوا زیر خلافت مسلمان ممالک سے محروم کرکے آپس میں بندربانٹ کرلی اس طرح مسلمانوں کے بین الاقوامی اتحاد کو پارہ پارہ کرکے ان کا مستقبل تاری کر دیا خلافت ختم ہو گئی اور ترک خلیفہ اتحادیوں کے آلہ کار بن کر رہ گیا۔ مگر غیرت مند جوشیلے، ترقی اور انقلاب پسند ترک نو جوانوں نے اتاترک مصطفی کمال پاشا کی سرکردگی میں میں خلیفہ کو معزول کرکے جمہوریت کی داغ بیل ڈال دی۔ ہندوستان کے مسلمانوں میں اختتام خلافت پر صفِ ماتم بچھ گئی علی براداران محمد علی شوکت کے علاوہ ابوالکلام آزاد، مولانا ظفر علی خان، ڈاکٹر انصاری جیسے جوشیلے مذہبی رہنماؤں نے اختتام خلافت کے خلاف مظاہروں کی قیادت کی مولانا محمد علی جوہر کی قیادت میں ایک وفد انگلستان بھیجا کہ حکومت کو خلافت کی بحالی پر آمادہ کیا جائے اقبال کے نزدیک یہ ایک نامناسب اور وقار کے خلاف طریقہ تھا جس میں سوائے ناکامی کے کچھ حاصل ہونے والا نہیں تھا۔بھلا گدایانہ طریقے سے حکومتیں خیرات میں ملتی ہیں؟ اس پر اقبال نے انھیں یوں سمجھایا۔ اگر ملک ہاتھوں سے جاتا ہے تو جائے تو احکامِ حق سے نہ کر بے وفائی نہیں تجھ کو تاریخ سے آگاہی کیا خلافت کی کرنے لگا تو گدائی خریدیں نہ ہم جس کو اپنے لہو سے مسلماں کو ہے ننگ وہ پادشاہی اس وقت عالم اسلام ترکی کے انقلابی رہنما اتا ترک کے اقدامات پر سخت مشتعل تھا جس نے خلافت کو ختم کردیا اور مغربی ترقی سے متاثر ہو کر ترقی میں بنیادی اصلاحات شروع کر دیں لیکن اقبال نے ان کی تبدیلیوں کی مذمت نہیں کی اس کے برعکس اس کا جواز پیش کرتے ہوئے کہا کہ حقیقتاًدنیا کے اسلامی ممالک میں تنہا ترکی ہی خواب غفلت سے بیدار ہوا ہے اور خود آگاہی حاصل کر لی ہے یہ تبدیلی زبردست ذہنی، اخلاقی جدوجہد کے نتیجہ میں پیدا ہوئی ہے جو ترکی کے مستقبل میں متحرک تبدیلیاں لائے گی جس سے ملک ارتقاء کی طرف بڑھے گا اور بہتر نتائج نکلیں گے اقبال نے طرز حکومت کی اس تبدیلی کو ترکوں کو اجتہاد کہہ کر مسلمانوں کی مجتہدانہ کوششوں کی حمایت کی ۔ درست مگر تاریخی طورپر خلافت بنو اُمیہ، عباسیہ، فاطمیہ ، عثمانیہ کو عظمت و شوکتِ اسلام کہا جاتا ہے۔ مگر یہ خلافت ہی دراصل ملوکیت تھی جس کا جابرانہ اور قاہرانہ نظام عالم اسلام کے زوال، پستی و غلامی کا باعث بنا ۔ جمہوریت کے نفاذ میں چونکہ مصطفی کمال کی اصلاحات میں غیر اسلامی مغربی تقلید کا عنصر آ گیا تھا جسے اقبال نے ناپسند کرکے یہ شعر کہا: ‘‘چاک کر دی ترک ناداں نے خلافت کی قبا کو اب کدھر لے جائیں گے؟’’ پھر خلافت کے حامیوں نے تحریکِ خلافت شروع کر دی کہ ہندوستان دارالحرب بن چکا ہے یعنی دشمن کا ملک جس سے ہجرت کرکے اسلامی ملک میں جانا چاہیے اور انگریزوں کی ملازمتیں ، خطابات تعلیمی اداروں کی مراعات مالی امداد اور دیگر تمام سہولتیں واپس کر دینی چاہیں۔نافہم مسلمانوں نے گاندھی کو اس تحریک کا مرکزی لیڈر بنا دیا۔ جس نے حکومت کے خلاف عدمِ اعتماد کا پروگرام بنایا۔ اس طرح مسلمان خود ہی ہندوشاطروں کے جال میں پھنس گئے۔ کیونکہ اس احتجاج کے نتیجہ میں ہزاروں مسلمان اپنا کاروبار ملازمتیں بچوں کی تعلیم ختم کرکے اپنی املاک کو اونے پونے ہندوؤں کے ہاتھ بیچ کر افغانستان کی طرف ہجرت کر گئے مگر اس برادر اسلامی ملک کے لوگوں کے ہاتھوں لٹ پٹ کر تباہ و برباد ہو گئے کہ ان کی لاشوں کو کفن تو کیا دفن کرنے والا بھی کوئی نہ تھا۔اس تحریک کی غلطی کے اقبال شروع سے ہی خلاف تھے انھوں نے بر ملا مخالفت کی کہ اس سے پسماندہ مسلمانوں کا تھوڑا بہت اثاثہ بھی برباد ہو جائے گا۔ مسلمانوں کی علی گڑھ، اسلامی کالج لاہور اورپشاور کی درسگاہیں بند ہو جائیں گی جب کہ ہندوؤں کے ۱۲۰ اعلیٰ تعلیمی ادارے موجود تھے۔ محمد علی جوہر وغیرہ نے جامعہ ملیہ بنانے کی سکیم بنائی گاندھی اورمولانا جوہر دونوں نے اقبال کو اس میں پرنسپل کا عہدہ پیش کیا۔ جس کا اقبال نے تحریک خلافت کے خطرات بتاتے ہوئے انکار کر دیا۔ محمد علی جناح بھی اس تحریک کے خلاف تھے ور اقبال کی حکیمانہ دانش نے واضح طورپر تحریک کے نتایج محسوس کر لیے تھے جو بری طرح ناکام ہو گئی۔ اس خلافت کی اہمیت تو اسی سے واضح ہے کہ ہندوستان جیسی مسلم سلطنت انگریز کے قبضے میں چلی گئی مگر خلیفہ ان کی امداد کو کیا پہنچتا کلمہ افسوس بھی نہ کہہ سکا۔ آپ نے دیکھا کہ ترکی خلافت کی بحالی کے لیے مولانا محمد علی جوہر اور ہمنواؤں نے اندرون ملک اور برطانیہ میں جس طرح پرزور احتجاج کیا۔اس کا نتیجہ منفی نکلا اور ہندوستان کے مسلمان معاشرتی ، اقتصادی اور سیاسی طورپر تباہ ہوتے ہوتے بچے انھوں نے اقبال کو بھی پُر اصرار انداز میں اپنے ساتھ شامل کرنے کی کوشش کی مگر اقبال صاحبِ بصیرت و وجدان اور دانائے راز تھے۔ کس طرح غلط عمل کی حمایت کرتے اس ضمن میں عرض کرتا چلوں کہ ہمارے عظیم رہنما علامہ اقبال اور قائد اعظم دونوں بیرسٹر اور اعلیٰ پایہ کے قانون دان تھےؤ دونوں نے ہمیشہ قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے باوقار طریقے سے سیاست کی اور اپنے ذہن، قلم اورکلام سے انگریز حکو مت اور ہندو کانگرس کا مقابلہ کیا اور کامیاب رہے دونوں احتجاجی سیاست ،جیل جانا ، ہڑتالیں کرنا ، اشتعال انگیز نعرے لگانا اورجلوس نکالنا، پُر تشدد مظاہرے کرنا، گاندھی کی طرح مرن برت رکھنایا بھوک ہڑتال وغیرہ کے خلاف تھے کاش کہ ہمارے آج کل کے سیاسی اورمذہبی رہنما بھی ان کے نقش قدم پر چل سکیں تاکہ وقت ، توانائیاں اور وسائل ضائع نہ ہوں اورملک پر امن فضا میں مسلسل ترقی کر سکے۔ اقبال جمہوری نظام پسند کرتے تھے مگر وہ جمہوریت جو خود مغرب ہندوستان کو صرف برطانوی ؟؟ ؟ استحکام کے لیے دے رہا تھا اقبال اُس مغربی جمہوریت کے خلاف تھے جو سرمایہ داری نظام پر مبنی تھی جس کا اظہار انھوں نے مشہور نظم خضر راہ میں نہایت موثر انداز میں کیا ہے۔ ہے وہی ساز کہن مغرب کا جمہوری نظام جس کے پردوں میں نہیں غیر از نواے قیصری لیکن جمہوریت تو جمہوریت تھی جیسی بھی تھی تو جمہوریت جس کا ملوکیت کے ساتھ نباہ نہیں ہو سکتا اس لیے اقبال نا خوش تھے ۔ سلطانی جمہور کا آتا ہے زمانہ جو نقش کہن تم کو نظر آئے مٹا دو اسی طرح وہ تحریک آزادی ہند میں اصل فریق انگریز اورہندو کانگریس کو نہیں سمجھتے تھے۔ بلکہ یہ ہندوستان کا اکثریتی فرقہ اور اقلیتیں ہیں جو مغربی طرز کی مخلوط انتخاب کی جمہوریت کو قبول نہیں کر کتیں۔ جب تک کہ ان کو ہندوستان کے اصل حالات زندگی کے مطابق نہ ڈھال لیا جائے۔ ترکی میں جمہوریت کے قیام کی موافقت سے ثابت ہو جاتا ہے کہ اقبال ملوکیت کے بالکل حق میں نہیں تھے اور تمام نئے اسلامی ممالک میں رائج شخصی حکومت کو ناپسند کرتے تھے۔ انھیں اس بات کا بے حد ملال تھا کہ ان مسلمان ممالک میں بھی حکومتیں جغرافیائی اور علاقائی قومی بنیاد پر الگ الگ مقامی مفاد کوترجیح دیتی ہیں اور اسلامی بھائی چارے کے نظریے سے دوسرے ممالک کے مسلمان بھائیوں سے کوئی ترجیح سلوک نہیں کرتیں۔ یونکہ وہ علاقائی ، نسلی، رنگ و بو کی بنیاد پر قوم کی تشکیل کو اسلامی تعلیمات کے سراسر خلاف سمجھتے تھے وہ تو قائل تھے کہ بتان رنگ و خوں کو توڑ کر ملّت میں گم ہو جا نہ تو رانی رہے باقی نہ ایرانی نہ افغانی مگر یہاں وطنیت کے تعصبات نے ہر ایک کو اپنے پنجے میں جکڑ رکھا ہے انھوں نے اپنی نظم وطنیت میں علاقائی وطنیت کے مضر اثرات کا بڑا واضح نقشہ کھینچا ہے وہ علاقائی وطنیت کو انسانیت کے لیے تباہی قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں : اِن تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے جو پیرہن اس کا ہے وہ مذہب کا کفن ہے وہ توحید کی بنیاد پر سارے تفرقات مٹا کر چاہتے ہیں : بازو تیرا توحید کی قوت سے قوی ہے اسلام تیرا دیس ہے تو مصطفویٰ ہے اقبال دین کی بنیاد پر ہر ملک کے مسلمانوں کو ایک اسلامی قرار دینے میں اس حد تک سنجیدہ تھے کہ جب مولانا حسین احمد مدنی نے تقریر میں کہا کہ قومیں اوطان سے بنتی ہیں تو اقبال کی روح تڑپ اٹھی اورانھوں نے مولانا حسین احمد مدنی کی تردید کرتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا ، چُہ بے خبر زِ مقامِ محمد عربی است، مگر افسوس اقبال کا اسلامی بھائی چارے کا خواب مسلمانوں کی بے اتفاقی اور غیر ریشہ دانیوں کی وجہ سے پورہ نہیں ہو رہا اور عالم اسلام کی موجودہ زمانے میں شکست خوردگی کی اصل وجہ یہی ہے کہ وہ آپس میں متحد نہیں ہیں نہ مقامی سطح پر نہ بین الاقوامی سطح پر۔ ۱۹۱۹ء میں مانٹیگو چیسفورڈ اصلاحات کے نتیجہ میں مرکز اور صوبوں کے اختیارات تقسیم اور متعین ہو گئے یہ جمہوریت کی طرف پیش قدمی تھی عوام میں سیاست اور الیکشن مین حصہ لینے کا جوش و شوق پیدا ہو گیا اورمسلم لیگ جو تحریک خلافت کی وجہ سے نیم جان تھی پھر سے زندہ ہوگئی۔۱۹۲۶۔۳۰ء اقبال کا پنجاب لیجسلیٹو کونسل میں بطور ممبر کارگرگی کا حال بیان ہو چکا ہے۔ اس دوران ہندوستان میں سائمن کمیشن ۱۹۲۷ء میں ہند نظام حکومت کی آئینی پوزیشن کا جائزہ لینے کے لیے آیا اس کے سب ممبر انگریز تھے جس پر محمد علی جناح ، کانگرس ، علی برادران اوران کے ہمنواؤں نے اختلاف کیا اور اسے توہین سمجھا گیا مگر سر محمد شفیع اور اقبال نے کمیشن کی موافقت کی ان کا خیال تھا کہ متحارب گروپوں کے نمائندے ایک نتیجہ پر متفق نہیں ہو سکتے۔ انھیں ہندوممبروں سے زیادہ انگریزی ی غیر جانبداری پر اعتماد تھا اس پر جناح نے پنجاب لیگ ختم کر دی تو سر شفیع اور اقبال نے الگ مسلم لیگ بنا لی۔ اقبال سیاسی قلابازیوں سے متنفر تھے مگر نااتفاقی اس بات پر تھی کہ جناح مشروط انتخاب پر رضا مند تھے مگر اقبال اور شفیع ہندو کانگریس کی متحدہ قوم پرستی کے خلاف تھے کہ اسلامی عالمگیری مساوات کے خلاف ہے اور ہندی مسلمانوں کو ایک مشترکہ قوم میں سمو کر ان کے جائز اقلیتی حقوق سے محروم کرنے کی چال ہے جس سے وہ ہندوؤں کے رحم و کرم پر رہ جائیں گے اقبال ہندو کے خلاف نہیں تھے مگر مسلمانوں کی بقاء چاہتے تھے اقبال انگریز حکومت کو ہندو کانگرس سے زیادہ بھروسے کے قابل سمجھتے تھے جو محض وعدوں کے شور سے وعدوں پر ہی ٹرخاتی تھی اور کڑک مرغی کی طرح حقوق کا ایک انڈہ بھی نہیں دیتی تھی۔ اس لیے وہ شروع سے اپنی دو شرائط پر قائم رہے۔ ۱- مسلم اکثریت کے صوبوں میں آبادی کے لحاظ سے نمائندگی ۲- جداگانہ انتخاب اور صوبائی خود مختاری۔ چونکہ جناح مشترکہ انتخاب پر راضی ہو گئے تھے اس لیے اقبال ان سے ناراض ہو گئے اور اقبال کے موقف کی تصدیق ہو گئی جب موتی لال نہرو اپنی نہرو رپورٹ ۱۹۲۸ء میں میثاق لکھنؤ اور دہلی تجاویز میں جداگانہ انتخاب کے طے شدہ اصولوں سے منحرف ہو گیا اور مرکز اور صوبوں میں مسلمانوں کی نمائندگی کم کر دی سندھ کو الگ صوبہ بنانے اور دیگر مطالبات کو مسترد کر دیا غرضیکہ رپورٹ سراسر اس زعم پر مبنی تھی کہ کانگرس کو سوراج حاصل کرنے کے لیے مسلمانوں کی کوئی پرواہ نہیں۔ پھر بھی جناح نے کہا کہ نہرورپورٹ میں ضروری ترامیم کرکے مسلمان اسے قبول کر سکتے ہیں۔ لیکن ترامیم پر بھی کانگرس آمادہ نہ ہوئی غرضیکہ ہندو مسلم مفاہمت کے سلسلہ جناح کی آخری کوشش بھی ناکام ہوئی اور اقبال کا موقف کہ ہندو لیڈر کبھی سمجھوتہ نہیں کریں گے درست ثابت ہوا۔ مزید براں لندن میں تین گول میز کانفرنسوں کی شرمناک ناکامی نے بھی اقبال کے زاویۂ نظر پر مہر تصدیق ثبت کر دی ۔ اس پر آل انڈیا مسلم کانفرنس وجود میں لائی گئی اقبال اس کے بانیوں میں تھے زیرِ صدارت سر آغا خان ۲۶؍۱۹۲۸ءدسمبر کو اس کا اجلاس ہوا اقبال نے اہم بصیرت افروز تقریر کی اس میں جناح مسلم لیگ کے علاوہ دوسری مسلم جماعتیں بھی شریک ہوئیں۔ اس میں مسلمانوں کے مطالبات مرتب کرنے میں وفاقی مرکز میں مسلمانوں ۱؍۳سیٹیں ،صوبائی خودی مختاری ، جدگانہ انتخاب وغیرہ میں اقبال نے اہم کردار ادا کیا۔ نہرو رپورٹ میں جناح کی ترامیم کی نا منظوری کے تلخ تجربہ کے بعد جناح کو احساس ہو گیا کہ ہندوؤں کے ساتھ کسی قسم کا سمجھوتہ ممکن نہیں اس کے ساتھ وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ آل پارٹیز مسلم کانفرنس نے جو مطالبات اپنی قرار داد میں شامل کر رکھے تھے۔ ان میں اضافہ کی گنجائش ہے جو انھوں نے اس میں شامل کیے اس کے ساتھ ہی اقبال سر شفیع اورجناح کا نکتہ نظر ایک ہو گیا آپس میں جو اختلافات تھے وہ ختم ہو گئے اور دونوں لیگوں کا اتحاد محمد علی جناح ۲۸؍جنوری ۱۹۳۰ء کے چودہ نکات پر ہو گیا اور اقبال کے آخری دم تک قائم رہا بلکہ شفیع لیگ ختم کر دی گئی اور اتحاد میں رخنہ ڈالنے والے نیشنلسٹ مسلمان ڈاکٹر ذاکر انصاری ، مولانا آزاد، ڈاکٹر کچلو اورچوہدی خلیق الزمان ن لیگ سے رخصت ہو گئے۔ جنوری ۱۹۲۹ء میں اقبال نے چوہدری محند حسین اور عبداللہ چغتائی کے ہمراہ جنوبی ہند کا دورہ کیااور تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ Reconstruction of Religious Thought in Islamکے موضوع پر مدارس ،میسور، بنگلور،حیدرآباد اور علی گڑھ میں نہایت عالمانہ خطبات ارشاد فرمائے۔ ان میں انھوں نے اسلام کے بارے میں اپنے نظریات کی تفصیل سے وضاحت کی اور حیرت انگیز نظریات پیش کیے۔ جو مروہ نظریات کے مقابلے میں جدید دور کے حالات کے تقاضوں کے مدِ نظر ترقی پسندانہ اور اجتہاد پر مبنی تھے۔ یہ خطبات اعلیٰ پایہ کی انگریزی انشاء میں تھے۔ جنھیں انتہا پسند عناصر نے توجہ نہ دی یا سمجھ نہ سکے۔ ورنہ لاہور کی وزیر خان مسجد کے خطیب مولوی دیدار علی کی طرح ایک اور کفرکا فتویٰ لگا دیتے۔ ۷ ؍ستمبر۱۹۲۹ء کو اقبال نے بیرون دہلی دروازہ برطانیہ کی یہود نواز پالیسی اور فلسطین کو ان کا وطن بنانے کی پالیسی کے خلاف زبر دست پرجوش تقریر کی اور اس کو امن عالم کے لیے بہت بڑا خطرہ قرار دیا۔ اقبال کی خواہش تھی کہ آنے والی گول میز کانفرنس سے پیشتر مسلمانوں کا آپس میں مکمل اتحاد ہوااور ممکن ہو سکے تو ہندو مسلم اتحاد بھی۔ تاکہ گول میز کانفرنس کے نتائج حوصلہ افزاء برآمد ہوں۔ اس بارے میں انھوں نے برکت علی محمڈن ہال لاہور میں بڑی دردمندانہ تقریر کی۔ ۱۳؍جولائی ۱۹۳۰ء کو محمد علی جناح نے لیگ کونسل کا اجلاس طلب کیا تاکہ گول میز کانفرنس کے لیے پالیسی وضع کی جائے۔ اس کو آخری شکل دینے کے لیے خاص اجلاس بلایا جائے اور اس کی صدارت کے لیے جناح نے اقبال کا نام تجویز کیا جو بالاتفاق منظور ہو گیا۔ چنانچہ یہ اجلاس ۲۹ ؍دسمبر ۱۹۳۰ء کو الہ آباد میں منعقد ہو۔ا جس میں اقبال کو سیاست کے میدان میں کل ہند سطح پر بہت اہم مقام حاصل ہوگیا۔ اس صدارتی خطبے میں انھوں نے دو قومی نظریہ کے جواز، اہمیت اور اس کی تکمیل کا خاکہ پیش کیا۔ جس کا مسلمانوں میں خیر مقدم کیا گیا۔ مگر ہندوؤں نے کھل کر اس کی مذمت کی۔ اس وقت ان کے سامنے الگ ملک کا تصور شمال مغربی ہند مسلمان صوبوں تک محدود تھا۔ یعنی پنجاب، سندھ، سرحد، بلوچستان۔ یہ ایک قدرتی طورپر مربوط خطہ تھا۔ وہ اسے ایک ملک بنانا چاہتے تھے۔ بنگال اور دوسرے اکثریت صوبوں کو آزادانہ طور پر فیصلہ کے اکتیار پر چھوڑا گیا مقصد یہ تھا جو فیصلہ شمال مغربی ہند کے لیے ہوگا خود بخود دوسرے صوبوں کے لیے بھی ہو جائے گا۔ یہ بات جناح کے نام اقبال کے خطوط سے پوری طرح واضح ہے۔ یہ الگ اسلامی مملکت کی تجویز آئندہ گول میز کانفرنس کا دیباچہ کہی جا سکتی ہےؤ جس کے تحت ہندوستان میں وفاقی حکومت ہو گی۔ جس میں مسلم اکثریت والے صوبوں میں اکثریتی حقوق اورباقی ہندوستان میں آبادی کی نسبت سے نشستیں ملیں گی۔ انھوں نے کہا کہ یہ اصول کہ ہر فرقے کو حق حاصل ہے کہ وہ اپنے طورپر آزادانہ ترقی کرے۔ اس کا فرقہ پرستی اور تعصب سے کوئی تعلق نہیں۔ میں دوسرے فرقوں کے رسم و رواج ، عقائدو قوانین، مذہبی سماجی اداروں کا بے حد احترام کرتاہوں۔ اگرچہ ہندوؤں نے اقبال پر مذہبی تعصب اور ہندوؤں سے نفرت کے الزامات کی بوچھاڑ کر دی۔ مگر یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ اقبال ہندو مذہب کے بھی عالم تھے اور قدر دان بھی۔ ایک جلسے میں خطاب کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ رومن کوڈ جو مغربی قانون اور ضوابط کی ماں ہے چاروں ویدوں اور شاستروں سے اخذ شدہ ہے۔ اعلیٰ شاعری اور نظریات میں یونانی ہندوستانیوں کے شاگرد تھے۔ جو فلسفیانہ نظریات میں نہایت اعلیٰ سطح پر پہنچ چکے تھے۔ اقبال ویدوں اور گیتا کے بہت معترف تھےؤ ان کے فلسفہ خودی کے جوہرِ عمل اور استثناء کو سری کرشن گیتا سے کافی مماثلت ہے۔ اس ضمن میں عظیم جنگ مہا بھارت کے واقع کی مثال دی جاتی ہے۔ جب سوتیلے بھائیوں کورواور پانڈؤں کی افواج آمنے سامنے ایک دوسرے کو فنا کرنے پر تلی ہوئی تھیں۔پانڈوؤں میں ارجن جو بے مثل تیر انداز تھا۔ اپنے بالمقابل اپنے ہی عزیز و اقربا کو دیکھا تو غم اور مایوسی میں تیر کمان پھینک کر جنگ کرنے سے انکار کر دیا۔ اس موقع پر بھگوان سری کرشن جو ارجن کے رتھ بان تھے۔ ارجن کو سمجھایا کہ حق و باطل کی جنگ ہے عزیزو اقارب وہ ہوتے ہیں جو دوسرے کا حق دیتے ہیں چھینتے نہیں۔ تمھارا ان سے حق کی سربلندی کے لیے استقامت سے جدوجہد کرنا انسانی کردار کی کامیابی و استحکام کے لیے ہے۔ جس میں انسان نتائج کی پرواہ کے بغیر حق کا ساتھ دیتا ہے اور یہ راستہ تکمیل خودی کی طرف جاتا ہے... اقبال کا ارادہ تھا کہ گیتا کا منظوم ترجمہ کریں جو پہلے ابوالفضل کا بھائی فیض کر چکا تھ۔ا کیونکہ اس نے گیت کے خیالات کی بلندی کی منصفانہ ترجمانی نہیں کی تھی۔جاویدنامہ میں بھی اقبال نے ملک قمر پر ہندو رشی و ستواستر جسے عارفِ ہندی اورجہاں دوست کہا گیا ہے۔ رومی اور اقبال کے ساتھ نہایت عالمانہ سوالات و جوابات میں گفتگو ہوئی۔ اس کے علاوہ ہندو عالم راجہ بھرتری ہرنی کا بھی ذکر ہے جس کے ایک شعر کا ترجمہ بطور سفرِ نامہ اقبال نے بال جبریل کے شروع میں لکھا ہے: پھول کی پتی سے کٹ سکتا ہے پینرے کا جگر مرد ناداں یہ کلام نرم و نازک بے اثر غرضیکہ اقبال ہر گز متعصب اور ہندوؤں سے نفرت نہیں کرتے تھے۔ انھوں نے اپنی شاعری میں ویدوں، سری رام، سری کرشن، گوتم بدھ، سوامی رام تیرتھ گرونانک وغیرہ پر تعریفی نظمیں لکھیں ہیں۔ اوران کے قریبی دوستوں میں بہت سی ہندو شخصیتیں تھیں۔ یہاں یہ کہنا بھی بے محل نہ ہوگا کہ اسلام میں وجودی تصوف جس کی بیل کی گھنیری زلفوں میں اصل تصوف گم ہو چکا ہے۔ فلسفہ ویدانت کا ہی مرہونِ منت ہے۔ جس میں برہما یعنی ذاتِ مطلق تمام کائنات کی تخلیق کار ہے۔ اور سبھی تخلیقات ‘ہمہ ا وست ’کے نظریہ کے تحت برہما کی عظیم اپرم پارہستی کا جزو ہیں۔ اور تناسخ اور آواگان کے مراحل میں ہیں کہ اپنی ہستی کو فناء کرکے برہما کی ہستی مطلق میں سما جائیں۔ ایران میں وجودی تصوف کے پودے کو سینچنے والے حافظ شیرازی اور بیشمار شاعر مل گئے۔ مگر یہ ایک الگ موضوع ہے۔ ذکر ہو رہا تھا گول میز کانفرنس کا جس میں ہندوستان کے مسلم سیاسی رہنما اپنی تجاویز لے کر گئے تھے تاکہ ان کے مطابق آئین کو وضع کیا جائے اور اقبال پہلی گول میز کا نفرنس کے وقت اجلاس ِ آلہ آباد کے تاریخی خطبے میں مصروف تھے۔ لیکن اس گول میز کا نفرنس کے وقت مسلمان مندوبین سے باقاعدہ رابطے کیے ہوئے تھے اور جداگانہ انتخاب اور الگ اسلامی ریاست کے قیام کے مطالبہ کو اولیت دینے پر زور دیتے رہے۔ تاہم دوسری اور تیسری گول میز کانفرنس میں وہ شریک ہوئے۔ دوسری کانفرنس میں اپنے مطالبات پر مدلل تقریر کی ۔ مگر کانگریس رہنماؤں کی ہٹ دھرمی کے سبب حقوق کا تصفیہ نہ ہو سکا۔ گاندھی زبانی ہامی بھرتے تھے مگر کوئی ضمانت نہ دیتے تھے۔ تیسری گول میز کانفرنس کا نتیجہ پہلے ہی سے ناکامی نظر آ رہا تھا۔ لہٰذا اقبال نے اس میں برائے نام شرکت کی۔ الگ اسلامی ریاست کے بارے میں اقبال نے ہندوؤں کو یقین دلایا کہ اس کا مقصد مذہبی حکومت کا قیام نہیں۔ اسلام کہیں کسی مذہبی ادارے کی برتری کو تسلیم نہیں کرتا۔ ریاست اخلاقی نظریات کی حامل ہوگی۔ جس میں اختلافی نظریات کی گنجائش ہوتی ہے۔ ہندوستان میں ایک مسلم ریاست کا قیام ہندوستان کے بہترین مفاد میں ہے۔ جس سے اندرونی توازن ہوگا۔ دونوں حصوں میں امن و سلامتی ہوگی اور ہندوستان کی مسلم ریاست عرب سامراجیت کی چھاپ سے آزاد ہوگی نیز ہندوستان کی حفاظت کے لیے سرحد کا کام دے گی۔ کانفرنس میں اقبال کے مؤقف کو پنجاب کے مسلمانوں نے بہت سراہا۔ اقبال کی مسلم ریاست کوششوں کی بدولت ان کے زیر اثر زیادہ لوگ متحد ہوگئے۔ ہر جگہ ان کا شاندار استقبال ہوا اورانھیں اتفاق رائے سے کل ہند مسلم کانفرنس کا صدر منتخب کر لیا گہیا جو مسلم لیگ سے زیادہ نمائندہ تنظیم سمجھی جانے لگی۔ مارچ ۱۹۳۲ء کو اس کا نفرنس کے سالانہ اجلاس لاہور میں ہوا۔ جس کے صدارت اقبال نے کی۔ مسلم آبادی کے خطوں میں انھوں نے سارے فرقوں میں اتحاد کی ضرورت پر زور دیا۔ اقبال کو اس بات سے بہت تکلیف ہوئی تھی کہ ایک ہندو لیڈر مذہب کے بارے میں جو بات یا تبلیغ چاہے کرتا رہے پھر بھی قوم پرست کہلاتا ہے اور اگر مسلمان اسلام کی بات کرے تو فوراًفرقہ پرست قرار دیا جاتا ہے۔ اقبال کے کامیاب سیاست دان کہلانے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ انھوں نے مسلم بقاء کے لیے ایک اہم اقلیت کی صورت میں ہندوستان کی مخلوط قوم کی نفی کرتے ہوئے الگ قومی حیثیت منوائی ۔ جس کے نتیجے میں ہندو اور مسلم قوموں کے علاقوں اور آبای کے لحاظ سے اسمبلیوں میں نشستیں کی تعداد اور جداگانہ طریقۂ انتخاب تسلیم کیا گیا۔ متحدہ فیڈریشن میں صوبائی خود مختاری کا حق تسلیم کیا گیا اور شمال مغربی چار صوبے پنجاب، سندھ، سرحد اور بلوچستان قدرتی طوپر ایک مربوط مسلم اکثریت علاقہ بنے۔ اس کے لیے ہندوستان میں الگ آزاد مملکت کے مطالبے کو پاکستان کا خاکہ بنا کر پیش کیا گیا جو ۱۴ ؍اگست ۱۹۴۷ء کو جیتی جاگتی مملکت کی صورت میں دنیا کے نقشہ پر جلوہ گر ہوا۔ گول میز کانفرنسوں کے بعد حکومت نے قرطاس ابیض شائع کیا۔ جس میں ہر پارٹی اور فرقے کے حقوق کا تعین کیا گیا۔ مگر سبھی نے قرطاس ابیض پر سخت تنقید کی۔ مسلمانوں کو بھی ان کے تناسب سے کم سیٹیں دی گئیں۔ اقبال کی رائے میں وائٹ پیپر میں ترمیم کی کوشش کرنی چاہیے تاکہ اسقام دور ہوں۔ اقبال نے ۲۲ ؍فروری ۱۹۳۳ء کو دہلی میں جامعہ ملیہ اسلامیہ میں ترکی کے مشہور مجاہد اور آزادی کے ہیرو رؤف پاشا کے لیکچروں کی صدارت کی۔ جنوری ۱۹۳۴ء کو اقبال سخت علیل ہو گئے اوران کے گلے کا صوتی نظام خراب ہو گیا۔ آواز سے تقریباًمحروم ہو گئے۔ کچھ عرصہ بعد بصارت بھی تقریباًجواب دے گئی اور دیگر کئی عوارض لاحق ہو گئے۔ ۲۴ ؍اکتوبر ۱۹۳۴ءکو محمد علی جناح لندن سے واپس ہندوستان آ گئے۔ جس کے لیے اقبال اور دیگر لیگی زعمانے انھیں واپس آکر مسلمانوں کی سیاسی کشتی سنبھالنے کی درخواست کی تھی۔ اگر اقبال کو جناح سے کدورت یا شکوہ ہوتا تو وہ کبھی انھیں واپس آنے کی درخواست نہ کرتے۔ تاہم وہ خود شدید بیماری کے باوجود قوم کی بہتری کے لیے جہاں تک ہو سکا سیاسی رہنمائی کے فرائض سرانجام دیتے رہے۔ قائد اعظم اقبال کی علالت کے دوران ان کی مزاج پرسی کے لیے آئے۔ اقبلا نے کامیابی کے لیے انھیں لیگ کو عوامی بنانے کا پرزور مشورہ دیا اور عوام کے حقدلوانے کی تلقین کی۔ جب تک لیگ عوامی جماعت نہیں بنے گی کامیا بی سے دور رہے گی۔ قائداعظم نے اس بات کو تسلیم اورپسند کیا۔ ۱۲ مئی ۱۹۳۶ء کو علالت کے باوجود نمائندہ جلسہ میں صوبائی پنجاب مسلم لیگ کی تنظیم نو کی گئی اور اقبال کو اس کا صدر منتخب کیا گیا۔ انھوں نے ہمنواؤں کی مدد سے مسلم لیگ کا حلقہ اثر عوام تک پھیلا دیا۔ چنانچہ انتخابات میں لیگ کے امیدواروں کو سوائے سرحد کے صوبے میں بے حد کامیابی ہوئی۔ نہرو کے لیے یہ بات بڑی تشویش کا باعث تھی۔ اس نے دہلی میں آل انڈیا کنونشن بلا کر مسلمان عوام کو پرکشش وعدوں سے گھیرنا چاہا جس کے جواب میں اقبال نے نہرو کنونشن کے جواب میں لیگ کو بھی ایسی کنونشن بلانے کے لیے جناح کو لکھا تاکہ کانگریس کی لن ترانیوں کا نہ صرف مؤثر جواب دیا جائے بلکہ مسلمانوں کو مزید مستحکم و منظم کیا جائے اور مسلم لیگ کو جلد از جلد عوامی بنایا جائے کیونکہ عوام کی نیابت کے بغیر کوئی جماعت زندہ نہیں رہ سکتی اور مسلمانوں کو افلاس سے بچانے کے لیے ضروری اقدامات کیے جائیں۔ اس طرح اور اہم سیاسی امور میں خصوصاًیونیسنٹ پارٹی کا زور توڑنے اور اس سےتعلق قطع کرنے ا ور سٹوڈنٹ فیڈریشن کی تنظم کے لیے بے حد مفید مشورے دیے۔ انھی دنوں نہرو نے مسلم عوامی رابطہ کی تحریک شروع کی میاں افتخار الدین کے ہمراہ اقبال سے ملنے آئے، ملاقات کے دوران میاں افتخار الدین نے کہا :‘‘ڈاکٹر صاحب ! آپ مسلمانوں کے لیدر کیوں نہیں بن جاتے ۔ مسلمان جناح سے زیادہ آپ کی عزت کرتے ہیں آپ کانگریس سے بات چیت کریں تو نتیجہ بہتر نکلے گا۔ اقبلا سمجھ گئے کہ آپس میں پھوٹ ڈالنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ جواب میں اقبال نے پُر جوش انداز میں کہا کہ مسٹر جناح ہی اصل لیڈر ہیں۔ میں توان کا معمولی سپاہی ہوں۔ اقبال مسلمانان ہند سے چاہتے تھے کہ وہ جناح کے ہاتھ مضبوط کریں۔ متحدہ محاذ لیگ کی سربراہی میں ہی ہوسکتا ہے۔ اگر لیگ کامیاب ہو گئی تو جناح کے سہارے اس کے سوا اورکوئی شخص مسلمانوں کی قیادت کا اہل نہیں۔ حیرت کی بات ہے کہ اقبال کو ایک مغربی طریق زندگی گزارنے والا شخص جو ٹھیک طرح عوامی زبان میں بات بھی نہیں کر سکتا تھا اس کی قیادت پر اتنا یقین اور اعتقاد تھا۔ یقینا یہ اقبال کی وجدانی بصیرت تھی۔ اسی طرح قائد اعظم نے اقبال کی وفات پر فرمایا کہ اقبال میرے لیے ایک مخلص دوست ، رفیق اور راہنما تھے۔ لیگ کو نازک ترین لمحوں میں گزرنا پڑا۔ مگر وہ چٹان کی طرح قائم رہے۔ ایک لمحے کے لیے بھی متزلزل نہیں ہوئے۔ ان کی انتھک جدوجہد سے پنجاب پورے طورپر مسلم لیگ کے پرچم تلے جمع ہے۔ اقبال سے بہتر کسی نے اسلام کو نہیں سمجھا۔ مجھے فخر ہے کہ میں نے ان کی قیادت میں بحیثیت ایک سپاہی کام کیا گیا ہے۔ میں نے ان سے زجادہ سچا، وفادار اور اسلام کا شیدائی نہیں دیکھا۔قائد اعظم نے کہا کہ کارلائل کو کسی نے برطانیہ اور شیکسپیئر میں ایک کو چننے کے لیے کہا تو اس نے شیکسپیئر کو ترجیح دی مجھے اگر سلطنت مل جائے اور اقبال میں کسی ایک کو منتخب کرنے کو کہا جائے تو اقبال کو منتخب کروں گا۔ سچ تو یہ ہے کہ اقبال اول آخر مسلم لیگ کی روہ تھے ان کے بارے میں یہ وہم پیدا کرنا کہ انھوں نے مسلم لیگ سے قوم پرستی کے حوالے سے مجبوراًتعاون کیا۔ سورج پر تھوکنے کے مترادف ہے۔ سامعین کرام اس تھوڑے سے وقت میں حضرت علامہ اقبال کے سیاسی کا رناموں کا احاطہ ہو ہی نہیں سکتا۔ وہ تو بابغۂ عصر انسان تھے جو ہزاروں سال کے انتظار کے بعد دھرتی پر پیدا ہوتے ہیں۔ لہٰذا عام انسانوں کے ساتھ ان کے اوصاف کا مقابلہ کا کیا مقابلہ ہو سکتا ہے۔ آپ نے محسوس کیا ہوگا کہ سیاسی میدان میں جب ہندو لیڈر شٌ کی شاونزم اورچانکیہ پن نے مسلمانوں کے جائز حقوق غصب کر نے کی ٹھان لی۔ اپنی اکثریت کے تکبر میں وہ نہ مسلمانوں کو کسی خقطر میں لاتے تھے اور نہ ان کے راہنماؤں کی پیش کر دہ تجاویز کو۔ کیونکہ وہ اکھنڈ بھارت میں ہندو راج کا خواب دیکھ رہے تھے توان کے دوغلے پن اور کہہ مکرنیوں کا انداز شروع ہی سے اقبال کو ہو گیا تھا۔ جو مسلمانوں کی بقاء کے لیے جداگانہ انتخاب اور الگ مسلم ریاست کے مطالبے پر جم گئے اور کوئی بھی انھیں اپنے موقف سے نہ ہٹا سکا۔ مگر دوسرے مسلم رہنما بار بار اپنی تجاویز ٹھکرائے جانے پر بھی کسی خوش فہمی میں ہندوؤں سے سمجھوتے کی امید لگائے بیٹھے تھے۔ اس صورتحال سے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت خضر علیہ السلام کی ملاقات کی یادآتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے عملی زندگی میں اقبال کو حصولِ پاکستان کے لیے ‘‘خضرِ راہ’’ کا مقام دیا ۔ جس کی رہبری نے بالآخر حصول پاکستان کی منزل تک پہنچا دیا۔ اگرخدانخواستہ اکھنڈ بھارت بن جاتا تو مسلمانوں آج تک مسئلہ کشمیر کی طرح ہندو سامراج کی بھول بھلیاں میں ذلت و خواری سے ٹھوکریں کھا رہے ہوتے۔ آخر میں حضرت اقبال کے لیے غالب کے اس شعر سے معروضات ختم کرتا ہوں۔ ورق تمام ہوا اور مدح باقی ہے سفینہ چاہیے اس بحیرِ بیکراں کے لیے حواشی حضرت میاں میر علیہ الرحمۃ بحوالہ علامہ اقبال علیہ الرحمۃ علامہ اقبال صوفیاء کرام کے بے حد عقیدت مند تھے اور جب کبھی موقع ملتا ان کی خدمت میں حاضر ہو کر فیض یا ب ہوتے۔ ان کا پختہ اعتقاد تھا ۔ نہ پوچھ ان خرقہ پوشوں کی اِرادات ہو تو دیکھ ان کو یدِ بیضا لیے بیٹھے ہیں اپنی آستینوں میں صوفیاء کرام میں حضرت میاں میر بھی ان کے محبوب صوفی تھے ۔ انھوں نے اپنی مثنوی میں حضرت میاں میر سے اپنی عقیدت کا اظہار کرتے ہوئے ان کے پند و موعظت اور تربیت کو اپنی سرزمین اور اہل وطن کے لیے احیائے ایمان اورمشعلِ راہ قرار دیا ہے۔ اتباعِ رسول کریم ﷺ میں ان کے قدم کو مستحکم اور ان کے عمل کو عشق و محبت کی جان بتایا ہے۔ انھوں نے پنجاب کی سرزمین کو اپنے رشد و ہدایت سے منور کر دیا ۔ بھٹکے ہوئے انسانوں کو نیکی کی راہ دکھائی۔ گرتے ہوئے معاشرے کو انتشار و ابتری سے بچایا۔ پنجاب میں سلسلۂ قادریہ کو نشاۃِ ثانیہ بخشی اور تنزل و انحطاط کے دَور میں احیائے ملت و اعلائے کلمۃ الحق کی ایمان افروز کوششیں کیں۔ اقبال نے لکھا ہے کہ مسلمان کی زندگی کا مقصد اعلائے کلمۃ اللہ ہے۔ اگرجہاد میں یہ مقصد پیشِ نظرنہ ہواورجہاد زمین پر قبضہ کرنے کی ہوس کے لیے ہو تو ایسا جہادِ اسلام میں حرام ہے۔ اس ضمن میں انھوں نے فارسی مثنوی میں حضرت میاں میر کے ایک واقعہ کو نظم کیا ہے۔ جس کا ترجمہ یوں ہے۔ حضرت میاں میر کے ارادت مندوں میں بادشاہ وقت بھی تھا۔ جس کی ہوس ملک گیری بے حد بڑھ گئی تھی۔ وہ چاہتا تھا کہ مزید علاقہ جات پر قبضہ کر لے اور اس مقصد کے لیے طویل عرصہ سے مصروفِ جنگ تھا۔ ایک دن یہ بادشاہ حضرت میاں میر کی خدمت میں حاضر ہو کرطالبِ دعا ہوا کہ اسے ملک گیری میں مزید کامیابی ہو۔ حضرت میاں میر یہ سن کر خاموش رہے ۔ ا تنے میں ایک مرید حاضر ہوا اور اس نے چاندی کے چند سکے بطورِ نذر پیش کیے اور کہا کہ حضور میں نے یہ سکے محنت سے حاصل کیے ہیں۔ اس حقیر نذر کو قبول فرمائیں۔ آپ نے فرمایا کہ یہ روپیہ ہمارے اس بادشاہ کو دے دو۔ جواب بھی بادشاہی لباس میں ایک گدا ہے۔ اگرچہ اس کی حکومت وسیع علاقوں پر پھیلی ہوئی ہے پھر بھی یہ اپنی حرص و ہوس کی وجہ سے مفلس ترین لوگوں میں ہے اور دوسروں کے دستر خوان پر نظریں جمائے ہوئے ہے۔ اس کی حرص و ہوس کی بھوک نے زمانے کو جلا کر تباہ کر دیا ہے۔ اس کی ناداری سے خدائی مخلوق پریشان ہے ۔ اس نے اپنے فکرِ خام سے لوٹ مار کر نام تسخیر دیا ہوا ہے۔ فقیری کی آگ تو اُسی تک رہیتی ہے مگر بادشاہ کی بھوک کی آگ ملک و ملت کو تباہ کر دیتی ہے مگر جس نے بھی تلوار غیر اللہ کے لیے اٹھائی۔ بالآخر اس کی تلوار نے اسی کو ختم کر دیا۔ جس طرح اقبال نے حضرت میاں میر کی قناعت، استغناء، حق گوئی و بے باکی اور انسانی عمل کی صحیح سمت کو واضح کیا ہے۔ یقیناًان کی ذات میں مزید قابل تعریف پہلو ہوں گے۔ چنانچہ اس ضمن میں حضرت میاں میر کی زندگی کا مجملاًذکر کرنا مناسب ہوگا۔ جس سے آپ کی شخصیت کا سراپا واضح طورپر سامنے آئے گا۔ تاریخ نے حضرت میاں میر کی کوئی تصنیف نہیں بتائی۔ ان کا کہنا تھا کہ جو وقت گفتگو و خیالات کو تحریر کرنے میں صرف ہوتا ہے اس سے بہتر ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ذکر میں مصروف رہا جائے گویا ان کی زندگی سراپا عمل تھی۔ ان کی زندگی کے حالات کا علم زیادہ تر ان کے مرید اور حد درجہ عقیدت مند مغل شہزاد ے دارالشکوہ کی دو معروف و اہم کتب سکینۃ الاولیاء اور سفینۃ الاولیاء سے ملتا ہے۔اگر یہ تصانیف نہ ہوتیں تو حضرت میاں میر کی زندگی کے بیشتر حالات سے آگاہی نہ ہوتی۔ ہمارے ممدوح صوفی و ولی کا نام نامی محمد میر اورکنیت میر تھا۔ والد کا نام قاضی سائیں دتہ تھا۔ جو نہایت بلند پایہ عالم تھے اور سندھ میں اپنے علم و فضل و تقدس کے اعتبار سے ممتاز مانے جاتے تھے۔ حضرت میاں میر سندھ کے مشہور شہور سیون شریف میں پیدا ہوئے۔ دارشکوہ کی کتاب سکینۃ الاولیاء میں ان کی پیدائش کا سال ۱۵۵۰ء لکھا ہوا ہے۔سات سال کی عمر میں والد وفات پا گئے ، والدہ نے ان کی پرورش اور تعلیم و تربیت کا فریضہ سنبھالا۔ جو خود بڑی عالم اور زہد و تقویٰ میں رابعہ بصری کا نمونہ تھیں۔ ناناکا نام قاضی قادن تھا جو قاضی القضاۃ کے عہدے پر فائز ہو ئے۔ گویا حضرت میاں میر علیہ الرحمۃ قاضی خاندان سے تھے۔ نسب حضرتِ عمر فاروق ؓسے جا ملتا تھا۔ مسلکاًحضرت شیخ عبدالقادر جیلانی کے سلسلہ قادریہ پر کاربند تھے۔ گویا اس طرح آپ نسباًفاروقی، مسلکاو شریاًحنفی و قادری تھے۔ ابتدائی تعلیم والدہ سے حاصل کرکے ان کی اجازت سے علائق دنیا سے منہ موڑ کر سلسلہ قادریہ میں حضرت شیخ خضر سیوستانی کے مرید ہوئے۔ جن سے عبادات، ریاضت اورمجاہدے کی تربیتِ شاقہ کے بعد خرقۂ خلافت حاصل کیا۔ ۲۵ سال کی عمر میں جب جلال الدین اکبر حکمرانِ ہند تھا۔ لاہور تشریف لائے، جہاں مولانا سعداللہ و مفتی عبدالسلام لاہوری کے حلقہ درس میں شریک ہوتے رہے۔ جن کے تلامذہ میں مادھول لال شاہ حسین بھی تھے۔ آپ لاہور میں بزرگانِ دین کے مقابر یا باغات میں درخت کے نیچے اکیلے یادِ حق میں دن گزارتے ۔ نماز کے وقت مریدوں کے ہمراہ باجماعت نماز ادا کرتے اور رات کو عبادت میں مشغول رہتے۔ جب ان کی ولایت کی شہرت ہوئی اور معتقدین بڑھنے لگے تو ہجوم سے بچنے کے لیے سرہند چلے گئے جہاں وہ بیمار پڑ گئے۔ مگر ایک مرید حاجی نعمت اللہ نے اتنی جانفشانی سے خدمت کی کہ صحت یاب ہو گئے۔ چنانچہ خدمت کے اعتراف میں انھیں سلوک کےدرجہ کمال تک پہنچا دیا۔ سرہند میں ایک سال قیام کے بعد دوبارہ لاہور آکر محلہ خان پور میں مقیم ہو گئے اور اصلاحِ فکر و تہذیب اور روحانی صفات سے خلفاء اور مریدانِ باصفا کی ایسی جماعت پیدا کی جس سے رشد و ہدایت کا قادریہ سلسلہ ہر سو پھیل گیا۔ آپ مریدوں کی تعلیم و تربیت پر خاص توجہ دیتے اور انھیں نمائشی زہد و تقویٰ سے بچنے کی تلقین کرتے۔ واقعہ ہے کہ خواجہ بہاری جو آپ کے مرید اور خلیفہ تھے۔ ایک دفعہ اپنے گھر میں کچھ لوگوں کے ساتھ بیٹھے تھے کہ چھت کے گرنے کے آثار پیدا ہوئے۔ خواجہ بہاری نے لوگوں کو فوراًباہر چلے جانے کو کہا لیکن خود اپنی جگہ پر بیٹھے رہے۔اور بلند آواز سے کلمہ طیبہ پڑھتے رہے ۔ چنانچہ چھت گر گئی مگر جس جگہ وہ بیٹھے تھے اس جگہ چھت کی دو کڑیاں باہم ملی رہیں اور خواجہ بہاری محفوظ رہے ۔ یہ بات لوگوں نے حضرت میاں میر علیہ الرحمۃ کو بتائی کہ وہ سن کر خوش ہوں گے مگر انھوں نے ناخوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔ ہاءے محبِّ جاہ و شہرت کی طلب کہ لوگ دیکھ لیں کہ خواجہ بہاری مرتے وقت بھی خدا کو یاد کرتا رہا۔ فرمایا کہ کلمہ طیبہ دل میں پڑھا جاتا ہے۔ آپ خود نمائی کے بے حد خلاف تھے اور فقیرانہ لباس یا پھٹی پیوند شدہ گدڑی پہننا پسند کرتے تھے کہ لوگ ظاہری روپ دیکھ کر پہنچا ہوا بزرگ سمجھ کر ہاتھ چومتے اور عقیدت مندی کا اظہار کرنے لگتے ہیں۔ اسی طرح کشف و کرامات کا اظہار ناپسند اور کارخانہ قدرت میں دخل اندازی سمجھتے اور سالک کی راہ میں حجاب قرار دیتے اور فرماتے کہ کشف با برسرِ اُو کفش۔ (یعنی کشف کے سر پر جوتا)۔ خود نمائی کی تردید میں وہ حضرت داتا گنج بخش کو قول نقل کرتے کہ سلوک کی راہ گدڑی پہننے سے نہیں ہوتی بلکہ یہ منزل اللہ کی محبت، ریاضت و محبت سے ملتی ہے۔ جو شخص طریقت سے آشنا ہو گیا اس کے لیے امیرانہ لباس بھی گدڑی ہے غرضیکہ وہ خود نمائی ، حبِ جاہ اور ریا کاری کو قطعاًپسند نہیں کرتے۔ حضرت میاں میر حسنِ اخلاق کا پیکر مجسم تھے۔ جس کی وجہ سے اہل اسلام کے علاوہ دیگر مذاہب کے پیروکاروں میں بھی نہایت ہر دلعزیز اورلائق تعظیم تھے۔ جو کثیر تعداد میں ان کی خدمت میں حاضر ہو کر باہمی اخلق و محبت اور انسانی ہمدردی کے زریں اقوال سن کر تسکین اطمینان کی دولت سے بہرہ مند ہو کرلوٹتے۔ اس حقیقت کے ثبوت کے لیے اتنا کافی ہے کہ سکھوں کے گروارجن سنھ نے مقدس گدوارہ امرتسر کی بنیاد آپ کے ہاتھوں میں رکھوائی۔ آپ کے پاس ایک تونگر شخص حاضر ہوا اور اپنے شدید بیمار بیٹے جس کے بچنے کی امید نہیں تھی صحت یابی کی درخواست کی ۔ آپ نے فرمایا لوگوں کی عجیب حالت ہے۔ چاہتے ہیں کہ درویشوں سے دعا کراکے سارے مسئلے حل کرالیں اورکچھ محنت اور خرچ نہ کرنا پڑے۔ پھر فرمایا کہ میں ضمانت دیتاہوں کہ تم بھوکوں کو کھانا کھلاؤ اور ننگے بدنوں کو کپڑے پہنا دو تو اس کی برکت سے مشکل حل ہو سکتی ہے۔ اس شخص نے آپ کی ہدایت پر عمل کیا اور بعد میں آکر حضرت کو خوشی خوشی بتایا کہ اس کا بیٹا صحت یاب ہو گیاہے۔ تعلیمات کے سلسلہ میں وہ شریعت کے اتباع پر زور دیتے ۔ مریدوں کو ارشاد کرتے کہ سلوک میں پہلا مرتبہ شریعت کا ہے۔ طالب پر لازم ہے کہ وہ شریعت کے احکام پر عمل کرے۔ جس کی برکت سے خود بخود دل میں طریقت کی خواہش پیدا ہوگی اور طریقت کے حقوق بھی احسن طریقے سے ادا کرے گا تو اللہ تعالیٰ بشریت کا حجاب اس کی آنکھوں سے دُور کر دے گا اور اس پر حقیقت کا مفہوم منکشف ہوگا۔ جو روح سے متعلق ہے۔ طریقت، باطن کی طہارت اور مرتبہ حقیقت کا ادراک ہے اور حقیقت کا مفہوم موجو د کو فانی بنانا اور دل کو ماسواللہ سے خالی کرنا ہے جو درجہ قرب الٰہی تک پہنچاتی ہے۔ نفس، دل اور روح کا مجموعہ ہے۔ ان میں سے ہر ایک کی اصلاح مقصود ہے۔ نفس کی اصلاح شریعت سے، دل کی طریقت سے اور روح کی حقیقت سے ہوتی ہے۔ حضرت میاں میر اس پایہ کے صوفی تھے جو فنا فی اللہ کی منزل میں تھے ۔ ان کا تمام وقت عبادت و ریاضت میں گزرتا۔ وحدت الوجود ان کا منتہائے نظر تھا۔ مرقوم ہے کہ آپ کو شیخ محی الدین ابن عربی کی کتاب فتوحاتِ مکیہ کا کافی حصہ حفظ تھا۔اور مولانا جامی کی شرح فصوص الحکم پوری حفظ تھی۔ اس کے علاوہ وہ اعتدال پسند تھے چونکہ وحدت الوجود پر شدتِ تعلق کے بعد شریعت اور طریقت میں توازن رکھنا مشکل ہے۔ لہٰذا وہ اس فلسفے کی موشگافیوں میں نہ پڑتے اور طالب کو پابندی سے شریعت پر عمل کرنے کی تلقین کرتے۔ حضرت میاں میر نہایت صلح جو اور کم گو تھے۔ جہاں اشاروں سے بات سمجھ سکتے وہاں زبان استعمال نہ کرتے۔ وہ کام اور عمل کو باتوں پر ترجیح دیتے۔ آپ ظاہری اور باطنی علوم میں یدِ طولیٰ رکھتے تھے۔ اگر کبھی قرآن و سنت کے مفاہیم بیان کرتے تو علماء ف فضلاء انگشتِ بد نداں رہ جاتے۔ علم فقہ میں بھی کمال دسترس تھی۔ اس تمام علمی تبحر کے باوجود قیل و قال اور بحث و تمحیص سے اجتناب کرتے۔ مناظر کا تو کوئی سوال ہی نہیں تھا۔ مگر ایک دفعہ مناظرے کے حالات پیدا کر دئیے گئے تو آپ کی دانش روحانی کے باعث اس کی نوبت نہ آ سکی۔ واقعہ یوں روایت ہے کہ ملکہ نور جہاں اور اس کے بھائی آصف جاہ نے سنی علماء کے ساتھ مناظرہ کرنے کے لیے ایک ایرانی مجتہد کو بلایا۔ جو دہلی جانے سے پہلے حضرت میاں میر کے پاس لایا گیا۔ حضرت بڑے اخلاق سے ملے۔ دورانِ گفتگو سر راہے پوچھا کیا آپ نے کبھی کربلائے معلیٰ کی زیارت کی ہے۔ مجتہد نے بشاشت سے جواب دیا۔ جی ہاں !خدا کا شکر ہے کئی بار یہ سعادت حاصل کر چکا ہوں۔ حضرت نے فرمایا کہ اس مقام کی کچھ فضیلت بیان فرمائیں ۔ مجتہد کہنے لگا کہ اس خاک پاک کی ادنیٰ خاصیت یہ ہے کہ اس کے ارد گرد سات کوس تک دفن ہونے والے روزِ حشر بغیر کسی حساب کے جنت میں داخل ہوں گے۔ حضرت نے فرمایا: کیا ایسی فضیلت انبیاء کرام کے مزارات کو بھی حاصل ہے؟ کیوں نہیں، مجتہد نے کہا نبیوں کے مزارات کے دس کوس تک دفن ہونے والے بغیر حساب کے جنت میں جائیں گے۔ تب حضرت نے فرمایا کہ اگر حضور اکرم ﷺکے مزار کے چاروں طرف دس کوس تک مدفون لوگ جنتی ہیں توپھر ان دو بزرگوں کی بخشش بھی یقینی ہے جو حضور اکرم ﷺ کے قدموں میں دفن ہیں۔ یہ سن کر ایرانی مجتہد مبہوت ہو گیا۔ اس سے کوئی جواب نہ بن سکا۔ القصہ وہ لاہور سے ہی واپس ایران چلا گیا۔ حضرت میاں میر صرف زاہدِ خشک نہیں تھے۔ ان کے نزدیک سماع ضرور حدود کے ساتھ مباح تھا کہ ہر عارفانہ کلام خوش الحانی کے ساتھ دلوں کو گرماتا اور فکر ونظرمیں انقلاب پیدا کرتا ہے۔ اس سے قلوب و اذہان تسخیر ہوتے ہیں۔ قرآن حکیم کی قرات خود اس کی مثال ہے ۔ مگر حضرت میاں میر شاہ حسین کی طرح نہ توموسیقی میں غرق رہتے نہ وہ سلطان باہو کی طرح اس کے منکر۔ خوش الحانی اللہ کی نعمت ہے جس کا مناسب اور برمحل استعمال جائز ہے۔ حضرت میاں میر کی ایک خصوصیت یہ تھی کہ آپ نے تمام عمر پارسائی اور تجرد میں گزاری اور شادی بیان اور بال بچوں کے بکھیڑے میں نہ پڑے۔ سلسلہ قادریہ میں تجرد یعنی انقطعاع عن العلائق و خلائق کی بڑی اہمیت ہے۔ کیونکہ یہ اللہ کی قربت کے راستوں کی رکاوٹ ہیں۔ ان کو ترک کرنا انتہائی کٹھن ہے۔ مگر حضرت میاں میر دنیاوی اور نفسانی خواہشات پر مکمل حاوی رہے جو صرف ایک فنا فی اللہ ولی ہی کر سکتا ہے۔ علائق دنیا سے استغنا اوربے نیازی ہی نے حضرت میاں میر کو وقت کے کسی سلطان کا مرہون منت نہ ہونے دیا۔ وہ عام آدمیوںسے تحفہ قبول کر لیتے اور تھوڑا سا خود بھی استعمال کرتے مگر باقی تمام دوسروں پر تقسیم کر دیتے۔ اس ضمن میں سلاطین وقت کا ذکر کرنا مناسب ہوگا۔ حضرت میاں میر کی جب شہرت ہوئی تو شہنشاہ جہانگیر حکمران تھا۔ جب اُسے حضرت کی شخصیت اور اعلیٰ اقدار کا پتہ چلا تو آپ سے حسنِ ظن رکھنے لگا۔ داراشکوہ نے سکینۃ الاولیاء میں لکھا ہے۔ اگرچہ جہانگیر اولیاء اللہ اور درویشوں کا معتقد نہ تھا اور ان کو تکلیف دیتا اور بدسلوکی کرتا تھا۔ مگر اس نے اپنا خاص ایلچی حضرت میاں میر ی خدمت میں بھیج کر ملاقات کی درخواست کی۔ ان کی آمد پر جہانگیر نے آپ کے بے حد تعظیم و تکریم کی اور بہت دیر تک حضرت کے دلپذیر نصائح نصیحت توجہ سے سنے، بادشاہ اس قدر متاثر ہوا اور کہا کہ اگر آپ حکم دیں تو میں تخت و تاج چھوڑ کر آئندہ آپ کی خدمت میں ہی رہوں۔ حضرت نے فرمایا کہ آپ کا وجود اللہ تعالیٰ کی مخلوق کے لیے ضروری ہے۔ اور آپ کے عدل و انصاف کی وجہ سے عوام اور درویش لوگ دلجمعی سے اپنی عبادت میں محور رہتے ہیںؤ تاہم اگر آپ اپنی جگہ پر کسی عادل حکمران کو لا سکتے ہیں تو میں آپ کو اپنے ساتھ لے جا سکتا ہوں۔ بادشاہ کو یہ بات اچھی لگی اور جھجکتے ہوئے کہا کہ مجھ سے کچھ طلب کیجیے؟ اس پر آپ نے کہا کہ جو کچھ مانگوں گا وہ دو گے؟ جہانگیر نے کہا، ضرور! آپ نے فرمایا تو پھر مجھے جانے کی اجازت دیجیےؤ اس شانِ استغنی کو اقبال کی شاعرانہ زبان میں یوں کہا جا سکتا ہے: گدائی میں بھی وہ اللہ والے تھے غیور اتنے! کہ منعمِ کو گدا کے ڈر سے بخشش کا نہ تھا یارا اس واقعہ کے علاوہ دارا نے جہانگیر کے دو خطوط نقل کیے ہیں جن میں حضرت کا ذکر نہایت احترام سے کیا گیا ہ۔ گویا بقول اقبال: فقر کے ہیں معجزات تاج و سریرد سپاح فقر ہے میروں کا میر فقر ہے شاہوں کا شاہ شاہجہاں کا دورِ حکومت آیا تو وہ دو مرتبہ حضرت میاں کی خدمت میں حاضر ہوا۔ کتاب شاہ جہاں نامہ میں اس ملاقات کا تفصیل سے ذکر ہے۔ شاہجہاں نے اس نشست و قربت کو اپنے لیے بڑی خوش نصیبی سمجھا کہ اسے اس پیشوائے اہلِ صفا کی محبت کا اعزاز حاصل ہوا۔ وہ بار بار حضرت کے پاکیزہ کردار اور اخلاق محمود کی تعریف کرتا اور انھیں مشائخ و صوفیا کی صف میں کامل و اکمل پایا۔ شاہجہاں کی حضرت میاں میر سے دوری ملاقات کا ترجمہ اس طرح ہے۔ خداشناس بادشاہ اصحاب معرفت و تقویٰ کے رہنما ، ارباب صفات و صفا کے پیشوا، برگزیدہ حق شناس درویش ِ باضمیر حضرت میاں میر کے کاشانۂ فیض آشیانہ پر جو پہلے بھی اس کے قدومِ سعادت لزوم سے مہطِ انوار ہو چکا تھا، تشریف لے گئے اور اس تجرد و خلوگ گزیں ہستی کے بہت سے باریک نکات اور معرفت پرور حقاق حاضرین کے انشراح صدور اور انبساطِ قلب کا باعث ہوئے۔ اس موقع پر شاہجہاں نے ایک سفید پگڑی اور تسبیح حضرت کی خدمت میں بطورنمونہ نذرانہ پیش کی اور دعا کی التجا کی۔ ان دونو ں ملاقاتوں کا دار اشکوہ نے مفصل حال لکھاہے ۔ بادشاہ حضر ت میاں میر سے اتنا متاثر ہوا کہ اکثر کہا کرتا تھا کہ ہم نے ترک و تجرید اور ما سوا اللہ سے بے نیازی اور لا تعلقی میں حضرت جیسا درویش نہیں دیکھا۔ دارا نے شاہجہاں کی حضرت میاں میر سے نیاز مندی کے بیان میں اپنی بیماری اور حضرت کی دعا سے شفایابی کا حال بھی لکھا ہے کہ وہ چار ماہ سے کسی جانکاہ مرض میں مبتلا تھا۔ شاہی معالج عاجز آ گئے تو شاہجہان اسے لے کر حضرت کی بارگاہ میں حاضر ہوا اور دعا کی درخواست کی۔ حضرت نے دارا کا ہاتھ پکڑ کر اپنے پیالے میں پانی ڈالا اور کچھ پڑھ کر شہزادے کو پینے کو کہا ۔ اس کے پیتے ہی ہفتہ تک دارا کو کامل شفا نصیب ہوگئی۔ دوسری ملاقات کے موقع پر بھی حضرت نے نہایت لطیف و دلپذیر نکات بیان کیے۔ بادشاہ نے درخواست کی کہ آپ توجہ فرمائیے کہ میرے دل میں دنیا کی رغبت باقی نہ رہے۔ انھوں نے فرمایا جب تم کوئی ایسا عمل کرو کہ کسی مسلمان کا دل خوش ہو جائے تو اللہ تعالیٰ سے اپنے لیے دعا کرو۔ مگر اللہ سے اس کی ذات کے سوا کچھ نہ مانگو۔ دارا اشکوہ حضرت سے بنسبت اپنے باپ شاہجہاں اور دادا جہانگیر کے حضرت میاں میر سے زیادہ انسیت رکھتا تھا اور دل و جان سے ان کا معتقد تھا۔ حضرت کی روحانی صحبت اور نظر کرم نے شہزادے کے ذوق و شوق کو جلا بخشی ۔ دارا نے سکینۃ اولالیاء میں لکھا ہے کہ حضرت میاں میر شاہجہاں کی ملاقات کے دوران لوگ چباتے اور پھینک دیتے اور یہ فقیر کمال ارادات اور اخلاص سے انھیں اٹھا کر کھا لیتا تھا۔ جس کی برکت سے طبیعت کو بہت روحانیت ملی۔ جب بادشاہ رخصت ہوا تو دارا ان کے پاس ہی رک گیا اور اپنے سر کوحضرت کے پائے مبارک پر رگڑنے لگا ۔ انھوں نے بہت شگفتگی اور خوشی سے اپنا دست مبارک اس فقیر کے سر پر رکھ کر عرش تک پہنچا دیا اور بہت لطف و کرم سے رخصت کیا۔ دار اشکوہ بیان کرتا ہے کہ حضرت کی توجہ و کرم بعد از وصال بھی فقیر کے شامل حال رہی اور اس نے خواب میں حضرت کی زیارت کی۔ انھوں نے میرے سینے سے اپنے سینے کو رگڑا اور فرمایا کہ اپنی امانت کو سنبھالو۔ اس کے بعد ا نوار و تجلیات کی اتنی بارش ہوئی کہ میں نے عرض کیا کہ اس سے زیادہ کی مجھ میں ہمت نہیں۔ مگر اس کے بعد میں اپنے سینے کو پاکیزہ، مصفی اور نورانی پاتا ہوں۔ دار اشکوہ اوراورنگ زیب میں گہرے اختلافات تھے۔ ایک وجہ اختلاف شاہجہان کی دارا کو اورنگ زیب پر فوقیت دینا تھی ۔ جسے اُس نے ولی عہد نامزد کر دیا تھا۔ مگران کے مزاج، اطوار، عقائد اور طرزِ عمل میں بھی زمین و آسمان کا فرق تھا۔ دار اشکوہ وسیع المشرب اور بھگتی تحریک سے متاثر تھا جب کہ اورنگ زیب نہایت متشرع بلکہ بنیاد پرست علماء کا پیرو تھا۔ دار اشکوہ اگرچہ ولی عہد سلطنت تھا مگر وہ جہانبانی کے تقاضوں کو چھوڑ کر خطاطی، تصوف اور مطالعہ میں گہری دلچسپی لیتا تھا۔ اس کے مقابلے میں اورنگ زیب اس سے کم عمرہونے کے باوجود شروع سے ہی فن حرب میں مہارت حاصل کر چکا تھا اور شاہجہاں کی بیماری کے دوران میں اس نے داراشکوہ کو شکست دے کر حکومت سنبھال لی۔ دار اشکوہ حضرت میاں میر کا بے حد معتقد تھا۔ اورنگ زیب اگرچہ دارا کی صوفیانہ روش کے خلاف تھا تاہم اس کے دادا پیر حضرت میاں میر سے حسنِ ظن رکھتا تھا۔ دارا کے قتل کے بعد جب اورنگ زیب تخت پر بیٹھا تو اس نے حضرت میاں میر کے روضۂ پاک کی عمارت مکمل کرائی۔ جو دارا سے نامکمل رہ گئی تھی۔ حضرت میاں میر ۸۸ برس کی عمر میں ۱۶۳۵ء میں دنیا ئے فانی سے رخصت ہوئے۔ وفات سے ایک روز قبل لاہور کا حاکم وزیر خان ایک حکیمِ حاذق لے کر حاضر ہوا۔ مگر حضرت نے علاج کرانے کی بجائے شعر پڑھا اس کا ترجمہ یہ ہے: عشق کے درد مند کا علاج محبوب کے دیدار کے سوا کچھ بھی نہیں۔ اس طرح حق و صداقت، فقر و استغنا ، علم و عمل کا یہ پیکرِ سعود نام و نمود و حبِّ جاہ و شہرت سے بے نیازی ولی کامل اپنے درخشندہ خصائل و فضائل کے تابندہ نقوش چھوڑ کر جن کا گہرا رنگ حضرت علامہ اقبال کی ذاتِ ستودہ صفات میں بدرجۂ اتم موجود ہے۔ اس جہانِ فانی سے عالمِ جاودانی کو سفر کر گیا تاہم اس کا روضہ اسی لاہور کی سرزمین میں واقع ہے جو حاضرین خاص و عام کے لیے آج بھی چشم بصیرت کا کام دیتا ہے۔ حضرت میاں میر کی خدمت میں اپنی بے پناہ عقیدت کا اظہار اسرار و رموز میں اس طرح پیش فرمایا ہے : حضرت شیخ میاں میر ولی ہر خفی از نور جانِ اوجلی بر طریقِ مصطفے محکم پئے نغمۂ عشق و محبت را نئے تربتش ایمان خاکِ شہر کا مشعلِ نور ہدایت بہر ما حضرت میاں میر کے مذکورہ اوصافِ عالیہ کی مناسبت سے حضرت علامہ اقبال کا مقام بھی کسی واللہ سے کم تر نہیں ہوتا۔ غالب نے اپنے بارے میں کہا تھا: یہ مسائلِ تصوّف یہ تیرا بیان غالب ہم تجھے ولی سمجھتے جو نہ بادہ خوار ہوتے مگر اقبال غالب کی طرح بادہ خوار نہ تھے ۔بلکہ وہ امتِ مسلمہ اور عالم انسانیت کی سر بلندی و توقیر کے جذبے و شوق کے بادۂ الست سے سرشار دنیا کی ہرکشش سے بے نیاز تمام عمر ایک اعلیٰ و عظیم مقصد کے حصول میں مسلسل اپنے خونِ جگر کی تمام تر توانائی صرف کرکے قوم کے لیے اپنی جان و مال قربان کرکے وہ معجزہ سر انجام دیے گئے جس کا راستہ قیام پاکستان تک جاتا ہے۔ اگر اُن میں خود آگاہی ، وجدانی بصیرت، علمی تبحر، جذبۂ ایثارو قربانی، استغنا و درویشی جیسے جوہر نہ ہوتے تو انیں یہ مقام عظمت حاصل نہیں ہو سکتا۔ وہ اپنی درویشی ، بے نیازی اور خود آگاہی کے بارے میں یوں کہتے ہیں: کہاں سے تو نے اے اقبال سیکھی ہے یہ درویشی کہ چرچا بادشاہوں میں ہے تیری بے نیازی کا اپنے رزاق کو نہ پہچانے تو محتاجِ ملوک اور پہچانے ہیں تو ہیں تیرے گدا دارا و جم واقعی اُن کی فقیری میں شاہی کی شان تھی۔ ان کی ذات اکتسابی و وہبی علوم کا مخزنتھی۔ جسے انھوں نے کبھی ذاتی منفعت اور شہرت کے لیے استعمال نہ کیا۔ وہ ایک دیدہ و دنائے راز تھے۔ جو صدیوں میں پیدا ہوتا ہےؤ وہ محرم رازِ درون مے خانہ تھے اور حکیم الامت تھے۔ محض بلند پایہ شاعر و فلسفی نہ تھے۔وہ قدرت کے سربستہ رازوں سے آگاہ تھے۔ جسے بیان کرنے کے لیے نفسِ جبریل درکار ہے۔ وہ پردۂ افلاک کے پوشیدہ حادثات کا عکس اپنے آئینہ ادرک میں محسوس کرتے تھے۔ انھوں نے اپنی خود آگاہی سے امت پر خودی کا راز آشکار کیا۔ جورازِ کُن فکان بھی ہے اور خدا کا ترجمان بھی۔ وہ نغمۂ جبریل بھی تھے اور صورِ اسرافیل بھی ۔ وہ کتاب اللہ کے حکیمانہ ارشادات کو مکمل طورپر سمجھتے اور بعینہ اپنے کلام میں دوسروں کو ابلاغ کرتے ۔ وہ صاحب ِ صدق و یقین ، حامل خلقِ عظیم ایسے درویش تھے جن کو حق تعالیٰ نے اندازِ خسروانہ عطا کیے تھے۔ حضور اکرمﷺکی نگہہ ناز کے کرم سے اقبال کی عقل کو غیاب و جستجو یعنی حکیمانہ اور جذبۂ عشق کو درد و سوز و حضور یعنی کلیمانہ نعمتیں میسر تھیں۔ غرض یہ کہ اُن کا کلام محض شاعری نہیں بلکہ جزوِ پیغمبری ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ : کہہ گئے ہیں شاعری جزویست از پیغمبری ہاں شاد بے محفل ملت کو پیغام سروش عظیم بزرگ مولانا شاعر گرامی نے جو اقبال کو ہمیشہ مجدد عصر کہہ کر بلاتے ایسے ہی نہیں کہا تھا: در دیدۂ معنی نگہباں حضرتِ اقبال پیغمبری کرد و پیمبر نتواں گفت سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ سب اوصاف و خصائل اس حقیقت کا واضح ثبوت نہیں کہ دنیاوی مصلحتوں ، ذاتی اغراض ، سہل انگاری ، کوتاہ اندیشی میں مسلم قوم نے ارادتاًاقبلا سے مجرمانہ غفلت برتی ورنہ ان کے پیامِ سروش میں ہمارے لیے تمام مسائل و مشکلات کا حل موجود ہے۔ مگر اقبال مسلمانوں کے دوبارہ حصولِ عظمت رفتہ سے نااُمید نہیں۔ اور ایک درخشاں صبح کی نوید دیتے ہوئے یوں فرماتے ہیں : شب گریزاں ہوگی آخر جلوہِ خورشید سے یہ چمن معمور ہوگا نغمۂ توحید سے حواشی حسین بن منصور حلاج اور علامہ اقبال حسین بن منصور حلاج کو نعرہ انا الحق بلند کرنے کے باعث کفر کا مرتکب سمجھا گیا اور اہلِ اقتدار اور مخالفین کے فیصلہ کے تحت نہایت اذیت کے ساتھ ہلاک کر دیا گیا۔ تاہم اس معاملہ میں وہ کافی متنازعہ شخصیت کا حامل تھا۔ کیونکہ بہت سے اصحاب علم و فضل اُسے حق بجانب سمجھتے تھے اور اس کے قتل کو غلط قرار دیتے تھے۔ زیرِ قلم مضمون اس معاملے کو ذرا وسیع تناظر میں دیکھتے ہیں ۔ حسین بن منصور ۸۵۷ء میں شیراز کے نزدیک بمقام طور پیدا ہوا۔ والد پیشہ کے اعتبار سے پارچہ باف تھا۔ مگر حسین علاج کے طورپر مشہوا کہ ایک دفعہ وہ کسی دھنیے کے پاس کسی کام کے لیے گیا۔ دھنیے دوکاندار نے مصروفیت کی مجبوری بتائی۔ منصور نے کہا تم میرا کام کر آؤ۔ تمھاری غیر موجودگی میں مَیں تمھاری کپاس سے بنولے نکال دوں گا۔ جب وہ لوٹا تو اُس نے دیکھا کہ ساری روئی دھنی ہوئی تھی۔ دھنیے نے حیران ہو کر کہا کہ تم تو جادوگر ہو۔ منصور نے جواب دیا کہ یہ جادو نہیں میں تو اس کوشش میں ہوں کہ جس طرح روئی اور بنولے الگ ہو گئے ہیں۔ میں اپنی ذات سے بھی دوئی کو الگ کر دوں۔ دوکاندار نے کہا تم واقعی حلاج ہو اور اس کے بعد منصور کو حلاج کہا جانے لگا۔ والد آبائی مقام کو چھوڑ کر تستر کے مقام پر آکر سکونت پذیر ہو چکے تھے۔ تو حسین بن منصور کو وہاں مقامی درسگاہ میں داخل کرادیا۔ جہاں قرآن مجید حفظ کیا۔ مگر ہم سبقوں اور اُستاد سے اکثر جھگڑا رہتا۔ جو اس کے پیچیدہ سوالات کا جواب نہ دے سکتے۔ حلاج نے درسگاہ کو خیر باد کہااور وہیں سہیل بن عبداللہ تستری کی درسگاہ میں چلا گیا جو پیر طریقت تھے اور علماء میں بلند مقام رکھتے تھے اس زمانے میں علم حدیث، فقہ ، تفسیر ادبیات، تاریخ ، تصوف، علم کلام اور فلسفہ کا دور دورہ تھا۔ حلاج کو تصوف سے خاص لگاؤ تھا۔ وہ مدرسہ میں چلا گیا اس وقت اُس کی عمر ۲۰ برس تھی ۔ سہیل تستری کے مدرسہ میں حلاج کا اپنا گوشہ، اپنی دنیا اوراپنا جہان تھا۔ وہ عالمِ استغراق میں ایسی باتیں کہہ دیتا جو شریعتِ ظاہرہ کے منافی ہوتیں اور سہیل تستری کے دل پر گراں گزرتیں۔ وہ حلاج کے اندر چھپی ہوئی چنگاری کو دیکھتے تھے جو کسی وقت اُسے بھسم کر سکتی تھی۔ انھوں نے حلاج کے والد سے شکایتاًکہا کہ حسین کی رفتار بہت تیز ہے وہ ضرورت سے زیادہ مضطرب، اشواقِ جدید میں مبتلا اور بڑے عزائم رکھتا ہے۔ اگر وہ شرع کے اندر رہے تو ٹھیک ہے ورنہ شوریدہ سر آدمی کے لیے اسلام میں کوئی جگہ نہیں۔ سہیل تستری نے ایک دن حلاج کو خلوت میں سمجھایا کہ راز کی باتوں کا برسرِ عام کہنا جائز نہیں۔ وہ راز جو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر منکشف کرتا ہے وہ عام لوگوں پر عیاں نہیں ہونے چاہئیں۔ یہ جو تم کر رہے ہو یہ ایک طرح اَنا پسندی اورکم ہمتی ہے۔ حسین نے جواب دیا کہ پیرو مرشد مجھ سے جو بھی فعل سرزد ہوتا ہے اس میں میرا کوئی دخل نہیں ہوتا نہ اختیار ہے۔ سہل تستری نے کہا معلوم ہوتا ہے تم جبر یہ مسلک سے تعلق رکھتے ہو؟ حلاج بولا کہ مجھ میں اتنی ہمت نہیں کہ جو میرے دل پر گزرتی ہے وہ میں راز رکھوں۔ میرا یہ فعل پروردگارِ عالم کی خواہش کے عین مطابق ہے جو مجھے رازوں کے انکشاف میں شریک کرتا ہے وہ خود نہیں چاہتا کہ اس کا راز راز رہے ۔ اگر وہ چاہتا کہ اُس کے راز عام نہ ہوں تو وہ جہاں مجھے ان سے واقف کرتا ہے وہاں مجھے اس بات کا حوصلہ بھی دیتا ہے کہ ان کو سینے میں دبائے رکھوں۔ وہ تو عالم الغیب ہے۔ اسے ہر چیز کا علم ہے کہ کیا ہوتا ہے اورکس کے ہاتھوں ہوتا ہے۔ سہیل تستری نے کہا اے حسین مجھے اتنی سکت نہیں کہ تمھاری گستاخانہ گفتگو سہہ سکوں۔ خداتم پر رحم کرے۔ اس گفتگو سے دلبرداشتہ اور اپنی بے چین طبیعت سے مجبور ہو کر حلاج مدرسہ چھوڑ کر عازمِ بصرہ ہوا۔ جو جملہ علوم کی ایک چھاؤنی کا مقام رکھتا تھا۔ جہاں وہ حسن بصری کے مدرسہ میں داخل ہو گیا مگر بصرہ میں ایسی جماعت سے رابطہ ہو گیا جو سیاسی طور پر حکومتِ وقت کے معتوب تھے۔ چنانچہ اس وجہ سے حلاج کو بصرہ چھوڑنا پڑا۔ حلاج بصرہ چھوڑ کر بغداد میں عمرو بن عثمان المکی کے سلسلۂ طریقت سے وابستہ ہوا اور خرقہ تصوف حاصل یا۔ عمرو عثمان نے حلاج سے پوچھا کہ سہیل بن عبداللہ تستری کی خانقاہ میں کیا کمی تھی جو ہمارے پاس چلے آئے ہو۔ حلاج نے جواب دیا کہ وہ نہایت مصلحت اندیش ہیں۔ عمرو عثمان نے کہا کہ تمھیں اصلاح کے لیے تہذیبِ نفس کی ضرورت ہے۔جب تک تم راہِ شوق اور سیر اللہ کے لیے خود کو تیار نہ کرو گے۔ یہاں آنا تمھیں کوئی نفع نہ دے گا۔ تمھاری بے قراری اور جو آگ تمھارے اندر بھڑک رہی ہے ایک دن تم اسی آگ میں جل مرو گے۔ انھوں نے حلاج کوسمجھاتے ہوئے کہا اگر حاکمِ وقت تمھیں کوئی قیمتی راز بتاتے ہوئے کہے کہ اسے افشانہ کرنا۔ ورنہ کڑی سزا جو موت ہو سکتی ہے دی جائے گی تو پھر بھی تم راز کو سینے میں نہیں رکھو گے؟ حلاج نے جواب دیا کہ اگر وہ راز حاکم وقت مجھ پر عیاں کرتا ہے واقعی اس قدر پوشیدہ ہے تو پہلی غلطی حاکم وقت کی ہے جس نے مجھے راز داں بنایا۔ جس راز کو وہ خود اپنے سینے میں نہیں رکھ سکاتووہ مجھ سے کیسے توقع کر سکتا ہے کہ میں اُسے سینے میں چھپاؤں جہاں تک سزا کا سوال ہے تو میرا سر ہر وقت زیرِ شمشیر رہتا ہے۔ اس صورت میں میرا جرم یہی ہوگا جو حاکمِ وقت سے ہو چکا ہے۔ اس پر عمروعثمان نے کہا تمھاری باتوں میں تمھارے لہو کا رنگ جھلکتا ہے کیونکہ تم گمراہ ہو چکے ہو۔ نتیجتاًحلاج نے عمرو عثمان المکی سے مراجعت کی اور اپنے سسر یعقوب الاقطع کے مشورے سے حضرت جنید بغدادی کی خدمت میں جا پہنچا۔ تاریخِ تصوف میں حضرت جنید کو بہت بلند مرتبہ حاصل ہے ۔ وہ مشہور صوفی سر سقطی کے بھانجے تھےؤ حضرت جنید کو سید الطائفہ، لسان القوم، طاؤس ، علماء سلطانِ محققین جیسے الفاظ سے تعظیم حاصل تھی۔ آپ مدرسہ نظامیہ کے استاد اعلیٰ، عالمِ بے بدل اور بغداد کے روحِ رواں تھے۔ انھیں علم کا سرچشمہ تسلیم کیا جاتا تھا۔ حضرت جنید نے حلاج کو سمجھایا کہ تم میں اَنا کا زیادہ ہی زعم ہے تم حسنِ صحبت کے تقاضوں کے علم نہیں رکھتے پہلے تم نے سہیل تستری کو چھوڑا۔ حسن بصری کے پاس نہ ٹھہر سکے۔ پھر عمرو عثمان المکی کو ناراض کیا۔ اب تم میرے پاس آکر ویسے ہی ہوش و حواس سے بیگانہ دعوے کر رہے ہو اور غلط نظریے رکھتے ہو۔ لہٰذا تم واپس سہیل تستری کے پاس چلے جاؤ جو تم پر توجہ کر سکتے ہیں۔ غرضیکہ حضرت جنید نے حلاج کو قبول نہ کیا کیونکہ وہ خود کو مرشد سمجھتے ہوئے کسی کو اپنا مرشد نہیں سمجھتا تھا۔ حضرت جنید نے حلاج کے رویے پر ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے تختہ دار پر انجام کی پیش گوئی کی۔ ۸۸۵ء میں حلاج نے فریضۂ حج ادا کیا ۔ قیام کے دوران تمام عرصہ کڑی دھوپ میں عبادت و ریاضت میں وقت گزارتا۔ اور چار لقمے روٹی اور چار گھونٹ پانی پر گزارا کرتا اور نماز کے وقت کے علاوہ اپنی جگہ سے نہ ہلتا۔ اس قدر کٹھن عبادت و ریاضت کرتے دیکھ کر کسی اہلِ نظر نے کہا کہ یہ ضرور خود کو کسی بڑی آزمائش میں اُلجھانے کی تیاری کر رہا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ اس طرح نفس کشی کرکے میں بڑی بہادری دکھا رہا ہوں۔ حج ادا کرنے کے بعد حلاج تستر چلا گیا اور رشد وہدایت کا سلسلہ جاری کیا۔ جس کا مقصد اپنے اندر حق تعالیٰ کو تلاش کرنا تھا۔ اس دوران میں وہ اپنی کرامات کے سبب بہت مشہور ہوگیا۔ مٹھی بھر سائز کا انگور، دوبالشت گولائی کا سیب پیش کرتا ، بازو بلند کرتا تو ہاتھ درہموں سے بھرا ہوتا۔ سردی میں گرمیوں اور گرمی میں سردیوں کے پھل حاضر کرتا، سانپ کو کوڑا بناتاہر دروازے کے قلی کو چابی کے بغیر کھولتا، آتش کدے میں جس کے متعلق مشہورتھا کہ اس کی آگ کبھی نہیں بجھتی اس کو بجھایا اور دوبارہ روشن کردیا۔ حلاج نے بہت سیاحت کی، چین تک سفر کیا۔ مختلف علاقوں میں بہت ہمنوا، معتقدین اورپیروکار پیدا ہوئے۔ تاہم مخالفین کی تعداد بھی کم نہیں تھی جو اسے جادوگر، شعبدہ باز ، جاہل ، گمراہ ، متکبر قرار دیتے۔ حلاج کو امام ربانی بھی کیا گیا ہے ہو ہاتھ کو حرکت دیتا تو لوگوں پر مشک جھڑنے لگتا، شاخ ہلاتا تو کھجوریں جھڑنے لگتیں یا سکّے برسنے لگتے۔ کثرتِ ریاضت و مجاہدہ سے لباس کا مطلقاًخیال نہ ہوتا۔ بڑی بڑی جوؤں اور کیڑوں نے لباس کو مسکن بنا لیا تھا۔ خوراک بے حد کم تھی بکثرت نمازیں اور نوافل پڑھتا۔ ہمیشہ روزے رکھتا، موافق و ہمنوا صوفیا لوگ اُسے شیخ صالح اور امام ربانی کہتے۔ بقول حلاج جو شخص اطاعتِ الٰہی میں جسم کو پاک رکھے جسم قلب کو نیک اعمال میں مشغول رکھے لذاتِ دنیوی سے کنارہ کش ہو۔ نفس کی خاہشات سے پاک رکھے، پھر صفائی قلب اور تزکیۂ نفس کے نتیجہ میں اس کی ہستی بشریت سے پاک ہو جا تی ہے۔ تب خدا کی روح اُس میں حلول کرجاتی ہے ہر چیز اس کے تا بع ہو جا تی ہے۔ اس کے افعال خدا کے افعال ہوتے ہیں۔ حلاج لوگوں سے کہاتا کہ اُسے یہ درجہ حاصل ہو گیا ہے۔ لوگوں نے یہ بات وزیر مملکت حامد عباس کو بتائی کہ یہ شخص گمراہ ہو گیا ہے۔ جادو شعبدے دکھا کر معجزات کادعویٰ کرتا ہے۔ خدائی کا دعویٰ کرتا اورکہتا ہے کہ گھر بیٹھے حج ہو سکتا ہے۔ وزیر نے تحقیقات کرائی تو کئی منسوب شدہ الزامات درست پائے۔ چنانچہ حلاج کو قید کر دیا گیا۔ شیخ ابن عطار کا شمار بہت بڑے صوفیوں میں ہوتا ہے وہ حلاج کو حق پر سمجھتے تھے اور حلاج کی اسیری کے دوران اس سے ملنے جاتے تاکہ حلاج سے ان کی تحریریں اقوال حاصل کرکے محفوظ کر لی جائیں۔ حلاج کو قید کے دوران انھوں نے عوام میں بڑی جرات اور جواں مردی سے ان کی طرف داری کی۔ جس پر حکومت وقت کے کارندوں نے انھیں مار مار کر ہلاک کر دیا۔ شیخ ابو بکر اسحاق نے حلاج کو شب بیدار عبادت گزار قائم الیل کہا اور دنیاوی خواہشات سے مستغنی لکھا ہے۔ حلاج کو جب حضرت جنید سے اپنے مسائل کا تسلی بخش جواب نہ ملا تو وہ آشفتہ و غمگین ہوئے اور واپس تستر چلے گئے جہاں وہ وعظ و خطاب سے مخلوق کو اسرارِ خداوندی بتاتے رہتے اور لوگوں نے انھیں حلاج الاسرار کے نام سے یا د کرنا شروع کر دیا۔ ابن منصور حلاج کے عقائد ونظریات کا اندازہ ان کی تصانیف سے کیا جا سکتا ہے ۔ ابن ندیم نے ‘‘الفہرست’’ میں حلاج کی ۴۶ کتابوں کا ذکر کیا ہے اور سب کے ناموں کی تفصیل دی ہے۔ اسماعیل پاشا نے بھی انھی کتاب کی تصدیق کی ہے۔ البتہ اپنی فہرست میں ایک اور کتاب الجہیم الاصغر و الجہیم الاکبر کا بھی ذکر کیا ہے جو ابن ندیم کی فہرست میں نہیں۔ان تصانیف سے حلاج کے صاحبِ علم و دانش ہونے میں کوئی شبہ نہیں رہتا۔ جسے مخالفین جاہل و مگراہ کے الفاظ سے اپنی ذاتی تعصب کو تسین بہم پہنچاتے تھے۔ اب یہاں حلاج کے نعرۂ انا الحق کا جائزہ لیا جاتا ہے جو دراصل اُس کے خلاف ساری مہم کی جڑ ہے۔ انا الحق کا جملہ ابن منصور کی مشہور تصنیف کتاب الطواسین میں مرقوم ہے۔جس کی دریافت کا سہرا فرانش کے شہرۂ آفاق مستشرق لوئی مسامینوں کے سر ہے۔ جس نے اپنی زندگی کے ۵۵ سال اس متنازعہ فیہ لیکن فکری اعتبار سے انتہائی با اثر صوفی اور شخصیت کی سوانح حیات اور اس کے نظریات کی تحقیق میں صرف کر دیے۔ جس کی تحقیق کے نتیجہ میں حلاج کے بارے میں نیم تاریخی، غیر مصدقہ افسانوی واقعات و روایات و متضاد بیانات رفتہ رفتہ کم ہوتے گئے اور اس کی بجائے عالامہ سطح پر اس کے نظریات کا مطالعہ کا آغاز ہوا۔ اور علامہ اقبال جیسی معتبر ہستی کے خیالات میں یکسر تبدیلی رونما ہوئی۔ طواسین، قرآنی حروفِ مقطعات، طاسین کا مجموعہ ہے۔ اس کا مفہوم لفظ سجدہ کے گرد پھیلا ہوا ہے۔ یہ کتاب عربی میں گیارہ ابواب پر مشتمل ہے جو حلاج کی فکری سرگذشت ہے۔ جس میں وہ عقائد اور فکری و منطق استدلال سے پیدا ہونے والی کشمکش کو زیر بحث لاتا ہے اور استدلالی ڈھانچے کو عقل کے ذریعے نا قابل اعتماد قرار دیتا ہے۔ اس کتاب کا محوری نقطہ نبی کریمﷺ کی ذات پاک، واقعہ معراج اور حقیقتِ نورِ محمدیہ ہے۔ حلاج کے نزدیک الوہی حقائق کا ادراک مخلوق کے بس کی بات نہیں۔ مشاہدۂ تجلی ذات کے اصلی مقام پر آنحضرت ﷺ کے سوا کوئی شخص فائز نہیں ہو سکا۔ معراج کا واقعہ آپﷺکے بلندئ مقام کی خبر دیتا ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو کوہِ طور تجلی ذات کا موقع ملا مگر وہ بھی صاحبِ خبر ہیں۔ حضورﷺ اُن کے مقابلہ میں صاحبِ نظر ہیںؤ اس کے بعد منصور حلاج ہاتا ہے کہ میری مثال بھی ایسی ہے کہ میں جو کچھ کہتاہوں وہ اللہ کی طرف سے ہوتا ہے۔ مگر تعجب کی بات ہے کہ درخت سے انا للہ کی آواز آئے تو کوئی حرج نہیں اورمجھ میں انا الحق کی صدا بلند ہو توانکار اور مواخہ! آخر کیوں!موسیٰ علیہ السلام نے جو کچھ درخت سے سنا وہ درخت کی آواز نہیں تھی۔ بلکہ خود حق تعالیٰ کی آواز تھی۔ اس لیے جو کچھ میں کہتا ہوں اسے میرا کلام نہ سمجھنا چاہیے۔ ایک درخت اللہ تعالیٰ کی تجلی کا مزین بن جائے تو عجب نہین اور ایک ایسا انسان جو اشرف المخلوقات ہے اگر وہ الٰہی تجلی کا مرکز ہو جائے تو تعجب کیوں ہو؟ کتاب کے ایک باب میں حلاج نے بیان کیا ہے کہ حق تعالیٰ سے وصال اسی صورت میں ممکن ہے جب اپنی ذات کو فنا کر دیا جائے۔ اس کو راہِ سلوک کہا جاتا ہے۔ پہلے درجے میں انسان عالم ناسوت میں ہوتا ہے۔ دوسرا عالم ملکوت سے تعبیر کیا گیا ہے جسے عالم ارواح اور عالمِ غیب بھی کہتے ہیں ۔ تیسرا مقام عالمِ جبروت ہے جسے حقیقتِ محدایہ و مرتبۂ احدیت سے نسبت دی گئی ہے۔ یہ صفاتِ الٰہی کی عظمت و جلال کا مقام ہے یہ مرتبہ صور حضورﷺکو عطا ہوا ہے اور سب سے آخر مقام لاہوت ہے۔ حضورﷺپہلے تینوں درجات سے گزر کا مقام لاہوت پہنچ گئے اورجو قربِ خدا وندی آپ کو نصیب ہواوہ کسی اور کے حصے میں نہیں آیا۔ لیکن اگر کوئی حضورﷺسے نسبت کاملہ اور عشق حقیقی رکھتا اور آپ کی شریعت و سنت کا پوری طرح پا بند ہو تو ایسے شخص کے لیے بعید نہیں کہ اُسے اعلیٰ مقام کی فضیلت سے حصہ نہ ملے۔ یہاں حلاج موسیٰ علیہ السلام، ابلیس اور فرعون کا ذکر کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ابلیس مقامِ ذات کا سب سے بڑا دانائے راز ہے۔ اُس نے اپنے اُس مکالمے کو قلمبند کیا ہے جو اُس کا عالمِ خیال میں ابلیس اور فرعون کے ساتھ استقامت و ثابت قدمی کے بارے میں ہوا۔ ابلیس نے کہا اگر میں آدم کو سجدہ کرتا تو استقامت اور ثابت قدمی کے مقام سے گر جاتا۔ فرعون نے کہا اگر میں موسیٰ علیہ السلام کے خدا پر ایمان لے آتا تو میں بھی وقار اور مردانگی کے مقام سے گر جاتا۔ اس پر حلاج نے کہا کہ میں بھی اپنے قول اناالحق سے باز آجاؤں تو مقامِ عزت و وقار سے دور جا پڑوں گا۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ ابلیس و فرعون جو دونوں مردود ہیں اتنے ثابت قدم ہوں اور مَیں جو حق پر ہوں اور حق تعالیٰ کا ایک پرتوہوں اور اپنے دعویٰ انا الحق سے دست بردار ہو جاؤں۔ اس لیے کہوں گا کہ ثابت قدمی اور الولالعزمی میں ابلیس اور فرعون میرے اُستاد ہیں۔ ابلیس نے سجدہ سے انکار کرکے اللہ تعالیٰ کی شانِ کبریائی اور یکتائی کو قائم رکھا اور آدم کو سجدہ نہ کرکے کسی غیر کو اُس کا شریک نہ ٹھہریا۔ گویا بقول غالب: وفاداری بشرطِ اُسواری اصل ایماں ہے پروفیسر نکلسن لکھتا ہے کہ حلاج نے دو لفظوں میں انا الحق کا ایسا جملہ زبان سے ادا کیا ہے جسے اسلام نے معاف کر دیالیکن فراموش نہیں کیا یہ ایک ایسا وجدانی اور روحانی فارمولا تھاجس پر صوفیانہ دبستان کی پوری عمارت کھڑی ہے۔ رومی نے اناالحق کہنے والوں کو اس لوہے سے تشبیہ دی ہے جسے آگ میں ڈالا جائے اورلوہے کا رنگ آگ کی مانند ہو جائ۔ رومی کا کہنا ہے کہ بعض کے نزدیک حلاج انا الحق کہہ کر شرع سے آگے نکل گیا ہے مگر اہل بصیرت نے اُسے خلافِ شرع نہیں سمجھا۔ کیونکہ حلاج کو اناالحق کی ماہیت کا علم تھا اور وہ اللہ تعالیٰ کی ذات سے باخبر تھا کہ جو کچھ ہے ذاتِ بای تعالیٰ ہے اور مَیں بھی اسی ذاتِ باری تعالیٰ کی شعاؤں سے منور ہوں۔ ابن ِ عربی نے بھی اناالحق کی تشریح تمام تر وحدت الوجود کی روشنی میں کی ہے۔ حلاج کی طرح حضرت بایزید بسطامی کا قول سبحانی ما اعظم شانی اور ابن فرید کا قول اناالحی سے بھی وحدت الوجود کا نظریہ ثابت کرنا قرین قیاس ہے۔ امام فخر الدین رازی تفسیر کبیر میں لکھتے ہیں کہ حلاج کا نعرۂ انا الحق یہ معنی رکھتا ہے کہ کائنات میں اصل وجود حق ہے اس کے ما سوا جو کچھ ہے وہ ہلاک ہونے والا یعنی عدم ہے۔ امام غزالی فرماتے ہیں کہ حالتِ جذب و مستی کے عالم میں ماوراء عقل حقائق کا ادراک اتنا یقینی ہوتا ہے جیسے کوئی شخص ہاتھ سے کسی چیز کو چُھو کر اس کے وجود کو حقیقی سمجھتا ہے۔ بایزید بسطامی مزید کہتے ہیں کہ عرش مَیں ہوں ، کرسی مَیں ہوں، لوح و قلم مَیں ہوں، جبرئیل و میکائیل و اسرافیل مَیں ہوں، جو شخص حق تعالیٰ میں محو ہوجاتا ہے وہ حق بن جاتا ہے۔ حضرت مجدد الف ثانی لکھتے ہیں کہ بعض مشائخ کے اقوال جو بظاہر شریعت کے مخالف ہوتے ہیں۔ بعض لوگ انھیں توحیدِ وجودی پر محمول کرتے ہیں جیسے حلاج کا نعرہ انا الحق اور بایزید کا سبحانی کہنا۔ چونکہ غلبہ حال میں ماسویٰ حق تعالیٰ کے ہر شے ان کی نظر سے پوشیدہ تھی تو ایسے الفاظ صادر ہو گئے۔ انا الحق کا معنی ہے کہ حق ہے۔ مَیں نہیں ہوں، حضرت داتا گنج بخش فرماتے ہیں کہ حلاج سرسستانِ بادۂ وحدت اور مشتاقانِ جمال احدیت تھے اور اپنے حال میں اس قدر مغلوب ہو جاتے تھے کہ ان میں استقامت باقی نہیں رہتی تھی اور ایسے صوفیاء کی اتباع نہیں کرنی چاہیے۔ تاہم وہ حلاج کی عزت اورعظمت کے قائل تھے اور اُن کی سزا کےخلاف تھے۔ اب دیکھیں علامہ اقبال کیا فرماتے ہیں۔ پہلے پہل اقبال بھی حلاج کو دائرہ اسلام سے خارج سمجھتے تھے مگر جب انھوں نے ان کی کتاب الطواسین کا مطالعہ کیا جس کا مرکز حضورﷺ کی ذات اقدس سے والہانہ شگفتگی و وابستگی ہے تو ان کے خیالات میں تبدیلی واقع ہوئی ۔ پھر انھوں نے دیکھا ہوگا کہ اُن کے مرشد معنوی مولانا روم بھی حلاج کو پسند کرتے ہیں توان کی عقیدت اور بڑھ گئی چنانچہ وہ کتاب الطواسین کو بہت عزیز رکھتے تھے۔ حلاج کے اناالحق نے تصوف کی دنیا میں حشر برپا کر دیا۔ اُس نے برملا کہا مجھے مار ڈالا جائے، میرے ہاتھ پاؤں کاٹ دیے جائیں ، مَیں اپنے قول اناالحق سے باز نہیں آؤں گا اور واقعتاًاُسے تختہ دار چڑھایا گیا ۔ اُس کے ہاتھ پاؤں کاٹ ڈالےگئے مگر وہ اناالحق کہنے سے باز نہ آیا۔ اس نے انا الحق کے معانی بیان کیے۔ مگر لوگ اس کا صحیح مفہوم نہ سمجھ سکے اور اُس کے خلاف موت کا فتویٰ دے دیا گیا۔ مگر صاحب نظر بزرگانِ دین نے اُسے خراجِ عقیدت پیش کیا۔ جیسا کہ بیان کر دیا گیا ہے۔ تو اب یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ حلاج نے ‘‘انا’’کو خدا کے متشابہ قرار دیا ہے۔ خدا نہیں کہا حلاج کہتا ہے کہ رسول اکرم ﷺہی انا کے مفہوم کو جانتے ہیں ۔ انسانیت کی معراج بھی وہی تھے۔وہ جب حقیقت کے اعلیٰ ترین مدارج پر پہنچے تو قرآن حکیم کے مطابق ان میں دو قوسوں سے بھی کم فاصلہ تھا ۔ حلاج نے اس آیت کا بار با رحوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ رسول اکرم ﷺبلند ترین مدارج پر ہوتے ہوئے بھی اللہ تعالیٰ سے الگ رہے ان میں استقامت تھ ۔ وہ صابر و شاکر تھے ، بھلا وہ اناالحق سے مَیں خدا کیسے کہہ سکتے تھے۔ بلکہ اُس کا عقیدہ یہ تھا کہ محبت کرنے کی حقیقت یہ ہے کہ تو دلدار کے پہلو میں کھڑا رہے۔ اپنے اوصاف ترک کر دے اور حق کی صفات سے متصف ہو جائے۔ گویا خالق و مخلوق کوایک دوسرے سے جدا سمجھتے ہیں کہ حق ہمیشہ حق رہے اور مخلوق مخلوق۔ علامہ اقبال بھی انسان کو خدا کا حصہ قرار دیتے ہیں مگر اُسے خدا نہیں کہتے۔ مثلاً: ہاتھ ہے اللہ کا بندہِ مومن کا ہاتھ غالب و کار آفریں کارکشا کارساز خاکی و نوری نہاد بندۂ مولا صفات ہر دو جہاں سے غنی اس کا دلِ بے نیاز ان تصریحات کے بعد بھی اگر کوئی کہے حلاج نے خدائی کا دعویٰ کیا تو اُسے جہالت کے سوا کیا کہیں گے اورمحض ضد اور جھوٹی اَنا کے تحت حلاج کو سولی پر چڑھا دیا گیا۔ خیال آتا ہے کہ حلاج جیسا شخص جو حددرجہ عبادت گزار، ریاضت و مجاہدے میں مستغرق، مستقل روزہ دار، دن رات میں دو دفعہ چند نوالے روٹی اورچند گھونٹ پانی پر زندہ رہنے والا اورنفیس لباس و جسمانی و نفسانی خواہشات سے مستغنی ہو۔ آخر اس کی اتنی عبادت و ریاضت و نفس کشی عشقِ الٰہی کے لیے نہیں تھی تو کس کے لیے تھی ؟ ایسا شخص جو دن رات اللہ تعالیٰ کے حضور قیام و سجود میں رہتے ہوئے اپنی ہستی کو خدا کی ہستی میں معدوم جان کر ‘‘اناالحق’’ پکار اٹھے۔ گویا صرف اللہ تعالیٰ ہی حقیقت ہے ما سوا کچھ نہیں ہے تو اُس پر خدائی کا دعویٰ کرنے کا الزام لگا کر ہلاک کرنا کہاں تک حق بجانب ہے۔ اس کی عبادت تو احسان کی تعریف میں آتی ہے گویا: اصل نماز ہے یہی ، روحِ نماز ہے یہی میں تیرے روبرو ہوں تو میرے روبرو رہے تو ظاہر ہے ہوا کہ حلاج کو ہلاک کرنے والے برسرِ اقتدار دشمن طبقے اور گروہ مخالفین میں اُس کی بے باک گفتگو کی تاب لانے کا حوصلہ نہ تھا۔ کیونکہ سچ آکھیاں بھانپڑ مچدا اے۔ اور چونکہ حلاج بھی نعرۂ انا الحق بلند کرنے پر قائم رہا اور ہلاکت سے بالکل خائف نہ ہوا تو انجام تو یہی ہونا تھا کہ ‘‘کجھ شہر دے لوک وی طالم سن۔ کجھ مینوں مرن دا شوق وی سی’’۔ خود حلاج کی دوستیوں میں اس کا ذکر موجود ہے اور یہی اندیشہ ہائے گوں ناگوں اس ضمن میں اقبال کہتے ہیں : حیات کیا ہے؟ خیال و نظر کی مجذوبی خودی کی موت ہے اندیشہ ہائے گوناگوں یعنی اقبال نے زندگی کے اعلیٰ مقاصد کے حصول کے لیے خیال و نظر کی مجذوبی یعنی جذبۂ عشق کے تحت دیوانہ وار جدوجہد، عمل پیہم کو لازمی قرار دیا ہے۔ مگر اس طوفانِ آفرین میں توازنِ استقامت اور جوش کے ساتھ ہوش ضروری ہے۔ جس سے حلاج ارادتاًبے نیاز رہا۔ لہذا وہ ناراض معاشرے اور کرگسوں کے انتقام کا شکار ہوگیا۔ اقبال خود بھی مذہبی تقلید پسند ٹھیکداروں کی تنگ نظری کا شکار ہوا۔ اس کے کلام اور اسرارِ خودی کی وجہ سے کفر کے فتویٰ لگے اور اگر اُس کے دکن میں دئیے گئے انگریزی کی اعلیٰ انشاء پردازی میں دانشورانہ اور مجتہدانہ لیکچر اُن کی سمجھ میں آ جاتے تو ممکن ہے اقبال کو بھی منصورثانی بنا دیا جاتا ۔ بہرکیف تقلید پر مضرِ ر جعت پسند علما نے اپنی تنگ نظری اور کم علمی کی وجہ سے اسلام کی ارتقائی حیثیت کبھی قبول نہیں کی۔ بلکہ زمانے کے جدید تقاضوں کے خلاف اپنی طرزِ کہن پر اڑتے ہوئے مطلق العنان، جابر اور عیش پرست حکمرانوں کے جامد و ساکت اور کوتاہ اندیشہ رویوں کو خوف یا طمعِ زر کے تحت اپنے فتوؤں سے تحفظ دے کر اسلامی دنیا کے لیے زمانے کے حالات کے مطابق ترقی کرنے کے راستے مسدود کردیے۔ نتیجہ سب کے سامنے کہ اللہ تعالیٰ کے غالب دین کے عالم اسلام میں پیروکارانِ تقلید اور رجعت پسند عانصر کی وجہ سے بے علمی، بے عملی کے ہاتھوں آج مغلوب و مقہور، غلامی، ذلت اور پس ماندگی میں مبتلا ہیں اور نجات کے لیے کسی مردِ غیب کی آمد میں ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظر بیٹھے ہیں۔ اقبال نے صحیح کہا ہے: خبر نہیں کیا ہے نام اس کا خدا فریبی کہ خود فریبی؟ عمل سے فارغ ہوا مسلماں بنا کے تقدیر کا بہانہ اقبال نے الطواسین کا مطالعہ کیا تو ان پر منکشف ہوا کہ حلاج نے فنائے خودی نہیں بلکہ اثبات خودی کا درس دیا تھا۔ چنانچہ دیکھتے ہیں کہ اقبال نے جا بجا حلاج کے خیالات سے اتفاق کیا ہے اور انا الحق کی شرع اس طرح کی ۔جو حلاج کا مقصود تھا۔ وہ حلاج کے اور اپنے خیالات میں اس قد ر مماثلت پاتے ہیں کہ اپنے آپ پر حلاج کی تشبیہ دیتے ہیں اور لکھتے ہیں کہ انھوں نے بھی حلاج کی طرح ہی راز خودی فاش کیا ہے۔ مثلاً: حلاج کی لیکن یہ روایت ہے کہ آخر ایک مردِ قلندر نے کیا راِزِ خودی فاش کیا نوائے انا الحق کو آتشیں جس نے تری رگوں میں وہی خوں ہے قم باذن اللہ اور جا وید نامہ میں کہتے ہیں کہ : کم نگاہاں فتنہ ہا انگیختند بندۂ حق را بدار آویختند اور جب اقبال حلاج سے پوچھتے ہیں کہ تمھارا گناہ کیا ہے؟ تو کہتا ہے کہ میرا گناہ وہی ہے جو تمھارا ہے لہٰذا تمھیں بھی ڈرنا چاہیے۔ کیونکہ تمھارے دور میں بھی کم نگاہاں افراد بکثرت موجود ہیں جو معلوم تمھارے ساتھ کیا کر گزریں گے؟ آنچہ من کردم تو ہم کردی بترس محشر بر مردہ آوردی بترس چنانچہ معلوم ہوا کہ علامہ اقبال بھی وہی کچھ کر رہے ہیں جو حلاج نے کیا تھا بلکہ وہ نہ صرف خود اناالحق کہہ رہے ہیں بلکہ دوسروں کو بھی کہنے کا پیغام دے رہے ہیں۔ اس فرق کے ساتھ کہ اقبال کا ‘‘اناالحق’’ ہستی انسان کو صرف باطل کی طرح مٹانے کی بجائے ، قطرے کے اندر دجلہ دکھاتا ہے۔ جاوید نامہ میں اقبال نے جہاں مشاہیرِ اسلام کا ذکر نہایت دلپذیر انداز میں کیا ہے۔ وہاں حلاج کو نمایاں خصوصیت حاصل ہے جس کی زبانی علامہ نے بڑے دلکش اشعار کہلوائے ہیں۔ جو لازماًحلاج کی کتاب الطواسین کا کرشمہ ہیں۔حلاج کے متعلق متشرق میسی نیون نے لکھا ہے کہ وہ تقدیر پرستی کا قائل تھا اورانسان کو افعال و اعمال میں مجبور سمجھتا تھا۔ مگر علامہ اقبال کے جبرکے نہیں قدر کے قائل ہیں۔ حلاج کے جبر کی بڑی خوبصورتی سے تعریف کرتے ہیں اور اسے قدر کا ہی ایک رخ قرار دیتے ہیں۔ اشعار ملاحظہ ہوں: حلاج ہر کہ از تقدیر دارد سازو برگ لرزد از نیروئے او ابلیس و مرگ جبر، دینِ مردِ صاحب ہمت است جبر مرداں، از کمالِ قوت است پختہ مردے پختہ تر گردد زجبر جبر مرد خام را آغوشِ قبر جبر خالد عالمے برہم زند جبر ما بیخ دبنِ ما برکند کارِ مرداں است تسلیم و رضا بر ضعیفاں راست ناید ایں قبا یہ وہ جبر ہے جس سے اختیار ملتا ہے۔ یعنی ضبطِ نفس بذریعہ اطاعت الٰہی ۔ می شود از جبر بیدا اختیار ان اشعار میں انھوں نے حلاج کے نظریۂ جبر کا دفاع کیا ہے کہ مردِ کامل کے لیے جبر بھی قوت بن جاتا ہے جیسے حضرت خالد بن ولید کے لیے۔ مگر نا پختہ لوگوں کے لیے جبر کا نظریہ موت کی حیثیت رکھتا ہے ۔ تسلیم و رضا کا سبق پختہ کار لوگوں کے لیے مناسب ہے۔ کمزوروں اور غلاموں کے لیے نقصان دہ ہے۔ دراصل اقبال کی شاعری مسلمانوں کو ترقی ے مدارج طے کرنے کے لیے رقم کی گئی ہے۔ اہلِ اسلام کو غلامی کی زنییروں سے آزاد کرنے کے لیے انھوں نے جبر کی بجائے قدر اور خود انحصاری کی راہ کو پسند کیا۔ لیکن اگر کوئی جبر کا قائل بھی کارہائے نمایاں سرانجام دے جیسے حلاج نے جاں کی بازی لگائی تو انھیں اُس کے جبر پر پیار آنے لگتا ہے۔ چنانچہ وہ مرد مومن کے بر کو بھی قدر ہی قرار دیتے ہیں۔ علامہ اقبال نے جاوید نامہ میں حلاج، قرۃ العین، طاہرہ اور غالب کو سفر فردوس میں فلک مشتری پر اکٹھے دکھایا ہے۔ ان تینوں کو اقبال نے طبقہ عشاق میں شمار کیا ہے۔جن کا عقیدہ ہے ۔ کسے کہ کشتہ نشد از قبیلۂ ما نیست۔ عشق کے اِن شہسواروں سے اقبال کو بے حد پیار ہے۔ وہ ان سے مختلف سوالات کرتے ہیں۔ جن میں حلاج سے کیے گئے سوالات و جوابات خاص اہمیت رکھتے ہیںؤ اقبال نے ان پاکیزہ ارواح کو جنت میں داخلہ نہیں دیاگیا۔ بلکہ انھوں نے خود ہی جنت میں پابند ہو کر رہنا پسند نہیں کیا اور کائنات میں آزادانہ سیر بینی اور گردش کو ترجیح دی ہے۔ اقبال نے جب حلاج سے پوچھا کہ وہ مومنوں کی جنت سے کیوں دور رہتے ہیں تو وہ جواب دیتا ہے کہ جو شخص نیک و بد کے فلسفہ سے آگاہ ہے اُس کی روح جنت میں نہیں سما سکتی۔ وہ مُلاّاور آزاد مردوں کی جنت کا فرق بتاتا ہے اور وضاحت کرتا ہے کہ فراق سے عشق کی آگ بھڑکتی ہے اور یہی عشاق کے لیے سازگار ہے۔ اقبال بھی وصال سے زیادہ فراق کے قائل ہیں اور مُلاّ کی جنت کو پسند نہیں کرتے۔ حلاج کی زبانی اقبال نے اپنے خیالات کا اظہار اشعار میں اس طرح کیا ہے: مردِ آزا دے کہ داند خُوب و زِشت می نگنجد رُوحِ اُو اندر بہشت جنتِ مُلاّ مئے د خور و غلام جنتِ آزاد گاں سیرِ دوام جنت مُلاّ خور و خواب د سُرور جنت عاشق تماشائے وجود حشرِ مُلاّ شقِّ قبر و بانگِ صور عشقِ شور انگیز خود صبحِ نشور ایں دلِ مجبور ِ ما مجبور نیست ناوکِ ما از نگاہِ حورُ نیست زیستن این گونہ تقدیرِ خودی است از ہمیں تقدیر تعمیرِ خودی است پھر وہ حلاج سے جناب رسالتمآب ﷺکی عظمت کا راز پوچھتے ہیں۔ کیونکہ اُسے رسولِ اقدس کی ذات پاک سے والہانہ عقیدت و محبت تھی۔ اوراس کے جواب میں حلاج سے لاجواب شعر کہلوائے ۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں: پیش اُو کیتی جبیں فرسودہ است خویش را خود عبدۂ فرمودہ است عبدۂ از فہم تو بالا تر است ز آنکہ او ہم آدم و ہم جوہر است عبدۂ صورت گرِ تقدیر ہا اندر و ویرانہ ہا تعمیر ہا عبدۂ ہم جانفرزا ہم جانستاں عبدۂ ہم شیشہ ہم سنگِ گراں عَبد دیگر عبدۂ چیزے دگر ما سراپا انتظار اُو منتظر عبدۂ دہر است ودہر از عبدۂ ست ما ہمہ رنگیم اُو بے رنگ و بُو ست عبدۂ با ابتدا بے انتہا ست عبدۂ را صبح و شامِ ما کجاست کس ز سرِّ عبدۂ آگاہ نیست عبدۂ جُز سرِّ الاّ اللہ نیست جاوید نامہ میں حلاج کی زبان سے عبدۂ کی تعریف میں جو کہا گیا ہے وہ اُنھی نادر عشقِ رسالت میں ڈوبے خیالات کی بازگشت ہے جو حلاج نے اپنی کتاب الطواسین میں بیان کیے ہیں۔ لگتا ہے کہ الطواسین کے مطالعہ سے اقبال میں ابلیس کے متعلق خیالات میں بڑی تبدیلی پیدا ہوئی اور اس کے بعد وہ آئندہ اشعار میں رومی کی زبان سے ابلیس کو خواجۂ اہلِ فراق ہی کہتے ہیں۔ ابلیس خدا تعالیٰ سے کہتا ہے کہ مجھ سے بڑھ کر علام میں تیرا شناسا کہاں ہے؟ مجھے تجھ سے محبت ہے ایسی محبت جو شدیدی بھی ہے اور قدیمی بھی ہے۔ اب میں تیرے سوا کسی اورکو کیسے سجدہ کروں؟ عالم سوز و ساز میں وصل سے بڑھ کے ہے فراق وصل میں مرگِ آرزو ہجر میں لذتِ طلب گرئ آرزو فراق شورش ہائے و ہُو فراق موج کی جستجو فراق نقطرے کی آبرو فراق جدائی شوق را روشن بصر کرد جدائی شوق را جوئندہ تر کرد بہرکیف ابلیس کے بارے میں اقبال کے تحسین آمیز خیالات کے باوجوداُسے مردود سمجھتے ہیں کیونکہ اُس نے تکبرمیں آکر خدا کی نافرمانی کی اور اُسے تقدیر و مجبوری کا نام دیا۔ تاہم معلوم ہوتا ہے کہ ابلیس کا آدم کو سنجدہ نہ کرنا ایسی مشیت خدا وندی تھی۔ مرشد اقبال حضرت رومی کے بقول انکار سجدہ کو مشیت الٰہی کہنے پر عزازیل کو ابلیس کا لقب ملا۔ کہ اس نے اپنے جرم کا الزام اللہ کو دیا (تقدیرِ الٰہی) اور مردود ٹھہرا ۔آدم و حوا نے شجرِ ممنوعہ کے پاس جانے کو اپنا جرم کہا اور خلافتِ ارضی کے سزا وار ٹھہرے۔ اقبال اسی فکر کا نمائندہ ہے۔ وہ جمادات و نباتات کو تقدیر کا ذاتی مگر انسان کو احکام الٰہی کا پابند تسلیم کرتا ہے۔جس نے آدم کی ابلیس پر فوقیت ظاہر کرکے اُسے دنیا میں بھیج کر رزمگاہ حق و باطل کے لیے تیار کرنا تھا۔ بقول اقبال: ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا مروز چرچراغ مصطفوی سے شرار بولہبی اب ابلیس کے بارے میں اقبال کے خیالات میں حلاج سے زیادہ وسعت ہے۔اگرچہ حلاج کے خیالات نے ہی اقبال کے خیالات کو مہمیز لگائی ہے۔ حلاج کی زندگی کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لینے کے بعد آخر میں اُس کے دلخراش، عبرتناک انجام کی طرف آتے ہیں۔ یہ حقیقت بالکل واضح ہے کہ حلاج انوکھی اور الگ تھلگ طبیعت و مزاج کا مالک تھا۔ اُس کی فطری ذہانت ، فطانت اور احساس برتری نے اُسے ہمیشہ بے چین اور سیماب پا رکھا۔ اُس کے ذاتی احساسِ برتری نے اپنے برگزیدہ معلمانِ کرام، ہمدرسوں، ہم جلیسوں سمیت کسی کے آگے جھکنا یا سمجھوتہ کرنا نہ سیکھا تھا۔ چنانچہ وہ اپنے اوّلین استاد سہیل تستری ، حسن بصری دیگر اصحاب علم و فضل پھر بغداد میں عمروعثمان المکی اپنے سسر اور حضرت جنید بغدادی اور کسی سے بھی نباہ نہ کر سکا۔ جس کی بنیادی وجہ حلاج کے پیچیدہ، غیر شرعی، اختراعی سوالات ہوتے۔ یا خلافِ شرع بیانات۔ مثلاًایک دوست کو کہا کہ میں قرآن حکیم کا مثل لکھ سکتا ہوں۔ جس پر وہ شخص ناراص ہو کر ہمیشہ کے لیے چلا گیا۔ اس طرح حلاج نے عمرو عثمان المکی اور حضرت جنید بغدادی کا الٰہی راز افشا نہ کرنے کی تلقین کو تکرار سے ردّ کر دیا۔ چنانچہ حضرت جنید بغدادی نے پیش گوئی کہ میں تمھیں سولی پر دیکھ رہا ہوں۔ حلاج کی تلوّن مزاجی کے پیش نظر غالب نے اُس کے بارے میں ٹھیک کہاہے۔ قطرہ اپنا بھی حقیقت میں ہے دریا لیکن ہم کو منظور تنگ ظرفئ منصور نہیں ۔ (دیوانِ غالب) مگر حلاج کا اپنا نظریہ اور رویہ فیض کے شعر کے مطابق اس طرح کا ہے: مقام فیض کوئی راہ میں جچا ہی نہیں جو کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے اس کے باوجود مولانا سید سلیمان ندوی کی رائے میں بڑا وزن ہے کہ حلاج شہیدِ شریعت سے زیادہ قتیل سیاست ہے۔ کیونکہ خلیفہ وقت مقتدر باللہ پر لے درجے کا عیاش دن رات عورتوں اور خبرو لوندوں میں گھرا رہتا ہے۔اُس کے درباری، وزیر قاضی ، حاجب، سپہ سالار، کارندے سبھی کرپٹ، بددیانت، زرپرست، عیاش اور رشوت خور تھے۔ خلافتِ عباسیہ زوال کی طرف رواں دواں تھی۔ چنانچہ خلیفہ اور اہلکارانِ دربار حلاج کی عوام میں مقبولیت سے خوفزدہ تھے اور اس کی تبلیغی تحریک کو اپنے لیے خطرہ سمجھتے تھے۔ ان حالات میں اُن کے پاس حلاج کو ہلاک کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔ چنانچہ اُس پر اس طرح کے الزام لگا کر موت کا فتویٰ حاصل کیاگیا۔ کہ حلاج: ۱-انا الحق کہہ کر خدائی کا دعویٰ کرتا ہے۔ ۲-حلول کا قائل ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ہستی اُس میں اس طرح حل ہے ۔ جس طرح شراب میں صاف پانی۔ ۳-حج کو لازم نہیں سمجھنا اور کہتا ہے کہ گھر بیٹھے حج ہو سکتا ہے۔ ۴-قرامطی فرقے سے تعلق رکھتا ہے(حالانکہ وہ سنی تھا، قرامطی نہیں تھا) جنھوں نے صبح شام صرف دو دو رکعت نمازیں فرض قرار دی ہیں۔ اُس کے علاوہ زکوۃ ختم، غسلِ جنابت غیر ضروری، بہن بیٹی کا رشتہ حرمت ختم، علی ہذا القیاس۔ چنانچہ آٹھ سال سات ماہ قید کے بعد آخر سزا پر عملدرآمد اس طرح کیا گیا کہ پہلے اُسے ایک ہزار کوڑے لگائے گئے۔ روزانہ اُسے سولی پر لٹکایا جاتا اور سنگ زنی کی جاتی۔ شورش سے بچنے کے لیے باقی سزا جلدی اس طرح دی گئی ۔ پہلے دن اُس کے ہاتھ پاؤں کاٹے گئے۔ اُس دن اُس کے دوست ابو بکرشبلی نے دریافت کیا۔ بتاؤ تصوف کسے کہتے ہیں ؟ جواب دیا کہ جو تم دیکھ رہے ہو۔ یہ اُس کا ادنیٰ درجہ ہے۔ پوچھا کہ اعلیٰ درجہ کیاہے؟جواب دیا کہ کل دیکھ لینا۔ دوسرے دن اُس کے کان، ناک ، زبان کاٹے گئے اور آنکھیں نکالی گئیں۔ پہلی دن ہاتھ کٹنے کے بعد حلاج نے خون آلودہ بازو چہرے پر مل لیے تاکہ خون نکل جانے کی وجہ سے چہرے پر زردی سے وہ کمزور، خوفزدہ اور غمگین نظر نہ آئے ۔ گویا وہ چیلنج قبول کر رہا تھا۔ بقول فیض: کرو کج جبیں پہ سر کفن مرے قاتلوں کو گمان نہ ہو کہ غرور عشق کا بانکپن پسِ مرگ ہم نے بھلا دیا جو رُکے تو کوہِ گراں تھے ہم جو چلے تو جاں سے گزر گئے رہِ یار ہم نے قدم قدم تجھے یادگار بنا دیا (فیض احمد فیض) تیسرے دن حلاج کی گردن اتار دی گئی۔ اُس کے جسم کو جلا دیا اور راکھ دریائے دجلہ میں بہا دی گئی۔ اس تمام اذیت ناک اور انتہائی وحشیانہ سزا کو حلاج نے نہایت صبر، حوصلے، اطمینان اور استقامت سے برداشت کیا۔ گویا اُسے سزا کی بجائے جز مل رہی ہے۔ اُسے اپنی منزل مل گئی اور وہ اپنے انجام پر شادشاکر و مطمئن ہے۔ فیض نے اس کیفیت کو یوں بیان کیا ہے۔ راہ تھی فیض سر بسر منزل ہم جہاں پہنچے کامیاب آئے اسی رمز میں فیض نے یوں بھی کہا ہے : سہل یوں را زندگی کی ہے ہر قدم ہم نے عاشقی کی ہے حرف ِ آخر کی طور پر حضرت داتا صاحب کا فرمان فیصلہ کن حیثیت رکھتا ہے کہ حلاج سرمستانِ بادۂ وحدت اور مشتاقِ جمال احدیت تھا۔ ایسے صوفیاچونکہ مغلوب الحال، استقامت اور سلامت روی سے عاری ہوتے ہیں۔ اس لیے اُن کا کلام لائق اتباع و پیروی نہیں ہوتا۔ تاہم علامہ اقبال کے نزدیک حلاج کی عشق الٰہی میں غرق اور سرکارِ دو جہاں کی محبت میں سرفروشانہ اور مجاہدانہ زندگی میں بھی دوسروں کے لیے عمل ِ پیہم اور خودی کی نشوونما کا پیغام ہے کہ وہ دنیا میں آئے ہیں تو کچھ کرکے اور بن کر دکھائیں۔ جو انسانی زندگی کا مقصد ہے۔ چاہے اس کٹھن راہ میں کتنے ہی مصائب کیوں نہ جھیلنے پڑیں۔ چنانچہ حلاج کے بارے میں مذکورہ بالا معروضات کا خاتمہ اس شعرپر مناسب معلوم ہوتا ہے: بنا کر دند خوش رسمے بخاک دخون غلطیدن خدا رحمت کند ایں عاشقانِ پاک طینت را حواشی اقبال کا نظریۂ توحید و رسالت۔ ایمان و یقیں اور زندگی فرمودۂ اقبال ہے: فطرت افراد سے اغماض بھی کر لیتی ہے کبھی کرتی نہیں ملت کے گناہوں کو معاف عالمِ اسلام کی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو نظر آتا ہے کہ بادئ برحق حضرت رسول ﷺ کی بعثت کے بعد ہدایت و رشد کے ذریعے جو علمی و عملی انقلاب آیا اس کے نتیجہ میں ایمانی جوش و جذبہ کے تحت ایک سو سال کے عرصہ یں ملتِ اسلامیہ کرّہ زمیں پر تین برِّاعظموں کے وسیع و عریض علاقہ پر فاتح قوم کی حیثیت سے حکمرانی کرنے لگی اور چھ سو سال تک سقوط بغداد سے پہلے ان کے زیرنگیں ممالک میں دین اسلام کی حقانیت کے زیر اثر تمام علوم متداولہ میں بے پناہ ترقی ہوئی۔ دینی علوم کے علاوہ عمرانیات، طب ، ادب و سائنس ، تعمیر ہندسہ اقلیدس اور دیگر علوم و فنون کو بہت فروغ ملااور یہ حقیقت تسلیم شدہ ہے کہ مغربی سائنس ترقی عالمِ اسلام کی بنا کردہ تہذیب و ترقی کی توسیع ہے۔ مثال کے طورپر دیکھیں کہ گیارہویں صدی کے آغاز میں سلطان محمود غزنوی کے ایک بے مثل شجر عالم ابو ریحان البیرونی نے زمین کا محیط ۲۵ ہزار میل کے قریب حساب لگا کر بتا دیا تھا۔ جب کہ اس وقت یورپ جاہلیت اور پست معاشرتی حالت میں تھا ۔ جب کہ ۵۰۰ سال بعد سولہویں صدی میں دنیا کے مسیحی مراکز اٹلی میں گلیلیو نے زمین کے گول ہونے کا اعلان کیا تو عیسائی مذہبی پیشوا۔ں اور عوام نے اس پر کفر کا فتویٰ لگا کر موت کی سزا دے دی۔ بے چارے گلیلیو نے جان بچانے کی خاطر اپنا اعلان واپس لے لیا اور نہایت عاجزی سے اپنی غلطی کا اقرار کرتے ہوئے معافی کا خواستگار ہوا۔ اس پر بھی اُسے یہ رعایت دی گئی کہ اُسے کفر کے جرم کی پاداش میں ملک بدر کر دیاگیا۔ عیسائی دنیا نہ جانے کب تک پس ماندہ حالت میں رہتی ۔ اگر اسپین کی مسلمان حکمرانوں کی قائم کردہ درسگاہوں سے غیر مسلم لوگوں کو حصولِ تعلیم کا موقع نہ ملتا۔ جس کے بعد استفادہ کرنے والوں میں مارٹن لوتھر، والٹیر، روسو ،لاک، ہوبزنے کلیسائی علما کی جاہلیت کا پول کھولا اور اُن کی جاہلانہ جمود پر مبنی رسوم و رواج عقاید کے خلاف بغاوت کرکے اسلام کی روشن خیالی کو رہنما بنا کر علومِ جدید ، سائنس و حکمت ، صنعت گری کی طرف رجوع کرکے ایسا انقلاب پیدا کیا۔ جس کے نتیجہ میں آج کی حیران کرنے والی ترقی ہمارے سامنے ہے۔ اس کے برعکس مسلمان رفتہ رفتہ سہل پسند ہو کر ایمان و یقین و تعمیری عمل سے دور چلے گئےاور ان کی عظمت اور شان و شوکت بقول علامہ اقبال استبدادی ملوکیت ، خود غرض، ملائیت اور تارکِ عملی اور خانقاہیت کے تباہ کن اثرات سے انھی مغربی قوتوں کے محکم ہو گئے۔ جن پر کبھی وہ خود حکومت کرتے تھے۔ اس کیفیت کو اقبال نے یوں بیان کیا ہے: لے گئے تثلیث کے فرزند میراثِ خلیل خشتِ بنیاد کلیسا بن گئی خاکِ حجاز مگر وہ علم کے موتی کتابیں اپنے آباء کی جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سیپارہ ایک اور شاعر کا شعر اقبال نے حوالے کے طورپر اپنے کلام میں لکھا ہے: غنی روزِ سیاہِ پیرِ کنعاں را تماشا کن کہ نورِ دیدہ اش روشں کند چشم زلیخارا مگر حقیقت کی نظرسے دیکھیں تو خود کردہ را علاج نیست۔ اس ادبار، پستی و بدنصیبی اور پس ماندگی کی ذمہ دار خود انتشار شدہ عیش و سہل پسندی کی عادی ملتِ اسلامیہ ہے۔ اقبال نے یہ ساری داستان ایک شعر میں سمو دی ہے: میں تجھ کو بتاتا ہوں تقدیر اُمم کیا ہے شمشیر و سناں اول طاؤس درباب آخر یوں تو عالم ِ اسلام گذشتہ کئی صدیوں سے سقوط بغداد، سقوط غرناطہ ۱۹۲۱ء میں اختتام خلافت عثمانیہ مغربی استعماری قوتوں کے ذریعے ایک عبرتناک سلسلہ ہے۔ مگر ہندوستان جہاں کی ہماری اپنی بودو باش ہے اُس کی داستان بھی ایسی ہی المناک ہے کہ سینکروں برسوں ہندوستان پر متواتر حکومت کرنے کے بعد اورنگ زیب عالمگیر کی وفات کے بعد نفس پرست، عیاش ، کوتہا اندیش مغل حکمرانوں کا سلسلہ چل پڑا۔ انگریزوں نے جو تاجروں کی صورت میں ہندوستان میں وارد ہوئے انھوں نے حکمرانوں کی کمزوری کو سمجھ لیا اور ن کی باہمی عداوتوں و نا اتفاقی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مزید ایک دورے کو آپس میں بدظن کرکے لڑاتے اور بک جانے والے غداروں کے ذریعے آہستہ آہستہ ہندوستانی حکومتوں کو ختم کرتے ہوئے ملک پر اپنی حاکمیت قائم کر لی۔ چنانچہ ۱۷۵۷ء میں جنگ پلاسی، غدار میر جعفر کے ذریعے بنگال پر قبضہ ۱۷۹۹ء میں میسور کے شیر دل دانا حب الوطن ٹیپو سلطان کو نواب صادق کی غداری کے ذریعہ اور ۱۸۵۷ء میں نام کے بادشاہ بہادر شاہ ظفر کو مٹاتے ہوئے آخر شب چراغ سحری کی طرح نام کی حکومت کو بھی گل کرکے بلاشرکت غیرے تمام ہندوستان پر قابض ہو گئے۔ جس کے بعد مسلمانانِ ہند کا نہایت پرآشوب دور شروع ہوا۔ پہلے تو انگریزی فوج نے بغاوت کے الزام میں اَن گنت مسلمانوں کو مسلمان ہونے پر تہ تیغ کیا، پھانسیوں پر لٹکایا، کالے پانی کی عمر قید سزائیں دیں۔ معاشرتی طورپر شکست خوردہ مسلمانوں کی ذلت اور نکبت انتہا کو پہنچ گئی۔ جب فارسی کی جگہ ملک و دفاتر میں انگریزی زبان رائج کر دی۔ تمام مسلمان یکسر بے روزگار ہو گئے۔ علماء نے انگریزی زبان میں حصولِ علم خلافِ اسلامی عمل قرار دیا۔ ہندوؤں نے فوراًانگریزی زبان میں تعلیم قبول کر لی۔ انگریزوں کو مسلمانوں کے ہاتھوں صلیبی جنگوں کی وجہ سے ویسے ہی عداوت و نفرت تھی۔ انھوں نے ہندوؤں پر تمام ملازمتوں کے دروازے اور بااختیار ادارے وا کر دیے اور تمام تجارت پر ویسے ہی ہندو قابض تھے۔ ان حالات میں مسلم قوم کی معاشی حالت سخت بدتر ہوتی گئی۔ مزید برآں مسلم شرفا کی کمزوری مالی حالت میں انھیں قرضے دیکر ان کی مجبوریاں کا فائدہ اٹھا کر جائیدادیں اور زمینیں قرق کرانی شروع کر دیں۔ ہندو کارندے جو پہلے مسلمانوں کے ملازم ، منشی ،زمینوں پر کاشت کرنے والے مزارعے تھے۔ مالک بن گئے۔ غالب کی مثال دی جا سکتی ہے جس کا والد چھاسیہ دیگر رشتہ دار نواب جاگیر دار تھےؤ مگر ۱۸۵۷ء کے سانحے کے بعد نہ جاگیریں رہی ، نہ پنشں، نہ مغل بادشاہ کا وظیفہ رہا۔ تنگدستی کی حالت میں گھر کے برتن اورکپڑے بیچ کر کسی طرح اپنی اور افراد خانہ کی تن پروری کرتا رہا۔ اس دوران میں ان کا ایک شاگرد شیونارائن جس کا والد غالب کے آباء کا ملازم تھا۔ اس کی مدد حقِ شاگردی اور احترام میں کرتا رہا۔ تاوقتیکہ نواب رامپور نے غالب کی دستگیری کا ذمہ لیا۔غالب جیسے نابغۂ عصر شخصیت کی زبوں حالی بے قدری سے عام مسلمانوں کی حالت کا بخوبی اندازہ ہو سکتا ہے۔ مگر مسلمان جو علمی، عقلی، طاقت، لیاقت میں دوسری قوموں سے کہیں برتر تھے۔ حالات کی مشکلات کے باوجود نا امید نہ ہوئے۔ اُں میں سرسید اوران کے مخلص رفقاء نے وقت کی نبض کو سمجھ کر حالات سے نپٹنے کا لائحہ عمل وضع کرلیا اورانھوں نے بدیشی حاکموں اور مقامی مخالف قوم سے نبردآزما ہونے کے لیے قوم کے دل سے مایوسی اور ناامیدی ختم کرنے کے لیے گوشہ ا سلامی عظمت کا احساس دلایااور کوی ہوئی شان و شوکت کو دوبارہ حاصل کرنے کے لیے حالات کے تقاضوں کے مطابقوقار طریقہ سے جدید علوم سے خود کو آراست کرنے کی تلقین کی۔ منزل کی درست سمت طے ہو گئی تواسلامیان ہند حصولِ آزادی کے لیے کوشاں ہو گئے۔ علامہ اقبال ان مخلص رہنماؤں کے سلسلہ کی آخری کڑی تھے۔ جو اپنے بے پایاں علم، مسلمانوں کے علاوہ تمام انسانیت کے درد مند، عمل و حرکت کے علمبردار، توحید اور رسالت پر مکمل ایمان و پیہم پر یقین رکھنے والے، بیداری و ہوشمندی کو آرام طلبی و بے عمل عبادات پر ترجیع پسند۔ خودآگاہی، و خودشناسی سے اپنے اوصاف کو بروئے کار لا کر قوم کو رفعتوں پر دیکھنے کے شدید متمنی تھے ۔اور صحیح معنوں میں حکیم الامت تھے۔ انھوں نے قوم کو بیدار کرتے ہوئے خالق کائنات اور اس کے محبوب کی لاریب تعلیمات پر مکمل ایمان و یقین کے ذریعہ مسلسل جدوجہد ، تگ و تاز ، جسے وہ عشق کا نام دیتے ہیں کہ ذریعے خودی کی تکمیل کا درس دیا۔ جنھیں عشق کی حالت میں توحید پر مکمل یقین کے ساتھ اطاعت کرنے اور ضبط نفس کے ذریعے فروعی دنیاوی خواہشات کو قربان کرکے ضابطۂ حیات کے اعلیٰ مقاصد کے حصول میں ہر دم کوشاں رہ کر وابستے افرادِ مسالکین و سائین کو بے لوث عبادت، ریاضت اور حصول مقصد کی سچی لگن اور ذوق و شوق کے ذریعے حصولِ منزل میں کامیاب ، قربِ الٰہی میں کامران، دنیاوبی کامیابیوں کے علاوہ ماورائی مراتب بھی عطا ہوتے ہیں۔ یعنی ان کی دعائیں مستجاب ہوتی ہیں اوران کے افعال و اعمال میں خدا تعالیٰ کی رضا شامل ہوتی ہے۔ بقول اقبال: ہاتھ ہے اللہ کا بندۂ مومن کا ہاتھ غالب و کار آفریں کار کشا کارساز خاکی و نوری بندۂ مولا و صفات بر دو جہاں سے اُس کا دل بے نیاز اس کی امیدیں قلیل اس کے مقاصد جلیل اس کی ادا دلفریب اس کی نگہہ دلنواز نرم دم گفتگو، گرم دم جستجو لازم ہو یا بزم ہو پاک دل پاک باز نگہ بلند سخن دلنواز جاں پر سوز یہی ہے رکت سفر میر کارواں کے لیے غرضیکہ دین اسلام کا سچا پیروکار ہونا آسان نہیں ۔ یہ شہادت گہ الفت میں قدم رکھنا ہے لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلماں ہونا چنانچہ اقبال کے پیمبرانہ کلام کو اسلامیان ہند نے حرزِ جاں بنا کر آزادی وطن کے حصول اور عظمت رفتہ کی بازیافت پر پُر عزم ہو کر ہمت باندھ لی اور قائد اعظم کی بے مثل قیادت میں متحد ہو کر ہر طرح کی قربانی دے کر اپنے یقین کی منزل بھی آزاد فن حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے اور اقبال کی بشارت کو سچا ثابت کر دیاکہ : آسماں ہو گا سحر کے نور سے آئینہ پوش اور ظلمت رات کی سیماب پا ہو جائے گی عراق مردۂ مشرق میں خونِ زندگی دوڑا سمجھ سکتے ہیں اس راز کو سینا و فارابی عطا مومن کو پھر درگاہِ حق سے ہونے والا ہے شکوہِ ترکمانی ، ذہن ہندی ، نطقِ اعرابی گویا اقبال اسلامیان ہند کے لیے مینارۂ نور ثابت ہوئےجس کی ایمان، یقین اور صدق کی فطری رفعتوں نے ان کے دلوں کی مایوسی ، ناامیدی اور تاریکی کو حرارتِ ایمانی، ولولہ تازہ اور پرجوش عزم و ہمت میں بدل کر ناقابل تصور امکان کامیابی کی راہ دکھائی۔ مناسب لگتا ہے کہ عنوانات کے بارے میں مختصر ذکر کے ساتھ اقبال کے چیدہ چیدہ اشعار صراحت کے لیے پیش کیے جائیں۔ توحید، ایمان و یقین۔ اقبال ایک عظیم شاعر ، مصلح و مفکر ہے۔ اس کی تمام شاعری کا منبع قرآن حکیم اور سنتِ رسول ﷺہے۔ جس سے اُس نے توحید، رسالت پر مکمل ایمان، بندگی ، اطاعت اور ضبط نفس کی موثر تلقین کی تاکہ قوم وسیع کائنات کو پیدا کرنے والے اور اس کے پرفیکٹ نظام کو معروف اطاعت دیکھ کر خود بھی اپنے اعمال میں اطاعت شعار بن کر قرب الٰہی سے سرفراز ہو کراور بے یقینی گمان سے پاک ہو کر بحیثیت نائبِ حق تعالیٰ اُس کی صفات کا حامل ہو جائے۔ خدائے لم یزل کا دستِ قدرت تو زباں تو ہے یقیں پیداکر اے غافل کہ مغلوب گماں تو ہے میرے ہے چرخ نیل فام سے منزل مسلماں کی ستارے جس کی گرد سلا ہوں وہ کارواں تو ہے توحید کی عظمت کا معترف ہونے کے لیے یقین لازمی ہے کہ نظام مبنی کو چلانے والی قوت لازوال ، بے مثال و بے مثل ہے اس کے نظام کا مسلسل منضبط انداز میں رواں دواں رہنا، گردشِ لیل و نہار اور حیات و ممات کا سلسلہ اس امر کی نشاندہی کرتا ہے کہ وہ عظیم ہستی جو سارے نظام کی خالق ہے۔ اس پر دل سے ایمان لایا جائے۔ توحید الٰہی پر یقین کے ساتھ عشق الٰہی کے وجدان سے فہم و ادراک کے در وا ہوتے ہیں۔ یہ سرمدی کیفیت عرفان ذات کی نعمت سے سرفراز کرتی ہے۔ذاتِ باری پر ایمان و یقین ہی اقبال کے تصور خودی کی اساس ہے۔ فرمایا کہ : خودی کی جلوتوں میں مصطفائی خودی کی خلوتوں میں کبریائی زمین و آسماں و کرسی و عرش خودی کی زد میں ہے ساری خدائی خودی کے عرفانِ ذات سے ہی انسان خالق کائنات کی عظمت و کبرائی کا ادراک کر سکتا ہے: خودی کا سرِ نہاں لا الہ الا اللہ خودی ہے تیغ فساں لا الہ الا اللہ یہ دور اپنے ابراہیم کی تلاش میں ہے صنم کدہ ہے جہاں لا الہ الا اللہ کیا ہے تو نے متاعِ غرور کا سودا فریب سود و زیاں لا الہ الا اللہ یہ مال و دولت و دنیا یہ رشتہ پیوند بتاں و ہم و گمان لا الہ الا اللہ عشقِ الٰہی میں بے پناہ قوت کا راز مضمر ہے۔ ایں دو حرفِ لا الہ گفتار نیست لا الہ جُز تیع بے زنہار نیست زیستن با سوز اُو قہاری است لا الہ ضرب است و ضرب کاری است قوت ایماں حیات افزائدت ورد ولا خوف علیہم بائدت چوں کلیمے سوئے فرعون رود قلبِ او از لا تخف محکم شود صنم کدہ ہے جہاں اور مرد حق ہے خلیل یہ نکتہ وہ ہے کہ پوشیدہ لا الہ میں ہے مرد حق محکم ز ورد لا تخف ما بمیداں سر بجیب، اُو سربکف مرد میداں زندہ از اللہ ہوست زیر پائے اُو جہانِ جار سو است جب اس انگارہ خاکی میں ہوتا ہے یقین پیدا تو کر لیتا ہے یہ بال و پروروح الامیں پیدا جب تک ترے ضمیر پہ نازل نہ ہو کتاب گرہ کشاہ ہے نہ رازی نہ صاحب ِ کشاف خودی سے اس طلسم رنگ و بو کو توڑ سکتے ہیں یہی توحید تھی جس کو نہ تو سمجھا نہ میں سمجھا شعلہ بن کر پھونک دے خاشاکِ غیر اللہ کو خوفِ باطل کیا ہے غارت گر باطل بھی تو یقین مثلِ خلیل آتش نشینی یقین اللہ ستی خود گزیں سن اے تہذیبِ حاضر کے گرفتار غلامی سے ہے بد تر بے یقینی آچ بھی ہو جو براہیم کا ایماں پیدا آگ کر سکتی ہے اندازِ گلستاں پیدا یقیں پیدا کر اے غافل یقیں سے ہاتھ آتی ہے وہ درویشی کہ جس کے سامنے جھکتی ہے نغوزی اقبال کی نظم ، نثر واضح طورپر زندگی کے بنیادی امور و مسائل کو آشکار کرتی ہے جو قرآن حکیم کی توضیح و تشریح سے ہمارے لیے لائحہ عمل طے کرتے ہیں ۔ اس سے ہمارا راستہ واضح اور آسان ہو جاتا ہے ۔ بشرطیکہ ہم کلامِ اقبال کو توجہ دیں اور سمجھ کر خلوص دل سے اس پر عمل کریں۔ یونکہ اقبال تواپنی شاعری کی مدح و ستائش کا بالکل خواہاں نہیں۔ وہ تو صرف بھٹکی ہوئی قوم کو سیدہ راہ پر لانے کے لیے شاعری کا سہارا لیتا ہے۔ جو یوں ظاہر ہے۔ شعر کجا رمن کجا شعر و سخن بہانہ ایست سوئے قطار می کشنم ناقۂ بے زمام را اقبال نے مغربی سرمایہ دارانہ استحصالی نظام کو مسترد کر دیا ہے اور یقین و اعتماد کے ساتھ اسلامی تعلیماتِ اطاعت خدا اور رسول ﷺمخلوق کے لیے درد مندی، اخلاص، جدوجہد، عملِ پیہم کی طرف اپنی قوم کو راغب کرنے کی سعی ہے۔ جو ہمارے مصائب و مشکلات کا تریاق ہے ہمیں اس کے پیمبرانہ کلام سے اذہان و قلوب کو منور کرنا چاہیے۔ اقبال کے نزدیک ایمان ، یقین و اعتماد کے بغیر سیرت و کردارناممکن ہے۔ تنازع للبقا کی زبردست آویزش میں وہی کامیاب ہوں گے جنھوں نے پُر اعتماد طریقے سے زندگی کے تلخ حقائق کو قبول کیا۔ روشن مستقبل کی امید رکھ کر پورے اخلاص، ذوق و شوق سے محنت و جدوجہد کرتے رہے۔ اور آخر کامیاب ہو کر جریدۂ عالم میں اپنا نام روشن کارناموں سے ثبت کر گئے۔ عشق اطاعت رسول ﷺ:اقبال کے نزدیک اتنا ہی ضروری ہے جتنا اطاعت عشق الٰہی ہے۔ جن کی ذات اقدس کو اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے ہدایت کا ذریعہ و وسیلہ بنایا۔ جن کے لیے یہ کائنات بنائی گئی جو رحمت للعلمین کے لقب سے سرفراز کیے گئے جن کے لیے ورفعنا لک ذکر ک کہا گیا۔جن کی امامت کے طفیل زمین آسمان، جسمانی ، روحانی ظاہری و باطنی منازل تک رسائی ہوتی ہے۔ حضورﷺکی مدح میں اقبال کی نعت کے یہ شعر دیکھیے : لوح بھی تو قلم بھی تو تیرا وجود الکتاب گنبد آبگینہ رنگ تیرے محیط میں حباب عالم آب ز خاک میں تیرے ظہور سے نزوع ذرۂ ریگ کو دیا تو نے طلوع آفتاب شوق ترا اگر نہ ہو میری نماز کا اقام میرا قیام بھی حجاب میرا سجود بھی حجاب (یہ ذزرہ ریگ اقبال نے خود کو کہا ہے کہ حضور کے طفیل اُسے کیا قدر و منزلت نصیب ہوئی )۔ اقبال مزید گویا ہے: کی محمد سے وفا تونے تو ہم تیرے ہیں یہ جہاں چیز ہے کیا؟ لوح و قلم تیرے ہیں وہ دانائے سبل ختم الرسل مولائے کل جس نے غبارِ راہ کو بخشا فروغ وادئ سینا نگاہِ عشق و مستی میں رہی ا ول وہی آخر وہی قرآں وہی فرقاں وہی یٰسین وہی طہ سبق ملا ہے یہ معراج مصطفی سے مجھے کہ عالم بشریت کی خود میں ہے گردوں خیرہ نہ کر سکا مجھے جلوۂ دانش فرنگ سرمہ ہے میری آنکھ کا خاکِ مدینہ نجف عشق دم جبریل، عشق دلِ مصطفی عشق خدا کا رسول، عشق خدا کا کلام بمصطفیٰ برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست اگر بہ اُو نہ رسیدی تمام بولہبی است قوتِ عشق سے ہر پست کو بالا کر دے دہر میں اسمِ محمد سے اجالا کر دے زندگی:اقبال کا کلام چونکہ انسانی زندگی کے ارتقا ، سربلندی اور بقا کے لیے ہے۔ اس لیے دیکھتے ہیں کہ اقبال زندگی کے بارے میں کیا تصور رکھتا ہے۔ اقبال کو خدا تعالیٰ کی وحدانیت پر مکمل ایمان ہے جس نے وسیع کائنات کی تعمیر کی۔ جس کا کسی انسانی پیمانے سے احاطہ نہیں کیا جا سکتا پھر بھی وہ اس کو مزید وسیع کیے جارہا ہے جیسا کہ اقبال نے کہا ہے: یہ کائنات ابھی نا تمام ہے شاید کہ آرہی ہے دما دم صدائے کن فیکون مگر خدانے جو کائنات بنائی ہے اس کے استعمال کے لیے انسان کو تخلیق ، تدبیری ، تعمیری ، تفسیری، انتظامی جوہر ودیعت کرکے اپنے نائب کی حیثیت سے دنیا میں بھیجا ہے کہ وہ اس کی تسخیر کرے اور اس کی فطرت صوت و شکل میں مزید حسن اور نکھار پیدا کرے۔ اور ضرورت کے مطابق نئی چیزیں ایجاد اور تعمیر کرے۔ کیونکہ اب انسان کو محروم شدہ جنت کو بھلا کر دنیا کو ہی جنت کی بہتر صورت دینی ہے۔ بقول اقبال : توڑ ڈالیں فطرتِ انسانی نے زنجیریں تمام دوزئی جنت سے روتی چشمِ آدم کب تلک؟ اور انسان اپنے اس فریضے کو ادا کرنے کے لیے بیتاب ہے اوریوں اظہار خواہش کرتا ہے: پرائے ہیں یہ ستارے فلک بھی فرسودہ جہاں وہ چاہیئے مجھ کو کہ ہو نو خیز اور اقبال بھی اس کی ہمنوائی میں بتاتا ہے : وہی جہاں ہے ترا جس کو تو کرے پیدا یہ سنگ و خشت نہیں جو تری نگاہ میں ہے آدم اپنی نیابت کو اس طرح خدا تعالیٰ کے سامنے درست ثابت کرتا ہے۔ تو شب آفریدی چراغ آفریدم سفال آفریدی ایاغ آفریدم بیابان کسار دراغ آفریدی خیابان گلزار، باغ آفریدم من آنم کہ از سنگ آئینہ سازم من آنم کہ از زہر غوشینہ سازم اقبال کا اصل مطلب یہ ہے کہ وہ اپنی بھٹکی ہوئی خوابیدہ قوم کو بیدار کرکے ماضی کے شان و شوکت کے کارنے سرانجام دینے پر پھر آمادہ کرے اس کے نزدیک زندگی بہت بڑی نعمت ہے۔ جو اُسے دیے ہوئے اوصاف کو بروئے کار لا کر تخلیقی فکر و عمل کے امتحان کے لیے ہے۔ دیکھیے اقبال انسان کو محترک اور باعمل بنانے کے لیے گوش گذار کرتا ہے! ہر اک مقام سے آگے مقام ہے تیرا حیات ذوقِ سفر کے سوا کچھ اور نہیں آئی صدائے جبریل پر اسقام ہے یہی اہلِ فراق کے لیے عیش دوام ہے یہی تیرے مقام کو انجم شناس کیا جائے کہ خاک زندہ ہے تو تابع ستارہ نہیں ضمیر لالہ میں روشن چراغ جستجو کر دے چمن کے ذرّے ذرّے کو شہیدِ جستجو کر دے تقلید کی روش سے تو بہتر ہے خود کشی رستہ بھی ڈھونڈ خضر کا سودا بھی چھوڑ دے کس قدر لذت کشود عقدۂ مشکل میں ہے لطف صد حاصل ہماری سعیِ بے حاصل میں ہے ملت کے ساتھ رابطۂ استوار رکھ وابستہ رہ شجر سے اُمیدِ بہار رکھ اقبال انسان کے دل سے موت کا خوف مٹادیتا ہے کہ موت کی کوئی حقیقت نہیں اصل شے زندگی ہے جو ابدی و لازوال ہے۔ موت تجدید مذاقِ زندگی کا نام ہے خواب کےپردے میں بیداری کا اک پیغام ہے موت کو کہتے ہیں غافل اختتام زندگی ہے یہ شامِ زندگی صبح دوام زندگی فرشتہ موت کا چھوتا ہے گو بدن ترا تیرے وجود کے مرکز سے دور رہتا ہے پھول بن کر اپنی تربت سے نکل آتا ہے یہ موت سے گویا قبائے زندگی پاتا ہے یہ ہے مگر اس نقش میں رنگِ ثباتِ دوام جس کو کیا ہو کسی مردِ خدا نے تمام مرد خدا کا عمل عشق سے صاحب فروغ عشق ہے اصل حیات موت ہے اس پر حرام موت کے ہاتھوں سے مٹ سکتا اگر نقشِ حیات عام یوں اس کو نہ کر دیتا نظامِ کائنات جوہرِ انسان عدم سے آشنا ہوتا نہیں آنکھ سے غائو تو ہوتا ہے فنا ہوتا نہیں تو اسے پیمانۂ امروز و فردا سے نہ ناپ جاوداں پیہم دواں ہر دم جواں ہے زندگی زندگانی کی حقیقت کو ہکن کے دل سے پوچھ جوئے شپرو تیشح و سنگِ گراں ہے زندگی چنانچہ اقبال کا یہ حیات بخش کلام تمام انسانوں بالخصوص مسلم قوم کے لیے بہت بڑی عطا اور احسان ہے کہ اس نے انسان کے دل سے موت کا خوف دور کرکے اُس کے دل میں حیات جاوداں کی امید پیدا کی ہے۔ مضمون کے حرف آخر کے طورپر عرض ہے کہ آج کل وطنِ عزیز انتہائی پریشان کن مسائل سے دوچار ہے۔ جس کا حل صرف قرآن حکیم کی ہدایات جس کی اقبال نے اپنی قومی زبان میں بہترین تشرح کی ہے پر پورے طور پر عمل پر ہے یہ ہمارے لیے از حد خوش قسمتی کی بات ہے لیکن موجودہ ارباب اختیار جان بوجھ کر اقبال سے بے اعتنائی برت رہے ہیں کہ یہ ان کی نفسانی ناجائز خواہشات پر قدغن لگاتا ہے۔ خدا کرے ہمیں ایسی قیادت نصیب ہو جو دین سے مخلص ہو اور کلام اقبال نظم و نثر کی معجزنما اہمیت پر یقین رکھتی ہے۔ [نوٹ: مضمون میں تمام اشعار کلیاتِ اقبال سے ماخوذ ہیں]   علامہ اقبال اور قائدِ اعظم کا آئینۂ استقبال۔ پاکستان ۱۴ اگست ۱۹۴۷ء کی صبح کا خورشید آزادی کی خوشخبری کے ساتھ طلوع ہوا۔ پاکستان معرضِ وجود میں آ چکا تھا۔ کیا ساعتِ سعید تھی کہ رمضان المبارک کا مہینہ، ستائیسویں یعنی لیلۃ القدر اور جمعۃ الوداع کا مبارک دن تھا۔ جن سے پاکستان کی شکل میں اللہ تعالیٰ کی بے پایاں رحمت، عنایت کی تصدیق ہوتی ہے۔ نئے آزاد ملک کی فضا پاکستان زندہ باد، قائد اعظم زندہ باد، علامہ اقبال زندہ باد کے نعروں سے گونج رہی تھی۔ مسلمانانِ پاکستان سجدۂ شکر بجالائے کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں عالمی سطح پر سب سے بڑے اسلامی مملکت اور دنیا کے ممالک میں پانچویں بڑی ریاست عطا کی تھی۔ یہ ایک معجزہ لگتا ہے کہ صرف سترہ سال پہلے ۲۹؍ دسمبر۱۹۳۰ء کو علامہ اقبال نے مسلم لیگ کی طرف سے صدارتی خطبۂ الہ آباد میں مسلمانوں کو اکثریت والے حصے کو مسلمانوں کا الگ آزاد وطن قرار دینے کا مطالبہ کیا۔ اس کے حصول کی کوشش کے تقریباًسات سال بعد ۲۱؍اپریل۱۹۳۸ء کو وہ خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ مگر آزادی کا وہ جذبہ جو وہ قوم کے دل میں سمو گئے تھے اسے حرزِ جاں بنا لیاگیا ۔ اُن کی وفات کے دو سال بعد ۲۳؍مارچ ۱۹۴۰ء کو لاہور بمقام اقبال پا رک قرار داد لاہور جو قرار داد پاکستان کہلائی۔ زیر صدارت قائد اعظم مسلمانانِ ہند کی طرف سے مطالبہ کیا کہ پاکستان کے ساتھ منظور ہوئی جس میں جس میں قائد اعظم نےفرمایا کہ یہ قرار داد مسلم قوم کو الگ آزاد وطن کے لیے اٹل فیصلہ ہے جس سے ہم کبھی پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ انھوں نے فرمایا کہ آج اگر اقبال زندہ ہوتے تو بہت خوش ہوتے کہ ان کے بعد ہم وہی کر رہے ہیں جو وہ چاہتے تھے اور تقریباًساڑھے سات سال بعد اقبال کے آزاد وطن کا خواب ۱۴ ؍اگست ۱۹۴۷ء کو تمام عالم نے پورا ہوتے دیکھا۔ جس کی بشارت اقبال کے کلام میں کئی جگہ ملتی ہے ۔ جیسے کہ آسماں ہوگا سحر کے نور سے آئینہ پوش اور ظلمات کی رات سیماب پا ہو جائے گی شب گریزاں ہوگی آخر جلوۂ خورشید سے یہ چمن معمور ہوگا نغمۂ توحید سے اور یہ حقیقت ہے کہ آزاد وطن کا پورا ہونے والا خواب اقبال جیسے دیدہ ور، دانائے راز ، صاحبِ حال وجدانِ و عرفان کو ہی آ سکتا تھا۔ جو بے پایاں علم و حکمت کے ساتھ فقر و استغنا، درویش و بے نیازی صفاء قلب اور حق گوئی کی ملکوتی صفات رکھتا ہو اور تگیہ بلند سخن دلنواز جاں پر سوز کا مرقع ہو۔ انھوں نے اپنی الہامی شاعری کا اظہار یوں کیا ہے: کہہ گئے ہیں شاعری جزویست از پیغمبری ہاں سنا دے محفلِ ملت کو پیغام سروش میری نوائے پریشاں کو شاعری نہ سمجھ کہ میں ہوں محرمِ راز درونِ مے خانہ وہ اپنی باکمال شاعری کو صرف خوابیدہ پس ماندہ، منتشر قوم کو بیدار کرنے اور ایک صحیح سمت میں متحد عمل کرنے کا ذریعہ سمجھتے تھے۔ فرمایا: شعر کجا و من کجا شعر و سخن بہانہ ایست سوئے قطارمی کشم ناقۂ بے زمام را وہ سمجھتے تھے کہ انھیں خدا نے قوم کی رہنمائی کا فریضہ سونپا ہے۔ جس اظہار یوں کیا ہے: اندھیری شب ہے جدا اپنے قافلے سے ہے تو تیرے لیے ہے میرا شعلۂ نوا قندیل صفت برق چمکنا ہے مرا فکر بلند کہ بھٹکتے نہ پھریں ظلمتِ شب میں راہی اقبال اُمید اور یقین کا شاعر ہے۔ اُسے یقین تا کہ مسلمانوں کی منزل آزاد وطن پاکستان ہےجو حاصل ہو کر رہے گی۔ چاہے یہ اُس کی زندگی میں دیکھنے کی قسمت میں نہ ہو۔ وہ دعا کرتے ہیں کہ اے خدا: نعمہ نو بہار اگر میرے نصیب میں نہ ہو اس دم نیم منور کو طائرکِ بہار کر یعنی مسلمانوں کی آزادی کا دن اگرچہ آکر رہے گا۔ لیکن اگر میری زندگی میں یہ آرزوی پوری نہ ہو تو میرے کلام میں آزاد وطن کے لیے جو پُر سوز پکار ہے۔ اسے آزادی کی آمد کا نغمہ بنا دے۔ مگر یہ دیکھ کر بے حد دکھ ہوتا ہے کہ ہندوستان میں ہندو مسلم کشیدگی اور جھگڑے فساد کی فضا کے پیش نظر تقسیم ہند کے بعد مسلم اکثریت والے علاقوں میں آزاد مسلم وطن کا مطالبہ بغیر تبادلۂ آبادی کے جو فریقین کے لیے آئندہ امن اوربرقی کے فروغ کا باعث ہوتا۔ کیونکہ دنیائے اسلام کی تاریخ ثابت کرتی ہے کہ مسلم حکمرانوں نے مسلم آبادی کی نسبت غیر مسلم اقلیتوں کے حقوق، جان و مال کے تحفظ کا زیادہ اہتمام کیا ہے مگر کانگرسی متعصب قیادت کے ناپاک اور اسلام دشمن عمل کی وجہ سے مسلم قوم کو آزادی کے مقام تک پہنچنے کے لیے خاک، خون اور آگ کے دریاؤں سے گذرنا پڑا۔ جس سے بڑے تباہی و بربادی ہوئی مشرقی پنجاب میں بالخصوص مسلمانوں کاقتلِ عام کیا گیا ۔ اُن کی آبادیاں ، کھیت کھلیاں تباہ کر دیے گئے۔ پچاس لاکھ سے زیادہ مسلمانوں کو پاکستان ہجرت کرنی پڑی۔ جن میں نہتے پا پیادہ قافلوں پر ہندو سکھوں نے حملوں کرکے کئی لاکھ مسلمان شہید کر دیے۔ کئی ریل گاڑیوں میں آنے والوں کو کاٹ ڈالا گیا۔ ہزاروں عورتیں اغوا کر لی گئیں۔ غرضیہ ایسی درندگی و بہمیت کا مظاہر ہ کیا گیا کہ چنگیز خاں اور ہلاکو خاں کی تباہیاں بھی ہیچ لگتی ہیں۔ راقم کا تعلق شہر اقبال سے ہے اسے فخر ہے کہ اس نے مرے کالج سیالکوٹ میں ترعلیم حاصل کی ہے۔ جہاں اقبال بھی تعلیم حاصل کرتے رہے ہیں اوران کے عظیم المرتبت استاد مولوی میر حسن اسی درسگاہ میں بطور معلم شروع سے آخری عمر تک تمام طالبعلموں کو بلا تمیز مذہب و ملت نہات محبت شفقت سے علم سے فیض یاب کر تے رہے ہیں۔ مسلمانوں کے علاوہ ہندو، سکھ ، عیسائی سب اُن کی بے حد تعظیم کرتے تھے۔ اقبال اور اُن کے استاد جیسے اہل علِ علم و حکمت اور انسان دوستی کا جذبہ رکھنے والی شخصیتوں کے طز عمل سے کالج اور شہر کی فضا میں امن سلامتی اور خیر سگالی کے رویوں کو ہمیشہ قائم رکھا۔ او ر باہی محبت ، رفاقت میں زندگی گذرتی رہی مگر سیاسی زندگی کی تحریک میں جب ہندو کانگریس اور مسلم لیگ میں اختلافات بڑھنے لگے تو اس کا اثر کالج کی فضا اور مقامی سطح پر بھی پڑا۔ خاص کر ۱۹۴۶ء کے الیکشن کے دوران تناؤ خاصا بڑھ گیا۔ ہندو سکھ معاشی و اقتصادی طورپر مسلمانوں سے کہیں آگے تھے ایسی طورپر بھی وہ بہت محرّک تھے۔ مگر اقبال کے معجزانہ کلام کے زیر اثر مسلمان بھی کافی بیدار ہو چکے تھے ۔ اقبال بچپن سے ہی شعور کی بلندیوں پر تھے ۔ جس میں عالمگیر انسان دوستی اور باہم پیار ومحبت کے جذبات فطری طورپر فرواں تھے۔ انھوں نے ابتدائی زندگی میں دو عشق کیے۔ ایک عشق تو حصولِ علم کے لیے تھا۔ جس میں ان کی رفتار حیرت ناک تھی اور دوسرا عشق ہندوستان شخصیتوں راجہ رام، سری کرشن، مہاتما بدھ، راجہ پھررسی ہری، رشی و شوامتر، گرونانک وغیرہ۔ جن کی علمی معاشرتی زندگی پر گہرے اثرات اورملکِ ہند کے فطری حسن کے بڑے مداح تھے جن کی تعریف میں اقبال نے ایسی دلفریب نظمیں لکھیں جن کی مثال کوئی بڑے سے بڑا صاحب علم غیر مسلم پیدا نہیں کر سکا۔ مثلاًبانگِ درا کی پہلی نظم ‘ہمالہ’: اے ہمالہ اے فصیلِ کشور ہندوستان چومتا ہے تیری پیشانی کو جھک کر آسماں پھر ترانہ ہندی میں لکھا جس کا ہر مصرعہ دل کو چھو لیتا ہے ۔ ایسا ترانہ کسی ہندوشاعر سے تخیق نہیں ہو سکا۔ اور اب ہند میں بھی رائج ہے۔ سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا ہم بلبلیں ہیں اس کی وہ گلستاں ہمارا پھر ہندوستانی بچوں کا قومی گیت لکھا جو مشترکہ سب قوموں کے بچوں کا ہے چشتی نے جس زمیں میں پیغام حق سنایا نانک نے جس چمن میں وحدت کا گیت گایا وحدت کی لَے سنی تھی دنیا نے جس مکاں سے میر ؐعرب کو آئی ٹھنڈی ہوا جہاں سے اس کے علاوہ ہندو برہمنوں اور مسلم واعظین کو اہمی اختلافات بڑھانے سے روکنے کے لیے پیار محبت کی تعلیم دی: سچ کہہ دوں اے برہمن گر تو برا نہ مانے ترے صنم کدوں کے بت ہو گئے پرانے اپنوں سے بیر رکھنا تونے بتوں سے سیکھا واعظ کو بھی سکھایا جنگ و جدل خدا نے آ غربت کے پردے اک بار پھر اٹھا دیں بچھڑوں کو پھر ملا دیں، نقشِ دوئی مٹا دیں ہندومسلم اختلافات بڑھنے پر دکھی دل سے ملک میں بسنے والوں کو برے نتائج سے اس طرح آگاہ کرتے ہیں: سر زمیں اپنی قیامت کی نفاق انگیز ہے وصل کیسا یاں تو اک قربِ فراق انگیز ہے نہ سمجھو گے تو مٹ جاؤ گے اے ہندوستاں والو تمھاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں آپ ہی کہیے۔ ایسا محبت، خلوص سے لبریز بلا تعصب کلام کسی بڑے سے بڑے ہندو شاعر کو لکھنا نصیب ہوا؟ ہندوؤں کو تو شکر گزار ہونا چاہیے کہ ہندوستان میں باہمی اختلافات دور کرنے والا اقبال جیسا عظیم مصلح انسان پیدا ہوا ہے۔ مگر ہندو قوم کے متعلق ایک ہزار سال پہلے محمود غزنوی کا درباری عالم ابوریحان البیرونی جو اپنے زمانے کے علوم میں طاق تھا۔ اپنی مشہور تصنیف کتاب الہند میں جو اُس نے ہندوؤں کے ساتھ کافی مدت گزارنے کے بعد لکھی ، تحریر کیا کہ ہندوعجیب وغریب شکی مزاج متعصب قوم ہے۔ کسی دوسرے کو قریب نہیں آنے دیتی۔ نہ ہی کسی پر اعتماد کرتی ہے۔نہ خود اعتمادی کے لائق ہے۔ ذات پات اور چھوت چھات کسی سختی سے پابندی کرتی ہے ۔ انسانوں کو درجوں میں بانٹ رکھا ہے۔ اور نچلی ذات کے لوگوں سے نفرت کرتی ہے ۔ دوسرے مذاہب کے لوگوں کو ملیچھ و ناپاک سمجھتی ہے۔کسی دوسرے سے مل کر رہنا پسند نہیں کرتی۔ اقبال نے ہندوستان کی عظمت کے انتے بلند پایہ نغمے سنانے کے باوجود دیکھا کہ ۱۹۰۵ء میں لارڈ کرزن وائسرےہند نے انتظامی ضرورت کے تحت بنگال کو تقسیم کرکے مشرقی بنگال جس میں مسلمان کاشتکاروں ، محنت کشوں مزدوروں کی آبادی زیادہ تھی الگ صوبہ بنا دیا۔ جنھیں مغربے حصے کے ہندوسرمایہ داروں، ساہو کاروں اور صنعتکاروں نے استحصال کا نشانہ بنایا ہوا تھا۔ تاکہ وہ نءے قوانین وضع کرکے ہندوسرمایہ داروں کے استحصال سے بچ کر بہتر معاشی اور معاشرتی زندگی گزار سکیں۔ مگر ہندو قوم مسلمانوں کی بھلائی اور بہتری کو برداشت نہ کر سکی اور تقسیم بنگال کے خلاف ملک گیر ایسی متشدد اور جنوبی تحریک شروع کی کہ انگریز حکومت کو بنگال کی تقسیم کو مجبوراًمنسوخ کرنا پڑا یہ دیکھ کر اقبال پر وزردش کی طرح واضح ہو گیا کہ ہندو کسی صورت میں مسلمانوں کی بھلائی نہیں چاہتے۔ لہٰذا ہندوستان میں مسلمانوں کو ہندو استحصال اور غلامی سے بچناے کے لیے تحریک آزادی کو نیارخ دے کر مسلمانوں کی نسبت سے اسمبلی میں سیٹوں کی تعداد کا تعین اور جداگانہ انتخاب کا مطالبہ کر دیا۔ جس پر وہ آخر دم تک قائم رہے۔ جس کے تحت انھوں نے صدارتی خطبہ الہ آباد مورخح ۲۹ ؍دسمبر ۱۹۳۰ء کو مسلم اکثریت والے علاقوں میں آزاد مسلم وطن کا مطالبہ کر دیا۔ اور اسی احساس کے نتیجہ میں ترانۂ ملی لکھا: چین و عرب ہمارا، ہندوستاں ہمارا مسلم ہیں ہم وطن ہے سارا جہاں ہمارا اقبال کا ترانہ بانگِ درا ہے گویا ہوتا ہے جادہ و پیما پھر کارواں ہمارا قائد اعظم نے بھی ہندو قیات کی ہٹ دھرمی کو ناقابل اصلاح سمجھ کر اپنی بے نظیر قیادت میں ۱۴ اگست ۱۹۴۷ء کو قیام پاکستان کے قیام کو ممکن بنا کر دنیا کو حیرت زدہ کر دیا۔ مگر اس مرقعہ تک پہنچنے میں کانگریس اورمسلم لیگ دونوں کو ۱۹۱۶ء میں میثاق لکھنؤ پر باہم سمجھوتہ کے بعدمذاکرات کے کئی کٹھن مقامات آئے جن میں ہر دفعہ کانگریسی قیادت نے مسلم لیگ کی طرف سے انتہائی نرم شرائط جس سے مسلمانوں کے صرف بنیادی حقوق کا تحفظ مقصود ہوتا تاکہ دونوں قومیں امن و آشتی سے مل جل کر رہ سکیں۔ پایۂ حقارت اور تکبر سے ٹھکرا دیتی ہے۔ کیونکہ وہ مسلمانوں کو آئندہ وقت میں اپنے غلام اورمحکوم کے طورپر دیکھتی تھی۔ ۱۹۳۵ء کے الیکشن میں کانگریس پورے عروج پر تھی اورمسلم لیگ ابھی جاگیرداروں، زمینداروں متمول اور خطاب یافتہ لوگوں تک محدود تھی اور عوامی جماعت بننے کی طرف بڑھ رہی تھی۔ اس الیکشن میں کانگریس کو بہت زیادہ کامیابی ہوئی اورمسلم لیگ ناکام رہی۔ حتیٰ کہ پنجاب میں ۸۶ میں سے صرف دو سیٹیں حاصل کر سکی۔ چنانچہ کانگرس کا تکبر اور رعونت ساتویں آسمان تک پہنچ گیا اورجواہر لال نہرو نے بڑے غرورسے کہا کہ ہندوستان میں صرف دو طاقتیں ہیں ۔ ایک حکومت برطانیہ اور دوسری نیشنل کانگریس۔ اس پر قائد اعظم نے اُسے فوراًٹوکا اور کہا کہ یہاں تیسری طاقت مسلمان قوم بھی ہے۔ جن کے حقوق کے تحفظ کے بغیر ملک کی قسمت کا کوئی فیصلہ قابل قبول نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ قائد اعظم جان چکے تھے کہ انگریز بغیر کوئی منصفانہ فیصلہ کیے چلا گیاتو ہندو کانگرس مسلمانوں کو ہمیشہ کے لیے غلام بنا کر ماضی کی محکومیت کا بدلہ اتارتی رہے گی۔ اور علامہ اقبال نے ۱۹۰۵ء سے ہی تقسیم بنگال پر ہندوؤں کا اسلام دشمن رویہ دیکھ کر مسلم آبادی کے لیے جداگانہ انتخاب کا اٹل اعلان کر دیا تھا۔ اقبال ہندوؤں کی بدعہدی اور کہنہ مکرنیوں کے باعث کانگریس قیادت کو ہر گز قابل اعتبار نہیں سمجھے تھے اُنھوں نے کہا کہ اگر مسلم لیگ ہندو کانگریس کی اپنی لکھی ہوئی شرائط پر مسلم لیگ سے سمجھوتہ کرے گی تو بھی وہ خود ہی کچھ عرصہ بعد اس میں کوئی نہ کوئی انحراف کا پہلو نکال لے گی۔ اقبال نے ۱۹۲۶ء میں جب وہ پنجاب لیجسلیٹو کونسل کے ممبر منتخب ہوئے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ ہندو کانگریسی قیامت مسلم اقلیت کے حقوق کے تحفظ کا بہت ڈھنڈورہ پیٹتی ہے۔ مگر اس کا حال کڑک مرغی جیسا ہے جو کڑاک کڑاک کرکے شور تو بہت مچاتی ہے مگر اقلیت کے حقوق کا ایک انڈہ بھی نہیں دیتی۔ چونکہ مسلم لیگ کا مسلم آبادی کی نسبت سے مسلم سیٹوں کی تعداد اورجداگانہ انتخاب مانا جا چکا تھا۔ اور اقبال کے کلام نے قوم کی بیداری پر بڑا مشیت اثر دالا تھا۔ اور قائد اعظم نے لیگ کی قیادت سنبھال لی تھی۔ جن پر قوم کا مکمل اعتماد تھا اورمنظم قیادت کی تشکیل دے دی تھی۔ اس کے علاوہ قومی اخبارات میں زمیندار، احسان خاص کر نوائے وقت نے ہندو پریس کے جھوٹے پراپگینڈہ کا منہ توڑ جواب دے کر عام مسلمانوں کو الگ آزاد وطن کی اہمیت واضح کر دی۔ نیز مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے کارکنوں نے اور کالج سٹوڈنٹس نے شہروں کی بستوں کے علاوہ دیہاتی علاقوں میں گاؤں گاؤں جا کر انھیں مسلم لیگ کی اہمیت اور انگریزوں اور ہندوؤں ی غلامی آزادی کا مفہوم سمجھایاتو ۱۹۴۶ء کے الیکشن میں دونوں فریقوں میں گھمسان کا رن پڑا۔ کانگرس زعم تھا کہ وہ ۱۹۳۵ء کے الیکشن کی طرح دوبارہ مسلمانوں کی سیٹیں بزور یا بزر حاصل کرے گی۔ مگر اُسے منہ کی کھانی پڑی ۔ مرکز میں ۳۰ مسلمان سیٹیں تھیں جو سب کی سب مسلم لیگ نے جیت لیں۔ لوکل باڈیز الیکشن میں کانگرس نے مسلم لیگ نمائندوں کے مقابل اپنے خریدے ہوئی یا کانگریسی مسلمان کھڑے کیے ۔سیالکوٹ جہاں میں کالج سٹوڈنٹ تھا وہاں مسلم لیگی نمائندے کے مقابل کانگرس نے ایک نیشنلسٹ مسمی یوسف بٹ کو کھڑا کیا اور اس کے لیے حمایت حاصل کرنے کے لیے بہت پیسہ خرچ کیا۔ مگر لیگی کارکنوں نے ایک اایسا نعرہ وضع کیا۔ جس سے اُس کی ووٹوں کی گنتی کے بعد ضمانت مضبوط ہو گئی اور وہ نعرہ یہ تھا۔یوسف بٹ چوڑ چوپٹ ، قوم نوں ویچ کے پیسے کھٹ۔ اس کے بعد صوبائی الیکشن میں بھی دونوں طرف سے بڑی زور آزمائی ہوئی۔ سیالکوٹ نے شیخ کرامت علی کو اپنا نمائندہ کھڑا کیا اس کے مقابلے میں کانگریس نے مجلس احرار کو جو کانگرس کی حمایت یافتہ جماعت تھی۔ اُس کا ایک چوٹی کا کیڈر مولانا مظہر علی اظہر کو مقابلے کا ٹکٹ دیا۔ مجلس احرار تحریک کشمیر کی وجہ سے خاصی مشہور تھی۔ پھر اُن میں مولانا عطااللہ شاہ بخاری اور شورش کشمیری جیسے اور بھی کئی زبردست خطیب تھے مجلس احرار نے الیکشن کے لیے حکومتِ الٰہیہ کا نعرہ وضع کیا۔ جو درودیوار پرلکھا نظر آتا تھا۔ اس کے مقابلے میں مسلم لیگ پاکستان زندہ باد‘‘لے کے رہیں گے پاکستان’’ کا نعہ لگاتی تھی... مرے کالج میں ریفریشمنٹ وقفے کے درمیان طالب علم اکٹھے ہو کر سیاست پر تبادلۂ خیالات کرتے تھے۔ ایک احراری نے سوال اٹھایاکہ ہم تو تحریک آزادی میں حکومتِ الٰہیہ کے داعی ہیں۔ مسلم لیگ کے پاکستان کا کیا مطلب ہے؟ وہیں نوجوانِ شاعر اصغر سودائی بھی موجود تھے انھوں نے برجستہ جواب دیا کہ پاکستان کا مطلب کیا ؟ لا الہ الا اللہ! یہ فی البدیہ جواب موجود سامعین کے دل میں فوراًایسا گھر کر گیا کہ تمام ملک میں کیا بڑے کیا چھوٹے سب کا وردِ زباں بن گیا۔ اس نعرے نے حصولِ پاکستان میں بہت کام کیا جو آج بھی ویسا ہی زندہ و تا بندہ ہے۔ کیونکہ سودائی گولڈ میڈلسٹ اور راقم نے اکٹھے ۱۹۵۰ء میں ایم اے اکنامکس میں کامایبی حاصل کی تھی۔ مگر سب سے دلنشیں نعرہ جو نمایاں الفاظ میں دیواروں پر لکھا نظر آتا وہ تھا ہمارا مذہب اسلام ، ہماری قوم مسلمان، ہماری زبان اُردو۔ میرا خیال ہے کہ یک جہتی اور پاکستان کی روح ہے۔ جسے ہم بھلا بیٹھے ہیں۔ اسے دوبارہ رائج کرنے کی بے حد ضرورت ہے۔ اس کے علا وہ کلام اقبال کو قومی سطح پر مقبول بنانے کی اشد ضرورت ہے ۔ جو قرآنی تفسیر ہے ۔ سکتہ کوتاہ مولانا اظہر علی اظہر بری طرح ناکام رہے۔ اور ضمانت بھی ضبط ہو گئی۔ پنجاب اسمبلی کے الیکشن میں ۸۶ مسلم سیٹوں میں ۷۹ یعنی نوے فیصد لیگ نے جیت لیں۔گویا مرکزی ، صوبائی اور مقامی الیکشنوں کے نتیجہ نے ثابت کردیا کہ مسلم لیگ ہی مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت ہے اس کے بعد چاہے تو یہ تھا کہ اکثریت کی بنا پر لیگ ک وزارت پنجاب بنانے کی دعوت دی جاتی مگر اسلام کو ہمیشہ سے غداروں کے ہاتھوں قومی نقصان اٹھانا پڑا۔ یونینسٹ پارٹی اسلامی اتحاد پارہ پارہ کرنے کی وجہ سے جس کے اقبال سخت خلاف تھے ان کے لیڈر خضرت حیات ٹوانہ نے ہندوسکھوں سے جوڑتوڑ کرکے وزارت بنا لی۔ اس صریحاًحق تلفی پر مسلمانوں کو سخت رنج ہوا۔ انھوں نے خضروزارت کے خلاف ایج ٹیشن شروع کردیا۔ تمام پنجاب میں احتجاج کے لیے مظاہرے ہوئے اورہزاروں لیگوں نے گرفتای پیش کر دی۔ سیالکوٹ میں بھی خواص و عام نے گرفتیار دیں۔ روزانہ شہر کے مرکز میں حکومت کے خلاف مظاہر ہوتے ۔ ایک دن مظاہرین اور کالج طلبانے جیل کا رخ کیا جس میں راقم بھی شامل تھااور تمام سیاسی قیدیوں کو رہا کرالیا۔ پولس کی بھاری جمعیت موجود تھی مگر روکنے کا کسی کو حوصلہ نہ ہوا۔ آخر حکومت نے گھٹنے ٹیک دئیے اور ۲ ؍مارچ ۱۹۴۷ء کو مستعفی ہو گئی اور پنجاب میں گورنر راج نافذ ہو گیا۔ ہندو اور سکھ جو خضر ٹوانہ کی حکومت کے پس پردہ سازشی کاروائی کر رہے تھے اب کھل کر سامنے آ گئے ۔ ماسٹر تارا سنگھ جنونی سکھ لیڈر نے کرپان لہرا کر بول بلند کیا :‘‘جومانگےگا پاکستان، اس کو دیں گے قبرستان’’ اس کے ساتھ ہی مشرقی پنجاب میں مسلمانوں کا خونریز قتل عام شروع ہو گیا ۔ یہ فسادات نہیں تھے بلکہ ہندو سکھوں کی سوچی سمجھی سازش کے تحت کھلی غارت گری تھی۔ جس میں مسلمانوں کی آبادیاں، کھیت جلا دئیے گئے ۔مسلمانوں کو مہاجرین کو بے سروسامان کے عالم میں پاکستان کی طرف قافلوں کی صورت میں پاپیادہ یا چھکڑوں پر رخ کرنا پڑا۔ تاکہ جانیں بچ جائیں اور کتنی عورتیں قتل و اغواہوئی اورعصمتیں لوٹی گئیں اس کا شمار نہیں۔ اب چونکہ حالات بالکل واضح ہو چکے تھے کہ ملک تقسیم ہو کر رہے گاتو نہرو پٹیل اور گاندھی کو بھی کہنا پڑا کہ وہ پاکستان دیں گے مگر لنڈورا کرکے جو اتنا کمزور ہوگا کہ جلد ہی پیدا کردہ مسائل کے ہاتھوں عاجز ہو کر ٹوٹ جائے گا اور دوبارہ اکھنڈ بھارت کا حصہ بن جائے گا۔ ۱۹۴۶ء کے الیکشنز کے نتیجہ سے کانگریس خوش نہ تھی اور وائسرے جنرل ویول کے خلاف تھی کہ اُ س نے کانگریس کو من مانی کاروائی نہیں کرنے دی۔ چنانچہ انھوں نے برطانوی وزیر اعظم ایٹلی سے شکایت کرکے اُس کی جگہ لارڈ مونٹ بیٹن کا تقرر کرالیا۔یہ بھی ایک سازش تھی کیونکہ لیڈی اور لارڈ مونٹ بیٹن سے جواہر لال نہرو کے دیرینہ گہرے مراسم تھے جس کا نہرو نے ہر طرح سے ناجائز فائدہ اٹھا کر پاکستان کو بے حد نقصان پہنچایا۔ ایک سازش یہ کی کہ دوسرے جنگ عظیم کے بعد ہندوستان پر حکومت جاری رکھنا حکومتِ برطانیہ کے مفاد میں نہیں تھا۔ اس لیے اس نے جون ۱۹۴۸ء تک ملک چھوڑنے کا ارادہ بتادیا۔ یہ سن کر نہرو نے مونٹ بیٹن سے سازش کرکے ہندوستان سے جانے کا وقفہ ایک سال کم کرالیا تاکہ محض تین ماہ کے مختصر وقفہ میں قائد اعظم اور لیگ پر دباؤ ڈال کر مجوزہ معاہدے کی ضروری تفاصیل جاننے کا موقع دئیے بغیر ایگریمنٹ کرا لیا جائے۔ چنانچہ تقسیم ہند کا منصوبہ مونٹ بیٹن نے نہرو کی مرضی کے مطابق بنایاجس میں بنگال اور پنجاب میں ہندو اکثریت والے علاقوں کی علیحدگی۔ سلہٹ اور صوبہ سرحد میں استصواب رائے، ریاستوں کو مرضے سے الحاق کا اختیار ، کیونکہ راجہ کشمیر سے درپردہ ہندوستان سے الحاق کی سکیم طے ہو چکی ت ھی جس کی ۹۰ فیصد آبادی مسلم تھی ۔ جملہ محکمہ جات کے اثاثہ جات کی تقسیم، باؤنڈری کمیشی کو حتمی فیصلہ کا اختیار۔ پنڈت نہرو نے یہ منصوبہ فوراًًقبول کر لیا اور قائد اعظم و رفقا کو بتا دیا گیا کہ یا یہ منصوبہ قبول کر لیں ورنہ کانگریس کو قیادت و حکومت کا کلّی اختیار دیگر حکومت برطانیہ میں چلی جائے گی یا جیسا مونٹ بیٹن اپنی مرضی کے مطابق جو فیصلہ کرے گا قبول کرنا پڑے گا۔ چنانچہ قائد اعظم اور مسلم لیگ کو مجبوراًپہلا فیصلہ ماننا پڑا کہ اس میں پاکستان قائم کرنے کا واضح اعلان تھا۔ مگر باؤنڈری کمیشن جس کا ہیڈ ریڈ کلف تھا زیر اثر مونٹ بیٹن اور نہرو کی بددیانتی سے پاکستان کو نہایت اہمیت کے مسلم اکثریت والے علاقوں سے محروم کر دیا خاص کر گورداس پور جو مسلم اکثریت کا ضلع تھا۔ کشمیر پر ناجائز قبضہ کرنے کے لیے کٹھوعہ اور بٹالہ کا علاقہ ہندوستان کو دے دیا گیا۔ جو ہند سے کشمیر کو ملاتا تھا۔ فیروز پور ہیڈ ورکس دریاؤں کے پانی کو کنٹرول کرنے والا مقام ناجائز دے دیا گیا۔ بنگال میں مرشد آباد اورکئی مسلم اکثریت والے علاقے ہندوستان کے حوالے کر دئیے گئے۔ ہندوستان کے علاقے میں موجود مشترکہ اثاثوں کی تقسیم میں بڑی دھاندلی کی گئی۔ اورپاکستان کو بڑے حصے سے محروم کر دیا گیا تاکہ پاکستان کی انتظامیہ شروع میں بیٹھ جائے۔ اب تقسیم ہند کے نتیجہ میں ہندو تعصب کی بنا پر آبادیوں کا جو تبادلہ کرنا پڑا ۔ اُس کا مختصر احوال صرف سیالکوٹ شہر تک محدود ہے ۔ راقم نے جو جو دیکھا ، قتل و غار ت گری جس پیمانہ پر مشرقی پنجاب میں کی گئی ۔ اس کا عشرِ عشیر بھی پاکستان علاقوں میں نہیں ہوا۔ اگرکہیں کہیں ایسا ہوا بھی تو وہ بھی مشرقی پنجاب کے واقعات کے ردِ عمل کے طورپر۔ سیالکوٹ صنعتکاروں کا شہر ہے ۔ ہندو سرمایہ دار ، صعنت کاروبار و تجارت پر غالب تھے ۔ مسلمان عام طورپر متوسط یا غریب کاریگرہندو تھے۔ تاہم یہ اقبال اورمولوی میر حسن کا شہر تھا۔ جو نہایت انسان دوست اور درد مند انسان تھے اس لیے یہاں کبھی مذحبی جھگڑا فساد نہیں ہوا۔ ۱۴ ؍اگست سے کوئی دو ہفتے پہلے شہر میں کرفیو لگا دیا گیا۔ سکول کالج کاروبار بازار بند ہو گئے۔ اس لیے کہا گیا کہ سیالکوٹ سے غیر مسلم آبادی کا انخلا بغیر فساد لوٹ مار کے ہو جائے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ تمام غیر ہندو سکھ آرام سے ضروری سامان پیک کرکے کیمپوں میں پہنچا دئیے گئے جہاں سے ہندوستان روانہ کر دیا گیا۔ مگر ۱۴ ؍اگست سے ایک رات قبل کچھ شر انگیزوں نے اپنا کام کر دکھایا۔ رات کو ہندو علاقے کے کاروباری مقام سے آگ کے شعلے بلند ہوتے دیکھے گئے۔ یہ بازار کلاں کہلاتا ہے جس میں ہندووں کی بڑی بڑی کپڑے ، ہاوزری، جوتوں، جنرل سٹورز، کراکری صرافہ وغیرہ کی دکانیں تھیں۔ ۱۴؍اگست کو کرفیو ٹوٹنے کے وقفہ میں لوگ ضروریات زندگی خریدنے کے لیے بازاروں کی طرف گئے تو دیکھا بازار کلاں کی تمام دکانیں جل کر راکھ ہو چکی تھیں حیرت ہوئی کہ سب ایک رات میں کون کر گیا؟ ادھر ریڈیو پر اعلان ہو رہا تھا یہ ریڈیو پاکستان ہے ۔ یہ ملک پاکستان ہے جو مسلمانوں کا بن چکا ہے۔ اس کی چھوڑی ہر چیز ملک کی ملکیت ہے اس لیے کسی چیز کو ضائع نہ کریں نہ لوٹ ما کریں ۔ہوائی جہاز سے بھی نوٹس پھینکے گئے ۔ تاہم ہندو طویل رہائشی علاقے کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا گیا جس میں آنے والے مہاجرین کو آباد کردیاگیا۔ مہاجرین کے لیے وقتی طورپر کیمپ لگا دیا گیا جہاں نئی حکومت اور شہری تنظیموں نے ضرورت کی اشیا فراہم کیںؤ عجب درد انگیز مناظر تھے ۔ راقم نے بھی محلے کی تنظیم کے کارکنوں کے ہمراہ مہاجر کیمپ میں خدمت کے لیے چند دن گزارے۔ مہاجرین اپنا سب کچھ لٹا آنے کے باوجود پاکستان پہنچنے پر پُر امید نظر آتے تھے کہ پاکستان میں اُن کے حالات بہتر ہو جائیں گے۔ ان دنوں ہر کام تعطل کا شکار تھا۔ نئی انتظامیہ آہستہ آہستہ نظم و نسق پر توجہ دے رہی تھی۔ اس دوران بعض موقع پرست خالی ہندو آبادی کے گھروں میں بچا کھچا سامان سمینٹے میں لگے تھے۔ ایک دن راقم نے بھی ہندو آبادی کا چکر لگایا جہاں میرے دو ہندوستوں کی رہائش تھی۔ تمام آبادی کے دروازے کھلے پڑے تھے اور شہرِ خاموشاں کا منظر تھا۔ میں اپنے دوستوں کے گھر داخل ہوا ناکارہ سامان اُلٹ پلٹ پڑا تھا چند کتابیں نظر آئیں۔ ایک نہرو کے متعلق اور دوسری مہا بھارت پر وہ اٹھا کر میں واپس لوٹ آیا۔ بہر کیف ملک تقسیم ہو چکا تھا۔ ہندو ، انگریزوں اورمخالفین کی زبردست مخالفت کے باوجود پاکستان معرضِ وجود میں آ چکا تھا جس کے بارے میں قائد اعظم نے ریڈیو پر فرمایا : خدا کے فضل سے ہم نے آزاد وطن حاصل کر لیا ہے۔ اس میں وسیع اور قیمتی قدرتی وسئال ہیں جن سے ہم نے اپنی لگاتار محنت اور کوشش سے ملک کو مضبوط اورمستحکم کرنا ہے۔مگر بدقسمتی سے قائد اعظم ایک سال کے بعد ہی چل بسے۔ یہ ایک ناقابل تلافی نقصان تھا۔ ان کے بعد ملکی عنانِ حکومت ان لوگوں کے ہاتھوں میں آگئی۔ جو بڑے زمیندار، جاگیر دار ، سرمایہ دار ، بیوروکریٹ تھے۔ جن میں کافی نااہل اورکرپٹ تھے جس وجہ سے ملک خاطر خواہ ترقی نہ کر سکا۔ جیسے دوسرے ایشیائی ممالک کر رہے ہیں کیونکہ پاکستان یقین، اتحاد، نظم و ضبط کی بنا پر بنا تھا۔ وہ انتشار، ذاتی مفادات، حصول زر اورمنفی فکر و عمل میں بدل گیا ہے۔ ہمیں اقبال اور قائد اعظم کے فرمودات کی روشنی میں اپنے عمل کی اصلاح کی ضرورت ہے ۔ جیسے اقبال نے کہا ہے: وہی ہے صاحبِ امروز جس نے اپنی ہمت سے زمانے کے سمند ر سے نکالا گوہر فردا فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں موج ہے دریا میں بیرونِ دریا کچھ نہیں ورنہ انھوں نے قانونِ قدرت کی عمل کی تنبیہ کی ہے ۔ فطرت افراد سے اغماض بھی کر لیتی ہے کبھی کرتی نہیں ملت کے گناہوں کو معاف حواشی اقبال کی زندگی کی جمالیاتی پہلو۔ بے نیازی، فقر اور استغنا علامہ اقبال کثیر الجہت ، عظیم المرتبت شخصیت تھے اور آفاق گیر شہرت کھتے تھے۔ وہ نابغۂ روزگار ہستی تھے۔ جو صدیوں بعد کرۂ ارض پر ظہور پذیر ہوئیں۔ وہ اپنی آفاقی ، الہامی شاعری علومِ شرق و غرب میں وسیع دسترس، عالمانہ ، متکلمانہ قوتِ خطاب، اعلیٰ درجہ کے قانون دان اور دیگر بے مثل صفات کی بنا پر عالمگیر شہرت کے ساتھ جو انھیں حاصل تھی۔ بے پناہ دولت کما کر شاہانہ طرز زندگی گزار سکتے تھے مگر وہ فطری اور موروثی طور پر درویشانہ، متوکل ، بے نیاز قسم کا مزاج رکھتے تھے اور دنیاوی مال و دولت کو اسلامی اقدار کے مقابلے میں پرکاہ کی حیثیت نہیں دیتے تھے۔ جب ان کے سامنے کتابِ ہدایت، رسولِ مقبول ﷺکی والہانہ محبت ان کی سیدھی سادھی زندگی کا نمونہ موجود تھاتو وہ کیونکر دنیاوی مال و زر، جاہ و منصب ، تفاخر و تکبر کے فریب سود وزیاں کے شکار ہو سکتے تھے۔ جس کا اظہار انھوں نے یوں کیا ہے: کہاں سے تونے اے اقبال سیکھی ہے یہ درویشی؟ کہ چرچا بادشاہوں میں ہے تیری بے نیازی کیا بالِ جبریل ، کلیاتِ اقبال ،ص ۳۲۴۔ خدا کے پاک بندوں کو حکومت میں غلامی میں زِرّہ کوئی اگرمحفوظ رکھتی ہے تو استغنا بالِ جبریل ، کلیاتِ اقبال ،ص ۳۲۴۔ کہاں سے تونے اے اقبال سیکھی ہے یہ درویشی؟ کہ چرچا بادشاہوں میں ہے تیری بے نیازی کیا بالِ جبریل ، کلیاتِ اقبال ،ص ۳۱۵۔ میرا طریق امیری نہیں فقیری ہے خودی نہ بیچ غریبی میں نام پیدا کر بالِ جبریل ، کلیاتِ اقبال ،ص ۴۳۹۔ وہ بطور ایک سچے مسلمان کے خدا کے عطا کیے ہوئے مقام بندگی جسے احسن الخالقین کہا گیا ہے۔ اس کے آگے مال و دولت کو ہیچ جانتے ہوئے اپنی باعمل درویشانہ بے نیاز استغنا سے معمورِ زندگی کو وہ خدا تعالیٰ کا بہت بڑا انعام سمجھتے تھے۔ جس کے اندرِ مقصدِ حیات کی تکمیل کے لیے عشق، جدوجہد ، قوتِ تسخیر، تگ و تاز، عملِ پیہم ، باہمی ہمدردی ، محبت و دستگیری اور سوز و درمندی کا ایک جہاں آباد ہے۔ اسی لیے وہ کہتے ہیں : متاعِ بے بہا ہے درد و سوزِ آرزو مندی مقامِ بندگی دے کر نہ لوں شانِ خداوندی کلیاتِ اقبال ،ص ۳۰۶۔ چنانچہ زیرِ غور مضمون میں اقبال کی شخصی زندگی کے ان پہلوؤں کا کسی حد تک احاطہ کرنے کی سعی کی گئی ہے جس کا تعلق معاشرے میں رہتے ہوئے مال و دولت کی اہمیت کے باوجود باہمی تعلق و ربط ، معاملاتِ زندگی ، رہائش ، خوراک ، صحت اور دیگر ضروریاتِ زندگی کے ضمن میں ان کی درویشانہ طبیعت، توکل ، بے نیازی اور استغناء کا اظہار ہوتا ہے۔ اقبال نے وکالت کو اپنا ذریعہ معاش بنایا۔ وہ اعلیٰ پایہ کے قانون دان تھے ۔اپنی بے مثل ذہانت ، فطانت، ذکارت اور متکلمانہ جوہر سے وہ وکالت کے ذریعے بے حد دولت کما سکتے تھے مگر ملک کے سیاسی حالات، مسلمان قوم کی زبوں حالی انھیں بیدار و متحد کرنے اور متعصب و شاطر مخالفین انگریز اورہندو کانگریس سے قوم کے جائز حقوق حاصل کرنے کے سلسلہ میں وہ وکالت کے ذریعے بے حد دولت کما سکتے تھے مگر ملک کے سیاسی حالات، مسلمان قوم کی زبوں حالی انھیں بیدار ومتحد کرنے اور متعصب و شاطر مخالفین انگریز اور ہندو کانگریس سے قوم کے جائز حقوق حاصل کرنے کے سلسلہ میں وہ وکالت کو زیادہ وقت نہیں دیتے تھے اور ہر ماہ اگرپہلے ہفتے میں ۶۰۰؍۵۰۰روپے کی فیس حاصل ہو جاتی جن سے گھریلو اخراجات پورے ہوجاتے تو باقی مہینہ وہ کیس لانے والوں سے معذرت کر دیتے۔ ایسی مالی منفعت سے بے نیازی کا ایک حیرت انگیز واقعہ ایک ہندوستانی مصنف ڈاکٹر رفیق زکریا نے اپنی کتاب اقبال شاعر اور سیاستدان میں لکھا ہے کہ ایک ممتاز ہندو قانون دان اور اعلیٰ ترین کانگریسی رہنما سی۔ آر۔ داس نے اقبال کو پٹنہ کے ایک مقدمے میں ماہرانہ شہادتی بیان تیار کرنے کے لیے رابطہ کیا۔ جس میں عربی ، فارسی دستاویزات کا ترجمہ بھی عدالت کو پیش کرنا تھا۔ اس کیسی کی تیاری کے لیے اقبال کو فرسٹ کلاس کرایہ، نہایت اعلیٰ جائے قیام اورایک ہزار روپیہ یومیہ فیس کی تجاویز پیش کیں کہ وہ کیس کی تکمیل کے لیے دو ماہ تک پٹنہ میں قیام کر سکتے ہیں۔ اقبال نے سی۔ آر۔ داس سے فائل طلب کیاور جن سوالات کے جوابات تیار کرنے تھے وہ ایک ہی رات میں تیارکرکے دستاویز اگلی صبح عدالت میں پیش کر دی فریقِ ثانی ممتاز کانگریسی رہنما وکیل موتی لال نہرو تھا، اقبال کا بیان واضح اورمکمل تھا موتی لال نہرو کو اقبال سے جرح کرنے کی ضرورت نہ پڑی۔ چنانچہ عدالتی کاروائی ایک روز میں ختم ہو گئی اور اقبال صرف ایک ہزار روپیہ وصول کرکے لاہور واپس آ گئے ۔ یہ وہ زمانہ تھا جب آٹا ایک روپے کا بیس سیر ملتا تھ۔ا آپ اندازہ کریں کہ ساٹھ ہزار کی رقم آج کل کے حساب سے خطیر رقم بنتی ہے جو اقبال نے حصولِ زر کی بجائے انتہائی دیانت و ایمانداری کے اصولوں پر قربا ن کر دی۔ اس زمانہ میں اقبال کے ایک دوست علی امام جو مہاراجہ الور سے قریبی تعلق رکھتے تھے۔ اقبال کو مہاراجہ کا پرائیوٹ سیکرٹری مقرر کرنے کا پرکشش مشاہرے پر انتظام کیا اقبال الور گئے۔ مہاراجہ سے ملاقات کی اور بغیر ملازمت قبول کیے واپس آ گئے۔ کیونکہ ریاست میں رائج نظام اورمہاراجہ کی شخصی حیثیت کے احکام کی تکمیل اقبال کے مزاج کے موافق نہ تھی۔ اقبال کو اپنی آزادی عزیز تھی۔ اس لیے وہ مالی فائدہ کی خاطر ان مطالبات کو پورا نہ کر سکتے تھے۔ جو شاہی ملازمت ان پرمسلط کردیتی۔ کچھ اس طرح کی مجبوری سے آزادی کی خاطر اقبال نے گورنمنٹ کالج کی پروفیسری سے استعفیٰ دے دیا۔ حالانکہ ہائیکورٹ نے ان کے علمی مرتبے کو دیکھتے ہوئے انھیں مراعات دی تھیں کہ ان کے مقدمات کو کالج کی کلاسوں کے بعد سماعت کیا جائے۔ تاہم اقبال کا ذہن فطری طورپر ملازمت کو بخوشی قبول نہیں کرنا تھا۔ دوسرے انگریزپرنسپل کا رویہ ماتحت و محکوم قوم کے اساتذہ سے وقار کے منافی تھا۔ مخلص احباب نے اقبال کے اس اقدام کو نہ سراہا۔ مگر اقبال کے نزدیک یہ زیادہ ضروری تھا۔ کیونکہ سرکاری ملازمت میں رہ کر قوم کی بیداری اور آزادی کے لیے اپنے کلام میں آزادانہ جذبات و خیالات کا اظہار نہیں کر سکتے تھے۔ انگریز حکومت کا طریقہ تھا کہ والیان ریاست کے وزیر اعظم نامزد کرتی ۔ جوان کے مفادت کے تحت ریاستی نواب یا مہاراجہ کو پابند رکھتا۔نواب آف بہاولپور کو اپنے وزیراعظم سے دخل در معقولات کی بہت شکایت تھی۔ انھوں نے اقبال کو اس مسئلے کے لیے وکیل منتخب کیا۔ اقبال نے اپنے مضبوط دلائل اور حسنِ بیان سے وائسرے کو قائل کرکے وزیراعظم کو تبدیل کرادیا وائسرے کو اقبال کے علمی مرتبے کا علم تھا اس نے درخواست کی کہ پرسوں میرے ساتھ ڈنر کریں۔ اقبال نے کہا کہ مجھے تو آج ہی واپس جانا ہے۔ وائسائے نے کہا کہ اچھا کل سہی۔ اقبال نے کہ اگر آپ کی خواہش ہے تو اج ہی کر لیجیے۔ وائسرائے نے ان کی بات مان لی علامہ کو دوسراہ کمرہ آرام کے لیے دیا اور دوپہر کا کھانا کھا کر اقبال اسی دن واپس لوٹ آئے۔ نواب بہاولپور کا یہ کام معمولی نہ تھا۔جو اقبال نے حسنِ تدبیر سے کر دکھایا۔ چنانچہ نواب نے اقبال کا شکریہ ادا کرنے اورخصوصی انعام و اکرام عطا کرنے کے لیے بذریعہ تار انھیں بہاولپور بلا بھیجا مگر اقبال کی درویشانہ اور بے نیاز طبیعت نے گوارا نہ کیا اور اس موقع سے فائدہ اٹھانے کی بجائے معذرت کر دی جو ایک مردِ قلندر، مستغنی اور درویش صفت انسان ہی کر سکتا ہے ان کا یہ شعر اس جذبے کو حضور رسالتمآب میں اس طرح اظہار کرتا ہے۔ میرا نشیمن نہیں در گہہِ میر و وزیر میرا نشیمن بھی تو (ﷺ) شاخِ نشیمن بھی تو(ﷺ) کلیاتِ اقبال اردو ، ص ۹۱۔ اقبال انجمنِ حمایت اسلام کو مسلمانوں کی تعلیم و تنظیم و اشاعت کا مرکز سمجھتے تھے۔ انجمن سے ایک مرتبہ تعلق قائم ہوا تومرتے دم تک منقطع نہ ہوا۔ انھوں نے پہلی بار اپنی نظام ‘‘نالۂ یتیم’’ ۱۸۹۹ء میں سٹیج پر پڑھی۔ انجمن کو یہ فخر حاصل ہے کہ اقبال نے اپنی مشہور ترین نظمیں مالی منفعت کے بغیر سٹیج پر پرھیں اور سامعین سے انجمن کے فنڈ میں خطیر اضافے کا باعث بنیں۔ اقبال کافی سال انجمن کے صدر بھی رہے مگر علالت کے باعث آخری بار ۱۹۳۶ء میں انجمن کے سالانہ اجلاس میں شریک ہو سکے۔ وفات سے قبل اپنا زاتی کتب خانہ جو ان کی زندگی کا اثاثہ اور سرمایہ تھا۔ عطیہ کے طورپر انجمن کو نذر کر دیا۔ اقبال کی عالی ظرفی کا یہ عالم تھا کہ آخری سالوں میں علالت کے باعث تمام مالی ذرائع مسدود ہو چکے تھے سر راس مسعود جو سرسّید کے پوتے اور اقبال کے شیدائی تھے۔ ریاست بھوپال میں وزیر تعلیم کے عہدے پر فائز تھے ۔ ان کی سعئ جمیلہ سے نواب بھوپال اور سر آغا خان نے ۵۰۰۔۵۰۰ روپے ماہانہ وظیفہ کی پیش کش کی اقبال نے نواب بھوپال کے وظائف کو تو قبول کر لیا کہ میں قرآن کی شرح جس کی جدید زمانے کے حالات میں سخت ضرورت ہے، لکھوں گا، اگر عمر نے وفا کی تو مگر آغاخان کے وظیفہ سے معذرت کر لی کہ میں سادہ زندگی کا عادی ہوں۔ نواب بھوپال کا وظیفہ ہی کافی ہے ۔ ان کی یہ سیر چشمی یقیناً قرونِ اولیٰ کے مومنوں اور صوفیاء و اولیاء کی زندگی کے مطابق تھی۔ یہ صرف سیر چشمی نہ تھی۔ جب نادرشاہ افغانستان میں بچہ سقّہ کی بغاوت فرو کرنے کے لیے ملک میں امن و امام قائم کرنے آیا تو اقبال اسے ملنے ریلوے اسٹیشن پر گئے اور اپنی تمام جمع پونجی جنگی اخراجات کے لیے اسے پیش کر دی جو معمولی رقم ہی سہی مگر مومنانہ جذبہ کی تحت تھی۔ حالانکہ اقبال مشکل سے آمدنی سے زائد رقم جمع کرنے کی حالت میں تھے مگر یہ جذبہ نہ صرف لائقِ تحسین تھا مگر قابلِ تقلید بھی۔ حیدرآباد دکن کے وزیر سر اکبر حیدری سے اقبال کے دوستانہ مراسم تھے۔ انھوں نے اقبال کی علالت اور معاشی حالات کے پیشِ نظر ایک ہزار روپے کا چیک مدد کے لیے ارسال کیا اور ساتھ ہی لکھ دیا کہ یہ رفاہِ عام کے فنڈ سے دیا گیا ہے جس کا وہ ناظم ہے اقبال نے دوستانہ دستگیری کی بجائے ایسے فنڈ سے امداد لینا غیرت کے منافی مجھ کر چیک لوٹا دیا اور ساتھ ہی چار اشعار کا قطعہ معذرت کے طورپر لکھ دیا ۔ جس کاآخری شعر یوں ہے : غیرتِ فقر مگر کر نہ سکی اس کو قبول جب کہا اس نے یہ ہے میری خدائی کی زکوۃ اس احساس کے تحت وہ جائز و ناجائز کے متعلق بہت محتاط تھے وکیلوں کے پاس مؤکل عام طور پرتحائف و ہدیہ لایا کرتے ہیں جو فیس کے علاوہ ہوتے ہیں ۔علامہ کو ان تحائف کو قبول کرنے میں بھی تامل تھا۔ چنانچہ انھوں نے مولانا سید سلیمان ندوی کو اس بارے میں وضاحت کے لیے لکھا ہے کہ کیا ایسے تحائف وکلاء کے لیے حلال ہیں؟ اقبال اپنی آمدنی کے حساب و کتاب میں نہایت احتیاط اور توجہ کرتے تھے اور جن ذرائع سے بھی آمدنی ہوتی تھی انھیں بلا کم و کاست آمدنی کے گوشوارے ظاہر کر دیتے تھے اور قانون کے مطابق ٹیکس ادا کرنے میں ذرا کوتاہی نہیں کرتے تھے۔ مشہور مؤرخ ڈاکٹر صفدر محمود نے اقبال کے ٹیکس گوشواروں کی تمام سالوں کی تفصیل محکمہ ٹیکس سے لے کر شائع کی ہے وہ کہتے ہیں کہ انکم ٹیکس آفیسر اگرمزید ٹیکس غلط بھی لگاتا تو اقبال ادا کر دیتے۔ اس کے خلاف کبھی اپیل نہ کرتے۔ اگرچہ اس کے منظور میں ہونے کوئی شبہ نہ ہوتا۔ اقبال کی پہلی بیوی جس کا تعلق گجرات سے تھا۔ مزاج میں ہم آہنگی نہ ہونے کے سبب بنا نہ ہو سکا نتیجتہً وہ زیادہ عمر اپنے میکے میں رہی۔ اقبال نے وفات تک ماہانہ نان نفقہ میں کبھی تاخیر نہ کی نہ ویسے اقبال نے طلاق دی اور اس نے خلعہ کی کوشش کی۔ الگ رہ کر خاموشی سے شرعی تقاضے نبھاتے رہے۔ پہلی بیوی سے علیحدگی کا خلاء قدرت نے یکے بعد دیگرے دو بیگمات سے پُر کر دیا۔ جن سے اقبال کے تعلقات ان کی عمر کے اخیر تک نہایت خوشگوار رہے۔ دونوں بیگمات بہنوں یا سہیلیوں کی طرح رہتیں۔ اقبال بھی دونوں سے یکساں سلوک کرتے تھے اور دونوں کے لیے ایک جسی اشیاء خریدتے ۔ ایک دفعہ دونوں کے لیے ایک جیسا زیور بنوایا تو ایک کا زیور چند ماشے کم رہ گیا اقبال نے کم وزن کی قیمت اس کی بیوی کو نقد دے دی۔ اقبال نے اپنی کوٹھی میؤ روڈ(اب اقبال روڈ) پر ۱۹۳۵ء میں بنوائی۔ جس کی تعمیر کی ذمہ داری ان کے بڑے بھائی عطا محمد نے قبول کی۔ جو ریٹائرڈ انجینئر تھے۔ اقبال کی بے نیازی کا یہعالم تھا کہ دورانِ تعمیر انھوں نے ایک بار بھی تعمیر ہوتی ہوئی عمارت کو نہیں دیکھا جب کوٹھی تیار ہو کر مکمل ہو گئی تو اقبال نے اسے اپنے بیٹے جاوید اقبال کے نام ہبہ کر دیا۔ اس میں اپنے تصرف کے لیے جو تین کمرے رکھے اس کا کرایہ باقاعدگی سے ماہ بما پر ۲۱ تاریخ کو بینک میں جمع کرا دیتے۔ اقبال کی وفات بھی ۲۱ اپریل کو ہوئی۔ اس لیے ان کے ذمے ایک دن کا کرایہ بھی قابل ِ ادا نہ تھا۔ ایک دفعہ ایک درویش اقبال کے پاس آیا۔ آپ نے حسبِ عادت اس سے دعا کی درخواست کی۔ درویش نے پوچھا دولت چاہتے ہو؟ اقبال نے جواب دیا میں درویش ہوں دولت کی ہوس نہیں۔ تو کیا عزّ و جاہ مانگتے ہو؟ اقبال نے جواباًکہا کہ وہ بھی خدا نے کافی عطا کی ہوئی ہے۔ پوچھا تو کیا خدا سے ملنا چاہتے ہو؟ جواب دیا ۔ سائیں جی کیا کہہ رہے ہو؟ وہ خدا، میں بندہ۔ بندہ خدا سے کیسے مل سکتا ہے؟ قطرہ دریا میں مل جائے تو قطرہ نہیں رہتا۔ نابود ہو جاتا ہے۔ میں قطرے کی حیثیت میں ہی دریا بننا چاہتا ہوں۔ یہ سن کر درویش جھوم اٹھا ، بولا : بابا جیسا سنا تھا ویسا ہی پایا۔ تو خود آگاہِ راز ہے تجھے میری دعا کی کیا ضرورت ؟ اقبال کے شعر یاد آ گئے ہیں۔ میری نوائے پریشاں کو شاعری نہ سمجھ کہ میں ہوں محرم رازِ درونِ مے خانہ کہہ گئے ہیں شاعری جزویست از پیغمبری ہاں سنا دے محفلِ ملت کو پیغام سروش علامہ کی میکلوڈ روڈ والی کوٹھی خاصی بوسیدہ تھی جس کا وہ ۲۰۰ روپے کرایہ دیتے تھے۔ دوست احباب کہتے کہ کوٹھی کی حالت کو مدِّنظر کرایہ زیادہ ہے۔ اقبال جواب دیتے کہ یہ کوٹھی ایک ہندو بیوہ کی ہے جس کے یتیم بچے بھی ہیں اور اس کا یہی ذریعہ معاش ہے جس میں کمی کرنا مناسب نہیں سمجھتا۔ اسی طرح انار کلی والے مکان کا مالک بھی ہندو تھا جو ہر روز بڑی انکساری سے علامہ کو پرنام کرتا ۔ علامہ نے استفسار پر بتایا کہ مالک مکان مجھے بڑا دھرماتما سمجھتا ہے کیونکہ اسے ہر ماہ کی پہلی تاریخی کو باقاعدگی سے کرایہ مل جاتا ہے۔ اس کے لیے یہ بات باعثِ حیرت ہے کہ ایک کرایہ دار ہمیشہ عین یکم تاریخ کو ایڈوانس کرایہ دیتے دیتا ہے۔ مذکورہ میکلوڈ روڈ والی بوسیدہ کوٹھی ایک ہندو بیوہ کی ملکیت ہونے کے سبب نہ کرایہ کم کراتے اور نہ مرمت کرنے کو کہتے۔ ان کے ایک دوست نے کہا کہ بیٹھک میں دیوار پر ملکہ وکٹوریہ کی تصویر ٹیڑھی آویزاں ہے۔ اگر آپ کو انگلش سرکار سے اتنا لگاؤ ہے تو ملکہ کی تصویر سیدھی لٹکا دیں۔ اس پر اقبال نے کہا کہ تصویر ہٹا کر دیکھو تو معلوم ہوا کہ اس کے پیچھے دیوار پر سے پلستر اکھڑا ہوا تھا جس چھپانے کے لیے ملکہ کی تصویر کا سہارا لیاگیا تھا۔ آپ کے بھتیجے اعجاز احمد کا بیان ہے کہ اقبال کو وکالت کرتے ہوئے دس سال گزر گئے توانھوں نے اپنے والد کو خط میں لکھا کہ میں نے ارادہ کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھ پر فضل و کرم کرے تو میں اپنی نظم و نثر سے کوئی مالی فائدہ نہیں اٹھاؤں گا کہ یہ ایک خداداد عطیہ ہے جس میں میری محنت کو کوئی دخل نہیںؤ اسے خلق اللہ کی خدمت میں صرف ہونا چاہیے۔ لیکن ان کی گورنمنٹ کالج کی ملازمت ترک ہونے، قومی مسائل اور اسمبلی کی مصروفیات کی وجہ سے وکالت ختم ہونے سے کسی کے دستِ نگر ہونے سے بچنے کے لیے یہ ارادہ ترک کرنا پڑا۔ ایک بار تجویز ہوا کہ اقبال کے نام پر فوجی سکول قائم کیا جائے۔ علامہ نے تجویز پیش کی کہ شاعر کے نام سے فوجی سکول قائم کرنا مناسب نہیں۔ میری خواہش ہے کہ اس کا نام ٹیپو فوجی سکول رکھا جائے جو تسلیم کر لیا گیا۔ گویا اقبال کی سرشت میں یہ بات تھی کہ وہ نام و نمو اور مال اور دولت کو ذرہ برابر بھی وقعت نہیں دیتے تھے۔ انھوں نے تمام عمر ذہنی، جسمانی، وجدانی محنت کی۔ درویش و قلندر کہلوانا پسند کیا۔ خودداری اور عزتِ نفس کے اصولوں پر کبھی سمجھوتانہ کیا۔ سرمایہ داری نظام کے وہ ویسے ہی بہت خلاف تھے کہ یہ استحصالی نظام ہے۔ ان کی شاعری سرمایہ داری نظام کے خلاف اشعار سے بھری ہوئی ہے کہ یہ انسانیت کش ہے ۔ مفلس، مزدور چھوٹے کسانوں، مزارعوں کا استحصال کرنا جائز طریقے سے دولت اکٹھی کرکے انسانیت کا خون کرتا ہے۔ جیسا انھوں نے فرمایا: دستِ دولت آفریں کو مُزد یوں ملتی رہی اہلِ ثروت جیسے دیتے ہیں غریبوں کو زکوۃ سرمایہ داری نظام کو وہ بظاہر مہذب قانونی طریقوں سے دھوکہ فریب کہتے ہیں : اس سرابِ رنگ و بُو کو گلستاں سمجھا ہے تو؟ آہ! اے ناداں قفس کو آشیاں سمجھا ہے تو؟ مال و دولت سے بے نیازی کے بیان کے بعد اقبال کی روز مرہ کی زندگی کے دوسرے پہلوؤں کا ذکر بھی ضروری ہے۔ جیسا کہ روز مرہ کی معاملات خوراک، رہائش لباس، میل ملاقات، اخلاقیات وغیرہ کا ذکر کیا جا چکا ہے کہ اقبال کی زندگی ایک درویش اور قناعت پسند انسان کی تھی۔ جس میں سادگی، نمود و نمائش، تصنع ، بناوٹ سے قطعاًلا تعلقی ظاہر ہوتی تھی۔ وہ ہر طرح سے ایک سادہ مزاج، متوکل جو بے عملی کی بجائے عمل والا توکل اور صبر و شکر کا نمونہ تھے۔ آفاق گیر شہرت کے باوجود ان میں تکبر و نخوت نام کی نہ تھی۔ ملاقاتیوں سے وہ کوئی امتیاز نہیں برتتے تھے۔ ان کا درِ دل اورمجلس کے دروازے سب پر یکساں کھلے تھے۔ دوست احباب، نامور عالم ، عہدیداران، طالب علم ، ان پڑھ ، مزدور، تانگے والا ، خوانچہ فروش سب کے لیے اذن عام تھا۔ جو آتا ادب سے سلام کرکے بیٹھ جاتا۔ کوئی بات کرتا تو آپ پوری توجہ سے سنتے۔ کوئی مسئلہ ہو تو سب کے سامنے حل بتاتے۔ اکثر پہلے سے نہ جاننے والے پہلی بار آتے تو اس عظیم شخصیت کو نہات سادہ لباس مثلا گرمیوں میں کنی والی دوہری دھوتی، بدن پر نیم بازوؤں والی بنیان میں ملبوس اور سردیوں میں اسی لباس یا شلوار قیمض پر کمبل لے کر سب سے بے تکلفی سے مشغول گفتگو دیکھ کر حیران ہو جاتے کہ یہی علامہ، ڈاکٹر، بارایٹ لا، سر محمد اقبال ہیں۔ جنھیں شاعرِ مشرق، ترجمانِ حقیقت ، مصورِ فطرت،دیدہ در، دانائے راز کہا جاتا ہے۔ جنھیں شان و شوکت ، اعلیٰ مراتب ، شہرت و خطابات کی چنداں خواہش نہ تھی۔ ان کی شہرہ آفاق مثنوی اسرارِ خودی اور اعلیٰ شاعری کے اعتراف و تحسین کے طور پر گورنر کی طرف سے ‘‘سر’’ کے خطاب کی پیش کش کو طوعاًو کرہاً اس لیے قبول کیا کہ اس میں مسلم قوم میں کسی صاحب علم کے ہونے کا اعتراف پایا جاتا ہے اورجس سے دوسرے بھی حصولِ علم ، تصنیف و تحقیق کی طرف متوجہ ہوں گے۔ گورنر نے دوسرے خطاب ‘‘شمس العلماء ’’ کے لیے نام تجویز کرنے کو کہا تو اقبال نے شرط لگائی کہ ان کے تجویز کردہ نام کے بعد کسی اورنام پر غور نہیں کیا جائے گا ۔ گورنر نے اتفاق کیا تو اقبال نے اپنے استاد مولوی میر حسن صاحب کا نام لیا۔ گورنر نے ان کی شہرت اور تصنیف کے بارے میں پوچھا تو بتایا کہ ان کی تصنیف میں خود آپ کے سامنے موجود ہوں۔ پھر اقبال نے یہ شرط لگائی کہ ان کے ضعیف استاد کو یہ اعزاز ان کے گھر پہنچایا جائے۔ نام و نمود سے بے نیازی کی بناء پر مشاعروں میں شرکت، شعر خوانی پرداد کی طلب، صدارت کرنا، اپنے اشعار کی بلا مقصد اشاعت و شہرت کے مطلقاًخواہش مند نہ تھے۔ بلکہ اکثر بڑے قریبی تعلق یافتہ، مقربین ، اربابِ اختیار کے موقع بے موقع اشعار سنانے پر معذرت کر دیتے کہ اس سے عامیانہ پن اور درباری انداز ظاہر ہوتا ہے۔ جس سے وقار مجروح ہوتا ہے ۔ انھوں نے شعر گوئی کے لیے نواب رامپور، نواب جونا گڑھ، راجہ سر ہرکشں پرشاد، جوش ملیح آبادی جیسے اشخاص کو معذرت کر دی۔ اگرکوئی بلا اجازت ان کے اشعار چھاپ دیتا تو اس کا سختی سے نوٹس لیتے۔ غرض یہ کہ کسی کی مجال نہ تھی کہ اپنی خواہش کے مطابق اقبال کو شعر خوانی پر آمادہ کرے۔ ہاں احبابِ خاص کی محفل ہو، حالات کا تقاضا ہو اور اشعار کی آٖد ہو تو لگاتاراشعار سناتے اورلکھواتے۔ اس طرح کسی کو شاگردی میں نہیں لیتے تھے اور نہ استاد ہونے کی شہرت کے خواہاں تھے۔مولانا عبدالمجید سالک نے اپنے کلام کی اصلاح کرنے کی درخواست کی تو کہا کہ یہ بے پیرافن ہے یعنی قدرت خود ہی شاعر بنا دیتی ہےؤ اگرکسی میں جوہرِ قابل ہو ۔تمھارا کلام ظاہر کرتا ہے کہ تم اچھے شاعر کے اوصاف رکھتے ہو۔ اس لیے مشق جاری رکھو۔ منزل پالو گے۔ ویسے اوزان کی کتاب اور دو استادوں کے نام بتادئیے۔ جس پر عبدالمجید سالک نے عمل کیا۔ ااقبال کی متکلمانہ صفت مسلم تھی۔ محفل میں کوئی سا بھی موضوع ہو وہ اس طرح برجستگی اور روانی سے اورمتصدقہ حوالوں سے گفتگو میں ایسے گوہر تابدار نچھاور کرتے گویا پہلے سے ہی اس موضوع کے لیے تیاری کی ہو۔ دلائل اور خیالات کا دریا ہوتا جو امڈ نظر آتا اوران کی رائے حرفِ آخرسمجھی جاتی ۔ ایک دفعہ انگلستان میں قیام کے دوران ایک محفلِ مذاکرہ میں موضوع تھا‘‘Life After Death’’شرکانے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیاوہاں اقبال کے استاد سرتھامس آرنلڈ بھی تھے۔ انھوں نے اقبال کو بھی دعوتِ کلام دی جواب میں اقبال نے صرف ایک جملہ کہہ کر محفل کو سمیٹ دیا۔ جو یہ تھا: That life is beginning of death and death is beginning of life. اس رنگ میں اقبال کا ایک شعر بھی ہے کہ : موت کو کہتے ہیں غافل اختتامِ زندگی ہے یہ شامِ زندگی، صبحِ دوام زندگی اقبال کی زندگی نام و نمود کی بجائے ملت کی بہتری و بہبود کے لیے وقف تھی مگر لاہور کے خواص و عام چا ہتے تھے کہ اقبال اسمبلی میں منتخب ہو کر قوم کو فیضیاب کریں۔ اس خواہش کی تکمیل کے لیے لاہور ارائیں برادری کے معروف نمائندے میاں عبدالعزیز مالواڈح نے ان کے حق میں اپنا نام واپس بھی لے لیا۔ چنانچہ اقبال کو سرِ تسلیم خم کرنا پڑا۔ اور یہ اعلان کیا کہ پچیس سال تک میں نے قوم کی کلام سے خدمت کی ہے کہ وہ نا امیدی اورکم ہمتی کو چھوڑ کر اسلاف کے نقشِ قدم پر عملی زندگی کو اپنائیں۔ اب میں زیادہ مؤثر طریقے سے آپ کی خدمت کے لیے خود کو ممبری کے لیے پیش کرتا ہوں۔ممبر کا سب سے بڑا یہ وصف ہونا چاہیے کہ ذاتی مفاد کو قومی مفاد پر قربان کر دے۔ میں یقین دلاتاہوں کہ اپنے ذاتی مفاد کو قوم کی اصلاح کے مقابلے میں ہر گز ترجیح نہیں دوں گا۔ میں اللہ رب العزت سے دعا کرتاہوں کہ مجھے اس کی توفیق بخشے۔ میں اغراضِ ملّی کے مقابلے میں ذاتی خواہشات کو فوقیت موت سے بدتر خیال کرتاہوں۔ اور واقعی یہ ممبر ی قوم کے لیے بڑا ایثار تھی ۔کیونکہ انھوں نے انتھک محنت سے ایسے قوانین پاس کرانے کی کوشش کی جن سے عوام، محنت کشوں، غریبوں اورکسانوں کو بہت فائدہ ہوا۔ اگرچہ اس قدر توجہ اورمحنت سے ان کی وکالت جو ان کی اصل آمدنی کا ذریعہ تھی بالکل ٹھپ ہو گئی۔ اوروہ بڑی مالی مشکلات میں گھر گئے۔ اقبال کے مقابلے میں آج کل کے نمائندگان الیکشن کا خیال کریں جو نام تو قوم کی خدمت کا لیتے ہیں مگر دونوں ہاتھوں سے دولت سمیٹتے ہیں اور ملک کی اقتصادی اور معاشرتی حالت تباہ کر رہے ہیں۔ علامہ عام طورپر پنجابی میں گفتگو کرتے حاضرین زیادہ تر پنجابی میں ہوتے تاہم حسبِ موقع اردو اور ضرورت کے تحت انگریزی میں بھی موضوع کی وضاحت اور سوال کی مناسبت سے حوالے دیتے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کی مزاج میں علمیت اور لیاقت کو مشتہر کرنے کا مادہ نہیں تھا۔وہ بے تکلف ایسی زبان بولتے جسے سامعین آسانی سے سمجھ لیں۔ حاضرین میں کچھ ایسے حضرات بھی ہوتے جو خاص مقصد کے تحت بڑی نیاز مندی کا اظہار کرتے مگران کا کام مخا لفین تک خبریں پہنچانے کا ہوتا۔علامہ اچھی طرح جانتے تھے کہ اس نیاز مندی کے پیچھے کیا ہے؟ اورمخبروں پر بالکل ظاہر نہیں کرتے تھے کہ وہ ان کے آنے کا مقصد جانتے ہیں۔ کیونکہ ان کے خیال میں یہ ان کے روزگار کا معاملہ ہے۔ اور علامہ کسی کو بے روزگار دیکھنا پسند نہیں کرتے تھے۔ ایسے اخبار نویس جو نام بدل کر ان کے خلاف زہر اگلتے ۔ اقبال نے ‘‘مخلص منافق’’ کانام دے رکھا تھا۔ بعض لوگ بلا وجہ بھی بیٹھے رہتے مگر علامہ سب کی موجودگی کو خندہ پیشانی سے برداشت کرتے اورکسی کی دل آزاری نہ کرتے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر علامہ اقبال کو نامور انگلش سکالر ڈاکٹر جانسن کی طرح ان کی گفتگو کے جواہر پاروں کو قلمبند کرنے والا اور ڈاکٹر باسویل کی طرح کا رفیق مل جاتا تو اقبال کی علمی شہرت کہیں زیادہ ہوتی۔ جو اُن کی آفاقی شاعری کی وجہ سے تھی۔ مگر ان کی طبعِ فقر شہرت کی خواہش سے بے نیاز تھی۔ تاہم حضور اکرمﷺکی نگاہِ کرم کے طفیل انھیں زندگی میں ہی بین الاقوامی شہرت عطا ہو گئی۔ جس کا اظہار وہ اپنی سوز و محبت سے لبریز خوبصورت نعت کے ایک شعر میں یوں کرتے ہیں: عالم آب و خاک میں تیرے ظہور سے فروغ ذرہ ریگ کو دیا توﷺ نے طلوعِ آفتاب اقبال کی نمود و نمائش شہرت، ہوسِ اقتدار سے بے نیازی کے بارے میں ایک مشہور واقعہ یہ ہے کہ ایک دفعہ پنڈت جواہر لعل نہرو اقبال سے ملاقات کے لیے آئے۔ ان کے ہمراہ میاں افتخار الدین بھی تھے جو اس وقت کانگرس میں تھے۔ دوران ملاقات میاں افتخار الدین نے پنڈت نہرو کے ایما پر اقبال سے کہا کہ اس وقت جو ہر دلعزیزی اور احترام مسلمان قوم میں آپ کی جملہ صفات کی وجہ سے ہے وہ کسی اور کے لیے نہیں۔ تو آپ کیوں نہیں مسلم لیگ کی سربراہی اپنے ہاتھ میں لے لیتے۔ آپ کی سیاسی بصیرت اورمعتدل مزاج کی وجہ سے کانگرس اورمسلم لیگ میں تحریک آزادی کے لیے آسانی سے مشترکہ لائحہ عمل تیار ہو سکے گا۔ جو محمد علی جناح کے ساتھ ممکن نہیں۔ جن کے مزاج میں زیادہ سختی ہے۔ اقبال فوراًسمجھ گئے کہ یہ دونوں میرے اور قائد اعظم کے درمیان تفرقہ ڈالنے آئے ہیں۔ انھوں نے جوش سے تمتماتے ہوئے چہرے سے جواب دیا کہ تم غلط سمجھے ہو۔ اس وقت اسلامیانِ ہند کا صرف اورصرف ایک بلا اختلاف لیڈر محمد علی جناح ہے۔ جس کی قیادت میں مَیں ایک ادنیٰ سپاہی کی طرح اطاعت کرنا باعثِ فخر سمجھتا ہوں۔ چنانچہ اقبال کی وجدانی بصیرت اورجنید بغدادی اور بایزید بسطامی جیسی فقر و بے نیازی نے کانگرسی لیڈر کی چال کو ناکام بنا دیا۔ ایسی بے لوث، بے نیاز، سیرچشم، ایثار پیشہ قربانی کی مثال کہا ں ملتی ہے۔ جس پر اولیاء صفت انسان بھی فخر کر سکتے ہیں۔ کاش ایسے دو رہنما ملک کو ایک بار پھرنصیب ہو جائیں۔ گفتگو کے دوران آنحضرت ﷺ کا ذکرِ مبارک آ جاتا تو ان کی آنکھوں سے آنسو نکل آتے اور بعض دفعہ یہ حالت ہو جاتی کہ آنسوؤں کا سیلاب اُمڈ آتا ۔ انھیں قرآن مجید کے مطالب پر حیرت ناک حد تک عبور تھا۔ ہر صحیح العقیدہ مسلمان کی طرح انھیں بھی یہ یقین تھا کہ دنیا کا کوئی مسئلہ ایسا نہیں جسے حل کرنے میں قرآن رہنمائی نہ کرتاہو۔ وہ کہتے تھے کہ میں نے بعض آیات کو سمجھنے کے لیے مہینوں غور کیا ہے ان کے خیال میں قرآن تاریخ کا سب سے زیادہ مظلوم ہے کیونکہ اس کا ترجمہ اور تفسیر ایسے لوگ کرتے ہیں جو اچھی طرح عربی بھی نہیں جانتے۔ ان کا اپنا ارادہ تھا کہ زمانے کے حالات اور قرآن کی روح کے مطابق قرآن کی شرح و تفسیر لکھیں گے مگر افسوس کہ عمر نے وفا نہ کی۔ حکیم احمد شجاع جو ایک نامور ڈرامہ نویس اور افسانہ نگار تھے۔ کہتے ہیں کہ ایک دن میں اقبال کے پاس حاضر ہوا تو انھیں بے حد مغموم دیکھا۔ وجہ پوچھی تو جواب ملا کہ آنحضرت ﷺ کی عمر مبارک ۶۳ برس کی تھی۔ میں ابھی چند سال پیچھے ہوں۔ میں سوچتا ہوں کہ اگر حضور ﷺکی عمر سے میری عمر زیادہوگئی تو یہ سوچ کر شرمسار ہوتاہوں کہ یہ گستاخی میں شمار نہ ہو۔ اسی ضمن میں انھیں وجدانی طورپر احساس ہوگیا تھا کہ ممکن ہے کہ زیادہ لمبی عمر نہ پائیں۔ ویسے بھی وہ جنوری ۱۹۳۴ء کے بعد مستقل بیمار رہنے لگے۔ حالات کے پیشِ نظر ۱۹۳۵ء میں انھوں نے اپنا وصیت نامہ لکھوا دیا۔ اپنے نابالغ بچوں جاوید اقبال اور منیرہ بانو کی تعلیم و تربیت اور شادہ بیاہ کے لیے جو ولی مقرر کیے انھیں تاکید کرتے ہیں کہ بچوں کے لیے رشتے ناطے میں شرافت اور دینداری کو علم و دولت اور ظاہری وجاہت پر مقدم سمجھیں۔ حالانکہ اس وقت ان کی عمر ۵۸ برس تھی۔ جو کسی طرح پڑھاپے میں نہیں آتی۔ مگراللہ تعالیٰ ان کے آئینہ ادراک میں بہت سے حالات پہلے سے منعکس کر دیتا تھا اور وہ تین سال بعد وفات پا گئے۔ اس ضمن میں یہ واقعہ دلچسپی کا حامل ہوگا کہ اقبال سے اپنی تاریخ وفات کا شعر خود ہی سرزد ہو گیاتھا۔ اس کی تفصیل یوں ہے کہ حفیظ ہوشیار پوری جو ریڈیو پاکستان کے ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل تھے اقبال کی مثنوی ‘‘مسافر’’ پڑھتے ہوئے جب اس شعر پر پہنچے: صدق و اخلاص و صفا باقی نہ ماند آں قدح بشکت و آں ساقی نہ ماند حفیظ تاریخ گوئی میں یدِ طولی رکھتے تھے انھیں خیال آیا کہ مصرعہ اول میں اعداد ۱۳۰۰سے زائد معلوم ہوتے ہیں۔ دیکھیں کون سا سن ہجری نکلتا ہے۔ مصرعے کے اعداد و شمار کیے تو ۱۳۵۷نکلا اور یہی اقبال کا سالِ وفات تھا۔ اقبال کے ایک دوست ڈاکٹر رحمت اللہ قریشی کہتے ہیں کہ قناعت ، شکر اور ایثار علامہ کا شعار تھا۔ مال و دولت کے معاملہ وہ کبھی فکر مند نہیں ہوئے۔ ایک دفعہ میں نے عرض کی کہ جو آپ نے کتابیں تصنیف کیں ہیں ان کا اگرکسی پبلشر سے معاملہ کر لیا جائے تو حقِ تصنیف کی خاصی رقم مل سکتی ہے۔ اگرآپ اجازت دیں تو میں لندن کے کسی بڑے پبلشر سے بات کروں۔ علامہ نے خاص انداز میں ‘نہیں’کہا اور بولے مجھے بھی ایک دفعہ اس کا خیال آیا تھا پھر سوچا نہ جانے کتنے ضرورت منداور مستحق لوگ میری تصنیف کے کاروبار سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ شاید اس میں یتیموں اور بیواؤں کا بھی حصہ ہو۔ اپنی ذات کے لیے ان سب کو فائدے سے محروم رکھنا مناسب نہیں۔ علامہ کے بھتیجے کی زبانی آپ اس کی تفصیل درج کر چکے ہیں ۔مجلسی اور معاشرتی زندگی کے ساتھ علامہ کی نجی اور گھریلو زندگی کے بارے میں کچھ ذکر کرنا مناسب ہوگا۔ جوان کی طبع بے نیازی اور استغنا کا مظہر ہے۔ ۱۹۰۰ء میں آپ گورنمنٹ کالج سےتعلیم حاصل کرکے فارغ ہوئے تو بورڈنگ ہاؤس چھوڑ کر اندرون بھاٹی گیٹ ۱۹۰۵ء تک اور۱۹۰۸ء تک تین سال اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد ۱۹۲۲ء تک انارکلی اور ۱۹۲۳ء سے ۱۹۳۵ء تک میکلوڈ روڈ کرائے کے مکانوں میں مقیم رہے۔ اس کے بعد میؤ روڈ پر موجودہ اقبال روڈ پر اپنی کوٹھی تعمیر کرکے ۲۱ اپریل ۱۹۳۸ء یومِ وفات تک مقیم رہے۔ آپ جس مکان میں بھی رہے ان کی رہائش بالکل سادہ، صاف، بے تصنع اور ظاہری ٹھاٹھ باٹھ سے پاک رہی۔ ایک کرسی اپنے لیے اور کچھ مہمانوں کے لیے، سادہ سا بستر جب زیادہ دوستوں کا اجماع اور قریبی دوستوں کی دعوت ہوتی تو بڑے کمرے میں قالین پر دسترخوان بچھ جاتا اور سب بیٹھ کر کھانا کھا لیتے ۔ گھر کی آرائش و سجاوٹ والے سامان کی کبھی ضرورت نہیں سمجھی۔گویا گھر سادگی اور بے نیازی کا نمونہ تھا۔ گرمی کے موسم میں بجلی کے پنکھے کے استعمال کا خیال کم ہی آتا۔ اگر چلاتے تواس کا منہ دوسری طرف کر دیتےؤ کسی بڑے رئیس کے گھر کسی مقدمے کے لیے قیام کرنا پڑتا تو قیمتی اورنرم و گداز بستروں کی بجائے اپنا سادہ بستر کھول کر زمین پر سوتے۔ جو رسول مدنی ﷺ کی سنت پر عمل کی مثال تھی۔ لباس میں بھی کوئی خاص رکھ رکھاؤ اور دکھاوانہ تھا۔ عدالتوں میں جاتے تو انگریزی سوٹ پہن لیتے نکٹائی کی بجائے کلپ سے بوٹائی لگاتے۔ مگر سوٹ میں نا آسودگی محسوس کرتے اور گھر آتے ہی علی بخش کو گھریلو لباس لانے کو کہتے۔ جو بتایا جا چکا ہے کہ گرمی میں دہری کنی دار دھوتی اور آدھے بازو کی بنیان اور سردی میں اس کمبل میں یا دھسے کا اضافہ ہو جاتا یا کبھی شلوارقمیض پہن لیتے۔ اسی سادہ درویشانہ لباس میں وہ دنیاوی طورپر بڑے بڑے عہدیدار ، رئیس، علماء اور ہر قسم کے معززین کو اپنی چارپائی پر بیٹھے ہوئے خندہ پیشائی سے خوش آمدید کہتےاور ہر طرح کے لوگ مل کر ایک جمہوریت پسند جماعت کا نمونہ پیش کرتے۔ حاضرین ان کی محبت دل میں لیے ان کے ارشادات سے فیض یاب ہوتے۔ ہر ایک کو اپنی رائے کے اظہار کی مکمل آزادی تھی مگر علامہ کے تبحرِ علمی اور روانی گفتگو کے آگے کیفِ سماع سے محظوظ ہونا زیادہ پسند کرتے۔ یعنی اقبال اپنی مومنانہ فراست اوربے پایاں علم کی وجہ سے میرِ مجلس رہتے اور آنے والوں کے دلوں میں بستے اور شاہی کرتے جیسا کہ انھوں نے فرمایاہے: کافر ہے مسلماں تو نہ شاہی نہ فقیری مومن ہے تو کرتا ہے فقیری میں بھی شاہی علامہ سے ملنے والے مشاہیر کی فہرست کافی طویل ہے۔ لوگ نہ صرف اندرون ملک بلکہ بیرونِ ممالک سے بھی ملنے آتے اور تسکینِ طبع کا انمٹ تاثر لے کر جاتے۔ اقبال صرف ضرورت کے تحت لباس سلواتے۔ فیشن ایبل اور ڈیزائن دار لباس کا قطعاًشوق نہ تھا یہ کام علی بخش جو ایک ان پڑھ اور سادہ طبع ملازم تھا۔ اپنی پسند کا کپڑابازار سے خرید کر درازی کو دے آتا جس کے پاس علامہ کا ناپ موجود ہوتا۔ جو کپڑے تیار کرکے گھر بھجوا دیتا۔ اقبال جیسا بھی لباس سلوا ہو اس کی تراش، سلائی پر کوئی تنقید کیے بغیر پہننا شروع کر دیتے۔ تقریبات کے لیے کبھی شیروانی یا چھوٹا کوٹ پہن لیتے۔سر پر ترکی ٹوپی یا پشاوری پگڑی ہوتی۔ گویا لباس کے معاملے میں ان کی سادگی اور بے نیازی نے تکلفات اور جسمانی زیب و زینت کے اہتمام سے بے نیاز کر رکھا تھا۔ اسی طرح خوراک کے معامے میں اپنی پسند ناپسند کا اظہار ان کی شانِ استغنا اور اطمینانِ قلب کے خلاف تھا اس بارے میں انھوں نے واشگاف کہا ہے: دل کی آزادی شہنشاہی شکمِ سامانِ موت فیصلہ تیرا تیرے ہاتھوں میں ہے دل یا شکم ان کی خوراک نہایت سادہ تھی۔ انھوں نے بتایا کہ جب پہلے پہل کرائے کے مکان میں رہائش اختیار کی اور علی بخش کو ملازم رکھا تو اس نے کسی سے آلو گوشت پکانا سیکھ لیا تھا۔ چنانچہ وہ آلو گوشت پکا کر سامنے رکھ دیتا۔ کئی مہینے تک وہ دونوں وقت آلو گوشت کھلاتا رہا۔ اس کا یہ معمول بھولنےوالی چیز نہیں۔ البتہ بعد میں دوسری چیزیں اچھی طرح پکانا سیکھ گیا۔ آخری سالوں میں علالت کی وجہ سے ان کی خوراک ویسے بھی گم ہو گئی۔ صبح حلوے کے ساتھ کلچہ اور چائے باقر خوانی کے ساتھ پیتے۔ اور دوپہر کو سبزی گوشت۔ دن کے وقت مجلس میں ہی علی بخش سینی میں کھانا رکھ کر لے آتا۔علامہ حاضرین کو کھانے کی صلا دیتے پھر ایک دو چپاتیاں کھا کر علی بخش سے ہاتھ دھلوا کر فارغ ہو جاتے اورمجلس کی کاروائی پھر سے شروع ہو جاتی۔ اقبال کو آم مرزا غالب کی طرح بہت پسند تھے۔ اکبر الہ آبادی جنھیں اپنا دوست اور راہنما مانتے تھے۔ ان کے لیے لنگڑے آم کی پیٹی ارسال کرتے جس کے تشکر کے لیے اقبال نے اکبر کو یہ شعر لکھ کر بھیجا تھا: تیرے فیضِ مسیحائی کا یہ اعجاز ہے اکبر الہ آباد سے لنگڑا چلا لا ہور تک پہنچا علالت اور سخت شوگر کی وجہ سے ڈاکٹر اور حکماء نے آم کھانے سے پرہیز کی ہدایت کی تھی۔ مگر اقبال کے اصرار پر صرف ایک آم کھانے کی اجازت مل گئی۔ دوسرے دن حکیم قرشی نے دیکھا کہ کوئی سیر بھر کا آم میز پر رکھا ہے۔ حکیم صاحب نے اعتراض کیا تو کہا ہ ایک ہی تو ہے جس کی اجازت آپ دے چکے ہیں۔ حکیم صاحب مسکرا کر خاموش ہو گئے۔ سوغات کے طورپر احباب آم بھیجتے تو اقبال علی بخش کو کہتے کہ اس میں سب سے اچھا آم نکالو۔ وہ نکال کر دیتا تو کہتے کہ اسے تم کھا لو۔ اسے بھی ایک طرح سے استغنا اور سیرچشمی کہنا چاہیے۔ باہر سے خط لکھتے تو گھر کے افراد کے ساتھ علی بخش کو بھی سلام لکھتے۔ مرض الموت میں غذا، ادویات کے بارے میں حسِ ذائقہ تیز ہو گئی تھی ۔ انگریزی ایلوپیتھی کی خشکی اور کڑوی بو سے بیزاری کا اظہار اور کھانے میں تامل کرتے۔ مشرقی طبی ادوات سے خمیرہ مروارید ، خمیرہ گاؤ زبان، مفرّح معجون و مرکبات کے شیریں ذائقے اورخوشبو کی تعریف کرتے اورکہتے کہ ان کے ذائقے سے آدھا مرض کم ہو جاتا اور شوق سے کھا لیتے۔ حقہ کا ساتھ بھی ساری عمر رہا۔ علی بخش ہر وقت خیال رکھتا کہ چلم ٹھنڈی نہ ہو۔ اور تازہ بھر کر نئی لے آتا۔ غالباًغالب کے پیمانہ و صہبا کے اثر سے جو اُن پر غیب سے مضامین آتے حقے کے اثر سے اقبال پر آمد آتی ہو۔ تاہم یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ انھوں نے کبھی مے نوشی کی ہو۔ علی بخش چالیس سال تک ان کے ساتھ رہا۔ اس کے سامنے کبھی گھر میں شراب کا گزر نہیں ہوا۔ یورپ میں تین سال کے قیام کے دوران میں جہاں دن رات مصروف گزارے عطیہ فیضی نے ان کے شب و روز کے اشغال کو بڑی تفصیل سے بیان کیاہے۔ کبھی شراب کا ذکر نہیں کیا۔ ذرا کریں تو واضح ہو جاتا ہے کہ اقبال کاانسانی دردمندی و سوز سےمعمور درویشی اور فقیرِ مجسم کا کردار شراب نوشی کے غیر اخلاقی اثرات کا متحمل ہو ہی نہیں سکتا تھا۔ اقبال تو حافظ شیرازی کی شرابِ معرفت کے بھی سخت خلاف تھے۔ پھر اُمّ الخبائث کے گمراہ کن اثرات کو کیوں کر قبول کر سکتے تھےؤ اصل میں بہت سی بے سروپا باتیں حاسدین کی پھیلائی ہوئی ہیں۔ جن کا تجربہ اقبال کو ۱۹۲۶ء کے اسمبلی الیکشن میں بخوبی ہو گیا تھا۔ مگر علالت کی وجہ یہ تھی کہ کونسل کی ممبری کو عوام کی نمائندگی کے لیے ہمہ وقت ذمہ داری سمجھ کر دن رات کام کیا۔ وکالت ختم ہو گئی۔ کثرتِ کاراور محدود آمدنی نے صحت تباہ کر دی۔ جن کتابوں کے لکھنے کا ارادہ تھا۔ غرض یہ کہ اسمبلی کی ممبری کے فریضے سے تو سرخرو ہو گئے مگر صحت اس قدر لا علاج ہو گئی کہ شہید قوم ہو گئے۔ قوم کے لیے یہ ایک ناقابل تلافی نقصان تھا۔ ڈاکٹر جمعیت سنگھ اور حکیم قرشی ہر روز ان کے علاج کے لیے حاضری دیتے۔ مگر مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔ بلکہ امراض کی فوج نے ہر طرف سے یلغار کردی۔ اتنی شدید تکلیف کو برداشت کرنا ان کا ہی حوصلہ تھانظر آنا بھی بند ہو گیا۔ مگر احباب کی قربت میں وہ حالاتِ حاضرہ پر بات چیت شروع کر دیتے۔ ان حالات میں وہ قومی معاملات پر اظہارِ خیال فرماتے۔ ان کا ذہن آخری دم تک زیرک و حاضر رہا۔ وفات سے کچھ دن پہلے انھوں نے قائد اعظم یونینسٹ پارٹی سے معادہ ختم کرنے کے لیے طویل خط لکھوایا۔ وفات کی رات ان کو درد سے تڑپتا دیکھ کر ڈاکٹر نے مارفیا کا انجکشن تجویز کیا۔ جسے اقبال نے سختی سے مسترد کرتے ہوئے کہا کہ: I want to face death while in my senses. (میں موت کا ہوش میں سامنا کرنا چاہتا ہوں )۔ یہ ایک بہادر، مطمئن بے نیاز شخص کا نعرۂ مستانہ تھا۔ جو موت کے ڈر سے بے خوف تھا۔ آخری سانس صبح کے پانچ بجے کے قریب لی۔ دائیں رخ ہو گئے۔سینے پر ہاتھ رکھ کر اللہ اکبر کہا اور جان جانِ آفریں کے سپرد کر دی۔ حاضر دوستوں نے دیکھا کہ موت کے بعد ان کے چہرے پر سکون اورلبوں پر مسکراہٹ ہے اور وہ اپنے شعر کی تصویر نظر آئے۔ نشان مردِ مومن با تو گویم چوں مرگ آید تبسم سیرلبِ اُوست اقبال ایک مختصر وقفۂ زندگی میں عمل سے بھرپور زندگی گزار کر جہانِ فانی سے عالمِ جاودانی کو سدھار گئے۔ جس کے روشں اورکہیں بہتر ہونے کا انھیں بھرپوریقین تھا۔ ان کے فلسفہ خودی کی بنیادی بات یہ ہے کہ دنیا میں ہم اپنی خودی کی تکمیل کے لیے آتے ہیں۔ اس زندگی کو جس حد تک کوئی اپنی خودی کی تکمیل کر لے گااس کے مطابق آئندہ زندگی کا ایجنڈا قادرِ مطلق نے اس کے لیے تیار کیا ہوگا۔ لہٰذا اقبال کی زندگی ا ورموت اہلِ دنیا خصوصاً مسلمانوں کے لیے ایک ایسادرخشاں پیغام ہے جس پر ہماری پُر یقین پیروی ہماری انفرادی اورملی عظمت اور وقار کو بحال کر سکتی ہے۔ اورہمارا ملک اقوامِ عالم میں سرخُرو ہو سکتا ہے۔ اقبال کے اس الہامی شعر پر اپنی معروضات ختم کرتاہوں: وہی ہے صاحبِ امروز جس نے اپنی ہمت سے زمانے کے سمندر سے نکالا گوہرِ فردا حواشی مجدد الف ثانی، محی الدین عربی اور علامہ محمد اقبال میں مختصر تقابلی جائزہ حضرت امام ربانی مجدد الف ثانی ایک انتہائی معزز، صوفی اور عالمانہ گھرانے میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد ماجد عبدالاحد خود پیر طریقت تھے جو روحانی وعلمی فیوض کی تحصیل کے لیے قطبِ عالم حضرت شیخ عبدالقدوس کے زیر تربیت رہے۔ انھوں نے حضرت عبدالاحد کو بتایا کہ آپ کی پیشانی میں ایک ولی کامل کا نور جلوہ گر ہے۔ عبدالقدوس وفات پا گئے تو انھوں نے راہِ سلوک کی منازل اُن کے فرزند حضرت رکن الدین کے ذریعے طے کیں اورانھیں خرقۂ خلافت قادریہ چشتیہ عطا ہوا۔ اہلِ بیت رضی اللہ عنہم سے انھیں بہت محبت تھی اور یہی نصیحت انھوں نے اپنے فرزندِ ارجمند حضرت مجدد الف ثانی کو اہلِ بیت رضی اللہ عنہم کے بارے میں کی۔ والد ماجد کو حضرت شاہ کمال کیتھلی نے بشارت دی تھی کہ آپ کے ہاں فرزند پیدا ہوگا جو افضل اولیاء امت ہوگا اور ا س کےنورِ ہدایت سے شرک و بدعت کی تاریکی دور ہو گی اور دین اسلام کی روشنی کو فروغ حاصل ہوگا۔ حضرت امام ربانی شیخ احمد سرہندی کی ولادتِ با سعادت ۹۷۱ھ کو ہوئی۔ پیدائڈ کے وقت ہی آپ کی ولایت کے آثار ہویدا تھے۔ آپ عام بچوں کی طرح کبھی نہیں روئے بلکہ مسکراتے رہتے تھے، نہ ناپاک ہوتے۔ حضرت شاہ کمال کیتھلی کی دعا سے سلسلۂ قادر کے تمام اوصاف و انعامات ان کی ذاتِ والا صفات تک پہنچ گئے۔ آپ نے قلیل مدت میں قرآن کریم حفظ کر لیا۔ تحصیل علم کے لیے آپ نے پہلے والدِ بزرگوار اورپھر سیالکوٹ میں ملاّ کمال کشمیری جو دینی علوم میں ایک متبحر عالم تھے، سے مستفید و مستیز ہوئے۔ حضرت مجدد کے ہمدرسوں میں ملاّعبدالحکیم سیالکوٹی جو بعد میں سیالکوٹ دانش گاہ کے مہتممِ اعلیٰ مقرر ہوئے ایک یگانۂ روزگار عالم تھے اور حضرت مجدد کے ہاتھوں پر بیعت تھے، انھوں ہی نے حضرت مجدد کی ذاتِ والاصفات کے مطابق ‘‘مجدد الف ثانی’’ کا خطاب دیا، جو اصل نام پر سبقت لے گیا۔ دوسرے ہمدرس نواب سعد اللہ خان وزیر اعظم شاہجہان تھے۔ اولیں تعلیم کے بعد جب حضرت مجدد الف ثانی، حضرت خواجہ باقی اللہ کے ہاں زیرِ تربیت رہے اورخلعتِ خلافت سے سرفراز ہوئے تو سرہند میں مقیم ہو کر تربیتِ طالبین و ہدایت سالکین میں مصروف ہو گئے ۔ حضرت مجدد الف ثانی کے کمال کے اعتراف کے طورپر حضرت باقی اللہ اپنے دوسرے مریدوں کے ساتھ آپ کے حلقۂ ارادت میں بیٹھے تو نہایت تعیم و ادب ملحوظِ خاطر رکھتے، آپ کی طرف پشت نہ کرتے۔ حضرت غوثِ اعظم نے اپنا خرقہ اپنے جانشین سیّد تاج الدین کو اس وصیت کے ساتھ تفویض کیا کہ جب حضرت مجدد الف ثانی کا ظہورہواتوانھیں پہنچا دیا جائے۔ چنانچہ یہ خرقہ امانت کے طورپر اگلی نسل تک پہنچتا رہا اور بالآخر حضرت مجدد کے ظہور پر آپ کے ہم عصر شاہ سکندر خرقہ لے کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ساتھ ہی خاندانِ عالیہ قادریہ کی خلافت بھی آپ کو پہنچائی۔ ۱۰۲۳ہجری شب برات کو آپ نے اپنے خلفاء اورمریدین سے فرمایا کہ آنحضرت ﷺ کی عمر مبارک ۶۳ برس تھی ، میری بھی اس سال ۶۳ برس ہو جائے گی اورمیں خالقِ حقیقی سے جا ملوں گا۔ آپ نے حاضرین کو کتاب اللہ اور سنتِ رسول ﷺکی مکمل اتباع کرتے رہنے کی تلقین کی اور اس کے بعد یہ آفتابِ ہدایت ۱۰۲۳ہجری کو غروب ہو گیا۔ جب آپ نے سرہند میں عملی زندگی کا آغاز کیا تو اس وقت شہنشاہ اکبر کی نام نہاد اسلامی حکومت کے باوجود ہند اکثریت نہ صرف تجارت، سیاست، معیشت اور انتظامی شعبوں پر مسلط تھی بلکہ انھوں نے اپنے مذہبی عقائد کو بھی برتری دے رکھی تھی اور اسلام کی روح اوہام، بے عملی اورمذہب سے بے اعتنائی کے پردوں تلے چھپ چکی تھی۔ خود شہنشاہ اکبر آفتاب کی پرستش کرتا تھا، ہندوانہ لباس پہنتا، ماتھے پر قشقہ لگاتا اور زنّار پہنتاتھا۔ صبح جھورکے میں بیٹھ کر رعایا کو درش دیتااور سجدہ کراتا، جو عبادت سمجھی جاتی۔ شادی بھی ہندو رانی سے کی تھی، گائے کے ذبیحہ کی سخت سزا تھی اورشراب اورجوا عام تھے۔ غرضیکہ حکومت ہندوؤں کی کھلی سرپرستی کرتی تھی اوراکبرکے دینِ الٰہی کے ملحدانہ مرکبات سے اسلام کو مذہبی اور سیاسی طورپر زوال کی طرف دھکیلا جا رہا تھا۔ توحید و رسالت سے بیگانگی ظاہر ہوتی تھی اور قرآن حکیم، سنت و حدیث کو بالائے طاق رکھ دیا گیا تھا۔ علماء سو کی بڑی تعداد حکومت کی ہمنوائی اور خوشنودی کے لیے مسلمانوں کو مذہب سے دور لے جا رہی تھی۔ ہندو اکثریت آئے دن مسلمانوں پر ظلم ڈھاتی، مساجدوں کو مندروں میں تبدیل کرتی اور مسلمانوں عورتوں کو اٹھا لیا جاتا۔ ایسے تاریکہ اورحوصلہ شکن حالات میں حضرت مجدد نے کتاب و سنت کی برتری قائم کرنے اور احیائے اسلام کے لیے زبردست جدوجہد کا آغاز کیا۔ اپنے خلفا ء و مریدین ِ باصفا سے رابطے کیے جو سلطنت کے ہر حصے میں موجود تھے۔ حضرت مجدد اپنے کفرشکن، ایمان افروز مکتوبات جو معارف و حقائق اور رموز و اسرارِ الٰہی کا ایسا بے نظیر گنج گرانمایہ ہیں اوران م یں دین متین کے بارے میں ایسے جواہر پارے اورموتی بکھرے ہوئے ہیں، جس کی مثال نہیں ملتی اور ان معارف و حقائق نے جس طرح باطل قوتوں کو شکست دی توزمانے کے بڑے بڑے علماء راسخین و مشائخِ کرام نے تصدیق کی کہ آپ نے ‘‘مجدد الف ثانی’’ کے منصب کا پورا حق ادا کر دیا۔ ان حقائق سے یہ بھی صاف ظاہر ہے کہ امام ربانی کے وقت دوقوموں کے مذہبی، سیاسی اورمعاشرتی اختلافات ہو چکے تھے جو بعد میں ‘‘دوقومی نظریہ’’ کے تحت تحریک پاکستان کا سبب بنے۔ حضرت مجدد الف ثانی کے کچھ ایمان افروز ارشادات نقل کیے جاتے ہیں : • آنحضرت ﷺ کی محبت مجھ پر اس طرح غالب ہے کہ میں حق تعالیٰ کو صرف اس واسطے پیار کرتاہوں کہ وہ محمدﷺ کا رب ہے۔ • محت ذاتی فنا کی علامت ہے اور فنا سے مراد ماسوائے اللہ کا فراموش ہو جانا ہے۔ • انسان خدا تعالیٰ کا بندہ اس وقت ہوتا ہے جب ما سوائے اللہ کی گرفتاری اور بندگی سے پورے طور پر خلاصی پا لے۔ • علماء کے لیے دنیا کی محبت اور رغبت ان کے پُر جمال چہرے کا بدنما داغ ہے۔ • شریعت، دنیا اور آخرت کی تمام سعادتوں کی ضامن ہے۔ طریقت در حقیقت شریعت کی خادم ہے۔ • موت ایک پُل ہے جو ایک دوست کو دوسرے سے ملاتا ہے۔ • شریعت اورحقیقت ایک دوسرے کا عین ہیں۔ • شیطان خدا کے کرم پر مغرور کرکے سستی میں ڈالتا اور اس کی عفو کا بہانہ بنا کر گناہ کرنے پر آمادہ کرتا ہے۔ • گناہِ صغیرہ پر اصرار کرنا کبیرہ تک پہنچا دیتا ہے اورکبرہ پر اصرار کرنا کفر تک لے جاتا ہے۔ • اللہ کے حکم کی تعمیل کرنا اورخلق خدا پر شفقت کرنا آخرت کی نجات کے دو بڑے رکن ہیں۔ • انسان جب تک مرضِ قلبی میں مبتلا رہتا ہے کوئی عبادت واطاعت اس کو فائدہ نہیں پہنچا سکتی۔ • جس نے اپنی آنکھ پر قابو نہ پایا دل بھی اس کے قابو میں نہیں۔ • یہ کس قدر بڑی نعمت ہے کہ حق تعالیٰ اپنے بندے کو جوانی میں توبہ کی توفیق عطا کرے اور اس پر استقامت بخشے۔ • منازلِ سلوک طے کرنا کا مقصود ایمانِ حقیقی کا حاصل ہونا جو نفسِ مطمئنہ ہونے سے وابستہ ہے۔ • علامءی سوء دین کے چور ہیں، ان کا مقصود ہمہ تن یہ ہے کہ خلقِ خدا کے نزدیک مرتبہ و ریاست و بزرگی حاصل ہو جائے۔ • عاقبت کی بہتری ذکرِ کثیر سے وابستہ ہے۔ • واسطے اور وسیلے جس قدر زیادہ ہوں گے اسی قدر راستہ زیادہ نزدیک اور روشن ہوگا۔ • اولیائے کامل اور انبیائے مرسل کی ہدایت حقیقت ہے اور دونوں کی نہایت شریعت ہے۔ • نوافل کا ادا کرنا ظلّی قرب بخشتا ہے اور فرائض کا ادا کرنا قربِ اصلی۔ • نمازی جو نماز کی حقیقت سے آگاہ ہے نماز ادا کرتے وقت عالم دنیا سے نکل کر عالمِ آخرت میں داخل ہو جاتا ہے۔ • اللہ تعالیٰ کسی چیز میں حلول نہیں کرتا نہ ہی کوئی چیز اس میں حلول کرتی ہے۔ حق تعالیٰ کسی چیز سے متحد نہیں۔ • ‘‘اناالحق’’ کے معنی یہ نہیں کہ میں حق ہوں بلکہ یہ کہ مَیں نہیں ہوں حق موجود ہے۔ • نبوت کی حقیقت عقل کی حقیقت سے بالا تر ہے۔ • کوئی ولی کسی نبہ کے درجہ تک نہیں پہنچتا بلکہ ولی کا سر ہمیشہ نبی کے قدموں کے نیچے ہوتا ہے۔ • جب اللہ تعالیٰ کسی بندہ کو دوست رکھتا ہے تو اس سے گناہ سرزد نہیں ہوتا ۔ اولیاء اللہ گناہوں سے محفوظ ہو جاتے ہیں۔ • عمل کی سستی ا ورغفلت پر مغفرت کی امید ہے لیکن اعتقادی سستی میں مغفرت کی گنجائش نہیں۔ • تسبیح و تہلیل کا ثواب ماں باپ بھائیوں استادوں کو بخشنا بہتر ہے، اس میں اپنا بھی نفع ہے۔ عجب نہیں کہ دوسرے کے طفیل قبول کر لیں۔ • خلافت کی دولت انسان کے علاوہ کسی کو میسر نہیں۔ • ولایت کا اظہار واجب نہیں بلکہ اس کا چھپانا اورپوشیدہ رکھنا بہتر ہے۔ • دنیا میں جس قدر محنت ہے، آخرت میں اس سے کئی گنامسرت ہے۔ حضرت مجدد الف ثانی کا ہندوستان کے بزرگانِ دین اورمفکرین اسلام میں نہایت بلند مقام ہے۔ آپ نے اکبر اورجہانگیر کے عہد میں تجدیدِ دین کا فریضہ سرانجام دیا اوران جلیل القدر شہنشاہوں کے رعب و جلال کی کوئی پر واہ نہ کی۔ اسی وجہ سے آپ کو ‘‘مجدد’’ کا لقب دیا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ ہر صدی میں یاک مجدد ہوتا ہے جو دین کی آلودگیوں سے پاک کرتا اور صحیح دین کی روشنی پھیلتا ہے۔ مگرایک مجدد ایک ہزار سال کے بعد آتا ہے جس کا مرتبہ صدی والے مجدد سے بہت بلند ہوتا ہے۔ اس لیے آپ کو ‘‘مجدد الف ثانی’’ کہا جاتا ہے کہ آپ ہجری سن کے دوسرے ہزار سال کے مجدد تھے۔ حضرت مجدد الف ثانی نے جب تبلیغ دین کا کام شروع کیا تو اکبر کے ملحدانہ دین الٰہی کا بڑا شہرہ تھا۔ آپ نے دینِ الٰہی کے خلاف نہایت مؤثر پرچار شروع کیا۔ جب جہانگیر بادشاہ بنا تو اپ کو دربار میں بلایا۔ حضرت نے درباری قواعد کے مطابق سجدہ تعظیمی نہ کیا۔ جس پر جہانگیر نے برافروختہ ہو کر آپ کو سزا کے طورپر قلعہ گوالیار میں قید کردیا۔ جہانگیر کے بہت سے امراء، وزراء اورجرنیل حضرت کی بیعت میں آ چکے تھے، آپ کے قید کیے جانے پر انھوں نے بغاوت کر دی۔ جن میں ایک جرنیل مہابت خان بھی تھا۔ جہانگیر، مہابت خان کی بغاوت کو دبانے کے لیے روانہ ہوا مگر اس نے جہانگیر، آصف خان اورنور جہاں کو قیدی بنا لیا۔ اس پر حضرت مجدد نے اپنے مرید جرنیلوں اور امراء کو لکھا کہ : مجھے سلطنت کی ہوس نہیں، نہ میں تمھارے فتنہ و فساد کو پسند کرتاہوں۔ میں نے قید و بند کی تکلیف اٹھائی تو وہ اورکام کے لیے ہے، وہ پورا ہو جائے گا تو میں خود بخود تمھاری کوشش کے بغیر ہی قید سے رہا ہو جاؤں گا ۔ یہ فساد میرے کام کے لیے رکاوٹ ہے۔ بہتر ہے کہ تم بغاوت سے باز آ جاؤ اور فوراًاپنے بادشاہ کی اطاعت قبول کر لو، میں بھی ان شاء اللہ قید سے جلد آزاد ہو جاؤں گا۔ مہابت خان نے یہ ہدایت ملنے پر بادشاہ کو رہا کر دیا اور آدابِ شاہی بجا لایا۔ اس کے بعد جہانگیر آپ کا معتقد ہوگیا اور اپ کی خواہش کے مطابق امورِ شرعیہ رائج کرنے کے لیے اقدام کیے ۔جہانگیر کے بعد شاہجہان بھی آپ کا بے حد احترام کرتا تھاآپ کی بیعت کی۔ علامہ اقبال کو حضرت مجدد کی یہ دلیری پسند آئی کہ کس طرح جبروطاقت کے آگے حضرت مجدد الف ثانی نے خودی کی حفاظت کا سبق دیا۔ انھوں نے اپنی نظم ‘‘پنجاب کے پیرزادوں سے’’ میں آپ کو یوں خراجِ عقیدت پیش کیا ہے۔ ملاحظہ فرمائیں: گردن نہ جھکی جس کی جہانگیر کے آگے جس کے نفسِ گرم سے ہے گرمیِ احرار وہ ہند میں سرمایۂ ملت کا نگہبان اللہ نے بر وقت کیا جس کو خبردار علامہ اقبال نے شیخ الاکبر ابن عربی کے ‘‘فلسفہ وحدت الوجود’’ کی مخالفت کی تھی۔ جس کی بنیاد یہ تھی کہ فلسفہ مسلمانوں میں بے عملی کو جنم دیتا ہے۔ حضرت مجدد بھی ابن عربی کے ‘‘فلسفہ وحدت الوجود’’ کو دینی تعلیمات کے خلاف تصور کرتے تھے۔ اقبال کے زمانہ کے سیاسی و سماجی حالات اس بات کے متقاضی تھے کہ وہ عمل اورجدوجہد کی تلقین کریں۔ انھوں نے وجودی فلسفے کو اس کے خلاف سمجھا تو اس کی مخالفت پر کمر بستہ ہو گئے۔ امام ربانی کے زمانے میں وجودی فلسفے کے پیروکار زیادہ تر اس کے ملحدانہ پہلو کو ابھار رہے تھے۔ اکبر نے دینِ الٰہی کا تصور پیش کیا تھا۔ وہ دربار میں حاضر ہونے والوں سے سجدہ کراتا تھا۔ وجودی فلسفہ کے تحت یہ عمل اس طرح جائز تھا کہ جب ہر شے میں خدا ہے تو سجدہ غیرِ خدا کے سامنے بھی ہو سکتا ہے۔ چنانچہ امام ربانی کو اس قسم کے حالات ومشکلات سے دو چار ہونا پڑا۔ لوگ وجودی فلسفہ اور صوفیاء خام کی دینی اعمال میں غفلت کے تحت شریعت کی پابندیوں سے خود کو آزاد کرنے کے مرتکب ہو رہے تھے۔ شریعت کی حیثیت ثانوی ہو کر رہ گئی تھی اور دین کا مقصود شریعت کے علاوہ کچھ اور خیال کرتے تھےؤ چنانچہ انھوں نے ابن عربی کے فلسفہ کو اس بے راہ روی کا ذمہ دار قرار دیا۔ انھوں نے اس ضمن اپنا نظریہ پیش کیا جسے ‘‘وحدت الشہود’’ کہا جاتا ہے۔ وہ ‘‘وحدت الوجود’’ سے ‘‘وحدت الشہود’’ تک کے سفر میں عرصۂ دراز کے غور و فکر ذہنی و قلبی کشمکش میں مبتلا رہے اور بالآخر اللہ تعالیٰ کے فضل سے کشف کے ذریعے حقیقت منکشف ہو گئی ۔ اگرچہ انھوں نے وجودی مسلک کو بالکل غلط قرار نہیں دیا، اسے صرف راستے کی ایک عارضی منزل سمجھا اورکہا کہ وحدت الوجود کی انتہا ‘‘سکر’’ یعنی جذب و فنا پر ہوتی ہے جب کہ وحدت الشہود کی انتہا ‘‘صحو’’ یعنی ہوش مندی اور عمل پر ہوتی ہے۔ صحو یقینا سکر سے بہتر ہے کیونکہ وہ شریعت اور عمل کی طرف مائل کرتا ہے۔ علاوہ ازیں انھوں نے ابن عربی کے برخلافت نبوت کو ولایت پر ترجیح دی کیونکہ نبی صاحبِ شریعت ہوتا ہے جب کہ ولی اس سے محروم ہوتا ہے۔ حضرت امام ربانی نے حسین بن منصور حلاج کے قول ‘‘انا الحق’’ کا مفہوم سُکر کے لحاظ سے کیا ہے کہ غلبۂ حال میں ما سوا حق تعالیٰ کے ہر شے ان کی نظر سے پوشیدہ تھی۔ انھوں نے حق سبحانہ کے سوا کسی شے کو ثابت اورموجود نہ جانا تو ‘‘اناالحق’’ کے الفاظ ان سے صادر ہو گئے۔ حالانکہ اس وقت ان کی اپنی ذات موجود تھی ۔ مگر اقبال نے اس کی تشریح صحو کے لحاظ سے کی ہے اور کا یہ مطلب لیا ہے کہ منصور حلاّج کہہ رہا تھا کہ میرا وجود حق ہے یعنی یہ ایک حقیقت ہے کہ اسے فنا نہیں کیا جا سکتا۔ اقبال اپنے ایک خطبہ میں کہتے ہیں : آنحضرت ﷺکے اس ارشاد کے مطابق کہ جب انسان نے اپنے اندر اخلاقِ الٰہیہ پیدا کرکے مذہبی مشاہدات اور واردات کی طرف قدم بڑھایا تو اس تقرب و ایصال کی ترجمانی ‘‘انا الحق’’ یا ‘‘انا الدھر’’ جیسے اقوال میں ہوئی۔ لہٰذا اسلامی تصوف کے اعلیٰ مراتب میں اتحاد و قرب الٰہی سے یہ مقصود نہیں تھا کہ انسان کی متناہی خودی خدا تعالیٰ کی لامتناہی خودی میں جذب ہو کر اپنی ہستی کو فنا کر دے بلکہ یہ کہ لا متناہی خودی کے آغوش محبت میں آ جائے۔ مگر حضرت مجدد اس سے متفق نہیں ۔ ان کا عقیدہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی ذاتِ واحد، بے مثال و یکتا ہے اور انسان کے اندر سمانے یا حلول کرنے کے امکانات سے باہر ہے۔ نہ ہی انسان اس کی صفات کو حاصل کر سکتا ہے۔ انسان جب انتہائی کمال حاصل کر لے تو بھی اس مقام پر اپنے مولیٰ کے ساتھ کچھ مناسبت نہیں پاتااوراس کا محتاج رہتا ہے۔ مگرحضرت اقبال کہتے ہیں کہ انسان راہِ سلوک میں ترقی کے انتہائی مراحل طے کرلیتا ہے تو اپنے اندر خدائی صفات پیدا کر لیتا ہے یعنی : ہاتھ ہے اللہ کا بندۂ مومن کا ہاتھ غالب و کار آفرین کار کُشا کار ساز خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے؟ کافر ہے تو ہے تابع تقدیر مسلماں مومن ہے تو وہ آپ ہے تقدیرِ الٰہی البتہ مقام ِ بندگی کے حصول میں علامہ محمد اقبال اورحضرت مجدد کے نظریات میں اتفاق ہے اور دونوں بندہ ہونے کو بڑی اہمیت دیتے ہیں۔ حضرت مجدد فرماتے ہیں کہ پیدائشِ انسانی سے مقصود بندہ ہونے کا حق ادا کرنا ہے۔ اگر بندے کو راہِ حیات میں عشق و محبت عطا کر دیا گیا ہے تو اس کا مقصود یہ ہے کہ بندہ حق تعالیٰ کے ما سوا سے ہر طرح کا تعلق قطع کر لے تاکہ مقام ِ عبدیت حاصل کر سکے۔ مراتبِ ولایت کی انتہا مقامِ عبدیت ہے۔ ولایت کے درجات میں مقام ِ عبدیت سے اوپر کوئی مقام نہیں۔ علامہ محمد اقبال نے بھی عشق و محبت کو انسانی خودی کےبلند کرنے کا ذریعہ قرار دیا ہے جو مقامِ عبدیت پر پہنچانے کا ایک ذریعہ ہے ۔ کیونکہ مقامِ عبدیت نہایت بلند مقام ہے۔ اس ضمن میں وہ فرماتے ہیں : متاعِ بے بہا ہے درد وسوز آرزو مندی مقامِ بندگی دے کر نہ لوں شانِ خدا وندی حضرت مجدد کے مطابق رسول اکرمﷺنے مقامِ عبدیت کو پالیا تھا اوروہ عام انسانوں کی طرح نہ تھے بلکہ وہ عبدیت کے اعلیٰ ترین مقام پر فائزہونے کے علاوہ اس سے بھی آگے نبوت کی روشنی سے منور تھے۔ علامہ محمد اقبال نے منصور حلاج کی ز بانی ‘‘عبد’’ اور ‘‘عبدہٗ’’کی تشریح میں بے مثال نظم لکھی ہے۔ جس میں سے دو اشعار ملاحظہ ہوں: عبدہٗ دہر است و دہر از عبدہٗ ماہمہ رنگیم اُو بے رنگ و بُواست کس سرّ عبدہٗ آگاہ نیست عبدہٗ جز سرِّ اِلاّ اللہ نیست اس نظم میں ‘‘عبد’’ عام انسان اور ‘‘عبدہٗ’’ سے رسول اکرم ﷺ کی ذاتِ اقدس مراد ہے۔ نظم میں انتہائی عقیدت و محبت میں حضورﷺکی شان میں ماورائیت کا تاثر ملتا ہے، جس کا جھکاؤ ابن عربی کی جانب محسوس ہوتا ہے۔ یہاں حضرت مجدد اور ابن عربی کے نظریات میں فرق معلوم کرنے کے لیے ‘‘وحدت الوجد’’ اور ‘‘وحدت الشہود’’ کی اصطلاحوں کا مطلب واضح طورپر سمجھنے کی ضرورت ہے۔ حضرت مجدد کے نزدیک توحید دو طرح کی ہے: (۱)توحید شہود (۲) توحید وجودی توحیدِ شہودی ایک ذات کو دیکھنا ہے یعنی سالک کا مشہود یا مرکزِ نظر صرف ایک ہی ذات ہو۔ توحیدِ وجودی اس ذات کو موجود جاننا ہے اور اس کے غیر کو معدوم خیال کرنے کے باوجود مظاہرِ کائنات کو ایک جاننا ہے۔ پس توحیدِ وجودی بمنزلہ ‘‘علم الیقین’’ ہے اور توحید شہودی ‘‘عین القین’’ ہے۔ اس مسئلہ کو انھوں نے اس طرح مثال سے واضح کیا ہے ۔ کہ ایک شخص کو وجودِ آفتاب کا یقین ہو اور اس یقین کے ساتھ وہ ستاروں کو معدوم نہ جانے کیونکہ آفتاب کے آگے اگرچہ ستارے نظر نہیں آئیں گے لیکن اُسے یہ یقین ہے کہ ستارے موجود ہیں مگرنورِ آفتاب کے آگے مغلوب ہیں۔ چنانچہ یہ شخص اس جماعت یا فرد کو درست نہیں جانتا جو ستاروں کی نفی کر رہی ہے۔ یعنی وحیدِ وجودی جو ایک ذاتِ تعالیٰ کے ماسوا نفی پر مبنی ہے ، عقل و شرع کے خلاف ہے۔ توحید شہودی کے مطابق ستاروں کو نہ دیکھ سکنا خلاف عقل نہیں کیونکہ یہ غلبۂ آفتاب کے حوالے سے ضعیف بصارت کی بناء پر ہے۔ لیکن اگر دیکھنے والے کی آنکھ تجلیاتِ الٰہی و نورِ ایمانی سے روشن ہو تو وہ عین آفتاب کے آگے بھی ستاروں کو دیکھے گی اور یہ ‘‘حق الیقین’’ کا مرتبہ ہے۔ علامہ محمد اقبال ، حضرت مجدد کے اس نظرئیے سے اتفاق کرتے ہیں کہ انسان کی آخری منزل یہ ہے کہ وہ آفتاب کے سامنے اپنے وجود کو قائم رکھ سکے اور اپنے اندر آفتاب کے نور کو اس طرح پیدا کر لے کہ اسے بظاہر معدوم ستاروں کا وجود نظر آنے لگے۔ علامہ اقبال چاہتے ہیں کہ انسان خود کو ختم نہ کرے، نہ کسی کی ذات میں جذب ہو خواہ وہ کتنی ہی برتر ہی کیوں نہ ہو۔ بعض صوفیاء نے کہا ہے کہ خدا سمندر ہے اور انسان قطرہ اور وہ سمندر یعنی خدا میں مل کر اپنی ہستی کو فناکرکے سمندر بن جاتا ہے۔ بقول غالب: عشرتِ قطرہ ہے دریا میں فنا ہو جانا درد کا حد سے گزرنا ہے دوا ہو جانا ہاں کھائیو مت فریب ہستی ہر چند کہیں کہ ‘‘ہے’’ نہیں ہے ہستی کے مت فریب میں آ جائیو اسد عالمِ تمام حلقۂ دامِ خیال ہے مگر یہ بات علامہ اقبال کو منطور نہیں وہ اپنے چھٹے خطبے میں حضرت مجدد کی تعریف اس لیے کرتے ہیں کہ انھوں نے ‘‘اناالحق’’ کی بجائے ‘‘اناالموجود’’ کہا تھا۔ گویا انھوں نے عبدیت کی حقیقت کو سمجھا اور اعلیٰ عبدیت ہی پر اپنے فلسفۂ خودی کی بنیاد رکھی۔ عبدیت کے بارے میں وہ فرماتے ہیں : اِک تو ہے حق اس جہاں میں باقی ہے نمودِ سیمیائی علامہ محمد اقبال نے واقعۂ معراج کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ جس طرح حضورﷺ اللہ کے سامنے اپنے وجود اور خودی کو برقرار رکھ سکے ایسے ہی ہمیں رکھنا چاہیے۔ خودی کا نصب العین صرف یہ نہیں کہ وہ کچھ دیکھ سکے بلکہ یہ کہ کچھ بن کر دکھائے اور اسی مقصد کے لیے کوشش اسے موقع فراہم کرتی ہے کہ وہ اپنی ذات کے بارے میں ‘‘اناالموجود’’ کہہ سکے اوراپنی اصلیت اور اساس کو پالے۔ حضر ت مجدد نے اپنے بیان میں توحید وجودی کو ‘‘سکر’’ اور توحیدِ شہودی کو ‘‘صحو’’ کہا ہے۔ [مکتوبات امام ربانی، دفتر اول، حصہ دوم، ترجمہ محمد سید احمد،ص ۲۶۹، ناشرمدینہ پبلشنگ کمپنی کراچی]دراصل ابن عربی نے جس مقام کو ولایت کہا ہے، حضرت مجدد نے اسے صرف عارضی منزل قرار دیا ہے۔ ابن عربی کے نزدیک ولایت، نبوت سے افضل ہے۔ کیونکہ ولایت کا رخ خدا کی طرف ہے اور نبوت کا مخلوق کی طرف وہ نبی کو بھی اس لیے سب سے اعلیٰ سمجھتے ہیں کہ وہ ولایت میں اعلیٰ ترین مقام رکھتا ہے۔ مگر حضرت مجدد الف ثانی نبوت کی ولایت سے اعلیٰ قرار دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک ولایت سکر یعنی حالتِ جذب و محویت ہے اور وہ صرف اپنی ذات تک محدود ہوتی ہے۔ حضرت مجدد کے مطابق نبوت کا رخ فیضانِ ہدایت کے لیے صرف مخلوق کی طرف نہیں بلکہ مخلوق کی طرف توجہ کے باوجود حق تعالیٰ کی طرف توجہ موجود رہتی ہے، اس کا باطن خدا تعالیٰ کے ساتھ ہوتا ہے اور ظاہر مخلوق کے ساتھ۔ یہ حقیقت ہے کہ انبیاء علیہم السلام تمام موجودات سے افضل ہیں خواہ وہ نبی کی ولا یت ہو یا ولی ولایت۔ تو ثابت ہوا کہ صحو، سکر سے افضل ہے۔ علومِ شرعیہ کا منبع مرتبۂ نبوت ہے جو سراسر صحو یا عمل ہے۔ پس تقلید کے لائق اہل صحو ہیں، اہل سکر نہیں۔ صاحبانِ سکر کائنات اور اس میں تمام موجودات کو ‘‘ہمہ اوست’’ مانتے ہیںؤ مگر حضرت مجدد ‘‘ہمہ اوست’’ کے مقابلہ میں ‘‘ہمہ از اوست’’ کی ترکیب استعمال کرکے یہ ثابت کرتے ہیں کہ اشیاء، اللہ سے الگ وجود رکھتی ہیں اور وہ اس کی مخلوق ہیں۔ مگر حضرت اقبال ،‘‘ہمہ اوست’’ یا ‘‘ہمہ از اوست’’ کے مقابلہ میں خدا کو لامتناہی خودی اورانسان کو متناہی خودی، خدا کو قرآن اور انسان کوسیپارہ ، خدا کو سمندر اور انسان کو گوہر کی مثال سمجھتے ہیں اورکہتے ہیں کہ مادی کائنات ادنیٰ خودیوں کی بستی ہے، ہر شے کی اپنی حیثیت و اساس کے مطابق الگ الگ خودی ہے۔ ان کے نزدیک انسان ا ورکائنات کی تخلیق سے ایک ہی چیز سے ہوئی ہے اور وہ ‘‘امر’’ ہے۔ خودی اقبال کے پیغمبرانہ کلام و پیام میں خودی کو مرکزی مقام حاصل ہے۔ نظام کائنات میں انسان کے لیے عبدہٗ کا مقام ِ تکمیل خودی کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ شارحین اقبال نے خودی کو خدا کی لامتناہی خودی اور بندے کی شان خودی کے درمیان براہ راست تقرب کا رشتہ پیدا کر دیا ہے اور خودی کو تخلیق کائنات کا منبع قرار دیا ہے۔ جیسے ڈاکٹر ملک حسن اکتر نے زیرنظر تحریر میں کہا ہے۔ جسے آپ کے نزدیک امر ہونا چاہیے۔ (کن فیکون) راقم کو خدا تعالیٰ کی ذات کو لامتناہی خودی اور بندے دیگر مخلوقات کی متناہی خودی کی مثال کہیں نظر نہیں آتی۔ تاہم خالق و مخلوق کا تاثر ملتا ہے۔ خودی تسخیر کائنات و تقرب خالق کائنات کے درمیان رابطہ کا ذریعہ لگتا ہے۔ اقبال نے کہا ہے: خودی سے اس طلسم رگ و بو کو توڑ سکتے ہیں یہی توحید تھی جس کو نہ تو سمجھا نہ میں سمجھا خودی میں گم ہے خدائی تلاش کر غافل یہی ہے تیرے لیے اب اصلاح کار کی راہ خودی کے لیے امر یا جولفظ مناسب سمجھیں بدل لیں۔اپنی مشہور نظم ‘‘ساقی نامہ ’’ میں انھوں نے انسان اورکائنات میں موجود اشیاء کی نہایت دلپذیر انداز میں وضاحت کی ہے کہ ہر چیز کی اصل خودی ہے: خودی کیا ہے؟ رازِ درونِ حیات خودی کیا ہے؟ بیداریِ کائنات خودہ جلوہ بدمست و خلوت پسند سمندر ہے اک بوند پانی میں بند اندھیرے اجالے میں ہے تا بناک من و تو میں پیدا من و تو سے پاک ازل اس کے پیچھے ابد سامنے نہ حد اس کے پیچھے نہ حد سامنے سُبک اس کے ہاتھوں میں سنگِ گراں پہاڑ اس کی ضربوں سے ریگِ رواں سفر اس کا انجام و آغاز ہے یہی اس کی تقویم کا راز ہے خودی کا نشیمن ترے دل میں ہے فلک جس طرح آنکھ کے تل میں ہے وہی سجدہ ہے لائقِ اہتمام کہ ہو جس سے ہر سجدہ تجھ پر حرام بڑھے جا یہ کوہِ گراں توڑ کر طلسمِ زمان و مکاں توڑ کر خودی شیرِ مولا جہاں اس کا قید زمیں اس کی صید آسمان اس کا صَید جہاں اور بھی ہیں ابھی بے نمود کہ خالی نہیں ہے ضمیر وجود ہر اک منتظر تیری یلغار کا تیری شوخی فکر و کردار کا یہ ہے مقصدِ گردشِ روزگار کہ تیری خودی تجھ پہ ہو آشکار حضرت مجدد الف ثانی دنیا کو وہم اور شر کی پیداوار سمجھتے ہیں اور اسے زہرِ قاتل اور بے کارساماں کہتے ہیں کہ دنیا بظاہر شیریں اور صورت میں تازہ پرکشش دکھائی دیتی ہے مگر در حقیقت زہرِ قاتل اور بے کار شے ہے ، اس میں گرفتارہونا مضر اور نقصان دہ ہے۔ دنیا کی نظر میں مقبول شے درحقیقت ذلیل و خوار چیز ہے، اس پر فدا ہونے والا سمجھ یا دیوانہ ہے، یہ ملمع کی ہوئی معمولی دھات اورشکر ملے ہوئے زہر کی مانند ہے۔ مگر حضرتِ اقبال ، حضرت مجدد کے خیال سے متفق نہیں، ان کے نزدیک دنیا وہم ہے نہ زہر قاتل اور نہ بے کارساماں۔ وہ اسے کارآمد چیز سمجھ کر اسے قابو میں لانا چاہتے ہیں اور اس کی تسخیر کا درس دیتے ہیں۔ علامہ اقبال جسم اور دنیا دونوں کو شر نہیں سمجھتے اور کہتے ہیں کہ بدن روح کا حاصل جمع ہے وہ اسے نظر انداز نہیں کرتے بلکہ بدن کو فتح کرنے کا مشورہ دیتے ہیں تاکہ زندگی کے اعلیٰ مقاصد کو حاصل کیا جا سکے۔ حضرت مجدد کے زمانے میں ایک اسلامی حکومت موجود تھی لہٰذا ان کا کام صرف یہ تھا کہ وہ مسلمانوں کو دین کی طرف راغب کریں اور دنیاوی لذتوں سے دور رکھیں کہ وہ ان میں کھو کر کمزور نہ پڑ جائیں۔ علامہ اقبال کے زمانے میں حکومت مسلمانوں سے چھن چکی تھی۔ لہٰذا وہ بھی مسلمانوں کی بھلائی چاہتے تھے مگر دنیا میں ترقی کے راستے پر انھیں مصروف بھی رکھنا چاہتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے عمل اورحرکت پر بڑا زوردیا ہے تاکہ غیر مسلم غلامی سے نجات حاصل کر سکیں۔ اس طرح کے عمل کی حضرت مجدد الف ثانی کے زمانے میں ضرورت نہ تھی ۔ جیسا کہ ذکر کیا جا چکا ہے کہ جب ان کے معتقد مریدوں، امراء اور جرنیلوں نے جہانگیر کے خلاف بغاوت کی تو حضرت مجدد نے انھیں ایساکرنے سے منع کرکے بادشاہ کی اطاعت اختیار کرنے کا حکم دیا۔ حضرت مجدد اور جہانگر کے اس واقعے پر ذہن ائمہ کرام امام ابوحنیفہ، امام مالک، امام شافعی، امام حنبل، امام باقر اور امام جعفر صادق رضوان اللہ علیہم اجمعین کی طرف جاتا ہے جو دین اور معاشرتی مسائل کو سب سے بہتر سمجھنے والے تھے، ان کے وقت خلفاءِ عباسیہ کی نہایت جابرانہ شخصی حکومت تھی۔ تاہم مذکورہ ائمہ کرام خلفاء وقت کے خلاف شرع ناجائز افعال و احکام کے خلاف بلا خوف آواز بلند کرتے اوران کی ناراضگی پر قید و بند اور جسمانی اذیتیں بھی برداشت کیں مگر ملک کے امن، ترقی اور اجتماعی مفاد کی خاطر اپنے لاکھوں پیروکاروں کو حکومت کے خلاف کبھی فساد، بغاوت یا شورش پر آمادہ کرنے کی کوشش نہیں کی۔ اس طرح ہمارے دونوں عظیم رہنما علامہ اقبال اور قائد اعظم بھی تھے جنھوں نے انتھک کوششوں سے آزاد ملک حاصل کیا۔ قائد اعظم نے اپنی طویل جدوجہد کے دوران کانگریس اور انگریز حکمرانوں اورمخالفین کو ہمیشہ مدبرانہ ٹھوس دلائل سے قائل کیا اور احتجاجی ، متشدد ، جذباتی جلد باز مسلم لیڈروں کی فساد اور بدامنی پیدا کرنے والی سیاست کے برعکس کامیاب رہے۔ حضرت مجدد فرماتے ہیں : مصائب میں اگرچہ بڑی ایذا اور تکلیف برداشت کرنا پڑتی ہے لیکن ان میں بڑے کرامت اور بہتری کی امید ہوتی ہے۔ اس جہان کا بہتر سامان حزن و اندوہ ہے اور اس دستر خوان کی خوشگوار نعمت مصیب و اَلم ہیں۔ ان شکر پاروں پر داروئے تلخ کا رقیق غلاف چڑھا ہوا ہے۔ علامہ اقبال بھی درد واَلم کو پسند کرتے ہیں اور ا سے نعمت قرار دیتے ہیں مگر وہ دردو اَلم تک فکر،آرزو، جستجو اورجدوجہد کے راستے سے ہوتے ہوئے پہنچتے ہیں۔ ان کے نزدیک انسان مشکلات اور سختی جھیل کر اپنی خودی پہچان سکتا ہے اور تسخیرِ کائنات کا جو کام اس نے اپنے ذمہ لیا ہے ، اس کی راہ میں عشق کے کئی امتحان اور مقاما ت آہ و فعاں آتے رہتے ہیں جو اس کے عزم تسخیر اور مستحکم کرتے ہیں۔ حضرت مجدد چونکہ زندگی میں درد و الم کی اہمیت پر زور دیتے ہیں، اس لیے وہ عشق کے معاملے میں بھی وصال کی بجائے فراق کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس معاملے میں اقبال بھی ان کے ہمنوا ہیں اور زندگی کی تڑپ اور حرکت کو فراق کا ہی مرہون منت سمجھتے ہیں۔ وصال چونکہ حرکت و عمل ختم کر دیتا ہے اورجستجو و تلاش بھی، اس لیے اقبال اس بارے میں فرماتے ہیں: عالمِ سوز و ساز میں وصل سے بڑھ کے ہے فراق وصل میں مرگِ آرزو ہجر میں لذتِ طلب گرمیِ آرزو فراق، شورش ہائے و ہُو فراق موج کی جستجو فراق، قطرے کی آبرو فراق ‘‘قطرے کی آبرو فراق’’ حضرت مجدد نے ‘‘وصال’’ کی نسبت ‘‘فراق’’ کو اچھا کہا ہے۔ اقبال کو اپ کا نظریۂ فراق پسند تھا۔ اقبال اپنے ایک خط بنام خواجہ حسن نظامی میں لکھتے ہیں کہ :‘‘میرے نزدیک جدائی کی طلبِ صادق کی تکلیف اور تڑپ عین اسلام ہے اور وصل و ملاپ کی خواہش کیونکہ ملاٌ وہم اور قرب نظر ، رہبانیت اور ایرانی نظریۂ تصوف کی طرف ہے۔ آپ و یاد ہوگا کہ آپ نے مجھے ‘‘سرّالوصال’’ کا خطاب دیا تھا تو میں نے لکھا تھا کہ مجھے ‘‘سرّ الفراق’’ کہا جائے، اس وقت میرے ذہن میں یہی امتیاز تھا جو حضرت مجدد نے بیان کیا ہے، علامہ اقبال کے دل میں حضرت مجدد کی بڑی قدر و منزلت تھی اور آپ کا نام ہر جگہ ادب و احترام سے لیا ہے۔ اگر بعض مقامات پر ان سے اختلاف بھی کیا ہے۔ اقبال نے اپنے فکر کی بنیاد حضرت مجدد کے افکار پر رکھی۔ بقول مولانا غلام رسول مہر، اقبال نے حضرت مجدد کے ارشادات و مضمرات کے متعلق سب سے پہلے اندرون اور بیرون ملک اپنے لیکچرز م یں ان کی اہمیت کو اجاگر کیا۔اقبال کو جس تصوف سے دلی لگاؤ تھا وہ حضرت مجدد کی فکر کے مطابق ہے اس کی اصل عجمی نہیں حجازی تھی جسے اقبال ‘‘اخلاص فی العمل’’ بھی کہتے ہیں، حضرت مجدد کے ساتھ عقیدت میں وہ فرماتے ہیں تین سو سال سے ہیں ہند کے میخانے بند اب مناسب ہے ترا فیض ہو عام اے ساقی حضرت اقبال اور حضرت مجدد الف ثانی میں ایک مشترک بات یہ بھی ہے کہ دونوں کے والد گرامی وجود ی مسلک پر تھے۔ حضرت مجدد نے فلسفۂ وحدت الوجود کی اوّل اوّل موافقت کے بعد مخلافت کی جو دراصل اس کے ضرر رساں اثر کی وجہ سے تھی جو امتِ مسلمہ کو بے عملی کی طرف مائل کر رہی تھی۔ اقبال اور شیخ مجدد دونوں کو ابن عربی کے بلند علمی مقام سے بخوبی آگاہی تھی اوران کی نیک نیتی کی بھی۔ اس لیے انھوں نے ‘‘وحدت الوجود’’ اور ‘‘وحدت الشہود’’ میں اشتراک کے پہلو تلاش کر لیے اور دونوں کو درست سمجھنے لگے۔ اگرچہ علامہ اقبال نے وجودی فلسفہ کے منفی اور انفعالی اثرات کو ملت کے لیے ہمیشہ مضر سمجھا جو کہ وجودی صوفیاء کی سہل پسندی، جذب و مستی اور تصوف کی غلط تاویلات سے رائج ہو گیا ہے۔ علامہ اقبال کے مطابق اگر ابن عربی کو ‘‘سرّ الوصال’’ اورحضرت مجدد الف ثانی کو ‘‘سرّ الفراق’’ کہا جائے توان کے ‘‘فسلفۂ وحدت الوجود’’ اور ‘‘وحدت الشہود’’ کا امتیاز نمایاں ہو جاتا ہے۔ علامہ اقبال اور حضرت مجدد دونوں طبقہ علماء کو اس لیے پسند کرتے ہیں کہ وہ شریعت کو بڑی اہمیت دیتے ہیں اور بعض صوفیاء چونکہ شریعت کو اہمیت نہیں دیتے اور شرعی احکام کی پابندی نہیں کرتے اس لیے ان کے نزدیک ان کی پیروی جائز نہیں۔ ان پر اس وقت سُکر کی حالت طاری ہوتی ہے۔ چنانچہ حضرت مجدد طریقت کو شریعت کا خادم کہتے ہیں اورلکھتے ہیں کہ شریعت کے تین چزو ہیں۔ علم ، عمل اور اخلاص... جب تک یہ تینوچ جزو نہ پائے جائیں، شریعت مکمل و متصدقہ نہیں ہوتی۔ جب شریعت کی صحیح تعمیل ہوگئی تو حق سبحانہ کی رضا حاصل ہو جاتی ہے جو تمام دنیوی اور اخروی سعادتوں سے اعلیٰ اور فائق ہے۔ ایسا کوئی مقصود ومطلوب نہیں جو شریعت سے الگ ہو اور انسان کو اس کی طلب اور محتاجی ہو۔ طریقت اور حقیقت جن کی بنا ء پر صوفیاء کرام ممتاز ہیں، دونوں شریعت کی خادم ہیں۔ علامہ اقبال نے ابن عربی کے حوالے سے ختمِ نبوت کے بارے میں غلط فہمی دور کرکے ایک بہت بڑی دینی خدمت سرانجام دی ہے جس کا سرسری ذکر کرنا مناسب ہوگا۔ قادیانیوں نے ابن عربی کے نظریات کی غلط تاویل کرکے مرزا غلام احمد قادیانی کی نبوت کے ثبوت کے طورپر استعمال کیا تو علامہ اقبال نے ابن عربی کے ںظریات کی وضاحت کرکے انھیں اسلام کے مطابق ثابت کیا اور قادیانیوں کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دیا۔ ابن عربی کا نظریہ تھا کہ ایک مسلمان ولی کا اپنے روحانی ارتقاء کے دوران شعورِ نبوت تک پہنچنا ممکن ہے۔ علامہ اقبال نے کہا یہ نقطۂ نظر درست بھی ہو تو اسے ذاتی تجربہ کہا جاسکتا ہے جس کی کوئی اجتماعی حیثیت نہیں، نہ ہی کوئی اپنے تجربہ کی بنا پر دعویٰ نبوت کرکے کوئی نتظیم یا امت بنا سکتا ہے اور نہ ہی دوسروں کو اپنی باطل نبوت کے انکار پر اسلام کا منکر ٹھہرا سکتا ہے۔ علامہ اقبال کو اس بات کا قطعی یقین تھا کہ ابن عربی کا حضورﷺکے خاتم النبین ہونے پر تمام دوسرے مسلمانوں کی طرح اٹل ایمان ہے۔ اگر انھیں کشف کے ذریعے نظر آ جاتا کہ ہندوستان میں ان کی تحریر کی آڑ لے کر نبوت کا ردّ کیا جائے گا توہ یقینا مسلمانانِ عالم کو ایسے غدارانِ اسلام کے بارے میں متنبہ کر دیتے۔ حاصل کلام یہ ہے کہ ابن عربی، حضرت مجدد اور علامہ اقبال تینوں شریعت کی پاندی کو ضروری خیال کرتے ہیں۔ چنانچہ تینوں کے مقاصد گو یکساں ہیں مگر طریقِ کار کے سلسلہ میں کہیں کہیں ان کا راستہ دوسرے سے مختلف ہو گیا حواشی IJTEHAD WITH REFERENCE TO IQBAL AND PAKISTAN The article captioned above is divided in four part, the origin of Ijtehad is traced out in the historical perspective which is about the early years of Khilafat-e- Abbasia in the period of Imam Abu Hanifa. Before that time there were four sources of Islamic Law acknowledged commonly which are (1) Quran (2) Sunnah (3) Ijma and (4) Qyias. The authority of first two is absolute and the jurists obtained guidance from these in settling legal issues and their authority was a part of faith. The third source i.e., Ijma was defined as unanimous agreement of jurists of community on a certain issue on the basic of Qyias which by the passage of time has assumed form of modern assemblies or the house of parliament to decide issues by majority’s consent after through discussion and debate by the members of pro and opposite sides. Imam Malik was stanch exponent of Ijma. The fourth source is called Qyias meaning a systematic and very careful method of reasoning keeping in view all the QUranic verses although not applicable directly but having relevance to help the jurist, arriave at an equitable decision in solving specific issues. Iman Abu Hanifa relied mostly on Qyias by his impeccable power of reasoning so much so that in particular issues he preferred Qyias over Hadith as in his views the veracity and correctness of Hadith could be doubtful and if the source is not reliable in that case he avoided to rely on Hadith for fear of committing the sin of disrespect to the Holy Prophet. There are four schools of Islamic Law generally acceptable which were formed in the 2nd century of Islamic calendar and these are: 1. Hanfi School after the name of Imam Abu Hnaifa. 2. Maliki School attributed to Imam Malik 3. Shaif School after the name of Imam Shafi 4. Humbli School attributed to Imam Ahmad Bin Humbel. Since the subject under discussion pertains to Ijtehad therefore to be precise it may be stated that Ijtehad ammanates as an advance from of Qyias, the method of reasoning practiced by Imam Abu Hanifa, who was the first and greatest advocate of validity of free and independent reasoning i.e., Qyias. His method of arguments is know as Istehsan i.e., to establish legal rules that meet, the requirements of equity and justice in daily life. He always kept in view common sense and reason in the perspective of Quran and Hadith injunctions and thus his Fiqh is more sensible, judicious, moderate and easy to follow than other schools of Law. Although Imam Malik is bitter opponent of Qyias is comparison to Ijma but still the followers of Abu Hanifa are in majority among the Muslims in the world. The importance of Qyias is widely acknowledged as it is the basis of foundation on which the structure of Ijtehad stands gloriously in modern Assemblies. No written jurisprudence existed during time of the Holy Prophet. The questions asked by his Sehaba were answered by the H. Prophet and his conduct was absolute authority for the Muslims but no boundary walls were erected to decide issues of different nature and those which did not occur yet which were left to be decided by independent reasoning according to specific situation and circumstances. Had the Prophet laid down rigid rules for solving such issue, it would have deprived coming generations of using reason and framing laws according to the needs of time. In support several actions of Hazrat Umar deciding matters according to his judicious reasoning without consulting the Holy Prophet can be cited which were confiremed later as correct by the Holy Prophet or Vahi. The Hadith of Sehabi Muad Bin Jabal to apply his mind i.e., Qyias for deciding the issues in absence of solution from first three sources is a glorious example of Islamic liberalism to prove it as a dynamic and progressive religion allowing adjustment in legal issues to the coming generations. WHAT IJTEHAD MEANS Literally it means employing utmost care, effort and hardship in Shariah by the jurist for deducting new ruling to meet a challenge or situation without violating spirit of Quran and Sunnah. This act of deduction, analyzing and formulating rules from the text of Quran and Sunnah to adjust the new situation is known as Ijtehad. The most common meaning attributed to term Ijtehad are independent reasoning or Ra’y. according to Imam Ghazali Ijtehad or Ra’y should be exercised only when there remains no possibility of finding a solution from first three sources of law i.e., Quran, Sunnah and Ijmah. However, Qyias has established itself the 4th source of Islamic Law and as long as the humanity keeps inhibiting on this earth, the reliance on Ijtehad cannot be forsaken. Now as the mankind in the 21st Century has entered an age of computer science, internet, space exploration and innumerable sophisticated devices, the multifarious problems and issues un anticipated fourteen hundred years ago can not be solved without independent reasoning captioned as ljtehad. On the opposite side the classical theologians believe in TAQLID or blind following without any effort. to verify the veracity or truth of the matter and consider it a virtue and piety to bind themselves with the Shariah as in their opinion it. is ordained by Quran and Sunnah. Thus they have closed upon them selves the doors of advancement and progress lagging behind the open minded nations. IQBAL has criticized this passive attitude saying:- تقلید کی روش سے تو بہتر ہے خود کشی رستہ بھی ڈھونڈ خضر کا سودا بھی چھوڑ دے Since the modern time is faced with enormous and complicated political social, economical and religious problems which can not be surmounted with the help of text of Quran. 8r, Sunnah so- it is imperative on the Islamic jurists to apply their minds to elaborate upon the vast and hidden knowledge of Quranic verses to meet the new situations. This tins led to emergence of three groups of religious schools. 1. Traditionalists i.e., the followers of Taqlid like Deoband School, Brelwi School (2) Neo-traditionaiists such as Abul-Ala-Modudi, Dr. Israr Ahmad, Dr. Tahir Ul Qadri and (3)The Moderinists, that of Sir Syed Ahmad. Allama Iqbal, Dr. Fazal.ur Rehm an and Chulam Ahmad Pervaiz etc. Considering the condition of prevailing situation it can easily be understood which group infact can encounter the problems to meet the challenges of time. The situation demands serious reconsideration of Islamic Legal System to reconstruct. the orthodox rules for adjustment to meet new constitutional and legal needs. It is great misfortune of the Muslims Ummah that vested interests in politics and theology gave a great set back to the advancement of free thinking, learning and expression of opinion to perpetuate their hold on power and position in their respective areas. The class of thinkers and researchers like Mot azila who propogated reason, argument- and deductive method, to arrive at the truth were labeled as misled and "Bidat" and suffered oppression and restrictions. The Abbasi despotic rulers imposed ban on the right of free thinking, research and expression to save their despotic rule which resulted in stagnation in the flow of learning and thus the Muslims fell behind in advancement, Iqbal has criticized despotic rule saying:- کرتی ہے ملُوکیّت آثارِِ جنوُں پیدا اللہ کے نشتر ہیں تیمُور ہو یا چنگیز The religious traditionalist like Imam. Malik, Imam Shah and such others also set strict barriers on Ijtehad. The fall of Baghdad and Gharnata brought destruction of gigantic libraries containing vast precious knowledge of all sort of prevailing subjects and deprived the Muslim world of their invaluable legacy. On the other hand the European seized this opportunity of liberal approach for acquirement of knowledge and their thinkers like Luther, Voltair, Rousseau etc spread a wave of awareness bringing renaissance in place of deep dhrkness of ignorance and backwardness. Iqbal has pointed out this tragedy in the words:- لے گئے تثلیث فرزند میراثِ خلیل خشتِ بنیاد کلیسا بن گئی خاکِ حجاز مگر وہ علم کے موتی کتابیں اپنے آبا کی جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سیپارہ Thus the doors of ljtehad and advancement in knowledge and science were closed for several centuries till the new revolutionary thinkers in 18th century onward like Abdul Wallah in Arabia. Shah Wali Ullah, Sir Syed Ahmad came to amend the dismal situation and revive spirit of ljtehad in resolving the conflict between reason and theology to bring the Muslims realize their negative and passive attitude.. Alas much precious time has lost and the ummah has fallen centuries back and unless some dynamic group of leaders inspire them to cover up the lost ground, the undignified and disgraceful plight. of economic, political and cultural subjugation of Western countries may continue incessantly. Iqbal laments the past. glory of the Muslims saying: نشانِ راہ دکھاتے تھے جو ستاروں کو ترس گئے ہیں کسی مردِ راہ داں کے لیے However, in order to close the gap between the West. &, Muslim world the doctrine of Ijtehad should be employed as an instrument of rationality in Sharih Fiqh and Hadith. and other, modern and scientific subjects to cope with challenges of modernization. In order to gain ground it is extremely essential to make progress in religious research alongwitll the fields of science, technology, industry, commerce and latest arts like electronic media, information technology and communication. The situation demands that the instrument.of ljtehad be given due importance and free hand to every individual. to exercise his impact collectively in assemblies for mutual discussion criticism adopting necessary steps according to the present, age in free and liberal atmosphere ands put forth its decisions in practice for betterment of all people in the frame work of Ijtahad provided by Imam Abu Hanifa, In this way the efforts of every individual canbecome fruitful for the Ummah. as Iqbal says:- افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ Now 1 come to the 2nd part of article. Because of centuries long slumber of backwardness, the people started thinking that there was something wrong with the Muslim nation or the religion. The orthodox held the Muslims responsible for not. following the precepts of Quran and -Summit with due solemnity, and piety. The Modernist balamed inactivity and lack of updating education and knowledge according to new age. In consequence under this gloomy and dismal conditions several reform moments sprang up among the Muslims in 18th Cent ury onward. First. was Wahab-Ud-Din movement started by Abdul Wahab in Arabia preaching return to orthodox Islam rejecting mystical and soofi pattern of religion favouring aloofness from world which had made Muslims inactive devoid of true spirit of religion detrimental. to progress In India Shah Wali Ullah led other movement. He desired a new system in Islamic Law and presented his philosophy in his famous book Hujat-Ul-Baligha. Ile was stanch supporter of Khilafat. Shah Abdul Aziz, Shah Ismail; Syed Ahmad Brelwi were his prominent and ardent successors. The 3rd movement was of Pan Islamic led by S. Jamal-ud-Din Afghni, who wanted the freedom of entire Muslim world political and religious and advocated unity among them. lqbal held him. in great esteem for his revolutionary thinking and efforts. His disciple Muhammad Abduh of Egypt. and Sir Syed. Ahmd in India took up the task to prove that Islam was not against reason and science. They wanted to solve the problems with modern methods without violating eternal principles of Islam. Then Abaid ullah Sindhi advocated both modern Muslim thought and Soofism. He was more in favour of Ijma than Qiyas. He liked that Fiqah and reason should both go together. He was in favour of material revolution with the help of scientific and modern knowledge to make Muslim powerful and prosperous. Sir Syed Ahmad was founder of Ali Garh Movement. He was a crusader against Taqlid and staunch believer in Ijtehad. He is considered as father of Indo-Pak modernists and greatly influenced Pakistan Movement. He was champion of reason against blind tradition. He gave new direction to Muslim in rationality, culture, politics and religion. He introduced reforms in polygamy, banking, conception of Riba, education trade, commerce etc. On. the other side we observe that the role of orthodox theologians like Deoband and Brelavi schools and of Jamiat ul Ulna. Hind was static and against Pakistan Movement. However, maulana Shabbir Ahmad Usmani a member of Jamiat was a liberal theologian who formed separate party and played positive role in achievement of Pakistan. Maulana A.A. Maududi was a. neo-traditionalist, interpreter of modern Islam. He wrote extensively on wide range of topics of religious, political, social, cultural, trade, commence, woman's position, Zakat, War, Jazia. etc. Rather he gave a complete system of Government in the light of Quran and Sunnah giving supreme power to Amir of his Jamat as a Naib of Allah the absolute sovereign Maulana Modudi is a midway supporter of Ijtehad. Dr. Israr Ahmad an other modern thinker who holds modern education and knowledge necessary to achieve targets. He favours Ijtehad so that we may march along with the time. He is great admirer of Allama Iqbal's thoughts. Prof. Tahir ul Qadri is an other theologian who favours Ijtehad considering necessity of taking in to account the contemporary contingencies and current realities. Apart. from above Ghulam Ahmad Parvez is considered ultra modernist and has formed a. new Fiqh from Quran. He tried to revolutionize every thing like Sir Syed Ahmad and also impressed the philosophy of lqbal. He had two objects i.e., to interpret independently without jurists limitations the message of Quran and (2) to present Islam rationally in. response to modern spirit arid circumstances. According to his system of government the State should keep all resources and means of production and surplus wealth under its control and by equitable distribution close the gap between rich and poor. He is quite liberal in equal rights of man and woman and is against obligatory "Pardah and. Polygamy" . From the foregoing we can understand to what extent the above named theologians and scholars are in favour of or 'against Ijtehad. In conclusion it can be drawn out that Islamic countries need an effective institution to make Ijtehad cooperative and collective to transform the countries into civilized and democratic society in order to solve their religious, political, social, economical problems. The third part. of essay goes totally in describing contribution of Allama lqbal towards reconstruction of Islamic thoughts under the conception of ljtehad. According to lqbal Islam is a positive science. It. invites study of nature which is dynamic and always in motion and evolutionary process. The very purpose of man's entrance on the earth is to study and explore the nature and conquer the innumerable and vast treasures scattered allover the universe, Let us look at the scene when the earth welcomes Adam when he steps first time on it as described in lqbal's poem: ہیں تیرے تصرف میں یہ بادل یہ گھٹائیں یہ گنبد افلاک یہ خاموش فضائیں یہ کوہ یہ صحرا یہ سمندر یہ ہوائیں تھیں پیش نظر کل تو فرشتوں کی ادائیں آئینہ ایام میں آج اپنی ادا دیکھ Deen-e-Islam which is a complete code of conduct as ordained by Allah: اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَ اَتمَمْتُ عَلَیْکُمْ نعمَتِیْ can never therefore, be static but is flexible, advancing and expanding capable of making adjustment all the times according to new situation as Iqbal says:- یہ کائنات ابھی نا تمام ہے شاید کہ آ رہی ہے دمادم صدائے کُن فیکون فریب نظر ہے سکون و ثبات تڑپتا ہے ہر ذرہِ کائنات تو اسے پیمانۂ افروز و فردا سے نہ ناپ جاوداں پیہم دواں ہر دم جواں ہے زندگی عالم ہے فقط مومن ِ جانباز کی میراث مومن نہیں جو صاحبِ لولاک نہیں Iqbal exercised tremendous impact on theological, polit ical and social institutions to open doors of independent reasoning and set-forth new principles of legal advancement to solve the problems faced by the Muslims and emphasized that due need of fresh interpretation in term of Islamic Jurisprudence for application to daily vital issues was -extremely essential. The beaten track i.e, TAQLID in his views was suicidal for the Muslims as remonstrated by him. تعمیرِ نو سے ڈرنا طرزِ کہن پر اَڑنا منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں Emphasizing upon the need of Ijtehad he concluded that. Islam discards stagnation and obsolete conceptions. He persuades to gain fresh grounds and creation of new practical ideas in this evolutionary and expanding world. پرانے ہیں یہ ستارے فلک بھی فرسودہ جہاں وہ چاہیے مجھ کو کہ ہوا بھی نوخیز کریں گے اہلِ نظر تازہ بستیاں آباد مری نظر نہیں سوئے کوفہ و بغداد In fact his poetry and prose after return from Europe is mostly focussed on the importance of Ijtehad. No he had given this idea in 1904. Book what is your consideration about Iqbals writing: اجتہاد اندر زمانِ انحطاط قوم را برہم ایں پیچیدہ بساط عقل آبایت ہوس فرسودہ نیت کار پایمان از عرض آلودہ بنت زاجتہاد عالمانِ کم نظر اقتدار بر رفتگاں محفوظ تر نگرش ایسد باریک د دربے شاں با مصطفی نزدیک تر (رموزبیخودی) Iqbal praises IBN-e-Tamiya, the great Muslim scholar and Mujtahid for his efforts for freedom of Ijtehad. He also praised Turks when they abolished Khilafat to replace the individual institution by collective representation of people. This step according to him is Ijtehad. In his views renaissance in Islam through Ijtehad was very necessary so that under liberal arid enlightened environments, the Muslims in subcontinent concentrate on becoming a strong modern individual nation and then gradually proceed furthers to develop fraternal relations in Muslim states and ultimately bring global unity of mankind. As there was no written law in Islam before Abbasi Khilafat therefore, with the grown civilization the early schools of Islamic law became inadequate and the advancement, adjustment, reinterpretation and reconstruction of Islamic law became imperative and that is what Ijtehad enunciates. He regrets that during past several centuries religious thoughts in Islam remained practically. stationery and dormant.. The only course left for us is to approach modern knowledge with keen, continuous but independent attitude in the light of fresh discoveries in science and art even though we Many have to differ from those who have gone before us. Unless we demolish the dilapidated obsolete structure of the past traditions we cannot have a bright and a secure future as expressed in the words of Maulana Roomi. گفت رومی بر بنائے کہنہ کا باداں کنند می ندانی اول آں بنیاد در اویراں کنند According to Iqbal we are passing through a period similar to tht of Protestant revolution. We should learn how the change took place for emancipation of common man from the yoke of priesthood. But that renaissance turned into a political movement replacing the religious strangle hold with national rivalries and capitalistic suppression as evidently said: مکر کی چالوں سے بازی لے گیا سرمایہ دار انتہائے سادگی سے کھا گیا مزدور مات We on the contrary should always keep in view the spirit of Islamic unity, brother hood and liberalism. According to Iqbal Jjmah is most: important legal notion in Islam. It. is not. only a source of fiqh but an institution through which consensus of entire Muslim community could be achieved. Due to despotic regimes the Ijma became dormant under one man rule and Ijtehad became an individualistic approach rather than collective effort. Now in democratic form of Government the transfer of power of Ijtehad from individuals to legislative assemblies has made it possible to continue the sources of law of Ijma and ljtahad within the working of assemblies which represent. the whole nation. The desired revolutionary change can be understood as expressed below: سلطانی جمہور کا آتا ہے زمانہ جو نقشِ کہن تم کو نظر آئے مٹا دو زمانے کے انداز بدلے گئے نیا راگ ہے ساز بدلے گئے پرانی ساس ت گری خوار ہے زمیں میر وسلطان سے بیزار ہے The Ijmah in the form of assemblies is a modern development that expresses the collective will of whole commmun. In the changed circumstances the elected representatives, theologians, scientists, industrialists, trade experts, educationists all can coordinate to formulate necessary regulations after detailed discussions, experiments seminars and debates which will remove stagnation and open way towards progress and prosperity. In framing the new laws the Islamic ethical teachings should be kept in view. Western democracy according to Iqbal failed due to lack of universally applicable moral values known as liberty, equality fraternity and tolerance as stated by him: ہے وہی ساز کہن مغرب کا جمہوری نظام جس کے پردوں میں نہیں غیر از نوائے قیصری دیو استبداد جمہوری قبا میں پائے کوب تو سمجھتا ہے یہ آزادی کی ہے نیلم پری زمام کا ر اگر مزدور کے ہاتھوں میں ہو پھر کیا طریقِ کوہکن میں بھی وہی حیلے ہیں پرویزی تدبر کی فسوں کاری سے محکم ہو نہیں سکتا جہاں میں جس تمدن کی بنا سرمایہ داری ہے In view of the above Iqbal's message to reconstruct the role of cooperation with Ijma in the modern conditions must be given full and practical consideration keeping alive the spirtt of Islam. Coming to the last part we can see the impact. of Muslim theologian, scholars and reformers efforts in different periods of history ultimately giving rise to the movement of demand for Pakistan in India on the basis of two nations theory achieving the goal in 1947 and then passing of Objectives Resolution in 1949 to form basis for the legal reforms according to tenets of Islam in the form of Pakistan constitution. The Muslims established that. in. India there were two nations and the Muslims were separate from Hindus on the basis of different. religion, civilization, history, customs and culture. The goal of independent country was achieved but there was wide difference among orthodox school and modernists in enactment of law in the newly born country. The traditionalist comprising of Deo band, Brelwi, Jammiat ul Ulm a, Ahrars and Khaksars wanted enforcement. of Shariat in the old and original form acording to Quran and Sunnah The Muslim League belonging to modernists group and successful in getting independence from the ex-rulers wanted that country should be governed in accordance with fundamental principles of Islam employing spirit of ljtihad in legal enactment. as the modern conditions required. On as iqbal and Quaid-e-Azam worked as the founders of Pakistan. Quaid-e-Azam wanted that the religion should be regarded a personal matter of each individual and the constitution should ensure each citizen whether Muslim, Parsi, Hindu and Christen equality in eye of law on the secular basis,. This was not acceptable to the traditionalists who demanded implementation of Shari-ah apparently in Taliban style. However, since Quran did not constitute detailed legal code for the unperceived future needs the legislature could frame certain laws within frame work of Quranic principles to meet the needs, of modern society as there is constant change in life, leading to unknown destinations. اطیعوا اللہ واطعیواالرسول فان تنازعتم فی شی ء فردود الی اللہ و الرسول ، ایک کامکمل فریم ورک مہیا کرتی ہے۔ (اس ضمن میں اسلامی ملت و حکومت ، از ارشاد شاکر اعوان، قرطاس فیصل آباد دیکھنی چاہیے )۔ There was sharp difference between orthodox and modernists on the definition of Islamic State. According to modernists it is not theologian, western brand, despotic or socialist one. Islam has not specifically marked any one to be framed strictly but has given importance to human dignity, ¬freedom of thought and expression and equality before law which presently was possible only through Ijma and ljtihad together. Both the Schools held their ground strictly without likelihood of mutual compromise. However Prime Minister Liaqat Ali Khan succeeded in having the Objectives Resolution passed by the Constituent. Assembly on which fortunately both sides felt satisfied. The gist of important clauses is stated here which made it possible to satisfy both camps. "In the name of Allah the most Beneficent and the most. Merciful". Whereas Sovereignty over Universe belongs to Almighty Allah alone and the Authority which He delegated to the State of Pakistan through its 'people for being exercised within limits prescribed by Him is sacred trust, the State shall: exercise its powers and authority through the chosen representatives of People Wherein the principles of democracy, freedom, equality tolerance and social justice as enunciated by Islam shall fully observe and shall guarantee all fundamental rights. Thus the objectives Resolution was the first collective Ijtjhad not created by the ulema as a mujtahid but by modern theologians and elected representatives. The constituent assembly of PakiStan was the first political institution to get the powers of MUJTAHID-E-MUTLIQ in the history of Fiqh and it will interpret Shariah and prepare law in future also. So the issues or bills are debated in the parliament and / outside as well by citizens, ulema, elites and the press to share participation. This revolutionary change has proved that Islam is not a static religion and is capable to adjust, adopt, modify, interpret its social and practical laws. It has also demonstrated that doors of ljtihad were not dosed at any time. Islam does not believe in stale political system and may adopt any system desired by elected people who are trusted to rule independently and justly. Pakistan is the 1st state in modems times to confirm that. God Almighty is the only Sovereign. سروری زیبا فقط اُس ذاتِ بے ہمتا کو ہے حکمراں ہے اک وہی باقی شانِ انوری So it may be concluded that there is no contradiction between Sharia.h and reason. Both are inter dependant and interrelated to accomplish the targets before the Govt. Resultantly objectives Resolution established a foremost model for modern collective ljtihad in order to incorporate Islamic essence into the country in the future political frame Work. It in ay also be mentioned in the last. that this achievement paved the way of approval of present. constitution of Pakistan with strenuous and sagacious efforts of Prime Minister Zulfiqar Ali Bhutto with consensus of all political parties and Ulema of various schools of thought. However, it is unfortunate that. unwarranted corrupt and influential politicians and fortune hunters have made Pakistan a happy hunting ground for amassing illegal wealth misusing their position and power and because of their lust and avarice the elected governments often fail due to lack of loyalty to country and dedication to their duty creating chaos and anarchy which provided in roads to military take over three, time, since creation of Pakistan. So there is a great need that, law and religion should groom the citizens in general and politicians in particular to stand committed to follow the path of high morality in their private, public and political lives without which the unstable, governments will turn the situation into mockery of constitution and endanger the existence of country. In this regard Iqbal has given final verdict, جلالِ پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی Notes and References