علامہ محمد اقبال رہوڈز لیکچرز دینے کی دعوت ( آکسفرڈ یونیورسٹی فائل ۲۶۹۴ کی دریافت) پروفیسر ریاض حسین اقبال اکادمی پاکستان جملہ حقوق محفوظ ناشر محمدسہیل عمر ناظم اقبال اکادمی پاکستان (حکومتِ پاکستان، وزارتِ ثقافت ) چھٹی منزل ، ایوانِ اقبال ، لاہور Tel: [+92-42] 6314-510 [+92-42] 9203-573 Fax: [+92-42] 631-4496 Email: director@iap.gov.pk Website: www.allamaiqbal.com ISBN 978-969-416--- طبع اوّل : تعداد : ۵۰۰ قیمت : ۔؍روپے مطبع : ، لاہور محلِ فروخت : ۱۱۶؍ میکلوڈ روڈ ، لاہور، فون نمبر ۷۳۵۷۲۱۴ فہرست - پیش لفظ - علامہ اقبال کو رہوڈز لیکچرز کی دعوت - رہوڈز ٹرسٹ میں محفوظ خط کتابت - اُردو ترجمہ فائل ۲۶۹۴ - علامہ اقبال کا آکسفورڈ جانے سے انکار - عکس انگریزی فائل - وہ کتاب جسے اقبال لکھنا چاہتے تھے - زمان و مکان کی بحث اسلامی فکر کے تناظر میں - اقبال کے افکار تاریخ عالم کا رخ بدل دیں گے - ہندوستان میں لٹریچر ذریعۂ روزگار نہیں ہے - اقبال کی اسلامیت کے انگریز ناقد - اقبال کی خطوط نویسی - تعارفی نوٹس اظہارِ تشکر مَیں وائس چانسلر آکسفورڈ یونی ورسٹی کا بے حد شکرگزار ہوں جنھوں نے رہوڈز آرکائیوز میں محفوظ فائل نمبر ۲۶۹۴ کی فوٹو کاپی لینے کی خصوصی اجازت مرحمت فرمائی۔ پیش لفظ ۱۹۷۵ء میں مجھے اقبال کے ہمدم، نقاد اور شارح ڈاکٹر محمد دین تاثیر کے ایک مضمون* سے معلوم ہوا کہ آکسفورڈ یونی ورسٹی کی طرف سے علامہ محمد اقبال کو رہوڈز لیکچرز دینے کی دعوت آئی تھی جسے انھوں نے بوجوہ قبول نہیں کیا تھا۔ مجھے خیال گذرا کہ دنیا کی صفِ اوّل کی یونی ورسٹی کی طرف سے لیکچر دینے کی دعوت اور اقبال کا اس دعوت کو قبول کرنے سے انکار کی ضرور خط کتابت کا ایک سلسلہ موجود ہوگا۔ اس کا کھوج لگانا چاہیے تاکہ اقبال کی سوانح کے اس گم گشتہ گوشے کی تفصیل سامنے آجائے۔ ہمارے اکابرین کی زندگیوں کے بیشتر احوال ابھی طلبہ کی تحقیق کے منتظر ہیں۔ اقبال کی سوانح میںبھی کئی خلا موجود ہیں جنھیں تحقیق و تجسس سے پُر کیا جانا چاہیے۔ اسی جذبے کے تحت میں نے تلاش جاری رکھی۔ خطوطِ اقبال کے اب تک جتنے مجموعے شائع ہوئے ہیں اِن میں آکسفورڈ لیکچرز کے ضمن میں ہونے والی مراسلت شامل نہیں۔ ۱۹۷۷ء میں لاہور میں منعقد ہونے والی صدسالہ بین الاقوامی اقبال کانگرس میں پاکستان کی طرف سے میں بھی بطور مندوب شامل تھا۔ اس موقع پر کانفرنس ہال کے باہر لابی میں اقبال کے دیرینہ مصاحبین: ڈاکٹر محمد عبداللہ چغتائی، میاں محمد شفیع اور بین الاقوامی طور پر شہرت یافتہ اورینٹل سکالرز پروفیسر رالف رسل (Ralph Russel) سکول آف اورینٹل اینڈ افریکن سٹڈیز یونی ورسٹی آف لندن کے ڈین، کنکارڈیا یونی ورسٹی کینیڈا کی پروفیسر شیلا میکڈونو Sheila McDonough، روم یونی ورسٹی کے پروفیسر بوسانی (Alessandro Bausani)، پروفیسر آرنلڈیز (Prof de Roger Arnaldez) آف سوربون یونی ورسٹی پیرس اور برٹش لائبریری لندن کے مسٹر لاسٹی (M. Losty) سے میں نے اس بارے میں تبادلۂ خیال کیا۔ ان سب نے میرے اس خیال کی تائید کی کہ خط کتابت ضرور ہوئی ہوگی لیکن اس کا سراغ آکسفورڈ جا کرہی لگایا جاسکتا ہے۔ وسائل نہ ہونے کی بنا پر میرے لیے ذاتی طور پر آکسفورڈ جانا ممکن نہ تھا۔ چنانچہ میں نے رہوڈز ٹرسٹ کے سیکرٹری مسٹر آراے فلیچر اوبی ای (R.A Fletcer O.B.E) کو لکھا کہ میں ایف سی کالج لاہور میں انگریزی کا پروفیسر ہوں اور اقبال کا طالب علم ہوں۔ میں جاننا چاہتا ہوں کہ کیا علامہ محمد اقبال کو رہوڈز لیکچر دینے کی دعوت کے بارے میں کوئی مراسلت ٹرسٹ کے دفتر میں موجود ہے؟ اگر ہے تو کسی طرح یہ مجھے مہیا کی جاسکتی ہے؟ مسٹر فلیچر نے جواب میں لکھا کہ کیٹلاگ میں اس مراسلت اور رپورٹوں کی ایک فائل پائی گئی ہے اور پچھلے ۷۳سال میں اسے دیکھنے کا پہلا مطالبہ آپ کی طرف سے ہوا ہے۔ لیکن اسے آپ کو مہیا کرنے میں تین دشواریاں ہیں: اوّل- آرکائیوز میں دوسرے اہم کاموں میں مصروفیت کی وجہ سے سٹاف کو اس فائل کے مندرجات کی چھان بین کرنے کے لیے مخصوص نہیں کیا جاسکتا کیوں کہ یہ کام سکالرز خود یہاں آکر کرتے ہیں۔ دوم- آرکائیوز کو دیکھنے کے لیے یونی ورسٹی میں بطور ریسرچ سکالر رجسٹرڈ ہونا ضروری ہے یا کسی دوسری Bona-fide یونی ورسٹی سے رجسٹریشن کی سند ہونی چاہیے۔سوم- آرکائیوز میں شامل مواد کو دیکھنے کے لیے وائس چانسلر آکسفورڈ یونی ورسٹی سے اجازت لینا ضروری ہے۔ آخر میں علم پرور مسٹر فلیچر نے لکھا کہ ان تمام باتوں کے پیش نظر شاید آپ کا مقصد پورا نہ ہوسکے تاہم اگر آپ وائس چانسلر صاحب کے نام ایک درخواست اور اپنا C.V مجھے ارسال کردیں تو میں فیصلے کے لیے وائس چانسلر صاحب کو بھیج دوں گا۔ چنانچہ میں نے ایک درخواست اور مفصل C.V. مسٹر فلیچر کو روانہ کردیں۔ دو ہفتے کے بعد مجھے مسٹر فلیچر کا خط ملا کہ وائس چانسلر صاحب کی اجازت سے رہوڈز ٹرسٹ آکسفورڈ یونی ورسٹی آرکائیوز کی فائل ۲۶۹۴ کی فوٹوکاپی آپ کو بھیجتے ہوئے مجھے بڑی مسرت ہورہی ہے۔ مسٹر فلیچر نے لکھا کہ وائس چانسلر صاحب کی اجازت استثنا کا درجہ رکھتی ہے اور خصوصی مراعات کے زمرے میں آتی ہے۔ میں یہ برملا اعتراف کرتا ہوں کہ مسٹر فلیچر کی کرم فرمائی کے بغیر مجھے یہ فائل کبھی حاصل نہیں ہوسکتی تھی۔ اس لیے میں ان کا بے حد ممنون ہوں۔ اس فائل میں اقبال کے لکھے ہوئے ۷خطوط اور ایک ٹیلی گرام، لارڈ لوتھین (Lord Lothian) کے اقبال کے نام ۵خطوط، ایڈورڈ تھامپسن (Edward Thompson) کے نام ایک خط، وائس چانسلر آکسفورڈ کے نام ایک خط، اسسٹنٹ سیکرٹری رہوڈز ٹرسٹ کا سرکلر جس میں دی ٹائمز لندن ای سی۴، ایڈیٹر ایسوسی ایٹڈ پریس آف امریکہ لندن ای سی۴، ایڈیٹر پریس ایسوسی ایشن لمیٹڈ فلیٹ سٹریٹ لندن ای سی ۴ اور رائٹر کو اطلاع دی گئی ہے کہ وائس چانسلر آکسفورڈ یونی ورسٹی نے سر محمد اقبال کو سال ۱۹۳۵ء کے لیے رہوڈز میموریل لیکچر دینے کے لیے منتخب کیا ہے، وارڈن آف نیو کالج آکسفورڈ کا خط لوتھین کے نام اور رہوڈز ٹرسٹ کے اجلاسوں میں پیش کی جانے والی رپورٹیں شامل ہیں۔ اس مواد میں مندرجہ ذیل نکات نہایت اہم ہیں: ژ اقبال اسلام پر جو جامع کتاب تصنیف کرنا چاہتے تھے اس کا اوّل اور مستند خاکہ۔ ژ ہندوستان اور اسلامی ممالک میں اقبال کے سیاسی، علمی اور فکری مقام اور اہمیت کے بارے میں انگلستان کے علماء اور سیاستدانوں کی بے لاگ رائے ۔ ژ Time and Space (زمان و مکان) کے موضوع میںعلامہ کی گہری اور مستقل دلچسپی اور اس بارے میں اسلامی فلسفے کو یورپی دانشوروں کے سامنے پیش کرنے کی دھن۔ ژ عالم اسلام کی بساط سیاست پر استعمار کی در پردہ چالیں اور علامہ کا برطانوی سامراج کے دام ہم رنگ زمین کا شکار ہونے سے بچ نکلنا ۔ ژ علامہ کے نجی امور مثلاً وکالت اور گھریلو معاملات کا تذکرہ علامہ کے اپنے قلم سے ۔ مجموعی طور پر خطوط جہاں علامہ کی شخصی زندگی کا آئینہ ہیں وہاں متعلقہ عہد کے سوانح اور وقائع کی سچی تصویر بھی پیش کرتے ہیں۔ فائل ۲۶۹۴ میںشامل اقبال کے خطوط کا اندازِ بیاں یکساں، پختہ اور مدلل ہے۔ پیڈ کے اوپر بائیں طرف Dr. Sir Mohd Iqbal, Kt M. A. Ph. D. Barrister-at-Law Lahore طبع ہے۔ تاریخ دائیں طرف درمیان میں، بائیں طرف مکتوب الیہ کے رتبے کے مطابق القاب مگر عموماً My dear سے خط شروع ہوتا ہے۔ عبارت خوش خطی کا نمونہ ہے۔ الفاظ کی بندش چست اور قلم پر ہاتھ کی گرفت مضبوط معلوم ہوتی ہے البتہ غور سے دیکھا جائے تو آخری دو خطوط میںجو بیماری کی حالت میں لکھے گئے ہیں ہاتھ کی جنبش نظر آتی ہے۔ انگریزی تحریر میں سلاست، شائستگی، توانائی اور اہل زبان کی سی دسترس اور چاشنی موجود ہے۔ جو اُس دور کے اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں میں صرف گاندھی، نہرواور قائد اعظم کی انگریزی تحریر و تقریر میں ملتی ہے۔ اقبال کی لکھی ہوئی ایک ایک سطر بلکہ ایک ایک لفظ قوم کی امانت ہے اس لیے اقبال کے ابھی تک مخفی خطوط، مضامین اور دوسری باقیات باہمت محققین کی کاوشوں سے منظر عام پر آنے کے منتظر ہیں ۔آکسفورڈ یونی ورسٹی میں رہوڈز لیکچرز کے سلسلے میں خط کتابت کی موجودگی شروع میںمیرا گمان ہی تھا جو صبر آزما محنت اور کاوش سے حقیقت میں بدل گیا۔ اسی طرح کئی ٹھوس شواہد کی بنا پر میرا گمان ہے کہ لاہور، کراچی، دہلی، بہاولپور، بھوپال، علی گڑھ، سری نگر، لندن، میڈرڈ، برلن، روم، اور پنسیلوانیا کے ایک امریکی ادارے میں بھی علامہ کی تحریریں اور یادگاریں موجود ہیں جو کہ اداروں کی سطح پر ٹھوس منصوبہ بندی کے تحت دستیاب ہو سکتی ہیں۔ ریاض حسین جے جے ۵۸۔ڈی ایچ اے لاہور /…/…/ علامہ اقبال کو رہوڈز لیکچرز کی دعوت ۳۱؍اکتوبر ۱۹۳۳ء کو رہوڈز ٹرسٹ (Rhodes Trust) کے سیکرٹری لارڈ لوتھین (Lord Lothian) نے نیو کالج آکسفورڈ کے وارڈن پروفیسر فِشر (Prof. Fisher) کو لکھا کہ وہ وائس چانسلر سے بات کرکے منظوری حاصل کرے کہ رہوڈز لیکچر دینے کے لیے علامہ اقبال کو دعوت دی جائے۔ اقبال کو رہوڈز لیکچرر مقرر کرنے میں لوتھین کے پیش نظر تین فائدے تھے: ۱- اقبال ایک نہایت ممتاز شخصیت ہیں ۔ ۲- اقبال کی تقرری سے ہندوستان کی خوشنودی حاصل ہو گی اور افغانستان اور مشرق وسطی پر خوشگوار اثرات مرتب ہوں گے۔ ۳- اقبال یقینا اعلیٰ درجے کے لیکچردیں گے گویا علمی اہمیت سے قطع نظر اقبال کے لیکچرز سے برطانیہ کو سیاسی فائدے بھی حاصل ہوں گے ۔ کیونکہ اسلامی دنیا میں مفکر اور فلسفی کی حیثیت سے اقبال قدر و منزلت کے مقام پر فائز تھے۔ اسی دن(یعنی ۳۱؍اکتوبر ۱۹۳۳ء ) لوتھین نے ایڈورڈ تھامپسن کو لکھا کہ رہوڈز لیکچرز کے لیے اقبال کی تقرری میں کچھ مالی معاملات پر سوچ بچار بھی ضروری ہے اور امید ظاہر کی کہ اس سلسلے میںمالی مسائل کو رہوڈز ٹرسٹیز کے ۲۱؍نومبر کو منعقد ہونے والے اجلاس میں سلجھا لیا جائے گا۔ دریں اثنا یکم نومبر ۱۹۳۳ء کو ایچ اے ایل فشر، وارڈن نیو کالج آکسفورڈ نے لارڈ لوتھین کو مطلع کیا کہ انھوں نے وائس چانسلر سے بات چیت کی ہے انھیں اقبال کی بطور رہوڈز لیکچرر تقرری پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ چنانچہ اب کوئی وجہ نہیں کہ ٹرسٹیز اپنے آئندہ اجلاس میں اقبال کو دعوت دینے کی قرار داد باقاعدہ طور پر منظور نہ کریں۔ فِشر نے مزید لکھا کہ اُسے ذاتی طور پر اقبال کی خوبیوں کے بارے میں لوتھین کے بیان سے مکمل اتفاق ہے۔ ٹرسٹیز کا اجلاس طے شدہ پروگرام کے مطابق ۲۱؍نومبر ۱۹۳۳ء کو منعقد ہوا۔ لارڈ لوتھین نے حاضرین کو ایک تحریری تجویز پیش کی جس کا عنوان تھا ’’رہوڈز میموریل لیکچر شپ کی تقرری کا فیصلہ‘‘ لوتھین نے ممبران کو یا د دلایا کہ پچھلے سال انھوں نے مسٹر سری نواس شاستری کو رہوڈز میموریل لیکچر شپ قبول کرنے کی درخواست کی تھی مگر انھوں نے خرابی صحت کی بنا پر معذرت کر لی تھی۔ لوتھین نے تجویز کیا کہ یہی پیشکش اب سر محمد اقبال کو کی جائے ۔ سر محمد اقبال لاہور کے رہنے والے ایک ممتاز مسلمان ہیں جو غالباً موجودہ اسلامی دنیا میں سب سے سر کردہ عالم فاضل شخصیت ہیں۔ انھوں نے سائنس، فلسفہ اور مذہب پر جو مقالات تحریر کیے ہیں اُن کا مجموعہ آکسفورڈ یونی ورسٹی کے زیر اہتمام شائع ہو رہا ہے۔ وہ لندن کی ارسطاطالین سوسائٹی میں بھی لیکچر دے چکے ہیں جنھیں بے حد سراہا گیا تھا یا امریکی اصطلاح میں یوں کہنا چاہیے ہاتھوں ہاتھ لیا گیا تھا۔مسٹر فِشر اس تجویز پر وائس چانسلر سے بات کر چکے ہیں جنھوں نے اس بات سے اتفاق کیا کہ اقبال واقعی رہوڈز میموریل لیکچر شپ کے لیے نہایت موزوں شخصیت ہیں۔لوتھین نے ہندو رائے عامہ کے اطمینان کے لیے یہ تحریر کیا کہ اس بات کی تشہیر کی جانی چاہیے کہ یہی عہدہ قبل ازیں مسٹر سری نواس شاستری کو پیش کیا گیا تھا لیکن وہ اسے قبول کرنے سے انکا رکر چکے ہیں۔ ٹرسٹیز نے سر محمد اقبال کی تقرری کی تجویز کو باقاعدہ طور پر منظور کر لیا ۔ آکسفورڈ یونی ورسٹی کے وائس چانسلر اور رہوڈز ٹرسٹ کے ممبران سے اجازت حاصل کرنے کے بعد لارڈ لوتھین نے اقبال کو خط ارسال کیا کہ وہ سال ۱۹۳۴ء میں رہوڈز میموریل لیکچر سے مستفید فرمائیں۔ ۶؍دسمبر ۱۹۳۳ء کولاہور سے اقبال نے لکھا کہ وہ یہ دعوت بخوشی قبول کرتے ہیں۔ لیکچرز کے بارے میں اقبال نے لوتھین کو بتایا کہ وہ Time and Space in the History of Muslim Thought (اسلامی فکر کی تاریخ میں مسئلہ زمان و مکان)کے موضوع پر تین لیکچرز تیار کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ چونکہ موضوع مشکل ہے اور اس کے لیے اُن مسودات پر دقت طلب اورگہری تحقیق درکار ہوگی جو ابھی تک غیر مطبوعہ اور غالباً گمنام ہیں۔ لوتھین کے دیے ہوئے وقت کے مطابق اقبال کے پاس تحقیق کے لیے صرف چار ماہ کا قلیل عرصہ تھا اس لیے اقبال نے لکھا کہ کیا یہ ممکن ہوگا کہ ۱۹۳۴ء کی بجائے یہ لیکچر آکسفورڈ کی سمرٹرم ۱۹۳۵ء میں پیش کر دیے جائیں۔اس کے جواب میں لوتھین نے ۳؍جنوری ۱۹۳۴ء کو لکھا کہ اگر ۱۹۳۴ء کی سمر ٹرم میں لیکچر پیش کرنا واقعی ناممکن ہے تو وہ اکتوبر ۱۹۳۴ء کی ٹرم میں آکسفورڈ تشریف لانے پر غور فرمائیں کیونکہ آکسفورڈ یونی ورسٹی جیسے مؤقر ادارے کے لیے طے شدہ انتظامات پر نظر ثانی کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ مزید برآں اگر اقبال اپنے لیکچرز کو ۱۹۳۵ء تک ملتوی کرتے ہیں تو ٹرسٹیز کو آیندہ کے لیے ایک بار پھر یونی ورسٹی حکام سے منظوری لینے کے طویل عمل سے گذرنا ہوگا۔ لوتھین نے لیکچرز کے لیے اقبال کے منتخب کردہ موضوع پر بھی اعتراض کیا کہ آپ کا موضوع ایک مخصوص حلقے کے سامعین سے تعلق رکھتا ہے۔ لوتھین نے تفصیل سے اقبال کو بتایا کہ اُن سے کس طرح کے موضوعات پر خطبے دینے کی توقعات کی جا رہی ہیں۔ لوتھین نے از خود مکمل طور پر لیکچرز کے بنیادی خطوط بھی متعین کر دیے۔ لوتھین کے اس خط کا جواب ۱۴؍جنوری ۱۹۳۴ء کو دیتے ہوئے اقبال نے اُن کے مشفقانہ خط کا شکریہ ادا کیا۔ اقبال نے لکھا کہ اس خط سے مجھے رہوڈز لیکچر شپ کے مقاصد سے واضح طور پر آگاہی حاصل ہوئی اور میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ میں ضرور کوئی ایسا موضوع تلاش کر لوں گا جو سامعین کے وسیع حلقے کے لیے باعث دلچسپی ہو۔ میرے ذہن میں پہلے سے ہی ایسا خیال موجود تھا مگر میں سوچتا تھا کہ آکسفورڈ یونی ورسٹی شاید کسی وقیع علمی موضوع کو پسند کرے گی۔ اب آپ کے خط کی روشنی میں مجھے کوئی اور موضوع سوچنا پڑے گا۔ اقبال نے لکھا کہ بہرحال وہ ۱۹۳۴ء میں لیکچر دینے سے قاصر ہیں۔ جیسا کہ گذشتہ خط میں لوتھین نے خصوصی درخواست کی تھی اس پر اقبال نے ۱۹۳۴ء میں لیکچرز دینے کے ناممکن ہونے کی تصدیق بذریعہ تار ۱۵؍جنوری ۱۹۳۴ء کو کر دی۔ معلوم ہوتا ہے کہ اقبال کے تار پر رہوڈز ٹرسٹیز نے کچھ غم و غصے کا اظہار کیا کیونکہ ۱۹۳۴ء کی ٹرم میں اقبال کو لیکچرز کے لیے آکسفورڈ لانے کے وہ شدت سے خواہاں تھے۔ ہندوستان اور اسلامی دنیا کے اس وقت سیاسی حالات ایسے تھے کہ اقبال کا بطور رہوڈز لیکچرر آکسفورڈ آنا انھیں نہایت سود مند معلوم ہوتا تھا۔ انھیں سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ اقبال کے اُس سال آنے سے انکار کی اصل وجہ کیا ہو سکتی ہے۔ اقبال کا ۱۴ ؍جنوری کا خط ابھی تک ٹرسٹ کے دفتر میں موصول نہیں ہوا تھا۔ لہٰذا اقبال کے انکار کی نفسیات کے بارے میں اپنا نظریہ پیش کرتے ہوئے ٹرسٹ کے مشیر ایڈورڈ تھامپسن نے ۱۶؍جنوری کو لوتھین کے نام خط میں جن خیالات کا اظہار کیا اُن سے اس کی عیاری معلوم ہوتی ہے۔ تھامپسن نے لوتھین کو مشورہ دیا کہ اپنے ۳؍جنوری کے مراسلے کی روشنی میں وہ اقبال کو اپنے فیصلے پر نظر ثانی کا مشورہ دیں۔ شاید وہ مراسلہ اقبال کو نہیں ملا اور وہ ابھی تک سمجھتا ہے کہ وہ آکسفورڈ آ کر اسلام کو کسی اچھے رنگ میں پیش کرنے کی بجائے کوئی ایسا فلسفہ بگھارے جو دنیا کو ہلا کر رکھ دے۔ یہ بات واضح ہے کہ تھامپسن اس حقیقت سے بے خبر تھا کہ لوتھین کا ۳؍جنوری کا خط اقبال کو موصول ہوچکا ہے اور اقبال نے اس کا جواب بھی ۱۴؍جنوری کو سپرد ڈاک کر دیاہے یہ خط ابھی راستے میں ہی تھا۔ لہٰذا ۱۹؍جنوری کولوتھین نے اقبال کے ساتھ مراسلت کی ایک خلاصہ رپورٹ ٹرسٹیز کے سامنے رکھی تاکہ وہ آئندہ لائحہ عمل کے بارے میں کوئی فیصلہ کریں ۔ چونکہ رپورٹ تحریر ہونے تک اقبال کا ۱۴؍جنوری کا خط لوتھین کو موصول نہیں ہوا تھا لیکن ۱۹؍جنوری کو رپورٹ ٹرسٹیز کے سامنے پیش کیے جانے سے قبل خط لوتھین کو مل چکا تھا۔ لہٰذا لوتھین کی رپورٹ اور اقبال کے ۱۴؍جنوری کے خط پر غور کرنے کے بعد ٹرسٹیز نے اقبال کی یہ درخواست منظور کر لی کہ لیکچرز کو ۱۹۳۵ء تک ملتوی کر دیا جائے۔ ٹرسٹیز اقبال کو لیکچر دینے کے وعدہ پر پابند کر نے کے لیے اتنے بے قرار تھے کہ انھوں نے مزید تصدیق کیے بغیر ۲۸؍فروری ۱۹۳۴ء کو فوراً ہی بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کو اقبال کی بطور لیکچرر تقرری کی خبر ارسال کردی۔ اجراے خبر کے ایک ہفتے بعد لوتھین نے ۶؍مارچ ۱۹۳۴ء کو بذریعہ خط اقبال کی تقرری کی سرکاری طور پر تصدیق کی۔ لوتھین نے لکھا کہ اُسے اقبال کو یہ اطلاع دیتے ہوئے خوشی محسوس ہو رہی ہے کہ اقبال کی اپنی تجویز کے مطابق وائس چانسلر آکسفورڈ یونی ورسٹی اور رہوڈز ٹرسٹیز نے انھیں سال ۱۹۳۵ء کے لیے رہوڈز میموریل لیکچرر مقرر کر دیا ہے۔ لوتھین کے اس خط کا جواب اقبال نے ۲۸؍مارچ ۱۹۳۴ء کو دیا۔ اقبال کی تجویز یہ تھی کہ وہ آکسفورڈ میں مندرجہ ذیل تین لیکچرز پیش کریں گے۔ ۱۔ ایک عالمی تحریک کی حیثیت سے اسلام کا مفہوم ۲۔ اسلامی قانون کی معاشی اہمیت ۳۔ ہندی مسلمانوں کا ماضی، حال اور مستقبل اقبال نے لیکچرز کا مجموعی عنوان ’’اسلام ___جدید دنیا میں‘‘ تجویز کیا تھا ۔ دریں اثنا اقبال کو معمولی زکام ہوا جو بعد میں شدید بیماری کی صورت اختیار کر گیا۔ستمبر کے اختتام پر اقبال کو پتا چلا کہ بدقسمتی سے وہ ایک سنگین عارضے کا شکار ہو چکے ہیں۔ اس تشویش ناک صورت حال سے لوتھین کو آگاہ کرتے ہوئے اقبال نے یکم اکتوبر ۱۹۳۴ء کے خط میں کچھ رنجیدہ انداز میں بیان کیا کہ انھیں اندیشہ ہے کہ وہ اس سال لیکچرز کے لیے نہیں آ سکیں گے۔ کیونکہ چھ ماہ پہلے انفلوئنزا کے حملے سے اُن کی آواز پر بہت برا اثر پڑا ہے۔ ڈاکٹر علاج سے قاصر ہیں۔ اقبال نے لوتھین سے درخواست کی کہ وہ ٹرسٹیز سے لیکچرز کو اس وقت تک ملتوی کرنے کے لیے کہیں جب تک اُن کی آواز بحال نہیں ہو جاتی۔ اقبال کاخط ملنے پر سیکرٹری نے ۲؍نومبر ۱۹۳۴ء کے اجلاس میں جو رپورٹ ٹرسٹیز کے سامنے رکھی اس میں اقبال کے یکم نومبر ۱۹۳۴ء کے خط کا پورا متن درج کیا گیا تھا۔ ٹرسٹیز کو یہ بھی بتایا گیا کہ محمد اقبال نے ۱۹۳۵ء کی سمر ٹرم میں آکسفورڈ میں قیام کے لیے آنا تھا لیکن بیماری کی وجہ سے وہ نہیں آ سکے۔ یونی ورسٹی حکام کو اُن کی بیماری سے غیر رسمی طور پر آگاہ کر دیا گیا ہے اور ٹرسٹیز کی اگلی میٹنگ کے بعد اُن کو سرکاری طور پر بھی اطلاع کر دی جائے گی۔ سیکرٹری نے اپنا تبصرہ بھی ایک نوٹ کی شکل میں رپورٹ کے ساتھ منسلک کیا جس میں کہا گیا کہ اب ہمارے پاس اس کے سوا اور کوئی چارہ کار نہیں کہ ہم اقبال کے اگلی سمر ٹرم کے مجوزہ لیکچرز کو منسوخ کر دیں اور ۱۹۳۶ء میں اُن کی تقرری کی تیاری کریں بشرطیکہ اگلے سال کے وسط تک اُن کی صحت اور آواز بحال ہو جائے۔ ٹرسٹیز کی میٹنگ بتاریخ ۲؍نومبر ۱۹۳۴ء کی کارروائی کے اقتباس نمبر ۱۱۱۵ میں تحریر ہے کہ ٹرسٹیز کے علم میںیہ بات آئی ہے کہ سر محمد اقبال خرابی صحت کی بنا پر ۱۹۳۵ء میں رہوڈز میموریل لیکچرز دینے کے لیے انگلستان نہ آ سکیں گے۔ بایں ہمہ انھوں نے درخواست کی ہے کہ ان کے لیکچرز ایک سال کے لیے ملتوی کر دیے جائیں۔ ۹؍نومبر ۱۹۳۴ء کو ٹرسٹ کے سیکرٹری لارڈ لوتھین نے بالآخر وائس چانسلر کو لکھا کہ اقبال نے ۱۹۳۵ء کی سمر ٹرم میں آکسفورڈ آنا منسوخ کر دیا ہے اور یہ کہ رہوڈز ٹرسٹیز نے مجھے ہدایت کی ہے کہ آپ کو اس امر کی اطلاع کردوں۔ لوتھین نے وائس چانسلر کو بتایا کہ ۱۹۳۵ء کے لیے متبادل امید وار پر تجویز کرنے کے لیے ان کے پاس کوئی نام نہیں۔ اس کے بعد سرکاری طور پر یہ معاملہ کچھ دیر کے لیے معلق رہا۔ تاہم لوتھین کی یہ خواہش کہ اقبال ۱۹۳۵ء میں لیکچر دیں اتنی شدید اور گہری تھی کہ اُس کے دل میںیہ مخفی امید قائم رہی کہ اقبال کسی نہ کسی طرح آکسفورڈ آنے کے قابل ہو جائیں گے۔ دو ماہ بعد لوتھین نے اپنی فائلوں کو دوبارہ ملاحظہ کیا اور اقبال سے از سر نو خط کتابت شروع کی۔ ۱۸؍جنوری ۱۹۳۵ء کو اقبال کے نام خط میں لکھا کہ وہ اُن کی صحت کا حال معلوم کرنا چاہتا ہے اور پوچھنا چاہتا ہے کہ کیا اب بھی کوئی ایسا امکان موجود ہے کہ آئندہ سمر ٹرم میں لیکچر دینے کے لیے آپ آکسفورڈ آسکیں۔ لوتھین کی اقبال کو آکسفورڈ لانے کی بے قراری سے معلوم ہوتا ہے کہ معاملہ خوش خلقی کا رسمی مظاہرہ کر نے سے بڑھ کر تھا۔ لیکچر شپ کے متبادل انتظامات کرنے کی مشقت اپنی جگہ لیکن جیسا کہ لوتھین کے اپنے بیان اور دیگر شواہد سے پتا چلتا ہے کہ ہندوستان اور اسلامی دنیا میں سلطنت برطانیہ کے لیے بھرپور سیاسی مفاد حاصل کرنے کی مجبوری بھی تھی۔ لوتھین نہیں جانتا تھا کہ وہ عارضہ جو معمولی زکام کی شکل میں ظاہر ہوا تھا اب بڑھ کر ایسی گھمبیر بیماری کی صورت اختیار کر گیا ہے کہ اقبال کے عضلاتِ گویائی معذوری کی حد تک کمزور ہو گئے ہیں۔ اقبال کے اگلے خط بتاریخ ۲۶؍جنوری ۱۹۳۵ء کا انداز مغموم اور اُن کی روایتی خوش دلی سے خالی ہے۔اقبال نے لکھا کہ لوتھین کا خط انھوں نے آج صبح ہی پڑھا ہے اور وہ اُس کی شفقت اور مہربانی کے لیے از حد شکر گزار ہیں۔ لیکچرز ملتوی کرنے پر اقبال ٹرسٹیز کے ممنون ہیں اور لوتھین سے استدعا کرتے ہیں کہ وہ اُن کاشکریہ ٹرسٹیز اور وائس چانسلر تک پہنچا دیں۔ اس خط میں اقبال لوتھین پر واضح کرتے ہیں کہ اُن کی صحت کی حالت ابھی تک خراب ہے۔ لوتھین نے اس خط کا کوئی جواب نہ دیا ۔بھوپال سے واپسی پر اقبال نے لوتھین کو ایک اور خط ارسال کیا۔ اقبال کا آکسفورڈ جانے کا امکان اب معدوم ہو رہا تھا اور جیسا کہ اقبال نے واضح الفاظ میں بیان کیا کہ اُن کے آکسفورڈ آنے کا کلی دارو مدار اب اُن کی بحالیِ صحت پر ہے۔ لیکن اگر اُن کی صحت بحال نہ ہوئی تو آکسفورڈ میں لیکچر دینے کا پروگرام یکسر منسوخ کرنا پڑے گا ۔ اقبال کے ۱۵ ؍اپریل ۱۹۳۵ء کے خط پر لگے نشانات سے پتا چلتا ہے کہ لوتھین نے اس خط کا بغور مطالعہ کیا تھا خط کے دائیں طرف کو نے میں تاریخ کے نیچے لوتھین نے لکھا ہے Report (رپورٹ) جس کا مطلب ہے کہ خط کا پورا مضمون لفظ بہ لفظ ٹرسٹیز کے سامنے رکھا جائے۔ لوتھین نے خط کے پورے مضمون کو بریکٹس (Brackets) میں بند کیا ہے اور مندرجہ ذیل سطر کی ابتدا اور اختتام پر واوین لگائے ہیں:’’جب تک میری صحت مکمل طور پر بحال نہیں ہو جاتی‘‘تاکہ میٹنگ میں اس امکان پر خاص طور پر غور کر لیا جائے۔ اس خط میں اقبال نے لوتھین کو بتایا کہ وہ پچھلے ماہ (مارچ میں) ہی بھوپال سے لوٹے ہیں۔ اُن کی آواز میں قدرے بہتری آئی ہے تاہم علاج پورا ایک سال جاری رہے گا اور ضرورت ہوئی تو اس سے زیادہ عرصہ بھی لگ سکتا ہے۔ مزید برآں چونکہ اس عارضے کا اثر دل پر بھی ہوا ہے اس لیے انھیں ہدایت کی گئی ہے کہ وہ علاج کے دوران اپنے ذہن اور جسم کو مکمل آرام دیں لہٰذا وہ بار بار رہوڈز ٹرسٹیز سے مہربانی کی درخواست کرنے پر سخت نادم ہیں۔ اقبا ل نے صاف الفاظ میں لوتھین کو بتا دیا کہ جب تک وہ مکمل طور پر صحت یاب نہیں ہو جاتے اُن کے لیے لیکچرز دینا ممکن نہیں ہوگا۔انھوں نے امید ظاہر کی کہ ان حالات میں ٹرسٹیز اُن کی استدعا کو قبول فرما لیں گے لیکن اگر ایسا ممکن نہ ہو (یعنی اگر ٹرسٹیز اُن کا عذر قبول نہ کریں) تو انھیں ڈر ہے کہ جو اعزاز ٹرسٹیز نے انھیں بخشا ہے انھیں اس سے محروم رہنا پڑے گا۔ ایک ماہ بعد ٹرسٹیز کی میٹنگ منعقدہ ۱۷؍مئی ۱۹۳۵ء میں اقبال کا خط برائے فیصلہ پیش کیا گیا۔ رپورٹ میں سب سے پہلے تو اقبال کے خط کا پور ا متن نقل کیا گیا ہے۔ بورڈ آف ٹرسٹیز کے سیکرٹری لارڈ لوتھین نے اپنے نوٹ میں سفارش کی ہے کہ ٹرسٹیز کو چاہیے کہ وہ اقبال کو ۱۹۳۶ء میں آکسفورڈ آنے کے لیے کہیں لیکن ساتھ ہی یہ بتا دیں کہ اگر وہ ایسا کرنے سے قاصر ہوں تو ٹرسٹیز کو ۱۹۳۷ء کے لیے مجبوراً کسی اور کو مقرر کرنا پڑے گا۔ دوسری میٹنگ منعقدہ ۲۱؍مئی ۱۹۳۵ء میں ٹرسٹیز نے اپنا فیصلہ اس عنوان کے تحت درج کیا: ’’۱۷۷ رہوڈز میموریل لیکچر شپ ‘‘___ ٹرسٹیز نے سر محمد اقبال کا خط بتاریخ ۱۵ ؍ اپریل ۱۹۳۵ء ملاحظہ کیا۔انھوں نے فیصلہ کیا کہ ۱۹۳۵ء کے آخر تک انھیں لازمی طور پر معلوم ہو جانا چاہیے کہ سر محمد اقبال ۱۹۳۶ء میں آکسفورڈ آ کر رہوڈز میموریل لیکچرز دے سکیں گے یا نہیں۔ ۲۷؍مئی ۱۹۳۵ء کو لوتھین نے ٹرسٹیز کے تجویز کردہ مضمون کا خط اقبال کو ارسال کیا۔ لوتھین نے خط کے آخر میں اپنے بہترین جذبات کا اظہار کیا۔لب ولہجے اور جذبے کے لحاظ سے یہ بالکل دفتری قسم کا خط تھا۔ اس میںگذشتہ خطوط کی طرح لوتھین کی ذاتی گرم جوشی کا عنصر غائب تھا۔ اس امر کی تصدیق اس حقیقت سے ہوتی ہے کہ سابقہ خطوط ایک ذاتی دوست اور شناسا لوتھین نے لکھے تھے یہ خط لوتھین سیکرٹری بورڈ آف ٹرسٹیز کی طرف سے تحریر کیا گیا تھا۔ یہ بات بہرحال مدنظر رہے کہ لوتھین کی ذاتی خط کتابت بھی بورڈ آف ٹرسٹیز کی قرار دادوں اور فیصلوں پر مشتمل ہوتی تھی اور ان معنوں میں وہ بھی دفتری خط کتابت ہی تھی۔ دریں اثنا اقبال ایک گھریلو المیے سے گذرے جو اُن کے اپنے الفاظ میں ’’بہت بڑی افتاد تھی جس کا سامنا میری عمر کے کسی آدمی کو ہو سکتا ہے‘‘۔اس المیے نے اقبال کے آکسفورڈجانے کے سارے امکانات ختم کردیے ۔ان کی اہلیہ اچانک وفات پا گئیں اور اپنے پیچھے دو نابالغ بچے چھوڑ گئیں جن کی دیکھ بھال اب اقبال کو تن تنہا کرنی تھی۔ اقبال کے اگلے مراسلے بتاریخ ۲۲؍جون ۱۹۳۵ء کا انداز مغموم اور فیصلہ کن ہے ۔یہ خط وصول کرنے کے بعد لوتھین نے اس کے دائیں کو نے میں اوپر تاریخ کے نیچے لکھا ’’ وی سی کو پہنچا دیں‘‘ جس کا مطلب ہے کہ آکسفورڈ یونی ورسٹی کے وائس چانسلر کی اطلاع اور ضروری اقدام کے لیے یہ خط براہ راست اُن کو بھیج دیا گیا۔ اقبال نے لکھا کہ اب ان کے لیے قلیل مدت کے لیے بھی ہندوستان چھوڑنا نا ممکن ہے۔ لہٰذا مجبوراً انھیں اُس عظیم اعزاز سے محروم رہنا ہو گا جو رہوڈز ٹرسٹیز نے فیاضی سے انھیں پیش کیا ہے۔ ٹرسٹیز نے اقبال کے خط پر اپنی میٹنگ منعقدہ ۲۳؍اگست ۱۹۳۵ء میں غور کیا ۔ ٹرسٹیزنے اقبال کی درخواست قبول کر لی اور اس امرپر افسوس کا اظہار کیا کہ حالات نے اب اُن کے لیے رہوڈز میموریل لیکچر شپ قبول کرنا ناممکن بنا دیا ہے۔ سیکرٹری ٹرسٹ کو ہدایت کی گئی کہ اگلے مجوزہ لیکچرر سے اس سلسلے میں رابطہ کیا جائے۔ لوتھین کی بے قراری کہ اقبال کسی طرح لیکچر دینے پر آمادہ ہو جائیں اور اقبال کی لیکچر شپ سے دستبرداری پر اُس کی مایوسی ۲۵؍جولائی ۱۹۳۵ء کے خط سے عیاں ہے۔ اس خط کی زبان اور لب و لہجے سے ذاتی جذبات کی گرم جوشی کا اظہار ہوتا ہے ساری خط کتابت میں لوتھین نے اقبال سے پہلی دفعہ My Dear کے الفاظ میں خطاب کیا ہے اور اپنی اور ٹرسٹیز کی گہری مایوسی کا اظہار کیا ہے کہ اقبال آکسفورڈ آ کر رہوڈز میموریل لیکچر دینے سے قاصر ہیں۔ لوتھین نے اس امید کا اظہار کرتے ہوئے آخر میں لکھا کہ مستقبل میں شاید اس معاملے پر دوبارہ غور کرنے کا موقع نکل آئے۔ رہوڈز میموریل لیکچر شپ کی فائل ۲۶۹۴ کے ہمیں دستیاب صفحات میں یہ لوتھین کا آخری خط ہے۔ /…/…/ رہوڈز ٹرسٹ میں محفوظ خط کتابت فائل نمبر ۲۶۹۴ Rhodes Trust Oxford University File No. 2694 [ 1 ] 31st October 1933. My dear Fisher, I have heard from Thompson that Iqbal has heard that we are contemplating asking him to be Rhodes Memorial Lecturer for mext year and is wondering whether he is going to receive an invitation because he has been asked to organise a university in Afghanistan and apparently does not want to tie himself up so that he cannot come to Oxford if he is invited. He further tells me that it is commonly reported in Oxford and Indian circles that you are alleged to have said that he was going to be the next lecturer. Personally I think that we could do nothing better than to get Iqbal next summer, not only for personal reasons but on general political grounds. Moreover, if the Trustees approve of my proposals about the third year of the Scholarship, we sahll once more be in a relatively fluid financial position. I am therefore strongaly of the view that the Trustees ought to invite him. We cannot however, take any steps unless the Vice-Chancellor agrees. I am wondering whether you could possibly have a word with him on the subject so that the Trustees could know whether he would approve (because the invitation has to be issued jointly) so that a decision can be taken on the 21st, because I understand that Iqbal is anxious for an early decision. I cannot consult him formally until the Trustees have approved. Iqbal is a very distinguished figure. His appointment not only please India but might have repercussions throughout Afghanistan and the Middle East. He would certainly give first Class lecture as his lecture to the Arstotelian Society abundantly proved. Yours sincerely, The Warden, New College, OXFORD [ 2 ] 31st October 1933. My dear Thompson, I will try and give you an answer about Iqbal in the course of the next two weeks.Would it be too late if I delayed it until November 21st, which is the next meeting of the Trustees? The question is a little mixed up with finance, and I hope to get everything straightened out by them. Further, before issuing any invitation I should have to get the formal consent of the Vice-Chancellor. I suppose it will be all right if you could send Iqbal a cable in the last week of November? Your description of the Sarabhais attracts me very much. I suppose they are not still in England, because, if so, I would like to get them down to Blickling for a night provided you would come too, about the middle of November? It is almost the most lovely house in England, and they would clearly appreciate it and the wild life about it, and we could have some quiet talk. Yours sincerely, Edward Thompson, Esq. Scar Top, Boar No # 's Hill, OXFORD. [ 3 ] THE WARDEN'S LODGINGS, NEW COLLEGE OXFORD. Please Address reply to THE WARDEN November Ist, 1933. My dear Lothian, Millar will tell you that on February 2nd, I forwarded to him a letter from the Vice-Chancellor saying that he raised no objection to Iqbal's name as Rhodes Lecturer. I had already consulted him about it. There is no reason whatever why we should not go ahead and appoint him at our next Meeting, if we have not done so already. I quite agree with you as to his qualities. Yours sincerely, The Most Hon. The Marquis of Lothian, C.H. The Rhodes Trust, Seymour House, Waterloo Place, London, S.W.I. [ 4 ] Dr. Sir Mohd. Iqbal Kt. M.A., Ph. D. Barrister- at- Law. Lahore 6th Dec. 1933 My dear Lord Lothian, Thank you so much for your kind letter inviting me to deliver Rhodes Memorial Lectures at Oxford. I consider it a great honour and gladly accept the offer so kindly made. Kindly convey my best thanks to the Chancellor, Vice-Chancellor and the Rhodes Trustees. I must also express my feeling of heartfelt gratitude to yourself, as I think this great honour has come to me mainly because of the interest you took in my work on the 'Reconstruction of Muslim Theology'. There is however, one thing to which I must draw your attention. I believe the Oxford summer term begins about the end of the April. This being so I have only about four months at my disposal to write out the lectures. Now the subject on which I propose to write is "Time and space in the history of Muslim Thought". It is a difficult subject and will involve a great deal of research in manuscripts which are yet un-published and perhaps unknown. I do not think it will be possible for me to write three lectures on this subject during the time at my disposal. Is it then possible that I may deliver these lectures in the summer term of 1935 instead of 1934? Considering the importance of the subject and the difficulties involved in the writing of it I do hope that the Chancellor and the Rhodes Trustees will agree to the proposal I venture to put before them. I shall be anxiously waiting for an early reply to this letter. Thanking you and looking forward to having once more the privilege of meeting you. Yours Sincerely, Mohammad Iqbal [ 5 ] 3rd January 1934. Dear Sir Muhammad, I have just got your letter of the 6th December. I am delighted to hear that you can see your way to accept the Rhodes Memorial Lectureship and I am looking forward very much to seeing you once more and hearing your lectures. Is it, however, really impossible for you to come to Oxford next Summer Term or at latest next October Term? With institutions like a University it is not easy to revise arrangements once they have been made and it is now too late to get another lecturer for next year and we should probably have to go through the whole process of getting the consent of the University Authorities to the postponement. Further, will you allow me to say that I think the subject matter you have choosen, namely "Space and time in the history of Muslim thought", is rather more specialist in character than was contemplated at the foundation of the Rhodes Memorial Lectureships. The lectureship is not primarily academic in the narrower sense of the word. The object of the Rhodes Trustees in founding it was to bring to oxford notable figurs of international reputation who could interpret either some other civilisation or some important contemporary train of thought to the Fellows and undergraduates of the University. There are many lectureships of a purely academic kind but the Trustees felt that if Oxford was to keep its place among the Universities, its treachers and sutdents should be given the opportunity of having discussions with and listening to lectures by people who represented something outside the normal curriculum of the University. The first lectures were given by Sir Robert Borden, Prime Minister of Canada during the war, on the development of the British Commonwealth from the standpoint of a Dominion who had taken part in the war. He was followed by Dr. Flexner who gave a series of rather provocative lectures on the idea of the modern Unviersity. Professor Halevy was the next lecturer who dealtwith the significance of the world war from the standpiont of France. Then General Samuts came from South Africa and gave brilliant series of lectures in which he urged Great Britain to investigate and consider the problems of Africa as a whole and in which he discussed those problems. Finally Professor Einstein came to Oxford and gave three lectures on an aspect of relativity which I understand he has since abandoned. His visit was personally a great success, but it would not be unfair to say that his lectures were not the most satisfactory part of his lectureship and, in point of fact, they have never been published because he has largely abandoned the thesis he then propounded. The Rhodes Trustees and the Vice-Chancellor had hoped that you could give a series of lectures on some such subject as "Islam in the Modern World",or"Islam and the Reconstruction of Modern Civlisation", or "Islam and India". They feel that the average Englishman's ideas about Islam are extremely limited, are saturated with the prejudice which has arisen partly from the old christian missionary point of veiw and partly from the fact that Islam like other great religions has passed through a period of stagnation and petrifaction. What they would like would be for you to set out to give Oxford and impression of what Islam has represented as a world movement in history and of the significance of its fundamental thinking and re-awakening activity in the modern world. I was reading your lectures which made me realise how great a theme this was and I feel that from the point of view of Oxford and the lectureship a treamtment of this kind of subject would be more in the tradition of the lecture.which will only appeal to a very narrow academic circle. There is nothing, of course, to prevent your giving one or more lectures on this subject to audiences or societies in Oxford or elsewhere and having these published together with the Rhodes Memorial Lectures by the Oxford University Press. But I would venture to express the hope that you should take a rather broader theme for the Rhodes Memorial Lectures and that if you can do this, you will also be able to come to Oxford this summer, for you clearly have the subject at your finger tips and the lectures themselves will require no such research as would be necessary for "Space and time in the history of Muslim Thought". I wonder if you could be so kind as to send me a cable after the receipt of this letter as to what your final decision is? It is not necessary for you to settle the title of your lectures at once as the title will only be announced in Oxford about Easter, but I should like to know as soon as possible whether I can tell the Vice-Chancellor that you will be in Oxford next summer term or in the October Term. Yours sincerely, Sir Muhammad Iqbal, Lahore, India. [ 6 ] RHODES MEMORIAL LECTURESHIP Last year the Trustees offered the Rhodes Memorial Lectureship to Mr. Srinivasa Sastri who replied that unfortunately owing to health he could not accept it. In view of the uncertainty of the financial position the Trustees decided not to make any further attempt to fill the position for 1933. The question now arises whether they should fill it for 1934. The candidate proposed is Sir Muhammad Iqbal, a distinguished Muhammadan from Lahore, who is probably the outstanding intellectual figure from the Islamic world to-day. He has written a number of essays on Sicence, Philosophy and Religion, which are now being published by the Oxford University Press, and has lectured with what the Americans call "with acceptance" before the Aristotelian Society. Apparently it came to Sir Muhammad's ears when he was over for the third Round Table Conference that his name had been put forward as a candidate for the Lectureship, and he has now written to Edward Thompson privately to find out whether he is likely to be offered the appointment because he had been invited to organise a new University in Afghanistan by Nadir Shah, who has since unfortunately been assassinated. During the summer too, the question was discussed by Mr. Fisher with the Vice-Chancellor, who makes the appointment conjointly with the Trustees, and the Vice-Chancellor agreed that he would be a suitable candidate. There is no doubt that his appointment would also be worth while from the political point of view for it would certainly cause much satisfaction among our Moslem fellow subjects in India, though unless it were made known, as I have endeavoured privately to make it known, that Mr. Sastri had already been asked and had refused, the Hindus might feel a little aggrieved. On all grounds other than finance, therefore, I recommend the appointement. The financial consideration will clearly depend upon the consideration the Trustees give to the question of the third year of the Scholarship. [ 7 ] Dr. Sir Mohd. Iqbal, Kt. M.A., Ph. D. Barrister-at-Law Lahore. 14th Jan. 1934 My Dear Lord Lothian, Thank you so much for your kind letter which I received this morning and which has brought me a clearer idea of the purposes of the Rhodes Lectureship. I shall certainly choose some subject which may appeal to a wider circle of audience. Indeed I had this in mind, but I felt that the Oxford University would prefer a subject of a more academic character. However I shall now think of some other subject in the light of what you say in your letter. But I am afraid it will not be possible for me to deliver my lectures in 1934. I have so far collected material for 'Time and Space' and all these months this subject has been in my mind. It is unfortunate that my ignorance of the purpose of the Rhodes Lectureship has caused so much loss of time. In my last letter I did not give you all my reasons for my inability to deliver my lectures in 1934. It was unnecessary to do so. As you know literature is not a profession in India and I have to earn my daily bread at the Bar. As a member of the two Round Table Conferences I had to be away from India for several months continuously each time. This has done me much harm from a professional point of view so that I have to regain the lost ground. It is necessary for me to make an effort in this direction as this is the only source of my income. I felt when writing to you last time, that my continuous presence here for about two years would, to some extent, help me in regaining the work that I had lost. I request you to excuse me for frankly stating a reason which I would not have mentioned to a less sympathetic man. Hoping you are well and thanking you for all your kindnesses. Yours Sincerely, Mohammad Iqbal [ 8 ] [ 9 ] SCAR TOP, BOARS HILL OXFORD 16. 1. 34 My dear Lothian, Iqbal's psychology, as I understand it, is this. He is a Brahmin, and Kashmiri at that, of the same clan as Haksar, Sapru & the Nehrus. That gives him an inherited metaphysical beat. And he is very sensitive about the charge brought against Muhammadanism, that it is a sterile low-grade religion, good for savages & negroes, but giving nothing on the metaphysical side for the mind to bite on, infinitely inferior here to Christianity & Hinduism. He is ambitious, as his lectures show, to put Islam on the worldmap metaphysically. He has Einstein on the brain, and also our Dunn ("An Experiment in Time") and others. He wants to challenge Einstein and prove that Islam has great philosophy & great phlosophers. On top of that, the name of Oxford and of his predecessors as Rhodes Lecturers has put the wind up him; and he feels he did not get enough notice for such an innings as he feels he is expected to play. I shd. ask him to reconsider his decision in the light of your letter, which shd. reach him in a very few days. He has not had it, and still thinks he has to launch a world-shaking philosophy here, instead of merely giving a jolly show for Islam. Yours sincerely, E. Thompson [ 10 ] 19.01.34 For decision RHODES MEMORIAL LECTURESHIP: SIR MUHAMMAD IQBAL In accordance with the decision of Trustees and the Vice- Chancellor an invitation was issued to Sir Muhammad Iqbal to be the Rhodes Memorial Lecturer for 1934. I afterward received a letter from him gratefully accepting the lectureship but saying that he wanted to make the subject of his lectures "Time and Space in the History of Muslim Thought", that he would have no sufficient time to prepare those lectures by next summer and asking whether the lectureship could not be postponed until 1935. After consulting with Mr. Edward Thompson who knows him well, I wrote, and Thompson also wrote, explaining that the Rhodes Memorial Lectures were not intended to deal with so specialist a question but rather to present a general survey of some significant aspect of some contemporary politics or thought like the Samuats, Borden or Flexner's lectures, and asking him whether he could not take as his subject some such title as "Islam in the Modern World", and still come to Oxford next summer. I have now received the following cable: "Sorry impossible this year". This of course may be due to the fact that he has to go to Kabul in connection with the new Afghan University and doubtless a letter will follow shortly. [ 11 ] 28th February 1934. Sir, I am directed to send you the following notice and shall be very much obliged if you will kindly distribute it to the press: "The Vice- Chancellor of the University of Oxford and the Rhodes Trustees have elected Sir Muhammad Iqbal to be the Rhodes Memorial Lecturer for the year 1935. The Right Honourable V.S. Srinivasa Sastri, C. H., was invited to be the Lecturer for 1934 but had to decline on doctor's orders." I am, Sir, Your obedient Servant, E.F.M. Assistant Secretary The Times, E.C.4 The Editor, Associated Press of America, 9 Carmelite Street, E.C.4. The Editor, Press Association Ltd., Byron House, 85, Fleet Street, E.C.4. Reuters [ 12 ] 6th March 1934. Dear Sir Muhammad, I am very glad to be able to inform you that the Vice-Chancellor of the University of Oxford and the Rhodes Trustees have appointed you to be Rhodes Memorial Lecturer for the year you suggest, namely 1935. I presume that you will be in residence during the Summer Term of next year which extends from about the 20th April to about the 20th June. I am very glad that you can see your way to deal in your lectures with the kind of subject which has been the hither to in the case of the Rhodes Lectures. I will consult you further in regard to the title of the lectrures towards the end of this year as it will be necessary to announce it in the University publications early next year. I am greatly looking forward to seeing you in Oxford. Yours sincerely, Sir Muhammad Iqbal, M.A., Ph.D., Lahore, India. [ 13 ] Dr. Sir Mohd. Iqbal, Kt. M.A., Ph. D. LL.D Barrister - at - Law Lahore 28th Mar. 1934 My Dear Lord Lothian, Thank you very much for your kind letter which I received a few days ago. I wanted to write to you earlier, but unfortunately I missed the air mail twice, and I am now writing this letter to you by the ordinary mail. With regard to my Rhodes Lectures I wish to make the following tentative proposal & would like to have your views & suggestions. The sooner I know your views the better for me. I hope you will be good enough to tell me what you think of my proposal. Three lectures to be delivered as follows: 1. The Meaning of Islam as a World Movement. 2. The law of Islam: its Economic Significance 3. The Indian Muslims: their past, present & future. There may be some slight changes in the wording of 1, 2, 3 above. For the general title we may have : Islam and the Modern World. I shall be so delighted to have the privilege of meeting you again in England, but perhaps we may meet in India before I go to England. Yours Sincerely, Mohammad Iqbal [ 14 ] Lahore 1st. oct. 1934. My dear Lord Lothian, I am afraid this letter of mine will cause some embrassment to you and the Rhodes Trustees. I have been ill during the last six months and have not yet rcovered. Six months ago I had an attack of influensa which has seriously affected my voice. The doctors here have not been able to do me any good. I am at present under the treatment of an old Physician of Delhi. If he too fails I shall have to go to Vianna and stay for several months. It is a great misfortune that has befallen me, distrubing seriously my faily work and upsetting all my plans. I write this letter to request you to ask the Trustees to postpone my lectures till my normal voice is restored to me. I am extremely sorry that this has happened, but I cannot think of any other course except to crave the indulgence of the Trustees in the present circumstances. Yours Sincerely, Mohammad Iqbal [ 15 ] For Consideration RHODES MEMORIAL LECTURESHIP: Sir Muhammad Iqbal Ist October, 1934. "I am afraid this letter of mine will cause some embrassment to you and the Rhodes Trustees. I have been ill during the last six months and have not yet rcovered. Six months ago I had an attack of influensa which has seriously affected my voice. The doctors here have not been able to do me any good. I am at present under the treatment of an old Physician of Delhi. If he too fails I shall have to go to Vianna and stay for several months. It is a great misfortune that has befallen me, distrubing seriously my faily work and upsetting all my plans. I write this letter to request you to ask the Trustees to postpone my lectures till my normal voice is restored to me. I am extremely sorry that this has happened, but I cannot think of any other course except to crave the indulgence of the Trustees in the present circumstances." ______________ Sir Muhammad Iqbal was to have resided in Oxford in the Summer Term 1935. The University authorities have been notified infromally of his illness and that a communication from the Trustees will follow after their next Meeting. ______________ Secretary's Note. In view of Iqbal's letter there does not seem to be anything to do but to agree to cancel his lectures for next summer and to be prepared to appoint him for 1936 if he recovers his health and voice by the middle of next year. There remains, however, the question as to whether the Trustees would like to find a substitute for next summer. The only name that has been mentioned is that of Dr. Hubble, an old Rhodes Scholar, who has made such a name for himself at the Mount Wilson Observatory in the California. He was given an Honorary Degree of D.Sc. at Oxford this summer. [ 16 ] 1115. RHODES MERMORIAL LECTURESHIP The Trustees noted that Sir Muhammad Iqbal would be unable to come to England to deliver the Rhodes Memorial Lectures in 1935 owing to i1I-health, and that he had asked to be allowed to postpone his lectures for a year. [ 17 ] 9th November 1934. Dear Mr. Vice-Chancellor, The Rhodes Trustees have instructed me to inform you that they have received the attached letter from Sir Muhammad Iqbal, whom you will remember the University agreed with the Rhodes Trustees should be invited to deliver the Rhodes Memorial Lectures in the Summer Term of 1935. The Trustees very much regret that the illness of Sir Muhamad Iqbal compels him to cancel his acceptence of the invitation from the University and the Trustees for this year and see no objection to his lectureship being transferred to 1936, provided Sir Muhammad has recovered his health sufficiently by the middle of next year to indicate whether he will be able to come. They have no alternative candidate to suggest for 1935. Yours sincerely, L. Secretary The Vice-Chancellor, Worcester College, OXFORD [ 18 ] 18th January 1935. Dear Sir Muhammad, I was about to write to ask you how your health was and whether there is now any prospect of your being able to give the Rhodes lectures next summer term at Oxford or whether we must make up our minds to wait until 1936, when I discovered that there is no evidence in my files to say that we ever answered your letter of the 1st October. Your letter was considered by the Trustees at their Meeting on the 6th November and they decided to agree to your request and we afterwards obtained the concurrence of the Vice-Chancellor of the University. If this is correct I wish to tender you my heart-felt apologies for this quite unintentioned oversight. The Trustees expressed great hope that you would rapidly recover and the real purpose of this letter is to find out how you are and what are the prospects of your being able to come to Oxford. I have a secret hope that you may be so much better that you may be able to come to Oxford after all this summer. Yours Sincerely L. Sir Muhammad Iqbal, M.A., Ph.D., LL.D., Lahore, India. [ 19 ] Dr. Sir Mohd. Iqbal Kt. M.A., Ph. D. L L. D Barrister-at-Law Lahore. 26th Jan. 1935 My Dear Lord Lothian, Thank you so much for your kind letter which I read this morning. I am very grateful to the Trusties for their postponement of my lectures and request you to kindly convey my gratitude to them and to the Vice-Chancellor. My condition is still bad. His Highness the Ruler of Bhopal has asked me to come to Bhopal where he has made special arrangements for electric treatment of my voice. I shall be going there in a day or two and stay there for about a month. If this treatment also fails and my voice does not improve I shall think of going to Vienna or Berlin. But I fear I shall not be able to deliver my lectures in 1935. Hoping you are well and thanking you for all your kindness. Yours Sincerely, Mohammad Iqbal [ 20 ] Dr. Sir Mohd. Iqbal Kt. M.A., Ph. D. L L. D Barrister-at-Law Lahore. 15th April, 1935. I returned from Bhopal 1st month. There is some slight improvement in my voice; but the treatment will have to be continued for a whole year, or, if need be, more than a year. I shall have to go to Bhopal for the 2nd course of electric treatment about the end of May & again after an interval of ten weeks. Since the heart is involved in the trouble I am advised to take complete rest in mind and body during the treatment. I am ashamed to ask for the Rhodes Trustees indulgence over and over again, and write this to inform you that it will not be possible for me to deliver the lectures till I have completely recovered. I do hope the Trustees will be good enough to agree to it in the circumstances. If, however, this is not possible, then I fear I shall have to forego the honour which they have generously conferred on me. It is hardly necessary for me to add that I am grateful to you for the interest you have taken in the matter. I shall never forget your kindness as well as that of the Rhodes Trustees. Yours Sincerely, Mohammad Iqbal [ 21 ] For decision RHODES MEMORIAL LECTURESHIP: Letter From SIR MUHAMMAD IQBAL Lahore. 15th. April 1933. "I returned from Bhopal 1st month. There is some slight improvement in my voice; but the treatment will have to be continued for a whole year, or, if need be, more than a year. I shall have to go to Bhopal for the 2nd course of electric treatment about the end of May & again after an interval of ten weeks. Since the heart is involved in the trouble I am advised to take complete rest in mind and body during the treatment. I am ashamed to ask for the Rhodes Trustees indulgence over and over again, and write this to inform you that it will not be possible for me to deliver the lectures till I have completely recovered. I do hope the Trustees will be good enough to agree to it in the circumstances. If, however, this is not possible, then I fear I shall have to forego the honour which they have generously conferred on me. It is hardly necessary for me to add that I am grateful to you for the interest you have taken in the matter. I shall never forget your kindness as well as that of the Rhodes Trustees. ______________ Secretary's Note I think we should tell Iqbal that he can come to Oxford in 1936 but that if he is unable to do this the Trustees will have to appoint one also in 1937. ______________ [ 22 ] 21.05.35 177. RHODES MEMRORIAL LECTURESHIP. A letter dated the 15th April 1935 from Sir Muhammad Iqbal, was noted. The Trutees decided that they must know before the end of 1935 whether Sir Muhammad will be able to come to Oxford in 1936 to deliver the Rhodes Memorial Lectures. The Secretary was instructed to write to him in this sense and also to Dr. K.P. Hubble (Illinois 1910), inviting him to be the Rhodes Memorial Lecturer when he is in a position to report upon the results achieved from the new telescope at Mount Wilson Observatory. [ 23 ] 27th May 1935. Dear Sir Muhammad, The Rhodes Trustees were very sorry to hear at their last meeting that you have not fully recovered from your illness. They will be very glad to agree that if you are in good health again you should deliver the Rhodes Memorial Lectures in the summer of 1936. But they hope that you will be able to let them know before the end of this year whether you will be in a position to come to Oxford in the Summer Term of 1936. In the unfortunate event of your not being able to do so, they feel that they ought to get another lecturer, as it is now some years since the chair has been filled, and they must have time in which to do this. With my kindest regards Yours sincerely, L. Secretary Sir Muhammad Iqbal, M.A., Ph.D., LL.D., LAHORE, India. [ 24 ] Dr. Sir Mohd. Iqbal, Kt. M.A., Ph. D. LL. D Barrister-at-Law Lahore 22nd June. 1935 My dear Lord Lothian, Thank you so much for your kind letter which I received the other day. I have not yet recovered and the treatment will have to be continued for another year. During the last fifteen months I have been passing through hard times, and on the top of all came the greatest misfortune that can befall a man of my age: my wife suddenly passed away last month. She has left two children - 11 & 5; & it was her last wish that I shd. keep these children always before my eyes till they become major. There is no body to look after them and I do not wish to leave them to the care of paid governesses. For this reason it has now become impossible for me to leave India even for a short time. I have therefore to forego the great honour which the Rhodes Trustees have so generously conferred on me. Kindly convey my heartfelt gratitude to them and explain to them the reason why it is not possible to me now to come to England and to deliver lectures at Oxford. Hoping you are well & thanking for all your kindnesses to me. Yours Sincerely, Mohammad Iqbal [ 25 ] 1208. RHODES MEMORIAL LECTURESHIP. The Trustees noted Sir Muhammad Iqbal's letter of 22nd June 1935 regretting that circumstances now made it impossible for him to accept the Rhodes Lectureship. The Secretary was requested to find out from Dr. Hubble whether and when he would be in a position to accept an invitation. [ 26 ] 25th July 1935. My dear Sir Muhammad, It is a great disappointment to the Rhodes Trustees and to myself that you feel yourself unable to come to deliver the Rhodes Lectures at Oxford. We were all the more sorry because of the circumstances which have made necessasry your abandonment of the Lectureship. Many people here had been greatly looking forward to hearing you and meeting you again. Perhaps an opportunity for reconsidering the matter may occure in the future. Yours sincerely, L. Sir Muhammad Iqbal, M.A., Ph.D., LL.D., Lahore, India. /…/…/ اُردو ترجمہ فائل نمبر ۲۶۹۴ رہوڈز ٹرسٹ آکسفورڈ یونی ورسٹی [۱] ۳۱ ؍اکتوبر ۱۹۳۳ء مائی ڈیئر فِشر میں نے تھامپسن سے سنا ہے کہ اقبال کو معلوم ہو گیا ہے کہ ہم انھیں اگلے سال کے لیے رہوڈز میموریل لیکچر دینے کے لیے مدعو کرنے پر غور کر رہے ہیں اور وہ سوچ رہے ہیں کہ انھیں دعوت ملے گی یا نہیں کیونکہ انھیں افغانستان میں یونی ورسٹی قائم کرنے کے لیے بُلایا گیا ہے اور بظاہر وہ اپنے آپ کو اتنا پابند نہیں کرنا چاہتے کہ دعوت ملنے کی صورت میں آکسفورڈ نہ آسکیں۔ انھوں نے مجھے مزید بتایا ہے کہ آکسفورڈ اور ہندوستانی حلقوں میں یہ اطلاع عام ہے کہ آپ نے مبینہ طور پر یہ کہا ہے کہ اگلے لیکچرر وہی ہوں گے۔ ذاتی طور پر میرا خیال ہے اور ایسا میں نہ صرف ذاتی وجوہات بلکہ عام سیاسی بنیادوں پر کہہ رہا ہوں کہ ہمارے لیے اس سے بہتر اور کوئی بات نہ ہو گی کہ ہم اگلی سمر کے لیے اقبال کو لائیں۔ مزید برآں اگر ٹرسٹیز سکالر شپ کے تیسرے سال کے بارے میں میری تجاویز پر صاد کر دیں تو ہم ایک بار پھر مالی طور پر نسبتاً آسودہ حالت میں آ جائیں گے ۔ تاہم میری پختہ رائے ہے کہ ٹرسٹیز کو انھیں دعوت دینی چاہیے ۔ البتہ وائس چانسلر کی منظوری کے بغیر ہم کوئی قدم نہیں اُٹھا سکتے ۔ میں سوچ رہا ہوں کہ کیا آپ کے لیے یہ ممکن ہو گا کہ آپ اس موضوع پر وائس چانسلر سے بات کر لیں تاکہ ٹرسٹیز کے علم میں آجائے کہ وہ اس بات سے اتفاق کرتے ہیں(کیونکہ دعوت تو مشترکہ طور پر دینی ہوگی)۔ اور ۲۱؍تاریخ تک کوئی فیصلہ کیا جا سکے کیونکہ میری اطلاع کے مطابق اقبال بھی جلد فیصلے کے خواہاں ہیں۔ رسمی طور پر میں ٹرسٹیز کی منظوری کے بغیر اُن سے اس بارے میں کوئی بات نہیں کر سکتا۔ اقبال ایک نہایت ممتاز شخصیت ہیں۔ ان کی تقرری سے نہ صرف ہمیں ہندوستان کی خوشنودی حاصل ہوگی بلکہ اس کا اثر سارے افغانستان اور مشرق وسطیٰ پر بھی ہوگا۔ وہ یقینا اوّل درجے کے لیکچر دیں گے،جیسا کہ ارسطاطالین سوسائٹی میں اُن کے لیکچر سے بخوبی ثابت ہوتا ہے ۔ آپ کا مخلص ایل (L) دی وارڈن نیو کالج، آکسفورڈ /…/…/ [۲] ۳۱ ؍اکتوبر ۱۹۳۳ء مائی ڈیئر تھامپسن میں کوشش کروں گا کہ اگلے دو ہفتوں کے دوران اقبال کے بارے میں آپ کو کوئی جواب دے سکوں۔ اگر میں اسے ۲۱؍نومبریعنی ٹرسٹیز کے اگلے اجلاس تک ملتوی کر دوں تو کیا بہت زیادہ تاخیر تو نہ ہو جائے گی؟ یہ مسئلہ کچھ مالی طور پر بھی الجھا ہوا ہے اورمجھے امید ہے کہ تب تک میں سارے معاملات ٹھیک کر لوں گا۔ مزید برآں دعوت دینے سے پہلے مجھے وائس چانسلر کی رسمی منظوری بھی حاصل کرنا ہوگی۔میرا خیال ہے کہ یہ ٹھیک رہے گا کہ آپ نومبر کے آخری ہفتے میں اقبال کو تار ارسال کریں؟ Sarabhais [سارا بھائی خاندان] کے بارے میں آپ نے جو کچھ لکھا ہے وہ میرے لیے بہت ہی دلفریب ہے۔ میرا خیال ہے کہ اس وقت وہ انگلستان میںنہیں ہیں لیکن اگر ہیں تو میں چاہوں گا کہ انھیں نومبر کے وسط کے لگ بھگ ایک رات کے لیے Blickling آنے کی دعوت دوں، بشرطیکہ آپ بھی آ جائیں۔ سارے انگلستان میں یہ سب سے خوبصورت گھر ہے اور وہ اس گھر اور اس کے اردگرد پائی جانے والی جنگلی حیات دیکھ کر ضرور محظوظ ہوں گے اور ہم سکون سے باتیں کر سکیں گے۔ آپ کا مخلص ایل (L) جناب ایڈورڈ تھامپسن سکار ٹاپ، بور زہِل، آکسفورڈ /…/…/ [۳] دی وارڈ نز لاجنگز براہ کرم نیو کالج،آکسفورڈ جواب وارڈن کے پتے پر ارسال کریں یکم نومبر ۱۹۳۳ئ* مائی ڈیئر لوتھین مِلر آپ کو بتائیں گے کہ ۲ ؍فروری کو میں نے انھیں وائس چانسلر کا مراسلہ بھیجا تھا جس میںلکھا تھا کہ انھیں بطور رہوڈز لیکچرر اقبال کی نامزدگی پر کوئی اعتراض نہیں ہے میں نے قبل ازیں اس بات پر اُن سے مشورہ کر لیا تھا۔ اب ایسی کوئی وجہ نظر نہیں آتی کہ ہم اپنے اگلے اجلاس میں ان کی تقرری نہ کر دیں، اگر ہم پہلے ہی ایسا نہیں کر چکے تو ___ اُن کی خوبیوں کے بارے میں مَیں آپ سے بالکل متفق ہوں ۔ آپ کا مخلص ایچ اے ایل فِشر دی موسٹ آنریبل دی مارکوئس آف لوتھین، سی ایچ دی رہوڈز ٹرسٹ سیمور ہائوس، واٹر لُو پلیس لندن، ایس ڈبلیو۔۱ *- اس خط کے اوپر ثبت رہوڈز ٹرسٹ کی مہر کے مطابق اس کو ۶۲M کا لیٹر نمبر دیا گیا ہے۔ مہر کے مطابق یہ ۲؍نومبر۱۹۳۳ء کو موصول ہوا۔ [۴] ڈاکٹر سر محمد اقبال، کے ٹی ایم اے، پی ایچ ڈی بیرسٹر ایٹ لا لاہور ۶؍دسمبر ۱۹۳۳ئ* مائی ڈیئر لارڈ لوتھین آپ کے مشفقانہ خط کا بہت بہت شکریہ، جس میں آپ نے مجھے آکسفورڈ میں رہوڈز میموریل لیکچر دینے کی دعوت دی ہے ۔میں اسے اپنے لیے بہت بڑا اعزاز سمجھتا ہوں اور اس مشفقانہ پیشکش کو بخوشی قبول کرتا ہوں۔ براہ کرم چانسلر، وائس چانسلر اور رہوڈز ٹرسٹیز کو میری طرف سے بہترین شکریہ پہنچا دیجیے۔ مجھے آپ کا بھی دلی طور پر شکریہ ادا کرنا ہے کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ مجھے اتنا بڑا اعزاز اسی بدولت ملا ہے کہ آپ نے ’’الٰہیات اسلامیہ کی تشکیل جدید‘‘ پر میرے کام میں ذاتی دلچسپی لی تھی۔ تاہم ایک بات کی طرف میں آپ کو توجہ دلانا چاہتا ہوں۔ میرے خیال میں آکسفورڈ میں سمر ٹرم کا آغاز تقریباً اپریل کے آخر میں ہوتا ہے۔اس طرح میرے پاس لیکچر لکھنے کے لیے صرف چار ماہ بچتے ہیں۔ جس موضوع پر میں لکھنا چاہتا ہوں وہ ہے ’’مسلم فکر کی تاریخ میں زمان و مکان‘‘۔یہ ایک دقیق موضوع ہے اور اس کے لیے ایسے مسوّدات میں کافی تحقیق کی ضرورت ہو گی جو ابھی تک طبع نہیں ہوئے اور جن کے بارے میں شاید ابھی کسی کو پتا بھی نہیں۔ جتنا وقت میرے پاس ہے اس میں میرا نہیں خیال کہ تین لیکچر لکھ پائوں گا۔ لہٰذا کیا یہ ممکن ہے کہ بجائے ۱۹۳۴ء کے میں یہ لیکچر ۱۹۳۵ء کی سمر ٹرم میں پیش کروں؟موضوع کی اہمیت اور اس پر لکھنے کی مشکلات کے پیش نظر مجھے پوری امید ہے کہ چانسلر اور رہوڈز ٹرسٹیز اس تجویز کو مان لیں گے جو میں نے اُن کے سامنے رکھنے کی جسارت کی ہے۔ اس خط کے جلد جواب کا میں فکر مندی سے منتظر رہوں گا۔ آپ کے شکریے اور آپ سے ایک دفعہ پھر ملاقات کااعزاز حاصل کرنے کی تمنا کے ساتھ۔ آپ کا مخلص محمد اقبال *- مہر کے مطابق اس مکتوب کا نمبر ۹۱۸ ہے، موصولی کی تاریخ واضح نہیں ہے۔ /…/…/ [۵] ۳؍ جنوری ۱۹۳۴ء ڈیئر سر محمد آپ کا ۶؍دسمبر [۱۹۳۳ئ] کا خط مجھے ابھی ابھی ملا ہے۔ مجھے یہ جان کر بڑی مسرت ہوئی ہے کہ آپ نے رہوڈز میموریل لیکچر شپ قبول کرنے کا ارادہ کر لیا ہے اور میں ایک بار پھر آپ سے ملاقات کرنے اور آپ کے لیکچر سننے کابے چینی سے منتظر ہوں۔ مگر کیا آپ کے لیے واقعی اگلی سمر ٹرم یا زیادہ سے زیادہ اگلی اکتوبر ٹرم میں آکسفورڈ آنا ناممکن ہے؟ یونی ورسٹی کی سطح کے اداروں کے لیے ایک دفعہ کوئی انتظام کرکے اس پر نظر ثانی کرنا آسان کام نہیں ہوتا اور پھر اگلے سال کے لیے کسی دوسرے لیکچرر کو لانے کے لیے بھی اب بہت تاخیر ہو چکی ہے اور غالباً ہمیں یونی ورسٹی کے حکام سے التوا کی منظوری حاصل کرنے کے لیے ایک دفعہ پھرسارے عمل سے گذرنا پڑے گا۔ مزید برآں کیا آپ مجھے یہ کہنے کی اجازت دیں گے کہ آپ کا منتخب کردہ موضوع یعنی ’’مسلم فکر کی تاریخ میں زمان و مکان‘‘ کچھ ایسی تخصیص کا حامل ہے جس کا رہوڈز میموریل لیکچر شپ قائم کرتے وقت تصور نہیں کیا گیا تھا۔ اولاً اس لیکچر شپ کی نوعیت محدود معنوں میں علمی نہیں ہے۔ لیکچر شپ قائم کرتے وقت رہوڈز ٹرسٹیز کے پیش نظر یہ تھا کہ بین الاقوامی طور پر شہرت یافتہ ایسی نامور شخصیات کو آکسفورڈ لایا جائے جو یونی ورسٹی کے فیلوز اور انڈر گریجویٹ طلبہ کے سامنے کسی دوسری تہذیب یا ہم عصر دنیا کی کسی اہم فکری تحریک پر بات کر سکیں۔ خالص علمی نوعیت کی لیکچر شپس تو بہت ہیں لیکن ٹرسٹیز نے محسوس کیا کہ اگر آکسفورڈ نے دوسری یونی ورسٹیز کے درمیان اپنا مقام بنا کر رکھنا ہے تو اس کے اساتذہ اور طلبہ کو ایسے لوگوں سے بحث مباحثے اور ان کے لیکچر سننے کا موقع ملنا چاہیے جو یونی ورسٹی کے عام نصاب سے ہٹ کر کوئی بات کر سکیں۔ اوّلین لیکچرز وزیر اعظم کینیڈا سر رابرٹ بورڈن نے جنگ کے دوران دیے تھے۔ اُن کا موضوع تھا ’’جنگ میں شریک ایک ڈومینین کے نقطۂ نظر سے برٹش کا من ویلتھ کا ارتقا۔‘‘ اس کے بعد ڈاکٹر فلیکسنر نے ’’جدید یونی ورسٹی کا تصور‘‘ کے موضوع پر لیکچروں کا ایک خیال افروز سلسلہ پیش کیا۔ ان سے اگلے لیکچرر پروفیسر ہالیوی تھے جنھوں نے ’’فرانس کے نقطۂ نگاہ سے عالمی جنگ کی اہمیت‘‘ پر بحث کی۔ پھر سائوتھ افریقہ سے جنرل سمٹس آئے اور نہایت شاندار لیکچر پیش کیے جن میں انھوں نے برطانیۂ عظمیٰ پر زور دیا کہ سارے افریقہ کے مسائل کی مجموعی طور پر چھان بین کرکے اُن پر غور و خوض کرے۔ انھوں نے ان مسائل پر بحث بھی کی۔ آخر میں پروفیسر آئن شٹائین آکسفورڈتشریف لائے اور اضافیت کے ایک ایسے پہلو پر تین لیکچر دیے جسے میرے خیال میں وہ رد کر چکے ہیں۔ اُن کا دورہ ذاتی طور پر بہت کامیاب رہا لیکن یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ اُن کے لیکچر زیادہ اطمینان بخش نہ تھے۔ اور حقیقت بھی یہی ہے کہ اُن کو کبھی شائع بھی نہیں کیا گیا کیونکہ اُس وقت جو نظریہ انھوں نے پیش کیا تھا اُسے وہ اب کافی حد تک ترک کر چکے ہیں۔ رہوڈز ٹرسٹیز اور وائس چانسلر کو امید تھی کہ آپ ’’ جدید دنیا میںاسلام‘‘ یا ’’اسلام اور جدید تہذیب کی تشکیل نو‘‘ یا ’’اسلام اور ہندوستان‘‘ جیسے موضوع پر لیکچرز کا سلسلہ پیش کریں گے۔ وہ محسوس کرتے ہیں کہ اسلام کے بارے میں اوسط درجے کے انگریز کے خیالات انتہائی محدود ہیں اور اُس تعصب میں شرابورہیں جو کچھ تو پرانے عیسائی مشنریوں کے نقطۂ نگاہ کا پیدا کردہ ہے اور کچھ اس حقیقت کی وجہ سے پیدا ہوا ہے کہ دوسرے عظیم مذاہب کی طرح اسلام بھی جمود اور نیم جاں ہونے کے دور سے گذرا ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ آپ آئیں اور آکسفورڈ کو یہ عکس دکھائیں کہ تاریخ میں ایک عالمی تحریک کی حیثیت سے اسلام کا کیا کردار رہا ہے اور جدید دنیا میں اس کی بنیادی فکر اور تحریک بیداری کی اہمیت کیا ہے۔ آپ ہی کے لیکچر پڑھ کر مجھے یہ احساس ہوا تھا کہ یہ کتنا بڑا موضوع ہے اور میں یہ محسوس کرتا ہوںکہ اس قسم کے موضوع پر بحث آکسفورڈ لیکچر شپ کی روایت کے عین مطابق ہوگی اور’’ مسلم فکر کی تاریخ میں زمان و مکان‘‘ پر بحث سے زیادہ مفید ثابت ہو گی ۔کیونکہ یہ موضوع بہت ہی محدود قسم کے علمی حلقوں کے لیے باعث کشش ہو سکتا ہے۔ ہاں اس بات میںکوئی امر مانع نہیں ہے کہ آپ آکسفورڈ یا کہیں بھی سامعین یا سوسائٹیز کو اس موضوع پر ایک دو لیکچر دیں اور ان کو بھی رہوڈز میموریل لیکچرز کے ساتھ شامل کرکے آکسفورڈ یونی ورسٹی پریس سے چھپوا لیں۔ لیکن میں اس امید کا اظہار کرنے کی جسارت کروں گاکہ آپ رہوڈز میموریل لیکچرز کے لیے کوئی وسیع موضوع منتخب کریں گے اوراگر آپ ایسا کر سکیں تو آپ اس سمر میں آکسفورڈ آ سکیں گے کیونکہ اس موضوع پر تو آپ کو عبور حاصل ہے اور لیکچروں کے لیے بھی آپ کو ایسی تحقیق کی ضرورت نہ پڑے گی جیسی کہ ’’ مسلم فکر کی تاریخ میں زمان و مکان‘‘ کے موضوع پر درکار ہے۔ میں سوچتا ہوں کہ کیا آپ اتنی مہربانی کریں گے کہ خط ملنے کے بعد مجھے بذریعہ تار یہ بتا دیں کہ آپ کا حتمی فیصلہ کیا ہے؟ ضروری نہیں کہ آپ فوری طور پر لیکچروں کے عنوان کا تعین کریں کیونکہ عنوان کا اعلان آکسفورڈ میںایسٹر کے لگ بھگ کیا جائے گا لیکن مجھے جلد از جلد یہ معلوم ہو جائے کہ آیا میں وائس چانسلر کو یہ بتا سکتا ہوں یا نہیں کہ آپ اگلی سمر ٹرم یا اکتوبر ٹرم میں آکسفورڈ میں ہوں گے؟ آپ کا مخلص ایل (L) سر محمد اقبال لاہور،انڈیا /…/…/ [۶] [رپورٹ نمبر ۲۰۰ سے اقتباس] ۱۹۳۳ء ۔۱۱ ۔۱ فیصلے کے لیے رہوڈز میموریل لیکچر شپ گذشتہ سال ٹرسٹیز نے مسٹر سری نواس شاستری کو رہوڈز میموریل لیکچر شپ پیش کی تھی جنھوں نے جواب دیا کہ بدقسمتی سے وہ اپنی صحت کی صورتِ حال کی وجہ سے اسے قبول نہیں کر سکتے۔ غیر یقینی مالی صورت حال کے پیش نظر ٹرسٹیز نے فیصلہ کیا کہ سال ۱۹۳۳ء کے لیے اس عہدے کو پُر کرنے کی مزید کوشش نہ کی جائے ۔ اب سوال پیدا ہوا ہے کہ آیا وہ سال ۱۹۳۴ء کے لیے اس عہدے پر تقرری کریں یا نہیں ۔ جو امیدوار تجویز کیے گئے ہیں وہ ہیں سر محمد اقبال، جو کہ لاہور کے ایک ممتاز مسلمان اور غالباً ہمعصر اسلامی دنیا میں سب سے سر کردہ دانشور ہیں۔ انھوں نے سائنس، فلسفہ اور مذہب پر متعددمقالات قلم بند کیے ہیں جو آکسفورڈ یونی ورسٹی پریس کے زیر اہتمام شائع کیے جا رہے ہیں۔ ارسطاطالین سوسائٹی میںاُن کے لیکچر کو امریکیوں کے محاورے کے مطابق ’’سندِ قبولیت‘‘ عطا کی گئی تھی۔بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تیسری گول میز کانفرنس کے لیے جب سر محمد اقبال یہاں آئے تھے تو انھوں نے سُنا کہ لیکچر شپ کے لیے اُن کا نام پیش کیا گیاتھا۔ اور اب انھوں نے ایڈورڈ تھامپسن کو ایک ذاتی خط لکھا ہے کہ وہ معلوم کریں کہ آیا انھیں یہ عہدہ پیش کرنے کا امکان ہے کیونکہ نادر شاہ، نے جن کو اس اثنا میں قتل کر دیا گیا ہے انھیں افغانستان میںایک نئی یونی ورسٹی قائم کرنے کی دعوت دی تھی۔ سمر میں ہی مسٹر فِشر نے اس معاملے پر وائس چانسلر سے بات کی تھی جو ٹرسٹیز کے ساتھ مشترکہ طور پر اس عہدے پر تقرری کرنے کے مجاز ہیں۔ وائس چانسلر نے اس بات سے اتفاق کیا کہ وہ ایک مناسب امیدوار ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سیاسی نقطۂ نگاہ سے بھی اُن کی تقرری سود مند ثابت ہوگی اور ہندوستان میں ہماری ساتھی مسلمان رعایا کے لیے باعث اطمینان ہو گی۔ اگرچہ یہ بات بھی ہے کہ جب تک ہم لوگوں میں اس بات کا چرچا نہیں کرتے جیسا کہ میں نے ذاتی طور پر کرنے کی کوشش کی ہے کہ مسٹر شاستری کو قبل ازیں دعوت دی گئی تھی اور انھوں نے انکار کر دیا تھا، ہندو کچھ کچھ بُرا مانیں گے۔ مالیات کے سوا باقی تمام وجوہات کی بنا پر میں اس تقرری کی سفارش کرتا ہوں۔ مالی مسئلے کا دارو مدار اس بات پر ہے کہ ٹرسٹیز سکالر شپ کے تیسرے سال کے بارے میں کیا سوچتے ہیں ۔ /…/…/ [۷] ڈاکٹر سر محمد اقبال، کے ٹی ایم اے، پی ایچ ڈی بیرسٹر ایٹ لا، لاہور ۱۴؍جنوری ۱۹۳۴ئ* مائی ڈیئر لارڈ لوتھین آپ کے مشفقانہ خط کا بہت بہت شکریہ ۔یہ مجھے آج صبح ہی وصول ہوا ہے اور اسی سے مجھ پر رہوڈز لیکچر شپ کے مقاصد واضح ہوئے ہیں۔ میں یقینا کسی ایسے موضوع کا انتخاب کروں گا جو سامعین کے وسیع حلقے کے لیے کشش کا باعث ہو۔ دراصل یہ بات پہلے سے ہی میرے ذہن میں تھی لیکن میں یہ محسوس کرتا تھا کہ آکسفورڈ یونی ورسٹی کے لیے کوئی زیادہ علمی قسم کا موضوع قابل ترجیح ہوگا تاہم آپ نے خط میںجو کچھ لکھا ہے اُس کی روشنی میں اب میں کسی اور موضوع کے بارے میں سوچوں گا۔ لیکن مجھے ڈر ہے کہ ۱۹۳۴ء میں لیکچر پیش کرنا میرے لیے ممکن نہ ہوگا۔ اب تک تو میں نے ’’زمان و مکان‘‘ کے بارے میں مواد اکٹھا کیا ہے اور ان تمام مہینوں کے دوران یہی موضوع میرے ذہن میں رہا ہے۔بد قسمتی کی بات یہ ہے کہ رہوڈز لیکچرز کے مقاصد سے میری لا علمی کی وجہ سے اس قدر وقت ضائع ہوا۔ گذشتہ خط میں ۱۹۳۴ء میںلیکچر دینے سے قاصر ہونے کی ساری وجوہات میں نے آپ کو نہیں لکھی تھیں۔ ایسا کرنا غیر ضروری بھی تھا۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں ہندوستان میں لٹریچر ذریعۂ روز گار نہیں ہے۔ مجھے اپنی روزی پیشۂ وکالت سے کمانی ہوتی ہے ۔ گول میز کانفرنس کے ممبر کی حیثیت سے مجھے کئی کئی ماہ مسلسل ہندوستان سے باہر رہنا پڑتا تھا۔ اس سے پیشہ وارانہ طور پر مجھے کافی نقصان ہوا ہے چنانچہ مجھے کھویا ہوا کام دوبارہ حاصل کرنا ہے کیونکہ میری آمدن کا صرف یہی ایک ذریعہ ہے۔ اس لیے اس سمت میںکوشش کرنا میرے لیے بہت ضروری ہے۔ پچھلی دفعہ آپ کو لکھتے وقت میں محسوس کرتا تھا کہ تقریباً دو سال تک مسلسل قیام سے میں اس قابل ہو جائوں گا کہ کسی حد تک اپنا کھویا ہوا کام دوبارہ حاصل کر لوں۔ میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ میں نے جو اس قدر بے تکلفی سے یہ وجہ بیان کی ہے اس پر مجھے معاف فرمائیں کیونکہ آپ سے کم ہمدرد شخص سے میں اس کا ذکر کبھی نہ کرتا۔ اس امید کے ساتھ کہ آپ بخیریت ہوں گے اور آپ کی تمام مہربانیوں کے لیے شکر گزاری کے ساتھ ۔ آپ کا مخلص محمد اقبال /…/…/ *- مکتوب نمبر ۹۸۸ اور تاریخ وصولی ۲۶؍جنوری ۱۹۳۴ء ہے۔ [۸] In England(Jan-1933) Message Form. 5/17 A-99 IMPERIAL AND INTERNATIONAL COMUNICATIONS LIMITED.* S W 43 Lahore 8 15 1255 W =LC= Augury LN= افسوس نا ممکن اس سال = اقبال + + No Enquiry Respecting This Telegram Can be Attended to Without Production of This Copy Replies Should be Handed in At One of The Company's Offices. /…/…/ *- اس تار کے اوپر تین مہریں ثبت ہیں۔ پہلی مہر میں درج ہے: 20 SWALLOW ST. W.1 15 JAN. 1934 REGENT 8244 دوسری مہر میں DEFERRED RATE کے الفاظ درج ہیں۔ تیسری مہر رہوڈز ٹرسٹ کی ہے جس کے مطابق یہ تار ۱۵؍جنوری ہی کو ٹرسٹ کو موصول ہوگیا، اس کا مکتوب نمبر واضح نہیں ہے۔ [۹] سکار ٹاپ بورز ہِل آکسفورڈ ۱۶؍جنوری ۱۹۳۴ئ* مائی ڈیئر لوتھین اقبال کی نفسیات، جیسا کہ میں سمجھا ہوں، یہ ہے: وہ ذات کا برہمن اور اُس پر مستزاد کشمیری ہے اور ہکسر، سپرو اور نہرو خاندانوں کی قبیل سے تعلق رکھتا ہے۔ اس وجہ سے اُس کا جبلی رجحان مابعد الطبیعیاتی امور کی طرف ہے اور وہ محمڈنزم پر اس الزام کے بارے میں بہت حساس ہے کہ یہ ایک بنجر اور پست درجے کا مذہب ہے جو جنگلی اقوام اور حبشیوں کے لیے ہی مناسب ہے اور اس میں کوئی ایسا مابعد الطبیعیاتی مواد نہیں ہے جو ذہن کی غذا بن سکے۔ چنانچہ اس معاملے میں یہ عیسائیت اور ہندومت سے نہایت ہی کم تر ہے۔اس کی شدید خواہش ہے جیسا کہ اُس کے لیکچروں سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ وہ مابعد الطبیعیاتی نقطۂ نظر سے دنیا کے نقشے پر اسلام کو بھی جگہ دلوا دے۔ اُس کے ذہن پر آئن شٹائن سوار ہے اور ہماراڈن(زمان میں ایک تجربہ) اور دیگر بھی۔ وہ آئن شٹائن کا مقابلہ کرنا چاہتا ہے اور یہ ثابت کرنا چاہتا ہے کہ اسلام ایک عظیم فلسفہ رکھتا ہے اور اس کے فلسفی بھی عظیم ہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ آکسفورڈ اور اُس کے پیش رو رہوڈز لیکچرر کے ناموں نے اُس کے اندر ہوا بھر دی ہے اور وہ محسوس کرنے لگا ہے کہ جس قسم کا کھیل دکھانے کی اُس سے توقع کی جا رہی ہے اُسے کھیلنے کی تیاری کے لیے اُسے پورا وقت نہیں دیا گیا۔ میں اُس سے کہنا چاہوں گا کہ آپ کے خط جو اُسے چند دنوں تک مل جائے گا، کی روشنی میں وہ اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرے۔ اُسے ابھی تک آپ کا خط نہیں ملا اور اُس پرابھی تک یہی دھن سوار ہے کہ یہاں آ کر دنیا کو ہلا دینے والا فلسفہ بگھارے، بجائے اس کے کہ وہ اسلام کی کوئی مزیدار اور اچھی تصویر پیش کرے۔ آپ کا مخلص ای، تھامپسن /…/…/ *- اس خط کا مکتوب نمبر بمطابق مہر رہوڈز ٹرسٹ ۹۶۲ ہے، ۱۷؍جنوری ۱۹۳۴ء کو یہ ٹرسٹ کو موصول ہوا۔ [۱۰] [اقتباس از رپورٹ نمبر ۲۸۴] ۱۹؍جنوری۱۹۳۴ء فیصلے کے لیے رہوڈز میموریل لیکچر شپ سر محمد اقبال ٹرسٹیز اور وائس چانسلر کے فیصلے کے مطابق سر محمد اقبال کو سال ۱۹۳۴ء میں رہوڈز میموریل لیکچرر بننے کی دعوت جاری کی گئی تھی۔ بعد میں مجھے اُن کا خط ملا جس میں انھوں نے شکریے کے ساتھ لیکچر شپ قبول کر لی اور کہا کہ وہ ’’ مسلم فکر کی تاریخ میں زمان و مکان‘‘ کو اپنے لیکچروں کا موضوع بنانا چاہتے ہیں اور یہ کہ اگلی سمر تک انھیں ان لیکچرز کی تیاری کے لیے کافی وقت نہیں ملے گا چنانچہ کیا لیکچر شپ کو ۱۹۳۵ء تک ملتوی کیا جا سکے گا یا نہیں؟ ایڈورڈ تھامپسن جو اُن سے اچھی طرح واقف ہے، سے مشورہ کرکے میں نے انھیں لکھا اور ایڈورڈ تھامپسن نے بھی لکھا اور انھیں سمجھایا کہ رہوڈز میموریل لیکچروں کا مقصد اتنے تخصص کے حامل سوال پر بحث نہیں ہے بلکہ عصری سیاست یا فکر کے کسی اہم پہلو کا عمومی جائزہ پیش کیا جائے جیسا کہ سمٹس، بورڈن اور فلیکسز نے اپنے لیکچروں میں کیا تھا۔ اور میں نے اُن سے پوچھا تھا کہ کیا وہ کوئی ایسا موضوع جیسے ’’اسلام جدید دنیا میں‘‘ نہیں چن سکتے تاکہ اگلی سمر میں آکسفورڈ آ جائیں۔اب مجھے مندرجہ ذیل تار موصول ہوا ہے ’’افسوس نا ممکن اس سال ‘‘ بلاشبہ اس کی وجہ یہ حقیقت ہو سکتی ہے کہ نئی افغان یونی ورسٹی کے قیام کے سلسلے میں انھیں کابل جانا ہے اور یقینا اس کے بعد ایک خط بھی آئے گا۔ /…/…/ [۱۱] ۲۸؍فروری ۱۹۳۴ء جناب والا مجھے ہدایت کی گئی ہے کہ آپ کو مندرجہ ذیل اطلاع ارسال کروں ۔میں آپ کا بہت زیادہ ممنون ہوں گا اگر آپ براہ مہربانی اسے اخبارات میں تقسیم کر دیں: ’’وائس چانسلر یونی ورسٹی آف آکسفورڈ اور رہوڈز ٹرسٹیز نے سر محمد اقبال کو سال ۱۹۳۵ء کے لیے رہوڈز میموریل لیکچرر منتخب کیا ہے۔ رائٹ آنریبل وی ایس سری نواس شاستری سی ایچ کو سال ۱۹۳۴ء کے لیے لیکچرر بننے کی دعوت دی گئی تھی لیکن انھیں ڈاکٹر کی ہدایت کے مطابق انکار کرنا پڑا۔‘‘ میں ہوں جناب والا دی ٹائمز،ای۔ سی ۴ آپ کا فرماں بردار خادم دی ایڈیٹر ای ایف ایم ایسوسی ایٹڈپریس آف امریکہ اسسٹنٹ سیکرٹری ۹۔کارمیلائٹ سٹریٹ، ای سی ۴ دی ایڈیٹر پریس ایسوسی ایشن لمیٹڈ بائرن ہائوس، ۸۵ فلیٹ سٹریٹ، ای سی ۴ رائٹرز [۱۲] ۶؍مارچ ۱۹۳۴ء ڈیئر سر محمد مجھے بہت خوشی ہورہی ہے کہ میں آپ کو یہ اطلاع دینے کے قابل ہوا کہ وائس چانسلر آف دی یونی ورسٹی آف آکسفورڈ اور رہوڈز ٹرسٹیز نے آپ کو آپ ہی کے تجویز کردہ سال ۱۹۳۵ء کے لیے رہوڈز میموریل لیکچرر مقرر کیا ہے۔ میرا گمان ہے کہ آپ اگلے سال کی سمر ٹرم جو، ۲۰؍اپریل کے لگ بھگ شروع ہو کر تقریباً ۲۰؍جون تک چلتی ہے، کے دوران آکسفورڈ میںقیام پذیر ہوں گے۔ میں اس بات پر بہت خوش ہوں کہ آپ نے اپنے لیکچرز میں اس قسم کے موضوع پر بحث کرنے کی راہ تلاش کر لی ہے جو رہوڈز لیکچرز کا اُصول رہے ہیں۔ اس سال کے آخر میں لیکچروں کے عنوان کے بارے میں مَیں آپ سے مزید مشورہ کروں گا کیونکہ اگلے سال کے آغاز میں یونی ورسٹی مطبوعات میں اس عنوان کا اعلان کرنا ضروری ہوگا۔ میں آکسفورڈ میں آپ سے ملاقات کا بڑی بے چینی سے منتظر ہوں۔ آپ کا مخلص ایل (L) سر محمد اقبال، ایم اے، پی ایچ ڈی لاہور،انڈیا /…/…/ [۱۳] ڈاکٹر سر محمد اقبال، کے ٹی ایم اے، پی ایچ ڈی، ایل ایل ڈی لاہور بیرسٹر ایٹ لا ۲۸؍مارچ ۱۹۳۴ء * مائی ڈیئر لارڈ لوتھین آپ کے مشفقانہ خط کا بہت بہت شکریہ جو کہ مجھے چند دن پہلے ہی موصول ہوا ہے۔ میں آپ کو جلد جواب دینا چاہتا تھا لیکن بدقسمتی سے دو بار ہوائی ڈاک کا وقت نکل گیااور اب میں یہ خط عام ڈاک کے ذریعے لکھ رہا ہوں۔ اپنے رہوڈز لیکچرز کے ضمن میں مَیں مندرجہ ذیل عارضی تجاویز پیش کرنا چاہتا ہوں اور اس بارے میں آپ کے خیالات یا مشورے حاصل کرنا چاہوں گا۔ آپ کی رائے سے آگاہی میرے لیے بہت سود مند ہو گی۔ امید ہے آپ مجھے یہ بتانے کی کرم فرمائی کریںگے کہ میری تجویز کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے۔ تین لیکچرز پیش کیے جائیں جو حسبِ ذیل ہیں : ۱۔ ایک عالمی تحریک کے طور پر اسلام کا مفہوم ۲۔ اسلامی قانون : اس کی معاشی اہمیت ۳۔ ہندوستانی مسلمان: اُن کا ماضی، حال اور مستقبل اوپر ۱، ۲، ۳ کے الفاظ میں معمولی تبدیلی ہو سکتی ہے۔ عام عنوان ہم یہ رکھ سکتے ہیں : اسلام اور جدید دنیا۔ انگلستان میں آپ سے دوبارہ ملاقات کا اعزاز حاصل کرنے پر مجھے بے حد مسرت ہوگی لیکن شاید میرے انگلستان جانے سے پہلے ہندوستان میں ہی ہماری ملاقات ہو جائے ۔ آپ کا مخلص محمد اقبال /…/…/ *- بمطابق مہر رہوڈز ٹرسٹ اس کا مکتوب نمبر ۱۱۹۷ ہے۔ یہ ۱۶؍اپریل ۱۹۳۴ء کو ٹرسٹ کو موصول ہوا۔ [۱۴] ڈاکٹر سر محمد اقبال، کے ٹی ایم اے پی ایچ ڈی، ایل ایل ڈی بیرسٹر ایٹ لا لاہور یکم اکتوبر ۱۹۳۴ء * مائی ڈیئر لارڈ لوتھین مجھے ڈر ہے کہ میر ایہ خط آپ کے لیے اور رہوڈز ٹرسٹیز کے لیے کچھ پریشانی کا باعث ہو گا۔ میں پچھلے چھ ماہ سے بیمار ہوں اور ابھی تک صحت یاب نہیں ہوا۔ چھ ماہ پہلے مجھ پر انفلوئنزا کا حملہ ہوا تھا جس سے میری آواز پر بہت بُرا اثر پڑا ہے۔ یہاں کے ڈاکٹر میری حالت میں بہتری لانے سے قاصر رہے ہیں۔ اس وقت میں دہلی کے ایک بزرگ حکیم کے زیر علاج ہوں۔ اگر وہ بھی ناکام رہے تو مجھے وی آنا جانا پڑے گا اور وہاں کئی ماہ تک قیام کرنا ہوگا۔ مجھ پر بہت بڑی آفت آن پڑی ہے جس سے میرے روز مرہ کے کام میں بڑا حرج واقع ہوا ہے اور میرے تمام منصوبے تہ و بالا ہو گئے ہیں۔ میں یہ خط آپ سے یہ درخواست کرنے کے لیے لکھ رہا ہوں کہ آپ ٹرسٹیز سے میرے لیکچرز اُس وقت تک ملتوی کرنے کے لیے کہیں جب تک میری آواز معمول کی حالت پر واپس نہیں آ جاتی ۔ مجھے انتہائی افسوس ہے کہ ایسا ہو گیا لیکن مجھے سوائے اس کے کوئی اور راستہ نہیں سوجھ رہا کہ موجودہ حالات میں ٹرسٹیز سے کر م فرمائی کرنے کی درخواست کروں۔ اس امید کے ساتھ کہ آپ بخیریت ہوں گے اور آپ کی تمام مہربانیوں کے لیے شکرگزاری کے ساتھ ۔ آپ کا مخلص محمد اقبال /…/…/ *- بمطابق مہر رہوڈز ٹرسٹ اس کا مکتوب نمبر ۱۵۰۴ ہے اور یہ ۸؍اکتوبر ۱۹۳۴ء کو ٹرسٹ کو موصول ہوا۔ [۱۵] [اقتباس از رپورٹ نمبر ۲۹۰] غور کے لیے رہوڈز میموریل لیکچر شپ ۳۴-۱۱-۲ [یہاں ’’سر محمد اقبال کا مکتوب‘‘ کے زیر عنوان اقبال کے گذشتہ خط کامکمل متن درج کرنے کے بعد لکھا گیا ہے:] سر محمد اقبال نے سمر ٹرم ۱۹۳۵ء میں آکسفورڈ میں قیام کرنا تھا۔ یونی ورسٹی حکام کو غیر رسمی طور پر اُن کی بیماری سے مطلع کر دیا گیا ہے اور ٹرسٹیز کے اگلے اجلاس کے بعد اُن کی طرف سے کوئی اطلاع نامہ مل جائے گا۔ سیکرٹری کا تبصرہ اقبال کے خط کے پیش نظر اس کے سوا اور کچھ نہیں ہو سکتا کہ اگلی سمر کے لیے اُن کے لیکچرز کی منسوخی کو منظور کر لیا جائے اور ۱۹۳۶ء میں اُن کی تقرری کی تیاری کی جائے بشرطیکہ وہ اگلے سال کے وسط تک صحت یاب ہو جائیں اور اُن کی آواز بحال ہو جائے ۔ تاہم یہ سوال ابھی باقی ہے کہ آیا ٹرسٹیز اگلی سمر کے لیے کوئی متبادل تلاش کرنا چاہیں گے یا نہیں۔ اس سلسلے میں صرف ایک پرانے رہوڈز سکالر ڈاکٹر ہُبل کا نام لیا گیا ہے جو کیلی فورنیا کی مائونٹ ولسن آبزرویٹری میں بڑا نام کما چکے ہیں۔ اس سمر میں انھیں آکسفورڈ میں ڈی ایس سی (D.Sc) کی اعزازی ڈگری بھی عطا کی گئی تھی۔ /…/…/ [۱۶] ۳۴-۱۱-۶ ۱۱۱۵ رہوڈز میموریل لیکچر شپ ٹرسٹیز کو اس امر سے آگاہی حاصل ہوئی کہ سرمحمد اقبال خرابیِ صحت کی بنا پر سال ۱۹۳۵ء کے رہوڈز میموریل لیکچرز دینے کے لیے انگلستان آنے سے قاصر ہیں اور یہ کہ انھوں نے اپنے لیکچرز کو ایک سال کے لیے ملتوی کرنے کی درخواست کی ہے۔ /…/…/ [۱۷] ۹؍نومبر ۱۹۳۴ء ڈیئر مسٹر وائس چانسلر رہوڈز ٹرسٹیز نے مجھے ہدایت کی ہے کہ آپ کو مطلع کردوں کہ انھیں سر محمد اقبال کا منسلکہ خط موصول ہوا ہے ۔ آپ کو یاد ہوگاکہ رہوڈز ٹرسٹیز کے ساتھ آپ نے اتفاق کیا تھا کہ ان کو ۱۹۳۵ء کی سمر ٹرم میں رہوڈز میموریل لیکچرز دینے کی دعوت دی جائے۔ ٹرسٹیز کو بڑا افسوس ہے کہ بیماری نے سر محمد اقبال کو اس سال کے لیے یونی ورسٹی اور ٹرسٹیز کی دعوت قبول نہ کرنے پر مجبور کر دیا ہے اور انھیں اس بات پر کوئی اعتراض نہیں ہے کہ اُن کی لیکچر شپ کو سال ۱۹۳۶ء میں منتقل کر دیا جائے بشرطیکہ سر محمد اقبال اگلے سال کے وسط تک اس قدر صحت یاب ہو جائیں کہ وہ آنے کے قابل ہیں ۔سال ۱۹۳۵ء کے لیے اُن [ٹرسٹیز] کے پاس متبادل امیدوار کی کوئی تجویز نہیں۔ آپ کا مخلص ایل (L) سیکرٹری دی وائس چانسلر ورسٹر کالج،آکسفورڈ /…/…/ [۱۸] ۱۸؍ جنوری ۱۹۳۵ء ڈیئر سر محمد میں آپ کو خط لکھنے ہی والا تھا یہ پوچھنے کے لیے کہ اب آپ کی صحت کیسی ہے اور کیا اب کوئی امکان ہے کہ آپ آکسفورڈ کی اگلی سمر ٹرم میں رہوڈز لیکچر دینے کے قابل ہیں یا ہمیں اب ۱۹۳۶ء تک انتظار کرنے کا ارادہ کر لینا چاہیے۔ مجھے معلوم ہوا کہ میری فائلوں میں ایسا کوئی ثبوت نہیں کہ ہم نے آپ کے یکم اکتوبر کے خط کا جواب دیا تھا۔ ٹرسٹیز نے اپنے ۶ نومبر کے اجلاس میں آپ کے خط پر غور کیا تھا اور انھوں نے آپ کی درخواست کو منظور کرنے کا فیصلہ کیا تھا بعد میں ہم نے یونی ورسٹی کے وائس چانسلر سے بھی اس فیصلے کی توثیق کروا لی تھی۔اگر یہ صحیح ہے تو میں اس یکسر غیر ارادی فرو گذاشت پر آپ سے دلی طور پر معذرت خواہ ہوں۔ ٹرسٹیز نے اپنی اس بھرپور امید کا اظہار کیا کہ آپ تیزی سے صحت یاب ہو جائیں گے اور اس خط کا اصل مقصد یہ معلوم کرنا ہے کہ آپ کے مزاج کیسے ہیں اور آپ کے آکسفورڈ آنے کے کیا امکانات ہیں۔ خفی طور پر مجھے اب بھی امید ہے کہ آپ کی طبیعت اس قدر بہتر ہو جائے گی کہ آپ اسی سمر میں آکسفورڈ آنے کے قابل ہو جائیں گے۔ آپ کا مخلص ایل (L) سر محمد اقبال ایم اے، پی ایچ ڈی، ایل ایل ڈی لاہور، انڈیا /…/…/ [۱۹] ڈاکٹر سر محمد اقبال، کے ٹی ایم اے، پی ایچ ڈی، ایل ایل ڈی بیرسٹرایٹ لا لاہور ۲۶؍ جنوری ۱۹۳۵ئ* مائی ڈیئر لارڈ لوتھین آپ کے مشفقانہ خط کا بہت بہت شکریہ جو آج صبح ہی میں نے پڑھا۔ میرے لیکچرز کو ملتوی کرنے پر میں ٹرسٹیز کا بہت ممنون ہوں اور آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ براہ کرم میرا شکریہ اُن تک اور وائس چانسلر تک پہنچا دیں۔میری طبیعت ابھی تک خراب ہے۔ اعلیٰ حضرت نواب صاحب بھوپال نے مجھے بھوپال بلایا ہے جہاں انھوں نے میری آواز کے برقی علاج کے خاص انتظامات کیے ہیں۔ مَیں ایک دو دن میں وہاں جانے والا ہوں اور وہاں میرا قیام تقریباً ایک ماہ رہے گا۔ اگر اس علاج میں بھی ناکامی ہوئی اور میری آواز میں کوئی بہتری نہ آئی تو میں وی آنایا برلن جانے کے بارے میں سوچوں گا۔ لیکن مجھے ڈر ہے کہ میں ۱۹۳۵ء میں لیکچر دینے کے قابل نہ ہو سکوں گا۔ اس امید کے ساتھ کہ آپ بخیر ہوں گے اور آپ کی ساری مہربانیوں پر شکریے کے ساتھ۔ آپ کا مخلص محمد اقبال /…/…/ *- دی رہوڈز ٹرسٹ کی مہر کے مطابق اس کا مکتوب نمبر ۱۷۵۶ ہے اور وصولی ۷؍فروری ۱۹۸۳۵ء کو ہوئی۔ [۲۰] لاہور ڈاکٹر سر محمد اقبال، کے ٹی ایم اے، پی ایچ ڈی، ایل ایل ڈی بیرسٹرایٹ لا لاہور ۱۵؍اپریل ۱۹۳۵ئ* مائی ڈیئر لارڈ لوتھین [میں بھوپال سے پچھلے ماہ واپس آیا ہوں ۔ میری آواز میں معمولی بہتری آئی ہے لیکن علاج پورا ایک سال جاری رکھنا ہوگا بلکہ ضرورت پڑی تو ایک سال سے بھی زیادہ۔ مئی کے آخر میں مجھے برقی علاج کے دوسرے مرحلے کے لیے بھوپال جانا ہوگا اور دس ہفتوں کے وقفے کے بعد دوبارہ جانا پڑے گا۔ چونکہ دل بھی اس عارضے کی لپیٹ میں آ گیا ہے اس لیے مجھے مشورہ دیا گیا ہے کہ علاج کے دوران اپنے دماغ اور جسم کو مکمل آرام دوں۔ بار بار رہوڈز ٹرسٹیز سے مہربانی کی درخواست کرنے پر مجھے حجاب آتا ہے اور میںیہ خط آپ کو یہ اطلاع دینے کے لیے لکھ رہا ہوں کہ جب تک میں پوری طرح صحت یاب نہ ہو جائوں میرے لیے لیکچر دینا ممکن نہ ہو گا۔ مجھے پوری امید ہے کہ اندریں حالات ٹرسٹیز مہربانی کرکے مجھ سے اتفاق کریں گے۔ تاہم اگر ایسا ممکن نہیں تو مجھے ڈر ہے کہ جو اعزاز انھوں نے اتنی فیاضی سے مجھے بخشا ہے اس سے میں محروم رہ جائوں گا۔اس کے ساتھ مجھے یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ آپ نے اس معاملے میں جو دلچسپی لی ہے اس پر میں آپ کا شکر گزار ہوں۔ میں آپ کی اور رہوڈز ٹرسٹیز کی مہربانی کو کبھی فراموش نہ کروں گا۔] آپ کامخلص محمد اقبال *- مکتوب نمبر ۱۸۹۰، وصولی ۲۳؍اپریل ۱۹۳۵ئ۔ [۲۲] [اقتباس از رپورٹ نمبر۲۶۹۴] ۳۵.۵. M فیصلے کے لیے رہوڈز میموریل لیکچر شپ [یہاں ’’سر محمد اقبال کا خط‘‘ کے عنوان کے تحت اقبال کے ۱۵؍اپریل ۱۹۳۵ء کے خط کا مکمل متن درج کیا گیا ہے۔] سیکرٹری کا تبصرہ میرا خیال ہے کہ ہمیں اقبال کو بتا دینا چاہیے کہ وہ ۱۹۳۶ء میں آکسفورڈ آ سکتے ہیں لیکن اگر وہ ایسا کرنے سے قاصر ہوتے ہیں تو ٹرسٹیز کو ۱۹۳۷ء میں کسی اور کا تقرر کرنا ہوگا۔ /…/…/ [۲۲] [ٹرسٹیز کا فیصلہ] ۳۵.۵. ۲۱ ۱۷۷ رہوڈز میموریل لیکچر شپ سر محمد اقبال کا ۱۵؍ اپریل ۱۹۳۵ء کا خط زیر غور لایا گیا۔ ٹرسٹیز نے فیصلہ کیاکہ انھیں ۱۹۳۵ء کے اختتام سے پہلے معلوم ہو جانا چاہیے کہ آیا سر محمد اقبال ۱۹۳۶ء میں رہوڈز میموریل لیکچر دینے کے لیے آکسفورڈ آ سکتے ہیں یا نہیں۔ سیکرٹری کو ہدایت کی گئی کہ وہ اس مفہوم کا خط انھیں لکھیں اور ڈاکٹر ہُبل (الی نائے ۱۹۱۰) کو بھی خط لکھیں اور انھیں دعوت دیں کہ جب بھی وہ مائونٹ ولسن آبزر ویٹری میںنئی دور بین سے حاصل کردہ نتائج پر رپورٹ پیش کرنے کی پوزیشن میںہوں تو رہوڈز میموریل لیکچر پیش کریں۔ /…/…/ [۲۳] ۲۷؍مئی ۱۹۳۵ء ڈیئر سر محمد اپنے گذشتہ اجلاس میں رہوڈز ٹرسٹیز کو یہ سن کر افسوس ہوا کہ آپ ابھی تک علالت سے پوری طرح صحت یاب نہیں ہوئے۔ وہ بخوشی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ طبیعت بحال ہونے پر آپ ۱۹۳۶ء کی سمر میں رہوڈز میموریل لیکچر پیش کریں۔ لیکن انھیں امید ہے کہ اس سال کے آخر تک آپ انھیں مطلع کر دیں گے کہ آیا آپ ۱۹۳۶ء کی سمر ٹرم میں آکسفورڈ آ سکیں گے یا نہیں ۔ اگر بدقسمتی سے آپ نہ آ سکیں تو وہ محسوس کرتے ہیں کہ انھیں کسی دوسرے لیکچرر کو بلانا ہوگا کیونکہ یہ چیئر چند سالوں سے خالی چلی آ رہی ہے اور انھیں اس چیئر پر تقرری کے لیے وقت چاہیے۔ نیک تمنائوں کے ساتھ آپ کا مخلص ایل (L) سیکرٹری سر محمد اقبال، ایم اے، پی ایچ دی، ایل ایل ڈی لاہور،ایڈیا /…/…/ [۲۴] ڈاکٹر سر محمد اقبال کے ٹی ایم اے پی ایچ ڈی، ایل ایل ڈی بیرسٹرایٹ لا لاہور ۲۲؍جون ۱۹۳۵ئ* مائی ڈیئر لارڈ لوتھین آپ کے مشفقانہ خط کا بہت بہت شکریہ جو مجھے کل ہی موصول ہوا ہے۔ میری صحت ابھی بحال نہیں ہوئی اور علاج ایک سال مزید جاری رہے گا۔ میں پچھلے پندرہ ماہ کے دوران میں انتہائی نامساعد حالات سے گذرا ہوں اور اس پر مستزاد ایک عظیم افتاد مجھ پر آپڑی ہے جو میری عمر کے آدمی پر پڑ سکتی ہے۔ گذشتہ ماہ میری اہلیہ اچانک وفات پاگئیں۔ انھوں نے دو بچے چھوڑے ہیں جن کی عمریں ۱۱اور ۵ سال ہیں اور اُن کی آخری خواہش تھی کہ جب تک یہ بچے بالغ نہ ہو جائیں انھیں اپنی نظروں سے اوجھل نہ ہونے دوں ۔اُن کی دیکھ بھال کرنے والا کوئی نہیں اور میں انھیں کسی با تنخواہ گورنس کی نگرانی میںنہیں دینا چاہتا۔ اس وجہ سے میرے لیے قلیل مدت کے لیے بھی ہندوستان چھوڑنا ممکن نہیں لہٰذا مجھے اُس عظیم اعزاز سے دستبردار ہونا پڑے گا جو رہوڈز ٹرسٹیز نے اتنی فیاضی سے مجھے بخشا ہے۔ براہ کرم میرا دلی شکریہ اُن تک پہنچا دیجیے اور انھیں وجہ بھی بتا دیجیے کہ اب میرے لیے کیوں یہ ممکن نہیں کہ انگلستان آ کر آکسفورڈ میںلیکچر پیش کروں۔ اس امید کے ساتھ کہ آپ بخیریت ہوں گے اور آپ کی تمام مہربانیوں پر شکریے کے ساتھ۔ آپ کا مخلص محمد اقبال *- رہوڈز ٹرسٹ کی مہر کے مطابق اس کا مکتوب نمبر ۲۰۸۷ ہے۔ یہ ۱۵؍جولائی ۱۹۳۵ء کو موصول ہوا۔ اس پر ’’وائس چانسلر کو بھیجا جائے۔‘‘ کے الفاظ درج ہیں۔ [۲۵] ۱۹۳۵۔۷۔۲۳ ۱۲۰۸- رہوڈز میموریل لیکچر شپ ٹرسٹیز نے سر محمد اقبال کے ۲۲ جون ۱۹۳۵ء کے خط پر غور کیا جس میںانھوںنے معذرت کی ہے کہ حالات نے اُن کے لیے رہوڈز میموریل لیکچر شپ قبول کرنا نا ممکن بنا دیا ہے۔ سیکرٹری سے درخواست کی گئی کہ وہ ڈاکٹر ہُبل سے معلوم کریں کہ کیا وہ دعوت قبول کرنے کی پوزیشن میںہیں یا کب ہو سکتے ہیں۔ /…/…/ [۲۶] ۲۵؍جولائی ۱۹۳۵ء مائی ڈیئر سر محمد رہوڈز ٹرسٹیز اور مجھے ذاتی طور پر بہت مایوسی ہوئی ہے کہ آپ رہوڈز لیکچرز دینے کے لیے آکسفورڈ آنے سے قاصر ہیں۔ ہمیں اور بھی زیادہ افسوس اُن حالات پر ہوا جن کی وجہ سے لیکچرشپ سے دستبردار ہونا آپ کے لیے ضروری ہو گیا۔یہاں بہت سے لوگ آپ کو سننے اور دوبارہ ملنے کے بڑی بے چینی سے منتظر تھے شاید مستقبل میں اس معاملے پر دوبارہ غور کرنے کا موقع نکل آئے۔ آپ کا مخلص ایل (L) سر محمد اقبال، ایم اے، پی ایچ ڈی۔ ایل ایل ڈی لاہور،انڈیا ختم شد علامہ اقبال نے آکسفورڈ جانے سے کیوںانکار کیا؟ اقبال آکسفورڈ کی رہوڈز لیکچر شپ سے دستبردار کیوں ہوئے؟ اس بارے میں اُن کے سوانح نگاروں اور دوسرے لوگوں نے مختلف آراء پیش کی ہیں جن کا جائزہ ہم یہاں لیں گے۔ آغاز میںضروری معلوم ہوتا ہے کہ رہوڈز ٹرسٹ جس کے زیر اہتمام ان لیکچرز کا انعقاد ہوتا تھا، کا مختصر تعارف، لیکچرز کی نوعیت اور ۳۵-۱۹۳۴ء کے سیاسی حالات کو بیان کر دیا جائے جس سے موضوع کی تفہیم میں مدد ملے گی۔ رہوڈز ٹرسٹ کا بانی جنوبی افریقہ میں برطانوی استعمار کا معمار سیسل جان رہوڈز (Cecil John Rhodes) (۱۹۰۲ء - ۱۹۵۳ئ) تھا۔کیپ سے قاہرہ تک برطانوی استعمار کو براعظیم افریقہ میں استوار کرنے کے علاوہ رہوڈز نے ہیروں کی کان کنی اور دنیا بھر میں ہیرے فروخت کرنے کی عظیم الشان فرم De Beers Mining Company قائم کی اور بے تحاشا دولت اکٹھی کی۔ ۱۹۰۲ء میں اپنی وفات کے وقت اُس نے ایک قیمتی گھر اور تیس لاکھ پائونڈ کے اثاثے سے آکسفورڈ میں ’رہوڈز فائونڈیشن‘ کی بنیاد رکھی۔ اس فائونڈیشن کے دو مقاصد تھے: ۱) برٹش نو آبادیوں، ریاست ہائے متحدہ امریکہ اور جرمنی سے طلبہ کو آکسفورڈ آنے کی دعوت دی جائے۔ رہوڈز کا مقصد یہ تھا کہ طلبہ لیڈر شپ کی خصوصیات کے حامل اور نمایاں کردار کے مالک ہوں تاکہ دوسرے ممالک کے طلبہ کے ساتھ تعلیم حاصل کرنے کے بعد جب یہ طلبہ اپنے ملکوں کو واپس جائیں تو وہاں اپنے پیشوں میں مؤثر اور قائدانہ کردار ادا کریں ۔ ۲) آکسفورڈ یونی ورسٹی میں لیکچر دینے کے لیے ایسے لوگوں کو دعوت دی جائے جو اعلیٰ قابلیت کے حامل ہوں اور اپنے میدان کار میںصف اوّل کی شخصیت ہوں۔ ان لیکچروں کے گرد جو ہالۂ تقدس قائم کر دیا گیا تھا اسے ایڈورڈ تھامپسن نے پنڈت جواہر لال نہرو کے نام ایک خط میں یوں بیان کیا ہے: سب سے اعلیٰ اعزاز جس سے یہ قدیم یونی ورسٹی کسی شخص کو نواز سکتی ہے وہ اُس کو رہوڈز میموریل لیکچر پیش کرنے کی دعوت دینا ہے۔ یہ ایک نہایت منفرد کام ہے۔ عام طور پر لیکچرر کو آل سولز کالج (All Souls College) کے کامن روم کا ممبر بنا لیا جاتا ہے۔ غالباً یہ سب سے بہترین جگہ ہے جہاں وہ ہمارے تمام سر کردہ سیاستدانوں سے میل ملاپ کر سکتا ہے۔ لیکچرر سمر ٹرم میںیہاں آتا ہے اور اپنی صوابدید پر تین، چار یا پانچ لیکچر دیتا ہے۔ یونی ورسٹی اُس کی کافی عزت و توقیر کرتی ہے اور افتتاحی لیکچر گویا ایک شاندار تقریب ہوتی ہے۔ لیکچرر کا غیر ملکی ہونا ضروری ہے یعنی وہ اس جزیرہ (برطانیہ) سے باہر کسی ملک سے تعلق رکھتا ہو۔ یہ ہمیشہ صف اوّل کا شخص ہوتا ہے۔ سیاستدان کے لیے تو یہ لیکچر شپ ایک زریں موقع ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ یہ ایک ایسا شخص ہو جو ہمارے انڈرگریجویٹ طلبہ کے ساتھ بے تکلفانہ گفتگو کرنے کے لیے تیار ہو آپ تو جانتے ہی ہیں یعنی ایک کمرے میں طلبہ کے ایک گروپ کے ساتھ ہلکی پھلکی گفتگو۔ اس عہدے کو ہمارے ہاں بہت بڑا اعزاز سمجھا جاتا ہے۔ لیکچرر بحث کے لیے کوئی بھی موضوع منتخب کر سکتا ہے لیکن ہم چاہتے ہیں کہ وہ کسی اہم مسئلے پر اظہار خیال کرے۔ یونی ورسٹی لیکچرز کو شائع کرنے میںبھی دلچسپی رکھتی ہے۔ معلوم ہو تا ہے کہ بورڈ آف ٹرسٹیز کے ایما پر اقبال کے ساتھ ساری خط کتابت دراصل ایڈورڈ تھا مپسن نے ہی کی تھی۔ تھامپسن خود تو ٹرسٹی نہیں تھا لیکن وہ بورڈ کا مشیر اعلیٰ تھا۔ ٹرسٹیز ہندوستان کے حالات اور شخصیات کے بارے میں اس کی رائے کو بہت اہمیت دیتے تھے۔ سال ۱۹۳۵ء میں رہوڈز میموریل لیکچرز کے لیے اوّلاً ہندوستانی دانشور سری نواس شاستری کو دعوت دی گئی۔ انھوں نے دعوت قبول کرنے سے معذوری ظاہر کی تو اقبال کو دعوت دینے کا فیصلہ کیا گیا ۔ پنڈت جواہر لال نہرو کے نام خط میں ایڈورڈ تھا مپسن نے راز دارانہ لہجے میں لکھا: Iqbal and Sastri funked the job (that was my impression, which please do not repeat; I conducted the correspondence).1 ’’اقبال اور شاستری ڈر کر بھاگ گئے (کم از کم میرا تو یہی خیال تھا۔ براہ کرم یہ بات کسی کے سامنے دہرائیے گا نہیں کیونکہ خط کتابت میں نے ہی کی تھی)‘‘ آکسفورڈ کی دعوت اپنے اندر شاندار امکانات رکھتی تھی : ۱- یورپ میں سیروتفریح، آرام اور علاج کی سہولت ۲- بر طانیہ کے سیاسی رہنمائوں، اہل علم اور طلبہ سے میل ملاقات ۳- سمر کے دلفریب موسم میں ایک مؤقر یونی ورسٹی کی نشاط انگیز دانشورانہ فضا میں سانس لینا ۴- لیکچرز کی اشاعت پر رائلٹی کی آمدن ۵- لیکچرز کا اعزازیہ اقبال کے لیے تو یہ تمام امکانات بے حد کشش کا باعث ہونا چاہییں تھے، پھر انھوں نے دعوت کو رد کیوں کیا؟ اقبال کے اکثر سوانح نگاروں نے اس سوال کا جواب نہیں دیا کیونکہ انھیں لیکچرزکے بارے میںجملہ معلومات دستیاب نہیں تھیں۔ اسی وجہ سے انھوں نے اقبال کی زندگی کے اس اہم واقعے کو درخور اعتنا بھی نہیںسمجھا۔ ایک سوانح نگار نے اس واقعے کا سرسری ذکر کیا ہے اور لکھا ہے کہ ’’اقبال کو خرابی صحت کی بنا پر اس دعوت سے انکار کرنا پڑا ۔‘‘۲؎ یاد رہے سال ۱۹۳۵ء ہندوستان اور برطانیہ کے تعلقات کی تاریخ میںاہم موڑ کی حیثیت رکھتا ہے اور اِن تعلقات کو ایک خاص شکل دینے میں اقبال نے بھی غیر معمولی کردار ادا کیا تھا۔ ۱۹۲۸ء میںریلوے ہیڈ کوارٹرز لاہور کے بورڈ روم میںسائمن کمیشن کے ساتھ ایک طویل انٹرویو میںاقبال نے بڑی مہارت اور قابلیت سے مسلمانوں کا نقطۂ نظر بیان کیا تھا۔ مِسٹر کلیمنٹ ایٹلی (Clement Attlee) جو تقسیم ہند ۱۹۴۷ء میں برطانیہ کے وزیر اعظم تھے، نے اس موقع پر بطور ممبر سائمن کمیشن اقبال کے نقطۂ نظر کو بغور سُنا تھا۔ غالباً مسٹر ایٹلی کے ساتھ اقبال کی پہلی ملاقات یہیں ہوئی تھی۔۳؎ اقبال نے اس انٹرویو میں اقلیتوں کے تحفظ کے لیے صوبائی خود مختار ی (Provincial Autonomy) کی تجویز پر زور دیا تھا۔۱۹۲۹ء اور ۱۹۳۰ء کے کانگرس (جواہر لال نہرو)کے لاہور اور مسلم لیگ (علامہ محمد اقبال) کے اعلاناتِ آزادی کی تواریخ کا آگے پیچھے ہونا تاریخی لحاظ سے سنجیدگی سے قابل غور ہے۔ گو نہرو کا اقبال کے شہر لاہور اور اقبال کا نہرو کے وطن الہ آباد میں اعلانِ آزادی کرنا ایک دلچسپ تاریخی حادثہ ہو سکتا ہے۔ ۱۹۳۰ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کے الہ آباد سیشن میں صدارتی خطبہ دیتے ہوئے اقبال نے واشگاف الفاظ میں اعلان کیا تھا ’’میں پنجاب، سرحد، سندھ اور بلوچستان کو ایک خود مختار ریاست کا حصہ دیکھنا چاہتا ہوں‘‘۔ اس اعلان نے ہندوستان کی تاریخ کا رُخ موڑ دیا۔ یہ اعلان دسمبر ۱۹۲۹ء میں آل انڈیا کانگرس کے لاہور سیشن میں پنڈت جواہر لال نہرو کے صدارتی خطبے میں ’’مکمل آزادی‘‘ کے جواب میںفوراً آیا تھا اور اقبال نے کانگرس اور انگریزوں کو برملا جتا دیا تھا کہ ہندوستان کو آزادی دینے کی صورت میںمسلمانوں کو بھی آزاد وطن دینا پڑے گا۔ ۱۹۳۱ء میںلندن کی گول میز کانفرنس میں اقبال Minorities Committee کے سرکردہ رکن تھے۔ یہاں بھی انھوں نے شد و مد کے ساتھ صوبائی خود مختاری کی وکالت کی تھی۔گول میز کانفرنس کے بعد قائد اعظم محمد علی جناح نے انگلستان میںقیام کا فیصلہ کر لیا تھا۔ خود پر عاید کردہ اس عارضی جلا وطنی کو ختم کرکے ۱۹۳۵ء میں وہ وطن واپس آئے۔ اُن کی غیر حاضری میں مسلم لیگ کی حالت ایک نیم مردہ تنظیم کی سی تھی۔ مسلمانوں کے درمیان اس وقت اقبال کے علاوہ کوئی دوسرا قدآور سیاسی لیڈر نہ تھا،جوبرطانیہ اور ہندوستان کے درمیان دستوری تعلقات کے بارے میں اعلیٰ سطحی مذاکرات میںشامل رہا ہو۔۴؎ یہی وجہ تھی کہ برطانیہ کے علمی حلقے ہندو ستانی مسلمانوں کے سیاسی ذہن کا رخ معلوم کرنے کی خاطر اقبال کے خیالات جاننے کے لیے بے تاب تھے۔ اگرچہ رہوڈز لیکچرر لفظوں کی حد تک اپنے لیکچروں کا موضوع منتخب کرنے میںآزاد تھا لیکن عملی طور پر جیسا کہ ایڈورڈ تھامپسن نے پنڈت جواہر لال نہرو کے نام خط میں واضح کیا ہے یونی ورسٹی توقع رکھتی تھی کہ لیکچرر ایسے موضوع کا انتخاب کرے گا جس سے حالات حاضرہ پر روشنی پڑتی ہو۔ لیکچرر کے انتخاب کا سب سے اہم معیار یہ تھا کہ وہ اپنے میدانِ کار میں نمایاں شخصیت ہو۔ اقبال اس معیار پر پورا اترتے تھے کیونکہ وہ اُس وقت مسلمانوں کے سرکردہ سیاسی رہنما تھے اور برطانیہ اور ہندوستان کے مابین دستوری مذاکرات میں ۱۹۲۸ء سے ۱۹۳۲ء کے دوران عملی طور پر شریک رہے تھے۔اُن کے صوبائی خودمختاری کے مطالبے کو گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ ۱۹۳۵ء میں بھی تسلیم کر لیا گیا تھا۔ قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانے میں اقبال سیاسی قیادت کے منصب سے قائد اعظم کے حق میں دستبردار ہو گئے تھے اور آنے والے حالات میں قوم کی راہبری کے لیے انھیں قائد اعظم کی اہلیت پر مکمل اعتماد ہو گیا تھا۔ انھوں نے ایک بیان میں فرمایا تھا :’’ہماری قوم کو جناح کی دیانت اور سیاسی بصیرت پرمکمل اعتماد ہے۔‘‘۵؎ ۱۹۳۶ء میں لاہور میں اقبال نے قائداعظم سے کہا: ’’میں آپ کے مشن کی کامیابی کے لیے اپنی رگوں کا آخری قطرۂ خون بھی نچوڑ دوں گا۔‘‘۶؎ ۱۹۳۷ء میںپنڈت جواہر لال نہرو جاوید منزل لاہور میں یہ امید لے کر آئے کہ مسٹر جناح کو پس پشت ڈال کر اقبال خود مسلمانوں کی سیاسی قیادت سنبھال لیں۔ اقبال نے اُن کو برملا بتایا کہ: ’’جہاں تک سیاسی مسائل کا تعلق ہے اس سلسلے میں تمام تر اختیار ہم نے مسٹر جناح کو دے رکھا ہے۔‘‘۷؎ زعماے آکسفورڈ کو توقع تھی کہ اپنے قیام کے دوران لیکچروں کے علاوہ برطانیہ کے سیاسی لیڈروں اور دانشوروں سے میل ملاقات کے دوران اقبال مسلم انڈیا کے سیاسی ذہن کی نمایندگی کریں گے لیکن اقبال اب یہ رول ادا کرنے کے لیے تیار نہیں تھے اور گول میز کانفرنس کے بعد ذہنی طور پر یہ کردار قائد اعظم محمد علی جناح کو تفویض کر چکے تھے۔ گول میز کانفرنس کے دوران برطانوی سیاستدانوں کی ریشہ دوانیوں نے انھیں بہت پریشان کیا تھااور وہ برطانیہ کے سیاسی لیڈروں اور دانشوروں کے رویے سے مایوس ہو گئے تھے۔ اس لیے گول میز کانفرنس ۸؎ کے دوران انگلستان میں اُن کا قیام کچھ زیادہ خوشگوار نہ رہا تھا۔جیسا کہ اوپر بیان ہوا وہ Minority Committee کے فعال رکن تھے۔مسلم وفد کے ممبران کے ساتھ مشاورت میں اقبال نے تجویز پیش کی کہ برطانوی حکومت کے سامنے یہ مطالبہ رکھا جائے کہ مرکز میںذمہ دار حکومت کے قیام سے پہلے صوبوں میں خود مختار حکومتیں قائم کی جائیں۔ اقبال کی رائے تھی کہ صوبائی خود مختاری کو مستحکم کیے بغیر مرکز میں دستوری حکومت ایک دن بھی نہ چل سکے گی۔ اس تجویز کے محرکات واضح ہیں۔ صوبائی خود مختاری کا اُصول منظور ہونے سے ہندوستان کے شمال مغربی حصے اور شمال مشرق میں واضح مسلم اکثریتی علاقوں کا ایک مضبوط بلاک وجود میں آ جاتا ۔عبوری دور میں یہ بلاک مرکز میں ہندو اکثریت کے اقداما ت پر مؤثر روک لگا کر اُسے متوازن رویہ اختیار کرنے پر مجبور کر سکتا تھا۔پھر موزوں وقت پر خود مختار مسلم اکثریتی صوبوں کا مستحکم بلاک ایک آزاد مسلم ریاست کی شکل بھی اختیار کر سکتا تھا جیسا کہ بعد میں ۱۹۴۷ء میں سندھ، بلوچستان، پنجاب، سرحد اور مشرقی پاکستان کے خود مختار صوبوں کے بلاک نے متحد ہو کر پاکستان کی تشکیل کی۔ اقبال کی اس تجویز پر مسلم وفد نے صاد کیا اور سب ممبران نے ۱۵ ؍نومبر کو اس قرار داد پر دستخط کیے کہ کوئی ممبر مرکزی حکومت کے دستور پر غور کے لیے بنائی گئیFaderal Structure Committee کی کاروائی میںحصہ نہیں لے گا۔اب آپ تصور کیجیے کہ اقبال کتنے آزردہ ہوئے ہوں گے جب ۲۶؍نومبر کو مسلم وفد کے ممبران Faderal Structure Committee کے اجلاس میں شریک ہو گئے اور اقبال کی تجویز پر پاس کی ہوئی اپنی متفقہ قرار داد کے علی الرغم صوبائی خود مختاری اورمرکز میں ذمہ دار حکومت کے بیک وقت قیام کے فیصلے سے اتفاق کر لیا۔یوں اقبال کی ساری مساعی پر پانی پھر گیااور وہ خود کو بالکل الگ تھلگ محسوس کرنے لگے۔ ہوا یہ تھا کہ ۱۵ اور ۲۶ نومبر کے دوران برطانوی سیاستدانوں نے مسلم وفد کے ممبران پر مختلف حیلوں بہانوں سے دبائو ڈال کر انھیں Faderal Structure Committee کے اجلاس میں شرکت پر مجبور کر دیا تھا ۔ انگریز سیاستدانوں اور مسلم مندوبین کے اس کردار پر تبصرہ کرتے ہوئے اقبال نے کہا: میرے پاس یہ یقین کرنے کی وجہ ہے اور اپنے وفد سے علیحدہ ہونے سے چند روز پہلے مجھے یہ شک بھی ہونے لگا تھا کہ بعض انگریز سیاستدانوں نے ہمارے نمائندوں کو یہ غلط پٹی پڑھائی تھی کہ وہ برٹش انڈیاکے صوبوں میں ذمہ دار حکومتوں کے فوری قیام کو رد کر دیں۔ حال ہی میںلیفٹیننٹ کمانڈر کینور دی (Lt. Commander Kenworthy) نے بھی اسی خیال کا اظہار کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں :’’میری سمجھ کے مطابق بعض انگریز سیاستدانوں نے اس معاملے میں میانہ رو رہنمائوں کو بڑا غلط مشورہ دیا اور ان رہنمائوں نے بھی جھٹ پٹ اس مشورے کو قبول کر لیا‘‘۔۹؎ اقبال نے گول میز کانفرنس سے استعفیٰ دے دیا تھا اور فوراً ہندوستان واپس آ گئے تھے۔ ظاہر ہے کہ اقبال کی طبیعت انگریز سیاستدانوں سے نفور ہو چکی تھی۔اس تلخ تجربے کے بعد وہ اپنے آپ کو آکسفورڈ میں ایسے لوگوں سے ملنے کے لیے آمادہ نہ پاتے تھے ۔ ۱۹۳۶ء میں محمد دین تاثیر کیمبرج سے لاہور پہنچے ۔ جاوید منزل میں اقبال سے ملاقات کی روداد بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ایک اور بات جو قابل ذکر ہوئی اس کا تعلق سیاسیات سے بھی ہے اور علامہ اقبال کی اپنی ذات سے بھی۔ ڈاکٹر صاحب کو آکسفورڈ سے رہوڈز لیکچر دینے کی دعوت آئی۔ میں ان دنوں کیمبرج میں تھا۔ ڈاکٹر صاحب کو اصرار سے لکھا کہ وہ اس دعوت کو رد نہ فرمائیں۔ گول میز کانفرنس کے سلسلے میں ان کا سفرِ انگلستان سیاسی حیثیت رکھتا تھا، رہوڈز لیکچرز کی علمی حیثیت تھی۔ انگلستان کے ادیب اور اہل علم لوگوں کو ان کا صحیح مقام معلوم ہوگا۔ ڈاکٹر صاحب نے زمان و مکان کے اسلامی تصور پر لیکچر دینے کا ارادہ کیا تھا ۔ میں نے انگلستان کے ادبی حلقوں میں ان لیکچروں کا پہلے سے چرچا کر رکھا تھا۔ ذاتی اور قومی فخر کے ساتھ اقبال کے ادبی مرتبے کا ذکر کرتا رہتا تھا۔ ڈاکٹر صاحب نے ایک خط میں یقین دلایا کہ میں ضرور آئوں گا۔ لیکن یکایک اُن کا ایک اور خط آیااور اس میں لکھا کہ انھوں نے ارادہ منسوخ کر دیا ہے ۔ مجھے اس کا بہت رنج ہوا اور برخوردارانہ گُستاخی کے ساتھ انھیں ایک تند قسم کا خط لکھا۔ انھوں نے جواب میں لکھا کہ والدہ جاوید نے مرتے وقت وصیت کی تھی کہ بچوں کو اکیلا نہ چھوڑنا ۔ اس لیے انگلستان نہیں جا سکتا۔ میںنے اسے عذر لنگ قرار دیا تو آپ نے کہا کہ ایک اور راز بھی ہے ۔ وطن واپس آئو گے تو بتائوں گا۔ اس ملاقات میں وہ راز بھی منکشف ہوا۔ رہوڈز لیکچر کی دعوت لارڈ لوتھین کے ذریعے آئی تھی۔ لارڈ لوتھین علامہ کا بہت مداح تھا۔ مجھے یاد ہے کہ اس نے کیمبرج میں ایک ملاقات کے دوران مجھ سے کہا کہ ’’عالم اسلام میںہی نہیں، تمام مشرق میں اقبال جیسا اثر انداز مفکر اورکوئی نہیں‘‘ یہ بھی کہا کہ : ’’اقبال کے افکار تاریخ عالم کا رُخ بدل دیں گے۔ سیاسی لوگ نہیں جانتے کہ اقبال کی طرح کے شاعر کس قدر مؤثر ہو سکتے ہیں۔‘‘ اس لوتھین نے علامہ اقبال سے وعدہ لیا تھا کہ وہ فلسطین آ کر موتمر اسلامی میںشریک ہوں اور اسلامی ممالک کو اپنا پیغام دیں۔ بظاہر اچھی بات تھی۔علامہ نے وعدہ کر لیالیکن انھیں بہت جلد اس کا احساس ہو گیا کہ یہ مؤتمر برطانوی سامراج کی کرشمہ سازی کا نتیجہ تھی۔ اقبال برطانوی سامراج کا سخت دشمن تھا۔ رہوڈز لیکچرز اور اس موتمر کی تاریخیں پاس پاس تھیں۔ ڈاکٹر صاحب مروت کے پتلے تھے۔ وعدہ بھی کر رکھا تھا کہ ممکن ہوا تو مؤتمر میں شریک ہوں گے۔ مؤتمر سے بچنے کا یہی طریقہ نظر آیا کہ آکسفورڈ نہ جائیں ۔ … میں نے جب ان سے کہا کہ آپ مؤتمر میں شریک ہو کر اس کے خلاف تقریر کرتے تو فرمانے لگے کہ لوتھین کو خوا مخواہ خوار کرنا مناسب نہ تھا۔ اُس نے مجھ سے مروت برتی تھی۔ میں نے بس شریک ہونے سے معذوری کا اظہار کر دیا تھا۔ اصل وجہ وہ بھی سمجھ گیا ہوگا۔۱۰؎ اقبال ان وجوہات کی بنا پر رہوڈز لیکچر کی دعوت قبول کرنے پر آمادہ نہ تھے لیکن قدرت کا ایک فیصلہ بھی ان کے انکار کی ایک ناگزیر وجہ بن گیااور جیسا کہ لوتھین کے نام اُن کے ۱۵؍اپریل اور ۲۲ جون ۱۹۳۵ء کے خطوط سے بھی تصدیق ہوتی ہے انکا رکی فیصلہ کن وجہ بیماری کے باعث اُن کی آواز کا بیٹھ جانا تھا۔ /…/…/ حواشی و حوالہ جات 1- Jawaharlal Nehru, A Bunch of Old Letters, Asia Publishing House (1960) p. 410. خط کے بین السطور سے معلوم ہوتا ہے کہ تھامپسن جواہر لال نہرو کو لیکچر دینے کی ترغیب دے رہا تھا۔ 2- Hafeez Malik ed, Iqbal:, Poet-Philosopher of the East, (Columbia University Press, p.34 ۳- گول میز کانفرنس میں بھی لیبر پارٹی کے لیڈروں بشمول وزیر اعظم ریمزے میکڈا نلڈ اور مسٹر ایٹلی کے ساتھ اقبال کی ملاقات ہوئی تھی۔ ۴- اگر اقبال زندہ رہتے تو برطانوی لیڈروں سے دستوری مذاکرات کے اس تجربے کی بنا پر وہ یقینا ۱۹۴۷ء میں لارڈ مائونٹ بیٹن کے ساتھ آزادیِ ہند کے مذاکرات میں قائد اعظم کے شریک کار ہوتے۔ 5- Civil & Military Gazette, Lahore. June 7,1936. ۶- ڈاکٹر محمد عبداللہ چغتائی، اقبال کی صحبت میں، مجلس ترقی ادب، لاہور، ص ۴۴۹۔ ۷- ایضاً، ص ۴۴۶۔ ۸- ہندوستان میں ہندو، مسلمان اور دوسری اقوام اور ریاستوں کے درمیان دستوری سمجھوتے کے لیے برطانوی حکومت نے لندن میں گول میز کانفرنسوں کا انعقاد کیا تھا۔ پہلی گول میز کانفرنس ۱۲؍نومبر ۱۹۳۰ء کو شروع ہوئی۔ مسلم مندوبین میں آغا خاں، میاں محمد شفیع، مولانا محمد علی اور محمد علی جناح شامل تھے۔ ہندو مندوبین میں کانگرس کاکوئی نمائندہ شامل نہ ہوا۔ دوسری گول میز کانفرنس ۷؍ ستمبر سے یکم دسمبر ۱۹۳۱ء تک جاری رہی۔ اس میں کانگرس کی طرف سے گاندھی جی نے شرکت کی۔ مسلم نمائندوں میں اب اقبال بھی شامل تھے۔ اقبال اس کانفرنس سے استعفیٰ دے کر ہندوستان واپس آ گئے تھے۔ 9- Iqbal, Presidential Address at the Annual Session of the All-India Muslim Conference at Lahore on the 21st March 1932 in S. A. Vahid, Thoughts and Reflictions of Iqbal,Ashraf, Lahore pp. 200-201. See also Riaz Hussain, Politics of Iqbal, Islamic Book Service, Lahore, 1977 p. 86. ۱۰- ہفت روزہ قندیل، لاہور ۴:۱۹ (۲۱؍اپریل ۱۹۵۰ئ) صفحات ۱۱- ۱۲؛ نیز دیکھیے:افضل حق قرشی (مرتب)، اقبال کا فکر وفن از ڈاکٹر محمددین تاثیر، یونیورسل بکس لاہور(صفحات ۴۵-۴۸) نوٹ بہت سے لوگوں کو یہ جان کر حیرت ہو گی کہ پین اسلامزم کے جدید تصور کا بانی قاہرہ میں مقیم ایک انگریز شاعر اور دانشور و لفرڈ سکان بلنٹ (Wilfrid Scawn Blunt) تھا۔ ولفرڈ کا نظریہ یہ تھا کہ خلافت صرف اور صرف عرب قوم اور خصوصاً قریش کی میراث ہے۔ عجمی (غیر عرب) اقوام کا اس پر کوئی حق نہیں ۔چنانچہ ترکوں (عثمانیوں) یا افریقی لوگوں (مہدی سوڈانی) کا دعواے خلافت باطل ہے۔ مزید برآں خلیفۃ المسلمین سیاسی عہدہ نہیں بلکہ ایک دینی اتھارٹی ہے۔ خلیفہ کا حکم سیاسی معاملات کی بجائے صرف دینی معاملات پر نافذ ہوتا ہے۔ یورپی یا مسلمان حکمرانوں کے ماتحت رہنے والے مسلمان بے شک دینی معاملات میں خلیفہ کی قیادت و سیادت کو تسلیم کریں لیکن سیاسی اور دنیاوی معاملات میں وہ اپنے ملکوں کی حکومت کے تابع رہیں۔ مسلمان مذہبی معنوں میں امت واحدہ ہیں۔ پین اسلامزم کا مطلب دنیا میںمسلمانوں کی عالمی حکومت قائم کرنا نہیں بلکہ دینی مرکزیت اور وحدت قائم کرنا ہے۔ یورپ کے’’ اسلام کی اصلاح‘‘ کرنے کے اس نظریے کا مغربی اخبارات، یونی ورسٹیوں اور حکومتوں کی پراپیگنڈہ مشینری نے بڑی شدّومد سے پرچار کیااور مسلمان علمائ، دانشوروں، طلبہ، اخبار نویسوں اور عوام کو اس کا قائل کرنے کی بھرپور کوشش کی اور بلاشبہ بہت سے لوگ اس دام ہم رنگ زمین میں گرفتار بھی ہوئے۔ انیسویںصدی میں پین اسلامزم کے اس نظریے سے مقصود سوڈان، لیبیا اور مصر میں تحاریک آزادی کو دبانا تھا۔بیسویں صدی میں پہلی جنگ عظیم کے بعد یورپی استعمار نے اس نظریے کو ترکی، فلسطین اور دوسرے عرب ممالک میں فوجی طاقت سے عملاً نافذ کر دیا۔ سیاسی خلافت ساقط ہوگئی اور اتحاد بین المسلمین کی داعی بہت سی تنظیمیں قائم کر دی گئیں تاکہ وحدت اسلامی کے جوش و جذبے میں آزادیِ فلسطین کا مسئلہ پس پشت ڈال دیا جائے اور افریقی اور ایشیائی ملکوں میں رہنے والے مسلمان عوام کا اپنے اپنے ملکوں میں سیاسی آزادی حاصل کرنے کا جذبہ دب جائے۔ ان تنظیموں کا مقصد خوش نما تقاریر کے علاوہ کچھ نہ تھا۔ اقبال استعمار کی ان سب چالوں پر عمیق نظر رکھتے تھے۔ وہ اسلام میں دین و دنیا کی یکجائی، مسلمانوں کی عالمی حکومت اور سیاسی غلبے کے زبردست قائل اور فلسطین کی جدو جہد آزادی کے پر جوش ہامی اور حریت پسند تھے۔ اس پس منظر میں مؤتمر میں شرکت سے اُن کا گریز سمجھ میں آتا ہے۔ [پین اسلامزم کے بارے میں مزید معلومات کے لیے دیکھیے: Afzal Iqbal, Life and Times of Mohamed Ali, Institute of Islamic Culture, Lahore, pp. 17-18. /…/…/ رہوڈز ٹرسٹ میں محفوظ خط کتابت فائل نمبر ۲۶۹۴ Rhodes Trust Oxford University File No. 2694 [ 1 ] 31st October 1933. My dear Fisher, I have heard from Thompson that Iqbal has heard that we are contemplating asking him to be Rhodes Memorial Lecturer for next year and is wondering whether he is going to receive an invitation because he has been asked to organise a university in Afghanistan and apparently does not want to tie himself up so that he cannot come to Oxford if he is invited. He further tells me that it is commonly reported in Oxford and Indian circles that you are alleged to have said that he was going to be the next lecturer. Personally I think that we could do nothing better than to get Iqbal next summer, not only for personal reasons but on general political grounds. Moreover, if the Trustees approve of my proposals about the third year of the Scholarship, we sahll once more be in a relatively fluid financial position. I am therefore strongaly of the view that the Trustees ought to invite him. We cannot however, take any steps unless the Vice-Chancellor agrees. I am wondering whether you could possibly have a word with him on the subject so that the Trustees could know whether he would approve (because the invitation has to be issued jointly) so that a decision can be taken on the 21st, because I understand that Iqbal is anxious for an early decision. I cannot consult him formally until the Trustees have approved. Iqbal is a very distinguished figure. His appointment not only please India but might have repercussions throughout Afghanistan and the Middle East. He would certainly give first Class lecture as his lecture to the Arstotelian Society abundantly proved. Yours sincerely, The Warden, L. New College, OXFORD [ 2 ] 31st October 1933. My dear Thompson, I will try and give you an answer about Iqbal in the course of the next two weeks.Would it be too late if I delayed it until November 21st, which is the next meeting of the Trustees? The question is a little mixed up with finance, and I hope to get everything straightened out by them. Further, before issuing any invitation I should have to get the formal consent of the Vice-Chancellor. I suppose it will be all right if you could send Iqbal a cable in the last week of November? Your description of the Sarabhais attracts me very much. I suppose they are not still in England, because, if so, I would like to get them down to Blickling for a night provided you would come too, about the middle of November? It is almost the most lovely house in England, and they would clearly appreciate it and the wild life about it, and we could have some quiet talk. Yours sincerely, Edward Thompson, Esq. L. Scar Top, Boar 's Hill, OXFORD. [ 3 ] THE WARDEN'S LODGINGS, NEW COLLEGE OXFORD. Please Address reply to THE WARDEN November 1st, 1933. My dear Lothian, Millar will tell you that on February 2nd, I forwarded to him a letter from the Vice-Chancellor saying that he raised no objection to Iqbal's name as Rhodes Lecturer. I had already consulted him about it. There is no reason whatever why we should not go ahead and appoint him at our next Meeting, if we have not done so already. I quite agree with you as to his qualities. Yours sincerely, The Most Hon. H a L Fisher The Marquis of Lothian, C.H. The Rhodes Trust, Seymour House, Waterloo Place, London, S.W.I. [ 4 ] Dr. Sir Mohd. Iqbal Kt. M.A., Ph. D. Barrister- at- Law. Lahore 6th Dec. 1933 My dear Lord Lothian, Thank you so much for your kind letter inviting me to deliver Rhodes Memorial Lectures at Oxford. I consider it a great honour and gladly accept the offer so kindly made. Kindly convey my best thanks to the Chancellor, Vice-Chancellor and the Rhodes Trustees. I must also express my feeling of heartfelt gratitude to yourself, as I think this great honour has come to me mainly because of the interest you took in my work on the 'Reconstruction of Muslim Theology'. There is however, one thing to which I must draw your attention. I believe the Oxford summer term begins about the end of the April. This being so I have only about four months at my disposal to write out the lectures. Now the subject on which I propose to write is "Time and space in the history of Muslim Thought". It is a difficult subject and will involve a great deal of research in manuscripts which are yet un-published and perhaps unknown. I do not think it will be possible for me to write three lectures on this subject during the time at my disposal. Is it then possible that I may deliver these lectures in the summer term of 1935 instead of 1934? Considering the importance of the subject and the difficulties involved in the writing of it I do hope that the Chancellor and the Rhodes Trustees will agree to the proposal I venture to put before them. I shall be anxiously waiting for an early reply to this letter. Thanking you and looking forward to having once more the privilege of meeting you. Yours Sincerely, Mohammad Iqbal [ 5 ] 3rd January 1934. Dear Sir Muhammad, I have just got your letter of the 6th December. I am delighted to hear that you can see your way to accept the Rhodes Memorial Lectureship and I am looking forward very much to seeing you once more and hearing your lectures. Is it, however, really impossible for you to come to Oxford next Summer Term or at latest next October Term? With institutions like a University it is not easy to revise arrangements once they have been made and it is now too late to get another lecturer for next year and we should probably have to go through the whole process of getting the consent of the University Authorities to the postponement. Further, will you allow me to say that I think the subject matter you have choosen, namely "Space and time in the history of Muslim thought", is rather more specialist in character than was contemplated at the foundation of the Rhodes Memorial Lectureships. The lectureship is not primarily academic in the narrower sense of the word. The object of the Rhodes Trustees in founding it was to bring to oxford notable figurs of international reputation who could interpret either some other civilisation or some important contemporary train of thought to the Fellows and undergraduates of the University. There are many lectureships of a purely academic kind but the Trustees felt that if Oxford was to keep its place among the Universities, its treachers and sutdents should be given the opportunity of having discussions with and listening to lectures by people who represented something outside the normal curriculum of the University. The first lectures were given by Sir Robert Borden, Prime Minister of Canada during the war, on the development of the British Commonwealth from the standpoint of a Dominion who had taken part in the war. He was followed by Dr. Flexner who gave a series of rather provocative lectures on the idea of the modern Unviersity. Professor Halevy was the next lecturer who dealtwith the significance of the world war from the standpiont of France. Then General Samuts came from South Africa and gave brilliant series of lectures in which he urged Great Britain to investigate and consider the problems of Africa as a whole and in which he discussed those problems. Finally Professor Einstein came to Oxford and gave three lectures on an aspect of relativity which I understand he has since abandoned. His visit was personally a great success, but it would not be unfair to say that his lectures were not the most satisfactory part of his lectureship and, in point of fact, they have never been published because he has largely abandoned the thesis he then propounded. The Rhodes Trustees and the Vice-Chancellor had hoped that you could give a series of lectures on some such subject as "Islam in the Modern World",or"Islam and the Reconstruction of Modern Civlisation", or "Islam and India". They feel that the average Englishman's ideas about Islam are extremely limited, are saturated with the prejudice which has arisen partly from the old christian missionary point of veiw and partly from the fact that Islam like other great religions has passed through a period of stagnation and petrifaction. What they would like would be for you to set out to give Oxford and impression of what Islam has represented as a world movement in history and of the significance of its fundamental thinking and re-awakening activity in the modern world. I was reading your lectures which made me realise how great a theme this was and I feel that from the point of view of Oxford and the lectureship a treamtment of this kind of subject would be more in the tradition of the lecture.which will only appeal to a very narrow academic circle. There is nothing, of course, to prevent your giving one or more lectures on this subject to audiences or societies in Oxford or elsewhere and having these published together with the Rhodes Memorial Lectures by the Oxford University Press. But I would venture to express the hope that you should take a rather broader theme for the Rhodes Memorial Lectures and that if you can do this, you will also be able to come to Oxford this summer, for you clearly have the subject at your finger tips and the lectures themselves will require no such research as would be necessary for "Space and time in the history of Muslim Thought". I wonder if you could be so kind as to send me a cable after the receipt of this letter as to what your final decision is? It is not necessary for you to settle the title of your lectures at once as the title will only be announced in Oxford about Easter, but I should like to know as soon as possible whether I can tell the Vice-Chancellor that you will be in Oxford next summer term or in the October Term. Yours sincerely, Sir Muhammad Iqbal, L. Lahore, India. [ 6 ] RHODES MEMORIAL LECTURESHIP Last year the Trustees offered the Rhodes Memorial Lectureship to Mr. Srinivasa Sastri who replied that unfortunately owing to health he could not accept it. In view of the uncertainty of the financial position the Trustees decided not to make any further attempt to fill the position for 1933. The question now arises whether they should fill it for 1934. The candidate proposed is Sir Muhammad Iqbal, a distinguished Muhammadan from Lahore, who is probably the outstanding intellectual figure from the Islamic world to-day. He has written a number of essays on Sicence, Philosophy and Religion, which are now being published by the Oxford University Press, and has lectured with what the Americans call "with acceptance" before the Aristotelian Society. Apparently it came to Sir Muhammad's ears when he was over for the third Round Table Conference that his name had been put forward as a candidate for the Lectureship, and he has now written to Edward Thompson privately to find out whether he is likely to be offered the appointment because he had been invited to organise a new University in Afghanistan by Nadir Shah, who has since unfortunately been assassinated. During the summer too, the question was discussed by Mr. Fisher with the Vice-Chancellor, who makes the appointment conjointly with the Trustees, and the Vice-Chancellor agreed that he would be a suitable candidate. There is no doubt that his appointment would also be worth while from the political point of view for it would certainly cause much satisfaction among our Moslem fellow subjects in India, though unless it were made known, as I have endeavoured privately to make it known, that Mr. Sastri had already been asked and had refused, the Hindus might feel a little aggrieved. On all grounds other than finance, therefore, I recommend the appointement. The financial consideration will clearly depend upon the consideration the Trustees give to the question of the third year of the Scholarship. [ 7 ] Dr. Sir Mohd. Iqbal, Kt. M.A., Ph. D. Barrister-at-Law Lahore. 14th Jan. 1934 My Dear Lord Lothian, Thank you so much for your kind letter which I received this morning and which has brought me a clearer idea of the purposes of the Rhodes Lectureship. I shall certainly choose some subject which may appeal to a wider circle of audience. Indeed I had this in mind, but I felt that the Oxford University would prefer a subject of a more academic character. However I shall now think of some other subject in the light of what you say in your letter. But I am afraid it will not be possible for me to deliver my lectures in 1934. I have so far collected material for 'Time and Space' and all these months this subject has been in my mind. It is unfortunate that my ignorance of the purpose of the Rhodes Lectureship has caused so much loss of time. In my last letter I did not give you all my reasons for my inability to deliver my lectures in 1934. It was unnecessary to do so. As you know literature is not a profession in India and I have to earn my daily bread at the Bar. As a member of the two Round Table Conferences I had to be away from India for several months continuously each time. This has done me much harm from a professional point of view so that I have to regain the lost ground. It is necessary for me to make an effort in this direction as this is the only source of my income. I felt when writing to you last time, that my continuous presence here for about two years would, to some extent, help me in regaining the work that I had lost. I request you to excuse me for frankly stating a reason which I would not have mentioned to a less sympathetic man. Hoping you are well and thanking you for all your kindnesses. Yours Sincerely, Mohammad Iqbal [ 8 ] [ 9 ] SCAR TOP, BOARS HILL OXFORD 16. 1. 34 My dear Lothian, Iqbal's psychology, as I understand it, is this. He is a Brahmin, and Kashmiri at that, of the same clan as Haksar, Sapru & the Nehrus. That gives him an inherited metaphysical beat. And he is very sensitive about the charge brought against Muhammadanism, that it is a sterile low-grade religion, good for savages & negroes, but giving nothing on the metaphysical side for the mind to bite on, infinitely inferior here to Christianity & Hinduism. He is ambitious, as his lectures show, to put Islam on the worldmap metaphysically. He has Einstein on the brain, and also our Dunn ("An Experiment in Time") and others. He wants to challenge Einstein and prove that Islam has great philosophy & great phlosophers. On top of that, the name of Oxford and of his predecessors as Rhodes Lecturers has put the wind up him; and he feels he did not get enough notice for such an innings as he feels he is expected to play. I shd. ask him to reconsider his decision in the light of your letter, which shd. reach him in a very few days. He has not had it, and still thinks he has to launch a world-shaking philosophy here, instead of merely giving a jolly show for Islam. Yours sincerely, E. Thompson [ 10 ] 19.01.34 For decision RHODES MEMORIAL LECTURESHIP: SIR MUHAMMAD IQBAL In accordance with the decision of Trustees and the Vice- Chancellor an invitation was issued to Sir Muhammad Iqbal to be the Rhodes Memorial Lecturer for 1934. I afterward received a letter from him gratefully accepting the lectureship but saying that he wanted to make the subject of his lectures "Time and Space in the History of Muslim Thought", that he would have no sufficient time to prepare those lectures by next summer and asking whether the lectureship could not be postponed until 1935. After consulting with Mr. Edward Thompson who knows him well, I wrote, and Thompson also wrote, explaining that the Rhodes Memorial Lectures were not intended to deal with so specialist a question but rather to present a general survey of some significant aspect of some contemporary politics or thought like the Samuts, Borden or Flexner's lectures, and asking him whether he could not take as his subject some such title as "Islam in the Modern World", and still come to Oxford next summer. I have now received the following cable: "Sorry impossible this year". This of course may be due to the fact that he has to go to Kabul in connection with the new Afghan University and doubtless a letter will follow shortly. ___________________ [ 11 ] 28th February 1934. Sir, I am directed to send you the following notice and shall be very much obliged if you will kindly distribute it to the press: "The Vice- Chancellor of the University of Oxford and the Rhodes Trustees have elected Sir Muhammad Iqbal to be the Rhodes Memorial Lecturer for the year 1935. The Right Honourable V.S. Srinivasa Sastri, C. H., was invited to be the Lecturer for 1934 but had to decline on doctor's orders." I am, Sir, Your obedient Servant, E.F.M. Assistant Secretary The Times, E.C.4 The Editor, Associated Press of America, 9 Carmelite Street, E.C.4. The Editor, Press Association Ltd., Byron House, 85, Fleet Street, E.C.4. Reuters [ 12 ] 6th March 1934. Dear Sir Muhammad, I am very glad to be able to inform you that the Vice-Chancellor of the University of Oxford and the Rhodes Trustees have appointed you to be Rhodes Memorial Lecturer for the year you suggest, namely 1935. I presume that you will be in residence during the Summer Term of next year which extends from about the 20th April to about the 20th June. I am very glad that you can see your way to deal in your lectures with the kind of subject which has been the hither to in the case of the Rhodes Lectures. I will consult you further in regard to the title of the lectrures towards the end of this year as it will be necessary to announce it in the University publications early next year. I am greatly looking forward to seeing you in Oxford. Yours sincerely, Sir Muhammad Iqbal, L. M.A., Ph.D., Lahore, India. [ 13 ] Dr. Sir Mohd. Iqbal, Kt. M.A., Ph. D. LL.D Barrister-at-Law Lahore 28th Mar. 1934 My Dear Lord Lothian, Thank you very much for your kind letter which I received a few days ago. I wanted to write to you earlier, but unfortunately I missed the air mail twice, and I am now writing this letter to you by the ordinary mail. With regard to my Rhodes Lectures I wish to make the following tentative proposal & would like to have your views & suggestions. The sooner I know your views the better for me. I hope you will be good enough to tell me what you think of my proposal. Three lectures to be delivered as follows: 1. The Meaning of Islam as a World Movement. 2. The law of Islam: its Economic Significance 3. The Indian Muslims: their past, present & future. There may be some slight changes in the wording of 1, 2, 3 above. For the general title we may have : Islam and the Modern World. I shall be so delighted to have the privilege of meeting you again in England, but perhaps we may meet in India before I go to England. Yours Sincerely, Mohammad Iqbal [ 14 ] Dr. Sir Mohd. Iqbal, Kt. M.A., Ph. D. LL.D Barrister-at-Law Lahore 1st. oct. 1934. My dear Lord Lothian, I am afraid this letter of mine will cause some embrassment to you and the Rhodes Trustees. I have been ill during the last six months and have not yet rcovered. Six months ago I had an attack of influensa which has seriously affected my voice. The doctors here have not been able to do me any good. I am at present under the treatment of an old Physician of Delhi. If he too fails I shall have to go to Vianna and stay for several months. It is a great misfortune that has befallen me, distrubing seriously my faily work and upsetting all my plans. I write this letter to request you to ask the Trustees to postpone my lectures till my normal voice is restored to me. I am extremely sorry that this has happened, but I cannot think of any other course except to crave the indulgence of the Trustees in the present circumstances. Yours Sincerely, Mohammad Iqbal [ 15 ] For Consideration RHODES MEMORIAL LECTURESHIP: Letter from Sir Muhammad Iqbal Ist October, 1934. "I am afraid this letter of mine will cause some embrassment to you and the Rhodes Trustees. I have been ill during the last six months and have not yet rcovered. Six months ago I had an attack of influensa which has seriously affected my voice. The doctors here have not been able to do me any good. I am at present under the treatment of an old Physician of Delhi. If he too fails I shall have to go to Vianna and stay for several months. It is a great misfortune that has befallen me, distrubing seriously my faily work and upsetting all my plans. I write this letter to request you to ask the Trustees to postpone my lectures till my normal voice is restored to me. I am extremely sorry that this has happened, but I cannot think of any other course except to crave the indulgence of the Trustees in the present circumstances." ______________ Sir Muhammad Iqbal was to have resided in Oxford in the Summer Term 1935. The University authorities have been notified infromally of his illness and that a communication from the Trustees will follow after their next Meeting. ______________ Secretary's Note. In view of Iqbal's letter there does not seem to be anything to do but to agree to cancel his lectures for next summer and to be prepared to appoint him for 1936 if he recovers his health and voice by the middle of next year. There remains, however, the question as to whether the Trustees would like to find a substitute for next summer. The only name that has been mentioned is that of Dr. Hubble, an old Rhodes Scholar, who has made such a name for himself at the Mount Wilson Observatory in the California. He was given an Honorary Degree of D.Sc. at Oxford this summer. [ 16 ] 1115. RHODES MERMORIAL LECTURESHIP The Trustees noted that Sir Muhammad Iqbal would be unable to come to England to deliver the Rhodes Memorial Lectures in 1935 owing to ill-health, and that he had asked to be allowed to postpone his lectures for a year. [ 17 ] 9th November 1934. Dear Mr. Vice-Chancellor, The Rhodes Trustees have instructed me to inform you that they have received the attached letter from Sir Muhammad Iqbal, whom you will remember the University agreed with the Rhodes Trustees should be invited to deliver the Rhodes Memorial Lectures in the Summer Term of 1935. The Trustees very much regret that the illness of Sir Muhamad Iqbal compels him to cancel his acceptence of the invitation from the University and the Trustees for this year and see no objection to his lectureship being transferred to 1936, provided Sir Muhammad has recovered his health sufficiently by the middle of next year to indicate whether he will be able to come. They have no alternative candidate to suggest for 1935. Yours sincerely, L. Secretary The Vice-Chancellor, Worcester College, OXFORD [ 18 ] 18th January 1935. Dear Sir Muhammad, I was about to write to ask you how your health was and whether there is now any prospect of your being able to give the Rhodes lectures next summer term at Oxford or whether we must make up our minds to wait until 1936, when I discovered that there is no evidence in my files to say that we ever answered your letter of the 1st October. Your letter was considered by the Trustees at their Meeting on the 6th November and they decided to agree to your request and we afterwards obtained the concurrence of the Vice-Chancellor of the University. If this is correct I wish to tender you my heart-felt apologies for this quite unintentioned oversight. The Trustees expressed great hope that you would rapidly recover and the real purpose of this letter is to find out how you are and what are the prospects of your being able to come to Oxford. I have a secret hope that you may be so much better that you may be able to come to Oxford after all this summer. Yours Sincerely L. Sir Muhammad Iqbal, M.A., Ph.D., LL.D., Lahore, India. [ 19 ] Dr. Sir Mohd. Iqbal Kt. M.A., Ph. D. L L. D Barrister-at-Law Lahore. 26th Jan. 1935 My Dear Lord Lothian, Thank you so much for your kind letter which I read this morning. I am very grateful to the Trustees for their postponement of my lectures and request you to kindly convey my gratitude to them and to the Vice-Chancellor. My condition is still bad. His Highness the Ruler of Bhopal has asked me to come to Bhopal where he has made special arrangements for electric treatment of my voice. I shall be going there in a day or two and stay there for about a month. If this treatment also fails and my voice does not improve I shall think of going to Vienna or Berlin. But I fear I shall not be able to deliver my lectures in 1935. Hoping you are well and thanking you for all your kindness. Yours Sincerely, Mohammad Iqbal [ 20 ] Dr. Sir Mohd. Iqbal Kt. M.A., Ph. D. L L. D Barrister-at-Law Lahore. 15th April, 1935. I returned from Bhopal 1ast month. There is some slight improvement in my voice; but the treatment will have to be continued for a whole year, or, if need be, more than a year. I shall have to go to Bhopal for the 2nd course of electric treatment about the end of May & again after an interval of ten weeks. Since the heart is involved in the trouble I am advised to take complete rest in mind and body during the treatment. I am ashamed to ask for the Rhodes Trustees indulgence over and over again, and write this to inform you that it will not be possible for me to deliver the lectures till I have completely recovered. I do hope the Trustees will be good enough to agree to it in the circumstances. If, however, this is not possible, then I fear I shall have to forego the honour which they have generously conferred on me. It is hardly necessary for me to add that I am grateful to you for the interest you have taken in the matter. I shall never forget your kindness as well as that of the Rhodes Trustees. Yours Sincerely, Mohammad Iqbal [ 21 ] For decision RHODES MEMORIAL LECTURESHIP: Letter From Sir Muhammad Iqbal Lahore. 15th. April 1933. "I returned from Bhopal 1st month. There is some slight improvement in my voice; but the treatment will have to be continued for a whole year, or, if need be, more than a year. I shall have to go to Bhopal for the 2nd course of electric treatment about the end of May & again after an interval of ten weeks. Since the heart is involved in the trouble I am advised to take complete rest in mind and body during the treatment. I am ashamed to ask for the Rhodes Trustees indulgence over and over again, and write this to inform you that it will not be possible for me to deliver the lectures till I have completely recovered. I do hope the Trustees will be good enough to agree to it in the circumstances. If, however, this is not possible, then I fear I shall have to forego the honour which they have generously conferred on me. It is hardly necessary for me to add that I am grateful to you for the interest you have taken in the matter. I shall never forget your kindness as well as that of the Rhodes Trustees. ______________ Secretary's Note I think we should tell Iqbal that he can come to Oxford in 1936 but that if he is unable to do this the Trustees will have to appoint one also in 1937. ______________ [ 22 ] 21.05.35 177. RHODES MEMRORIAL LECTURESHIP. A letter dated the 15th April 1935 from Sir Muhammad Iqbal, was noted. The Trutees decided that they must know before the end of 1935 whether Sir Muhammad will be able to come to Oxford in 1936 to deliver the Rhodes Memorial Lectures. The Secretary was instructed to write to him in this sense and also to Dr. K.P. Hubble (Illinois 1910), inviting him to be the Rhodes Memorial Lecturer when he is in a position to report upon the results achieved from the new telescope at Mount Wilson Observatory. [ 23 ] 27th May 1935. Dear Sir Muhammad, The Rhodes Trustees were very sorry to hear at their last meeting that you have not fully recovered from your illness. They will be very glad to agree that if you are in good health again you should deliver the Rhodes Memorial Lectures in the summer of 1936. But they hope that you will be able to let them know before the end of this year whether you will be in a position to come to Oxford in the Summer Term of 1936. In the unfortunate event of your not being able to do so, they feel that they ought to get another lecturer, as it is now some years since the chair has been filled, and they must have time in which to do this. With my kindest regards, Yours sincerely, L. Secretary Sir Muhammad Iqbal, M.A., Ph.D., LL.D., LAHORE, India. [ 24 ] Dr. Sir Mohd. Iqbal, Kt. M.A., Ph. D. LL. D Barrister-at-Law Lahore 22nd June 1935 My dear Lord Lothian, Thank you so much for your kind letter which I received the other day. I have not yet recovered and the treatment will have to be continued for another year. During the last fifteen months I have been passing through hard times, and on the top of all came the greatest misfortune that can befall a man of my age: my wife suddenly passed away last month. She has left two children - 11 & 5; & it was her last wish that I shd. keep these children always before my eyes till they become major. There is no body to look after them and I do not wish to leave them to the care of paid governesses. For this reason it has now become impossible for me to leave India even for a short time. I have therefore to forego the great honour which the Rhodes Trustees have so generously conferred on me. Kindly convey my heartfelt gratitude to them and explain to them the reason why it is not possible to me now to come to England and to deliver lectures at Oxford. Hoping you are well & thanking for all your kindnesses to me. Yours Sincerely, Mohammad Iqbal [ 25 ] 1208. RHODES MEMORIAL LECTURESHIP. The Trustees noted Sir Muhammad Iqbal's letter of 22nd June 1935 regretting that circumstances now made it impossible for him to accept the Rhodes Lectureship. The Secretary was requested to find out from Dr. Hubble whether and when he would be in a position to accept an invitation. [ 26 ] 25th July 1935. My dear Sir Muhammad, It is a great disappointment to the Rhodes Trustees and to myself that you feel yourself unable to come to deliver the Rhodes Lectures at Oxford. We were all the more sorry because of the circumstances which have made necessasry your abandonment of the Lectureship. Many people here had been greatly looking forward to hearing you and meeting you again. Perhaps an opportunity for reconsidering the matter may occure in the future. Yours sincerely, L. Sir Muhammad Iqbal, M.A., Ph.D., LL.D., Lahore, India. /…/…/ اُردو ترجمہ فائل نمبر ۲۶۹۴ رہوڈز ٹرسٹ آکسفورڈ یونی ورسٹی [۱] ۳۱ ؍اکتوبر ۱۹۳۳ء مائی ڈیئر فِشر میں نے تھامپسن سے سنا ہے کہ اقبال کو معلوم ہو گیا ہے کہ ہم انھیں اگلے سال کے لیے رہوڈز میموریل لیکچر دینے کے لیے مدعو کرنے پر غور کر رہے ہیں اور وہ سوچ رہے ہیں کہ انھیں دعوت ملے گی یا نہیں کیونکہ انھیں افغانستان میں یونی ورسٹی قائم کرنے کے لیے بُلایا گیا ہے اور بظاہر وہ اپنے آپ کو اتنا پابند نہیں کرنا چاہتے کہ دعوت ملنے کی صورت میں آکسفورڈ نہ آسکیں۔ انھوں نے مجھے مزید بتایا ہے کہ آکسفورڈ اور ہندوستانی حلقوں میں یہ اطلاع عام ہے کہ آپ نے مبینہ طور پر یہ کہا ہے کہ اگلے لیکچرر وہی ہوں گے۔ ذاتی طور پر میرا خیال ہے اور ایسا میں نہ صرف ذاتی وجوہات بلکہ عام سیاسی بنیادوں پر کہہ رہا ہوں کہ ہمارے لیے اس سے بہتر اور کوئی بات نہ ہو گی کہ ہم اگلی سمر کے لیے اقبال کو لائیں۔ مزید برآں اگر ٹرسٹیز سکالر شپ کے تیسرے سال کے بارے میں میری تجاویز پر صاد کر دیں تو ہم ایک بار پھر مالی طور پر نسبتاً آسودہ حالت میں آ جائیں گے ۔ تاہم میری پختہ رائے ہے کہ ٹرسٹیز کو انھیں دعوت دینی چاہیے ۔ البتہ وائس چانسلر کی منظوری کے بغیر ہم کوئی قدم نہیں اُٹھا سکتے ۔ میں سوچ رہا ہوں کہ کیا آپ کے لیے یہ ممکن ہو گا کہ آپ اس موضوع پر وائس چانسلر سے بات کر لیں تاکہ ٹرسٹیز کے علم میں آجائے کہ وہ اس بات سے اتفاق کرتے ہیں(کیونکہ دعوت تو مشترکہ طور پر دینی ہوگی)۔ اور ۲۱؍تاریخ تک کوئی فیصلہ کیا جا سکے کیونکہ میری اطلاع کے مطابق اقبال بھی جلد فیصلے کے خواہاں ہیں۔ رسمی طور پر میں ٹرسٹیز کی منظوری کے بغیر اُن سے اس بارے میں کوئی بات نہیں کر سکتا۔ اقبال ایک نہایت ممتاز شخصیت ہیں۔ ان کی تقرری سے نہ صرف ہمیں ہندوستان کی خوشنودی حاصل ہوگی بلکہ اس کا اثر سارے افغانستان اور مشرق وسطیٰ پر بھی ہوگا۔ وہ یقینا اوّل درجے کے لیکچر دیں گے،جیسا کہ ارسطاطالین سوسائٹی میں اُن کے لیکچر سے بخوبی ثابت ہوتا ہے ۔ آپ کا مخلص ایل (L) دی وارڈن نیو کالج، آکسفورڈ /…/…/ [۲] ۳۱ ؍اکتوبر ۱۹۳۳ء مائی ڈیئر تھامپسن میں کوشش کروں گا کہ اگلے دو ہفتوں کے دوران اقبال کے بارے میں آپ کو کوئی جواب دے سکوں۔ اگر میں اسے ۲۱؍نومبریعنی ٹرسٹیز کے اگلے اجلاس تک ملتوی کر دوں تو کیا بہت زیادہ تاخیر تو نہ ہو جائے گی؟ یہ مسئلہ کچھ مالی طور پر بھی الجھا ہوا ہے اورمجھے امید ہے کہ تب تک میں سارے معاملات ٹھیک کر لوں گا۔ مزید برآں دعوت دینے سے پہلے مجھے وائس چانسلر کی رسمی منظوری بھی حاصل کرنا ہوگی۔میرا خیال ہے کہ یہ ٹھیک رہے گا کہ آپ نومبر کے آخری ہفتے میں اقبال کو تار ارسال کریں؟ Sarabhais [سارا بھائی خاندان] کے بارے میں آپ نے جو کچھ لکھا ہے وہ میرے لیے بہت ہی دلفریب ہے۔ میرا خیال ہے کہ اس وقت وہ انگلستان میںنہیں ہیں لیکن اگر ہیں تو میں چاہوں گا کہ انھیں نومبر کے وسط کے لگ بھگ ایک رات کے لیے Blickling آنے کی دعوت دوں، بشرطیکہ آپ بھی آ جائیں۔ سارے انگلستان میں یہ سب سے خوبصورت گھر ہے اور وہ اس گھر اور اس کے اردگرد پائی جانے والی جنگلی حیات دیکھ کر ضرور محظوظ ہوں گے اور ہم سکون سے باتیں کر سکیں گے۔ آپ کا مخلص ایل (L) جناب ایڈورڈ تھامپسن سکار ٹاپ، بور زہِل، آکسفورڈ /…/…/ [۳] دی وارڈ نز لاجنگز براہ کرم نیو کالج،آکسفورڈ جواب وارڈن کے پتے پر ارسال کریں یکم نومبر ۱۹۳۳ئ* مائی ڈیئر لوتھین مِلر آپ کو بتائیں گے کہ ۲ ؍فروری کو میں نے انھیں وائس چانسلر کا مراسلہ بھیجا تھا جس میںلکھا تھا کہ انھیں بطور رہوڈز لیکچرر اقبال کی نامزدگی پر کوئی اعتراض نہیں ہے میں نے قبل ازیں اس بات پر اُن سے مشورہ کر لیا تھا۔ اب ایسی کوئی وجہ نظر نہیں آتی کہ ہم اپنے اگلے اجلاس میں ان کی تقرری نہ کر دیں، اگر ہم پہلے ہی ایسا نہیں کر چکے تو ___ اُن کی خوبیوں کے بارے میں مَیں آپ سے بالکل متفق ہوں ۔ آپ کا مخلص ایچ اے ایل فِشر دی موسٹ آنریبل دی مارکوئس آف لوتھین، سی ایچ دی رہوڈز ٹرسٹ سیمور ہائوس، واٹر لُو پلیس لندن، ایس ڈبلیو۔۱ *- اس خط کے اوپر ثبت رہوڈز ٹرسٹ کی مہر کے مطابق اس کو ۶۲M کا لیٹر نمبر دیا گیا ہے۔ مہر کے مطابق یہ ۲؍نومبر۱۹۳۳ء کو موصول ہوا۔ [۴] ڈاکٹر سر محمد اقبال، کے ٹی ایم اے، پی ایچ ڈی بیرسٹر ایٹ لا لاہور ۶؍دسمبر ۱۹۳۳ئ* مائی ڈیئر لارڈ لوتھین آپ کے مشفقانہ خط کا بہت بہت شکریہ، جس میں آپ نے مجھے آکسفورڈ میں رہوڈز میموریل لیکچر دینے کی دعوت دی ہے ۔میں اسے اپنے لیے بہت بڑا اعزاز سمجھتا ہوں اور اس مشفقانہ پیشکش کو بخوشی قبول کرتا ہوں۔ براہ کرم چانسلر، وائس چانسلر اور رہوڈز ٹرسٹیز کو میری طرف سے بہترین شکریہ پہنچا دیجیے۔ مجھے آپ کا بھی دلی طور پر شکریہ ادا کرنا ہے کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ مجھے اتنا بڑا اعزاز اسی بدولت ملا ہے کہ آپ نے ’’الٰہیات اسلامیہ کی تشکیل جدید‘‘ پر میرے کام میں ذاتی دلچسپی لی تھی۔ تاہم ایک بات کی طرف میں آپ کو توجہ دلانا چاہتا ہوں۔ میرے خیال میں آکسفورڈ میں سمر ٹرم کا آغاز تقریباً اپریل کے آخر میں ہوتا ہے۔اس طرح میرے پاس لیکچر لکھنے کے لیے صرف چار ماہ بچتے ہیں۔ جس موضوع پر میں لکھنا چاہتا ہوں وہ ہے ’’مسلم فکر کی تاریخ میں زمان و مکان‘‘۔یہ ایک دقیق موضوع ہے اور اس کے لیے ایسے مسوّدات میں کافی تحقیق کی ضرورت ہو گی جو ابھی تک طبع نہیں ہوئے اور جن کے بارے میں شاید ابھی کسی کو پتا بھی نہیں۔ جتنا وقت میرے پاس ہے اس میں میرا نہیں خیال کہ تین لیکچر لکھ پائوں گا۔ لہٰذا کیا یہ ممکن ہے کہ بجائے ۱۹۳۴ء کے میں یہ لیکچر ۱۹۳۵ء کی سمر ٹرم میں پیش کروں؟موضوع کی اہمیت اور اس پر لکھنے کی مشکلات کے پیش نظر مجھے پوری امید ہے کہ چانسلر اور رہوڈز ٹرسٹیز اس تجویز کو مان لیں گے جو میں نے اُن کے سامنے رکھنے کی جسارت کی ہے۔ اس خط کے جلد جواب کا میں فکر مندی سے منتظر رہوں گا۔ آپ کے شکریے اور آپ سے ایک دفعہ پھر ملاقات کااعزاز حاصل کرنے کی تمنا کے ساتھ۔ آپ کا مخلص محمد اقبال *- مہر کے مطابق اس مکتوب کا نمبر ۹۱۸ ہے، موصولی کی تاریخ واضح نہیں ہے۔ /…/…/ [۵] ۳؍ جنوری ۱۹۳۴ء ڈیئر سر محمد آپ کا ۶؍دسمبر [۱۹۳۳ئ] کا خط مجھے ابھی ابھی ملا ہے۔ مجھے یہ جان کر بڑی مسرت ہوئی ہے کہ آپ نے رہوڈز میموریل لیکچر شپ قبول کرنے کا ارادہ کر لیا ہے اور میں ایک بار پھر آپ سے ملاقات کرنے اور آپ کے لیکچر سننے کابے چینی سے منتظر ہوں۔ مگر کیا آپ کے لیے واقعی اگلی سمر ٹرم یا زیادہ سے زیادہ اگلی اکتوبر ٹرم میں آکسفورڈ آنا ناممکن ہے؟ یونی ورسٹی کی سطح کے اداروں کے لیے ایک دفعہ کوئی انتظام کرکے اس پر نظر ثانی کرنا آسان کام نہیں ہوتا اور پھر اگلے سال کے لیے کسی دوسرے لیکچرر کو لانے کے لیے بھی اب بہت تاخیر ہو چکی ہے اور غالباً ہمیں یونی ورسٹی کے حکام سے التوا کی منظوری حاصل کرنے کے لیے ایک دفعہ پھرسارے عمل سے گذرنا پڑے گا۔ مزید برآں کیا آپ مجھے یہ کہنے کی اجازت دیں گے کہ آپ کا منتخب کردہ موضوع یعنی ’’مسلم فکر کی تاریخ میں زمان و مکان‘‘ کچھ ایسی تخصیص کا حامل ہے جس کا رہوڈز میموریل لیکچر شپ قائم کرتے وقت تصور نہیں کیا گیا تھا۔ اولاً اس لیکچر شپ کی نوعیت محدود معنوں میں علمی نہیں ہے۔ لیکچر شپ قائم کرتے وقت رہوڈز ٹرسٹیز کے پیش نظر یہ تھا کہ بین الاقوامی طور پر شہرت یافتہ ایسی نامور شخصیات کو آکسفورڈ لایا جائے جو یونی ورسٹی کے فیلوز اور انڈر گریجویٹ طلبہ کے سامنے کسی دوسری تہذیب یا ہم عصر دنیا کی کسی اہم فکری تحریک پر بات کر سکیں۔ خالص علمی نوعیت کی لیکچر شپس تو بہت ہیں لیکن ٹرسٹیز نے محسوس کیا کہ اگر آکسفورڈ نے دوسری یونی ورسٹیز کے درمیان اپنا مقام بنا کر رکھنا ہے تو اس کے اساتذہ اور طلبہ کو ایسے لوگوں سے بحث مباحثے اور ان کے لیکچر سننے کا موقع ملنا چاہیے جو یونی ورسٹی کے عام نصاب سے ہٹ کر کوئی بات کر سکیں۔ اوّلین لیکچرز وزیر اعظم کینیڈا سر رابرٹ بورڈن نے جنگ کے دوران دیے تھے۔ اُن کا موضوع تھا ’’جنگ میں شریک ایک ڈومینین کے نقطۂ نظر سے برٹش کا من ویلتھ کا ارتقا۔‘‘ اس کے بعد ڈاکٹر فلیکسنر نے ’’جدید یونی ورسٹی کا تصور‘‘ کے موضوع پر لیکچروں کا ایک خیال افروز سلسلہ پیش کیا۔ ان سے اگلے لیکچرر پروفیسر ہالیوی تھے جنھوں نے ’’فرانس کے نقطۂ نگاہ سے عالمی جنگ کی اہمیت‘‘ پر بحث کی۔ پھر سائوتھ افریقہ سے جنرل سمٹس آئے اور نہایت شاندار لیکچر پیش کیے جن میں انھوں نے برطانیۂ عظمیٰ پر زور دیا کہ سارے افریقہ کے مسائل کی مجموعی طور پر چھان بین کرکے اُن پر غور و خوض کرے۔ انھوں نے ان مسائل پر بحث بھی کی۔ آخر میں پروفیسر آئن شٹائین آکسفورڈتشریف لائے اور اضافیت کے ایک ایسے پہلو پر تین لیکچر دیے جسے میرے خیال میں وہ رد کر چکے ہیں۔ اُن کا دورہ ذاتی طور پر بہت کامیاب رہا لیکن یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ اُن کے لیکچر زیادہ اطمینان بخش نہ تھے۔ اور حقیقت بھی یہی ہے کہ اُن کو کبھی شائع بھی نہیں کیا گیا کیونکہ اُس وقت جو نظریہ انھوں نے پیش کیا تھا اُسے وہ اب کافی حد تک ترک کر چکے ہیں۔ رہوڈز ٹرسٹیز اور وائس چانسلر کو امید تھی کہ آپ ’’ جدید دنیا میںاسلام‘‘ یا ’’اسلام اور جدید تہذیب کی تشکیل نو‘‘ یا ’’اسلام اور ہندوستان‘‘ جیسے موضوع پر لیکچرز کا سلسلہ پیش کریں گے۔ وہ محسوس کرتے ہیں کہ اسلام کے بارے میں اوسط درجے کے انگریز کے خیالات انتہائی محدود ہیں اور اُس تعصب میں شرابورہیں جو کچھ تو پرانے عیسائی مشنریوں کے نقطۂ نگاہ کا پیدا کردہ ہے اور کچھ اس حقیقت کی وجہ سے پیدا ہوا ہے کہ دوسرے عظیم مذاہب کی طرح اسلام بھی جمود اور نیم جاں ہونے کے دور سے گذرا ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ آپ آئیں اور آکسفورڈ کو یہ عکس دکھائیں کہ تاریخ میں ایک عالمی تحریک کی حیثیت سے اسلام کا کیا کردار رہا ہے اور جدید دنیا میں اس کی بنیادی فکر اور تحریک بیداری کی اہمیت کیا ہے۔ آپ ہی کے لیکچر پڑھ کر مجھے یہ احساس ہوا تھا کہ یہ کتنا بڑا موضوع ہے اور میں یہ محسوس کرتا ہوںکہ اس قسم کے موضوع پر بحث آکسفورڈ لیکچر شپ کی روایت کے عین مطابق ہوگی اور’’ مسلم فکر کی تاریخ میں زمان و مکان‘‘ پر بحث سے زیادہ مفید ثابت ہو گی ۔کیونکہ یہ موضوع بہت ہی محدود قسم کے علمی حلقوں کے لیے باعث کشش ہو سکتا ہے۔ ہاں اس بات میںکوئی امر مانع نہیں ہے کہ آپ آکسفورڈ یا کہیں بھی سامعین یا سوسائٹیز کو اس موضوع پر ایک دو لیکچر دیں اور ان کو بھی رہوڈز میموریل لیکچرز کے ساتھ شامل کرکے آکسفورڈ یونی ورسٹی پریس سے چھپوا لیں۔ لیکن میں اس امید کا اظہار کرنے کی جسارت کروں گاکہ آپ رہوڈز میموریل لیکچرز کے لیے کوئی وسیع موضوع منتخب کریں گے اوراگر آپ ایسا کر سکیں تو آپ اس سمر میں آکسفورڈ آ سکیں گے کیونکہ اس موضوع پر تو آپ کو عبور حاصل ہے اور لیکچروں کے لیے بھی آپ کو ایسی تحقیق کی ضرورت نہ پڑے گی جیسی کہ ’’ مسلم فکر کی تاریخ میں زمان و مکان‘‘ کے موضوع پر درکار ہے۔ میں سوچتا ہوں کہ کیا آپ اتنی مہربانی کریں گے کہ خط ملنے کے بعد مجھے بذریعہ تار یہ بتا دیں کہ آپ کا حتمی فیصلہ کیا ہے؟ ضروری نہیں کہ آپ فوری طور پر لیکچروں کے عنوان کا تعین کریں کیونکہ عنوان کا اعلان آکسفورڈ میںایسٹر کے لگ بھگ کیا جائے گا لیکن مجھے جلد از جلد یہ معلوم ہو جائے کہ آیا میں وائس چانسلر کو یہ بتا سکتا ہوں یا نہیں کہ آپ اگلی سمر ٹرم یا اکتوبر ٹرم میں آکسفورڈ میں ہوں گے؟ آپ کا مخلص ایل (L) سر محمد اقبال لاہور،انڈیا /…/…/ [۶] [رپورٹ نمبر ۲۰۰ سے اقتباس] ۱۹۳۳ء ۔۱۱ ۔۱ فیصلے کے لیے رہوڈز میموریل لیکچر شپ گذشتہ سال ٹرسٹیز نے مسٹر سری نواس شاستری کو رہوڈز میموریل لیکچر شپ پیش کی تھی جنھوں نے جواب دیا کہ بدقسمتی سے وہ اپنی صحت کی صورتِ حال کی وجہ سے اسے قبول نہیں کر سکتے۔ غیر یقینی مالی صورت حال کے پیش نظر ٹرسٹیز نے فیصلہ کیا کہ سال ۱۹۳۳ء کے لیے اس عہدے کو پُر کرنے کی مزید کوشش نہ کی جائے ۔ اب سوال پیدا ہوا ہے کہ آیا وہ سال ۱۹۳۴ء کے لیے اس عہدے پر تقرری کریں یا نہیں ۔ جو امیدوار تجویز کیے گئے ہیں وہ ہیں سر محمد اقبال، جو کہ لاہور کے ایک ممتاز مسلمان اور غالباً ہمعصر اسلامی دنیا میں سب سے سر کردہ دانشور ہیں۔ انھوں نے سائنس، فلسفہ اور مذہب پر متعددمقالات قلم بند کیے ہیں جو آکسفورڈ یونی ورسٹی پریس کے زیر اہتمام شائع کیے جا رہے ہیں۔ ارسطاطالین سوسائٹی میںاُن کے لیکچر کو امریکیوں کے محاورے کے مطابق ’’سندِ قبولیت‘‘ عطا کی گئی تھی۔بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تیسری گول میز کانفرنس کے لیے جب سر محمد اقبال یہاں آئے تھے تو انھوں نے سُنا کہ لیکچر شپ کے لیے اُن کا نام پیش کیا گیاتھا۔ اور اب انھوں نے ایڈورڈ تھامپسن کو ایک ذاتی خط لکھا ہے کہ وہ معلوم کریں کہ آیا انھیں یہ عہدہ پیش کرنے کا امکان ہے کیونکہ نادر شاہ، نے جن کو اس اثنا میں قتل کر دیا گیا ہے انھیں افغانستان میںایک نئی یونی ورسٹی قائم کرنے کی دعوت دی تھی۔ سمر میں ہی مسٹر فِشر نے اس معاملے پر وائس چانسلر سے بات کی تھی جو ٹرسٹیز کے ساتھ مشترکہ طور پر اس عہدے پر تقرری کرنے کے مجاز ہیں۔ وائس چانسلر نے اس بات سے اتفاق کیا کہ وہ ایک مناسب امیدوار ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سیاسی نقطۂ نگاہ سے بھی اُن کی تقرری سود مند ثابت ہوگی اور ہندوستان میں ہماری ساتھی مسلمان رعایا کے لیے باعث اطمینان ہو گی۔ اگرچہ یہ بات بھی ہے کہ جب تک ہم لوگوں میں اس بات کا چرچا نہیں کرتے جیسا کہ میں نے ذاتی طور پر کرنے کی کوشش کی ہے کہ مسٹر شاستری کو قبل ازیں دعوت دی گئی تھی اور انھوں نے انکار کر دیا تھا، ہندو کچھ کچھ بُرا مانیں گے۔ مالیات کے سوا باقی تمام وجوہات کی بنا پر میں اس تقرری کی سفارش کرتا ہوں۔ مالی مسئلے کا دارو مدار اس بات پر ہے کہ ٹرسٹیز سکالر شپ کے تیسرے سال کے بارے میں کیا سوچتے ہیں ۔ /…/…/ [۷] ڈاکٹر سر محمد اقبال، کے ٹی ایم اے، پی ایچ ڈی بیرسٹر ایٹ لا لاہور ۱۴؍جنوری ۱۹۳۴ئ* مائی ڈیئر لارڈ لوتھین آپ کے مشفقانہ خط کا بہت بہت شکریہ ۔یہ مجھے آج صبح ہی وصول ہوا ہے اور اسی سے مجھ پر رہوڈز لیکچر شپ کے مقاصد واضح ہوئے ہیں۔ میں یقینا کسی ایسے موضوع کا انتخاب کروں گا جو سامعین کے وسیع حلقے کے لیے کشش کا باعث ہو۔ دراصل یہ بات پہلے سے ہی میرے ذہن میں تھی لیکن میں یہ محسوس کرتا تھا کہ آکسفورڈ یونی ورسٹی کے لیے کوئی زیادہ علمی قسم کا موضوع قابل ترجیح ہوگا تاہم آپ نے خط میںجو کچھ لکھا ہے اُس کی روشنی میں اب میں کسی اور موضوع کے بارے میں سوچوں گا۔ لیکن مجھے ڈر ہے کہ ۱۹۳۴ء میں لیکچر پیش کرنا میرے لیے ممکن نہ ہوگا۔ اب تک تو میں نے ’’زمان و مکان‘‘ کے بارے میں مواد اکٹھا کیا ہے اور ان تمام مہینوں کے دوران یہی موضوع میرے ذہن میں رہا ہے۔بد قسمتی کی بات یہ ہے کہ رہوڈز لیکچرز کے مقاصد سے میری لا علمی کی وجہ سے اس قدر وقت ضائع ہوا۔ گذشتہ خط میں ۱۹۳۴ء میںلیکچر دینے سے قاصر ہونے کی ساری وجوہات میں نے آپ کو نہیں لکھی تھیں۔ ایسا کرنا غیر ضروری بھی تھا۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں ہندوستان میں لٹریچر ذریعۂ روز گار نہیں ہے۔ مجھے اپنی روزی پیشۂ وکالت سے کمانی ہوتی ہے ۔ گول میز کانفرنس کے ممبر کی حیثیت سے مجھے کئی کئی ماہ مسلسل ہندوستان سے باہر رہنا پڑتا تھا۔ اس سے پیشہ وارانہ طور پر مجھے کافی نقصان ہوا ہے چنانچہ مجھے کھویا ہوا کام دوبارہ حاصل کرنا ہے کیونکہ میری آمدن کا صرف یہی ایک ذریعہ ہے۔ اس لیے اس سمت میںکوشش کرنا میرے لیے بہت ضروری ہے۔ پچھلی دفعہ آپ کو لکھتے وقت میں محسوس کرتا تھا کہ تقریباً دو سال تک مسلسل قیام سے میں اس قابل ہو جائوں گا کہ کسی حد تک اپنا کھویا ہوا کام دوبارہ حاصل کر لوں۔ میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ میں نے جو اس قدر بے تکلفی سے یہ وجہ بیان کی ہے اس پر مجھے معاف فرمائیں کیونکہ آپ سے کم ہمدرد شخص سے میں اس کا ذکر کبھی نہ کرتا۔ اس امید کے ساتھ کہ آپ بخیریت ہوں گے اور آپ کی تمام مہربانیوں کے لیے شکر گزاری کے ساتھ ۔ آپ کا مخلص محمد اقبال /…/…/ *- مکتوب نمبر ۹۸۸ اور تاریخ وصولی ۲۶؍جنوری ۱۹۳۴ء ہے۔ [۸] In England(Jan-1933) Message Form. 5/17 A-99 IMPERIAL AND INTERNATIONAL COMUNICATIONS LIMITED.* S W 43 Lahore 8 15 1255 W =LC= Augury LN= افسوس نا ممکن اس سال = اقبال + + No Enquiry Respecting This Telegram Can be Attended to Without Production of This Copy Replies Should be Handed in At One of The Company's Offices. /…/…/ *- اس تار کے اوپر تین مہریں ثبت ہیں۔ پہلی مہر میں درج ہے: 20 SWALLOW ST. W.1 15 JAN. 1934 REGENT 8244 دوسری مہر میں DEFERRED RATE کے الفاظ درج ہیں۔ تیسری مہر رہوڈز ٹرسٹ کی ہے جس کے مطابق یہ تار ۱۵؍جنوری ہی کو ٹرسٹ کو موصول ہوگیا، اس کا مکتوب نمبر واضح نہیں ہے۔ [۹] سکار ٹاپ بورز ہِل آکسفورڈ ۱۶؍جنوری ۱۹۳۴ئ* مائی ڈیئر لوتھین اقبال کی نفسیات، جیسا کہ میں سمجھا ہوں، یہ ہے: وہ ذات کا برہمن اور اُس پر مستزاد کشمیری ہے اور ہکسر، سپرو اور نہرو خاندانوں کی قبیل سے تعلق رکھتا ہے۔ اس وجہ سے اُس کا جبلی رجحان مابعد الطبیعیاتی امور کی طرف ہے اور وہ محمڈنزم پر اس الزام کے بارے میں بہت حساس ہے کہ یہ ایک بنجر اور پست درجے کا مذہب ہے جو جنگلی اقوام اور حبشیوں کے لیے ہی مناسب ہے اور اس میں کوئی ایسا مابعد الطبیعیاتی مواد نہیں ہے جو ذہن کی غذا بن سکے۔ چنانچہ اس معاملے میں یہ عیسائیت اور ہندومت سے نہایت ہی کم تر ہے۔اس کی شدید خواہش ہے جیسا کہ اُس کے لیکچروں سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ وہ مابعد الطبیعیاتی نقطۂ نظر سے دنیا کے نقشے پر اسلام کو بھی جگہ دلوا دے۔ اُس کے ذہن پر آئن شٹائن سوار ہے اور ہماراڈن(زمان میں ایک تجربہ) اور دیگر بھی۔ وہ آئن شٹائن کا مقابلہ کرنا چاہتا ہے اور یہ ثابت کرنا چاہتا ہے کہ اسلام ایک عظیم فلسفہ رکھتا ہے اور اس کے فلسفی بھی عظیم ہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ آکسفورڈ اور اُس کے پیش رو رہوڈز لیکچرر کے ناموں نے اُس کے اندر ہوا بھر دی ہے اور وہ محسوس کرنے لگا ہے کہ جس قسم کا کھیل دکھانے کی اُس سے توقع کی جا رہی ہے اُسے کھیلنے کی تیاری کے لیے اُسے پورا وقت نہیں دیا گیا۔ میں اُس سے کہنا چاہوں گا کہ آپ کے خط جو اُسے چند دنوں تک مل جائے گا، کی روشنی میں وہ اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرے۔ اُسے ابھی تک آپ کا خط نہیں ملا اور اُس پرابھی تک یہی دھن سوار ہے کہ یہاں آ کر دنیا کو ہلا دینے والا فلسفہ بگھارے، بجائے اس کے کہ وہ اسلام کی کوئی مزیدار اور اچھی تصویر پیش کرے۔ آپ کا مخلص ای، تھامپسن /…/…/ *- اس خط کا مکتوب نمبر بمطابق مہر رہوڈز ٹرسٹ ۹۶۲ ہے، ۱۷؍جنوری ۱۹۳۴ء کو یہ ٹرسٹ کو موصول ہوا۔ [۱۰] [اقتباس از رپورٹ نمبر ۲۸۴] ۱۹؍جنوری۱۹۳۴ء فیصلے کے لیے رہوڈز میموریل لیکچر شپ سر محمد اقبال ٹرسٹیز اور وائس چانسلر کے فیصلے کے مطابق سر محمد اقبال کو سال ۱۹۳۴ء میں رہوڈز میموریل لیکچرر بننے کی دعوت جاری کی گئی تھی۔ بعد میں مجھے اُن کا خط ملا جس میں انھوں نے شکریے کے ساتھ لیکچر شپ قبول کر لی اور کہا کہ وہ ’’ مسلم فکر کی تاریخ میں زمان و مکان‘‘ کو اپنے لیکچروں کا موضوع بنانا چاہتے ہیں اور یہ کہ اگلی سمر تک انھیں ان لیکچرز کی تیاری کے لیے کافی وقت نہیں ملے گا چنانچہ کیا لیکچر شپ کو ۱۹۳۵ء تک ملتوی کیا جا سکے گا یا نہیں؟ ایڈورڈ تھامپسن جو اُن سے اچھی طرح واقف ہے، سے مشورہ کرکے میں نے انھیں لکھا اور ایڈورڈ تھامپسن نے بھی لکھا اور انھیں سمجھایا کہ رہوڈز میموریل لیکچروں کا مقصد اتنے تخصص کے حامل سوال پر بحث نہیں ہے بلکہ عصری سیاست یا فکر کے کسی اہم پہلو کا عمومی جائزہ پیش کیا جائے جیسا کہ سمٹس، بورڈن اور فلیکسز نے اپنے لیکچروں میں کیا تھا۔ اور میں نے اُن سے پوچھا تھا کہ کیا وہ کوئی ایسا موضوع جیسے ’’اسلام جدید دنیا میں‘‘ نہیں چن سکتے تاکہ اگلی سمر میں آکسفورڈ آ جائیں۔اب مجھے مندرجہ ذیل تار موصول ہوا ہے ’’افسوس نا ممکن اس سال ‘‘ بلاشبہ اس کی وجہ یہ حقیقت ہو سکتی ہے کہ نئی افغان یونی ورسٹی کے قیام کے سلسلے میں انھیں کابل جانا ہے اور یقینا اس کے بعد ایک خط بھی آئے گا۔ /…/…/ [۱۱] ۲۸؍فروری ۱۹۳۴ء جناب والا مجھے ہدایت کی گئی ہے کہ آپ کو مندرجہ ذیل اطلاع ارسال کروں ۔میں آپ کا بہت زیادہ ممنون ہوں گا اگر آپ براہ مہربانی اسے اخبارات میں تقسیم کر دیں: ’’وائس چانسلر یونی ورسٹی آف آکسفورڈ اور رہوڈز ٹرسٹیز نے سر محمد اقبال کو سال ۱۹۳۵ء کے لیے رہوڈز میموریل لیکچرر منتخب کیا ہے۔ رائٹ آنریبل وی ایس سری نواس شاستری سی ایچ کو سال ۱۹۳۴ء کے لیے لیکچرر بننے کی دعوت دی گئی تھی لیکن انھیں ڈاکٹر کی ہدایت کے مطابق انکار کرنا پڑا۔‘‘ میں ہوں جناب والا دی ٹائمز،ای۔ سی ۴ آپ کا فرماں بردار خادم دی ایڈیٹر ای ایف ایم ایسوسی ایٹڈپریس آف امریکہ اسسٹنٹ سیکرٹری ۹۔کارمیلائٹ سٹریٹ، ای سی ۴ دی ایڈیٹر پریس ایسوسی ایشن لمیٹڈ بائرن ہائوس، ۸۵ فلیٹ سٹریٹ، ای سی ۴ رائٹرز [۱۲] ۶؍مارچ ۱۹۳۴ء ڈیئر سر محمد مجھے بہت خوشی ہورہی ہے کہ میں آپ کو یہ اطلاع دینے کے قابل ہوا کہ وائس چانسلر آف دی یونی ورسٹی آف آکسفورڈ اور رہوڈز ٹرسٹیز نے آپ کو آپ ہی کے تجویز کردہ سال ۱۹۳۵ء کے لیے رہوڈز میموریل لیکچرر مقرر کیا ہے۔ میرا گمان ہے کہ آپ اگلے سال کی سمر ٹرم جو، ۲۰؍اپریل کے لگ بھگ شروع ہو کر تقریباً ۲۰؍جون تک چلتی ہے، کے دوران آکسفورڈ میںقیام پذیر ہوں گے۔ میں اس بات پر بہت خوش ہوں کہ آپ نے اپنے لیکچرز میں اس قسم کے موضوع پر بحث کرنے کی راہ تلاش کر لی ہے جو رہوڈز لیکچرز کا اُصول رہے ہیں۔ اس سال کے آخر میں لیکچروں کے عنوان کے بارے میں مَیں آپ سے مزید مشورہ کروں گا کیونکہ اگلے سال کے آغاز میں یونی ورسٹی مطبوعات میں اس عنوان کا اعلان کرنا ضروری ہوگا۔ میں آکسفورڈ میں آپ سے ملاقات کا بڑی بے چینی سے منتظر ہوں۔ آپ کا مخلص ایل (L) سر محمد اقبال، ایم اے، پی ایچ ڈی لاہور،انڈیا /…/…/ [۱۳] ڈاکٹر سر محمد اقبال، کے ٹی ایم اے، پی ایچ ڈی، ایل ایل ڈی بیرسٹر ایٹ لا لاہور ۲۸؍مارچ ۱۹۳۴ء * مائی ڈیئر لارڈ لوتھین آپ کے مشفقانہ خط کا بہت بہت شکریہ جو کہ مجھے چند دن پہلے ہی موصول ہوا ہے۔ میں آپ کو جلد جواب دینا چاہتا تھا لیکن بدقسمتی سے دو بار ہوائی ڈاک کا وقت نکل گیااور اب میں یہ خط عام ڈاک کے ذریعے لکھ رہا ہوں۔ اپنے رہوڈز لیکچرز کے ضمن میں مَیں مندرجہ ذیل عارضی تجاویز پیش کرنا چاہتا ہوں اور اس بارے میں آپ کے خیالات یا مشورے حاصل کرنا چاہوں گا۔ آپ کی رائے سے آگاہی میرے لیے بہت سود مند ہو گی۔ امید ہے آپ مجھے یہ بتانے کی کرم فرمائی کریںگے کہ میری تجویز کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے۔ تین لیکچرز پیش کیے جائیں جو حسبِ ذیل ہیں : ۱۔ ایک عالمی تحریک کے طور پر اسلام کا مفہوم ۲۔ اسلامی قانون : اس کی معاشی اہمیت ۳۔ ہندوستانی مسلمان: اُن کا ماضی، حال اور مستقبل اوپر ۱، ۲، ۳ کے الفاظ میں معمولی تبدیلی ہو سکتی ہے۔ عام عنوان ہم یہ رکھ سکتے ہیں : اسلام اور جدید دنیا۔ انگلستان میں آپ سے دوبارہ ملاقات کا اعزاز حاصل کرنے پر مجھے بے حد مسرت ہوگی لیکن شاید میرے انگلستان جانے سے پہلے ہندوستان میں ہی ہماری ملاقات ہو جائے ۔ آپ کا مخلص محمد اقبال /…/…/ *- بمطابق مہر رہوڈز ٹرسٹ اس کا مکتوب نمبر ۱۱۹۷ ہے۔ یہ ۱۶؍اپریل ۱۹۳۴ء کو ٹرسٹ کو موصول ہوا۔ [۱۴] ڈاکٹر سر محمد اقبال، کے ٹی ایم اے پی ایچ ڈی، ایل ایل ڈی بیرسٹر ایٹ لا لاہور یکم اکتوبر ۱۹۳۴ء * مائی ڈیئر لارڈ لوتھین مجھے ڈر ہے کہ میر ایہ خط آپ کے لیے اور رہوڈز ٹرسٹیز کے لیے کچھ پریشانی کا باعث ہو گا۔ میں پچھلے چھ ماہ سے بیمار ہوں اور ابھی تک صحت یاب نہیں ہوا۔ چھ ماہ پہلے مجھ پر انفلوئنزا کا حملہ ہوا تھا جس سے میری آواز پر بہت بُرا اثر پڑا ہے۔ یہاں کے ڈاکٹر میری حالت میں بہتری لانے سے قاصر رہے ہیں۔ اس وقت میں دہلی کے ایک بزرگ حکیم کے زیر علاج ہوں۔ اگر وہ بھی ناکام رہے تو مجھے وی آنا جانا پڑے گا اور وہاں کئی ماہ تک قیام کرنا ہوگا۔ مجھ پر بہت بڑی آفت آن پڑی ہے جس سے میرے روز مرہ کے کام میں بڑا حرج واقع ہوا ہے اور میرے تمام منصوبے تہ و بالا ہو گئے ہیں۔ میں یہ خط آپ سے یہ درخواست کرنے کے لیے لکھ رہا ہوں کہ آپ ٹرسٹیز سے میرے لیکچرز اُس وقت تک ملتوی کرنے کے لیے کہیں جب تک میری آواز معمول کی حالت پر واپس نہیں آ جاتی ۔ مجھے انتہائی افسوس ہے کہ ایسا ہو گیا لیکن مجھے سوائے اس کے کوئی اور راستہ نہیں سوجھ رہا کہ موجودہ حالات میں ٹرسٹیز سے کر م فرمائی کرنے کی درخواست کروں۔ اس امید کے ساتھ کہ آپ بخیریت ہوں گے اور آپ کی تمام مہربانیوں کے لیے شکرگزاری کے ساتھ ۔ آپ کا مخلص محمد اقبال /…/…/ *- بمطابق مہر رہوڈز ٹرسٹ اس کا مکتوب نمبر ۱۵۰۴ ہے اور یہ ۸؍اکتوبر ۱۹۳۴ء کو ٹرسٹ کو موصول ہوا۔ [۱۵] [اقتباس از رپورٹ نمبر ۲۹۰] غور کے لیے رہوڈز میموریل لیکچر شپ ۳۴-۱۱-۲ [یہاں ’’سر محمد اقبال کا مکتوب‘‘ کے زیر عنوان اقبال کے گذشتہ خط کامکمل متن درج کرنے کے بعد لکھا گیا ہے:] سر محمد اقبال نے سمر ٹرم ۱۹۳۵ء میں آکسفورڈ میں قیام کرنا تھا۔ یونی ورسٹی حکام کو غیر رسمی طور پر اُن کی بیماری سے مطلع کر دیا گیا ہے اور ٹرسٹیز کے اگلے اجلاس کے بعد اُن کی طرف سے کوئی اطلاع نامہ مل جائے گا۔ سیکرٹری کا تبصرہ اقبال کے خط کے پیش نظر اس کے سوا اور کچھ نہیں ہو سکتا کہ اگلی سمر کے لیے اُن کے لیکچرز کی منسوخی کو منظور کر لیا جائے اور ۱۹۳۶ء میں اُن کی تقرری کی تیاری کی جائے بشرطیکہ وہ اگلے سال کے وسط تک صحت یاب ہو جائیں اور اُن کی آواز بحال ہو جائے ۔ تاہم یہ سوال ابھی باقی ہے کہ آیا ٹرسٹیز اگلی سمر کے لیے کوئی متبادل تلاش کرنا چاہیں گے یا نہیں۔ اس سلسلے میں صرف ایک پرانے رہوڈز سکالر ڈاکٹر ہُبل کا نام لیا گیا ہے جو کیلی فورنیا کی مائونٹ ولسن آبزرویٹری میں بڑا نام کما چکے ہیں۔ اس سمر میں انھیں آکسفورڈ میں ڈی ایس سی (D.Sc) کی اعزازی ڈگری بھی عطا کی گئی تھی۔ /…/…/ [۱۶] ۳۴-۱۱-۶ ۱۱۱۵ رہوڈز میموریل لیکچر شپ ٹرسٹیز کو اس امر سے آگاہی حاصل ہوئی کہ سرمحمد اقبال خرابیِ صحت کی بنا پر سال ۱۹۳۵ء کے رہوڈز میموریل لیکچرز دینے کے لیے انگلستان آنے سے قاصر ہیں اور یہ کہ انھوں نے اپنے لیکچرز کو ایک سال کے لیے ملتوی کرنے کی درخواست کی ہے۔ /…/…/ [۱۷] ۹؍نومبر ۱۹۳۴ء ڈیئر مسٹر وائس چانسلر رہوڈز ٹرسٹیز نے مجھے ہدایت کی ہے کہ آپ کو مطلع کردوں کہ انھیں سر محمد اقبال کا منسلکہ خط موصول ہوا ہے ۔ آپ کو یاد ہوگاکہ رہوڈز ٹرسٹیز کے ساتھ آپ نے اتفاق کیا تھا کہ ان کو ۱۹۳۵ء کی سمر ٹرم میں رہوڈز میموریل لیکچرز دینے کی دعوت دی جائے۔ ٹرسٹیز کو بڑا افسوس ہے کہ بیماری نے سر محمد اقبال کو اس سال کے لیے یونی ورسٹی اور ٹرسٹیز کی دعوت قبول نہ کرنے پر مجبور کر دیا ہے اور انھیں اس بات پر کوئی اعتراض نہیں ہے کہ اُن کی لیکچر شپ کو سال ۱۹۳۶ء میں منتقل کر دیا جائے بشرطیکہ سر محمد اقبال اگلے سال کے وسط تک اس قدر صحت یاب ہو جائیں کہ وہ آنے کے قابل ہیں ۔سال ۱۹۳۵ء کے لیے اُن [ٹرسٹیز] کے پاس متبادل امیدوار کی کوئی تجویز نہیں۔ آپ کا مخلص ایل (L) سیکرٹری دی وائس چانسلر ورسٹر کالج،آکسفورڈ /…/…/ [۱۸] ۱۸؍ جنوری ۱۹۳۵ء ڈیئر سر محمد میں آپ کو خط لکھنے ہی والا تھا یہ پوچھنے کے لیے کہ اب آپ کی صحت کیسی ہے اور کیا اب کوئی امکان ہے کہ آپ آکسفورڈ کی اگلی سمر ٹرم میں رہوڈز لیکچر دینے کے قابل ہیں یا ہمیں اب ۱۹۳۶ء تک انتظار کرنے کا ارادہ کر لینا چاہیے۔ مجھے معلوم ہوا کہ میری فائلوں میں ایسا کوئی ثبوت نہیں کہ ہم نے آپ کے یکم اکتوبر کے خط کا جواب دیا تھا۔ ٹرسٹیز نے اپنے ۶ نومبر کے اجلاس میں آپ کے خط پر غور کیا تھا اور انھوں نے آپ کی درخواست کو منظور کرنے کا فیصلہ کیا تھا بعد میں ہم نے یونی ورسٹی کے وائس چانسلر سے بھی اس فیصلے کی توثیق کروا لی تھی۔اگر یہ صحیح ہے تو میں اس یکسر غیر ارادی فرو گذاشت پر آپ سے دلی طور پر معذرت خواہ ہوں۔ ٹرسٹیز نے اپنی اس بھرپور امید کا اظہار کیا کہ آپ تیزی سے صحت یاب ہو جائیں گے اور اس خط کا اصل مقصد یہ معلوم کرنا ہے کہ آپ کے مزاج کیسے ہیں اور آپ کے آکسفورڈ آنے کے کیا امکانات ہیں۔ خفی طور پر مجھے اب بھی امید ہے کہ آپ کی طبیعت اس قدر بہتر ہو جائے گی کہ آپ اسی سمر میں آکسفورڈ آنے کے قابل ہو جائیں گے۔ آپ کا مخلص ایل (L) سر محمد اقبال ایم اے، پی ایچ ڈی، ایل ایل ڈی لاہور، انڈیا /…/…/ [۱۹] ڈاکٹر سر محمد اقبال، کے ٹی ایم اے، پی ایچ ڈی، ایل ایل ڈی بیرسٹرایٹ لا لاہور ۲۶؍ جنوری ۱۹۳۵ئ* مائی ڈیئر لارڈ لوتھین آپ کے مشفقانہ خط کا بہت بہت شکریہ جو آج صبح ہی میں نے پڑھا۔ میرے لیکچرز کو ملتوی کرنے پر میں ٹرسٹیز کا بہت ممنون ہوں اور آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ براہ کرم میرا شکریہ اُن تک اور وائس چانسلر تک پہنچا دیں۔میری طبیعت ابھی تک خراب ہے۔ اعلیٰ حضرت نواب صاحب بھوپال نے مجھے بھوپال بلایا ہے جہاں انھوں نے میری آواز کے برقی علاج کے خاص انتظامات کیے ہیں۔ مَیں ایک دو دن میں وہاں جانے والا ہوں اور وہاں میرا قیام تقریباً ایک ماہ رہے گا۔ اگر اس علاج میں بھی ناکامی ہوئی اور میری آواز میں کوئی بہتری نہ آئی تو میں وی آنایا برلن جانے کے بارے میں سوچوں گا۔ لیکن مجھے ڈر ہے کہ میں ۱۹۳۵ء میں لیکچر دینے کے قابل نہ ہو سکوں گا۔ اس امید کے ساتھ کہ آپ بخیر ہوں گے اور آپ کی ساری مہربانیوں پر شکریے کے ساتھ۔ آپ کا مخلص محمد اقبال /…/…/ *- دی رہوڈز ٹرسٹ کی مہر کے مطابق اس کا مکتوب نمبر ۱۷۵۶ ہے اور وصولی ۷؍فروری ۱۹۸۳۵ء کو ہوئی۔ [۲۰] ڈاکٹر سر محمد اقبال، کے ٹی ایم اے، پی ایچ ڈی، ایل ایل ڈی بیرسٹرایٹ لا لاہور ۱۵؍اپریل ۱۹۳۵ئ* مائی ڈیئر لارڈ لوتھین [میں بھوپال سے پچھلے ماہ واپس آیا ہوں ۔ میری آواز میں معمولی بہتری آئی ہے لیکن علاج پورا ایک سال جاری رکھنا ہوگا بلکہ ضرورت پڑی تو ایک سال سے بھی زیادہ۔ مئی کے آخر میں مجھے برقی علاج کے دوسرے مرحلے کے لیے بھوپال جانا ہوگا اور دس ہفتوں کے وقفے کے بعد دوبارہ جانا پڑے گا۔ چونکہ دل بھی اس عارضے کی لپیٹ میں آ گیا ہے اس لیے مجھے مشورہ دیا گیا ہے کہ علاج کے دوران اپنے دماغ اور جسم کو مکمل آرام دوں۔ بار بار رہوڈز ٹرسٹیز سے مہربانی کی درخواست کرنے پر مجھے حجاب آتا ہے اور میںیہ خط آپ کو یہ اطلاع دینے کے لیے لکھ رہا ہوں کہ جب تک میں پوری طرح صحت یاب نہ ہو جائوں میرے لیے لیکچر دینا ممکن نہ ہو گا۔ مجھے پوری امید ہے کہ اندریں حالات ٹرسٹیز مہربانی کرکے مجھ سے اتفاق کریں گے۔ تاہم اگر ایسا ممکن نہیں تو مجھے ڈر ہے کہ جو اعزاز انھوں نے اتنی فیاضی سے مجھے بخشا ہے اس سے میں محروم رہ جائوں گا۔اس کے ساتھ مجھے یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ آپ نے اس معاملے میں جو دلچسپی لی ہے اس پر میں آپ کا شکر گزار ہوں۔ میں آپ کی اور رہوڈز ٹرسٹیز کی مہربانی کو کبھی فراموش نہ کروں گا۔] آپ کامخلص محمد اقبال *- مکتوب نمبر ۱۸۹۰، وصولی ۲۳؍اپریل ۱۹۳۵ئ۔ [۲۱] [اقتباس از رپورٹ نمبر۲۶۹۴] ۳۵.۵. M فیصلے کے لیے رہوڈز میموریل لیکچر شپ [یہاں ’’سر محمد اقبال کا خط‘‘ کے عنوان کے تحت اقبال کے ۱۵؍اپریل ۱۹۳۵ء کے خط کا مکمل متن درج کیا گیا ہے۔] سیکرٹری کا تبصرہ میرا خیال ہے کہ ہمیں اقبال کو بتا دینا چاہیے کہ وہ ۱۹۳۶ء میں آکسفورڈ آ سکتے ہیں لیکن اگر وہ ایسا کرنے سے قاصر ہوتے ہیں تو ٹرسٹیز کو ۱۹۳۷ء میں کسی اور کا تقرر کرنا ہوگا۔ /…/…/ [۲۲] [ٹرسٹیز کا فیصلہ] ۳۵.۵. ۲۱ ۱۷۷ رہوڈز میموریل لیکچر شپ سر محمد اقبال کا ۱۵؍ اپریل ۱۹۳۵ء کا خط زیر غور لایا گیا۔ ٹرسٹیز نے فیصلہ کیاکہ انھیں ۱۹۳۵ء کے اختتام سے پہلے معلوم ہو جانا چاہیے کہ آیا سر محمد اقبال ۱۹۳۶ء میں رہوڈز میموریل لیکچر دینے کے لیے آکسفورڈ آ سکتے ہیں یا نہیں۔ سیکرٹری کو ہدایت کی گئی کہ وہ اس مفہوم کا خط انھیں لکھیں اور ڈاکٹر ہُبل (الی نائے ۱۹۱۰) کو بھی خط لکھیں اور انھیں دعوت دیں کہ جب بھی وہ مائونٹ ولسن آبزر ویٹری میںنئی دور بین سے حاصل کردہ نتائج پر رپورٹ پیش کرنے کی پوزیشن میںہوں تو رہوڈز میموریل لیکچر پیش کریں۔ /…/…/ [۲۳] ۲۷؍مئی ۱۹۳۵ء ڈیئر سر محمد اپنے گذشتہ اجلاس میں رہوڈز ٹرسٹیز کو یہ سن کر افسوس ہوا کہ آپ ابھی تک علالت سے پوری طرح صحت یاب نہیں ہوئے۔ وہ بخوشی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ طبیعت بحال ہونے پر آپ ۱۹۳۶ء کی سمر میں رہوڈز میموریل لیکچر پیش کریں۔ لیکن انھیں امید ہے کہ اس سال کے آخر تک آپ انھیں مطلع کر دیں گے کہ آیا آپ ۱۹۳۶ء کی سمر ٹرم میں آکسفورڈ آ سکیں گے یا نہیں ۔ اگر بدقسمتی سے آپ نہ آ سکیں تو وہ محسوس کرتے ہیں کہ انھیں کسی دوسرے لیکچرر کو بلانا ہوگا کیونکہ یہ چیئر چند سالوں سے خالی چلی آ رہی ہے اور انھیں اس چیئر پر تقرری کے لیے وقت چاہیے۔ نیک تمنائوں کے ساتھ آپ کا مخلص ایل (L) سیکرٹری سر محمد اقبال، ایم اے، پی ایچ دی، ایل ایل ڈی لاہور،ایڈیا /…/…/ [۲۴] ڈاکٹر سر محمد اقبال کے ٹی ایم اے پی ایچ ڈی، ایل ایل ڈی بیرسٹرایٹ لا لاہور ۲۲؍جون ۱۹۳۵ئ* مائی ڈیئر لارڈ لوتھین آپ کے مشفقانہ خط کا بہت بہت شکریہ جو مجھے کل ہی موصول ہوا ہے۔ میری صحت ابھی بحال نہیں ہوئی اور علاج ایک سال مزید جاری رہے گا۔ میں پچھلے پندرہ ماہ کے دوران میں انتہائی نامساعد حالات سے گذرا ہوں اور اس پر مستزاد ایک عظیم افتاد مجھ پر آپڑی ہے جو میری عمر کے آدمی پر پڑ سکتی ہے۔ گذشتہ ماہ میری اہلیہ اچانک وفات پاگئیں۔ انھوں نے دو بچے چھوڑے ہیں جن کی عمریں ۱۱اور ۵ سال ہیں اور اُن کی آخری خواہش تھی کہ جب تک یہ بچے بالغ نہ ہو جائیں انھیں اپنی نظروں سے اوجھل نہ ہونے دوں ۔اُن کی دیکھ بھال کرنے والا کوئی نہیں اور میں انھیں کسی با تنخواہ گورنس کی نگرانی میںنہیں دینا چاہتا۔ اس وجہ سے میرے لیے قلیل مدت کے لیے بھی ہندوستان چھوڑنا ممکن نہیں لہٰذا مجھے اُس عظیم اعزاز سے دستبردار ہونا پڑے گا جو رہوڈز ٹرسٹیز نے اتنی فیاضی سے مجھے بخشا ہے۔ براہ کرم میرا دلی شکریہ اُن تک پہنچا دیجیے اور انھیں وجہ بھی بتا دیجیے کہ اب میرے لیے کیوں یہ ممکن نہیں کہ انگلستان آ کر آکسفورڈ میںلیکچر پیش کروں۔ اس امید کے ساتھ کہ آپ بخیریت ہوں گے اور آپ کی تمام مہربانیوں پر شکریے کے ساتھ۔ آپ کا مخلص محمد اقبال *- رہوڈز ٹرسٹ کی مہر کے مطابق اس کا مکتوب نمبر ۲۰۸۷ ہے۔ یہ ۱۵؍جولائی ۱۹۳۵ء کو موصول ہوا۔ اس پر ’’وائس چانسلر کو بھیجا جائے۔‘‘ کے الفاظ درج ہیں۔ [۲۵] ۱۹۳۵۔۷۔۲۳ ۱۲۰۸- رہوڈز میموریل لیکچر شپ ٹرسٹیز نے سر محمد اقبال کے ۲۲ جون ۱۹۳۵ء کے خط پر غور کیا جس میںانھوںنے معذرت کی ہے کہ حالات نے اُن کے لیے رہوڈز میموریل لیکچر شپ قبول کرنا نا ممکن بنا دیا ہے۔ سیکرٹری سے درخواست کی گئی کہ وہ ڈاکٹر ہُبل سے معلوم کریں کہ کیا وہ دعوت قبول کرنے کی پوزیشن میںہیں یا کب ہو سکتے ہیں۔ /…/…/ [۲۶] ۲۵؍جولائی ۱۹۳۵ء مائی ڈیئر سر محمد رہوڈز ٹرسٹیز اور مجھے ذاتی طور پر بہت مایوسی ہوئی ہے کہ آپ رہوڈز لیکچرز دینے کے لیے آکسفورڈ آنے سے قاصر ہیں۔ ہمیں اور بھی زیادہ افسوس اُن حالات پر ہوا جن کی وجہ سے لیکچرشپ سے دستبردار ہونا آپ کے لیے ضروری ہو گیا۔یہاں بہت سے لوگ آپ کو سننے اور دوبارہ ملنے کے بڑی بے چینی سے منتظر تھے شاید مستقبل میں اس معاملے پر دوبارہ غور کرنے کا موقع نکل آئے۔ آپ کا مخلص ایل (L) سر محمد اقبال، ایم اے، پی ایچ ڈی۔ ایل ایل ڈی لاہور،انڈیا /…/…/ علامہ اقبال کا آکسفورڈ جانے سے انکار اقبال آکسفورڈ کی رہوڈز لیکچر شپ سے دستبردار کیوں ہوئے؟ اس بارے میں اُن کے سوانح نگاروں اور دوسرے لوگوں نے مختلف آراء پیش کی ہیں جن کا جائزہ ہم یہاں لیں گے۔ آغاز میںضروری معلوم ہوتا ہے کہ رہوڈز ٹرسٹ جس کے زیر اہتمام ان لیکچرز کا انعقاد ہوتا تھا، کا مختصر تعارف، لیکچرز کی نوعیت اور ۳۵-۱۹۳۴ء کے سیاسی حالات کو بیان کر دیا جائے جس سے موضوع کی تفہیم میں مدد ملے گی۔ رہوڈز ٹرسٹ کا بانی جنوبی افریقہ میں برطانوی استعمار کا معمار سیسل جان رہوڈز (Cecil John Rhodes) (۱۹۰۲ء - ۱۹۵۳ئ) تھا۔کیپ سے قاہرہ تک برطانوی استعمار کو براعظیم افریقہ میں استوار کرنے کے علاوہ رہوڈز نے ہیروں کی کان کنی اور دنیا بھر میں ہیرے فروخت کرنے کی عظیم الشان فرم De Beers Mining Company قائم کی اور بے تحاشا دولت اکٹھی کی۔ ۱۹۰۲ء میں اپنی وفات کے وقت اُس نے ایک قیمتی گھر اور تیس لاکھ پائونڈ کے اثاثے سے آکسفورڈ میں ’رہوڈز فائونڈیشن‘ کی بنیاد رکھی۔ اس فائونڈیشن کے دو مقاصد تھے: ۱) برٹش نو آبادیوں، ریاست ہائے متحدہ امریکہ اور جرمنی سے طلبہ کو آکسفورڈ آنے کی دعوت دی جائے۔ رہوڈز کا مقصد یہ تھا کہ طلبہ لیڈر شپ کی خصوصیات کے حامل اور نمایاں کردار کے مالک ہوں تاکہ دوسرے ممالک کے طلبہ کے ساتھ تعلیم حاصل کرنے کے بعد جب یہ طلبہ اپنے ملکوں کو واپس جائیں تو وہاں اپنے پیشوں میں مؤثر اور قائدانہ کردار ادا کریں ۔ ۲) آکسفورڈ یونی ورسٹی میں لیکچر دینے کے لیے ایسے لوگوں کو دعوت دی جائے جو اعلیٰ قابلیت کے حامل ہوں اور اپنے میدان کار میںصف اوّل کی شخصیت ہوں۔ ان لیکچروں کے گرد جو ہالۂ تقدس قائم کر دیا گیا تھا اسے ایڈورڈ تھامپسن نے پنڈت جواہر لال نہرو کے نام ایک خط میں یوں بیان کیا ہے: سب سے اعلیٰ اعزاز جس سے یہ قدیم یونی ورسٹی کسی شخص کو نواز سکتی ہے وہ اُس کو رہوڈز میموریل لیکچر پیش کرنے کی دعوت دینا ہے۔ یہ ایک نہایت منفرد کام ہے۔ عام طور پر لیکچرر کو آل سولز کالج (All Souls College) کے کامن روم کا ممبر بنا لیا جاتا ہے۔ غالباً یہ سب سے بہترین جگہ ہے جہاں وہ ہمارے تمام سر کردہ سیاستدانوں سے میل ملاپ کر سکتا ہے۔ لیکچرر سمر ٹرم میںیہاں آتا ہے اور اپنی صوابدید پر تین، چار یا پانچ لیکچر دیتا ہے۔ یونی ورسٹی اُس کی کافی عزت و توقیر کرتی ہے اور افتتاحی لیکچر گویا ایک شاندار تقریب ہوتی ہے۔ لیکچرر کا غیر ملکی ہونا ضروری ہے یعنی وہ اس جزیرہ (برطانیہ) سے باہر کسی ملک سے تعلق رکھتا ہو۔ یہ ہمیشہ صف اوّل کا شخص ہوتا ہے۔ سیاستدان کے لیے تو یہ لیکچر شپ ایک زریں موقع ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ یہ ایک ایسا شخص ہو جو ہمارے انڈرگریجویٹ طلبہ کے ساتھ بے تکلفانہ گفتگو کرنے کے لیے تیار ہو آپ تو جانتے ہی ہیں یعنی ایک کمرے میں طلبہ کے ایک گروپ کے ساتھ ہلکی پھلکی گفتگو۔ اس عہدے کو ہمارے ہاں بہت بڑا اعزاز سمجھا جاتا ہے۔ لیکچرر بحث کے لیے کوئی بھی موضوع منتخب کر سکتا ہے لیکن ہم چاہتے ہیں کہ وہ کسی اہم مسئلے پر اظہار خیال کرے۔ یونی ورسٹی لیکچرز کو شائع کرنے میںبھی دلچسپی رکھتی ہے۔ معلوم ہو تا ہے کہ بورڈ آف ٹرسٹیز کے ایما پر اقبال کے ساتھ ساری خط کتابت دراصل ایڈورڈ تھا مپسن نے ہی کی تھی۔ تھامپسن خود تو ٹرسٹی نہیں تھا لیکن وہ بورڈ کا مشیر اعلیٰ تھا۔ ٹرسٹیز ہندوستان کے حالات اور شخصیات کے بارے میں اس کی رائے کو بہت اہمیت دیتے تھے۔ سال ۱۹۳۵ء میں رہوڈز میموریل لیکچرز کے لیے اوّلاً ہندوستانی دانشور سری نواس شاستری کو دعوت دی گئی۔ انھوں نے دعوت قبول کرنے سے معذوری ظاہر کی تو اقبال کو دعوت دینے کا فیصلہ کیا گیا ۔ پنڈت جواہر لال نہرو کے نام خط میں ایڈورڈ تھا مپسن نے راز دارانہ لہجے میں لکھا: Iqbal and Sastri funked the job (that was my impression, which please do not repeat; I conducted the correspondence).1 ’’اقبال اور شاستری ڈر کر بھاگ گئے (کم از کم میرا تو یہی خیال تھا۔ براہ کرم یہ بات کسی کے سامنے دہرائیے گا نہیں کیونکہ خط کتابت میں نے ہی کی تھی)‘‘ آکسفورڈ کی دعوت اپنے اندر شاندار امکانات رکھتی تھی : ۱- یورپ میں سیروتفریح، آرام اور علاج کی سہولت ۲- بر طانیہ کے سیاسی رہنمائوں، اہل علم اور طلبہ سے میل ملاقات ۳- سمر کے دلفریب موسم میں ایک مؤقر یونی ورسٹی کی نشاط انگیز دانشورانہ فضا میں سانس لینا ۴- لیکچرز کی اشاعت پر رائلٹی کی آمدن ۵- لیکچرز کا اعزازیہ اقبال کے لیے تو یہ تمام امکانات بے حد کشش کا باعث ہونا چاہییں تھے، پھر انھوں نے دعوت کو رد کیوں کیا؟ اقبال کے اکثر سوانح نگاروں نے اس سوال کا جواب نہیں دیا کیونکہ انھیں لیکچرزکے بارے میںجملہ معلومات دستیاب نہیں تھیں۔ اسی وجہ سے انھوں نے اقبال کی زندگی کے اس اہم واقعے کو درخور اعتنا بھی نہیںسمجھا۔ ایک سوانح نگار نے اس واقعے کا سرسری ذکر کیا ہے اور لکھا ہے کہ ’’اقبال کو خرابی صحت کی بنا پر اس دعوت سے انکار کرنا پڑا ۔‘‘۲؎ یاد رہے سال ۱۹۳۵ء ہندوستان اور برطانیہ کے تعلقات کی تاریخ میںاہم موڑ کی حیثیت رکھتا ہے اور اِن تعلقات کو ایک خاص شکل دینے میں اقبال نے بھی غیر معمولی کردار ادا کیا تھا۔ ۱۹۲۸ء میںریلوے ہیڈ کوارٹرز لاہور کے بورڈ روم میںسائمن کمیشن کے ساتھ ایک طویل انٹرویو میںاقبال نے بڑی مہارت اور قابلیت سے مسلمانوں کا نقطۂ نظر بیان کیا تھا۔ مِسٹر کلیمنٹ ایٹلی (Clement Attlee) جو تقسیم ہند ۱۹۴۷ء میں برطانیہ کے وزیر اعظم تھے، نے اس موقع پر بطور ممبر سائمن کمیشن اقبال کے نقطۂ نظر کو بغور سُنا تھا۔ غالباً مسٹر ایٹلی کے ساتھ اقبال کی پہلی ملاقات یہیں ہوئی تھی۔۳؎ اقبال نے اس انٹرویو میں اقلیتوں کے تحفظ کے لیے صوبائی خود مختار ی (Provincial Autonomy) کی تجویز پر زور دیا تھا۔۱۹۲۹ء اور ۱۹۳۰ء کے کانگرس (جواہر لال نہرو)کے لاہور اور مسلم لیگ (علامہ محمد اقبال) کے اعلاناتِ آزادی کی تواریخ کا آگے پیچھے ہونا تاریخی لحاظ سے سنجیدگی سے قابل غور ہے۔ گو نہرو کا اقبال کے شہر لاہور اور اقبال کا نہرو کے وطن الہ آباد میں اعلانِ آزادی کرنا ایک دلچسپ تاریخی حادثہ ہو سکتا ہے۔ ۱۹۳۰ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کے الہ آباد سیشن میں صدارتی خطبہ دیتے ہوئے اقبال نے واشگاف الفاظ میں اعلان کیا تھا ’’میں پنجاب، سرحد، سندھ اور بلوچستان کو ایک خود مختار ریاست کا حصہ دیکھنا چاہتا ہوں‘‘۔ اس اعلان نے ہندوستان کی تاریخ کا رُخ موڑ دیا۔ یہ اعلان دسمبر ۱۹۲۹ء میں آل انڈیا کانگرس کے لاہور سیشن میں پنڈت جواہر لال نہرو کے صدارتی خطبے میں ’’مکمل آزادی‘‘ کے جواب میںفوراً آیا تھا اور اقبال نے کانگرس اور انگریزوں کو برملا جتا دیا تھا کہ ہندوستان کو آزادی دینے کی صورت میںمسلمانوں کو بھی آزاد وطن دینا پڑے گا۔ ۱۹۳۱ء میںلندن کی گول میز کانفرنس میں اقبال Minorities Committee کے سرکردہ رکن تھے۔ یہاں بھی انھوں نے شد و مد کے ساتھ صوبائی خود مختاری کی وکالت کی تھی۔گول میز کانفرنس کے بعد قائد اعظم محمد علی جناح نے انگلستان میںقیام کا فیصلہ کر لیا تھا۔ خود پر عاید کردہ اس عارضی جلا وطنی کو ختم کرکے ۱۹۳۵ء میں وہ وطن واپس آئے۔ اُن کی غیر حاضری میں مسلم لیگ کی حالت ایک نیم مردہ تنظیم کی سی تھی۔ مسلمانوں کے درمیان اس وقت اقبال کے علاوہ کوئی دوسرا قدآور سیاسی لیڈر نہ تھا،جوبرطانیہ اور ہندوستان کے درمیان دستوری تعلقات کے بارے میں اعلیٰ سطحی مذاکرات میںشامل رہا ہو۔۴؎ یہی وجہ تھی کہ برطانیہ کے علمی حلقے ہندو ستانی مسلمانوں کے سیاسی ذہن کا رخ معلوم کرنے کی خاطر اقبال کے خیالات جاننے کے لیے بے تاب تھے۔ اگرچہ رہوڈز لیکچرر لفظوں کی حد تک اپنے لیکچروں کا موضوع منتخب کرنے میںآزاد تھا لیکن عملی طور پر جیسا کہ ایڈورڈ تھامپسن نے پنڈت جواہر لال نہرو کے نام خط میں واضح کیا ہے یونی ورسٹی توقع رکھتی تھی کہ لیکچرر ایسے موضوع کا انتخاب کرے گا جس سے حالات حاضرہ پر روشنی پڑتی ہو۔ لیکچرر کے انتخاب کا سب سے اہم معیار یہ تھا کہ وہ اپنے میدانِ کار میں نمایاں شخصیت ہو۔ اقبال اس معیار پر پورا اترتے تھے کیونکہ وہ اُس وقت مسلمانوں کے سرکردہ سیاسی رہنما تھے اور برطانیہ اور ہندوستان کے مابین دستوری مذاکرات میں ۱۹۲۸ء سے ۱۹۳۲ء کے دوران عملی طور پر شریک رہے تھے۔اُن کے صوبائی خودمختاری کے مطالبے کو گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ ۱۹۳۵ء میں بھی تسلیم کر لیا گیا تھا۔ قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانے میں اقبال سیاسی قیادت کے منصب سے قائد اعظم کے حق میں دستبردار ہو گئے تھے اور آنے والے حالات میں قوم کی راہبری کے لیے انھیں قائد اعظم کی اہلیت پر مکمل اعتماد ہو گیا تھا۔ انھوں نے ایک بیان میں فرمایا تھا :’’ہماری قوم کو جناح کی دیانت اور سیاسی بصیرت پرمکمل اعتماد ہے۔‘‘۵؎ ۱۹۳۶ء میں لاہور میں اقبال نے قائداعظم سے کہا: ’’میں آپ کے مشن کی کامیابی کے لیے اپنی رگوں کا آخری قطرۂ خون بھی نچوڑ دوں گا۔‘‘۶؎ ۱۹۳۷ء میںپنڈت جواہر لال نہرو جاوید منزل لاہور میں یہ امید لے کر آئے کہ مسٹر جناح کو پس پشت ڈال کر اقبال خود مسلمانوں کی سیاسی قیادت سنبھال لیں۔ اقبال نے اُن کو برملا بتایا کہ: ’’جہاں تک سیاسی مسائل کا تعلق ہے اس سلسلے میں تمام تر اختیار ہم نے مسٹر جناح کو دے رکھا ہے۔‘‘۷؎ زعماے آکسفورڈ کو توقع تھی کہ اپنے قیام کے دوران لیکچروں کے علاوہ برطانیہ کے سیاسی لیڈروں اور دانشوروں سے میل ملاقات کے دوران اقبال مسلم انڈیا کے سیاسی ذہن کی نمایندگی کریں گے لیکن اقبال اب یہ رول ادا کرنے کے لیے تیار نہیں تھے اور گول میز کانفرنس کے بعد ذہنی طور پر یہ کردار قائد اعظم محمد علی جناح کو تفویض کر چکے تھے۔ گول میز کانفرنس کے دوران برطانوی سیاستدانوں کی ریشہ دوانیوں نے انھیں بہت پریشان کیا تھااور وہ برطانیہ کے سیاسی لیڈروں اور دانشوروں کے رویے سے مایوس ہو گئے تھے۔ اس لیے گول میز کانفرنس ۸؎ کے دوران انگلستان میں اُن کا قیام کچھ زیادہ خوشگوار نہ رہا تھا۔جیسا کہ اوپر بیان ہوا وہ Minority Committee کے فعال رکن تھے۔مسلم وفد کے ممبران کے ساتھ مشاورت میں اقبال نے تجویز پیش کی کہ برطانوی حکومت کے سامنے یہ مطالبہ رکھا جائے کہ مرکز میںذمہ دار حکومت کے قیام سے پہلے صوبوں میں خود مختار حکومتیں قائم کی جائیں۔ اقبال کی رائے تھی کہ صوبائی خود مختاری کو مستحکم کیے بغیر مرکز میں دستوری حکومت ایک دن بھی نہ چل سکے گی۔ اس تجویز کے محرکات واضح ہیں۔ صوبائی خود مختاری کا اُصول منظور ہونے سے ہندوستان کے شمال مغربی حصے اور شمال مشرق میں واضح مسلم اکثریتی علاقوں کا ایک مضبوط بلاک وجود میں آ جاتا ۔عبوری دور میں یہ بلاک مرکز میں ہندو اکثریت کے اقداما ت پر مؤثر روک لگا کر اُسے متوازن رویہ اختیار کرنے پر مجبور کر سکتا تھا۔پھر موزوں وقت پر خود مختار مسلم اکثریتی صوبوں کا مستحکم بلاک ایک آزاد مسلم ریاست کی شکل بھی اختیار کر سکتا تھا جیسا کہ بعد میں ۱۹۴۷ء میں سندھ، بلوچستان، پنجاب، سرحد اور مشرقی پاکستان کے خود مختار صوبوں کے بلاک نے متحد ہو کر پاکستان کی تشکیل کی۔ اقبال کی اس تجویز پر مسلم وفد نے صاد کیا اور سب ممبران نے ۱۵ ؍نومبر کو اس قرار داد پر دستخط کیے کہ کوئی ممبر مرکزی حکومت کے دستور پر غور کے لیے بنائی گئیFaderal Structure Committee کی کاروائی میںحصہ نہیں لے گا۔اب آپ تصور کیجیے کہ اقبال کتنے آزردہ ہوئے ہوں گے جب ۲۶؍نومبر کو مسلم وفد کے ممبران Faderal Structure Committee کے اجلاس میں شریک ہو گئے اور اقبال کی تجویز پر پاس کی ہوئی اپنی متفقہ قرار داد کے علی الرغم صوبائی خود مختاری اورمرکز میں ذمہ دار حکومت کے بیک وقت قیام کے فیصلے سے اتفاق کر لیا۔یوں اقبال کی ساری مساعی پر پانی پھر گیااور وہ خود کو بالکل الگ تھلگ محسوس کرنے لگے۔ ہوا یہ تھا کہ ۱۵ اور ۲۶ نومبر کے دوران برطانوی سیاستدانوں نے مسلم وفد کے ممبران پر مختلف حیلوں بہانوں سے دبائو ڈال کر انھیں Faderal Structure Committee کے اجلاس میں شرکت پر مجبور کر دیا تھا ۔ انگریز سیاستدانوں اور مسلم مندوبین کے اس کردار پر تبصرہ کرتے ہوئے اقبال نے کہا: میرے پاس یہ یقین کرنے کی وجہ ہے اور اپنے وفد سے علیحدہ ہونے سے چند روز پہلے مجھے یہ شک بھی ہونے لگا تھا کہ بعض انگریز سیاستدانوں نے ہمارے نمائندوں کو یہ غلط پٹی پڑھائی تھی کہ وہ برٹش انڈیاکے صوبوں میں ذمہ دار حکومتوں کے فوری قیام کو رد کر دیں۔ حال ہی میںلیفٹیننٹ کمانڈر کینور دی (Lt. Commander Kenworthy) نے بھی اسی خیال کا اظہار کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں :’’میری سمجھ کے مطابق بعض انگریز سیاستدانوں نے اس معاملے میں میانہ رو رہنمائوں کو بڑا غلط مشورہ دیا اور ان رہنمائوں نے بھی جھٹ پٹ اس مشورے کو قبول کر لیا‘‘۔۹؎ اقبال نے گول میز کانفرنس سے استعفیٰ دے دیا تھا اور فوراً ہندوستان واپس آ گئے تھے۔ ظاہر ہے کہ اقبال کی طبیعت انگریز سیاستدانوں سے نفور ہو چکی تھی۔اس تلخ تجربے کے بعد وہ اپنے آپ کو آکسفورڈ میں ایسے لوگوں سے ملنے کے لیے آمادہ نہ پاتے تھے ۔ ۱۹۳۶ء میں محمد دین تاثیر کیمبرج سے لاہور پہنچے ۔ جاوید منزل میں اقبال سے ملاقات کی روداد بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ایک اور بات جو قابل ذکر ہوئی اس کا تعلق سیاسیات سے بھی ہے اور علامہ اقبال کی اپنی ذات سے بھی۔ ڈاکٹر صاحب کو آکسفورڈ سے رہوڈز لیکچر دینے کی دعوت آئی۔ میں ان دنوں کیمبرج میں تھا۔ ڈاکٹر صاحب کو اصرار سے لکھا کہ وہ اس دعوت کو رد نہ فرمائیں۔ گول میز کانفرنس کے سلسلے میں ان کا سفرِ انگلستان سیاسی حیثیت رکھتا تھا، رہوڈز لیکچرز کی علمی حیثیت تھی۔ انگلستان کے ادیب اور اہل علم لوگوں کو ان کا صحیح مقام معلوم ہوگا۔ ڈاکٹر صاحب نے زمان و مکان کے اسلامی تصور پر لیکچر دینے کا ارادہ کیا تھا ۔ میں نے انگلستان کے ادبی حلقوں میں ان لیکچروں کا پہلے سے چرچا کر رکھا تھا۔ ذاتی اور قومی فخر کے ساتھ اقبال کے ادبی مرتبے کا ذکر کرتا رہتا تھا۔ ڈاکٹر صاحب نے ایک خط میں یقین دلایا کہ میں ضرور آئوں گا۔ لیکن یکایک اُن کا ایک اور خط آیااور اس میں لکھا کہ انھوں نے ارادہ منسوخ کر دیا ہے ۔ مجھے اس کا بہت رنج ہوا اور برخوردارانہ گُستاخی کے ساتھ انھیں ایک تند قسم کا خط لکھا۔ انھوں نے جواب میں لکھا کہ والدہ جاوید نے مرتے وقت وصیت کی تھی کہ بچوں کو اکیلا نہ چھوڑنا ۔ اس لیے انگلستان نہیں جا سکتا۔ میںنے اسے عذر لنگ قرار دیا تو آپ نے کہا کہ ایک اور راز بھی ہے ۔ وطن واپس آئو گے تو بتائوں گا۔ اس ملاقات میں وہ راز بھی منکشف ہوا۔ رہوڈز لیکچر کی دعوت لارڈ لوتھین کے ذریعے آئی تھی۔ لارڈ لوتھین علامہ کا بہت مداح تھا۔ مجھے یاد ہے کہ اس نے کیمبرج میں ایک ملاقات کے دوران مجھ سے کہا کہ ’’عالم اسلام میںہی نہیں، تمام مشرق میں اقبال جیسا اثر انداز مفکر اورکوئی نہیں‘‘ یہ بھی کہا کہ : ’’اقبال کے افکار تاریخ عالم کا رُخ بدل دیں گے۔ سیاسی لوگ نہیں جانتے کہ اقبال کی طرح کے شاعر کس قدر مؤثر ہو سکتے ہیں۔‘‘ اس لوتھین نے علامہ اقبال سے وعدہ لیا تھا کہ وہ فلسطین آ کر موتمر اسلامی میںشریک ہوں اور اسلامی ممالک کو اپنا پیغام دیں۔ بظاہر اچھی بات تھی۔علامہ نے وعدہ کر لیالیکن انھیں بہت جلد اس کا احساس ہو گیا کہ یہ مؤتمر برطانوی سامراج کی کرشمہ سازی کا نتیجہ تھی۔ اقبال برطانوی سامراج کا سخت دشمن تھا۔ رہوڈز لیکچرز اور اس موتمر کی تاریخیں پاس پاس تھیں۔ ڈاکٹر صاحب مروت کے پتلے تھے۔ وعدہ بھی کر رکھا تھا کہ ممکن ہوا تو مؤتمر میں شریک ہوں گے۔ مؤتمر سے بچنے کا یہی طریقہ نظر آیا کہ آکسفورڈ نہ جائیں ۔ … میں نے جب ان سے کہا کہ آپ مؤتمر میں شریک ہو کر اس کے خلاف تقریر کرتے تو فرمانے لگے کہ لوتھین کو خوا مخواہ خوار کرنا مناسب نہ تھا۔ اُس نے مجھ سے مروت برتی تھی۔ میں نے بس شریک ہونے سے معذوری کا اظہار کر دیا تھا۔ اصل وجہ وہ بھی سمجھ گیا ہوگا۔۱۰؎ اقبال ان وجوہات کی بنا پر رہوڈز لیکچر کی دعوت قبول کرنے پر آمادہ نہ تھے لیکن قدرت کا ایک فیصلہ بھی ان کے انکار کی ایک ناگزیر وجہ بن گیااور جیسا کہ لوتھین کے نام اُن کے ۱۵؍اپریل اور ۲۲ جون ۱۹۳۵ء کے خطوط سے بھی تصدیق ہوتی ہے انکا رکی فیصلہ کن وجہ بیماری کے باعث اُن کی آواز کا بیٹھ جانا تھا۔ /…/…/ حواشی و حوالہ جات 1- Jawaharlal Nehru, A Bunch of Old Letters, Asia Publishing House (1960) p. 410. خط کے بین السطور سے معلوم ہوتا ہے کہ تھامپسن جواہر لال نہرو کو لیکچر دینے کی ترغیب دے رہا تھا۔ 2- Hafeez Malik ed, Iqbal:, Poet-Philosopher of the East, (Columbia University Press, p.34. ۳- گول میز کانفرنس میں بھی لیبر پارٹی کے لیڈروں بشمول وزیر اعظم ریمزے میکڈا نلڈ اور مسٹر ایٹلی کے ساتھ اقبال کی ملاقات ہوئی تھی۔ ۴- اگر اقبال زندہ رہتے تو برطانوی لیڈروں سے دستوری مذاکرات کے اس تجربے کی بنا پر وہ یقینا ۱۹۴۷ء میں لارڈ مائونٹ بیٹن کے ساتھ آزادیِ ہند کے مذاکرات میں قائد اعظم کے شریک کار ہوتے۔ 5- Civil & Military Gazette, Lahore. June 7,1936. ۶- ڈاکٹر محمد عبداللہ چغتائی، اقبال کی صحبت میں، مجلس ترقی ادب، لاہور، ص ۴۴۹۔ ۷- ایضاً، ص ۴۴۶۔ ۸- ہندوستان میں ہندو، مسلمان اور دوسری اقوام اور ریاستوں کے درمیان دستوری سمجھوتے کے لیے برطانوی حکومت نے لندن میں گول میز کانفرنسوں کا انعقاد کیا تھا۔ پہلی گول میز کانفرنس ۱۲؍نومبر ۱۹۳۰ء کو شروع ہوئی۔ مسلم مندوبین میں آغا خاں، میاں محمد شفیع، مولانا محمد علی اور محمد علی جناح شامل تھے۔ ہندو مندوبین میں کانگرس کاکوئی نمائندہ شامل نہ ہوا۔ دوسری گول میز کانفرنس ۷؍ ستمبر سے یکم دسمبر ۱۹۳۱ء تک جاری رہی۔ اس میں کانگرس کی طرف سے گاندھی جی نے شرکت کی۔ مسلم نمائندوں میں اب اقبال بھی شامل تھے۔ اقبال اس کانفرنس سے استعفیٰ دے کر ہندوستان واپس آ گئے تھے۔ 9- Iqbal, Presidential Address at the Annual Session of the All-India Muslim Conference at Lahore on the 21st March 1932 in S. A. Vahid, Thoughts and Reflictions of Iqbal,Ashraf, Lahore pp. 200-201. See also Riaz Hussain, Politics of Iqbal, Islamic Book Service, Lahore, 1977 p. 86. ۱۰- ہفت روزہ قندیل، لاہور ۴:۱۹ (۲۱؍اپریل ۱۹۵۰ئ) صفحات ۱۱- ۱۲؛ نیز دیکھیے:افضل حق قرشی (مرتب)، اقبال کا فکر وفن از ڈاکٹر محمددین تاثیر، یونیورسل بکس لاہور(صفحات ۴۵-۴۸) نوٹ بہت سے لوگوں کو یہ جان کر حیرت ہو گی کہ پین اسلامزم کے جدید تصور کا بانی قاہرہ میں مقیم ایک انگریز شاعر اور دانشور و لفرڈ سکان بلنٹ (Wilfrid Scawn Blunt) تھا۔ ولفرڈ کا نظریہ یہ تھا کہ خلافت صرف اور صرف عرب قوم اور خصوصاً قریش کی میراث ہے۔ عجمی (غیر عرب) اقوام کا اس پر کوئی حق نہیں ۔چنانچہ ترکوں (عثمانیوں) یا افریقی لوگوں (مہدی سوڈانی) کا دعواے خلافت باطل ہے۔ مزید برآں خلیفۃ المسلمین سیاسی عہدہ نہیں بلکہ ایک دینی اتھارٹی ہے۔ خلیفہ کا حکم سیاسی معاملات کی بجائے صرف دینی معاملات پر نافذ ہوتا ہے۔ یورپی یا مسلمان حکمرانوں کے ماتحت رہنے والے مسلمان بے شک دینی معاملات میں خلیفہ کی قیادت و سیادت کو تسلیم کریں لیکن سیاسی اور دنیاوی معاملات میں وہ اپنے ملکوں کی حکومت کے تابع رہیں۔ مسلمان مذہبی معنوں میں امت واحدہ ہیں۔ پین اسلامزم کا مطلب دنیا میںمسلمانوں کی عالمی حکومت قائم کرنا نہیں بلکہ دینی مرکزیت اور وحدت قائم کرنا ہے۔ یورپ کے’’ اسلام کی اصلاح‘‘ کرنے کے اس نظریے کا مغربی اخبارات، یونی ورسٹیوں اور حکومتوں کی پراپیگنڈہ مشینری نے بڑی شدّومد سے پرچار کیااور مسلمان علمائ، دانشوروں، طلبہ، اخبار نویسوں اور عوام کو اس کا قائل کرنے کی بھرپور کوشش کی اور بلاشبہ بہت سے لوگ اس دام ہم رنگ زمین میں گرفتار بھی ہوئے۔ انیسویںصدی میں پین اسلامزم کے اس نظریے سے مقصود سوڈان، لیبیا اور مصر میں تحاریک آزادی کو دبانا تھا۔بیسویں صدی میں پہلی جنگ عظیم کے بعد یورپی استعمار نے اس نظریے کو ترکی، فلسطین اور دوسرے عرب ممالک میں فوجی طاقت سے عملاً نافذ کر دیا۔ سیاسی خلافت ساقط ہوگئی اور اتحاد بین المسلمین کی داعی بہت سی تنظیمیں قائم کر دی گئیں تاکہ وحدت اسلامی کے جوش و جذبے میں آزادیِ فلسطین کا مسئلہ پس پشت ڈال دیا جائے اور افریقی اور ایشیائی ملکوں میں رہنے والے مسلمان عوام کا اپنے اپنے ملکوں میں سیاسی آزادی حاصل کرنے کا جذبہ دب جائے۔ ان تنظیموں کا مقصد خوش نما تقاریر کے علاوہ کچھ نہ تھا۔ اقبال استعمار کی ان سب چالوں پر عمیق نظر رکھتے تھے۔ وہ اسلام میں دین و دنیا کی یکجائی، مسلمانوں کی عالمی حکومت اور سیاسی غلبے کے زبردست قائل اور فلسطین کی جدو جہد آزادی کے پر جوش ہامی اور حریت پسند تھے۔ اس پس منظر میں مؤتمر میں شرکت سے اُن کا گریز سمجھ میں آتا ہے۔ [پین اسلامزم کے بارے میں مزید معلومات کے لیے دیکھیے: Afzal Iqbal, Life and Times of Mohamed Ali, Institute of Islamic Culture, Lahore, pp. 17-18. /…/…/ وہ کتاب جسے اقبال لکھنا چاہتے تھے اقبال انگریزی میں ایک کتاب تصنیف کرنا چاہتے تھے۔ میاں محمد شفیع رقمطراز ہیں کہ ’’حضرت علامہ کی خدمت میںاس کتاب کی تصنیف کی تجویز والیِ بھوپال نے پیش کی تھی‘‘۱؎ لیکن حالات اور واقعات کے تناظر میں یہ بات محلِ نظرہے جیسا کہ ہم دیکھ چکے ہیں سب سے پہلے لارڈ لوتھین نے اپنے خط تاریخ ۳؍جنوری ۱۹۳۴ء میں علامہ اقبال کے سامنے تجویز رکھی تھی کہ ’’رہوڈز ٹرسٹیزاور وائس چانسلر کو امید تھی کہ آپ کسی ایسے موضوع پر لیکچرز کا سلسلہ پیش کریں گے جیسے کہ جدید دنیا میں اسلام’’یا‘‘ اسلام اور جدید تہذیب کی تشکیل نو‘‘ یا ’’اسلام اور ہندوستان‘‘ ۔۔۔۔ و ہ چاہتے ہیں کہ آپ آئیں اور آکسفورڈ کو یہ عکس دکھائیں کہ تاریخ میں ایک عالمی تحریک کی حیثیت سے اسلام کا کیا کردار رہا ہے اورجدید دنیا میں اس کی بنیادی سوچ اور بیداری کی تحریک کی اہمیت کیاہے۔ آپ ہی کے لیکچرز[اشارہ The Reconstruction of Religious Thought in Islam کی طرف ہے۔] پڑھ کر مجھے یہ اساس ہوا تھا کہ یہ کتنا بڑا موضوع ہے اور میں محسوس کرتا ہوں کہ آکسفورڈ اور لیکچر شپ کے نقطۂ نظر سے اس قسم کے موضوع پر بحث لیکچر شپ کی روایت کے عین مطابق ہو گی۔‘‘ یہ لیکچرز بعد میں کتابی شکل میں آکسفورڈ یونیورسٹی پرس کی طرف سے شائع ہوئے تھے۔ ۲۶؍جنوری ۱۹۳۴ء کو لوتھین کے نام خط میں اقبال نے لکھا۔ ’’ آپ نے خط میں جو کچھ کھا ہے اُس کی روشنی میں اب میں کسی اور موضوع کے بارے میں سوچوں گا۔‘‘ رہوڈز لیکچرز کے بارے میں لارڈ لوتھین نے جو موضوعات متعین کیے تھے انھی کو ذہن میں رکھ کر اقبال نے لیکچروں کا ایک آزمائشی خاکہ بنایا جسے انھوں نے لوتھین کے نام ۲۸؍مارچ ۱۹۳۴ء کے خط میں پیش کیا۔ ’’اپنے رہوڈز لیکچرز کے ضمن میں میں مندرجہ ذیل عارضی تجاویز پیش کرنا چاہتا ہوں۔ تین لیکچرز پیش کیے جائیں جو حسب ذیل ہیں۔ ۱- ایک عالمی تحریک کے طور پر اسلام کامفہوم۔ ۲- اسلامی قانون: اس کی معاشی اہمیت۔ ۳- ہندوستانی مسلمان: اُن کا ماضی، حال اور مستقبل۔ ان تینوں عنوانات میں معمولی تبدیلی ہو سکتی ہے۔ عام عنوان ہم یہ رکھ سکتے ہیں۔’’اسلام اور جدید دنیا‘‘ لوتھین نے جو موضوعات تجویز کیے تھے اقبال نے مجوزہ لیکچروں کے خاکے میں من و عن وہی تحریر کیے ہیں۔ کیونکہ انھیں بھی احساس ہو گیا تھا کہ فی الوقت یورپ کے سامنے اسلام کی یہی تصویر پیش کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے بعد اقبال نے لوتھین کو اپنی علالت کی اطلاع دی اور لیکچرز ملتوی کرنے کی درخواست کی۔ ۲۶؍جنوری۱۹۳۵ء کو اقبال نے لوتھین کو بتایا کہ ’’اعلیٰ حضرت نواب صاحب بھوپال نے مجھے بھوپال بلایا ہے جہاں انھوں نے میری آواز کے برقی علاج کے خاص انتظامات کیے ہیں۔ میں ایک دو دن میں وہاں جانے والا ہوں اور وہاں میرا قیام تقریباً’’ایک ماہ رہے گا۔‘‘ ۲۳؍اپریل ۱۹۳۵ء کے خط میں اقبال نے لوتھین کو لکھا ’’علاج پورا ایک سال جاری رکھنا ہوگا بلکہ ضرورت پڑی تو ایک سال سے بھی زیادہ مئی کے آخر میں مجھے برقی علاج کے دوسرے مرحلے کے لیے بھوپال جانا ہوگا اور دس ہفتوں کے وقفے کے بعد دوبارہ جانا پڑے گا۔‘‘ اسی خط میں اقبال نے یہ بھی واضح کیا کہ ’’جب تک میں پوری طرح صحت یاب نہ ہو جائوں میرے لیے لیکچر دیناممکن نہ ہو گا۔‘‘ نواب حمید اللہ خان والیِ بھوپال اسلام اور اسلامیان ہند کے سچے بہی خواہ تھے۔ قیام بھوپال کے دوران رہوڈز لیکچرز اور ان کے ممکنہ موضوعات کا اقبال اور نواب صاحب کی گفتگو میں ذکر رہا ہو گا اور نواب صاحب نے اقبال سے کہا بھی ہو گا کہ اب جب کہ لیکچرز دینا ممکن نہیں رہا تو وہ یورپ اور باقی دنیا کو اسلام سے صحیح معنوں میں روشناس کرانے کے لیے کتاب تحریر کریں۔ محمد شفیع آکسفورڈ لیکچرز کے ضمن میں مندرجہ بالا خط و کتابت سے لاعلم تھے۔ چنانچہ انھوں نے جو قرائن اُن کے سامنے تھے اُن کے مطابق لکھ دیا کہ ’’اس کتاب کی تصنیف کی تجویز والیِ بھوپال نے پیش کی تھی ۔‘‘ لیکن لارڈ لوتھین اور علامہ اقبال کے خطوط سے اس کی تردید ہوتی ہے۔ اب ہم مجوزہ کتاب کے لیے علامہ اقبال کے بنائے ہوئے تین خاکے پیش کرتے ہیں۔ اس مجوزہ کتاب کا پہلا خاکہ ہم رہوڈز ٹرسٹ کی فائل نمبر۲۶۹۴میں دریافت کرتے ہیں۔۲۸؍مارچ ۱۹۳۴ء کو اقبال نے لارڈ لوتھین کو لکھا کہ : "Time and Space in the History of Muslim Thought" کی بجائے اب وہ آکسفورڈ میں تین لیکچرز دینا چاہتے ہیں۔ جن کا مندرجہ ذیل خاکہ انھوں نے پیش کیا۔ Islam in the Modern worldجدید دنیا میں اسلام 1- The Meaning of Islam as a world Movement. ایک عالمی تحریک کے طور پر اسلام کامقصد۔ 2- The Law of Islam: its Economic Significance. اسلامی قانون: اس کی معاشی اہمیت 3- The Indian Muslims: Their Past, Present and Future. ہندوستانی مسلمان: اُن کا ماضی، حال اور مستقبل یہ لیکچرز جیسا کہ بیان کیا گیا ہے۔ وقوع پذیر نہ ہو سکے لیکن اقبال کی زندگی کے آخری پانچ سالوں میں یہ موضوع مسلسل ان کے ذہن میں رہا اور انھوں نے مندرجہ بالا خاکے کی مزید تفصیلات بھی قلمبند کر لیں۔ تاکہ وقت ملنے پر وہ انھیں ایک مربوط کتاب کی شکل دے سکیں۔ حفیظ ملک نے اپنی ادارت میں شائع ہونے والی کتاب Iqbal: Poet-Philosoplher of the East, Columbia University Press کے صفحہ ۳۳ پر تحریر کیا ہے کہ زندگی کے آخری سالوں میں علالت کے باوجود اقبال کا ذہن زرخیز اور چُست و توانا تھا اور اس دوران ’’انھوں نے کئی نئے منصوبوں کا خاکہ اپنے ذہن میں بنایا جس میں اسلامی فقہ پر Aids to the Study of Quran کے عنوان کے تحت مقالات بھی شامل تھے۔ ایک تشریحی کتاب بہ عنوان : Islam As I understand It میں وہ اسلام اور جدید سائنس و فلسفہ میں مطابقت و موافقت پیدا کرنا چاہتے تھے اور اقبال کا ایک منصوبہ یہ بھی تھا کہ Thus Spake Zara Thustra کے انداز پر وہ ایک کتاب The Book of an Unknown Prophet تحریر کریں جس میں مابعد الطبیعیاتی مسائل زیر بحث لائے جائیں۔ اپنی اس بائبل کے لیے صحیح صحیح ادبی انداز کا تعین کرنے کے لیے اقبال نے خاصی ذہنی کاوش کی۔ ان میں سے کوئی علمی منصوبہ بھی پایۂ تکمیل کو نہ پہنچ سکا۔ سیاسی مصروفیات اور خرابی صحت نے ان منصوبوںپر کام کو ناممکن بنا دیا تھا۔‘‘ آکسفورڈ لیکچرز کے عنوانات جیسا کہ اقبال نے لکھا آزمائشی (tentative) تھے اور ان میں لفظی رد و بدل ہو سکتا تھا۔ چنانچہ اسی ردو بدل کے ساتھ آکسفورڈ لیکچروں کے دو تفصیلی خاکے اقبال کے اپنے ہاتھ سے تحریر کیے ہوئے دستیاب ہیں۔ یاد رہے کہ حفیظ ملک نے جن مختلف منصوبوں کی طرف مندرجہ بالا اقتباس میں اشارہ کیا ہے وہ سب کسی نہ کسی طرح اِن خاکوں میں شامل ہو گئے ہیں۔ آکسفوڈ میں پیش کئے جانے والے مجوزہ لیکچرز کی بنیاد پر جو دوخاکے ہمیں کتب میں ملتے ہیں اُن کی تفصیل میں ہم دیکھیں گے کہ عنوانات مختلف ہیں لیکن مواد کی مماثلت نے ان کو ایک اکائی میں پرو دیا ہے۔ آکسفورڈ لیکچروں کے بنیادی خاکے اور دو تفصیلی خاکوں کو یہاں یکجا کرنے کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ مستقبل کے سکالرز کو اقبال کے اس ادھورے منصوبے کی تکمیل کے لیے راہنمائی کا مواد مہیا ہو جائے۔ ۱- آکسفورڈ لیکچروں کا انگریزی خاکہ بمعہ اردو ترجمہ اوپر درج کیا گیا ہے۔ یہ مجوزہ کتاب کا ابتدائی اور مختصر خاکہ ہے۔ ۲- دوسرا خاکہ اقبال کے اپنے ہاتھ سے لکھا ہوا ہے جو میاں محمدشفیع کی تحویل میں تھا اور جسے انھوں نے طلوع اسلام ۲۲؍اکتوبر ۱۹۵۵ء کے مطابق اقبال اکیڈیمی کراچی کی تحویل میں دیا تھا۔ اس کا اصل انگریزی متن بی اے ڈار نے اپنی کتاب Letters and Writings of Iqbal, Iqbal Academy Pakistan, Lahore(1981) کے صفحات ۹۵-۸۶ میں درج کیا ہے۔ اس متن سے یہ بات بخوبی ظاہر ہو جاتی ہے ___ یہ آکسفودرڈ لیکچروں کے لیے بنائے ہوئے مختصر نکات کی مزید تفصیل و توضیح ہے کیونکہ سارے مواد کو لیکچر اوّل، لیکچر دوم کے عنوانات کے تحت ترتیب دیا گیا ہے اور آکسفورڈ لیکچرز والے خاکے کے تمام موضوعات اس میں تفصیلی طورپر شامل ہو گئے ہیں۔ بی اے ڈار نے لکھا ہے کہ انھوں نے اقبال کے جس مسودے کو اپنی کتاب میں نقل کیا ہے اُس مسودے میں ایک لفظ اُن سے پڑھا نہیں جا سکا۔ یہ لفظ [Second Lecture Part E] دوسرے لیکچر حصہ E میں ہے جو بی اے ڈار کے مطابق athar ہے۔ بی اے ڈارکی نظرمیں یہ لفظ مشکوک ہے۔ چنانچہ انھوں نے اس کا کوئی مفہوم متعین نہیں کیا ۔ میں نے اس لفظ پر غور کیا ہے اور اردو، فارسی اور عربی لغات کی مدد سے بھی اس کا مفہوم سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن اردو ، فارسی اور عربی میں اس لفظ کا کوئی مفہوم بھی موضوع سے مطابقت نہیں رکھتا چونکہ خاکہ انگریزی زبان میں ہے اس لیے میرے ذہن میںبار بار یہی خیال آیا کہ یہ کوئی انگریزی لفظ ہی ہو سکتا ہے۔پھر اس لفظ کے سیاق و سباق پر غور کرنے سے سمجھ میں آیا کہ یہ لفظ athar کی بجائے Ether ہو سکتا ہے۔ جس کے معنی فلک یا فلکی ہیں۔ موضوع کے اعتبار سے یہی معنی بالکل موزوں معلوم ہوتے ہیں چنانچہ اس خاکے میں athar کی بجائے Ether پڑھنا چاہیے۔ بی اے ڈار کی کتاب Letters and Writings of Iqbal, Iqbal Academy Pakistan, Lahore(1981) میں درج مجوزہ کتاب کا خاکہ The Book That Iqbal Planned to Write In 1933 when I was privileged to act as his scribe, Allama Iqbal handed over to me a few sheets of paper being synopsis in his own hand of what he contemplated to be an "Introduction to the study of Islam" with special reference to its jurisprudence. With the eye-sight falling quickly his intention was to dictate to me what wold have been an epochmaking and authoritative book in English on Muslim Polity and Muslim Jurisprudence. But alas, his plans (originally entrusted to him by the Ruler of Bopal) remained unexecuted as his health began progressively to deteriorate and on April 21, 1938. The flame of his life,extinguished. Since then I have treasured these notes as a national trust and at one time brought their existence to the notice of Quaid-i-Azam. He wrote to me on March 24. 1943: "With regard to the synopsis of a book which Iqbal wanted to write regarding the reconstruction of Islamic Jurisprudence, I would like to see it and then consider the name of a competent person who could pursue the matter further. As It is a subject of jurisprudence, a lawyer only will be able to do justice to it." Sd/- Mian Mohammad Shsfi This Plan was reproduced first in Tolu-i-Islam and later in Thoughts and Reflections of Iqbal. The former was a complete reproduction but defective in several places as many words and phrases were left undeciphered. The latter was lncomplete with several defective readings here and there. The editor has tried his best to give a full and faithful reproduction of this important plan, to which references of the Quranic verses used in the text have been added. One word (second lecture, part E. athar). however, remains doubtful. The editor shall be grateful for any suggestion in this respect. A. It is necessary to study Islam. (i) It has power and vitality. At times it has shown its power of getting rid of accretions. New Movements. I pin no faith on them but they indicate confusion and inner unrest. (ii) Islam and modern world and British Empire. B. Islam and Empire. The effect of Arab Empire on Islam. They destroyed Rome and Persia and built another Imperialism. Causes of Empire building: (i) Religious zeal; burning ardour to regenerate mankind; (ii) Hunger Whatever may be the causes the effect was not good. Empire brought men belonging to earlier ascetic cultures, which Spengler describes as Magian, within the fold of Islam. The result was the conversion of Islam to a pre-Islamic creed with all the philosophical controversies of these creeds: روح، نفس،قرآن: حادث or قدیم وغیرہ (Ruh, Nafs, Quran: Hadith, Qadim). Real Islam had very little chances. C. Difficulties of modern student of Islam. He must wade throught a tremendous literature and read the Quran. I have done so and try to give you what I honestly believer to be real Islam. D. What is Islam? Is it religion? Etymology of religion.دین (din) as used in the Quran. Obedience to the Law (read v.18 Quran). Characteristics of early Asiatic religions. (i) Revelation in early religion---a mystic process. Islam laid the foundations of understanding it scientifically. Quran. Ibn Khaldun. Sufism. (ii) Salvation نجات (Najat) (iii) Wholly unwordlines (لارہبانیہ)1 Caves, catacombes. Cf. Christianity and Islam. Jesus: Saint.واللّٰہ یخر جکم من الظلمات الی لنور2 (iv) Fear of the invisible لا خوف علیھم ولا ھم یحزنون3 (v) Some secret teaching. Cf. Spengler.Vol, II, Page 246. Read also Martineau, Vol, 14 (vi) Belief in the unreality of the world and time. ما خلقت ھذا باطلا ۔ ھل اتیٰ علی الانسان (vii) Fatalism. (viii) Theocracy. Islam was a protest against all prelsla-mic religions in the world as it was found at the time Islam appeared. The world is real. Time is real. No more prophets (Expected ones). No freedom from limitation. No mediation. No Qismat (fatalism) Is Islam a Theocracy? Relations of Church and State. What is State? A contract like marriage. E. But Islam is much more than religian. Peace internal and external (Cf. v. 18) (i) lt is deracialisation of man (external peace); (ii) It aims at economic equality (internal security) F. This lecture to close. Two closing observations: (ii) The message of Islam; (iii) Islam is not the foe or even rival of Christianity. In the work of civilization it is coworker. Second Lecture: The Law of Islam See book of Dickinson, After Two Thousand Years. In Magian culture 'Revelation' a mystical process. In Islamic sufism this mystical process understood scentifically. Is it morality touched with emotion? A. Religion. Is it belief in a God or gods with some kind of worship? in caves? (i) Is it wholly otherworldliness? Monasticism (Mithraism) (Darkness) (Mosque) 6لا رھبانیۃ فی الاسلام، لاتنس نصیبک من الدنیا (ii) Is it fear of the invisible? لاخوف علیھم ولا ھم یحزنون 7 (iii) Is it intimacy with the supersensible? Partly yes, but the supersensible opened, to be approached in scientific spirit. Ibn Khaldun, idea of finality. (iv) Is it some secret teaching to be handed orally (mystery?) All early magian religions believed in it. Spengler,p. 246, Vol. ii); Islam: No قد تبین الرشد من الغی 8 (v) Religion (origin of word). مذھب (Mazhab) not used in the Quran. Words used in the Quran: ملت، منہاج، دین (Millat, Minhaj, Din) What is the meaning of ملت and دین ? (vi) Martineau, Vol. I4 B. Islam --- a protest against all religions in the old sense of the word. (i) Abolition of Prophethood: و من ور آئھم برزخ الیٰ یوم یبعثون 9 Islam and Time ھل اتیٰ علے الانسان10 (ii) The idea of Salvation (Najat) in Islam. Is it a Salvation-religion? نجات (Najat) is used only once in the Quran, What is Najat? (iii) No secret teaching. (vi) Belife in God:غیب (Ghaib) Deracialistion of mankind اختلاف السنتکم الخوشعوبا and Econamic equality (قل العفو etc) C. Chursh and State? Is Islamic community a juristic person? Is Islamic State a juristic person? Relation of Church and State. What is State? Like marriage a contract. The Amir is the Shaikhul Islam, etc. Hereditary Monarchy. History of Islam. Priesthood. Karbala? Effect of it. D. Islam and the Woman. E. Islam and Capitalism. (i) To the Magian culture 'Revelation' is a mystical process in which some spirit enters the body of a person who speaks it. In Islam Wahy (Quote verses: یرسل من ورائی الحجاب ) is universal property of life in which a man comes into contact with the ultimate springs of life. It manifests itself in three ways. It is abolished as a source of knowledge. In Islam contemplation of Athar 14 spreads into thought and action. It realises the immensity of the world in which old conceptions of race, community, creed dwindle into nothing. It is light اللّٰہ نور السموات والارض 15It draws the world from caves to the open day light. واللّٰہ یخرجکم من الظلمات الی النور16 (ii) The word Salvation (نجات) What is Najat? Liberation from what? --- Not from the Iimitations of individuality (وجنکم فراد اے)17 not liberation from the tension of consciousness. It is relief of the Ego's loneliness in the Universe. The conception of God--- Comrade: والی رفیق الاعلیٰ18 ھو معکم19 (a) Sleep liberatesلا تاخذہ سنۃ و لا نوم، قم اللیل الا قلیلا (b) Wine liberates and breaks the vigour of consciousness: اجتنبوہ 21 (c) Dancing also liberates: مروا باللغوا مروا کراما All these means of escape from space and time are discouraged. You should overcome space and time by الا بسلطان الخ23i.e. mastering actuality by understanding تفکروا فی الخلق السموات۔ الخ24Fear of the visible actuality, i.e. Space and Time is removed when we begin to understand things as causal relations. 25لاخوف علیھم ولا ھم یحزنون کہ این جا جز ماو اونیست الخ--- knowledge of world as nature--- actuality. Fear overcome not by charms but by formaula. (d) Knowledge of world as movement--- history--- sufism. (iii) ایمان (Iman)--- Security. Religious movements in Islam: Ibn Taimiyya Abdul Wahhab (Babi (Prophesies Ahmadiyya etc.) All more or less Magian) Syed Ahmad. Rationalism The new movement The coming of the expected one مسیح (Jesus) وغیرہ (i) No return ور آئھم برزخ الیٰ یوم یبعثون 26 (ii) Traditions--- Bukhari. 1- Reference is to the tradition: There is no monkery in Islam. 2- Reference is to the Quranic verses (xxxiii, 43; lvii, 9):"(that) He may bring you from the depths of darkness into light". 3- Ref. to the Quranic verse (ii.38): "On them shall be no fear, nor shall they grieve." 4- Most probably reference is to A Study of Religion by Martinue. 2 volumes. 5- Ref. is to the Quranic, verses (iii. 191): "Not for naught has thou created (all) this"; (lxxvi, I): "Has there not been over man a long period of time...." 6- The first is the prophetic tradition: There is no monkery in Islam; while the second refers to the Quranic verses (xxviii. 77): "Nor forget thy portion in this world." 7- Quranic verses (ii.38). quoted in footnote 3. 8- Ref. is to the Quranic verses (ii. 256): Truth stands out clear from error. 9- Ref. is to the Qranic verses: (xxiii. 100): Before them is a partition till the day they are raised up. 10- Quranic verse (lxxvi. 1): quoted in footnote 5. 11- Ref. is to two Quranic verses : (xxx. 22): And among his signs is---the variations in your languages and your colours; (xlix. 13): We made you into nations and tribes that ye may know each other. 12- Ref. is to the Quranic verse (ii, 219): They ask thee how much they are to apend; say: What is beyond your needs. 13- Quranic verse (xlii. 51): It is not fitting for a man that God should speak to him except by inspiration or from behind a veil or by sending of a Messenger..... 14- The word here coud not be rightly deciphered. It may be Athar. 15- Quranic verse (xxiv.35): God is the light of the heavens and earth.... 16- Quranic verse (xxxiii.43 and lvii. 9) mentioned in footnote 2. 17- Quranic verse (xix.95): And every one of them will come to Him singly on the Day of Judgement. 18- Propht's words sopken about God on his death-bed. 19- Quranic verse (lvii,4): He is with you wheresoever ye may be. 20- Quranic verse (ii. 255): No slumber can seize Him nor sleep; (lxxiii. 2) Stand (to prayer) by night, but not all night. 21- Quranic verse (v.93): Eschew such (abominations)...... 22- Quranic verse (xxv. 72): They pass by futillity with honourable (avoidance). 23- Quranic verse (lv. 34): Not without power (Sultan) sh ye be able to pass (beyond the zones of the heavens and earth). 24- Cf. the Quranic verse (iii. 191) : And contemplate the (wonders of) creation in the heaven and the earth. 25- Quranic verse (ii. 38): quoted in footnote 3. 26- Quranic verse (xxiii. 100) quoted in footnote 9. ایس اے واحد کی کتاب میں درج خاکہ ایس اے واحد نے اپنی مرتب کردہ کتاب S.A. Vahid (ed) Thoughts and Reflections of Iqbal [Ashraf, Lahore] میں صفحات ۲۳۷-۲۲۴ میں بہ عنوان Introduction to the Study of Islam ایک خاکہ درج کیا ہے ۔ بی اے ڈار اور اس خاکے کا عنوان ایک ہی ہے۔ لیکن یہ خاکہ بہت مختصر ہے۔ غالباً یہ آکسفورڈ لیکچروں کے مختصر اور آزمائشی نکات اور بی اے ڈار والے تفصیلی خاکے کے در میانی وقفے کے درمیان اقبال نے قلمبند کیا تھا۔ اس طرح گویا ان خاکوں کی تیاری کی سلسلہ وار ترتیب اس طرح بنتی ہے۔ ۱- آکسفورڈ لیکچروں کے نکات ۲- ایس اے واحد کی کتاب میںدیا گیا خاکہ۔ ۳- بی اے ڈار کی کتاب کا مفصل اور حتمی خاکہ۔ مگریہ مسئلہ بھی کسی نئے محقق کی توجہ کا مستحق ہے۔ تاہم اس ضمن میں اوّل اور بنیادی حیثیت آکسفورڈ لیکچروں کے نکات کو ہی حاصل ہے اور وہی مجوزہ کتاب کے موضوع کا اصل ماخذ اور مرکز و محورہیں۔ ایس اے واحد کا تعارفی نوٹ ۱۹۳۷ء میںاقبال نے چند کاغذات میاںمحمد شفیع کے حوالے کیے جن میں کچھ ایسے نوٹس تحریر تھے جو ایک کتاب Introduction to the Study of Islam کی بنیاد بننے والے تھے۔ اقبال کی بینائی کمزور ہو رہی تھی اس لیے وہ یہ کتاب میاںمحمد شفیع کو املا کروانا چاہتے تھے۔ لیکن اقبال کی صحت نے اس کام کی اجازت نہ دی آخر کار ۲۱؍اپریل ۱۹۳۸ء کو اقبال کا وصال ہو گیا اور یہ نوٹس میاں محمد شفیع کی تحویل میں رہے۔ چونکہ اقبال کے اپنے ہاتھ سے لکھے ہوئے یہ نوٹس مدہم پڑتے جا رہے تھے اس لیے ۱۹۴۷ء میں جب وہ ملتان سینٹرل جیل میں اسیر تھے تو انھوں نے ان نوٹس کی ایک نقل تیار کر لی تھی۔ اصل نوٹس اب نیشنل میوزیم کراچی میں محفوظ ہیں۔ میوزیم کے Curator کی اجازت سے ان نوٹس کی ایک فوٹو کاپی حاصل کی گئی۔ اس فوٹو کاپی سے نوٹس یہاں درج کیے جا رہے ہیں۔ بعض حالتوں میں کچھ الفاظ کو پڑھنا آسان نہیں تھا۔۲؎ طلوع اسلام بتاریخ ۲۲؍اکتوبر ۱۹۵۸ئ۔ میں مدیر چوہدری غلام احمد پرویز نے اِن نوٹس کا ترجمہ شائع کیا۔ اس ترجمے کی بعض اہم تفصیلات یہاں درج نوٹس سے مختلف ہیں۔خاص طور پر اِس کے کچھ حصے تو بہت زیادہ مفصل ہیں اور یہ کہنا بہت مشکل ہے کہ ترجمے میں شامل اضافی نوٹس خود اقبال نے لکھے تھے یا نہیں بہرحال یہاں نقل کیے کیے نوٹس ایک دلچسپ دستاویز ہیںاور اِن کو اس امید کے ساتھ یہاں درج کیا گیا ہے کہ کوئی سکالر اقبال کے منصوبے کے مطابق اس کتاب کو تصنیف کرنے کا کام اپنے ذمے لیں گے۔ نوٹس Introduction to the Study of Islam.3 مطالعہ اسلام کا تعارف مذہب A- Religion Is it morality touched with emotion? کیا یہ [مذہب] اخلاقیات ہے جس میں جذبات کی چاشنی ہے؟ Is it belief in a Gods or God, with some kind of worship? Mithraism Darkness Mosque کیا یہ ایک خدا یا خدائوں پر ایمان ہے۔ جس میں کسی قسم کی پرستش بھی شامل ہے؟ متھریزم تاریکی مسجد (i) Is it wholly other worldliness? لارھبانیۃ فی الاسلام لا تنس نصیبک من الدنیا کیا یہ یکسر آخرت پرستی ہے؟ (ii) Is it fear of the Invisible? لا خوف علیہم ولا ھم یحزنون کیا یہ غیب کا خوف ہے؟ (iii) Is it intimacy with the supersensible? Partly yes, but supersensible Opened to be approached in a scientific spirit ___ Ibn Khaldun, an idea of finality. کیا یہ ادراک سے بالا کسی ہستی کے ساتھ قلبی دوستی ہے؟ اس کا جواب جزوی طور پر ہاں ہے لیکن ادراک سے بالا ہستی کو آشکار کیا ہے تاکہ سائنسی طریقے سے اُس تک رسائی ہو۔ ابن خلدون، انتہا کا تصور (iv) Is it some secret teaching to be handed orally (mystery)? All early magian religions believed in it. Islam ----- No Spengler, p. 246, vol ii قد تبیّن الرشد من الغی کیا یہ کوئی خفیہ تعلیم ہے جسے زبانی دوسروں تک منتقل کیا جاتا ہے۔[اسرار]؟ سارے قدیم مجوسی مذاہب اس میں یقین رکھتے تھے۔ اسلام ۔۔۔۔۔ نہیں سپنگلر، صفحہ ۲۴۶، جلد دوم (v) Religion (Origin of the word)مذہب not used in the Quran, ملت، منہاج، دین What is the meaning of دین و ملت مذہب (اس لفظ کا ماخذ) لفظ مذہب قرآن میں استعمال نہیںکیا گیا قرآن میں جو لفظ استعمال کیے گیے ہیں وہ ہیں :ملت، منہاج، دین ۔ دین و ملت کا مفہوم کیا ہے؟ (vi) Martimon, vol i B- Islam a protest against all religions in the old sense of the word. لفظ مذہب کو اس کے قدیم معنوں میں لیا جائے تو اِسلام تمام مذاہب کے خلاف احتجاج ہے۔ (i) Abolition of Prophethood. Islam and time نبوت کی تنسیخ اسلام اور زمان (ii) The Idea of Salvation in Islam. Is it a Salvation--- religion? نجاتis used only once in the Qoran what is Najat? اسلام میں نجات کا تصور کیا یہ نجات ہے۔۔۔۔۔ مذہب؟ نجات کا لفظ قرآن میں صرف ایک بار استعمال کیا گیا ہے۔ نجات کیا ہے؟ (iii) No Secret teaching کوئی خفیہ تعلیم نہیں (iv) Belief in God (غیب ) Deracialisation of mankind اختلاف السنتکم الخ و شعوباً Economic Equlity ماذا قل العفو خدا پر یقین (غیب) بنی نوع انسان کو نسل پرستی سے پاک کرنا معاشی مساوات Church and State کلیسا اور ریاست Is Islamic Community a Juristic Person? Is Islamic State a Juristic Person? Relation of Church and State. What is state? Like marriage or Contract. The Amir and the Shaikhul Islam, etc. Heraditary monarchy. History of Islamic Priesthood. Kerbala? Effect of it. کیا اسلامی معاشرہ ایک قانونی شخصیت ہے؟ کیا اسلامی ریاست ایک قانونی شخصیت ہے؟ کلیسا اور ریاست کا تعلق ریاست کیا ہے؟ شادی اور معاہدے کی طرح امیر اور شیخ الاسلام وغیرہ موروثی بادشاہت۔ اسلامی پیشوائی کی تاریخ کربلا؟ اس کا اثر D - Islam and the woman اسلام اور عورت E - Islam and Capitalism اسلام اور نظام سرمایہ داری (i) To the Magian, Culture Revelation is a mystical process in which some spirit enters the body of a person who speaks it. من ورای الحجاب In Islam 'Wahy' (quote verses) is the universal property of life in which a man obtains contact with the ultimate springs of life. It manifests itself in 3 ways. It is abolished as a sonrce of knowledge. In Islam contemplation of Amr spreads into thought and action. It realises the immensity of the world in which old conceptions of races, community, creed vanish into nothing. It is light اللہ نورالسموات والارض It draws the world from darkness to the open day- light و اللہ یخرج من الظلمت الی النور مجوسی تہذیب میں وحی ایک پر اسرار عمل ہے جس میں کوئی روح کسی شخص کے اندر داخل ہوتی ہے اور وہ اس شخص کے ذریعے متکلم ہوتی ہے۔ اسلام میں وحی (یہاں آیات کا حوالہ دیا جائے) زندگی کی آفاقی خاصیت ہے جس میں انسان زندگی کے انتہائی سرچشموں سے ملاپ حاصل کرتا ہے۔ یہ اپنے آپ کو تین طریقوں سے ظاہر کرتی ہے۔ بطور ذریعہ علم اب یہ منسوخ ہے۔ اسلام میں امر پر غورانسان کے فکر و عمل میں سرایت کر جاتا ہے اسے دنیا کی عظیم وسعت کا احساس ہوتا ہے جس میں نسل، قوم، عقیدے کے پرانے تصورات تحلیل ہو کر فنا ہو جاتے ہیں یہ نور ہے۔ اللہ نورالسموات والارض یہ دنیا کو تاریکی سے نکال کر دن کی کھلی روشنی میں لے آتی ہے۔ و اللہ یخرجکم من الظلمت الی النور (ii) The word salvation.(نجات) لفظ نجات What is Najat? Liberation from what? نجات کیا ہے؟ کس چیز سے چھٹکارہ یا آزادی؟ not from the limitation of individuality انفرادیت کی حدود سے چھٹکارہ یا آزادی نہیں ولحکم فراد اے Not liberation from the tension of consciousness شعور کے تنائو سے چھٹکارہ یا آزادی نہیں It is relif of the Ego's loneliness in the universe. یہ کائنات میں انا کے اکیلے پن سے سکھ پانا ہے The conseption of God (Comrade) الی الرفیق الاعلے ھو معلم خدا کا تصور (ایک رفیق) (a) Sleep liberates لاتاخذہ سنۃ ولا نوم نیند آزاد کرتی ہے (b) Wine liberates قم اللّیل الا قلیلا (اجتنبوا) Breaks the vigour of consciousness شراب آزاد کرتی ہے شعور کی قوت کو توڑتی ہے۔ (c) Dancing too liberates مروباللغومروا کراما رقص بھی آزاد کرتا ہے۔ All these means of escape from space and time are discouraged. You should ouercome space and time by الا بسلطان الخ Mastering actuality by understading تفکروا فی خلق السموات الخ Fear of visible actuality i. e. Space and time is removed when we begin to understand things as causal relations. لاخوف علیھم ولا ھم یحزنون Knowledge of world کہ ایں جاجز ماو اونیست الخ as nature ----- actuality Fear overcome not by charms but by formula. زمان و مکان سے فرار کے یہ تمام ذرائع اختیار کرنے کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے۔ زمان و مکان پر حاوی ہونے کے لیے آپ کو چاہیے کہ حقیقت کو سمجھ کر اُسے اپنی دسترس میں لائیں۔ ظاہر حقیقت کا خوف یعنی زمان و مکان کی حدود مِٹ جاتی ہیں جب ہم اشیا کی علت و معلول کے تعلق کو سمجھنا شروع کر دیتے ہیں۔ بطور فطرت دنیا کا علم ۔۔۔۔ حقیقت خوف پر سحر سے نہیں بلکہ عقیدے سے قابو پایا جاتا ہے۔ (d) Knowledge of world as movement history, sufism دنیا کا بطور ایک حرکت کے علم--- تاریخ ، صوفی ازم (iii) ایمان----Security تحفظ Reform movement in Islam Ibn Taimiyya Abdul Wahab Bab [Ahmaddiya/] Prophethood/] All more or less magian. Syed Ahmad ----- Rationalism The new movement. The coming of the expected o ne مسیح وغیرہ (i) No return (ii) Traditions ----- Bukhari اسلام میں اصلاح کی تحاریک ابن تیمیہ عبدالوہاب باب احمدیہ] نبوت] یہ سب کم و بیش مجوسی ہیں سید احمد ۔۔۔ عقلیت پسندی نئی تحریک مسیح موعود کی آمد (i) کوئی واپسی نہیں (ii) احادیث ۔۔۔۔۔ بخاری اسلام پر اقبال کی مجوزہ کتاب کا مفصل خاکہ چوہدری غلام احمد پرویز کے طلوع اسلام کراچی کے ۲۲؍اکتوبر ۱۹۵۵ء کے شمارے میں چھپا ہے اس میں ہمیں کافی اضافے اور نئے نکات ملتے ہیں جن کے بارے میں ایس اے واحد کے الفاظ میں ’’یہ کہنا مشکل ہے کہ یہ اضافی نوٹس خود اقبال نے لکھے تھے یا نہیں۔‘‘ لیکن یہ کوئی ایسی گتھی نہیں جس کو کوئی محنتی سکالر سچی لگن سے کام کرکے سلجھا نہ سکے۔ اس خاکے کو حاصل کرنے کے لیے مصنف کو کراچی اور لاہور میں خاصی تگ و دو کرنی پڑی اور بالااخر چوہدری غلام احمد پرویز کے ذاتی کتب خانے سے دستیاب ہوا۔ جیسا کہ اوپر لکھا گیا اسے پچاس سال کے بعدپہلی دفعہ نذرِ قارئین کیا جا رہا ہے۔ وہ کتاب جسے اقبال لکھنا چاہتے تھے علامہ اقبال کی وفات کے ساتھ ہی یہ خبر مشہور ہو گئی تھی کہ وہ اپنی زندگی کے آخری دنوں میں ایک ایسی کتاب کی تصنیف کا ارادہ رکھتے تھے۔ جس میں بتایا جائے کہ اسلام کیا ہے اور اس کے قوانین کس طرح دور حاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگ کیے جا سکتے ہیں۔ بعض حلقوں میں یہ بھی کہا گیا کہ انھوں نے اس کتاب کا بیشتر حصہ لکھ لیا تھا۔ لیکن دیگر حضرات نے اس کی تردید کی اور کہا کہ انھوں نے اس کتاب کے صرف عنوانات اور ابواب قائم کیے تھے اور ان کے ساتھ کچھ تشریحی نکات لکھے تھے۔ کچھ دن اُدھر اخبارات میںیہ خبر شائع ہوئی کہ پنجاب اسمبلی کے رکن، محترم محمد شفیع صاحب نے علامہ اقبال کے اپنے ہاتھوں کے لکھے ہوئے کچھ نوٹس اقبال اکیڈیمی کراچی کو دیے ہیں۔ یہ نوٹس اس کتاب کے متعلق ہیں جس کے متعلق اوپر اشارہ کیا گیا ہے۔ ہمیں ان نوٹس کی نقل محترم ممتاز حسن صاحب ، سکریٹری وزارت مالیات حکومت پاکستان کی حسن وساطت سے ملی ہے۔ ان نوٹس کے شروع میں محترم محمد شفیع صاحب نے چند سطور بطور تعارف لکھے ہیں۔ ہم پہلے اس تعارفی تمہید کا ترجمہ پیش کرتے ہیں اور اس کے بعد علامہ اقبال کے ان نوٹس کا ترجمہ جس کا ذکر اس تمہید میں کیا گیا ہے۔ محترم محمد شفیع صاحب کی تعارفی تمہید ۱۹۳۷ء میںجب مجھے حضرت علامہ اقبال کے کاتب کی حیثیت سے کام کرنے کی سعادت حاصل تھی۔ انھوں نے مجھے چند کاغذات مرحمت فرمائے۔ جس میں خود ان کے قلم سے کچھ نوٹس لکھے ہوئے تھے۔ یہ نوٹس اس کتاب سے متعلق تھے جس کی تصنیف ان دنوں ان کے پیش نظر تھی اس کتاب کانام تھا (Introduction to the Study of Islam) اور اس میں اسلامی فقہ کو خاص طور پر پیش نظر رکھنا مقصود تھا۔چونکہ ان کی بینائی دن بدن کمزور ہو رہی تھی۔ اس لیے ان کا ارادہ یہ تھا کہ اپنی زیر نظر کتاب کو مجھے املا کرا دیں۔ یہ کتاب اسلامی سیاست اور فقہ کے متعلق ایک عدیم النظیر کوشش کا مظہر بننے والی تھی۔ لیکن افسوس کہ ان کی صحت اس تیزی سے خراب ہوتی گئی کہ وہ اپنے اس ارادہ کو عملی شکل نہ دے سکے حتیٰ کہ۲۱ ؍اپریل۱۹۳۸ء کو ان کی شمع حیات بجھ گئی (واضح رہے کہ حضرت علامہ کی خدمت میں اس کتاب کی تصنیفکی تجویز والیِ بھوپال نے پیش کی تھی)۔ اس وقت سے یہ نوٹس میرے پاس تھے اور میں نے ملّی امانت کے طور پر ان کی حفاظت کی۔ ایک دفعہ میں نے قائد اعظم مرحوم سے بھی عرض کیا تھا کہ میرے پاس اس قسم کے نوٹس ہیں تو انھوں نے ۲۳ ؍مارچ ۱۹۴۳ء کو مجھے جواب میں لکھا کہ … فقہ اسلامیہ کی تشکیل جدید کے متعلق اقبال جو کتاب لکھنا چاہتے تھے۔ میں اس کے متعلق ان کے نوٹس دیکھنا چاہتا ہوں تاکہ اس کے بعد میں اس پر غور کر سکوں کہ کونسی قابل شخصیت ایسی ہے جو اس کام کی تکمیل کر سکے گی چونکہ موضوع کا تعلق فقہ اسلامی سے ہے اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ اس کے لیے کسی قانون دان کی ضرورت ہو گی ۔ چونکہ حضرت علامہ کے یہ نوٹس پنسل سے لکھے ہوئے تھے۔ اس لیے مرور زمانہ سے ان کے نقوش مدہم پڑتے چلے جا رہے تھے۔۱۹۴۷ء میں جب میں سنٹرل جیل ملتان میں نظر بند تھا تو میںنے ان نوٹس کو اپنے قلم سے الگ لکھ لیا۔ اب میں یہ نوٹس بغیر کسی قسم کے ردو بدل کے قوم کی خدمت میں پیش کرتا ہوں۔ اس امید کے ساتھ کہ جو حضرات اس کے استعداد رکھتے ہوں وہ حکیم الامت کے منشا کے مطابق ایک ایسی کتاب کی تصنیف کر سکیں جو ہماری حیات ملّی میں ایک زندہ عنصر کی حیثیت رکھے۔ ------------------- محترم شفیع صاحب کا تعارفی نوٹ ختم ہوا۔ اس کے بعد علامہ اقبال کے نوٹس کا ترجمہ پیش کیا جاتا ہے۔ واضح رہے کہ علامہ اقبال نے اپنی پیش نظر کتاب کے محض عنوانات لکھے تھے اور کہیں کہیں ایک ایک دو دو لفظوں میں یہ بھی لکھ لیا تھا کہ فلاں عنوان کے تحت کیا کچھ لکھا جائے گا۔ اس سے زیادہ ان نوٹس میں انھوں نے کچھ نہیں لکھا۔ ان نوٹس کو پھیلاکر ایک مفصل مضمون بھی مرتب کیا جا سکتا تھا۔ لیکن ہم ان نوٹس کو بغیر کسی قسم کی تشریح و اضافہ کے ان کی اصل شکل میں قارئین کے سامنے پیش کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔ تاکہ جو کچھ حضرت علامہ نے لکھا ہے اس پر کسی دوسرے کا خیال اثر انداز نہ ہو۔ بعض مقامات پر بات مبہم بھی رہ گئی ہے۔ اس لیے کہ حضرت علامہ نے ان نوٹس کو محض اپنی یاد داشت کے لیے لکھا تھا۔ دوسروں کو سمجھانے کی غرض سے نہیں لکھا تھا۔ نیز بعض مقامات پر ان کی تکرار بھی ہو گئی ہے جس سے مترشح ہوتا ہے کہ اس ضمن میں جو جو باتیں ان کے ذہن میں آتی رہتی تھیں وہ انھیں بطور یاد داشت نوٹ کرتے رہتے تھے۔ بہرحال ان نوٹس کا ترجمہ حسب ذیل ہے(اصل انگریزی زبان میں ہے)علامہ اقبال کے کسی مضمون کا ترجمہ کرنا کس قدر مشکل ہوتا ہے، ارباب علم اس سے واقف ہیں ۔ لیکن جہاں صورت یہ ہو کہ انھوں نے اپنا مافی الضمیر فقروں میں نہیں بلکہ محض متفرق الفاظ اور اشارات میں ادا کیا ہو اس کا ترجمہ جس قدر مشکل ہو گااس کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ بہرحال ہم نے کوشش کی ہے کہ ترجمہ میں ان کا مفہوم سامنے آ جائے۔ علامہ اقبال کے خود نوشت نکات (ا) اسلام کا مطالعہ ضروری ہے (۱) اس میں قوت اور زندگی ہے تاریخ میں کئی مواقع ایسے آئے ہیں۔ جن میں اسلام نے یہ ثابت کیا ہے کہ اس میں ایسی قوت موجود ہے کہ وہ ان غیر اسلامی عناصر سے اپنا دامن پاک کر لے جو اس میں خارج سے داخل ہو گئے ہیں۔ نئی تحریکات ۔ مجھے ان پر زیادہ بھروسہ نہیں لیکن یہ اس اندرونی اضطراب اور پریشانی فکر و نظر کی غماز ضرور ہیں جو مسلمانوں میں پیدا ہو چکی ہیں۔ (۲) اسلام۔ عصر حاضر اور سلطنت برطانیہ۔ (ب) اسلام اور سلطنت عربی سلطنت کے اسلام پر اثرات۔ عربوں نے روم اور ایران کو تو تباہ کر دیا۔ لیکن خود ایک اور شاہنشاہیت قائم کر دی سلطنت سازی کے اسباب۔ (۱) دینی حرارت جس نے نوع انسانی کی نشاۃ ثانیہ کے لیے دل میں تڑپ پیدا کی (۲) جوع (الارضی) (Hunger) اسباب کچھ بھی ہوں۔ اس کا نتیجہ اچھا نہ نکلا۔ سلطنت کی فتوحات ان لوگوں کو اسلام کے دائرے میں لے آئیں۔ جو قدیم مسلکِ خانقاہیت کے حامل تھے۔ اور جنھیں سپنگلر مجوسی کہہ کر پکارتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کا اسلام، زمانہ قبل از اسلام کے مذہب میں تبدیل ہو کر رہ گیا۔ اور اس میں تمام (غیر اسلامی) مذاہب و مسالک کے متنازعہ فیہ مباحث شامل ہو گئے (روح، نفس، حادث، قدیم، قرآنi) لہٰذا حقیقی اسلام کے آگے بڑھنے کے بہت کم مواقع رہ گئے ۔ (ج) اسلام کے جدید طالب علم کی مشکلات اسے انبار در انبار لٹریچر کے طومار سے گذرنا ہو گا اور قرآن کا گہرا مطالعہ کرنا ہوگا میں نے ایسا ہی کیا ہے اب میں نہایت دیانت داری سے کوشش کروں گا کہ جسے میں حقیقی اسلام سمجھتا ہوں۔ اسے آپ کے سامنے پیش کر سکوں۔ (د)اسلام کیا ہے؟ کیا یہ مذہب (Religion) ہے؟ اس لفظ (ریلیجن) کے مشتقات(اس کا تقابل) لفظ دین سے جسے قرآن نے استعمال کیا ہے یعنی قانون کی اطاعت(۱۸:۵)ii قدیم ایشیائی مذاہب کی خصوصیات۔ (۱) قدیم مذہب میں وحی کا تصور۔ ایک باطنی قسم کا طریق عمل (Mystic-Process) اسلام نے وہ بنیاد رکھی جس سے اسے سائنٹفیک طریق سے سمجھا جا سکتا ہے۔ (قرآن۔ ابن خلدون۔ تصوف) (۲) نجات (۳) ترک دنیا کا عقیدہ (لارہبانیۃ) غاریں۔ تہہ خانے۔ اسلام اور عیسائیت کا تقابل (واللہ یخرجکم من الظلمٰت الی النور) (حضرت ) عیسیٰ بہ حیثیت ایک ولی(saint) کے (۴) غیر مرئی اشیا کا خوف (لا خوف علیھم ولا ھم یحزنون) (۵) سپنگلر کی بعض باطنی تعلیمات (جلد دوم ص ۲۴۶) نیز مارٹیمین جلد اوّل) (۶) کائنات اور زمان کے غیر حقیقی ہونے کا عقیدہ (ماخلقت ھذا باطلا۔ ھل اتی علی الانسان…) (۷) تقدیر کا عقیدہ (۸) تھیا کریسی (مذہبی پیشوائوں کی حکومت) اسلام ان تمام مذاہب کے خلاف صدائے احتجاج تھا۔ جو اس کے ظہور کے وقت دنیا میں موجود تھے۔ کائنات بھی حقیقی ہے زمان بھی حقیقی ہے۔ (انبیاء کا سلسلہ ختم ہو گیا) (المنتظر۔ جس کا انتظار کیا جا رہا ہے) مملکت اور کلیسا کا تعلق مملکت کیا ہے! نکاح کی طرح ایک معاہدہ (س) اسلام مذہب نہیں۔ اس سے بہت کچھ زیادہ ہے داخلی اور خارجی امن و سلامتی (۱۸:۵iii) (۱) یہ انسان کو نسلی امتیازات سے بلند لے جاتا ہے (خارجی امن) (۲) اس کا مقصد معاشی مساوات ہے (داخلی تحفظ (صیانت) (ش)خطبہ اوّل کا اختتام دو اختتامی توضیحات (۱) اسلام کا پیغام (۲) اسلام ، عیسائیت کا دشمن بلکہ رقیب بھی نہیں۔ تہذیب و تمدن کے معاملات میں یہ اس کا رفیق و معاون ہے۔ دوسرا خطبہ ۔ اسلامی قانون ڈکنسن کی کتاب After Two Thousand Years دیکھیے۔ مجوسی کلچر میں وحی ایک باطنی طریق کا نام ہے۔ اسلامی تصوف میں یہ باطنی طریق سائنٹیفک طریق پر سمجھا جا سکتا ہے۔ کیا یہ’’ اخلاقیات اور جذبات کا امتزاج ہے؟‘‘ (ا) مذہب کیا اس سے مطلب کسی قسم کی پرستش کے ساتھ ایک خدا یا بہت سے خدائوں پر ایمان ہے؟ بعض صورتوں میں خانقاہیت کامسلک؟ (i ) کیا یہ یکسر ترک دنیا اور اپنی توجہات کو دوسری دنیا پر مرکوز رکھتا ہے؟ (لا رھبانیۃ فی الاسلام) (ii ) کیا یہ غیر مرئی اشیاء سے خوف کا نام ہے؟ (لا خوف علیھم ولا ھم یحزنون) (iii ) کیا یہ ’’ماورائے حواس‘‘ سے یگانگت ہے؟ ایک حد تک اس کا جواب اثبات میں ہے۔ لیکن اس ’ماورائے حواس‘ کی طرف اقدام، سائنٹیفک اسپرٹ میں ہو گا (ابن خلدون ختم (نبوت) کا تصور) (iv )کیا یہ کوئی باطنی تعلیم ہے جو سینہ بہ سینہ آگے چلتی ہے؟ تمام قدیم مجوسی مذاہب (سپنگلر جلد دوم ص ۲۴۶۔ اسلام II ) (قدتبین الرشد من الغیّ) (۵) مذہب ۔ اس لفظ کا ماخذ۔ قرآن نے اس لفظ کو استعمال نہیں کیا۔ قرآن میں دین۔ منہاج۔ ملت کے لفظ آئے ہیں۔ ملت اور دین کے معنی کیا ہیں؟ (۶) مارٹ مین۔ جلد اوّل۔ (ب) اسلام تمام مذاہب کے خلاف(جن معنوں میں یہ لفظ قدیم زمانہ میں استعمال ہوتا ہے) صدائے احتجاج ہے۔ (۱) ختم نبوت اسلام اور زمان (ھل اتیٰ …) (۲) اسلام میں نجات کا تصور۔ کیا یہ ’’نجات دلانے کا مذہب‘‘ ہے؟ نجات کا لفظ قرآن میں صرف ایک مرتبہ آیا ہے۔ نجات کسے کہتے ہیں؟ (۳) کوئی باطنی تعلیم نہیں۔ (۴) خدا پر ایمان (غیب) نوع انسانی سے نسلی تفریق کا مٹانا۔ معاشی مساوات (قل العفو) (ج ) کلیسا اور مملکت کیا اسلام میں امت ایک فقہی تشخص (a juristic person) ہے۔؟ مملکت اور کلیسا کا تعلق۔ مملکت کیا ہے! نکاح کی طرح ایک معاہدہ۔ مہر(سرا مملکت ) شیخ الاسلام ہے وغیرہ وغیرہ وراثتی ملوکیت۔ مسلمانوں میں پیشوائیت کی تاریخ کربلا! اس کا اثر؟ (د) اسلام اور عورت (س) اسلام اور سرمایہ داری II مجوسی کلچر کی رو سے وحی ایک باطنی طریق ہے۔ جس میں کوئی روح کسی انسان کے اندر داخل ہو جاتی ہے اوراس روح کی باتیں اس شخص کی زبان سے باہر آتی ہیں۔ اسلام میں وحی (آیت کا حوالہ دیجیے) حیات کی عالمگیر متاع ہے۔ جس سے ایک فرد متمسک ہوتا ہے۔ اور اس طرح سرچشمۂ حیات (تک جا پہنچتا ہے) اس کا اظہار تین طریقوں سے ہوتا ہے ۔ اب یہ سلسلہ بطور ذریعہ علم کے ختم ہو چکا ہے۔ اسلام میں مراقبہ(contemplation) فکر و عمل دونوں کو محیط ہوتا ہے۔ یہ اس دنیا کو حقیقی بنا کر سامنے لاتا ہے جس میں نسل، قوم اور عقیدہ کے قدیم تصورات، یکسر ختم ہو جاتے ہیں۔ یہ نور ہے( اللّٰہ نور السمٰوٰت والارض) یہ دنیا (کو تاریکی سے نجات دلا کر) روشنی کی طرف لاتا ہے(واللّٰہ یخرجکم من الظلمٰت الی النور) III لفظ نجات نجات کیا ہے؟ کس بات سے چھٹکارا؟ انسانی ذات کی حدود سے چھٹکارا نہیں! (فرادیا) شعور کے تنائو (Tension) سے بھی چھٹکارا نہیں۔ یہ کائنات کی ایغو کی (reliefe) کا نام ہے۔ خدا کا تصور (رفیق کی حیثیت سے) بل الرفیق ا لاعلیٰ (ا) نیند (اضمحلال پیدا کرتی ہے (liberates) (لا تاخذہ سنۃ ولا نوم) (ب) شراب بھی ایسا ہی کرتی ہے اور شعور کی توانائی کو توڑ کر رکھ دیتی ہے۔ (ج) رقص بھی یہی کچھ کرتا ہے۔ یہ زمان و مکان سے فرار کی راہیں ہیں جن سے منع کیا گیا ہے۔ تمھیں زمان و مکان پر غالب آ جانا چاہیے (الا بسلطان) یعنی فکر کے زوبا سے موجودات (Actuality) کو مسخر کر لینا۔ (تفکر فی خلق السمٰوت) مرئی موجودات ۔ یعنی زمان و مکان کا خوف ختم ہو جاتا ہے جب ہم اشیا کو بطور اسباب و علل کے تعلق کے سمجھ لیں (لا خوف علیھم و لا ھم یحزنون) خوف جنتر منتر سے نہیں جاتا۔ بلکہ اس طرح جاتا ہے کہ ہم اشیائے کائنات کا اس طرح علم حاصل کر لیں کہ وہ قانون فطرت کی رو سے موجود نظر آنے لگ جائیں۔ (د) کائنات کا علم بہ حیثیت ایک حرکت کے تاریخ۔ تصوف (iii) ایمان۔ امن۔ تحفظ اسلام میں اصلاحی تحریک۔ ابن تیمیہ۔ عبدالوہاب بابی اور احمدیہ (نبوت)۔۔۔۔ قریب قریب مجوسی سید احمد (عقلی تحریک) تحریک جدید المنتظر کی آمد (۱) کوئی واپس نہیں آئے گا۔ (۲) روایات (بخاری) علامہ اقبال کے خود نوشت نوٹس ختم ہو گئے۔ طلوع اسلام جن خطوط پر علامہ اقبال یہ کتاب لکھنا چاہتے تھے وہ آپ کے سامنے آ گئے۔ آپ اندازہ لگائیے کہ اگر وہ اس قسم کی کتاب تصنیف فرما جاتے۔ تو وہ ملت اسلامیہ کے لیے کتنی بیش بہا متاع ہوتی۔ اس میں شبہ نہیں کہ علامہ اقبال قوم کو بہت کچھ دے گئے ہیں لیکن جن حضرات کو انھیں قریب سے دیکھنے کی سعادت حاصل تھی۔ وہ جانتے ہیں کہ جو کچھ انھوں نے قوم کو دیا ہے وہ اس کا عشر عشیر بھی نہیںجو ابھی ان کے سینے میں محفوظ تھا۔ اگر حالات اجازت دیتے اور وہ اپنی پوری فکر قوم کے سپرد کر سکتے تو اندازہ فرمائیے کہ ہمارا دامن کس قدر گراں بہا دولت سے مالا مال ہو جاتا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ علامہ اقبال نے جو کچھ دیا ہے بجز ان کی ایک کتاب ’’خطبات تشکیل جدید ivکے سب نظم میں ہے۔ جو کچھ زبان شعر میں کہا جاتا ہے وہ لاکھ حقائق پر مبنی ہو۔ اس کے باوجود ایسا واضح، متعین اور مستند نہیں ہو سکتا جیسے نثر میں لکھی ہوئی کتاب ہو سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی نثر کی کتاب (خطبات) ان کی نظم کی تمام تصانیف پر بھاری ہے اور وہی کتاب جو جس کی بناپر یورپ کے مفکرین نے ان کا لوہا مانا ہے وہ اپنی پیش نظر کتاب کو نثر ہی میں لکھنا چاہتے تھے۔ اگر وہ اسے لکھ جاتے تو یہ اسلام کی تاریخ میں کتنا اہم کام ہوتا۔ لیکن اس کا کیا علاج کہ ہماری بدقسمت قوم کو اس کا احساس ہی نہیں ہوتا کہ اس قسم کی شخصیتیں قوم کی متاع ہوتی ہیں اور ان کی حفاظت قوم کا اولین فریضہ۔ یہ قوم کے ذمہ ہوتا ہے کہ وہ ایسے افراد کو اتنی سہولتیں بہم پہنچائے کہ وہ ہر فکراور پریشانی سے آزاد ہو کر اپنے پیش نظر مقصد کی تکمیل میں پورے اطمینان سے منہمک رہ سکیں۔ لیکن ہماری قوم مردہ پرست ہے اسے زندہ انسانوں کی قدر کرنا نہیں آتا۔ انھوں نے جس قدر روپیہ علامہ اقبال کے مقبرہ کی تعمیر پر صرف کیا ہے اگر وہی روپیہ ان کی زندگی میں انھیں سہولتیں بہم پہنچانے میں صرف کر دیتے تو وہ اس کے معاوضہ میں انھیں کو کتنا کچھ دے جاتے۔ محترم شفیع صاحب نے ان نوٹس کو اس امید پر قوم کے سامنے پیش کیا ہے کہ قوم کے قابل افراد میں سے کوئی شخص حضرت علامہ کی اس آواز کی تکمیل کر سکے۔ قوم میں ایسے افراد موجود ہیں جو ان خطوط پر اس قسم کی کتاب لکھ سکتے ہیں لیکن مشکل وہی ہے جو خود حضرت علامہ کے در پیش تھی۔ ان افراد کو پریشانیوں سے فارغ کر دینے کا کوئی سامان نہیں۔ یوں تو اقبال کے نام پر ملک میں سینکڑوں ادارے قائم ہیں۔ ان میں سے بعض کو حکومت کی طرف سے بھی گرانقدر امداد ملتی ہے۔ خود مرکزی حکومت کی زیر نگرانی اقبال اکیڈیمی قائم ہے لیکن ان کا مقصد کچھ اور ہی ہے۔ اگر یہ تمام روپیہ جو اس طرح ضائع ہو رہا ہے ایک ایسے ادارے کے قیام میں صرف کیا جائے ۔ جس کا مقصد اقبال کے متعین کردہ خطوط کی روشنی میں قرآنی فکر کو عام کرنا ہو تو اس سے قوم کا حال بھی درخشندہ ہو جائے اور مستقبل بھی تابناک۔ معلوم نہیں اس قوم کو کب ایسا دن دیکھنا نصیب ہوگا؟ ۱- غالباً مسئلہ خلق قرآن کی طرف اشارہ ہے(طلوع اسلام) ۲- حوالہ میں غالباً غلطی ہو گئی ہے سورئہ مائدہ کی آیت نمبر ۱۸ اس موضوع سے متعلق نہیں (طلوع اسلام) ۳- حوالہ میں غلطی معلوم ہوتی ہے۔(طلوع اسلام) ۴- ہم نے ان کی کتاب مابعد الطبیعات کا ذکر اس لیے نہیں کیا کہ وہ ان کی طالب العلمانہ کوشش کا نتیجہ تھی۔(طلوع اسلام) /…/…/ حواشی وحوالہ جات ۱- طلوعِ اسلام، کراچی۲۲؍اکتوبر ۱۹۵۵ء ص ۱۱۔ ۲- یہ سن غالباً غلط ہے کیونکہ میں نے طلوع اسلام کے ۲۲؍اکتوبر ۱۹۵۵ء کے شمارے سے یہ نوٹس حاصل کیے ہیں (ریاض حسین) ۳- انگریزی متن کا اردو ترجمہ مصنف نے کیا ہے۔(ر۔ح) زمان و مکان کی بحث اسلامی فکر کے تناظر میں زمان و مکان کا موضوع اقبال کی زندگی میں مرکزی حیثیت کا حامل تھا۔ ۱۹۲۸ء میں آل انڈیا اورینٹل کانفرنس لاہور میں علامہ نے انگریزی زبان میں صدارتی خطبہ پڑھا تھا۔۱؎ جس میںحدیث ’’لا تسبوا الدھر‘‘ پر بحث کی۔ پھر ۱۹۲۹ء میں مدراس کے خطبات میں ایک خطبہ ’’زمان و مکان‘‘ کے موضوع پر دیا گیا تھا۔ ۳۵-۱۹۳۴ء میں رہوڈز لیکچرز کے سلسلے میں جو خط و کتابت ہوئی اس میں علامہ نے ’’زمان و مکان، کے اسلامی فکر کی تاریخ میں گہر‘‘ پر لیکچرز دئنے کی تجویزپیش کی تھی۔ اس موضوع پر وہ کافی سالوں سے تحقیق اور مشاورت کر رہے تھے۔ ۱۹۲۸ء میں علامہ نے آل انڈیا اورینٹل کانفرنس منعقدہ لاہور میں انگریزی زبان میں خطبہ صدارت پڑھا تھاجس کا اردو ترجمہ محمد دائود راہبر نے اورینٹل کالج میگزین لاہور شمارہ اگست ۱۹۴۷ء میں شائع کیا۔ اس خطبے میں زمان و مکان کی بحث کا محور مشہورحدیث ’’لاتسبوا الدھر‘‘ کو بنایا گیا ہے۔ خطباتِ مدراس میں شامل خطبے ’’زمان و مکان‘‘ میں بھی اسی حدیث پر بحث کی گئی ہے۔ اورینٹل کالج میگزین میں شائع کردہ خطبے میں اقبال لکھتے ہیں کہ بیکن Bacon کے جدید ریاضیات کے تصورات انھیں عراقی کی تصنیف غایۃ الامکان فی درایۃ المکان کی یاد دلاتے ہیں۔ ’’اگر عراقی کو ذرا زیادہ تیز نگاہ نصیب ہوتی تو وہ اس خیال تک پہنچ جاتا کہ زمان ، مکان کی نسبت زیادہ بنیادی ہے اور یہ کہتا (جیسا کہ یورپی مصنف پروفیسر الیگزنڈر نے واقعی کہہ دیا ہے) کہ ’’زمان ، مکان کا ذہن ہے‘‘ محض بطور استعارہ نہیں۔ آل انڈیا اورینٹل کانفرس کے خطبے سے معلوم ہوتا ہے کہ زمان و مکان کے اسلامی تصور کے بارے میں انھوں نے دیوبند کے مشہور عالمِ حدیث مولانا سید انور شاہ کشمیری سے مشاورت کی تھی۔ اسی طرح پیر سید مہر علی شاہ گولڑوی سے بھی انھوں نے اس موضوع پر خط و کتابت میں استفسارات کیے تھے۔۲؎ مغربی فلسفہ کہتا ہے کہ زمان سیدھی لکیر میں حرکت ہے اور مکان جسمانی واقعات کی بناوٹ یا صورت ہے۔ لیکن مسلم فلسفہ اس سے بالکل مختلف نظریہ رکھتا ہے۔ اسلامی فکر زمان و مکان کو جسمانی دنیا کی حدود سے علیحدہ کرتا ہے۔ اسلامی نقطۂ نظر سے زمان و مکان کا مسئلہ بنیادی طور پر دینی اور روحانی ہے۔ اقبال کی اس مسئلے میں شدید دلچسپی سے بہت عرصہ پہلے معتزلہ اور اشعری علما نے جوہر (ایٹم) ،تفاعل کی نوعیت اور تواتر یا مدام کے مفہوم پر بحث کی تھی انھوں نے یہ مسائل محض دانشورانہ مشق کے طور پر نہیں اُٹھائے تھے۔ وہ اِن کو ایسے زندہ مسائل سمجھتے تھے جو مسلم تہذیب کے بنائو اور بگاڑ پر براہ راست اثر انداز ہوتے تھے۔ اقبال اس نظریے کی اہمیت سے پوری طرح آگاہ تھے۔ اقبال یہ بھی بخوبی سمجھتے تھے کہ بغیر تواتر کے دورانیہ کا خیال مغربی ذہن خاص طور پر برگساں کے ذہن میں نہیں سما سکتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مغربی ذہن عام طور پر اقلیدس سے جُڑا ہوا ہے اور خاکے یا شکل سے آگے نہیں بڑھتا۔ جیسا کہ بیان کیا گیا ہے اسلامی فلسفے میں مکان کا تعین روحانی معنوں میں کیا جاتا ہے مسلمان علما کے لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے معراج کا واقعہ بنیادی طور پر مسئلہ زمان و مکان سے تعلق رکھتا ہے۔ اقبال کہتے ہیں کہ ناصر طوسی (۱۲۷۴-۱۲۰۱)کو ’’ادراکی مکان ترک کرنے کی ضرورت کا پورا احساس تھا۔‘‘۳؎ اقبال کے فلسفے کا نچوڑ یہ ہے کہ اگر انسانی ذہن کو زمان و مکان کی تین جہتوں کے احساس سے رہائی مل جائے تو یہ افلاک کی بلندیوں تک پرواز کر سکتا ہے۔ اقبال سے کئی صدیاں پہلے عراقی نے مکان کے تین سلسلے ہونے کا نظریہ پیش کیا تھا۔ مادی اجسام کا مکان، غیر مادی اجسام کا مکان اور اللہ کا مکان۔ یا مکان الٰہی ۔۴؎ جدید علم فلکیات نے عراقی کے نظریے کی تصدیق کر دی ہے کہ روشنی کا مکان، مادی اجسام کے مکان سے مختلف ہے۔ عراقی کا نقطہ نظر یہ ہے کہ ان تمام مکانوں کے درمیان فاصلے کا عنصر غائب نہیں ہے۔ مکان الٰہی میں البتہ اللہ ہر چیز سے رابطے میں ہے۔ ابوعلی الحسین ابن عبداللہ ابن سینا (لاطینی نام Avicenna ) متوفی ۱۰۷۳ نے زمان کی تین اقسام بیان کی ہیں:الزمان، الدہر اور السرمدیان الزمان وہ وقت ہے جیسا کہ عام طور پر لوگ سمجھتے ہیں۔ الدہر سارے الزمان پر محیط ہے اور السرمدیان وہ وقت ہے جس کا احاطہ نہیں کیا جا سکتا۔ سرمدی وقت کو اس لحاظ سے ہم کارِ الٰہی یا امر الٰہی کہہ سکتے ہیں۔ اقبال کے نزدیک خالص زمان (وقت)جسم کی طرح ایک اکائی ہے۔ اگر ہم اُس حرکت کو جسے تخلیق کے اندر تجسیم کیا گیا ہے خارجی نقطۂ نگاہ سے دیکھیں تو یہ ایک ایسا عمل نظر آتا ہے جو ہزاروں سالوں پر پھیلا ہوا ہے۔۔۔ ایک اور نقطہ نگاہ سے ہزاروں سالوں پر پھیلا ہوا تخلیق کا یہ عمل ایک ہی ناقابل تقسیم فعل ہے جو اتنا ہی تیز رفتار ہے جیسے آنکھ جھپکنے کا فعل۔۵؎ Avicenna ابن سینا حرکت کی جزوی نوعیت یا تقسیم سے انکار کرتا ہے۔۶؎ ابن سینا کی پیروی کرتے ہوئے اقبال یہ نظریہ قائم کرتے ہیں کہ کائنات میں حقیقی زمان و مکان دل کی دھڑکن کی مانند ہیں اور اس زمان و مکان میں حتمی حقیقت کا بہائو جاری و ساری ہے اقبال کہتے ہیں کہ ’’یہ کائنات خلا کے اندر واقع کوئی ٹھوس مادہ نہیں ہے۔ کائنات کوئی شے نہیں،عمل ہے۔‘‘۷؎ لہٰذا زمان (وقت) کے اجزا اعمال ہیں ان اعمال کی صورت کو ناپا جا سکتا ہے۔ ناپنے کے خیال سے مکان (جگہ) کا خیال پیدا ہوتا ہے۔ اقبال کے ذہن میں زمان اور مکان کے تعلق کا یہی تصور ہے۔ اقبال نے زمان و مکان کے باہمی تعلق کی جو وضاحت کی ہے وہ دراصل atomism کے اُسی نظریے کی عکاس ہے جسے ابوالالحسن الاشعری(متوفی ۹۳۵؍۹۳۶)، امام الحرمین (متوفی ۱۱۰۰)شہرستانی (متوفی ۱۱۹۰) اور الغزالی (متوفی ۱۱۱۱) نے پیش کیا تھا۔۸؎ مسلم فکر کی تاریخ میں atomic movement ذرے کی حرکت کو Empiricism تجرباتی حقیقت کا نام دیا گیا ہے۔اس میں محض غور و فکر اور نظریاتی مفروضوں کو ناقابل اعتبار ٹھہرایا گیا ہے۔ Empiricism کا مثبت پہلو یہ ہے کہ یہ ہمیں نظریاتی عقل کی حدود دکھاتا ہے۔ با قلانی نے ایمان کو مذہب سے افضل قرار دیا تھا اورغور وفکر کو رد کر دیا تھا۔ الغزالی نے عقلیت پسندی کو نہایت پست درجے میں رکھا تھا اور حتمی حقیقت کے بارے میں Voluntaristic (اپنی مرضی کا مختار)کا نظریہ پیش کیا تھا۔ غزالی کے نزدیک اول حقیقت قادرِ مطلق اور مرضی کا مختار ہے وہ وہی کرتا ہے جو اُس کی منشا ہوتی ہے وہ وہی حکم دیتا ہے جو وہ پسند کرتا ہے اور جس طریقہ سے چاہے تخلیق کرتا ہے۔۹؎ غزالی نے حتمی حقیقت کے بارے میں قرآن کے تصور ہی کی تفسیر بیان کی ہے۔ زمان کے Atomist Doctrine ( یہ نظریہ کہ کائنات ایسے چھوٹے چھوٹے ذروں سے بنی ہے جن کو تقسیم کرکے مزید چھوٹا نہیں کیا جا سکتا) کے حامی کہتے ہیں کہ دنیا ایٹمی حادثات یعنی monads کا مجموعہ ہے۔یہ نظریہ بجا طور پر دنیا کے مجموعی فکر کی تاریخ میں ایک منفرد مقام رکھتا ہے۔ مسلمانوں کا یہ Atomist تصور اقبال کے زمان و مکان کے نظریۂ اضافیت کا نقطۂ آغاز ہے زمان و مکان کی تعدادکام کرنے والوں یا ادا کاروں (یا اقبال کی اپنی اصطلاح میں Egos انائوں) کی تعداد کے برابر ہے۔ زمان و مکان میں ان لا تعداد کام کرنے والوں کی حتمی بنیاد خدائی انا کے وجود کی وسعت میں پائی جاتی ہے اقبال کے قریبی پیشرئوں میں برصغیر کے اٹھارویں صدی کے فلسفی اور شاعر خواجہ میر درد (متوفی ۱۷۸۴)منفرد مقام رکھتے ہیں۔ میر درد اس بات پر زور دیتے ہیں کہ زمان اصل موجود حقیقت کے کامل ہونے کی ایک خصوصیت ہے۔۱۰؎ میر درد [ولادت دہلی ۱۷۱۹] ایک مشہور صوفی بزرگ خواجہ ناصر کے بیٹے تھے۔خواجہ ناصر نے مابعدالطبیعیات پر ایک کتاب نالۂ عندلیب تصنیف کی تھی جس میں انھوں نے صوفیوں کے نظریۂ وحدت الوجود کی نفی کی تھی۔ خواجہ ناصر نے ہی اپنے فرزند میر درد کو صوفی مسلک میں داخل کیا تھا۔ چنانچہ میر درد نے ۱۵ سال کی عمر میں ہی خاکی دنیا سے کٹ کر روحانی دنیا کو اپنا مسکن بنا لیا تھا۔ انھوں نے دعائوں کے اسرار و رموز پر ایک رسالہ لکھا۔ اُن کی کتاب علم الکتاب اگرچہ زیادہ مشہور نہیں ہے لیکن یہ صوفیانہ عمل اور دوسرے علوم از قسم Epitemology, ontology اور gnosis پر دقیق مواد پیش کرتی ہے۔ میر درد کا صوفیانہ کلام صوفی محافل میں اکثر گایا جاتا ہے۔ برصغیر پاک و ہند میں صوفیانہ مسلک سے وابستہ حضرات کلام درد کے متوالے ہیں۔ اردو ادب میں میر درد کی شاعری اعلیٰ مقام رکھتی ہے۔ مسلمان فلسفی شاعروں کے تاریخی سلسلے میں میر درد، اقبال کے سب سے نزدیکی پیشرو ہیں۔ اقبال کی طرح درد بھی زمان اور حقیقت کے ساتھ اس کے تعلق میں گہری دلچسپی رکھتے تھے۔ درد نے ذات سے لے کر حادثات تک دُنیوی مظاہر کے چھ درجے قائم کئے تھے۔ درد فرماتے ہیں کہ پے درپے ہونے والے واقعات کا سلسلہ زمان اضافیہ (Relative time) پیدا کرتا ہے۔شے اور اس کے زمان یا واقعہ اور اس کے ہونے کے لمحہ کے درمیان قدیم فلسفی جو فرق بیان کیا کرتے تھے میر درد نے اس فرق کو مٹا دیا۔ اُن کے نزدیک وجود، شے، واقعہ اصل میں زمان کا ہی حصہ ہے چنانچہ وجود، شے یا واقعہ زمانِ حقیقی (real time) ہے۔یہ زمانِ حقیقی دہر اضافیہ (اضافی دورانیہ) کا ایک پہلو ہے۔ زمانِ حقیقی سرمدی اضافیت سے پیدا ہوتا ہے یعنی یہ ذات کا ظاہری وجود ہے جو اس کے مختلف النوع زندہ اجزا یعنی ارادہ، شعور اور قوت کا مرکب ہے۔ زمان کے بارے میں اقبال کے تصور کو ہم اس مندرجہ بالا فلسفیانہ تناظر میں ہی سمجھ سکتے ہیں۔ اقبال فرماتے ہیں کہ عظیم اور وسیع خارجی دنیا ایک مربوط اور زندہ اکائی ہے جو ’لمحہ موجود‘ کے سلسلوں کی شکل میں ہمارے سامنے آتی ہے۔ مشرقی اور مغربی فلسفے کی پوری تاریخ اس حقیقت کی گواہ ہے کہ زمان کی گتھی منطقی سوچ سے نہیں سلجھائی جا سکتی۔ منطق صرف اُسی حقیقت کو سمجھ سکتی ہے جو خارجی ہو اور تضادات سے خالی ہو۔ زمان ابدیت کے خلاف ہے اور تضادات سے خالی نہیں ہے اِسی لیے منطق زمان کی حقیقت کو نہیں سمجھ سکتی اور اس کو چھوٹاگردانتی ہے۔ Leibnitz کے خیال میں زمان بنیادی عنصر ہے۔ وہ کہتا ہے کہ زمان صرف رابطوں یا تعلقات پر مشتمل ہے کیونکہ منطقی طور پر یہ اسی طرح ہماری سمجھ میں آ سکتا ہے۔ Kant کا نظریہ یہ ہے کہ انسان زندگی میں جن تجربات سے گذرتا ہے اُن کے سمجھنے اور بیان کرنے کے لیے زمان و مکان کے وجود کو فرض کرنا لازمی امر ہے۔لیکن وہ اس بات پر بھی زور دیتا ہے کہ جب زمان و مکان کا اطلاق حقیقت پرکیا جاتا ہے تو منطقی تضادات ابھر کر سامنے آ جاتے ہیں۔ میک ٹیگرٹ Mctaggart نے زمان پر بڑی سنجیدگی سے بحث کی ہے۔ زمان اپنے اندر تضاد رکھتا ہے اور ناقابل تصور بھی ہے۔ لہٰذا یہ حقیقت نہیں ہو سکتا کیونکہ حقیقت نہ تو اپنے اندر تضاد رکھتی ہے اور نہ ناقابل تصور ہوتی ہے۔ حقیقت مربوط واضح اور سمجھ میں آنے والی چیز ہوتی ہے۔ برٹرینڈ رسل Bertrand Russell زمان کو انسانی علم سے ماورا قرار دیتا ہے۔ زمان انسانی علم کے دائرے میں نہیں آتا اسی لیے یہ ’’حقیقت کا ایک غیر اہم اور سطحی پہلو ہے۔ ماضی اور مستقبل کو اُسی طرح حقیقت تسلیم کرنا چاہیے جس طرح حال کو۔ فلسفیانہ فکر کے لیے ضروری ہے کہ زمان کی غلامی سے کسی حد تک چھٹکارہ پا لیا جائے۔‘‘۱۱؎ فلسفیانہ فکر کے لیے زمان کی غلامی سے کسی حد تک چھٹکارا پانا ضروری ہو نہ ہو لیکن زندگی اور تغیر کو صحیح طور پر سمجھنے کے لیے منطق کی غلامی سے کسی حد تک آزادی حاصل کرنا نہایت ضروری ہے۔ اقبال اعلیٰ درجے کی شاعرانہ بصیرت رکھتے تھے۔ اُن کی نظر میں زمان کی حقیقت منطق کی پکڑ میں نہیں آ سکتی۔ حقیقت زمان کو منطقی اصولوں کی مدد سے نہیں سمجھا جا سکتا۔ اپنی شاعری کے ابتدائی دور میں ہی اقبال زمان کے تخریبی پہلوسے آگاہ تھے۔۱۲؎ بعد میں شاعرکے نقطۂ نگاہ میں زیادہ وسعت پیدا ہوئی۔ اقبال نے زمان کو نہ صرف بربادی کے ایجنٹ کے طور پر دیکھا بلکہ یہ راز بھی اُن پر منکشف ہوا کہ یہ انوکھے پن اور منفرد چیزوں کی پیدائش کا سب سے بڑا محرک ہے۔ زندگی کے زیر وبم سے نئی اشکال وجود میں آتی ہیں اور کارِ حیات میں جدوجہد اور کشمکش مسلسل جاری رہتی ہے۔ تاہم زندگی کا پیغام بربادی اور مایوسی نہیں۔ بانگ درا میں اقبال یہ کہہ کر کہ بربادی کی کوکھ سے نئی تعمیر جنم لیتی ہے ہمارا دامن امید سے مالا مال کر دیتے ہیں۔ سورج لا تعداد ستاروں کی ’’موت‘‘ سے ابھر کر سامنے آتا ہے۔ یہ ابدی بے آواز کائنات تغیر اور وجود کے ایک وسیع عمل کی مظہر ہے۔ بانگ درا کی آخری نظم ’’خضرِ راہ‘‘ میں اقبال زمان کو ایک کبھی نہ ختم ہونے والے دورانیے سے تعبیر کرتے ہیں۔ وہ فرماتے ہیں کہ سلسلہ زمان کے اندر زندگی کی پیمائش نہیں کی جا سکتی۔ زمان ’’ہر چیز پر چھا جاتا ہے، ابدی اور ہمیشہ زندہ ہے۔‘‘۱۳؎ صوفیوں کے نظریات کے برخلاف اسرار خودی میں اقبال تیقن کے ساتھ فرماتے ہیں کہ خدا اور انسان (محدود ہستی) کے مابین مکمل مماثلت یا یکسانیت نہیں پائی جاتی۔ انسان اور خدا ایک نہیں ہو سکتے۔ خدا اور انسان کے باہمی تعلق میں یکجائی اور فرق دونوں پائے جاتے ہیں۔ خالق نے انسان کو جو صلاحیتیں ودیعت کی ہیں اُن سے کام لے کر انسان فطرت کو مسخرکرتا ہے۔ اقبال فرماتے ہیں کہ فطرت کو تسخیر کرنے کے اس عمل میں خدا انسان کا رفیق کار اور مددگار ہے۔ تسخیر کا یہ کام زمان کے اندر سر انجام پاتا ہے۔ بنی نوع انسان کی تاریخ دراصل فطرت انسان کی مرحلہ وار فتح کی تاریخ ہے۔ ذات حتمی حقیقت ہے اور کبھی نہ ختم ہونے والا عمل ذات کی فطرت ہے۔ انھی دو نظریات نے اقبال کو زمان کے مسئلے پر سنجیدگی سے غور و فکر کرنے پر مائل کیا۔ اسرار خودی میں اقبال نے وجود کا جو نظام پیش کیا ہے وہ ذرات کا مجموعہ ہے۔ اقبال کے لیے ذات یا خودی منفرد ہے اور قوت کا سرچشمہ ہے اور عمل اس کی لازمی فطرت ہے۔ ہر ذرہ خلقی طور پر دوسرے ذرات سے جڑا ہوا ہے اور معینہ وقت میں مکمل ہوتا ہے۔زمان اس کے لیے محض ایک دورانیہ ہے۔ اقبال نے اپنے نظریہ زمان کا بہترین شاعرانہ اظہار پیام مشرق میں کیا ہے۔نوائے وقت میں زمان کے بارے میں فرماتے ہیں کہ ’’زمان انسان کا لباس اور خدا کا پیرہن ہے اور تقدیر زمان کا وقفہ یا دورانیہ ہے‘‘۔۱۴؎ اس نظم میں زمان کے تخریبی اور تعمیری دونوں پہلو بیان کیے گئے ہیں۔ جاوید نامہ میں اقبال نے زمان و مکان اور دورانیے میں واضح امتیاز قائم کیا ہے۔ دورانیہ حقیقت ہے زمان اور مکان اسی دورانیے سے برآمد ہوتے ہیں۔ زمان و مکان کی روح زروان شاعر کو مطلع کرتی ہے کہ زمان ومکان کا جال اِستغراق اور حظ سے ٹوٹتا ہے مزید برآں زمان و مکان کو دستورِ زندگی قرار دیا گیا ہے۔۱۵؎ نظم ’’مسجد قرطبہ‘‘ میں زمان کا تعلق تاریخ سے قائم کیا گیا ہے اور تاریخ کی تعریف یہ کی گئی ہے کہ یہ اُن متحرک افرا دیا تاریخی ہیروز کے کارناموں کا سلسلہ وار ریکارڈ ہے جو سعی پیہم اور عملِ دوام سے قدروں کو عملی جامہ پہناتے ہیں اور زمان کے دھارے پر غالب آ جاتے ہیں۔۱۶؎ بال جبریل میں زمان کو واقعات کا پیہم سلسلہ،وجود میں آنے کا عمل، دن اور رات کے چکر کے بغیر ایک خالص دورانیے کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ تشکیل جدیدمیں بھی زمان اور دورانیے کی نوعیت کو فلسفیانہ بحث کا موضوع بنایا گیا ہے ۔بلکہ اِن لیکچروں کا مرکزی خیال ہی زمان کا مسئلہ ہے۔ نظریہ زمان میں اقبال محض بحث کی حد تک ہی دلچسپی نہیں رکھتے تھے۔ اُن کی رائے میں زمان زبردست عملی حیثیت کا حامل ہے۔ جو قوم تاریخ کے گہرے شعور سے بہرہ ور ہے اور ترقی کے راستے پر گامزن ہے اُس کے لیے زمان زندگی اور موت کا مسئلہ بن جاتا ہے۔۱۷؎ زمان ایک تجرباتی حقیقت ہے لیکن اس کا ٹکرائو ایک دوسری تجرباتی حقیقت یعنی مذہبی شعور سے ہو جاتا ہے کیونکہ مذہبی شعور ہمیشہ زمان اور زمانی رشتوں کی حد بندیوں پر غالب آ جاتا ہے۔ دینی رجحان رکھنے والے مفکر کے لیے ان دو متضاد تجربات کے تقاصوں کو ہم آہنگ کرنا بہت بڑا مسئلہ بن جاتا ہے اس مفکر کا مخمصہ یہ ہے کہ زمان قابل ادراک تو ہے لیکن اس کی تشریح نہیں کی جا سکتی انسان زمان کا علم تو رکھتا ہے لیکن اسے سمجھانے کے لیے زبان نہیں رکھتا۔ اسلام کی نظر میں ہر زندہ چیز کی حتمی روحانی بنیاد ابدہے اور یہ ابد اپنے آپ کو تنوع اور تغیر میں آشکار کرتا ہے۔ ایک معاشرہ جو حقیقت کے اس نظریے پر استوار ہو اُسے لازمی طور پر تغیر اور ابد کے ساتھ ہم آہنگ ہونا پڑتا ہے۔۱۸؎ خدا تعالیٰ ان معنوں میں مستقبل کا حال جانتے ہیں کہ وہ اپنی تخلیق کردہ ہستیوں کے ممکنات سے آگاہ ہیں۔ خدا کی ذات لا متناہی ہے جس کا مطلب ہے کہ وہ زمان اور متعلقاتِ زمان پر غالب ہے، زمان خدا میں ہے لیکن خدا زمان میں نہیں ہے۔ اقبال فرماتے ہیں کہ انسان صرف اپنے وجدان سے ہی زمان کو سمجھ سکتا ہے۔ زمان کی حقیقت کو انسان عقل کی مدد سے نہیں سمجھ سکتا۔انسان کی ذہانت محدود ہے اسی لیے کیا ہے۔ نہ ہے زمان نہ مکان لا الٰہ الا اللّٰہ زمان اورمکان کچھ نہیں۔ کسی چیز کا مطلقاً کوئی وجود نہیں سوائے اللہ کی ذات پاک کے۔۱۹؎ خ خ خ حواشی و حوالہ جات ۱- محمد دائود رہبر، اورینٹل کالج میگزین، اگست ۱۹۴۷ئ۔ ۲- اقبال نامہ، حصہ اوّل، ص ۴۴۴-۴۴۳۔ 3- Iqbal, The Reconstruction of Religious Thought in Islam (1951) p.184. 4- Ibid, p.185 5- Ibid, p.48 6- Sohail A Afnan, Avicenna, His life and works, Landon, Allen & unwin,(1958). pp. 212-13 7- Ibid, p. 51 8- M. M. Sharif, Muslim Thought: Its origin and Achievment, Lohore, Ashraf, (1951) p. 75 9- Abu Hamid al-Ghazzali, Tehafat al Falasifa, Trans into English by S. A. Kamali Lahore, Pakistan Philosophical congress, (1963) p. 88 ۱۰- خواجہ میر درد، علم الکتاب ، دہلی، مطبع انصاری ۱۸۸۳ئ، ص ۳۰۵- ۳۰۱۔ 11- Bertrand Russell, Our knowlege of the external world, Lendon george Allen and univin, 1952, p. 171. ۱۲- محمد اقبال ، حقیقت حُسن، بانگ درا۔ ۱۳- محمد اقبال، حقیقت حُسن، بانگ درا۔ ۱۴- اقبال، پیام مشرق، (۱۹۵۶ئ) ، ص ۱۰۳-۱۰۲۔ ۱۵- اقبال، جاوید نامہ، (۱۹۵۹ئ) ، ص ۲۲-۲۱۔ ۱۶- اقبال، بال جبریل، (۱۹۶۴ئ)، ص ۱۳۶-۱۲۶۔ 17- Iqbal, The Reconstriction, the Principle of Movement in the Structure of Islam, pp. 146-180 18- Iqbal, The Reconstriction, p.147. ۱۹- اقبال، ضرب کلیم ، (۱۹۵۹ئ) ، ص ۷۔ اقبال کے افکار تاریخِ عالم کا رخ بدل دیں گے فشر کے نام اپنے مراسلہ مورخہ ۳۱؍اکتوبر ۱۹۳۳ء میں لارڈ لوتھین نے لکھا کہ ’’ذاتی طور پر میرا خیال ہے اور ایسا میں نہ صرف ذاتی وجوہات بلکہ تمام سیاسی بنیادوں پر کہہ رہا ہوں کہ ہمارے لیے اس سے بہتر اور کوئی بات نہ ہو گی کہ اگلی سمر کے لیے ہم اقبال کو لائیں۔‘‘ اسی خط میں آگے چل کر لوتھین نے تحریر کیا ہے : ان (اقبال) کی تقرری سے نہ صرف ہمیں ہندوستان کی خوشنودی حاصل ہو گی بلکہ اس کا اثر سارے افغانستان اور مشرق وسطیٰ کی صورتِ حال پر بھی ہو گا اور جیسا کہ ارسطاطالین سوسائٹی میں اُن کے لیکچر سے بخوبی ثابت ہوتا ہے وہ یقینا اوّل درجے کے لیکچرز عطا کریں گے۔ لارڈ لوتھین نے پھر ٹرسٹینر کے اجلاس میں پیش کرنے کے لیے رپورٹ نمبر ۲۰۰ (برائے فیصلہ)بتاریخ یکم نومبر ۱۹۳۳ء کو عالم اسلام اور ہندوستان میں اُن کے مقام کا ذکر کرتے ہوئے رقم کیا۔ کہ وہ ہمعصر اسلامی دنیا میںسب سے سر کردہ دانشور ہیں۔ انھوں نے سائنس ، فلسفہ اور مذہب پر متعدد مقالات قلم بند کیے ہیںجو آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کے زیر اہتمام شائع کیے جا رہے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سیاسی نقطہ نگاہ سے بھی اُن کی تقرری سود مند ثابت ہو گی اور ہندوستان میں ہماری ساتھی مسلمان رعایا کے لیے باعث اطمینان ہو گی۔ ہندوستانی سیاست کے نقطۂ نگاہ سے اقبال کی تقریری برطانیہ کے لیے کس طرح سود مند ہوگی اس کا تفصیلی ذکر ہم گذشتہ ایک باب ’’علامہ اقبال نے آکسفورڈ جانے سے انکار کیوں کیا۔‘‘ میں کر چکے ہیں۔ چونکہ اسلامی دنیا میں اور بین الاقوامی سطح پر اقبال کا مقام بھی آکسفورڈٹرسٹیز کے پیش نظر تھا اس لیے اس باب میں ہم دنیائے اسلام اور عالمی معاملات پر اقبال کے فکر و عمل کا جائزہ پیش کرتے ہیں۔ حالیہ برسوں میں اقبال نے افغانستان کی سیاست اورتعلیمی ترقی میں مرکزی کردار ادا کیا تھا۔ امیر امان اللہ خاں والیِ افغانستان خارجہ پالیسی میں برطانیہ حکومت کے کنٹرول سے نجات حاصل کرنا چاہتا تھا۔ اُس نے حکومت ہندکی منشا کے خلاف روس سے سفارتی تعلقات قائم کر لیے تھے۔ اسی طرح اندرونی طور پر وہ قبائلی نظام ختم کرکے افغانستان میں ایک جدید معاشرہ قائم کرنا چاہتا تھا۔ برطانوی جاسوسوں نے امان اللہ خاں کا تختہ الٹنے کے لیے قبائل میں شورش کو ہوا دی۔ ملا شور بازار اور دوسرے مشائخ نیک نیتی سے (گو غلط فہمی کی بنا پر) یہ سمجھتے تھے کہ امان اللہ خاںکی معاشرے اور تعلیمی نظام کو جدید خطوط پر استوار کرنے کی پالیسی خلاف اسلام ہے۔ علامہ محمد اقبال افغانستان میں گڑبڑ کو برٹش امپریلزم کا شاخسانہ سمجھتے تھے اور امان اللہ کی روشن خیال پالیسیوں کی حمایت کرتے تھے۔ انھوں نے لاہور کے سرکردہ شہریوں اور طلبہ کے ایک اجلاس کی صدارت بھی کی تھی جس میں ’’امان اللہ فنڈ ‘‘ جاری کیا گیا تھا۔ لوگوں نے خطیر رقومات امپریل بنک آف انڈیامیں فنڈ کے کھاتے میں جمع کرائی تھیں۔ ۲۲؍فروری ۱۹۲۹ء کو انگریزی اخبار Tribune (ٹریبیون ، لاہور) میں علامہ کا ایک بیان شائع ہوا جس میں انھوں نے فرمایا: افغانستان ہی کے نہیں بلکہ ایشیا بھر کے وسیع تر مفاد کے لیے امان اللہ خاں کی حکومت کو بچانا از بس ضروری ہے۔ اخباروں میں جو کچھ شائع ہوتا ہے اکثر ناقابل اعتبار ہوتا ہے اور کابل سے آنے والے لوگوں کی رپورٹوں پر بھی مجھے اعتماد نہیں۔ امان اللہ خاں کی ناکامی کا بڑا سبب میرے خیال میں یہ ہے کہ اُس نے اصلاحات نافذ کرنے میں جلد بازی کی۔ امان اللہ خاں کے خلاف سازش کے رہنما حضرت ملا شور بازار بتائے جاتے ہیں کیونکہ اُس کے خلاف فتویٰ پر ملا صاحب نے بقلم خود دستخط فرمائے تھے۔ دسمبر ۱۹۲۸ء میں قبائلی باغیوں نے کابل کا محاصرہ کر لیا تھا اور اقبال اور قوم پرست ہندی مسلمانوں کی تمام تر حمایت کے باوجود امان اللہ خاں کی پوزیشن دن بہ دن کمزور ہوتی جا رہی تھی۔آخرکار امان اللہ خاں نے تخت سے دستبردار ہو کر روم میں پناہ لی اور ملک کو طوائف الملوکی کے حوالے کر گیا جس میں بچہ سقہ نے حکومت پر قبضہ کرلیا۔انھی دنوں ملا شور بازار لاہور تشریف لائے اور میوہ منڈی کے ایک مکان میں قیام کیا۔ ملا صاحب کی لاہور آمد کے اصل مقصد سے آگاہی حاصل نہیں ہو سکی۔ تاہم اوپر دیے گیے حالات کے پس منظر میں علامہ محمد اقبال اور ملا شور بازار صاحب کی ملاقات نے افغانستان میں سیاسی استحکام قائم کرنے میں فیصلہ کن کردار ادا کیا۔ ملاقات کے دوران دونوں زعما نے فارسی میں گفتگو کرتے ہوئے اپنا اپنا موقف بیان کیا۔ ملاقات نے امان اللہ کے ساتھ قبائل کی ناراضگی، امیر کے لوگوں پر زبردستی یورپین لباس اور طور طریقے نافذ کرنے کے بارے میں اظہار خیال کیا ۔۱؎ امان اللہ خاں کے روم جانے کے بعد جنرل نادر خاں آئے۔ انھوں نے بمبئی سے کابل جاتے ہوئے لاہور میں تھوڑی دیر قیام کیا۔ علامہ محمد اقبال دوسرے مسلمان زعما اور عوام کے جم غفیر نے ریلوے سٹیشن پر اُن کا پر جوش استقبال کیا۔ جنرل نادر خاں نے اقبال اور دوسرے معززین سے اپنے سیلون میں ملاقات کی اور ان سے مذاکرات کے بعد پلیٹ فارم پر کھڑے لوگوں کے ہجوم سے خطاب کیا جس میں انھوں نے فرمایا۔ میری طبیعت نا ساز تھی اور ابھی تک میں پوری طرح صحت یاب نہیں ہوا لیکن اللہ کا شکر ہے کہ اس بحران میں اُس نے مجھے اپنے ملک افغانستان کی خدمت کرنے کی ہمت عطا کی ہے۔ افغانستان میں آگ لگی ہوئی ہے اور میرا مقصد اس آگ کو ٹھنڈا کرنا ہے۔ میں وہاں اپنا ذاتی مفاد پورا کرنے نہیں جا رہا ہوں۔ میں چاہتا ہوں کہ وہاں امن قائم ہو۔ اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوںکہ وہ مجھے مادر وطن کی خدمت کرنے کی توفیق عطافرمائے۔ میری اللہ کریم سے یہ بھی دعا ہے کہ امیر امان اللہ خاں اپنے تخت پر جلد از جلد بحال ہوں۔ عوام نے یہ تقریر سن کر فلک شگاف نعرے لگائے۔ لوگوں نے ’’اللہ اکبر‘‘ کی گونج میں جنرل نادر خاں کو خدا حافظ کہا۔چند دنوں کے بعد خبر آئی کہ جنرل نادر خاں نے خود افغانستان کی بادشاہت سنبھال لی ہے۔ جنرل نادر خاں نے ایک ذاتی خط میں اقبال سے مالی امداد فراہم کرنے کی پر زور اپیل کی۔ افغانستان تباہی کے نزدیک ہے اور اس کی بے چارہ ملت کو بہت بڑے تہلکے کا سامنا ہے۔ افغانستان اپنے ہندی بھائیوں کی ہر قسم کی امداد و اعانت کا محتاج ہے۔ ایسے وقت میں جو خیر خواہانہ قدم آپ اٹھا رہے ہیں وہ ہمارے لیے بہت ڈھارس کا موجب ہے خصوصاً مالی امداد ۔۔۔۔ جناب فاضل محترم جس طرح افغانستان کی موجودہ مصیبت میں شریک ہیں امید ہے اس موقع پر اپنی مساعی سے کام لے کر افغانستان کی مصیبت زدہ ملت کو ہمیشہ کے لیے ممنون و متشکر فرمائیں گے۔۲؎ اس دل گداز اپیل کے جواب میں اقبال نے امپریل بنک آف انڈیا میں جمع فنڈ نادر خاں کی حکومت کی امداد کے لیے وقف کر دیا۔ ۱۹۳۳ء میں نادر خاں نے اقبال، سید راس مسعود اور سید سلمان ندوی کو ایک یونی ورسٹی کے قیام کی سکیم تیار کرنے کے لیے کابل آنے کی دعوت دی جس کا حوالہ لارڈ لوتھین نے بھی اپنے خط بتاریخ ۳۱؍اکتوبر۱۹۳۳ء میں دیا ہے۔یونی ورسٹی کے قیام کے علاوہ اقبال اور ان کے رفقائے کار سے پورے محکمہ تعلیم کا ڈھانچا بھی جدید خطوط پر منظم کرنے کی درخواست کی گئی۔ یونی ورسٹی میں میڈیکل اور انجینئرنگ کے شعبے اعلیٰ پیمانے پر قائم کیے گئے۔ ایک طرف کابل اور پشاور اور دوسری طرف کابل کو روسی سرحد کے ساتھ ملانے کے لیے نئی سٹرکیں تعمیر کی گئیں۔۳؎ اس طرح افغانستان کی تعلیم اور مادی ترقی کے علاوہ ہمسایہ ممالک کے ساتھ اس کے پر امن بقائے باہمی کے اصول پر تجارتی اور سیاسی تعلقات استوار کرنے کے لیے عملی اقدامات اٹھائے گئے۔ مشرق وسطی میں ۱۹۳۰ء -۱۹۲۰ء کی دہائی میں رونما ہونے والے واقعات پر اقبال کی گہری نظر تھی۔ جنگ عظیم اوّل میں ترکی کی شکست کے بعد Treaty of sevres,August 20,1920 کے تحت برطانیہ نے شام، عراق، فلسطین اور عرب پر براہ راست اپنا تسلط قائم کر لیا تھا۔ انگریزوں نے عربوں سے وعدہ کیا تھا کہ ترکی کی حکومت ختم کرنے کے بعد وہ مشرق قریب کے ممالک میں ترقی و خوشحالی کو فروغ دیں گے۔ لیکن انھوں نے یہودیوں کی ریاست اسرائیل قائم کرکے مسلمانوں کے ساتھ وعدہ خلافی کی اور ممالک اسلامیہ کے سیاسی اور اقتصادی مفاد کو سخت نقصان پہنچایا۔ مفتی اعظم فلسطین سید امین الحسینی جن کا علامہ بے حد احترام کرتے تھے نے علامہ کو موتمر عالم اسلامی کے اجلاس میں شرکت کی دعوت دی۔ موتمر کا مقصد فلسطین میں یہودیوں اور عیسائیوں کی عرب دشمنی اور مسلم کش پالیسیوں کے خلاف دنیائے اسلام کی رائے عامہ بیدار کرنا تھا۔ علامہ ۵؍دسمبر ۱۹۳۱ء کو فلسطین پہنچے اور موتمر میں ’’اتحاد بین المسلمین‘‘ پر ولولہ انگیز خطاب فرمایا۔ اسی پس منظر میں غالباً لوتھین چاہتا تھا کہ علامہ ۱۹۳۳ء میں ہونے والی موتمر میں عرب ممالک کے بارے میں برطانیہ کی پالیسیوںپر تنقید نہ کریں چنانچہ آکسفورڈ میں لیکچر دینے کی دعوت قبول نہ کرنے کی ایک وجہ بقول ڈاکٹر محمد دین تاثیر علامہ نے یہ بھی بتائی کہ ’’لوتھین نے علامہ اقبال سے وعدہ لیا تھا کہ وہ فلسطین آکر موتمر اسلامی میں شریک ہوں اور اسلامی ممالک کو اپنا پیغام دیں۔ بظاہر اچھی بات تھی۔ علامہ نے وعدہ کر لیا۔‘‘ بعد میں علامہ کو احساس ہوا کہ لوتھین عالم اسلام میں اُن کے اثر و رسوخ کو برطانیہ کے حق میں استعمال کرنا چاہتا ہے۔ رہوڈز لیکچرز اور موتمر کی تاریخیں پاس پاس تھیں۔ تاثیر کے الفاظ میں ڈاکٹر صاحب مروت کے پتلے تھے وعدہ بھی کر رکھا تھا کہ ممکن ہوا تو موتمر میں شریک ہوں گے۔ موتمر سے بچنے کا یہ طریقہ نظر آیا کہ آکسفورڈ نہ جائیں ۔۔۔ میں نے جب اِن سے کہا کہ آپ موتمر میں شریک ہو کر (برطانوی پالیسیوں)کے خلاف تقریر کرتے تو فرمانے لگے کہ لوتھین کو خوامخواہ خوار کرنا مناسب نہ تھا۔ اُس نے مجھ سے مروت برتی تھی میں نے بس شریک ہونے سے معذوری کا اظہار کر دیا تھا۔اصل وجہ وہ بھی سمجھ گیا ہوگا۔‘‘ ڈاکٹر محمد دین تاثیر نے یہ بھی لکھا ہے کہ اس (لوتھین) نے کیمبرج میں ایک ملاقات کے دوران مجھ سے کہا کہ : عالم اسلام میں ہی نہیں، تمام مشرق میں اقبال جیسا اثر انداز مفکر اور کوئی نہیں اور یہ بھی کہا: اقبال کے افکار تاریخ عالم کا رخ بدل دیں گے۔ سیاسی لوگ نہیں جانتے کہ اقبال کی طرح کے شاعر کس قدر مؤثر ہو سکتے ہیں۔۴؎ اقبال کی عالمی حیثیت کے بارے میں لوتھین کی اس مبنی بر حقیقت رائے کی تصدیق جدید دور کے کئی سکالروں نے بھی کی ہے۔ اقبال کی عالمی حیثیت متعین کرنے کے لیے میں نے سال ۱۹۷۷ء میں دنیا کی ممتاز یونی ورسٹیوںکے اورینٹل سکالرز سے افکارِ اقبال کے بارے میں رائے مانگی تھی۔ اس طرح ایک قسم کے ’’بین الااقوامی مراسلاتی سمپوزیم‘‘ کا اہتمام ہو گیا تھا۔ جس میں مندرجہ ذیل صاحبانِ علم و دانش شریک ہوئے۔ 1- Prof. Alessandro Baussani of the university of Roma, Italy. 2- Prof. Wejaiech Skalmowski, Leuven university, Belgium. 3- Prof. Abdul Karim Saito, Takushku university, Tokyo, Japan. 4- Prof. Carl Elof Svenning critic, Poet, Publisher from Sweden. Project Director, Unesco. 5- Prof. Dr. J. Chrishtoph Burgel universtat Bern, Switzer land. 6. Prof. Sheila McDonough Concordia university, Montreal, Quebic. Prof. Boussani نے میرے نام خط میں لکھا کہ جدید ذہن اس مخمصے میں مبتلا ہے کہ لادینی رجحانات کی حامل موجودہ سائنس اور ٹیکنالوجی کی دنیا کو من و عن قبول کرے یا روایتی مذہب، صوفیانہ عقائد، ہندو گورئوں کے فلسفے یا روایت پسندی کی طرف واپس لوٹ جائے۔ میری ذاتی رائے یہ ہے کہ اقبال کا فلسفیانہ فکر اپنے مخصوص اسلامی پہلو کے باوجود اس مخمصے کا ایک نیا حل پیش کرتا ہے۔ پروفیسر عبدالکریم ساٹو جو خود ایک راسخ العقیدہ جاپانی مسلمان ہیں بوسانی کی رائے پر صاد کرتے ہیں۔ انھوں نے اپنے خط میں تحریر کیا کہ اقبال کی فکر اور شاعری کے سوتے سچائی اور محبت سے پھوٹتے ہیں۔ سچائی اور محبت ایسی چیزیں ہیں جن کی انسان کو ہر وقت ضرورت رہتی ہے۔ خاص طور پر جدید انسان کو جس کی پیاس بجھانے کے لیے ان قدروں کی اشد ضرورت ہے۔ Prof. Wejaiech Skalmowski نے لکھا کہ اقبال ہمعصر دنیا کو ایک ایسا پروگرام پیش کرتے ہیں جو غیر مسلموں کے لیے بھی قابل قبول ہو سکتا ہے چنانچہ ان کا تعلق مسلمانوں کے اُس منتخب گروہ سے ہے جن کے بھرپور خیالات سے ہم جدید دنیا کے مختلف مسائل حل کرنے کے لیے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ Prof. Carl Elof Svenning رقمطراز ہیںکہ موجودہ اور غالباً گذشتہ صدی کی ثقافتی تاریخ میں اقبال کا ادب، فلسفہ اور مذہب کے میدان میں تخلیقی کام منفرد حیثیت رکھتا ہے۔ Prof. Dr. J. Christoph Burgel اپنے خط میںاقبال کی صرف اسلامی دنیا کے لیے اہمیت کو اجاگر کرتے ہیں۔ جدید دنیا کے لیے اقبال کی اہمیت اُن کی رائے میں یہی ہے کہ وہ اپنی ہم مذہب اقوام کو متحرک ہونے کا درس دیتے ہیں۔ Prof. Sheila McDonough فرماتی ہیں کہ اقبال کی عالمی حیثیت کے بارے میں پہلے بھی میں نے بہت کچھ لکھا ہے اور مزید لکھنے کا ارادہ رکھتی ہوں۔ تشکیل جدید پر لیکچروں اور اسرار خودی میں جو پیغام اقبال نے دیا ہے وہ آج کی دنیا میں بہت اہمیت رکھتا ہے کیونکہ معاشی حالات میں تبدیلیوں نے ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ انسان کے حالات کار کیا ہیں، وہ معاشرے میں کیسے زندگی بسر کرتا ہے اور اُسے اپنے وقت کا استعمال کیسے کرنا چاہیے۔ ان سب آرا سے دنیا کے موجودہ حالات میں اقبال کے افکار کی افادیت اور فکری مسائل کے حل کے لیے اُن کا اطلاق کرنے کی اہمیت سے آگاہی حاصل ہوتی ہے۔۵؎ جس زمانے میں اقبال کو رہوڈز لیکچر دینے کی دعوت دی جا رہی تھی۔ خود یورپ کے دانشور، ادیب اور سربراہان مملکت میں مسولینی تک افکار اقبال کے عالمی تاریخ کا رخ موڑنے کی قوت و صلاحیت سے آگاہ تھے۔اگرچہ امریکی سکالر اور محقق حفیظ اور لنڈا پی ملک لکھتے ہیں کہ ۱۹۳۲ء میںسپین سے اقبال سیدھا اٹلی پہنچے اور مسولینی سے ملاقات کی۔ یہ ملاقات مسولینی کے ایتھوپیا پر حملے سے پہلے ہوئی،۶؎ ان کی ملاقات کا کوئی ریکارڈ بہرحال میسر نہیںلیکن در حقیقت اس ملاقات کے بارے میں تین تفصیلی روایات مستند ماخذمیں ملتی ہیں۔ ان تفاصیل سے مسولینی کو اقبال کی طرف سے اسلام اور اسلامی تہذیب اور اسلامی دنیا کی حمایت کی رغبت دلانا، مسولینی کا اقبال کے افکار سے متاثر ہونا اور اقبال کی تعریف کرنا واضح طور پر معلوم ہوتا ہے۔ ممتاز صحافی مولانا غلام رسول مہر لندن میں رائونڈ ٹیبل کانفرنس کے لیے علامہ کے ساتھ گئے تھے۔ مہر صاحب لکھتے ہیں ۔ اُن کی [مسولینی اور اقبال] کی ملاقات زیادہ طویل نہیں تھی۔ مسولینی نے علامہ اقبال سے درخواست کی تھی کہ وہ اطالوی حکومت کے خرچ پر لیبیا جائیں۔ عربوں کی فلاح و بہبود کے لیے کیا اقدامات کیے جا سکتے ہیں اُن کا جائزہ لیں اور اپنی سفارشات سے اطالوی حکومت کو آگاہ کریں۔ ظاہر ہے مسولینی اسلامی دنیا میں حضرت علامہ کی عزت و وقار سے بخوبی واقف تھا اور اس سے سیاسی فائدہ اٹھاناچاہتا تھا۔ لیکن اقبال نے مسولینی کی اس پیشکش کو قبول نہ کیا۔۷؎ پروفیسر رش بروک ولیمز کی روایت کے مطابق مسولینی نے اقبال سے اپنی ملاقات کا حال اپنی دختر کے نام خط میں لکھ بھیجا تھا۔ اس خط کے مندرجات کے مطابق یہ ملاقات جو ایک بہت بڑے ہال میں ہوئی تھی چالیس منٹ تک جاری رہی۔ جب اقبال ہال میں داخل ہوئے تو مسولینی ہال کے دوسرے سرے پر ایک میز پر کام کر رہا تھا۔ اقبال قریب آئے تو مسولینی نے مصافحہ کے لیے ہاتھ بڑھایا۔ اس کے بعد یوں مکالمہ ہوا۔ مسولینی : میں نے سنا ہے کہ آپ ایک ہفتے سے اٹلی میں ہیں۔ اس ملک کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ اقبال: جناب والا میرے خیالات کی کیا اہمیت ہو سکتی ہے خاص طور پر جبکہ آپ خود فرماتے ہیں کہ مجھے یہاں آئے صرف ایک ہفتہ ہی ہوا ہے۔ مسولینی: پھر بھی میں آپ کے خیالات جانناچاہتا ہوں۔ اقبال: جناب والا ، اگر آپ میرے خیالات سنناچاہتے ہیں تو میرے لیے لازم ہے کہ آپ کوبغیر لگی لپٹی رکھے اپنے خیالات سے آگاہ کروں۔ اس پر مسولینی نے آمادگی ظاہر کرنے کے لیے سر ہلایا۔ اقبال: میرے خیال میں اطالوی، ایرانی لوگوں کی طرح ہیں۔اطالوی ذہین، تیز فہم، خوش شکل اور فن کے دلدادہ ہیں۔ یہ صدیوں پرانی تہذیب و تمدن کے وارث ہیں۔ لیکن ان میں ’’خون‘‘ نہیں ہے۔ یہ سن کر مسولینی کو بے انتہا حیرت ہوئی۔ بات جاری رکھتے ہوئے اقبال نے کہا: ایرانی اطالوی قوم پر ایک فوقیت رکھتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ ایرانی چاروں طرف سے مضبوط اور جاندار اقوام یعنی افغان ، کُرد اور ترک لوگوں میں گھر ے ہوئے ہیں اور ان اقوام سے اُن کو تازہ خون ملتا رہتا ہے۔ اطالوی قوم کو تازہ خون ملنے کا کوئی موقع حاصل نہیں۔ چنانچہ آپ کمزور رہیں گے۔ مسولینی: اچھا تو اطالویوں کو کیا کرنا ہو گا؟ اقبال: آپ یورپ کی طرف سے منہ موڑ کر مشرق کی طرف رجوع کریں۔ مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ یورپ کی اخلاقی آب و ہواصحت بخش نہیں۔ مشرق کی ہوا تازہ ہے ۔ آپ کو اس میں سانس لینا چاہیے۔ بعدمیں مسولینی اور اقبال کے درمیان خط کتابت بھی ہوئی۔۸؎ پروفیسررش بروک ولیمز نے اس خط کتابت کا صرف خلاصہ درج کیا ہے۔مسولینی نے ان خطوط میں اقبال کی اس بارے میںرائے طلب کی تھی کہ اسلامی دنیا اور خصوصاً اٹلی میں آباد مسلمانوں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے اطالوی حکومت کوکیا کرنا چاہیے۔ جواب میں اقبال نے مسولینی کو دو مشورے دیے تھے۔ ۱- روم میں ایک مسجدتعمیر کی جائے۔[اس وقت صرف روم شہر میں تین سو ایرانی آباد کار رہتے تھے] ۲- سیلرنو (Salerno) میں عرب سکالرز کی ایک کانفرنس منعقد کی جائے[یاد رہے کہ مسلمان سکالرز (Salerno) کوصدیوں سے اسلامی شہر مانتے آئے ہیں] جب اقبال مسولینی سے ملاقات کرکے صدارتی محل سے باہرنکلے تو آدھی درجن کے قریب اخباری نامہ نگاروں نے انھیں گھیر لیا۔ وہ مسولینی کے بارے میں علامہ کی رائے جاننے کے خواہش مند تھے۔ اقبال: میرے لیے اس بارے میں کچھ کہنا مناسب نہ ہو گا۔ کیونکہ پوپ ناراض ہو جائیں گے۔ اُن دنوں یورپ میں گاندھی جی کی ستیہ گرہ کا بڑا چرچا تھا۔ نامہ نگار: اگر آپ کچھ نہ کہیں گے تو ہم ستیہ گرہ کریں گے۔ اقبال نامہ نگاروں کی بات مانتے ہو ئے۔ دیکھیے، میرے خیال میں آپ کا Duce (مسولینی)بائبل کے بغیر لوتھر Luther ہے۔۹؎ فقیر وحید الدین صاحب نے بھی اقبال کی مسولینی پر اثر پذیری کی روایت بیان کی ہے۔ جس کے مطابق اقبال نے خود مسولینی سے ملاقات کرنے کی خواہش ظاہر نہیں کی تھی۔ جب علامہ روم میں قیام پذیر تھے تو مسولینی نے خود اپنا ایک ایلچی اُن کے پاس بھیجا تھا کہ وہ علامہ سے ملاقات کا متمنی ہے۔ مسولینی ایک بڑے کمرے میں بیٹھا تھا۔ میز پر کاغذات کا انبار پڑا ہوا تھا۔ اقبال کمرے میں داخل ہوئے تو مسولینی نے آگے بڑھ کر اُن کا استقبال کیا۔ اقبال نے دیکھا کہ مسولینی کا قد زیادہ اونچا نہیں لیکن اُس کے بازو بھرے بھرے، سینہ چوڑا اور آنکھیں عقاب کی طرح تیز اور روشن ہیں۔ رسمی علیک سلیک اور ایک دوسرے کی خیر عافیت پوچھنے کے بعد مسولینی نے چھوٹتے ہی ڈاکٹر صاحب سے جو سوال کیااُس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ علامہ کی رائے کو کس قدر اہمیت دیتا تھا ۔ آپ میری فاشسٹ تحریک کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟ اس نے پوچھا۔ اقبال نے جواب دیا: ’’اسلام جس نظم و ضبط کو انسانی زندگی کا خاصہ قرار دیتا ہے آپ نے اس کا بیشتر حصہ اختیار کر لیا ہے۔ لیکن اگر آپ اسلام کا پورا نظام اختیار کر لیں گے تو سارا یورپ آپ کی حکمرانی میں آ جائے گا۔ڈاکٹر صاحب نے مسولینی کو مشورہ دیا کہ یورپ سے منہ موڑ لو۔ با لفاظ دیگر انھوں نے مسولینی سے کہا کہ یورپی تہذیب اور جن قدروں کو یہ پروان چڑھا رہی ہے اُس سے کنارہ کش ہو جائو۔ مسولینی نے ڈاکٹر صاحب سے پوچھا ’’بتائیے میں دنیا بھر کے مسلمانوں کی ہمدردی ، خوشنودی اور حمایت کس طرح حاصل کر سکتا ہوں؟‘‘ علامہ نے جواب دیا۔’’آپ زیادہ سے زیادہ تعداد میں مسلمان طالبعلموں کو اٹلی میں بلائیے اور انھیں مفت تعلیم اور رہائش فراہم کیجیے۔ ‘‘ مسولینی نے ڈاکٹر صاحب سے کہا ’’مجھے کوئی ایسا مشورہ دیں جو منفرد اور لا ثانی ہو۔‘‘ ڈاکٹر صاحب نے فرمایا’’ ہر شہر کی آبادی کی ایک حد مقرر کر دو اور آبادی کو اس سے تجاوز نہ کرنے دو۔ اس حد سے زیادہ تمام اضافی لوگوں کو ایک نئی بستی میں آباد کرو‘‘۔ اس بات کو سن کر مسولینی بہت حیرت زدہ ہوا پھر پوچھا ’’اس عمل میں کیا دانائی ہے؟‘‘ ڈاکٹر صاحب نے جواب دیا ’’جتنی زیادہ آبادی ایک شہر کی بڑھتی ہے اتنی ہی کمی اس کی تہذیبی قوت میں واقع ہوتی ہے۔ حد سے زیادہ آبادی والے شہر میں تہذیبی قوتوں کی جگہ برائی کی قوتیں لے لیتی ہیں۔‘‘ ڈاکٹر صاحب نے مزید فرمایا: یہ خیال میرا اپنا نہیں بلکہ تیرہ صدیاں قبل میرے پیغمبر ﷺ نے یہ دانش مندانہ ہدایت صادر فرمائی تھی کہ جب شہر مدینہ کی آبادی ایک خاص حد سے تجاوز کر جائے تو فاضل آبادی کو شہر میں رہنے کی اجازت نہ دی جائے۔اُن کی آباد کاری کے لیے ایک نیا شہر بسایا جائے‘‘۔ یہ حدیث سن کر مسولینی بے اختیار اپنی کرسی سے اٹھا اور اپنے دونوں ہاتھ پوری قوت سے میز پر مار کر حیرت و استعجاب سے گویا ہوا‘‘کیسا بہتر خیال ہے!‘‘۱۰؎ یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ مسولینی نے اپنے اتحادی ہٹلر سے علامہ کے تبحر علمی کا اور اسلامی دنیا میں اُن کے اثر و نفوذ کا ضرور ذکر کیا ہو گا۔ علامہ میونخ یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ حاصل کر چکے تھے اور جرمنی کے دانشور اور علمی حلقوں میں جانی پہچانی شخصیت تھے۔ہٹلر بھی مسولینی کی طرح فاشسٹ تحریک کو ہندوستانی لیڈروں میں مقبول و معروف دیکھنے کا متمنی تھا جیسا کہ اُس نے جنگ عظیم دوم کے دوران آزاد ہند فوج قائم کرنے کے لیے سبھاشن چندر بوس کی پذیرائی کی تھی۔ کوئی اچنبھا نہیں کہ ہٹلر نے بھی علامہ سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی ہو، لیکن علامہ نے انکار کر دیا ہو، گو اس بارے میں ٹھوس شواہد موجود نہیں لیکن یہ موضوع بہرحال تحقیق طلب ہے اور برلن یاوی آناکے آرکائیوز میں تحقیق کرنے سے قیمتی مواد میسر آ سکتا ہے۔ فاشزم کے بارے میں علامہ کے اپنے نظریات اُن کی نظم ’’مسولینی‘‘۱۱؎ سے مترشح ہیں جن کو دہرانے کا یہ موقع نہیں۔ سیاسی لیڈروں کے علاوہ علامہ کے افکار نے یورپ کے دانشوروں کو بھی متاثر کیا۔ ۱۹۳۲ء میں علامہ نے فرانس میں برگساں سے ملاقات کی اور اُسے حضور نبی کریم ﷺ کی حدیث مبارکہ سنائی کہ ’’وقت کو بُرانہ کہو، اللہ کہتا ہے میں خود وقت ہوں‘‘ تو وہ خوشگوار حیرت کے مارے دم بخود رہ گیا اور بے قرار ہو کر بار بار علامہ سے استفسار کیا’’کیا یہ مستند حدیث ہے‘‘ظاہر ہے اس کے بعد برگساں پر اسلام کی حقانیت کے کچھ تو نقوش واضح ہوئے ہوں گے۔ خود علامہ سمجھتے تھے کہ برگساں کا فلسفہ وقت اسلامی صوفیوں کے نظریات سے قریب تر ہے۔۱۲؎ ڈاکٹر نکلسن کے اسرار خودی کے Secrets of the Self کے عنوان سے انگریزی ترجمے کے بعد میڈڈکنسن برائون ہر برٹ ریڈ وغیرہ کے بہت سے تبصرے علامہ کے افکار کے بارے میں انگلستان کے مختلف اخبارات و رسائل میں شائع ہوئے جن میں سے اکثر منفی نوعیت کے تھے اور علامہ کے افکار کی عظمت کو سمجھنے سے عاری تھے۔ڈاکٹر نکلسن نے پیام مشرق پر جو تبصرہ شائع کیا اُس کے ایک ایک لفظ سے علامہ کی عظمت کا اعتراف جھلکتا ہے۔ میں صرف ایک اقتباس پیش کرتا ہوں۔ میں جو کچھ کر سکتا ہوں وہ یہ ہے کہ شاعر کے تخیل کے اشارات قلم بند کردوں اس امید پر کہ بعض لوگ جب میرا ترجمہ پڑھیں گے تو اس عجیب و غریب کتاب کو مجموعی حیثیت سے مطالعہ کرنے کی طرف راغب ہوں گے۔ یہ اس قابل ہے کہ اقبال کی بلند اور زبردست شخصیت سے تعارف کرادے ۔۔۔۔۔ اقبال کے لیے خود شعوری و انفرادیت ہی اصل اصول ہے۔ وہ ہمیشہ علم ذات، اثبات خودی اور ارتقائے نفس کا سبق دیتا ہے۔ اس کا مقصد حیات عمل ہے۔ اس کا انجام روحانی اور اخلاقی قوت ہے جو ضبط نفس و اطاعت سے نشو ونما پاتی ہے۔ ہم مادے کو تسخیر کرنے کے بعد آزاد ہو جاتے ہیں اور پھر وحدت زندگی اور وقت کے فضائی تصور کے بعد غیر فانی زندگی حاصل کرتے ہیں۔۱۳؎ انگلستان کے ایک اور مشہور نقاد مسٹر ہربرٹ ریڈ Herbert Read نے اسرار خودی پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ اس نظم کے حسن و جمال کے آئینے میں ’’فلسفہ جدید کے اکثر مسائل منعکس نظر آتے ہیں۔ اس میں خیالات کی فراوانی ہے لیکن ان میں اتحاد پایا جاتا ہے اور اس کی منطق ساری کائنات کے لیے آوازِ غیب کا حکم رکھتی ہے۔‘‘۱۴؎ انگلستان کے ادیبوں میں بیسویںصدی کے عظیم ترین ناول اے پیسج ٹو انڈیا A Passage to India کے مصنف ای ایم فورسٹر E.M.Forster اقبال کے پیغام سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے۔ ای ایم فورسٹر اکتوبر ۱۹۱۲ء میں پہلی دفعہ ہندوستان آئے تو اپنے دوست سر راس مسعود کے ساتھ دہلی میں ڈاکٹر مختار احمد انصاری کے گھر ’’بہشت‘‘ میں مہمان رہے۔ یہاں فورسٹر کی ملاقات مولانا محمد علی جوہر سے بھی ہوئی۔ ڈاکٹر انصاری سے علامہ ۱۹۰۷ء میں انگلستان میں مل چکے تھے۔۱۵؎ لاہورمیں فورسٹر اپنے دیرینہ ہمدم سر میلکم ڈارلنگ، فنانشل کمشنر حکومت پنجاب کے ہاں قیام پذیر ہوئے۔ میلکم ڈارلنگ سے علامہ کا دوستی کا تعلق کیمبرج یونی ورسٹی میں زمانہ طالب علمی کے دوران ہوا اور زندگی بھر قائم رہا۔۱۶؎ یہ سب حضرات اقبال کی شاعری اور افکار کے مداح تھے اور انھی کی مجلس میں ای ایم فورسٹر کو اقبال کی شاعری اور فکر سے دلچسپی پیدا ہوئی۔ چنانچہ وہ متواتر علامہ کے بارے میں برطانیہ، ہندوستان اور تقسیم ہند کے بعد پاکستانی اخبارات و جرائد میں لکھتے رہے۔۱۷؎ مضمون Two Cheers for Democrascyمیں تو فورسٹر نے ہندوستان میں "One of the two great cultural figures of modern India" ہندوستان کی دو عظیم ثقافتی شخصیات میں سے ایک (دوسری شخصیت سے مراد رابندر ناتھ ٹیگور ہیں)قرار دیا ہے۔ ابتدائی دور میں قائد اعظم کی طرح اقبال بھی انڈین نیشنلزم کی بنیاد پر آزادی ہند کے حامی تھے اس دور میں پین اسلامزم(اتحاد بین المسلمین) کے تصور کے ساتھ گہری وابستگی کے ساتھ ساتھ انھوں نے ’’ترانۂ ہندی‘‘ اور ’’نیا شوالہ ‘‘ جیسی نظمیںبھی لکھیں جن میں سیاسی آزادی اور معاشی ترقی کے لیے ہندومسلم اتحاد کا خیال بھی منعکس ہو تا ہے۔ اقبال کے انھی افکار کو فورسٹر نے اپنے ناول A Passege to India میں شروع سے لے کر آخر تک سمویا ہے۔ اس ناول میں حافظ ، غالب اور حالی کے ساتھ ساتھ اقبال کا ذکر بھی کیا گیا ہے۔۱۸؎ ناول کے ہیرو ڈاکٹر عزیز (جو میری تحقیق کے مطابق ڈاکٹر مختار احمد انصاری ہیں) اور دوسرے اہم کردار بیرسٹر محمود علی (جو میرے جمع کردہ شواہد کے مطابق مولانا محمد علی جوہر ہیں) پین اسلامزم اور آزادیِ ہند کے سرگرم حامی ہیں۔۱۹۱۲ء میں مسلمان دانشور جن میں سر راس مسعود، اقبال، ڈاکٹر انصاری اور مولانا محمدعلی جوہر نمایاں تھے،اس بات کے خواہاں تھے کہ تکنیکی مزاج کے محنتی اور جفاکش جاپانیوں کو حلقہ بگوش اسلام کیا جائے تاکہ ان کی مدد سے کمزور اور مغلوب مسلم اقوام یورپ کی استعماری طاقتوں کے چنگل سے آزاد ہوں۔ چنانچہ جاپانیوں میں تبلیغ اسلام کے لیے اقبال نے تو اپنی زندگی وقف کرنے کا عندیہ ظاہر کر دیا تھا اور جاپان جانے کی تیاری بھی کر لی تھی۔ ۱۹؎ A Passege to India میں ڈاکٹر عزیز کا انگریز دوست فیلڈنگ اُسے طعنہ دیتا ہے: Whom do you want instead of the English the Japanese ? (انگریزوں کی جگہ کس کو لانا چاہتے ہو؟ جاپانیوں کو)۔۲۰؎ اقبال کی جس نظم سے ای ایم فورسٹر سب سے زیادہ متاثر ہوا وہ ہے ’نیا شوالہ‘ جس کا ترجمہ فورسٹر کے "The Temple of India" کیا اور رسالہ ایتھنیم لندن میں اس پر تبصرہ بھی کیا۔۲۱؎ اس نظم کے بارے میںڈاکٹر رفعت حسن لکھتی ہیں: نوجوان اقبال کو اپنے اردگرد ہندو مسلم منافرت دیکھ کر بہت دکھ ہوا شاعر کو اپنے ملک سے بے حد لگائو تھا۔ لیکن یہاں کی عبادت گاہوں میں نفرت کا زہر پھیلا ہوا تھا۔ چنانچہ اُس نے کھل کر مُلا اور برہمن کو آڑے ہاتھوں لیا۔ وہ ایک ’نیا شوالہ‘ محبت کا مندر تعمیر کرنا چاہتا تھا جہاں سب لوگ یکجا ہو کر عبادت کریں۔۲۲؎ فورسٹر نے A Passege to India کے تیسرے حصے کا عنوان Temple رکھا ہے اوراس میں اقبال کی نظم ’نیا شوالہ‘ میں ہندومسلم اتحاد کے پیغام کو اجاگرکیا ہے۔ مسلمان ڈاکٹر عزیز ایک Temple of love Temple of India تعمیر کرنے کی شدید خواہش رکھتا ہے۔۲۳؎ برہمن پروفیسر گاڈیولے برہمو سماج یعنی وحدانیت اور آفاقی محبت اور یگانگت کے گیت گاتا ہے۔۲۴؎ پروفیسر احمد شاہ بخاری پطرس پہلے نقاد تھے جنھوں نے انگلستان اور ہندوستان کے ادبی اور سیاسی حلقوں کو باور کرایا کہA Passege to India میں ہندوستان کی سچی تصویر پیش کی گئی ہے۔۲۵؎ لیبر پارٹی کی مطبوعات میں اس ناول کو ہندوستانی معاملات میں دلچسپی رکھنے والے سیا ستدانوں کے مطالعے کے لیے لازمی قرار دیا گیا ہے۔ اسی طرح سول سروس کے انگریز افسران وطن سے ہندوستان آتے وقت بحری سفر کے دوران اس کا مطالعہ کرتے تھے۔ لارڈ ریڈنگ سے لے کر آخری دو وائسرائے لارڈ ویول اور لارڈ مائونٹ بیٹن نے اس ناول کو پڑھا تھا۔۲۶؎ نراد سی چوہدری کے مطابق اس ناول نے برطانوی حکمرانوں کے ذہن کو ہندوستان کو آزادی دینے کی طرف موڑنے میں اہم کردار ادا کیا۔۲۷؎ اقبال کا خطبہ الٰہ آباد (۱۹۳۱ئ) جنوبی ایشیا میں ایک نئی مملکت ’’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘ کو وجود میں لانے کا باعث بنا اور پھر یہ امر کہ اقبال کے ابتدائی فکر کی تفسیر دنیا میں آج تک لکھے گئے عظیم ترین ناولوں میں شمار ہونے والےA Passege to India نے آزادِی ہند کی فضا بنانے میں اہم کردار کیا جس کے بعد ایشیا، افریقہ اور لاطینی امریکہ کے دوسرے ممالک کو آزادی دینے کا ناگزیر عمل شروع ہوا اس بات کی قوی دلیل ہے کہ اقبال کے افکار تاریخ عالم کا رخ موڑنے کی قوت رکھتے ہیں۔ /…/…/ حواشی و حوالہ جات ۱- عبداللہ چغتائی، اقبال کی صحبت میں، مجلس ترقی ادب، لاہور، ۱۹۷۷ء ، ص ۱۹۲-۱۹۱۔ ۲- ایضاً، ص ۳۷۵-۳۷۴۔ 3- Riaz Hussain, Politics of Iqbal, Lahore, 1977, pp. 126-128. ۴- قندیل ۴:۹ (۲۱؍اپریل ۱۹۵۰ئ) ،ص ۱۱۔ ۵- بین الااقوامی سکالروں کے خطوط کے مکمل متن کے لیے دیکھیے۔ Riaz Hussain, Iqbal- An Internatanal Missionary of Islam, Iqbal Acadmey, Lahore (1984) 6- Hafeez Malik (ed), Iqbal, columbia universty press (1971) p. 31. ۷- غلام رسول مہر، سفر نامہ اقبال، کراچی صفحہ ۱۲۱۔ ذہن میں رکھیے لوتھین کا اقبال کو موتمر عالم اسلامی میں برطانوی حکومت کے حق میں تقریر کرنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کرنا اور اقبال کا انکار۔ ۸- راقم الحروف نے اصل خطوط کا کھوج لگانے کی کوشش کی ہے لیکن کامیاب نہیں ہوئی۔ یہ خطوط اطالوی حکومت کے آرکائیوز یا روم کے کسی عجائب گھر میں ہو سکتے ہیں۔ کسی نوجوان محقق کی کاوش سے شاید ایک دن یہ خطوط منظر عام پر آ جائیں۔ (ر) ۹- پروفیسر رش بروک ولیمز کی اس روایت کے لیے دیکھیے شاعر مشرق ، ماہ نو، اقبال نمبر، اپریل ۱۹۷۰ئ۔ ۱۰- فقیر وحید الدین ، روز گار فقیر، جلد اوّل، ص ۴۸؍مزید دیکھیے۔ Riaz Hussin, Iqbal Mussolini Parleys Duce Called to Islam, The Nation (Iqbal Anniversary Special) April 21, 1991. ۱۱- اقبال، ضرب کلیم (۱۹۵۸ئ) ص ۱۵۸۔ 12- Hafeez Malik,(ed) opp cit p.30 ۱۳- (۱۹۲۵ئ) Islamica (Leipzig, Germany, V.I No. I نیز دیکھیے ڈاکٹر عبداللہ چغتائی، اقبال کی صحبت میں، ص ۱۴۸۔ ۱۴- عبداللہ چغتائی ، اقبال کی صحبت میں، ص ۱۰۴-۱۰۳۔ 15- Mushir-ul-Hussan, A Nationalist Conscience, M. A. Ansari, the Congress and the Raj Manohar, New Delhi, (1987) p.16. ۱۶۔ ڈاکٹر محمد عبداللہ چغتائی، اقبال کی صحبت میں [ترقی ادب، لاہور، ۱۹۷۷ئ] ، ص ۴۴۹-۴۴۸۔ 17- E. M. Forster, The Poetry of Iqbal, The Athenum, London, 5-10 deember, 1920, p. 804. - Muhammad Iqbal, Two cheerd for democracy, Anold (London) 1972, pp. 282-284. - Pakistan time, lahore, Iqbal supplement, 21 april, 1959. - Pakistan Review, Iqbal number, 1953. 18- E. M. Forster, A Passage to India [pengion edition (1981)] pp.38, 118, 119, 133. ۱۹- پیسہ اخبار، لاہور، ۲۹ ؍جنوری۱۹۱۲ء اور ۲۱؍مارچ ۱۹۱۲ئ۔ 20- E. M. Forster, A Passage to India, opp cit, p. 315. 21- E. M. Forster, The Poetry of Iqbal, The Atheneam, London, december 5-10 (1920) p. 804. 22- Hafeez Malik (ed), Iqbal, [Columbia university press, New york (1971) p.1380.] 23- A Passage to India, p.265. 24- Ibid, p.283. 25- A. S. B, Homage E. M. Forster, Nation and Atheneum, London, [4 Augast 1928, p.500] 26- Inroduction to Penguim edition of novel (1981), p.24. 27- Nirad C. Chaudhuri A Panage to and from India, Encounter (june1954) p. 19. 28- Introduntion to Panguine Edition of the novel (1981), p.24 ہندوستان میں لٹریچر ذریعۂ روز گار نہیں ہے علامہ محمد اقبال نے لوتھین کے نام اپنے مکتوب بتاریخ ۱۴؍جنوری ۱۹۳۴ء میں ذکر کیا ہے کہ ہندوستان میں لٹریچر ذریعہ روز گار نہیں ہے۔ یورپ اور امریکہ میں تو لٹریچر تخلیق کرنا ایک علیحدہ پروفیشن ہے اور کسی مصنف کی ایک کتاب بھی شائع ہو جائے تو اُسے روز گار کی کوئی فکر نہیں اور نہ اُسے کسی اور پروفیشن کو اختیار کرنے کی مجبوری ہوتی ہے۔ جیسا کہ علامہ نے لکھا ہے کہ انھیں اپنی روزی روٹی پیشۂ وکالت سے کمانی ہوتی ہے۔ تاہم یہ حقیقت اپنی جگہ قائم ہے کہ علامہ کی زندگی میں اور اُن کی وفات کے بعد علامہ کی کتابیں کثیر الاشاعت تھیں یہ الگ بات ہے کہ مالی طور پر علامہ کو ان سے کوئی خاص فائدہ نہ ملا۔ علامہ کی کتب کے کثیر الاشاعت ہونے کا ثبوت یہ ہے کہ ہندوستان کے تمام صوبوں میں جہاں اردو بولی اور پڑھی جاتی تھی اور جہاں اردو جاننے والے بہت کم تھے وہاں بھی اُن کی کتب دستیاب تھیں مثلاً مدراس کا واقعہ ہے کہ مستورات کی ایک تقریب میں خواتین نے علامہ سے درخواست کی کہ وہ اپنی کوئی نظم سنائیں آپ نے جواب دیا کہ مجھے تو اپنا کلام اچھی طرح یاد بھی نہیں ہے اور نہ میرے ہمراہ کوئی کتاب ہے۔ اس پر پردے کے اندر سے جہاں خواتین بیٹھی تھیں بانگ درا کے کئی نسخے باہر پہنچائے گئے تو علامہ بھی سنانے پر مجبور ہو گئے۔۱؎ فقیر سید وحید الدین صاحب نے اپنی کتاب روزگار فقیر میںعلامہ کی کتب کی اشاعت کے سلسلے میں دلچسپ اعداد و شمار رقم کیے ہیں۔ ان اعداد و شمار میں مطبوعہ کتب کی وہ تعداد شامل نہیں جو ناشرین نے غیر قانونی طور پر چھاپی تھیں۔ نیز اعداد و شمارہر کتاب کے پہلے ایڈیشن کی تاریخ سے لے کر اُس سال تک مرتب کیے گئے ہیں جو فقیر صاحب کو میسر آ سکے۔ عنوان سال ایڈیشنز تعداد اسرار خودی (فارسی) ۱۹۱۵-۱۹۵۹ء پانچ ۱۳۰۰۰ پیام مشرق(فارسی) ۱۹۲۳-۱۹۵۸ء نو ۱۸۰۰۰ بانگ درا (اردو) ۱۹۲۴-۱۹۶۲ء بائیس ۱۱۴۰۰۰ زبور عجم (فارسی) ۱۹۲۷-۱۹۵۹ء سات ۱۶۴۰۰۰ جاوید نامہ (فارسی) ۱۹۳۲-۱۹۵۹ء چار ۶۰۰۰ بال جبریل (اردو) ۱۹۳۵-۱۹۶۲ء بارہ ۶۲۰۰۰ پس چہ باید کرد اے اقوام شرق (فارسی) ۱۹۲۶- ۱۹۵۹ء چار ۱۱۰۰۰ ضرب کلیم (اردو) ۱۹۳۶-۱۹۵۹ء دس ۴۳۰۰۰ ارمغان حجاز (علامہ کی وفات کے بعد شائع ہوئی) ۱۹۳۸-۱۹۵۹ء سات ۲۲۰۰۰ کل تعداد۲؎ ۴۵۳۰۰۰ جہاں تک میری معلومات ہیں علامہ کی کتب کے Pirated Editions بھی لاکھوں کی تعداد میں شائع ہوئے اور کثرتِ اشاعت کتب میں غالباً ہندوستان کا کوئی دوسرا مصنف علامہ کی ہمسری کا دعویٰ نہیں کر سکتا۔ /…/…/ حواشی و حوالہ جات ۱- ڈاکٹر محمد عبداللہ چغتائی، اقبال کی صحبت میں ، مجلس ترقی ادب، لاہور، (۱۹۷۷ئ)،ص ۳۲۹۔ ۲- دیکھیے : فقیر سید وحید الدین ، روز گار فقیر، جلد اوّل، لائن آرٹ پریس، کراچی (۱۹۶۶ئ) ص ۲۱۶-۲۱۵۔ اقبال کی اسلامیت کے انگریز ناقد ایڈورڈ تھامپسن نے لوتھین کے نام اپنے خط مجریہ ۱۶؍جنوری۱۹۳۴ء میں اقبال کی اسلامیت اور خود اسلام پر خاکم بدہن بڑے رقیق حملے کیے ہیں۔ ایک طرف تو انگریز جیسے کہ لارڈ لوتھین اقبال کی اسلامیت کو عالمی حالات کا رخ بدلنے کی قوت کا حامل سمجھتے تھے دوسری طرف وہ اس سے شاکی بھی تھے اور اسے ذہنی طور پر قبول کرنے کی وسیع القلبی اور رواداری کا مظاہرہ کرنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ ڈاکٹر محمد دین تاثیر نے فلسفۂ اقبال کے عنوان سے ایک مقالہ راوی میں شائع کیا تھا جس میں انھوں نے اقبال کی اسلامیت کے انگریز ناقدین کی ذہنیت کا کمال مہارت سے تجزیہ پیش کیا ہے۔ اسرار خودی کا انگریزی مترجم پروفیسر نکلسن دیباچہ میں لکھتا ہے اسرار خودی رونما ہوتے ہی نوجوان ہندوستانی مسلمانوںکے دلوں پر ایک سیل ہمہ گیر کی طرح قبضہ پا گئی ایک نوجوان لکھتا ہے کہ ’’اقبال ہمارا مسیحا ہے اس کے دمِ جاں بخش نے مردوں کو حیات جاودانی عطا کر دی ہے‘‘ اور یہ محض نکلسن کی رائے نہیں۔ رسالہ Atheneum میں فارسٹر لکھتا ہے کہ: ٹیگور کو عام ہندوستانیوں نے اس وقت نہ پوچھاجب تک وہ یورپ سے نوبل پرائز نہ حاصل کر لایا بخلاف اس کے اقبال کی ناموری یورپ کی اعانت سے بالکل مستغنی ہے۔ اس کا نام اس کے ہم وطن مسلمانوں میں بچہ بچہ کی زبان پر ہے۔ لاہور، دہلی، علی گڑھ، حیدر آباد ، بھوپال سب اس کی شاعرانہ عظمت کو تسلیم کر چکے ہیںاسرارخودی کا انگریزی میں ترجمہ ہونے کے بعدیورپ میں اقبال پر خاص توجہ ہونے لگی۔ مشہور ادبی رسالوں میں طرح طرح کی تنقیدیں شائع ہوتی رہیں۔ انگریز ریویو نگاروں نے یہاں بھی وہی اپنے مخصوص رویے سے کام لیا۔ یورپی دانشور اسلام کو ایک علیحدہ مذہب ماننے سے انکار کرتے ہیں اس حقیقت کا ذکر کرتے ہوئے تاثیر لکھتے ہیں: تاج محل ایک فرانسیسی کی تعمیر ہے۔ انور پاشا فرنگی نسل سے ہے اور تو اور خود ہادیِ اسلام علیہ السلام کی تعلیم کو ایک عیسائی راہب کی تدریس کا نتیجہ بتایا جاتا ہے اور کئی محب وطن حضرت عیسیٰ کو بھی ایشیا سے فرنگستان میں لے گئے۔ اسی ذہنیت نے اقبال کے نقادوں کو یہ کہنے پر مجبور کیا کہ اقبال کا فلسفہ سیاست ایک ایسا مرکب ہے جس کی ترکیب میں نطشے، برگسان اور میک ٹیگرٹ شامل ہیں۔ فارسٹر بھی جس نے تنقید میں سب سے زیادہ تحقیق سے کام لیا ہے لکھتا ہے کہ ’’ اقبال نے قرآن نطشے میں تطبیق دے دی ہے اور انسانِ کامل کا تخیل اسی کی راہنمائی کے اثر سے ہوا ہے‘‘۔ ڈکنسن کے دو غلے ذہن کو آشکار کرتے ہوئے تاثیر لکھتے ہیں: یہی ڈکنسن صاحب جو دورانِ تنقید میں اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ ’’بلند پروازی، جامعیت، حسن تخیل، ترجمہ کی قدرتی کوتاہی کے باوجود پھوٹ پھوٹ کر نکلتی ہیں‘‘اقبال کی شاعری کو آئندہ کے واقعات کے حق میں ایک ’’شگون نحس‘‘ تعبیر کرتے ہیں۔ انھیں اقبال کی تعلیم ایک ستارہ خونیں معلوم ہوتی ہے جو دنیا کو جنگ وجدال کی طرف لے جانے والی ہے۔ انھیں یہ خوف محسوس ہونے لگا ہے کہ کہیں مشرق مسلح ہو کر مغرب کو تسخیر نہ کر ڈالے۔ ان کے سامنے اسلام کی متعصبانہ تصویر کھینچ آتی ہے جس میں اسلام ایک وحشی ترکمان کے ہاتھ میں ایک برہنہ تلوار دکھائی دیتا ہے جس سے خون کے قطرے ٹپک رہے ہیں۔۱؎ ایڈورڈ تھامپسن نے اپنے خط میں لوتھین کو لکھا ہے کہ اسلام صرف وحشی اور حبشی اقوام کے لیے موزوں ہے اور مابعد الطبیعیاتی فلسفے سے بالکل عاری مذہب ہے۔ اس کی تردید اقبال نے ڈاکٹر نکلسن کے نام اپنے خط مجریہ ۲۴؍جنوری۱۹۲۱ء میں ہی کر دی تھی۔ اس خط میں وہ لکھتے ہیں: قرآن یقینا مابعد الطبیعیاتی فلسفے کی کتاب تو نہیں ہے لیکن زندگی اور انسان کے انجام کے بارے میں اس کے قطعی نظریے کی بنیاد یقینا مابعد الطبیعیاتی فلسفہ ہی ہے۔ بدقسمتی سے مغرب میں اسلامی فکر کی تاریخ سے لا علمی پائی جاتی ہے۔ میری خواہش ہے کہ اگر میرے پاس وقت ہوتا تومیں اس موضوع پر ایک تفصیلی کتا ب لکھ کر فلسفے کے مغربی طالب علم کو دکھاتا کہ فلسفیانہ خیالات کس طرح ساری دنیا کو ایک برادری بنا سکتے ہیں۔۱؎؎ ڈکنسن نے اسرار خودی کے ریویو میں لکھا تھا کہ اقبال کا فلسفہ یہ ہے کہ خدا کی سلطنت کے شہری ہونے کے حقدار صرف مسلمان ہیں باقی مخلوق کو یا تو اسلام میں ضم کر لیا جائے گا یا نکال باہر کیا جائے گا۔۳؎ اس کی پرزور تردید کرتے ہوئے اقبال نے لکھا تھا ’’صرف مسلمان ہی نہیںبلکہ تمام انسان زمین پر خدا کی سلطنت کے شہری ہوں گے، بشرطیکہ وہ نسل اور قومیت کے بتوں کو پوجنا چھوڑ دیں اور شخصی بنیادوں پر ایک دوسرے سے برتائو کریں۔‘‘۴؎ /…/…/ حواشی و حوالہ جات ۱- راوی ، جنوری، فروری ۱۹۳۹ئ؍ نیز دیکھیے افضل حق قرشی(مرتب) ، اقبال کا فکر و فن، از ڈاکٹر تاثیر، یونیورسل بکس، لاہور، ۱۹۸۸ء ، ص ۱۰۷-۱۰۹۔ 2- Syed Abdul Vahid, Thonghts and Reffections of Iqbal, Ashraf Lahore, Letter to Dr. Nicholson, PP. 101-102. 3- Dickinson, "Review of the Secrets of self by Muhammad Iqbal", The Nation (Landon), 24 december 1920, p. 458. 4- Riaz Hussain, The Pelitics of Iqbal, Islamic book service, Lahore, 1977, p. 26 اقبال کی خطوط نویسی اقبال کی خطوط نویسی کے بارے میں اُن کے دیرینہ مصاحب اور نیاز مند ڈاکٹر محمد عبداللہ چغتائی نے بہت دلچسپ معلومات فراہم کی ہیں۔ وہ لکھتے ہیں: علامہ کے خطوط لکھنے کا لیٹر پیڈ ابتداً ایک ہی طرح کا تھا جس کے بائیں کونے میں اوپر کی طرف ہاتھی کی چھوٹی سے اُبھری ہوئی تصویر بنی ہوئی تھی مگر جب آپ لیجسلیٹو کونسل کے ممبر بن گئے تو کسی دوست نے آپ کے نام کا پیڈ بنوا دیا جس کے ساتھ ایم ایل سی کے حرف بھی ہوتے تھے (یعنی ممبر لیجسلیٹو کونسل) ۱؎ یہ غالباً تیس کی دہائی سے پہلے کی بات ہے۔ اس مجموعے میں لارڈ لوتھین کے نام ابتدائی دو خطوط [۶؍ستمبر ۱۹۳۳ء اور ۱۴؍جنوری ۱۹۳۴ئ]پر بائیں جانب چار سطروں میں Dr.Sir, Mohd Iqbal.Kt M.A. Ph. D Barrister at Law, Lahore. پرنٹ ہے۔ اس کے مقابل دائیںجانب جگہ خالی ہے جہاں اقبال نے اپنے قلم سے تاریخ لکھی ہے۔ البتہ ۲۸؍مارچ ۱۹۳۴ء اور اس کے بعد کے خطوط ایسے پیڈ پر لکھے گئے ہیں جس میں M. A. Ph. D کے بعدL.L.D کا اضافہ ہے۔ ۱۹۳۳ء میں پنجاب یونیورسٹی نے علامہ اقبال کو L.L.D کی اعزازی ڈگری عطا کی۔اس کے بعد نئے پیڈ چھپوائے گے جن میں یہ اضافہ بھی پرنٹ کیا گیا۔ اقبال کی مراسلہ نگاری کی خصوصیات کے بارے میں ڈاکٹر چغتائی رقم طراز ہیں: خطوط لکھتے وقت وہ بعض امور پر بطور خاص توجہ دیتے تھے۔ ایک تو تاریخ نہایت التزام سے لکھتے تھے، دوسرے مکتوب الیہ کا پتا بہت چھان بین کے بعد درج فرماتے تھے اور تیسرے خط کے اختتام پر اپنا نام اور اس کے جزو’’محمدؐ‘‘ پر ’ص‘ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کا حرف باقاعدگی سے لکھتے ۔ ان کے تمام خطوط میں یہ امور قدرِ مشترک کی حیثیت رکھتے ہیں۔۲؎ چغتائی صاحب نے یہ نوٹ علامہ کے اردو خطوط کو مدنظر رکھ کر لکھا ہے لیکن انگریزی خطوط میں بھی یہی خصوصیات پائی جاتی ہیں۔ہر خط میں تاریخ نہایت التزام کے ساتھ اوپر دائیں طرف درج ہے اور دستخط میں ’محمد ضرور شامل ہے۔تمام خطوط میں اقبال نے لوتھین کو "My dear Lord Lothian" کے الفاظ سے مخاطب کیا ہے۔ جیسا کہ چغتائی نے تحریر کیا ہے : علامہ کے تمام مطبوعہ خطوط سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ القاب کے سلسلے میں وہ مکتوب الیہ کے رُتبے کا بطور خاص خیال رکھتے تھے۔ چنانچہ جس قسم کے تعلقات ہوتے تھے اندازِ تخاطب بھی ویسا ہی ہوتا تھا۔۳؎ ڈاکٹر چغتائی کے خیال میں ’’خطوط کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ ان میں عموماً تصنع کا عنصر نہیں ہوتا اور لکھنے والے کا مافی الضمیر مکمل بے ریائی کے ساتھ مکتوب الیہ تک منتقل ہو جاتا ہے۔ یہ خصوصیات تمام اچھے مکاتیب میں قدرِ مشترک کی حیثیت رکھتی ہے۔جبکہ تصانیف میں یہ ناپید ہوتی ہیں۔ بقول شخصے خطوط میں انسان ایک طرح خود سے باتیں کرتا ہے، یہ دلی خیالات و جذبات اور اسرارِ حیات کا صحیفہ ہوتے ہیں۔ ہمیںبڑے لوگوں کی زندگی کے اہم ترین واقعات زیادہ خطوط کے ذریعے معلوم ہوتے ہیں۔۴؎ آکسفورڈ یونی ورسٹی کے ساتھ مراسلت میں بھی اقبال نے اپنی علالت، خانگی حالات اور رائونڈ ٹیبل کانفرنس میں شرکت کے باعث پیشہ ورانہ نقصان وغیرہ کے بارے میں زندگی کے اہم ترین واقعات بیان کیے ہیں۔ خطوط کے متن میں کئی جگہ اُن کے دلی خیالات و جذبات کا اظہار بھی ہوتا ہے۔ چنانچہ واقعی یہ خطوط ایک بڑے آدمی (اقبال) کی زندگی کے اہم ترین واقعات ، دلی خیالات و جذبات اور اسرار حیات کا صحیفہ ہیں۔ اس کتاب میں شامل اقبال کے خطوط انگریزی نثر نگاری کا بہترین نمونہ ہیں۔ ان کے ساتھ اگر اقبال کی دوسری انگریزی تحریروں کو بھی مد نظر رکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ہندوستان میں اُس وقت چوٹی کے انشا پردازوں گاندھی ، نہرو، مولانا محمد علی کے ساتھ اقبال کا نام بھی لیا جا سکتا ہے۔ اقبال کے یہ انگریزی خطوط اختصار اور جامعیت کا شاہکار ہیں، یہ لفاظی، غیر مانوس الفاظ، پیچیدہ، ذومعنی، الجھے ہوئے طویل فقروں سے پاک ہیں۔ انداز بیان ایسا ہے کہ لکھنے والے کے مافی الضمیر کو بغیر کسی لگی لپٹی کے ظاہر کر دیتا ہے۔ متن میں کہیں بھی تکرار، تصنع یا خاص اثر پیدا کرنے کی سعی نظر نہیں آتی۔شروع سے آخر تک تمام الفاظ اور فقرے ایک دوسرے میں پیوست ہیںاور تحریر میں جھول کا شائبہ تک نہیں۔ مکتوب نگار کی انگریزی زبان پر گرفت، اظہار پر قدرت اور سب سے بڑھ کر پر خلوص نفس مضمون ادب نواز قاری کے لیے خاصی کشش کا باعث ہیں۔ یہ ساری خصوصیات جو اقبال کے انگریزی خطوط میں پائی جاتی ہیں اُن کے دوسرے انگریزی مضامین میں بھی بدرجہ اتم موجود ہیں۔جیسا کہ اِن خطوط سے ظاہر ہوتا ہے ۔ علامہ نہایت خوش خط تھے۔ ایک ایک لفظ نمایاں اور آسانی سے پڑھا جا سکتا ہے۔ سطریں ایک متعین حاشیے سے شروع ہوتی ہیں اور اِن کے درمیان یکساں فرق رکھا گیا ہے۔خطوط غالباً کالی سیاہی سے لکھے گئے ہیں اور قلم نفیس استعمال کیا گیا ہے کیونکہ کوئی لفظ یا سطر ایسی نہیں جس میں دوسرے الفاظ یا سطروں کے مقابلے میں روشنائی پھیکی یا مدہم ہو۔ عبداللہ چغتائی لکھتے ہیں:علامہ کا خط نہایت پختہ تھا جیسا کہ قدیم دستاویزات میں دیکھنے میں آتا ہے۔ اس قسم کا پختہ منشیانہ خط اب ناپید ہوتا جا رہا ہے۔۵؎ /…/…/ حواشی و حوالہ جات ۱- ڈاکٹر محمد عبداللہ چغتائی، اقبال کی صحبت میں، مجلس ترقی ادب، لاہور، ئ، ۱۹۷۷ء ، ص ۴۷۰۔ ۲۔ ایضاً، ص ۴۷۳۔ ۳- ایضاً، ص ۴۷۹۔ ۴- ایضاً، ص ۴۷۴۔ ۵- ایضاً، ص ۴۷۹۔ تعارفی نوٹس ارسطو طولین سوسائٹی لندن ۱۹۳۲ء میں گول میز کانفرنس میں شرکت کے دوران علامہ محمد اقبال نے ارسطو طولین سوسائٹی میں لیکچر دیا تھا۔ رہوڈز ٹرسٹیز کی میٹنگ منعقدہ ۲۱؍نومبر ۱۹۳۳ء میں لارڈ لوتھین نے ذکر کیا ہے کہ ’’ وہ [اقبال] لندن کی ارسطو طولین سوسائٹی میں بھی لیکچر دے چکے ہیںجسے بے حد سراہا گیا تھا یا مروجہ امریکن اصطلاح میں یوں کہنا چاہیے کہ جسے with acceptance یعنی ہاتھوں ہاتھ لیا گیا تھا۔‘‘ ڈاکٹر محمد عبداللہ چغتائی لکھتے ہیں: ’’انھی دنوں [گول میز کانفرنس میں شرکت کے دوران] ارسطو طولین سوسائٹی لندن کی دعوت پر علامہ نے ایک لیکچر دیا تھا جس کا موضوع تھا ’’کیا مذہب ممکن ہے؟‘‘ اس لیکچر کی دعوت انھیں مس فورک ہارسن نے دی تھی اور انھی نے اس جلسے کا انتظام بھی کیا تھا۔ جب علامہ نے یہ تقریر لکھ لی تو طے پایا کہ پہلے اس کو چھپوا لیا جائے۔ چنانچہ اس کی طباعت کا کام میرے سپرد ہوا اور میں نے اسے چیرنگ کراس لندن میں چھپوایا۔پہلا پروف میں نے خود پڑھا، دوسرا پروف علامہ کو دکھایا اور لیکچر چھپ گیا۔ لاہور میں بھی علامہ نے اس لیکچر کو چھپوایا تھا۔ مگر جب اس کی مانگ بڑھ گئی تو انھوں نے اسے اپنے لیکچروں کے مجموعے یعنی [Reconstruction of Religious Thought in Islam] میں شامل کر لیا۔۱؎ اس لیکچر سے لارڈ لوتھین اور حاضرین مجلس ارسطوطالین سوسائٹی بہت متاثر ہوئے تھے۔ اور لارڈ لوتھین نے علامہ کو لکھا تھا یہ لیکچر سن کر مجھے احساس ہوا کہ یہ کتنا بڑا موضوع ہے۔ اس لیکچر کے بارے میں ایک مصری محقق ڈاکٹرمحمود الخضیری کے خیالات ملاحظہ فرمائیے: میں نے کمال دلچسپی اور عقیدت سے اس [لیکچر’’کیا مذہب ممکن ہے‘‘] کا مطالعہ کیا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ جس طرح آپ نے اسلامی نظریات کو صحیح رنگ میں پیش کیا ہے اور مذہب اسلامب کی حقیقی، ابدی اور زندہ جاوید خوبیوں کو یورپ کے اعلیٰ تعلیم یافتہ طبقے سے متعارف کرایا ہے یہ ایک بہت بڑا کارنامہ ہے۔ مجھے مسرت ہوئی اور میں اس پر نازاں ہوں کہ آپ نے اپنے اس مضمون میں اشاعت و وسعت اسلام کے سلسلے میں ایک انتہائی توانا اور اطمینان بخش دلیل پیش کی ہے جو اس ضمن میں قطعی اور یقینی راہ عمل کی طرف رہنمائی کرتی ہے۔ ہمارا یہ دور ایسی مُشکلات سے لبریز ہے جو بنی نوع انسان کے تمام مراحل زندگی پر حملہ آور ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ موجودہ مسلمہ مدارج و مراتب ترقی ، جن پر مغرب کے جدید تمدن کا انحصار ہے ، ہماری معاشرتی اور دینی جدوجہد کی قدر و منزلت کو مشکوک بنا رہے ہیں۔تصوف اور مذہب کے خلاف جدید سائنس کے وسوسے اور شکوک انتہائی مجرمانہ ہیں۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ سچا مذہب کسی پہلو سے بھی بنی نوع انسان کی ترقی اور خوش حالی کے راستے میں حائل نہیں ہوتا۔ مجھے یقین ہے کہ اس ضمن میں آپ کی مساعی جمیلہ اہل مغرب کو یقینی طور پر قائل کر لیں گی۔۲؎ بی اے ڈار B. A. Dar گورنمنٹ کالج ، لاہور سے ایم اے فلسفہ اور مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سے بی ٹی کی ڈگری حاصل کی۔ عملی زندگی کا آغاز لاہور میں سکول ٹیچر کی حیثیت سے کیا۔ انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک کلچر، لاہور میں فیلو اور بعد میں علوم اسلامیہ کے ریڈر مقرر ہوئے۔ ۱۹۵۶ء سے ۱۹۶۵ء تک پاکستان فلاسفیکل کانگرس کے سیکرٹری مطبوعات کے طور پر کام کیا۔ ۱۹۶۵ء سے ۱۹۷۰ء تک اقبال اکادمی کے ڈائریکٹر رہے۔ ۱۹۶۶ء میں فن لینڈمیں یونیسکو فیسٹی ول میں شریک ہوئے ۱۹۶۵ء -۱۹۵۲ء کے دوران بزم اقبال، لاہور کے رسالہ اقبال کے اسسٹنٹ ایڈیٹر تھے۔۱۹۶۵ئ-۱۹۵۶ء کے عرصے میں پاکستان فلاسفیکل جرنل کے مینجنگ ایڈیٹر کے طور پر خدمات سر انجام دیں۔ مندرجہ ذیل اداروں کے ممبر منتخب ہوئے: ایگزیکٹو کمیٹی پاکستان فلاسفیکل کانگرس، انسٹی ٹیوٹ آف سنٹرل اینڈ ویسٹ ایشین سٹڈیز ، کراچی،اقبال صد سالہ کمیٹی حکومت پاکستان۔ ان کے مقالات انسائیکلو پیڈیا آف فلاسفی اور ہسٹری آف مسلم فلاسفی میں شائع ہو چکے ہیں۔ اقبال، علوم اسلامیہ اور فلسفہ پر متعدد کتابوں اور مضامین کے مصنف اور مدیر ہیں۔ ان کی تصنیفات مندرجہ ذیل ہیں: 1- Iqbal's Philosophy of Society. 2- A Study in Iqbal's Philosophy. 3- Iqbal and Post-Kantian Voluntarism. 4- English translations of Iqbal's Gulshan-i-Raz-e-Jadid and Pas che Bayad Kard. 5- Letters and Writing of Iqbal (ed) 6- Anwar-e- Iqbal (ed) 7- Iqbal's Letters (ed) 8- English Translation of Iqbal's Musafir and Reflection & of Mihrab Gul Afghan. تاثیر محمد دین، ڈاکٹر پیدائش ۱۹۰۲ء وفات ۱۹۵۰ء امرتسر کے ایک قصبے انبالہ میں ۱۹۰۲ء میں پیدا ہوئے۔ میٹرک کا امتحان ۱۹۱۸ء میں اسلامیہ ہائی سکول شیرانوالہ گیٹ ، لاہور سے پاس کیا۔ ایف سی کالج، لاہور میں تعلیم پائی اور پنجاب یونی ورسٹی سے بی اے (آنرز) انگریزی ۱۹۲۲ء اور ایم اے انگریزی ۱۹۲۴ء میں کیا۔ ۱۹۳۳ء سے ۱۹۳۵ء تک کیمبرج یونی ورسٹی میں تحقیقی کام کرکے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ اسی دوران رہوڈز لیکچرز کے بارے میں اقبال سے خط و کتابت کرکے انھیں لیکچر شپ قبول کرنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کی۔ سیکرٹری رہوڈز ٹرسٹ لارڈ لوتھین سے بھی ملاقات رہی۔ کیمبرج یونی ورسٹی کی کئی مجالس میں اقبال کی شاعری پر مضامین پڑھے اور لیکچر دیے ۔ ایم اے او کالج امرتسر کے پرنسپل (۱۹۴۰ء -۱۹۳۷ئ) رہے سری پرتاب کالج سری نگر کے پرنسپل (۱۹۴۲ء -۱۹۴۰ئ)رہے۔ ۱۹۴۷ء -۱۹۴۲ء حکومت ہند کے ڈپٹی ڈائریکٹر اور ڈائریکٹر انفرمیشن کے عہدوں پر کام کیا۔ ۱۹۴۷ء سے ۱۹۴۸ء وزارت امور کشمیر میں ڈائریکٹر پبلسٹی رہے اور جنرل اسمبلی سیشن میں پاکستان کی نمائندگی کی۔واپسی پر اسلامیہ کالج ، لاہور کے پرنسپل مقرر ہوئے۔ وفات ۱۹۵۰ء میںلاہور میں ہوئی۔ اقبال کے فن شاعری اور پیغام کی تفہیم کے لیے اردو، انگریزی میں بلند پایہ مضامین لکھے۔ جن میںمغربی معیار تنقید اور مشرقی حسین ادبیت کا نہایت کامیاب امتزاج نظر آتا ہے۔ Jan Christian Smutsجان کرسچین سمٹس (۱۹۵۰ء - ۱۸۷۰ئ) پیدائش ۱۸۷۰ء وفات ۱۹۵۰ء جنوبی افریقہ کا وزیر اعظم، فلسفی، فوجی، اور کامن ویلتھ کا معمار۔ افری کا نر( یورپی نسل کے افریقی زمیندار)والدین کی اولاد۔جنوبی افریقہ اور کیمبرج یونی ورسٹی برطانیہ میں شاندار تعلیمی کامیابی حاصل کرنے کے بعد Cape Town کیپ ٹائون میں قانون کی پریکٹس شروع کی۔ Cecil Rhodes سیسل رہوڈز جو اس وقت کیپ کالونی کا وزیر اعظم تھا کے استعماری خیالات نے سمٹس کو بہت متاثر کیا لیکن رہوڈز کے بعض اقدامات سے سمٹس اس سے دلبرداشتہ ہو گیا۔ ان میں سے ایک واقعہ Jameson Raid (جیمسّن پر حملہ) تھا جس کا مقصد ۱۸۹۵ء میں جنوبی افریقہ کی ری پبلک (ٹرانسوال) جو سونے کی کانوں سے مالا مال تھی کو زبر دستی برطانوی سلطنت میں شامل کرنا تھا۔۱۸۹۹ء میں سمٹس نے تارکین وطن کے سیاسی حقوق پر برطانیہ سے مذاکرات کیے اور برطانوی فوج کے خلاف جنگ بھی لڑی لیکن ۱۹۰۲ء میں برطانیہ کے ساتھ امن اور تعاون کا راستہ اختیار کیا۔ سمٹس ہی کی کوششوں سے ٹرانسوال میں خود مختار حکومت قائم کی جس کا انتخابی نظام افری کانرز کے حق میں تھا۔ بالآخر سمٹس کو مشرقی افریقہ سے برطانوی فوج کا کمانڈرانچیف مقرر کر دیا گیا اور اسے لائڈ جارج نے اپنی جنگی کابینہ میں بھی شامل کر لیا۔ ۱۹۱۹ء میں سمٹس نے جنوبی افریقہ کے وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالا۔ دوسری جنگ عظیم میں اُس نے برطانیہ کی بھرپور مدد کی جس کے عوض جارج ششم نے اُسے فیلڈ مارشل کے عہدے پر فائز کیا۔ سمٹس Internationalism (بین الاقوامی اتحاد) کا حامی تھا اور جنوبی افریقہ میں گوری نسل کے کالے لوگوں پر زیادتی کے مسئلے میں کسی بھی اندرونی یا بیرونی مداخلت کے خلاف تھا۔وفات ۱۹۵۰ء میں پریٹوریا Pretoria میں ہوئی۔ سمٹس کا نظریہ یہ تھا کہ جدید دنیا بنیادی طور پر ایک اکائی ہے اور اُس کے اپنے ملک کے اندر اور بیرونی دنیا میں اقوام کے اتحاد کے درمیان حائل قدیم دیواروں کو گرا دینا چاہیے۔ لیکن افری کانرز نسل کے لوگوں کی اکثریت نے اس نظریے کی مخالف تھی۔ سمٹس نے ایک کتاب The Philosophy of Holism تصنیف کی جس میں یہ نظریہ پیش کیا کہ اکائیوںکی تعمیر ہی وہ جذبہ ہے جو انسانی ارتقا کے پیچھے کار فرما ہے۔ حتی کہ Inorganic (بے رگ وریشہ) مادوں میں بھی نمونے یا اکائیاں بنانے کا رجحان نمایاں طور پر ظاہر ہوتا ہے ۔ مثلاً دیکھیے ایٹم کی بناوٹ یاکیمیاوی مرکب جیسے کہ پانی یا Bioloigical Cell جینیاتی ذرہ جس کی کارکردگی کی کوئی مکینیکل توضیح پیش کرنا ناممکن ہے کیونکہ اس میں مختلف اجزا کا ایک نہایت ہی پیچیدہ نظام ایک کل اکائی بنانے کے لیے کام کرتا ہے۔ دماغ کے وجود میں آنے کے بعد اس اکائی کا باقی تمام اجزا کو کنٹرول کرنے کا نظام صاف نظر آتا ہے اور ارتقائی ترقی کا عمل تیز تر ہو جاتا ہے۔ ارتقا کا نقطۂ عروج شخصیت کا ظہور ہے جس میں جسم اور دماغ کے ایک دوسرے سے بہت مختلف اجزا ایک کل یا اکائی بناتے ہیں۔ سمٹس لکھتا ہے:’’ Holism (اکائی یا کل بنانے کا عمل) نہ صرف تخلیقی ہے بلکہ خود تخلیقی بھی ہے اور اس کی حتمی صورتیں اس کی ابتدائی اشکال سے زیادہ بڑی اکائیاں ہیں۔‘‘ سمٹس کا خیال ہے کہ اُس کا یہ نظریہ ڈارون کے نظریہ ارتقا کی تصحیح کرتا ہے کیونکہ ڈارون کے نظریے کا دارومدارز یادہ تر Survival of the fittest (طاقتور کی بقا) کے خیال پر ہے اور اس میں ترقی میں کار فرما مثبت عناصر کا بہت کم ذکر کیا گیا ہے۔ سمٹس کا یہ بھی خیال تھا کہ اُس کا نظریہ ارتقا بیالوجی کی mechanistic theory (مکینیکل نظریے) کی نفی کرتا ہے۔ اور ایک مربوط شخصیت کا خیال نقادوں کے لیے ٹھوس بنیاد مہیا کرتا ہے۔ سمٹس نے یہ فلسفہ اپنی کتاب (۱۹۲۶ئ) Holism and Evolution میں بیان کیا ہے۔ (Colliers' Encyclopaedia Vol. 21 Mcmillan New York (1981) pp. 104-105) ہبل ایڈوین پاولHubble Edwin Powell پیدائش ۱۸۸۹ئ وفات ۱۹۵۳ء امریکن ماہر فلکیات، شکاگو یونی ورسٹی اور آکسفورڈ یونی ورسٹی میں تعلیم پائی۔ ۱۹۱۹ سے لے کر تاحیات مائونٹ ولسن اور پیلو آبزرویٹریز۔Mount Wlilson and Palemar observatries میں کام کیا۔ Nabulas کے علم میں مستند سائنسدان۔ ۱۹۳۰ء - ۱۹۲۴ء کے دوران ہبل Hubble نے ثابت کیا کہ کہکشائیںستاروں کا ایک آزاد نظام ہے جو milky way سے بہت دور ہے چنانچہ ہبل نے نظر کے مدار میں ان کے درمیانی فاصلے، تقسیم (Radial Velocities) کے بارے میں اعداد و شمار اکھٹے کیے۔ ہبل نے دریافت کیا کہ کہکشائوں کی بہت بڑی تعداد بڑی تیز رفتاری سے زمین سے دور ہوتی جا رہی ہے۔ یہ اس نظریے کا ابتدائی ثبوت تھا کہ کائنات وسعت پذیر ہے۔ ہبل نے یہ بھی دریافت کیا کہ Radial velocity (یعنی زمین سے دور ہونے کی رفتار) اور زیر مشاہدہ کہکشاں کے زمین سے فاصلہ کے درمیان براہ راست تعلق ہے۔ یہ دریافتیں اور اُس کی ایک اور نئی دریافت کہ بڑی بڑی کہکشائیں خلا میں ہر سمت یکساں طور پر پھیلی ہوئی ہیں نے جدید cosmology (علم کائنات) میں بیش بہا اضافے کیے۔ اپنی کتاب The Realm of Nebulae (1936) میں ہبل نے کہکشائوں پر اپنی سائنسی تحقیق اور دریافتوں کو عام فہم زبان میں پیش کیا ہبل نے Andromeda میں عظیم کہکشاں کا بھی تفصیلی مطالعہ کیا۔ نواب حمید اللہ خان والیِ بھوپال ۲۶؍جنوری ۱۹۳۵ء کو لوتھین کے نام خط میں علامہ اقبال نے لکھا ہے کہ ’’اعلیٰ حضرت والیِ بھوپال نے مجھے بھوپال بلایا ہے جہاں انھوں نے میری آواز کے برقی علاج کے خاص انتظامات کیے ہیں۔ نواب صاحب موصوف مسلمانوں اور خصوصاً اسلامیان ہند کے بہی خواہ تھے۔ وہ پاکستان کے قیام کے حامی تھے۔تقسیم ہند کے وقت انھوں نے آخر وقت تک بھارت کے ساتھ ریاست بھوپال کے الحاق کو التوا میں رکھا آخری وائسرائے ہند لارڈ مائونٹ بیٹن کے سوانح نگار نے لکھا ہے۔ ’’ہندو اکثریت کی ریاست بھوپال کے حکمران نواب،مائونٹ بیٹن کے پرانے دوست تھے۔ انھوں نے چیمبر آف پرنسز کے چانسلر کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا کیونکہ انھوں نے اپنی ریاست کو آزاد رکھنے کا مضمم تہیہ کیا ہوا تھا۔۳؎ نواب صاحب کی دختر شہزادی عابدہ سلطانہ نے اپنی خود نوشت میں ذکر کیا ہے کہ اُن کی دلی آرزو تھی کہ وہ آزاد مملکت اسلامیہ پاکستان کے سربراہ مقرر ہوں۔ اس کی انھیں کچھ امید بھی تھی چنانچہ انھوں نے کراچی میں ایک دو مکان بھی خرید لیے تھے۔۴؎ وہ اقبال اور قائد اعظم کے نظریات کے حامی اور ان دو اکابر کے ذاتی دوست تھے۔ نواب حمید اللہ خاں نے ۱۹۲۰ء میں لاہور میں انجمن حمایت اسلام کے سالانہ جلسے کی صدارت کی تھی۔ جنوری ۱۹۳۶ء میں مولانا اطاف حسین حالی کی صد سالہ تقریب نواب حمید اللہ خاں کی صدارت میں پانی پت میں منائی گئی۔ اس میں سر راس مسعود ، ڈاکٹرذاکر حسین خان (بعد میں صدر بھارت) اور علامہ محمد اقبال نے شرکت کی۔ نواب صاحب حالی اور اقبال سے خاص عقیدت رکھتے تھے۔ نواب صاحب بھوپال نے علامہ کا وظیفہ بھی مقرر فرما دیا تھا۔ سید راس مسعود کے ایک خط کا ذکر کرتے ہوئے ڈاکٹر محمد عبداللہ چغتائی لکھتے ہیں’’ اس خط میں دوسری باتوںکے علاوہ والیِ بھوپال کی طرف سے وظیفے کی منظوری کا ذکربھی تھا جس پر علامہ نے مسرت اور اطمینان کا اظہار فرمایا تھا ۔۔۔ اس کے بعدآپ نے راس مسعود کو شکریے کا خط لکھا جس میں یہ بھی لکھا ’’ڈیر مسعود! آپ کا والا نامہ ابھی ملا ہے۔ میں کس زبان سے اعلیٰ حضرت کا شکریہ ادا کروں۔ میں خود حاضر ہو کر شکریہ ادا کروں گا۔ محمد اقبال‘‘۔۵؎ سکوٹس جان ڈنسScotue John Duns پیدائش ۱۲۶۶ئ وفات ۱۳۰۸ء قرون وسطیٰ کا Franciscan Order پادریوں کے فرانسسکن سلسلہ سے تعلق رکھنے والا مشہور مذہبی مفکر تھا۔ اسے Doctor Subtilis یعنی The subtle Doctor (باریک بیں ڈاکٹر) کے نام سے یاد کیا جاتا ہے کیونکہ وہ نظریات کے درمیان بڑی باریکی سے فرق بیان کرتا ہے۔ سکاٹ لینڈ میں پیدا ہونے کی وجہ سے سکوٹسScotus یعنی (Scot) سکاٹ ملک و قوم سے تعلق رکھنے والا اُس کے نام کا حصہ بن گیا ہے۔ فرانسیسکن سلسلے میں شامل ہونے کے بعد اُس نے آکسفورڈ اور پیرس میں تعلیم حاصل کرکے یہاں تدریس بھی کی۔ اُس کی سب سے بڑی تصنیف Opus Oxoniensis اُس کے آکسفورڈ میں دیے گئے لیکچروں پر مبنی ہے۔ ۱۳۰۵ میں اُسے پیرس میں Doctorate in Theology کی ڈگری عطا کی گئی۔ بنیادی طور پر سکوٹس ایک ایسا مذہبی مفکر تھا جس کا مقصد عیسائیت کے دینی عقائد کی وضاحت اور دفاع کرنا تھا۔ اس مقصد کے لیے اُس نے فلسفے کو آلہ کار بنایا لیکن صرف اسی پر انحصار نہیں کیا۔ اُس کا خیال تھا کہ ارسطو جیسا فلسفی جو صرف انسانی عقل پر ہر چیز کو جا نچتا ہے عیسائیت کی مرکزی تعلیمات کی سچائی کو ثابت کرنے کی اہلیت نہیں رکھتا۔ مثال کے طور پر انسانی عقل کے ذریعے وہ کبھی بھی اس اعلیٰ و برتر ہستی کے وجود کو ثابت نہیں کر سکتا جس نے دنیا تخلیق کی اور جو بعد از موت سزا و جزا دے گا۔اس کی کتاب Theoremata میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ ایمان اور عقل دو الگ چیزیں ہیں۔ اس کے باوجود سکوٹس اس بات کو تسلیم کرتا ہے کہ ایک عیسائی عالم جس کا ذہن ایمان سے منور ہے۔ تلاش کے لیے منطقی تجزیے اور مابعدالطبیعیاتی جستجو سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ خود اس نے حقیقت پسند روایت کے اندر رہ کر بڑی گہرائی میں جا کر منطقی ربط کے ساتھ مذہب اور فلسفے میں امتزاج پیدا کیا۔ یہاں سکوٹس کے نظریات کے چند نمایاں پہلوئوں کا ذکر ہی کیا جا سکتا ہے۔ دنیا سکوٹس کے خیال میں مختلف خاصیتوں یا اشکال سے بنی ہے جن میں سے ہر ایک شروع میں خدا کے ذہن میں ایک خیال کے طور پر موجود تھی۔ یہ خاصیتیں ایسے حقائق ہیں جو کسی نسل کے تمام افراد میں مشترک ہیں۔ یہ خاصیتیں ایسے حقائق ہیں جو کسی نسل یا جنس مثال کے طور پر انسان یا حیوان کے افراد میں پائی جاتی ہیں۔ حقیقی وجود میں ایک اصل حقیقت ’’ہستی ‘‘ haecceity کے شامل ہونے سے ہی انفرادیت قائم ہوتی ہے۔ haecceity لاطینی لفظ جس کا انگریزی مطلب Thisness (یہ ہونا) ہے۔سنسکرت، اردو اور پنجابی میں یہ لفظ وجود کے معنی میں ہی آتا ہے۔انسانی ذہن کی سوجھ بوجھ کے مطابق خاصیتیں آفاقی ہیں۔ سکوٹس کا فلسفہ یہ تھا کہ وجود اور افضل خصائص (نیکی، اکائی وغیرہ) خدا بھی رکھتا ہے اور مخلوق بھی لیکن دونوں میں وجود اور نیکی کے کامل درجے کا فرق ہے۔ خدا کی کاملیت لا امتناعی ہے، مخلوق کی محدود۔ سکوٹس نے خدا ے وجود کے بارے میں جو ثبوت پیش کیا ہے وہ St Anselm کی روایت کے عین مطابق ہے۔سکوٹس کے دلائل اس قدر پیچیدہ اور مکمل ہیں کہ ان کی مثال کسی اور فلسفی کی تحریروں میں نہیں ملتی۔ سولہویں صدی میں انسانی اور دنیاوی علوم کے حامی فلسفی Erasmus ایریسمس وغیرہ نے سکوٹس کے پیروکاروں جنھیں Dunsmen کہا جاتا تھا کو اس لیے تنقید کا نشانہ بنایا کہ وہ تحریک احیائے علوم کے دور میں نئے نئے دنیاوی علوم کی مخالفت بے کار دلائل اور فضول قسم کی حجت بازی سے کرتے ہیں۔ چنانچہ اسی طعن و تشنیع کی وجہ سے لفظ Duns یا Dunce رواج پا گیا جس کا مطلب غبی، کند ذہن شخص جس میں نئے علوم حاصل کرنے کی صلاحیت نہ ہو لیا جانے لگا اور آج تک انھی معنوں میں یہ لفظ انگریزی لغت میںشامل چلا آ رہاہے البتہ جدید دور میں ’’سکوٹنرم‘‘ یا سکوٹس کے فلسفہ میں ازسر نو دلچسپی لی جا رہی ہے۔ مورخین پوری توجہ سے سکوٹس کے نظریاتی نظام کا جائزہ لے رہے ہیں اور اُس کی منطق اور مابعد الطبیعیاتی تصورات سے آج کل کے متعدد فلسفی متاثر ہیں۔ جی ایم ہاپکنزG. M. Hopkins جیسے شاعروں کو سکوٹس کے نظریۂ ہستی اور دوسرے فلسفیانہ خیالات میں اپنے شاعرانہ تجربے کا عکس دکھائی دیتا ہے۔ [Collier's Encyclopaedia Vol. 8 Mcmillan, New York, 1981, P, 428.] فلیکسنر ابراہمFlexner Abraham پیدائش ۱۸۶۶ئ وفات: ۱۹۵۹ء ماہر تعلیم تھے۔ ۱۹۰۸ء میں ایک کتاب The American College: A Criticism شائع کی۔ Carneigie Foundation for the Andancement of Teaching کے ڈائریکٹر مقرر ہوئے ۔ Madical Education in the united states and canada ۱۹۱۰ء شائع کیںMedical Education in Europe میں اور ۱۹۱۲ء بیورو آف سوشل ہائی جین Bureau of Social Hygienc کے لیے ۱۹۱۴ء میں ایک کتاب Prostitution in Europe تحریر کی۔ ۱۹۲۸ء -۱۹۱۳ء کے دوران راک فیلر فائونڈیشن کے جنرل ایجوکیشن بورڈ کے ساتھ منسلک رہے۔ ۱۹۱۶ء میں ایک کتاب A Modern School لکھی ۔ سکولوں، کالجوں اور میڈیکل کے تعلیمی اداروں کی مالی امداد کے وقف قائم کرنے کے لیے امیر کبیر مخیر حضرات سے خطیر رقوم حاصل کیں۔ کولمبیا یونی ورسٹی، روچسٹر یونی ورسٹی اور کارنیل یونی ورسٹی کی مالی امداد کے لیے کئی اوقاف قائم کیے۔ تین فکر انگیز کتابیں 1- A Modern College (1923) 2- Do Americans really value Education? (1927) 3- Universities ___ American, English, German (1934) تصنیف کیں۔ امریکن یونی ورسٹیوں میں غیر ثقافتی مضامین متعارف کرانے کے Elective System اختیاری نظام پر فلیکسنر نے سخت تنقید کی۔ امریکہ کے انتہائی دولتمند تاجر پیشہ خاندان سے کثیر رقم کا وقف قائم کروایا۔جس کی مدد سے ۱۹۳۰ء میں پرنسٹن یونی ورسٹی میں Institute of Advanced Study کی داغ بیل ڈالی۔اس انسٹی ٹیوٹ میں البرٹ آئن سٹائنAlbert Einstein آسوالڈ ویبلن Oswald Veblen اور جے رابرٹ اوپن ہائیمر J. Rabert Oppenheimer جیسے شہرہ آفاق سائنسدانوں نے ریاضی Mathematics اور نظریاتی طبیعیات Theoretical physics میں بلند پایہ تحقیق کرکے اسے شہرتِ دوام بخشی ۔ ۱۹۵۲ء میں فلیکسنر نے اپنی سوانح عمری I Remember اور Funds and Foundations تصنیف کیں۔ ۲۱؍ ستمبر ۱۹۵۹ء کو وفات پائی۔ [Collier's Encyclopaedia Vol. 10, Macmillan, New York, 1981, P, 51.] فلپ ہنری کرLothian, Philip Henry Kerr مارکوئس گیارویں پشت پیدائش۱۸۸۲ء وفات ۱۹۴۰ء Oratory School Birmingham اورNew College, Oxford میں تعلیم حاصل کی۔ ۱۹۰۵ء میں Assistant Secretary Inter Colonial Council, Transvaal South Africa کے اسسٹنٹ سیکرٹری مقرر ہوئے۔ جنوبی افریقہ میں قیام کے دوران ایک رسالہ The State کے مدیر رہے۔ یہ رسالہ جنوبی افریکن کالونیز کی یونین قائم کرنے کا حامی تھا۔ ۱۹۱۰ء میں لندن واپس آئے اور مجلہ The Round Table کے مدیر مقرر ہوئے۔ اس رسالے میں حکومت اور سیاست کے بارے میں مضامین شائع ہوتے تھے۔ مشہور سیاستدان اور وزیر اعظم برطانیہ Lloyd George لائیڈجارج نے ۱۹۱۶ء میں لارڈ لوتھین کو اپنے سیکرٹری کے عہدے پر فائز کیا۔ اسی منصب پر کام کرتے ہوئے لوتھین نے Versailles Treaty معاہدہ ورسیلز کی تیاری میں حصہ لیا۔ ۱۹۲۱ء میں ایک صحافتی ادارے United Newspapers Ltd نے انھیں اپنا ڈائریکٹر منتخب کیا۔ ۳۲۔۱۹۳۱ء میں وہ برطانوی کابینہ میں شامل ہوئے اور انڈیا آفس میں پارلیمنٹری انڈر سیکرٹری کے عہدے پر کام کیا۔ ۱۹۳۲ء میں انڈین فرنچائز کمیٹی Indian Franchise Committee کے چیئرمیں مقرر ہوئے۔۱۹۲۵ء سے ۱۹۳۹ء تک رہوڈز ٹرسٹ کے سیکرٹری رہے۔ [ انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا (۱۹۵۸ئ) جلد ۱۴، ص ۴۰۴] پنڈت جواہر لال نہرو ۱۸۸۸ء میں پنڈت موتی لال نہرو کے ہاں الٰہ آباد میں پیدا ہوئے۔ کشمیری الاصل تھے۔ انگلستان کے مشہور پبلک سکول Harron اور بعدازاں کیمبرج یونی ورسٹی میں تعلیم پائی۔ پھر بار ایٹ لا کیا۔۱۹۲۹ء میں آل انڈیا کانگرس کے صدر منتخب ہوئے اور لاہور میں راوی کے کنارے ہندوستان کی مکمل آزادی کا اعلان کیا۔ ۱۹۴۷ء تک بلکہ آزادی کے بعد بھی کانگرس کے صدر اور مجلس عاملہ کے ممبر منتخب ہوتے رہے۔ آزاد ہندوستان کے پہلے وزیر اعظم منتخب ہوئے ۔ ۱۹۶۴ء میں وفات پائی۔ نہرو اور اقبال میں تین قدریں مشترک تھیں: شعر و سخن اور ادب میں دلچسپی۔ ہندئوں میں صرف نہرو اور مسلمانوں میں صرف اقبال بین الاقوامی حالات اور تحاریک کا ادراک رکھتے تھے۔تیسری قدر مشترک اِن میں سامراج دشمنی تھی۔ نہرو علامہ کے بڑے مداح تھے۔ ۱۹۳۰ء میں لاہور میں انھوں نے علامہ سے درخواست کی کہ وہ مسلمانوں کی قیادت سنبھالیں لیکن علامہ نے برملا کہہ دیا کہ ہم نے اسلامیان ہند کی قیادت محمد علی جناح کے سپرد کر دی ہے اور ہمارے میر کارواں اب صرف جناح صاحب ہی ہیں۔ ایس اے واحد اقبالیات کے سرکردہ سکالر تھے۔ اقبال پر متعدد مضامین اور چھ کتب کے مصنف تھے اُن کی مشہور تصانیف میں مندرجہ ذیل شامل ہیں۔ 1- Thoughts and Reflections of Iqbal [Lahore, 1977] 2- Iqbal his Art and thought [London, 1958] 3- Introduction to Iqbal [karachi, 1964] میاں محمد شفیع [م ش ] صحافت کا آغاز پاکستان بننے سے پہلے سول اینڈ ملٹری گزٹ لاہور کے رپورٹر بعد میں چیف رپورٹر اور کالم نگار کی حیثیت سے کیا۔ آل انڈیا مسلم لیگ کے سرکردہ راہنمائوں قائد اعظم، لیاقت علی خان ، نواب ممدوٹ، ممتاز دولتانہ اور دوسری پارٹیوں کے مسلم لیڈروں سے ذاتی تعلقات اور واقفیت رکھتے تھے۔ آل انڈیا اور خصوصاً پنجاب کی سیاست کے اتار چڑھائو کے عینی شاہد تھے۔ علامہ اقبال کے آخری دنوں میں جب اُن کی بینائی جاتی رہی تھی میاں شفیع نے علامہ کے آنریری سیکرٹری کی حیثیت سے خدمات سر انجام دیں۔ ان دنوں علامہ کی تمام خط و کتابت کا کام میاں شفیع نے سنبھال رکھا تھا۔علامہ سے بے لوث عقیدت رکھتے تھے۔علامہ کی بیماری کے دوران اِن کی تیمارداری کا سارا کام میاں محمد شفیع اور راجا حسن اختر سر انجام دیتے تھے۔ لارڈ لوتھین کے نام ۲۲ ؍جون ۱۹۳۵ء کے خط میں علامہ نے اپنی اہلیہ کی وفات کی خبر دیتے ہوئے لکھا ہے ’’گذشتہ ماہ میری اہلیہ کی اچانک وفات ہو گئی۔ انھوں نے دو بچے جن کی عمریں گیارہ اور پانچ سال ہیں چھوڑے ہیں اور اُن کی آخری خواہش تھی کہ جب تک یہ بچے بالغ نہیں ہو جاتے میں انھیں اپنی نظروں سے اوجھل نہ ہونے دوں ۔ اُن کی دیکھ بھال کرنے والا کوئی نہیں اور میں انھیں کسی با تنخواہ گورنس کی نگرانی میں نہیں دینا چاہتا۔ تاہم بیماری کی حالت میں بچوں کی دیکھ بھال کا کام علامہ کے لیے یقینا ناممکن رہا ہو گا۔ ڈاکٹر محمد عبداللہ چغتائی لکھتے ہیں: مئی ۱۹۳۵ء میں علامہ کی اہلیہ محترمہ (والدۂ جاوید اقبال) کا انتقال ہو گیا جس سے علامہ کی صحت پر بہت بُرا اثر پڑا۔ بچوں کی دیکھ بھال اور تربیت کا کوئی مناسب انتظام نہیں تھا جس سے آپ سخت پریشان تھے انھی دنوں کسی ذریعے سے معلوم ہوا کہ پروفیسر رشید احمد صدیقی [علی گڑھ یونی ورسٹی] کے ہاں ایک جرمن خاتون مس ڈورا قیام پذیر ہیں، جو ضرورت مند ہیں اور بچوں کی گورنس کے طور پر نہایت موزوں ہیں۔ علامہ نے احباب کے مشورے کے بعد پروفیسر صدیقی کو لکھا کہ ان خاتون کو فوراً میرے پاس بھیج دیں اور تمام شرائط اور فرائض بھی لکھ دیے۔ چنانچہ یہ خاتون لاہور پہنچ گئیں اور پوری طرح بچوں کو سنبھال لیا جس سے علامہ کو اطمینان نصیب ہوا اور وہ پروفیسر صدیقی کے بے حد ممنون ہوئے۔ یہ خاتون ریلوے سٹیشن کے قریب رہتی تھیں اور انھیں جاوید منزل تک لانے لے جانے کا کام میاں محمدشفیع اور علی بخش کے سپرد تھا۔۶؎ قیام پاکستان کے بعد میاں محمد شفیع متعدد اخبارات و رسائل میں معلوماتی کالم لکھتے رہے۔ علامہ کے بارے میں اُن کی ذاتی یادداشتوں کے بارے میں بھی کئی مضامین شائع کیے۔میاں محمد شفیع نے سیاست میں بھی حصہ لیا۔ پنجاب اسمبلی کے ممبر رہے۔ صدر ضیاء الحق کی مجلس شوریٰ میں بھی شامل تھے۔ غلام احمد پرویز تبلیغ اسلام میں پرویزی مکتبۂ فکر کے بانی ۔ قیام پاکستان سے قبل دہلی میں گورنمنٹ ملازم تھے۔ قیام پاکستان کے بعد رسالہ طلوع اسلام کراچی سے جاری کیا۔ گلبرگ لاہور میں ایک تبلیغی اور اشاعتی مرکز اور ریسرچ لائبریری قائم کی۔ تفسیر قرآن اور متعدد دینی کتب کے مصنف ہیں۔ /…/…/ حواشی و حوالہ جات ۱- ڈاکٹر محمد عبداللہ چغتائی، اقبال کی صحبت میں، مجلس ترقی ادب ، لاہور، ۱۹۷۷ئ، ص ۲۸۱۔ ۲- ایضاً، ص ۲۸۱-۱۸۲۔ 3- Philip Ziegler, Mount Batten, collins, London, 1980, p. 410. 4- ? ۵- ڈاکٹر محمد عبداللہ چغتائی، اقبال کی صحبت میں، مجلس ترقی ادب ، لاہور، ۱۹۷۷ئ، ص ۷۸، ۲۹۵، ۴۳۷، ۴۶۸، ۴۶۹۔ ۶- ایضاً، ص ۲۹۶۔ 1 31st October 1933. My dear Fisher, I have heard from Thompson taht Iqbal has hoard that we are contemplanting asking him to be Rhodos Hemorisl Lecture for Next year and is wondering whother he is going to receive an invitation becasue he has been asked to organise a university in Afghanistan and apparently does not want to tie himself up so that he cannot come to Oxford he is invited. He fruther tells me that it is commonly reported in Oxford and Indian ciricles that you are alleged to have said that he was going to be the next lecturer. Personality I think that we could do nothing better than to get Iqbal next summer, not only for personal reasons but on general political grounds.Morover, if the Trustece approve of my proposals about the third year of the scholarship, we sahll once more be in a relatively fluid frinancial postion. I am therefore rongal of the view that the Trusees outh to invite him. we cannot however, take any steps unlews the Vice-Chancellor agrees. i am wondering wheter you could possibly have a word with him on the subject so that the Trustees could know wehter he would appove (becasue the invitation has to be issued jointly) so that a tecision can be taken on the 21st, because i understand that Iqbal is anxious for an early decision. I cannot consult him formally untill the Trustees have approved. Iqbal is a very distinguished figher. this appointment not only please India but mght have repercussions throughout Afghanistan and the Middle east. He would certainly give frst alass lecture as his lecture to the istotelian society abundantly proved. yours sincerely The Warden, New College, Oxford 2. 31st October 1933. My dear Thompson, I will try and give you an answer aobut Iqbal in the course of the next two weeks.Would it be too late if i delayed it untill November 21st, which is the next meeting of the Trustees? The question is a little mixed up with finanoe, and I hope to get everything straightened out by them. Furuter, before issuing any invitation I should to get the formal consent of the Vice-Chancellor. I suppose it will be all right if you vould send Iqbal a cable in the last week of November? your description of the Sarabhais atteracts me very much. I suppose they a re not still in England, becasue, if so, I would like to get thme down to Blickling for a night provided you would come too, about the middle of November? it is amlmost the most lovely house in egnland, and they would alclrearly appreciate it and the wild life about it, and we could have some quiet talk. it and the wild life about it, and we could have some quiet talk. Yours sincerely, Deward Thompson, Esq. Soar Top, Boar 'B' Hill, OXFORD. 3 THE WARDEN'S LODGINGS, NEW COLLEGE OXFORD. November Ist, 1933. My dear Lothian, Willar will tell you taht on February 2nd, I forwarded to him a letter from the Vice- Chancellor saying that he raised no objection to Iqbal's name as Thodes Lecturer. i had already consulted him about it. There is no reason whatever why we should not go ahead and appoint him at our next liceting, if we have not done so already. I quite agree with you as to his qualities. yous sincerely, The Most Hon. The Marquis of Lothian, C.H. The Rhodes Trust, Seymour House, Waterloo Place, London, S.W.I. 4 6th Dec. 1933 My dear Lord Lothiam Thank you so much for you kind letter inviting me indinner Rhodes memorial lectures at oxford. I ??? 5 3rd January 1934. Dear Sir Muhammad Iqbal, i have just got you letter of the 6th December. I am delighted to hear that you can see your way to accept the Thodes Memorial Lectuership and I am looking forward very much to seeing you once more and hearing your lectures. Is it, however, really impossible for you to come to Oxford next Summer Term or at latest next October Term? With institutions like a University it is not easy to revise arragnements once they have been made and it is now tool ate to get onother lecturer for next year and we should probably have to go through the whole process of getting the consent of the University Authorities to the postment. Further, will you allow e to say that I think the subject, matter you have choosend, namely "Space and time in the history of Muslim thought", is rather more specialist in character than was contemplated at the rfoundation of the Rhodes Memorial Lectureships. The lectureship is not primarily academic in the narrower sense of the word. The object of the Rhodes Trustees in founding it was to bring to oxford notable figurs of international reputation who could interpret either some other civiliasational or some important contermporatry trainof thought to the Fellow and undergraduates of the University. There are many lectureship of a purely academic kind but the Trustees felt that if Oxford was to keep its place among the Universities, its treachers and sutdents should be given the opportunity of having discussions with and listening to lectures by people who represented somehting outside the normal curriculm of the University. The first lectures were given by sir Robert Borden Prime Minsiter of Canada during the war, on the development of the Britian commonwealth from the standpoint of Dominion who had taken part in the war. He was follwoed by Dr. Flexner who gave a series of trather provocative lectures on the idea of the modern Unviersity. Professor Halvey was the next lecturer who dealwith the significance of the world war from the standpiont of Franue. Then General Sauts came from Sourth Africa and gave brilliant series of lectures in which he urged Great Britain to investigate and consider the problesm of Africa as a whole and in which he discussed those problems. Finally professor Einstein came to Oxford and gvae three lectues on an aspect of relativeity which I understand he has since abandoned. His visit was personally a great success, but it would not be unfair to say that his lectues were not the most satisfactory part of his lectureship and, in point of fact, they have never been published because he has largely abandoned the ghesis he then propounded. The Rhodes Tustees and the ice-Chancellor had hpoed that you could give a series of lectues on some such subject as "Islam in the Modern World", or "Islam and the Reconstruction of Modern Civlisation". or "Islam and India". They feel that theaverage Englishman's ideas about Islam are exteemely limited, are saturated with the prejudice which has arisend partly from the old chrisian missionary point of veiw and partly from the fact taht Islam like other greatreligions has passed through a preiod of stangation and petrifaction. What they would like would be for you to set out to give Oxford and impression of what Islam has represented as a wrold movement in history and of the significance of its fundamental thinking and re-awakenging activtiy in the modetrn world. it was reading you lectures which made me realise how great a thmee this was and i feel that from the point of view of oxford and the lectureship and treamtment of this kind of subject would be more in the tradition of the lecture which will only appeal to a very narrow academic circle. There is nothing, of course to prevent you giving one or more lectures on this subject to audiences or societies in oxford or elsewhere and having these published together with the Rhodes Memoria Lectures by the Oxford University Press. But i would venture to express the hope that you should take a rather broader theme fore the Rhodes Memorial Lectures and that if you cand ot this, you will also be able to come to Oxford this summer, for you clearly have the subject at your finger tips and the lectures themselves will require no such research as would be necessary for "Space and time in the history of Muslim Thought". I wonder if you could be so kind as to send me a cable after thr receipt of this letter as to what you final decision is? it is not necessary for you to settle the title of you lectures at once as the title will only be announced in Oxford about easter, but I should like to know as soon as poosible whether I can teel the Vice-Chancelllor that you will be in Oxford next summer term or in the October Term. yours sincerely Sir Muhammad Iqbal, Lahore, India. 6. RHODES MEMORIAL LECTURESHIP Last year the Trustees offoered the Rhodes Memorial Lectureship to Mr. Srinivasa sastri who rpelied that unfortunately owing to hearlth he could not accept it. In view of the uncertainly of the financial postion the Trustee decided not to make any further attempt to fill the position for 1933. The question now arises whether they should fill it for 1934. The condidate proposed is Sir Muhammad Iqbal, a distinguished Muhammadan from Lahore, who is probably the outstanding intellectual figure from the Islamic world to-day. He has written a number of esays on Sicence, Philospphy and Religion, which are now being published by the Oxford University Press, and has lectured with what the Americans call "with acceptance" befroe the Aristotelian Society. Apparently it came to Sir Muhammad's ears when he was over for the third Round Table Conference that this name had been put forward as a candidate for the Lectureship, and he has now written to Edward Thmompson privately to find out whether he is likely to be offered the appointeneht becasue he had been invited to oranise a new Univesity in Afghanistan by Nadri Shah, who has since unfortunetly been assssinated. drruing the summer too, the question was disussed by Mr. Disher with the Vice-Chancellor, who makes the appointment conjointly with the Trustees, and the Vice-Chancellor agreed that he would be a sutiable condidate. There is no doubt that his appointment would also be worth while from the political point of view for it would certainly casue much satisfaction among our slem fellow subjects in India, though unless it were made known, as I have endeavoured privately to make it known, that Mr Sastri had already been asked and had freufsed, the Hindus might feel a little aggrieved. On all grounds other than finance, therefore, I recommend the appointement. The financial consideration will clrealy depened upon the consideration the Trustees give to the question of the third year of the Scholarship. 7 Thank you so much for ??? 8 SCARTOP, BOARS HILL OXFORD 1.16.34 My dear Lothian, Iqbal's psychology, as I understand is this. He is a Brahmin, and Kashimiri at that, of the same clan as Haksar, Sawru and the Nehrus. That gives him an inherited metaphysical eat. And he is very sensitive about hte chargre brought against Muhammadism, that it is a staile Lo-grade relaigon, good for savages and negroes, but giving nothring on the metaphysical side ofr the mind to bite on, infinitely inferirot here to Christianity and Hinduism. He is ambitioous, as his lectures show, to but Islam on the worldman- metaphysically. He has Finstein on the brain, and also our Dna ("An Experiment in Time") and others. He wanst to challenge Fistein and prove tha t islam has great philosophy and great phiosophers. On ton of thatm, the name of Oxford and of this predecessors as Rhodes Lexeers has put the wind up him; and he feles he did not get enought noteice for such than innignes as he feels he is expected to play. I shd. ask him to reconsider his decision in the light of your letterm, which shd. reach him in a very feww days. He has not had it, and still thinks he has to launch a world shaking philsophy here instead of merely giving a jolly show for Islam. Yours sincerely, 9 19.01.34 RHODES MEMORIAL LECTURESHI: SIR MUHAMMAD IQBAL iIn Co-orance with the decision of Trustee and the Vice- Chancellor an Invitatioon was issued to Sir Muhammad Iqbal to bh the Rhodes Memroal Lectures for 1924. I afterward received a letter fro his gratefully acdcepting the lectureship but saying that he wanted to make the subject of his lectures "Time and Space in the Hostory of Muslim Thought", that he would have no suffiecent ime to prepare those lectures by next summer and asing whether the lectureship could not be postponed untill. 1935. After consulting with Mr. Edward Thompson who knows him well, I worte, and Thompson also write, expalining that the Rhodes Memorial Lectures were not intended to deal with so aspecialist a question but rather to present a general survey of same significent aspect of some contemporary politici or thought like tthe Sannate, Borden or Flexn and Octure, and asking him whether he doulc not take as his ubject some such title as "Islam in the Modern World", and still come to Oxford nexxt summer I ha ve now received the follwing oabis: "Sorry impossible this year" This of course may be due to the fact that he has to go the Kabul in connection with the new Afghat University and doubless and letter will follow authority. 10 28th February 1934. Sir, I am directed to sned you the following notice and shall be very much obliged if you will indly distrubited it to the press: The Vice- Chancellor of the Univesity of Oxford and the Rhodes Trustees have leected Sir Muhammad Iqbal to be the Rohdes Memorial Lecturer for the year 1935. The Right Honurable V.S. Lectruror for 1934 but had to decline on doctor's orders I am sir, Your obedient Servant, E.F.M. Assitant Secrteary The Eitor, Associated Press of America, 9 Carmelite Street, E.C.4. The Editor, Press Association Ltd., Byron House, 85, Fleet Street, E.C.4. 11 6th March 1934. Dear Sir Muhammad, I am very glad to be able to inform you that the Vice- Chancellor of the University of Oxford and the Rhodes Trustees have appointed you to be Rhodes Memorial Lecturer of the year you suggest, namely 1935. I presume that you will in resience during the Summer T erm of next year which extend from about the 20th April to about the 20th June. I am very glad that you can see you way to deal in you lectures with the kind of subject which has been the hitherto in the case of the Rhodes Lectures. I will consulty further in reagrd to the title of the lectrures towards the on of this year as ti will be ncesssary to announce it in the Univrsity publications early next year. I am greatly looking forward to seeing you in Oxford. Yours sincerely, Sir Muhammad Iqba, M.A., Ph.D., Lahore, India. 12 My dear Lord Lothian, Thank you so much for you kind ??? 13. My Sir Lord Lathian, I am afraid this ??????? 14 Ist October, 1934. RHODES MEMORIAL LECTURESHI: SIR MUHAMMAD IQBAL I am afraid this lettero f mine will cause some embraessment to you and the Rodes Trusttes. I hoave ben ill drung the last six months and have not yet rcovered. six motngs ago I had an atttack of influence which has seriously affected my voice. The doctors here have not been able to do my any good. I am at present under the treatment of an old Physician of Delhi. If he too fails i shall have to go to Vianna and stay for several months. it is a great misfortune that has befallon me, distrubing seriously my fail work and upsetting all my plans. I write this letter to request you to aks the Trustees to postpone my lectures till my normal vocie is restored to me. I am extremely sorry that this has happened, but I cannot think of any other course except to crave the indulgence of the Truestees in the present cricumstances. sir Muhammad Iqbal was to have resided in Oxford in the summer Term 1935. The University authrorities have been notified infromally of his illness and that a communciation from the Trustees will follow after their next meeting. Secretary's Note. In view of Iqbal's letter there does not seem to be anything to du but a agree to cenoel his lectures for next summer and to be prepared to appointment him for 1936 if he recovers his health and voice by the middle of next year. There remins, howover, the question as to whether the Truatees would like to find a substitute for next summer. The only name that has been mentioned is that of Dr. Hubble, and old Rhodes Scholar, who has mae such a name for himselfat the mount willnon observatory in the California. He was given an Honrary Degree of D.Sc. at Oxford this summer. 15 111. RHODES MERMORIAL LECTURESHIP The Trustees noted that Sir Muhammad Iqbal would be unable to came to England to deliver the Rhodes Memorial Lectures in 1935 owing to 111-health, and that he had asked to be allowed thto postpone his lectures for a year. 16 9th November 1934. Dear Mr. Vice-Chancellor, The Rhodes Trustees have instrouted me to inform you that they have received the attaohed letter from Sir Muhammad Iqbal, whom you will remember the University agreed with the Rhodes Trustee should be invited to deliver the Rhodes Memorial Lectures in the Summer Team of 1935. The Trustees very much regret that the illness of Sir Muhamad Iqbal compels him to cancel his acceptence of the invitation from the University and the Trustees for this year and see no objection to his lectureship being transfer to 1936, provided Sir Muhammad has recovered his health sufficoiently by the middle of next year to indicate whether he will be able to some. They have no alternative candidate to suggest for 1935. yours sincerely, L. Secretary The Vice-Chancellor, Worester College, Oxford. 17 18th January 1935. Dear sir Muhammad, I was about to write to ask you how your health was and whether there is now any prospent of your being able to give the Rhodes lectures next summer term at Oxford or whether we must make up our minds to wait intill 1936, when i discover that there is no evidence in my files to say that we ever answered your letter of the Ist October. Your letter was considered by the Trustees at their Meeting on the 6th November and they decided to agree to your request and we afterwards obtained the conurrence of the Vice-Chancellor of the University. If this is correct I wish to tender you my hearth-felt aplogies for this quite unintentioned oversight. The Trustees expressed great hope that you would rapildy recovers and the real purpose of this letter is to find out how you are and what are the prospects of your being able to come to Oxford. I have a secret hope that you may be so much better that youmay be able to come to Oxford after all this summer. yours Sincerely L. Sir Muhammad Iqbal, M.A., Ph.D., LL.D., Lahore, India. 18 My dear Lothien, Thank you so much for youu kind ??? 19 15th April 1935. My Sir Lord Lothien, ??? 20 RHODES MEMORIAL LECTURESHI: SIR MUHAMMAD IQBAL 15 April, 1935. I returned from Bhopal Ist month. There is some sight improvement in my voice; but the trontment will have to be continued for a whole year, or, if need be, more than a year. I shall have to go to Bhopal for the 2nd course of electic treatment about the end of my and again after an interval of ten weeks. Siince the heart is involved in the trouble I am advised to take complete rest in mind and body during the treatment. I am ashemed to ask for the Rhodes Trustees Indulgenoe over and over again, and writes this to inform you that it will not be possible for me to deliver the lectures till I have completely recovered. I do hope the Trustee will be good enough to agreet ot it in the circumstances. if, however, this is not possible, them i fear I shall have to forego the honour which they have generoulsly conferred on me. It is hardly necessary for me to add that i am grateful to you for the intrest you have taken in the matter. I shall never forget you kindness an well as that of the Rhodes Trustees. Secretary's Note I think we should tell Iqbal that he can coe to Oxford in 1936 but that if he is unable to do this the Trustees will have to appoint sone also in 1937. 21. 21.05.35 177. RHODES MEMRORAL LECTURESHIP A letter dated the 15th April 1935 from Sir Muhammad Iqbal, was noted. The Trutees decided taht they musth know before the and of 1935 whether sir Muhammad will be able to come to Oxford 11th 1936 to deliver the Rhodes Memorial Lectures. The Secreotary was instructed to wirte to him in this sense and also to Dr. K.P. Hubble (illinois 1910), invitting him to be the Rhodes Memoraial Lecturer when he is in a postion to report upon the results achievedfrom the news telscope at Mount Vision Observatory. 22 27th May 1935. Der sir Muhammad, The Rhodes Trustees were very sorry to hear at the last meeting taht yo have not fully recoveredfrom you illness. They will be very glad to agreet that if you in good health again you should deliver the Rhodes Memorial Lectues in the summer of 1936. But they hope that you will be able to let thme know before the one of this year whether you will ve in a position to come to Oxford in the Summer Term of 1936. In the unfortunate event of youo not being able to do so, they feel that they ought to get another lecture, as it is now some year since the ohair has been filled, and they must have time in which to do this. With my kndest regards Yors sincerely, L. Secretary Sir Muhammad Iqbal, M.A., Ph.D., LL.D., Lahore, India. 23 22nd June 1935 My dear Lord Lothian, Thank you so much for your very kind ???? 24 1808. RHODES MEMORIAL LECTURESHIP The Trustees noted air Muhammad Iqbal's letter of 22nd June 1935 regretting that circumstances now made it impose for him to accept the Rhodes Lectureship. The Secretary was requested to find out from Dr. Hubble whether and when he would be in a postion to accept an invitation. 25 25th July, 1935. My dear Sir Muhammad, It is a great disappointment to the Rhodes Trustees and to myself that youl fell yourself unable to come to deliver the Thodes Lecrues at Oxford. The were all the morey soory because of the circumstances which have made necessary you abandonment of the Lectureship. Many people here had been greatly booking fowrard to hearing you and meeting you again. Perhaps an opportunity for reconsidering the matter may occure imn the future. Yours sincerely, Sir Muhammad Iqbal, M.A., Ph.D., LL.D., Lahore, India.