انداز محرمانہ اقبال کی تصانیف پر نئی روشنی خرم علی شفیق اقبال اکادمی پاکستان رازِحرم سے شاید اقبالؔ باخبر ہے ہیں اس کی گفتگو کے انداز محرمانہ (اقبال) فہرس پہلی بات ۱ اسرار و رموز ۲ پیامِ مشرق ۳ بانگِ درا ۴ زبورِ عجم ۵ جاویدنامہ ۶ بالِ جبریل ۷ ضربِ کلیم ۸ اے اقوامِ شرق ۹ ارمغانِ حجاز ۱۰ تشکیل جدید ۱۱ خطبہ ٔ الٰہ آباد پہلی بات اقبال کی تصانیف کی یہ کچھ نئی تعبیرات ہیں۔ عام طور پر اقبال کی شاعری کے فنی محاسن اور پیغام کا تجزیہ علیحدہ علیحدہ کیا جاتا ہے جس کی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ شائد اقبال کی تصانیف کو بطور تصانیف نہیں دیکھا گیا۔ ہر کتاب کی ایک مجموعی صورت ہوتی ہے، اس کے اندراجات کا آپس میں کوئی ربط ہوتا ہے اور کتاب میں تسلسل ہوتا ہے مگر اقبال کی تصانیف کو اس طرح دیکھنی کی بجائے عموماً ہر نظم کو علیحدہ علیحدہ دیکھنے کی کوشش ہی کی گئی ہے۔ میں نے ۱۹۹۳ء میں بالِ جبریل کے اندرونی ربط پر کچھ نکات تحریر کیے جو گیارہ برس بعد سہیل عمر ناظم اقبال اکادمی پاکستان کی فرمایش پر مکمل ہو کر تین سلسلہ وار مضامین کی صورت میں مجلہ اقبالیات میں شائع ہوئے۔ حال ہی میں یہ اقبال اکادمی سے کتابی صورت میں بھی شائع ہو چکے ہیں۔ ۲۰۰۷ء میں تمام تصانیفِ اقبال کا اندرونی ربط انگریزی میں دی ری پبلک آف رومی کے عنوان سے پیش کیا۔ پھر ۲۰۰۸ء میں اس کے بارے میں چند اشارے اُردو میں تحریر کیے جو اَب پیش خدمت ہیں۔ قارئین اندازہ کر سکتے ہیں کہ زیرِ نظر کتاب کا انداز اِس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ اس میں صرف وہی نکات پیش کیے جائیں جو پہلے سامنے نہ آئے ہوں۔ میں نے یہی کوشش کی ہے۔ کلامِ اقبال کا یہ اندرونی ربط میں نے انگریزی میں دی ری پبلک آف رومی کے عنوان سے بھی پیش کیا ہے مگر وہاں بعض نکات کی تفصیل کا موقع نہ تھا جنہیں یہاں نسبتاً تفصیل سے بیان کیا جا رہا ہے۔ عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ اقبال کسی باقاعدہ فلسفیانہ نظام کے بانی نہیں تھے۔ ۱۹۳۲ء میں انگلستان کے سفر میں اُنہوں نے خود بھی کہا تھا کہ وہ مغربی اصطلاح میں کسی باقاعدہ فلسفیانہ نظام کے حامل نہیں ہیں۔ تاہم اِس بیان سے یہ نہیں معلوم ہوتا کہ اُن کی تحریر کسی بھی ربط و نظام سے معریٰ ہو گی۔ مغربی اصطلاح کے مطابق تو مولانا روم بھی کوئی فلسفیانہ نظام نہ رکھتے تھے لیکن بہرحال اُن کے افکار میں ایک خاص ربط موجود ہے جسے ہم اُن کا نظامُ الاسرار کہہ سکتے ہیں۔ اقبال کے نظامُ الاسرار کی طرف سب سے بہتر رہنمائی اُن کے مدّون کلام کے اندرونی ربط کے ذریعے ہوتی ہے جسے میں نے اپنی کتاب دی ری پبلک آف رومی (انگریزی-مارچ ۲۰۰۷ئ) میں واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔ زیرِ نظر مقالہ اس اندرونی ربط کا ابتدائی تعارف بھی ہے اور بعض ایسے امور کی نشاندہی بھی کی جا رہی ہے جو اُس کتاب میں موجود نہیں ہیں۔ میرا خیال ہے کہ اِن نکات کی روشنی میں اقبال پر تحقیق کے بعض نئے موضوعات سامنے آ تے ہیں۔ ۱ سید نذیر نیازی اپنے مضمون ’اقبال اور حکمائے فرنگ‘ میں اقبال کے بعض ناقدین کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں، ’’دراصل یہ حضرات اِس امر کو فراموش کر دیتے ہیں کہ اقبال ایک مستقل فلسفی یا بالفاظِ دیگر فلسفہ کے ایک باقاعدہ نظام کے بانی تھے۔‘‘ (یہ مضمون اقبالیاتِ سید نذیر نیازی مرتبہ عبداللہ شاہ ہاشمی میں شامل ہے جہاں سنِ اشاعت درج نہیں لیکن قرائن سے اندازہ ہوتا ہے کہ اقبال کی وفات کے کچھ ہی عرصہ بعد لکھا گیا ہو گا)۔ نذیر نیازی اقبال کے خطبات تشکیلِ جدید کا ترجمہ اُن کی زندگی ہی میں کرنے لگے تھے اور اُس پر اقبال سے اصلاح کا عمل بھی شروع ہوگیا تھا چنانچہ اُن کا اقبال کو ایک فلسفیانہ نظام کا بانی قرار دینا معنی خیز ہے۔ اِس نظام کے نقوش واضح کرنے کی کوشش عام طور پر کامیاب نہیں ہوئی جس کی تین وجوہات ہیں۔ پہلی وجہ یہ کہ اب تک اقبال کی تحریروں کی ٹھیک سے درجہ بندی ہی نہیں ہوئی۔ دوسری غلطی اِسی سے پیدا ہوئی یعنی اقبالیات کی تنقید کے اصول مرتب نہ ہو سکے بلکہ ماہرین نے عام طور پر رائج اصولوں سے بھی عموماً بے اعتنائی برتی۔ اِن میں وہ ماہرین بھی شامل ہیں جن سے ہم توقع زیادہ رکھتے تھے، مثلاً اے جے آربری اور اینا میری شمل وغیرہ۔تیسری غلطی یہ کہ اقبال کا مطالعہ صرف تاریخی پس منظر میں کیا گیا جو شاید ایک فلسفی کی فکر کا مکمل احاطہ کرنے کے لیے کافی ہو مگر شاعر کے کلام کی ایک جہت اس قسم کی قید سے آزاد بھی ہوتی ہے۔ کلامِ اقبال کے اس پہلو پر بہت کم توجہ دی گئی ہے۔ تحریروں کی درجہ بندی میں بے اعتنائی کی ایک مثال یہ ہے کہ اقبال کی شاعری کی کتابیں اُردو اور فارسی کے لحاظ سے تقسیم کر دی جاتی ہیں اور آخری کتاب ارمغانِ حجاز کے مزید دو ٹکڑے ہو جاتے ہیں۔ کتابوں کی فروخت میں اضافے کے لیے شائد یہ طریقہ مفید ہو مگر علمی تحقیق نے بھی ایک مدت سے یہی چلن اختیار کیا ہوا ہے جس کا کوئی جواز نہیں۔ جو فارسی پڑھنے میں دشواری محسوس کرے وہ تراجم پڑھ لے مگر فارسی کتابوں کے مضامین کوصحیح ترتیب کے مطابق اُردو کتابوں کے درمیان رکھے بغیر بھلا اقبال کے پورے شعری نظام کو کس طرح سمجھا جا سکتا ہے۔ اِسی طرح اُن کی زندگی میں شائع ہونے والی ہر تحریر کو مستقبل تصنیف سمجھ لیا گیا چنانچہ علم الاقتصاد اور تشکیلِ جدید ایک ہی شیلف پر رکھی گئیں جو زیادتی ہے۔ اقبال نے خود اِس کا تدارک کر دیا تھا یعنی اپنی صرف ایک نثری تصنیف کو بذریعہ کاپی رائٹ محفوظ کیا اور وہ تشکیلِ جدید تھی۔ بقیہ نثری تصانیف کو علیحدہ رکھنا چاہیے سوائے خطبہ الٰہ آباد کے جو اقبال کی زندگی ہی میں ایک قومی دستاویز کی حیثیت اختیار کر چکا تھا۔ اقبال کے مقالات، بیانات اور خطوط کی اہمیت تاریخی اور سوانحی ہے۔ یہ اِس لحاظ سے تو اقبال کی ’’تصانیف‘‘ ہیں کہ اقبال کے قلم سے ادا ہوئے مگر تخلیقی اعتبار سے یہ ’’تصانیف‘‘ کا درجہ نہیں رکھتے کیونکہ اقبال نے خود اِنہیں یہ حیثیت نہ دی۔ خطوط کی اشاعت کے وہ قائل ہی نہ تھے چنانچہ جب معلوم ہوا کہ اُن کے دوست نیازالدین خاں اُن کے خطوط تبرک سمجھ کر جمع کرتے ہیں تو لکھا کہ امید ہے وہ اشاعت کے خیال سے یہ خطوط جمع نہ کرتے ہوں گے۔ بھلا کبھی تصور بھی کر سکتے تھے کہ سید نذیر نیازی کے نام خطوط جن میں اقبال کی یا اہلِ خانہ کی بیماریوں کی تفصیلات ہیں، شائع ہوجائیں گے؟اسی طرح عطیہ فیضی کے نام لکھے ہوئے خطوط کا شائع ہونا بھی اُن کے نظامِ اخلاق کی رُو سے ناممکن تھا۔ وہ اِسے ایک طرح کی خیانت سمجھتے تھے چنانچہ اپنے نام آئے ہوئے بیشتر خطوط وفات سے قبل جلا ڈالے۔ خطوط کو اقبال کی مستقل تصانیف کی روشنی میں پڑھنا چاہیے مگر یہاں اکثر اِس کے برعکس ہوا۔ ادبی تنقید کے لحاظ سے یہ اِتنی بڑی اور بنیادی غلطی ہے کہ محض اِسی بنا پر اقبالیات کی کتب کا وہ ذخیرہ جن میں اقبال کی فکر کو سمجھنے کی کوشش کی گئی، ایک آدھ تحریر کے سوا اپنی اہمیت کھو بیٹھتا ہے۔جب کوئی مصنف اپنی کسی کتاب کو باقاعدہ ادبی تخلیق کے طور پر پیش کرتا ہے تو اُس کتاب کی ہیئت اور ساخت کا احترام کیا جاتا ہے۔ اُسے ادب سمجھا جاتا ہے۔ مصنف کی زندگی کے بارے میں معلومات، اُس کی خط کتابت اور بیانات وغیرہ اصل کتاب کے سیاق و سباق کو سمجھنے میں کام آتے ہیں اور اُس کے لیے کچھ اصول مقرر ہوتے ہیں۔ بدقسمتی سے اقبال فہمی کے سلسلے میں یہ احتیاط نہیں برتی گئی ورنہ اقبال کے کلام کے بعض ایسے پہلو سامنے آتے جو بیحد چونکا دینے والے ہیں۔ اس میں کچھ دخل اِس بات کا بھی ہے کہ ۱۹۲۳ء سے ہمارے دانشوروں نے مغرب کے مقابلے میں احساسِ کمتری کا رویہ اپنا جو غالباً ابھی ایک دو برس مزید باقی رہے گا۔ ۱۹۲۳ء سے ۲۰۱۰ء تک کا زمانہ ہمارے ادب میں معذرت خواہی کا زمانہ ہے مگر مشکل یہ ہے کہ جو دانشور اور نقاد سب سے زیادہ مغرب سے مرعوب ہیں وہی سر سید، حالی اور اقبال وغیرہ کو مغرب کی طرف جھکنے کا الزام دیتے ہیں۔ اقبالیات کو ملک کے عام ادب سے جو کمک ملنی چاہیے تھی وہ نہیں ملی۔ خدا کا شکر ہے کہ نہیں ملی اور اس طرح اقبالیات کچھ نہ کچھ سلامت بھی رہی مگر زیادتی یہ ہوئی کہ ۱۹۲۳ء کے بعد ہمارے تمام بڑے نقاد مغربی شعرأ کے سامنے اس طرح سجدہ ریز ہوئے کہ اپنے شاعروں کو بھی صرف انہی پیمانوں سے دیکھنے لگے جو مغرب میں سکہ رائج الوقت ہوں: دِیا اقبال نے ہندی مسلمانوں کو سوز اپنا یہ اک مردِ تن آساں تھا، تن آسانوں کے کام آیا یہ اقبالیات کی دُوسری صدی ہے۔ میں بڑی جسارت کر کے کہہ رہا ہوں کہ پہلی صدی میں حیاتِ اقبال کے بارے میں بنیادی ماخذ جمع کرنے میں ہمارے بزرگوں نے وہ بے مثال کارنامہ دکھایا جس کی مثال دنیائے ادب کی تاریخ میں نہیں ملتی مگر جہاں تک اقبال فہمی کا تعلق ہے، پہلی صدی کی گود تقریباً خالی ہے۔ ۲ مشکل یہ ہے کہ اقبال کو سمجھانے کی کوشش کرتے ہوئے بڑے بڑے مصنف بھی ذوقِ سلیم کے تقاضے بالائے طاق رکھ کر گزرے ہیں۔ میں یہاں صرف اَینا میری شمل کی مثال پیش کرنا چاہوں گا جن کی اقبال کے ساتھ دلچسپی، علمی لیاقت اور ذوق میں شبہ نہیں ہو سکتا مگر اُن کی تصانیف مثلاً شہپرِ جبریل (Gabriel's Wing) میں بعض باتیں تحقیق کے کسی بھی معیارسے اتنی دُور ہیں کہ حیرت ہوتی ہے اوران کی وجہ سے مغالطے بھی پیدا ہوجاتے ہیں۔ تین مثالیں پیشِ خدمت ہیں۔ شہپرِ جبریل میں اقبال کے کام کے جمالیاتی پہلو ('The Aesthetic Side of His Work') کے ضمن میں صفحہ ۶۲پر تحریر ہے کہ اقبال خود کھیل کود کے شوقین نہیں تھے اِس لیے اُنہوں نے اسلام کے اِس وصف کی تعریف کی کہ اِس میں تفریحات مفقود ہیں: Iqbal himself was not fond of outdoor sports and therefore praises Islam which has, essentially, no amusements... اس کے بعد Stray Reflectionsکا ایک اقتباس پیش کیا گیا ہے جو اسلامی معاشرے کے بارے میں اقبال کے ایک تجزیے پر مشتمل ہے۔ کیسی غیرسنجیدہ حرکت ہے کہ اِس اقتباس کو یہ کہہ کر پیش کیا جائے کہ اقبال خود کھیلنے کودنے کے شوقین نہ تھے، ـ"therefore" ، اُنہوں نے ایسا کہا! اِس لحاظ سے تویہ سمجھنا پڑے گا کہ وہ ہر وقت گھوڑے پر بیٹھے رہتے ہوں گے اور اُسے بحرِ ظلمات میں نہیں تو کم سے کم دریائے راوی میں ضرور دوڑایا کرتے ہوں گے کیونکہ اُن کی شاعری کے مشہور کردار وں کے مشاغل اِسی قسم کے ہیں۔ اَینامیری شمل کی کتاب غور سے پڑھیں تو یہ خیال پوری طرح چھایا ہوا محسوس ہوتا ہے کہ اقبال کے افکار مختلف حالات کے خلاف برجستہ ردِ عمل تھے جس میں اُنہیں اپنے جذباتی رویوں پر کسی قسم کا اختیار حاصل نہ تھا۔ شمل اِس مفروضے کی بنا پرایسی ایسی آرأ قائم کر بیٹھتی ہیں جن کی سند ہے نہ جواز، مثال کے طور پر یہ کہ ابلیس کے مقابلے میں اقبال فرشتوں کی کردارنگاری میں دلچسپی محسوس نہ کر سکے اور اُن کے یہاں فرشتوں کا وجود محض نمایشی ہے! اِس تبصرے کی گہرائی میں جائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ مغربی ادب میں جس طرح فرشتوں کو یونانی دیوتاؤں جیسا درجہ دے دیا گیا ہے شمل نے اقبال میں بھی وہی رویہ تلاش کرنے کی کوشش کی اور ناکام رہیں۔ اقبال کے یہاں فرشتوں کی کردارنگاری کی اَساس قرآنی توحید کے اِس تصور پر ہے کہ فرشتے خدا کے حکم سے ہر کام کرتے ہیں۔ اقبال کے کلام میں آپ کو اِس نکتے سے سرِ مو انحراف نہیں ملے گا خواہ اِس پر قائم رہتے ہوئے آپ خواہ کوئی سخن گسترانہ پہلو بھی نکال لیں، مثلاً اگر جبرئیل اپنی مرضی سے کوئی کام نہیں کرتے تو بالِ جبریل کی نظم ’جبریل و ابلیس‘ میں اُنہوں نے جو ابلیس کو دعوت دی کہ خدا سے سمجھوتہ کر لے کیا اُس کا اشارہ بھی خفیہ طور پر خدا نے کیا؟ ابلیس بھی شائد اِسی لیے کہہ رہا ہو، ’’میں کھٹکتا ہوں دلِ یزداں میں کانٹے کی طرح!‘‘ جس قسم کی کمی شمل محسوس کرتی ہیں ویسی ہی ایک دفعہ فارسی کے بڑے شاعراور اقبال کے دوست غلام قادر گرامی نے بھی محسوس کی تھی۔ اُنہوں نے اقبال کو لکھا کہ نظم’خضرِ راہ‘ کے اشعار پھیکے ہیں۔ اقبال نے جواب دیا تھا کہ اشعار رنگین ہوں گے تو وہ گرامی کا کلام بن جائے گا، خضر کا نہیں رہے گا۔چنانچہ اقبال کے فرشتوں سے اگر ایسے افعال صادر ہوں جو اُنہیں شمل کے پیمانے کے مطابق بھرپور کردار بنادیں تو وہ فرشتے نہ رہیں، دیوتا بن جائیں۔ اقبال نے فرشتوں کو اُسی طرح پیش کیا جس طرح وہ خدا کی بنائی ہوئی اصل کائنات میں موجود ہیں: کوئی دیکھے تو ہے باریک فطرت کا حجاب اِتنا نمایاں ہیں فرشتوں کے تبسم ہائے پنہانی شمل کے یہاں ہمیں وہ خامی بھی دکھائی دیتی ہے جوعام طور پر اقبال شناسی کی راہ میں شاید سب سے بڑی رکاوٹ بنی رہی یعنی اقبال کی فکر کے بارے میں کوئی مفروضہ قائم کر بیٹھتی ہیں تو اقبال کی تحریر کو اُسی رنگ میں دیکھنے لگتی ہیں اور اُن سے ایسی بات منسوب کرنے لگتی ہیں جو اُنہوں نے کہی بھی نہیں۔ اِس کی ایک مثال ہے شمل اور اکثر دوسرے مصنفین کا بیان اِس بارے میں کہ حافظؔ شیرازی کے بارے میں اقبال کی رائے کیا تھی۔ اقبال اپنے کلام میں کبھی نام لے کر حافظ کی تعریف کرتے ہیں اور کبھی اُن کے اشعار کی تضمین کر کے خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں۔ اِن تمام اشعار پر غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ اقبال حافظؔکی شاعری کی افادیت سے بھی اچھی طرح واقف ہیں۔ جہاں اپنی شاعری میں جذبات کا اُبال حد سے گزرنے لگے وہاں حافظؔ کے کسی شعر کو سکون بخشنے والی دَوا کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر بانگِ درا میں ’طلوعِ اسلام‘ اوربالِ جبریل میں ’نپولین کے مزار پر‘ بڑی خون گرم کرنے والی نظمیں ہیں۔ دونوں کا اختتام حافظ کے اشعار پر ہوتا ہے۔ یہ تمام پہلو مکمل طور پر نظرانداز کر کے اقبال پر لکھنے والے اکثر مصنفین نے یہ مفروضہ قائم کر رکھا ہے کہ اقبال حافظؔ سے سخت بیزار تھے۔ وجہ کیا ہے؟ ۱۹۱۵ء میں’اسرارِ خودی‘ کے پہلے اڈیشن میں حافظ کے خلاف کچھ اشعار لکھے۔ دو ڈھائی برس بعد دُوسرا اڈیشن شائع ہوا تو خارج کر دیے۔ ادبی سوانح کے اصول کی رُو سے یہ دلچسپ واقعہ ہے مگر شمل اور بیشتر دوسرے مصنفوں نے اِسے بنیاد بنا کر اقبال کی ساری مدوّن شاعری کو نظرانداز کر دیا جس میں آخر دم تک حافظ کو خراجِ تحسین پیش کیا گیا ہے۔یہ رویہ کسی بھی معیار پر پورا نہیں اُترتا۔ یہ دُرست ہے کہ اُن دو ڈھائی برسوں میں جب حافظ کے خلاف شعر’ اسرارِ خودی‘ میں شامل تھے، بڑی ہنگامہ آرائی ہوئی۔ حافظ کا دفاع کرنے والوں نے اپنی رائے کا اظہار کیا اور اقبال نے بھی اپنی رائے ظاہر کی مگر اقبال کی رائے بڑی واضح تھی۔ اُن کے مطابق حافظؔ کی شاعری سکون بخشنے والی دَوا کی مانند تھی جو انحطاط کے زمانے میں مفید نہیں ہو سکتی کیونکہ اعصاب پہلے ہی کمزور ہوتے ہیں مگر جب قومیں کسی زبردست عملی جدوجہد سے گزرتی ہیں تو یہ اعصاب کو سکون پہنچانے کے لیے مفیدہو سکتی ہے۔ جب ستمبر۱۹۲۲ء میں اتاترک نے سمرنا فتح کیا تو اقبال کے لحاظ سے انحطاط کا زمانہ ختم ہو گیا۔ چنانچہ اِس موقع پر نظم ’طلوعِ اسلام‘ لکھی جس کا اختتام حافظ کے شعر پر ہوتا ہے بلکہ پورا آخری بند اُسی شعر کی تمہید ہے اور فارسی میںہے۔ یاد رہے کہ اقبال کے لحاظ سے انحطاط کے زمانے میں صرف حافظ ہی نہیں بلکہ اجتہاد بھی مضر ہوا کرتا ہے۔ ۱۹۱۷ء میں ’رموزِ بیخودی‘ شائع ہوئی جس میں ایک باب اِس بارے میں بھی ہے کہ انحطاط کے زمانہ میں تقلید اجتہاد سے بہتر ہوتی ہے، ’در زمانۂ انحطاط تقلید از اجتہاد اُولیٰ تر است‘۔ جب اُن کے لحاظ سے انحطاط کا زمانہ گزر گیا تو میخانۂ حافظ اوراجتہادکے دروازے ایک ساتھ کھولے۔ طلوعِ اسلام کے ساتھ ہی اجتہاد کے موضوع پر کام شروع کر دیا جس کا انجام اُن کا مشہور خطبۂ اجتہاد تھا۔ اِس سے یہ بھی ثابت نہیں ہوتا کہ اِس موضوع پر اقبال کے خیالات میں کوئی بنیادی تبدیلی واقع ہوئی۔ تبدیلی دُنیا کے حالات میں واقع ہوئی تھی، اقبال نے تو پہلے بھی یہی کہا تھا کہ اجتہاد اور حافظ سے گریز صرف زمانۂ انحطاط کے لیے ہے۔ یہ زمانہ ختم ہوا تو دونوں مباح ہو گئے۔ البتہ یہ درست ہے کہ اقبال نے انحطاط کے زمانے میں یعنی ۱۹۲۲ء سے پہلے ہی حافظ کے بارے میں اشعار ’اسرارِ خودی‘ سے نکال دیے تھے۔ مصنفین کو غلط فہمی اِس وجہ سے ہوئی کہ اس کے چند برس بعد ہمارے ادب میں اُس دَور کا آغاز ہوا جب نئے دانشوروں نے مغربی فکر کو سجدہ کر کے میتھو آرنلڈ کے گمراہ کرنے والے نظریات اپنائے۔ ان نظریات کے مطابق ادبِ عالیہ کا ایسا تصور رائج ہوا جس میں عوام کی دلچسپی اور فرحت و انبساط کی گنجایش ذرا مشکل ہی سے نکلتی ہے۔ نئے دانشوروں نے اقبال کو اِسی عینک سے دیکھا اور سمجھا کہ اقبال شاعری اور فن میں ہر قسم کی لطافت کے مخالف ہیں اس لیے حافظ پر تنقید بھی اسی لیے کی ہو گی۔ یہ گاڑی کو گھوڑے کے آگے باندھنے والی بات ہے۔ ہونا یہ چاہیے کہ غور کیا جائے، اگر اقبال نے جگہ جگہ حافظ کی تعریف کی تو پھر اقبال کے تصورِ فن کے بارے میں جو تصور قائم کیا جا رہا ہے وہ کس طرح دُرست ہو سکتا ہے؟ دوسری گمراہی جو مغرب سے ہمارے نئے دانشوروں میں آئی وہ یہ تھی کہ انہوں نے سمجھا کہ بڑا ادیب وہ ہوتا ہے جو عوام کے جذبات کی پروا نہیں کرتا۔ شیخ اعجاز احمد کے حوالے سے روزگارِ فقیر میں جو روایت بیان ہوئی وہ بھی اسی روشنی میں دیکھی گئی۔ اعجاز احمد کے مطابق ’اسرارِ خودی‘ کے پہلے اڈیشن پر ہنگامے کے دِنوں میں اقبال کے والد شیخ نور محمد نے مشورہ دیا کہ جو مقصد حافظ پر تنقید کر کے حاصل کرنا چاہتے ہیں وہ کسی اور طرح بھی حاصل ہو سکتا ہے۔ اقبال نے اگلے اڈیشن میں سے حافظ کے خلاف اشعار نکال ڈالے۔ اِس روایت کی صحت پر شبہ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں مگرشیخ اعجاز احمد نے صرف ایک نشست کا ذکر کیا ہے جس میں وہ اتفاق سے موجود تھے۔ ممکن ہے اِس موضوع پر شیخ نور محمد کی اقبال کے ساتھ مزید گفتگو بھی ہوئی ہو جس میں اس مسئلے پر شیخ نور محمد نے مزید نکات اقبال کے گوش گزار کیے ہوں (شیخ نور محمد کا طریقہ بھی یہی تھا کہ پہلے ایک بات اقبال کے ذہن میں ڈالتے تھے اور پھر کچھ دن بعد اس پر تفصیل سے گفتگو کرتے تھے)۔ چنانچہ یہ نتیجہ نہیں نکالا جا سکتا کہ ’اسرارِ خودی‘ سے حافظ کے خلاف محض والد صاحب کے احترام کی وجہ سے نکالے اور دل سے ہمیشہ حافظ کے خلاف ہی رہے۔ ایسا ہوتا تو صرف تنقیدی اشعار نکالنے پر اِکتفا کرتے، حافظ کو باقاعدہ خراجِ تحسین پیش کرنا شروع نہ کر دیتے۔ اقبال نے حافظ کے ساتھ ساتھ اجتہاد کی مخالفت بھی کی تھی مگر یہ کوئی نہیں کہتا کہ اجتہاد کی حمایت بھی کسی بزرگ کی مروّت میں شروع کی ہو گی ورنہ خود کبھی اجتہاد کے قائل نہ ہوئے تھے!بات یہی ہے کہ بعض مفروضے قائم کر لیے گئے ہیں۔ اجتہاد کی حمایت اُن مفروضوں سے میل کھاتی ہے چنانچہ اُسے اقبال سے منسوب کرتے ہوئے عار نہیں ہوتا مگر حافظ کی مدح اِس مفروضے کے خلاف جاتی ہے اس لیے کوئی خاطر ہی میں نہیں لاتا۔ اسی سلسلے میں ایک مشکل یہ بھی ہے کہ بہتوں نے اقبال کو نہیں سمجھا، صرف نیٹشے کو سمجھنا کافی جانا ہے۔ اقبال عمر بھر کہتے رہے کہ اُن کے خیالات کو نیٹشے سے کوئی تعلق نہیں مگر ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم جیسے عقیدتمند نے بھی یہی لکھا کہ اقبال نیٹشے سے متاثر تھے اور عبدالسلام ندوی نے بھی اقبال کی بجائے خلیفہ کی بات کا اعتبار کیا۔ گویا اِن بزرگوں کے نزدیک اقبال غلط بیانی کر رہے تھے اورسرقہ پر پردہ ڈالنے کی کوشش کر رہے تھے! شمل اِس غلط فہمی کو ایک قدم آگے بڑھاتی ہیں یعنی پورے وثوق کے ساتھ کہہ دیتی ہیں کہ اقبال ایک دفعہ حافظ کے خلاف ہوئے تو پھر عمربھر اُسی روش پر قائم رہے۔ وہ اِس معاملے میں یہاں تک بڑھتی ہیں کہ ضربِ کلیم کا حوالہ دے کر ایک ایسی بات بھی لکھ دیتی ہیں جو ضربِ کلیم میں ہے ہی نہیں! He wanted literature to be optimistic (M II 56, 1918). This is also the reason for his criticism of Hafiz whose poetical art - if taken only as art - he highly admired but who did not sharpen the sword of the Self (ZK 127). The same struggle which he launched against the favorite poet of Persian-speaking peoples in the first period of his work, he continued later on against what he ragarded as denervating power of European lifeless civilization and education (ZK 155 and others). یہ اقتباس شمل کی کتاب کے صفحہ ۴-۶۳سے لیا گیا ہے۔ اِن چند سطور میں تین بنیادی مغالطے موجود ہیں۔ چھوٹی سی فروگذاشت تو یہ ہے کہ شمل نے مصرع کا ترجمہ غلط کیا ہے۔ ’’اِس شعر سے ہوتی نہیں شمشیرِ خودی تیز‘‘ صیغۂ حال ہے جسے شمل نے صیغۂ ماضی بنا دیا یعنی "did not sharpen" مگریہ اپنی جگہ کوئی بڑی غلطی نہیں۔ اصل غلطی یہ کہ جس نظم کا یہ مصرع ہے اُس میں کہیں حافظ کا ذکر ہی نہیں ہے۔ ملاحظہ کیجیے: شعر عجَم ہے شعر عجَم گرچہ طرب ناک و دل آویز اِس شعر سے ہوتی نہیں شمشیرِ خودی تیز افسُردہ اگر اُس کی نَوا سے ہو گُلستاں بہتر ہے کہ خاموش رہے مُرغِ سَحر خیز وہ ضرب اگر کوہ شکن بھی ہو تو کیا ہے جس سے مُتزلزل نہ ہُوئی دولتِ پرویز اقبالؔ یہ ہے خارہ تراشی کا زمانہ ’از ہر چہ بآئینہ نمایند بہ پرہیز‘ بہتر ہوتا کہ شمل حاشیے میں واضح کر دیتیں کہ اقبال نے حافظ کا نام نہیں لیا مگر وہ فرض کر رہی ہیں کہ اقبال نے شعر عجم پر جو تنقید کی ہے وہ حافظ پر بھی لاگو ہوتی ہے۔تب بھی مشکل یہ تھی کہ ایسا فرض کرنے کا جواز نہیں بنتا کیونکہ اِسی سلسلۂ نظم میں صرف دو صفحہ آگے نظم ’ایجادِ معانی‘ موجود ہے جس میں حافظ کی مدح کی گئی ہے: ایجادِ معانی ہرچند کہ ایجادِ معانی ہے خداداد کوشش سے کہاں مردِ ہُنَرمند ہے آزاد! خُونِ رگِ معمار کی گرمی سے ہے تعمیر میخانۂ حافظؔ ہو کہ بُتخانۂ بہزادؔ بے محنتِ پیہم کوئی جوہر نہیں کُھلتا روشن شرَرِ تیشہ سے ہے خانۂ فرہاد! غور کیجیے کہ تخلیقی قوت کے وہ تمام لوازمات جن کی اقبال اپنے قارئین کو تلقین کرتے ہیں، یہاں حافظ میں دکھا رہے ہیں کہ دیکھو، اِس طرح سے کہتے ہیں سخنور سہرا۔۔۔ (’’خونِ رگِ معمار‘‘ بھی خاص تعریفی کلمہ ورنہ جس شاعری کی مذمت کرتے ہیں اُس کے لیے اگلی ہی نظم میں کہا ہے کہ وہ’’ سردیٔ خونِ غزل سرا کی دلیل‘‘ ہے)۔شمل اِس نظم کی بجائے تین نظمیں پہلے کا ایک مصرع لیتی ہیں جس میں حافظ کا ذکر بھی نہیںاور اُسے کتاب کے حوالے کے ساتھ اِس طرح پیش کر دیتی ہیں گویا اقبال نے حافظ کا نام لے کر تنقید کی ہو۔ یہ بنیادی غلطی ہے۔ شمل کے پیراگراف کا پہلا جملہ بھی قابلِ تبصرہ ہے۔ انہوں نے ۱۹۱۸ء کے زمانے کے ایک نجی خط کا حوالہ دے کر لکھ دیا ہے کہ اقبال کہتے تھے ادب کو رجائیت پرست (optimistic) ہونا چاہیے۔ حقیقت یہ ہے کہ اقبال نے اپنی نثری تحریروں میں جن میں تشکیلِ جدید کے خطبات بھی شامل ہیں، تواتر کے ساتھ کہا ہے کہ اسلامی نقطہ نظر نہ قنوطیت پسند (pessimistic) ہے نہ رجائیت پسندبلکہ میلیورسٹک (melioristic) ہے۔ میلیورزم اِس نقطہ نظر کا نام ہے کہ دُنیا پوری طرح اچھی ہے نہ بری مگر خیر کی مقدار ہر دَور میں پہلے سے زیادہ ہو گی۔ یہ ایک خالص امریکی اصطلاح ہے اگرچہ اِس کا اولین استعمال انگریز ناول نگار جارج ایلیٹ سے منسوب ہے۔ یہ عام طور پر رجائیت اور قنوطیت (یعنی optimism اور pessimism )دونوں کی نفی کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔ چنانچہ اقبال کی شاعری میں اُس قسم کی رجائیت پرستی نہیں ہے جو زندگی کے تلخ پہلوؤں سے گریز کرتی ہے۔ اُن کے یہاں میلیورزم ہے جس میں حقیقت کی کئی تہیں موجود ہیں، تلخ بھی اور شیریں بھی۔ شمل تشکیلِ جدید کی اتنی اہم اصطلاح یکسر نظرانداز کر کے اقبال کے ایک پرانے خط کے حوالے سے کہہ دیتی ہیں کہ اقبال ادب میں رجائیت پرستی کے قائل تھے۔اگر ہم اِسے شمل کی بے خبری نہ سمجھتے تو یہ جانتے کہ وہ اقبال پر الزام لگارہی ہیں کہ خطبات میں میلیورزم کا درس دیتے تھے مگر درپردہ کچھ اور کہتے تھے۔مگر معلوم یوں ہوتا ہے کہ شمل میلیورزم کے مفہوم سے پوری طرح واقف نہ تھیں۔ اِسے بیخبری سمجھیں تب بھی اِس بات کا کیا جواز ہے کہ اقبال کی باقاعدہ تصانیف میں سے اُن کے نظریات اخذ کیے بغیر مکتوبات کے جملوں پر مفروضوں کی عمارت تعمیر کی جائے اور پھراُس کی روشنی میں اقبال کی باقاعدہ تصانیف کو سمجھا جائے (یا نہ سمجھا جائے)۔ یہ بات سنجیدہ تحقیق میں جائز نہیں مگر اقبال فہمی کے میدان میں اِس کا مظاہرہ جتنا زیادہ آسمانِ مغرب سے اُترے ہوئے دیوی دیوتاؤں نے کیا ہے اُس کی مثال مشکل ہی سے ملے گی۔ شمل کی تیسری غلطی اقتباس کے دوسرے پیراگراف میں ہے اور سنگین ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ اقبال نے جس طرح شروع کے دَور میں حافظ کی مخالفت کی اُسی طرح آگے چل کر مغربی تہذیب کی مخالفت کرنے لگے۔ ہم دیکھ چکے ہیں کہ شمل نے اقبال سے جو حافظ کی مخالفت منسوب کی ہے اُس میں یہ تاثر جھلکتا ہے کہ اقبال جذباتی ردِ عمل کے تحت نظریات قائم کرتے تھے اور زندگی کی ہمہ جہتی پر غور کرنے کی بجائے ایک نام نہاد رِجائیت کی تلوار اُٹھائے اَندھادُھند لڑتے رہتے تھے۔ اگر اُنہوں نے مغربی تہذیب کی مخالفت بھی اِنہی بنیادوں پر کی تو اُس تنقید کی حیثیت ہی صفر ہو جاتی ہے۔ یہ تاثر مزید گہرا ہو جاتا ہے جب شمل کی کتاب میں اِس کے فوراً بعد وہ جملہ آتا ہے جسے میں پہلے نقل کر چکا ہوں یعنی اقبال نے اِسلامی معاشرے میں تفریحات کی عدم موجودگی کی تعریف اِس وجہ سے کی کیونکہ خود اُنہیں کھیلنے کودنے سے دلچسپی نہ تھی۔ گویا مغرب پر تنقید بھی کسی ذاتی رجحان کی وجہ سے کی اور اسلام کی تعریف بھی انفرادی افتادِ طبع اور تساہل پسندی کے زیرِاثر کی۔ پھر باقی کیا رہ جاتا ہے جس کی بنا پر اُنہیں عظیم مفکر سمجھا جائے؟ غور کیجیے تو شمل کے ذہن میں اُن کی وہی تصویر ہے جو قرآن شریف نے اُن شعرأ کی پیش کی ہے جو قرآن کی نظر میں بُرے ہیں: کیا تم نے نہیں دیکھا کہ وہ ہر وادی میں سر مارتے پھرتے ہیں؟ اور کہتے وہ ہیں جو کرتے نہیں! مگر جو لوگ ایمان لائے اور نیک کام کیے اور خدا کو بہت یاد کرتے رہے اور اپنے اوپر ظلم ہونے کے بعد ہی انتقام لیا۔ اور ظالم عنقریب جان لیں گے کہ کون سی جگہ لوٹ کر جاتے ہیں۔ (سورۂ شعرأ، آیات ۲۲۵ تا ۲۲۷) اِسلام کے بارے میں شمل کی معلومات میں کلام نہیں مگر اقبال کے بارے میں اپنی رائے قائم کرتے ہوئے انہوں نے قرآن کے تصورِ شاعر کوسامنے نہیں رکھا جس کی وجہ سے اِس میدان میں بے انتہا قابلیت کے باوجود اُن سے علمی، تحقیقی، فکری، عقلی اور نقلی ہر طرح کی غلطیاں سرزد ہوئی ہیں۔ قرآن ہمیں جو تصور دیتا ہے اُسے صرف ایک استثنائی ٹکڑے سے یوں نہیں سمجھنا چاہیے کہ اچھا شاعر وہ ہوتا ہے جو نیک کام کرتا ہے، اور بس! یہ بھی ذہن میں رکھنا چاہیے کہ پوری سورہ کا نام ’’شعرأ‘‘ ہے، یہ طوالت میں دُوسرے نمبر پر ہے اور شاعروں والی آیت صرف اِس کا اختتامی حصہ ہے۔ چنانچہ یہ آیت پوری سورہ کا نقطہ انتہا اور انجام بھی ہے۔ اِس سورہ کے معانی کو اقبال کی نظر سے دیکھنا ہو تو جاویدنامہ کے شروع کی مناجات پوری پڑھنی چاہیے جو اُن کے سب سے بڑے شعری کارنامے کی تمہید بھی ہے اور قرآن کے عظیم الشان تصورِ شاعر پر ایک مسلمان شاعر کا خدا کے حضور نذرانۂ تشکر بھی ہے۔ اِختتامی سطور[ترجمہ از احمد جاوید]: ’’میں آنی ہوں، جاودانی کر دے۔ مجھے زمینی سے آسمانی کر دے۔ گفتار و کردار میں ضبط عطا فرما۔ راستے تو سامنے ہیں، چلنے کی توفیق عنایت کر۔ میرا کہا ہوا کسی دوسرے جہان سے ہے، یہ کتاب ایک اور ہی آسمان سے ہے۔ میں تو سمندر ہوں ، میرا تلاطم نہ کرنا غلط ہے۔ کہاں ہے وہ جو میری گہرائی میں اُترے؟ ایک دنیا میرے ساحل پر اینڈتی رہی، اُس نے کنارے سے بس موجوں کا بھاگنا ہی دیکھا! میں کہ اگلے وقتوں کے بوڑھوں سے نا اُمید ہوں اُس دن کے بارے میں گفتگو رکھتا ہوں جو آ رہا ہے۔جوانوں پر میری گفتگو سہل کر دے۔ اُن کے لیے میرے گہراؤ کو اَتھلا کر دے!‘‘ آنیم من جاودانی کن مرا از زمینی آسمانی کن مرا ضبط در گفتار و کردارے بدہ جادہ ہا پیداست رفتارے بدہ آنچہ گفتم از جہانے دیگراست ایں کتاب از آسمانے دیگراست بحرم و از من کم آشوبی خطاست آں کہ در قعرم فرو آید، کجاست؟ یک جہاں بر ساحلِ من آرمید از کراں غیر از رمِ موجے ندید من کہ نومیدم زپیرانِ کہن دارم از روزے کہ می آید، سخن! بر جواناں سہل کن حرفِ مرا بہرِ شاں پایاب کن ژرفِ مرا ۳ ایک ادبی تصنیف بذاتِ خود ایک شخصیت کی طرح ہوتی ہے۔ اقبال کے کلام کے بارے میں اصل سوال یہ ہے کہ یہ خود اپنے بارے میں کس قسم کے دعوے کرتا ہے اور قاری سے کیا مطالبات کرتا ہے۔ ایک بات کلامِ اقبال میں شروع سے آخر تک زورو شور سے کہی گئی ہے اور وہ یہ کہ یہ ایک ایسے شاعر کا کلام ہے جو مستقبل سے واقف ہے اور بہت سی ایسی چیزیں دیکھ رہا ہے جو دُوسرے نہیں دیکھ سکتے۔ چنانچہ پہلی شعری تصنیف اسرار ورموز کی تمہیدمیں وہ لکھتے ہیں، ’’میری خاک جامِ جمشید سے زیادہ روشن ہے کیونکہ جو ابھی دنیا میں نہیںاُن سے بھی واقف ہے،وہ ہرن جو ابھی عدم سے باہر نہیں آیا، میری فکر نے شکار کر کے اپنے تھیلے میں ڈال رکھا ہے، جو سبزہ ابھی اُگا نہیں وہ میرے گلشن کی زینت ہے اور شاخ میں چھپا پھول میرے دامن میں ہے۔۔۔‘‘ یہ بات اُنہوں نے بالترتیب اپنی ہر تصنیف میں دہرائی ہے۔ مثلاً بالِ جبریل کا مشہور شعر ہے: حادثہ وہ جو ابھی پردۂ افلاک میں ہے عکس اُس کا مرے آئینۂ ادراک میں ہے مستقبل بینی کا دعویٰ صرف اُن کی شاعری کی کتابوں تک محدود نہیں ہے بلکہ تشکیلِ جدید جیسی عالمانہ کتاب میں بھی جگہ جگہ بین السطور میں جھلکتا دکھائی دیتا ہے۔ دیباچے ہی کی یہ سطور ملاحظہ کیجیے: ...and the day is not far off when Religion and Science may discover hitherto unsuspected mutual harmonies. یعنی وہ دن دُور نہیں ہے جب مذہب اور سائنس کے درمیان ایسی ہم آہنگی دریافت ہو جائے جس کا اب تک شبہ بھی نہیں کیا گیا۔ خطبۂ الٰہ آباد خالص سیاسی تحریر ہے مگر اِس کے وہ مشہور جملے ملاحظہ کیجیے جنہیں بجا طور پر پاکستان کی بنیاد قرار دیا جاتا ہے: I would like to see the Punjab, North-West Frontier Province, Sind and Baluchistan amalgamated into a single state. Self-Government within the British Empire, or without the British Empire, the formation of a consolidated North-West Indian Muslim state appears to me to be the final destiny of the Muslims at least of the North-West India. ان دو جملوں میں سے پہلے میں وہ کہہ رہے ہیں کہ وہ پنجاب، سرحد، سندھ اور بلوچستان کو ایک ریاست کی صورت میں یکجا دیکھنا پسند کریں گے۔ یہ گویا اُن کی تجویز ہے مگر دوسرے جملے کی حیثیت مختلف ہے۔ اس میں وہ اٹل تقدیر کا لفظ استعمال کرتے ہیں گویا مستقبل کی خبر دے رہے ہیں۔ عجیب بات ہے کہ تقسیمِ ہند کے معاملے میں جتنے امکانات بعد میں سامنے آئے اُن کی گنجائش اِس جملے کے الفاظ میں پہلے سے موجود دکھائی دیتی ہے یعنی : ۱۔ ممکن ہے یہ ریاست برطانوی ہندوستان کے اندر واقع ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ علٰیحدہ ہو۔ ۲۔ممکن ہے کہ اِس ریاست میں مجوزہ چار صوبوں کے سوا اور علاقے بھی شامل ہوں مگر اِن چار صوبوں سے کم نہیں ہو سکتے۔ ہم جانتے ہیں کہ ۱۹۴۶ء تک اِس بات کا امکان موجود تھا کہ پاکستان ہندوستان سے الگ بننے کی بجائے کیبنٹ مشن پلان کے مطابق ہندوستانی وحدت کے ساتھ رہتے ہوئے آئینی حقوق حاصل کرے (مؤرخ عائشہ جلال نے یہ بات قائداعظم کے بارے میں اپنی کتاب The Sole Spokesman میں دلائل کے ساتھ ثابت کی ہے)۔ چنانچہ دونوں امکانات میں سے جو بھی صورت پیش آتی وہ اُس دائرے ہی میں رہتی جسے اقبال نے خطبۂ الٰہ آباد میں ’’اٹل تقدیر‘‘ قرار دے کر مسلمانوں کو اطلا ع دی تھی۔ اِسی طرح مشرقی بنگال شروع میں پاکستان کا حصہ بنا اور بعد میں الگ ہو گیا جبکہ کشمیر کا حتمی فیصلہ بھی ابھی باقی ہے چنانچہ اِن علاقوں کے پاکستان کے ساتھ رہنے یا الگ ہونے کی گنجائش بھی اقبال کے الفاظ میں موجود ہے۔ غرض اقبال کی اپنی تجویز جو پہلے جملے میں ہے وہ تو صرف ان چار صوبوں کے یکجا ہو کر ایک ریاست بننے کی خواہش تک محدود ہے مگر اِس کے علاوہ جتنی ممکنہ صورتیں کبھی بھی سامنے آئی ہیں اُن کی گنجائش اُس دوسرے جملے میں پہلے سے موجود رہی ہے جس میں اقبال ’’اٹل تقدیر‘‘ کی خبر دینے کا دعویٰ کر رہے ہیں۔ اِس روشنی میں ’مسجد ِ قرطبہ‘ کے اِن اشعار پر نظر ڈالیے: عالمِ نو ہے ابھی پردۂ تقدیر میں میری نگاہوں میں ہے اُس کی سحر بے حجاب پردہ اُٹھا دوں اگر چہرۂ افکار سے لا نہ سکے گا فرنگ میری نواؤں کی تاب یہ اُن کی تصانیف کا ایک ایسا پہلو ہے جس کی تائید اُن کی سوانح سے بھی ہوتی ہے۔ مثلاً ۱۹۱۷ء میں جب پہلی تصنیف کا دوسرا حصہ ’رموزِ بیخودی‘ مکمل ہو رہا تھا اُنہوں نے یکم جولائی کو غلام قادر گرامی کے نام خط میں لکھا کہ اب وہ مثنوی کا تیسرا حصہ لکھنا چاہتے ہیں: ۔۔۔مضامین دریا کی طرح اُمڈے آ رہے ہیں اور حیران ہوں کہ کس کس کو نوٹ کروں۔ اِس حصے کا عنوان ہو گا ’’حیات مستقبلۂ اسلامیہ‘‘ یعنی قرآن شریف سے مسلمانوں کی آئندہ تاریخ پر کیا روشنی پڑتی ہے اور جماعتِ اسلامیہ جس کی تاسیس دعوتِ ابراہیمی سے شروع ہوئی، کیا کیا واقعات و حوادث آیندہ صدیوں میں دیکھنے والی ہے اور بالآخر اِن سب واقعات کا مقصود و غایت کیا ہے۔ میری سمجھ اور علم میں یہ تمام باتیں قرآن شریف میں موجود ہیں اور استدلال ایسا صاف و واضح ہے کہ کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ تاویل سے کام لیا گیا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا خاص فضل و کرم ہے کہ اُس نے قرآن شریف کا یہ مخفی علم مجھ کو عطا کیا ہے۔ میں نے پندرہ سال تک قرآن پڑھا ہے اور بعض آیات و سورتوں پر مدتوں بلکہ برسوں غور کیا ہے اور اِتنے طویل عرصہ کے بعد مندرجہ بالا نتیجہ پر پہنچا ہوں۔ مگر مضمون بڑا نازک ہے اور اس کا لکھنا آسان نہیں۔ بہرحال میں نے یہ قصد کر لیا ہے کہ اس کو ایک دفعہ لکھ ڈالوں گا اور اس کی اشاعت میری زندگی کے بعد ہو جائے گی یا جب اس کا وقت آئے گا اشاعت ہو جائے گی۔ اِس خط میںاقبال نے مستقبل کی جو تاریخ مرتب کرنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے اُس کے بارے میں عام طور یہی سمجھا جاتا ہے کہ وہ اُسے مرتب نہیں کر سکے تھے اور یہ محض عزائم کی فہرست ہی میں رہ گئی۔ ایسا سمجھنے میںایک اہم بات نظرانداز کر دی جاتی ہے۔ اقبال نے اپنے خط میںیہ نہیں لکھا کہ اُن کا ارادہ مستقبل کی یہ تاریخ لکھ کر اِسے فوراً مشتہر کر دینے کا ہے بلکہ یہ لکھا ہے کہ وہ اِسے لکھ ڈالیں گے اور اِس کی اشاعت اُن کی زندگی کے بعد ’’یا جب اس کا وقت آئے گا‘‘ تب ہو جائے گی۔ چنانچہ یہ دلچسپ شبہ پیدا ہوتا ہے کہ ممکن ہے انہوں نے یہ تاریخ لکھی ہو مگر ہمیں اِس لیے خبر نہ ہو کہ ابھی اِس کا وقت نہیں آیا! ہم اقبال کا دعویٰ تسلیم کریں یا نہ کریں مگر یہ بات کس طرح نظرانداز کر سکتے ہیں کہ عمر بھر اُن پر یہی احساس غالب رہا کہ وہ مستقبل میں جھانک کر دیکھ سکتے ہیں۔ ایسا شاعر جب اپنے تخیل کے سمندر میں اُترتا ہو گا تو کن جذبات اور محسوسات کے طوفان اُٹھتے ہوں گے؟ کیا وہ اپنے تصوّر میں ہمارے عہد یا اِس سے آگے نہ پہنچ جاتا ہو گا؟ مستقبل کے بارے میں حساب لگانے کے لیے اُس نے جو بھی پیمانے مقرر کیے ہوں گے وہ بہرحال اِتنے سادہ نہ رہے ہوں گے کہ بس ایک دفعہ مسلمان صحتمند ادب پڑھنا شروع کر دیں تو پھر انہیں کبھی کوئی تکلیف نہیں اٹھانی پڑے گی یا اُن کی تجویز کی ہوئی ریاست بناتے ہی مسلمانوں کے سارے دلدّر دُور ہو جائیں گے! تاریخ کی چال کبھی سیدھی نہیں ہوتی۔ اِس میں کسی دلچسپ کہانی سے زیادہ پیچ ہوتے ہیں۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ کے بعد تینوں خلفائے راشدین دشمنوں کے ہاتھوں شہید ہوئے بلکہ آخری دو خلفا ٔ کے زمانے میں اندرونی انتشار بھی سامنے آیا۔ اِس کا یہ مطلب تو کبھی نہیں لیا گیا کہ خلافتِ راشدہ ناکام تجربہ تھی۔ اقبال مستقبل کی تاریخ جاننے کے دعوے دار تھے تو اُن نزاکتوں سے بھی واقف رہے ہوں گے کہ مسلمانوں کے ماضی کی طرح اُن کے مستقبل میں بھی اُتار چڑھاؤ آئیں گے۔ اُن کی شاعری کے باہمی ربط کے بارے میں جو چند مثالیں اِس مقالے میں پیش کی گئی ہیں اُنہی سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اُن کی شاعری میں معانی کی ایک بالکل نئی جہت موجود ہے جو آج تک ہمارے سامنے نہیں آئی ہے۔ اب یہ سمجھنا مشکل نہ ہونا چاہیے کہ نجانے کتنی باتیں ہوں گی جو اقبال کے الفاظ کے پردے میں ابھی تک چھپی ہوئی ہیں! کیا اُن میں سے کچھ باتیں ایسی نہ ہوں گی جو اُنہوں نے اپنے خیال میں ہمارے دَور کو ذہن میں رکھتے ہوئے لکھی ہوں گی؟ ممکن ہے کہ اُن کی پیش بینی غلط ہو مگر کیا ہم نے کبھی یہ جاننے کی کوشش ہی کی ہے کہ اپنی شاعری کے کون سے حصے میں وہ اپنے خیال میں کسی آئندہ صدی کی فضا میں سانس لے رہے تھے؟ مستقبل کے بارے میں اُن کے اندازے صحیح تھے یا غلط یہ ادبی تنقید کا مسئلہ نہیں ہے مگر ادبی تنقید ہی کی رُو سے یہ بات کس قدر غلط ہے کہ کسی شاعر کے کلام کا سب سے واضح عنصر نظرانداز کر دیا جائے۔ اقبال کے یہاں یہ عنصر مستقبل بینی ہے جسے اُن کی شاعری میں کبھی ڈھنگ سے تلاش ہی نہیں کیا گیا، شاعرانہ فینٹسی سمجھ کر بھی نہیں! آج پاکستان اپنی تاریخ کے نازک ترین دَور سے گزر رہا ہے۔ عین اِس موقع پر اقبال کے کلام کی یہ ایسی جہتیں ہمارے سامنے آئی ہیں جن کی طرف پہلے کبھی توجہ مبذول نہ ہوئی تھی۔ ضروری ہے کہ اب ہم اقبال کو دوبارہ پڑھیں مگر اِس دفعہ اُنہیں اُن کی اپنی شرائط پر پڑھنا ضروری ہے: میں نے تو کیا پردۂ اسرار کو بھی چاک دیرینہ ہے تیرا مرضِ کورنگاہی! باب ۱ اسرار و رموز ۱ اسرار و رموز فارسی مثنوی ہے جس کے دو حصے ہیں۔ پہلا حصہ ’اسرارِ خودی‘ کے عنوان سے ۱۹۱۵ء میں شائع ہوا۔ دوسرا حصہ ’رموزِ بیخودی‘ کے عنوان سے ۱۹۱۷ء میں سامنے آیا۔ بعد میں اقبال نے اِن دونوں کو اسرار و رموز کے عنوان سے یکجا کر کے شائع کیا اور خیال ہے کہ اِس مکمل اڈیشن کی پہلی اشاعت ۱۹۲۳ء کے قریب ہوئی۔ اقبال کی جو تصانیف خود اُن کی نظر میں ان کا ہمیشہ رہنے والا پیغام تھیں ان میں سے اسرار و رموز پہلی تصنیف ہے کیونکہ اس سے پہلے شائع ہونے والی تصانیف مثلاً علم الاقتصاد اور فلسفۂ عجم وغیرہ کو اقبال نے دوبارہ اشاعت کے قابل نہ سمجھا بلکہ انہیں کاپی رائٹ سے محفوظ بھی نہ کروایا۔ ۱۹۱۵ء سے پہلے انہوں نے اردو میں بہت سی نظمیں لھی تھیں جن کی وجہ سے گزشتہ پندرہ سولہ برسوں میں ان کی حیثیت اُس زمانے کے سب سے بڑے اردو شاعر کے طور پر مسلم ہو چکی تھی مگر وہ نظمیں بھی اُس وقت تک مجموعے کی صورت میں شائع نہیں ہوئی تھیں اور نو برس بعد اُنہیں بانگِ درا میں شامل کیا گیا۔ اس طرح اسرار و رموز ہی اقبال کی الہامی تصانیف کے سلسلے کی پہلی کتاب بنتی ہے۔ ’اسرارِ خودی‘ کے آغاز میں مولانا روم کے دیوان شمس تبریز سے تین اشعار ہیں جن کا مفہوم یہ ہے کہ کل رات ایک بزرگ چراغ لے کر شہر کا گشت کر رہے تھے اور انہیں انسان کی تلاش تھی۔ وہ انسان نما حیوانوں سے بیزار تھے اور اُنہیں رستم اور شیرِ خدا جیسے لوگوں کی تلاش تھی۔ اُن سے کہا گیا کہ گزرے ہوئے مل نہیں سکتے تو اُنہوں نے کہا کہ جو نہیں مل سکتے اُنہی کی تلاش ہے: دی شیخ با چراغ ہمی گشت گردِ شہر کز دام و دد ملولم و انسانم آرزوست از ہمرہانِ سست عناصر دلم گرفت شیرِ خدا و رستمِ دستانم آرزوست گفتم کہ یافت می نشود جستہ ایم ما گفتا کہ یافت می نشود آنم آرزوست اِس کے بعد نظیری نیشاپوری کا ایک شعر ہے جس کا مطلب ہے کہ میرے جنگل میں کوئی بھی چیز بیکار نہیں ہے کیونکہ جس لکڑی سے منبر نہ بن سکے میں اُس سے سولی بنا لیتا ہوں: نیست در خشک و ترِ بیشۂ من کوتاہی چوبِ ہر نخل کہ منبر نشود دار کنم دلچسپ بات یہ ہے کہ تمہید سے پہلے والے مولانا روم کے اشعار میں ایک رات کا ذکر ہے اور اس کے بعد تمہید کا آغاز ہی رات کے گزرنے اور صبح کے نمودار ہونے سے ہوتا ہے یعنی ’’دُنیا کو روشن کرنے والے سورج نے رات کو ختم کیا تو میرے آنسوؤں نے پھولوں کے چہرے پر چھینٹے دیے، میرے آنسو نے نرگس کی آنکھ سے نیند اُڑائی اور میرے ہنگامے سے سبزہ بیدار ہو گیا۔ باغباں نے میرا زورِ کلام آزمایا، ایک مصرع کاشت کر کے تلوار اُگا ئی۔۔۔‘‘: راہِ شب چوں مہرِ عالمتاب زد گریۂ من بر رُخِ گل آب زد اشکِ من از چشمِ نرگس خواب شُست سبزہ از ہنگامہ ام بیدار رُست باغباں زورِ کلامم آزمود مصرعے تارید و شمشیرے درود مولانا روم کے اشعار اور تمہید کے اِس منظرنامے کو اکٹھا پڑھنے سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ وہ رات ختم ہو گئی جس میں شیخ چراغ لیے انسان کو تلاش کرتا تھا اور انسان مل کر نہ دیتا تھا۔ یہ بات اپنی جگہ اتنی عجیب و غریب ہے کہ قاری کے ذہن میں بہت سے سوالات پیدا ہو سکتے ہیں۔ کیا اقبال یہ کہنا چاہتے ہیں کہ دنیا میں کسی نئے اور مبارک دَور کا آغاز ہوا ہے؟ جس زمانے میں یہ کتاب شائع ہوئی وہ تو پہلی جنگِ عظیم کا زمانہ تھا جب ہر طرف تباہی اور بربادی کا راج تھا بلکہ آگے چل کر اسی جنگ میں مسلمانوں نے بھی بہت نقصان اٹھایا۔ اس کے علاوہ یہ بھی سمجھا جاتا ہے کہ دنیادن بدن روحانیت سے دُور ہوتی جا رہی ہے تو پھر کیسے سمجھا جائے کہ اقبال کے خیال میں وہ رات بیت گئی ہے اور اب ایک نیا دن شروع ہوا ہے؟ ان سوالوں کے جواب کے لیے ہمیں تمہید کو غور سے پڑھنے کی ضرورت ہے۔ اس میں پانچ بند ہیں جن کے موضوعات کا خلاصہ مندرجہ ذیل ہے: ۱ رات بیت گئی ہے۔ نئی سحر کی تعمیر اقبال کے آنسوؤں سے اور ان کے پیغام سے ہو رہی ہے۔ اقبال کے کلام کے معانی ان کے اپنے دَور میں نہیں سمجھے جائیں گے کیونکہ اُن کا یوسف اس بازار کے لیے نہیں ہے مگر بہت سے شاعر مر کر دوبارہ پیدا ہوئے ہیں اور اقبال اپنا شمار بھی اُنہی میں کرتے ہیں۔ وہ ایسی بات کہنے والے ہیں جو اُن سے پہلے کسی نے بھی نہیں کہی ہے کیونکہ زندگی کا راز اُن کے ہاتھ آ گیا ہے اور اُن کے پاس صرف ماضی اور حال نہیں بلکہ مستقبل کی خبر بھی موجود ہے۔ ۲ مولانا روم کے فیض سے وہ اسرارِ علوم کی بند کتاب دوبارہ کھولنے جا رہے ہیں۔ مولانا روم نے اُن کی خاک کو اِکسیر بنا دیا ہے۔ وہ سمندر ہیں اور اقبال اُس کی ایک موج لیکن وہ موج اُس سمندر میں موتی بن جائے گی۔ ۳ اقبال انسانیت پر آنسو بہاتے بہاتے سو گئے تھے جب مولانا روم اُن کے خواب میں آئے اور ہدایت کی کہ پیغام کو عام کر کے خودی کے راز کھول دیے جائیں۔ ۴ اقبال جو اپنے زمانے کی رات میں چاند کی طرح ہیں وہ مسلمان قوم کی گردِ پا ہیں۔ یہ قوم وہ ہے جس کے چمن میں مولانا روم اور شیخ عطار جیسے بیشمار پھول کھلے۔ ۵ اگرچہ ان کا پیغام مثنوی کی صورت میں ہے مگر اِسے شاعری نہ سمجھا جائے۔ وہ اُردو سے ہندی کی طرف متوجہ ہو رہے ہیں مگر ان کے کلام کے نقائص و محاسن پر غور کرنے کی بجائے ان کے پیغام پر غور کیا جائے۔ اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اقبال نے مولانا روم کے ساتھ اپنا جو تعلق جوڑا ہے اور جس خواب کا ذکر کیا ہے وہ محض شاعرانہ طرزِ بیان کے تقاضے کے تحت کیا ہے یا واقعی وہ ایک تاریخی حقیقت ہے؟ پہلی بات یہ ہے کہ اسی تمہید میں اقبال نے کہا ہے کہ اس مثنوی کا مقصد شاعری نہیں ہے۔ اسی بات کی روشنی میں ہم اِس خواب کو کسی گہری حقیقت کا اشارہ سمجھنے پر مجبور ہو جاتے ہیں لیکن سوانحی معلومات کی روشنی میںیہ بات سامنے آتی ہے کہ ’اسرارِ خودی‘ کے بعض اشعار پہلی بار اگست ۱۹۱۳ء میں خواجہ حسن نظامی کے رسالے توحید میں شائع ہوئے تو ان کے ساتھ حسن نظامی کا نوٹ بھی شامل تھا جس کے مطابق اقبال نے خواب میں دیکھا کہ مولانا روم انہیں مثنوی لکھنے کی ہدایت دے رہے ہیں اور خواب کے بعد اقبال جاگے تو فارسی کے یہ اشعار اُن کی زبان پر رواں تھے۔ اِس بات کا خاصا امکان ہے کہ یہ وہی واقعہ ہو جو شیخ اعجاز احمد کے حوالے سے ذرا مختلف انداز میں روزگارِ فقیر میں روایت ہوا ہے اور شیخ اعجاز احمد کی کتاب مظلوم اقبال (۱۹۸۵) میں بھی شامل ہے۔اُس روایت میں مولانا روم کا نام نہیں لیا گیا بلکہ یہ کہا گیا ہے کہ اقبال نے دیکھا کہ ایک بزرگ اُن کے پاس آئے ہیں اور سیڑھیاں اُتر کر بند گلی میں غائب ہو گئے ہیں۔ اقبال نے اسے خواب سمجھا مگر صبح اُٹھ کر دیکھا تو میز پر عین اُس جگہ تیل کا نشان موجود تھا جہاں رات کو بزرگ نے لالٹین رکھی تھی۔ شیخ اعجاز احمد کا خیال ہے کہ یہ واقعہ ۱۹۱۰ء کا ہے مگر ان کے بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ تاریخ انہوں نے یادداشت کی بجائے قیاس سے متعین کی ہے۔ اگر یہ واقعہ پیش آیا تھا تو خواہ یہ وہی خواب ہو جس کا حسن نظامی نے ذکر کیا ہے خواہ اُس سے علیحدہ کوئی روحانی تجربہ ہو بہرحال اس کا ۱۹۱۳ء کے موسمِ سرما میں پیش آنا زیادہ قرینِ قیاس ہے کیونکہ اس کے بعد ہی اقبال نے ’اسرارِ خودی‘ آخر تک لکھی تھی (۱۹۱۰ء میں تو وہ اُردو میں چند اشعار اور ۱۹۱۱ء میں فارسی میں چند اشعار لکھ کر رُک گئے تھے)۔ چنانچہ مہاراجہ کشن پرشاد کے نام ایک خط میں بھی اقبال نے خدا کی قسم کھا کر کہا کہ یہ مثنوی اُنہوں نے اپنی خواہش پر نہیں لکھی بلکہ اُنہیں اِس کے لکھنے کی ہدایت ہوئی ہے۔ اِس سلسلے میں مزید دو باتیں پیشِ نظر رکھنی چاہئیں۔ پہلی یہ کہ اقبال کے یہاں شروع ہی سے فارسی میں شعر کہنے کا رجحان موجود تھا مثلاً بعض ابتدائی اُردو نظموں میں وہ اچانک کوئی شعر یا بعض اوقات پورا بند فارسی میں لکھ جاتے تھے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اس رجحان کے باوجود یورپ جانے سے پہلے کے کلام میں فارسی کے نمونے صرف دو تین اُردو نظموں کے فارسی ٹکڑوں یا پھر ایک دو فارسی منظومات تک محدود ہیں جن میں سے صرف ایک کہیں شائع ہوئی یعنی ’سپاسِ جنابِ امیر‘ جو مخزن کے جنوری ۱۹۰۵ء کے شمارے میں سامنے آئی۔ انگلستان میں قیام کے دوران اپریل ۱۹۰۷ء میں عطیہ فیضی یا کسی اور دوست کی فرمائش پر اقبال نے فارسی میں شعر لکھنے کی تحریک محسوس کی تو ایک ہی رات میں فارسی کی تین غزلیں اور اُردو کی ایک غزل ہو گئی جو اُن کی اولین بیاض میں ایک ہی جگہ پر ایک ہی انداز میں درج شدہ ملتی ہیں (جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ایک ہی وقت میں لکھی گئی ہوں گی اور وہی غزلیں رہی ہوں گی جن کا تذکرہ شیخ عبدالقادر نے بانگِ درا کے دیباچے میں کیا ہے)۔ اس کے باوجود اگلے تین برس تک مزید کسی فارسی نظم یا غزل کا سراغ نہیں ملتا۔ اُس کے بعد ۱۹۱۱ء میں عطیہ فیضی کے نام ایک خط میں فارسی کے چند مصرعے ملتے ہیں جو بعد میں ’اسرارِ خودی‘ کے شروع میں استعمال ہوئے۔ یہ بھی اُسی اولین بیاض میں ایک اور جگہ درج ہیں لیکن چند مصرعوں سے زیادہ نہیں ہیں۔ چنانچہ یہ بات دلچسپ ہے کہ فارسی میں شعر کہنے کے شعوری جواز تو بہت سے ہو سکتے ہیں جیسا کہ شیخ عبدالقادر نے بانگِ درا کے دیباچے میں بیان کیے ہیں، مثلاً فارسی میں بہت سے ڈھلے ڈھلائے محاورے اور استعارے مل جاتے ہیں جو اُردو میں دستیاب نہیں مگر جواز خواہ کچھ بھی ہو اصل محرک وہی رُوحانی واردات معلوم ہوتی ہے جو حسن نظامی کے مطابق خواب اور شیخ اعجاز احمد کے مطابق کشف تھی اور جس کے بارے میں اقبال کے اپنے الفاظ یہ تھے کہ اُنہیں یہ مثنوی لکھنے کی ’’ہدایت‘‘ ہوئی ہے۔ اس کے بعد ہی یہ کیفیت ہوئی کہ بے تکان پوری مثنوی فارسی میں لکھ گئے (ایک موقع پر جب حمید احمد خاں نے اُن سے دریافت کیا کہ اُردو کی نسبت فارسی شاعری مقدار میں زیادہ کیوں ہے تو اقبال کا جواب تھا کہ اس کی آمد ہی فارسی میں ہوتی ہے)۔ ۱۹۱۳ء والی روحانی واردات کا ذکر خطوط اور گفتگو ؤں کے علاوہ خود مثنوی کی تمہید میں بھی موجود ہے۔ ظاہر ہے کہ مختلف قارئین اِس قسم کی روحانی واردات کی حقیقت کے بارے میں مختلف آرأ رکھیں گے لیکن اگر مثنوی کا مطالعہ شاعر کے اپنے ذہنی ماحول کی روشنی میں کرنا ہو تو یہ بات نظرانداز نہیں کی جا سکتی کہ اقبال کی اپنی رائے کے مطابق اس مثنوی کے ساتھ ایک ایسی روحانی واردات وابستہ تھی جس کی نوعیت شخصی اور انفرادی نہ تھی بلکہ قوم کو ایک پیغام دینے کا حکم ہوا تھا۔ اسلام میں رسول اکرمؐ کے بعد کسی کی روحانی واردات دوسرے کے لیے سند نہیں ہو سکتی۔ اس لحاظ سے اقبال کے پیغام کو قبول کرنے یا نہ کرنے کی بنیاد بھی صرف ہماری اپنی صوابدید اور ذوقِ سلیم ہی ہونی چاہیے اور غالباً اسی نزاکت کے پیشِ نظر اقبال نے اس روحانی واردات کے بعد غیرمعمولی علمی انکساری کا مظاہرہ کیا، ہمیشہ زور دیا کہ قارئین اپنی قوتِ فیصلہ استعمال کریں اور اس معاملے میں یہاں تک اِصرار کیا کہ: اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغِ زندگی تُو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن اپنا تو بن مثنوی کے دوسرے حصے ’رموزِ بیخودی‘ کے آغاز نہیں تو اختتام کے قریب بھی ایک عجیب و غریب واقعے کی شہادت ضرور ملتی ہے۔ اقبال نے یکم جولائی ۱۹۱۷ء کو گرامی کے نام خط میںلکھا کہ مثنوی کا دُوسرا حصہ قریب الاختتام ہے اور تیسرے حصے کی آمد ہو رہی ہے جو مستقبل کی تاریخ پر مشتمل ہو گا یعنی آئندہ صدیوں میں جو واقعات مسلم قوم کے ساتھ پیش آنے والے ہیں اُن کا بیان ہو گا۔ اِسی خط میں اقبال نے دعویٰ کیا کہ یہ خاص علم خدا نے انہیں دیا ہے لیکن جب وہ اسے ظاہر کر دیں گے تو سب کو معلوم ہو جائے گا کہ یہ مستقبل کی تاریخ قرآن شریف میں بڑے واضح طور پر بیان ہو چکی ہے! اِس خاص علم کا سراغ اقبال کی ذہنی سرگذشت میں ۱۹۱۷ء سے بہت پہلے بھی ملتا ہے مثلاً بانگِ درا ’حصہ دوم‘ کی وہ غزل جس پر ’مارچ ۱۹۰۷ئ‘ کا عنوان ہے اُس کی ردیف ہی مستقبل کے بارے میں دعوے پر مشتمل ہے یعنی ’’یار ہو گا‘‘، ’’آشکار ہو گا‘‘ وغیرہ۔ اِسی طرح مثنوی کے پہلے حصے ’اسرارِ خودی‘ کی تمہید میں بھی وہ اپنے بارے میں سب سے پہلے یہی بتاتے ہیں کہ وہ پھول جو ابھی اُگا نہیں ہے وہ اُن کی جھولی میں پہلے سے موجود ہے اور وہ شاعرِ فردا کی آواز ہیں۔ یوں معلوم ہوتا ہے جیسے یہ دھارا اُن کی فکر میں بہت پہلے سے موجود تھا، اسرار و رموز بھی اسی محرک کے تحت لکھی گئی مگر ’رموزِ بیخودی‘ کے خاتمے پر فکر کا یہ دھارا کسی خاص منزل پر پہنچ گیا جس کا ذکر گرامی والے خط میں ہوا۔ اُسی خط میں اقبال نے یہ بھی لکھا کہ ارادہ کر لیا ہے کہ مستقبل کی یہ تاریخ لکھیں گے ضرور مگر اس کی اشاعت اُن کی وفات کے بعد یا جب اس کا وقت آئے تب ہو گی۔ خواہ یہ سمجھا جائے کہ اقبال یہ تاریخ لکھ کر کہیں چھپا گئے، خواہ سمجھا جائے کہ نہ لکھ سکے بہرحال یہ بات نظرانداز نہیں کی جا سکتی کہ اس کے بعد اُن کی اگلی طویل نظم ’خضرِ راہ‘ تھی جو خاص طور پر پیشین گوئیوں پر مشتمل ہے (تفصیل تیسرے باب ’بانگِ درا‘ میں ملاحظہ کیجیے)! اِس سے تو یوں لگتا ہے جیسے ۱۹۱۷ء والے خط کے بعد اقبال مستقبل کی تاریخ لکھنے کے منصوبے کو اِلتوا میں ڈالنے کی بجائے فوراً اُس پر عمل پیرا ہو گئے مگر اُسے نثر میں لکھنے کی بجائے شاعری میں پوشیدہ کر دیا۔ اگر واقعی ایسا تھا تو خودبخود وہ بات پیدا ہو جاتی ہے کہ اشاعت اُن کی وفات کے بعد یا جب اس کا وقت آئے تب ہو کیونکہ کلام تو اقبال کی زندگی ہی میں شائع ہو گیا مگر ظاہر ہے کہ بعد میں آنے والی ہر نسل اپنے ذوق اور اپنی ضروریات کے مطابق اس کلام کی نئی نئی تعبیریں کرتی رہے گی۔ یوں مناسب وقت کا تعین بھی خودبخود ہو سکتا ہے یعنی جب پڑھنے والوں کا ذوق خود اِس بات کا تقاضا کرنے لگے کہ اسلامی تاریخ کے مستقبل سے آگہی درکار ہے! ’خضرِ راہ‘ کی پیشین گوئیاں تو صرف آئندہ چند برسوں یا زیادہ سے زیادہ چند دہائیوں کے واقعات پر محیط تھیں مگر اسی نظم میں خضر کی زبانی انسانی تاریخ کے بنیادی اصول بھی بیان ہوئے۔ یہ بھی قرین قیاس معلوم ہوتا ہے کہ اقبال نے پیشین گوئیاں کر کے سنسنی پھیلانے کی بجائے بڑی خاموشی سے وہ اُصول بتانے کی کوشش کی ہو جن کی مدد سے وہ خاص بصیرت حاصل کی جا سکتی ہے جس کا منبع قرآن شریف ہے۔ پیشین گوئیاں تو محض ذوقِ تجسس کی تسکین کرتی ہیں مگر وہ اُصول جن کی مدد سے ہمیں تاریخ کے بارے میں کوئی خاص بصیرت حاصل ہو سکے اللہ تعالیٰ سے قریب ہونے اور تاریخ کے علم کو خدا کی نشانی کے طور پر برتنے کی کوشش میں شمار ہو سکتے ہیں۔ ۲ جس زمانے میں اسرار و رموز شائع ہوئی اُس وقت علمی دنیا میں چیزوں کو سمجھنے کے لیے موازنے کا رواج عام تھا۔ یہ طریقہ نوآبادیاتی نظام کے ساتھ ساتھ فروغ پاتا گیا تھا کیونکہ یورپی اقوام نے دنیا کے بارے میں معلومات اسی طرح حاصل کی تھیں کہ دُوسری اقوام کا اپنی قوم کے ساتھ موازنہ کریں۔ حد یہ ہے کہ اُس دَور میں زبان سیکھنے کا جو طریقہ رائج ہوا اُسے بھی گرامر ٹرانسلیشن میتھڈ کہا گیا ہے یعنی جو زبان سیکھنی ہو اُس کا موازنہ اپنی زبان کے قواعد سے کر کے وہ زبان سیکھی جائے۔ ظاہر ہے کہ اسرار و رموز جیسی کتاب کو سمجھنے کے لیے یہ طریقہ ناقص تھا کیونکہ اس کتاب کی تمہید ہی میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ جو کچھ اس میں کہا جا رہا ہے ویسی بات پہلے کبھی نہیں کہی گئی ہے: ہیچ کس رازے کہ من گویم نگفت ہمچو فکرِ من دُرِ معنی نہ سُفت چونکہ کوئی متبادل طریقہ اُس وقت تک دریافت نہ ہوا تھا لہٰذا دیکھا جائے تو یہ اقبال کے بس میں نہ تھا کہ وہ اپنے قاری کو بتا سکتے کہ اُن کی کتاب کے مطالب کو بالکل ٹھیک ٹھیک سمجھنے کے لیے کیا طریقہ اختیار کیا جائے۔ اقبال ایک نئی طرز کی شعری تخلیق پیش کر سکتے تھے اور اُنہوں نے کی مگر یہ شعری تخلیق جس قسم کے ذہنی رویوں کی مدد سے سمجھی جا سکتی تھی اُن رویوں کی تشکیل ایک تہذیبی عمل کے ذریعے ہی ہو سکتی تھی اور اقبال کے اپنے اندازے کے مطابق اس کے لیے جو طویل مدت درکار تھی وہ ان کے عرصہ حیات سے زیادہ تھی لہٰذا اسی تمہید میں اُنہوں نے بڑے وثوق سے کہا، ’’میرا زمانہ رازوں سے واقف نہیں ہے، میرا یوسف اِس بازار کے لیے نہیں ہے۔۔۔‘‘: عصرِ من دانندۂ اسرار نیست یوسفِ من بہرِ ایں بازار نیست اس کا اور جو بھی مطلب رہا ہو بہرحال اِس میں یہ پہلو ضرور موجود ہے کہ اسرار و رموز کو ٹھیک سے سمجھنے کے لیے جو طریقہ درکار ہے وہ اُس وقت تک موجود ہی نہ تھا۔ اس صورت میں سب سے بہتر یہی ہے کہ اسرار و رموز کو پہلے سے کوئی شرط طے کر کے پڑھنے یا اس کا موازنہ دوسری کتابوں سے کرنے کی بجائے اِسے اس کی اپنی شرائط پر پڑھا جائے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو کتاب کے دونوں حصے یعنی ’اسرارِ خودی‘ اور ’رموزِ بیخودی‘ ایک دُوسرے کے عکس معلوم ہوتے ہیں، مثلاً اگر پہلے حصے کے آخر میں حضرت علیؓ کا ذکر ہے تو دُوسرے حصے کے آخر میں حضرت ابوبکر صدیقؓ کا۔ یہ التزام اکثر معاملات میں رکھا گیا ہے۔ ’اسرارِ خودی‘ میں دکھایا ہے کہ قوم کی زندگی میں افراد کا احساسِ خودی بنیادی اہمیت رکھتا ہے اور’رموزِ بیخودی‘ میں دکھایا ہے کہ قوم کی زندگی افراد کے لیے اہم ہے۔ افراد کی خودی قوم کے ذریعے وُسعت اور کمال حاصل کرتی ہے اور قوم مر رہی ہو تو افراد کا احساسِ خودی بھی ختم ہو جاتا ہے۔ اِسی مناسبت سے ’اسرارِ خودی‘ میں مسلمان بادشاہوں کی جتنی حکایات بیان ہوئی ہیں اُن میں سے کسی میں بھی بادشاہ ہیرو کے طور پر پیش نہیں ہوا بلکہ اُن تمام حکایات کا ہیرو کوئی نہ کوئی درویش ہے۔ اس کے برعکس ’رموزِ بیخودی‘ میں مسلمان بادشاہوں کی جو حکایات پیش ہوئی ہیں اُن کے ہیرو عموماً بادشاہ ہیں مگر وہ اپنے آپ کو شریعت اور قوم کی مشترکہ اقدار کے تابع کر کے ہیرو بنتے ہیں۔ غرض اگر کوئی درویش بادشاہ کے رعب میں نہ آئے تو ’اسرارِ خودی‘ کے مطابق ہے اور کوئی بادشاہ اپنے آپ کو ملت کے آئین کے سامنے جھکا کر سرخرو ہو جائے تو یہ ’رموزِ بیخودی‘ کی صورت ہے۔ اقبال کا موقف یہ تھا کہ فرد کی طرح قوم بھی ایک خودی ہوسکتی ہے۔ یہ بات الفاظ کے علاوہ بھی ظاہر ہوئی ہے کیونکہ ’اَسرارِ خودی‘ کی تمہید میں شاعر نے قاری سے خطاب کیا جبکہ ’رموزِ بیخودی‘ کی تمہید میں مسلمان قوم کو مخاطب کیا جس کی وجہ سے فرد کی خودی اور ملت کی خودی کے درمیان ایک موازنے کی صورت پیدا ہو جاتی ہے۔ ملت کے ساتھ شاعر کے والہانہ اظہارِ عشق کی وجہ سے بھی ملت کا تصوّر ایک محبوب کے طور پر اُبھرتا ہے اور ظاہر ہے کہ محبوب ایک حیاتیاتی وحدت ہوتا ہے یعنی ملت کو محبوب سمجھنے پر اُسے ایک خودی بھی سمجھنا پڑتا ہے۔ ’اسرارِ خودی‘ کے اختتام پر شاعر نے خدا سے دعا مانگی ہے اور ’رموزِ بیخودی‘ کے آخر میں حضور رحمتہ اللعالمین کو مخاطب کیا ہے۔ یہ بات بھی اس اصول کے مطابق ہے کہ فرد کی خودی کا منبع خدا کی ذات یعنی خودیٔ مطلق ہے جبکہ قوم کی خودی کا سرچشمہ رسولؐ کا مشاہدۂ حق ہے۔ یہ دونوں نکات (یعنی خودی اور خدا کا تعلق، اور قوم اور رسولؐ کا تعلق) اُس تصورِ عشق میں یکجا ہو جاتے ہیں جو اِس کتاب میں پیش کیا گیا ہے۔ عشق کی تعریف ہر شخص کے نزدیک مختلف ہو سکتی ہے لیکن اگر اسے خودی کی تربیت یعنی انسان کے تخلیقی امکانات کی نشو و نما کے لیے استعمال کرنا ہو تو پھر اُس کی کوئی ایسی تعریف ضروری ہے جس پر اتفاق بھی ہو سکے۔ ’اسرارِ خودی‘ کی ایک بہت بڑی اہمیت یہ ہے کہ اس میں عشق کی ایک ایسی ہی تعریف اور معیار پیش کیا گیا ہے: ہست معشوقے نہاں اندر دلت چشم اگر داری، بیا، بنمائمت عاشقانِ اُو زخوباں خوب تر خوشتر و زیبا تر و محبوب تر دل زعشقِ اُو توانا میشود! خاک ہمدوشِ ثرّیا میشود خاکِ نجد از فیضِ اُو چالاک شد آمد اندر وجد و بر افلاک شد در دلِ مسلم مقامِ مصطفیٰ است آبروئے ما زنامِ مصطفیٰ است اسرار و رموز کے مطابق عشق کی بنیادی انسانی تعریف یہ ٹھہرتی ہے کہ عشق اُس چیز کا نام ہے جو ایک مسلمان کے دل میں رسول اکرمؐ کے لیے موجود ہوتی ہے۔ اقبال کی آئندہ تمام تصانیف میں عشق کے بارے میں جو کچھ کہا گیا وہ اِسی تعریف کی مدد سے سمجھا جا سکتا ہے۔ خالص ادبی نقطہ ٔ نگاہ سے عشق کی اِس تعریف کا سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ یہ تعریف کتاب کے دونوں بنیادی تصورات کو مربوط کر دیتی ہے: (۱) خودی اور خدا کا تعلق، اور (۲) قوم اور رسولؐ کا تعلق۔ فرد کی خودی کا منبع خدا کی ذات ہے اور وہ ذات بھی محمد مصطفیٰؐ کی عاشق ہے۔ اس لحاظ سے عشقِ رسولؐ لغوی معنوں میں ’’عشقِ حقیقی‘‘ بن جاتا ہے یعنی وہ عشق جو خدا نے بھی کیا ہے۔ اسلامی تہذیبی تصورات کے مطابق تو ساری کائنات ہی خدا کے اِس عشق کی وجہ سے وجود میں آئی ہے۔ چونکہ مسلم قوم رسول اکرمؐ کے فیوض میں سے ایک فیض ہے لہٰذا رسولؐ سے عشق کا تقاضا یہ ہے کہ مسلم قوم کی ہستی میں اپنی انفرادی خودی گم کر کے بیخودی حاصل کی جائے۔ اقبال اور اُن کے غیبی مرشد مولانا روم کا تعلق بھی اِسی رشتے کے حوالے سے سمجھا جا سکتا ہے۔ ’اسرارِ خودی‘ کی تمہید میں اقبال نے اپنے خواب کا ذکر کرتے ہوئے مولانا روم کا تعارف بھی اسی طرح کروایا ہے کہ اُنہوں نے فارسی میں قرآن لکھا: روئے خود بنمود پیرِ حق سرشت کو بحرفِ پہلوی قرآں نوشت یہ قول مولانا جامی کا ہے کہ مولانا روم کی مثنوی فارسی زبان میں قرآن ہے (’’ہست قرآن در زبانِ پہلوی‘‘)۔ اقبال کے نقطہ ٔ نظر سے دیکھیں تو یہ سعادت عشقِ رسولؐ ہی کی برکت سے حاصل ہو سکتی ہے چنانچہ جب مولانا روم اقبال کی خاک کو اِکسیر بناتے ہیں تو اقبال اس معجزے کو بھی مسلم قوم کی کرامات سے وابستہ کرتے ہیں کہ مسلم قوم وہ ہستی ہے جس نے سیکڑوں رومی اور عطار پیدا کیے ہیں: من کہ ایں شب را چو مہ آراستم گردِ پائے ملتِ بیضاستم ملتے در باغ و راغ آوازہ اش آتشِ دلہا سرودِ تازہ اش ذرّہ کشت و آفتاب انبار کرد خرمنِ صد رومی و عطار کرد اقبال جو ماضی، حال اور مستقبل پر محیط ہیں وہ مولانا روم کے سمندر کی محض ایک موج ہیں اور وہ وسیع سمندر مسلمان قوم کے چمن کا صرف ایک پھول ہے تو پھر یہ مسلمان قوم جس رسولؐ کے بیشمار فیوض میں سے صرف ایک فیض ہے اُس رسول کی شان کیا ہو گی؟ مولانا روم کے تعارف میں قرآن کو فارسی میں لکھنے کا ذکر کرنے میں یہ خوبی بھی پیدا ہو جاتی ہے کہ خود اقبال کا اپنی شاعری کے بارے میں یہی دعویٰ ہے لہٰذا اس شاعری کو مولانا روم کا فیض قرار دینا اسے ایک ایسے بزرگ سے منسوب کرنا ہے جن کے بارے میں اس قسم کی سند پہلے سے موجود ہے۔ اس طرح احترام کے بہت سے تقاضے پورے ہو جاتے ہیں بلکہ اس کے بعد اگر اقبال اپنی شاعری کے قرآنی ہونے پر اِصرار کریں تو وہ بھی اپنی ذات پر نہیں بلکہ اپنے مرشد رومی کے فیض پر اِصرار کرنے کے مترادف قرار پاتا ہے۔ چنانچہ یہ کتاب جس کی ابتدأ مولانا روم کو خواب میں دیکھنے سے ہوتی ہے اِس کا اختتام حضور رسالت مآب کی بارگاہ میں ہوتا ہے جہاں اقبال کچھ گذارشات پیش کرتے ہیں۔ اُن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اُن کی شاعری میں قرآن کے سوا کچھ نہیں ہے، یہ بات غلط ہو تو قیامت کے روز رسولِ اکرمؐ اُنہیں اپنے قدمِ مبارک کے بوسے سے محروم رکھیں لیکن اگر یہ سچ ہو تو آپؐ خدا سے دعا فرمائیں کہ وہ اقبال کے عشق کو عمل سے ہم کنار کر دے۔ قابل غور ہے کہ ’اسرارِ خودی‘کی اشاعت یعنی ۱۹۱۵ء سے لے کر اقبال کی آخری شعری تصنیف ارمغانِ حجاز کی اشاعت یعنی ۱۹۳۸ء تک ٹھیک تئیس برس کا عرصہ بنتا ہے۔ یہ اُتنی ہی مدت ہے جتنی مدت میں قرآن شریف نازل ہوا تھا۔ یہ عرصہ اقبال نے اپنی مرضی سے منتخب نہیں کیا کیونکہ آخری تصنیف اُن کی وفات پر شائع ہوئی تھی لہٰذا یہ شاعر کا نہیں بلکہ خدا کا فعل ہی کہلا سکتا ہے۔ ادبی نوطہ ٔ نظر سے ہمیں اس بات سے سروکار نہیں کہ اِسے کرامت سمجھا جائے یا نہیں بلکہ اہم بات یہ ہے کہ اگر اقبال کی تمام شعری تصانیف کو ایک سلسلے کی طرح دیکھا جائے تو پہلی شعری تصنیف میں قدرت کی طرف سے جو مہرِ تصدیق مانگی گئی وہ آخری شعری تصنیف پر واقعی ثبت کی ہوئی دکھائی دیتی ہے! یہ بات مزید اہم ہو جاتی ہے جب اِن تصانیف کا مرکزی خیال بھی یہی ہو کہ انسان اپنی خودی کی تربیت کر کے اُس مقام پر پہنچ سکتا ہے جہاں خدا اُس کے معاملات میں شریکِ کار بن جائے: خودی کو کر بلند اِتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے ۳ اسرار و رموز میں جن چیزوں کی مذمت کی گئی ہے اُن میں بھیک مانگنا، افلاطون کا فلسفہ، انحطاط پرست ادب اور میکیاولی کی وطن پرستی سرِ فہرست ہیں: ٭ سوال کرنے سے خودی ضعیف ہو جاتی ہے ٭ افلاطون کے اثرات مسلمانوں کے لیے تباہ کن ثابت ہوئے۔ ان سے گریز کرنا ضروری ہے ٭ جو شاعر موت اور مایوسی کی نقش گری کرتے ہیں اُن کے پیچھے چلنے والی اقوام برباد ہو جاتی ہیں ٭ میکیاولی نے وطن پرستی کا باطل مذہب ایجاد کیا جس کی وجہ سے انسانیت کو بہت نقصان پہنچا ہے بظاہر ان چیزوں کے درمیان کوئی ربط دکھائی نہیں دیتا لیکن اقبال کے نقطہ ٔ نظر سے دیکھا جائے تو یہ تمام باتیں زندگی کی وحدت کا تجربہ کرنے کی راہ میں حارج ہوتی ہیں۔ یہ بات عام طور پر دانشوروں کی نگاہوں سے اوجھل رہی ہے اور اس کی بجائے اقبال کے مدعا کی بڑی پست تعبیریں کی گئی ہیں مثلاً یہ کہ افلاطون کی مخالفت اس لیے کی ہو گی کیونکہ کسی وجہ سے اچانک تصوف کے خلاف ہو گئے تھے یا پھر افلاطون کے فلسفے سے پوری طرح واقف نہ رہے ہوں گے۔ اسرار و رموز کسی ردِ عمل کا اظہار نہیں ہے۔ یہ باطنی تربیت کے ایک باقاعدہ اور موثر نصاب کی پہلی کڑی ہے۔ نظریاتی بحثوں کی ہوس سے آزاد ہو کر زندگی کے براہِ راست مشاہدے پر آمادگی اِس خاص تربیت کی پہلی شرط ہے۔ اسرار و رموز کے ایک باب کا عنوان ہے ’اندرزِ میر نجات نقشبند المعروف بہ باباے صحرائی کہ براے مسلمانانِ ہندوستان رقم فرمودہ است‘ یعنی میر نجات نقشبند جو بابائے صحرائی بھی کہلاتے ہیں اُن کی نصیحتیں جو اُنہوں نے ہندوستان کے مسلمانوں کے لیے لکھی ہیں۔ یہ بابائے صحرائی دراصل ایک فرضی کردار ہے جس کے پردے میں اقبال ہی بول رہے ہیں (بعد میں بھی اُنہوں نے ضربِ کلیم میں محراب گل افغان اور ارمغانِ حجاز میں ملازادہ ضیغم کشمیری لولابی کے فرضی نام اختیار کیے)۔ اِس باب میں ہندوستانی مسلمانوں کو جو نصیحتیں کی گئی ہیں اُن میں وہ حکایت بھی سنائی ہے کہ مولانا روم کتابوں کا ایک انبار قریب رکھ کر درس دیا کرتے تھے اور شمس تبریز کا وہاں گزر ہوا تو اُن کی نگاہ سے وہ کتابیں جل گئیں۔ اس کے بعد شمس تبریز کا خطاب اقبال کے الفاظ میں یوں ہے: گفت شیخ اے مسلمِ زُنّاردار ذوق و حال است ایںِ ترا باوے چہ کار حالِ ما از فکرِ تو بالاتراست شعلۂ ما کیمیاے احمر است ساختی از برفِ حکمت ساز و برگ از سحابِ فکرِ تو بارد تگرگ آتشے افروز از خاشاکِ خویش شعلۂ تعمیر کن از خاکِ خویش علمِ مسلم کامل از سوزِ دل است معنیٔ اسلام ترکِ آفل است چوں زبندِ آفل ابراہیم رست درمیانِ شعلہ ہا نیکو نشست [ترجمہ]: شیخ نے کہا، اے مسلمان جس نے زنار ڈال رکھا ہے، یہ ذوق اور حال کی باتیں ہیں، تمہیں ان سے کیا سروکار؟ ہمارا حال تمہاری سوچ سے بلند ہے کہ ہمارا شعلہ سرخ گندھک ہے جو کچی دھات کو سونا بنا دیتی ہے! تم نے فلسفے کی برف سے طرح طرح کا سامان تیار کیا اور تمہاری سوچ کے بادل سے بھی اولے برستے رہے، اپنے خس و خاشاک سے آگ پیدا کرو اور اپنی مٹی سے شعلہ جلاؤ! مسلمان کا علم سوزِ دل سے پختہ ہوتا ہے کہ اسلام کا مطلب ہی اُن چیزوں سے کنارہ کشی ہے جو ڈوبنے والی ہیں۔ جب ابراہیم ڈوبنے والی چیزوں کے بندھن سے آزاد ہوئے تو آگ میںصحیح سلامت بیٹھے رہے! قال سے حال کی طرف آنے کا یہ دروازہ جسے شمس تبریز نے مولانا روم کے لیے کھولا تھا، اسرار و رموز اِسے ہم سب کے لیے دوبارہ کھولتی ہے۔ اگر اِس نئے نصاب کی روش پرانے ڈھنگ سے کچھ مختلف ہے تو یہ تبدیلی مولانا روم کی اجازت سے اور اُن کے منشا کے عین مطابق ہے: باز برخوانم زفیضِ پیرِ رُوم دفترِ سربستہ اسرارِ علوم باب ۲ پیامِ مشرق پیامِ مشرق پہلی دفعہ ۱۹۲۳ء میں شائع ہوئی۔ دُوسرا اڈیشن ترامیم اور اضافے کے ساتھ۱۹۲۴ء میں شائع ہوا۔ اِس میں وہ غزل بھی شامل ہے جس کا متن اقبال کی سب سے پرانی بیاض میں درج ہے اور جس کے بارے میں معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپریل ۱۹۰۷ء میں کیمبرج میں لکھی گئی۔ بقیہ منظومات کے بارے میں خیال ہے کہ اُن میں سے زیادہ تر اَسرار و رموز کی تکمیل کے بعد یعنی ۱۹۱۷ء سے ۱۹۲۴ء کے عرصے میں لکھی گئی ہوں گی۔ اِس سلسلے میں یہ بھی معلوم ہے کہ پہلے اقبال کا اِرادہ تھا کہ فارسی اور اُردو کلام کو ایک ہی مجموعے میں یکجا کر دیں لیکن بعد میں اُنہوں نے صرف فارسی کلام پر مشتمل پیامِ مشرق ترتیب دے دیا۔ اس کے باوجود یہ محض نظموں کا مجموعہ نہ تھا بلکہ دیباچے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ جرمن حکیمِ حیات گوئٹے کو خراجِ عقیدت بھی تھا اور مشرق کی طرف سے مغرب کے لیے پیغام بھی! غالباً اسی حوالے سے اقبال نے بعد میں بالِ جبریل میں اپنے لیے شاعرِ مشرق کا لقب بھی استعمال کیا۔ دیکھا جائے تو پیامِ مشرق کا گہرا تعلق بھی اُن تبدیلیوں کے ساتھ تھا جو اِس کی اشاعت سے چند برس قبل انگلستان کے ادبی افق پر رونما ہوئی تھیں۔ اِن تبدیلیوں کا اندازہ لگانے کے لیے مندرجہ ذیل تین موازنے کیے جاسکتے ہیں: ۱ اقبال کی مثنوی ’اسرارِ خودی ‘اور ٹی ایس ایلیٹ کی نظم ’دی لوو سونگ آف جے الفریڈ پروفروک‘ ۲ اقبال کی غزل ’مارچ ۱۹۰۷ئ‘کا ایک شعر اور ییٹس کی نظم ’دی سیکنڈ کمنگ‘ ۳ ایلیٹ کی نظم ’دی ویسٹ لینڈ‘ کی ابتدائی سطور اور اقبال کی ’طلوعِ اسلام‘ کے ابتدائی مصرعے یہ دلچسپ اتفاق ہے کہ ۱۹۱۵ء میں یعنی جس برس لاہور سے ’اسرارِ خودی‘ شائع ہوئی اُسی برس امریکہ میں نوجوان شاعر ٹی ایس ایلیٹ کی نظم ’دی لوو سونگ آف جے الفریڈ پروفروک‘ شائع ہوئی جس نے اُسے انگلستان میں متعارف کروایا (اور بعد میں ایلیٹ نے انگلستان کی شہریت بھی اختیار کر لی)۔ اقبال کی مثنوی کے شروع میں دیوانِ شمس تبریز سے مولانا روم کے وہ اشعار شامل کیے گئے تھے جن میں رات کی تاریکی میں انسان کی تلاش کی جا رہی تھی جبکہ ایلیٹ کی نظم کے شروع میں دانتے کے جہنم سے ایک ایسے کردار کا مکالمہ درج تھا جس نے پوپ کو غلط مشورہ دینے کی سزا پائی تھی۔ اِس کردار کو بالکل امید نہیں تھی کہ اُس کی آواز کبھی دنیا تک پہنچے گی اور اقبال کی تمہید میں دعویٰ تھا کہ اقبال مرنے کے بعد بھی اپنا پیغام آنے والی نسلوں تک بالکل اس طرح پہنچاتے رہیں گے جیسے اُن کے درمیان ہی موجود ہوں: اے بسا شاعر کہ بعد از مرگ زاد چشمِ خود بر بست و چشمِ ما کشاد رخت باز از نیستی بیروں کشید چوں گل از خاکِ مزارِ خود دمید چنانچہ اقبال کی مثنوی ایک روشن صبح کے ذکر سے اور ایلیٹ کی نظم ایک منحوس شام کے تذکرے سے شروع ہوتی تھی۔ اقبال کی مثنوی میں عیشِ جاوداں کا راز اور آبِ حیات کا نسخہ بتانے کا دعویٰ کیا گیا تھا اور ایلیٹ کی نظم میں بڑھاپے کی آمد آمد تھی۔ ’اسرارِ خودی‘ کے شاعر نے اپنے بارے میں دعویٰ کیا تھا کہ اپنے زمانے کا چاند سورج وہی ہے جبکہ ایلیٹ کی نظم میں شاعر جس کردار کے پردے سے بول رہا تھا اُس نے اپنی کم مائیگی ثابت کر کے بتایا تھا کہ وہ کسی لحاظ سے بھی مرکزی کرداروں والی خصوصیات نہیں رکھتا ہے۔ غرضیکہ ہر وہ بات جو اقبال کی مثنوی میں خوب تھی وہ ایلیٹ کی نظم میں ناخوب تھی اور ہر وہ چیز جسے اقبال کی مثنوی میں گھٹیا، گھناؤنا اور ذلیل بتایا گیا وہ ایلیٹ کی نظم میں پوری آب و تاب کے ساتھ جگمگاتی ہوئی نظر آتی تھی۔ یہ نئے مشرق اور نئے مغرب کے رویوں کا فرق تھا۔ ایلیٹ کی نظم ایک طرح سے اس بات کا اعلان تھی کہ زندگی کی پیچیدگیوں سے گریز کرنے اور مایوسی پر اُکسانے والا وہ ادب جسے فرانس نے واٹرلو کی جنگ میں شکست کھانے کے بعد پچھلی ایک صدی میں پروان چڑھایا تھا اور جو یورپ کی دوسری چھوٹی اقوام میں مقبول ہو چکا تھا اب اُس کے سیلاب نے برطانوی ذوق کو بھی آلودہ کر دیا ہے۔ اقبال کو اِس نئے مغرب کا بہت اچھا تجربہ اُس وقت ہو گیا جب ۱۹۲۰ء میں اُن کی مثنوی ’اسرارِ خودی‘ کا انگریزی ترجمہ لندن میں شائع ہوا۔ اِس پر تبصرہ کرنے والوں میں سے بعض بڑے نام بلومزبری گروپ سے تعلق رکھتے تھے مثلاً ای ایم فورسٹر اور لوز ڈکنسن وغیرہ۔ یہ بلومزبری گروپ اُسی انحطاط پرست ادب کا علم بردار تھا جس کا نقیب ٹی ایس ایلیٹ تھا۔ اقبال نے ان تبصروں کی واقعاتی غلطیوں اور مبصرین کی کم نگاہی سے پیدا ہونے والی غلط فہمیوں کی درستگی کے لیے مثنوی کے مترجم نکلسن کے نام جو خط لکھا اُس میں دیے گئے بعض حوالوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اُس زمانے میں انگلستان کے ادبی اور معاشرتی منظرنامے سے اقبال کی واقفیت بڑی گہری تھی۔ انہی حوالوں سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اُس زمانے میں انگلستان کے دانشوروں کے حلقے میں اقبال کا نام اور اُن کے نظریات سے واقفیت بھی ضرور پیدا ہوئی ہو گی۔ نہ صرف اُن کی مثنوی کے ترجمے پر تبصرہ کرنے والوں میں اُس زمانے کے صفِ اول کے انگریز دانشور شامل تھے بلکہ یہ لوگ جن حلقوں میں اٹھتے بیٹھتے تھے اُن کی تفصیلات اکٹھی کی جائیں تو مزید انکشافات ہونے کی توقع ہے۔ ایلیٹ کی پہلی اہم نظم اور اقبال کی ’اسرارِ خودی‘ کے درمیان جیسا تضاد دکھائی دیتا ہے اُس سے بھی زیادہ چونکا دینے والی بات یہ ہے کہ آئرش شاعر ڈبلیو بی ییٹس کی ۱۹۱۹ء میں شائع ہونے والی مشہور نظم ’دی سیکنڈ کمنگ‘ پوری کی پوری صرف ایک منظر کی تفصیل پر مبنی ہے جو اقبال نیبارہ برس قبل ’مارچ ۱۹۰۷ئ‘ والی غزل کے ایک شعر میں پیش کیا تھا: نکل کے صحرا سے جس نے روما کی سلطنت کو اُلٹ دیا تھا سنا ہے یہ قدسیوں سے میں نے وہ شیر پھر ہوشیار ہو گا ییٹس کی نظم جس نے اُس کی شہرت کو چارچاند لگا دیے ایک ’’کشف‘‘ کا بیان ہے جس میں شاعر لوحِ تقدیر پر ایک صحرا میں ایسے درندے کو دیکھتا ہے جس کا دھڑ شیر کا اور سر انسان کا ہے۔ درندہ جنسی فعل میں مصروف ہے اور شاعر یہ نتیجہ نکالتا ہے کہ اِس دفعہ بیت اللحم سے نزولِ مسیح نہیں بلکہ کسی بہت بڑے فتنے کی پیدائش متوقع ہے۔ خواہ ییٹس نے یہ نظم اقبال کے شعر کے مفہوم سے واقف ہو کر لکھی (جس کا اِمکان رَد نہیں کیا جا سکتا) یا یہ سچ مچ اُس کا خواب یا کشف رہی ہو بہرحال ہم ایک دفعہ پھر یہی دیکھتے ہیں کہ اقبال کا خوب، اُن کے مغربی معاصر کے لیے ناخوب ہے یعنی جس چیز کو اقبال دُنیا کے لیے مبارک سمجھ رہے ہیں اُسی چیز کو ییٹس باطل اور فتنے سے تعبیر کر رہا ہے۔ دُوسری طرف ایلیٹ کی تیسری اہم نظم ’دی ویسٹ لینڈ‘ ۱۹۲۰ء میں شائع ہوئی تو اُس کی ابتدائی سطروں میں موسمِ بہار کو یہ کہہ کر کوسا گیا تھا کہ یہ مردہ جڑوں میں آرزُو کی رمق پیدا کر کے نئی زندگی پر مجبور کر دیتا ہے۔ اِس کے ذرا بعد ۱۹۲۳ء کے آغاز میں اقبال نے اپنی اہم ترین طویل نظموں میں سے ایک یعنی ’طلوعِ اسلام‘ کی ابتدا یوں کی: دلیلِ صبحِ روشن ہے ستاروں کی تنک تابی اُفق سے آفتاب ابھرا گیا دَور گراں خوابی عروقِ مردۂ مشرق میں خونِ زندگی دَوڑا سمجھ سکتے نہیں اِس راز کو سینا و فارابی! گویا ایک دفعہ پھر ایلیٹ کا ناخوب، اقبال کا خوب بن گیا۔ رویوں کا یہ فرق صرف اقبال اور مغربی شاعروں کے درمیان نہیں تھا بلکہ عین اُنہی دنوں اقبال کے وطن میں نوجوان شاعروں کی مقبول ترین نظموں سے سرِ فہرست نظم تھی: ابھی تو میں جوان ہوں! اِسے لکھنے والے نوجوان شاعر حفیظ جالندھری اُس زمانے میں انگریزی ادب سے بہت زیادہ واقفیت نہ رکھتے تھے مگر وہ اقبال کے اُسی دوست مولانا گرامی کے شاگرد تھے جن سے اقبال نے اسرار و رموز کی تصنیف کے دوران صلاح مشورہ کیا تھا۔ خود اقبال نے بھی حفیظ کی حوصلہ افزائی کی تھی اور حفیظ تو اپنے آپ کو اقبال کے مریدوں میں شمار کرتے تھے۔ اُن کی یہ نظم صرف اُن کے مزاج کی نہیں بلکہ اُس زمانے کی عام پسند کی عکاسی بھی کرتی ہے (یہ حفیظ کے پہلے مجموعہ کلام نغمہ زار میں شامل تھی اور وہ مجموعہ ۱۹۲۴ء میں شائع ہوا لہٰذا یہ نظم ۱۹۱۹ء میں حفیظ کی مقبول شاعری کے آغاز سے ۱۹۲۴ء میں مجموعے کے اشاعت کے درمیان کسی زمانے کی ہے)۔ یہ بہت دلچسپ بات ہے کہ ایلیٹ کی شاعری خواہ ابتدائی ہو یا بعد کی اور اُس کا موضوع کچھ بھی ہو مگر اُس کا بنیادی احساس بڑھاپے کا ہے اور اقبال سے اگلی نسل کے اُردو شاعروں کے یہاں بنیادی احساس جوانی کا ہے۔ ۲ پیامِ مشرق کو اِسی پس منظر میں پڑھنے کی ضرورت ہے اور پیامِ مشرق کے دیباچے میں اس کی طرف بعض اشارے کر دیے گئے ہیں۔ اس دیباچے کے بنیادی نکات مندرجہ ذیل ہیں: ۱ فطرت زندگی کی گہرائیوں میں ایک نیا آدم اور اُس کے رہنے کے لیے ایک نئی دنیا تعمیر کر رہی ہے ۲ پہلی جنگ عظیم کے بعد مغرب انحطاط کی طرف مائل ہو گیا ہے لہٰذا اُس کے حالات کسی صحت مند ادبی نصب العین کے لیے نامساعد ہیں اور معلوم ہوتا ہے کہ مستقبل میں مغرب اور زیادہ رہبانیت کی طرف مائل ہوتا چلا جائے گا ۳ مشرق، بالخصوص اسلامی مشرق نے ایک طویل نیند سے آنکھیں کھولی ہیں اور اسے صحت مند تخیل کی ضرورت ہے جس کے مطابق یہ اپنے ماحول میں تبدیلیاں لا سکے ان تینوں نکات کا آپس میں موازنہ کیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ دنیا کو جس فکری رہنمائی کی ضرورت ہے وہ نہ ماضی سے مل سکتی ہے نہ مغرب سے بلکہ اب وہ نئے مشرق سے فراہم ہو گی۔ مستقبل کی دنیا کی نوید صرف دیباچے ہی میں موجود نہیں ہے بلکہ کتاب کی ترتیب میں بھی اس نئی دنیا کا نقشہ پنہاں ہے۔ مثلاً گذشتہ سولہ برسوں میں لکھی ہوئی رباعیات، نظموں اور غزلوں کو علیحدہ ابواب میں تقسیم کیا ہے جس کی وجہ سے ایک طرف گوئٹے کے دیوان کے ساتھ مماثلت پیدا ہوتی ہے اور دوسری طرف پوری کتاب میں ایک تسلسل پیدا ہوتا ہے جس میں ہر باب اپنی جگہ مکمل بھی ہے مگر کتاب کے تسلسل میں بھی حصہ لیتا ہے۔ کتاب کا انتساب افغانستان کے فرمانروا کے نام ہے اور یہ انتساب ایک باقاعدہ نظم ’پیشکش‘ کی صورت میں کیا گیا ہے۔ اِسی سے معلوم ہوتا ہے کہ اس نئی دنیا میں افغانستان کی کوئی خاص اہمیت ہے اور اقبال کی آئندہ تصانیف میں یہ اہمیت بتدریج سامنے آتی جاتی ہے، مثلاً جاویدنامہ میں جدید افغانستان کے بانی احمد شاہ ابدالی سے جنت میں ایک ملاقات کے دوران کہلوایا ہے کہ ایشیا ایک جسم ہے اور افغانستان اس میں دل ہے: آسیا یک پیکرِ آب و گل است ملت افغانیہ در اُو دل است مشرق کے شاعر کی حیثیت میں اقبال اپنا موازنہ گوئٹے کے ساتھ کر کے شکایت کرتے ہیں کہ گوئٹے کا پیغام تو وسیع پیمانے پر سمجھا گیا ہے مگر خود اُن کی اپنی شاعری کی گہرائی کا اندازہ کسی کو نہیں ہوا ہے۔ اِس حوالے سے وہ ’پیشکش‘ میں امیرِ افغانستان سے کہتے ہیں، ’’وہ فرنگی بجلی کی طرح تھا۔ چمن میں پیدا ہو کر بہار میں پلا بڑھا اور بلبل کی طرح کانوں کی جنت بنا۔ میرا شعلہ مشرق کے بوڑھوں کا دھونکا ہوا ہے، میں ایک بانجھ زمین سے اُگا ہوں اور قافلے کی گھنٹی کی طرح ہوا میں چیخ پکار رہا ہوں۔ پھر بھی ہم دونوں ہی کائنات کے راز سے واقف ہیں اور موت کے بیچ زندگی ہیں کا پیغام ہیں۔ ہم دونوں صبح کی روشنی کی طرح روشن خنجر ہیں اگرچہ وہ کھلا ہواہے اور میں ابھی نیام میں ہوں۔ ہم دونوں بیکراں سمندر کے پیدا کئے ہوئے انمول اور چمکدار موتی ہیں اگرچہ اُس نے سمندر کی تہہ میں بے اختیار تڑپ کر سیپ کا گریبان چاک کر دیا اور میں ابھی تک سمندر میں چھُپا صدف کے آغوش میں پھنس کر چمک رہا ہوں۔ میرا آشنا بھی میرے میخانے سے پئے بغیر مجھ سے انجان گزر گیا۔ میں اُسے خرد کا جاہ و جلال پیش کروں، اُس کے قدموں تلے کسریٰ کا تخت رکھوں، وہ مجھ سے دل لبھانے والی باتیں مانگے اور شاعرانہ رنگینی اور چمک کا تقاضا کرے! کم نظر نے میرا ظاہر دیکھا مگر باطن نہ دیکھا، میری رُوح کی تڑپ نہ دیکھی۔ میری فطرت نے عشق کو آغوش میں لے کر تنکے اور آگ کے ملاپ کو ٹھیک بٹھایا، خدا نے مجھ پر سلطنت اور دین کے راز ظاہر کر کے میری آنکھ کے پردے سے غیر کی صورت مٹا دی۔ میرا مصرع میرے لہو کی بوند ہے چنانچہ گلاب کی پنکھڑی بھی میرے شعر کے معانی سے رنگین ہوتی ہے۔۔۔‘‘ : او ز افرنگی جواناں مثلِ برق شعلۂ من از دمِ پیرانِ شرق او چمن زادے، چمن پروردۂ من دمیدم از زمینِ مردۂ او چو بلبل در چمن ’’فردوسِ گوش‘‘ من بصحرا چوں جرس گرمِ خروش ہر دو دانائے ضمیرِ کائنات ہر دو پیغامِ حیات اندر ممات ہر دو خنجر صبح خند، آئینہ فام او برہنہ، من ہنوز اندر نیام ہر دو گوہر ارجمند و تاب دار زادۂ دریاے ناپیداکنار او زشوخی در تہِ قلزم تپید تاگریبانِ صدف را بر درید من بہ آغوشِ صدف تابم ہنوز در ضمیرِ بحر نایابم ہنوز آشنائے من زمن بیگانہ رفت از خمستانم تہی پیمانہ رفت من شکوہِ خسروی اُو را دہم تختِ کسریٰ زیرِ پائے او نہم او حدیثِ دلبری خواہد زمن رنگ و آبِ شاعری خواہد زمن کم نظر بیتابیٔ جانم ندید آشکارم دید و پنہانم ندید فطرتِ من عشق را در بر گرفت صحبتِ خاشاک و آتش در گرفت حق رموزِ ملک و دیں برمن کشود نقشِ غیر از پردۂ چشمم ربود برگِ گل رنگیں زمضمونِ من است مصرعِ من قطرۂ خونِ من است دلچسپ بات ہے کہ پہلی تصنیف اسرار و رموز بھی اقبال کے پیغام کی گہرائی کے تذکرے سے شروع ہوئی تھی اور اُس میں بھی اقبال نے اس بات پر زور دیا تھا کہ انہیں مستقبل کی بصیرت حاصل ہے۔ دوسری تصنیف پیامِ مشرق کی ابتدا میں بھی ہمیں یہی دعوے دہرائے ہوئے ملتے ہیں اور اس کے بعد بھی اقبال کی ہر باقاعدہ تصنیف میں یہ دعوے دہرائے گئے ہیں، مثلاً بال جبریل میں: حادثہ وہ جو ابھی پردۂ افلاک میں ہے عکس اُس کا مرے آئینۂ ادراک میں ہے اور: میں نے تو کیا پردۂ اَسرار کو بھی فاش دیرینہ ہے تیرا مرضِ کورنگاہی ’پیشکش‘ سے اگلا باب ’لالہ ٔ طور‘ ہے جو رُباعیات پر مشتمل ہے اور ان رُباعیات پر باقاعدہ نمبرشمار پڑے ہوئے ہیں جن کا مطلب ہے کہ یہ رباعیات کا ایک سلسلہ ہے۔ اس قسم کے نمبروار سلسلے اگلی تصانیف میں بھی اکثر دکھائی دیتے ہیں۔ مثلاً بالِ جبریل کے شروع میں سولہ اور اکسٹھ منظومات کے سلسلے۔ پیامِ مشرق کی ایک سو تریسٹھ نمبروار رباعیات اس قسم کے سلسلوں میں اولین ہیں۔ رُباعیات کا یہ سلسلہ ہمیں بتدریج اقبال کے ذہن سے گزارتا ہے جہاں ہم عشق اور عقل کے درمیان ایک آویزش اور بالآخر اس کا انجام دیکھتے ہیں یعنی رباعی نمبر۱۶۳ یہ ہے: گریز آخر زعقلِ ذوفنوں کرد دلِ خودکام را از عشق خوں کرد زاقبالِ فلک پیما چہ پرسی حکیمِ نکتہ دانِ ما جنوں کرد [ترجمہ]: آخر عیار عقل سے پیچھا چھڑایا دل کو عشق سے لہو کیا آسمان کی سیر کرنے والے اقبال کا کیا پوچھتے ہو ہمارا سیانا فلسفی مجنوں ہو گیا اِن رُباعیات کا مرکزی خیال یعنی عشق اور عقل کا باہمی تعلق اقبال کی اُردو رباعیات میں بھی جابجا آیا ہے، مثلاً بال جبریل میں: خرد سے راہرو روشن بصر ہے خرد کیا ہے چراغِ رہگزر ہے درونِ خانہ ہنگامے ہیں کیا کیا چراغِ رہگزر کو کیا خبر ہے! اگلے باب ’افکار‘ میں نظمیں ہیں جو حکایات، گیت اور منظرکشی پر مشتمل ہیں۔ ان میں سے ہر نظم اقبال کے نقطہ ٔ نظر سے زندگی کے کسی پہلو کو ہمارے سامنے پیش کرتی ہے اور ان میں سے اکثر کے موضوعات مسلمانوں کے علاوہ دُوسروں کے لیے بھی عام دلچسپی کے حامل ہو سکتے ہیں، مثلاً ’بوئے گل‘، ’نوائے وقت‘ وغیرہ۔ ان نظموں کا مشرق کے ساتھ واضح تعلق ہے مگر یہ وہ نیا مشرق معلوم ہوتا ہے جو مستقبل قریب میں وجود میں آنے والا ہے۔ ’تسخیرِ فطرت‘ اِس باب کی اُن نظموں میں سے ہے جنہیں کئی طرح پڑھا جا سکتا ہے۔ اس نظم کے پانچ حصے ہیں: ۱ میلادِ آدم ۲ انکارِ ابلیس ۳ اغواے آدم ۴ آدم از بہشت بیروں آمدہ می گوید ۵ صبحِ قیامت (آدم در حضورِ باری) بعض دوسرے بڑے شاعروں کی طرح اقبال کی بھی اپنی اساطیر ہیں اور کلامِ اقبال کو سمجھنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ عالمی اساطیر کی بجائے اقبال کی اپنی اساطیر کی روشنی میں سمجھا جائے۔ مثلاً تخلیقِ آدم کا واقعہ تورات میں بھی ہے اور قرآن شریف میں بھی ہے مگر نہ صرف ان دونوں الہامی کتابوں کے بیانات کا آپس میں کچھ فرق ہے بلکہ قرآن میں یہ واقعہ جس طرح بیان ہوا ہے اُس کے حوالے سے بھی مفسروں نے مختلف آرأ کا اظہار کیا ہے۔ انہی میں سے ایک رائے اقبال کی بھی ہے جو بعد میں تشکیلِ جدید کے تیسرے خطبے میں تفصیل سے بیان ہوئی۔ ظاہر ہے کہ وہ رائے اس حوالے سے ہے کہ تخلیقِ آدم کے قرآنی واقعے کو اقبال کس طرح سمجھے ہیں مگر تشکیلِ جدید میں صرف اقبال کی رائے بیان ہوئی جبکہ پیامِ مشرق کی اس نظم میں پورا واقعہ اقبال کے نقطہ ٔ نظر سے دوبارہ بیان ہوا ہے۔ اِس لحاظ سے یہ نظم اقبال کی بقیہ ایسی منظومات کے لیے بنیادی حوالہ بن جاتی ہے جن میں تخلیقِ آدم کے واقعے کا کوئی ایک جزو تفصیل سے بیان ہوا مثلاً بالِ جبریل کی نظمیں ’فرشتے آدم کو جنت سے رخصت کرتے ہیں‘ اور ’روحِ ارضی آدم کا استقبال کرتی ہے‘ وغیرہ۔ یہ نظم تشکیلِ جدید کے تیسرے خطبے میں بیان کیے ہوئے مدلل خیالات کے لیے بھی ایک کلیدی حوالہ ہے کیونکہ وہاں صرف دلائل پیش کیے گئے ہیں جبکہ یہاں اُن دلائل کو برت کر دکھایا گیا ہے۔ اس لحاظ سے اس نظم کی روشنی میں اُن دلائل کو بھی زیادہ بہتر طور پر سمجھا جا سکتا ہے۔ ایک دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ اس نظم کو پانچ حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے اور بالِ جبریل میں ہبوطِ آدم کے حوالے سے جو دو نظمیں ہیں وہ بھی بالترتیب پانچ اشعار اور پانچ بند پر مشتمل ہیں۔ کیا یہ محض اتفاق ہے؟ بظاہر یوں معلوم ہوتا ہے جیسے ’تسخیرِ فطرت‘ کے پانچ حصوں میں حقیقت کی پانچ بنیادی جہتیں پیش کی گئی ہیں اور بعد کی نظموں کے پانچ اشعار یا پانچ بند اِنہی کو فرشتوں یا روحِ ارضی کے حوالے سے برتتے ہیں۔ ’تسخیرِ فطرت‘ کا پہلا حصہ میلادِ آدم ہے یعنی آدم کی پیدائش۔ اس حصے میں زندگی کی مختلف قوتیں زندگی کی اُس نئی کیفیت سے مطابقت پیدا کرنے کی کوشش کر رہی ہیں جو آدم کے ظہور کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے۔ ’’عشق نے نعرہ لگایا کہ جگر کو خون کرنے والا عاشق پیدا ہو گیا، حسن لرز اُٹھا کہ ایک صاحب نظر آ گیا۔۔۔‘‘: نعرہ زد عشق کہ صاحب نظرے پیدا شد حسن لرزید کہ صاحب نظرے پیدا شد ’فرشتے آدم کو جنت سے رخصت کرتے ہیں‘ کے پہلے شعر میں خود آدم کی ایسی ہی حالت نظر آتی ہے اگرچہ فرشتوں کی زبانی بیان ہوتی ہے: عطا ہوئی ہے تجھے روز و شب کی بیتابی خبر نہیں کہ تُو خاکی ہے یا کہ سیمابی ’روحِ ارضی آدم کا استقبال کرتی ہے‘ کے پہلے بند میں بھی آدم کی اسی کیفیت کو روحِ ارضی کے نقطۂ نظر سے پیش کیا گیا ہے: کھول آنکھ زمیں دیکھ، فلک دیکھ، فضا دیکھ! مشرق سے اُبھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ! اُس جلوۂ بے پردہ کو پردوں میں چھپا دیکھ! ایامِ جدائی کے ستم دیکھ جفا دیکھ! بیتاب نہ ہو معرکۂ بیم و رجا دیکھ! دُوسرا حصہ ’انکارِ ابلیس‘ ہے۔ یہ وہ موقعہ ہے جب تمام فرشتے آدم کو سجدہ کر لیتے ہیں مگر ابلیس انکار کرتا ہے اور اس کا جواز پیش کرتا ہے، ’’میں نادان فرشتہ نہیں کہ آدم کو سجدہ کروں۔ وہ اصلاً خاک ہے اور میں آگ۔۔۔‘‘: نوریٔ ناداں نیم، سجدہ بآدم برم! اُو بہ نہاد است خاک، من بہ نژادِ آذرم! ’فرشتے آدم کو جنت سے رخصت کرتے ہیں‘ کے دوسرے شعر میں ایک طرح سے فرشتے اِسی بات کا جواب دے رہے ہیں جب وہ آدم سے کہتے ہیں: سنا ہے خاک سے تیری نمود ہے لیکن تری سرشت میں ہے کوکبی و مہتابی! ’روحِ ارضی آدم کا استقبال کرتی ہے‘ کے دوسرے بند کا مفہوم بھی اس مضمون سے دُور نہیں ہے: ہیں تیرے تصرف میں یہ بادل یہ گھٹائیں یہ گنبدِ افلاک یہ خاموش فضائیں یہ کوہ یہ صحرا یہ سمندر یہ ہوائیں تھیں پیشِ نظر کل تو فرشتوں کی ادائیں آئینۂ ایام میں آج اپنی ادا دیکھ! تیسرا حصہ ’اغواے آدم‘ ہے یعنی آدم کو ابلیس کی وہ ترغیب جس کے نتیجے میں انہیں جنت چھوڑنا پڑتی ہے۔ ’’دکھ سکھ سے بھری ہوئی رواں دواں زندگی ہمیشہ کے ٹھہراؤ سے بہتر ہے۔ جال میں تڑپنے پھڑکنے سے فاختہ بھی شاہیں ہو جاتی ہے۔۔۔‘‘ زندگیٔ سوزوساز، بہ زسکونِ دوام فاختہ شاہیں شود، از تپشِ زیرِ دام یہ ابلیس کی تلقین ہے مگر ’فرشتے آدم کو جنت سے رخصت کرتے ہیں‘ میں یہی بات فرشتوں کے لہجے میں بیان ہوئی ہے: جمال اپنا اگر خواب میں بھی تو دیکھے ہزار ہوش سے خوشتر تری شکرخوابی! ’روحِ ارضی آدم کا استقبال کرتی ہے‘کے تیسرے بند میں یہ بات روحِ ارضی کے نقطہ ٔ نظر سے بیان ہوتی ہے: سمجھے گا زمانہ تری آنکھوں کے اِشارے دیکھیں گے تجھے دُور سے گردُوں کے ستارے ناپید ترے بحرِ تخیل کے کنارے پہنچیں گے فلک تک تری آہوں کے شرارے تعمیرِ خودی کر اثرِ آہِ رسا دیکھ! چوتھا حصہ ’آدم از بہشت بیروں آمدہ می گوید‘ یعنی آدم بہشت سے باہر آ کر جو کہتے ہیں وہ ہے، ’’کتنا اچھا ہے زندگی کو تمام سوز و ساز کر لینا، پہاڑ اور میدان اور جنگل کا دل ایک ہو میں پگھلا دینا۔۔۔‘‘: چہ خوش است زندگی را ہمہ سوز و ساز کردن دلِ کوہ و دشت و دریا بہ دمے گداز کردن ’فرشتے آدم کو جنت سے رخصت کرتے ہیں‘ کے چوتھے شعر کا مضمون بھی اِسی نکتے کی تائید کرتا ہے: گراں بہا ہے ترا گریۂ سحرگاہی اِسی سے ہے ترے نخلِ کہن کی شادابی ’رُوحِ ارضی آدم کا استقبال کرتی ہے‘ کے چوتھے بند کا مفہوم بھی یہی ہے: خورشیدِ جہاں تاب کی ضَو تیرے شرر میں آباد ہے اِک تازہ جہاں تیرے ہنر میں جچتے نہیں بخشے ہوئے فردوس نظر میں جنت تری پنہاں ہے ترے خونِ جگر میں اے پیکرِ گِل کوششِ پیہم کی جزا دیکھ! پانچویں حصے ’صبحِ قیامت‘ میں آدم خدا سے جو خطاب کرتے ہیں اُس کا مفہوم یہ ہے کہ ناز کو اسیر کرنے کے لیے نیاز سے کام لینا ضروری تھا اور عقل کو فطرت سے مات کر کے ہی آگ سے پیدا ہونے والے اہرمن کو آدم اپنے سامنے سجدہ کرنے پر مجبور کر سکتا تھا، ’’اے کہ تیرے سورج سے رُوح کا ستارہ جگمگ جگمگ، میرے دل سے تو نے گھپ اندھیری دنیا کا چراغ روشن کیا۔۔۔‘‘ اے کہ زخورشیدِ تو کوکبِ جاں مستنیر از دلم افروختی شمعِ جہانِ ضریر ’فرشتے آدم کو جنت سے رخصت کرتے ہیں‘ کے پانچویں شعر میں آدم کے اس پورے خطاب کی جھلک موجود ہے۔ فرشتے آدم سے کہتے ہیں: تری نوا سے ہے بے پردہ زندگی کا ضمیر کہ تیرے ساز کی فطرت نے کی ہے مضرابی ’روحِ ارضی آدم کا استقبال کرتی ہے‘ کے پانچویں بند میں بالکل یہی بات رُوحِ ارضی نے اپنے انداز میں کی ہے: نالندہ ترے عود کا ہر تار ازل سے تو جنسِ محبت کا خریدار ازل سے تو پیرِ صنم خانۂ اسرار ازل سے محنت کش و خونریز و کم آزار ازل سے ہے راکبِ تقدیرِ جہاں تیری رضا دیکھ! اس موازنے سے اقبال کی کردارنگاری پر غور کرنے کا موقع بھی ملتا ہے یعنی ہر نکتہ جو نظم ’تسخیرِ فطرت‘ میں بیان ہوا ہے وہی نکتہ جب فرشتے اور روحِ ارضی اپنے اپنے انداز میں کہتے ہیں تو ان کے موازنے سے فرشتوں اور روحِ ارضی کے کرداروں کے خدوخال بھی واضح ہونے لگتے ہیں۔ ایک اور دلچسپ بات یہ ہے کہ چونکہ ’تسخیرِ فطرت‘ کے پانچ حصے ہیں لہٰذا تیسرا حصہ درمیانی حصہ ہے اور کہانی کے سیاق و سباق میں یہ ابلیس کی آواز ہے لیکن درحقیقت یہی حصہ اور اِسی آواز کا پیغام نہ صرف پوری ’تسخیرِ فطرت‘ کا مرکزی خیال ہے بلکہ فرشتے آدم کو جنت سے رخصت کرتے ہوئے اور روحِ ارضی آدم کا استقبال کرتے ہوئے جو کچھ کہتے ہیں وہ بھی اسی پیغام کی بازگشت ہے، صرف لہجوں کا فرق ہے۔ اِس طرح ابلیس کے اُس دعوے کا ثبوت خودبخود فراہم ہو جاتا ہے جو اُس نے نہ صرف اِس نظم کے دوسرے حصے بلکہ اقبال کی تصانیف میں بعض اور مقامات پر بھی اپنے بارے میں کیا ہے یعنی اُس کے سوز سے خونِ رگِ کائنات میں حرارت ہے! نظم ’تسخیرِ فطرت‘ کی ایک اور اہمیت یہ ہے کہ یہ کسی ایک تاریخی واقعے تک محدود نہیں بلکہ اس میں وہ تاریخی واقعہ ایک ایسے انداز میں پیش کیا گیا ہے کہ وہ اُس کشمکشِ انقلاب کا بیان بھی ہے جو ہم میں سے ہر شخص اور دنیا میں ہر تہذیب کے باطن میں جاری و ساری ہے۔ اس لحاظ سے ’صبحِ قیامت‘ آدم کو خدا سے جو خطاب کرنا ہے وہ صرف ابوالانبیا ہی کو نہیں بلکہ ہم میں سے ہر ایک کو خدا سے کرنا ہے خواہ یہ خطاب فرداً فرداً ہو، خواہ ابوالانبیا پوری نسلِ انسانی کی طرف سے خطاب کریں، خواہ بہت سے انسان ایک زبان اور ایک نگاہ کے طور پر یہ خطاب کریں۔ پیامِ مشرق کے دیباچے میں اقبال نے ایک نئے آدم کا ذکر کیا تھا جو غالباً وہی تھا جس کے لیے ’اسرارِ خودی‘ کے آخر میں خدا سے دعا بھی مانگی تھی۔ ’تسخیرِ فطرت‘ کو غور سے پڑھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ جس آدم کے بارے میں ہے وہ یہ ’’نیا آدم‘‘ بھی ہو سکتا ہے۔ مثلاًیہ آدم خدا سے کہتا ہے کہ عقل کو فطرت سے مات کر نا ضروری تھا۔ پیامِ مشرق کے آخر میں اقبال نے دانش ورانِ فرنگ کو بھی یہی دعوت دی ہے۔ ’تسخیرِ فطرت‘ کے آدم کا بیان ایک ایسے لمحے کا تاثر دیتا ہے جب اقبال کی دعوت کامیاب ہو بھی چکی اور اس کے نتائج بھی حسبِ خواہش حاصل ہو چکے۔ ۳ دوسرا باب جو غزلیات پر مشتمل ہے اس کا عنوان ’مئے باقی‘ ہے اور اس لحاظ سے بہت مناسب ہے کہ یہ غزلیات فارسی میں اور اس سے اگلی تصنیف بانگِ درا کی غزلیات اُردو میں اقبال کی پرانی طرز کی غزلیات کے آخری نمونے ہیں کیونکہ اس کے بعد اقبال نے جو غزل نما چیزیں فارسی اور اُردو میں پیش کیں، مثلاٍ زبور عجم اور بال جبریل میں، وہ روایتی معنوں میں غزلیات نہ تھیں بلکہ ان کی ہئیت کے بارے میں اقبال شناسوں کے درمیان آج بھی بحث جاری ہے۔ پیامِ مشرق کی یہ غزلیات گذشتہ پندرہ سولہ برس کے عرصے پر محیط ہیں کیونکہ ان میں سے ایک غزل اقبال کی بیاضوں میں سب سے پرانی دستیاب بیاض میں بھی موجود ہے جہاں اس کے اندراج سے گمان گزرتا ہے کہ یہ کیمبرج میں اپریل ۱۹۰۷ء میں کہی گئی ہو گی۔ اس طرح یہ غزلیں ’مارچ ۱۹۰۷‘ والے ذہنی انقلاب یا شرح صدر کے بعد کے تشکیلی دَور سے بھی تعلق رکھتی ہیں اور ان میں حافظ شیرازی کا رنگ بھی نمایاں ہے۔ اقبال کے نزدیک کسی بڑے شاعر کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کا ایک طریقہ یہ بھی تھا کہ داد دینے والا اگر خود بھی شاعر ہو تو اُس کے تتبع میں شعر کہے۔ اس لحاظ سے پیامِ مشرق کے ’مے ٔ باقی‘ والے باب کا ایک بہت بڑا حصہ حافظ شیرازی کو خراجِ عقیدت سمجھا جا سکتا ہے اور سمجھا جانا بھی چاہیے۔ بعض اقبال شناسوں کو اِس وجہ سے تعجب ہوتا ہے کیونکہ اقبال نے ’اسرارِ خودی‘ کے پہلے اڈیشن میں حافظ کے خلاف رائے دی تھی جس پر بہت ہنگامہ بھی ہوا تھا۔ اس سلسلے میں یہ بات بھلا دی جاتی ہے کہ بمشکل دو برس بعد اقبال نے حافظ کے خلاف اشعار ’اسرارِ خودی‘ کے دوسرے اڈیشن سے نکال بھی دیے۔ کوئی وجہ نہیں ہے کہ اسے صرف مصلحت اندیشی پر محمول کیا جائے۔ اقبال کو مصلحت سے کام لینا ہوتا تو اس کا موقع وہ تھا جب ’اسرارِ خودی‘ کی مخالفت کا طوفان عروج پر تھا نہ کہ دوسرے اڈیشن کا وہ موقع جب ’رموزِ بیخودی‘ کی وجہ سے فضا اقبال کے حق میں ہموار ہو چلی تھی (اس مسئلے کی مزید تفصیل میری مختصر کتاب انداز محرمانہ میں ملاحظہ کیجیے)۔ اقبال کی تمام تصانیف میں یہی ’مے ٔ باقی‘ ایسا مقام ہے جہاں قاری کو اقبال کی داخلی کیفیات سے براہِ راست شناسائی کا موقع آسانی سے دستیاب ہوتا ہے کیونکہ بقیہ مقامات پر وہ عموماً کسی نہ کسی موضوع کے حوالے سے مخاطب ہوتے ہیں یہاں تک بانگِ درا کی رومانوی منظومات میں بھی کوئی نہ کوئی فلسفیانہ موضوع نظم کے بیچ میں آ جاتا ہے۔ اس کے برخلاف یہاں صرف اقبال اور ان کی داخلی کیفیات ہیں۔ گویا اقبال کو رندانہ بیخودی کے عالم میں دیکھنا ہو تو اُس کا موقع یہی ہے۔ اُنہیں اس عالم میں دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ سر تا پا عشق ہیں، ’’عاشق کعبے اور بتخانے میں فرق نہیں کرتا کہ وہاں محبوب سب کے سامنے ملتا ہے اور یہاں تنہائی میں۔۔۔‘‘: فرقے نہ نہد عاشق در کعبہ و بتخانہ آں جلوتِ جانانہ، ایں خلوتِ جانانہ دیباچے میں اقبال نے لکھا تھا کہ فطرت زندگی کی گہرائیوں میں نئے آدم کے لیے جو دنیا تعمیر کر رہی ہے اُس کا ایک دھندلا سا خاکہ برگساں اور آئن سٹائن کی تصانیف میں دکھائی دیتا ہے۔ پیامِ مشرق کا حصہ ’نقشِ فرنگ‘ پڑھتے ہوئے یوں لگتا ہے جیسے اُس آنے والی دنیا کا دھندلا سا خاکہ نہیں بلکہ اس کے بڑے واضح نقوش ہمارے سامنے اُبھر رہے ہوں۔ یہ ایک ایسی دنیا ہے جہاں مولانا روم کی حکمت کے سامنے ہیگل کا طلسم باطل ہو رہا ہے، گوئٹے مولانا روم کو فاؤسٹ سنا کر اُن کا تبصرہ لے رہا ہے اور مشرق و مغرب کے شعرا مل کر مشاعرے برپا کر رہے ہیں کہ غالب کے مصرع طرح پر بروننگ، بائرن اور مولانا روم اپنے اپنے خیالات پیش کر رہے ہیں۔ غور کیا جائے تو پیامِ مشرق کی اشاعت کے بعد سے مشرق و مغرب کی ادبی فضا مستقل اِسی نوعیت کے منظرنامے کی طرف بڑھ رہی ہے۔ گوئٹے اور مولانا روم کا فاؤسٹ پر تبادلہ ٔ خیال کرنا اُس زمانے میں ایک ایسا عجیب و غریب تصور تھا کہ جب رینالڈ نکلسن نے پیامِ مشرق پر تبصرہ کرتے ہوئے اس نظم کا ترجمہ پیش کیا تو اُسے پڑھ کرجرمن طالبہ اینا میری شمل چونک اُٹھی تھیں اور وہیں سے اقبال کے بارے میں اُن کا وہ تجسس بیدار ہوا تھا جس نے بعد میں اُنہیں ایک ممتاز مستشرق بنا دیا۔ آج اَسی پچاسی برس بعد یہ خیال اِس وجہ سے عجیب و غریب نہیں رہا کیونکہ اَینا میری شمل سمیت ہزاروں لکھنے پڑھنے والوں کے مزاج اِسی قسم کے موازنوں کی طرف مائل ہوئے بھی عرصہ گزر چکا ہے۔ گویا پیامِ مشرق میں جس دنیا کا نقشہ پیش کیا گیا تھا ہمارے اطراف میں وہ وجود میں آنا شروع بھی ہو گئی ہے! اِن حالات میں ’نقشِ فرنگ‘ کی پہلی نظم ’پیام‘ کی اہمیت بڑھ جاتی ہے جس میں اقبال نے بادِ صبا کے ہاتھوں دانش ورانِ فرنگ کو یہ پیغام بھجوایا ہے کہ مغربی تہذیب نے کائنات کے سربستہ رازوں سے جس طرح پردے اُٹھائے ہیں وہ لائقِ تحسین ہے مگر محض عقل پر بھروسہ کرکے مادے اور روح، عقل اور دل، ریاست اور مذہب میں نفاق پیدا کرنا دانشمندی کی بات نہیں ہے۔ اب ایک نئی دنیا وجود میں آ رہی ہے اور نری مادیت پرستی وہاں کام نہ آئے گی: زندگی جوے روان است و رواں خوہد بود ایں میٔ کہنہ جوان است و جواں خوہد بود آنچہ بود است و نباید زمیاں خواہد رفت آنچہ بایست و نبود است ہماں خواہد بود عشق از لذّتِ دیدار سراپا نظر است حسن مشتاقِ نمود است و عیاں خواہد بود آں زمینے کہ برو گریۂ خونیں زدہ ام اشکِ من در جگرش لعلِ گراں خواہد بود ’’مژدۂ صبح دریں تیرہ شبانم دادند شمع کشتند و زخورشید نشانم دادند‘‘ [ترجمہ]: زندگی بہتی ہوئی ندی ہے اور بہتی ہی رہے گی یہ پرانی شراب نشے سے بھری ہوئی ہے اور بھری ہی رہے گی جو کچھ ہے مگر نہیں ہونا چاہیے، وہ مٹ جائے گا جو ہونا چاہیے تھا لیکن نہیں ہوا، وہ ہو جائے گا عشق دیدار کی لذت سے سراپا نظر بن گیا ہے حسن رونمائی چاہتا ہے اور بے نقاب ہو کر رہے گا وہ زمین جس پر میں نے خون کے آنسو گرائے ہیں میرا اشک اس کے جگر میں یاقوت بن جائے گا ’’مجھے اس اندھیری رات میں صبح کی بشارت دی گئی شمع بجھا دی گئی مگر سورج کی جھلک مجھے دکھا دی گئی‘‘ یہ اس نظم کا آخری بند ہے۔ آخری شعر جس پر یہ نظم ختم ہوتی وہ غالب کا ہے۔ شائد یہ اس مناسبت سے بھی ہو کہ اقبال غالب کو گوئٹے کا ہمنوا سمجھتے تھے (جیسا کہ اگلی تصنیف بانگِ درا کے پہلے حصے کی نظم ’مرزا غالب‘ سے معلوم ہوتا ہے)۔ البتہ اقبال اِس نکتے سے بھی بخوبی واقف تھے کہ نئے آدم کا ظہور مغرب میں نہیں بلکہ مشرق میں ہو گا اور یہ نئی دنیا بھی مشرق ہی میں وجود میں آئے گی۔ اس کی وجہ بھی صاف ظاہر تھی۔ دیباچے میں اُنہوں نے لکھا تھا: خالص ادبی اعتبار سے دیکھیں تو جنگ عظیم کی کوفت کے بعد یورپ کے قوائے حیات کا اضمحلال ایک صحیح اور پختہ ادبی نصب العین کی نشو و نما کے لیے نامساعد ہے۔ بلکہ اندیشہ ہے کہ اقوام کی طبائع پر وہ فرسودہ، سست رگ اور زندگی کی دشواریوں سے گریز کرنے والی عجمیت غالب نہ آ جائے جو جذباتِ قلب کو افکارِ دماغ سے متمیز نہیں کر سکتی۔ دیباچے کے اس حصے کی مفصل تشریح کا یہ موقع نہیں ہے مگر اِتنا ضرور کہا جا سکتا ہے کہ اس مختصر سے تبصرے میں اُن تمام غلط فہمیوں اور پیچ در پیچ مغا لطوںکی پیش بندی موجود ہے جو پیامِ مشرق کے بعد سے اب تک مشرق و مغرب کے ادبی اور فکری منظرنامے پر رونما ہوئے اور جن کی وجہ سے بعض اوقات اقبال کو سمجھنا اور اپنے اطراف میں وجود پانے والی ایک نئی دنیا کو آنکھیں کھول کر دیکھنا بھی مشکل ہو گیا ہے۔ باب ۳ بانگِ درا اُردو شاعری میں اقبال کی حیثیت بیسویں صدی کے آغاز ہی سے مستحکم تھی مگر اُن کی اردو شاعری کا پہلا مجموعہ ۱۹۲۴ء میں بانگِ درا کے عنوان سے سامنے آیا۔ اس طرح بانگِ درا میں اگرچہ ابتدائی دَور کی شاعری بھی شامل ہے مگر ۱۹۲۴ء میں ترتیب پا کر شائع ہونے کی وجہ سے یہ اقبال کی پہلی نہیں بلکہ تیسری شعری تصنیف ہے یعنی اگر ہم اقبال کی شعری تصانیف کو ترتیب میں پڑھتے ہوئے اس پر پہنچیں تو ہم پہلے اسرار و رموز اور پیامِ مشرق کے ذریعے اقبال کے پیغام سے اچھی طرح واقف ہو چکے ہوتے ہیں۔ اس ترتیب میں بانگِ درا کی اہمیت یہ ہے کہ یہ ہمیں اُس پیغام کے پس منظر سے واقف کرتی ہے۔ ۱۹۲۲ء میں اقبال نے ایک خط میں لکھا تھا کہ ان کی زندگی میں ایسے واقعات نہیں ہیں جن کی بنا پر اُن کی سوانح لکھی جا سکے مگر اُن کے خیالات کا بتدریج ارتقا ایک ایسا موضوع ہے جسے وہ خود اپنے ذہن کی سرگزشت کے طور پر قلم بند کرنا چاہتے ہیں۔ عجیب بات ہے کہ ماہرین اقبال نے عام طور پر یہ سمجھا ہے کہ اقبال اس قسم کی کوئی سرگزشت نثر میں لکھنا چاہتے ہوں اور چونکہ نثر میں اُن کی ایسی تصنیف موجود نہیں ہے لہٰذا اس کا مطلب ہے کہ وہ اسے نہ لکھ سکے۔ یہ دونوں باتیں محلِ نظر ہیں۔ اقبال جیسی شخصیت سے یہ بات زیادہ قرین قیاس ہے کہ وہ اپنے ذہن کی سرگزشت بزبانِ شعر لکھتے جبکہ ان کے محبوب شعرا میں اس کی ایک بہت بڑی مثال موجود بھی تھی یعنی ورڈزورتھ جس نے پریلیوڈ کے عنوان سے اس قسم کا شعری کارنامہ انجام دیا تھا۔ اب اقبال کی شعری تصانیف پر نظر ڈالی جائے تو صاف نظر آتا ہے کہ بانگِ درا ایک طرح سے ان کے ذہن کی سرگزشت ہی ہے۔ دیباچے میں شیخ عبدالقادر نے کتاب کا تعارف جس طرح کروایا ہے وہ بھی اسی بات کی طرف اشارہ کرتا ہے مگر اِس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ تصنیف کو جن تین حصوں میں تقسیم کیا گیا وہ ذہنی ادوار ہیں یعنی : ۱۹۰۵ء تک یورپ جانے سے پہلے کا دَور ۱۹۰۵ء سے ۱۹۰۸ء یورپ میں قیام کا دَور ۱۹۰۸ء کے بعد یورپ سے واپسی کے بعد کا دَور بظاہر یہ نظموں کا مجموعہ دکھائی دیتا ہے مگر نظموں کو جس طرح ترتیب دیا گیا ہے اُس کی وجہ سے یہ ایک مستقل تصنیف اور شاعر کے ذہنی سفر کی روداد بن جاتی ہے۔ بانگِ درا کی ترتیب کی وجہ سے نظموں میں جو زبردست باہمی ربط پیدا ہوا ہے اُس کی ایک مثال پہلے حصے کی وہ سات نظمیں ہیں جن پر ’بچوں کے لیے‘ کی ذیلی سرخی درج ہے۔ ان کا جائزہ میں نے موجودہ سیریز کے ایک اور بروشر انداز محرمانہ میں پیش کیا ہے مگر اِس قسم کا ربط پوری کتاب میںملتا ہے۔ ۲ کوئی تحریر بچوں کے لیے لکھی جائے تو اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ بڑوں کو اِس کا مطالعہ غور سے نہیں کرنا چاہیے۔ ایلس اِن ونڈرلینڈ بچوں کے لیے لکھی گئی مگر اُسے بڑوں نے بھی توجہ سے پڑھا اور اُس کے مصنف کی فنکاری کی داد دی۔’بچے کی دُعا‘ یعنی ’’لب پہ آتی ہے دُعا بن کے تمنا میری‘‘، جسے بچے کئی نسلوں سے اسکولوں میں پڑھ رہے ہیں، اُس میں جو رموز پنہاں ہیں اُن کی طرف کسی نے توجہ نہیں دی۔ شروع میں جو دُعا مانگی جا رہی ہے وہ نظم کے بیچ میں جا کر بالکل اُلٹ جاتی ہے یعنی ’’زندگی شمع کی صورت ہو‘‘ سے ’’زندگی ہو مری پروانے کی صورت‘‘ ہو جاتی ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ نظم پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ دُعا ایک سفر ہے جس میں بچہ مختلف منازل سے گزر رہا ہے۔ شمع کی صورت ہونے کی تمنا آغازِ سفر اور پروانے جیسی زندگی مانگنا درمیانِ سفر ہے۔ انجامِ سفر جاننے کے لیے نظم کو ایک دفعہ پھر پڑھنا ہوگا: بچے کی د ُعا (ما خو ذ) بچوں کے لیے لب پہ آتی ہے دُعا بن کے تمنا میری زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری! دُور دنیا کا مرے دم سے اندھیرا ہو جائے! ہر جگہ میرے چمکنے سے اُجالا ہو جائے! ہو مرے دم سے یونہی میرے وطن کی زینت جس طرح پھول سے ہوتی ہے چمن کی زینت زندگی ہو مری پروانے کی صورت یا رب! علم کی شمع سے ہو مجھ کو محبت یا رب! ہو مرا کام غریبوں کی حمایت کرنا دردمندوں سے ضعیفوں سے محبت کرنا مرے اﷲ! برائی سے بچانا مجھ کو نیک جو راہ ہو اس رہ پہ چلانا مجھ کو پہلے شعر میں شمع جیسی زندگی کی تمنا کی ہے مگر شمع کی بہت سی خصوصیات ہیں جن میں آنسو بہانا، جلنا، گھل گھل کر مر جانا یا روشنی پھیلانا سبھی شامل ہیں۔ ان میں سے کون سی خصوصیت مقصود ہے، یہ بات دُوسرے شعر میں سامنے آتی ہے یعنی چمکنا، اُجالا کرنا اور پوری دُنیا سے اندھیرا دُور کر دینا مگر روشنی صرف اُسے راستہ دکھا سکتی ہے جس کے پاس آنکھیں ہوں۔ تیسرے شعر میں اِس کا ازالہ ہوتا ہے یعنی پھول کی خوشبو اُسے بھی باغ کی طرف لا سکتی ہے جو بینائی سے محروم ہو (پیامِ مشرق میں اس مضمون کا شعر ایک فارسی اُستاد کے کلام سے شامل بھی کیا گیا ہے)۔ پھول کا وطن تو اُس کا باغ ہوتا ہے مگر انسان کا وطن کہاں ہے؟ بانگِ درا حصہ اول میں جگہ جگہ یہ خیال موجود ہے کہ انسان کا وطن جنت ہے: یادِ وطن فسردگیٔ بے سبب بنی شوقِ نظر کبھی، کبھی ذوقِ طلب بنی یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ اُس دَور کی وہ شاعری جسے عام طور پر حب الوطنی کی شاعری سمجھا جاتا ہے اُس میں بھی وطن کے حقیقی معنی جنت ہی ہیں اور صرف مجازی معانی میں اُن سے ہندوستان مراد لیا گیا ہے۔ چنانچہ جہاں بھی ہندوستان کا ذکر ہے وہاں ساتھ ساتھ جنت کا ذکر بھی ہے، مثلاً ’’جنت کی زندگی ہے جس کی فضا میں جینا،‘‘ یا ’’گلشن ہے جن کے دم سے رشکِ جناں ہمارا‘‘ وغیرہ۔ یہ گویا سفر کی سب سے اونچی منزل ہے جہاں انسان اپنے ممکنات کا جائزہ لینے کے قابل ہو جاتا ہے۔ اب یہ بھید کھلنالازمی ہے کہ اگر اُس نے شمع جیسی زندگی مانگی تھی تو ظاہر ہے کہ وہ شمع نہیں تھا ورنہ ویسی زندگی مانگنے کی تمنا کرنے کی ضرورت ہی نہ ہوتی۔ یہ بھی ظاہر ہے کہ وہ پروانہ تھا جبھی اُسے شمع جیسا بننے کی خواہش تھی۔ اِس خودآگہی کے بعد بچہ دُعا مانگ رہا ہے کہ جو اُس کی اصل ہے اُسی کے مطابق وہ اپنی انتہا تک پہنچ سکے یعنی اُسے علم کی شمع سے محبت ہو جائے۔ اِس سیاق و سباق میں علم کا مطلب محض امتحان پاس کرنا نہیں ہو سکتا۔ یہ وہ علم ہے جو حقیقت سے آگہی کا نام ہے۔ اِسے حاصل کر کے انسان وہ نہیں رہتا جو وہ تھا بلکہ کچھ اور ہو جاتا ہے۔ یہ جیتے جی مر کر پیدا ہونے والی بات اور وہ لازمی تجربہ ہے جس سے گزرے بغیر نئی قدریں تخلیق نہیں کی جا سکتیں۔ چنانچہ غریبوں کی حمایت اور دردمندوں، ضعیفوں سے محبت صرف کہنے کی بات نہیں ہے بلکہ یہ اپنے وجود میں ایک سماجی قدر کی تخلیق ہے جس کا ماخذ عشقِ رسولؐ ہے (پچھلے شعر میں محبت کا ذکر تھا اور اقبال کے نظامُ الاسرار میں عشق کا پیمانہ عشقِ رسولؐ کے سوا کچھ اور نہیں ہے)۔ ہمارے خطے میں اکثر بچوں کے لیے عشقِ رسولؐ کا ایک اولین تعارف مولانا حالیؔ کے مندرجہ ذیل اشعار ہوتے ہیں: وہ نبیوں میں رحمتؐ لقب پانے والا مرادیں غریبوں کی بر لانے والا مصیبت میں غیروں کے کام آنے والا وہ اپنے پرائے کا غم کھانے والا فقیروں کا ملجا، ضعیفوں کا ماویٰ یتیموں کا والی، غلاموں کا مولیٰ غور کیجیے کہ بچے نے جو تہذیبی قدر تخلیق کی اُس میں انہی اشعار کی طرف کتنی واضح تلمیح موجود ہے: ہو مرا کام غریبوں کی حمایت کرنا دردمندوں سے، ضعیفوں سے محبت کرنا گویا لفظوں کا محتاط انتخاب اِس کردار کے تہذیبی پس منظر کو بھی واضح کررہا ہے اور اُسے اقبال کے کلام کے دُوسرے مقامات کے ساتھ مربوط بھی کر رہا ہے۔ اب یہ بھی واضح ہو جاتا ہے کہ نظم کے آخری شعر میں جس ’’برائی‘‘ سے پناہ مانگی ہے اور جس ’’نیک راہ‘‘ کی توفیق چاہی ہے وہ کیا ہیں۔ برائی وہ ہے جو تلاشِ حقیقت میں سفر کی ان تمام منزلوں سے گزرنے کی بجائے ایک سطح پر رُک کر سالک کو مقامات میں گم کر دے۔ نیک راہ وہ ہے جواُسے انتہا تک پہنچا دے۔ دراصل یہ نظم اُس داخلی آزادی کے بارے میں ہے جو کائنات کے ظاہری اور باطنی اصولوں کے علم سے ملتی ہے۔ اِس کا ایک اشارہ یہ بھی ہے کہ پہلے شعر میں بچہ معبود کو ’’خدایا‘‘ یعنی اے خدا کہہ کر پکارتا ہے۔ خدا ایک طرح سے اسمِ نکرہ ہے جو محض اِس لیے اسم معرفہ کی طرح استعمال ہوتا ہے کیونکہ اِس کا اطلاق ایک ہی ہستی پر ممکن ہے ورنہ یہ اُس ہستی کا ذاتی نام نہیں بلکہ معبود کے ایک صحیح تصوّر کااستعارہ ہے۔ یہ حقیقت کی پہلی سطح ہے مگر خودآگاہی کے بعد چوتھے شعر میں بچہ اپنے معبود کو ’’یا رب‘‘ یعنی اے پروردگار کہہ کر پکارتا ہے جس میں ایک اپنائیت ہے اور یہ خدا کی اُس صفت کا حوالہ ہے جس کا تجربہ اُصولوں اور امکانات کی پہچان کے بعد ہوتا ہے۔یہ مقامِ عشق ہے۔ آخری شعر میں بچہ خود ایک تہذیبی قدر کی تخلیق کر چکا ہے جو اسلامی تہذیب کی اعلیٰ قدر ہے چنانچہ اب وہ خدا کو اُس کے ذاتی نام سے پکارتا ہے یعنی ’’میرے اللہ‘‘۔یہ گویا عرفان کی منزل ہے جہاں وہ نہ صرف خدا کے ذاتی نام یعنی اللہ سے واقف ہو گیا ہے بلکہ اُسے ’’میرے اللہ‘‘ کہنے کی رَمز سے بھی شناسا ہے۔ ’’ اے خدا‘‘ سے ’’میرے اللہ‘‘ تک جو سفر ہے صرف اُسی پر بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے۔ ۳ بانگِ درا میں جن نظموں پر اقبال نے ’بچوں کے لیے‘ کا ذیلی عنوان درج کیا وہ حصۂ اول میں ایک خاص ترتیب کے ساتھ اکٹھی ہیں۔ اُس ترتیب میں پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک ہی کردار کی سرگزشت ہے جس کی خودی پہلے مکھی کی طرح ہے جسے مکڑے یعنی شیطان سے خطرہ ہے پھر گلہری، بکری، بچہ (انسان)، جگنو وغیرہ اُس کے سفر کے مراحل ہیں۔تعجب ہے کہ یہ نظمیں اِس قدر مقبول ہونے کے باوجود اِس باہمی ربط پر کبھی توجہ نہیں دی گئی۔ بانگِ درا میں اِن کی ترتیب یہ ہے: ۱ ایک مکڑا اور مکھی ۲ ایک پہاڑ اور گلہری ۳ ایک گائے اور بکری ۴ بچے کی دُعا ۵ ہمدردی ۶ ماں کا خواب ۷ پرندے کی فریاد نظموں کے عنوانات ہی ظاہر کرتے ہیں کہ مرکزی کردار بتدریج بڑھتے جا رہے ہیں یعنی مکھی، گلہری، بکری اور بچہ (جو انسان ہے)۔ اگلی نظم کا جگنو دراصل اُسی بچے کی خودی ہے جس نے روشنی بن جانے کی دعا مانگی۔ ماں کا خواب میں پھر بچہ ہے اور آخری نظم میں فریادی پرندہ اُسی بچے کی روح ہے۔ پہلی نظم میں جو مسئلہ پیش ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ خودی کیا ہے۔ مکڑا مکھی کو پھانسنے میں اُسی وقت کامیاب ہوتا ہے جب اُس کے سامنے اُس کی ایسی تصویر پیش کرتا ہے جیسی وہ ہے نہیں مگر جیسا اپنے آپ کو دیکھنا چاہتی ہے۔ مکھی اپنی خودی کی نفی کر کے جب اُس فرضی تصویر میں آباد ہو جاتی ہے تو معدوم ہو جاتی ہے۔ ضربِ کلیم کے لحاظ سے: یہی کمال ہے تمثیل کا کہ تُو نہ رہے رہا نہ تُو، تو نہ سوزِ خودی، نہ سازِ حیات مکڑا مکھی سے تین جھوٹ بولتا ہے اور وہ تینوں جھوٹ اُن تین شہادتوں کے خلاف ہیں جنہیں جاویدنامہ کی ’تمہیدِ زمینی‘ میں مولانا روم نے بقائے دوام کی شرط بتایا ہے یعنی اپنے وجود پر تین گواہ طلب کرو جن میں سے پہلے گواہ تم خود ہو، دوسرا گواہ اپنے آپ کو دوسرے کی آنکھ کے نور سے دیکھنا ہے اور تیسرا گواہ اپنے آپ کو خدا کے نور سے دیکھنا ہے۔ مکڑے کا یہ کہنا کہ ’’غیروں سے مگر چاہیے یوں کھنچ کے نہ رہنا‘‘ دراصل خدا پر جھوٹ ہے جس نے مکھی کو مکڑے کے لیے غیر بنا کر اُسے گویا مکڑے سے کھنچ کر رہنے کی وحی کر دی ہے۔ اُس کا دُوسرا جھوٹ کہ اُس کے گھر میں بہت خوشنما چیزیں ہیں دراصل اپنے بارے میں جھوٹ ہے کیونکہ حقیقت میں اُس کا گھر سب گھروں سے زیادہ کمزور ہے۔ اُس کا تیسرا جھوٹ کہ مکھی کی آنکھیں ہیرے کی کنیوں جیسی ہیں، وغیرہ، مکھی کے بارے میں جھوٹ ہے۔ مکھی اِس تیسرے جھوٹ کو قبول کرتے ہی خود بھی تین جھوٹ بول جاتی ہے: مکھی نے سنی جب یہ خوشامد تو پسیجی بولی کہ نہیں آپ سے مجکو کوئی کھٹکا انکار کی عادت کو سمجھتی ہوں برا میں سچ یہ ہے کہ دل توڑنا اچھا نہیں ہوتا اُس کا یہ کہنا کہ اُسے مکڑے سے کوئی کھٹکا نہیں، مکڑے کے بارے میں جھوٹ ہے۔ یہ کہنا کہ وہ انکار کی عادت کو برا سمجھتی ہے اپنے بارے میں جھوٹ ہے کیونکہ وہ پہلے دو دفعہ انکار کر چکی ہے۔ یہ کہنا کہ دل توڑنا اچھا نہیں ہوتا، خدا کے بارے میں جھوٹ ہے جس نے یہ قانون بنایا ہے کہ مکڑے کا دل توڑنے ہی میں مکھی کی عافیت ہے۔ دل رکھنے کی غلط تعبیر اُس اخلاقیات کا نمونہ ہے جو سچ کو جھوٹ سے ملا کر خدا اور قانونِ قدرت سے مذاق کرنے کے مترادف ہو جاتی ہے۔ اِس کا انجام وہی ہوتا ہے جو مکھی کا ہوا۔ بالِ جبریل کے لحاظ سے: افسوس صد افسوس کہ شاہیں نہ بنا تُو دیکھے نہ تری آنکھ نے قدرت کے اشارات اگلی نظم’ایک پہاڑ اور گلہری‘ میں وہ بات بتائی جا رہی ہے جسے دریافت کر کے مکھی سلامت رہ سکتی تھی یعنی ’’ہر ایک چیز سے پیدا خدا کی قدرت ہے‘‘۔ خدا نے جس چیز کو جیسابنایا ہے اُس میں کوئی مصلحت ہے۔ کسی کے چھوٹا ہونے میںکوئی کمی نہیں کیونکہ بڑا بھی تو اُس کی طرح چھوٹا نہیں ہے۔ مکھی کی آنکھیں اگر ہیرے کی کنیاں نہیںتھیں تو اُسے اِس حقیقت سے فرار کی راہ تلاش کرنے کی بجائے اِس حقیقت کے ساتھ اپنے آپ پر فخر کرنا چاہیے تھا کیونکہ: نہیں ہے چیز نکمی کوئی زمانے میں کوئی برا نہیں قدرت کے کارخانے میں اِس آخری نکتے کو سمجھنا گویا قرآن کے ایک بنیادی اصول کو سمجھنا ہے جسے خدا نے یوں کہا ہے کہ خدا اپنی کتاب میں مچھر جیسی چیز سے بھی کوئی مثال دینے میں نہیں شرماتا۔گلہری کے مکالمے کا آخری شعرخودبخود ہمیں اگلی منزل کی طرف لے جاتا ہے جوانسان کے مقام کو سمجھنے سے متعلق ہے۔ چنانچہ اگلی نظم میں ظاہری دُنیا بڑی شرح و بسط کے ساتھ پیش کی گئی ہے کہ ’’کیا سماں اُس بہار کا ہو بیاں!‘‘۔ گائے انسان کی شکایت کرتی ہے تو بکری اُسے سمجھاتی ہے کہ ’’یہ مزے آدمی کے دم سے ہیں‘‘ گویا گرمیٔ آدم ہی سے ہنگامۂ عالم گرم ہے۔ظاہری حقیقت کی باطنی سطح کا انکشاف انسان کے اشرف ا لمخلوقات ہونے ہی میں ہے کیونکہ توحید میں یہ رمز پنہاں ہے۔ بکری نے انسان کی جس قدرت کا ذکر کیا وہ انسان کو علم کے ذریعے حاصل ہوتی ہے چنانچہ اگلی نظم ’ایک بچے کی دُعا‘ ہے جس میں انسان جو ابھی ایک بچہ ہے دُعا مانگ رہا ہے کہ اُسے علم کی شمع سے محبت ہو۔ اِس علم سے جس قسم کا تجربہ مراد ہے اُس کی تفصیل اور ’’اے خدا‘‘ سے ’’میرے اللہ‘‘ تک سفر کی منزلوں کو ذہن میں رکھنے سے واضح ہوتا ہے کہ ’ہمدردی‘ کے شروع میں جو بلبل اُداس بیٹھا ہے وہ دراصل دُعا مانگنے والے کی رُوح ہے۔ عارفانہ ادب میں پرندے سے مراد ہمیشہ انسانی رُوح ہوتی ہے جو آشیانے تک پہنچنے کے لیے بیتاب ہے۔ چنانچہ اِس نظم کا پرندہ بھی اُڑنے چگنے میں دن گزارنے پر افسردہ ہے جس کی وجہ سے اُس کا واپس اپنے آشیانے تک پہنچنا محال ہے خاص طور پر جبکہ ہر چیز پر وہ اندھیرا چھا گیا ہوجسے نقابِ آگہی کہتے ہیں اور جو ہمیشہ غبارِ دیدۂ بینا ہوتا ہے۔ ملاحظہ کیجیے: ہمد ر د ی ( ماخوذ از ولیم کو پر ) بچوں کے لیے ٹہنی پہ کسی شجر کی تنہا بُلبل تھا کوئی اُداس بیٹھا کہتا تھا کہ رات سر پہ آئی اُڑنے چُگنے میں دن گزارا پہنچوں کِس طرح آشیاں تک ہر چیز پہ چھا گیا اندھیرا سُن کر بُلبل کی آہ و زاری جُگنو کوئی پاس ہی سے بولا حاضر ہُوں مدد کو جان و دل سے کِیڑا ہوں اگرچہ مَیں ذرا سا کیا غم ہے جو رات ہے اندھیری مَیں راہ میں روشنی کروں گا اﷲ نے دی ہے مجھ کو مشعل چمکا کے مجھے دِیا بنایا ہیں لوگ وہی جہاں میں اچھے آتے ہیں جو کام دوسرں کے یہ جگنو کون ہے؟ غور کیجیے کہ وہ ’’پاس ہی سے‘‘ بولاہے۔ خودی کا نشیمن دل میں ہیِ جس طرح فلک آنکھ کے تِل میں ہے۔ یہ جگنو وہی خودی ہے جو علم کی شمع سے محبت کر کے خود بھی روشن ہو گئی ہے۔ ’’اللہ نے دی ہے مجھ کو مشعل‘‘ اُسی دُعاکے قبول ہونے کا بیان ہے جو پچھلی نظم میں مانگی گئی تھی۔ پروانہ اپنی خودی سے آگاہ ہوا توجگنو بن گیا اور کہا کہ میرے اللہ نے ’’چمکا کے مجھے دِیا بنایا۔‘‘ حجابِ آگہی نے جس نُور کو چھپایا تھا اُسے خودآگہی نے بازیاب کر دیا ہے۔ رات اندھیری ہے مگر یہ روشن خودی، یہ جگنو، غبارِ دیدۂ بینا دھو کر اُس راہ میں روشنی کر سکتا ہے جو پرندے کو اُس کے آشیاں تک لے جاتی ہے۔ یہ روشنی اُس علم سے ہوتی ہے جس کے لیے جاویدنامہکے آغاز میں مولانا روم اقبال سے کہتے ہیں کہ رُوح کی دنیا میں سفر کا آغاز ایک طرح سے دوبارہ پیدا ہونا ہے۔ اِس لحاظ سے یہ نظم گویا جاویدنامہکا خلاصہ ہے اور رُوح کے امکانات یا جہانِ عمل کی انتہا اِسی نکتے میں پوشیدہ ہے کہ: ہیں لوگ وہی جہاں میں اچھے آتے ہیں جو کام دُوسروں کے یہ وہی بات ہے جسے اقبال نے جاویدنامہ کے آخر میں ’خطاب بہ جاوید‘ میں اپنے فرزند اور نئی نسل کے نام اِس پیغام میں پیش کیاہے کہ آدمیت احترامِ آدمی کا نام ہے چنانچہ انسان کے مقام کا خیال رکھو : آدمیت احترامِ آدمی باخبر شو از مقامِ آدمی جن ’’دُوسروں‘‘ کے کام آنا ضروری ہے اُن میں سب سے پہلے خود اپنی رُوح ہے جو آشیاں سے دُور اُڑنے چگنے میں دن گزارنے کے بعد آہ و زاری کر رہی ہے۔ اُس کی راہ میں روشنی کردی جائے تو اُس کے دم سے دُنیا کا اندھیرا دُور ہو جائے اور ہر جگہ اُس کے چمکنے سے اُجالا ہو جائے۔یہی وہ دِیا ہے جو اُس بچے کے ہاتھ میں نہیں جلتا جسے اگلی نظم ’ماں کا خواب‘ میں ماںخواب میں دیکھتی ہے۔ ماں نے بچے کو جنم دیا ہے لہٰذا اُس کے لاشعور میں بچے کی یہ دوسری پیدایش جو اُسے روح کی گہرائیوں میں لے جائے گی ایک موت سے کم نہیں۔ نظم میں یہ کہیں نہیں بتایا گیا کہ بچہ سچ مچ میں فوت ہواہے یا ماں صرف اپنے خواب میں اُسے مردہ دیکھ رہی ہے۔ خواب میں ہم ایسے لوگوں کو بھی مردہ دیکھ لیتے ہیں جو حقیقت میں زندہ ہوتے ہیں چنانچہ ’ماں کا خواب‘ کا مرکزی نکتہ بچے کی موت نہیں بلکہ وہ دِیا ہے جس کے لیے بچے نے چوتھی نظم میں دُعا مانگی، جو پانچویں نظم میں جگنو کی صورت میں نمودار ہوا اور اب جل نہیں رہا۔ نظم کا اصل سوال یہ ہے کہ دِیا کیوں نہیں جَل رہا؟ یہ دیا وہ خودی ہے جو علم کی شمع سے محبت کر کے روشن ہوتی ہے۔ اِس بچے کی ماں اس کے ذوق و شوقِ خودنگری سے خائف ہے۔ وہ اُسے اُس علم سے روکنا چاہتی ہے جو تجربے کا دوسرا نام ہے اور جس کے نتیجے میں بچہ وہ نہ رہے گا جو ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا تھا بلکہ کچھ اَور بن جائے گا۔ اُس کا کچھ اور بن جانا ہی وہ صدمہ ہے جسے ماں اپنے خواب میں اُس کی موت کی شکل میں دیکھ رہی ہے حالانکہ عین ممکن ہے کہ حقیقت میں وہ زندہ ہو۔ دوسرے بچوں کے ہاتھوں میں دِیے جل رہے ہیں، صرف اِس بچے کے ہاتھ میں دِیا نہیں جل رہا جس کی وجہ ماں کے مکالمے سے ظاہر ہو جاتی ہے: کہا میں نے پہچان کر، میری جاں! مجھے چھوڑ کر آ گئے تم کہاں! جدائی میں رہتی ہوں میں بے قرار پروتی ہوں ہر روز اشکوں کے ہار نہ پروا ہماری ذرا تم نے کی گئے چھوڑ، اچھی وفا تم نے کی ماں یہاں بھی بچے کا حال پوچھنے کی بجائے صرف اپنا حال بتارہی ہے اور فوراًہی شکایت کردیتی ہے کہ بچہ اُسے چھوڑ گیا تو بے وفائی کی۔تین اشعار پر مشتمل اِس چھوٹے سے مکالمے میں ایک انتہائی possessive ماں کی مکمل تصویر ہمارے سامنے آ جاتی ہے۔وہ بچے سے یہ نہیں پوچھتی کہ وہ پیچھے کیوں ہے، تیز کیوںنہیں چلتا اور دِیا اُس کے ہاتھوں میں کیوں نہیں جلتا۔ کسی نہ کسی سطح پر وہ جانتی ہو گی کہ دِیا کس چیزکی علامت ہے اور صرف اُس بچے کے ہاتھوں میں کیوں نہیں جل رہا: جو بچے نے دیکھا مرا پیچ و تاب دیا اُس نے منہ پھیر کر یوں جواب رُلاتی ہے تجھ کو جدائی مری نہیں اِس میں کچھ بھی بھلائی مری یہ کہہ کر وہ کچھ دیر تک چپ رہا دیا پھر دکھا کر یہ کہنے لگا سمجھتی ہے تو ہو گیا کیا اِسے؟ ترے آنسوئوں نے بجھایا اِسے! ساتویں نظم ’پرندے کی فریاد‘ کو اقبال نے ’’ماخوذ‘‘ نہیں کہا۔ محققین نے ولیم کوپر کی ایک نظم تلاش کی ہے جس میں ایک پرندہ قید میں مر جاتا ہے مگر ولیم کوپر کی نظم سے چند مصرعوں کی مماثلت کے باوجود اقبال کی نظم کا پرندہ کچھ اور چیز ہے۔ یہ عطار اور رومی کا پرندہ ہے۔ عطار کی منطق الطیر میں سیمرغ کی تلاش، مولانا روم کی مثنوی ٔ معنوی کے پہلے دفتر کی تمہید اور اُسی دفتر میں ہندوستان کے طوطے اور سوداگر کی کہانی وہ ماخذ ہیں جن میں اقبال کی نظم پوری طرح دریافت کی جا سکتی ہے۔ ’’بچوں کے لیے‘‘ اقبال کی نظموں کو ترتیب میں پڑھا جائے تو واضح ہو جاتا ہے کہ فریاد کرنے والا پرندہ دراصل انسانی روح ہے جو جنت سے دُوری پر آنسو بہا رہی ہے۔ہم دیکھ چکے ہیں کہ اقبال کے یہاں وطن سے مراد جنت ہوتی ہے۔ پرندے کا استعارہ عارفانہ شاعری میں عام طور پر رُوح کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اب سمجھا جا سکتا ہے کہ وہ گزرا ہوا زمانہ جسے یاد کر کے پرندہ افسردہ ہو رہا ہے روزِ الست ہے جب خدا نے تمام روحوں سے کچھ پوچھا تھا اور سب نے جواب دیا تھا کہ بیشک آپ ہی ہمارے رب ہیں: ’’وہ باغ کی بہاریں، وہ سب کا چہچہانا۔۔۔‘‘ ۴ پرندے کی فریاد بچوں کے لیے آتا ہے یاد مجھ کو گزرا ہوا زمانا وہ باغ کی بہاریں، وہ سب کا چہچہانا آزادیاں کہاں وہ اب اپنے گھونسلے کی اپنی خوشی سے آنا، اپنی خوشی سے جانا لگتی ہے چوٹ دل پر، آتا ہے یاد جس دم شبنم کے آنسوئوں پر کلیوں کا مُسکرانا وہ پیاری پیاری صورت، وہ کامنی سی مورت آباد جس کے دم سے تھا میرا آشیانا آتی نہیں صدائیں اُس کی مرے قفس میں ہوتی مری رہائی اے کاش میرے بس میں! کیا بد نصیب ہوں مَیں گھر کو ترس رہا ہوں ساتھی تو ہیں وطن میں، مَیں قید میں پڑا ہوں آئی بہار، کلیاں پُھولوں کی ہنس رہی ہیں مَیں اس اندھیرے گھر میں قسمت کو رو رہا ہوں اس قید کا الٰہی! دُکھڑا کسے سنائوں ڈر ہے یہیں قفسں میں مَیں غم سے مر نہ جائوں جب سے چمن چُھٹا ہے، یہ حال ہو گیا ہے دل غم کو کھا رہا ہے، غم دل کو کھا رہا ہے گانا اسے سمجھ کر خوش ہوں نہ سُننے والے دکھے ہوئے دلوں کی فریاد یہ صدا ہے آزاد مجھ کو کر دے، او قید کرنے والے! مَیں بے زباں ہوں قیدی، تو چھوڑ کر دُعا لے دُوسرے شعر میں جس آزادی کی طرف اشارہ ہے اُس کی ایک جھلک ہمیں جاویدنامہ کے فلکِ مریخ پر بھی ملتی ہے جہاں ایک برگزیدہ مخلوق آباد ہے جس کے بارے میں مولانا روم، اقبال کو بتاتے ہیں کہ جب ان میں سے کسی کا وقت پورا ہوجاتا ہے تو وہ اپنی موت سے چند روز قبل ہی اپنی واپسی کا اعلان کر دیتا ہے اور پھر وقت آنے پر اپنے آپ میں سمٹ جاتا ہے۔ یہی اُس کی موت ہوتی کیونکہ ہمارے دل ہمارے جسموں میں ہیں مگر اِن لوگوں کے جسم اِن کے دلوں میں ہیں: ’’اپنی خوشی سے آنا، اپنی خوشی سے جانا۔۔۔‘‘ چوتھے شعر میں جس دلفریب صورت اور کامنی سی مورت کا ذکر ہے اُسے منطق الطیر کی روشنی میں سمجھنا چاہیے جس میں کئی پرندے، پرندوں کے بادشاہ سیمرغ کی تلاش میں نکلتے ہیں مگر آخر میں صرف تیس وہاں پہنچنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ بادشاہ کے دیدار کی گھڑی آتی ہے اور پردہ اٹھتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ پردے کے پیچھے آئینے تھے۔ ہر پرندے کے سامنے ایک ایک آئینہ ہے جس میں، ظاہر ہے، تیس پرندے دکھائی دے رہے ہیں اور فارسی میں سیمرغ کا مطلب ہوتا ہے، ’’تیس پرندے‘‘! اقبال کا پرندہ قفس میں ہے اور مولانا روم نے ہندوستان کے طوطے والی حکایت میں بڑی تفصیل سے سمجھایا ہے کہ رُوح کے لیے جسم ویسا ہے جیسے پرندے کے لیے پنجرہ ہوتا ہے۔ اس حکایت میں ایک سوداگر کے پاس بولنے والا طوطا تھا۔ سوداگر ہندوستان جانے لگا تو طوطے نے اپنے ساتھیوں کے نام پیغام بھیجا کہ تمہارا ساتھی قید میں ہے۔ سوداگر نے ہندوستان میں کھلی فضا میں بیٹھے طوطے دیکھے تو یہ پیغام دیا جسے سنتے ہی ایک طوطا درخت سے گر کر مر گیا۔ سوداگر کو سخت افسوس ہوا مگر جب اُس نے واپس آکر اپنے طوطے کو اِس حادثے کی خبر دی تو وہ بھی تڑپ کر مرگیا۔ سوداگر نے مزید افسوس کرتے ہوئے اُسے پنجرے سے نکالا تو وہ اُڑ کر درخت کی اونچی شاخ پر بیٹھ گیا اور کہا، ’’اُس طوطے نے عمل سے مجھے نصیحت کی کہ بول چال اور خوشی ترک کر دو کیونکہ تمہاری آواز نے تمہیں قید کروایا ہے۔‘‘ اِس کے بعد طوطے نے سوداگر سے رخصت ہونے سے پہلے اُسے الوداع کہا اور کہا، ’’الوداع اے خواجہ، تم نے مہربانی کی کہ مجھے قید اور تاریکی سی آزاد کر دیا۔ میں وطن کو جاتا ہوں، کسی دن میری طرح تم بھی آزاد ہو جاؤ!‘‘ سوداگر نے کہا، ’’تم نے مجھے اب نئی راہ دکھا دی۔‘‘ چنانچہ طوطا اپنے اصلی وطن کی طرف روانہ ہو گیا اور سوداگر نے کہا، ’’یہ میرے لیے نصیحت ہے۔ میں اُس کا راستہ اختیار کروں گا جو واضح راستہ ہے۔ میری جان کیا اُس طوطے سے کم ہے؟ ایسی جان چاہیے جو نیک قدم ہو۔‘‘ اِس کے بعد مولانا روم قاری سے کہتے ہیں کہ جسم پنجرے کی طرح ہے اِسی لیے روح کے لیے کانٹا ہے، اندراور باہر والوں کے فریب کی وجہ سے: تن قفس شکل ست و زاں شد خارِ جاں از فریبِ داخلاں و خارجاں جب اقبال کا پرندہ کہتا ہے، ’’آتی نہیں صدائیں اُس کی مرے قفس میں،‘‘ تو اُس سے مراد یہی جسمانی قید ہے۔ اگر مولانا رُوم کی مثنوی سے واقفیت نہ ہو تب بھی بانگِ درا ہی میں صرف چھ نظمیں آگے نظم ’شمع‘ میں یہ نکتہ اِتنی وضاحت کے ساتھ بیان ہوا ہے کہ اُس سے صرفِ نظر نہیں کیا جا سکتا: صبحِ ازل جو حُسن ہُوا دِلستانِ عشق آوازِ ’کُن‘ ہوئی تپش آموزِ جانِ عشق یہ حکم تھا کہ گُلشنِ ’کُن‘ کی بہار دیکھ ایک آنکھ لے کے خوابِ پریشاں ہزار دیکھ مجھ سے خبر نہ پوچھ حجابِ وجود کی شامِ فراق صبح تھی میری نمود کی وہ دن گئے کہ قید سے مَیں آشنا نہ تھا زیبِ درختِ طُور مرا آشیانہ تھا قیدی ہوں اور قفَس کو چمن جانتا ہوں میں غربت کے غم کدے کو وطن جانتا ہوں میں یادِ دطن فسُردگیِ بے سبب بنی شوقِ نظر کبھی، کبھی ذوقِ طلب بنی یہاں قفس اور حجاب کی علامت اِس قدر وضاحت کے ساتھ بیان ہوئی ہے کہ تنقید کے کسی بھی اصول کی رُو سے نقاد کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ ’پرندے کی فریاد‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے اِن علامتوں سے صرفِ نظر کرے بالخصوص جبکہ معلوم ہے کہ بانگِ درا ایک ذہنی سفر کی داستان ہے۔ قفس میں محبوب کی صدا نہ پہنچنا بھی ایک خاص اشارہ ہے کیونکہ روحانیت کے بعض نظامات میں سننے کی حس دیگر حواس سے اوپر رکھی جاتی ہے۔ دُنیاوی زندگی کا حجاب بننا وہ بات ہے جسے اقبال نے بار بار دہرایا ہے مثلاً بالِ جبریل میں جب رُوحِ ارضی آدم کا استقبال کرتی ہے تو کہتی ہے: کھول آنکھ، زمیں دیکھ، فلک دیکھ، فضا دیکھ! مشرق سے اُبھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ! اُس جلوۂ بے پردہ کو پردوں میں چھپا دیکھ! ایامِ جدائی کے ستم دیکھ، جفا دیکھ! بیتاب نہ ہو، معرکۂ بیم و رِجا دیکھ! نظم کے دوسرے بند میں یہ رمز ہے کہ باقی مخلوقات مجبور ہونے کی وجہ سے اپنی اصل سے وصل کی کیفیت میں ہیں۔ صرف انسان مختار ہونے کی وجہ سے محرمِ جدائی ہے اور اُسے اپنی اصل تک پہونچنے کے لیے نیت، ارادے اور کوشش کی ضرورت ہوتی ہے۔ چنانچہ بہار آنے پر کلیوں کا ہنسنا اِسی سبب سے ہے کہ کلیاں اپنی اصل سے دُور نہیں۔ انسان اپنے اندھیرے گھر میں قسمت کو رو رہا ہے کیونکہ اپنی اصل سے دُور ہے۔ جاویدنامہ کے ساتویں باب میں خدا سے ملاقات ہونے پر اقبال نے یہی سوال اُٹھایا ہے اور تشکیل ِ جدید کے ساتویں خطبے ’کیا مذہب ممکن ہے؟‘ میں بھی یہی بات تفصیل سے بیان ہوئی ہے۔قفس میں غم سے مر جانا جسم کی خاطر روح کا گھٹ جانا ہے جس کی طرف اقبال تشکیلِ جدید کے ساتویں خطبے میں کہتے ہیںکہ جدید انسان نے روحانی اور باطنی طور پر زندہ رہنا چھوڑ دیا ہے۔ افکار کی دنیا میںاُس کا تصادم اپنے ساتھ ہے اور اقتصادی و سیاسی میدان میں دوسروں کے ساتھ ہے۔ اُس میں اپنی بے لگام انانیت پسندی اور حرص پر قابو پانے کی صلاحیت نہیں رہی جو اُس میں اعلیٰ و ارفع تمناؤں کو آہستہ آہستہ ختم کر کے اُسے زندگی سے بیزاری کے سوا کچھ اور نہیں دے پا رہی ہے۔ موجودات اور نظر آنے والی چیزوں پر تکیہ کر کے وہ خود اپنی ہی ہستی کی اتھاہ گہرائیوں سے کٹ کر رہ گیا ہے: Thus, wholly overshadowed by the results of his intellectual activity, the modern man has ceased to live soulfully, i.e. from within. In the domain of thought he is living in open conflict with himself; and in the domain of economic and political life he is living in open conflict with others. He finds himself unable to control his ruthless egoism and his infinite gold-hunger which is gradually killing all higher striving in him and bringing him nothing but life-weariness. Absorbed in the 'fact', that is to say, the optically present source of sensation, he is entirely cut off from the unplumbed depths of his own being. نظم کا تیسرا بند دراصل مولانا روم کی مثنوی کے ابتدائی اشعار اور ہندوستانی طوطے والی حکایت سے واضح طور پر ماخوذ ہے۔ مولانا روم کی مثنوی کے مشہور ترین ابتدائی اشعار ہیں: بشنو از نَے چوں حکایت می کند وز جدائیہا شکایت می کند کز نیستاں تا مرا ببریدہ اند از نفیرم مرد و زن نالیدہ اند یعنی بانسری سے سنو کیا بیان کرتی ہے او جدائیوں کی شکایت کرتی ہے (ترکی میں جو نسخہ رائج ہے اُس میں پہلے شکایت اور پھر حکایت ہے) کہ جب سے مجھے بنسلی سے کاٹا گیا ہے میری فریاد سے مرد و عورت روتے ہیں۔ یہی مفہوم اقبال کے مندرجہ ذیل اشعار میںادا ہوا ہے: جب سے چمن چُھٹا ہے، یہ حال ہو گیا ہے دل غم کو کھا رہا ہے، غم دل کو کھا رہا ہے گانا اِسے سمجھ کر خوش ہوں نہ سُننے والے دُکھے ہوئے دِلوں کی فریاد یہ صدا ہے اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ کون ہے جس نے پرندے کو قید کر رکھا ہے اور جس سے پرندہ نظم کے آخر میں کہتا ہے: آزاد مجھ کو کر دے، او قید کرنے والے! مَیں بے زباں ہوں قیدی، تو چھوڑ کر دُعا لے ہندوستانی طوطے والی حکایت میں پرندہ رُوح ہے اور جسم پنجرہ ہے مگر شکاری وہ ہیں جنہیں مولانا روم نے ’’فریبِ داخلاں و خارجاں‘‘ یعنی اندر اور باہر والوں کا فریب کہا ہے۔ وہ اِس کی تشریح یوں کرتے ہیں، ’’ایک کہتا ہے میں تمہارا ہمراز ہوں، دوسرا کہتا ہے نہیں میں ساتھی ہوں۔ یہ اُس سے کہتا ہے کہ کمال اور فضل اور احسان میں تم جیسا کوئی موجود نہیں۔ وہ کہتا ہے دونوں جہاں تمہاری ملکیت ہیں، ہم سب تمہارے دم سے زندہ ہیں۔ یہ کہتا ہے، عیش اور خوشی کا وقت ہے، وہ کہتا ہے، پینے پلانے اور یاری دوستی کا وقت ہے۔ وہ جب لوگوں کو اپنا شیدائی دیکھتا ہے تکبر کی وجہ سے آپے سے باہر ہو جاتا ہے اور نہیں سمجھتا کہ اُس جیسے ہزاروں کو شیطان نے پانی میں پھینک دیا ہے۔‘‘ غور کیجیے کہ بالکل اِسی روشنی میں اقبال اپنی ہم عصر دنیا پر ساتویں خطبے کے اُس اقتباس میں تبصرہ کر رہے ہیں جو اوپر پیش کیا گیا یعنی یہ ’’قید کرنے والے‘‘ انسان کی اپنی انانیت پرستی، حرص ، کوتاہ نظری اور بے بصیرتی ہیں جن کی وجہ سے اُس کی روحانی اور باطنی زندگی گھٹ کر رہ گئی ہے۔ اب تین سوال پیدا ہوتے ہیں۔ پہلا یہ کہ اگر یہ نظم مولانا روم سے اِس قدر متاثر ہے تو پھر اقبال نے اِسے مولانا روم سے ماخوذ کیوں نہ لکھا؟ جواب یہ ہے کہ ضرورت نہ تھی۔ نظم اُن کی تیسری شعری تصنیف بانگِ درا میں شامل ہوئی (اگرچہ پہلے کی لکھی ہوئی ہے) جبکہ پہلی شعری تصنیف اسرار و رموز ہی میں اپنے سارے کلام کو مولانا روم کے فیض کا اثر کہہ چکے تھے۔ دوسرا سوال یہ اُٹھتا ہے کہ اگر اُن کے کلام کی تہ میں اِس قدر عارفانہ معانی پنہاں ہیں تو اِس کلام نے قوم کو قوت و شوکت کا درس کیسے دیا؟ اِس کا جواب یہ ہے کہ اقبال کے نزدیک جلیل القدر صوفیا نے بھی حرکت و عمل کا درس ہی دیا تھا۔ چنانچہ اقبال نے عارفانہ مطالب سے وہ نتائج اخذ کیے جو موجودہ زمانے میں مسلمانوں میں ساری دنیا کی رہنمائی کرنے کی صلاحیت پیدا کر دیں۔ تیسرا سوال یہ ہے کہ اگر اقبال کے کلام میں ایسا ربط ہے کہ ۱۹۰۲ء میں کہی ہوئی ’پرندے کی فریاد‘ اور تیس سال بعد ۱۹۳۲ء میں لندن میں دیے ہوئے ساتویں خطبہ کے درمیان بھی کوئی تضاد نہیں تو پھر یہ کیوں سمجھا جاتا ہے کہ اُن کے خیالات میں زبردست ارتقأ ہوتا رہا اور وہ شروع میں جن نظریات کے قائل تھے بعد میں اُنہی کے خلاف ہو گئے؟ بنیادی طور پر یہ سوال ادبی تنقید نہیں بلکہ سوانح سے تعلق رکھتا ہے اور تفصیل کا تقاضا کرتا ہے مگر اِس کا ایک مختصر جائزہ یہاں لیا جا سکتا ہے۔ ۵ بانگِ درا کا پہلا حصہ ایک ایسے شاعر کی تصویر پیش کرتا ہے جس کی دلچسپیوں میں تنوع ہے۔ اس کی بہترین مثال تو وہی نظم ہے جس کا عنوان ’زہد اور رندی‘ ہے جس میں ایک قدامت پسند بزرگ اقبال کی افتادِ طبع پر نکتہ چینی کرتے ہیں تو اقبال کہتے ہیں: اقبال بھی اقبال سے آگاہ نہیں ہے کچھ اس میں تمسخر نہیں وللہ نہیں ہے اقبال کی شخصیت میں تنوع اور اختلافات کو جذب کرنے کی حیرت انگیز صلاحیت اس حصے کی سب سے نمایاں خصوصیت ہے اور اس کی انتہا یہ ہے کہ: برا سمجھوں اُنہیں مجھ سے تو ایسا ہو نہیں سکتا کہ میں خود بھی تو ہُوں اقبال اپنے نکتہ چینوں میں ان تمام متنوع رجحانات میں ایک بنیادی وحدت موجود ہے اور وہ ہے وطن کا ایک مخصوص تصور جو اقبال کے سوا شائد ہی کہیں اور مل سکے۔ اِس تصور کی بنیادی قدر یہ ہے کہ روح اور مادہ، دنیا اور آخرت ایک ہی حقیقت کے مختلف پہلو ہیں لہٰذا وطن اور جنت بھی ایک ہی چیز کے دو نام ہیں۔ جنت حقیقی وطن ہے اور وطن مجازی جنت ہے۔ ’حصہ اول‘ میں لفظ وطن جنت کے معانی میں بہت استعمال ہوا ہے، مثلاً: یادِ وطن فسردگی بے سبب بنی ظاہر ہے کہ وطن کا یہ تصور براہ راست مولانا روم سے ماخوذ ہے۔ ان کی حکایت میں جب سوداگر نے قیدی پرندے کا پیغام ہندوستان کے طوطوں کو سنایا تو اسے سنتے ہی ایک طوطا تڑپ کر درخت سے گرا اور مر گیا۔ سوداگر کو سخت افسوس ہوا مگر جب اُس نے واپس آ کر یہ بات اپنے طوطے کو بتائی تو وہ بھی تڑپ کر مر گیا۔ سوداگر نے مزید افسوس کرتے ہوئے اُسے پنجرے سے نکالا مگر تب طوطا اُچھل کر ایک شاخ پر جا بیٹھا اور سوداگر کو بتایا کہ دراصل اُس کے ہم جنس نے اُسے ہندوستان سے یہ پیغام بھجوایا تھا کہ تم اپنی خوش گفتاری کی وجہ سے قید میں پڑے ہو، سکوت اختیار کرکے رہا ہو جاؤ۔ اس کے بعد طوطے نے سوداگر کو کچھ نصیحتیں کیں اور کہا کہ اب وہ اپنے وطن ہندوستان جاتا ہے۔ سوداگر نے کہا کہ اُس نے جو راہ دکھائی ہے وہ بھی اُس پر عمل کرے گا۔اس کے بعد مولانا روم حکایت کی تشریح کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ پرندے سے مراد رُوح ہے، پنجرے سے مراد جسم اور ہندوستان سے مراد رُوح کا اصل وطن یعنی جنت ہے۔ ’’قید کرنے والے‘‘ دنیاوی زندگی کے وہ بھلاوے ہیں جن میں ہم اپنی جسمانی زندگی کے تقاضوں کی وجہ سے گرفتار ہو جاتے ہیں: آزاد مجکو کر دے او قید کرنے والے میں بے زباں ہوں قیدی تو چھوڑ کر دعا لے بعد میں یہی مضمون ’اسرارِ خودی‘ میں حضرت علی کے لقب بوتراب کی تشریح اور جاویدنامہ میں طاسینِ گوتم کے پیغام کی صورت میں زیادہ ترقی یافتہ صورت میں پیش ہوا۔ چنانچہ یہ بات سمجھنی بہت ضروری ہے کہ اقبال کے ذہن میں وطن کا تصور ابتدا ہی سے ایک روحانی وحدت کے طور پر موجود تھا اور یہ سراسر مولانا روم سے ماخوذ تھا۔ وطن اور جنت کی اس مشابہت کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ جنت کے اعلیٰ ترین مقامات پر خدا کا دیدار نصیب ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے وطن بھی اقبال کے لیے خدا کی آیات کے مشاہدے کی ایک صورت ہے اور اقبال کی ابتدائی شاعری میں جہاں جہاں یہ بات ظاہر ہوتی ہے وہاں مولانا روم کے اثرات صاف ظاہر ہوتے ہیں۔ مثلاً مولانا روم کے مشہور اشعار جنہیں بعد میں اقبال نے جاویدنامہ کا مرکزی خیال بنایا، ’’آدمی دید ہے، باقی تو کھال ہی کھال ہے۔ دید تو بس دوست کی دید ہے۔ تن کو سارے کا سارا نگاہ میں حل کر دے، آنکھ بن جا آنکھ بن جا آنکھ۔۔۔‘‘: آدمی دید است باقی پوست است دید آں باشد کہ دیدِ دوست است جملہ تن را در گداز اندر بصر در نظر رو ، در نظر رو ، در نظر بانگ درا کی پہلی ہی نظم ’ہمالہ‘ میں وطن اور دیدِ دوست کے تصورات یکجا دکھائی دیتے ہیں: ایک جلوہ تھا کلیمِ طورِ سینا کے لیے تو تجلی ہے سراپا چشمِ بینا کے لیے وطن کے حقیقی اور مجازی یعنی روحانی اور جغرافیائی پہلوؤں کا سب سے خوبصورت امتزاج اور بڑی حد تک اس کی مکمل تصویر اُس نظم میں ملتی ہے جس کا عنوان ’ترانہ ہندی‘ ہے۔ بدقسمتی سے اس نظم کو عموماً ایک غزل کی طرح پڑھا جاتا ہے یعنی یہ بات نظرانداز کر دی جاتی ہے کہ اس کے اشعار میں باہمی ربط ہے اور اُن کے مضامین الگ الگ نہیں ہیں۔ یہ غلط فہمی بڑی پرانی معلوم ہوتی ہے کیونکہ حسرت موہانی نے اولین زمانے میں اس پر اعتراض کرتے ہوئے بھی غزل ہی کے طور پر اِس کا ذکر کیا تھا حالانکہ یہ اُس وقت بھی بطور نظم شائع ہوئی تھی۔ بانگِ درا کے دیباچے میں شیخ عبدالقادر نے اقبال اور غالب کے درمیان مماثلتوں کا ذکر کیا ہے اور ’حصہ اول‘ کی منظومات میں بھی یہ تعلق صاف دکھائی دیتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اقبال اور غالب کے درمیان ایک گہرے تعلق کو عام طور پر سمجھا ہی نہیں گیا ہے۔ ’حصہ اول‘ کی نظم ’مرزا غالب‘ میں نہ صرف اقبال نے غالب کو تخیل کے بلند ترین مقامات تک پہنچے والوں میں شمار کیا بلکہ گوئٹے کو اُن کا ہم نوا بھی قرار دیا ہے: گلشنِ ویمر میں تیرا ہم نوا خوابیدہ ہے اس نکتے پر غور کیا جائے تو گوئٹے کی وہ اہمیت جس کی وجہ سے بعد میں اُس کے دیوانِ مغرب کے جواب میں پوری پیامِ مشرق تصنیف کی گئی وہ بھی اُس کی غالب سے مماثلت کی رہینِ منت سمجھی جا سکتی ہے۔ یہی نہیں بلکہ اسرار و رموز کا آغاز مولانا روم کے اشعار سے کرنے میں بھی اقبال نے غالب ہی کی پیروی کی کیونکہ غالب کی فارسی کلیات میں پہلی مثنوی کا آغاز بھی مولانا رُوم کے اشعار سے ہوتا ہے! ۶ وہ نظم جو ہمیں بانگِ درا کی ترتیب کو سمجھنے میں سب سے زیادہ مدد دیتی ہے وہ دوسرے حصے کی نظم ’عاشقِ ہرجائی‘ ہے۔ اس نظم کے دو حصے ہیں جن میں سے پہلا حصہ اقبال کے نکتہ چینوں کی رائے ظاہر کرتا ہے: ہے عجب مجموعۂ اضداد اے اقبال تو دوسرا حصہ اقبال کی طرف سے اس اعتراض کا جواب ہے: عشق کی آشفتگی نے کر دیا صحرا جسے مشتِ خاک ایسی نہاں زیرِ قبا رکھتا ہوں میں یہ نظم اقبال نے یورپ سے واپسی کے کچھ عرصہ بعد لکھی تھی کیونکہ جولائی ۱۹۰۹ء کے ایک خط میں ذکر ہے کہ نظم کا پہلا حصہ لکھ چکے ہیں اور دوسرا حصہ لکھنا باقی ہے۔ اُس زمانے کی بیاض اقبال کی دستیاب بیاضوں میں سب سے پرانی ہے اور اُس میں یہ نظم جس مقام پر درج ہے اُس سے بھی اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ یہ یورپ سے واپسی کے کچھ عرصہ بعد کی لکھی ہوئی ہے۔ اس کے باوجود اقبال نے اسے بانگِ درا کے دُوسرے حصے میں درج کیا جو قیامِ یورپ یعنی ۱۹۰۵ء سے ۱۹۰۸ء تک کے لیے مخصوص ہے۔ اس بات سے گیان چند نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ اقبال اپنی تصانیف کی ترتیب میں لاپرواہی برتتے تھے لیکن میرے خیال میں اس کے برعکس نتیجہ اخذ کرنا زیادہ قرین قیاس ہے یعنی اقبال نے دانستہ یہ نظم اس لیے حصہ دوم میں شامل کی ہو کیونکہ یہ کسی ایسی ذہنی کیفیت کی نمائندگی کرتی ہو جو یورپ میں قیام کے دَور سے تعلق رکھتی ہے۔ حصہ دوم کے بالکل درمیان میں ہونے کی وجہ سے یہ نظم بانگِ درا کے بھی تقریباً وسط میں ہے اور معنوی اعتبار سے کتاب کو دو حصوں میں تقسیم کر دیتی ہے۔ اس نظم سے پہلے کی تمام بانگِ درا اقبال کی شخصیت کے تنوع کی تصویر کشی کر کے اُس اعتراض کا جواز فراہم کرتی ہے جو سمٹ کر اِس نظم کے پہلے حصے میں آ گیا ہے۔ اس اعتراض کے جواب میں اقبال جو کہتے ہیں کہ اُن کی شخصیت کے تنوع میں ایک وحدت تلاش کی جا سکتی ہے بقیہ بانگِ درااُسی کی تشریح کرتی ہوئی معلوم ہوتی ہے یعنی ’عاشقِ ہرجائی‘ کے بعد جو نظمیں رکھی گئی ہیں وہ اقبال کی شخصیت کے تنوع میں ایک وحدت کی دریافت کی طرف بڑھتی ہیں۔ یہ وحدت کیا ہے؟ اگر ہم نے بانگِ درا سے پہلے کی دونوں تصانیف یعنی اسرارورموز اور پیامِ مشرق پڑھ رکھی ہوں تو اَب ہم دیکھ سکتے ہیں کہ شاعر اُس نکتے کی طرف قدم بڑھا رہا ہے جسے اُس نے بعد میں خودی کا نام دیا اور جس کی انتہائی کیفیت وہ بیخودی ہے جو قوم کے عشق میں حاصل ہوتی ہے۔ بانگِ درا میں اسی کے آس پاس ہمیں اس بیخودی کا سراغ ملنا بھی شروع ہو جاتا ہے: وجود افراد کا مجازی ہے ہستیٔ قوم ہے حقیقی یہاں عشقِ حقیقی کا وہ تصور نمودار ہو جاتا ہے جو اقبال سے مخصوص ہے اور جس کی تشریح میں نے اسرار و رموز کے باب میں کی ہے۔ غالباً یہ اُردو شاعری میں پہلا موقع ہے کہ عشقِ حقیقی کو قوم کے عشق کے معانی میں استعمال کیا گیا ہے۔ البتہ یہ بات بہت زیادہ قابلِ غور ہے کہ اقبال نے تجویز پیش نہیں کی بلکہ ایک حقیقت کا انکشاف کیا ہے یعنی وہ یہ نہیں کہتے کہ ہمیں عشقِ حقیقی کی تعریف تبدیل کر دینی چاہیے تاکہ فلاں فلاں فائدے حاصل ہو سکیں بلکہ وہ کہتے ہیں کہ عشقِ حقیقی کا مفہوم ہی وہی ہے جو وہ اب پیش کر رہے ہیں۔ یہ کسی بلند حقیقت کا ادراک اور مشاہدہ ہے، ایک ایسی حقیقت جو بتدریج پوری مسلمان قوم پر ظاہر ہوتی چلی جائے گی۔ یہ خدا کی ایک نشانی ہے جس کا مشاہدہ مسلمان اپنے انفس و آفاق میں کریں گے۔ اقبال نے مارچ ۱۹۰۷ء کو اپنی ذہنی روئیداد میں ایک اہم سنگ میل جو قرار دیا شائد اُس کا تعلق بھی اسی حقیقت کے ادراک سے ہے۔ بہرحال حصہ دوم کی آخری غزل پر یہی تاریخ ایک عنوان کے طور پر درج ہے (حالانکہ بانگِ درا کی کسی اور غزل پر نہ عنوان ہے نہ تاریخ ہے)۔ یہ غزل کچھ اسی قسم کی پیشین گوئیاں کرتی ہے: زمانہ آیا ہے بے حجابی کا عام دیدارِ یار ہو گا سکوت تھا پردہ دار جس کا وہ راز اب آشکار ہو گا ۷ تیسرے حصے کے آغاز پر اقبال کا ذہنی سفر ایک شبِ تاریک میں داخل ہوتا ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ وہ اپنی قوم کو ایک پیغام دینے کے لیے شدید کرب سے گزر رہے ہیں کیونکہ اُس پیغام کا ذریعہ اُن کے پاس نہیں ہے۔ ’شکوہ‘، ’شمع اور شاعر‘، ‘جوابِ شکوہ‘ اور ’حضور رسالت ماب میں‘ اور دوسری بے شمار نظمیں جن میں شاعر کا اصل مسئلہ یہی معلوم ہوتا ہے کہ: دیکھا ہے جو کچھ میں نے اَوروں کو بھی دکھلا دے ان کرب ناک نظموں کا سلسلہ ’والدہ مرحومہ کی یاد میں‘ پر ختم ہوتا ہے جو اقبال کی والدہ کا مرثیہ ہے۔ سوانحی حوالے سے ہم جانتے ہیں کہ اقبال اپنے پیغام کو دوسروں تک پہنچانے کے لیے جس ذریعہ کے طلب گار تھے وہ بالآخر ’اسرارِ خودی‘ میں اُن کے ہاتھ لگا اور ان کی والدہ کا انتقال اس مثنوی کی تکمیل اور اشاعت سے کچھ ہی پہلے ۹ نومبر ۱۹۱۴ء کو ہوا۔ بانگ درا میں بھی ’والدہ مرحومہ کی یاد میں‘ سے بالکل اگلی نظم ’شعاعِ آفتاب‘ ہے جس کا پہلا شعر بالکل وہی منظر پیش کرتا ہے جو ’اسرارِ خودی‘ کی ابتدا میں بیان ہوا ہے یعنی: صبح جب میری نگہ سودائی نظارہ تھی آسماں پر اِک شعاعِ آفتاب آوارہ تھی یوں معلوم ہوتا ہے کہ والدہ مرحومہ سے پیدا ہونے والا اقبال اُن کے مرقد کے سرہانے بیٹھا رہ گیا ہے اور اب ایک نیا اقبال ہمارے سامنے ہے جسے مولانا روم نے مشتِ خاک سے اکسیر بنا دیا ہے۔اس کے بعد متعدد چھوٹی چھوٹی نظمیں ہیں جن میں کسی فارسی شعر کی تضمین کی گئی ہے۔ ممکن ہے یہ نظمیں اُس تیاری کی خبر دیتی ہوں جو اقبال نے اُردو کی بجائے فارسی کو اپنے پیغام کے اظہار کا ذریعہ بنانے کے لیے کی ہو گی۔ اس پورے سلسلے کا اختتام نظم ’شیکسپئر‘ پر ہوتا ہے جو اُردو میں سانیٹ لکھنے کا تجربہ ہے کیونکہ اس میں چودہ مصرعے ہیں اور وہ آٹھ اور چھ مصرعوں کے بند میں تقسیم کیے گئے ہیں جس طرح شیکسپئر کے سانیٹ میں ہوتے ہیں۔ یہ نظم دو اعتبار سے بڑی اہم ہے۔ پہلی بات یہ ہے کہ اس نظم میں شیکسپئر کے بارے میں کہا گیا ہے کہ اُس کی اپنی زندگی دنیا کی نظروں سے پوشیدہ رہی مگر اُس نے دنیا کو بے نقاب دیکھا: چشمِ عالم سے تو ہستی رہی مستور تری اور عالم کو تری آنکھ نے عریاں دیکھا یہ بات اقبال پر بھی صادق آتی ہے کیونکہ معلوم ہوتا ہے کہ خود اقبال نے بھی اس مقام سے آگے اپنی شاعری کو جذبات کے اظہار کا ذریعہ بنانے کی بجائے صرف پیغام رسانی کے مقصد کی خاطر استعمال کیا۔ چنانچہ اُن کے ذہنی سفر میں نظم ’شیکسپئر‘ اُس مقام کی نشاندہی کرتی ہے جب اُنہوں نے اپنے اصل واردات کو دنیا کی نگاہوں سے پوشیدہ کر لیا اور چیزوں کو ایک خاص ترتیب کے ساتھ صرف ظاہر کرنا شروع کیا جس کا مقصد اپنی کیفیات کا اظہار نہیں بلکہ قاری کی باطنی تربیت ہو۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ عین اُس وقت جب اقبال فطرت کے رازوں سے پردہ اُٹھانے والے ہیں وہ اپنی بجائے ایک انگریز شاعر کے بارے میں اس قسم کی بات کہہ رہے ہیں کہ: حفظِ اَسرار کا فطرت کو ہے سودا ایسا رازداں پھر نہ کرے گی کوئی پیدا ایسا یہ بات درست تسلیم کی جائے تو خود اقبال بھی شیکسپئر کے برابر فطرت کے رازداں قرار نہیں پاتے۔ معلوم ہوتا ہے کہ شیکسپئر کو اقبال مغربی تہذیب میں مولانا روم کے ہم پلہ سمجھتے تھے۔ نہ صرف اُنہوں نے اپنی ذاتی نوٹ بک اسٹرے ریفلیکشنز (شذرات فکر اقبال) میں دونوں کا ذکر ایک ساتھ کیا بلکہ بالِ جبریل میں بھی نظم ’سینما‘ کے فوراً بعد نظم ’پنجاب کے پیرزادوں سے‘رکھی۔ بظاہرسینما کے زوال کا تصوف کے زوال سے کوئی تعلق نظر نہیں آتا مگر دیکھا جائے تو سینما شیکسپئر کا اور تصوف مولانا روم کا ورثہ ہے۔ اِس طرح بالِ جبریل میں بھی یہ علامتیں اِکٹھی دکھائی دیتی ہیں۔ ۸ ’خضرِ راہ‘ اور ’طلوعِ اسلام‘ بانگ درا کی آخری دو نظمیں کہی جا سکتی ہیں کیونکہ ان کے بعد صرف تیسرے حصے کی غزلیات اور ظریفانہ کلام باقی رہتا ہے۔ ’خضرِ راہ‘ کئی لحاظ سے اہم ہے۔ قرآن شریف کی سورۂ کہف میں ایک بزرگ کا ذکر ہے جنہیں اللہ تعالیٰ نے ایک خاص علم دیا تھا اور مفسرین نے عام طور پر ان بزرگ کا نام خضر بتا یا ہے۔ قصے کہانیوں میں مشہور ہے کہ وہ آبِ حیات پی کر ہمیشہ کی زندگی حاصل کر چکے ہیں اور بھولے ہوئے مسافروں کو راستہ دکھاتے ہیں۔ تصوف میں ان دونوں باتوں کو علامتی اعتبار سے سمجھا جاتا ہے یعنی خضر زندگی کے کسی گہرے اُصول کی تجسیم ہیں اور بھولے ہوئے مسافروں کی رہنمائی سے مراد یہ ہے کہ جو شخص کسی صوفی طریقے سے باقاعدہ رہنمائی حاصل نہ کر سکا ہو وہ بھی باطنی تربیت حاصل کر سکتا ہے۔ اسلامی ادبیات میں قرآن شریف کے بعد خضرکے کردار کو جن شاہکاروں میں پیش کیا گیا ہے اُن میں سے نظامی گنجوی کا سکندر نامہ اور اقبال کی ’خضرِ راہ‘ سب سے زیادہ مشہور ہیں۔ ’خضرِ راہ‘ اگرچہ نظامی گنجوی کے سکندرنامہ کے مقابلے میں ایک مختصر نظم ہے مگر جیسی شہرت اس نظم اور اس کے اشعار کو حاصل ہوئی ہے وہ اپنی جگہ بہت عجیب و غریب ہے۔ان دونوں نظموں کو اسلامی تاریخ کے سیاق و سباق میں دیکھا جا سکتا ہے۔ نظامی گنجوی کا زمانہ بارہویں صدی عیسوی کے آخر کا ہے یعنی جب عباسی تہذیب زوال کی طرف بڑھ رہی تھی۔ نظامی گنجوی کے سکندرنامہ میں خضر اور سکندر ذوالقرنین اکٹھے ظلمات کا سفر کرتے ہیں لیکن خضر تنہا آب حیات پیتے ہیں اور اس کے بعد اُن کا پتہ نہیں چلتا۔ سکندر آبِ حیات سے محروم رہتا ہے مگر ظلمات سے باہر نکل آتا ہے۔ دیکھا جائے تو نظامی گنجوی کے چالیس پچاس برس بعد بغداد کی تباہی کے ساتھ ہی اسلامی تاریخ کا وہ دَور شروع ہوا جو اگلے پانچ سو برس پر محیط تھا جس کے دوران عثمانی، صفوی اور مغل شہنشاہوں کی سلطنتیں قائم ہوئیں جو پچھلی مسلمان حکومتوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ مطلق العنان تھیں اور اُن میں شہنشاہ کی شخصی طاقت کے بارے میں ایسے نظریات رائج تھے جن کا عباسی یا غزنوی حکمرانوں کے زمانے میں تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ اس طرح سکندر کے ظلمات سے باہر آنے کی مثال آئندہ پانچ سو برس کی تاریخ پر صادق آتی ہے۔ سکندر کا آبِ حیات سے محروم رہنا بھی علامتی طور پر درست ثابت ہوتا ہے کیونکہ پانچ سو برس بعد یہ حکومتیں ایک ایک کر کے کمزور پڑنے لگیں اور ان کے خاتمے کے آثار پیدا ہو گئے۔ خضر کا لوگوں کی نظروں سے غائب ہو جانا بھی تصوف کی تاریخ پرصادق آتا ہے کیونکہ نظامی کے زمانے تک باطنی تربیت حاصل کرنے کے قواعد بڑی حد تک غیررسمی تھے مگر جلد ہی وہ دَور آیا جب کسی مرشد کی باقاعدہ بیعت کر کے کسی خانقاہی نظام کا حصہ بننے کی شرط سختی سے رائج ہو گئی۔ اگر خضر کے طریقے کو کسی سلسلے سے منسلک ہوئے بغیر باطنی تربیت کی فراہمی کا اصول سمجھا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ یہ اصول لوگوں کو عام طور پر دستیاب نہ رہا۔ یوں خضر غائب ہو گئے۔ نظامی گنجوی کے قریباً سات سو برس بعد اقبال کی نظم کے آغاز ہی میں خضر خودبخود ظاہر ہو جاتے ہیں: دیکھتا کیا ہوں کہ وہ پیک جہاں پیما خضر جس کی پیری میں ہے مانند سحر رنگ شباب کہہ رہا ہے مجھ سے، اے جویائے اسرارِ ازل! چشم دل وا ہو تو ہے تقدیر عالم بے حجاب کیا خضر کا یہ ظہور اِسلامی تاریخ میں ایک نئے دَور کی نوید ہے؟ تاریخی طور پر یوں معلوم ہوتا ہے جیسے نظامی گنجوی نے خضر کے قصے میں ایک پانچ سو سالہ دَور کی آمد کی خبر دی تھی اور اقبال اس دَور کے خاتمے کے ڈیڑھ سو برس بعد خضر کو دوبارہ پیش کر کے ان کے ذریعے ایک نئے دَور کی خبر دے رہے ہیں۔ پچھلے دَور میں جو بڑی بڑی سلطنتیں قائم ہوئی تھیں اُن میں سے اکثر ختم ہو چکی تھیں اور ان میں سے آخری سلطنت یعنی عثمانی بھی اَب دم توڑنے والی تھی۔ دوسری طرف تصوف کے وہ راز جنہیں خانقاہوں میں چھپا کر رکھا جاتا تھا اب رسالوں میں شائع ہو کر عام دستیاب تھے۔ یہ بات بھی دلچسپ ہے کہ اس نظم میں خضر نے دُنیائے اسلام کو سمندر سے تشبیہہ دی جو عرب لوک روایات کے مطابق ایک کیڑا ہے جو ہر پانچ سو برس بعد آگ میں جل کر دوبارہ پیدا ہوتا ہے۔ اگر اسلامی تاریخ کو پانچ پانچ سو برس کے عرصوں میں تقسیم کیا جائے تو مندرجہ ذیل صورت سامنے آتی ہے: عجمی نشاۃ الثانیہ، ۷۵۰ ء سے ۱۲۵۸ء تک: بنو امیہ کے خاتمے کے ساتھ ہی عرب نظامِ حکومت ختم ہو گیا جس نے اسلام کے ابتدائی ڈیڑھ سو برس میں ایک وسیع سلطنت قائم کی تھی۔ اس کے بعد جو عباسی خلافت وجود میں آئی اُس کی سیاست اور ثقافت عجم کے اثرات سے خالی نہ تھی اور اقبال کی نظر میں یہ تمام اثرات برے نہ تھے۔ چینی نشاۃ الثانیہ، ۱۲۵۸ء سے ۱۷۵۷ء تک: عباسی بغداد کو تباہ کرنے والے منگولوں نے چین میں قبلائی خاں کے تحت جو سلطنت قائم کی تھی وہ کسی نہ کسی اعتبار سے بعد میں آنے والی تمام ایشیائی سلطنتوں کی پیش رَو ثابت ہوئی۔ قبلائی خاں کی چینی سلطنت کے نمونے پر قائم ہونے والی مسلمان سلطنتوں میں عثمانی، صفوی اور تیموری مغل سلطنتیں شامل تھیں۔ افغان نشاۃ الثانیہ، ۱۷۵۷ء سے: اِس اعتبار سے موجودہ زمانے کو افغان نشاۃ الثانیہ کہا جا سکتا ہے کیونکہ ۱۷۴۷ء میں افغانستان میں احمد شاہ ابدالی کی تخت نشینی کے بعد ایک قسم کی قومی علاقائی حکومت کا تصور پیدا ہوا۔ اکثر مسلمان ممالک یورپی استعمار کے زیرِ اثر آ گئے مگر یورپ سے آزاد ہونے کے بعد وہ جس راستے پر چل رہے ہیں وہ قومی علاقائی ریاستوں کی تشکیل کا راستہ ہے۔ عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ یہ یورپی نیشن اسٹیٹ کی پیروی ہے مگر جس مکتبِ فکر سے اقبال تعلق رکھتے تھے اُس کے نزدیک تو خود یورپ کی موجودہ ترقی بھی اِسلامی تہذیب کے اثرات سے خالی نہ تھی! کیا اقبال کے ذہن میں بھی اسلامی تاریخ کے ادوار کی یہی تقسیم موجود تھی جب انہوں نے ’خضرِ راہ‘ میں خضر کی زبانی کہلوایا: اپنی خاکستر سمندر کو ہے سامانِ وجود مر کے پھر ہوتا ہے پیدا یہ جہانِ پیر دیکھ! اِس سوال کا جواب دینا آسان نہیں مگر ہمیں یہ ضرور معلوم ہے کہ تشکیلِ جدید کے خطبات میں اقبال نے قرآن کی جس آیت کو ایک طرح سے اپنے تصورِ تاریخ کی اَساس قرار دیا تھا اُس کا ترجمہ یہ ہے کہ ہر قوم کا ایک معین عرصہ مقرر ہے۔ مسلمان قوم کے بارے میں اقبال کو یقین تھا کہ یہ قوم ہمیشہ رہے گی لہٰذا اس لحاظ سے اسلامی تہذیب بار بار مر کر زندہ ہونے کے عمل سے خالی نہیں ہو سکتی۔ پہلی جنگ عظیم کے خاتمے پر دنیائے اسلام پر جو قیامتیں ٹوٹی تھیں ’خضرِ راہ‘ میں اُن کا نقشہ کھینچنے کے بعد خضر نے یہی کہا ہے کہ: گفت رُومی ہر بنائے کہنہ کآباداں کنند تو ندانی اول آں تعمیر را ویراں کنند یعنی مولانا روم نے کہا ہے کہ جب کسی پرانی عمارت کو دوبارہ بنانا مقصود ہوتا ہے کیا تم نہیں جانتے کہ پہلے اگلی بنیادیں گرائی جاتی ہیں؟ خضر کی زبانی اقبال کو مولانا روم کا یہ پیغام ملنا بڑا معنی خیز ہے۔ چونکہ پہلی ہی تصنیف کے آغاز پر اقبال اپنے آپ کو مولانا روم کا شاگرد ظاہر کر چکے تھے لہٰذا خضر نے بھی اس ادب کا پاس کیا ہے کہ مولانا روم کے شاگرد کو سب سے اہم خبر اپنی طرف سے دینے کی بجائے مولانا روم کے پیغام کے طور پر ہی سنائی ہے۔ دوسری طرف یہ خبر ہی کچھ ایسی عجیب و غریب ہے کہ مولانا روم کی بجائے خضر کی زبان سے زیادہ مناسب معلوم ہوتی ہے کیونکہ اس خبر کا تعلق تقدیر سے ہے اور تقدیر کا علم خضر کا خاص حصہ ہے۔ ایک اور خاص بات یہ ہے کہ پیامِ مشرق کے دیباچے میں اِقبال نے یورپ کی جنگِ عظیم یعنی پہلی جنگِ عظیم کا ذکر کیا تھا جس نے پرانی دنیا کو تقریباً ہر لحاظ سے فنا کر دیا تھا۔ وہ ایک تباہی کا عام انداز میں تذکرہ تھا اور ’خضرِ راہ‘ چونکہ بانگِ درا یعنی اقبال کی ذہنی سرگذشت کا حصہ ہے لہٰذا یہاں اُسی تباہی کا تذکرہ اقبال کے نقطہ ٔ نظر سے خضر کی زبانی ہے: ہو گیا مانندِ آب ارزاں مسلماں کا لہو اس کے بعد خضر کی یہ پیشین گوئی ہے کہ اپنی آگ میں جل کر دوبارہ پیدا ہونے والے کیڑے یعنی سمندر کی طرح عالمِ اسلام بھی دوبارہ پیدا ہو گا۔ سرمایہ و محنت کے درمیان تصادم اور سلطنتوں کے خاتمے کی طرف اِس نظم میں جو واضح اشارے کیے گئے ہیں اُن سے یہ بھی مراد لی جا سکتی ہے کہ یہ وہ بیرونی عوامل ہیں جو اسلام کی اس نئی نشاۃ الثانیہ پر کسی نہ کسی طرح اثرانداز ہوں گے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ نظم ایک رات کے بیان سے شروع ہوتی ہے۔ اس میں خضر کہتے ہیں: عام حریت کا جو دیکھا تھا خواب اسلام نے اے مسلماں آج تو اُس خواب کی تعبیر دیکھ! اگلی نظم ’طلوعِ اسلام‘ ایک صبح کے بیان سے شروع ہوتی ہے جس میں خضر کی پیشین گوئی پوری ہو جاتی ہے کیونکہ اس نظم کا آغاز کچھ اس طرح ہوتا ہے: دلیلِ صبحِ روشن ہے ستاروں کی تنک تابی اُفق سے آفتاب اُبھرا گیا دَورِ گراں خوابی عروقِ مردۂ مشرق میں خونِ زندگی دوڑا سمجھ سکتے نہیں اِس راز کو سینا و فارابی یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ بات کہنے والا کون ہے؟ بظاہر یہ اقبال نہیں کوئی اور ہے جو اسی نظم کے شروع میں اقبال کو ’’بلبل‘‘ کہہ کر مخاطب کرتا ہے: اثر کچھ خواب کا غنچوں میں باقی ہے تو اے بلبل! ’’نوا را تلخ تر می زن چو ذوق نغمہ کم یابی‘‘ دوسرے بند میں وہ پھر اقبال کو اسی طرح مخاطب کرتا ہے: نوپیرا ہو اے بلبل کہ ہو تیرے ترنم سے کبوتر کے تنِ نازک میں شاہیں کا جگر پیدا بظاہر یہ آواز بھی خضر کی ہے کیونکہ یہ بالکل خضر ہی کا لب و لہجہ ہے: اگر عثمانیوں پر کوہِ غم ٹوٹا تو کیا غم ہے کہ خونِ صدہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا دوسرے بند کے آخر میں وہ غیبی آواز ’’بلبل‘‘ کو دوبارہ خطاب کرنے کا حکم دیتی ہے تو اُس کے بعد کے بند اقبال کے خاص لب و لہجے میں آتے ہیں اور معلوم ہوتا ہے کہ یہیں سے شاعر کا اپنا خطاب شروع ہوتا ہے: خدائے لم یزل کا دست قدرت تو، زباں تو ہے یقیں پیدا کر اے غافل کہ مغلوب گماں تو ہے خواہ سمجھا جائے کہ یہ پوری نظم شاعر کا خطاب ہے جس کے شروع میں شاعر نے بھی خضر جیسا لب و لہجہ اختیار کیا ہے، خواہ سمجھا جائے کہ پہلے دو بند خضر کے خطاب کا تسلسل اور اس کے بعد کے بند شاعر کی آواز میں ہیں، بہرحال یہ بات بڑی اہم ہے کہ ’طلوعِ اسلام‘ اُس نئی دنیا کا نقشہ پیش کرتی ہے جس کی پیشین گوئی پیامِ مشرق میں بھی کی گئی تھی اور ’خضرِ راہ‘ میں بھی۔ یہ نئی دنیا اُس بے حجابی کی دنیا بھی ہے جس کا ذکر ’مارچ ۱۹۰۷ئ‘ والی غزل میں تھا۔ اس نئی دنیا کی شان یہ ہے کہ باطن یہاں ظاہر ہے یعنی وہ اصول جن پر چیزوں کی بنیاد ہے وہ براہِ راست کارفرما ہیں۔ اب غلامی سے نجات پانے کے لیے شمشیروں اور تدبیروں کی بجائے ذوقِ یقیں کی ضرورت ہے اور جہادِ زندگانی میں لوہے اور بارُود سے زیادہ یقیں محکم، عمل پیہم اور محبت فاتح عالم پر انحصار کرنے کا موقع آنے والا ہے۔ اس دنیا میں صرف اشیا کا علم کافی نہیں ہے بلکہ تقدیر کا علم بھی درکار ہے: کوئی اندازہ کر سکتا ہے اُس کے زورِ بازو کا؟ نگاہِ مردِ مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں! مردِ مومن کی نگاہ سے تقدیریں کیسے بدلتی ہیں؟ اس کے لیے اقبال کے تصورِ تقدیر کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اقبال کے نزدیک اقوام کی تقدیر اٹل ہے اور بدلی نہیں جا سکتی، مثلاً خطبۂ الٰہ آباد میں انہوں نے کہا کہ اسلام خود ایک تقدیر ہے اس لیے کسی تقدیر کے تابع نہیں ہو سکتا۔ افراد اپنی تقدیر بدل سکتے ہیں جیسا کہ جاویدنامہ میں حکیمِ مریخی اقبال سے کہتا ہے کہ اگر تم اپنے آپ کو بدل لو تو تمہاری بدل جائے گی۔ شیشے کی تقدیر ٹوٹنا ہے اور پتھر کی تقدیر یہ ہے کہ شیشہ اُس سے ٹکرا کر ٹوٹ جائے۔ عملاً یوں سمجھا جا سکتا ہے کہ تقدیر کا علم ہو جانا ہی تقدیر کا بدل جانا ہے کیونکہ اگر ہمیں یہ نظر آ جائے کہ تقدیر کیا ہے تو ہم اپنے آپ کو اس طرح بدل سکتے ہیں کہ ہمیں اپنی مراد مل جائے۔ مردِ مومن کی نگاہ اپنی قوم کی تقدیر کو دیکھ لیتی ہے مثلاً خطبہ ٔ الٰہ آباد میں اقبال نے رہنما کے جو اوصاف گنوائے ہیں اُن میں اِسلام کی تقدیر سے واقفیت بھی شامل ہے۔ یوں ہم سمجھ سکتے ہیں مردِ مومن کی نگاہ تقدیر کو بے حجاب دیکھ لیتی ہے اس لیے وہ راستوں کے تعین میں ایسی تبدیلیاں کرنے پر قادر ہوتی ہے جو نتائج پر اثرانداز ہو سکیں۔ اگر یہ وہ نئی دنیا ہے جسے فطرت ایک نئے آدم کے لیے تیار کر رہی ہے تو پھر وہ بات بھی سمجھ میں آتی ہے جو اقبال نے گرامی کے نام ۱۹۱۷ء والے خط میں لکھی تھی یعنی وہ مستقبل کی تاریخ لکھ کر چھوڑ جائیں گے اور جب اس کا وقت آئے گا وہ لوگوں کے سامنے آ جائے گی۔ اِسی حوالے سے یہ بات بھی اہم معلوم ہوتی ہے کہ اگلی تصنیف یعنی زبورِ عجم کی پیشکش کا انداز ہی بالکل بدلا ہوا نظر آتا ہے۔ کیا اُس میں بھی اپنے قاری کو اسی نئی دنیا کے لیے تیار کرنے کی کوئی رمز پوشیدہ ہے؟ اس کے بارے میں فیصلہ کرنے کے لیے زبورِ عجم کا مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے (اگر ہو ذوق تو ’’خلوت‘‘ میں پڑھ زبورِ عجم۔۔۔) مگر ’طلوعِ اسلام‘ جو بانگِ درا کی آخری منزل ہے اُس کی ایک اہمیت یہ بھی ہے کہ یہ اقبال کی طرف سے اس بات کا اعلان بھی ہے کہ دُنیائے اسلام میں انحطاط کا زمانہ ختم ہو چکا ہے، ’’زاہدوں کی صحبت سے کنارہ کش ہو کر بیباکی سے ساغر سنبھالو کہ ایک مدت بعد اس پرانی شاخ سے چہچہے گونجے ہیں۔۔۔‘‘: کنار از زاہداں برگیر و بے باکانہ ساغر کش پس از مدت ازیں شاخ کہن بانگ ہزار آمد باب ۴ زبورِ عجم زبورِ عجم اقبال کی چوتھی شعری تصنیف ہے جس کے بارے میں خیال ہے کہ اسے ۱۹۲۳ء کے بعد کسی وقت لکھنا شروع کیاگیا۔ یہ ۱۹۲۷ء میں شائع ہوئی۔ جب یہ کتاب لکھی جا رہی تھی تو اقبال نے ایک خط میں اسے ’’دی سونگ آف اے نیو ڈیوڈ‘‘ یعنی ایک نئے داؤد کا نغمہ قرار دیا تھا۔ اسی سے ظاہر ہے کہ ان کے ذہن میں اس کا تصور غزلوں اور نظموں کے مجموعے کی بجائے مسلسل کتاب کا تھا۔ عام طور پر اس طرف توجہ نہیں دی گئی اور اس کتاب کی منظومات کو علیحدہ علیحدہ غزلوں اور نظموں کی طرح پڑھا گیا یہاں تک کہ بعض مترجمین نے انہیں ترجمہ کرتے ہوئے ان کے نمبرشمار دینے کی ضرورت محسوس کی نہ ان کے تسلسل کی طرف اشارہ کرنے کی اہمیت پیشِ نظر رکھی۔ زبورِ عجم میں پہلے دو حصوں کے بعد ’گلشنِ راز جدید‘ بھی ہے جو نو سوالوں اور ان کے جوابات پر مشتمل ہے۔ بدقسمتی سے بیشتر دانشوروں نے اقبال کی شاعری کو بالخصوص ان حصوں کو جن میں فکری پہلو غالب ہے محض سوانحی نقطہ نظر سے دیکھا ہے یعنی یہ سمجھ لیا کہ اقبال کے خیالات عمر بھر تبدیل ہوتے رہے اور اُن کی شاعری کے کسی بھی فکری حصے کی اہمیت صرف اتنی ہے کہ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ فلاں برس اقبال کیا سوچ رہے تھے۔ نتیجہ یہ ہے کہ ’گلشن راز جدید‘ کی اصل اہمیت کی طرف بھرپور توجہ نہیں دی گئی۔ جیسا کہ میں اس کتابچے میں دکھانے کی کوشش کروں گا یہ نو سوال و جواب دراصل اقبال کی پوری فکر کا خلاصہ ہیں اور ان کا ایک خاص مقصد ہے جس سے واقف ہونا بہت ضروری ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ان کی افادیت کم نہیں ہوئی بلکہ بڑھ گئی ہے اور شائد اس حصے کے مقاصد کو سمجھنا پہلے کبھی اتنا ضروری نہ رہا ہو جتنا اب ہے۔ آخری حصے کا عنوان ’بندگی نامہ‘ ہے اور یہ غلاموں کے ادبیات، فنون لطیفہ اور مذہب سے تعلق رکھتا ہے۔ آزادوں کے فنِ تعمیر کے بارے میں بھی کچھ معروضات پیش کی گئی ہیں مگر یاد رکھنا چاہیے کہ دوسری جنگِ عظیم کے بعد سے مشرق آزاد ہے لہٰذا اب ہمیں غلاموں کے ادبیات، فنون لطیفہ اور مذہب کی خصوصیات مغرب میں تلاش کرنی چاہئیں اور آزادوں کی خصوصیات مشرق میں۔ بات ذرا عجیب ہے لیکن اقبال کی تصانیف کے سیاق و سباق میں کچھ ایسی عجیب بھی نہیں ہے: ظاہر کی آنکھ سے نہ تماشا کرے کوئی ہو دیکھنا تو دیدۂ دل وا کرے کوئی ۱ زبورِ عجم کے شروع میں ’بخوانندۂ کتابِ زبور‘ یعنی زبورعجم کے قاری سے خطاب ہے۔ یہ تین اشعار پر متشمل ہے: می شود پردۂ چشمم پرِ کاہے گاہے دیدہ ام ہر دو جہاں را بنگاہے گاہے وادیٔ عشق بسے دور و دراز است ولے طے شود جادۂ صد سالہ بآہے گاہے در طلب کوش و مدہ دامنِ امید زدست دولتے ہست کہ یابی سرِ راہے گاہے! [ترجمہ:] کبھی تو معمولی گھاس کی پتی میری آنکھوں کا پردہ ہو جاتی ہے اور کبھی میں نے ایک ہی نظر میں دونوں جہانوں کو دیکھ لیا ہے۔ اگرچہ عشق کی وادی بہت دور اور بہت وسیع و طویل ہے مگر کبھی کبھی سو سالہ راہ ایک آہ میں طے ہو جاتی ہے۔ طلب میں کوشش کیے جاؤ اور امید کا دامن ہاتھ سے نہ دو۔ ایک ایسی عظیم دولت بھی ہے جو کبھی کبھی سرِ راہ مل جاتی ہے! اقبال کی تقریباً تمام تصانیف کتاب کے موضوع کے تعارف سے شروع ہوتی ہیں، مثلاً اسرار و رموز (’تمہید‘)، پیامِ مشرق (’دیباچہ‘)، بانگِ درا (’دیباچہ‘)، جاویدنامہ (’مناجات‘)، بالِ جبریل (سرورق کا شعر: اُٹھ کہ خورشید کا سامانِ سفر تازہ کریں۔۔۔)، ضربِ کلیم (’ناظرین سے‘) اور پس چہ باید کرد (تمہیدی باب)۔ ان تصانیف کو ان ابتدائی حصوں کی روشنی میں پڑھا جائے تو معانی میں کچھ اضافہ ہو جاتا ہے بلکہ بعض اوقات کتاب کی نوعیت بدل جاتی ہے (مثلاً اس اعتبار سے جاویدنامہ بنیادی طور پر نوجوانوں کے ادب کا حصہ قرار پاتی ہے)۔ زبورِ عجم کی تین تمہیدی اشعار میں سے پہلا شعر بظاہر شاعر کے ایک ذاتی تجربے کا بیان ہے، دوسرا ایک عام اصول کا بیان اور تیسرا قاری کے لیے براہِ رست ہدایت ہے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو پہلے شعر میں شاعر نے جو ذاتی تجربہ بیان کیا ہے وہ بھی ایک مثال معلوم ہوتا ہے یعنی یہ صورت حال قاری کے ساتھ بھی پیش آ سکتی ہے اور اِسی لیے بقیہ دونوں اشعار میں کچھ ہدایات دی جا رہی ہیں۔ ’حصۂ اول‘ کے آغاز میں درج شعر بھی اسی اندیشے کی تائید کرتا ہے: زبرونِ در گذشتم زدرونِ خانہ گفتم! حرفِ ناگفتۂ را چہ قلندرانہ گفتم! [ترجمہ:] میں نے دروازے کے باہر کی چیزوں سے تعرض نہیں کیا بلکہ درونِ خانہ کی باتیں کیں! جو بات کہی نہیں گئی تھی وہ میں نے قلندرانہ طریقے سے بیان کر دی! ظاہر ہے کہ جس کتاب میں ایسے نازک مسائل بیان ہوئے ہوں اُسے پڑھتے ہوئے یاد رکھنا چاہیے کہ کبھی کبھی گھاس کی پتی بھی آنکھ کا پردہ بن جاتی ہے۔ دوسری طرف دونوں جہاں نظر آنا اور ایک بہت بڑی دولت ہاتھ آ جانا بھی اُس کتاب کے ذریعے ممکن ہے جس میں ایسی باتیں کہی جا رہی ہوں جو پہلے کبھی نہیں کہی گئی تھیں۔ ایسی باتیں کہنے والا کوئی قلندر ہی ہو سکتا ہے اور اقبال نے اپنے لیے پہلی بار یہ لفظ اسی مقام پر استعمال کیا۔ خواہ استعارے کے طور پر استعمال کیا ہو یا حقیقی معانی میں لیکن یہ بات اہم ہے کیونکہ اسرار و رموز میں اُنہوں نے خودی کا مضبوط ہو کر کائنات پر حکومت کرنا بھی ایک قلندر یعنی حضرت بو علی پانی پتی کی مثال سے سمجھایا تھا۔ اس لحاظ سے اقبال کے شعری سفر میں یہ مقام ایک خاص اہمیت رکھتا ہے کہ یہاں وہ خود ایک قلندر کا لقب اختیار کرتے ہیں۔بعد کی تصانیف میں یہ اُن کا مستقل لقب بن جاتا ہے، مثلاً ضربِ کلیم کی ایک نظم میں جنت کے ایک منظر میں اقبال کی طرف یوں اشارہ کیا گیا ہے: حلاج سے لیکن یہ روایت ہے کہ آخر اِک مردِ قلندر نے کیا رازِ خودی فاش! زبورِ عجم ’حصہ اول‘ کا مطالعہ کرتے ہوئے یہ سوال قاری کے ذہن میں ضرور پیدا ہوتا ہے کہ وہ کون سی بات ہے جو پہلے کبھی نہیں کہی گئی تھی اور اب اقبال نے قلندرانہ طریقے سے بیان کر دی ہے؟ معلوم ہوتا ہے کہ یہ سوال اُٹھانا ہی اس سرنامے کے شعر کا مقصد ہے۔ ’حصہ اول‘ میں سب سے پہلے ایک ’دعا‘ ہے جس میں سات اشعار ہیں۔ غور کیا جائے تو یہ ایک شخص کے روحانی سفر کے مدارج ہیں: یارب درونِ خانہ دلِ باخبر بدہ در بادہ نشہ را نگرم آں نظر بدہ ایں بندہ را کہ با نفسِ دیگراں نزیست یک آہِ خانہ زاد مثالِ سحر بدہ سیلم، مرا بجوئے تنک مایۂ مپیچ! جولانگہے بوادی و کوہ و کمر بدہ سازی اگر حریفِ یمِ بیکراں مرا بااصطرابِ موج، سکونِ گہر بدہ شاہینِ من بصیدِ پلنگاں گذاشتی! ہمت بلند و چنگل ازیں تیز تر بدہ رفتم کہ طائرانِ حرم را کنم شکار تیرے کہ نافگندہ فتد کارگر بدہ خاکم بنورِ نغمۂ داؤد برفروز ہر ذرّۂ مرا پروبالِ شرر بدہ [ترجمہ:] یا رب! میرے سینے میں باخبر دل عطا فرمائیے، مجھے وہ نظر دیجیے کہ شراب میں نشے کو بھی دیکھ سکوں۔ یہ بندہ جو دوسروں کی سانس پر زندہ نہیں رہا اسے صبح کی طرح دل سے نکلی ہوئی آہ عطا فرمائیے۔ میں سیلِ بے پناہ ہوں، مجھے کسی چھوٹی اور حقیر ندی میں گرنے سے بچائیے۔ پہاڑ، بہار کے دامن اور وادی کو میری جولاں گاہ بنائیے! اگر مجھے بیکراں سمندر کا ہمسر بنائیں تو مجھے موجوں کے اضطراب کے ساتھ ساتھ موتی کا سکون بھی عطا فرمائیے۔ آپ نے میرے شہباز کو چیتوں کے شکار کے لیے چھوڑا ہے تو مجھے زیادہ بلند ہمت اورزیادہ تیز چنگل بھی عطا فرمائیے! میں حرمِ کعبہ کے پرندوں کے شکار پر نکلا ہوں، مجھے ایسا تیر عطا فرمائیے جو بغیر چلائے ہی کارگر ہو۔ میں مٹی ہوں، مجھے داؤد کے نغموں کی روشنی سے منور کر دیجیے اور میرے ذرے ذرے کو چنگاری جیسی اڑان عطا فرمائیے۔ پہلے شعر میں بصیرت مانگی ہے کیونکہ تلاش کا سفر اسی سے شروع ہوتا ہے۔ یہ اقبال کی شاعری کی اولین خواہشات میں سے ہے یعنی بانگ درا حصہ اول کی غزل میں بھی پائی جاتی ہے: ظاہر کی آنکھ سے نہ تماشا کرے کوئی ہو دیکھنا تو دیدۂ دل وا کرے کوئی دوسرے شعر میں یہ دلِ بینا رکھنے والا شخص آہِ خانہ زاد مانگ رہا ہے جو سحر جیسی ہو۔ یہ اسی سفر کا اگلا مرحلہ معلوم ہوتا ہے۔ وہ آہِ خانہ زاد ملنے پر یہ شخص اگلے شعر میں سیلِ بے پناہ بن جاتا ہے جو کسی تنگ ندی میں نہیں گرنا چاہتا۔ تنگ ندی میں گرنا تنگ نظری بھی لائے گا جو ایسے شخص کو قبول نہیں ہو سکتی جس کے پاس دلِ بینا موجود ہو۔ چوتھے شعر کی دعا منطقی طور پر اسی سفر کا اگلا مرحلہ معلوم ہوتی ہے یعنی لہروں کی ہلچل کے ساتھ موتی کا سکون بھی مل جائے۔ یوں ایک توازن اختیار کر کے اپنی خودی مضبوط کرنے والا اگلے دو اشعار میں ایک دفعہ پھر بیرونی دنیا کے عناصر سے کشمکش میں مبتلا دکھائی دیتا ہے لیکن پانچویں شعر میں یہ کشمکش ’’چیتوں کے شکار‘‘ اور چھٹے شعر میں ’’حرمِ کعبہ کے پرندوں کے شکار‘‘ کے استعاروں سے بیان کی گئی ہے جن کے درمیان فرق ظاہر ہے۔ اپنے آپ کو سیلِ بے پناہ، سمندر کا حریف اور شہباز کہنے والا آخری شعر میں اپنے آپ کو مٹی قرار دیتا ہے اور حضرت داؤد علیہ السلام کے نغموں کے نور سے اپنی خاک کو منور کرنے کی دعا مانگتا ہے جو کتاب کے عنوان کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ حضرت داؤد ؑ کی کتاب کا نام زبور تھا۔ کیا شاعر کو اُس کا نور زبورِ عجم کی صورت میں عطا ہوا؟ اس کے ساتھ ہی اس ’دعا‘ کا موازنہ سورۂ فاتحہ سے بھی کرنا چاہیے۔ اقبال نے اپنی شاعری کو قرآن سے ماخوذ قرار دیا تھا تو پھر اگر ان کی کسی کتاب کے آغاز میں سات اشعار پر مبنی دعا ہو تو سورۂ فاتحہ کی روشنی میں اسے سمجھنے کی کوشش کرنے کی کوشش کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہو سکتا۔ سورۂ فاتحہ کی سات آیات کے ساتھ اس نظم کے سات اشعار کا ترجمہ مندرجہ ذیل ہے: بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم یا رب! میرے سینے میں باخبر دل عطا فرمائیے، مجھے وہ نظر دیجیے کہ شراب میں نشے کو بھی دیکھ سکوں۔ الحمدُ للّٰہ الرب العٰلمین یہ بندہ جو دوسروں کی سانس پر زندہ نہیں رہا اسے صبح کی طرح دل سے نکلی ہوئی آہ عطا فرمائیے۔ الرحمٰن الرحیم میں سیلِ بے پناہ ہوں، مجھے کسی چھوٹی اور حقیر ندی میں گرنے سے بچائیے۔ پہاڑ، بہار کے دامن اور وادی کو میری جولاں گاہ بنائیے! مالک یوم الدین اگر مجھے بیکراں سمندر کا ہمسر بنائیں تو مجھے موجوں کے اضطراب کے ساتھ ساتھ موتی کا سکون بھی عطا فرمائیے۔ ایاک نعبد و ایاک نستعین آپ نے میرے شہباز کو چیتوں کے شکار کے لیے چھوڑا ہے تو مجھے زیادہ بلند ہمت اورزیادہ تیز چنگل بھی عطا فرمائیے! اھدنا الصراط المستقیم میں حرمِ کعبہ کے پرندوں کے شکار پر نکلا ہوں، مجھے ایسا تیر عطا فرمائیے جو بغیر چلائے ہی کارگر ہو۔ صراط الذین انعمت علیہم غیر المغضوب علیہم و الضآلین میں مٹی ہوں، مجھے داؤد کے نغموں کی روشنی سے منور کر دیجیے اور میرے ذرے ذرے کو چنگاری جیسی اڑان عطا فرمائیے۔ ۲ ’دعا‘ کے بعد ۵۶ منظومات ہیں جن میں سے اکثر غزل کی ساخت رکھتی ہیں لیکن بعض قطعات اور گیت بھی ہیں۔ ان پر عنوان کی بجائے نمبرشمار ہیں جس طرح پیامِ مشرق کی رباعیات میں تھے لیکن وہاں تمام رباعیات تھیں۔ یہاں مختلف نوع کی منظومات کو ایک ہی سلسلے میں شمار کرنے سے کیا مقصد ہے؟ یہ بات بھی یاد رکھی جائے کہ یہ کتاب غزلیات اور نظموں کا مجموعہ نہیں بلکہ ایک خاص موضوع کے تحت لکھی ہوئی کتاب ہے اور اس کا عنوان یعنی زبورِ عجم بھی اس موضوع کی طرف اشارہ کرتا ہے (اقبال نے پہلے اسے ’ایک نئے داؤد کا نغمہ‘ کے عنوان سے لکھنا شروع کیا تھا)۔ زبور ایک الہامی کتاب ہے لہٰذا زبورِ عجم میں بھی الہامی انداز اختیار کیا گیا ہو گا۔ جس طرح سورۂ فاتحہ کو قرآن شریف کا دیباچہ بھی سمجھا جاتا ہے، فہرستِ مضامین بھی اور بعض لوگ قرآن کی مختلف سورتوں یا پورے قرآن شریف کے معانی سمجھنے کے لیے اسے سورۂ فاتحہ کی آیات کے حساب سے تقسیم بھی کرتے ہیں، کیا ’حصہ اول‘ کی منظومات کو بھی ’دعا‘ کے تحت تقسیم کیا جا سکتا ہے؟ اس کا امکان موجود ہے۔ منظومات کی کل تعداد ۵۶ ہے۔ یہ عدد ’دُعا‘ کے اشعار کی تعداد یعنی سات سے تقسیم ہوتا ہے۔ اس طرح ہمیں آٹھ آٹھ منظومات کے سات ٹکڑے ملتے ہیں۔ کیا ان میں سے ہر ٹکڑے کی آٹھ منظومات ’دعا‘ کے متعلقہ شعر کی تشریح کرتی ہیں؟ ظاہر ہے کہ یہ فیصلہ قاری کی صوابدید پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ ’حصہ اول‘ کو جس طرح پڑھا جائے اس کے مضامین اُسی طرح دکھائی دیتے ہیں۔ عام طور پر ان منظومات کو غزل کے طور پر پڑھا گیا ہے یعنی ہر شعر سے الگ مفہوم اخذ کیا گیا ہے۔ تب بھی یہ بات ضرور سامنے آئی ہے کہ ’حصہ اول‘ کی تمام منظومات خدا سے خطاب ہیں اور ان میں ایک خاص قسم کی قربت کا احساس موجود ہے۔ البتہ مختلف منظومات کے درمیان تضادات بھی محسوس کیے گئے ہیں مثلاً کہیں نیازمندی اور عجز و انکسار ہے لیکن کہیں شکوہ شکایت ہے۔ یہی بات ہمیں مجبور کرتی ہے کہ ہم دوسرے طریقے کی طرف متوجہ ہوں یعنی ان منظومات کو ایک سالک کے روحانی سفر کے مراحل کے طور پر دیکھیں۔ ظاہر ہے کہ اس طرح دیکھنے کی کوشش کی جائے تو وہ ’دعا‘ نظرانداز نہیں کی جا سکتی جو ان تمام منظومات کی تمہید ہے، اسے کلیدی حیثیت دی جائے تو منظومات کو بھی سات مراحل میں تقسیم کرنا پڑتا ہے۔ منظومات کی تعداد اس میں سہولت فراہم کرتی ہے یعنی ۵۶ منظومات کو سات مراحل میں تقسیم کیا جائے تو آٹھ آٹھ منظومات کے سات ٹکڑے خودبخود وجود میں آ جاتے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ اس طرح ہمیں اِن منطومات کے تسلسل کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ نمونے کے طور پر پہلے اور دوسرے ’’مراحل‘‘ کا تعارف مندرجہ ذیل ہے۔ پہلا مرحلہ پہلی آٹھ منظومات پر مشتمل ہے۔ یہ آٹھوں تلاش کے ابتدائی مرحلے سے متعلق نظر آتی ہیں۔ پہلی ’’نظم‘‘ صرف ایک مطلع پر متشمل ہے یعنی ’’جنون و شوریدگی بڑھانے والے عشق کو ہر راستہ نے آپ کی گلی میں پہنچایا۔ اسے اپنی تلاش پر کیسا ناز ہے کہ راستہ آپ کی طرف لے گیا۔‘‘ یہ بڑی سرشاری کی کیفیت ہے جس میں ظاہر ہے کہ حقیقت کے پیچ در پیچ پہلوؤں میں سے بہت سے پہلوؤں کا نظرانداز ہونا فطری بات ہے لہٰذا اس کیفیت کی انتہا وہی ہو سکتی ہے جو آٹھویں نظم یا غزل کے مطلع میں دکھائی دیتی ہے یعنی ’’کفر اور دین پر اپنی رحمت عام کر دیجیے اور اپنے ماہِ تمام کے نقاب کے سارے بند کھول دیجیے!‘‘ یہ پورا مرحلہ ’دعا‘ کے پہلے شعر کی تفسیر دکھائی دیتا ہے جس میں دلِ بینا کے ساتھ چیزوں کے باطن کو دیکھنے کی صلاحیت طلب کی گئی تھی۔ اگر ’دعا‘ کے پہلے شعر کے ساتھ یہ تعلق تسلیم کر لیا جائے تو یہ مرحلہ بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم کی تفسیر بھی نظر آتا ہے جو سورۂ فاتحہ کی پہلی آیت ہے۔ نظم ۹ سے نظم ۱۶ کو دوسرا مرحلہ سمجھا جائے تو اس مرحلے میں محسوس ہوتا ہے جیسے شاعر اپنی سرشاری کی کیفیت کا عادی ہونے کے بعد اپنے ماحول کے باطنی اثرات کے ساتھ اس کیفیت کا تعلق دریافت کر رہا ہے چنانچہ نویں نظم یا غزل کا پہلا شعر ہے، ’’میرا نغمہ اس لیے پرسوز، بیباک اور غم انگیز ہے کیونکہ میرے خاشاک میں شعلہ آن گرا ہے اور صبح کی ہوا تیز ہے!‘‘ اس ’’مرحلے‘‘ کی آٹھ منظومات میں اپنے ماحول کے باطن میں جھانکنے کی مشق نت نئے انداز اختیار کرتی رہتی ہے، کبھی دیدار کی طلب سے بے تاب ہو کر بت بنائے جاتے ہیں (نظم ۱۰)، کبھی پورا جہاں اپنے پندار کا صنم خانہ دکھائی دیتا ہے (نظم ۱۲) اور آخر میں سالک اس مرحلے سے آگے بڑھنے پر آمادہ دکھائی دیتا ہے: ’’آپ کو شائد یہ گمان ہے کہ مجھے آستانے سے مطلب ہے، مگر گھر کے طواف سے میری غرض گھر کے مالک سے کچھ کام ہے۔ ‘‘ اِس مرحلے کا تعلق ’دعا‘ کے دوسرے شعر کے ساتھ صاف دکھائی دیتا ہے کہ وہاں اپنی خودداری کے حوالے سے آہِ خانہ زاد کی آرزو کی گئی تھی۔ غور کیا جائے تو یہ ایک طرح سے سورۂ فاتحہ کی دوسری آیت الحمد اللّٰہ الرب العٰلمین کی بڑی دلچسپ تفسیر ہے۔ تمام مراحل کی تفصیل بیان کرنے کی یہاں گنجائش نہیں ہے (قارئین چاہیں تو میری کتاب دی ری پبلک آف رومی سے رجوع کر سکتے ہیں) لیکن یہ ضرور دیکھنا چاہیے کہ اس پورے سفر کا انجام کس نقطے پر ہو رہا ہے۔ آخری نظم یا غزل یعنی نمبر ۵۶ کے پہلے شعر کا ترجمہ ہے، ’’اے چاند اور سورج کے خدا، ذرا بکھری ہوئی خاک پر نظر ڈالیے، دیکھیے ذرّہ ایک بیابان کو اپنے آپ میں سمیٹ لیتا ہے!‘‘ ’دعا‘ کے آخری شعر کے ساتھ اس کا تعلق بالکل واضح ہے کہ وہاں شاعر نے اپنی مشتِ خاک کے لیے حضرت داؤد علیہ السلام کے نغمے کے نور سے منور ہونے کی دعا مانگی تھی۔ اسی طرح یہ مرحلہ سورۂ فاتحہ کی آخری آیت کی ایک خوبصورت تفسیر بھی بن جاتا ہے: صراط الذین انعمت علیہم غیر المغضوب علیہم و الضآلین (آمین)! ۲ ’حصہ دوم‘ کے سرنامے کے طور پر تحریر ہے: شاخِ نہالِ سدرہٖ، خار و خسِ چمن مشو منکرِ اُو اگر شدی، منکرِ خویشتن مشو [ترجمہ:] تم درختِ سِدرہ کی شاخ ہو، باغ کی گھاس اور کانٹا مت بن جاؤ! اگر اُس کا انکار کر دیا ہے تو اپنا انکار مت کرو! بظاہر یوں معلوم ہوتا ہے کہ اس حصے سے گزرتے ہوئے کوئی ایسا مقام آنے والا ہے جہاں کسی نہ کسی وجہ سے خدا کے وجود کا روایتی تصور خطرے میں پڑ جائے گا۔ اس مقام پر جو چیز سلامتی کی ضامن ہو گی وہ یہ کہ سالک اپنی ماورائیت کا انکار نہ کرے۔ حقیقتاً اس حصے کا اختتام ایک ایسے ہی مقام پر ہوتا ہے جس کی تشریح میں اکثر شارحین نے بڑی ٹھوکریں کھائی ہیں۔ اس مقام تک پہنچنے والا راستہ پچھتر منظومات سے گزرتا ہے یعنی اس حصے میں منظومات کی تعداد پچھتر ہے۔ جس طرح ’حصہ اول‘ کے شروع میں سات اشعار والی ’دعا‘ تھی اُسی طرح اس حصے کے شروع میں بھی ایک نظم ہے۔ ’دعا‘ میں خدا سے خطاب تھا اور یہاں قاری سے خطاب ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ پورا حصہ انسان سے خطاب پر مشتمل ہو گا اور تمام منظومات کا مطالعہ کرنے سے یہ بات درست ثابت ہوتی ہے۔ عام طور پر ان منظومات کا مطالعہ بھی غزل کے انداز میں کیا گیا ہے یعنی ہر شعر کا الگ الگ مطلب نکالا گیا ہے۔ اگر ہم اس سلسلے کو بھی ایک سلسلہ وار بیان سمجھ کر پڑھیں تو اس میں ایک بتدریج ارتقا نظر آتا ہے۔ مسئلہ وہاں پیدا ہوتا ہے جب ہم اس ارتقا کو مراحل میں تقسیم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ پچھلے حصے کی ابتدائی نظم میں سات اشعار سات مراحل کی طرف اشارہ کر رہے تھے اور ۵۶ نظموں کو سات سے تقسیم کرنا آسان تھا۔ مشکل یہ ہے کہ ُدوسرے حصے کی ابتدائی نظم میں صرف چار اشعار ہیں لیکن نظمیں ۷۵ ہیں جنہیں چار پر تقسیم نہیں کیا جاسکتا۔ اب اگر ابتدائی نظم کو دوبارہ پڑھیے تو یہ چار کی بجائے پانچ سطحوں کی طرف اشارہ کرتی معلوم ہوتی ہے: دو عالم را تواں دیدن بمینائے کہ من دارم کجا چشمے کہ بیند آں تماشائے کہ من دارم دگر دیوانۂ آید کہ در شہرافگند ہوے دو صد ہنگامہ برخیزد زسودائے کہ من دارم مخور ناداں غم از تاریکیٔ شبہا کہ می آید کہ چوں انجم درخشد داغِ سیماے کہ من دارم ندیمِ خویش می سازی مرا لیکن ازاں ترسم نداری تابِ آں آشوبِ غوغاے کہ من دارم [ترجمہ:] جو صراحی میرے پاس ہے اُس میں دونوں جہاں دیکھے جا سکتے ہیں۔ کہاں ہے وہ آنکھ جو وہ منظر دیکھ سکے جو میرے پاس ہے! کوئی اور دیوانہ آئے گا اور شہر میں ہاے و ہو برپا کر دے گا،مجھے جو جنون ہے اُس سے سیکڑوں ہنگامے پیدا ہوں گے! ناداں، راتوں کی تاریکی کا غم مت کرو جو بڑھتی چلی آ رہی ہے،میری پیشانی کے داغ ستاروں کی طرح روشن اور درخشاں ہیں! تم مجھے دوست بنانا چاہتے ہو مگر مجھے اِس کا ڈر ہے کہ تم اُس شور و غوغا کی تاب نہ لا سکو گے جو مجھ میں ہے! پہلا ہی شعر دو جہانوں کا ذکر کرتا ہے۔ ظاہر ہے کہ دو جہانوں سے مراد ہمیشہ ظاہری و باطنی دنیا ہوتی ہے۔ زمین و آسمان سے بھی یہی مراد ہوتی ہے کہ ایک دنیا وہ ہے جو نظر آ رہی اور دوسری وہ ہے جو نظر نہیں آ رہی۔ اگر فرض کر لیا جائے کہ یہ چار اشعار کی نظم پانچ دنیاؤں کی طرف اشارہ کر رہی ہے تو ۷۵ منظومات کو پانچ پر تقسیم کرتے ہی ایک عجیب اور دلچسپ صورت حال سامنے ہے۔ اب ہم دیکھتے ہیں کہ ہر سولہویں نظم یعنی ہر نئی ’’دنیا‘‘ کا تعارف کروانے والی نظم کے پہلے ہی شعر میں کوئی نہ کوئی ایسا لفظ موجود ہے جو ایک نئی دنیا یا کم سے کم حقیقت کی ایک نئی سطح کا عنوان بن سکتا ہے یعنی آدم، فرشتہ، روح، عشق اور افرنگ۔ پہلی نظم کا پہلا شعر ہے، ’’اُٹھو، آدم کے نمودار ہونے کا وقت آ گیا ہے،اِس خاک کی مٹھی کے سامنے ستارے بھی سجدے میں چلے گئے ہیں۔۔۔‘‘: برخیز کہ آدم را ہنگامِ نمود آمد ایں مشتِ غبارے را انجم بسجود آمد سولہویں نظم کا پہلا شعر ہے، ’’فرشتہ اگرچہ افلاک کے طلسم سے باہر ہے مگر اُس کی نگاہیں اِسی خاک کی مٹھی کو دیکھنے میں لگی ہیں!‘‘: فرشتہ گرچہ بروں از طلسمِ افلاک است نگاہِ او بتماشاے ایں کفِ خاک است اکتسویں نظم کا پہلا شعر ہے، ’’اگرچہ میں جانتا ہوں کہ ایک روز وہ بے نقاب نکلے گا، مگر یہ مت سمجھ لینا کہ رُوح پیچ و تاب سے نکل جائے گی!‘‘: گرچہ می دانم کہ روزے بے نقاب آید بروں تا نہ پنداری کہ جاں از پیچ و تاب آید بروں چھیالیسویں نظم کا پہلا شعر ہے، ’’میں نے شریعت کی راہ و رسم میں اِس سے زیادہ تحقیق نہ کی کہ عشق کا انکار کرنے والا کافر اور زندیق ہے!‘‘: زرسم و راہِ شریعت نکردہ ام تحقیق جز اینکہ منکرِ عشق است کافر و زندیق اکسٹھویں نظم کا پہلا شعر ہے، ’’ناداں، تمہیں افرنگ سے ہمدردی کی امید ہے؟شاہین کا دل اُس پرندے پر ترس نہیں کھاتا جو اُس کے پنچے میں ہو!‘‘: ترا ناداں امیدِ غم گساریہاز فرنگ است؟ دلِ شاہیں نسوزد بہرِ آں مرغے کہ در چنگ است ہم چاہیں تو آدم، فرشتہ، روح، عشق اور افرنگ کو حقیقت کے ادراک کی پانچ سطحیں بھی سمجھ سکتے ہیں۔ اس طرح دیکھا جائے تو پندرہ پندرہ نظمیں ایک ایک سطح کی تشریح کرتی دکھائی دیتی ہیں لیکن کیا اس طرح دیکھنے کا کوئی جواز ہے؟ اس حوالے سے تین سوالات اٹھائے جا سکتے ہیں۔ ۱ کیا اس قسم کی فنکاری اقبال کے مزاج سے میل کھاتی تھی؟ ۲ اگر واقعی اُن کا مقصد اِس حصے کو یوں تقسیم کروانا تھا تو یہ مقصد زیادہ واضح الفاظ میں ظاہر کیوں نہ کیا گیا؟ ۳ اس کا مقصد کیا ہو سکتا ہے؟ پہلے سوال کا جواب اثبات میں ہے۔ ہم نے جس طریقے سے ’حصہ دوم‘ کی ابتدائی نظم کے شاعر اشعار میں سے پانچ دنیاؤں کی طرف اشارے برآمد کیے ہیں تاریخ گوئی کے فن میں اس سے ملتے جلتے طریقوں کی سند موجود ہے، مثلاً محمد عبداللہ قریشی حیاتِ جاوداں (علامہ اقبال کی تاریخ گوئی اور نوحے) ص۱۲-۱۱ پر لکھتے ہیں، ’’تاریخیں کئی طریقوں سے نکالی جاتی ہیں۔ بالواسطہ بھی اور بلاواسطہ بھی۔ سالم الاعداد کے علاوہ جمع تفریق کے عمل سے بھی اور ضرب تقسیم سے بھی۔ ان طریقوں کو اصطلاح میں تعمیہ، تخرجہ، اہمال، عجام، تضاراب، تناصب، تحریک، تسکین، تعریب، معکوس، معمیٰ اور تکثیر وغیرہ کہتے ہیں۔‘‘ اقبال نے اپنی زندگی میں متعدد قطعاتِ تاریخ لکھے جو اُن کی شعری تصانیف میں شامل نہیں ہیں مگر باقیات کے مجموعوں میں محفوظ ہیں۔ محمد عبداللہ قریشی کی حیاتِ جاوداں بھی انہی مجموعوں میں سے ایک ہے جس کے مقدمہ میں صفحہ ۱۵-۱۴ پر عبداللہ قریشی شکایت کرتے ہیں، ’’اقبال کے فکر و فن پر بیشمار کتابیں لکھی جا چکی ہیں۔۔۔ لیکن افسوس کہ ان کی تاریخ گوئی اور تاریخی کاوشوں کا دقیقی نظر سے ابھی تک مطالعہ نہیں کیا گیا۔ شائد یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ ایک دو کے سوا کسی نے اس صنف کو ان کے کمال کے اعتراف میں شمار کرنا بھی ضروری خیال نہیں کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ بہت کم لوگ ایسے ہیں جو یہ بھی جانتے ہیں کہ اقبال کو اس فن میں درک حاصل تھا اور جہاں وہ ایک عظیم شاعر، فلسفی اور مفکر تھے وہاں وہ ایک نکتہ رس اور کامیاب تاریخ گو بھی تھے۔‘‘ حیاتِ جاوداں میں اقبال کے لکھے ہوئے جو قطعات تاریخ شامل ہیں ان میں سے بعضوں میں ’’عدد‘‘ پورے کرنے کے لیے اُس سے زیادہ پیچیدہ طریقے اختیار کرنے پڑتے ہیں جس قسم کا اطلاق ہم نے یہاں ’حصہ دوم‘ کی چار اشعار کی تمہیدی نظم پر کیا ہے۔ دو مثالیں درجِ ذیل ہیں۔ اقبال نے جس زمانے میں گورنمنٹ کالج سے اپنی تعلیم مکمل کی اُسی زمانے میں ایک بزرگ پیرزادہ محمد حسین عارف نے مولانا روم کی مثنوی کی منتخب حکایات کا ترجمہ عقدِ گوہر کے نام سے شائع کروایا۔ اقبال نے اس کے لیے متعدد تاریخیں لکھیں جن میں سے ایک تھی ’’حقا یہ نظم موجِ شرابِ طہور ہے‘‘ مگر اُس کے اعداد ۱۹۰۱ء بنتے تھے جبکہ کتاب ۱۹۰۰ء میں چھپنے والی تھی۔ ایک عدد کم کرنا تھا لہٰذا اقبال نے اس تاریخ کو یوں نظم کیا: ہاتف نے دی صدا سرِ اعدا کو کاٹ کر حقا یہ نظم موجِ شرابِ طہور ہے حیاتِ جاوداں صفحہ ۴۰ پر محمد عبداللہ قریشی نے لکھا ہے، ’’مادۂ تاریخ کے اعداد ۱۹۰۱ء بنتے ہیں مگر مصرعِ اولیٰ کے اشارے کے مطابق ’سرِ اعدا‘ یعنی الف کا ایک عدد کم کر کے مطلوبہ تاریخ ۱۹۰۰ء برآمد ہوتی ہے۔‘‘ اس سے بھی زیادہ پیچیدہ حساب کتاب کی مثال وہ ہے جو میں نے اپنی مفصل سوانحِ اقبال کی پہلی جلد کے دوسرے اڈیشن (زیرِ طبع) میں بیان کی ہے۔ یہ اقبال کے زمانہ طالب علمی کا واقعہ ہے: اورئینٹل کالج کی ایک ہر دلعزیز شخصیت عربی کے مدّرس مولانا ابوسعید محمد شعیب تھے۔ اُنہوں نے علمِ عروض پر ایک رسالہ مختصر العروض لکھا اور اقبال نے اُس کا مادۂ تاریخ نکالا، ’’جزاک اللہ لکھا ہے رسالہ مختصر کیسا‘‘ مگر ابجد کے حساب سے مصرعے کے حروف جمع کرکے میزان ۱۸۸۵ بنتا تھا جبکہ سال ۱۸۹۶ء چل رہا تھا۔ باقی گیارہ عدد پورے کرنے کے لیے اقبال نے ایک دلچسپ طریقہ اختیار کیا۔ اُنہوں نے نو اشعار میں کتاب کی تعریف کرنے کے بعد دو اشعار لکھے: دکھا کر یہ کتابِ بے بہا دل چھین لیتا ہوں فصاحت کا، بلاغت کا، لیاقت کا، ذہانت کا ’’ادب‘‘ کے ساتھ بالطبع پھر یوں عرض کرتا ہوں ’’جزاک اللہ لکھا ہے رسالہ مختصر کیسا‘‘ فصاحت، بلاغت، لیاقت اور ذہانت کے دِلوں سے مراد ان چاروں الفاظ کے ’’الف‘‘ تھے کیونکہ یہ حرف ان میں سے ہر لفظ کے عین درمیان میں آتا تھا: ف ص ا ح ت ب ل ا غ ت ل ی ا ق ت ذ ہ ا ن ت چاروں الف جمع کرنے سے چار عدد بنتے تھے کیونکہ ابجد میں الف کا شمار ایک ہوتا ہے۔ اگلے مصرعے میں ’’ادب‘‘ کے ساتھ عرض کرنے سے مراد یہ تھی کہ اُس لفظ کے اعداد بھی شمار کیے جائیں جو سات بنتے ہیں یعنی ۱=۱، د=۴، ب=۲۔ یوں چار الف اور ’’ادب‘‘ کے اعداد گیارہ ہوئے جنہیں مادۂ تاریخ مصرعے کے اعداد میں جمع کرنے سے سالِ اشاعت نکل آتا تھا۔ لطف کی بات یہ تھی کہ پورا قطعہ گیارہ اشعار پر مشتمل تھا یعنی جتنے اعداد گم تھے اور تلاش کرنے تھے اُن کی نشاندہی اشعار کی کل تعداد سے بھی ہو رہی تھی۔ ان مثالوں کی روشنی میں یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ اس قسم کی مشقیں اقبال کے مزاج کے عین مطابق تھیں۔ تاریخ گوئی کی مشق انہوں نے ابتدائی زمانے کے بعد چھوڑ نہیں دی بلکہ تمام عمر جاری رکھی۔ جس زمانے میں زبورِ عجم لکھ رہے تھے اُسی زمانے یعنی ۱۹۲۶ء میں لکھی ہوئی پروفیسر ای جی براؤن کی تاریخ وفات موجود ہے جسے درج کرنے کے بعد عبداللہ قریشی حیاتِ جاوداں کے صفحہ ۱۲۱ پر لکھتے ہیں کہ اقبال نے اسے ’’منشی اسد اللہ کاتب سے خوش خط لکھوایا، مشہور باکمال مصور عبدالرحمٰن چغتائی سے اس پر نقاشی کروائی اور اسرارِ خودی کے انگریز مترجم ڈاکٹر نکلسن کو کیمبرج روانہ کیا کہ وہ اسے پتھر پر کندہ کرائیں یا جس طرح چاہیں استعمال کریں۔‘‘ لہٰذا اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ اقبال نے خود اس امکان کی واضح نشاندہی کیوں نہ کی کہ زبورِ عجم کے ’حصہ دوم‘ کو اس طرح بھی پڑھا جا سکتا ہے۔ اس کا سب سے مدلل جواب یہی ہے کہ انہوں نے تو اپنے قطعہ ہائے تاریخ میں بھی انہیں پڑھنے کے طریقے کی نشاندہی نہیں کی تھی۔ یوں بھی اکثر بڑے فنکار اپنی تخلیقات کی خود ہی تشریح کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ شیکسپئر کے اکثر ڈراموں پر سیکڑوں کتابیں لکھی جا چکی ہیں اور مزید لکھی جا رہی ہیں لیکن خود شیکسپئر کا ایک سطر کا تبصرہ بھی اس کے کسی ڈرامے کے بارے میں موجود نہیں ہے۔ مرزا غالب نے بھی اپنے کلام کی کوئی شرح نہ لکھی حالانکہ انہیں تو شائد ضرورت بھی تھی کیونکہ بعض لوگ اُن کے کلام کو مشکل سمجھ کر شکایت بھی کرتے تھے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ چونکہ اقبال نے خود بہت واضح الفاظ میں اس بات پر اصرار نہیں کیا کہ زبورِ عجم کو صرف اسی طریقے سے پڑھا جا سکتا ہے لہٰذا اس بحث میں کسی ایک نقطہ نظر کو حتمی قرار دینا بھی مناسب نہ ہو گا۔ صرف یہی کہا جا سکتا ہے کہ اگر ہم اس حصے کی منظومات کو پانچ ٹکڑوں میں تقسیم کر کے انہیں حقیقت کی پانچ سطحوں کی تشریح سمجھنا چاہیں تو ایسا کرنے کا جواز موجود ہے۔ اس حصے کو اس طرح پڑھنے سے کیا مقصد حاصل ہوسکتا ہے، یہ اس پر منحصر ہے کہ ہم اقبال سے کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ہمیں وہی کچھ اور اُتنا ہی ملے گاجسے قبول کرنے پر ہم تیار ہوں گے: بڑا کریم ہے اقبالِ بے نوا لیکن عطائے شعلہ شرر کے سوا کچھ اور نہیں ۳ اس حصے کے اختتام پر یعنی نمبر ۷۵ میں ایک عجیب و غریب منظر ہمارے سامنے آتا ہے جب کعبہ باقی ہے نہ بتخانہ اور شاعر اپنے آپ کو سجدہ کر رہا ہے! اِس نظم کے معانی میں ہمارے شارحین نے بڑی ٹھوکریں کھائی ہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ اُنہوں نے بالکل سامنے کی بات نظرانداز کر دی یعنی زبورِ عجم کے پانچ برس بعد ۱۹۳۲ء میں اقبال نے لندن میں جو لیکچر دیا ’کیا مذہب ممکن ہے؟‘ اور جو اَب اُن کی تشکیلِ جدید کا آخری خطبہ ہے اُس میں اقبال نے مجدد الف ثانی کے مکتوبات میں سے ایک اقتباس پیش کیا ہے جو من و عن اسی نظم یا غزل کا مفہوم پیش کرتا ہے [ترجمہ]: میرے لیے نہ تو ارض و سما کا وجود ہے نہ عرشِ الٰہی کا، نہ جنت اور دوزخ کا۔ میں اپنے اردگرد نظر ڈالتا ہوں تو اُن کو کہیں نہیں دیکھتا۔ میں جب کسی کے سامنے کھڑا ہوتا ہوں تو مجھے کوئی نظر نہیں آتا بلکہ میں اپنا وجود بھی کھو دیتا ہوں۔ ذاتِ الٰہیہ لامتناہی ہے۔ کوئی اس کا احاطہ نہیں کر سکتا۔ یہی منتہا ہے روحانی مشاہدات کا۔ کسی ولی کا گزر اس سے آگے نہیں ہوا۔ تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ (ترجمہ سید نذیر نیازی) ص۲۹۹ یہ مشاہدات عبدالمومن نامی ایک شخص نے مجدد الف ثانی کے سامنے پیش کیے تھے۔ غورکرنے پر زبورِ عجم ’حصہ اول‘ کی آخری نظم یا غزل یعنی ۷۵ کچھ اسی قسم کے مشاہدات پیش کرتی نظر آتی ہے: خود را کنم سجودے دیر و حرم نماندہ ایں در عرب نماندہ، آں در عجم نماندہ در برگِ لالہ و گل آں رنگ و نم نماندہ در نالہ ہاے مرغاں آں زیروبم نماندہ در کارگاہِ گیتی نقشِ نوی نہ بینم شاید کہ نقشِ دیگر اندر عدم نماندہ سیارہ ہاے گردوں بے ذوقِ انقلابے شاید کہ روز و شب را توفیقِ رم نماندہ بے منزل آرمیدند پا از طلب کشیدند شاید کہ خاکیاں را در سینہ دم نماندہ یا در بیاضِ امکاں یک برگِ سادۂ نیست یا خامۂ قضا را تابِ رقم نماندہ! [ترجمہ:] میں اپنے آپ کو سجدہ کرتا ہوں کہ بتخانہ اور کعبہ باقی نہیں رہے،یہ عرب میں نہیں رہا اور وہ عجم میں نہیں رہا! گلاب اور لالہ کی پنکھڑیوں میں وہ رنگ اور تازگی باقی نہیں رہی نہ پرندوں کے نغموں میں وہ اُتار چڑھاؤ باقی رہا۔ دنیا کے کارخانے میں مجھے کوئی نئی تصور نظر نہیں آتی۔ شاید عدم میں کوئی نئی صورت باقی نہیں رہی۔ آسمان کے سیارے تبدیلی کے ذوق سے محروم ہیں کہ شاید روز و شب کے تسلسل میں دوڑنے کی ہمت باقی نہیں رہی۔ بغیر منزل ہی کے ٹھہر گئے اور اپنے قدم طلب و کوشش سے روک لیے۔ معلوم ہوتا ہے کہ زمین والوں کے سینوں میں دم نہیں رہا۔ یا تو اس عالمِ امکاں کی بیاض میں کوئی سادہ ورق نہیں بچا ہے یا پھر تقدیر کے قلم میں لکھنے کی سکت باقی نہیں رہی۔ اس نظم کے روحانی ماحول اور عبدالمومن کے مشاہدات میں مماثلت کے پیشِ نظر اِس امکان سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ یہ اقبال کے کسی خاص ذہنی یا روحانی مکاشفے یا کیفیت کا حال ہو۔ اس قسم کے ذہنی یا روحانی مرحلے کے بارے میں مجدد الف ثانی کا تبصرہ اقبال نے خود ہی ’کیا مذہب ممکن ہے؟‘ میں نقل کیا ہے [ترجمہ:] میرے سامنے جو مشاہدات بیان کیے گئے ہیں اُن کا تعلق قلب کی ہر لحظہ بدلتی ہوئی زندگی سے ہے۔ معلوم ہوتا ہے صاحبِ مشاہدات نے قلب کے لاتعداد مقامات میں سے ابھی ایک چوتھائی بھی طے نہیں کیے۔ ان مقامات کا طے کرنا ضروری ہے تاکہ عالم روحانیت کے مقام اول کے مشاہدات کی تکمیل ہو جائے۔ اس مقام کے بعد اور بھی کئی مقامات ہیں، مثلاً روح کا مقام، سرِ خفی اور سر اخفی کے مقامات۔ ان سب مقامات کے جن کو مجموعاً ہم اپنی اصطلاح میں عالمِ امر سے تعبیر کرتے ہیں اپنے اپنے احوال اور واردات ہیں۔ جب سالک کا گزر ان مقامات سے ہوتا ہے تو رفتہ رفتہ اس پر اسمائے الٰہیہ اور پھر صفات الٰہیہ کی تجلی ہوتی ہے۔ بالآخر ذاتِ الٰہیہ کی۔ ‘‘ تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ (ترجمہ سید نذیر نیازی) ص۳۰۰-۲۹۹ اس تبصرے کی روشنی میں یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ نظم ۷۵ میں بیان کی ہوئی صورت حال خواہ اقبال کا مکاشفہ رہی ہو خواہ ایک ذہنی مرحلہ مگر اس سے گزرنے کے بعد عبدالمومن کا احوال اور اس پر مجدد الف ثانی کا تبصرہ اُنہیں اپنے حسبِ حال معلوم ہوا ہو گا۔ اگر یہ مکاشفہ نہیںبلکہ ایک فرضی صورت حال کا بیان ہے تب بھی اسے کسی اور حوالے سے سمجھنے کی بجائے اسے اقبال کے خطبے ’کیا مذہب ممکن ہے؟‘ کی تصریحات کی روشنی میں سمجھنا چاہیے۔ سب سے زیادہ دلچسپ بات یہ ہے کہ ’کیا مذہب ممکن ہے؟‘ میں اقبال نے عبدالمومن کے مشاہدات اور مجدد الفِ ثانی کے تبصرے کو یہ کہہ کر پیش کیا کہ جدید نفسیات مذہبی تجربے کی بیرونی سطح کو بھی نہیں چھو سکی ہے اور اس لیے دنیا کو ایک نئی روحانی اساس کی ضرورت ہے: This is the reason why I say that modern psychology has not yet touched even the outer fringe of the subject. Personally, I do not at all feel hopeful of the present state of things in either biology or psychology. Mere analytical criticism with some understanding of the organic conditions of the imagery in which relgious life has sometimes manifested itself is not likely to carry us to the living roots of human personality. The Reconstruction... [M Saeed Sheikh, ed.], p.153 [ترجمہ:] ہم نے اسی لیے تو کہا تھا کہ نفسیاتِ حاضرہ کا قدم ابھی مذہبی زندگی کے قشر تک نہیں پہنچا۔ یوں بھی بحالتِ موجودہ ہمیں حیاتیات ہی سے کوئی توقع ہے نہ نفسیات سے۔ یہ اس لیے کہ جس تنقید کا دارومدار محض تحلیل و تجزیے پر ہے یا جو علم صرف اس امر تک محدود ہے کہ مذہبی زندگی کا اظہار اگر کبھی مخصوص تشبیہوں اور استعاروں میں ہوا تو یہ دیکھا جائے کہ عضوی اعتبار سے کن احوال اور کیفیات کے ماتحت، اُس کی بدولت ہم کیسے سمجھ سکتے ہیں کہ زندگی کے نقطہ نظر سے انسانی شخصیت کا راز کیا ہے؟ تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ (ترجمہ سید نذیر نیازی) ص۳۰۰ نظم ۷۵ میں خواہ اقبال نے اپنی روحانی واردات بیان کی ہو خواہ ایک فرضی صورت حال کی جھلک پیش کی ہو بہرحال یہ نظم اُس نفسیات کے لیے مصالحہ فراہم کرتی نظر آتی ہے جو اقبال کے خیال میں جدید عہد کی ضرورت ہے، جو تصوف کے پرانے طریقوں سے زیادہ سہل اور جدید مغربی نفسیات سے زیادہ دُوررس ہو گی۔ ممکن ہے کہ جب ہم اُس نئی نفسیات کی داغ بیل دالنے پر آمادہ ہو جائیں تب زبورِ عجم ’حصہ اول‘ کے سات مرحلوں اور ’حصہ دوم‘ کی پانچ سطحوں کے اصل معانی اور مقاصد بھی ظاہر ہو سکیں: اگر ہو ذوق تو خلوت میں پڑھ زبورِ عجم فغانِ نیم شبی بے نوائے راز نہیں ۴ تیرہویں صدی عیسوی کے صوفی بزرگ شیخ محمود شبستری نے گلشن راز تصنیف کی۔ زبورِ عجم کی تیسرے حصے کا عنوان ’گلشن راز جدید‘ ہے اور یہ مثنوی کی صورت میں ہے۔ ’’اُس دانائے تبریز کے سامنے وہ قیامتیں گزریں جو چنگیز کے کھیت سے آئی تھیں،‘‘ اقبال تمہید میں کہتے ہیں۔ ’’میری نگاہ نے ایک دوسرا انقلاب دیکھا اور کسی دوسرے آفتاب کو طلوع ہوتے دیکھا۔میں نے معنی کے چہرے سے پردہ اٹھایا اور ذرہ کے ہاتھوں میں ایک آفتاب تھما دیا۔۔۔‘‘: گذشت آں پیشِ آں دانائے تبریز قیامت ہا کہ رست از کشتِ چنگیز نگاہم انقلابے دیگرے دید طلوعِ آفتابے دیگرے دید کشودم از رخِ معنی نقابے بدستِ ذرّہ دادم آفتابے ظاہر ہے کہ اس دوسرے انقلاب سے اقبال کی مراد ہنگامہ ٔ افرنگی ہے۔ ذرہ جس کے ہاتھوں میں انہوں نے آفتاب تھمایا، وہ ہم ہیں۔ لیکن یہ صرف کہنے کی بات ہے یا واقعی اُن کے پیغام میں وہ باتیں موجود ہیں جن کا وہ دعویٰ کرتے ہیں؟ اقبال کی تنبیہ بہت واضح اور دوٹوک ہے۔ ’’ تم یہ مت سوچنا کہ میں بغیر شراب پیے مست ہوں اور میں نے شاعروں کی طرح افسانہ گھڑا ہے،‘‘ وہ کہتے ہیں۔’’تمہیں اُس کم ظرف انسان سے کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتا جس نے مجھ پر شعر و شاعری کی تہمت باندھی ہو۔۔۔‘‘: نہ پنداری کہ من بے بادہ مستم مثالِ شاعراں افسانہ بستم نہ بینی خیر ازاں مردِ فرودست کہ بر من تہمتِ شعر و سخن بست شبستری کی گلشن راز میں پندرہ سوال و جواب تھے۔ ’گلشن راز جدید‘ میں صرف نو سوال و جواب ہیں۔ اب یہ اہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ نو سوال و جواب اقبال کی فکر کا خلاصہ قرار دیے جا سکتے ہیں؟ یہ دُرست ہے کہ اقبال کی فکر اُس انداز میں مربوط نہیں ہے جس انداز میں مغربی فلسفی اپنے فکری نظام مرتب کرتے ہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہ سمجھنا چاہیے کہ اس میں سرے سے کوئی ربط و نظام ہی نہ ہو گا۔ یہ تو اُس علم کی خصوصیت ہے جس کی اقبال مخالفت کرتے ہیں: مدرسہ عقل کو آزاد تو کرتا ہے مگر چھوڑ جاتا ہے خیالات کو بے ربط و نظام اس لحاظ سے دیکھا جائے تو ایک حکیمانہ شاعر جب کسی نئی حکمت کی داغ بیل ڈالنے کا دعویٰ کرے تو اُس کا ربط و نظام کسی مغربی فلسفیانہ نظام سے زیادہ پیچیدہ اور مکمل بھی ہو سکتا ہے کیونکہ اس کے لیے قاری کو اپنے جذبات اور خیالات میں اتحاد پیدا کر کے اُنہیں بھی بروئے کار لانا پڑے گا۔ ’گلشن راز جدید‘ کے نو سوال و جواب اقبال کی فکر کا خلاصہ ہیں یا نہیں، اس پر غور کرنے کے دو طریقے ہیں۔ پہلا یہ ہے کہ خود ان سوالات کا باہمی ربط دریافت کیا جائے یعنی کیا یہ کسی خاص ترتیب میںپیش کیے گئے ہیں؟ اس کے بعد دیکھا جائے کہ یہی ترتیب اقبال کی دوسری تصانیف میں بھی استعمال کی گئی یا نہیں اور انہی موضوعات پر اقبال کی دوسری تصانیف میں جو کچھ کہا گیا ہے یہ سوال و جواب کس طرح اُسے سمجھنے میں ہماری مدد کرتے ہیں۔ جہاں تک تسلسل کا تعلق ہے وہ بہرحال ان سوالوں میں دکھائی دیتا ہے، مثلاً پہلا سوال سوچ کے بارے میں ہے اور ظاہر ہے کہ بقیہ تمام سوالات کا انحصار اسی پر ہو گا کیونکہ انہیں سمجھنا بھی تو سوچنے کے عمل کے تابع ہو گا۔ دوسرا سوال علم کے بارے میں ہے جو سوچ کے بعد منطقی اعتبار سے اگلا موضوع ہونا چاہیے۔ اسی طرح اس کے بعد کے سوالوںمیں ایک خاص تدریجی ربط ہے جسے ہر شخص اپنے طور پر دریافت کر سکتا ہے اور شائد یہی مقصد بھی ہے۔ یہ بھی قابلِ غور ہے کہ ان میں سے بعض سوالات محمود شبستری کی گلشن راز میں بھی موجود ہیں مگر وہاں ان کی ترتیب کچھ اور ہے۔ اس سے بھی یہی اندازہ ہوتا ہے کہ اقبال نے انہیں اپنے حساب سے کسی خاص ترتیب کے تحت رکھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ زبور عجم سے اگلی تصنیف جاویدنامہ میں جب مولانا روم، اقبال کو افلاک کی سیر پر لے کر نکلتے ہیں تو سب سے پہلے ’فلکِ قمر‘ پر عارفِ ہندی جہاں دوست یعنی وشوامتر سے ملاقات ہوتی ہے جو اقبال سے کچھ سوال و جواب کرتے ہیں۔ بظاہر وہ دس سوال ہیں لیکن غور سے دیکھنے پر معلوم ہوتا ہے کہ وہ بھی نو ہیں کیونکہ اُن میں سے دو سوال اصل میں ایک ہی سوال کے دو حصے ہیں۔ اقبال کے جوابات سے خوش ہو کر وشوامتر جو سخن یعنی اقوالِ زریں انہیں پیش کرتے ہیں اُن پر باقاعدہ نمبر شمار ہے اور وہ بھی نو ہیں۔ ’گلشنِ راز جدید‘ میں اقبال نے نو سوالات کے جو جواب دیے ہیں وہ اسلامی تصوف کے حوالے سے اُن کا اپنا نقطہ نظر ہے اورمعلوم ہوتا ہے کہ جاویدنامہ کے ’فلکِ قمر‘ پر وشوامتر نے جو نو سخن دیے وہ ویدانت کے حوالے سے وشوامتر کا نقطہ نظر ہے۔ یہ بات پوری طرح سامنے آ جاتی ہے اگر ہم ’گلشنِ راز جدید‘ کے نو سوالات کے ساتھ اِسی ترتیب میں جاویدنامہ سے وشوامتر کے نو سخن میں سے ایک ایک رکھ کر دیکھیں: سوال ۱ نخست از فکرِ خویشم در تحیر چہ چیز است آنکہ گویندش تفکر کدامیں فکر ما را شرطِ راہ است چرا گہ طاعت و گاہے گنہ است سخن۱ ذاتِ حق را نیست ایں عالم حجاب غوطہ را حائل نگردد نقشِ آب سوال ۲ چہ بحر است ایں کہ علمش ساحل آمد؟ زقعرِ او چہ گوہر حاصل آمد؟ سخن۲ زادن اندر عالمے دیگر خوش است تا شبابِ دیگرے آید بدست! سوال ۳ وصالِ ممکن و واجب بہم چیست؟ حدیثِ قرب و بعد و بیش و کم چیست؟ سخن۳ حق وراے مرگ و عینِ زندگی است بندہ چوں میرد نمی داند کہ چیست! گرچہ ما مرغانِ بے بال و پریم از خدا در علمِ مرگ افزوں تریم! سوال ۴ قدیم و محدث از ہم چوں جدا شت کہ ایں عالم شد آں دیگر خدا شد اگر معروف و عارف ذاتِ پاک است چہ سودا در سرِ ایں مشتِ خاک است سخن۴ وقت؟ شیرینی بزہر آمیختہ رحمتِ عامے بقہر آمیختہ خالی از قہرش نہ بینی شہر و دشت رحمتِ او ایں کہ گوئی در گذشت! سوال ۵ کہ من باشم مرا از ’من‘ خبر کن چہ معنی دارد ’اندر خود سفر کن‘؟ سخن۵ کافری مرگ است اے روشن نہاد کے سزد با مردہ غازی را جہاد! مردِ مومن زندہ و باکود بجنگ برخود افتد ہمچو بر آہو پلنگ سوال ۶ چہ جزو است آنکہ از کل فزون است؟ طریقِ جستنِ آں جزو چون است؟ سخن۶ کافرِ بیدار دل پیشِ صنم بہ زدیندارے کہ خفت اندر حرم! سوال ۷ مسافر چوں بود رہرو کدام است؟ کرا گویم کہ او مردِ تمام است؟ سخن۷ چشمِ کورست اینکہ بیند ناصواب ہیچگہ شب را نہ بیند آفتاب! سوال ۸ کدامی نکتہ را نطق است اناالحق چہ گوئی ہرزہ بود آں رمزِ مطلق سخن۸ صحبتِ گِل دانہ را سازد درخت آدمی از صحبتِ گِل تیرہ بخت! دانہ از گِل می پذیرد پیچ و تاب تاکند صیدِ شعاعِ آفتاب! سوال ۹ کہ شد بر سرِّ وحدت واقف آخر؟ شناساے چہ آمد عارف آخر؟ سخن۹ من بگُل گفتم بگو اے سینہ چاک چوں بگیری رنگ و بو از باد و خاک گفت گُل اے ہوشمندِ رفتہ ہوش چوں پیامے گیری از برقِ خموش جاں بہ تن ما را زجذبِ این و آں جذبِ تو پیدا و جذبِ ما نہاں! [ترجمہ:] سوال ۱ سب سے پہلے میں اپنی سوچ کے بارے میں حیران ہوں کہ وہ کیا چیز ہے جسے سوچنا کہتے ہیں،کون سی سوچ ہمارے لیے سفر کی شرط ہے اور کیوں یہ کبھی نیکی اور کبھی گناہ ہے؟ سخن ۱ یہ کائنات ذات حق کی آڑ نہیں ہے۔ پانی پر بننے والا نقش غوطہ لگانے میں روک نہیں بنتا۔ سوال ۲ کون سا سمندر ہے جس کا کنارہ علم ہے اور اس کی گہرائی میں کون سا موتی ملتا ہے؟ سخن۲ ایک اور عالم میں جنم لینا اچھا ہے تاکہ ایک دوسری جوانی ہاتھ آ جائے۔ سوال ۳ جس کا ہونا محض امکان ہو اُس کا وصال اُس کے ساتھ کیسا جس کا وجود کسی کا محتاج نہیںاور یہ نزدیکی، دُوری، کم اور زیادہ کا معاملہ کیا ہے؟ سخن۳ حق تعالی موت سے ماورا اور حیات ہی حیات ہے۔ بندہ جب مرتا ہے تو حق تعالیٰ نہیں جانتا کہ یہ کیا ہے! گرچہ ہم بے پرو بال پرندے ہیں مگر موت کے علم میں خداسے بڑھے ہوئے ہیں۔ سوال ۴ جو ہمیشہ سے ہے اور جسے بنایا گیا وہ ایک دوسرے سے جدا کیسے ہوئے کہ ایک دُنیا ٹھہرا اور دوسرا خدا ہوا؟ جسے پہچانا جا رہا ہے اور جو پہچان رہی ہے وہ اگر خدا کی ذات ہی ہے تو پھر یہ انسان کے دماغ میں کیا سودا سمایا ہے؟ سخن ۴ زمانہ کیا ہے؟ زہر ملی شیرینی، قہر میں گندھی ایک رحمت عام! تم شہر اور بیابان کو اس کے قہر سے خالی نہیں دیکھو گے۔ اس کی رحمت یہی ہے کہ تم کہہ سکو یہ گزر گیا۔ سوال ۵ میں کون ہوں، مجھے میری خبر دیجیے اور یہ اپنے آپ میں سفر کرنے کا مطلب کیا ہے؟ سخن ۵ کافری موت ہے اے پاک فطرت! مردے سے جہاد کرنا غازی کو کب سجتا ہے؟ مرد ِمومن زندہ ہے اور اپنے ساتھ بر سرپیکار!خود پر جھپٹتا ہے جیسے ہرن پر چیتا! سوال ۶ وہ حصہ کون سا ہے جو پورے سے زیادہ ہے اور اُسے پانے کا طریقہ کیا ہے؟ سخن۶ بت کے سامنے اپنے دل کو حاضر رکھنے والا کافر اُس دیندار سے اچھا ہے جو کعبے میں سو گیا! سوال ۷ وہ مسافر کون ہے جو راستے پر چل رہا ہے اور کس کے بارے میں کہہ سکتے ہیں کہ وہ انسانِ کامل ہے؟ سخن ۷ یہ تو اندھی آنکھ ہے جو بدی کو دیکھتی ہے۔ سورج کبھی رات نہیں دیکھتا! سوال ۸ اَنالحق کس نکتے کا بیان ہے اور کیا آپ کے خیال میں یہ مبہم بات بالکل فضول تھی؟ سخن ۸ مٹی کی سنگت دانے کو درخت بنا دیتی ہے مگر آدمی مٹی کی صحبت سے سیاہ روز ہی رہتا ہے۔ دانہ مٹی سے کس بل لیتا ہے تاکہ سورج کی کرنوں کو شکار کرے! سوال ۹ کون ہے جو آخر خالص توحید کے راز سے واقف ہوااور وہ بات کیا ہے جو عارف کو معلوم ہوتی ہے؟ سخن ۹ میں نے پھول سے کہا: ’اے سینہ چاک رکھنے والے تم ہوا اور مٹی سے کس طرح رنگ اور خوشبو حاصل کرتے ہو؟‘ پھول نے جواب دیا، ’اے دیوانۂ عاقل! تم خاموش بجلی سے کیسے پیغام وصول کرلیتے ہو؟ ہمارے تن میں روح، اِسے اور اُسے جذب کر لینے کی وجہ سے ہے۔ تمہارا جذب ظاہر ہے اور میرا مخفی!‘ ان میں سے بعض سوال اور سخن بالکل واضح طور پر ایک دوسرے سے متعلق لگتے ہیں، مثلاً پہلا سوال سوچ کے بارے میں اور پہلا سخن اس بارے میں کہ یہ دنیا خدا کو دیکھنے کی راہ میں حائل نہیں ہوتی۔ یہ دونوں باتیں اقبال کے تشکیلِ جدید کے پہلے خطبے کی روشنی میں سمجھی جا سکتی ہیں جہاں انہوں نے سوچ اور وجدان کا تعلق بیان کیا ہے۔ اسی طرح دوسرا سوال یہ ہے کہ علم کے سمندر کی تہہ میں کون سا موتی ہاتھ لگتا ہے اور وشوامتر کے نقطہ نظر سے اس کا جواب یہ بنتا ہے کہ وہ موتی ایک نئے عالم میں جنم لینا ہے۔ بعض سوال اور سخن جن کے باہمی تعلق ایک دم واضح نہیں ہوتے ان کا تعلق بھی اُس وقت ثابت ہو جاتا ہے جب ہم سوال کو ’گلشن راز جدید‘ کے سیاق و سباق میں اچھی طرح سمجھ لیں۔ مثلاً آٹھواں سوال ’’انا الحق‘‘ کے بارے میں ہے جو منصور حلاج کا مشہور نعرہ تھا۔ یہ سوال تکمیل کے سوال کے بعد آیا ہے۔ اس لحاظ سے انا الحق کا مطلب یہ ہوا کہ جب کوئی سالک اپنے سفر کے ساتوں مراحل طے کرنے کے بعد اپنے آپ کو دیکھے تو اُسے اپنے آپ میں اور حقیقتِ کاملہ میں کوئی فرق دکھائی نہیں دیتا۔ یہی وہ بات ہے جس کی طرف وشوامتر یوں اشارہ کر رہے ہیں، ’’ مٹی کی سنگت دانے کو درخت بنا دیتی ہے مگر آدمی مٹی کی صحبت سے سیاہ روز ہی رہتا ہے۔ دانہ مٹی سے کس بل لیتا ہے تاکہ سورج کی کرنوں کو شکار کرے!‘‘ یوں وشوامتر کا تبصرہ ایک پہیلی بن جاتا ہے یعنی ’’انا الحق‘‘ کہنا مٹی کی صحبت کے اثر میں اسیر رہنے کے مترادف ہے یا سورج کی کرنوں کو شکار کرنے کے؟ اِسی سوال کا جواب جو اقبال نے ’گلشن راز جدید‘ میں دیا ہے اُس میں انہوں نے یہ بھی کہا، ’’خودی کو حقیقی جانو، اِسے باطل مت سمجھو۔ خودی کو ایسا کھیت مت سمجھو جس میں پیداوار نہیں۔خودی جب پختہ ہو جائے تو لازوال ہو جاتی ہے۔ عاشقوں کا فراق عینِ وصال ہوتا ہیکہ چنگاری کو بلندپروازی دی جا سکتی ہے، ہمیشہ کی تڑپ ببخشی جا سکتی ہے۔‘‘اس سے اقبال اور وشوامتر کے طرزِ بیان کا فرق کو ظاہر ہوتا ہے۔ زبورِ عجم سے پچھلی تصنیف بانگِ درا کی آخری نظم ’طلوع اسلام‘ ہے۔ اتفاق سے اُس میں بھی نو بند ہیں۔ کیا وہ نو بند کسی لحاظ سے ان سوالات کی آہٹ تھے جسے اقبال نے محسوس کیا؟ ظاہر ہے کہ اس کا فیصلہ کرنا مشکل ہے کیونکہ فیصلے کا انحصار اس بات پر ہو گا کہ آپ کی نظر میں شاعر یا حکیم کا تصور کیا ہے اور آپ اُس تصور کے مطابق اقبال کی تخلیقی شخصیت کا کیا تصور اپنے ذہن میں رکھتے ہیں۔ مگر یہ بات محسوس کیے بغیر نہیں رہا جا سکتا کہ ’طلوعِ اسلام‘ کے نو بند اور ’گلشن راز جدید‘ کے نو سوالات آپس میں کچھ تعلق ضرور رکھتے ہیں جو کہیں واضح اور کہیں مبہم ہے۔ مثلاً ’طلوع اسلام‘ کے پہلے بند کا ٹیپ کا شعر ہے: ضمیرِ لالہ میں روشن چراغِ آرزو کر دے چمن کے ذرے ذرے کو شہیدِ جستجو کر دے یہ وہ پیغام ہے جو ایک غیبی آواز ’طلوع اسلام‘ کے شروع میں شاعر کو دے رہی ہے۔ اس ٹیپ کے شعر میں چمن کے ذرے ذرے کو شہیدِ جستجو کردینے کی جو ہدایت شاعر کو دی جا رہی ہے ظاہر ہے کہ وہ پہلے سوال یعنی اپنی سوچ کو سمجھنے کے موضوع سے تعلق رکھتی ہے کیونکہ سوچ کے بغیر جستجو نہیں ہو سکتی۔ نیز اقبال کے نزدیک سوچ کی جو تعریف ہے اُس میں چراغِ آرزو بھی شامل ہے۔ اس لحاظ سے ’گلشن راز جدید‘ کے نو سوال واقعی اقبال کی فکر کا خلاصہ معلوم ہوتے ہیں۔ ان سوالوں کے موضوعات اقبال کی شاعری میں بکھرے ہوئے ہیں لیکن ’گلشن راز جدید‘ میں سوال و جواب کے ایک سلسلے میں مربوط ہو جاتے ہیں: تو شمشیری زکامِ خود بروں آ بروں آ از نیامِ خود بروں آ نقاب از ممکناتِ خویش برگیر مہ و خورشید و انجم را بہ برگیر شبِ خود روشن از نورِ یقیں کن یدِ بیضا بروں از آستیں کن کسے کو دیدہ را بر دل کشود است شرارے کشت و پروینے درود است شرارے جستۂ گیر از درونم کہ من مانندِ رومی گرم خونم وگرنہ آتش از تہذیبِ نو گیر برونِ خود بیفروز اندروں میر! [ترجمہ:] تم تلوار ہو اپنی چھپی ہوئی صلاحیتوں سے باہر آؤ۔ نکلو اور اپنی نیام سے باہر آؤ! اپنے ممکنات سے نقاب اٹھاؤ، چاند سورج اور ستاروں کو اپنی آغوش میں لے لو۔ اپنی رات کو یقین کے نور سے روشن کرو، اپنی آستین سے یدِ بیضا باہر نکالو۔ جس نے اپنے دل پر آنکھیں کھولیں اُس نے ایک چنگاری بوئی اور پروین کی فصل کاٹی! میرے باطن سے اُچٹی ہوئی چنگاری لے لو کہ میں رومی کی طرح گرم خون ہوں نہیں تو نئی تہذیب سے آگ لے لو، اپنا ظاہر روشن کرو اور اندر سے مر جاؤ! ۵ زبور عجم کا چوتھا حصہ ’بندگی نامہ‘ یعنی غلامی کی کتاب ہے۔ یہ بھی مثنوی ہے جس میں تمہید کے بعد دو ابواب ہیں: ٭ غلاموں کے فنون لطیفہ کے بیان میں :موسیقی، مصوری اور غلاموں کا مذہب ٭ آزاد لوگوں کے فنون لطیفہ کے بیان میں یہ مضامین اقبال نے تقریباً تمام تصانیف میں دہرائے ہیں مگر یہاں جس طرح ’گلشن راز جدید‘ اقبال کے فکری نظام کا خلاصہ پیش کرتی ہے اُسی طرح ’بندگی نامہ‘ ان کے نظامِ فن کا خلاصہ ہے۔ ابواب کی تقسیم سے قطع نظر اِس حصے کو پانچ موضوعات کے تحت سمجھا جا سکتا ہے: غلامی، آزادی، ظاہر، باطن اور مذہب۔ اس حصے کے مضامین میں یہ پانچ موضوعات بار بار آئے ہیں۔ غلامی کے بیان میں اس مثنوی کی تمہید کلیدی اہمیت رکھتی ہے جس میں چاند نے خدا سے شکایت کی کہ اُسے ایسے سیارے کا طواف کرنے کا پابند کیوں کیا گیا ہے جس کی مٹی سے پیدا ہونے والی اعلیٰ ترین مخلوق غلامی پر آمادہ ہے۔ زمین کے خلاف چاند کی شکایت اگلی تصنیف جاویدنامہ کی ’تمہیدِ آسمانی‘ میں ذرا مختلف قسم کی حکایت بننے والی تھی جہاں روزِ ازل آسمان، زمین کو اُس کی بے نوری پر طعنہ دیتا ہے اور زمین، خدا سے فریاد کرتی ہے۔ اسی تمہید میں اقبال نے ایک شورزدہ زمین کا ہولناک منظر پیش کر کے کہا ہے کہ ایسی زمین میں ایک مدت گزارنا غلامی کے ایک لمحہ سے بہتر ہے: شورہ بوم از نیشِ کژدم خار خار مورِ او اژدرگز و عقرب شکار صرصرِ او آتشِ دوزخ نژاد زورقِ ابلیس را بادِ مراد آتشے اندر ہوا غلطیدۂ شعلۂ در شعلۂ پیچیدۂ آتشے از دودِ پیچاں تلخ نوش آتشے تندر غو و دریا خروش در کنارش مارہا اندر ستیز مارہا با کفچہ ہاے زہرریز شعلہ اش گیرندہ چوں کلبِ عقور ہولناک و زندہ سوز و مردہ نور در چنیں دشتِ بلا صد روزگار کوشتر از محکومیٔ یک دم شمار [ترجمہ]: ایک شورہ زمین بچھوؤں کے ڈنک سے خارزار، اس کی چیونٹیاں اژدہے کو ڈسنے والی اور بچھوؤں کو شکار کرنے والی، اُس کی آندھیاں جہنم کی آگ اور شیطان کی کشتی کے لیے سازگار ہوا، اس کی فضا میں آگ یوں بسی ہوئی کہ شعلے آپس میں گتھے ہوئے ہوں، آگ جو بل کھائے ہوئے دھوئیں کی تلخی میں لپٹی ہوئی ہو جس کی آواز مہیب گرج دار اور سمندر کے طوفانی شور کی طرح ہو، اس کی وسعتوں میں اپنے پھنوں سے زہر ٹپکاتے ہوئے سانپ آپس میں لڑ رہے ہوں،اس کے شعلے کٹکھنے کتے کی طرح بھنبھوڑنے والے، ہولناک، زندہ جلا دینے والے اور تاریک ہوں، ایسے بیابان کی سیکڑوں سال کو غلامی کے ایک لمحے سے بہتر سمجھو! اس تمہید کا آخری شعر ایک طرح سے سلطان ٹیپو کے مشہور مقولے کی یاد دلاتا ہے اگرچہ مثال الٹ دی گئی ہے۔ ٹیپو نے کہا تھا کہ شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے مگر اقبال کہہ رہے ہیں کہ سو برس کا عذاب غلامی کے ایک لمحے سے بہتر ہے۔ مزید دلچسپ بات یہ ہے کہ اُنہوں نے شورزدہ زمین کا جو نقشہ کھینچا ہے وہ اگلی تصنیف جاویدنامہ کے ’فلکِ زحل‘ سے بہت مماثل ہے جہاں قوم کو غلامی میں دھکیلنے والے غداروں میر جعفر اور میر صادق کو رکھا جائے گا۔ اس مماثلت سے معلوم ہوتا ہے کہ اقبال کے نظامِ شعر میں بعض تشبیہات اور مناظر مستقل مقام رکھتے ہیں اور اُن کا آپس میں موازنہ کیا جا سکتا ہے خواہ وہ الگ الگ تصانیف میں آئے ہوں۔ غلامی کے بارے میں انہوں نے جو خیالات یہاں ظاہر کیے ہیں وہ بعد میں اُن کی اُردو شاعری کے ذریعے بھی ہمیں معلوم ہوتے رہے ہیں، مثلاً غلامی حسن و زیبائی سے محرومی ہے اور اس کیفیت میں ناخوب بتدریج خوب ہو جاتا ہے۔ غلاموں کی موسیقی صرف مایوسی پھیلاتی ہے اور ان کی مصوری میں موت کی نقش گری ہوتی ہے جس کی کچھ مثالیں اقبال نے یہاں پیش کی ہیں: ’’راہبے در حلقۂ دامِ ہوس دلبرے با طائرے اندر قفس خسروے پیشِ فقیرے خرقہ پوش مردِ کوہستانیٔ ہیزم بدوش نازنینے در رہِ بت خانۂ جوگئے در خلوتِ ویرانۂ پیرکے از دردِ پیری داغ داغ آنکہ اندر دستِ او گل شد چراغ مطربے از نغمۂ بیگانہ مست بلبلے نالید و تارِ اُو گسست نوجوانے از نگاہے خوردہ تیر کودکے بر گردنِ بابائے پیر‘‘ [ترجمہ:] کوئی راہب ہوس میں گرفتار، کوئی حسینہ پنجرے میں ایک پرندہ لیے ہوئے، کوئی بادشاہ کسی خرقہ پوش فقیر کی خدمت میں، کوئی پہاڑی آدمی کاندھوں پر لکڑی کا گٹھا اُٹھائے ہوئے، کوئی نازک اندام نازنیں مندر کی طرف جاتی ہوئی، کوئی جوگی ایک ویرانہ میں بیٹھا ہوا، کوئی ٹوٹا پھوٹا بوڑھا بڑھاپے کے امراض سے چُور اور اُس کے ہاتھوں میں ایک بجھا ہوا چراغ، کوئی گویا کسی پردیسی گانے میں مست جیسے آہ و زاری کرتے ہوئے کسی بلبل کی سانس اُکھڑ گئی ہو، کسی کے تیرِ نگاہ کا گھائل کوئی نوجوان، کوئی چھوٹا بچہ جو بوڑھے باپ کی گردن پر سوار! یہ محض خیالی مثالیں معلوم نہیں ہوتیں جب ہم دیکھتے ہیں کہ اقبال کے زمانے میں مغرب میں فن و ادب کے جو رجحانات پرورش پا رہے تھے اُن میں یہی موضوعات مقبول تھے اور بعد میں مشرق میں بھی مقبول ہوئے۔ یہ بات اس لیے بھی اہم ہے کیونکہ اس نقطہ نظر سے قیامِ پاکستان کے بعد کی بیشتر مصوری اسی ذیل میں شمار کی جا سکتی ہے یعنی اُس میں آزاد مصوروں کی جولانی کی بجائے پست خیالات کی پرورش ہوتی دکھائی دیتی ہے۔ ممکن ہے یہی وجہ ہو کہ ایک آزاد قوم کے اجتماعی شعور نے ایسی مصوری کی پذیرائی نہیں کی اور مصوروں کو اکثر ہمارے عوام سے ناقدری کی شکایت رہی۔ یہاں آزادی کی جو تعریف کی گئی ہے اُسے اسرار و رموز کے بعض ابواب کی روشنی میں بہتر سمجھا جا سکتا ہے مثلاً اُس باب کی روشنی میں جہاں وقت کے بارے میں اقبال نے اپنے نظریات پیش کیے ہیں۔ آزاد فن کار فطرت کا مقلد نہیں ہوتا بلکہ وقت اور مقام کے قید سے آزاد ہو کر وہ اپنے تخیل کی مدد سے آنے والے دور کی تصویر کھینچا ہے یا جلال و جمال کے ایسے نمونے پیش کرتا ہے جو فطرت پر سبقت لے جاتے ہیں۔ یہاں اقبال نے قطب الدین ایبک اور شیر شاہ سوری کی تعمیرات، بالخصوص ایبک کی مسجد قوت الاسلام کے علاوہ مغلوں کے بنائے ہوئے تاج محل کی مثالیں پیش کی ہیں۔ ان میں مسجد قوت الاسلام کے بارے میں اقبال نے ضرب کلیم میں بھی ایک نظم لکھی اور آزاد لوگوں کے فنِ تعمیر کے بارے میں جو خیالات یہاں سیدھے سادے انداز میں بیان ہوئے ہیں وہ آگے چل کر بالِ جبریل میں ’مسجدِ قرطبہ‘ جیسی نظم کی اساس بن گئے مگر تاج محل کی مدح اُن کی شاعری میں غالباً صرف یہیں ہوئی ہے اور غورطلب ہے: یک نظر آں گوہرِ نابے نگر تاجؔ را در زیرِ مہتابے نگر مرمرش زآبِ رواں گردندہ تر یک دم آنجا از ابد پائندہ تر عشقِ مرداں سرِّ خود را گفتہ است سنگ را با نوکِ مژگاں سفتہ است عشقِ مرداں پاک و رنگیں چوں بہشت می کشاید نغمہ ہا از سنگ و خشت عشقِ مرداں نقدِ خوباں را عیار حسن را ہم پردہ در ہم پردہ دار ہمتِ او آنسوئے گردوں گذشت از جہانِ چند و چوں بیروں گذشت زانکہ در گفتن نیاید آنچہ دید از ضمیرِ خود نقابے بر کشید [ترجمہ:] ایک نظر اُس سچے موتی کو بھی دیکھو، تاج محل کو چاندنی رات میں دیکھو! اُس کا مرمر بہتے ہوئے پانی سے زیادہ رواں اور وہاں کا ایک لمحہ ابد سے زیادہ باقی رہنے والا ہے۔ جوانمردوں کے عشق نے اپنی داستان بیان کر دی ہے، پلکوں کی نوک سے پتھر میں کندہ کاری کی ہے! جوانمردوں کا عشق جنت کی طرح پاک اور رنگیں ہے اور سنگ و خشت سے نغمے پیدا کرتا ہے۔ جوانمردوں کا عشق حسینوں کو پرکھنے کی کسوٹی ہے، حسن کا پردہ چاک بھی کرتا ہے اور حسن کا پردہ دار بھی ہے! اُس کی ہمت آسمانوں سے پرے پہنچ کر اس محدود جہان سے باہر نکل گئی۔ جو دیکھا وہ چونکہ بیان میں نہیں سما سکتا تھا اس لیے اپنے باطن ہی کو بے نقاب کر دیا۔ آزاد لوگوں کے فنون میں سب سے اہم پہلو یہی ہے کہ یہ مستقبل کی پیش بینی کرتا ہے یعنی وقت کی گرفت سے آزاد ہوتا ہے۔ اس کی وجہ جذبۂ عشق ہوتا ہے جو انسان کو وقت کی قید سے آزاد کر کے ابدیت سے ہمکنار کر دیتا ہے۔ یوں ’بندگی نامہ‘ میں جاویدنامہ اور ’مسجدِ قرطبہ‘ دونوں کی آہٹ محسوس کی جا سکتی ہے۔ البتہ یہ آزادی ایک طرح سے اضافی بھی ہو سکتی ہے۔ قائدِ اعظم نے اپنی زندگی کے اکہتر برس ایک غلام قوم کے فرد کے طور پر گزارے اور صرف ایک برس آزاد وطن میں جینے کا اتفاق ہوا مگر اُن کی زندگی کا ہر لمحہ ایک آزاد فرد کی زندگی کا آئینہ دار اور آزاد قوم کے افراد کے لیے مشعلِ راہ ہے۔ اقبال تو اپنی قوم کی آزادی سے پہلے ہی وفات پا چکے تھے مگر اُن کی فکر کا ہر گوشہ آزادی کے نور سے منور ہے۔ چنانچہ سیاسی آزادی ہی سب کچھ نہیں بلکہ داخلی آزادی بھی اپنی جگہ اہم ہے۔ ایک غلام قوم کا فرد بھی یہ آزادی حاصل کر سکتا ہے اور ایک بظاہر آزاد قوم کا فرد بھی اس سے محروم ہو سکتا ہے۔ ’’بیڑیاں پیروں میں نہیں بلکہ روح اور دل پر ہیں،‘‘ اقبال ’مذہبِ غلاماں‘ کے سلسلے میں کہتے ہیں: بند بر پا نیست بر جان و دل است البتہ قوم کی سیاسی آزادی اس لحاظ سے اہم ہے کہ جب پورا معاشرہ ایک نظریے کے طور پر اور ذاتی کوشش کے نتیجے میں نہیں بلکہ ایک قدرتی کیفیت کے طور پر آزادی کا تجربہ کرتا ہے تو وہ ایسے نئے امکانات دریافت کرتا ہے جو غلام معاشرہ نہیں کر سکتا۔ یہ ’’مقامِ سرور و شوق و نظر‘‘ ہے جس کی طرف اقبال نے ضربِ کلیم کی تمہید میں اشارہ کیا ہے۔ قوم کے جس اجتماعی شعور کے ساتھ تعلق اقبال کے زمانے میں صرف ایک باطنی کیفیت کے طور پر محسوس کیا جا سکتا تھا اُسے آزادی کے بعد بے نقاب ہو کر ایک کھلی حقیقت کے طور پر ظاہر ہونا تھا۔ کیا یہ ممکن ہے کہ وہ ظاہر ہو چکا ہو مگر ہمارے اربابِ علم اپنی نظروں سے بعض پردے ہٹانے میں ناکام رہنے کی وجہ سے اسے دیکھ نہ پائے ہوں اور دوسروں کو دکھانے سے بھی محروم رہے ہوں؟ اس کا فیصلہ کرنے کے لیے ہمیں ظاہر اور باطن کا وہ تعلق سمجھنے کی ضرورت ہے جو ’بندگی نامہ‘ کے خاص موضوعات میں سے ہے۔ اقبال نے اس کا خلاصہ مولانا روم کے اشعار کی صورت میں پیش کیا ہے، ’’معنی وہ ہے جو تمہیں اپنی گرفت میں لے کر صورت سے بے نیاز کر دے، معنی وہ نہیں جو تمہیں اندھا بہرا کر کے صورت پر اور فریفتہ کر دے۔۔۔‘‘: معنی آں باشد کہ بستاند ترا بے نیاز از نقش گرداند ترا معنی آں نبود کہ کور و کر کند مرد را بر نقش عاشق تر کند غلامانہ ذہنیت صرف ظاہر پر نظر رکھتی ہے۔ وہ باطن کو بھی ظاہر میں تلاش کرتی ہے اور معنوی سچائیوں کی بجائے صورت کی سچائی پر اصرار کرتی ہے۔ اس لیے وہ نئے مظاہر دریافت کرنے میں ناکام رہتی ہے۔ آزاد کی نظر معانی پر ہوتی ہے اس لیے وہ نئے مظاہر دریافت کرنے میں کامیاب ہوتا ہے۔ یوں اقبال نے غلامانہ ذہنیت کا تعلق ظاہر پرستی سے اور آزاد سوچ کا تعلق باطن اور معنویت سے جوڑا ہے۔ اگر فن کا مقصد معنی کی دریافت اور ان کی مدد سے نئے امکانات کی رونمائی ہے تو پھر اسے سب سے زیادہ تقویت مذہب سے مل سکتی ہے اور اسی لیے اقبال نے ’’غلاموں کے مذہب‘‘ سے خبردار کرنا ضروری سمجھا ہے: از غلامے ذوقِ دیدارے مجوے از غلامے جانِ بیدارے مجوے دیدۂ او محنتِ دیدن نبرد در جہاں خورد و گراں خوابید و مُرد حکمراں بکشایدش بندے اگر مہ نہد بر جانِ اُو بندے دگر سازد آئینے گرہ اندر گرہ گویدش می پوش ازیں آئیں زرہ [ترجمہ] غلام سے ذوقِ دیدار کی توقع مت رکھو، غلام سے روحِ بیدار کی توقع مت رکھو! اُس کی آنکھ نے دیکھنے کی زحمت ہی نہ کی، دنیا میں کھایا پیا، گہری نیند سویا اور مر گیا! حکمراں اگر ایک بیڑی کھولتا ہے تو اُس کی روح میں دوسری بیڑی ڈال دیتا ہے، ایک پیچیدہ آئین بناتا ہے اور کہتا ہے اِسے زرہ کی طرح پہن لو! وہ چیز جو فن اور مذہب دونوں میں انسان کو غلامی سے نجات دلاتی ہے وہ عشق ہے اور اسی لیے اقبال نے آزاد لوگوں کے فنِ تعمیر کو صرف مسجد اور قلعے کے بیان تک محدود رکھنے کی بجائے آخر میں تاج محل کا ذکر کرنا ضروری سمجھا جو سنگِ مرمر ایک بلند و بالا عمارت کی صورت میں عشق کی علامت بن چکا ہے۔ تاج محل والے بند سے اگلا بند جو زبورِ عجم کا آخری بند ہے وہ فن اور عشق کے باہمی تعلق کو واضح کرتا ہے۔ معنوی اعتبار سے اس میں یہ خوبی بھی آ گئی ہے کہ اس کے پہلے ہی شعر میں لفظ ’’ارجمند‘‘ موجود ہے۔ اگرچہ شعر کا اصل مطلب یہ ہے کہ محبت ہی کے ذریعے بے وقعت انسان اپنی قدر و قیمت بنا سکتا ہے مگر یہ بات جس طرح کہی گئی ہے اُس میں یہ لطف بھی پیدا ہو گیا ہے کہ ممتاز محل بیگم جس کے مقبرے کے طور پر تاج محل بنوایا گیا تھا اُس کا اصل نام ارجمند تھا۔ اقبال کہتے ہیں کہ محبت کے ذریعے ’’ناارجمند‘‘ کو ’’ارج‘‘ (وقعت) حاصل ہو جاتا ہے۔ ارجمند کے بعد شاہجہاں اس لحاظ سے ’’ناارجمند‘‘ ہو گیا تھا کہ ارجمند اُس کے پاس نہ رہی تھی۔ اپنی محبت کو تاج محل کے روپ میں زندہ جاوید کر کے اُس نے اپنے غم کا علاج کر لیا۔ بہرحال یہ لطافت اس شعر میں خودبخود پیدا ہو گئی ہے ورنہ اصل مضمون زیادہ وسیع ہے: از محبت جذبہ ہا گردد بلند ارج می گیرد ازو ناارجمند باب ۵ جاویدنامہ جاویدنامہ فارسی میں اقبال کی مثنوی ہے جوفروری ۱۹۳۲ء میں شائع ہوئی۔ اقبال اسے اپنا سب سے بڑا شاہکار قرار دیتے تھے۔ دنیا کی سولہ زبانوں میں اس کے تراجم ہو چکے ہیں۔ جاویدنامہ کے بارے میں جن لوگوں نے لکھا ہے ان میں مغرب کے مشہور نام بھی شامل ہیں مثلاً اینامیری شمل، اے جے آربری، الیساندرو بوسانیو اور نوبل انعام یافتہ مصنف ہرمن ہیسے مگر عجیب بات ہے کہ ان میں سے کسی نے بھی اس کی کتابی وحدت پر توجہ نہیں دی۔ اس کے واقعات کے تسلسل، مقامات کے محل وقوع، کرداروں کے باہمی تعلق اور ان سب باتوں سے اخذ ہو سکنے والے معانی کی تہیں عام طور پر ان لائق مصنفین کی نظروں سے اوجھل رہیں جس کی وجہ سے انہوں نے مختلف ٹکڑوں سے علیحدہ علیحدہ مطالب اخذ کرنے کی کوشش کی اور عموماً سطحی مطالب سے آگے نہیں بڑھ سکے۔ مثلاً اینامیری شمل نے ایک مضمون میں گوتم بدھ کے اس خطاب کا جو انہوں نے جاویدنامہ میں کیا ہے بدھ مت کی معروف تعلیمات سے اس طرح موازنہ کیا مگر اس بات پر شمل کی توجہ مبذول نہ ہوئی کہ کتاب کے جس مقام پر یہ خطاب پیش ہوا ہے کیا اُس کا بھی کچھ تقاضا بھی ہو سکتا تھا؟ اسی طرح آربری ’خطاب بہ جاوید‘ کا بقیہ کتاب کے ساتھ تعلق سمجھنے میں ناکام رہے لہٰذا انہوں نے اپنے ترجمے سے اسے بالکل ہی خارج کر دیا۔ یہ ویسے ہی ہے جیسے کسی سوالنامے کے آخر سے جوابات والا حصہ نکال دیا جائے (جاویدنامہ کا سب سے بنیادی سوال کہ اقبال جس حیاتِ ابدی کی تلاش میں تھے وہ انہیں ملی یا نہیں اسی خطاب کے آخر میں حل ہوتا ہے)۔ البتہ جیلانی کامران نے جاویدنامہ کے ایک پاکستانی انگریزی ترجمے کا جو دیباچہ لکھا وہ کتاب کی معنوی وحدت کی طرف اشارہ کرتا ہے لیکن بہت مختصر ہے۔ خود اقبال نے لندن میں کسی کو جاویدنامہ کا خلاصہ لکھواتے ہوئے مقامات و احوال کا آپس میں جو موازنہ کیا تھا وہ طریقہ بھی بعد میں کسی نے اختیار نہیں کیا۔ زیادہ قصور ہمارا اپنا معلوم ہوتا ہے۔ غیرملکی ماہرین اپنے نقطہ نظر سے جو کچھ لکھیں اُسے سراہنا چاہیے مگر ہمارا بھی یہ کام ہے کہ اپنا نقطہ نظر پیش کریںجس سے دوسروں کو بھی مدد ملے۔ مثلاً اینا میری شمل کے مضمون کے عنوان کا مفہوم ہے، ’جاویدنامہ مذاہبِ عالم کی تقابلی تاریخ کی روشنی میں‘ ۔ یہ کام ایک جرمن مصنفہ ہمارے لیے کر سکتی تھیں اور اس کے لیے ہمیں شمل کا شکرگزار ہونا چاہیے مگر کیا ہماری ذمہ داری یہ نہ تھی کہ ہم اس موضوع کو الٹ کر بھی دیکھنے اور دکھانے کی کوشش کرتے یعنی ’مذاہبِ عالم کی تقابلی تاریخ جاویدنامہ کی روشنی میں‘؟ سب سے زیادہ حیرت اس بات پر ہے کہ اقبال کے خطبات جو اسی زمانے میں لکھے گئے جب جاویدنامہ تصنیف ہو رہی تھی ان کے بارے میں مستقل کتابیں لکھی جا چکی ہیں بلکہ پورے سیمینار منعقد ہوئے ہیں لیکن کسی نے توجہ نہیں دی کہ تشکیل جدید کے سات خطبات اور جاویدنامہ کے سات ابواب کے موضوعات یکساں ہیں اور خود اقبال نے بھی دونوں کتابوں کے اختتام پر ان کے باہمی ربط کی طرف واضح اشارہ کیا ہے۔ ان دونوں کتابوں کا باہمی ربط اکتوبر ۲۰۰۶ء میں اتفاق سے میرے سامنے آیا تھا۔ اس سے پہلے میں نے اقبال کی علیحدہ علیحدہ تصانیف کے نظم معنوی پر کچھ کام کیا تھا لیکن یہ ربط دریافت ہونے کے بعد ہی ان کی تمام تصانیف کی وحدت پوری طرح میرے سامنے آئی جو میرے انگریزی ناول دی ری پبلک آف رومی (۲۰۰۷) کا موضوع ہے۔ اقبال اکادمی کے توسط سے مجھے پچھلے دو برسوں میں پاکستان کے مختلف علاقوں میں جاویدنامہ پر ورکشاپ کروانے اور بیرونِ ملک اس کے بارے میں گفتگو کرنے کے مواقع دستیاب ہوئے ہیں۔ ان میں سے بعض اس کتاب میں یہاں پیش کیے جا رہے ہیں۔ بعض نکات کو یہاں زیادہ تفصیل سے بیان کرنے کا موقع مل رہا ہے۔ ۱ جاویدنامہ کے گیارہ حصے ہیں جن میں سے ’مناجات‘، ’تمہیدِآسمانی‘ اور ’تمہیدِ زمینی‘ آغازِ سفر سے پہلے ہیں اور ’خطاب بہ جاوید (سخنے بہ نژادِ نو) ‘اختتامِ سفر کے بعد ہے۔ انہیں نکال کر سات باقاعدہ ابواب بنتے ہیں جو فلکِ قمر، فلکِ عطارد، فلکِ زہرہ، فلکِ مریخ، فلکِ مشتری، فلکِ زحل اور آنسوئے افلاک کی سیر پر مشتمل ہیں۔۱اقبال کو ابدیت کی تلاش ہے اور مولانا روم انہیں کائنات کی سیر کرواتے ہیں جس کے آخر میں اقبال خدا کے حضور پہنچتے ہیں۔ پہلا سوال یہی ہے کہ ابدیت کے حصول کے لیے خدا تک پہنچنا کافی ہے تو مولانا روم اقبال کو براہ راست وہاں کیوں نہ لے گئے؟ راستے میں چھ سیاروں کی سیر کیوں کروائی؟ اس کا جواب یہی ہو سکتا ہے کہ یہ سفر وہ راستہ ہے جسے طے کرنا ضروری ہے۔ لہٰذا دیکھنا پڑے گا یہ کن مراحل کا استعارہ ہے۔ سفر کے باقاعدہ آغاز سے پہلے مناجات اور دو تمہیدوں کا بھی اس نکتے سے تعلق دکھائی دیتا ہے اور سفر کے بعد اقبال نے جاوید اور نئی نسل سے جو خطاب کیا ہے وہ بھی اس پر روشنی ڈالتا ہے۔ ’مناجات‘ جو اس کتاب کے آغاز میں ہے اُس کا موازنہ اقبال کی بعض دوسری دعاؤں سے کیا جا سکتا ہے۔ اقبال کی تقریباً ہر تصنیف میں دعائیں موجود ہیں لیکن عموماً سیاق و سباق کی مناسبت سے ہوتی ہیں (یہ نکتہ باب ۶ میں زیادہ وضاحت سے بیان کیا جا رہا ہے)۔ جاویدنامہ کی ’مناجات‘ کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ دعا اُس عالمِ روحانی کا پیش خیمہ ہے جو اس کتاب میں سامنے آنے والا ہے۔ روح تمام امکانات کی نمائندہ ہوتی ہے جس میں وہ امکانات بھی شامل ہوتے ہیں جو دنیا میں ظاہر نہیں ہو سکتے۔ اس لحاظ سے جاویدنامہ کی ’مناجات‘ میں اقبال کی باقی تمام دعاؤں کے رنگ جھلکتے ہیں اور ان دعاؤں کی اصل کیفیات کا سراغ ملتا ہے خواہ ’شکوہ‘ جیسی بیباکانہ درخواست ہو یا آئندہ آنے والی ’معتمد کی فریاد‘ ہو۔ مناجات کا پہلا شعر ہی بیک وقت ’شکوہ‘ اور ’معتمد کی فریاد‘ جیسی مختلف نظموں کو اکٹھا کر دیتا ہے، ’’اس سات رنگی دنیا میں انساں ہر لمحے ایک ساز کی طرح گرمِ فغاں ہے‘‘: آدمی اندر جہانِ ہفت رنگ ہر زماں گرمِ فغاں مانندِ چنگ اس کا موازنہ ’شکوہ‘ کے اس شعر سے کیجیے: سازِ خاموش ہیں فریاد سے معمور ہیں ہم شکوہ آتا ہے اگر لب پہ تو معذور ہیں ہم وہاں صرف یہ بات پوری طویل نظم کا موضوع بن گئی تھی۔ یہاں اسے جلدی سے کہ کر اقبال آگے بڑھ جاتے ہیں۔ اسی طرح آگے چل کر ’بالِ جبریل‘ میں وہ معتمد کی زبان سے کہلوائیں گے: اک فغانِ بے شرر سینے میں باقی رہ گئی سوز بھی رخصت ہوا، جاتی رہی تاثیر بھی ’مناجات‘ میں انسان ہر لمحہ گرمِ فغاں ہے۔’معتمد کی فریاد‘ میں فغاں بے شرر ہے۔لہٰذا غور کیا جا سکتاہے کہ اقبال نے معتمد کی فریاد میں کیا دکھانا چاہا اور وہ فریاد مسجدِ قرطبہ کے فوراً بعد اور عبدالرحمٰن اول کے کھجور کے درخت سے پہلے کیوں واقع ہوئی! خدا سے خطاب کے وہ انداز جو تصانیفِ اقبال کے دوسرے حصوں میں وضاحت پاتے ہیں یہاں امکانی صورت میں موجود ہیں مگر پھیل کر اپنا اپنا رنگ دکھانے کی بجائے ایک بنیادی موضوع کے تابع رہتے ہیں۔ یہ بنیادی موضوع وہی ہے جو مولانا روم کی مثنوی معنوی کا موضوع بھی ہے: بشنو از نے چوں شکایت می کند و ز جدائیہا حکایت می کند ’مناجات‘ کے پہلے شعر میں اسی کی طرف تلمیح ہے لیکن مثنوی معنوی کا اصل موضوع ہجر و وصال کی بجائے اس چیز کو بھی تو کہا جا سکتا ہے جو انسان میں ان کیفیات کا احساس پیدا کرتی ہے۔ روح، خودی، نفس یا جو کچھ بھی یہ ہے ’مناجات‘ کی مجموعی کیفیت میں بھی منکشف ہوتی ہے: آنچہ گفتم از جہانِ دیگرے ایں کتاب از آسمانِ دیگرے یعنی جو میں کہنا چاہتا ہوں وہ کسی اور جہان سے ہے، یہ کتاب کسی اور آسمان سے ہے۔ مگر یہ وہ ادب نہیں معلوم ہوتا جسے لکھنے والا اس کے مشکل ہونے پر ناز کرے۔ اقبال کا مزاج کچھ اور ہے۔ وہ خدا سے دعا کرتے ہیں کہ یہ کتاب نوجوانوں کے لیے آسان ہو جائے: بر جواناں سہل کن حرفِ مرا بہرِ شاں پایاب کن ژرفِ مرا جوانوں سے کسی خاص عمر کے لوگ مراد ہیں یا کچھ اور؟ اقبال نے جوان اور بوڑھے کے استعارے افراد کے علاوہ اقوام کے لیے بھی استعمال کیے ہیں، مثلاً: ترے دین و ادب سے آ رہی ہے بوئے رہبانی یہی ہے مرنے والی امتوں کا علمِ پیری چنانچہ جب وہ بال جبریل کے ’ساقی نامہ‘میں خدا سے کہتے ہیں، ’’جوانوں کو پیروں کا استاد کر‘‘ تواس میں سے یہ معانی خارج نہیں کیے جا سکتے کہ نئی ابھرنے والی قوموں کو اُن قوموں کی رہنمائی کا موقع ملے جو اَب بوڑھی ہو چکی ہیں۔ خطباتِ تشکیلِ جدید میں انہوں نے قرآن کی اُس آیت کو اپنے تصورِ تاریخ کی کلید بتایا ہے جس کے مطابق ہر امت کی میعاد معین ہے۔ خواہ کسی کو اس آیات کے معانی پر اقبال سے اتفاق ہو یا نہ ہو مگر اس سے تو انکار نہیں ہو سکتا کہ اس کے کچھ مخصوص معانی اقبال کے ذہن میں تھے جن کی روشنی میں وہ فرد اور قوم کی زندگی میں حیاتیاتی مماثلت محسوس کرتے تھے اور فرد کے لیے جو کچھ کہتے تھے اس میں سے اکثر باتیں اقوام پر بھی صادق آتی تھیں۔ جاویدنامہ جوانوں کے لیے ہے البتہ جوانوں کی فہرست میں سے بوڑھے کم سنوں کو خارج کر کے ان جگہ عمررسیدہ زندہ دل ضرور شامل کیے جا سکتے ہیں۔ اسی طرح یہ جوان قوموں کے لیے بھی ہے مگر ممکن ہے کہ مرنے والی امتوں کے عالمِ پیری کے شغل کی چیز نہ ہو۔’مناجات‘ کا آخری شعر جس میں اِسے نوجوانوں کے لیے آسان بنانے کی دعا مانگی گئی ہے اُس سے پہلے والے شعر میں ہے کہ شاعر بڑے بوڑھوں سے ناامید ہو چکا ہے اور آنے والے زمانے سے بات کرنا چاہتا ہے: من کہ نومیدم زپیرانِ کہن دارم از روزے کہ می آید سخن! کیا ہم اس سے یہ مراد لے سکتے ہیں کہ جس طرح بعض بڑے ادیبوں نے کم عمر قارئین کے لیے کتابیں لکھیں جن میں بڑوں نے بھی گہرائی تلاش کی لیکن وہ گہرائی ان کتابوں کو بچوں کی طرح پڑھ کر ہی حاصل ہوئی، اُسی طرح ہم جاویدنامہ کی حیثیت کا تعین کرتے ہوئے یہ بات ذہن میں رکھیں کہ یہ کتاب خاص طور پر نوجوانوں کے لیے ہے؟ ایک مثال خود اقبال کی وہ سات نظمیں ہیں جو بانگِ درا میں شامل ہیں اور جن پر ’’بچوں کے لیے‘‘ لکھا ہوا ہے۔ ان میں بھی گہرائی ہے بلکہ ’بچے کی دعا‘ یعنی ’’لب پہ آتی دعا بن کے تمنا میری‘‘ میں خدایا، یارب اور میرے اللہ کے مراحل جس طرح درجہ بدرجہ طے ہوئے ہیں اُس پر کوئی بہت بڑی کتاب لکھی جا سکتی ہے مگر اس نظم پر پہلے بچوں کی نفسیات کے اعتبار ہی سے غور کیا جائے گا۔ اسی طرح یہ اعتراض نہیں اٹھایا جا سکتا کہ فلاں نکتہ تفصیل سے بیان ہونے سے کیوں رہ گیا، وغیرہ۔ اگر اس نظم کا موازنہ کسی فلسفے کی کتاب یا بڑوں کے ادب سے کر کے یہ ثابت کیا جائے کہ اُس کے مقابلے میں یہ بچوں کی نظم معلوم ہوتی ہے تو کچھ بھی ثابت نہ ہو گا۔ جب بانگِ درا کی وہ نظمیں صرف اس لیے بچوں کی نظمیںتسلیم کی جاتی ہیں کہ اقبال نے اُن پر یہ لکھ دیا تو پھر جاویدنامہ کو ’’نوجوانوں کے لیے‘‘ کیوں تسلیم نہ کیا جائے جبکہ اقبال کا منشا یہی ہے؟ اگر ہم یہ کہیں کہ اس سے ان کے شاعرانہ مرتبے میں فرق آ جائے گا تب بھی بات نہیں بنتی کیونکہ وہ ساری زندگی اپنی نظم و نثر میں یہی بات سمجھانے کی کوشش کرتے رہے کہ ان کا مقصد شاعری نہیں ہے۔ وہ تو ۱۹۰۳ء میں یعنی مخزن میں اپنی نظموں کی اشاعت کے صرف دو برس بعد بھی ایک مضمون میں یہی لکھ رہے تھے، ’’قسم بخدائے لایزال مَیں آپ سے سچ کہتا ہوں کہ بسا اوقات میرے قلب کی کیفیت اِس قسم کی ہوتی ہے کہ میں باوجود اپنی بے علمی اور کم مائیگی کے شعر کہنے پر مجبور ہوجاتا ہوں ورنہ مجھے زبان دانی کا دعویٰ ہے نہ شاعری کا‘‘! اگر یہ سمجھا جائے کہ اس طرح جاویدنامہ کو فلسفے کی دنیا میں بلند مقام حاصل نہ ہو سکے گا تو اقبال کو اس کی بھی پروا معلوم نہیں ہوتی۔ ضربِ کلیم میں تو یہاں تک کہتے ہیں: قوم کے ہاتھ سے جاتا ہے متاعِ کردار بحث میں آتا ہے جب فلسفۂ ذات و صفات جس شخص کے یہ خیالات ہوں کیا اُس نے اپنی خاص الخاص تصنیف میں نوجوانوں کو فلسفۂ ذات و صفات سکھانے کی کوشش کی ہو گی یا کوئی اور مقصد اس کے پیشِ نظر رہا ہو گا؟ یہ وہ سوالات ہیں جن پر ہم نے شائد کبھی غور نہیں کیا لیکن ان پر توجہ کرنے سے پہلے اس بنیادی سوال کا جواب اپنے آپ سے پوچھنا ضروری ہے: کیا ہم اقبال سے یہ تقاضا کرنے کا حق رکھتے ہیں کہ وہ علم و ادب کی ان درجہ بندیوں کے پابند ہو جائیں جو ہم نے دوسروں سے سیکھی ہیں یا ہم انہیں حق دیتے ہیں کہ وہ ان سے ماورا ہو کر ہمیں کوئی نئی راہ دکھا سکیں؟ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ اقبال نے کیوں اپنی سب سے اہم تصنیف اُسے قرار دیا جو خاص طور پر نوجوانوں کے لیے لکھی گئی تھی؟ اس کی تین وجوہات سمجھ میں آتی ہیں۔ ۱ اقبال کی خدا سے دعا تھی، ’’جوانوں کو پیروں کا استاد کر‘‘۔ انہوں نے یہ خواہش کئی طرح سے ظاہر کی۔ یہ کیسے پوری ہو سکتی تھی اگر وہ جوانوں کو کوئی ایسی چیز نہ دے کر جاتے جو پیرانِ کہن کی پیری پر بھاری ہو۔ ۲ جس طرح وہ اپنی قوم کے جوانوں کو پیروں کا استاد بنانا چاہتے تھے اُسی طرح اس قوم کو دنیا کی دوسری قوموں کی فکری رہنمائی کرتے ہوئے دیکھنا چاہتے تھے۔ ان کے نظریۂ تاریخ کے حساب سے یہ قوم نوجوان تھی اور مغربی اقوام بوڑھی۔ اس لحاظ سے بھی ایک جوان قوم کو بوڑھی اقوام کا اُستاد کرنے والی کتاب ضروری تھی۔ ۳ اقبال کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے اس کتاب میں آنے والے زمانے کے لوگوں کو مخاطب کیا ہے۔ یہ بات ہے تو اسے ان علوم کی روشنی میں پڑھا جائے گا جو اقبال کی وفات کے بعد سامنے آئے ہیں نہ کہ وہ جو پہلے سے موجود تھے! کیا ان باتوں کو نبھایا جا سکتا ہے؟ زیرِ نظر مطالعہ میں کوشش کی گئی ہے کہ نبھایا جائے۔ چنانچہ بحث کا رخ ماضی کی نہیں بلکہ مستقبل کی طرف ہے۔ ۲ ’مناجات‘ کے بعد سب سے پہلے ’تمہیدِ آسمانی‘ ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ جب کائنات وجود میں آئی تو آسمان نے زمین کو طعنہ دیا کہ آسمان پر ہزاروں چراغ روشن ہیں مگر زمین تاریک ہے۔ زمین کی فریاد پر ندائے غیب نے بتایا کہ زمین کی مٹی سے پیدا ہونے والا آدم اُس نور کا حامل ہو گا جو چاند ستاروں کی روشنی سے بڑھ کر ہے۔ اس پر فرشتوں نے ایک نغمہ گایا جو دراصل زبورِ عجم کی ایک غزل ہے۔ اس حکایت کے تین پہلو ہیں۔ ایک طرح سے اسے اُس واقعے کی تمثیل سمجھا جا سکتا ہے جب ابلیس نے آدم کو سجدہ کرنے سے انکار کیا۔ وہاں بھی مٹی اور آگ کے موازنے کا جھگڑا تھا۔ دوسری طرف یوں بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ یہ چونکہ آدم کی تخلیق اور ابلیس کے انکار سے پہلے کی بات ہے لہٰذا اُس واقعے کی تمثیل نہیں بلکہ اس کی اصولی بنیاد ہے یعنی ابلیس نے آدم کو سجدہ کرنے سے انکار اس لیے کیا کیونکہ اس سے پہلے آسمان بھی اپنے روشن ستاروں کو زمین کی تاریک مٹی سے برتر قرار دے چکا تھا۔ فرشتوں نے آدم کو سجدہ ا س لیے کر لیا کیونکہ اس کی تخلیق سے پہلے ہی وہ زمین کی خاک سے پیدا ہونے والے آدم کے نورانی اوصاف کی تعریف کر چکے تھے۔ اگر آسمان کا سورج پر ناز کرنا امکانی طور پر ابلیس کے تکبر کی طرف لے جاتا ہے تو زمین کا اس طرح ہراساں ہو جانا آدم کی لغزش کی طرف لے جاتا ہے۔ اس لغزش کی بنیاد بھی یہی تھی کہ ابلیس نے آدم کو اُس جنت کے فیوض سے یہ کہ کر بے خبر کر دیا تھا کہ خدا نہیں چاہتا تم فرشتوں جیسے ہو جاؤ یا دوام حاصل کرو یا جنت میں ہمیشہ رہو، آؤ شجرِ ممنوعہ سے یہ فائدے حاصل کرلو! یہ اپنی امانت سے بے خبر ہونے والی بات ہے۔ اس حکایت میں زمین کا ہراساں ہو جانا آدم کی لغزش کا پیش خیمہ ہے۔ اس کا خدا سے پوچھنا کہ اُسے چاند سورج جیسا روشن کیوں نہیں بنایا گیا ایک طرح سے شجرِ ممنوعہ کے پاس چلے جانا ہے۔ چنانچہ ندائے غیب زمین کی فریاد کے جواب کا آغاز ہی اس طرح کرتی ہے کہ اے امین جو امانت سے بے خبر ہو، غم مت کرو اور اپنے باطن میں جھانک کر دیکھو: اے امینے از امانت بے خبر غم مخور اندر ضمیرِ خود نگر یہاں یہ بات ندائے غیب نے زمین سے کہی۔ جب آدم سے یہی لغزش ہو گی تو ’فرشتے آدم کو جنت سے رخصت کرتے‘ ہوئے یہی بات اُن سے بھی کہیں گے: عطا ہوئی ہے تجھے روز و شب کی بیتابی خبر نہیں کہ تو خاکی ہے یا کہ سیمابی! سنا ہے خاک سے تیری نمود ہے لیکن تری سرشت میں ہے کوکبی و ماہتابی جمال اپنا اگر خواب میں بھی تو دیکھے ہزار ہوش سے خوشتر تری شکرخوابی گراں بہا ہے ترا گریۂ سحرگاہی اسی سے ہے ترے نخلِ کہن کی شادابی تری نوا سے ہے بے پردہ زندگی کا ضمیر کہ تیرے ساز کی فطرت کی ہے مضرابی تیسری سطح پر یہ حکایت سائنس اور روحانیت کے درمیان مکالمہ ہے۔ روحانیت کو عموماً قدیم نظریۂ کائنات سے وابستہ کیا جاتا ہے جس میں زمین کائنات کا مرکز تھی اور سورج وغیرہ سب اس کے گرد گھومتے تھے۔ جدید زمانے میں پہلے گلیلیو وغیرہ نے زمین کی مرکزیت ختم کر کے سورج کو نظامِ شمسی کا مرکز ثابت کیا، پھر ڈارون نے انسان کے اشرف المخلوقات ہونے میں شبہات پیدا کیے، کارل مارکس نے الہامی قوانین کو معاشرے کی اساس نہیں بلکہ فساد کی بنیاد بتایا اور فرائڈ نے الہام کی بنیاد ہی مشکوک بنا دی۔ یوں آسمان جو سورج کو زمین پر برتر قرار دے رہا ہے اُس جدید فکر کا آئنہ دار ہے جو خاک سے پیدا ہونے والے انسان میں نور کی موجودگی کی منکر ہے۔ اقبال نے اس آویزش کوجس طرح حل کیا وہ دوسروں سے مختلف ہے۔ مغرب اس مسئلے پر دو طرح کے خیالات میں بٹا ہوا ہے یعنی سائنسی ترقی کو ہر لحاظ سے رہنما تسلیم کرنا یا اس کی مخالفت کرنا۔ اقبال کی حکایت کی روشنی میں تو یہ حق و باطل کی جنگ نہیں بلکہ وجود کے دو حصوں کی باہمی غلط فہمی دکھائی دیتی ہے: زمین کے مقابلے پر کوئی اور نہیں بلکہ خود آسمان ہے! اقبال نے اگر یہاں زمین انسان کی روحانی اساس کے نظریے کی علامت ہے تو جدید سائنس کی بنیاد پر اس روحانی اساس کی نفی کرنے والوں کو بھی ابلیس یا اہرمن سے نہیں بلکہ آسمان سے تشبیہ دی ہے۔ ان لوگوں کے نقطہ نظر کی جس خامی کی طرف اشارہ صرف امکانی طور پر حکایت میں موجود ہے وہ یہ ہے کہ حقیقت کے صرف ایک پہلو پر توجہ دیتے ہیں اور وہ پہلو ایسا ہے کہ انتہا کو پہنچے تو ابلیس کے تکبر پر منتج ہوتا ہے۔ دوسری طرف وہ نقطہ نظر جو سائنسی ترقی سے پہلے کے زمانے کو حرفِ آخر سمجھ لیتا ہے اُس کی مثال زمین کی فریاد اور واویلے سے ہے: آسمان پر چراغ جلنے سے زمین کی مرکزیت مجروح ہوئی تو اعتراض کر بیٹھی کہ چراغ جلے ہی کیوں! ’’آسمان کی طعنے بازی سے زمین شرمندہ ہو گئی،‘‘ تمہیدِ آسمانی ہمیں بتاتی ہے۔ ’’نا امید ، دل گران و مضمحل! خدا کے آگے اپنی بے نوری کے درد سے تڑپی یہاں تک کہ فلک پار سے ندا آئی۔۔۔‘‘ یہ حکایت ایک ایسی انسانی حقیقت کی طرف اشارہ کرتی ہے جو ہمیں اپنے آپ میں اور اپنے سے باہر بھی قدم قدم پر دکھائی دیتی ہے یہاں تک کہ خود اقبال بھی اس مرحلے سے گزرے ہوئے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ انہوں نے بھی خدا سے ’شکوہ‘ کیا تھا: طعنِ اغیار ہے، رسوائی ہے، ناداری ہے کیا ترے نام پہ مرنے کا عوض خواری ہے؟ یوں جدید سائنس سے ہراساں ہو کر ماضی کے دامن میں پناہ لینا بذاتِ خود اُس نور سے غفلت برتنا ہے جو خاک میں چھپا ہوا ہے اور نئے امکانات پیدا کر سکتا ہے۔ یہ بھی ایک طرح سے شجرِ ممنوعہ کی طرف جانے سے مماثل ہے کیونکہ وہاں آدم نے فنا کے خوف سے ہراساں ہو کر جنت کے فیوض کو بھلا دیا تھا اور یہاں اسی خوف سے ہراساں ہو کرزمینی زندگی کے فیوض کو بھلایا جا رہا ہے جو جنت کے بدلے عطا ہوئی ہے۔ جس طرح زمین، آسمان کے طعنے پر ہراساں ہو کر تخلیق کے مکانی پہلو سے بدظن ہوئی اُسی طرح ماضی کے دامن میں پناہ تلاش کرنے والے تخلیق کے زمانی پہلو سے بدظن ہو کر وقت کی برائی کرتے ہیں۔ زمین اپنی لغزش پر ہونے والی تنبیہ کا مطلب سمجھ گئی لیکن آدم کو ابھی سمجھنا ہے۔ چنانچہ بعد میں ’روحِ ارضی آدم کا استقبال کرتی ہے‘ تو اُسے یہ رمز سمجھانے کی کوشش بھی کرتی ہے: کھول آنکھ، زمیں دیکھ ، فلک دیکھ، فضا دیکھ! مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ! اُس جلوۂ بے پردہ کو پردوں میں چھپا دیکھ! ایامِ جدائی کے ستم دیکھ، جفا دیکھ! بیتاب نہ ہو معرکۂ بیم و رجا دیکھ! ۳ اس کے بعد ’تمہیدِ زمینی‘ ہے جس میں اقبال ایک شام دریا کے کنارے اس بات پر افسردہ ہیں کہ لافانی خدا کی تخلیق ہو کر وہ کیوں فانی ہیں؟ گویا وہی بات جو آگے چل کر بالِ جبریل میں کسی اور طرح بیان ہو گی: کیا عشق ایک زندگی مستعار کا کیا عشق پائیدار سے ناپائیدار کا! یہ فریاد بذاتِ خود زمین کی اُس شکایت کی یاد دلاتی ہے جو‘تمہیدِ آسمانی‘ میں موجود تھی مگر اقبال ادب کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتے۔ یعنی وہ اس شکایت کو اپنے الفاظ میں زبان پر لانے کی بجائے اپنے مولانا روم کی وہ غزل گاتے ہیں جو خود مولانا روم نے اپنے مرشد شمس تبریز کے نام معنون کیے ہوئے دیوان میں درج کی تھی: بکشائے لب کہ قندِ فراوانم آرزوست بنمائے رخ کہ باغ و گلستانم آرزوست اسی غزل میں وہ اشعار شامل ہیں اور یہاں دہرائے گئے ہیں جو اقبال کی پہلی شعری تصنیف اسرار و رموز کا سرنامہ ہیں یعنی ’’دی شیخ با چراغ ہمی گشت گردِ شہر‘‘الخ۔ اقبال کی تصانیف کو تسلسل میں پڑھا جائے تو یہاں ان اشعار کے دہرائے جانے سے ایک خاص بات پیدا ہوتی ہے جس کی تفصیل کا یہ موقع نہیں ہے۔ صرف یہ اشارہ کیا جا سکتا ہے اسرار و رموز میں ان اشعار کے بعد مولانا روم کے اقبال کے خواب میں آنے کا ذکر تھا اور یہاں ان اشعار کے بعد مولانا روم سچ مچ تشریف لے آتے ہیں۔ مولانا روم اقبال کو ابدیت کے حصول کا جو طریقہ بتاتے ہیں وہ اپنے وجود پر تین گواہ تلاش کرنا ہے: ۱ اپنے آپ کو اپنی نظر سے دیکھنا ۲ اپنے آپ کو دوسرے کے نور سے دیکھنا ۳ اپنے آپ کو خدا کے نور سے دیکھنا جو تیسرے مرحلے پر بھی قائم رہے وہی ابدیت حاصل کرتا ہے۔ اس کی مثال دیتے ہوئے مولانا روم نکتۂ معراج کی تشریح کرتے ہیں جس پر زمان و مکان کا نگہبان فرشتہ زروان نمودار ہو کر مزید وضاحت کرتا ہے۔ دنیا اقبال کی نگاہوں میں فنا ہو جاتی ہے اور وہ ایک نئے عالم میں جنم لیتے ہیں جہاں ستارے ان کا استقبال کرتے ہیں۔یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ ’تمہیدِ آسمانی‘ میں روز ازل کا جو قصہ بیان ہوا تھا ستارے اُس کے بھی گواہ ہیں۔ سفر کی پہلی منزل ’فلکِ قمر‘ ہے۔ یہاں عارفِ ہندی وشوامتر، سروش اور چار پیغمبروں کے طواسین یعنی الواح کا ذکر ہے۔ اس طرح بظاہر یہ چھ مقامات دکھائی دیتے ہیں لیکن درحقیقت سات ہیں کیونکہ سروش کی دو زلفیں اس کے دونوں کندھوں سے ہوتی ہوئی کمر تک پہنچتی ہیں۔ یہ واضح طور پر دماغ کے دائیں اور بائیں حصوں کا اشارہ ہے کیونکہ اعصابی نظام کا مرکز بھی کمر ہی میں ہوتا ہے۔ دماغ کے یہ دو حصے موسیقی اور زبانی صلاحیتوں کا الگ الگ بندوبست کرتے ہیں اور سروش کی بھی پہلے موسیقی سنائی دیتی ہے اور پھر مولانا روم کے کہنے پر اقبال اس کی غزل پر توجہ دیتے ہیں۔ یوں فلکِ قمر کے سات مقامات بنتے ہیں: ۱ عارفِ ہندی وشوامتر کا غار ۲ سروش کی موسیقی ۳ سروش کی شاعری ۴ طاسینِ گوتم ۵ طاسینِ زرتشت ۶ طاسینِ مسیح ۷ طاسینِ محمدؐ یہ ترتیب اس لحاظ سے تاریخی ضرور ہے کہ وشوامتر جو ویدانت کی نمائندگی کرتے ہیں انہیں سب سے پہلے رکھا گیا ہے، پھر فنون کی ترقی دکھائی گئی ہے اور آخر میں چار پیغمبروں کے طواسین ہیں جو تاریخ نویسی کے دور یعنی چھ سات سو قبل سمیح یا اس کے بعد سے تعلق رکھتے ہیں۔ تاہم مورخین نے عام طور پر زرتشت کا زمانہ گوتم بدھ سے پہلے متعین کیا ہے لہٰذا اس لحاظ سے یہ ترتیب پوری طرح تاریخی بھی نہیں ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ چونکہ یہ دونوں پیغمبر الگ الگ تہذیبوں میں آئے تھے اس لیے اقبال نے ان کی ترتیب میں فرق کرنے کو جائز سمجھا جس کی وجہ یہی ہو سکتی ہے کہ وہ ان کے ذریعے تہذیبِ انسانی کے کوئی اصول ظاہر کرنا چاہتے ہوں گے اور اُن میں سے گوتم بدھ کے اصول کو پہلے اور زرتشت کے اصول کو اس کے بعد رکھنا ضروری ہو گا۔ یہ اصول ہمیں دریافت کرنے چاہئیں۔ وشوامتر پہلے کچھ گفتگو کرتے ہیں اور بتاتے ہیں چاند کے ایک پہاڑ قشمرود پر انہوں نے ایک فرشتہ دیکھا جو ہندوستان کی طرف دیکھ رہا تھا۔ ان کے پوچھنے پر فرشتے نے بتایا کہ مشرق کی آزادی کا وقت قریب آ گیا ہے اور جب کوئی قوم بیدار ہوتی ہے تو وہ عرش کے فرشتوں کے لیے جشن کا دن ہوتا ہے۔ یہ حصہ پڑھ کر ذہن میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ ممکن ہے کہ جب پنڈت جواہر لال نہرو نے آزادیٔ ہند کے موقع پر اپنی مشہور تقریر میں کہا تھا کہ دنیا محوِ خواب ہے اور ہندوستان آنکھ کھول رہا ہے تو ان کے ذہن میں جاویدنامہ کا یہ حصہ بھی رہا ہو؟ اس کا امکان بھی ہے کیونکہ جاویدنامہ میں یہ بات وشوامتر کی زبان سے ادا ہوئی ہے جو پنڈت نہرو کی اپنی تہذیب کی نمائندگی کرتے ہیں اور کتاب میں ’’عارفِ ہندی‘‘ کے طور پر پیش ہوئے ہیں۔ پھر کتاب کے ایک اور حصے میں جنت الفردوس میں موجود کرداروںکی زبان سے پنڈت نہرو اور ان کے والد کی جدوجہدِ آزادی کی تعریف کی گئی ہے اور عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ پنڈت نہرو اس بات سے واقف تھے۔ آزاد ہندوستان کی پارلیمنٹ کے اسی اجلاس میں جہاں پنڈت نہرو نے اپنی مشہور تقریر کی وہاں ان کی تقریر کے بعد ’’سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا‘‘ بھی گایا گیا۔ بہرحال پنڈت نہرو کے ذہن میں جاویدنامہ کے عارفِ ہندی کا قول رہا ہو یا نہ رہا ہو یہ اپنی جگہ دلچسپ بات ہے کہ اس اہم ترین موقع پر اُن کی اپنی تقریر میں عارفِ ہندی کے اس قول کی طرف تلمیح موجود ہو گئی خواہ شعوری طور پر ہوئی ہو یا اتفاقی طور پر!اور عارف ہندی کے اس قول میں اُسی موقع کی پیشین گوئی تھی جس موقع پر پنڈت نہرو تقریر کر رہے تھے۔ تمہیدی گفتگو کے بعد وشوامتر اقبال سے کچھ سوال و جواب کرتے ہیں۔ بظاہر یہ دس سوال و جواب ہیں لیکن دو سوالات آپس میں متصل ہیں لہٰذا کل نو سوالات بنتے ہیں۔ اقبال ان کے صحیح جواب دیتے ہیں تو وشوامتر اپنے نو اقوالِ زریں انہیں عنایت کرتے ہیں۔ یہاں کچھ باتیں قابلِ غور ہیں۔ زبورِ عجم کی ’گلشنِ راز جدید‘ میں جہاں اقبال نے ایک طرح سے اپنا فکری نظام پیش کیا ہے تو وہ بھی نو سوالات اور ان کے جوابات کی صورت میں ہے۔ ظاہر ہے کہ گلشنِ راز جدید میں بہت سوچ سمجھ کر ہی وہ نو سوالات بنائے گئے ہوں گے (اصل گلشنِ راز میں جسے محمود شبستری نے لکھا تھا سوالات کی تعداد زیادہ ہے)۔ اس کتاب کو ختم کرتے ہی جاویدنامہ شروع لکھنا کر دی اور وشوامتر والا حصہ اس کے پہلے باب سے تعلق رکھتا ہے۔ پھر کیوں نہ سمجھا جائے کہ یہ نو سوال و جواب اور اس کے بعد وشوامتر کے نو اقوال اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں یعنی وہاں اقبال کا فکری نظام تصوف کے حوالے سے متعارف ہوا ہے اور یہاں اُسی فکری نظام پر ویدانت کے حوالے سے چند مشاہدات ویدانت کے بہت بڑے عالم کی زبانی پیش کروائے ہیں۔ موضوعات کی ترتیب بظاہر مشترک نظر آتی ہے۔ اس لحاظ سے وشوامتر نے جو سوال پوچھے وہ ایک طرح سے اقبال کا امتحان تھے یا پھر یوں سمجھ لینا چاہیے کہ وشوامتر اندازہ کرنا چاہتے ہوں گے کہ اقبال نے جو نظام فکر ترتیب دیا ہے اُس کی اساس کیا ہے۔ یہ سوالات پوچھنے سے پہلے وشوامتر ایک لمحے کو مضطرب بھی ہوئے جس میں یہی اشارہ ہو سکتا ہے۔ پھر یہ سوال و جواب ایک غار میں پوچھے جاتے ہیں جو وشوامتر کے گیان دھیان کی روشنی سے منور ہے۔ غار پرانے زمانے ہی سے دستاربندی کی رسومات کے لیے مناسب جگہ سمجھے جاتے تھے۔ چنانچہ یہ سوال و جواب ایک طرح سے اقبال کا امتحان بھی ہیں جس کے بعد نو اقوالِ زریںاس آسمانی سفر کے لیے وشوامتر کا آشیرباد ہیں۔ اس طرح آسمانی سفر کی پہلی منزل یعنی فلکِ قمر انسانی تہذیب کے تمام عرفانی اثاثے سے ایک باطنی واقفیت کی منزل ہے لیکن یہ واقفیت کتابوں کے ذریعے نہیں بلکہ تہذیب انسانی کے روحانی ارتقا کو اپنے باطن میں طے کر کے حاصل ہوتی ہے اوراس واقفیت کی بنیاد حضرت محمد مصطفیٰ ؐ کی نبوت کو اس سلسلے کی آخری کڑی سمجھنا ہے کیونکہ ان کی طاسین سب سے آخر میں رکھی گئی ہے۔ چنانچہ فلکِ قمر کے سات مقامات کوسات روحانی اصولوں کا تعارف سمجھنا چاہیے جن کے ذریعے انسان نے تاریخ میں اپنا سفر طے کیا ہے۔جاویدنامہ کی اہمیت یہ ہے کہ یہ ہمیں ان اصولوں کا ایسا تعارف پیش کرتی ہے جو غیرمتنازعہ ہے اور جدید دور میں انسانی تہذیبوں کو ایک دوسرے کی روحانی بنیادیں سمجھنے میں مددگار ہو سکتا ہے۔ اس نکتے کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ مثال کے طور پر جب ہم بدھ مت کہتے ہیں تو اس سے مراد وہ مذہب ہوتا ہے جو قریباً ڈھائی ہزار سال پرانا ہے اور اس عرصے میں بہت سے مباحث اس کے ساتھ وابستہ ہو گئے جن پر خود بدھ مت کے پیروکاروں کا اختلاف ہے اور بنیادی طور پر وہ مباحث انہی لوگوں کی دلچسپی کے ہیں جنہیں اس مذہب کو اختیار کرنا ہو۔ اس کے برعکس جب ہم طاسینِ گوتم کہیں گے تو اس کا اشارہ جاویدنامہ کے ’فلکِ قمر‘ کی طرف ہو گا۔ یہاں اقبال نے گوتم بدھ کے پیغام کے صرف اُس اصولی پہلو سے تعلق رکھا ہے جو آج بھی دنیا کی ضرورت ہے اور ایک عالمگیر انسانی وحدت پر مبنی معاشرے کی تشکیل کے لیے اس سے گریز کرنا محال ہے کیونکہ ایسے معاشرے میں بدھ مت کا حصہ بھی ہو گا۔ اسی طرح باقی تین پیغمبروں کی طواسین ہیں۔ مثلاً اقبال نے اسلام کے بہت سے پہلو اپنی تصانیف اور خود جاویدنامہ کے مختلف حصوں میں ظاہر کیے ہیں لیکن ’فلکِ قمر‘ کی طاسینِ محمدؐ پر اس کا وہی پہلو پیش کیا گیا ہے جو صرف مسلمانوں ہی کے لیے نہیں ہے۔ یعنی آج اگر دنیا کی تمام اقوام روحانی بنیادوں پر ایک دوسرے کے قریب آنا چاہیں تو ظاہر ہے کہ انہیں اسلام کے ساتھ رواداری کا برتاؤ کرنا پڑے گا اور اس کے لیے بار بار صلیبی جنگوں کی یاد تازہ کرنے کی بجائے یہ سوچنا پڑے گا کہ اسلام کا وہ کون سا پہلو ہے جو آج کی دنیا میں مسلمانوں اور غیرمسلمانوں سب کے لیے ناگزیر ہو۔ یہ طاسینِ محمدؐ پر پیش ہوا ہے۔ اس لحاظ سے چار پیغمبروں کا انتخاب معنی خیز ہے۔ آج کی پوری دنیا کو ہم انہی چار تہذیبی دھاروں میں تقسیم کر سکتے ہیں جن کے بانی یہ پیغمبر ہیں: ۱ بدھ مت ایک مذہب کے طور پر شائد محدود ہو گیا ہو لیکن ایک تہذیبی دھارے کے طور پر مشرقِ بعید کی تمام تہذیب کی اساس ہے خواہ ان ممالک کا مذہب کچھ اور ہو یا کچھ بھی نہ ہو۔ خود ہندوستان کے عوام کی تہذیب پر بھی یہ اثر موجود ہے۔ ۲ زرتشت کے مذہب کے پیروکاروں یعنی پارسیوں کی تعدادبھی شائد کم ہو لیکن وہ تمام دنیا جسے ہم عجم کہتے ہیں اُس کے تہذیبی اثاثے میں زرتشت کی روحانیت کا وہ پہلو جاری و ساری ہے جو طاسین زرتشت پر دکھایا گیا ہے۔ دنیائے عجم میں خود اسلامی تہذیب کا ایک بہت بڑا حصہ شامل ہے۔ ۳ مسیح کی طاسین پر وہ مسئلہ پیش کیا گیا ہے جسے حل کرنے پر مغربی تہذیب کی آئندہ بقا کا انحصار ہے۔ یہاں انسانی تہذیب کی ایک ایسی روحانی ضرورت کی طرف اشارہ بھی موجود ہے جسے پورا کرنے کے لیے مستقبل قریب میں شائد مغربی دنیا مشرق سے زیادہ موزوں ہو لیکن اس کے لیے مغرب کو ہوسِ زر چھوڑ کر وہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے جو اس طاسین پر ظاہر کی گئی ہے۔ ۴ طاسینِ محمدؐ پر اسلام کے پیغام کا وہ پہلو پیش کیا گیا ہے جس پر مسلمان تمام اہلِ کتاب کو متفق ہونے کی دعوت دے سکتے ہیں تاکہ روحانی بنیادوں پر ایک انسانی معاشرے کی طرف قدم بڑھایا جائے۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ طواسین پیش کرنے میں دو باتوں کا خاص طور پر اہتمام کیا گیا ہے۔ پہلی بات یہ ہے کہ ہر طاسین اس مذہب کے پیروکاروں کے لیے قابلِ قبول ہو۔ اسی لیے گوتم بدھ اور زرتشت کی طواسین پر یہ دونوں پیغمبر خود موجود ہیں کیونکہ ان مذاہب کو ادبیات اور فنون لطیفہ میں اپنے پیغمبروں کو پیش کرنے پر اعتراض نہیں ہے بلکہ وہ اسے پسند کرتے ہیں۔ لیکن قرآنی انبیا یعنی مسیح اور آنحضرتؐ کو طواسین پر براہِ راست نہیں دکھایا گیا بلکہ ان کا پیغام پیش کرنے کے لیے دوسرے کرداروں سے کام لیا گیا ہے۔ دوسری بات جس کا اہتمام یہاں معلوم ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ ان پیغمبروں کے پیغام کی وہ روح پیش کی جائے جس کی انسانی تہذیب کو مجموعی طور پر آج بھی ضرورت ہے۔ یہ گویا وہ اصول ہیں جن کی بنیاد پر ان پیغمبروں کے پیروکار موجودہ زمانے میں انسانی تہذیب کی مجموعی ترقی میں اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ جاویدنامہ سے یہ فائدہ اس صورت میں حاصل کیا جا سکتا ہے جب اسے ’’نوجوانوں کے لیے‘‘ سمجھ کر اس کی اصطلاحات کو ایک کہانی کی اصطلاحات کی طرح مستقل اہمیت دی جائے یعنی بدھ مت سے مراد تو وہ مذہب ہو گی جس پر اس کے پیروکار عمل کرتے ہیں لیکن طاسینِ گوتم سے مراد صرف جاویدنامہ کے ‘فلکِ قمر‘ پر گوتم بدھ کا وہ پیغام ہو جو اقبال نے پیش کیا ہے۔ اسی طرح اسلام وہ مذہب ہے جس پر مسلمان عمل کرتے ہیں مگر طاسینِ محمدؐ کا اشارہ جاویدنامہ کی طرف ہونا چاہیے اور یہ اسلام کے پیغام کا وہ پہلو ہے جس پر مسلمان تمام انسانوں کو ایک عالمگیر معاشرے کے قیام کے لیے متفق کر سکتے ہیں۔ جاویدنامہ کی تشریح کرنے والوں نے عام طور اس کے برعکس کیا ہے۔ انہوں نے ان اصطلاحات کو ایک کہانی کی اصطلاحات کے طور پر مستقل حیثیت نہیں دی بلکہ ان کے سیاق و سباق کی اہمیت کو نظرانداز کرتے ہوئے اپنے تمام علمی اثاثے سے ان کا موازنہ شروع کر دیا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس سے جاویدنامہ کی عملی افادیت ختم ہو جاتی ہے اور کتاب دانشورانہ موشگافیوں کا موقع بن کر رہ جاتی ہے۔ شاید اسی لیے اس کتاب کو ’’نوجوانوں کے لیے‘‘ سمجھنا ضروری ہے تاکہ اس سے عملی طور پر فائدہ اٹھایا جا سکے۔ ۴ عارفِ ہندی وشوامتر اپنے ہر قول میں بالترتیب انہی اصولوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں جو ’فلکِ قمر‘ کے بقیہ مقامات پر ظاہر ہوں گے مگر ان کے اشارے ویدانت کے نقطہ نظر سے ہیں: ۱ پہلے قول کا مفہوم یہ ہے، ’’یہ کائنات ذات حق کی آڑ نہیں ہے۔ پانی پر بننے والا نقش غوطہ لگانے میں روک نہیں بنتا۔‘‘ یہاں عارفِ ہندی اپنے نقطہ نظر کی اساس بیان کر رہے ہیں۔ ویسے بھی انہیں سب سے پہلے یہی کرنا چاہیے لیکن ’فلکِ قمر‘ کا پہلا مقام خود انہی کا غار ہے اس لحاظ سے بھی انہیں سب سے پہلے اپنے نقطہ نظر کی طرف اشارہ کرنا چاہیے۔ ۲ دوسرے قول کا مفہوم ہے، ’’ایک اور عالم میں جنم لینا اچھا ہے تاکہ ایک دوسری جوانی ہاتھ آ جائے۔‘‘ یہ نکتہ سروش کی موسیقی سے کھلے گا۔ ۳ ’’حق تعالی موت سے ماورا اور حیات ہی حیات ہے۔ بندہ جب مرتا ہے تو حق تعالیٰ نہیں جانتا کہ یہ کیا ہے! گرچہ ہم بے پرو بال پرندے ہیں مگر موت کے علم میں خداسے بڑھے ہوئے ہیں۔‘‘ تیسرا مقام سروش کی غزل ہو گا جو شعر و ادب کی علامت ہے۔ غالب نے بھی موت سے مقابلے کو ایک طرح سے انسانی ہنر کی بنیاد ٹھہرا یا ہے: ہوس کو ہے نشاطِ کار کیا کیا نہ ہو مرنا تو جینے کا مزا کیا! خود اقبال نے بھی ’مسجدِ قرطبہ‘ میں موت سے مقابلے کو فن کا ہدف قرار دیا ہے۔ یوں عارفِ ہندی کے اس قول کا سروش کی غزل سرائی سے تعلق واضح ہو جاتا ہے۔ ۴ چوتھے قول کا مفہوم ہے، ’’زمانہ کیا ہے؟ زہر ملی شیرینی، قہر میں گندھی ایک رحمت عام! تم شہر اور بیابان کو اس کے قہر سے خالی نہیں دیکھو گے۔ اس کی رحمت یہی ہے کہ تم کہ سکو یہ گزر گیا۔‘‘طاسین گوتم میں گوتم بدھ یہ بات اپنے انداز میں واضح کریں گے اورجواب میں عشوہ طراز رقاصہ جس طرح تائب ہو گی اُس سے یہ بات مزید کھل جائے گی۔ گوتم بدھ کا موقف عارفِ ہندی سے ذرا مختلف ہو سکتا ہے مگر دونوں باتوں کا موضوع مشترک ہے۔ ۵ پانچویں قول کا مفہوم ہے، ’’کافری موت ہے اے پاک فطرت! مردے سے جہاد کرنا غازی کو کب سجتا ہے؟ مرد مومن زندہ ہے اور اپنے ساتھ بر سرپیکار!خود پر جھپٹتا ہے جیسے ہرن پر چیتا!‘‘ طاسینِ زرتشت پر اہرمن زرتشت سے کہے گا کہ ان پر جو حقائق منکشف ہوئے ہیں وہ صرف خواص کے لیے ہیں انہیں عوام تک پہنچانے کی کوئی ضرورت نہیں گویا ولایت نبوت پر افضل ہے۔ اہرمن کی بات ایک طرح سے اسی نکتے کو مسخ کرنے کی صورت ہے جو یہاں عارفِ ہندی نے پیش کیا ہے۔ زرتشت کا جواب اس نکتے کی اصل روح آشکار کر دے گا جب وہ کہیں گے کہ نور کے سمندر میں مجھ جیسا طوفان کبھی پیدا نہ ہوا تھا لہٰذا میں ظلمت کے ساحل سے ٹکرا کر اُسے ضرور توڑ پھوڑ دوں گا۔ ۶ چھٹے قول کا مفہوم ہے، ’’بت کے سامنے اپنے دل کو حاضر رکھنے والا کافر اس دیندار سے اچھا ہے جو کعبے میں سو گیا!‘‘ طاسینِ مسیح پر ٹالسٹائی کے خواب کی تعبیر یہی ہے۔ وہاں ٹالسٹائی کا خواب پیش کیا جائے گا جس میں وہ اُس غدار کو عذاب میں مبتلا دیکھتا ہے جس کی وجہ سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام دشمنوں کے ہاتھوں گرفتار ہوئے تھے۔ افرنگین نام کی ایک عورت جب سے طعنہ دیتی ہے تو وہ جواب دیتا ہے کہ اس کی وجہ سے صرف حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا جسم مصلوب ہوا مگر افرنگین نے پادریوں کو بہکا کر ان کی روح کو مصلوب کروا دیا ہے۔ ۷ ساتویں قول کا مفہوم ہے، ’’یہ تو اندھی آنکھ ہے جو بدی کو دیکھتی ہے۔ سورج کبھی رات نہیں دیکھتا!‘‘ اس بات کا طاسینِ محمدؐ کے ساتھ تعلق سمجھ میں آتا ہے اگر ہم یاد رکھیں کہ آنحضرتؐ کو رحمۃ اللعالمین کہا گیا ہے اور آگے چل کر جاویدنامہ میں بھی آپؐ کے اس لقب پر اقبال، غالب اور حلاج کے درمیان گفتگو ہوگی۔ عارفِ ہندی اس کے بعددو اور اقوال پیش کرتے ہیں۔ دراصل یہ ساتویں منزل پر تکمیل سے ہم کنار ہونے کے بعد مسائل ہیں لہٰذا یہ بھی ساتویں منزل یعنی طاسینِ محمدؐ ہی کے تحت آتے ہیں۔ شوامتر کے آٹھویں قول کا مفہوم ہے، ’’مٹی کی سنگت دانے کو درخت بنا دیتی ہے مگر آدمی مٹی کی صحبت سے سیاہ روز ہی رہتا ہے۔ دانہ مٹی سے کس بل لیتا ہے تاکہ سورج کی کرنوں کو شکار کرے!‘‘ ’گلشنِ راز جدید‘ میں اقبال نے آٹھواں سوال منصور حلاج کے نعرے ’’اناالحق‘‘ کے حوالے سے اٹھایا ہے۔ وشوامتر کے آٹھویں قول کوبھی اسی روشنی میںسمجھا جا سکتا ہے۔ اگر ساتویں منزل پر تکمیل کا مرحلہ سر ہو گیا تو اس کے بعد اپنے آپ کو دیکھنے والا کیا محسوس کرے گا؟ اگرسورج کی طرح اُس کی آنکھ بھی ظلمت نہیں دیکھ سکتی تو پھر اُسی اپنے آپ میں مٹی کی تاریکی کیسے دکھائی دے گی؟ اگر وہ رحمۃ اللعالمینؐ کے بارے میں سوچے گا تو عبدہ اور ذاتِ پاکؐ میں تفاوت کیسے کرسکے گا؟ اقبال نے جاویدنامہ میں یہ مسائل منصور حلاج ہی کی زبانی بیان کروائے ہیں لیکن چونکہ جاویدنامہ میں آٹھواں فلک نہیں ہے لہٰذا منصور حلاج کو پانچویں منزل یعنی ’فلکِ مشتری‘پر پیش کیا ہے کیونکہ ’فلکِ قمر‘ پر پانچواں مقام زرتشت سے منسوب ہے اور یہ مسائل ان سے بھی ایک خاص نسبت رکھتے ہیں یعنی نور اور ظلمت کی خالق ایک ہی ذات ہے تو کیسے ہے؟ عارفِ ہندی کے نویں قول کا مفہوم ہے، ’’میں نے پھول سے کہا: ’اے سینہ چاک رکھنے والے تم ہوا اور مٹی سے کس طرح رنگ اور خوشبو حاصل کرتے ہو؟‘ پھول نے جواب دیا، ’اے دیوانۂ عاقل! تم خاموش بجلی سے کیسے پیغام وصول کرلیتے ہو؟ ہمارے تن میں روح، اِسے اور اُسے جذب کر لینے کی وجہ سے ہے۔ تمہارا جذب ظاہر ہے اور میرا مخفی!‘‘‘ ’گلشنِ راز جدید‘ کے نویں سوال کا تعلق عرفانِ کامل سے ہے۔ اس قول کا تعلق اُس مسئلے کے ساتھ بہت واضح ہے۔ یہ بھی معلوم ہو جاتا ہے کہ اقبال نے اس سوال کو ’’اناالحق‘‘ کے بعد کیوں رکھا ہے۔ ۵ یہ سات مقامات جن کی طرف عارفِ ہندی وشوامتر کے اقوال میں بھی اشارہ ہے اور جو ’فلکِ قمر‘ پر سروش اور طواسین کی صورت میں بھی ظاہر ہوئے جاویدنامہ میں کلیدی اہمیت رکھتے ہیں۔ جس طرح وشوامتر کے اقوال ’فلکِ قمر‘ کے باقی مقامات کی روشنی میں واضح تر ہوتے جائیں گے اسی طرح ’فلکِ قمر‘ کے مقامات جاویدنامہ کی اگلی منازل میں وضاحت حاصل کریں گے۔ مناسب ہے کہ اب فلکِ قمر کے مقامات کی روشنی میں جاویدنامہ کی بقیہ منازل کو دیکھا جائے: ۱ پہلا مقام خود عارفِ ہندی وشوامتر کا غار ہے۔ اس مقام کا تعلق پورے فلکِ قمر کے ساتھ ظاہر ہے کہ یہاں اس منزل کے اسرار کی طرف اشارہ ہوا ہے۔ ۲ دوسرا مقام سروش کی موسیقی ہے۔ جاویدنامہ کی دوسری منزل فلکِ عطارد ہے جہاں جمال الدین افغانی کی تلاوت سے اقبال پر کائنات کے راز منکشف ہوتے ہیں۔ اس کے بعد جمال الدین افغانی اَن دیکھی دنیاؤں کے بارے میں بتاتے ہیں جو قرآن میں موجود ہیں اور ان کی بنیاد مسلمان کے دل میں ہے۔ قرآن اور مسلمان کے دل کا یہ تعلق فکری کم ہے اور حیاتیاتی زیادہ ہے یعنی تفسیر سے زیادہ تلاوت اس کی علامت کے لیے موزوں ہے۔سروش کی موسیقی کے ساتھ تعلق صاف ظاہر ہے۔ ۳ تیسرا مقام سروش کی شاعری ہے۔ یہ شاعری انسانیت کو زندگی کا پیغام دیتی ہے اور قوموں کے آگے بڑھنے میں مددگار بنتی ہے۔ اس کی اساس کیا ہونی چاہیے؟ یہ بات تیسری منزل فلکِ زہرہ پر سامنے آئے گی جس کے ایک حصے میں مولانا روم پرانے زمانے کے باطل معبودوں کو دوبارہ سرنگوں کرنے کے لیے زبورِ عجم کی ایک غزل پڑھتے ہیں۔ دوسرے حصے میں انسانوں کو اپنے سامنے جھکانے والے فرعونوں کے سامنے مجاہدِ آزادی مہدی سوڈانی کی روح جنت سے آ کر مدینہ کے سفر سے متعلق ایک نغمہ سناتی ہے۔ گویا توحید ہمیں اوہام اور باطل معبودوں سے نجات دلاتی ہے اور شریعت جابر حکمرانوں کے ظلم سے نجات دلاتی ہے۔ کلمہ طیبہ کے دو حصے بھی اسی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ وہی اُس شاعری کی بنیاد ہیں جو سروش کی تحریک دی ہوئی ہے۔ غالب نے کہا تھا: آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں غالب صریرِ خامہ نوائے سروش ہے ۴ چوتھا مقام طاسینِ گوتم ہے۔ یہاں گوتم بدھ ایک عشوہ طراز رقاصہ کو نصیحت کرتے ہیں جس کے بعد وہ توبہ کرکے جو غزل پیش کرتی ہے اس کے پہلے شعر کا ترجمہ خود اقبال نے بالِ جبریل میں یوں کیا ہے: گیسوئے تابدار کو اور بھی تابدار کر ہوش و خرد شکار کر، قلب و نظر شکار کر! سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ عشوہ طراز رقاصہ کون ہے؟ گوتم بدھ کی نصیحت ہے کہ بیک وقت دنیا میں رہنا اور نہ رہنا ہی اصل چیز ہے۔ اس روشنی میں دیکھا جائے تو عشوہ طراز رقاصہ ہمارے اپنے وجود کا وہ جسمانی اور خاکی پہلو معلوم ہوتی ہے جسے ایمان کے تابع کرنا ضروری ہے۔ یہ بات اقبال نے اسرار و رموز میں حضرت علیؓ کے لقب ابو تراب کے حوالے سے بھی واضح کی تھی۔ یہی بات پوری طرح کھل کر چوتھی منزل یعنی فلکِ مریخ پر سامنے آئے گی جہاں ایک ایسی مخلوق آباد ہے جس کے بارے میں مولانا روم، اقبال سے کہتے ہیں کہ ان کے جسم ان کے دلوں میں ہیں! ۵ پانچواں مقام طاسینِ زرتشت ہے۔ یہاں اہرمن زرتشت کو تبلیغ سے روکنے کی کوشش کرتا ہے لیکن وہ پروا نہیں کرتے۔ پانچویں منزل فلکِ مشتری ہو گی جہاں اقبال کی ملاقات ایسی ارواح سے ہوگی جنہیں جنت کی پیش کش ہوئی تھی مگر انہوں نے اسے قبول کرنے کی بجائے سیرِ دوام کو ترجیح دی۔ یہ روحیں منصور حلاج، قرۃ العین طاہرہ اور مرزا غالب ہیں۔ ان کی گفتگو اس مسئلے پر مزید روشنی ڈالے گی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ فلکِ قمر کے پانچویں مقام طاسینِ زرتشت پر اہرمن ظاہر ہوا اور جاویدنامہ کی پانچویں منزل فلکِ مشتری پر ابلیس ظاہر ہوگا۔ ۶ چھٹا مقام طاسینِ مسیح ہے جہاں ٹالسٹائی اپنے خواب میں مغربی تہذیب کی زبوں حالی دیکھتا ہے اور مسیحی تہذیب کے دو غداروں کو دیکھتا ہے یعنی یہودا اور افرنگین (جن میں سے افرنگین اقبال کا خیالی کردار ہے)۔ چھٹی منزل فلکِ زحل پر ہندوستان کی زبوں حالی دکھائی جائے گی اور وہاں بھی دو غدار موجود ہوں گے یعنی میرجعفر اور میر صادق جو خون کے سمندر میں سزا پا رہے ہوں گے۔ آسمان سے روحِ ہندوستان بیڑیوں میں جکڑی ہوئی نمودار ہو کر نوحہ کرے گی۔ ۷ ساتواں مقام طاسینِ محمدؐ ہے جہاں کعبے میں ابوجہل بتوں سے کہ رہا ہے کہ وہ وہاں سے نہ جائیں ورنہ کم سے کم اس کے دل سے نہ جائیں۔ ساتویں منزل ’آنسوئے افلاک‘ ہو گی جہاں اقبال فردوس سے گزرتے ہوئے بالآخر خدا کے حضور پہنچیں گے۔ طاسینِ محمدؐ کے ساتھ اس منزل کا تعلق ظاہر ہے۔ یہ بات بھی غورطلب ہے کہ سروش کی غزل میں سات اشعار ہیں۔ یہ سات اشعار انہی سات منزلوں کے بارے میں سروش کا تبصرہ ہیں۔ اگر ان کا موازنہ وشوامتر کے اقوال سے کیا جائے تو ہمیں وشوامتر اور سروش کے کرداروں یعنی فلسفہ اور شاعر کا فرق سمجھ میں آ سکتا ہے۔ اسی طرح سروش کا موازنہ دوسرے کرداروں سے بھی کیا جا سکتا ہے، مثلاً دوسری منزل کے بارے میں سروش کا تبصرہ اس کی غزل کے دوسرے شعر میں ظاہر ہوا ہے۔ دوسری منزل سیارہ عطارد ہے جہاں جمال الدین افغانی کے لیکچر کو دوسری منزل کے بارے میں ان کا تبصرہ سمجھنا چاہیے۔ دونوں کا موازنہ کیجیے تو کرداروں کے تقابلی جائزے کی گنجائش نکل آتی ہے۔ یوں اقبال نے کتاب کے نظم معنوی سے وہ کام لیا جس کے لیے عام طور پر شعرا کو اضافی الفاظ استعمال کرنے پڑتے ہیں۔ چونکہ یہ کتاب بنیادی طور پر نوجوانوں کے لیے ہے لہٰذا ظاہری طور پر اسے کہیں بھی بوجھل نہیں ہونے دیا گیا۔ کردارنگاری اور منظرنگاری وغیرہ کی تفصیلات نے کہانی کے تسلسل میں رکاوٹ پیدا نہیں کی البتہ وہ تفصیلات بین السطور موجود ہیں۔سروش کی غزل ہے: ترسم کہ تو می رانی زورق بسراب اندر زادی بحجاب اندر، میری بحجاب اندر چوں سرمۂ رازی از دیدہ فرو شستم تقدیرِ امم بینم پنہاں بکتاب اندر بر کشت و خیاباں پیچ، بر کوہ و بیاباں پیچ برقے کہ بخود پیچد میرد بسحاب اندر با مغربیاں بودم پر جستم و کم دیدم مردے کہ مقاماتش ناید بحساب اندر بے دردِ جہانگیری آں قرب میسر نیست گلشن بگریباں کش اے ’بو بگلاب اندر‘ اے زاہدِ ظاہربیں گیرم کہ خودی فانی است لیکن تو نمی بینی طوفاں بحباب اندر ایں صوتِ دلآویزے از زخمہ ٔ مطرب نیست محجورِ جناں حورے نالد برباب اندر اس کا ترجمہ اور تشریح مندرجہ ذیل ہے۔ ۱ سروش کے پہلے شعر کا مطلب ہے، ’’مجھے ڈر ہے کہ تم سراب میں کشتی چلا رہے ہو، حجاب میں پیدا ہوئے اور حجاب ہی میں مر جاؤ گے۔‘‘ سفر کے مقصد کو ذہن میں رکھیں تو فلکِ قمر یعنی جستجو کا مقام ایک حجاب ہے۔ پیغمبروں کی طواسین بھی ان کے پیغام کی ایک جھلک پیش کرتی ہیں لیکن کشفِ حجاب تب ہو گا جب یہ پیغام اپنے باطن کی عمیق گہرائیوں میں دریافت کیا جائے۔ ۲ دوسرے شعر کا مطلب ہے، ’’جب میں نے آنکھ سے رازی کا سرمہ دھو ڈالا، امتوں کی تقدیر قرآن میں پنہاں دیکھی!‘‘ اس بات کا دوسری منزل یعنی فلک عطارد پر جمال الدین افغانی کے درسِ قرآن سے تعلق صاف ظاہر ہے۔ ۳ تیسرے شعر کا مطلب ہے، ’’کھیت اور باغ کو لپیٹ میں لے لو، پہاڑ اور جنگل پر کوندو کہ وہ بجلی جو بس اپنے آپ میں الجھی رہے ، بادل بیچ ٹھنڈی پڑ جاتی ہے۔‘‘ یہ سفر کی تیسری منزل کی طرف اشارہ کرتا ہے یعنی فلکِ زہرہ جو لا الٰہ الاللہ محمد الرسول اللہ کی آزمائش کا مقام ہے۔ ۴ چوتھے شعر کا مطلب ہے، ’’میں مغرب والوں کے ساتھ رہی، بہت ڈھونڈا مگر نہ دیکھا ایسا جواں مرد کہ جس کے مقامات شمار میں نہ آئیں!‘‘ ایسے لوگ فلکِ مریخ پر ملیں گے جو چوتھی منزل ہے۔ ۵ پانچویں شعر کا مطلب ہے، ’’دنیا کو حاصل کرنے کا درد جھیلے بغیر وہ قرب میسر نہیں آتا۔ گلشن کو گریبان میں ڈال لو، اے خوشبو بن کر گلاب میں سمائے ہوئے!‘‘ اس کی وضاحت پانچویں منزل پر حلاج، قرۃ العین طاہرہ اور غالب کے مکالموں اور ابلیس کی فریاد کے ذریعے ہو گی۔ ۶ چھٹے شعر کا مطلب ہے، ’’اے ظاہر بیں زاہد! مانتا ہوں کہ خودی فانی ہے لیکن تم بلبلے میں چھپا ہوا طوفان نہیں دیکھتے!‘‘ یہ دلچسپ بات ہے کہ اقبال نے انفرادی خودی کے لیے ابدیت کے حصول کو ہمیشہ قومی خودی میں ضم ہونے سے منسلک کیا ہے۔ اس شعر کو چھٹی منزل یعنی فلکِ زحل کی روشنی میں سمجھا جائے تو یہی بات سامنے آتی ہے۔ اس شعر کا مفہوم تشکیلِ جدید کے چوتھے خطبے میں انگریزی نثر میں بھی بیان ہوا ہے جہاں فرانسس بریڈلے ’’زاہدِ ظاہربیں‘‘ بن جاتا ہے۔ اس نے خودی کی حقیقت پر جو تنقید کی تھی اُس کا ذکر کرنے کے بعد اقبال کہتے ہیں: We may easily grant that the ego, in its finitude, is imperfect as a unity of life. Indeed, its nature is wholly aspiration after a unity more inclusive, more effective, more balanced, and unique. Who knows how many different kinds of environment it needs for its organization as a perfect unity? یہ ایک طرح سے اس شعر کا توضیحاتی ترجمہ ہے۔ ۷ ساتویں شعر کا مطلب ہے، ’’دل کو کھینچنے والی یہ آواز مطرب کی مضراب سے نہیں پھوٹی، جنت سے بچھڑی ہوئی کوئی حور رُباب میں چھپی رو رہی ہے!‘‘ اس شعر کا ساتویں منزل یعنی ’آنسوئے افلاک‘ سے تعلق محتاجِ بیان نہیں ہے۔ ۶ فلکِ قمر پر جو مقامات ظاہر ہوئے اور جاویدنامہ کی بقیہ منازل میں ان کی جس طرح تشریح ہوئی اس کے مضمرات بے انتہا ہیں مگر ان کی افادیت جاننے کے لیے اس بات پر غور کرنا پڑے گا جو اقبال نے کتاب کے شروع میں کہی تھی: من کہ نومیدم زپیرانِ کہن دارم از روزے کہ می آید، سخن! بر جواناں سہل کن حرفِ مرا بہرِ شاں پایاب کن ژرفِ مرا فی الحال میں صرف ایک مثال کی طرف اشارہ کروں گا۔ پہلی جنگِ عظیم کے زمانے ہی سے مغرب میں انسانی ذہانت کو سمجھنے کی کوششیں تیزہو گئی تھیں۔ اس کی فوری ضرورت اس لیے محسوس ہوئی کہ بڑے پیمانے پر فوجی بھرتی کرتے ہوئے یہ سمجھنے کی ضرورت تھی کہ کون شخص کس مقصد کے لیے مناسب رہے گا۔ مثلاً ہو سکتا تھا کہ ایک شخص بہت ذہین فلسفی ہو مگر محاذِ جنگ کے لیے اس کی ذہانت کسی کام کی نہ ہو۔ اقبال ماہرِ تعلیم بھی تھے اور فکر و جدان کا باہمی تعلق ان کا خاص موضوع بھی تھا۔ توقع کی جا سکتی ہے کہ ذہانت کے موضوع پر مغرب میں ہونے والی تحقیق میں انہیں دلچسپی پیدا ہوئی ہو۔ معلوم ہوتا ہے کہ جاویدنامہ لکھتے ہوئے انہوں نے اسے بھی سامنے رکھا۔ فلکِ قمر کے سات مقامات دراصل انسانی ذہانت کی مختلف اقسام کو بھی ظاہر کرتے ہیںلیکن ذہانت کی یہ تقسیم اُس وقت مغرب میں سامنے نہیں آئی تھی۔ اس سلسلے میں جاویدنامہ نہ صرف تب اپنے زمانے سے آگے تھا بلکہ یہ آج بھی مغرب سے بہت آگے ہے: ۱ عارفِ ہندی وشوامتر ذہانت کی اُس قسم کا نمونہ ہے جس کا تعلق فکر و فلسفہ سے ہے۔ ریاضی اور اکثر نظری علوم بھی اسی کے تحت آتے ہیں۔ ۲ سروش کی موسیقی جیسا کہ ظاہر ہے ذہانت کی اس قسم کا نمونہ ہے جو موسیقی سے منسوب ہے۔ یہ دماغ کے دائیں حصے سے تعلق رکھتی ہے۔ ۳ سروش کی شاعری ذہانت کی اُس قسم کا نمونہ ہے جو لسانی فنون یعنی ادبیات سے تعلق رکھتی ہے۔ یہ زبان دانی سے متعلق ہے اور دماغ کے بائیں حصے کے تحت آتی ہے۔ ۴ طاسینِ گوتم کی رقاصہ ذہانت کی اُس قسم سے متعلق ہے جس کا تعلق جسمانی افعال پر قابو پانے سے ہے۔رقص، عملی عبادات اور فنونِ حرب وغیرہ اسی کے تحت آتے ہیں۔ گوتم بدھ جو نصیحت کرتے ہیں وہ اسی ذہانت سے روحانی افادیت حاصل کرنے کے بارے میں ہے۔ ۵ طاسینِ زرتشت ذہانت کی اُس قسم کا نمونہ ہے جو آپس کے تعلقات میں کام آتی ہے۔ وہ تمام شعبے جن میں دوسروں سے میل جول کی ضرورت پڑتی ہے مثلاً سیاست اور کاروبار وغیرہ وہ اسی ذہانت کے تحت آتے ہیں۔ اہرمن جو بات کہ رہا ہے وہ اسی ذہانت کو مسخ کرتی ہے اور زرتشت کا جواب اس ذہانت کے صحیح استعمال کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ ۶ طاسینِ مسیح ذہانت کی اُس قسم کا نمونہ ہے جس کا تعلقات نفس اور روح کی کفیات سے ہے۔ خواب اس کی ایک بہت بڑی علامت ہے اور یہاں ٹالسٹائی کا خواب دکھایا گیا ہے۔ انسانی تاریخ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام اس شعبے میں کمال کی علامت کے طور پر پہچانے جاتے ہیں اوراقبال نے یہ طاسین انہی سے منسوب کی ہے۔ نفسیات کا علم اگرصحیح بنیادوں پر استوار ہو تو اس شعبے کے تحت آئے گا لیکن موجودہ زمانے میں جس چیز کو نفسیات سمجھا گیا ہے وہ دراصل پہلی قسم کی ذہانت یعنی فلسفیانہ ادراک کی ایک صورت ہے۔ ۷ طاسینِ محمدؐذہانت کی اُس قسم کا نمونہ ہے جس کا تعلق مکان یعنی اسپیس کو صحیح ترتیب دینے سے ہے۔ مصوری، مجسمہ سازی اور فن تعمیر اس ضمن میں شمار کیے جا سکتے ہیں۔ یہاں اس ذہانت کی اعلیٰ ترین مثال خانۂ کعبہ بتایا گیا ہے۔ جاویدنامہ میں ہر ذہانت نہ صرف اپنی اعلیٰ ترین علامت کے ساتھ ظاہر ہوئی ہے بلکہ اس کا انسانی تہذیب کے ساتھ تعلق بھی واضح ہو گیا ہے۔ انسانی معاشرہ مجموعی طور پر جس طرح ان ذہانتوں کے ادوار سے گزرا ہے اُس کی نشاندہی تاریخی ہستیوں کے حوالے سے کر دی گئی ہے اور ایک انسان اپنی ذات میں جس طرح ان مدارج سے گزرتا ہے وہ ’’زندہ رُود‘‘ یعنی اقبال کے سفر سے ظاہر ہے۔ یوں مولانا روم وہ مرشدِ کامل ہیں جو موجودہ انسانی معاشرے کو ذہانت کی ان تمام قسموں سے فائدہ اٹھانے اور ان کے درمیان توازن قائم کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔ دوسری خوبی یہ ہے کہ ذہانت کی ہر قسم کا اس کی روحانی اساس کے ساتھ تعلق واضح کیا گیا ہے۔ یہاں ذہانت صرف ذہانت نہیں رہتی بلکہ اپنے پورے سیاق و سباق میں ظاہر ہوتی ہے۔ اس طرح جاویدنامہ ہمیں ہر ذہانت کو دیکھتے ہوئے نفسیاتی نقطہ نظر کو فلسفہ، روحانیت اور عملی زندگی کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا سکھاتا ہے۔ یہ چیز مغربی فکر میں موجود نہیں ہے اور صرف جاویدنامہ سے حاصل کی جا سکتی ہے۔ جاویدنامہ کی تصنیف کے اکیاون برس بعد یعنی ۱۹۸۳ء میں ایک امریکی ماہرِ تعلیم ہاورڈ گارڈنر نے ’’متعدد ذہانتوں‘‘ یعنی multiple intelligences کا نظریہ پیش کیا جس میں اُنہوں نے یہی ذہانتیں گنوانے کی کوشش کی لیکن بظاہر وہ جاویدنامہ سے واقف نہ تھے۔ بعد میں انہوں نے مزید دو ذہانتیں بتائیں جن پر بات کرنے سے پہلے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ گارڈنرکے بنیادی نظریے کی بعض خامیوں کی نشاندہی کر دی جائے جن سے بجائے فائدے کے الٹا نقصان ہونے کا اندیشہ ہے۔ یہ نظریہ دنیا میں بہت تیزی سے مقبول ہو کر تدریسی طریقوں کی اساس بن رہا ہے اور پاکستان کے بہت سے اسکولوں میں بھی رائج ہے۔ آئیے گارڈنر کی بنیادی سات ذہانتوں کے تناقصات اور خامیوں کو سمجھتے ہیں اور پھر ان کی بتائی ہوئی دو نئی ذہانتوں پر غور کرتے ہیں۔ گارڈنر نے ۱۹۸۳ء میں جو سات ذہانتیں بتائیں وہ یہی تھیں جو جاویدنامہ کے فلک قمر میں ظاہر ہوئی ہیں۔ البتہ گارڈنر نے انہیں کسی ترتیب میں نہیں رکھا بلکہ اس بات پر زور دیا کہ یہ تمام متوازی ہیں۔ یہ بات اس لحاظ سے تو درست ہو سکتی ہے کہ ہر ذہانت اپنی جگہ اہم ہے یعنی اہمیت کے لحاظ سے انہیں ترتیب دینا غلط ہو گا۔ مگرگارڈنر یہ بات نظرانداز کر گئے کہ تمام ذہانتوں کی اہمیت برابر ماننے کے ساتھ ساتھ انہیں ارتقائی مدارج کے لحاظ سے ترتیب دینا بھی ضروری ہے ورنہ ایک ذہانت دوسری میں تبدیل نہ ہو سکے گی اورانسانی شخصیت میں ان کا باہمی ربط معمہ بنا رہے گا۔ چنانچہ گارڈنر کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ بچوں میں تمام ذہانتوں کو یکساں طور پر ترقی دلوائی جائے مگر اس کا کوئی عملی طریقہ وہ نہیں بتا سکتے سوائے اس کے کہ بچوں کو ہر طرح کے مشاغل کروائے جائیں۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ اصرار کرتے ہیں کہ عملی زندگی کا ہر شعبہ بنیادی طور پر کسی ایک ذہانت کے ماتحت آتا ہے۔ یہ بات ہے تو خواہ وہ اپنی زبان سے جو بھی خواہش ظاہر کرتے رہیں ان کے نظام تعلیم کا عملی نتیجہ یہ نکل سکتا ہے کہ بالآخر لوگ اپنے بچوں کو تمام ذہانتوں پر توجہ دلوانے کی بجائے اُس ذہانت تک محدود کروانا چاہیں جس کا تعلق بچے کے آئندہ کیریر سے ہو۔ یہ نتیجہ گارڈنر کی خواہش کے برعکس ہو گا بلکہ اس طرح بچوں پر مختلف ذہانتوں کے مساوی طور پر ترقی پانے کے وہ امکانات بھی بند ہو جانے کا اندیشہ ہے جو ابھی دستیاب ہیں۔ جاویدنامہ میں یہ ذہانتیں ایک خاص ترتیب میں پیش کی گئی ہیں جس کی بنیاد تین باتوں پر ہے: ۱ یہ ترتیب اُس تسلسل کے لحاظ سے ہے جس میں یہ ذہانتیں انسانی شخصیت میں ترقی پاتی ہیں۔ مثلاً بچے میںپہلے سوچنے سمجھنے کی حس بیدار ہوتی ہے، پھر موسیقی پر کان لگاتا ہے،اس کے بعد گفتگو کے لائق ہوتا ہے اور جسمانی افعال پر مکمل قابو کافی بعد میں حاصل ہوتا ہے۔ دوسروں سے معاملات کی سمجھ بوجھ انسان میں ذرا دیر سے پیدا ہوتی ہے جس میں کسی قدر کامیابی کے ذریعے ہی ٹھیک سے اپنی سمجھ آتی ہے اور دنیا میں ہر چیز کو اس کے مقام پر رکھنے کا سلیقہ بھی پیدا ہوتا ہے۔ ۲ انسانی تاریخ مجموعی طور پر بھی ان ادوار سے اسی ترتیب میں گزری ہوئی معلوم ہوتی ہے۔ یہ اسی سے ظاہر ہے کہ فلکِ قمر پر جن تاریخی حوالوں کو ان ذہانتوں کی علامت بنایا گیا ہے وہ کم و بیش تاریخی ترتیب میں ہیں۔ ۳ ذہانت کی پہلی دو قسمیںیعنی فکر اور موسیقی صرف انسانوں میں ہوتی ہیں اور دوسرے جانداروں میں دریافت نہیں کی گئیں۔ دیگر جانداروں میں جن چیزوں کو ہم موسیقی سمجھتے ہیں مثلاً پرندوں کا چہچہانا وغیرہ وہ دراصل اُن جانداروں کے لسانی افعال ہیں کیونکہ ان سے وہ جو کام لیتے ہیں وہ انسانوں میں لسانی مہارتوں کی ذیل میں آتے ہیں۔ تیسری قسم یعنی لسانی ذہانت واحد قسم ہے جو انسانوں اور جانداروں میں مشترک ہو اور اُس میں انسان تمام جانداروں پر فوقیت بھی رکھتا ہو۔ اس میں انسان کی فوقیت اس قدر نمایاں ہے کہ انسان کو حیوانِ ناطق اور باقی جانداروں کو بے زبان کہا جاتا ہے۔ اس کے بعد ذہانت کی جو چار قسمیں ہیں ان سب میں کوئی نہ کوئی جاندار انسان پر قدرتی برتری رکھتا ہے۔ مثلاً کئی حیوان ایک دوسرے کا مدعا سمجھنے کے ایسے وسائل رکھتے ہیں جو انسان کے پاس نہیں ہیں، تمام مخلوقات اپنی شناخت کرنے میں انسان سے آگے سمجھی جا سکتی ہیں کیونکہ اُن کے نفس اُسی حالت پر قائم رہتے ہیں جس پر انہیں تخلیق کیا گیا ہے۔ مکانی ذہانت کے اعتبار سے بھی چمگادڑ اندھیرے میں راستہ تلاش کر سکتی ہے اور مکڑا کسی ساز و سامان کے بغیر اپنا گھر تعمیر کر سکتا ہے۔ گارڈنر کے نظریے سے دلچسپی رکھنے والے اگر ذہانتوں کو ترتیب دینا چاہیں تو انہیں جاویدنامہ سے بہتر ترتیب نہیں مل سکتی۔ اس طرح شائد ان کے بعض مسائل بھی حل ہو سکیں۔ گارڈنر کی سب سے سنگین غلطی یہ ہے کہ انہوں نے انٹرپرسنل (inter-personal)یعنی بین الشخصیاتی اور انٹراپرسنل (intra-personal) یعنی نفسیاتی ذہانتوں کی جو تعریف کی وہ ان کے اپنے نقطہ نظر سے غلط ٹھہرتی ہے مگر وہ یہ بات نظرانداز کر گئے۔ پھریہ تعریف انسانی شخصیت اور معاشرے دونوں کے لیے تباہ کن ہے۔ گارڈنر کے نزدیک بین الشخصیاتی ذہانت کی تعریف دوسروں سے تعلقات میں کامیابی ہے۔ یعنی اگر کوئی شخص کسی کو صابن بیچنا چاہے اور اس میں کامیاب ہو جائے تو اسے بین الشخصیاتی ذہانت کا مظاہرہ سمجھا جائے گا۔ اسی طرح خوشگوار ازدواجی تعلقات وغیرہ اس زمرے میں آئیں گے۔ مسئلہ یہ ہے کہ اس طرح اس ذہانت کی کوئی انفرادیت قائم نہیں ہوتی۔ اس قسم کی کامیابی حاصل کرنے کے لیے کوئی شخص جو بھی طریقہ اختیار کرے وہ لامحالہ کسی نہ کسی دوسری قسم کی ذہانت کا استعمال ہو گا۔ اگر مکاری سے کام لیتا ہے تو فکری ذہانت ہے، آواز کے لوچ سے متاثر کرتا ہے تو موسیقیت، چرب زبانی سے اپنا الو سیدھا کرے تو زبانی مہارت، ناز و انداز سے کام نکالے تو جسمانی ذہانت، نفسیاتی حربہ استعمال کرے تو نفسیاتی ذہانت اور اپنے کاروباری مرکز کی آرائش و زیبائش سے دوسرے کو متاثر کرے تو مکانی ذہانت کا مظاہرہ ہو گا۔ اس میں بین الشخصیاتی ذہانت کون سی ہوئی؟ چنانچہ گارڈنر جس چیز کو بین الشخصیاتی کہتے ہیں اُس کی مدد سے کوئی شخص تمام مواقع پر یکساں کامیابی حاصل نہیں کر سکتا بلکہ عموماً وہ کسی ایک ہی قسم کے معاملات میں طاق ہو سکتا ہے۔ مثلاً کسی شخص کو انشورنس پالیسی خریدنے پر قائل کرنا ہو تو یہ کام انشورنس پالیسی بیچنے والا شائد آئن سٹائن سے بہتر انجام دے سکے لیکن اگر اُس شخص کو نظریۂ اضافیت کا قائل کرنا ہو تو ممکن ہے کہ یہ صلاحیت آئن سٹائن میں زیادہ رہی ہو باوجود اس کے کہ آئن سٹائن انشورنس پالیسی بیچنے میںشائد ناکامی کا سامنا بھی کر سکتا تھا۔ میں تجویز کرنا چاہتا ہوں کہ بین الشخصیاتی ذہانت کی صرف ایک تعریف ممکن ہے اور وہ ہے اپنے آپ کو دوسرے کی مدد سے سمجھنا یعنی دوسرے شخص کو اپنی ذات کے آئنے کے طور پر استعمال کرنا۔ مجھے اعتراف ہے کہ یہ تعریف اقبال نے کہیں واضح نہیں کی ہے اور یہ میری اپنی دریافت ہے لیکن اس دریافت کا محرک جاویدنامہ ہی ہے کیونکہ طاسینِ زرتشت میں زرتشت جو بات کہ رہے ہیں وہ اسی طرف اشارہ کرتی ہوئی معلوم ہوتی ہے۔ بین الشخصیاتی ذہانت کی یہ تعریف واقعی اسے ایک ایسی ذہانت بناتی ہے جو بقیہ ذہانتوں سے الگ ہے۔ نیز اس کے ذریعے دوسروں کا استحصال ممکن ہی نہیں۔ تاریخی طور پر بھی زرتشت کے پیروکاروں میں سے کروش اعظم نے جو سلطنت قائم کی وہ غالباً معلوم تاریخ کی پہلی سلطنت تھی جس کی اس قدر وسعت کے باوجود اس کے بادشاہوں نے خدائی کا دعویٰ نہیں کیا اور اپنے آپ کو دیوتاؤں کی اولاد کہلوانے کی کوشش نہیں کی۔ دوسری اقوام کو ان کے مذاہب پر قائم رہنے کی آزادی دیتے ہوئے انہیں اپنی سلطنت کا حصہ بنانے کا ڈھنگ بھی انہی لوگوں کی دریافت معلوم ہوتا ہے۔پھر یہ وصف صرف سلطنت سازی تک محدود نہیں۔ حکومت ختم ہونے کے بعد صدیوں تک محکوم رہنے کے بعد ہندوستان پر برطانوی حکومت قائم ہونے پر جونہی یہاں کی پارسی برادری کو موقع ملا انہوں نے اپنا یہی وصف کاروبار کے حوالے سے اس طرح منوایا کہ تجارت میں انگریز حکمرانوں کے حریف بن گئے اور برصغیر میں یہ تاثر عام ہو گیا کہ پارسیوں کی کامیابی کی وجہ ان کی کاروباری دیانت ہے۔ اقبال نے ’ہندوستانی بچے کا قومی گیت‘ میں بھی اسی بات کی طرف اشارہ کیا تھا جب ہندوستان کے بارے میں کہا: ٹوٹے تھے جو ستارے فارس کے آسماں سے پھر تاب دے کے جس نے چمکائے کہکشاں سے گارڈنر نے بین الشخصیاتی ذہانت کی اعلیٰ ترین مثال دینے کے لیے جس ہستی کو منتخب کیا ہے وہ بھی اس مقصد کے لیے موزوں معلوم نہیں ہوتی یعنی گاندھی۔ گاندھی جی کے طریقہ کار میں تو بین الشخصیاتی ذہانت کی وہ صورت بھی نہیں جھلکتی جو خود گارڈنر کے حساب سے پیدا ہونی چاہیے۔ گاندھی جی معاملات کو بحث مباحثے سے حل کرنے اور دوسروں کے نقطہ نظر سے سمجھوتہ کرنے کی بجائے دوسرے طریقوں سے کام لینے کے قائل تھے جو ہر لحاظ سے جسمانی ذہانت کی ذیل میں آتے ہیں، مثلاً تشدد برداشت کرنے کی طاقت رکھنا، اپنی بات منوانے کے لیے طویل روزے رکھنا، میلوں پیدل سفر طے کرنا وغیرہ وغیرہ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اقبال نے اس قسم کی ذہانت کو طاسینِ گوتم کے ذریعے ظاہر کیا ہے۔اس طاسین کے ساتھ گاندھی جی کا تعلق ان کے طریقِ کارکے لحاظ سے بھی مناسب معلوم ہوتا ہے اور تہذیبی اعتبار سے بھی ہندوستان کو گوتم بدھ کے ساتھ مناسبت ہے۔ بین الشخصیاتی ذہانت کی جو تعریف گارڈنر پیش کرتے ہیں وہ نہ صرف اس ذہانت کی انفرادیت نمایاں کرنے میں ناکام رہتی ہے بلکہ بچے کو اُکساتی ہے کہ وہ دوسری ذہانتوں کو اپنا اُلو سیدھا کرنے کے لیے استعمال کرے۔بچے کو اس مرض سے بچانے کے لیے اخلاقیات کی تعلیم علیحدہ سے دینا پڑتی ہے جس پر وہ عمل کرے یا نہ کرے یہ اُس کی مرضی ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اخلاقیات گارڈنر کی بتائی ہوئی کسی بھی ذہانت کے زمرے میں نہیں آتی! بین الشخصیاتی ذہانت کی جو تعریف میں جاویدنامہ سے اخذ کر کے پیش کر رہا ہوں اُس میں اخلاقیات ایک ناگزیر جزو کے طور پر شامل ہے جسے خارج نہیں کیا جا سکتا۔ گارڈنر اس تعریف تک اس لیے نہیں پہنچ سکے کیونکہ انہوں نے غالباً روح اور مادے، کلیسا اور ریاست وغیرہ کی ثنویت سے متاثر ہو کر خودی اور غیر کی ثنویت کو بھی ناقابلِ اتحاد سمجھ لیا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ وہ نفسیاتی ذہانت کی بھی ایسی تعریف بتانے سے قاصر ہیں جو قائل کر سکے۔ انٹرپرسنل یعنی نفسیاتی ذہانت کی تعریف وہ یوں کرتے ہیں کہ یہ اپنے آپ کو پہچاننے کا نام ہے۔ سوال یہ ہے کہ وہ کون سی ذہانت ہو گی جو اپنے آپ کو پہچاننے کا نام نہ ہو؟ساری ذہانتیں ہماری شخصیت کا حصہ ہیں تو ان میں سے کسی کو بھی پہچاننا اپنے آپ کو پہچانے کے ضمن میں آئے گا۔ گارڈنر اس مشکل سے واقف ہیں لہٰذا کہتے ہیں کہ انٹرپرسنل ذہانت وہ ہے جس کی مدد سے بقیہ تمام ذہانتوں کو پہچانا جاتا ہے۔ یہ بات قائل نہیں کرتی کیونکہ ذہانتوں کے درمیان فرق کرنا ایک ریاضیاتی اور فکری نوعیت کی سرگرمی ہے جسے فکری ذہانت کے تحت رکھنا ہو گا۔ نفسیاتی ذہانت کی جو سب سے اعلیٰ مثال گارڈنر نے بتائی وہ فرائیڈ ہے لیکن فرائیڈ کے طریق کار کا نام ہی سائیکو انالیسس (psychoanalysis) تھا جسے اُردو میں تحلیلِ نفسی کہتے ہیں مگر جس کا لفظی ترجمہ تجزیۂ نفس ہو گا۔ اسی سے سمجھ لینا چاہیے کہ یہ ذہانت کی کون سی قسم ہے۔ میں تجویز کروں گا کہ نفسیاتی ذہانت اپنے حوالے سے دوسروں کو پہچاننے کا نام ہے۔ اس لحاظ سے یہ پچھلی ذہانت کے برعکس ہے کیونکہ وہاں توجہ اپنی ذات پر ہوتی ہے مگر عرفان دوسرے کا حاصل ہوتا ہے۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب پہلے اپنا عرفان پیدا ہو چکا ہو اس لیے یہ ذہانت ترتیب میں بین الشخصیاتی کے بعد رکھی جا سکتی ہے۔ جدید نفسیات اس سے محروم ہے کیونکہ جدید نفسیات کی بنیاد فکری ذہانت پر ہے جس کے اپنے فوائد سے انکار نہیں لیکن بہرحال وہ ذہانت کی اس قسم میں نہیں آتے۔ قدیم زمانے میں اس ذہانت کی مثال اُن باطنی مشاہدات میں ملتی تھی جن کا ذکر صوفیوں اور سالکوں کے احوال میں ہوتا ہے۔ چنانچہ اقبال نے تشکیل جدید کے آخری خطبے میں جدید نفسیات پر تنقید کرتے ہوئے شیخ احمد سرہندی کے مکتوبات میں سے اقتباس نقل کیا جس میں کسی سالک کے باطنی مشاہدات پر شیخ نے تبصرہ کیا تھا۔ اقبال نے تسلیم کیا ہے کہ اس قسم کے باطنی مشاہدات کے لیے جو ریاضت درکار ہے وہ سب کے بس کی بات نہیں اور موجودہ دور میں تو اسے اختیار کرنے والوں کی تعداد اور بھی کم ہو گی۔ البتہ جدید دور کا ایک ایسا پہلو ہے جسے اقبال بڑے پراسرار طریقے سے ہر جگہ اس ذہانت کے متوازی رکھ دیتے ہیں۔یہ قوموں کی اجتماعی زندگی کا پہلو ہے۔ چنانچہ طاسینِ مسیح پر ٹالسٹائی اپنے خواب میں اپنی تہذیب کی زبوں حالی کے اصل سبب کو دریافت کر رہا ہے اور فلکِ زحل پر ہندوستان کی روح نوحہ کر رہی ہے۔ معلوم ہوتا ہے جیسے اقبال اشارہ کر رہے ہوں کہ باطنی فروغ کے جو مواقع روایتی طریقوں سے حاصل کرنا مشکل ہو رہے ہیں اُنہیں قومی زندگی کی باطنی کیفیات سے وابستہ ہو کر تلاش کرنے کی کوشش کی جائے۔ ذہانت کی اس قسم کی ایک بہت مناسب مثال مولانا روم کی اُس حکایت میں ملتی ہے جس میں ایک کبوتر دانے پر جھپٹتا ہے اور جال میں گرفتار ہو جاتا ہے۔ کبوتر فریاد کرتا ہے اور مولانا روم کہتے ہیں کہ جال میں پھنسنے کے بعد فریاد بیکار ہے۔ فریاد اُس وقت کرنی چاہیے تھی جب دانہ نظر آیا تھا کیونکہ دانہ ہے تو جال کا امکان بھی ہے۔ مولانا روم فرماتے ہیں کہ اسی طرح ہمیں اپنے گناہ پر اُسی وقت آہ و زاری اور توبہ کر لینی چاہیے جب ہم کسی دوسرے کوگناہ کرتے دیکھیں کیونکہ جو عیب اُس میں ہے وہی ہم میں بھی ہو سکتا ہے جو ہمیں دکھائی نہیں دے رہا ہے۔ مولانا روم کی اس حکایت سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تعلیمات کی روح کا کتنا گہرا تعلق ہے یہ محتاجِ بیان نہیں۔ اب اس پر غور کیجیے کہ اقبال نے ذہانت کی اس قسم کو طاسینِ مسیح سے وابستہ کیا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ ان کے حساب سے عالمگیر انسانی معاشرے کی تعمیر میں یہ حصہ مغربی تہذیب کے ذمے قرض ہے جسے وہ ادا نہیں کر سکتی جب تک حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی روح کو صلیب سے اتار نہ لے۔ دورِ حاضر میں اور جدید تہذیب کے ساتھ تعلق برقرار رکھتے ہوئے اگر مغرب اس طرف توجہ کرنا چاہے تو شائد اُسے حضرت عیسیٰ علیہ السلام، مولانا روم اور شیکسپئر کا باہمی تعلق دریافت کرنے کی ضرورت پیش آئے۔ یہ محض اتفاق نہیں معلوم ہوتا کہ اقبال نے اپنی پرائیویٹ نوٹ بک میں ایک جگہ ان تینوں کا ذکر ایک ہی جملے میں کیا ہے۔ اس طرح گارڈنر جن ذہانتوں کو سات سمجھ بیٹھے وہ اصل میں پانچ تھیں۔ بعد میں انہوں نے دو اور نام لیے: نیچرلسٹک (naturalistic) یعنی فطرتی اور ایگزسٹنشلسٹ (existentialist)یعنی وجودی ذہانتیں۔ فطرتی ذہانت سے ان کی مراد یہ ہے کہ کسی میں باغبانی کی قدرتی صلاحیت پائی جائے جس طرح بعض لوگوں کے ہاتھوں پودے زیادہ پھلتے پھولتے ہیں۔ غور کیا جائے تو یہ جسمانی ذہانت ہی کا ایک پہلو معلوم ہوتا ہے۔ گارڈنر نے جسمانی ذہانت کی مثالیں تلاش کرتے ہوئے رقص اور کھیل پر زیادہ توجہ دی تھی لیکن اگر ہر طرح کی عبادات و ریاضت کو بھی اس میں شامل سمجھا جائے جیسا کہ سمجھنا چاہیے تو پھر جس چیز کو گارڈنر فطرتی ذہانت کہ رہے ہیں وہ جسمانی ذہانت ہی کا کوئی پہلو معلوم ہو سکتی ہے۔ وجودی ذہانت سے گارڈنر کی مراد روحانیت ہے جس کے بارے میں وہ کہتے ہیں کہ تاحال اسے ایک علیحدہ ذہانت منوانے کی کوئی دلیل ان کے پاس نہیں ہے بلکہ وہ اس پر تحقیق کر رہے ہیں۔ یہ اصل نفسیاتی ذہانت معلوم ہوتی ہے جسے وہ پہلے نظرانداز کر گئے اور شائد اسی لیے اب ان کے واسطے معمہ بن گئی ہے۔ ۷ اقبال چاند کے بعد عطارد پر کیوں گئے جبکہ پہلے زہرہ آتا ہے؟ نظام شمسی کے جن سیاروں کی سیر جاویدنامہ میں کی گئی ہے ان کی ترتیب سائنس کے مطابق یوں ہے: عطارد، زہرہ، زمینی چاند، مریخ، مشتری اور زحل۔ اقبال نے اپنا سفر زمین سے شروع کیا تھا تو پھر انہیں چاند کے بعد زہرہ پر جانا چاہیے تھا، پھر عطارد اور اس کے بعد واپس زمین کے مدار سے گزرتے ہوئے مریخ، مشتری اور زحل کی طرف۔ انہوں نے جس ترتیب میں سفر یہ اُسی وقت ممکن تھا جب سفر ایسے وقت میں ہوتا جب زہرہ اور باقی سیارے سورج کی دوسری طرف موجود ہوں۔ اس صورت میں چاند کے بعد زہرہ کا مدار خالی ملتا، عطارد پہلے آتا اور اس کے بعد سورج کے دوسری طرف زہرہ، مریخ، مشتری اور زحل آتے۔ جاویدنامہ میں یہی صورت نظر آتی ہے۔ کیا اقبال کے ذہن میں یہ تمام باریکیاں موجود تھیں؟ اس کا ثبوت اس بات سے ملے گا کہ انہوں نے عطارد کے بعد سورج عبور کیا یا نہیں۔ اتفاق سے فلکِ زہرہ کا آغاز ہی ان سطور سے ہوتا ہے، ’’ہمارے اور نورِ آفتاب کے بیچ تہہ در تہہ فضا سے کتنے ہی پردے حائل! ہمارے سامنے سیکڑوں پردے لٹکے ہوئے تھے جنہوں نے آتشیں جلوؤں کو لپیٹ رکھا تھا۔۔۔‘‘: درمیانِ ما و نورِ آفتاب از فضائے توبتو چندیں حجاب! پیشِ ما صد پردہ را آویختند جلوہ ہاے آتشیں را پیختند چنانچہ معلوم ہوتا ہے کہ عطارد اور زہرہ کے درمیان انہوں نے سورج کے قریب سے گزرنے کا ذکر کیا ہے۔ سورج کو ایک علیحدہ مقام کے طور پر ظاہر کرنا اس لیے مناسب نہ تھا کہ سورج خدا کے نور کی علامت سمجھا جاتا ہے اور وہ نور علامت کی بجائے حقیقی صورت میں ’آنسوئے افلاک‘ دکھائی دینا تھا۔ اس ترتیب میں ایک حسن یہ بھی پیدا ہو گیا ہے کہ بطلیموس کے نظام کے مطابق جس میں زمین کائنات کا مرکز تھی سیاروں کی ترتیب یہی تھی۔ اقبال نے حسبِ عادت جدید و قدیم کی آویزش بڑھانے کی بجائے ایک الگ راہ پیدا کی جس پر دونوں کا اتفاق ہو سکے۔ جاویدنامہ کے بقیہ ابواب میں بھی بہت سی باریکیاں ہیں جنہیں عموماً نظرانداز کیا گیا ہے۔ ان کا تفصیلی جائزہ یہاں ممکن نہیں مگر چند اشارے کیے جا سکتے ہیں۔ اقبال جب فلکِ عطارد پر پہنچتے ہیں تو جمال الدین افغانی امامت کروا رہے ہیں اور سعید حلیم پاشا ان کے پیچھے نماز پڑھ رہے ہیں۔ اقبال بتاتے ہیں، ’’سورۂ نجم اور وہ خاموش صحرا۔۔۔‘‘ یہاں اگر قاری ٹھہر کر سورۂ نجم کی ابتدائی آیات بھی ذہن میں لے آئے تو اگلی سطور میں جذبے کی جو شدت ہے وہ زیادہ اچھی طرح محسوس ہو سکے گی۔ سورۂ نجم کی ابتدائی اٹھارہ آیات ہیں: قسم ہے ستارے کی جب وہ اترا تمہارا رفیق نہ بہکا اور نہ راہ سے بے راہ ہوا اور وہ اپنی خواہش سے بات ہی نہیں کرتے، وہ تو وہی فرامتے ہیں جو ان پر وحی ہوتی ہے۔ ان کو سکھایا زبردست قدرت والے نے، زورآور نے۔ پھر قصد فرمایا اور وہ اُفقِ اعلیٰ پر تھے پھر قریب ہوئے اور آگے بڑھے، پھر یہاں تک کہ صرف دو کمانوں کے برابر یا اس سے بھی کم فاصلہ رہ گیا پھر [اللہ نے] اپنے بندے کو جو وحی فرمانا تھا فرمائی۔ جو دیکھا قلب نے اس کو جھوٹ نہ جانا! کیا تم ان سے اس پر جھگڑتے پر جو انہوں نے دیکھا؟ اور اس کو تو انہوں نے ایک بار اور بھی دیکھا سدرۃ المنتہیٰ کے پاس جس کے پاس جنتِ ماویٰ ہے، جب اس بیری پر چھا رہا تھا جو کچھ چھا رہا تھا! نہ نگاہ جھپکی نہ حد سے بڑھی! یقینا آپ نے اپنے رب کی بے شمار نشانیاں دیکھیں۔۔۔ اب جاویدنامہ کی اگلی سطور کا مطلب سمجھا جا سکتا ہے، ’’ایسی قرأت کہ ابراہیم خلیل اﷲ ؑ بھی وجد میں آ جائیں، جبریل کی پاک روح جھوم اٹھے، اسے سن کر دل سینے میں نہ سمائے، قبروں سے اﷲ اﷲ کا شور بلند ہو جائے، دھوئیں کو شعلے کی لپک بخش دے، داؤدؑ کا بھی دل پگھلا دے اور انھیں مست کر دے! اس کی قرأت سے ہر چھپاؤ آشکار، اس کی قرأت سے امّ الکتاب بے حجاب۔۔۔‘‘انہی آیات میں لفظ ’’عبدہ‘‘ بھی آیا ہے جس پر حلاج سے تفصیلی گفتگو فلکِ مشتری پر ہو گی۔ اسی طرح جب مولانا روم اور اقبال فلکِ زہرہ کے قلزمِ خاموش پر پہنچتے ہیں جس کی تہ میں گھپ اندھیرا ہے تو مولانا روم سورۂ طٰہٰ کی آیات پڑھتے ہیں جن کی وجہ سے ان کے ہاتھ سے یدِ بیضا کی روشنی پھوٹنے لگتی ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ وہی آیات ہیں جن میں خدا حضرت موسیٰ علیہ السلام کو فرعون کے پاس جانے کا حکم دے رہا ہے۔ ان آیات کو یہاں رکھ کر اگلی سطور پڑھنے سے بھی ایک کیفیت پیدا ہوتی ہے۔ یہ بات بھی غورطلب ہے کہ فلکِ زہرہ کے ایک حصے میں باطل معبود اور دوسرے حصے میں فرعون و کچنر ہیں۔ اس میں یہ رمز پوشیدہ ہے کہ جس طرح باطل معبود کوئی وجود نہیں رکھتے بلکہ انسان کے وہم کی پیداوار ہیں اُسی طرح دوسروںکی خودی پر زندہ رہنے والے جابر حکمراں بھی واہمۂ باطل بن جاتے ہیں اور ان کی اپنی خودی باقی نہیں رہتی۔ فلکِ مریخ کی وہ دنیا جہاں نہ کوئی آقا ہے نہ غلام اور ہر شخص روحانی زندگی گزار رہا ہے، جہاں کی مخلوق کے جسم ان کے دلوں میں ہیں، اس دنیا کے بارے میں بھی ٹھیک سے غور نہیں کیا گیا۔ بظاہر تو ایسی دنیا کو مریخ پر آباد کرنے میں یہ مصلحت بھی دکھائی دیتی ہے کہ اس زمانے میں مریخ سائنس فکشن لکھنے والوں کا پسندیدہ سیارہ تھا اور اگر جاویدنامہ واقعی نوجوانوں کے لیے تھی تو اس کا مقابلہ ایک طرح سے سائنس فکشن کے ساتھ بھی تھا۔ لیکن یہاں ایک مسئلہ ہے کہ مریخ پر جو مخلوق آباد ہے اس کا ایک سائنسدان یعنی حکیمِ مریخی بتاتا ہے کہ ان کے جدِامجد کوئی برخیا نامی تھے جنہیں فرزمرز نے (جو مریخی زبان میں ابلیس کا نام معلوم ہوتا ہے) بہکانا چاہا مگر وہ برخیا بہکاوے میں نہ آئے لہٰذا خدا نے انعام کے طور پر ان کی اولاد کو یہ دنیا عطا کی۔ مسئلہ یہ پیدا ہوتا ہے کہ خود جاویدنامہ کی ’تمہیدِ آسمانی‘ میں زمین سے پیدا ہونے والے آدم کی شان میں جو کچھ کہا گیا ہے وہ تو اسے اشرف المخلوقات ثابت کرتا ہے۔ پھر یہ برخیا کس طرح حضرت آدم علیہ السلام سے بڑھ گئے؟ کیا اس طرح انسان کا اشرف المخلوقات ہونا ہی مشکوک نہ ہو جائے گا؟ فرزمرز نے برخیا کو جو بہکاوا دیا تھا وہ اس نکتے کے اسرار کی طرف اشارہ معلوم ہوتا ہے۔ فرزمرز نے برخیا سے کہا تھا کہ وہ انہیں ایک ایسی دنیا پیش کر سکتا ہے جس کا علم خدا کو بھی نہیں ہے لہٰذا وہاں نہ جبریل ہے نہ شریعت کی پابندی ہے۔ غور کیا جائے تو یہ دورِ جدید کی سیکولر دنیا کا نقشہ معلوم ہوتا ہے خواہ وہ مغربی سیکولرازم ہو یا سوشلزم ہو۔ جدید دنیا کے بارے میں سب سے بڑا وسوسہ یہی پیدا ہو سکتا ہے کہ شریعت کے احکام جن حالات کے لیے تھے ہمارے حالات ان سے اتنے مختلف ہیں کہ اب ہمارے لیے نہ جبریل ہے نہ کتاب، جیسے خدا کو آخری وحی نازل کرتے ہوئے اس دنیا کا خیال نہ رہا ہو جس میں اب ہم رہتے ہیں۔ لہٰذا عین ممکن ہے کہ مریخ کی دنیا زمان و مکان کی وہ جہت ہو جو صرف ایک امکان ہے۔ جاویدنامہ کا قاری ہی برخیا ہے۔ وہ اگر فرزمرز کے بہکاوے میں نہ آئے تو اُس کی اولاد اُس دنیا میں رہے گی جو اقبال نے مریخ پر ہمیں دکھائی ہے۔ وہ آنے والی نسلیں ایسی زندگی گزاریں گی کہ ان کے دل جسموں میں نہیں بلکہ جسم دلوں میں ہوں گے! تعجب ہے کہ اقبال کے تصورِ ابلیس پر آج تک جو کچھ لکھا گیا ہے وہ عموماً اس کے ماخذ تلاش کرنے کی کوششوں میں صرف ہوا ہے لیکن اس بات کی طرف کوئی توجہ نہیں دی گئی کہ اقبال کے کلام کے مختلف حصوں میں ابلیس کا کردار ذرا مختلف کیوں دکھائی دیتا ہے۔ مثلاًجاویدنامہ کا ابلیس جو خدا کے فراق میں تڑپ رہا ہے کیا وہ ‘ابلیس کی مجلسِ شوریٰ‘ کا ابلیس بھی ہے جس کی رعونت اپنے سامنے کسی کو خاطر میں نہیں لاتی؟ جاویدنامہ عالمِ ارواح ہے لہٰذا یہ امکانات کی دنیا بھی ہے۔ یہاں فلکِ مشتری پر ابلیس کا جو روپ نظر آتا ہے وہ ایک باطنی مشاہدہ ہے۔ ’ابلیس کی مجلسِ شوریٰ‘ ہماری دنیا کی بات ہے۔ لہٰذا ابلیس وہی ہے مگر اُس کا جو روپ وہاں نظر آتا ہے وہ مختلف ہے۔اقبال کے تصورِ ابلیس میں لوگوں کو جو مختلف ماخذوں کا اثر نظر آتا ہے وہ اس میں کہیں ملٹن، کہیں پرومیتھیوس اور کہیں عطار اور حلاج کے ابلیس تلاش کرتے ہیں جیسے اقبال جب جس شاعر سے متاثر ہوئے تب ویسا ہی ابلیس بنا دیا۔ اقبال کے ابلیسوں کو دنیا بھر کے ماخذوں میں تلاش کرنے سے پہلے ان کی آپس میں تطبیق کرنی ضروری ہے اور ان کا فرق سمجھنا ضروری ہے ورنہ وہی بات ہو گی جیسے کسی بھینگے نے دعویٰ کیا کہ اس کی آنکھیں کسی حسینہ سے ملتی ہیں تو سننے والے نے کہا کہ یہ ایک دوسرے سے نہیں ملتیں تو اُس سے کیا ملیں گی! اقبال کی مختلف تصانیف کو آپس میں مربوط کر کے نہ دیکھنے کا شاخسانہ ہے کہ ان کی زندگی کو بھی مختلف ادوار میںیوں تقسیم کیا جاتا ہے جیسے ایک زمانے کے اقبال اور چند برس بعد کے اقبال کا آپس میں کوئی تعلق نہ ہو۔ شاعری کی حد تک اس بات کی تردید یوں ہوتی ہے کہ ۱۹۰۹ء کی نظم ’عاشقِ ہرجائی‘ میں اقبال نے اپنے ہرجائی پن اچھا خاصا دفاع کیا تھا بلکہ یہاں تک کہا تھا: جستجو کل کی لیے پھرتی ہے اجزا میں مجھے حسن بے پایاں ہے دردِ لادوا رکھتا ہوں میں اگر یہ سمجھا جائے کہ اُس وقت اقبال رومانی شاعری کرنے کے دلدادہ تھے اور جاویدنامہ تک آتے آتے کچھ اور ہو گئے تو اس کا جواز پیدا نہیں ہوتا کیونکہ ‘عاشقِ ہرجائی‘ میں جو بات کہی تھی جاویدنامہ اُسی کی تصدیق تو کر رہا ہے یعنی جب فردوس میں حوریں انہیں ٹھہر جانے کو کہتی ہیں تو وہ نہیں رکتے کہ انہیں جمالِ ذات کا مشاہدہ کرنا ہے۔ گویا وہی عذر جو بانگِ درا حصہ دوم میں دنیاوی ہرجائی پن کے لیے پیش کیا، جاویدنامہ میں پہنچ کر ثابت ہوتا ہے کہ محض عذر نہ تھا بلکہ واقعی سچ تھا۔ اقبال نے خود اس کتاب کا جو خلاصہ بیان کیا اُس میں سیاروں کے باہمی تعلق پر خاص زور تھا لیکن اس پہلو پر بھی توجہ نہیں دی گئی ہے۔ غور کیا جائے تو تین اندرونی سیارے تین بیرونی سیاروں میں وسعت پاتے ہیں۔ مثلاً چاند جستجو کا سیارہ ہے اور مریخ اُس آزادی کا جو اس کے نتیجے میں حاصل ہوتی ہے۔عطارد دریافت کا مقام ہے تو مشتری اُس عمل کا مقام ہے جو اس دریافت کی روشنی میں ہوتا ہے۔ چنانچہ عطارد پر جمال الدین افغانی قرآن میں سے ایک نئی دنیا تلاش کرنے کی بات کرتے ہیں جس کا مقام مومن کے دل میں ہے۔ مشتری پر قرۃ العین طاہرہ کہتی ہیں، ’’دل کی لہر میں رہنے والے عاشق کے گناہ سے ایک نئی کائنات پیدا ہوتی ہے۔۔۔‘‘: از گناہِ بندۂ صاحب جنوں کائناتِ تازۂ آید بروں! زہرہ ان اوہامِ باطلہ اور فرعونوں کا سیارہ ہے جو انسان کی خودی چرا لیتے ہیں اور زحل ان غداروں کا ہے جو اپنی خودی ان کے حوالے کرتے ہیں۔ جس طرح فلکِ زہرہ پر پرانے زمانے کے دیوتاؤں کے خلاف مولانا روم، اقبال کی غزل پڑھتے ہیں اسی طرح فلکِ زحل پر تازہ خداؤں میں سب سے بڑے یعنی وطن کے خلاف روحِ ہندوستان نوحہ کرتی ہے۔ یہ ان سیاروں کے وہ منفی اصول ہیں جن کی نفی کر کے مثبت اصول معلوم کیے جا سکتے ہیں جو اصل مقصود ہیں۔ اس لحاظ سے زہرہ اثباتِ خودی کا مقام ہے تو زحل اس خودی کو قوم کی خودی میں ضم کر کے حقیقی بیخودی حاصل کرنے کا ہے۔ اقبال جب خدا کے حضور پہنچتے ہیں تو ان کی گفتگو میں تین موضوعات خاص طور پر زیرِ بحث آتے ہیں۔ یہ تخلیق، قوم اور تقدیر ہیں۔ ایک ایسے خاص الخاص لمحے میں یہی موضوعات کیوں زیرِ بحث آئے؟ اس سوال کا جواب اگر اقبال کی تمام تصانیف میں ان تینوں حوالوں کو یکجا کر کے تلاش کیا جائے تو شائد کچھ چونکا دینے والی چیزیں سامنے آ سکیں۔ آخر میں سب سے اہم سوال یہ رہ جاتا ہے کہ اقبال کو جس ابدی زندگی کے حصول کی خواہش تھی وہ انہیں حاصل ہوئی یا نہیں؟ خدا کے ساتھ ان کی ملاقات کا جو حال بیان ہوا ہے وہ تو اس بات پر براہِ راست روشنی نہیں ڈالتا کیونکہ اقبال خدا سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ انہیں دنیا کی تقدیر دکھا دے اور جب یہ تقدیر انہیں دکھائی جاتی ہے تو وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرح بیہوش ہو جاتے ہیں۔ اس میں یہ لطف ضرور ہے کہ اس طرح اُس غلط فہمی کا ازالہ ہو گیا جو نوجوانی کے دنوں میں انہیں ہوئی تھی: اَڑ بیٹھے کیا سمجھ کے بھلا طور پر کلیم طاقت ہو دید کی تو تقاضا کرے کوئی مگر دنیا کی تقدیر جو انہیں دکھائی گئی اس کا مفصل بیان جاویدنامہ میں نہیں ہے بلکہ صرف اتنا ہے کہ انہوں نے دنیا کے زمین و آسمان کو شفق رنگ نور میں ڈوبا دیکھا اور تجلیات جو ان کی روح میں سرایت کر گئی تھیں، ’’اس کے نور نے ہر چھپے ہوئے کو ظاہر کر دیا۔‘‘اگر یہ کتاب نوجوانوں کے لیے نہ ہوتی تو اعتراض کیا جا سکتا تھا کہ اتنے غیرمعمولی تجربے کا اتنا مختصر بیان ناکافی ہے لیکن کتاب کی نوعیت کی وجہ سے یہ اختصار اس کا عیب نہیں بلکہ اس کی خوبی بن جاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ جب ہر چھپا ہوا ان پر ظاہر ہو گیا تھا تو اسے نوجوانوں کی کتاب میں لگے ہاتھوں سمیٹا نہیں جا سکتا تھا۔ اس کی بجائے چھ اشعار کی ایک غزل ہے ’’غیرمادی اور لطیف عالم کے باطن سے‘‘ نوائے سوزناک کی صورت میں بلند ہوتی ہے اور اس پر اقبال کا سفر ختم ہو جاتا ہے۔ تقدیر کا وہ نظارہ جس کی تفصیل جاویدنامہ میں نہیں دی گئی اس کی جھلکیاں اس کے بعد کی تمام تصانیف میں موجود ہیں اور اس کی طرف واضح اشارے کیے گئے ہیں، مثلاً ’مسجدِ قرطبہ‘ میں: عالمِ نو ہے ابھی پردۂ تقدیر میں میری نگاہوں میں ہے اس کی سحر بے حجاب اس قسم کے اشعار اتنے زیادہ ہیں کہ سب کا ذکر کرنا یہاں ممکن نہیں مگر جاویدنامہ ہمارے تجسس کو مہمیز کر دیتا ہے کہ بقیہ تصانیف سے اس قسم کے تمام حوالے اکٹھے کر کے ان کی مدد سے تقدیر کی وہ تصویر صرف دیکھیں ہی نہیں بلکہ محسوس بھی کر سکیں جو روح میں سرایت کر جانے والی تجلیات کے نور سے ظاہر ہوتی ہے۔ واقعی اس قسم کا تجسس پیرانِ کہن کے بس کی بات نہیں۔ یہ نوجوانوں کا کام ہے خواہ ان کی عمر کچھ بھی ہو! پیرانِ کہن کی ایک مثال آربری ہیں جنہوں نے اپنے ترجمے میں سے ’خطاب بہ جاوید (سخنے بہ نژادِ نو) کو یہ کہ کر خارج کر دیا کہ کتاب کے ساتھ اس کا تعلق معلوم نہیں ہوتا۔ حقیقت یہ ہے کہ اقبال کو وہ ابدیت ملی یا نہیں جس کی انہیں جستجو تھی وہ راز اسی تتمہ کے آخر میں جا کر کھلتا ہے یعنی کتاب کے آخری شعر میں یہ بات کھلتی ہے کہ اقبال نہ صرف نئی نسل کو دین مصطفیٰؐ کی حقیقت بتا رہے ہیں بلکہ قبر میں سے بھی اس کے لیے دعا کر سکتے ہیں: سرِّ دینِ مصطفیٰؐ گویم ترا ہم بقبر اندر دعا گویم ترا! اس سے معلوم ہو جاتا ہے کہ اقبال کو منزل مل گئی۔ البتہ اس ابدیت کا ذکر دینِ مصطفیؐ کے راز کے ساتھ یکجا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس راز کا تعلق مسلم قوم اور اس کی بقا کے ساتھ ہے۔ یوں ابدیت کا حصول پھر عشقِ رسول ؐ اور اُس عشق کے حوالے سے مسلم قوم کی زندگی کے ساتھ وابستہ ہو جاتا ہے۔ اس پر غور کرنا چاہیے۔ باب ۶ بال جبریل بالِ جبریل اقبال کی دُوسری اُردو شعری تصنیف تھی۔ یہ پہلی بار ۱۹۳۵ء میں شائع ہوئی۔ اِس میں شامل منظومات پچھلے نو دس برس میں لکھی جاتی رہیں مگر اُن میں سے زیادہ تر آخری دو تین برس میں لکھی گئیں جب اقبال اپنی دو عظیم فارسی شعری تصانیف زبورِعجم(۱۹۲۷) اور جاویدنامہ (۱۹۳۲)، اسلامی فکر کی تشکیلِ جدید پر انگریزی خطبات (۱۹۳۰) اور مسلم لیگ کے الٰہ آباد اجلاس کے خطبۂ صدارت (۱۹۳۰) کی تحریر سے فراغت پا چکے تھے۔ بالِ جبریل کو اِن تحریروں کی روشنی میں پڑھنا چاہیے کیونکہ اِس میں اُن کی طرف خفی اور جلی اشارے موجود ہیں۔ اقبال نے بالِ جبریلکی نظمیں پہلے ایک بڑے سائز کی بیاض میں لکھیں اور پھر وہاں سے اُنہیں صاف مسودے کی شکل میں دوبارہ لکھا۔ یہ دونوں دوستاویزات علامہ اقبال میوزیم (جاویدمنزل) لاہور میں اور ان کی نقول اقبال اکادمی پاکستان میں موجود ہیں۔اقبال کی زندگی میں شائع ہونے والا اس کتاب کا واحد اڈیشن اِسی مسودے کے مطابق تھا۔ اِس کے لیے اُنہوں نے کاتب کو واضح ہدایات دی تھیں یہاں تک کہ خود طے کیا تھا کہ کون سی نظم میں اشعار کے دونوں مصرعے ایک دوسرے کے مقابل اور کون سی نظم میں اوپر نیچے لکھے جائیں گے۔ بالِ جبریل کی ترتیب اُس کی معنوی شکل کا حصہ ہے۔ اُسے نظرانداز کر کے ہم اصل مطلب سے دُور ہو جاتے ہیں۔ اگرچہ ’’بالِ جبریل‘‘ کی ترکیب اقبال نے جاویدنامہ میں فلکِ قمر پر استعمال کی تھی مگر وہاں کسی اور معنی میں تھی کہ نبوت وہ حقیقت ہے جس سے جبریل کے پروں کو بھی خطرہ لاحق ہو جاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ معراج سے متعلق اُس حدیث کی طرف اشارہ تھا جب ایک مقام پر جبرئیل علیہ السلام بھی رُک گئے تھے جہاں سے آگے رسولؐ اللہ کو تنہا جانا تھا۔ البتہ بالِ جبریل کی ترکیب جب کتاب کا عنوان بنتی ہے تو اُس پرغور کرنا ضروری ہے۔ یہ اُس فرشتے کا نام ہے جس کے ذمے پیغمبروں کے پاس وحی لانے کا فریضہ تھا مگر اسلامی تصوف میں جبرئیل کے پَروں کی علامت سے کچھ اور راز بھی وابستہ ہیں۔ اشراقی فلسفے کے بانی شیخ شہاب الدین سہروردی مقتول جنہیں۱۱۹۱ء میں سلطان صلاح الدین ایوبی کے حکم پر سزائے موت دی گئی فارسی میں اُن کی ایک تصنیف آوازِ پرِ جبرئیل ہے۔ اُس میں لکھا ہے کہ جبرئیل کے دو پَر ہیں جن میں سے دایاں خدا کی روشنی سے منور ہے اور اِسے دنیا سے کوئی کام نہیں۔ سچائی کی روشنی اِسی کے ذریعے ہم تک پہنچتی ہے۔ بایاں پَر جبرئیل کی اپنی ہستی کا نمائندہ ہے لہٰذا اِس کی روشنی پر عدم کے اندھیرے کے دھبے ہیں جیسے چاند کے پُرنوُر چہرے پر داغ۔ اِس بائیں پر کا سایہ پڑتا ہے تو دنیائے وہم و فریب جنم لیتی ہے۔ آوازِ پرِ جبرئیل اقبال کی نظر سے گزری ہو یا نہیںمگر وہ شیخِ مقتول کے فلسفے سے اِتنے واقف ضرور تھے کہ۱۹۰۷ء میں اپنے پی ایچ ڈی کے مقالے میں اُن کی فکر پر تفصیل سے لکھا تھا اور ۱۹۲۹ء میں تشکیلِ جدید والے خطبات میں بھی اُن کا ذکر کیا تھا۔ بالِ جبریل کے عنوان پر غور کرتے ہوئے ہمیں یہ حوالہ ضرور ذہن میں رکھنا چاہیے۔ جب کبھی اِس موضوع پر تحقیق ہوئی کہ کب کون سی کتب اقبال کے مطالعے میں آئیں تو شائد اِس بات پر بھی روشنی پڑ سکے کہ اپنی کتاب کا عنوان تجویز کرتے ہوئے اقبال کے سامنے کون کون سے صوفیانہ خیالات موجود تھے۔ اِس تاریخی معلومات کے بغیر بھی یہ حوالہ دلچسپ اورغورطلب ہے۔ اقبال نے فہرستِ مضامین شامل کرنا مناسب نہیں سمجھی۔ اِس سے پہلے شائع ہونے والی شعری کتابوں میں سے پیامِ مشرق، بانگِ درا اورجاویدنامہ کے شروع میں فہرستیں موجود ہیں جبکہ اسرارورموز اور زبورِعجم میںنہیں ہیں۔ مؤخرالذکر دراصل مجموعے نہیں بلکہ مسلسل بیانات ہیں۔ بالِ جبریل میں بھی فہرست موجود نہ ہونااِس کتاب کو شروع سے آخر تک ایک ساتھ پڑھنے کی ضرورت کی طرف اشارہ ہے۔ مثال کے طور پر ناولوں کے شروع میں ابواب کی فہرست عام طور پر نہیں ہوتی مگر افسانوں کے مجموعے میں ضرور ہوتی ہے تو اِس کی وجہ یہی ہے کہ ناول شروع سے آخر تک مستقل پڑھا جاتا ہے جبکہ افسانوں کے مجموعے میں سے اپنی پسند کا افسانہ نکال کر اُسے پہلے پڑھ لیتے ہیں۔ کہا جا سکتا ہے کہ جاوید نامہ بھی ایک مسلسل کتاب ہے تو پھر اُس کی ابتدا میں اُنہوں نے فہرست کیوں شامل کی؟ شائد وہاں موضوعات کی ندرت کا تقاضا تھا کہ قارئین کو شروع ہی میں اُن کی ایک جھلک دکھا کر بتا دیا جائے کہ یہ کتاب کسی دوسرے جہان سے تعلق رکھتی ہے۔ بالِ جبریل کے اصل معانی تک پہنچنے کے لیے کتنی نزاکتوں پر نظر رکھنی ضروری ہے اِس کا اندازہ سنسکرت شاعر بھرتری ہری کے اُس شعر سے لگانا چاہیے جس کا ترجمہ اقبال نے کتاب کے شروع میں یوں کیا ہے: پھول کی پتّی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر مردِ ناداں پر کلامِ نرم و نازک بے اثر ۱ بالِ جبریلکے شروع میں منظومات ہیں (جنہیں عام طور پر غزل سمجھا جاتا ہے) جن کے نمبرشمار سولہ تک پہنچ کر دوبارہ ایک سے شروع ہو جاتے ہیں۔ جب سے کلامِ اقبال پر کاپی رائٹ ختم ہوئے ہیں ناشروں نے اپنی مرضی سے اِن منظومات پر غزلیات کا عنوان دے دیا ہے۔ میرے خیال میں یہ غلط ہے۔ زبورِ عجم کی منظومات کی طرح اِن میں سے بھی بعض غزل کے مروجہ سانچے پر پوری نہیں اُترتی ہیں اور اقبال کی زندگی میں اُن کے دوستوں مثلاً سید سلیمان ندوی نے اِقبال کی اِس قسم کی چیزوں کو غزل نما ٹکڑے کہا تھا۔ اقبال نے مسودے کی بعض ہدایات میں کاتب کی سہولت کے لیے انہیں غزل بھی لکھا مگر وہ ہدایات اشاعت کے لیے نہیں تھیں۔ اشاعت میں اِنہیں غزل نہیں کہا۔ وضاحتی نوٹ بھی اس قسم کے ہیں مثلاً ’’لندن میں لکھے گئے،‘‘ گویا مذّکر کے استعمال سے انہیں اشعار قرار دیا ہے غزل نہیں۔ تاہم اِنہیں غزل کَہ سکتے ہیں یا نہیں، میں یہ لسانی بحث دُوسرے ماہرین کے لیے چھوڑنا چاہوں گا۔ مجھے دو باتوں پر اِصرار ہے: ۱ بالِ جبریلکے مطبوعہ نسخوں میں یہاں غزل کا عنوان ڈالنا مصنف کے منشا کے خلاف ہے۔ ۲ منظومات نمبر ۱ سے ۱۶ کے اشعار کو غزل کے اجزأ کی طرح فرداً فرداً پڑھنے سے معانی ادھورے رہ جاتے ہیں۔ اِن سولہ ٹکڑوں میں ایک مستقل مضمون بیان ہوا ہے اور یہی وجہ ہے کہ نمبر ڈالے گئے ہیں (بانگِ درا اور پیامِ مشرق کی غزلوں پر نمبر نہیں ہیں)۔ چنانچہ یہ نمبر ۱۶ کے بعد دوبارہ ایک سے شروع ہوتے ہیں جب نیا مضمون شروع ہوتا ہے۔ یہ بات عام طور پر جلدی سمجھ میں آ جاتی ہے کہ پہلی منظومات میں خدا سے اور اگلی میں انسان سے خطاب ہے (زبورِ عجم میں بھی ایسا ہی ہے)۔ نیز مسودے میں کاتب کے لیے واضح ہدایت موجود تھی کہ بعض رباعیات کو پہلے حصے میں شامل کیا جائے۔ اِن میں بھی خدا سے خطاب ہے۔ بالِ جبریلکا پہلا شعر بہت مشہور ہے اور عجیب و غریب غنائی تاثر رکھتا ہے: میری نوائے شوق سے شور حریمِ ذات میں غلغلہ ہائے الاماں بت کدۂ صفات میں اگرہم یہاں ایک لمحہ رک کر پوچھیں کہ یہ بات کون کہہ رہا ہے اور کس موقع پر کہہ رہا ہے اور کسی وجہ سے یہ جواب تسلیم کر لیں کہ یہ بات کہنے والا آدم یا پہلا انسان ہے اور یہ بات وہ ابتدائے آفرینش یعنی اپنی تخلیق کے موقع پر کہہ رہا ہے تو نہ صرف اس ٹکرے کے معانی آپس میں مربوط ہو جاتے ہیں بلکہ اس حصے کے تمام سولہ ٹکڑے ایک مسلسل کہانی بن جاتے ہیں، یعنی ابتدائے آفرینش سے دورِ حاضر تک۔ شرحوں میں حریمِ ذات اور بت کدۂ صفات کے معانی خوب بیان کیے گئے ہیں۔ یہ بالترتیب لاہوت اور جبروت کی دنیائیں ہیں۔ قدیم فارسی شاعر نظامی گنجوی نے بھی خمسہ یعنی پانچ مثنویوں کے مجموعے میں اِنہیں پہلی دو مثنویوں مخزن الاسرار اور خسرو و شیریں کا موضوع بنایا تھا۔ حریمِ ذات میں خدا کے سوا کسی کی موجودگی نہیں اور وہاں وہ اپنی ذاتِ واحد میں موجود ہے۔ صفات سے مراد خدا کے جلوے ہیں جو ہمیں دنیا میں عام طور پر نظر آتے ہیں۔ انسان کے پیدا ہونے سے حریمِ ذات میں شور ہوا ہے (پیدایش پر شور ہوتا ہی ہے) اور بتکدۂ صفات میں غلغلہ مچ گیا ہے کیونکہ اس بتکدے کو درہم برہم کرنے والا پیدا ہو گیا ہے - یاد رہے کہ’’علم الاسمأ‘‘ ایک طرح سے آدم کی سرشت میں تھا! یہ ذرا عجیب معلوم ہوتا ہے کہ انسان کی پیدایش خدا کے حکم سے ہوئی ہے مگر یہ نوائے شوق کو اپنی طرف منسوب کر رہا ہے۔ اِس کی وضاحت جاویدنامہ سے ہوتی ہے۔ وہاں بھی ابتدائے آفرینش سے کتاب کا آغاز ہوتا ہے اور چیزوں کے وجود میں آتے ہی یہ عالم ہوتا ہے کہ: ہر کجا از ذوق و شوقِ خودگری نعرۂ ’من دیگرم، تو دیگری‘ یہ خودگری کا ذوق و شوق ہی ہے جسے آدم اپنی طرف منسوب کر رہا ہے۔ وہ نوائے شوق بھی اِسی سے ہے۔ حقیقت میں یہ آواز اگر اُس ساز کی ہے جو حریمِ ذات میں براجمان ہے تو رومی کی بانسری میں اور اقبال کی بانسری میں اتنا فرق ضرور ہے کہ یہاں ’من دیگرم، تو دیگری‘ کا نشہ ایک بے خودی کے طور پر ہی سہی، ایک خودفریبی کے طور پر ہی سہی، مگر موجود ضرور ہے اور جو لوگ دُوری کا رونا رونے والے کی فریادسے موسیقی کی طرح لطف اندوز ہوتے ہیں اُن میں خود فریاد کرنے والا بھی شامل ہے (اِس فرق سے رومی کے مقام میں کمی واقع نہیں ہوتی، شائد اقبال کے مقام میں کمی آتی ہو)۔ خدا سے دُوری اور قربت کا یہ تضاد، اُس کے وجود سے متعلق ہونے اور اپنا وجود برقرار رکھنے کی کشمکش اور ِاِس پیچ و تاب کا حقیقت کے سامنے کوئی معانی نہ رکھنا یہ تمام کیفیات گیسوئے تابدار والے تیسرے ٹکڑے میں خوب کھل کر بیان ہوں گی : تُو ہے محیطِ بیکراں، میں ہوں ذرا سی آبجو یا مجھے ہمکنار کر یا مجھے بیکنار کر! پہلے ٹکڑے کی طرف واپس آتے ہیں۔ یہ بات تسلیم کرنے سے کہ جاویدنامہ کی طرح بالِ جبریل کا آغاز بھی ابتدائے آفرینش سے ہو رہا ہے، اس ٹکڑے کے بقیہ اشعار کے معانی وسیع ہو جاتے ہیں۔ مثلاً : حور و فرشتہ ہیں اسیر میرے تخیلات میں میری نگاہ سے خلل تیری تجلّیات میں یہ بات کسی ان دیکھی چیز کے بارے میں دعویٰ نہیں ہے بلکہ حور و فرشتہ اُس جنّتِ ماویٰ میں شاعر کے اردگرد چل پھر رہے ہیں۔ شاعربیانِ واقعہ کر رہا ہے کہ یہ نورانی صورتیں جو نظر آرہی ہیں یہ ُاس کے تخیل میں اسیر ہو گئی ہیں۔ اِسی طرح جن تجلیات کا وہ ذکر کر رہا ہے جن میں اس کی نگاہ سے خلل آ رہا ہے وہ بھی سامنے موجود ہیں۔ گرچہ ہے میری جستجو دیر و حرم کی نقش بند میری فغاں سے رستخیز کعبہ و سومنات میں یہ پیشین گوئی ہے۔انسان کی جستجو نے ابھی کعبہ اور سومنات کی تصویریں بنانا شروع نہیں کی ہیں اور یہ نہیں کہا جا رہا کہ ایسا ہوا ہے بلکہ یہ کہا جا رہا ہے کہ ایسا ہے - گویا اِمکان کو حقیقت کے انداز میں بیان کر دیا گیا ہے۔ یاد رہے کہجاویدنامہ میں بھی جہاں انسان کی تخلیق کی پیشین گوئی ہو رہی ہے وہاں اس کے معجزات کے لیے بعض اوقات اسی طرح کے صیغے استعمال کیے گئے ہیں! اگلے شعر سے ذہن اُن واقعات کی طرف جاتا ہے کہ ایک طرف تو انسان نے کائنات کی ہر چیز کے درست نام بتا دئیے جس پر خدا نے فرشتوں کو اُسے سجدہ کرنے کا حکم دیا اور دوسری طرف اس کے بعد انسان اُسی ابلیس کے بہکاوے میں آگیا جس نے سجدہ کرنے سے انکار کیا تھا: گاہ مری نگاہِ تیز چیر گئی دلِ وجود گاہ الجھ کے رہ گئی میرے توہمات میں یہاں اُن توہمات کی طرف ذہن جاتا ہے جنہیں ابلیس نے آدم کی فطرت میں تلاش کر کے فائدہ اٹھایا تھا یعنی یہ کہ شجرِ ممنوعہ کا پھل کھانے سے ہمیشہ زندہ رہو گے، فرشتے بن جاؤ گے، وغیرہ وغیرہ۔ آخری شعر ہبوط کے حکم پر انسان کا تبصرہ ہے: تُو نے یہ کیا غضب کیا، مجکو بھی فاش کر دیا میں ہی تو ایک راز تھا سینۂ کائنات میں خدا نے انسان کو زمین پر بھیج کر سزا نہیں دی بلکہ اپنا راز فاش کرنے کا سامان کر لیا۔صرف انسان اِس کائنات کے سینے میں ایک راز تھا۔مثلاً انسان کی تخلیق سے پہلے فرشتوں نے کہا تھا کہ انسان بڑا خونزیز ہوگا تو خدا نے یہ کہہ کر بات ختم کر دی تھی کہ جو میں جانتا ہوں وہ تم نہیں جانتے۔ انسان کہہ رہا ہے کہ اب وہ بات ظاہر ہو جائے گی جو پہلے صرف خدا جانتا تھا اور فرشتے نہیں جانتے تھے۔ وہ بات کیا ہے؟ انسان کے وہ کون سے مضمرات ہیں جو صرف علمِ الٰہی میں تھے اور ایسے عظیم الشان کہ فرشتوں کو بھی ان کا پہلے سے علم نہیں تھا؟ اِس کا جواب اگلے ٹکڑوں میں بتدریج سامنے آئے گا۔بالِ جبریل کا ادبی حسن یہی ہے کہ اس میںموضوع کے لوازمات خود متن میں سے آتے ہیں مگر اُسے مربوط کر کے پڑھنا لازمی ہے۔ اب دوسرے ٹکڑے پر آئیے: اگر کج رو ہیں انجم، آسماں تیرا ہے یا میرا؟ مجھے فکرِ جہاں کیوں ہو، جہاں تیرا ہے یا میرا؟ پورے ٹکڑے کا مضمون وہی ہے جو ایک اور نظم ’روحِ ارضی آدم کا استقبال کرتی ہے‘ میں زیادہ تفصیل کے ساتھ بیان ہوا ہے۔ وہاں نظم کی آزادی ہے یہاں تغزل کا انجذاب ہے۔اس کے علاوہ اگرچہ موضوع ایک ہے مگر معرضِ بحث الگ الگ ہیں۔ انسان زمین پر آ کر آسمان کی طرف دیکھتا ہے تو شائد خالق کا یہ بھید اُس پر کھل جاتا ہے کہ یہ آسمان جس کی روشنیوں کی بڑی دھوم دھام تھی درحقیقت اس کے چاند ستارے سب ٹیڑھے میڑھے ہیں اگر انسان کی نظر سے دیکھا جائے (جو اُس دیکھنے والے کی نظر ہے جو اپنے آپ کو نورِ حق سے دیکھ چکا ہے)۔ دُنیا میں ہر چیز ناتراشیدہ ہے جس کے پتھروں میں سے انسان کو شیشہ بنانا ہے اور جس کے زہر میں سے نوشینہ نکالنا ہے مگر ایک ضدی بچے کی طرح جسے اسکول جانا اِس لیے ناگوار گزرتا ہے کیونکہ والدین سے دُور نہیں ہونا چاہتا اور شائد ماں باپ کے سرزنش کرنے پر ذرا سا ناراض بھی ہے، انسان بھی ابھی یہ ذمہ داری اٹھانے میں پس و پیش کر رہا ہے۔ شائد انسان کو لامکاں سے مکاں میں بھیج کر خدا مطالبہ کر رہا ہے کہ اپنی ریاضت سے درجے بلند کر کے دوبارہ لامکاں میں آنے کی فکر کرے جس پر انسان آمادہ نہیں: اگر ہنگامہ ہائے شوق سے ہے لامکاں خالی خطا کس کی ہے یارب! لامکاں تیرا ہے یا میرا؟ اِس سے اگلا شعر ایک قسم کا لطیف طنز ہے جس کی ایمائیت واضح ہے۔ اُس کے بعد والے شعر کی عام طور پر جو تشریح کی جاتی ہے مجھے اُس سے اختلاف ہے: محمدؐ بھی ترا، جبریل بھی، قرآن بھی تیرا مگر یہ حرفِ شیریں ترجماں تیرا ہے یا میرا؟ عام طور پر شارحین نے کہا ہے کہ حرفِ شیریںسے اقبال کی مراد اُن کا اپنا کلام ہے یا پھر جذبۂ عشق وغیرہ۔ میرے خیال میںاس شعرمیں ادبی حسن اُسی وقت پیدا ہوتاہے جب ہم یہ مراد لیں کہ حرفِ شیریں سے بھی قرآن ہی کی طرف اشارہ ہے ۔ کم سے کم ایک شارح نے پچاس ساٹھ برس پہلے یہ مفہوم لیا تھا مگر اکثر نے اُن سے اتفاق نہیں کیا۔ قرآن خدا کا کلام ہے جسے اُس کا معتبر فرشتہ خدا کے ایسے محبوب بندے پر لایا ہے جو معصوم ہے اور گناہگاروں خطاکاروں کو جس قسم کی کشمکش اور ٹوٹ پھوٹ کا ہر روز سامنا رہتا ہے اُس سے بلند ہے۔ پھر بھی یہ کلام ہم جیسوں کے دل کو سکون پہنچاتا ہے جیسے ہماری ہی آواز ہو تو پھر از کجا می آید ایں آوازِ دوست؟ اس طرح گویا یہ کہنا مقصود ہے کہ خدا چاہے انسان کو ظلوماً جہولاً کہہ کر معتوب کرے اور لامکاں سے دُور کسی بنجر سیارے پر چھوڑ دے مگر انسان کی اصل تو خدا کی ذات ہی ہے چنانچہ جب صدیوں بعد خدا اپنا خاص کلام نازل کرتا ہے تو اُس کلام سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ وہ جو آسمانوں کے اُس طرف بیٹھا ہے شہ رگ سے بھی زیادہ قریب کس طرح ہے۔ اِس پورے ٹکڑے میں انسان اپنے زمین پر بھیجے جانے پر ناخوشی کا اظہار کر رہا ہے اور ایک ایسے عاشق کی طرح جسے محبوب نے بزم سے اٹھا دیا ہو وہ محبوبِ حقیقی سے اُس قسم کی باتیں کر رہا ہے جنہیں ہمارے روایتی شعرأ عام طور پر محبوبِ مجازی سے ’’تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو‘‘ قسم کے مضامین میں کیا کرتے تھے۔ اقبال کے بعد اور شاعروں نے بھی خدا سے بے تکلف ہونے کی کوشش کی ہے مگر اُس میں فرق یہ ہے کہ اقبال کہیں بھی پندارِ عاشقانہ سے آگے نہیں گزرتے بلکہ اکثر اُن کے ناز میں بھی نیاز شامل رہتا ہے۔ اِس ٹکڑے کے آخری شعر میںمجھے صرف ایک لفظ کی تشریح کرنی ہے: اِسی کوکب کی تابانی سے ہے تیرا جہاں روشن زوالِ آدمِ خاکی زیاں تیرا ہے یا میرا؟ یہاں زوال سے مراد ہبوطِ آدم ہے۔ لفظ زوال اُن معانی میں استعمال ہوا ہے جیسے ہم زوالِ آفتاب وغیرہ کہتے ہیں۔کوکب یعنی ستارے سے مراد آدمِ خاکی ہے اور اِسی استعارے کی رعایت سے آدمِ خاکی کے ہبوط کو زوال کہہ دیا ہے کیونکہ سب سے بڑے ستارے یعنی سورج کے نیچے آنے کو عام طور پر زوال کہتے ہیں۔ اِس پورے ٹکڑے کے مزاج اور معانی سے مطابقت رکھنے والا مفہوم اِس شعر کا یہی ہے کہ اصل روشنی روح کی روشنی ہے نہ کہ چاندستاروں اور سورج کی تو پھر جس وجود میں یہ روشنی تھی یعنی انسان، اُسے زمین پر بھیجنے سے زمین روشن ہو گئی اور آسمانوں کا نقصان ہوا۔ خدا ہی جانے کہ ُاس نے اپنے آسمانوں کا نقصان کیوں گوارا کیا! اِس کے بعد ہم تیسرے ٹکرے پر آتے ہیں تو اچانک یوں محسوس ہوتا ہے کہ کچھ وقت گزر چکا ہے، انسان کے ابتدائی ردِ عمل کا زور و شور اور اُس کے وہ بڑے بڑے دعوے جو اُس نے ابھی کیے تھے وہ سب ماند پڑ چکے ہیں اور ایک انتہائی مقربِ راز عاشق کی طرح جسے اپنے محبوب سے اپنے خاص تعلق پر ناز ہے وہ یہ بات یک سر بھلا کر کہ ابھی ابھی اُس نے کیا کہا تھا اب براہِ راست نیازمندی پر اتر آیا ہے: گیسوئے تابدار کو اور بھی تابدار کر ہوش و خرد شکار کر، قلب و نظر شکار کر! انسان اور خدا کا تعلق اتنا گہرا ہے کہ مزاج کی اِس تبدیلی کے لیے تمہید کی ضرورت نہیں ہے نہ ہی اظہارِ عشق کرنے سے پہلے اپنی پچھلی لاف و گزاف پر معذرت پیش کرنا لازم ہے۔ جب گلہ تھا بے تکلف گلہ کر دیا، اب ہجر کا درد محسوس ہوا ہے تو گھماؤ پھراؤ کے بغیر وصل کی خواہش پیش کر دی: عشق بھی ہو حجاب میں، حسن بھی ہو حجاب میں! یا خود آشکار ہو یا مجھے آشکار کر! یہ بات لائقِ توجہ ہے کہ پہلے شوق کا لفظ استعمال ہوا تھا۔عشق کا لفظ پہلی بار آ رہا ہے۔ گویا پہلا اظہارِ عشق ہے اور اگر آپ بالِ جبریل کو تسلسل سے پڑھتے ہوئے یہاں تک پہنچیں تو یہ اظہارِ عشق اُسی طرح کا تاثر دیتا ہے جیسے کوئی مدتوں کسی کے ساتھ رہنے اور تعلقات میں بڑے اتار چڑھاؤ کے بعد اچانک یہ محسوس کرے کہ اُسے ہمیشہ سے اسی شخص سے محبت تھی مگر شدّت سے احساس اب ہوا ہے۔ پورا ٹکڑا عشق اور نیازمندی میں ڈوبا ہوا ہے مگر آخری دو اشعار میں اقبال پھر اقبال بن جاتے ہیں: باغِ بہشت سے مجھے حکمِ سفر دیا تھا کیوں؟ کارِ جہاں دراز ہے، اب مرا انتظار کر! روزِ حساب جب مرا پیش ہو دفترِ عمل آپ بھی شرمسار ہو، مجھ کو بھی شرمسار کر! اِن شعروں کے بارے میں دو باتیں قابلِ غور ہیں۔ پہلی یہ کہ جب کہانی میں کسی ایسے واقعے کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے جو کچھ دیر پہلے اُسی کہانی میں پیش آیا ہو تو اُس میں ایک خاص لطف پیدا ہوجاتا ہے جو اُس صورت میں پیدا نہیں ہوتا اگر مصنف کسی ایسے واقعے کی طرف اشارہ کرے جو عام طور پر دنیا میں کہیں ہوا تھا مگر جس کا کہانی سے تعلق نہ ہو۔ مثلاً اگر کہانی کے کسی باب میں کوئی کسی سے کہے کہ میں تمہارے ساتھ یہ سلوک اس لیے کر رہا ہوں کیونکہ تم نے بھی میرے ساتھ فلاں معاملہ کیا تھا، تو اس میں قارئین کی دلچسپی بڑھ جائے گی اگر وہ معاملہ کہانی ہی کا ایک حصہ تھا اور پہلے بیان کیا گیا تھا۔ اس طرح کہانی سمٹتی ہے اور ُاس میں شدّت آجاتی ہے ۔ یہاں اقبال نے باغِ بہشت سے حکمِ سفر ملنے کے جس واقعے کی طرف اشارہ کیا ہے اگر ہم بالِ جبریل کو ابتدائے آفرینش اور ہبوطِ آدم کے معانی میں پڑھتے ہوئے آ رہے ہوں تو انسان کا خدا سے یہ بات کہنا ادبی پہلو سے زیادہ معنی خیز ہو جاتا ہے کیونکہ کردار اپنی جو کیفیات بیان کر رہا ہے وہ ہمارے سامنے درجہ بدرجہ تشکیل ہوئی ہیں۔ پہلے انسان پیدا ہوا تھا اور اپنے وجود کی لذت سے سرشار تھا، اُسے خداسے تقرب پر ناز بھی تھا کہ حور و فرشتہ اس کے تخیل میں اسیر تھے، پھر ہبوط کا صدمہ اٹھانا پڑا اور دل شکستگی سے دوچار ہوا، نیازمندی قائم رکھتے ہوئے تھوڑا گلہ شکوہ بھی کیا۔ اب عشق غالب آیا ہے اور اظہارِ عشق ہو رہا ہے مگر دنیا دامن کھینچ رہی ہے اور اُس کی اِس کشمکش پر ہم اُس سے ہمدردی محسوس کر سکتے ہیں کیونکہ ہم اِس کیفیت کی تشکیل کے مرحلوں میں اُس کے ساتھ ساتھ رہے ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ یہاں جو روزِ حساب انسان کا دفترِ عمل پیش ہونے پر انسان کے ساتھ ساتھ خدا کے شرمسار ہونے کی بات آئی ہے اُس کی دلیل اور توجیہہ بھی پچھلے ٹکڑوں میں پیش کی جا چکی ہے۔ چنانچہ اگر اُس قسم کے اشعار کو سامنے رکھیں مثلاً ’’میں ہی تو ایک راز تھا۔۔۔ الخ‘‘ اور ’’مگر یہ حرفِ شیریں ۔۔۔ الخ‘‘ وغیرہ تویہ بات پہلے ہی واضح ہو چکی ہے کہ جب روزِ حساب انسان کا دفترِ عمل پیش ہو گا تو اُس میں انسان اور خدا دونوں کے شرمندہ ہونے کی گنجایش کیونکر ہو گی۔ اِس شعرکی تشریح اِس کے سیاق و سباق میں کرنے سے اِس کی ادبی حیثیت سامنے آتی ہے جو مثال کے طور پر اُس صورت میں سامنے نہیں آتی اگر ہم اپنی مرضی سے تشریح کرنے کی آزادی حاصل کر لیں۔ چوتھا ٹکڑا تیسرے کا تتمہ ہے اور اس میں ایک ایسے عاشق کی جھلاہٹ موجود ہے جو مدتوں محبوب کے دروازے پر آہ و زاری کرنے کے بعد تنگ آجائے: اثر کرے نہ کرے سن تو لے مری فریاد نہیں ہے داد کا طالب یہ بندۂ آزاد یہ تند و تیز لہجہ اب تک کے تینوں ٹکروں سے مختلف ہے اور اگر ہم اس منظوم سلسلے کو انسان کی روحانی تاریخ کے طور پر بھی دیکھ رہے ہوں تو محسوس ہوتا ہے کہ اب انسان ایک مابعدالطبیعاتی اور آسمانی قسم کی ذہنی فضا سے نکل کر اچانک اپنے زمینی ماحول سے منسلک ہو گیا ہے۔ پورے ٹکڑے کی محاکات کا مجموعی تاثر بھی یہی ہے یعنی یہ مشتِ خاک، صرصر،وسعتِ افلاک (جسے زمین پر کھڑے ہو کر دیکھا جا رہا ہے)، لذتِ ایجاد، خیمۂ گل، جفا طلبی، دشتِ سادہ، وغیرہ وغیرہ۔ جملہ معترضہ کے طور پر عرض کرتا چلوں کہ محاکات کی یکسانیت بالِ جبریل کے ہر ٹکڑے میں نمایاں ہے اور اُس ٹکڑے کا مجموعی تاثر قائم کرنے میں مدد دیتی ہے۔ ِاس مضمون میں اِس کی اور مثالیں بھی آئیں گی۔ پانچویں ٹکڑے میں یہی شکایت ایک نئے مرحلے تک جا پہنچتی ہے یعنی انسان یہ مطالبہ کر بیٹھتا ہے کہ اُس کے دل میں جو خدا کا عشق ہے وہ تقاضا کرتا ہے کہ ُاسے بھی خدا کی طرح ہمیشہ قائم رہنا نصیب ہو۔ اسے ہمیشہ کی زندگی چاہیے کیونکہ اُس کا محبوب بھی ہمیشہ رہنے والا ہے اور: کیا عشق ایک زندگیٔ مستعار کا کیا عشق پائیدار سے ناپائیدار کا یاد رہے کہ جاویدنامہ کی تمہیدِ زمینی بھی اِسی خیال سے شروع ہوتی ہے اور بقیہ کتاب اِسی کا جواب ہے۔ اگلے ٹکڑے میں موت کے بعد کے حالات کے بارے میں کچھ اندیشے طاہر کیے گئے ہیں یعنی کہیں ایسا نہ ہو کہ خدا اور انسان کے تعلق سے جو مغالطے ہیں یا یوں کہہ لیجیے کہ ذات تک پہنچنے کے راستے میں جو صفات کے حجابات ہیں وہ مرنے کے بعد بھی قائم رہیں۔ انسان کو خدا کے نظام سے اس قدر اندیشہ نہیں ہے جتنا خود اپنی کمزوریوں سے ڈر لگتا ہے کہ: پریشاں ہو کے میری خاک آخر دل نہ بن جائے! جو مشکل اب ہے یارب پھر وہی مشکل نہ بن جائے! مرنے کے بعد مٹی کا بکھر کر کوئی اور صورت اختیار کر لینا شیکسپئر کے ہیملٹ میں بھی آیا ہے جس سے اقبال یقینا واقف رہے ہوں مگر انہوں نے شعوری طور پر یہ خیال غالب سے لیا ہوگا کیونکہ کئی برس قبل جب پہلی بار غالب کے مزار پر گئے تھے اور وہاں قوال نے غالب کی غزل گائی تھی تو اس شعر پر اُن کی حالت غیر ہو گئی تھی: اڑتی پھرے ہے خاک مری کوئے یار میں بارے اب اے ہوا ہوسِ بال و پر گئی مضمون وہی ہے مگر خیال بہت مختلف ہے۔ غالب کے یہاں سکون ہے اور انجام بخیر ہے۔ اقبال کے یہاں تشویش ہے، اندیشہ ہے اور فکرمندی ہے۔ اِس ٹکڑے کا آخری شعر قابلِ غور ہے۔ جس طرح پہلے ’’زوالِ آدمِ خاکی‘‘ ہبوط کے معنوں میں آیا تھا اور زوال کے وہ معنی تھے جو زوالِ آفتاب وغیرہ کے ہوتے ہیں اب بالکل اُس کے وزن پر’’عروجِ آدمِ خاکی‘‘ کی ترکیب آتی ہے : عروجِ آدمِ خاکی سے انجم سہمے جاتے ہیں کہ یہ ٹوٹا ہوا تارا مہِ کامل نہ بن جائے! عروج اُسی لفظ سے مشتق ہے جس سے معراج نکلا ہے اور بالِ جبریلکے پہلے حصے کی اِس کہانی میں یہ انسان کے روحانی عروج کا مرحلہ ہے۔ اِسے معراج کے تاریخی واقعے سے بھی تعبیر کیا جا سکتا ہے اور انسان کی روحانی ترقی کے ایک عام امکان سے بھی مگر یہ بہرحال انسان کی مادی ترقی کی طرف اشارہ نہیں ہے۔ اِسی طرح مہِ کامل بننے سے مراد اُلوہیت کا مرتبہ حاصل کرنا یا خدا بن جانا ہے۔ کوئی چاہے تو اِسے وُجودی طور پر انسان کا اپنے اصل میں دوبارہ لوٹ جانا بھی سمجھ لے اگرچہ اقبال کے عام خیالات اور بالِ جبریلکہی کے دوسرے مقامات کی روشنی میں یہ معانی بعید ازکار ہوں گے۔ زیادہ قرینِ قیاس یہ ہے کہ یہاں ستاروں کا خوف اور اُن کا وہم بیان کیا جا رہا ہے چنانچہ یہ بحث نہیں ہے کہ انسان واقعی خدا بن سکتا ہے یا نہیں۔ اگر یہ انسان خاص طور پر صاحبِ معراج محمدِ عربیؐ ہے توپھر ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ اقبال اپنی اولین غزلوں میں اکثر کہا کرتے تھے کہ خدا خود محمدؐ کے لباس میں یثرب میں آیا اور اگرچہ اپنے بعد کے کلام میں سے ایسے اشعار نکال دئیے مگر جاویدنامہ میں منصور حلاج کی زبان سے عبدہٗ کی تشریح میں جو نکات کہلوائے ہیں وہ پھر اِس مفہوم سے قریب پہنچ جاتے ہیں۔ ممکن ہے یہاں بھی شاعرانہ لطافت میں بات کو اُس مقام سے قریب پہنچا کر دانستہ رک گئے ہوں۔ شاعرستاروں کی بات کر رہا ہے جو اِس شعر میں ویسے بھی بیچارے بڑے سہمے ہوئے ہیں چنانچہ یہ بحث نہیں کی جا سکتی کہ شاعر کا اپنا نظریہ بھی یہی ہے یا نہیں ہے۔ شعر کی حد تک یہ سہمے ہوئے ستاروں کا وہم ہے۔ ہبوط کی رعایت سے انسان کو ٹوٹا ہوا تارا کہا ہے کیونکہ وہ ایک طرح سے ٹوٹ کر زمین پر گرا تھا - اور ضرورتِ شعری کی حد تک اِس سے بحث نہیں ہے کہ جنتِ ماویٰ زمین پر تھی یا آسمان پر تھی۔ ساتویں اور آٹھویں ٹکڑوں میں پہلی بار کچھ تاریخی استعارے آتے ہیں۔ ساتویں ٹکڑے میں کہا ہے کہ عجم کے لالہ زاروں سے دوبارہ کوئی رومی نہیں اٹھا۔ یہاں ایران اور تبریز کا ذکر ہے۔ اُس سے اگلے ٹکڑے میں ایک خاص ترکیب نظر آتی ہے جو کم سے کم تغزل کی شاعری میں بہت ہی عجیب اور بے ڈھب محسوس ہوتی ہے یعنی ’’تین سو سال سے ہیں ہند کے میخانے بند۔۔۔‘‘ تین سو سال سے کیوں؟ اور اگر ساڑھے تین سو یا پونے چار سو سال سے بند ہوتے تو اُسے کس طرح نظم کیا جاتا؟ یہ شعر پڑھ کر ایک عقیدت مند نے اقبال سے پوچھا بھی تھا کہ تین سو سال پہلے تو جہانگیر کا دورِ حکومت تھا کیا یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اب اُس طرح شراب نہیں پی جاتی جس طرح جہانگیر پیا کرتا تھا؟ اقبال نے جواب میں وضاحت کی تھی کہ یہاں مجدد الف ثانی کی طرف اشارہ ہے۔ یہ تین سو سال والی بظاہر غیرشاعرانہ ترکیب شائد اسی لیے یہاں رکھی گئی ہے کہ پڑھنے والے ذرا رُک جائیں اور محسوس کریں کہ اب ایک خاص زمانے کا ذکر ہو رہا ہے۔ پھر یہاں پہلی بار اقبال نے اپنا نام بھی لیا ہے اور یہ تخلص کا روائتی استعمال نہیں ہے جیسا کہ ہم ابھی دیکھیں گے۔ اب یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ وہ خاص اپنے زمانے کا ذکر کر رہے ہیں۔ ساتویں ٹکڑے سے متعلق صرف چند تصریحات پیش کرنا چاہوں گا۔اس شعر پر نظر ڈالی جائے: حرم کے دل میں سوزِ آرزو پیدا نہیں ہوتا کہ پیدائی تری اب تک حجاب آمیز ہے ساقی! ’’اب تک‘‘ کی معنویت یہ ہے کہ پہلے بھی خدا سے فرمایش کی تھی: عشق بھی ہو حجاب میں، حسن بھی ہو حجاب میں یا خود آشکار ہو یا مجھے آشکار کر! اب پھر یاد دلا رہے ہیں کہ اگر کچھ حجاب اٹھے بھی تھے تو کچھ باقی رہ گئے۔ ساتویں ہی ٹکڑے کے دو شعر ہیں : نہ اٹھا پھر کوئی رومیؔ عجم کے لالہ زاروں سے وہی آب و گِلِ ایراں، وہی تبریز ہے ساقی نہیں ہے ناامید اقبالؔ اپنی کشتِ ویراں سے ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی اِن میں سے دوسرا شعر بے حد مشہور ہے اور عام طور پر اس کے معانی یوں لیے جاتے ہیں کہ اقبال نئی نسل سے مایوس نہیں ہیںبلکہ اگر نوجوانوں کے دل میں تھوڑا سا درد وغیرہ پیدا ہوجائے تو اِن کے کلام پر توجہ دے کراپنی کشتی پار لگا سکتے ہیں، وغیرہ وغیرہ۔ لیکن اگر اِس شعر کو ذرا سوچ سمجھ کر پڑھا جائے تو اِس کے معنی بدل جاتے ہیں۔ یہاں ’’کشتِ ویراں‘‘ سے مراد نئی نسل نہیں ہے بلکہ اقبال نے اپنی شاعری کو کشتِ ویراں کہا ہے جس پر ساقی کا کرم ہو جائے تو اُس میں بھی رومی کے لالہ زاروں کے پھول اگ سکتے ہیں (یہ مضمون اگلے ٹکڑوں میں بار بار ادا ہوا ہے)۔ اقبال نے اپنے فارسی کلام میں اپنی شاعری کو ہمیشہ کِشت یعنی کھیتی سے تشبیہ دی ہے۔ اسرارِ خودی کے شروع میں بھی یہی کہا ہے اور پیامِ مشرق کے اِس قسم کے شعروں میں بھی کہ میرے خیال کی کھیتی سے سو جہاں پھول کی طرح اُگے مگر آپ نے ایک ہی جہان بنایا اور وہ بھی تمّنا کے خون سے: صد جہاں میروید از کِشتِ خیالِ ما چوں گُل یک جہان و آں ہم از خونِ تمّنا ساختی یہ سوچا جا سکتا ہے کہ بالِ جبریل سے پہلے جب وہ اپنے بڑے شاہکار لکھ چکے تھے تو اپنی شاعری کو کشتِ ویراں کیونکر کہہ سکتے ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ ٹکڑا اقبال کی ذہنی زندگی کے کسی ابتدائی دور کی طرف اشارہ کر رہا ہے ،بالکل اُسی طرح جیسے کتاب کے آغاز میں ابتدائے آفرینش کا ذکر یوں نہیں ہوا تھا کہ ’’ہزاروں سال پہلے کی بات ہے۔۔۔‘‘ اس پورے سلسلے میں مختلف ادوار اور حالات میں ایک انسان کے ذہن میں پیدا ہونے والے خیالات کو براہِ راست بیان کیا گیا ہے (شعور کی رَو کی مثال فوراً سامنے آتی ہے مگر اُس کا تعلق نثری افسانے سے ہے لہٰذا اس کے ساتھ تفصیلی موازنہ لاحاصل ہوگا)۔ اقبال نے یہ خواہش کیوں کی کہ ان کی شاعری کی کھیتی ہری بھری ہو جائے؟ کیونکہ اُن کے پاس ایسا پیغام تھا جو اُن کی غلام قوم کو دوبارہ قوت و شوکت عطا کرسکے۔ یہ وضاحت اگلے شعر میں موجود ہے: فقیرِ راہ کو بخشے گئے اسرارِ سلطانی بہامیری نوا کی دولتِ پرویز ہے ساقی! اگلے ٹکڑے میں اور بھی کھل کر کہتے ہیں: لا پھر اک بار وہی بادہ و جام اے ساقی ہاتھ آجائے مجھے میرا مقام اے ساقی تین سو سال سے ہیں ہند کے میخانے بند اب مناسب ہے ترا فیض ہو عام اے ساقی مری مینائے غزل میں تھی ذرا سی باقی شیخ کہتا ہے کہ ہے یہ بھی حرام اے ساقی! گویا اقبال کی مینائے غزل میں مجدد الفِ ثانی کی بچی ہوئی تھوڑی سی مے باقی تھی مگر شیخ نے اُسے نھی حرام قرار دے دیا ہے۔ شیخ صاحب کو ایسی پاکیزہ چیز سے دشمنی کیوں ہے؟ اِس کی وضاحت بالکل اگلے اشعار میں ہو جاتی ہے یعنی تحقیق کا جنگل شیرمردوں سے خالی ہو گیا ہے اور اب صوفی و ملّا کے غلام رہ گئے ہیں۔ عشق کی تیغِ جگرداراڑالی گئی ہے، علم کے ہاتھ میں خالی نیام ہے۔ اگلے دونوں اشعار کو اکٹھا پڑھنا چاہیے: سینہ روشن ہو تو ہے سوزِ سخن عینِ حیات ہو نہ روشن تو سخن مرگِ دوام اے ساقی! تُو مری رات کو مہتاب سے محروم نہ رکھ ترے پیمانے میں ہے ماہِ تمام اے ساقی! یہاں ’’مری رات‘‘ سے شاعر نے اپنے سینے کی طرف اشارہ کیا ہے نہ کہ باہر پھیلی ہوئی رات کی طرف (عیسائی تصوف سے شغف رکھنے والوں کا ذہن سینٹ جان آف دی کراس کی تصنیف ’’ڈارک نائٹ آف دی سول‘‘ کی طرف جائے گا۔ یہ معلوم نہیں کہ اقبال اس سے واقف تھے یا نہیں مگراِس تصنیف نے بہت لوگوں کو متاثر کیا ہے اور اب نئی تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ اس کے مصنف پر اسلامی اثرات بھی تھے)۔ اِن چار مصرعوں کا مفہوم یہ ہے کہ میرے سینے میں رات ہے جسے تو اپنے شراب سے روشن کر سکتا ہے اور ایسا کر دے کیونکہ اگر ایسا نہ ہوا تو میری شاعری مرگِ دوام بن جائے گی جبکہ سینہ روشن ہونے کی صورت میں عینِ حیات ہو گی۔دیکھیے اگلا ٹکرا کس طرح شروع ہوتا ہے: مٹا دیا مرے ساقی نے عالمِ من و تو پلا کے مجھ کو مئے لا الٰہ الّا ھُو درخواست مقبول ہوئی، شرابِ توحید جو پچھلے ٹکڑے میں مانگی گئی تھی وہ مل گئی، اور اس کا اثر سوزِ سخن پر کیا ہوا؟ وہ مرگِ دوام بنا یا عینِ حیات ؟ ملاحظہ کیجیے: جمیل تر ہیں گل و لالہ فیض سے اس کے نگاہِ شاعرِ رنگیں نوا میں ہے جادو! پورا ٹکڑا شعورِ ذات کی مستی سے سرشار ہے۔ پہلے ہمیشہ کی زندگی مانگی گئی تھی اور کچھ اندیشے ظاہر کیے تھے۔ اب اگلے ٹکڑے میں بات ہی کچھ اور ہے: متاعِ بے بہا ہے درد و سوزِ آرزومندی مقامِ بندگی دے کر نہ لوں شانِ خداوندی ترے آزاد بندوں کی نہ یہ دنیا، نہ وہ دنیا یہاں مرنے کی پابندی، وہاں جینے کی پابندی! اقبال کے ذہنی ارتقا سے واقفیت رکھنے والے جانتے ہیںکہ اقبال کی شاعری کے پیامبرانہ دور کی باقاعدہ ابتدا اُس زمانے میں ہوئی جہاں وہ ہجر اور فراق کووصل اور سکون سے بہتر سمجھنے لگے اور اِسی شعور سے گویا مثنوی اسرارِ خودی کا مسالہ تیار ہوا جو اُن کے پیغام کا نقطۂ آغاز تھی۔ اِسی ٹکڑے میں یہ شعر اِس سلسلے کو مسلسل نظم کی طرح پڑھنے والوں کو اچانک چونکا دے گا: زیارت گاہِ اہلِ عزم و ہمّت ہے لحد میری کہ خاکِ راہ کو میں نے سکھایا ذوقِ الوندی کیا اقبال اس سلسلے میں اپنی موت کے تجربے کی پیش بینی کر رہے ہیں؟ یہ درست ہے کہ اگلے چار ٹکڑوں (یعنی نمبر ۱۱، ۱۲، ۱۳ اور ۱۴) میں جابجا ایک ایسی فضا دکھائی دیتی ہے جو بظاہر اِس دنیا کی نہیں ہے۔ اس کے علاوہ اقبال اپنی زندگی پر اس طرح نظر ڈال رہے ہیں جیسے وہ گزر چکی ہو: تجھے یاد کیا نہیں ہے مرے دل کا وہ زمانہ وہ ادب گہِ محبت، وہ نگہ کا تازیانہ یہ بتانِ عصرِ حاضر کہ بنے ہیں مدرسے میں نہ ادائے کافرانہ! نہ تراشِ آذرانہ! اِن دونوں اشعار کو بھی اکٹھا پڑھنا چاہیے۔ اپنے دل کے اُس زمانے کا ذکر کرنے سے، جس میں محبت کی ادب گاہ تھی اور نگاہ کے تازیانے نے دل کو سبق سکھائے تھے، اقبال یہی کہنا چاہتے ہیں کہ چونکہ نئے زمانے کے بت اُس ادب گاہ کی بجائے مدرسے میں تیار ہوئے ہیں اس لیے اُن میں بہت کمی رہ گئی ہے۔ مگر اگلے شعر میں جس فضا کا ذکر ہے کیا وہ جدید دنیا کے ماحول کی نشاندہی کرتی ہے یااس دنیا سے باہر کسی ماورائی فضا کا ذکر کیا جا رہا ہے، مثلاً عالم ارواح یا جاویدنامہکی رعایت سے یوں کہیے کہ وہ فردوس جسے حلاج، غالب اور قرۃ العین طاہرہ جیسے مجذوب ٹھکرا دیا کرتے ہیں: نہیں اِس کھلی فضا میں کوئی گوشۂ فراغت یہ جہاں عجب جہاں ہے، نہ قفس نہ آشیانہ اگرچہ اقبال دُنیا کا ذکر بھی کر رہے ہیں (مثلاً عجم کے میکدوں میں نہ رہی مئے مغانہ) مگر معلوم یوں ہوتا ہے کہ اِس قسم کے واقعات کو وہ عالمِ ارواح سے دنیا پر نظر ڈالتے ہوئے دیکھ رہے ہیں کہ اُن کے ہم صفیر اُن کی نوائے عاشقانہ کی سطحی تفسیریں کر رہے ہیں، وغیرہ وغیرہ۔ اِس کے باوجود شاید اقبال کے خاک و خون سے کوئی نیا جہاں بھی پیدا ہو رہا ہے جس کے لیے وہ کہتے ہیں: مرے خاک و خوں سے تُو نے یہ جہاں کیا ہے پیدا صلۂ شہید کیا ہے؟ تب و تابِ جاوِدانہ اس شعر کے بارے میں یہ وضاحت کرنا بہت ضروری معلوم ہوتا ہے کہ بنیادی طور پر یہ شعر شہادت کے بارے میں نہیں ہے جیسا کہ ہمارے اخبار ات، رسائل اور ٹیلی وژن اِسے بے تکلفی سے نشانِ حیدر کے شہدأ وغیرہ پر منطبق کر دیتے ہیں۔ شاعر یہاں اپنی بات کرتے ہوئے کہہ رہا ہے کہ محض ایک دنیا پیدا کرنے کے لیے خدا نے اُسے ایسی ایسی تکلیفیں سہنے پر مجبور کیا تھا چنانچہ شاعر کو کم سے کم شہادت کا رتبہ تو ضرور ہی ملنا چاہئیے اور جس طرح شہید ہمیشہ زندہ رہتا ہے اُسی طرح شاعر کو بھی تب و تابِ جاودانہ عطا ہونی چاہیے۔ اب رہا یہ سوال کہ دنیا کی تخلیق کے لیے شاعر کو کیا تکلیفیں اٹھانی پڑی ہیں اور کس طرح وہ خدا کو اپنا قرض دار بنا رہا ہے تو یہ اقبال کے یہاں ایک مستقل خیال ہے جس کا ایک فارسی حوالہ اوپر پیش کیا گیا ہے۔ اِشارہ کرنا مناسب ہو گا کہ حضرت علی کا وہ قول کہ انہوں نے اپنے ارادوں کے ٹوٹنے سے اپنے رب کو پہچانا، اقبال کے مستقل ذہنی اثاثے کا حصہ تھا۔ چنانچہ بے تکلف دوست گرامی جن کی کاہلی اور ارادہ کر کے چیزوں کو ادھورا چھوڑ دینے کی عادت مشہور تھی، انہیں ایک خط میں اقبال نے بڑے سے کہا تھا کہ اگر ارادوں کے ٹوٹنے سے خدا کو پہچانا جاتا ہے تو اس زمانے میں آپ سے بڑا عارفِ کامل کوئی نہیں ہو گا۔ مختصر یہ کہ اقبال کے ذہنی پس منظر میں خدا سے یہ شکایتِ رنگیں بار بار دکھائی دیتی ہے کہ یا خدا، یہ آپ نے کیسی دنیا بنائی ہے جس میں ناکامیوں اور صدموں کے بغیر درجات بلند ہوتے نظر نہیں آتے، کیا اپنے آپ کو پہچاننے اور آپ کو پہچاننے کی کوئی آسان صورت نہیں ہو سکتی تھی؟یہ شعر بھی اِسی شکایتِ رنگیں کی ایک صورت ہے۔ اگلے ٹکڑے یعنی نمبر ۱۲ کے اشعار کچھ ایسے ہیں جنہیں دنیوی زندگی پر بھی منطبق کیا جا سکتا ہے اور موت کے بعد کی زندگی کا شاعرانہ بیان بھی سمجھا جا سکتا ہے: ضمیرِ لالہ مئے لعل سے ہوا لبریز اشارہ پاتے ہی صوفی نے توڑ دی پرہیز بچھائی ہے جو کہیں عشق نے بساط اپنی کیا ہے اس نے فقیروں کو وارثِ پرویز اگر انہیں موت کے بعد کی زندگی سے منطبق کریں تو اُس صورت میں جس لالے کا ذکر ہے وہ اپنی روح ہو گی اور مئے لعل خدا کی معرفت ہے جو حجابات اٹھنے کے بعد ملی ہے۔ چنانچہ اب پرہیز کی ضرورت نہیں رہی۔ عشق نے انسان کو بالآخر اس جنت میں پہنچا دیا ہے جہاں بقول حضرت عیسیٰ مساکین ہی وارث بن جائیں گے۔ اسلامی اصطلاح میں جہاں اُن لوگوں کو عیش میسر ہو گا جنہوں نے دنیا میں خدا کا راستہ اختیار کیا تھا اور وہ بادشاہ بے بس اور مسکین ہوں گے جنہوں نے خدا کے حکم سے روگردانی کی تھی۔ اگلا شعراُسی قسم کی بحث و حجت پر مشتمل ہے جو اقبال نے جاویدنامہ میں حلاج، غالب اور طاہرہ سے خدا کے ساتھ کروائی ہے یعنی: پرانے ہیں یہ ستارے، فلک بھی فرسودہ جہاں وہ چاہیے مجھ کو کہ ہو ابھی نوخیز اس کے بعد کے دونوں اشعار بظاہر دنیاوی زندگی سے متعلق ہونے کی بجائے موت کے بعدعالمِ برزخ میں قیامت کا انتظار کرنے یا یا خدا سے سامنا ہونے کے احوال پر زیادہ بہتر منطبق ہوتے نظر آتے ہیں: کسے خبر ہے کہ ہنگامۂ نشور ہے کیا؟ تری نگاہ کی گردش ہے میری رستاخیز! نہ چھین لذّتِ آہِ سحرگہی مجھ سے نہ کر نگہ سے تغافل کو التفات آمیز اِن میں سے دوسرے شعر کا یہ مطلب بھی لیا جا سکتا ہے کہ اقبال موت کے بعد خدا سے وصال نہیں چاہتے کیونکہ اس طرح جدائی کی تڑپ اور اس میں پیدا ہونے والی خواہش، جستجو، آرزو وغیرہ سب ختم ہو جائیں گی اور خدا کے عشق میں جدائی کے مراحل انہیں اتنے عزیز ہو گئے ہیں کہ اب شامِ وصال گوارا نہیں۔ دشواری یہ ہے کہ اِسی ٹکڑے کے شروع میں بہار کا ذکر بھی ہے جس کی وجہ سے ہم اِسی شعر کی یہ تشریح بھی کر سکتے ہیں کہ اقبال خدا کے جس التفات کی بات کر رہے ہیں وہ فردوسِ بریں میں خدا کی نگاہ سے پیدا نہیں ہوا بلکہ اسی دنیا میں موسمِ بہار کی اُن نے رنگیوں کابیان ہے جن میں دیکھنے والے خدا کا جلوہ دیکھ سکتے ہیں۔ چنانچہ اس ٹکڑے کے پہلے دو اشعار جنہیں ہم نے اوپر درج کیا ہے وہ اِس روشنی میں بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ اُس صورت میں لالہ سے مراد روح نہیں ہو گی بلکہ سچ مچ کی بہار میں کھلے ہوئے پھول ہی مراد ہوں گے۔ ’’اشارہ پاتے ہی‘‘ کی ترکیب دل فریب ہے۔ چونکہ شراب پر پابندی صرف اس دنیا تک ہے اور جنت میں یہ پابندی اٹھ جائے گی تو صوفی نے بہار کی آمد سے یہی مطلب لیا ہے کہ وہ جنت جس کا انتظار تھا وہ آگئی ہے۔یہ اس لیے کیونکہ خزاں ایک طرح سے دنیا کی موت ہوتی ہے یعنی قیامت ہوتی ہے۔ بہار کی آمد قیامت کے بعد دنیا کا دوبارہ پیدا ہونا ہے۔ بس یہی وہ ’’اشارہ‘‘ ہے جسے پا کر صوفی نے شراب کو حلال سمجھا ہے۔ یہاں غور کیجیے کہ یہ اشارہ پانے والا زاہد، ناصح اور شیخ بھی ہو سکتا تھا (اور شائد اقبال سے کم تر درجے کا شاعر یہاں اُنہی میں سے کسی کا ذکر کرتا)۔ مگر اقبال صوفی کی بات کر رہے ہیں یعنی وہ جو دنیا کے ظاہر میں حقیقیت کے باطن کو دیکھنے پر مائل رہتاہے۔ بہار کو قدرت کی طرف سے حیات بعدالموت کا اشارہ سمجھنا اور ضمیرِ لالہ میں مئے لعل تلاش کر کے خدا سے راضی ہو جانا کہ یہی جنت کافی ہے، یہ لطیف اشارے صرف صوفی ہی سے تعلق رکھتے تھے اور ملا یا زاہد یا ناصح کے روایتی کردار سے میل نہیں کھاسکتے تھے۔ یہاں پرہیز توڑنے کا ذکر طنز نہیں بلکہ توصیف ہے۔ اگلے ٹکڑے کے پہلے شعر میں یوں لگتا ہے جیسے کسی پچھلے واقعے کی طرف اشارہ کیا جا رہا ہے جس کا بیان اوپر گزر چکا ہو: وہی میری کم نصیبی، وہی تیری بے نیازی! مرے کام کچھ نہ آیا یہ کمالِ نے نوازی! اِس میں کون سے کم نصیبی کی بات ہو رہی ہے؟ لفظ ’’وہی‘‘ کا اشارہ تو یہ بتاتا ہے کہ پہلے بھی اس کا ذکر ہوا ہوگا۔ میرے خیال میں یہ کم نصیبی وہی ہے جس کے لیے ٹکرے نمبر ۵ میں بڑے زوروشور سے واویلا کیا گیا تھا، یعنی انسان کا فانی ہونا۔ یاد رہے کہ جاویدنامہ جیسی معرکۃالآرا کتاب جس چھوٹے سے واقعے سے شروع ہوتی ہے وہ بھی یہی ہے کہ شاعر دریا کے کنارے جا کر اپنے فانی ہونے کا رونا روتا ہے اور اس زور شور سے فریاد کرتا ہے کہ نظامِ کائنات زیروزبر ہو جاتا ہے ۔ چنانچہ اقبال کو خدا سے اِسی بے نیازی کی شکایت ہے (جیسا کہ بالِ جبریل ہی کی ایک اگلی نظم میں کہا جائے گاکہ:) ’’اپنے لیے لامکاں، میرے لیے چارسو‘‘۔ یہاں بھی دیکھیے، اگلا ہی شعر ہے: میں کہاں ہوں تو کہاں ہے؟ یہ مکاں کہ لامکاں ہے؟ یہ جہاں مرا جہاں ہے یا تری کرشمہ سازی؟ یہ شعر اُس صورت میں زیادہ مزہ دیتے ہیں جب ہم اس سلسلے کو مسلسل پڑھ رہے ہوں اور اس مقام پر شاعر کو دنیا کی زندگی گزارنے کے بعد آسمانوں سے گزرتے ہوئے خدا کی جانب بڑھتا ہوا تصور کر رہے ہوں۔ اِس سے اگلے شعر کو ایک گزری ہوئی زندگی کا بیان بھی سمجھا جا سکتا ہے اور اس میں جس کشمکش کا ذکر ہے وہ شائد اِسی مسئلے کو حل کرنے کے لیے ہوتی رہی کہ ’’میں کہاں ہوں، تُوکہاں ہے؟‘‘: اِسی کشمکش میں گزریں مری زندگی کی راتیں کبھی سوز و سازِ رومیؔ، کبھی پیچ و تابِ رازیؔ! اِس ٹکڑے اور اِس سے اگلے ٹکڑے کا یہی مزاج ہے کہ اِنہیں بعد الموت کی دنیا یا جاویدنامہ کی دنیا کا بیان بھی سمجھا جا سکتا ہے اور دنیوی زندگی کے حوالے سے بھی دیکھا جا سکتاہے۔ اگلا ٹکڑا بہت مشہور ہے اور کم سے کم پہلے چار اشعار میں سے دو دو اشعار کو ساتھ ملا کر پڑھا جائے تب ہی مطلب واضح ہوتا ہے۔ عام غزل کی طرح انہیں الگ الگ پڑھنے سے پورے معانی سامنے نہیں آتے: اپنی جولاں گاہ زیرِ آسماں سمجھا تھا میں آب و گِل کے کھیل کو اپنا جہاں سمجھا تھا میں بے حجابی سے تری ٹوٹا نگاہوں کا طلسم اِک رِدائے نیلگوں کو آسماں سمجھا تھا میں اپنی جولاں گاہ کو زیرِ آسماں سمجھنے اور آب و گِل کے کھیل کو اپنا جہاں سمجھنے کی غلط فہمی اُس وقت ختم ہوئی جب محبوب کی بے حجابی سے نگاہوں کا طلسم ٹوٹا اور معلوم ہوا کہ یہ نیلی چادر جو زمین پر چھائی ہوئی ہے یہ پرواز کی حد نہیں ہے بلکہ اس کے دوسری طرف بھی پہنچا جا سکتا ہے۔ اگلے دو اشعار کو بھی اکٹھا پڑھنا چاہیے: کارواں تھک کر فضا کے پیچ و خم میں رہ گیا مہر و ماہ و مشتری و ہم عناں سمجھا تھا میں عشق کی اِک جَست نے طے کر دیا قصہ تمام اِس زمین و آسماں کو بیکراں سمجھا تھا میں پہلے مہروماہ و مشتری کو ہم عناں سمجھامگر پھر معلوم ہوا کہ یہ کارواں توفضا میں گردش کرتا رہتا ہے اوراُن کے ساتھ چلنے میں صرف تھکن ملے گی، منزل نہیں ملے گی کیونکہ جو منزل شاعر کی ہے وہاں یہ ستارے سیارے وغیرہ نہیں پہنچتے۔ اِن اجرامِ فلکی کے حوالے سے دنیا کو دیکھتے ہوئے کائنات کو عبور کرنا مشکل دکھائی دیا یعنی یہ بیکراں معلوم ہوئی مگر پھر عشق کی ایک جست نے تمام قصہ طے کر دیا۔ یہ گویا وہی عقل کو چھوڑ کر عشق کو راہنما بنانے یا رازی کے مکتب سے نکل کر رومی کا مرید ہونے کی بات ہے جسے اقبال نے جابجا کہا ہے۔ مہروماہ و مشتری کو ہم عناں سمجھنے سے مراد سائنس اور ظاہری علوم کے ذریعے خدا تک پہنچنے کی کوشش ہے جو کامیاب نہیں ہوتی۔ عشق سے مراد وجدان اور روحانیت کی مدد لینا ہے جس میں انسان کا ادراک کائنات کی حدود سے نکل کر معرفت کی منزل پر پہنچتا ہے۔ اگلے ٹکڑے یعنی نمبر ۱۵ کا موضوع یہی ہے: اِک دانشِ نورانی، اِک دانشِ بُرہانی ہے دانشِ بُرہانی، حیرت کی فراوانی! یہ حیرت کی فراوانی وہی کیفیت ہے جس کے لیے اوپر کہا گیا کہ ستاروں سیاروں کے قافلے میں شامل ہو کر محض ایک دائرے میں گردش رہے گی، کائنات کو مسخر کرنے کی کوئی صورت نہیں ملے گی اور بالآخر تھکن محسوس ہو گی۔یاد رہے کہ شیخ فریدالدین عطار کی منطق الطیر میں خدا کی تلاش کے سفر میں سات دشوار وادیوں میں سے چھٹی وادی حیرت کی وادی ہے۔ وہاں یقین کی دولت ہاتھ سے جانے کا خطرہ ہوتا ہے اور بے یقینی ایسی کہ اپنے شبہات پر بھی شبہات محسوس ہوتے ہیں۔ اگر ہم اِس سلسلے کو یوں پڑھ رہے ہوں جیسے ٹکڑے نمبر ۱۰ میں اقبال اپنی موت کے تجربے کا ذکر کر کے اُس کے بعد حیات بعدالموت سے گزر رہے تھے تو اس ٹکڑے کا اگلا شعر ذرا مشکل پیدا کرتا ہے کیونکہ شاعر ابھی تک جسم کی قید میں دکھائی دیتا ہے: اِس پیکرِ خاکی میں اِک شے ہے، سو وہ تیری میرے لیے مشکل ہے اس شے کی نگہبانی! اس شعر کی ایک اور تشریح بھی ممکن ہے۔ یعنی یہ بھی موت کا بیان ہے۔ عطار کی مَنطِقُ الطَّیر میں حیرت کی وادی کے بعد آخری امتحان فقر اورفنا کی وادی سے گزرنے کا ہوتا ہے۔ کیا یہی منزل ہے جسے اقبال کہہ رہے ہیں کہ اس پیکرِ خاکی میں جو چیز خدا کی تھی وہ اُسے لوٹا رہے ہیں؟ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس کے بعد کے باقی تمام اشعار اور اگلا ٹکڑا (جو اس سلسلے کا آخری ٹکڑا ہے) کچھ اس طرح ہے جیسے اقبال اپنی زندگی کا حساب دے رہے ہوں۔ نکیرین کی طرف سے لگائے ہوئے الزامات پر وہ بڑے جارحانہ انداز میں اپنا دفاع کر رہے ہوں اور براہِ راست خدا کے سامنے سوال اٹھا رہے ہوں: اب کیا جو فغاں میری پہنچی ہے ستاروں تک تُو نے ہی سکھائی تھی مجھ کو یہ غزل خوانی ہو نقش اگر باطل تکرار سے کیا حاصل کیا تجھ کو خوش آتی ہے آدم کی یہ ارزانی؟ مجھ کو تو سکھا دی ہے افرنگ نے زندیقی اس دَور کے ملّا ہیں کیوں ننگِ مسلمانی! تقدیر شکن قوت باقی ہے ابھی اس میں ناداں جسے کہتے ہیں تقدیر کا زندانی! الحاد، کفر، بدعت یا اسی قسم کے کسی اور لفظ کی بجائے ’’زندیقی‘‘ کے الزام سے ایک خاص لطف پیدا ہوتا ہے اگر یاد رکھا جائے کہ زندیق قدیم ایران کا ایک مکتبِ فکر تھا جس پر غلط قسم کے مذہبی عقائد رکھنے کا الزام تھا۔ اقبال کہہ رہے ہیں کہ اُن پرافرنگ یعنی یورپ سے زندیقی سیکھنے کا الزام ہے۔ اُنہوں نے یورپ میں تعلیم کے دوران جس موضوع پرمقالہ لکھ کر ڈگری حاصل کی تھی وہ موضوع ہی قدیم ایران میں الٰہیات پر تحقیق تھا اور مقالے کا عنوان تھا: The Development of Metaphysics in Persia اس لحاظ سے اقبال نے اپنے اوپر جو افرنگ سے زندیقی سیکھنے کی پھبتی کسی ہے اس کی برجستگی کی داد دینی چاہیے۔ البتہ اس الزام کے جواب میں وہ اپنا دفاع بالکل اُسی طرح کرتے ہیں جس طرح کچھ عرصہ بعد ضربِ کلیم کی ایک نظم میں انہوں نے مسولینی سے اُس کا دفاع کروایا تھا یعنی مخالفین مجھ پر جو الزام لگا رہے ہیں انہیں دیکھنے کی بجائے اِس پر غور کیجیے کہ اُن مخالفین کا دامن بھی انہی غلطیوں سے داغدار ہے۔ افرنگ سے زندیقی سیکھنے پر خدا کے سامنے جواب دِہ ہونا یوں بھی سمجھ میں آتا ہے کہ اقبال کو کبھی کبھی اِس بات کا افسوس ہوتا تھا کہ اُنہوں نے اپنی عمر مغربی فلسفہ سیکھنے میں صرف کردی جبکہ اُن کے والد شروع ہی سے انہیں مذہبی تعلیم دلوانا چاہتے تھے۔ اگر اقبال خود اپنے آپ کو مطمئن کرنا چاہتے تو شائد یہ سوچ سکتے تھے کہ مذہبی تعلیم حاصل کرنے والوں کا حال زیادہ گیاگزرا ہے اور اِس دور کے ملّا ننگِ مسلمانی ہیں۔ اب سوال اُٹھتا ہے کہ ملّاؤں سے وہ کون سی غلطی ہوئی ہے جس کی وجہ سے اقبال اُنہیں ننگِ مسلمانی کہہ رہے ہیں۔ اِس کے جواب میں ملّاؤں پر لگائے گئے عوامی اعتراضات اوراُن کے خلاف اپنے اپنے دل کی بھڑاس کی نکالنے سے زیادہ متین طریقہ مطالعہ کرنے کا یہ ہے کہ قارئین اگلے شعر پر نظر ڈالیں اور اُسی کو وضاحت سمجھیں۔وہاں ’’نادان‘‘ کا اشارہ مُلّاؤں ہی کی طرف ہے یعنی ملاّ ننگِ مسلمانی ہیں، یہ نادان ہمیں تقدیر کا زندانی کہتے ہیں۔ چنانچہ یہاں ملّاؤں پر غصہ اسی لیے ہے کہ وہ انسان کو تقدیر کا زندانی کہہ رہے ہیں جبکہ انسان میں ایسی قوت چھپی ہوئی ہے جو تقدیر کو شکست دے سکتی ہے۔ تقدیر کو شکست دینا کیوں ضروری ہے؟ کیا جبروقدر کا یہ خالص علمی مسئلہ اتنا اہم ہے کہ اِس میں مخالف نقطۂ نظر رکھنے والے کو ننگِ مسلمانی کا خطاب دیا جائے؟ اِس کا جواب واضح ہوجاتا ہے اگر ہم جاویدنامہ میں زندہ رُود اور مریخی ستارہ شناس کی گفتگو کا وہ حصہ یاد کریں جہاں بالکل یہی موضوع بہت وضاحت کے ساتھ پیش آیا ہے۔ وہاں اقبال نے مریخ پر ایک ایسی دنیا کا نقشہ پیش کیا ہے جہاں کوئی بادشاہ یا زمیندار نہیں، افلاس اور غربت موجود نہیں، ظلم نہیں اور ہر شخص خوشی اور آسودگی کی زندگی گزار رہا ہے۔ یہ نظارہ دیکھ کر زندہ رُود (یعنی خود شاعر) جو وہاں مہمان ہے وہاں کے ایک داناسے کہتا ہے کہ یہ تو خدا کی تقدیر سے بغاوت ہے کیونکہ غربت اور بادشاہوں کا استبدادخدا کی طرف سے انسان کے امتحان وغیرہ کے لیے ہیں۔ مریخی بزرگ اِس پر چراغ پا ہوکر طویل تقریر کرتا ہے جس میں وہ کہتا ہے کہ جو مذہب ایسی تعلیم دے وہ مذہب نہیں ہے افیون اور زہر ہے۔اگر ایک تقدیر تمہیں دُکھ دے تو خدا سے اُس کی بجائے کوئی دوسری تقدیر مانگنے میں کوئی حرج نہیں اور پھر جیسے تم خود ہوگے ویسی ہی تمہاری تقدیر ہو گی۔ اگر تم شیشہ ہو تو ٹوٹنا تمہارا مقدر ہے اور اگر تم پتھر ہو تو تمہارا مقدر کچھ اور ہے۔ چنانچہ جیسی تقدیر چاہتے ہو خود کو ویسا ہی بنا لو کیونکہ خدا کے خزانوں میں تقدیروں کی کوئی کمی نہیں ہے اور اُس میں بہت اچھی اچھی تقدیریں بھی ہیں (شاید یہ نکتہ حضرت عمر فاروقؓ کے اُس قول سے لیا گیا ہو جسے شبلی نے الفاروق میں بھی لکھا تھا کہ جب ایک وبازدہ علاقے سے نکلنے پر کسی نے حضرت عمرؓ پر اعتراض کیا کہ آپ خدا کی تقدیر سے بھاگ رہے ہیں تو اُنہوں نے جواب دیا کہ ہم ایک تقدیر سے دوسری تقدیر کی طرف جا رہے ہیں اور وہ بھی خدا ہی کی بنائی ہوئی ہے)۔ سولہویں ٹکڑے میں خدا سے خطاب مکمل ہوتا ہے۔ دنیا کی خرابی کی تفصیل جو پچھلی کچھ نظموں سے شروع ہوئی تھی اب اختتام کو پہنچتی ہے کہ ہنرمند اور جفاکیش لوگوں کی قدر نہیں اور حالات ایسے ہیں جیسے دنیا پر خدا کی بجائے فرنگی کی حکومت ہو۔ اس میں کچھ قصور اُن لوگوں کا بھی ہے جو قرآن کی سچائی ظاہر کر سکتے تھے مگر اپنی تاویلوں سے اُسے عجمی رنگ دے دیتے ہیں ۔ اپنے بارے میں کہتے ہیں : مدّت سے ہے آوارۂ افلاک مرا فکر کر دے اسے اب چاند کی غاروں میں نظربند مجھے حیرت ہے کہ بالِ جبریل کی شرحوں میں وضاحت نہیں کی گئی کہ چاند کے غار ہی کیوں؟ یہ جاویدنامہ کی طرف اتنا واضح اشارہ ہے کہ شارحین کو اِسے نظرانداز کرنا کسی طرح جائز نہیں تھا۔وہاں چاند کی سیر کرتے ہوئے وہ ایک غار میں پہنچتے ہیں جہاں ایک عجیب طرح کی روشنی پھیلی ہوئی ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایک سادھو کے گیان دھیان کی روشنی ہے جس کا نام رومی جہاں دوست بتاتے ہیں جو سنسکرت میں وشوامتررہا ہوگا۔ وشوامتر سے یہ خدا اور تخلیق کی حقیقت کے بارے میں بہت دلچسپ گفتگو کرتے ہیں۔ چنانچہ اپنی فکر کو چاند کے غاروں میں نظربند کروانے سے مراد ہے کہ اُن کی کائنات میں جو مختلف روحوں کے مقامات متعین ہوئے ہیںاُس لحاظ سے اپنے لیے چاند کے غار تجویز کرتے ہیں کہ وہاں گیانی دھیانی سادھوؤں کے ساتھ ہمیشہ خوش رہیں گے اور کبھی سیر کو دل چاہے گا تو یرغمید کی وادی میں پیغمبروں کے طواسین دیکھ آیا کریں گے۔ اِس سولہویں ٹکڑے کا آخری شعر اس بات کی یاددہانی ہے کہ نظموں کا یہ سلسلہ خدا سے خطاب تھا: چُپ رہ نہ سکا حضرتِ یزداں میں بھی اقبالؔ کرتا کوئی اِس بندۂ گستاخ کا منہ بند بالِ جبریل میں رباعی جیسی چار چار مصرعوں کی بعض چیزیں ہیں جنہیں کئی ناشر اکٹھا کر کے درمیان میں ایک باب بنا دیتے ہیں، اقبال کے اپنے ہاتھ سے ترتیب دیئے ہوئے مسودے میں صاف لکھا ہوا ہے کہ ان میں سے شروع کی رباعیات پہلے سلسلے کے ساتھ رکھی جائیں اگرچہ جگہ کی تصریح نہیں کی گئی۔ دراصل یہ وہ رباعیات ہیں جن میں خدا سے خطاب ہے اور ان کی تاثیر یہی ہے کہ وہ نکات جو سلسلہ وار نظموں میں تفصیل سے بیان ہوئے ہیں ان کے کسی نہ کسی پہلو سے متعلق کوئی ایک دلچسپ اور سوچنے پر مجبور کرنے والی بات ہر رباعی میں کہہ دی گئی ہے۔ ۲ منظومات کا دوسرا سلسلہ جس میں انسان سے خطاب ہے وہ زیادہ طویل ہے۔ اس کے نمبرشمار دوبارہ ایک سے شروع ہوتے ہیں اور اکسٹھ تک پہنچتے ہیں۔ اِس کی ابتداچند افکارِ پریشاںسے ہوتی ہے جن میں اقبال نے سنائی ؔ کے ایک قصیدے کی پیروی کی ہے۔افغانستان میں وہ سنائیؔ کے مزار پر گئے تھے اور یہ اشعار اُسی دن کی یادگار ہیں۔ حالانکہ یہ بعد میں لکھے گئے اور آگے کی بعض منظومات پہلے لکھی گئیں مگر اِنہیں شروع میں رکھنے میں یہ معنویت بھی ہے کہ سنائیؔاُس شعری روایت کے بانی ہیں جسے بعد میں عطار نے آگے بڑھایا اور پھر رومی نے اُسی تسلسل میں اپنی مثنوی تحریر کی۔ رومی کی پیروی اقبال نے کی۔ چنانچہ اپنے تمہیدی نوٹ کو وہ رومی ہی کے اُس مشہور مصرعہ پر ختم کرتے ہیں جس کا ترجمہ یہ ہے ہم سنائی اور عطار کے پیچھے چلے آ رہے ہیں: ما از پئے سنائی و عطار آمدیم سنائی سے شروع ہونے کی وجہ سے اکسٹھ منظومات کا یہ سلسلہ صرف اقبال کا ترجمان ہی نہیں بلکہ مشرق کے خاص شعری سلسلے کے چاروں ستونوں یعنی سنائی، عطار، رومی اور خود اقبال کی یادگار بن جاتا ہے۔ دلچسپ بات ہے کہ جاویدنامہ میں’تمہیدِ آسمانی‘ کے بعد ’تمہیدِ زمینی‘ ہے اور بالِ جبریل کے دوسرے سلسلے کا آغاز بھی بالکل اُسی طرح ہو رہا ہے جس طرح ’تمہیدِ زمینی‘ کا آغاز ہوا تھا۔ وہاں یہ شہروں سے دُور ایک دریا کے کنارے پہنچے تھے۔ اُس کی وجہ یہ بتائی تھی کہ جنون میں بستیوں کی نسبت ویرانے زیادہ دلکش ہو جاتے ہیں۔ اب یہاں دوسرے سلسلے کا پہلا شعر دیکھیے: سما سکتا نہیں پہنائے فطرت میں مرا سودا غلط تھا اے جنوں شائد ترا اندازۂ صحرا وہاں جس درد سے بیتاب تھے وہ فنا کا غم تھا۔ ہمیشہ باقی رہنے کی خواہش تھی۔ اُس حالت میں رومی کی غزل گانا شروع کی تھی اور خود رومی کی رُوح نے نمودار ہوکر بتایا تھا کہ اپنے وجود پر تین گواہیاں تلاش کرنی چاہئیں۔ پہلی گواہی اپنے آپ کو اپنی نظر سے دیکھنا ہے، دوسری اپنے آپ کو دوسرے کی نگاہ کے نُور سے دیکھنا ہے اور تیسری اپنے آپ کو خدا کے نُور سے دیکھنا۔ اگر تیسرے مقام پر باقی رہ گئے تو ہمیشہ باقی رہو گے۔آسمانوں کا پردہ چاک کر کے خدا کے سامنے جا سکتے ہیں جس کا ثبوت یہ ہے کہ معراج کی شب نبیٔ آخرالزماںؐ بھی گئے تھے۔ دُوسرے سلسلے کی پہلی پانچ منظومات میں اِنہی خیالات کی بازگشت ہے۔ گویا یہ اُن لوگوں کے لیے ہے جو کہانی پڑھ چکے ہیں مگر دل نہیں بھرا تو مرکزی کردار کے ذہن اور دل کے کچھ خیالات خُردہ کے طور پر یہاں پیش کئے جا رہے ہیں: خودی سے اِس طلسمِ رنگ و بو کو توڑ سکتے ہیں یہی توحید تھی جس کو نہ تُو سمجھا نہ میں سمجھا نِگہ پیدا کر اے غافل تجلّی عینِ فطرت ہے کہ اپنی موج سے بیگانہ رہ سکتا نہیں دریا وہاں مرکزی خیال یہ تھا کہ رُوح اور مادے کے درمیان فرق کرنے کی وجہ سے دنیا میں ساری مصیبتیں ہیں اور اگر اِن دونوں کو ایک سمجھ لیا جائے تو مشکلات حل ہو جائیں گی۔ یہاں بھی یہی مرکزی خیال ہے اور کئی طرح بیان ہوا ہے: رقابت علم و عرفاں میں غلط بینی ہے منبر کی کہ وہ حلّاج کی سُولی کو سمجھا ہے رقیب اپنا اسی ٹکڑے میں ’’دانائے سبل، ختم الرسل‘‘ والے مشہور نعتیہ اشعار ہیں جو ویسے تو بہت مشہور ہیں مگر اُن میں جو بات کہی جا رہی ہے اُس کی تاثیر اور بڑھ جاتی ہے اگر اُن اشعار کو سیاق و سباق میں پڑھا جائے۔ تشکیلِ جدید والے لیکچرز میں اقبال نے کہا تھا کہ رسولِ اکرمؐ کی رسالت کی شان یہ ہے کہ وہ تاریخ میں قدیم اور جدید کے دوراہے پرنئے زمانے کی آمد کا اعلان ہے جس میں انسان اپنی عظمت سے واقف ہو گا، توہمات سے نجات حاصل کر لے گا اور فطرت کے سامنے اپنے آپ کو حقیر سمجھنے کی وجہ سے قسمت کا جو غلط تصوربن گیا ہے اُس سے نجات حاصل کر کے خود اپنی تقدیر بنانے کا حوصلہ پائے گا۔ ختمِ نبوت کا سب سے بڑا پہلو یہی ہے کہ انسان اپنی روحانیت میں کسی دوسرے انسان کے نئے الہام کا پابند نہیں رہا بلکہ ایک آخری پیغام کا وارث بن کر خدا سے رابطہ کرنے کے لیے آزاد ہے۔ اقبال کے خیال میں اِس دَور کی تکمیل ابھی ہو رہی ہے ۔ یاد رہے کہ وہ مستقبل سے مایوس نہیں تھے بلکہ فلسفیانہ اعتبار سے انہوں نے جس مسلک سے بار بار اپنی وابستگی ظاہر کی وہ meliorism ہے جو pragmatism کا ایک جزو ہے اور جس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا نہ مکمل طور پر اچھی ہے نہ مکمل طور پر بری ہے مگر آنے والے دَور میں اچھائی کی مقدار آج سے زیادہ ہو گی۔ یہ مسلک شائد اقبال اور اُس روائتی مشرقی فکر کے درمیان ایک بنیادی اختلاف کی مثال ہے جس روائتی فکر سے وہ اور ہر طرح منسلک تھے۔ چنانچہ ابھی اُنہوں نے کہا تھا کہ دنیوی زندگی میں بھی دنیا کی قید سے آزاد ہوا جا سکتا ہے یعنی توحید یہی ہے کہ خودی سے اس طلسمِ رنگ و بو کو توڑ سکتے ہیں۔ اب کہتے ہیں کہ اگر میں ستاروں کو شکار کرنے کی بات کرتا ہوں تو تعجب نہیں کرنا چاہیے کیونکہ میں نے اپنے آپ کو آقاؐ کے شکارکے تھیلے سے باندھ لیا ہے (اور اس مضمون کے لیے اقبال مرزا صائب کے ایک فارسی مصرعے کو لفظی تغیر کے ساتھ استعمال کرتے ہیں)۔ یہ وہ آقا ہے جو نبوت کو ختم کرنے والا ہے، تمام راستوں سے واقف ہے اور جس نے راستے میں بکھری ہوئی مٹی کو خدا کے نُور سے منور کر دیا: عجب کیا گر مہ و پرویں مرے نخچیر ہو جائیں ’کہ بر فتراکِ صاحب دولتے بستم سرِ خود را‘ وہ دانائے سبل ختم الرسل مولائے کُل جس نے غبارِ راہ کو بخشا فروغِ وادیٔ سینا نگاہِ عشق و مستی میں وہی اول وہی آخر وہی قرآں، وہی فرقاں، وہی یٰسیںؔ، وہی طاہاؔ! آگے چلیے تو آٹھویں ٹکڑے کا یہ شعر دلچسپ اور وضاحت طلب ہے: حدیثِ بادہ و مینا و جام آتی نہیں مجھ کو نہ کر خاراشگافوں سے تقاضا شیشہ سازی کا! اقبال یہ نہیں کہہ رہے کہ اُن کے یہاں عشقیہ شاعری کی گنجائش نہیں بلکہ اسرارِ خودی میں اُنہوں نے عشقیہ شاعری کے حوالے سے جو بات کی ہے اُسے ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ عشق بے نیازی سکھاتا ہے اور زندگی کی حسیّات کو مضبوط کرتا ہے مگر مشرق میں اِس جذبے کو مسخ کر دیا گیا ہے۔ یہاں عشق کو محبوب کے کوچے میں ذلیل ہونے والا ایسا بھکاری بنا کر پیش کیا جاتا ہے جس میں عزتِ نفس نہیں ہے۔ عشقیہ شاعری میں اقبال کا ایک محبوب شاعر شہنشاہ اکبر کے زمانے کا ایرانی نووارد عرفیؔ شیرازی تھا جسے اُنہوں نے اسرارِ خودی کے پہلے اڈیشن میں حافظؔ کے مقابل ہیرو بنا کر پیش بھی کیا تھا۔ حافظؔ والے اشعار نکال دیے تو اِس کا نام بھی خارج ہو گیا مگربانگِ درا میں ’عُرفی‘ کے عنوان سے وہ نظم باقی ہے جس میں کہتے ہیں کہ اُس کے تخیل نے جو محل تعمیر کیا اُس پر سینا اور فارابی کے حیرت خانے قربان ہیں کہ اُس نے عشق کی فضا پر ایسی تحریر لکھی ہے جو آج بھی متاثر کرتی ہے۔ چنانچہ اب دیکھیے کہ اِسی ٹکڑے یعنی نمبر۸ کا خاتمہ اس اہم سوال پر ہوتا ہے: کہاں سے تُو نے اے اقبالؔ سیکھی ہے یہ درویشی کہ چرچا بادشاہوں میں ہے تیری بے نیازی کا! اگلے پورے ٹکڑے کو اِس سوال کا جواب سمجھ کر پڑھیے: عشق سے پیدا نوائے زندگی میں زیر و بم عشق سے مٹی کی تصویروں میں سوزِ دمبدم آدمی کے ریشے ریشے میں سما جاتا ہے عشق شاخِ گُل میں جس طرح بادِ سحرگاہی کا نَم اپنے رازق کو نہ پہچانے تو محتاجِ ملوک اور پہچانے تو ہیں تیرے گدا دارا و جَم! دل کی آزادی شہنشاہی، شکم سامانِ موت فیصلہ تیرا ترے ہاتھوں میں ہے دل یا شکم؟ اے مسلماں! اپنے دل سے پوچھ، مُلّا سے نہ پوچھ ہو گیا اللہ کے بندوں سے کیوں خالی حرم؟ آخری سوال کا جواب اگلے ٹکڑے (نمبر ۱۰) میں ملاحظہ کیجیے: دل سوز سے خالی ہے، نگہ پاک نہیں ہے پھر اِس میں عجب کیا کہ تُو بیباک نہیں ہے نظموں کے درمیان یہ ربط اور تسلسل جس کا پہلے سلسلے میں ہم نے تفصیل سے جائزہ لیا تھا دوسرے سلسلے میں بھی موجود ہے۔ تمام نظموں کو ترتیب میں پڑھیے تو اُن کے وسیع معانی ہاتھ آتے ہیں۔ آئیے اب اُن اشعار کا جائزہ لیتے ہیں جو سیاق و سباق کے بغیر بہت مشہور ہیں۔ اُن میں سے بعض اشعار سے تو ایسے معانی منسوب کر دئے گئے ہیں جن کی بالکل گنجائش نہیں تھی اور جو اقبال کی سوچ کے خلاف ہیں۔ سیاق و سباق میں اُن کا مطلب بدل جاتا ہے۔ نظم ۱۲ کا وہ شعر جس میں مومن کے بے تیغ سپاہی ہونے کی بات ہے بہت مشہور ہے۔ عام طور پراِس کا مطلب یہ سمجھا جاتا ہے کہ غیرمسلم تلوار پر بھروسہ کرتے ہیں جبکہ قرونِ اُولیٰ کے مجاہدین بغیر ہتھیاروں کے جنگ میں شرکت فرماتے تھے۔ یہ بات اقبال کے مفہوم سے دُور ہے۔ اِس سے پچھلے ٹکڑے (نمبر ۱۱) کا آخری شعر دیکھیے: اگر ہو عشق تو ہے کفر بھی مسلمانی نہ ہو تو مردِ مسلماں بھی کافر و زندیق! اب بارھویں کے ابتدائی تین اشعار دیکھیے جن میں سے تیسرا وہ بے تیغ سپاہی والا مشہور شعر ہے: پوچھ اُس سے کہ مقبول ہے فطرت کی گواہی تُو صاحبِ منزل ہے کہ بھٹکا ہوا راہی! کافر ہے مسلماں تو نہ شاہی، نہ فقیری مومن ہے تو کرتا ہے فقیری میں بھی شاہی کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسہ مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی یہاں مسلمانوں سے خطاب ہے ۔ فطرت کی گواہی سے مراد یہ ہے کہ محض دوسروں کی ضد میں اپنے مذہب پر ایمان رکھنا کافی نہیں بلکہ زندگی ایک پیچیدہ چیز ہے۔ خدا کا پیغام تو بیشک سچا ہے مگر اُس پیغام کو اپنانے کا آپ نے جو دعویٰ کیا ہے کیا وہ بھی سچّا ہے؟ آپ کے جوش و خروش یا غصے اور گرمی سے اِس کا اندازہ نہیں ہو گا بلکہ اِس بات سے ہو گا کہ اُس کا اثر آپ کی زندگی پر کیا ہوا ہے؟ آپ کائنات سے ہم آہنگ ہوئے ہیں یا نہیں؟ زندگی میں کامیابی اور ناکامی جن اصولوں کے تابع ہے اُن پر آپ کی گرفت مضبوط ہوئی ہے یا نہیں؟ یہی فطرت کی گواہی ہے۔ جسے عشق نصیب ہوتا ہے وہی اقبال کی نظر میں مسلمان ہے خواہ ویسے اُس کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو۔ جسے یہ عشق نصیب نہیں وہ کافر ہے خواہ کلمہ پڑھتا ہو۔کیا عشق میں سے آپ نے کچھ حصہ پایا ہے؟ اِس کے لیے فطرت کی گواہی کی ضرورت ہے۔ اگر مسلمان عشق سے محروم ہے تو نہ اُس کے پاس دنیادی کامیابی دکھائی دے گی نہ وہ فقر دکھائی دے گا جس میں دنیاوی اسباب سے بے نیازی حاصل ہوتی ہے۔ (ماہرِنفسیات ماسلو کی اصطلاح میں self-actualization کہہ لیجئے ورنہ کوئی اور نام دے لیجئے مگر بہرحال ایک سکون اور اطمینان کی کیفیت ہے)۔ ’’کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسہ‘‘ میں غیرمسلم کی بات ہی نہیں ہو رہی۔ پچھلے شعر کے ساتھ رکھ کر دیکھیے کہ گرامر کی رُو سے یہاں حذف ہے جسے شعر میں شامل کریں تو شعر کی مکمل نثر یوں بنتی ہے کہ ’’کافر ہے مسلماں تو شمشیر پر بھروسہ کرتا ہے اور اگر سپاہی مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے۔‘‘ شمشیر کس بات کا اشارہ ہے؟ اقبال کے یہاں تلوار عام طور پر فطرت کی طاقتوں کا اشارہ ہوتا ہے جو انسان کے ہاتھ میں آ گئی ہوں( مثلاً ’’یہ امتیں ہیں جہاں میں برہنہ شمشیریں‘‘ وغیرہ)۔ شمشیر کے یہ معانی لیے جائیں تو فطرت کی گواہی والی بات پوری طرح واضح ہو جاتی ہے۔ قدرتی وسائل یعنی تلوار حاصل ہو یا نہ ہو اصل بات یہ سمجھنا ہے کہ جو کچھ قدرت میں ہے وہی ہمارے اندر بھی ہے۔ اگر مادی وسائل حاصل نہ ہوں تو انہیں اپنی روح سے پیدا کیا جا سکتا ہے کہ اقبال کے نزدیک روح اور مادہ مختلف نہیں ہیں: کافر ہے تو ہے تابعِ تقدیر مسلماں مومن ہے تو وہ آپ ہے تقدیرِ الٰہی! میں نے تو کیا پردۂ اسرار کو بھی فاش دیرینہ ہے تیرا مرضِ کورنگاہی یعنی اگر مسلمان کافر ہے تو تابعِ تقدیر ہے لیکن اگر مومن ہے تو آپ تقدیرِ الٰہی ہے۔ نظم نمبر ۱۴ میں پھر یہی استعارے اِس طرح جمع ہوئے ہیںکہ دلِ بیدار پیدا کرو جس کے بغیر ضرب کاری نہیں ہوتی اور صحرا میں مُشک والا ہرن تلاش کرنا ہو تو اُس کے لیے سونگھنے کی حس تیز ہونی چاہیے محض حساب کتاب سے وہ ہرن ہاتھ نہیں آتا! نظم نمبر ۱۷ کا وہ شعر بھی بہت مشہور ہے جس میں دین کو سیاست سے الگ کرنے کے نیتجے میں چنگیزیت کی پیشین گوئی کی گئی ہے: زمامِ کار اگر مزدُور کے ہاتھوں میں ہو پھر کیا طریقِ کوہکن میں بھی وہی حیلے ہیں پرویزی! جلالِ پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی! اشعار کے بارے میں چونکہ یہ نوٹ شامل ہے کہ یورپ میں لکھے گئے چنانچہ زمامِ کار مزدور کے ہاتھوں میں ہونے سے شائد انگلستان کی لیبر پارٹی کی حکومت مراد ہو گی جس نے گول میز کانفرنسوں کا وہ سلسلہ منعقد کیا تھا جس کی آخری دو کانفرنسوں میں شرکت کرنے اقبال یورپ گئے تھے۔ مغربی تہذیب پر اقبال کا اعتراض یہی تھا کہ اِس میں رُوح اور مادّے کو الگ سمجھا جاتا ہے۔ دین اور سیاست کے اکٹھے ہونے کی بات اُنہوں نے خطبۂ الٰہ آباد میں بھی کی تھی اور اُسی حوالے سے اِس شعر کو سمجھنا چاہیے۔وہاں کہتے ہیں، ’’خدا اور کائنات، روح اور مادہ، کلیسا اور ریاست حیاتیاتی طور پر ایک دوسرے کا حصہ ہیں۔ انسان کسی ناپاک دنیا کا شہری نہیں ہے جسے کہیں اور واقع روحانی دنیا کی خاطر ترک کرنا ہو۔‘‘ چنانچہ اُن کے نزدیک دین اور سیاست کا یکجا ہونا اس لیے ضروری ہے کیونکہ اُن کی علیحدگی سے مذہب اہلِ سیاست کے ہاتھوں میں عوام کے استحصال کے لیے ہتھیار بن جائے گا جس طرح قرونِ اولیٰ کے بعض معاشروں میں ہوتا تھا اور مغرب میں بادشاہت کے خدائی استحقاق کی صورت دکھائی دیتی تھی اور تیسری دنیا میں ابھی جزوی طور پر موجود ہے۔یا قدرتی وسائل چند لوگوں میں محدود ہو جائیں گے جنہیں خدا کا خوف بھی دوسروں کی گردن میں اپنے استعمار کی زنجیر ڈال نے سے باز نہیں رکھے گا جیسا کہ اقبال کے زمانے میں مغربی استعمار کی صورت تھی۔ اقبال کی شاعری میں دین دراصل رُوح اور مادے کو ایک سمجھنے کا استعارہ بھی ہے۔ اِس طرح انسان اپنی بہترین قوتوں کو پرورش دینے میں کامیاب ہو سکتا ہے۔ اِسی کی تشریح اگلے ٹکڑے (نمبر۱۸) میں مزید کھل کر ہوئی ہے جہاں ’’جذبِ مسلمانی ‘‘ کی تعریف یوں کرتے ہیں کہ یہ آسمانوں کے آسمان کا راز ہے جس کے بغیر نہ راہِ عمل دکھائی دیتی ہے نہ یقین پیدا ہوتا ہے۔ یہ جذبِ مسلمانی محبت کی ایک قسم ہے اور محبت کا شکار ہونے والوں کی کہانی بس اِتنی سی ہے کہ تیرکھانے کا لطف محسوس کیا اور اس کے بعد شکاری کے تھیلے میں پہنچ کر آسودہ ہو گئے۔ گستاخی اور بیباکی بھی اسی محبت کی ادائیں ہیں اور محبت کے ساتھ ہوں تو قابلِ معافی ہیں۔ اِسی تسلسل میں وہ مشہور شعر ہے: فارغ تو نہ بیٹھے گا محشر میں جنوں میرا یا اپنا گریباں چاک یا دامنِ یزداں چاک اس کے بعد اقبال پہلی دفعہ اپنی اُردو شاعری میں اُس موضوع کو داخل کرتے ہیں جس پر فارسی میں وہ مستقل کتابیں لکھ چکے تھے یعنی خودی۔ اِس کا ذکر سنائی والی نظم میں بھی تھا کہ خودی سے طلسمِ رنگ و بو کو توڑ سکتے ہیںمگر اب تفصیل سے بات ہوتی ہے: خودی وہ بحر ہے جس کا کوئی کنارہ نہیں تُو آبجو اِسے سمجھا اگر تو چارہ نہیں! طسلمِ گنبدِ گردُوں کو توڑ سکتے ہیں زجاج کی یہ عمارت ہے سنگِ خارہ نہیں! اسرارِ خودی میں عشق کی سب سے بڑی فضیلت یہی بیان ہوئی تھی کہ یہ خودی کو مضبوط بناتا ہے۔ خودی کیا ہے؟ اس کی تشریح اقبال نے یوں کی تھی کہ یہ شعور کا وہ روشن نقطہ ہے جو خدا کے نور سے منور ہے۔ عام الفاظ میں اِسے اَنا، ’’مَیں‘‘ یا اپنے ہونے کا احساس کہہ سکتے ہیں مگر اقبال کی سوچ میں یہ احساس خدا کی ہستی سے براہِ راست روشنی حاصل کر رہا ہے۔ چنانچہ خودی خدا تک پہنچنے کا راستہ بھی ہے جس پر چلیں تو دنیا کی بہت سی منزلیں بیچ میں آتی ہی نہیں اور بڑی جلدی کہیں سے کہیں پہنچ جاتے ہیں، جیسا کہ اگلے ٹکڑے (نمبر۲۲) میں کہتے ہیں: یہ پیام دے گئی ہے مجھے بادِ صبحگاہی کہ خودی کے عارفوں کا ہے مقام پادشاہی! تری زندگی اِسی سے تری آبرو اِسی سے جو رہی خودی تو شاہی، نہ رہی تو رُوسیاہی! اٹھائیسویں ٹکڑے کا وہ شعر بہت مشہور ہے جس میں کہا ہے کہ اِس نوائے پریشاں کو شاعری مت سمجھو کیونکہ میں میخانے کے رازِ دروں کا محرم ہوں۔ میخانے کا وہ کیا راز ہے جس کے یہ محرم ہیں؟ اِسی ٹکڑے میں وہ راز بھی کھولا گیا ہے مگر اشعار کو اکٹھا نہ پڑھنے کی وجہ سے عام طور پر پڑھنے والوں کی توجہ اُس طرف نہیں گئی: نہ بادہ ہے نہ صراحی، نہ دَورِ پیمانہ فقط نگاہ سے رنگیں ہے بزمِ جانانہ! مری نوائے پریشاں کو شاعری نہ سمجھ کہ میں ہوں محرمِ رازِ درونِ میخانہ! گویا میخانے کا وہ اہم راز جس سے یہ واقف ہیں یہی ہے کہ محبوب کی بزم میں اصل کیفیت نگاہ سے ہے۔ اگلے اشعار میں یہی بات ایک اور طرح سمجھاتے ہیں: کلی کو دیکھ کہ ہے تشنۂ نسیمِ سحر اِسی میں ہے مرے دل کا تمام افسانہ! کوئی بتائے مجھے یہ غیاب ہے کہ حضور سب آشنا ہیں یہاں، ایک میں ہوں بیگانہ! کلی اپنے زور سے شاخ سے پھوٹی گویا جو اُس کے اختیار میں تھا وہ کر گزری۔ اب اگلی منزل تنہا اُس کے بس کا روگ نہیں اور نسیمِ سحرکی منتظر ہے۔ گویا اُسی نگاہِ جانانہ کی ضرورت ہے۔ بس اِسی کوشش اور انتظار میں اقبال کے دل کا تمام افسانہ بھی موجود ہے مگر وہ محسوس کرتے ہیں جیسے اُن کے سوا باقی سب آشنا ہوں۔ نہیں معلوم یہ غیاب ہے یا حضور۔ اِس غیاب اور حضور کے اشارے پر غور کیا جا سکتا ہے۔ اگلا ٹکڑا (نمبر ۲۹) تاریخ میں اس نگاہِ جانانہ یا نسیمِ سحر کے ظہور کی صورتوں کے بارے میں ہے۔ اِسی میں شمشیر و سناں اول والا مشہور شعر ہے جس کے معانی سمجھنے میں لوگ بہت زیادتی کرتے ہیں۔ پچھلی نظم میں جو نگاہ اور نسیمِ سحر کی گفتگو ہوئی تھی اُس کی روشنی میں اِس پوری نظم کو ایک دفعہ پڑھیے: افلاک سے آتا ہے نالوں کا جواب آخر کرتے ہیں خطاب آخر، اٹھتے ہیں حجاب آخر احوالِ محبت میں کچھ فرق نہیں ایسا سوز و تب و تاب اوّل، سوزو تب و تاب آخر میں تجھ کو بتاتا ہوں، تقدیر اُمم کیا ہے شمشیر و سناں اوّل، طاؤس و رباب آخر میخانۂ یورپ کے دستور نرالے ہیں لاتے ہیں سرور اوّل، دیتے ہیں شراب آخر کیا دبدبۂ نادر، کیا شوکتِ تیموری ہو جاتے ہیں سب دفتر غرقِ مٔے ناب آخر خلوت کی گھڑی گزری، جلوت کی گھڑی آئی چھٹنے کو ہے بجلی سے آغوشِ سحاب آخر تھا ضبط بہت مشکل اس سیلِ معانی کا کہہ ڈالے قلندر نے اسرارِ کتاب آخر تاریخ وقت کا عمل ہے گویا جاویدنامہ کی رُو سے زُروان کے سپرد ہے جوبیک وقت قاہر اور مہربان ہے، نگاہ سے چھپا ہوا بھی اور ظاہر بھی ہے۔ پیامِ مشرق میں اُسی نے اپنے بارے میں کہا تھا، ’’چوں رُوحِ رواں پاکم از چنگ و چگونِ تو۔‘‘ یہاں بھی اقبال یہ نہیں کہہ رہے کہ اگر تم ایسا کرو گے تو ایسا ہو جائے گا۔ یہاں وہ حادثات بیان ہو رہے ہیں جو انسان کی دسترس سے باہر ہیں اور جنہیں ہمارے چنگ و چگون سے قطعِ نظر ہر حال میں رونما ہونا ہے۔ وہ جب کہتے ہیں کہ تقدیرِ اُمم یہ ہے کہ پہلے شمشیر و سناں اور پھر طاؤس و رباب تو وہ طاؤس و رباب کی تحقیر نہیں کر رہے بلکہ ایک حقیقت بیان کر رہے ہیں کہ ایسا ہوتا ہے۔ یاد رہے کہ اِسی بالِ جبریل میں آگے چل کرٹکڑے نمبر ۵۵ میں وہ کہیں گے کہ ایبک و غوری کے معرکے باقی نہیں رہے مگر نغمۂ خسرو ہمیشہ تازہ و شیریں ہے! تقدیر انسانی تدبیر سے ماورا ہے، اس حقیقت کو حافظ نے بھی محسوس کیااور اقبال نے بھی مگر ان دونوں کے ردِ عمل مختلف ہیں۔ اقبال تقدیر کی بے رحمی سے فرار تلاش کرتے ہیں تو اِس حقیقت میں کہ وقت کا وہ بے رحم دھارا جو ہمارے چنگ و چگون سے متاثر نہیں ہوتا وہ خود ہمارے اندر بھی تو ہے۔ ہم اُس کا رازِ دروں ہیں اور وہ ہمارا رازِ دروں ہے۔ طاقت کا سرچشمہ ذات سے باہر تلاش کرنے میں مایوسی ہے مگر ذات میں اِس کی جستجو میں کیف و مستی ہے اور بانسری کے عشق کی آگ ہے۔ اپنے آپ میں اِس دھارے کو تلاش کر کے پھر بیرونی دنیا کے سامنے جم کر کھڑے ہونا ہے۔ اگلی چند نظموں میں یہی کیف و مستی ہے اور کلی کے تشنۂ نسیمِ سحر ہونے کی بات بڑی وضاحت کے ساتھ بیان ہوئی ہے۔ ہر شے مسافر ہر چیز راہی اور ہر چیز ہے محوِ خود نمائی، وغیرہ وغیرہ۔ تقدیر کی برق ہمیشہ بیچارے مسلمانوں ہی پر نہیں گرتی بلکہ : اعجاز ہے کسی کا یا گردشِ زمانہ! ٹوٹا ہے ایشیا میں سحرِ فرنگیانہ! یہ ٹکڑے نمبر ۳۲ کا پہلا شعر ہے۔ آخری شعر ہے: رازِ حرم سے شائد اقبالؔ باخبر ہے ہیں اس کی گفتگو کے انداز محرمانہ! یورپ کا طلسم ٹوٹنے کی پیشین گوئی جس مجذوب نے کی تھی اگلا ٹکڑا اُس کے بارے میں ہے یعنی نیٹشے: خردمندوں سے کیا پوچھوں کہ میری ابتدا کیا کہ میں اِس فکر میں رہتا ہوں، میری انتہا کیا ہے! خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے! بات وہی ہے کہ تقدیر کی سفاکی کا مقابلہ اپنے آپ میں ڈوب کر کیا جا سکتا ہے۔ مادے اور روح کو الگ الگ نہ سمجھیں تو یہ بھی سمجھ میں آسکتا ہے کہ باہر دنیا میں جو کچھ ہے وہ ہمارے اندر ہماری روح میں بھی ہے۔ جاویدنامہ پر مریخی ستارہ شناس نے اقبال سے جو گفتگو کی تھی (اور جو پہلے پیش کی گئی ہے) اُسے سامنے رکھے بغیر خودی کو بلند کرنے والے شعر کا لطف ادھورا رہ جاتا ہے۔ مختصراً یہ کہ اگر ایک تقدیر نے تمہارا جگر خوں کر دیا ہے تو خدا سے کہو کہ وہ تمہیں کوئی اور تقدیر دے دے کیونکہ اُس کے یہاں تقدیروں کی کوئی کمی نہیں ہے۔ اقبال اور نیٹشے میں یہ قدرِ مشترک ہے کہ دونوں کیمیاگری کے دعوے دار ہیں، ایک نئے آدم کی تخلیق کی تمنّا رکھتے ہیں اور اپنے سوزِ نفس سے اُس نئی دنیا کی تخلیق کرنا چاہتے ہیں: مقامِ گفتگو کیا ہے اگر میں کیمیاگر ہوں یہی سوزِ نفس ہے اور میری کیمیا کیا ہے مگر اُن کے درمیان واضح فرق یہ ہے کہ نیٹشے کے یہاں خودی کے مقابل کسی دوسرے کا تصوّر موجود نہیں ہے۔ عشق مجازی ہو یا حقیقی وہ نیٹشے کے فلسفے میں کوئی خاص گنجایش نہیں پاتا۔ اقبال کے نزدیک اِسی کمزوری نے نیٹشے کو خدا سے منکر کیا ورنہ اپنی تکمیل کے لیے اپنے آپ کو دوسرے کی نگاہ کے نُور سے دیکھنے کی ضرورت سمجھ لی جائے تو خدا تک پہنچنے کا راستہ بھی دکھائی دیتا ہے: نظر آئیں مجھے تقدیر کی گہرائیاں اُس میں نہ پوچھ اے ہمنشیں مجھ سے وہ چشمِ سُرمہ سا کیا ہے اگر ہوتا وہ مجذوبِ فرنگی اِس زمانے میں تو اقبال اُس کو سمجھاتا مقامِ کبریا کیا ہے ’’مجذوبِ فرنگی‘‘ پر اقبال کا اپنا نوٹ موجود ہے کہ اِس سے مراد نیٹشے ہے جو اپنے وارداتِ قلبی کا صحیح اندازہ نہ کر سکنے کی وجہ سے گمراہ ہوا۔ اپنا نام اقبال نے بیانِ واقعہ کے طور پر درج کیا ہے محض تخلص کے طور نہیں کیونکہ یہ مقطع نہیں ہے۔ اس کے بعد ایک اور شعر بھی ہے: نوائے صبحگاہی نے جگر خوں کر دیا میرا خدایا جس خطا کی یہ سزا ہے وہ خطا کیا ہے خودی کو بلند کرنے کے راستے اگلے ٹکڑوں میں پیش کیے گئے ہیں۔ یہ ٹکڑے ایک طرح سے اسرارِ خودی کا خلاصہ ہیں۔ وہاں کہہ چکے تھے کہ عشق خودی کو مضبوط بناتا ہے مگر عشق سے مراد خودترسی نہیں ہونی چاہیے۔ یہاں بھی اگلے ٹکڑے (نمبر ۳۴) کا آغاز ہے: جب عشق سکھاتا ہے آدابِ خودآگاہی کھلتے ہیں غلاموں پر اسرارِ شہنشاہی! عطار ہو، رومی ہو، رازی ہو، غزالی ہو کچھ ہاتھ نہیں آتا بے آہِ سحرگاہی! اسرارِ خودی میں عشق کی فضیلت کے ساتھ ہی یاد دلایا ہے کہ کسی سے کچھ مانگنے سے خودی کمزور ہو جاتی ہے۔ چنانچہ یہاں بھی کہتے ہیں: اے طائرِ لاہوتی اُس رزق سے موت اچھی جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی دارا و سکندر سے وہ مردِ فقیر اُولیٰ ہو جس کی فقیری میں بوئے اسد اللّٰہی! یہاں تک پہنچ کر سلسلۂ کلام اچانک انتہائی ذاتی اور ادبی اعتبار سے رومانوی لہجہ اختیار کرتا ہے یعنی نمبر ۳۵، مجھے آہ و فغانِ نیم شب کا پھر پیام آیا اور: یہ مصرع لکھ دیا کس شوخ نے محرابِ مسجد پر یہ ناداں گر گئے سجدوں جب وقتِ قیام آیا! چل اے میری غریبی کا تماشا دیکھنے والے وہ محفل اُٹھ گئی جس دم تو مجھ تک دَورِ جام آیا دیا اقبالؔ نے ہندی مسلمانوں کو سوز اپنا یہ اِک مردِ تن آساں تھا، تن آسانوں کے کام آیا! اِس مقام پر یہی تاثر ملتا ہے کہ بہت مشکل زندگی کی طرف اشارہ کرنے والا حکیم ُالامت اچانک آہستہ سے اپنی ذاتی زندگی کے دُکھ دَرد کہنے پر اُتر آیا ہے۔ جنہیں شکایت ہے کہ اقبال کے یہاں رومانوی اور ذاتی رنگ نہیں ملتا اُنہوں نے یقینا اِس قسم کے اشعار کو نظراندا ز کر کے اقبال کو صرف اُن اشعار کی روشنی میں دیکھا ہے جو چمٹی سے اٹھا کر سیاق و سباق سے جدا کر کے کیلنڈروں میں شائع کر دئے جاتے ہیں یا ایک زمانے میں ٹیلی وژن پر اشتہارات ختم ہونے کے بعد چلا ئے جاتے تھے۔ حقیقت یہی ہے کہ کسی کی گود میں بلّی دیکھ کر نظم لکھنے اور اپنے آپ کو عاشقِ ہرجائی کہہ کر ہنسنے والااقبال بانگِ درا ’حصہ دوم‘ کے بعد فوت نہیں ہو گیا تھا بلکہ اُس سے بالِ جبریل تو کیا ضربِ کلیم اور ارمغانِ حجاز میں بھی ملاقات ہوجاتی ہے۔ جو اُس کے مزاج کو سمجھتے ہوں وہ پس چہ بائد کرد میں بھی اُس سے مل سکتے ہیں! اگر کوئی شکایت کرے کہ یہاں ذاتی سطح پر آ کر بھی اقبال صرف اپنے فنی کرب کا ذکر کیوں کرتے ہیں اورزیادہ عامیانہ موضوعات کی طرف کیوں نہیں آتے تو یہ شکایت جائز نہیں۔ جب فن اور فکر کسی کی ذات کا حصہ بن جائیں اور شالامار میں پھول کا تحفہ قبول کرتے ہوئے بھی اُسے صرف اپنی اور پھول دینے والی ہی کی نہیں بلکہ پھول کی دھڑکن بھی سنائی دے رہی ہو تو اُس سے یہ شکایت کرنا غیرمناسب ہے۔ اگلے ٹکڑے (نمبر ۳۶) میں وہ خود اپنی شخصیت سے کچھ پردے ہٹانے کی کوشش کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ میری زندگی کیا ہے، یہی طغیانِ مشتاقی وغیرہ۔ یہ اور اگلے تین ٹکڑے (نمبر ۳۷، ۳۸، ۳۹) ایک فنکار کی انفرادی آواز ہیں جس میں دوستانہ سطح پر کچھ اپنی مشکلات بیان ہو رہی ہیں اور کچھ اپنے فنی مسلک سے وابستہ نظریات کا انتہائی ذاتی اور موضوعی انداز میں ذکرہے یعنی بے ذوق نہیں اگرچہ فطرت، جو اُس سے نہ ہو سکا وہ تُو کر۔ عشق بیچارہ عقل کی طرح ملا، زاہد اور حکیم کا بھیس نہیں بنا سکتا، وغیرہ۔ نمبر۴۰ وہ مشہور شاہکار ہے جس کے معانی سمجھنے میں بڑی ناانصافیاں کی گئی ہیں۔ ہم سب کو اپنے اسکول اور کالج کے زمانے کے وہ مباحثے یاد ہوں گے جن میں طرار مقرر سائنس اور خلابازی کی ترقی کا ذکر کرتے ہوئے ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں کہہ دیتے تھے اور ہم نے یومِ اقبال پر بنائی ہوئی ایسی تصویریں بھی دیکھی ہوں گی جن میں کہکشاں کے سامنے ایک راکٹ یا خلائی جہاز کی تصویر بنا کر لکھ دیا جاتا ہے کہ ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں۔ حقیقت میں اقبال اِس کے برعکس بات کر رہے ہیں۔ مادی کائنات کی دریافت تو اقبال کے زمانے میں بھی جاری تھی اورجاویدنامہ میں بعض سیاروں کاحال پڑھتے ہوئے محسوس ہوتا ہے کہ اُنہوں نے خلا کے بارے میں اپنے زمانے کی تحقیق سے استفادہ کیا تھا۔ پلوٹو سیارہ ۱۹۳۰ ہی میں دریافت ہوا تھا اور ممکن ہے یہ اشعار یہی خبر سُن کر ردِ عمل میں لکھی گئے ہوں۔ بہرحال اقبال کے نزدیک کائنات کی مادی تسخیر کافی نہیں تھی۔ ہم خود کائنات کا حصہ ہیں اور جو کچھ باہر نظر آتا ہے وہی ہماری رُوح میں بھی موجود ہے۔ کائنات میں آگے بڑھنے کا راستہ صرف ستاروں سے گزر کر نہیں جاتا بلکہ اپنے اندر سے ہو کر بھی گزرتا ہے: ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں تہی زندگی سے نہیں یہ فضائیں یہاں سیکڑوں کارواں اور بھی ہیں کائنات کی مادی تسخیر تک محدود رہ جانے میں ایک بنیادی غلطی ہے جس کا ذکر اگلے ٹکڑے (نمبر ۴۱) میں ہے یعنی ڈھونڈ رہا ہے فرنگ عیشِ جہاں کا دوام، وائے تمنائے خام!یہ علم اور عشق کے درمیان توازن کا مسئلہ ہے جیسا کہ نمبر ۴۲ سے معلوم ہوتا ہے یعنی خودی ہو علم سے محکم تو غیرتِ جبریل، اگر ہو عشق سے محکم تو صورِ اسرافیل!عشق کے امتحانوں کا ذکر اگلے ٹکڑوں میں جاری رہتا ہے چنانچہ نمبر ۴۲کا اختتام اِس شعر پر ہے جو بہت مشہور ہو گیا ہے: غریب و سادہ و رنگیں ہے داستانِ حرم نہایت اِس کی حسین، ابتدا ہے اسماعیل! اگلے کئی ٹکڑوں میں داستانِ حرم کے اِس پہلو یعنی عشق کی طرف اشارے ہیں اور موجودہ زمانے میں اہلِ حرم کی عشق سے دُوری کا گلہ کہ مکتبوں میں کہی رعنائیِ افکار بھی ہے، خانقاہوں میں کہیں لذتِ اَسرار بھی ہے؟ اگلے ٹکڑوں کو تسلسل میں پڑھیے تو اہلِ حرم کی محرومیوں کی وجہ وہی حقیقت کے امتحان (یعنی ’’reality check ‘‘) سے گریز کرتے ہوئے اپنے عقائد کو کافی سمجھ لینا ہے جس پر اقبال یہ کہتے ہیں کہ کچھ کام نہیں بنتا بے جرأتِ رندانہ۔ قلندری کی بات بھی کرتے ہیں، جنون کی بھی اور پھر یہ کہ: کریں گے اہلِ نظر تازہ بستیاں آباد مری نگاہ نہیں سُوئے کوفہ و بغداد! یہ احساس ہمیشہ اقبال کے ساتھ رہا کہ وہ جس قسم کی بات کر رہے ہیں اُسے اُن کے زمانے میں پوری طرح نہیں سمجھا جا سکتا۔ جس کام کا وہ آغاز کر رہے ہیں وہ ایک نسل کا کام نہیں ہے۔ اسرارِ خودی میں بھی اپنے آپ کو آنے والی کل کا شاعر کہا۔ یہاں بھی پہلے سلسلے میں خدا سے خطاب کا اختتام یوں کیا تھا کہ اقبال خدا کے حضور بھی خاموش نہیں رہا کاش کوئی اِس گستاخ بندے کا منہ بند کرتا۔ اب انسانوں سے خطاب کے اختتام کے قریب نمبر ۶۰ میں بھی اِسی قسم کی بات کرتے ہیں: کمالِ جوشِ جنوں میں رہا میں گرمِ طواف خدا کا شکر سلامت رہا حرم کا غلاف اس میں جس طواف کا ذکر ہے اُس سے مراد یہی اشعار کے ٹکڑے ہیں جن کا ہم نے ابھی جائزہ لیا۔ اِن میں اسلام ہی کا پیغام پیش کیا گیا ہے چنانچہ کمالِ جوشِ جنوں میںحرم کا طواف کرنے کا استعارہ بھی برمحل ہے۔ مگر ان نظموں میں جس طرح کھل کر گفتگو کی ہے اور سخن گسترانہ باتیں جو بیچ میں آ پڑی ہیں اُن پر نظر ڈالیں تو سمجھ میں آ جاتا ہے کہ اقبال کے اِس طواف سے حرم کے غلاف کوکیا خطرہ درپیش تھا۔ یہ اور اگلا ٹکڑا (نمبر۶۱) جو اس سلسلے کا اختتام ہے اِس گفتگو کو لپیٹتے ہیں۔ حقیقت سے تعلق قائم رکھنا اقبال کی نظر میں اِتنا اہم ہے کہ افلاطون پر پھبتی کسنا وہ ایک دفعہ پھر اپنا فرض سمجھتے ہیں (اُس بیچارے کو اسرارِ خودی میں بھی بہت سخت سست کہا تھا)۔ اُن کے خیال میں افلاطون حواسِ خمسہ اور تجربے کی روشنی میں حقیقت کو سمجھنے کی بجائے ذہنی جمع خرچ سے کائنات کی تشریح کرتا ہے اور اِس رویئے نے مسمانوں کو بھی نقصان پہنچایا۔ اقبال جو بات ہمیں یاد رکھوانا چاہتے ہیں وہ یہ ہے کہ: تڑپ رہا ہے فلاطوں میانِ غیب و حضور ازل سے اہلِ خرد کا مقام ہے اَعراف ترے ضمیر پہ جب تک نہ ہو نزولِ کتاب گرہ کُشا ہے نہ رازی، نہ صاحبِ کشاف اُس زمانے کی اسلامی دنیا میں ترکی عام طور پر بیداری کا نمونہ سمجھا جاتا تھا اور اقبال نے خطبات میں بھی اجتہاد اور نشأۃ الثانیہ کی بات کو جدید ترکی پر تبصرے پر ختم کیا تھا۔ اس سلسلۂ بیان کے آخری اشعار اِس گفتگو کو بھی اِسی قسم کے انجام تک پہنچاتے ہیں: سنا ہے میں نے سخن رَس ہے تُرکِ عثمانی سنائے کون اُسے اقبال کا یہ شعرِ غریب! سمجھ رہے ہیں وہ یورپ کو ہمجوار اپنا ستارے جن کے نشیمن سے ہیں زیادہ قریب! اس کے بعد ایک قطعہ اور وہ رباعیات ہیں جنہیں اِس سلسلے کے موضوع سے مناسبت ہے۔ یہ نظموں کے دو طویل سلسلوں اور آگے آنے والی زیادہ عظیم الشان نظموں کے درمیان حدِ فاصل بھی قائم کرتے ہیں اور اگر قاری دو سلسلوں کے بعد تھک گیا ہو تو اگلی نظموں سے پہلے ذہن کو کسی قدر سکون پہنچا کر تازہ دم ہوسکتا ہے۔ ۳ ’دُعا‘ اور ’مسجدِ قرطبہ‘ سے وہ نظمیں شروع ہوتی ہیں جن پر الگ الگ عنوان دیے گئے ہیں مگر وہاں بھی ہر نظم پوری کتاب کا حصہ ہے اور ایک خاص ترتیب میں رکھی گئی ہے۔ یہ حصہ’ دُعا‘ سے شروع ہوتا ہے۔ یہ اور اِس سے اگلی نظمیں ۱۹۳۳ء میں اسپین میں لکھی گئی تھیں۔ پچھلے برس فلسطین کے سفر میں جو عالیشان نعت ’ذوق و شوق‘کہی گئی تھی وہ بعد میں رکھی۔ اقبال سے یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ دعا اور نعت کے بیچ میں دوسری نظموں اور لینن کے تذکرے وغیرہ کو جگہ دیں۔ بات دراصل یہ ہے کہ دعائیہ مضمون اُس ایک نظم میں ختم نہیں ہوجاتا جو ’مسجدِ قرطبہ‘ میں لکھی گئی تھی بلکہ ’ذوق و شوق‘ تک نو نظموں کے سلسلے میں جا کر پورا دُعائیہ ختم ہوتا ہے۔ یہ ایک طرح کی تمہیدِ آسمانی بھی ہے: دعا مسجدِ قرطبہ قیدخانے میں معتمد کی فریاد عبدالرحمٰن اول کا بویا ہوا کھجور کا پہلا درخت اندلس طارق کی دعا لینن فرشتوں کا گیت خدا کا فرمان تشکیلِ جدید والے خطبات میں انہوں نے کہا تھا کہ تاریخ خدا کی تین نشانیوں میں سے ایک ہے۔چنانچہ اِن دعائیہ نظموں میں تاریخ کا ذکر حمد بن جاتا ہے۔ بات اِس طرح شروع ہوتی ہے کہ اقبال خدا کے حضور اپنی نوا پیش کر رہے ہیں جس میں اُن کے جگر کا لہو شامل ہے: ہے یہی میری نماز، ہے یہی میرا وضو میری نواؤں میں ہے میرے جگر کا لہو ایک دفعہ پھرجاویدنامہ کی کہانی سے استعارے لیے گئے ہیںمثلاً وہاں خدا کے حضور جاتے ہوئے کہا تھا کہ حوریں بھی روک رہی تھیں اور محلات بھی تھے مگر عاشق سوائے محبوب کے دیدار کے کسی اور بات پر راضی نہیں ہوتا اور وہاں تنہا ہی جانا پڑتا ہے کہ عشق کی غیرت محبوب کی موجودگی میں کسی تیسرے کو برداشت نہیں کرتی۔ اب : راہِ محبت میں ہے کون کسی کا رفیق ساتھ مرے رہ گئی ایک مری آرزو! جاویدنامہ کے آخر میں خدا نے اُن پر دنیا کی تقدیر بے حجاب کی تھی تو اپنے سیارے کا آسمان لہو کی سرخی میں ڈوبا دکھائی دیا تھا۔یہاں پہلے حصے میں اپنا سینہ روشن کرنے کی دعا بھی مانگی تھی اور ساقی کی تعریف بھی کی جس نے مئے لا الٰہ الا ھو پلا کر سینہ روشن کر دیا۔ اب پھر وہی مضامین ہیں: تجھ سے گریباں مرا مطلعِ صبحِ نشور تجھ سے مرے سینے میں آتشِ اللہ ھُو جاویدنامہ میں خدا سے پوچھا تھا کہ آپ لافانی ہیں تو میں کیوں فانی ہوں۔ اُس کے جواب میں خدا نے کہا تھا کہ ہماری قوتِ تخلیق میں سے حصہ تلاش کرو، اگر ہماری دنیا پسند نہیں تو اسے اپنی مرضی کے مطابق بدل ڈالواور ہمارے ساتھ اپنا تعلق سمجھ لو گے تو باقی رہو گے۔ اب ’دُعا‘ کے آخری اشعار دیکھیے: تیری خدائی سے ہے میرے جنوں کو گلہ اپنے لیے لامکاں، میرے لیے چار سُو! فلسفہ و شعر کی اور حقیقت ہے کیا حرفِ تمّنا جسے کَہ نہ سکیں رُوبرو گویا خدا نے اپنی قوتِ تخلیق میں سے اقبال کو صرف فلسفہ و شعر کی نعمت عطا فرما کر سمندر سے پیاسے کو شبنم دی ہے۔ یہاں یہ شکایت دبی زبان میں ہے مگر آگے چل کر مثلاً لینن والی نظم میں اقبال کا جنون فارغ نہیں بیٹھے گا۔ بہرحال اگر فلسفہ و شعر ہی نماز اور وضو ہے تو اگلی نظم میں عبادت کی یہ صورت ہے کہ الفاظ سے وہی کام لیتے ہیں جو کبھی اندلس کے معاروں نے پتھروں سے لیا تھا۔ اُنہوں نے مسجدِ قرطبہ بنائی تھی اور یہ ایک ایسی نظم پیش کر رہے ہیں جس میں شعری اعتبار سے وہی حسن ہے جو تعمیراتی اعتبار سے مسجدِ قرطبہ میں موجود ہے ۔ اور خیال رہے کہ اِس نظم میں فلسفہ اور شعر دونوں موجود ہیں! نظم ’مسجدِ قرطبہ‘ پر بہت لکھا گیا ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ جس طرح اُس مسجد میں ٹھوس پتھر کی سلیں ایک دوسرے پر مضبوطی سے جمی ہیں اُسی طرح نظم کے شروع میں تقریباً کسی فعل کے بغیر مصرعے بنا کر گویا ٹھوس اسمی تراکیب کو مضبوطی کے ساتھ جما دیا گیا ہے: سلسلۂ روز و شب، نقش گرِ حادثات سلسلۂ روز و شب، اصلِ حیات و ممات سلسلۂ روز و شب، تارِ حریرِ دو رنگ جس سے بناتی ہے ذات، اپنی قبائے صفات اِن مصرعوں میں سے کسی لفظ کو اِدھر اُدھرسرکانا مسجدِ قرطبہ کی جنّاتی دیوار میں سے کسی پتھر کو کھینچنے کے برابر مشکل نہ ہو تب بھی کچھ آسان کام نہیں ہے۔ نظم کے بعض مقامات جن کی تشریح سیاق و سباق کی روشنی میں کرنے کی ضرورت ہے اُن میں سے ایک مردِ خدا اور مردِ مسلماں کا فرق ہے۔ اقبال کے نزدیک مردِ خدا کوئی بھی ہو سکتا ہے اور اِسی کتاب میں آگے چل کر (مثلاً نپولین کے مزار پر) وہ سکندرِ اعظم، امیر تیمور اور نپولین تک کو مردِ خدا کہہ دیں گے۔ اِسی سکندرکے ہاتھوں بقول اُن کے اِنسانیت کی قبا چاک بھی ہوئی اور تیمور نے جو مظالم ڈھائے وہ بھی واضح تھے۔ اِس لحاظ سے ’مسجدِ قرطبہ‘ میں مردِ خدا کے عمل کو عشق پر قائم اور دیرپا اثر والا بتاتے ہیں تو اِسے عام اخلاقیات کی رُو سے مردِ خدا پر فیصلہ نہیں سمجھا جا سکتا بلکہ اِس سے ایک ایسا انسان مراد لینا پڑتا ہے جو خدا کی بنائی ہوئی کائنات میں جاری قوّتوں کو اپنے عشق کے زورپر تسخیر کر کے اپنی شخصیت کا اثر چھوڑ جائے۔ گویا اپنی محدود شخصیت سے ماورا ہو کر لامحدود امکانات کا حامل بن جائے۔ اِس کے برعکس مردِ مسلماں سے مراد تاریخی طور پر اِسلامی تہذیب سے وابستہ شخصیات ہیں جن کا اثر آج بھی اندلس کی تہذیب پر باقی ہے۔ مندرجہ ذیل شعر میں مذکر اور مؤنث کی بحث عام طور پر شرح لکھنے والوں کے لیے اِتنی مشکل ثابت ہوتی ہے کہ وہ اِسے یوں ہی چھوڑ کر آگے بڑھ جاتے ہیں: جن کے لہو کی طفیل آج بھی ہیں اَندلُسی خوش دل و گرم اختلاط، سادہ و روشن جبیں آج بھی اُس دیس میں عام ہے چشمِ غزال اور نگاہوں کے تِیر آج بھی ہیں دلنشیں بظاہر یہاں ’’لہو کے طفیل‘‘ آنا چاہیے مگر یہ کتابت کی غلطی ہرگز نہیں ہے۔ اُن کے اپنے ہاتھ میں نظم کے پہلے نسخے میں بھی یہ شعر اِسی طرح لکھا گیا۔ بالِ جبریل کے صاف شدہ مسودے میں غلطی سے ’’کے‘‘ لکھ بیٹھے تو اُسے کاٹا اور دوبارہ ’’کی‘‘ بنایا۔ میری سمجھ میں یہی آتا ہے کہ مؤنث کا صیغہ یہاں طفیل کی رعائت سے نہیں بلکہ اَندلُسی کی رعائت سے آیا ہے کیونکہ یہاں تمام اندلسیوں کی نہیں بلکہ صرف اَندلُس کی عورتوں کی بات کر رہے ہیں۔ آخر چشمِ غزال اور نگاہوں کے تیر دلنشیں ہونا اسپین کے مردوں کی تصویرکشی تو نہیں ہے۔ اِس کے فوراً بعد تلمیح ہے ایک ایسی حدیث کی طرف جس پر خاص طور پر اہلِ تصوف وجد میں آتے ہیں یعنی اویس قرنیؓ یمن میں رہتے تھے تو رسولِ کریمؐ نے فرمایا کہ یمن کی طرف سے خوشبو آتی ہے۔ اقبال اندلُس کے بارے میں کہتے ہیں : بوئے یمن آج بھی اُس کی ہواؤں میں ہے رنگِ حجاز آج بھی اُس کی نواؤں میں ہے یہ بات یاد کر لیجیے کہ ا ویسِ قرنیؓ کبھی رسول اکرمؐ ؐ کی خدمت میں حاضر نہ ہو سکے اور عشق کی یہ داستان عاشق اور محبوب کے درمیان جدائی کے درد سے لبریز ہی رہی ۔ چنانچہ شعر کا مفہوم یہ ہوا کہ اندلس کے مسلمان عربوں نے جس دلسوزی کے ساتھ ایک تہذیب کی پرورش کی تھی اب جبکہ اُنہیں اندلس سے نکالا جا چکا ہے تب بھی یہاں عیسائی خواتین کی مشرقیت میںاُنہی مسلمانوں کی نشانی دکھائی دے جاتی ہے۔ جیسے اویسؓ مدینے نہ آ سکیں مگراُن کی خوشبو فضا میں موجود ہو۔ اندلس کی موسیقی کے عربی سُر تال آج بھی اِس جدائی کا احساس دلاتے ہیں۔ عورت کے ساتھ خوشبو کا ذکر کرنے میں اُس حدیث کی طرف لطیف اشارہ بھی ہو سکتا ہے جس میں رسولِ کریمؐ نے فرمایا کہ دنیا میں سے تین چیزیں آپؐ کے لیے محبوب بنائی گئی ہیں۔ عورت اور خوشبو، اور آپؐ کی آنکھوں کی ٹھنڈک نماز ہے۔ اقبال نے اِس حدیث کے حوالے سے ایک نجی خط میں لکھا بھی تھا کہ عورت کا ذکر نماز اور خوشبو کے ساتھ کرنا کس قدر لطیف استعارہ ہے۔ نظم ’’مسجدِ قرطبہ‘‘ میں اقبال یہی کر رہے ہیں۔ اب یہ بھی ذہن میں رکھیے کہ ابنِ عربی نے فصوص الحِکم میں اِسی حدیث کے حوالے سے نبوتِ محمدیؐ پر ایک باب لکھا ہے اور بچپن ہی میں اِس کتاب کے درس اقبال کے کانوں میں پڑے تھے (خواہ فصوص جیسی کتاب اِس سے زیادہ احتیاط کا تقاضا کرتی ہو)۔ یوں اِقبال کی سب سے عظیم اُردو نظم پر ابنِ عربی کا جو اثرمحسوس اور غیرمحسوس سطحوں پر موجود ہے وہ سامنے آجاتا ہے۔جملہ معترضہ، کسی زمانے میںمتروک مسودات کا ایک آدھ فقرہ پکڑ کر جس میں ابنِ عربی پر کچھ تنقید کی گئی ہوسمجھا جاتا تھا کہ اقبال ہمیشہ ابنِ عربی کے مخالف ہی رہے۔ اِس کے برعکس اتنا کچھ سامنے آ چکا ہے کہ اب یہ مفروضہ اقبالیات کا نہیں بلکہ ’’pseudo-Iqbaliat‘‘ کا حصہ ہے۔ ’مسجدِ قرطبہ‘ میں دُخترِ دہقاں کے گیت کا ذکر بھی ہے۔ جس طرح جاویدنامہ کے شروع میں اقبال کسی دریا کے کنارے رومی کی غزل گا رہے ہیں اُسی طرح اِس نظم کے آخر میں بالکل ویسے ہی لینڈاسکیپ میں کسی کسان کی نوجوان لڑکی گیت گا رہی ہے۔ کتنا خوبصورت، متحرک اور مترنم پس منظر ہے جس کے آگے دریائے کبیر کے کنارے کھڑے اقبال دُنیا کی تقدیر کے اُس منظر کو یاد کر رہے ہیں جو اُنہوں نے جاویدنامہ کے مطابق خدا کے حضور دیکھا تھا اور دیکھ کربیہوش ہو گئے تھے: وادیٔ کہسار میں غرقِ شفق ہے سحاب لعلِ بدخشاں کے ڈھیر چھوڑ گیا آفتاب سادہ و پرسوز ہے دُخترِ دہقاں کا گیت کشتیٔ دِل کے لیے سیل ہے عہدِ شباب آبِ روانِ کبیر! تیرے کنارے کوئی دیکھ رہا ہے کسی اور زمانے کا خواب عالمِ نَو ہے ابھی پردۂ تقدیر میں میری نگاہوں میں اُس کی سحر بے حجاب پردہ اُٹھا دُوں اگر چہرۂ افکار سے لا نہ سکے گا فرنگ میری نواؤں کی تاب جس میں نہ ہو انقلاب، موت ہے وہ زندگی رُوحِ اُمم کی حیات کشمکشِ انقلاب صورتِ شمشیر ہے دستِ قضا میں وہ قوم کرتی ہے جو ہر زماں اپنے عمل کا حساب نقش ہیں سب ناتمام خونِ جگر کے بغیر نغمہ ہے سودائے خام خونِ جگر کے بغیر ’’معتمدؔ اشبیلیہ کا بادشاہ اور عربی شاعر تھا،‘‘ وہ اگلی نظم کے نوٹ میں لکھتے ہیں۔ ’’ہسپانیہ کے ایک حکمراں نے اُس کو شکست دے کر قید میں ڈال دیاتھا، معتمدؔکی نظمیں انگریزی میں ترجمہ ہو کر ’وزڈم آف دی ایسٹ‘ سیریز میں شائع ہو چکی ہیں۔‘‘ ہسپانیہ کا حکمراں جس نے معتمدؔ کو شکست دی وہ یوسف بن تاشفین تھا جسے اسلامی تاریخ میں ہیرو سمجھا جاتا ہے۔ معتمدؔ کو عیاش اور نااہل سمجھا جاتا ہے۔ اقبال نے یہاں یہ تفصیل غیرضروری سمجھی۔ ’قیدخانے میں معتمد کی فریاد‘ ’مسجدِ قرطبہ‘ کا اینٹی کلائمکس ہے: اِک فغانِ بے شرر سینے میں باقی رہ گئی سوز بھی رخصت ہوا جاتی رہی تاثیر بھی قوموں کے عروج کی طرح اُن کا زوال بھی خدا کی نشانیوں میں سے ہے: جو مری تیغِ دودم تھی اب مری زنجیر ہے شوخ و بے پروا ہے کتنا خالقِ تقدیر بھی معلوم ہوااقبال کو طاؤس و رباب آخر والوں سے بھی دلچسپی تھی۔ اگلی نظم میںشمشیر وسناں کے ساتھ عبدالرحمٰن اول داخل ہوتا ہے تو وہ بھی اتفاق سے جنگ کا طبل نہیں بجوا رہا بلکہ سرزمینِ اندلس میں بوئے ہوئے کھجور کے پہلے درخت کو دیکھ کر دلسوز ہو رہا ہے۔خطاب درخت سے ہے مگرنظم دعائیہ ہے: غربت کی ہوا میں باروَر ہو ساقی ترا نمِ سحر ہو پچھلی نظم میں معتمد سینے سے سوز رخصت ہونے کی بات کر رہا تھا۔یہاں اُس سے پہلے کے حکمراں سے جو ملک شام کے قریب سے خطرات میں کھیل کر اندلس پہنچا تھا یہ جواب دلوایا ہے کہ زندگی دینے والا سوز اپنے آپ ہی میں سے آتا ہے ورنہ مٹی میں چنگاری پیدا نہیں ہوتی۔ انسانی جسم کے لیے خاک اور زندگی کے لیے چنگاری پرلطف استعارے ہیں: ہے سوزِ دروں سے زندگانی اُٹھتا نہیں خاک سے شرارہ صبحِ غربت میں اور چمکا ٹوٹا ہوا شام کا ستارہ مومن کے جہاں کی حد نہیں ہے مومن کا مقام ہر کہیں ہے معتمد اور عبدالرحمٰن کی نظمیں گویا مدھم اور پنچم ہیں۔ دونوں میں ذاتی کیفیات کا ذکر ہے۔ اگلی دو نظمیں بھی اِسی طرح مدھم اور پنچم ہیں مگراجتماعی زندگی کی کیفیات کے بارے میں ہیں۔ نظم ’ہسپانیہ‘ میں اقبال اَندلس سے خطاب کر رہے ہیں مگرچہ خاک میں سجدوں کے نشاں اور صبح کی ہوا میں خاموش اذانیں دعاکے تاثر کو قائم رکھتی ہیں۔ اِس نظم میں مسلمان رخصت ہو چکے ہیں مگر اگلی نظم میںبہت پہلے کے زمانے میں طارق بن زیاداندلس کے میدانِ جنگ میں خدا سے فتح کی دعا مانگ رہا ہے۔ اقبال گویا اُس تہذیب کا آخری رازداں ہے جو ہسپانیہ سے رخصت ہو رہا ہے۔ طارق پہلا جوانمرد تھا جو اُس تہذیب کو قائم کرنے آیا تھا۔ چنانچہ اقبال ہسپانیہ سے پوچھ رہے ہیں: پھر تیرے حسینوں کو ضرورت ہے حنا کی؟ باقی ہے ابھی رنگ مرے خونِ جگر میں! کیونکر خس و خاشاک سے دَب جائے مسلماں مانا، وہ تب و تاب نہیں اس کے شرر میں بہرحال اقبال مسافر ہیں، زیادہ سے زیادہ کیا کر سکتے ہیں! دیکھا بھی، دکھایا بھی، مگر دل کی تسلی نہ خبر میں ہے نہ نظر میں۔ دل کی تسلی جس میں ہے وہ اُس قسم کی دعا ہے جسے مانگنے کی اقبال خود ہمت نہیں کر سکتے خاص طور پرکسی لاؤ لشکر کے بغیر۔ چنانچہ اُس دعا کو فلیش بیک میں طارق کی زبانی پیش کرتے ہیں جب خیاباں میں لالہ بے لباس ہے تو اُسے اپنے خون کی قباپہنانے کے لیے وہ عرب صف باندھے کھڑے ہیںجن کی ٹھوکر پر صحرا اور دریا راستہ چھوڑ دیتے ہیں اور جن کی ہیبت سے پہاڑ سمٹ کر رائی ہو جاتے ہیں۔ لالہ، لہو، سوز وغیرہ کے استعارے اِن تمام اسپینی نظموں میں ایک لفظی اشتراک بھی پیدا کرتے ہیں۔ ’طارق کی دُعا‘ کے بعد لینن والی نظم ہے۔ یہ بھی دُعا ہی ہے اگرچہ ایک ایسے کردار کی زبان سے جسے زندگی میں خدا کے وجود سے انکار تھا۔ مرنے کے بعد خدا کے حضور پہنچنے کا تجربہ اُس کے لیے کیسا رہا ہو گا؟جاویدنامہ میں رُومی نے اقبال سے کہا تھا کہ اگر خدا کے حضور پہنچ کر بھی باقی رہو تو ہمیشہ باقی رہو گے اور یہ گویا اپنے وجود پر تیسری گواہی طلب کرنا ہے۔ اِس لحاظ سے لینن کا بیڑہ پار ہوتا نظر آتا ہے۔ غالباً سوال و جواب کے بعد اُسے عطارد کے فلک پر کوئی مقام مل جائے گا جہاں جمال الدین افغانی اُس کے ساتھ رُوس کی سیاست پر گفتگو کریں گے۔ جس طرح جاویدنامہ کی ’تمہیدِ آسمانی‘ میں فرشتوں کا گیت موجود ہے اُسی طرح یہاں بھی اِن نظموں میں جنہیں ہم تمہیدِ آسمانی کہہ سکتے ہیں، لینن والی نظم کے فوراً بعد ’فرشتوں کا گیت‘ آتا ہے اور پھر اِس پورے دعائیہ حصے کا اختتام خدا کے جواب پر ہوتا ہے۔ یہ صرف لینن کی شکایت (یا اُس کی دُعا) کا جواب ہی نہیں ہے بلکہ اپنی دُعا میں اقبال نے جو شکایت کی تھی کہ اُنہیں صرف فلسفہ و شعر عطا کیا گیا ہے اِس میں خدا اُس کا جواب بھی دیتا ہے اوراُسی پر بات ختم ہوتی ہے: تہذیبِ نوی کارگہِ شیشہ گری ہے آدابِ جنوں شاعرِ مشرق کو سکھا دو یہ بات دلچسپ ہے کہ اگلے اُردو مجموعے کا عنوان ضربِ کلیم ہوا جو اِس شعر کی تعبیر بنتا ہے۔ ۴ دعائیہ حصہ ختم ہونے پر نعتیہ حصہ ’ذوق و شوق‘ سے شروع ہوتا ہے۔ صراحت موجود ہے کہ اِن اشعار میں سے اکثر فلسطین میں لکھے گئے۔ وہ سفر اسپین کے سفر سے پہلے پیش آیا تھا مگر کتاب میں یہ نظم اسپین والی نظموں کے بعد رکھی۔ اِس سے بھی اندازہ ہوتا ہے کہ بالِ جبریل میں نظموں کی ترتیب کسی موضوعاتی اہتمام کے تابع ہے۔ ’مسجدِ قرطبہ‘ ایک شام پر ختم ہوئی تھی اور’ذوق و شوق‘ ایک صبح سے شروع ہوتی ہے۔ کسی صحرا میں پچھلی رات ہونے والے بارش کے آثار دکھائی دے رہے ہیں۔ سامنے وہ پہاڑ ہے جس کے دوسری طرف مدینہ کا راستہ دکھائی دے گا۔ آگ بجھی ہوئی اِدھر، ٹوٹی ہوئی طناب اُدھر اُن قافلوں کا پتہ دے رہی ہے جو پہلے اِس مقام سے گزر چکے ہیں۔ اقبال آگے جانا چاہتے ہیں مگر: آئی صدائے جبرئیل تیرا مقام ہے یہی اہلِ فراق کے لیے عیشِ دوام ہے یہی صدائے جبرئیل کا استعارہ معنی خیز ہے۔ اِس سے مراد اپنا وجدان اور دل کی آواز بھی ہو سکتی ہے مگر ایسی آواز جسے کم سے کم فطرت کی ازلی سچائیوں سے پیوستہ ہونے کے ناتے خدا سے تعلق ضرور ہو۔ ’اہلِ فراق‘ جاویدنامہ کی اصطلاح میں وہ روحیں ہیں جنہیں جنت راس نہیں آتی بلکہ اندرونی خلش اُنہیں دائمی حرکت پر اُکساتی رہتی ہے۔ اقبال کی کاسمالوجی میں ایسی روحیں مشتری کے فلک پر پائی جاتی ہیں۔ حلاج، غالب اور قرۃ ُالعین طاہرہ کو وہ اِنہی میں شمار کرتے ہیں مگر خواجۂ اہلِ فراق یعنی اہلِ فراق کا سردار ابلیس ہے۔بالِ جبریل کے پہلے سولہویں ٹکڑے میں اقبال نے اپنے لیے چاند کے غاروں میں نظربند ہونا پسند کیا تھا جووِ شوامتر کے مسلک سے قریب تھا۔ یہاں وہ دوسرے مسلک کی ترجمانی کرتے دکھائی دیتے ہیں جو حلاج کا مسلک ہے: کس سے کہوں کہ زہر ہے میرے لیے مئے حیات کہنہ ہے بزمِ کائنات، تازہ ہیں میرے واردات! کیا نہیں اور غزنوی کارگہِ حیات میں بیٹھے ہیں کب سے منتظر اہلِ حرم کے سومنات اِس بند کوجاویدنامہ میں اہلِ فراق سے گفتگو کی روشنی میں پڑھنا چاہیے جہاں حلاج کہتے ہیں کہ ُانہیں ایک قوم دکھائی دی جس کے افراد خدا پر یقین رکھتے تھے مگر اپنے آپ پر یقین نہیں رکھتے تھے۔ اہلِ حرم کے یہی سومنات ہیں جن کے سامنے دوسروں کو سر جھکاتے دیکھ کر اقبال کو افسوس ہوتا ہے مگر کوئی نہیں جو تقدیر پرستی سے قوم کو نجات دلائے۔ ذکرِ عرب کا سوز عربی مشاہدات سے خالی ہے جس نے کبھی استقرائی طریقۂ کار کی بنیاد رکھ کر سائنس کو نئی زندگی دی تھی اور فکرِ عجم کے ساز میں وہ عجمی تخیلات نہیں رہے جن سے رومی کے شعر کا لالہ زار کھلا تھا۔ سیاست کا حال یہ ہے کہ یزید یت دوبارہ زندہ ہو چکی ہے مگر قافلۂ حجاز میں ایک حسین بھی نہیں۔ اس کی وجہ کیا ہے؟ عشق کی کمیابی: عقل و دل و نگاہ کا مرشدِ اولیں ہے عشق عشق نہ ہو تو شرع و دیں بتکدۂ تصورات! صدقِ خلیلؑ بھی ہے عشق صبرِ حسینؑ بھی ہے عشق! معرکۂ وجود میں بدر و حنین بھی ہے عشق! دو باتیں قابلِ غور ہیں۔ پہلی یہ کہ اقبال نے عشق کی جامع تفسیر اسرارِ خودی میں پیش کی تھی اور وہیں مسلمانوں کے حوالے سے عشق کو عشقِ رسول سے لازم و ملزوم کر دیا تھا۔ چنانچہ عشق کی شان میں یہ پورا بند عشقِ رسول کی تمہید ہے جیسا کہ ابھی معلوم ہو جائے گا۔ دوسری بات یہ ہے کہ اقبال کے نزدیک مذہب کی اَساس اُس کے فکری نظام پر نہیں بلکہ پیغمبر کو خدا کی تجلیات کا جو ذاتی تجربہ ہوتا ہے اُس پر ہوتی ہے۔ قوم کی زندگی کی تجدید بھی انہی استعاروں کی تجدید سے ہوتی ہے۔ یہی عشق ہے جو نہ ہو تو شرع و دیں تصورات کا صنم کدہ بن کر رہ جاتے ہیں۔ آقائے بدر و حنینؐ جن کی بعثت کی تمہید صدقِ خلیل اور جن کے فیض کی بازگشت صبرِ حسینؑ تھا، اب تیسرے بند میں اُن کے بارے میں گفتگو شروع ہوتی ہے۔ پہلا ہی مصرع ایسا ہے جس کی تشریح کے لیے اقبال کو اِس نعت کے بعد اور کئی نظموں کی ضرورت پیش آئے گی۔ رسولِ اکرمؐ کی ذات کائنات کی آیت کا وہ معنی ہے جو بہت دیر میں سامنے آئے: آیۂ کائنات کا معنیٔ دیریاب تُو! یہ کائنات خدا کی آیات یعنی نشانیوں میں سے ہے۔ قدرت کے قوانین بھی اُسی کی مرضی کے آئنہ دار ہیں اور تاریخ کے عمل سے بھی خدا کی مشیت ظاہر ہوتی ہے۔ وقت کو برا نہیں کہا جا سکتا کیونکہ خدا کہتا ہے کہ میں ہی وقت ہوں۔ چنانچہ دنیا میں جو کچھ ہو رہا ہے اقبال اُسے خدا کی نشانی قرار دیتے ہیں مگر سوال یہ ہے کہ اِس نشانی کا کیا مطلب سمجھا جائے؟ اگر دنیا میں ظلم ہے تو کیا ظالموں کو خدا کی حمایت حاصل ہے؟ اگر دنیا میں غریب اور امیر کے حال میں فرق ہے تو کیا خدا یہی چاہتا ہے ؟ یہ وہ سوال ہیں جو دنیا کو خدا کی نشانی قرار دینے سے پیدا ہوتے ہیں اور اقبال کے خیال میں ان کا بہترین جواب رسولِ اکرمؐ کی ذات میں موجود ہے جس کی ایک جھلک آپؐ کی لائی ہوئی شریعت ہے مگر افسوس کہ اب اس شریعت کے زندہ حقائق کو سمجھنے والے صرف اقبال رہ گئے ہیں۔ باقی سب فروعی بحثوں میں اُلجھے ہوئے ہیں: جلوتیانِ مدرسہ کورنگاہ و مردہ ذوق خلوتیانِ میکدہ کم طلب و تہی کدُو! میں کہ مری غزل میں ہے آتشِ رفتہ کا سراغ میری تمام سرگذشت کھوئے ہوؤں کی جستجو! کھوئے ہوؤں کی جستجو سے کیا مراد ہے؟ کیا اقبال یہ کہہ رہے ہیں کہ اُن کا کلام ماضی پرستی کا آئنہ دار ہے؟ ایسا نہیں ہے بلکہ ’’کھوئے ہوؤں کی جستجو‘‘ رومی کی مشہور غزل کے ایک ٹکڑے ’’یافت می نشود آنم آرزوست‘‘ کا آزاد ترجمہ ہے۔ جب اقبال خود اِس غزل کو اپنی دو اہم ترین کتابوں یعنی اسرارِخودی اور جاویدنامہ کے آغاز پر باقاعدہ سَند کے ساتھ نقل کر چکے ہوں تو یقینا اپنے پڑھنے والوں سے اُمید کر سکتے ہیں کہ وہ اِس حوالے کو پہچانیں گے اور اُن کے شعر کا مطلب سمجھنے کے لیے رومی کی پوری غزل کو سامنے رکھیں گے: بنمائے رُخ کہ باغ و گلستانم آرزوست بکشائے لب کہ قندِ فراوانم آرزوست یک دست جامِ بادہ و یکدست زلفِ یار رقصِ چنیں بصحنِ گلستانم آرزوست دی شیخ با چراغ ہمی گشت گردِ شہر کز دام و دُد ملولم و انسانم آرزوست از ہمرہانِ سست عناصر دلم گرفت شیرِ خدا و رستمِ دستانم آرزوست گفتم کہ یافت می نشود جستہ ایمِ ما گفتا کہ یافت می نشود آنم آرزوست ’’کس سے کہوں‘‘ والا بند یعنی نظم کا دوسرا بند خاص طور پر ’’ازہمرہانِ سست عناصر‘‘ والے شعر کا اُکسایا ہوا معلوم ہوتا ہے اورجہاں تک کھوئے ہوؤں کی جستجو کی بات ہے تو رومی کی غزل کو سامنے رکھتے ہوئے اِس میں ماضی پرستی کا استعارہ نہیں بلکہ ایک تخیل کی تلاش اور پرورش کرنے کا ذوق جھلکتا ہے۔ اِس بند کا ٹیپ کا شعر اقبال کا اپنا ہے اور ایسا پسندیدہ کہ پوری فارسی غزل زبورِ عجم کے بعد دوبارہ جاویدنامہ میں استعمال کی اور پھر اُس کے مطلع کا ترجمہ ’’گیسوئے تابدار کو اور بھی تابدار کر‘‘ کی صورت میں کیا۔ اُس پر بھی دل نہیں بھرا ہو گا کہ اب اصل فارسی مطلع ٹیپ کے شعر کے طور پر دوبارہ لے آئے ہیں۔ اقبال نے شائد اپنے کسی اور شعر کی اپنے کلام میں اِس طرح تکرار نہیں کی ہے: فرصتِ کشمکش مدہ ایں دلِ بے قرار را یک دو شکن زیادہ کن گیسوئے تابدار را زبورِ عجم اور بالِ جبریل دونوں جگہ یہ شعر بلکہ پوری غزل خدا کو مخاطب کر کے کہی ہے۔ جاویدنامہ میں یہ غزل گناہگار عورت توبہ کرنے کے بعد مہاتما بدھ سے مخاطب ہو کر پڑھتی ہے اور بدھ مت کے مطابق وہ ایک طرح سے مہاتما بدھ کو اگر الوہیت کا درجہ نہیں دیتی تو یہ مقام ضرور دیتی ہے کہ اُن کا دھیان کرنے سے روح اپنی اصل تک پہنچ سکتی ہے۔ جاویدنامہ میں اقبال نے عبدہ ٗکی بحث میں جو نکات پیش کئے ہیں اُنہیں سامنے رکھیے تو اِس شعر کو حمد سے نکال کر نعت میں رکھنے کی شاعرانہ رمز بھی واضح ہو جاتی ہے۔ اگلا پورا بند آیۂ کائنات والے مصرع کی تشریح ہے۔ رسولِ اکرمؐ کی بعثت نے ہمیں زندگی کے کون کون سے رموز سکھائے ہیں؟ یہاں اُن کی صرف فہرست ترتیب پا رہی ہے اور آگے چل کر ہر موضوع پر کم سے کم ایک نظم ضرور آپ کو ملے گی۔ پہلی بات یہ ہے کہ رسولِ اکرمؐ کی رفعت و منزلت کا ادب کرنے کے لیے یہ سمجھنا بہت ضروری ہے کہ آپؐ کی بعثت زندگی کے اسرار کو اُن کے اندر سے منکشف کرتی ہے۔ یہ زندگی کا داخلی تجربہ ہے۔ فلسفیانہ طریقِ کار جو زندگی کو خارجی طور پر سمجھنے کی کوشش کرتا ہے وہ اِس پیغمبرانہ افہام کے ساتھ اپنا موازنہ نہیں کر سکتا۔ اِس بات کو اقبال نے یہاں اُس لازوال شعر میں ادا کیا ہے کہ لوحِ محفوظ جس پرقرآن لکھا گیا وہ بھی رسولؐ ہی کی ذات ہے، جس قلم نے اُسے لکھا وہ بھی آپؐ ہی ہیں اور وہ قرآن جو لکھا گیا وہ بھی آپ ہی ہیں! لَوح بھی تُو، قلم بھی تُو، تیرا وجود الکتاب! گنبدِ آبگینہ رنگ تیرے وجود میں حباب! دوسرے مصرع کا مطلب یہ ہے کہ آپؐ وہ سمندر ہیں جو اِتنا وسیع ہو کہ یہ پورا آسمان اُس پر اُلٹا رکھا ہوا ایک بلبلہ دکھائی دے۔ نعتیہ ادب میں یہ شعر اقبال کے تخیل کا ایسا کارنامہ ہے جس پر کچھ دیر کے لیے ذہن محو ہو کر رہ جاتا ہے۔ بہرحال یہ زندگی کو سمجھنے کے لیے اُس داخلی طریقِ کار کی نشاندہی تھی جو نبوت کا امتیاز ہے۔ اب نبوت کے فیض کی چند مثالیں: ۱ تہذیبوں کا عروج جیسے ذرّۂ ریگ کو فروغِ آفتاب مل جائے۔ ۲ جہاں بانی اور امورِ مملکت کی تدوین گویا شوکتِ سنجر و سلیم آپؐ کے جلال کی نمود تھی۔ ۳ تزکیۂ نفس گویا فقرِ جنید و بایزید آپؐ کا جمالِ بے نقاب ہے۔ ۴ روح کو دنیاوی سطح سے بلند کر کے خدا تک پہنچانا گویا آپ کا شوق نماز نہ پڑھوایا رہا ہو تو یہ بات قیام سے میسر آ سکتی ہے نہ سجدوں سے۔ ۵ انسان کی تمام صلاحیتوں کے درمیان ہم آہنگی جس کی وجہ سے زندگی کو اُس کی کُلیّت میں سمجھا جا سکتا ہے۔ گویا آپؐ کی نگاہِ ناز سے خارجی طور پر زندگی کا تجزیہ کرنے والی عقل بھی اور داخلی طور پر تڑپ تڑپ کر مشاہدہ کرنے والا عشق بھی مراد پا گئے۔ آئندہ کئی نظموں میں ان مقامات کی تشریح آئے گی مگر نظم کا اختتام ایک ذاتی واردات پر ہوتا ہے یعنی ’’مجھ کو خبر نہ تھی کہ ہے علم نخیلِ بے رطب۔‘‘ رومی کی طرح ہر ایک کو کبھی نہ کبھی اپنی کتابیں کسی تالاب میں پھنکوانی پڑتی ہیں تاکہ بانسری کی آواز کا مطلب سمجھ میں آ سکے۔ ہجر کا بیان نظم کے شروع میں بھی تھا اور آخر میں بھی ہے۔ اگلی نظم ’پروانہ اور جگنو‘ اِسی سے پیوستہ ہے۔ اس کے بعد چند مختصر نظمیں ہمیں ایک بہت بڑی نظم کے لیے تیار کرتی ہیں۔ مختصر نظمیں ’جاوید کے نام‘، ’گدائی‘، ’ملا اور بہشت‘، ’دین و سیاست‘ اور ’الارضُ للہ‘ ایک تسلسل کے ساتھ اِس خیال کا اثبات کرتی ہیں کہ روح اور مادہ ایک ہی حقیقت ہیں اور اِس اندازِ نگاہ کا سب سے گہرا اثر دُنیا وی معاملات پر یہ ہونا چاہیے کہ انسان دُنیا کو قیصر کی جاگیر سمجھ کر اپنا حق چھوڑ نہ دے۔ حقیقی فقر ترکِ دنیا نہیں بلکہ استبداد کا مقابلہ کرناہے۔ طاغوتی قوتوں کے انعام و اکرام سے بے نیاز ہو کر گنبدِ مینائی اور عالمِ تنہائی میں یہ راز سمجھنا ہے کہ ہم شاخ سے کیوں ٹوٹے ہیں۔’ایک نوجوان کے نام‘، ’نصیحت‘ اور ’لالۂ صحرا‘ میں یہ نکتہ بیان ہوا ہے۔ اِس کے بعد وہ طویل نظم جو اُردو میں اُن افکار کا خلاصہ ہے جنہیں اقبال فارسی مثنویوں میں تفصیل سے پیش کر چکے تھے۔ یہ طویل نظم ’ساقی نامہ‘ ہے جو خودی، زندگی اور بین الاقوامی سیاست میں ایک مثالی روش کے نقوش شاعرانہ اختصار کے ساتھ پیش کرتی ہے۔ دلچسپ بات ہے کہ بائیس تئیس برس پہلے جب اقبال نے اپنی طویل مثنوی لکھنے کا منصوبہ بنایا تھا تو پہلے اردو ہی میں طبع آزمائی کی تھی مگر پھر فارسی کی طرف متوجہ ہو گئے تھے۔ ’ساقی نامہ‘ کو اُسی پرانی کوشش کی تکمیل سمجھنا چاہیے۔ اسرار و رموز اور جاویدنامہ سے اِس کا موازنہ کریں تو سمجھ میں آتا ہے کہ اُردو میں فلسفیانہ خیالات اُس تفصیل کے ساتھ بیان نہیں کئے جا سکتے تھے جس طرح وہ اُن کتابوں میں بیان ہوئے۔ اِس طویل نظم کو اُن تینوں مثنویوں کی روشنی ہی میں سمجھنا چاہیے۔ ’ساقی نامہ‘ میں اگر خودی کا فلسفہ ہے تو یہ اُن کے یہاں کبھی وقت کے ذکر کے بغیر مکمل نہیں ہوتا۔ اسرارِ خودی کے آخر میں بھی امام شافعی کے ایک قول کی تفسیر میں وقت پر باب لکھا تھا۔ یہاں بھی نظم ’زمانہ‘ موجود ہے۔ انسان اپنی خودی کی تعمیر زمان و مکان کی قید میں آ کر ہی بہتر کر سکتا ہے اور اثرِ آہِ رسا دیکھ سکتا ہے جیسا کہ اِس کے بعد کی دو نظموں میں وضاحت ہے: ’فرشتے آدم کو جنت سے رخصت کرتے ہیں‘ اور ’رُوحِ ارضی آدم کا استقبال کرتی ہے‘۔ یہ تینوں نظمیں پیامِ مشرق کی نظموں ’نوائے وقت‘ اور’ تسخیرِ فطرت‘ سے ماخوذ دکھائی دیتی ہیںاگرچہ شعری اسلوب مختلف ہیں۔ اگلی طویل نظم ’پیر و مرید‘ کو منقبت سمجھنا چاہیے جس میں اقبال اپنے پیر و مرشد رومی سے مکالمے کی صورت میں عہدِ جدید کے مسائل کو اُن کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ مشرق میں رواج رہا ہے کہ شعرأ دوسرے بڑے شاعروں کے کلام میں سے اپنی پسند کے اشعار اکٹھے کرتے تھے اور اسے کشکول کہتے تھے۔ رسالہ مخزن، جس میں اقبال کی نظمیں شروع شروع میں شائع ہوتی تھی ’کشکول‘ کے عنوان سے ایسا انتخاب باقاعدہ شائع بھی کیا کرتا تھا۔ نظم ’پیر و مرید‘ ایک طرح سے اقبال کا کشکول بھی ہے جس میں رومی کے پسندیدہ اشعار کو سلیقے سے سجایا گیا ہے اور دلچسپی بڑھانے کے لیے اپنے سوال شامل کر دیے ہیں۔ رومی کے ذکر پر اقبال عام طور پر آسمانی فضا میں پہنچ جایا کرتے ہیں۔ یہاں بھی ’پیر و مرید‘ کے فوراً بعد کی نظمیں مابعد الطیعاتی فضا قائم کرتی ہیں۔ ’جبریل و ابلیس‘، ’اذان‘، ’محبت‘، ’ستارے کا پیغام‘، ’جاوید کے نام‘، ’فلسفہ و مذہب‘، ’یورپ سے ایک خط‘ اور ’جواب‘ معنوی طور پر اُردو میں جاویدنامہ کی یاد دلاتی ہیں۔ ’جبریل و ابلیس‘ بالِ جبریلکی مشہور نظم ہے۔ تبصرہ کرنے والوں نے بہت کچھ لکھا ہے بلکہ بعضے تو سیر کے واسطے تھوڑی سی فضا اور پیدا کرنے کے لیے ملٹن کو بھی شامل کر لیتے ہیں۔ ابلیس کا یہ کہنا، ’’میں کھٹکتا ہوں دلِ یزداں میں کانٹے کی طرح، تُو فقط اللہ ہو۔۔۔‘‘ کچھ پہنچے ہوئے بزرگوں کو اقبال کے لاشعور میں نیٹشے ڈھونڈنے پر آمادہ کر دیتا ہے مگر کیا یہ انصاف ہے کہ آج تک یہ نہ دیکھا گیا کہ’جبریل و ابلیس‘ سے اگلی نظم کون سی ہے اور اُس کا کتنا گہرا تعلق اِس مضمون کے ساتھ ہے؟ اگلی نظم ’اذان‘ ہے۔ ’جبریل و ابلیس‘ شیطان کا عالمِ فطرت کے ساتھ مکالمہ تھا، یہ انسان کا ہے: اذان اِک رات ستاروں سے کہا نجمِ سحر نے آدم کو بھی دیکھا ہے کسی نے کبھی بیدار؟ کہنے لگا مریخ، ادافہم ہے تقدیر ہے نیند ہی اُس چھوٹے سے فتنے کو سزاوار زُہرہ نے کہا، اور کوئی بات نہیں کیا؟ اُس کرمکِ شب کور سے کیا ہم کو سروکار! بولا مہِ کامل کہ وہ کوکب ہے زمینی تم شب کو نمودار ہو، وہ دن کو نمودار واقف ہو اگر لذّتِ بیداریِ شب سے اونچی ہے ثریا سے بھی یہ خاکِ پراسرار آغوش میں اِس کی وہ تجلی ہے کہ جس میں کھو جائیں گے افلاک کے سب ثابت و سیار ناگاہ فضا بانگِ اذاں سے ہوئی لبریز وہ نعرہ کہ ہل جاتا ہے جس سے دلِ کہسار! اِس نظم میں اجرامِ فلکی سائنسی اعتبار سے بھی صحیح مقام پر ہیں اور اقبال کے اُس نظامِ کائنات سے بھی مربوط ہیں جو جاویدنامہ میں پیش کیا گیا۔ پہلی بات یہی ہے کہ ہر رات کئی عبادت گزار اُٹھتے ہیں جیسا کہ نظم کے آخری شعر سے بھی ظاہر ہے تو پھر صبح کے ستارے نے یہ کیوں پوچھا کہ کیا آدم کو بھی کسی نے کبھی بیدار دیکھا ہے؟ لطیف نکتہ یہ ہے کہ صبح کا ستارہ زمین سے دُور ہے لہٰذا اُسے انسان دکھائی نہیں دے سکتا۔ خود سحرخیز ہے اس لیے دُوسرے ستاروں سے پوچھ رہا ہے کہ جسے اشرف المخلوقات بنایا گیا ہے کیا وہ بھی سحرخیزی ہی میں اِس ستارے کا مقابلہ کر سکتا ہے؟ جواب دینے والے زمین کے قریب ترین سیارے ہیںیعنی مریخ، زہرہ اور چاند۔ ان کے جوابات میں بھی ایک رمز پوشیدہ ہے۔ جاویدنامہمیں مریخ پر ایسی مخلوق دکھائی گئی ہے جو اپنی روشن ضمیری کی وجہ سے تقدیر پر قابو پا چکی ہے۔ جب اقبال اور رومی وہاں پہنچتے ہیں تو مریخ کا ایک حکیم اقبال سے کہتا ہے کہ تم جیسے ہو تمہاری تقدیر اُس کے مطابق ہو گی۔ تم بدل جاؤ تو تمہاری تقدیر بھی بدل جائے گی۔جاویدنامہ کا بغور مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ برتر مخلوق دراصل انسان کا ممکنہ مستقبل ہے جو ابھی پردۂ تقدیر میں ہے۔ مریخ نے یہاں جو بات کہی ہے وہ حکیمِ مریخی کے اُسی مکالمے سے مناسبت رکھتی ہے۔ جاویدنامہ میں زہرہ پر ایک ٹھہرا ہوا سرد سمندر ہے جس کی تہ میں مکمل اندھیرا ہے۔ وہاں فرعون اور کچنر کی روحیں رکھی گئی ہیں۔ چونکہ اُس سیارے نے انسانوں کی صرف یہی قسم دیکھی ہے لہٰذا اُس کا انسان کو ’’کرمکِ شب کور‘‘ کہنا جاویدنامہکے نظامِ کائنات کے عین مطابق ہے۔ یوں مریخ اور زہرہ کے جوابات میں انسانوں کی دو قسمیں آ گئی ہیں جن کی مکمل تفصیل جاویدنامہمیں دیکھی جا سکتی ہے۔ اِن میں سے ایک احسن التقویم ہے اور ایک اسفل السافلین ہے۔ اِن دونوں کے درمیان انسان کو اختیار ہے ۔ چاند اِسی اختیار کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ زمین کے سب سے زیادہ قریب ہونے کی وجہ سے کلامِ اقبال میں ہر جگہ اُسے انسان کا ہمراز بتایا گیا ہے، مثال کے طور پر ’جوابِ شکوہ‘ کے شروع میں ہے کہ جب اقبال کی آواز آسمانوں میں گونجی تو چاند نے کہا، ’’اہلِ زمیں ہے کوئی!‘‘ جاویدنامہمیں چاند روح میں سفر کی پہلی منزل کے طور پر پیش کیا گیا ہے جس کے ایک غار میں وشوامتر خدا کے راز بتاتے ہیں، ایک اور مقام پر نوائے سروش غیب کے مضامین صریرِ خامہ میں ڈھالنے کا اہتمام کرتی ہے اور وادیٔ یرغمید جسے فرشتے پیغمبروں کی وادی کہتے ہیں وہاں مہاتما بدھ، زرتشت، مسیح اور رسول اکرمؐ کی طواسین ہیں جن میں خیر و شر کی کشمکش کے چار مذہبی پہلو پیش کیے گئے ہیں۔ چنانچہ چاند ہی انسان کی صحیح حقیقت سے بقیہ ستاروں کو آگاہ کر سکتا ہے۔ آخری شعر میں انسان کا فطرت کے ساتھ مکالمہ اذان کی صورت میں پیش کیا گیا ہے، ’’وہ نعرہ کہ ہل جاتا ہے جس سے دلِ کوہسار!‘‘ سوال اٹھتا ہے کہ جب یہ نعرہ ہر صبح بلند ہوتا ہے تو ستارے آج تک اِس سے بیخبر کیوں تھے؟ وجہ یہ ہے کہ ابھی پوری دنیا اِس کی رُوح کے مطابق ترتیب پانا باقی ہے جب زمین پر صرف خدا کی بڑائی ہو اور کسی انسان کی دوسرے انسان پر بالادستی قائم نہ رہے۔ دلچسپ بات ہے کہ ابلیس نے کہا تھا، ’’میں کھٹکتا ہوں دلِ یزداں میں کانٹے کی طرح‘‘ اور دلِ یزداں کی ترکیب غالباً کلامِ اقبال میں صرف ایک اور نظم میں استعمال ہوئی ہے۔ وہ نظم پہلی بار زبورِ عجم میں شامل کی گئی اور پھر اگلی کتاب جاویدنامہکی ’تمہیدِ آسمانی‘ میں فرشتوں کے گیت کے طور پر دہرائی گئی۔ وہاں کہانی کچھ یوں بیان ہوتی ہے کہ جب روزِ ازل آسمان نے زمین کو روشنی سے محروم ہونے کا طعنہ دیا تو آسمانوں کے اُس طرف سے ایک آواز آئی کہ زمین ہی کی مٹی سے وہ انسان پیدا کیا جائے گا جس کی تجلی کے سامنے چاند ستارے ماند پڑ جائیں گے (نظم ’اذان‘ میں چاند نے یہی بات دہرائی ہے)۔ تب فرشتوں نے وہ نظم گائی جسے زبورِ عجم میں بھی پیش کیا گیا۔ نظم کا مفہوم یہ ہے کہ ایک روز خاک کی مٹھی کی چمک روشن مخلوقات سے بڑھ جائے گی اورہماری قسمت کے ستارے سے زمین آسمان بن جائے گی: فروغِ مشتِ خاک از نوریاں افزوں شود روزے زمیں از کوکبِ تقدیرِ ما گردوں شود روزے اِسی نظم کے آخری شعر میں ’’دلِ یزداں‘‘ کی ترکیب آتی ہے کہ جب یہ انوکھا مضمون موزوں ہو جائے گا تو اِس کی تاثیر سے یزداں کا دل بھی پرخوں ہو جائے گا: چناں موزوں شود ایں پیش پا افتادہ مضمونے کہ یزداں را دل از تاثیرِ اُو پرخوں شود روزے اب ہم سمجھ سکتے ہیں کہ ابلیس کاکہنا، ’’میں کھٹکتا ہوں دلِ یزداں میں کانٹے کی طرح‘‘ دراصل انسان سے حسد کی وجہ سے ہے۔ جاویدنامہ کے مطابق فرشتوں ہی نے یہ بات کہی تھی کہ انسان کا مضمون موزوں ہو کر دلِ یزداں کو پرخوں کر دے گا۔چنانچہ اب ابلیس ایک فرشتے ہی کو اِس کا جواب دے رہا ہے۔ اب بات مکمل ہو جاتی ہے۔ ابلیس بھی جنت سے نکالا ہوا ہے اور انسان بھی۔ دونوں کو پیغامِ حق کی دعوت جبریل ہی کے ذریعے ملتی ہے مگر ابلیس ڈینگیں مارنے لگتا ہے جس کے سامنے بظاہر جبریل بھی لاجواب دکھائی دیتے ہیں مگر ابلیس کی شیخیوں کی پول اُس وقت کھلتی ہے جب جنت سے نکالی ہوئی دوسری مخلوق اسی جبریل کی دعوت پر یہ نعرہ بلند کرتی ہے کہ اللہ سب سے بڑا ہے۔ بالِ جبریل کا وہ اڈیشن جو اقبال نے خود مرتب کر کے اپنی زندگی میں شائع کروایا تھا اُس میں نظم ’اذان‘ کے فوراً بعد یہ مشہور قطعہ تھا جو یقینا اِس نظم پر شاعر کے تبصرے کی حیثیت رکھتا ہے: اندازِ بیاں گرچہ بہت شوخ نہیں ہے شاید کہ ُاتر جائے ترے دل میں مری بات یا وسعتِ افلاک میں تکبیرِ مسلسل یا خاک کے آغوش میں تسبیح و مناجات وہ مذہبِ مردانِ خودآگاہ و خدامست یہ مذہبِ مُلّا و جمادات و نباتات کتنی بڑی زیادتی ہے کہ نہ صرف ’جبریل و ابلیس‘، ’اذان‘ اور ’قطعہ‘ کے درمیانی ربط پر کبھی توجہ نہیں دی گئی بلکہ بعد میں بالِ جبریل کے اڈیشنوں میں سے ’قطعہ‘ یہاں سے ہٹا کر خواہ مخواہ کسی اور جگہ رکھ دیا گیا! اقبال نے بالِ جبریل کے شروع میں فہرستِ مضامین بھی نہیں دی تھی جس کی وجہ یہی تھی کہ یہ مسلسل پڑھنے کی کتاب ہے۔ مثال یہی ہے کہ اِن تین نظموں کو ترتیب میں پڑھنے سے نہ صرف ان کے معانی میں کئی گنا اضافہ ہو گیا ہے بلکہ یہ اقبال کے تخیل کی پوری کائنات کے ساتھ بڑی خوبی کے ساتھ مربوط بھی ہیں۔ یہ صرف نظم ’اذان‘ کا ایک ابتدائی تعارف تھا۔ اِس کی ساخت میں جو رموز پنہاں ہیں اُن کا جائزہ اِس مقالے میں نہیں لیا جا سکتا۔ آج مغرب میں رومی جس طرح مقبول ہو رہے ہیں اُس کی روشنی میں نظم ’یورپ سے ایک خط‘ زیادہ دلچسپ ہو جاتی ہے: ہم خوگرِ محسوس ہیں ساحل کے خریدار اِک بحرِ پُرآشوب و پراسرار ہے رُومیؔ تُو بھی ہے اُسی قافلۂ شوق میں اقبالؔ جس قافلۂ شوق کا سالار ہے رُومیؔ اِس عصر کو بھی اُس نے دیا ہے کوئی پیغام؟ کہتے ہیں چراغِ رہِ احرار ہے رومیؔ اس نظم کو اقبال کے اُس قسم کے اشعار کے ساتھ ملا کر پڑھیں جیسے علاجِ آتشِ رومی کے سوز میں ہے تراوغیرہ تو محسوس ہوتا ہے کہ مغرب میں رومی کی مقبولیت کی پیش گوئی اقبال پہلے سے کر گئے تھے۔ یورپ سے خط کے ’جواب‘ میں رومی سے کہلوایا ہے کہ جو گھاس کھائے گا وہ آخر چھری کے نیچے آئے گا اور جو نورِ حق سے اپنی پرورش کرے گا وہ خدا کی نشانی بن جائے گا۔ اِس لحاظ سے اگلی چند نظمیں یورپ کے ماحول میں ایک پرجوش مسافر کے تجسس کی علامت ہیں۔ وہاں اقبال کو نپولین کا مزار اور مسولینی ماضی اور مستقبل کے استعارے دکھائی دیتے ہیں۔ اِن نظموں کا اسپین والی نظموں سے موازنہ کیا جا سکتا ہے۔ اقبال نے دل کھول کر مسولینی کی تعریف کی ہے۔ اس نظم کے حوالے سے اقبال کی گرفت کرنا اقبال کے ناقدین اور بالخصوص اُن ناقدین کا محبوب مشغلہ ہے جنہیں کبھی فرصت سے اقبال کا مطالعہ کرنے کا موقع نہیں ملا۔ اس بحث کا آغاز اقبال کی زندگی ہی میں ہو گیا تھا مگر بعض دوسرے شاعروں مثلاً ٹیگور کے برخلاف اقبال نے کبھی اپنی نظموں کی سیاسی درستگی کے لیے دور ازکار دلائل لانے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ ‘‘بندۂ خدا! اگر اُس آدمی میں ولی اور شیطان دونوں کی صفات جمع ہو گئی ہوں تو میں کیا کر سکتا ہوں،‘‘ اقبال کا اپنی مسولینی والی نظم کے بارے میں سیدھا سادہ بیان تھا۔ اگلی کتاب میں مسولینی کی ہوسِ ملک گیری کی مذمت کی اور حبشہ پر حملے کے حوالے سے اُسے یورپ کے کرگسوں میں بھی شمار کیا لہٰذا یہ سمجھنے میں کوئی حرج نہیں کہ یہاں مسولینی کے اچھے یا برے ہونے پر اصرار نہیں ہے بلکہ اٹلی کی ایک مختصر سیاحت میں اقبال نے جو کچھ محسوس کیا اُسے ایک کرشمہ ساز رہنما سے منسوب کر کے بیان کر دیا (اقبال کے یہاں پوری قوم بلکہ پوری انسانیت کی توانائیوں کے ایک خودی کی طرح یکجا ہونے کا تصوّر بھی فلسفۂ بیخودی کی شکل میں موجود تھا)۔ اِس کے بعد مشرق کی سیاسیات کے حوالے سے کچھ نظمیں ایک سوال کے ساتھ شروع ہوتی ہیں کہ اے خدا کیا فرشتے آپ کی اجازت سے کم ظرف لوگوں کو اقتدار عطا کرتے ہیں؟نظم ’پنجاب کے دہقان سے‘ اس سوال کی وضاحت ہے۔ مشرق میں مزاحمت کی روح اگلی نظموں ’نادر شاہ افغان‘، ’خوشحال خاں کی وصیت‘ اور ’تاتاری کا خواب‘ میں دکھائی دیتی ہے۔ ’تاتاری کا خواب‘ پر یہ اعتراض کیا جا سکتا ہے کہ تیمور کی روح سے یہ کیونکر کہلوایا گیا کہ ترکوں کا ترکوں سے دُور ہونا ٹھیک نہیں۔ اگر تیمور کو ترک سمجھا جائے تو پھر اُس نے ترکی کے عثمانی سلطان کی آبرو خاک میں ملاتے ہوئے خود کون سی مروّت دکھائی تھی۔ مگر نظم میں تیمور کا پیغام ایک تاتار ی کے خواب میں بیان کیا گیا ہے اور خواب میں کچھ بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ اگلی نظمیں خودداری اور سخت کوشی کی سلسلہ وار تلقین ہیں: ’حال و مقام‘، ’ابوالعلا معری‘، ’سنیما‘، ’پنجاب کے پیرزادوں سے‘، ’سیاست‘، ’فقر‘، ’خودی‘، ’جدائی‘، ’خانقاہ‘، ’ابلیس کی عرضداشت‘،’لہو‘ اور ’پرواز‘ ایسی نظمیں ہیں جن میں اُس زمانے کے شمالی ہندوستان کی سیاسی اور سماجی زندگی پر کچھ تبصرے پیش کئے گئے ہیں۔ اِن نظموں کو آپس میں مربوط کر کے پڑھنے سے معاصر زندگی کی یہ تصویر زیادہ مکمل اور رنگین ہو جاتی ہے۔ اس کے بعد ’شیخِ مکتب سے‘، ’فلسفی‘ اور مشہور نظم ’شاہیں‘ کو ترتیب میں رکھیے تو شاہین کے معانی میں کافی وسعت پیدا ہو جاتی ہے۔ پہلے قاآنی کے حوالے سے کہا کہ روح کی عمارت بناتے ہوئے سورج کے سامنے دیوار مت کھینچ دینا ورنہ صحن میں روشنی نہیں آئے گی۔ فلسفی کے ساتھ غالباً یہی ہوا۔ سوچ تو بہت دُور تک پہنچی مگر جسارت اور غیرت کی کمی کی وجہ سے محبت کے راز سے بیخبر رہا ۔ زندگی کا براہِ راست تجربہ نہ کر سکا۔ اُس کی مثال ایسے گدھ سے دیتے ہیں جو فضا میں شاہیں کی طرح پرواز کرے مگر تازہ شکار کی لذت سے بے نصیب رہے۔ اگلی نظم ’شاہیں‘ہے۔ چنانچہ شاہین کو لغوی معنی میں سمجھنے کی بجائے اُس شخص کا استعارہ سمجھنا چاہیے جو زندگی کے حقائق کی دریافت کے لیے فلسفے اور ظن و تخمین سے آگے بڑھ کر اپنی واردات پر بھروسہ کرتا ہے۔ بالِ جبریل کے سیاق و سباق میں شاہین صرف میدانِ عمل میں بہادری، دلیری اور سپاہیانہ شجاعت کا سبق نہیں ہے بلکہ یہ میدانِ فکر و تحقیق میں بھی دوسروں کی رائے (شکارِ مردہ) پر انحصار کرنے کی بجائے اپنی جسارت اور غیرت سے سرِ محبت دریافت کرنے کی دعوت ہے۔ اِس لحاظ سے نظم کے تمام استعارے علم و تحقیق کی دنیا پر چسپاں کیے جا سکتے ہیں۔ جھپٹنا، پلٹنا، پلٹ کر جھپٹنا غور و فکر اور تحصیلِ علم کے معانی میں بھی لیا جا سکتا ہے جس کا اصل مقصد لہو گرم رکھنا یعنی اپنے ذہن اور حواس کو تازہ رکھنا ہے نہ کہ حمام و کبوتر یعنی ایسی کتابی بحثیں جن سے آپ کا مقام کسی خاص حلقے میں بہت بلند ہو سکتا ہے مگر زندگی کی روح سے اُن کا تعلق نہیں ہوتا۔ خیابانیوں سے مراد یہی حلقے ہیں جن سے پرہیز لازم ہے۔ پورب، پچھم وہی مشرق اور مغرب کی تفریق ہے جو اچھے بھلے انسان کو کسی ایک جانب جھکنے پر مجبور کر دیتی ہے مگر سچائی بیکراں آسماں کی طرح ہے جس پر آپ اُسی وقت پہنچ سکتے ہیں جب آپ کی روح گروہ بندیوں سے آزاد ہو جائے۔ گویا یہ وہی درویشِ خدامست کے شرقی یا غربی نہ ہونے کی بات ہے۔ سالک کسی ایک مقام پر نہیں ٹھہرسکتا بلکہ راہِ تحقیق میں آگے ہی بڑھتا جاتا ہے: پرندوں کی دُنیا کا درویش ہوں میں کہ شاہیں بناتا نہیں آشیانہ! اس کے بعد کی چند چھوٹی چھوٹی نظمیں کچھ فکری بحثیں ہیں۔ بالِ جبریل کا یہ حصہ شعری لحاظ سے بھی اور منطقی اعتبار سے بھی قاری کو اگلے مجموعۂ کلام کے لیے تیار کرتا ہے: ضربِ کلیم یعنی اعلانِ جنگ دورِ حاضر کے خلاف! باب ۷ ضربِ کلیم اقبال کی آخری تین تصانیف اُن کی زندگی کے آخری برسوں سے تعلق رکھتی ہیں یعنی: ۱۹۳۶ئ ضرب کلیم ۱۹۳۷ئ پس چہ باید کرد اے اقوامِ شرق مع مثنوی مسافر ۱۹۳۸ئ ارمغانِ حجاز غورطلب بات یہ ہے کہ ان میں سے پہلی تصنیف کی ترتیب کے وقت ہی اقبال کی عمر ساٹھ برس کے قریب ہو چلی تھی (وہ اپنی عمر کا تخمینہ ۱۸۷۶ء کے حساب سے لگاتے تھے) اور ان کی اپنی خواہش تھی کہ ان کی عمر رسول اکرمؐ کی عمر یعنی باسٹھ برس سے بڑھنے نہ پائے۔ اتفاق سے بیمار بھی رہنے لگے تھے۔ پہلے آواز گئی، پھر صاحبِ فراش ہوئے اور پھر بصارت بھی متاثر ہو گئی۔ ظاہر ہے کہ اس دور کی تصانیف کا مطالعہ کرتے ہوئے یہ بات نظرانداز نہیں کی جا سکتی کہ انہیں لکھنے والا دنیا سے رخصت ہونے کی تیاری کیے بیٹھا ہے اور سمجھ چکا ہے کہ اب وہ بھی جانے والا ہے، سامان تو گیا۔ اگر یہ وہ شخص ہو جو ہندوستان میں ایک مسلم ریاست کو ’’اٹل تقدیر‘‘ کہہ کر اس کے قیام کی پیشین گوئی کر چکا ہو تو جاتے جاتے کیا کچھ کہہ کر جانا چاہے گا؟ فرض کیجیے کہ اپنے ملکی حالات اور دنیا کی صورت حال پر غور کرنے کے بعد اُس کے دل و دماغ میں اتنے خیالات جمع ہو جائیں جن کے اظہار کے لیے عباسی عہد کے مصنفین کی طرح پچاس ساٹھ جلدوں کی کوئی مبسوط انسائیکلوپیڈیا مرتب کرنے کی ضرورت ہو جس کا اُس کے پاس اب وقت نہیں بچا تو وہ کس طرح ان خیالات کو بیان کرے گا؟ اگر وہ آٹھ زبانوں سے واقف اور تین زبانوں میں ادب تخلیق کرنے والا جینئس ہو تو کیا وہ اس بات کی کوشش نہیں کر سکتا کہ تین مختصر کتابوں میں ایسے رموز چھپا جائے جو وقت کے ساتھ ساتھ خودبخود کھل کر اُس پچاس ساٹھ جلدوں والے انسائیکلوپیڈیا کی شکل اختیار کرلیں؟ اس لحاظ سے اقبال کی ان آخری تین تصانیف کو صرف ظاہر کی آنکھ سے نہیں بلکہ دیدۂ دل سے بھی دیکھنے کی ضرورت ہے۔ انہیں بین السطور بھی پڑھنا چاہیے۔ کوئی لکھنے والا اُس وقت اچھا لکھنے والا بنتا ہے جب وہ صرف الفاظ کے ذریعے ہی نہیں بلکہ ان کے بغیر بھی کچھ کہنے کی رمز سے آشنا ہو اور اقبال تو یہ مرحلہ بہت پہلے سر کر چکے تھے۔اس لحاظ سے ان تصانیف کے نظمِ معنوی کو دریافت کرنے کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔ ۱ ضرب کلیم اقبال کی ساتویں شعری تصنیف ہے اور ۱۹۳۶ء میں شائع ہوئی۔ خیال کیا جاتا ہے کہ اس کا بیشتر حصہ پچھلے ایک برس میں یعنی بال جبریل کی اشاعت کے بعد لکھا گیا ہو گا جو جنوری ۱۹۳۵ء میں شائع ہوئی تھی۔ یہ بیشتر چھوٹے چھوٹے قطعات پر مبنی ہے۔ اقبال کی پچھلی تصانیف میں بھی قطعات شامل تھے مگر قطعات پر مشتمل پوری تصنیف یہی ہے۔ یہ بھی معلوم ہے کہ پہلے اس کا نام صورِ اسرافیل تجویز ہوا تھا۔ بیاض میں یہ قطعات جس ترتیب میں ہیں وہ کتابی ترتیب سے مختلف ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وقتاً فوقتاً ان کی آمد ہوتی رہی اور بعد میں اقبال نے پانچ موضوعات متعین کر کے انہیں ترتیب دیا: ۱ اسلام اور مسلمان ۲ تعلیم و تربیت ۳ عورت ۴ ادبیات، فنون لطیفہ ۵ سیاسیات مشرق و مغرب بیاض کے ابتدائی صفحے پریہ پانچ موضوعات انگریزی میں درج کیے گئے ہیں لیکن کہا نہیں جا سکتا کہ قطعات لکھنے سے پہلے ہی یہ موضوعات متعین ہو گئے تھے یا بعد میں اس خالی صفحے پر درج ہوئے۔ قطعات پر ان موضوعات کے مخفف انگریزی حروف میں درج ہیں، مثلاً "woman"کے لیے "w" وغیرہ۔ عام طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ ضرب کلیم دوسری تصانیف کے مقابلے میں ناصحانہ ہے اور اس میں شعری نزاکتیں کم ہیں۔ اس لحاظ سے اسے نسبتاً کم پیچیدہ ہونا چاہیے مگر ایسا نہیں ہے کیونکہ ایک دفعہ اس تصنیف کے لب و لہجے سے شناسائی ہو جائے تو پھر لگتا ہے کہ ناصحانہ تاثر ہی سرے سے درست نہ تھا۔ شعریت بھی اس میں کم نہیں بلکہ شائد بعض دوسری تخلیقات سے زیادہ ہو۔ استعارے ایسے بلیغ ہیں جن کی وجہ سے بعض چھوٹی چھوٹی نظمیں کھولی جائیں تو وہ پوری کتاب بن سکتی ہیں۔ مثلاً یہ چھوٹی سی نظم جس کا عنوان ’تخلیق‘ ہے یہ تغزل میں کم ہے نہ معانی کی وسعت میں: جہانِ تازہ کی افکارِ تازہ سے ہے نمود کہ سنگ و خشت سے ہوتے نہیں جہاں پیدا خودی میں ڈوبنے والوں کے عزم و ہمت نے اس آبجو سے کیے بحر بے کراں پیدا وہی زمانے کی گردش پہ غالب آتا ہے جو ہر نفس سے کرے عمرِ جاوداں پیدا خودی کی موت سے مشرق کی سر زمینوں میں ہوا نہ کوئی خدائی کا رازداں پیدا ہوائے دشت سے بوئے رفاقت آتی ہے عجب نہیں ہے کہ ہوں میرے ہم عناں پیدا اس نظم کا ہر شعر کسی نہ کسی مخصوص لفظ یا ترکیب کی وجہ سے اقبال کے بقیہ کلام بلکہ ان کی پوری پوری تصانیف سے جڑا ہوا ہے۔ پہلے شعر میں ’’جہانِ تازہ‘‘ ہی بالِ جبریل کی اُس نظم کی یاد دلاتا ہے: کریں گے اہلِ نظر تازہ بستیاں آباد مری نگاہ نہیں سوئے کوفہ و بغداد لہٰذا اگر ہم سمجھنا چاہیں کہ افکارِ تازہ سے جہانِ تازہ کس طرح پیدا ہوتے ہیں توبالِ جبریل کا وہ حصہ بھی مطالعہ کرنا پڑے گا۔ دوسری طرف یہ نظم بھی اتنی مربوط ہے کہ افکارِ تازہ سے جہانِ تازہ کی نمود کا مشاہدہ اسی نظم پر توجہ دے کر کیا جا سکتا ہے کیونکہ اس میں خیالات اس طرح آگے بڑھتے ہیں کہ بذاتِ خود ایک جہانِ تازہ کی نمود پر منتج ہوتے ہیں یہاں تک کہ آخری شعر میں ہوائے دشت سے بوئے رفاقت آنے لگتی ہے۔ دشت میں پہلے سے کوئی جہاں نہیں ہو سکتا پھر یہ بوئے رفاقت کہاں سے آ رہی ہے؟ نظم بتاتی ہے کہ اقبال کے ہم عناں پیدا ہونے والے ہیں گویا یہ افکار واقعی دشت میں ایک نیا جہاں پیدا کر رہے ہیں۔ پہلے شعر سے پانچویں تک کا سفر بھلا اس سے زیادہ مربوط کیا ہوتا لیکن سفر کی ہر منزل پر کلامِ اقبال کے دوسرے حصوں کی طرف شاہراہیں بھی نکلتی جاتی ہیں۔ دوسرے ہی شعر میں یہ مسئلہ پیدا ہوتا ہے ’’اِس آبجو‘‘ سے مراد کیا ہے؟ شعر کے سیاق و سباق میں اس سے مراد ’’خودی‘‘ ہونی چاہیے جس کا پہلے مصرعے میں ذکر آیا لیکن پھر ہمیں بال جبریل کی نظم یاد آتی ہے: خودی وہ بحر ہے جس کا کوئی کنارہ نہیں تو آب جو اسے سمجھا اگر تو چارہ نہیں جب اقبال نے اسے آب جو سمجھنے سے منع کر رکھا ہے تو پھر یہاں کیسے سمجھا جائے؟ ہمیں جاویدنامہ کے فلکِ قمر سے سروش کی وہ غزل ذہن میں لانا پڑتی ہے جس کے چھٹے شعر میں زاہدِ ظاہربیں کو مخاطب کر کے کہا گیا کہ مانا خودی فانی ہے لیکن تم اس حباب میں اٹھتے ہوئے طوفاں کو نظرانداز کر رہے ہو: اے زاہدِ ظاہربیں! گیرم کہ خودی فانی است لیکن تو نمی بینی طوفاں بحباب اندر لہٰذا جیسے وہاں زاہدِ ظاہربیں سے الجھنے کی بجائے مفروضے کے طور پر مانا تھا کہ خودی فانی ہے اُسی طرح یہاں بھی مفروضے کے طور پر اُسے آبجو کہا ہے جس میں ڈوبنے والوں نے اپنے عزم و ہمت سے بحرِ بیکراں پیدا کیے ہیں۔ اس طرح یہ بات بھی بال جبریل والے شعر کے مطابق ہو جاتی ہے اور اس کی مزید تشریح کے لیے بال جبریل سے رجوع کیا جا سکتا ہے۔ دوسری طرف یہ شعر اسی نظم کے پچھلے شعر کی وضاحت بن جاتا ہے یعنی جس قسم کے جہانِ تازہ کی افکارِ تازہ سے نمود ہوتی ہے اُس میں بحرِ بیکراں بھی شامل ہیں جو خودی میں ڈوبنے والوں کے عزم و ہمت نے پیدا کیے۔ یہ سنگ و خشت سے پیدا ہونے والی چیزوں میں شمار ہو ہی نہیں سکتے کیونکہ اول تو بحرِ بیکراں ہیں، دوسرے یہ آبجو سے پیدا ہوئے ہیں! تیسرا شعر اقبال کی تصانیف کے ان تمام حصوں سے پیوستہ ہے جہاں انہوں نے تصورِ زمان پر بات کی ہو۔ ان میں اسرار و رموز کا باب ’الوقت سیف‘ اور زبورِ عجم کا ’بندگی نامہ‘ کلیدی اہمیت رکھتے ہیں کہ وہاں تصورِ زمان ذرا تفصیل کے ساتھ بیان ہوا۔ اگر ہم جاننا چاہیں کہ ہر نفس سے عمرِ جاوداں کس کس طرح پیدا کیا جاتا ہے اور ایسا کرنے والا زمانے کی گردش پر کیونکر غالب آتا ہے تو ہمیں اقبال کی اُن دوسری تصانیف کا مطالعہ کرنا پڑے گا۔ لیکن اس شعر کو پچھلے کی روشنی میں پڑھنے سے بھی یہ بات کچھ نہ کچھ پلے پڑتی ہے یعنی آبجو سے بحرِ بیکراں کا پیدا ہونا تسلیم کر لیا تھا تو پھر ہر نفس سے عمرِ جاوداں پیدا ہونا بھی اُسی طرح سمجھ جائیے جس طرح وہ بات سمجھی تھی! اس شعر میں لفظ خودی نہیں آیا۔ اگلے شعر میں یہ لفظ پھر موجود ہے گویا یہ لفظ دوسرے اور چوتھے میںآیا جبکہ درمیانی شعر میں جو بات اس لفظ کے بغیر کہی وہ وقت سے متعلق تھی۔ اُس کے بعد دوبارہ خودی کی بات ہوئی تو دوسرے شعر میں جو اصول بیان ہوا تھا چوتھا شعر اُس کے اطلاق کی صورت بن گیا جو ہمیں درمیانی شعر کی وجہ سے سمجھ میں آتا ہے۔ خودی میں ڈوبنے والے آبجو سے بحرِ بیکراں پیدا کرتے ہیں، ایسا کرنا انہیں زمانے کی گردش پر غالب کر دیتا ہے لیکن چونکہ مشرق میں خودی کی موت واقع ہوئی ہے لہٰذا یہاں کوئی خدائی کا رازداں پیدا نہیں ہوا۔ یہ خدائی کا رازداں ہونا کیا ہے؟ اس کے لیے اسرار و رموز کا وہ باب دیکھیے جہاں بتایا گیا ہے کہ خودی جب عشق و محبت سے استحکام پاتی ہے تو قواے عالم کی تسخیر کرتی ہے۔ لیکن اسی نظم کی روشنی میں سمجھنا ہو تو یہ خدائی کا رازداں ہونا وہی آبجو سے بحرِ بیکراں اور ہر نفس سے عمرِ جاوداں پیدا کرنے پر قادر ہونا ہے۔ چونکہ مشرق میں یہ نہ ہونے کی وجہ خودی کی موت ہے نہ کہ سنگ و خشت کی کمیابی لہٰذا پہلے شعر کی مزید وضاحت ہو جاتی ہے۔ مشرق سے یہ مایوسی بظاہر آگے بڑھنے کی تمام راہیں مسدود کر دیتی ہے۔ یعنی جب خودی ہی مر گئی تو پھر جہانِ تازہ وغیرہ کہاں سے پیدا ہوں گے؟ لیکن یاد رکھیے کہ جہانِ تازہ کی افکارِ تازہ سے نمود ہے اور وہ اقبال کے پاس موجود ہیں۔ لہٰذا اب غیرمتوقع طور پر ہوائے دشت سے بوئے رفاقت آتی ہے اور کچھ عجب نہیں کہ اقبال کے ہم عناں پیدا ہوں۔ گویا اقبال کے افکارِ تازہ ایسی شے ہیں جنہیں جہانِ تازہ پیدا کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا، خودی کی موت بھی نہیں روک سکتی۔ اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہو گا اس بات کا کہ جہانِ تازہ کی افکارِ تازہ سے نمود ہے! گویا نظم میں خیالات ایک ترتیب سے پیش ہوتے ہیں: (۱) پہلے کسی چیز کا نام لیا گیا، (۲) پھر ایک اصول بتایا گیا جو اس چیز سے اخذ کیا جا سکتا ہے، (۳) پھر اُس کے انتہائی امکانات دکھائے، (۴) پھر اطلاق ہوا اور (۵) نتیجے میں حقیقت کا نیا رُخ سامنے آ گیا۔ اس نظم کو سیاق و سباق میں دیکھیں تو یہ ’ادبیات، فنون لطیفہ‘ کے باب کی دوسری نظم ہے۔ اس باب کی پہلی پانچ نظموں میں بھی خیالات مجموعی طور پر اسی ترتیب میں بڑھتے نظر آتے ہیں: ۱ ’دین و ہنر‘ ۲ ’تخلیق‘ ۳ ’جنوں‘ ۴ ’اپنے شعر سے‘ ۵ ’پیرس کی مسجد‘ پہلی نظم کا موضوع دین اور ہنر ہیں۔ دوسری نظم جس کے اندرونی ربط کو ہم دیکھ چکے ہیں، انہی میں سے ایک اصول برآمد کرتی ہے یعنی ’تخلیق‘جس کا انتہائی امکان ’جنوں‘ ہے یعنی ویرانوں میں بھٹکنے کی بجائے دین و ہنر میں ہنگامہ برپا کیا جائے: زجاج گر کی دکاں شاعری و ملّائی ستم ہے خوار پھرے دشت و در میں دیوانہ اگلی نظم ’اپنے شعر سے‘ میں اس کا اطلاق ہوتا ہے یعنی اقبال اپنے شعر سے گلہ کرتے ہیں کہ اس کی وجہ سے اُن کے راز فاش ہو گئے ہیں، اب وہ کسی پرسوز سینے میں اپنا نشیمن تلاش کرے۔ پانچویں نظم اچانک چونکا دیتی ہے کیونکہ ایک نئی دنیا سامنے آ رہی ہے مگر یہ اقبال کی خواہشوں کے برعکس ہے یعنی ’پیرس کی مسجد‘: مری نگاہ کمالِ ہنر کو کیا دیکھے کہ حق سے یہ حرمِ مغربی ہے بیگانہ! حرم نہیں ہے، فرنگی کرشمہ بازوں نے تنِ حرم میں چھپا دی ہے روحِ بتخانہ! یہ بتکدہ انہیں غارتگروں کی ہے تعمیر دمشق ہاتھ سے جن کے ہوا ہے ویرانہ! اس نظم کو علیحدہ سے پڑھیے تو صرف ایک مسجد کا بیان معلوم ہوتی ہے جسے فرانسیسیوں نے بنایا ہو گا اور اپنے طرزِ تعمیر میں خوبصورت رہی ہو گی لیکن غور کیجیے تو یہ پچھلی چاروں نظموں سے پیوستہ ہے: ۱ پہلی نظم کا عنوان ’دین و ہنر‘ تھا اور ’پیرس کی مسجد‘ میں یہ دونوں یکجا ہو کر ایک نئی دنیا پیش کر رہے ہیں! ۲ دوسری نظم ’تخلیق‘ میں تھا کہ نئے جہاں سنگ و خشت سے نہیں بلکہ افکارِ تازہ سے نمودار ہوتے ہیں تو پھر ’پیرس کی مسجد‘ میں صرف سنگ و خشت ہی نہیں بلکہ ان افکارِ تازہ کی علامت بن جاتی ہے جو مغرب والے اسلام کے روپ میں پیش کر سکتے ہیں۔ ۳ تیسری نظم ـ’جنون‘ـ میں دیوانے کو مشورہ دیا ہے کہ ہجوم مدرسہ کو اپنی دیوانگی کا میدان سمجھے، شاعری و ملّائی کی دکان کے زجاج توڑ ڈالے۔ ’پیرس کی مسجد‘ سے وابستہ افکار ایک نئی قسم کی شاعری اور ملّائی کی دکان تو نہیں جسے برہم کر دینا مناسب ہو؟ ۴ یہ دیوانگی کہاں سے آئے؟ چوتھی نظم جواب دیتی ہے: ’اپنے شعر سے‘! اقبال کا شعر جس سینۂ پرسوز میں جگہ تلاش کرے وہی ’پیرس کی مسجد‘ سے وابستہ نئی شاعری و ملّائی کی پرکشش دکان کو برہم کرے گا! ۵ ایسے شخص کے امتحانِ شوق کے لیے ’پیرس کی مسجد‘ حاضر ہے، صرف سنگ و خشت نہیں بلکہ ان افکارِ تازہ کا مقابلہ بھی کرنا ہے جو اس کے جلو میں تشریف لا سکتے ہیں! ۲ ان صفحوں میں صرف پانچ اشعار کی نظم ’تخلیق‘ کو پڑھنے کا طریقہ متعین ہوا ہے ابھی ہم نے اس طریقے سے نظم کا مطالعہ نہیں کیا، اقبال کی دوسری تصانیف کے ساتھ اس کے ربط کی اہمیت کا مفصل جائزہ نہیں لیا اور نظم کے نکات میں پوشیدہ مضمرات کو دریافت نہیں کیا! لہٰذا ضرب کلیم کی چھوٹی سی نظم کے کھلنے پر پوری کتاب بن جانے کی بات مبالغہ نہیں بلکہ حقیقتاً ایسا ہو سکتا ہے: نہیں مقام کی خوگر طبیعتِ آزاد ہوائے سیر مثالِ نسیم پیدا کر ہزار چشمہ ترے سنگِ راہ سے پھوٹے خودی میں ڈوب کے ضرب کلیم پیدا کر اقبال نے یہ اشعار کتاب کے سرورق پر عنوان کے نیچے لکھوائے۔ جن دانشوروں نے کلامِ اقبال کے جدید اڈیشن کی تصحیح اور نظرِ ثانی کا فریضہ انجام دیا انہوں نے غالباً اسے اقبال کی بدمذاقی سمجھ کر اشعار کو علیحدہ صفحے پر شائع کیا جس کی وجہ سے شائد کتاب کی شان بڑھی ہو مگر اشعار کا مقصد فوت ہو جاتا ہے۔ آخری مصرعے میں ’ضرب کلیم‘ ذومعنی ہے۔ اسے واوین میں تو نہیں لکھا گیا لیکن چونکہ اس قطعے کے اوپر جلی حروف میں صرب کلیم بطور کتاب کے عنوان کے موجود ہے لہٰذا ذومعنویت خودبخود سامنے آ جاتی ہے۔ یعنی ایک مطلب یہ ہے کہ قارئین اپنی خودی میں ڈوب کر حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرح ضرب لگانے کی صلاحیت پیدا کریں مگر دوسرے معانی یہ ہیں کہ جس کتاب کا نام ضربِ کلیم ہے اُسے قاری اپنی خودی میں ڈوب کراپنے آپ میں پیدا کریں (تشکیلِ جدید کے ساتویں خطبے میں اقبال نے قرآن کو پڑھنے کے لیے بھی یہی طریقہ تجویز کیا تھا)۔ ضرب کلیم میں باقاعدہ فہرستِ مضامین موجود ہے جس میں نظموں کا نمبرشمار مسلسل ہے جو اسے ایک علمی تصنیف جیسا تاثر دیتا ہے۔ پہلا حصہ شروع ہونے سے پہلے جو تین نظمیں ہیں وہ بھی اہم ہیں۔ پہلی نظم انتساب ہے جس کا عنوان ’اعلیٰ حضرت نواب سر حمیداللہ خاں فرمانروائے بھوپال کی خدمت میں‘ ہے۔ یہ تین فارسی اشعار پر متشمل ہے جن کا آخری مصرعہ دراصل طالب آملی کے ایک شعر کا دوسرا مصرعہ ہے اور اگر اصل شعر اپنی شان نزول سمیت ذہن میں ہو تو انتساب کا لطف دوبالا ہو جاتا ہے۔ طالب آملی جہانگیر کے زمانے کا شاعر تھا جس نے ملکہ نورجہاں کی خدمت میں عرض کیا تھا کہ آپ نے باغ اُجاڑا تو بہار پر احسان ہو گا کیونکہ آپ کے ہاتھ میں پھول شاخ سے زیادہ تروتازہ رہتا ہے: زغارتِ چمنت بر بہار منت ہا است کہ گل بدستِ تو از شاخ تازہ تر ماند اقبال نے اس کا صرف دوسرا مصرعہ لیا۔ قاری کو پورا شعر معلوم نہ بھی ہو تو یہ مفہوم ضرور مل جاتا ہے کہ پھول شاخ سے جدا ہو کر فرمانروائے بھوپال کے ہاتھوں میں ہے۔ غورطلب بات یہ ہے کہ اقبال جس مسلم ریاست کو ہندوستان کی اٹل تقدیر سمجھے بیٹھے تھے اُس میں بھوپال کے شامل ہونے کا امکان نہیں تھا لہٰذا ہندوستان کا وہ گلستاں جو مغل تہذیب اور مسلمانوں کی ہزار سالہ حکومت سے کھلا تھا اُس کے پھول شاخ سے جدا ہو کر جہاں جہاں بکھرنے والے تھے بھوپال اُنہی علاقوں میں سے تھا: ’’کہ گل بدستِ تو از شاخ تازہ تر ماند‘‘! عام طور پر اقبال نے اپنی تصانیف میں کسی نظم کے لکھے جانے کی تاریخ یا مقام صرف اُسی صورت میں ظاہرکی جب اس کا نظم کی معنویت کے ساتھ کوئی تعلق ہو۔ اس لیے بعض قارئین کو حیرت ہوتی ہے کہ ضرب کلیم کی بعض نظموں پر جو لکھا ہے کہ شیش محل بھوپال میں لکھی گئیں وغیرہ، اُس میں کیا معنویت ہو سکتی ہے۔ بظاہر یہی وجہ نظر آتی ہے کہ کتاب جس ریاست کے فرمانروا کے نام معنون ہے اُس کی ریاست سے شاعر کا تعلق ظاہر ہو جائے اور عجیب اتفاق ہے کہ تقسیم ہند کے بعد اقبال کے کلام اور ان کے پیغام کو ہندوستان میں زندہ رکھنے والوں میں بھوپال کے اقبال پسندوں کا کردار بہت نمایاں رہا ہے۔ انتساب کا ایک اور پہلو بھی ہے۔ اقبال کی نو شعری تصانیف میں سے صرف دو ایسی ہیں جو کسی فرمانروا کے نام سے معنون ہیں یعنی دوسری تصنیف پیامِ مشرق اور ساتویں تصنیف ضرب کلیم۔ ان میں سے پیامِ مشرق فرمانروائے افغانستان کے نام منسوب ہے اور یہ پاکستان کے مشرق میں ایک آزاد مسلمان ملک ہے جس کی تقریباً تمام آبادی مسلمان ہے جبکہ ضرب کلیم فرمانروائے بھوپال کے نام معنون ہے اور اب یہ ریاست ہندوستان کا حصہ ہے جو پاکستان کے مشرق میں ہندو اکثریت کی مملکت ہے۔ یہ بات معلوم ہو کہ ضرب کلیم لکھتے ہوئے اقبال کے ذہن میں مستقبل کے ایشیا کا یہ نقشہ بھی موجود تھا تو زیادہ لطف آتا ہے۔ ’ناظرین سے‘ میں اقبال نے کتاب کے قارئین کو کچھ ہدایات کی ہیں جنہیں سامنے رکھ کر کتاب پڑھنی چاہیے۔ اس سے اگلی نظم ’تمہید‘ دو حصوں پر مشتمل ہے جن پر بانگِ درا حصہ دوم کی نظم ’عاشقِ ہرجائی‘ کی طرح الگ الگ نمبر شمارہیں۔ وہاں پہلا حصہ اقبال کے ناقدین کا مکالمہ اور دوسرا حصہ اقبال کا جواب تھا۔ یہاں پہلا حصہ اقبال کا مکالمہ ہے جس کا مخاطب کوئی ایسا شخص نظر آتا ہے جس کی بصیرت اقبال سے کم ہے: زمانہ اپنے حوادث چھپا نہیں سکتا ترا حجاب ہے قلب و نظر کی ناپاکی! عطا ہوا خس و خاشاکِ ایشیا مجھ کو کہ میرے شعلے میں ہے سرکشی و بے باکی! دوسرے حصے میں کوئی اقبال سے خطاب کرتا ہے مگر یہ کون ہے؟ وہی مخاطب یا ندائے غیب جو درمیان میں آ کر اقبال کو جواب دے رہی ہے؟ یہ آواز اقبال سے کہتی ہے کہ ان کا گناہ مجلس آرائی ہے (بانگِ درا حصہ سوم کی ’شمع اور شاعر‘ میں شمع نے بھی اقبال سے یہی کہا تھامگر اس دفعہ اقبال کی کم پیوندی کا اور پیغام رسانی میں ان کی کامیابی کا ذکر بھی ہے جو ’شمع اور شاعر‘ میں نہ تھا)۔ اس جواب کا آخری شعر زیادہ غورطلب ہے جس میں مجلس آرائی اور پیغام رسانی کے جرم کی سزا سنائی جاتی ہے: تری سزا ہے نوائے سحر سے محرومی مقامِ شوق و سرور و نظر سے محرومی! اگر پہلے مصرع میں نوائے سحر سے محرومی کا ذکر نہ ہوتا تو مقامِ شوق و سرور و نظر سے محرومی کا مطلب یہ نکلتا کہ شاعر دُنیا اور آخرت میں خدا کے دیدار سے محروم رہے گا لیکن یہاں نوائے سحر کو مقامِ شوق و سرور و نظر سے وابستہ کیا گیا ہے۔ یہ وہی سحر ہو سکتی ہے جس کا ذکر اگلی نظم میں ہے۔ یہاں اسے ’’فضا ہائے نیلگوں‘‘ یا آزادی کی منزل کہا ہے۔ خطبۂ الٰہ آباد کی روشنی میں یہ وہ ریاست بھی ہے جس کے وہ خواب دیکھ رہے ہیں اور جس کے قیام کو اٹل تقدیر سمجھتے ہیں۔ سیدھے سادے الفاظ میں مطلب یہ نکلتا ہے کہ جب اقبال کے پڑھنے والے اس منزل پر پہنچ کر اُن کے افکارِ تازہ سے جہانِ تازہ کی نمود کریں گے اُس وقت اقبال اس دنیا میں نہیں ہوں گے۔ یہ مجلس آرائی کی سزا کیسے ہوئی؟ اگر اقبال اپنے قارئین کو اس کام پر تیار کرنے کی بجائے خاموش بیٹھے رہتے تو کیا وہ زیادہ عرصہ زندہ رہتے؟ بات یہ ہے کہ اُس صورت میں وہ سحر اقبال کے لیے ’’مقامِ شوق و سرور و نظر‘‘ نہ ہوتی کیونکہ پھر یہ اُن کے خونِ دل و جگر سے پرورش پانے والی چیز بھی نہ ہوتی۔ اس تمہید کی روشنی میں پہلے باب ’اسلام اور مسلمان‘ کی پہلی دونوں نظمیں بڑی معنی خیز ہو جاتی ہیں۔ یہ ہیں ’صبح‘ اور ’لا الٰہ الا اللہ‘۔ پہلی نظم صرف دو اشعار پر مشتمل ہے اور اس میں بھی سحر کا ذکر ہے: یہ سحر جو کبھی فردا ہے کبھی ہے امروز نہیں معلوم کہ ہوتی ہے کہاں سے پیدا وہ سحر جس سے لرزتا ہے شبستانِ وجود ہوتی ہے بندۂ مومن کی اذاں سے پیدا وہ سحر ’’جس سے لرزتا ہے شبستانِ وجود‘‘ وہی سحر ہے جسے پچھلی نظم میں ’’مقامِ شوق و سرور و نظر‘‘ کہا گیا۔ یہ بندۂ مومن کی اذاں سے پیدا ہوتی ہے اور اگلی نظم وہ اذان ہے جس سے یہ سحر پیدا ہو گی: ’’مجھے ہے حکمِ اذاں، لا الٰہ الا اللہ‘‘! نظم ’لا الٰہ الا اللہ‘کا یہ آخری مصرع ہے لہٰذا اس میں لا الٰہ الااللہ کو اُس طرح کھینچ دیا جائے جیسے اذان کے اختتام پر کھینچا جاتا ہے تو اچانک احساس ہوتا ہے کہ یہ نظم دراصل اذان تھی جو اب ختم ہو رہی ہے۔ واقعی اس نظم میں ایسی باتیں ہیں جنہیں سن کر ہی بیچارہ شبستانِ وجود لرزتا ہو گا، مثلاً صنم کدہ ہے جہاں اور یہ دور اپنے براہیم کی تلاش میں ہے۔ دل چاہتا ہے کہ اس منظوم اذان کے سات اشعار کا اصلی اذان کے سات کلمات سے موازنہ کیا جائے۔ ممکن ہے بعض قارئین اسے دُورازکار سمجھیں لیکن ممکن ہے کہ بعض دوسرے قارئین کے لیے لطف بڑھ جائے لہٰذا تقابلی جائزہ پیشِ خدمت ہے: اللّٰہ اکبر، اللّٰہ اکبر خودی کا سرِّ نہاں لاالٰہ الا اللّٰہ خودی ہے تیغ، فساں لاالٰہ الا اللّٰہ اشہد اَن لاالٰہ الا اللّٰہ یہ دَور اپنے ابراہیم کی تلاش میں ہے صنم کدہ ہے جہاں، لاالٰہ الا اللّٰہ اشہد ان محمد رسول اللّٰہ کیا ہے تُو نے متاعِ غرور کا سودا فریبِ سود و زیاں! لاالٰہ الا اللّٰہ حی علی الصلٰوۃ یہ مال و دولتِ دنیا، یہ رشتہ و پیوند بتانِ وہم و گماں! لاالٰہ الا اللّٰہ حی علی الفلاح خرد ہوئی ہے زمان و مکاں کی زنّاری نہ ہے زماں، نہ مکاں! لاالٰہ الا اللّٰہ اللّٰہ اکبر، اللّٰہ اکبر یہ نغمہ فصل گل و لالہ کا نہیں پابند بہار ہو کہ خزاں، لاالٰہ الا اللّٰہ لا الٰہ الا اللّٰہ اگرچہ بت ہیں جماعت کی آستینوں میں مجھے ہے حکمِ اذاں، لاالٰہ الا اللّٰہ ۳ دوسرا باب ’تعلیم و تربیت‘ ہے۔ یہ ہر لحاظ سے اقبال کا خاص موضوع ہے۔ اکثر سوانح نگاروں نے یہ بات نظرانداز کی ہے کہ نہ صرف اقبال کے کیرئر کی ابتدا تدریس کے پیشے سے ہوئی بلکہ آخر عمر تک تدریسی اداروں کے ساتھ ان کا تعلق کسی نہ کسی طور قائم رہا یہاں تک کہ وکالت کے دنوں میں بھی یونیورسٹیوں کے پرچے جانچنا ان کی آمدنی کا مستقل ذریعہ تھا۔ پھر اُن کے گھر ہر شام کی نشستیں جن کا تذکرہ ملاقاتیوں نے کیا ہے، وہ بھی ایک طرح سے غیررسمی تدریس کی صورت نظر آتی ہیں۔ پروفیسر کرار حسین نے تو اقبال کی شاعری پر بھی یوں تبصرہ کیا ہے کہ اس شاعری کو پڑھتے ہوئے محسوس ہوتا ہے، ’’ اُستاد جیسے کچھ بتا رہا ہے۔ کچھ ڈانٹتا بھی جاتا ہے۔ ہم سے کچھ شکایت بھی ہے۔ کچھ محبت بھی ہے۔ شفیق اُستاد ہے مگر اُستادوں کی طرح سے ذرا سختی بھی مزاج میںہے کہ ہم کس طرح صحیح راستے سے بھٹک گئے ہیں لیکن ۔۔۔ایک فاصلہ برقرار رہتا ہے۔۔۔ اقبال کے کلام میںاگربچہ بھی ہے تو وہ کہہ رہا ہے کہ میرے دم سے دُنیا کا اندھیرا دُور ہوجائے اور دُنیا میں اُجالا ہو جائے!‘‘ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ باب ’تعلیم و تربیت‘کی نظموں کو اگر اُس طریقے سے کھولا جائے جو اوپر بیان ہوا تو بہت سے کام کے نکات ہاتھ آ سکتے ہیں جو شائد اب تک ہمارے سامنے نہ آئے ہوں۔ ظاہر ہے کہ اس کے لیے کئی جلدوں پر مشتمل کتاب لکھنے کی ضرورت پڑے گی لہٰذا یہاں صرف یہ دیکھنے کی کوشش کی جا سکتی ہے کہ اس پورے باب کا مرکزی خیال کیا ہے اور وہ کس طرح باقی کتاب کے ساتھ مربوط ہے۔ باب کی آخری دو نظمیں ہیں ’دین و تعلیم‘ اور ’جاوید سے‘۔ ان میں سے پہلی کا عنوان ہی پچھلے باب کے ساتھ ربط ظاہر کردیتا ہے مگر جو صورت حال یہاں بیان ہوئی وہ کتاب کے لرزہ خیز مقامات میں سے ہے: مجھ کو معلوم ہیں پیران حرم کے انداز ہو نہ اخلاص تو دعویِٰ نظر لاف و گزاف اور یہ اہلِ کلیسا کا نظامِ تعلیم ایک سازش ہے فقط دین و مروت کے خلاف اُس کی تقدیر میں محکومی و مظلومی ہے قوم جو کر نہ سکی اپنی خودی سے انصاف فطرت افراد سے اغماض بھی کر لیتی ہے کبھی کرتی نہیں ملت کے گناہوں کو معاف پہلے شعر میں جو موضوع متعین ہوا وہ یہ ہے کہ اسلامی تعلیم کے نگہبان اپنی ذمہ داری پوری نہیں کر رہے۔ یہ ذمہ داری کیا ہے؟ ایسی تعلیم دینا جو علم کے ساتھ ساتھ نظر بھی عطا کرے جس کا یہ لوگ دعویٰ کرتے ہیں مگر اسے فراہم کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ ان سے مایوس ہو کر قوم مغربی نظامِ تعلیم کی طرف دیکھے گی۔ وہ نظام تعلیم فقط دین و مروت کے خلاف سازش ہے۔ یہ بات لائقِ توجہ ہے کہ یہاں اقبال مغربی تعلیم کے سائنس پر زور دینے کی مذمت نہیں کر رہے بلکہ تمام مغربی تعلیم کو ’’اہلِ کلیسا کا نظامِ تعلیم‘‘ کہہ کر رد کر رہے ہیں۔ اس نکتے کی رمز سمجھنے کے لیے اقبال کی تمام تصانیف میں سے کلیسا کے بارے میں حوالے اکٹھے کرنے پڑیں گے۔ بالِ جبریل کی نظم ’مذہب و سیاست‘ کی رُو سے کلیسا کی بنیاد رہبانیت ہونا مغربی نظامِ تعلیم کی بنیادی وجہ ہوسکتا ہے۔ اگر ایسا ہے تو اس کا علاج اہلِ مغرب کے پاس ہے ہی نہیں خواہ وہ سائنس کو چھوڑ کر مذہب کی طرف واپس ہی کیوں نہ چلے جائیں! لہٰذا متبادل نظامِ تعلیم صرف اقبال کی قوم ہی فراہم کر سکتی ہے لیکن یہ کام مغرب کی مدد سے نہیں بلکہ اپنی خودی کے زور پر ہو گا۔ مغربی ماہرین خواہ مذہب کے طرف دار ہوں یا مخالف، وہ اس کام میں ہماری رہنمائی نہیں کر سکتے کیونکہ ان کا سرمایۂ علم اپنی تہذیب کے تناظر میں پیدا ہوا ہے خواہ اس تہذیب کو قبول کرنے کی صورت ہو یا اُس کے خلاف ردِ عمل ہو۔ تیسرے شعر میں یہی بات کہی ہے: قوم کو اپنی خودی کے ساتھ انصاف کرنے کی ضرورت ہے ورنہ سیاسی آزادی کے باوجود علمی اور فکری محکومی و غلامی برقرار رہے گی۔ کیا مغرب اپنی سیاسی برتری ختم ہونے کے بعد مشرق کے ذہنوں پر علمی اور فکری تسلط قائم رکھنے کی کوشش نہیں کرے گا؟ یہ کوشش مشرق کو برا بھلا کہہ کر نہیں کی جا سکتی تو پھر یقینا ہمدردی کے لبادے میں ہو گی۔ مغرب کا فکری تسلط کیسے ختم کیا جائے، اس پر ہم نے آج تک غور نہیں کیا ہے کیونکہ ہم نے تعلیمی ترقی کا تصور ہی یہ سمجھ لیا ہے کہ مغربی ماہرین سے مدد لی جائے۔ دانشوری کا مطلب یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ مغربی دانشوروں کی تقلید کی جائے۔ اگر مشرق کی سربلندی مقصود ہو تو ایسے مغربی دانشور تلاش کیے جائیں جو مشرق کو اچھا اور مغرب کو برا کہتے ہیں۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ تاریخ اور مذہب کے بعد اقبالیات میں بھی ہم نے انہی تصانیف پر زیادہ بھروسہ کرنا شروع کر دیا ہے جو مغرب میں شائع ہوئی ہوں! فکری آزادی کے بغیر سیاسی آزادی ادھوری رہ جاتی ہے لیکن فکری آزادی حاصل کرنا سب سے مشکل ہے کیونکہ اس کے لیے اپنے اطراف میں نہیں بلکہ اپنے آپ میں انقلاب لانا پڑتا ہے۔ یہی وہ حقیقت ہے جس کی طرف اس نظم میں توجہ دلائی گئی اور اگلی نظم میں یہ بات سمجھانے کے لیے اقبال نے ایک انوکھا انداز اختیار کیا۔ ضربِ کلیم کی نظم ’جاوید کے نام‘ بالِ جبریل کی ایک نظم کی ہم نام ہے لہٰذا دونوں کے تعلق کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ یہ اقبال کے صاحبزادے کا نام ہے لیکن اقبال کی شاعری میں یہ ہمارا لقب بھی ہے جو سب سے پہلے جاویدنامہ کے آخر میں ’خطاب بہ جاوید (سخنے بہ نژادِ نو)‘ میں استعمال ہوا۔اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب اقبال ’’جاوید‘‘ سے کوئی ایسی بات کہتے ہیں جو تاریخی طور پر سچ مچ والے بیٹے یعنی جاوید اقبال سے منسوب ہو تو کیا وہاں بھی یہ ہمارا لقب رہتا ہے؟ یہ قاری کے اپنے ذوق پر منحصر ہے لیکن اگر ایسے معاملات میں بھی آپ جاوید کو اپنا لقب سمجھیں تو اقبال کے ساتھ ایک بہت ہی قریبی تعلق استوار ہو جاتا ہے۔ بالِ جبریل اور ضربِ کلیم کی دونوں نظمیں جن کے عنوان ’جاوید کے نام‘ ہیں اسی زمرے میں آتی ہیں۔ بال جبریل کی نظم ’جاوید کے نام‘ کی ذیلی سرخی ہے، ’لندن میں اس کے ہاتھ کا لکھا ہوا پہلا خط ملنے پر‘ جس سے ظاہر ہے کہ یہ اُس خط کا جواب ہے جو سچ مچ والے جاوید اقبال نے اقبال کو لکھا مگر یہ بالِ جبریل میں ایک ایسے مقام پر ہے جب ہمیں اندازہ ہو چکا ہے کہ اقبال دنیا کے سفر پر نکلے ہیں۔ اس نظم کو یہ فرض کر کے پڑھیے کہ آپ ہی وہ جاوید ہیں جس نے ابھی ابھی اقبال کو خط لکھ کر لندن بھیجا ہے اور اب یہ اُن کا آپ کے نام جواب آیا ہے تو نظم کے لطف اور معانی میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ خط میں آپ نے کیا لکھا یہ آپ ہی کو معلوم ہو گا مگر اقبال اس بات کی تنبیہ کرتے نظر آتے ہیں کہ جس طرح اُنہیں یورپ کا سفر اختیار کرنا پڑا تھا وہ ہمارے لیے ضروری نہیں ہے۔ وہاں سے جو کچھ حاصل ہونا تھا وہ اقبال نے ہمارے لیے حاصل کر لیا ہے لہٰذا اب مغرب کو علم و فن کا معیار سمجھنے کی بجائے اقبال کی غزل سے مے لالہ فام پیدا کرنی چاہیے تاکہ ہمیں شیشہ گرانِ فرنگ کے احساں نہ اٹھانے پڑیں۔ ضرب کلیم کی ’جاوید کے نام‘ اسی کا معنوی تسلسل ہے: جس گھر کا مگر چراغ ہے تو ہے اس کا مذاق عارفانہ! بظاہر تو یہاں شیخ نور محمد کا گھرانہ مراد ہے جو اقبال کے والد، جاوید اقبال کے دادا اور ایک صوفی مزاج برزگ تھے بلکہ خود اقبال نے اُن کے ذریعے سلسلہ قادریہ میں بیعت کی تھی۔ لیکن کسی قاری کا اقبال کے ساتھ جن حوالوں سے بھی تعلق ہو سکتا ہے یہ بات اُس پر لاگو آتی ہے۔ پہلا تعلق پاکستان کے حوالے سے ہو سکتا ہے تو یہ بھی ایسا گھر ہے جس کا مذاق عارفانہ ہے۔ دوسرا تعلق مسلم امت کے حوالے سے ہو سکتا ہے تو اُس کا مذاق بھی عارفانہ ہے۔ تیسرا تعلق ہندوستان، ایشیا اور مشرق کے حوالے سے ہو سکتا ہے اور اُس کا مذاق بھی عارفانہ ہے۔ چوتھا تعلق انسانیت کے حوالے سے ہو سکتا ہے تو انسان خواہ مشرق کا ہو یا مغرب کا، اُس کے لیے اقبال نے کہا ہے کہ تم سدرۃ المنتہیٰ کی شاخ ہو: شاخِ نہالِ سدرۂ خار و خسِ چمن مشو انسان کا اصل گھر جنت ہے اور وہاں کا مذاق تو اِتنا عرفانہ ہے کہ جب انسان وہاں سے آ رہا تھا تو خود فرشتوں نے اُسے رخصت کیا تھا کہ عطا ہوئی ہے تجھے روز و شب کی بیتابی، وغیرہ وغیرہ۔ ان میں سے جس حوالے سے بھی ہم اقبال کے ساتھ رشتہ جوڑیں ہم اپنے آپ کو اُن سے اُن کی اولاد کی طرح قریب محسوس کرتے ہیں۔ اب یہ ہمارا کام ہے کہ اس قربت کا حق ادا کریں۔ اسی حوالے سے وہ ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ جس طرح مولانا نظامی گنجوی نے اپنے بیٹے سے کہا کہ صرف میری اولاد ہونا تمہارے کام نہیں آئے گا اُسی طرح اقبال کی شاعری ہمارے کام نہیں آ سکتی بلکہ ہماری اپنی خودداری اور فقر ہی ہمارے کام آ سکتا ہے۔ یہ بات ایسی دردمندی کے ساتھ ہمارے ذہن نشین کروانا اقبال ہی کا کام ہے۔ ۴ تیسرا باب ’عورت‘ ہے اور چونکہ اقبال اپنے زمانے میں مردوں اور عورتوں کی برابری کے قائل نہ تھے لہٰذا بہت سے لوگوں نے اس باب کو اسی روشنی میں دیکھا ہے اور زیادہ غور نہیں کیا۔ یہ باب ضرب کلیم میں بعض امتیازات رکھتا ہے۔ پانچ ابواب میں سے تیسرا ہے یعنی کتاب کا وسط جو عام طور پر اقبال کی تصانیف میں کلیدی نکتے کے بیان کا موقع ہوتا ہے۔ یہ سب سے مختصر بھی ہے یعنی اس میں صرف نو نظمیں ہیں لیکن یہ عدد معنی خیز ہے کیونکہ اقبال عام طور پر کسی چیز کا مکمل جائزہ پیش کرتے ہوئے اُسے نو حصوں میں تقسیم کرنے کے عادی ہیں، مثلاً بانگِ درا حصہ سوم کی نظم ’طلوع اسلام‘ میں نو بند ہیں، زبورِ عجم کی ’مثنوی گلشن راز جدید‘ نو سوالات پر مشتمل ہے، جاویدنامہ کے فلکِ قمر پر عارفِ ہندی وشوامتر بھی نو سخن پیش کرتے ہیں، وغیرہ۔ لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس باب کی نو نظموں میں سے کوئی بھی چارسے زیادہ اشعار پر مشتمل نہیں ہے: ۱ مردِ فرنگ ۳ شعر ۲ ایک سوال ۲ شعر ۳ پردہ ۳ شعر ۴ خلوت ۴ شعر ۵ عورت ۳ شعر ۶ آزادیٔ نسواں ۴ شعر ۷ عورت کی حفاظت ۳ شعر ۸ عورت اور تعلیم ۳ شعر ۹ عورت ۴ شعر ضربِ کلیم کی اکثر نظموں میں اقبال کا انداز ایسا ہے کہ پہلا شعر موضوع کے بیان میں، دوسرا اصول، تیسرا امکانات، چوتھا اصول کا اطلاق اور پانچواں نتیجہ پیش کرتا ہے اور وہ نتیجہ عام طور پر ایک نئی حقیقت کا ظہور ہوتا ہے۔باب ’عورت‘ میں اس پانچویں مرحلے کی نوبت ہی نہیں آتی۔ یہاں اقبال دو یا تین شعروں میں صرف اصول بیان کر کے یا موضوع کے امکانات تک پہنچ کر رک جاتے ہیں اور اس کا اطلاق ہم پر چھوڑ دیتے ہیں یا پھر چوتھی، چھٹی اور نویں نظم میں اصول کے اطلاق تک رہنمائی کی ہے لیکن اس کا نتیجہ ہم پر چھوڑ دیا ہے۔ اگر ہم جاننا چاہیں کہ ایسا کیوں ہے توباب کے آخری شعر میں جواب مل جاتا ہے: میں بھی مظلومی نسواں سے ہوں غمناک بہت نہیں ممکن مگر اس عقدۂ مشکل کی کشود! گزشتہ چالیس برسوں کی فکری تاریخ پر نظر ڈالیں تو اقبال کے محتاط رویے کی وجہ سمجھ میں آ جاتی ہے۔ ۱۹۶۰ء کی دہائی میں دوسری لہر کے فیمنزم کا عروج شروع ہوا جو قریباً بیس برس میں اپنی انتہا کو پہنچ گیا۔ اس لہر میں علوم کو بعض نئے پہلووں سے دیکھنے کا موقع ملا جس کے مفید اثرات سے انکار نہیں کیا جا سکتا لیکن اس زمانے میں عموماً بعض فیمنسٹ نظریات کو حرفِ آخر سمجھ لیا گیا۔ یہ بات بعد میں غلط نکلی کیونکہ ۱۹۹۰ء کی دہائی میں خود مغرب میں یہ لہر ٹھنڈی پڑ گئی اور اب خطرہ ہے کہ فیمنسٹ زاویے سے علوم کو دیکھنے میں جو بعض فوائد حاصل ہوئے تھے کہیں وہ بھی زائل نہ ہو جائیں: ہزار بار حکیموں نے اس کو سلجھایا مگر یہ مسئلۂ زن رہا وہیں کا وہیں یہ اس باب کا پہلا شعر ہے۔ پاکستان میں آزادیٔ نسواں پر ایک کلیدی کتاب کا عنوان بھی کچھ اسی قسم کے معانی دیتا ہے یعنی ایک قدم آگے، دو قدم پیچھے: Women in Pakistan: One Step Forward, Two Steps Back جب یہ کتاب شائع ہوئی تو مسئلہ زن وہیں کا وہیں رہنے کی وجہ جنرل ضیا الحق نظر آتے تھے مگر چند برس بعد دیکھا گیا کہ مغرب میں بھی یہ مسئلہ دو قدم پیچھے سرک آیا ہے۔ ۵ چوتھا باب ’ادبیات، فنونِ لطفیہ‘ ہے جس کی ابتدائی نظموں کا جائزہ لیا جا چکا ہے۔ یہاں تین نظموں کا سرسری جائزہ لینا مقصود ہے جن سے اس باب کا مرکزی خیال معلوم ہو سکے۔ یہ نظمیں ’تیاتر‘، ’رومی‘ اور ’ہنرورانِ ہند‘ ہیں۔ ان میں سے پہلی اور دوسری کی وجہ سے بعض غلط فہمیاں بھی پھیل چکی ہیں۔ ’تیاتر‘ (یعنی تھیٹر) میں اقبال نے کہا ہے کہ تمثیل کا کمال یہ ہے کہ دیکھنے والا باقی نہ رہے اور یہ ایک طرح سے اپنے وجود میں دوسرے کی خودی کو آباد کرنے کی بات ہے لہٰذا اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔ اس نظم کے بارے میں غلط فہمی اس وجہ سے پیدا ہوئی کہ لوگوں نے اسے افلاطون کے خیالات سے ماخوذ سمجھ لیا جو اُس نے شاعری اور ڈرامے کے خلاف ظاہر کیے تھے۔ اقبال کو افلاطون سے اتنا شدید نظریاتی اختلاف تھا کہ ایسے اہم موضوع پر اُن کے خیالات افلاطون سے مل جانا یوں بھی محال ہے۔ نظم کو اس کے سیاق و سباق میں دیکھیں تو بھی اس کا مفہوم بھی کچھ اور نکلتا ہے۔ بنیادی نکتہ خودی کی بقا ہے۔ یہ افلاطون کا مسئلہ ہے ہی نہیں۔ اقبال کی اصطلاح میں خودی کو بیخودی سے علیحدہ نہیں کیا جا سکتا۔ انفرادی خودی کو بلند کرنے کی صورت ہی یہی ہوتی ہے کہ اُسے قوم کی خودی میں فنا کر کے بیخودی حاصل کی جائے۔ اس کے سوا خودی کی توسیع کی کوئی دُوسری صورت نہیں۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو یہاں تھیٹر کی عمومی مخالفت نہیں بلکہ اس کی اُن قسموں کی مخالفت ہے جس میں دیکھنے والے کی خودی باقی نہ رہے۔ اقبال کی اصطلاح میں خودی باقی نہ رہنے کی دو صورتیں ہیں۔ پہلی یہ ہے کہ اپنی قوم کی خاطر کسی دوسری قوم کا حق غصب کریں جس کی مثالیں جاویدنامہ میں فلکِ زہرہ پر فرعون اور کچنر ہیں۔ دوسری صورت نفاق اور غداری ہے جس کی علامتیں جاویدنامہ میں فلک زحل پر میر جعفر اور میر صادق ہیں جو اپنی قوم اور معاشرے سے کٹ گئے تھے۔ تھیٹر دیکھنے والے کو ان دونوں میں سے کس بات کا خطرہ ہوتا ہے؟ اس کا جواب سمجھنے کے لیے شیکسپئر کے بارے میں اقبال کے خیالات تفصیل سے جاننا ضروری ہیں جس کی یہاں گنجائش نہیں ہے۔ اصولی طور پر سمجھا جا سکتا ہے کہ اقبال نے تھیٹر کی اُس قسم کی مخالفت کی ہے جس میں دیکھنے والی کی خودی کو خطرہ پیدا ہو جائے خواہ ظلم کی وجہ سے ہو یا نفاق کی وجہ سے۔ اگر کسی زمانے میں تھیٹر اور سنیما کی صرف ایسی قسمیں رائج ہوں تو اقبال ان سب کی مخالفت کریں گے (اور اُن کے زمانے میں یہی صورت حال دکھائی دیتی ہے)۔ لیکن کیا تھیٹر کی اس کے علاوہ کوئی اور قسم بھی ہو سکتی ہے جس میں دیکھنے والے کی خودی باقی رہے بلکہ زیادہ مستحکم ہو جائے؟ کیا اس طرح تمثیل کے کمال میں کمی واقع نہ ہو جائے گی؟یہ سوالات تفصیل طلب ہیں اور تفصیل کی یہاں گنجائش نہیں ہے۔ ’رومی‘ چھ مصرعوں پر مشتمل نظم ہے جس کے تمام مصرعے ہم قافیہ ہیں اور ردیف بھی موجود ہے جس کی وجہ سے اس میں ایسی کیفیت پیدا ہو گئی ہے جیسے اقبال کسی بات پر اصرار کر رہے ہوں۔ دیکھنا چاہیے کہ وہ کس بات پر اصرار کر رہے ہیں: غلط نگر ہے تری جشمِ نیم باز اب تک! ترا وجود ترے واسطے ہے راز اب تک! ترا نیاز نہیں آشنائے ناز اب تک! کہ ہے قیام سے خالی تری نماز اب تک! کسستہ تار ہے تیری خودی کا تار اب تک! کہ تو ہے نغمۂ رومی سے بے نیاز اب تک! سارا زور ردیف پر ہے جو چھ مصرعوں میں چھ بار استعمال ہوئی ہے: ’’اب تک!‘‘ اس سے کیا مراد ہے؟ یہ اقبال کی ساتویں کتاب ہے۔ ان کتابوں میں مولانا روم بار بار آتے رہے یا ان کا ذکر ہوا۔ پہلی دفعہ ان کا تعارف کروتے ہوئے اقبال نے کہا تھا کہ وہ سمندر ہیں اور اقبال محض اس کی ایک لہر جو سمندر کی تہ میں موتی بن جائے گی۔ کیا اقبال یہ منزل حاصل کر چکے ہیں؟ چند نظمیں پہلے ایک چھوٹی سی نظم کا عنوان ہے ’اقبال‘۔ اس میں مولانا روم بھی موجود ہیںہے: فردوس میں رومی سے یہ کہتا تھا سنائی مشرق میں ابھی تک ہے وہی کاسہ، وہی آش! حلاج کی لیکن یہ روایت ہے کہ آخر اک مردِ قلندر نے کیا رازِ خودی فاش! سنائی مولانا روم کے غائبانہ مرشد تھے جیسے مولانا روم، اقبال کے ۔ سنائی کی شکایت ایک قسم کی سرزنش بھی ہو سکتی ہے کہ مشرق کی ابتری دُور کرنے کے لیے مولانا روم کیوں کارآمد نہیں ہو پارہے؟ سنائی چونکہ مرشد ہیں لہٰذا مولانا روم اُن کے سامنے یہ نہیں کہہ سکتے کہ آپ کو غلط فہمی ہوئی، میں تو ایک مرید تیار کر لیا ہے جو اپنا کام کر رہا ہے بلکہ شائد کر بھی چکا ہو۔ وہ خاموش رہتے ہیں اور اُن کی بجائے منصور حلاج جواب دیتے ہیں کیونکہ اول تو وہ سنائی سے بڑے ہیں، دوسرے وہ منصور ہیں جو ’’انا الحق‘‘ کہنے سے باز نہ رہے پھر بھلا اب زبان کھولنے میں تردد کیوں ہو۔ وہ گواہی دیتے ہیں کہ ایک قلندر نے رازِ خودی فاش کر دیا ہے۔ حلاج کے جملے کی تہ میں جائیے تو اقبال کا موتی بننا صاف نظر آتا ہے۔ خودی وہ نکتہ ہے جو مولانا روم کی مثنوی میںپوشیدہ اور حلاج کے یہاں ظاہر ہے۔ سنائی کو تشویش ہوئی ہو گی کہ مولانا روم نے یہ نکتہ اس طرح کیوں چھپا دیا کہ باہر ہی نہ آ سکے لہٰذا حلاج بتاتے ہیں کہ ایک قلندر نے پھر یہ راز فاش کر دیا ہے۔ یہ کام کرنے والے مولانا روم ہی کے شاگرد اقبال ہیں لہٰذا مولانا روم کو سند مل جاتی ہے اور وہ بھی حلاج جیسے شخص کی (اگر حلاج کہیں کہ کوئی راز فاش ہوا ہے تو بہت مکمل طور پر فاش ہوا ہو گا کیونکہ کسی بات کے ڈھکے چھپے انداز میں ظاہر ہونے کو حلاج کب خاطر میں لائیں گے)۔ دوسری طرف حلاج کا نام لینے یا انہیں مردِ قلندر کے لقب سے یاد کرتے ہیں۔ اس طرح حلاج ان کی کامیابی کو اپنی طرف بھی منسوب کر لیتے ہیں کیونکہ بعض روایات کے مطابق قلندری سلسلے کے بانی حلاج تھے۔ یوں اقبال کو قلندری سلسلے کی اتنی بڑی ہستی سے قلندری کی سند مل جاتی ہے۔ اب یہ بات محتاجِ ثبوت نہیں رہتی کہ اقبال جو مولانا روم کے سمندر کی لہر تھے اب موتی بن چکے ہیں۔ نظم ’رومی‘ میں اقبال اپنے قاری کو یاد دلا رہے ہیں کہ یہ منزل اقبال نے حاصل کی ہے مگر قاری کو ابھی یہ منزل حاصل کرنی ہے: گسستہ تار ہے تیری خودی کا ساز اب تک!اقبال کی تمام کتابیں پڑھنے کے باوجود قاری کو مولانا روم سے ضرور رجوع کرنا پڑے گا۔ قاری اگر یہ سمجھ بیٹھے کہ مولانا روم کی اہمیت ختم ہو گئی ہے تو پھر وہ ہمیشہ اقبال کا محتاج رہے گا۔تب اُس کی رسائی اپنی خودی تک کیسے ہو گی؟ لہٰذا اگلی نظم کا عنوان ’جدّت‘ ہے: دیکھے تو زمانے کو اگر اپنی نظر سے افلاک منوّر ہوں ترے نورِ سحر سے! خورشید کرے کسبِ ضیا تیرے شرر سے! ظاہر تری تقدیر ہو سیمائے قمر سے! دریا متلاطم ہوں تری موجِ گہر سے! شرمندہ ہو فطرت ترے اعجازِ ہنر سے! اغیار کے افکار و تخیل کی گدائی! کیا تجھ کو نہیں اپنی خودی تک بھی رسائی؟ ’ہنرورانِ ہند‘ وہ مشہور بلکہ بدنام نظم ہے جس کے آخری شعر کو چمٹی سے پکڑ کر لوگ یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ اقبال شعر و ادب میں عورت کا ذکر کرنے کے خلاف تھے۔ پوری نظم پڑھی جائے تو نتیجہ برعکس نکلتا ہے: عشق و مستی کا جنازہ ہے تخیل ان کا ان کے اندیشۂ تاریک میں قوموں کے مزار! موت کی نقش گری ان کے صنم خانوں میں زندگی سے ہنر ان برہمنوں کا بیزار! چشمِ آدم سے چھپاتے ہیں مقاماتِ بلند کرتے ہیں روح کو خوابیدہ بدن کو بیدار ہند کے شاعر و صورت گر و افسانہ نویس آہ! بیچاروں کے اعصاب پر عورت ہے سوار! پہلے ہی شعر میں ہنرورانِ ہند پر اقبال کا اعتراض یہ ہے کہ ان کا تخیل عشق و مستی کا جنازہ ہے جس کی وجہ سے ان کے اندیشۂ تاریک میں قومیں دفن ہو جاتی ہیں۔ اصول یہ ہے کہ یہ لوگ زندگی سے بیزار ہیں اور موت کی نقش گری کرتے ہیں۔ روح کی بیداری جو ادبیات اور فنونِ لطیفہ کے امکانات میں سب سے بلند ہے یہ اپنے ناظرین کو اُس سے محروم رکھتے ہیں۔ ان تمام خرابیوں کا ثبوت کسی ایک بات میں دیکھنا ہو تو وہ یہ ہے کہ ان بیچاروں کے اعصاب پر عورت سوار ہے! لہٰذا اقبال کا اعتراض اس پر نہیں ہے کہ ہند کے شاعر، صورت گر اور افسانہ نویس عورت کا ذکر کرتے ہیں بلکہ انہیں اس بات پر اعتراض ہے کہ ان کا فن عشق و مستی پیدا نہیں کرتا۔ وجہ یہ ہے کہ یہ اس رمز سے بے خبر ہیں کہ عورت کا تذکرہ فن میں کیسے کیا جائے کہ وہ موت، مایوسی اور پستی کی بجائے عشق و مستی اور روح کی بیداری کی طرف لے جائے۔ روایت ہے کہ یہ نظم پڑھنے کے بعد کسی نے اقبال سے اُن کے ایک فارسی مطلع کا ذکر کر کے پوچھا کہ اُس میں بھی تو عورت کا ذکر ہے تو اقبال نے کہا کہ وہاں مرد، عورت کے اعصاب پر سوار ہے۔اقبال کی اپنی شاعری میں عورت کا ذکر صرف ابتدائی دور تک محدود نہیں بلکہ ’مسجدِ قرطبہ‘ جیسی رفیع الشان نظم بھی یوں اپنے نقطہ عروج کی طرف بڑھتی ہے: سادہ و پرسوز ہے دخترِ دہقاں کا گیت کشتی دل کے لیے سیل ہے عہدِ شباب آب روان کبیر! تیرے کنارے کوئی دیکھ رہا ہے کسی اور زمانے کا خواب یہ بھی حقیقت ہے کہ اُس زمانے کے نوجوان شعرا میں سے جسے خاص طور پر اقبال کی سرپرستی حاصل تھی وہ حفیظ جالندھری تھے جو بہت مدت تک رومانی شاعر کے طور پر مشہور رہے۔ ’ہنرورانِ ہند‘ کو اس سے پچھلی نظم ’شعرِ عجم‘ اور اگلی دو نظموں ’مردِ بزرگ‘ اور ’عالمِ نو‘ سے ملا کر پڑھنے پر یہ نکات زیادہ اچھی طرح سمجھ میں آجاتے ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ اقبال غالباً اردو کے پہلے شاعر ہیں جنہوں نے حقیقی کی اصطلاح قوم کے لیے استعمال کی جبکہ ان سے پہلے یہ اصطلاح صرف خدا کے لیے استعمال کی جاتی تھی۔ انہوں نے اس قوم کے لیے ایک ایسی ریاست کی بیشین گوئی بھی کی جو حقیقت کے ان دونوں معانی کے اثبات کی بنیاد پر قائم ہونے والی تھی۔ پھر جس طرح اگلے وقتوں میںعشق و مستی کی داستانیں اس طرح بیان کی گئی تھیں کہ عشقِ مجازی خدا کے عشق کا آئینہ اور اس راستے کی پہلی منزل بن جائے اُسی طرح پاکستان میں ایسے ادبیات اور فنون لطیفہ کو فروغ کیوں نہ دیا جاتا جس میں عشق مجازی قوم کے عشق کا آئینہ دار بن جاتا ہو؟ اگلی نظم ’مردِ بزرگ‘ میں اسی قسم کے ہنرمندوں کی نشانیاں دکھائی دیتی ہیں: اس کی نفرت بھی عمیق اس کی محبت بھی عمیق! قہر بھی اس کا ہے اللہ کے بندوں پہ شفیق! پرورش پاتا ہے تقلید کی تاریکی میں ہے مگر اس کی طبیعت کا تقاضا تخلیق! انجمن میں بھی میسر رہی خلوت اس کو شمعِ محفل کی طرح سب سے جدا سب کا رفیق! مثلِ خورشیدِ سحر فکر کی تابانی میں بات میں سادہ و آزادہ، معانی میں دقیق! اس کا اندازِ نظر اپنے زمانے سے جدا اس کے احوال سے محرم نہیں پیرانِ طریق! ۶ ’سیاسیات مشرق و مغرب‘اشارات کا مجموعہ ہے۔ پہلی نظم ہی رمزئیت اور ایمائیت کا نمونہ پیش کرتی ہے۔ اس کا عنوان ’اشتراکیت‘ ہے اور اس کا آخری شعر ہے: جو حرفِ قل العفو میں پوشیدہ ہے اب تک اس دور میں شاید وہ حقیقت ہو نمودار! اگلی نظم ’کارل مارکس کی آواز‘ ہے جسے ۱۹۳۶ء میں سمجھنا قریب قریب ناممکن تھا۔ وجہ یہ تھی کہ جس طرح اقبال نے اپنی قوم کے بارے میں کچھ پیشین گوئیاں کی تھیں اُسی طرح روسی دانشوروں نے کارل مارکس کے حوالے سے دنیا کے بارے میں پیشین گوئیاں کر رکھی تھیں۔ ہند کے شاعر و صورت گر و افسانہ نویس اس امکان پر غور کرنے کا حوصلہ کہاں سے لاتے کہ شاید اقبال، کارل ماکس کے پیغام کی کوئی ایسی تعبیر پیش کرگئے ہوں جو مغربی مصنفین کی سمجھ میں نہیں آ سکی تھی! یہ بات لطیفے سے کم نہیں کہ اقبال کی وفات کے کچھ برس بعد جب کینیڈین مشنری ڈبلیو سی اسمتھ نے لاہورمیں قیام کیا تو اس کے ترقی پسند ہم جلیسوں نے اسے بتایا کہ اقبال سوشلزم کو ٹھیک سے مجھ نہیں پائے تھے۔ گویا یہ ادیب سوشلزم کو اقبال کے اشاروں کی مدد سے سمجھنے کی بجائے اقبال کا امتحان لینے پر مامور ہوئے بیٹھے تھے۔ اس میں اقبال کا کچھ نہ بگڑا مگر ممکن ہے کہ ترقی پسند تحریک بعض فوائد حاصل کرنے سے محروم رہ گئی ہو جو اُسے اقبال سے مل سکتے تھے۔ ’جمعیت اقوامِ مشرق‘ کا یہ شعر عام طور پر بہت مشہور ہے: طہران ہو گر عالمِ مشرق کا جنیوا شاید کرۂ ارض کی تقدیر بدل جائے! لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ تہران ہی کیوں؟ کیا یہ محض استعارہ ہے جس سے کسی بھی مسلمان ملک کا شہر مقصود ہو سکتا ہے یا واقعی ایران کے دارالحکومت پر اصرار ہے؟ غور کیا جائے تونظر آتا ہے کہ جاویدنامہ کے فلکِ قمر پر ازمنۂ قدیم کی دانش و وجدان کے خلاصے وشوامتر، سروش، گوتم بدھ، زرتشت، مسیح اور پیغمبر آخر الزماں کے حوالوں سے پیش ہوئے۔ ان سب کی خصوصیات متعین کی جائیں توانسانیت کو اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لانے کے لیے خصوصیت کے ساتھ جس پیغمبر کو حوالہ بنایا گیا وہ زرتشت ہیں اور ان کا تعلق ایران سے تھا۔ اگر ان دونوں باتوں کا آپس میں کوئی تعلق ہے تو کیا مجوسیت کا احیا کرنے کی ضرورت ہے یا اسلام خود بھی زرتشت کے پیغام کا وارث ہے؟ شہنشاہ کا ایران اس کے لیے زیادہ موزوں تھا جو قدیم زمانے کے ایرانی شہنشاہوں سے اپنا سلسلہ جوڑتا تھا یا جمہوری ایران بھی یہ کام کر سکتا ہے؟ اتفاق سے ان سوالوں کا جواب اگلی ہی نظم میں موجود ہے جس کا عنوان ’سلطانیِ جاوید‘ ہے: فرہاد کی خاراشکنی باقی ہے اب تک باقی نہیں دنیا میں ملوکیتِ پرویز! اس سے اگلی نظم دو اشعار کی مشہور اور بدنام نظم ’جمہوریت‘ہے: اس راز کو اک مردِ فرنگی نے کیا فاش! ہرچند کہ دانا اسے کھولا نہیں کرتے جمہوریت اک طرزِ حکومت ہے کہ جس میں بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے اس نظم میں جو موقف پیش ہوا ہے اُسے اقبال نے ایک مردِ فرنگی سے منسوب کیا ہے جس کا نام حاشیے میں سٹنڈل درج ہے۔ بہرحال یہ قول جس کا بھی ہو اقبال اس پر مسرور نظر آتے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ وہ جمہوریت سے اس لیے نالاں ہیں کہ اس میں بادشاہ نہیں ہوتے یا اس لیے نالاں ہیں کہ اس میں جمہور کو وہ آزادی نہیں ملتی جسے فراہم کرنے کا جمہوریت دعویٰ کرتی ہے؟ اگر اقبال کو جمہوریت پسند نہیں تو اُس کی بجائے وہ کون سا نظامِ حکومت لانا پسند کریں گے؟ ان سوالوں کے جواب اقبال کے یہاں بہت واضح ہیں۔ جمہوریت پر اُن کا اصل اعتراض اس باب کی آخری نظم ’نفسیاتِ حاکمی (اصلاحات)‘ سے واضح ہوتا ہے۔ بظاہر یہ ۱۹۳۵ء کے آئین پر تبصرہ ہے جس میں آئینی اصلاحات کے ناکافی ہونے کی شکایت ہے: یہ مہر ہے بے مہریٔ صیاد کا پردہ آئی نہ مرے کام مری تازہ صفیری! رکھنے لگا مرجھائے ہوئے پھول قفس میں شاید کہ اسیروں کو گوارا ہو اسیری! اقبال مغربی جمہوریت کی بجائے کون سا نظامِ حکومت پسند کرتے تھے؟ یہ سوال اُٹھتے ہی بادشاہت، ڈکٹیٹرشب، خلافت، ملوکیت وغیرہ کا ذکر ہونے لگتا ہے۔ گویا تاریخ کے کارزار سے خدنگِ جستہ اُٹھا اُٹھا کر جمع کیے جاتے ہیں اور اس امکان پر غور نہیں کیا جاتا کہ شاید اقبال کسی نئے طرزِ حکومت کے خواہاںرہے ہوں جو اُس وقت تک موجود نہیں تھا۔ تشکیل جدید کے خطبات میں اقبال نے نہ صرف ایک نئے طرزِ حکومت کا نام لیا ہے بلکہ اسے اسلام کا حتمی مقصد بتایا ہے۔ اس کا نام روحانی جمہوریت ہے۔ ۷ پانچ حصوں کے بعد ’محراب کل افغان کے افکار‘ ہیں۔یہ بیس منظومات ہیں جنہیں عام طور پر غزل کہا گیا ہے لیکن نمبر ۷ تو ساخت کے اعتبار سے گیت ہے: رومی بدلے، شامی بدلے، بدلا ہندستان! تو بھی اے فرزندِ کہستاں، اپنی خودی پہچان! اپنی خودی پہچان او غافل افغان! کیوں نہ سمجھا جائے کہ یہ گیت لکھ کر اقبال نے اس نئی طرز کو سند عطا کی جو حفیظ جالندھری جیسے نوجوان شاعروں کی بدولت مقبول ہو رہا تھا اورآگے چل کر پاکستان اور ہندوستان میں بہت عام ہونے والا تھا؟ بہرحال ان بیس منظومات پر زبورِ عجم اور بالِ جبریل کے پہلے دو حصوں کی طرح نمبرشمار پڑے ہوئے ہیں لہٰذا جو اصول وہاں کام آتے ہیں اُن کا اطلاق یہاں بھی ہو سکتا ہے۔ البتہ یہاں ایک دلچسپ بات یہ دکھائی دیتی ہے کہ پہلی نظم ایک سوال ہے: اے مرے فقرِ غیور فیصلہ تیرا ہے کیا خلعتِ انگریز یا پیرہنِ چاک چاک! سوال محراب گل افغان نے پوچھا ہے مگر فقرِ غیور کون ہے جس سے سوال پوچھا گیا؟ ضرب کلیم کے پہلے حصے ’اسلام اور مسلمان‘ کی نظم ’اسلام‘ میں اقبال نے اسے دین اسلام ہی کا ایک نام بتایا ہے: لفظ ’اسلام‘ سے یورپ کو اگر کد ہے تو خیر دوسرا نام اسی دین کا ہے ’فقر غیور‘! لہٰذا محراب گل نے یہ سوال اپنے دین سے پوچھا ہے اور بقیہ وہ جوابات ہیں جو موصول ہوئے۔ مثلاً ظاہر ہے کہ اگلی نظموں کے اس قسم کے اشعار محراب گل اپنے دین سے مخاطب ہو کر نہیں کہہ سکتا بلکہ اُس کا دین اُسے یہ بات سمجھا سکتا ہے: تری دعا سے قضا تو بدل نہیں سکتی مگر ہے اس سے یہ ممکن کہ تو بدل جائے! ایسا ہے تو پھر ہم ان منظومات کو ’محراب گل افغان کے افکار‘کیسے کہیں؟ اس سوال پر غور کیجیے تو یہ بات سمجھ میں آ جاتی ہے کہ اقبال کے نزدیک ’’افکار‘‘ کی تعریف کیا ہے۔ مگر کیا یہ تمام جوابات محراب گل کو اُس کے دین کی طرف سے مل رہے ہیں؟ مثلاً یہ کون کہہ رہا ہے کہ رومی بدلے، شامی بدلے وغیرہ، اس لیے اپنی خودی پہچان او غافل افغان! پھر بعض منظومات میں تو مظاہر فطرت ایک دوسرے کے ساتھ مکالمہ کرتے دکھائی دیتے ہیں جیسے محراب گل کان لگا کر اُنہیں سن رہا ہو: زاغ کہتی ہے نہایت بدنماں ہیں تیرے پر شپرک کہتی ہے تجھ کو کورچشم و بے ہنر لیکن اے شہباز یہ مرغانِ صحرا کے اچھوت ہیں فضائے نیلگوں کے پیچ و خم سے بے خبر! ان کو کیا معلوم اس طائر کے احوال و مقام روح ہے جس کی دمِ پرواز سر تا پا نظر! یہ بات محراب گل بھی کسی شہباز سے کہہ سکتا ہے، اس کا دین اُسے شہباز سے تشبیہ دیتے ہوئے اُس سے بھی کہہ سکتا ہے لیکن ممکن ہے کہ کسی چرند، پرند، ندی، پہاڑ، بادل وغیرہ نے سچ مچ کے شہباز سے کہی ہو جسے محراب گل نے اپنی حالت کی تشبیہ سمجھا ہو؟ یہ نظم نمبر ۸ تھی۔ اگلی نظم اس کا تسلسل بھی ہو سکتی ہے، اس پرتبصرہ بھی ہو سکتی ہے اور وہ نتیجہ بھی ہو سکتی ہے جسے محراب گل نے خود اخذ کیا ہو: عشق طینت میں فرومایہ نہیں مثلِ ہوس پرِ شہباز سے ممکن نہیں پروازِ مگس لہٰذا یہ سوال اپنی جگہ اہم ہے کہ پہلی نظم کے بعد کی تمام منظومات محراب گل کو اپنے دین سے ملنے والے جوابات ہیں، اس کے اپنے ضمیر کی آواز ہیں یا ان میں مظاہر فطرت اور ندائے غیب بھی شامل ہیں؟ اگر ہم یہ سمجھنے پر تیار ہوں کہ یہ تمام عناصر باہم مربوط ہو سکتے اور ان کے درمیان حیاتیاتی وحدت ہو سکتی ہے تو شائد ہم سمجھ جائیں کہ دین اور مذہب میں کیا فرق ہے، اسلام کی امتیازی خصوصیت کیا ہے اور اس آڑے وقت محراب گل اپنا سوال لے کر اسلام ہی کے پاس کیوں آیاہے۔ ان نظموں میں اسلام کے براہِ راست حوالے بہت کم ہیں بلکہ پہلی نظم میں تو سوال پوچھتے ہوئے بھی محراب گل نے اسلام کا نام لینے کی بجائے صرف ’فقرِ غیور‘ کہا ہے۔ اس میں بھی یہی رمز دکھائی دیتی ہے کہ جنہیں اسلام کے نام سے کد ہو وہ اسے فقرِ غیور سمجھ کر ہی محراب گل افغان کے افکار پر غور کر لیں! کہنے کو یہ چند غزلیں، نظمیں، قطعات اور گیت ہیں لیکن اقبال نے انہیں جس طرح ترتیب دیا اور پھر ’محراب گل افغان کے افکار‘ کا عنوان دیا اُس کی وجہ سے ان میں یہ وسیع امکانات پیدا ہوئے۔ آخری سوال رہ جاتا ہے کہ محراب گل افغان ہے کون؟ اقبال نے اسرار و رموز میں اپنے لیے بابائے صحرائی کا قلمی نام استعمال کیا۔ یہ بھی اُسی قسم کا فرضی کردار معلوم ہوتا ہے جس کے پردے میں اقبال خود بول رہے ہیں۔ اس طرح وہ کتاب جو بھوپال کے ذکر سے شروع ہوئی تھی افغانستان کے ذکر پر ختم ہوتی ہے لیکن محراب گل کے افکار میں جو ماحول ہے وہ افغانستان کے علاوہ صوبہ سرحد اور قبائلی علاقہ جات کا بھی ہو سکتا ہے جو اُس ریاست میں شامل ہونے والے تھے جس کے قیام کی پیشین گوئی اقبال نے کی تھی۔ باب ۸ اے اقوامِ شرق! ’’اگر ہمارے یوسف کو بھیڑیا لے جائے تو یہ اس سے بہتر ہے کہ وہ کسی مرد ِ ناکس کے ہاتھ لگے،‘‘ مولانا روم اقبال سے کہتے ہیں۔ ’’دین و سیاست کے معانی کہہ ڈالو۔ یہ دونوں حکمتیں اہلِ حق سے بیان کر دو‘‘: یوسفِ ما را اگر گرگے برد بہ کہ مردے ناکسے اُو را خرد ۔۔۔ معنی دین و سیاست باز گوے اہلِ حق را زیں دو حکمت بازگوے یہ خطاب پس چہ باید کرد اے اقوامِ شرق مع مثنوی مسافر کی تمہید ہے جو اقبال کی آٹھویں شعری تصنیف ہے۔اقبال نے پیامِ مشرق کو افغانستان کے جس فرمانروا کے نام معنون کیا تھا وہ ایک بغاوت کے نتیجے میں حکومت سے محروم ہو گئے تھے اور جب اُن کے بھتیجے نادر شاہ نے باغیوں سے حکومت واپس لینے کی مہم شروع کی تو اقبال نے اُن کے لیے چندہ اکٹھا کیا تھا اور جب نادر شاہ اپنے ملک جاتے ہوئے لاہور سے گزرے تو یہ چندہ اُن کے حوالے کیا۔ اقتدار حاصل کرنے کے بعد نادر شاہ نے اقبال کو اُن کے دو ہمراہیوں سمیت افغانستان آنے کی دعوت دی تاکہ وہ افغانستان کی نئی تعلیمی پالیسی پر رائے دے سکیں۔ یوں اقبال، سر راس مسعود اور سید سیلمان ندوی نے ۱۹۳۳ء میں افغانستان کا ایک مختصر سفر کیا جس کی روداد سلیمان ندوی نے سیرِ افغانستان کے عنوان سے اردو نثر میں شائع کی۔ اقبال کا سفرنامہ منظوم تھا اور مثنوی مسافر کے عنوان سے ۱۹۳۴ء میں شائع ہوا۔ اگلے برس اقبال کی بیماری کا آغاز ہوا اور علاج کے سلسلے میں کئی دفعہ بھوپال جانا پڑا۔ ۱۹۳۶ء میں ایسے ہی ایک قیام کے دوران انہوں نے خواب میں سرسید احمد خاں کو دیکھا جو کہہ رہے تھے کہ اقبال اپنی بیماری کا حال رسول اکرمؐ کے حضور بیان کریں۔ یوں اقبال نے ایک اور فارسی مثنوی لکھنا شروع کی جو پھیلتے پھیلتے بعض دوسرے موضوعات پر بھی محیط ہو گئی۔ یہ پس چہ باید کرد اے اقوام شرق (یعنی اے اقوام شرق اب کیا کرنا چاہیے؟) کے عنوان سے ۱۹۳۷ء میں شائع ہوئی۔ اس کی اشاعت کے کچھ ہی مدت بعد اقبال نے مثنوی مسافر کے مطبوعہ نسخوں کو بھی اسی کے ساتھ جلد میں بندھوا کر دونوں کتابوں کو اکٹھا کر دیا لیکن مثنوی مسافر کو اے اقوامِ شرق کے بعد رکھا۔ یہ محض کتابوں کی فروخت کے لیے تجارتی فیصلہ تھا یا اس میں بھی نظم معنوی تلاش کیا جا سکتا ہے؟ اقبال اپنی کتابوں کی ترتیب پر خاص توجہ دیتے تھے لہٰذا دونوں مثنویوں کوجس طرح یکجا کیا اُسے نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ ویسے بھی وہ اپنی تخلیقات کو زمانی ترتیب میں نہیں بلکہ معنوی ترتیب میں رکھنے کے عادی تھے اور معنوی ربط یہاں بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ پہلی مثنوی اسرارِ سیاست کے بعض عمومی اصول بیان کرتی ہے اور دوسری ایک مخصوص خطے کی باطنی کیفیات کا حال بیان کرتی ہے جو انہی اسرارِ سیاست کے ذریعے اپنے آپ کو بدلنے کے لیے بے تاب ہے۔ یہ کوئی عام خطہ نہیں بلکہ افغانستان ہے جس کے بارے میں جاویدنامہ میں ’آنسوئے افلاک‘ احمد شاہ ابدالی نے زندہ رُود سے کہا تھا، ’ایشیا ایک جسم ہے اور افغان قوم اس میں دل ہے۔۔۔‘‘: آسیا یک پیکرِ آب و گل است ملتِ افغانیہ در اُو دل است ۲ اقبال کی شعری تصانیف کے تسلسل میں اے اقوامِ شرق کی بنیادی اہمیت یہ ہے کہ اس میں مولانا روم آخری بار ظاہر ہوتے ہیں: ۱ پہلی بار مولانا روم پہلی شعری تصنیف اسرار و رموز کی ’تمہید‘ میں اقبال کے خواب میں ظاہر ہوئے۔ اُنہوں نے اقبال کو ایک نیا روپ دیا جس کے نتیجے میں ایک نئی دنیا وجود میں آنے کا امکان پیدا ہوا۔ ۲ بانگِ درا کے حصہ سوم میں ’خضرِ راہ‘ میں خواجہ خضر علیہ السلام نے اقبال کو مولانا روم کا پیغام دیا کہ جب بھی کوئی نئی دنیا کو وجود میں آنی ہو تو پہلے پرانی بنیادیں ویران کی جاتی ہیں۔اس سے پہلے پیامِ مشرق میں پہلی جنگِ عظیم کے بعد ایک دنیا کے ختم ہونے کا سرسری تذکرہ تھا اور ’خضرِ راہ‘ میں اُسی دنیا کی تباہی کو اندرونی طور پر خضر کے نقطہ نظر سے محسوس کروایا گیا۔ اس کے فوراً بعد ’طلوعِ اسلام‘ میں ایک نئی دنیا وجود میں آئی۔ ۳ تیسری دفعہ جاویدنامہ کے شروع میں مولانا روم براہِ راست ظاہر ہوئے تو وہ دنیا بھی فنا ہو گئی جو ’طلوعِ اسلام‘ کے نتیجے میں وجود میں آئی تھی اور اقبال نے عالمِ روح میں آنکھ کھولی۔ یہ دنیا جاویدنامہ کے آخر میں ختم ہوئی جب وہ دنیا کی تقدیر کا نظارہ کر کے بیہوش ہو گئے۔ ۴ چوتھی دنیا بالِ جبریل تھی۔ اس کے اسرار ’پیر و مرید‘ میں کھلتے ہیں جو مریدِ ہندی یعنی اقبال اور پیرِ رومی کے درمیان مکالمہ ہے۔ غور کیا جائے تو بالِ جبریل کی کائنات وہی ہے جو ’طلوعِ اسلام‘ میں وجود میں آئی تھی لیکن اب اقبال اسے اپنی نظر سے دیکھ رہے ہیں۔ یہ جاویدنامہ کا اثر ہے۔ ۵ اقبال اس دنیا کو خود ہی ختم کرنے کے درپے نظر آتے ہیں۔ اس کوشش کا آغاز ضرب کلیم سے ہوتا ہے جو ’دورِ حاضر کے خلاف اعلانِ جنگ‘ ہے۔ اس سے اگلی تصنیف اے اقوامِ شرق میں مولانا روم کا پانچواں اور آخری ظہور اسی غرض سے ہے۔ اقبال کی تصانیف میں ان پانچ مواقع کے علاوہ مولانا روم کے کچھ اور حوالے بھی ہیں مثلاً پیامِ مشرق میں مولانا روم جنت میں گوئٹے سے فاؤسٹ سن رہے ہیں، اقبال کو ہیگل کے طلسم سے نجات دلوا رہے ہیں، شعرا سے مکالمہ کر رہے ہیں، وغیرہ وغیرہ۔ اسی طرح بعض مقامات پر اقبال قارئین کو تاکید کرتے ہیں کہ وہ بھی مولانا روم سے فیض حاصل کریں، مثلاً بال جبریل، ضرب کلیم اور بعد میں آنے والی ارمغانِ حجاز میں۔ لیکن یہ حوالے اُن پانچ بنیادی حوالوں کے تابع ہیں جن میں کسی نئی دنیا کا ظہور ہوتا ہے۔ اے اقوامِ شرق میں مولانا روم نے باطنی معانی کے لیے جو استعارہ استعمال کیا وہ قابل غور ہے یعنی یوسف۔ مولانا روم کہہ رہے ہیں، ’’اگرہمارے یوسف کو بھیڑیا لے جائے تو یہ اس سے بہتر ہے کہ وہ کسی مرد ِ ناکس کے ہاتھ لگے‘‘۔ قرآن شریف کی سورۂ یوسف میں حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائیوں نے جھوٹ بولا تھا کہ یوسف کو بھیڑیا لے گیا۔ اصل میں یوسف کنویں میں قید کیے گئے تھے جہاں سے انہیں نکال کر معمولی داموں بیچ دیا گیا۔ اس لحاظ سے مولانا روم کی بات کا ایک مطلب یہ بھی نکلتا ہے کہ یوسف کو بھیڑیا لے جا ہی نہیں سکتالہٰذا اِس خوف سے آزاد ہو کر فکر کرنی چاہیے کہ کہیں وہ کسی قدر ناشناس کے حوالے نہ ہو جائے۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ یوسف کون ہے؟ ظاہر ہے کہ اس سے مراد دین و سیاست کے وہ اسرار ہیں جنہیں دوسروں تک پہنچانے کی نصیحت کی جا رہی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اسرار و رموز کی تمہید میں اقبال نے اپنے پیغام کا تعارف کرواتے ہوئے بھی یہی استعارہ استعمال کیا تھا یعنی، ’’میرا زمانہ راز سے واقف نہیں ہے، میرا یوسف اس بازار کے لیے نہیں‘‘: عصرِ من دانندۂ اسرار نیست یوسفِ من بہرِ ایں بازار نیست اقبال کی تمام شعری تصانیف میں لفظ یوسف پندرہ سولہ مرتبہ استعمال ہوا اور ہر جگہ یہ اقبال کے پیغام کے کسی باطنی معانی کی طرف اشارہ کرتا ہے، بالخصوص ان مقامات پر جو اسرار و رموز کے بعد تصنیف کیے گئے۔ اسرار و رموز سے پہلے کی منظومات میں بھی وہ یوسف کے وجود سے واقف معلوم ہوتے ہیں مگر اُنہیں اُس کے اسرار کی جستجو ہے مثلاً بانگِ درا کے حصہ اول میں ’تصویرِ درد‘میں اپنے سامعین سے کہتے ہیں: کنویں میں تو نے یوسف کو جو دیکھا بھی تو کیا دیکھا ارے غافل جو مطلق تھا مقید کر دیا تو نے بانگِ درا کے حصہ دوم میں ’شیخ عبدالقادر کے نام‘ شعر و ادب کے ذریعے قوم کو ایک نیا پیغام دینے کا تقاضا کرتے ہوئے بھی وہ اس پیغام کے لیے یہی استعارہ استعمال کرتے ہیں: جلوۂ یوسف گم گشتہ دکھا کر ان کو تپش آمادہ تر از خون زلیخا کر دیں ان استعاروں کی مدد سے کلامِ اقبال کے معانی سمجھنے کی کوشش کیجیے تو بعض عجیب و غریب پہلو سامنے آتے ہیں جنہیں میں نے اپنی انگریزی تصنیف دی ری پبلک آف رومی میں بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہ ان کے اعادے کا موقع نہیں ہے مگر مولانا روم کی اس ابتدائی گفتگو کا سب سے زیادہ قابل غور پہلو یہ ہے کہ وہ اقبال سے کہتے ہیں کہ دین و سیاست کے اسرار بے نقاب کر دیے جائیں مگر ساتھ ہی تاکید کرتے ہیں کہ یہ معانی غیروں کے ہاتھ نہ لگیں کیونکہ شیروں کے راز بھیڑ بکریوں کے ہاتھ نہیں لگنے چاہئیں۔ شیر کون ہے اور بھیڑ بکری کون ہے؟ ضرب کلیم میں ایک فرنگی نے اپنے بیٹے کو نصیحت کی تھی: بیچارے کے حق میں ہے یہی سب سے بڑا ظلم بِرّے پہ اگر فاش کریں قاعدۂ شیر وہاں شیر سے مراد حکمراں یعنی فرنگی تھے۔ بِرّے سے مراد محکوم یعنی اقوامِ مشرق تھیں۔ مگر اقبال اس بات سے بھی واقف تھے کہ اب مشرق آزاد ہونے والا ہے اور اے اقوامِ شرق میں مولانا روم کی گفتگو کا آغاز بھی یوں ہوتا ہے کہ وہ کہتے ہیں، ’’روحیں اسرار کی محرم ہو گئی ہیں اور مشرق گہری نیند سے بیدار ہو گیا ہے۔۔۔‘‘: گفت جانہا محرمِ اسرار شد خاور از خوابِ گراں بیدار شد گویا اب وہ صورت حال نہیں رہی جس کی وجہ سے اقبال نے کہا تھا، ’’عصرِ من دانندۂ اسرار نیست۔۔۔‘‘ بلکہ اب یوسف کے جلوہ افروز ہونے کا وقت آ گیا ہے۔ ایسی صورت میں مشرقی اقوام شیر اور مغربی اقوام بھیڑ بکریاں قرار پاتی ہیں۔ درحقیقت دوسری جنگِ عظیم کے بعد صرف مشرق آزاد نہیں ہوابلکہ مغرب غلام بھی ہوا اور اُس کی غلامی یہ ہے کہ وہ اپنی معیشت کے لیے مشرقی منڈیوں کا محتاج ہے۔ پہلے یہ منڈیاں اس کی عملداری میں تھیں مگر اب اُس کی حکومت سے باہر ہیں۔ اس لحاظ سے وہ اُس وقت تک مشرق کا غلام رہنے پر مجبور ہے جب تک اپنی معیشت کے لیے کوئی متبادل بنیاد تلاش نہیں کر لیتا مگر اس کے لیے جس جدتِ نظر کی ضرورت ہے وہ شکست خوردہ تہذیبوں میں نہیں ہو سکتی اور فی الحال مغرب شکست خوردہ تہذیب ہے۔ اقبال یہ بات اہلِ مشرق کو کیسے سمجھائیں کہ ابلاغ بھی ہو جائے اور بات اہلِ مغرب کے پلّے بھی نہ پڑے؟ مولانا روم نے اپنی مثنوی کے پہلے دفتر کے آخر میں ہندوستانی طوطے والی حکایت میں کچھ ایسا ہی معاملہ پیش کیا تھا کہ ہندوستان کے آزاد طوطوں نے اپنا پیغام ایک قیدی طوطے تک اس خوبی سے پہنچایا تھا کہ قید کرنے والے سوداگر کو اندازہ ہی نہ ہو سکا کہ وہ ایسا پیغام اپنے قیدی تک پہنچا رہا ہے جس میں آزاد ہونے کا طریقہ بتایا گیا ہے! یہی وجہ معلوم ہوتی ہے کہ یہ کتاب آج تک اقبال شناسی میں سب سے کم توجہ حاصل کر سکی ہے۔ اس میں اقبال نے اپنے پیغام کا سب سے اہم حصہ پیش کیا ہے جیسا کہ اس کے نام ہی سے ظاہر ہے، یعنی اے اقوامِ شرق اب کرنا کیا چاہیے۔ البتہ اُنہوں نے یہ پیغام ایسے انداز میں دیا ہے کہ بھیڑ بکریوں یعنی یورپی علم و دانش کے ماہرین کی سمجھ میں نہ آ سکے اور صرف شیروں یعنی اقبال کے حلقہ سخن میں تربیت پانے والوں کی سمجھ میں آئے۔ مشکل یہ ہوئی کہ آزادی کے بعد ہم شیر بننے کی بجائے مغرب سے وہ افکار درآمد کرنے لگے جنہوں نے اقبال کے ساتھ ہمارا باطنی تعلق توڑ دیا۔ پھر یہ تعلق صرف ظاہری طور پر باقی رہ گیا۔ مندرجہ ذیل رویوں پر غور کیجیے جو اقبال کے بعد ہم نے مغرب سے درآمد کیے: ۱ اقبال اور ان کے مکتب فکر کو مغرب زدہ سمجھنا، انہیں ’’معذرت خواہ‘‘ جاننا اور یہ سوچنا کہ اُن کی فکر اُن کے اپنے زمانے کے لیے تھی، ہمارے مسائل کچھ اور ہیں جن کا حل مغرب سے درآمد کی ہوئی بعض دوسری کتابوں میں موجود ہے۔ ۲ جن اکابرین نے مغرب کے خلاف کسی بھی طرح جدوجہد کر کے مسلمانوں کو آزادی دلوانے میں کوئی بھی کردار ادا کیا اُنہیں مغرب زدہ سمجھ کر اُن کے بارے میں تحقیر کا رویہ اختیار کرنا۔ ان میں صفِ اول کے اکابرین مثلاً سرسید احمد خاں، جمال الدین افغانی اور مصطفیٰ کمال اتاترک بھی شامل ہیں! ۳ محمد علی جناح کو محض سیاست دان سمجھنا۔ اُنہیں قائدِ اعظم جان کر زندگی کے ہر شعبے میں اُن کی رہنمائی کو مشعلِ راہ نہ جاننا (اِس کی ابتدا حسن عسکری کے مضامین سے ہوئی جو اُنہوں نے پاکستان کی ’’حمایت‘‘ میں لکھے اور تکمیل اسٹینلے والپورٹ جیسے مغربی ماہرین کے ہاتھوں ہوئی جنہوں نے تحریکِ پاکستان پر ’’ہمدردانہ‘‘ تصانیف رقم فرمائیں)! ۴ اپنی قوم کی انفرادیت کی بجائے اس کی عمومیت ثابت کرنے کی کوشش کرنا۔ پاکستان اس اصول پر قائم ہوا تھا کہ ہم اپنی ملت پر اقوامِ مغرب سے قیاس نہیں کر سکتے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد مغرب نے یوں پینترا بدلا کہ اس کے سیاست داں تو اپنے علاقائی مفادات کا تحفظ کرتے رہے مگر دانشوروں نے عالمگیر انسانیت کا راگ الاپا۔ پھر ہماری تعلیم ارو دانشوری کا ہدف بھی یہی ہو گیا کہ ہم اپنی ملت پر اقوامِ مغرب سے قیاس کر لیں خواہ اس کی بنیاد سوشلزم، سیکولرازم یا مذاہب کا تقابلی مطالعہ ہو مگر جو بات بھی ہمیں منفرد اور بے مثال قوم ثابت کرتی ہو اُس کی بجائے وہ پہلو تلاش کریں جن سے ہم بھی دُوسروں جیسے ثابت ہو سکیں۔ ۵ اقبال شناسی میں مغربی ماہرین کو رہنما اور استاد بنانا۔ اس کی صرف ایک مثال پر غور کر لیجیے کہ ۱۹۵۶ء میں اینا میری شمل نے پاکستان کے ایک انگریزی رسالے میں مضمون لکھا، ’جاویدنامہ مذاہبِ عالم کی تقابلی تاریخ کے مطالعے کی روشنی میں‘ اور ہم باون برس بعد بھی نہیں سمجھ پائے ہیں کہ وہ ایک جرمن مصنفہ کا نقطہ نظر تھا جبکہ ہمارا نقطہ نظر اس کے برعکس ہونا چاہیے یعنی ’مذاہبِ عالم کی تقابلی تاریخ کا مطالعہ جاویدنامہ کی روشنی میں‘۔۔۔! ظاہر ہے کہ ان رویوں کے ساتھ وہ مثنوی ہماری سمجھ میں نہیں آ سکتی جو اس اصول پر لکھی گئی ہو کہ شیروں کے راز بھیڑوں پر اور مشرق کی روح میں دفن خزینے مغرب کے دانشوروں پر ظاہر نہ ہونے پائیں! ۳ اس مثنوی کے ابواب کا تسلسل کچھ یوں ہے: ٭ ’بخوانندۂ کتاب‘ یعنی قاری سے خطاب جو چار اشعار پر مشتمل ہے۔ ابتدا یوں ہوتی ہے، ’’میں عشق کی مملکت سے نئی فوج لایا ہوں کیونکہ حرم میں عقل کی بغاوت کا خطرہ پیدا ہوا ہے۔۔۔‘‘ غور کر لیجیے کہ اس ایک بات میں اُن پانچوں گمراہیوں کی پیش بینی نظر آتی ہے جو اقبال کے بعد ہمارے درمیان پیدا ہوئیں۔ ٭ ’تمہید‘جس میں مولانا روم وہ باتیں کہتے ہیں جن کا اوپر ذکر ہوا: ’’اگر ہمارے یوسف کو بھیڑیا لے جائے تو یہ اس سے بہتر ہے کہ وہ کسی مرد ِ ناکس کے ہاتھ لگے۔۔۔‘‘ ۱ ’خطاب بہ مہرِ عالم تاب‘ یعنی دنیا کو حرارت بخشنے والے سورج سے خطاب جس کا اختتام اس بات پر ہوتا ہے، ’’پس سب سے پہلے سوچ کو پاک کرنا چاہیے اس کے بعد سوچ کی تعمیر آسان ہو جاتی ہے۔۔‘‘ ۲ ’حکمتِ کلیمی‘ اسی تطہیرِ فکر یعنی سوچ کو پاک کرنے کی کوشش ہے۔ یہ اُس سیاست کا بیان ہے جس میں روح اور مادہ الگ الگ نہیں ہوتے بلکہ اس کا مقصد انسانوں کے درمیان وحدت قائم کرنا ہوتا ہے۔ اس کے لیے تدبیر کے ساتھ ساتھ تقدیر پر بھی نظر رکھنا پڑتی ہے۔ ۳ ’حکمتِ فرعونی‘ اس کی ضد ہے۔ یہ مکر و فن ہے، روح کو خوابیدہ اور بدن کو بیدار کرتی ہے۔ ۴ ’لا الٰہ اِلّا اللّٰہ‘ میں دو اصول بیان ہوئے ہیں، حرکت اور سکون یعنی لا اور اِلّا۔ جو قومیں دونوں پر گرفت نہ رکھیں وہ مر جاتی ہیں۔ ۵ ’فقر‘ کا تعلق لاالٰہ الّاللّٰہ سے بھی ہے اور جمالِ مصطفیٰؐ سے بھی۔ (’جاوید کے نام‘دونوں نظموں میں بھی جو بال جبریل اور ضرب کلیم میں ہیں اقبال نے فقر کی وصیت کی ہے)۔ ۶ ’مردِ حر‘ یعنی آزاد انسان جس کی تعریف یہ ہے کہ وہ خوف سے آزاد ہو۔ صرف وہی ان اسرار کو سمجھ سکتا ہے۔ ۷ ’در اسرارِ شریعت‘ یعنی شریعت کے رازوں کے بارے میں جن کا حاصل یہ ہے کہ دنیا میں کوئی کسی کا محتاج نہ ہو۔ تصوف اور طریقت، شریعت کے مخالف نہیں بلکہ شریعت کو زندگی کی گہرائیوں میں دریافت کرنے کا نام ہیں۔ ۸ ’اشکے چند بر افتراقِ ہندیاں‘ یعنی اہلِ ہندوستان کی حالت پر چند آنسو جن اقبال اس پر افسوس کرتے ہیں کہ ہندوستان ابھی تک غلام ہے اور نوجوانوں کو نصیحت کرتے ہیں کہ وہ خدا سے دلِ زندہ طلب کریں اور اس کے سہارے آزادی حاصل کر لیں۔ ۹ ’سیاسیاتِ حاضرہ‘ کے بارے میں اقبال کا تبصرہ ہے کہ مغربی اقوام کسی نہ کسی طرح مشرقی اقوام کو غلامی پر رضامند کر لیتی ہیں۔ اقبال کے پراسرار طرزِ بیان کا اندازہ اس بات سے ہو سکتا ہے کہ پہلے بند کے اختتام پر وہ قاری سے کہتے ہیں کہ فرعونوں کے سامنے حرفِ کلیم کہہ دو لیکن بقیہ تین بند اُس حرفِ کلیم کے بارے میں نہیں بلکہ اُن میں دل کو مضبوط کرنے کے طریقے بتائے ہیں جن میں سب سے اہم عشقِ رسولؐ ہے۔ ظاہر ہے کہ حرفِ کلیم کتاب کے بقیہ حصوں کے علاوہ دیگر تصانیفِ اقبال سے بھی حاصل کرنا ہے۔ ۱۰ ’حرفے چند با اُمّتِ عربیہ‘ یعنی عرب قوم سے چند باتیں، جن کی انتہا اس پر ہوتی ہے، ’’نئی تہذیب تمہاری پیدا کی ہوئی ہے، اس کی مستی تمہارے مئے گلفام سے ہے، تمہی اس کے رازوں کے شارح اور اس کے پہلے معمار تھے! جب سے یہ فرنگ کی تحویل میں آئی ہے یہ بے آبرو ہو کر بازار میں آ گئی ہے کہ اگرچہ شیریں اور ہمدرد معلوم ہوتی ہے مگر اس کی چال ٹیڑھی ہے، یہ شوخ ہے اور بے دین ہے۔ اے مردِ صحرا! خام کو پختہ کر دو اور زمانے کو اپنے معیار میں پرکھو!‘‘ (یہ بات غورطلب ہے کہ مشرقی اقوام کے آزاد ہوتے ہی مغربی درس گاہوں نے اس قسم کے خیالات کو ’’معذرت خواہانہ‘‘ قرار دینے کے لیے بہت زور صرف کیا ہے)۔ ۱۱ ’پس چہ باید کرد اے اقوامِ شرق‘ یعنی اے اقوامِ شرق اب کیا کرنا چاہیے؟ یہ باب پوری کتاب کی جان ہے لیکن اسے سمجھنے کے لیے ’’تطہیرِ افکار‘‘ کے اُن مراحل سے گزرنا ضروری ہے جو پچھلے ابواب میں پیش کیے گئے ہیں۔ بظاہر سب سے زیادہ زور دو باتوں پر ہے یعنی دین اور سیاست کو الگ نہیں کرنا چاہیے اور مغرب کی اقتصادی غلامی سے نجات حاصل کرنے کے لیے فقر و استغنا کے ساتھ اپنی مصنوعات پر بھروسہ کرنا چاہیے۔ ۱۲ ’در حضورِ رسالت مابؐ‘ وہ باب ہے جس کے لیے بقیہ مثنوی بھی تحریر کی گئی۔ اس میں اپنی بیماری بیان کر کے آنحضرتؐ سے دعا کی درخواست کی ہے مگر آخری بند قابلِ غور ہے جس میں اقبال کہتے ہیں، ’’اگرچہ میری عمر ایک بنجر کھیتی ہے مگر میرے پاس وہ چیز ہے جسے دل کہتے ہیں، جسے میں دنیا کی نظروں سے پوشیدہ رکھتا ہوں کہ اُس پر آپ کی سواری کے سموں کے نشان ہیں۔۔۔‘‘ آٹھویں باب کے آخری بند سے اس کا تعلق صاف ظاہر ہے جہاں نوجوانوں کو ہدایت کی گئی تھی کہ وہ خدا سے دلِ زندہ طلب کریں۔ یہ صرف ابواب کا تسلسل تھا مگر مثنوی کے اندرونی ربط کی نوعیت عجیب و غریب ہے۔ نمونے کے طور پر صرف ایک نکتہ ملاحظہ کیجیے یعنی یوسف اور تقدیر کا تعلق! اس مثنوی میں اقوام کے موضوعات آج کل کے سماجی علوم سے مشترک ہیں مگر وہاں ان پر نظری اعتبار سے بات ہوتی ہے جس کا تقاضا ہوتا ہے کہ ہر نظریہ اپنی جگہ ایک مکمل تجویز پیش کرتا ہو جس کے تمام پہلوؤں کا پہلے سے جائزہ لینے کے بعد اس پر عمل کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کیا جائے۔ اس کے برعکس اقبال کے تاریخی شعور میں تقدیر کو مرکزی اہمیت حاصل ہے۔ ’خضرِ راہ‘ میں اس کی بہترین مثال سامنے آئی تھی: آزمودہ فتنہ ہے اک اور بھی گردوں کے پاس سامنے تقدیر کے رسوائیِ تدبیر دیکھ! یوسف کے استعارے کا ایک پہلو یہ بھی ہے۔ یوسف کا خواب ایک پیغمبر کا خواب تھا اور تعبیر بتانے والے یعنی اُن کے والد حضرت یعقوب علیہ السلام خودبھی پیغمبر تھے۔ اس لحاظ سے تو یہ تعبیر بہت جلد پوری ہونی چاہیے تھی اور یوسف کو جلدی سے تخت نشین ہونا چاہیے تھا مگر اس مقام کی راہ میں نجانے کتنے ایسے مرحلے آئے جب ظاہربیں نظریں دھوکہ کھا کر سمجھ سکتی تھیں کہ یوسف اپنے خواب کی تعبیر کی طرف بڑھنے کی بجائے دُور ہٹ رہے ہیں۔آخر میں معلوم ہوا کہ تمام مراحل اس تعبیرکے حقیقت بننے میں ناگزیر تھے۔ سب سے عجیب و غریب پہلو یہ ہے کہ یوسف کے سوتیلے بھائیوں کا اُن کے خواب سے واقف ہو کر حسد کے مارے کاروائی کرناتعبیر کے حقیقت بننے کا پہلا مرحلہ تھا مگر خود حضرت یعقوبؑ اپنے بیٹے کو ہدایت کر رہے تھے کہ اپنے سوتیلے بھائیوں کو یہ خواب مت بتانا! غور کرنا چاہیے کہ کہانی کے اس حصے میں چھپے ہوئے اسرار کی طرف قرآن کس طرح اشارہ کر رہا ہے، ’’دریافت کرنے والوں کے لیے بڑی نشانیاں ہیں اس موقع میں جب یوسف کے بھائی اُس کے بارے میں جھگڑ رہے تھے!‘‘ اس تلمیح کو مثنوی سے وابستہ کیجیے اور سوچیے کہ یوسف کون ہے، اس کے بھائی کون ہیں تو یہ سب استعارے تقدیر کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ اقبال نے جو تجاویز پیش کی ہیں اُنہیں سمجھنے میں بھی یہ پہلو اپنے سامنے رکھنا ضروری ہے کہ تقدیر کی چال کبھی سیدھی نہیں ہوتی ورنہ یوسف کنویں میں ڈالے جاتے نہ زنداں میںپہنچتے۔ اے اقوامِ شرق میں اقبال نے جس چیز کو حکمت کلیمی کہا ہے وہ کوئی بھی تدبیر کرتے ہوئے تقدیر پر بھی نظر رکھتی ہے۔ یوسف قیدخانے میں پھینکے جائیں تو ہمیں معلوم ہو جائے کہ اب تخت نشیں ہونے کا ایک اور مرحلہ سر ہوا اور اسی لحاظ سے ہم مستقبل کے بارے میں اپنی حکمتِ عملی ترتیب دیں، یہ حکمتِ کلیمی ہے۔ اس کے برعکس حکمتِ فرعونی صرف تدبیر پر نظر رکھتی ہے۔ مغرب سے سماجی علوم میں یہی کمزوری ہے مگر ضروریء نہیں کہ ان میں فرعونیت کی وہ قسم دکھائی دے جس سے ہم واقف ہیں۔ اُس قسم کی فرعونیت تو موجودہ زمانے میں خود مغرب کے لیے مفید نہیں (جیسا کہ امریکہ کو اب اندازہ ہو رہا ہے)۔ مغربی علومِ سیاست کا حکمتِ فرعونی ہونا اس وجہ سے بھی ہے کہ یہ تقدیر پر نہیں بلکہ صرف تدبیر پر نظر رکھتے ہیں۔ ہمارا طریقہ کچھ اور ہونا چاہیے: تو مسلماں ہو تو تقدیر ہے تدبیر تری! ۴ اے اقوامِ شرق اور مسافر میں گہرا معنوی ربط ہے جسے جزئیات کی سطح پر بھی محسوس کیا جا سکتا ہے اور مجموعی سطح پر بھی، مثلاً اے اقوامِ شرق کے پہلے باب میں سورج کو مخاطب کیا گیا ہے اور مسافر کے شروع میں افغانستان کے بادشاہ نادر شاہ کا ذکر یوں کیا ہے، ’’در شبِ خاور وجودِ او چراغ‘‘ یعنی مشرق کی رات میں اس کا وجود چراغ ہے۔ یوں اے اقوامِ شرق کے شروع میں سورج اور مسافر کے شروع میں چاند کا ذکر ہے مگر سورج سچ مچ کا ہے اور چاند مجازی ہے یعنی وہ شاہِ افغانستان ہے۔ مجموعی طور پر دونوں حصوں کا ربط یوں سمجھا جا سکتا ہے کہ پہلے حصے میں دین و سیاست کے اسرار اور دوسرے حصے میں اُس ریاست کا ذکر ہے جس کے ذریعے یہ راز بے نقاب ہوں گے۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ افغانستان ہی کیوں؟ تاریخی طور پر تو یہ افغانستان کا سفرنامہ اس لیے ہے کیونکہ اقبال کو وہاں بلایا گیا لیکن معنوی اعتبار سے افغانستان کی اہمیت یہ بھی ہے کہ جاویدنامہ میں احمد شاہ ابدالی نے زندہ رود سے کہا تھا، ’’ایشیا ایک جسم ہے اور افغان قوم اس میں دل ہے‘‘۔ اے اقوامِ شرق میں جو اسرار بیان ہوئے اُن پر غور کرنے سے ایک اچھوتا نکتہ سامنے آتا ہے جس پر کبھی توجہ نہیں دی گئی۔ عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ جدید قومی ریاست یعنی نیشن اسٹیٹ کا تصور سب سے پہلے یورپ میں اٹھارہویں صدی کے فکری انقلابات اور روشن خیالی کے نتیجے میں پیدا ہوا۔ یہ بات پوری طرح درست نہیں ہے کیونکہ ۱۷۴۷ء میں افغانستان میں احمد شاہ ابدالی کی تخت نشینی کے ساتھ ہی افغانستان کے ایک قومی ریاست بننے کا عمل شروع ہو گیا تھا۔ جاویدنامہ میں اسی بات کو ابدالی کا تاریخی کارنامہ بتایا گیا۔ مزید دلچسپ بات یہ ہے کہ ابدالی نے مغل شہنشاہ سے ہندوستان کے بعض صوبوں کے لیے مطالبہ کیا کہ وہ افغانستان کے حوالے کر دیے جائیں یعنی ہندوستان سے علیحدہ کر دیے جائیں۔ ہم اس اتفاق کو کیا سمجھیں کہ ابدالی جن صوبوں کی علیحدگی کا مطالبہ کر رہے تھے وہ سندھ اور پنجاب تھے جبکہ سرحد اور بلوچستان پہلے ہی ہندوستان سے علیحدہ ہو چکے تھے۔ ابدالی ان صوبوں کو افغانستان میں شامل کرنے کی بجائے ایک علیحدہ ریاست کی شکل دینا چاہتے تھے جو افغانستان کے ماتحت ہو اور جس کی آمدنی میں افغانستان کا حصہ ہو۔ ہم ان مقاصد اور ابدالی کے دلائل سے اختلاف کر سکتے ہیں لیکن یہ حقیقت بہرحال اپنی جگہ رہتی ہے کہ ابدالی نے ایک طرح سے موجودہ پاکستان کی سرحدوں کی نشاندہی کر دی تھی خواہ کسی بھی مقصد کے تحت کی ہو! اس کے بعد ابدالی اُن علاقوں پر حملے کر کے انہیں ہندوستان سے الگ کروانے میں بھی کامیاب ہو گئے مگر جب اُن کے جانشین ان صوبوں پر تسلط قائم نہ رکھ سکے تو یہاں خودمختار مقامی حکومتیں قائم ہوئیں جن میں سکھوں کی حکومت بھی شامل تھی۔ اس پورے عمل نے ان صوبوں کے مزاج اور ان کے طرزِ سیاست کو باقی ہندوستان سے الگ رنگ دے دیا۔ ہم ان تاریخی عوامل کو اس لیے نہیں سمجھ پائے ہیں کیونکہ ہم نے دوقومی نظریے کو بہت محدود انداز میں بیان کر کے قیامِ پاکستان کے تاریخی عوامل کو بھی محدود کر لیا ہے۔ پنجاب پر رنجیت سنگھ کی حکومت نے کس طرح قیامِ پاکستان کا راستہ ہموار کیا؟ اس سوال پر غور کرنے کا حوصلہ جبھی پیدا ہوتا ہے کہ تاریخ کے مطالعے میں تدبیر کے ساتھ تقدیر کی کارفرمائی پر بھی نظر رکھی جائے اور تاریخ شناسی کا مقصد صرف گڑے مردے اکھاڑنا نہیں بلکہ خدا کی نشانیوں کا مشاہدہ کرنا ہو۔ ابدالی کے معاصرین میں شاہ ولی اللہ بھی شامل تھے جن کی تصنیف حجۃ اللہ البالغہ (یعنی خدا کے وجود پر حتمی دلیل) کا موضوع اسرارِ شریعت تھا۔ اقبال کی زیرِ بحث کتاب کا موضوع بھی یہی ہے۔ شاہ ولی اللہ نے احمد شاہ ابدالی کو مرہٹوں کے خلاف ہندوستان کے مسلمانوں کی مدد پر بلایا اور احمد شاہ ابدالی مغل سلطنت کے ساتھ اپنے گزشتہ اختلافات کے باوجود یہ مدد کرنے آئے اور پھر دہلی پر قبضہ کیے بغیر واپس چلے گئے۔ یہ ایک قومی ریاست کے کردار کا ایسا نمونہ ہے جسے جدید علومِ سیاست کی روشنی میں سمجھنا محال ہے۔ یوں اصل صورت حال یہ دکھائی دیتی ہے کہ ۱۷۴۷ء کے قریب مشرق میں نہ صرف ایک قومی ریاست کا تصور پیدا ہوا بلکہ اسرارِ شریعت یعنی خدا کے قوانین کے پوشیدہ معانی پر تحقیق کرنے کی داغ بیل بھی پڑی۔ بعد میں مغربی اقوام کے ساتھ رابطہ ہوا اور ہندوستان پر انگریزوں کی حکومت قائم ہوئی تو ان مشرقی تحریکوں کے جانشینوں نے یہ جدید علوم اپنی شرائط پر حاصل کیے۔ سرسید احمد خاں غالباً پہلے آدمی تھے جن پر یہ بات پوری طرح واضح ہوئی کہ شاہ ولی اللہ نے اسرارِ شریعت کو سمجھنے کی جس تحریک کی بنیاد رکھی تھی مغربی سائنس اُسی کی چند کڑیاں فراہم کرتی ہے۔ کیا اقبال ان باتوں سے واقف تھے؟ یہ سوال اٹھانے سے پہلے ہمیں یہ بھی دیکھ لینا چاہیے کہ اگر واقف بھی ہوتے تو ان میں سے کتنی باتیں اُس وقت ظاہر کرنا قوم کے مفاد میں ہوتا؟ آج آزادی کے ساٹھ برس بعد یہ بات سمجھ کر ہماری خوداعتمادی میں صرف اضافہ ہو سکتا ہے لیکن اگر اُس وقت ہم اپنی قومیت کی بنیاد اس بات پر رکھ بیٹھتے کہ احمد شاہ ابدالی نے اس حصے کو ہندوستان سے الگ کر کے افغانستان میں شامل کرنے کا مطالبہ کیا تھا تو شائد پاکستان بنانے جیسے مشکل کام سے جی چرا کر افغانستان کے ماتحت ہونے کی کوشش کر بیٹھتے جس کا انجام صرف سوچا جا سکتا ہے! مغرب سے ہم نے اقبال کو سمجھنے کا یہ طریقہ سیکھا ہے کہ اُن سے رہنمائی حاصل کرنے کی بجائے اُن کا امتحان لینے بیٹھ جائیں۔ شائد ہمیں کبھی معلوم نہ ہو سکے کہ افغانستان کو ایشیا کا دل کہتے ہوئے اقبال کے ذہن میں تاریخ کی یہ کڑیاں اس طرح جڑی تھیں یا نہیں لیکن اصل اہمیت بھی اس سوال کی نہیں بلکہ اس بات کی ہے کہ کیا اب ہم اپنی قوم کی ’’تقدیر‘‘ کو بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں؟ اگر پاکستان کو ایک یوسف سمجھیں تو ۱۷۴۷ء سے شروع ہونے والے اس سفر میں یہ یوسف جن مراحل سے گزرا ہے ان کے مطابق اب کون سا مرحلہ آنے والا ہے جس کی تیاری کرنی چاہیے؟ یہ سوالات زیادہ اہم ہیں۔ ۵ مثنوی مسافر کے ابواب کا تسلسل کچھ یوں ہے: ۱ [بلا عنوان] ابتدائی حصے میں اقبال بتاتے ہیں کہ افغانستان کے نادر شاہ نے انہیں یہ کہہ کر افغانستان بلایا کہ اُن کے راز سے واقف ہے۔ ۲ ’خطاب بہ اقوامِ سرحد‘ میں اقبال نے صوبہ سرحد کے لوگوں سے خطاب کیا ہے جہاں سے افغانستان کے سفر کے دوران گزر رہے تھے۔ اس میں خودداری اور دین کی خدمت کرنے کی تلقین ہے۔ یہ خطاب اس لحاظ سے اہم ہے کہ اقبال جس ریاست کو مسلمانوں کی اٹل تقدیر سمجھتے تھے یہ صوبہ اُس میں شامل ہونے والا تھا لہٰذا خطاب کرتے ہوئے یہ بات بھی ان کے پیش نظر رہی ہو گی کہ مجوزہ ریاست میں اس صوبے کا کیا کردار ہونا چاہیے۔ ۳ ’مسافر وارد می شود بہ شہرِ کابل و حاضر می شود بحضور اعلیٰ حضرتِ شہید‘ یعنی مسافر شہر کابل میں داخل ہوتا ہے اور اعلیٰ حضرت شہید کی خدمت میں حاضر ہوتا ہے( جس سے مراد نادر شاہ ہیں)۔ اقبال انہیں قرآن پیش کرتے ہیں جس پر وہ آبدیدہ ہو کر کہتے ہیں کہ غریب الوطنی میں یہی کتاب ان کا سہارا تھی۔ ۴ ’برمزارِ شہنشاہ بابر خلد آشیانی‘ یعنی شہنشاہ بابر کے مزار پر حاضری ایک غزل کی صورت میں ہے جس میں سات اشعار ہیں۔ بابر کے مزار کی معنویت یہ ہے کہ اُس نے ہندوستان میں مغل سلطنت کی بنیاد رکھی اور خود کابل میں محوِ خواب تھا۔ ۵ ’سفر بہ غزنی و زیارتِ مزارِ حکیم سنائی‘ یعنی غزنی کا سفر اور حکیم سنائی کے مزار کی زیارت جس کی معنویت یہ ہے کہ حکیم سنائی مولانا روم کے غائبانہ مرشد تھے جس طرح مولانا روم اقبال کے۔ سنائی کے مزار کی زیارت اقبال کے روحانی سفر کی تکمیل کے مراحل میں سے ہے۔ اس کے علاوہ بالِ جبریل میں اقبال ایک نعتیہ قصیدے کی تمہید میں لکھ چکے ہیں کہ یہ سنائی کے مزار کی زیارت کے موقع کی یادگار ہے۔ لہٰذا اگر مثنوی مسافر کو تصانیفِ اقبال میں اس کی موجودہ ترتیب کے لحاظ سے پڑھا جائے تو یہ باب ایک طرح کا ’’فلیش بیک‘‘ بن جاتا ہے جس میں قارئین وہ منظر دیکھتے ہیں جس کی طرف بالِ جبریل میں صرف اشارہ ہے۔ ۶ ’روحِ حکیم سنائی از بہشتِ بریں جواب می دہد‘ یعنی حکیم سنائی کی روح فردوسِ بریں سے جواب دیتی ہے۔ اس کی معنویت یہ ہے کہ اقبال اور مولانا روم کے درمیان مکالمے تصانیفِ اقبال میں جاری رہے تھے، اب مولانا روم کے پیشرو سے ایک مختصر مکالمہ اس سلسلے کو مناسب طریقے سے انجام پر پہنچاتا ہے۔ ۷ ’بر مزارِ سلطان محمود علیہ الرحمۃ‘ یعنی سلطان محمود غزنویؒ کے مزار پر جہاں اقبال تصور کے عالم میں سلطان محمود کے زمانے کے غزنی کو دیکھتے ہیں، ’’شہرِ غزنی ایک بہشتِ رنگ و بو جس کے محلوں اور گلی کوچوں کے درمیان ندیاں نغمہ خواںہیں، اس کی بلند عمارتیں قطار اندر قطار آسماں کو چھو رہی ہیں۔ فردوسی طوسی کو بزم میں دیکھا اور محمود کے لشکر کو میدانِ جنگ میں دیکھا۔ میری روح عالمِ اسرار کی سیر کرتی رہی یہاں تک کہ ایک دیوانے نے مجھے بیدار کر دیا۔۔۔‘‘ ۸ ’مناجاتِ مردِ شوریدہ در ویرانۂ غزنی‘ یعنی غزنی کے ویرانے میں ایک دیوانے کی فریاد جس کے راز سے اقبال باخبر تھے اس لیے تڑپ کر رہ گئے۔ بظاہر یہ دیوانہ عصرِ حاضر کے خلاف خدا سے فریاد کر رہا تھا لیکن اس کا وہ راز کیا تھا؟ ۹ ’قندھار و زیارتِ خرقۂ مبارک‘ یعنی قندھار میں آنحضرتؐ کے لباسِ مبارک کی زیارت جس میں ایک غزل بھی شامل ہے۔۔۔ ۱۰ ’غزل‘ جس کے بعد اقبال کا دل اُن کے قابو سے باہر ہو جاتا ہے۔ ۱۱ ’بر مزارِ حضرت احمد شاہ بابا علیہ الرحمۃ موسّسِ ملّتِ افغانیہ‘ یعنی افغان قوم کے بانی احمد شاہ ابدالی کے مزار پر حاضری جن سے اقبال پہلے بھی جاویدنامہ میں ’آنسوئے افلاک‘ ملاقات کر چکے تھے۔ اب احمد شاہ ابدالی کی روح دوبارہ ان سے خطاب کرتی ہے اور ان سے کہتی ہے کہ وہ نادر شاہ کے جانشین ظاہر شاہ پر اپنا باطن کھول دیں۔ ۱۲ ’خطاب بہ پادشاہِ اسلام اعلیٰ حضرت ظاہر شاہ ایدہ اللہ بنصرہ‘یعنی بادشاہِ اسلام ظاہر شاہ سے خطاب جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ سفرنامہ تاریخی نہیں بلکہ معنوی اعتبار سے ترتیب دیا گیا ہے کیونکہ تاریخی طور پر اقبال کی افغانستان سے واپسی کے کچھ عرصہ بعد نادر شاہ شہید ہوئے اور ظاہر شاہ تخت نشین ہوئے۔ یہاں پچھلے باب کے اختتام یعنی احمد شاہ ابدالی کی ہدایت اور اس باب کے آغاز کے درمیان کہیں وہ سانحہ ہو چکا ہے اور ظاہر شاہ تخت نشین ہیں۔ اقبال نے ظاہر شاہ کو جو نصیحت کی ہے اُسے جاویدنامہ کے آخر میں ’خطاب بہ جاوید‘ کے ساتھ ملا کر پڑھنا چاہیے۔ جاوید اُن کے بیٹے کا نام ہے جسے اُنہوں نے اپنے معنوی جانشینوں کے استعارے کے طور پر استعمال کیا۔ ظاہر ایک نوجوان بادشاہ کا نام ہے لیکن یہاں یہ بھی اقبال کے معنوی جانشینوں کا استعارہ بن جاتا ہے کیونکہ اقبال نے دین و سیاست دونوں کے راز ظاہر کیے۔ فکرِ اقبال کی جانشین کے طور پر آئندہ نسل ’’جاوید‘‘ یعنی ہمیشہ رہنے والی ہے اور اقبال کے اصولِ سیاست کی جانشین کے طور پر وہ نسل ’’ظاہر‘‘ ہے یعنی جو باتیں ضمیرِ تقدیر میں چھپی تھیں وہ اس کے ذریعے ظاہر ہوں گی۔ ’’مشرق میرے شعلے سے روشن ہے،‘‘ اقبال کہتے ہیں۔ ’’خوش نصیب ہے جو میرے دَور میں ہے۔ میرے تب و تاب میں سے اپنا حصہ لے لو کہ اس کے بعد مجھ جیسا مردِ فقیر نہیں آنے والا!‘‘: خاوراں از شعلۂ من روشن است اے خنک مردے کہ در عصرِ من است از تب و تابم نصیبِ خود بگیر بعد ازیں ناید چوں من مردِ فقیر! باب ۹ ارمغانِ حجاز ہو تیرے بیاباں کی ہوا تجھ کو گوارا اس دشت سے بہتر ہے نہ دلی نہ بخارا یوں بڈھا بلوچ اپنے بیٹے کو نصیحت کا آغاز کرتا ہے۔ یہ نظم ارمغانِ حجاز (۱۹۳۸) میں ہے مگربلوچ ہی کیوں؟ ضربِ کلیم (۱۹۳۶) میں محراب گل افغان کے نام سے فرضی کردار پیش کیا جا چکا تھا اور ارمغانِ حجاز میں بھی ملازادہ ضیغم لولابی کشمیری موجود ہے۔ اُن دونوں کا اُن کی علاقائی شناخت کے ساتھ تعلق واضح ہے توکیا بڈھے بلوچ کی نصیحت کا بھی بلوچستان کے ساتھ کوئی تعلق ہو سکتا ہے؟ ہرچند کہ ارمغانِ حجاز کا اکثر حصہ ایسے حالات میں تخلیق ہوا جب اقبال کی بینائی تقریباً زائل ہو چکی تھی اور انہیں یہ منظومات دوسروں کو لکھوانا پڑیں مگر ترتیب کا اہتمام انہوں نے خود کیا یعنی یہ تخلیقات ترتیبِ نزول کے لحاظ سے نہیں بلکہ اقبال کی بتائی ہوئی ترتیب کے مطابق رکھی جاتی تھیں۔ بعض شارحین بے احتیاطی میں یہ تاثر دے بیٹھے ہیں کہ اردو حصہ بعد میں یونہی شامل کر دیا گیا مگر حقیقت یہ ہے کہ وفات سے کچھ عرصہ پہلے اقبال نے اردو حصے کی ترتیبِ مضامین بھی اپنی نگرانی میں کروائی تھی جس پر ان کے قریبی شناسا اداس ہوئے تھے کیونکہ اس کا مطلب یہ تھا کہ اقبال ایک علیحدہ اردو مجموعے کی امید سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ تمام شواہد کے پیش نظر اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ارمغانِ حجاز کی موجودہ ترتیب ہم سے تقاضا کرتی ہے کہ نظموں کے معانی پر اُن کے سیاق و سباق میں غور کیا جائے۔ ارمغانِ حجاز کا اُردو حصہ ’ابلیس کی مجلس شوریٰ‘ سے شروع ہوتا ہے جو اقبال کی آخری طویل نظم ہے۔ اس کی ذیلی سرخی ’۱۹۳۶ئ‘ ہے۔ اقبال نے عام طور پر اپنی نظموں پر تاریخ یا محلِ وقوع وہیں درج کیا ہے جہاں ان کا نظم کے معانی کے ساتھ کوئی تعلق ہو۔ اس روشنی میں ’ابلیس کی مجلس شوریٰ‘ کی تاریخ پر غور کریں توپہلی بات یہ سامنے آتی ہے کہ یہ نظم کتاب میں شامل فارسی کلام میں سے اکثر کی تخلیق سے پہلے کی ہے۔ امکان ہے کہ فارسی رباعیات لکھتے ہوئے بھی یہ نظم اقبال کے ذہن میں رہی ہو یا وہ اس لحاظ سے لکھی گئی ہوں کہ قاری کو بتدریج اس نظم کی طرف لے جائیں (اگر اقبال اردو مجموعہ کلام الگ سے مرتب کرتے تب بھی فارسی مجموعہ پہلے آتا اور اس کے بعد اُردو مجموعہ اسی نظم سے شروع ہوتا)۔ ابلیس کا ذکر فارسی حصے کے چوتھے اور پانچویں باب کی بعض منظومات میں بھی آیا ہے۔ پہلے تین ابواب میں اقبال بالترتیب خدا، رسول اور مسلم قوم سے خطاب کرتے ہیں۔ باطل کے خلاف جنگ میں یہ تینوں متحد ہیں۔ چوتھا باب انسانیت کے نام ہے اور اس کی آخری دو منظومات کے عنوان میں ابلیس کا نام آیا ہے: نمبر ۱۲: ’بگو ابلیس را‘ یعنی ابلیس سے کہ دو میں گویا اقبال عالمِ انسانیت سے کہتے ہیں کہ وہ ان کی طرف سے ابلیس کو یہ پیغام دے کہ ہم کیوں نہ ہم مل کر آسمان کے اِس طرف ایک جنت تعمیر کر دیں۔ نمبر ۱۳: ’ابلیس خاکی و نوری‘ میں وہ انسانیت سے کہتے ہیں کہ بہت سے انسان ابلیس بنے پھر رہے ہیں اُن کے جال میں مت آؤ بلکہ اُس ابلیس کا مقابلہ کرو جو آگ سے بنا ہوا ہے، جس نے خدا کو دیکھا ہے اور جو صرف ہمت والوں ہی کو شکار کرنے کا شوقین ہے۔ ان میں سے پہلی نظم ’بگو ابلیس را‘ ایک قسم کا حیلہ معلوم ہوتی ہے۔ پیامِ مشرق (۱۹۲۳) کی نظم ’تسخیرِ فطرت‘ کے پانچویں حصے میں جب صبحِ قیامت آدم خدا کے حضور پیش ہوتا ہے تو کہتا ہے کہ حیلے کے بغیر اس دشمن کو رام نہیں کیا جا سکتا تھا۔ کچھ اسی قسم کی بات یہاں محسوس ہوتی ہے کہ جس طرح جنت میں ابلیس نے آدم کو بہکایا تھا اُسی طرح اب آدم خودشناس و خودنگر ہونے کے بعد ابلیس کو چکمہ دے رہا ہے۔ ابلیس نے بھی آدم کو ایک بہتر زندگی کا خواب دکھایا تھا اور اب اقبال، ابلیس کو کچھ ویسا ہی خواب دکھا رہے ہیں۔ کیا وہ جانتے ہیں کہ ابلیس اُن کے حیلے کو سمجھ گیا تو اس جسارت پر اُس کا ردِ عمل کتنی برہمی کا ہو گا؟ غالباً جانتے ہیں اسی لیے اگلی نظم میں انسانیت کے نام یہ پیغام چھوڑ کر جا رہے ہیں کہ وہ اصل ابلیس سے جنگِ دست بدست کی تیاری کرے۔ اس نصیحت پر یہ باب ختم ہوتا ہے اور ظاہر ہے کہ جو لوگ اس نصیحت کو قبول کر کے ابلیس سے مقابلے کی تیاری کریں گے وہی اقبال کے ہم خیال اور ہم مسلک یعنی یارانِ طریق ہوں گے۔ اگلے باب کا عنوان ہی ’بہ یارانِ طریق‘ ہے۔ ’بہ یارانِ طریق‘ فارسی حصے کا پانچواں اور آخری باب ہے جس کے بعد یہ حصہ ختم اور اُردو حصہ شروع ہوتا ہے جس کی پہلی ہی نظم ’ابلیس کی مجلس شوریٰ‘ ہے۔ گویا وہ ابلیسِ ناری جسے فارسی میں عالمِ انسانی کے ذریعے ایک پیغام بھجوایا، انسانوں کو اس کا مقابلہ کرنے کی تجویز دی اور یارانِ طریق کو مقابلہ کرنے کے لیے دل مضبوط کرنے کی وصیت کر گئے اب وہ بنفس نفیس موجود ہے اور اُس کی برہمی کچھ ایسی ہے جیسے اقبال کا پیغام اُسے پہنچ گیا ہو، وہ اُس میں چھپی جسارت اور حیلے کو بھانپ گیا ہو اور اقبال نے انسانوں کو اُس کا مقابلہ کرنے کی جو وصیت کی ہے وہ بھی اُس کے علم میں ہو۔ اپنے پورے جاہ و جلال کے ساتھ اپنی مجلس شوریٰ سے خطاب کرتے ہوئے وہ ایک شعر میں براہِ راست اقبال کی طرف اشارہ کیے بغیر نہیں رہتا: کارگاہِ شیشہ جو ناداں سمجھتا ہے اسے توڑ کر دکھلائے اس تہذیب کے جام و سبو یہ خدا کے اُس فرمان کی طرف اشارہ ہے جو بالِ جبریل میں ہے جہاں خدا نے فرشتوں کو حکم دیا تھا کہ شاعرِ مشرق کو آدابِ جنوں سکھائے جائیں کیونکہ تہذیب نوی کارگہِ شیشہ گراں ہے۔ ابلیس جسے ’’ناداں‘‘ کہ رہا ہے وہ خدا نہیں ہو سکتا کیونکہ ابلیس اُسے نئی تہذیب کے جام و سبو توڑ کر دکھانے کا چیلنج بھی کر رہا ہے اور یہ کام خدا نے اپنے ذمے نہیں رکھا بلکہ اپنے فرمان میں یہ ذمہ داری اقبال کو تفویض کی ہے۔ چنانچہ اس شعر کا مفہوم یہ بنتا ہے کہ خدا کے فرمان کے بعد فرشتوں نے اقبال کو آدابِ جنوں سکھا دیے اور یہ بھی سمجھا دیا کہ تہذیب نوی کارگہِ شیشہ گراں ہے (جس کے بعد ہی اقبال نے عصرِ حاضر کے خلاف اعلانِ جنگ کیا ہو گا)۔ اب جس بات کو ابلیس نادانی کہ رہا ہے وہ یہ ہے کہ اقبال فرشتوں کے کہنے میں آ کر تہذیب نوی کو واقعی کارگہِ شیشہ گراں سمجھ بیٹھے ہیں۔ ابلیس کی مجلس شوریٰ میں کم سے کم پانچ مشیر موجود ہیں (یعنی مکالمے میں اتنے مشیر حصہ لیتے ہیں، اگر کچھ خاموش تماشائی بھی ہوں تو نظم میں ان کا ذکر نہیں ہے)۔ یہ مشیر کون ہیں؟ فارسی حصے کو ذہن میں رکھیے تو امکان پیدا ہوتا ہے کہ یہ ابلیسِ خاکی بھی ہو سکتے ہیں جن سے اقبال نے انسانیت کو خبردار کیا تھا۔ یہی ہیں جو مسلمانوں کو الٰہیات کے مسائل میں الجھا کر اُسے کارزارِ حیات سے بیگانہ کرنے کی کوشش کریں گے۔ پھر مشیروں کی تعداد بھی معنی خیز ہے کیونکہ اقبال کے شعری نظام میں پانچ کا عدد جگہ جگہ ہمارے سامنے آ موجود ہوتا ہے مثلاً پیامِ مشرق (۱۹۲۳) کی ’تسخیرِ فطرت‘کے پانچ حصے ہیں، زبورِ عجم (۱۹۲۷) کے حصہ دوم کے بھی پانچ حصے کیے جا سکتے ہیں، بالِ جبریل (۱۹۳۶) میں’فرشتے آدم کو جنت سے رخصت کرتے ہیں‘ تو پانچ اشعار میں رخصت کرتے ہیں اور ’روحِ ارضی آدم کا استقبال کرتی ہے‘ تو وہ بھی پانچ بند کے ترانے سے کرتی ہے۔ ارمغانِ حجاز فارسی کے ابواب بھی پانچ ہیں جن کی ترتیب سے پہلے ہی ’ابلیس کی مجلس شوریٰ‘ لکھی جا چکی تھی۔ کیا پانچ ابواب کی تقسیم سے ابلیس کے پانچ مشیروں کا کوئی ربط ہو سکتا ہے؟ ایک اور بات اب سامنے آتی ہے کہ یہ طویل نظم گویا فارسی حصے کے پانچ ابواب کو ایک وحدت میں منسلک کرنے کا ذریعہ بھی ہے کیونکہ پانچوں ابواب کے مخاطب کسی نہ کسی طرح اس نظم سے تعلق رکھتے ہیں۔ خدا سے ابلیس کی شرط لگی ہوئی ہے، رسول کی شریعت سے ابلیس ڈرتا ہے، مسلم قوم سے اُسے خاص خطرہ ہے، انسانیت کا کھلا دشمن ہے اور اقبال کے ’یارانِ طریق‘ اُس کے اصل حریف ہیں: خال خال اس قوم میں اب تک نظر آتے ہیں وہ کرتے ہیں اشکِ سحرگاہی سے جو ظالم وضو اس نظم پر بہت کچھ لکھا گیا مگر غالباً ارمغانِ حجاز کے سیاق و سباق میں اس کا مفصل جائزہ نہیں لیا گیا۔ یہ سب کو معلوم ہے کہ جب ابلیس کے پانچ مشیر دنیا کا جائزہ پیش کر دیتے ہیں تو ابلیس جمہوریت اور اشتراکیت سے زیادہ اسلام کو شیطانی عزائم کی راہ میں رکاوٹ سمجھتا ہے لیکن عام طور پر یہ نہیں دیکھا گیا کہ اس بات کا ارمغانِ حجاز فارسی کے اُس حصے سے بھی تعلق ہو سکتا ہے جو خاص طور پر مسلم قوم کے نام ہے یعنی تیسرا باب۔ اگر ہم یاد رکھیں کہ اس باب کی اکثر رباعیات کی تخلیق سے پہلے ہی ’ابلیس کی مجلس شوریٰ‘ لکھی جا چکی تھی تو پھریہ سوال مزید اہم ہو جاتا ہے کہ اقبال نے تیسرے باب میں مسلم قوم سے جو کچھ کہا ہے اُس میں اُس سازش سے محفوظ رہنے کے کیا طریقے موجود ہیں جوابلیس مسلمانوں کے خلاف کر رہا ہے؟ ’ابلیس کی مجلس شوریٰ‘ کے فوراً بعد جو نظم آتی ہے وہ ’بڈھے بلوچ کی نصیحت اپنے بیٹے کو‘ ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ اس میں بھی ابلیس کا ذکر موجود ہے یعنی اٹھویں اور نویں شعر میں: دنیا کو ہے پھر معرکۂ روح و بدن پیش تہذیب نے پھر اپنے درندوں کو اُبھارا اللہ کو پامردیٔ مومن پہ بھروسا ابلیس کو یورپ کی مشینوں کا سہارا یوں معلوم ہوتا ہے جیسے ابلیس کی مجلس شوریٰ کی کاروائی سے بڈھا بلوچ خوب واقف ہے۔ یہ بلوچ جو کوئی بھی ہو لیکن اُن یارانِ طریق میں سے ضرور ہے جن کے نام فارسی حصے کا پانچواں باب ہے۔ اِس کی نصیحت اُس حصے کا خلاصہ بھی ہے لیکن اس میں اور بھی بہت سی باتیں آ گئی ہیں جو اقبال نے اُس حصے میں نہیں کہیں لیکن ویسے اُن کے پیغام کی اہم ستون ہیں، مثلاً پانچواں شعر: افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارا یارانِ طریق میں سے ہونے کا ثبوت یہی ہے کہ یہ بڈھا بلوچ فارسی حصے کے پانچویں باب کے پیغام کو خوب سمجھ کر اُس طرح اپنے بیٹے تک پہنچا رہا ہے جیسے اقبال خود پہنچاتے۔ اس پس منظر میں اب دیکھنا چاہیے کہ یہ پیغام نئی نسل کو پہنچانے والا بلوچ ہی کیوں ہے، کسی اور صوبے سے تعلق کیوں نہیں رکھتا؟ فارسی حصے کا تیسرا باب جو مسلم قوم کے نام ہے اُس کی آٹھویں فصل کا عنوان ہے، ’اے فرزندِ صحرا‘۔ وہاں صحرا ئے عرب کا حوالہ موجود ہے لیکن بعض باتیں ایسی بھی کہی گئی ہیں جو کسی بھی صحرائی علاقے مثلاً بلوچستان کے بارے میں بھی درست ہو سکتی ہیں: دراں شب ہا خروشِ صبحِ فرداست کہ روشن از تجلی ہائے سیناست تن و جاں محکم از بادِ در و دشت طلوعِ امّتاں از کوہ و صحراست ترجمہ: صحرا کی راتوں میں آنے والی صبح کا شور ہے کہ یہ سینا کی تجلی سے روشن ہے۔ کوہ و صحرا کی ہوا بدن اور روح دونوں کو محکم کرتی ہے: نئی امتوں کا ظہور کوہ و صحرا سے ہوتا ہے! اقبال نے اپنی موعودہ ریاست میں جن چار صوبوں کی شمولیت کو یقینی جانا اُن میں سے صرف بلوچستان ہی میں کوہ و صحرا دونوں اکٹھے تھے جو اس رباعی کے مطابق روح و بدن دونوں کو مستحکم کرتے ہیں۔ ابلیس کی سازش ہی یہ ہے کہ روح و بدن کو الگ کر کے کہیں پہلے کو دوسرے پر اور کہیں دوسرے کو پہلے پر غالب کر دے اور بڈھا بلوچ ان تمام رموز سے واقف معلوم ہوتا ہے جب وہ اپنے بیٹے کو بتاتا ہے کہ دنیا کو پھر روح و بدن کا معرکہ پیش آنے والا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ اقبال کے ذہن میں اپنی مجوزہ ریاست کا جو تصور تھا اُس میں بلوچستان کا کردار کسی نہ کسی لحاظ سے فکری رہنمائی فراہم کرنے کا بھی تھا۔ فارسی حصے کے پانچویں باب کی پہلی ہی فصل میں اقبال نے یارانِ طریق سے کہا تھا : مرا از منطق آید بوے خامی دلیلِ اُو دلیلِ ناتمامی! برویم بستہ در ہا را کشاید دو بیت از پیرِ رومی یا زجامی! ترجمہ: مجھے منطق سے خامی کی بو آتی ہے: اس کی دلیل اس کی اپنی نارسائی پر دلیل ہے! کتنے ہی بند دروازے مجھ پر کھول دیے ہیں، پیرِ رومی یا جامی کے دو اشعار نے! بڈھا بلوچ اپنی نصیحت کو جس بات پر ختم کرتا ہے وہ اسی نکتے کا اعادہ ہے یعنی: تقدیر امم کیا ہے؟ کوئی کہ نہیں سکتا مومن کی فراست ہو تو کافی ہے اشارا اخلاص عمل مانگ نیا گان کہن سے ’شاہاں چہ عجب گر بنوازند گدا را!‘ یہاں ’’تقدیرِ امم‘‘ کی ترکیب معنی خیز ہے کیونکہ خطبۂ الٰہ آباد میں پاکستان کی پیشین گوئی کرتے ہوئے اقبال نے بھی تو یہی ترکیب استعمال کی تھی یعنی شمال مغربی ہندوستان میں مسلمانوں کی ریاست اُنہیں اِس علاقے کے مسلمانوں کی ’’اٹل تقدیر‘‘ نظر آتی ہے۔ پھر یارانِ طریق کے نام پیغام میں انہوں نے کہا کہ کوہ و صحرا سے نئی امتوں کا ظہور ہوتا ہے۔ اس سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ بڈھا بلوچ اپنے بیٹے کو جو نصیحت کر رہا ہے وہ صرف قبائلی زندگی تک محدود نہیں بلکہ وہ اسے ایک نئی قوم کی فکری قیادت کرنے کے لیے تیار کر رہا ہے۔ یہ قوم ابھی تاریخ کے پردے پر اُبھری نہیں ہے لیکن ’’مومن کی فراست ہو تو کافی ہے اشارہ‘‘۔ اقبال نے خطبہ الٰہ آباد میں اسی فراست سے کام لے کر پاکستان کی پیشین گوئی کی تھی اور اسی خطبے کے ایک اور حصے میں اس فراست کی خاصی اچھی تشریح بھی کر دی تھی۔ وہ نیاگانِ کہن جن سے اخلاصِ عمل مانگنے کی نصیحت بڈھا بلوچ کر رہا ہے اُس میں بلوچ قوم کے گزشتہ بزرگ تو شامل ہوں گے ہی لیکن مولانا روم اور جامی بھی شامل ہیں جن کے اشعار سے بند دروازے کھلنے کا ذکر اقبال نے یارانِ طریق سے کیا۔ چونکہ بلوچستان کی اپنی زبان فارسی ہے لہٰذا یہاں کے لوگوں کے لیے رومی و جامی کو ’’نیاگانِ کہن‘‘ کہنا پاکستان کے کسی دوسرے صوبے سے زیادہ قدرتی معلوم ہوتا ہے۔ اس سیاق و سباق میں دیکھیے تو بڈھا بلوچ اپنے بیٹے کو جو نصیحت کر رہا ہے وہ صرف قبائلی زندگی تک محدود نہیں ہے بلکہ وہ اپنے بیٹے کو ایک قوم کی فکری رہنمائی کے لیے تیار کر رہا ہے، مثلاً دوسرا، تیسرا اور چوتھا شعر: جس سمت میں چاہے صفتِ سیلِ رواں چل وادی یہ ہماری ہے وہ صحرا بھی ہمارا غیرت ہے بڑی چیز جہان تگ و دو میں پہناتی ہے درویش کو تاج سر دارا حاصل کسی کامل سے یہ پوشیدہ ہنر کر کہتے ہیں کہ شیشے کو بنا سکتے ہیں خارا یہ کامل کون ہو سکتا ہے جس سے شیشے کو خارا بنانے کا ہنر حاصل کیا جائے؟اقبال نے بالِ جبریل میں کہا تھا: فرنگی شیشہ گر کے فن سے پتھر ہو گئے پانی مری اکسیر نے شیشے کو بخشی سختی خارا وہ کامل جس سے شیشے کو خارا بنانے کا ہنر حاصل کیا جا سکتا ہے کوئی مغربی دانشور نہیں ہو سکتا کیونکہ اُس کے فن سے تو پتھر پانی ہو جاتے ہیں۔ یہ مردِ کامل اقبال ہیں جن کی اکسیر نے شیشے کو سختی خارا بخشی ہے۔ گویا اقبال اور یہ بڈھا بلوچ بلوچستان سے جس فکری رہنمائی کی توقع رکھتے ہیں وہ مغربی علوم سے روشنی حاصل کر کے نہیں بلکہ فطرت کے چراغ سے دلوں کو منور کر کے فراہم ہو سکتی ہے جس کے مواقع کوہ و صحرا کے باشندوں کو شہری زندگی کے اسیروں کی نسبت قدرتی طور پر زیادہ میسر آتے ہیں۔ اس کے علاوہ بلوچستان کی سیاسی تاریخ کی روشنی میں بھی یہ توقع دوسرے صوبوں کی نسبت اِس صوبے سے زیادہ کی جا سکتی تھی۔ ارمغان حجاز کی بقیہ منظومات میں بھی روحانیت اور علاقائیت کے درمیان توازن کی فضا با آسانی محسوس کی جا سکتی ہے۔ ’تصویر و مصور‘، ’عالمِ برزخ‘، ’دوزخی کی مناجات‘، ’مسعود مرحوم‘، ’آوازِ غیب!‘، ’رباعیات‘، ’ملازادہ ضیغم لولابی کشمیری کا بیاض‘، ’سر اکبر حیدری صدرِ اعظم حیدرآباد دکن کے نام‘ اور آخری نظم ‘حضرتِ انساں‘ میں اگلی دنیا کے حوالے جابجا موجود ہیں لیکن ان میں سے اکثر نظمیں قومی تعمیر کا پہلو بھی لیے ہوئے ہیں۔ ان دونوں پہلووں کو یکجا کریں تو محسوس ہوتا ہے کہ روح اور مادے کی وحدت پر مبنی ایک نئی دنیا تشکیل پا رہی ہے اور خطبۂ الٰہ آباد میں اقبال نے پاکستان کی اساس یہی بتائی تھی۔انہی کے درمیان دو نظمیں ’معزول شہنشاہ‘ اور ’حسین احمد‘ اس زمانے کے بعض سیاسی حالات سے متعلق موجود ہیں لیکن اُن کا تعلق بھی قومی معاملات سے ہے۔ ’ملا زادہ ضیغم لولابی کشمیری کا بیاض‘ کے بعض ایسے پہلو ہیں جن کی طرف توجہ نہیں دی گئی۔ ضربِ کلیم کے ’محراب گل افغان کے افکار‘ اور ارمغان حجاز کے ’بڈھے بلوچ کی نصیحت‘ کے ساتھ مل کر یہ اقبال کی مجوزہ ریاست کے مختلف حصوں میں موجود فرضی کرداروں کے سلسلے کی کڑی ہے لیکن یہ اپنی جگہ ایک مکمل ’’بیاض‘‘ ہے جس کی وجہ سے ملازادہ ضیغم کلامِ اقبال کا ایک باقاعدہ کردار بن جاتا ہے۔ اس کے بیاض میں انیس منظومات ہیں جن کے بعض اشعار بہت مشہور ہو چکے ہیں: گرم ہو جاتا ہے جب محکوم قوموں کا لہو تھرتھراتا ہے جہانِ چار سو و رنگ و بو (نمبر۴) نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسمِ شبیری کہ فقرِ خانقاہی ہے فقط اندوہ و دلگیری (نمبر۷) دگرگوں جہاں ان کے زورِ عمل سے بڑے معرکے زندہ قوموں نے مارے (نمبر۱۲) نشاں یہی ہے زمانے میں زندہ قوموں کا کہ صبح و شام بدلتی ہیں ان کی تقدیریں (نمبر۱۳) ضمیرِ مغرب ہے تاجرانہ، ضمیرِ مغرب ہے راہبانہ وہاں بدلتا ہے لحظہ لحظہ، یہاں بدلتا نہیں زمانہ (نمبر۱۵) غریبِ شہر ہوں میں، سن تو لے مری فریاد کہ تیرے سینے میں بھی ہوں قیامتیں آباد (نمبر۱۹) عام طور پر اِن اشعار کو علیحدہ علیحدہ دیکھا گیا ہے۔ ایک فرضی کردار کی تصویرکشی اور اس کردار کے حوالے سے کشمیر کے مستقبل کے بارے میں کچھ اسرار و رموز بیان کرنے میں یہ کس طرح کام آ سکتے ہیں اس پر غور کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ ان منظومات میں سے دو فارسی میں ہیں یعنی نمبر ۱۴ جو چھ اشعار پر مشتمل ہے اور نمبر۱۸ جو صرف ایک شعر پر مشتمل ہے۔ اس لحاظ سے یہ خیال درست معلوم نہیں ہوتا کہ حسین احمد کے بارے میں فارسی قطعہ ارمغانِ حجاز کے حصۂ اُردو میں ہونے کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ یہ اقبال کی وفات کے بعد اور بقیہ اجزا کی کتابت مکمل ہونے کے بعد چودھری محمد حسین نے اپنی صوابدید پر کتاب میں شامل کیا ہو۔ یہ بات تو ملا زادہ کے بیاض کی ان دو فارسی منظومات کے بارے میں بھی کہی جا سکتی ہے مگر اقبال نے نہ صرف خود انہیں حصہ اردو میں رکھا بلکہ ملازادہ کے بیاض میں ایک باقاعدہ ترتیب کے تحت شامل کیا۔ اُس زمانے میں جس قسم کا گیت مقبول ہو رہا تھا اور جس کا تجربہ اقبال نے ضرب کلیم میں کیا تھا اُس کا تجربہ ملازادہ کے بیاض میں بھی کیا: پانی ترے چشموں کا تڑپتا ہوا سیماب! مرغانِ سحر تیری فضاؤں میں ہیں بیتاب! اے وادیٔ لولاب! جملہ معترضہ، اس گیت کا آزاد کشمیر کے ترانے کے ساتھ ایک بہت لطیف تعلق محسوس کیا جا سکتا ہے جسے بعد میں حفیظ جالندھری نے تحریر کیا۔ بہرحال یہ نظم نمبر۱ ہے یعنی ملازادہ کے بیاض کا آغاز اِسی سے ہوتا ہے اور بڈھے بلوچ کی طرح ملازادہ بھی ابلیس کے خلاف خم ٹھونک کر آیا ہے کیونکہ مسلمانوں کو مزاجِ خانقاہی میں پختہ کرنے کی شیطانی سازش کے خلاف آواز اٹھا رہا ہے: گر صاحبِ ہنگامہ نہ ہو منبر و محراب! دیں بندۂ مومن کے لیے موت ہے یا خواب! اے وادیٔ لولاب! آخری نظم ’حضرتِ انساں‘ تاریخی اعتبار سے بھی اُردو میں اقبال کی آخری نظم ہے اور اُن کی شاعری کا نہایت مناسب نقطۂ انجام پیش کرتی ہے لیکن اسے بھی بقیہ ارمغان حجاز بالخصوص ’ابلیس کی مجلس شوریٰ‘سے مربوط کر کے پڑھا جا سکتا ہے کیونکہ اگر یہ عالم اتنا نورانی ہے کہ یہاں فرشتوں کے تبسم ہائے پنہانی تک دکھائی دے جاتے ہیں تو ابلیس بھی دکھائی دیتا ہو گا جس کا نام تو اس نظم میں نہیں آیا لیکن بالِ جبریل کی نظم ’جبریل و ابلیس‘ میں اُس نے جو کہا تھا کہ قصۂ آدم کو اُسی کا خوں رنگیں کر گیا اُس کا جواب یہاں ملتا ہے کہ فرزندِ آدم بھی کچھ کم نہیں کیونکہ اسی کے اشکِ خونیں سے دریاؤں کو طوفانی کیا گیا ہے: جہاں میں دانش و بینش کی ہے کس درجہ ارزانی کوئی شے چھپ نہیں سکتی کہ یہ عالم ہے نورانی کوئی دیکھے تو ہے باریک فطرت کا حجاب اتنا نمایاں ہیں فرشتوں کے تبسم ہائے پنہانی یہ دنیا دعوت دیدار ہے فرزند آدم کو کہ ہر مستور کو بخشا گیا ہے ذوق عریانی یہی فرزند آدم ہے کہ جس کے اشک خونیں سے کیا ہے حضرت یزداں نے دریاؤں کو طوفانی فلک کو کیا خبر یہ خاکداں کس کا نشیمن ہے غرض انجم سے ہے کس کے شبستاں کی نگہبانی اگر مقصود کل میں ہوں تو مجھ سے ماورا کیا ہے؟ مرے ہنگامہ ہائے نو بہ نو کی انتہا کیا ہے؟ باب ۱۰ تشکیلِ جدید تشکیل ِ جدید کے بارے میں بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔ اس کتاب کے مضامین پر مستقل تصانیف وجود میں آ چکی ہیں اور سیمینار منعقد ہوئے ہیں۔ زیرِ نظر مختصر کتاب کا مقصد ان مضامین کا احاطہ کرنا نہیں بلکہ بعض ایسے نکات کی نشاندہی ہے جنہیں تشکیل ِ جدید کا مطالعہ کرتے ہوئے سامنے رکھا جا سکتا ہے مگر جن کی طرف کسی کی توجہ نہیں گئی۔ ۱ تشکیل ِ جدید پہلی مرتبہ ۱۹۳۰ء میں مئی کے لگ بھگ لاہور سے شائع ہوئی۔ اس میں چھ خطبات شامل تھے اور عنوان تھا: The Six Lectures on the Reconstruction of Religious Thought in Islam چار برس بعد یعنی ۱۹۳۴ء میں مزید ایک خطبے کے اضافے کے ساتھ آکسفورڈ یونیورسٹی پریس لندن سے یہ دوبارہ شائع ہوئی۔ یہی اِس کتاب کا حتمی اڈیشن قرار پایا کیونکہ اس کے چار سال بعد اقبال فوت ہو گئے۔ آکسفورڈ اڈیشن کا عنوان تھا: The Reconstruction of Religious Thought in Islam اقبال نے یہ خطبات لکھنا کب شروع کیے؟ خیال کیا جاتا ہے کہ ان کا آغاز ۱۹۲۴ء میں کسی وقت ہواکیونکہ ۱۳ دسمبر ۱۹۲۴ء کو اقبال نے لاہور میں اجتہاد کے موضوع پر ایک خطبہ دیا جس کا متن اگرچہ دستیاب نہیں مگر غالب امکان ہے کہ یہ وہی خطبہ رہا ہو گا جو بعد میں کسی تبدیلی کے ساتھ یا تبدیلی کے بغیر تشکیل ِ جدید کا چھٹا خطبہ بنا۔ ۱۹۲۶ء میں مدراس کے مسلمانوں کی ایک تنظیم کی طرف سے اسلام کے موضوع پر خطبات دینے کی دعوت ملی جو اقبال نے قبول کر لی۔ اپریل ۱۹۲۷ء میں انجمن حمایت اسلام کے سالانہ جلسے میں اقبال نے جو خطبہ دیا اُس کے بعض نکات بھی پانچویں خطبے سے ملتے جلتے ہیں اور ۱۹۲۸ء کے آخر تک کم سے کم پہلے تین خطبات اس حد تک تیار ہو گئے تھے کہ جنوری ۱۹۲۹ء میں اقبال نے انہیں مدراس، بنگلور، میسور اور حیدرآباد دکن میں پیش کیا۔ نومبر تک تمام خطبات تیار ہو گئے اور علی گڑھ میں پیش کیے گئے۔ ساتواں خطبہ ۱۹۳۲ء میں انگلستان کے سفر کے دوران لندن میں پیش کیا گیا۔ اِس طرح ان خطبات کی تصنیف کا زمانہ ۱۹۲۴ء سے ۱۹۳۲ء تک بنتا ہے۔ یہ وہی زمانہ ہے جب بانگِ درا مرتب ہوئی، زبورعجم اور جاویدنامہ لکھی گئیں اور بالِ جبریل کی بہت سی منظومات بھی تخلیق ہوئیں۔ اس کے علاوہ خطبہ الٰہ آباد بھی بالکل اسی زمانے میں لکھا گیا۔ اس لحاظ سے تشکیل ِ جدید کے خطبات اور کم سے کم ان تصنیفات کے درمیان ربط تلاش کرنے سے تو کسی سوانح نگار کو انکار نہیں ہو سکتا۔ یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ خطبات کے لاہور والے اڈیشن اور آکسفورڈ اڈیشن میں ساتویں خطبے کے اضافے کے علاوہ دوسری ترمیمات کی تعداد چوبیس سے زیادہ نہیں اور وہ محض لفظی ترمیمات ہیں (ان کی تفصیل ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کی تصانیف اقبال کا تحقیقاتی و توضیحاتی مطالعہ صفحہ ۳۲۳-۳۲۱ پر دیکھی جا سکتی ہے)۔ گویا اقبال نے اِن خطبات میں جو خیالات پیش کیے تھے اُن میں چار سال بعد بھی کوئی خاص تبدیلی کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ کتاب کا مقصد پیش لفظ میں واضح کیا گیا ہے مگر حیرت کی بات ہے کہ ان خطبات پر اظہارِ خیال کرنے والے بہت سے مصنفین نے پیش لفظ کو بالکل ہی نظرانداز کر دیا ہے یہاں تک کہ سعید شیخ جنہوں نے بڑی محنت سے تشکیل ِ جدید کے حاشیے لکھے انہوں نے بھی پیش لفظ پر کوئی حاشیہ لکھنا پسند نہ کیا بلکہ کتاب میں شامل قرآنی آیات کا جو اشاریہ مرتب کیا اُس میں بھی اُس آیت کو شامل نہیں کیا جسے اقبال نے پیش لفظ میں ترجمہ کیا ہے۔ یہ آیت جو اقبال کی فکر میں انتہائی کلیدی اہمیت رکھتی ہے اس کا ترجمہ اقبال نے یوں پیش کیا ہے: Your creation and resurrection are like the creation and resurrection of a single soul. یعنی ’’تمہاری تخلیق اور مر کر اُٹھایا جانا ایک نفسِ واحد کی تخلیق اور مر کر اُٹھائے جانے کی مانند ہے۔‘‘ اِس کے فوراً بعد اقبال کہتے ہیں کہ اِس قرآنی آیت میں جس قسم کی حیاتیاتی وحدت کا اِمکان موجود ہے اُس کا تجربہ اُس وقت تک محال ہے جب تک کہ ایک ایسا طریقہ دستیاب نہ ہو جائے جو بعض اعتبارات سے موجودہ زمانے کے مطابق ہو۔ اس طریقے کی عدم موجودگی میں مذہبی معلومات کے لیے ایک سائنسی پیرایے کی طلب بالکل قدرتی بات ہے اور یہ خطبات اِسی ضرورت کو پورا کرتے ہیں۔اقبال کے اس بیان سے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ جب وہ طریقہ دستیاب ہو جائے گا تو مذہبی معلومات کے لیے سائنسی پیرایے کی طلب باقی نہ رہے گی۔ اِس لحاظ سے اُس طریقے کی نشاندہی بہت ضروری ہو جاتی ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ اقبال نے اس کی صرف دو علامتیں بتائی ہیں مگر باقاعدہ تعریف نہیں کی۔ وہ علامتیں یہ ہیں کہ مستند صوفی سلسلوں کے اختراع کیے ہوئے طریقوں کی نسبت یہ طریقہ جسمانی اعتبار سے کم مشقت طلب اور نفسیاتی اعتبار سے ایک ٹھوس ذہن کے زیادہ مطابق ہو گا۔ کیا ہم اُس طریقے کو پہچان سکتے ہیں؟ اِس بات کا امکان موجود ہے کہ اقبال نے خطبہ الٰہ آباد میں اس کی طرف ایک اور اہم اشارہ کیا ہو۔ اس کا جائزہ خطبہ ٔ الٰہ آباد والے باب میں لیا جائے گا۔ ۲ یہ سوال کئی مرتبہ اُٹھایا گیا ہے کہ اِقبال کی نظم اور اِن خطبات کے درمیان کیا تعلق ہے اور کوئی تعلق ہے بھی یا نہیں؟مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اِس کا جواب خطبات ہی سے تلاش کیا جائے۔ پہلے خطبے کے بالکل اِبتدائی جملے یہ ہیں: What is the character and general structure of the universe in which we live? Is there a permanent element in the constitution of this universe? How are we related to it? What place do we occupy in it, and what is the kind of conduct that befits the place we occupy? These questions are common to religion, philosophy, and higher poetry. اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اقبال کے نزدیک اعلیٰ شاعری، مذہب اور فلسفہ بعض مشترک سوالوں کے جواب فراہم کرتے ہیں۔ اس کے بعد اقبال وضاحت کرتے ہیں کہ ان میں سے شاعرانہ وجدان کا فراہم کیا ہوا علم بنیادی طور پر انفرادی نوعیت کا ہوتا ہے۔ یہ اِشاراتی، مبہم اور غیرمعین ہوتا ہے۔ اس کے برعکس فلسفہ آزادانہ تحقیق کی روح رکھتا ہے اور ہر سند کو شبہ کی نظر سے دیکھتا ہے۔ اگر ہم تشکیل ِ جدید کو فلسفیانہ پیرائے میں لکھی ہوئی کتاب سمجھیں تو اِس کے اور اقبال کی شاعری کے درمیان یہی تعلق قائم ہوتا ہے کہ دونوں مشترکہ سوالات کے جواب فراہم کرتے ہیں مگر اقبال کی شاعری کا انداز اشاراتی، مبہم اور غیرمعین ہے اور اس کا فراہم کیا ہوا علم بنیادی طور پر انفرادی نوعیت کا ہے یعنی اُسے اقبال نے اپنے ذاتی مشاہدات کے طور پر قاری تک پہنچایا ہے۔ اس کے برعکس تشکیل ِ جدید میں آزادانہ تحقیق کی روح غالب ہے اور اس میں ہر سند کو شبہ کی نظر سے دیکھا گیا ہے۔ یہ عقائد اور نظریات کا فرق نہیں بلکہ شاعری اور فلسفے کے مزاج کا فرق ہے۔ اب ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ اس بنیادی فرق کے باوجود اقبال کی شاعری اور تشکیل ِ جدید کے درمیان مماثلت کے پہلو کہاں واقع ہیں؟ ظاہر ہے کہ ان کی تلاش بھی انہی سوالوں سے کی جائے گی جنہیں اقبال نے دونوں کے درمیان مشترک قرار دیا ہے (یہ سوال اوپر دیے گئے اقتباس کے شروع میں موجود ہیں)۔ ان سوالوں پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ بظاہر یہ چار جملے ہیں مگر ان میں سوالات کی تعداد چھ ہے اور تشکیل ِ جدید کا ہر خطبہ دراصل ان میں سے ایک ایک سوال کا جواب ہے۔ ساتویں خطبے کا سوال خطبے کے عنوان ہی میں درج ہے لہٰذا اس طرح سوالوں کی تعداد سات ہو جاتی ہے: 1. What is the character of the universe in which we live? 2. What is the general structure of the universe in which we live? 3. Is there a parallel element in the constitution of this universe? 4. How are we related to it? 5. What place do we occupy in it? 6. What is the kind of conduct that befits the place we occupy in the universe? 7. Is religion possible? یعنی: ۱۔ اس کائنات کی نوعیت کیا ہے جس میں ہم رہتے ہیں؟ ۲۔ اس کائنات کی عمومی ساخت کیا ہے جس میں ہم رہتے ہیں؟ ۳۔ کیا اِس کائنات کی بناوٹ میں کوئی دائمی عنصر موجود ہے؟ ۴۔ اُس کے ساتھ ہمارا رشتہ کیا ہے؟ ۵۔ اس میں ہمارا مقام کیا ہے؟ ۶۔ اُس مقام کے لحاظ سے ہمارے لیے کون سا طرزِ عمل مناسب ہے؟ ۷۔ کیا مذہب ممکن ہے؟ یہی ساتوں سوال بالترتیب جاویدنامہ کے ایک ایک باب کا موضوع بھی ہیں (ہمارے محققین نے اِس بات کی طرف بھی توجہ نہیں دی کہ جاویدنامہ اور تشکیل ِ جدید دونوں میں سات سات ابواب ہیں اور اُن کے موضوعات مشترک ہیں)۔ موضوعات کا یہی اشتراک اُس دعوے کا ثبوت ہے جو اقبال نے شاعری اور فلسفے کے باہمی ربط کے بارے میں کیا ہے۔ ایک اور اہم بات یہ ہے کہ سورۂ فاتحہ کی ایک ایک آیت بالترتیب ان میں سے ایک ایک سوال کا جواب ہے۔ اس طرح یہ بات بھی خودبخود ثابت ہو جاتی ہے کہ نہ صرف شاعری اور فلسفہ آپس میں مربوط ہیں بلکہ ان کے اور مذہب کے سوالات بھی مشترک ہیں۔ ملاحظہ کیجیے۔ تشکیل ِ جدید کا پہلا سوال ہے، ’’اس کائنات کی نوعیت کیا ہے جس میں ہم رہتے ہیں؟‘‘ جاویدنامہ کا پہلا باب ’ فلکِ قمر‘ جستجو کا مقام ہے۔ یہاں علم کے مختلف پہلو وشوامتر کے نو سخن، سروش کی موسیقی، سروش کی شاعری، طاسینِ گوتم، طاسینِ زرتشت، طاسینِ مسیح اور طاسینِ محمد کی علامات سے ظاہر کیے گئے ہیں۔ فلکِ قمر کے یہ سات مقامات ایک طرح سے سات بنیادی سوالوں کی علامتیں بھی ہیں مثلاً وشوامتر کے زاویۂ نگاہ زیادہ تر کائنات کی نوعیت پر مرکوز ہے جو پہلا سوال ہے۔ سروش کی موسیقی ایک طرح سے کائنات کے عمومی ساخت یعنی اس کے باطن کی طرف متوجہ کرتی ہے۔ علیٰ ہذا القیاس۔ تشکیل ِ جدید کا پہلا خطبہ ہے: 'Knowledge and Religious Experience' یعنی’ علم اور مذہبی مشاہدات‘ جو ذرائع علم سے بحث کرتا ہے۔ اس کے مطابق سوچ اور وجدان آپس میں مربوط ہیں۔ یہ نقطہ ٔ نظر امام غزالی سے بھی جدا ہے اور کانٹ سے بھی لہٰذا سوال پیدا ہوتا ہے کہ جس بات کی نظیر مشرق و مغرب کے دونوں بڑے حکیموں کے یہاں موجود نہیں ہے اُسے سمجھا کیسے جائے۔ اقبال بعض جدید مغربی مصنفین کے حوالے دیتے ہیں جن سے یہ دکھانا مقصود ہے کہ جدید تہذیب کو اُس حقیقت کا نامکمل ادراک ضرور ہے جس کی طرف اقبال اشارہ کر رہے ہیں۔ مکمل ادراک کیسے ہو؟ ظاہر ہے کہ جو نظریات فلسفے اور سائنس میں پوری طرح سامنے نہیں آ سکے ہیں اُن کا مشاہدہ صرف مثالی اور تخیلاتی طور پر کیا جا سکتا ہے۔ جاویدنامہ کا پہلا باب ’فلکِ قمر‘ اسی مشاہدے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ سورۂ فاتحہ کی پہلی آیت بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم قرآنی انداز میں اِسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ اللہ کے نام سے شروع کرنا گویا سوچ کے ساتھ ساتھ وجدان کو بھی شامل رکھنے کی نیت کرنا ہے۔ تشکیل ِ جدید کا دوسرا سوال ہے، ’’اس کائنات کی عمومی ساخت کیا ہے جس میں ہم رہتے ہیں؟‘‘ جاویدنامہ کے ’فلکِ قمر‘ کی دوسری منزل سروش کی موسیقی ہے جو ایک طرح سے کائنات کی عمومی ساخت کی طرف اشارہ کرتی ہے اور یہ بات جاویدنامہ کے دوسرے باب ’فلکِ عطارد‘ پر زیادہ اچھی طرح واضح ہوتی ہے جہاں جمال الدین افغانی اَن دیکھی دنیاؤں کے بارے میں بتاتے ہیں جو قرآن میں موجود ہیں اور ان کی بنیاد مسلمان کے دل میں ہے۔ قرآن اور مسلمان کے دل کا یہ تعلق فکری کم ہے اور حیاتیاتی زیادہ ہے۔ وجہ یہ ہے کہ جاویدنامہ شاعری ہے اور شاعری صرف فکر تک محدود رہنے کی پابند نہیں ہے بلکہ تجربے اور مشاہدے پر کمند ڈالنے کی کوشش بھی کر سکتی ہے۔ تشکیل ِ جدید فلسفے کی کتاب ہے لہٰذا فکری میدان تک محدود رہتی ہے۔ چنانچہ دوسرا خطبہ ہے 'The Philosophical Test of the Revelations of Religious Experience' یعنی ’مذہبی مشاہدات کا فلسفیانہ معیار‘۔ کائنات کی عمومی ساخت اس کا براہِ راست موضوع نہیں ہے لیکن ظاہر ہے کہ اگر فکر کے ساتھ ساتھ وجدان بھی علم کا ذریعہ ہے، خودی اور خدا ایک دوسرے سے تعلق رکھنے والی حقیقتیں ہیں اور اسی پس منظر میں مذہبی مشاہدات یعنی وحی کے فلسفیانہ ثبوت تلاش کیے جا رہے ہیں تو یہ تمام مباحث کائنات کی عمومی ساخت یعنی کائنات کے باطن کے بارے میں کسی مفروضے کی بنیاد پر ہی قائم ہو سکتے ہیں۔ وہ مفروضہ کیا ہے؟ ایک دفعہ پھر ہم یہی دیکھتے ہیں کہ جدید فلسفیانہ تحریریں جن کی طرف اقبال نے اشارے کیے ہیں وہ پوری طرح اس مفروضے کو ظاہر کرنے میں کامیاب نہیں ہوتیں۔ اب دوبارہ جاویدنامہ کے متعلقہ باب کی طرف رجوع کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ ایک نیا عالمِ قرآنی وجود میں آ رہا ہے۔ یہ نتیجہ نکالنا بہت دُور از قیاس تو نہیں ہو گا کہ کائنات کی باطنی ساخت کے بارے میں جس مفروضے پر دوسرے خطبے کی بنیاد ہے وہ اُسی نئے عالمِ قرآنی کے ظہور پر پوری طرح فلسفے اور سائنس کی گرفت میں آئے گا اور فی الحال اُس کا مقام صرف مسلمان کا دل ہے! سورۂ فاتحہ کی دوسری آیت ہے، الحمدُ للّٰہ الرب العٰلمین یعنی تمام تعریف اللہ کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا رَب ہے۔ یہ قرآن کا نقطہ ٔ نظر ہے اس بنیادی سوال پر کہ جس کائنات میں ہم رہتے ہیں اُس کی عمومی ساخت کیا ہے۔ تشکیل ِ جدید میں مذہبی مشاہدات کا فلسفیانہ معیار تلاش کرنے کی جو کوشش کی گئی ہے اُس کا اِس آیت کے مضمرات کے ساتھ تعلق محتاجِ بیان نہیں ہو سکتا۔ تشکیل ِ جدید کا تیسرا سوال ہے، ’’کیا اِس کائنات کی بناوٹ میں کوئی دائمی عنصر موجود ہے؟‘‘ تیسرا خطبہ ہے، The Conception of God and the Meaning of Prayer یعنی ’ذاتِ الٰہی کا تصور اور حقیقتِ دُعا‘۔ یہ عنوان ہی سوال کا جواب ہے! کائنات کی بناوٹ میں وہ دائمی عنصر خدا کی ذات ہے اور یہی نکتہ جاویدنامہ کے تیسرے باب ’فلکِ زہرہ‘ کا حاصل بھی ہے جس کے ایک حصے میں مولانا روم پرانے زمانے کے باطل معبودوں کو دوبارہ سرنگوں کرنے کے لیے زبورِ عجم کی ایک غزل پڑھتے ہیں۔ دُوسرے حصے میں انسانوں کو اپنے سامنے جھکانے والے فرعونوں کے سامنے مجاہدِ آزادی مہدی سوڈانی کی روح جنت سے آ کر مدینہ کے سفر سے متعلق ایک نغمہ سناتی ہے۔ گویا توحید ہمیں اوہام اور باطل معبودوں سے نجات دلاتی ہے اور شریعت جابر حکمرانوں کے ظلم سے نجات دلاتی ہے۔ کلمہ طیبہ کے دو حصے بھی اسی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ سورۂ فاتحہ کی تیسری آیت ہے، الرحمٰن الرحیم یعنی ’’جو رحمٰن ہے، رحیم ہے۔‘‘ خدا کے یہ دونوں صفاتی نام بنیادی طور پر ایک ہی لفظ سے مشتق ہیں یعنی رحم جو کائنات میں جاری و ساری اُس اصول کی طرف اشارہ کرتا ہے جس کی وجہ سے نہ صرف کائنات وجود میں آئی اور قائم ہے بلکہ جو کائنات میں مستقل نشو و نما اور افزائشِ حیات کا سبب بھی ہے۔ تیسرے خطبے میں اقبال نے خدا کے اسلامی تصور کے پانچ عناصر کی نشاندہی کی ہے جو بالترتیب یہ ہیں: 1. Individuality 2. Creativeness 3. Knowledge 4. Power 5. Eternality یعنی اقبال کے نزدیک خدا کے اسلامی تصور کے پانچ عناصر خدا کی انفرادیت، خلاقیت، علم، قوت اور ابدیت ہیں۔ غور کیا جائے تو ان پانچ عناصر کا تعلق ان پانچ حضراتِ خمسہ سے بھی ہے جو ایک طرح سے ۱۹۰۰ء میں شائع ہونے والی اقبال کی اولین فلسفیانہ تحریر کا موضوع بھی تھے۔ اس مقالے میں اقبال نے صوفی حکیم الجیلی کے حوالے سے تنزیلاتِ ستہ کا تصور بیان کیا تھا یعنی وہ چھ مراحل جن سے گزر کر الٰہی صفات انسان تک اترتی ہیں یا انسان خدا کی طرف بڑھتا ہے۔ ان چھ مراحل کے درمیان پانچ مقامات قرار پاتے ہیں جنہیں حضراتِ خمسہ کہا گیا ہے۔ میں نے اپنی کتاب Iqbal: An Illustrated Biography (2006)میںوضاحت کی ہے کہ اقبال نے بعد کے زمانے یعنی اسرار و رموز سے شروع ہونے والے دَور میں تنازیلِ ستہ اور اس سے متعلق بعض مابعدالطبیعیاتی مفروضات کو بیانِ حقیقت سمجھنا ترک کر کے انہیں حقیقت کا اِستعاراتی اور علامتی بیان سمجھنا شروع کیا۔ اِس لحاظ سے اقبال نے خدا کے اسلامی تصور کے جو پانچ عناصر بیان کیے ہیں وہ حضراتِ خمسہ کے عین مطابق ضرور ہیں مگر اُنہیں ان کے مابعدالطبیعیاتی پس منظر سے نکال کر اِن کی مذہبی اور عملی افادیت تک رسائی کو آسان بنا دیا ہے۔ اقبال کا خیال تھا: قوم کے ہاتھ سے جاتا ہے متاعِ کردار بحث میں آتا ہے جب فلسفۂ ذات و صفات چنانچہ اُنہوں نے خدا کا جو اسلامی تصور پیش کیا اُس کی مذہبی اور عملی افادیت کا اندازہ لگانے کی کوشش زیادہ مفید ہو سکتی ہے۔ سرسری طور پر یہ ضرور دیکھا جا سکتا ہے کہ اقبال کے تصورِ خدا کے یہ پانچ عناصر بنیادی طور پر حضراتِ خمسہ سے کچھ مطابقت بھی رکھتے ہیں جن کا تصور دُنیا کے اکثر مذاہب کے فلسفیانہ خیالات میں مشترک ہے اگرچہ اُنہیں مختلف طریقوں سے بیان کیا گیا ہے۔ اِن کی وہ ترتیب جو اقبال کے بیان کیے ہوئے تصورِ خدا کے مطابق ہے کچھ یوں ہو گی: ۱۔ عالمِ ذات یعنی جہاں خدا کے سوا کسی کا گزر نہیں۔ اقبال نے فلسفہ ٔ ذات و صفات اور ’’ہیں صفاتِ ذاتِ حق، حق سے جدا یا عینِ ذات‘‘ کے مباحث سے حتی المقدور باہر رہتے ہوئے اِس نکتے کو خدا کی انفرادیت کے طور پر بیان کیا ہے۔ ۲۔ عالمِ صفات یعنی وہ دُنیا جس کا براہِ راست تجربہ ہم دنیاوی زندگی میں نہیں کر سکتے مگر خدا کی صفات اس کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔ اقبال نے جسے خدا کی خلاقیت کہا ہے اُس کا تعلق بھی اِسی سے ہے۔ ۳۔ رُوح یعنی عالمِ مثال جس کا تعلق خواب سے بھی ہے اور علم سے بھی ہے۔ اس مقام کے روبرو ہونا انتہائی مقام ہے جہاں دنیاوی زندگی میں ہم پہنچ سکتے ہیں۔ اقبال نے جسے خدا کا علم کہا ہے اُس کے ساتھ اِس دنیا کا تعلق ظاہر ہے۔ ۴۔ فرشتوں کی دنیا (بعض اوقات اِسے جبروت بھی کہا جاتا ہے مگر اس کے نام پر اختلاف ہے)۔ بہرحال اقبال جسے خدا کی قوت کہتے ہیں اُس کا فرشتوں کی دنیا کے ساتھ تعلق بھی ظاہر ہے کیونکہ خدا کی قوت کے مظاہر وہ ظاہری اور باطنی قوانین ہیں جن کے ذریعے فرشتے ’’اپنے رب کے حکم سے ہر کام کرتے ہیں۔‘‘ ۵۔ عالمِ ناسوت یعنی انسانی دنیا۔ اقبال نے خدا کے اسلامی تصور میں ابدیت کے عنصر کو شامل کیا ہے۔ انسانی دنیا کی بے ثباتی بھی اِسی وجہ سے ہے کہ حقیقی دوام صرف خدا کی ذات کو حاصل ہے اور انسان اِسی بے ثبات دنیا میں پیدا ہونے کے باوجود دائمی زندگی بھی اِسی وجہ سے حاصل کر سکتا ہے کیونکہ اُسے پیدا کرنے والا خدا ہمیشہ رہنے والا ہے۔ گویا یہ دنیا بے ثبات ضرور موجود ہے مگر چونکہ اسے پیدا کرنے والا اول و آخر ہے لہٰذا دوام کا عکس بھی اِسی دنیا کے باطن میں موجود ہو سکتا ہے: نگہ پیدا کر اے غافل، تجلی عینِ فطرت ہے کہ اپنی موج سے بیگانہ رہ سکتا نہیں دریا ۳ تشکیل ِ جدید کا چوتھا سوال یہ ہے کہ اس کائنات کی بناوٹ میں اگر کوئی دائمی عنصر موجود ہے تو ’’اُس کے ساتھ ہمارا رشتہ کیا ہے؟‘‘ جاویدنامہ کا چوتھا باب ’فلکِ مریخ‘ ہے جہاں ایک ایسی مخلوق آباد ہے جس کے بارے میں مولانا روم، اقبال سے کہتے ہیں کہ ان کے جسم ان کے دلوں میں ہیں۔ یہ لوگ تقدیر کے بھید سے بھی واقف ہیں اور جب ان میں سے کسی کی موت قریب آتی ہے تو وہ چند روز قبل اس کا اعلان کر دیتا ہے۔ وقت آنے پر وہ خوشی خوشی اپنے آپ میں سمٹ جاتا ہے اور چونکہ ان کے جسم اور روح میں ثنویت نہیں ہے لہٰذا یہی ان کی موت ہوتی ہے۔ چوتھا خطبہ ہے'The Human Ego - His Freedom and Immortality' اور اس عنوان کا ترجمہ سید نذیر نیازی نے ’خودی، جبر و قدر اور حیات بعد الموت‘ کیا ہے۔ اس خطبے کا جاویدنامہ کے فلکِ مریخ سے تعلق اس کے عنوان ہی سے ظاہر ہو جاتا ہے۔ اس میں اقبال نے تقدیر اور حیات بعد الموت کے بارے میں جو خیالات ظاہر کیے ہیں ان پر خاصی بحث ہوئی ہے لیکن تعجب ہے کہ بحث کرنے والوں نے ان خیالات کو فلکِ مریخ کے ذریعے بیان کی ہوئی مثالوں کی روشنی میں دیکھنے کی کوشش ہی نہیں کی! سورۂ فاتحہ کی چوتھی آیت ہے مالک یوم الدین یعنی ’’یومِ الدین کا مالک‘‘۔ یوم ِالدین کا ترجمہ فیصلے کا دن یعنی قیامت کیا جاتا ہے لیکن ظاہر ہے کہ اس آیت کے مضمرات صرف قیامت تک محدود نہیں ہیں کیونکہ دین انسان اور خدا کے درمیان ایک خاص قسم کے عہد و پیمان کا نام ہے۔ اس لحاظ سے یومِ الدین بیک وقت تین مواقع کی طرف اشارہ کرتا ہے: اول، وہ دن بھی ہو سکتا ہے جب یہ عہد و پیمان قائم ہوئے تھے یعنی روزِ الست یا ہماری پیدائش سے پہلے کی کوئی گھڑی جب وہ اصول قائم ہوئے جو ہمارے اور خدا کے تعلق کی بنیاد ہیں۔ دوم، موجودہ لمحہ جب ہمیں خدا کے ساتھ اپنے عہد یعنی دین میں سے وہ ادا کرنا ہے جو ہمارے ذمے ہے: ’’یہ گھڑی محشر کی ہے تُو عرصۂ محشر میں ہے‘‘! سوم، وہ دن جب خدا اس عہد میں سے اپنا حصہ ہمیں ادا کرے گا یعنی روزِ قیامت۔ اس طرح یومِ الدین ماضی، حال اور مستقبل تینوں پر محیط ہے اور ان تینوں کے باہمی تعلق میں انسانی خودی کی آزادی اور اس کے دوام کے مضمرات پنہاں ہیں۔ تشکیل ِ جدید کا پانچواں سوال ہے کہ اس کائنات میں ہمارا مقام کیا ہے؟ جاویدنامہ کا پانچواں باب ’فلکِ قمر‘ ہے جہاں اقبال کی ملاقات ایسی ارواح سے ہوتی ہے جنہیں جنت کی پیش کش ہوئی مگر اُنہوں نے اسے قبول کرنے کی بجائے سیرِ دوام کو ترجیح دی۔ یہ روحیں منصور حلاج، قرۃ العین طاہرہ اور مرزا غالب ہیں۔ اسی فلک پر ابلیس خواجۂ اہلِ فراق کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ ان تمام ہستیوں کے ساتھ اقبال کی گفتگو اس سوال پر کافی روشنی ڈالتی ہے کہ اس کائنات میں ہمارا مقام کیا ہے۔ پانچواں خطبہ ہے 'The Spirit of Muslim Culture' یعنی ’اسلامی ثقافت کی روح‘ جس کا آغاز ہی واقعہ معراج کے تذکرے سے ہوتا ہے اور اس میں اسلامی ثقافت کو رسول اکرمؐ کے فیوض میں سے ایک فیض کے طور پر دیکھنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس کے عنوان میں لفظ اسپرٹ یعنی روح قابلِ غور ہے کیونکہ اقبال کے نزدیک کسی قوم کی تکمیل اس بات سے ہوتی ہے کہ وہ بھی فرد کی طرح خودی حاصل کر لے۔ اس لحاظ سے اسلامی ثقافت کی ’’روح‘‘ محض محاورہ نہیں رہتا بلکہ یہ حقیقتاً ایک رُوح یا ایک خودی کا ذکر بھی ہو سکتا ہے۔ سورۂ فاتحہ کی پانچویں آیت ہیایاک نعبد و ایاک نستعین یعنی ’’ہم آپ ہی کی عبادت کرتے ہیں اور آپ ہی سے مدد چاہتے ہیں۔‘‘ یہ نہ صرف پانچویں سوال کا جواب ہے بلکہ اسلامی ثقافت کی روح بھی یہی ہے۔ تشکیل ِ جدید کا چھٹا سوال یہ ہے کہ کائنات میں ہمارا جو مقام ہے ’’اُس مقام کے لحاظ سے ہمارے لیے کون سا طرزِ عمل مناسب ہے؟‘‘ جاویدنامہ کا چھٹا باب ’فلکِ زحل‘ ہے ہندوستان کی زبوں حالی دکھائی دیتی ہے، وہاں دو غدار یعنی میرجعفر اور میر صادق خون کے سمندر میں سزا پا رہے ہیں اور آسمان سے روحِ ہندوستان بیڑیوں میں جکڑی ہوئی نمودار ہو کر نوحہ کرتی ہے۔ ان سب چیزوں سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ کائنات میں اپنے مقام کے لحاظ سے ہندوستان کے باشندوں کا جو کردار ہونا چاہیے وہ اُسے ادا نہیں کر رہے تھے۔ یہ کردار کیا ہونا چاہیے اس کا اندازہ روحِ ہندوستان کے نوحے سے ہوتا ہے جس میں وہ شکایت کرتی ہے کہ ہندوستان والے فرسودہ رسوم کے پھندے میں گرفتار ہیں اور آزادی کا تصور بھی انہیں وطن کو معبود بنانے پر آمادہ کیے دے رہا ہے۔ چھٹا خطبہ ہے'The Principle of Movement in the Structure of Islam' جس کا ترجمہ سید نذیر نیازی نے ’الاجتہاد فی الاسلام‘ کیا ہے۔ یہی وہ مشہور خطبہ ہے جسے خطبۂ اجتہاد بھی کہا جاتا ہے کیونکہ اس میں اجتہاد کا دروازہ بند ہونے کے تصور کی مخالفت کی گئی ہے اور اسلام کی نشاۃ الثانیہ کے حوالے سے بعض اہم نکات بیان ہوئے ہیں۔ اس کے مضامین سے ’فلکِ زحل‘ کا تعلق بالکل واضح ہے۔ اس کا تعلق چھٹے سوال سے بھی ہے یعنی ہمارے لیے کون سا طرزِ عمل مناسب ہے؟ اِس سوال کا جواب سورۂ فاتحہ کی چھٹی آیت سے بہتر کیا ہو سکتا ہے: اھدنا الصراط المستقیم یعنی ’’ہمیں سیدھا راستہ دکھائیے!‘‘ تشکیل ِ جدید کا ساتواں سوال ہے، ’’کیا مذہب ممکن ہے؟‘‘ جاویدنامہ کا ساتواں باب ’آنسوئے افلاک‘ ہے جہاں اقبال فردوس سے گزرتے ہوئے بالآخر خدا کے حضور پہنچتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ اس سوال کا بہت خوبصورت جواب ہے۔ تشکیل ِ جدید کا ساتواں خطبہ مذہب کے ایک ایسے ہی تصور سے شروع ہوتا ہے۔ یہاں اقبال نے مذہبی زندگی کو تین مراحل میں تقسیم کیا ہے جن میں سے پہلا مرحلہ شریعت پر عمل، دوسرا مرحلہ مذہبی حقائق کو قابل فہم انداز میں پیش کرنے اور تیسرا مرحلہ ان حقائق کا سرچشمہ اپنے وجود میں دریافت کرنے سے عبارت ہے۔ دلچسپ بات ہے کہ اِسی خطبے کے بالکل اختتام پر اقبال نے جاویدنامہ کی ’تمہیدِ زمینی‘ سے جن مصرعوں کا انگریزی ترجمہ پیش کیا ہے اُن میں مولانا روم نے اقبال کو نصیحت کی ہے کہ اپنے وجود پر تین گواہ تلاش کیے جائیں۔ غور کیا جائے تو خطبے کے پہلے پیراگراف میں جن تین مراحل کا ذکر ہے وہی خطبے کے آخری پیراگراف میں ’’تین گواہ‘‘ بن جاتے ہیں: زندۂٖ یا مردۂٖ یا جاں بلب از سہ شاہد کن شہادت را طلب شاہدِ اوّل شعورِ خویشتن خویش را دیدن بنورِ خویشتن شاہدِ ثانی شعورِ دیگرے خویش را دیدن بنورِ دیگرے شاہدِ ثالث شعورِ ذاتِ حق خویش را دیدن بنورِ ذاتِ حق پیشِ ایں نور اربمانی استوار حیّ و قائم چوں خدا خود را شمار! [ترجمہ از احمد جاوید]: تم زندہ ہو یا مردہ ہو یا جاں بلب تین گواہوں سے گواہی مانگو پہلا گواہ ، اپنا آپ جاننا خود کو اپنے نور سے دیکھنا دوسرا گواہ، غیر کا شعور خود کو دوسرے کے نور سے دیکھنا تیسرا گواہ، ذات حق کی معرفت خود کو ذات حق کے نور سے دیکھنا اگر تم اُس نور کے آگے ٹکے رہو تو خود کو خدا کی طرح زندہ و پائندہ گنو! شاعری کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ یہ مجرد خیالات کو مجسم صورت میں پیش کرنے پر قادر ہوتی ہے۔ مذہبی زندگی کے تین مراحل ایک مجرد خیال ہے اور جاویدنامہ کے ’’تین گواہ‘‘ اس کی تجسیم معلوم ہوتے ہیں۔ یوں ساتویں خطبے کے عنوان میں جو سوال اُٹھایا گیا ہے یعنی ’’کیا مذہب ممکن ہے؟‘‘ اُس کا جواب یہ نکلتا ہے کہ اپنے وجود پر تین گواہ تلاش کیے جائیں یا مذہبی زندگی کے تینوں مراحل سے گزر کر دیکھا جائے تو معلوم ہو جائے گا کہ مذہب ممکن ہے۔ سورۂ فاتحہ کی ساتویں اور آخری آیت ہے صراط الذین انعمت علیہم غیر المغضوب علیہم و الضآلینیعنی ’’اُن لوگوں کا راستہ جن پر انعام کیا گیا نہ اُن لوگوں کا جن پر غضب ہوا اور جو راہ سے بھٹک گئے‘‘۔ یہ آیت بھی اسی سوال کا قرآنی اور مستند جواب فراہم کرتی ہے کہ کیا مذہب ممکن ہے! یہ بات بھی معنی خیز ہے کہ اقبال نے تشکیل ِ جدید میں عام طور پر اپنے اشعار کا حوالہ دینے سے گریز کی ہے مگر کتاب کے بالکل آخر میں جاویدنامہ سے تیرہ اشعار کا ترجمہ پیش کر کے اسی پر کتاب کو ختم کر دیا ہے۔ یوں کتاب کا آخری لفظ ’’جاویدنامہ‘‘ بن جاتا ہے جو اِس اقتباس کے نیچے حوالے کے طور پر درج ہے۔ دُوسری طرف جاویدنامہ کے آخر میں ’خطاب بہ جاوید (سخنے بہ نژادِ نَو)‘ میں انہوں نے ایک طرح سے قاری کو تشکیل ِ جدید پڑھنے کی باقاعدہ ہدایت کی ہے: من بطبع ِ عصرِ خود گفتم دو حرف کردہ اَم بحرین را اندر دو ظرف! حرفِ پیچاپیچ و حرفِ نیش دار تاکنم عقل و دلِ مرداں شکار! ان اشعار کے نیچے حاشیے میں ’’حرفِ پیچا پیچ‘‘ پر نوٹ درج ہے: ’’تلمیح بہ کتاب تشکیل ِ جدید الٰہیاتِ اسلامیہ بزبانِ انگریزی‘‘۔ کیا یہ اس بات کا واضح ثبوت نہیں کہ اقبال چاہتے تھے کہ تشکیل ِ جدید اور جاویدنامہ ایک دوسرے کے ساتھ رکھ کر پڑھی جائیں؟ کیسی ستم ظریفی ہے کہ جاویدنامہ پر بھی متعدد مقالات لکھے گئے جن میں نوبل انعام یافتہ مصنفین کے لکھے ہوئے دیباچے بھی شامل ہیں اور تشکیل ِ جدید پر تو یہاں تک طبع آزمائی ہوئی کہ صرف اِس کتاب پر باقاعدہ سیمینار تک منعقد کیے گئے مگر کسی سے اِتنا بھی نہ ہوا کہ دونوں کتابوں کا تقابلی مطالعہ تو درکنار صرف اِسی پر توجہ دے دی جاتی کہ جاویدنامہ کے سات ابواب اور تشکیل ِ جدید کے سات خطبات کے موضوعات مشترک ہیں۔ ایک طرح سے کہا جا سکتا ہے کہ ابھی تک اِن دونوں کتابوں کی فہرستِ ابواب ہی پوری توجہ سے نہیں پڑھی گئی، ان کے دیباچوں، تمہیدوں اور نفس ِ مضمون تک پہنچنے میں نجانے اور کتنا عرصہ لگے گا! ۴ تشکیل ِ جدید کے مطابق قرآن نے تین ذرائع علم بتائے ہیں جو وجدان، عالم ِ فطرت اور تاریخ ہیں۔ یہاں تشکیل ِ جدید کے بارے میں جو معروضات یہاں پیش کی گئیں وہ ایک طرح سے اقبال کے وجدان کو سمجھنے کی کوشش ہے کیونکہ اس مطالعے میں یہ طریقہ اختیار کیا گیا کہ تشکیل ِ جدید کے مختلف حصوں کا آپس میںاور پوری کتاب کا اقبال کی دیگر تصانیف کے علاوہ قرآن شریف کے ساتھ تقابلی مطالعہ کیا جائے۔ مطالعے کا دُوسرا طریقہ ’’عالم ِ فطرت‘‘ کے ساتھ موازنہ ہو سکتا ہے جس کا مطلب یہ ہو گا کہ ہم تشکیل ِ جدید کا موازنہ سائنس اور فلسفے کے موجودہ علم یعنی مختلف سائنس دانوں اور فلسفیوں کی تحریروں کے ساتھ کریں۔ اس قسم کے مطالعے میں یہ بات ضرور پیش ِ نظر رکھنی چاہیے کہ تشکیل ِ جدید کی اشاعت کو اَب ستّر برس سے زیادہ گزر چکے ہیں۔ اس عرصے میں سائنس اور فلسفے کے منظرنامے میں چار بنیادی تبدیلیاں آئی ہیں جن کا اِدراک بدقسمتی سے ہمارے دانشوروں کو عام طور پر نہیں ہو سکا ہے۔ پہلی تبدیلی یہ ہے کہ سائنس میں مغرب کی برتری اب قصہ ٔ پارینہ بن چکی ہے۔ آج مشرقی ممالک میں بھی سائنسی معلومات پر عبور رکھنے والوں کی کوئی کمی نہیں ہے اور ان ممالک میں پاکستان بھی شامل ہے۔ مغرب کی برتری صرف ٹیکنالوجی تک محدود رہ گئی ہے اور اُس کی وجہ مغرب کا اقتصادی تسلط ہے۔ لہٰذا آج اسلام اور سائنس کا موازنہ مشرق و مغرب کا موازنہ نہیں بلکہ مسلم معاشروں کے اپنے اندر موجود دو اہم صداقتوں کا موازنہ اور اُن کے درمیان ربط اور ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوشش ہے۔ دُوسری تبدیلی یہ ہے کہ اقبال نے جن مغربی فلسفیوں کے نظریات کا تشکیل ِ جدید میں حوالہ دیا وہ اُس زمانے میں مغرب کے بڑے نام تھے مگر اَب اُن میں سے اکثر خود مغرب میں معتوب ہیں یا ان کی وہ اہمیت باقی نہیں رہی جو اُس وقت تھی۔ اس کی بہت بڑی مثال ولیم جیمز ہے۔ اس کے برعکس اقبال کی وُقعت مشرق بالخصوص پاکستان میں صرف بڑھی ہے، کم نہیں ہوئی۔ بڑے فلسفیوں مثلاً کانٹ، ہیگل، نیٹشے، آئن سٹائن اور برگساں وغیرہ کی فکری برتری کے بارے میں بہت کچھ کہا جا سکتا ہے مگر تہذیبی حوالوں کے طور پر وہ مغرب میں اُتنے ہمہ گیر نہیں ہیں جتنے پاکستان اور بعض مشرقی ممالک میں اقبال ہیں۔ ضروری نہیں کہ اِس سے یہ ثابت ہو جائے کہ اقبال زیادہ بڑے مفکر تھے بلکہ عین ممکن ہے کہ اقبال کی ہمہ گیری اور قطعیت اِس وجہ سے ہو کیونکہ اُنہوں نے اپنی فکر کو شعر کے ذریعے پیش کیا۔ بہرحال یہ فرق ملحوظ رکھنا ضروری ہے کہ مغرب کا کوئی جدید فلسفی شائد ہی اپنی تہذیب کے لیے اُتنا بڑا، ہمہ گیر اور قطعی حوالہ ہو جیسے اقبال اپنی تہذیب کے لیے بن چکے ہیں۔ نیٹشے کے تہذیبی اثرات مغرب میں وسیع ضرور ہیں مگر دوسری جنگِ عظیم کے بعد سے وہ بیچارہ ایک طرح سے مغرب کا اُسامہ بن لادن بن کر رہ گیا ہے یعنی اُسے پسند کرنے کا دعویٰ کرنے والے بہت عجیب نگاہوں سے دیکھے جاتے ہیں! پھر یہ بھی ہے کہ اقبال کے معاصر مغربی فلسفیوں کے افکار آج گردآلود معلوم ہوتے ہیں۔ آئن سٹائن کے نظریے میں ابھی نجانے مزید کتنے امکانات موجود ہیں جنہیں وقت کے ساتھ سامنے آنا ہے مگر پھر بھی آئن سٹائن ہمیں بیسویں صدی ہی کا باشندہ معلوم ہوتا ہے۔ اس کے برعکس اقبال دُوسری جنگ عظیم سے پہلے وفات پانے کے باوجود پوری طرح اکیسویں صدی کے آدمی معلوم ہوتے ہیں بلکہ یوں لگتا ہے جیسے وہ آج بھی موجودہ نسل کی نسبت اگلی نسل سے زیادہ قریب ہوں۔ اِس کی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ اقبال نے آئن سٹائن، برگساں اور ولیم جیمز جیسے مفکروں کے نظریات میں جو اِمکانات دیکھے تھے مغرب اُن امکانات کو ٹھیک طرح دریافت نہیں کر سکا ہے۔ اِس کا اندیشہ بھی اقبال نے خود ہی پیامِ مشرق کے دیباچے میں کر دیا تھا کہ مستقبل قریب میں مغرب میں کسی صحت مند نصب العین کے نشو و نما پانے کے امکانات محدود ہیں۔ چنانچہ اِن مفکروں کے موجودہ مغربی جانشینوں کی علمی کاوشیں عام طور پر ’’سوڈو سائنس‘‘ یعنی جھوٹی سائنس کا خطاب پاتی ہیں۔ اِس کی ایک مثال رُوپرٹ شیلڈریک ہے جسے بیک وقت کچھ لوگ برگساں کا سب سے زیادہ ہونہار جانشین اور کچھ لوگ عطائی قرار دیتے ہیں۔ چنانچہ تشکیل ِ جدید میں دیے گئے مغربی حوالوں پر غور کرتے ہوئے یہ بہت بڑا مسئلہ ہمارے سامنے موجود ہوتا ہے کہ اگر اِن مغربی مصنفین کے بارے میں مغربی دانش کے موجودہ روّیے کی پیروی کی جائے تو ہمارے گمراہ ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں یعنی خطرہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم اقبال کے اصل مدعا سے دُور نکل کر فروعی مباحث میں اُلجھتے چلے جائیں۔ آج اگر مغرب میں ایسے حوالے تلاش کرنے ہوں جن کا اقبال کی فکر کے ساتھ کچھ تھوڑا بہت موازنہ ہو سکے تو یہ حوالے زیادہ معتبر ناموں میں نہیں بلکہ بازاری مصنفوں میں ملیں گے مثلاً آئن رَینڈ، ایلوِن ٹوفلر، ہاورڈ گارڈنر، اسٹیفن کوی، جیک ریڈفیلڈ وغیرہ۔ اِن میں سے آخری نام تو ایسا ہے جس کا حوالہ دینا ہی بہتیرے اصحابِ علم کے نزدیک بڑی بدمذاقی ہو گا۔ بقیہ ناموں میں سے بھی کوئی ایسا نہیں ہے جسے متفقہ طور پر صفِ اول کے مصنفوں میں شمار کیا جاتا ہو۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ وہاں کے عوام میں اِنہی لوگوں کے نظریات اور انہی کی تصانیف مقبول ہیں چنانچہ ان کی تعدادِ اشاعت بھی صفِ اول کے موجودہ مفکرین سے کہیں زیادہ ہے۔ یہ ایک عجیب صورت حال ہے جس میں سے کئی نکتے نکالے جا سکتے ہیں۔ تیسری اور سب سے اہم تبدیلی وہ ہے جس کی ابتدا پہلی جنگِ عظیم کے ساتھ ہوئی اور جو دُوسری جنگِ عظیم کے اختتام کے بعد پوری طرح مکمل ہوئی۔ ہم اسے ’’نئی رہبانیت‘‘ کہہ سکتے ہیں جو آج مغربی فکر پر پوری طرح چھائی ہوئی دکھائی دیتی ہے (ادب کے نوبل پرائز پانے والے مصنفوں کی فہرست سے بھی اندازہ لگایا جا سکتا ہے)۔ تشکیل ِ جدید میں آئن سٹائن، برگساں اور ولیم جیمز وغیرہ کے افکار کی وجہ سے مغربی فکر میں جن مثبت تبدیلیوں کے پیدا ہونے کی توقع نظر آتی ہے وہ اگر پوری نہیں ہوئی تو اِس کی وجہ یہ بھی ہے کہ دوسری جنگ عظیم اور نوآبادیاتی نظام کے خاتمے کے بعد سے مغرب میں جو علمی رویے فروغ پانے لگے ہیں وہ ان میں سے بعض مفکروں کو اچھی نظر سے نہیں دیکھتے۔ ظاہر ہے کہ مغربی فکر کے اِن نئے معتبر ناموں سے اقبال کا موازنہ کرنے پر دو قسم کے خلط مبحث پیدا ہونے کا اندیشہ ہے۔ پہلا خلط مبحث یہ ہے کہ تشکیل ِ جدید میں مغرب کے جن مفکروں کی فکر سے اچھی توقعات وابستہ کی گئی ہیں وہ نئی رہبانیت کی رُو سے معتوب قرار پاتے ہوں تو اقبال کو بھی صرف اس لیے قابلِ اعتراض سمجھ لیا جائے۔ دوسرا خلط مبحث یہ ہے کہ اقبال اور مغرب کی نئی رہبانیت کو ساتھ ساتھ لے کر چلنے کی کوشش کی جائے۔ یہ بات ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہے کہ مغربی فکر کے جدید رجحانات کے بارے میں اقبال نے ۱۹۲۳ء میں پیامِ مشرق کے دیباچے میں ایک اندیشہ ظاہر کیا تھا اور معلوم ہوتا ہے کہ وقت نے اُن کے اس اندیشے کی تائید کی ہے: خالص ادبی اعتبار سے دیکھیں تو جنگِ عظیم کی کوفت کے بعد یورپ کے قوائے حیات کا اضمحلال ایک صحیح اور پختہ ادبی نصب العین کے لیے نامساعد ہے۔ بلکہ اندیشہ ہے کہ اقوام کی طبائع پر وہ فرسودہ، سست رگ اور زندگی کی دشواریوں سے گریز کرنے والی عجمیت غالب نہ آ جائے جو جذباتِ قلب کو افکارِ دماغ سے متمیز نہیں کر سکتی۔ ۵ تشکیل ِ جدید کے مطالعے کا تیسراطریقہ تاریخی حقائق کے ساتھ اس کا موازنہ ہے۔ خطبات کے بعض حصوں کو سمجھنے کے لیے یہ ضروری بھی نظر آتا ہے۔ مثال کے طور پر ’’روحانی جمہوریت‘‘ جس کا تذکرہ چھٹے خطبے کے آخری جملے میں ہے اُسے سمجھنے کے لیے شائد خطبات اور تاریخٰ شہادتوں کا تقابلی مطالعہ ناگزیر ہو۔یہ اصطلاح جو ماہرینِ اقبالیات کے لیے معمہ بنی ہوئی ہے اُس کی وجہ بھی یہی معلوم ہوتی ہے کہ اسے تاریخ کی روشنی میں دیکھنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی۔ اقبال کے الفاظ یہ ہیں: Let the Muslim of to-day appreciate his position, reconstruct his social life in the light of ultimate principles, and evolve, out of the hitherto partially revealed purpose of Islam, that spiritual democracy which is the ultimate aim of Islam. اِن الفاظ سے روحانی جمہوریت کے بارے میں مندرجہ ذیل باتیں معلوم ہوتی ہیں: ۱ یہ اسلام کا اصل ہدف ہے۔ ۲ اس کا ارتقا ٔ دورِ جدید کے مسلمانوں کے ہاتھوں ممکن ہے۔ ۳ یہ ارتقا ٔ اسلام کے اُن مقاصد کی روشنی میں ہو گا جو ابھی تک صرف جزوی طور پر سامنے آئے ہیں۔ ان تینوں باتوں پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ روحانی جمہوریت کی کوئی نظری تعریف پہلے سے پیش کی ہی نہیں جا سکتی کیونکہ اول تو یہ ایک ارتقا کے نتیجے میں سامنے آئے گی اور دوسرے اِس ارتقأ میں اسلام کے وہ مقاصد بھی اہم کردار ادا کریں گے جن سے ہم ابھی پوری طرح واقف ہی نہیں ہیں۔ مغربی علم و دانش خواہ وہ پرانے مغرب کی مادیت پرستی ہو یا مغرب کی نئی رہبانیت ہو اُس کی رُو سے یہ ایک ایسا معمہ لگتا ہے جسے حل نہیں کیا جا سکتا۔ مادیت پرستی کا رجحان رکھنے والی مغربی علم و دانش ہر چیز کی نظری تعریف پہلے سے چاہتی ہے۔ اس نقطہ ٔ نظر سے یہ الجھن پیدا ہوتی ہے کہ اگر روحانی جمہوریت کی پہلے سے تعریف نہیں کی گئی تو ہم اِسے کیسے پہچانیں؟ نئی رہبانیت چیزوں کو صرف روایتی معلومات کی روشنی میں دیکھنا چاہتی ہے۔ روحانی جمہوریت کے تصور کی بنیاد ہی اِس مفروضے پر ہے کہ اسلام کے تمام مقاصد ابھی پوری طرح سامنے نہیں آئے ہیں۔تو پھر جب وہ نئے مقاصد سامنے آئیں گے تو اُنہیں کس بنیاد پر اسلام کے مقاصد کہا جائے گا؟ انہیں بے راہ روی کیوں نہ سمجھا جائے؟ اِس معمے کو حل کرنے کے لیے اقبال کے تصورِ تاریخ کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اِس تصورِ تاریخ کے بنیادی اجزا مندرجہ ذیل ہیں: ۱ انسانی امور میں خدا انسان کے ساتھ شریکِ کار کی حیثیت میں شامل ہوسکتا ہے ۲ رسولِ اکرمؐ آخری نبی ہیں لہٰذا ان کی بعثت سے انسانی تاریخ کا ایک سنہرا دَور شروع ہوا جس کے اثرات تاریخ میں بتدریج ظاہر ہو رہے ہیں۔ یہ سب اپنی امکانی صورت میں قرآن شریف میں موجود ہیں۔ ۳ قوم ایک اجتماعی خودی بھی بن سکتی ہے۔ یہ اجتماعی خودی ایک فردِ واحد کی طرح فیصلے کر سکتی ہے اور ان پر عمل درآمد بھی کروا سکتی ہے۔ ۴ فرد کی خودی اپنی جگہ نامکمل ہے جب تک وہ بیخودی کے ذریعے اجتماعی خودی سے وصال حاصل کر کے اُس کی ہمراز نہ بن جائے۔ ۵ مسلمان قوم کا اجماع کبھی گمراہی پر نہیں ہو سکتا کیونکہ قوم کی اجتماعی خودی تمام افراد کے ساتھ تعلق رکھتی ہے۔ ایک فرد گمراہ ہو سکتا ہے مگریہ ممکن نہیں ہے کہ پوری مسلمان قوم متفقہ طور پر غلط فیصلہ کرے۔ تشکیل ِ جدید میں جو خیالات جابجا بکھرے ہوئے ہیں اُن سے ان پانچ بنیادی تصورات کو اقبال کے تصورِ تاریخ کی اَساس قرار دیا جا سکتا ہے۔ ان کی روشنی میں روحانی جمہوریت کا معمہ حل کرنے کی کوشش کی جائے تو یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اسلام کے نئے مقاصد کا ظہور ممکن ہے کیونکہ خدا نے انسانی معاملات میں دخل دینا ترک نہیں کر دیا ہے لیکن اب یہ الوہی مداخلت کسی نئے نبی کی بعثت کے ذریعے نہیں بلکہ قرآن میں پنہاں امکانات کے ظہور میں آنے سے ہو گی۔ یہ امکانات اُن افراد کی روحوں پر منکشف ہو سکتے ہیں جنہوں نے اپنی انفرادی خودی کو مسلمان قوم کی اجتماعی خودی میں مٹا دیا ہے۔ ان کے صحیح یا غلط ہونے کا حتمی فیصلہ مسلمانوں کی اکثریت یا اتفاقِ رائے کے ذریعے ہو گا۔ رُوحانی جمہوریت اِنہی نئے مقاصد کی روشنی میں خودبخود وجود پائے گی بشرطیکہ مسلمان اپنی قوم کی اجتماعی خودی کو اہمیت دیتے ہوئے اِسی کے حوالے سے اپنی تاریخ کی تعبیر کریں۔ اقبال کے بیان کیے ہوئے اُصول تاریخ کی ایسی تعبیر کرنے میں مدد دیتے ہیں۔ نمونے کے طور پر ہمارے پاس خطبہ ٔ الٰہ آباد موجود ہے جس میں موجودہ زمانے کی تاریخ کو انہی اصولوں کی روشنی میں پرکھ کر بعض نتائج حاصل کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ باب ۱۱ خطبہ الٰہ آباد خطبہ ٔ الٰہ آباد اگرچہ وہ دستاویز ہے جس کی بنیاد پر وجود میں آنے کا دعویٰ پاکستان کو ہے مگر اس کا تفصیلی مطالعہ بہت کم ہوا ہے۔ اُردو میں ندیم شفیق ملک کی کتاب خطبہ ٔ الٰہ آباد اور انگریزی میں میری تصنیف Iqbal: An Illustrated Biography (2006)میں شامل متن کے حواشی اِس سلسلے میں کچھ پیش رفت ہیں۔ میرے خیال میں اُس زمانے کی سیاسی صورت حال سے قطع ِ نظر اِس خطبے کی اہمیت یہ بھی ہے کہ اس کی مدد سے اقبال کے تصورِ تاریخ کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ زیرِ نظر تصنیف میں اس کا یہی پہلو سامنے رکھا گیا ہے جو میرے خیال میں پہلے کبھی اِس طرح سامنے نہیں آیا تھا۔ ۱۹۳۰ء میں مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس کا خطبہ ٔ صدارت اقبال نے ایسے وقت لکھا جب وہ تشکیل ِ جدید کے پہلے چھ خطبات مکمل کر چکے تھے جو اُسی برس لاہور سے کتابی شکل میں شائع ہوئے (بعد میں ان میں مزید ایک خطبے کا اضافہ ہوا اور اضافہ شدہ اڈیشن آکسفورڈ یونیورسٹی پریس لندن سے شائع ہوا)۔ اسی دوران وہ جاویدنامہ بھی لکھ رہے تھے جو اُن کا سب سے بڑا شعری شاہکار قرار پانے والا تھا (یہ دو برس بعد ۱۹۳۲ء میں شائع ہوا)۔ اگرچہ اُنہوں نے خطبے میں پاکستان کا نام نہیں لیا اور یہ نام بعد میں تجویز کیا گیا مگر تحریکِ پاکستان نے اِسی دستاویز کو اپنی اساس قرار دیا۔ تشکیل ِ جدید کے باب میں ذکر ہو چکا ہے کہ پہلے خطبے کے آغاز میں اقبال نے بعض سوالات کو مذہب، شاعری اور فلسفے کے درمیان مشترک قرار دیا ہے یعنی ’’اس کائنات کی نوعیت اور عمومی ساخت کیا ہے جس میں ہم رہتے ہیں؟ کیا اس کی بناوٹ میں کوئی دائمی عنصر موجود ہے؟ اس کے ساتھ ہمارا رشتہ کیا ہے اور اس میں ہمارا مقام کیا ہے؟ اس مقام کے لحاظ سے ہمارے لیے کون سا طرزِ عمل مناسب ہے؟‘‘ خطبہ ٔ الٰہ آباد کا موضوع سیاست ہے مگر علمِ سیاست بھی تو فلسفے ہی کی شاخ ہے۔ اس لحاظ سے خطبہ ٔ الٰہ آباد کا مطالعہ اِس لحاظ سے بھی کیا جا سکتا ہے کہ یہ ان بنیادی سوالوں کے کیا جوابات فراہم کرتا ہے۔ ان جوابات کی روشنی ہی میں ہم فیصلہ کر سکتے ہیں کہ اس دستاویز کی پاکستان اور دنیا کے لیے کیا اہمیت ہے اور ہمارے عہد کے ساتھ اس کا تعلق کیا ہے۔ ۱ پہلا سوال یہ ہے کہ جس کائنات میں ہم رہتے ہیں اُس کی نوعیت اور عمومی ساخت کیا ہے۔ اقبال کے یہاں اس کا جواب بہت واضح ہے اور وہی جواب انہوں نے خطبہ ٔ الٰہ آباد کے شروع میں دہرایا ہے یعنی کائنات کی اصل نوعیت روحانی ہے۔ اس لحاظ سے روح اور مادے میں ثنویت کی گنجائش نہیں ہے۔ سیاست پر اِس اصول کا اطلاق کیا جائے تو مذہب اور ریاست کو علیحدہ نہیں کیا جا سکتا: In Islam God and the universe, spirit and matter, church and state, are organic to each other. Man is not the citizen of a profane world to be renounced in the interest of a world of spirit situated elsewhere. To Islam matter is spirit realizing itself in space and time. ایک طرح سے یہ سیاست میں ایک نئی اَساس کی دریافت ہے اور اس کی بنیاد اِس بات پر ہے کہ جو بھی اصول معاشرے کے کسی ایک شعبے پر لاگو ہو وہی اصول تمام شعبوں پر لاگو ہونا چاہیے۔ ظاہر ہے کہ اس میں مذہب اور سیاست کی علیحدگی کی گنجائش نہیں رہتی مگر مذہب اور سیاست کی وحدت کا وہ مطلب ہرگز نہیں نکلتا جو مغرب کے کلیسائی دَور میں موجود تھا یا جسے ہماری بعض مذہبی سیاسی جماعتوں نے غالباً مغربی فکر سے بالواسطہ اثر قبول کر کے یا مغرب کے ردِ عمل میں رواج دینے کی کوشش کی ہے۔ مغرب کا سیاسی فلسفہ اور ہماری بعض مذہبی سیاسی جماعتیں اِس نکتے پر متفق ہیں کہ مذہب اور سیاست کی وحدت کا مطلب جمہوریت کی نفی ہے۔ اس بنیادی نکتے پر متفق ہونے کے بعد مغربی سیاسی فلسفی اور ہمارے مذہبی سیاسی رہنما صرف اِس بات پر اختلاف رکھتے ہیں کہ ایسا ہونا چاہیے یا نہیں؟ یہ تصور جس پر مغربی سیاسی فلسفہ اور ہماری مذہبی سیاسی جماعتیں متفق ہیں غالباً اِس وجہ سے وجود میں آیا ہے کیونکہ اسلام سے پہلے تمام مذاہب کسی نہ کسی قسم کے پروہتی نظام سے وابستہ ہوتے تھے۔ اقبال کے نزدیک ختم ِ نبوت کا مطلب یہ تھا کہ اب پروہتی نظام کی گنجائش باقی نہیں رہی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا تھا کہ اگر کوئی پروہت نہیں ہے تو پھر مذہب میں صحیح اور غلط کا فیصلہ کون کرے گا اور کس کی سند تسلیم کی جائے گی؟ اِس سوال کا منطقی جواب یہی ہے کہ مذہب کے پیروکار یعنی عوام خود ہی یہ سند بھی رکھیں گے خواہ اسے براہِ راست استعمال کریں خواہ اپنی سہولت کے لیے علما ٔ سے یہ کام لیں۔ چنانچہ اسلامی معاشرے میں مولوی یا عالم ِ دین کا ادارہ کلیسا یا پروہت سے اِس لحاظ سے بہت مختلف ہے کہ یہاں عالم ِ دین خواہ کسی بھی ذریعے سے سند حاصل کرے عوام کے درمیان اُس کی حیثیت عوام کی مرضی ہی سے متعین ہوتی ہے۔ بنیادی مثال یہ ہے کہ جس امام کے پیچھے نماز پڑھنے پر جماعت راضی نہ ہو اُس کے پیچھے نماز نہیں ہو سکتی۔ آج بھی عموماً محلوں میں مسجد کمیٹیاں ہوتی ہیں جو مسجد کے مولوی کا تقرر کرتی ہیں۔ چنانچہ اسلام میں مذہب کا بنیادی اصول جمہوری ہے۔ دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ مسلمان معاشرے میں عوام علمائے دین کا احترام کرتے ہیں اور بعض اوقات اُن کی اندھی تقلید کرنے پر بھی آمادہ ہوتے ہیں لیکن یہ تقلید جمہوریت کی نفی نہیں کرتی۔ جب عالم ِ دین کا ادارہ ہی اپنی اصل میں ایک جمہوری ادارہ ہے تو پھر اُس کا احترام کیوں نہ کیا جائے؟ مغرب میں جو رہنما عوام کی مرضی سے منتخب ہوتا ہے لوگ اُس کی خاطر بعض اوقات اپنی جان قربان کرنے پر بھی تیار ہو جاتے ہیں۔ اگر مسلمان معاشرے میں عوام علمائے دین کے بارے میں ایسا ہی رویہ رکھتے ہیں تو اِس سے جمہوریت کی نفی نہیں بلکہ جمہوریت کی تائید ہوتی ہے: اپنی ملت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمیؐ اقبال کا خیال تھا کہ زمانہ جاہلیت کے اثرات اور شہنشاہیت کے ورثے کی وجہ سے اسلام کے اِس بنیادی اصول کے لامحدود امکانات سامنے آنے کے لیے فضا سازگار نہ تھی۔ اب بادشاہتیں ختم ہو رہی ہیں تو ایک جمہوری مسلمان معاشرے کی بنیاد اُس مغربی سیاست پر نہیں ہو سکتی جو ریاست اور کلیسا کو الگ الگ دیکھتی ہے۔ اِس کا مطلب مذہبی ریاست بھی نہیں کیونکہ وہ کلیسا کے بغیر وجود میں نہیں آ سکتی۔ اِس کا مطلب کچھ اور ہے جسے ٹھیک سے سمجھنے کی ضرورت ہے لیکن اگر ہم اِسے نہ بھی سمجھ پائیں تو ایک اسلامی جمہوری ریاست میں اِس کا ارتقا ٔ خودبخود ہوتا رہے گا کیونکہ وہ ارتقا ٔ ہمارے سمجھنے یا نہ سمجھنے سے مشروط نہیں ہو سکتا بلکہ وہ تو اسلام کے اپنے اصولوں کی بنیاد پر ہو رہا ہے جنہیں نہ سمجھ کر ہم صرف اپنے معاشرے کے ارتقا ٔ کو سمجھنے سے محروم رہ سکتے ہیں مگر اُسے روک نہیں سکتے۔ ۲ کیا اِس کائنات کی بناوٹ میں کوئی دائمی عنصر موجود ہے؟ ظاہر ہے کہ یہ عنصر خدا ہے۔ خدا کے وجود کا عقلی ثبوت فلسفے کا مسئلہ ہے، سیاسیات کا مسئلہ نہیں ہے۔ رُوسو کے معاہدہ ٔ عمرانی کا کوئی تاریخ ثبوت موجود نہیں اور کارل مارکس کے نظریات جتنے بھی وزنی ہوں بہرحال اُن سے قائل نہ ہونے والے دانش مندوں کی ایک بڑی تعداد بھی موجود ہے لیکن اِس کے باوجود رُوسو اور مارکس کے نظریات کی بنیاد پر ریاستیں بھی قائم ہوئیں اور علم ِ سیاست کے مکاتیبِ فکر بھی وجود میں آئے۔ خدا کے وجود کی بنیاد پر علم ِ سیاسیات کے کسی مکتبِ فکر کی بنیاد رکھنے کے لیے یہ ضروری نہیں ہے کہ ہمارے پاس خدا کے وجود کا عقلی ثبوت موجود ہو بلکہ اس کے لیے صرف دو چیزیں ضروری ہیں: ۱ کسی معاشرے کے افراد خدا کو کائنات کی بناوٹ میں دائمی عنصر تسلیم کرتے ہوں۔ ۲ اس معاشرے میں زندگی کے تمام شعبے ایک جیسے اصولوں کے تابع ہوں۔ یہ دونوں شرائط بیک وقت پوری ہونا مغربی علم ِ سیاست کی رُو سے مشکل ہے۔ مغرب میں لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد خدا پر ایمان رکھتی ہے مگر وہاں روح اور مادے کی ثنویت کے عقیدے کی وجہ سے ریاست اور کلیسا بھی علیحدہ ہیں۔ علم ِ سیاست چونکہ صرف ریاست اور سیاست سے تعلق رکھتا ہے لہٰذا شہریوں کا عقیدہ اسے متاثر نہیں کرتا۔ خطبہ ٔ الٰہ آباد میں اسلامی معاشرے میں کسی کلیسا کے وجود سے انکار کیا گیا ہے لیکن خدا کے وجود کو ایک مسلمہ کے طور پر رکھا گیا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ خدا کا وجود ریاست کے معاملات سے متعلق ہو جاتا ہے۔ اِس بنیاد پر وجود میں آنے والے علم ِ سیاست کے دائرے میں خدا بھی شامل ہے۔ عملاً اِس کا مطلب یہ ہے کہ یہ نیا علم ِ سیاست تقدیرشناسی کا رجحان رکھتا ہو گا۔ ظاہر ہے کہ ہم جس قسم کے علم ِ سیاست کی بات کر رہے ہیں اُس کے مطابق معاشرے کے معاملات کو انسانی افعال کا نتیجہ ہونے کے ساتھ ساتھ خدا کی نشانی بھی سمجھا جائے گا۔ تاریخ کو خدا کی رضا اور اُس کی مصلحت کا پتہ لگانے کا ذریعہ بنایا جائے گا۔ انسانی معاملات میں خدا کی موجودگی کے اِس احساس کو ہم سیدھے سادے لفظوں میں تقدیر کہہ سکتے ہیں۔ یہ تقدیرشناسی خطبہ ٔ الٰہ آباد کا بنیادی موضوع ہے، مثلاً اقبال کہتے ہیں کہ رہنما سے اُن کی مراد ایسے لوگ ہیں جو اسلام کی رُوح اور اُس کی ’’تقدیر‘‘ سے واقف ہوں یعنی اُنہیں اسلام کے مستقبل کے بارے میں بصیرت حاصل ہو: By leaders I mean men who, by Divine gift or experience, possess a keen perception of the spirit and destiny of Islam, along with an equally keen perception of the trend of modern history. اس حوالے سے یہ بات نہ صرف دلچسپ بلکہ کسی قدر سنسنی خیز بھی ہے کہ شمال مغربی ہندوستان میں ایک مسلمان ریاست کو بھی اقبال نے ’’تقدیر‘‘ قرار دیا یعنی اس ریاست کی صرف تجویز ہی پیش نہیں کی بلکہ بڑے جچے تلے انداز میں اس کی باقاعدہ پیشین گوئی کی: I would like to see the Punjab, North-West Frontier Province, Sind and Baluchistan amalgamated into a single state. Self-Government within the British Empire, or without the British Empire, the formation of a consolidated North-West Indian Muslim state appears to me to be the final destiny of the Muslims at least of the North-West India. یہ خطبہ ٔ الٰہ آباد کے وہ دو مشہور ترین جملے ہیں جو سیکڑوں کتابوں میں نقل ہوئے مگر شائد ہی کبھی ان پر ڈھنگ سے توجہ دی گئی ہو۔ پہلے جملے کا مفہوم ہے، ’’میں پنجاب، صوبہ سرحد، سندھ اور بلوچستان کو ایک واحد ریاست کی صورت میں مدغم دیکھنا چاہوں گا۔‘‘ ظاہر ہے کہ یہ اقبال کی اپنی تجویز ہے۔ جہاں تک اس تجویز کا تعلق ہے وہ ایک متحدہ ریاست کی بات کرتے ہیں۔ دُوسرا جملہ تجویز نہیں بلکہ پیشین گوئی ہے یعنی اقبال نے ’’اٹل تقدیر‘‘ کی ترکیب محاورۃً یا محض زورِ بیان کے لیے استعمال نہیں کی بلکہ لفظی معنوں میں استعمال کی ہے۔ چنانچہ یہ جملہ پچھلے جملے کی نسبت زیادہ پیچدار ہے اور اِس میں متعدد امکانات کی گنجائش موجود ہے۔ اقبال کے لحاظ سے یہ تمام امکانات پردۂ تقدیر میں موجود رہے ہوں گے۔ ان میں سے کون سا امکان وقوع پذیر ہو، اِس کا اِنحصار افراد کے طرزِ عمل پر تھا مگر بہرحال مستقبل کے واقعات انہی امکانات کے دائرے میں واقع ہو سکتے تھے۔ اگلی چند دہائیوں میں ان میں سے ہر امکان سامنے بھی آیا اور اقبال کی پیشین گوئی حرف بحرف پوری بھی ہوئی۔ میں نے اپنی مختصر کتاب انداز محرمانہ میں اِس جملے کا تجزیہ یوں کیا ہے: عجیب بات ہے کہ تقسیمِ ہند کے معاملے میں جتنے امکانات بعد میں سامنے آئے اُن کی گنجایش اِس جملے کے الفاظ میں پہلے سے موجود دکھائی دیتی ہے یعنی : ۱۔ ممکن ہے یہ ریاست برطانوی ہندوستان کے اندر واقع ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ علٰیحدہ ہو۔ ۲۔ممکن ہے کہ اِس ریاست میں مجوزہ چار صوبوں کے سوا اور علاقے بھی شامل ہوں مگر اِن چار صوبوں سے کم نہیں ہو سکتے۔ ہم جانتے ہیں کہ ۱۹۴۶ء تک اِس بات کا امکان موجود تھا کہ پاکستان ہندوستان سے الگ بننے کی بجائے کیبنٹ مشن پلان کے مطابق ہندوستانی وحدت کے ساتھ رہتے ہوئے آئینی حقوق حاصل کرے (مؤرخ عائشہ جلال نے یہ بات قائداعظم کے بارے میں اپنی کتاب The Sole Spokesman میں دلائل کے ساتھ ثابت کی ہے)۔ چنانچہ دونوں امکانات میں سے جو بھی صورت پیش آتی وہ اُس دائرے ہی میں رہتی جسے اقبال نے خطبۂ الٰہ آباد میں ’’اٹل تقدیر‘‘ قرار دے کر مسلمانوں کو اطلا ع دی تھی۔ اِسی طرح مشرقی بنگال شروع میں پاکستان کا حصہ بنا اور بعد میں الگ ہو گیا جبکہ کشمیر کا حتمی فیصلہ بھی ابھی باقی ہے چنانچہ اِن علاقوں کے پاکستان کے ساتھ رہنے یا الگ ہونے کی گنجایش بھی اقبال کے الفاظ میں موجود ہے۔ غرض اقبال کی اپنی تجویز جو پہلے جملے میں ہے وہ تو صرف ان چار صوبوں کے یکجا ہو کر ایک ریاست بننے کی خواہش تک محدود ہے مگر اِس کے علاوہ جتنی ممکنہ صورتیں کبھی بھی سامنے آئی ہیں اُن کی گنجائش اُس دوسرے جملے میں پہلے سے موجود رہی ہے جس میں اقبال ’’اٹل تقدیر‘‘ کی خبر دینے کا دعویٰ کر رہے ہیں۔ خرم علی شفیق (۲۰۰۸) انداز محرمانہ، ص۳۵-۳۴ اِن واقعات کا اُسی صورت میں رونما ہونا جس طرح اقبال نے بیان کیا تھا خود اِس بات کا ثبوت ہے کہ یہ پیشین گوئی تھی۔ پھر اِس خطبے میں رہنما کی تعریف ہی یہی کی گئی ہے کہ اُسے اسلام کے مستقبل کے بارے میں بصیرت حاصل ہوتی ہے۔ خود اقبال کے اپنے بارے میں اس قسم کے دعوے اسرارورموز کی تمہید سے شروع ہو کر ارمغانِ حجاز تک بلا استثنیٰ اُن کی ہر مستقل تصنیف میں موجود ہیں۔ یہی نہیں بلکہ سوانحی شواہد بھی تائید کرتے ہیں کہ اقبال کو اپنے بارے میں یقین تھا کہ اُنہیں مستقبل کے بعض حالات کا علم دیا گیا ہے (تفصیل انداز محرمانہ میں ملاحظہ کیجیے)۔ یہ بات بھی قابل ِ ذکر ہے کہ تحریکِ پاکستان جن بزرگوں سے اپنا سلسلہ جوڑتی ہے اُن میں مستقبل کے بارے میں اس قسم کی بصیرت کا دعویٰ رکھنے والے صرف اقبال ہی نہیں بلکہ مجدد الف ثانی اور شاہ ولی اللہ نے بھی اپنے بارے میں اس قسم کے دعوے کیے تھے اور اُن کے دعوے بھی تاریخ کی روشنی میں سچ ثابت ہوتے دکھائی دیے مگر جہاں تک اقبال کا تعلق ہے اُنہوں نے مستقبل کے بارے میں اِس قسم کی بصیرت کا ماخذ بھی صاف بیان کر دیا ہے یعنی ’’قدرت کی طرف سے یا اپنے تجربے کی بدولت اسلام کی روح اور تقدیر کی بصیرت حاصل ہو اور دورِ جدید کی تاریخ کے رجحان کے بارے میں بھی ایسی ہی بصیرت رکھتے ہوں۔‘‘ اقبال نے گرامی کے نام خط میں قرآن شریف کے ایک خاص قسم کے مطالعے کو اپنی بصیرت کا مآخذ بتایا ہے اور وہ ایک ایسے تصورِ تاریخ کی بنیاد رکھنے کے خواہش مند نظر آتے ہیںجو ہمیں صرف ماضی ہی نہیں بلکہ مستقبل سے بھی خبردار کر سکے۔ اس کی بنیاد کسی قسم کے استدلال اور معروضی مطالعے پر ہو گی اگرچہ اس مطالعے میں قرآن کو ایک مرکزی حیثیت حاصل ہو گی۔ خطبہ ٔ الٰہ آباد میں جو ’’پیشین گوئی‘‘ ہے اُس پر پہنچنے کے لیے بھی اقبال تحقیق اور مطالعے کی دقتوں سے گزرے تھے۔ اُن کے فرزند ڈاکٹر جاوید اقبال کا بیان ہے کہ اقبال نے ایک جرمن نقشہ نویس سے ہندوستان کے نقشے بھی بنوائے تھے جن میں مسلم اکثریت کے اضلاع کو سبز نقطوں اور ہندو اکثریت کے اضلاع کو زرد نقطوں سے ظاہر کیا گیا تھا۔ چنانچہ اقبال کی پیشیک گوئی کی بنیاد مطالعے اور تحقیق پر ہے۔اس قسم کی بصیرت حاصل کرنے کے لیے ہمیں اگلے سوال کا جواب درکار ہے یعنی خدا کے ساتھ ہمارا کیا رشتہ ہے اور کائنات میں ہمارا مقام کیا ہے۔ ۳ خدا کے ساتھ ہمارے تعلق کا نام دین ہے۔ اب تک جو نکات بیان ہوئے اُن کی روشنی میں دین محض رسومات اور نظریات کا مجموعہ نہیں رہتا بلکہ خدا کی نشانیوں کے مشاہدے کا ذریعہ بھی قرار پاتا ہے۔یہ اس دین کا ہماری انفرادی زندگی میں اثر ہے مگر خود اِس دین کا اپنا مقصد کیا ہے؟ خطبہ ٔ الٰہ آباد میں اقبال نے ’’انسانیت کے حتمی امتزاج‘‘ کو دین اسلام کا مقصد بتایا ہے۔ سیاق و سباق سے معلوم ہوتا ہے کہ اس حتمی امتزاج سے اُن کی مراد یہ ہے کہ تمام انسان اپنی داخلی اور مذہبی آزادی سمیت ایک نقطہ ٔ نظر اختیار کر کے یک جان ہو جائیں۔ اقبال کے خیال میں اِسی مقصد کے تحت قرآن نے اہل ِ کتاب کو دعوت دی تھی کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ اُس نکتے پر اکٹھے ہو جائیں اور اُن کے اور مسلمانوں کے درمیان مشترک ہے یعنی توحید: Indeed the first practical step that Islam took towards the realization of a final combination of humanity was to call upon peoples possessing practically the same ethical ideal to come forward and combine. The Quran declares, "O people of the Book! Come let us join together on the 'word' (Unity of God), that is common to us all." The wars of Islam and Christianity, and, later, European aggression in its various forms, could not allow the infinite meaning of this verse to work itself out in the world of Islam. Today it is being gradually being realized in the countries of Islam in the shape of what is called Muslim Nationalism. اِس اقتباس سے معلوم ہوتا ہے کہ اقبال کے خیال میں اِس قرآنی دعوت میں لامحدود امکانات پوشیدہ ہیں مگر بعض تاریخی حالات ان امکانات کے رونما ہونے میں آڑے آتے رہے لیکن موجودہ دَور میں یہ خود اِسلام کا اپنا مقصد ہے یعنی ایک طرح سے یہ تقدیر ہے کہ یہ امکانات رو بہ عمل ہونا شروع ہوں۔ یہ مقصد پورا ہو کر رہے گا۔ اِس مفروضے میں اسلام کے اُس تصور کا اعادہ بھی ہوتا ہے جسے ’رموزِ بیخودی‘ میں تفصیل سے بیان کیا گیا تھا یعنی مسلمان قوم ایک اجتماعی خودی بھی ہے۔ ممکن ہے کہ تشکیل ِ جدید میں ’’اسلامی ثقافت کی روح‘‘ سے بھی یہی اجتماعی خودی مراد ہو۔ یہ اجتماعی خودی ہمارے دین ہی کا وہی پہلو ہے جس کے بارے میں اقبال خطبہ ٔ الٰہ آباد میں کہتے ہیں کہ اسلام خود تقدیر ہے اِس لیے یہ کسی دوسری تقدیر کے تابع نہیں ہو سکتا: Islam is itself Destiny and will not suffer a destiny! اِس حوالے سے کائنات میں اپنے مقام کو سمجھنے کی کوشش کریں تو تمام انسان ایک حیاتیاتی وحدت ہیں اور اسلام اُس وحدت کو دریافت کرنے کا ذریعہ ہے۔ اقبال نے اِس حیاتیاتی وحدت کا تذکرہ تشکیل ِ جدید کے دیباچے میں بھی کیا اور وہاں ایک قرآنی آیت کا ترجمہ پیش کیا جس کا مطلب یہ ہے کہ خدا کے لیے تمام انسانوں کو پیدا کرنا اور دوبارہ اُٹھانا ویسا ہی ہے جیسے ایک فرد کو پیدا کرنا اور دوبارہ اُٹھانا۔ چنانچہ اب اگلا سوال یہ ٹھہرتا ہے کہ اگر ہم سب ایک حیاتیاتی وحدت ہیں تو اِس لحاظ سے ہمارے لیے کون سا طرزِ عمل مناسب ہے؟ یہ سوال تشکیل ِ جدید کے دیباچے میں بھی بین السطور موجود ہیںجہاں قرآنی آیت کا حوالہ دینے کے بعد کہا گیا ہے کہ اِس آیت میں جس قسم کی حیاتیاتی وحدت کا امکان موجود ہے اُس کا تجربہ کرنے کے لیے ایک ایسا طریقہ درکار ہے جوماضی میں مستند صوفی سلسلوں کے وضع کیے ہوئے طریقوں کی نسبت ’’جسمانی طور پر کم مشقت طلب اور نفسیاتی اعتبار سے ایک ٹھوس ذہن کے زیادہ قریب‘‘ ہو۔ وہاں اس طریقے کی نشاندہی نہیں کی گئی مگر خطبہ ٔ الٰہ آباد میں جو نکات سامنے آتے ہیں وہ کسی ایسے طریقے کی سمت رہنمائی کرتے ہوئے معلوم ہوتے ہیں۔ ۴ ایک حیاتیاتی وحدت ہونے کے لحاظ سے جو طرزِ عمل ہمارے لیے مناسب ہے وہ یقینا ایک ایسا طریقہ بھی ہو گا جس کے ذریعے ہم اُس حیاتیاتی وحدت کا تجربہ کر سکیں۔ بظاہر خطبہ ٔ الٰہ آباد ایک ایسے طریقے کی طرف اشارہ کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ خطبے کے آخری حصے میں اقبال اُسی قرآنی آیت کا حوالہ دیتے ہیں جس کا تعلق حیاتیاتی وحدت سے ہے۔ اس کے بعد وہ کہتے ہیں کہ مسلمان جو بجا طور پر انسانیت کے اِس زبردست تصور کی پہلی عملی تفسیر ہونے کا دعویٰ کر سکتے ہیں وہ کیوں نہ ایک فردِ واحد کی طرح زندہ رہ کر دکھائیں: Why cannot you who, as a people, can well claim to be the first practical exponent of this superb conception of humanity, live and move and have your being as a single individual? اقبال کے نزدیک یہ گویا اُس آیت ِ قرآنی کی روشنی میں جینے کا طریقہ ہے۔ اگر اِس جملے کو تشکیل ِ جدید کے دیباچے کے اُس حصے میں شامل کر دیا جائے جہاں آیت کا ترجمہ درج ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہاں جس طریقے کی نشاندہی نہیں کی گئی اُس کی طرف یہاں اِشارہ دیا جا رہا ہے۔ مندرجہ ذیل اقتباس تشکیل ِ جدید کے دیباچے سے ہے اور درمیان میں ٹیڑھے حروف یعنی اٹالکس میں درج جملہ خطبہ ٔ الٰہ آباد سے ہے: `Your creation and resurrection,' says the Qur'an, `are like the creation and resurrection of a single soul.' A living experience of the kind of biological unity, embodied in this verse, requires to-day a method physiologically less violent and psychologically more suitable to a concrete type of mind. Why cannot you who, as a people, can well claim to be the first practical exponent of this superb conception of humanity, live and move and have your being as a single individual? In the absence of such a method the demand for a scientific form of religious knowledge is only natural. یہ دونوں اقتباسات تقریباً ایک ہی برس میں لکھی ہوئی تحریروں سے ہیں لیکن اگر اقبال کے ذہن میں ایک تحریر لکھتے ہوئے دوسری کا حوالہ موجود نہ بھی رہا ہو تو یہ ضرور معلوم ہوتا ہے کہ یہ دونوں باتیں اُن کے ذہن میں ایک ہی آیت ِ قرآنی کے حوالے سے موجود تھیں۔ چنانچہ یہ امکان ضرور پیدا ہوتا ہے کہ جو ریاست اُن اصولوں کی بنیاد پر وجود میں آئے جو خطبہ ٔ الٰہ آباد میں پیش کیے گئے ہیں شائد موجودہ دَور میں اُس کی شہریت بجائے خود وہ ’’طریقہ‘‘ ہو جس کی طرف تشکیل ِ جدید کے دیباچے میں صرف اشارہ کیا گیا۔ ظاہر ہے کہ ایک ایسی ریاست کی شہریت کے ذریعے اجتماعی زندگی کی حیاتیاتی وحدت کا تجربہ کیا جا سکتا ہے۔ خطبہ ٔ الٰہ آباد کے علاوہ ایک اور مقام پر بھی اقبال نے ایک ایسی ہی ریاست کا ذکر کیا ہے۔ اس کا نام مرغدین ہے اور یہ جاویدنامہ میں ’فلک ِ مریخ‘ پر دکھائی گئی ہے۔ اس کے بارے میں مولانا روم اقبال سے کہتے ہیں: بر زمان و بر مکاں قاہر اند زانکہ در علمِ فضا ماہر تراند بر وجودش آں چناں پیچیدہ اند ہر ’خم و پیچِ‘ فضا را دیدہ اند خاکیاں را دل بہ بندِ آب و گِل اندریں عالم بدن در بندِ دل! چوں دلے در آب گِل منزل کند ہر چہ می خواہد بآب و گِل کند مستی و ذوق و سرور از حکمِ جاں جسم را غیب و حضور از حکمِ جاں! در جہانِ ما دوتا آمد وجود جان و تن، آں بے نمود آں بانمود! خاکیاں را جان و تن مرغ و قفس فکرِ مریخی یک اندیش است و بس! [ترجمہ از احمد جاوید]: یہ لوگ زمان و مکان پر زیادہ تسلط رکھتے ہیں کیونکہ اِنھیں کائنات کے علم میں خوب دسترس حاصل ہے، اس کے وجود سے اِس طرح الجھے ہوئے ہیں کہ انھوں نے کہکشاں کا ہر ’پیچ و خم‘ دیکھ رکھا ہے۔ اہل زمین کا دل پانی اور مٹی کی قید میں ہے، اِس عالم میں بدن دل کا محکوم ہے! جب دل، آب و گل میں پڑاؤ کرتا ہے تو اس کے ساتھ جو چاہتا ہے سو کرتا ہے! روح کی بدولت ہے مستی ، ذوق اور سرور، روح کے حکم سے ہے جسم کا دکھاؤ اور چھپاؤ! ہماری دُنیا میں ہستی دو ہو گئی، روح اور بدن: وہ اوجھل، یہ ظاہر۔ خاکیوں کی نظر میں روح اور بدن جیسے پرندہ اور پنجرا مگر اہل مریخ کی فکر بس ایک دیکھتی ہے! چنانچہ خطبہ ٔ الٰہ آباد میں حیاتیاتی وحدت کے مشاہدے کی بات کرتے ہی اگلے جملے میں اقبال کہتے ہیں کہ وہ سنجیدگی کے ساتھ بتانا چاہتے ہیں کہ ہندوستان میں چیزیں ویسی نہیں ہیں جیسی نظر آ رہی ہیں مگر واقعات کی باطنی حقیقت قوم کی سمجھ میں تب آئے گی جب قوم سچ مچ کی اجتماعی خودی پیدا کر لے گی۔اِس اجتماعی خودی کو شکست ممکن نہیں ہے۔ اِنہی الفاظ پر خطبہ ٔ الٰہ آباد کا اختتام ہوتا ہے: I do not mystify anybody when I say that things in India are not what they appear to be. The meaning of this, however, will dawn upon you only when you have achieved a real collective ego to look at them. In the words of the Quran, "Hold fast to yourself; no one who erreth can hurt you, provided you are well-guided." (5:104) ۵ خطبہ ٔ الٰہ آباد کے اِس سرسری جائزے سے مندرجہ ذیل نکات سامنے آتے ہیں: ۱ چونکہ رُوح اور مادے میں وحدت ہے لہٰذا انسانی معاشرہ ایک ایسی بنیاد پر تشکیل پانا چاہیے کہ روحانیت سمیت زندگی کے تمام شعبے ایک جیسے اصولوں کے تحت آ سکیں۔ ۲ تاریخ خدا کی نشانیوں میں سے ہے لہٰذا اِس کے مطالعے میں یہ پہلو بھی شامل ہونا چاہیے۔ ۳ تہذیبی ارتقا کا مقصد اُس حیاتیاتی وحدت کے عام مشاہدے کی طرف بڑھنا ہے جو پوری انسانیت کے درمیان موجود ہے۔ ۴ افراد اور معاشرے اِس ارتقا میں معاون بن کر فلاح حاصل کر سکتے ہیں۔ غالباً پاکستان کی تاریخ کا کوئی مطالعہ اِن اُصولوں کی بنیاد پر نہیں ہوا حالانکہ جب بھی کوئی نئی تہذیب یا نظریاتی معاشرہ وجود میں آتا ہے تو اُسے ایک نئے علم ِ سیاست کی بنیاد بھی رکھنی پڑتی ہے جس کے بغیر اُس کے وجود کے کوئی معانی نہیں ہوتے۔ ۱۷۷۶ء میں امریکہ کا قیام انسانی تہذیب میں ایک نیا تجربہ تھا لیکن کیا اِس تجربے کی کوئی اہمیت ثابت ہو سکتی تھی اگر امریکہ کے وجود کی تشریح اُسی برطانوی نقطہ ٔ نظر سے کی جاتی جس کے خلاف بغاوت کر کے امریکہ وجود میں آیا تھا؟ آج امریکہ سپر پاور ہے لیکن اگر اس کے وجود کو صرف مارکسی اور سوشلسٹ نقطہ ٔ نظر سے دیکھا جائے اور امریکہ کا اپنا نقطہ ٔ نظر نہ ہو تو کیا وہ کسی لحاظ سے بھی ایک قابل ِ رشک یا کامیاب ریاست نظر آئے گا؟ اِسی طرح اشتراکی روس کو اُس کے دورِ عروج میں اگر سوشلسٹ نظریات کی بجائے صرف سرمایہ دارانہ نظریات کی روشنی میں دیکھا جاتا تو اُس کا مقام کہاں نظر آتا؟ اگر پاکستان اپنے آپ کو نظریاتی معاشرہ سمجھتا ہے تو اِسے اپنی اجتماعی زندگی کی تشریح بھی اپنے ہی نظریے سے کرنی پڑے گی خواہ اِس کے لیے ایک نیا علم ِ سیاست وجود میں لانا پڑے۔ ورنہ ہمیں مولانا روم کی وہ حکایت یاد رکھنی چاہیے جس میں ایک بادشاہ کا شاہین کسی بڑھیا کے جھونپڑے میں آ پڑا تھا اور وہ اُس کی خوبیوں کو خامیاں سمجھ کر بڑی ہمدردی کے ساتھ اُس کے ناخن تراشنا چاہتی تھی! آج تاریخ ِ پاکستان کی جو بھی تعبیریں پیش کی جا رہی ہیں کیا اُن پر اقبال کا یہ قول صادق نہیں آئے گا کہ ’’ہندوستان میں چیزیں ویسی نہیں ہیں جیسی وہ نظر آ رہی ہیں‘‘؟پاکستان اور اُس کی گزشتہ ساٹھ برس کی تاریخ کے جو واقعات کی اصل حقیقت کو سمجھنے کی کوشش خطبہ ٔ الٰہ آباد کی روشنی میں ہو سکتی ہے۔ مغربی علم و دانش کے نمائندے اور اُنہیں سند ماننے والے پاکستانی اہل ِ علم پاکستان کی تاریخ کی تعبیر جس طرح کرتے ہیں وہ کچھ اُسی قسم کی باتوں پر مبنی نظر آتی ہے جیسی محراب گل افغان کے شہباز سے کہی جا رہی تھیں: زاغ کہتا ہے نہایت بدنما ہیں تیرے پر شپرّک کہتی ہے تجھ کو کورچشم و بے ُہنر لیکن اے شہباز! یہ مرغانِ صحرا کے اچھُوت ہیں فضائے نیلگوں کے پیچ و خم سے بے خبر اِن کو کیا معلوم اُس طائر کے احوال و مقام رُوح ہے جس کی دمِ پرواز سرتاپا نظر! مصنف کی دیگر کتابیں اِقبال: ابتدائی دَور ۱۹۰۴ء تک خرم علی شفیق سوانحِ اقبال کے سلسلے کی پہلی کڑی جو آپ کو اُس ماحول میں لے جاتی ہے جہاں اقبال پیدا ہوئے اور ابتدائی تعلیم و تربیت حاصل کر کے برصغیر کے شعری افق پر سب سے تابندہ ستارے کے طور پر اُبھرے۔ اقبال اکادمی پاکستان اِقبال: تشکیلی دَور ۱۹۰۵ء سے۳ ۱۹۱ء خرم علی شفیق سوانحِ اقبال کے سلسلے کی دوسری کڑی جس میں یورپ کے تعلیمی سفر، واپسی اور ’شکوہ‘، ’شمع اور شاعر ‘ اور ’جوابِ شکوہ‘ جیسی شہرۂ آفاق نظموں کی تخلیق کے مراحل کے ساتھ ساتھ اقبال کی سوانح کے بعض بالکل نئے گوشے بھی آپ کے سامنے آتے ہیں۔ اقبال اکادمی پاکستان اقبال چھ جلدوں میں مکمل سوانح حیات ۱ ابتدائی دور: ۱۹۰۴ تک ۲ تشکیلی دور: ۱۹۰۵ سے ۱۹۱۳ ۳ وسطی دور، ۱۹۱۴ سے ۱۹۲۲ ۴ دورِ عروج: ۱۹۲۳ سے ۱۹۳۰ ۵ اختتامی دور: ۱۹۳۱ سے ۱۹۳۸ ۶ نیا دَور، ۱۹۳۸ کے بعد