اقبال:مسائل ومباحث علامہ اقبال کے فکر و فن پر ڈاکٹر سید عبد اﷲ کے مقالات مرتب: ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی اقبال اکادمی پاکستان ڈاکٹرسیّدعبداللہ کے شاگردِ رشید اور اپنے محترم استاد ڈاکٹرغلام حسین ذوالفقار (۱۵؍اگست۱۹۲۴ئ--۱۳؍جون ۲۰۰۷ئ) کی یاد میں ء وہی ہے صاحبِ امروز جس نے اپنی ہمت سے زمانے کے سمندر سے نکالا گوہرِ فردا --------علامہ اقبال فہرست ز عرضِ مرتب رفیع الدین ہاشمی ۱۳ ۱: مقالاتِ سال اقبال ۱- مکمل اور حقیقی اقبال کی تلاش میں ۱۹ ۲- ملّی وجود کے تین دشمن ۲۳ ۳- کلام اقبال میں افرنگ کی حیثیت ۲۷ ۴- غلبہ ٔ افرنگ کے تین محاذ ۳۰ ۵- فرنگی سیاست کے معنی؟ ۳۳ ۶- فرنگ کے سیاسی نظریے ۳۸ ۷- فرنگی معاشرت: اقوام مشرق کی موت ۴۲ ۸- فرنگ کا تیسرا محاذ: فکر و حکمت ۴۷ ۹- فرنگی حکمت کا نقشِ زیبا ۵۱ ۱۰- کلام اقبال کا مصور: عبدالرحمن چغتائی ۵۴ ۱۱- حکمت ِافرنگ ۵۷ ۱۲- فرنگی حکمت کے تاریک پہلو ۶۲ ۱۳- فرنگ دل کی خرابی، خرد کی معموری ۶۵ ۱۴- ذکر و فکر اقبال کو عام کیجیے ۶۹ ۱۵- حکمتِ فرنگ کی ایک اور محرومی ۷۴ ۱۶- مغرب کے سیاسی فکر پر اقبال کی تنقید-۱ ۸۰ ۱۷- مغرب کے سیاسی فکر پر اقبال کی تنقید-۲ ۸۶ ۱۸- پنجاب یونی ورسٹی میں علامہ اقبال کے چند عقیدت مند ۹۲ ۱۹- اقبال پر ایک کتاب ۹۶ ۲۰- کلامِ اقبال بہ ترنم ۱۰۲ ۲۱- قومی اقبال کمیٹی کی مجلس عاملہ کی خدمت میںچند مشورے-۱ ۱۰۵ ۲۲- قومی اقبال کمیٹی کی مجلس عاملہ کی خدمت میںچند مشورے-۲ ۱۱۰ ۲۳- نظریۂ خودی کی سہل ترین تشریح -۱ ۱۱۴ ۲۴- نظریۂ خودی کی سہل ترین تشریح -۲ ۱۱۸ ۲۵- نظریۂ خودی کی سہل ترین تشریح-۳ ۱۲۳ ۲۶- نظریۂ خودی کی سہل ترین تشریح-۴ ۱۲۸ ۲۷- دو دن شہر اقبال میں ۱۳۲ ۲۸- نظریۂ خودی کی سہل ترین تشریح-۵ ۱۳۵ ۲۹- خودی کا استحکام:تعلیم و تربیت ۱۳۸ ۳۰- خودی کے استحکام میں عقل کا مقام ۱۴۳ ۳۱- رموزِ بے خودی یا اجتماعی خودی ۱۴۶ ۳۲- ملت اسلام میں تمدن کی بنیادیں ۱۵۰ ۳۳- خودی کا ضعف ۱۵۲ ۳۴- اقبال کی خودی… صوفیوں کی بے خودی-۱ ۱۵۵ ۳۵- اقبال کی خودی… صوفیوں کی بے خودی -۲ ۱۵۹ ۳۶- نقوشِ اقبال:ایک نیا نقطۂ نظر ۱۶۵ ۳۷- ’’فلسفہ زدہ سید زادہ‘‘ اور اقبال ۱۷۰ ۳۸- اَسرارِ معراج اقبال کی نظر میں ۱۷۵ ۳۹- عجم و عجمیّت اقبال کی نظر میں-۱ ۱۷۹ ۴۰- عجم و عجمیّت اقبال کی نظر میں-۲ ۱۸۳ ۴۱- عجم و عجمیّتاقبال کی نظر میں-۳ ۱۸۷ ۴۲- اقبال در راہِ مولوی ۱۹۲ ۴۳- اقبال و تصوف ۱۹۷ ۴۴- علامہ اقبال اور تصوف ۲۰۲ ۴۵- اقبال کے معاشی تصورات-۱ ۲۰۵ ۴۶- اقبال کے معاشی تصورات -۲ ۲۰۹ ۲: مضامین ۱- شاعرِ مشرق ۲۱۵ ۲- علامہ اقبال [فکرِ اسلامی کا عَلم بردار] ۲۲۱ ۳- نوائے شاعرِ فردا ۲۲۶ ۴- نوجوان اور مطالعۂ اقبال ۲۳۰ ۵- اقبال اور رومی ۲۳۳ ۶- اقبال کی اُردو شاعری ۲۴۱ ۷- اقبال کی تصانیفِ نظم ونثر میں سائنسی موضوعات ۲۵۲ ۸- اقبال فہمی کے بنیادی اصول ۲۵۸ ۹- کچھ تمثیل کے بارے میں (بحوالہ فکرِ اقبال) ۲۶۳ ۱۰- مطالعۂ اقبال: چند ضروری پہلو ۲۷۵ ۱۱- اقبال [شاعری اور فکر و فن] ۲۸۰ ۳: مکاتیب ۱- بنام شورش کاشمیری ۳۱۵ ۲- بنام رفیع الدین ہاشمی ۳۱۷ ۳- بنام سیف اللہ ۳۲۱ ۴- بنام ظفر حجازی ۳۲۲ ۵- بنام ابوالمعانی عصری ۳۲۵ ۴: مصاحبے (انٹرویو) ۱- فکر و نظر سے انٹرویو…نومبر ۱۹۷۷ئ ۳۲۹ ۲-اقبال شناس، اقبال دوست… ۱۹۷۷ئ ۳۳۶ ۵: متفرقات الف- دیباچے، مقدمے ۱- فیضانِ اقبال (شورش کاشمیری) ۳۴۳ ۲- خطوطِ اقبال (رفیع الدین ہاشمی) ۳۴۹ ۳- تصوراتِ اقبال (مولانا صلاح الدین احمد) ۳۵۰ ۴- اقبال اور احیاے دین (خالد علوی) ۳۵۸ ۵- ترجمہ جاوید نامہ (رفیق خاور) ۳۶۱ ب- متفرق ۱- پیغامِ یومِ اقبال- بنام ڈاکٹر انعام الحق کوثر ۳۷۳ ۲- پیغام برائے مجلہ کائنات کراچی ۳۷۴ ۳- ایک مختصر تحریر (مسلمانوں کی نشاتِ ثانیہ بذریعہ قیامِ پاکستان) ۳۷۵ ئ…ئ…ء دیباچہ ڈاکٹر سیّد عبداللہ اُردو زبان و ادب کے نامور محقق،نقاد، ادیب اور خدمت گزار تھے۔ اگر ان کا شمار مشرقی ادبیات کے جید علما میں کیا جائے تو غلط نہ ہوگا کیونکہ وہ اُردو کے ساتھ ساتھ عربی اور فارسی زبانوں پر بھی بخوبی دسترس رکھتے تھے۔ انگریزی میں بھی بند نہ تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں انتظامی صلاحیتوں سے بھی نوازا تھا۔ ایک عرصے تک وہ پنجاب یونی ورسٹی اورینٹل کالج لاہور کے پرنسپل رہے۔ اس کے ساتھ السنہ شرقیہ کے تین شعبوں (اُردو، عربی، فارسی) کی سربراہی کے فرائض بھی کامیابی کے ساتھ انجام دیتے رہے۔خودکو وہ ’’مدرّس‘‘ کہلانا پسند کرتے تھے اور بلاشبہہ وہ ایک کامیاب اور ہردل عزیز مدرّس تھے۔مزیدبراںوہ خوب صورت نثر لکھنے والے ادیب بھی تھے۔ v…v…v ڈاکٹرسیّدعبداللہ کا تعلق اقبال شناسوں کے اس گروہ سے تھا، جس میں سرعبدالقادر، غلام رسول مہر، خلیفہ عبدالحکیم ، یوسف حسین خاں، نذیر نیازی، خواجہ عبدالوحید،بشیراحمد ڈار،عزیزاحمد اور ممتاز حسن جیسے سربرآوردہ مشاہیرِ ادب شامل تھے۔ سیّد صاحب اپنے مذکورہ بالا معاصرین میں اس لیے بھی ممتاز و منفرد مقام رکھتے تھے کہ اُنھوں نے فکرِ اقبال کو نہ صرف قرطاس وقلم کے ذریعے اُجاگر کیا، بلکہ ایک طویل عرصے تک وہ اپنے عالمانہ اور دل نشیں لیکچروں کے ذریعے، تعلیماتِ اقبال کو اپنے سیکڑوں اور ہزاروں طلبہ و طالبات کے دل و دماغ میں اُتارتے اور انھیں اقبال آشنا کرتے رہے __ اُنھوں نے اقبال کے فکر و فلسفے اور شاعری پر صرف مضامین اور کتابیں ہی نہیں لکھیں، اقبالیاتی کانفرنسوں اور جلسوں کا اہتمام بھی کیا، اقبال پر تقریریں کیں، اقبال میموریل لیکچر دیے، اقبالیاتی نصابات مرتب کرکے فکروشعرِ اقبال کو جامعاتی سطح پر تدریسِ اُردو اور تدریسِ فارسی کا حصہ بنایا، اور جیسا کہ اوپر ذکر ہوا،انھوں نے خود بھی سالہا سال تک ایم اے اُردو جماعتوں کو اقبالیات کا درس دیا۔ طلبہ و طالبات سے بعض اقبالیاتی موضوعات پر تحقیقی مقالات تیار و رقم کرائے۔ جب کبھی اور جہاں کہیں اقبال پر کوئی اعتراض وارد ہوا، سیّد صاحب نے اپنے مخصوص دھیمے لہجے میں بڑی حکمت کے ساتھ محکم اور قوی دلائل کے ذریعے ان اعتراضات کو رفع کردیا __ غرض پایانِ عمر وہ اقبالیات کے عَلم بردار کے طور پر ایک شارح اور مبلغ و مفسر کا کردار ادا کرتے رہے۔ v…v…v ڈاکٹرسیّد عبداللہ کے اقبالیاتی ذخیرے میں خاصا تنوع ہے۔ ایک طرف توان کے تنقیدی مقالات ٹھوس علمی اور فلسفیانہ مباحث پر مشتمل ہیں، دوسری طرف ایک بڑی تعداد ان کے توضیحی اور تاثراتی مضامین کی ہے، جن میں وہ فکر ِ اقبال کے ایک بہت اچھے شارح اور مفسر نظر آتے ہیں۔ ایم اے کی سطح پر اقبالیات کی درس و تدریس کے سبب، ان کی مکتبی تحریروں میں توضیح و تشریح اور تفہیم کا انداز غالب ہے، مگر سیّد صاحب کی مکتبی تحریریں بھی ان کی علمیت ،ان کے وسیع مطالعے اور ان کے مخصوص ذوق کی غماز ہیں۔ اقبالیات پر سیّد صاحب کی حسبِ ذیل کتابیں شائع ہوچکی ہیں: ۱- مقاماتِ اقبال: ناشرین لاہور، ۱۹۵۹ء ۲- طیفِ اقبال: لاہور اکیڈمی لاہور، ۱۹۶۴ء ۳- سہلِ اقبال: مکتبہ خیابانِ ادب لاہور، ۱۹۶۹ء ۴- مسائلِ اقبال: مغربی پاکستان اُردو اکیڈمی لاہور، ۱۹۷۴ء ۵- شیخ اکبر اور اقبال: مغربی پاکستان اُردو اکیڈمی لاہور، ۱۹۷۹ء ۶- مقاصدِ اقبال: علمی کتاب خانہ لاہور، [۱۹۸۱ئ] ۷- مطالعۂ اقبال کے چند نئے رُخ: بزمِ اقبال لاہور: ۱۹۸۴ء ۸- رمزِ اقبال: اسرار بک ڈپو دہلی، س ن زیرنظر کتاب میں ڈاکٹر سیّد عبداللہ کے ایسے اقبالیاتی مقالات و مضامین، مکاتیب، دیباچوں، تبصروں، مصاحبوں اور متفرقات کو یکجا کیا گیا ہے، جو اُن کے متذکرہ بالا کسی مجموعے میں شامل نہیں ہیں۔ خیال رہے کہ چند سال قبل میرے دوست اور نامور محقق محمد اکرام چغتائی نے سیّد صاحب کی اقبالیاتی تحریروں کا ایک مجموعہ اعجازِ اقبال کے نام سے شائع کیا تھا (سنگِ میل پبلی کیشنز لاہور، ۲۰۰۴ئ) مگر اس میں شامل مضامین کے ساتھ ان کے مصادر ومآخذ کاحوالہ نہیں دیا گیا۔ایک دو کے سوا، یہ تمام مضامین، سیّد صاحب کی مستقل اقبالیاتی کتابوں سے اخذ کیے گئے ہیں، البتہ چغتائی صاحب نے ان کی ترتیب بالکل بدل دی ہے۔ میرے خیال میں یہ تبدیلی مناسب نہ تھی۔ v…v…v راقم نے سیّدصاحب کی غیرمدوّن اقبالیاتی تحریروں کوکئی برس پہلے جمع کرنا شروع کیاتھا۔ سب سے پہلے چٹان سے دستیاب مقالات کی عکسی نقول بنوائیں، مگر راقم کی تدریسی اور تصنیفی مصروفیات اور مکروہاتِ زمانہ کی وجہ سے یہ منصوبہ کئی برس تک تعطل کا شکار رہا۔ اسی درمیان خیال آیا کہ چٹان کے مقالات کے ساتھ سیّد صاحب کے ایسے مضامینِ اقبالیات بھی جمع کرلیے جائیں جو اُن کی کتابوں میں شامل نہیں ہیں، چنانچہ راقم وقتاً فوقتاً سیّد صاحب کے غیرمدوّن مضامین بھی جمع کرتا رہا۔ اسی اثنا میں، مَیں نے اورینٹل کالج میگزین کے سیدعبداللہ نمبر میں سیّد صاحب کے چند اقبالیاتی مکاتیب پر مشتمل ایک مضمون شائع کرایا __ دریں اثنا بعض اقبالیاتی کتابوں میں سیّد صاحب کے دیباچے یا مقدمے علم میں آئے اور چند متفرقات __ زیرنظر مجموعے میں، ڈاکٹر سیّد عبداللہ کی (جملہ دستیاب) غیر مدوّن اقبالیاتی تحریریں جمع کردی گئی ہیں۔ خیال رہے کہ سیّد صاحب بعض اوقات مدیرانِ جرائد کے تقاضوں کے پیشِ نظر، اپنی مطبوعہ تحریروںمیںتھوڑابہت اضافہ یا ردّوبدل کرکے، اور نیا عنوان لگا کراشاعت کے لیے دے دیا کرتیتھے۔اس مجموعے میں بھی بعض ایسی تحریریں شامل ہیں جن کے ساتھ ’’وضاحت‘‘کردی گئی ہے۔ v…v…v زیرنظر مجموعے کی ترتیب و تدوین میں: ۱- سید صاحب کا متن جوں کا توں دیا گیا ہے، البتہ چند مقامات پر قیاسی تصحیح کی ضرورت پیش آئی۔ ایسی تصحیحات کو قلّابین میں دیا گیا ہے۔ ۲- آیاتِ قرآنی، احادیثِ نبویؐ، عربی مقولوں اور اُردو اور فارسی اشعار کی مقدور بھر تصحیح کر دی گئی ہے۔ ۳- ہر تحریر کے آخر میں اس کے مصدر کا حوالہ دیا گیا ہے۔ ۴- پاورق میں جو حواشی مرتب نے ایزاد کیے ہیں، ان کے ساتھ ’مرتب‘ درج ہے۔ ۵- کتاب میں متداول املا اختیار کیا گیا ہے۔ v…v…v اس مجموعے کی تیاری میں چند عزیز دوستوں اور شاگردوں نے طرح طرح سے میری معاونت کی، جن میں جناب ارشاد الرحمن(اقبال اکادمی پاکستان لاہور)ڈاکٹرمسزاخترالنساء (پروفیسراردو،گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج برائے خواتین ،وحدت روڈ لاہور) اور عزیزم قاسم محموداحمد (لیکچراراردو،گورنمنٹ اسلامیہ ڈگری کالج،سانگلہ ہل ) شامل ہیں۔میں ان سب کا تہِ دل سے ممنون ہوں۔ دوتین سال قبل جب میں نے پروفیسر عطیہ سیّدصاحبہ سے،باقیاتِ اقبالیاتِ سیّد کی جمع و ترتیب کی اجازت چاہی تو انھوں نے بخوشی اجازت مرحمت کی ،جس کے لیے ان کا دلی طورپر شکرگزارہوں۔ v…v…v مطالعۂ اقبال اور فروغِ اقبالیات کے سلسلے میں ڈاکٹر سیّد عبداللہ کی کاوشیں متنوع اور ہمہ جہت ہیں __ اگرچہ سیّد صاحب پرپی ایچ ڈی اور ایم فل سطح کے تحقیقی مقالات لکھے جاچکے ہیںاوران کی اقبال شناسی پر بھی دادِتحقیق دی جا چکی ہے،بایں ہمہ ان کی اقبالیاتی خدمات اوراقبالیاتی کارنامے کاقرار واقعی جائزہ لینا باقی ہے۔ اُمید ہے یہ مجموعہ، اقبالیاتِ سیّد کے محقق اور تجزیہ نگار کے لیے معاون ثابت ہوگا۔ رفیع الدین ہاشمی یکمجون ۲۰۱۰ء rdhashmi@yahoo.com ئ……ئ……ء ۱ مقالاتِ سالِ اقبال / سالِ اقبال (۹؍نومبر ۱۹۷۴ئ- ۸؍نومبر ۱۹۷۵ئ) کے دوران میں ہفت روزہ چٹان میں ہر ہفتے ڈاکٹر سیدعبداللہ کا ایک مقالہ شائع ہوتا تھا۔ اس حصے میں چٹان میں شائع شدہ مقالے، تاریخ وار یکجا کیے گئے ہیں۔ ہرمقالے کے آخر میں مقالے کی تاریخِ اشاعت درج کر دی گئی ہے___ (مرتب) ۱ مکمل اور حقیقی اقبال کی تلاش ہجری قمری کی تقویم کی رُو سے اقبال کی تاریخ ولادت ان کی اپنی ایک یاد داشت کے مطابق ۳؍ذوالقعدہ۱۲۹۴ھ ہے۔ اس حساب سے (یعنی ہجری تقویم کے لحاظ سے) ان کے سو (۱۰۰)سال ۳؍ذوالقعدہ ۱۳۹۴ھ کو پورے ہو جاتے ہیں (جو ۱۸؍نومبر ۱۹۷۴ء کے مطابق ہے۔) مقام شکر یہ ہے کہ پاکستان کی مرکزی حکومت عیسوی تقویم کے لحاظ سے اقبال کی صد سالہ تقریب ۹نومبر۱۹۷۷ء کو منارہی ہے، وہ بھی ٹھیک ہے، اور ہم اس کی کامیابی کے لیے سر گرم وساعی رہیں گے۔ لیکن ہجری تقویم بھی اگر در نظر رہے تو اس میں کیا مضائقہ ہے کیونکہ بالآخر ہماری تہذیبی فضا تو اپنی روایتوں ہی سے قائم ہوگی۔ اس ضمن میں ممکن ہو اتو ۱۹۷۷ء والی سرکاری تقریب کے لیے ذہن اور فضا تیار کرنے میں ہم ان شاء اللہ ممدومعاون ہوںگے۔ بہرحال ہجری تقویم کے مطابق اقبال کا سالِ ولادت ۳؍ذی قعدہ ۱۲۹۴ھ ہے اور سوسال ۳؍ذی قعدہ۱۳۹۴ھ ہجری کو پورے ہوتے ہیں اور مذکورہ سال۳؍ذی قعدہ ۱۳۹۵ھ تک ممتد ہوگا۔ میںنے ارادہ کیا کہ اس پورے سال کو متبرک سمجھ کر ہر ہفتے فکرِ اقبال اور شخصیتِ اقبال کے کسی نہ کسی پہلو پر ایک مختصر سا شذرہ لکھ کر ہدیۂ عقیدت پیش کرتا رہوں۔ میرے حساب سے یہ ۴۸ مقالے ہوںگے۱؎ اور کوشش یہ ہوگی کہ کلامِ اقبال کو سامنے رکھ کر ہر مقالے میں کسی نہ کسی مغالطے یا دانستہ غلط بیانی کا ازالہ یا رد کروں۔ اگر چہ یہ بھی ممکن ہے کبھی کبھی کسی عام موضوعِ اقبال پر گفتگو ہو جائے۔ ۱-مقالات جوتحریرکیے جاسکے،۴۶ہیں جیساکہ فہرست سے ظاہرہے۔(مرتب) میں یہ تدبیر اس لیے کر رہا ہوں کہ دن دہاڑے ہماری آنکھوں کے سامنے فکرِ اقبال کی تحریف ہورہی ہے۔ وہ حقیقتیں جو روزِ روشن کی طرح واضح ہیں، مسخ کر کے پیش کی جارہی ہیں۔ یہ سلسلہ آج ہی جاری نہیںہوا ،یہ تو وفاتِ اقبال کے فورا ً بعد شروع ہو گیا تھا۔ مجھے وہ دن بھی یا دہے جب جنگ عظیم دوم کے زمانے میں انگریزی فوجوں میں بھرتی کی ترغیب کے لیے بھرتی کیمپوں میں اقبال کے اشعار کو وسیلہ بنایا جاتا تھا، بہرحال یہ اقبال کی مظلومی ہے کہ ان کے کلام کو مسخ کر کے غلط مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتاہے۔ فکرِ اقبال کوئی ایسا سربستہ راز نہیں، نہ اقبا ل کی شخصیت تاریخ کے کسی دُھندلے دور کی تاریکیوںمیں مستور ہے۔ ابھی چالیس سال قبل حضرت علامہ ہمارے درمیان موجود تھے اور بہت سے ایسے لوگ اب بھی زندہ ہیں جنھوں نے حضرت علامہ کو دیکھا اور ان سے ہم کلامی یا ان کی ہم نشینی کا شرفِ خاص حاصل کیا۔ ماضی قریب کی کھلی حقیقتوں کو بگاڑ کر پیش کر نا ایک ایسی محرومی اور بے توفیقی ہے جس پر جتنا ماتم کیا جائے کم ہے۔ اگر ہم کم از کم اس برگزیدہ ہستی کو اپنی دست برد سے محفوظ رکھیں تو یہ بڑا احسان ہوگا۔ یہ پاکستان پر احسان ہوگا،یہ ایشیا پر احسان ہوگا، یہ انسانیت پر احسان ہوگا۔ یہ آخر ی فقرے میں اس لیے لکھ رہا ہوں کہ ابھی ان تینوں کو فکرِ اقبال سے استفادے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کو اس لیے ضرورت ہے کہ اس کا حقیقی اساسی نظریہ فکرِ اقبال ہی سے متعین ہوگا اور اس کی بقا بھی اس فکر اور اسی اساسی نظریے پر منحصر ہے۔ ایشیا کو ان کی اس لیے ضرورت ہے کہ’ لا‘ کے بعد’ اِلّا‘کی جو منزل آنے والی ہے، اس میں فکرِ اقبال جو اسلام اور قرآن کا ترجمان و شارح ہے، رہنما ثابت ہوگا اور انسانیت کو اس لیے ضرورت ہے کہ تہذیبِ مغرب کو طہارت و پاکیزگی کے راستے پر لانے والا نسخہ افکار و کلامِ اقبال ہی میں ہے۔ ہم لوگوں کا اولین فریضہ ہے کہ فکرِ اقبال کو اپنے خیالات کے روپ میں نہ پیش کریں، بلکہ اس کو حقیقی شکل میں مرتب کرکے حقیقی اورمکمل اقبال کو سمجھنے اور پیش کرنے کی کوشش کریں۔ اپنے توہمات اوراپنی اغراضِ فاسدہ کے لیے اسے استعمال نہ کریں اور اقبال کو جو کچھ کہ وہ تھے، سمجھیںاور ان سے رہنمائی حاصل کریں۔ یہ میں اس لیے لکھ رہاہو ں کہ اقبال کے واضح ارشادات میں تحریف کا ارتکاب ہورہا ہے مثلاً اسی ایک بات کو دیکھ لیں کہ اقبال نے اپنی سب کتابوں میں فرنگی و مغربی تہذیب ومداہنت کے خلا ف قطعی اور دو ٹوک الفاظ میں لکھا ہے مگر ہمارے ملک کے مغرب زدہ حضرات، فکرِ اقبال ہی سے مغرب پرستی کا جواز نکال رہے ہیں۔ ایک اور افسوس ناک رجحا ن یہ دیکھنے میں آرہا ہے کہ فکرِ اقبال کے سلسلے میں اسلام کے تذکرے کو خارج کیا جارہاہے یعنی کچھ یوں تاثر دیاجا رہا ہے کہ فکرِ اقبال میں سب کچھ ہے مگر اسلام نہیں اور اگر کوئی بدقسمتی سے اسلام کانام بسلسلہ اقبال لینے لگتاہے تو کئی پیشانیوں پر بل پڑنے لگتے ہیں۔ مگر ابھی پاکستان میں اور فکرِ اقبال کے سلسلے میں اسلام کے ذکر کو اتنی آسانی سے تو خارج نہیں کیا جاسکتا۔ اقبال کے سلسلے میں کچھ باتیں با لکل واضح ہیں او ر کچھ ایسی بھی ہیں کہ ان میں گفت گو اور بحث کی گنجائش نکلتی ہے ۔واضح باتیں یہ ہیں: ۱- اقبال کے افکار اسلام اور قرآن کے شارح اور مؤ یّد ہیں۔ ۲- اقبال زندگی کی خارجی حقیقت کو اس کی باطنی حقیقت سے الگ کر کے نہیں دیکھتے۔ ۳- اقبال مذہب کو زندگی کے لیے ضروری ہی نہیں سمجھتے، اس کے ساتھ لازم و ملزوم کی حیثیت دیتے ہیں۔ ۴- اقبال اپنی شان دار تاریخ اور اپنے شان دار ماضی کے بہت بڑے مداح اور ستائش گر ہیں۔ ۵- اقبال مغرب کے سائنسی اکتشافات کو بنظر تحسین دیکھتے ہیں مگر مغرب کی معاشرت کومہلک اور انسانیت کش سمجھتے ہیں۔ ۶- اقبال سرمایہ داری، جنس زدگی، اضمحلال پیدا کرنے والے فنون، اعوجاج ذوق اور محض عقلیت اور مشینیت و سائنسیت پر انحصار کو پسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھتے۔ ۷- اقبال دولت کے بگاڑکو انسانیت کے لیے زہر سمجھتے ہیں۔ ۸- اقبال مغربی جمہوریت کو جس میں اپنے حاکمو ں کو چننے کا معیار محض سرشماری ہے عقل و تقویٰ نہیں، اچھی نظر سے نہیں دیکھتے۔ ۹- اقبال صلحاے اُمت، علما اور اولیاکے معتقدِ خاص ہیں اور یہ خیال غلط ہے کہ وہ پیروں، فقیروں اور عالموں کے مخالف تھے۔ وہ بلا ان طبقوں کے بُرے لوگوں کو بُرا سمجھتے تھے مگر تہذیب کے برے فرزندوں کے خلاف بھی اُنھوں نے بہت کچھ لکھا ہے۔ ۱۰- اُنھوں نے خواتین کو مغربی زہر سے بچنے کی تلقین کی ہے اور بالآخر؛ ۱۱- یہ بھی کہا ہے کہ’ ربط و ضبط ملتِ بیضاہے مشرق کی نجات‘ اور یہ بھی کہا ہے کہ ’اُخوت کی بنیاد اسلام ہے نہ کہ شکم۔ اگرچہ ان کی نظر میں اسلام نے اُصولِ معاش کو بھی بنیادی اہمیت دی ہے۔ اقبال کے اختلافی موضوعات وہ ہیں جن کے بارے میں ہر گروہ کو کچھ نہ کچھ تائیدی مواد مل جاتاہے۔ اس کے فیصلے کے لیے صحیح طریق کاریہ ہے کہ تحقیق و تنقید کے صحیح طریقے سے دوسرے مآخذ و شواہد کی مددسے فیصلہ کیاجائے۔ یہ نہیں کہ صدہادوسرے اشعار اور شواہد سے بالکل چشم پوشی کر کے، ایک آدھ اپنے مطلب کے شعر کی تکرار کر کے صرف اپنا مطلب نکالا جائے۔ اس مشغلے سے کسی کو روکا تو نہیںجاسکتامگر ہے یہ بے انصافی۔ بہرحال مکمل اورحقیقی اقبال کو سمجھنا، زندہ رکھنا اور پیش کر نا وقت کا سب سے بڑا تقاضا ہے۔ اقبال فکر کی ایک عظیم روایت ہے اسے محض پراپیگنڈا بنا دینا ستم سے کم نہیں۔ -----۲۵؍نومبر ۱۹۷۴ء ئ……ئ……ء ۲ ملّی وجود کے تین دشمن مغربیت، امتزاجیت اور مقامیت سابقہ مقالے میں عرض کیا جاچکا ہے کہ اقبال کے پیغام کا مرکزی نکتہ بازیافت، یعنی اثبات و استحکامِ وجودِ ملّی ہے۔ اقبال نے اس کے لیے ایک نظمِ فکر تیار کیا ہے جس میں خودی کو مرکزی مقام حاصل ہے۔ خودی کی ان کے نزدیک دو حیثیتیں ہیں۔ ایک انفرادی اور دوسری اجتماعی۔ بہرحال ان کے یہاں کلیدی لفظ خودی ہے، جس میں انفرادی اور اجتماعی شعورِ خود دونوں شامل ہیں، یہ اثباتِ وجودِ ملّی یا تحریکِ بازیافت ہے۔ اقبال کے نزدیک وجودِ ملّی (اجتماعی خودی) کے لیے فرد کی رُوحانی تربیت لازمی ہے۔ مثنوی اسرارِ خودی میں اُنھوںنے انفرادی تربیت پر زور دیتے ہوئے اطاعت، ضبط نفس اورنیابت الٰہی کے اوصاف پیدا کرنے کی اہمیت واضح کی ہے اور چونکہ فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں، اس لیے اُنھوں نے رموزِ بے خودی میں ملّی وجود کے اوصاف اور اس کے استحکام کے وسائل کی محققانہ تشریح کی ہے۔ رموزِ بے خودی میں اقبال نے مثالی ملت کے اوصاف میں تین باتوں کو نمایاں اہمیت دی ہے۔ ایک تو یہ کہ یہ ملت وہ ہوگی جو تاَدّب بآئین الٰہیہ پر عامل ہوگی یعنی خدا کے قانون کی تعلیم کے تحت اپنی تر بیت کرے گی۔ اس ملت کا دوسرا وصف یہ ہوگا کہ اُسوۂ محمدیہ کے مطابق اپنی زندگیوںکو ڈھالے گی۔ تیسرا وصف یہ ہوگا کہ وہ روایاتِ ملیہ کی حفاظت کر ے گی، یعنی اپنی تاریخ کو اپنے سامنے رکھ کر اس کے واقعات سے درسِ عبرت بھی حاصل کرے گی اور اس کو اپنے شعورِ ملّی کا سرچشمہ بھی بنائے گی۔ وجودِ اجتماعی کے ان تین اُصولوں پر عمل کر کے یہ ملت خداکا منشا پورا کرے گی، دنیاکی تسخیر کرکے زمین پر خداکی بادشاہت قائم کرے گی، عدل و انصاف کو نافذ کر ے گی اور ظلم و تعدّی کا ازالہ کرے گی اور ایک ایسی سلطنت قائم کرے گی جس میں خداکا دین رائج ہوگا۔ تاریخ نے ہمیں بتایا ہے کہ جب تک مسلما ن مندرجہ بالا اُصولوں پر عمل پیرا رہے، ان کا وجودِ اجتماعی محکم رہا لیکن جب ان کی خودی ضعیف ہوگئی یعنی وجودِ اجتماعی کا شعور کمزور پڑ گیا تو ان کی قوت میں اضمحلال آگیا اور وہ اس زوال سے دو چار ہوگئے جس سے ہر تاریخ دان با خبر ہے۔ اقبا ل کا سار اکلام اور ان کے سارے افکار اسی کھوئے ہوئے شعورِ اجتماعی کی بازیافت کے لیے وقف ہیں۔ خودی کے ضعف سے جو نقصان پہنچا ہے، وہ اس کی تلافی چاہتے ہیں۔ اس ضعف کو استحکام میں بدلنا چاہتے ہیں اورملت کے وجودِ اجتماعی کو از سرِ نو اسی طرح توانا اور قوی دیکھنا چاہتے ہیں جس طرح وہ کبھی تھی۔ اقبال نے اس وجود اجتماعی کے ضعف کے اسباب کا فلسفیانہ اور محققانہ طور سے سراغ لگایا ہے۔ ان کی نظرمیں اس زوال و اضمحلال کے تین بڑے اسباب ہیں: پہلا سبب یہ ہے کہ مسلمانانِ عالم ذوقِ یقین سے محروم ہوگئے ہیں، ان کا ذہن تشکیک میں مبتلاہوگیاہے۔ اس تشکیک کی ایک خارجی وجہ اوربہت بڑی وجہ، مغربیت یافتنۂ افرنگ ہے جس کی پُر فریب منطق پر فریفتہ ہو کر مسلمانوں کو اپنے ماضی اور مستقبل دونوں کے بارے میں شک پیداہوگیاہے۔ اقبال نے اپنی سب کتابوں میں جتنا کچھ فتنۂ مغرب کے خلاف لکھاہے، کسی اورموضوع پر اتنا نہیں لکھا ہے۔ ان کی جملہ کتابوںمیں ان شکوک واوہام کے ازالے پر خاص توجہ صرف کی گئی ہے جو مغربی افکار نے پیدا کر رکھے ہیں اُنھوں نے اپنی خودی پر زور بھی اسی لیے دیا ہے کہ مسلمان قوم اپنی روایات اور اپنے نصب العین پر فخر کر ے اور اپنا نصب العین اپنے سامنے رکھے۔ تقلیدِ غیر سے پرہیز کرے اور اپنی ہستی کو پہچانے ع وائے قومے کشتۂ اندازِ غیر کَہ کے اُنھوں نے اپنی معاشرت اور اپنی تہذیب کو اپنانے اور اسالیبِ مغرب سے احتراز کی تلقین کی ہے۔ بہرحال اضمحلالِ خودی کا پہلا بڑا سبب ’’اندازِ غیر‘‘کی تقلید یا مغربیت کی تقلید ہے۔ اقبال کی نظرمیں دوسرا بڑا سبب امتزاجیت یعنی مسلمانوں کا رُوحِ قرآنی سے انحراف اور غیرعقائد کی ملاوٹ ہے۔ یہ انحراف کئی صورتوں میں نمایاں ہواہے:سب سے پہلے دین اسلام میں اسرائیلیت کا نفوذہوا جس کے تحت اسلام کی قوتِ نافذہ میں اختلال پیداہوا۔ اس کے بعد یونانیت کا فتنہ رونماہوا جس نے عقل پرستی اور خرد افروزی کے بہانے سے اسلام کے بارے میں اذعان و ایقان کے جذبے کو کمزور کیا۔ روحِ قرآنی سے انحراف کی تیسری شکل ایرانی ہندی متصوفانہ زاہدانہ خیالات کا فروغ ہے جس کے باعث توحید کے عقیدے کو ضعف نصیب ہوا اورمسلمان قوم عملاً ایک سے زیادہ خدائوں میں یقین رکھنے لگی۔ چنانچہ جو بے پناہ قوت انھیں عقیدۂ توحید نے عطا کی تھی، وہ آہستہ آہستہ معرضِ زوال میں آتی گئی۔ انحراف کی اس تیسری صورت کے لیے اکثر اہل علم’’عجمیّت‘‘کی اصطلاح استعمال کر تے ہیں لیکن مجھے ذاتی طور سے اس بارے میں کچھ تردّد ہے اورمیں آئندہ چل کر کسی مقالے میں اس پر کچھ گفت گو بھی کروں گا۔ وجودِ اجتماعی کا تیسرا بڑا سبب مقامیت یا وطنیت یا ارض پرستی ہے۔ یہ وہی چیز ہے جسے مغرب والے نیشنلزم (قومیت) رِیجنلزم(علاقہ پرستی) اورٹیری ٹوری اِزم (جغرافیہ پرستی یا خطہ پرستی) کہتے ہیں۔ یہ تو ظاہر ہے کہ اسلام میں ہر تصور کی بنیاد عقیدہ ہے۔ چنانچہ اسلام میں برادری یا قومیت کی اساس بھی عقیدہ ہے باقی چیزیں (رنگ، نسل، جغرافیہ، زبان) ثانوی ہیں۔ اسی اُصول پر مسلمانوں کے وجودِ اجتماعی کا تشخص عقیدے سے متعین ہوتاہے اسلام میں اُخوت کی بنیاد کلمہ لاالٰہ الااللہ ہے نہ کہ قبائل وشعوب۔ ایک مغرب کے استعماری فلسفوں نے عالمگیر اُخوت کو کمزور کر نے کے لیے مقامیت اور نیشنلزم کا فلسفہ ایجادکیاہے جس کے نتیجے میں عالمِ اسلام، جغرافیائی اور نسلی گروہوں میں تقسیم ہوگیا، بلکہ ایک ہی ملت کئی گروہوں میں بٹ گئی۔ اس ساری بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ اقبال کی نظرمیں وجودملّی کے تین بڑے دشمن ہیں: ۱- مغربیت ۲- انحرافیت اور ۳- مقامیت یہی وجہ ہے کہ بازیافت کی تحریک میں اقبال نے سب سے زیادہ انھی تین نظریات پر حملہ کیا ہے۔ چونکہ ان نظریات کے کئی پہلوہیں ، اس لیے اقبال نے ہر ایک کے بارے میں ایک قطعی موقف اختیار کیاہے۔ چونکہ ان کے بارے میں کچھ تشکیک اور کچھ مغالطے بھی موجود ہیں۔لہٰذاآئندہ مقالات میں بعض اہم اختلافی یا وضاحت طلب مباحث پر مختصر گفت گو کرنے کا ارادہ رکھتاہوں۔ خداتعالیٰ مجھے توفیق دے۔ -----۹؍دسمبر۱۹۷۴ ئ……ئ……ء ۳ کلامِ اقبال میں افرنگ کی حیثیت فریاد ز افرنگ و دلآویزیِ افرنگ فریاد ز شیرینی و پرویزیِ افرنگ عالم ہمہ ویرانہ ز چنگیزیِ افرنگ معمارِ حرم! باز بہ تعمیرِ جہاں خیز از خوابِ گراں ، خوابِ گراں ، خوابِ گراں خیز از خوابِ گراں خیز اثباتِ وجودِ ملّی (بازیافت) کے مسائل دو گونہ ہیں: خارجی اور داخلی۔ خارجی مسائل میں سب سے زیادہ اہمیت اقبال کی نظر میں مسئلہ فرنگ کی ہے جس سے داخلی مسائل بھی بُری طرح سے متاثر ہوئے ہیں۔ داخلی مسائل سے مراد، ملت کی اندرونی معاشی، معاشرتی اور اخلاقی کمزوریاں ہیں، اس کے علاوہ ملت کے افراد کی رُوحانی زندگی کی خرابیاں بھی ہیں، جن کے باعث اجتماعی زندگی مضمحل اور ضعیف ہوگئی ہے اقبال کی نظر میں جہاں اجتماع کی اہمیت ہے، وہاں فرد کی رُوحانی شخصیت کی تعمیر بھی بڑی اہمیت رکھتی ہے۔ بنا بریں کلامِ اقبال میں خارجی اورداخلی مسائل سے متعلق موضوعات میں سے کم از کم چار اُمور کو خاص توجہ دی گئی ہے۔ اول: مسئلہ فرنگ یعنی فرنگ کا سیاسی استیلا اور اس کے برگ وبار، فرنگی معاشرت ومدنیت و تہذیب، فرنگ کی فکری و علمی فتوحات کا تجزیہ۔ دوم:داخلی اجتماعی زندگی اور داخلی سیاسی تاریخ پر تحریکِ تصوف کے اثرات۔ سوم:ملت کی موجودہ داخلی کمزوریوں اور مختلف طبقاتِ ملت کی تنقید۔ چہارم:ملّی تشخص اور انفرادیت کو برقرار رکھنے کی اہمیت۔ اقبال نے ان سب موضوعات پر مختلف پیرایوں میں لکھا، ان کا مقصدیہ تھا کہ ملت اسلامیہ کا ذہنی رُخ بدل جائے۔ وہ مغرب کو بھی اچھی طرح پہچان لے، مشرق کو بھی اچھی طرح جان لے، اور اپنی داخلی کمزوریوں کا بھی صحیح اندازہ کرے، تاکہ انقلابِ تازہ کے لیے تیار ہو جائے اور پھر تعمیرِ حرم کے لیے کمر بستہ ہوجائے۔ اس معاملے میں فکرِ اقبال کا خلاصہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانان عالم: (الف) فتنۂ افرنگ سے آگاہ رہیں اور فرنگی استیلا سے بچنے کے لیے فرنگی فکر اور فرنگی تہذیب کی تقلید نہ کریں بلکہ رُوحانی اور فکری طور پر خود کو صحیح اُصولو ں کے مطابق مسلح کرکے غلبۂ فرنگ کامقابلہ کریںاور بالآخر فرنگ کو ایک بار پھر مغلوب کرلیں۔ یہ کام قرآنی علم و تحقیق سے انجام پائے گا۔ (ب) اقبال کی نظر میں ہماری اجتماعی کمزوری کاایک بڑا سبب وہ متصوفانہ انداز نظر ہے جو زندگی میں بے عملی، انفعال اور جمود پیدا کرتا ہے۔ (ج) اقبال کی راے میں ہمارے داخلی زوال کا ایک اور سبب وہ فقیہانہ طریقِ فکرو تحقیق ہے جو زندگی کے نئے مسائل کی حقیقت کو سمجھے بغیر ان پر پرانے نظائر کانام لے کر بلا تحقیق فیصلہ صادر کردیتا ہے اورچونکہ یہ فیصلے نئی صورتِ حال سے ناواقفیت کامظہر ہوتے ہیں، اس لیے نئے مسائل کے نقطۂ نظرسے افرادِ ملت کے لیے اطمینان بخش نہیں ہوتے۔ (د) اس کے علاوہ غلامانہ ذہنیت جو گذشتہ دو صدیوںمیں تمام عالمِ اسلام پر طاری ہے، ایک بہت بڑا مر ض ہے جس کی طرف اقبال بار بار توجہ دلاتے ہیں۔ میرے نزدیک ملّی لحاظ سے افکارِ اقبال کا یہی خلاصہ ہے اور ان سب کے پیچھے سب سے زیادہ توجہ خیز عقیدہ یہ نظر آرہا ہے کہ ملتِ اسلامیہ زندہ ہے۔ اگر آج وہ اپنے اندر رُوحانی و فکر ی انقلاب پیداکرے، تو دنیاکی امامت بارِ دگر اس کا مقدرہے۔ میں نے اتنی طویل تمہید اس لیے باندھی ہے، کہ اس پورے پس منظر میں مسئلۂ افرنگ پر مکمل اور جامع گفت گو ہوسکے۔ یہ افسوس ناک تاثر بہرحال موجودہے، کہ فکرِ اقبال پر لکھنے والے اکثر بزرگوںنے اقبال کے منشا و مقصد کے بالکل برعکس اقبال کو مغرب کامداح قرار دینے کی کوشش کی ہے حالانکہ سچ یہ ہے کہ اقبال کے کلام سے اگر فتنۂ فرنگ کی مذمت کا عنصر نکال دیاجائے تو ان کا کلام (محتاط اندازے کے مطابق۳/۱ سے کم رہ جائے گا)، بہرحال اقبال کے کلام میں بحث کا انداز تجزیاتی ہے، وہ مغرب کے علم و فن اور ذوقِ ایجادکو مانتے ہیں مگرمغرب کے مجموعی اندازِ سیاست اور اندازِ فکر کو انسانیت کے لیے باعثِ ہلاکت سمجھتے ہیں۔ آئندہ اقساط میں مسئلۂ فرنگ پر تفصیلی گفت گو کا ارادہ رکھتا ہوں۔ -----۱۶؍دسمبر۱۹۷۴ء ئ……ئ……ء ۴ غلبۂ افرنگ کے تین محاذ سیاست - معاشرت - فکر و حکمت سابقہ شذرے میں عرض کیا جاچکاہے کہ اقبال کے کلام کا اگر خلاصہ در خلاصہ پیش کیا جائے تو یہی کہاجاسکے گاکہ یہ فتنۂ فرنگ کے خلاف احتجاج کے لیے سراپا وقف ہے یعنی اس کا مرکزی نکتہ یہی ہے کہ یہ اور بات ہے کہ ان کے بعد ان کی قوم نے سب سے زیادہ اسی نکتے کو نظر اندازکیا ہے، اب قوم’’داشتۂ افرنگ‘‘بننے کے لیے سخت مضطرب ہے، اگر کسی کوشبہہ ہو تو اس قوم کے ادب کو سیکھے، اسی قوم کی دانش ورانہ جدوجہد کو دیکھے، اس قوم میں فرنگی معاشرت کے لیے مجنونانہ تڑپ کو دیکھے، ذرائع نشرواشاعت کو دیکھے۔ ہم سب کے سب لیلاے افرنگ کے عشاق ہیں۔ قوم آزادی ملنے کے بعد اپنی ذہنی، فکری اور معاشرتی غلامی و محکومی پر دل سے ایمان لے آئی ہے۔ اس نے اپنی ذلت و خواری کے لیے سُہانے نام رکھ رکھے ہیں۔ اس قوم نے اقرار کر لیا ہے کہ ہم سے زیادہ افرنگ کا زلّہ ربا اور ’’پس خُوردہ خور‘‘ کوئی نہیں۔ یہی ہماری دانش وری کی آخری منزل ہے اور اسی کے لیے ہم سب کے سب سرگرم کار ہیں۔ لیکن اقبال کی منزل یہ نہ تھی، اقبال خود کو حریفِ فرنگ سمجھتے تھے۔ اسی عقیدے کے تحت اُنھوں نے پس چہ باید کرد اے اقوام شرق جیسی مثنوی لکھی۔ اسی کے تحت اُنھوںنے جاوید نامہ کے مکالمے رقم کیے ،اسی کے تحت ’خضر راہ‘ اور ’طلوعِ اسلام‘ جیسی نظمیں رقم ہوئیں۔ ان کے سارے کلام میں اگر اضطراب ہے تو یہی ہے کہ افرنگ سے مشرق کو کس طرح نجات دلائی جائے۔ اُنھوں نے اپنے ذہن سے فرنگی کاراج معزول کر دیاتھا۔ اور سچ یہ ہے کہ اقبال فتنۂ افرنگ کے سب سے بڑے دشمن تھے۔ جمال الدین افغانی سے بھی زیادہ، ہر دوسرے فرنگی دشمن سے کہیں زیادہ۔ اسباب اس کے واضح ہیں۔ اقبال کی نظرمیں اسلام کا سب سے بڑا دشمن فرنگ ہی تھا۔ سیاسی لحاظ سے، معاشرتی لحاظ سے اور فکر ی لحاظ سے، تینوں زاویوں سے۔ فرنگ اسلام کا حریف اوّل اور مدِّمقابل تھا کیونکہ دنیاکا کوئی اور مذہب یا کوئی اور ملک اس طرح ہمہ اطراف فرنگ کا مد مقابل ہو نہیں سکتا تھا۔ فرنگ کی اسلام دشمنی صلیبی دور کے بعد کی پانچ چھے سو سال کی پروردہ اور تربیت یافتہ تھی، مسلمانوں کی فتوحات دیارِ مغرب تک پھیلی اور عثمانی سلطنت نے کم سے کم چار صدیوں تک (بقول شخصے) یورپ کی چھاتی پر مونگ دلے۔ یہ کوئی معمولی بات نہ تھی۔ فرنگ اس کے بعد منظم انتقام کے لیے تیار ہوتا رہااور اس کی ساری تنظیم کا مقصد اسلامی سلطنتوں کو مٹانا، اسلامی تہذیب کی بیخ کنی کرنا اور اسلامی عقائد و اقدار کو خود اپنوں کے ہاتھوں سے مٹوانا تھا کہ جذبۂ انتقام کا تقاضا یہی تھا۔ یہ تینوں مقصد صدیوں سے ہر رنگ کے فرنگیوں کے پیشِ نظرہیں۔ اب بھی ان کے مدنظر یہی مقاصد ہیں۔ فرنگی ممالک اشتراکی ہو یا سرمایہ دارانہ جمہوریت کے عَلم بردار، سب کا مقصد یہ ہے کہ اسلام کا غلبہ نہ ہونے پائے، اسلامی اُخوت دنیامیں نہ پھیلے، اسلامی سلطنتیں پھر طاقت پکڑنے نہ لگیں۔ اس خطرناک مقصد کے لیے اس نے تعلیم، تشکیک اور عیش پسندانہ زندگی کے دام بچھا رکھے ہیں اور عام طبائع کی کمزوری سے فائدہ اُٹھاکر وہ ان دام ہاے رنگین کے خم و پیچ میں سادہ دل مشرقیوں کو اسیر کررہا ہے اور پھر ان سے ففتھ کالم کا کام لیتا ہے۔ عالمِ اسلام میں تجدد کے سارے سلسلے یہی ’’ففتھ کالم‘‘ ہونے کی خدمت انجام دیتے رہے ہیں اور اب بھی دے رہے ہیں۔ بہرحال علامہ اقبال کا سب سے بڑا موضوع فتنۂ افرنگ کے خلاف احتجاج ہے۔ اُنھوں نے جب یہ فرمایاکہ : ع ترا ناداں، اُمیدِ غم گساری ہا ز افرنگ است تواس کا مطلب یہی تھا کہ اہلِ مشرق، مغرب کی عیاری کا شکار نہ ہوں ،اپنی ملّی شخصیت کو قائم و برقرار رکھیں اور افرنگ کا ہر محاذ پر مقابلہ کریں۔ اقبال کی نظرمیں فتنۂ افرنگ کے تین بڑے محاذ ہیں: ۱- سیاست ۲- معاشرت، اور ۳- فکروحکمت۔ اقبال نے ان تینوں محاذوں کے بارے میں ملت (مشرق) کو خبردار کیا۔ مغربی سیاست کے حربوںسے جو کبھی فلاحِ عامہ کی شکل میں، کبھی تہذیب کے نام پر اور کبھی غریب پروری کے روپ میں ظاہر ہوتے ہیں،آگاہ کیا۔ اقبال نے ہمیں آگاہ کیا ہے کہ مغربی سیاست کی بنیاد، جھوٹ اور مکاری پر ہے، اس کا سب سے بڑا نصب العین آدمی کو آدمی سے لڑانا اور اقوام کو اقوام سے بر سرِپیکار رکھنا ہے، اس کا اولین نشانہ عالمِ اسلام (ایشیا اور افریقہ) ہے۔ اقبال نے اسی وجہ سے یہ فرمایا تھا: ع ربط و ضبطِ ملتِ بیضا ہے مشرق کی نجات اسی وجہ سے اُنھوں نے مثنوی پس چہ باید کرد اے اقوام شرق لکھی۔ جس میں مغرب کی ہر قوم کو (اشتراکی ہو یا جمہوری) مردم خور قرار دیا [بتایا کہ] فرنگی سرمایہ دار ہو یا اشتراکی، اس کا مقصد اسلامی ملکوں کو پامال کر نا، انھیں اپنا غلام بنانا،ان میں ملوکیت اور استعمارکی منڈیاں قائم کرنا ہے بس یہی قولِ فیصل ہے۔ اس غرض کے لیے فرنگی تین حربے استعمال کرتاہے: (۱) قومیت و علاقائیت کا جذبہ اُبھار کر ایک مسلم ملک کو دوسرے مسلم ملک سے لڑاتا ہے۔ (۲) شہوانی معاشرت کو عام کرتا ہے، اور (۳) اپنی فکروحکمت کے ذریعے جو وہ تجدد پسندوں کے ذریعے پھیلاتا ہے، تشکیک پھیلا کر مشرقی (اسلامی) ملکوں کے عام لوگوں کو اپنے دین اور اپنی ملت کے درخشاں مستقبل سے مایوس کرتا ہے۔ اسی کا نام فرنگی تہذیب ہے۔ بلاشبہہ اس تہذیب میں ایجاد و اکتشاف بھی ہے مگر فرنگ کی جدوجہد کا آخری نصب العین سیاست ہے۔ فکروحکمت وغیرہ اس سیاست کی چاکری کرتی ہیں۔ اور ان کی سیاست کا سب سے بڑا نشانہ ہیں مسلمان۔ فقط میں آئندہ کے مقالات میں ان مباحث پر مختصر گفتگو کا ارادہ رکھتا ہوں۔ وبیدہِ التوفیق۔ -----۲۳؍دسمبر ۱۹۷۴ء ئ……ئ……ء ۵ فرنگی سیاست کے معنی؟ صلیبی انتقامی ردِ عمل کی تنظیم سابقہ مقالے میں فرنگی غلبے کے تین محاذوں کا ذکر آچکا ہے۔سیاسی محاذ، معاشرتی محاذ اور فکر و حکمت کا محاذ۔ آج کی گفتگو سیاسی محاذ کے بارے میں ہے سب سے پہلے یہ گزارش ہے کہ آج کل فرنگی سیاسی محاذ کے سلسلے میں عموماً استعمار کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے، مگر مجھے اس بارے میں کچھ تردد ہے۔ اگرچہ اس میں بھی شبہہ نہیں، کہ مغربی اقوام نے جب علم و حکمت میں ترقی کرلی۔ اور سائنسی ایجادات کی مدد سے اور صنعت میں مشین کو شامل کر کے سرمایہ داری کو ایک اُسلوب بنا لیا، تو اس کے نتیجے میں استعمار کی ہوس پیدا ہوئی۔ اُنھیں اپنی مصنوعات کے لیے منڈیوں (اور کالونیوں) کی ضرورت محسوس ہوئی چنانچہ فرنگی ڈپلومیسی کے زور سے جس کی بنیاد جھوٹ ، ریشہ دوانی، دسیسہ کاری، جوڑ توڑ، تفریق انگیزی اور عیاری پر قائم تھی، اُنھوں نے ایشیا اور افریقہ میں قائم شدہ مسلم ریاستوں میں افتراق کی مہم چلائی، اور فطرتِ انسانی کی کمزوریوں سے فائدہ اُٹھا کر داخلی سازشوں کی بنیاد رکھی اور اس عیارانہ فنِ سیاست کے ذریعے مسلم ایشائیوں اور افریقیوں کے خود ساختہ سر پرست بن بیٹھے۔ پھر انھیں گروہوں میں تقسیم کر کے، کبھی ایک گروہ کا ساتھ دیا، کبھی دوسرے کا ۔ اس طرح انھیں آپس میں لڑا کر آہستہ آہستہ ان کی ریاستوں پر خود قبضہ کرتے گئے،اور وہاں کی دولت سمیٹ کر اپنے اپنے ممالک میں اعلیٰ معیارِ زندگی کی رسم ڈالی، جس نے دُنیا کو بالخصوص مسلم اقوام کو برباد کر دیا۔ بہرحال اُنیسویں اور بیسویں صدی کو مغربی ڈپلومیسی کی فتوحات کا زمانہ کہا جاتا ہے اور اس زمانے کو ایک لحاظ سے ’استعمار‘ کا بھی بدترین دور کہا جاسکتا ہے۔ چنانچہ علامہ اقبال نے جاوید نامہ میں اسے خواجہ اہلِ فراق کا تاریک عہد قرار دیا ہے۔ غرض مجھے اہلِ مغرب (فرنگ) کی استعماریت سے انکار نہیں لیکن مَیں اس مسئلے کو ایک دوسرے زاویے سے دیکھتے ہوئے اسے محض ہوس استعمار سے زیادہ انتقامی، صلیبی ردِ عمل کہتا ہوں، اور یہ میں علامہ اقبال کے ارشاداتِ گرامی سے مجموعی تاثر قائم کرتے ہوئے کہتا ہوں، اُنھوں نے فرمایا: لے گئے تثلیث کے فرزند میراثِ خلیل خشتِ بنیادِ کلیسا بن گئی خاکِ حجاز علامہ کے افکار کی رُو سے، مغربی اقوام کا اصل سرچشمۂ تحریک، مسلمانوں کے خلاف وہی صلیبی ردِ عمل تھا، جو فتحِ اُندلس، فتوحاتِ صلاح الدین ایوبی اور فتوحاتِ آلِ عثمان کے خلاف اہلِ یورپ (فرنگی اقوام) کے دل میں جذبۂ انتقام کی صورت میں بھڑکتا رہا، اور اس کا آخری نشانہ عثمانیوں کی قوت تھی۔ اہلِ مغرب نے اس قوت کو مٹانے کے لیے کم وبیش دو تین صدیاں صرف کردیں۔ اور بالآخر اس میں جب کامیابی ہوگئی، تو اُنھوں نے افریقہ اور ایشیا میں پھیلی ہوئی دوسری مملکتوں کو ایک ایک کرکے نشانۂ انتقام بنایا۔ جو لوگ یورپ والوں کی اس طویل اور منظم جدوجہد کو محض ہوسِ استعمار کہتے ہیں۔ وہ اس مسئلے کی آدھی حقیقت بیان کرتے ہیں اور سچ یہ ہے کہ شاید یہ بھی مغربی سازش ہی کا حصہ ہے، کیونکہ مغربی مفکرین اپنے فکری حربوں کے ذریعے، اصل حقیقت سے توجہ ہٹانے میں مہارت رکھتے ہیں، اور ہم لوگ ان کی اس مہارت کا خاص تختۂ مشق ہیں، ان معنوں میں کہ ہم ان کی پھیلائی ہوئی فکری فریب کاریوں کو قبول کرلیتے ہیں اور انھیں حقیقت سمجھنے لگتے ہیں۔ بہرحال اصل حقیقت وہی صلیبی ردِعمل ہے، جس کا میں نے سطورِ بالا میں ذکر کیا ہے۔ صلیبی ردِعمل کو محض استعمار کی ہوس کہنے میں یہ مقصد تو صاف ظاہر ہے کہ مسلمان اصل حقیقت سے اب بھی غافل رہیں، اس حقیقت سے غافل رکھنے کی حکمت یہ ہے کہ مسلمان جمع نہ ہونے پائیں۔استعمار کے معنی فقط یہ ہیں، کہ کوئی استعماری قوم دوسرے کے ملک پر صرف تجارتی اغراض سے قبضہ کرتی ہے، مگر میری راے میں فرنگی اقوام کا مقصد صرف یہ نہیں تھا، ان کا مقصد صلیبی فتوحات کا انتقام لینا بھی تھا۔اگر کوئی یہ سمجھتا ہے، کہ اب مغرب میں مذہب کا دَور ختم ہوچکا ہے، لہٰذا صلیبی ردِعمل کہاں؟ تو یہ اس کی بھول ہے، درحقیقت یہ صلیبی ردِعمل اب بھی جاری ہے، یہ اور بات ہے کہ اس کی شکلیں بدلتی رہتی ہیں۔ایشیا اور افریقہ کی مسلمان اقوام پر اس وقت بھی صلیبی اُصولوں پر سیاسی حملہ جاری ہے اور بڑے دل خوش کن نعروں کے ساتھ جاری ہے اور سچ یہ ہے کہ اس نئی مہم کا نشانہ مسلمان بھی ہیں، اور اسلام بھی۔ ایک مقصد مسلمانوں کی قوت مجتمعہ کو توڑنا ہے، دوسرا مقصد اسلام کو ختم کرنا ہے۔اس مقصد کے لیے پرانے زمانے کی طرح آج بھی دسیسہ کاری کا استعمال ہورہا ہے۔کیا چشم بینا پر یہ روشن نہیںکہ اس وقت عالمی سیاست میں : ع یکے دُزد باشد یکے پردہ دار کا عمل جاری ہے، ایک بلاک امدادی بن جاتا ہے ،دوسرا بلاک مخالف کے ساتھ ہوجاتا ہے، درآں حالیکہ اندر اندر معاہدے، کسی متفقہ مقصد کے لیے ہوچکے ہوتے ہیں۔ جو لوگ فرنگی اقوام کی تازہ ترین تصنیفی سرگرمیوں سے باخبر ہیں، وہ جانتے ہیں کہ اس وقت امریکہ، برطانیہ، روس، فرانس اور جرمنی سے اسلام کے متعلق بالقصد تصانیف کا بڑا زوردار سلسلہ جاری ہے۔ اس ساری سرگرمی کا مقصد افریقہ، مشرقِ وسطیٰ اور وسطی ایشیا کی مسلم ریاستوں کو ہضم کرنا اور اسلامی عقیدے کو تشکیک انگیزی کے ذریعے ختم کرنے کے سوا کچھ نہیں۔ یہ مغربی سیاست کا خاص فن ہے کہ وہ اپنے اصلی عزائم کو کسی صورت میں ظاہر نہیں ہونے دیتی۔ فرنگی سیاست کا سب سے بڑا مطمح نظریہ ہے کہ اسلامی عقیدے کی اپیل ختم کر دی جائے۔ کبھی تہذیب کے نام سے، کبھی علم کے پردے میں، کبھی کلچر کے نام سے، کبھی محنت کشوں اور مزدوروں کو دُنیا کی ایک عالمگیر براداری کَہ کر، غرض ہر طرح سے کوشش یہ ہے کہ مسلمانو ں کو اسلام کے نام پر متحد نہ ہونے دیا جائے۔ وہ اسلام کے نام پر آگے نہ بڑھیں۔ دنیوی نعروں کے زیر اثر آپس میں بٹ جائیں۔ بیسویں صدی کا فرنگی ردِ عمل بھی صلیبی ردِعمل ہی کی ایک بدلی ہوئی شکل ہے۔ ممکن ہے بعض ظاہر بیں یہ کَہ دیں کہ صلیبی ردعمل کے لیے مذہب کو ماننا ضروری ہے، اور اس وقت یورپ میں مذہب سے کسی کو دلچسپی نہیں، اور بعض ایسی اقوام بھی ہیں، جنھوں نے صلیب کو توڑ ڈالا ہے، لیکن یہی تو بھول ہے۔ اب صلیبیں دلوں کے اندر ہیں وہی کلیسا ہے اور وہی جذبۂ انتقام۔ جس قوم نے صلیب کو اُٹھارکھا ہے، اس کا نصب العین کھلا ہے اور جس نے صلیب کو بظاہر توڑ دیا ہے، اس کا جذبہ مخفی ہے مگر دونوں صورتوں میں یہ واضح ہے کہ ان میں سے ہر گروہ مسلمان ریاستوں کوہضم کر نا چاہتا ہے۔ ان میں سے ہر ایک اسلام کے عقیدے کو (کہ وہ خداکی حکمرانی کے تصور پر قائم ہے) مٹادینا چاہتا ہے۔ اس مہم کے رنگ و انداز مختلف ہیں، وگرنہ مقصدسب کا ایک ہے۔ آج بھی ایک ہے، کل بھی ایک تھا اورآنے والے کل کو بھی ایک ہی ہوگا۔ علامہ اقبال نے جب فرمایا کہ: ترا ناداں اُمیدِ غم گساری ہا ز افرنگ است؟ دلِ شاہیں نہ سوزد بہرآں مرغے کہ در چنگ است توا فرنگ سے ان کی مراد مغرب کی سب وہ اقوام تھیں، جن کی نظروں میں اسلام کی قوت کھٹکتی ہے، خواہ وہ جمہوریت کی دعوے دار ہو ں یا عوامی آمریت کے معتقد۔ غرض اقبال نے جس فرنگی سیاست کا ذکر اپنی نظموں میں کیا ہے وہ یہی ہے۔ یہ سیا ست کھلا وار نہیں کرتی، عیار دشمن کے مانند دوست بن کر وار کرتی ہے، اس لیے علامہ نے جہاں چنگیزیِ افرنگ کا تذکرہ کیا ہے، وہاں دل آویزیِ افرنگ کا بھی ذکر کیا ہے۔ اس دل آویزی سے ان کی مراد وہ سہانے اور دل پسند نعرے ہیں جو ان سفید اقوام نے تراش رکھے ہیں۔ اس کے علاوہ علامہ اقبال نے : ع طبِ مغرب میں مزے میٹھے اثرخواب آوری کَہ کر ، ان اقوام کی پُرانی اور نئی سیاست گری سے اپنی قوم کو آگاہ کیا ہے۔ یہ سیاسی طبِ مغرب کیا ہے؟ جس کے مزے میٹھے ہیں،اور جس کا اثر خواب آوری ہے۔ یہ افرنگ کی وہ سہانی اصطلاحیں ہیں، جو اسلامی عقیدے کی اپیل کو بے اثر کر دینا چاہتی ہیں۔ طبِ مغرب سے مراد یورپ کی وہ معاشرت ہے، جس میں نفس حیوانی کو مشتعل کر کے اور لذات کو اُبھار کر غافل اقوام کو سلایا جاتا ہے۔ اس میں وہ فکر و حکمت بھی شامل ہے ، جس کے دو رُخ ہیں: ایک اپنے لیے ہے جو افرنگ کے سینوں میں بمنزلہ راز صدیوں سے زندہ و محفوظ ہے، یعنی صلیبی جذبۂ انتقام کی پرورش کرنے والی حکمت اور دوسرا رُخ غافل (مُسلم) اقوام کے لیے ہے، جس سے یقین تشکیک کی صورت اختیار کر لیتا ہے ، لا یعنیت ولا مقصدیت پھیلائی جاتی ہے، تحلیل نفسی جس کے توسط سے تو ہمات کی پرورش ہوتی ہے اور جنسی لاشعور کے مفروضے جن کی مدد سے ذہنی انارکی و افیونیت اور سفلہ پن پھیلایا جاتا ہے۔ بہر حال اس میں کچھ شک نہیں، کہ مغربی معاشرت کی طرح مغربی حکمت بھی اہلِمغرب کی عیّارانہ سیاست کی کنیز ہے، جس کے عشوے اور غمزے دکھا کر یہ سیاست اپنے جوہر دکھاتی ہے، ایشیا اور افریقہ کو اپنے اپنے طریقوں سے غلام بنانے میں لگی ہوئی ہے۔ جاوید نامہ اور پس چہ باید کرد اے اقوام شرق کو دیانت دارانہ پڑھ لینے کے بعد، افرنگ کو محض استعمار کی سیاست کوئی شخص بھی نہیں کَہ سکتا، بلکہ اسے وہ صلیبی ردِّ عمل ہی کہے گا جس کی پہلی منزل استعمار ہے۔ مَیں ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم کا معتقد ہوں، اگرچہ مَیں ان کے اس خیال سے (جو فکرِاقبال میں اُنھوں نے ظاہر کیا ہے) متفق نہیں ہو سکا کہ علامہ اقبال مغربی تمدن کے مثبت پہلوئوں کے مداح تھے۔ ڈاکٹر صاحب کا یہ بیان مغالطہ انگیز ہے، حضرت علامہ نے نقش فرنگ (پیامِ مشرق) میں مثبت کیا اور منفی کیا، مغرب سے اپنی بے زاری کا اتنے واشگاف انداز میں اظہار کر دیا ہے کہ اس کے بعد مغرب پرستوں کے پاس کوئی دلیل نہیں رہتی۔ ماحصل یہ ہے، کہ فرنگی سیاست کا نصب العین اسلامی عقیدوں کی بیخ کنی ہے جس کے لیے مسلمان اقوام کی جغرافیائی مملکتوں پر قبضہ کرنا ضروری سمجھا جاتا ہے اور یوں بھی سمجھا جا سکتا ہے، کہ اسلام کے بارے میں تشکیک پیدا کر کے مسلم مملکتوں کو پہلے کمزور ،اس کے بعد مفتوح کیا جاتا ہے اسی لیے علامہ اقبال استعمار کی مخالفت کے ساتھ ساتھ اسلامی عقیدے کو بھی مرکزی حیثیت دیتے ہیں ،وہ جغرافیائی مملکتوں کے ساتھ ساتھ لازماً عقیدے کی مملکت کو بھی محفوظ دیکھنا چاہتے ہیں۔ -----۳۰؍دسمبر ۱۹۷۴ء ئ……ئ……ء ۶ فرنگ کے سیاسی نظریے سابقہ مقالے میں فرنگ کے تین محاذوں کا ذکر آیا تھا، یعنی (سیاست، معاشرت اور فکروحکمت) اور مغربی سیاست کے سلسلے میں یہ بھی کہا جاچکاہے اس کا اولین مقصود، صلیبی انتقامی ردعمل کی تنظیم تھا جس کا ثانوی ہدف یورپ کا ایشیا اور افریقہ پر استعماری تسلّط تھا۔ لیکن یہ یاد رہے کہ فرنگ نے یہ دونوں مقصد براہِ راست یورش و یلغار کے ذریعے حاصل نہیں کیے بلکہ بعض تصورات کی آڑ میں حاصل کیے، یہاں تک کہ ایک مرحلے میں پہنچ کر صلیبی مقاصد کو مشنریوں کادائرۂ خاص قرار دے کر محض دُنیا دارانہ مہمات کو سامنے رکھا اورمذہبی غیر جانب داری کے پردے میں استعمار کو وسعت دی اور پھر اس کے سائے میں، محکوم آبادیوں میں، مذہب بے زاری کی تحریکیں چلائیں۔ ممکن ہے بعض مغرب پرست یہ کہ کر اُٹھیں کہ انتقامی ردعمل کے سلسلے میں، میں مبالغے سے کام لے رہاہوں، لیکن اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ زوالِ اُندلس کے بعد اکثر مغربی ادبوں میں انتقامی رُوح کا غلبہ نمایاں ہے۔ آلِ عثمان کے غلبے کے بعد، یہ جذبہ اتنا اُبھر کر سامنے آیا کہ ٹرک (=ترک) اور ٹارٹر (=تاتاری) کا لفظ نظم ونثر اور محاوروں میں گالی (اور کلمۂ نفرت وخوف) قرار پایا۔ یہ صحیح ہے کہ مغرب کے سیاسی نظریے، مغرب کی اندرونی کش مکش سے بھی پیدا ہوئے، لیکن ان آویزشوں کے پیچھے جو خیالات کارفرما اورمحرک ثابت ہوئے وہ بھی مسلمانو ں سے مغربی تصادم (یا رابطۂ مخاصمت) کے زیرِ اثر پیدا ہوئے تھے۔ اسے دوسرے الفاظ میں اثراتِ اسلامی کانام بھی دیا جاسکتا ہے، لیکن ان اثرات کی پذیرائی بھی مسلمانوں سے رابطۂ مخاصمت کے تحت ظہور میں آئی، مثلاًمارٹن لوتھر کا یہ تصور کہ کلیسا اور سیاست کو الگ الگ دوائرمیں رہنا چاہیے، دراصل اس عزم کا اظہارتھاکہ کلیسائی نظام صحیح معنوںمیں مسلمانو ں کا مقابلہ نہ کر سکاتھا، اس لیے سیاست کے ذریعے لادین، لااخلاق نظام مطلوب تھا جس میں اس مقابلے کے لیے دینی نعروں سے زیادہ مکرو خدیعت کو وسیلہ بنایا گیا۔ یہ ہوسکتاہے کہ ضمنی طور سے مغرب کے سیاسی نظریے اندرونی صورت حال کا نتیجہ ہوں لیکن ان کی اصل کے بارے میںوثوق سے کہا جاسکتاہے کہ وہ صلیبی ردِعمل کے مرہونِ منت تھے۔ بہر حال اس وقت یہ بحث ہورہی ہے کہ علامہ اقبال نے ان سیاسی تصورات کو کس نظر سے دیکھا۔ علامہ کے افکار (نظم و نثر) میں جن سیاسی تصورات کی شدید مذمت آئی ہے، وہ مندرجہ ذیل ہیں۔ (۱) دین و سیاست کی علیحدگی (۲) قومیت و وطنیت (۳) جمہوریت (۴) مارکسیت ان تصورات کی مذمت، عام انسانی نقطۂ نظر سے بھی ہے اور اس نقطۂ نظر سے بھی ہے کہ ان کی اشاعت کا ایک مقصد اسلامی ممالک میں اختلال پیدا کر نا تھا۔ حضرت علامہ نے دین و سیاست کی علیحدگی کے خلاف مثنوی اسرارِ خودی سے لے کر اپنی آخری مثنوی تک ہر کتاب میں اتنے تسلسل سے لکھا ہے کہ اس کی تفصیل میں جانا تحصیلِ حاصل ہوگا۔ علامہ کا موقف یہ ہے کہ سیاست جب [دین سے جدا] ہوجاتی ہے تو انسان کشی، جھوٹ، مکر و فریب، عیاری، استحصال، استعمار سب کچھ جائز سمجھ لیا جاتاہے جیسا کہ مغربی سیاست نے کیا۔ خصوصاً مغربی سیاست کا وہ رُخ جو ایشیا و افریقہ کی طرف رہا، دغا بازی عیاری کا بدترین اور تاریک ترین مظہر رہاہے۔ میں ہندستان اور پاکستان کی بات نہیں کرتاجہاں بہت سے لوگ اب بھی فرنگی کو پوجتے ہیں، افریقہ کی مثال پیش کرتا ہوں اور لوئل کنگ کی کتاب…… [کذا]کا حوالہ دیتاہوں۔ اس کتاب میں کنگ نے عام افریقیوں (جو صدیوں کی غلامی کے بعد اب آزادی حاصل کر سکے ہیں) کے عام احساس کاذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ :’’افریقہ کا آدمی یورپ کے سفید فام انسان کو مکاری کا مجسمہ اور عیاری کا پیکر خیال کر تا ہے‘‘ کنگ صاحب کو اس کا رنج یوں ہے کہ عیاری نے خود عیسائیت کی اشاعت و مقبولیت کو نقصان پہنچایاہے مگر مجھے اس تذکرے سے غرض ہے کہ : ناوک نے تیرے صید نہ چھوڑا زمانے میں تڑپے ہے مرغِ قبلہ نما آشیانے میں اسی وجہ سے آغا حشر نے اپنی نظم ’’شکریہ یورپ‘‘ میں سرزمینِ یورپ کو مقراضِ پیراہن نواز کَہ کر طنزیہ طورسے یہ کہنا چاہاتھا کہ مغرب کا سیاسی آدمی جب سو فی صد اپنی غرض نکال رہاہو تا ہے تو بارِاحسان اس مظلوم کے سر دھرتا ہے جس کی جیب کاٹ رہا ہوتاہے۔ مگر حضرت علامہ نے صاف صاف فرمادیا کہ عیار و بے مدار و کلاں کار و توبہ توست اور ظاہر ہے کہ مغربی سیاست کی اس سے بہتر تعریف ممکن نہیں… اور یہ اوصاف اس میں اس لیے ہیں کہ اس فلسفے کی رُو سے، سیاست کے لیے دین و اخلاق کی ضرورت نہیں… اور یہی وہ شے ہے، جسے آج کل کی اصطلاح میں (Secularisation) (سیاست مبنی بر دنیاداری) کہا جاتاہے۔ علامہ نے جب اس دنیادارانہ سیاست کی مذمت کی تو اس وقت وہ دُنیا دارانہ تحریکیں ان کی نظر میں تھیں جو مغربی افکار و استعما ر کے زیر اثر اسلامی ملکوں میں جاری ہوچکی تھیں اور جن کے تحت ملکوں نے یہ اعلا ن کرنا شروع کردیاتھا کہ: ان کی مملکتوں کا اسلام (یا دین) سے کوئی واسطہ نہ ہوگا۔ حضرت علامہ نے مغرب کے نظریۂ قومیت اور وطنیت کی بھی اسی اُصول پر مذمت کی ہے۔ ان کی نظر میں زبان، نسل، رنگ، اورجغرافیے کو قومیت کی اساس ٹھہرانا اس لیے بھی مذموم ہے کہ اس کی وجہ سے مخلوق خدا اقوام میں تقسیم ہوکر پارہ پارہ ہوئی، اور ہوتی ہے، اور اسی لیے بھی اس ملعون نظریے نے اسلامی مملکتوں کی تخریب کی، اور پھر اس وجہ سے بھی کہ اُخوت بربنائے کلمۂ توحید کی قباجب چاک ہوگئی، تو دوسری طرح کی اُخوتیں سر اُٹھانے لگیں جن کی رُو سے مسلم و کافر تو بھائی بھائی ہوسکتے ہیں… مگر ضروری نہیں کہ مسلمان بھائی بھائی بن سکیں۔ غرض یہ نظریہ اُخو تِ اسلامی اور اتحادِ اسلامی کے لیے مہلک ترین حربہ ثابت ہواہے۔ اور غور کیا جائے تو حضرت علامہ نے اپنی پوری شاعرانہ ومفکرانہ قوت اس زہریلے نظریے کے خلاف صرف کی ہے۔ حضرت علامہ مغربی جمہوریت کے بھی شدید مخالف تھے۔ اگر چہ یہ سیاسی مسلک اب اسلامی ممالک میں بھی قبول عام پاچکاہے، لیکن علامہ کی نظرمیں اس کے ظاہری محاسن کے باوجود اُصولی طورسے یہ انسانیت اور ملک داری کے نقطۂ نظر سے غیر اطمینان بخش ہے۔ اسی طرح حضرت علامہ نے لینن اور مارکس کی جزوی اور مشروط تحسین کے باوجود، مارکسیت کی اس بنا پر مذمت کی ہے کہ اس میں اُخوت کی بنیاد عقیدہ نہیں، مساوات ِشکم ہے۔ جمہوریت اور اشتراکیت دونوں مباحث ایسے ہیں، جن پر میں آگے چل کر، کسی موقع پر مفصل اظہارِ خیال کا ارادہ رکھتا ہوں۔ -----۶؍جنوری۱۹۷۵ء ئ……ئ……ء ۷ فرنگی معاشرت:اقوامِ مشرق کی موت غلبۂ افرنگ کے تین بڑے مورچے: فرنگی سیاست، فرنگی معاشرت اور فرنگی فکروحکمت تینوں اپنی جگہ بلاکی کشش رکھتے ہیں۔ لیکن علامہ اقبال کی نظر میں معاشرتی پہلواس لیے سب سے زیادہ ہلاکت خیز ہے کہ یہ انسان کو اس کی فطری شرافتوں سے محروم کر دیتا ہے اور اسے حیوان کی سطح پر لے آتاہے۔ اس میں مرد بے مروت اور زن تہی آغوش ہوجانا پسند کرتی ہے۔ اس کے سب سے بڑے خصائص مے خواری و عریانی و بے روزگاری ہیں۔یہ فسادِ آدمیت ہے اور اس کے سوا کچھ نہیں۔ اسرارِ خودی سے لے کر ارمغان حجازتک علامہ کی ہر کتاب میں مغربی کلچر یا فرنگی معاشرت کی مذمت آئی ہے، اور ہر کتاب میں مسلمانانِ عالم کو خصوصاً مسلمانانِ ہند و پاکستان کو اس سے بچنے کی تلقین کی ہے۔ اگر میںاس کے ثبوت میں حضرت علامہ کے اشعار نقل کرنا شروع کردوں تو دو تین مضمون صرف ان اشعار ہی سے معمور ہوسکتے ہیں۔ مسئلہ کیا ہے؟مسئلہ یہ ہے کہ ہر قوم کی معاشرت زندگی کے متعلق اس کے تصورات کے تابع ہوتی ہیں۔ فرنگ کا مجموعی تصورِ زندگی ایں جہانی اورمادی اور حیوانی ہے۔ ایں جہانی سے مراد یہ ہے کہ ہم مسلمان جس شے کو عقبیٰ کہتے ہیں، فرنگ اس کا انکاری ہے۔ فرنگ کے نزدیک بس یہی زندگی ہے، اس کے بعد کچھ نہیں لہٰذا ’’کھائو پیو اور خوش رہو‘‘پر عمل کیا جاتاہے۔ یوں تو کھائو، پیو اور خوش رہنے میں کوئی مضائقہ نہیں لیکن اس کے انتہا پسندانہ تصور کے جو برے نتیجے نکلتے ہیں ان پرہر کوئی نظر نہیںڈالتا۔ ’’کھائو پیو‘‘اگر محض بنیادی ضرورتوں تک محدود ہوتو بالکل فطری عمل ہے، لیکن فرنگی معاشرت میں، اس کے یہ سادہ معنی مقصود نہیں بلکہ اس سے مرا دتعیش ہے۔ تعیش اس معیارِ زندگی کو کہتے ہیں جس میں انسان حیوانی جبلتوں کو انتہا تک بلکہ اس سے بھی آگے بروے کار لاکر ان حدوں سے بھی تجاوز کر جاتا ہے جو عقل نے اس کے لیے مقرر کی ہے، وہ کسی مصلحتِ عقلی یا مصلحتِ خیرکا قائل نہیں رہتا۔ وہ اپنی صحت تک کی بھی پروا نہیں کرتا۔ وہ اس سے بھی بے نیاز ہو جاتاہے کہ دوسرے انسانوں کے بھی کچھ حقوق ہوتے ہیں، وہ کامل طور پر خود غرض اور خود پرست، تن پرست بن جاتاہے۔ اس کا نام یورپ نے اعلیٰ معیارِ زندگی رکھاہے۔ اس کے معنی یہ نہیںکہ ساری قوم یا سارے افرادِ قومی کا وسائل و ذخائرِ قومی کے مطابق معیارِ زندگی اچھاہو اور ایک جیساہو، بلکہ یہ ہے کہ کسی اور کا ہویانہ ہو فرد کا (بلا لحاظ اجتماع) ضرور اعلیٰ ہو۔ اعلیٰ معیارِ زندگی سے چار رجحانات پیداہوئے: (۱) خود غرضی و تن پروری (۲) اس تن پروری کی خاطر، وسائل و ذخائرارضی پر قبضے کی ضرورت (۳) ہوسِ ملک گیری اور استعمار (۴) سرمایہ داری ہمارے ملک کے کچھ لوگ سرمایہ داری کو محض معاشی مسئلہ سمجھتے ہیں۔ حالانکہ یہ معاشی مسئلہ دراصل معاشرتی مسئلے سے پیداہوا ہے، سرمایہ داری کی ہوس معاشرتی جنونِ عیش کی وجہ سے پیداہوئی۔ اورجب تک اس معاشرتی جنونِ عیش کاازالہ نہیںہوتااس وقت تک معاشی عدل نہیں پیدا ہوسکتا۔ فرنگ کا دوسرا تصورِ زندگی، بے لگام آزادی ہے اس کے معنی یہ ہیں کہ انسان اپنی پرائیویٹ زندگی میں کامل آزادہے۔ وہ جو چاہے کرے اسے کوئی نہیں روک سکتا۔ اس کا کوئی محاسبہ نہیں کر سکتا۔ داخلی زندگی اورخارجی زندگی کے درمیان یہ افتراق مغرب کے تمدنِ خبیث کا شجرِخبیث ہے حالانکہ ایک شریف انسان وہ ہوتا ہے جو خارج (جلوت) میں بھی قانون اور سو سائٹی سے ڈرے او ر پرائیویٹ زندگی (خلوت) میں بھی ضمیر ہو اور احساسِ شرافت ]کے خیال سے قانون اور سوسائٹی ]سے ڈرے، لہٰذا وہ خلوت اور جلوت میں برابر کا ذمہ دار اور برابر کا جواب دہ ہے۔ شریف آدمی کو ہر جگہ شرافت کا پاس کرناچاہیے۔ فرنگ نے اپنے مخصوص تصورِ حیات کے تحت عمل کے دو دائرے اپنے لیے الگ الگ مخصوص کر دیے ہیں، خارج میں شرافت ِظاہری کاپاس، اور داخل میں خباثت کی آزادی کا۔ گناہ ہوجانا یا گناہ گاری انسان کی مجبوری ہے، وہ الگ شے ہے، لیکن یہ خیال کہ نجی دائرے میں گناہ ضرور کرنا ہے، یا اس دائرے میں گناہ گار ہونا فرض ہے، یہ دوسری بات ہے۔ بہر حال اس تصور کے تحت فرنگ نے اخلاق (یعنی نیک و بد کی حد) کو اپنی پرائیویٹ زندگی سے بالکل خارج کر دیاہے۔ کل تک تو بہرحال یہ بھی غنیمت تھا کہ جلوت میں رکھ رکھائو باقی تھااورہمارے ملک کے مغرب زدہ حضرات اس رکھ رکھائوکا حوالہ دیاکرتے تھے، مگر فرنگ کا وہ تصور پائوں پھیلانے لگاہے اوراب امریکہ اور یورپ میں خارج میں بھی اخلاق و شرافت کو خارج از بحث سمجھا جاتاہے۔ فرنگ کے تصورِ آزادی اور تصورِ تعیش نے یورپ اور امریکہ اور ان کے زیرِ اثر مشرقی اقوام کو خاندانی نظام کی برکتوں سے محروم کر دیاہے۔ اب ان ملکوں میں کوئی کسی کا نہیں،اور جذباتِ خاندانی اور احساساتِ پدری و مادری جیسی کوئی شے وہاں موجود نہیں۔ تن پروروی پر ضبط نہ ہونے کی وجہ سے فرنگ میں ایک اور نئی شے پیداہوئی ہے جسے احساسِ تنہائی یا کربِ تنہائی کہا جاتاہے۔ یعنی عیش و آرام کے باوجود،اور بھری بھری انجمنوںمیں بھی، انسان خود کو محروم اور تنہا محسوس کرتاہے اورمغرب کے جدید ادب میں، اس محرومی کا بڑا دل دوز نوحہ موجودہے۔ خود غرضی اور تن پروری اور عیشِ بے لگام کا ایک نتیجہ یہ ہے، کوئی کسی کا پرسانِ حال نہیں، ہر کوئی بس اپنا ہی غم کھاتاہے، کسی سے ہمدردی (الّا مجبوری) موجود نہیں۔ قمار بازی، ہوس کاری، اولاد کشی، سرمایہ داری، جرم بذریعہ علم و سائنس، تنہائی اور کرب، غرض کیاہے جو موجود نہیں۔ البتہ ابھی تک مغرب میں عقل مندی کی روایت باقی ہے جس کی وجہ سے یہ تمدن کچھ کچھ زندہ ہے مگر اب امریکہ اور یورپ کے ہیپی اس کے پیچھے بھی لٹھ لے کر پڑے ہوئے ہیں۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس وقت مشرق میں سب خیر و برکت ہے، نہیںایسا نہیں ہے، کچھ تو مشرق کی اپنی معاشرتی خرابیاںموجودہیں اور بہت بڑی حد تک فرنگ کی بمباریوں کی اشاعت نے مشرق کا حال مغرب سے زیادہ ابتر بنا رکھاہے اور جتنا جتنا فرنگی تمدن مشرق میں پھیلے گا، یہ نصف کرہ مزید جہنم بنتا جائے گا۔ مغرب کے پاس کم از کم عقل مندی اور صلیبی ردعمل اور ایشیا اور افریقہ کی ہوسِ تسخیر توہے، مشرق اس سے بھی محروم ہے، لیکن اقبال کی دعوت یہ ہے کہ مشرقیوں کو مشرقی و اسلامی معاشرت کے اصل اُصول اپنانے چاہییں۔ حضرت علامہ نے مسلمانوں کی موجودہ معاشرت پر جو تنقید کی ہے، وہ بھی سخت ہے چناںچہ اس کی تفصیل اپنی جگہ آئے گی لیکن یہ ضرور مد نظر رہے کہ مشرق کی خرابیاں مناسب علاج سے دور ہو سکتی ہیں لیکن فرنگ کے معاشرتی زہر کا کوئی علاج ہی نہیں اورپھر یہ زہر وہ ہے جو معاشرتی نظام کے ایک حصے سے دوسرے حصے تک خود بخود پہنچ جاتاہے ۔ایک برائی سے صدہا دوسری برائیاں خود بخود پنپ جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ فرنگ کی ٹکنالوجی جسے اُصولاً معاشرے کی آسائش کا وسیلہ بننا چاہیے، نئے نئے فتنوں کا ذریعہ بن جاتی ہے۔ ایک اعلیٰ معیارِ زندگی (تن پروری) سے، ایک سرمایہ داری سے، ایک سینما کی صنعت سے، ایک ٹیلی ویژن سے، کیا کیا فساد ہیں، جو خود بخود برائی ہیں۔ بے حیائی، اوباشی، بدمعاشی، ترغیبِ جرم، تلقینِ گناہ، تدریسِ شیطنت، تعلیمِ خباثت، بدی غرض کیاہے جو پھیل نہیں رہا۔ سب سے بڑی بات یہ کہ لوگ اخلاقی اور معاشرتی جرائم سے مانوس ہورہے ہیں اور ان پر فخر کرتے ہیں۔ غرض یہ وہ فرنگی حربہ ہے جسے مغربی اقوام، ایشیا اور افریقہ میں قوموں اورملتوں کو گمراہ اور مسموم کرنے کے لیے استعمال فرمارہی ہیں۔ خود ان کے پاس ایک دوا ہے: صلیبی ردِعمل ،تسخیر کی ہوس اورعقلِ عیار،لیکن مشرقی اقوام فقط ہوس اور تسکینِ نفس میں مبتلا کر دی گئی ہیں، اوریورپ اور امریکہ کے مصنّفین بے حد خوش ہیں کہ مسلمان اقوام اب’’مہذب‘‘ہو رہی ہیں۔ کوئی لکھتاہے:خوشی کا مقام ہے کہ مسلمانوں میں اب تبدیلی آتی جارہی ہے ۔کوئی کہتا ہے:صدشکر ہے کہ اسلام اپنی جگہ سے ہٹ رہا ہے۔ کسی کے لب پہ تحسین ہے کہ اب مسلمان اخلاقی توہمات کو چھوڑ رہے ہیں۔ ان چیزوں کا نام ان مصنفوں نے ماڈرنزم، سیکولرزم اور کلچر رکھ چھوڑا ہے اورہمارے ملک (بلکہ کل اسلامی ممالک) کے ابلہان وکاسہ لیسانِ افرنگ خوش ہیں کہ انھیں نروان مل رہاہے۔ اب دیکھیے یہ نرگ نکلتا ہے یا کہ نروان! ما حصل یہ کہ مغربی کلچر، مغربی معاشرت فرنگیوں کا مؤثر ترین حربہ ہے اور یہی اقوام مشرق کی موت ہے۔ -----۱۳؍جنوری۱۹۷۵ء ئ……ئ……ء ۸ فرنگ کا تیسرا محاذ: فکر و حکمت قبل اس کے کہ میں فرنگی حکمت کے موضوع پر کچھ لکھوں،میں چند احباب کے بعض مشوروں کے بارے میں کچھ اظہارِ خیال کرنا چاہتا ہوں جو اُنھوںنے بسلسلہ ’’مقالاتِ سالِ اقبال‘‘ پیش کیے ہیں، میں اس توجہ فرمائی کے لیے ان کا شکر یہ ادا کرتا ہو ں۔ ایک دوست کا خیال یہ ہے کہ یہ مقالا ت بہت مختصر ہیں او ر مشورہ دیاہے کہ میں متعلقہ موضوعات پر قدرے تفصیل کے ساتھ لکھوں۔ میری گزارش یہ ہے کہ مقالے علم افزائی یا خردافروزی کے مقصد سے نہیں لکھے جا رہے ،ان کا مقصد فقط یہ ہے کہ میں اقبال کی صد سالہ تقریب کو بلحاظِ تقویمِ ہجری تنہا منارہا ہو ںاور ان شاء اللہ تعالیٰ سال بھر مناتا رہوں گا ۔آپ اسے میری ضد سمجھیے یا عاجزانہ احتجاج خیال کیجیے مگر میں اس بات سے غمگین ہوا ہوں کہ اقبال کی تاریخِ پیدائش کی تعیین تو ان کے اپنے قلم سے لکھے ہوئے ایک ترقیمے کی رُو سے بلحاظ تقویمِ ہجری ہوئی ہے مگر ان کی صد سالہ تقریب کے لیے ہجری کو عیسوی تقویم تبدیل کر کے ہم نے اپنے ’’کرسٹانی کلچر‘‘ کا اعتراف و اعلا ن کیا ہے۔ یوں تو ہجری سال اس ملک میں بے رواج ہے مگر یہ کس قدر افسوس کا مقام ہے کہ ہجری تقویم کو اس خاص معاملے میں بھی قابلِ اعتنا خیال نہیں کیا گیا جس میں اس کے لیے ایک وزنی وجہ موجود تھی۔ مفکرینِ پاکستان کے اس تضادپر ہنسنے یا رونے کو جی چاہتا ہے کہ اس کے آئین کا مذہب تو اسلام ہے مگر جب اسلام کے کسی عقیدے یا علامت یا شعار کے احترام کا وقت آتاہے تو تمام گردنیں کرسٹانی علامتوں کی طرف مڑ جاتی ہے اور صدا بلند ہوتی ہے (مَاوَلّٰھُمْ عَنْ قِبْلَتِھِمُ الّتِیْ کَانُوْا عَلَیْھَا) پوچھا جاتاہے: صاحب ،کیا اسلام ہجر ی میں دھرا ہو اہے کہ آپ ہمیں تقویمِ عیسوی سے روکتے ہیں؟اور اگر کوئی یہ کَہ دے کہ عیسوی تقویم میں کیا دھرا ہے تو کَہ دیتے ہیں کہ یہ شخص پاکستان کی ترقی کا مخالف ہے۔ یہ اسی طرح کی بات ہے کہ اگر کوئی کَہ دے صاحب چھٹی جمعہ کے روزہوجائے تو کیا حرج ہے تو کہاجاتا ہے کہ اتوار بین الاقوامی چھٹی کادن ہے اورمعترض یقینا پاکستان کی اقتصادی و تجارتی ترقی کا دشمن ہے۔ بہر حال یہاں بھی وہ کرسٹانی منطق غالب ہوتی ہے۔ اب میرے لیے یہ تو ممکن ہی نہیں کہ میں ہجر ی سال کا احترام کراسکوں، لیکن یہ تو کر سکتاہو ںکہ میں ا س کے شرف کا اعلان کر تا رہوں، لہٰذا میں تنہا اقبال کی صد سالہ تقریب منارہاہوں۔ بنا بریں درخواست ہے کہ آپ میرے ان مضامین کو مقالے نہ سمجھیں نواے احتجاج سمجھ لیں اور حقیقت تویہ ہے کہ اقبال پر ۴۸ مقالے تو خیر بہت بڑا دعویٰ (بلکہ تعلـّی) ہے اقبال پر تو ڈھب کا ایک مقالہ بھی کم از کم مجھ سے نہیں لکھا جاسکتا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ میں فکرِ اقبال کے ماہرین میں سے نہیں ہوں، محض عقید ت مند ہو ںاور اقبال پر لکھنے کے لیے جن ۱۴ علوم کی ضرورت ہے میں ان میں سے ایک میں بھی دسترس نہیں رکھتا۔ ایک دوسرے دوست نے لکھا ہے کہ میں فرنگ کے خلاف غیر معتدل تعصب کا اظہار کررہا ہوں اور مشورہ یہ دیا ہے کہ خذ ما صفا ودع ماکدر پر عمل کرکے یورپ کی اچھائیوں سے اکتساب کیا جائے اور برائیوں کو ترک کر دیا جائے۔ میرے عزیز کا یہ مشورہ صائب ہے اور میں اس پر عمل کا ارادہ رکھتاہوں۔ چنانچہ فکر و حکمت کے باب میں طبِ مغرب کے بعض میٹھے مزوں کا بھی ذکر کروں گا لیکن میں بقدرِ طاقت اس حقیقت کو ہر مسلمان (بلکہ ہر مشرقی) کے دل میں گاڑ دینا چاہتا ہو ں کہ جب سے مغرب بیدار ہوا ہے ،اس کی دشمنی کا سب سے بڑا ہدف اسلا م اور عالمِ اسلام رہا ہے۔ میں مغرب کے عام آدمی یا بعض نیک دل مصنّفین کا ذکر نہیں کر رہا ہوں، میں فرنگی تہذیب کی رُوح کا تذکرہ کررہا ہوں۔ یہ رُوح، اسلام، مذہب اور مشرق کی دوست ہو ہی نہیں سکتی۔ شاید یہ میرے عزیز کی بے خبری ہے جو اسے فرنگ کے بارے میں حسنِ ظن پر مجبور کررہی ہے میں اپنے عزیز کو مشورہ دوں گا کہ وہ اس وقت افریقہ میں اسلا م اور عیسائیت کی کش مکش سے متعلق تازہ کتابوں کا بغور مطالعہ کریں۔ وہ مشرقِ وسطیٰ کے بارے میں یورپ کے تازہ ادب پر نظر ڈالے۔ اسے خود بخود معلوم ہو جائے گا کہ فرنگ اب بھی کیا ہے۔ ان کتابوں کی ایک ایک سطر سے اسے فرنگ کے ارادوں کا پتا چل جائے گا۔ فرنگ کے بارے میں ہمارا حسنِ ظن، دانش ورانِ فرنگ کی تدبیر کا ایک حصہ ہے۔یہ دانش ور باکمال لوگ ہیں۔ ان کا ہنر یہ ہے کہ وہ بڑ ی کاری گری سے ایک ففتھ کالم طبقہ تیار کرلیتے ہیں جو ان کا دیوانگی اور جنون کی حد تک کارندہ بن جاتا ہے۔ ان ففتھ کالمیوں کا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ فرنگ کے گُن گاتے اور اپنی تہذیب اور حکمت کو گالی دیتے ہیں۔ اس طرح پہلے فرنگ کے لیے ایک نرم (یا گرم) گوشہ دلوںمیں پیدا کر تے ہیں اور پھر ان کے علمی و تہذیبی سامرا ج کا سکہ بٹھا تے ہیں اور آخر میں اپنا دین و دل ان کے آستانۂ استعما ر پر پیش کر کے غلامِ پختہ کار بن جاتے ہیں۔ اس وقت ایشیا لاکھ دعواے آزادی کرے، رُوحانی اور دماغی طور پر پہلے سے زیادہ غلام ہے۔ اقبال کَہ گئے ہیں : ع تو جھکا جب غیر کے آگے ، نہ تن تیرا نہ من خود فروش دل باختہ مشرقی، افرنگ کے دامِ استدلال میں پھنس کر اپنی غلامی کے حق میں عمدہ عمدہ تاویلیں گھڑ تا ہے اور قفس سے مانوس پرندے کی مانند خوش رہتا اور چہچہا چہچہا کر دوسروں کو بھی قفس نشینی کی دعوت دیتا ہے۔ عزیزِ من!جس دن تم میں خود شعوری پیدا ہوجائے گی، اس دن تم بھی تسلیم کر لو گے کہ یہاں ’’دامِ ہر موج میں ہے حلقہ صد کام نہنگ۔‘‘ ایک اور مشورہ یہ دیا گیا ہے کہ میں خیالات و آرا کے ساتھ مصنّفین کے اقتباسات اور حوالے، نیز علامہ کے اشعار بھی بطورِ شواہد دیتا جائوں تاکہ مطالعہ مکمل ہوجائے۔ مجھے افسوس ہے کہ میں یہ کام نہیں کرسکتا۔ میری یہ تحریریں اشار ات و تاثرات سے زیادہ کچھ اہمیت نہیں رکھتیں۔ ایک عام قاری کے لیے (جو فلسفی یا عالم یا دانش ور نہیں)، افکارِ اقبال کا عوام فہم مقصد و مطلب مرتب کر رہا ہوں۔ میں یہ ذہن نشین کرانا چاہتا ہوں کہ اقبال ]کی[فکری جدوجہد کا سہل خلاصہ، لبِ لباب اور عوام فہم درس کیا ہے ؟مجھے دانشِ مغربیاں اور حکمتِ مشرقیاں سے اس سلسلۂ مقالات میں کچھ غرض نہیں اور یہ حقیقت پہلے بیان ہو چکی ہے کہ میری ان تحریروں کو مقالات کی حیثیت حاصل نہیں۔ اس تمہید کے بعد میں فرنگی فکر و حکمت کے بارے میں اقبال کے خیالات پیش کرنا چاہتا ہوں۔ اقبال نے دانشِ افرنگ پر دو زاویوں سے نظر ڈالی ہے اوّل اس نقطۂ نظر سے کہ اس کے فکر و حکمت کا مسلمانوں کے دل و دماغ پر کیا اثر ہوا ہے؟ دوسرا اس نقطہ نظر سے کہ وسیع علمی فلسفیانہ زاویۂ نظر سے اس کا تفوق اور کارنامہ کیا ہے اور یہ بھی کہ اس تفوق کے باوجود اس کی بے نصیبی، محرومی اور بے توفیقی کن وجوہ سے ہے۔ یہ محرومی و بے توفیقی کا قصہ دو بنیادی حقیقتوں کے حوالے سے چلتاہے۔ ایک حقیقت تو اس جستجو سے متعلق ہے کہ کسی نظامِ فکر یا تہذیب کو حقائق تک کامیاب رسائی کا کتنا موقع ملا ہے۔ وہ تہذیب، خدا، کائنات اور انسان کے باہمی روابط کی صحیح دریافت کر سکی ہے یا نہیں کرسکی۔ وہ سالم حقیقت کو دیکھنے کی عادی ہے یا حقیقت کو محدود اور پارہ پارہ کر کے دیکھتی اور یوں اپنے زیرِ اثر معاشرے کو یک رخا اورجانب دار اور بے توازن بناتی ہے۔ دوسری حقیقت جس سے کسی تہذیب کی توفیق یا بے توفیقی کا فیصلہ کیا جاتاہے ، وہ یہ ہے کہ وہ تہذیب اپنے عمل میں قول وفعل کے تضاد میں مبتلاہے یا نہیں۔ اس سے یہ فیصلہ ہوگا کہ اس نے انسانوں کو سکون و اطمینا ن کی وہ دولت بخشی ہے یا نہیںجو تمام انسانی سرگرمیوں کا آخری مقصد ہے۔ میں آئندہ مقالے میں سب سے پہلے انھی اُصولی باتوں پر کچھ لکھنے کا ارادہ رکھتا ہوں۔ -----۲۰؍جنوری۱۹۷۵ء ئ……ئ……ء ۹ فرنگی حکمت کا نقشِ زیبا میں نے سا بقہ مقا لے میں وعدہ کیا تھاکہ میں خذ ما صفا ودع ماکدر کے اُصول کے تحت تہذیبِ فر نگ کے اچھے پہلو ئوں پر بھی گفت گو کروں گامگر یہ یاد رہے کہ یہ صرف دو وجہ سے ہوگا، اول: اس لیے کہ اُصول دیانت یہی ہے۔ دوم: اس وجہ سے کہ یہ زندگی کا اُصول ہے، جس میں انتخاب کی حکمت، مشیّتِ خداوند ی کے تابع ہے۔ میں صرف ان دو وجوہ سے ذکر کر رہا ہوں، ورنہ ہمارے یہاں دستور دوسراہے۔ وہ دستور یہ ہے کہ گفت گو تو صفا کی کرو، لیکن عملاً اخذوہ کرو جو یورپ کی تہذیب کا مکدّراور غلیظ حصہ ہے۔ خذماصفا کی بات کرنے والے اس ملک میں کتنے ہیں، جنھوں نے مے خانۂ مغرب سے صافی کو لیا اور دُرْدْ کو چھوڑ دیا۔ یہاں تو اصل تگ ودو تہذیبِ یورپ کے غلیظ حصے کو اخذ کرنے اور اسے اپنی نفس پروری کا وسیلہ بنانے کے لیے ہے۔ صاف و خوب کا تو دور دور پتا نہیںچلتا۔ تہذیبِ یورپ کے محاسن کیاہیں؟ اول: شوق وشغف اور اولو العزمی۔ دوم: ذوقِ تحقیق و اکتشاف۔ سوم: ایجاد و اختراع۔ چہارمِ :ذوقِ تسخیر و غلبہ۔ پنجم: سلیقۂ زندگی۔ یہ پانچ خوبیاں مغربی تہذیب کی ایسی ہیں جن کا انکار ممکن نہیں،مگر میں پوچھتا ہوں خذ ما صفا کی تلقین کرنے والوں میں کتنے ہیں، جن میں اولو العزمی کی وہ شان موجود ہے جو مغربی انسان کا شیوۂ خاص ہے۔ مغرب کے رقصِ عریاں کے شیدائی تو لاکھوں خذ ما صفا والے ہیں، مگر مغرب کے علمی مجاہدات اور محنت و ریاضت کی ایک مثال بھی تو یہ مغرب پرست نہیں دے سکے۔ تومعلوم ہوا کہ خذ ما صفا والوں کے نزدیک عریانی ومے خواری، رقصِ بے باک اور افلاسِ حیاہی وہ خذ ما صفا تھا جو اُنھوں نے لے لیا۔ مغرب کے مجاہدات سے ان تن آسانوں کو کوئی غرض نہیں۔ یہ بس بے حیاہیں اور فضلہ خوار اور اسی میں مست ہیں۔ میں فرنگی حکمت کے نقشِ زیبا کا ذکر اس لیے بھی کرتاہوں کہ ہم احسان کا شکریہ ادا کرنے کے ہمیشہ سے عادی ہیں۔ ہم نے (یعنی مسلمانوں نے) جب یونانیوں کے علوم سیکھے تو دل و جان سے ان کے احساناتِ علمی کا شکریہ ادا کیا۔ یہاں تک کہ افلاطون اور ارسطو کچھ یوں ہوگئے گویا وہ بھی مسلم حکما ہی ہوں۔ ہم نے ہندو کے بعض علوم جب سیکھے تو ان کو بھی خراجِ تحسین ادا کیا۔ غرض جس جس سے کچھ سیکھا،کھلے دل سے اس کا شکریہ اداکیا، یورپ کے فضلا کے بر عکس کہ آج تک وہ مسلمانوں کے احساناتِ علمی کا اعتراف کر تے ہوئے ہچکچاتے ہیں۔اس تمہید کے بعد میں فرنگی فکر وحکمت (یا فرنگی تہذیب) کا ذکر کرتاہوں۔ میںفرنگی تہذیب کے نقوشِ زیبا میں سب سے زیادہ اہمیت اس کے علمی اجتہادات کو دیتاہوں، اس کے بعد اس کی ان ایجادات کو جن سے انسان کے دُکھ دور ہوئے۔ یہ تسلیم شدہ اَمر ہے کہ یورپ میں نشاتِ ثانیہ کا آغاز اسلامی حکمت کے زیر اثر ہوا۔اس کا اعتراف یورپ کے بعض مفکرین کر چکے ہیں، اگر چہ ان میں سے بعض اس حقیقت سے انکار کرنا چاہتے ہیں۔ ان کشادہ دل مصنفوں میں جنھوں نے احساس شناسی کی، ایک برفالٹ بھی ہیں، جن کی کتاب تشکیلِ انسانیت (بزبان انگریزی) میں یہ لکھا ہے کہ اگر مسلما ن نہ ہوتے تو یورپ میں سائنسی دور کبھی نہ آتا۔ برفالٹ نے سائنس میں مسلمانوںکی اولیات کا کشادہ دلی سے اعتراف کیاہے ۔اس طرح جارج سارٹن نے مقدمہ تاریخِ سائنس میں اس کا علمی اعتراف کیا ہے۔اور کسی حد تک اس صف میں ڈریپر، لیبان اور چند اور حضرات بھی آجاتے ہیں۔ لیکن یہ اَمرِ واقع ہے کہ مسلمانوں نے علم و حکمت کو جس منزل پہ چھوڑا، یورپ اس کو بہت آگے کی منزلوں تک لے آیا۔ تفصیل میں جانے کا یہ موقع نہیں۔مجملاً یورپ کے اجتہاداتِ علمی کو تسلیم نہ کر نا کفرانِ نعمت ہے۔ یورپ نے طبیعیات اور حیاتیات اورریاضیات کے شعبوںمیں علوم کے تمام سابقہ مسلّمات میں انقلاب پیداکر دیا ہے۔ کلاسیکی طبیعیات جسے نیوٹن نے امتیاز عطا کیا تھا۔ آئن سٹائن، میکس پلانک، ڈی برو گلی وغیرہ کے نظریوں کے سامنے ٹھہر نہ سکی۔ اس طرح حیاتیات نے ذی حیات کو سمجھنے اور سمجھانے میں کمال پیداکر دیا۔ یورپ نے فکرکی اساس بدل کر منطقِ عقلی کے بجاے ریاضیاتی منطق کو بنیادی مقام عطاکیا طب اور سرجری بلند ترین مقام پر جاپہنچیں، خود انسان کے نفس کو سمجھنے کے لیے لامثال جدوجہد ہوئی۔ اگرچہ یہ وہ علم ہے، جس میں میرے نزدیک ]یورپ[ابھی ٹامک ٹوئیاں مار رہا ہے تاہم فرائیڈ اور ایڈلراور ینگ کے مقام اور تحقیق سے انکار نہیںکیا جا سکتا۔ بایں ہمہ کمالات و فضائل، جب اقبال یہ کہتے ہیں : عجب آں نیست کہ اعجازِ مسیحا داری عجب این است کہ بیمارِ تو بیمار تر است تو یہ سوچنا پڑتا ہے کہ اقبال تہذیبِ فرنگ اور حکمتِ فرنگ کے کن خصائص سے غیر مطمئن ہیں اور کن معنوں میں اسے ناکام تہذیب کہتے ہیں۔ بہر حال حکمتِ افرنگ کے نقش زیبا کا ذکر لازمی تھا، وہ میں نے اس مقالے میں کر دیا ہے۔ آئندہ مقالے میں علامہ کی حکمتِ افرنگ کے بارے میں بے اطمینانی کی وجوہ سے بحث ہوگی، ان۔شاء اللہ تعالیٰ۔ -----۲۷؍جنوری۱۹۷۵ء ئ……ئ……ء ۱۰ کلامِ اقبال کا مصو ّر:عبدالرحمن چغتائی میرے سابقہ مقالات میں جو موضوعات مد نظر تھے، ان کا سلسلہ توڑ کر میں آج عبدالرحمن چغتائی کی یادمیں ایک مقالہ لکھ رہاہوں، اگر چہ ایک دوسرے لحاظ سے اسے بھی اقبالیاتی موضوعات کی ایک کڑی سمجھا جاسکتا ہے، کیونکہ چغتائی بھی فیض یافتہ بار گاہ ِ اقبال تھا، اس لیے یہ کہانی بھی اصل موضوعات ہی سے متعلق سمجھی جاسکتی ہے۔ مقام غم ہے کہ عبدالرحمن چغتائی دنیاسے رخصت ہوگیا اور ہم اور اس کی تصویریں مرنے والے کی یادمیں ماتم کناں ہیں۔ یلوح الخط فی القرطاس دھراً و کاتبہ رمیم فی التراب (ترجمہ) نقش کتابت کاغذ پر مدتوں قائم و دائم اور تاباں اور درخشاں رہے گا، جب کہ لکھنے والے کی ہڈیاں خاک میں مل چکی ہوں گی۔ چغتائی کی حیات اور اس کے فن پر بہت کچھ لکھا جاسکتا ہے، اور لکھا جائے گا، مگر آج میں اقبال سے چغتائی کے رُوحانی تعلق کی مختصر رواداد بیان کرتاہوں: اقبال وہ مہرِ تاباں تھے، جس کی ضیا سے ان کے دور کا ذرہ ذرہ مستنیر ہوا، چغتائی نے بھی اس آفتابِ عالم تاب سے روشنی حاصل کی، جس کا ثبوت موخر الذکر کی تحریروں میں موجود ہے۔ علامہ اقبا ل سے چغتائی کے شخصی مراسم کا حال مکاتیب کے علاوہ، علامہ کے اس دیباچے سے بھی معلوم ہو سکتاہے، جو اُنھوں نے مرقع چغتائی (دیوان غالب) کے آغاز میں بزبان انگریزی لکھا تھا، اس دیباچے میں علامہ نے فن کے اسلامی تصورات پر اظہارِ خیال کر تے ہوئے مصور چغتائی کو اس کے فن کے شان دار مستقبل کی نوید سنائی تھی۔ اس دیباچے میں علامہ نے فرمایا ہے کہ فن کو فطرت کا نقال نہیں ہونا چاہیے، بلکہ اس کے استکمالِ فطرت کا وسیلہ بننا چاہیے۔ فنِ تفریح و لذت کوشی کا ذریعہ نہیں، یہ کمال آموز اور شخصیت ساز سلسلۂ عمل ہے۔ علامہ کی راے میں فن براے زندگی نہیں بلکہ قوتِ تسخیر ہے۔اس کے جمال کی حقیقت اس کے جلال میں پوشیدہ ہے۔ چغتائی کا بیان ہے کہ علامہ کی خواہش تھی کہ ان کی کتاب زبورِعجم اور جاوید نامہ کو چغتائی اس طرح تصویر دار بنائے، جس طرح دانتے، گوئٹے، اور شکسپیئر کے کلام کے مصوّروں نے کیا تھا۔ افسوس ہے کہ علامہ کی آرزو، جناب کی زندگی میں پوری نہ ہوسکی لیکن ان کی وفات کے بعد مصور چغتائی نے مرحوم و مغفور کی آرزو پوری کردی اور وہ اب عملِ چغتائی (برکلامِ اقبال) کی صورت میں موجود ہے۔ عملِ چغتائی ۶۴ تصویروں کا مرقع ہے جس میں کچھ خاکے بھی ہیں جو سرمہ کاری کے ذریعے تیار ہوئے ہیں۔ اس مرقع میں مصور کا اپنا لکھا ہوا طویل مقدمہ اور ایک دیباچہ انگریزی میں لکھاہوا ڈاکٹر جسٹس ایس اے رحمان کا ہے۔ ہر تصویر کا ایک عنوان ہے جو اقبال کے کسی شعر کی رُوح کو تجلی کے طور پر سمجھ کر مصور نے خود قائم کیا ہے، ہر تصویر پر تبصرہ اُردو اور انگریزی میں ہے۔ کتاب عملِ چغتائی بڑی تقطیع پر شائع ہوئی ہے اور اقبال کی عظمتِ شان سے مطابقت رکھتی ہے۔ چغتائی نے اپنے اُردو دیباچے میں فن کی اُصولی بحث کے علاوہ، اپنے فنِ خاص کے معنی و مفہوم پر عمدہ گفت گو کی ہے اور لکھاہے کہ دُنیا کے ہر اچھے فن کا مدا ح ہونے کے باوجود، چغتا ئی کافن اس کا اپنا فن ہے اور اس کی خصوصیت مشرقیت (=اسلامیت) ہے۔ چغتائی کی مشرقیت کے بارے میں کچھ غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں۔ اس کی مشرقیت دراصل اس تہذیبی ورثے سے عبارت ہے، جو تورانی مغلیہ اسالیب کی زندگی میں منعکس ہوا۔ اس کی پہلی گل فشانی ہرات میں ہوئی۔ بابر اسے ہندستان ]لے آیاجہاں یہ روایت[ ایرانی ہندی روایت کے ساتھ مل کر ایک عظیم تجربۂ فن کا درجہ حاصل کر گئی۔ اصلاً یہی وہ مسلم تورانی روایت ہے جس سے چغتائی کو عشق تھا۔اس کے عَلم بردار: بہزاد، میرک نقاش اورمیر قاسم علی چہرہ کشا وغیرہ تھے، اور اس کا تذکرہ چغتائی نے خود اپنے مذکورہ دیباچے میں کیا ہے۔ چغتائی، اپنے تصویر نامہ (عملِ چغتائی) میں اقبال کی کہاں تک تر جمانی کرسکا، یہ ایک مستقل مبحث ہے اور ہو سکتا ہے کہ اس کے بارے میں اختلاف راے بھی ہو، لیکن یہ طے ہے کہ اقبال کے بعض نمایا ں موضوعات تصویروں میں ڈھل گئے ہیں۔ اقبال کے یہ موضوعات چند استعاروں سے عبارت ہیں۔ ایک استعارہ ہے: شاہین و شہباز، دوسرا استعارہ ہے: کتاب، تیسرا استعارہ ہے: شمشیر۔ یہ استعارے عملِ چغتائی میں ایک سے زیادہ تصویروں میںموجود ہیں۔ چغتائی کی تصویروںمیں خواتین کا روپ قابلِ تشریح ہے۔ او ل تو مسلم خواتین کی سب سے بڑی خصوصیت یہ دکھائی گئی ہے، کہ ان کے سب سے بڑے زیور دو ہیں: (۱) قرآن (۲) تلوار دوم:خواتین کو ہر تصویر میں وضع دار، متین، اورباتمکین دکھایا گیاہے۔ یہ اس لیے کہ اسلامی معاشرے میں مسلم خواتین کو ایک مرکز ی ذمے دار فردکی حیثیت حاصل ہے، جس پر اَبطال و صلحا کی تولید کے علاوہ عظمتوں کی حفاظت و صیانت کی ذمہ داری ڈالی گئی ہے۔ چغتائی کے تصور کی خاتون کھلونا نہیں، ایک باوقار ذمہ دار سپاہی کا روپ ہے جو داخلی مدافعت پر مامور ہے۔ بنا بریں چغتائی کی تصویروں کی خواتین حد درجہ سنجیدہ ہیں، اوریہی وہ سنجیدگی ہے جس کی تلقین اقبال نے بھی کی ہے۔ غرض اقبال کے اشعار کے جو تصویری روپ چغتائی نے ہمیں دیے ہیں، وہ بھی رُوحِ اقبال کے بارے میں ہماری بصیرتوںمیں اضافہ کر تے ہیں۔ اب آخر میں حضرتِ چغتائی کا یہ ارشاد بھی ہر لحظہ پیشِ نظر رہے کہ یہ اس کے تصورِ فن کا خلاصہ ہے اور بہ فیضِ اقبال ہے۔ انھوں نے فرمایا: انسان مشرق کا ہو یا مغرب کا، اس کی تخلیق کا موضوع کسی نہ کسی صورت سے اس ملت سے وابستہ رہا ہے جس سے اس کا رشتہ ہے۔ سچا آرٹسٹ وہ ہے جو فرعون اور خدا کے درمیان تمیز کرنے کے پیمانے مہیا کرسکے۔ -----۳؍فروری۱۹۷۵ء ئ……ئ……ء ۱۱ حکمتِ افرنگ بیناے کورو مستِ تماشاے رنگ وبوست حکمتِ فرنگ کے کمالات سے انکار نہیں لیکن علامہ اقبال پھربھی افرنگ کے علم و فن سے مطمئن نہیں۔ ان کا سارا کلام اس کے خلاف بے اطمینانی کے اثرات سے لبریز ہے۔ ایک عام تجدد پسند کے لیے تو اتنا ہی کافی ہے کہ اس کے لیے فرنگی تہذیب میں لذت کوشی اور تن پروری کے جملہ سامان بے محابا موجود ہیں مگر کسی فکر کی رفعت کے لیے کچھ اور چیزیں بھی درکار ہیں۔ اور اقبال کی نظر میں فرنگ ان سے محروم ہے۔ یہ موضوع بڑی تفصیل چاہتا ہے اس لیے ایک سے زیادہ اقساط میں اس پر اظہارِ خیال ممکن ہوگا۔ سب سے پہلے اقبال کے چند اشعار کا مطالعہ فرمائیے: فکرِ فرنگ پیشِ مجاز آورد سجود بیناے کور و مستِ تماشاے رنگ و بوست گردندہ تر ز چرخ و ربائندہ تر ز مرگ از دستِ اُو بدامنِ ما چاکِ بے رفوست خاکی نہاد و خو ز سپہرِ کہن گرفت عیار و بے مدار و کلاں کار و تو بتوست مشرق خراب و مغرب ازاں بیشتر خراب عالمِ تمام مردہ و بے ذوقِ جستجوست ساقی بیار بادہ و بزمِ شبانہ ساز ما را خرابِ یک نگہِ محرمانہ ساز _________ اے مسلماناں فغاں از فتنہ ہاے علم و فن اہرمن اندر جہاں ارزاں و یزداں دیریاب انقلاب! انقلاب! اے انقلاب _________ دلِ بیدار ندادند بہ داناے فرنگ ایں قدر ہست کہ چشمِ نگرانے دارد ان اشعار میں اشارتاً وہ وجوہ موجود ہیں جن کی بنا پر علامہ اقبال، حکمتِ مغرب کو اپنے جملہ کمالات کے باوجود فتنہ قرار دیتے ہیں لیکن اس کی وضاحت تفصیل کے بغیر ممکن نہیں۔ آئیے سب سے پہلے حکمتِ افرنگ کے ارتقا اور اس کے نتائج پر سرسری سی نظر ڈال لیں۔ قصہ یہ ہے کہ مغرب کا انسان گذشتہ پانچ سو سال میں ذوقِ تحقیق کے غیر معمولی اظہار کے باوجود اپنی شخصیت کو مجتمع نہیں کرسکا۔ وہ جزویت کا شکار اور انتشار کا مریض ہے۔ کہانی مغرب کے داخلی بحران اور سکراتِ فکری کی طویل ہے۔ سب کو معلوم ہے کہ یورپ نے جب پندرھویں صدی یعنی ازمنۂ متوسط میں کروٹ بدلی تو وہ خود کو کلیسا سے آزاد کرکے یکے بعد دیگرے متبادل سہارے ڈھونڈتا رہا مگر روز بروز غیر مطمئن ہوتا گیا۔ تاریخ اس کی یہ ہے کہ جب چھاپے خانے کا رواج ہوا اور سفر و سیاحت کے ذریعے باہر کی دُنیا میں دلچسپی شروع ہوئی تو مشاہدے کی اس وسعت سے مغرب نے اپنے اندر غیر معمولی توانائی محسوس کی، لیکن یہ ابتدا تھی۔ ابھی تک اہل مغرب نے داخلی سہاروں کا انکار نہ کیا تھا۔ خارجی دُنیا کی یہ کشور اور داخلی دُنیا کا یہ سکون ایک مثالی اُسلوبِ حیات تھا جس میں توازن تھا اور کش مکش کے آثار کم سے کم تھے۔ یورپ کا جدید دور سب سے پہلے اٹلی میں ظاہر ہوا۔ اس نشاتِ ثانیہ کا نعرہ انسان کا بلند مقام اور اس کی روشن تقدیر تھا۔ پکود امرندولا[Pico De Mirandola 1463-1494] نے اسی زمانے میں (پندرھویں صدی کی اٹلی میں) کہا تھا: ’’ہم ہر قید و بند سے آزاد ہیں۔ اے انسان، ہر قسم کی زنجیر کو توڑ دے‘‘۔ ان نعروں کے زیرِ اثر اٹلی میں فکری آزادی نے جو رُخ بھی اختیار کیا، اس میں داخلی اور خارجی زندگی میں توازن رکھنا ابھی تک فضیلت سمجھا جاتا تھا مگر رفتہ رفتہ توازن بگڑتا گیا۔ اس کے بعد فرانس میں رابل اور مانتاں آتے ہیں جن کا جھکائو داخلیت کی طرف ہوتا ہے، خصوصاً مانتاں کے یہاں اس داخلیت کا ہلکا سا آغاز ہوتا ہے جو کئی صدیوں کے بعد پروست میں عروج کو پہنچ جاتا ہے۔ مانتاں کے یہاں خدا کے گہرے اعتقاد کے ساتھ فطرت سے دلچسپی کا میلان ملتا ہے لیکن کلیسا سے بے اعتقادی بھی نمایاں ہوتی جاتی ہے۔ مانتاں کے انشایئے تاریک بادلوں میں روشنی اور کشادگی کی ایک لکیر کا درجہ رکھتے ہیں۔ یعنی بے اعتقادی عام ہوچلی ہے لیکن داخلی سہارے اب بھی مدنظر ہیں۔ سولھویں صدی کا انگلستان یعنی الزبتھ کا زمانہ آتا ہے۔ شیکسپیئر کے یہاں بھی توازن نظر آتا ہے۔ وہ نظم و توازن میں گہرا اعتقاد رکھتا ہے مگر داخل میں ہلکا سا انتشار بھی ہے تاہم شیکسپیئر میں ہم آہنگی کی آرزو موجود ہے۔ یہ واقعہ ہے کہ انگلستان میں اس وقت بالعموم پبلک لٹریچر اور پرائیویٹ لٹریچر میں فرق نہ تھا۔ یہ دورِ غنیمت تھا۔ اس کے بعد سائنس دان اور فلسفی آتے ہیں جو خارجی کائنات کو موضوعِ تحقیق بناتے ہیں۔ سائنس دانوں نے راز ہاے فطرت پر سے پردہ اُٹھایا اور بتایا کہ اس کائنات کے کچھ قانون ہیں،جب تک انسان ان پر عمل کرتا رہے گا، وہ اس کائنات کا مالک رہے گا۔ ان لوگوں کی نظر میں زندگی کا خارج ہی قابلِ توجہ تھا۔ زندگی کی طرح ادب میں بھی یہی نظریہ تھا بہرحال یہ نئے شعوری تصورات کا دور تھا۔ اور کامیڈی، طنز اور خارجی حقیقت نگاری کا شوق عام تھا۔ لیکن یہ خارجیت دیرپا ثابت نہ ہوئی۔ بہت جلد مغربی ذہن کو داخلیت نے گھیر لیا۔ ناول اور ڈراما سستی جذباتیت سے لبریز ہوگیا اور اس جذباتیت کے لیے خفیہ سوسائٹیاں بنیں جو پر اسرار محیر العقول عناصر سے لبریز تحریروں کو فروغ دینے لگیں۔ جرمنی میں طوفان و ہیجان کی تحریک اُٹھی اور اس کے ساتھ ہی رومانیت کی شدید لہر جرمنی اور انگلستان میں اُبھر آئی۔ پھر روس اور فرانس اس کی لپیٹ میں آگئے۔ یہ لہر اور بھی آگے بڑھی اور اس کے زیرِ اثر مذہب کے جملہ آثار مٹ جاتے ہیں۔ اس کے فوراً بعد صنعتی دور آیا جس کے زیر اثر عوام اور ہجوم کا طوفانِ بے تمیزی اُٹھ کھڑا ہوا۔ اب معاشی مسئلہ شدید بے اطمینانی کا باعث بن جاتا ہے۔ پہلے بے اطمینانی داخل میں تھی، اب اسے خارجی احوال تک پھیلا دیا جاتا ہے۔ سوشلزم کا چرچا ہوتا ہے۔ پہلے اس کی حیثیت محض علمی تھی، مارکس اور اینگلز اسے خارج میں پھیلا دیتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں بیسویں صدی معاشی انسان کی صدی بن جاتی ہے جس میں اطمینان اور اُمید کے ڈانڈے زیادہ سے زیادہ پیداوار سے ملا دیے جاتے ہیں مگر انسان پہلے سے زیادہ محرومی محسوس کرتا ہے۔ اس معیشت کے زیرِ اثر داخل کی دُنیا کو آزاد چھوڑ دیا جاتا ہے اور خارجی اصلاح و ترقی کا چرچا ہوتا ہے۔ اب جبلتیں بے قید ہوجاتی ہیں۔ مگر اس کا بھی شدید ردِعمل ہوتا ہے۔ ظاہر اور باطن میں شدید کش مکش شروع ہوجاتی ہے اور دو دھارے:ایک مکمل خارج پرستی اور دوسرا کامل داخل پرستی اُبھر آتے ہیں۔ ۱۸۳۵ء سے ۱۸۹۵ء تک کا زمانہ جس میں بڑے بڑے ناول وجود میں آئے، اسی کش مکش کا اظہار کرتا ہے۔ اب کسی کی سمجھ میں نہیں آتا کہ انسان کدھر جائے۔ سخت رُوحانی کرب و اضطراب شروع ہوجاتا ہے۔ موجودہ انسان کی دُہری پریشانی یہ ہے کہ ایک طرف اندر کے تصادم سے دو چار ہے اور دوسری طرف وہ یہ محسوس کرتا ہے کہ وہ خارج میں خارجی دبائو یعنی سیاسی معاشی قوتوں کے رحم و کرم پر ہے اور انفرادیت کھو بیٹھا ہے۔ یہ شدید اندرونی مایوسی کا دور ہے جس میں سوسائٹی کا عقیدہ و اعلان اور ہے اور عمل بالکل اس سے مختلف ہے یعنی یہ منافقتِ کامل کا دور ہے۔ اس پر فرائڈ وغیرہ کی نفسیات انسان کو خود اپنے آپ سے بدگمان کردیتی ہے۔ اس کے زیراثر انتشار مکمل ہے۔ اب حساس ادیب کسی ایسے نسخے کی جستجو میں ہیں جو غریب انسان کو سکھ کا ایک لمحہ عطا کرسکے کیونکہ ادب خود کش مکش کا شکار ہے۔ داخل اور خارج دونوں میں بحران ہے۔ لہٰذا ادب ناکام ہوگیا ہے اور یہ خارج اور باطن کے فاصلے اور ان کی آویزش کو نہیں مٹا سکتا۔ یہ ادب عوام اور عام انسان کا ادب نہیں رہا کیونکہ عوام یہ محسوس کرتے ہیں کہ یہ حد درجہ اعصابی تنائو کا مریض ہے یا حد درجہ ناقابلِ فہم ہے۔ ان دونوں صورتوں میں حددرجہ یاس انگیز اور مضرِ صحت ہے، اس وجہ سے ادب ممدِّ حیات نہیں رہا۔ اس پر ستم یہ ہے کہ انسان کو دعویٰ خدائی کا بھی ہے مگر وہ جس کی وجہ سے (یعنی سائنس کی وجہ سے) دعویٰ خدائی کا کر رہا تھا، اب اس سے بھی بے زار ہے۔ نٹشے، سارتر، آندرے ژید کے نزدیک انسان خود اپنی قدروں کا خالق ہے۔ یہ نیا ادب عام آدمی کے لیے بالکل بے کار ہے کہ اس سے اسے اپنی انفرادیت نہیں مل سکتی۔ ان شدید پریشانیوں کی وجہ سے اب زندگی میں بے زاری ہی بے زاری ہے، اس لیے عورت اور جنس کے سوا کوئی سہارا باقی نہیں رہا۔ اس پر معاشی بے اطمینانی مفادات کی پیکار اور کش مکش غالب ہے جس کے باعث تشدد اور غصہ و انتقام اب مغرب کی جبلت کا درجہ حاصل کرگیا ہے۔ اب یا تو کوئی جنگ اسے تباہ کردے گی یا اس کی حیوانی شورشیں اسے تباہ کرکے رکھ دیں گی۔ غرض علم و فن کے کمالات دکھانے والے مغرب کا اب یہ حال ہے۔ لیکن عالمِ اسلام کے عیش پرست متجددین اسی میں مگن ہیں کہ مغرب نے عورت کو ارزاں کردیا ہے بلکہ اسے اشتہار … نہیں نہیں ارزاں قیمت پر بکنے والا مال… نہیں نہیں مفت متاعِ غارت کا درجہ دے دیا ہے۔ وہ اسی میں خوش ہیں کہ اب اس کے نفسِ حیوانی کو آزادی مل گئی ہے لیکن چونکہ کورِمادرزاد ہیں، وہ یہ نہیں دیکھتے کہ مغرب کے آدمی کو یہ سب کچھ میسر ہے مگر پھر بھی اس کے لبوں پر فریاد ہے۔ اس کے پاس سب کچھ ہے مگر محروم ہی محروم ہے۔ اقبال نے بڑی شدت سے اس محرومی کی طرف متوجہ کیا ہے افسوس ہے کہ عالمِ اسلام کے غلامانِ افرنگ کی سمجھ میں بات پھر بھی نہیں آئی۔ ظاہر ہے کہ یہ بھی عذاب ہی کی ایک صورت ہے۔ -----۱۰؍فروری ۱۹۷۵ء ئ……ئ……ء ۱۲ فرنگی حکمت کے تاریک پہلو علامہ اقبال پیامِ مشرق کی نظم ’’نقشِ فرنگ‘‘ میں فرماتے ہیں: حکمت و فلسفہ کارے است کہ پایانش نیست سیلیِ عشق و محبت بہ دبستانش نیست بیشتر راہِ دل مردم بیدار زند فتنۂ نیست کہ در چشمِ سخن دانش نیست دل زِ نارِ خنکِ او بہ تپیدن نرسد لذتے در خلشِ غمزۂ پنہانش نیست دشت و کہسار نوردید و غزالے نگرفت طوفِ گلشن زد و یک گل بہ گریبانش نیست چارہ این است کہ از عشق کشادے طلبیم پیش او سجدہ گزاریم و مرادے طلبیم فرنگی حکمت بایں ہمہ تابانی بنیادی طور سے بعض ایسے تاریک پہلو رکھتی ہے کہ ان کی وجہ سے یہ حکمت انسانیت کے لیے عذاب کا درجہ رکھتی ہے۔ یہ تاریک پہلو کیا ہیں؟ میں ایک ایک کرکے ان کا تذکرہ کرتا ہوں۔ فکرِ مغرب کا سب سے تاریک پہلو یہ ہے کہ حقیقت کو اپنی سالم شکل میں دیکھنے کا عادی نہیں۔ اسے ٹکڑے ٹکڑے کرکے دیکھتا ہے میں اسے فکرِ فرنگ کی اجزا پسندی کہتا ہوں۔ اجزا پسندی کی تشریح یہ ہے کہ اہلِ مغرب کی عقلِ ناتمام یوں نہیں سوچتی کہ خدا، کائنات اور انسان باہم مربوط حقیقتیں ہیں، وہ یوں چلتی ہے کہ جب مغرب کا مفکر خدا کو مانتا تھا تو کائنات اور انسان دونوں کا انکاری تھا۔ جب دین کا پیرو تھا تو دُنیا سے بے زار تھا۔ راہبی (رہبانیت) اس کی عادت تھی۔ لیکن جب دین سے بے زار ہوا تو دین کو اور خدا کو بالکل ترک کرکے عقل کی سرپرستی کرنے لگا۔ اور ایسی کہ عقل کے سوا ہر شے کا انکاری ہوگیا۔ کچھ مدت عقل کی خدائی کا اعلان ہوتا رہا، پھر جب اسے تجربے نے بتایا کہ عقل بھی دھوکا کھا جاتی ہے تو اس نے حواس سے ثابت ہونے والی حقیقتوں پر انحصار کرلیا اور باقی ہر شے کا انکار لازم ٹھہرا۔ تو اب یوں چلا کہ حواس بھی تو بعض اوقات غلط بینی کرجاتے ہیں۔ پانی کے ایک ٹب میں سیدھی چھڑی بھی ٹیڑھی معلوم ہوتی ہے۔ لہٰذا اس نے حواس پر شک کرکے تجربۂ عملی ہی کو واحد سچائی سمجھ لیا اور اسے Empericism( عملی تجربیت )کا نام دیا۔ لیکن پھر یہ سوال پیدا ہوا کہ عملی تجربہ بھی جب تک کسی منفعت سے وابستہ نہ ہو بے کار ہے۔ تو اب منفعت پرستی یا نتائج پسندی (Pragmatism) پر بات آپہنچی۔ بہرحال مغربی ذہن کی اجزا پسندی کمال کرتی ہے۔ رُوح ہے تو مادہ نہیں، مادہ ہے تو رُوح نہیں۔ خارج ہے تو باطن نہیں، باطن ہے تو خارج نہیں۔ عقل ہے تو الہام نہیں، الہام ہے تو عقل نہیں۔سائنس ہے تو فلسفہ نہیں، فلسفہ ہے تو سائنس نہیں۔دین ہے تو دُنیا نہیں،دُنیا ہے تو دین سراسر غائب۔یہ دُنیا ہے تو عقبیٰ نہیں اور آخرت تھی تو دُنیا نہ تھی۔ اسی اجزا پسندی کے تحت اس نے عقل اور الہام میں جنگ کرا دی۔ دین اور سیاست کو الگ کردیا اور اسے چنگیزی و پرویزی بنا دیا۔ اب تن اور جان میں تفریق ہے جس کے نتیجے میں تن پرستی اور نفس پرستی اس کا شیوہ ہے۔ غرض مغربی حکمت کی سب سے بڑی کمزوری یہی اجزا پرستی ہے جس سے مندرجہ ذیل فکری مسلک برآمد ہوئے۔ (۱) عقل پرستی (۲) فطرت پرستی (۳) جذبہ پرستی (رومانیت) (۴) حواس پرستی (۵)تن پروری (۶) حیوانی جبلت پرستی (۷) مریضانہ داخلیت (۸) فرد پسندی (۹) خالص اجتماع پرستی (۱۰)معاشیت واحد قدرِ زندگی (۱۱) جنس واحد قدرِ زندگی (۱۲) اقتدار واحد قدرِ زندگی (۱۳) تعیش واحد قدرِ زندگی۔ یہ اور اس طرح کے اور مسلک، سالم حقیقت سے فرار کا نتیجہ ہیں جن میں سے ہر ایک میں جزوی حقیقت تو موجود ہے لیکن چونکہ سالم حقیقت نہیں، اس لیے ان سے انسانیت کو گزند پہنچا ہے اور بے اطمینانی اور پریشانی اور تفریق و افتراق میں اضافہ ہوا ہے۔ -----۱۷؍فروری ۱۹۷۵ء ئ……ئ……ء ۱۳ فرنگ دل کی خرابی، خرد کی معموری حکمتِ فرنگ اپنے کمالاتِ فرہنگ و دانش کے باوجودبے توفیق ہے۔ اس کا ایک سبب جو شاید مرکزی سبب ہے، اس کی جزویت اور یک رُخا پن ہے، جس کے ساتھ یہ طرزِ فکر بھی حصہ لے رہا ہے کہ زندگی میں ہر شے چونکہ تغیر پذیر ہے اور بدلتی رہتی ہے، اس لیے سچائی اور حقیقت کوئی مطلق شے نہیں، لہٰذا جو کچھ حالاتِ زمانہ کے تحت۔ ظہور میں آجائے وہی سچ ہے۔ نیکی کوئی مستقل قدر نہیں بلکہ یہ ایک اَمرِ اضافی ہے۔ اقدارِ مطلقہ ایک خیال خام ہے۔ اقدارِ اضافی ہر زمانے میں مختلف ہوتی ہیں۔ وہی اصل ہیں۔ اس فکر نے جزویت کے ساتھ مل کر مغرب کے نظامِ فکر کو ناپایدار اور بے ستون بنا دیا ہے، مگر تغیر کے فلسفے پر الگ بحث ہوگی۔ اس وقت، فکرِ فرنگ کے ایک اور حصے سے بحث مطلوب ہے، جسے اقبال نے اپنے اس ایک مصرعے میں بیان فرما دیا ہے : ع فرنگ دل کی خرابی خِرد کی معموری خِرد کی معموری سے مراد عقلِ محض پر انحصارِ کلی ہے اور دل کی خرابی کا مطلب: جذبے کی صداقت اور وجدان و الہام کا انکارِ کلی اور یہ معلوم ہے کہ قلب، جذبے کا مرکز ہونے کے علاوہ اس معرفت کا بھی منبع ہے، جسے وجدان و الہام کہا جاتا ہے… سوال پیدا ہوتا ہے کہ عقلِ محض پر انحصارِ کلی سے نقصان کیا ہے؟ اور اس سے بالآخر انسان اور انسانیت کو کیا تکلیف ہوتی ہے؟ عقلِ محض پر انحصار کے خلاف سب سے بڑا اعتراض یہ ہے کہ اس کے سہارے ہم حقیقت مطلقہ (یابرتر ہستی) کا چونکہ ادراک نہیں کرسکتے، اس لیے ہم مجبور ہوجاتے ہیں کہ اس کا انکار کردیں۔ خدا کے انکار کا صرف یہ مطلب نہیں کہ ہم نے اس کے وجود کا انکار کرکے، ایک حقیقت کو نظر انداز کردیا بلکہ یہ بھی ہے کہ ہم اس یقین کی دولت سے بھی محروم ہوگئے، جو زندگی کو بااُصول بنانے کی ذمے دار ہے، زندگی کو بااُصول بنائے بغیر ہم بے مقصد ہوجاتے ہیں اور بے مقصد ہونے کے بعد ہم اس سعادت سے بھی محروم ہوجاتے ہیں، جو اطمینان اور فوز و فلاح کی ضامن ہے اور چونکہ ہم خدا کو نہیں مانتے، اس لیے ہم الہامی حقیقتوں کو بھی تسلیم نہیں کرتے،اور الہام کی یقینی صداقتوں کو مانے بغیر ہم صرف عقل کی رہبری میں زندگی بسر کرنا چاہتے ہیں مگر صرف اس ذریعے سے زندگی کو بااخلاق نہیں بنایا جاسکتاکیونکہ عقل تدبیر تو کر جانتی ہے مگر خود غرضی سے کسی کو روک نہیں سکی، اور اگر کبھی روکے گی تو کسی جذبۂ نیکی کے تحت ہی روکے گی۔ جو ایمان سے پیدا ہوتا ہے، اور ایمان اس یقین بالغیب سے اُبھرتا ہے جو عقلی استدلال سے بے نیاز ہے ،وہ اندر سے پیدا ہوتا ہے۔ عقل محسوسات و مشاہدات سے استفادہ کرتی ہے اور حواس کی غلام ہوتی ہے اور معلوم ہے کہ حواس ضروری نہیں کہ انسان کو صحیح نتیجے پر پہنچائیں۔عقل تو خود جبلتوں کو بھی شک کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ یہاں جس عقل سے بحث ہے، وہ وہ ہے جو وحی والہام کی انکاری ہے۔ انبیا و اولیاے کرام کو نہیں مانتی، لہٰذا اس کی کوئی اخلاقیات نہیں۔ عقل نیکی کی کارندہ بن جاتی ہے، فوز و فلاح کی ضامن ہے، لیکن ضروری نہیں کہ وہ ہمیشہ نیکی کا ساتھ دے۔ وہ بدی کی بھی معاون بن جاتی ہے، بلکہ شاید یہ کہنا درست ہوگا کہ بدی اس سے کچھ زیادہ ہی فائدہ اُٹھاتی ہے۔ بدلوگ عقلِ عیار اور عقلِ فتنہ تراش کی مدد سے نیکی کی مخالفت پر اُتر آتے ہیں اور کامیاب ہوجاتے ہیں، اسی کو اقبال نے ’زیرکی‘ کے نام سے یاد کیا ہے: ع زیرکی بفروش و حیرانی بخر پھر فرمایا ہے: ع زیرکی ز ابلیس و عشق از آدم است خلاصہ یہ ہے کہ عقلِ محض یا زیرکی اخلاق سے بے نیاز ایک قوت ہے، بلکہ ایمان کی انکاری ہوجائے تو سخت بے اخلاق اور نیکی دشمن بن سکتی ہے۔ عقل اس صورت میں انسان کی خود غرضی کی وکالت، پشتی بانی کرتی ہے، نفس پرستی کی کارندہ اور تن پروری اور استحصال اور ظلم و جور کی نقیب ہوجاتی ہے۔ تو نتیجہ یہ نکلا کہ عقل کی رسائی ناقص ہے۔ لاتعداد نادیدہ حقیقتیں ایسی ہیں جن کا یہ ادراک نہیں کرسکتی اور خدا، ملائکہ، نبوت اور عقبیٰ کی حقیقت کو سمجھنے سے قاصر ہے۔ لہٰذا ناقص اور نارسا ہے مگر اس کے ساتھ ہی بے اخلاق بھی ہے، یعنی اس کے لیے اخلاقی اُصولوں پر چلنا لازمی نہیں۔ مزید برآں جہاں ایمان جمعیتِ خاطر کا باعث بنتا ہے، وہاں عقل، پریشانی، انتشارِ خیال اور تفریق و تشکیک اور بے اطمینانی و بے اعتمادی کو جنم دیتی ہے بلکہ بعض لوگ یوں بیان کرتے ہیں کہ عقل کا سارا کاروبار شک سے چلتا ہے اور یہ شک و وہم و گمان کی خالق ہے۔اور سب سے بڑی بات جیساکہ بیان ہوچکا ہے، یہ ہے کہ عقل خود غرضی کی وکیل قوت بن جاتی ہے، تو گویا حقیقت کے معاملے میں بھی نارسا اور ناکافی ہے اور انسانی سطح پر بھی خود غرضی پیدا کرنے والی افتراق انگیز قوت ہے۔ لیکن یہ یاد رہے کہ یہ ساری بات اس عقل کے بارے میں ہے، جسے عقلِ جزوی اور عقلِ آزاد کہنا چاہیے، لیکن وہ عقل جو ایمان کے تابع ہو، وہ جوہرِ نورانی ہے اور یہ تو معلوم ہے کہ ایمان خود ایک عقل افروز قوت ہے جو عقل نورِ ایمان (یا جذبۂ عشق و ایقان) سے پیدا ہوتی ہے، وہ زندگی کی راہ نما اور مصلح بن جاتی ہے، اسی لیے اقبال نے فرمایا : ع عقلے بہم رساں کہ ادب خوردہِ دل است جو عقل، دل کی تربیت اور رفاقت سے محروم ہوتی ہے، وہ مہلک اور تشکیک انگیز،بے درد، خودغرض اور تن پرور ہوتی ہے اور ظلم و جور کی راہ نما بن جاتی ہے اور جتنی جتنی بڑھتی ہے، اتنی ہی تشکیک انگیزی کرتی ہے، یہاں تک کہ خود زندگی اور کائنات کی منکر ہوجاتی ہے۔ اقبال نے فرمایا : ع عقل تا بال کشودہ است گرفتار تو است اس عقلِ جزوی کے مقابلے میں عقلِ ایمانی ایک جوہرِ نورانی ہے، جو برتر حقیقتوں پر یقین آفرین ہے، اور مُدرک ہے اور اس سے انسانی سطح پر، کرۂ ارضی میں نیکی، داد و انصاف اور عدل و راحتِ عمومی کی ضمانت ملتی ہے۔ یہ غلط فہمی بہرحال رفع ہوجانی چاہیے۔ اقبال نے عقل کی علی الاطلاق مخالفت نہیں کی۔ اقبال عقلِ ایمانی کو تسلیم کرتے ہیں اور عقلِ عملی کے بھی قائل ہیں،جو جائز مقاصدِ حیات میں اخلاقی و الہامی نظامِ زندگی کو چلانے کے لیے ضروری ہے۔ وہ ان معنوں میں وحی و الہام کو بھی عقل کی ایک صورت قرار دیتے ہیں۔ جب فرنگ نے عقل کو ایمان اور معصوم و سادہ جذبوں سے آزاد و منقطع کرلیا اور عقلِ عیار کا غلام بن گیا تو وہ داخلی اور خارجی سطح پر بے اخلاق ہوگیا، وہ جہاں شخصی طور سے تن پروری اور حیوانیت کی دلدل میں پھنس گیا، وہاں اپنی حیوانی زندگی کو زیادہ سے زیادہ کامیاب بنانے کے لیے اجتماعی طور سے دوسرے ملکوں کو غلام بنانے کے درپے ہوگیا اور یہ دل خراش حقیقت بھی نظر انداز نہیں ہوسکتی کہ اپنی ساری دولت و ثروت کے باوجود مغرب اطمینان کی دولت سے محروم ہے، جیسا کہ مغرب کے مفکروں کی کتابوں سے ظاہر ہوتا ہے۔ کسی ایمانی مستقل منہاج کے بغیر ہر روز مذہب و مسلک بدلتا اور اپنی بے قراری کا مظاہرہ کرتا رہتا ہے۔ بعض لوگ فرنگی کمالاتِ ہنر سے مرعوب ہوکر،اور ان کی ظاہری چمک دمک سے مسحور ہوکر، اہلِ مغرب کو بہت مسرور و مطمئن سمجھتے ہیں، لیکن مسرت اس اطمینان کا نام ہے جو اسباب ظاہری کے بغیر بھی انسان کو خوش رکھ سکے۔ اس لحاظ سے مغرب کا آدمی بدبخت ترین آدمی ہے۔ عورت کی طرح تن پرستی کرتا ہے اور شیاطین کے مانند پریشان رہتا ہے۔استعمارو استحصال کی بیماری اسی پریشانی کے باعث ہے لیکن ہمارا مغرب زدہ غلام ابنِ غلام یہ سمجھتا ہے کہ مغرب ہی اس کا خدا اور مغرب ہی اس کا رسول ہے اور اس کی تمام سڑکیں مغرب ہی کو جاتی ہیں کہ وہی اس کا قبلہ و کعبہ اور وہی اس کا حجاز ہے۔ -----۲۴؍فروری ۱۹۷۵ء ئ……ئ……ء ۱۴ ذکر و فکرِ اقبال کو عام کیجیے یہ ہرطرح ثابت ہوچکا ہے کہ اس وقت ملت کی شوکتِ گم شدہ کی بازیافت اور اسلام و قرآن کے بھولے ہوئے سبق کی از سرِ نو یادداشت کے لیے، ذکر و فکرِ اقبال کی تحریک ایک مؤثر وسیلہ ہے۔ اقبال کی ساری تعلیم، قرآن مجید کی طرف رجوع کرنے اور اُسوۂ محمدیہؐ کو شمعِ راہ بنانے کی تلقین کرتی ہے، لہٰذا کلامِ اقبال کا مطالعہ کیجیے تاکہ قرآن اور تعلیماتِ محمدیہؐ کی طرف رجوع کا شوق پیدا ہو۔ میں سالِ اقبال کے موضوعِ خاص کا سلسلہ توڑتے ہوئے اس مرتبہ قارئین کو حلقہ ذکر و فکرِ اقبال کے پروگرام کی طرف متوجہ کرتا ہوں، جو ۱۹۷۵ء کے لیے وضع کیا گیا ہے، جیسا کہ پروگرام سے معلوم ہوگا، اس پروگرام کو پبلک جلسوں کی حیثیت حاصل نہیں، بلکہ سب کی سہولت کے لیے اس کے اجلاسوں کی نوعیت نجی محفلوں کی ہے، جو گھروں میں ترتیب دی جائیں گی اور صاحبِ مکان اپنی مرضی سے اپنے احباب کو بلائے گا۔ اس پروگرام میں جن صاحبوں کے نام ہیں، ان کے علاوہ بھی جو صاحب چاہیں، اپنے مکان پر محفل ترتیب دے سکتے ہیں اور اس کے لیے جو دن چاہیں مقرر کرسکتے ہیں البتہ یہ التماس ضروری ہے کہ ان اجلاسوں کی مختصر روداد اخبارات کو ضرور بھجوائی جائے، جس کی ایک نقل مجھے بھی مل جائے تو کاغذات میں محفوظ رہے گی۔ اب میں پروگرام درج کرتا ہوں، جس کے ہم راہ وہ مراسلہ بھی ہے جو میں نے پروگرام میں درج شدہ حضرات کے نام ارسال کیا ہے۔ حلقۂ ذکر و فکرِ اقبال … پروگرام ۱۹۷۵ء جناب من! سلام مسنون حلقۂ ذکر و فکرِ اقبال جس کا پروگرام آپ کی خدمت میں ارسال کیا جارہا ہے، کوئی منظم انجمن یا مجلس نہیں۔ اس کا مقصد بجز اس کے کچھ نہیں کہ حکیم الامت کے افکار اور ان کے حوالے سے اسلامی فکروحکمت، اور ان دونوں کے ضمن میں پاکستان کی سطح پر احیاے علم و فکر کی ایک عام تحریک ایسے طریقے سے اُٹھائی جائے کہ اس میں زیادہ سے زیادہ آزادی ہو اور وہ باتیں رکاوٹ نہ بنیں جو منظم انجمنوں میں اکثر باعث انتشار و اختلاف بن جاتی ہیں۔ اس کے اجلاس نجی محفلوں کی صورت میں مختلف اصحاب کے مکانوں پر ہوں گے۔ یہی وجہ ہے کہ اس حلقے کا کوئی دستورِ اساسی نہیں، نہ اس کے کوئی باضابطہ عہدے دار ہیں۔ اس کی حیثیت نجی محفل کی ہے، جس کے انعقاد اور جس میں شرکا کی فہرست کے بارے میں ہر وہ صاحب آزاد ہیں، جن کے مکان پر ذکر و فکر کا اہتمام ہوگا۔ البتہ یہ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس کا کچھ نہ کچھ ریکارڈ رکھا جائے، اس لیے مناسب معلوم ہوتا ہے، کہ ہر سال کے آغاز میں، ایک تجویزی سا پروگرام مرتب ہوجایا کرے، چنانچہ ۱۹۷۵ء کا پروگرام حاضر ہے۔ مجلس کا اہتمام جن صاحب کے مکان پر ہو، وہ چاہیں تو اجلاس سے قبل اخبار میں اطلاع شائع کرا دیں۔ تاہم یہ لازمی ہے کہ انعقاد کے بعد مجلس کی مختصر سی روداد بوساطت راقم الحروف یا براہِ راست اخبار کو بھجوا دی جائے، جس کی ایک نقل راقم کو بغرض ریکارڈ بھجوا دی جائے، تاکہ پبلک آگاہ ہو، اور وہ مقالہ بھی جو اس مجلس میں پڑھا جائے، ریکارڈ میں آجائے تو مناسب ہوگا۔ مقالہ نگار کا انتخاب وہی صاحب کریں گے جن کے مکان پر محفل منعقد ہو یا جس کے اہتمام سے کسی ہوٹل وغیرہ میں اس کا انعقاد ہو، لیکن اگر مقالہ نگار کے لیے راقم سے کہا جائے گا تو راقم بھی انتظام کی کوشش کرسکتا ہے۔ مقالہ پندرہ بیس منٹ سے زیادہ کا نہ ہو، مقالے کے بعد مناسب بحث و گفتگو بھی ہوسکتی ہے کیونکہ اس مجلس کی حیثیت جلسے کی نہیں، نجی محفل کی ہے۔ ۱۹۷۵ء کا پروگرام مرتب کیا گیا ہے، جس کی ایک نقل ارسال ہے۔ جن بزرگوں اور دوستوں کے نام اس فہرست میں درج ہیں، ان سے التماس ہے کہ اپنے ہاں کی محفل کی تاریخِ انعقاد اپنے پاس درج کرلیں۔ یہ محفل اتوار کے علاوہ بھی کسی دن ہوسکتی ہے۔ راقم ایک تجویزی فہرست ایسے اصحاب کی ارسال کردے گا، جنھیں ہر موقع پر بلا لیا جائے تو مضائقہ نہ ہوگا، کیونکہ یہ اصحاب، فکرِ اقبال میں مستقل دلچسپی رکھتے ہیں۔ آگے یہ ان کی فرصت پر موقوف ہے کہ وہ کس کس اجلاس کے لیے وقت نکال سکتے ہیں۔ اب آخر میں التماس ہے کہ جن صاحبوں کے نام بطور داعیِ اجلاس یا بطور مقالہ نگار منسلکہ فہرست میں درج ہیں، وہ جلد بذریعہ پوسٹ کارڈ مجھے اپنی صوابدید اور رضامندی سے (لازمی طور سے) آگاہ فرما دیں تاکہ رد و بدل کی صورت میں متبادل انتظام ہوسکے۔ تاریخ میزبان فروری کے اتوار ۲ ڈاکٹر وحید قریشی صاحب ۹ پروفیسر عبدالحمید ڈار صاحب ۱۶ ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا صاحب مارچ کے اتوار ۲ رانا اکرام علی صاحب ۹ ڈاکٹر کرنل خواجہ عبدالرشید صاحب ۱۶ پروفیسر سیّد امجد الطاف صاحب ۲۳ چودھری نذیر احمد خاں صاحب ۳۰ ڈاکٹر جسٹس ایس اے رحمان صاحب مقالہ نگار پروفیسر سیّد کرامت حسین جعفری صاحب ڈاکٹر سی اے قادر صاحب سیّد نذیر نیازی صاحب ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا صاحب اپریل کے اتوار ۶ جسٹس بدیع الزمان کیکائوس صاحب ۱۳ جسٹس عطاء اللہ سجاد صاحب ۲۰ جسٹس جاوید اقبال صاحب ۲۷ پروفیسر ڈاکٹر سی اے قادر صاحب مئی کے اتوار ۴ ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار صاحب ۱۱ پروفیسر مرزا محمد منور صاحب ۱۸ محمد علاء الدین اختر ۲۵ آغا شورش کاشمیری صاحب جون کے اتوار ۱ پروفیسر خواجہ غلام صادق صاحب ۸ پروفیسر شیخ محمد سعید صاحب ۱۵ ڈاکٹر محمد جہانگیر خان صاحب ۲۲ پروفیسر سیّد اکرم شاہ صاحب جولائی کے اتوار ۶ پروفیسرسیّد وقار عظیم صاحب ۱۳ احمد ندیم قاسمی صاحب ۲۰ مولانا حامد علی خاں صاحب ۲۷ ڈاکٹر عبدالسلام خورشید صاحب اگست کے اتوار ۳ حکیم آفتاب احمد قرشی صاحب ۱۰ پروفیسر وارث میر صاحب ۱۷ مظفر حسین صاحب ۲۴ پروفیسر شیر محمد گریوال صاحب ستمبر کے اتوار ۷ حیات احمد خان صاحب ۱۴ بشیر احمد ارشد صاحب ۲۱ ہمایوں ادیب صاحب ۲۸ سیّد اشرف علی جعفری صاحب اکتوبر کے اتوار ۵ پروفیسر سیّد ابوبکر غزنوی صاحب ۱۲ ڈاکٹر سیّد محمد عبداللہ صاحب ۱۹ ڈاکٹر نصیر احمد ناصر صاحب ۲۶ میر نسیم محمود صاحب نومبر کے اتوار ۲ ملک امجد حسین صاحب ۹ پروفیسر سردار محمد صاحب ۱۶ امجد اسلام امجد صاحب ۲۳ ڈاکٹر بشیر حسین صاحب دسمبر کے اتوار ۷ قاضی جاوید صاحب ۱۴ ڈاکٹر وزیر آغا صاحب ۲۱ پروفیسر فتح محمد ملک صاحب ۲۸ پروفیسر میرزا ریاض صاحب -----۳؍مارچ ۱۹۷۵ء ئ……ئ……ء ۱۵ حکمتِ فرنگ کی ایک اور محرومی (غلط سیاسی فلسفہ) اقبال نے حکمتِ فرنگ پر جو شدید تنقید کی ہے، اس کے بعض اجزا پہلے آچکے ہیں۔ یہ کہا جاچکا ہے کہ اقبال حکمتِ فرنگ کے یک رخے پن اور اجزا پرستی کے مخالف تھے۔یہ بھی کہا جاچکا ہے کہ مغرب کی حد سے بڑھی ہوئی جاہ پرستی بھی اقبال کو کھٹکتی رہی۔ آج یہ بتانا ہے کہ حکمتِ فرنگی کے سیاسی تصورات بھی اقبال کی نظر میں انسانیت کے لیے مہلک ثابت ہوئے۔ تفصیل اس کی آئندہ کی سطور میں ملاحظہ فرمائیے۔ اقبال اگرچہ خود بھی استادانِ فرنگ سے فیض یاب ہوچکے تھے اور ان کے خمستانِ فکر سے مدتوں سیراب ہوتے رہے مگر اسے اتفاق کہیے یا سعادتِ ازلی کی یاوری و مساعدت کہ انھیں جتنا جتنا مغربی افکار و خیالات کے مطالعے کا زیادہ موقع ملتا گیا، اتنا ہی ان کے ذہن میں مغربی تہذیب کے خلاف ناقدانہ ردّعمل ترقی پذیر ہوتا گیا۔ اسی طرح کی صورت برگساں کو بھی پیش آئی تھی۔ جس قدر وہ ہربرٹ سپنسر کے مادہ پرستانہ خیالات کا گہرا مطالعہ کرتا جاتا تھا، اسی قدر اس کے دل میں مادیت کے خلاف نفرت کا جذبہ بڑھتا جاتا تھا۔ اقبال جس]قدر[ مغربی افکار کے قریب ہوتے گئے، اسی قدر مغربی نظریات سے منحرف ہوتے گئے۔ ارمغان حجاز، اقبال کے پختہ افکار کی نمائندہ کتاب ہے، اس میں حکمتِ مغرب کے خلاف ان کی نفرت انتہا کو پہنچ چکی ہے: ؎ من از مے۔خانۂ مغرب چشیدم بجانِ من کہ دردِ سر خریدم نشستم با نکویانِ فرنگی ازاں بے سوز تر روزے ندیدم مشرق کی بے چارگی و درماندگی کے احساس نے رفتہ رفتہ اقبال کو نئے سیاسی عقائد کی تشکیل پر آمادہ کیا اور یہ نتیجہ تھا، در حقیقت مشرق و مغرب کے افکار کے آزادانہ مقابلہ و موازنہ اور امتزاج و اختلاط کا۔ یہ ایک نیا فلسفۂ سیاست تھا جو اقبال سے مخصوص تھا۔یہ افلاطون، ارسطو، مشیافلی، ہابز، کانٹ اور روسو وغیرہ کے تصورات پر مبنی نہ تھا بلکہ اس کی تعمیر و تربیت میں قرآن و حدیث، غزالی۔ و رازی، ماوردی، نظام الملک، ابن حزم اور ابن خلدون وغیرہ کے خیالات بنیادی حیثیت رکھتے ہیں اور اس کی تشکیل و ترکیب میں ان سب باتوں نے مل کر حصہ لیا ہے۔ اقبال کے سیاسی فکر کا ان کی زندگی میں کچھ زیادہ خیر مقدم نہیں ہوا۔ملک کی فضا ان خیالات کے لیے آہستہ آہستہ سازگار ہوئی۔وہ گویا حکیمِ فردا تھے، اگرچہ شاعر کی حیثیت سے ان کا مقام تسلیم کیا جاچکا تھا۔یہ صحیح ہے کہ ان کی تعلیمات کی صداقت کی کچھ علامتیں خود ان کی زندگی ہی میں نمودار ہوگئی تھیں۔ اور کچھ آہستہ آہستہ اب منظرِ عام پر آرہی ہیں۔ خصوصاً قیامِ پاکستان انھی کے فکر کی عملی صورت ہے لیکن یہ بات کسی حد تک افسوسناک ہے کہ تعلیم یافتہ مسلمانوں کی ایک جماعت میں ان کی تعلیمات کے بارے میں اب بھی تشکیک پائی جاتی ہے اور یہ وہ رجحان ہے، جس کو اقبال نے اپنی عمر کے آخری حصے میں بہت محسوس کیا۔ اُنھوں نے یہ محسوس کرلیا تھا کہ وہ گروہ جسے وہ ایک عرصے سے مخاطب کررہے ہیں سوز و یقین سے خالی ہے۔ ارمغان حجاز، ضربِ کلیم اور بالِ جبریل میں مسلمانوں کے سب طبقوں [بالخصوص] اعلیٰ مخصوص تعلیم یافتہ گروہ کی طرف سے اُنھوں نے مایوسی اور بے دلی کا اظہار کیا تھا۔ ذہنی طور پر وہ اپنے آپ کو تنہا محسوس کرتے رہے۔ ماحول سے اجنبیت کا احساس ان پر غالب رہا۔ چنانچہ ارمغان حجاز میں لکھا ہے: شریک درد و سوزِ لالہ بودم ضمیرِ زندگی را وا نمودم ندانم با کہ گفتم نکتۂ شوق کہ تنہا بودم و تنہا سرودم غریبم درمیانِ محفلِ خویش تو خود گوبا کہ گویم مشکلِ خویش؟ ازاں ترسم کہ پنہانم شود فاش غمِ خود را نگویم با دلِ خویش! ________ چو رختِ خویش بربستم ازیں خاک ہمہ گفتند ، با ما آشنا بود ولیکن کس ندانست ایں مسافر چہ گفت و با کہ گفت و از کجا بود اور نہیں کہا جاسکتا، کہ اقبال کی غایتوں سے اس کی قوم کے دانش ور اب بھی آگاہ ہوئے ہیں یا نہیں۔ اقبال کی غایتیں اسلامی ہیں، مگر قوم کے اہلِ]دانش[ فکرِ اقبال کو مغربی غایتوں کی طرف کھینچ رہے ہیں۔ جن کی اقبال نے سخت مخالفت کی ہے۔ عام طور سے یہ کہا جاتا ہے کہ اقبال کا سیاسی نصب العین اکثر بدلتا رہا، اور ان کے افکار میں مختلف حالات کے ساتھ تبدیلیاں واقع ہوتی رہیں۔ چنانچہ اسرارِ خودی پر تبصرہ کرتے ہوئے انگریزی رسالہ اتھینیم کے ایک مضمون نگار مسٹر فارسٹر نے یہی کہا تھا، کہ اقبال کا قدم کسی ایک راستے پر نہ رہے گا۔ اس اعتراض کی تائید میں عموماً یہ کہا جاتا ہے کہ اقبال ایک زمانے میں ’’ہندستانیت‘‘ کے جذبات سے سرشار تھے، جس سے متاثر ہوکر اُنھوں نے تصویر درد، ترانۂ ہندی، نیا شوالہ، ہندوستانی بچوں کا قومی گیت، جیسی قومیت اور وطنیت سے لبریز نظمیں لکھیں۔ اس کے بعد ان کے خیالات میں تبدیلی آئی، اور اُنھوں نے وطنی عقیدت سے بے زار ہوکر بلاد اسلامیہ، ترانۂ ملّی، خطاب بہ جوانانِ اسلام و شکوہ اور جواب شکوہ، وغیرہ ملّی اور خالص اسلامی نظمیں لکھیں۔ اس کے بعد سرمایہ و محنت کی کش مکش میں اشتراکی خیالات کا اظہار کیا۔ پھر جب اٹلی میں فاشزم سے متاثر ہوئے تو اس کی بھی تعریف کی۔ معترضوں کے خیال میں اقبال لحظہ بہ لحظہ بدلتے اور نئے نئے خیالات کا اظہار کرتے رہے۔ اس ضمن میں یہ لوگ اقبال کے خیالات میں کچھ تضاد بھی بتاتے ہیں، مثلاً فاشزم اور سوشلزم دونوں کی تعریف، فقر اور مادّی استیلا دونوں کی حمایت وغیرہ وغیرہ۔ بظاہر اس اعتراض کی صداقت سے انکار نہیں ہوسکتا، لیکن اس سے اتنا پتا تو ضرور چلتا ہے کہ اقبال کے سیاسی تفکر کی پختگی میں ان تجربات کا حصۂ کثیر بھی شامل ہے جو انھیں اطوارِ سیاستِ عالم کے عمیق مطالعے سے حاصل ہوا۔اس میں شبہہ نہیں، کہ اقبال ایک زمانے میں بعض وطنی تحریکات کے مؤید اور حامی تھے، لیکن ان کے یہ خیالات زیادہ تر ملکی فضا اور اہلِ مغرب کی کتابوں کے مطالعے پر موقوف تھے، جو انھیں ایسے مصنّفین سے حاصل ہوئے جو عموماً قومیت، جمہوریت اور وطنی عصبیّت کے معتقد تھے۔ سچ تو یہ ہے کہ تہذیبِ فرنگ کی تابانی کے سامنے بڑے بڑے خود آشنا اور خود شناسا بھی آنکھیں بند کرلیتے ہیں، اقبال بھی قدرے اس سے متاثر ہوئے ہوں گے، مگر علومِ مشرق کے گہرے مطالعے، اسلام اور مشرقی تمدن کی رُوح کے صحیح ادراک، یورپ کے ردِعمل اور تمدنِ مغربی کے قریبی تجزیے نے اس سے جلد بدظن کردیا: واے بر سادگیِ ما کہ فسونش خوردیم رہزنے بود ، کمیں کرد و رہِ آدم زد اس نکتے کی وضاحت کے لیے میں یہ عرض کروں گا، کہ اقبال نے مغرب کے کلچر اور تمدن کی اس بنا پر پیہم مخالفت کی ہے۔ اس میں عقلیت (Rationalism) اور مادیت کے عناصر اُصولی اور اساسی حیثیت رکھتے ہیں۔ بخلاف اس کے فقر و عشق کو زندگی کی اساس سمجھتے ہیں اور اسی ایک چیز کو کائنات کی ترقی و صحت کا باعث خیال کرتے ہیں۔ مغربی کلچر کے خلاف اقبال کو یہی شکایت ہے کہ اس کے تمام شعبے اسی مرضِ مادیت و عقلیت سے متاثر ہیں، جس کی وجہ سے یہ روز بروز کمزور ہورہاہے، مشرق خود فراموشی کے عالم میں جب انھی مہلک جراثیم سے متاثر ہوتا ہے تو اقبال کو رنج ہوتا ہے۔ ان کے دل میں بے قراری و اضطراری کے طوفان اُٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔یہ طوفان اشکوں اور نالوں کی صورت اُمڈ پڑتے ہیں۔ یہی نالے ہیں جو پیامِ مشرق، بانگِ درا، جاوید نامہ، زبورِ عجم، اور ارمغانِ حجاز کا مخصوص جامہ پہن کر باہر آتے ہیں اور دُنیا کو متاثر کرتے ہیں۔ ان سب تصانیف میں ہم اقبال کو مغرب کی مادہ پرستی اور رُوحانیت سے بیگانگی پر پیچ و تاب کھاتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ اقبال کی نظر مغرب کے سیاسی استیلا اور ملک گیری پر بھی رہتی ہے۔ لیکن اس سے کہیں زیادہ رنج انھیں مغرب کی رُوحانی علالتوں اور اس کی تہذیب میں عنصر کی کمی دیکھ کر ہوتا ہے اور یہ دیکھ کر کہ سادہ لوح مشرق بھی مغرب کے انھی رُوحانی امراض سے متاثر ہورہا ہے، اقبال اور بھی غم میں ڈوب جاتے ہیں۔ غرض اقبال کے پیغام کے مقاصد دوگانہ ہیں: اولاً: یہ کہ وہ مشرق کو مغرب کی رُوحانی بیماریوں سے بچائے۔ دوم: یہ کہ یورپ کو بھی اس مرضِ مہلک سے آگاہ اور خبردار کردے۔ یہاں جو کچھ بیان ہوا ہے، وہ پیامِ مشرق کے باب’’نقشِ فرنگ‘‘ سے اچھی طرح واضح ہوسکے گا جس کے کچھ اشعار درج ذیل ہیں: از من اے بادِ صبا گوی بداناے فرنگ عقل تا بال کشود است گرفتار تراست برق را ایں بہ جگر می زند آں رام کند عشق از عقلِ فسوں پیشہ جگر دار تراست چشم جز رنگِ گل و لالہ نہ بیند ورنہ آنچہ در پردۂ رنگ است پدیدار تراست عجب آں نیست کہ اعجاز مسیحا داری عجب ایں است کہ بیمار تو بیمار تراست دانش اندوختۂ دل ز کف انداختہ آہ زاں نقدِ گراں مایہ کہ درباختہ زبورِعجم میں فرماتے ہیں: برا نہ مان ذرا آزما کے دیکھ اسے فرنگ دل کی خرابی خرد کی معموری ضربِ کلیم کے یہ اشعار بھی قابلِ توجہ ہیں: صیادِ معانی کو یورپ سے ہے نومیدی دل کش فضا لیکن بے نافہ تمام آہو مردہ لادینی افکار سے افرنگ میں عشق عقل بے ربطیِ افکار سے مشرق میں غلام یہ اور اس قسم کے بہت سے اشعار اسی ایک نکتے کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ اقبال کو یورپین کلچر کی رُوح سے سخت نفرت تھی۔ یہ نفرت لینن، ایچ، جی ویلز، برنارڈشا، اور سپنگلر کی نفرت سے جداگانہ ہے کیونکہ یہ لوگ اس نسخۂ شفا کو حاصل نہیں کرسکے جو صرف اسلام کے پاس ہے۔ اقبال کے پاس ایک ایسا نظامِ فکر موجود ہے جو ہر لحاظ سے مغرب کے امراض کا علاج ثابت ہوسکتا ہے۔ کاش! مغرب اقبال کی آواز کو سُن سکے، لیکن اگر مزعومہ بلندی و تفاخر کا خیالِ باطل اہلِ مغرب کو ایک مشرقی کے سامنے دست ِسوال دراز کرنے سے مانع آئے تو پھر اپنے ہی ایک ہم وطن برگساں سے ان امراض اور پریشانیوں کا علاج دریافت کرلیں جو اقبال کی زبان میں یہ کہتا ہوا سنائی دے گا: نقشے کہ بستۂٖ ہمہ اوہام باطل است عقلے بہم رساں کہ ادب خوردۂ دل است -----۱۰؍مارچ ۱۹۷۵ء ئ……ئ……ء ۱۶ مغرب کے سیاسی فکر پر اقبال کی تنقید اقبال نے مغرب کے سیاسی فکر کے جن چند مباحث پر خصوصی طور سے تنقید کی ہے، وہ چار ہیں: (۱) دین اور سیاست (۲)جمہوریت (۳)نیشنلزم اور (۴)سوشلزم ان میں سے ہر ایک پر مختصراً بحث کی جائے گی۔ دین اور سیاست دین اور سیاست کی پرانی بحث میں اقبال لادین سیاست کی پرزور مخالفت کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک مارٹن لوتھر مسیحیت کا سب سے بڑا دشمن تھا جس نے مذہب اور حکومت کو دو مختلف اور مستقل وجود قرار دیا۔ ان کے خیال میں مذہب اور حکومت کی مثال جسم اور رُوح کی ہے جس کا ربط ِباہمی زندگی کے لیے ضروری ہے اور جن کا ایک دوسرے سے قطع تعلق موت ہے۔ اقبال کی نظر میں دین اور سیاست ایک ہی وحدت کے اجزاے لاینفک ہیں۔ چنانچہ ’’گلشن ِرازِ جدید‘‘ میں ہے: تن و جاں را دو تا گفتن کلام است تن و جاں را دو تا دیدن حرام است بدن را تا فرنگ از جاں جدا دید نگاہش ملک و دیں را ہم دو تا دید کلیسا سبحۂ پطرس شمارد کہ او با حاکمی کارے ندارد! خرد را با دلِ خود ہم سفر کن یکے بر ملّتِ ترکاں نظر کن بہ تقلیدِ فرنگ از خود رمیدند میانِ ملک و دیں ربطے ندیدند رموزِ بے خودی میں ہے: تا سیاست مسندِ مذہب گرفت ایں شجر در گلشنِ مغرب گرفت قصۂ دینِ مسیحائی فسرد شعلۂ شمعِ کلیسائی فسرد! بالِ جبریل میں دین و سیاست کے عنوان سے جو قطعہ لکھا ہے، اس میں دین و حکومت کے اس نازک اور ضروری تعلق کے متعلق نہایت ضروری اشارے ہیں: ہوئی دین و دولت میں جس دم جدائی ہوس کی امیری ، ہوس کی وزیری اسی کتاب کا ایک شعر ہے : جلالِ پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی ضربِ کلیم کے ایک قطعے میں ’لا دین سیاست‘ کو ’کنیزا ہرمن و دوں نہاد و مردہ ضمیر‘ کہا ہے اور مغربی سیاست کے عَلم برداروں کو ابلیسی نظام کا نمائندہ قرار دیا ہے۔ دورِ جدید کے ترکوں نے یورپ کی دیکھا دیکھی دین اور حکومت کو الگ کردیا۔ اقبال نے اسے غلط کہا اور کہا کہ یہ تدبیر صحیح نہیں، اس لیے کہ یہ اس نظریۂ حکومت کے خلاف ہے جس کی بنیاد عشقِ مصطفی ؐپر ہے۔ مصطفی کمال نے یورپ کی اس چیز کو جسے خود اہلِ یورپ اب پرانا سمجھتے ہیں،نیا سمجھ کر اختیار کرلیا ہے۔ حالانکہ مردِ مومن کو اپنی دُنیا خود پیدا کرنی چاہیے مگر یہ قوتِ عمل صرف عشق ہی کی کارفرمائیوں سے ممکن ہوسکتی ہے۔ جاوید نامہ میں لکھتے ہیں: ترک را آہنگِ نو در چنگ نیست تازہ اَش جز کہنۂ افرنگ نیست بالِ جبریل اور ضربِ کلیم میں علامہ مشرق کی اسلامی اقوام سے اسی لیے مایوسی کا اظہار کرتے ہیں کہ ان کے راہ نما مشرقی رُوح کا سراغ نہیں لگا سکے، چنانچہ ضربِ کلیم میں فرماتے ہیں: مری نوا سے گریبانِ لالہ چاک ہوا نسیمِ صبح چمن کی تلاش میں ہے ابھی نہ مصطفی نہ رضا شاہ میں نمود اس کی کہ رُوحِ شرق بدن کی تلاش میں ہے ابھی مری خودی بھی سزا کی ہے مستحق لیکن زمانہ دار و رسن کی تلاش میں ہے ابھی اس سلسلے میں یاد رہے کہ اقبال نے اپنے خطبات میں مسئلۂ خلافت کے متعلق ترکوں کے اجتہاد کو حق بجانب قرار دیا ہے۔ اگرچہ اس بیان سے یہ واضح نہیں ہوسکاکہ ترکوں کے اس اجتہاد کی محرک رُوحِ اسلامی ہے یا قبائلی یا نسلی حِس جو اسلام کی کمزوری کی وجہ سے ترکی میں بہت ترقی کرچکی ہے۔ ارمغان حجاز میں ترکوں کے متعلق لکھتے ہیں : بملکِ خویش عثمانی امیر است دلش آگاہ و چشمِ او بصیر است پھر بھی عمومی خیال یہ ہے کہ ترکوں کا تجدد بھی تقلید غیر سے کسی طرح کم نہیں، کیونکہ وہ دین و سیاست کی تفریق کا قائل ہے۔ جمہوریت اقبال یورپ کے جمہوری نظام کے متعلق حسنِ ظن نہیں رکھتے۔ ان کا خیال ہے کہ یہ جمہوریت بھی استبداد، تسلط اور غلبۂ بے جا کی ایک نئی شکل ہے۔ اُصولی طور پر اقبال،حکومت میں عوام کی مداخلت کے قائل معلوم نہیں ہوتے، اس لیے کہ عوام میں سے ہر فرد کو قدرت نے مصالحِحکومت کے سمجھنے کی توفیق نہیں دی۔ آپ نے خلافتِ اسلامیہ کے موضوع پر جو رسالہ لکھا ہے، اس میں کسی حد تک انتخاب کے طریقے کی تعریف کی تھی، لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بعد میں آہستہ آہستہ اس مسئلے کے متعلق ان کے خیالات میں تبدیلی پیدا ہوتی گئی۔ وہ کسی عالمی نظام کی کامیابی کے لیے ایک کامل طور پر حساس اور خودی سے سرشار فرد کے قائل ہیں۔اور نیطشے کی طرح باشعور اور طاقت ور شخص یا فرد کی حکومت کو جمہوریت سے زیادہ کامیاب اور مناسب خیال کرتے ہیں، لیکن دونوں میں فرق یہ ہے کہ نیطشے کا راہ نما مادّی طاقت کا مجسمہ ہے اور اقبال کا امام مادّی قوتوں کے ساتھ ساتھ رُوحانی قوتوں کا بھی مجموعہ ہے : متاع معنیِ بیگانہ از دوں فطرتاں جوئی؟ ز موراں شوخیِ طبعِ سلیمانے نمی آید گریز از طرز جمہوری غلامِ پختہ کارے شو کہ از مغزِ دو صد خر فکرِ انسانے نمی آید روسو ایسی جمہوریت کا قائل ہے، جس میں حریت، اُخوت اور مساوات بطور اصل الاصول ہوں لیکن جمہوریت کے اصل نقائص کا اسے بھی پورا پورا احساس تھا، چنانچہ اس کا قول ہے کہ:ایسی طرز حکومت تو فرشتوں کی دُنیا کے لیے مناسب معلوم ہوتی ہے ،ہم انسان تو اس کے قابل نظر نہیں آتے۔ اب یورپ میں بھی جمہوریت کے خلاف زبردست راے پیدا ہوگئی ہے اور بیسیوں کتابیں اس کی خرابیوں کو ظاہر کرنے کے لیے لکھی جارہی ہیں۔ اور اس وقت دُنیا میں ]جمہوریت[کسی نہ کسی طور پر شخصی آمریت اور پارٹی کی آمریت کی طرف جارہی ہے۔ اقبال کو سب سے بڑی شکایت جمہوری طرز حکومت سے یہ ہے کہ اس میں ’’قابلیت‘‘ نہیں ’’مقبولیت‘‘معیار ہے۔ حالانکہ ہوسکتا ہے کہ ایک شخص مقبول تو ہو مگر قابل نہ ہو۔اس پر اقبال کا دوسرا اعتراض یہ ہے کہ جمہوریت گروہ بندی اور پارٹیوں اور سیاسی فرقوں کو ترقی دیتی ہے۔ ہیرلڈلاسکی اگرچہ جمہوریت کی خوبیوں کا بے حد معترف ہے، لیکن اسے بھی جمہوریت میں سب سے زیادہ اسی بات کا خطرہ نظر آتا ہے کہ حکومت میں عوام کی مداخلت اور حقِ راے دہی کی وسعت پارٹیوں کی بے انتہا کثرت کا باعث ہورہی ہے۔جمہور کی آزادی میں لاکھ برکتیں سہی، لیکن اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا، کہ جمہور کا یہ غلبہ عام اور عوام کی مطلق العنانی کسی نظام کو بھی پائدار اور مستحکم نہ ہونے دے گی۔ اور آئے دن کے انقلابات اور سریع الوقوع تغیرات قومی تعمیر و ترقی میں رکاوٹ پیدا کریں گے۔ ’’گلشنِ رازِ جدید‘‘ میں اقبال نے انھی نکات کی جانب اشارہ کیا ہے : فرنگ آئین جمہوری نہادست رسن از گردنِ دیوے کشادست چو رہزن کاروانے در تگ و تاز شکم ہا بہر نانے در تگ و تاز! گروہے را گروہے در کمیں است خدائش یار اگر کارش چنیں است ز من دہ اہلِ مغرب را پیامے! کہ جمہور است تیغِ بے نیامے نہ ماند در غلافِ خود زمانے برد جانِ خود و جانِ جہانے ان اشعار کے ساتھ ’خضر راہ‘ کے یہ اشعار بھی زیر نظر رہیں : ہے وہی سازِ کہن مغرب کا جمہوری نظام جس کے پردے میں نہیں غیر از نواے قیصری دیوِ استبداد جمہوری قبا میں پاے کوب تو سمجھتا ہے یہ آزادی کی ہے نیلم پری مجلسِ آئین و اصلاح و رعایات و حقوق طبِ مغرب میں مزے میٹھے، اثر خواب آوری گرمیِ گفتار اعضاے مجالس الاماں یہ بھی اک سرمایہ داروں کی ہے جنگ زرگری اس سرابِ رنگ و بو کو گلستاں سمجھا ہے تو آہ، اے ناداں قفس کو آشیاں سمجھا ہے تو ارمغان حجازمیں ’’ابلیس کی مجلس شوریٰ‘‘ کے عنوان سے جو نظم لکھی ہے،اس میں مغرب کے جمہوری نظام کو ملوکیت اور استحصال کا ایک بہانہ قرار دیا ہے۔ یہ وہ طرز حکومت ہے جس کا چہرہ روشن، اور باطن چنگیز سے تاریک تر ہے۔ اقبال اپنی آخری کتابوں میں جمہوریت کی خرابیوں کے پہلے سے بھی زیادہ قائل نظر آتے ہیں۔ کیونکہ ان کے نزدیک اس میں وہی پرانی ملوکیت، سوداگری اور استبداد موجود ہے۔قیصر ولیم اور لینن کے مقالے میں یہ نکتہ اُٹھایا ہے کہ انسانی طبیعت صرف قاہر اور جابر شخصیتوں کے سامنے جھکنے پر مجبور ہے۔ مطلق العنان حکومتوں میں جو خرابیاں ہیں، وہی جمہوری اداروں میں بھی موجود ہیں: گناہِ عشوہ نازِ بتاں چیست طواف اندر سرشتِ برہمن ہست اگر تاجِ کئی جمہور پوشد ہماں ہنگامہ ہا در انجمن ہست نماند نازِ شیریں بے خریدار اگر خسرو نباشد کوہکن ہست -----۱۷؍مارچ ۱۹۷۵ء ئ……ئ……ء ۱۷ مغرب کے سیاسی فکر پر اقبال کی تنقید ۱-قومیت ۲-سوشلزم ۳- سرمایہ داری سابقہ مقالے میں مغربی جمہوریت اور مادہ پرستانہ سیاست پر اظہارِ خیال کیا گیا تھا، اب سیاستِ فرنگ کے دوسرے تصورات زیر بحث لائے جارہے ہیں۔ قومیّت کا تصور قومیت یا نیشنلزم کے متعلق اقبال کے عقائد اس قدر واضح اور صاف ہیں کہ ان پر طویل تبصرہ کرنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ اقبال نیشنلزم کے ہر اس تصور کے مخالف ہیں، جن کا معیار وطن، رنگ، نسل اور زبان ہو۔ اقبال کے نزدیک اسلام اور نسلی امتیاز باہم متناقض ہیں۔ اقبال ایک مضمون میں لکھتے ہیں: جب میں نے یہ محسوس کیا کہ قومیت کا تخیل جو نسل و وطن کے امتیازات پر مبنی ہے، دنیاے اسلام پر بھی حاوی ہوتا جاتا ہے اور جب مجھے یہ نظر آیاکہ مسلمان اپنے وطن کی عمومیت اور عالمگیری کو چھوڑ کر وطنیت اور قومیت کے پھندے میں پھنستے جاتے ہیں تو بحیثیت ایک مسلمان اور محبِ نوع کے،میں نے اپنا فرض سمجھا کہ میں ارتقاے انسانیت میں انھیں ان کے اصلی فرض کی طرف توجہ دلاؤں۔ اس سے انکار نہیں کہ اجتماعی زندگی کے ارتقا اور نشوونما میں قبیلے اور قومی نظامات کا وجود بھی ایک عارضی حیثیت رکھتا ہے۔ اور اگر ان کی اتنی ہی کائنات تسلیم کی جائے تو میں ان کا مخالف نہیں، لیکن جب انھیں انتہائی منزل قرار دیا جائے تو مجھے ان کے بدترین لعنت قرار دینے میں مطلق تامل نہیں۔ اس بحث کو زیادہ طول دیے بغیر میں چاہتا ہوں کہ اقبال کے ان سیکڑوں اشعار کی طرف توجہ دلادوں، جن میں اقبال نے نیشنلزم کی مخالفت کی ہے اور مسلمانوں کو جغرافیائی اور دوسری غیر فطری قیود سے احتراز کرنے کی تلقین کی ہے۔ ’’وطنیت‘‘ کے عنوان سے ایک نظم میں لکھتے ہیں : اقوامِ جہاں میں ہے رقابت تو اسی سے تسخیر ہے مقصودِ تجارت تو اسی سے خالی ہے صداقت سے سیاست تو اسی سے کمزور کا گھر ہوتا ہے غارت تو اسی سے اقوام میں مخلوقِ خدا بٹتی ہے اس سے قومیتِ اسلام کی جڑ کٹتی ہے اس سے اس قسم کے اشعار کو ریمزے میور کی کتاب کے ساتھ ملاکر پڑھا جائے تو اقبال کے خیالات کی صداقت کا مزید یقین ہوجائے گا۔ جو لوگ اقبال کے نقطۂ نظر کے مطابق عالمگیر برادری اور وسیع انسانی اُخوت کے تخیل کو سمجھتے ہیں، وہ نیشنلزم کی شدید مخالفت کے بارے میں اقبال کو ضرور حق بجانب سمجھیں گے۔ کیونکہ یہ وہ تصور ہے جس سے خود یورپ بھی تنگ آچکا ہے، اور اس جماعت تراشی سے بھاگ کر جمعیت الاقوام اور اب یواین او، یونیسکو وغیرہ کے تصور میں پناہ ڈھونڈ رہا ہے۔ مگر اقبال جمعیتِ اقوام کے خلوص اور حُسنِ نیت کے بارے میں بھی متشکک تھے۔ وہ اس اجتماعی نظام کو’’کفن چوروں کی انجمن‘‘کا خطاب دیتے ہیں۔ان کے نزدیک اس ’’داشتۂ پیرکِ افرنگ‘‘ کا منتہا بھی جماعتی شوقِ استیلا ہے۔ یہ جمعیتِ اقوامِ غالب ہے نہ کہ جمعیتِ آدم۔جمعیتِ اقوام کے متعلق اقبال کے خدشات درست نکلے۔یہ اپنی عارضی زندگی میں کمزوروں کی حفاظت نہ کرسکی، یعنی تخفیف اسلحہ کی کوشش بقول ریمزے میور:ایٹمی اسلحہ اندوزی پر ختم ہوئی، جس کا نتیجہ دوسری جنگ عظیم کی صورت میں نکلا۔ آخر لیگ انھی امراض کی بدولت ختم ہوگئی جن کی طرف اقبال نے اشارہ کیا تھا اور ضربِ کلیم کی پیش گوئی تادمِ تحریر آخر پوری ہوکر رہی: بیچاری کئی روز سے دم توڑ رہی ہے! ڈر ہے خبرِ بد نہ مرے منہ سے نکل جائے تقدیر تو مبرم نظر آتی ہے و لیکن پیران کلیسا کی دُعا ہے کہ یہ ٹل جائے اب یو این او کا وہی رنگ وہی انداز ہے۔ یہ بھی جمعیتِ اقوامِ غالب ہی ہے اور شاید اس کا حشر بھی وہی ہو، جو پرانی لیگ کا ہوا تھا۔ اقبال نے نیشنلزم کی مخالفت کی۔ اس سے نتیجہ نہ نکالنا چاہیے، کہ وہ آزادیِ وطن کے مخالف تھے۔ اقبال نیشنلزم کی مخالفت اس لیے نہیں کرتے کہ وہ آزادیِ وطن کے مخالف یا غلامی کو محبوب سمجھتے ہیں بلکہ اس کی بعض محرک ایسی باتیں ہیں، جن کے متعلق اجمالی طور پر آئیڈیل سوسائٹی کے ضمن میں بحث ہوچکی ہے۔ حیرت کا مقام ہے کہ جس نام ور نے عمر بھر افراد اور ملتوں کو خودی کا سبق پڑھایا، جس نے ’’بندگی نامہ‘‘ لکھ کر یہ ثابت کیا کہ بندگی اور زندگی دو مختلف چیزیں ہیں، جس نے انسانوں کو عام حریت، عام اُخوت، عام انصاف اور عام رواداری کا پیغام دیا،جس نے پس چہ باید کرد اے اقوام شرق، بالِ جبریل اور ضربِ کلیم میں ہندستان کی غلامی اور ہندستانیوں کے افتراق پر آنسو بہائے، اس کے متعلق یہ خیال پھیل جائے کہ اسے غلامی سے لگاؤ تھا، یہ اقبال کے ساتھ سخت ناانصافی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اقبال ’’یونی ورسلسٹ‘‘ (آفاقیت دوست) ہیں۔ ہر وہ چیز جو ان کے اس خاص اجتماعی نصب العین سے ٹکراتی ہے، اس کی وہ مخالفت کرتے ہیں۔ اسی اجتماعیت کی اس تبلیغ کو بعض معترض ’’پین اسلامزم‘‘ کے نام سے موسوم کرتے ہیں حالانکہ اقبال صرف مسلم اقوام کے نہیں بلکہ تمام اقوام کے اجتماع کے قائل ہیں۔ چنانچہ پس چہ باید کرد اے اقوام شرق میں تمام اہلِ مشرق کو تطہیرِ فکر کی دعوت دی ہے اور مہرِعالم تاب کو خطاب کرتے ہوئے یہ خواہش ظاہر کی ہے: فکرِ شرق آزاد گردد از فرنگ از سرودِ من بگیرد آب و رنگ اقبال کے نزدیک مشرق میں جمعیتِ اقوام کی کامیابی ممکن نہیں ہے۔ کیونکہ مشرق کا مزاج سوداگری اور نفع پرستی سے نفور ہے۔یہ درست ہے کہ اقبال جابجا مسلمان اقوام کو اتحاد کی دعوت دیتے ہیں، اور وطن و نسل کے امتیاز کو مٹانے کی کوشش کرتے ہیں، جس کی وجہ صرف یہ ہے کہ اسلام کی بنیادی تعلیم کے زیرِ اثر صرف مسلمان اقوام ہی اس خیال کو بآسانی سمجھ سکتی ہیں۔ باقی اقوام نیشنلزم سے اس قدر متاثر ہیں کہ وہ اس یونیورسل اپیل کو جنت الحمقا سمجھیں گی یا اسے اپنے تسلط کے منافی سمجھ کر ٹھکرادیں گی۔ سوشلزم اور سرمایہ اس موضوع پر اقبال نے بڑے واضح الفاظ میں اظہارِ خیال کیا ہے۔ اقبال مزدور کے حامی ہیں۔ سرمائے کی مضرتوں اور ناانصافیوں پر کئی نظموں میں تبصرہ کیا ہے۔ چنانچہ ’’قسمت نامہ سرمایہ دار و مزدور‘‘ اور’’ خضرِ راہ‘‘ میں بڑے بلیغ پیراے میں مزدور کی محکومی اور مجبوری کی تصویر کھینچی ہے۔ اقبال جس طرح اپنے باقی نظریات میں ایک مستقل راہ اور راے رکھتے ہیں۔اسی طرح وہ اس معاملے میں بھی اپنے خاص نصب العین کو مدنظر رکھتے ہیں اس کی واضح ترین صورت ہمیں جاوید نامہ میں ملتی ہے جہاں جمال الدین افغانی کی زبانی یہ بتلایا گیا ہے کہ وہ قیصریت کی شکست، سود کی مذمت، الارض لِلّٰہ اور انسانی برادری کی مساوات وغیرہ میں مسلمان اور روسی متحد الخیال ہیں، لیکن روسی اشتراکی نظام اور اسلامی نظام میں بڑا فرق یہ ہے، کہ روس کے تصور کی بنیاد ’شکم‘ پر ہے اور رُوح کی ترقی کے بجاے اس کا منتہائے نظر جسم کی پرورش ہے۔ روس کی تہذیب مدح کی مستحق اس لیے نہیں کہ اس میں ’ذکرِ حق‘ کی کمی ہے۔ اس لیے اس سے بھی احتراز لازم ہے۔ چنانچہ کارل مارکس کے متعلق اظہار راے کرتے ہوئے جاوید نامہ میں لکھا ہے : صاحبِ سرمایہ از نسلِ خلیل یعنی آں پیغمبرِ بے جبرئیل زاں کہ حق در باطلِ او مضمر است قلبِ او مومن دماغش کافر است غربیاں گم کردہ اند افلاک را در شکم جویند جانِ پاک را رنگ و بو از تن نگیرد جانِ پاک جز بہ تن کارے ندارد اشتراک دینِ آں پیغمبرِ ناحق شناس بر مساواتِ شکم دارد اساس تا اُخوت را مقام اندر دل است بیخِ او در دل نہ در آب و گل است اقبال سوشلزم کو وسیع تر انسانی برادری کی تعمیر اور ترکیب کے سلسلے میں ناکافی اور ناقص سمجھتے ہیں۔’’ابلیس کی مجلس شوریٰ‘‘ میں ثابت کیا ہے کہ یورپ سوشلزم پر غلبہ پانے کی اہلیت نہیں رکھتا لیکن اسلام اس فتنے کا مقابلہ کرسکتا ہے۔ اقبال کے خیالات لینن کے متعلق برے نہیں، کیونکہ لینن نے تہذیبِ فرنگ کو چیلنج کیا ہے۔ وہ اشتراکی نظام کو سرمایہ داری کا رد عمل سمجھتے ہیں لیکن انھیں اعتراض ہے کہ یہ ساری تحریک ’لا‘ پر مبنی ہے ’اِلَّا ‘کی منزل تک نہیں پہنچتی۔ اقبال نے اپنے سیاسی تصورات کا کوئی مربوط نظام قائم نہیں کیا، اس لیے کہ ان کا اولین مقصد احیاے احساس تھا۔ اس غرض کے لیے اُنھوں نے سیاسی نظامات پر تنقید کی ہے اور اس کے ضمن میں اپنے تصور کے سیاسی نظام کے خارجی خط کھینچے ہیں۔ جزئیات اور تفصیلات کو اپنے دائرے سے خارج سمجھ کر عموماً نظر انداز کردیا ہے۔اس کے باوصف مجموعی نظر ڈالنے سے ان کے یہاں سیاست کا ایک قابلِ فہم نظام سامنے آجاتا ہے۔ اقبال نے ملک کی عملی سیاست میں دلچسپی تو لی ہے اور کبھی کبھی کھل کر بھی سامنے آئے ہیں، لیکن اس میں خارجی طور پر زیادہ سرگرم نہیں رہے۔ وجہ یہ ہے کہ وہ مفکر تھے اور ان کا عمل ان کی فکری کاوش تھی اور ان کی طبیعت عملی سیاست سے مانوس نہ تھی۔ چنانچہ اس حقیقت کا یوں اعلان کیا ہے: ہزار شکر طبیعت ہے ریزہ کار مری ہزار شکر نہیں ہے دماغ فتنہ تراش یہ عقدہاے سیاست تجھے مبارک ہوں کہ فیض عشق سے ناخن مرا ہے سینہ خراش ہواے بزم سلاطیں دلیلِ مردہ دلی کیا ہے حافظ رنگیں نوا نے راز یہ فاش ’’گرت ہواست کہ باخضر ہم نشیں باشی نہاں زچشمِ سکندر چو آبِ حیواں باش‘‘ مگر اس علیحدگی، تنہائی اور خلوت نشینی کے باوجود اقبال نے سیاسی تحریکوں کو بہت متاثر کیا ہے۔ جس طرح روسو اور والٹیر فرانس میں ایک زبردست انقلاب کے پیش رَو ثابت ہوئے، اسی طرح اقبال بھی ایشیا میں ایک عظیم الشان ذہنی انقلاب کے پیامبر ثابت ہوں گے،اور پاکستان ایک اسلامی وطن کی تخلیق تو اب ایک حقیقتِ ثابتہ بن چکی ہے۔ آئندہ کے انقلاب کے بارے میں فرماتے ہیں: انقلابے کہ نگنجد بہ ضمیرِ افلاک بینم و ہیچ ندانم کہ چساں می بینم خرم آں کس کہ دریں گرد سوارے بیند جوہرِ نغمہ ز لرزیدنِ تارے بیند -----۲۴؍مارچ۱۹۷۵ء ئ……ئ……ء ۱۸ پنجاب یونی ورسٹی میں علامہ اقبال کے چند عقیدت مند میں سلسلۂ گفتگو کو توڑتے ہوئے آج علامہ اقبال کے چند عقیدت مندوں کا تذکرہ کرتا ہوں جو حضرت علامہ کے فیض سے تحریک پاکر، پنجاب یونی ورسٹی میں علم و تحقیق کے ایک اہم دبستان کے بانی ہوئے۔یہ حضرات تھے: پروفیسر ڈاکٹر مولوی محمد شفیع، پروفیسر ڈاکٹر حافظ محمد اقبال اور حافظ محمود خاں شیرانی۔ اُنھوں نے اپنے دور (۱۹۲۰ء تا ۱۹۴۰ئ) میں مسلم تشخص کی بیداری میں حصہ لیا۔ چند دن ہوئے، میں نے ان کے متعلق بزمِ شرق شناسی کے زیر اہتمام پاکستان نیشنل سنٹر میں ایک مقالہ پڑھا تھا۔ میں اسے نذرِ قارئین کرام کررہا ہوںکیونکہ ان بزرگوں کے کارنامے بھی دراصل فیضِ اقبال ہی کا ثمر ہے۔ بزمِ شرق شناسی میں، میں نے عرض کیا کہ آج کی تقریب کا اہتمام استاد بزرگ ڈاکٹر مولوی محمد شفیع کی یاد میں کیا گیا ہے جو ۱۹۶۳ء میں ۱۳ اور ۱۴ مارچ کی درمیانی شب میں فوت ہوئے اور ۱۴مارچ کی شام کو سپرد خاک ہوئے۔ ان کے فرزند، شاگرد اور دوست ان کے بارے میں مضمون پڑھیں گے لیکن یہ حقیقت ذہن نشین کرانی ضروری ہے کہ استاد مرحوم کو فردِ واحد سمجھنا غلط ہوگا، وہ ایک انجمن بھی تھے، اور میرِ انجمن بھی۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ ان کے زیرِ اثر اہلِ علم و تحقیق کا ایک ایسا گروہ جمع ہوگیا تھا، جسے شرقیات کا دبستانِ لاہور کَہ دیا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ ایشیاٹک سوسائٹی بنگال کی سرپرستی میں کلکتہ میںاور علامہ شبلی نعمانی کے زیرِ اثر اعظم گڑھ میں مشرقی و اسلامی تحقیق کی ایک خاص روایت ملک میں موجود تھی۔ ۱۹۱۸ء کے بعد جدید اندازِ تحقیق و تدوین کی ایک نئی روایت لاہور میں پروفیسر محمد شفیع نے پیدا کی، جس میں ان کے رفقا پروفیسر حافظ ڈاکٹر محمد اقبال (پروفیسر فارسی پنجاب یونی ورسٹی) اور پروفیسر حافظ محمو دخاں شیرانی بھی شریک اور سرگرم ہوئے۔ ان تینوں بزرگوں کی مثال اور تحریک سے لاہور میں محققین کی ایک جماعت پیدا ہوگئی جس میں پروفیسر عبدالعزیز بار ایٹ لا (مصنف: مغلوں کا منصب داری نظام)، ڈاکٹر عبداللہ چغتائی (فنونِ اسلامی کا محقق)، خان بہادر مولوی ظفر حسن (ماہرِ مسکوکات)، پروفیسر سراج الدین آذر (مشہور استاد، ماہرِ موسیقی اور قلمی کتابوں کا جمع کرنے والا)، پروفیسر فضل الدین قریشی (البیرونی کی کتابوں کا محقق)،ڈاکٹر وحید مرزا (امیر خسرو کی سوانح و تصانیف کا محقق)، ڈاکٹر محمد ناظم (محمود غزنوی کا سوانح نگار)،قاضی فضل حق، ڈاکٹر صدر الدین،پروفیسر میترا…… اور بزرگوں کے شاگردوں میں ڈاکٹر برق، ڈاکٹر محمد باقر، ڈاکٹر شیخ عنایت اللہ صوفی تبسم، غلام ربانی عزیز، پروفیسر محمد ابراہیم ڈار، ڈاکٹر غلام یٰسین خاں نیازی وغیرہ نے اپنے اپنے انداز میں تحقیقی سرگرمیوں کو فروغ دیا۔ آج کی تقریب میں ضمنی طور پر، مذکورہ بالا محققین میں سے بعض اکابر پر بھی مختصر تقریریں ہوں گی، تاکہ ڈاکٹر مولوی محمد شفیع کو اپنے رفقا کے حلقے میں دکھایا جائے۔ ہمارا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ شرقیات کے دبستان لاہور کے بارے میں کچھ مواد جمع ہوجائے۔اس کے علاوہ، اس عظیم دبستان کی عظیم علمی تحریک کی صحیح قدر و قیمت سے موجودہ علمی دُنیا کو آگاہ کیا جائے اور آج جبکہ قدریں بھی بدل چکی ہیں اور روایات کی یادیں بھی ختم ہورہی ہیں، لاہور کی تاریخ کا یہ باب بھی رقم ہو ہی جائے تو اچھا ہے۔ میں لاہور کے جس دور کا ذکر کررہا ہوں،وہ مسلم تشخص کی بیداری کا دور تھا۔ اس کی صحیح تصویر دیکھنے کے لیے مقابلے کے دو منظر دیکھیے: ایک منظر سے انگریزوں اور ہندوؤں کے تسلط کا تصور دلانا مقصود ہے، دوسرے سے مسلم قومیت کی بیداری کا۔ یہ پنجاب یونی ورسٹی کا شعبۂ تاریخ ہے۔ اس میں تحقیق کی ساری توجہ سکھوں کی تاریخ پر ہے۔ حکمتِ عملی یہ ہے کہ ساری تاریخ کو چھوڑ کر سکھوں کے زمانے کی کہانی بتفصیل مرتب ہو، گورنمنٹ کالج کے پروفیسر سیتارام کوہلی ظفر نامہ رنجیت سنگھ ایڈٹ کررہے ہیں۔ سارے ریسرچ سکالر سکھی دور کی تاریخ پر لگے ہوئے ہیں۔یونی ورسٹی لائبریری میں جو مآخذ جمع کیے جارہے ہیں،وہ بھی اس دور سے متعلق ہیں۔ گویا مسلم شعور کو دبایا جارہا ہے۔ آثارِ قدیمہ کا مطالعہ و اکتشاف بھی مسلمانوں کے عہد سے غافل ہے۔ عجائب گھروں میں مسکوکات اور دوسرے طوائف و ظرائف بھی اس دائرے سے خارج ہیں۔ اورینٹل کانفرنسیں ہسٹاریکل ریکارڈ کمیشن کے اجتماعات ہوتے ہیں، ان میں اسلامی تاریخ و تہذیب و ادب کو، صرف پچھلی صفوں میں معمولی نشست ملتی ہے۔ پھر یکایک مسلم تشخص بیدار ہوتا ہے۔ بیک وقت دو دروازے کھل جاتے ہیں: ایک طرف بخاری و تاثیر اور نیاز مندانِ لاہور اُردو ادب کو نئی نظر عطا کرتے ہیں، دوسری طرف شفیع، اقبال اور شیرانی، مسلمانوں کے کلاسیکی علوم و فنون کے چراغ روشن کرنے لگتے ہیں: گلستاں کے تھے دونوں پلّے بھرے (میر) بہار اک طرف ، اک طرف ابر تھا (میرؔ) اورینٹل کالج میگزین جاری ہوتا ہے۔ تحقیق کے نئے زاویے اُبھرنے لگتے ہیں۔ مسلمانوں کی تاریخ کے متن شائع ہوتے ہیں۔ تنقید شعر العجم اور پنجاب میں اُردو جیسی کتابیں تہلکہ مچا دیتی ہیں۔ قلمی کتابوں کی جستجو مشرب کی حیثیت اختیار کرلیتی ہے۔ فنِ تصویر کا مسلم دور اُبھرنے لگتا ہے۔ خطاطی و مصوری کے محاسن اور معیار تصور ہونے لگتے ہیں۔فرامین جمع ہورہے ۔ وصلیان اکٹھی کی جارہی ہیں۔مرقعے ڈھونڈھے جارہے ہیں۔ ملک کے طول و عرض میں گم شدہ عمارات کی تلاش کا آغاز ہوجاتا ہے۔ عمارتوں کے کتبے دیکھے جارہے ہیں۔ یہ بہادر شاہ ہیں جو نوادر کی دکان پر بیٹھے ہیں۔یہ شاتی مشتاق حسین ہیں جو مخطوطات و فرامین کا ذخیرہ لیے بیٹھے ہیں۔ یہ دین محمد خوش نویس ہیں۔یہ عبدالمجید پرویں رقم ہیں۔یہ سنگی کتبہ ہے جو عہد غلاماں سے تعلق رکھتا ہے۔شیرانی اسے کہیں سے لائے ہیں اور شاگردوں کو دکھا رہے ہیں کہ یہ اسلامک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ ہے۔ یہ عبدالقیوم اور خواجہ عبدالوحید ہیں۔ یہ ادارہ معارف اسلامیہ ہے جو ہندو کانفرنسوں کی بدسلوکی کے ردِعمل کے طور پر قائم ہوا ہے۔ یہ حبیب الرحمن شروانی صدریارجنگ ہیں، یہ سیّد سلیمان ہیں، یہ سر فضل حسین ہیں، یہ سر عبدالقادر ہیں، یہ خلیفہ شجاع الدین ہیں، یہ عبداللہ یوسف علی ہیں جو اس ادارے کی کانفرنسوں کی صدارت کررہے ہیں۔یہ شاداں بلگرامی ہیں، یہ نورالحق ہیں، یہ مولانا احمد علی لاہوری ہیں، یہ مولانا رُوحی ہیں، یہ سیّد عبدالقادر، یہ ایم اے غنی ہیں اور یہ سیّد عبداللہ ہے جو یونی ورسٹی کی عربی فارسی سوسائٹی کے جلسے کرارہا ہے۔ادھر پروفیسر شفیع، پروفیسر اقبال اور پروفیسر شیرانی ہیں جو علمی اور تحقیقی سرگرمیوں کی تنظیم میں مصروف ہیں،اور ان سب کے سلطان یہ علامہ اقبال ہیں، جن سے مسلم تشخص کی ہر تحریک کو راہ نمائی ملتی ہے اور اس دور میں ایک مجذوب حفظِ الرحمن ایسا بھی نکلتا ہے جو اُردو میں انسائی کلوپیڈیا برٹانیکا کی طرز کا ایک انسائی کلوپیڈیا تن تنہا مرتب کرنے پر تُل جاتا ہے، اور بالآخر اس کے مسودات سے اپنے گھر واقع پیسہ اخبار میں الماریوں کی الماریاں بھر دیتا ہے، یہ اولوالعزمی، یہ جاں فشانی، یہ محنت کسی بڑے جذبے کے بغیر نہیں ہوسکتی۔ آج ہم تشخص کی جستجو اس طرح کرتے ہیں، جیسے کوئی آسمان سے ٹپک پڑا ہو اور اسے اپنی شانِ نزول کا پتا ہی نہ ہو۔ پورے ایک ہزار سال کی تاریخ کے بعد کہ اس کا ایک ایک واقعہ زندہ و محفوظ ہے۔ یہ گم شدگی، یہ گم گشتگی بلکہ جہالت اس پر گریہ کرنے کو جی چاہتا ہے۔ بہرحال جسے اپنے تشخص کی قریبی تاریخ دیکھنی ہو، وہ کم از کم ۱۹۲۰ء سے ۱۹۴۰ء کے اس عہد ہی کو دیکھ لے، جس کے اندر سے تحریکِ پاکستان نمودار اور تشخص کا محسوس نشان بن گئی۔ غرض یہ پرانا لاہور تھا جس کی تاریخ ابھی رقم ہونی ہے۔ بزمِ شرق شناسی کی تمنا ہے کہ استاد بزرگ مولوی محمد شفیع اور ان کے رفقا اور ان کے زمانے کے اہلِ کمال کی یاد میں تقریبوں کے ذریعے آہستہ آہستہ یہ سرگذشت مرتب ہوتی رہے۔آج کے اجلاس سے اس کی ابتدا ہوتی ہے۔ آگے توفیق خداے کارساز کے ہاتھ میں ہے۔ -----۳۱؍مارچ ۱۹۷۵ء ئ……ئ……ء ۱۹ اقبال پر ایک کتاب حمید احمد خاں کا مجموعۂ مضامین اقبال کی شخصیت اور شاعری میرے سامنے ہے، جو گیارہ مقالات پر مشتمل ہے۔ ان مقالات کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ایک حصے میں حضرت علامہ کے ملفوظات اور یادیں ہیں، دوسرا حصہ علامہ کے فکر و فن سے متعلق ہے۔ اس کتاب پر چار زاویوں سے نظر ڈالی جاسکتی ہے۔اقبال کے ساتھ مصنف کا شخصی رابطہ اقبال کی ملفوظات، اقبال کی شخصیت کے بارے میں مزید معلومات، اقبال کے فکر و فن پر ایک بالغ نظر نقاد کی تنقید، اور ان سب اُمور کے سلسلے میں خود مصنف کا اُسلوبِ بیان۔ ظاہر ہے کہ اس مجلس میں ان سب عنوانوں پر گفتگو ممکن نہیں، لہٰذا میں ان مضامین کے حوالے سے حمید احمد خاں کے فن شخصیت نگاری، ان کی ملفوظات نگاری اور افکارِ اقبال سے متعلق ان کے تنقیدی خیالات پر کچھ اظہارِ خیال کروں گا۔ شخصیت نگاری نہایت ہی نازک فن ہے۔ اس میں بہک جانے کا خدشہ ہر وقت موجود رہتا ہے۔ کم درجے کا شخصیت نگار مبالغہ کرے، تو اپنے موضوع کو سیف بن ذی ہزن بناسکتا ہے اور تنزل کی طرف مائل ہو تو بھرپور شخصیت کو کارٹون یا تجریدی تصویر بنادے۔ پھر لفظی تصویریں بھی تین طرح کی ہوتی ہیں: تصور، تاثر اور تصویر۔ یہ ویسا ہی ہے جیسا کہ خطوط کی مصوری میں ایچنگ، ڈرائنگ یا آب ورنگ کی تصویر بنائی جاتی ہے۔ حمید احمد خاں اپنی لفظی مصوری میں تأثر سے بھی کام لیتے ہیں، مگر ان کا میلان بھرپور تصویر نگاری کی طرف ہے۔ وہ صرف خاکہ نہیں بناتے، بلکہ اس میں واضح اور قطعی جزئیات کا رنگ بھر کر تصویر کو جیتا جاگتا پیکر بنادیتے ہیں۔ اس کے لیے وہ تاثر آفرینی بھی کرتے ہیں۔ وہ تصویر کے گرد پہلے ایک تخیلی ہالہ بناتے ہیں، جس کے زیر ِاثر قاری تصویر سے پہلے ہی تصویر کے متعلق سوچنے لگتا ہے۔ اسے انعطافِ توجہ کا فن کہا جاسکتا ہے۔ موجودہ مجموعے کا سب سے دلکش مضمون وہ ہے جس کا عنوان ہے: ’’اقبال کی لفظی تصویر‘‘۔ اس میں مرقع نگار نے اپنی تصویر کا آغاز انعطافِ توجہ سے کیا ہے۔ مضمون کا پہلا فقرہ ملاحظہ ہو:’’ہر بڑے آدمی کا نام ایک طلسم ہے جسے زبان پر لاتے ہی نظر کے سامنے ایک نیا جہان اُبھر آتا ہے۔‘‘ پھر بتدریج، طلسم کے دوسرے پردے کھلتے ہیں۔ مصنف آہستہ آہستہ اس نکتۂ خاص تک پہنچ جاتا ہے جس کی طرف وہ متوجہ کرتا آیا ہے۔ اب وہ کہتا ہے:’’اس پیکر کا نام محمد اقبال ہے جو ہمارے عہد سے پہلے ایک عام نام تھا مگر صدیوں کے بعد اسے ایک ایسا پیکر یا مسمّٰی نصیب ہوا، جس نے اسے حیات جاوید کا خلعت پہنادیا۔‘‘ اور یہ فقرے اور ان کے اندر کی لفظیات قاری کو چوکنا کردیتی ہے، اور اب قاری اس طلسمی پیکر کو دیکھنے کے لیے سراپا شوق بن جاتا ہے۔ یہی وہ انعطافِ توجہ کا فن ہے جس کا میں نے ابھی ابھی ذکر کیا ہے۔ اس کے بعد لفظی تصویر آتی ہے۔ اس میں ایک پیغمبرِ اُمید، ایک پیغمبرِ حیات، بے شک مگر ہماری طرح ہنسنے بولنے والا، ہماری طرح کھانے پینے والا ایک انسان نظر آتا ہے۔ لفظوں سے بنائی ہوئی یہ تصویر شوخ ہے مگر مرقع نگار نے اس خارجی آب و رنگ کو کافی خیال نہیں کیا، وہ داخلی شخصیت کی طرف بڑھتا ہے۔ تصویر کے کچھ پہلو ایسے بھی ہوتے ہیں جو نظر نہیں آسکتے مگر یاد دلائے جاسکتے ہیں، سوچے جاسکتے ہیں۔ حمید احمد خاںنے قاری کی سوچ اور یاد کو مہمیز کیا ہے۔ یاد دلانے کی صورت یہ ہے کہ حمید احمد خاں تصویر کے ساتھ خود بھی بولتے جاتے ہیں۔ یہ حمید احمد خاں کے حواشی ہیں جو ترکیبوں اور جملوں کی صورت میں نمودار ہوتے ہیںان ترکیبوں اور جملوں کی صورت دیکھیے جو علامہ کی عادتوں اور شخصیت کے غیر مرئی رخوں کو دکھانے کے لیے لائی گئی ہیں، مثلاً یہ صفات:پرسکون اور عزلت پسند، اپنے آپ میں سمٹا ہوا انسان جس کا تخیل طوفان انگیز، اور یہ طوفان یم بہ یم، دریا بہ دریا، جو بہ جو ،پھر مرقع نگار ان کی حالتِ استغراق کو دوسری طرح بیان کرتا ہے اور کہتا ہے:وہ کمرے میں ہیں مگر نہیں ہیں۔ افکار میں گم مگر کبھی کبھی ’ہوں‘ کی صدا۔ اس قسم کے جملوں اور فقروں سے ظاہر و باطن کی یہ لفظی تصویر مکمل ہوتی جاتی ہے۔یہ لفظی تصویر لے آکون کاسا تاثر پیدا کرتی ہے۔ جس میں ہیئت نے داخلی کیفیت کی ترجمانی کی ہے۔ اب آپ اسے مجسمہ سازی کہیے یا پیکر تراشی یا تصویر آفرینی۔ مضمون کی ہر ہر سطر یہ محسوس کراتی ہے کہ تصویر بھرپور ہے۔ جس کسی نے اقبال کو نہیں دیکھا وہ بھی ان کے گھنے ابروؤں، گہری آنکھوں، خاموش مگر جاندار مونچھوں، ان کے میانہ قامت اور بھر بھرے باوقار جسم کے ساتھ اس لفظی تصویر کی مدد سے بچشمِ خیال انھیں دیکھ سکتا ہے بلکہ ان کی شبیہ تیار کرسکتا ہے۔ اس مجموعے میں اقبال کی لفظی تصویریں اور بھی ہیں مگر اب میں حمید احمد خان کی ملفوظات نگاری کی طرف آتا ہوں۔ اُنھوں نے حضرت علامہ سے متعلق اپنی یادوں کی روداد لکھ کر ان کے مبارک ملفوظات کا قیمتی تحفہ ہمیں دیا ہے۔ ملفوظات نگاری بڑا نازک فن ہے۔ امیر خسرو نے ملفوظاتِ حضرت نظام الدین اولیا کے سلسلے میں لکھا ہے: ’’ہرچہ فرمودند من بگوشِ دل شنیدم، اما از گوش تا دل مسا فت ہاست و از دل تا خامہ منزل ہا۔ ہرچہ ہمت نیست، اگر نیک از ایشان ہرچہ نامقبول از من۔‘‘ یہ الفاظ ایک ملفوظات نگار کی مشکلات کو بیان کرنے کے لیے کافی ہیں۔ ایکرمن نے گوئٹے کی بات چیت لکھتے ہوئے کہا تھا: ’’میں کیا کروں میرے سامنے ایک سربفلک پہاڑ ہے جس کا دامن رنگا رنگ پھولوں سے بھرا ہوا ہے۔ میں کس کس کو چنوں، کدھر جاؤں، میرے ہاتھ کو تاہ، دسترس محدود،میں کہاں جاؤں، کدھر جاؤں، کیا کروں۔‘‘ ایکرمن کے ان الفاظ میں جس اضطرابِ شوق اور بے کسیِ اعتنا کا امتزاج ہے، وہی دراصل ملفوظات نگاری کی مشکلات کی شرح ہے۔ اور ان مشکلات سے حمید احمد خاں بکمال خوبی عہدہ برآ ہوئے ہیں۔ وہ کبھی مکالماتی انداز سے، کہیں بیانیہ صورت میں اور کہیں کنائی اُسلوب میں علامہ کی باتیں سناتے جاتے ہیں۔ وہ جو بھی سمیٹ سکے ہیں، سمیٹ لائے ہیں، اور کوشش یہ کی ہے کہ ہر پھول ممکن حد تک اپنی اصلی آب و تاب کے ساتھ سامنے آئے۔ ملفوظات نگاری کے ذکر کے بعد میں حمید احمد خاں کے نقادانہ فن کی طرف آپ کو متوجہ کرنا چاہتا ہوں۔زیرِ نظر مجموعے میں ایک انگریزی مضمون The Universal Note in Iqbal's Poetryبڑے معرکے کا مضمون ہے۔ یہ اس لیے بھی زور دار محسوس ہوا کہ اس موضوع پر بہت سے اہلِ علم پہلے بھی لکھ چکے ہیں، مگر حمید احمد خاں کا مضمون ’’بسیار خوباں دیدہ ام لیکن تو چیزے دیگری‘‘ کے مصداق ایک جہانِ دیگر ہے۔ اس مقالے کی فوقیت یہ ہے کہ اس میں نقاد نے ہمیں آفاقیت کے معیار بتائے ہیں یعنی یہ بتایا ہے کہ کسی شاعر کے افکار میں آفاقی عنصر اگر موجود ہے تو اس کی پہچان کیا ہے۔ پہچان کا ایک معیار یہ بتایا ہے کہ شاعر کا کلام انسانی تقدیر اور مستقبل کے وسیع تر امکانات کی طرف رہبری کرے۔اور دوسری پہچان یہ ہے کہ کسی نے خاص کی تعمیم کس طرح کی یعنی خاص اور محدود و مقامی حقائق کو عام اور آفاقی حقیقتوں میں کس طرح تبدیل کیا ہے؟ حمید احمد خاں کی یہ بحث بڑی عالمانہ ہے اور بعض اوقات ان کی عبارتوں کو پڑھ کر یوں محسوس ہوتا ہے گویا کیمبرج لیکچرز میں انگریزی شاعری پر کوئی بریڈلے یا نیوبولٹ نکتہ طرازی کررہا ہے۔ حمید احمد خاں نے کم فہموں کے اس اعتراض کو کہ اقبال ہندی ترانہ لکھنے کے بعد اسلامی ترانے پر کیوں آگئے؟ عمدہ طریقے سے رد کیا ہے۔ اس اعتراض کی بھی قلعی کھولی ہے کہ جب اقبال اسلامی تلمیحات و علامات کا استعمال کرتے ہیں تو آفاقی کیسے ہوئے۔ بہرحال حمید احمد خاں نے مدلل اور عالمانہ بحث کرکے ان سب اعتراضات کی بے وقعتی کا پردہ فاش کیا ہے۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ اگر مقامی تخاطب واقعی مانع آفاقیت ہے تو پھر ہومر، دانتے ، شیکسپیئر، گوئٹے وغیرہ کو بھی آفاقیوں کی فہرست میں نہیں رکھا جاسکتا، بلکہ کسی کو بھی نہیں رکھا جاسکتا۔ اگر کوتاہ بینوں کا اعتراض اس بنا پر ہے کہ اقبال کے فکر کی اساس مذہبی ہے تو حمید احمد خاں کی راے میں یہ بھی غلط ہے، کیونکہ دُنیا کا بہترین آرٹ مذہب کا پروردہ اور فیض یافتہ ہے۔ لہٰذا مذہبی عنصر کی بنا پر اقبال کے بلکہ کسی کے افکار کی وقعت میں کوئی کمی نہیں آتی۔ اس مجموعے میں ایک مضمون ’’اقبال پر انگریزی شعرا کے اثر‘‘ سے متعلق ہے۔ اس پر میں بجز اس کے کیا تبصرہ کرسکتا ہوں کہ انگریزی ادب کے ایک عالم اور اُستاد سے بہتر اس موضوع پر کون لکھ سکتا ہے، اس لیے حمید احمد خاں کا یہ مضمون سخن آشنا کی حیثیت رکھتا ہے۔ اب میں اس بحث کو چھوڑ کر اقبال و بیدل کی ذہنی دوستی کے موضوع پر آتا ہوں، اس مجموعے میں ایک مضمون ’’علامہ اقبال کا انتخاب بیدل‘‘ ہے۔ حمید احمد خاں اس مضمون میں لکھتے ہیں کہ علامہ اقبال میرزا عبدالقادر بیدل کو بحیثیتِ شاعر بلند مرتبے کا مالک سمجھتے تھے اور اپنے خطوط اور ملاقاتوں میں مطالعۂ بیدل کی ترغیب دیتے تھے۔اس سلسلے میں اتفاق سے علامہ کا کیا ہوا ایک انتخابِ بیدل بھی مل گیا ہے جو ایک پرانے نصابِ فارسی میں موجود ہے۔حمید احمد خاں کا پُر مغز مقالہ اسی پر ہے۔ اس ضمن میں قابلِ توجہ نکتہ حمید احمد خاں نے یہ بیان کیا ہے کہ:’’ بیدل سے علامہ کی دلچسپی کی بنیاد ایک عمیق رُوحانی ہم آہنگی پر قائم تھی۔‘‘ حمید احمد خاں کہتے ہیں کہ علامہ با مقصد شعرا کو ان شعرا پر ترجیح دیا کرتے تھے جو محض فن کار شاعر تھے اور ان کی نظر میں بیدل بھی بامقصد شاعر تھے۔ مذکورہ ہم آہنگی کا ایک ثبوت یہ ہے کہ اقبال کے یہاں حرکت وقوت کا جو تصور ہے، وہ بیدل کے ہاں بھی ہے۔ حمید احمد خاں کہتے ہیں، علامہ کے جس انتخاب میں بیدل کا ذکر آیا ہے، وہ نکات و رقعات میں سے ہے، اس میں سب سے زیادہ زور جس قدر پر دیا گیا ہے وہ آزادی و وارستگی ہے جو غیوری کا ایک رنگ ہے اور سب کو معلوم ہے کہ غیوری علامہ کے مردِ مومن کی ایک صفتِ خاص ہے۔ بیدل سے متعلق حمید احمد خاں کا مضمون، اہلِ فکر و تحقیق کے لیے دعوتِ مطالعہ ہے کیونکہ بیدل کا صحیح مطالعہ ابھی نہیں ہوا، بہتر ہوگا کہ ع اِک آبلہ پا وادیِ پُر خار میں آوے اور اس ادبی و فکری طریقت کی شرح لکھے جس کی نمائندگی بیدل نے کی ہے۔ اس قسم کے توسیعی مطالعے سے یہ راز بھی شاید کھل جائے کہ بیدل سے اقبال کی دلچسپی، غالب کی دلچسپی سے زیادہ گہری اور مختلف نوعیت کی ہے… غالب کو تو رنگ بہار ایجادی بیدل کا شوق تھا، مگر اقبال کی نظر ان افکار و حقائق پر ہے جو بیدل کے عام کلام میں عموماً اور ان کی مثنوی عرفان میں خصوصاً تہ بہ تہ موجود ہیں۔ بیدل کا تصورِ آگہی جو شعورِ خودی کے اضطرابِ مسلسل کا ثمر ہے، بیدل کا تصورِ شکست جو جہادِ حیات کی ایک ناگزیر منزل ہے، بیدل کا تصورِ علم و فن، ان کا تصورِ کائنات جو ریاضیاتی نسبتوں پر قائم ہے، بیدل کا تصورِ جلال کہ جمال کا دوسرا نام ہے، بیدل کا تصورِ حقیقت الانسانیہ کہ وہی خلاصۂ کائنات ہے اور پھر ان کا تصورِ حقیقت محمدؐیہ کہ ترجمان معنیِ لولاک ہے؛ اس قسم کے بہت سے مباحث ایسے ہیں، جن کو پڑھتے وقت اقبال ضرور یاد آتے ہیں۔ لہٰذا بیدل کا مطالعہ نہ صرف اقبال کے توسیعی مطالعے کے لیے بدرجہ غایت مفید ہوگا بلکہ اس روایت کی تفہیم کے لیے ممدو معاون ہوگا جو ابن العربی کی فکر اور اشراقیوں کی معرفت کے امتزاج کی صورت میں ملاّ باقر داماد اور ملّا صدرا تک پہنچی،اور ہندستان میں اسے حضرت مجدد کے عقیدۂ وحدت شہود سے متصادم ہونا پڑا۔ اس تصادم کے آثار فکر بیدل میں جابجا موجود ہیں۔ حمید احمد خاں نے ہمیں بتایا ہے کہ بیدل اپنے زمانے میں جس آویزشِ فکری میں مصروف رہے، اپنے زمانے میں علامہ اقبال بھی اسی محاربۂ فکری میں سرگرمِ جہاد نظر آتے ہیں، لہٰذا مطالعۂ اقبال کے لیے مطالعۂ بیدل ضروری ہے۔ حمید احمد خاں کی یہ کتاب مختصر ہے مگر پُرگہر ہے۔ میری حسرت یہ کہتی ہے: کاش! حمید احمد خاں کچھ زیادہ لکھتے تاکہ زمانہ ان کے نکتہ طراز قلم کے فیوض سے زیادہ بہرہ مند و فیض یاب ہوتا۔ اور ہاں، ایک گلہ ذاتی میرے ذوق کو بھی ہے اور وہ یہ کہ میرے محبوب مصنف نے ایک جگہ بڑے شاعروں کا تذکرہ کرتے ہوئے، میرے محبوب اور عظیم شاعر میرتقی میر کے معاملے میں ایک کنایۂ تغافل استعمال کیا ہے، جو ہم ’میریوں‘ کو مضطرب کرگیا ہے،مگر معاملہ محبت کا ہے، اس لیے ہم میں سے کسی کو بے مزہ ہونے کی ضرورت نہیں۔ دیکھنا صرف یہ ہے کہ موجِ خرام کیا گل کتر گئی ہے اور اس مجموعۂ فکر و ذوق کے ذریعے، حمید احمد خاں ہمارے دامن کو کن کن موتیوں سے بھر گئے ہیں،البتہ غم یہ ہے کہ محفل اگرچہ باقی ہے، مگر وہ شمع خاموش ہے، جس کی تقریر و تحریر کی ضیا سے ہمارے یہ درودیوار منور رہا کرتے تھے، اب ان کی یاد گار ان کی کتابیں ہیں، عرب شاعر سچ کَہ گیا ہے: یلوح الخط فی القرطاس دہراً وکاتبہ رمیم فی التراب -----۷؍اپریل ۱۹۷۵ء ئ……ئ……ء ۲۰ کلامِ اقبال بہ ترنم مجھے دو تین ایسی محفلوں میں حاضر ہونے کا موقع ملا، جن کا مقصد کلامِ اقبال کو پڑھ کر سنانا تھا۔ اس طرح پڑھنے کو انگریزی میں ’’ریسی ٹیشن‘‘ کہتے ہیں۔ ان مجالس کو دیکھ کر اور سُن کر کچھ خیالات میرے دل میں پیدا ہوئے ہیں، جو قارئین کی خدمت میں پیش ہیں۔ کلامِ اقبال کی خواندگی کے دو مقصد ہوسکتے ہیں: ایک تو یہ کہ عام سامعین اقبال کے عمدہ کلام سے روشناس ہوں، دوسرا مقصد یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ عمدہ کلام کو سُن کر، اس کے محاسنِ ظاہری سے بھی باخبر ہوجائیں۔ ایک لحاظ سے یہ باخبری ادر اکِ معانی تک بھی پہنچا سکتی ہے۔ اس کا ایک مقصد محض تبرک اور حصولِ سعادت و اظہارِ عقیدت بھی ہوسکتا ہے۔ مگر یہ ثانوی ہے، اصل یہی ہے کہ کلامِ اقبال کے محاسنِ ظاہری کے توسط سے حقائقِ داخلی کا بہتر ادراک ہوجائے۔ یہ غایت بڑی حد تک پڑھنے کے انداز سے متعین ہوگی، بعض لوگ ترنم سے پڑھتے ہیں بعض تحت اللفظ اور بعض طریقِ ادا (اداکاری سے)۔ اس میں شبہہ نہیں کہ سب سے سادہ طریقہ تحت اللفظ ہے اور سب سے مؤثر ’’بہ ترنم‘‘ ہے۔ اداکاری درمیان میں ہے، لیکن ظاہر ہے کہ ان میں سے ہر ایک کے آداب ہیں، اور یہ آداب ہر شاعر کے مضامین کی نوعیت سے متعین ہوتے ہیں۔ ان طریقوں سے کلامِ اقبال کو پیش کرنے والے پر لازم ہے کہ وہ پڑھتے وقت شاعر کے رتبے اور مضامین کی فکری خصوصیات کا خاص خیال رکھے۔ اس کے علاوہ وہ اس پیغام اور عقائد کو بھی درنظر رکھے جو شاعر کے معتقدات میں اساس کا درجہ رکھتے ہیں۔ اس سلسلے میں کلامِ اقبال کو بہ ترنم پڑھنے کے تقاضوں پر کچھ گفتگو مناسب ہوگی۔ یہ تو معلوم ہے کہ ہر شاعری اپنی داخلی تاثیر بھی رکھتی ہے، یعنی اگر اسے نغمے میں نہ بھی ڈھالا جائے تب بھی اس کی تاثیر بے پناہ ہوتی ہے۔خاموشی سے زیرِلب پڑھنے والے کا بھی وہی ردعمل ہوسکتا ہے جو بلند آواز سے یا گاکر پڑھنے والے کا ہوتا ہے کیونکہ وہ معنی کے اثرات سے اثر قبول کررہا ہوتا ہے۔ مگر ایک وجہ یہ بھی ہوتی ہے کہ شاعری (بلکہ ادبی نثر بھی) اپنا ایک آہنگ، اپنی ایک موسیقی رکھتی ہے۔ یہ موسیقی معنی کو سمجھے بغیر محض آہنگ سے بھی مرتب ہوجاتی ہے اور خاموش پڑھنے والا بھی اس سے محظوظ ہوتا ہے۔ اگر معنی کو ساتھ سمجھ رہا ہو تو سبحان اللہ و ماشا ء اللہ۔اسی لیے اہلِ نقد و نظر نے کہا ہے کہ اچھی پوئم (poem) گانے کی حاجت مند نہیں ہوتی،شاعری گانے کے بغیر بھی ایک گانا ہے۔ میرا خیال ہے کہ جو لوگ کلامِ اقبال کو ترنم سے پیش کرتے ہیں،اگر مضمون کو اچھی طرح سمجھ کر گائیں تو ان کا ترنم سب کے لیے رُوحانی خوشی اور سننے والے کے لیے جادو بن سکتا ہے۔ لیکن محض گا کر پڑھنا ولولہ تو پیدا کرسکتا ہے ،ادراکِ معانی کا وسیلہ نہیں بن پاتا۔ مضمون کو سمجھنے اور موقعے کے مطابق مناسب انتخابِ کلام کرنے کی ضرورت اس لیے بھی ہے کہ اقبال جیسے مفکر شاعرِ ملت سے انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ اس کے افکار کو بھی سمجھا جائے، اس کے پیغام کا بھی احاطہ کیا جائے۔ لفظ و آہنگ کی خوبی اپنی جگہ لیکن اصل مقصد معانی تک رسائی ہے۔ اقبال نے بلبل کی زبان سے خود ایک موقعے پر فرمایا تھا : گانا اسے سمجھ کر خوش ہوں نہ سننے والے دکھے ہوئے دلوں کی فریاد یہ صدا ہے میں جن محفلوں کا ذکر کررہا ہوں۔ ان میں، میں نے یہ محسوس کیا کہ اکثر گانے والوں اور سننے والوں کو محض موسیقی کی طلب گاری تھی، فکرِ اقبال یا منصبِ اقبال کا انھیں شعور تھا، نہ طلب۔ اقبال کو محض موسیقی کا مشغلہ بنادینا کسی طور سے مستحسن نہیں۔ نہ انتخاب ٹھیک، نہ تلفظ درست،نہ وزنِ شعر کا خیال۔اچھی آواز سے مجلس کو ہم خیال بنالینا موسیقی کی خدمت ہوسکتی ہے لیکن اقبال کی کوئی خدمت نہیں، اور یہ نیا میلان بھی دراصل اقبال سے محبت کے اظہار کے لیے نہیں بلکہ کالجوں اور سکولوں میں گانے بجانے کی رسم کو عام کرنے کے لیے ہے۔ اور وہ لوگ تو غضب ڈھاتے ہیں جو اپنے ساتھ سازندے بھی لے جاتے ہیں، اور طبلہ و سارنگی کا عمل بھی رفیق ہوتا ہے، یہ بطور محفلِ موسیقی تو ٹھیک ہے لیکن عقیدتِ اقبال کا کوئی اچھا اظہار نہیں۔ بعض حضرات گانے کے ساتھ یا گانے کے بغیر اداکاری کا مظاہرہ بھی کرتے ہیں اور بعض اوقات تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اچھی خاصی مسخرگی ہورہی ہے۔ ایسے ہی مواقع کو دیکھ کر دُکھ ہوتا ہے کہ اقبال جیسا سنجیدہ مضمون، عالی فکر شاعر، بھانڈوں کا تختۂ مشق بنتا جارہا ہے۔ نہ سلیقہ شعر کا، نہ ذوقِ حقیقی موسیقی کا، نہ شوق نکتہ رسی کا۔ اقبال ہے کہ ہر نا اہل اس پر گلا بگاڑ رہا ہے، اور اس کے اشعارِ آب دار کی مٹی پلید کررہا ہے۔ کہتے ہیں کہ سکولوں اور کالجوں میں یہ اقبال شناسی کا پروگرام ہے، لیکن دراصل یہ اس عظمتِ رفتہ کے ساتھ جس کا نام اقبال ہے، محض مذاق ہے۔ اقبال کو بہ ترنم پڑھنے میں کوئی مضائقہ نہیں، لیکن اس کے کچھ آداب ہیں۔ ایسی محفلوں میں مسخرگی اور بھانڈ پن کی صورتیں نہیں ہونی چاہییں۔ اور سچ پوچھیے تو سکولوں اور کالجوں کی حد تک تحت اللفظ ہی کو رواج دینا چاہیے تاکہ پڑھنے والے سمجھ کر انتخاب کریں، اور سمجھ کر پڑھیں اور سننے والے محض پڑھنے کے وسیلے سے شعور کی جان تک پہنچ جائیں اور معانی کے ادراک سے بہرہ ور ہوں۔ میرا تو یہی خیال ہے، آگے معلوم نہیں، ہماری قوم کی طبعِ تماشا دوست کو کیا منظور ہے! ----۱۴؍اپریل۱۹۷۵ء ئ……ئ……ء ۲۱ قومی اقبال کمیٹی کی مجلسِ عاملہ کی خدمت میں چند مشورے -۱ مرکزی حکومت کی قائم کردہ اقبال کمیٹی کا ایک اجلاس ۸؍اپریل ۱۹۷۵ء کو وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے زیرِ صدارت گورنر ہاؤس لاہور میں ہوا۔ اس میں ذیلی کمیٹیوں کی منظور کردہ تجاویز پر غور ہوا، اور بہت سے فیصلے ہوئے۔ یہ مقامِ مسرت ہے کہ اقبال کمیٹی نے علامہ کی صدسالہ تقریب کے سلسلے میں سرگرمی اور مستعدی کا آغاز کردیا ہے۔یہ اَمر بھی لائق اطمینان ہے، کہ اس تقریب کو شایان شان منانے کے لیے جو خاکہ تیار کیا ہے، وہ کافی وسیع الاطراف ہے۔ اُمید کی جاسکتی ہے کہ اگر اس ڈھانچے میں مناسب رنگ بھرا گیا اور اس سارے پروگرام کی رُوح درست رہی تو ان شاء اللہ تعالیٰ حضرت علامہ کی صد سالہ تقریب واقعی یاد گار تقریب ہوگی۔ پروگرام میں تصنیف و تالیف، مشاعرے، مذاکرے ، بچوں کی تقریبات، فلمیں اور تمثیلات، علما کی بین الاقوامی کانگرس، انعامات و اعزازات، مزارِ اقبال اور اقبال اکیڈیمی کا مسئلہ شامل ہے اور اس اَمر سے اتفاق کیا جائے گا کہ ۱۹۷۷ء میں ایک عظیم الشان اور شان دار تقریب کا اہتمام سوچ لیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں شرط یہ ہے کہ تقریبِ اقبال کے پروگرام کے اُصولوں پر اچھی طرح غور و خوض کیا جائے۔ اس کے تضادات کو دور کیا جائے اور اس کی غایتوں کے بارے میں کامل تیقّن اور یک جہتی ہو، ورنہ عین ممکن ہے، کہ سارا پروگرام اپنے تضادات، غایتوں کے بارے میں بے یقینی اور عقائدِ اساسی کے سلسلے میں ضعیف الاعتقادی کے باعث، خود اپنی داخلی کمزوریوں کی بدولت بے اثر، کھوکھلا اور بے مقصد ہوکر رہ جائے۔ اُصولی طور سے جو تجویزیں اقبال کمیٹی کے اجلاس میں منظور ہوئیں، ان پر کوئی اعتراض نہیں، لیکن یہ اَمرِ واقع ہے کہ اُصولی تجویزوں کی تفصیلی نوعیت پر مزید گفتگو کی ضرورت اب بھی ہے، اس لیے مناسب ہوگا کہ کچھ گزارشات اقبال کمیٹی کی مجلس عاملہ کے غور کے لیے پیش کردی جائیں، تاکہ پروگرام مکمل اور اُصولاً درست ہوجائے۔ غرض و غایت سب سے پہلے ان اغراض و مقاصد کا معاملہ سامنے آتا ہے، جن کے لیے پروگرام تجویز ہوا ہے۔ یہ پروگرام کمیٹی کے سامنے ’’قرطاسِ اُمور‘‘ کے طور پر مطبوعہ صورت میں پیش ہوا تھا اور اس میں مقاصد اور اساسیات کا ذکر کئی جگہ آیا ہے۔ صفحہ ۵ پر درج ہے کہ ادبی پروگراموں کا مقصد یہ ہونا چاہیے کہ اقبال کو انسانیت نواز (ہیومن اسٹ) آفاقیت پسند (یونی ورسلسٹ) اور مسلم شاعر کے طور پر پیش کیا جائے۔ اسی صفحے پر اقبال پر مزید ریسرچ کے لیے کچھ موضوعات تجویز کیے گئے ہیں، وہ ہیں: ایک لغاتِ اقبال، مشرق و مغرب کے معاشرتی نظام اقبال کی نظر میں، اقبال اور پاکستان، اقبال اور عالمِ اسلام، اقبال و رومی وغیرہ، جاوید نامہ کا تجزیہ، اقبال کی سوشل فلاسفی، اقبال کے سیاسی نظریات، ’مسجدِ قرطبہ‘ کا تجزیہ۔ صفحہ ۶ پر بچوں کے پروگرام میں جن موضوعات پر زور دیا گیا ہے، وہ یہ ہیں: محنت کی برکت، محنت کی عظمت، مسلم اتحاد پر زور اور اسلامی سوشلزم۔ صفحہ ۷ پر تقریب کے موقع پر فلموں کی تیاری کے سلسلے میں جو موضوعات تجویز کیے گئے ہیں، وہ یہ ہیں: اقبال مصورِ پاکستان، مسلم اتحاد کا عَلم بردار اقبال، اقبال ایک عملی مفکر جو اجتماعیت اور اشتمالیت کا عَلم بردار تھا، اقبال عوام کا ہمدرد، تیسری دُنیا کی تحریک کا اولین داعی۔ صد سالہ تقریب کے سلسلے میں، انھی مقاصد پر زور دیا گیا ہے اور یہ مقصد بھی اپنی جگہ برے نہیں مناسب ہیں، لیکن اقبال کے کلام اور پیغام سے آگاہ ہر شخص اتفاق کرے گا، کہ یہ مقاصد نہ تو مکمل ہیں، نہ (اقبال کے حوالے سے) بنیادی۔ میں نے ایک زمانے میں کلامِ اقبال کا تجزیہ اس نقطۂ نظر سے کیا تھا، کہ کلامِ اقبال میں موضوعات کی تقابلی نسبت کیا ہے۔]میں[اس نتیجہ پر پہنچا تھا کہ اگرکُل کو یک صد فرض کرلیا جائے تو اس میں سے ۶۵ فیصد کا تعلق اسلام، اس کی عظمت، اس کا عہد حاضر میں بلکہ ابدالٓاباد تک نہ صرف قابلِ عمل ہونا بلکہ واحد بنیادی منشورِ نجات ہونا، اسلام کے کارنامے ،اسلام کے احسانات انسانیت پر وغیرہ سے ہے اور اگر اس میں قرآنِ مجید کے حوالوں کے عدد بھی شامل کرلیے جائیں تو ۷۰ فیصد ہوجاتے ہیں اور عشقِ مصطفیﷺ کے عدد ملاکر تحریراتِ اقبال (اُردو فارسی، انگریزی) میں ۸۰ فیصد اسلام ہی اسلام ہے۔ اس صورت میں صد سالہ تقریباتِ اقبال کے خاکے سے اسی لفظ کا غائب ہونا (جویقینا نادانستہ ہے) ناانصافی بھی ہے اور رُوحِ اقبال (اور رُوحِ پاکستان) کے ساتھ زیادتی بھی۔ کچھ سمجھ نہیں آتا، کہ اگر یہ کَہ دیا جائے کہ اقبال اسلامی تعلیمات کے معتقد یا شارح تھے یا مستقبل میں پیغامِ اسلام کو انسانیت کے لیے واحد مژدۂ اُمید سمجھتے تھے، یا اقبال عاشقِ رسولﷺ تھے یا اقبال کی نظر میں اسلام کا نظریۂ عدل و مساوات سب سے اعلیٰ ہے، تو ایسے اقرار و اعلان و تبلیغ میں قباحت کیا ہے؟ اگر ان تجاویز میں کہیں کہیں لفظ مسلم موجود نہ ہوتا تو کچھ ایسا گمان ہوتا کہ ہم، عاشقِ رسولﷺ و اسلام، اقبال کی صدسالہ تقریب نہیں منا رہے، کسی رابرٹ اودن یا پرودہن کی منا رہے ہیں، اقبال کے اصل پیغام پر پردہ ڈالنے سے آخر فائدہ کیا ہوگا؟ اسی طرح اقبال سے بڑھ کر تمدنِ مغرب کا دشمن اس صدی نے کوئی پیدا نہیں کیا۔اقبال مغربی استعمار کے بھی دشمن تھے اور مغربی معاشرت کے بھی۔ تعجب یہ ہے کہ یہ پہلو بالکل غائب ہوگیا ہے۔ بعض لوگ اقبال کو ہیومنسٹ (انسانیت نواز) کے روپ میں دیکھ کر شاید خوش ہورہے ہیں، لیکن مقامِ افسوس یہ ہے کہ ہم مغربی اصطلاحوں کی معنویت سے آشنا نہیں، ہم ان کے کسی ایک رُخ کو دیکھ کر خوش ہوجاتے ہیں، ہیومنزم بھی ایک ایسی ہی اصطلاح ہے۔ اس میں کچھ شبہہ نہیں کہ ہیومنزم اپنی ابتدا میں ایک معصوم سا مسلک تھا جو انسان سے ہمدردی اور اس کے معاملات سے دلچسپی میں یقین رکھتا تھا، لیکن بے خدا نہ تھا لیکن رفتہ رفتہ یورپ میں مادیت کی ترقی کے باعث اس کے معنی اب یہ ہیں کہ انسان ہی انسان کی مدد کرسکتا ہے، خدا انسانیت کے لیے کچھ نہ کرسکا۔ بلکہ یوں کہیے کہ جب خدا موجود ہی نہیں تو مدد کیا کرے گا۔ اسی طرح اس مسلک کی آخری صورت میں خود مذاہب اور انبیاے کرام کا بھی کوئی مقام نہیں۔ جدید ہیومنزم کی اساس کاملاً مادہ پرستی پر ہے، پس ایسے خطرناک یا کم از کم مبہم اور ذومعنی لفظ کو اقبال پرچسپاں کرنا مناسب معلوم نہیں ہوتا۔ اسی طرح یونی ورسلسٹ (آفاقیت پسند) کی اصطلاح ہے، یہ بھی بظاہر بے ضرر ہے، لیکن مبہم ہے۔آفاقیت پسندی ایک نقطۂ نظر ہے، جس کے معنی یہ بھی ہیں کہ کوئی شخص ساری دُنیا کے انسانوں کے مسائل سے دلچسپی رکھتا ہے اور انھیں برابر ہمدردی کا مستحق سمجھتا ہے۔ یہ اس کے اچھے معنی ہیں لیکن آفاقیت پسندی کے ایک معنی یہ بھی ہیں کہ مذہب و ملت کی قید سے بے نیاز، ہندو مسلم یہودی عیسائی سکھ پارسی، بلکہ مسلم غیر مسلم سب کو (ہر ملک ہر خطے کے مسلموں غیر مسلموں کو) ایک نظر سے دیکھتا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس کی یہ دوسری صورت قبول نہیں کی جاسکتی، یہاں پھر تعجب کا اظہار کرنا پڑتا ہے کہ اسلام کی آفاقیت کا برملا اظہار کیوں مناسب نہیں کیا جاتا۔ اس وقت آفاقیت کے عَلم بردار تین نظام ہیں۔ (۱)اسلام (۲)عیسائیت (۳) اشتراکیت ان تینوں نظاموں کے نقطۂ نظر میں فرق ہے بلکہ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ مؤخرالذکر دو نظام ناقص ہیں، اسلام کا نظام مکمل قابلِ عمل اور درست ہے لیکن محض تیسرے نظام کی اصطلاح کو منتخب کرکے اسے اقبال پر چسپاں کردینا مناسب معلوم نہیں ہوتا۔ میری درخواست ہے کہ اقبال کو انسانی اُخوت کا عَلم بردار کہا جائے، مگر ان معنوں میں جن میں اسلام نے اس تصور کو پیش کیا ہے۔ محض یونی ورسلسٹ کہنے سے یہ شبہہ ہوتا ہے کہ اقبال کسی مغربی چھاپ کے آفاقی ہیں، اسلام کا واضح طور پر حوالہ لانے میں کوئی قباحت نہ تھی۔ اسی طرح کہا گیا ہے کہ تقریبات میں اقبال کو ایک مسلم شاعر کے طور پر پیش کیا جائے۔ بظاہر اس میں بھی کوئی قباحت نہیں، کیونکہ اقبال افضل المسلمین تھے، لیکن ابہام اور ذو معنی ہونے کا پہلو یہاں بھی موجود ہے۔ مسلم شاعر اور اسلام کا شاعر دو ترکیبیں اگر ہمارے سامنے رکھی جاتیں تو بڑی آسانی سے دونوں کا فرق نظر آجاتا ہے۔ مسلم شاعر وہ بھی ہوسکتا ہے جو مسلمانوں کے گھر میں پیدا ہونے کی وجہ سے مسلم نام رکھتا ہے اور مسلمانوں کے رجسٹر میں اس کا نام درج ہے، خواہ وہ اپنی شاعری میں اسلام کی کامل تخریب ہی کیوں نہ کررہا ہو۔ اسلام کے شاعر سے لازماً مراد یہ ہے کہ یہ شاعر اسلامی اقدار و عقائد پر زور دیتا ہے۔ اقبال مسلم شاعر بھی تھے اور اسلام کے شاعر بھی لیکن ہر مسلم شاعر ضروری نہیں کہ اسلام کا شاعر بھی ہو۔ جس طرح اسلامی کلچر اور مسلم کلچر میں فرق ہے، اسی طرح مسلم شاعر اور اسلام کے شاعر میں فرق ہے۔ میرا خیال ہے کہ یہ بھی نادانستہ ہوا ہے، ورنہ مراد اسلام کا شاعر ہی ہے لیکن اگر اسلامی اقدار کا شاعر لکھ دیا جاتا، یا اب بھی لکھ دیا جائے تو اس سے وضاحت ہوجائے گی اور ہم اس بدگمانی سے بچ جائیں گے کہ ہم نے اپنی تجاویز میں لفظ اسلام کو باہر رکھنے کا خاص اہتمام کیا ہے، حالانکہ یہ مقصد کسی کا نہیں۔ تقریباتِ اقبال کی رُوح اور اغراض و مقاصد کی بحث ابھی ختم نہیں ہوئی۔ آئندہ کی اشاعتوں میں اس مبحث پر اور پروگرام کے دوسرے حصوں پر اظہارِ خیال کیا جائے گا۔ اور مقصد اس کا فقط یہ ہوگا، کہ قومی اقبال کمیٹی جس محنت اور محبت سے تقریباتِ اقبال کو کامیاب بنانے میں منہمک ہے، ہمارے ان مشوروں سے اس کے پروگرام کی نوک پلک درست ہوجائے گی اور ساری قوم دل جمعی اور بھرپور اطمینان کے ساتھ ان تقریبات میں حصہ لے گی۔ ہمیں اس پروگرام کی کامیابی کا پورا یقین ہے اور جناب پیرزادہ صاحب اور مولانا کوثرنیازی اور ملک معراج خالد بڑی محنت اور انہماک سے اسے کامیاب بنانے میں لگے ہوئے ہیں، لہٰذا التماس ہے کہ پیش کردہ مشوروں پر ہمدردانہ غور کیا جائے۔ -----۲۱؍اپریل۱۹۷۵ء ئ……ئ……ء ۲۲ قومی اقبال کمیٹی کی مجلسِ عاملہ کی خدمت میںچند مشورے-۲ گذشتہ شذرے میں یہ عرض کیا گیا تھا کہ قومی اقبال کمیٹی جناب وزیراعظم صاحب اور حکومتِ پاکستان کی غرض شناسی اور تدبر کی علامت ہے۔راقم الحروف نے اس ضمن میں ان تجاویز کو بھی علی العموم سراہا تھا جو کمیٹی کے اجلاس منعقدہ ۹؍اپریل کو پیش ہوئی تھیں۔ تاہم ان تجاویز کو زیادہ قابلِ قبول اور بہتر بنانے کے لیے میں نے عرض کیا تھا کہ مجوزہ صدسالہ تقریب کی معنویت کو اقبال کے اصل پیغام سے ہم آہنگ بنانا بے حد ضروری ہے۔کیا یہ عجیب بات نہ ہوگی کہ اقبال پر کتابیں لکھی جائیں، مذاکرے ہوں، تقریریں ہوں، بچوں کے پروگرام ہوں اور ان میں کسی جگہ اسلام کا تذکرہ نہ آنے پائے۔ ہر کسی کو معلوم ہے کہ کلامِ اقبال میں ۶۵ فیصد اشعار اسلام کی برکات و فضائل کے متعلق ہیں، باقی ۳۵ فیصد میں سے تیس فیصد فرنگی تمدن اور تہذیب کے خلاف ہیں،۵فیصد باقی مضامین ہیں۔ ان حالات میں ذکر و فکرِ اقبال سے اسلام کا حوالہ بالکل غائب کردینا، یا اسے محض ضمنی شے بنادینا صد سالہ تقریب کی اصل رُوح کی ضد ہوگا۔ لہٰذا میری عاجزانہ تجویز ہے کہ تجاویز کے اس حصے کی جس میں اغراض و مقاصد کا تذکرہ ہے ترمیم و اصلاح اس طرح کی جائے کہ پیغامِ اقبال کی اسلامی رُوح کا واضح اعلان و اثبات ہو۔ اب دوسری بات یہ ہے کہ صدسالہ تقریب سے متعلق تجاویز میں بار بار ’’تیسری دنیا‘‘ کی دانش ورانہ اصطلاح استعمال کی گئی ہے۔ یوں معنوی طور سے اس پر کوئی خاص اعتراض تو نہیں، لیکن یہ دراصل ایک خاص سیاسی نظریاتی معنویت کی آئینہ دار ہے۔ اور مسلم بلاک کی اصطلاح سے بچنے کے لیے استعمال کی گئی ہے، اس لیے مسلم بلاک کے الفاظ بھی ساتھ شامل کیے جائیں تاکہ صحیح مطلب ادا ہو۔دانش ورانہ اصطلاحات کے بے ضرورت استعمال سے یہ تاثر اُبھرتا ہے کہ صد سالہ تقریب پر محض ایک گروہ کا غلبہ بلکہ اجارہ داری ہے۔ اب میں تجاویز کے چند دیگر پہلوؤں پر مختصر سی بحث کرتا ہوں۔ مجھے سب سے زیادہ تعجب ان دلائل پر ہوا ہے جو علامہ اقبال کے یومِ وفات کو ملک گیر چھٹی کا دن قرار نہ دینے کے سلسلے میں پیش کی گئی ہیں۔ فرمایا گیا ہے کہ چونکہ اس بات کا امکان ہے کہ اگر اقبال کے یومِ وفات پر چھٹی ملک گیر پیمانے پر دے دی گئی تو کل کلاں لوگ خلفاے راشدینؓ کے یومِ وصال کے لیے بھی ملک گیر تعطیلات کا مطالبہ کرنے لگیں گے۔ دوسری دلیل یہ دی گئی ہے کہ اقبال کے سلسلے میں عام تعطیل کی گئی تو لوگ رحمان بابا، خوشحال خان خٹک اور حضرت بھٹائی کے سلسلے میں بھی تعطیلِ عام کا مطالبہ کریں گے۔ افسوس ہے کہ یہ دونوں دلیلیں اطمینان بخش نہیں۔ خلفاے راشدینؓ کا مسئلہ ایک دوسری نوعیت کا مسئلہ ہے، یوں اس کے حق میں بھی بہت سی دلیلیں موجود ہیں کیونکہ یہ سوچنا پڑتا ہے کہ جس ملک میں چھوٹی سے چھوٹی باتوں پر اتنی ملک گیر چھٹیاں ہوجاتی ہیں جو بالکل عجیب معلوم ہوتی ہیں، اس]ملک[ میں اگر اسلام کے ان برگزیدہ نفوسِ پاک کی سرکاری سطح پر یادیں منائی جائیں تو اس میں مضائقہ کیا ہے؟ تاہم یہ مسئلہ خالص دینی نوعیت کا ہے اور عالمگیر بھی ہے اس لیے میں یہاں صرف یہ کہوں گاکہ خلفاے راشدینؓ کا نام لے کر ان کے تقدس کی آڑ میں، یومِ وفاتِ اقبال کی تعطیل کو غائب کردینا کسی طرح مناسب معلوم نہیں ہوتا۔ میری تجویز ہے کہ آپ ملک گیر تعطیل کریں یا نہ کریں، لیکن خلفاے راشدینؓ کے حوالے پر مبنی دلیل کو اپنے کاغذات سے حذف کردیں۔ اس میں بے ادبی کا شائبہ نظر آتا ہے۔ اس کا مطلب تو یہ نکلتا ہے کہ ہم خلفاے راشدینؓ کو بھی یہ حق نہیں دیتے اور اقبال کو بھی نہیں دیتے۔میری پرزور سفارش ہے کہ کاغذات سے یہ جملے حذف کردیے جائیں تاکہ حکومتِ پاکستان کی وہ شان دار خدمات جو وہ صدسالہ تقریبِ اقبال میں انجام دے رہی ہے، داغ دار نہ ہوجائیں۔ اب رہا یہ سوال کہ یومِ اقبال کی تعطیل سے شاہ عبداللطیف بھٹائی، رحمان بابا اور خوشحال خان خٹک کے یومِ وفات پر بھی تعطیل عام کا مطالبہ ہوگا، یہ اس لیے بے دلیل معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ ممتاز شخصیتیں انتہائی محترم ہونے کے باوجود، صوبائی اور علاقائی ہی ہیں، اور انھیں متعلقہ صوبوں اور علاقوں کے لوگوں نے خود ہی صوبائی بناکر محدود کیا ہوا ہے، ورنہ ہم تو ان کی عظمتوں کو بھی شایانِ شان اعتراف کا مستحق سمجھتے ہیں۔ بہرحال فی الحال وہ صوبائی حدود میں ان کے علاقائی معتقدوں کی وجہ سے ہی محدود ہوکر رہ گئے ہیں، لہٰذا ان کا معاملہ اقبال کے معاملے سے جدا ہے۔ ہمیں دُکھ اس بات کا ہے کہ اقبال کی شخصیت کو پنجاب (یا شاید لاہور) تک محدود کردیا گیا ہے۔ بجاے اس کے کہ حضرت بھٹائی اور دوسرے بزرگوں کو وسیع تر ملک گیر حیثیت دے کر انھیں بھی قومی شخصیتوں میں شامل کرایا جاتا، اُلٹا اقبال ہی کو ان کی آڑ میں محدود اور مقامی بنادیا گیا ہے۔ یہ کوتاہ نظری ہی نہیں، بے خبری، جہالت اور بے بصری بھی ہے کہ اقبال جیسی عالمگیر شخصیت اور بین الاقوامی عظمت کو ایک داخلی تنگ خیالی کی بنا پر اتنا پست قامت بنادیا گیا ہے کہ صد سالہ تقریب کا سارا لطف جاتا رہا۔ اقبال صرف پنجاب کے کیسے ہوئے؟ اُنھوں نے تو پنجاب کے لیے کم سے کم لکھا ہے بلکہ یوں کہیے کہ لکھا ہی نہیں اور وہ کیوں لکھتے جبکہ ان کی ساری تعلیم قیدِ مقام سے آزاد ہے: ع جوہرِ ما با مقامے بستہ نیست وہ تو شرقی ہیں، نہ غربی، نہ ہندی ہیں نہ رومی، ایران و توران و عرب ان کی نظر میں ایک ہے، وہ تو بندۂ مومن ہیں، اور بندۂ مومن آفاقی ہوتا ہے۔ میں پُرزور سفارش کرتا ہوں، کہ یومِ وفاتِ اقبال پر پاکستان گیر سطح پر تعطیل کی جائے۔ فی الحال کم سے کم یہ گزارش ہے کہ صد سالہ تقریب کے کاغذات سے یہ افسوسناک حصہ حذف کردیا جائے اس سے اقبال کی توہین و تنقیص کا پہلو نکلتا ہے۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کی حد تک، علامہ اقبال کی حیثیت مصورِ پاکستان کی ہے۔ جہاں قائداعظم پاکستان کی عملی جدوجہد کے راہ نما تھے وہاں علامہ اقبال پاکستان کے تخیل کو وجود میں لانے والے تھے۔ اقبال نے نقشے کا تصور دیا، اس کے لیے فکری مواد بہم پہنچایا اور تاریخ کے حوالے سے اس کی ناگزیر اہمیت کو واضح کیا… قائداعظم نے اس نقشے پر عمارت تعمیر کی، اس کی نوک پلک درست کی، اس کی تشکیل و تعمیر کے لیے طویل لڑائی لڑی۔ اس لحاظ سے علامہ اقبال اور قائداعظم دونوں لازم و ملزوم ہیں۔ پاکستان کی تعمیر و تشکیل کے سلسلے میں دونوں کا نام ایک ساتھ لیا جاتا ہے۔ بنابریں یومِ اقبال پر تعطیل کا مطالبہ پاکستان کی بنیاد کے حوالے سے اسی طرح جواز رکھتا ہے جس طرح قائداعظم کے یومِ وفات کے سلسلے میں جائز ہے۔ سفارش ہے کہ پاکستان کی ان بنیادی شخصیتوں کو یکساں عظمت کا مستحق سمجھا جائے اور جس طرح قائداعظم کے یومِ وفات پر عام تعطیل ہوتی ہے، علامہ اقبال کے یومِ وفات پر بھی ملک گیر تعطیل کی جائے۔ -----۲۸؍اپریل۱۹۷۵ء ئ……ئ……ء ۲۳ نظریۂ خودی کی سہل ترین تشریح-۱ علامہ اقبال نے ہمیں ایک اہم نظریہ دیا ہے یعنی نظریۂ خودی۔ اس نظریے یا خیال کی تشریح ان کی اکثر کتابوں میں ہے مگر فارسی کی مثنوی اسرارِ خودی میں اُنھوں نے اس کے ضروری مسئلوں پر خاص طور سے بحث کی ہے۔ ’خودی‘ فارسی زبان کا لفظ ہے۔ لغات میں اس کے معنی تکبر، غرور وغیرہ بھی بتائے گئے ہیں۔ علامہ اقبال کے کلام میں اس کے معنی اور ہیں۔ آسان لفظوں میں اس کے معنی ہیں: خود کا یعنی اپنی ذات، اپنی ہستی یا اپنے وجود کا احساس یا اپنی صلاحیتوں کا خود کو علم وغیرہ۔ اس کے معنی اپنے آپ کو پہچاننا بھی ہوسکتے ہیں۔ اس سے مراد یہ نہیں کہ کوئی شخص یہ جان لے کہ وہ کس کا بیٹا، پوتا ہے اور کس شہر کا رہنے والا ہے۔ یہاں مطلب یہ ہے کہ وہ یہ بھی جانتا ہو کہ اسے خدا نے کیا کیا قابلیتیں عطا کی ہیں، اور وہ ان سے کیا کام لے سکتا ہے اور ان کی مدد سے اپنی اور اپنی قوم کی بلکہ سارے انسانوں کی ترقی اور راحت کے لیے کیا کارنامے انجام دے سکتا ہے۔ یہ سب کچھ تبھی ہوسکتا ہے کہ انسان کو اپنی پہچان ہو، یعنی اپنے اُوپر بھروسا ہو۔ اسی کو علامہ اقبال خودی کَہ رہے ہیں، یہ اس لفظ کی آسان تشریح ہے، ورنہ اس کی علمی بحث خاصی مشکل ہے۔ جس کی اس مضمون میں گنجائش نہیں۔ غرض یہ کہ خودی کے معنی ہیں: خود کو پہچاننا اور پہچان کر عمل اور محنت کے ذریعے بڑے مقاصد کی تکمیل۔ یہ مقاصد ذاتی بھی ہوسکتے ہیں، مگر چونکہ انسان اشرف المخلوقات ہے (اور مسلمان کو تو اشرف ہی نہیں، اشرف ترین ہونا چاہیے۔ اشرف انسان اپنی ذات سے زیادہ اپنی قوم کے لیے اور ساری انسانی برادری کے لیے سوچتا ہے، اس لیے اقبال کے نزدیک بڑے مقاصد وہی ہوں گے۔ پس خودی اس خود شناسی کا نام ہے جو مقاصد کی لگن میں عمل پر اُبھارے اور یہ عمل ایسا ہو جو ذات کے ساتھ ساتھ ملت کی ترقی اور سربلندی میں امداد دے۔ اس سے واضح ہوگیا ہوگا، کہ علامہ اقبال کے کلام میں خودی کے خاص معنی ہیں۔ علامہ اقبال سے پہلے صوفی شاعروں نے بھی خود کو پہچاننے پر زور دیا ہے، چنانچہ مشہور مقولہ ہے: ’’جس نے اپنے نفس کو پہچانا اس نے گویا خدا کو پہچان لیا…‘‘مگر صوفیوں کا مطلب جدا ہے وہ یہ چاہتے ہیں، کہ انسان یہ سمجھے کہ انسان اپنی اصل میں خدا سے جدا نہیں۔ انسان کی رُوح، خدا کی مقدس ذات (روحِ کلی) سے ملی ہوئی ہے۔ گویا خدا کائنات اور انسان اصل میں ایک ہیں، ان کو ہم ایک دوسرے سے جُدا سمجھ نہیں سکتے۔ مگر اقبال یوں نہیں سوچتے، اقبال یہ کہتے ہیں کہ انسان جو کچھ بھی ہے،اپنے موجودہ حالات میں خدا سے الگ وجود رکھتا ہے۔ اس کی ترقی (یعنی خدا، خدائی صفات، بلندی، غلبہ، عدل وغیرہ) کا ظہور اس پر منحصر ہے کہ وہ کوشش کرے اور دوسرے انسانوں کے تعاون سے اونچے درجے حاصل کرتا جائے۔ صوفی نفس (خود) مارکر پھر اپنی اصل (خدا) تک پہنچنا چاہتے ہیں۔ اقبال خود کو تسلیم کرکے خود کی اندرونی قابلیتوں کو بڑھانا چاہتے ہیں۔ اس سے یہ ظاہر ہوا کہ اقبال کی خودی اور صوفیوں کی خود شناسی میں بڑا فرق ہے۔ علامہ اقبال نے خودی کے مسائل کا مربوط طریقے سے بیان سب سے پہلے اپنی فارسی مثنوی اسرارِ خودی میں کیا ہے۔ یہ مثنوی تقریباً ۱۹۱۲ء میں لکھنی شروع کی گئی تھی اور ۱۹۱۵ء میں پہلی بار چھپی۔ چونکہ خودی کا اصل تخیل اسی کتاب میں ہے، اس لیے اس کے مطالب کا خلاصہ بہت سے ایسے لوگوں کے لیے مفید رہے گا جو اقبال کے خیالات سے اچھی طرح آگاہ نہیں۔ شروع میں اقبال نے اپنی شاعری کی خاص نوعیت کا ذکر کیا ہے اور بیان کیا ہے کہ میں مولانا روم کے کلام سے متاثر ہوا ہوں۔مولانا روم نے ہی مجھے سمجھایا ہے کہ نئی طرح کی شاعری کی ضرورت ہے، یعنی ایسی شاعری جو قوموں کو زندہ کردے: نالہ را اندازِ نو ایجاد کن بزم را از ہاے و ہو آباد کن ترجمہ:اپنی شاعری (فریاد) کے لیے نیا انداز پیدا کر، اور بزم کو (دُنیا کو) جوش انگیز کلام سے گرمادے۔ اقبال فرماتے ہیں کہ اس مثنوی سے میرا مقصد وہ شاعری نہیں جو عام طور سے مروج ہے۔ بلکہ میں تو اس کے ذریعے خودی کے راز ظاہر کرنا چاہتا ہوں۔ اس کے بعد یہ بحث کی ہے کہ نظام عالم خودی کی وجہ سے ہے اور زندگی اور وجود کا تسلسل خودی کے استحکام پر منحصر ہے : چوں حیاتِ عالم از زورِ خودی است پس بقدرِ استواری زندگی است ترجمہ:چونکہ دُنیا کا وجود خودی کی بدولت ہے، اس لیے زندگی کی قوت اور بقا استواری اور محکمی کی نسبت سے ہوگی۔ خودی کی یہ خصوصیت ہے کہ وہ خود کو ظاہر کرنے پر مجبور ہے۔ وہ خود ایک خاموش قوت ہے، مگر عمل کے لیے بے تاب ہے: وا نمودن خویش را خوے خودی است خفتہ در ہر ذرہ نیروے خودی است ترجمہ:خود کو ظاہر کرنا خودی کی عادت ہے، خودی کی قوت ہر ذرے کے اندر چھپی ہوئی ہے۔ اس کے بعد علامہ اقبال نے یہ بیان کیا ہے کہ خودی، مقاصد کے ہونے اور پیدا کرنے پر موقوف ہے، یعنی خودی کے احساس و قوت کے لیے بڑے بڑے مقاصد کا ہونا ضروری ہے: زندگانی را بقا از مدعاست کاروانش را درا از مدعاست زندگی مدعا اور مقصد سے قائم ہے۔ زندگی کے قافلے کو جگانے والی اور چونکانے والی چیز منزل اور مقصد کا خیال ہے۔ جس طرح درا کی آواز قافلوں کو جگاتی اور بڑھنے کا پیغام دیتی ہے، اسی طرح مقصد و مدعا زندگی کو بڑھنے پر آمادہ کرتا ہے۔ یہ مقصد و مدعا کیا ہے؟ آرزو کی وہ آخری منزل جسے انسان اپنے لیے ضروری اور باعثِ مسرت خیال کرتا ہے۔ یہ آرزو انسان کو جستجو پر آمادہ کرتی ہے : زندگی در جستجو پوشیدہ است اصلِ او در آرزو پوشیدہ است ترجمہ: زندگی کا راز جستجو میں ہے اور جستجو، آرزو کے اندر جنم لیتی ہے۔ اقبال فرماتے ہیں کہ ہم انھی آرزوؤں کی بدولت زندہ ہیں۔ آرزوؤں کے پیدا ہونے اور ان کے لیے سرگرم عمل ہونے ہی میں زندگی ہے: ما ز تخلیقِ مقاصد زندہ ایم از شعاعِ آرزو تابندہ ایم اس کے بعد علامہ یہ ثابت کرتے ہیں کہ خودی پہلے عشق و محبت سے مستحکم ہوتی ہے۔ یہاں علامہ خودی کو ایک ’’نقطۂ نور‘‘ قرار دیتے ہیں، جو ہمارے اس خاکی وجود میں زندگی کی چنگاری سلگائے رکھتا ہے۔ اس نقطۂ نور کی یہ خاصیت ہے کہ عشق و محبت سے اس کی گرمی، چمک اور قوت اور زیادہ ہوتی ہے۔ یہ محبت بڑی وسیع چیز ہے، انسان سے لے کر حضرت محمد مصطفیﷺ اور خدا تک اور عالم ِلگن سے لے کر بڑے بڑے مقاصد کے عشق تک محبت کی دُنیا پھیلی ہوئی ہے اور ظاہر ہے کہ مسلمانوں کے لیے تو عشقِ مصطفیﷺ سے بڑھ کر اور کیا چیز ہوگی، اور عشقِ مصطفیﷺ کی لازمی شرط تقلیدِ مصطفی (آنحضرت ﷺ کی پیروی) ہے۔ اقبال فرماتے ہیں:اگر تم سچ مچ عاشقِ مصطفیﷺ ہو تو آپﷺ کی تقلید کرو، تاکہ تمھاری کمند، یزدان تک کو شکار کرسکے۔ عاشقی محکم شو از تقلیدِ یار تا کمندِ تو شود یزداں شکار خودی کا وصفِ خاص یہ ہے کہ یہ خود پر بھروسا کرتی ہے اور دوسروں سے مانگنے اور سوال کرنے سے اسے نفرت ہے، سوال سے خودی ضعیف ہوجاتی ہے۔ جب خودی عشق و محبت سے محکم ہوجاتی ہے تو نظامِ عالم کی ظاہری اور مخفی قوتوں کو مسخر کرلیتی ہے۔ -----۵؍مئی۱۹۷۵ء ئ……ئ……ء ۲۴ نظریۂ خودی کی سہل ترین تشریح -۲ پچھلے مقالے میں خودی کی سہل ترین تشریح مثنوی اسرارِ خودی کی خالص بنیاد پر کرنے کی کوشش کی تھی، وہی اس مقالے میں جاری ہے۔ سو گزارش یہ ہے کہ جو قومیں خودی کا انکار کرتی ہیں اور وجود کو محض طلسم اور عکس کہتی ہیں، وہ دراصل خود کمزور ہوتی ہیں، اور اس طرح کا خیال اس لیے پھیلاتی ہیں کہ غالب اقوام بھی اسی طرح سوچنے لگیں، اور انھی کی طرح کمزور ہوجائیں۔ یہ ایسا ہی ہے، جیسا شیروں کو کوئی یہ سبق سکھائے کہ خونخواری بری چیز ہے اور نیک لوگ وہ ہیں، جو گھاس پر گزارا کرتے ہیں: روحِ نیکاں از علف یابد غذا تارک اللحم است مقبولِ خدا ترجمہ: نیک لوگ گھاس وغیرہ سے پیٹ پالتے ہیں، جو لوگ گوشت کھانے سے پرہیز کرتے ہیں، خدا کے مقبول بندے وہی ہیں۔ اقبال نے لکھا ہے کہ پرانے فلسفیوں میں سے (یونانی حکیم) افلاطون کے خیالات بھی کچھ ایسے ہی ہیں۔ مسلمانوں نے عہدِ ماضی میں اس کا خاص اثر قبول کیا ہے اور اس سے بہت نقصان پہنچا ہے اور آئندہ بھی اس سے نقصان کا اندیشہ ہے، اس لیے اس کے خیالات سے بچنا چاہیے۔ اقبال نے افلاطون کو ’’انسان کے لباس میں گوسفند‘‘ قرار دیا ہے۔ اقبال کی شکایت یہ ہے کہ افلاطون وجود کو حقیقی نہیں مانتا اور کہتا ہے کہ اصل حقیقت کہیں عالمِ بالا پر ہے ہم اس کا عکس دیکھ رہے ہیں۔ یہ دُنیا عکس ہے، سایہ ہے، کسی غار میں بیٹھا ہوا آدمی جس طرح دور کسی راستے پر کسی کارواں کا سایہ دیکھ رہا ہو۔ افلاطون کے ان خیالات کا اثر مسلمانوں کے ادب اور شاعری پر خاصا گہرا ہے۔ اقبال ایک باب میں شعر و شاعری کی حقیقت اور ادبیاتِ اسلامیہ کی اصلاح کی ضرورت جتلاتے ہیں۔سب سے پہلے یہ واضح کرتے ہیں کہ شاعر کا سینہ، خوب صورت، خوب صورت، زیادہ خوب صورت معلوم ہونے لگتا ہے۔ اس کا دل سوز کا منبع ہوتا ہے، اس لیے اس کی آواز اوروں کو بھی گرما دیتی ہے، گویا شاعر کا اصل کام زندگی کی آرزو بڑھانا ہے۔ لیکن بعض شاعر ایسے بھی ہوتے ہیں جو زندگی کی آرزو کو گھٹاتے ہیں۔ ایسے خیالات کا اظہار کرتے ہیں، جس سے مایوسی پیدا ہو اور دل مرجائیں۔ (فارسی اور اُردو شاعری کا ایک حصہ ایسا ہی ہے۔) بنابریں اقبال شاعروں کو تلقین کرتے ہیں، کہ انھیں ایسی شاعری کرنی چاہیے جس کا تعلق زندگی سے ہو، یعنی وہ زندگی کی آرزو کو تیز کرے ان کے نزدیک فارسی شاعری قابلِ توجہ ہے: فکرِ صالح در ادب می بایدت رجعتے سوے عرب می بایدت ترجمہ:ادب کے لیے فکرِ صالح لازم ہے اور اس کے لیے عربی شاعری کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔ ان بحثوں کے بعد اقبال تربیتِ خودی کے تین مراحل کا ذکر کرتے ہیں، مرحلہ اوّل: اطاعت، مرحلہ دوم: ضبط نفس اور مرحلہ سوم: نیابتِ الٰہی۔ اقبال کے نزدیک سچی آزادی، اطاعت یعنی پابندیِ فرائض پیدا کرتی ہے اور مسلمان ہونے کی صورت میں آئینِ مصطفیﷺ کے جملہ مراحل ترقی کا پہلا قدم ہے: شکوہ سنجِ سختیِ آئیں مشو از حدودِ مصطفی بیروں مرو ترجمہ: آئین کی پابندی میں جو تکلیف ہے، اس کی شکایت نہ کر، اور آنحضرت ﷺ نے زندگی کی جو حدیں قائم کی ہیں، ان کے اندر رہنے کی کوشش کر۔ ضبطِ نفس سے مراد یہ ہے کہ زندگی کی ترغیبات میں نفس اور خواہش کو قابو میں رکھا جائے۔ خوفِ دُنیا اور حبِّ دُنیا دونوں کی باگ ایمان کے ہاتھ میں ہو: نفسِ تو مثلِ شتر خود پرور است خود پرست و خود سوار و خود سراست مرد شو آور زمامِ او بکف تا شوی گوہر اگر باشی خزف ترجمہ:تیرا نفس اونٹ کی مانند خود پرور واقع ہوا ہے،ہر وقت اپنا اور اپنے تن کا خیال رہتا ہے، یہ تو تمھارا فرض ہے کہ تم اس کی باگ مضبوطی سے اپنے ہاتھ میں رکھو، بس اسی صورت میں تم کمال کو پاسکو گے اگر تم خزف بھی ہوتو گوہر بن سکتے ہو۔ غرض محبت اور خوف دونوں قسم کے جذبوں پر قابو پانے کی ضرورت ہے اور اسلام کے احکام پر عمل سے یہ چیز مکمل ہوجاتی ہے۔ توحید پر ایمان لانے سے خدا کے سوا کسی چیز کا خوف نہیں رہتا۔ حج مسلمانوں کو یہ بتاتا ہے کہ گھر بار اور وطن کی محبت کو خدا کے لیے کس طرح چھوڑا جاسکتا ہے۔اسی طرح زکوٰۃ کا حکم اس لیے ہے کہ خدا کی راہ میں خرچ کرنے کی عادت ہواور دولت کی محبت دل میں بیٹھنے نہ پائے: ایں ہمہ اسبابِ استحکامِ تست پختہ ای محکم اگر اسلامِ تست اہلِ قوت شو ز وردِ یا قوی تا سوارِ اشترِ خاکی شوی ترجمہ: یاقوی (قوی: قوت والا۔خدا کے ناموں میں سے ایک نام ہے)، کے وردسے طاقت ور اور مضبوط بن جا، تاکہ اونٹ(اشتر خاکی: بدن کو اونٹ کَہ کر اس مماثلت کو زیادہ واضح کیاہے، جس سے اس باب کا آغاز ہوا ہے) کو مضبوطی سے اپنے قابو میں کرسکو، اپنی جبلتوں (خوف اور محبت) کو ایمان کے تابع کرسکو۔ اقبال نے اونٹ کی تشبیہ کو نیابتِ الٰہی کی تشریح میں اور بھی آگے بڑھایا ہے اور لکھا ہے: گر شتر بانی جہاں بانی کنی زیبِ سرتاجِ سلیمانی کنی ترجمہ: اگر تم اونٹ پر جم کر سواری کرنے اور اس کو قابو میں رکھنے کے قابل ہو جاؤ تو تم بادشاہی کے لائق اور سزاوار بن جاؤ گے۔ یہاں اونٹ پھر استعارہ ہے، اصل مقصود یہ ہے کہ اگر انسان خواہشاتِ تن پر قابو پالے تو پھر اسے وہ کمال اور طاقت مل سکتی ہے، جو اسے بادشاہی کے لائق بناسکتی ہے۔ ایسا ہی انسان نائب کہلانے کا حق دار ہے۔ یہ نائبِ حق اپنے ان کمالات کی وجہ سے عناصر پر (اس کائنات پر) حکمرانی کرسکتا ہے۔اس کی ہستی اسمِ اعظم کا عکس ہوتی ہے ۔وہ جز اور کل کی رموز سے آگاہ ہوتا ہے۔ وہ نوعِ انسان کے لیے بشیر بھی ہوتا ہے اور نذیر بھی۔ اور اس کے ہاتھ سے ایسے ایسے کمالات ظاہر ہوتے ہیں جو ہر شخص کے بس کی بات نہیں ہوتی۔ اقبال نائبِ حق کے اوصاف کی مزید تشریح حضرت علیؓ کے مختلف ناموں میں ضمن کرتے ہیں۔ بوتراب، یداللہ، باب مدینۃ العلم، ان سب ناموں میں وہ اوصاف پائے جاتے ہیں جو مردِ حق سے مخصوص ہیں، مثلاً بہادری اور سخت کوشی، خود داری اور مشکل پسندی، اسی طرح مردِ حق کی ایک خصوصیت زندگی میں انقلاب لانا اور غلبہ پانا بھی ہے۔ وہ قوت اور استیلا کا ذوق رکھتا ہے اور بے ہمتی کا سخت دشمن ہوتا ہے اور وہ ان خصائص سے پاک ہوتا ہے جو کسی دوسری وجہ سے نیکیوں میں شمار کرلی گئی ہیں۔ حالانکہ وہ کمزوری اور ضعف کا نتیجہ ہوتی ہیں، مثلاً عفوِ بے جا کو نیکی سمجھ لیا گیا ہے۔ ناتوانی کا نام قناعت رکھ لیا گیا ہے۔رحم، نرمی اور انکسار، یہ سب تن آسانی کی شکلیں ہیں، فضیلتیں نہیں، اور فضیلت کیا ہے؟ با توانائی صداقت توام است گر خود آگاہی ہمیں جامِ جم است ترجمہ: طاقت اور سچائی دونوں ایک دوسرے سے یوں وابستہ ہیں، جیسے دو جڑواں بچے باہم ملے ہوئے ہیں۔ گویا قوت اصل شے ہے، اور یہ سچائی کے ساتھ ساتھ چلنے والی ایک فضیلت ہے۔ کہتے ہیں کہ حضرت داتا گنج بخش کی خدمت میں مرو کا ایک نوجوان حاضر ہوا اور شکایت کی کہ میرا ایک دشمن میرے پیچھے لگا ہوا ہے، دُعا فرمائیے۔ آپ نے مسکرا کر فرمایا: اس کے خوف سے خود کو آزاد کرلو، جب تم میں یہ بے خوفی پیدا ہوجائے گی، تو وہ خود بخود مغلوب ہوجائے گا۔ اقبال نے ایک اور تمثیل بھی لکھی ہے۔ ایک پرندہ ریزۂ الماس کو (شبنم) یا پانی کا قطرہ سمجھ بیٹھا اور اس سے چونچ کو تر کرنے لگا۔الماس بولا: تم کیسے بھولے بھالے پرندے ہو، میں شبنم نہیں، الماس ہوں، اگر شبنم ہوتا تو میں اپنی نرمی اور ملائمت کی وجہ سے تمھاری ایک چونچ سے فنا ہوچکا ہوتا۔ میری پختگی نے مجھے محفوظ رکھا: ریزۂ الماس شو شبنم مشو ترجمہ: شبنم مت بنو، ریزۂ الماس بنو، (تاکہ آفات سے محفوظ رہو۔) ایک اور مثال کوئلے اور الماس کی دی ہے اور یہ واضح کیا ہے کہ الماس اپنی پختگی کی وجہ سے آب و تاب کا مالک بن گیا اور کوئلہ اس سے محروم رہا، نتیجہ ظاہر ہے: در صلابت آبروے زندگی است ناتوانی ، ناکسی ، ناپختگی است ترجمہ: مضبوطی اور محکمی سے زندگی کی آبرو قائم ہے اور ناپختگی، گویا ناتوانی اور نالائقی کا دوسرا نام ہے۔ اس سلسلے میں یہ یاد رہے کہ مسلم کی یہ قوت اور محکمی اس لیے نہیں سراہی گئی کہ اس سے وہ کوئی ذاتی فائدہ حاصل کرتا ہے، بلکہ وہ اپنی قوت کو اشاعتِ توحید میں صرف کرتا ہے، اسی کا نام جہاد ]ہے[اور جہاد کا مقصد، دوسرے ملکوں کو خواہ مخواہ فتح کرنے کی لڑائی نہیں بلکہ کلمۂ حق کی اشاعت کے لیے ہے، محض ملک گیری کی ہوس (جوع الارض، زمین کی بھوک) اس کا مقصد نہیں۔ جہاد دراصل ایک قومی فریضہ ہے، اس کا تعلق ملت سے ہے، اس لیے فرد اور ملت کا تعلق پہنچاننا ضروری ہے مگر یہ بحث الگ آئے گی۔ -----۱۲؍مئی۱۹۷۵ء ئ……ئ……ء ۲۵ نظریۂ خودی کی سہل ترین تشریح-۳ خودی کا سلسلۂ عمل -۱ ۱- تخلیقِ مقاصد خودی کا جوہر فطرتاً ہر شے میں (کائنات کی ہر شے میں)موجود ہے اور اس کی ترقی کے وسائل بھی ہر شے کو عطا ہوئے ہیں مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہر شے خودبخود بڑھتی جاتی ہے۔ جہاں خودی قوی ہوکر ارتقا کا باعث بن سکتی ہے، وہاں یہ بھی ہوتا ہے کہ خودی بعض اسباب سے ضعیف ہوکر مربھی جاتی ہے۔ نیچر کی حد تک اس کے جو اسباب بیان کیے گئے ہیں، ان کی تشریح ارتقا کی کتابوں میں مل سکتی ہے۔ البتہ انسان کے معاملے میں خودی کے ضعف و استحکام کی گفتگو یہاں بر محل بلکہ ضروری ہے۔ خودی کا عمل تخلیقِ مقاصد سے وابستہ ہے۔ یعنی اعلیٰ مقاصدِ حیات کی آرزو اور ان کے لیے جدوجہد؛خودی کا خلاصہ ہے۔ نیچر کی حد تک یہ مقاصد خود نیچر کی رہنمائی کے محتاج ہیں۔ انسان بھی نیچر سے آزاد نہیں بلکہ اس کے عمل کی حدیں بہت وسیع ہیں کیونکہ اس کی صلاحیتیں خصوصاً حرکت کی قوت اور تجزیے اور تنظیموں کی صلاحیتیں انسان سے مخصوص ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ اعلیٰ مقاصدِ حیات کی آرزو، قلبِ انسانی میں پیدا کیوں ہوتی ہے؟ اس کے کئی جواب ہیں۔ یہ آرزو دو طرح یا دو وجوہ سے پیدا ہوتی ہے: الف: اس قدرتی جوشِ حیات سے جو کائنات کے ذرّے ذرّے میں نظر آرہا ہے، جو بیج سے درخت بناتا اور گل پھول لگاتا رہتا ہے اور نسل و نوع کو بڑھاتا رہتا ہے۔ یہ محرک فطری ہے۔ اسے اقبال کے قول کے مطابق نقطۂ نوری کَہ ڈالیے یا برگساں کے خیال کے مطابق جوشِ حیات کَہ دیجیے۔یہ عطیۂ ربانی ہے جوہر شے کو عطا ہوا ہے۔ یہ آرزو کا منبعِ اوّل ہے۔ اقبال کے کلام میں عشق بھی اسی کا نام ہے۔ ب: دوسری شے جو آرزو کی خالق اور اس کو تقویت دینے والی ہے، وہ انسان کا یہ احساس ہے کہ دُنیا میں اس کے ہمسر اور بھی ہیں۔ ان سے فائق ہونے یا ان میں فائق ہونے کا جذبہ انسان کا ایک بنیادی جذبہ ہے۔ میکڈوگل نے انسانی جبلتوں کی جو فہرست تیار کی ہے، اس میں غلبہ پانے کی جبلت بھی شامل ہے۔ یہ جبلت اپنی ابتدا میں فوقیت حاصل کرنے کے میلان کی شکل اختیار کرتی ہے۔ یہ جبلت انفرادی ہونے کے باوجود دراصل اجتماع سے وابستہ ہے۔ دوسرے انسان نہ ہوں تو فوقیت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ج: محض ٹکراؤ سے بھی ایک احساس پیدا ہوتا ہے (جسے پیکار کہا گیا ہے) مگر محض ٹکراؤ نچلے درجے کی زندگی کی خاصیت ہے۔ انسانی درجے میں فوقیت کا جذبہ مؤثر ترین محرک ہے۔ برتر انسانوں کے ٹکراؤ کے لیے جو ایک شعوری اور اخلاقی میلان ہے، ذوقِ تسخیر کی اصطلاح استعمال ہوئی ہے۔ یہ جذبہ اپنی انتہا کے اعتبار سے معیوب بھی نہیں اور اس کے سلسلے میں جو پیکار لازمی ہوجاتی ہے، اس میں تالیف، توافق اور عادلانہ جارحیت تینوں شامل ہیں، تغلب یا میلان ظلم میں شامل نہیں۔ انسان ایک بااقدار مخلوق ہے، نیچر کی طرح بے اقدار نہیں یعنی نیچر حیات کی نچلی سطحوں کے لیے دیے گئے قانون پر بے رحمانہ عمل کرتی ہے۔ انسان کا عمل بے رحمانہ نہیں ہوتا، یہ بامقصد ضرور ہے مگر بے رحمانہ نہیں، محکم ہے مگر ظالمانہ نہیں۔ خلاصہ یہ کہ مقاصد کی آرزو انسان کی حیوانی فطرت کے علاوہ اس کی اجتماعی فطرت کا حصہ ہے۔ وہ اس اجتماعی حس سے فردِ واحد کی حد تک بھی مستفید ہوتا ہے اور جماعتی دائرے میں اور جماعتی مقاصد کی صورت میں بھی ہوتا ہے۔ اور جماعت اپنے مقاصد، اپنے ماحول سے حاصل کرتی ہے۔ یہ حس قوی بھی ہوسکتی ہے اور کمزور بھی۔ اسی طرح یہ حس اگرچہ جبلی اور فطری ہوتی ہے مگر ارادے اور شعور سے اس کے استحکام کی صورتیں پیدا کی جاسکتی ہیں، اور استحکام کے ساتھ اس کی راہیں بھی متعین کی جاسکتی ہیں۔ یہیں سے تعلیم اور تربیت کی اہمیت کا پتا چلتا ہے جو خودی کے استحکام اور اس کو عادلانہ عمل کی طرف لے جاسکتی ہے۔ ۲- عشق گذشتہ بحث میں بیان ہوچکا ہے کہ خودی کا عمل، آرزو (عشق یا مقاصد کی لگن) کا محتاج ہے۔ خودی میں زندگی کو ترقی دینے کی جو صلاحیت ہے، اس کی محرک یہی آرزو ہوتی ہے۔ آرزو کی تکمیل کے عمل میں خودی کو رکاوٹوں سے برسرِ پیکار ہونا پڑتا ہے اور اس پیکار میں قوت بخشنے والی شے عشق ہے، عشق! اس کا مطلب یہ ہوا کہ پیکار ترقی کے لیے محض وسیلہ ہے، مقصود بالذات نہیں۔ اس کے مقابلے میں خودی کا جوہر عشق ہے اور یہ ایک مثبت قوت ہے جو مزاحمتوں کا مقابلہ کرتی اور آگے بڑھ جاتی ہے! یہ عشق کیا شے ہے؟ اس کی تفصیل لازمی ہے۔ عشق اس جذبے کو کہتے ہیں جو طالب کو مطلوب کی طرف کھینچتا ہے۔ یہ اس کے سرسری معنی ہیں۔ مگر اس جذبے کی ماہیت اور تاثیر کے بارے میں کئی تعبیریں کی گئی ہیں، ان سب تعبیروں کا خلاصہ یوں بیان کیا جاسکتا ہے: ۱- عام سائنسی نقطۂ نظر سے عشق، زندگی کو بڑھانے (یا بقاے نوع) کا ایک ذریعہ ہے۔ نر اور مادہ کی باہمی کشش کا نتیجہ وصال اور اس کا نتیجہ تولید! یہ بیالوجی یا حیاتیات والوں کی تفسیر ہے۔ ۲- ڈارون کے نزدیک، میلانِ بقا و ارتقا کا نام عشق ہے۔ ۳- صوفیوں کے نزدیک، عام معنوں کے علاوہ محبوبِ حقیقی سے محبت… اور اس کی خاطر ہر شے سے محبت۔ ۴- افلاطون کے یہاں عشقِ مطلق کا تصور پایا جاتا ہے، اس کے نزدیک باقی سب محبتیں مجازی ہیں، اصل چیز جو سرمدی یعنی ازلی ابدی ہے، یہی مطلق عشق ہے۔ ۵- فرائڈ (جو تحلیلِ نفسی کا امام ہے) کہتا ہے کہ زندگی کی دو قوتیں بنیادی ہیں۔ ایک تخریبی قوت جس کا دوسرا نام موت ہے۔ دوسری تعمیری قوت جس کا دوسرا نام عشق ہے۔ یہ دوسری قوت مرد و زن کی کشش سے شروع ہوکر تمام نوعِ انسان کی محبت تک ترقی کرجاتی ہے (تفصیل ملاحظہ ہو: ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم کی کتاب فکرِ اقبال، ص۴۰۴) ۶- عشق آرزو کا خالق جذبہ ہے اور آرزو کا وسیلہ بھی ہے اور نتیجہ بھی۔ صوفیوں کے نزدیک، عشق ایک تاثراتی یا جذباتی معاملہ ہے۔ حکما کے نزدیک نظریاتی مسئلہ ہے۔ اقبال چونکہ رومی کے خیالات سے بہت متاثر ہیں (اور وہ ایک صوفی بزرگ تھے) اس لیے صوفیوں کے تصورِ عشق کی گفتگو اگر زیادہ پھیل بھی جائے تو مضائقہ نہیں۔ صوفیوں کا منتہائے مقصود وصالِ حقیقی ہے یعنی خدا تک پہنچنا اور اس میں جذب ہوجانا ہے۔ صوفی کے مسلک میں یہ سفر بڑا صبر آزما اور طویل ہے۔ مگر وہ جذبۂ عشق کی مدد سے ان سب مشکلات پر قابو پالیتا ہے۔ صوفی کا یہ جذبۂ عشق عجیب و غریب چیز ہے۔ یہ کوئی اندھی بہری قوت نہیں۔یہ جہاں صوفی کے لیے لذت بخش اور مسرت آفرین ہے اور اس مسرت بخشی کے ذریعے اسے مشکلات سے پیکار پر اُبھارتی ہے، وہاں یہ بصیرت کا سرچشمہ بھی ہے۔ صوفی جب عشق کی منزلوں میں وجدوحال کی کیفیت سے لذت یاب ہوتا ہے تو ان حالتوں میں بسا اوقات اس پر علم کے دروازے بھی کھل جاتے ہیں۔ یہ علم عقل کی مدد سے حاصل کیے ہوئے علم سے زیادہ یقینی اور قطعی ہوتا ہے۔ خودی کے سلسلۂ عمل میں مقاصد کی لگن (عشق) ہی ایک اہم چیز ہے۔ یہ مزاحمتوں کے مقابلے میں حوصلہ اور اگلی منزلوں کے لیے علم و بصیرت پیدا کرنے والی رہنما قوت ہے، یعنی یہ علم بھی ہے اور اس کے ساتھ ہی عمل کی محرک بھی ہے۔ ظاہر ہے کہ عقل کی مدد سے حاصل کیے ہوئے علم میں یہ کمال نہیں ہوتا کہ خود ہی علم بھی ہو اور عمل بھی۔ وہ تو دور سے بیٹھ کر اشارے کرنے والا رہنما ہوتا ہے اور بعض اوقات یہ بھی ہوتا ہے کہ اس کے اشارے غلط ہوتے ہیں کیونکہ اس کا سارا سرمایۂ نتائج، قیاس پر مبنی ہوتا ہے اور قیاس بعض اوقات غلطی بھی کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صوفیوں کے کلام میں (اور خود اقبال کے کلام میں) عشق کو عقل اور علم دونوں پر فضیلت دی گئی ہے۔ (عقل و عشقِ باہمی کے مقابلے کی مزید بحث عقل و علم کے عنوان میں آئے گی۔) یہاں بحث خودی کے سلسلۂ عمل کی ہورہی ہے اور اس سلسلۂ عمل میں عشق ایک بنیادی اور ترقی دینے والا جذبہ ہے، اس لیے یہ ذہن نشین کرنا لازمی ہے کہ عشق کے جو معنی بھی لیے جائیں، ان میں سے ہر ایک خودی کے سلسلۂ عمل میں مفید ہے۔ خودی کا عشق سے اتنا گہرا اور قریبی تعلق ثابت ہوتا ہے کہ بعض اوقات یہ گمان گزرتا ہے کہ خودی اور عشق دونوں ایک ہی شے کے دو نام ہیں چنانچہ اقبال نے خود بھی بعض موقعوں پر یہی لکھا ہے۔ عشق کی صفات گوناگوں ہیں۔ عشق کی ایک خاصیت یہ ہے کہ اسے خطرات کی پروا نہیں ہوتی۔ اس کی دوسری سرشت بے غرضی ہے یعنی مقصدِ اعلیٰ کے سوا (جو خود ایک پاکیزہ نصب العین ہوتا ہے) کوئی مادّی یا جسمانی غرض نہیں ہوتی۔ (اسی لیے اقبال نے عشق اور فقر کو لازم و ملزوم ٹھہرایا ہے۔فقر سے مراد یہ ہے کہ سب کچھ میسر ہونے کے باوجود اور ہر مادّی شے پر قادر ہونے کے باوجود ہر شے سے بے نیازی ہو۔) عشق کی خاصیت یہ بھی ہے کہ وہ خود علم ہوتا ہے (جیسا کہ پہلے بیان ہوا ہے) وہ عقلی علم کا دشمن نہیں مگر اس کا محتاج نہیں ہوتا۔ البتہ عقلی علم اگر عشق کا رفیق بن جائے تو یہ بھی خودی (زندگی کی ترقی کی آرزو اور جدوجہد) کے لیے بہت مبارک بات ہے: زیرکی از عشق گردد حق شناس کارِ عشق از زیرکی محکم اساس عشق چوں با زیرکی ہم بر شود نقشبندِ عالمِ دیگر شود خیز و نقشِ عالمِ دیگر بنہ عشق را با زیرکی آمیزدہ یعنی زیر کی (عقلی علم) اگر عشق سے فیض یاب ہوجائے تو اس میں حق شناسی کا جوہر پیدا ہوسکتا ہے۔ اسی طرح عقلی علم سے عشق کو بھی تقویت مل سکتی ہے۔ اس سے عشق کی ایک اور خاصیت کا پتا چلا اور وہ ہے سچائی (حق) کی نگہداشت اور حکما عموماً یہ کہتے ہیں کہ حق، خیر اور حسن ایک ہی قدرِ مطلق کے تین الگ الگ نام نہیں، جہاں حق ہے وہاں خیر اور حسن بھی ہے۔ اس سے یہ ظاہر ہوا کہ عشق، صرف حسن ہی کا آرزو مند نہیں بلکہ نیکی اور سچائی کا بھی طلب گار ہے۔ قوت کا سرچشمہ بھی ہے اور بصیرت کا منبع بھی، آرزو مند تو ہے مگر غیور و بے نیاز اور خود دار بھی ہے۔ خوف اس کی سرشت میں نہیں، خطر طلبی اس کا خاصہ ہے۔ مقاصد کی پیکار میں اسے لذت ملتی ہے، مصلحت اندیشی، شک اور تذبذب سے اسے چڑ ہے۔ وہ آرزو بھی ہے اور علم بھی ۔علم بھی ہے اور عمل بھی۔ اتنی ہمہ گیر قوت و صلاحیت کو(جو کائنات کے اندر ہرجگہ پنہاں ہے) اگر حیات اور خودی کا جوہر کَہ دیا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ اسی وجہ سے قدیم صوفیوں نے اور اقبال نے بھی جابجا عشق کی برکات کا ذکر کیا ہے۔ -----۱۹مئی۱۹۷۵ء ئ……ئ……ء ۲۶ تصورِ خودی کی سہل ترین تشریح-۴ خودی کا سلسلۂ عمل -۲ ۳- پیکار یہ تو معلوم ہوگیا کہ خودی ایک ’’نقطۂ نوری‘‘ ہے جو ہر شے کے اندر موجود ہے،اور انسان کے باطن میں بھی موجود ہے مگر اس میں گرمی، چمک اور قوت، آرزو (عشق و محبت) سے پیدا ہوتی ہے۔ اور یہ بھی معلوم ہوچکا ہے کہ یہ عشق و محبت بڑا وسیع لفظ ہے، بڑے بڑے مقاصد کی لگن بھی اس میں شامل ہے۔ انھی مقاصد کی لگن سے قوتِ عمل جاگ اُٹھتی ہے اور فرد (اور مجموعی طور پر ملت بھی) بڑے بڑے کارنامے انجام دینے کے لیے بے تاب ہوجاتا ہے۔ اس کے دل سے غیر اللہ کا خوف نکل جاتا ہے اور وہ بے خطر مشکل سے مشکل منزلوں کو عبور کرنے کے لیے تیار ہوجاتا ہے۔ خودی جب کسی آرزو کے تحت سرگرمِ عمل ہو جاتی ہے تو مقصد کے حصول کے لیے اسے دو قوتیں آمادۂ عمل رکھتی ہیں، ایک مثبت یعنی یہی عشق (مقاصد یا ذوقِ تسخیر) اور دوسری منفی، یعنی راستے کی رکاوٹوں کو دور کرنے کی قوت یا پیکار (یا ذوقِ ستیز): مردِ خود دارے کہ باشد پختہ کار با مزاج او بسازد روزگار گر نہ سازد با مزاجِ اوجہاں می شود جنگ آزما با آسماں بر کند بنیادِ موجودات را می دہد ترکیبِ نو ذرات را یعنی جب فرد خود آشنا ہوجاتا ہے تو زمانہ خود بخود اس کے مزاج کا ہم رنگ بن جاتا ہے، ورنہ وہ زمانے سے ٹکرا جاتا ہے اور ایک نئی دُنیا وجود میں لے آتا ہے۔ اس سے ظاہر ہوا کہ خودی کے عمل میں عشق اور پیکار دونوں کی ایک خاص حیثیت ہے۔ دونوں خودی کے محافظ بھی ہیں اور اس کی ترقی کا ذریعہ بھی۔ عشق کا عمل آگے بڑھنے کے شوق کو تیز کرتا ہے اور پیکار اس پیش قدمی کے دوران پیش آنے والی رکاوٹوں کو طاقت سے دور کرنے کی کوشش ہے۔ اقبال کے کلام میں ان دونوں کی بڑی اہمیت ہے۔ دونوں کی خودی سے اور دوسری طرف آپس میں بھی لازم و ملزوم کی حیثیت ہے، اس لیے ان کی تھوڑی سی تفصیل مفید ثابت ہوگی۔ ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم اپنی کتاب فکرِ اقبال میں لکھتے ہیں:’’زندگی کے ارتقا کے لیے تصادم اورپیکار ناگزیر ہے۔یہ پیکار کبھی خارج میں ہوتی ہے اور کبھی باطن میں، کبھی فرد ماحول سے ستیزہ کار ہوتا ہے اور کبھی افکار باہم ٹکراتے ہیں۔ حیات اور ترقی کا مدارانفس و آفاق کے مسلسل تصادم پر ہے۔‘‘ اقبال کے کلام میں پیکار کا بار بار ذکر آتا ہے اس سے بعض لوگوں کے دل میں کچھ غلط فہمیاں پیدا ہوجاتی ہیں۔ وہ سمجھنے لگتے ہیں کہ اقبال جنگ جوئی کی تعلیم دیتے ہیں مگر یہ خیال صحیح نہیں، اقبال صرف یہ کہتے ہیں کہ: ۱- فطرت کے اندر ہر جگہ پیکار کا عمل جاری ہے۔ فطرت میں ترقی و ارتقا کا سارا سلسلہ اس اُصول کے تابع ہے۔ ۲- انسانی تاریخ سے بھی یہی پتا چلتا ہے۔ تہذیبِ انسانی کی ترقی میں پیکار اور تصادم نے ہمیشہ حصہ لیا ہے۔ ۳- مگر اقبال نے ملتِ اسلامیہ کو ایک برتر ملت قرار دے کر یہ واضح کیا ہے کہ اس ملت کا عمل فطرت کے عمل سے برتر اور زیادہ پاکیزہ ہے۔ یہ ملت پیکار کے فطری اُصول پر اونچے مقاصد کی خاطر کچھ پابندیاں عائد کرتی ہے۔ پہلی پابندی یہ ہے کہ پیکار کا یہ سلسلہ صداقت سے ہم آہنگ ہونا چاہیے۔ دوسری پابندی یہ ہے کہ اس میں خوفِ حق ہر وقت موجود رہنا چاہیے۔ بے غرضی یعنی بری اغراض سے پاک ہونا، یہ بھی ایک بنیادی شرط ہے۔ اسی لیے اس جہاد کو جو ملک گیری کی ہوس کی وجہ سے کیا جائے جہاد نہیں فساد کہا گیا ہے۔ جو پیکار اس قدر پاکیزہ ہو، اسے کوئی شخص برا نہیں کَہ سکتا۔ بلکہ بنی نوع انسان کے لیے اس کی سخت ضرورت ہے تاکہ باطل اور ظلم کی قوتیں غالب نہ آجائیں۔ نیچر بھی قانون پر عمل کرتی ہے مگر نیچر کے قانون میں لچک[نہیں ]ہوتی ہے۔(میں اسے بے رحمی نہیں کہتا مگر بعض لوگ اسے بے رحمی کہتے ہیں) نیچر اندھا دُھند (گو ایک بنے بنائے قاعدے کے تحت) پیکار کا عمل جاری رکھتی ہے۔ مگر انسان کا برتر قانون اپنے اندر لچک بھی رکھتا ہے۔ عدل و رحم دونوں کا پاس دار ہے اور سچائی اور نیکی کی اقدار کو پھیلانا اس کا ایک شعوری نتیجہ ہے۔ یہ تسلیم کہ تمام کائنات میں پیکار کا قدرتی عمل جاری ہے مگر مردِ حق جس پیکار میں سرگرم ہوتا ہے، وہ نیچر کی طرح اندھا دُھند نہیں بلکہ اخلاقی نصب العین کے تابع ہے۔ مردِ حق کے پیکار کا ایک مرحلہ جذب و تسخیر ہے۔ یعنی بزور نہیں بلکہ جذب و کشش کے ذریعے غیر کو اپنا بنالیا جائے۔ اور یہ بھی پیکار کا ایک حصہ ہے۔ اس کی تفصیل عشق کی تشریح میں آئے گی۔ مقصد یہ کہ اقبال کے نزدیک برتر انسان کے پیکار کی نوعیت نیچر کی پیکار سے برتر اور مختلف ہے۔ اسی لیے یہ کہنا غلط ہے کہ اقبال محض جنگ و جدل کا شاعر ہے۔ صحیح یوں ہے کہ اقبال ذوقِ تسخیر کا شاعر ہے اور اس تسخیر میں محبت اور استیلا (بزور غلبہ) دونوں شامل ہیں۔ نیچر میں جو پیکار جاری ہے، اس کی تشریح فلسفیوں اور سائنس دانوں نے اپنے اپنے طریقے سے کی ہے۔ جرمن فلسفی ہیگل کہتا ہے کہ زندگی ایک سلسلۂ جدل (جدل کے معنی بھی لڑائی اور پیکار ہیں۔ ہیگل کے ان تصورات کو جدلیات کہا جاتا ہے) کا نام ہے۔ اسی جدل سے ترقی کا عمل جاری رہتا ہے۔ ایک شے یاجزئی اپنی مخالف شے سے ٹکراتی ہے۔ اس ٹکراؤ سے ایک نئی شے یا جزئی وجود میں آتی ہے۔ پھر یہ نئی شے اپنے ماحول میں مخالف جزئی سے ٹکراؤ پیدا کرتی ہے۔ یہ سلسلہ جاری رہتا ہے۔ زندگی اس پیکار کی بدولت نت نئے روپ اختیار کرتی رہتی ہے۔ یہ تو تھی پیکار کی فلسفیانہ توجیہ۔ سائنس دانوں میں سے بعض نے اشیا و اجسام کے مشاہدے اور ان کے خواص کے تجزیے سے یہ معلوم کیا ہے کہ کائنات میں غیر محسوس طور پر ایک جنگ جاری ہے۔ یہ جنگ اپنی حیات اور بقا کے لیے ہے (تنازع للبقا)، اس جنگ میں جو اجسام زیادہ مضبوط ہیں وہ دوسروں کو (جو نسبتاً کمزور ہیں) مغلوب کرکے یا تو اپنے اندر جذب کرلیتے ہیں یا فنا کردیتے ہیں اور زندہ وہی رہتے ہیں جو زندہ رہنے کی قوت اور صلاحیت سب سے زیادہ رکھتے ہیں (بقاے اصلح)۔ انسان بھی چونکہ فطرت کا ایک جزو ہے، اس لیے اس کے اعمال و افعال میں (سرشت میں) مذکورہ بالا فطری اُصول یا صلاحیت موجود اور کارفرما ہے۔ لیکن چونکہ انسان ایک برتر مخلوق ہے اور ہزارہا برسوں کے تجربے سے اس نے زندہ رہنے کے لیے فطرت سے بلند تر کچھ قوانین اور بھی دریافت کیے ہیں یا وضع کرلیے ہیں، اس لیے اس کے پیکار کے عمل میں اخلاقی نصب العین موجود رہتا ہے یا رہنا چاہیے۔ وہ حیوان نہیں انسان ہے، اس لیے اس کے اُصولِ پیکار حیوان کے اُصول نہیں ہونے چاہییں اگرچہ اس حیوانی صفت کی موجودگی اس کے لیے لازمی ہے کہ زندگی کے لیے پیکار ایک بنیادی شے ہے۔یہ اور بات ہے کہ اس کی شکل حیوانی پیکار سے جدا ہوسکتی ہے۔ -----۲۶؍مئی۱۹۷۵ء ئ……ئ……ء ۲۷ دو دِن شہر اقبال میں [نظریۂ خودی سے متعلق سلسلۂ کلام کو توڑتے ہوئے اس شذرے میں شہرِ اقبال (سیالکوٹ) میں دو دن قیام کی مختصر سی سرگذشت لکھنی ہے۔] ۲۴ اور ۲۵؍ مئی کو انجمن نواے اسلام پاکستان سیالکوٹ کے زیرِاہتمام ایک اُردو کانفرنس منعقد ہوئی، جس کی صدارت کے فرائض راقم الحروف نے انجام دیے۔ میں نے خطبۂ صدارت میں سیالکوٹ کے شان دار علمی ماضی کا تذکرہ کیا، اور اس کے حوالے سے میں نے یہ اپیل کی کہ اس شہر کو قومی زبان کے توسط سے ایک نیا مرکز بن کر پاکستان کے علمی احیا کی از سرِ نو کوشش کرنی چاہیے۔ ملک محمد اقبال صدرِ استقبالیہ نے کہا کہ یہ شہر اگرچہ کھیلوں کے سامان اور سرجری کے آلات کی صنعت کے لیے شہرت رکھتا ہے، لیکن اس شہر کی علمی روایت فراموش نہیں ہوئی۔ اُنھوں نے اپنے ضلع کے لوگوں کو دعوت دی کہ وہ اُردو کی خدمت کے لیے کمربستہ ہوجائیں اور سیالکوٹ کو اُردو کا قلعہ بنادیں۔ اس کانفرنس کا اہتمام عبدالحفیظ کھوکھر صاحب نے کیا تھا، اور اگرچہ ان کے پاس وسائل کی کمی تھی، تاہم اُنھوں نے نوجوانوں کی اچھی خاصی تعداد اپنے گرد جمع کررکھی تھی، جن کا ولولہ اور خلوص ہر لحاظ سے قابلِ تقلید تھا۔ یہ دیکھ کر تعجب ہوا کہ سیالکوٹ کے ادیبوں نے کانفرنس سے کچھ خاص دلچسپی نہ لی۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ کھوکھر صاحب ان کا تعاون حاصل نہ کرسکے ہوں، یا ممکن ہے ادیبوں نے اس غریب بے سرمایہ کارکن کی ہم قدمی پسند نہ کی ہو۔بہرحال کانفرنس نے اپنا مقصد حاصل کرلیا۔ عمدہ مقالات پڑھے گئے اور خوشی کی بات یہ ہے کہ نوجوانوں کے مقالے بڑے پر مغز تھے۔ اس سفر میں مشہور ماہرِ تاریخ و عتیقیات ڈاکٹر عبداللہ چغتائی بھی شریک تھے۔ ان کی وجہ سے سیالکوٹ کے تاریخی پس منظر کے علاوہ، علامہ اقبال کے خاندان اور ان کے بارے میں نہایت قیمتی معلومات حاصل ہوئیں۔ کانفرنس سے فارغ ہوکر ہم (یعنی ڈاکٹر عبداللہ چغتائی اور سعید شیخ اور میں) تینوں حضرات علامہ کی منزل پر گئے۔ یہ وہ مکان ہے جہاں حضرت علامہ کی ولادت ہوئی تھی۔ یہ مکان اب آثار قدیمہ کے انتظام میں ہے۔ اور اچھی حالت میں ہے۔ لیکن ہمیں دو باتوں کا احساس ہوا۔ پہلی بات یہ ہے کہ منزلِ اقبال کی طرف راہ نمائی کے لیے نشانات و اشارات موجود نہیں۔ اگر اس قسم کے نشانات مختلف موڑوں پر لگ جائیں تو زائرین کو آسانی ہو۔ دوسری عجیب بات یہ ہے کہ حضرت علامہ کی اس منزل کے باہر جو کتبہ لگا ہوا ہے، اس پر ابھی تک ۱۸۷۳ء سال ولادت لکھا ہوا ہے۔ اس پر مجھے تعجب اس لیے ہوا کہ ہماری پوری قوم پورا ایک سال، تاریخ ولادت کے بارے میں مناظرہ کرتی رہی۔ اس پر آپس میں تلخیاں بھی ہوئیں اور حکومت نے بھی اس میں حصہ لیا اور بالآخر ۱۸۷۷ء سال ولادت کا سرکاری طور سے اعلان اور اب اس سنہ کے حساب سے صد سالہ تقریب کا اہتمام کیا جارہا ہے مگر معاملہ ابھی تک غیر فیصلہ شدہ ہے۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ اُدھر مکانِ ولادتِ اقبال پر پہنچنے والوں کے لیے پرانا سال ولادت (۱۸۷۳ئ) لکھا ہوا موجود ہے اور اُدھر سرکاری سطح پر ۱۸۷۷ء کو سال ولادت قرار دے دیا گیا ہے۔ معلوم نہیں کس کی بات درست ہے۔ اگر حکومت یا محکمہ آثارِ قدیمہ یا اقبال کمیٹی ذرا سی توجہ دے دیتی تو اس تضاد کو دور کیا جاسکتا تھا۔ لیکن کتبہ (۱۸۷۳ئ) ابھی تک لگا ہوا ہے۔ بہرحال ہم نے اس زیارت کدے کو دیکھا اور اپنے دل اور نظر کو انوار سے منور کیا۔ اس کے بعد ہم امام علی الحق شہید کے مزار پر گئے۔ اور چغتائی صاحب نے بتایا کہ حضرت امام علی الحق شہاب الدین غوری کے عساکر کے ساتھ تشریف لائے تھے (یا غوریوں کے عہد میں)۔ بہرحال مجاہدِ عظیم تھے اور ہندستان میں شمال کی جانب سے آنے والے علما و صلحا کے قافلۂ اوّل سے تعلق رکھتے تھے۔ شہر سیالکوٹ کے گرامی قدر باشندگان کی نظر میں معلوم نہیں اس واقعے کی کوئی اہمیت ہے یا نہیں، لیکن داستانِ عروجِ اسلام (در ہند) کے ہر طالب علم کے لیے، ایسے بزرگوں کے مجاہدات و فتوحاتِ رُوحانی ایک محیرالعقول کہانی ہے بلکہ درس۔ اس زیارت کی آستان بوسی کے بعد حکیم الہند ملّا عبدالحکیم سیالکوٹی کے مرقد پر حاضری دی۔ اسی احاطے میں ان کے خلف الرشید ملّا عبداللہ سیالکوٹی مدفون ہیں۔ گویا اس زمین میں یک جا دو عظمتیں محوِ خواب ہیں۔ علامہ اقبال کے والد مرحوم کا مزار بھی دیکھا اور مولانا میر حسن کا مرقد بھی دیکھا۔ ان کے علاوہ بھی متعدد خفتگانِ خاک کے مزارات پر فاتحہ خوانی کی۔ خدا تعالیٰ ان سب اولیا و علما کی قبروں کو عنبریں کرے۔ شہرِسیالکوٹ کے متعلق تاریخوں میں بہت کچھ موجود ہے۔ ماضی کے کوائف ان کتابوں میں مل سکتے ہیں۔ مجھے حال کے متعلق یہ کہنے میں بڑی مسرت محسوس ہورہی ہے کہ سیالکوٹ کے اندر میں نے ایک خاص تہذیبی مزاج دیکھا۔ ہم لوگ پرانے اور نئے شہر میں بفراغِ خانہ پھرے، ہمیں ہر جگہ ایک خاص قسم کی شرافت اور معصوم بھولپن نظر آیا۔ ہر مرد و زن کو اسلامی آداب کا نمونہ پایا۔ اور پاکستان کے بعض بڑے شہروں میں نو دولت طبقے کی وجہ سے جو اوباشانہ وضع قطع پیدا ہوگئی، یہاں اس کا شائبہ تک نہیں پایا۔ سڑکیں کشادہ اور ستھری، صفائی خاصی حد تک قابلِ رشک ،ان باتوں سے محسوس ہوا کہ سیالکوٹ کی رُوحانی صحت ٹھیک ہے۔ آخر میں محکمہ آثارِ قدیمہ سے درخواست ہے کہ منزلِ اقبال کا کتبہ درست کیا جائے اور لوگوں کی راہنمائی کے لیے قطعی اور درست نشانات لگائے جائیں۔ ریلوے اسٹیشن پر بھی نقشہ آویزاں کیا جائے تاکہ بذریعہ ریل جانے والوں کو فوراً محلِ وقوع کا نشان مل جائے۔ -----۲؍جون۱۹۷۵ء ئ……ئ……ء ۲۸ نظریۂ خودی کی سہل ترین تشریح-۵ خودی کا سلسلۂ عمل-۳ (۴) پیکار اور ابلیس گذشتہ بحث سے پیکار کی بنیادی اہمیت واضح ہوچکی ہے۔ یہاں یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ پیکار کی اہمیت اس میں ہے کہ اس میں مزاحمت و مخالفت کی صورتیں موجود ہیں۔ مزاحمت پیکار کی رُوح ہے۔ جس قدر مزاحمت زیادہ ہوگی، پیکار بھی اتنی ہی شدید ہوگی اور اسی نسبت سے خودی کو اپنا جوہر دکھانے اور زندگی کو ترقی دینے کا موقع بھی زیادہ ملے گا۔یہ ایک ازلی قانون ہے اور فطرت میں ہر جگہ کارفرما ہے۔ خاص انسان کے تعلق میں دینی کتابوں میں (قران مجید میں بھی) آدم کے راستے میں مزاحمت پیدا کرنے والے ایک وجود کا ذکر آیا ہے۔ جس کے کئی نام ہیں: ابلیس، شیطان، طاغوت وغیرہ۔ ان میں دو اوّل الذکر زیادہ مشہور ہیں۔ کلامِ اقبال میں بھی ابلیس کو مزاحمت کے نمائندے کی علامت کے طور پیش کیا گیا ہے اور چونکہ فکرِ اقبال میں پیکار کی خاص اہمیت ہے اس لیے ابلیس کی بڑی اہمیت ہے۔ ابلیس کیا ہے؟ کون ہے؟ کہاں ہے؟ ان سب سوالوں کے جواب مختلف دیے گئے ہیں۔ دینی توجیہات کے مطابق ابلیس ایک باغی فرشتہ ہے جس نے آدمؑ کی فضیلت تسلیم نہ کی اور خدا کی نافرمانی کے جرم میں ہمیشہ کے لیے راندۂ درگاہ ہوگیا۔ آدم کو جنت سے نکلوانے والا، گناہ پر آمادہ کرنے والا اور آدم کی سادگی سے فائدہ اُٹھا کر اسے پھسلانے والا ابلیس ہی تھا۔ اب وہ ہر لحظہ انسان کے در پے رہتا اور اسے بہکانے اور گمراہ کرنے کے لیے سائے کی طرح اس کے ساتھ لگا رہتا ہے۔ یہ اس کا مستقل مشغلہ ہے اور انسان کو حکم ہے کہ ہر وقت استغفار پڑھے اور اس کی گمراہیوں سے بچنے کی دُعا کرتا رہے۔ گویا انسان کو اپنے اس حریف سے ہر لحظہ جنگ درپیش ہے۔ فلسفیانہ انداز میں سوچنے والوں نے ابلیس کے وجود سے انکار کرتے ہوئے اسے زندگی کا ایک مظہر بلکہ ایک صفت قرار دیا ہے۔ ابلیس شر کی علامت ہے اور الگ ہستی نہیں بلکہ زندگی میں ہر جگہ خیر کے مقابلے میں مزاحمت پیدا کرنے والی قوت ہے جو نظامِ عالم کے ایک لازمی جزو کی حیثیت سے خیر ہی کی طرح ناگزیر ہے۔بعض صوفیوں کے نزدیک ابلیس پکا موحّد تھا اور یہ مصلحتِ ایزدی تھی کہ اس نے انکار اور استکبار کیا۔ معتزلہ (مسلمانوں کے مشہور عقل پسند گروہ) کے نزدیک یہ تخریب انگیز میلان کا نام ہے چنانچہ خود حدیث میں آیا ہے کہ ہر آدمی کا شیطان اس کے ساتھ ہوتا ہے۔ اسی لیے محی الدین ابن عربی نے کہا تھا کہ شیطان کی گردن مارنے کی ضرورت نہیں، اسے مسلمان بنانے کی ضرورت ہے۔ بہرحال صورتِ ابلیس کے بارے میں بے شمار توجیہات ہیں۔ ان میں سے ہر ایک اس بات کی مؤید ہے کہ ابلیس: ۱- مزاحمت کا نمائندہ ہے۔ ۲- شر کا نمائندہ ہے۔ ۳- انکارِ نفی اور تشکیک کا نمائندہ ہے۔ ۴- عقلِ محض کا نمائندہ ہے۔ (خدا سے اس کا مکالمہ (آدم کے باب میں) منطق کی پوری پوری نمائندگی کرتا ہے) بعض حکما نے اسے مادیت کا نمائندہ بھی قرار دیا ہے اور موجودہ مغرب کے قول و عمل کے نقطۂ نظر سے شاید درست بھی ہے مگر زیادہ وجوہ یہ ثابت کرتے ہیں کہ اس کا بڑا کام نفی، تشکیک اور مزاحمت ہے، خواہ یہ مزاحمت مادّی اسباب سے ہو یا محض فکر و استدلال سے یا ترغیب سے یا وسوسہ اندازی سے بہرحال مزاحمت اس کا کام ہے۔ دنیا کے بڑے بڑے ادیبوں کو ابلیس کے کردار میں کشش محسوس ہوئی ہے۔ چنانچہ قدیم اطالوی شاعر ڈانٹے نے اپنی کتاب ڈیوائن کامیڈی میں، انگریز شاعر ملٹن نے اپنی نظم میں اور جرمن شاعر گوئٹے نے اپنے منظوم ڈرامے میں ابلیس کی تصویر پیش کی ہے جس سے ابلیس کے کردار کے نئے نئے پہلو سامنے آتے ہیں۔ اقبال نے متعدد نظموں میں (خصوصاً فارسی جاوید نامہ میں) ابلیس کے متعلق اظہارِ خیال کیا ہے اور اسے حرکت، حرارت، ذہانت، اضطراب اور بے تابی کی صفات سے متصف کیا ہے۔ اور یہ بھی بعض نظموں میں ہے کہ اس کا وجود نفی و مزاحمت کا وسیلہ ہے، جس کا مقابلہ خیر اور اثبات کو کرنا پڑتا ہے۔ اقبال کی بعض نظموں اور شعروں میں ابلیس کی جس طرح تعریف کی گئی ہے،وہ کھٹکتی ہے مگر یہ اَمر ہر حال میں مد نظر رہے کہ اقبال ابلیس کی تعریف کرکے بھی آدم ہی کی برتری جتاتے ہیں اور یہ واضح کرتے ہیں کہ آدم ابلیس ایسے زیرک، ذہین، سرگرم اور چالاک حریف سے محض عشق کی بدولت بالآخر بازی لے جاتے ہیں اور اب بھی اس کی طرف سے جو عیاری اور چالاکی اور مزاحمت ہے، وہ ابن آدم کے جوہرِ عشق کو آزمانے اور اس کی ترقی کے راستے صاف کرنے کی خاطر ہے۔ غرض یہ مزاحمت اور یہ پیکار اس کی خودی کے استحکام کا ذریعہ ہے۔ -----۹؍جون ۱۹۷۵ء ئ……ئ……ء ۲۹ خودی کا استحکام:تعلیم و تربیت تخلیقِ مقاصد کی بحث میں یہ واضح ہوچکا ہے کہ خودی کا منبع عشق (آرزو یا جوشِ حیات) ہے۔ اس آرزو کے راستے میں پیکار لازمی شے ہے۔ عشق کائنات کے ذرّے ذرّے میں ہے اور پیکار بھی حیات کا ایک ناگزیر اُصول ہے۔ اس کا اطلاق کائنات کے سب شعبوں کی طرح انسان پر بھی ہوتا ہے۔ کائنات کے دوسرے شعبوں کے مقابلے میں انسان کو کچھ تفوق حاصل ہیں ۔دہریہ کے برعکس، مَیں اُسے خدا کی خاص مہربانی اور کرم خیال کرتا ہوں۔ غور کیجیے تو آخر بات خدا تک ہی پہنچتی ہے۔) انسان کا ایک تفوق یہ ہے کہ اسے عقل اور زیر کی دی ہے۔ اسے اپنے آپ کو بدلنے اور بہتر بنانے کی صلاحیت بھی دی ہے۔ اور تعلیم و تربیت اور عقل و تجربے کے بہتر استعمال سے اسے نیچر کو مسخر کرنے اور اس کے اٹل قوانین کے باوجود اس کے فیصلوں کو بدل دینے یا کم از کم ان کا رُخ موڑ دینے کی قوت عطا کی ہے۔ انسان نیچر سے دشمنی نہیں کرسکتا مگر اس کے قوانین کو متبادل عمل سے بے اثر بنا سکتا ہے۔ عقل کی بحث اپنے موقعے پر آئے گی۔اِجمالاً یہاں یہ ذکر ضروری ہے کہ کلامِ اقبال میں عقل و عشق کے مقابلے میں عقل کے خلاف بہت کچھ ہے مگر یہ مخالفت عقلِ محض کی ہے جو زندگی کے عادلانہ عمل میں اعتقاد نہیں رکھتی، ورنہ میری نظر میں اقبال عقل کو خودی کے استحکام کا ایک وسیلہ سمجھتے ہیں۔ بہرحال یہ ذکر آگے آئے گا۔ خودی کی تربیت عقلی تعلیم کے مقابلے میں اندر کی جبلتوں کو قابو میں لانے سے ہوسکتی ہے۔ عقلی تعلیم بھی جبلتوں کا خیال رکھتی ہے مگر اس کا کام اُصولوں اور تجربوں کی آموزش ہے۔ نفوس کو معتدل بنانا اور جبلتوں کے عمل میں ایسی ہمواری پیدا کرنا کہ وہ زندگی کی ترقی کے عادلانہ عمل میں ممد ہو، عقلی تعلیم کے دائرے میں بطور خاص شامل نہیں۔ یہ اور بات ہے کہ آج کل عقلی تعلیم کے عَلم بردار اس کے مدعی ہیں۔ اور یہ بھی اور بات ہے کہ تربیتِ نفوس میں عقل کی مدد بھی شامل ہوسکتی ہے۔ اندر کی جبلتوں کو قابو میں لانا خودی کی تربیت کا مرحلۂ اوّل ہے۔ اس کی پہلی منزل اطاعت ہے اور دوسری منزل ضبطِ نفس۔ اطاعت سے مراد یہ ہے کہ تربیت کرنے والا جو ہدایات دیتا جائے، جو فرائض سپرد کرتا جائے،بے چون و چرا ان پر عمل ہوتا رہے۔ اقبال نے اس سلسلے میں اونٹ کی مثال دی ہے اور لکھا ہے کہ اونٹ کا شیوہ خدمت و محنت اور صبر و استقلال ہے۔ وہ چپ چاپ منزل کی طرف بڑھتا جاتا ہے کہ کم خورو کم خواب و محنت پیشہ بڑے صبرسے اپنے فرائض انجام دیتا رہتا ہے۔ اقبال اس سلسلے میں اطاعت سے مراد آئین کی پابندی لے رہے ہیں۔ یہ آئین کیا چیز ہے؟ ظاہر ہے اس سے مراد زندگی کی ہموار ترقی کے لیے انسان کو حاصل شدہ جملہ قاعدے، اُصول اور دستور ہوں گے جو انسانی تہذیب نے اسے سکھائے۔ جہاں تک اقبال کے خطابِ خاص کا تعلق ہے۔ اس سے مراد وہ آئین ہے جو ہادیِ برحق نے دُنیا کو دیا۔ اور خدا کا آخری اور مکمل ترین آئین ہے: باز اے آزادِ دستورِ قدیم زینتِ پا کن ہماں زنجیرِ سیم شکوہ سنجِ سختیِ آئیں مشو از حدودِ مصطفی بیروں مرو یعنی اے وہ کہ اپنے آپ کو اس آئینِ قدیم سے آزاد سمجھتا ہے یا اس سے نکل بھاگنا چاہتا ہے پھر اسی زنجیر کا اسیر ہوجا۔ اس کی سختیوں کی شکایت نہ کراور حضرت مصطفی ﷺکی حدود سے باہر نہ نکل۔ قرآن مجید کا عادلانہ قانون تمام دُنیا کے لیے ہے۔جو لوگ اس پر عقیدہ نہیں رکھتے، عملاً ان کا عمل (اگر وہ عادلانہ ہے تو) اسی کے مطابق ہے۔تمام دُنیا اس سے فائدہ اُٹھا سکتی ہے اور ایک حد تک اُٹھا بھی رہی ہے۔ مگر فرض کیجیے کہ اطاعت کو اقبال کی دینی اصطلاحوں میں نہ بھی لیا جائے، تب بھی آئین کی اطاعت فرد کی تربیت بلکہ تربیت یافتہ فرد کا پہلا فرض ہے۔ آئین کی پابندی انسان ہی نہیں کائنات کی ہر شے کررہی ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ وہ اطاعت ایک خودکار جبری عمل ہے (یعنی جہاں تک ہم نیچر کے اُصول کو جان سکے ہیں) انسان ایک اکتسابی حیوان ہے جو دوسرے حیوانات کے مقابلے میں زیرکی کے زیادہ سرمائے سے بہرہ ور ہے۔ اس کا اکتسابی عمل شعوری طور پر تربیت چاہتا ہے ۔ تاہم انسان کو اس مرحلۂ اوّل میں نیچر کی اشیا کی طرح اپنے اوپر جبری تربیت نافذ کرنی پڑتی ہے تاکہ وہ ماحول کی فضا اور آب و ہوا سے مانوس ہوکر اسے ترقی دینے کے قابل ہوسکے۔ ماحول کا دیا ہوا قانون (داخلی و خارجی) اس کی فضا اور اس کی آب و ہوا ہے۔اس سے توافق پیدا کیے بغیر وہ ترقی کا ایک قدم بھی نہیں اُٹھا سکتا، جس طرح نیچر کی اشیا غیر سے پیکار کے باوجود پہلے اپنے ماحول سے توافق پیدا کرتی ہیں۔ بہرحال اطاعت زندگی کی تربیت و ترقی کا پہلا اُصول ہے۔ ضبطِ نفس دو جبلتیں (جو خود حفاظتی جبلت کی کارندہ ہیں) یعنی خوف اور طمع (ناگوار چیز کے خلاف خطرے کا احساس اور خوش گوار چیز کے حاصل کرنے کی خواہش (حب)۔)، نفسِ انسانی میں بنیادی حیثیت رکھتی ہیں۔انسان ان سے بہت کام لیتا ہے مگر بعض اوقات ان سے مغلوب بھی ہوجاتا ہے اور زندگی کی ہموار ترقی اور عادلانہ عمل میں اس کے باعث بہت خلل واقع ہوتا ہے۔ بے جا خوف اور بے جا طمع سے انسان کی ذاتی زندگی اور جماعتی زندگی کا توازن بگڑ جاتا ہے۔ بے جا خوف سے بزدلی، سازش، بدگمانی اور کمینگی پیدا ہوتی ہے اور بے جا طمع سے زیادتی، مکاری، استحصال، خود غرضی، غصب، عیاری، ذخیرہ اندوزی، اور ظالمانہ قوانین جیسی بیماریاں پیدا ہوتی ہیں۔ گویا خوف اور طمع پر زندگی کے نظم اور حسن و اعتدال کو بگاڑنے کی شدید ذمے داری عائد ہوتی ہے۔ نیچر خود اس نظم و حسن کی خاطر بہت کچھ کرتی رہتی ہے۔ مگر انسان حرکت کی صلاحیت بھی رکھتا ہے اور عاقل بھی ہے، اس لیے اس کو خدا نے یہ سہولتیں اور اختیارات دے کر اس پر بڑی ذمہ داری عائد کی ہے لیکن انسان تجاوز کرجاتا ہے اور ان سہولتوں سے بعض اوقات ناجائز فائدہ اُٹھاتا ہے۔(ظلوماً جہولاً کی تہدید اسی لیے تو اسے سننی پڑی۔) اس وجہ سے دین اور تصوف دونوں نے خوف اور طمع کو ایک قاعدے کے اندر رکھنے کی بڑی تاکید کی ہے۔اقبال نے بھی اس پر زور دیا ہے۔ اطاعت کے عمل سے نفس اپنے معلم، اپنے ہادی اور اپنے آئین کی ہر بات ماننے کا خوگر ہوجاتا ہے۔ اسے تسلیم کرنے کی عادت ہوجاتی ہے۔ پھر وہ ان اندیشوں اور خوفوں کو بھی نظرانداز کرنے کا عادی ہوجاتا ہے، جن کے ہیچ ہونے کا یقین آئین میں موجود ہوتا ہے (غیر اللہ کا خوف اس کے دل سے نکل جاتا ہے) اور ان چیزوں کی محبت (اور طمع) اس کے لیے باعثِ کشش نہیں رہتی جو آئین ِزندگی اور آئینِ الٰہی کے تقاضاے حسن و عدل کے خلاف ہیں۔ اطاعت میں اس کا نفس اتنا ڈسپلن حاصل کرلیتا ہے کہ وہ جبلتوں پر قادر ہی نہیں ہوجاتا بلکہ ان کے میلان سے اُلٹا چلنے پر بھی قادر ہوجاتا ہے۔ خوف ایک جبلی میلان ہے لیکن اطاعت کے ذریعے اسے جو یقین حاصل ہوگیا ہے،اس کی بدولت وہ خوف کی جبلت پر قابو پالیتا ہے۔ وہ اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتا، اور اللہ کا ڈر بھی تو اس میں عدل و خیر کی خاطر ہے، بے مقصد ڈر نہیں ہوتا۔ وہ اشیاے مرغوب (شہوات) کی حُب کی جبلت پر بھی قابو پالیتا ہے۔ اس کے عام قاعدے کے برعکس (یعنی کچھ لے کر خوش ہونے کے بجاے) کچھ دے کر خوش ہوتا ہے… اور یہ عجیب فضیلت ہے انسان کی کہ وہ اپنی جبلت کے برعکس زکوٰۃ دے کر، خیرات و صدقات سے اور ایثار اور قربانی کرکے خوش ہوتا ہے۔ پھر کیوں نہ وہ نیچر سے فائق ہوجانے کا دعویٰ کرے کہ اس نے اپنی جبلت کا رُخ موڑ دیا۔ یہی وہ فقر ہے جس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فخر کیا تھا اور یہی وہ فقر ہے جو اسے اطاعت و ضبطِ نفس کا دیا ہوا ہے۔ اور جو فرد یا افراد کا مجموعہ ایسا ہو، اس کی طاقت اور قدرت کا انکار کسے ہو سکتا ہے ،نظمِ حیات اور عدلِ زندگی کی خاطر جو لوگ ان کمالات کے مالک ہوجاتے ہیں۔ ان کے نائب الٰہی ہونے میں کیا شک ہے اور یہیں سے نیابتِ الٰہی کا مقام شروع ہوتا ہے، اور یہ ان فقرا کو حاصل ہوتا ہے جو اطاعت اور ضبط نفس کی ریاضت کرکے ناظمِ کائنات کی نیابت کے حق دار بن جاتے ہیں اور خدا کی صفات کو اپنے اندر جذب کرکے دُنیا میں نظم و عدل و خیر کے وہ سلسلے قائم کرتے ہیں جو خدا چاہتا ہے اور دُنیا کو ترقی کے راستے پر اس طرح چلاتے ہیں جس طرح خود خدا کا منشا ہے (یعنی زندگی عدل کے مطابق چلے بھی، حسین سے حسین تر ہوتی جائے اور خدا کی صفات زیادہ سے زیادہ خدائی میں جلوہ گر ہوتی جائیں۔) از رموزِ جزو و کل آگہ بود در جہاں قائم بامر اللہ بود یعنی وہ ہر جزو و کل کے بھیدوں سے واقف ہوتا ہے اور دُنیا میں وہ مستقلاً قائم و منتظم ہوتا ہے گویا ’’امرِ ربی‘‘ اس کا رفیق ہے۔وہ معجزے دیکھ سکتا ہے۔ اس کی ایک بات سے انقلاب برپا ہوسکتا ہے وہ قادر مطلق تو نہیں مگر قدرت کے بے کراں وسیلے اس کے ہاتھ میں ہوتے ہیں۔ نیابتِ الٰہی کے بارے میں طرح طرح کے سوال اُٹھائے گئے ہیں۔ ایک بڑا سوال یہ ہے کہ نیابت کے لیے کوئی ایک فرد مخصوص ہوتا ہے یا ایک زمانے میں ایک سے زیادہ آدمی اس کمال سے فیض یاب ہوسکتے ہیں۔ جواب یہ ہے کہ نیابت کا کامل ترین نمونہ تو ایک فرد ہی ہوسکتا ہے، باقی درجہ بہ درجہ کم و بیش اس کمال میںحصہ دار ہوسکتے ہیں۔ اقبال کی اصطلاح میں نبی نائبِ حق ہوتا ہے اور آنحضرت ﷺ کی ذات اس نیابت کا نمونۂ اکمل ہے۔ اقوام الٰہی فیض یافتہ افراد سے تربیت کا سبق سیکھتی ہیں اور انھی کے ذریعے آیا ہوا آئین اطاعت کے لیے دستور العمل بنتا ہے۔ مردِ مومن، وہ اس دستور العمل میں عقیدہ بھی رکھتا ہے اور اپنی بساط کے مطابق اس پر عمل بھی کرتا ہے۔ مردِ کامل: وہ ]ہوتے ہیں جو[ زیادہ سے زیادہ، نائبِ حق کی سیرت سے متاثر ہوں۔ اور اس کی پیرویِ کامل سے اس کے نقش اپنے اندر جذب کرسکیں۔ نائبِ حق: وہ کامل ترین مظہرِ انسانی اور عکسِ صفاتِ ربّانی جو دُنیا کے نظام کی ہمواری اور اس کی ترقی کی ذمے داری قبول کرتے ہیں، زمانے کی سلطانی ان کے پاس ہوتی ہے مگر وہ خود اس میں فقیرانہ]زندگی[ بسر کرتے ہیں۔ آنحضرت ﷺ کی ذاتِ مبارک اور خلفاے راشدینؓ کی زندگیاں ایسی ہی تھیں۔ -----۱۶؍ جون ۱۹۷۵ء ئ……ئ……ء ۳۰ خودی کے استحکام میں عقل کا مقام عموماً یہ سمجھا جاتا ہے کہ اقبال نے عقل کو بہت بُری شے خیال کیا ہے۔ بظاہر اس خیال کی تائید اُن کے بے شمار اشعار سے بھی ہوتی ہے مگر واقعتا ایسا نہیں۔ عقل کے خلاف جب بھی اقبال نے لکھا ہے اس کا خاص محل ہے۔ عقل فی نفسہٖ بری، غیر ضروری اور مذموم شے نہیں۔ اس کو وہ تبھی مذموم کہتے ہیں، جب دین یا عشق کے مقابلے میں کوئی اس کو بطور مد مقابل کھڑا کرتا ہے،ورنہ حقیقت یہ ہے کہ عقل اقبال کے نزدیک خودی کے ذرائع قوت میں سے ہے۔ تعلیم و تربیت جس کی مدد سے خودی کو تقویت دی جاتی ہے۔ جبلتوں کی تنظیم اور ان کے انقیاد کے علاوہ عقل کے استعمال پر منحصر ہے: خیز و نقشِ عالمِ دیگر بنہ عشق را با زیرکی آمیزدہ یعنی تم عشق کو زیر کی کے ساتھ ملاکر ایک نئی دُنیا کی تخلیق کرسکتے ہو۔ پھر یہ بھی جاننا ضروری ہے کہ اقبال نے عقل کی جہاں جہاں مذمت کی ہے، اس کے کیا اسباب ہیں؟ فہرست یوں بن سکتی ہے: (۱) زندگی کی کُلْ اصل میں عشق (جوشِ حیات +آرزو+یقین +ذوقِ تسخیر)سے چلتی ہے۔عقل اس کاروبار میں محض کارندہ ہے، اس کو سب کچھ سمجھنا غلطی ہے۔ (۲) عقل حقیقت کا کلی ادراک نہیں کرسکتی ،حقیقت کو ٹکڑے ٹکڑے دیکھ سکتی ہے، یعنی جزوی ادراک کرسکتی ہے۔ اس کو علم و ادراک کا واحد سرچشمہ سمجھنا غلطی ہے۔ (۳) چونکہ عقل، حواسِ خمسہ کی مدد سے نتیجے اخذ کرتی ہے، اس لیے اس کے نتیجے غلط بھی ہوجاتے ہیں۔ وجہ یہ کہ حواس کی قدرت و قابلیت خود مکمل نہیں۔ ایک سیدھی چھڑی پانی میں رکھ دی جائے، تو آنکھ کو وہ ٹیڑھی نظر آئے گی۔ حالانکہ وہ ٹیڑھی نہیں ہوتی، سیدھی ہی ہوتی ہے۔گویا جس طرح بصارت کو دھوکا لگ سکتا ہے ،اسی طرح باقی حواس کا احوال ہے۔ جب عقل کے سرچشموں کا یہ حال ہے تو عقل کا حال ان سے کیونکر بہتر ہوگا۔ (۴) عقل شک اور ظن کو اُبھارتی ہے اور اس کا حاصل شدہ علم شک و ظن کی پیداوار ہوتا ہے۔ عقل اس یقین سے محروم ہے جو وجدانی علم کا خاصہ ہے۔ (۵) عقل، محض کارندہ ہے۔ یہ برائی کی بھی اسی طرح مؤید بن سکتی ہے جس طرح نیکی کی۔ بُرے لوگ عقل کی مدد سے بہت برے ہوجاتے ہیں۔ ایمان اور وجدانی علم سچائیوں سے اُبھرتا ہے اور سچائیوں کا ساتھ دیتا ہے۔ البتہ عقل اور سچائی مل جائیں، تو اکسیر ہے۔ (۶) عقل تقویت کا باعث بھی ہوسکتی ہے مگر وہم اور خوف کو اُبھار کر عیاری اور بزدلی اور کمینگی بھی پیدا کرسکتی ہے۔ یہ اور اس قسم کے دوسرے وجوہ ہیں، جن کی وجہ سے پرانے صوفیوں نے اور اقبال نے بھی عقل کو دوسرے درجے پر رکھا ہے۔اطاعت میں نفس کا کامل انقیاد لازمی ہے اور ضبطِ نفس میں عقل کی فطرت کے برعکس خوف اور طمع کی جبلتوں سے انسان کو آزاد کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ البتہ یہ جب ہوجائے تو اس کے بعد عقل اور زیرکی کی امداد حاصل کی جاسکتی ہے اور وہ امداد بڑی قوت و طاقت کا ذریعہ بن سکتی ہے۔ اس صورت میں عقل اخلاقی اور وجدانی قدروں کی تابع ہوکر چلے گی،اور اس سے وہ غلطیاں سرزد نہ ہوں گی جن کا ذکر اوپر آیا ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ عقل اقبال کی نظر میں ایک مفید بلکہ ایک ضروری شے ہے مگر اسے ایک ڈسپلن کے تحت رکھنے کی ضرورت ہے، یعنی سچائی اور نیکی کے وجدان (ایمان) کے تابع تاکہ نوعِ انسان کے لیے باعثِ برکت ثابت ہو، نہ کہ باعثِ ہلاکت۔ اگر عقل کی باگ غیر تربیت یافتہ حیوانی جبلتوں کے ہاتھ میں ہوگی تو ہموار زندگی اور عادلانہ ترقی (جو انسان کا برتر نصب العین ہے) درہم برہم ہوجائے گی۔ پس اقبال کا مقصد اسی قدر ہے کہ عقل کی باگ ایمان کے ہاتھ میں ہونی چاہیے۔ یہ مقصد ہرگز نہیں کہ عقل ایک غیر ضروری شے ہے۔ عقل اپنے مقام پر نہایت ضروری چیز ہے۔ اقبال نے عقلی علم کے متعلق بھی اسی طرح کا اظہارِ خیال کیا ہے۔ اقبال عقلی علم کے منکر نہیں مگر اس کو ناکافی، غیر یقینی اور بے رنگ شے سمجھتے ہیں۔ بے رنگ کا مطلب یہ کہ اس میں لذتِ یقین نہیں ہوتی، تشکیک بڑھتی جاتی ہے اور عمل کے اقدام میں تذبذب اور جھجک پیدا کرتا ہے۔ اس کے علاوہ عقلی علم یک رخا ہوتا ہے۔ ساری حقیقت کو بیک وقت نہیں دیکھ سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ مغربی فلسفے سے جب کوئی نظریے اُٹھتے ہیں تو ناک کی سیدھ بڑھتے چلے جاتے ہیں۔ دائیں بائیں پھیلی ہوئی حقیقتوں کو یکسر نظرانداز کرجاتے ہیں اور فکر کی جس غلطی کو درست کرنے کے مدعی ہوتے ہیں، اس سے زیادہ بڑی غلطیاں کرجاتے ہیں۔ چونکہ عقلی علم، نظریہ ہی نظریہ ہوتا ہے۔ اس لیے اس میں کسی چیز کی کوئی یقینی تعریف ممکن نہیں۔ نیکی، حسن، حق بلکہ خود علم اور وجود کی کوئی قطعی تعریف نہیں ہوسکتی۔ اس وجہ سے اقبال نے مغربی تمدن کی بھی مخالفت کی ہے کیونکہ اس کی اساس مادیت کے علاوہ اس عقلیت پر بھی ہے۔ یہ بحث آگے آئے گی۔ خلاصہ یہ کہ اقبال نے علم اور عقل کے خلاف لکھا ضرور ہے مگر یہ ساری مخالفت اس کے غلط درجے اور غلط استعمال کی بنا پر ہے،فی نفسہٖ علم اور عقل کے مخالف نہیں۔ عقلِ ایمانی پر ان کا ایمان ہے اور دانشِ ایمانی پر ان کا یقین کامل۔ خودی کے سلسلۂ عمل میں، میں بتا چکا ہوں کہ عشق کے اندر سے ایک دانش خود بھی اُبھرتی ہے۔ یہ دانش دلیل و برہان سے نہیں بلکہ عشق کے فیض سے ہوتی ہے۔ اس میں عمل و تجربہ دانش آموزی کرتا ہے نہ کہ محض نظریہ و برہان، تاہم خودی کے عمل میں دانشِ برہانی بھی مذموم شے نہیں بشرطیکہ اس کی باگ ایمان کے ہاتھ میں ہو۔ باقی رہا سائنسی علم، سو وہ تو منطقی دلیل پر نہیں، بلکہ تجربے پر قائم ہے۔ اس کے صحیح و برمحل ہونے میں کسے کلام ہوسکتا ہے۔ البتہ اس کے نتائج کو فلسفے کی بنیاد بنالینے سے پھر وہی خرابیاں پیدا ہوتی ہیں جو خالص عقلی فلسفے سے ہوئیں۔ -----۲۳؍جون ۱۹۷۵ء ئ……ئ……ء ۳۱ رموزِ بے خودی یا اجتماعی خودی اب تک جو کچھ بیان ہوا ہے، اس کا تعلق عام طور سے فرد سے تھا لیکن یہ اَمر بھی ساتھ واضح ہوتا رہا ہے کہ ایک خاص دائرے کو چھوڑ کر انسان کے جملہ مسائل اس جماعت کے ساتھ وابستہ ہوتے ہیں جس کا وہ فرد ہے۔ اسی لیے انفرادی خودی کے معاملے میں بھی فرد، جماعت سے کسی صورت بے نیاز نہیں ہوسکتا۔ اس کے لیے اقبال نے اسلامی اصطلاح ’ملت‘ استعمال کی ہے۔ اکثر اجتماعی مسئلوں میں فرد کو اپنی فردیت یعنی انفرادی خودی کو ترک کرنا پڑتا ہے اور بعض آزادیوں کو ملت کی خاطر قربان کرنا پڑتا ہے۔ اقبال نے اس قربانی کے لیے بے خودی کی اصطلاح استعمال کی ہے، اور اس موضوع پر ایک مثنوی فارسی میں لکھی ہے جس کا نام رموزِ بے خودی ہے۔ رموزِ بے خودی کی تشریح سے پہلے یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ اقبال ملت (منظم اجتماع) کو بھی ایک جسمِ واحد خیال کرتے ہیں اور یہ فرماتے ہیں کہ افراد کی طرح قوموں اور ملتوں کی بھی خودی ہوتی ہے اور ]گذشتہ اوراق میں اس کاذکر[ فرد کی خودی کے سلسلے میں آچکا ہے۔ اگرچہ یہ اَمر پھر واضح کرنا ضروری ہے کہ فرد اور ملت کو باہم لازم و ملزوم سمجھنا چاہیے۔ فرد ملت کے بغیر جینا چاہے تو ممکن ہے کچھ دیر جی لے مگر اس کی تکمیل یا بامعنی زندگی ملت کے بغیر ممکن ہی نہیں۔ مثنوی رموزِ بے خودی کی پہلی باقاعدہ بحث بطور تمہید، ’’فرد و ملت کے ربط‘‘ کے بارے میں ہے۔ اقبال کی نظر میں فرد کے لیے کسی جماعت سے ربط باعثِ رحمت ہے کیونکہ اس جوہر کی تکمیل ملت (جماعت) کی بدولت ہوتی ہے۔ گذشتہ اوراق میں بیان ہوچکا ہے کہ انسان کے دل میں آرزو یا مقصد کی لگن کا ایک خارجی سبب یہ بھی ہے کہ وہ دوسرے انسانوں میں رہ کر ان پر فوقیت حاصل کرنا چاہتا ہے۔ یہ اس کی جبلت ہے۔ دوسرے انسانوں سے مل جل کر رہنا اس کے حفظِ ذات کا ذریعہ ہے اور ان میں فوقیت پاکر اپنے جوہر کی تکمیل کا وسیلہ بھی۔ پس اس لحاظ سے جماعت اور ملت فرد کے لیے باعث رحمت ہے۔ اقبال کے خیال میں فرد اور قوم ایک دوسرے کے لیے مثلِ ’’آئینۂ یک دیگر‘‘ ہیں۔یعنی فرد خود کا یا اپنے کمال کا چہرہ قوم کے آئینے میں دیکھتا ہے اور جماعت کی فضیلت کا ثبوت یہ ہے کہ اس کے افراد جوہر کمال سے آراستہ ہوں اور فرد کی فضیلت کا ثبوت یہ ہے کہ وہ اپنی جماعت کے مقاصد کے لیے کہاں تک مفید ہے اور جماعت کے افراد کے باہمی مقابلے میں اس کا درجہ کیا ہے؟ غرض دونوں ایک دوسرے کی فضیلت و برتری کا آئینہ ہیں۔ فرد کا رُتبہ ملت کے حوالے سے متعین ہوتا ہے۔ اسی کی بنا پر اسے احترام حاصل ہوتا ہے، اور اس کے بالعکس ملت، افراد کا نظام افراد پر منحصر ہے یعنی ان کے اختلاط اور باہمی تعاون سے فرد جب اس طرح اپنی خودی کی قربانی کرتا ہے تو وہ ضائع نہیں ہوجاتا بلکہ اس کی انفرادیت ایک لحاظ سے وسعت پاجاتی ہے۔وہ جماعت کے باقی افراد سے اور ماضی کی اجتماعی سیرت سے بھی فائدہ اُٹھاتا ہے ۔اس قربانی کے باوجود فرد کی ہستی اگر پہلے قطرہ تھی تو اب قلزم کی مانند وسیع و بے کراں ہوجاتی ہے اور یہی نہیں کہ ماضی کی سیرت اس میں سمٹ کر آجاتی ہے، بلکہ افراد کے اوصاف اور سیرت جماعت کے مستقبل میں بھی منعکس ہوتی ہے۔ غرض فرد، ملت کا احترام کرکے بہت کچھ حاصل کرتا ہے: در دلش ذوقِ نمو از ملت است احتساب کارِ او از ملت است یعنی فرد کے دل میں آگے بڑھنے کی آرزو، ملت کی وجہ سے ہوتی ہے۔ مسابقت کے علاوہ ملت کے مقاصد کی تکمیل کا جذبہ اسے مہمیز کرتا ہے اور خاص بات یہ ہے کہ ملت فرد کے کاموں کی جانچ پڑتال کرکے اس کی جدوجہد کو غلط راستوں میں جانے سے روکتی بھی ہے۔ فرد تنہا کچھ بھی نہیں کرسکتا ۔وہ مقاصد سے بے خبر ہوتا ہے قوم یا جماعت اسے مقاصد سے اور پھر ضبط سے آشنا کرتی ہے۔ فرد کی خودی کو اپنے خول میں جاگزیں ہونے کے بعد ماحول سے واسطہ پڑتا ہے۔ یہیں سے نیچر اور باقی افرادِ جماعت سے ایک خاص قسم کے رابطے کی ابتدا ہوتی ہے اور اسے اپنے علاوہ دوسرے کا بھی احساس ہوتا ہے۔ یہ احساس اسے مجبور کرتا ہے کہ اپنے ماحول سے توافق پیدا کرے۔ وہ ماحول سے پیکار بھی کرتا ہے مگر اس توافق میں وہ ماحول کے لیے اپنی جگہ چھوڑ بھی دیتا ہے۔ نیچر میں بھی توافق کا اُصول جاری ہے: در جماعت خود شکن گردد خودی تا زِ گل برگے چمن گردد خودی خودی جماعت کے لیے خود کی قربانی پر آمادہ ہوجاتی ہے مگر اس قربانی سے اسے کچھ نقصان نہیں ہوتا۔ اگر وہ پہلے ایک برگِ گل تھی تو اس قربانی کے بعد چمن بن جاتی ہے۔ یہ تو معلوم ہوگیا کہ ملت افراد کے اختلاط سے منظم ہوتی ہے۔ مگر یہ تنظیم خود بخود محکم نہیں ہوتی۔ انسان محفلِ ہستی میں طرح طرح کے اندیشے لے کر داخل ہوتا ہے اور آسانی سے یہ ربطِ باہمی ممکن نہیں ہوتا۔ اس ربط کو آسان بنانے کے لیے خدا کسی صاحبِ دل (نبی) کو مبعوث کرتا ہے، جس کا دل ان اندیشوں سے پاک ہوتا ہے یہ فرد ِخاص الخاص (نبی) پھر افراد میں ربط پیدا کرتا ہے اور دلوں کو ان اندیشوں سے پاک کردیتا ہے جو عام افراد کو منتشر رکھتے ہیں: تا سوے یک مدعایش می کشد حلقۂ آئیں بپایش می کشد نکتۂ توحید باز آموزدش رسم و آئینِ نیاز آموزدش اقبال کے نزدیک ملت کے احساس کی تقویت کا انحصار روایاتِ ملت کے تحفظ پر ہے۔ ملّی روایات کا سرمایہ تاریخ ہے۔ وہ اقوام جو ملت کے تسلسل اور ان کے تحفظ کا خیال رکھتی ہیں، اپنی تاریخ کو بھی محفوظ رکھتی ہیں۔ اس سے ان کی اجتماعی زندگی میں ربط و نظام پیدا ہوتا ہے اور ماضی کا حال و مستقبل سے پیوند قائم ہوتا ہے، اقبال کہتے ہیں: ضبط کن تاریخ را پائندہ شو از نفس ہاے رمیدہ زندہ شو یعنی اپنی تاریخ کو محفوظ کرکے بقاے دوام حاصل کرو۔ گزرے ہوئے زمانے سے بھی زندگی مل سکتی ہے۔ دنیا میں جو اقوام اپنی ملّی زندگی کی وسعت چاہتی ہیں، وہ نظام عالم کی قوتوں کی تسخیر کرتی ہیں۔ماسوا اللہ یعنی کائنات دراصل ہے ہی تسخیر کے لیے۔ انسان زمین پر نائبِ حق ہے، اس کی قدرت میں ہے کہ وہ حکمت (علمِ اسما) کی مدد سے کائنات کو مسخر کرے اور ان سے کام لے۔ ہر قوم آئین کے اتباع سے پختہ و مستحکم ہوتی ہے اور مسلمانوں کے لیے یہ آئین قرآن مجید کی صورت میں موجود ہے اور اس میں آنحضرت ﷺ کا اُسوۂ حسنہ بہترین نمونہ ہے۔ -----۳۰؍ جون ۱۹۷۵ء ئ……ئ……ء ۳۲ ملتِ اسلامیہ میں تمدن کی بنیادیں اقبال نے ملت اور قوم کے لیے عمومی اُصول بھی دیے ہیں مگر یہ حقیقت ہے]کہ[ اقبال کی نظر میں ملتِ اسلامیہ اور اس کی تمدنی بنیادیں دوسرے تصوراتِ تمدنی کے مقابلے میں زیادہ صحت مند اور انسانیت کے لیے شاید مثالی دستور العمل کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اسی وجہ سے اقبال کے پیش کردہ اُصول بظاہر مسلمانوں سے مخصوص ہوتے ہوئے بھی ساری انسانیت کے لیے قابلِ عمل ہیں: نبوت کی اہمیت جتلانے کے بعد اقبال ملتِ اسلامیہ کے جن عقائدِ اساسی کا ذکر کرتے ہیں وہ یہ ہیں: ۱- توحید ۲- رسالت اقبال نے تمدنِ اسلامی کی ساری بحثوں کی بنیاد انھی دو ارکان پر رکھی ہے۔ توحید کے معنی فقط یہی نہیں کہ خدا کو ایک مانا جائے بلکہ یہ بھی ہے کہ زندگی کی وحدت کو تسلیم کیا جائے اور تمام انسانی اعمال و افعال کا مقصد اسی وحدت کی تلاش کو قرار دیا جائے۔ کوئی ملت اس وقت تک ملت نہیں بن سکتی جب تک اس کے افراد میں یہ وحدت پیدا نہیں ہوجاتی اور اس کے افراد کے خیالات اور مقاصد میں وحدت پیدا نہیں ہوجاتی۔ توحید کے معنی یہ بھی ہیں کہ غیر اللہ کا خوف دل سے نکال دیا جائے جو افراد یا اقوام غیر اللہ سے خائف ہوتی ہیں،ان کے دل پر خوف، حزن اور یاس جیسی امراضِ خبیثہ غالب آجاتی ہیں اور وہ اپنی خودی کھو بیٹھتی ہیں۔ سورۂ اخلاص میں ھو اللّٰہ اَحد اور اللّٰہ الصمد کے بھی یہی معنی ہیں۔ اس کے ساتھ کسی اور کو ہم سر اور شریک بنانا یا سمجھنا بھی ملت کے احساسِ خودی کو نقصان پہنچاتا ہے۔ منصبِ رسالت و نبوت انسانی اجتماع میں ربط پیدا کرنے کے لیے ہے۔ آنحضرتﷺ اس سلسلے کے خاتم ہیں اور یہ اس لیے ہے کہ اسلام میں آنے والے جملہ ادوار کے لیے ہدایات موجود ہیں۔ ایک وجہ یہ بھی ہے کہ رسالتِ محمدیہ کا مقصد تمام بنی نوع آدم کی اُخوت، مساوات اور آزادی ہے۔ آنحضرتﷺ نے اور ان کے خلفا نے اس کے عملی نمونے بھی پیش کردیے ہیں۔ ان وجوہ سے اسلام مکان اور زمان دونوں کے لحاظ سے بے نہایت ہے، یعنی کسی ایک زمانے تک محدود نہیں بلکہ ہمیشہ رہے گا اور کسی ایک قوم اور ملک سے وابستہ نہیں۔ اسلام میں قومیّت (ملّی تصور) وطن اور رنگ اور نسل سے وابستہ نہیں، اس کی بنیاد عقیدۂ توحید و رسالت پر ہے۔ اس کا آئین قرآن ہے اور آنحضرتﷺ کا قول و عمل قرآن ازلی ضرورتوں کے لیے کافی ہے اور قرآن کو، ہر زمانے کے حالات میں معیار، بنانے کے لیے، اجتہاد ہے مگر اجتہاد ہر کہ ومہ کا کام نہیں۔ اجتہاد کرنے والا اتباعِ سیرتِ محمدیہﷺ میں کامل اور دین کے تفقہ میں اکمل ہونا چاہیے۔ اگر یہ نہیں تو ملت کے انتشار کا باعث ہوگا۔ اقبال فرماتے ہیں کہ زمانۂ انحطاط میں تقلید، اجتہاد سے بہتر ہے، لیکن اُصولی طور پر فرد اور ملت افراد کے مجموعے کا نام ہے۔ اس لیے ملت کے لیے لازم ہے کہ افراد کی فردیت کا احترام کرے اور اس کی انفرادی تکمیل کے راستے میں روڑے نہ اٹکائے۔ ایک اچھا فرد خود بخود ملت کے نظام کا ایک صحت مند جزو ہوتا ہے، اس لیے جہاں فرد ملت کے لیے اپنی فردیت کی کچھ قربانی کرتا ہے وہاں ملت کو بھی فرد کی بنیادی آزادیوں کا خیال رکھنا چاہیے۔ اس طرح فرد اپنی خودی کو بے خودی میں بدل سکتا ہے اور یہی بے خودی ملت کی خودی کی بنیاد بنتی ہے۔ مولانا روم نے فرمایا : جہد کن در بے خودی خود را بیاب زود تر واللہ اعلم بالصواب یعنی کوشش کرکے بے خودی کے ذریعے خود کو پھر پالو، جلدی بہت جلدی۔ باقی صحیح کیا ہے؟اس کا علم اللہ کو ہے۔ -----۷؍جولائی ۱۹۷۵ء ئ……ئ……ء ۳۳ خودی کا ضعف یہ بیان ہوچکا کہ خودی، تربیت سے مستحکم ہوجاتی ہے۔ پس جس طرح خودی کا مستحکم ہونا ممکن ہے۔ اسی طرح اس کا ضعیف ہونا بھی ممکن ہے۔ ضعف کے اسباب میں اوّل تو یہ ہے کہ تربیت کے لوازم پر صحیح عمل نہ ہو، مگر ایک سبب جس کا اقبال نے خاص طور سے ذکر کیا ہے، یہ ہے کہ خودی سوال سے ضعیف ہوتی ہے۔ سوال کے کئی معنی ہیں، ایک تو وہی عام معنی ہیں جو سب کو معلوم ہیں، لیکن اقبال کے سارے کلام کو سامنے رکھ کر کہا جاسکتا ہے کہ ان کے نزدیک اجتماعی سطح پر عام دست نگری اسی طرح خودی کے لیے قاطع ہے جس طرح انفرادی سطح پر معاش کے معاملے میں دوسروں کا دستِ نگر ہونا۔ چونکہ تن کی ضرورتیں قدرتی اور ناگزیر ہیں، اس لیے ان ضرورتوں کا صحیح علاج یہ ہے کہ اپنی روزی خود کمائی جائے اور دوسروں پر بوجھ نہ ڈالا جائے۔ لیکن اجتماعی خود داری کے لیے تاریخ سے دلچسپی لینا ضروری ہے، انفرادی دریوزہ گری کی مذمت بہرحال ہے۔ اقبال نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اسی وجہ سے حضور ا نے کاسِب (اپنی روزی خود پیدا کرنے والے) کو اللہ کا دوست قرار دیا ہے۔ اقبال نے جہاں ظاہراً سوال کو روزی تک محدود رکھا ہے، وہاں یہ صاف صاف معلوم ہورہا ہے کہ ان کا مطلب اس سے کہیں زیادہ وقیع ہے۔ وہ اس پر بھی زور دے رہے ہیں کہ تن کی ضرورتیں اس لیے خود پوری کرنی لازم ہیں کہ اقدار اور مقاصدِ اعلیٰ کو ان ضرورتوں کی خاطر کہیں بیچنا نہ پڑ جائے۔ خود کفیل آدمی دوسرے کے ہاتھ مقاصد کو فروخت نہیں کرتا اور اگر کبھی اتفاق سے تہی دستی بھی قسمت میں لکھی ہو تو وہ بھوکا رہنا پسند کرتا ہے مگر اقدار کو نہیں بیچتا۔ مقاصد کو نہیں چھوڑتا: در تہی دستی شود خوددار تر بختِ او خوابیدہ او بیدار تر یعنی تہی دستی میں وہ اور بھی خوددار ہوتا ہے۔ ہر چند کہ اس کا نصیبہ (روزی کے معاملے میں) سویا ہوا ہوتا ہے، وہ پھر بھی اقدار کی نگہداشت کے لحاظ سے جاگا ہوا ہوتا ہے۔ افراد کی طرح اقوام کے معاملے میں بھی یہی اُصول ہے۔اقوام کو بھی خود کفیل ہونا چاہیے، اور اقدار کا کسی صورت میں سودا نہیں کرنا چاہیے۔ اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا اور اپنے وسائلِ حیات پر اعتماد کرنا اور ان کو ترقی دینا اقوام کے لیے خودی کی حفاظت کی ضمانت ہے۔ جو قومیں دوسروں سے وسائل کی بھیک مانگتی رہتی ہیں، وہ اپنے عقائد کو کبھی محفوظ نہیں رکھ سکتیں۔ اور ایک وقت آتا ہے کہ پھر غلام ہوجاتی ہیں اور مسلمان اقوام کے لیے تو صرف یہ ہے کہ: ہمت از حق خواہ و با گردوں ستیز آبروے ملتِ بیضا مریز یہاں خودی و بے خودی کی بحث ختم ہوتی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ قوم نے اس خاص معاملے میں علامہ کے فلسفے پر کہاں تک عمل کیا؟ ان کے کلام اور مکاتیب سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ قوم خصوصاً نوجوانوں کے رویے سے بالکل مطمئن نہ تھے۔ نوجوانانِ ملک سے انھیں جو توقعات تھیں وہ پوری نہ ہوئیں۔ فکر اسلامی کے احیا کے سلسلے میں ان کے جو ارادے تھے، وہ بھی ادھورے رہے۔ ان کی آرزوئیں قوت سے فعل میں نہ آئیں۔ سب سے زیادہ یہ کہ علومِ اسلامیہ کی تجدید کے متعلق ان کے خواب بے تعبیر رہ گئے۔ یہی وجہ ہے کہ ارمغان حجاز کی اکثر رباعیات تنہائی کے احساس سے معمور نظر آتی ہیں۔ ان میں ہمرہان سست عناصر کے شکوے ہیں اور رفیقانِ کوتاہ پا کے گلے، ہم نفسانِ خام کی کور ذوقی کا ماتم ہے اور’’ مفلسانِ شعر‘‘ کی بے نوائی کا نوحہ۔ اقبال کو سب سے زیادہ گلہ اس ناشناس سے تھا جو انھیں محض غزل خواں اور ان کی حکمت کو نواے شاعری کہتا تھا۔ ماحول کی اس بے بصیرتی اور مایوسی کا گہرا اثر اس سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ اقبال اپنے زمانے اور اپنے ماحول سے مایوس ہوکر اپنے آپ کو مستقبل کا پیامبر کہنے لگے۔ ارمغان حجازمیں فرماتے ہیں: نخستین لالۂ صبحِ بہارم پیاپے سوزم از داغے کہ دارم بچشمِ کم مبین تنہائیم را کہ من صد کارواں گل در کنارم اس سے یہ بات بھی بخوبی ظاہر ہوتی ہے کہ علامہ مرحوم قوم میں جس قسم کا جذبۂ انقلاب پیدا کرنا چاہتے تھے، زندگی میں اس کا دیکھنا انھیں نصیب نہ ہوا۔ جب ۱۹۳۸ء میں علامہ اقبال کا انتقال ہوگیا تو اس وقت آسودگی پسند قوم کو اس ’’متاعِ گراں مایہ‘‘ کے لٹ جانے کا کچھ احساس ہوا۔ماتمی جلسے ہوئے، مرثیے لکھے گئے، اخبارات نے ماتمی اڈیشن شائع کیے،رسالوں نے خاص نمبر نکالے۔ غرض ہر شخص نے اپنے ذوق اور اپنے اپنے طریق سے حکیم الامت کے اُٹھ جانے پر اپنے دلی درد و افسوس کا اظہار کیا۔ غم و اندوہ کی یہ فضا علمی لحاظ سے کسی حد تک مفید ثابت ہوئی اور اشکبار آنکھوں نے دلوں اور دماغوں کو پیامِ اقبال پر گہرے فکر و نظر کا اشارہ کیا چنانچہ اس حادثے کے زیر اثر تین چار سال تک افکار اور کلامِ اقبال کی تنقید و تشریح کی طرف خاص توجہ ہوئی۔ گو اس تحریک میں سیاسی حالات بھی کسی حد تک ممدو معاون ثابت ہوئے۔ بعض صورتوں میں محض تجارتی اغراض نے بھی کارفرمائی کی، مگر اس عرصے میں مطالعۂ اقبال کی تحریک کو بالعموم فروغ ہوا اور بعض مفید اور وقیع کتابیں لکھی گئیں، لیکن خودی کی تکمیل اور عروج کا وہ منظر نظروں سے غائب ہوتا گیا جو علامہ کے مدِنظر تھا۔ بلاشبہہ قیامِ پاکستان بھی علامہ کا ایک خواب تھا جس کی تکمیل ہوگئی۔ لیکن دُنیا کی امامت کی آرزو جو علامہ دلوں میں جگا گئے تھے، اب مضمحل شکل میں بھی نظر نہیں آتی۔ تاہم مایوسی گناہ ہے۔ خودی کا دستورالعمل موجود ہے۔ہمیں یقین ہے، اسلام دُنیا میں پھر اُبھرے گا، کیونکہ یہ خدا کا وعدہ ہے۔ -----۱۴؍جولائی۱۹۷۵ء ئ……ئ……ء ۳۴ اقبال کی خودی: صوفیوں کی بے خودی-۱ سابقہ مقالات میں علامہ اقبال کے تصورِ خودی کے مختلف پہلوؤں پر گفتگو ہوئی ہے لیکن ایک بحث ابھی باقی ہے اور وہ یہ کہ اقبال کے تصور ِخودی اور صوفیوں کے تصورِ بے خودی میں کیا فرق ہے؟ علامہ اقبال کے نظریۂ خودی کی مقبولیت کے دو بڑے غیر معمولی نتیجے نکلے۔ ایک یہ کہ عام طور سے ترکِ خودی کے رُوحانی تصورات جو عرفا و اولیا سے منسوب ہیں،کچھ اُلجھ کر رہ گئے۔ دوسرا یہ کہ خودی کے قبولِ عام نے اقبال کے اپنے تصور بے خودی کو جو خودی سے محکم طور سے وابستہ ہے، نظروں سے اوجھل سا کردیا۔حالانکہ اقبال نے رموزِ بے خودی کا سرنامہ ہی رومی کے مندرجہ ذیل شعر کو بنایا ہے جس میں خودی اور بے خودی کو لازم و ملزوم ٹھہرایا ہے ؎ جہد کن در بے خودی خود رابیاب زود تر واللہ اعلم بالصواب ان حالات میں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اقبال کی خودی و بے خودی کی حدود کیا ہیں؟ اور ان کی بے خودی اور صوفیوں کی بے خودی کے مقاماتِ اشتراک اور مقاماتِ اختلاف کیا ہیں؟ اور بالآخر یہ کہ ان دونوں نظریات و تصورات کی غایت کیا ہے؟ یہ تو بالکل واضح ہے کہ اقبال کے باقی نظریات کی طرح ان کے تصور بے خودی میں بھی صوفیانہ فکر کے عناصر ملتے ہیں اور جابجا طریقِ کار اور رجحانات کا رنگ بھی صوفیانہ ہی ہے، مثلاً خودی کے تصور میں عشق اور وجدان کا پہلو اور مافوق الانسان کا خدا کی ذات پر چھا جانے کا خیال صوفیوں اور عارفوں کے ’’عین عالم‘‘ نظریے کا عکس ہی معلوم ہوتا ہے، تاہم یہ بھی مسلّم ہے کہ اقبال نے ان سب تصورات کو اتنا منفرد بنادیا کہ نتیجے کے لحاظ سے صوفی اور اقبال دو مختلف سمتوں میں معلوم ہوتے ہیں۔ اب آئیے اس اختلاف کی حقیقت پر غور کرلیا جائے۔ یہ سمجھ لینا غلط ہوگا کہ صوفیوں کا کوئی نظریۂ خودی ہے ہی نہیں، اور وہ تو صرف ترکِ خود اور نفیِ خود کے قائل ہیں۔ یہ خیال کسی طرح صحیح نہیں۔ کیونکہ صوفی بھی خود کی ایک خاص شکل میں گہرا اعتقاد رکھتے ہیں، مگر ان کا یہ عقیدہ ان کے ایک اور ہمہ گیر عقیدۂ آفرینش سے وابستہ ہے جس کی حیثیت محض اعتقاداتی یا زیادہ سے زیادہ مابعد الطبیعیاتی ہے۔ صوفیوں کا نظریہ آفرینش یہ ہے کہکنت کنزا مخفیا فاحببت ان اعرف فخلقت الخلق خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ الفاظ کہے گئے ہیں کہ ’’میں ایک چھپا ہوا خزانہ تھا پھر میں نے چاہا کہ پہچانا جاؤں، پس میں نے کائنات کو پیدا کیا۔‘‘ اس سے یہ لازم آیا کہ کائنات کے وجود میں آنے سے پہلے صرف خدا کی ذات ہی محیطِ خود اور محیطِ کل تھی، اور کوئی دوسری شے جو تشخص اور تعین کی گرفت میں آسکتی ہو، تھی ہی نہیں۔ پھر خدا تعالیٰ نے اس مشیت سے کائنات کو پیدا کیا تو ظاہر ہے کہ یہ کائنات ’’غیر خدا سے‘‘ (کیونکہ خدا کی ذات تو محیطِ کل تھی)، الگ کوئی شے نہیں ہوسکتی۔ پس خدا تعالیٰ نے اپنے ہی ایک جزو کو اعتباری و اضافی شکل دے کر کائنات کو تخلیق کرتے ہوئے اس کی حیات کو بعض قوانین و قواعد سے وابستہ کردیا۔ تو استدلال کی بنا پر صوفی یہ گہرا عقیدہ رکھتے ہیں کہ یہ خدا کی ذات سے علیحدہ کیا ہوا جزو بھی اصلاً اسی کل کا حصہ ہے، جس سے اس کو جدا کردیا گیا تھا اور ہر چند کہ اب وہ ایک دوسری حیثیت میں متشکل ہوگیا ہے،مگر ہے تو وہی۔ میر تقی میر [نے] اسی خیال کو شاعرانہ انداز میں بیان کیا ہے: وجہِ بیگانگی نہیں معلوم تم جہاں کے ہو ، واں کے ہم بھی ہیں اس بنیادی تخیل پر صوفیوں نے کئی بنیادی عقیدے قائم کیے۔ اوّل یہ کہ وجود صرف ایک ہے اور کائنات بھی اس کا جزولاینفک ہے :ـ دلِ ہر قطرہ ہے سازِ انا البحر ہم اس کے ہیں ہمارا پوچھنا کیا دوم یہ کہ کائنات ایک آئینہ ہے، مگر اس آئینے کا اصل جوہر انسان ہے۔گویا ’کل‘ کی پوری تابندگی انسان ہی میں تجلی ریز ہے۔ تیسرا یہ کہ ’کل‘ سے جدا کردینے کے بعد یہ ’جز‘ یعنی کائنات کربِ جدائی میں ہے اور ہر لحظہ اپنی اصل سے ملنے کے لیے مضطرب ہے۔ یہ دردِ جدائی کائنات کے ذرے ذرے میں موجود ہے، جس سے سینے میں ہر وقت طلب و شوق کا شدید جذبہ موجزن رہتا ہے جو اسے سرگرداں رکھتا ہے اور اس سے وہ سعیِ پیہم کراتا ہے جس کے نتیجے کے طور پر ]کائنات کا ذرّہ ذرّہ مسلسل محرک[اور ہر لحظہ پر اسرار قوانین کے ذریعے اپنی گم گشتہ منزل کی طرف سرگرمِ خرام اور تیز گام ہے۔چوتھا یہ کہ انسان کی ہستی خدا کے مزاج پر بنائی گئی ہے اور خدا کا عارضی روپ اگر کسی شے میں منعکس ہے تو وہ انسان کا دل یا اس کا وجود ہے اور انسان ہی وہ آنکھ ہے جس کے ذریعے خداے کائنات اپنی ذات کی صفاتِ رنگا رنگ کا ’تماشا‘ کرتا ہے۔ تخلیق ِکائنات کا یہ تصور لانے کے لیے کسی استدلال کی ضرورت تو لازمی ہے۔ افلاطون کائنات کو مثالی دُنیا کا عکس کہے گا۔ سپائی نوزا اس کو مشیت کے نوعات سے تعبیر کرے گا۔ ہیگل اس کو رُوحِ کلی کا انعکاس بتائے گا۔ یہ سب نتیجے اس غور و فکر کے ہیں جو انسان آغازِ عالم کے متعلق آج تک کرتا رہا ہے۔ ان میں سے کسی کو سائنسی تجربات کی تصدیق و توثیق کا رُتبہ حاصل نہیں۔ صوفیوں کے نظریۂ آفرینش کو بھی اسی طرح غیر عقلی سمجھ لیا جائے تو کوئی خاص عیب کی بات نہیں۔ مگر ایک لحاظ سے صوفیوں کا تصور ہمارے ذہن کی حیرت و سرگشتگی کے لیے کچھ تشفی بخش ثابت ہو ہی جاتا ہے۔ تصوف کے نزدیک بھی ہر شے کی ’’خودی‘‘ ہے، یعنی وہی احساس جدائی جو اسے ہر وقت بے کل اور مضطرب رکھتا ہے: ہر کسے کو دور ماند از اصلِ خویش باز جوید روزگارِ وصلِ خویش اور اسی اضطرابِ باطن کی وجہ سے ،جو اسے اپنی اصل سے ملنے کے لیے ہے یعنی اس ذات سے ملنے کے لیے جو غایت الغایات کمال ہے۔ کائنات کی ہر شے رواں اور دواں رہتی ہے۔ اب جب باور کرلیا گیا کہ احساس جدائی خودی ہی کا دوسرا نام ہے تو اس سے یہ لازم آیا کہ یہ ’ہجراں زدہ‘ جدائی کی اس کسک کو مٹائے تاکہ وہ اپنی اصل سے مل سکے، اور چونکہ خود کی وجہِ جدائی خود ہی ہے، اس لیے احساسِ جدائی کو مٹانے کے لیے احساسِ وجود ہی کو مٹایا جائے۔ یہیں سے ترکِ خود نفیِ خود یا صوفیانہ بے خودی کی حد شروع ہوجاتی ہے، اور خودی و بے خودی کے تصور کا ایک ایسا پیچیدہ اور بڑی حد تک ناقابلِ فہم سلسلہ شروع ہوجاتا ہے جس کے بعض پہلو تو پھر بھی گوارا ہیں اور بعض اس درجہ ماوراے قیاس ہوگئے ہیں کہ اس کے رموز اور اسرار کو شاید خود صوفی بھی نہ سمجھتے ہوں گے۔ ان سب باتوں سے یہ ثابت ہوا کہ صوفی بھی خود میں اعتقاد رکھتے ہیں لیکن ان کے خود کا تصور رُوحانی ہے۔ان کی انا مادّی شوائب ۱؎سے پاک ہے۔ ان کی رُوحانی انا اس درجہ محکم ہے کہ وہ مادّی خود کو وجودِ مطلق کا جزو قرار دیتے ہیں اور بڑے اثباتی انداز میں اس انانیت کا اظہار کرتے ہیں (اناالحق اور من عرف نفسہ فقد عرف ربّہ) کا مقولہ یا حدیث بھی اس اثباتِ خود شناسی کی تائید میں ہے۔ محمود شبستری نے گلشنِ راز میں ایک سوال کے جواب میں مادّی خودی کی نفی اور اس رُوحانی خودی کا صوفیانہ اصطلاحوں میں اثبات کیا ہے۔ اقبال کے تصورِ خود اور صوفیوں کے تصور میں یہ فرق ہے کہ اقبال خود کے مادّی لوازم و مقتضیات کو نظر انداز نہیں کرتے اور اس مادّی خودی کو بھی برحق، اگرچہ تغیر پذیر اور ترقی پذیر جانتے ہیں لیکن صوفیوں کا ایک بہت بڑا گروہ (جن میں وحدت الوجودی پیش پیش ہیں) مادیات کی دُنیا کو مانتا ہی نہیں، وہ اسے ظل یا پرتو یا وہم خیال کرتا ہے۔ اس کے نزدیک وجود صرف ایک ہے اور وہ واجب الوجود کا ہے، باقی سب ظلال ہیں۔ لیکن یہ مسئلہ مزید تشریح کا محتاج ہے اور ہم ان شاء اللہ آئندہ مقالے میں اس کی وضاحت کریں گے۔ -----۲۱؍جولائی۱۹۷۵ء ئ……ئ……ء ۱۔شوائب،شائبہ کی جمع ہے۔(مرتب) ۳۵ اقبال کی خودی: صوفیوں کی بے خودی-۲ اقبال کی خودی کیا ہے؟ اس پر بہت کچھ لکھا گیا ہے۔ اقبال کے نزدیک یہ سب کچھ ہے۔ اُنھوں نے مختلف موقعوں پر اس کے الگ الگ (گویا ایک دوسرے کے قریب قریب) معنی بیان کیے ہیں، مثلاً خودی خود حیات کا دوسرا نام ہے، خودی عشق کے مترادف ہے، خودی ذوقِ تسخیر کا نام ہے۔ ( بالِ جبریل ص۱۷۴) خودی سے مراد خود آگاہی ہے۔ ( بالِ جبریلص۸۲) خودی عبارت ہے ذوقِ استیلا سے۔(ضربِ کلیمص۱۳۹) خودی ذوقِ طلب ہے۔ (ضربِ کلیم ص۷۱) خودی ایمان کے مترادف ہے۔(ضربِ کلیمص۷۹) خودی سرچشمۂ جدت و ندرت ہے۔(ضربِ کلیمص۱۲۰) خودی یقین کی گہرائی ہے۔ خودی سوز ِحیات کا سرچشمہ اور ذوقِ تخلیق کا ماخذ ہے۔ غرض اس قسم کے گوناگوں معانی و صفات خودی سے وابستہ ہوئے ہیں۔ یہ سب اثباتِ خودی کی صورتیں ہیں۔ جو ہر چیز کو ترقی کی اگلی منزلوں کی طرف محرک ثابت ہورہی ہے۔ ایک زمانہ تھا جب اقبال بھی صوفیوں کے تصورِ وحدت الوجود سے متاثر تھے اور انسانی رُوح کے فراق زدہ ہونے میں اعتقاد رکھتے تھے مگر بعد میں رفتہ رفتہ ان کا یہ عقیدہ جاتا رہا اور خودی کی تنظیم میں مادیت کے مستقل وجود کی اہمیت کو تسلیم کرنے لگ گئے۔ تاہم بعد میں بھی ان کے اشعار میں صوفیوں کے ’’احساسِ جدائی‘‘ کا تصور کہیں کہیں نظر آجاتا ہے ’’گلشنِ رازِ جدید‘‘ کے بعض اشعار سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ بھی اس جدائی کو اصل حیات سمجھتے ہیں: جدائی خاک را بخشد نگاہے دہد سرمایۂ کوہے بکاہے جدائی عشق را آئینہ دار است جدائی عاشقاں را سازگار است اگر ما زندہ ایم از دردمندی است وگر پائندہ ایم از درد مندی است ________ چہ سودا در سرِ ایں مشتِ خاک است؟ ازیں سودا درونش تابناک است چہ خوش سودا کہ نالد از فراقش و لیکن ہم ببالد از فراقش فراقِ او چناں صاحب نظر کرد کہ شامِ خویش را برخود سحر کرد خودی را تنگ در آغوش کردن فنا را با بقا ہمدوش کردن اقبال کا تصورِ آفرینش کیا ہے؟ میں اس کے متعلق کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکا مگر اقبال زمان کے تسلسل کے ضرور قائل ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ خودی، جو حیات ہی کا دوسرا نام ہے، لحظہ بہ لحظہ تخلیق میں مصروف رہتی ہے اور تسلسل زمانی کو قائم رکھتی ہے اگرچہ بعض جگہ احساس ہوتا ہے کہ وہ زمان کی نہایت کو مانتے ہیں۔ بہرحال خودی کا کام یہ ہے کہ زندگی کو جاری رکھے ؎ خودی را زندگی ایجادِ غیر است فراقِ عارف و معروف خیر است قدیم و محدثِ ما از شمار است شمارِ ما طلسمِ روزگار است اقبال ڈاکٹر نکلسن کو ایک خط میں لکھتے ہیں ’’دنیا ایسی چیز نہیں جس کی تکمیل ختم ہوگئی ہے بلکہ یہ ابھی معرض تکمیل میں ہے۔ تخلیق کا سلسلہ جاری ہے اور انسان بھی اس تخلیق میں اپنا حصہ ادا کررہا ہے۔ قرآن میں بھی خدا کے سوا دوسرے خالقین موجود ہونے کا امکان ہے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر زندگی کیا ہے؟ یہ انفرادی ہے اور اس کی اعلیٰ ترین صورت جو اس وقت تک پیدا ہوسکی ہے خودی ہے، جس میں فرد فی نفسہٖ مکمل مخصوص مرکز کی حیثیت رکھتا ہے۔ جسمانی اور رُوحانی طور پر انسان فی نفسہٖ مکمل ہے لیکن یہ مکمل فرد نہیں ہے، یہ خدا سے جس قدر دور ہوگا، اسی قدر اس کی انفرادیت کم یا شخصیت بھی کم ہو گی۔ جو سب سے زیادہ خدا کے نزدیک آئے گا، مکمل ترین انسان ہوگا۔‘‘ اس سے یہ ظاہر ہوا کہ اقبال کے نزدیک زندگی کی غایت، انسان کا خدا کے قریب ہونا ہے۔ تاآنکہ حیات یا خودی خدا کو اپنے اندر جذب کرلے ۔ خودی کے متعلق اقبال کا نظامِ فکر بھی صوفیوں کے نظامِ فکر کی طرح اپنی آخری منزل میں خاصا ناقابلِ فہم ،پیچیدہ اور پر اسرار ہوجاتا ہے مگر یہ بحث آگے چل کر آئے گی۔ یہاں پہنچ کر سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر ان مسائل میں اقبال اور صوفیوں کے درمیان اختلاف کی صورت کہاں کہاں پیدا ہوتی ہے؟ جواب یہ ہے کہ اختلاف کی صورتیں مسئلہ بے خودی میں پیدا ہوتی ہیں، کیونکہ جہاں تک خود یا خودی کا تعلق ہے، صوفی بھی اس میں کچھ نہ کچھ اعتقاد رکھتے ہیں۔ کیونکہ اگر وہ خود کو تسلیم نہ کرتے ہوں تو خود کو مٹانے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ صوفی وجود اور خود کو تسلیم کرلینے کے بعد فناے خود میں اپنی نجات سمجھتا ہے کہ یہ عارضی خود اس کو اس کی اصل سے جدا کررہا ہے، اس لیے اس کی پوری کوشش یہ ہے کہ اس خود کو بے خودی میں بدل دے، تاکہ اپنی اصل سے مل جائے یعنی پھر اس کمال تک پہنچ جائے، جو اس کا ورثہ بھی ہے اور حق بھی۔ اسی چیز کو صوفیوں نے ترکِ خود یا نفیِ خود کے نام سے یاد کیا ہے۔ اقبال اس عارضی خود کی ناگزیر اہمیت کو تسلیم کرتے ہیں،اس لیے اس سے پیچھا چھڑانے کے بجاے بے خودی کی منزل تک پہنچنے کے لیے خود کو ہی ذریعۂ استعمال اور وسیلۂ ترقی بناتے ہیں، جہاں محمود شبستری کا ارشاد یہ ہے: خراباتی شدن از خود رہائی است خودی کفر است گر خود پارسائی است وہاں اقبال یہ کہتے ہیں: خودی تعویذِ حفظ کائنات است نخستیں پرتوِ ذاتش حیات است غرض اس نقطۂ نظر میں اقبال اور صوفیوں کے مابین اتنا فاصلہ ہے جتنا مشرق و مغرب میں ہے۔ اقبال بے خودی کے لیے خود ہی کو وسیلہ بناتے ہیں، صوفی خود کا اثبات اس میں دیکھتا ہے کہ خود کے احساس ہی کو مٹا ڈالا جائے۔ ایک کی نظر اس پر ہے کہ ازل میں، ہم میں، خدا میں کوئی بُعد نہ تھا، بلکہ ہم شے واحد تھے۔ دوسرے کی نگاہ اس پر ہے کہ ازل کی بحث سے کیا فائدہ؟ ایک دن ایسا بھی آئے گا جب خدا ہم میں جذب ہوکر رہ جائے گا۔ اور اب ہم اس کی جستجو میں نہیں ہیں، بلکہ وہ ہماری جستجو میں ہے: ما از خداے گم شدہ ایم او بہ جستجوست چوں ما نیازمند و گرفتارِ آرزوست در خاکدان ما گہرِ زندگی گم است آں گوہرے کہ گم شدہ مایئم یا کہ اوست صوفی غایت الغایات کمال تک پہنچنے کے لیے جس بے خودی پر زور دیتے ہیں، اس کی ساری کی ساری اہمیت رُوحانی اور داخلی ہے۔ اقبال خودی کی جس تربیت سے بے خودی، (کمالِ انسانیت) تک پہنچانا چاہتے ہیں، اس کا پہلا قدم مادے کی تسخیر ہے اور اس کی شکست و ریخت کے بعد ’’نوریوں کے درجے تک پہنچنا اور پھر اس سے بھی وراء الورا کی منزلیں طے کرنا ہے (جن کا سطور بالا میں ذکر ہوا) اس کے علاوہ اقبال کا تمام دائرۂ نظر اجتماعی ہے، یعنی صوفی فرد کی رُوحانی تربیت پر خاص زور دیتے ہیں مگر اقبال کے یہاں فرد کی تربیت اجتماعی تربیت کا ایک مسئلہ ہے۔ صوفیوں کے متعلق اس گفتگو سے یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ کمالِ رُوحانی تک پہنچنے کے لیے صوفیوں کا لائحہ عمل کوئی آسان چیز ہے۔ صوفیوں کے اس دستور العمل تربیت میں فرد کی حد تک پیکارِ حیات کے سب مظاہر اور ریاضت اور سعی کی سب شکلیں پائی جاتی ہیں۔ کلا بازی نے اپنی کتاب التعرف لمذہب اہل التصوف میں تربیت کے سب مدارج کا بڑی تفصیل سے ذکر کیا ہے مگر مجاہدہ و ریاضت کے یہ سلسلے صرف اسلامی تصور تک محدود نہیں۔ دُنیا کے ہر نظام تصوف میں اس قسم کی ریاضت کے نصاب تجویز ہوئے ہیں۔ پروفیسر لیوبانے تصوف پر جو کتاب لکھی ہے، اس میں اُنھوں نے ’’سفرِ مصوری‘‘ کے کئی مدارج شمار کیے ہیں۔ ابتدا میں خدمتِ خلق اور اطاعتِ شیخ پر بڑا زور دیا جاتا ہے۔ بعد میں شیخ رذائلِ نفسانی کی تطہیر کی کوشش کرتا ہے، پھر محبتِ کل اور مراقبے کے طریقے بتاتا ہے، اس کے بعد ذکر و فکر، اس کے بعد تعطل احساس کی منزل آتی ہے۔ ان حالات میں وجدوحال، مگر اس میں پھر حیرت، قبض اور بعض اوقات رجعت کی تکلیف پیش آتی ہے۔یہ سلسلہ جاری رہتا ہے۔ تاآنکہ عارف برای العین خدا کا دیدار کرلیتا ہے جو دراصل تمہید ہوتی ہے اس وصال رُوحانی کی جس کے لیے تصوف کا کل نظام قائم و دائم سمجھا جاتا ہے۔ یہ مجاہدۂ ریاضت کاملاً انفرادی حیثیت کی چیز ہے۔ تصوف کے سارے نظام میں محض افراد کے رُوحانی کمال پر زور دیاگیا ہے۔ عام لوگوں کے لیے شریعت کی پابندی اور عقل کی پیروی ضروری سمجھی جاتی ہے۔ گویا تصوف محض خاص افراد کی رُوحانی تربیت کا نظام ہے اور افراد کی وساطت سے اجتماع کی تربیت کا قائل معلوم ہوتا ہے۔ اقبال نے بھی تکمیلِ خودی اور کمالِ حیات کے لیے ایک نظامِ تربیت تجویز کیا ہے جس کی تفصیل رموزِ بے خودی میں دی ہے۔ اس کا پہلا سبق یہ بتایا ہے کہ فرد ملت سے وابستہ ہے، اس سے الگ ہیچ ہے : فرد و قوم آئینۂ یک دیگراند سلک و گوہر، کہکشان و اختراند فرد می گیرد ز ملت احترام ملت از افراد می یابد نظام فرد تا اندر جماعت گم شود قطرۂٖٖ وسعت طلب قلزم شود فرد کی خودی جب ملت کی بے خودی میں گم ہوجاتی ہے، تو بڑی برکتوں کا باعث ہوتی ہے: درجماعت خود شکن گردد خودی تا ز گلبرگے چمن گردد خودی اس کے بعد اقبال نے فرد و ملت دونوں کے لیے تطہیر و تکمیل کا ایک نصاب تجویز کیا ہے، مثلاً یاس و حزن و خوف کا ازالہ، سوال کی مخالفت،مساوات و اُخوت بنی نوعِ آدم کا عقیدہ، اطاعتِ آرزو کی تربیت، اور سب سے آخر میں عشق اور ضبطِ نفس۔ تاآنکہ فرد و انسان نیابتِ الٰہی تک پہنچ جاتا ہے: بنتے ہیں مری کارگہِ فکر میں انجم لے اپنے مقدر کے ستارے کو تو پہچان اقبال کے اس نظام فکر میں جس کا تمام ماحول مادّی ہے، عشق کا عقیدہ بڑا دلچسپ ہے۔ یہ وہ عقیدہ ہے، جس کا ایک رُکن عقل کے کمال کا انکار اور جذبہ وجدان کی برتری کا احساس ہے۔ اس معاملے میں اقبال پھر صوفیوں اور عارفوں کی حکمت کے پیرو ہوجاتے ہیں اور کمال کی منزلوں کو کسی ایسی رُوحانیت کی مدد سے طے کرنا چاہتے ہیں، جس تک عقلِ انسانی کی رسائی نہیں۔ یہ ہے صوفیوں کی بے خودی اور اقبال کی خودی جس کے کئی پہلو باہم مماثلت رکھتے ہیں۔ اقبال کے نزدیک خودی کی اس تمام پیکار کا حاصل احاطۂ کائنات ہے۔ صوفیوں کے نزدیک نفیِ خودی کی غایت خدا کی ذات سے مل جانا اور سرورِ سروری پالینا ہے۔ جس طرح صوفیوں کے استدلال میں بہت سی کمزوریاں نظر آتی ہیں، اسی طرح اقبال کے استدلال میں بھی بہت سے خلا نظر آتے ہیں مثلاً یہ کہ خودی کی اس پیکار کا نقطۂ آغاز کیا ہے اور اس کی انتہا کیا ہے؟ اور یہ سوال بھی ہے کہ احاطۂ کائنات کرلینے کے بعد خودی کو سکون مل جائے گا یا خودی پھر کسی نئی طلب میں سرگرداں ہوجائے گی۔ یہی اشکال ہندو فلسفیوں کو پیش آیا تھا۔ اسی کے سبب سے انھیں ’’مایا چکر‘‘ کے عقیدے کی طرف آنا پڑاجس میں دائمی تسلسل کو تسلیم کرلینا پڑا۔ فکرِ اقبال میں ان مسائل کا تجزیہ ابھی باقی ہے۔ کوئی فلسفی اقبال شناس اس پر کچھ لکھے تو مناسب ہوگا۔ -----۲۸؍جولائی ۱۹۷۵ء ئ……ئ……ء ۳۶ نقوشِ اقبال:ایک نیا نقطۂ نظر خوش قسمتی سے اس وقت ہمارے پاس اقبالیات کا وقیع سرمایہ موجود ہے،اور چند کتابیں ایسی بھی ہیں جنھیں حقیقت میں بنیادی کہا جاسکتا ہے۔ ان میں سے کوئی سرگذشت اقبال پر محیط ہے، کسی میں افکار کا تجزیہ ہے اور ایک آدھ جامعیت کے وصف سے متصف ہے۔ اب سیّد ابوالحسن علی ندوی کی کتاب نقوشِ اقبال ایک نیا نقطۂ نظر لے کر ہمارے سامنے آئی ہے۔ اصل کتاب روائعِ اقبال کے نام سے عربی میں ہے، اس کا اُردو ترجمہ نقوشِ اقبال کے نام سے ہوا ہے۔ نقوشِ اقبالمضامین کا مجموعہ ہے جس میں (مترجم مولوی شمس تبریز خان کے) اضافے بھی ہیں۔ ظاہر ہے کہ مختلف وقتوں میں لکھے ہوئے مختلف مقالات مربوط کتاب کے تسلسل اور ہم آہنگی کا دعویٰ نہیں کرسکتے تاہم اس مجموعے کے سب مضامین میں نقطۂ نظر کی وحدت موجود ہے۔ سیّد ابوالحسن علی ندوی نے اصل مقالات عربوں کو اقبال سے متعارف کرانے کے لیے لکھے تھے اور اگرچہ ندوی صاحب سے پہلے بعض مصریوں نے بھی اقبال کی نظموں کے تراجم کیے اور مختصر تعارفی مضامین بھی لکھے لیکن ندوی کی فوقیت یوں تسلیم شدہ ہے کہ وہ علامہ اقبال سے براہ راست ملاقاتیں بھی کرچکے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ اس ماحول سے بھی اچھی طرح باخبر ہیں جس میں علامہ کی شاعری پروان چڑھی۔ ان وجوہ سے ندوی کو باخبر مصنف کہا جاسکتا ہے، جب کہ عرب عقیدت مندوں کے ہاں صرف محبت و عقیدت کارفرما ہے۔ میں نے اقبالیات کے سلسلے میں نقوش اقبال کو ایک نیا نقطۂ نظر دو وجوہ سے کہا ہے: اوّل: اس وجہ سے کہ اس کے ذریعے اقبال کے دائرہ ہاے تخاطب میں سے ایک اہم اور بنیادی ہدفِ تخاطب (یعنی عالمِ عرب) کی طرف خاص توجہ کی گئی ہے۔ دوم: اس وجہ سے کہ ان مقالات کا مصنف دینی نقطۂ نظر کا حامل ہے اور خصوصیت اس میں یہ ہے کہ دوسرے اکثر لکھنے والے اقبال پر مغرب کے زاویۂ نگاہ سے نظر ڈالتے رہے۔ لہٰذا ان کے افکار میں پاک و ہند کے جدید تعلیم یافتہ طبقے کا ذہن جھلکتا ہے۔ اس کے برعکس نقوشِ اقبال میں مسلمانوں کی قدیم علمی و دینی روایت منعکس ہے۔ یہ روایت مغرب کی فتوحات کو تو مانتی ہے لیکن مغرب سے مرعوب نہیں۔ کسی زمانے میں مجھ سے ایک شخص نے سوال کیا تھا کہ کلامِ اقبال توضیحِ فکر ہے یا سعیِ تخاطب؟ میں نے اس وقت جو جواب دیا، دیا مگر موجودہ تبصرے میں وہ سوال پھر اُبھر آیا ہے، لہٰذا اس کے نئے جواب کی ضرورت واضح ہے۔ بظاہر توضیحِ فکر اور سعیِ تخاطب میں کچھ زیادہ تفاوت یا تضاد نہیں لیکن بعض مفکر ایسے ہوتے ہیں جن کا مقصد حقائق کی دریافت یا توضیح کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ وہ جب حقیقتوں سے پردہ اُٹھا چکتے ہیں تو ان کی دانست میں ان کا مقصد پورا ہوجاتا ہے۔ انھیں اس سے دلچسپی نہیں ہوتی کہ عملی حالاتِ زندگی پر ان کے افکار کا اطلاق کس طرح ہوتا ہے۔ بعض دوسرے مفکر حقائق کی توضیح کو پیغام یا تخاطب کے لیے استعمال کرتے ہیں؟ اور ان کا اصل مقصد بعض خاص غایتوں کے لیے ذہن کو آمادہ کرنا ہوتا ہے اور افکار کے حوالے سے عملی صورت کو بدلنا ہوتا ہے۔ اقبال کے یہاں افکار و حقائق کی وسیع دُنیا موجود ہے، اس میں توضیحِ فکر بھی ہے اور تخاطب بھی۔ کسی وقت یہ فیصلہ کرنا ضروری ہوجائے کہ وہ محض دریافت و معرفت کے شاعر ہیں یا تخاطب کے، تو میں یہ کہنے پر مجبور ہوجاؤں گا کہ ان کا مقصدِ اولین تخاطب ہی ہے۔ یہ طویل تمہید میں نے اس لیے باندھی ہے کہ کلامِ اقبال کے تخاطبات کی گفتگو واضح ہوسکے۔ اقبال سب سے پہلے اپنی ملت سے مخاطب ہیں جن میں ہند اور پاکستان کے مسلمانوں کے علاوہ عرب ایران، ترکی، افغانستان اور دیگر ممالک کے اہلِ اسلام ان کے مدنظر ہیں۔ وہ پھر ملت کے اس تخاطب کے پردے میں آفاقی حقائق پیش کرتے ہیںاور پہلے ذہنی اور پھر عملی انقلاب لانا چاہتے ہیں۔ باقی بلادِ اسلامیہ کی طرح اقبال نے عرب اور اہلِ عرب کا بھی کئی جگہ تذکرہ کیا ہے اور انھیں محمد عربی (صلی اللہ علیہ وسلم) کے حوالے سے سابق کی طرح مستقبل میں بھی مرکزی مقام دینے کی آرزو کی ہے اور یہ خواہش ظاہر کی ہے کہ کاش عرب ہی دوبارہ ملتِ اسلامیہ کے لیے مرکزی قوت بن جائیں۔ سیّدابوالحسن علی ندوی نے یہ بہت بڑی خدمت انجام دی ہے کہ اُنھوں نے عربوں کو اقبال کے خیالات سے آگاہ کرنے کے لیے عربی زبان کو وسیلہ بنایا اور اس طرح علامہ اقبال کے مقدس مشن کو پورا کرنے میں اہم حصہ لیا۔ زیرِ نظر مجموعے سے معلوم ہوا کہ ندوی نے خاص طور سے کلامِ اقبال کے ان حصوں کی طرف توجہ کی ہے جن میں بلادِ عربیہ کے نام کوئی پیغام ہے۔ اس کا مضمون ’’اقبال کا پیغام بلادِ عربیہ کے نام‘‘ اس سلسلے کا بہترین مقالہ ہے۔ اس کے علاوہ مسجدِ قرطبہ، ذوق و شوق، مسئلہ فلسطین، طارق کی دُعا، ابو جہل کی نوحہ گری، جاہلیت کی باز گشت اس موضوع پر خاص مضامین ہیں۔ سیّدابوالحسن علی ندوی نے یہ عظیم کام کرکے سفارت کا جو عظیم کارنامہ انجام دیا ہے، وہ خاص طور سے مستحقِ مبارک باد یوں ہے کہ ہماری رسمی سفارتوں نے عرب دُنیا سے اپنے رشتے استوار کرنے کی کم سے کم کوششیں کیں۔ ایران اور افغانستان سے بوجہ اشتراک و قربتِ لسانی کے پھر بھی کچھ واسطہ رہا لیکن عالمِ عرب کے بارے میں بیگانگی سی رہی اور سچ یہ ہے کہ عرب ممالک میں اقبال کے تعارف کی اب بھی [ضرورت] ہے۔ ندوی صاحب نے ابتدا کردی ہے باقی اہل ہمت بھی کچھ محنت کریں تو کارِ ثواب ہے۔ بہرحال یہ لائق صد تحسین کارنامہ ایک عالم دین نے انجام دیا۔ اور زیادہ لائقِ توجہ اَمر یہ ہے کہ یہ سعادت ایک ہندی مسلمان کے حصے میں آئی۔ اگرچہ ہم ’’جوہرِ ما از ہند و روم و شام نیست‘‘ کے قائل ہیں لیکن خدمت کے اس میدان میں پاکستان بھی پیش پیش ہوتا تو بہت خوشی ہوتی۔ نقوشِ اقبال کا دوسرا وصف اس کا خاص نقطۂ نظر ہے۔ یہ بڑی دل خراش حقیقت ہے کہ ہمارے یہاں سیاست و معاشرت کی گروہ بندیوں نے ایک ایسے بگاڑ کی صورت اختیار کرلی ہے جس نے حق اور حقیقت سے انحراف کو ایک عام بیماری کی صورت دے دی ہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ اقبال جیسے دین دار عالم اور عارف سرمست کو یاران وطن نے صرف ایک طبقے کا شاعر ثابت کرنا شروع کردیا ہے۔ اس گروہ کی خاص کوشش یہ ہے کہ اقبال کو علماے دین (قدیم و جدید) کا دشمن ثابت کیا جائے۔ یہ حضرات جس طرح اقبال کو پیش کرتے ہیں، اس سے یہ غلط تاثر ملتا ہے کہ اقبال اَئمۂ اربعہ سے لے کر آج کے دور تک ہر عالم کے دشمن تھے۔ بلکہ خود عظیم اربابِ تصوف کے بھی مخالف تھے۔ یہ باتیں دراصل حقائق کے خلاف ہیں۔ اور اقبال پر اس الزام کی ان کے کلام اور حیات سے تصدیق نہیں ہوتی۔ بلا شبہہ اقبال نے ملّا و پیر پر تنقید کی ہے لیکن اقبال کی وہ تنقیدیں بھی پیش نظر رہنی چاہییں جو اُنھوں نے طبقۂ جدید اور طبقۂ امرا کے خلاف کی ہیں۔ اقبال ایک معاشرتی مصلح و مفکر کی حیثیت سے ملت کے ہر گروہ کو ہدف تنقید بناتے ہیں۔ اس وسیع تنقید میں سے صرف ایک حصے کو نکال کر اس پر زور دیتے رہنا سخت زیادتی ہے۔ اور میں اسے علما کی کشادہ دلی سمجھتا ہوں کہ اُنھوں نے ایسی باتوں کا نوٹس نہیں لیا کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اقبال ایک عاشقِ رسول ؐاور دین کے خیرخواہ ہیں۔ سیّد ابوالحسن علی ندوی بھی ایک عالمِ دین ہیں۔ اُنھوں نے اقبال کے ان مفسرانِ بے مغز کے خلاف کسی احتجاج کا اظہار نہیں کیا۔ اُنھوں نے اقبال کے بارے میں جو راے ظاہر کی ہے اس میں محبت اور عقیدت کا رنگ جھلکتا ہے۔ ندوی اگرچہ اقبال کو دینی پیشوا کی حیثیت نہیں دیتے،تاہم ان کی راے یہ ہے کہ’’اقبال وہ شاعر ہیں جن سے اللہ تعالیٰ نے اس زمانے کے مطابق بعض حکم و حقائق کہلوائے ہیں جو کسی دوسرے معاصر شاعر و مفکر کی زبان سے ادا نہیں ہوئے۔ وہ اس معاملے میں دینی علوم کے ان فضلا سے بھی آگے ہیں جو مغربیت کی حقیقت سے واقف نہیں اور نہ انھیں اس کے حقیقی اغراض و مقاصد اور تاریخ سے گہری واقفیت ہے۔‘‘ سیّدابوالحسن علی ندوی نے بڑی دیانت داری سے یہ بھی لکھ دیا ہے کہ اقبال کے یہاں بعض مسائل کی ایسی تعبیریں بھی ملتی ہیں جن سے اتفاق کرنا مشکل ہے لیکن اقبال کے مقاصدِ عظیمہ، ان کے عشقِ رسول ﷺ اور حرارتِ ایمانی سے کسی کو انکار نہیں۔ ندوی نے اقبال کی شخصیت کے تخلیقی عناصر میں سب سے زیادہ ان کے ایمان و ایقان کو جگہ دی ہے، اور ایک عالم دین کی طرف سے یہ بہت بڑی سند، بہت بڑی سفارش اور بہت اچھی دُعا ہے۔ میں نے نقوش اقبال کے سب مضامین بڑے ذوق و شوق سے پڑھے ہیں لیکن مصنف کی فکری و فنی تنقید سے زیادہ میں ان کے مذکورہ بالا نقطۂ نظر سے متاثر ہوا ہوں۔ خاص طور سے علامہ اقبال سے ملاقات کی تفصیلات ہمارے لیے بڑی نادر و منفعت بخش معلومات کا ذریعہ ثابت ہوئی ہیں۔ یوں تو سیّد ابو الحسن ندوی کئی مفید کتابوں کے مصنف ہیں اور وہ کئی دینی محاذوں پر مجاہدانہ (کہ یہ ان کا ورثہ ہے) حرب و ضرب میں سرگرمِ عمل ہیں لیکن نقوشِ اقبال کی تدوین کو اگر توفیق ایزدی کَہ دیا جائے تو مناسب ہوگا۔اس کتاب کے مطالب ان گوشوں پر سے پردہ اُٹھاتے ہیں جن پر ہمارے اہل قلم نے کچھ زیادہ نہیں لکھا یا اگر لکھا ہے تو لکھنے والوں کا قلم مغربیت کے بوجھ تلے دبا نظر آتا ہے۔ الحمدللہ کہ ندوی کا قلم دینی خدمت کے سوا کسی بوجھ سے دبا ہوا نہیں اور یہ سعادت کی بات ہے۔ -----۴؍ اگست۱۹۷۵ء ئ……ئ……ء ۳۷ ’’فلسفہ زدہ سیّد زادہ‘‘ اور اقبال ایک عزیز نے مجھ سے مندرجہ ذیل اشعارِ اقبال کی شرح مانگی ہے: انجامِ خرد ہے بے حضوری ہے فلسفہ زندگی سے دوری افکار کے نغمہ ہاے بے صوت ہیں ذوقِ عمل کے واسطے موت دیں مسلکِ زندگی کی تقویم دیں سرِّ محمد و براہیم ’’دل در سخن محمدی بند اے پورِ علیؓ ز بوعلی چند‘‘ یہ اشعار ضربِ کلیم کی اس نظم کا حصہ ہیں جس کا عنوان ہے: ’’ایک فلسفہ زدہ سیّد زادے کے نام‘‘۔ اس نظم کے پہلے دو شعر یہ ہیں: تو اپنی خودی اگر نہ کھوتا زنّاریِ برگساں نہ ہوتا ہیگل کا صدف گہر سے خالی ہے اس کا طلسم سب خیالی برگساں فرانسیسی فلسفی علامہ اقبال کا معاصر تھا۔ ہیگل جرمن فلسفی تھا جس کے فلسفے کے دو مسئلے بڑی شہرت رکھتے ہیں: ایک تصوریت (آئیڈیلزم) اور دوسرا جدلیت (ڈائی لیکٹکس) اس وقت ان مسائل کی تشریح کی گنجائش نہیں۔ اقبال اپنے مخاطب یا مکتوب الیہ کے ذہن نشین کرانا چاہتے ہیں کہ حقیقت یا حقیقتِ مطلقہ کے ادراک کے سلسلے میں عقلی جستجو تسلی بخش نتائج پیدا نہیں کرسکتی۔ یہ اقبال کا مستقل موضوع ہے جو ان کی ہر کتاب میں بار بار زیر بحث آیا ہے۔ یہ معلوم ہے کہ علم کے ماخذ تین ہیں: ۱- علم بذریعہ حواس ۲- علم بذریعہ عقل ۳- علم بذریعہ الہام۔ اس تیسرے ماخذ کے لیے مختلف لوگوں نے مختلف نام رکھے ہیں۔ شیخ نظام الاولیاء نے فرمایا: علم کے تین راستے ہیں۔اول: بطورِ حس، دوم: بطورِ عقل اور سوم: بطورِ قدس۔ اس بطورِ قدس کو بعض دوسرے عارفوں نے بطورِ ذوق کہا ہے۔ اقبال نے اس تیسرے ماخذ کا نام عشق رکھا ہے جسے بعض جگہ جذب و جنون بھی کہا ہے۔ اقبال کے نزدیک اگرچہ علم کے مآخذ کچھ اور بھی ہیں مثلاً: ۱-عملی تجربہ جس پر مغرب کی تجربیت Empiricism کی بنیاد ہے اور ۲-خبر یا تاریخ جس میں شاہ اسماعیل شہید کی اصطلاح کے مطابق نقل بھی شامل ہے اور مشاہدۂ کائنات بھی، لیکن الہام جو مذہبی و رُوحانی واردات کا دوسرا نام ہے، سب سے زیادہ یقینی اور قطعی ذریعۂ علم ہے جیسا کہ خطبات میں اقبال نے خود تشریح فرمائی ہے۔ اقبال عقل کی رہنمائی کے بھی قائل ہیں لیکن اُنھوں نے بار بار عقل کی محدودیت پر بھی زور دیا ہے۔ محدودیت کے معنی یہ ہیں کہ اس کی رسائی صرف ان حقیقتوں تک ہے جو حواس کی گرفت میں آسکتی ہیں، حالانکہ حواس سے ماورا بے شمار حقائق ہیں جنھیں تسلیم کرنا پڑتا ہے لیکن عقلی طریقے سے ثابت نہیں کیا جاسکتا مثلاً خود خدا کی ہستی کہ جسے مانا جاسکتا ہے لیکن اسے عقلی طریقے سے ثابت نہیں کیا جاسکتا۔ جن اشعار کی شرح مانگی گئی ہے، ان میں بھی عقل کی محدودیت اور نارسائی کی طرف اشارہ ہے۔ اقبال نے ایک دلیل ناتمامیِ عقل کی یہ دی ہے کہ اس کا انجام بے حضوری ہے اور دوسری دلیل یہ دی ہے کہ فکری و عقلی جستجو کہ جس کا دوسرا نام فلسفہ ہے، زندگی کی اصل حقیقت سے دور رکھتا ہے۔ بے حضوری کیا ہے اور خرد کا انجام بے حضوری کیوں ہے؟ سب سے پہلے بے حضوری کی تشریح لازم ہے۔ حضور سے مراد حضورِ قلب ہے۔ یہ اس ذوقی و رُوحانی حالت کا نام ہے جو دل کے لیے ظاہری و مادّی اسباب کے بغیر لذت و سرور کا موجب بنی رہتی ہے۔ صوفیہ اسے محبوب حقیقی سے مسلسل رابطے کا نتیجہ سمجھتے ہیں۔ خود اقبال کے افکار میں اسے ذکر و فکر کا نتیجہ کہا گیا ہے۔ محبوبِ حقیقی سے یہ قلبی رابطہ کیسے پیدا ہوتا ہے؟ یہ طویل قصہ ہے۔ اس کی ایک صورت وہبی ہے (یعنی خدا جسے چاہے توفیق عطا فرمادیتا ہے) دوسری صورت ریاضت ہے۔یہ ریاضت دُنیا میں رہ کر مادّی شوائب یا تعلقات سے خود کو بے نیاز کردینے کی مسلسل مشق پر مشتمل ہے۔ اس کی مختلف ورزشیں ہیں، لیکن یہاں ان کی بحث کی گنجائش نہیں۔ کہنا صرف یہ ہے کہ حضور قلب سے مراد دل کی وہ لذت ہے جو مادّی وسائل کی محتاج نہیں بلکہ صحیح طرح بیان میں بھی نہیں آسکتی۔ یہ ذوق اور یہ لذت ایک عظیم اور نادر سرمایۂ سرور بھی ہے اور ایک سطح پر پہنچ کر منبع ِعلم (الہام) بھی۔ پروفیسر لیوبا اور انڈرہل وغیرہ نے اسے یوں ادا کیا ہے کہ یہ ذوق حضور ِقلب Cognitive (علم افروز) بھی ہے اور conative (عمل افزا) بھی۔ اس کا بخشا ہوا علم قطعی اور یقینی ہوتا ہے اور اس کا اُبھارا ہوا عمل زندگی کی اعلیٰ ترین شرافتوں کے لیے مہمیز ثابت ہوتا ہے۔ یہ عمل یقین سے پیدا ہوتا ہے اور ان شکوک و اوہام سے پاک ہوتا ہے جو منطقی و عقلی طریقِ کار کے لیے لازم ہیں۔ دُنیا کے عظیم ترین کام اسی ذوقِ عمل کے مرہونِ منت رہے ہیں،مثلاً انبیا اسی علم کی بدولت ایسی عظیم الشان تحریکوں کے محرک رہے ہیں جن کے بارے میں عقلی طریقے والے سوچ بھی نہیں سکتے۔ ہزاروں شکوک اور مصلحت کوشیاں سامنے آجاتی ہیں لیکن ایمان و یقین کی شمع کو لے کر نکلنے والے ان شکوک و اوہام سے پاک میدان میں اترتے ہیں۔ ایمان و یقین سے پیدا شدہ عمل؛ فتنہ و فساد، خود غرضی، انتقام اور غصے کی ہر شکل سے پاک ہوتا ہے مگر عقل و خرد کے سہارے چلنے والے عمل کے بارے میں یہ ضمانت نہیں دی جاسکتی۔ ایمان و یقین سے پیدا شدہ عمل میں ندامت، غم اور احساسِ ناکامی نہیں ہوتا۔ وہ ہر حال میں اطمینان سے لبریز ہوتا ہے کیونکہ خدا کی زمین کو امن و سرور سے معمور کردینے کے ارادے سے شروع ہوتا ہے اور اسی پر ختم ہوتا ہے۔ یہ سب کچھ اس ذوقِ عمل کا نتیجہ ہوتا ہے جس کا منبع اس قلب میں ہے جو مادیات سے ماورا عظیم ترین رُوحانی مرکز سے وابستہ ہے اور ہر وقت سرور سے معمور اور خدا کے ارادوں کو پورا کرنے کے لیے سرگرمِ عمل ہوتا ہے۔ اس سے زندگی ایک ہنگامۂ سرور بنی رہتی ہے۔ اور ان غموں اور آلائشوں سے پاک ہوتی ہے جن سے اضطراب اور رنج و اندوہ پیدا ہوتا ہے۔ اقبال کی نظر میں جذب و عشق کی یہ لذتیں عقلی و منطقی موشگافیوں سے پیدا نہیں ہوسکتیں کیونکہ عقلی طریق ایک شک کو رفع کرنے کے لیے بیسیوں اور شک پیدا کردیتا ہے اور کبھی مطمئن نہیں ہوتا بلکہ بے اطمینانی بکھیرتا رہتا ہے۔ اب اقبال کے اس شعر کو پھر پڑھیے: انجامِ خرد ہے بے حضوری ہے فلسفہ زندگی سے دوری فلسفہ چونکہ محض عقلی استدلال پر چلتا ہے اور مشاہدے و تجربے کے بغیر ہی نتیجے نکالنا چاہتا ہے، اس لیے حقیقی زندگی کی گہرائیوں تک نہیں پہنچ پاتا۔ یہ کام مشاہدے و تجزیے کا ہے کہ وہ عقلی استدلال کو مشاہدے و تجربے کے ذریعے قطعی و یقینی بنائے۔ تو نتیجہ یہ ہے کہ خرد ایک حد تک مفید ہونے کے باوجود دو بڑی محرومیوں کا شکار ہوجاتا ہے :ایک تو یہ کہ اس کے ذریعے حضورِ قلب (سرورِ کامل و ذوقِ رُوحانی) حاصل نہیں ہوپاتا اور پھر وہ سچی داخلی زندگی سے ناآشنا ہی رہتا ہے۔ خارجی طور پر یوں کہ وہ مشاہدے و تجربے کے بغیر محض خیال آرائی ہے اور داخلی طور سے یوں کہ وہ باطن کے ذوق اور رُوحانی حقائق کو نہ مانتا ہے، نہ جانتا ہے۔ اقبال فرماتے ہیں کہ افکار (فلسفے) کے کھوکھلے نغمے (آراستہ و پیراستہ باتیں) محض باتیں ہی باتیں ہیں اور اگر کوئی انھی میں اُلجھ کر رہ جائے اور خارجی مشاہدہ، تجربہ اور باطنی کشفِ حقائق سے واسطہ نہ رکھے تو زندگی میں شرافتوں کے لیے جدوجہد اور حقائقِ اعلیٰ تک پہنچنے کے لیے جس ذوقِ عمل کی ضرورت ہوتی ہے، یہ فلسفے اس کے لیے پیغامِ موت ہیں۔ اور ان خارجی اور داخلی (روحانی) بلندیوں تک کوئی پہنچنا چاہے تو اس کے لیے دینِ اسلام واحد نسخۂ ہدایت ہے۔ اس جامع علم و عمل دین ِمحمدی کو چھوڑ کر فلسفے کی موشگافیوں میں اُلجھنا خسارہ ہی خسارہ ہے اور یہ کام وہی کرسکتا ہے جو اپنی خودی کو برباد کرچکا ہو اور غیروں کے فلسفوں کا غلام ہوچکا ہو۔ اب ایک بار پھر اس نظم (ایک فلسفہ زدہ سیّد زادے کے نام) کو از ابتدا تا انتہا پڑھ ڈالیے۔ آپ اقبال کے ہم نوا ہوکر اس شعر کا وِرد کرنے پر مجبور ہوجائیں گے: تو اپنی خودی اگر نہ کھوتا زناریِ برگساں نہ ہوتا اور اس سیّد زادے کا کیا مذکور ہے،پاکستان میں اس وقت خودی کا قحط اتنا نمایاں ہوچلا ہے کہ ہر طرف فلسفہ زدہ (اور مغرب زدہ) سیّد زادے ہزاروں کی تعداد میں پھرتے نظر آئیں گے اور لطف یہ کہ مغرب زدگی کی تلقین حضرت علامہ کے نام سے ہی ہورہی ہے۔ -----۱۱؍اگست ۱۹۷۵ء ئ……ئ……ء ۳۸ اَسرارِ معراج اقبال کی نظر میں معراج کا عقیدہ مسلمانوں کا بنیادی عقیدہ ہے۔ اس کی اساس قرآن مجید اور احادیث پر ہے اور چودہ سو سال سے راسخ العقیدہ مسلمان اسے جزوِ ایمان خیال کرتے ہیں۔ علامہ اقبال نے بھی اس مسئلے پر مختلف کتابوں میں اظہار کیا ہے۔ اقبالیات کے بعض مصنفوں کو یہ مغالطہ لگا ہے کہ علامہ، معراجِ جسمانی کے قائل نہ تھے اور اسے صرف رُوحانی تجربہ یا واردات کہتے تھے۔ یعنی نفسیات کی زبان میں یہ برتر شعور کا ایک تجربہ تھا۔ اس معاملے میں علامہ اقبال کے عقیدے کی حقیقت یہ ہے کہ وہ آنحضرتﷺ کے معراجِ جسمانی کے قائل نہ تھے۔ یعنی اس بات کے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، اس تنِ خاکی کے ساتھ جویوں نورِ مجسّم تھے، خدا تعالیٰ سے ہم کلام ہونے کے لیے مقامِ حضور میں پہنچے۔ آنحضرت ﷺ کا سفرِ آسمانی قرآن مجید کی رُو سے تسلیم شدہ ہے۔سُبْحٰنَ الَّذِیْٓ اَسْرٰی بِعَبْدِہٖ لَیْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَی الْمَسْجِدِ الْاَقْصیٰ۔ اسی سفر کی طرف اشارہ ہے۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ اقبال جیسا عاشقِ رسول ﷺ قرآن مجید کی اس صریح آیت کو نظر انداز کردے۔ آیت کا مضمون صرف یہی نہیں بتاتا کہ آپ تشریف لے گئے بلکہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے اپنے بندے کے ساتھ رات کا یہ سفر کیا اور مدعا اس سفر کا یہ بتایا ہے کہ اپنے بندے کو آیاتِ الٰہی کا مشاہدہ کرایا جائے۔ خدا تعالیٰ نے ماحول کو منور کردیا اور اسے بقعۂ نور و برکت بنادیا جس کے باعث آنحضرت ﷺ پر آیاتِ الٰہی کا مشاہدہ آسان ہوگیا۔ احادیث اور تفاسیر میں اس سفرِ شب (اسرا) اور مشاہدۂ آیاتِ الٰہی (معراج) کی تفصیل کئی سورتوں میں آئی ہے۔ بعض میں جزئیات زیادہ، بعض میں کم ہیں۔ لیکن مُرورِ زمانہ سے ان کی ایک مرتب اور منظم شکل بھی نکل آئی جس کے بعض پہلو، ممکن ہے محض افسانوی ہوں، لیکن اصل واقعے سے انکار نہیں ہوسکتا۔ صوفیہ میں سے بعض نے اس مشاہدۂ ربانی کو اپنے اسرار کی تعبیر کے لیے استعمال کیا۔ چنانچہ فتوحاتِ مکیّہ میں اس کے رُوحانی حقائق کو پھیلا کر بیان کیا ہے ۔ان کے بعد فارسی زبان میں کئی معراج نامے لکھے گئے جن کی سب جزئیات کو درست کہنا مناسب نہ ہوگا مگر اصل ہر صورت میں قائم ہے۔ بہرحال اقبال کے کلام سے ثابت کیا جاسکتا ہے کہ وہ آنحضرت ﷺ کے معراجِ جسمانی کو مانتے تھے اور انھیں اس معاملے میں سرسیّد اور ان کے عقل پرست مقلدوں کا پیرو نہیں کہا جاسکتا۔ غلط فہمی کی بنیاد یہ معلوم ہوتی ہے کہ علامہ نے بعض موقعوں پر معراج کی تشریح کرتے ہوئے موجودہ دور کی بعض علمی اصطلاحوں سے کام لیا ہے۔ جاوید نامہ میں لکھا ہے: چیست معراج؟ انقلاب اندر شعور اس قسم کی علمی اصطلاحوں سے یہ غلط فہمی ہوئی کہ علامہ اسے صرف داخلی و ذہنی مسئلہ خیال کرتے تھے۔ حالانکہ ان کا مقصد یہ تھا کہ معراج (جسے وہ جسمانی مانتے تھے) اپنی ظاہری حالت کے ساتھ ساتھ ایک معنوی اور اندرونی انقلاب بھی لاتا ہے۔ مقامِ حضور میں قُربِ الٰہی سے مستفید ہونے کے لیے جس آمادگی کی ضرورت ہوسکتی ہے، اس کے لیے یکسر ایک نئی صورتِ حال کی ضرورت ہوتی ہے اور اسی کو حضرت علامہ نے ’’انقلاب اندر شعور‘‘ سے یاد کیا ہے۔ لہٰذا معراج کو ایک عام نفسیاتی کیفیت سمجھنا غلط ہوگا جیسا کہ ینگ وغیرہ (عام انسان کے تعلق میںیا ایک اعلیٰ سطح پر ولیم جیمز اور ہکسلے وغیرہ) خیال کرتے ہیں۔ علامہ اقبال اس مسئلے کو اس سطح سے نہیں دیکھتے، بلکہ ان کے مدنظر وہ سطح بھی نہیں جو اکابر صوفیہ کو میسر آئی اور جس کا ذکر شاہ ولی اللہ نے اپنی کتاب سطعات میں کیا ہے۔ معراج تو بلند ترین اور ناقابلِ بیان مقام ہے۔ البتہ یہ درست ہے کہ علامہ، بعض اوقات اپنی اصطلاح’خودی‘کے ضمن میں یہ فرماتے معلوم ہوتے ہیں کہ ایک خاص تجربہ ہر اس بشر کو ہوسکتا ہے جس نے اپنی خودی کو مستحکم کرلیا ہو لیکن یہ اچھی طرح ملحوظ ہو کہ علامہ جب بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی معراج کا ذکر فرماتے ہیں تو ان کے پیرایہ بیان میں ضرور ایسے الفاظ موجود ہوتے ہیں جن سے برتر معراج کی تخصیص آنحضرت ﷺ کے لیے بالکل واضح ہوتی ہے مثلاً یہ شعر ملاحظہ ہو: سبق ملا ہے یہ معراجِ مصطفی ﷺ سے مجھے کہ عالمِ بشریت کی زد میں ہے گردوں اس شعر میں ایک عام انسان کے لیے فقط اتنا ہی لکھا ہے کہ وہ آسمانوں تک پہنچ سکتا ہے بشرطیکہ اس کی خودی مستحکم ہو، بشرطیکہ وہ جذبِ دروں سے بہرہ مند ہو اور حقائقِ علوی سے کامیاب ہونے کی آرزو رکھتا ہو، مگر معراج میں آنحضور ﷺ کی تخصیص دکھائی گئی ہے۔ معراج وہ خصوصی مقام ہے جو آنحضور ﷺ کے لیے مخصوص ہے لیکن معراج سے نیچے بھی تو علوی حقیقتوں کی کوئی حد نہیں، کوئی انتہا نہیں۔ وہ ایک بشر کے لیے جو اوصافِ خاص سے متصف ہو، ارزانی ہوسکتی ہیں۔ علامہ اقبال نے اپنی کئی کتابوں میں نبی اور ولی کے امتیازات سے بحث کی ہے اور بعض صوفیہ مثلاً ابن ِعربی وغیرہ کی راے کے برعکس نبی ہی کو افضل مانا ہے اور آنحضرت ﷺکا تو مقام ایسا ہے جس کے بارے میں آںجناب ﷺ کی ایک حدیثِ قدسی بیان کی گئی ہے: لی مع اللّٰہ وقت لایسعنی فیہ مَلَکٌ مقربٌ او نبیٌمرسلٌ (مجھے خدا تعالیٰ کے ساتھ قرب کا ایسا درجہ یا وقت میسر ہے، جس میں میرے ساتھ اور کوئی شریک نہیں ہوسکتا۔ نہ کوئی فرشتہ مقرب اور نہ کوئی نبیِ مرسل)۔ لیکن ایک انسان (خودی آشنا مسلم) کے لیے بعض علوی مقامات ممکن ہیں بلکہ خودی آشنا مسلم ہی کا فرض ہے کہ وہ ان مقامات کے لیے خود کو تیار کرے کیونکہ وہ ایک اُمتِ مخصوص سے متعلق ہے جو زمینوں کی طرح آسمانوں پر بھی حکومت کرسکتی ہے جس حد تک کہ خدا کی ذات ارزانی فرمائے۔ ضربِ کلیم میں ایک نظم’’ معراج‘‘ کے عنوان سے ہے : دے ولولۂ شوق جسے لذتِ پرواز کرسکتا ہے وہ ذرہ مہ و مہر کو تاراج مشکل نہیں یارانِ چمن، معرکہ باز پر سوز اگر ہو نفسِ سینۂ درّاج ناوک ہے مسلمان، ہدف اس کا ثریا ہے سرّسرا پردہ جاں نکتۂ معراج تو معنیِ والنجم نہ سمجھا تو عجب کیا ہے تیرا مد و جزر ابھی چاند کا محتاج اس قطعے میں معراج کے خصوص پر زور دیتے ہوئے افلاک کی تسخیر کا عموم واضح ہے۔ خدا تعالیٰ کے جو مقاصدِ ربوبیت و جباری و غفاری ہیں، ان کی تکمیل کا ذریعہ (ناوک) مسلمان کو بتایا ہے اور یہ بتایا ہے کہ مسلم کا ثریا (عالمِ افلاک) تک پہنچنا خدا تعالیٰ کی مشیت کا حصہ ہے۔ اس گفتگو سے واضح ہوا کہ علامہ اقبال معراج کے مسئلے میں آنحضرت ﷺ کی بدنی معراج کو تسلیم کرتے تھے۔ معراج کو آنحضرت ﷺ سے مخصوص سمجھتے تھے۔ تاہم نیچے کے رُوحانی مقامات عام خودی آشنا (روحانی کمالات سے بہرہ ور) بشر کے لیے بھی ممکن سمجھتے تھے۔ ان کی نظر میں یہ منصب مسلمان کا ہے کہ وہ سورۂ والنجم کے معنی سمجھے اور مہرو ماہ کی تسخیر کرے۔ مطالعۂ اقبال کے سلسلے میں اہم نکتہ یہ ہے کہ ان کے افکار کو اسلامی عقیدوں کے سیاق و سباق میں پڑھا جائے۔ تاکہمغالطوں کا کم سے کم امکان ہو۔ -----۱۸؍ اگست ۱۹۷۵ء ئ……ئ……ء ۳۹ عجم و عجمیّت اقبال کی نظر میں-۱ اقبال نے اپنی نظم و نثر میں جابجا عجم اور عجمیّت کے متعلق اظہارِ خیال کیا ہے۔ کہیں بطور مذمت،کہیں کہیں بطور تحسین اور کسی کسی جگہ محض بطور پیرایۂ بیان۔ قدرتی طور سے اس کی وجہ سے ناقدین و شارحینِ اقبال کو عجم اور عجمیّت کے بارے میں لکھنا پڑا۔ لیکن چونکہ ہمارے یہاں محنت کی کمی ہے اور اس کے ساتھ ہی جدل و مناظرہ کی بھی عادت ہے، اس لیے محققانہ، منصفانہ نتائج تک پہنچنے میں بے شمار دشواریاں ہیں۔ خلط ِمبحث کی حد یہ ہے کہ بعض مقالہ نگار اور مصنّفین اسلام اور اقبال کی مساواتی رُوح کے باوجود جس میں عرب و عجم کا کوئی امتیاز جائز نہیں،یہاں تک تجاوز کرجاتے ہیں کہ غیر عرب ممالکِ اسلامیہ میں فروغ پانے والے سارے ادب، بلکہ خود فقہِ اسلامی کے بعض مسالک کو جو عرب سے باہر قائم ہوئے عجمی کَہ کر اسے لازماً اسلام کی عربی رُوح کے خلاف کَہ دیتے ہیں، اور اس طرح نادانستہ مستشرقین کے ہاتھ میں کھیل جاتے ہیں۔ میں نے مستشرقین کا ذکر اس لیے کیا ہے کہ اُنھوں نے مسلم ممالک میںاور ملت کے شیرازے کو پارہ پارہ کرنے کے لیے اپنی تحقیقی تصانیف میں علاقائی احساس کو اُبھارنے کی منظم کوشش کی ہے۔ جرمنی کے نامور مستشرق گولت سہر Goldseher نے اس سلسلے میں بڑی کاوش سے کام لیا ہے اور اپنے مقالات میں جو محمڈن سٹڈیز کے نام سے شائع ہوئے ،عرب و عجم کی بحث بڑے زور سے اُٹھائی ہے اور ثابت کیا ہے کہ اسلام کی مساوات آفرین تعلیم کے باوجود عرب و عجم میں بڑی منافرت رہی ہے۔ اس سلسلے میں شعوبیہ تحریک پر خاص تحقیق کرکے کچھ نتیجے نکالے ہیں لیکن نہایت غیر معمولی دیدہ ریزی کے باوجود اسے شواہد کچھ زیادہ تعداد میں مل نہیں سکے۔ شعوبیہ تحریک غیر عرب گروہوں میں سے بعض مصنفوں، شاعروں اور لغت نگاروں کا ایک احتجاجی اظہارِ خیال تھا جو بعض قدرتی حالات کے زیر اثر، یا سیاسی سازشی عناصر کی انگیخت سے تھوڑی دیر کے لیے اُبھرا ضرور مگر گول تسیہر کی تحقیق کی کوتاہ دامنی خود ظاہر کرتی ہے کہ یہ تحریک بڑی محدود، عارضی اور بے نتیجہ سی تھی۔ لیکن گولت سہر نے بہت زور مارا ہے۔ پھر ترکوں کو لپیٹ میں لیا ہے۔ موالی پر زور بیان صرف کیا اور عرب و عجم کی دشمنی پر منافرت کے دریا بہادیے ہیں۔ اگرچہ دبی زبان سے ہر جگہ یہ تسلیم کرتا گیا ہے کہ علماے دین نے ان غیر مساواتی خیالات کو بڑھنے نہیں دیا۔ تو کہنا میں یہ چاہتا ہوں کہ حضرت علامہ اقبال کا نام لے کر ایسے خیالات کا اظہار جو ان کے حاشیۂ خیال میں بھی نہ تھے، مستشرقین کی افتراق انگیز مہم میں نادانستہ شریک بن جانے کے مترادف تھے۔ بات صرف اتنی ہے کہ حضرت علامہ نے بعض موقعوں پر عجم اور عجمیّت کی جو مخالفت کی ہے، اس کی اساس مکانی یا علاقائی نہیں بلکہ عقائداتی اور نظریاتی و فکری ہے، مثلاً ظاہر ہے کہ عجم کی اصطلاح میں سب سے پہلے اور سب سے زیادہ ایران شامل ہے مگر حضرت علامہ ایران اور ایرانیوں کے خلاف نہیں بلکہ ان عقائد و رجحانات کے خلاف فرماتے ہیں جو ایران کی بعض گذشتہ تہذیبوں کے مزاج میں شامل تھے۔ تو نتیجہ یہ کہ عجمیّت کی مذمت کا مطلب اس علاقے یا ملک کے رہنے والوں یا ان کے سب کارناموں کی مذمت نہیں۔ کچھ عرصہ ہوا میں نے ایک صاحب کا عجمیّت پر ایک مقالہ پڑھا جس کے مطالعے سے مجھے جو دُکھ ہوا وہ بیان سے باہر ہے۔ اس نے لکھا ہے کہ چونکہ فقہ حنفی اور اکثر محدثینِ کبار (امام بخاری، امام مسلم اور ترمذی وغیرہم) عجمی تھے، اس لیے فقہ و حدیث کا تقریباً سارا سرمایہ عجمیّت سے لبریز ہے۔ باقی رہا سلسلۂ تصوف تو اس کی مذمت علی الاطلاق یوں جائز سمجھ لی گئی ہے کہ اس کے بعض پہلوؤں کی مذمت اقبال نے کی ہے اور وہ پہلو واقعی مذمت کے قابل ہیں بھی۔ اور لطف یہ ہے کہ اسلام میں عجمی اثرات کی شدید مذمت کرنے والے افرنگ کی تہذیبی و فکری غلامی پر پھولے نہیں سماتے۔ اقبال فرماتے ہیں: حق سے اگر غرض ہے تو زیبا ہے کیا یہ بات اسلام کا محاسبہ یورپ سے درگزر بہرحال اقبال عرب و عجم کے مناظرے میں فقط افکار و عقائد کے حوالے سے اظہارِ راے فرماتے ہیں۔ ان کا مقصد یہ نہیں کہ جو شخص عرب سے باہر پیدا ہوا، اس کے خیالات خواہ وہ خدمت ِدین کا حق ادا کرتے ہوں، قابلِ مذمت ہیں۔ اور عرب میں جو شخص جو خیالات رکھے، وہ محض اس لیے برحق ہیں کہ وہ عرب میں پیدا ہوا۔ میں جو کچھ کَہ رہا ہوں اس میں کوئی خاص نکتہ تو نہیں لیکن مصیبت یہ آن پڑی ہے کہ کچھ لوگ اپنی بحث کی بنیاد علاقائیت پر رکھ کر خلطِ مبحث کا ارتکاب کرتے ہیں۔ اب مختصراً یہ بحث اُٹھاتا ہوں کہ اقبال کا عجم اور عجمیّت کے بارے میں نقطۂ نظر کیا ہے؟ سب سے پہلے جیسا کہ پہلے بیان ہوا ہے یہ ملحوظ رہے کہ اقبال جب عجم کا ذکر کرتے ہیں تو مختلف جگہوں میں اس کے کئیمعنی مراد ہوتے ہیں: (۱)خاور یا شرق (مشرق) یا موجودہ ایران کے مترادف کے طور پر (۲)غیر عرب جملہ اقوام و مللِ مشرق (جیسا کہ ابنِ خلدون نے اپنے مقدمے میں واضح کیا ہے) (۳)مجوسی ثقافت (۴)یا جملہ وہ ثقافتیں جن کا اسلام کی پہلی تین صدیوں میں اسلام سے تصادم یا عملِ آویزش و آمیزش ہوا۔ جہاں تک میں دیکھ سکا ہوں،علامہ اقبال نے پہلی قسم کے حوالوں میں عجم کا ذکر مذمت سے زیادہ تحسین سے کیا ہے۔ مثلاً بہت سی مثالوں کے بجاے یہی ایک مثال زبورِعجم سے پیش کردینی کافی ہوگی: چوں چراغ لالہ سوزم در خیابانِ شما اے جوانانِ عجم جانِ من و جانِ شما غوطہ ہا زد در ضمیرِزندگی اندیشہ ام تا بدست آوردہ ام افکارِ پنہانِ شما مہر ومہ دیدم نگاہم برتر از پرویں گذشت ریختم طرحِ حرم در کافرستانِ شما تاسنانش تیز تر گردد فرو پیچیدمش شعلۂ آشفتہ بود اندر بیابانِ شما فکر رنگینم کند نذر تہی دستانِ شرق پارۂ لعلے کہ دارم از بدخشانِ شما می رسد مردے کہ زنجیرِ غلاماں بشکند دیدہ ام از روزن دیوارِ زندانِ شما حلقہ گردِ من زنید اے پیکرانِ آب و گل آتشے در سینہ دارم از نیاگانِ شما زبورِعجمکی اس غزل میں صاف صاف تحسینِ عجم کا رنگ جھلکتا ہے۔کہیں کہیں محض پیرایۂ بیان کے طور سے پرے آتے ہیں مثلاً: عرب از سرشکِ خونم ہمہ لالہ زار بادا عجم رمیدہ بو را نفسم بہار بادا یا مثلاً یہ شعر: عرب کہ باز دہد محفلِ شبانہ کجاست عجم کہ زندہ کند رودِ عاشقانہ کجاست (زبورِعجم) باقی بحثیں آئندہ کی اشاعت میں آرہی ہیں۔ -----۲۵؍اگست ۱۹۷۵ء ئ……ئ……ء ۴۰ عجم و عجمیّت اقبال کی نظر میں-۲ گذشتہ شذرے میں زبورِعجم کی ایک غزل نقل کی گئی تھی جس میں حضرت علامہ کا ’’خطاب بہ جوانانِ عجم‘‘ درج تھا اور لکھا تھا کہ اس غزل میں تحسین کا لہجہ نظر آتا ہے لیکن یہ صرف اس غزل تک محدود نہیں،عجم کے لیے تحسینی خیالات کی ایک صورت خود زبورِعجم کا نام ہے۔ اس کے علاوہ حضرت علامہ نے اپنی مثنوی اسرارِ خودی میں جہاں ادب میں (مطلب و مضامین میں) ’’رجعتے سوے عرب می بایدت‘‘ فرمایا، وہاں فارسی شاعری سے اپنی دلچسپی بلکہ محبت کا بھی اظہار کیا، اور کئی دوسرے مواقع پر عجم کے حسنِ طبیعت کو خراج تحسین ادا کیا۔ اس کے باوجود صحیح یہی ہے کہ علامہ نے اپنے فکر اور شاعری کے پختہ دور میں عجمیّت کی مخالفت ضرور کی ہے۔ اگرچہ اس کے معنی وہ نہیں جو بعض فاضل نقادوں نے لیے ہیں یعنی اقبال کے مدِ نظر جو عجمیّت ہے، اس کی نوعیت علاقائی نہیں۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ اقبال جس عجمیّت کی مذمت کرتے ہیں، وہ کیا ہے؟ اس کے لیے ہمیں اپنی دینی اور فکری تاریخ کی تھوڑی سی تشریح کرنی پڑے گی۔ جب اسلام قرآن کی صورت میں مکمل ہوا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی عملی تشریح و تشکیل بھی کردی تو یہ عرب و عجم اور مشرق و مغرب دونوں کے لیے دستور العمل بن گیا۔ اس کے بعد فتوحات کے ذریعے اسلام کا دائرہ پھیلتا گیا اور عرب کے مضافاتی ملکوں کے لوگ مسلمان ہوتے گئے۔ یہ لوگ کچھ نہ کچھ اپنے سابقہ عقائد ہمراہ لائے۔ ان میں سب سے زیادہ جو گروہ سب سے پہلے مؤثر ہوا وہ یہود و نصاریٰ کا تھا۔ ان کے زیر اثر جو عقائد دین میں داخل ہوئے، انھیں مسلمانوں کی اصطلاح میں ’’اسرائیلیات‘‘ کہا جاتا ہے۔ دوسرا مؤثر گروہ ایرانیوں کا تھا۔ اسلام سے پہلے ان کا ایک مذہب تھا جس نے ایک تہذیب کو جنم دیا جسے زرتشتی مذہب اور مجوسی تہذیب و ثقافت کہا جاتا ہے۔ اس مجوسی تہذیب کے کچھ عقائد دین میں داخل ہوئے لیکن اس نے سب سے زیادہ فلسفہ و حکمت کے روپ میں اپنا اثر ڈالا۔ اس عنصر کو اگر کوئی چاہے تو مجوسیات یا زرتشتیات کَہ دے۔ بنو عباس کے زمانے میں یونانی عقلیات کا غلبہ ہوا۔ یہ یونانیت بعد میں مجوسیت سے ہم آہنگ ہوکر اسلامی حکمت میں داخل ہوئی اور اس کا ایک روپ تصوف کے بعض سلسلوں پر اثر انداز ہوا۔ ہندو و ثنیت نے بھی کچھ اثرات ڈالے اور اس کے اثرات بعد کے ادب میں مل جاتے ہیں۔ یہ سب اثرات کچھ تو قدرتی قانونِ نفوذ کا نتیجہ تھے مگر اس اَمر کے قوی شواہد موجود ہیں کہ یہ نفوذ شعوری طور پر ان سیاسی و تہذیبی سازشوں کا حصہ تھا جو قرآن مجید کی تعلیمات کے خلاف پہلی صدی ہی میں شروع ہوگئی تھی۔ ان میں سب سے بڑا فتنہ سبائیت کا تھا جس نے مصر کی قبطیت، شام کی نصرانیت و یہودیت اور ایران کی مجوسیت کو باہم مربوط کرلیا تھا اور جس کا مقصد یہ تھا کہ اسلام پر دو محاذوں سے حملہ کیا جائے۔ اوّل: عقائد میں تشکیک کے ذریعے، دوم: سیاسی سازشوں اور ریشہ دوانیوں کے ذریعے۔ یہ سب حملے اتنی کاریگری سے ہوئے کہ اسلام کی سادہ اور عملی تعلیم میں یقین رکھنے والے عامی و عالم بعض اوقات ان سازشوں تک نہ پہنچ سکے۔ اگرچہ یہ علما و صلحاے اُمت ہی تھے جنھوں نے صحت کا معیار قرآن و سنت کو قرار دے کر ان فتنوں کا کامیاب مقابلہ کیا۔ لیکن ان فکری و عقائداتی پہلوؤں کے ساتھ ساتھ جو سیاسی اور قبائلی لڑائیاں اُبھارنے کی کوشش ہوئی ،وہ بڑی خطرناک تھی اگرچہ اس کا بھی سخت مقابلہ کیا گیا۔ بہرحال میں نے اس مجموعی فتنے کا نام سبائیت رکھا ہے جس کی نہاد اگرچہ غیر ایرانی تھی لیکن مجوسیت کے ایک عنصر کو اس نے اپنے اندر جذب کرکے دینِ اسلام پر زور دار حملہ کیا جس کے محاذ ایک سے زیادہ تھے۔ داخلی بھی اور خارجی بھی،دینی بھی اور سیاسی بھی، فکری بھی اور معاشرتی بھی۔ میں ان سب فتنوں کو سبائیت کے مجموعی نام سے یاد کرتا ہوں اور یہ وہی شے ہے جسے قدرے محدود اور معین کرکے حضرت علامہ کی اصطلاح میں عجمیّت کہا گیا ہے۔ میں پہلے کَہ چکا ہوں کہ عجم محدود معنوں میں ایران (اور شاید توران) ہے لیکن وسیع معنوں میں جملہ غیر عرب دُنیا ہے۔ علامہ ابن خلدون نے مقدمہ فی التاریخ میں لکھا ہے کہ حاملینِ علم اکثر عجم میں سے ہیں۔ اس میں وہ بربروں تک کو عجم میں شامل کرتے ہیں۔ تو کہنا یہ چاہتا ہوں کہ علامہ کی نظر میں عجمیّت سے مراد صرف مجوسی ثقافت نہیں بلکہ وسیع تر جملہ غیر قرآنی افکار و خیالات ہیں۔ نیز یہ اصطلاح علاقائی و مکانی نہیں بلکہ فکری و عقائداتی ہے۔ یعنی یہ ضروری نہیں کہ کوئی شخص عجم میں پیدا ہوا ہو اور اس کے خیالات لازماً عجمی ہوں۔ مثلاً خود علامہ اقبال عجم (غیر عرب) تھے لیکن ان کے خیالات قرآنی ہیں۔ مفہوم کی اس وسعت کے باوجود یہ تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ علامہ کے مدِ نظر بعض مواقع پر عجم سے مراد ایرانی بھی ہیں اور عجمیّت سے مراد ایرانی مزاج اور قبل از اسلام کی ایرانی ثقافت بھی ہے۔ چنانچہ پیامِ مشرق کے دیباچے میں اُنھوں نے گوئٹے پر شعراے فارسی کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے:غرضیکہ مغربی دیوان کی وساطت سے گوئٹے نے جرمن ادبیات میں عجمی رُوح پیدا کرنے کی کوشش کی۔ بوڈن سٹاٹ کے بارے میں لکھا ہے کہ:اس شاعر نے عجمی رُوح کو اس خوبی سے جذب کیا ہے کہ جرمنی میں مرزا شفیع کے اشعار کو لوگ دیر تک فارسی نظم کا ترجمہ تصور کرتے رہے۔ پھر فرمایا:گوئٹے کے مغربی دیوان کے سوا جرمن شعرا کا مشرقی کلام کوئی بڑی وقعت نہیں رکھتا لیکن عجمی جادو کی گرفت سے جرمنی کے اس آزاد رَو شاعر کا دل بھی بچ نہ سکا۔ خوش قسمتی سے اسی دیباچے میں حضرت علامہ نے عجمیّت کی تشریح بھی خود ہی کردی ہے۔ فرمایا ہے:اندیشہ ہے کہ اقوام کی طبائع پر وہ فرسودہ اور زندگی کی دشواریوں سے گریز کرنے والی عجمیّت غالب نہ آجائے جو جذباتِ قلب کو افکارِ دماغ سے ممیز نہیں کرسکتی۔ اس تشریح سے عجمی مزاج کی یہ خصوصیت نمایاں ہوئی کہ عجمیّت زندگی کی دشواریوں سے گریز کا میلان پیدا کرتی ہے۔اس کے علاوہ اس کا ایک خاصہ یہ ہے کہ جذباتِ قلب کو افکارِ دماغ سے ممیز نہیں کرسکتی جس کے معنی بظاہر یہ ہیں کہ عجمیّت، فکروتخیل پر زیادہ زور دیتی ہے اور جذباتِ قلب اور ان سے پیدا شدہ جذبۂ عمل اور خلوص اس کے مدِّنظر نہیں ہوتا۔ اس میں کچھ شبہہ نہیں کہ فارسی شاعری کا ایک حصہ جس اخلاقیات کا درس دیتا ہے اس کی رُو سے زندگی کی دشواریوں کے مقابلے سے فرار کا میلان پایا جاتا ہے اور اسے ہم اپنے ادب کا عجمی عنصر کَہ سکتے ہیں، لیکن یہاں میں کہنا چاہوں گا کہ فارسی کی ساری اخلاقی شاعری کو عجمیّت زدہ نہیں کہا جاسکتا۔ اسی طرح یہ بھی ماننا پڑے گا کہ فارسی شاعری کے ایک حصے میں افکارِ دماغ کے ساتھ ساتھ جذباتِ قلب بھی ہیں، جنھیں ہمہ گیر انسانی جذبات کہا جاسکتا ہے۔ بایں ہمہ فارسی شاعری میں ایسا عجمی عنصر بھی ضرور موجود ہے جو سعی وعمل کی نفی کرتا ہے اور ’’بازمانہ ستیز‘‘ کے بجاے ’’تو بازمانہ بساز‘‘ کا سبق سکھاتا ہے اگرچہ زندگی کے شعوری تجربے میں ’’بازمانہ بساز‘‘ بھی ناگزیر اور قابلِ فہم تجربہ بن جاتا ہے۔ یہاں تک فارسی شاعری کا ذکر تھا جس کے مذموم عجمی پہلو کے باوجود، اس کے جادو کا بھی قائل ہونا پڑتا ہے۔چنانچہ علامہ اقبال نے جہاں عجم کے حسن ِطبیعت کا اعتراف کیا ہے وہاں عجمیّت کے فکری و عقائداتی پہلوؤں کے خلاف قطعی احتجاج کیا ہے۔ اس پہلو پر آئندہ اشاعت میں گفتگو ہوگی،ان شاء اللہ۔ -----یکم ستمبر ۱۹۷۵ء ئ……ئ……ء ۴۱ عجم و عجمیّت اقبال کی نظر میں-۳ یہ فکری و اعتقادی پہلو کیا ہے؟ اس میں سب سے پہلے مجوسی ثقافت کا ذکر آنا چاہیے، کیونکہ علامہ نے اپنے خطبات اور دوسری تحریروں میں اس کا بار بار ذکر کیا ہے۔ اس ثقافت کے دو پہلو اسلامی افکار پر اثر انداز ہوئے: اوّل: ثنویت (اہرمن اور یزداں کی دوئی) جو مسلمانوں کے افکار و عقائد میں کسی نہ کسی صورت در آتی رہی(چنانچہ ہر دور میں ہم دیکھتے ہیں کہ راسخ العقیدہ علماے حق نے اس آمیزش کے خلاف جہاد کیا۔) دوم: عقیدۂ انتظار جس کے تحت مجوسی آخری وقت تک زرتشت کے نازائیدہ بیٹے کا انتظار کرتے رہے جو خیر کا عَلم بردار ہوکر ان کے خیال کے مطابق شر کو مغلوب کرے گا۔ یہ یاد رہے کہ مجوسیت کوئی ایک شے نہیں، تاہم اس سلسلے کو زرتشت کے مذہب اور خیالات سے مربوط کرکے اس کا ایک نظامِ فکر مرتب کیا گیا ہے۔ زرتشت: سولن اور تھیلز کا ہم عصر تھا۔ جب اس نے اپنا پیغام ایرانیوں تک پہنچانا شروع کیا تو اس وقت ایرانی ؛خیر کا گروہ اور شرکا گروہ یعنی دو متحارب فریقوں میں بٹے ہوئے تھے۔ تاآنکہ اس نے خیر اور شر کی اس ثنویت کو قبول کرکے ان میں ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوشش کی اور ہر مزد اور اہرمن کو تسلیم کرنے کے باوجود ان کو ایک ہستی کے دو رُخ بتایا۔ اس طرح اس کے ہاں ثنویت کے باوجود ایک طرح کی وحدت بھی تھی۔ زرتشت کی حد تک تو فلسفہ چل سکا لیکن اس کے پیرووں کے لیے یہ ہم آہنگی دشوار تھی، چنانچہ اہرمن اور یزدان کو الگ الگ مانتے رہے۔ پیروانِ زرتشت کے بارے میں علامہ شہرستانی نے ہمیں بہت سی معلومات سے آگاہ کیا ہے۔ زروانی نور اور ظلمت کو دہر کا فرزند خیال کرتے تھے۔ کیو مرثی یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ نور اصل حقیقت[ہے]اور ظلمت بعد کی پیداوار۔ اسی طرح کچھ اور عقائد بھی ہیں۔ زرتشتیوں کا ایک گروہ (متھرا کے پرستار) آفتاب پرست تھا۔ مانی کے پیرو یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ نور اور ظلمت دو مستقل حقیقتیں ہیں اور ان کے اختلاط و ترکیب سے عالمِ کثرت پیدا ہوتا ہے۔ نوشیروان کے زمانے میں مزدک پیدا ہوا جس نے زرتشت کی بہت سی باتوں کے ساتھ ساتھ اشتراکیت کی تبلیغ کی۔ ان سب عقائد کو مجوسیت سے تعبیر کیا جاسکتا ہے جو کسی نہ کسی شکل میں مسلمانوں کے ادب کے بعض حصوں میں داخل ہوگیا لیکن شپنگلر نے مجوسیت کی حدیں بہت وسیع کردی ہیں۔ اس کے نزدیک مجوسیت وہ مشترک تہذیب ہے جو بقول اس کے مجموعۂ مذاہب یعنی یہودیت، قدیم کلدانی مذہب، ابتدائی عیسائیت، زرتشتیت اور اسلام پر مشتمل ہے۔ حضرت علامہ نے اپنے خطبات میں شپنگلر کے اس خیال کی پُرزور تردید کی ہے اور واضح فرمایا ہے کہ اسلامی تہذیب ایک مستقل رُوح، مستقل نقطۂ نظر اور مستقل مزاج رکھتی ہے۔ اگرچہ یہ تسلیم کرلینے میں کوئی مضائقہ نہیں کہ اسلامی تہذیب کے بعض ادوار اور اس کے ایک حصے میں عجمی، (مجوسی) اثرات ضرور داخل ہوئے۔ حضرت علامہ نے تاکید کی ہے کہ ان عجمی غلافوں میں سے ایک تقدیر پرستی اور ترکِ سعی ہے جو تصوف کے بعض سلسلوں کے ہمراہ ادبیاتِ اسلامی میں شامل ہوگئی۔ اس ضمن میں وحدت الوجود کے عقیدے کا تذکرہ بھی ناگزیر ہے۔ حضرت علامہ[نے] اپنی قدیم بلکہ اولین تحقیقی کتاب فلسفۂ عجم میں (جو انگریزی میں ہے) وحدت الوجود کے ابتدائی نقوش کو آریائی ذہن کی پیداوار قرار دیا ہے جس میں ایران اور ہند دونوں شامل ہیں، فرق صرف یہ بتایا ہے کہ ایرانی آریائی ذہن ہر شے کی بنیادی وحدت کا اعتراف کرکے اسے وہیں چھوڑ دیتا ہے، لیکن ہندی آریائی ذہن اس حقیقت کے اندر سے ایک نظامِ فکر مرتب کرلیتا ہے۔ لیکن اس مسئلے کی مزید تفہیم کی ضرورت یوں محسوس ہوتی ہے کہ وحدت الوجود کو جسے حضرت علامہ نے اپنے پختہ فکری دور میں مسترد کردیا تھا،صحیح معنوں میں ایک فکر بنانے والا اُندلسی عارف اور حکیم ابن عربی تھا، نہ کہ کوئی ایرانی۔اس کے علاوہ، اولین اکابر صوفیہ (قشیری اور ابو نصر سراج وغیرہ) کے ہاں وحدت الوجود کی اہمیت کا کوئی سراغ نہیں ملتا۔ خیال یہ ہے جیسا کہ سیّد حسین نصر نے لکھا ہے کہ ابن عربی نے بوعلی سینا کے فلسفۂ عشق اور صوفیہ متوسطین کے تصورِ جذب کو ملاکر جس میں عیسائی تصوف نے کچھ حصہ لیا ہوگا، ایک مربوط فلسفہ وحدت الوجود تیار کرلیا۔ اس سے یہ نتیجہ نکالنا مقصود ہے کہ ابن عربی جو کتاب فلسفۂ عجم کے دور تک حضرت علامہ کے ممدوح تھے، جس کا ایم ایم شریف نے دیباچۂ کتاب میں کچھ گلہ کیا ہے، اس معاملے میں عجم ہی کے فیض یافتہ معلوم ہوتے ہیں۔ بہرحال بعد میں حضرت علامہ نے حقیقتِ خدا و کائنات کی اس تعبیر کے خلاف بہت کچھ کہا ہے، جس کی تشریح کا یہ موقع نہیں۔ یہ تصور یوں بہت جاذب معلوم ہوتا ہے مگر اس میں عجمی رُوح کا یہ پہلو بہرحال موجود ہے کہ متناہی کو غیر متناہی تک پہنچنے کے لیے جو جدوجہد کرنی چاہیے، ہر شے کو ایک ماننے سے اس جدوجہد کی کوئی گنجائش نہیں رہتی اور بقول حضرت ِمجدد الف ثانی ربّ اور اس کے بندے کے درمیان جو فاصلہ بربناے رحمت و حکمت ہے، وہ سب مٹ جاتا ہے۔ بعض صاحبوں کو اس بات پر تعجب ہوا ہے کہ اقبال نے عجمیّت کی اس درجہ مذمت کرنے کے باوجود، جاوید نامہ میں زرتشت کا طاسین مقرر کیا ہے جو عجمیّت کا باوا آدم تھا۔ اس کے علاوہ عہدِ جدید کے لادین زرتشتی نیٹشے کو جابجا اچھالا ہے اور حسین بن منصور الحلاج اور قرۃ العین طاہرہ کے لیے تحسین کے پیراے اختیار کیے ہیں اور ظاہر ہے کہ یہ دو حضرات بھی عجمیّت ہی کے نمائندے تھے۔ یہ خیالات دراصل شدید مغالطے پر مبنی ہیں ۔زرتشت کے بارے میں یہ قیاس کیا جاسکتا ہے کہ وہ اپنے عہد اور اپنے ملک کے پیغمبر تھے۔ قرآن مجید سے یہ ثابت ہے کہ خدا تعالیٰ نے ہر قوم کے لیے پیغمبر بھیجے، لہٰذا یہ باعث تعجب کیوں ہو کہ ایران میں بھی کوئی پیغمبر آیا ہوگا۔ اس کے علاوہ زر تشت کی اپنی تعلیم (جیسا کہ پروفیسر جیکسن وغیرہ نے لکھا ہے) عقیدۂ توحید کے قریب قریب تھی۔ان وجوہ سے زرتشت جسے فلسفی بھی سمجھا جا سکتا ہے، اس مقام کا مستحق تھا۔ الحلاج کو حضرت علامہ نے اپنے فلسفۂ خودی کی بنا پر لائق توجہ خیال کیا ہے۔اس کا اثبات خود بہر حال انائے انسانی کا ایک پر جوش مظاہرہ تھا۔اس کے علاوہ اکابر صوفیہ (مثلاً فرید الدین عطار اور حضرت داتا گنج بخش علی ہجویری) نے اسے بڑے لائق احترام صوفیوں میں جگہ دی ہے۔ باقی رہی قرۃ العین طاہرہ ، سواس کا جذب و شوق حضرت علامہ کے تصورات کے لیے بڑی باعث کشش شے تھی۔ عجمیّت کے اس سر سری تجزیے کے بعد یہ نتیجہ نکالنا مشکل نہیں کہ حضرت علامہ کی نظر میں وہ سارے فلسفے جو توحید سے پیدا شدہ یقین و ایمان کے لیے قاطع ہیں یا تشکیک و ابہام اور ظن و وہم کی حوصلہ افزائی کرنے والے ہیں یا تقدیر پرستی کی تعلیم دیتے ہیں یا محض فکری موشگافیوں کو اُبھارتے ہیںیا محض تخیل اور واہمہ کی پیداوار ہیںیا خدا، کائنات اور بندے کے مابینی فرق کی نفی کرتے ہیں یا مایوسی پھیلاتے ہیں یا عقیدہ ٔانتظار پر بھروسا کرنا سکھاتے ہیں یا عقیدۂ ختم المرسلینی اور رحمۃ للعالمینیؐ میں شک ڈالتے ہیں، وہ سب کے سب قرآنی عقیدوں کے خلاف ہیں یا ماسوا اللہ کے لیے عظمت کا وہ مقام تجویز کرتے ہیں جو صرف ذاتِ باری کا حق ہے اور عجمیّت کے رنگ سے رنگین ہیں۔ یہ عقیدے دینی ادب میں بھی درا ٓئے اور فکرو عرفان میں بھی لیکن جہاں علماے دین نے دینی دائرے میں اس کے خلاف سخت جہاد کیا،وہاں فلسفہ و تصوف میں اس کے رسوخ کا صحیح مقابلہ نہ ہو سکا، لیکن اس موقع پر مَیں ایک کلمہ ٔ احتیاط کہنے پر یوں مجبور ہوں کہ بعض حضرات جو سلوک کے مقام سے نا آشنا ہیں، اس قسم کے عذرات کی آڑ میں اس سارے سلسلے کے خلاف ہنگامہ اُٹھانے لگتے ہیں جس طرح اسی نوع کے لوگ اس عظیم خدمت کو نظر انداز کردیتے ہیں جو ہر دَور کے علما نے بدعات کے ردّ اور قلع قمع کے سلسلے میں انجام دیں۔ ان کا یہ جہاد سبائیت، اسرائیلیت ، یونانیت، اشتراکیت، اصنامیت اور اب افرنگیت کے خلاف ایک اَمرِ واقع ہے۔ یہ اَمر بھی مدِّنظر رہے کہ عجمیّت سے مراد بعض خاص خیالات ہیں (جیسا کہ اوپر بیان ہوا) اس سے مراد وہ شے نہیں جو غیر عرب (عجم) نے کہی یا کی کیونکہ ابن خلدون کی یہ بات آج بھی سچ ہے کہ اسلام میں علم کی سب سے زیادہ خدمت عجم ہی نے کی، اور اس پر میں یہ اضافہ کروں گاکہ عربی ادب اور قانونِ اسلامی کی تدوین اور علمِ اُصول کی ترقی و فروغ کی جو خدمت عجم نے کی، وہ بذاتِ خود عظیم کارنامہ ہے اور عظیم خدمت ہے۔اصل میں قرآن مجید ہی معیار ہے۔اس کے مطابق جو بھی کچھ کہے خواہ وہ عرب ہو یا ترک یا عجم یا ہندی وہ سب قابلِ احترام اور قابلِ اعتراف ہے۔ اس کے علاوہ اقبال کے تصورِ عجمیّت پر ضرورت سے زیادہ زور دینے سے بہت سی دینی، فکری و تہذیبی اور سیاسی قباحتیں ہیں۔ قرآن مجید صرف عرب کے لیے نازل نہیں ہوا، نہ اس کا مزاج محض عرب کا ہے بلکہ وہ تو انسانیت کے مزاج پر اترا ہے جس میں عرب و عجم سب شامل ہیں۔ اگر ہم عرب و عجم کے بجاے قرآنی غیر قرآنی کی اصطلاحیں استعمال کریں تو یہ اقرب الی الصواب ہوگا۔ اور اقبال کے ساتھ بھی انصاف ہوگا، ورنہ بہت سے اشکالات پیدا ہو سکتے ہیں۔ -----۸؍ستمبر ۱۹۷۵ء ئ……ئ……ء ۴۲ اقبال در راہِ مولوی چند سال قبل اقبال پر ایک پر مغز اور بہ ہمہ وجوہ نقد کتاب پاکستان میں لکھی گئی ۔چونکہ وہ فارسی میں تھی، لہٰذا جاڑے کی چاندنی کے مانند کسی نے اسے دیکھا کسی نے نہ دیکھا۔ ممکن ہے ایرانیوں نے دیکھا ہو یا شاید اُنھوں نے بھی نہ دیکھا ہو، لیکن کتاب کا پہلا حق پاکستان پر تھا کہ اس کے ایک فرزند نے پیامِ اقبال کو ملک کی حدوں سے باہر کی دُنیا تک پہنچانے کا اہتمام کیا ہے لیکن جہاں تک مجھے معلوم ہے کتاب کا علم کم لوگوں کو ہوا، حالانکہ یہ کتاب اس قابل تھی کہ اس کا قرار واقعی نوٹس لیا جاتا۔ بہرحال فارسی دان دُنیا کو اقبال سے روشناس کرانے کے لیے مجتبیٰ مینوی کی کتاب اقبال لاہوری اور عبدالحمید عرفانی کی رومیِ عصر کے بعد یہ توجہ خیز فارسی کتاب اقبال درراہِ مولوی: شرحِ حال و آثار و سبکِ اشعار و افکارِ اقبال کے نام سے ۱۹۷۰ء میں شائع ہوئی۔ مصنف ڈاکٹر محمد اکرم شاہ ہیں جو دانش گاہِ پنجاب میں فارسی کے دانش یار ہیں اور ہمارے بھی یار ہیں۔ شاعری بھی کرتے ہیں اور اُنھوں نے فارسی عشق کا سکہ بٹھایا ہے۔ اگرچہ بعض ابو الہوسوں نے اس پر شک کیا لیکن ہمارے یقین میں کمی نہیں آئی۔ بہرحال اس وقت ذکر کتاب کا ہورہا ہے۔ کتاب کا نام جاذبِ توجہ ہے لیکن اس سے کچھ غلط فہمی پیدا ہوتی ہے، بہتر یہ ہوتا کہ نام کی سطر دوسری سطر سے پہلے ہوتی اور موجودہ عنوان بعد میں لایا جاتا۔ بہرحال رومی کے اثرات کی طرف جابجا اشارے ملتے ہیں۔ کتاب عمدہ فارسی میں ہے اور اُسلوبِ بیان دل نشین ہے، اور ظاہر ہے کہ فارسی میں اقبال پر یہ پہلا اطمینان بخش تبصرہ ہے۔میں اسے لبِ اقبال در فارسی، بھی کَہ سکتا ہوں، لیکن اگر کتاب اُردو میں بھی منتقل ہوجائے تو اقبالیاتی ادب میں اپنا مقام پیدا کرسکتی ہے۔ میں سب سے پہلے مجملاً یہ بتاؤں گا کہ اس کتاب کا لبِ لباب کیا ہے، اس کے بعد کچھ اپنی گفتگو کروں گا۔ مختصر حالاتِ زندگی اور عادات و خصائل و آثار کے بعد جن میں صحت و اعتماد کے اوصاف پائے جاتے ہیں۔ عصرِ اقبال کی مجمل تاریخ پیش کی گئی ہے۔ اس کے بعد شعر و شاعری کے بارے میں اقبال کا یہ نظریہ پیش کیا گیا ہے کہ شاعری حیاتِ انفرادی و اجتماعی کی ترجمان اور خادم ہے اور اس کی اسی خصوصیت کے باعث، اسے جزو از پیغمبری قرار دیا گیا ہے۔ ہندستان میں فارسی شاعری اور اس کی مختلف طرزوں کا ذکر کرنے کے بعد اقبال کی غزل، مثنوی، دو بیتی اور قطعہ میں روایت سے وفاداری اور نئے تجربوں کی ندرت پر تشفی بخش بحث کی ہے اور لکھا ہے کہ شعراے قدیم میں سے اقبال نے کس کس کا اعتراف کیا اور اس اعتراف کے باوجود کہاں کہاں الگ چلے ہیں۔ اس کے بعد اقبال کے کلام میں محاسنِ لفظی و معنوی کا سراغ لگایا ہے پھر افکار کی باری آتی ہے۔ اقبال و تصوف، نظریہ خودی، عشق و تسخیرِ طبیعت، انسانِ کامل، فلسفۂ سخت کوشی، اندیشۂ اقبال میں مشرق و مغرب کا حصہ، اقبال کا فلسفۂ اجتماعی اور آخر میں اساس نامۂ اسلامی (یعنی انسانیت کی رہنمائی کے لیے اسلامی منشور) آتا ہے۔ ظاہر ہے کہ میں ان سب موضوعات پر اپنی تنقیدی راے پیش نہیں کرسکتا۔ لہٰذا صرف چند نکات کا انتخاب کرکے کچھ گفتگو کروں گا۔ لیکن اس گفتگو سے پہلے اس راے کا اعادہ لازمی ہے کہ ڈاکٹر شاہ کی یہ کتاب سرمایۂ اقبالیات میں ایک قابلِ فخر اضافہ ہے۔ اس کی ایک خوبی یہ ہے کہ مصنف نے علماے ایران کے افادات سے بھی ہمیں مستفید کیا ہے اور اس پیش قدمی کے باعث کتاب سہ ابعادی ہوگئی ہے اور مجھے یہ دیکھ کر بے حد خوشی ہوئی ہے کہ کتاب کے فکری حصے خاصے باثروت ہیں۔ اب میں کتاب کے قابلِ بحث موضوعات کی طرف آتا ہوں۔ ڈاکٹر شاہ نے شاعری میں طرزِ اقبال کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اقبال نے سبکِ عراقی و شیرازی وغیرہ کی پیروی کرتے ہوئے سبکِ ہندی سے اجتناب کیا ہے اور مذکورہ سبکوں کا تتبع کرنے کے ساتھ ساتھ، ندرت اور اختراع کا بھی ثبوت دیا ہے۔ ڈاکٹر شاہ کی یہ راے درست ہے لیکن اُنھوں نے اس بحث کے ضمن میں جو کچھ فارسی شاعری کی سبکوں (یا طرزوں) کے بارے میں خصوصاً سبکِ ہندی کے بارے میں کہا ہے، میں چاہتا ہوں کہ جناب شاہ ان مباحث کے بارے میں ایک بار پھر مشقِ فکر کریں۔ ایران کے بعض نقادوں(مثلاً: جناب علی اکبر شہابی)نے فارسی شاعر کے ہر انحطاطی رجحان کو سبک ہندی میں شامل کرلیا ہے۔ مثلاً مبالغہ و اغراق، خیال بافی و مضمون بندی، الفاظ غریب و غیر شاعرانہ (یا نثری علمی لفظوں) کا استعمال صنعت گری وغیرہ وغیرہ… غرض جملہ معائب شعری کا نام سبکِ ہندی رکھ دیا ہے اور یہ بھی نہیں دیکھا کہ جہاں ہر دور میں عمدہ شاعری ہوئی ہے، وہاں ایران و ہند کے ہر دو شاعروں میں اس قسم کے عیوب بھی ساتھ ساتھ مل جاتے ہیں۔ غالباً اسی تاریخی حقیقت سے پریشان ہوکر اُنھوں نے ایران کے بعض شعرا یا ایران نژاد اربابِ شعر کو بھی سبکِ ہندی کا پیرو ظاہر کیا ہے… تاکہ خالص ایرانیوں کا معیوب اندازِ سخن گوئی بھی ہندی شعرا کے کھاتے میں ڈالا جاسکے۔ میں نے سبکوں کے موضوع پر کچھ کام کیا ہے اور دائرہ معارفِ اسلامیہ میں ایک مقالہ بھی لکھا ہے۔ مجھے تعجب ہے کہ شہابی اور ان کے رفیق سبک ِہندی کا یعنی مذکورہ عیوبِ شعری کا آغاز جامی سے کرتے ہیں، حالانکہ یہ عیوب خاقانی، انوری، ظہیر فاریابی، کمال اسمٰعیل اور سلمان ساد جی تک ملتے ہیںاور پھر جامی جو دبستانِ ہرات سے متعلق ہیں، کس طرح ہندی ہوگئے، اور ان کے انداز کو سبکِ خراسانی تازہ کہا جاسکتا ہے نہ کہ ہندی۔پھر بھی یہ قابلِ غور ہے کہ دور اکبری و جہانگیری کے نامور شعرا نظیری و عرفی وغیرہ کو جن کا اقبال نے بھی تتبع کیا ہے اور وہ تازہ گوئی کے اساطین تھے ،کبھی تو انھیں سبکِ ہندی کے پیرو کَہ رہے ہیں، کبھی ان سے جدا کررہے ہیں۔ کہنا میں یہ چاہتا ہوں کہ شہابی اور ان کے ساتھی یہاں تک کہ بعض جید علما ملک الشعراے بہار اور جناب ذبیح اللہ صفا بھی اس اُلجھن میں مبتلا ہیں۔ مَیں نہیں کہتا کہ ہندستان کی فارسی شاعری میں عیوب نہ تھے، میں صرف یہ کہتا ہوں کہ ایران کی فارسی شاعری میں بھی عیوب تھے۔پھر یہ کہنا چاہتا ہوں کہ سبکِ ہندی کی بحث مذکورہ بزرگوں کے لیے ایک نفسیاتی مسئلہ ہے لیکن ہم غیر ایرانی کیوں اس کا شکار ہوں۔ اندریں حالات میری سفارش ہے کہ کتاب کی یہ بحث اعادۂ فکر و تجدیدِ مطالعہ چاہتی ہے۔ اقبال در راہ مولوی میں حافظ و اقبال کی بحث بھی مزید وسعت کی طلب گار ہے۔ میں نے اقبال کو کبھی حافظ کا دشمن خیال نہیں کیا اگرچہ بعض اہلِ نظر کو اصرار ہے کہ اقبال کی مجلس میں حافظ کا نام تک نہ لیا جائے۔ اقبال پر حافظ کے اثرات تسلیم شدہ ہیں اور داخلی شواہد کی بنا پر ان اثرات سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ محترم ڈاکٹر شاہ نے مختصاتِ معنوی کے بارے میں جو کچھ لکھا ہے ،وہ تو ہمیں گوارا ہے مگر مختصاتِ لفظی کا اندازِ انتقاد آج کے تنقیدی ذوق و زبان کے لیے مانوس نہیں ہوسکتااور جب وہ طبع ثانی کے لیے کمر بستہ ہوں، تو معنی خصائص کے بیان کے لیے نئی زبان استعمال کریں تو اچھا ہوگا۔ کیونکہ تنقید کا انداز اب بدل چکا ہے۔ایک دوسرا نکتہ جس کے بارے میں، میں بحث و نظر کی طرف مائل ہورہا ہوں، وہ ہے مسئلہ اقبال و تصوف۔ محترم ڈاکٹر شاہ نے اقبال کو مردِ صوفی قرار دیا ہے لیکن ساتھ ہی یہ فرمایا ہے کہ وہ منفی تصوف کے مخالف تھے۔ اقبال پر لکھنے والے حضرات نے اس موضوع پر اظہارِ خیال کیا ہے، لیکن ابھی تک کوئی اطمینان بخش تعبیر سامنے نہیں آئی۔ ڈاکٹر شاہ عبدالغنی نے اپنی کتاب اقبال اور قرآنی تصوف میں یہ ثابت کیا ہے کہ تصوف قرآن مجید سے ثابت ہے۔اس لیے ظاہر ہے کہ اقبال قرآن کے مخالف نہیں ہوسکتے۔ دوسرے حضرات دو متضاد خیال ظاہر کرتے ہیں:ـان کی ایک راے تو یہ ہوتی ہے کہ اقبال تصوف کے مخالف تھے مگر ساتھ ہی یہ بھی فرماتے ہیں کہ وہ حقیقی تصوف کے مخالف نہ تھے۔ لیکن آج کل تصوف کی مخالف راے کا کچھ ایسا غلبہ ہوگیا ہے کہ اقبال کے بارے میں اب کھلم کھلا کہا جارہا ہے کہ وہ تصوف کے مخالف تھے، کیونکہ عام لوگ مثبت اور منفی کے چکر میں نہیں پڑتے۔ مَیں نے جس مفاہمتی راے کا اوپر ذکر کیا ہے یہ دراصل مسئلے کی پیچیدگی سے بچنے کا ایک طریقہ ہے یعنی اقبال تصوف کے مخالف تھے بھی اور نہیں بھی تھے، ان میں مثبت اور منفی کی دلیل سے ٹالا جاتا ہے۔ لیکن میری گزارش یہ ہے کہ اس قسم کی دفع الوقتی سے کام نہیں چلے گا۔ میری آرزو ہے کہ ہمارے لائق مصنف مزید تحقیق کرکے کوئی ایسی تعبیر پیش کریں جو عمرانی و تمدنی حقائق پر مبنی ہو، مسلم کلچر کی اس عظیم تحریک کا بے لاگ تجزیہ کرے اور یہ بتائے کہ مسلم ذہن نے اُممِ سابقہ کے صوفیانہ خیالات کو اپنے سرمایۂ ذہنی میں کس طرح جذب کیا ہے۔اس کے علاوہ یہ بھی بتائے کہ اقبال نے تصوف کے نظام اور تصوف سے وابستہ فلسفے پر تنقید کی ہے، تصفیۂ باطن کی مخالفت نہیں،جس کی اہمیت مسلّم ہے، غرض تصوف کے بارے میں اقبال کے موقف کے متعلق ایک اطمینان بخش کتاب کی ضرورت ہے۔ بہرحال ڈاکٹر اکرم شاہ نے موضوع کے ساتھ کسی حد تک انصاف کیا ہے۔ اُنھوں نے سب سے پہلے تصوف کی حقیقت بتائی ہے۔ اس کی تاریخ پر روشنی ڈال کر یہ بتایا ہے کہ کس طرح ایک سادہ سا مسئلہ مختلف عناصر کے ساتھ مل کر، ایک نظامِ فکر اور اُسلوبِ حیات کی صورت اختیار کرگیا۔ ڈاکٹر شاہ نے اس کے بعد، تصوف کے بارے میں علامہ اقبال کے خیالات کا ارتقا دکھایا ہے۔ اسرارِ خودیکے دیباچے سے لے کر آخری دور تک نظم و نثر اور مکاتیب میں حضرت علامہ نے جو کچھ اس موضوع کے بارے میں لکھا ہے، اس کے اقتباسات پیش کیے ہیں اور ثابت کیا ہے کہ علامہ تصوف کے منفی پہلوؤں کے سخت مخالف تھے۔اس کے فوراً بعد ڈاکٹر شاہ نے یہ بھی ثابت کیا ہے کہ حضرت علامہ خود بھی مردِ صوفی تھے اور پھر تصوف کے احسانات و کمالات کا بھی تذکرہ کیا ہے۔ کتاب کا یہ حصہ معلومات افزا ہے لیکن یہ بحث تشنہ ہی ہے، اور وہ یوں کہ تصوف کے بارے میں علامہ کے موقف کے بارے میں قاری کی اُلجھن باقی ہی رہتی ہے، وہ یہ سوچتا ہے کہ علامہ تصوف کے حامی نہ تھے تو پھر انھیں مصنف نے مردِ صوفی کیوں قرار دیا ہے۔ لہٰذا تطبیق کی ضرورت اب بھی ہے۔ لازم ہے کہ تصوف کے موضوع کو حقائقِ تاریخی و تمدنی و دینی کی روشنی میں از سرِ نو زیر مطالعہ لایا جائے۔ کتاب کے باقی فکری مباحث بھی اطمینان بخش ہیں، اور میری راے میں اقبالیات کے مجملات میں اس کتاب کو اہم رُتبہ حاصل ہے۔ -----۱۵؍ ستمبر ۱۹۷۵ء ئ……ئ……ء ۴۳ اقبال و تصوف پچھلے پرچے میں ڈاکٹر اکرم شاہ کی کتاب اقبال در راہِ مولوی کے ضمن میں اقبال و تصوف کے موضوع کے متعلق مختصر سا ذکر آیا تھا۔اب معلوم ہوتا ہے کہ اس اہم مبحث کے بارے میں اس کی اہمیت کے پیشِ نظر کسی قدر تفصیل کے ساتھ اظہارِ خیال کیا جائے۔ سب سے پہلے اس اَمر کا جائزہ لیا جائے کہ حضرت علامہ نے مختلف موقعوں پر تصوف کے بارے میں کیا راے ظاہر کی ہے، پھر مختلف آرا کے مابین مطابقت پیدا کرکے، قطعی نتیجہ اخذ کیا جائے۔ اقبال نے اپنی قدیم ترین انگریزی کتاب میں تصوف کے متعلق جن تحسین آمیز خیالات کا اظہار کیا ہے، انھیں اگر زمانۂ طالب علمی کے خیالات سمجھ لیا جائے اور ان کی اُردو شاعری کے اس حصہ کو نظر انداز کیا جائے، جس میں وحدت الوجود کے اثرات نمایاں ہیں تو مقدمۂ اسرارِ خودی سے ان کے اس نقطۂ نظر کا آغاز سمجھا جاسکتا ہے، جسے تصوف کی جزئی یا کلی مخالفت کا زمانہ قرار دیا جاسکتا ہے۔ اسرارِ خودی کے مقدمے میں اقبال نے اُصولاً محی الدین ابن عربی کے خیالات اور فارسی شاعری پر ان کے منفی اثرات کا ذکر کیا ہے، لیکن پیرایۂ بیان سے یہی محسوس ہوتا ہے کہ وہ مجموعی طور سے تصوف (یا مسلم صوفیوں کے خیالات و اشغال و اعمال) کو ملّتِ اسلامیہ کی ترقی کے خلاف سمجھتے ہیں ۔ مثنوی اسرارِ خودی جب لکھی گئی تھی،اس پر صوفی حلقوں کی طرف سے بہت مخالفت ہوئی۔ اس نزاع نے جب شدت اختیار کی اور اس میں ایک طرف مولانا ظفر علی خاں(مدیر: ستارۂ صبح) نے اور دوسری طرف خواجہ حسن نظامی اور اکبر الہ آبادی وغیرہ نے حصہ لیا، تو بحث نے علمی و ذوقی نوعیت سے ہٹ کر جماعتی اور گروہی حیثیت اختیار کرلی۔ اس بحث کے اثرات و نقوش ان کے مکاتیب میں بھی ملتے ہیں۔ ملاحظہ ہو اقبال نامہ، مرتبہ: شیخ عطاء اللہ) اس کے بعد اقبال کی شاعری میں بھی جہاں مُلّا کی مذمت آتی ہے، وہاں صوفی بھی شریکِ مذمّت نظر آتا ہے۔ بایں ہمہ علامہ کے یہاں مصطلحاتِ تصوف کی بھرمار ہے بلکہ دینی و فلسفیانہ الفاظ سے زیادہ ان کی شاعری میں صوفیانہ الفاظ کا استعمال کیا گیا ہے۔ اور ان کی کتابوں کو پڑھ کر (اس نزاع کے باوجود جس کا اوپر ذکر آیا ہے۔یہ محسوس ہوتا ہے کہ یہ بھی سلسلۂ تصوف کے کسی بزرگ کی تصانیف ہیں۔اُنھوں نے اپنے خطبات میں شعورِ نبوت اور شعورِ ولایت کو موضوعِ بحث بنایا ہے۔ (خصوصاً خطبۂ اوّل ’’علم اور مذہبی مشاہدات‘‘ جس کے اکثر مباحثِ صوفیانہ کے مسلمات کا اقرار کرتے نظر آتے ہیں) اور اولیا کی شعوریات کو برتر شعور کا درجہ دیا ہے۔ ان وجوہ سے قارئین کو بڑی اُلجھن ہوتی ہے کہ ایک طرف علامہ کے یہاں تصوف اور صوفی کی مخالفت ہے اور دوسری طرف اپنے اسالیب کے لحاظ سے ان کا جھکاؤ تصوف ہی کی طرف ہے۔ میں جس حد تک سمجھ سکا ہوں، اقبال نے جہاں جہاں تصوف کی مذمت کی ہے، وہاں اُنھوں نے مخالفت کی مندرجہ ذیل بنیادوں میں سے کسی ایک کو ضرور مدِنظر رکھا ہے۔ (الف) ان کا اعتراض یہ ہے کہ صوفیوں نے تصوف کو دین کے خلاف یا متوازی تحریک کے طور پر منظم کرکے ملتِ اسلامیہ کو دو کیمپوں میں تقسیم کردیا ہے۔ (ب) ان کی راے ہے کہ تصوف اصل میں ایک تجربہ و عمل تھا، لیکن صوفیوں نے اسے فکر کا درجہ دے دیا اور عمل و تجربے کو اس سے منقطع کردیا۔ (ج) اربابِ تصوف نے باطن کو اتنی اہمیت دے دی کہ ظاہر کو محض قشر (چھلکا) کَہ کر دین کے اجتماعی مصالحِ ظاہری کو کم رُتبہ اور بے حیثیت بنادیا۔ (د) سر اور رمز اور مخفی معانی پر اتنا زور دیا کہ دین کے واضح احکام ثانوی اور مبہم بنادیے گئے۔ وحدت الوجود کے نظریے کے تحت وحدتِ ادیان پر زور دے کر اسلام کی تکمیلی حیثیت کی نفی کی گئی ہے۔ (ہ) تصوف کی آڑ میں بے علمی، کار آفرینی اور جدوجہدِ زندگی کی نفی کی گئی اور رہبانیت کو ایک مسلک بنادیا گیا۔ (و) حیات کے موجودہ مسائل سے چشم پوشی کرکے، اور مسائل سے براہِ راست خود مقابلہ کرنے کے بجاے فلاح و نجات کی اُمید گاہ کسی آنے جانے والوں کو بنادیا گیا جو ان کے خیال میں آئے گا اور دین کی خاطر لڑے گا۔ یہ دراصل مجوسی خیالات کا عکس معلوم ہوتا ہے۔ میں نے نکات کی جو فہرست بنائی ہے ان کی تائید ان کی تقریباً ہر کتاب اور اکثر مکاتیب سے ہوتی ہے۔ اسرارِ خودی کے مقدمے میں اُنھوں نے فرمایا کہ جس طرح سری کرشن نے گیتاکی شرح کی، اسی طرح محی الدین ابن عربی نے قرآن مجید کی شرح کی اور اس کے ذریعے وحدت الوجود کے مسئلے کی اشاعت کی۔ اوحدالدین کرمانی اور عراقی وغیرہ اس سے متاثر ہوئے اور چودھویں صدی کے سب شعراے فارسی نے گہرا اثر قبول کیا۔ اُنھوں نے جز سے کل کا سفر تخیل کے ذریعے طے کرکے آرام پسندی اور کم کوشی کو اپنایا۔اس رجحان نے تمام مسلم اقوام کو ذوقِ عمل سے محروم کردیا۔ یہاں تک کہ میرزا بیدل (عظیم آبادی) کی سب سے بڑی قدر سکون ہے، بمقابلہ حرکت۔ سیّد سلیمان ندوی کو ایک خط میں لکھتے ہیں کہ زہد و ترکِ دُنیا میں غلو اور مسئلۂ وحدت الوجود بدھ مذہب کے اثرات کی وجہ سے اختیار کیا گیا، یہاں تک کہ سلسلہ مجددیہ، نقشبندیہ وقادریہ بھی ان اثرات سے پاک نہیں۔ (اقبال نامہ، اوّل، ص۷۸،۷۹) اور ایک خط میں لکھتے ہیں کہ اگر تصوف سے مراد اخلاص فی العمل ہے تو اس پر کسی مسلمان کو اعتراض نہیں ہوسکتا۔ لیکن جب تصوف نے فلسفے کی صورت اختیار کی، تو یہ صورت قابلِ اعتراض ہے۔ نیاز الدین خان کے نام ایک خط میں لکھتے ہیں کہ تصوف کی بنیاد چونکہ نو افلاطونیت پر ہے، جو یونانیت کی بگڑی ہوئی شکل ہے، اس لیے یہ قطعی غیر اسلامی ہے۔(مکاتیب اقبال بنام خان نیاز الدین خان، ص۱،۲) اقبال نے ایک اور خط میں فرمایا کہ صوفیوں نے عقائد و اقدار اسلامی کے معنی بدل ڈالے، مثلاً :حکیم سنائی نے افلاس کو بہترین سعادت قرار دے دیا، جہاد کی دینی اہمیت کو کم کرکے اسے کم تر چیزوں کی سعی کے مترادف قرار دیا، چنانچہ یہ رباعی اس کی تائید کرتی ہے : غازی ز پئے شہادت اندر تگ و پوست غافل کہ شہیدِ عشق غافل تر ازوست در روزِ قیامت ایں باد کے ماند ایں کشتۂ دشمن است و آں کشتۂ دوست (اقبال نامہ، اوّل، ص۲۰۲،۲۰۳) اسی طرح مسئلۂ فنا کی صوفیانہ تعبیر میں رضاے الٰہی کے لیے سعی ِپیہم کے بجاے، شخصی خودی کا تعطل صوفیوں کا ہدف نامہ ہے۔ ہمہ اوست کے عقیدے کے تحت شرف و اہمیتِ انسانی کا قصہ پاک ہوجاتا ہے۔جب سب وہی ہے تو ظاہر ہے کہ انسان کا انفرادی مقام کچھ نہیں رہ جاتا۔ اسی طرح مسئلۂ تقدیر و توکّل اور جبر و اختیار کی صوفیانہ توجیہ پر اقبال کو اعتراض ہے۔ علامہ اقبال کی کتابوں میں تصوف کے خلاف اعتراضات کی خالص علمی صورت ہمیں خطبات[تشکیل جدیدالٰہیات اسلامیہ]میں ملتی ہے۔ خطبہ بعنوان ’’ذاتِ الٰہیہ کا تصور اور حقیقتِ دُعا‘‘ میں فرماتے ہیں کہ تصوف نے وارداتِ رُوحانی کا مطالعہ کیااور ہماری ذات اور خودی کے عوامل ہم پر کھول دیے لیکن اس کی زبان پر ایک ایسی مابعد الطبیعیات کی صورِ افکار کا غلبہ ہے، جو کب کی فرسودہ ہوچکی۔ لہٰذا آج جب تصوف کا ذکر کیا جاتا ہے تو اس سے دلوں میں کوئی ولولہ پیدا نہیں ہوتا۔(ایضاً:ص۱۳۶) یہاں علامہ نے تصوف کی بنیادی حقیقت کا تو اعتراف کیا ہے، لیکن اس کی فلسفیانہ زبان سے بے اطمینانی کا اظہار کیا ہے۔ وہ کہنا یہ چاہتے ہیں کہ صوفیوں کی تعبیرات کے بجاے جدید نفسیات و حیاتیات کی روشنی میں تصوف کی تعبیر لازم ہے۔ اسی خطبے میں تصوف کی تعبیران الفاظ میں کرتے ہیں: پس طریقت چیست؟اے والا صفات شرع را دیدن بہ اعماقِ حیات اس سے علامہ کا مقصد یہ ہے کہ شرع کے ظواہر کے ساتھ، تصدیقِ قلب بھی لازمی ہے اور یہی تصوف ہے۔خطبات کے اکثر بیانات سے یہ مترشح ہوتا ہے کہ علامہ نفسِ تصوف کے مخالف نہیں، لیکن اس کی تعبیرات کے بارے میں انھیں اختلاف ہے۔وہ صوفیانہ مشاہدات اور مذہبی مشاہدات کو ہم معنی الفاظ کے طور پر لاتے ہیں۔ مذہبی زندگی کے تین مدارج قرار دیتے ہیں: ایمان، فکر اور معرفت ۔ معرفت صوفیانہ مشاہدات ہی کا دوسرا نام ہے، لیکن انھیں سلوک و عرفان کے طریقوں (نظام) پر جو از منۂ وسطیٰ میں وضع ہوئے تھے،اعتراض ہے۔(ایضاً: ص۲۸۱) ان کی راے میں ان طریقوں سے اسلامی مشرق میں خوفناک نتائج نکلے ہیں، زندگی سے منہ موڑنا تاریخ کی حرکت سے انکار اور مایوسی، رہبانیت اور دوسری باتیں جو اگرچہ فقہا کی خشک موشگافیوں کے خلاف بغاوت ،تھی تاہم اس سے بہت نقصان پہنچا ہے۔ (ایضاً، ص۲۳۱، ۲۹۰،۲۹۱) ایک اور خطبے میں فرماتے ہیں کہ:تصوف کا فکری (ظنی) پہلو آزاد خیالی کی ایک شاخ ہے اور یہ آزاد خیالی عقلیت کی حلیف تھی۔ (ایضاً، ص۲۳۱) آگے چل کر تصوف نے رفتہ رفتہ اسلام کے نظامِ مدنیت کو متاثر کرنا شروع کردیا اور لوگوں کی توجہ ظاہر سے بالکل باطن کی طرف منعطف کردی۔ (ایضاً، ص۲۹۸ تا ۳۰۵) صوفیوں (خصوصاً ابن عربی) نے جس رمزیت اور سرّیت کو رواج دیا،اس نے احکامِ شرع کے بارے میں ابہام اور بے اعتمادی پیدا کردی۔ اسی طرح کے اشارے ان ملفوظات میں بھی موجود ہیں جو اقبال کے حضور کے نام سے سیّد نذیر نیازی نے مرتب کی ہیں۔ -----۲۲؍ستمبر ۱۹۷۵ء ئ……ئ……ء ۴۴ علامہ اقبال اور تصوف سابقہ مقالے میں تصوف کے بارے میں علامہ اقبال کے اقوال و اشارات کی تفصیل پیش کی گئی تھی۔ اب غور سے دیکھا جائے تو کتاب فلسفۂ عجم سے لے کر، ]تشکیل جدیدالٰہیات اسلامیہ[ تک ایک طویل ذہنی سفر ہے۔ اس سفر میں چار مراحل واضح ہیں۔ مرحلہ اوّل: جس میں علامہ اقبال تصوف کے معروف عقائد سے کم و بیش ہم آہنگ ہیں۔ یہاں تک کہ فلسفۂ عجم میں وحدت الوجود، تصوف کے عام معتقدات اور ابن عربی تینوں کے بارے میں ان کی راے ایک عقیدت مند کی ہے۔ دوسرا مرحلہ اسرارِ خودی کی اشاعت سے شروع ہوتا ہے جس میں بعض مقامی وجوہ سے وحدت الوجود اور عام نظام طریقت سے ان کا اختلاف شدید ہوجاتا ہے، تیسرا مرحلہ خطبات کی تدوین سے شروع ہوتا ہے جس میں تصوف کے نفسیاتی پہلو کے بارے میں اچھے خیالات کا اظہار کرتے ہیں، اگرچہ اس کے تمدنی اثرات کی مذمت کرتے ہیں۔ چو تھا مرحلہ، آخری مرحلہ عمر ہے، جس میں مقامی سیاسی کش مکش کے زیر اثر علما اور مشائخ کے متعلق ان کی راے میں مخالفانہ شدت نظر آتی ہے۔ ان سب مراحل کے متعلقات پر غور کرنے سے چند نتیجے نکالے جاسکتے ہیں۔ (الف) علامہ نفسِ تصوف (اسلامی تصوف) کی اہمیت سے کسی دورِ عمر میں انکاری نہیں ہوئے۔ (ب) انھیں تصوف پر اگر اعتراض ہوا ہے تو اس وجہ سے کہ صوفیوں نے دین کے متوازی اپنا ایک الگ نظام قائم کرلیا، جس میں وہ لوگ بھی شامل ہوتے گئے،جن کے بارے میں یقین سے نہیں کہا جاسکتا کہ وہ دین کے بارے میں مخلص تھے۔ ان کی نظر میں مثالی صورت یہ ہے کہ ایک شخص دین کے ظاہر کو تصوف کے باطن سے ہم آہنگ کردے۔ مگر علما کا الگ نظام اور صوفیوں کا الگ نظام اس طریقے سے ہم آہنگ نہیں، جو سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابۂ کرام کے یہاں رائج تھا۔ خانقاہوں کا مسجد سے الگ نظام یقینا ملت کی اجتماعی زندگی کے لیے نقصان دہ ہوسکتا تھا، اور ہوا۔ چنانچہ اس خطرے کے پیش نظر ہر دور میں شریعت اور طریقت کے مابین مفاہمت کی کوششیں بھی ہوئیں اور اہل دین اور اہل تصوف کے مابین فاصلوں کو دور کرنے کا اہتمام ہوتا رہا۔ (ج) علامہ کو تصوف کی اس صورت پر بھی اعتراض ہوا جس میں تصوف تجربہ ہونے کے بجاے محض فکر و تخیل یا آزاد خیالی کی ایک شکل بن گئی تھی۔ (د) اور ظاہر ہے کہ وہ عناصر جنھیں عجمی عناصر کہا جاتا ہے یا ہندو خیالات کی آمیزش، سو اس کی مخالفت ایک قدرتی بات تھی۔ ان عناصر میں وہ اعمال و اشغال اور ریاضاتِ شاقہ بھی شامل ہیں جن کی سند دین میں موجود نہیں۔ تو اس سے یہ ثابت ہوا کہ علامہ کی راے تصوف کے بارے میں محتاط و معتدل تھی۔ہم ان کے طریقِ تنقید کو تطہیرِ تصوف کَہ سکتے ہیں، نہ کہ مخالفتِ تصوف۔ اسے احیاے دین کی تحریک میں تصوف کو اصل منصب کی طرف لانا بھی کہا جاسکتا ہے اور یہ درحقیقت ایک عظیم فرض تھا جو علامہ نے انجام دیا۔ لیکن ہوا یہ کہ یہ بحث ایک مناظرے کی صورت اختیار کرگئی، اور دونوں طرف کے علَمبَرداروں نے، تحقیقِ حال کرنے کے بجاے اور علامہ کے صحیح منشا کو سمجھنے کے بجاے بحث و مجادے کا بازار گرم کردیا اور کھینچ تان کر علامہ کے خیالات کو اپنے موقف کے مطابق بنانے کی کوشش کی۔ علامہ نے جس زمانے میں تصوف پر خیالات کا اظہار کیا، وہ دراصل ہندستان میں نیچرلسٹ متکلمین اور مادہ پرست تجدد پسندوں کا دور تھا۔ اس گروہ کی پوری کوشش یہ تھی کہ شریعت اور طریقت دونوں کو ٹھکانے لگایا جائے اور قدیم روایات سے متعلق جملہ نظامات کو منہدم کرکے مغربی زاویہ ہاے نظر کو رواج دیا جائے۔ اس مہم میں بعض نیک لوگ بھی بیشتر وقتی سیاست کے مصالح کے پیشِ نظر شریک ہوگئے تھے۔ مثلاً: مولانا ظفر علی خاں جن کا اعتراض بجا طور سے یہ تھا کہ ہندستان کے مشائخ برطانوی حکومت کی طرف داری کرتے ہیں۔ اس قسم کا سیاسی نقطۂ نظر بعد کے زمانے میں بھی اس بحث میں داخل ہوا۔ اکبر الہ آبادی اور عبدالماجد دریا بادی وغیرہ محض جوشِ عقیدت سے شریکِ بحث ہوئے۔ قیام پاکستان کے بعد قرآنی تصوف اور اقبال کے موضوع پر ایک عمدہ کتاب پروفیسر شاہ عبدالغنی نے لکھی ہے لیکن اس میں پھر وہی جانب داری درآئی ہے۔ اُنھوں نے ثابت کیا ہے کہ اقبال کے خیالات، تصوف ہی کے خیالات ہیں۔ افسوس ہے کہ کتاب میں، اقبال کے حقیقی شکوک و اعتراضات کا کوئی جواب نہیں دیاگیا اور کتاب اگرچہ عمدہ ہے، لیکن طویل بہت زیادہ ہے۔ راقم الحروف کی گزارش ہے کہ تصوف کا موضوع ابھی محتاجِ توجہ ہے۔ ضرورت اس اَمر کی ہے کہ تصوف کے عقیدوں کی زیادہ تنقیدی چھان بین کی جائے اور تصوف کے عملی تجربوں اور اسلامی تمدن پر ان کے اثرات کا علمی مطالعہ کیا جائے۔ اس میں علمِ اجتماعیات کی روشنی میں یہ تجزیہ کیا جائے کہ اجتماعی مصالح کے نقطۂ نظر سے جو باتیں تصوف کے بارے میں کہی جاتی ہیں، وہ تاریخ کی روشنی میں کس حد تک درست ہیں۔ وحدت الوجود ایک فکری مسئلہ ہے۔ اس میں ابن عربی نے غلو کیا ہے۔ وجود اور حقیقتِ مطلقہ کے معاملے پر حضرت علامہ نے بھی بہت کچھ لکھا ہے۔میرے خیال میں یہ ایک نظری بحث ہے۔ میری ناچیز راے میں علامہ کا اعتراض اس کی فکری و نظری حیثیت پر نہیں، اس کے تمدنی اثرات پر ہے، اس کی بھی تحقیق لازم ہے۔ یہ بھی دیکھا جائے کہ مسلمانوں کے زوال میں محض تصوف نے کتنا حصہ لیا، اس لیے کہ بعض تاریخی واقعات ایسے ہیں جو اس خیال کی توثیق نہیں کرتے۔ مسلمانوں کے زوال میں قبائلیت، فرقہ بندی، کل عالمِ اسلام کا متفقہ سیاسی نقطۂ نظر نہ ہونا، عقلی تدبیر سے غفلت اور تعیش تو واضح اسبابِ زوال ہیںلیکن کیا تصوف بھی وسیع پیمانے پر ایک مؤثر سبب ثابت ہوا، یہ قابلِ مطالعہ معاملہ ہے۔ بہرحال حضرت علامہ تزکیۂ قلب کے سلسلے کے شدت سے قائل تھے اور اربابِ تصوف کے مشاہداتِ رُوحانی کو بھی مانتے تھے لیکن تصوف کے خانقاہی نظام اور دین سے اس کا متوازی ہونا اور دینی عمارتوں سے مختلف رنگا رنگ دوسری عبادتوں کے سلسلے، بعض مسلمانوں کی شدید موضوعیت و داخلیت اور اشتراکیت کے پریشان کن خیالات وغیرہ وغیرہ۔ ان اُمور کے باعث علامہ نے صوفیانہ نظامات کی تطہیر کی طرف قوم کو متوجہ کیا کیونکہ اصل شے دین ہے،جس کا ایک رُخ تزکیۂ قلب ہے۔ اصل پر زور دینا تصوف (تزکیہ) کی مخالفت نہیں۔ان کی تحریک تطہیرِ نظامِ تصوف کی تحریک تھی۔ رُوحِ تصوف کی مخالفت کی تحریک نہ تھی۔ -----۲۹؍ستمبر ۱۹۷۵ء ۴۵ اقبال کے معاشی تصورات-۱ آج کل اقبال اور سوشلزم کا موضوع زبان و قلم کا سب سے بڑا موضوع ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ جتنے تعصبات اس سلسلے میں ظاہر ہورہے ہیں،کسی اور میدان میں ان کی مثال نہیں ملتی۔ ایک بات بالکل یقینی ہے کہ اقبال سرمایہ داری (جو ایک مغربی اصطلاح ہے) اور جاگیرداری کے سخت مخالف تھے۔ دوسری بات واضح ہے کہ اقبال دولت مندی کے بگاڑ کے بھی مخالف تھے جس میں آج کل کے اشتراکی و غیر اشتراکی امرا اور دولت مند طبقے یکساں طور سے مبتلا ہیں۔ تیسری بات یہ بھی یقینی ہے کہ اقبال مغربی تمدن اور فرنگی طرزِ زندگی کے بھی دشمن تھے جو سرمایہ داری سے اُبھرا ہے یا یوں کہیے کہ سرمایہ داری اس سے اُبھری ہے۔ ان سب باتوں کے ساتھ اقبال کا ایک مستقل فلسفۂ معاش ہے جو عدل و احسان پر قائم ہے۔ اس میں ایثار اور قربانی شرطِ اوّل ہے۔ اقبال اسلام کے فقر اور سادگی کے مؤید تھے اور محنت کے حامی اور تعریف گزار تھے۔ یہ عقیدے بالکل واضح ہیں لیکن ان تصوراتِ عدل و احسان کو سوشلزم کی باضابطہ مروجہ اصطلاح کے مترادف نہیں قرار دیا جاسکتا کیونکہ سوشلزم کی باضابطہ اصطلاح کو مِن و عَن قبول کرلینا تقلیدِ غیر ہونے کے علاوہ یہ بھی ہے کہ اسے اسلام کے اقتصادی تصورات کے مطابق ثابت نہیں کیا جاسکتا۔ درحقیقت سارا جھگڑا اس اصطلاح کی وجہ سے ہے، اگر اس کا استعمال ترک کردیا جائے تو سوشلزم کے اقتصادی لبّ لباب سے پچھتر فی صد اتفاق کیا جاسکتا ہے۔ راقم کی راے میں اصطلاح کا یہ جھگڑا اس لیے بھی نقصان دہ ہے کہ اس اصطلاح کے مناظرے میں اقتصادی عدل کے عملی نفاذ کا معاملہ غتربود ہوگیا ہے۔ اسلامی نظام اقتصاد کے مبلغ یہ سمجھ کر عملی نفاذ عدل کے مسائل سے دامن پاک کرلیتے ہیں کہ ہم نے سوشلزم کی لفظی مخالفت کرکے حق ادا کردیا ہے۔ حالانکہ اصل شے لفظی بحث نہیں، اصل شے اس اقتصادی ناہمواری اور فسادِ دولت کا ازالہ ہے جس میں ہمارا معاشرہ اس وقت بری طرح مبتلا ہے۔ اس ازالے سے ہی نفاذِ عدل کے تقاضے پورے ہوتے ہیں۔محض اسلام کی خوبیاں گنوانے سے کیا حاصل ہوسکتا ہے۔ ان کے برعکس جو لوگ سوشلزم کی اصطلاح پر بے ضرورت ضد کرتے ہیں، وہ بھی اصل مسئلہ نفاذِ عدل کے بارے میں بدگمانیاں ہی پیدا کرتے ہیں۔ نتیجہ ان کی بحثوں کا بھی کچھ نہیں بلکہ ان کے مناظرے خود سوشلزم کے خلاف جاتے ہیں۔ بہرحال اقبال کا مسلک مسئلۂ عدل میں متوسط ہے یعنی وہی ہے جو قرآن مجید میں ہے۔ خواہ مخواہ اسے روسی اشتراکیت کے چوکھٹے میں فٹ کرنا زیادتی ہے۔ اس بحث کے آغاز میں دو نکتوں پر مکرر زور دینا بے حد ضروری ہے۔ پہلا نکتہ یہ ہے کہ اقبال نے مغربی سرمایہ دار ممالک کے طرزِ اقتصاد و سیاست کے برعکس اپنے زمانے کے انقلاب روس کو سراہا ہے۔ کیونکہ وہ بہرحال مغربی سرمایہ داری اور عام دولت مندانہ بگڑی ہوئی طرزِ معاشرت کے مخالف تھے۔ لیکن اس سے یہ نتیجہ نکالنا درست نہ ہوگا کہ وہ روسی اشتراکیت کے معاشی فلسفے کے من و عن مداح تھے۔ دوسرا نکتہ یہ ہے کہ اقبال اسلام کے منفرد نظامِ عدل اور مخصوص تصورِ سرمایہ و محنت کے داعی تھے لیکن اس کے بھی یہ معنی نہ تھے کہ وہ ہماری موجودہ رائج الوقت معاشرتی و معاشی زندگی کو صحیح (یا اسلامی) سمجھتے تھے۔ ان کے نزدیک موجودہ معاشی صورتِ حال اسلام کے منافی ہی نہیں[کذا] غرض اقبال ایک خاص تصورِ انقلاب رکھتے تھے اور اسی خاص تصور کے تحت ان کے خیالات کا جائزہ لینا چاہیے۔ اقبال نے انقلابِ روس کے متعلق اچھے خیالات کا اظہار کیا ہے اور لینن کا ذکر بھی اچھے الفاظ میں کیا ہے لیکن یہ اچھی طرح ذہن نشین کرلینا چاہیے کہ روس کی یہ تحسین مغربی تہذیب کی مخالفت کی وجہ سے کی گئی ہے۔یہ ظاہر ہے کہ اقبال جس قدر تہذیبِ مغرب کے دشمن تھے کسی اور شے کے نہ تھے، لہٰذا تہذیب مغرب کی شکست و ریخت کرنے والا ان کا ہیرو ہے۔ اس وجہ سے بھی کہ مغرب کی شکست ، سرمایہ داری کی شکست تھی جس کے اقبال بھی سخت مخالف تھے اور اس وجہ سے بھی کہ اسلام کی سب سے بڑی دشمن طاقتوں (برطانیہ، فرانس، اٹلی وغیرہ) کو شکست دینے والا بہرحال قابلِ صد تحسین تھا۔ ممکن ہے معترض یہ کَہ دے کہ اسلام اور اس کے تتبع میں اسلام نے سرمایہ داری کی حمایت کی ہے لیکن یہاں پہلا قابلِ غور نکتہ یہ ہے کہ اقبال سے اگر سرمائے کا اثبات ہوگیا کہ وہ پہلے ہی مرحلے میں اشتراکیت سے دور جاکھڑے ہوئے ہیں۔ لہٰذا وسوسہ انگیزوں کا یہ پروپیگنڈا تو غلط نکلا کہ اقبال اشتراکیت کے حامی تھے۔آپ نے دیکھا کہ جہاں اشتراکیت سرمائے کی مطلق مخالف ہے (اس لیے کہ مارکس کے نزدیک محنت اور خصوصاً ’’اجتماعی محنت‘‘ ہی سب کچھ ہے،سرمایہ کوئی شے مستقل نہیں) وہاں اقبال نے اسلام کے حوالے سے اعلان کیا ہے کہ سرمایہ بھی بہرحال ایک ناگزیر شے ہے اور اس کی نفی غلط ہے اور اقتصادی امراض کا اصل علاج یہ ہے کہ اس کو حدود میں رکھا جائے، نہ یہ کہ اس کا صاف انکار کردیا جائے۔[روزنامہ زمیندار، ۲۴جون۱۹۲۳ئ] سو روسی اشتراکیت کی مخالفت تو اقبال نے اس کی بنیاد ہی سے کردی۔ پھر آگے کی منزلوں میں وہ کیسے اس کی حمایت کرسکتے تھے۔ سرمائے کے وجود کو تسلیم کرلینا ہی نفیِ اشتراکیت کے لیے کافی ہے مگر اس نفی میں وہ بار بار حوالہ اسلام کا دیتے ہیں۔ یعنی یہ واضح کررہے ہیں کہ اشتراکیت کا نظام اسلام کے نظام سے جدا ہے، یہ سرمائے کو تو مانتا ہے مگر سرمایہ داری اور بگڑی ہوئی دولت مندی کو نہیں مانتا۔ اس کے حق میں ایک دلیل تو یہ دی ہے کہ اسلام سرمائے کی قوت کو مان کر اس کو حدود میں رکھنے کا حامی ہے، باقی دلیلیں کلامِ اقبال میں جابجا بکھری ہوئی ہیںلیکن محولہ بالا خط میں اُنھوں نے یہ واضح کیا ہے کہ جہاں اشتراکیت مساوات کا خالی دعویٰ کرتی ہے وہاں اسلام کے اقتصادی تصورات مؤثر قسم کی سچی مساوات پیدا کرتے ہیں جسے خدا نے ’’نعمت‘‘ قرار دیا ہے (فَاصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِہٖ اِخْوَاناً) اور اس لحاظ سے اسلام ایک نعمت ہے جس کا ثمر اُخوت اور برادری ہے۔ علامہ فرماتے ہیں کہ یہ نعمت ’’بغیر ایک سوشل نظام کے ممکن نہیں جس کا مقصد سرمائے کی قوت کو مناسب حدود میں رکھ کر مذکورہ بالا مساوات کی تخلیق و تولید ہو۔‘‘ ان سب باتوں کے باوجود یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ اقبال کی نظر میں ہندو پاکستان میں رائج شدہ موجودہ نظام معاشیات جس میں دولت،جاگیرداری اور سرمایہ داری کے خطرناک فتنے موجودہیں،ہرگز ہرگز برداشت نہیں کیا جاسکتا۔اسے منہدم کرنا ہی پڑے گا اور اس کے لیے انقلاب لانا ہی پڑے گا۔ اس موضوع کی باقی باتیں آئندہ اشاعت میں آرہی ہیں۔ -----۶؍اکتوبر۱۹۷۵ء ئ……ئ……ء ۴۶ اقبال کے معاشی تصورات-۲ پچھلے مقالے میں عرض کیا تھا کہ معاشی مسئلے میں اسلامی نظریے اور سوشلزم کی نوعیت جو بھی ہو، یہ واضح ہے کہ اصل معاملہ اصطلاح کا نہیں بلکہ نظام عدل کے عملی نفاذ کا ہے، جس سے اسلامی نظریے والے بھی غافل ہیں اور سوشلزم والے بھی۔ اس سلسلے میں اسلامی نظریۂ معاش کے متعلق کچھ گفتگو ضروری معلوم ہوتی ہے۔ ہر سوشل نظام عبارت ہے فرد و اجتماع کے روابط سے۔ علامہ اقبال (اسلام کے تتبع میں) فرد کی رُوحانی و اخلاقی تربیت پر بے حد زور دیتے ہیں، تاکہ فرد میں از خود ایک ایسی داخلی کیفیت پیدا ہوجائے کہ وہ انتہائی خوش دلی سے اجتماع کے فرائض کو قبول کرنے کی صلاحیت پیدا کرے۔ اور اجتماع کی خاطر قربانی کرنے میں مسرت محسوس کرے۔ اس غرض کے لیے اقبال ایک نظامِ ریاضت تجویز کرتے ہیں جس کا مرکزی نکتہ ذکر و فکر ہے۔یہ ذکر و فکر رُوحِ انسانی کو خدا سے آشنا رکھتا ہے اور اسی معرفت اور یادِ الٰہی کے حوالے سے زندگی کا ہر قدم آگے بڑھتا ہے۔ انسان کے انسان سے جملہ روابط کا محور یہی تعلق باللہ ہے۔ اسلام زندگی کے لیے ایک نظام عقائد و عبادات تجویز کرتا ہے۔ توحید، عقیدۂ رسالت، پھر نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ۔ یہ سب عقیدے اور عبادتیں انسان کو ایک طرف خدا سے متعلق رکھتے ہیں اور دوسری طرف اجتماع سے نباہ کرنے کے قابل بناتے ہیں۔ چنانچہ معاشی مسئلوں میں بھی یہی کیفیت موجود ہے۔ ان اُمور میں اسلام ہمیں دو اہم عقیدے دیتا ہے۔ ایک کسبِ حلال اور دوسرا انفاق (یعنی خرچ کرنا) ان دونوں عقیدوں پر عمل بظاہر آسان ہے۔ لیکن حق یہ ہے کہ شدید داخلی تربیت کے بغیر حلال و حرام کا امتیاز کیا نہیں جاسکتا۔ نفسِ انسانی پر یہ پابندی سخت ہے اور اعلیٰ نظام تربیت کے بغیر یہ پابندی انسان پر سخت گراں گزرتی ہے۔ لیکن ایک مسلم قانت اس پابندی کو خوش دلی سے اور اسے عبادت سمجھ کر گوارا کرتا ہے۔ یہیں سے نظامِ معاش میں تطہیر کا وہ عمل شروع ہوجاتا ہے جو اسلامی معاشرے میں سرمایہ داری کو اُبھرنے نہیں دیتا اور تطہیر کی یہ صورت یورپ اور روس دونوں کے نظامِ معاش میں موجود نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں یورپ اور امریکہ میں دولت مندی کا فساد موجود ہے، وہاں روس اور چین میں فرد کی آزادی مفقود ہے۔ اور سرمایہ ایک عذاب بن کر کنگال شاہی کو جنم دے رہا ہے۔ یہ واضح ہو کہ اسلام میں کسبِ حلال ایک اہم فریضہ ہے۔ مگر اسلام کا حکم یہ بھی ہے کہ فرد جو کچھ کماتا ہے اسے خرچ بھی کرے۔ یعنی اپنی ضرورتوں پر بھی اور سوسائٹی کے دوسرے افراد اور دوسرے مقاصد پر بھی۔ انفاق کا یہ حکم اسلام کے بنیادی احکام میں سے ہے۔ اس سے اپنی ضرورتیں بھی پوری ہوتی ہیں، اجتماع کے مقاصد بھی پورے ہوتے ہیں اور دولت کی تقسیم بھی ہوتی ہے۔ اپنی محنت کو دوسروں کے لیے وقف کردینا، کوئی آسان کام نہیں مگر ایک مسلمان یہ قربانی کر گزرتا ہے۔ قربانی کی یہ صلاحیت دو اہم عقیدوں کے ذریعے پیدا کی گئی ہے۔ ایک اس عقیدے سے کہ زندگی کی سب فتوحات جن میں رزق بھی شامل ہے، ایمان پر منحصر ہیں۔ دوسرا عقیدہ فقر ہے اور فقر کا مختصر مطلب ہے: اپنی ضرورتوں کو بے نیازی، کفاف اور سادہ انسانی ضرورتوں کی سطح پر لے آنا تاکہ دولت کی ہوس پیدا ہی نہ ہوسکے۔ ایمان منبعِ فتوحات و کشادگی ہے۔ اس کی تائید میں یہ شعر اقبال ملاحظہ ہو : ولایت، پادشاہی، علم اشیا کی جہانگیری یہ سب کیا ہے؟ فقط اک نکتۂ ایماںکی تفسیریں اس شعر سے میں یہ ثابت کرنا چاہتا ہوں کہ اقبال کے نزدیک ایمان جملہ مادّی فتوحات کا منبع ہے۔بعض مادہ پرست اس پر ہنس دیں گے۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ مادّی فتوحات اور تسخیرات کا اوّلین سرچشمہ ایمان ہی ہے۔یہ بھی دراصل اس تصور کی تائید ہے کہ مادے کی دُنیا رُوحانی عقیدے کا عکس ہے اور اس مادّی دُنیا کے تصرفات سراپا عقیدے کے مرہونِ منت ہیں۔ تصرفات کی ابتدائی تحریک کسی بڑے خیال کے تحت پہلے دل کے اندر نمودار ہوتی ہے، پھر اس سے تقویت پاکر عالمِ مادیات میں انقلاب برپا کردیتی ہے اور معاشیات کی دُنیا بھی اس سے مستثنیٰ نہیں۔ میں یہاں پھر اسلام کا حوالہ دے کر یہ ثابت کروں گا کہ اسلام جب ایمان کے ہتھیار لے کر بڑھا تو دُنیا بھر کی دولت مسلمانوں کے قدموں پر آگری۔ غرض مسلمانوں کی معاشیات ہمیشہ ایمان کے تابع رہی ہے، لہٰذا اپنی معاشیات کو درست کرنے کے لیے ایمان کی کیفیت اپنے اندر پیدا کرنی چاہیے۔ اس کا پہلا قدم فقر ہے۔ فقر کیا ہے؟ یہ زندگی کا ایک رویہ، ایک عقیدہ اور ایک اُسلوبِ زندگی ہے جو فرد کے معاشی و مادّی احوال پر اثر انداز ہوتا ہے اور فرد کے اندر ایک خاص قسم کا وقار، ایک خاص قسم کا میلانِ بے نیازی پیدا کرتا ہے۔ یہی وہ وقار ہے جو انسان کو دولت کی ہوس سے بچاتا ہے، دولت والے کو اس کی محبت سے دور رکھتا ہے اور ناداروں کو بھی اس حسد، طمع اور ہوسِ زر سے بچاکر لے جاتا ہے جو یورپ اور روس کے زیرِ اثر اس وقت انسانی دُنیا کے لیے کش مکش کا باعث ہے۔ ماحصل: یہ ثابت ہوگیا ہے کہ اقبال کے اقتصادی خیالات اسلام کے تابع ہیں اور اسلام کے معاشی احکام محض معاشیات کے مسائل نہیں، بلکہ کل زندگی کا جزو ہیں، یعنی یہ معاشیات ایک خاص اخلاقی و رُوحانی دستور العمل کے تابع ہے۔ اقبال کے سلسلے میں بڑی غلطی یہ کی جاتی ہے کہ ان کے متفرق معاشی افکار کو اس اخلاقی و رُوحانی دستور العمل سے الگ کرکے دیکھا اور پیش کیا جاتا ہے، جس کے حوالے کے بغیر یہ معاشی افکار سوشلزم کے مشابہ معلوم ہونے لگتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ سوشلزم کا اندازِ نظر خالص مادّی ہے یعنی انسانوں کی معاشی و مادّی بہبود سوشلزم کا واحد نصب العین ہے اور اس میں رُوحانی حوالہ نظر انداز ہے، لیکن اسلام اور اقبال کے نزدیک یہ از ابتدا تا انتہا ایک رُوحانی و اخلاقی مسئلہ ہے۔ روحانی و اخلاقی مسئلہ ہونے سے مراد یہ ہے کہ اسلام کے نزدیک معاش نصب العین ہی نہیں بلکہ چند دیگر برتر مقاصد کے حصول اور تکمیل کا وسیلہ ہے اور یہ مقاصد وہ ہیں جو بالذات انسان کی مادّی ضرورتوں سے متعلق نہیں بلکہ ان کا تعلق نفسِ انسانی کی تربیتِ انقیاد اور تکمیل سے ہے۔ زندگی میں ہر چند کہ کھانا پینا ضروری ہے، مگر زندگی کا مقصد کھانا پینا نہیں، بلکہ کھا پی کر اس بڑے نصب العین کی تکمیل کی سعی کرنا ہے جو انسان کے سامنے رکھا گیا ہے:عبادت کے ذریعے خدا تک پہنچنا اور خدا کی صفات کا انجذاب انسان کا سب سے بڑا نصب العین ہے۔ اس نصب العین کی جدوجہد کے لیے نفسِ انسانی تربیت کا محتاج ہے تاکہ مندرجہ ذیل عقیدے اس کے نفس کا جزو بن جائیں۔ (الف) زندگی عبث نہیں، یہ بڑے مقاصد کے لیے تجربہ گاہ ہے۔ (ب) یہ بڑے مقاصد چار ہیں: ۱- انسان کے قیامِ ارضی کو خوش گوار اور نتیجہ خیز بنانا۔ ۲- کائنات کے اسرار کا انکشاف اور خدا کی حکمتوں کی معرفت کو عام کرنا۔ ۳- مادیات کی تسخیر بدیں غرض کہ انسان کا قیامِ ارضی [زیادہ]سے زیادہ خوش گوار اور نتیجہ خیز بنتا ہے۔ ۴- عقبیٰ کے لیے اپنے آپ کو تیار کرنا اور اس غرض کے لیے اس دُنیا کو اُس دُنیا کی کھیتی بنانا۔ افسوس ہے کہ مغربی فکر تین چار صدیوں سے زندگی کے معاشی و مادّی پہلو پر زور دے رہا ہے اور عقبیٰ کے غیر مادّی و رُوحانی تصور کا دشمن ہے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ مغربی فکر کی روسے جو کام مادّی لحاظ سے کسی کے لیے مفید نہیں بے کار ہے۔ لیکن اسلام میں ثواب کا تعلق اس زندگی کے مادّی نفع سے نہیں بلکہ مومن کو ایسے کاموں کے کرنے کا بھی حکم ہے جس کا صلہ مادّی طور پر اس زندگی میں نہیں مل سکتا۔ بے غرض نیکی کا یہ تصور اسلامی اعمال و افعال کا مرکز ہے۔ یہاں پہنچ کر میں پھر اس پر اصرار کرتا ہوں کہ نفاذِ عدل پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ موجودہ نظامِ اقتصاد بڑی حد تک غیر اسلامی ہے، اسے بدلنے کی کوشش ہونی چاہیے۔ اگر اسلامی نظریے والے نہ بدلیں گے تو کمیونزم کی پیش قدمی یقینی ہے۔ -----۱۳؍ اکتوبر ۱۹۷۵ء ئ……ئ……ء ۲ مضامین / ۱ شاعرِ مشرق علامہ اقبال کی زبان حکیمانہ اصطلاحوں اور ترکیبوں سے پُر ہے۔ عام خصوصیات کے اعتبار سے اقبال پر حافظ، فغانی، جلال اسیر، علی قلی سلیم، سالک یزدی، رضی دانش، ابو طالب کلیم اور طالب وغیرہ کی زبان کا بڑا اثر ہے لیکن حکیمانہ مضامین کے لیے اُنھوں نے رومی، خاقانی، بیدل اور غالب کی زبان استعمال کی ہے۔ غزل کی زبان شیریں ہے لیکن حکیمانہ مضامین کے لیے جو الفاظ اور ترکیبیں اُنھوں نے استعمال کی ہیں، وہ بیشتر تشریح طلب اور دقیق ہیں۔ اقبال حکیم تھے۔ ’’سازِ سخن‘‘ تو حرفِ آرزو کے اظہا رکے لیے ایک بہانہ تھا۔ جو لوگ ان کی نواے پریشاں کو محض شاعری سمجھتے ہیں، وہ کلامِ اقبال کی عظمت کے محرم نہیں۔ وہ محض غزل خوانی کے لیے نہیں پیدا کیے گئے تھے، بلکہ ’’محرم راز درونِ مے خانہ‘‘ تھے۔ قدرت نے انھیں تجدید و انقلاب کے لیے پیدا کیا تھا۔ وہ مفکرینِ اسلام کے کاروانِ مقدس کے ایک ممتاز فرد تھے۔ ان کا کلام اسلام اور اسلامیات کے گہرے اور وسیع مطالعے کا آئینہ دار ہے۔ ان کے اشعار میں کلامِ مجید، احادیث نبوی، اسلامی فلسفہ و حکمت کے جواہر ریزے، متکلمین اور حکما کے شہ پارے، صوفیہ اور اَئمہ کے بلند خیالات، اہلِ عرفان اور اربابِ کشف کے مقامات و احوال کی طرف جابجا اشارے ہیں۔ گذشتہ تیرہ سو سال میں اسلام کی آغوش میں پلنے والی مذہبی، علمی، سیاسی اور ذہنی تحریکوں کی تاریخ، اقوامِ عالم کے قدیم و جدید ہیجانات، ملل ومذاہبِ جدید کا ارتقا، خلافت، سلطنت اور ملوکیت کا عروج و زوال، مغرب اور حکماے مغرب کے نظریے اور تصورات، غرض انسانی تہذیب وتمدن کے تمام اہم پہلوئوں پر فلسفیانہ تبصرے کلامِ اقبال میں ملخصاً و تلمیحاً موجود ہیں۔ اقبال کی شاعری کی نوعیت بڑی حد تک اجتماعی ہے۔ اُنھوں نے اپنی عظیم شاعری کی مدد سے ایک ایسی اجتماعیت کی بنیاد رکھی جو مادیت سے رُوحانیت کی طرف بڑھتی ہے۔ اقبال ایک ایسے معاشرے کے مفکر ہیں جس میں انسان کی آدمیت،اخلاقی انسانی شرافتوں اور فضیلتوں کی انتہا تک پہنچ چکی ہوگی، اور جس میں وہ غیر اخلاقی اور نامناسب امتیازات معدوم ہوجائیں گے جو آج ایک انسان اور دوسرے انسان کے درمیان دیوارِ فاصل بنے ہوئے ہیں،اوریہ وہ معاشرہ ہوگا جس کی تشکیل ایسا انسان کرے گا جو خود پہلے آدمیت کی معراج کو حاصل کرچکا ہو، یعنی اس فقرِ غیور سے بہرہ ور ہوگا جس کے نزدیک منعمی، درویشی کے ہم رنگ اور درویشی منعمی کی ہم شکل ہوگی، اور جس میں قلندری اور قبا پوشی اور کلاہ داری کے درمیان کوئی تفاوت اور فاصلہ نہیں ہوگا۔ فطرت نگاری میں بھی اقبال کا طرزِ بیان یہ ہے کہ وہ منظر کی مقامی اور ٹھوس جزئیات سے کم لگائو رکھتے ہیں، بلکہ منظر کے حسن کے مجموعی تاثر کو سامنے رکھ کر خیالی مرقعے تیار کرتے ہیں، تاہم ان کے مرقعے حقیقت سے بعید نہیں ہوتے اور پرانے شاعروں کی مرقع کشی کی طرح ان میں مبالغے کی بے اعتدالی نہیں ہوتی۔ اقبال مناظرِ قدرت کے حسن آفرین پہلوئوں سے بھی متاثر ہیں مگر اُنھوں نے اپنے نظریات کی تشریح کے لیے ان سے بہت فائدہ اُٹھایا ہے، بلکہ یہ ان کی شاعری کی خاص علامتوں میں داخل ہیں۔ آپ کے کلام میں قدرت کی ساکن چیزوں کی جو مرکب تصویریں پائی جاتی ہیں، وہ ان کے بے جان ماحول کو بھی متحرک چیزوں سے مربوط کرتے ہوئے ان میں زندگی کی چہل پہل پیدا کردیتے ہیں۔ اقبال حسنِ فطرت کے دل دادہ و شیدائی ہیں۔ مگر وہ حسن فطرت کو پہلے اخلاقی اور رُوحانی حقائق کے ادراک کا ذریعہ بناتے ہیں۔ بعد میں تسخیر فطرت کا۔ آپ کے یہاں فطرت کی رعنائی اس کی لطافتوں میں نہیں بلکہ اُس کے پُرجلال مظاہر میں ہے یا پھر حرکت زندگی اور ہیبت خیز نظاروں میں جن میں فضا کے رعب و ہیبت سے یک گونہ تحیر کی کیفیت پیدا ہوتی ہے۔ اس اعتبار سے اقبال کی نظر فطرت پر حریفانہ پڑتی ہے۔ اقبال نے شاعری کو ایک نئی زبان دی ہے، اُنھوں نے بیسیوں الفاظ کو نئی زندگی بخشی، پرانی تلمیحات کے مفہوم میں توسیع کی، پرانے استعارات کے رُخ اور روپ بدل ڈالے، فارسی شاعری کے وسیع ذخیرۂ الفاظ میں سے صدہا ایسے جذباتی پیرائے انتخاب کیے جو سوچ اور احساس کے نئے پیمانوں میں سمانے کی استعداد رکھتے تھے۔ اقبال کی شاعری کا غزنوی اور تورانی، ان کا سمرقند اور ان کا تبریز، ان کے تورانیانِ شہر آشوب اور ان کا آشوبِ ہلاکو اور اس قسم کے دوسرے الفاظ اور جملے ہمارے بعض عصری احساسات کے مؤثر نمائندے ہیں۔ ان کے آئینے میں اُنھوں نے جہانِ نو کے انقلاب انگیز تصورات کی بڑی شوخ تصویریں [پیش کی ہیں]حکیم الامت کے کلام میں تڑپ، تب و تاب اور اضطراب آرزو کی بڑی آمیزش ہے جس کا سرچشمہ جوشِ زندگی اور استیلاے شوقِ حیات ہے۔ اقبال نسل انسانی کے روشن مستقبل کے اتنے مؤثر اور دل۔کش تصورات پیش کرتے ہیں کہ قاری کے دل میں اُمنگ اور آرزو پیدا ہوجاتی ہے۔ مردِ قلندر کی خودی کیا شے ہے؟ اس پر بہت کچھ لکھا گیا ہے۔ اقبال نے مختلف موقعوں پر اس کے الگ الگ (گو ایک دوسرے کے قریب قریب) معنی بیان کیے ہیں، مثلاً خودی خود حیاتِ خودی کا دوسرا نام ہے۔ خودی عشق کے مترادف ہے۔ خودی ذوقِ تحریر کا نام ہے۔ خودی سے مراد خود آگاہی ہے (بالِ جبریل)۔ خودی ذوقِ استیلا سے عبارت ہے۔ خودی ذوقِ طلب ہے۔ خودی ایمان کے مترادف ہے۔ خودی سرچشمۂ جدت و ندرت ہے(ضربِ کلیم)۔ خودی یقین کی گہرائی ہے، خودی سوزِ حیات کا سرچشمہ اور ذوقِ تخلیق کا ماخذ ہے۔ غرض اس قسم کے گوناگوں معانی و صفات خودی سے وابستہ ہوئے ہیں۔ یہ اثباتِ خود کی صورتیں ہیں۔ علامہ کا خیال ہے کہ خودی جو حیات ہی کا دوسرا نام ہے[جو] لحظہ بہ لحظہ تخلیق میں مصروف رہتی ہے اور تسلسلِ زمانی کو قائم رکھتی ہے اور فرد کی خودی جب ملت کی بے خودی میں گم ہوجاتی ہے تو بڑی برکتوں کا باعث ہوتی ہے۔ اقبال نے خودی اور بے خودی کے مسئلے میں صوفیوں کے نظامِ فکر سے استفادہ کیا ہے مگر ان کا کارنامۂ خاص یہ ہے کہ اُنھوں نے اس کو بھی اپنے خاص نظریۂ اجتماعیت کے لیے استعمال کیا ہے۔ صوفیوں کی فرد پسندی سے ذہن کو ہٹا کر اجتماعی عمل اور اجتماعی مصالحِ انسانیت کا راستہ دکھایا ہے اور ازل پر نظر مرکوز کرنے کے بجاے اَبد کی تسخیر کو منزل مقصود قرار دیا ہے اور اس تسخیر کے لیے جو دستورالعمل تجویز کیا ہے، اس میں فرد اور اجتماع دونوں کو لازم و ملزوم ٹھہرایا ہے۔ اقبال ایک ایسی صدی کے حکیم و شاعر ہیں جس میں مسلمانوں کا سیاسی انحطاط انتہا تک پہنچ چکا تھا۔ اور ان کے سامنے قوم کی تعمیر نو کا اہم مسئلہ موجود تھا۔ اس غرض سے اُنھوں نے تمام ایسے عناصر کا سراغ لگانے کی کوشش کی جو ان کے نزدیک مسلمانوں کے قواے حیات کے تعطل کا باعث ہوئے۔ ان کے زمانے میں عالم اسلام پر افسردگی اور غنودگی طاری تھی۔ اسے دور کرنے کے لیے انھیں ایسے افکار کی ضرورت تھی جو قوت و توانائی اور جوش و ولولہ پیدا کرسکیں۔ مثنوی رومی، ادبیاتِ فارسی کی مقبول ترین کتاب ہے۔ اس کی لاتعداد شرحیں، ترجمے اور فرہنگ لکھے گئے جن میں سے بعض کی اپنی علمی سطح بھی اتنی بلند ہے کہ ان کو بذاتِ خود ادبیاتِ عالیہ میں شمار کیا جاسکتا ہے۔ اگر حضرت مولانا رومی نے اقبال کے فکر کو چار چاند لگائے ہیں تو اقبال نے بھی رومی کے افکارِ عالیہ کو بڑی عزت اور شان سے دُنیا میں متعارف کرایاجس سے ان کے رتبہ و مقام کو پہلے سے کہیں زیادہ سربلندی نصیب ہوئی۔ اقبال کی سعادت مندی ہے کہ وہ رومی کی غائبانہ شاگردی سے متفخر ہوئے مگر یہ فکرِ رومی کی بھی خوش نصیبی ہے کہ اس کو اقبال جیسا ہوش مند اور بالغ نظر شارح [ملا]، جس نے اپنے نامور استاد کی عظمت کے مینار اور اونچے کر دیے اور ان کی شہرت کو فلک الافلاک تک پہنچا دیا۔ چنانچہ مثنوی کے زمانۂ تصنیف سے لے کر آج تک جتنے علما و فضلا نے افکار رومی کا تجزیہ کیا ہے،اس میں شاید اقبال ہی مثنوی کے وہ واحد ترجمان ہیں جن کی توجیہات نے مثنوی کو ایک زندہ فکر اور مثبت و پائدار اقدارِ زیست کا حامل ثابت کیا ہے اور ان حکمتوں کو دریافت کیا ہے جن سے کائنات اور حیات کے ارتقا و تکمیل کے بڑے بڑے راز دریافت ہوئے ہیں۔ یہ اقبال ہی تھے جن کے طفیل رومی کے افکار کی وہ تشریح ہوئی جس سے وہ حیاتِ اجتماعی او ر ارتقاے انسانی کے ایک بڑے ترجمان اور محرمِ اسرار ثابت ہوئے۔ اقبال نے رومی کو جدید حکمت سے متعارف کرایا ہے اور علم و دانش کے جدید ترین دبستانوں پر یہ ثابت کردیا ہے کہ رومی کے پاس عصرِ حاضر کے ان پیچیدہ مسائل کے کامیاب حل موجود ہیں جن سے انسان حواس باختہ ہوکر خود انسان کی روشن تقدیر سے مایوس ہوجاتا ہے۔ موجودہ دور میں دُنیا کو ایسے مذہب (یا مسلکِ فکر وعمل) کی تلاش ہے، جس کے اساسی اُصولوں سے سائنس بھی انکار نہ کرسکے۔ اور ایک ایسے سائنسی نقطۂ نظر کی ضرورت ہے جس میں وجدانیات کے وجود کو تسلیم کیے بغیر چارہ نہ رہے۔ عقل اور عشق کا یہ اجتماع انسان کے روشن مستقبل کے لیے اتنا ہی ضروری ہے جتنا کہ انسان کے لیے آب و ہوا کا وجود۔ اقبال نے اکثر مسائل کے حل رومی کے حوالے سے پیش کیے ہیں اور یہ حکمت رومی کی سب سے بڑی خدمت ہے، جس طرح مطالعۂ اقبال کے سلسلے میں مولاناے روم کی مثنوی اور ان کے افکار ایک اہم بلکہ اہم ترین ماخذ کا درجہ رکھتے ہیں، اسی طرح مطالعۂ رومی کے سلسلے میں اقبال کی شرح و تعبیر یکتا اور منفرد، حیثیت رکھتی ہے۔ علامہ کا سب سے بڑا سیاسی تخیل یہ ہے کہ وہ ایک زندہ اور بہ ہمہ وجوہ کامل سوسائٹی کی تعمیر کا خواب دیکھتے ہیں جو موجودہ قوانین، اندازِ خیال،جذبات اور موجودہ اداروں [کذا]سے بالکل جدا ہوگا۔جس کے افراد مافوق الانسان ہوں گے،جن میں خداے لم یزل کی صفات زیادہ سے زیادہ موجود ہوں گی۔ یہ نئی سوسائٹی، مساوات، اُخوت اور یک جہتی کا زندہ نمونہ ہوگی اور اس میں مادیت اور عقلیت سے پیدا شدہ خرابیاں بالکل مفقود ہوں گی۔ اقبال کے خیال میں ایسی زندہ اور باعمل جماعت کسی ایسے نظام کی بنیادوں پر اُٹھے گی جو اپنے زاویۂ نگاہ میں مغربی اقوام کی طرح تنگ نظر اور کوتاہ بیں نہ ہوگی، بلکہ اس کا تصور انسان اور کائنات کے متعلق زیادہ انسانی، زیادہ وسیع، زیادہ سے زیادہ رُوحانی ہوگا۔ اس وقت دُنیا میں جس قدر ترقی پذیر نظامِ معاشرت و سیاست موجود ہیں، اقبال ان میں اسلامی نظام کو اپنے خاص نصب العین اور اپنے خاص تصورِ ملت کے قریب تر سمجھتے ہیں۔ اقبال نے اپنی ساری تصانیف میں ملتِ اسلام کو خاص زاویۂ نظر سے دیکھنے کی کوشش کی ہے۔ آپ کا زاویۂ نگاہ یہ ہے کہ دُنیا میں وسیع ترین انسانی برادری اور قوم کا جو خیال ’’ملتِ اسلام‘‘ نے پیش کیا ہے، وہ کسی اور نظام اور گروہ میں نہیں ملتا۔ اسلام کی حدود بہت وسیع ہیں۔ اس کی ماہیت غیر محدود اور لامتناہی ہے۔ اس کا وجود زمان ومکان کی قیود سے آزاد ہے۔ ملت بیضا پر ایک عمرانی نظر میں علامہ فرماتے ہیں۔ اسلام تمام قیود سے بے زاری کا اظہار کرتا ہے۔ اس کی قومیت کا دار ومدار ایک خاص تنزیہی تصور پر ہے۔ جس کی تجسیمیشکل وہ جمعیتِ افراد ہے جس میں بڑھنے اور پھیلتے رہنے کی قابلیت طبعاً موجود ہے۔ اسلام کا اصل اُصول مظاہرِ کائنات کے متعلق ایک ایسا اتحاد خیال ہے جو سب انسانوں کو ایک رشتۂ وحدت میں پرو سکتا ہے۔ قطعِ نظر اس بات کے کہ اس کے ماننے والے افریقہ کی کالی دُنیا سے متعلق ہیں یا ریگستانِ بطحا کے شجاع عرب، گنگا کی وادیوں میں بسنے والے آریا ہیں یا پامیر کے بلند کوہساروں کے مکین، کوئی زمینی قید اُن میں تفرقہ نہیں ڈال سکتی۔ کوئی مادی جدائی انھیں جدا نہیں کرسکتی اور نسل یا زبان کا کوئی امتیاز اُن میں افتراق پیدا نہیں کرسکتا۔ یہی معاشرتی قانون ہے جس کی وسعت اور ہمہ گیری کا اقبال کو یقین ہے اور یہی نکتہ ہے جسے اقبال سب سے زیادہ پسند کرتے ہیں۔ اقبال کے نزدیک ایسی سوسائٹی کے لیے ایسے مثالی افراد کی ضرورت ہوگی جو اس نظام کو کامیاب بناسکیں۔ یہ ایسے افراد ہوں گے جن میں خودی کی تکمیل ہوچکی ہوگی۔ اقبال کے پیغام یا نظریے کے ممکنات کی قبولیت کا دن اس زمانے میں طلوع ہوگا جب موجودہ انسانیت اپنی تمام مادی ہنگامہ آرائیوں سے تھک کر تمام عقلی انکشافات سے بے زار ہوکر کسی ایسے ’’فارمولے‘‘ کی تلاش میں نکلے گی، جس میں تسخیرِ مادّیت مقصد خاص نہ ہوگا۔ بلکہ ذہنی سکون اور قلبی راحت کی جستجو (یا رضاے الٰہی) اصلی مقصد قرار پائے گا۔ اقبال ایک ایسے معاشرے کے مدعی ہیں جس میں مادے کی تسخیر مکمل ہوچکے گی اور انسان ان رُوحانی ممکنات کی تسخیر کے لیے میدانِ عمل میں گامزن ہوگا جو ستاروں سے آگے کی دُنیا کے ممکنات ہیں۔ ----- کردارِ نو،جولائی اگست ۱۹۶۱ء ئ……ئ……ء ۲ علامہ اقبال: [فکرِ اسلامی کا عَلم بردار] مولانا ابوالکلام آزاد کی طرح اقبال بھی ’’اتحاد اسلام دور‘‘ کے ماحول میں زیادہ نمایاں ہوئے۔ ان کے خیالات و تصورات کا ارتقا یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ عصری تحریکوں سے متاثر ہوتے رہے۔ ابتدا میں وہ عام شعری روایتوں سے متاثر تھے۔ ایک زمانے میں اُنھوں نے حبِ وطن پر نظمیں لکھیں۔ ۱۹۱۸ء سے ۱۹۲۴ء تک تحریکِ خلافت کا ساتھ دیا۔ ۱۹۲۴ء کے بعد یورپ کے نظریۂ قومیت کے خلاف شدید ردِّعمل کا اظہار کیا۔ اس کے بعد اُنھوں نے ایک عالمگیر نظام کے امکانات پر غور کیا۔ سرمایہ اور مزدور کی کشاکش میں اُنھوں نے مزدور کی حمایت کی اور ۱۹۳۰ء میں مسلمانوں کو ہندستان میں ایک الگ مملکت کا تخیل دیا اور آخری وقت تک اس خیال پر قائم رہے۔ ان تغیرات کے باوجود اقبال کے فکر میں، ایک مستقل عنصر جو ہمیشہ موجود رہا، وہ ہے: اسلامی تہذیب و تاریخ کا احساس۔ ۱۹۱۲ء میں نظم ’’شمع اور شاعر‘‘ میں اُنھوں نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا: مژدہ اے پیمانہ بردار خمستانِ حجاز بعد مدت کے ترے رندوں کو پھر آیا ہے ہوش نقدِ خودداری بہائے بادۂ اغیار تھی پھر دکاں تیری ہے لبریز صدائے نا و نوش پھر یہ غوغا ہے کہ لا ساقی شرابِ خانہ ساز دل کے ہنگامے مئے مغرب نے کر ڈالے خموش اس زمانے سے لے کر وفات تک اقبال نے اس تصور کو زندہ رکھا۔ اسی سے خودی کا نظریہ اُبھرا۔ شروع شروع میں اس کی حیثیت محض منفیانہ تھی لیکن آہستہ آہستہ یہ جذبہ ایک تعمیری تصور بن گیا۔ اُنھوں نے دُنیا کے لیے ایک مثالی نظام تجویز کیا جس میں خالص اسلامی فکر سے تصوراتی رنگ بھرے۔ سب سے پہلے انسانِ کامل کی نشوونما پھر ایک اعلیٰ اور مثالی سوسائٹی کی تشکیل، یہ اقبال کے فکر کے دو اہم اجزا ہیں۔ یہ افلاطون کی جمہوریت سے مختلف، سرٹامس مور کی جنت الحمقا (utopia) سے زیادہ عملی، عبدالکریم الجیلی کے رُوحانی ’’الانسان الکامل‘‘ سے بلندتر اورنٹشے کے مادّی اور تخریبی ’’مافوق الانسان‘‘ کے برعکس رُوحانی اور اخلاقی شخصیت کا تصور تھا۔ اقبال کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ ان کا فکر اسلامی ہے اور اس نسبت سے وہ شرمندہ نہیں۔ ان کے تصور کی عمارت بڑی حد تک فکرِ اسلامی کے اینٹ چونے گارے سے تعمیر ہوئی ہے۔ وہ آئیڈیل سوسائٹی کے لیے بھی اسلامی اُصولوں سے کام لیتے ہیں۔ ان کا عقیدہ ہے کہ دُنیا کا کوئی ’’اعلیٰ نظام‘‘ اسلامی تصور معاش و معاد کو جذب کیے بغیر کامیاب نہیں ہوسکتا۔ اقبال نے اسلام کے متعلق اعتراضات کا جواب دینے کی مناظرانہ کوشش نہیں کی بلکہ اسلام کی فکریات کی مثبت تشریح کی ہے جس میں مغربی افکار سے بھی استشہاد کیا ہے۔ اسی طرح مسلمانوں کو توحیدو رسالت میں پختہ اعتقاد رکھنے کی تلقین کی۔ اس کے بعد قرآنِ مجید کے مطالعے پر اصرار کیا کیونکہ ان کے نزدیک اسی کتابِ فطرت میں زندگی کے سارے اسرار درج ہیں۔ ان کے فکر کی اساس زمینی بھی ہے اور ماورائی بھی، تصوری بھی ہے اور ان معنوں میں عملی بھی کہ اس پر عمل ہوسکتا ہے۔ اقبال کا فلسفہ خودی۱؎ خود شناسی کا ہدایت نامہ ہے۔ اقبال کی رجائیت مردہ اقوام کے لیے پیامِ حیات ہے۔ اقبال کی ’’عقلیت دشمنی‘‘ عشق کا سوز یقین پیدا کرتی ہے۔ اقبال کا عقیدۂ قوت، تسخیرِ حیات کا ضامن ہے۔ بعض اقبال دوست اس بات پر مصر ہیں کہ اقبال نے یورپ ۱-اقبال کا نظریہ خودی منفرد ہے۔ اس پر بہت سے مضامین اور تصنیفات موجود ہیں۔ خلاصہ یہ ہے کہ خودی ’’حیات کا وہ ترقی پذیر جوہر ہے جو کائنات میں ارتقا کا ذمے دار ہے۔‘‘ یہ ہر شے میں ہے۔ انسانوں میں بہ درجہ کمال یوں ہے کہ انسان عقل و رُوح کی ترقی پذیر قوتوں سے مسلح اور شعور و احساس سے بہرہ ور ہے، خود کی ممکنات کا یہ احساس اقبال کے تصور کی اساس ہے۔ کے خیالات سے پورا استفادہ کیا ہے، اُنھوں نے بعض افکار کو اپنے فلسفے میں جذب کیا اور بعض سے ردِّعمل کے طور پر سلبی راے قائم کی۔ البتہ اس حد تک درست ہے کہ اقبال یورپ کے افکار کو اسلامیات کی روشنی میں دیکھنے کے عادی ہیں، جو سرسیّد وغیرہ کے اجتہاد سے بالکل مختلف روّیہ ہے۔ سرسیّد کا اجتہاد تقلیدی اجتہاد تھا۔ اقبال کا اجتہاد اثباتی ہے۔ اقبال نے برگساں کے فلسفۂ حیاتیات (vitalism) کا بغور مطالعہ کیا اور کانٹ کے نظریات کی تائید اور ان پر تنقید بھی کی۔ اقبال نے افلاطون کے فکر پر معترضانہ تنقید کی ہے اور اسے ایک جگہ ’’راہب ِاوّل‘‘ اور ایک دوسرے موقعے پر ’’گوسفند ِقدیم‘‘ کہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ افلاطون اس کائنات کو محض عکس کہتا تھا۔ وہ کہتا تھا کہ مثالی دُنیا کہیں اوپر ہے۔ اعیانِ ثابتہ وہیں ہیں۔ یہ دُنیا محض سایہ ہے۔ اقبال اس تعلیم کو حقائقِ زندگی کے نقطۂ نظر سے غلط سمجھتے تھے۔ افلاطون کا نقطۂ نظر عقلی تھا (اگرچہ اخلاقی بھی تھا)، اس معاملے میں اقبال کے نزدیک ارسطو کی راے وقیع تھی کیونکہ وہ اس مادّی دُنیا کو بھی حقیقت جانتا تھا، ارسطو کا طریقِ کار زیادہ سائنسی تھا اور سائنسی انکشاف (scientific discovery) کی تحریک اسی کے زیرِاثر وجود میں آئی۔ ان وجوہ سے اقبال ارسطو کی تائید کرتے ہیں۔ نظریۂ خودی کے ضمن میں عشق، فقر، نیابتِ الٰہی، انسانِ کامل، ابلیس (خیر و شر کے حوالے سے) فلسفۂ تمدن، ملت اور قومیت، عقل و عشق وغیرہ بحثیں بہت اہم ہیں۔ (ان کے لیے ڈاکٹر یوسف حسین خاں کی کتاب رُوحِ اقبال، ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم کی کتاب فکرِاقبال اور عبدالسلام ندوی کی کتاب اقبال کامل ملاحظہ ہو۔) اقبال نے اسلامی ماخذ سے استفادہ کیا ہے۔ رومی کی مثنوی ان کا سب سے بڑا ماخذ ہے۔ یہ خیال غلط ہے کہ اقبال تصوف کے مخالف تھے۔ وہ دراصل اس کے منفی اسالیب سے اختلاف رکھتے تھے، اقبال کی کتابوں میں بڑے بڑے صوفیوں کے اقوال اور حوالے ملتے ہیں۔ اُنھوں نے خواجہ محمود شبستری کی کتاب گلشنِ راز کا جواب لکھا ہے جو زبورِ عجم میں شامل ہے۔ اقبال اور شبستری میں فرق یہ ہے کہ جہاں شبستری خودی کو ’’عین کفر‘‘ کہتے ہیں وہاں اقبال خودی میں ایمان رکھتے ہیں۔ اقبال کے کلام میں عشق اگرچہ عمومی سطح پر ’’جوشِ درونِ حیات‘‘ہے،خصوصی سطح پر، اس کا مفہوم وسیع تر ہے۔ اس میں ایمان، ایقان، مجاہدہ اور محبت فاتح عالم سب کچھ شامل ہے، اقبال کا فلسفۂ تمدن بالکل اپنا ہے۔ اقبال وطن کو بت بنانے کے قائل نہیں، اور اس اساس پر اجتماعی تنظیم کو مہلک سمجھتے ہیں۔ ان کے نزدیک، اسلام ایک مثالی معاشرے کی اساس بن سکتا ہے جو زمین کو ٹھکراتا نہیں مگر عقیدے کو ایک برتر حقیقت خیال کرتا ہے۔ اقبال کو رُومانی ادبا میں شامل کیا گیا ہے لیکن حق یہ ہے کہ وہ ان ادباے کبار میں سے تھے جن پر کوئی ایک لیبل نہیں لگ سکتا۔ وہ رُومانی بھی تھے اور تصوریت پسند بھی۔ وہ عقل پسند بھی تھے اور وجدان پسند بھی۔ انھیں عقل پسند رُومانی اور رُومان پسند عینیت پرست کہنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ اقبال نے شاعری میں ایک نئی سمت کی نشان دہی کی۔ اُنھوں نے ہیئت کے نئے تجربے نہیں کیے لیکن بہت سی جدتیں کی ہیں۔ اُنھوں نے آزاد نظم نہیں لکھی لیکن نظم نگاری کی تحریک کو بہت تقویت دی۔ اُنھوں نے پرانے استعارے اور علامتیں ترک نہیں کیںلیکن ان کو نیا مفہوم عطا کیا۔ شاہیں، شاہباز، لالۂ صحرا ، صبح کا ستارہ ان کے خاص سمبل (symbol)ہیں۔ ان کی علامتیں ان کے تصورِ فنونِ لطیفہ کے تحت ہیں۔ جمال باجلال یا دلبری باقاہری یعنی قوت و جبروت، حسن برترکے اصلی اوصاف ہیں۔ تاہم وہ زندگی کی لطیف کیفیتوں کے مخالف نہیں بشرطیکہ وہ قوت کے منافی نہ ہوں۔ فکرِاقبال پر برگساں کے ارتقائی نظریات کا خاصا اثر ہے مگر جہاں برگساں کا نظریہ بڑی حد تک جسمانیاتی ہے یعنی اس کا ’’جوشِ حیات‘‘ محض جسمانی لوازم و اثرات کا نتیجہ ہے، وہاں اقبال کا جوشِ حیات جسمانی بھی ہے مگر اس کے پیچھے وہ پراسرار قوت بھی ہے جس کا نام ’’وجدان‘‘ ہے۔ اقبال اس کو ’’ایمان‘‘ کہتے ہیں جس کا سرچشمہ پراسرار ’’غیب غیب‘‘ ہے۔ اقبال نے نطشے کے بعض افکار کی ستائش کی ہے مگر نطشہ دہریہ تھا۔ اس نے اعلان کیا تھا کہ ’’خدا مرگیا ہے۔‘‘ مگر اقبال کا خدا حیّ و قیّوم ہے۔ نطشے کے لیے اقبال کی عقیدت کا باعث یہ تھا کہ وہ بھی تہذیبِ مغرب کا سخت دشمن تھا۔ اس کا وجدان صحیح تھا، البتہ عقلیت کافرانہ تھی: قلب او مومن دماغش کافر است بہرحال وہ تہذیبِ مغرب کا مخالف تھا۔ اس کی حالت کچھ ایسی ہی تھی جیسے کوئی دیوانہ شیشے کے کارخانے میں چلا جائے اور ہر شے کو توڑ پھوڑ کا رکھ دے۔ نطشے نے تہذیبِ مغرب پر دیوانہ وار حملہ کیا: دیوانۂ بہ کارگہ شیشہ گر رسید نطشے قوت کا داعی ہے اور ملائمت پسند فلسفوں کا دشمن۔ اقبال نے گوئٹے کی مشرق پسندی کی بھی تعریف کی ہے اور خود کو اس کا مثیل قرار دیا ہے۔ پیامِ مشرق (فارسی) گوئٹے کے دیوانِ مغرب کا جواب ہے۔ گوئٹے کی جاذب ہمہ گیر شخصیت کے علاوہ، اس کی پُرجوش رُومانیت بھی باعثِ کشش ہوئی ہوگی۔ اقبال پر ’’فختے‘‘ کا اثر بھی ہے اور اس سے مماثلت بھی مگر اقبال نے اس کا ذکر نہیں کیا۔ غرض اقبال نے افکارِ مغرب کا تنقیدی مطالعہ کیا ہے اور یہ استفادہ بڑائی اور عظمت کے منافی نہیں، اس سے اقبال کی برتری کو بالکل صدمہ نہیں پہنچا۔ درحقیقت اقبال نے ان مغربی فلسفیوں سے صرف وہی تصورات لیے ہیں جو ان کے اپنے نظریے کے لیے قابلِ قبول تھے۔ اقبال نے آنے والے سارے ادب پر اثر ڈالا اورترقی پسند ادب بھی ان سے متأثر ہوا اگرچہ اس ادب کی کئی باتیں فکرِ اقبال کے مخالف ہیں۔ ----- اُردو ادب(۱۸۵۷ئ-۱۹۶۶ئ): مکتبہ خیابانِ اد ب لاہور، ۱۹۶۷ء ئ……ئ……ء ۳ نواے شاعرِ فردا افکار کی گردش کا یہ اہم اُصول ہے کہ اس میں توانا تصورات، حکیم کے اپنے عصر کے بعد بھی دیکھے اور پرکھے جاتے ہیں۔ یہ دیکھا جاتا ہے کہ اس کے بعد فکر کی اگلی منزل میں نئے حکما اپنی پیش قدمی میں اپنے پیش رُو سے کتنا آگے بڑھے، پرانے فکر کا کتنا حصہ جوں کا توں رہا اور نئے تصورات و افکار میں نسلِ انسانی کے اجتماعی شعور کی دریافت اور ترقی کے لحاظ سے، کیا ان کا پیش رو اب بھی فکراً ان کا پیش۔رَو ہے؟ اور یہ بھی دیکھنا ہوتا ہے کہ نیا عصر اس پیش رو سے کن معنوں میں مختلف ہے؟ افسوس ہے کہ ابھی فکرِ اقبال کے معاملے میں، دریافت کی اس منزل کی طرف زیادہ توجہ نہیں ہوئی۔ یعنی ہم اقبال کو ۱۹۳۸ء تک کے افکار کے حوالے ہی سے پڑھ رہے ہیں، اور شاید یہ کہنا بھی غلط نہ ہوگا کہ ہم نے اب اس اقبال کو پڑھنا بھی چھوڑ دیا ہے کیونکہ یارانِ شہر نے انھیں محض غزل خواں قرار دے لیا ہے: مرا یاراں غزل خوانے شمردند اور بحث صرف یہ رہ گئی ہے کہ اس نے غزل اچھی لکھی ہے یا نظم؟ وہ رجعت پسند تھا یا ترقی پسند، وہ مغرب سے متاثر تھا یا مشرق سے؟ وغیرہ۔ حالانکہ اقبال نے خود فرمایا تھا کہ میرا کلام نواے شاعر فرداہے اور شاعرِ فردا وہ ہوتا ہے جو آئندہ کے افکار کی بھی سمت نمائی کرتا ہے۔ اقبال کے یہاں یہ سمت نمائی موجود ہے مگر ہم متوجہ نہیں۔ اس فقدانِ مطالعہ یا نقصانِ مطالعہ کا ایک سبب میری نظر میں یہ ہے کہ ہم اقبال کو صرف مفکرِ پاکستان کی حیثیت سے پیش کرتے ہیں اور یہ نہیں سوچتے کہ اس مفکرِ پاکستان کی کچھ غایت بھی تھی، چونکہ پاکستان اسلام کے مقاصد کے لیے تعمیر ہوا تھا، پس فکرِ اقبال میں اسلام کے مقاصد و غایات کی جستجو لازمی تھی۔ صرف وہ اسلام نہیں جو عبادات یا انفرادی تزکیۂ نفس تک محدود ہے بلکہ وہ اسلام جو کل اجتماعِ انسانی کے مستقل مصالح و مقاصد کے حل بھی پیش کرتا ہے اور ہمیشہ پیش کرتا رہے گا۔ فکرِ اقبال کی توسیعی تنقید بھی ممنوع ہوئی اور جتنی بھی ہوئی وہ غلط ہاتھوں میں چلی گئی۔ اس لیے اقبال سے متعلق توسیعی فکر کی تحریک تقریباً بند ہوگئی۔ تعجب ہے کہ جس قوم نے امام غزالی کی تہافۃ الفلاسفہ کے بعد ابن رشد کی تہافۃ التہافۃ کو برداشت کیا، وہ اقبال کے بارے میں توسیعی مطالعے کی تحریک کو گوارا نہ کرسکی۔ اقبال کی وفات ۱۹۳۸ء میں ہوئی۔ ان کے بعد مغرب کی علمی تحریک بہت آگے بڑھی اور انسانی معاشرے پر نئے نقوش ثبت ہوگئے۔ انقلاب آفرین خیالات نے ہزاروں مسئلے اور ہزاروں سوال پیدا کیے، جن کے ہزاروں جواب اور ہزاروں توضیحیں ہوئیں۔ اور اب وہ خیالات مغرب کے علاوہ، مشرق کو بھی متاثر کررہے ہیں اور عالم اسلام پر تو ان کا اثر اتنا گہرا ہوا ہے کہ ان سے بے اعتنائی خود کشی کے برابر ہوگی۔ یورپ کے چند ہمہ گیر افکار اور توانا اثرات علامہ کی زندگی ہی میں اپنا نقش بٹھا چکے تھے جن پر حضرت علامہ نے تنقید بھی کی لیکن بعض تحریکیں جو اس وقت اپنی ابتدائی منزلوں میں تھیں، ۱۹۳۸ء کے بعد ان کا دھارا اور تیز ہوگیا۔ ضرورت اس اَمر کی ہے کہ ان تحریکات و نظریات کی روشنی میں اقبال کا مطالعہ از سر نو کیا جائے۔ مثلاً نظریۂ اضافیت کی آئن سٹائنی تعبیر بھی نئے رُخ اختیار کرچکی ہے، اور اب نظریۂ اضافیت (خصوصی) سامنے آرہا ہے۔ اس نئے فکر کے اثرات کا معائنہ کرنا چاہیے۔ خلا کی تسخیر نے عقائد کی نئی صورتیں ہمارے سامنے رکھ دی ہیں، ان کا بھی تجزیہ ہونا چاہیے۔ عمرانِ بشری کے پرانے فلسفے اب فرسودہ ہوتے جارہے ہیں اور سورکن (Sorokin) اور دوسرے حکما نے اجتماع کے تصورات میں انسانی جبلتِ رفاقت پر زور دینا شروع کردیا ہے۔ مغربی معاشروں میں اخلاقی نراجیت (انارکی) نے ہیپی اِزم اور ٹیڈی اِزم کو رواج دیا۔ اس کے اسباب پر اقبال کی حکمت سے رہنمائی حاصل کی جائے۔ اس کے برعکس مغرب میں ایک خوش گوار اخلاقی انقلاب کے آثار بھی نظر آتے ہیں۔ ڈارون کے نظریۂ پیکار کی حیاتیاتی تعبیر پر مبنی اخلاقیات کی بے اخلاقی کے برعکس یہ ثابت کیا جارہا ہے کہ انواع کے معاملے میں طاقت ور اور کمزور کی بحث نے انسانی معاشرے کو غلط راہوں پر چلایا ہے۔ نئی اخلاقیات یہ کہتی ہے کہ نظریۂ ڈارون کی یہ تعبیر غلط مشاہدے کا نتیجہ تھی، مثلاً ہم ہر روز مشاہدہ کرتے ہیں کہ فضاے آسمانی میں جہاں طاقت ور پرندے اُڑتے پھرتے ہیں،وہاں ہزاروں کمزور پرندے بھی آزادی سے اُڑ پھررہے ہیں جنھیں قدرت نے پورا تحفظ دے رکھا ہے۔ اسی طرح زمین پر اور سمندر کی تہ میں، تو گویا نظامِ قدرت کے بارے میں خدا کی حکمت و رحمت کی تعبیر کی از سرِ نو ضرورت ہے۔ وہ تعبیر عقیدۂ رب العالمین اور تصورِ رحمت اللعالمین کی روشنی میں کی جائے۔ سارتر اور رسل کی لادینی اور بے یقینی کے خلاف شدید ردِعمل پایا جاتا ہے اور فرائڈ، ینگ اور اڈلر کے خیالات کے بارے میں قبولِ عام کے باوجود شدید تشکیک پیدا ہوچلی ہے۔ اس ردِعمل کو انسانی وجدان کی فتح سمجھ کر ہدایتِ ربانی کی دعوت کیوں عام نہ کی جاے جس نے ایمان و یقین کو کل زندگی کی اساس قرار دیا تھا۔ انسانی معاشرے کی تنظیم میں حیاتیاتی نظریوں نے جو خلل پیدا کردیا تھا، اس سے نسل، زبان اور رنگ کے حوالے سے مکروہ نیشنلزم پیدا ہوا، اور اُس کے سامنے سوشلزم اور کمیونزم بھی بے بس ہوگیا۔ یہاں تک کہ روس اور چین دونوں اشتراکی ملک قوم پرست پہلے ہیں اور آفاقی بعد میں، تواس پر دُنیا حیرت زدہ ہے کہ عالمگیر انسانیت کے مدعی خود اپنی محدود نیشنلزم میں کس طرح سمٹ آئے ہیں، اور خوے پلنگی کیونکر انسانیت پر غالب آرہی ہے۔ پھر کیا اس قلبِ ماہیت اور ماہیتِ قلب کو سمجھنے اور سمجھانے کی ضرورت نہیں؟ مغرب کی بے لگام آزادی نے بزرگ اور خورد کا فرق مٹا دیا ہے۔ اب خورد بڑی دریدہ د ہنی سے بزرگوں کے سامنے (Generation Gap) کی باتیں کرتا ہے اور شماریات کے حوالے سے خاندانی زندگیاں جس طرح خلل پذیر ہورہی ہیں، ان کا حال سب پر روشن ہے مگر اب مغرب کے بہت سے مفکر، اسے شیطانی قوتوں کی ریشہ دوانی خیال کرنے لگے ہیں تو کیا ہمیں ان کی اس رجعت سے فائدہ نہیں اُٹھانا چاہیے؟ اقبال نے ہمارے سامنے ۱۹۳۸ء تک کے زمانے کی ایک شرح پیش کرکے اس ابدی دستور کے معارف روشن کیے تھے، جس کا نام اسلام ہے۔ کیا اب یہ صورت واضح نہیں کہ اقبال کے افکار کو ۱۹۳۸ء کے انکشافات کے حوالے سے پھر پڑھا جائے، اور اس طرح حاشیہ خیالی برشرحِ ملا عبدالحکیم کے مانند، ایک اور حاشیہ خیالی برشرحِ حکیم الامت، نوجوان ترنسل کے لیے، علمی انداز میں مرتب کیا جائے۔ا س طرح اقبال کی رُوح، زیباتر اور جدید تر پیکر میں متشکل ہوگی اور یہ ثابت ہوسکے گا کہ قرآنی و اسلامی حکمت کے مکتب کا یہ دانش یافتہ… اقبال… ان راہوں کی نشان دہی بھی کرگیا ہے جن تک مغرب کے حکما اب پہنچنے کی کوشش کررہے ہیں۔ بہرحال آگے کی منزل کے کسی مسافر کا انتظار ہے جو شاعرِ فردا کی نوا کو نئے حوالوں کی مدد سے سمجھ کر اوروں کو بھی سمجھا سکے۔ میرا ذاتی خیال ہے کہ گذشتہ چالیس پچاس سال اسلامی عقیدوں کی فتح کے سال تھے، لہٰذا حکمت کے اس دور کو فکر کی مدد سے پڑھنا نہایت مفید ہوگا۔ ----- اسلامی تعلیم، لاہور مئی جون ۱۹۷۳ء ئ……ئ……ء ۴ نوجوان اور مطالعۂ اقبال اقبال کی اہمیت پوری ملت، بلکہ پورے مشرق اور عالمِ انسانیت کے لیے تسلیم شدہ ہے لیکن پاکستان کے طالب علم اور استاد کے لیے فکرِ اقبال ایک دستور العمل کا درجہ رکھتا ہے۔ تعلیم پر اقبال کے خیالات سب کو معلوم ہیں۔ اور ان کا وہ کلام بھی سب کے علم میں ہے جو مکتب اور مدرسے سے متعلق ہے۔ اس کے علاوہ ’’خطاب بہ نژادِ نو‘‘ اور ’’خطاب بہ جوانانِ مسلم‘‘ جیسی نظمیں بھی دراصل کالجوں اور یونی ورسٹیوں میں تعلیم پانے والے طبقے کے لیے لکھی گئی تھیں۔ ان حالات میں نوجوانانِ مکتب کو ان واضح ہدایات کی ضرورت ہے جن پر عمل کرکے وہ اقبال کا صحیح مطالعہ کرسکتے ہیں۔ اقبال کی شخصیت اس دیار کے خاص و عام میں ابتدا ہی سے مقبول تھی۔ اب کلامِ اقبال کی مقبولیت بھی خواص سے پھیل کر عوام تک پہنچ رہی ہے۔ اور مطالعۂ اقبال کی چند اہم ضرورتوں کی طرف متوجہ کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں پہلی اور شاید سب سے اہم ضرورت تو یہ ہے کہ نوجوانوں کے لیے ایسی کتابیں لکھی جائیں جن میں اقبال کا حقیقی اور مکمل پیغام موجود ہو۔ علامہ کے کلام اور شخصیت سے دلچسپی کی روز افزوں وسعت جہاں خیر و برکت کی بات ہے،وہاں اس سے ایک نازک صورتِ حال بھی اُبھر رہی ہے، وہ یہ ہے کہ اقبال کی تعبیر سیاسی اور گروہی مقاصد کے لیے ہونے لگی ہے۔ ہر کوئی اقبال کو اپنے مخصوص نظریے کے مطابق پیش کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ چنانچہ اب نئی تعبیرات میں حقیقی اقبال کم ہوتا ہے، ہر کسی کے اپنے خیال کا اقبال زیادہ ہوتا ہے، اس لیے ضرورت اس اَمر کی ہے کہ بڑی دیانت داری کے ساتھ اقبال کے حقیقی نظریات کو سامنے لایا جاے اور اس میں تعصبات یا اپنی خواہشات کو داخل نہ کیا جائے۔ مکمل اقبال کو سمجھنے کی ضرورت بھی واضح ہے۔ اب یہ ہونے لگا ہے کہ اقبال کے وسیع الاطراف کلام میں سے کسی ایک دور، یا کسی ایک لمحے کی ترجمانی کرنے والے حصے لے لیے جاتے ہیں اور انھی کو باقی ادوار سے منقطع کرکے، مکمل تصور کے طور پر پیش کردیا جاتا ہے۔ یہ اقبال کے ساتھ ناانصافی ہے۔ ضرورت ہے کہ خالص علمی تحقیقی انداز میں اقبال کے پورے کلام کو سامنے رکھ کر (بلکہ ان کے مکاتیب اور اُن کی انگریزی نثر کو بھی مدنظر رکھ کر) فکرِ اقبال کا مکمل خاکہ مرتب کیا جائے۔ اب جب کہ اقبال کا کلام عوام تک پہنچ رہا ہے، اس کا صحیح تصور اور تاثر پیدا کرنے کے لیے یہ بھی ضروری معلوم ہوتا ہے کہ کلام کے ایسے انتخابات شائع کیے جائیں جو نمائندہ ہوں۔ ان کے مشکل اشعار کی شرح ذیلی حواشی میں کی جاے تاکہ وہ لوگ بھی سمجھ لیں جن کی استعداد معمولی ہے۔ ان انتخابات میں بھی تعصبات سے کام نہ لیا جاے بلکہ صحیح صحیح نمائندگی کی صورت پیدا کی جائے۔ اور اگر ممکن ہو تو درجہ بندی سے کام لیا جاے تاکہ مختلف ذہنی سطحوں کے لیے مفید ثابت ہوسکے۔ اس سے بھی زیادہ ضروری کام، نصابات میں اقبال کو درجہ بندی کے اُصول پر شامل کرنا ہے، اس وقت یہ صورت ہے کہ نصابات میں کلامِ اقبال کے سلسلے میں سطحِ ذہنی اور مدارجِ عمر کا خیال کچھ زیادہ نہیں رکھا جاتا۔ مشکل کلام ابتدائی درجوں میں بھی آجاتا ہے اور ثانوی اور اعلیٰ درجوں میں وہ نظمیں بھی آجاتی ہیں جو بچوں کے لیے لکھی گئی تھیں۔ اس خامی کو دورکرنے کے لیے، صحیح اُصول کے مطابق نصابی ضرورتوں کے لیے کلامِ اقبال کی درجہ بندی کی جائے۔ مطالعہ اقبال کی کئی سطحیں ہیں۔ ایک سطح اعلیٰ بھی ہے۔ اس میں آزاد غور و فکر اور تحقیق و تدقیق کی اہمیت واضح ہے۔ یہ معلوم ہے کہ علامہ اقبال کے افکار وسیع الاطراف ہیں۔ ان کا ایک حصہ حکمتِ اسلامی سے متعلق ہے اور دوسرا حکمتِ مغربی سے، اُنھوں نے کہیں تنقید کی ہے، کہیں تطبیق کی کوشش کی ہے، کہیں اپنا مستقل نقطۂ نظر پیش کیا ہے۔اُنھوں نے اپنی تصریحات میں کہیں اشارات سے کام لیا ہے، کہیں حوالہ دے کر اصل مآخذ کا نام نہیں لیا۔ کہیں کسی مفکر کا نام لیا ہے مگر اس کی کتاب کا نام نہیں لیا۔ اس طرح بہت سے موقعوں پر ابہام پیدا ہوگیا ہے، اس کے علاوہ علامہ کے بعد بھی دُنیا میں فکر کی رفتار تیز رہی ہے۔ چنانچہ ایسے افکار بھی سامنے آگئے ہیں جو علامہ کے زمانے میں، اپنی ابتدائی اور نامکمل صورت میں تھے۔ اس صورتِ حال میں فکرِ اقبال کے توسیعی و توضیحی مطالعے کی بے حد ضرورت ہے، اس میں کئی موقعوں پر اُلجھائو بھی پیدا ہوسکتے ہیں جن کے باعث فکرِ اقبال کے بارے میں غلط فہمی پیدا ہوسکتی ہے جسے دور کرنا لازمی ہوجاتا ہے۔ اس ضرورت کے تحت فکرِ اقبال کا آزادانہ اور توسیعی مطالعہ خود اقبال کی مفکرانہ حیثیت کے نقطہ نظر سے بھی مفید ہوگا۔ ایک اہم معا ملہ اس فکری روایت کا ہے، جس کے اقبال وارث ہیں۔ آج کل ایک رجحان یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ بعض لکھنے والے اقبال کو اسلاف کی روایتِ علمی سے منقطع کرکے، انھیں صرف اپنے دور سے متعلق قرار دیتے ہیں اور دورِ حاضر کے نظریات کے پیمانے سے ناپتے اور اسی نقطۂ نظر سے ان کے افکار کی تعبیر کرتے ہیں۔ یہ زیادتی ہے، یہ نقطۂ نظر درست نہیں۔ اقبال دراصل اس عظیم علمی روایت کے آخری نمائندے ہیں جو اسلامی حکمت کے نام سے، مختلف اطراف میں پھیلی اور مختلف میدانوں میں سرگرمِ عمل ہوکر، سارے عالمِ فکر کو متاثر کرتی رہی۔ اقبال اس روایت کے وارث بھی ہیں اور نقاد بھی، بنابریں اقبال کا مطالعہ اس زاویۂ نظر سے بھی ہونا چاہیے تاکہ اس روایت میں بھی ان کا مقام متعین ہوسکے۔اگر خاص نوجوانوں کے نقطۂ نظر سے کلامِ اقبال کے انتخابات مرتب ہوں۔ اور انھی کے افادہ و ہدایت کے لیے متوسط درجے کی کتابیں لکھی جائیں تو اس[سے] تعلیم و تربیت اور تعمیرِ ذہنِ جدید میں بڑی مدد ملے گی۔ ----- مرے کالج میگزین و مجلہ افکار مرے کالج سیالکوٹ، ۱۹۷۵ء ئ……ئ……ء ۵ اقبال اور رومی اقبال نے رومی سے کیاکچھ لیا؟ اس کا جواب دینے کے لیے ہمیں صرف اس قدر سمجھنا ہوگا کہ رومی اور اقبال کے درمیان فکری طور پر کن کن باتوں میں مماثلت موجود ہے۔اس کے علاوہ یہ بھی ماننا ہوگا کہ اس فکری مماثلت کے ساتھ ان دونوں بزرگوں کی نفسی ساخت اور ماحول میں کس حد تک یک رنگی پائی جاتی ہے؟ میرے خیال میں ان دو سوالات کا جواب میرے آج کے موضوع کا ضروری پہلو ہے۔ اقبال نے رومی سے جو خیالات لیے، ان کے تذکرے سے یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ وہ خاص افکار، رومی کے علاوہ کہیں اور موجود نہیں یا اقبال نے رومی کے سوا کسی اور ماخذسے فیض حاصل ہی نہیں کیا۔ ایسا سمجھنا یقینا غلط ہوگا کیونکہ اقبال و رومی کے بیش تر مشترکہ خیا لات علیحدہ علیحدہ صورت میں بعض دوسرے صوفیوں اور فلسفیوں کے ہاں بھی ملتے ہیں، کچھ فرق ہے تو صرف اس قدر کہ اقبال اور رومی اپنے مجموعی نظامِ فکر کے اعتبار سے ایک دوسرے کے بے حد قریب ہیں اور استفادہ اور کسبِ فیض کے لحاظ سے مجموعی طور پر اقبال نے رومی سے اس درجہ اثر قبول کیا ہے کہ ہم اقبال اور رومی کو ایک دوسرے سے جدا نہیں کر سکتے۔ اقبال کے ماحول کے متعلق صرف اس قدر بتانا کافی ہے کہ جب اقبال نے فکر کی دُنیا میں آنکھ کھولی، اور کائنات اور اس کے مسائل پر نظر ڈالی تو اس وقت مغربی حکمت اور سائنس کا مادہ پر ستانہ نظریۂ علم و عمل کے ہر ہر پہلو پر غالب آچکا تھا۔ طبعی علوم کے انکشافات اور سائنس کی ایجادات کے زیرِ اثر مذہب،اخلاق اور رُوحانیت کی بنیادیں کھوکھلی ہو چکی تھیں۔ کانٹ، سپنسر اور مل کے ـ’’ایں جہانی‘‘ تصورات اور ہیگل کی جدلی منطق نے ما بعدالموت اور اس کے متعلقہ خیالات کے بارے میں شکوک پیدا کرتے ہوئے الحاد، دہریت اور حیوانیت کے لیے ذہن انسانی کے دروازے کھول دیے تھے۔ اس پر ڈارون کے نظریۂ ارتقا، فرائڈ کے نظریۂ جنس اور مارکس کے نظریۂ اِقتصاد نے مذہب اور قدیم تمدّن کا رہا سہاوقار بھی ختم کر دیا، اور چند ے یہ نظر آنے لگا کہ انسانی زندگی کا سارا نظام درہم برہم ہونے کو ہے،اور اس دنیائے کون و فساد میں خود غرضی، جدل اور ہوا و ہوس نے خلوص، ایمان داری اور صلح و آشتی کی جگہ لے لی ہے۔ اس کے علاوہ کل کی ایجاد نے انسان کو گوشت، پوست اور ہڈیوں کا بے روح مجموعہ قرار دے کر بدبخت انسان کو روٹی اور غذا تک سے محروم کرنے کی ٹھان لی ہے۔ زندگی مشکل تو تھی، مرنا بھی مشکل ہو گیا۔ دُنیا جیتے جی جہنم کی آگ میں جلنے لگی۔ ضعفِ ایمان اور بے اطمینانی کے اس گھٹا ٹوپ اندھیرے میں اقبال کی حیرت زدہ آنکھوں نے مغربی علُوم پر نظر ڈالی، اور چاہا کہ اطمینان اور سکون کی کوئی ایسی شعاع دکھائی دے جس سے دل کے اندھیرے اور ظلمت کو دور کیا جا سکے مگر فلسفہ و دانش کے ان مغربی ضیا خانوں سے اسے وہ نُور کی کِرن نہ ملی جس کی اُسے تلاش تھی۔ ان حالات میں اقبال نے محسوس کیا کہ مغربی تہذیب سوز یقین سے محروم ہے۔ اہلِ مغرب کی حیات اجتماعی تاجرانہ، عیارا نہ اور بے سوز ہے۔ عالمِ انسانیت نظامِ مغربی کے استیلا اور اس کے ایں جہانی تصور سے جگر چاک ہے۔ اس کے امن کی قبا پارہ پارہ اور اس کے سکون کا خرقہ تار تار ہے۔ اور اسے یقین ہو گیا کہ یورپ کی تہذیب ہی انسانی تہذیب کے صالح اور خوش گوار ارتقا کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے جس کو ایمان اور یقین کی مدد سے راستے سے ہٹانا بنی نوع انسان کا سب سے بڑا فرض ہے۔ اقبال نے اس نصب العین کی طرف بار بار اپنی شاعری اور نثری تصانیف میں اِشارہ کیا ہے۔ اُنھوں نے مقالاتِ مدراس میں بڑی وضاحت کے ساتھ لکھا ہے: کہ اس وقت دُنیا کو سب سے زیادہ جس بات کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ انسانی تہذیب کو پھر سے رُوحانیت سے رُوشناس کرایا جائے۔ اور اس بات کا یقین پیدا کیا جائے کہ ذاتِ خداوندی موجود ہے۔ اور ان ستاروں کے پیچھے کئی ’عوالم‘ اور بھی ہیں جن کا ادراک عقل کی ظاہر بیں آنکھوں سے نہیں بلکہ کشف اور تجلّی کی روشنی سے ہو سکتا ہے۔ اس دشوار اور عظیم الشان کام کی تکمیل کے لیے اقبال نے مولانا جلال الدین رومی کو اپنا رہنما بنایا۔ وہ اقبال کے مُرشد ہی نہیں بلکہ محبوب بھی تھے۔ اقبال کو رومی سے محض نطشے،برگساں وکانٹ کی طرح کی فکری وابستگی ہی نہ تھی بلکہ دونوں کے درمیان روحانی اور عاشقانہ رشتہ نظر آتا ہے۔ اسرارِ خودی سے لے کر ارمغانِ حجاز تک رومی ہی اقبال کے خضرِراہ بنتے ہیں۔ وہی جاوید نامہ کے زندہ رودکو آسمانوں کی طلسماتی فضا میں لے جاتے ہیں اور ملاء ِاعلیٰ کے مکینوں سے ان کا تعارف کراتے ہیں اور جب یہ مرید ہندی مقصدِ زندگی کی تکمیل کر چکنے کے بعد اقوامِ مشرق کو آخری پیغام دیتا ہے تو اس وقت بھی یہی رومی ہاتف بن کر مژدۂ اِنقلاب سناتے ہیں۔ رومی اقبال کی نظر میں کلیم بھی ہیں اور حکیم بھی، مجدد بھی ہیں اور مصلح بھی، شریعت کے علم بردار بھی ہیں اور طریقت کے اسرار کشا بھی۔ غرض سب کچھ جن کی ہدایت سے عصرِحاضر اپنی گم گشتہ روشنی اور تابانی کو دوبارہ حاصل کر سکتا ہے، اقبال کے اپنے الفاظ میں: علاج آتش رومی کے سوز میں ہے ترا تری خرد پہ ہے غالب فرنگیوں کا فسوں اسی کے فیض سے میری نگاہ ہے روشن اسی کے فیض سے میری سبو میں ہے جیحوں گسستہ تار ہے تری خودی کا ساز اب تک کہ تو ہے نغمۂ رومی سے بے نیاز اب تک اقبال نے اپنے مرشد رومی سے بڑے بڑے افکار کے بارے میں جو استفادہ کیا، اس کے ذکر سے پہلے یہ سن لینا چاہیے کہ اقبال کے لیے رومی کی داستان حیات بھی بے حد جنوں انگیز اور ولولہ خیز ثابت ہوئی۔ علی الخصوص اس کا وہ باب جس کا تعلق شمس تبریز کے عشق سے ہے۔ مولانا روم کی زندگی کا نمایاں امتیازی وصف ان کا جذبۂ عشق، درد مندی اور سوزو گداز تھا۔ مولانا روم کو شمس تبریز سے مجنونانہ محبت تھی، اور اس حد تک تھی کہ ایک پل ان کے بغیر نہ رَہ سکتے تھے۔ کہتے ہیں کہ جب ایک دفعہ شمس کسی بات پر ناراض ہو کر قونیہ سے تبریز چلے گئے تو مولانا پر کھانا پینا حرام ہو گیا۔ آخر خود تبریز گئے اور منا کر لائے۔ شمس تبریز نے مولانا کی زندگی میں اِنقلاب پیدا کیا۔ وہ پہلے ایک خشک اُصولی اور منطقی تھے لیکن شمس تبریز کی ملاقات نے انھیں روحانی اور باطنی کمالات سے آگاہ کیا۔ بقول علامہ شبلی: ’’شمس کی ملاقات سے پہلے مولانا روم کے شاعرانہ جذبات اسی طرح ان کی طبیعت میں پنہاں تھے، جس طرح پتھر میں آگ ہوتی ہے۔ شمس کی جدائی گویا چقماق تھی اور شرارے ان کی پر جوش غزلیں‘‘۔ رومی نے بہت سی نظمیں شمس تبریز کے فراق میں لکھیں جن میں اِنتہائی درد اور بے قراری پائی جاتی ہے۔ مثلاً وہ نظم جس کے تین اشعار یہ ہیں: ساربانا! بار بکشا ز اشتراں شورِ تبریز است و کوے دلبراں فرِّ فردوس است ایں پالیز را شعشعۂ عرش است ایں تبریز را ہر زمانے فوج روح انگیز جاں از فرازِ عرش بر تبریزیاں جب شمس تبریز کا انتقال ہوا تو مولانا پر قیامت گزر گئی۔ مریدان با اخلاص اپنے مرشد کے غم میں ہلاک اور خود مولانا صحرائے جنوں میں آوارہ وپریشاں! دراصل محبت بھرے دل کو کسی اور محبوب کی تلاش تھی، اس لیے کہ بے کیمیائے مستی تبدیل غم محال است۔ آخر ایک اور بزرگ سے ملاقات ہوئی۔ جن کا نام صلاح الدین زرکوب تھا۔ ان کی محبت میں مولانا کو تسلی ملی۔ چنانچہ دیوان میں ان کی شان میں بھی غزلیں موجود ہیں جن میں سے ایک غزل کے تین اشعار یہ ہیں: مطربا اِسرار ما را باز گو قصہ ہائے جاں فزا را باز گو ما دہاں بربستہ ایم از ذکرِ اُو تو حدیثِ دل کشا را باز گو چوں صلاح الدیں صلاحِ جانِ ماست آں صلاحِ جان ہا را باز گو نو سال کے بعد صلاح الدین زرکوب کا بھی انتقال ہو گیا اور رومی کی جانِ دردمند کو پھر وہی قضیہ پیش آیا۔ یعنی وہی جنون و بے قراری! آخر ان کے دوست اور مرید حسام الدین چلپی ان کے لیے باعث تسلّی بنے ۔ یہی وہ بزرگ ہیں جن کا ذکر مثنوی میں بار بار آتا ہے۔ غرض رومی کی زندگی میں دردمندی اور عشق کی جو فراوانی ہے اس سے کون متاثر نہ ہوگا؟ رومی کی اس مجذوبیت سے اقبال بھی بے حد متاثر ہوئے۔ دوسری چیز جس نے اقبال کو اپنے مرشد کا گرویدہ بنایا وہ عقل پرستی کے خلاف رومی کا جہاد اور جذبۂ عشق و ایمان کی طرف ان کی پر زور دعوت ہے۔ اسلام میں عقل پرستی کا مرض فلسفۂ یونان کے ذریعے پیدا ہوا۔ سقراط اور افلاطون کے ’’ایں جہانی‘‘ خیالات نے حکماے اسلام کو اس قدر متاثر کیا کہ ایک عرصے تک خود قرآن پر فلسفۂ یونان کی روشنی میں نظر ڈالی جاتی رہی۔ اِ س میں شک نہیں کہ فلسفہ کے عام ہو جانے سے فکر اور دماغ کے آزاد انہ عمل کو ترقی ہوئی لیکن اس کا بڑا نقصان یہ ہوا کہ قرآن نے مشاہدے، تجربے اور زندگی میں ہر ساعت تغیّر اور انقلاب کی اہمیّت پر جتنا زور دیا تھا، وہ کمزور ہو گیا۔ اسلام نے روح اور ایما ن کو ساری زندگی کی بنیا د قرار دیا تھا اور اس ایک اُصول کی حفاظت کے ساتھ ساتھ تسخیر کائنات کا جو سبق سکھایا تھا،وہ سب کچھ سقراط کے علمی اور مجردحقائق کے غوروفکر میں گم ہو کر رَہ گیا۔ ان عقل پرستوں کی تائید معتزلہ نے کی جس سے خود مذہب اور خدا کی حقیقت معرض بحث میں آگئی ۔ عقل پرستی کی اس یورش کا مقابلہ اشعریوں نے کیا۔ لیکن اُنھوں نے عقلِ انسانی کے کمالات سے ہی انکار کرنا شروع کر دیا۔ رومی سے پہلے امام غزالی نے عقل پرستی کا کامیاب مقابلہ کیا۔ اور تصوف کو دین کے نظام میں داخل کرتے ہوئے مذہب کی وجدانی بنیاد کو مستحکم کیا۔ لیکن اُنھیں صوفیوں کی زندگی کے بعض پہلوئوں سے کچھ رغبت نہ تھی۔ رومی نے اس عقل پرستی کے خلاف زبردست احتجاج کیا۔ اور اگرچہ غزالی اور دوسرے متکلمین عقل پرستوں کو کئی میدانوں میں شکست دے چکے تھے۔ لیکن چونکہ علم کلام کی بنیاد بھی بیش تر استدلال اور عقلی قیاس پر تھی، اس لیے متکلمین سے عقل پرستی کا کامیاب دفعیہ نہ ہو سکا۔ رومی عقلِ جزوی کے سرے سے مخالف ہیں، وہ عقل کی متعدد اقسام میں سے صرف عقلِ کل اورعقلِ ایمانی کے قائل ہیں، باقی سارے نظام کے منکر اور اس سے بے زار!۔ ان کے نزدیک عقلِ جزوی کی رسائی اصل حقیقت تک نہیں ہو سکتی کیونکہ عقلِ جزوی سراپاوہم ،ظن اور شک میں ڈوبا ہوا ہے۔ عقلِ جزوی انتشار،بدگمانی، خود غرضی اور نفسانیت کا مورث ہے۔ مگرجذبۂ ایمان، جمعیت، اطمینان اور محبت کا خالق۔ رومی استدلالی اور عقلی کیفیتوں پر وجدان اور جذبے کو ترجیح دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک عرفان اور ایمان کا مرکز دل ہے نہ کہ دماغ۔ ان کے خیال میں زیر کی ابلیس کا خاصہ ہے اور عشق آدم کا زیور۔ ان کے نزدیک اہلِ تن کے علوم بے حقیقت مگر اہلِ دل کا علم یار مونس ہے۔ مجذوبیت کے بعد رومی کے فکر کا یہی پہلو اقبال کے لیے سب سے زیادہ جاذب توجہ ثابت ہوا۔ اور سب سے زیادہ انھی افکار کے بارے میں اقبال نے رومی کی خوشہ چینی کی ہے۔ تیسری چیز جسے ہم فکر رومی میں بہت نمایاں پاتے ہیں وہ رومی کا نظریۂ فقر ہے۔ اسلام میں تصوف کے عناصر ابتدا ہی سے موجود چلے آتے ہیں۔ اور گو کہ ابتدائی زمانہ کے صوفی بہت ہی برگزیدہ لوگ تھے۔ اور ان کی تعلیم کسی طرح مذہب اور عملی زندگی کے متخالف نہ تھی مگر رفتہ رفتہ نوافلاطونی خیالات اور بعض دوسرے نظام ہائے فکر کی آمیزش سے، تصوف میں دُنیا سے بیزاری کا عنصر، بطور ایک سیاسی عقیدے کے شامل ہو گیا۔ جس سے توکّل، تقدیر، فنا اور ترکِ دُنیا کی طرح کے مسائل کی غلط تعبیر پیدا ہوئی۔ یہ فلسفۂ زندگی جس قدر جذبۂ حیات کا قاتل ہے، اسی قدر اسلام کی عملی تعلیم کے منافی بھی ہے۔مولانا جلال الدین رومی نے خود صوفی ہونے کے باوجود اس طرزِ زندگی بلکہ اس نظریۂ زندگی کے خلاف پُر زور آواز بلند کی۔ اور توکّل، جبر، کسب اور دین و دُنیا کے باہمی تعلق پر پیہم اور مسلسل، نہایت مؤثر اور دل نشین پیرائے میں اپنے خیالات کا اِظہار کیا۔ اگرچہ مثنوی رومی کا مطالعہ صدیوں سے جاری تھا اور اب تک ہے مگر رومی کے خیالات کی روح رومی کی وفات کے بعد غائب ہو گئی۔یہ شرف اور خوش بختی اقبال کے نصیب میں تھی کہ اس کی بدولت رومی کے فکر کو دوبارہ زندگی نصیب ہوئی۔ اور پھر سے اس راہبانہ تصور کے خلاف ردّعمل ہوا جس کا سب سے بڑا عقیدہ یہ ہے کہ زندگی ترکِ زندگی کا نام ہے۔ اقبال نے رومی فقر غیور کو اپنی جدیداجتماعی زندگی کی ضرورتوں کے لیے بہترین کیمیاے سعادت پایا۔ چنانچہ سلطانی اور خدمت گری، سروری اور چاکری دونوں حالتوں میں ان کے نزدیک یہ فقر تو ازن اور اعتدال کا ترازوئے مستقیم بن سکتا ہے۔ اِن عناصر سہ گانہ کے بعد میں مختصر اً رومی اور اقبال کے Idealism بنی نوع آدم کے ممکن عروج اور ’مردِ کامل‘ کے متعلق دونوں کے مشترکہ خیالات کی طرف اشارہ کرتا ہوں۔ اقبال آدم خاکی کے ارتقائی عروج کے قائل ہیں۔ رومی بھی انسان کو ارتقائی مخلوق قرار دیتے ہیں۔ اقبال اس بات پر عقیدہ رکھتے ہیں کہ آخر کار انسان ماہِ کامل بن کر رہے گا۔ اور خاکیوں کا فروغ نوریوں سے زیادہ ہو جائے گا۔ نہیں نہیں اس سے بھی آگے گزر کر خدائی فضا کے حریمِ قدس میں داخل ہو جائے گا بلکہ اپنی اصل سے جا ملے گا۔رومی کے نزدیک روح کو بقاے دائمی حاصل ہے۔ پیکرِخاکی کی شکست انسانی تکمیل کے راستے میں رکاوٹ نہیں بن سکتی یہی اقبال کے خیالات ہیں۔ رومی موت کو زندگی کا دروازہ خیال کرتے ہیں، اقبال بھی موت کو نئی زندگی کی صبح قرار دیتے ہیں۔ رومی انسان کے شخصی بقا کو ممکن خیال کرتے ہیں، اقبال بھی یہی استدلال کرتے ہیں۔ غرض یہ اور اس قسم کے بیسیوں مسائل ہیں جو اقبال اور رومی میں مشترک ہیں۔ جن کی پختگی کے لیے ممکن ہے کہ اقبال کے سامنے بعض دوسرے مآخذ بھی ہوں لیکن مجموعی نظام فکر کے اعتبار سے اقبال نے رومی ہی کے سر چشمۂ فیض سے استفادہ کیا ہے۔ اقبال اور رومی کی مماثلتوں کے اس تذکرے کے بعد کچھ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ان دونوں کے بعض اختلافی پہلوئوں کا تذکرہ بھی کیا جائے۔ میرے خیال میں اقبال اور رومی کے درمیان سب سے بڑا فرق یہ ہے کہ اقبال کا نقطۂ نظر اپنے دعوے اور تعلیم کے برعکس ، محض علمی اور نظری ہے یعنی رومی کے نزدیک جو بات حق الیقین کا درجہ رکھتی ہے۔ اقبال کے نزدیک وہ زیادہ سے زیادہ علم الیقین کی سطح تک آسکتی ہے۔ رومی اور اقبال کی عملی زندگیوں میں جو فرق نظر آتا ہے، وہی فرق ان دونوں کے نقطۂ نظر میں بھی ہے۔ اقبال کو جو شکایت رازی اور غزالی سے ہے وہی شکایت ہم کمتر درجے پر اقبال سے کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ اقبال سارے دعوے کے باوجود استیلا، جوش، قوت اور تخلیق کا شاعر ہے۔ اقبال کے نزدیک تزکیۂ نفس اور تصفیۂ قلب بڑی چیز ہے،مگر اس قدر نہیں جس قدر جنگ و پیکار اور خودی کی نمود۔ یہی وجہ ہے کہ ہم اس کے ابلیس کو بعض اوقات یزداں سے کاندھا ملاتے اور چشمک زنی کرتے دیکھتے ہیں۔ اقبال کا جذباتی اور فکری پہلو مضبوط ہے مگر رومی جذباتی اور جمالیاتی کیفیتوں کے مالک ِکل ہیں۔ اقبال کی خودی کا تصور انفرادی اور اجتماعی ہے،مگر رومی کے نزدیک خودی کا مفہوم تصوف کے عام معانی کے قریب قریب ہے۔ میں نے اس موقع پر رومی اور اقبال کے جو اختلافات نمایاں کیے ہیں، ان سے مقصود صرف اسی قدر ہے کہ اقبال فکرِ رومی کے سمندر کا شناور ہونے کے باوجود اپنے ماحول کے مرعوب کن تصورات سے یکسر بے نیا ز نہیں ہو سکے۔ کیونکہ زندگی اپنے حوالی اور گرد و پیش سے کلیتہً منقطع نہیں ہو سکتی۔ یہ حضرت اقبال کے رُوحانی کمالات کا کرشمہ تھا کہ اُنھوں نے شک اور ضعف ِاِیمان کی اس خوفناک فضا سے نکل کر آج سے سات سو سال پہلے کی ہوائوں میں سانس لینے کی کوشش کی اور انسانیت کی تکمیل کے لیے ماضی کو حال کے ساتھ پیوند دے کر مستقبل کی دیواریں کھڑی کردیں۔ میں خیال کرتا ہوں کہ رومی کی ایمانی حکمت کے سمندر میں ابھی بے شمار موتی موجود ہیں جن کے حصول کے لیے غواصی کا طریقہ رومی کے مرید مگر ہمارے مرشد اقبال نے ہمیں سکھا دیا ہے۔ مآخذ ۱- اقبال کے منظوم کلام کے علاوہ Six Lectures ۲- Dr. Abdulhakim, Metaphysics of Roomi ۳- مضمون :اقبال ،رومی-اور نطشے ۴- عبدالمالک آروی:اقبال کی شاعری ۵- میر ولی اللہ کا منتخب مثنوی[کذا] ۶- قاضی تلمذ حسین: مراۃ المثنوی ۷- شبلی: سوانح مولانا روم ۸- حکمت ِاقبال مرتبہ: غلام دستگیر رشید۔ نفیس اکیڈیمی، حیدر آباد دکن، ۱۹۴۵ء ئ……ئ……ء ۶ اقبال کی اُردو شاعری بحث کو اُردو شاعری تک محدود کردینے کے جواز کا سوال اُٹھایا جاسکتا ہے،لیکن یہ تو ماننا ہی پڑے گا کہ میڈیم یا وسیلۂ اظہار یا زبان کے بدل جانے سے اظہار و ابلاغ کی کیفیت و قیمت میں کچھ فرق ضرور پڑ جاتا ہے۔ اب اُردو شاعری تک براہِ راست پہنچنے سے پہلے سرسری طور سے فارسی اور اُردو شاعری کا باہم موازنہ کرلینا مفید ہوگا۔ اس سلسلے میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ فارسی شاعری میں خصوصاً ان کی بڑی مثنویوں میں علامہ کا نظامِ افکار سالم طور پر سامنے آتا ہے اور اُردو شاعری میں اجزا کی صورت میں نمودار ہوا۔ فارسی شاعری حقائقِ فکری کی ترجمان ہے اور اُردو شاعری جذباتی ارتسامات کی۔ دونوں شاعریوں کا زمانی واقعاتی پس منظر بھی جدا جدا ہے، اس لیے ان میں رنگِ احساس بھی جدا ہے اور اندازِ پیش کش بھی۔ فارسی شاعری کے اُفق وسیع ہیں اور اُردو شاعری میں تخاطب مقامی ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ فارسی شاعری میں مطالب کی رفعت زیادہ ہے اور اُردو شاعری میں دلآویزی و مقبولیت کے اسباب زیادہ۔اور سچ یہ ہے کہ اگر علامہ اُردو کے بجائے صرف فارسی میں لکھتے تو بڑے شاعر تو ہوتے مگر بڑے قومی شاعر نہ ہوتے۔ ان کی عظمت پہلے اپنے گھر میں اُردو شاعری کے ذریعے تسلیم ہوئی،اس کے بعد فارسی نے انھیں پورے مشرق کا حکیم الامت بنایا۔ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ علامہ کی اُردو شاعری اُردوکی شعری روایت کی نسبت فارسی کی شعری روایت کے زیادہ قریب ہے۔ قدرے غالب کا اثر ہے اور معمولی حد تک داغ، اکبر، شبلی اور حالی کی جھلک بھی مگر علامہ کا اُردو کلام افعال و تراکیب کو چھوڑ کر فارسی شاعری ہی کی ایک شکل ہے۔ علامہ کی اُردو شاعری کا ارتقا یہ معلوم ہے کہ علامہ کی اُردو شاعری، ارتقا کے کئی مراحل سے گذری۔ چنانچہ ہر مرحلہ ایک خاص موڈ کا نمائندہ ہے۔ ان ارتقائی ادوار کی فہرست یوں بن سکتی ہے: مخزن کا دور جسے رومانیت کا دور کہیے، پھر وطنیت کا دور، اس کے بعد ملّی احساس کے آغاز کا دور، اس کے بعد اتحاد ِاسلام کے جذباتی دور میں ملّی اجتماعی نظامِ فکر کی تدوین اور فکریت کا زمانہ اور آخر میں تنقیدِ معاشرت کا عہد ہے۔ میں اس بحث کو طول نہیں دے سکتا۔ یہ سب مراحلِ ارتقا کسی نہ کسی واقعاتی پس منظر کے تابع ہیں۔ چنانچہ یہ ممکن ہے کہ ہر دور کی اکثر نظموں سے وابستہ واقعات کی روداد مرتب ہوجائے۔ اگرچہ محرومی یہ ہے کہ کسی نے واقعاتی پس منظر کو مرتب کرنے کی کوشش نہیں کی۔ گو اس کی تاریخی اور نفسیاتی اہمیت واضح ہے۔ شکوہ، جوابِ شکوہ، خضرِ راہ، طلوعِ اسلام اور اس طرح کی اور نظموں اور قطعوں کا ایک پس منظر ہے ،اور اس لحاظ سے علامہ کی اُردو شاعری بیسویں صدی کے ربع اوّل کی ایک شاعرانہ اور جذباتی تاریخ ہے۔’مسجد توبنا دی شب بھر میں‘ سے لے کر ’خطاب بہ مبلغِ اسلام در فرنگستان‘ تک اور ’مسجدِ قرطبہ‘ سے لے کر ’ذوق و شوق‘ تک، اکثر نظموں کو اعلیٰ شاعری تو کہا ہی جاے گا مگر انھیں ملت کی واقعاتی (اگرچہ غیر مرتب) روداد بھی کہا جاسکتا ہے۔ شعر اقبال میں بلاغت کے زاویے شعرِ اقبال میں بلاغت کے جوچراغ روشن ہیں، ان سے آج اس مقالے میں ہم ضو حاصل نہ کرسکیں گے۔ کیونکہ اس معاملے میں ان کی فارسی شاعری بلکہ انگریزی کے خطبات و مکاتیب کو ساتھ رکھے بغیر یہ فرض انجام نہیں دیا جاسکتا۔ اس لیے اس وقت میں علامہ کی شاعرانہ عظمت اور شاعرانہ بلاغت کی (جس حد تک کہ ان کی اُردو شاعری سے ثابت ہوتا ہے) وضاحت کی کوشش کروں گا۔ یہ معلوم ہے کہ بلاغت پیمائی کے پیمانے یا معیار بہت سے ہیں۔ ان سب میں مرکزی نکتے صرف دو ہیں جن سے بلاغت کا قطعی ثبوت مہیا ہوجاتا ہے یعنی: اوّل: عام تاثیر دوم: ارفعیت ارفعیت بلاغت کے اس مقامِ اعلیٰ کا نام ہے جس میں پہنچ کر قاری یا سامع پر ایک ایسی کیفیت طاری ہوجاتی ہے جس سے تحیر، ہیبت، فکر اور جلال وجمال کی سب کیفیات بیک وقت ذہن پر نقش بٹھاتی ہیں۔ یہ کیفیات قاری کو ایک ایسے لمحے سے ہم آغوش کردیتی ہیں جو نادر بھی ہوتا ہے اور دیرپا بھی۔ اس میں گہرائی، گیرائی اور دیرپائی گھل مل کر ایک عجیب مگر ارفع فضا پیدا کر دیتی ہے جو غیر معمولی ہوتی ہے۔ یہی وہ شے ہے جسے لون جائی نس نے Sublimity کہا ہے۔ اقبال کی اُردو شاعری میں (فارسی شاعری سے بھی زیادہ) اس ارفع مقام کے نمونے ملتے ہیں۔ یہ نمونے مفرد اشعار کی صورت میں بھی ہیں اور مختصر اور طویل نظموں میں بھی۔ میں یہاں دو مفرد اشعار کے ذریعے اس مقامِ ارفعیت کی سرسری نشان دہی کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ اقبال کا ایک شعر ہے: کون سی وادی میں ہے کون سی منزل میں ہے عشق بلاخیز کا قافلۂ سخت جاں اگر آپ اس شعر کو دو تین مرتبہ پڑھیں تو آپ عجیب سے تخیلی تجربے سے گزریں گے۔ سب سے پہلے مصرع اوّل کا سوالیہ انداز آپ کے ذہن میں جستجو کی کیفیت پیدا کرے گا۔ چونکہ سوال مبہم اور بے جواب ہے، آپ سوچتے جائیں گے کہ یہ کون سی وادی ہے؟یہ کون سی منزل ہے جس کی طرف ہمارا شاعر اشارہ کررہا ہے؟ پھر یکایک آپ کے صفحۂ ذہن پر سنسان وادیوں کے نقوش اُبھریں گے۔ جن میں قافلے چلا کرتے ہیں۔ پھر ان قافلوں کے تازہ خیال سے وہ سب نقشے اُبھرنے لگیں گے جو قافلوں سے وابستہ ہیں۔ بانگِ جرس، راستوں کے خطرات اور آبلہ پائی اور فضا کی خاموش ہولناکی وغیرہ۔ پھر دوسرے مصرعے میں یہ تاثر اور گہرا ہوجاتا ہے، ’’قافلۂ سخت جاں ‘‘اور’’عشقِ بلاخیز ‘‘کے الفاظ سے خیالات کا ایک طویل سلسلہ سامنے آجاتا ہے۔ ’’سخت جاں‘‘کی ترکیب نے سمجھایا ہے کہ یہ قافلہ اسی وادی سے نہیں گزر رہا بلکہ بے شمار وادیوں کی صعوبتیں برداشت کرکے یہاں پہنچا ہے اور مصرع اوّل سے یہ تاثر تو پیدا ہوہی چلا ہے کہ ابھی منزل کا کوئی پتا نہیں۔ نہ جانے اسے کتنی وادیوں سے ابھی گزرنا ہے کیونکہ عشق بلاخیز کے آشوبِ جنون کی منزل تو آتے ہی آئے گی۔ اس شعر میں کئی تصویریں، کئی یادیں، کئی آوازیں، کئی سوال اور کئی جواب جمع ہوگئے ہیں جن سے وہ ارفع لمحہ میسر آگیا ہے جو کئی لمحات کا ما حصل ہے۔ جلال بھی ہے جمال بھی ہے تحیر بھی ہے اور جستجو بھی۔ اس شعر پر اس سے مفصل بحث بھی تو ہوسکتی ہے مگر جذباتی ارتسامات کے بقیہ پہلوئوں کا آپ خود سراغ لگائیں۔ شعر کیا ہے، شعروں کا شعر ہے۔ بارِ دگر پڑھیے، باربار پڑھیے، عجب اثر ہوگا جو آپ کے رُوحانی ارتفاع کا باعث ہوگا: کون سی وادی میں ہے کون سی منزل میں ہے عشقِ بلاخیز کا قافلۂ سخت جاں اب دوسرا شعر آتا ہے جس کی تشریح بہت مختصر کروں گا: خضر بھی بے دست وپا،الیاس بھی بے دست و پا میرے طوفاں یم بہ یم ، دریا بہ دریا ، جوبجو یہ ایک طوفانِ پُرآشوب کا ارتسام ہے۔ یوں تو خضر و الیاس کو جن طوفانوں سے واسطہ پڑتا ہے، وہ سات سمندروں کی شورشوں کو آغوش میں لیے ہوئے ہیں مگر شاعر کے طوفان ایسے ہیں جن میں خضر و الیاس بھی بے دست و پا ہیں۔ اس شعر کی تصویر اور رُوحِ معنی تو جو ہے،واضح ہے۔ اس کی بحر اور اس کے حروف کی صوتی تشکیل اور تکرار، طوفان کی پرخروش کیفیات کی بجاے خود بھی ترجمانی کررہی ہے۔ ذرا غور فرمائیے۔ یم بہ یم سے عمق و فراوانی اور آویزشِ موج کا تاثر ملتا ہے۔’’دریا بہ دریا‘‘سے موجوں کی بلندی کا اور’’جوبجو‘‘سے فاصلوں کی دوری کا۔ اس کے مقابلے میں’’بے دست و پا، بے دست و پا‘‘کی تکرار سے بے بسی کا تاثر اُبھرتا ہے۔ اس کے علاوہ شعر میں تضاد و تقابل ایک طرف ہے اور یم بہ یم کی وسعت دوسری طرف بے دست و پائی سے بے کسی کا خاص تاثر اُبھرتا ہے۔ مذکورہ بالا شعر میں اور نکات و معارف بھی ہیں مگر اس وقت ان کی تشریح مشکل ہے۔ ارفعیت کے کچھ اور نمونے ارفع بلاغت کی مثالیں اقبال کی اُردو مختصر طویل نظموں (شکوہ، جوابِ شکوہ، گورستانِ شاہی، طلوعِ اسلام و خضر راہ وغیرہ) کی تمہیدات میں بھی ملتی ہیں۔ ان میں سے دو کا تذکرہ کافی ہوگا۔ ایک تو ہے نظم ’خضرِ راہ‘ کی تمہید اور دوسری نظم ’گورستانِ شاہی‘ کی تمہید۔ یہ دونوں بانگِ درا میں شامل ہیں۔ دنیا کی اکثر زبانوں کی شاعری میں ایپک، رزمیہ اورڈرامائی نظموں کی تمہیدات (Prologe) سے نامور شعرا نے بہت فائدہ اُٹھایا ہے۔ شیکسپیئر نے اگرچہ اس سے فائدہ کم اُٹھایا ہے مگر مارلو، بن جانسن اور نئے زمانے میں برنارڈشا نے اس سے تاثر افزائی کا بہت کام لیا ہے۔اُردو میں مراثی کی تمہیدات بھی اثر آفرینی اور ذہنی آمادگی کے لحاظ سے بہت اہمیت رکھتی ہیں۔ اقبال کی اکثر تمہیدات میں پیش ذہنی فضا پیدا کی گئی ہے جس کی بدولت ارفع شاعری کے عمدہ نمونے ہمیں میسر آئے ہیں۔ ان میں’’گورستانِ شاہی‘‘، ’’خضرِ راہ‘‘اور ’’مسجدِ قرطبہ‘‘کی تمہیدیں خصوصی ذکر کے قابل ہیں۔ یہاں بغرضِ اختصار صرف ’’خضرِ راہ‘‘کی تمہید کا تجزیہ کیا جاسکتا ہے۔ مذکورہ نظم میں خضر اور شاعر کا مکالمہ ہے۔ خضر کی غائب شخصیت کی مناسبت سے جو خارجی فضا پیدا کی گئی ہے، وہ ارفع شاعری کی عمدہ مثال ہے۔ پہلا بند ملاحظہ ہو: خضر راہ (بانگِ درا) ساحلِ دریا پہ میں اک رات تھا محوِ نظر گوشۂ دل میں چھپائے اک جہانِ اضطراب شب سکوت افزا ، ہوا آسودہ ، دریا نرم سیر تھی نظر حیران کہ یہ دریا ہے یا تصویرِ آب جیسے گہوارے میں سو جاتا ہے طفلِ شیر خوار موجِ مضطر تھی کہیں گہرائیوں میں مست خواب رات کے افسوں سے طائر آشیانوں میں اسیر انجمِ کم ضو گرفتارِ طلسمِ ماہتاب دیکھتا کیا ہوں کہ وہ پیکِ جہاں پیما خضر جس کی پیری میں ہے مانندِ سحر رنگ شباب کَہ رہا ہے مجھ سے اے جویاے اسرارِازل چشمِ دل وا ہو تو ہے تقدیرِ عالم بے حجاب دل میں یہ سن کر بپا ہنگامۂ محشر ہوا میں شہیدِ جستجو تھا یوں سخن گستر ہوا دوسرے، تیسرے اور چوتھے شعر میں خاموشی اور تنہائیِ شب کی جو تحیر افزا تصویر کھینچی گئی ہے،اس کی تشبیہات میں دریا کو تصویرِ آب کَہ کر اورموج مضطر کو گہوارے میں سو جانے والے طفلِ شیرخوار کے مانند قرار دے کر چھپے ہوئے اضطرابات کو سکوت کی نیند سلا دیا گیا ہے۔اس کے ساتھ طائروں کو آشیانوں میں بند اور ستاروں کی مدھم مدھم چشمکِ نیم کش؛ غرض شاعر نے ایک ایسا سماں پیدا کردیا ہے جو قاری کے دل میں دیرپا تاثر پیدا کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ اسی طرح’’گورستان شاہی‘‘کی تمہید ہے جس میں غم، تحیر، فکر، ہیبت، خوف کی طرح احساسات مل جل کر قاری کے ذہن کو متاثر کرتے ہیں۔ اقبال کی اُردو شاعری کے ضمن میں، میں ان کے مکالمات اور ڈرامائی حکایتی اسالیبِ بیان اور تمثیلی تشکیلوں کا بھی ذکر کرتا مگر اس موقع پر یہ ممکن نہیں صرف یہ کہنا کافی ہوگا کہ علامہ اقبال کے یہاں تمثیل کے دو وسائل:مکالمہ اور حکایت کا خاصا استعمال ہوا ہے۔ تصویر آفرینی اور آہنگ شاعر کا فن، دراصل لفظی مصوری اور موسیقی کا فن ہے۔ اقبال کی شاعری میں اس فن کا اعجاز نظر آتا ہے۔ چند مثالیں ملاحظہ ہوں:میرے خیال میں اقبال کے کلام میںایک حسین تصویر وہ ہے جو بانگِ درا کی نظم ’’شاعر‘‘ میں موجود ہے۔ اس میں ندی کی تصویر کشی ضمنی ہے کیونکہ شاعر ندی کا تصور دلاکر شاعر کے منصب اور اس کے بلند مقام کا تصور دلانا چاہتا ہے۔ مگر ندی کے ایک رُخ کا نہایت خیال آفرین اور مسرت بخش نقشہ بھی ہماری آنکھوں کے سامنے کھنچ جاتا ہے اور ہمارے تخیل کی دُنیا میں ہلچل پیدا کردیتا ہے۔ نظم یہ ہے: جوے سرود آفرین آتی ہے کوہسار سے پی کے شرابِ لالہ گوں مے کدۂ بہار سے مستِ میٔ خرام کا سن تو ذرا پیام تو زندہ وہی ہے،کام کچھ جس کو نہیں قرار سے پھرتی ہے وادیوں میں کیا دخترِ خوش خرامِ ابر کرتی ہے عشق بازیاں سبزۂ مرغزار سے جامِ شراب کوہ کے خم کدے اُڑاتی ہے پست و بلند کرکے مے کھیتوں کو جا پلاتی ہے (بانگِ درا، ص۲۳۵) اس بند میں شاعر نے وادیوں اور مرغزاروں میں پیچ و خم کھاتی ہوئی ندی کا تصور دلایا ہے۔ ان میں سب سے زیادہ جو چیز شاعر کے لیے دل کشی کا سامان رکھتی ہے، وہ سرمست ندی کی رفتار اور اس کا نغمہ ہے، اور اس سے بھی زیادہ اس کی البیلی ادائیں ہیں جن کی بنا پر شاعر نے اسے ’’دخترِ خوش خرامِ ابر‘‘ کہا ہے۔ اس بند سے جو تصویر بنتی ہے اس کی تفصیل نثر میں یوں بیان کی جاسکتی ہے: پہاڑی ندی گاتی ہوئی سرمستی کے عالم میں جھومتی جھامتی آرہی ہے،گویا کہ مے کدے سے ابھی ابھی شراب پی کے نکلی ہے۔ یہ کون ہے؟ ابر کی خوش خرام بیٹی جو بڑے ناز و انداز سے لااُبالیانہ وادیوں میں کھیلتی پھرتی اور سبزۂ مرغزار سے عشق بازیاں کرتی ہے۔ کبھی اس کے گلے لگ جاتی ہے، کبھی اس سے بچ کر نکل جاتی ہے، کبھی پیچ و خم کھا کر پھر آملتی ہے،کبھی دور نکل جاتی ہے، کبھی شرارت سوجھتی ہے تو پہاڑوں کے خم کدے سے ’’پیر ِمغاں کی آنکھ بچا کر‘‘ شراب اُڑا لاتی ہے اور کھیتوں کو جاپلاتی ہے۔ نشۂ محبت سے چور، بھیگی بھاگتی، ناز و ادا دکھلاتی شرارت کرتی، چھینتی جھپٹتی آگے بڑھتی جاتی ہے۔ ایک بے پروا دوشیزہ کی یہ کتنی عمدہ تصویر ہے۔ بالِ جبریل میں ایک نظم’’لالہ صحرا‘‘ہے جس میں اثر آفرینی کے بہت سے وسائل جمع ہوگئے ہیں: یہ گنبدِ مینائی ، یہ عالمِ تنہائی مجھ کو تو ڈراتی ہے اس دشت کی پہنائی بھٹکا ہوا راہی میں ، بھٹکا ہوا راہی تو منزل ہے کہاں تیری ، اے لالۂ صحرائی تو شاخ سے کیوں پھوٹا میں شاخ سے کیوں ٹوٹا اک جذبۂ پیدائی ، اک لذتِ یکتائی اے بادِ بیابانی مجھ کو بھی عنایت ہو خاموشی و دل سوزی ، سرمستی و رعنائی (بالِ جبریل،ص۱۲۴) اس شعر کی فضا میں مفکرانہ اُداسی ہے اور الفاظ و تراکیب فضا سازی میں مدد دیتے ہیں۔ اس سلسلے میں ایک اور تصویر ملاحظہ ہو: وہ جوے کہستاں اچکتی ہوئی اٹکتی لچکتی سرکتی ہوئی اچھلتی پھلستی سنبھلتی ہوئی بڑے پیچ کھا کر نکلتی ہوئی رُکے جب تو سِل چیر دیتی ہے یہ پہاڑوں کے دل چیر دیتی ہے یہ ذرا دیکھ اے ساقیِ لالہ فام سناتی ہے یہ زندگی کا پیام اس نظم میں ندی کی طوفانی لہروں کے جوش و خروش اور اس کی تند و تیز روانی کا آواز ہی سے اندازہ ہوجاتا ہے۔ یہ اکبر کے ’آب ِلوڈور‘ (جو خود انگریزی سے ترجمہ ہے) کا جواب ہے مگر اپنی جگہ لاجواب ہے۔[انگریزی نظم رابرٹ ساودے کی ہے۔] تکرار الفاظ سے تاثیر پیدا کرنے کی ایک مثال: پھر چراغ لالہ سے روشن ہوئے کوہ و دمن مجھ کو پھر نغموں پر اُکسانے لگا مرغِ چمن پھول ہیں صحرا میں یا پریاں قطار اندر قطار اودے اودے نیلے نیلے پیلے پیلے پیرہن برگِ گل پر رکھ گئی شبنم کا موتی بادِ صبح اور چمکاتی ہے اس موتی کو سورج کی کرن حسنِ بے پروا کو اپنی بے نقابی کے لیے ہوں اگر شہروں سے بن پیارے تو شہر اچھے کہ بن اس بند میں بعض دیگر لطائف بھی ہیں مگر ’’اودے اودے پیلے پیلے‘‘وغیرہ کی لفظی تکرار سے عجیب تاثیر پیدا ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ شبنم، موتی، سورج کی کرن، پھول، پریاں قطار اندر قطار، چراغِ لالہ اور کوہ و دمن، مرغِ چمن، نغمۂ برگِ گل، باد صبح جیسی امیجز سے مرتب معانی سامنے ہوں، تب بھی یہی استعاری الفاظ، ذہن پر روشنی چمک، لعل و جواہر کی چمک، باغ اور لطیف ہوائوں کے ایک ایسی فضا کا نقش قائم کردیتے ہیں جو ذوق کی دُنیا میں حظ اور مسرت کی لہر دوڑا دینے کے لیے کافی ہیں۔ تکرارِ حروف بہت سی نظمیں ایسی ہیں جن میں خاص حروف کی کثرتِ تکرار سے پوری خارجی و داخلی فضا تیار کی گئی ہے۔ ایک مثال بانگِ درا کی نظم ’نیکر کی ایک شام‘ ہے۔ یہ اس لحاظ سے منفرد ہے[کہ] اس میں حروف کا نظام ایسے طریق سے مرتب ہوا ہے کہ حروف کی محض آواز سے اس فضا اور موڈ کا پتا چل جاتا ہے جس میں شاعر محصور ہے: ایک شام خاموش ہے چاندنی قمر کی شاخیں ہیں خموش ہر شجر کی وادی کے نوا فروش خاموش کہسار کے سبز پوش خاموش فطرت بے ہوش ہو گئی ہے آغوش میں شب کے سو گئی ہے کچھ ایسا سکوت کا فسوں ہے نیکر کا خرام بھی سکوں ہے تاروں کا خموش کارواں ہے یہ قافلہ بے درا رواں ہے خاموش ہیں کوہ و دشت و دریا قدرت ہے مراقبے میں گویا اے دل! تو بھی خموش ہو جا آغوش میں غم کو لے کے سو جا اس نظم میں چار حرفوں کی حکمرانی ہے، ’س‘، ’ش‘، ’خ‘ اور ’ق‘۔ اسے دو تین مرتبہ پڑھیے تو ان حروف کی صوت آفرینی کا خود بخود اندازہ ہوجائے گا: خاموش، شاخیں، شجر، نوا فروش، خاموش، کہسار، سبز پوش خاموش، بے ہوش، آغوش، شب، سو گئی، سکوت، فسون، خرام، سکون، خموش، قافلۂ خموش، دشت، قدرت، مراقبے میں، خموش ہو جا، آغوش میں غم کو لے کے۔ ذوقی اور سمعی لحاظ سے ’ش‘ کا حرف ثروت اور جوش کا اظہار کرتا ہے۔ ’س‘ کا سکوت و سکون اور رازداری کا، اور ’ق‘ اور ’خ‘ شدت اور کرختگی کے آئینہ دار ہیں۔ اس نظم کو معنی پر غور کیے بغیر پڑھ ڈالیے تو اس کی تکرارِ مسلسل سے شام کی تحیر خیز اداسی اور سکوت کا نقش ذہن پر بیٹھتا ہے۔ ’ش‘ کی تکرار سے فراوانی اور جوشِ جذبات کا اظہار ہوتا ہے۔ یہ جوش شاعر کے قلب کے اندرونی اضطراب کا اظہار کرتا ہے۔ یعنی اندرونی شورشوں کا جس میں ’ق‘ اور ’خ‘ کی کرختگی اضطراب میں مزید شدت پیدا کررہی ہے۔ اقبال کی اس نظم میں حروف کی ترتیب سے جو دُہری فضا قائم ہوتی ہے، وہ ترکیب صوتی کا اعجاز ہے اور لامثال ہے۔ بانگِ درا کی اس نظم کے فوراً بعد ایک اور نظم آتی ہے جس میں حروف و الفاظ کی صوتی ترکیب ہی سے فضا تیار ہوجاتی ہے۔ بالِ جبریل (ص۱۶۴) کی ایک نظم’’لالۂ صحرائی‘‘میں بھی اسی طرح کی فضا تیار ہوئی ہے۔ میں نے گذشتہ اوراق میں جو کچھ لکھا ہے کہ اقبال کی اُردو شاعری، کئی لحاظ سے ان کی فارسی شاعری سے افضل ہے، اس کا مقامی دائرۂ تخاطب، اس کے مانوس اور فطری اسالیب اور اپنے ملک و وطن کے جذبات کی براہِ راست ترجمانی کے لحاظ سے، ان کی فارسی شاعری، ان کی اُردو شاعری کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔ اقبال کی فارسی شاعری کا یہ تفوّق بہرحال تسلیم کرنا پڑے گا کہ اس میں طویل نظمیں (مثنویاں) زیادہ ہیں جن سے شاعر کی قدرتِ بیان کا اظہار ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ ان میں سالم افکار بیان ہوئے ہیں۔اُردو شاعری میں مختصر طویل نظمیں زیادہ ہیں اور جیساکہ بیان ہوچکا ہے، ارفع شاعری کا نمونہ پیش کرتی ہیں۔ ----- احساس، پشاور، ج۲، ش۱۱-۱۲، خصوصی شمارہ۸ ئ……ئ……ء ۷ اقبال کی تصانیفِ نظم و نثر میں سائنسی موضوعات خدا کے فضل سے اقبالیاتی ادب اب خاصا باثروت ہے اور اس سال کے آخر تک کہ اس میں جشن ِصد سالہ ولادتِ اقبال منایا جارہا ہے، اقبال پر بہت سی مزید کتابیں بھی شائع ہونے کی توقع ہے لیکن یہ دیکھ کر محرومی کا احساس ہوتا ہے کہ خاص کر سائنس دان حضرات اور معاشرتی علوم کے حاملین میں مطالعۂ ادب کی کوئی تحریک موجود نہیں چنانچہ سائنسی موضوعات پر چند مضامین اور ایک آدھ کتاب کے سوا ہمیںکچھ دستیاب نہیں ہوتا۔ اب جشنِ صد سالہ کے سلسلے میں مطالعہ اقبال کی جو تحریک اُٹھی ہے، اس کے بعد سائنس اور معاشرتی علوم کے حضرات بھی افکارِ اقبال کے متعلقہ حصے کے مطالعہ و تحقیق کی طرف توجہ کریں تو بڑی مناسب بات ہوگی۔ مذکورہ ماہرینِ علوم کا فرض ہے کہ عوام تک یہ بات پہنچائیں کہ علامہ اقبال نے دین، حکومت، خالص الٰہیات اور نفسیات کے علاوہ سائنس خصوصاً طبیعیات و حیاتیات اور معاشرتی علوم مثلاً علمِ تاریخ، قانون، علم الاجتماع، معاشیات اور سیاسیات کے متعلق بھی ہمیں بہت سے تصورات دیے ہیں۔ یہ اَمرِ واقع ہے کہ انگریزی اُردو نثری تحریروں کی طرح علامہ اقبال کے منظوم اُردو فارسی کلام میں بھی محولہ بالاعلوم کے اشارے اور حوالے ملتے ہیں اور سچ یہ ہے کہ سائنس وغیرہ کے متعلق علامہ کا شاعرانہ ردِعمل بھی، ان کے سائنسی نظامِ تصورات کی تشکیل میں ممد و معان ہوسکتا ہے۔ مشہور ریاضی دان فلسفی وائٹ ہیڈ نے اپنے ایک لیکچر بعنوان Romantic Reaction میں ملٹن اور ورڈز ورتھ کے بارے میں لکھا ہے کہ ان کی شاعری میں زمانے کے فلسفیانہ اور سائنسی افکار موجود تھے مثلاً ملٹن نے کہا: That to the height of this great argument. I may assert eternal providence and justify the may of God to men. اور یہ دراصل اس زمانے کے نیچرل ازم کا عکس تھا۔ یہی بات علامہ اقبال کی شاعری کے بارے میں اس اضافے کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ اس میں سائنسی تصورات اس طرح رچے بسے ہوئے ہیں کہ ان کے تجزیہ و تنظیم سے ایک مکمل کتاب یا کتابیں تیار ہوسکتی ہیں۔ میں یہاں سائنسی موضوعات کے متعلق علامہ کی شاعرانہ تشکیل کی چند مثالیں پیش کررہا ہوں۔ علامہ نے اپنی اکثر کتابوں میں اپنے زمانے کے معرکہ آرا نظریۂ اضافیت سے استفادہ کیا ہے اور اس پر تنقید بھی کی ہے اور خطبات [Reconstruction]میں تو باربار اس کا حوالہ آتا ہے۔ شاعری کی حد تک دیکھیے تو ’’گلشنِ رازِ جدید‘‘ میں پرانی طبیعیات اور جدید طبیعیات کا مقابلہ کرتے ہوئے کہتے ہیں: سہ پہلو ایں جہانِ چون و چند است خرد کیف و کمِ او را کمند است جہانِ طوسی و اقلیدس است ایں پئے عقل زمیں فرسا بس است ایں زمانش ہم مکانش اعتباری است زمین و آسمانش اعتباری است اس آخری شعر میں اعتباری سے مراد اضافی ہے اور یہ اضافیت وہ ہے جو ادراک بالحواس اور عقل و خرد کا نتیجہ ہے۔ آئن سٹائن کی اضافیت میں کائنات کے تین بُعد تو وہی پرانے ہیں مگر اس نے چوتھا بُعد زمان کا بھی شامل کیا ہے۔ آئن سٹائن نے یہ بھی کہا ہے کہ کائنات میں مطلق شے کوئی نہیں ہر شے اضافی ہے۔ اس حد تک تو اقبال بھی مانتے ہیں مگر وہ چوں کہ مسلمان ہیں اور قادرِ مطلق کی ہستی کے منکر نہیں ہوسکتے، اس لیے اُنھوں نے، ایک دوسرے شعر میں مطلق کا بھی اثبات کیا ہے۔وہ لکھتے ہیں : مجو مطلق دریں دیرِ مکافات کہ مطلق نیست جز نور السمٰوات بہرحال وہ اس لحاظ سے کہ کائناتِ خارجی کی ہر شے اضافی ہے، آئن سٹائن سے اتفاق کرتے ہیں مگر اس کے اس خیال سے کہ زمان و مکان سے بالاکوئی ماورائی مطلق حقیقت موجود نہیں، اختلاف کرتے ہیں۔ وہ آئن سٹائن کی طرح زمان کو چوتھا بُعد نہیں کہتے بلکہ ایک محیطِ کل دائمی حقیقت سمجھتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ اشارتاً دہر اور زمان کی تقدیس یہ کَہ کر کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دہریا زمان کی مذمت سے منع فرمایا ہے۔ ان باتوں کی تفصیل کے لیے خطبات کا مطالعہ ازبس مفید ہوگا۔ آئن سٹائن اور علامہ دونوں کے نزدیک کائنات کی حقیقت تخلیقِ مسلسل اور مرورِ مسلسل فی الزمان[ہے] چنانچہ فرماتے ہیں: تیرے شب و روز کی اور حقیقت ہے کیا؟ ایک زمانے کی رو جس میں نہ دن ہے نہ رات اقبال نے زمان کے اس مرورِ مسلسل کے بارے میں بڑی عمدہ شعری زبان میں فرمایا ہے: مری صراحی سے قطرہ قطرہ نئے حوادث ٹپک رہے ہیں میں اپنی تسبیحِ روز و شب کا شمار کرتا ہوں دانہ دانہ یہاں حوادث سے مراد Events ہیں جنھیں سرجیمز جینز نے ’’مرتکز و متحجر لمحاتِ وقت‘‘ سے تعبیر کیا ہے،جو سیلِ زمانہ کو تالیفِ اضداد کے ذریعے باہم وابستہ کرکے ایک واقعے یا حادثے کی صورت بخش دیتے ہیں۔ نظریۂ اضافیت کی رُو سے کائنات لاانتہا نہیں۔ یوں ایک کُرے کی طرح اس کی انتہا تو ہے لیکن اس کا کنارہ یا حد نہیں یعنی کائنات متناہی مگر غیر محدود ہے یا مکان کے لحاظ سے محدود اور زمان کے لحاظ سے غیرمحدود ہے۔اس سلسلے میں علامہ اقبال فرماتے ہیں: حقیقت لازوال و لامکاں است مگو دیگر کہ عالم بے کراں است کرانِ او درون است و بروں نیست درونش پست بالا کم فزوں نیست درونش خالی از بالا و زیر است ولے بیرونِ او وسعت پذیر است اقبال نے جی سٹرا [G.Straus]کی اضافیت،میکس پلانک کے نظریۂ مقادیر عنصری، کیمیا کے نظریۂ گروپ اور ہائزن برگ کے نظریۂ عدم تعین Indeterminacy سے بھی اعتنا کرکے، اس پر تنقید کی ہے۔ وہ ہائزن برگ سے اس حد تک متفق ہیں کہ تغیر کے دوران، ذرات میں بے نظمی ضرور پیدا ہوجاتی ہے مگر اس بات کو نہیں مانتے کہ حرکت اور تغیر کا کوئی قانون نہیں۔ ان کے نزدیک ایک قانون ہم آہنگی اور آئینِ حرکت ضرور ہے کیوں کہ خدا نے کائنات کو عبث اور بے ہنگم پیدا نہیں کیا بلکہ اس کے اندر عظیم حکمت رکھی ہے۔ اقبال، نور، حرکت، حرارت اور توانائی کو ایک وحدت قرار دیتے ہیں اور اس کے اجزا کی باہمی مقناطیسیت کو بھی تسلیم کرتے ہیں۔ غرض اقبال کے شعری کلام میں، سائنس اور جدید تر حکمت کے حوالے بکثرت ہیں جن سے سائنسی فکر کا ایک نظام تیار ہوسکتا ہے لیکن خطبات میں ہم ان باتوں کو بلکہ بہت سے دیگر تصورات کو ایک منظم اور قطعی زبان میں موجود پاتے ہیں۔ علامہ کے بیان کے مطابق خطبات کا مقصد یہ ہے کہ مذہب کی بدولت ہمیں جس قسم کا علم حاصل ہوتا ہے اسے سائنس کی زبان میں سمجھا جائے،اور سائنس کی زبان میں حقائقِ مذہبی کا بیان اس وجہ سے ضروری ہے کہ آج کی دانش اسی محاورے سے مانوس ہے جس کے بغیر جدید ذہن حقائق کا ادراک نہیں کرسکتا اور پھر یہ بھی ہے کہ علامہ کے نزدیک سائنس اور مذہب آپس میں ضد نہیں بلکہ دونوں میں ہم آہنگی کا رقبہ کافی وسیع ہے۔ علامہ فرماتے ہیں کہ وہ دن دور نہیں کہ مذہب اور سائنس میں ایسی ایسی ہم آہنگیوں کا انکشاف ہوگا جو سردست ہماری نگاہوں سے پوشیدہ ہیں۔ بنابریں، علامہ نے اپنے لیکچروں میں، معاصر سائنس کے بہت سے معروف نظریات یا انکشافات سے فائدہ اُٹھایا ہے جن کی نشان دہی کرنا اور انھیں مربوط طریقے سے پیش کرنا ہمارے سائنس دانوں کا فرضِ اولین ہے۔ میں نے اپنے محدود علم کے مطابق ایسے موضوعات کا سراغ لگایا ہے جن پر مقالات لکھے جاسکتے ہیں۔ میں نے ’’اقبال اور سائنس‘‘ کے عنوان سے ایک اور مضمون بھی مرتب کیا ہے لیکن اس وقت میں ایسے موضوعات کی ایک فہرست پیش کررہا ہوں جن پر سائنس کے تخصیصی علم والے حضرات خصوصی مقالے لکھ سکتے ہیں۔ اگر سائنس دان اور معاشرتی علوم کے اساتذہ تھوڑی سی توجہ فرمائیں تو اقبالیات اور سائنس دونوں کے حق میں مفید ہوگا۔ ممکن موضوعات کی سرسری فہرست یہ ہے: ۱- جواہریت یا Atomism۔ دیمقراطیس سے لے کر جدید جواہرات تک کی کہانی، علامہ اقبال کی زبانی ۲- نیچرلزم: سائنسی، فلسفیانہ اور قرآنی ۳- کائنات کا تخلیقی ارتقائی تصور: جدید حیاتیاتی سائنسی شہادتوں کی روشنی میں ۴- آئن سٹائن کے نظریۂ اضافیت پر علامہ اقبال کی تنقید ۵- میکس پلانک کے کوانٹم نظریے پر علامہ اقبال کی تنقید ۶- فکرِ اقبال میں روشنی، حرارت اور حرکت کے تصورات ۷- اقبال کی تنقید بسیطِ وقوعیت پر ۸- اقبال کی تنقید، ہائزن برگ کے نظریۂ عدم تعین (Indeterminacy) پر ۹- اقبال کی تنقید شماریاتی رویے کے قانون (Law of Statistical Behavior) اور قانون اوسط (Law of Averages) پر ۱۰- اقبال کی تنقید Entropyاور قرب قیامت کے نظریے پر ۱۱- اقبال کی تنقید میکانیاتی تصورِ کائنات پر ۱۲- اقبال کے تصوراتِ حرکت و توانائی اور Kinetic theory پر ۱۳- اقبال اور قوانینِ بقا یا قوانینِ استقلال مادہ ۱۴- اقبال کا تصورِ زمان و مکان ۱۵- اقبال اور مادّیت ۱۶- سائنس کی کوتاہیاں اقبال کی نظر میں ۱۷- اقبال کی تنقید فرائڈ اور ینگ پر ۱۸- اقبال کے ریاضیاتی تصورّات ۱۹- اقبال اور حیاتیات ۲۰- اقبال اور خلائیات ۲۱- اقبال اور سلسلۂ تعلیل (Causality) سائنس کی روشنی میں ۲۲- اقبال اور شعوریاتِ داخلی ۲۳- اقبال اور نظریۂ متوازیت ۲۴- اقبال اور تشاکلی نفسیات ان کے علاوہ بھی کچھ موضوعات ہیں جنھیں مرتب کیا جاسکتا ہے۔ان علوم کے علاوہ حکمتِ خالص، معاشیات، علمِ بشریات، سیاسیات، علم الاجتماع اور قانون کے بارے میں بھی علامہ کی کتابوں میں کافی مواد موجود ہے جو عالمانہ مطالعہ و تجزیہ کا محتاج ہے اور اس کے لیے، میں اپنے فاضل دوستوں کو دعوتِ توجہ دے رہا ہوں۔ اقبال احیاے قومی کے علم بردار تو تھے ہی، وہ قوم میں احیاے علمی کے بھی متمنی تھے لیکن احیاے علمی اس وقت تک ممکن نہیں جب تک ماہرینِ علوم میں وہ لگن موجود نہ ہو جو کبھی ہمارے اسلاف میں تھی اور اب مغرب کی دُنیا میں موجود ہے۔ آخر میں علامہ اقبال کے چند اشعار پیش کرتا ہوں جن میں ہم سب کو مفاخر و معالی کی طرف متوجہ کیا گیا ہے۔ علامہ نے فرمایا: یہ مشتِ خاک ، یہ صرصر ، یہ وسعتِ افلاک کرم ہے یا کہ ستم تیری لذتِ ایجاد مری جفا طلبی کو دُعائیں دیتا ہے وہ دشتِ سادہ، وہ تیرا جہانِ بے بنیاد مقامِ شوق ترے قدسیوں کے بس کا نہیں انھی کا کام ہے یہ جن کے حوصلے ہیں زیاد ----- اُردو، کراچی اکتوبر تا دسمبر ۱۹۷۷ء ئ……ئ……ء ۸ اقبال فہمی کے بنیادی اُصول وضاحت: اس مضمون کو بعد ازاں، چند تبدیلیوں اور اضافوں کے ساتھ ۲۶؍دسمبر ۱۹۷۷ء کو بہاء الدین زکریا یونی ورسٹی میں، بطوراقبال لیکچر پیش کیا۔ اعجازِ اقبال میں یہ ’’خطبہ اقبالیات‘‘ کے عنوان سے شامل ہے۔ __ مرتب علامہ اقبال کو اُردو زبان سے جو محبت تھی وہ محتاجِ بیان نہیں لیکن جب اُنھوں نے فرمایا تھا: ’’کہ میری لسانی عصبیت میری دینی عصبیت سے کسی طرح کم نہیں‘‘ تو اُنھوں نے مسلمانانِ ہند کے مخصوص تہذیبی و سیاسی حالات میں زبان اُردو کے اس وحدت آفریں اور روایت پرورکردار کا اعلان و اثبات کیا تھا جو مذہب کے بعد(اور مذہب ہی کی طرح)ما بعد الاقبال کی ملی تاریخ میں اسے ادا کرنا ہے۔ زبان اُردو آج بھی یہ کردار ادا کر رہی ہے اور آئندہ بھی کرتی رہے گی۔ اس منت پذیرِ شانہ ٔشبان کی یہ پاکیزہ تقدیر ہے کہ اطراف و اکنافِ ملک میں جب بھی لوگ مل کر بیٹھنا چاہتے ہیں، یہی زبان ان کے درمیان واسطہ ثابت ہوتی ہے۔ تو مطلب یہ ہے کہ علامہ اقبال نے جہاں ہمیں اور بہت سے فکری تحائف عطا فرمائے ہیں وہاں زبان اُردو سے متعلق ان کے ارشادات بھی ہمارے لیے عودو عنبر سے معمور تحفے کا درجہ رکھتے ہیں۔ مگر اس سلسلے میں اس اَمر کو بھی فراموش نہ کرنا چاہیے کہ علامہ کا اُردو پر صرف یہی احسان نہیں کہ اُنھوں نے اسے قومی بقا و استحکام کے وسائلِ تحفظ میں مذہب کے بعد سب سے اونچا درجہ دیا بلکہ یہ احسان اس سے بھی بڑا ہے کہ اُنھوں نے اپنی تخلیقی و فنی صلاحیتوں کا وافر حصہ اُردو کو دے کر اس کے لیے اس فخر کا استحقاق پیدا کیا کہ اس عظیم شاعر کے طفیل وہ علم و ادب اور فکر و فن کے عالمی ایوانوں میں مسند آرا ہو گئی۔ حال ہی میں جشنِ صد سالۂ اقبال کے سلسلے میں منعقدہ اقبال کانگرس میں ہم نے دیکھا کہ سارے عالم کے یعنی لندن، اطالیہ،پیرس ، امریکا، شرقِ اوسط، وسطی ایشیا، عرب اور چین و ماچین وغیرہ کے عالمانِ متبحر سرشاری و سرمستی کے عالم میں اشعارِ اقبال پڑھ کر زبانِ اُردو کے عالمی رتبے کا علیٰ رؤس الاْشہاد اعلان کر رہے تھے تو یہ اُردو زبان کا قابل رشک نصیبہ ہے کہ اسے حکیم الامت جیسے بلند اقبال شاعر نے با اقبال بنا دیا۔ مگر مقامِ افسوس ہے کہ قائد اعظم اور علامہ اقبال کے فرمودات کے باوجود، پاکستان میں تیس سال گذر جانے کے بعد بھی دفتر، عدالت اور تعلیم میں اُردو کو اس کا حق نہیں دیا گیا! افکارِ اقبال کا تعلیمی حصہ بھی اتنا ہی قیمتی ہے جتنا کہ ان کے سرمایۂ فکر کا کوئی اور حصّہ ہوسکتا ہے ۔کیا ہی اچھا ہو کہ ہمارے ملک کے ماہرینِ تعلیم ، جہاں امریکا و یورپ کے نظریات و تصورات سے خوشہ چینی کرتے ہیں، وہاں حکیم الامت کے نظریاتِ تعلیمی و اخلاقی سے بھی استفادہ کریں تا کہ فکرِ اقبال (جو اسلامی فکر ہی سے مستفید ہے) کی بنیاد پر اپنی قومی تعلیم کی ایک نئی عمارت تعمیر کر سکیں جس میں جدید علوم کے ساتھ دینی علوم کی بھی آمیزش ہو اور تعلیم کو ایسا ماحول مل سکے جس میں طہارتِ ذوق و نظر، پاسِ ناموسِ ادب اور حفظِ شرافتِ نفس کے عناصر جمع ہو سکیں۔ یہ ایک معلوم حقیقت ہے کہ علامہ جدید تعلیم کے ماحول اور نتائج سے حد درجہ غیر مطمئن تھے ۔ اگر ہمارے ماہرینِ تعلیم ، جدید نظامِ تعلیم و تعلم کے سلسلے میں ان کی بے اطمینانی کے اسباب دریافت کر کے، پاکستان کے لیے ایک نیا فلسفۂ تعلیم وضع کر سکیں تو یہ علامہ کے اعتراف کے علاوہ ملک و قوم کی بھی بڑی خدمت ہوگی۔ خدا کرے علامہ کی تعلیم خودی کے زیرِاثر ہمیں غلبۂ انگریزی اور بُخارِ انگریزیت سے نجات مل جائے۔ یہ اَمر موجبِ مسرت ہے کہ اب ملک میں اور بیرونِ ملک علامہ اقبال کے نظامِ عقائد و افکار سے گہری دلچسپی کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ لیکن یہ ضرور ملحوظِ خاطر رہنا چاہیے کہ جب بھی کوئی بڑی شخصیت ، خواص و عوام دونوں طبقوں میں مقبولیت عامہ حاصل کر لیتی ہے تو معاً اس کی حقیقی شخصیت کے ساتھ ساتھ ایک افسانوی شخصیت بھی نمودار ہو جایا کرتی ہے۔ خدشہ ہے کہ علامہ اقبال کے سلسلے میں بھی کہیں یہی صورت پیش نہ آ جائے۔ شاید بہت سے لوگ، ’’باما آشنابود‘‘ کا عَلم بلند کرکے اپنے ذاتی و شخصی خیالات، علامہ کی طرف منسوب کرنے لگیں اور اس طرح ایک نقلی شبیہ جو مطابقِ اصل نہ ہوگی ہمارے سپرد کر کے ہمیں ان غاتیوں سے دور لے جائیں جو علامہ کے مدِّنظر تھیں۔ اس صورتِ حال میں علامہ کے خوش آئند قبولِ عام کی وجہ سے اہلِ فکر و نظر اور صاحبانِ تحقیق و تنقید کی ذمہ داریاں بھی بڑھ گئی ہیں۔ ان کا ایمانی فرض ہے کہ فکرِ اقبال کی تشریح و تعبیر پر کڑی نظر رکھیں تا کہ اس عارف باللہ کے خیالات ہمیں دین و دل کے ان لطائف سے دور نہ لے جائیں جن کے لیے علامہ نے اپنے دن اور اپنی راتیں کبھی سوز و سازِ رومی اور کبھی تب و تابِ رازی کی نذر کی تھیں۔ پس لازم ہے کہ اس مردِ حق آگاہ کے دلِ باخبر کی ان دھڑکنوں کو کسی سروشِ غلط آہنگ کی تفویض بننے سے روکا جائے اور اس کی یزداں شکار تعلیم کو صیدِ زبونِ اہر من نہ بننے دیا جائے۔ معلوم ہوا ہے کہ ملک کی بعض یونی ورسٹیوں میں مطالعۂ اقبالیات کے لیے علمی مسند قائم کیے جا رہے ہیں۔ اس اَمرسے بھی خوشی ہوئی کہ اسلام آباد کی اوپن یونی ورسٹی کو اقبال کے نامِ فرخ پیام سے منسوب کر کے اس میں فکرِ عالیۂ اقبال کی غایات و نہایات کے مطالعہ و تحقیق کا اہتمام کیا جا رہا ہے: ع بریں مژدہ اگر جاں فشانم رواست لیکن ایک بات کا خاص خیال رہے کہ یہ کام طوطوں اور خربوزوں کے سپرد نہ کیا جائے۔ ہمارے ملک میں طوطوں کی طرح نری نقالی بہت ہے اور خربوزہ بھی جو دوسرے کا رنگ پکڑنے میں ضرب المثل ہے،یہاں بکثرت ہے۔ مغربی خربوزے کا رنگ اتنا چڑھ گیا ہے کہ اپنی کیاری بے آب و رنگ ہو گئی ہے لہٰذا مغربی خربوزوں سے بچوں کو بچانے کی ضرورت واضح ہے۔ یہ اَمربھی ملحوظ رہے کہ اقبالیات کے تدریسی اور نہایاتی مطالعہ و تحقیق کے کچھ ناگزیر تقاضے ہیں۔ اوّل یہ کہ منتخب محققین ، کلیاتِ اقبال پر وسیع نظر اور متعلقاتِ فکرِ اقبال میں تنقیدی غور و فکر کا تجربہ رکھتے ہوں۔ علومِ دینیہ و حکمیہ، قدیم فارسی اور اُردو کی روایاتِ ادب سے کامل واقفیت کے علاوہ تاریخ و تمدنِ اسلام کا تجزیاتی ادراک اور دوسری طرف جدید سائنسی و معاشرتی علوم پر ناقدانہ عبور۔ یہ اربابِ تحقیق کے بنیادی اوصاف ہونے چاہییں،ورنہ بالکل ممکن ہے کہ تحقیقِ اقبال سقسطہ اور سرابِ علم ثابت ہو اور گوہرِ مقصود مقالات و مقولات میں گم ہو کر رہ جائے اور بالآخر یہ سب کچھ جہالت و گمراہی کی اشاعت و توسیع کا موجب بن جائے۔ کشتی کو دریا ناآشنائوں کے سپرد کر دینا خطرے سے خالی نہیں۔ جن اداروں میں یہ انتظام کیے جا رہے ہیں، وہ اگر چاہیں تو رہنمائی کے لیے علامہ اقبال کی اپنی تحریروں سے رجوع کر سکتے ہیں۔ اس سلسلے میں مکاتیب و خطوط کے سلسلہ ہاے متعدد کے علاوہ ان کا لیکچر ’’ملتِ بیضا پر ایک عمرانی نظر‘‘ (ترجمہ از مولانا ظفر علی خاں) اور ان کے اشارات جو صاحبزادہ آفتاب احمد کی علی گڑھ تعلیمی سکیم پر اُنھوں نے لکھے،بغایت مفید ثابت ہوں گے۔ ان دونوں تحریروں میں علامہ نے ایک مرکزی دارالعلم اور مرکزی دارالتحقیق کی ضرورت کا احساس دلایا تھا جس میں علومِ دینی، نئے مسائل و مشکلاتِ تمدنی کے حوالے سے اور علومِ مغربی، اسلام کی دینیاتی اور تمدنی و علمی تاریخ کی روشنی میں زیرِ مطالعہ لائے جا سکیں۔ علامہ اقبال کے نزیک ہماری جملہ مشکلاتِ تعلیمی و فکری کا حل، اسلامی اور مغربی علوم کا نا قدانہ امتزاج ہے۔ گویا دینیاتی علوم بھی فرض اور مغربی علوم بھی فرض(اگر چہ مغربی کلچر کی نقالی فرض نہیں)۔ غرض امتزاج کی بدولت ہم اپنی روایت سے وابستہ رہ کر علومِ جدیدہ سے تعلیم و تحقیق کے سلسلے میں انھی شرائط و قیود کے ساتھ جو علامہ نے عائد کی ہیں، یہ فریضہ انجام دے سکیں تو بڑا کام ہوگا اور یہ مطالبہ شاید ناجائز نہ ہوگا کہ یونی ورسٹی کے ڈگری اور پوسٹ گریجوایٹ درجے میں تعلیم بھی ہو اور تحقیق بھی اور ذریعۂ تعلیم ان کا اُردو ہو تا کہ گیسوئے اُردو جو بدستور منت پذیرِ شانہ ہے، اس نئی مشاطگی سے مزید آرائش و زیبائش پا سکے جس کی آرزو اقبال کے دل میں موجزن تھی۔ اس کے علاوہ وہ اربابِ تحقیق جنھیں یہ کام سونپا جائے، انھیں سب سے پہلے ان مشکلات کو حل کرنا ہوگا جو جا بجا اہلِ جستجو کے لیے موجب پریشانی بن جاتی ہیں۔ ابہامات اور تضاداتِ مزعومہ کو دور کر کے قارئین کو حقیقی اقبال تک پہنچانا ہوگا۔ فکرِ اقبال کا مطالعہ در اصل ایک حد تک اسلام کا مطالعہ ہے۔ اربابِ تحقیق کو اقبال کی تعبیر میں اسلام کے پورے ادب کو مدِّ نظر رکھنا ہوگا۔ فکرِ اقبال کا مغربی علوم سے ایک ناگزیر رشتہ ہے۔ اس رشتے کے سب پیچ اور سب گرہیں بھی کھولنی ہوں گی اور اس سے بھی آگے بڑھ کر، مغرب کے موجود ہ ثقافتی و سیاسی و فکری منظر پر (جو مغرب کے معاشرتی و انسانیاتی علوم میں نمودار ہو گیا ہے) بحوالہ اخبار و تنبیہاتِ اقبال نظر ڈال کر ان بحرانات کا تجزیہ کرنا ہوگا جن سے تہذیبِ مغرب اس وقت دو چار ہے اور پھر اس استبصار کی مدد سے اپنی قوم اور اپنی ملت کے لیے ایک نیا معاشرتی، معاشی اور انسانیاتی منشور تیار کرنا ہوگا۔ اس حقیقت کے اعادے کی ضرورت نہیں کہ علامہ اقبال ، بیسویں صدی کے مغرب کے سخت گیر نقّاد تھے۔ بعض حضرات کو اس کی وجہ سمجھ میں نہیں آتی ۔ دراصل اس صدی میںمغرب نے ضبطِ نفس کے سارے بند توڑ ڈالے اور اب حال یہ ہے کہ باربیرک تھیٹر(Barbaric Theatre) ہے اور قتل، تشدد، بدکاری اور خلافِ وضع فطری کے سین فی العمل دکھائے جاتے ہیں، اُدھر امریکا میں اینٹی کلچر، اینٹی ریزن اور اب اینٹی نیچر کی تحریکیں اُبھر رہی ہیں، تو اگر علامہ نے یہ فرمایا کہ: شفق نہیںمغربی اُفق پر، یہ جوے خوں ہے، یہ جوے خوں ہے طلوعِ فردا کا منتظر رہ کہ دوش و امروز ہے فسانہ تو مغرب کا موجودہ دور اس خبر کی تصدیق کرنے کے لیے کافی ہے۔ مقصد یہ ہے کہ اقبالیاتی محقق مغرب کی بیسویں صدی کو سند نہ سمجھیں بلکہ اس پر تنقید کر کے، اپنا مستقل زاویۂ نظر پیدا کریں۔ اگر مذکورہ اداروں اور یونی ورسٹیوں میں صحیح خطوط پر کام کیا گیا تو برکت ہی برکت ہے۔ لیکن اگر ان میں بدستور فرنگیوں، مشنریوں، استعمار پسندوں، فوضویت نوازوں اورمستشرق دانش وروں کے خیالاتِ فاسدہ اور اباطیلِ غرض مندانہ ہی کو دہرانا ہے تو: وائے گر در پس امروز بود فرداے ہونا یہ چاہیے کہ متعلقہ اداروں میں غایاتِ معلومہ کے لیے جامع الصفات استاد مقرر کیے جائیں تا کہ آئندہ کے لیے موزوں طالب علم اور ذمہ دار محقق پیدا ہوں جن کی تعلیم و تحصیل میں دینیاتی علوم اور عربی و فارسی ادبیات کی مہارت بھی ایک لازمی وصف ہو جیسا کہ علامہ اقبال نے خود فرمایا تھا۔ اس کے علاوہ یہ بھی ضروری ہے کہ اُردو کے نفاذ کے لیے ایک خصوصی آرڈی ننس نافذ کیا جائے اور عربی و فارسی کے فروغ کے خصوصی انتظام کے لیے ضروری احکام صادر فرمائے جائیں کیونکہ مطالعۂ اقبال کے موضوعاتِ تحقیق اور علامہ اقبال کے پیدا کردہ ادب کے سر چشمے انھی زبانوں میں ہیں۔ ----- تعلیمات، لاہور،مارچ۱۹۷۸ء ۹ کچھ تمثیل کے بارے میں (بحوالہ فکرِ اقبال) علامہ اقبال نے جہاں تہذیب مغرب کی اختراعی و ایجاداتی رُوح کی تحسین کی ہے، وہاں انھیں اس تہذیب کی معاشرتی اقدار سے ہمیشہ اختلاف رہا۔ اس اختلاف کی ایک مثال ہمیں ’’تیاتر‘‘اور’’ سنیما‘‘کی مذمت کے سلسلے میں نظر آتی ہے۔ علامہ اقبال نے اس موضوع پر کھل کر تو کہیں بحث نہیں کی لیکن ان کے اُردو کلام میں دو نظمیں۱؎ (ایک بعنوان ’’سنیما‘‘ اور دوسری ۱- سنیما وہی بت فروشی ، وہی بت گری ہے سنیما ہے یا صنعتِ آزری ہے؟ وہ صنعت نہ تھی ، شیوۂ کافری تھا یہ صنعت نہیں شیوۂ ساحری ہے وہ مذہب تھا اقوامِ عہدِ کہن کا یہ تہذیبِ حاضر کی سوداگری ہے وہ دُنیا کی مٹی ، یہ دوزخ کی مٹی وہ بت خانہ خاکی یہ خاکستری ہے بالِ جبریل تیاتر تری خودی سے ہے روشن ترا حریمِ وجود حیات کیا ہے، اسی کا سرور و سوز و ثبات بلند تر مہ و پروین سے ہے اسی کا مقام اسی کے نور سے پیدا ہیں تیرے ذات و صفات حریم تیرا خودی غیر کی معاذ اللہ! دوبارہ زندہ نہ کر کاروبارِ لات ومنات یہی کمال ہے تمثیل کا کہ تو نہ رہے رہا نہ تو، تو نہ سوزِ خودی نہ سازِ حیات ضربِ کلیم بعنوان ’’تیاتر‘‘) ہمیں ملتی ہیں جن میں ان مقبولِ عام فنون پر اُنھوں نے جرح کی ہے۔ نظم ’’سنیما‘‘ میں اُنھوں نے واضح کیا ہے کہ یہ بھی ایک طرح کی بت گری اور بت فروشی ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ پرانی بت گری مذہب کا درجہ رکھتی تھی لیکن یہ جدید بت گری سوداگری ہے: وہ مذہب تھا اقوامِ عہدِ کہن کا یہ تہذیبِ حاضر کی سوداگری ہے اُنھوں نے فرمایا کہ قدیم ڈراما ایک شیوۂ کافری تھا (اور یہ معلوم ہے کہ یونانی ڈراما مذہبی اساس رکھتا ہے۔ کیونکہ Dionysus کی تمجید و تقدیس سے اس کی ابتدا ہوئی تھی) مگر جدید طرز کی یہ بت گری ایک شیوۂ ساحری ہے جس کی غرض تجارتی اور سیاسی مقاصد کی تبلیغ اور مکر و فریب ہے۔ نظم ’’تیاتر‘‘ میں علامہ نے ڈراما کے خلاف بڑی دلیل یہ دی ہے کہ ڈراما کا ایکٹر اپنی خودی کی نفی کرتا ہے اور دوسروں کی خودی کے ساتھ فریب کرتا ہے۔ ایکٹر اپنی شخصیت کو دبا کرکال کوٹھری میں بند کردیتا ہے اور کسی دوسرے شخص کی خودی کا سوانگ بھر کر خود کو اور دُنیا کو دھوکا دیتا ہے: حریم تیرا خودی غیر کی ، معاذاللہ دوبارہ زندہ نہ کر ، کاروبارِ لات و منات یہی کمال ہے تمثیل کا کہ تو نہ رہے رہا نہ تو ، تو نہ سوزِ خودی نہ سازِ حیات ہمارے زمانے میں ڈرامے کے فن کو جو بے پناہ مقبولیت حاصل ہے، اس کے پیشِ نظر علامہ اقبال کے مداحوں کو، ان کے مذکورہ بالا خیالات کا جواز پیش کرنے میں خاصی دشواری پیش آتی ہے۔ ناقدینِ اقبال نے مختلف طریقوں سے، توضیح و توجیہ کی کوشش کی ہے۔ بعض نے اسے علامہ کا ایک لمحاتی، عارضی اور گریزاں تاثر قرار دیا ہے اور بعض نے یہ کَہ کر خود کو اطمینان دلایا ہے کہ علامہ نے جمالیاتی فنون اور ان کے فلسفے کا وسیع مطالعہ نہیں کیا۔ایک خیال یہ بھی ظاہر کیا گیا ہے کہ اس معاملے میں علامہ اقبال نے اسلامی تمدن کی تجریدی رُوح کی پاس داری کی ہے کیونکہ اس تمدن میں ڈراما کی حوصلہ افزائی واقعی نہیں ہوئی باوجودیکہ مسلمان ڈراما کے قدیم اہم مراکز یونان اور ہند کے قریب بلکہ اندر رہے ہیں اور مذکورہ تہذیبوں سے ڈراما کے ماسوا اکثر شعبہ ہاے علم و فن میں اُنھوں نے استفادہ بھی کیا ہے۔ یہ دلیلیں اپنی جگہ کافی بھی ہوں تب بھی آج کل کے ذہن میں یہ اُلجھن باقی رہتی ہے کہ علامہ نے اتنے عظیم فن کو اتنی سرسری سی دلیلوں کی بنیاد پر رد کیوں کردیا۔اور چونکہ ہمارا جدید ذہن مغربی دلائل اور اسالیب سے حد درجہ مسحور و مرعوب ہے، اس لیے بہت سے لوگ واقعی یہ سمجھتے ہیں کہ علامہ نے محض لمحاتی تاثر کے تحت قدرے ’’عالمانہ بے خیالی‘‘ میں ڈرامے کے متعلق یہ سب کچھ کَہ دیا ہے اور یہ اچھا نہیں کیا۔ میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ علامہ کے یہ خیالات نامانوس سہی اور شاید ہمارا ان کے ساتھ متفق ہونا ضروری بھی نہیں مگر حقیقتاً یہ بے خیالی کا کرشمہ نہیں، کوئی ان سے اتفاق کرے یا نہ کرے، یہ ان کے سوچے سمجھے ہوئے خیالات ہیں جن کا ان کے بنیادی فلسفۂ خودی سے گہرا تعلق ہے اور استدلال کی اساسِ محکم یہ ہے کہ ایکٹنگ کا عمل غیر کی خودی کو اپناتا اور اپنی خودی کی نفی کرتا ہے۔ اب یہاں اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایکٹنگ کا عمل کیا واقعی ایکٹر کی خودی کی نفی کرتا ہے؟ علامہ اقبال کے نزدیک خودی ہر شے کے اندر ایک نقطۂ نوری ہے جس سے حیات کے چشمے ابلتے ہیں۔ حیات، اس بامقصد حرکت کو کہتے ہیں جس کے پیچھے ارادہ و شعور ضرور کارفرما ہوتا ہے جس کے معنی یہ ہوئے کہ خودی کی شخصیت، انا کے شعور و لزوم سے بنتی ہے۔ اور چونکہ انسان کا شعور پختہ تر اور کامل تر ہوتا ہے اس لیے اس کی انا (خودی) بھی کامل تر ہوتی ہے۔ انا کا یہ شعور اپنی ماہیت کے لحاظ سے بڑا غیور ہوتا ہے۔ یہ ہو نہیں سکتا کہ کسی کے نفس میں خود اور غیر خود دونوں کو یکساں حیثیت حاصل ہو،یعنی کوئی نفس، اپنے تشخص کے شعور میں غیر انا کو بھی اَنا کی طرح ہی سمجھے: پہلو میں کسی شخص کے دو دل نہیں ہوتے شعور تشخص میں انا ہی واحد مرکزی اُصول ہے۔ یہ ہو نہیں سکتا کہ کوئی شخص بیک وقت خود بھی ہو اور غیر خود بھی۔ اب غور کیجیے تو ایکٹنگ میں، اداکار کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ ’’غیر خود‘‘ بن جائے۔ اب یہ یوں ہوتا ہے کہ اداکار کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ میں ہیملٹ نہیں ہوں مگر وہ پھر بھی زیادہ سے زیادہ ہیملٹ بننے کی کوشش کرتا ہے۔ اب یہ ایک طرح کا دھوکا ہے جو خود کو دیا جارہا ہوتا ہے اور عوام کو بھی۔ اداکار کچھ بھی کرے ہیملٹ نہیں بن سکتا۔ تفریح یا بازیِ طفلانۂ دل کے طور پر تو یہ ریاکاری گوارا کی جاسکتی ہے لیکن شعورِ نفس کے نقطۂ نظر سے یہ بات عجیب سی معلوم ہوتی ہے کہ ایک شخص خود نہ رہے اور غیر خود بن جاے یا بیک وقت خود بھی ہو اور غیر خود بھی۔ میں یہ استدلال علامہ اقبال کے طرزِ فکر کے اعتبار سے کررہا ہوں۔ علامہ کے نزدیک، زندگی ایک سنجیدہ سلسلۂ عمل ہے۔ ایکٹنگ خود کے ساتھ ایک فریب یعنی ایک غیر سنجیدہ عمل ہے۔ یہ تو ہوسکتا ہے کہ انسان خود کی حدود کو اعلیٰ تر مقاصد کے لیے قدرے سکیڑے، لیکن انفرادی خودی کے نقطۂ نظر سے ان کی کوئی گنجائش نہیں۔ پس جس طرح انفرادی خودی پر غیر خود کو مسلط کرنا خود کی توہین ہے اسی طرح اجتماعی زندگی میں قومی انفرادیت کو غیر کے حوالے کردینا بھی ستم درستم ہے۔ اعلیٰ فکر میں بھی شخص کے بارے میں یہی نقطۂ نظر پایا جاتا ہے۔ جس طرح ایک جسم میں ایک ہی عقل ہوتی ہے اسی طرح ایک شخص میں ایک ہی خودی ہوتی ہے۔ (ملاحظہ ہو: A.J.Ayer کی کتاب The Concept of Person،طبع برطانیہ ،۱۹۶۳ئ، ص۸۲) یہی خیالات مسلم حکما اور عرفا کے ہیں اگرچہ ان کا طریق بحث جدا ہے۔ اب رہا ڈرامے کا فن، اس کے ماہرین کی اکثریت اسے نقالی کَہ رہی ہے۔ ڈرامے میں حقیقت کے امکانات کے بارے میں ارسطو کی بوطیقا سے لے کر آج تک اتنا کچھ لکھا گیا ہے کہ اس کا خلاصتہ الخلاصہ بھی یہاں دہرایا نہیں جاسکتا۔ ارسطو نے نقل (imitation) کے تصور میں ترمیم کرکے اسے ’’پیش کش باندازِ دگر‘‘ (representation) کہا اور بعد میں آنے والوں نے اسے باز آفرینی (recreation) اور اب آخر آخر میں اسے مطلق تخلیق (creation) کَہ کر ہر کسی نے اپنے اپنے دل کو تسلی دی ہے لیکن یہ بات اہل بصیرت کو ہمیشہ کھٹکتی رہی کہ ڈراما لکھنے والا کسی کی جتنی بھی کامیاب ترجمانی کرے اور ایکٹر جتنا بھی، شخصِ اصلی کے کردار کی باز آفرینی پر قادر ہوجائے،حقیقی شخص اور ڈرامے کے کردار یا (role-player) کا فرق ہمیشہ باقی رہے گا کیونکہ جہاں اصلی شخص کے لیے واقعہ یا حادثہ شخصی تجربہ (experience) ہے وہاں رول پلے کرنے والے کے لیے اس کا رول بہرحال تخیلی (imagined) ہی ہوگا اور کم استعداد اور رول پلیئر تو حقیقت کی باز آفرینی کرہی نہیں سکتا کیوںکہ مستعار (vicarions) جذبوں کو اپنے اوپر طاری کرنے والے کی قلعی بہت جلد کھل جاتی ہے۔ اور چونکہ ڈرامے کو حقیقت ثابت کرنے والوں اور محض نقل در نقل کہنے والوں کی باہمی کش مکش بدستور جاری ہے،اس لیے جدید تر دور میں ان دونوں نقطہ ہاے نظر کے نمائندے، پھر بڑی طاقت و قوت سے میدان میں اُترے ہوئے ہیں۔ ڈرامے کو صداقت کا مثنیٰ ہی نہیں، اسے اصل سمجھنے والوں کو جدید سوشل سائنس (سوشیالوجی) سے بہت تقویت ملی ہے۔ معاشریات کے بہت سے عالموں کا خیال ہے کہ انسان بالطبع رمز پسند اور علامتوں کا تخلیق کنندہ ہے اور ڈراما بھی چونکہ ایک رمزی پیرایۂ اظہار (symbolic expression) ہے،اس لیے ڈرامے میں اظہار ایک اَمر فطری ہے۔ اس بنیاد پر یہ علما اس حد تک بڑھ آئے ہیں کہ ان کے نزدیک حقیقی زندگی میں انسانوں کا حقیقی عمل… خصوصاً غیر معمولی افراد کا سنجیدہ وبامقصد عمل بھی ڈرامے کے انداز رکھتا ہے یعنی ہر کوئی ایک رول پلے کرتا ہے اور بس جیسا کہ غالب نے کہا تھا: بازیچۂ اطفال ہے دُنیا مرے آگے ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے گویا حقیقی زندگی میں بھی (عبث ہی سہی) ہر شخص ایکٹنگ کررہا ہے۔ تاہم اکثر علماے معاشریات، اس تماشے کو بازیچۂ اطفال نہیں کہتے، بلکہ سنجیدہ و بامقصد رول پلیئنگ کہتے ہیں، اگرچہ بعض کے نزدیک اس رول پلیئنگ کی عقلی بنیادیں مشکوک ہیں۔ ڈرامے کو زندگی کا ترجمان یا زندگی کو بھی ایک ڈراما قرار دینے والوں میں ایک امرِ مشترک یہ ہے کہ دونوں ڈرامے کو اُصولی اہمیت دیتے ہیں تاہم ان کے استدلال کے رنگ مختلف ہیں۔ جدید ترین معاشریات کے ایک عالم گاف مین۱؎ (Goffman) کا نظریہ ہے کہ زندگی، ڈرامائی قسم کی اداکاری کا ایک سلسلہ ہے۔ انسان زندگی کے معاشرتی اعمال میں اپنا اپنا ’’رول‘‘ اسی طرح ’’پلے‘‘ کرتے ہیں گویا کہ وہ ڈرامے میں ہوں… اور گاف مین کے نزدیک بڑی حد تک انسان بھی ایک ڈرامے میںہیں، جسے دُنیا کہا جاتا ہے۔ اس کے برعکس میسنجر۲؎ (Messenger) کی راے ہے کہ حقیقی زندگی میں انسان کے افعال ڈرامے سے یوں مختلف ہیں کہ زندگی کا یہ ایکٹر اپنے اعمال کو ایکٹنگ قرار نہیں دیتا بلکہ حقیقی سمجھتا ہے مگر ڈرامے کا ایکٹر سمجھ رہا ہوتا ہے کہ وہ محض کھیل کھیل رہا ہے۔ اس صورت میں زندگی کو تھیٹر کہنا استعارہ ہے،حقیقت نہیں۔ تھوڑے تھوڑے فرقوں کے ساتھ برنارڈ بیکر، کینتھ برک، پیٹر برگر، الفرڈشٹر اور جارج سمل وغیرہ کے بھی یہی خیالات ہیں۔۳؎ ۱- Trying Goffman: The Presentation of Self in Everyday Life, 1969 ۲ - J.E.Combs & Sheldon L.Messenger, Drama in Life,1976, p 73 ۳- ان کے لیے بھی دیکھیے Combs کی مرتبہ کتاب Drama in Life،۱۹۷۶ء مع اشاریہ۔ تو معلوم ہوا کہ مغرب میں زندگی کی غیر سنجیدہ حیثیت کا خیال عام ہے۔ بہت کم لوگ ایسے ہیں، جو ڈرامے کے اداکار کو محض ریاکار سمجھتے ہوں گے۔ اس مغربی ذہن کی وجہ فوراً سمجھ میں آجاتی ہے۔ اس سلسلے میں ان کے اس تصورِ حیات کو مدِنظر رکھنا چاہیے کہ عاقبت کوئی شے نہیں، جو کچھ ہے امروز ہے۔ زندگی دیوانے کا خواب اور بے ہنگم تماشا ہے جو بظاہر حقیقت ہے وہ بھی حقیقت نہیں اور جو تماشا ہے،وہ بھی حقیقت سے دور نہیں۔ قدرتی اَمر ہے کہ اقبال نہ تو زندگی کے اس لااُبالیانہ مغربی تصور سے متفق ہوسکتے تھے اور نہ تمثیل کے اندر اتنی حقیقت دیکھ سکتے تھے کہ ساری زندگی کو تھیٹر کَہ دیتے۔ اقبال کے نزدیک زندگی ایک بامقصد و باشعور اور بالارادہ سلسلۂ عمل ہے جس میں خودی شعوری طور سے مظاہرۂ عمل کرتی ہے۔ وہ ایک قانون کی پابند ہے اور ایک نصب العین رکھتی ہے۔اس میں ریاکاری، نمائش، دو رُخی، نمود، مسخرا پن کہیں نہیں۔ بلاشبہہ زندگی اور تھیٹر کے مابین جزوی سی مماثلت پائی جاتی ہے لیکن زندگی کو تھیٹر۱؎ نہیں کہا جاسکتا۔ یہ تو ایک امتحان گاہ ہے جس میں امانتِ الٰہی کی نگہداشت کے لیے سچے جانبازانہ کھیل کھیلے جاتے ہیں۔ زندگی اور تھیٹر میں مماثلت صرف یہ ہے کہ دونوں میں کچھ نہ کچھ ’’وقوع‘‘ میں آتا رہتا ہے تھیٹر کسی عمارت (منڈوے) کا نام نہیں، نہ یہ اس تحریر (Script) کا نام ہے جو تمثیل نگار کے قلم سے نکلتی ہے، نہ محض اداکاروں سے عبارت ہے، یہ تو ’’وقوع‘‘ کا نام ہے جس میں کچھ لوگ صدورِ فعل کا باعث ہوتے ہیں۔ غرض اس حد تک تو زندگی اور تھیٹر باہمی مماثلت رکھتے ہیں لیکن جیسا کہ جارج سمل۲؎ نے لکھا ہے، ایکٹر صرف ’’رول پلے‘‘ کرتا ہے،’’شخص‘‘ نہیں ہوتا اور آزاد ہوتا ہے کہ جس طرح چاہے عمل کرے بلکہ وہ تو دُہری حد بندی میں مقید ہوتا ہے، ایک تمثیل لکھنے والے کی قائم کردہ حد میں اور دوسری کسی دوسرے کی خودی کو اپنانے کی مجبوری میں۔ گویا یہ ایک طرح کی مقید نظر فریبی ہے اور شاید خود فریبی بھی۔ ۱- George Simmel, The Dramatic Actor: The Conflict and Reality in Modern Culture، طبع کولمبیا یونی ورسٹی ۱۹۶۸ئ، ص۹۱-۹۷۔ ۲- Combs کی مرتبہ Drama in Life (بحوالہ بالا)، ص۵۷۔ پس علامہ اقبال نے جب یہ لکھا کہ: ’’حریم تیرا خودی غیر کی، معاذ اللہ!‘‘ تو اس سے وہ یہی ثابت کرنا چاہتے تھے کہ خود کو غیر خود کے تابع کردینا شخص کی نفی ہے۔ اس کے علاوہ زندگی کے سنجیدہ عمل کو،محض کھیل کود بنا لینا بھی امانتِ زندگی کی حقیقی اہمیت کو نہ سمجھنے کے برابر ہے۔ علامہ اقبال خودی کی تقدیس کے معاملے میں اتنے سنجیدہ اور سخت گیر ہیں کہ وہ مسلم عارفوں کے اس تصور سے بھی متفق نہیں ہوسکے کہ انسانی خودی اور مطلق خودی ایک شے ہے۔ انسان کی خودی کی ذرہ برابر تنقیص یا تخفیف کو وہ برداشت نہیں کرسکتے۔ یہی وجہ ہے کہ انھیں ابن عربی کی وحدت الوجود سے سخت اختلاف تھا۔ وحدت الوجود یہی تو ہے کہ انسان کی خودی، مستقلاً کوئی شے نہیں بلکہ ایک منبسط خودی کا حصہ ہے جس میں انسان کی انفرادی خودی کے لیے کوئی گنجائش نہیں بلکہ ہم یہاں تک دیکھتے ہیں کہ علامہ حضرت مجدد سرہندی کی شہودی وحدت سے بھی اختلاف رکھتے ہیں ۔ علامہ اقبال زندگی کو تھیٹر کیوں کر تسلیم کرتے جب ان کے نزدیک کائنات ایک باشعور تخلیقی فعالیت کی سنجیدہ ندرت کاری ہے۔ ان کی نظر میں زندگی تازہ بہ تازہ صدورِ فعل ہے، تماشا نہیں، ایک سنجیدہ حکمت ہے۔ اس میں شبہہ نہیں کہ مسلم شعرا اور عارفوں کے افکار میں انسان کی مجبوری کی تصویر جس شکل میں ملتی ہے، اس میں انسان مشیت کے ہاتھ میں ایک مجبور اور پابندِ حکم پرزہ نظر آتا ہے، مثلاً حافظ نے ارشاد کیا: بارہا گفتہ ام و بارِ دگر می گویم کہ من دل شدہ ایں رہ نہ بخودمی پویم در پسِ آئنہ طوطی صفتم داشتہ اند آنچہ استادِ ازل گفت بگو، می گویم تقدیر کا یہ تصور فارسی اُردو کی صوفیانہ شاعری کا خاص موضوع ہے،اور حکیمانہ فکر کے دبستان کا بھی یہی مدعا ہے کہ یہ کائنات ایک بنے بنائے نقشے کے مطابق چل رہی ہے (خود نیوٹن کی طبیعیات کا نقشہ بھی یہی معلوم ہوتاہے کیونکہ وہ کائنات کو مقرر شدہ اُصولوں میں جکڑا ہوا ایک نظام سمجھتا ہے۔ نیوٹن کے اس تصور کو موجودہ دور میں آئن سٹائن نے یوں باطل قرار دیا کہ کائنات کے قوانین کا سلسلہ قطعی نہیں۔ اس میں ہر شے اضافی ہے یعنی کبھی کچھ اور کبھی کچھ ہے۔ بہرحال بنے بنائے نقشے کے تصور کے مطابق کائنات کی ہر شے (بشمول انسان) واقعی ایک برتر قوت کے ہاتھ میں کھلونا معلوم ہوتی ہے۔ اس تصور کی رُو سے زندگی کے سنجیدہ عمل میں بھی آزاد اقدام کی نفی ہی ہوجاتی ہے۔ علامہ اقبال نے اسی وجہ سے تقدیر اور توکل کے پابند عقیدوں کی توجیہ کرتے ہوئے انسان کی آزاد تخلیقی اور صدوری فعالیت کا اثبات کیا ہے۔ اس کے معنی بھی یہی ہیں کہ تھیٹر کی ایکٹنگ یا زندگی کا سنجیدہ ہنگامۂ عمل؛ دونوں صورتوں میں، اقبال ان سب تصورات سے مانوس نہیں ہوسکے جس میں انسان کی خودی سلب ہوجائے یا کوئی شخص اپنی خودی کے ساتھ فریب کا مظاہرہ کرے یا کسی دوسرے کی خودی کا منہ چڑائے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ مسلم عارفوں اور تقدیر و توکل میں عقیدہ رکھنے والے دین داروں کے تصور میں انسان کی مجبوری (یعنی سلبِ خودی) کاجو انداز ہے، وہ پھر بھی گوارا ہوسکتا ہے کیونکہ وہ بہرحال اناے مطلق کی فعالیت و حکمتِ بالغہ کا صدورِ فعل ہے لیکن زندگی کو ڈراما سمجھنے والوں کی یہ بات واقعی کھٹکتی ہے کہ زندگی کا ہر عمل یا تو غیر سنجیدہ ہے، یا دھوکا ہے۔ مسلم مفکرین و عارفین زندگی کو اگر ظل یا عکس کہتے ہیں تو اس کے معنی یہ نہیں کہ جس حقیقت کے یہ اظلال ہیں، وہ بھی بے حقیقت ہے۔ وہ زندگی کو ظل کہتے ہی اس لیے ہیں کہ وہ حقیقت مطلقہ کا اثبات کرتے ہیں، اسے بے مقصد، عبث اور محض کھیل نہیں کہتے۔ تخلیقِ کائنات اور خودی کی بحث کرتے ہوئے مسلم اہلِ حکمت و عرفان کے ان مباحث کی طرف اشارہ خالی از فائدہ نہ ہوگا جو ان کی کتابوں میں نفس کے موضوعات کے ضمن میں آتے ہیں۔ یوں تو ابن سینا، ابن رشد، ابن باجہ اور دوسرے حکما نے بھی ماہیت نفس کو موضوعِ بحث بنایا ہے مگر یہاں امام غزالی کے خیالات کی طرف اشارہ ہمارے مقصد کے لیے زیادہ مفید ہوگا۔ یہ اس پہلو سے کہ مغرب کی جدید نفسیات اور علمِ نفسِ انسانی میں (خصوصاً فرائڈ کے نظریات کے لحاظ سے)انسان اپنے اند رکی دُنیا کے بعض مخفی عوارض کے ہاتھ میں بطور ایک مجبور محض مخلوق کے، ایک کٹھ پتلی کے مانند ناچتا ہے۔ جدید ترین نفسیات باشعور انسان کے بھی دو روپ دکھاتی ہے۔ ایک وہ روپ جو ذہن کے اندر ہے اور دوسرا وہ جو پبلک کے سامنے ہے۔ امام غزالی کے نزدیک نفس، جسم طبیعی کا وہ کمالِ اوّل ہے جس کی بدولت، اس سے اختیارِ عقلی کے تحت اور استنباط بالراے کے طور پر افعال اس طرح سرزد ہوتے ہیں گویا کہ اسے اُمورِ کلّیہ کا ادراک حاصل ہے۔ یہ وہ جوہر ہے جو انسان میں اپنی حقیقت کی حیثیت سے قائم ہے۔ رسالہ لدُنیہ میں فرماتے ہیں: ہی الجوہر الحیّ الفعالالمرید۔ یہ زندہ جوہر افعال کا منبع ہے اور باشعور اور صاحب ارادہ ہے۔ اس بحث کو مزید پھیلا کر، باقی حکما و عرفا کی آرا بھی پیش کی جاسکتی ہیں لیکن غزالی کی راے کو نمائندہ سمجھ کر یہ باور کرلینا آسان ہے کہ نفسِ انسانی اتنا بے اختیار نہیں جتنا نفسیاتی علما ہمیں باور کراتے ہیں۔ بلاشبہہ نفس کے غلط کار ہوجانے کے امکانات موجود ہیں اور نفسِ مطمئنہ، نفسِ لوامہ اور نفسِ امارہ کی تقسیم سے نفس کی مختلف حالتوں کا پتا چلتا ہے جن کے زیرِ اثر، انسان سے صدورِ فعل ہوسکتا ہے لیکن نفس مطمئنہ سے ہمیشہ متوازن افعال کا صدور ہوتا ہے۔بنابریں غزالی اور دوسرے حکما نفس کے شریر بالذات ہونے کے قائل نہیں،نہ وہ اسے مجبور محض مانتے ہیں۔ صوفیہ کے یہاں اگر وجود کو ظل مانا جاتا ہے تو اس کے ساتھ ہی منبعِ وجود کو فعال مطلق بھی سمجھا جاتا ہے۔ جو صوفی تنزلاتِ تخلیقی کے قائل ہیں وہ بھی صدورِ فعل کا منبع شخصِ اکبر کو قرار دیتے ہیں جس سے وجود اور استعدادِ فعل ہر شے کو درجہ بدرجہ عطا ہوئی ہے۔ تو اس نقطۂ نظر سے بھی ثابت ہوا کہ افعالِ انسانی ایک سنجیدہ بامقصد اور ارادی سلسلۂ عمل ہیں۔ انھیں محض ایک تھیٹریکل اداکار کی ایکٹنگ سے مشابہت دے کر بے اصل یا محض تفریح یا کھیل نہیں سمجھا جاسکتا۔ اس سے واضح ہوجاتا ہے کہ علامہ اقبال نے جب تمثیل کی نفی کی تو ان کے پاس دلائل کا ایک پورا نظام موجود تھا اور یہ بھی کہ تمثیل کے متعلق، ان کی راے ان کے تصورِ خودی سے وابستہ تھی۔ لیکن یہ یاد رہے کہ تمثیل کی غیر سنجیدگی کے معاملے میں علامہ اقبال تنہا نہیں، بہت سے نئے مصنف بھی اس صف میں شامل ہیں جن میں سے بعض کا ذکر پہلے آچکا ہے اور حقیقی زندگی کو تھیٹر سمجھنے کے معاملے میں تو بہت سے جدید مفکرینِ معاشرت بھی علامہ کے ہم خیال معلوم ہوتے ہیں۔ حقیقی زندگی کو ڈرامے کی اصطلاحوں میں پیش کرنے پر، مذکورہ علماے معاشریات نے اعتراض یہ کیا ہے کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ انسان کے سنجیدہ کاروبارِ زندگی کا ہر فعل ایکٹنگ ہی قرار دیا جاے کیونکہ ان کے خیال میں تو یہ افلاطون کے ڈرامے کی تنقیص سے بھی بڑھ کر ڈرامے کی تنقیص ہے۔ مگر یہ اب تلخ حقیقت ہے کہ مغرب کا انسان اپنے منقطع فلسفوں کے زیر اثر خود سے اتنا بیگانہ (Alienated) اور زندگی سے اتنا بے زار ہے کہ اب وہ سارے عملِ زندگی کو ایکٹنگ ہی قرار دینے پر اُتر آیا۔ ایک عالمِ معاشریات نے سچ کہا ہے کہ: اس صورت میں انسان کیا رہا،ہر کوئی فونی (puppet) اور جوکر بن کر رہ جاتا ہے۔ مغرب کی خود بیگانگی (alienation) پر جتنا کچھ لکھ دیا ہے،اس سے زیادہ لکھنا اس مضمون میں شاید اچھا نہ لگے لیکن چند سطور میں اتنا عرض کردینا بے محل نہ ہوگا کہ مغرب، ایک سے زیادہ وجوہ کی بنا پر زندگی کو ایکٹنگ کے فن کے مماثل سمجھ کر، ایک سے زیادہ میدانوں میں نقاب پوشی ہی پر عمل کرتا ہے،چنانچہ اپنی غرض برآری کے لیے ایسے ایسے بہروپ بھرتا ہے جن میں اپنے اصلی روپ کو چھپانے میں سو فی صد کامیابی حاصل کرتا ہے۔ صرف تمثیل ہی میں نہیں، سیاست کے میدان میں ڈپلومیسی (فریب کارانہ تصنع) سے کام لیتا ہے اور جھوٹ کو خوب صورت لباس میں ملبوس بنا کر اسے سچ کا ہم شکل (بلکہ اس کا عین بناکر) سیمیائی نمود کو حق کر دکھاتا ہے۔ ہم آج کل مغرب کی پیروی میں جسے نفسیاتی جنگ کہتے ہیں وہ بھی تو یہی ہے کہ جھوٹ کو اس طرح پھیلایا جاتا ہے کہ لوگ اسے سچ سمجھنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ یہ اخلاقی سفلہ پن ہے مگرمغرب کے تصورِ زندگی میں یہ ناگزیر ہے۔ معاملہ یہاں تک بڑھ گیا ہے کہ اب ایک مغربی مصنف Pears، (Moulding of the Modern Man) کے مطابق سچ کو جھوٹ سے الگ نہیں کیا جاسکتا، اور اس کے اندر انسان کا ضمیر مردہ ہوچکا ہے۔ مغرب چونکہ رجعت (توبہ اور عود الی الحق) کا قائل نہیں،اس لیے وہ اب اسی جھوٹ اور اداکاری کو انسان کی فطرت قرار دے کر باور کراتا ہے کہ ہر انسان زندگی میں ایکٹنگ کرتا ہے… کسی نے سیاہ امریکیوں کے بارے میں لکھا ہے کہ یہ نیگرو لوگ تو خاص طور سے دُہری شخصیت رکھتے ہیں۔ مغرب میں، آج کل تحلیلِ نفسی کے ذریعے علاج کیا جاتا ہے۔ اس میں مریضوں کے بیانات پر بنیاد رکھ کر یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ ہر شخص کے دو روپ ہوتے ہیں۔ یہ خیالات بڑے دلچسپ مغالطوں پر مبنی ہیں مگر یہاں اشارہ ہی کافی ہے، اس تصریح کے ساتھ کہ یہ خیالات جزوی طور سے درست ہونے کے باوجود مریضوں سے متعلق ہیں جو انقیادِ نفس اور ضبطِ نفس پر قادر نہیں۔ ڈرامے کو حقیقت و صداقت کا مثنیٰ سمجھنے والوں میں ایک نیا باغی گروہ پیدا ہوگیا جسے اوان گار(avant gaarde) کہا جاتا ہے، یہ گروہ کہتا ہے کہ ڈراما اپنی ذات میں صداقت ہے مگر اب تک اس میں صداقت کا صرف اشارہ کیا جاتا ہے، صداقت کو عملاً لایا نہیں گیا۔ اب اس گروہ کے لوگ اپنے ڈراموں میں زندگی کی مکروہ حقیقتوں(مثلاً تشدد، بدعملی اور جارحیت) کو براہِ راست عمل میں لاتے ہیں،اسی لیے ان کے ڈرامے کو بربریت کا ڈراما (Drama of Brutality) کہا جاتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر ڈراما سچ ہے تو سچ کرکے دکھائو۔ محض ذکرِ شراب سے جھومنا آدابِ شراب کے خلاف ہے۔اب اوان گار والوں کی یہ حقیقت نوازی تو کچھ اُلٹی پڑتی دکھائی دیتی ہے: ع ہوئے تم دوست جس کے ، دشمن اس کا آسماں کیوں ہو ڈرامے کے اس خونیں عمل کے خلاف سخت احتجاج ہورہا ہے۔ اس اثنا میں ڈرامے کو حقیقت سمجھنے والوں کو ایک غیر متوقع حملے کا سامنا کرنا پڑ گیا ہے۔ وہ وجودی فلسفیوں (Existentialists) کی طرف سے ہے۔ سارتر نے کہا: تمھارا ماسک اور تمھارا رول ٹھیک،مگر تم وجود (being) اورسراب (appearing) میں فرق نہیں کررہے ہو۔ تمھارا ماسک ٹھیک مگر شخص باشعور (person) کدھر گیا، شخص وہ ہوتا ہے جو اپنے اعمال میں مختار ہو یا مجبور اپنے اعمال کا ذمے دار ضرور سمجھا جاتا ہے مگر ڈرامے کے اعمال اگر انسانی صداقت کے مثنیٰ ہیں تو رول پلے کرنے والے کو اپنے رول کے نتائج بھگتنے پڑتے ہیں یا نہیں؟اگر نہیں تو سچ کیوں نہیں بولتے کہ یہ سب ڈھونگ ہے۔ یہی، دوسرے وجودی ہائیڈگر نے کہا کہ ڈرامے کی ساری گھن گرج میں شخص (person) تو کہیں نظر نہیں آتا، پتلیاں سی ناچ رہی ہیں۔ گویا یہ سب عبث ہوا، فریب ہوا۔ اور لطف یہ ہے کہ ڈرامے کے بعض نقاد سینماکی صنف کو ڈراما مانتے ہی نہیں کیونکہ ان کی راے میں انسان کی شخصی موجودگی کا عنصر اس میں موجود نہیں۔ وہ تو صرف اظلال اور پرتو کا ہنگامہ ہے فقط، لہٰذا یہ ڈرامائی صنف نہ ہوئی اور یہ کسی اور پتلیوں کے تماشے سے بھی کمتر ہے۔ غرض یہ جھگڑا چل رہا ہے اور جب کچھ نہیں سوجھتی تو ڈرامے کے مقاصد میں تفریح کے مقصد کو اہمیت دے کر، حواس کی لذتوں کے دلدادہ لوگوں کو خوش کردیا جاتا ہے،اور یہ مقصد فی الحقیقت، اصلی مقصد ہی نظر آتا ہے مگر اوان گار والوں نے تشدد وغیرہ کو عملاً تھیٹر کا ایک اصلی حصہ بنا کر رہا سہا مزا بھی کرکرا کردیا ہے۔ اس ساری بحث کے بعد اگر ایک بار پھر علامہ اقبال کے خیالات (دوبارہ تمثیل) کی طرف عود کریں تو محسوس ہوگا کہ تمثیل کے بارے میں علامہ کے خیالات سرسری نہیں بلکہ سنجیدہ ہیں۔ میں نے جو کچھ عرض کیا ہے،یہ علامہ اقبال کے خیالات کی توضیح کی خاطر تھا۔ ظاہر ہے کہ میں علامہ کے خیالات پر نقد و جرح یا کسی محاکمے کی پوزیشن میں نہیں ہوں،تاہم مجھے یہ احساس ہے کہ علامہ کا موقف اُصولی طور پر درست ہونے کے باوجود، ایک دوسری حقیقت کی طرف متوجہ ضرور کرتا ہے، وہ ہے فنونِ ڈراما کی موجود بے پناہ مقبولیت۔ اب سوال یہ ہے کہ ہم اس فن کی اس ہمہ گیر مقبولیت کے ساتھ نباہ کس طرح کریں؟ یہ ظاہر ہے کہ ہم اپنے موجودہ حالات میں اسے یکسر رد بھی نہیں کرسکتے،لیکن یہ ضرور کرسکتے ہیں کہ علامہ کی تنقیدات کی روشنی میں، اسے ایک نئی شکل دے دیں تاکہ اس کے شیوۂ کافری اور شیوۂ ساحری کی تلافی ہوجائے۔تو میں عرض کرچکا کہ علامہ اقبال کے خیالات محض بے خیالی کا مظاہرہ نہیں، ان کی تائید میں ان کے پاس ایک فلسفیانہ اساس تھی۔ یہ اور بات ہے کہ ہم اس سے متفق ہوں یا نہ ہوں۔ ڈرامے میں تفریح کا عنصر ایک عام پسند (بلکہ خاص پسند عنصر)ہے اور اس عنصر میں بھی مناسب تبدیلیاں پیدا کی جاسکتی ہیں تاکہ ذوقِ صحیح کی تسکین ہو۔ لیکن ڈراما (بشمول سینما) کا ایک اور پہلو اس سے بھی بڑھ کر قابل توجہ ہے۔ وہ یہ کہ اس دورِ ابلاغ میں مقاصدِ عالیہ کے لیے ہر ابلاغی وسیلے سے فائدہ اُٹھانا ضروری ہے اور ڈراما ایک بہت بڑا ابلاغی ذریعہ ہے لہٰذا اس سے خود کو بالکل محروم کردینا ہمارے مقاصد کے لیے نقصان دہ ہوگا۔ لیکن اس کے لیے ڈرامے کے نئے مقاصد، نئی تکنیک اور نئے نصب العین متعین کرنے ہوں گے تاکہ یہ محض شیوۂ کافری کو پھیلانے ، ارزاں تفریح کی بدذوقی کو عام کرنے کے لیے اور تجارت کے لیے وسیلۂ استحصال نہ ہونے پائے۔ اگرڈرامے سے وہ عناصر یا وہ تصورات دور ہوجائیں جن کی بنیاد پر اسے تقدیس دے دی جاتی ہے تو یہ ایک اچھا وسیلہ ہے بشرطیکہ اسے متحّف نہ بنا دیا جائے۔ اس ابلاغی دور میں، ہم ابلاغی فن سمجھ کر اس کی پرورش پر مجبور ہیں۔ ----- فنون، لاہور، ، شمارہ۹، اگست ۱۹۷۸ء ۱۰ مطالعۂ اقبال: چند ضروری پہلو٭ جنابِ صدر، خواتین و حضرات! آج اورینٹل کالج میں حاضر ہوکر میں خود کو فرحت و انبساط میں ڈوبا ہوا پاتا ہوں۔ یہ وہ مقام ہے جہاں میں نے تعلیم حاصل کی۔ یہ وہ ابتدائی دور تھا جس میں میرے لیے ہر شے نشاطِ حیرت کا سرچشمہ تھی۔ عمارت اس وقت پرانی تھی مگر اِدھر اُدھر کے اطرافِ چمن، بلکہ ہر ہر کلی اس وقت کے ذوقِ طلب کے لیے جنتِ نگاہ اور ہم صفیروں کی نوآموزانہ ترنم ریزیاں فردوسِ گوش تھیں۔ یہ وہ مقامِ فضیلت تھا جہاں نابغۂ روزگار استاد سادگی کے کمال اور کمال کی سادگی کے ساتھ، اپنے زمانے کے ابوالفضل و فیضی (نہیں نہیں) صدرا اور بحر العلوم تھے جن کا ایک ایک درس ہدایۃ الحکمۃ اور مسلّم الثبوت کا درجہ رکھتا تھا۔ اور سب سے بڑی بات یہ کہ جب بھی کوئی اورینٹل کالج کا نام زبان پر لاتا تھا تو ادب کی نگاہیں جھک جاتی تھیں اور دلوں کے احترام اُبھر آتے تھے۔ میں نے طالب علمی کے زمانے کے سب اور بعد میں ملازمت کے ایک کے سوا جملہ مراحل اسی ماحول میں گذارے۔ حضرات! یہ تو تھی مجبورانہ انشا پردازی جس کا نہ ہونا کم از کم میری نگاہ میں ایک جذباتی زیاں ہوتا۔ اب مجھے ایک دوسری جذباتی وادی میں سے گذرنا ہے۔ یعنی حضرت علامہ اقبال کی ذاتِ والاصفات اور ان کے افکارِ عالیہ کے الوند و دماوند کو عبور کرنا ہے۔ اور میں نے اس سفر کو ٭ ۷؍نومبر ۱۹۸۴ء کو یومِ اقبال کی تقریب منعقدہ شیرانی ہال، اورینٹل کالج لاہور میں پڑھا گیا۔ جذباتی اس لیے کہا ہے کہ اجتماعی قومی جذبات کے علاوہ، اس ذرۂ ناچیز کو کئی مرتبہ علامہ اقبال سے بھی یعنی آفتابِ تاباں کی شعاعوں سے بھی دوچار ہونے کا موقع ملا جو میرے لیے متاعِ نور اور سامانِ سرورِ ابدی ہے۔ ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار نے فرمایا ہے کہ میں اس موقع پر، اپنی تقریر کو ویسے کلاس لیکچر کا رنگ دے دوں جو اُنھوں نے اور دوسرے عزیزوں نے اپنے اپنے زمانے میں میری زبان سے سنے تھے اور شاید انھیں اچھے لگے تھے۔ میرا اپنا جی بھی یہی چاہتا تھا کہ میں اپنی عمرِ رفتہ کو آواز دے کر وہی ساز چھیڑوں لیکن پاسبانِ عقل نے کہا، ہشیار! اب نہ وہ عمر، نہ وہ لوگ، نہ وہ لیل و نہار، جوانی کی باتیں جوانی ہی میں اچھی لگتی ہیں البتہ سعی کیجیے کہ لیکچر پر بڑھاپا طاری نہ ہونے پائے۔ پسبمصداق خیر الامور اوسطہا، میں سنگلاخ ریسرچ کی وادی و کوہ سے بچ کر کچھ سنجیدہ مگر نرم نرم باتیں کرنے پر مجبور ہوں۔ میری گفتگو کے موضوع دو ہوں گے: اول: وہ ضروی کام جو میری دانست میں اقبالیات کے سلسلے میں ابھی نہیں ہوئے۔ دوم: شرحِ اقبال بزبانِ اقبال کی ضرورت۔ میں نے ۱۹۳۹ئ/ ۱۹۴۰ء میں ایک مضمون لکھا تھا جس میں موضوعاتِ اقبال کی ایک فہرست مرتب کرکے آئندہ کے لکھنے والوں کے لیے اقبالیات کا ایک پروگرام پیش کیا تھا۔ اس میں مبادیاتِ اقبال سے لے کر نہایات و غایات تک موضوعات کی نشان دہی کی تھی۔ معلوم نہیں اس کے زیرِ اثر یا ازخود، اس کے بعد علامہ کے فکر و شعر پر خاصا کام ہوا ہے خصوصاً قیامِ پاکستان کے بعد جس کی تفصیل میں، میں اس وقت اُلجھ نہیں سکتا۔ غرض کام خاصا ہوا ہے۔ بایں ہمہ میری دانست میں کچھ کام ایسے ہیں جو ابھی نہیں ہوئے۔ جن میں سے بعض کی طرف، میں اس وقت اشارہ کرنا چاہتا ہوں۔ ایک اہم معاملہ جس کی طرف میں توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں، وہ یہ ہے کہ علامہ کے کلام کا واقعاتی پس منظر بہت کم زیرِبحث لایا گیا ہے۔ یہ معلوم ہے کہ ان کی شاعری کا بہت بڑا حصہ کسی نہ کسی واقعاتی ردِعمل کا نتیجہ تھا جو نظمیں انجمن حمایتِ اسلام کے پلیٹ فارم پر پڑھی گئیں، وہ بھی اور جو بعد میں لکھیں وہ بھی، یہا ں تک کہ فارسی کلام کا خاصا حصہ بعض واقعات کا احساساتی ردعمل ہے۔ لیکن کلیاتِ اقبال کے جتنے نسخے شائع ہوئے ہیں ان میں الا ماشاء اللہ ان واقعات کا ذکر شاذ و نادر ہی ہے۔ اب جاوید نامہ ہی کو دیکھیے، بظاہر اس کا کسی واقعے سے تعلق معلوم نہیں ہوتا لیکن ابن عربی اور دانتے سے ذہنی رابطہ اور ان کی مثالوں کی پیش رفت ایک اَمرِ واضح ہے۔’’گلشنِ رازجدید‘‘میں تو کھلا تذکرہ ہے، ابتدائی دور کے اُردو مجموعہ بانگِ درا کی تقریباً ہر نظم خود بول رہی ہے کہ میں خود آئی نہیں لائی گئی ہوں۔ خلاصۂ کلام یہ ہے کہ کلامِ اقبال کا واقعاتی پس منظر بہت مفید ہوگا اور اس میں نقصان شاید کچھ نہیں۔ دوسری اہم ضرورت جس کی طرف میں پہلے بھی ایک دو مرتبہ توجہ دلاچکا ہوں، یہ ہے کہ کلامِ اقبال کی درجہ بندی مختلف جماعتوں کے نصابات کے حوالے سے شاید نہیں ہوئی۔ بچوں کے اقبال جیسے کتابچے ضرور مرتب ہوئے لیکن اُصولی اور تفصیلی قسم کا کام شاید نہیں ہوا۔’’شاید‘‘ اس لیے کَہ رہا ہوں کہ ممکن ہے ہوا ہو مگر مجھے معلوم نہ ہو۔ تیسرا نہایت ہی اہم معاملہ یہ ہے کہ علامہ ان بزرگ اور عظیم ہستیوں میں سے تھے جن کی ہمہ گیری قدرتاً متقاضی ہے کہ ان کے بارے میں بہت کچھ لکھا جائے۔ چنانچہ اب ان کے بارے میں تالیفات و تصانیف کا وسیع ذخیرہ موجود ہے۔ اس ذخیرے کا تعلق مشرق سے بھی ہے اور مغرب سے بھی۔ چنانچہ ان کے متعلق جو کتابیات مرتب ہوئی ہیں ان سے دائرے کی وسعت کا اندازہ ہوسکتا ہے۔ یہ، جہاں خوش نصیبی اور عظمت کی دلیل ہے وہاں اس میں بہت سے خطرات بھی مضمر ہیں۔ خطرات یہ ہیں کہ ہر قسم کی بات علامہ کی طرف منسوب ہوگئی ہے۔ یہاں تک کہ پڑھنے والوں کو (مختلف نہیں کہ وہ قدرتی ہے) متضاد آرا سے سابقہ پڑتا ہے۔ مثلاً یہ کہ علامہ اقبال مغرب کے دشمن تھے اور یہ بھی کہ علامہ اقبال مغرب کے ہمدرد نقاد تھے اور مغربی تہذیب کو اسلامی تہذیب ہی کی ترقی یافتہ یا بدلی ہوئی شکل قرار دیتے تھے۔ یہ سلسلہ دور تک چلا جارہا ہے مثلاً علامہ اقبال تصوف کے دشمن تھے۔ علامہ اقبال خود صوفی تھے۔علامہ وطن کے تصور کے مخالف تھے۔ علامہ اقبال وطن دوست تھے۔ اگرچہ ملت دوست بھی تھے۔ علامہ اقبال اشتراکیت کے مخالف تھے۔علامہ اقبال اشتراکی اُصولوں کے حامی تھے۔غرض ایک ہی مسئلے میں متضاد آرا ملتی ہیں جن کے باعث علامہ اقبال پر تضادات کا الزام آتا ہے۔ اندریں حالات یہ ازبس ضروری تھا اور ہے کہ اقبال کے وسیع ذخیرے پر فضلا کی ایک مستند جماعت تنقیدی نظر ڈالے اور ظاہری تضادات کا ازالہ کرکے ایک واحد المرکز نقطۂ نظر قائم کرے۔ تاکہ اُلجھنیں اور پریشانیاں دور ہوں اور علامہ کے ساتھ انصاف ہوسکے۔ بعض حضرات فکرِ اقبال کو مغربی فلسفوں کے مطابق ڈھالنے کی کوشش میں بہت آگے بڑھ جاتے ہیں اور یہ کہنے لگتے ہیں کہ اقبال فلاں فلاں مغربی نظریات کے مقلد اور خوشہ چیں تھے۔ یہ درست کہ علامہ مغربی اثرات سے بالا نہ تھے لیکن اس میں زیاں یہ ہے کہ اس سے مشرق کے تصورات کی یکسر نفی ہوجاتی ہے۔اس کے علاوہ علامہ نے کسی خاص فکر کو جس نئے انداز سے ڈھالا وہ بالکل خارج از بیان رہتا ہے۔ ایک اہم پہلو شرحِ اقبال بزبانِ اقبال کا ہے۔ ظاہر ہے کہ علامہ نے اپنے کلام کی یا افکار کی کوئی مستقل شرح نہیں لکھی، پھر بھی خوش نصیبی سے بعض بعض اشعار کی شرح بزبانِ اقبال مل جاتی ہے۔ چنانچہ اگر اس قسم کی تشریحات کو جمع کرلیا جائے تو ایک متوسط قسم کی شرح بن جاتی ہے۔ یہ تشریحات کلام کے اندر بھی کہیں کہیں موجود ہیں لیکن ملفوظات اور مکاتیب کے مختلف سلسلوں میں یہ خاصی تعداد میں نظر سے گذرتی ہیں۔ میں طولِ کلام سے بچنے کے لیے صرف ایک مثال کا ذکر کرتا ہوں جس کا تعلق میری اپنی شنید سے ہے۔ یعنی میں نے علامہ کی زبان سے، اسے خود سنا اور محفوظ کیا۔ بالِ جبریل تازہ تازہ شائع ہوئی تھی۔ ایک مرتبہ علامہ کی مجلس میں اس کا ذکر چھڑا، اس موقع پر غالباً ڈاکٹر تاثیر نے کہا: قبلہ بالِ جبریل کا ایک شعر بہت پریشان کررہا ہے، آپ سے اس کی تفسیر کی تمنا ہے۔ شعر یہ ہے: محمد بھی ترا ، جبریل بھی ، قرآن بھی تیرا مگر یہ حرف شیریں ترجماں تیرا ہے یا میرا؟ ڈاکٹر تاثیر نے کہا دوسرا مصرع خصوصاً اس کی ترکیب ’’حرفِ شیریں‘‘ اُلجھن میں ڈال رہی ہے۔ علامہ نے فرمایا۔ شعر تو صاف ہے لیکن اس میں شبہہ نہیں کہ ’’حرف شیریں‘‘ کی ترکیب سے پریشانی ہوسکتی ہے، لیکن اگر ’یہ‘ کی ضمیر پر غور کیا جائے تو بات واضح ہوجاتی ہے اور صاف معلوم ہوتا ہے کہ ضمیر کا مرجع قریب لفظ قرآن ہے۔ اس صورت میں مطلب یہ ہوا کہ:اے خدا یہ صحیح ہے کہ محمدؐ اور جبریل اور قرآن سب تیرے ہیں، یعنی محمدؐ تیرے رسول ہیں، جبریل تیرے فرشتے ہیں اور قرآن تیری کتاب ہے مگر یہ تو بتا کہ حرفِ شیریں یعنی قرآن ترجمانی کس کی کررہا ہے، تیری یا میری (یعنی انسان کی)۔ اس کے بعد حضرت علامہ نے بصیرت افروز تقریر کی اور فرمایا کہ قرآن حکیم کلام تو خدا کا ہے لیکن ایک دوسرے لحاظ سے دُنیا کی سب سے بڑی کتاب الانسان بھی یہی ہے، یعنی اس میں انسان کی نفسیات اور اس کے گوناگوں کوائف، اس کی نیکیوں، اس کی بغاوتوں، اس کی مجبوریوں اور اس کی فضیلتوں، یہاں تک کہ قوموں کی اجتماعی خصلتوں اور عادتوں، اُممِ سابقہ کے تجربوں اور اقوام آئندہ کے لیے عبرتوں کے لحاظ سے، قرآنِ مجید نے جتنی تفصیلی تصویر کشی انسان کی کی ہے وہ کسی اور کتاب میں موجود نہیں۔ مقصودِ کلام یہ ہے کہ شرحِ اقبال بزبانِ اقبال ایک ممکن العمل منصوبہ ہے جس کی تائید مذکورہ بالا ایک ہی شعر کی تشریح سے ہوجاتی ہے۔ مجھے اُمید ہے کہ کوئی صاحبِ دل اس اہم کام کی طرف متوجہ ہوکر اس مقدس فریضے کو بطریقِ احسن انجام دے سکیں گے۔ حضرات! میری تقریر ختم ہوئی۔ میں آپ کے حوصلے کا معترف ہوں اور آپ کا شکرگزار ہوں۔ والسلام ----- اورینٹل کالج میگزین، لاہور، جلد۵۸، شمارہ۴، جلد۵۹، شمارہ۱، شمارۂ مسلسل ۲۳۱، ۲۳۲ [۱۹۸۵ئ] ئ……ئ……ء ۱۱ اقبال: [شاعری اور فکر وفن] [حیات] اقبال کے اسلاف نے جو کشمیری پنڈتوں کے سپرو شاخ تھے، سترھویں صدی عیسوی میں اسلام قبول کیا اور کشمیر سے پنجاب میں وارد ہوکر سیالکوٹ میں قیام کیا۔ والد کا نام نور محمد تھا۔ صوفی مشرب، پاکیزہ سیرت اور نیکوکار بزرگ تھے۔ [تقریباً]سو سال کی عمر میں وفات پائی۔ اقبال کی تاریخِ پیدائش میں اختلاف ہے۔ بعض محققین کے نزدیک، آپ ۱۸۷۶ء میں پیدا ہوئے مگر بعض مصنّفین (حسرت، طاہر فاروقی، سالک وغیرہ) نے ۱۸۷۳ء لکھی ہے۔ فقیر سیّد وحید الدین نے روزگارِ فقیر میں اقبال کے مقالۂ پی ایچ ڈی (۱۹۰۸ئ) کے ابتدائی نوٹ کے حوالے سے ۳؍ذیقعدہ ۱۲۹۴ھ (مطابق ۹؍نومبر ۱۸۷۷ئ) کو صحیح قرار دیا ہے۔ پنجاب یونی ورسٹی کے کیلنڈر (۹۷-۱۸۹۶ئ) سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے (اقبال نے بی اے کا امتحان ۱۸۹۷ء میں دیا تھا اور فارم داخلہ میں عمر ۱۹ سال لکھی تھی)۔ محمد اقبال نام رکھا گیا۔ ابتدائی تعلیم گھر پر حاصل کرکے، باقاعدہ تحصیل کا آغاز سیالکوٹ کے مشن سکول میں ہوا۔ جہاں شمس العلما مولوی میر حسن بھی پڑھاتے تھے۔ اقبال نے اس زمانے سے لے کر ایف اے کے درجے تک ان سے خصوصی تربیت حاصل کی جس کا اعتراف جابجا کیا ہے۔ سکاچ مشن کالج سیالکوٹ سے ایف اے کرنے کے بعد، اقبال بی اے کے لیے گورنمنٹ کالج لاہور میں داخل ہوگئے۔ اس امتحان میں وہ ۱۸۹۷ء میں بڑے امتیاز سے کامیاب ہوئے۔ گورنمنٹ کالج ہی سے ۱۸۹۹ء میں اُنھوں نے ایم اے فلسفہ کا امتحان پاس کیا۔ یہیں پروفیسر (بعد میں سر) تھامس آرنلڈ سے شاگردی اور پھر دوستی کا رابطہ پیدا ہوا۔ ۱۳؍مئی ۱۸۹۹ء سے ۱۹۰۳ء تک اقبال اورینٹل کالج لاہور میں میکلوڈ عربک ریڈر رہے، جہاں تدریس کے علاوہ تصنیف و تالیف کا کام بھی کیا اور عربی مطبوعات کی نگرانی بھی کی۔ اس دوران میں اُنھوں نے دو دفعہ رخصت لے کر عارضی طور پر اسلامیہ کالج لاہور اور گورنمنٹ کالج لاہور میں تدریس کا کام کیا۔ اسی زمانے میں چند مضامین کے علاوہ ایک کتاب علم الاقتصاد لکھی۔ ۱۹۰۵ء میں اقبال گورنمنٹ کالج سے رخصت لے کر انگلستان گئے۔ وہاں قانون کی تحصیل کرکے بیرسٹر ہوئے اور میونخ سے پی ایچ ڈی کی سند حاصل کی جس کے لیے ایک مقالہ بعنوان The Development of Methaphysics in Persia مرتب کیا۔ ۲۷؍جولائی ۱۹۰۸ء کو واپس آگئے۔ لاہور گورنمنٹ کالج کی ملازمت۱؎ سے مستعفی ہوکر وکالت شروع کردی۔ درمیان میں کچھ وقفوں کے لیے گورنمنٹ کالج اور اسلامیہ کالج میں فلسفے کے پروفیسر کی خدمات انجام دیں تاہم وکالت سے بھی نیم دلانہ تعلق رہا۔ مگر ان کی اصل توجہ، شعر و حکمت کی طرف تھی۔۲؎ سیاسیات سے بھی دلچسپی لیتے رہے مگر عملی سیاست کے لیے طبیعت موزوں نہ تھی۔ قدرت نے انھیں مفکرانہ منصب کے لیے پیدا کیا تھا۔ ۱۹۳۱ء میں دوسری گول میز کانفرنس میں شرکت کی۔ مسلم لیگ کی تنظیم نو میں اُنھوں نے حصہ لیا۔ آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس منعقدہ الٰہ آباد (۱۹۳۰ئ) میں اُنھوں نے وہ اہم خطبۂ صدارت پڑھا جس میں تقسیمِ ہندستان اور الگ مملکتِ پاکستان کا تخیل واضح طور پر پیش کیا۔ بعد میں قائداعظم محمد علی جناح کے مشوروں میں شریک رہے۔ ان کی باہمی خط کتابت سے ان کے ان سیاسی تصورات کا پتا چلتا ہے جن کا تشکیلِ پاکستان سے تعلق ہے۔ انھی وجوہ سے انھیں مصورِپاکستان اور مفکر پاکستان کہا جاتا ہے۔ ان کی زندگی کے دوسرے اہم واقعات میں خاص طور سے قابل ذکر ان کا سفر (۱۹۲۸ئ) مدراس ہے جہاں اُنھوں نے چند علمی خطبات ارشاد فرمائے۔ ۱۹۳۳ء میں وہ نادر شاہ کی دعوت پر افغانستان گئے اور انھیں حکومتِ ہند کی طرف سے سر کا خطاب ملا۔ یوں قوم کی طرف سے ’’شاعرِ مشرق‘‘،’’ حکیم الامت‘‘اور ’’ترجمانِ حقیقت‘‘جیسے القاب ملتے رہے۔ ۱۹۳۴ء میں علالت کا آغاز ہوا اور علاج معالجے کے باوجود بیماری کا سلسلہ جاری رہا ۱- اس ملازمت سے اُنھوں نے قیامِ انگلستان کے زمانے ہی سے استعفا لکھ کر بھیج دیا تھا۔ (مرتب) ۲- شاید یہ نیم سچائی ہے۔ علامہ کا زیادہ تر وقت وکالت کی مصروفیات کی نذر ہوتاتھا۔ وہ ہمیشہ شکوہ کناں رہے کہ شعر گوئی کے لیے وقت نہیں ملتا۔ تاآنکہ ۲۱؍اپریل ۱۹۳۸ء کو (۶۵ سال کی عمر یا کم و بیش) انتقال فرمایا اور بادشاہی مسجد لاہور کے باہر، مسجد کی سیڑھیوں کے بائیں (جنوبی) گوشے میں مدفون ہوئے۔ آپ کا مزار اَب مرجعِ خلائق اور زیارت کدۂ خاص و عام ہے۔ آپ کے دو فرزند، آفتاب اقبال (پہلی بیوی سے) اور جاوید اقبال اور ایک بیٹی منیرہ (دوسری بیوی سے) ہیں۔ اقبال بڑے خلیق اور خوش طبع آدمی تھے۔ لباس سادہ، کبھی یورپین مگر اکثر دیسی ہوتا تھا۔ پچھلے پہر ان کے مکان پر مجمع لگا رہتا تھا۔ وہ ہر ملنے والے سے بڑے بے تکلف ہوکر ملتے تھے۔ نیازمندوں کی کثیر تعداد انھی سہ پہر کی محفلوں میں فیض یاب ہوتی تھی۔ چنانچہ ان نشستوں کی یادگار،ملفوظات کے کئی مجموعوں کی صورت میں موجود ہے۔ ان کی گفتگو علمی اور نہایت مؤثر ہوتی تھی۔ اسلام اور رسول پاکﷺ کے تذکرے سے آب دیدہ ہوجاتے تھے۔ اسلام کی روشن تقدیر کے بارے میں، بڑے پراُمید تھے اور ان سے ملنے کے بعد ہر شخص پراُمید ہوکر واپس آتا تھا۔ ظرافت اور خوش طبعی سے بھی کام لیتے تھے اور مسلسل نکتہ آفرینی سے مجلس کو شگفتہ اور زندہ رکھتے تھے۔ استغنا اور بے نیازی طبیعت کا رنگِ خاص تھا اور اسی کو وہ اپنی سب سے بڑی دولت سمجھتے تھے۔ خودی کا یہ مفسر، دل کا تو نگر تھا: فقیرِ راہ نشین است و دل غنی دارد معاصرین میں اکبر، گرامی، ظفر علی خاں، مولوی عبدالحق، سید سلیمان ندوی اور سر کشن پرشاد شاد اور بے شمار دوسرے بزرگ ہیں جن سے ان کی خط کتابت رہی۔ اور اب یہ خطوط شائع بھی ہوگئے ہیں۔ [شاعری] شاعری کے مختلف دور یوں تو اقبال کی شاعری کو چار بڑے ادوار میں تقسیم کیا جاتا ہے یعنی (۱) ابتدا سے ۱۹۰۵ء تک۔ (۲) ۱۹۰۵ء سے ۱۹۰۸ء تک (۳) ۱۹۰۹ء سے ۱۹۲۴ء تک۔ اور (۴) ۱۹۲۵ء سے ۱۹۳۸ء تک) مگر در حقیقت، مضمون اور اُسلوب کی تبدیلیوں کے لحاظ سے، ہر دور کے اندر کئی ادوار اور بھی ہوسکتے ہیں۔ مثلاً مذکورہ بالا دوسرے دور میں، ۱۹۰۸ء سے ۱۹۱۹ء تک ایک الگ دور بن سکتا ہے کیونکہ اس میں شاعری کا ایک خاص انداز اور مضامین کی ایک خاص نوعیت نمایاں ہے اور ۱۹۱۹ئ-۱۹۲۰ء سے ۱۹۲۴ء تک ایک الگ دور ہوسکتا ہے کیونکہ اس میں بھی سابقہ دور کے مقابلے میں لہجے کا تغیر نظر آتا ہے، مثلاً ہم دیکھتے ہیں کہ ۱۹۲۰ء کے بعد چار برسوں میں ترکوں کی شکست اور ہندستان میں تحریکِ خلافت کی وجہ سے ملک میں جو خاص حالات پیدا ہوگئے تھے، ان کی بنا پر اقبال کی نوا میں اضمحلال و احتجاج کا ایک خاص رنگ نمودار ہوتا ہے۔ اسی طرح ۱۹۲۵ء سے ۱۹۳۰ء تک نوا مختلف ہے اور آخری دور کی شاعری کی آواز گذشتہ سب آوازوں سے بالکل جدا ہے جیسا کہ آگے چل کر تشریح ہوگی۔ پہلا دور سیالکوٹ کے زمانے کی ابتدائی مشق کے بعد، لاہور کے مشاعروں میں اقبال کی شاعرانہ حیثیت تسلیم کی جانے لگی اور قومی مجلسوں میں اپنی نظمیں سنا کر اُنھوں نے غیر معمولی مقام حاصل کرلیا۔ غالباً سب سے پہلے ۱۹۰۰ء میں اُنھوں نے انجمن حمایت اسلام کے پلیٹ فارم پر اپنی نظم’’نالۂ یتیم‘‘ سنائی۔ اس کے بعد یہ سلسلہ جاری رہا۔ چنانچہ انگلستان جانے (۱۹۰۵ئ) تک شاعری کا کافی سرمایہ جمع ہوگیا تھا۔ اس دور کی شاعری میں ملے جلے رنگ نظر آتے ہیں۔ ابتدائی غزلیات کے جو نمونے دستیاب ہیں، ان میں اس زمانے کے مروّجہ اور مقبول عام اسالیب نمایاں ہیں، مگر ان میں بھی آئندہ کے کمال کے ہلکے ہلکے نقوش موجود ہیں۔ یہ وہ زمانہ تھا جب داغ اور امیر مینائی کا بڑا چرچا تھا۔ ان دونوں اساتذہ کا رنگ اگرچہ الگ الگ تھا مگر ان کی غزل میں معاملہ گوئی،محاورے کا استعمال، شوخیِ بیان اور ذرا سی بے حجابی جیسے اوصاف مشترک تھے۔ ان میں داغ زیادہ مقبول تھے چنانچہ اقبال بھی داغ ہی سے متاثر ہوئے اور خط کتابت کے ذریعے ان سے کچھ اصلاح بھی لی۔ مگر تھوڑے ہی دنوں میں داغ نے اصلاح ترک کردی اور کہا کہ ’’اب آپ کا کلام اصلاح سے بے نیاز ہے‘‘۔ (ملاحظہ ہو: محمد طاہر فاروقی، سیرت اقبال) بہرحال اس دور کے ابتدائی حصے میں، مروجہ روایتی شاعری، خصوصاً داغ کے اثرات اقبال کی غزل میں نظر آتے ہیں۔ ۱۹۰۱ء میں شیخ عبدالقادر کی ادارت میں مخزن شائع ہونا شروع ہوا تو اس میں بہت سے نام وَر اہلِ قلم جمع ہوگئے۔ ان کے زیر اثر ادب میں لطیف رومانیت کی ایک لہر پیدا ہوئی جس کی ایک خصوصیت حیرت، مسرت اور لطیف افسردگی کی آمیزش تھی اور یہ سرسید کے کلاسیکی رجحان یعنی خشک عقلیت اور کرخت مقصدیت کا ردِعمل تھا۔ مخزن کے ادبا نے مغرب کے لطیف الفکر رومانی شعرا کے مختلف رنگوں کو اُردو میں رواج دیا۔ چنانچہ اس دور میں اقبال کے یہاں بھی یہ سب رنگ ملتے ہیں مثلاً حسنِ فطرت کے بارے میں احساسِ تحیر، نیچر اور انسان کی رفاقت، وحدت الوجود کے تصورات کی جھلک، غریب الوطنی کا احساس (nostalgia) اور اس کے پردے میں حقائقِ کائنات تک رسائی، فنا اور بے ثباتی کا غم اور حوادثِ حیات کے حوالے سے درسِ اخلاق وغیرہ وغیرہ۔ ان میں اقبال نے کہیں بالواسطہ اور کہیں براہِ راست انگریزی شاعری کے مضامین اور رویے اپنائے ہیں اور ان کا اعتراف بھی کیا ہے لیکن یہ یاد رہے کہ اقبال نے رُوحِ مضامین کے سلسلے میں اثر قبول کرنے کے باوجود، اسے اپنی شعری روایت سے اس طرح ہم آہنگ کردیا ہے کہ بادی النظر میں اس استفادے کا احساس نہیں ہوتا، خصوصاً ان مضامین میں جن کی ایک روایت اسلامی تصوف میں موجود تھی۔ اقبال کی شاعری، ملکی واقعات و حالات سے بھی بے نیاز نہیں رہی۔ اس زمانے کے ہندستان میں تحریکِ آزادی جاری تھی اور وطن پرستی اس زمانے کی خاص روایت تھی، جس کے زیر اثر ہندو مسلم اتحاد اور غلامی سے نفرت جیسے مضامین ادب و صحافت میں عام تھے۔ چنانچہ اقبال کے یہاں بھی یہ مضامین موجود ہیں اور ’’ترانۂ ہندی‘‘، ’’نیا شوالہ‘‘، ’’میرا وطن وہی ہے‘‘ بلکہ ’’تصویر درد‘‘ جیسی نظمیں اس دور کی یادگار ہیں، ان وطنی نظموں میں کہیں کہیں ہندی الفاظ اور ہندی پیراے بھی آگئے ہیں جو ان کے عام فارسی آمیختہ رنگ کی بالکل ضد ہیں۔ دوسرا دور ۱۹۰۵ء سے ۱۹۰۸ء تک قیام یورپ کا دور ہے۔ اس زمانے میں اقبال نے زیادہ نہیں لکھا بلکہ بقول سر عبدالقادر: اُنھوں نے ایک موقع پر ترکِ شعر گوئی کا ارادہ بھی کرلیا تھا۔ ملاحظہ ہو (دیباچۂ بانگِ درا)۔ تاہم اقبال کا سفرِ یورپ شعری اور فکری لحاظ سے بڑا نتیجہ خیز تھا۔ اقبال نے یورپ کے افکار کا مطالعہ تو پہلے ہی کیا ہوا تھا، وہاں پہنچ کر اس ولایت کی معاشرت اور اس کے انحطاط پذیر پہلوئوں کا بغور مشاہدہ و مطالعہ کیا۔ اُنھوں نے اسلامی افکار کے حوالے سے جب تہذیبِ مغرب کا تجزیہ کیا، تو ان کے خیالات میں شدید ردِعمل پیدا ہوا۔ خصوصیت سے، اہلِ مغرب کے ان خیالات نے انھیں چونکا دیا جن کا تعلق اسلام اور اسلامی ممالک سے تھا۔ اسی کے زیر اثر اقبال کی شاعری میں ایک سیاسی رجحان نمودار ہوا جو پہلے ہندستان کی وطن پرستی تک محدود تھا مگر جس نے اب وطن سے ملت کی طرف رُخ کیا۔ ان کے نئے رجحان کو ’’اسلامی سیاسی رجحان‘‘ کہا جاسکتا ہے، جس میں اقبال وطن سے ماورا پوری ملتِ اسلامیہ کے تقاضوں کے ترجمان نظر آتے ہیں۔ اور تہذیبی فکری لحاظ سے انھیں اسلام کی نشاَت الثانیہ ممکن بھی نظر آتی ہے اور ضروری بھی۔ وہ مسلمانوں کے شان دار ماضی کی تعریف میں نظمیں لکھنے لگے اور عالمِ اسلام پر مغرب کے تسلط کے خلاف ان کے دل میں شدید ردِعمل پیدا ہوا اور وہ تحریکِ اتحاد اسلامی کے ترجمان بن گئے۔ ان کے دل میں عالمِ اسلام کی اساس پر ایک سیاسی و فکری انقلاب کی آرزو پیدا ہوئی جس کے لیے مسلمانوں کی ذہنی و رُوحانی اصلاح انھیں ناگریز نظر آئی۔ اب ان کی شاعری، رومانیتِ محض سے ہٹ کر، ایک پیغام کی ترجمان بن گئی۔ اُنھوں نے جب مسلمانوں کے ماضی و حال میں تضاد دیکھا تو قوم کو اس کی طرف متوجہ کیا۔ ان حالات میں ان کی شاعری میں درد آمیز سا خطیبانہ لہجہ پیدا ہوا جو بتدریج نمایاں ہوتا گیا اور یورپ سے واپسی کے بعد کی نظموں میں اس کا بھرپور اظہار ہوا۔ تیسرا دور ۱۹۰۸ء سے ۱۹۱۹ء تک۔ اس کے ضمن میں، میں نے ۱۹۱۹ء تک کا ایک دور اس لیے الگ قائم کیا ہے کہ اس میں اقبال کا ذہن ایک ایسی سمت اختیار کرتا ہے جو سابقہ دور سے بھی مختلف نظر آتا ہے اور اس دور سے بھی جو تحریکِ خلافت کے بعد کا ہے۔ یہ زمانہ مسلمانانِ ہند کی ملّی بیداری کے لحاظ سے، نیز بین الاقوامی سطح پر اسلامی دُنیا کے انقلاب انگیز حوادث کے لحاظ سے، بڑے ہنگامہ خیز واقعات کا زمانہ تھا۔ ہندستان میں مسلمانانِ ہند کے جداگانہ حقوق کے تحفظ کے لیے ۱۹۰۶ء میں مسلم لیگ قائم ہوچکی تھی۔ بال گنگا دھر تلک کی تحریکِ تشدد اور سیواجی ذہن کے احیا کی تحریک کے اثرات دور دور تک پھیل رہے تھے جس کا ردعمل مسلمانوں میں بھی اُبھرا۔ پھر تقسیمِ بنگال کے خلاف بنگالی ہندوئوں نے جو شورش برپا کی، مسلمان اس سے بھی متاثر ہوئے۔ حادثۂ مسجد کان پور نے ان جذبات کو مزید تقویت دی۔ اس کے علاوہ ۱۹۱۱ء میں حکومتِ برطانیہ نے اپنی مشتہرہ حکمتِ عملی کے برعکس ہندوئوں کی احتجاجی تحریکوں سے دب کر، تقسیمِ بنگال کی تنسیخ کر دی تو ایک طرف ہندوئوں کے خلاف بے زاری بڑھی اور دوسری طرف برطانوی حکومت سے مایوسی انتہا تک پہنچ گئی۔ ان واقعات کے علاوہ بین الاقوامی دائرے میں، ایران اور ترکیہ کے واقعات اور جنگ طرابلس (۱۹۱۱ئ) اور جنگ بلقان اوّل (۱۹۱۲ئ) دوم (۱۹۱۳ئ) سے بڑی تشویش پیدا ہوئی۔ اس اثنا میں ۱۹۱۴ء کی جنگ عظیم اوّل چھڑ گئی جس میں ترکی حکومت نے برطانیہ کے اتحادیوں کے خلاف، جرمنی کا ساتھ دیا۔ اس سے برطانیہ کے خلاف مسلمانانِ ہند کے جذبات میں اور بھی شدت پیدا ہوگئی اور ہندستان میں کش مکش نے ایک نئی صورت اختیار کرلی جو جرمنی کی شکست کے بعد ترکی کے حصے بخرے ہونے پر انتہا تک پہنچ گئی اور اس کے زیراثر ۲۰-۱۹۱۹ء میں ہندستان میں تحریکِ خلافت کا ظہور ہوا۔ اقبال کی اس دور کی نظموں میں مذکورہ بالا واقعات کا انعکاس ہے مگر نمایاں ترین رجحانات تین ہیں۔ اوّل: جنگ عظیم سے پہلے کے واقعات، جنگ عظیم اور خلافت کے واقعات کا کرب آمیز احساس۔ دوم: ایک نیا احیائی رجحان (مسلمان نوجوانوں کے لیے بیداری کا پیغام، مغربی تہذیب سے محترز رہنے کی تلقین، عالمگیر انسانی انقلاب میں اسلام کا کردار اور اس کے ممکنات اور اس کی بنیادی فکریات)۔ سوم: مسلمانانِ ہند کے ملّی تشخص پر زور۔ اس دور میں اقبال کے نظامِ فکر نے اسرارِ خودی اور رموزِ بے خودی میں ایک ہیئت اختیار کی اور ان کے سیاسی و تہذیبی افکار ایک مرتب شکل میں سامنے آئے۔اُنھوں نے بعد میں جو کچھ لکھا، وہ اسی فلسفے کی تشریح و تعبیر یا یکے بعد دیگرے پیش آنے والے واقعات پر اس فکر کا اطلاق تھا۔ اسرارِ خودی اور رموزِ بے خودی اسی دور کی مثنویاں ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ اقبال کے سب بنیادی افکار ان میں آگئے ہیں۔ ان نظموں کے لیے فارسی زبان اختیار کرکے، اقبال نے اپنے پیغام کی خاص سمت کی نشان دہی کی۔ یعنی یہ بتایا ہے کہ ان کا پیغام سارے عالم اسلام کے لیے ہے اور اس کے لیے فارسی اس لیے اختیار کی ہے کہ فارسی اس زمانے تک، اسلامی ایشیا کی مقبول ترین زبان ہونے کی وجہ سے پیغام کے لیے موزوں تھی۔ جن افکار کی تبلیغ مقصود تھی، ان کے لیے فارسی کا قالب موزوں تھا اور اس پر اقبال کو ماہرانہ قدرت بھی حاصل تھی۔ رومی سے اقبال کا شغف بھی فارسی کو ذریعۂ اظہار بنانے کا ایک باعث بنا۔ اور یہ بھی مسلّم ہے کہ اقبال نے فلسفۂ عجم کی تصنیف کے وقت، فارسی کے عظیم شعرا اور صوفیہ کے خیالات کا مطالعہ فارسی ہی کے توسط سے کیا اور اس کا اثر بھی قدرتی تھا۔ غرض ان سب وجوہ نے مل کر اقبال کو فارسی میں اظہارِ خیال پر مجبور کیا مگر ساتھ ہی اُردو میں لکھنے کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ چنانچہ نظم ’’شکوہ‘‘ اُنھوں نے ۱۹۱۱ء میں انجمن حمایت اسلام کے جلسے میں پڑھی۔ نظم ’’حضور رسالت مآبؐ‘‘ اسی سال شاہی مسجد کے ایک جلسۂ عام میں اور نظم ’’جوابِ شکوہ‘‘ دوسری جنگ بلقان (۱۹۱۳ئ) کے موقع پر، موچی دروازہ لاہور کے ایک جلسے میں سنائی۔ اس دور کے بعد، ۱۹۲۰ء سے ۱۹۲۴ء تک ان کی شاعری کا ایک خاص دور سامنے آتا ہے۔ اس عرصے میں ہندستان میں تحریکِ خلافت کا ہنگامہ رہا۔ مصطفیٰ کمال اتاترک نے یونانیوں کا جس طرح مقابلہ کیا، اس سے مسلمانانِ ہندستان میں بڑا ولولہ اور جوش پیدا ہوا لیکن یونانیوں پر فتح حاصل کرنے کے بعد اتاترک نے خلافت ہی کو ختم کردیا۔ اقبال کی شاعری میں اس کا شدید ردِعمل ملتا ہے جو ۱۹۲۴ء کے بعد بھی جاری رہا۔ ترکی میں تجدد کی جو لہر چلی، وہ اس کا فکری تجزیہ کرتے رہے اور شکست و اضمحلال کو دور کرنے کے لیے اُنھوں نے مثبت افکار پیش کیے۔ اس کے علاوہ دورِ حاضر میں اسلام کے امکانات پر بحث کی اور تہذیبِ فرنگ کے انحطاط پذیر پہلوئوں پر روشنی ڈالی۔ اقبال اس دور میں بھی تصورِ خودی کی تشریح و تعبیر میں مصروف رہے۔ اتحادِ عالم اسلام پر خاص زور دیا اور حرم کی پاسبانی کے لیے عالمِ اسلام کو متحد ہونے کی تلقین کرتے رہے۔ اس دور میں ملتِ اسلامیہ ہند کی تعمیرِ نو کے لیے اساسی افکار مہیا کیے ا ور اس کے ہمراہ وطن کی تحریکِ آزادی کی حمایت میں پرجوش اشعار لکھے۔ بانگِ درا (اُردو) مرتب ہوکر شائع ہوئی۔ پیامِ مشرق (فارسی) اور زبورِ عجم (فارسی) بھی اس دور کی تصانیف ہیں۔ آخری دور (۱۹۲۵ء سے ۱۹۳۸ء تک) اس دور کی کتابوں کے نام یہ ہیں: ۱- جاوید نامہ (فارسی) ۱۹۳۲ء ۲- بالِ جبریل (اُردو) ۱۹۳۵ء ۳- ضربِ کلیم (اُردو) ۱۹۳۶ء ۴- مثنوی مسافر (فارسی) ۱۹۳۶ء ۵- مثنوی پس چہ باید کرد اے اقوام شرق (فارسی) ۱۹۳۶ء ۶- ارمغانِ حجاز (فارسی و اُردو) بعد از وفات ۱۹۳۸ء اسی زمانے میں اقبال نے مدراس اور علی گڑھ میں تشکیل جدیدالٰہیاتِ اسلامیہ کے موضوع پر انگریزی میں کچھ خطبے پڑھے جو بعد میں The Reconstruction of Religious Thought in Islam کے نام سے شائع ہوئے۔۱؎ ان خطبات کا اُردو میں سید نذیر نیازی نے ترجمہ کیا ہے۔۲؎ اقبال نے آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس (۱۹۳۰ئ) میں انگریزی میں جو خطبۂ صدارت پڑھا، وہ مسلمانانِ ہند کے نقطۂ نظر سے اُن کے سیاسی اجتماعی فکر کا شاہکار ہے اور یہ بجاطور سے کہا گیا ہے کہ اسی خطبے نے نظریۂ پاکستان کا اساسی تخیل مہیا کیا۔ اس میں مسلمانوں کی جداگانہ قومیت پر زور دیا گیا ہے اور وطنی قومیت کے تصور کی سخت مذمت ہے۔ اس آخری دور میں نظریۂ خودی کی مزید توضیح و تشریح ہوئی۔ حرکت اور جہد و عمل کے فلسفیانہ تصور کو شاعری کے پیراے میں واضح کیا۔ علم و عقل انسانی کی حدود کا احساس دلا کر عشق و وجدان کی اہمیت پر بہت کچھ لکھا۔ رُوحِ انسانی کی لامحدود صلاحیتوں کا یقین دلایا اور مردِ مومن کے تصور کے ساتھ انسانِ کامل کے اوصاف کی بحث کی اور ربطِ فرد و ملت کو معاشرے کے ضبط و استحکام کے لیے ضروری ٹھہرایا۔ انھی تصورات کی روشنی میں سیاست، معیشت، معاشرت، تعلیم و تربیت اور ادب و فن کے نظریات کو ایک واضح شکل دی۔ اس دور میں اقبال نے عالمی وملکی سیاست پر بھی بہت کچھ لکھا۔ مغربی سیاست میں رنگ و نسل و وطن کے بت پرستانہ تصورات پر تنقید کی اور لادینی سیاست کے خلاف احتجاج کیا۔ احترامِ انسانیت اور تقدیرِ انسانی کا مثبت اور رجائی تصور دلایا۔ نظامِ سرمایہ داری کی تنقید کی اور اشتراکیت کے اس پہلو کی تحسین کی کہ یہ مغربی تہذیب کے خلاف ایک ردِعمل ہے۔ بقول ۱- ابتدا میں یہ مجموعہ، چھے خطبات پر مشتمل تھا۔ بعد ازاں ایک خطبے کا اضافہ کیا گیا۔ (مرتب) ۲- اب تک خطبات کے مزید چار اُردو تراجم شائع ہوچکے ہیں۔ (مرتب) اقبال اشتراکی روس ’لا‘ کی منزل میں داخل ہوا ہے اور اب کسی ’الّا‘ کی منزل میں جا پہنچے گا۔ مگر جیسا کہ آگے تفصیل سے بیان ہوگا اقبال کو اشتراکیت سے اختلاف بھی تھا۔ مساوات اور سرمائے کے بارے میں اقبال کا موقف اپنا تھا، اور یہ وہی تھا جو اسلام کا ہے۔ اس دور میں اقبال نے اُردو میں بھی بعض نہایت بلند پایہ نظمیں (مثلاً ’ساقی نامہ‘، ’مسجد قرطبہ‘، ’ذوق و شوق‘) لکھیں۔ ان میں اُن کے فن کا نقطۂ عروج نظر آتا ہے۔ خیال اور اُسلوب میں مکمل مطابقت ہے۔ ان نظموں کے ذریعے اُردو کے شعری اُسلوب کا کمال سامنے آیا ہے۔ اگرچہ یہ بھی صحیح ہے کہ ضربِ کلیم کی بعض نظمیں سراپا فکری ہیں اور شاعری بیان حقائق بن کر رہ گئی ہے۔ [اقبال کے اہم افکار] تصورِ خودی اقبال کے افکار میں اُن کے تصورِ خودی کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ خودی سے مراد جیسا کہ عام طور سے سمجھا جاتا ہے خود بینی اور تکبر و غرور نہیں۔ اس سے مراد، محض خود شناسی اور صوفیانہ معرفتِ نفس بھی نہیں، جیسا کہ بقول حضرت علیؓ من عرف نفسہ، فقد عرف ربہ صوفیوں کے یہاں مروج ہے۔ صوفیوں کا عرفانِ نفس محض داخلی حقیقت تک پہنچنے کا ایک تجریدی وسیلہ ہے مگر اقبال کا تصورِ خودی محض داخلی حقیقت تک محدود نہیں۔ اقبال کے نزدیک خودی کا مطلب ’’یقینی احساسِ نفس یا تعینِ ذات ہے‘‘۔ ان کے الفاظ میں ’’یہ ایک نقطۂ نوری ہے‘‘ جو ہر شے کے وجود میں زندگی کی آگ سلگائے رکھتا ہے۔ اقبال نے خودی کو حیات کا قائم مقام قرار دیا ہے اور اس سے وہ قوت مراد لی ہے جس کی وجہ سے زندگی کا ہر ارتقائی عمل ظہور میں آتا ہے۔ اس قسم کی خودی کائنات کے ذرے ذرے میں اور حجر شجر سے بشر تک ہر چیز میں موجود ہے۔ یہ خودی کے وسیع تر معنی ہیں۔ انسان کے تعلق میں زندگی یا تجربے کا واحد مرکز (اقبال کے نزدیک) خودی ہے اور اس کا تعلق محض باطنی زندگی یا دماغ سے نہیں بلکہ اس کی پوری شخصیت سے ہے۔ خودی انسان کے باطن میں ’انا‘ کا یقین پیدا کردیتی ہے۔ اقبال نے ڈاکٹر نکلسن کے نام ایک خط میں لکھا: ’’حیات کیا ہے؟ حیات ایک انفرادی شے ہے۔ اس کی سب سے اعلیٰ صورت خودی ہے جس کے حصول کے بعد فرد ایک مکمل اور قائم بالذات مرکز بن جاتا ہے‘‘۔ اُنھوں نے یہ بھی لکھا کہ ’’انسان کے اندر حیات کا مرکز خودی یا شخصیت ہے۔ یہ شخصیت کشاکش کی ایک کیفیت ہے اور اس کیفیت کی بقا ہی سے قائم رہتی ہے‘‘۔ بہرحال خودی ’’اس شعور کا نام ہے جو اپنے مقاصد سے باخبر ہو اور ان کے حصول و تکمیل کے لیے ایک لذتِ عمل اور آرزوئے سعی بھی رکھتا ہو‘‘۔ اقبال کی راے میں، خودی سے مراد، ’’صرف انسانوں کی خودی نہیں بلکہ خدا کی خودی ہے جو مصدرِ خلقت ہے‘‘۔ اُنھوں نے فرمایا: ’’ہستیِ مطلق کی ماہیت خودی ہے‘‘ اور ’’خودی کی ماہیت کو جاننا عرفانِ نفس بھی ہے اور عرفانِ رب بھی‘‘۔ سطور بالا میں جو کچھ بیان ہوا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ اقبال کے نزدیک خودی،شعور حیات اور ارتقائے حیات تینوں کا نام ہے[کذا]، اس کا تعلق کائنات سے بھی ہے، انسان سے بھی اور خدا سے بھی۔ گویا خودی ہی رازِ درونِ حیات ہے، خودی ہی ہستی کی حقیقت اور ہستیِ مطلق کی حقیقت ہے۔چونکہ کائنات کا وجود خودی کی بدولت ہے،اس لیے زندگی کی بقا اور استواری خودی کی محکمی اور استواری پر منحصر ہے: چوں حیاتِ عالم از زورِ خودی است پس بقدرِ استواری محکمی است خودی کی یہ خصوصیت ہے کہ وہ خود کو ظاہر کرنے پر مجبور ہے: وا نمودن خویش را خوے خودی است خودی کی ایک دوسری خصوصیت خود آگاہی ہے۔ خودی کی ایک صفت ذوقِ تسخیر اور شوقِ استیلا ہے: زندگانی قوتِ پیداستے اصلِ او از ذوقِ استیلاستے خودی کی یہ صلاحیت بھی قابل توجہ ہے کہ وہ زندگی کی شیرازہ بندی کرتی ہے اور تضادات میں وحدت پیدا کرتی ہے۔ خودی کا سلسلۂ عمل (۱) مقاصد آفرینی۔ (۲) پیکار۔ (۳) عشق۔ (۴) نظامِ تربیت۔ (۵) بے خودی۔ خودی کے سلسلۂ عمل کے سلسلے میں اقبال کا خیال یہ ہے کہ خودی، مقاصد کی تخلیق کرتی ہے، اعلیٰ مقاصد حیات کی آرزو اور ان کے لیے جدوجہد خودی کے استحکام کا باعث ہوتی ہے۔ اور جہاں یہ مقصد آفرینی نہ رہے اور نتیجتاً جدوجہد بھی کمزور پڑ جائے، وہاں خودی بھی ضعیف ہوکر مر جاتی ہے۔ خودی ایک سلسلۂ عمل کے تابع ہے۔خودی کا عمل، آرزو (یعنی عشق) سے قوت حاصل کرتا ہے، خودی اسی میلان کی شدت و دوام سے تکمیل پاتی ہے۔ اس تکمیل کے راستے میں خودی کو رکاوٹوں سے برسرپیکار ہونا پڑتا ہے۔ اس پیکار میں خودی کے پاس طاقت کا ایک سرچشمہ عشق ہے جو قوت بھی بخشتا ہے اور مزاحمتوں کو بھی توڑ دیتا ہے۔ خودی کے راستے میں جو قوتیں مزاحمت پیدا کرتی ہیں، ان سے پیکار ناگزیر ہوجاتی ہے۔ اس پیکار میں استقامت پیدا کرنے والی قوت عشق ہے۔ پیکار خودی کا ایک اُصول ہے اور عشق اس مثبت قوت، ذکر و فکر سے عشق کو ثبات حاصل ہوتا ہے اور عبادت سے آرزو کی پاکیزگی میسر آتی ہے۔ خدا سے محبت اور توحید کے یقینِ کامل سے عشق کا کمال پیدا ہوتا ہے۔ پیکار اقبال کے تصورِ خودی کا اہم مسئلہ پیکار ہے۔ بظاہر یہ ہیگل کے تصورِ جدل سے ماخوذ ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ خیر و شر کی ثنویت، اسلامی فکریت میں ہمیشہ سے مسلّم رہی ہے۔ ہیگل کی جدلیات سے یہ ان معنوں میں بھی مختلف ہے کہ ہیگل کی جدل میں ایک ما بعدالطبیعیاتی مفہوم کارفرما ہے۔ اس کے برعکس اقبال کے تصورِ پیکار میں مادی مفہوم کے ساتھ ساتھ اخلاقی مفہوم بھی پایا جاتا ہے۔ یوں تو پیکار فطرت میں ہر جگہ جاری و ساری ہے مگر اقبال،اس پیکار کو ایک اخلاقی نصب العین سے وابستہ کرکے، اسے برتر سطح پر لے آتے ہیں۔ بہرحال اقبال کے تصورِ پیکار کو ہیگل کے نظریۂ جدل سے مماثلت ہے مگر دونوں میں فرق ہے۔ اقبال کے یہاں ابلیس بھی تعمیرِ خودی کا ایک کارندہ ہے کیونکہ وہ پیکار میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ نظامِ تربیت اقبال نے خودی کے استحکام کے لیے ایک نظامِ تربیت تجویز کیا ہے۔ اس کے دو ابتدائی مرحلے ہیں: اطاعت اور ضبطِ نفس۔ تیسرا مرحلہ آئین الٰہیہ کی پابندی ہے، جس سے فرد نیابت الٰہی کے قابل ہوجاتا ہے۔ اس نظام میں جہاں عشق ایک قوت محرکہ ہے وہاں عمومی اُمور میں عقل بھی معاون ہے۔ نیابت الٰہی کے لیے خصوصی صلاحیت رکھنے والا فرد انسانِ کامل، مردِ حق اور نائبِ حق کہلاتا ہے اور عمومی صلاحیت رکھنے والاحُر، مردِ مومن اور بندۂ مومن ہے۔ بے خودی اقبال کے نزدیک، جس طرح فرد کے لیے شعورِ ذات ضروری ہے، اسی طرح اقوام کے لیے اجتماعی خودی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس اجتماعی خودی کی تعمیر کے لیے فرد کو اپنے شعورِ ذات کی کچھ قربانی کرنی پڑتی ہے،اقبال اسی کو بے خودی کہتے ہیں۔ جس طرح افراد کے شعورِ ذات کو زندہ رکھنے کا وسیلہ قوتِ حافظہ ہے، اسی طرح اقوام کے لیے قومی تاریخ ’روایاتِ ملیہ‘ کی حفاظت کا ایک وسیلۂ تحفظِ شعورِ اجتماعی ہے۔ ملت کا ربط و ضبط آئین الٰہی کی پابندی پر موقوف ہے اور متابعت بہ سیرت محمدیہؐ اس کی محکمی کی شرط اوّل ہے۔ ضعفِ خودی کے اسباب پہلے لکھا جاچکا ہے کہ مقاصد کے فقدان کی وجہ سے خودی ضعیف بھی ہوسکتی ہے۔ اقبال نے اس کے متعدد اسباب بیان کیے ہیں، ان میں (۱) مقصد کا نہ ہونا۔ (۲) آرزو کا مرجانا اور (۳)پیکار سے دستبردار ہوجانا، یہ تین اہم اسباب ہیں۔ اقبال کی راے میں فرد اور ملت دونوں کی خودی سوال (غیروں کی دست نگری) سے ذلیل و رسوا ہوجاتی ہے۔ اقوام ہوں یا افراد، دونوں کے لیے خود آشنا اور باغیرت و باحمیت ہونا اور اپنی ہستی پر اعتماد، لازمۂ حیات ہیں۔ اس کے برعکس دوسروں کی غلامی و تقلید اور غیروں پر غلامانہ انحصار سے خودی کی موت واقع ہوجاتی ہے۔ فقر بھی افراد و اقوام دونوں کی خودی کے لیے ایک بنیادی مثبت قوتِ حیات ہے اور اس سے مراد نیکی، حسن اور صداقت کے مقابلے میں، متاع دنیوی کو ثانوی حیثیت دینا ہے۔ فقر اس استغنا کا نام ہے جو نفس کو مادی حرص و آز اور استحصال کی ترغیبات سے آزاد کردیتا ہے اور نفس کو بے غرض نیکیوں کے لیے آمادہ کرتا ہے تاکہ نیکیاں رواج پاسکیں اور خیر ہی قدر اعلیٰ سمجھی جائے۔ اقبال کا فلسفۂ تمدن اقبال کا فلسفۂ تمدن ان کے مخصوص مرکزی تصورات پر مبنی ہے۔ اس میں فرد و ملت کا جو تصور موجود ہے، وہ بنیادی طور پر قرآن مجید سے ماخوذ ہے۔ قرآن مجید میں واضح طور سے مذکور ہے کہ بدایت ہدایت کی غایت اجتماعِ انسانی کی فلاح و بہبود ہے اور فرد کا ملت کے روابط سے بے تعلق رہنا رُوحِ قرآنی کے خلاف ہے۔ اقبال نے کہا ہے: فرد قائم ربطِ ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں اقبال کے اجتماعی تصورات کی یہی بنیاد ہے۔ لیکن یہ ملحوظ رہے کہ اقبال نے غیر معمولی افراد کے وجود پر خاص زور دیا ہے۔ اقبال، جرمن فلسفی نٹشے وغیرہ کے تصورِ فوق الانسان کے قائل نہ سہی، انسانِ کامل کے قائل ضرور ہیں۔ اقبال کے نزدیک یہ انسانِ کامل انبیا کی صورت میں دُنیا میں ہمیشہ موجود رہے ہیں، جن کا فائق ترین اور مکمل ترین نمونہ خاتم النبیینؐ کی ذات ہے۔ یہ بہرحال یاد رہے کہ اقبال کے اجتماعی فلسفے میں، فرد کی تربیت بڑا مقام رکھتی ہے اور جمہوری تصورات کے برعکس اقبال کا معاشرہ غیر افراد سے مرتب ہوتا ہے۔ ان کے نزدیک معاشرہ، ’ہجومِ مومنین‘ کا نام نہیں بلکہ خود آگاہ انسانوں کے مجموعے کا نام ہے جن کی قیادت غیر معمولی افراد کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اقبال کا تصورِ معاشرہ مغربی اور امریکی مصنّفین کے افکار کے اس رُخ سے متفق نہیں جو فرد کو معاشرے کا محض مشینی پرزہ سمجھتا ہے۔ اقبال کی نظر میں، معاشرہ، ملت یا قوم کی صحیح تشکیل کسی اہم رُوحانی عقیدے پر منحصر ہوتی ہے۔ کسی ایسے رُوحانی عقیدے کا پہلا بڑا اُصول عقیدۂ توحید ہے جس کے حوالے سے یہ یقین پیدا ہوتا ہے کہ ساری مخلوق، خدائے واحد کی پیداکردہ ہے اور انسان اس رشتے کے شعور سے انسانی معاشرے سے ربط وضبط رکھنے پر رُوحانی طور پر مائل ہوجاتا ہے۔ توحید سے پیدا شدہ اُخوتِ انسانی کے تصور سے ایک عالمگیر برادری وجود میں آتی ہے جو قید مکان سے آزاد ہوتی ہے۔ دوسرا بڑا عقیدہ سلسلۂ رسالت و نبوت ہے جو دُنیا کی سب اقوام میں خدا کی طرف سے ہدایت کا یکساں ذریعہ بنتا رہا ہے، رسالت و نبوت کا ابدی پیغام آنحضرتؐ نے دیا ہے اور یہ پیغام اب ابد تک رہے گا، البتہ مجدّدین وقتاً فوقتاً آتے رہیں گے جو توحید و رسالت کی اس تعلیم کو یاد دلاتے رہیں گے۔ غرض اقبال کے نزدیک ملت کی شیرازہ بندی مذکورہ رُوحانی عقیدوں سے ہوتی ہے، نہ کہ مادی روابط سے۔ اقبال کا تصورِ ملت یہی ہے۔ وہ قومیت کے اس تصور کے سخت مخالف ہیں جس کی بنیاد نسل، رنگ، زبان اور جغرافیے کی وحدت پر ہے۔ ان کے نزدیک قومیت کی یہ بنیاد نوعِ انسانی کے لیے موجبِ تفریق ہے۔ ان کا خیال ہے کہ نسلِ انسانی کی باہمی دشمنی، اسی اُصولِ قومیت کی وجہ سے ہے۔ مغربی قومیت کے لیے اس تصور کے برعکس اقبال نے عقیدے کی قومیت (ملّیت) پر زور دیا ہے۔ اقبال نے اسرارِ خودی میں تربیتِ فرد کے اُصول بیان کیے ہیں مگررموزِ بے خودیمیں ملت کی خاطر فرد کی ذمے داریوں کا تذکرہ کرکے ’مثالی ملت‘ کی خصوصیات بیان کی ہیں۔ اقبال کے تصورِ ملت پر چند اعتراض بھی ہوئے ہیں، مثلاً یہ کہ اقبال نے وطنی قومیت کی مخالفت کرکے جذبۂ ’حب وطن‘ کی نفی کی ہے، لیکن یہ غلط فہمی ہے۔ اقبال وطن کو ’ملّیت‘ کا گہوارہ سمجھتے ہیں، اس لیے وہ گہوارے کے تحفظ و احترام کے قائل ہیں، لیکن وطن یا خطۂ ارضی کا یہ احترام محض زمین کا احترام نہیں، بلکہ عقیدے کی بنا پر ہے۔ وہ کسی مخصوص وطن سے باہر کے اوطان کو بھی اس بنا پر ’وطن‘ ہی کا درجہ دیتے ہیں کہ اس میں ہم عقیدہ لوگ آباد ہیں۔ ان کے نزدیک جہاں محدود وطن کی محبت لازم ہے، وہاں اس وسیع تر وطن کی محبت بھی لازم ہے جس میں ہم عقیدہ بھائی رہتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ان کے اس موقف میں کوئی تناقص نہیں، وہ اس محدود اور ’منحصر بہ داخلیت‘ وطن کے قائل نہیں جو نسلِ انسانی کی خصوصیتوں میں اضافہ کردے اور محض جغرافیہ و رنگ و نسل کی بنا پر بھائی کو بھائی سے جدا کردے… ان کا عقیدہ ہے کہ حقیقی انسانی اجتماعیت کے لیے عقیدۂ وطنیت زہر قاتل ہے، کیونکہ یہ محدود اور افتراق انگیز ہے۔ اقبال کا نظریۂ سیاست و حکومت بھی انھی تصورات کے تحت مغربی نظریوں سے جدا ہے۔ اقبال کی نظر میں، مغربی جمہوریت، معمولی اور عام سطح کی صلاحیتوں کو غیر معتدل اہمیت دیتی ہے اور اکثریت کو (جن کے اکثر فیصلے ’غیرعاقلانہ‘ ہوتے ہیں) مدارِ کار بنا کر گویا ’ہجوم‘ کو راہنمائی کا شرف بخشتی ہے۔ اقبال کے نزدیک مثالی ریاست وہ ہوگی جس میں نیابتِ الٰہیہ اسلام کی دی ہوئی شورائیت اور خلافتِ راشدہ کی سی ہدایت یافتہ غیر معمولی قیادت کا اجتماع ہوگا۔ اسے اقبال نے ’’خلافت یا حکومتِ الٰہیہ‘‘ کہا ہے۔ اس حکومت کا دستور خدا کا دیا ہوا ہے اور اس کی تنظیم میں افرادِ فائقہ کی غیر معمولی زندگی اور عام انسانی تجربوں سے استفادہ دونوں شامل ہیں۔ اقبال کے نزدیک دین اور سیاست کی یکجائی، فلاح و بہبود انسانی کے لیے لازمی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سیاست کی اساس رُوحانی اور اخلاقی ہونی چاہیے، ورنہ جلد یا بدیر یہ سیاست استحصال اور جبر و تشدد کا وسیلہ بن جاے گی۔ لیکن ظاہر ہے کہ دین و سیاست کی یکجائی پر مبنی ریاست کی راہنمائی کے لیے افرادِ فائقہ ہی درکار ہوں گے۔ اقبال کی مثالی ریاست وہی ہے جس کا نمونہ آنحضرت ﷺ اور ان کے خلفاے راشدینؓ نے قائم کیا۔ اس کے لیے حضرت صدیق۔ؓکا ساصدق، حضرت فاروق۔ؓ کا سا عدل، حضرت عثمانؓ کی سی حیا اور حضرت علیؓ کا سا فقر درکار ہے۔ صدق، عدل و احسان اور فقر کے اُصولوں پر قائم شدہ اس ریاست میں استحصال کا نام و نشان تک نہ ہوگا۔ اس میں سرمایہ موجبِ فساد نہ ہوگا، نہ اس میں سرمایہ و محنت کے مابین کش مکش ہوگی۔ احتیاج کا عنصر غائب ہوجائے گا اور ’’کس نباشد در جہاں محتاج کس‘‘ کا سماں پیدا ہوجائے گا۔ فقر کی وجہ سے نہ تو انسان اپنی مادی ضرورتیں بڑھائیں گے اور نہ کسی کو کسی طرح کی تنگی ہوگی، البتہ جو ضرورتیں ناگزیر ہیں ان میں عدل و احسان کا نظام قائم ہوکر ایک ہموار معاشرہ وجود میں آئے گا۔ اقبال نے مغرب کی سرمایہ داری کے خلاف بہت کچھ لکھا ہے اور اس کے ضمن میں موجودہ دور کے بعض اشتراکی اقدامات کی تحسین بھی کی ہے، مگر اقبال اشتراکیت کے نظام پر اتنے ہی معترض ہیں جتنے سرمایہ داری پر ہیں۔ انھیں اشتراکیت کے خلاف سب سے بڑا اعتراض یہ ہے کہ یہ نظام ’مساواتِ شکم‘ کی بنیاد پر قائم ہے، حالانکہ اصلی مساوات، رُوحانی عقیدوں سے پیدا ہوتی ہے۔ شکم کی مساوات ایک ناقابلِ عمل عقیدہ ہے۔ یہ اس لیے ممکن العمل نہیں کہ یہ طلب اور مزید طلب کی جبلت کو محکم کرتا ہے، ضبط اور ضروریات کی رضاکارانہ تحدید پر زور نہیں دیتا۔ اس لیے ’مساواتِ شکم‘ کی اصطلاح میں داخلی تضاد پایا جاتا ہے۔ اقبال نے اپنی کتاب علم الاقتصاد میں اور اس کے علاوہ اپنے فارسی اُردو کلام اور مکاتیب و مقالات میں اس موضوع پر بہت کھل کر لکھا ہے۔ وہ معاشیات میں اقتصاد (یعنی شعوری میانہ روی) کے قائل ہیں۔ نہ تو وہ سرمایہ داری کو مانتے ہیں اور نہ سرمائے کی نفی کرتے ہیں۔ وہ سرمائے کی تعدیل چاہتے ہیں۔ اشتراکیت سے اس کی بنیادی مادہ پرستی کے علاوہ انھیں ایک اختلاف یوں بھی ہے کہ اقبال (اسلام کے تتبع میں) سرمائے کی بنیادی اہمیت کو مانتے ہیں اور اسے ناگزیر جان کر، اس کی عادلانہ تنظیم کے قائل ہیں۔ سرمائے کی کامل نفی ایک ایسا انتہا پسندانہ اُصول ہے جس کا ردِعمل شدید تر سرمایہ پرستی کو جنم دیتا ہے۔ اس مسئلے میں فرد کی آزادی اور انسانی اختیار و محنت کے احترام کا معاملہ بھی سامنے آتا ہے۔ وہ یوں کہ ایک فرد اپنی محنت سے جو کچھ کماتا ہے، اس پر اس کا حق مسلّم ہے، ماسوا اس حصے کے کہ جو صالح معاشرے کے قیام کے لیے اجتماعی شوریٰ کے تحت یا رضاکارانہ طور پر جذبۂ اُخوت و محبت کے تحت دوسروں کے حوالے کردیتا ہے۔ جو معاشرہ فرد کو اس کی اس آزادی اور اس کے اس حقوق سے محروم کردیتا ہے، وہ بنیادی حقوقِ انسانی کا مخالف ہے اور جابر اور آمر ہے۔ اقبال نے سرمایہ و محنت کے ضمن میں ان سب اُصولوں کو مدنظر رکھا ہے۔ اقبال مغربی تہذیب کے شدید ناقدوں میں سے ہیں۔ ان کے نزدیک، مغربی تہذیب یا تو غیر معتدل عقل پرستی پر زور دیتی ہے یا محض مادہ و حواس کی تسکین کو مقصودِ حیات جان کر، زندگی کی وجدانی، عقلی اور رُوحانی قدروں ہی کی منکر ہوگئی ہے۔ چنانچہ یورپ اور امریکہ کے اکثر افکار لذت پرستی اور نفع پرستی کے گرد گھومتے ہیں۔ اس فلسفے کے تحت انسان یا تو کامل بیوپاری بن گیا ہے یا حیوانِ محض، اور یہ دونوں باتیں شرفِ انسانی کی ضد ہیں۔ اقبال کی نظر میں یورپ کی سائنسی اکتشافی رُوح اور ذوقِ عمل اور شوقِ تسخیرِ کائنات، بلاشبہہ تحسین کے قابل ہیں مگر یہ سب فتوحات و تسخیرات، کسی رُوحانی اساس کے بغیر بے نتیجہ ہیں کیونکہ انسانی سکون و اطمینان میں اس سے اضافہ نہیں ہوا، بلکہ بے اطمینانی بڑھی ہے اور اُخوت اور امن و آشتی کے جذبے سرد ہوگئے ہیں۔ پھر تفریق اور دشمنی بھی زیادہ ہوئی ہے اور مغرب کے معاشرتی اور نفسیات و اجتماعیات کے علوم اس تفریق کو ہر وقت بڑھاتے رہتے ہیں۔ جو علمی ترقی، انسان کو شریف تر اور دل کا تو نگر نہ بناسکے، اقبال کی نظر میں اسے صحیح معنوں میں ترقی نہیں سمجھا جاسکتا۔ چنانچہ اُنھوں نے لکھا ہے: عجب آں نیست کہ اعجاز مسیحا داری عجب این است کہ بیمارِ تو بیمار تر است (نقشِ فرنگ، پیامِ مشرق) کیا فکرِ اقبال محض استفادہ ہے؟ بعض مشرقی اور مغربی مفکرین کے افکار سے فکرِ اقبال کی ظاہری مماثلت کی وجہ سے بعض حلقوں میں غلط فہمی موجود ہے کہ اقبال نے خودی و بے خودی کا تصور، نیزاپنے دیگر اکثر افکار، دوسروں سے لیے ہیں مگر یہ حقیقت نہیں۔ چنانچہ اقبال نے خود بھی اپنے مکاتیب اور مضامین میں اس کا انکار کیا ہے۔ یہ سچ ہے کہ اقبال نے مفکرینِ مشرق و مغرب کی کتابوں کا غائر مطالعہ کیا ہے جن کے آثار و نقوش ان کی تصانیف میں موجود ہیں اور یہ بھی صحیح ہے کہ بعض صورتوں میں ان سے استفادہ بھی کیا ہے اور بعض مماثلتیں بھی موجود ہیں، مگر اسے نقل کہنا بڑی زیادتی ہے۔ یہ تو دراصل عالمی افکار کی طرف ایک حوالہ، ایک تقابلی رجوع اور ان پر ایک طرح کی تنقید ہے۔ مغربی افکار سے پورے اعتنا کے باوصف، اقبال کا نظامِ فکر مخصوص اور منفرد ہے اور تمام تقابلی افکار سے وہ مزاج، مقاصد اور غایت کے اعتبارسے جدا اور ممیز ہے۔ اس سلسلے میں ہم سب سے پہلے اقبال کے اسلامی مآخذ کا ذکر مناسب سمجھتے ہیں۔ فکرِ اقبال کے اسلامی مآخذ اقبال نے مغرب سے جو اثرات لیے ہیں، ان سے کہیں زیادہ قرآن و حدیث اور ادبیاتِ اسلامی سے استفادہ کیا ہے بلکہ اصلاً وہ انھی سرچشموں سے فیض یاب ہیں اور یہ ان کا حق بھی تھا۔ وہ اپنے ورثے سے صرف نظر نہ کرسکتے تھے، اُنھوں نے اس عظیم ورثے اور عظیم روایت کو مرکزی طور سے اپنے سامنے رکھ کر، اس فکر کو مغربی علوم کے نقد و حوالہ کی مدد سے آگے بڑھایا۔ قرآنِ مجید نے اثباتِ توحید کے بعد سب سے زیادہ زور ممکناتِ انسان پر دیا ہے۔ قرآنی تصور یہ ہے کہ انسان کو علم و ادراک اور قوتِ تجزیہ بخش کر، تجربہ گاہِ عالم میں نیابتِ الٰہیہ کے لیے بھیجا گیا اور وہ امانت جسے کوئی دوسری مخلوق قبول نہ کرسکی، انسان کے سپرد ہوئی۔ اس سے انسان کے عظیم منصب اور روشن تقدیر کی تعیین ہوئی۔ قرآنِ مجید نے اعلیٰ صلاحیتوں کی تربیت کا آغاز ضبط نفس اور عرفانِ نفس سے کیا۔ اسی شعور سے اس خودی کی ابتدا ہوتی ہے جو اقبال کا بھی مرکزی تصور ہے اور جس کی ہر ہر کڑی کے لیے قرآن کی آیات سے تائید مل سکتی ہے۔ اسی طرح اقبال نے جابجا احادیث نبوی کے حوالے دیے ہیں۔ اقبال نے قرآن و حدیث کے علاوہ کتبِ تصوف و حکمت سے بھی استفادہ کیا (حکما سے کم، صوفیہ سے زیادہ) اس سلسلے میں ان کے سب سے بڑے راہنما رومی ہیں مگر ان میں بعض دوسرے صوفیہ کے اثرات بھی ملتے ہیں۔ اقبال نے رومی سے وجدان کا تصور لیاجس کی برگساں اور (قدرے) کانٹ کے خیالات سے کچھ مشابہت ہے لیکن جہاں تک اقبال کا تعلق ہے، دراصل یہ رومی ہی کا عطیہ ہے۔ یہ وجدان پُراسرار الہامی سرچشموں سے نکلتا ہے مگر اس کے انکشافات عقلی انکشافات کے متخالف نہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ عقل کے ادراکات، منطقی استدلال اور حواس سے محسوس کیے ہوئے نتائج کے محتاج ہیں۔ اس کے برعکس وجدان کا سلسلۂ ادراک پُراسرار ہے۔ رومی اور اقبال دونوں کے نزدیک وجدان، جذبۂ عشق کا فیضان ہے جو ایک قلبی کیفیت اور سلسلۂ عمل ہے۔ عشق، ایک علمی و اِدراکی عنصر ہے اور زندگی کا کل نظم و حسن اس پر منحصر ہے۔ اس کے علاوہ رومی زندگی کی عملیت کے بھی قائل ہیں اور اس توکل کے مخالف ہیں جو اسباب سے منقطع ہوکر محض غیبی طاقتوں کی مدد سے نتائج کا منتظر ہو۔ رومی کے یہ بنیادی تصورات (مِن جملہ دیگر تصورات کے) اقبال کے یہاں بھی ہیں، کہیں اعتراف و اقرار کے ساتھ، کہیں بے اعتراف۔ پہلے لکھا جاچکا ہے کہ اقبال نے ان متکلمین اور حکماے اسلام کو زیادہ اہمیت نہیں دی جو تعقلِ محض اور داخلیتِ محض پر زور دیتے ہیں۔ فخر رازی تو خیر عقل پسند ہی تھے، اقبال نے غزالی جیسے وجدانی متکلم سے بھی کچھ زیادہ دل چسپی نہیں لی، کیونکہ وہ اگرچہ تعقلِ محض کے خلاف تھے مگر اقبال کو ان کی داخلیت ِمحض اس لیے پسند نہیں آئی کہ اس نے خارجی مشاہدے و تجزیے کی تحریک کا راستہ مسدود کردیا تھا اور سائنسی انکشافات کی لہر اسلامی دُنیا میں اس طرزِ فکر کی وجہ سے سرد پڑ گئی۔ انھیں شبستری کی نفیِ خود بھی گوارا نہیں ہوئی، جس کے جواب میں اُنھوں نے ’’گلشنِ رازِ جدید‘‘میں بے خودی کے برعکس خودی کا اثبات کیا ہے۔ صوفیوں میں منصور کی جارحیت ناپسندیدہ سمجھی گئی ہے مگر اقبال نے اس جارحانہ جرأت سے بھی کچھ دلچسپی لی ہے۔ کیونکہ حلاج کی آواز میں ندرت بھی ہے اور حرکت بھی۔ اقبال کے مآخذِ فکر میں فارسی کی اخلاقی شاعری بھی اہمیت رکھتی ہے اور اس سے استفادہ کے نمایاں آثار کلامِ اقبال میں ہر جگہ ملتے ہیں لیکن صوفیانہ شاعری کے اس حصے پر اُنھوں نے مسلسل تنقید کی ہے جو زندگی میں سکون اور بے عملی اور نفیِ سعی پر زور دیتا ہے۔ اسی وجہ سے، اقبال نے حافظ کے اُسلوب سے متاثر ہونے کے باوجود اس کی تعلیم پر اعتراض کیے ہیں۔ معلوم نہیں اقبال نے ابن عربی سے کہاں تک استفادہ کیا، مگر ابراہیم الجیلی کی کتاب الانسان الکامل کا اُنھوں نے خود اعتراف کیا ہے۔ ان سب اکتسابات کے باوجود، صوفیوں کے نقطۂ نظر اور فکرِ اقبال میں ایک بڑا فرق یہ ہے کہ جہاں صوفی فکر میں مرکز ِتوجہ فرد ہے، وہاں فکرِاقبال میں اجتماعی نقطۂ نظر کارفرما ہے۔ اقبال اور صوفیوں کے مقاماتِ اتفاق و اختلاف اقبال اور صوفی، بعض اصطلاحات اور تصورات کے لحاظ سے، باہم مماثلت رکھتے ہیں۔ مثلاً عشق کی اہمیت، فقر کی تاثیر، ذکر و فکر پر زور، اخلاص و حیا کی برکات، وغیرہ۔ مگر درحقیقت اقبال اور صوفی خودی کے بنیادی تصور کے بارے میں ضدین کا درجہ رکھتے ہیں۔ اقبال نے محمود شبستری کی گلشنِ راز کے مقابلے میں’’ گلشنِ رازِ جدید‘‘لکھ کر اپنے اس اختلاف کو بڑی قطعیت سے واضح کردیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ صوفی جتنی شدت سے ’خود‘ کی نفی کرتے ہیں، اقبال اس سے زیادہ شدت کے ساتھ ’خود‘ کا اثبات کرتے ہیں۔ صوفی ’خود‘ کو انحطاطِ نفس کا کرشمہ جانتے ہیں، اقبال خود کو استکمالِ نفس کا وسیلہ سمجھتے ہیں۔ صوفیوں کا سارا موقف رُوحانی ہے اور وہ مادے کی تنقیص کرتے ہیں، اقبال کا موقف جامع ہے۔ وہ مادے کو بھی رُوحانی ترقی کا ممد سمجھتے ہیں اور اس سلسلے میں معراجِ نبویﷺ کی مثال پیش کرتے ہیں کہ آپﷺ نے اپنے جسم عنصری کے ساتھ ہم کلامی کا شرف حاصل کیا ہے۔ صوفیوں کے نزدیک بے خودی سے مراد خود کو شعورِ تن سے بے نیاز کردینا ہے۔ اقبال کے نزدیک اس سے مراد شعور خود کو زندہ رکھنا اور اسے اجتماعی شعور کے تابع بنانا اور ملت کے لیے اپنے بعض حقوق کو قربان کردینا ہے۔ اسی طرح صوفیوں کا موقف انسان کے بارے میں بھی مختلف ہے۔ صوفی اگرچہ انسان کے شرف کو مانتے ہیں مگر تب جب وہ انسانی خصائص سے بلند ہوکر زیادہ سے زیادہ رُوحانی خصائص پیدا کرے۔اقبال کے نزدیک انسان کا شرف اس میں ہے کہ وہ انھی مادی علائق کے ساتھ اعلیٰ رُوحانی خصائص پیدا کرلے۔ اقبال کے نزدیک انسان وہ گوہر [ہے]جس کی طلب خود خدا کو بھی ہے: ما از خداے گم شدہ ایم، او بجستجوست چوں ما نیاز مند و گرفتارِ آرزوست عمل کے مسئلے میں نیز فقر کی توجیہ کے معاملے میں بھی اقبال کا موقف صوفیوں سے مختلف ہے۔ اگرچہ اس کی ضد نہیں۔ اسی طرح عشق کی تعمیر میں صوفیوں کے تصورات میں خاصی مماثلت ہے۔ لیکن ایک خاص سطح پر اقبال کا تصورِ عشق حیاتیاتی، سائنسی اور فلسفیانہ بھی ہوجاتا ہے۔ عقل صوفیوں کے عشق کی ضد ہے مگر اقبال کے نزدیک، عشق اگرچہ برتر جذبہ اور وسیلۂ عالم ہے مگر عقل بھی ادراک حقیقت میں ایک مقام رکھتی ہے۔ اقبال نے برگساں کی طرح، وجدان پر بہت زور دیا ہے مگر یہ وجدان خالص غیر عقلی سلسلۂ عمل نہیں۔ صوفیوں کا نصب العین محض فرد کی کامل تربیت ہے مگر اقبال کا نقطۂ نظر اجتماعی بھی ہے۔ علم و دانش کے مسئلے میں اقبال دانش ِبرہانی اور عقلِ ایمانی میں فرق کرتے ہیں۔ برہانی منطقی حکمت،جزوی ادراک کا سرچشمہ ہوسکتی ہے جب کہ عقل ِایمانی کل ادراک پر قادر ہے اور یہ تقسیم رومی کے تتبع میں ہے۔ ان مباحث کا ماحصل یہ ہے کہ اقبال نے صوفی مفکرین کا مطالعہ تو کیا ہے اور مناسب حد تک ان سے استفادہ بھی کیا ہے مگر ان کا مرکزی نظامِ فکر (خصوصاً خودی کے سلسلے میں) خالصتاً ان کا اپنا ہے، البتہ حوالہ و استشہاد کے معاملے میں اُنھوں نے اکثر مصنّفین سے اعتنا کیا ہے۔ فکرِ اقبال کے مغربی مآخذ مغربی مصنّفین کے سلسلے میں بھی کیفیت یہی ہے۔ فکرِ اقبال میں مغربی افکار کے حوالے برابر ملتے ہیں مگر یہ استفادہ قدرتی اور تجزیاتی ہے۔ اہم افکار میں سے خودی کے سلسلے میں مغربی فکر کی مماثلتوں میں فشتے (فختے Fichte)اور نٹشے (Neitsche) کا ذکر عموماً کیا جاتا ہے لیکن جیسا کہ ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم نے فکرِ اقبال میں لکھا ہے یہ تجزیاتی مماثلتیں ہیں اور ہر چند کہ اقبال نے ان مفکرین کا مطالعہ کیا ہے، اُن کا تصور مستقل نوعیت رکھتا ہے جس میں وہ اصلاً فکر اسلامی کی روایتوں سے بطور خاص مستفید ہوئے ہیں اور تنقیداً مغربی فکر سے بھی اعتنا کیا ہے۔ جیسا کہ پہلے بیان ہوچکا ہے، خودی کی بحث میں پیکارکا تصور بھی بظاہر ہیگل کے تصورِ جدل سے مشابہت رکھتا ہے اور اس میں ڈارون کے ارتقائی فلسفے کی جھلک بھی ہے مگر یہاں بھی اقبال تھوڑی دور تک ان فلسفیوں کے ہم قدم ہوکر اپنا مختلف راستہ اختیار کرلیتے ہیں۔ جیسا کہ ذکر آچکا ہے جہاں اقبال کا مفہوم رُوحانی و اخلاقی ہے، وہاں ہیگل کا جدلیاتی فلسفہ صرف ’مابعد الطبیعیاتی‘ اور ڈارون کا ’اُصولِ پیکار‘ صرف حیاتیاتی مفہوم رکھتا ہے۔ اقبال کے تصورِ ’ابلیس‘ کی نوعیت بھی یہی ہے، ہرچند کہ بعض ناقدین نے اسے ڈانٹے کی طربیۂ خداوندی (Divine Comedy) اور ملٹن کے فردوسِ گم گشتہ (Paradise Lost) اور گوئٹے کے فاؤسٹ سے لیا ہوا تصور قرار دیا ہے مگر ابلیس دینی اور صوفیانہ فکریات میں بھی برابر چلا آیا ہے اور ایرانِ قدیم کی ثنویت بھی بہرحال اقبال سے پوشیدہ نہیں۔ اقبال نے انگریز فلسفی الیگزنڈر سے استفادے کا خود اعتراف کیا ہے اور برگساں سے انھیں اس کے عقیدۂ وجدان (intution) اور اُصولِ جوش حیات (vitalism) کی وجہ سے خاصی دل چسپی معلوم ہوتی ہے مگر حق یہ ہے کہ یہ سب استفادات، تائیدی ہیں۔ اُنھوں نے ان سب کو اپنے مرکزی تصور کی تقویت کے لیے استعمال کیا ہے۔ دُنیاے علم و فکر میں استفادہ و حوالہ اور مقابلہ و مماثلت کوئی نئی شے نہیں۔ جب سے دانش وحکمت کا آغاز ہوا ہے یہ سلسلہ جاری ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ کسی مفکر نے ان سب استفادات کے باوجود، حقیقت کے کسی مستقل اور منفرد رُخ کا پتا چلایا ہے یا نہیں؟اگر یہ اَمر ثابت ہوجائے تو استفادہ و مماثلت کے باوجود انفرادیت تسلیم کرلی جاے گی اور غائر مطالعے سے یہ نتیجہ نکالنا مشکل نہ ہوگا کہ اقبال ہمہ جہت مطالعات کے باوجود، اپنے مرکزی تصور پر قائم رہے ہیں اور ان کے تصورات مخصوص اور منفرد ہیں، خصوصاً ان کے اسلامی حوالے کی وجہ سے، جن کی بنا پر وہ اسلام کی دی ہوئی شعوریات کو مرکزی اہمیت دے کر عالمی فکر کی روشنی میں اپنی فکری روایت کا اثبات کرتے ہیں۔ اقبال کے مرکزی فکر کی تین اہم بنیادیں اقبال کے مرکزی تصور کی تین اہم بنیادیں ہیں۔ اوّل: مادہ اور رُوح (ہر دو م) کا حقیقی ہونا۔ دوم: خدا، انسان اور کائنات تینوں کا ایک جامع حقیقت ہونا۔ سوم: عقل و عشق کا مخصوص تصور یعنی باوجودیہ کہ زندگی کی کلّی حقیقت کا ادراک صرف عشق سے ممکن ہے پھر بھی عقل و عشق باہم غیر نہیں۔ ان تینوں بنیادوں کا محصور تصور کی کلیت اور جامعیت ہے جیسا کہ آگے چل کر بیان ہورہا ہے۔ اقبال کو مغربی فلسفے میں یہ خاص کمزوری نظر آئی ہے کہ یہ جزوی اورمحدود حقیقتوں پر غیرمعمولی زور دینے لگتا ہے، جس کے نتیجے میں یہ عموماً یک طرفہ ہوجاتا ہے اور زیرنظر حقیقت کے سوا ہر دوسری ممکن حقیقت سے آنکھ بند کرلیتا ہے، چنانچہ عقل پسندی (rationalism) پر آیا تو رُوح سے صاف انکار کردیا۔ پھر تعقل سے برہم ہوا تو خالص تجربیت (empiricism) کے حق میں متعصب ہوگیا۔ پھر اس سے ہٹا تو خالص نفع پرستی (pragmatism) کو سب کچھ سمجھ بیٹھا۔ غرض اسی طرح شاخ در شاخ، ہر فکر کے صرف ایک رُخ کو اپنا کر، باقی سب سے منہ موڑ لیا۔ موجودہ دور کی نفسیاتی تحریک اور وجودیت (existenlialism) کا ہنگامہ بھی اسی یک طرفہ انداز کا ایک مظاہرہ ہے۔ اقبال کا امتیاز یہ ہے کہ وہ مغربی فکر کی ان ’یک رُخ‘ انتہا پسندیوں کے درمیان ایک متوازی، کلی اور جامع تصور پیش کرتے ہیں۔ ان میں سے ہر ایک کے علمی اور تعمیری پہلو کا اقرار کرکے اپنے تصور کی مخصوص جہت یعنی کلیت اور جامعیت کی خاطر، استدلال کی ازسر نو تنظیم کرتے ہیں اور اس طرح مغربیوں کے اندازِ نظر سے بالکل جدا ہوجاتے ہیں۔ مغرب سے جدا انداز میں سوچنے کے سلسلے میں مذکورہ بالا حقیقتوں کے باوجود یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ اقبال نے افکارِ مغرب کے بعض افکار سے استفادہ اور بعض رجحانات کا اعتراف کیا ہے۔ مثلاً اقبال جہاں افکارِ مغرب کی تن پرستی، مادیت اور خالص عقلیت سے اختلاف کرتے ہیں، وہاں ان کے نزدیک مغرب کی سائنسی رُوح (سائنسیت) ایک ترقی یافتہ رویہ ہے جس کا سنجیدہ رنگ پہلی دفعہ اسلامی تعلیمات کے زیراثر پیدا ہوا تھا اور بقول بریفالٹ مسلمانوں نے ہی دُنیا میں سائنس کو ’انفع العلوم‘ کے طور پر پھیلایا تھا۱؎۔ان کا خیال ہے کہ مغرب کی اکتشافی رُوح اور تجربیت و علمیت اسلام ہی کا فیضان ہے جس کے احیا کی عالمِ اسلام کو پھر ضرورت ہے۔ اسی طرح عالمگیر اُخوت (بر بنائے توحید ربانی) اور عالمگیر انسانی اجتماعیت (بر بناے تصورِ ربوبیت) اور بلوغت کمالِ انسانی (بر بناے عقیدہ خاتم النبیینؐ) اسلام ہی کی سوغات ہے۔ مغرب کی جزویت پرستی نے بعض اچھے عیسوی عقیدوں کو بھی مسخ کردیا۔اقبال کی راے ہے کہ اسلامی تصورات کو ان کی اصل شکل میں زندہ کیے بغیر دُنیا میں امن و آشتی ممکن ہی نہیں۔ غرض یہ کہ اقبال فکر مغرب کو کلّی طور پر مسترد نہیں کرتے، اس کے سنجیدہ اور تعمیری حصے کو جسے وہ اسلامی رُوح کا انعکاس کہتے ہیں، قبول کرنے کے حق میں ہیں مگر مغرب کی نقالی ان کے __________________ ۱۔ Making of Humanity نزدیک مہلک ہے۔ تعلیمی خیالات اقبال کے تعلیمی خیالات بھی، ان کے نظریۂ خودی اور تصورِ تمدن کے تابع ہیں۔ تعلیم کے تین بڑے مسئلے ہیں: ۱- تعلیم کا بنیادی فلسفہ کیا ہے؟ یعنی اس میں زندگی کا تصور کیا ہے؟ اور وہ کون سے رُوحانی اور اخلاقی نظریے ہیں جو اس تصورِ زندگی کی بنیاد ہیں۔ ۲-تعلیم کی غایت کیا ہے؟ یعنی اس تعلیم کے ذریعے کیسا انسان پیدا کرنا مقصو دہے۔ ۳- اس کی عملی تشکیل اور طریق کار کیا ہے؟ یعنی اس میں مضامین کا انتخاب کن اُصولوں پر ہوتا ہے اور اس میں تعلیم و تعلّم کے لیے کیا طریقے تجویز ہوئے ہیں۔ سب سے پہلے یہ مدنظر رہے کہ اقبال کا تعلیمی فلسفہ، زندگی کی کلیت کے تصور پر قائم ہے۔ یعنی اس تصور پر کہ زندگی سے مراد خدا، کائنات اور انسان (تینوں) کے درمیان ایک معنوی اور علمی ربط کا ہونا اور جہاں تک اس زندگی کا تعلق ہے اس میں یہ تینوں یوں باہم ناگزیر ہیں کہ ان میں سے کسی ایک کی بحث دوسری دو حقیقتوں سے بے نیاز نہیں ہوسکتی۔ اقبال کے نزدیک زندگی محدود نہیں بلکہ اس سے ماورا، زندگی کی اور حدیں بھی ہیں، وہی جسے اسلام اور قرآن نے عقبیٰ کہا ہے۔ پھر زندگی، صرف مادی ضرورتوں کی تسکین کا نام نہیں بلکہ رُوحانی، عقلی اور اخلاقی سب ضرورتوں اور تقاضوں کی تکمیل کا نام ہے۔ زندگی کے بارے میں اس کلیت کو تسلیم کرلینے کے بعد، یہ سمجھنا آسان ہوجاتا ہے کہ اقبال کا نظامِ تعلیم و تربیت کیا ہوگا؟ یہ ظاہر ہے کہ نظریۂ خودی کی روشنی میں فرد کی خودی کو بیدار کرنا، تعلیم کا مقصدِ اوّلین ہونا چاہیے۔ اس کے لیے اطاعت، ضبطِ نفس اور جدوجہد اور سعی و پیکار کی صلاحیت ضروری ہے، تاکہ فرد اس گروہ میں شامل ہوجانے کے قابل ہوجائے جس کے کندھوں پر نیابتِ الٰہی کی ذمہ داری ڈالی گئی ہے۔ نیابتِ الٰہی کے اوصاف کے لیے علم اشیا (مشاہداتی علوم)، علم فکر و تدبر (تجزیاتی علوم) اور علم تسخیرِ کائنات (ریاضیات اور علمی سائنس) کی تحصیل لازمی ہے۔ اقبال کی نظر میں، محض تعقل کو بیدار کرنے والے علوم (فلسفہ و منطق) کافی نہیں بلکہ ان کے ساتھ نتیجہ خیز تعقل اور تجربہ (سائنس) بھی ضروری ہے لیکن ان علوم کی تحصیل اس وقت تک بے مطلب ہے جب تک اس کی تہ میں، وہ رُوحانی عقیدے اور جذبے موجود نہ ہوں جو زندگی کو اخلاقی اساس مہیا کرتے ہیں۔ اس لیے اقبال کے نظامِ تعلیم میں حکمت ِقرآنی، حدیث ِنبویؐ اور روایاتِ ملّی کا مطالعہ لازمی ہے تاکہ نیابتِ الٰہی کے فرائض کی نوعیت و کیفیت کا شعور پیدا ہو۔ اقبال کے تصورِ تعلیم میں دل کی بیداری ایک اہم مقصد ہے، اس کے لیے ذکر و فکر اور عبادت، پھر خدمت و محبت ضروری فرائض ہیں۔ ان فرائض کے لیے ذوق و شوق ضروری ہے جس کا سرچشمہ عشق ہے۔ اسی کی مدد سے فرد معاشرے کے لیے ایثار اور قربانی کے قابل ہوسکتا ہے۔ محض تعقل کی مدد سے تجزیے کی قوت تو پیدا ہوجاتی ہے مگر خدمت اور ایثار کے جذبے نہیں اُبھر سکتے۔ باعمل اور سخت کوش افراد پیدا کرنا اقبال کے تصورِ تعلیم کی ایک غایت ہے۔عادل، بے غرض، مخلص، باحیا، خوش اخلاق مگر پُرجلال شخصیتوں کی تخلیق اقبال کا اہم نصب العین ہے۔ ان تصریحات سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ اقبال موجودہ مغربی نظامِ تعلیم سے مطمئن نہیں۔ نہ صرف اپنے ملک کی حد تک جہاں مغربی نظام اپنی اصلی شکل میں موجود نہیں، بلکہ خود مغربی ممالک کے ماحول میں بھی، جہاں مغربی نظام مروج ہے مگر روز بروز بے غایت ہوتاجاتا ہے۔ اقبال کا خیال ہے کہ فرنگ’’بیدار دل شخصیتوں‘‘کی تخلیق میں ناکام رہا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ فرنگ کا نظریۂ زندگی ناقص ہے۔ یہ مادہ پرستی، تن پرستی، محدودیت اور خود غرضی اور آخر میں رقابت و نفرت کو جنم دیتا ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ اقبال اس نظامِ تعلیم سے مطمئن ہیں جو عالمِ اسلامی میں، دینی مدارس کی صورت میں اس وقت موجود ہے۔ ان کی راے یہ ہے کہ یہ نظام بھی اپنے جمود کی وجہ سے اس عظیم نصب العین کی تکمیل سے قاصر ہے جو کبھی مسلمان ماہرین تعلیم کے مدنظر تھا ،جس کے زیراثر وہ بیدار دل انسانوں کی تربیت کرتے تھے اور تسخیرِ کائنات کے لیے حرکت اور جدوجہد کی صلاحیتیں نمود پاتی تھیں۔ غرض اقبال ان دونوں نظام ہاے تعلیم سے غیر مطمئن ہیں اور چاہتے ہیں کہ قومی زندگی کے اس اہم شعبے کی تشکیلِ نو ہونی چاہیے اور اس کی اساس فلسفۂ خودی پر رکھی جانی چاہیے۔ اقبال اور فنونِ لطیفہ فن کے بارے میں اقبال نے اکثر اہم مسائل کا ذکر کیا ہے مثلاً فن کیا ہے؟ فن کے سرچشمے کیا ہیں؟ فن موضوعی ہے یا معروضی؟ فن کی قدرِ اعلیٰ کیا ہے؟ جلال یا جمال کی حقیقت کیا ہے؟ فن تہذیب کا عکس ہے یا تہذیب کا خالق؟ بعض فنون کیوں رد کردینے کے لائق ہیں؟ وغیرہ وغیرہ۔ اقبال کی راے میں فن اس آرزو کا نام ہے جس کے اظہار کے لیے انسان کوئی مخصوص پیکر تخلیق کرتا ہے۔ یونانی اسے نقالی کہتے ہیں جو فطرتِ انسانی میں موجود ہے مگر محض نقالی کو خود مغرب کے فلسفیوں نے تسلیم نہیں کیا۔ ان میں سے بھی بعض نے یہ لکھا ہے کہ فن آرزوے کمال یا آرزوے تکمیل کا نام ہے۔ اقبال اس آرزو کو سوزِ جگر کہتے ہیں جو وفورِ خودی سے پیدا ہوتا ہے اور اس کا سرچشمہ عشق ہے۔ فنی پیکر، فطرت کی نقل نہیں بلکہ اس کی بلند تر تکمیل ہے: فطرت کو خرد کے روبرو کر تسخیرِ مقامِ رنگ و بُو کر فن کا مقصد سوزِ حیات ابدی ہے جو بلند ترین تخلیقات کا ضامن ہے۔ اقبال کی نظر میں فن موضوعی بھی ہے اور معروضی بھی۔ فن باطن کی دُنیا میں ایک امنگ بن کر اُبھرتا ہے مگر خارج کی دُنیا سے بے نیاز نہیں اور ادراکِ حسن تو بڑی حد تک ایک خارجی عمل بھی ہے۔ چنانچہ کہا ہے: حسن را بے انجمن دیدن خطاست اس طرح، اقبال کروشے کے اس خیال سے بھی متفق نہیں کہ فن، فن کار کے ذہن میں ہے،خارج میں متشکل ہو ہی نہیں سکتا۔ اقبال کی راے میں فن کی قدرِ اعلیٰ جلال ہے جس کے اندرجمال جلوہ گر ہوتا ہے۔ وہ فن جو ضعف، تن آسانی اور سست روی کا تاثر دے، وہ ناقص فن ہے۔’’معمولی اور عام‘‘ کے بجاے اقبال ’’غیر معمولی‘‘ اور غالب و قاہر (جلیل و عظیم) کی عکاسی کے معتقد ہیں۔ چنانچہ ان کی راے میں قوی اقوام کا فن رعب و جلال کا پیکر ہوتا ہے اور ان اقوام کی قوت خارجی کا وسیلہ ثابت ہوتا ہے۔ فن کسی قوم کی تہذیب کا مظہر ہوتا ہے اور اجتماعی عوامل سے نمود پاکر اجتماعی زندگی پر اثر ڈالتا ہے مگر نابغہ فن کار اجتماعی ذوق کے خالق بھی ہوتے ہیں اور قوم کی ساری جمالیاتی زندگی کا رُخ پھیر سکتے ہیں۔ اقبال نے فن کے سب مسئلوں پر خودی کے حوالے سے نظر ڈالی ہے۔ اقبال تمثیل کے اس لیے مخالف ہیں کہ اس میں اداکار اپنی خودی کی نفی کرکے، غیر کا کردار بن جاتا ہے۔ بظاہر اس خیال میں افلاطون کے بیان کا عکس ہے کہ ’’تمثیل، حقیقت سے تین منزلیں دور رہتی ہے‘‘، لیکن اقبال کا اعتراض اس سے مختلف ہے۔ افلاطون تو زندگی کو بھی حقیقی نہیں مانتا، پھر ڈراما نگار کی باز آفرینی اور اداکار کی اداکاری کو بھی غیر حقیقی تصور کرتا ہے، لیکن اقبال زندگی کو حقیقی مانتے ہیں اور فن کی باز آفرینی کے بھی قائل ہیں۔ انھیں اعتراض صرف اس پر ہے کہ اداکاری کا عمل، حقیقتِ خودی کے خلاف ہے۔ کیا کوئی خودی آشنا شخص کسی غیر کی خودی کو اپنا سکتا ہے؟ اقبال کا جواب نفی میں ہے۔ اُنھوں نے کہا: حریم تیرا خودی غیر کی ، معاذ اللہ ان کا خیال ہے کہ اداکاری، خودی کی نفی ہے اور جھوٹ ہے۔ اقبال کے تصوراتِ فن میں اسلامی تہذیب کے فنی تجربوں کی صداے بازگشت ہے۔ عالم اسلام میں (جدید دور سے پہلے) ڈراما باقاعدہ طور پر کبھی مروج نہیں ہوا۔ مسلمانوں نے یونانیوں سے بہت کچھ لیا لیکن ڈراما نہیں لیا۔ اس کا بڑا سبب یہی معلوم ہوتا ہے کہ اسلام ایک فرضی یا’’مستعار‘‘(vicarions) صورتِ حال کے بہروپ کو سنجیدگی (seriousness) کے خلاف سمجھتا ہے۔ اقبال کو اصرار ہے کہ کوئی ایک فرد کسی دوسرے فرد کی خودی کو اپنا نہیں سکتا۔ غیر کا حال بیان تو کیا جاسکتا ہے اور اس کے نفس کے بارے میں قیافہ بھی ممکن ہے مگر کسی غیر کے نفس کا مثنیٰ بن جانا غیر حقیقی اور غیر معقول اَمر ہے۔ ارسطو نے المیے کو اہمیت دے کر، اسے تزکیۂ نفس کا ذریعہ قرار دیا تھا مگر ارسطو کے بہت سے شارحین نے المیے کو تزکیۂ نفس(catharsis)کا وسیلہ ماننے سے صاف انکار کردیا ہے۔ وہ کہتے ہیں، ہزاروں لاکھوں انسان ہر روز المیے کو سٹیج پر دیکھتے ہیں مگر ان میں سے شاید ایک بھی اتنا متاثر نہیں ہوتا کہ بدی کو چھوڑ کر نیکیاں شروع کردے۔ اس طرح گویا ارسطو کی قائم کردہ اس بنیاد کی کہ ڈراما نفس انسانی کی اصلاح کرسکتا ہے، تردید ہوچکی ہے،ان معنوں میں اگر اقبال نے بھی تمثیل کو حقیقی اور نتیجہ خیز عمل تسلیم نہیں کیا تو بات سمجھ میں آجاتی ہے۔ اسلامی تہذیب نے بھی اسی قسم کے وجوہ سے ڈرامے میں دل چسپی نہیں لی اور چونکہ اقبال بھی اسی روایت کے وارث ہیں، اس لیے ان کے نزدیک بھی زندگی ایک سنجیدہ عمل ہے۔ اس میں خودی ہی کل نمود کا سرچشمہ اور کلّی حقیقت ہے، اس لیے غیر خود کو خود کا بدل نہیں بنایا جاسکتا۔ دوسروں کی نقالی سے بہتر یہ ہے کہ فرد زندگی کی مہماتِ رنج و راحت میں ذاتی کردار کو اُجاگر کرے، نہ کہ غیر کی نقالی کرے اور اپنی خودی پر غیر کا غلاف چڑھاتا پھرے۔ فن شاعری اور فن تعمیر، اقبال کے پسندیدہ اعلیٰ فنون ہیں جن میں نفس انسانی کا کمال ظاہر ہوتا ہے، تعمیر کا فن اس لیے اعلیٰ ہے کہ اس میں مادیات (سنگ و خشت) کے ٹھوس اور کرخت وجود کے اندر، ایک پیکر حسن و لطافت پیدا ہوتا ہے۔ اقبال کا یہ خیال بھی عام تصور کے برعکس ہے۔ ماہرین فن کے نزدیک اعلیٰ فن وہ ہوتا ہے جس کے وسائلِ تخلیق میں مادیات کا کم سے کم استعمال ہوتا ہو۔ چنانچہ شاعری اور موسیقی فنون اعلیٰ سمجھے گئے ہیں مگر اقبال کی فہرست میں فن تعمیر اعلیٰ فن ہے۔ موسیقی بھی ایک اعلیٰ فن ہے مگر اس میں خودی کو ضعیف بنانے والے خدشات بکثرت موجود ہیں۔ البتہ ’’نغمہ جبرئیل آشوب‘‘ ہو تو موسیقی بھی اعلیٰ فن ہے۔ یہی معیار مصوری کے بارے میں ہے۔ اگر موسیقی و مصوری لذاتِ تن کا وسیلہ ہوں تو رد کردینے کے قابل ہیں۔ اگر استحکام خودی کا وسیلہ بنیں تو نتیجہ خیز فن ہیں۔ شاعری اگر صداقت اور جلیل القدر موضوعات سے خالی ہے تو وہ بھی انحطاطی ہے۔ اقبال کی راے میں عجم کی شاعری چونکہ افسردگی اور اضمحلال پیدا کرتی ہے،اس لیے اچھی شاعری نہیں اور عرب کی شاعری میں چونکہ سچائی اور قوت ہے اس لیے قابل تحسین ہے۔ حاصل کلام یہ ہے کہ اقبال کے نزدیک فن خودی کے استحکام کا وسیلہ ہو تو فن ہے۔ ورنہ محض نقالی، جھوٹ اور غیر حقیقی عمل بن جاتا ہے۔ اقبال فن میں تجرید، مریضانہ فطرت پرستی، اعصاب زدگی اور بیمار رومانیت کے مخالف ہیں۔ وہ کروشے کے برعکس فن کو ذہن بھی مانتے ہیں اور عمل بھی۔ وہ فن جو نمود نہیں پاتا فن نہیں محض خلشِ فن ہے۔ نمود خودی کا ایک خاصہ ہے لہٰذا جو فن نمود سے قاصر ہے اس کی خودی مردہ ہے۔ اقبال اور لون جائی نس (Longinus) فن کی قدر ’’جلال‘‘ (sublimity) کے بارے میں مماثلت رکھتے ہیں، لیکن لون جائی نس کا معیارِشناخت جلال مبہم ہے۔ وہ تاثر اور تاثیر کو کافی سمجھتا ہے لیکن اقبال اس کی محض تاثیر سے زیادہ اس کی صلاحیتِ تسخیر کے قائل ہیں، یعنی یہ کہ اس میں قوت و عظمت کا تاثر پیدا کرنے اور انسانی سیرتوں میں ان قدروں کو جذب کردینے کی کتنی صلاحیت ہے۔ [اقبال کا ادبی فن] شاعرانہ فن اقبال فلسفی بھی تھے اور شاعر بھی، یعنی ان کی یہ دونوں حیثیتیں اپنی اپنی جگہ بھی کامل تھیں۔ عموماً دیکھا گیا ہے کہ اچھے فلسفی اچھے شاعر ثابت نہیں ہوتے، کیونکہ ذہنِ انسانی کے یہ دونوں شعبے الگ الگ ہیں، لیکن اقبال ان دونوں شعبوں میں باکمال ہیں، ان کے یہاں فکری حقائق کا بیان بہترین شاعرانہ زبان میں ہوا ہے اور بہترین شاعرانہ اُسلوب کے باوجود ان کے بیان کردہ حقائق علمی اور اپنی جگہ ایک مربوط نظامِ فکر کا درجہ رکھتے ہیں۔ اقبال نے اُردو فارسی شاعری کی روایتوں سے بہت کم انحراف کیا ہے مگر اُن کی شاعری ہیئت کے جزوی تجربوں سے یکسر خالی بھی نہیں۔ اُنھوں نے ہیئت میں یہ تبدیلیاں محض جدت کی خاطر نہیں کیں بلکہ کسی خاص نئی ہیئت کو بعض مخصوص جذبوں کے اظہار کے لیے موزوں سمجھ کر اپنایا ہے۔ غزل، قطعہ، رباعی، مثنوی، مربع، مسدس، مثلث، ترکیب بند، ترجیع بند، یہ سب اصناف ان کے کلام میں موجود ہیں۔ ان کے علاوہ جدید ایرانی شاعری کے بعض نئے سانچے بھی اُنھوں نے اپنائے ہیں مگر وزن اور قافیے کی پابندی ہر جگہ کی ہے۔ اقبال نے جب شاعری کا آغاز کیا تو غزل ہی اس وقت کی محبوب ترین صنف تھی چنانچہ اُنھوں نے بھی اس رسم عام کی پیروی کی، مگر وہ نظم کی پرداخت کی طرف زیادہ متوجہ ہوئے۔ نتیجہ یہ کہ اُردو نظم کی ترقی میں اقبال کا بہت بڑا حصہ ہے۔ اقبال نے ڈراما نہیں لکھا مگر ان کی اُردو فارسی نظموں میں، ڈرامے کے عمل کی پوری گنجائش ہے اور ان کی طویل نظم جاوید نامہ تو ڈرامے کی طرف ایک نمایاں پیش قدمی ہے۔ اقبال پر گوئٹے اور ڈانٹے کے اثرات واضح ہیں۔ ان دونوں نے ڈرامے کو وسیلۂ اظہار بنایا تھا لیکن اقبال چونکہ اسلامی روایت کے شاعر تھے، اس لیے حقیقی ڈرامے کی تشکیل سے مجتنب رہے تاہم ان کے کلام میں ڈرامے کے بہت سے عناصر پائے جاتے ہیں، مثلاً حکایت او رمکالمے کی صورتیں بکثرت ہیں اور وہ اکثر صورتوں میں محض بیانیے پر مکالمے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اقبال کے فن میں تخلیقِ کردار (کردار سازی) کا کمال نظر آتا ہے چنانچہ آدم، ابلیس اور مومن کے واضح اور مکمل کردار موجود ہیں۔ اس کے علاوہ حقیقی کرداروں کی تصویریں بھی بہت عمدہ کھینچی ہیں مثلاً’حضرت ابراہیمں، حضرت عمر فاروقؓ، حضرت علیؓ اور حضرت حسینؓ جیسے مقدسین اور اورنگ زیب، سلطان شہید ٹیپو اور ابدالی جیسے سلاطین، اپنی پوری شبیہ سمیت کلامِ اقبال میں موجود ہیں۔ اقبال کی تصویر کاری، ان کے افکار کی رُوح کے عین مطابق ہے۔ ان کی تصویروں میں حرکت اور جلال کی کیفیات غالب ہیں۔ وہ ان کا مواد مشاہدات و مبصرات سے حاصل کرتے ہیں اور خیالی اور موہوم سے زیادہ مجسم اور محسوس سے اعتنا کرتے ہیں۔ وہ قدیم علامتوں کو بھی استعمال کرتے ہیں مگر اُنھوں نے اکثر ان کی دلالتیں تبدیل کرکے انھیں اپنے خاص پیغام سے ہم آہنگ کرلیا ہے۔ ان کے کلام میں حرم، دیر، کعبہ، سومنات، کٹر اسلام جیسے الفاظ اعلیٰ معنوں میں استعمال ہوئے ہیں، ان سے مراد اور کچھ نہیں۔ یعنی وہ کسی اور مضمون کے لیے استعارہ نہیں جیسا کہ ہم قدیم صوفیانہ شاعری میں دیکھتے ہیں۔ کلامِ اقبال میں شاہین اور شاہباز کو خصوصی علامت کا درجہ حاصل ہے اور شمع و پروانہ اور کرمکِ شبِ تاب اور آہو وغیرہ کی علامتیں بھی ہیں۔ اُنھوں نے خود اپنی شخصیت کی ترجمانی کے لیے لالہ، انجم، صبح کا ستارہ جیسی علامتیں اختیار کی ہیں۔ اقبال نے صوتی اثرات پیدا کرنے کی شعوری کوششیں نہیں کیں لیکن بلاغتِ اظہار کے تحت، اصوات نے اثر آفرینی میں حصہ لیا ہے۔ بعض نظموں میں ’’صوت مشعر المعنی‘‘ (onomatopoeia) کا رنگ نمودار ہے اور خاص حروف (صوتیے) خاص فضا کے بنانے اور اس کے اظہار میں کارفرما ہیں مثلاً بانگِ درا میں ’’دریائے نیکر کے کنارے ایک شام‘‘ جس میں حروف س و شین سے ایک خاص فضا تعمیر ہورہی ہے یا مثلاً ’’مسجد قرطبہ‘‘ جس میں تقدس اور ہیئتِ خاص کی فضا اصوات و حروف ہی سے پیدا ہوجاتی ہے۔ اقبال نے خاص بحور کو خاص مطالب کے اظہار کا وسیلہ بنایا ہے اور خاص اوزان، خاص احساسات کے لیے اختیار کیے ہیں اور اصناف کا انتخاب بھی اسی نقطۂ نظر کے تحت کیا ہے بلکہ ردیف و قافیہ کے معاملے میں بھی یہی معمول ہے۔ اقبال محض زبان دان نہ تھے، وہ زبان کی نئی وسعتوں کے خالق بھی تھے۔ نئی ترکیبوں کی ایجاد نے انھیں زبان کی توسیع کا موقع دیا۔ مقامی روزمرہ و محاورے کی پابندی سے زیادہ اُنھوں نے وسیع تر ’لسانی قالب‘ تیار کیے جن کا دائرہ ابلاغ و خطاب، قیدِ مقام سے آزاد ہے۔ کلاسیکی فارسی زبان اور اسالیب کے ذریعے اُنھوں نے فارسی میں اور فارسی آمیز اُردو کے ذریعے اُردو میں اُنھوں نے زبان و بیان میں جلال و جمال کو یکجا کیا ہے۔ وہ عام زبان کی سطح تک بہت کم اُترتے ہیں۔ اُردو شاعری کو اُنھوں نے جس طرح ایک خاص فکر سے بہرہ ور کیا ہے، اسی طرح اس کے لیے ایک خاص لہجہ، ایک خاص نوا اور ایک خاص زبان بھی پیدا کی۔ اقبال بالاتفاق اُردو کے سب سے بڑے شاعر تھے اور فارسی میں بھی ان کی شاعری میں اس لحاظ سے ممتاز انفرادیت ہے کہ آج تک فارسی میں کسی شاعر نے شاعری کو اجتماعی مطالب کا اس طرح وسیلہ نہیں بنایا۔ وہ کلاسیکی روایتوں کے آخری وارث ہونے کے باوجود، نئے پیغام کے اعتبار سے مجددِ فن اور مجتہد فکر تھے۔ وہ ملتِ اسلامیہ کے ترجمان خاص اور انسانیت کے لیے ایک نوید لانے والے شاعر تھے۔ وہ مشرق کے تقدس کے علمبردار تھے مگر مغرب کے کمالات پر بھی ان کی نظر تھی۔ وہ نہ قدیم تھے نہ جدید، ان کا پیغام آفاقی نوعیت رکھتا ہے اور انسانیت کے لیے اس میں ابدی خوش خبری اور دور رس آگاہی موجود ہے۔ مشرق میں ان کا مثل ملنا مشکل ہے اور مغرب میں بھی وہ گوئٹے اور ڈانٹے جیسے عظما کی صف میں بالاستحقاق مسند نشین ہیں۔ اقبال پر لکھنے والوں میں مشرق و مغرب کے نام ور مفکرین اور مصنّفین شامل ہیں اور یہ سلسلہ ابھی سرگرمی سے جاری ہے، معرفتِ اقبال کے دریا کے غواص نئے نئے گوہر نکال رہے ہیں: گمان مبر کہ بپایاں رسید کارِ مغاں ہزار بادۂ ناخوردہ در رگِ تاک است اور یہ خود عظمتِ اقبال کے ثبوت میں ایک برہانِ قاطع ہے کہ ان کے فکر کی تحقیق و مطالعے کی تحریک روز بروز قوی اور وسیع ہوتی جارہی ہے۔ [تصانیفِ اقبال] وضاحت: سیّد صاحب کے اس مضمون کے آخر میں ’’ضمیمہ: اقبال کی تصانیف کی مکمل فہرست‘‘ کے زیرِعنوان ایک فہرست ِ کتب شامل ہے، مگر ناقص اور ناتمام ہے اور اس کے بعض کوائف دُرست نہیں، اس لیے اس کے متبادل(راقم اپنی تیار کردہ) تصانیفِ اقبال کی مکمل فہرست شامل کررہاہے۔اس میں صرف اوّلین اشاعتوں کے سنین دیے جارہے ہیں۔دوسرے ضمیمے میں ’’مآخذ‘‘ کے عنوان سے ۷۱کتابوں کی فہرست بھی ناقص ہے اور اس کی افادیت مشکوک ہے، اس لیے اسے یہاں شامل نہیں کیا جارہا۔ (مرتب) شاعری فارسی: ٭ اسرارِ خودی ۱۹۱۵ء ٭رموزِ بے خودی ۱۹۱۸ء ٭ پیامِ مشرق ۱۹۲۳ء ٭زبورِ عجم ۱۹۲۷ء ٭جاوید نامہ ۱۹۳۲ء ٭مسافر ۱۹۳۴ء ٭مثنوی پس چہ باید کرد، اے اقوامِ شرق ۱۹۳۶ء نثر اُردو: ٭بانگِ درا ۱۹۲۴ء ٭بالِ جبریل ۱۹۳۴ء ٭ضربِ کلیم ۱۹۳۶ء فارسی،اردو ٭ارمغانِ حجاز [۱۹۳۸ئ] اُردو ٭علم الاقتصاد [۱۹۰۴ئ] ٭مقالاتِ اقبال مرتب:سیّد عبدالواحد معینی ۱۹۶۳ء ٭گفتارِ اقبال مرتب:محمد رفیق افضل ۱۹۶۹ء ٭شاد اقبال مرتب:محی الدین قادری زور حیدرآباد،دکن۱۹۴۲ء ٭اقبال نامہ،اوّل مرتب: شیخ عطاء اللہ لاہور، [۱۹۴۴ئ] ٭اقبال نامہ،دوم مرتب: شیخ عطاء اللہ لاہور، ۱۹۵۱ء ٭مکاتیبِ اقبال بنام محمد نیاز الدین خاں لاہور، ۱۹۵۴ء ٭مکتوباتِ اقبال مرتب: سیّد نذیر نیازی کراچی،۱۹۵۷ء ٭انوارِ اقبال مرتب: بشیر احمد ڈار کراچی،۱۹۶۷ء ٭مکاتیبِ اقبال بنام گرامی مرتب: محمد عبداللہ قریشی کراچی،۱۹۶۹ء ٭خطوطِ اقبال مرتب: رفیع الدین ہاشمی لاہور،۱۹۷۶ء ٭مکاتیبِ اقبال بنام بیگم گرامی مرتب:حمیداللہ شاہ ہاشمی فیصل آباد،۱۹۷۸ء ٭اقبال، جہانِ دیگر مرتب: محمد فریدالحق ایڈووکیٹ کراچی،۱۹۸۳ء ٭نگارشاتِ اقبال مرتبہ: زیب النسائ لاہور،۱۹۹۳ء انگریزی: ٭ The Development of Metaphysics in Persia لندن،۱۹۰۸ء ٭ The Reconstruction of Religious Thought in Islam لندن،۱۹۳۴ء چھے خطبات پر مشتمل پہلا اڈیشن لاہور سے ۱۹۳۰ء میں چھپا تھا۔ ٭ Thoughts and Reflections of Iqbal مرتب: ایس اے واحد لاہور،۱۹۶۴ء ٭ Stray Reflections مرتب:جاوید اقبال لاہور،۱۹۶۱ء ٭ Speeches, Writings and Statements of Iqbal مرتب: لطیف احمد شروانی لاہور،۱۹۷۷ء یہ اقبال کی انگریزی تحریروں اور تقاریرکاجامع مجموعہ ہے۔ ٭ Letters of Iqbal مرتب: بشیر احمد ڈار لاہور،۱۹۷۸ء ئ……ئ……ء ۳ مکاتیب / / بنام شورش کاشمیری ۱۹۵۹ء میں جناب شورش کاشمیری (۱۹۱۷ئ- ۱۹۷۵ئ) نے حسب ذیل خط، دوسرے اکابرِ ادب کے علاوہ سیّد صاحب مرحوم کو بھی روانہ کیا: ’’مکرمی، سلام مسنون علامہ اقبال علیہ الرحمۃ کا یہ شعر: ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا احباب میں اختلاف کا موضوع بن گیا ہے۔ ایک خیال یہ ہے کہ مہمل ہے، دوسرا خیال ہے کہ محض شاعرانہ اُپج، اور جو دوست اس شعر کو بامعنی قرار دیتے ہیں، ان کے مفہوم میں اختلاف ہے۔ ہر شخص جداگانہ اختلاف بیان کرتا ہے۔ فیصلہ یہ ہوا ہے کہ آپ سے رجوع کیا جائے۔ اُمید ہے آپ جواب سے سرفراز فرمائیں گے۔‘‘ جواباً، انھیں مندرجہ ذیل خط موصول ہوا۔ اس پر تاریخ تحریر درج نہیں۔ یہ ۲۰؍اپریل ۱۹۵۹ء کے چٹان میں شائع ہوا۔ (۱) محب محترم، سلام اخلاص التیام، آپ کا گرامی نامہ لاہور میں اس وقت ملا، جب میں کراچی کے لیے پابہ رکاب یا ٹکٹ بدست کھڑا تھا۔ یہاں پہنچ کر اب پہلی فرصت میں آپ ہی کے خط کا جواب لکھتا ہوں، اُمید ہے کہ آپ اس تاخیر سے ناراض نہ ہوں گے۔ میرا عقیدہ ہے کہ علامہ اقبال کا کوئی شعر مہمل نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ ان کی شاعری پروردۂ الہام اور ان کا بیان حقیقت کا ترجمان ہے، ماسوا اُس کلام کے جس کو اُنھوں نے خود ہزل و ظرافت کا رنگ دے دیا۔ آپ نے جس شعر کا ذکر کیا ہے، یہ مہمل نہیں، بلکہ اس میں ایک اہم حقیقت کا بلیغ[کذا] ہے، البتہ اس میں کچھ ابہام اور مغالطہ ہے، اور ہر شاعری میں ابہام ایک ناگزیر کمزوری کی حیثیت سے پایا جاتا ہے، لہٰذا یہ کمزوری ہونے پر بھی کمزوری نہیں۔ شعر کا مطلب یہ ہے کہ دُنیا میں دیدہ وَر کا وجود نادر ہے۔ نرگس ہزاروں برس سے اپنی بے نوری پہ رو رہی ہے، پھر بھی اس کو دیدہ ور ہونے کی توفیق نہیں ملی۔ سبب یہ کہ دیدہ وَری ایک عطیۂ ایزدی ہے۔ محض آرزو سے یا کوشش سے یہ چیز میسر نہیں آتی۔ دیدہ ور دُنیا میں کبھی کبھی پیدا ہوتے ہیں، اور وہ بھی توفیق ایزدی سے۔ اس شعر میں مغالطہ یہ ہے کہ عام طور سے شعر کے مصرعِ ثانی کو مصرعِ اوّل کا نتیجہ یا معلول سمجھ لیا جاتا ہے، یعنی نرگس ہزاروں سال اپنی بے نوری پہ روتی ہے، آخرکار اس رونے کے نتیجے کے طور پر اس کو دیدہ وری مل جاتی ہے۔ میرے نزدیک شعر میں ایک ذرا سا جملہ مقدر ہے، اور وہ یہ کہ نرگس ہزاروں سال اپنی بے نوری پہ روتی ہے، مگر پھر بھی اس کی بے نوری نہیں جاتی۔ کیونکہ چمن میں دیدہ وَر ذرا مشکل ہی سے پیدا ہوتا ہے۔ خط کشیدہ الفاظ جب تک اپنے پاس سے مہیا نہ کیے جائیں، مضمون مکمل نہیں ہوتا۔ یہ میں اس لیے کہتا ہوں کہ فارسی استعارے میں نرگس کو کور مانا گیا ہے، نرگس کی یہ کوری ازل سے اس کے ساتھ وابستہ ہے، اور ابد تک وابستہ رہے گی۔ اسی ازلی ابدی کوری پر شعر کا مضمون اُستوار ہوا ہے۔ اگر اس کا کوئی اور معنی کیا جائے، تو شعر کے دونوں مصرعوں میں تضاد پیدا ہوجاتا ہے،اور شاید اسی تضاد کو دیکھ کر بعض لوگ اس شعر کو مہمل کَہ دیتے ہیں، حالانکہ اگر فارسی استعارے پر نظر رکھی جاے تو شعر میں تضاد پیدا نہیں ہوتا۔ خصوصاً جب کہ ہم یہ جانتے ہیں کہ ابہام کی وجہ سے کچھ مضمون اپنی طرف سے شعر میں شامل کرنے سے مضمون مکمل ہوسکتا ہے۔ مجھے اُمید ہے کہ آپ میرا مدعا سمجھ گئے ہوں گے۔ زیادہ خلوص و نیاز۔ نیاز مند سیّد عبداللہ / بنام رفیع الدین ہاشمی راقم الحروف نے سیّد صاحب کی خدمت میں دو استفسارات پیش کیے تھے: ۱- ’خضر راہ‘ کے اس شعر: ریت کے ٹیلے پہ وہ آہو کا بے پروا خرام وہ خضرِ بے برگ و ساماں ، وہ سفرِ بے سنگ و میل کے حوالے سے پوچھا تھا کہ ’’بے سنگ و میل‘‘ میں واوِ عطف کا کیا محل ہے؟ مروج ترکیب تو ’’سنگِ میل‘‘ ہے۔ ۲- دوسرا سوال یہ تھا کہ ’’خضر راہ‘‘ میں ’’سرمایہ و محنت‘‘ کے ضمن میں علامہ کہتے ہیں: اُٹھ کہ اب بزم جہاں کا اور ہی انداز ہے مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے اور ذرا آگے چل کر فرماتے ہیں: آفتابِ تازہ پیدا بطنِ گیتی سے ہوا آسماں ڈوبے ہوئے تاروں کا ماتم کب تلک اقبال کے بعض مفسرین کے نزدیک یہاں اشارہ روس کے اشتراکی انقلاب کی جانب ہے۔ (پروفیسر محمد عثمان اس خیال کو پُرجوش طریقے سے اور پروفیسر رازی کسی قدر تأمل کے ساتھ پیش کرتے ہیں) جب کہ اقبال کے بعض شارحین (مولانا غلام رسول مہر وغیرہ) کے نزدیک اقبال کا اشارہ اسلام کے حیات افروز پیغام کی طرف ہے۔ آپ کے خیال میں ’’بزمِ جہاں کا اور ہی انداز‘‘ اور ’’آفتابِ تازہ‘‘ سے علامہ کی مراد کیا ہوسکتی ہے؟ یہ عریضہ۱۱؍اپریل ۱۹۷۴ء کو سید صاحب کی خدمت میں روانہ کیا گیا تھا۔ جواباً ان کے مندرجہ ذیل دو عنایت نامے (مرقومہ علی الترتیب ۱۵؍اپریل ۱۹۷۴ء از لاہور، اور ۲۱؍اپریل ۱۹۷۴ء از ایبٹ آباد) موصول ہوئے: (۲) ۷۴/۴/۱۵ مکرم و محترم ہاشمی صاحب۔ السلام علیکم۔ مزاج شریف۔ آپ کا کرم نامہ موصول ہوا۔ شکریہ علامہ اقبال کے جن اشعار کے بارے میں آپ نے استفسار کیا ہے، میں ان پر اپنی راے چار پانچ روز کے بعد پیش کرسکوں گا۔ کل صبح ایبٹ آباد جا رہا ہوں۔ ان شاء اللہ واپسی پر بغور مطالعہ کرکے کچھ کَہ سکوں گا۔ سرِدست یہ گزارش ہے کہ تشریحِ اقبال ایک اُصول اور طریقِ کار کی متقاضی ہے۔ میری دانست میں اُصول یہ ہے کہ جہاں مطلب واضح نہیں، وہاں اوّل: سیاق و سباق، اور دوم: علامہ کے مجموعی فکر کی روشنی میں تشریح کرنی چاہیے۔ علامہ کے کلام میں فکری اشارے اور ادبی تلمیحات، ادبیاتِ و علومِ اسلامیہ کی علمی ادبی روایت کے مطابق ہیں، ان پر عبور ہونا چاہیے۔ اس کے علاوہ علومِ جدید اور نظریاتِ جدید کے اشارے بھی بکثرت ہیں۔ ان کی معرفت کے لیے علومِ جدید کا علمِ وافی ہونا چاہیے۔ علامہ کے مجموعی فکر میں انقلابِ روس کی ماہیت کو معلوم کرنے کے لیے اگلے پچھلے سارے کلام پر نظر ڈالنی ضروری ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ علامہ نے انقلابِ روس پر مسرت کا اظہار کیا مگر اس کا باعث اشتراکی نظریہ نہ تھا۔ علامہ کی مسرت کا باعث فقط یہ تھا کہ روس نے مغرب کی استعماری طاقتوں (سرمایہ دارانہ جمہوریتوں) کے خلاف اس تازہ بغاوت کو محکوموں کے لیے پیغامِ آزادی خیال کیا اور اس میں کچھ شبہ نہیں کہ انقلابِ روس نے مشرق یا یوں کہیے (ایشیا اور افریقہ) کی محکوم و مظلوم اقوام کے دل میں اُبھرنے کا حوصلہ پیدا کیا۔ ظاہر ہے کہ اس میں مسرت کا ایک پہلو ضرور ہے۔ عالمِ اسلام کو محکوم بنانے والا یورپ اب ایک حریف کے سامنے ہے۔ اس سے ’’افرو ایشین‘‘ دُنیا کو بہرحال فائدہ ہوا ہے۔ اسی طرح اشتراکیت کے نظام میں بھی اسلام کے نظامِ معاش و معاشرت کے ساتھ مماثلت کے کچھ پہلو موجود ہیں (ہر چند کہ وہ اسلامی طریقوں کی ناقص، بھونڈی اور بے جہت نقل ہے)۔ علامہ نے اس جزوی مماثلت کی بنا پر حسنِ ظن سے کام لے کر روس کی تحریک کو ’’لا‘‘ کا درجہ دیا اور گمان کیا کہ تجربے کے بعد شاید ’’اِلّا‘‘ کی منزل بھی آجائے۔ اشتراکیت اور اسلام کو ایک قرار نہیں دیا۔ اس حد تک علامہ کے کلام میں روس اور اشتراکیت کے حق میں حسنِ ظن موجود ہے،لیکن مجموعی طور سے، حضرت علامہ نے پوری احتیاط کرتے ہوئے اشتراکیتی نظریے سے، ہر جگہ بے زاری اور لاتعلقی کا اظہار کیا ہے۔ ۲۳-۱۹۲۲ء سے لے کر آخری ایام ِحیات تک اپنی شاعری، نثر اور مکاتیب میں سوشلزم، کمیونزم بلکہ ہر ’’ازم‘‘ کی مذمت کی ہے کیونکہ ان کی راے میں اسلام کے سوا ہر طریقہ، نظام اور اُسلوبِ حیات باطل ہے۔ آج کل جو کوئی بھی علامہ کے کلام سے کمیونزم سوشلزم نکالتا ہے وہ علامہ کے ساتھ زیادتی کا مرتکب ہے۔ دو تین سال قبل میں نے ایک مضمون ’’کیا اقبال اشتراکی تھے؟‘‘ لکھا تھا، جو پہلے چٹان میں اورپھر ایک رسالے کی صورت میں چھپا تھا۔ اس میں میں نے بدلائل ثابت کیا تھا کہ علامہ کے کلام میں سوشلزم کا پیوند اگر آیا بھی ہو تو بغرضِ نفی آیا ہے،نہ بغرضِ تاکید و تائید۔ باقی رہا روس کا آفتابِ تازہ جو بطنِ گیتی سے پیدا ہونا بیان کیا جاتا ہے وہ (اگر وہ تعبیر درست ہو) تو اب گہنا رہا ہے۔ چین کا آفتاب اُبھر رہا ہے کیونکہ آئندہ چالیس پچاس برس چین کے ہیں۔ سچ بات ہے کہ آپ کے محولہ شعر میں حضرتِ علامہ نے ملتِ اسلامیہ کی بیداریِ نو کا اشارہ کیا ہے لیکن یہ مسئلہ موعودہ خط میں زیر بحث آئے گا۔ ان شاء اللہ نیازمند سیّد عبداللہ (۳) ۷۴/۴/۲۱ محترم و مکرم۔ السلام علیکم۔ مزاج شریف آپ نے علامہ اقبال کے بعض اشعار کے سلسلے میں چند روز قبل جو استفسارات بھیجے تھے۔ ان میں سے ایک کا جواب دے چکا ہوں، یعنی آفتابِ تازہ پیدا بطنِ گیتی سے ہوا، سے مراد بیداریِ مشرق یا بیداریِ عالمِ اسلام ہے، کیونکہ اقبال جہاں مشرق اور ایشیا کی بیداری کا ذکر کرتے ہیں، وہاں ان کی مراد عالمِ اسلام ہی ہوتی ہے۔ انھیں مرکزی دل چسپی عالمِ اسلام ہی سے ہے۔ اور ایشیا کا عروجِ ربط و ضبطِ ملتِ بیضا کے بغیر ہو بھی کیسے سکتا ہے؟ لہٰذا روس کو ’’آفتابِ تازہ ‘‘کہنا ان کے کلام کے مجموعی حوالے کی رُو سے صحیح نہیں ہوسکتا، البتہ روس کی جرأتِ رندانہ کی تعریف کئی جگہ کی ہے۔ ’’خضرِ راہ‘‘ کے جس بند میں’’آفتابِ تازہ پیدا بطنِ گیتی سے ہوا‘‘،والا شعر ہے، وہ بظاہر سرمایہ و محنت سے متعلق ہے لیکن غور کیا جاے تو اقبال کا سارا زور مغربی جمہوری سرمایہ داری کے خلاف ہے، روس کے حق میں بطور خاص نہیں کیونکہ آزادیِ محنت کا تخیل پہلے سے موجود تھا۔ آج میں آپ کے دوسرے استفسار کی طرف متوجہ ہوتا ہوں۔ آپ نے لکھا کہ شعر: ریت کے ٹیلے پہ وہ آہو کا بے پروا خرام وہ حضر بے برگ و ساماں ، وہ سفرِ بے سنگ و میل آپ کی اُلجھن یہ معلوم ہوتی ہے کہ ’’سفرِ بے سنگ و میل‘‘ کے بجاے ’’سفر بے سنگِ میل‘‘ (بغیر واوِ عاطفہ) ہونا چاہیے اور عام خیال کے مطابق آپ کی تشویش بے جا بھی نہیں کیونکہ نئی اُردو میں ’’سنگِ میل‘‘ کی ترکیب آج کل مروج و مقبول ہوگئی ہے اور مراد اس سے لی جاتی ہے وہ پتھر جس پر راستے کے میلوں (یا فاصلے) کی نشان دہی کی جاتی ہے، بظاہر یہ انگریزی کے (Milestone) کا ترجمہ ہے، اور چل رہا ہے۔ لیکن پرانی فارسی میں سنگِ میل کوئی ترکیب نہیں۔ میں غیاث اللغات کی حد تک کَہ رہا ہوں (ابھی اور بھی سراغ لگائوں گا)… سنگ الگ ہے، میل الگ ہے۔ سنگ کے معنی پتھر وغیرہ اور میل کے دو تین معنی ہیں: (۱) سرمہ لگانے والی سلائی (۲) منارکہ بہ جہت علامتِ فرسنگ در راہ سازند (۳) کروہ= کوس، (۴) میخ آہنی کہ بر سرِ گنبد نصب کنند (۵)بہار عجم کے حوالے سے لکھا ہے۔ ثلث فرسنگ است کہ آنرا کروہ گویند۔ چون بر سر ہر کروہے علامت براے تمام شدن کروہ بصورت میل ساختہ باشند مجازاً آن مسافت را نیز میل گویند۔ (۶)مگدر۔ لہٰذا یہاں میل کے معنی ہوئے منار (یا برجی) جو کوس کے ختم ہونے کی علامت کے طور پر بنائی جاتی تھی۔ اُردو میں (جامع اللغات کی حد تک) سنگ میل کوئی ترکیب نہیں البتہ میل کے ایک معنی دیے ہیں ’’وہ پتھر جو بطور نشان کے راستوں پر لگا ہوتا ہے۔‘‘ شاید پتھر سے مراد منار یا برجی ہی ہے جیسا کہ فارسی میں ہے۔ اُردو میں ایک لفظ سنگِ نشان ہے اور اس کے معنی ظاہر ہیں۔’’بہرحال سنگ ِمیل‘‘کوئی لفظ نہیں۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ سنگ عام علامت ہے جو ضروری نہیں کہ کوس کے اختتام کو ظاہر کرتی ہو۔یہ کوئی بھی علامت ہوسکتی ہے، مگر کسی ایک راستے میں کسی دوسرے راستے کی طرف آنے والے کسی گائوں یا شہر کا نام یا تصویر یا اشارہ۔ اس کے مقابلے میں میل خاص علامت ہے جو برجی یا پست سے مینار کی صورت میں صرف کوس کے خاتمے کا اعلان کرتی ہے۔ بالکل نئے دور میں، زیادہ تر علامہ کے اس شعر کے بعد کے زمانے میں، سنگِ میل کا رواج زیادہ ہوگیا ہے جو صحیح یا غلط کی بحث سے قطعِ نظر محض (Milestone) کا ترجمہ ہے اور فارسی یا اُردو کے پرانے استعمال سے مختلف ہے، لہٰذا نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ علامہ کے کلام میں ’’بے سنگ و میل‘‘ کی ترکیب بالکل صحیح ہے۔ واللہ اعلم بالصواب مخلص سیّد عبداللہ / بنام سیف اللہ سیف اللہ صاحب کا تعلق ڈیرہ اسماعیل خان سے ہے۔ درس و تدریس سے متعلق ہیں۔ اقبالیات سے خاص شغف ہے۔ سیّد صاحب کے نام ایک خط میں اُنھوں نے جاوید نامہ کے دو اشعار کے بارے میں استفسار کیا۔ سیّد صاحب نے حسب ذیل جواب مرحمت کیا: (۴) ۸۲/۳/۲۸ مکرمی۔ السلام علیکم۔ مزاج شریف کرم نامہ محررہ ۲۰؍مارچ ۸۲ء موصول ہوا۔ شکر گزار ہوں۔ آپ کے استفسارات کا جواب بقدر استعداد دے رہا ہوں۔ (۱) ہر کجا ہنگامۂ عالم بود رحمۃ للعالمینے ہم بود اگر ہم یہ سوچ کر آگے بڑھیں کہ عالم سے مراد یہی ایک عالم نہیں جس میں ہم آپ رہتے ہیں بلکہ قرآن مجید میں خداوند تعالیٰ کو رب العالمین کہا گیا ہے تو گویا کئی عالم (ایک سے زیادہ عالم) قرآن سے ثابت ہیں۔اس صورت میں ہر عالم میں حضور سرورِ کائنات کی رحمت للعالمینی موجود رہے گی۔ اس کے پیچھے دو تصور کام کر رہے ہیں، اوّل تو یہ کہ آپ نے فرمایا: اوّل ما خلق اللّٰہ نوری، گویا آنحضور ﷺ خداوند تعالیٰ کی خلاقی کا مظہرِ اوّل اور مظہرِ اتم ہیں (اور ختمِ نبوت کے بھی یہی معنی ہیں)۔ اُن کا سایۂ رحمت ہمیشہ مخلوق پر قائم رہے گا خواہ وہ کہیں ہو اور جب بھی ہو۔ شعر واقعی مشکل ہے مگر میں جس طرح سمجھا ہوں عرض کردیا ہے۔ (۲) صاحبِ سرمایہ از نسلِ خلیل الخ۔ نسل ِخلیل سے مراد یہ ہے کہ کارل مارکس یہودی تھا (اور یہودی نسل ِخلیل ہی سے ہیں)۔ اُمید ہے کہ میں کچھ عرض کرسکا ہوں۔ باقی سلام و دُعا نیازمند طالب خیریت سیّد عبداللہ / بنام پروفیسر ظفر حجازی پورانام محمدصدیقظفر حجازی ہے، کہوٹہ،سمندی اورلاہورکے سرکاری کالجوں میںاُردو کے استاد رہے۔ ملازمت سے سبک دوشی(۴؍اگست۲۰۰۵ئ)کے بعد،ادارہ معارف اسلامی منصورہ لاہورسے بطورڈپٹی دائریکٹرریسرچ وابستہ ہیں۔موصوف سیّد صاحب کے خاص مداحوں میں سے ہیں۔ علامہ کے ان شعروں: مست رکھو ذکر و فکرِ صبح گاہی میں اسے پختہ تر کر دو مزاجِ خانقاہی میں اسے (ارمغانِ حجاز، ص۱۵) عشق تھا فتنہ گر و سرکش و چالاک مرا آسماں چیر گیا نالۂ بے باک مرا (بانگ درا، ص۱۹۹) کے حوالے سے ان کی اُلجھن یہ تھی کہ ’’ذکر و فکرِ صبح گاہی‘‘ تو ایک پسندیدہ فعل ہے، پھر علامہ نے اسے ایک زوال آمادہ عمل کی حیثیت سے کیوں پیش کیا؟ دوسرے شعر کے حوالے سے حجازی صاحب نے عرض کیا کہ یہاں علامہ نے عشق کے لیے جن تین صفات (فتنہ گر، سرکش، چالاک) کا ذکر کیا ہے، وہ اُردو میں کچھ اچھے معنوں کی حامل نہیں۔ جواباً سیّد صاحب نے اپنے مکتوب میں یوں وضاحت کی: (۵) ۸۴/۱/۱۷ مکرم و محترم۔ السلام علیکم۔ مزاج شریف عنایت نامہ موصول ہوا۔ شکر گزار ہوں۔ آپ نے جن دو اشعار کی تشریح پوچھی ہے، ان میں سے پہلا تو سہل ہے۔ البتہ دوسرا تشریح طلب ہے۔ دراصل علامہ اقبال کا کلام (خصوصاً پڑھانے کے لحاظ سے) خاصا مشکل ہے۔ پہلا شعر نظم ’’ابلیس کی مجلس شوریٰ‘‘ سے متعلق ہے جہاں ابلیس مسلمانوں کو غافل رکھنے کی تدبیریں بتاتا ہے۔ ان میں سے ایک تدبیر یہ ہے کہ ان کے خانقاہی مزاج کو پختہ تر کرتے رہنا چاہیے تاکہ وہ جہاد کی طرف مائل نہ ہو پائیں اور محض اوراد و وظائف میں (صوفیوں کے ذکر و فکر میں) لگے رہیں۔ ذکر و فکرِ مومنانہ بڑا بلند عمل ہے جو خدا سے محبت کو پختہ کرکے ایک سرگرمِ عمل کردار پیدا کرتا ہے بخلاف ذکر و فکرِ خانقاہی کے، جو جہاد اور عمل سے غافل رکھتا ہے۔ دوسرا شعر ’’جوابِ شکوہ‘‘ سے ہے، اس میں مدنظر رہے کہ ’’شکوہ‘‘ کی شوخیِ بیان پر کچھ اعتراض ہوئے تھے۔ اقبال فرماتے ہیں میری شوخیِ گفتار جذبۂ عشق کے زیر اثر تھی۔ جذبہ قوی ہو تو اس کے غیر معتدل ہونے کا ہر وقت امکان رہتا ہے، میں نے ’’شکوہ‘‘ میں کچھ باتیں شوخ و بے باک انداز میں کَہ ڈالی تھیں جو آزمائش کا محل بن سکتی تھیں لیکن چونکہ میری فریاد دل سے نکلی تھی اس لیے: آسماں چیر گیا نالۂ بے باک مرا جس سے آسماں کے مکین بھی متاثر اور حیران ہوگئے۔ اس شعر کو سمجھنے اور سمجھانے کے لیے ’’شکوہ‘‘ بھی مدنظر رہے اور ’’جوابِ شکوہ‘‘ کے اس شعر سے آگے اور پیچھے کے دس بارہ اشعاربھی زیرِ نظر رہیں تو بات سمجھ میں آجاتی ہے۔ الفاظ فتنہ گر، سرکش اور چالاک وغیرہ عشق کے جذبۂ قوی کی صفات کے طور پر لائے گئے ہیں اور غیر معمولی جذبۂ عشق میں آزمائشیں سرکشی (جرأت رندانہ) اور جوش اور طوفانی کیفیات تو ہوا ہی کرتی ہیں ان میں برائی کا اظہار نہیں ’غیر معمولی‘ پن کا اظہار ہے، لیکن اسی عشق کا ایک خاصہ آہ و فریاد ہے جس کا تاثیر نے تذکرہ کیا ہے۔ اس کے باوجود واللہ اعلم بالصواب کہنے کی گنجائش ہے۔ خدا تعالیٰ سے شرحِ صدر کی دُعا ہے۔ والسلام نیاز مند سیّد عبداللہ ایک اور خط میں حجازی صاحب نے علامہ اقبال کے اس شعر کی وضاحت چاہی: نشناخت مقامِ خویش ، افتادہ بدامِ خویش عشقے کہ نمودے خواست از شورشِ یا رب ہا جواباً حسبِ ذیل مکتوب موصول ہوا: (۶) ۸۴/۴/۷ مکرمی ظفر حجازی صاحب۔ السلام علیکم۔ مزاج شریف اقبال کا شعر (ارمغان حجاز) صاف ہے۔ صوفیہ کے نزدیک منبعِ عشق خدا کی ذات ہے۔ اب اس عشق کو نمود کی طلب ہوئی تو جذبۂ عشق نمودار ہوا جس کا ظہور یارب یارب (دعا) کی صورت میں ہوتا ہے۔ تو مطلب یہ کہ منبعِ عشق اور عشق میں فرق کچھ نہیں۔ عشق کی طلب کو منبعِ عشق سے جدا نہیں سمجھا جاسکتا۔اس نے نمود کی خواہش کرکے خود اپنی ہی طلب کی۔اپنے ہی دام میں پھنس گیا، ورنہ جدائی نہ تھی۔ واللہ اعلم والسلام نیاز مند سیّد عبداللہ ۱۷؍جنوری ۱۹۸۴ء کے مکتوب میں سیّد صاحب نے ’’ذکر و فکرِ صبح گاہی‘‘ کی جو وضاحت کی تھی، مکتوب الیہ اس سے مطمئن نہ ہوئے اور دوبارہ استفسار کیا۔ جواباً حسب ذیل خط موصول ہوا: (۷) ۸۵/۵/۵ مکرمی ظفر حجازی صاحب۔ السلام علیکم۔ مزاج شریف ذکر و فکر کے سلسلے میں علامہ اقبال کے خیالات میں تضاد نہیں۔ جہاں وہ اس پر زور دیتے ہیں کہ ذکر و فکر اور نالۂ سحر گاہی فقر کی شان ہے، وہاں وہ اس طریقِ کار کو مسترد کردیتے ہیں کہ کوئی شخص ذکر و فکر سے یہ سمجھے کہ وہ جہدِ حیات سے بے نیاز ہوگیا۔ مکمل فقر دونوں کا تقاضا کرتا ہے اور یہی سچے تصوف کا لازمہ ہے۔ والسلام نیازمند سیّد عبداللہ / بنام ابو المعانی عصری ابو المعانی عصری(۱۰؍اکتوبر۱۹۴۳ئ_ ۳۰؍نومبر۲۰۱۰ئ) کااصل نام غلام محمدتھا۔ محکمہ استیصال ملیریااورشفاخانۂ حیوانات میںبطورکلرک ملازم رہے۔ان کا تعلق میانوالی سے تھا۔ تصانیف میں مکتوباتِ دوستاں،احساسات کلیم اورشنوزہ (ناول)شائع شدہ ہیں۔ان کی غیر مطبوعہ کتابوں کے نام یہ ہیں:مثنوی فقروغنا۔مثنوی خیالِ نازک۔آئینہ اظہار۔بہروپ۔ دانائیاں۔زہرکاساغر۔بلیک وارنٹ (خودنوشت)۔ نقش جہاں (نطمیں) وغیرہ۔ ان کے نام درج ذیل خط قدرے مختلف نوعیت کا ہے، مگر موضوع اس کا بھی اقبالیات ہے۔ (۸) ۸۴/۳/۱۸ مکرم و محترم عصری صاحب۔ السلام علیکم فہرستِ اقبالیات موصول ہوئی۔ اچھی خاصی ہے۔ جزاک اللہ۔ آپ نے میری کتابوں کا تذکرہ نہیں کیا۔ طیفِ اقبال میری تصنیف نہیں، میرے لیکچروں کا مجموعہ ہے۔ میری کتابیں یہ ہیں: (۱) مسائلِ اقبال (۲) مقاصدِ اقبال (۳) متعلقاتِ خطباتِ اقبال (۴) ابنِ عربی اور اقبال (۵) مطالعہ اقبال کے چند نئے رُخ یہ بھی شامل کرلیجے گا۔ شکریہ طالب خیریت سیّد عبداللہ ئ……ئ……ء ۴ مصاحبے (انٹرویو) / ۱ فکرونظرسے انٹرویو س: سیّد صاحب! آپ ایسے بزرگ اور قابلِ احترام استاد کو حضرت علامہ اقبال سے ارادت مندی کا شرف حاصل ہے۔ کیا آپ گذرے ہوئے ایام کی یاد تازہ کرنا پسند کریں گے؟ ج: عزیزم، میں حضرت علامہ اقبال کا وہ ارادت مند ہوں جس کی حیثیت اس شخص کی سی ہے جو مردِ کامل کے کمال یا جمال کے محض تصور یا اس کی دید ہی سے حیرت زدہ ہوجاتا ہے۔ میں ۱۹۲۶ء سے تا ایام وفات حضرت علامہ اقبال کے آستانے پر حاضر ہوتا رہا، مگر پچھلی صفوں کے خاموش تماشائی کی طرح، اپنی حد سے آگے نہیں بڑھا۔ ان سے ملاقات اور گفتگو کے موقعے بھی ملے، مگر ان گفتگوئوں کوکبھی چھپوایا نہیں۔ کیونکہ مجھے اپنی کم علمی کا پورا احساس رہا، مبادا میں علامہ کے ملفوظات کو نقل کرنے میں ٹھوکر کھا جائوں۔ س: حضرت علامہ سے آپ کی براہِ راست ملاقاتیں بھی تو ہوئی ہوں گی؟ ج: جی ہاں، اس موضوع پر میں پہلے بھی اظہارِ خیال کرچکا ہوں اور آج پھر عرض کروں گا کہ براہِ راست ملاقاتیں بہت ہوئیں جن کے مدھم تاثرات میرے ذہن میں محفوظ ہیں۔ مگر دو تین غیر معمولی موقعے ایسے بھی ملے جن کی یاد آج تک محو نہ ہوئی، ویسے مجھے اُمید ہے کہ ان کا تذکرہ فائدے سے خالی نہ ہوگا۔ میں پہلی مرتبہ ۱۹۲۶ء میں علامہ اقبال کی خدمت میں حاضر ہوا اور براہِ راست ان سے بات چیت کرنے کا موقع ملا۔ میں اس زمانے میں، پنجاب یونی ورسٹی لائبریری میں قلمی کتابوں کی تفصیلی فہرست بنانے پر مامور تھا اور میرے کام کے نگران پروفیسر محمد شفیع، پروفیسر محمد اقبال اور حافظ محمود خاں شیرانی تھے۔ پروفیسر محمد شفیع نے مجھے حکم دیا کہ میں فخری بن امیری کا انتخابِ شعراے فارسی لے کر حضرت علامہ کی خدمت میں حاضری دوں اور انھیں وہ کتاب دکھا آئوں۔ اس کتاب کا نامتحفۃ الحبیب ہے۔ اس میں مصنف نے فارسی شاعروں کی غزلیات کو اس طریق سے جمع کیا ہے کہ مختلف شعرا کی ہم طرح غزلیں یکجا ہوگئی ہیں۔ حضرت علامہ نے مجھ سے کتاب لی اور ورق گردانی شروع کردی۔ ساتھ ساتھ پنسل سے اشعار پر نشان لگاتے گئے۔ معلوم ہوتا تھا کہ یہ انتخابِ اشعار پروفیسر شفیع صاحب کی فرمائش پر کیا جارہا ہے۔ شاید شفیع صاحب اس زمانے میں فارسی نصاب۱؎ مرتب کررہے تھے اور چاہتے تھے کہ اس انتخاب میں حضرت علامہ کے ذوق کی رہنمائی سے فائدہ اُٹھایا جائے۔ اس انتخاب میں ایک گھنٹے سے زیادہ وقت اُنھوں نے صرف کیا ہوگا۔ جب فارغ ہوئے تو مجھ سے دریافت کیا۔ ’’بھائی! فارسی کے طالب علم ہو یا عربی کے‘‘؟ میں نے عرض کیا: ’’ایم اے فارسی میں کیا ہے مگر عربی مسجدوں میں پڑھی ہے‘‘۔ فرمایا:’’ عربی والا جب فارسی میں آتا ہے تو فارسی اس کے لیے مشکل نہیں رہتی‘‘۔ وہ فرماتے گئے، میں خاموشی سے سنتا رہا۔ اور سچی بات یہ ہے کہ مجھے تو یہ بھی معلوم نہ تھا کہ میں ان کی باتوں کا کیا جواب دوں۔ تھوڑی دیر کے بعد مجھ سے فرمایا: ’’یہ کاغذ لو، اور اس پر خواجہ حافظ اور جامی کی وہ غزلیات لکھ دو جن کے مطلع یہ ہیں‘‘۔ اس اثنا میں وہ گنگناتے رہے۔ جب میں لکھ چکا تو فرمایا: ’’تم فارسی کے فارغ التحصیل ہو، بتاسکتے ہو ان میں سے کون سی غزل اچھی ہے؟‘‘ میری سمجھ میں کچھ نہ آیا کہ کیا جواب دوں۔ بہرحال میں نے عرض کیا کہ حافظ کی غزل اچھی ہوگی۔ شاہِ شمشاد قداں، خسروِ شیریں دہناں کہ بمژگاں شکند قلب ِہمہ صف شکناں (حافظ) اے ہمہ سیم براں ، سنگِ تو بر سینہ زناں تلخ کام از لب ِمے گون ِتو شیریں دہناں (جامی) ٍ ۱- یہ مجموعہ بعد ازاں سبدِ گل اور گلشنِ معانی کے نام سے شائع ہوا۔ فرمایا: ’’یہ حافظ کی جادوگری کا اثر ہے، ورنہ شیراز اور خراسان کا فرق تو واضح ہے۔ شیرازی میٹھی باتوں سے دلوں کو لبھا رہا ہے اور ہرات والا کوہستانی لہجے میں بات کَہ رہا ہے اور ہم لوگوں کو کوہستانی لہجے کی اب زیادہ ضرورت ہے‘‘۔ اس کے بعد جامی کی غزل تحت اللفظ پڑھی۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ان کی رَگ رَگ میں شعر اثر کررہا ہے۔ اس کے بعد مجھے رخصت ہونے کی اجازت دی اور فرمایا کہ ’’پروفیسر شفیع سے کہنا مجھ سے ذرا مل لیں‘‘۔ علامہ اقبال کی خدمت میں حاضری کا دوسرا موقع مجھے ۱۹۳۰ء میں ملا۔ لاہور میں ہم لوگوں نے ایک مجلس اسلامک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے نام سے قائم کر رکھی تھی۔خواجہ عبدالوحید صاحب۱؎ اس کے سیکرٹری تھے۔ ہم نے ارادہ کیا کہ علامہ اقبال کی تعلیمات کو عام کرنے کے لیے یومِ اقبال منایا جائے۔ یہ برصغیر ہند و پاکستان میں پہلا ’’یومِ اقبال‘‘ تھا۔ ہم اس سلسلے میںعلامہ اقبال کی خدمت میں حاضر ہوئے کہ وہ ایک شام ہوٹل سٹفلز۲؎ (Stiffle's)میں عقیدت مندوں کے ساتھ چائے پئیں۔ علامہ نے یہ دعوت قبول فرمائی۔ گفتگو سے قطع نظر، سٹفلز میں ان کی آمد، ان کا حلیہ، مشہدی لنگی وغیرہ تمام جاذبِ نظر تھیں۔ ان کی شخصیت میں تمکنت اور وقار تھا۔ یہ مجلس بھی بااثر اور ایک یادگار موقع تھا۔اس مجلس میں علامہ اقبال نے تقریر بھی فرمائی۔ اس کا خلاصہ جو مجھے یاد ہے حسب ذیل ہے: میں شاعر نہیں ہوں، شعر شناس ہوں اور حکمت زندگی اور حکمت دین کا طالب علم ہوں۔ میری آرزو ہے کہ میں اپنے ملک کے تعلیم یافتہ لوگوں پر دین کے اسرار منکشف کر جائوں تاکہ وہ دین کے قریب آجائیں۔ ملاقات کا تیسرا موقع مجھے اس زمانے میں ملا جب علامہ اقبال مدراس لیکچرز کی تیاریاں کررہے تھے۔مجھے پیغام بھیجا کہ لائبریری میں فلسفے کی عربی و فارسی کی جو کتابیںہیں ان کی فہرست بنا کر حاضر کروں۔ جب میں حاضر ہوا تو فرمایا: ’’مسلمانوںمیں ۱- مصنف: Bibliography of Iqbal(مشفق خواجہ کے والد) ۲- یہ ہوٹل شاہراہ قائداعظم (مال روڈ) پر واقع تھا اور اب ختم ہوچکا ہے۔ دین والا آدمی جب فلسفے کی اصطلاحوں میں بات کرتا ہے تو اس کی بات میں وقار اور وزن پیدا ہوجاتا ہے مگر محض فلسفے والا آدمی جب دین کی بات کرتا ہے تو اس کی نہ فلسفیانہ حیثیت ہوتی ہے، نہ دینی لحاظ سے اس میں وزن۔‘‘ س: سیّد صاحب! کیا اقبال کی شاعری میں ابدیت کے عناصر ہیں یا نہیں؟ ج: اقبال نے بہت سے موقعوں پر خود کو شاعرِ فردا قرار دیا ہے یا بالفاظ دیگر ’’حکیمِ آئندہ‘‘ کیونکہ اقبال خود کو شاعر یا غزل خواں نہیں کہتے تھے،بلکہ اپنے اس لقب کو باعثِ عار سمجھتے تھے،تاہم اس سے انکار نہیں ہوسکتا کہ وہ شاعر بھی تھے اور ایک ایسی ادبی روایت یا ادبی فکر کے مؤسس تھے جس سے ہمارا ادب و شعر ایک نئے شعور سے آشنا ہوا۔اس سے وہ پھل پھول پیدا ہوئے جن کی تازگی، شگفتگی، رس اورجس کی قوت و توانائی سے ادب و شعر کی دُنیا اب تک ایک نئی زندگی محسوس کررہی ہے اور آئندہ بھی کرتی رہے گی۔ اقبال نے جاوید نامہ میں شاعری اور ادب کی اس اہمیت پر خود بھی زور دیا ہے اور لکھا ہے: ع ملتِ بے شاعرے انبارِ گل شاعر کے بغیر کوئی قوم صحیح معنوں میں قوم ہی نہیں ہوتی، تودۂ گل بنی رہتی ہے۔ تو اس سے صاف ظاہر ہے کہ اقبال کو شاعر کَہ دینے میں کوئی مضائقہ نہیں، مگر ایسے شاعر جو حکیم بھی تھے۔ درحقیقت وہ ایسے شاعر تھے جن کی شاعری نے ملت کے جسم میں، جو ایک معنی میں راکھ کا ڈھیر بن چکی تھی، زندگی کی رُوح پھونکی اور ’’انبارِ گل‘‘ کو ایک زندہ اور باشعور قوم میں بدل دیا۔ یہ سب کچھ اس بات کا ثبوت ہے کہ اقبال شاعر تھے اور شاعرِ ملّی بھی۔ مگر کیا وہ شاعرِ فردا بھی ہیں؟ اس کا جواب اس وضاحت پر منحصر ہے کہ یہاں شاعرِ فردا سے مراد کیا ہے؟ شاعرِ فردا وہ شاعر ہے جس کی شاعری اپنے مستقبل اور پائداریِ معانی و افکار کی بدولت آج کی طرح کل بھی، یعنی صدیوں تک زندہ و پائندہ رہنے والی ہو، جس کے نغموں سے کل کے لوگ بھی آج کی طرح محظوظ ہوں اور جس کے پیغام سے آنے والی نسلیں، یعنی آئندہ کے انسان اسی طرح تسکین و قوت کا سامان حاصل کریں۔ جس طرح آج کے انسان تسکین و قوت کا سامان حاصل کررہے ہیں،یہ صفات کلامِ اقبال میں موجود ہیں۔ س: سیّد صاحب! آپ کے خیال میں اقبال کے یہاںاچھے انسان کا تصور کیا ہے؟ ج: اقبال نے اپنے پسندیدہ انسانوں کے حقیقی اور زندہ نمونے ہمارے سامنے رکھے ہیں۔ مثلاً آنحضرتؐ کے علاوہ صحابہ کرامؓ، حضرت صدیق اکبرؓ، حضرت عمرؓ، حضرت عثمانؓ، حضرت علیؓ، شیر حق حضرت ابو ذرؓ، حضرت بلالؓ وغیرہ اور ان کے علاوہ بعض سلاطین، بعض اولیاے کرام اور بعض دوسرے رجال و زعما جن کے اوصاف میں کبھی عام طور سے، کبھی خاص طور سے اقبال کے پسندیدہ انسان کے اوصاف پائے جاتے ہیں۔ اقبال کے ہاں بعض شخصیتیں ایسی بھی ہیں جن کی مثالیت کامل نہیں بلکہ کسی ایک وصفِ خاص میں وہ نمایاں ہیں اور یہ سیاق و سباق سے ظاہر ہوجاتا ہے کہ وہاں اقبال کی پسند کی وجہ کیا ہے: اقبال کے ہاں اچھے اور بلند انسان کی جھلک ان کی کتابوں میں بکھری ہوئی صورت میں جابجا ملتی ہے لیکن یک جا مربوط تصویریں بھی موجود ہیں، مثلاً اسرارِ خودی میں خودی کی تربیت کے ضمن میں عشق و محبت کی اہمیت کے بعد اطاعت، ضبطِ نفس اور نیابتِ الٰہی کی ذمے داریوں کی صلاحیت مثلاً ذکر و فکر اور فقر و غیور وغیرہ کا ذکر کرکے ان دوسرے خصائل کا بھی ذکر کیا ہے جو اقبال کے ’’اعلیٰ انسان‘‘ کے لیے ضروری ہیں۔ پھر ان عیوب کا بھی ذکر کیا ہے جو پسندیدہ انسان کو اپنے مقام سے گرا دیتے ہیں۔ مثلاً حرص، خوف، غم اور وسواس، اس کے علاوہ وہ احتیاج جو انسان کو سوال پر مجبور کردے۔ س: اقبال کا آنے والی شاعری پر کیا اثر ہوا؟ ج: قابلِ غور مسئلہ یہ ہے کہ اقبال کے فوراًبعد فکرِ اقبال کے خلاف دانستہ یا نادانستہ مخالفانہ تحریکیں کیوں اُٹھیں اور یہ بھی دیکھنا ہے کہ ان کی نوعیت کیا تھی؟ میری چھان بین کا خلاصہ یہ ہے کہ سب سے نمایاں ردِعمل میراجی کی صورت میں ہوا۔ میراجی کی تحریک اکثر صورتوں میں اقبال کے خیالات کی ضد تھی۔ اس کے علاوہ مجھے یہ بھی عرض کرنا ہے کہ میراجی کی شاعری لفظی موسیقی اور رمز کی شاعری تھی اور اس حد تک مجھے اس کے خلاف کوئی اعتراض نہیں۔ اعتراض اس فکر پر ہے جو میراجی کی شاعری میں موجود ہے۔ میں اقبال کے ساتھ میراجی کو اس لیے معرض بحث میں لا رہا ہوں کہ اقبال کے افکار کے ساتھ ساتھ ان ’’خودی شکن‘‘ افکار کا تصور بھی سامنے آجائے جن کے خلاف حضرت علامہ نے عمر بھر جہاد کیا۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ شاعرِ مشرق نے جس ارضیت اور زمین پرستی کے خلاف شدید احتجاج کیا، وہی پاکستانی قوم کے ادب پسند حصے کے ایک مؤثر فرقے کا مذہب ہے۔ اس کے لیے طرح طرح کے الفاظ اور اصطلاحیں تراشی گئی ہیں، مثلاً: اس ملک کا اصلی کلچر، اس ملک کی بوباس، اس ملک کا زمینی کلچر، وغیرہ۔ پھر ادب کے نام سے ہندو دیومالا اور زمین کی پرستش کا سبق دیا جارہا ہے۔ اس مذہب کی ابتدا میراجی سے ہوئی۔ اس لیے میراجی کا میں خاص ذکر کررہا ہوں۔ میراجی کے اثرات اب بھی گہرے ہیں۔ س: اقبال کا ایک اچھی سوسائٹی کا تصور کیا ہے؟ ج: اقبال کی نظر میں ہر چند کہ فرد و اجتماع دونوں ضروری ہیں اور اجتماع کی فائق حیثیت مسلّم ہے مگر ان کے نزدیک فرد اجتماع کا وہ سنگ بنیاد ہے جس کی صحیح تربیت سے اچھا اجتماع اور اچھا معاشرہ وجود میں آسکتا ہے۔اس لیے اقبال نے بعض دوسرے سوشل فلسفوں کے برعکس فرد کو محض پرزہ اور اجتماع کا بے شعور کارندہ قرار نہیں دیا بلکہ ان کی نظر میں یہ ایک ایسا خودآگاہ جز ہے جو اگرچہ خود کے شعور سے بھرپور ہے مگر یہی معرفت اسے یہ بھی سکھاتی ہے کہ اجتماع کے لیے قربانی ہی میں خودی کی بقا ہے اور یہ حقیقت اقبال کی کتاب رموزِ بے خودی میں بیان ہوئی ہے۔ س: ڈاکٹر صاحب، اقبالیات کے سلسلے میں جو کام ہورہا ہے، کیا آپ اس سے مطمئن ہیں؟ ج: آج تک اقبال پر اور ان کے کلام کے مختلف موضوعات پر بہت کچھ لکھا گیا ہے مگر اقبالیات کا موضوع ابھی تک تشنہ ہے۔ درحقیقت ابھی تک مطالعۂ اقبال کی تحریک صحیح معنوں میں شروع ہی نہیں ہوئی۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ اقبال شناسی اور اقبال فہمی کے لیے کئی علوم کی ضرورت ہے۔ مشرق و مغرب کے عام علوم، اسلامی علوم کے امتزاج کے ساتھ سیکھے جائیں۔ محض جدید تعلیم صحیح اقبال شناسی پیدا کرہی نہیں سکتی۔ میری راے میں قابلِ توجہ اُمور جن پر اقبالیات کے بارے میں کام کرنا باقی ہے، یہ ہیں: ۱- اقبال کے مآخذ کا مسئلہ۔ ۲- اقبال کے اہم موضوعات کی وضاحت کا مسئلہ۔ ۳- اقبال کے علمِ کلام کی تدوین کا مسئلہ۔ ۴- پاکستان کے نصب العین میں فکرِ اقبال سے استفادہ، کس طرح کیا جائے۔ ۵- فکرِ اقبال کے دبستان کا قیام۔ اسلامی طرزِ تفکر۔ اسلامی قانون۔ ہمیں اسلامی طرزِ حیات اور اسلامی مملکت کے رجحانات کو فروغ دینا چاہیے اور یہ آخری معاملہ قوم کی توجہ چاہتا ہے، اور اقبال پر کام کرنے والی مجالس کا فرض یہ ہے کہ لوگوں میں صحیح تحقیقی سپرٹ (spirit) پیدا کریں۔ محض جذباتی انداز کی اقبال پرستی کافی نہیں،بلکہ علمی بنیادوں پر کام کرنے کی اشد ضرورت ہے اور توفیق میرے رب کے ہاتھ میں ہے۔ -----فکر و نظر، اسلام آباد، اقبال نمبر۱۹۷۷ء ئ……ئ……ء ۲ اقبال شناس،اقبال دوست س: علامہ اقبال نے برصغیر کی سیاست کو شاعری کے ذریعے کس حد تک متاثر کیا؟ ج: علامہ اقبال کی شاعری کو تین بڑے حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ اوّل وہ ہے جسے وطنیّت کے دور کی شاعری کہا جاتا ہے۔ دوسرا وہ جسے اتحادِ اسلامی دَور کی شاعری کہتے ہیں۔ تیسرے وہ جسے علامہ اقبال کی سیاسی فکر کی پختگی اور تکمیل کا دور کہتے ہیں۔علامہ اقبال کی شاعری نے ان تینوں ادوار میں ملک کے سیاسی ذہن پر اثر ڈالا ہے۔ پہلے دور میں اُنھوں نے قومیّت کے تخیل کو اُبھارنے کی کوشش کی جس میں اُنھوں نے ہندوئوں اور مسلمانوں دونوں کو مخاطب کیا۔ دوسرے دور میں عالمِ اسلام کی سیاسی مشکلات کے پیش نظر اُنھوں نے اتحادِ اسلامی کے رستے کو مضبوط کیا۔ یہی وہ مقام ہے جہاں سے مسلمانانِ ہند کے ذہن میں دو الگ الگ لکیریں بیک وقت اُبھریں۔ اس دور میں ایک ہندی مسلمان کا فریضہ یہ بھی قرار پایا کہ وہ آزادیِ ہندوستان کے لیے اپنے ہم وطنوں کے ساتھ رہ کر جدوجہد کرے مگر اس کے ساتھ ہی اسے یہ بھی مدنظر رہے کہ وہ دُنیا بھر کی کلمہ گو برادری کا ایک جزو ہے۔ گویا اس طرح اس ذہن کی ابتدا ہوئی جس نے آگے چل کر پاکستانی نظریۂ قومّیت کا رُوپ دھارا لیکن یہ ملحوظ رہے کہ اس وقت تک اتحادِ اسلامی کی جدوجہدِ آزادی اور ہند کی جدوجہد میں کوئی تضاد موجود نہ تھا۔ ایک تحریک کے لوگ دوسری تحریک میں بھی پوری طرح سرگرم رہ سکتے تھے۔اس دور کا خاتمہ تحریکِ خلافت پر ہوا۔ اس سلسلے میں بعض دوسری نظموں کے علاوہ میں ان کی طویل نظم ’’خضرِ راہ‘‘ اور ’’طلوعِ اسلام‘‘ کا حوالہ دوں گا۔ ان نظموں میں مذکورہ بالا دونوں فطری لکیریں بیک وقت پائی جاتی ہیں۔ ہندستان کی ملکی سیاست پر اس طرزِ فکر نے یہ اثر ڈالا کہ مسلمانوں کی پُرجوش تائید و حمایت سے آزادیِ ہند کی تحریک میں بڑی قوت پیدا ہوئی اور کہا جاسکتا ہے کہ اس قوت کے پیدا کرنے میں علامہ اقبال کی شاعری کا بھی بڑا حصہ تھا۔ یا پھر ۱۹۲۴ء کے بعد تحریک خلافت کے ختم ہوجانے پر علامہ کو یہ محسوس ہوا کہ مسلم ممالک کی تائید و حمایت کے علاوہ مسلمانانِ ہند کو زیادہ زور اپنے ملک کے اندر اپنی ہستی کو منوانے کے مسئلے پر صرف کرنا چاہیے۔ چنانچہ اس کے بعد علامہ اقبال کی توجہ ایک ہمہ گیر مسلم ذہن بنانے پر مبذول ہوئی۔ اُنھوں نے اس کے متعلق کتابیں لکھیں۔اس میں سب سے زیادہ، فکر کے اسی پہلو کو زیادہ مدنظر رکھا۔ اُنھوں نے فارسی نظموں پر بھی توجہ کی اور مسلم ہند کے علاوہ ایک عالمگیر بین الاقوامی اسلامیّت کے لیے بھی نظامِ فکر تیار کیا۔ مسلم لیگ کے خطبۂ الٰہ آباد کے بعد اُنھوں نے ایک مسلم ہندستان کا تصور پیش کیا۔ ان کی ساری کوششیں اس اَمر پر مرکوز رہیں کہ ہندوستان میں ایک مسلم مملکت قائم کرنے کے لیے جس قدر داد رسی، استحکام اور اجتماعی تعمیرِ ذہن کی ضرورت ہے، مسلم قوم کے نوجوانوں کو اس کے لیے تربیت دی جائے۔ بالِ جبریلاس کوشش کا سب سے بڑا مظہر تھامگر انھیں یہ بھی خیال تھا کہ مسلمان قوم جہاں ہندوئوں کی ممکن حد تک چیرہ دستیوں کو محسوس کررہی ہے،وہاں فرنگی اصلاحِ معاشرت ان میں احساسِ کمتری بھی پیدا کررہا ہے۔ چنانچہ ضربِ کلیم لکھ کر اُنھوں نے تہذیبِ افرنگ کے خلاف اعلانِ جہاد کیا اور یہ واضح کیا کہ پاکستان بنانے کے لیے ایک ایسے شعور کی ضرورت ہے جو نہ تو ہندوئوں سے خوفزدہ ہو اور نہ فرنگی تمدن سے مرعوب ہو۔ گویا اُس نے ان کے فلسفۂ خودی کی سیاست پر دو طرفہ اثر ڈالا۔ ایک طرف تو ہندوئوں کو محسوس کرایا کہ ہندوستان میں متحدہ قومیت کا تخیل کامیاب نہیں ہوسکتا اور دوسری طرف مسلمانوں پر واضح کیا کہ ان کی تہذیبی اور دینی بقا قیامِ پاکستان پر منحصر ہے۔ س: علامہ اقبال نے مسلمانوں کی نشاتِ ثانیہ کے لیے کن لوگوں سے فکر حاصل کی۔ کیا اسی فکر کی نشان دہی علامہ اقبال کے کلام سے بھی ہوتی ہے؟ ج: میرے اپنے خیال کے مطابق علامہ اقبال مسلمانوں کی نشاتِ ثانیہ کے سلسلے میں سب سے زیادہ دو شخصیات سے متاثر ہوئے۔ ایک سیّد جمال الدین افغانی سے جن کا تذکرہ اُنھوں نے خطبات کے علاوہ جاوید نامہ میں بھی کیا اور سیّد جمال الدین افغانی سے علامہ اقبال دینی فکر کی تعمیر نو کے سلسلے میں متاثر ہوئے جو اس بات کا ضامن تھا کہ عالمِ اسلام کو اپنے دینی نقطۂ نظر میں جدید زمانے کی تبدیلیوں کی روشنی میں کیا طریقے اختیار کرنے چاہییں اور یہ کہ مسلمانانِ عالم کو یورپ کی سی سیاسی بالادستی حاصل کرنا چاہیے،ان کا یہ خیال بھی تھا کہ دُنیاوی تنظیمی معاملات میں اُصولِ اسلام کی روشنی میں عقلی طریقۂ کار سے کام لینا چاہیے۔ یہ باتیں سیّد جمال الدین افغانی اور علامہ اقبال میں مشترک ہیں۔ ان کے افکار کا عالم اسلام نے بڑا اثر قبول کیا اور مختلف اسلامی ممالک میں جتنی تحریکیں بھی پیدا ہوئیں،ان میں سے بیشتر میں انھیں کی تعلیمات کا اثر دکھائی دیتا ہے۔ دوسرے بڑے شخص جن سے یہ متاثر ہوئے وہ علامہ شبلی نعمانی تھے۔علامہ شبلی نعمانی تاریخ کے نامور مصنف تھے اور ان کا نظریہ یہ تھا کہ مسلمانوں میں تاریخی شعور پیدا کرکے انھیں زندہ کیا جاسکتا ہے۔ علامہ اقبال نے اپنی شاعری میں اور بعض تحریروں میں تاریخ پر بہت زور دیا ہے۔ یہ تمام تر چیز علامہ شبلی کی تاریخی تحریک کے زیرِ اثر تھی لیکن یہ مدِنظر رہے کہ کوئی مصنف اور شاعر صرف ایک دو آدمیوں سے متاثر نہیں ہوتا بلکہ زمانے کے دوسرے اثرات بھی اس پر وارد ہوتے ہیںاور وہ اس کے مجموعی فکر کی تکمیل میں حصہ لیتے ہیں۔یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ علامہ اقبال کے افکار میں مغربی مصنّفین کے خیالات کا اثر بھی موجود ہے۔ س: علامہ اقبال نے جو ادب تخلیق کیا، کیا اسے انقلابی کہا جاسکتا ہے یا نہیں؟ ج: آپ نے اپنے سوال میں انقلابی اصطلاح استعمال کی ہے۔ میں ذاتی طور پر اس اصطلاح سے کوئی زیادہ مانوس نہیں ہوں۔ اس کے یہ معنی نہیں کہ میں اس کے معنی نہیں جانتا یا انقلاب کے علم برداروں کو کم درجہ دیتا ہوں۔ میرا مطلب صرف یہ ہے کہ علامہ اقبال کے تعارفِ انقلاب کے صحیح مفہوم کو مدنظر رکھنا ضروری ہے۔ انقلاب کا ایک مفہوم وہ ہے جسے مارکس، اینگلز اور لینن نے مملکتِ روس میں کامیاب کیا۔ اس مفہوم میں علامہ اقبال نے انقلاب کو کم از کم استعمال کیا۔ سبب اس کا یہ ہے کہ مارکس اور اینگلز کا انقلاب سراپا مادی مفہوم رکھتا ہے۔ اس کا تعلق صرف وسائل کی پیداوار اور تقسیمِ دولت کی صحیح تنظیم سے ایک ایسا معاشرہ پیدا کرنا ہے جو اپنی بنیادی ضرورتوں کے لیے کسی کا محتاج نہ ہو لیکن اس نظریہ میں کمی یہ نظر آتی ہے کہ اس کے لیے جتنی بھی جدوجہد کی جاتی ہے اس کی بنیاد نفرت اور جبر پر رکھی جاتی ہے۔ یہ نظریہ انسان کی اچھی فطرتوں کی تنظیم کا قائل نہیں اور یہ اعتقاد رکھتا ہے کہ انسانوں کو جبر ہی سے ٹھیک رکھا جاسکتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ بھی ہے کہ اشتراکیت کے فلسفے میں کسی رُوحانی واسطے یا نظریے کو دخل نہیں۔ ظاہر ہے کہ علامہ اقبال انقلاب کی اس تعبیر کو جزواً مان لیں تو کاملاً نہیں مان سکتے۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ علامہ اقبال مادیات اور رُوحانیتِ دین اور دُنیا ،تن اور جان دونوں کو باہم مربوط کرکے ایک مکمل انسان کے لیے مکمل تدبیر کے قائل ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایک خاص قسم کے انقلاب کے داعی ہونے کے باوجود اُنھوں نے خود کو شاعرِ انقلاب کہلوانا پسند نہیں کیا۔ وہ حکیم الامت تھے، اور صرف شاعر لہٰذا مروّجہ حلقوں میں انھیں انقلابی شاعر نہیں کہا جاسکتا۔ البتہ زندگی کی تجدید نئی قوتوں کو اُبھارنے اور اُن کے اپنے تصورِ معاشرہ میں تبدیلیاں لانے کے لیے اور کش مکشِ حیات میں مردانہ وار نعرے لگانے کے حساب سے وہ بڑے انقلابی ہیں لیکن ان دونوں قسم کے انقلابیوں میں فرق کرنا ضروری ہے، ورنہ اُلجھ جانے کا اندیشہ ہے۔ س: قیامِ پاکستان کے بعد علامہ اقبال کے فکر کو پاکستان میں کیا مقام ملا؟ ج: علامہ اقبال کے فکر کو پاکستان میں قدرتاً بڑی پذیرائی حاصل ہوئی۔ اس میں ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ علامہ اقبال مملکتِ پاکستان کے مصور تھے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ پاکستان سے باہر کے اہلِ فکر و نظر نے علامہ اقبال کے فلسفے اور شاعری میں دلچسپی لی۔ اور رفتہ رفتہ وہ ایک عظیم بین الاقوامی آفاقی شخصیت کے طور پر اُبھرے اور یہ چیز پاکستان میں ان کے لیے عقیدت میں بے پناہ اضافے کا باعث ہوئی۔ س: قیامِ پاکستان کے بعد ادب بالخصوص شاعری سے تعلق رکھنے والوں نے کسی حد تک علامہ اقبال سے راہنمائی حاصل کی ہے،اس سلسلے میں کن شاعروں کے نام لیے جا سکتے ہیں؟ ج: قیامِ پاکستان سے پہلے اور قیامِ پاکستان کے بعد برصغیر کے ادب پر علامہ اقبال کی شاعری کا بڑا گہرا اثر پڑا۔ ایک زمانے تک ترقی پسند ادیبوں کا ایک حلقہ علامہ اقبال کے افکار سے مانوس نہ ہوسکا۔ ایک دوسرے حلقے نے جسے میرا جی کا دبستان کہا جانا چاہیے،داخلیت کی ادبی تحریکیں اُبھاریں اور ادب کو مقصد سے منقطع کرکے علامہ اقبال کے بامقصد ادب کی نفی کرنے کی کوشش ہوئی لیکن اقبال کی توانا فکر اور ہنگامہ خیز شاعری نے تمام رُکاوٹوں کو دور کردیا اور قیامِ پاکستان کے بعد یہ تسلیم کرلیا گیا کہ علامہ اقبال کی مؤید شخصیت پاکستان کے پورے ادب پر چھائی ہوئی ہے۔ لیکن اس میں کوئی شبہہ نہیں ہے کہ علامہ اقبال ان شاعروں میں سے تھے جن کی تقلید کرنے کی کوشش کی گئی مگر ایسے عظیم شعرا کی تقلید ہو نہیں سکتی۔ س: علامہ اقبال مسلم لیگ پنجاب کے صدر رہے آپ کے نزدیک اُنھوں نے قیامِ پاکستان کے لیے بحیثیتِ شاعرزیادہ خدمات سرانجام دیں یا بحیثیت سیاست دان؟ ج: حضرتِ علامہ اقبال کے مقام، درجے اور شخصیت کے لحاظ سے یہ عامیانہ سی بات ہے کہ وہ مسلم لیگ یا فلاں فلاں انجمن یا تنظیم کے صدر یا سیکرٹری رہے،یہ ان کے لیے قابل فخر نہیں ہے بلکہ یہ ان کے ساتھ ایک حادثہ تھا۔ وہ عملی سیاست میں جب بھی آئے،ان کی ذات کو نقصان پہنچا،فائدہ کبھی نہیں ہوا۔ س: آپ علامہ اقبال کے فکر کے پھیلائو کی رفتار سے مطمئن ہیں اگر نہیں تو اس سلسلے میں کیا کچھ کرنے کی ضرورت ہے؟ ج: میں علامہ اقبال کے فکر کے پھیلائو سے حد درجہ مسرور ہوں۔ میں مطمئن بھی ہوں مگر صرف ان معنوں میں کہ علامہ اقبال کے افکار کو سمجھنے کی منظم کوششوں کا آغاز ہوگیا ہے۔ -----العلم،لاہور۔اقبال نمبر۱۹۷۷ء ئ……ئ……ء ۵ متفرقات / (۱لف): دیباچے،مقدمے ۱ /فیضانِ اقبال (شورش کاشمیری) یہ عجیب اتفاق ہے کہ فکرِ اقبال کے سچے خادم وہ لوگ ثابت ہو رہے ہیں جو نام نہاد اکادمیوں سے متعلق نہیں۔ یا ان مدرسوں سے باہر ہیں جہاں کلامِ اقبال نصاب کا حصہ تو ہے لیکن ان میں تدریس کی حد، جہالت یا تنقیص سے آگے نہیں بڑھتی۔ شرحِ اقبال اور درسِ اقبال کے اس نظام پر جتنا بھی ماتم کیا جائے، کم ہوگا۔ سنیے تو شعرِ اقبال ’’بمدرسہ کہ برد‘‘ کی صدا ہر ہر مدرسے سے اُٹھ رہی ہے اور فکرِ اقبال سر پیٹ رہا ہے کہ مجھے ان مدرسوں اور اکادمیوں سے بچائو جن میں میری رُوح ذبح کی جا رہی ہے۔ افسوس کہ یہ لوگ میرے بارے میں جو کچھ کَہ رہے ہیں وہ میرے حاشیۂ خیال میں بھی کبھی نہیں گذرا۔ اس عالمِ بے امتیازی میں ایک شخص کو خدا نے یہ توفیق دی ہے کہ وہ فکرِ اقبال کا وہ خلاصہ پیش کر ے جو رُوحِ اقبال کے عین مطابق ہو اور جو سیاسی یا دنیوی یا ذاتی غرض سے پاک ہو۔ یہ خلاصہ آغا شورش نے تیار کیا ہے۔ محاورہ استعمال کرنا ہو تو کَہ دیجیے کہ’’ دریاے اقبال کو کوزے میں بند کر لیا گیا ہے‘‘۔ اس کا نام شورش نے فیضانِ اقبال رکھا ہے اور مَیں اسے’’ لُبِ لُبابِ اقبال‘‘ کہتا ہوں۔ آغا شورش دیباچے میں لکھتے ہیں:مطالعے میں آسانی و یکسانی پیدا کرنے کے لیے مَیں نے ان کلمات و اقتباسات کو موضوع کی مناسبت سے دس حصوں میں تقسیم کیا ہے جیسا کہ ترتیب سے ظاہر ہے۔ یہ سارا انتخاب ایک دوسرے سے مربوط ہے۔ شروع سے آخر تک افکار میں تنوع ہے لیکن رنگا رنگی کے باوجود ان میں یک رنگی ہے جس سے افکارِ اقبال کی گہرائی و گیرائی کا احساس ہوتا ہے۔ فیضانِ اقبال کے مطالب اور اندازِ تدوین کا یہ تعارف خود مرتب کے الفاظ میں ہے اور کافی ہے۔ لیکن فیضان کی اہمیت کی اصل وجہ یا بنیاد میرے نزدیک یہ ہے کہ ایک ایسا مجموعہ ہے جس میں بڑی کوشش اور محنت سے اصلی اور حقیقی اقبال کو ہمارے سامنے پیش کیا گیا ہے۔ اقبال یہاں خود اپنے الفاظ کے آئینے میں جلوہ گر ہے! یہ تزکِ اقبال ہے یا ذہنِ اقبال کی تصویر، اقبال کے موے قلم سے! بظاہر یہ کام آسان معلوم ہوتا ہے لیکن آسان نہیں۔ اس کے لیے عشق کی ضرورت ہے۔ عشق اس لیے کہ اس کی بدولت مصنف یا مرتب اپنی ذات کو یکسر نظر انداز کر دیتا ہے اور اپنی توجہ کو کاملاً اپنے موضوع میں جذب کر دیتا ہے۔آغا شورش نے اس تدوین میں اسی عشق کا اظہار کیا ہے اور وہ صرف اسی مجموعے میں ’’صاحبِ عشق‘‘ نہیں، بلکہ یہ ان کی سیرت و شخصیت کا عمومی خاصہ ہے۔ اُنھوں نے جن جن شخصیتوں پر لکھا، محبت سے لکھا، کھل کر لکھا، بھرپور لکھا! اور یہ بھی یاد رہے کہ آغا شورش معمولی شخصیتوں کے سوانح نگار اور معمولی اوصاف کے ستائش گر کبھی نہیں بنے۔ وہ ’’معمولیات‘‘ سے متاثر ہی نہیں ہوتے۔ وہ صرف غیر معمولی اور عظیم اشخاص کے غیر معمولی اور عظیم اوصاف پر قلم اُٹھاتے ہیں۔ وہ بونے جاپانی درختوں کی تعریف کرنا اپنی توہین سمجھتے ہیں۔ وہ تو قوی ہیکل عظیم اشجارِ سایہ دار کے وصّاف ہیں۔ اور پھر یہ بھی یاد رہے کہ شورش کے نزدیک عظیم شخص وہ نہیں جسے محض اتفاق یا قوم کی نااہلیت نے بڑا بنا دیا ہو بلکہ بڑا وہ ہے، جس نے پیکارِ حیات میں مقاصدِ عظیمہ کے لیے تیغ آزمائی کر کے اپنا سکّہ بٹھا یا ہو: ہر کہ شمشیر زند سکہ بنا مش خوانند یہی وجہ ہے کہ شورش کا قلم اس پوری صدی کے رجال میں سے دو چار ہی کے لیے اُٹھا ہے۔ شورش کے نگار خانۂ ذہن میں عظمت کی صرف چند تصویریں ہیں، درجہ بہ درجہ، اقبال ، ابوالکلام ،ظفر علی خاں، سید عطا ء اللہ شاہ بخاری اور ایک دو اور! اس ذہن کا مالک ادیب، شدید محبتوں اور واضح نفرتوں کے سہارے اُبھرا کرتا ہے۔ شورش کی نفرتیں واضح ہیں اور وہ ان کے اظہار میں سیاہی بھی صرف کرتا ہے لیکن بھرپور پیکرتراشی وہ صرف ان شخصیتوں کی کرتا ہے، جن سے اسے عشق ہے۔ وہ ان کے چہرے لکھتا ہے، ان کے دامن سے مخالفتوں کے لگائے ہوئے دھبے دھوتا رہتا ہے، ان کے خدو خال اور ان کے لب و لہجے کو نمایاں کرتا رہتا ہے۔ اسے ہر وقت یہ خیال رہتا ہے کہ سب خاص و عام اس کے ہیرو سے محبت کریں، اسے پہچانیں، اس کی عظمت کو مانیں اور اس کی اصلی تصویر اور اس کے حقیقی آب ورنگ کو سرمۂ نظر بنائیں۔ یہ عشق اسے رواں دواں رکھتا ہے، سر گرمِ عمل رکھتا ہے! شورش کم و بیش بیس برس سے اقبال کی عظمتوں کو نمایاں کرنے کے لیے اسی جذبے سے کام کر رہا ہے اور یہ تازہ کوشش (فیضان…دریا بہ حباب اندر) بھی اسی جذبۂ کامل اور سوزِتمام کی مظہر ہے۔ فیضانِ اقبال کے کلمات و اقتباسات تو با اقبال ہیں کہ وہ اقبال کے ہیں۔ ان کے بارے میں مَیں لکھوں بھی تو کیا لکھوں! مگر دیباچہ شورش کے قلم سے ہے، جس کے بعض حصے میرے لیے فکر انگیز ثابت ہوئے ہیں۔ ان میں شورش نے مطالعۂ اقبال کی اہمیت، غایت، تنوعات، مشکلات اور راستے کی رکاوٹوں کا بڑی تفصیل سے ذکر کیا ہے اور توجہ دلائی ہے کہ فکرِ اقبال کی اشاعت کا حق ابھی باقی ہے اور ان خطوط کی نشان دہی کی ہے، جن پر مطالعۂ اقبال کی تنظیم ہونی چاہیے۔ اُنھوں نے لکھا ہے کہ اقبال اپنی زندگی میں احیاے اسلام اور احیاے علومِ اسلامی کے سلسلے میں کچھ آرزوئیں رکھتے تھے، مگر فرصت نہ ملی۔ اب اقبال کے معتقدوں کا فرض ہے کہ وہ اپنی بساط کے مطابق علامہ کی آرزوئوں کو پورا کرنے کی کوشش کریں۔ اصل قصہ یہ ہے کہ حضرت علامہ ہزار خوش بختیوں کے باوجود ایک معاملے میں خوش قسمت نہ تھے۔ یہ بڑی قومی بدنصیبی ہے کہ علامہ کو اچھے دوست اور ناقد میسر نہ آئے۔ بہت سے حضرات جنھیں ان کی ہم نشینی کا شرف حاصل ہوا، بظاہر فیض سے محروم ہی رہے۔ بعض ایسے تھے جو شب و روز یہ کہتے رہتے تھے کہ اقبال کو ہم نے بنایا ہے، فلاں غزل ہمارے کہنے سے لکھی گئی تھی اور فلاں نظم ہم نے دُرست کی تھی۔ ان یارانِ بے نصیب نے اقبال کو سمجھنے کے بجائے اپنا غلغلہ بلند کیا۔ خود چودھری محمد حسین، خدا اُنھیں بخشے، ہمارے مخدوم تھے، اس مشغلے سے الگ نہ تھے اور یہی حال اکثر حاشیہ نشینوں کا تھا۔ ایک اَمر یہ بھی مانع رہا کہ علامہ اقبال کے کلام کی سیاسی نوعیت سے تو پورا فائدہ اُٹھایا گیا(حسبِ ذوق وحالات ہر ایک نے الگ الگ) لیکن ان کے کلام کے علمی و فکری پس منظر اور نصب العین کی طرف توجہ کم ہوئی۔ اس کا باعث یہ تھا کہ اس کے لیے علم در کار تھا اور یہ متاع، جدید تعلیم کی مہربانی سے کم سے کم دستیاب تھی۔ فکرِ اقبال کا علمی دائرہ بہت وسیع تھا۔ قرآن و حدیث کے علاوہ، جملہ علومِ اسلامی، جملہ ادبیات و فنونِ اسلامی اور ان پر مستزاد، مغرب کا فکرِ جدید اور اس کے تنوعات سب کے سب اس دائرے میں آتے ہیں۔ اب غور فرمائیے کہ ایسی جامعیت یہاں تھی کہاں؟ کہ اس سے بہر ہ ور ہو کر کوئی شخص شرح و تنقید کی ذمے داری سنبھالتا۔ نتیجہ یہ کہ مطالعۂ اقبال جزوی اور علی العموم یک طرفہ رہا۔ کلیت پر احاطہ کسی کے بس میں نہ تھا۔ اس لیے جزو یت ہی کو سب کچھ سمجھ لیا گیا اور چوں کہ اقبال کے اکثر ناقد جدید تعلیم کے حاملین تھے اور علومِ اسلامیہ سے بے بہرہ،اس لیے معذوری اور کوتاہی لازماً ظاہر ہے۔ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ محض فارسی پڑھ لینے سے، یا خود فارسی کے بغیر بھی، کوئی شخص تنقیدِاقبال کر سکتا ہے، وہ غلطی پر ہیں۔ اقبال کا کلام، علومِ اسلامیہ کا اشاریہ ہے اور اس کا ثبوت اس اَمر سے ملتا ہے کہ علامہ خود قدم قدم پر علمی اُمور میں، علماے وقت سے طویل اور مسلسل مشاورت کرتے تھے، شبہ ہو تو اقبال نامہ(مکاتیبِ اقبال: مرتبہ شیخ عطاء اللہ) دیکھ لیجیے۔ یہ بے علمی، جس کا مَیں ذکر کر رہا ہوں انگریزی نظام تعلیم کی لازمی وراثت تھی۔ تعلیم یافتہ لوگ جتھے کی عصبیت میں آکر اسے تسلیم نہیں کرتے، مگر اَمرِ واقع ہے کہ انگریزی تعلیم مغربی علمی فضا تو کیا پیدا کرتی کہ ہر فضا اپنے لیے خاص سماجی احوال اور روایت کی طلب گار ہوتی ہے، اس نے اس روایت اور فضا کو بھی یکسر ختم کر دیا جس نے ملّانظام الدین، ملّا بحرالعلوم، شاہ ولی اللہ، شاہ اسمٰعیل شہید اور آخری دور میں شبلی، ابوالکلام، سیّد سلیمان ندوی اور خود سر سیّد کو جنم دیا! اور آخر میں میر حسن کے ذہنی خانوادے سے وہ نابغہ پیدا ہوا جس کا ان صفحات میںذکر ہو رہاہے۔ اس علمی حادثے کانتیجہ یہ ہوا کہ ہر طرف اُدھورے علم والے ’’ڈگری یافتے‘‘ نکل آئے جو محض علمی طیلسان کی نمائش سے ہمیں مرعوب کرتے رہتے تھے مگر علم کی دنیا میں ان کا مبلغ علم صرف ڈارون کے چند منقولات تک محدود تھا۔ قرآن حدیث کا علم تو درکنار معمولی مسائل میں بھی اسلامی ذخیروں سے استفادہ نہ کر سکتے تھے۔ البتہ زبان کی نوک تیز تھی جو چند مغربی اصطلاحوں پر قینچی کی طرح چلتی رہتی تھی۔ سرکار اسی کو کافی سمجھتی تھی اور درباروں میں اسی پر فخر کیا جا سکتا تھا۔ مگر شرحِ اقبال کے لیے اس سے زائد علمی استعداد کی ضرورت تھی اور وہ موجود نہ تھی۔ ایسے میں شرحِ اقبال کا حق کون ادا کرتا! مطالعۂ اقبال کے سلسلے میں سیاست بھی سمِ قاتل ثابت ہوئی۔ بقول رومی: ؎ ہر کسے از ظن خود شد یارِ من از درونِ من نہ جست اسرارِ من رومی کا مشار اِلیہ نیک نیتی سے ایسا کرتا ہوگا مگر اقبال کے سیاسی یارانِ بے نصیب اکثر بدنیتی سے اقبال کو اپنے ذاتی یا جماعتی مقاصد کے لیے استعمال کرتے رہے اور اب بھی کر رہے ہیں۔ تقسیمِ ملک سے پہلے بہت سے ایسے لوگوں نے اپنے سیاسی جلسوں کی رونق کلامِ اقبال سے بڑھائی، جنھیں اقبال دل سے نا پسند کرتے تھے۔ کبھی اقبال کو فاشِسٹ کہا گیا، کبھی اشتراکی کہا گیا، کبھی دشمن و طن اور کبھی وطن کی مٹی کا پجاری۔ لاہور میں یہ بھی طلوع ہوا ہے کہ ایک شخص جو شخصیت رسولؐ کی حمیت گھٹانے پر مامورہے اور دین کو کج رَو امیر مسلمانوں کے سہل اور غیرذمہ دارانہ طرزِ زندگی کے مطابق ڈھا لنے کے لیے فرقے کی بنیاد رکھ چکا ہے، بد قسمتی سے اپنی مجلس کی رونق اشعارِ اقبال سے بڑھا رہا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ شخص رسولؐ ہی کو نہیں مانتا اور اپنے آپ کو قرآن کاعمرؓ اور ابوبکرؓ مفسر سمجھتا ہے، وہ اقبال کو کیا مانے گا؟مگر رونق بڑھانے کے لیے اقبال کو یہ بھی گاتا ہے۔ یہ بظاہر اقبال کی مقبولیت کی علامت ہے مگر اس مقبولیت کے اندر مسخِ اقبال کے تماشے بھی ہورہے ہیں اور یہی وہ پہلو ہے جس کی خاطر، پیغامِ اقبال کی حفاظت کی بھی ضرورت ہے؎۱۔ آغا شورش نے اپنے دیباچے میں مطالعۂ اقبال کے مختلف پہلوئوں کی نشان دہی کر دی ہے۔ اور مَیں سمجھتا ہوں کہ اس سے بہتر اور مکمل اس سے پہلے دیکھنے میں نہیں آیا، لیکن ایک سوال ابھی بھی جواب طلب ہے اور وہ یہ ہے کہ کام کرے گا کون؟ اگر یہ فریضہ آزاد محققین کا ہے تو ظاہر ہے کہ آزاد کام کرنے والے تو وہی کریں گے، جو ان کی مصلحت ان سے کہے گی۔ اس صورت میں بے راہ روی لازم ہے۔ میں کہتا ہوں اگر مطالعۂ اقبال سچ مچ پورے پاکستان کی ذمے داری ہے، تو فکرِ اقبال کا تحفظ چاہنے والوں کا فرض ہے کہ وہ ایک دبستانِ اقبال کی بنیاد رکھیں، جس میں مطالعۂ اقبال کے لیے تربیت کی جائے اور تربیتِ عامہ کے لیے ایسی کتابیں لکھی جائیں جو سہلِ اقبال سے لے کر غایت و نہایتِ اقبال تک پھیلی ہوں۔ یہ تسلیم ہے کہ اقبال محض شاعر یا حکیم نہ تھے، مستقبل کے لیے ایک عظیم دستور کے واضع بھی _________________ ۱۔بہت واضح ہے کہ اشارہ غلام احمد پرویزکی طرف ہے۔(مرتب) تھے اور اس دستور کے اجزا اُن کے کلام میں جا بجا منتشر ہیں۔ دبستانِ اقبال کا یہ فرض ہونا چاہیے کہ ان اجزا کی بنیاد پر ایک فکری اور سیاسی تحریک اُٹھائیں۔ اقبال نے جو کام پاکستان سے شروع کیا،اس کی انتہا سارے ایشیا کے اسلامی انقلاب سے جا ملتی ہے۔ کم ہمتی کی حد یہ ہے کہ اقبال کی تحریک کا بوجھ پاکستان کے اندر بھی اب اُٹھانا مشکل ہو رہا ہے۔ حالاں کہ اسے آگے بڑھ کر سارے ایشیا تک پھیل جانا چاہیے تھا۔ پس چہ باید کرد اے اقوامِ شرقکا پیغام یہی تھا۔ مگر یہاں اب یہ بحث ہے کہ اقبال لینن کا نقال تھا یا مسولینی کا ۔ اقبال نے تو یہ کہا تھا کہ روس ، اب اسلام کے قریب آرہا ہے مگر ابھی لا تک پہنچا ہے اور اسے اِلّا کیمنزل تک پہنچنا ہے لیکن ادھر یہ غُل ہے کہ اقبال اشترا کی لاکا مبلغ تھا۔ گویا اِلّا والی منزل کی ضرورت ہی نہیں۔ میری راے میں اقبال کے ہاں دو فکر ایسے ہیں جو اسے کبھی اشتراکیوں کی صف میں بیٹھنے نہیں دیں گے: ایک عقیدۂ توحید والہام اور دوسرا جذبۂ عشقِ رسولؐ! اقبال جب ایشیا کی بیداری کے لیے بڑھنا چاہتے ہیں، تو ان کے ہاتھ میں یہی دو شمعیں نظر آتی ہیں۔ مگر جہاں ایسے لوگ بہ کثرت نکل آئیں جو نہ توحید کے قائل ہوں اورنہ شخصیتِ رسولؐ کے قائل ہوں، وہاں اقبال کو اشتراکی کہنے والے اور منکرِ حدیث بتانے والے جتنے بھی نکلیں، کم ہوں گے۔ بہر حال میں عرض یہ کر رہا ہوں ’’دبستانِ اقبال‘‘ کی بنیاد رکھنی چاہیے جو ملک میں افکارِ صحیح کی تحریک اُٹھائے اور فکرِصحیح کی تبلیغ کرے، پھر ہمیں اقبال کے تحفظ کا کام بھی کرنا ہوگا۔ اس حفاظتی کام کی ابتدا مدرسوں اور کالجوں سے کرنا ہوگی، جہاں بے خبر اور بعض اوقات بدنیت استاد، درسِ اقبال پر مامور ہیں اور نئی نسلوں کے سامنے اقبال کی ایسی تصویر پیش کر رہے ہیں، جو کسی دشمن کے بھی وہم و گماں میں نہ آئی ہوگی،پھر ہمیں اکادمیوں کی اصلاح و تطہیر کی طرف بھی توجہ کرنا ہوگی۔ آخر میں اقبال کو سیاسی غرض مندوں سے بھی بچانا ہوگا۔ کیا فیضانِ اقبال کا مصنف اس ضروری فریضے کا بارِ گراں اپنے توانا کندھوں پر اُٹھانے کے لیے تیار ہے؟ ۲۳؍مارچ۱۹۶۸ئ ڈاکٹر سید عبداللہ المامن، اُردو نگر ملتان روڈ، لاہور ئ……ئ……ء ۲ /: خطوطِ اقبال (رفیع الدین ہاشمی) پروفیسر رفیع الدین ہاشمی نے اقبالیات کے موضوع پر پہلے بھی خاصا کام کیا ہے۔ اب وہ حضرتِ علامہ کے ایک سو گیارہ مکاتیب کا مجموعہ لے کر آئے ہیں۔ ان میں ایسے خطوط شامل ہیں جو مکاتیب کے سابقہ آٹھ مجموعوں میں سے کسی میں موجود نہیں اگرچہ چند خطوط ایسے بھی ہیں جو سابقہ مجموعوں میں موجود تو ہیں لیکن ان کا متن صحت کے ساتھ نقل نہیں کیا گیا۔ رفیع الدین ہاشمی صاحب نے اس مجموعے کو مرتب کرنے، اور ان کے متن کو دُرست کرنے میں کتنی محنت کی، اس کی تفصیلات انھوں نے خود اپنے مقدمے میں بیان کردی ہیں قارئین کو اس کے مطالعے سے اندازہ ہوجائے گا کہ مرتب نے یہ اہم کام کتنی ذمہ داری سے کیا ہے۔ ان کے اس احساسِ ذمہ داری میں وہ محبت بھی شامل ہے جو انھیں حضرت علامہ کی ذات اور ان کی تعلیمات سے ہے، سچ یہ ہے کہ یہ مشکل کام اس محبت کے بغیر ممکن ہی نہ تھا۔ ایک نہایت ہی مفید پہلو اس مجموعے کا یہ ہے کہ مرتب نے ان تمام شخصیتوں کے مختصر کوائف بھی ہر خط کے ضمن میں پیش کردیے ہیں جن سے حضرتِ علامہ نے خط کتابت کی۔ اس کے علاوہ حواشی وتعلیقات بھی لکھے ہیں جن کے باعث اس کتاب کی افادیت میں بے حد اضافہ ہوا ہے۔ راقم الحروف کی راے میں رفیع الدین ہاشمی نے یہ مجموعہ مرتب کرکے اقبالیاتی ادب کی وقیع خدمت انجام دی ہے۔ اس کتاب سے اقبال شناسی کی تحریک کو بہت مدد ملے گی، علامہ کے معاصرین سے تعلقات کی نوعیت کا صاف صاف پتا چلے گا اور اس عہد کی فکری و سیاسی تاریخ پر کام کرنے والوں کو ایک قابلِ اعتماد ماخذ مل جائے گا۔ مجھے کامل یقین ہے کہ ہاشمی صاحب کی یہ گراں بہا کوشش قدر کی نگاہوں سے دیکھی جائے گی اور اہلِ فکروتحقیق اس مجموعے کو ایک نعمتِ غیرمترقبہ خیال کریں گے۔ دستخط المرقوم (سیّد عبداللہ) ۲۵؍اپریل۱۹۷۶ئ سابق پرنسپل یونی ورسٹی اورینٹل کالج لاہور و حال صدر ادارہ اُردو دائرہ معارفِ اسلامیہ پنجاب یونی ورسٹی، لاہور ئ……ئ……ء ۳ / تصوراتِ اقبال (مولانا صلاح الدین احمد) مولانا صلاح الدین احمد ،کہ جنھیں اس مقدمے میں آگے ہر جگہ ان کی مصنّفانہ عظمت کے باعث صرف صلاح الدین احمد ہی لکھوں گا،ادیب بھی تھے اور ادیب گر بھی! ان کا کمال یہ تھا کہ وہ ہر موضوع پر قلم اٹھا سکتے تھے۔ اور اس سے بھی بڑا کمال یہ تھا کہ ہر موضوع ان کا خاص موضوع معلوم ہوتا تھا۔ سب موضوعات میں وہ یکتا اور منفرد ثابت ہوتے تھے،اور یہ شان ان کے وسعتِ مطالعہ اور ان کی مخصوص طرزِ انشا کی رہینِ منّت تھی۔ ادب کے موضوعات تو ان کے خاص موضوعات تھے مگر مذہب، سیاست اور ثقافت تک بھی ان کے قلم کی زد میں تھے۔ ادب کی طرح اقبالیات کا موضوع بھی ان کا محبوب و مرغوب مضمونِ مطالعہ تھا۔ موجودہ مجموعہ ان کے ایسے ہی ۲۳ متفرق مضامین کا مجموعہ ہے جن کے تعارف کا شرف آج مجھے حاصل ہو رہا ہے۔ اس مجموعے کے مضامین پر نظر ڈالنے سے یہ راز کھلتا ہے کہ صلاح الدین احمد کا مطالعۂ اقبال کتنا وسیع اور غائر تھا ۔وہ کس طرح کلامِ اقبال کی باریکیوں کی معرفت رکھتے تھے اور انھیں اس امر پر پوری قدرت حاصل تھی کہ کسی مسئلہ خاص پر اقبال کے پورے کلام سے استشہاد کر سکیں۔ اس مجموعے میں اقبال کا مردِ مومن اور انسانِ کامل، اقبال کے کلام میں حرکت و حرارت کی اہمیت، نظریۂ خودی ، تصورِ شاہین، اقبال کا تغزل، تصورِ مملکت، تصورِ معیشت، تصورِ معاشرت، تصور حسن و عشق، وطن و ملت کی کش مکش اور اس طرح کے چند اور موضوعات پر مقالے ہیں جن میں سے ہر ایک خاص معنویت اور ایک خاص اہمیت کا حامل ہے۔ یہ سب موضوعات ایسے ہیں جن پر صلاح الدین احمد کے علاوہ دوسرے درجنوں مصنفوں اور مضمون نگاروں نے قلم اٹھایا ہے اور بحثیں کی ہیںمگر صلاح الدین احمد کے اُسلوب نے ان میں ایسی تازگی پیدا کر دی ہے اور ان میں وہ لطافتیں، منظرِ عام پر لائے ہیں کہ کسی موقعے پر کہنگی کا احساس نہیں ہوتا۔ مَیں جس حد تک غور کر سکا ہوں ان مضامین میں اُسلوب کے اعجاز کے علاوہ جس چیز سے خاص تازگی محسوس ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ صلاح الدین احمد ان موضوعات پر ایک الگ زاویے سے نظر ڈالتے ہیں اور بحث کے دوران بعض ایسے انکشافات کر جاتے ہیں جو بالکل نئے نہ بھی ہوں تب بھی ان کے قلم کے اعجاز سے تازہ اور نئے معلوم ہوتے ہیں مثلاً:ان [اقبال]کے معرکہ آرا عروج کا راز ان کی خلوت نشینی اور عافیت پسندی میں پنہاں تھا۔ (ص۲۱) اقبال پر بعض نادان لوگوں کو ہمیشہ یہ اعتراض رہا کہ وہ عملی سیاست میں کیوں حصہ نہیں لیتے۔ اس کا جواب اُنھوں نے ایک موقع پر خود بھی دیا تھا: یہ عقدہ ہائے سیاست تجھے مبارک ہوں _______________ ہزار شکر نہیں ہے دماغ فتنہ تراش۱؎ اقبال قدرت سے ایک دانائے راز، ایک مفکّر اور ایک عارف کا مقدر لے کر آئے تھے جو منصب انھیں تفویض کیا گیا تھا، اس میں خلوت گزینی، غورو فکر، مراقبہ و تفکر لازمی تھے۔ فکر کے موتی، خلوت کی غواصی سے ہاتھ آتے ہیں۔ محض فکرِشعر بھی اس کا متقاضی ہوتا ہے، اور حکمتِ عرفان تو دل کے بحرِ عمیق میں غوطہ لگائے بغیر دشواری سے ہاتھ آتے ہیں __صلاح الدین احمد نے یہ نکتہ اتنی خوش اُسلوبی سے اور طرزِ دل کشا میں ادا کر دیا ہے کہ پڑھنے والے کے لیے اس کو جذب کرنے اور سمجھنے میں بھی لطف محسوس ہوتا ہے۔ خودی کاتصور اقبال کا سب سے بڑا بلکہ واحد مرکزی تصور ہے، اس پر صد ہا مضامین لکھے گئے ہیں۔ آسان بھی اور عالمانہ بھی __! مگر جو بات صلاح الدین احمد نے اس ایک فقرے میں بتادی کہ خودی ایمان کے استحکام کا نام ہے اور ایمان کا مطلب ہے علا وہ خدا و رسول کے ________________ ۱۔یہ بانگ درا کی نظم’’ایک خط کے جواب میں‘‘کے دومختلف مصرعے ہیں۔(مرتب) مردِ مومن کا اپنے اوپر ایمان لانا۔ اس پر دوسرے علما اور اقبال شناسوں نے طویل مضامین لکھے ہوں گے اور پھر بھی بات اس طرح ادا نہ ہوئی ہوگی! لکھتے ہیں: خودی کا تصور اس جذبۂ مسابقت نے پیدا کیا جو انگریز کے مٹتے ہوئے اور ہندو کی بڑھتی ہوئی یلغار کا نتیجہ ہے۔ (ص۲۳) بادی النظر میں یہ بات سر سری معلوم ہوتی ہے مگر اجتماعی احوال اور تاریخ کے سیاسی مفکّر کے لیے ان کلمات میں زندہ حقیقت پنہاں ہے۔ تاریخ اور واقعاتِ گردو پیش، ادب اورفکر کی نشو و نما میں جو حصہ لیتے ہیں ان سے انکار کرنا، جہل و نادانی کے سوا کچھ نہیں۔ اقبال خود تہذیبی اور سیاسی عوامل کی ایک معجزانہ مخلوق ہیں۔ غالب کو ان کے گرد و پیش نے غالب بنا یا اور اقبال کو ان کے سیاسی ماحول نے اقبال مند کیا۔ جرمنی کے مشہور مفکر فختے(Fichte) کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ فختے کو بھی یہ منصب تفویض ہوا تھا کہ وہ جرمن قوم کو یورپ کی ہم سایہ غالب اقوام کی انتشار انگیز قوتوں سے نجات دلانے کے لیے ایک فکر، ایک فلسفہ اپنی قوم کے سامنے پیش کریں۔ فختے کے فکر کا پس منظر بھی سیاسی تھا۔ اقبال کے فکر کا پس منظر بھی یقینا سیاسی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ اس سیاسی فکر کی غایات اخلاقی اور رُوحانی بھی ہیں۔ عشق کی بحث بھی اقبال کے اہم مباحث میں ہے۔ اس کے متعلق صلاح الدین احمد جو خلاصہ پیش کرتے ہیں وہ یہ ہے۔ ’’عشق تمام اقدارِ اعلیٰ کا حامل ہے جو انسانیت کو الوہیّت سے قریب تر لاتی ہیں‘‘۔ چند الفاظ میں عشق کی اس سے بہتر تفسیر ممکن نہیں ہو سکتی۔ انسانیت کو الوہیّت کے قریب لانے کا مطلب یہ ہے کہ انسان کو ان صفاتِ عالیہ سے متّصف کرتی ہیں جو اخلاق اللہ کا عکس ہیں (تَخلّقُوا بِاخْلاَقِ اللّٰہ) یہی اخلاقی اقدار اور یہی صفاتِ رُوحانی، فرد بشر کے سرمایۂ قوت بھی ہیں اور سرچشمۂ مسرت بھی۔ ان میں جذب و انجذاب بھی ہے اور وجد و تواجد بھی۔ ان میں قہرمانی بھی ہے اور نیاز مندی بھی۔ ان میں فقر بھی ہے اور سلطانی بھی۔ ان میں عبد، عبد بھی ہے اور قاب قوسین کی منازل بھی! صلاح الدین احمد کے چند جملوں کی میں نے طویل تشریح کی ہے مگر ان کا اجمال میری تفصیل سے اجمل اور اکمل ہے۔ صلاح الدین احمد نے جدید دور میں قیادت کی پانچ کیفیتیں بیان کی ہیں: ۱- سرسیّد کی رہنمائی، ۲-حالی کی رہنمائی، ۳-محمد علی کی رہنمائی، ۴-اقبال کی رہنمائی اور ۵-قائد اعظم کی رہنمائی۔ (ص۳۰) ان کیفیتوں میں فکری رہنمائی کا کامل نمونہ فکرِاقبال ہے۔سر سیّد کی رہنمائی عقل پسندی اور مصلحت کی زنجیروں میں مقید تھی۔ محمد علی کی رہنمائی شخصی اور ذاتی افراط و تفریط کی اسیر رہی۔ حالی کی رہنمائی سر سیّد کی خوش آئند مگر سست فکرِتقلید میں پھنسی رہی۔ قائد اعظم ایک عملی رہنما تھے۔ انہوں نے اپنی قانونی منطق کو اپنے استقلال ِمزاج سے ہم رشتہ کر کے، اس دستور العمل کو کامیاب کرا یا جو مفکر اقبال نے ہمارے سامنے پیش کیا۔ اقبال کی رہنمائی کا مسئلہ اہم ہے۔ میں پہلے صلاح الدین احمد کا قول نقل کر چکا ہوں اور اس پر یہ حاشیہ چڑھا چکا ہوں کہ اقبال کا فکر تاریخی عوامل کی پیدا وار ہے۔ یہاں یہ ذکر کرنا ضروری ہے کہ ان تاریخی عوامل کا نقطۂ آغاز کیا ہے؟ یوں تو قرآن و سنت اور اُسوۂ رسول کریم علیہ الصلوۃ والسلام ہی ہماری تاریخ کا سرچشمہ ہے۔ اسی سے ہماری قومیت اور اسی سے ہماری تہذیب اور اسی سے ہمارے افکار و علوم اور حیات اجتماعی کا آغاز ہوتا ہے۔ پھر بھی اقبال کا ایک قریبی عہدِ ماضی بھی تھا__غالباً یہ کوئی بڑاانکشاف نہیں کہ اقبال نے رُوحانی رہنمائی دو بڑے رہنمائوں سے حاصل کی۔اوّل رومی سے اور دوسرے حضرت مجدد الف ثانی سے۔ سر سیّد کی رہنمائی ملکی معاملات میں ایک جزوی دستورالعمل کی حد تک بڑا معنی رکھتی ہے مگر اس میں کچھ شک نہیں کہ اس محدود دائرے کے سوا، فکرِاقبال کا افکارِ سر سیّد سے کوئی تعلق نہیں۔ اقبال براہِ راست حضرت مجدد سے منسلک ہیں اور اسی دینی انقلاب کے داعی ہیں جو حضرت مجدد کے پیش نظر تھا۔ اُردو فارسی شاعری میں اقبال کی خصوصی اہمیت کیا ہے؟ __ صلاح الدین احمد کے خیال میں اقبال کا عرصۂ فکر ، اس کے شعری اور فلسفیانہ ذوق کی مناسبت سے دوسروں کے مقابلے میں وسیع ہے جہاں دوسرے قریبی اور وقتی جذبوں اور قدروں کو مد نظر رکھتے ہیں وہاں اقبال نے دائمی اقدار کی تبلیغ کی ہے۔ یہ دائمی اقدار کیا ہیں؟ خدا کی بادشاہتِ مطلق کا اقرار اور انسان کا خود اپنے اوپر ایمان لانا __اپنے اوپر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ انسان بر حق ہے اور زمین پر خدا کا نائب یا خلیفہ ہے اور یہ اس کے مقدر میں ہے کہ وہ سارے عالم کی تسخیر کر کے اس میں خدا کے نام کی گواہی دے گا۔ شجاعت، عدالت اور صداقت وہ صفاتِ عالیہ ہیں جن کی اقبال نے تلقین کی ہے۔ یقین محکم، عمل پیہم، محبت فاتح عالم __یہ وہ اہم منزلیں ہیں یا اقدار ہیں جن کے ذکر و بحث سے اقبال کی ساری شاعری لبریز ہے۔ نظامِ عالم میں مذکورہ بالا اقدار یا فضائل کو پھیلانے اور ان کو نافذ کرنے کے لیے ’’مردِمومن‘‘کی ضرورت ہے۔ صلاح الدین احمد پہلے یہ بتاتے ہیں کہ اقبال نے اپنے نظامِ فکر میں فرد کو خاص اہمیت دی ہے، وہ اس’’سماجیت‘‘کو نہیں مانتے جو فرد کی صلاحیتوں کو کچل ڈالے۔ ان کا خیال ہے کہ اقوام کی رہبری، افراد ہی کیا کرتے ہیں۔ عظیم افراد قوم کے لیے خدا کے انعام کا درجہ رکھتے ہیں۔ مردِ مومن کا تصور، فرد کی صفاتِ عالیہ کے اندر سے اُبھرتا ہے۔ اقبال کا مردِ مومن ایک عجیب و غریب شخص ہے ۔ وہ سخت کوش ہے، خارا شگاف ہے، بے خوف ہے اور بے باک ہے مگر ابریشم کی طرح نرم بھی ہے۔ وہ بخود خزیدہ اور خلوت پسند ہوتا ہے اور اسی خلوت کے اندر سے اس کی وہ شخصیت نمودار ہوتی ہے جس میں قاہری اور دلبری کا اجتماع ہوتا ہے: بخود خزیدہ و مُحکم چو کوہساراں زی چوخس مزی کہ ہوا تیز و شعلہ بیباک است صلاح الدین احمد فرماتے ہیں کہ ارضِ مشرق کی رہبری اس چھوٹے سے ملک کی قسمت میںہے __یہ اس لیے کہ اقبال کی مخاطب اوّل یہی قوم اور یہی ملک ہے۔ یہی وہ قوم ہے جس نے اپنی قومیت کی بنیاد عقیدے پر رکھی ہے اور عقیدہ بھی وہ جو محدود اور تنگ نظر انہ نہیں بلکہ وسیع اور عالمگیر ہے۔ یہی وہ قوم ہے جو خدا کی بادشاہت کی قائل ہے۔ اور اس بادشاہت کے لیے اس کے پاس وہ خدائی دستور العمل بھی ہے جو اسے کامیاب بنا سکتا ہے۔صلاح الدین احمد نے اقبال کی شاعری میں دو بنیادی کیفیتوں کا سراغ لگا یا ہیْیہ کیفیتیں ہیں حرارت اور حرکت! فرماتے ہیں کہ عربوں کو حرارت سے دلچسپی نہ تھی اور ان کے برعکس ایرانیوں کو حرارت اور آفتا ب پرستی سے خاص دلچسپی تھی۔ اقبال عرب و ایران دونوں کے شعری مزاج کے مداح ہیں۔ عربی شاعری سے ان کی دلچسپی بوجہ حرکت ِزندگی اور بہ سبب صداقت جذبات کے ہے ۔ اسی وجہ سے اُنھوں نے اسرارِ خودی میں لکھا تھا: رجعتے سوئے عرب می بایدت عربی شاعری کی طرف رجوع کی تلقین اسی بنا پر ہے کہ عرب شاعر زندگی کے تحرک اور جذبوں کی صداقت کے علاوہ اظہار کی سچائی میں اعتقاد رکھتا تھا۔ ایرانی شاعری میں نرمی اور لطافت بہت ہے مگر ایرانی کے داخلی عقیدوں میں حرارت کے لیے خاص میلان پایا جاتا ہے۔ بقول:’’صلاح الدین احمد‘‘ اقبال کے ہاں ان دونوں روایاتِ لطیف کا امتزاج ہے۔ اس کے زیر اثر اقبال کی لفظی پیکر آفرینی (امیجری) میں لالہ اور شفق کا استعارہ بار بار آتا ہے۔ لالہ حرارت کا زمینی مظہر ہے اور شفق حرارت کا آسمانی مظہر ہے۔ کرمک ِشب تاب بھی ان کا خاص استعارہ ہے اور اس سے دل چسپی کی وجہ بھی یہی ہے۔ صلاح الدین احمد کا خیال ہے کہ اقبال کے کلام میں حرارت کے کم و بیش سات تصورات ملتے ہیں۔ اقبال تصورِ جنت و جہنم سے بھی اسی سے متاثر ہوا ہے۔ چنانچہ اقبال کے اشعار سے ثابت کیا ہے کہ اقبال کے ذہن میں جنت و جہنم کا نقشہ ہے۔اس میں حرارت ایک خوش آئند کیفیت ہوگی اور جہنم کو ایک خنک جگہ بتا یا ہے۔ صلاح الدین احمد نے بڑی کاوش سے یہ بات ثابت کی ہے کہ اقبال کی نظر میں آفتاب کو خاص اہمیت حاصل ہے اور اس معاملے میں مولانا روم اور وہ ہم نوا اور ہم مزاج ہیں۔ آفتاب کو خود ہندو دیو مالا اور ہندو فلسفے میں بھی بہت عظیم وجود مانا جاتا ہے۔ اور اس میں کچھ شبہ نہیں کہ ایران میں تو خورشید پرستی ایک مسلک بھی ہے۔ یہ غلط فہمی رفع کرنی ضروری ہے کہ اقبال نہ تو ہندوئوں کی طرح آفتاب کو دیوتا مانتے ہیں نہ قدیم ایرانیوں کی طرح اس کی پرستش کرتے ہیں۔ انھیں آفتاب سے دل چسپی محض اس وجہ سے ہے کہ وہ مصدرِ حرارت ہے۔ اقبال کی غزل کے متعلق یہ خیال عام ہو گیا ہے کہ ضربِ کلیم کی غزلیں خشک، سپاٹ اور محض علمی باتوں کا درجہ رکھتی ہیں۔ صلاح الدین احمد کی رائے میں، یہ اقبال کے ذہنی سفر کی ایک سمت اور ایک منزل تھی۔ وہ ایک خاص نقطے سے آگے بڑھے اور اپنے نصب العین کی طرف بڑھتے گئے۔ابتدا میں داغ وغیرہ کا اثر تھا، پھر روایتی معاملہ بندی اور حسن پرستی سے سوزِدل اور معرفتِ نفس کی منزل کی طرف بڑھتے رہے اور یہ ثابت کیا کہ غزل اتنی محدودشے نہیں جتنی سمجھی جاتی ہے۔ اس میں ہر مضمون جذب ہو سکتا ہے،یہاں تک کہ خالص علمی اور سائنسی نظریے بھی غزل میں بیان کیے جا سکتے ہیں۔ مضامین کے اس مجموعے میں اور بھی بہت سے مضامین ہیں۔ان میں سے ہر ایک میں صلاح الدین احمد ، ایک رنگِ خاص میں جلوہ گر ہوئے ہیں۔ جو حقیقتیں عام سی معلوم ہوتی ہیں اور ہر شخص انھیں پہلے سے جانتا ہے،وہ بھی ان کے اُسلوبِ بدیع کی سحر کاری سے نئی، تازہ، دل کش اور شیریں معلوم ہوتی ہیں!کسی نے خوب کہا تھا کہ:’’ اقبال نے حقائق کو شاعرانہ قالب میں ڈھالا۔‘‘ صلاح الدین احمد کا کمال ہے کہ اُنھوں نے اس شاعری کو پھر نثر کی شاعری میں ڈھال کر لطیف کو لطیف تر بنا دیا۔ پس اگر کوئی یہ کہے کہ یہ مجموعہ اقبال کی شاعری پر ایک شاعرانہ تبصرہ ہے تو حقیقت نہ ہونے پر بھی ہم اسے حقیقت سمجھنے پر مجبور ہیں۔ صلاح الدین احمد کے اُسلوب پر اس مقدمے میں تفصیل کے ساتھ کچھ کہنے کی گنجائش نہیں، مَیں اپنے ایک اور مضمون میں کَہ چکا ہوں۔صلاح الدین احمد ان شا پر دازوں میں سے ہیں جن کا آہنگ ایک مکمل دائرہ بناتا ہے۔ ہر خیال اپنے اظہار کے لیے لہریں بناتا ہے۔ جو خیال بالکل سیدھی اور سپاٹ نثر میں ادا ہوتے ہیں وہ بھی معمولی قوسیں بناتے آگے بڑھتے ہیں مگر شاعرانہ، ادیبانہ اور خطیبانہ نثر، اپنی لہروں کو کم و بیش دائرے کی شکل دیتی ہے۔ اس سے جو آہنگ پیدا ہوتا ہے،قاری اور سامع اسی سے متاثر ہوتا ہے۔ صلاح الدین احمد کے اُسلوب کے امتیازی اوصاف اس مجموعے کی نثر میں بھی ہیں۔ وہ محمد حسین آزاد، عبدالقادر ، ظفر علی خاں اور ابوالکلام آزاد کے اسالیب کا امتزاجی نمونہ ہیں۔ صلاح الدین احمد کا ذوق، کسی فقرے یا جملے یا اس کے کسی جزو کو صوتی لحاظ سے نا مکمل نہیں رہنے دیتا۔ اس کے لیے علاوہ دائرے کے، ان کی تراکیب کا غائر مطالعہ لازمی ہے۔ جہاں دوسرے ادیب ایک لفظ کا استعمال کر کے آگے بڑھ جاتے ہیں، وہاں صلاح الدین احمد ایک ترکیب بلکہ بعض اوقات کئی کئی ترکیبیں استعمال کر کے نثر کی عمارت کو مکمل کر تے جاتے ہیں۔ ذوقی لحاظ سے کسی جگہ شگاف یا خلا باقی نہیں رہتا۔ تعمیر عبارت میں تکمیل کا یہ احساس (جس میں حسن و زیبائی ساتھ ساتھ چلتی ہے) میں نے کسی دوسرے ادیب کے یہاں نہیں دیکھا۔ عبدالقادر کی نظر، لطافت اور آسودہ رفتار پررہتی ہے۔ ظفر علی خاں کا مطمح نظر، جوش انگیزی ہے اس لیے ان کی نثر میں دائرے بنتے ہیں۔ اور پھر نثر نگار ایک دوسرا جھٹکا دے کر پہلے دائرے کو خود ہی توڑ دیتا ہے۔ جوش کا یہ سلسلہ جو شیلی ندی کا سا سماں دکھاتا ہے مگر ذہن کو بالآخر آسودگی نہیں، ہیجان نصیب ہوتا ہے۔ ابوالکلام ، جوش کے ساتھ ساتھ علم کی ثقالت کو بھی، نثری آہنگ کے اندر دھکیل کر لے آتے ہیں، اور قاری علم سے مرعوب ہو کر سپر ڈال دیتا ہے۔ وہ اس جوش سے بھی بہرہ ور ہوتا ہے جوان تحریروں میں ہے مگر ذہن کو آسودگی نہیں ملتی۔ اندر کی دُنیا میں تلاطم کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔ صلاح الدین احمد، محمد حسین آزاد سے اس لحاظ سے، سب سے زیادہ قربت رکھتے ہیں کہ دونوں کے نثری نمونے، رنگینی کی خوبیوں سے متصف ہیں لیکن آزاد ترکیب سے کام لینے کی بجائے اُردو اضافت کا سہارا لے کر، داستانی طرزِ تحریر کی طرف نکل جاتے ہیں۔ صلاح الدین احمد داستانی طرزِ تحریر سے، جو نکتہ طرازوں اور سلانے والوں کا فن ہے،الگ ہو کر آسودگی بخشنے کے باوجود جوشِ زندگی کی کیفیت بھی پیدا کرتے ہیں۔ گویا وہ جوش بھی پیدا کرتے ہیں اور آسودہ بھی کرتے ہیں۔ اس مجموعے کے مضامین، غالباً سبھی مختلف مذاکروں میں پڑھے گئے تھے، اس لیے قدرتی طور پر ان میں جوش کا عنصر زیادہ ہے لیکن چونکہ موضوعات علمی ہیں،اس لیے انشا پر داز کا قلم علم کی احتیاطوں سے غافل نہیں رہا۔ وہ علمی حقائق کو شاعرانہ یا ادیبانہ انداز میں پیش کرتے ہیں۔ ایک دو نمونے ملاحظہ ہوں۔ قدیم عربی شاعری کی بحث میں لکھتے ہیں: ’’عرب کا بادیہ نشین شاعر جس کی زندگی صبا رفتار گھوڑوں کی پیٹھ پر بیٹھ کر برق رفتار غزالوں کے تعاقب میں بسر ہوتی تھی، اور جس کا گھر ایک خیمۂ بے نشاں اور جس کا حجلہ ایک شعذف رواں ہوتا تھااگر اس کا شعر سرتا سر حرکت نہ ہوتا تو یقینا وہ زندگی سے محروم رہتا اور شعر کہلانے کا حق دار نہ ٹھہرتا۔ چنانچہ فطری طور پر عرب کی صحرائی شاعری کہ یہی اس کی حقیقی شاعری ہے، حرکت کی شاعری ہے۔ ‘‘ اسی مضمون میں لکھتے ہیں: ’’اس نے روایت کی انفعالی کیفیت میں زندگی کی ایک نئی رُوح پھونکی اور سخن کو شاعر کے کلبۂ احزاں سے نکال کر بہارستان عمل میں آباد کیا،چنانچہ جس طرح شعر عجم کے سوزِ دروں کو فروغ نمو دے کر سرچشمۂ حیاتِ ملّی بنا دیا،اسی طرح شعر عرب کی روایاتی تب و تاب کو اپنے سخن میں سمو کر اس قوت سے ملا دیاجو اس عالمِ ہست و بود میں نیابتِ الٰہی کی سزا وار ہے۔ ‘‘ اس عبارت میں ترکیبوں کا تسلسل اور تناسب ملاحظہ ہو۔ انشا پرداز نے آہنگ کو کہیں بے وزن نہیں ہونے دیا۔ اور اس کے ہم راہ علم کی شان بھی ایک رفعت خاص پیدا کر رہی ہے۔ بالِ جبریل کی غزلیات کے سلسلے میں لکھتے ہیں: بالِ جبریلایک تختۂ گل ہے جس میں لالہ کے ساتھ سمن اور نیلوفر کے پھول بھی کھل رہے ہیں اور اگر چہ مغز سخن سر بہ سر ایک ہے۔ پیرا یہ سخن بڑے دل آویزانداز میں بدلتا اور ہر نوع کے ذوق کی تسکین کا سامان فراہم کرتا رہتا ہے۔ بالِ جبریلکو تختۂ گل اور اس کی غزلیات کو سمن اور نیلو فر قرار دینا شاعرانہ پیرایہ سخن سہی مگر مطلب کی بات ادا ہونے کے ساتھ ساتھ جس طرح مطلب کی بات دل نشین ہوئی ہے اس کی داد نہیں دی جا سکتی۔ صلاح الدین احمد کا اُسلوب ان کے ذہن اور شخصیت کا عکس ہے۔ اس کی رُوح عظمت و جلالت اور اس کے ہم راہ دلبری کے شیوے اور رعنائی کے انداز رکھتی ہے۔ صلاح الدین احمد، ہندوستانی مسلمانوں کی تہذیب کے عاشق تھے۔ وہ ان اجمالی اسالیب کو پھر زندہ کرنا چاہتے تھے جو عامتہ الورود، سست رَگ، ضعیف اور عام پسند نثر کے رواج سے مر چلے تھے۔ ان کی نثر، عظمت و جلال، فقر و قلندری،حرکت و حرارت اور لطفِ دلبری کے ان سب نقوش سے متکیف ہے جو اس جلیل القدر انشا پرداز کی شخصیت کو بیسویں صدی کے اُردو ادب کی ایک منفرد ہستی بنانے کے ذمے دار ہیں۔ ناشر:__ المقبول پبلی کیشنز لاہور، ۱۹۶۹ء ئ……ئ……ء ۴ / اقبال اور احیاے دین (خالد علوی) یہ کتابچہ اقبال اور احیاے دین کے موضوع پر ہے، جو میرے عزیز دوست پروفیسر خالد علوی صاحب نے لکھا ہے۔ ابتدائً یہ ایک تقریر تھی جو ایک جلسے میں میری موجودگی میں ہوئی تھی۔ مجھے یہ تقریر بے حد پسند آئی۔ میں نے علوی صاحب سے درخواست کی کہ اس کا فائدہ وسیع تر اور مستقل ہو جائے تو کیا مضائقہ ہے۔ اُنھوں نے میری یہ بات سن لی اور تقریر کو تحریر بنا دیا اور جو کچھ اُس موقعے پر کہنے سے رہ گیا تھا، وہ بھی باسلوبِ خوش اس میں شامل ہو گیا اور اب یہ ایک کتاب ہے جس سے جملہ اقبال شناس و اقبال دوست مستفید ہو سکتے ہیں۔ اقبال کے علمی کارناموں پر بہت کچھ لکھا گیا ہے اور بہت کچھ لکھا جائے گا مگر اسے اتفاق سمجھیے یا لکھنے والوں کا کوئی تعصب یا کوتاہی کہیے کہ اقبال اور احیائے دین کے موضوع پر بہت کم لکھا گیا ہے اور جس کسی نے یہ موضوع چھیڑا بھی ہے تو سر سری طور سے یا اس میں دین کا وہ تصور کار فرما ہے جو مغربیوں نے اس ملک میں پھیلا یا ہے۔ مولانا عبدالسلام ندوی اور ڈاکٹر شاہ عبدالغنی نے سب سے اچھی کوشش کی ہے مگر اوّل الذکر ایک وسیع تر دائرے میں قلم اٹھا رہے تھے اور مؤخرالذکر کے پیش نظر خصوصی طور سے قرآنی تصوف تھا،اس لیے یہ معین موضوع وہاں بھی کھل کر بیان نہ ہو سکا۔ ان وجوہ سے موجودہ کتابچہ غیر معمولی افادیت کا حامل ہو گیا ہے اور خدا کا شکر ہے کہ مصنف نے بڑے عمدہ انداز میں اپنے سب مطالب بیان کر دیے ہیں۔ ہمارے ملک میں ایک ستم یہ بہت ہو رہا ہے کہ دینی فکر کی آخری منزل، سر سیّد کے دینی افکار،کو سمجھا جاتا ہے اور اقبال کو فلسفی کَہ کر انھیں دینی مفکرین سے خارج کر دیا جاتا ہے۔ میری دانست میں یہ طریقِ کار درست نہیں۔ سر سیّد نے اپنی دینی روایت اور عقائد سلف کے خلاف بغاوت کر کے اس حد تک تو اچھا کام کیا کہ ہماری فکری جستجو میں جو جمود آگیا تھا اس سے اذہان کی رہائی ہوئی مگر ایک بڑا نقصان یہ ہوا کہ ہم دین کو بھی عقائدِافرنگ کے تابع سمجھنے لگے اور عقائد و احکام کے رد و قبول میں یورپ کی پسند و نا پسند کو معیار و مقیاس بنانے لگے۔ چنانچہ سر سیّد کی فکریات نے دین کے اس بڑے حصے کو مسترد کر دیا جو ’عقلِ خام‘ کی گرفت سے باہر تھا اور مرعوبیت کی انتہا یہ ہوئی کہ سلف کی ہر تعبیر مشکوک سمجھی جانے لگی۔ اقبال اس معاملے میں سر سیّد کی ضد ہیں۔ وہ عقائدِ جدید پر تنقید کر تے ہیں اور سلف کی تعبیرات کا اثبات کر تے ہیں۔ دینی فکر کی اپنی ایک تاریخ ہے۔ اور تاریخ تسلسل کا نام ہے۔اگر اسلام نے فکرِانسانی کو کچھ بھی اُبھارا ہے تو اس کے اوّلین شارح اور ترجمان سلف ہی تھے۔ ان کے بارے میں بدگمانی یا احساس تنقیص پیدا کرنا اسلام کی فکری روایت کے تسلسل کی نفی و تخریب سے کسی طرح کم نہیں۔ اقبال نے اس دینی فکری روایت کے تسلسل میں اعتقاد پیدا کیا، اور چونکہ وہ عظیم دینی حکما کے جدید وارث تھے،اس لیے اُنھوں نے قدیم کی تنقید کے باوجود فکرِجدید کی گمراہیوں کو بے نقاب کر کے اس کا پیوند اصلی اور اصولی اسلام سے جا ملا یا ہے۔ اقبال نے دین میں گہرا ایقان پیدا کیا ہے اور اسے سائنس کی مطلق اور ناقابل تردید حقیقتوں سے بھی برتر ثابت کیا ہے۔ اصطلاحات اقبال کی اپنی ہیں (یعنی جدید ہیں) مگر سب کا مقصد یہ ہے کہ دین کی کلّی حقیقت کا قطعی اثبات کیا جائے۔دین کا ایک حصہ مابعد الطبیعیاتی ہے۔اس میں نادیدہ اسرار اور حکمتوں کا تصور دلا یا جاتا ہے جو معروف سلسلہ علت و معلول سے خارج ہوتا ہے،اس لیے کوتاہ نظر ان حقیقتوں کا انکار کر دیتے ہیں مثلاً وحی کو نہیں مانتے، عقبیٰ کا انکار کر تے ہیں اور رُوح کے وجود کے بارے میں متشکک ہیں مگر اقبال فرماتے ہیں کہ خود عقلی بلکہ سائنسی طریق استدلال ہی سے ان سب حقیقتوں کا اثبات ہو جاتا ہے۔ وحی ایک بر تر شعور کا نام ہے، عقبیٰ زندگی ہی کی ایک ناگزیر منزل ہے اور رُوح جو امر ربی ہے،ہر شے میں اس طرح ثابت ہے جس طرح ہوا کائنات میں ثابت شدہ امر ہے۔ پروفیسر خالد علوی صاحب نے ان سب بحثوں کو چھیڑا ہے اور بڑے تشفی بخش انداز میں اقبال کے دینی فکر کا تجزیہ کیا ہے۔ اب پروفیسر خالد علوی صاحب سے ایک اور درخواست ہے کہ جس طرح اُنھوں نے پہلے میری بات مان کر تقریر کو تحریر بنایا ہے اب پھر میری بات مان کر اس کتابچے کو (مناسب کوشش کے ساتھ) کبھی مفصل کتاب بھی بنا دیں کیونکہ موضوع میں پوری گنجائش ہے اور ان کے قلم کے امکانات کے بارے میں بھی میں خاصا حسنِ ظن رکھتا ہوں۔ وبیدہ التوفیق۔ ناشر:__ مکتبہ العلمیہ لاہور، ۱۹۷۱ء ئ……ئ……ء ۵ / ترجمہجاوید نامہ (رفیق خاور) رفیق خاور صاحب نے انگریزی، فارسی اور پنجابی نظموں کے اُردو مترجم کی حیثیت سے جو رُتبہ حاصل کرلیا ہے، اس پر مجھے تبصرہ کرنے کی ضرورت نہیں۔ عیاں را چہ بیاں، اب وہ ہمارے قابل اعتماد مترجم ہیں۔ بہرحال میں اس وقت یہ پُرمسرت اطلاع دینے کے لیے قلم اُٹھا رہا ہوں کہ اب خاور نے قوم کو حکیم مشرق کی بلند پایہ نظم جاوید نامہ (فارسی) کے منظوم اُردو ترجمے کا تحفہ عطا کیا ہے، جو عنقریب اقبال اکیڈمی کراچی کی طرف سے شائع ہونے والا ہے۔ جاوید نامہکی عظمت کیا ہے؟ اس وقت یہ میرا موضوع نہیں۔ میرا موضوع فقط یہ ہے کہ رفیق خاور اپنے ترجمے میں جاوید نامہ کے معانی اور فضا کو کہاں تک منتقل کرسکا ہے، لہٰذا میری گزارشات کا محور یہی ایک نکتہ ہوگا۔ ہمارے یہاں (معلوم نہیں کیوں؟) یہ خیال عام طور سے پھیل گیا ہے کہ ترجمہ، اورجنل تخلیق کی برابری کا دعویٰ کر ہی نہیں سکتا۔ مترجم کی مشکلات اور دشواریوں کو سب جانتے ہیں اور اس کی ذمہ داریوں کے کٹھن ہونے کا سبھی کو اقرار ہے مگر خیال بالآخر سب کا یہی ہے کہ ترجمہ ترجمہ ہے، لہٰذا اسے بہرحال اورجنل تخلیق سے کہتر ہونا ہی چاہیے۔اور اس میں کچھ شبہہ نہیں کہ بہت سے ترجمے ایسے ہوتے بھی ہیں جنھیں واقعی کسی درجے کا مستحق قرار نہیں دیا جاسکتا۔مگر یہ بات خود اورجنل تخلیق پر بھی صادق آتی ہے۔ کیا کوئی کَہ سکتا ہے کہ ہر تخلیق [اُونچے] رُتبے کی مالک اور تعریف واعتراف کے لائق ہوتی ہے؟ تو نتیجہ یہ نکلا کہ انحصار فقط آداب اور معیاروں پر ہے۔ جس طرح کسی اورجنل تخلیق کی عمدگی کے کچھ معیار اور آداب ہوتے ہیں، اسی طرح ترجمے کی عمدگی کے بھی کچھ معیار اور آداب ہیں۔ ترجمہ یا تخلیق جو چیز بھی اپنے خاص معیار پر پوری اُتر گئی ،وہی عمدہ اور معیاری ہوگئی۔ اور اگر بات مشکلات کے نقطۂ نظر سے کی جائے تو یہ کہنا پڑے گا کہ مترجم کو دُہری مشقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایک مشقت تخلیق کار کے باطن میں داخل ہوکر اور اسے تلاش کرکے سامنے لے آنے کی، اور دوسری مشقت تخلیق اوّل کے بارے میں اپنے رچے بسے ہوئے تجربات و معانی کو اس کے اُسلوب سمیت ظہور میں لانے کی۔ بلاشبہہ شاعر اور تخلیق کار کا عمل بھی کچھ کم کرب ناک نہیں ہوتا، کیونکہ اسے بھی بعض اوقات ’’دہری ولادت‘‘ کے سلسلے سے گذرنا پڑتا ہے اور پیچ در پیچ داخلی و خارجی تہیجات میں مبتلا ہوکر تجربے کو متشکل کرنا پڑتا ہے، لہٰذا یہ بھی سخت کام ہے۔ لیکن اتفاق کیا جائے گا کہ عمل کی ان دو صورتوں کے مابین ایک نمایاں فرق بھی ہے، اور وہ یہ کہ جہاں تخلیق کار اوّل (شاعر) اپنا ہی بوجھ اُٹھاتا ہے وہاں بچارے مترجم کو تخلیق کار کے بوجھ کے ساتھ اپنا بوجھ بھی اُٹھانا پڑتا ہے۔ اس کی ذمہ داری، تخلیق اوّل کو نئے وطن میں لے جاکر اس کی مربیانہ پرداخت کی بھی ضرورت ہوتی ہے جس کے دوران اس کو تخلیق کار کے جملہ تجربات کو اپنے تجربات کے اندر جذب کرلینا پڑتا ہے۔ اس مقام پر پہنچ کر وہ بھی تخلیق کار بن جاتا ہے مگر ایسا تخلیق کار جس کے سر پر ہر وقت ’’منت ِغیر‘‘ کی تلوار بھی لٹکی ہوئی ہوتی ہے،اور یہی اس بچارے کی بدنصیبی ہے۔ اور وہ مترجم اور بھی زیادہ قابل ہمدردی ہوتا ہے جس کی قسمت میں کسی عظیم نابغۂ ادب کی تخلیق کی ’’مترجمی‘‘ لکھی ہوتی ہے: حیف اس چار گرہ کپڑے کی قیمت غالب جس کی قسمت میں ہو عاشق کا گریباں ہونا تو نتیجہ یہ نکلا کہ ترجمے کا کام بھی عاشق کا گریبان کا سا ہے کہ قطعی تقدیر اس کی ملامت، اور سزا اس کی ’’منتِ غیر‘‘ کا طعن ہے۔ میرا ذتی تاثر یہ ہے کہ اس ملامت کی بڑی ذمے داری بڑی حد تک خود مترجمین پر ہے۔ جتنا بھی کوئی مترجم اس احساس کے دبائو میں لکھے گا کہ وہ کسی دوسرے کا بوجھ اُٹھا رہا ہے، اتنا ہی اس کا عمل منتِ غیر کی ملامت کا مورد ہوگا۔ اسی وجہ سے معاملہ فہم مترجمین اس بوجھ سے آزاد ہوکے چلتے ہیں۔ وہ تخلیق کار کے عمل سے شہد کی مکھی کی مانند رس چوس لیتے ہیں اور اپنے عمل سے اس کا جوہر بدل دیتے ہیں خواہ اس کے اجزاے ترکیبی میں اصل تخلیق اپنی غالب حیثیت ہی سے کیوں موجود نہ ہو۔ جب فٹزجیرلڈ نے رباعیاتِ عمر خیام کو ’’انگریزی دُنیا‘‘ کے سامنے پیش کیا تو اس نے ترجمہ نہیں کیا۔ شہد کی مکھی کے مانند خیام کے پھولوں سے چوسا ہوا رس پیش کیا۔ چنانچہ فٹزجیرلڈ کی رباعیات کو اس کے مقدمہ نگار Lawrence Housman نے ترجمہ نہیں کہا، بلکہ مطلب خیز الہامی شرح (inspired paraphrase) کہا ہے، اور تسلیم کرنا پڑے گا کہ اس نے ان دو لفظوں میں ترجمہ کرنے والوں کو ملامت سے بچانے کے لیے ایک راہ نجات بھی بتا دی ہے۔ یہ الہامی شرح نگاری کیا ہے؟ ایک دیے ہوئے متن کا ایسا ترجمہ جو اصل کی رُوح کو تو برقرار رکھے مگر اس کی تخیلی فضا تیار کرنے میں آزاد ہو۔ لہٰذا فٹزجیرلڈ کے ترجمے میں خیام کی رُوحِ نشاط اور جوہر طرب بھی ہے، مگر اس کی تشبیہات و تصاویر اپنی ہیں۔ اسی کو ہائوس مین نے الہام کی آمیزش کہا ہے۔ یہ سوال قدرتی ہے کہ اس الہامی آمیزش کی خارجی صورتیں کیا کیا ہیں؟ جیسا کہ بیان ہوا ہے ایک صورت تو یہ ہے کہ شاعر اورجنل کا پابند ہوکر نہیں چلا بلکہ اصل کو پڑھ کر جو تاثر اس کے دل میں پیدا ہوا، اسے اس نے اپنے ’’ورشن‘‘ میں زندہ کردیا، تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ اپنے عمل ثانی (تخلیقِ مکرر) میں دوسرے کی تخلیق سے خاصا آزاد ہوکر سرگرمِ عمل ہوا ہے۔ خیر، یہ اَمر تو سخت دشوار ہے کہ کوئی شخص تخلیقِ مکرر کے اس عمل میں تخلیقِ اوّل کو بالکل فراموش کردے، لیکن یہ ہوسکتا ہے اور ہونا چاہیے کہ کم از کم اس کا قاری ضرور فراموش کردے کہ میں ترجمہ پڑھ رہا ہوں۔اسے چاہیے کہ ترجمے کو خصوصاً شاعری میں تخلیق ثانی کو اوریجنل سمجھ کر پڑھے۔ لیکن یہ اس پر موقوف ہے کہ ترجمہ نگار اپنی تخلیق میں وہ جادو جگا دے، یا وہ خوبیاں پیدا کردے جن کے باعث قاری کا ذہن ادھر متوجہ ہی نہ ہو کہ وہ دو فن کاروں کے درمیان کسی برزخ میں جی رہا ہے ورنہ مقابلہ و موازنہ شروع ہوجائے گا، اور اس سلسلۂ عمل میں بچارا ترجمہ کرنے والا ہی گھاٹے میں رہے گا۔ اصل فن کار کا کچھ نہ بگڑے گا۔ لیکن یہ یاد رہے کہ ہر ترجمہ کرنے والا اتنا آزاد ہوکر نہیں چل سکتا۔ معلوماتی اور فکری نثر میںتو یہ ممکن ہی نہیں، لیکن خود شاعری میں بھی یہ آزادی نہ ہر کسی کو میسر ہے،نہ ہر کسی کے لیے جائز ہے، خصوصاً ان نابغہ شعرا کے معاملے میں جنھیں مقدسین کا درجہ مل چکا ہو۔ اس صورت میں اصل متن سے سرِمو انحراف بھی ترجمہ کرنے والے کے لیے باعثِ تکلیف بن سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ الہامی کتابوں کے ترجموں کے بارے میں صدیوں تردّد و تامل رہا ہے کیونکہ ان کے تعلق میں ترجمے کا حق ادا ہوہی نہیں سکتا۔ میں ترجمے کی مشکلات کے موضوع پر شاید ضرورت سے کچھ زیادہ لکھ رہا ہوں لیکن مجبوری یہ ہے کہ ان مشکلات کا احساس دلائے بغیر جاوید نامہ کے موجودہ ترجمہ نگار کی میں کوئی خدمت نہیں کرسکتا، کیونکہ میرا ایک فریضہ یہ بھی ہے کہ میں اپنے قارئین کو بدلائل مطمئن کروں کہ ہمارے ترجمہ نگار نے اپنے فن کا حق ادا کردیا ہے۔ اب سمجھنے کی بات یہ ہے کہ ترجمہ نگار سے ہمارا مطالبہ کیا ہے؟ اس سے تقاضا صرف یہ ہے کہ وہ ہمیں اصل کتاب کی رُوح سے بھی آشنا کرے اور اس کے ساتھ ہی اس کتاب کی فضا کو بھی اپنی زبان میں منتقل کردے اور اس سے بھی بڑی اہم خدمت یہ کرے کہ اپنے ’’ورشن‘‘ (version) کو قاری کے لیے ایسا بنا دے کہ اسے اصل فراموش ہوجائے تاکہ وہ اسی ورشن کو مستقل اور قائم بالذات تخلیق سمجھ کر پڑھے اور اطمینان اور مسرت کی ایسی سرشاری اسے حاصل ہوجائے کہ وہ اصل سے بے نیاز ہوجائے۔ کسی نظم کے عناصر ترکیبی اُصولاً تین سے زیادہ نہیں ہوتے۔ (۱) مضامین و معانی (۲) موسیقی اور (۳) تصویر۔ ترجمہ نگار کی اصل آزمائش یہ ہے کہ وہ مضامین و معانی کے مؤثر بنانے کے لیے متناسب موسیقی اور تصویر سے کہاں تک نباہ کرسکا ہے کیونکہ ہر زبان میں موسیقی (بحر و آہنگ) اور تصویر (یعنی تشبیہات و استعارات) کے انداز جدا ہوتے ہیں جس کے معنی یہ ہوئے کہ ترجمہ نگار کی مشکل دہری ہے۔اسے پہلے مصنف اور شاعر کی تصویری و موسیقیانہ فضا کو قائم رکھنا ہوتا ہے اور پھر اپنی زبان کی مناسبت سے اپنی موسیقی اور تصویر کی فضا پیدا کرنی ہوتی ہے تاکہ تخلیق مکرر کا قاری محظوظ بھی ہوسکے اور چاہے تو اصل ورژن سے بے نیاز ہوکر ترجمے کو مستقل کتاب کے طور پر پڑھے، محظوظ ہو، اور وہ رُوحِ مطالب بھی اس کی گرفت میں آجائے جو اصل میں موجود تھی۔ اب میں تھوڑی دیر گفتگو کو چھوڑ کر رفیق خاور کے منظوم اُردو ترجمۂ جاوید نامہ کی طرف آتا ہوں۔ جاوید نامہ ڈانٹے کی ڈیوائن کامیڈی (طربیہ خداوندی) کی طرح ایک کثیر الالوان کتاب ہے۔ اس میں مکالمہ بھی ہے اور بیانِ واقعات بھی، فضا بھی ہے اور صوت بھی، صدا بھی ہے اور ادا بھی، اشارت بھی ہے اور عبارت بھی، یہ ایک تمثیل ہے مگر مثالی دُنیا کی۔ یہ مثالی دُنیا کی روداد ہے مگر حقیقی دُنیا کے دامن سے وابستہ ہے۔ اس میں حقیقی شخصیتیں بھی ہیں، اور افسانوی بھی، خیالی کردار بھی ہیں اور مثالی بھی، اس میں غزل کے پیوند بھی نظر آتے ہیں اور قطعہ بندی بھی ہے۔ غرض تخیلی اور واقعاتی رنگ باہم شیر و شکر ہیں۔ اس میں حقائق فکری بھی ہیں اور جذباتِ قلبی بھی۔ اس میں وہ تاریخ بھی ہے جس کے نقوش ماضی کے اوراق میں ثبت ہیں،اور وہ تاریخ بھی جس کی تصویریں شاعر کے وژن (vision) میں ہیں۔ غرض ایک مرقع ہے جس میں فکر و خیال کا ہر رنگ پیوستہ اور باہم وابستہ ہے۔ا ور اہل نقد و نظر کا خیال ہے کہ یہ الیڈ اور ڈیوائن کامیڈی کی طرح عجائبات ادب میں سے ہے۔ ظاہر ہے کہ ایسی کثیر الالوان کتاب جسے ارژنگِ معانی اور منقش ماضی کہیے، کسی دوسری زبان میں منتقل کیے جانے کے لیے یہ بڑی ہی قادر الکلامی کا تقاضا کرتی ہے۔ یہ رفیق خاور کی ہمتِ عالی ہے کہ اس نے اس ارژنگِ فکر کو اُردو نظم میں منتقل کرنے کا حوصلہ کیا ہے،اور اب یہ قفس رنگ قارئین کے سامنے ہے۔ قفس رنگ اس لیے کہ جاوید نامہ کے گریزپا اور گرفت میں نہ آنے والے معانی اُردو کے قالب میں مسخر ہوگئے ہیں۔ خاور کی مشکلات بے انتہا تھیں۔ جاوید نامہ کے بلند مرتبہ مصنف کا مقامِ رفیع، مضامین کی فکری و فلسفیانہ پیچیدگی و دقت، تلمیحات و اشارات کی بوقلمونی، غزل و قطعہ و مثنوی کی بحور کی مشکلات، اور سب سے زیادہ وہ ارفعیت (sublimity) جو جاوید نامہ کی فضا سازی میں موجود ہے۔ بایں ہمہ خاور کے لیے ایک آسانی بھی تھی، اور وہ یہ کہ تخلیق اوّل کی زبان کسی اُردو دان کے لیے خصوصاً خاور کے لیے کوئی ’’پرابلم‘‘ نہیں۔فارسی شعر و ادب کی زبان و بیان اُردو کے کسی خوش ذوق ادیب کے لیے ایک مانوس اور معروف زبان و بیان ہے۔ اس کے علاوہ اُردو کی کسی ادبی تخلیق میں فارسی کی تراکیب و الفاظ کا بعینہٖ منتقل ہوجانا کسی طرح مشکل یا ناپسندیدہ اَمر نہیں، بلکہ مثبت طور پر پسندیدہ معاملہ ہے۔ یوں تخلیق اوّل کی فضا کی منتقلی نہ صرف آسان ہوگئی ہے بلکہ کامیاب بھی ثابت ہوئی ہے۔ پھر بھی یہ سمجھنا غلط ہوگا کہ اس کی وجہ سے رفیق خاور کو خاراشگافی نہیں کرنی پڑی۔ صحیح یہ ہے کہ اسے جاوید نامہ کی سنگلاخ چٹانوں کو کاٹ کر ان سے جوے شیر لانے کے لیے بے حد محنت کرنی پڑی ہے۔ اس کی بڑی مشکل یہ رہی ہے کہ جاوید نامہ کے عالی مقام شاعر کے ادب و احترام میں کہیں فرق نہ آنے پائے، کیونکہ کسی جگہ بھی بقدر سرِمُو اس کے معنی و مطالب کی رُوح اور اس کی خارجی فضا سازی میں کسر رہ جانا یا کوئی اور فتور فی الحقیقت سوئِ ادب سے کم نہ ہوتا۔اس لیے یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ رفیق خاور نے جاوید نامہ کی شاعری کے ساتھ ساتھ جاوید نامہ کے شاعر کو بھی مدنظر رکھا ہے، اور ظاہر ہے کہ اس سے اس کی مشکلات اور ذمے داریوں میں بے حد اضافہ ہوا ہے، اور یہ خاور کی خوش نصیبی ہے کہ وہ اس مہم سے سرخ رُو نکلا ہے۔ اس سرخ رُوئی کے سلسلے میں میں نے جو نتیجہ نکالا ہے،اس تک پہنچنے کے لیے تقابلی طریق کار بھی ایک جائز طریقہ ہوسکتا ہے، مگر میں نے ایک حد تک اسے اپنانے کے باوجود زیادہ دور تک اس طریقے کو اختیار کرنے سے اجتناب کیا ہے۔ یہ اس لیے کہ میں اس مقالے کی تمہید میں خود کَہ چکا ہوں کہ قاری تخلیقِ مکرر کے وقت یہ فراموش ہی کردے تو بہتر ہوگا کہ وہ کسی کتاب کا ترجمہ پڑھ رہا ہے۔ لہٰذا میں نے خاور کی تخلیقِ مکرر کو جستہ جستہ مختلف مقامات سے مستقل تخلیق کے طور پر پڑھنے کی کوشش کی ہے تاکہ یہ اندازہ لگاسکوں کہ جاوید نامہ اقبال کے حوالے کے بغیر اس میں ایک مستقل تخلیق کی حیثیت سے کہاں تک زندگی اور توانائی موجود ہے۔ اس توانائی و زندگی کی پرکھ (دریافت) اوّل تو اس بات سے ہوگی کہ بحیثیت مجموعی سارے ادب پارے میں شاعر (مترجم) کا دم پھول تو نہیں گیا۔ کیا وہ ابتدا (مناجات) سے لے کر آخر تک اپنی آواز کو برقرار رکھ سکا ہے۔ میں نے اس غرض سے اس تخلیق مکرر کو کئی جگہ سے پڑھا اور پھر اس نتیجے پر پہنچا کہ شاعر (مترجم) ہر جگہ تازہ دم ہے۔ اس کی آواز میں توانائی ہر جگہ موجود ہے۔ اور آخری نظم تک اس کا شوق تھکاوٹ میں تبدیل نہیں ہوا۔ دو شخصیتوں کا بارِ گراں اُٹھا کر بھی خاور کا سانس اکھڑا نہیں، بلکہ ہر منزل پر پہلے سے زیادہ توانا معلوم ہوتا ہے۔ علاوہ بریں توانائی اور زندگی کی دوسری پہچان یوں ہوتی ہے کہ شاعر (مترجم) تخلیق مکرر میں اُردو شاعری کا لہجہ پیدا کرسکا ہے کہ نہیں۔ میرے خیال میں اس منظوم ترجمے میں اُردو کا شعری لہجہ موجود ہے۔ پھر یہ بھی معلوم ہے کہ اُردو کا شعر اپنی ایک خاص شخصیت رکھتا ہے اور یہ شخصیت بھی خاور کی تخلیقِ مکرر میں جلوہ گر ہے۔ اور یہ اَمر بھی لائق ذکر ہے کہ خاور کے اس ترجمے کا مجموعی انداز بالآخر کچھ اس طرح کا ہوجاتا ہے جیسا خود اقبال کا انداز ان کی اُردو نظم میں بالعموم ہے، اور یہ نتیجہ ہے اس بات کا کہ خاور نے اپنے سرچشمۂ فیض کو ’’بطور شکرانہ‘‘ شعوری طور سے ہر لحظہ یاد رکھنے کی کوشش کی ہے، اور رباعیاتِ خیام (فٹزجیرلڈ) کے مقدمہ نگار ہائوس مین کی اس نصیحت کو نہیں مانا کہ قاری کی طرح مترجم بھی اصل مصنف کو فراموش کرنے کی کوشش کرے۔ خاور نے اس پر عمل نہیں کیا اور پوری کوشش کی ہے کہ اقبال کے لہجے، اس کے اپنے اُسلوبِ بیان میں جذب ہوجائیں۔ یہ پاسِ ادب کی وجہ سے بھی ہے اور اصل اور ترجمے کی زبان کی قربت کی وجہ سے بھی۔ ذیل میں چند اقتباسات یہ ثابت کرنے کے لیے دیے جارہے ہیں کہ یہ اصل سے بے نیاز ہوکر بھی اطمینان بخش ہیں: پہلا شاہد کون ہے؟ احساسِ نفس ، احساسِ ذات نور سے اپنے ہی پا لینا متاعِ کائنات! شاہدِ ثانی شعور اوروں کا بھی ، آئینہ دار جس کی تابانی سے ہو خود اپنا باطن آشکار! گر رہے اس نورِ حق کے سامنے تو استوار جان خود کو حی و قائم صورتِ پروردگار ایک شاہد کی تمنا اور ہے معراج کیا امتحاں ہو رُو برو جس کے خود اپنی ذات کا شاہد عادل کہ ہے تصدیق جس کی لازمی ورنہ جوں گل محض رنگ و بو ہے اپنی زندگی! __________ اے کہ تو نے طرحِ نو ڈالی بصد جوش و خروش مجھ کو دستورِ کہن سے کر دیا بیگانہ کوش ہم مسلمانوں کی صورت تو نے بھی یورش کناں [کذا] قیصریت کے شکستہ کر دیے ہیں استخواں تا کرے دل میں فروزاں اپنے اک تازہ چراغ لے ہماری سرگذشتِ غم سے عبرت کا سراغ پائوں مضبوطی سے رکھ اپنا میانِ کارزار گرد پھر لات و ہبل کے گھوم مت دیوانہ وار ایسی ملت پر نظر ہے اس جہانِ پیر کی جو دلائے خوف بھی اور دے نوید خیر بھی ایسے ہی یہ باد و خاک و آب و آتش ، ابروکشت باغ و راغ و کاخ و کو و کوہ و دشت و سنگ و خشت تو جو کہتا ہے کہ یہ سب کچھ ہمارا مال ہے تیری نادانی ہے یہ سب کچھ خدا کا مال ہے ارض حق کو تو بتاتا ہے زمیں اپنی بتا پھر بے شرحِ آیۂ لا تفسدوا فی الارض کیا؟ ان اقتباسات سے یہ بخوبی ظاہر ہوسکتا ہے کہ خاور اپنے عملِ تخلیقِ مکرر میں شاعرِ تخلیقِ اوّل کے احساس یا موجودگی کے خیال سے بے نیاز نہیں ہوا، یہ پاسِ ادب بھی تھا اور شاعرِ اوّل کے اعلیٰ فنی کمال کا اعتراف بھی، اور توافق لسانی کے تحت بھی یہ ناگزیر تھا۔ یہی وجہ ہے کہ خاور کی کاوش کو ہم inspired paraphrase نہیں کَہ سکتے، بلکہ اسے نقشِ اوّل کا عکس برنگِ دیگر یا بزبانِ دیگر کہا جاسکتا ہے۔ جہاں خیام کا مترجم فٹزجیرلڈ نقشِ اوّل سے باہر نکل کر پھیل جانے کی کوشش کرتا رہا، وہاں جاوید نامہ کا مترجم نقشِ اوّل کے زیادہ قریب رہنے کی شعوری کوشش کرتا ہے۔ اور حالات کا تقاضا یہی ہے۔ تو اس کے معنی یہ ہوئے کہ بالآخر ہمیں دیکھنا یہ پڑے گا کہ خاور نے اقبال کے فارسی شعر کو باندازِ اقبال اپنے اُردو شعر میں ڈھالنے میں کہاں تک کامیابی حاصل کی ہے۔ اور اصل سے وفاداری کا حق کس طرح ادا کیا ہے؟ یہی وہ مقام ہے جہاں پہنچ کر اصل اور ترجمے کے مقابلے کی ضرورت محسوس ہورہی ہے۔ اب جاوید نامہاور اس کے ترجمے کے چند اقتباسات آمنے سامنے نقل کیے جارہے ہیں: جاوید نامہ ترجمہ جاوید نامہ ما ترا جوئیم و تو از دیدہ دُور ڈھونڈتے ہیں ہم تجھے اور تو کہیں نظروں سے دور نے غلط ، ما کور تو اندر حضور یوں نہیں ، ہم بے بصر ہیں اور تو سرتا پا حضور یا کشا ایں پردۂ اسرار را یا ہٹا دے سامنے سے پردۂ اسرار کو یا بگیر ایں جانِ بے دیدار را یا اُٹھا لے اے خدا اس جانِ بے دیدار کو نخلِ فکرم نااُمید از برگ و بر برگ و بر سے ناامید افکار کا میرے نہال یا تبر بفرست یا بادِ سحر یا اسے شاداب کر دے یا تبر سے کاٹ ڈال عقل داری ہم جنونے دہ مرا تو نے بخشی ہے خرداب بخش دے ذوقِ جنوں رہ بجذب اندرونے دہ مرا جذبِ باطن کے سرور و کیف کا مشتاق ہوں علم در اندیشہ می گیرد مقام علم کا مسکن ہے پنہاں خلوتِ افکار میں عشق را کاشانۂ قلبِ لاینام عشق کا کاشانۂ روشن دلِ بیدار میں علم تا از عشق برخوردار نیست علم کو گر عشق سے حاصل برومندی نہیں جز تماشا خانۂ افکار نیست جز تماشا خانۂ افکار وہ کچھ بھی نہیں فارسی اور اُردو متن کی مماثلتیں ظاہر ہیں اور اس کا سبب ظاہر ہے کہ خاور نے اقبال کے بالکل قریب رہنے کی کوشش کی ہے۔ خاور کی نقش تراشی کی ایک امتحان گاہ فارسی غزل کا نقشِ نو ہے۔ یوں میرا ذاتی احساس یہ ہے کہ خاور غزل کا ترجمہ نہ کرتے تو اچھا کرتے، یعنی غزل کو جوں کا توں فارسی ہی میں رہنے دیتے تو تاثر زیادہ گہرا ہوتا، کیونکہ فکر کے مقابلے میں جذبے کی زبان کو کسی دوسری زبان میں منتقل کرنا زیادہ مشکل ہے، خصوصاً اس طریق کار میں جو خاور نے اپنے ترجمے میں اختیار کیا ہے تاہم اس سے یک رنگی و یکسانی کا فائدہ ضرور ہوا ہے۔ اس لحاظ سے غزل کو نئے لباس میں پیش کرنے کی کوشش بڑی ہمت و مردانگی کی بات ہے۔ اگرچہ فارسی کے مقابلے میں اُردو کا نقش کمزور ہے۔ قرۃ العین طاہر کی غزل کو پہلے پڑھیے اس کے بعد خاور کی نقشِ ثانی کو دیکھیے تاہم درجِ ذیل غزل میں شاعر کی قوتِ اختراع و انتقالِ معانی کی تعریف کرنی پڑتی ہے کہ وہ غزل کی ترسیل معانی میں بھی مردانہ وار بڑھا ہے: نوائے طاہرہ ترجمہ گربتو افتدم نظر چہرہ بہ چہرہ رُوبرو ہو اگر اتفاقِ دید چہرہ بہ چہرہ رُوبرو شرح دہم غم ترا نکتہ بہ نکتہ، موبمو شرحِ غم نہاں کروں ، نکتہ بہ نکتہ موبمو از پیٔ دیدن رخت ہمچو صبا فتادہ ام دیدِ جمال کے لیے ، گھوموں پھروں صبا کی طرح خانہ بخانہ در بہ در کوچہ بہ کوچہ کُوبہکُو خانہ بخانہ در بدر کوچہ بہ کوچہ کُوبہکُو می رود از فراق تو خونِ دل از دو دیدہ ام تیرے فراق میں رواں ، آنکھوں کی راہ خونِ دل مہر ترا دلِ حزیں بافتہ برقماش جاں اپنی قماشِ جاں میں یوں ، شوق ترا سمو لیا دجلہ بہ دجلہ یم بہ یم چشمہ بہ چشمہ جُو بجو! دجلہ بہ دجلہ یم بہ یم، چشمہ بہ چشمہ جُو بہ جُو رشتہ بہ رشتہ نخ بہ نخ تار بہ تار پُوبہپُو رشتہ بہ رشتہ نخ بہ نخ تار بہ تار پُوبہپُو دردِ دل خویش طاہرہ گشت و ندید جز ترا طاہرہ دل میں گھوم کر کچھ بھی نہ دیکھا جز ترا صفحہ بہ صفحہ لا بہ لا پردہ بہ پردہ تُوبہتُو صفحہ بہ صفحہ لا بہ لا پردہ بہ پردہ تُوبہتُو! خاور کی قوتِ ایجاد کے روشن ثبوت ان مواقع کی نظم نگاری میں ملتے ہیں جہاں اس نے ہندی حکما و شعرا کے اقوال کو اُردو نظم میں پیش کیا ہے۔ اس نے ایسے موقعوں پر ہندو فلسفے کی اصطلاحات بعینہٖ ترجمے میں جذب کردی ہیں۔ یہ بات اصل فارسی میں اوپری اور نامانوس ہوتی مگر اُردو چونکہ اپنی سرشت کے اعتبار سے سنسکرت ہندی کے ماحول سے مانوس ہے، اس لیے اُردو ترجمے میں یہ اختراع مانوس نظر آتی ہے۔ فلکِ قمر میں جہاں دوست (وشوامتر) کے اپدیش (بصورت مکالمہ) آتے ہیں، ان میں رومی سے گفتگو کرتے ہوئے وشوامتر کہتے ہیں: پورب استت اور نااستت ہی میں ہے اُلجھا رہا وہ نہ ان انمول بھیدوں کی بھنک تک پا سکا ہم کہ ہیں آکاش باسی کام اپنا دیکھنا کل کے بارے میں نہیں پورب کے مجھ کو دو بدھا قشمروو اک اونچا پربت پربتوں میں چاند کے اس کی چوٹی پر کل اُترا دیوتا آکاش سے مت چھپا میں نے کہا ہم ساتھیوں سے من کی بات شانت دھرنی میں چھپی ہے ایسی کیا اَن جانی بات؟ یہ ساری گفتگو ہندی سنسکرت آمیز ہے اور ہندو رشیوں کے حوالے سے نہایت ہی مناسب معلوم ہوتی ہے۔ بھرتری ہری کے اپدیش بھی اسی نوع کے ہیں۔ ان میں بھی حکیمانہ زبان ہندوانہ ہے۔ شاعری میں عموماً اور ترجمے میں خصوصاً ’’ورشن‘‘ (version) کو بہتر بنانے کی رسم از ابتدا چلتی آتی ہے۔ جن لوگوں نے الیڈ، اڈیسی، انیڈ وغیرہ کے انگریزی ترجمے کیے ہیں ان کے بارے میں یہ بات مشہور ہے کہ ان میں سے بعض نے بیس بیس مرتبہ اپنے ’’ورشن‘‘ تبدیل کیے، خود فٹزجیرلڈ کے inspired paraphrase میں باربار کی اصلاحات و ترمیمات موجود ہیں۔ میں نے خاور کے ترجمے کے قلمی مسودے میں کاوش کی بیسیوں مثالیں دیکھی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ اس نے ورشن کو بہتر اور خوب تر جاننے کی مسلسل کوشش کی ہے۔ اسے شاعر کی دیانت سمجھنا چاہیے کہ وہ پہلی سوچ پر قانع نہیں ہوا۔ اس کے سامنے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ اقبال کی حکیمانہ فارسی تراکیب و کنایات کو اُردو کا ایسا لباس پہنایا جاسکے جس سے فارسی کا شکوہ قائم رہے اور اُردو کے وہ پیرایہ ہاے بیان اختیار کیے جائیں جو پُرشان و شکوہ فارسی کے پہلو میں پھسپھسے معلوم نہ ہوں۔ میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ خاور ہر خیال کے لیے ایک موزوں قماش تیار کرنے میں کامیاب ہوا ہے۔ جیسا کہ شروع میں بیان ہوا ہے بعض لوگ ترجمہ کرنے والوں کی کاوشوں کو ایک کمتر سلسلۂ عمل سمجھتے ہیں، مگر ان کا یہ خیال دُرست نہیں، کیونکہ درحقیقت ترجمے کا عمل شاعر کے عمل سے کسی طرح بھی کم رُتبہ نہیں ہوتا۔ اگر ترجمے نہ ہوتے تو انسانیت جغرافیائی قیدخانوں میں بند ہوکر رہ جاتی اور انسان کے ایک گروہ کے ذہنی کارنامے دوسرے گروہوں تک کبھی نہ پہنچ پاتے۔ ترجمہ دراصل توسیع علم ہی کا ذریعہ نہیں، وحدتِ انسانی کا بھی احساس دلاتا ہے۔ انھی وجوہ سے دُنیا کے علم پرستوں کی طرح انسانیت نوازوں نے بھی ترجمے میں بڑی دلچسپی لی ہے۔ جس سے دُنیا کے ہر ملک میں نئی ادبی تحریکوں نے جنم لیا، اسی لیے ایذراپاونڈ نے ایک موقع پر کہا تھا: ادبی تخلیق کا عظیم دور ہمیشہ ترجمے کا بھی عظیم دور ہوتا ہے یا پھر نتیجے کے طور پر فوراً بعد میں پیدا ہوتا ہے۔اس مقولے کا پہلا حصہ دُرست ہو یا نہ ہو کم از کم دوسرے حصے کے صحیح ہونے میں کچھ کلام نہیں۔ اُردو کلام اگرچہ عظیم اورجنل تخلیقات سے خالی نہیں مگر اس میں عظیم نشاۃِالثانیہ کے ظہور کے لیے جتنے بھی عمدہ ترجمے ہوں، اتنا ہی اُردو کے حق میں مفید ہوگا، اور میں بلاخوف تردید کر سکتا ہوں کہ خاور کے باقی ترجموں کی طرح یہ ترجمہ بھی اس علمی انقلاب کے ظہور میں مؤثر معاون ثابت ہوگا۔ ناشر__:اقبال اکادمی پاکستان، لاہور ئ……ئ……ء (ب): متفرق ۱ / پیغام یومِ اقبال ڈاکٹر انعام الحق کوثر، گورنمنٹ کالج کوئٹہ میں لیکچرر تھے۔ اُنھوں نے سیّد صاحب سے یومِ اقبال کے لیے پیغام کی درخواست کی۔ جواباً سیّد صاحب نے اپنے قلم سے حسبِ ذیل پیغام ارسال فرمایا۔ [مرتب] علامہ اقبال کی اس یادگاری تقریب کے موقعے پر ہمارا پہلا فرض تو یہ ہے کہ ہم ان کی رُوحِ پُرفتوح کے لیے دُعا کریں اور خدا سے التجا کریں کہ وہ انھیں جنت الفردوس میں جگہ عطا کرے۔ اس کے بعد ہمارا یہ فرض ہے کہ ہم ان کے اصل کارنامۂ حیات کا جائزہ لے کر اس پر عمل کریں۔ میری راے میں اقبال کا سب بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے ہمیں اسلاف کے ورثوں میں دلچسپی لینے کا سبق سکھایا، مغربیت کے اِس طوفانِ عظیم میں اقبال نے ہمیں قدیم اسلامی تہذیب سے وابستہ رہنے کی تلقین کی ___ مَیں سمجھتا ہوں کہ یہی وہ احساس ہے جس نے ہمیں پاکستان جیسی دولت و سلطنت عطا کی ___ یقینا اسی احساس کی بدولت ہم اس دولت کو دولتِ جاوید بنا سکیں گے، یہ اقبال کا پیغام ہے ___ اور اس موقع پر میرا بھی یہی پیغام ہے کہ جہاں تک ہوسکے قوم اپنے تہذیبی ورثوں کی حفاظت کرے۔اسی میں اس کی فلاح، اسی میں اس کی نجات ہے۔ ئ……ئ……ء ۲ / پیغام براے مجلہ کائنات کراچی وفاقی اُردو گورنمنٹ سائنس کالج کراچی کے مجلہ کائنات کے خصوصی شمارے (اقبال نمبر۱۹۷۶ئ-۱۹۷۷ئ] کے مدیر کے خط کے جواب میں سیّد صاحب نے حسبِ ذیل پیغام بھیجا۔ [مرتب] حکیم الامت حضرت علامہ اقبال کے بارے میں ایک مختصر سا مضمون آپ کو ارسال کروں گا۔ ان شاء اللہ وسط اگست تک آپ کو مل جائے گا۔ علامہ عہدِ حاضر کے اہم مفکرین میں سے ہیں۔اُن کی حیثیت مفکرِ پاکستان و حکیم الامت کی ہے کہ اُنھوں نے ہمیں اس وطنِ عزیز کا تصور دیا اور برعظیم ہندوپاکستان کے مسلمانوں کے دل میں زندگی کے راستے بدل گئے[کذا][انھیں منزلِ مقصود] کی طرف بڑھنے کے لیے ایک ولولۂ تازہ عطا کیا لیکن بیسویں صدی کے عالمی فلسفے کی سطح پر بھی اُن کا مقام بہت بلند ہے۔ اتنا بڑا مفکر، شاعر اس دور میں پیدا نہیں ہوا۔ اس فکری و فلسفیانہ رُجحان میں ان کی عظمت کا راز مضمر ہے۔ اُنھوں نے انسانی زندگی کو سنوارنے کے اہم اور مفید خیالات اپنی شاعری اور فلسفے میں پیش کیے۔ وہ عظمتِ انسانی کے قائل ہیں اور اُن کے خیال میں انسان میں ستاروں پر کمند ڈالنے کی صلاحیت موجود ہے۔ اُنھوں نے انسانیت کو ارتقا سے ہم کنار کرنے کا خواب دیکھا، ان کو اس اہم کام کی طرف راغب کیا۔ اُنھوں نے ملتِ اسلامیہ کو ایک لڑی میں پرونے اور ایک مرکز پر جمع کرنے کا مکمل لائحہ عمل پیش کیا ہے۔ اس لیے کہ سیاستِ فرنگ نے ان کی وحدت کو پارہ پارہ کیا تھا، اُنھوں نے اسی وحدت کی یک جہتی میں عالمِ اسلام کی نجات دیکھی ہے۔ اُن کے فکر اور فلسفے میں بڑی جاندار کیفیت ہے۔ وہ ولولے اور ایثار سے بھرپور ہے اور انسان کو یہ سکھاتا ہے کہ زندگی کس طرح اس کی گرفت میں آسکتی ہے۔ اس فلسفے کو اُنھوں نے شاعری کاروپ دیا اور یہ اِن کا سب سے بڑا کارنامہ ہے۔ فلسفے کو شاعری کے سانچے میں ڈھالناآسان نہیں ہوتا۔ علامہ اقبال کو یہ گُر آتا ہے اور اس لیے ایک عظیم شاعر کی حیثیت سے ان کا نام آسمانِ ادب پر رہتی دُنیا تک زندہ و تابندہ رہے گا۔ یہ چند سطریں مَیں نے آپ کو لکھی ہے کہ اگر کسی وجہ سے میرا مضمون نہ مل سکے تو اس کو پرچے میں شائع کردیجیے۔ ____مجلہ کائنات کراچی، اقبال ۱۹۷۶ئ-۱۹۷۷ء ئ……ئ……ء ۳ / ایک مختصر تحریر (مسلمانوں کی نشاتِ ثانیہ بذریعہ قیامِ پاکستان) ۱۹۸۳ء میں یومِ اقبال کے موقع پر نواے وقت نے اقبال کے بارے میں ملک کے بعض مشاہیر اور علمی شخصیات کے تاثرات شائع کیے____ اِس میں ڈاکٹر سیّد عبداللہ کی حسبِ ذیل تحریر بھی شامل تھی۔ [مرتب] تصورِ پاکستان کے لیے ہم علامہ اقبال کے ممنونِ احسان ہیں کہ اُنھوں نے یہ تصور الٰہ آباد کانفرنس میں اپنے خطبے کے دوران پیش فرمایا تھا۔ وہ شروع ہی سے برصغیر کی سیاسیاست کے متعلق غور فرما رہے تھے، جیسا کہ بانگِ درا کے ابتدائی حصے سے ظاہر ہوتا ہے کہ شروع میں وہ ہندوئوں اور مسلمانوں کو ایک ہی ملک میں یکجا رہتے ہوئے دیکھنا چاہتے تھے۔ ان ایام میں اُنھوں اپنی نظم ’ہندی ترانہ‘ بھی لکھی۔ لیکن بعد میں جب برصغیر کی سیاسیات کے متعلق ان کی معلومات زیادہ گہری ہوتی چلی گئیں اور اُنھیں اچھی طرح محسوس ہوگیا کہ مسلمان ایک ایسی تہذیب کے وارث ہیں، جو ہندو تہذیب سے بالکل مغائرت رکھتی ہے، اور پھر یہ کہ مسلمان ایک ملّت کی حیثیت سے جس طرح اپنے مستقبل کی تعریف کرنا چاہتے ہیں، وہ بھی ہندووانہ نظریوں کے بالکل خلاف ہیں، تو وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ ہندو اور مسلمان ایک ہی وطن میں یکجا نہیں رہ سکتے، بلکہ اُن کے لیے علیحدہ علیحدہ جغرافیائی حدود چاہییں، جن میں وہ اپنے اپنے تہذیبی افکار کے مطابق زندگی بسرکرسکیں، جب یہ خیال علامہ کے ذہن میں اچھی طرح اپنی پوری [معنویت] کے ساتھ[واضح] ہوگیا تو اُنھوں نے وہ نظم لکھی جو بانگِ درا میں ’’ترانہ ملّی‘‘کے عنوان سے پڑھی جاسکتی ہے۔ ’’ترانہ ہندی ‘‘اور’’ترانہ ملّی‘‘ میں واضح تضاد موجود ہے، اور ان دونوں کے مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ پاکستان کے متعلق تصور کس طرح اُن کے ذہن میں پیدا ہوا۔ جب علامہ یورپ میں تشریف رکھتے تھے، اور عالمی نظریات کے مطالعے کا، انھیں پہلے کی نسبت بہتر موقع ملا، اور اسلامی ممالک کی حیثیت اور اہمیت بھی بہترطور پر اُن کے ذہن میں جاگزیں ہوئی۔ ان کا یہ شعر کہ: نکل کے صحرا سے جس نے رُوما کی سلطنت کو اُلٹ دیا تھا سُنا ہے یہ قدسیوں سے مَیں نے، وہ شیر پھر ہوشیار ہوگا ’’ترانہ ہندی ‘‘ کے مقابلے میں اس شعر کو رکھا جائے تو پتا چلتا ہے کہ ان کے خیالات میں ایک واضح انقلاب رُونما ہوچکا تھا۔ اپنے انھی خیالات کی بنا پر، وہ برصغیر میں بھی مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ وطن ضروری سمجھتے تھے تاکہ مسلمانانِ برصغیر باقی اسلامی ممالک کے مسلمانوں کے ساتھ تعاون کرکے اپنے ماضی کی طرح ایک شاندار مستقبل کے مالک بن سکیں۔ اپنے انھی خیالات کو لے کر الٰہ آباد کانفرنس کے خطبے میں انھوں نے یہ تصور پیش کیا کہ یہاں جن جن علاقوں میں مسلمانوں کی اکثریت ہے، ان کو یکجا کرکے ایک علیحدہ وطن کی صورت دے دی جائے۔ ____ نواے وقت لاہور، ۹؍نومبر ۱۹۸۳ء ئ……ئ……ء