درویشِ بے گلیم اقبالؔ کا قرآنی فَقر سیّد افتخار حیدرؔ ٹورانٹو۔ کینیڈا خالی بسم اللّٰہ الرحمان الرحیم خالی بسم اللہ الرحمان الرحیم ٭٭٭٭٭٭ اے روحِ محمد ؐ! شیرازہ ہوا ملّت ِ مرحوم کا اَبترَ! اب تُو ہی بتا تیرا مسلمان کدھر جائے! اس راز کو اب فاش کر اے روحِ محمدؐ آیاتِ الٰہی کا نگہبان کدھر جائے! ٭٭ضربِ کلیم٭٭ ئئئئء حدیثِ دل کسی درویشِ بے گلیم سے پوچھ خدا کرے تجھے تیرے مقام سے آگاہ ئئئئء سپاس گزار ہوں۔۔ کتابِ نور ورحمت ۔قرآن الکریم کے حضور۔۔! کہ جس کے بغیر انسان اپنے مقصدِ تخلیق سے بے خبررہتا ہے ٭٭٭٭٭ ممنون ہوں۔۔۔ تمام ایسے اقربا، احباب اور اداروں کا ۔۔ جن کی شفقت اور محبت میری فکر کو جِلا بخشتی رہی۔ ٭٭٭٭٭ مرہون ہوں۔۔۔ اقبال اکیڈیمی ٹورانٹو۔کینیڈا کی پُر خلوص مشاورت اور تعاون کے لیے۔ ٭٭٭٭٭ فہرست ۔ ۔درویشِ بے گلیم نمبر عنوان اشعار صفحات -1 میں جبھی تک تھا جو تیری جلوہ پیرائی نہ تھی جو نمودِ حق سے مٹ جاتا ہے وہ باطل ہوں میںـ -2 وہ دانائے سُبل ختم الرُسُل ؐ مولائے کُل جس نے غبارِ راہ کو بخشا فروغِ وادیِ سیناؔ نگاہِ عشق و مستی میں وہی اوّل وہی آخر وہی قرآں، وہی فُرقاں، وہی یٰسیںؔ، وہیطاہاؔ ! -3 لوح بھی تُو ، قلم بھی تُو ، تیر ا وجود الکتاب گنبد ِ آبگینہ رنگ ، تیرے محیط میں حباب تیری نگاہَ ناز سے دونوں مراد پا گئے عقل، غیاب و جستجو ! عشق، حضور و اضطراب -4 تڑپ رہا ہے فلاطوںؔ میانِ غیب و حضور ازل سے اہل ِ خر د کا مقام ہے اعراف ترے ضمیر پہ جب تک نہ ہو نزولِ کتاب گرہ کشا ہے نہ رازیؔ نہ صاحبِ کشّاف -5 فیضِ نظر کے لئے ضبطِ سخن چاہئے حرفِ پریشاں نہ کہہ اہلِ نظر کے حضور اے اہل ِ نظر! ذوقِ نظر خوب ہے لیکن جو شے کی حقیقت کو نہ سمجھے وہ نظر کیا؟ -6 صنم کدہ ہے جہاں اور مردِ حق ہے خلیل ؑ یہ نکتہ وہ ہے جو پوشیدہ لآ اِلٰہ میں ہے عذابِ دانشِ حاضر سے با خبر ہوں میں کہ میں اس آگ میں ڈالا گیا ہوں مثلِ خلیل ؑ -7 مثلِ خلیل ؑ ہو اگر معرکہ آزما کوئی اب بھی درختِ طور سے آتی ہے بانگِ لَآ تَخَف خیرہ نہ کر سکا مجھے جلوۂِ دانش ِ فرنگ سرمہ ہے میری آنکھ کا خاکِ مدینہ و نجف -8 اُٹھا میں مدرسہ و خانقاہ سے غمناک نہ زندگی ، نہ محبت ، نہ معرفت ، نہ نگاہ حدیثِ دل کسی درویشِ بے گلیم سے پوچھ خدا کرے تجھے تیرے مقام سے آگاہ -9 یہ ذکرِ نیم شبی،یہ مراقبے ، یہ سرور تری خودی کے نگہباں نہیں تو کچھ بھی نہیں خرد نے کہہ بھی دیا لآ اِلٰہ تو کیا حاصل دل و نگاہ مسلماں نہیں تو کچھ بھی نہیں -10 علم کا مقصود ہے پاکیٔ عقل و خرد فقر کا مقصود ہے عفّتِ قلب و نگاہ علم فقیہ و حکیم ، فقر مسیحؑ و کلیم ؑ علم ہے جویائے راہ ، فقر ہے دانائے راہ -11 یقیں محکم ، عمل پیہم ، محبت فاتح ِ عالم جہادِ زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں ولایت، پادشاہی، علمِ اشیاء کی جہانگیری یہ سب کیا ہیں ؟ فقط اک نقطۂ ایماں کی تفسیریں -12 خدائے لم یزل کا دستِ قدرت تُو ، زُباں تُو ہے یقیں پیدا کراے غافل کہ مغلوبِ گماں تُو ہے مکاں فانی ، مکیں آنی ، ازل تیرا ، ابد تیرا خدا کا آخری پیغام ہے تُو ، جاوداں تُو ہے -13 تو اسے پیمانۂ امروز و فردا سے نہ ناپ جاوداں ، پیہم دواں ، ہر دم جواں ہے زندگی اپنی دنیا آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے سِرَّ آدم ؑ ہے ضمیرِ کُن فکاں ہے زندگی ۱ -14 ہو صداقت کے لئے جس دل میں مرنے کی تڑپ پہلے اپنے پیکر ِ خاکی میں جاں پید ا کرے پھونک ڈالے یہ زمین و آسمانِ مستعار اور خاکستر سے آپ اپنا جہاں پیدا کرے -15 آ بتاؤں تجھ کو رمزِ آیۂ اِنّ اَلمَلُوک سلطنت اقوامِ عالم کی ہے اِک جادوگری سروری زیبا فقط اُِس ذاتِ بے ہَمتَا کو ہے حکمراں ہے اِک وُہی باقی بُتانِ آزرؔی -16 مٹا دیا مرے ساقی نے عالَمِ مَن و تُو پلا کے مجھ کو مئے لَا اِلٰہَ اِلَّا ھُو نہ مے، نہ شعر، نہ ساقی، نہ شورِ چنگ و رُباب! سکوتِ کوہ و لبِ جوے و لالۂ خود رو ٭٭٭٭٭ حصّہ دوئم اشتراکیتؔ، اقبالؔ اورقرآن ۱۔لیننؔ خدا کے حضور میں تُو قادر و عادل ہے مگرتیرے جہاں میں ہیں تلخ بہت بندۂ مزدور کے اوقات کب ڈوبے گا سرمایہ پرستی کا سفینہ دنیا ہے تری منتظرِ روزِ مکافات ۲۔ فرشتوں کا گیت عقل ہے بے زمام ابھی، عشق ہے بے مقام ابھی نقش گرِ ازل ترا نقش ہے ناتمام ابھی خلقِ خدا کی گھات میں،رند و فقیہ و میر و پیر تیرے جہاں میں ہے وہی گردشِ صبح و شام ابھی ۳۔فرمانِ خدا ۔ (فرشتوں سے) اُٹھو! میری دنیا کے غریبوں کو جگا دو کاخِ اُمرا کے در و دیوار ھلا دو گرماؤ غلاموں کا لہو سوزِ یقیں سے کُنجشکِ فرو مایہ کو شاہیں سے لڑا دو ۴۔کارل مارکس ؔکی آواز ۵۔بلشویک روس ۶۔ ابلیسؔ کی مجلسِ شوریٰ ۷۔ اشتراکیت قرآن میں ہو غوطہ زن اے مردِ مسلماں اللہ کرے تجھ کو عطا جدّتِ کردار جو حرفِ قُلِ العَفوَ میں پوشیدہ ہے اب تک اس دو ر میں شاید یہ حقیقت ہو نمودار (۸۲) ۲۴۵ ٭٭٭٭٭ درویشِ بے گلیم حصّہ اوّل سیّد افتخار حیدرؔ ٹورانٹو ۔کینیڈا خالی ۱ میں جبھی تک تھا جو تیری جلوہ پیرائی نہ تھی جو نمودِ حق سے مٹ جاتا ہے وہ باطل ہوں میں ٭٭(بانگِ درا،حصہ اوّل،غزلیات)٭٭ ٭٭٭٭ ’’میںجبھی تک تھا جو تیری جلوہ پیرائی نہ تھی جو نمودِ حق سے مٹ جاتا ہے وہ باطل ہوں میں‘‘ ٭٭ (بانگِ درا،حصہ اول،غزلیات) ٭٭ کسی مریدنے اپنے مرشد ِ حق شناس سے پوچھا:۔ ’’اللہ کہاں ہے؟‘‘انہوں نے فرمایا:’’جہاں تم نہیں ہو!!!‘‘ گرچہ وہ کچھ سمجھ نہ پایامگر اب تک اتنا سمجھ چکا تھا کہ جب کبھی حضرت صاحب کوئی ایسی بات کریں تو خود ہی اس کی وضاحت بھی فرما دیتے ہیں ۔ یہ علم بھی باقی تمام علوم کی طرح اتنا ہی سمجھ میں آ سکتا ہے جتنی کسی میں اُس وقت اِسے سمجھنے کی استطاعت موجود ہو۔اس استطاعت کا تمام دارومدار طالبِ علم کے ذوق و شوق پر مبنی ہوتا ہے۔ ۔ میرے اُستادِ محترم حکیم پیر رشید الدولہؒ فرمایا کرتے تھے کہ ’’ جناب!یہ راستہ کوشش کا نہیں، کشش کا ہے‘‘۔ سوچئے تو۔الف سے یے تک کی پٹی ہو یا ایک سے دس تک کی گنتی، سبھی شوق اور صبر و تحمل کیساتھ سیکھنی پڑتی ہے اور کسی بچے سے پوچھ کر دیکھ لوکہ یہ آسان ہے یا مشکل؟ تو وہ اسے مشکل سمجھنے کے باوجود انہیں یاد کرنے کی کوشش میں لگا ہوا نظر آئیگا۔ ہے کٹھن راہِ محبت ، ہر قدم دار و رسن سہل ہے اُن کے لئے جنکی محبت پاسباں (حیدرؔ) اقبالؔ ؒ کا شعر شروع ہی’’میں‘‘ سے ہوتا ہے۔ وہ ــ’’میں‘‘جس نے ہر وقت ٹائیں ٹائیں لگا رکھی ہوتی ہے ۔ میں ۔ میرا خاندان ۔ میرا نام و نمود۔ میری ذات۔ میرے اجداد۔ میری اولاد۔ میری زمین۔ میری دولت۔ میری حکومت۔میرا اختیار و اقتدار۔میری قوت و طاقت۔ میرا اثر و رسوخ۔ میرے کمالات۔میری شہرت۔ میری شکل و صورت۔ میرا حُسن۔ میں۔ میری ۔میں۔میری۔کی تا دمِ مرگ ایک کبھی نہ ختم ہونے والی رٹ لگی ہوتی ہے۔ بلکہ کچھ لوگ تو حسبِ گنجائش موت سے بھی آگے اس’’ میں‘‘ کی آرائش اور تجہیز و تکفین کے شاہانہ انتظامات کا اعلیٰ سے اعلیٰ بندوبست کررکھتے ہیں۔ ۔ احرامِ مصر سے لیکر تاج محل اور مردہ جسم کے گلنے سڑنے کے لیے مخمل لگے ہوئے خوشبو دار صندل کے صندوق اور اُس میں مخمل کی پوشش، اسی’’میں ‘‘ کی پرستش کے ادنیٰ کارنامے ہیں۔ آپ ہی بتائیے کہ جس ’’میں ‘‘نے اتنے پاؤں پھیلا رکھے ہوں وہاں بھلا کسی اور کی گنجائش کہاں رہ جائے گی۔۔۔ اسی لئے مرشد نے فرمایا تھا کہ ـ ’’ اللہ وہاں ہے ، جہاں’’ تُم‘‘ نہیں ہو‘‘۔ اسی ’’میں ‘‘ کی خواہشات کو تسکین مہیا کرنے کے لئے، انسان نے اسکے گرد ا گرد ، حتیٰ المقدور ایک وسیع و عریض مصنوعی جہان ایجاد کر رکھا ہوتاہے۔ اگر دیکھا جائے تو اس وقت کا تمام معاشرتی نظام وانسانی اعمال، ان کے قبیح انجام سے بے خبری کے جاہلانہ گھُپ اندھیروں کا جہان ہے۔ جس کی ظلمات میں پھنسے ہوئے عقل کے اندھے لوگ سوائے ظلم اور مزید ظلم کے کچھ اور کر بھی کیا سکتے ہیں۔ یہ ہے وہ ’’میں ‘‘جسے ڈاکٹر محمد اقبال ؒ نے ’’باطل‘‘ ـ گرداناہے۔ ایسے باطل کی گمبھیر سیاہ رات کا سحر ہو جانا اسوقت تک ممکن نہیں،جب تک کہ اللہ تعالیٰ کا علم و حکمت انسان کے قلب و خیال میں شعوری طور پر اپنی ’’جلوہ پیرائی‘‘ نہ کرے۔ یہ وہی علم و حکمت ہے جس کی بنیاد پر اُس خالقِ مطلق نے انسان کو اس زمین کے لیے تخلیق فرمایا تھا۔ یہ’’ جلوہ پیرائی‘‘ ہی وہ نمودِ حق ہے کہ جو اللہ تعالی کی طرف سے انسان کی طرف ،محض اور محض مُرسلین علیہم السلام کے قلوبِ اطہر پر وحی ہو کر اُن کی سیرتِ مقد سہ اور کتابِ حق کے ذریعے کی جاتی ہے…ایسے انوارِ حق سے منور رہنے والے قلب کے مالک رسول ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے اسی لئے سراجاً منیرکا لقب عطا فرمایا۔ کیونکہ اسی روشن چراغ کے ذریعے پھیلنے والے اللہ تعالیٰ کے نور َ حق کی ہر ایک شعاع ، نیّرِجہاں تاب کی طرح باطل شکن ہوتی ہے۔ ڈاکٹر محمد اقبالؒ کا مندرجہ بالا شعر قرآنِ کریم کی سورۃ بنی اسرائیل کی۸۱ نمبر آیتِ مقدسہ کی کیا خوبصورت ترجمانی کر رہا ہے: ’ ’آپ کہہ دیں میرے رسولؐ!کہ حق آگیا اور باطل نابود ہو گیا ۔باطل ہوتا ہی مِٹ جانے والا ہے۔‘‘(۱۷:۸۱) ٭٭٭٭٭ ۲ ٭٭٭٭٭ وہ دانائے سُبل ختم الرُسُلؐ مولائے کُلؐ جس نے غبارِ راہ کو بخشا فروغِ وادیِ سیناؔ نگاہِ عشق و مستی میں وہی اوّل وہی آخر وہی قرآں ،وہی فرقاں، وہی یٰسیںؔ، وہی طاہاؔ ٭٭ ( بالِ جبریل۔بر مزار حکیم سنائیؔ غزنویؒ) ٭٭ ٭٭٭٭ وہ دانائے سُبل ختم الرُسُلؐ مولائے کُلؐ جس نے غبارِ راہ کو بخشا فروغِ وادیِ سیناؔ نگاہِ عشق و مستی میں وہی اوّل وہی آخر وہی قرآں ،وہی فرقاں، وہی یٰسیںؔ،وہی طا ہاؔ! ٭٭٭٭ ( بالِ جبریل۔بر مزار حکیم سنائیؔ غزنویؒ) ٭٭٭٭ اللہ تعالیٰ کے ہر ایک رسول علیہ السلام کے اُسوہ ِ حسنہ کا یہ لازمی جُز ہوتا ہے کہ اللہ کی طرف سے وہ صراطِ مستقیم کے تمام مراحل ، مسائل اور مصائب سے نہ صرف پوری طرح خودواقف ہو ،بلکہ اُن میں رہ کر اپنی اُمت کی منزل ِ مقصود تک بخیر و عافیت رہبری بھی کر سکے۔راہ و رسمِ منزل کی خبر، اُن میںاللہ کی وحی اور اُسے قبول کرنے کی صلاحیت کے ذریعے عطا کر دی جاتی ہے۔ ان مستقیم راہوں کو، دیگر اصطلاحات کے علاوہ قرآنِ کریم نے سُبُل کے لفظ سے بھی مو سو م کیا ہے۔جیسے سورۃ عنکبوت ۲۹: آیت :۹۶ میں ارشاد ہوا : ـ’’ـ وہ لوگ جو ہماری ذات میں جِد و جہد کرتے ہیں،اُنہیں ہم اپنی طرف کے راستوں کی ہدایت کر دیتے ہیں۔( لَنَہدیَنّہُم سُبُلَنَا)‘‘۔ یہ راستے رسولوں ؑ کے لئے شہد کی مکھی سے بھی کہیں زیادہ واضح اور روشن ہوتے ہیں جسے ،۱۶۔سورۃ نحل: آیت۹ ۶میں اللہ تعالیٰ نے وحی سے ہدایت فرمادی کہ ’’فَاسلُکِی سُبُلَ رَبِّکَ ذُلُلاً‘‘(تُم اپنے ربّ کے بتائے ہوئے صاف ستھرے راستے پر چلتی چلی جا!)‘‘ علامہ اقبالؒ کے نزدیک، اللہ کی طرف جانے والے ایسے تما م راستوں کے ہمارے رسولؐ ’’دانائے سُبُل‘‘ تھے۔ اللہ تعالیٰ کے تمام انبیاء اور رُسُل علیہم السلام کے وارث بھی اُن کی طاہر و پاک ذرّیت میں سے ہی مبعوث کئے جاتے تھے۔ حضرت ذکریا علیہ السلام دعا فرماتے ہیں : ۔ ’’اے میرے ربّ! بڑھاپے کی وجہ سے میری ہڈیاں بوسیدہ اور سر سفید ہو چکا ہے۔تجھ سے دعا مانگ کر اے میرے ربّ! میں کبھی بھی محروم نہیں رہا۔اب تُو مجھے اکیلا نہ چھوڑ،میں اپنے بعد اپنے موالیوں سے خائف ہوں اور میری زوجہ بھی بانجھ ہو چکی ہے۔اب تُو ہی مجھے ایسی ذریت طیّبہ عطا فرما جو میری اور آلِ یعقوب کی وارث بنے۔ـ‘‘( ۱۹:۴۔۶:اور ۳:۳۸) جب اللہ تعالیٰ نے ابراہیم علیہ السلام کو، حق کے راستے کی ابتلاؤں میں سے پورا اُترتا پایا تو انہیں تمام انسانوں کے لیے ’’امام ‘‘مقرر فرما دیا ۔ ۔ ابراہیم ؑ نے عرض کیـ’’ میری ذرّیت میں سے بھی!؟ ۔‘‘ اللہ نے فرمایا ہاں ! مگر میرا وعدہ اُن میں سے ظالموں کے لیے نہیں ہوگا۔( یعنی آپ کی اولاد میں سے صرف معصوم لوگ ہی امام مقرر ہونگے )(۲:۱۲۴) پھراللہ تعالیٰ نے ابراہیم ؑ کو اسحاق ؑ عطا کئے جو صالحین میں سے ایک نبی ؑ تھے اور اضافی طور پر یعقوبؑ عطا کئے(۲۱: ۷۲) انہی کی ذرّیت میں سے داود ؑ۔سلیمان ؑ ۔ایوبؑ۔ یوسف ؑ۔ موسیٰؑ۔ہارون ؑ۔ کو بھی اسی طرح ہدایت دی۔(۶:۸۵) ان کے علاوہ ذکریاؑ۔ یحییٰ ؑاور الیاس ؑ کو بھی یہی ہدایت فرمائی۔ ا(۶:۸۶)اور اسمٰعیل ؑ۔ الیسع ؑ۔ یونس ؑ اور لوط ؑکو بھی ۔اور ان سب کو اللہ نے کُل عالمین پر فضیلت عطا فرمائی(۶:۸۷) اور اُن کے’’ باپ دادا‘‘ میں سے اُن کی’’ ذرّیت ‘‘میں سے اور اُن کے ’’بھائیوں‘‘ میں سے بھی اللہ نے اپنے بندے اِجتَبٰے کر لئے ۔اور اُن کی صراطِ مستقیم پر ہدایت فر ما ئی ۔ (۶: ۸۸) اللہ ہی نے رسالت عطا فرمائی نوح علیہ السلام کو اور ابراہیم علیہ السلام کو اور ان دونوں کی ذرّیت میں ہی نبوت اور کتاب کا تقرر فرمایا ۔ (۵۷:۲۶)… یہ ہے وہ پس منظر جس میں اللہ تعالیٰ کا ارشادہوا : ’’ یہ محمدؐ ۔تُم میںسے کسی مرد کے باپ نہیںبلکہ رسول اللہ اور خاتَمَ النَبیّٖں ہیں۔( یعنی اگر اُن کے بعد کوئی نبی آناہوتا تو اُن کی اولادِ نرینہ بھی ہوتی اور وہ اُنکی اولاد میں سے ہی ہوتا)۔یہ ہیںوہ چند قرآنی دلائل جن کی بنیاد پر علامہ اقبالؒ اپنے رسول ؐ کو خَتَمَ الرُسُل مانتے تھے ۔ قرآنی عربی میں عبدکے لفظ کی ضد مولیٰ ہے۔ سورۃ ۱۶: آیت:۷۵ میں عبد کے لفظ کی یوں وضاحت فرماتے ہیں ، ’’ ـعبداً مملوکہ جس کا کسی شے پر کوئی اختیار نہ ہو۔‘‘ لفظ مولیٰ کی وضاحت کے لیے قرآن(۴۷: ۱۱) ــ میں ارشاد ہوا :’’جو ایمان والے ہیں اُن کا اللہ مولیٰ ہے اور جو کافر ہیں اُن کا کوئی مولیٰ نہیں ۔‘‘ اللہ تعالیٰ نعم المولیٰ و نعم النصیر ہے(۲۲:۷۸) اُسکے ہر ایک حکم کی اطاعت کے ساتھ ِ رسولؐ کی اطاعت ایسے جڑی ہوئی ہے جیسے مولا تو اللہ ہے مگر اسکی اطاعت اُسکے رسولؐ کی اطاعت سے ہو رہی ہو۔ ۔اسی لئے ارشاد ہوا :: ۴:۸۰: جس نے رسول ؐ کی اطاعت کی اُس نے اللہ کی اطاعت کی۔ ۴:۱۳: جس نے اللہ اور رسول ؐکی اطاعت کی اسے جنتو ں میں داخل کر دیا جائے گا۔ ۴:۶۹ : اللہ اور رسولؐ کی اطاعت کرنے والے کو نعمت یافتہ لوگوں کا ساتھ نصیب ہوگا۔ ۲۴ :۵۲: اللہ اور رسولؐ کی اطاعت کرنے والے ہی فائزون ہونگے۔ ۳: ۱۳۲ : اللہ اور رسول ؐکی اطاعت کرو تاکہ تم پر رحم کیاجائے۔ اللہ اور رسول ؐکے اس باہم رشتے کو انسانوں کے لیے اتنا لازمی قرار دیدیا گیا کہ کوئی بھی انسان اللہ کے رسولؐ کا اتباع کئے بغیر اللہ سے محبت کا سوچ بھی نہیں سکتا۔سورۃ آلِ عمران کی آیت: ۳۱میں ارشادِ باری تعالیٰ ہوا: ’’ اے میرے حبیبؐ! ان سے کہہ دیں کہ اگر تم اللہ سے محبت کا دعویٰ کرتے ہو تو میرا اتباع کرو،اللہ تُم سے محبت کرے گا۔ اور تمہارے گناہ بھی معاف کر دے گا۔‘‘ اور ہمارے رسول ا کی مولائیت کوئی کسی مجبور غلام پر اختیار والی بات بھی نہیں بلکہ اللہ اور رسول ؐ پر صدقِ دل سے ایمان لانے والے ایسے عباد الرحمان پر مولائیت ہے جنہیں اللہ کا فرمان ہوتا ہے : سورۃ ۳۳ الاحزاب: ۶:’’ اللہ کا نبی ا زیادہ حق رکھتا ہے مومنیں پر ،اُن کی اپنی جانوں کی نسبت اور نبی ؐ کی ازواج انکی مائیں ہیں۔ اور رسولؐ کے رشتہ دار کتاب اللہ کی رُو سے بعضے بعضوں پر اور تمام مومنیں اور مہاجرین پر فوقیت رکھتے ہیں۔ہاں مگر کسی دوست سے اس کے علاوہ کوئی بھلائی کا عمل بھی ہو سکتا ہے۔ یہ وہ حکم ہے جو قرآن میں لکھ دیاگیا ہے۔‘‘ علامہ اقبال ؒ کی نظر میں یہ ہے اللہ کی مولائیت ِ کلی کے ساتھ لازم و ملزوم ہمارے مولائے کُل رسول ا کی مولائیت ہے، جس کے اتباع کے بغیر اللہ کی محبت کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ جس رؤف الرحیم رسولؐ سے قلبی عقیدت کا اظہار علامہ اقبالؒ یوں کرتے آ رہے تھے کہ۔ـ ’’بچا کے دامن بتوں سے اپنا غبارِ راہِ حجاز ؔ ہو جا‘‘۔اُنکی برقِ تجلیٰ وادیٔ حجاز پر ایسے جلوہ آرا ہوئی کہ غبارِ راہ ِ حجاز بھی کوہِ طور کے جلووں سے منور ہو گئی۔ وہ نور جوتورات کی صورت موسیٰ علیہ السلام کی وساطت سے انسانوں کو ہدایت بخشتا رہا۔ وہی نورِ ہدایت ، قلبِ رسول ا میں سراجِ منیر بن کر، تا قیامت انسانیت کی راہوں کا ہر ذرہ روشن کرگیا۔ مومنونِ حقّہ۔جو نورِ ایمان سے منور قلب اور نگاہِ بصیرت رکھتے ہیں۔ جو شدّتِ جذبۂ ایمانی سے سرشار عشق میں اورذاتِ حق کی صفاتِ حسنہ کے مشاہدہِ جمال میں مست ہیں، وہ : ’’ ـھُوَ الاَولُ والآخرُ والظاہرُ والباطنُ ‘‘(۵۷:۳) کی حقیقت کا اتنا عرفان رکھتے ہیں کہ مقامِ سدرۃ المنتہیٰ پہ ہر اول آخر ظاہر باطن کو محض ذاتِ رسول ا کی نسبت سے ہی محسوس کرتے ہیں۔اُنہیں اس عشق و مستی میں کچھ اور نظر آ بھی کیسے سکتا ہے اور آنا بھی نہیں چاہیے۔ اُن کی نظر تو اُن پہ جم گئی ہے کہ جنکا تعارف ۵۳سورۃ نجم کی پہلی ۱۸ آیات میں : اُفقِ اعلیٰ۔قابَ قوسینِ او ادنیٰ۔سدرۃ المنتہیٰ۔ مازاغ البصرُ و ما طغیٰ۔جیسی درجہٗ کمال پر کہی گئی نعت سے کروایا گیا ہے۔ وہ ایک ایسی ذات جسے دیکھ کر کافر بھی صاحبِ ایمان بن جائے اور ان کے فرقان کی نسبت سے حق و باطل میں فرق کرنے لگ جائے ۔ وہ ذات کہ جس کی قوتِ ناطقہ سوائے وحیٔ الٰہی کے کچھ بول ہی نہ سکتی ہو ۔ وہ جس کا وجود حکم ِ الٰہی کے سوا کچھ کرنے تو کیا ،سوچنے کی بھی صلاحیت نہ رکھتا ہو۔ وہ خودقرآن نہیں ہوگا تو اور کیا ہو گا۔ وہ ذات جس کا ہر ایک قول و عمل تمام مومنیں کے لیے لازمِ تقلید اسوۃِ حسنہ مقرر کیا گیا ہو وہ خود حق و باطل میںتفریق کا معیار فرقان کیوں نہ ہوگا۔ کتابِ الٰہی کے مقطعات طٰہٰ و یٰسینؔ تومحض رحمان الرحیم ذاتِ الٰہی کے، اپنی محبوب ترین ہستی کو پیار سے پکارنے کے لئے محبت بھرے خطابات ہیں۔ ٭٭٭٭ ۳ ٭٭٭٭ لوح بھی تُو، قلم بھی تُو، تیرا وجود الکتاب گنبدِ آبگینہ رنگ تیرے محیط میں حباب تیری نگاہِ ناز سے دونوں مراد پا گئے عقل،غیاب و جستجو !عشق، حضور و اضطراب! ٭٭ (بالِ جبریل۔ذوق وشوق) ٭٭ ٭٭٭٭٭ لوح بھی تُو، قلم بھی تُو، تیرا وجود الکتاب گنبدِ آبگینہ رنگ تیرے محیط میں حباب تیری نگاہِ ناز سے دونوں مراد پا گئے عقل،غیاب و جستجو !عشق، حضور و اضطراب! ٭٭(بالِ جبریل۔ذوق وشوق)٭٭ ٭٭٭٭٭ ـ کسی بھی علم کو محفوظ کرنے کے ممکنہ تین اہتمام کئے جا سکتے ہیں: ایک تو علمِ الٰہی میں،جہاں سے اُس علم کا سر چشمہ پھوٹا تھا وہیں محفوظ کر لیا جائے۔ دو سر ے اُسے کسی کاغذ ،کپڑے ،کھال ،چھال ،پتھر یا کسی اور شے کی تختی یعنی لوحپرمحفوظ کر دیا جائے۔ تیسرے جو اُسے سُنے یا پڑھے، وہ اپنے حافظے میں اسے محفوظ کر لے۔ ایسی تمام چیزیں وسیع معنوں میں علم کو محفوظ کرنے والی ’’لوح‘‘ کہلائیں گی ۔ قرآن کے حوالے سے پہلی صورت کا تعلق علمِ الٰہی سے ہے ، جس میں ردّ و بدل ممکن نہیں۔قرآن کو نازل کرنے والی ذات پاک فرماتی ہے: ’’ ہم نے ہی یہ ذکر نازل فرمایا اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں ۔ ‘‘ ( ۱۵ :۹ ) اس کے علاوہ ارشاد ہوا: ’’بلکہ یہ تو قرآنِ مجید ہے جو لوحِ محفوظ میں ہے۔‘‘(۵۸::۲۱۔۲۲) لوحِ محفوظ کی یہ پہلی صورت جس کا تعلقِ علمِ الٰہی سے ہے ، سب سے محفوظ ترین طریقہ ہے۔ اس میں صرف قرآن ہی نہیں بلکہ تمام پہلی کتابیں بھی محفوظ ہیں۔ اسی لئے علمِ الٰہی میں سے ایک ہی ہدایت مختلف زمانوں میں ، مختلف نبیوں کے ذریعے ،انسانوں کی طرف نازل ہوتی رہی۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے حفاظت کے لیے استعمال کئے گئے دوسرے طریقے کے متعلق ارشاد ہوا: ’’اور ہم نے اُن تختیوں میں انسانوں کے لیے ہر ایک ضروری شے کے متعلق نصیحتیں اور اُنکی تفصیل لکھ دی۔اور پھر موسیٰ علیہ السلام سے کہا کہ اسکی ہدایات کو خود بھی پوری مضبوطی سے تھام لیں اور اپنی قوم کو بھی یہی امر کریںکہ اسکے احسن طریقوں کومضبوطی سے اپنا لیں۔ عنقریب تمہیں گنہگاروں کے ٹھکانے کی بھی خبر دوں گا۔ (۷:۱۴۵) تیسرے طریقے کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہوا: ’’ میرے رسول ؐ ! ان سے کہہ دیں کہ کون ہے جو جبریل ؑکا دشمن ہو،جس نے اللہ کی ہدایت کے عین مطابق اس قرآن کوتیرے قلب پر نازل کیا ، جوکہ تصدیق کرتا ہے اُس علم کی بھی جو اس سے پہلے لوگوں پر نازل فرمایاگیا تھا۔ یہی عین ہدایت اور بشارت ہے مومنین کے لیے۔‘‘(۲:۹۷) گویا ’’قلبِ رسول ؐ‘‘ہی وہ ’’لوح‘‘ ہے جس پر جبریل ؑکے ذریعے وحی فرما کر قرآن کو محفوظ کر لیا گیا۔ اس کی تائید میں مزید ارشاد ہوا: ’’ اے میرے رسول ؐ ! اس قرآن کو جب پڑھایا جائے تو اسے جلدی سے پڑھ جانے کی کوشش میں اپنی زبان کوتیزی سے حرکت نہ دیا کریں ۔ اس کا پڑھانا اور آپ کے حافظے میں اسے جمع کرواتے جانا ہمارا کام ہے ۔ آپ تو بس جیسے جیسے اسے پڑھا یا جائے، پیچھے پیچھے دہراتے جایا کریں۔پھر اس کا مطلب اور معانی بیان کرنا بھی ہمارے ہی ذمے ہے۔‘‘(۷۵:۱۶۔۱۹) صرف یہی نہیں اس کی حفاظت کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ا کی سرکردگی میں ہی قلم کے ذریعے اس کی کتابت کروا کر کاغذی کتاب کی صورت میں بھی محفوظ کروا دیا۔اور نہ صرف یہ بلکہ مسلمانوں کو اسے بار بار دہرانے اور زبانی یاد کر کے حفظ کرتے جانے کا بھی بندوبست فرما دیا۔ سورۃ القلم میں ارشاد ہوا: ’’ اے ن! قسم ہے القلم کی اور جو سطریں اس سے لکھی جاتی ہیں۔ یہ اس بات پر دلیل ہیں کہ تُو اپنے ربّ کی اس نعمت سے ( نعوذ باللہ) کوئی مجنون نہیں ہے۔‘‘(۶۸:۱۔۲) روایات کے مطابق قرآن کی سب سے پہلی سورۃ جو نازل ہوئی وہ موجودہ ترتیب کے حساب سے ۹۶ نمبر پر ’’سورۃ العلق ‘‘ہے۔ اس میں ارشاد ہوتا ہے: ’’پڑھ میرے رسولؐ ! تیرا ربّ بڑا کریم ہے۔وہ ذات جس نے القلم کے ذریعے علم سکھایا۔اور انسان کو وہ وہ سکھایا جس کا اُسے پہلے علم نہیں تھا‘‘۔(۹۶:۳۔۵) یہ بات یاد رکھنے والی ہے کہ سارے جہان کے انسان مل کر بھی ایسی کتاب کی ایک سورۃ یا ایک آیت بھی نہیں لکھ سکتے۔(۲:۲۳) کیونکہ کسی قسم کی لوح پر لکھنے والے قلم اسوقت تک ایسی کوئی تحریر نہیں لکھ سکتے جب تک کہ قلم تھامنے والے ہاتھ میں وحی کے علم اور حکمت کی جنبش پیدا نہ ہو۔ ایسی صورت میں وہ علم و حکمت ہی تحریر میں منتقل ہو رہے ہوتے ہیں جو قلبِ رسولؐ پر وحیٔ الٰہی سے محفوظ ہو چکے ہوں۔ یہی علم و تحریرکتابِ الٰہی کہلاتی ہے۔اس کا تعارف اللہ تعالیٰ نے قرآ نِ کریم میں دو سو سے زیادہ مقامات پر نہایت احسن انداز میں کروایا ہے ۔ مثلاً : وہ کتاب جس میں کوئی شک و شبہ نہیں کیا جا سکتا۔ کتاب بالحق۔ کتاب منیر۔کتاب اللہ۔ کتاب مبین۔ کتاب الحکیم ۔ کتابِ کریم۔احسن الحدیث۔ ان تمام ناموں کا اطلاق قلبِ رسولؐ سے منسوب ہے جس پر جبریل ؑ کے ذریعے اس کتاب کو نہ صرف نازل کیا گیا بلکہ اسے محفوظ بھی کیا گیا۔ یہ ہیں وہ دلائل جن کی بنیاد پر علامہ اقبالؔ کی نظر نے اللہ کے رسول ا کو’’لوح بھی تُو، قلم بھی تُو، تیرا وجود الکتاب ــ‘‘ لکھا ہے۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ: ’’ علمِ الٰہی نے ہر شے کا احاطہ کیا ہوا ہے ‘‘ (۶۵:۱۲) اللہ تعالیٰ کے علم میں سے وہ علم جو انسانوں کے لئے مقسوم ہو چکا ہے ۔ اُسے وحیٔ الٰہی کے ذریعے قلب رسول اپر نازل فرما دیا جاتا ہے۔اسی کی بنیاد پر رسول ؐ اللہ کا بحرِ علوم ،انسان کے لیے مسخر کردہ سماوات و ارض پرمحیط ہوتا ہے ۔ علامہ اقبال ؔکے نزدیک اس علم کے محیطِ بیکراں رسولؐ کے وجود میں، انسان کی حدّ ِنظر پہ پھیلے ہوئے نیلگوں آسمان کا ادراک ایک حباب کی مانند ہے… ’’ گنبدِ آبگینہ رنگ تیرے محیط میں حباب‘‘۔ اور یہ رسول ا بھی ایک ایسا محبوبِ خدا ہو کہ جس کا اتباع کئے بغیر کوئی انسان نہ تو اللہ تعالیٰ سے محبت کا دعویٰ کر سکتا ہے اور نہ ہی اللہ تعا لیٰ کی محبت کا مستحق سمجھا جاسکتا ہے (۳:۳۱) ایسے رسول ؐ اللہ کا مقصدِ تخلیق ہی یہی تھا کہ وہ اپنے حسن وجمالِ معنوی سے انسانی حیات کی تمام حالتوں کوتا ابد فیضیاب کرتا رہے اور یہی اُس کی رحمتً للعالمینی اور ختمِ نبوت پر دلیل بن جائے ۔ ایسے صاحبِ حسن و جمال رسولؐ کی نگاہِ ناز ایسی کیوں نہ ہوتی کہ اُس سے انسانی وجود کا ہر پہلو اپنی مراد پا گیا۔ وہ انسانی عقل ہو، جوکہ اسکے علم سے غائب باتوں کو جاننے کی جستجو میںمصروف رہتی ہے یاوہ عشق ہو جو اللہ تعالیٰ کی حضور ی میں ،اُنکی ہر جنبشِ مژگاں پر ہزار جان سے قربان ہونے کے لیے مضطرب رہتا ہے ۔ خاتم النبیین، سیّد المرسلین ، رحمتً للعالمین رسول ا کی ذاتِ سراجاً منیر کا علامہ ڈاکٹر محمداقبالؔ صاحب کی نظر میں مقامِ عظمت و فضیلت ہی ایسا ہے کہ فرماتے ہیں: شوق ترا اگر نہ ہو میری نماز کا امام میرا قیام بھی حجاب!میرا سجود بھی حجاب! ٭٭٭٭ ۴ ٭٭٭٭ تڑپ رہا ہے فلاطوںؔ میانِ غیب و حضور ازل سے اہلِ خرد کا مقام ہے اعرافؔ ترے ضمیر پہ جب تک نہ ہو نزولِ کتاب گرہ کشا ہے نہ رازیؔ نہ صاحبِ کشّافؔ ٭٭(بالِ جبریل ؑ ۔۶۰) ٭٭ ٭٭٭٭٭ تڑپ رہا ہے فلاطوںؔ میانِ غیب و حضور ازل سے اہلِ خرد کا مقام ہے اعرافؔ ترے ضمیر پہ جب تک نہ ہو نزولِ کتاب گرہ کشا ہے نہ رازیؔ نہ صاحبِ کشّافؔ ٭٭ (بالِ جبریل ؑ۶۰)٭٭ انسانی وجود میںجیسے دوسرے اعضاء ہیں اور وہ سب اپنا اپنا مخصوص یا مشترکہ فریضہ اداکرتے رہتے ہیں، اسی طرح سے ایک دماغ بھی ہے، جسے عقل و خرد، محسوسات، معلومات، حافظہ، ذہانت، فکّر، تدبّر،قوتِ فیصلہ ، سننے، دیکھنے ، سونگھنے ،چکھنے ،چھونے جیسے حواسِ خمسہ کا مرکز، دل ،جگر، معدہ پھپھڑے اور اس طرح کے انسانی وجود میں پھیلے ہوئے مختلف نظاموں کا کنٹرول سینٹر کہا جاتا ہے۔ دماغ ، ایک ایساعضو ہے کہ اس کا پورا عمل تمام انسانوں کے دماغوں کی اجتماعی عقل مل کر بھی ابھی تک سمجھ نہیں سکی۔ وحیِ الٰہی کے ذریعے ملنے والے علم کے علاوہ جتنا بھی علم انسانوں نے جمع کررکھا ہے ، وہ چاہے دورِ قدیم کے کسی افلاطوںؔ جیسے فلاسفر کا ہو یا آجکل کے کسی نوبل پرائز جیتنے والے پروفیسر و سائنسدان کا…وہ غیب unknown اور حضور knowکے درمیان زیادہ سے زیادہ حصولِ علم کی تلاش میں تڑپ رہا ہے۔ یہ بات بھی اہلِ علم کے لیے متفقہ طور پر تسلیم شدہ ہے کہ پوری انسانیت کا موجودہ اجتماعی علم، اُس علم کے مقابلے میں جس پر وہ ابھی تک غور و فکر بھی نہیں کر سکے ،صرف صفرکے برابر ہے۔بس اتنا کہا جا سکتا ہے کہ ایک لا محدود کو محدود میںبند کرنے کی بے سود کوشش میں وہ، اپنے جسم اور اپنے ماحول کیلئے،زیادہ سے زیادہ وسائل و ذرائع کی فراوانی حاصل کرنا چاہتے ہیں۔۔۔ محض عقل و خرد ، مشاہدہ اور مطالعہ کی بنیاد پر اپنے علم کا کُل اثاثہ رکھنے والوں کی مثال اُن لوگوں سی ہے جن کا ذکر قرآنِ مجید کی سورۃ اعرف:آیات ۴۶ سے ۴۹ میں ہے۔ وہ لوگ جو دوزخ اور جنّت کے درمیانی خطے اعراف پر ہونگے۔ اور یہی ان کے مقام کی حد ہے۔ لیکن ! انسان کی تخلیق کے ساتھ ہی جس مقصدِ تخلیق کو پہلے طے کرکے اللہ تعالیٰ نے انسان کی تخلیق کی۔ اُس کو حاصل کرنے کی تمام صلاحیتیں انسانی تخلیق کے ساتھ ہی عطا فرماد ی گئیں۔ اور پھر انبیاء اور رُسُل علیہم السلام کے قلوب ِاطہر پر وحی کے ذریعے کتابیں نازل فرما کر ،اُن کے طاہر اور معصوم جسموں کو باقی تمام انسانوں کے لئے مثالی کرداراور ان کتابوں کو انسان کے لیے اس زمین پر زندگی گزارنے کا نصاب بنا دیا گیا۔ ضمیر۔ قلب : انسانی شعور میں یہ وہ مقام ہے ، جہاں رسولوں ؑپر نزولِ وحی ہوتا ہے(۲:۹۷) جہاں ایمان، محبت، الفت یا تقویٰ اپنا گھر بناتے ہیں۔ یہ انسانی وجود میں مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ یہیں سے خیال اُٹھتا ہے۔ یہیں سے فیصلے صادر ہوتے ہیں ۔ادب میںاسی لفظ کے ہی متبادل فواد، نفس، ضمیراستعمال ہوتے ہیں۔ بقول ڈاکٹر علامہ محمد اقبال،ؒ جب تک انسان کے ضمیرپر، انبیاء علیہم السلام کی سُنت کے مطابق، قرآنِ حکیم کے ذریعے ہم تک پہنچنے والی وحیِ الٰہی،اپنے پورے مفہوم و معانی کے ساتھ نازل ہوکر، زندگی کے ہر فیصلے پر اثر انداز نہیں ہو جاتی، اس وقت تک علامہ فخرالدین رازیؔ ( وفات ۶۰۶ ؁ھ) یا علامہ ابوالقاسم محمود الزمحشریؔ ،صاحبِ کشّاف(وفات ۵۳۸؁ھ) کی تعلیمات ہمارے مسائلِ حیات کو حل کرنے میں ہرگز مددگار نہیں ہو سکتیں۔ قرآنی آیات کی دلیل پر قران ہی رحمت ہے،نور ہے، ہدایت ہے ۔ نفسی امراض کے لیے شفاہے۔ حق و باطل میں فیصلہ کرنے والا فرقان ہے ۔ بلکہ خود ہی وہ حق ہے جو اللہ کی طرف سے انبیا ء علیہم السلام کے ذریعے ہماری طرف نازل کیا گیا … یہی وہ بصیرت ہے کہ جس کے بغیر ہم سب آنکھیں رکھتے ہوئے بھی اندھے ہیں۔۔انہی قرآنی صفات کے متحمل مردِ مومن کے لیے علامہ اقبال ؒ نے فرمایا تھا: یہ راز کسی کو نہیں معلوم کہ مومن قاری نظر آتا ہے حقیقت میں ہے قرآن اب خود ہی ذرا سوچئے کہ اگر ایک مومن کی یہ شان ہے تو پھر جو امیر المومنین بننے کا مستحق ہو اُس کی کیا شان ہونی چاہیے۔ ٭٭٭٭٭ ۵ ٭٭٭٭ فیضِ نظر کے لیے ضبطِ سخن چاہئے حرفِ پریشاں نہ کہہ اہلِ نظر کے حضور ٭٭ (ضربِ کلیم ۔غزل)٭٭ ٭٭٭٭ فیضِ نظر کے لیے ضبط ِ سخن چاہئے حرفِ پریشاں نہ کہہ اہلِ نظر کے حضور ٭٭(ضربِ کلیم ۔غزل)٭٭ اے اہلِ نظر ذوقِ نظر خوب ہے لیکن جو شے کی حقیقت کو نہ سمجھے وہ نظر کیا ٭٭(ضربِ کلیم ۔فنونِ لطیفہ)٭٭ ڈاکٹر علامہ محمد اقبال ؔصاحب کی تعلیمات کے مطابق، نظر صرف وہی ہوتی ہے جو اشیا کی حقیقت سے آشنا ہو۔ ۔جس کی بنیاد ایک تو اس دعائیہ حدیثِ نبوی پر ہے کہـ ’’یا ـباری تعالیٰ! مجھے اشیا کی حقیقت سے آگاہ فرما ! ‘‘اور اس کے علاوہ قرآن میںمختلف مقامات پر جو اللہ تعالیٰ نے ایسے دیکھنے کو اندھا پن کہا ہے جو باقی تو سب کچھ دیکھ سکے مگر اللہ کی طرف سے آئے ہوئے حق کو نہ پہچان سکے۔ اسی لئے کتابِ حق میں ارشاد ہوا کہ: ـ ’’ ان کے قلوب ایسے ہو چکے ہیں جو حق بات سمجھ نہیں سکتے اور آنکھیں ایسی ہو گئی ہیں جو حق بات کو دیکھ نہیں سکتیں (۷:۱۷۹) انہیں سمجھا ئیں :’’آ نکھیں اند ھی نہیںہواکرتیںسینوںمیں قلوب اندھے ہو جایا کرتے ہیں۔‘‘ ( ۲۲:۴۶) اسی لئے ـ’’ یہ قرآن اب بصائر للناس‘‘ بنا کر نازل فرمایا گیا ہے اور اُن لوگوں کے لیے جو اس پر ایمان رکھتے ہیں یہ ہدایت اور رحمت بنا کر بھیجاگیا ہے ، (۷:۲۰۳) صاحبانِ بصیرت کے لیے فرمایا :اے چشمِ بصیرت رکھنے والو پس عبرت حاصل کرو (فاعتبروایا اولو الابصار ( ۹ ۵ :۲) علامہ اقبال ؔایک دینی گھرانے میں پیدا ہوکر ، شمس العلما سید میر حسن صاحب جیسے اساتذہ سے تعلیم پا کر اور قرآنی تعلیمات کے زیرِ اثر ہی ضربِ کلیم کی نظم ’’فنونِ لطیفہ‘‘ میں رنگ و صوت کے پرستاروں سے کہہ سکتے ہیں: اے اہلِ نظر! ذوقِ نظرخوب ہے لیکن جو شے کی حقیقت کو نہ دیکھے وہ نظر کیا ایسے حقیقت آشنا اہلِ بصیرت ہی اقبالؒ کے نزدیک حقیقت میں اہلِ نظر کہلانے کے حقدار ہیں۔ جن کے نورِ بصیرت سے فیض حاصل کرنے کی خاطر جن آداب و اطوار کی ضرورت ہوتی ہے اُس کی بنیاد قرآنی تعلیمات پراستوارہے ۔ مندرجہ بالا آیاتِ مبارکہ کی روشنی میں وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ جن کی آنکھیں نور ِ الٰہی سے بینا ہوںاُن جیسے روشن قلوب کے توسط سے دلوں کی بجھی ہوئی شمعیں بھی روشن کی جا سکتی ہیں۔فرماتے ہیں: جلا سکتی ہے شمعِ کشتہ کو موجِ نفس ان کی الٰہی! کیا چھپا ہوتا ہے اہلِ دل کے سینوں میں اہلِ نظر کے حضور حرفِ پریشاں نہ کہنے کی بہترین مثال سورۃ کھف کی آیات :۶۰ ۔ ۸۲ میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی ،اللہ کے بندوں میں سے ایک بندے( عبداً مِن عباد ِنا) کے ساتھ ملاقات میں ملتی ہے۔ اس عبدِالٰہی کا نام روایات میں حضرت خضر علیہ السلام بتایاگیا ہے۔ اختصار کی خاطر ہم صرف نفسِ مضمون سے متعلقہ آیات : ۶۵ ۔ ۷۰ سے ہی یہاں استفادہ کریں گے۔۔ ارشاد ہوا: ’’ پھر موسیٰ علیہ السلام کاسامنا ،ہمارے بندوں میں سے ایک ایسے بندے سے ہوا جسے ہم نے اپنی طرف سے رحمت عطا کر رکھی تھی اور اُسے اپنی طرف سے ایک خاص علم عطا کر رکھا تھا۔(۶۵) موسیٰ ؑ نے اُن سے کہا ،ـ’’ کیا میں آپ کا اس بات پر اتباع کروں کہ جو رُشدآپ کو تعلیم کی گئی ہے وہ آپ مجھے بھی سکھا دیں ؟‘‘ (لفظ مُرشد اسی طرح کی رشد کے حوالے سے استعمال کیا جاتا ہے) ۔(۶۶) انہوں نے فرمایا،’’ آپ میرے ساتھ صبر نہیں کر سکیںگے۔‘‘(۶۷) ’’اور آپ میرے ساتھ اُس بات پر صبر کر بھی کیسے سکتے ہیں جس کی آپ کو کوئی خبر ہی نہ ہو‘‘۔(۶۸) موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ انشا اللہ آپ مجھے صابر پائیں گے اور میں آپ کے کسی حکم کی نافرمانی نہیں کرونگا(۶۹) انہوں نے فرمایا کہ اگر تم میرا ااتباع کرنا چاہتے ہو تو پھر مجھ سے کسی شے کے بارے میں کوئی سوال نہ پوچھنا جب تک کہ میں خود تم سے اُس کا ذکر نہ کروں(۷۰) ان آیاتِ مقدسہ میں رشد و ہدایت کی تحصیل کے لیے جن آداب کو ملحوظِ خاطر رکھنا سب سے زیادہ ضروری سمجھا گیا ، وہ خاموشی سے سُننا اور بلا وجہ کوئی سوال نہ کرنا ہے۔ اسی طرح اللہ کے آخری رسول سیّد المرسلین ا کی محفل تدریس کے آداب سے ْقرآن الحکیم بھرا پڑا ہے۔ یہاں صرف چند کو بیان کیا جاتا ہے:۔ ٭اُن کی بات کو پوری توجہ سے سُننا۔ ٭اُن کے ہر حکم کی تعمیل کرنا۔ ٭محفل میں سرگوشی (نجویٰ) نہ کرنا۔ ٭اُن سے بے جا سوال نہ کرنا۔ ٭اُن کی آواز سے اپنی آواز کو بلند نہ کرنا۔ ٭اُن کو اپنی جان اور مال سے زیادہ عزیز رکھنا۔ ٭بلا وجہ وہاں بیٹھے نہ رہنا۔ اللہ تعالیٰ کے رسولؐ کے لائے ہوئے مجموعۂ رشد و ہدایت، قرآنِ مجید کو سُننے کے بھی اللہ تعالیٰ نے خاص آداب تعلیم کئے ہوئے ہیں۔ حکیم الاُمت علامہ اقبالؒ کے پیر مولانا رومیؒ نے ایک شعر میں سورۃ الاعراف کی آیت:۴۰۲ کا نہایت خوبصورت حوالہ پیش کیا ہے ۔آیت کا متن یہ ہے: ’’جب قرآن پڑھا جائے تواسے ہر طرف سے خیال ہٹا کر پوری محویت سے سنا کرو (فَاستَمِعُوا) اور بالکل خامو ش ہو جایا کرو (وَانصَتُوا) تاکہ تُم پر رحم کیا جا ئے ‘‘ ۔ مولانا جلال الدین رومیؔ ؒ فرماتے ہیں: وَانصَتُوارا گوش کُن خاموش باش چوں زُبانِ حق نہ گشتن ،گوش باش (رومیؔ) ٭٭٭٭ ۶ ٭٭٭٭ صنم کدہ ہے جہا ں اور مردِ حق ہے خلیل ؑ یہ نکتہ وہ ہے جو پوشیدہ لَا اِلٰہ میں ہے عذابِ دانشِ حاضر سے با خبر ہوں میں کہ میں اس آگ میں ڈالا گیا ہوں مثلِ خلیل ؑ ٭٭ (بالِ جبریل)٭٭ ٭٭٭٭٭ صنم کدہ ہے جہا ں اور مردِ حق ہے خلیل ؑ یہ نکتہ وہ ہے جو پوشیدہ لَا اِلٰہ میں ہے عذابِ دانشِ حاضر سے با خبر ہوں میں کہ میں اس آگ میں ڈالا گیا ہوں مثلِ خلیل ؑ ٭٭ (بالِ جبریل)٭٭ علامہ ڈاکٹر محمد اقبالؒ کے مسلک ِ فکر میں جن دو اقسام کی دانش کا ذکر ہے ، وہ دانشِ نو ر ا نی اور دانشِ برہانی ہیں۔ بالِ جبریل۔۱۵ میں دانشِ برہانی کا تعارف کرواتے ہیں: ’’ہے دانشِ برہانی حیرت کی فراوانی‘‘۔ انسانی تاریخ میںاس دانشِ برہانی کے بڑے بڑے کارناموں کی مثالیں بابل و نینوا، یونانی و رومی، مصری وایرانی ،چینی و ہندوستانی تہذیبوں کے کارناموں سے بھری پڑی ہیں ۔جو اپنی اپنی عقل و دانش کے کارہائے نمایاں دکھلا کر پھر اپنی ہی حماقتو ں کے ہاتھوں خود کُشی کر کے مٹی کے چھوٹے بڑے تودوں کے نیچے ،عبرت کا نشان بن کر، وقت کے قبرستان میں دفن ہوتی گئیں۔ تاریخ کے پرستاروں یا محققوں نے اُن میں سے کچھ کو اہرامِ مصر، موہنجودارو، ہڑپہ ٹیکسلا، اجودھیا اور اجنتا کی غاروں جیسے مقامات کو دیگر وجوہات کے علاوہ سیاحت کی تجارت کے فروغ کے لیے کھود نکالا ہے۔لیکن نہ جانے کتنی تہذیبوں کے نام نشان یا تو مٹ چکے ہیں یا ابھی خاک میں دبے پڑے ہیں۔ تاریخی حوالوں کے علاوہ الہامی کتابوں میں قصے کہانیوں کی بجائے محض عبرت کی خاطر ان گذشتہ تہذیبوں اور اُمتوں کاتذکرہ ملتا ہے۔ مگر اُن تذکروں میں ایک بات جو مشترک نظر آتی ہے وہ یہ کہ جب کوئی تہذیب اپنے عروج کو پہنچتی تو اُن کا بر سرِ اقتدار سیاسی،مذہبی اور دولتمند طبقہ ( ’’ ملائ‘‘)ا نسا نیت کے تمام اصول پا ما ل کرکے غریبوں اور مظلوموں کی زندگیاں موت سے بھی بدتر کر دیتا ۔مثلاً : نوح علیہ السلام نے جب اپنی قوم سے کہا ’’کہ وہ اللہ کی طرف سے انسانی فلاح کے لئے بھیجے گئے قوانین کا اتباع کریں‘‘ ۔ تواُن کی قوم کے سرداروں(ملائ) نے جواب دیا: ’’ہم تو اُلٹا آپ کو ہی صریح گمراہی میں مبتلا دیکھتے ہیں۔ ایسی صورت میں ہم کیا ایمان لائیں جبکہ آپ کا اتباع کرنے والے سب سے نچلے درجے کے بے عزت اور رذیل لوگ ہی دکھائی دیتے ہیں۔ہم تو تمہیں محض اپنی قسم کا ہی ایک بشر سمجھتے ہیں ،جو یہ چاہتا ہے کہ لوگوں میں فضیلت کا مقام حاصل کر لے۔مگر ہم تو تُم میںاپنے اوپر کوئی فضیلت نہیں دیکھتے، بلکہ آپ کو جھوٹا سمجھتے ہیں۔(۱۱:۲۷؛ ۲۶:۱۱۱) نوح علیہ السلام نے فرمایا: ’’اے میری قوم! کیا تم دیکھتے نہیں کہ مجھے اپنے ربّ کی طرف سے بیّن دلائل عطا ہوئے ہیں اور اپنی جناب سے ایسی رحمت عطا کی ہے جس کی حقیقت تم سے پوشیدہ ہے۔لیکن میں تمہیں اس کے لئے مجبور تو نہیں کر سکتا جبکہ تم اللہ کی طرف سے آئے ہوئے حق سے کراہت رکھتے ہو۔اور میں تم سے معاوضے میں مال و دولت بھی نہیں مانگ رہا ،میرا اجر تومحض میرے اللہ کے ذمہ ہے (۱۱:۲۸۔۲۹) اب رہا اُن لوگوں کا معاملہ جو مجھ پر ایمان لائے ہیں ،تو مجھے اچھی طرح معلوم ہے کہ وہ کیسے ہیں اور کیا کرتے ہیں ۔ لیکن یہ جان رکھو کہ میں انہیں اپنے پاس سے نکالنے والا نہیں ۔ وہ تو اپنے ربّ سے جا ملیں گے اور اُن کا حساب بھی میرے ربّ کے ہی ذمے ہے۔ مگر میری نظر میں تُم بڑی ہی جاہل قوم ہو۔ کاش!تم کچھ شعور سے کام لیتے۔‘‘ ( ۱۱:۳۰ ؛ ۲۶ : ۱۱۲۔۱۱۳) سرداروں نے کہا : ’’ اے نوح ! اگر تُم باز نہ آئے تو سنگسار کر دئے جاؤ گے!!‘‘ (۲۶:۱۱۶)۔ یہ ہے وہ ’’آگ‘‘ جس میں نوح علیہ السلام اپنی قوم کے ہاتھوں جلائے جا رہے تھے ،جب انہوںنے ایسے کرب کی حالت میں اپنے ربّ سے ، بادلِ ناخواستہ فریاد کی ۔ اسی طرح ، ابراہیم علیہ السلامکا بھی کتابِ الٰہی میں ذکر کیا گیا ہے جو اللہ کے حضور قلبِ سلیم لے کر حاضر ہوئے تھے اللہ نے انہیں اپنا خلیل بنا لیا تھا۔ انہوں نے اللہ سے وفا کی۔ اللہ نے انہیں پہلے سے ہی رشد و ہدایت عطا کر رکھی تھی اور اُن کے حال سے بھی خوب واقف تھا۔ وہ یقیناً ایک صدیق نبی تھے اور لوگوں کے امام اور خالصتاًاللہ ہی کے فرمانبردار تھے۔ وہ ہرگز شرک کرنے والے نہ تھے۔ اللہ کی نعمتوں کے شاکر تھے۔انہیں اللہ نے مجتبیٰ کیاتھا اور صراطِ مستقیم پر اُن کی ہدایت فرمائی تھی(۱۹:۴۱؛ ۳۷:۸۴؛ ۴:۱۲۵؛ ۵۳:۳۷؛ ۱ ۲:۵۱؛ ۲۶:۶۹؛ ۱۶: ۱۲۰۔۱۲۲) ۔یہ ہیں ابراہیم علیہ السلام جو تن تنہا اپنی پوری قوم سے نبرد آزما تھے اور ان کا سب سے بڑا ہتھیار محض دلائلِ حق تھا۔اسی لئے شاید اللہ تعالیٰ نے سورۃ نحل کی آیت ۱۲۰ میں ابراہیم علیہ السلام کو اپنی ذات میں ہی ایک اُمت کہاہے۔ ارشادہوا:’’ کیا لوگوں نے اُس شخص کی حالت پر غور نہیں کیا جس نے ابراہیم علیہ السلام سے ربّ کے متعلق بحث کی، جبکہ اللہ ہی نے اُسے ملک پر حکومت کا اختیار دے رکھاتھا۔ ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا :’’میرا ربّ وہ ہے جو حیات اور موت پر قدرت رکھتا ہے‘‘ تو وہ کہنے لگا: ’’ یہ کون سی بڑی بات ہے؟۔ میں بھی زندگی اور موت پر قدرت رکھتا ہوں۔‘‘ ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا،’’ میرا ربّ وہ ہے جو مشرق سے سورج کو نکالتا ہے۔ تُم اسے مغرب سے نکال کر دکھاؤ!‘‘۔ وہ لاجواب تو ہو گیا مگر اللہ کے قانون میں ایسے ظالموں کا ہدایت قبو ل کر نا ممکن نہیں ہوتا ‘‘ (۲:۲۵۸) اور جب ابراہیم علیہ السلام نے اپنے باپ اور قوم سے پوچھا :’’ـ یہ کیا ہیں جن کی تم عبادت کرتے ہواور اُن کا اعتکاف کرتے ہو؟‘‘انہوں نے کہا:’’ہم تو فقط ان اصنام کی ہی پرستش کرتے رہیں گے اور اسی پر قائم رہیں گے۔‘‘ ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا،’’ جب تم لوگ انہیں پکارتے ہو تو کیا یہ تمہاری آواز سُنتے ہیں یا تمہیں کوئی نفع نقصان پہنچا سکتے ہیں؟‘‘ انہوں نے کہا:’’ نہیں !مگر ہم نے اپنے باپ دادا کو محض انہی کی عبادت کرتے دیکھا ہے۔‘‘ ابراہیم ؑ نے فرمایا:’’ تُم لوگ کیوں اللہ کو چھوڑ کر ان چھوٹے چھوٹے الہٰوں کے طلبگار ہوتے ہو؟۔ مجھے بتاؤ تو سہی کہ ربّ العالمین کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے؟‘‘۔ اُن لوگوں نے جواب دیا، ’’تُم ہمارے پاس حق لے کر آئے ہو یا کوئی کھیل تماشا کر رہے ہو؟‘‘۔ ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا:ـ ’’ کیا تم لوگ مجھ سے اُس اللہ کے بارے میں جھگڑتے ہو جس نے مجھے اس طرح ہدایت عطا کر رکھی ہے۔ لیکن یہ بات اچھی طرح جان لو کہ جن چیزوں کو تُم اللہ کا شریک ٹھہراتے ہو، میں اُن سے ہرگز نہیں ڈرتا ۔ ذرا سوچو تو سہی کہ میں اُن چیزوں سے جنہیں تُم اللہ کا شریک ٹھہراتے ہوڈر بھی کیسے سکتا ہوںجبکہ تم ان چیزوں کو اللہ کا شریک بنانے سے نہیں ڈرتے۔ اور ایسا کرنے کے لئے اللہ کی طرف سے آپ کے پاس کوئی دلیل بھی نہیں آئی…یہ اللہ کی طرف سے حجت تھی جو اُس نے ابراہیم کو اُن کی قوم کے مقابلے میں عطا کر دی تھی۔ اسی طرح اللہ جسے چاہتا ہے اُسکے درجات ارفع کر دیتا ہے۔ آپ کا ربّ یقیناً بڑا حکیم’‘ علیم ہے۔‘‘ ( ۲۱:۵۲ ۔۵۵؛ ۲۶:۷۰ ۔۸۲؛ ۳۷: ۸۵ ؛۶:۸۱۔۸۴) ’’ اللہ کی قسم! جب تم لوگ یہاں سے چلے جاؤگے تو میں تمہارے بتوں سے چال چلوں گا!‘‘ ۔۔ جب وہ وہاں سے چلے گئے تو ابراہیم علیہ السلام نے اُن بتوں کو توڑ پھوڑ دیا سوائے سب سے بڑے بُت کے۔ تاکہ تفتیش کا رُخ اُس بُت کی طرف ہو سکے۔ اُن لوگوں نے جب بُتوں کا یہ حال دیکھا تو لگے ایک دوسرے سے پوچھنے کہ ہمارے الہٰوں کے ساتھ یہ براسلوک کس نے کیا ہے؟۔یقیناً وہ کوئی بڑا ہی ظالم شخص ہے۔ کچھ لوگوں نے کہا کہ’’ ہم نے ایک جوان کو جسے ابراہیم کہتے ہیں ان بتوں کے بارے میں ایسا ویسا کہتے سُنا ہے۔ چنانچہ حکم دیا گیاکہ اُسے فوراً لا کر اُنکے سامنے پیش کیا جائے تاکہ لوگ اُس کے خلاف اپنی گواہی دے سکیں۔۔ جب ابراہیم آئے تو اُن سے سوال کیا گیا: ’’ اے ابراہیم! کیا ہمارے الٰہوں کے ساتھ یہ حرکت آپ نے کی ہے؟‘‘ ابراہیم ؑ نے فرمایا :’’ یہ حرکت اُن میں سب سے بڑے بُت کی ہوگی۔ جواگربول سکتا ہے تو اُسی سے پوچھ لو۔‘‘۔انہوں نے مشورہ کر کے ابراہیم ؑ سے کہا کہ’’ یہ ظلم یقیناً آپ کے ہاتھوں ہوا ہے۔‘‘مگر ساتھ ہی اُنہوں ایک حقیقت کو بھی تسلیم کر لیا اور کہنے لگے، آپ خوب جانتے ہیں کہ یہ بُت بول نہیں سکتے۔‘‘ ۔۔ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا :’’ کیا پھر بھی تُم لوگ اللہ کے سوا ایسے بتوں کی عبادت کرتے ہو،جو نہ آپ کو کوئی نفع پہنچا سکتے ہیں اور نہ ہی آپ کا کوئی نقصان کر سکتے ہیں؟ ۔ تُف ہے تُم پر! اور ان پر بھی جنہیں تُم اللہ کے سوا پوجتے ہو ۔ کیا تُم لوگ اتنی سی بھی عقل نہیں رکھتے؟‘‘ ابراہیم علیہ السلام کی قوم کے پاس اب سوائے اس کے کوئی جواب نہ تھا کہ وہ کہنے لگے’’ اگر اپنے معبودوں کی مدد کرنی ہے تو ابراہیم ؑ کو قتل کر دو ! نہیں بلکہ اسے زندہ آگ میں جلا ڈالو!!۔ اور اس کام کے لیے ایک عمارت بناؤ جس پر سے ابراہیم کو آگ کے ڈھیر میں پھینک دو!!! ابراہیم علیہ السلام نے جواب دیا:’’ تُم نے جو کچھ کرنا ہے کر گزرو۔ میں تو ویسے بھی اپنے ربّ کی طرف ہی جانے والا ہوں، وہی اب مجھے راہ سجھائے گا‘‘۔جب اُنہوں نے ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ یہ چال چلی تو اللہ نے انہی کو نیچا کر دکھایا۔اور آگ کو حکم دیا!! ’’ اے آگ!! ٹھنڈی ہو جا!!! اور ابراہیمؑ پر سلا متی بن جا !! اسطرح انہوں نے جوحرکت ابراہیم ؑ کو نقصان پہنچانے کے لیے کی، اللہ نے اُسی سے اُلٹا انہی کو نیچا کردکھایا اور ابراہیم ؑ کو آگ سے بچا لیا۔(۲۱ : ۷ ۔ ۰ ۷ ؛ ۲۹: ۲۴ ؛ ۳۷:۹۷۔۹۹) اپنی ہی قوم کی زبوں حالی پر دل جلانے والی آتشِ سوز و گداز جس میں نوح علیہ السلام یا ابراہیم علیہ السلام جل رہیے تھے ایک ایسا منبع ِسوزِ عشق ہے کہ، انبیاء علیہم السلام کی سُنٰت کا اتباع کرتے ہوئے، جس سینے میں قوم اور انسانیت کا درد بھڑک اُٹھتا ہے ، وہ بھی اُس آگ میں مثلِ خلیل ؑ جلنے لگ جاتا ہے۔ ابراہیم علیہ السلام کے اسوۃِ حسنہ کو ہی مسلمان کے لئے لائحہِ عمل بناکر علامہ اقبالؔ نے اپنے کلام میں حالاتِ حاضرہ کی زبوں حالی کا علاج تجویز کیا ہے۔ اور خود بھی اسی آگ کی تپش میں دانشِ نورانی کو ہی مسلسل مشعلِ راہ بنائے رکھا۔ اسی سوز میں سلگتے ہوئے چند اور اشعا ر دیکھیں: آج کے دور میں اس دانشِ حاضر کے تمام روّیے صنم کدۂ نمرود سے کسی طرح کم نہیں ہیں اسی لئے ضربِ کلیم (لا الہٰ الا اللہ) میں فرماتے ہیں : یہ دور اپنے براہیم ؑ کی تلاش میں ہے صنم کدہ ہے جہاں لا الہٰ الا اللہ اور اس بات پر ڈاکٹر علامہ محمد اقبال ؒیقین رکھتے تھے کہ: آج بھی ہو جو براہیم ؑ کا ایماں پیدا آگ کر سکتی ہے اندازِ گلستاں پیدا ٭٭٭٭ ۷ ٭٭٭٭ مثلِ کلیم ؑہو اگر معرکہ آزما کوئی اب بھی درخت ِ طور سے آتی ہے بانگِ لاتَخَف خیرہ نہ کر سکا مجھے جلوۂ دانش فرنگؔ سرمہ ہے میری آنکھ کا خاکِ مدینہؔ و نجفؔ ٭٭ ( بالِ جبریل ۔۱۶) ٭٭ ٭٭٭٭ مثلِ کلیم ؑہو اگر معرکہ آزما کوئی اب بھی درختِ طور سے آتی ہے بانگِ لَا تَخَف خیرہ نہ کر سکا مجھے جلوۂ دانشِ فرنگؔ سرمہ ہے میری آنکھ کا خاکِ مدینہ ؔو نجفؔ ٭٭ ( بالِ جبریل ۔۱۶)٭٭ حضرت ابرہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی طرح ،اگر کوئی ایمان ، یقین اور توکّل کے جذبے سے سرشارہو کر،کسی ظالم اور جابر قوم کے کفر و الحاد کے صنم کدے پاش پاش کرنے کے لیے تن تنہا معرکہ آرا ہو جائے تو موسیٰ علیہ السلام کی طرح اُسے شریکِ زمرۂ لا یحزنوںکر لیا جاتا ہے۔ جیسے بقول قرآن المجید : سورۃ نمل : آیت:۱۰ ، اور سورۃ قصص : کی آیت :۳۱، کے مشترکہ ارشاد کے مطابق کوہِ طور کے روشن شجر سے آواز آئی:۔ ’’ اے موسیٰ ! میرے اور قریب آؤ ، ڈرو نہیں! ( لَاتَخَف!) ’’ہمارے پیغمبرـ‘‘ ہمارے سامنے ڈرا نہیں کر تے ۔ بلا شبہ تُم امان میں رہوگے!‘‘ حضرت موسیٰ علیہ السلام کیلئے ،اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسے مخاطب کئے جانے کا پہلا واقعہ تھا جبکہ اللہ تعالیٰ نے اُنہیں بھی’’ میر ے رسولؑ!‘‘کہہ کر خطاب فرمایا ۔ ورنہ اس طرح کے تسلی بخش الفاظ کی ضرورت نہ رہتی۔ لیکن ایک بیابان جنگل کی بے سرو سامانی اور پردیس کی گھپ اندھیری رات میں کوہِ طور پر شمع روشن کر کے بلوائے جانے، اس قدر پیار اور توجہ سے مخاطب کئے جانے اور مقامِ رسالت پر فائز کرکے امن و امان کی ضمانت دئے جانے کا لطف ،صرف وہی جان سکتا ہے جوکلیم اللّٰہ ہو ۔ مگر حضرت ابراہیم خلیل اللّٰہ ،قربِ الٰہی کے ایسے کتنے ہی مدارج سے لطف اندوز ہوتے چلے آ رہے تھے جب وہ صنم کدۂ نمرود ؔکی جابر اور ظالم سلطنت سے بے خوف وخطر نبرد آزما ہوئے ۔۔اسی مقامِ رسالت کے سوز و گداز کو ہی اقبالؒؔ عشق ِ ِ حقیقی کا مقام سمجھتے ہیں اور فرماتے ہیں: بے خطر کود پڑا آتشِ نمروؔد میں عشق عقل ہے محوِ تماشائے لبِ بام ابھی عشق اور عقل کے ا س تقابل میں علامہ اقبالؒ انسان کی اُس کیفیت کو عشق کہتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی کے ذریعے آنے والے علم کو حق مان کر اسکے قلب و خیال میں پیدا ہوتی ہے اور جس کے زیرِ اثر وہ اُٹھتے بیٹھتے سوتے جاگتے اپنی کروٹوں میں،ہر ایک عمل سے اپنے ایمان اور توکل کا مظہر بن جاتا ہے۔ ایسا عاشق چونکہ ایک عزیز الحکیم کی محبت کو اپنے قلب و خیال میں سمو چکا ہوتا ہے اس لئے اُسی ذاتِ جابر و قہار کی نصرت سے بے خوف و خطر ہو جاتا ہے۔اُس کا وجود اُس کا اپنا نہیںرہتا۔ وہ اسے اپنے محبوب کی امانت سمجھتے ہوئے ہر وقت واپس لوٹا دینے کے حکم کا منتظر ،اپنے دل و جان ہتھیلی پر لئے پھرتا ہے۔ تو پھر ایسا عاشق کیوں نہ اپنے محبوب کی خاطر، بے خطر آگ میں کود پڑے ۔۔ اُسکے لئے دانشِ نورانی کی روشنی میں ،صرف یہی ایک راستہ ابدی حیات کی نشان دہی کر رہا ہوتا ہے۔ عقلِ برہانی اس روئے زمین پر، ہر دور میں، شیطانی صفات و حرکات کے ایسے ایسے صنم کدے تعمیر کرتی رہی ہے کہ جن میںتہذیب و تمدن، رنگ و نسل، زبان و بیان۔ آداب ومعاشرت، علم و صنعت، قوت و غلبہ، تمکنت و سلطنت ،غیرت و حمیت ، قومیت و مذہب کے سنہر ے بُت سجا دئے جاتے ہیں اورپھر وقت کے بڑے بڑے برہانی دانشور، ان کے گردا گرد نئے یا ماضی کے مسلکوں سے چُرا کر، خود ساختہ حکایات و روایات سے مکڑی کا جال بُن کراُس سے ایک مکمل نیا مذہب ایجاد کرلیتے ہیں۔ ایسے شیطانی مذہبی نظام کی ترویج و تبلیغ کے لیے پھر بڑی سے بڑی سلطنتیں سرگرمِ عمل ہو جاتی ہیں… اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجے ہوئے گذشتہ انبیاء علیہم السلام کو ہمیشہ ایسے ہی باطل نظاموں کے ساتھ ٹکرانا پڑتا تھا۔ جسکے لئے انہیں حق کے دلائل کی قوت یعنی دانشِ نورانی دے کر بھیجا جاتا رہا۔ اس روئے زمین پر ، دانشِ برہانی کے پیدا کردہ نظاموں اور مذہبوں کے جومراکز قائم ہوتے رہے ہیں، اُن میں ، طاقت و قوت اور وسائل و ذرائع کے اعتبار سے سب سے زیادہ خطرناک نظام جو پوری دنیا پر مسلط ہو چکا ہے ، وہ گلوبل مغربی نظام ہے جسے علامہ اقبالؔؒ نے دانشِ فرنگ سے موسوم کیا ہے ۔ اس دانشِ فرنگ سے اس وقت دنیا میں جہاں جہاں بھی کوکا کولا ۔ میکڈا نلڈ ۔ مغربی لباس ۔ اور ایورپی نظامِ تعلیم پہنچ چکے ہے۔ وہاں وہاں تک اس کی چکا چوند نے دنیا کو اندھا کر رکھا ہے۔ جب تک تو انبیاء علیہم السلام آتے رہے وہ خود آآ کر اپنے اپنے دور کے ایسے نظاموں سے ٹکراتے رہے۔ لیکن اب چونکہ کوئی اور نبی ؑ یا رسولؐ نہیں آئیگا اور نہ ہی اُسکی کوئی ضرورت ہے،کیونکہ اب تمام گذشتہ انبیاء علیہ السلام کی تعلیمات کے مجموعوں کا نیا بصائر للناس ایڈیشن تا قیامت حق کے متلاشیوں کی آنکھوں کو نورانی بصیرت کا سُرمہ فراہم کرتا رہے گا۔ عرب و عجم کی تاریخ کا پورا علم اور قرآن کے دین پر کامل ایمان اور یقین رکھتے ہوئے،علامہ اقبالؒؔ کے نزدیک حضور اکرم صلّ اللہ علیہ وآلہ ٖ و سلّم کے وصال کے صرف ۵ ۲سال بعدسیاسی مرکز کا مدینہؔ منورہ سے کوفہؔ ہجرت کر جانا اورخلافت کا ملوکیت میں بدل جانا، انتہائی کرب ناک واقعات تھے ۔ اپنی آنکھوں کے لیے نورِ بصیرت کا سُرمہ حاصل کرنے کے لیے اقبالؔ نے اپنے مرکزِ فیض کو تبدیل نہیں ہونے دیا اور اپنی نگاہوں کے لیے سرمۂ بصیرت حاصل کرنے کے لئے اپنے رُخ کو نبوت اور امامت کے مراکز مدینہؔ اور نجفؔ کو ہی قائم رکھا اور دمشق و بغداد کو قابلِ اعتنا نہ جانا۔ (نجفؔ: کوفہ کے مضافات میں ہے جہاں حضرت علی ؑ کاروضہ مبارک ہے)۔ اپنے شعر میں اقبالؒ نے مدینہ اور نجف ؔ اشرف کا نام اس لئے بھی رکھا ہے کہ اقبالؒ کے کلام میں متعدد حوالوں سے دین کا مرکز و محور مدینہ منورہ اور امیر المومنین علی علیہ السلام کی ذات تھی جو کہ حضور پاک ؐ کے بصائر الناس شہرِ علم قرآن کادروازہ ہونے کی وجہ سے بائے بسم اللہ کا درجہ بھی رکھتے تھے۔ (خلافتِ راشدہ کی نظر سے دیکھا جائے تو بھی شعر درست ہے کیو نکہ پہلے تین خلفائے راشدین کا مدفن مدینہ ہے اور چوتھے خلیفۂ راشد کا مدفن نجفؔ ہے) انہی دو مراکز سے ملنے والی بصیرت کا سرمہ ہی تمام ِ مرسلین کا وہ فیضِ اول تا آخر تھا جس کی وجہ سے علامہ ڈاکٹر محمد اقبالؔ کی آنکھوں کو اس دور ِ حاضر میں جلوۂ دانشِ فرنگ خیرہ نہ کر سکا۔ خیرہ نہ کر سکا مجھے جلوۂ دانشِ فرنگ سُرمہ ہے میری آنکھ کا خاکِ مدینہؔ و نجفؔ ٭٭٭٭ ۸ اُٹھا میں مدرسہ و خانقاہ سے غمناک نہ زندگی، نہ محبت، نہ معرفت، نہ نگاہ حدیثِ دل کسی درویشِ بے گلیم سے پوچھ خدا کرے تجھے تیرے مقام سے آگاہ ٭٭بالِ جبریل۔۲۳٭٭ ٭٭٭٭ اُٹھا میں مدرسہ و خانقاہ سے غمناک نہ زندگی، نہ محبت، نہ معرفت، نہ نگاہ حدیثِ دل کسی درویشِ بے گلیم سے پوچھ خدا کرے تجھے تیرے مقام سے آگاہ ٭٭بالِ جبریل۔۲۳٭٭ ہر ایک نبی ؑ اور رسول ؑ اس دنیا میں تخلیق ہی اس لئے کیا جاتا ہے کہ وہ وحیِٔ الٰہی کے مطابق انسانوں کو اُنکے مقصدِ تخلیق کی تعلیمات عطا کرے ۔ انہیں ایسا درس عطا کرے کہ اُن کے سینے نورِ ہدایت سے منور ہوجائیں اورجہالت کے تمام اندھیرے بھاگ جائیں۔یہ درس دینے کے لئے ایسا مدرسہ قائم کرے کہ جس میں اللہ کی اکبریت کے سامنے سب کوسجدہ ریز کر کے الفلاح کے نظام میں سب کو منسلک کر دیا جائے۔ اس مدرسہ میں حق بات سننے سے بہرے کانوں کو حق کی طرف گوش بر آواز رہنے والے بنا دیا جائے۔ حق کی پہچان نہ رکھنے والے اندھو ں کوحق و باطل میں فرق کر سکنے والے …صاحبانِ بصیرت بنا دے۔حق بات کے سوا ہر طرح کی بے مقصدگفتگو کرنے والے گونگوں کو زبانِ حق عطا کردے ۔ ان کے مردہ قلوب جو حق بات کو سمجھنے سے ہی قاصر ہیں ،انہیں نورِ حق سے حیاتِ نو بخش دے۔ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے دلوں میں ایسی باہمی محبت بھر دے جو سارے جہان کے خزانے خرچ کر کے بھی پیدا نہ کی جا سکے(۸:۶۳)۔ یہ ایسی محبت ہو کہ وہ سب آپس میں بھائی بھائی بن جائیں(۳:۱۰۳)۔ اگر اُن کوحق کے راستے سے ہٹانے کے لیے کوئی اُن سے جنگ کرے تو وہ ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار(بنیان المر صوص) کی طرح اپنا دفاع کریں(۶۱:۴)۔ انبیاؑ ومرسلیں علیہم السلام کی ہدایت کے بغیر انسانوں کی جو حالت ہوتی ہے ، اُس کا قرآنِ کریم میں جگہ جگہ بیان موجود ہے ۔اُن میں سے صرف چندآیات کا حوالہ یہاں دینا ضروری ہے : ـ’’۷:۱۷۹: ہم اپنے فیصلے کے مطابق جنوں اور انسانوں میں سے کثیر تعداد جہنّم وارد کر دیں گے، کیونکہ وہ قلوب تو رکھتے ہیں مگر اُن سے کچھ سمجھتے نہیں ۔ اُن کی آنکھیں توہیں مگر اُن میںبصیرت نہیں رکھتے ۔ اُن کے کان تو ہیں مگر وہ اُن سے سنتے نہیں۔وہ جانوروں کی طرح ہیں، نہیں بلکہ اُن سے بھی زیادہ گُمراہ ۔ یہ سب لوگ انتہائی غفلت میں پڑے ہوئے ہیں۔‘‘ ’’۲۵:۴۳۔۴۴: کیا تُم نے ایسے شخص کو دیکھا ہے جس نے خواہشاتِ نفس کو الہٰ بنا رکھا ہو؟ بھلا کیا تُم ایسے شخص کے وکیل بن سکتے ہو؟(۴۳) کیا تُم یہ سمجھتے ہو کہ ان میں سے اکثر لوگ سنتے یا سمجھتے ہیں؟ نہیں یہ تو محض حیوان ہیں ۔بلکہ اُن سے بھی کہیں زیادہ راہِ حق سے بھٹکے ہوئے ۔(۴۴) یہ ہیں وہ چلتی پھرتی لاشیں جن کو زندگی،محبت، معرفت اور نگا ہ عطا کرنے کے لیے انبیاء و مرسلین علیہم السلام روئے زمین پر قیامِ دین کے لیے مدرسہ قائم کیاکرتے تھے۔اس مدرسے کا دوسرا نام مسجد ہو ا کرتا تھا۔ ( مسجد اس لئے کہ اس جگہ احکامِ الٰہی کو سجدہ کیا جاتا تھا۔ قرآن الحکیم میں ارشاد ہوا: ’’۳:۷۹: کسی بشر کے لئے یہ ممکن نہیں کہ اللہ اُسے کتاب ، حکمت اور نبوت عطا فرمائے اور وہ لوگوں سے یہ کہتا پھرے کہ تُم لوگ اللہ کو چھوڑ کر میرے عبد بن جاؤ۔ بلکہ وہ تو یہی کہے گا کہ تم اس کتاب کے ساتھ جس کی تمہیں تعلیم اور درس دیا جاتا ہے، رَبّانیّٖن (ربّ والے ،اللہ والے) بن جاؤ‘‘۔ (۷۹) مدرسہ: یہ ہیں اسلام میں مدرسہ کے وہ مقاصد جسے انبیاء اور مرسلین علیہم السلام قائم کرتے رہے۔جس میں اللہ کی کتاب قرآن المجید کی تعلیمات اور درس دیا بھی جاتا رہا اور اُس پر عمل بھی کروایا جاتا رہا۔ اور اس طرح وہ’’حقیقی اللہ والے!! یا ربّ والے!!‘‘ انسان بنادئے جائیں۔ رسولوں ؑ کے قائم کردہ یہ مراکز اس لئے درسگاہیں بھی تھیں اور خانقاہیں بھی۔ خانقاہ : سیّد المرسلین ؐ کی درسگاہ سے تعلیم اور درس حاصل کرکے یہ ’’ربّ والے یا اللہ والے‘‘ ،جنہوں نے اپنی زندگیاں دین کی تعلیم و تبلیغ کے لئے وقف کر دی ہوتی تھیں، وہ رسول پاکؐ کے اسوۃِ حسنہ اور تقویٰ کا لباس پہنے ، کم سے کم وسائل میں زندگی گزارنے کا سلیقہ بھی اپنے رسولِ کریم ؑ سے سیکھ کر حضرت عیسٰی علیہ السلام کے حواریوں کی طرح زمین کے دور دراز علاقوں میں پہنچ گئے تھے ۔ ایک مومن کی مثالی زندگی کے مظہر، محبت، معرفت اور بصیرت کا سرچشمہ ، رحمت للعالمین ؐ رسول کی سُنت کے عامل، ہر ایک انسان کے لیے باعثِ رحمت بن کر اُس کا دُکھ درد پی جانے والے۔ مقامی زبان ، رسومات اورحالات کے مطابق دینِ حقہ کی تعلیمات پر مبنی ایسے مدرسے قائم کر دیتے تھے کہ جن کا فیض اُن کے مرنے کے بعد بھی جاری و ساری رہتا۔اپنی اپنی مراد کے مرید بن کر آنے والے لاکھوں مریدوں میں سے جس کسی میں بھی اس مدرسے کو جاری رکھ سکنے کی صلاحیت موجود سمجھتے،اُسے مدرسے کے درس و تدریس کا نظام سونپ جاتے۔ یہ تھے وہ مدرسے اور خانقاہیں جن میں علامہ محمد اقبالؒ، آج کے دورمیں وہی زندگی ۔وہی محبت ،وہی معرفت اورو ہی نگاہ ڈھونڈنے نکل پڑے تھے ،جو بارگاہِ رسالتؐ سے انہیں وراثت میں ملی تھی۔مسلمان قوم کی ایسی زبوں حالت دیکھ کر۔ وہ کیسے وہاں سے غمناک نہ اُٹھتے؟ مدرسے اور خانقاہ سے ایسے غمناک اُٹھ کر، علامہ اقبال ؒ یہ طے کر لیتے ہیں کہ آج کے مدرسوں اورخانقاہوں سے امیدوں کو وابسطہ رکھنا بے سود ہے۔۔ اب یہ دونوں ادارے دینِ حق کی بنیاد پر قائم ہونے والے مدرسہ اور خانقاہ کے وارث نہیں رہے۔ مسجدِ نبویؐ میں ، احکامِ الٰہی کی تعمیل اور منکرات و فحاشی کے تدارک کے لیے جو الصلوٰۃ قائم کی جاتی تھی اُسے ترک کر کے شہواتِ دنیا کو اپنا لیا گیا ہے۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ـ’’۱۹:۹۵: اُن کے بعد پھرکچھ ایسے ناخلف لوگ اُنکے جانشین بنے جنہوں نے ٰلصلوٰۃ کو ضائع کردیا اور شہوات کو اپنا لیا۔ سو عنقریب وہ اپنی اس گمراہی کی سزا پا لیں گے۔‘‘ اسی لئے علامہ اقبال ؒ، ملّائیت اور پیری سے مایوس ہو کر یہ مشورہ دیتے ہیںکہ کسی جبّہ و دستار کے بہروپ سے آزاد درویش سے نفسِ انسانی کے حقائق کا سبق سیکھ۔ تاکہ تو خود اپنی حقیقت سے آگاہ ہو سکے۔ ٭٭٭٭ ۹ یہ ذکرِ نیم شبی، یہ مراقبے، یہ سرور تری خودی کے نگہباں نہیں تو کچھ بھی نہیں خرد نے کہہ بھی دیا لآ اِلٰہ تو کیا حاصل دل و نگاہ ، مسلماں نہیں توکچھ بھی نہیں ٭٭ (ضربِ کلیم۔تصوّف) ٭٭ ٭٭٭٭٭ یہ ذکرِ نیم شبی، یہ مراقبے، یہ سرور تری خودی کے نگہباں نہیں تو کچھ بھی نہیں خرد نے کہہ بھی دیا لآ اِلٰہ تو کیا حاصل دل و نگاہ، مسلماں نہیں توکچھ بھی نہیں ٭٭ (ضربِ کلیم۔تصوّف) ٭٭ (۱)ذکرِ نیم شبی ، مراقبہ، سرور،خودی سورۃ بنی اسرائیل میں ارشادِربّانی ہوا :( میرے رسولؐ!) ـ’’قائم کریں الصلوٰۃ کوسورج کے ڈھلنے سے لے کررات کے چھا جانے تک اور فجر کا قرآن۔ یقینا فجر کو قرآن پڑھنے سے اس کے مفہوم و معانی کا مشاہدہ آسانی سے ہو جاتا ہے ۔ (۱۷:۷۸) اور رات کو بھی اسی(قرآن) کے ساتھ مزید جاگیں (تہجد بہٖ) یہ آپؐ کے لیے اضافی عمل ہے (نافلۃ لکَ) عنقریب آپ کا ربّ آپ کو مقام ِ محمودعطا فرما دیگا ۔( ۱۷ :۷۹ ) سورۃ مزّمّل کی آیات نمبر ایک سے آٹھ اورا نیس سے بیس میں ارشاد ہوا: ’’اے المزّمّل!(۷۳:۱) جاگیں رات کو !مگر تھوڑا(۷۳:۲)اس سے نصف یا اُس سے بھی تھوڑا کم (۷۳:۳)یا کچھ زیادہ۔اور قرآن کو سوچ اور سمجھ کر(ٹھہر ٹھہرکر) پڑھا کریں( ۳ ۷ :۴) عنقریب تجھے اس سے بھی بھاری ذمہ داریاں سونپی جانے والی ہیں۔(۷۳:۵) اس طرح راتوں کا جا گنا یقیناً توجہ کو مرکوز کرتا اور بات کو مضبوط بنا دیتا ہے (۷۳:۶) دن کے وقت ویسے بھی تمہیں کاموںمیں طویل مصروفیت (سبحاًطویلا) رہتی ہے۔ (۷۳:۷) اور یوں ہر طرف سے مونہہ موڑ کر اور صرف اسی طرف متوجہ ہو کر(مراقبہ) قرآن میں ربّ کی ذات سے متعلقہ بتائی ہوئی باتوں کا ذکرکریں ( ۳ ۷ :۸)یقینا ً یہ قرآن ایک تذکرۃ ہے ۔ پس تم میں سے جو بھی چاہے اسے اپنے ربّ کی طرف جانے کا راستہ بنا لے( ۳ ۷ : ۹ ۱ ) اس لئے راتوں میں قرآن پڑھیں جتنا بھی آسانی سے پڑھ سکیں ۔ (۷۳:۲۰) ۱۳۔سورۃ الرعد کی آیت ۲۸ میں ارشاد ہوا: ’’وہ لوگ جو ایمان والے ہیں ۔اُن کے قلوب ، ذکر اللہ سے اطمینان حا صل کرتے ہیں۔ہاں! جان رکھو کہ ذکر اللہ سے واقعی قلوب کو اطمینان نصیب ہوتا ہے۔‘‘ (۲۸) اقبالؔ کے پہلے شعر کو ان آیاتِ الٰہی کی روشنی سے دیکھا جائے تو اصطلاحات کا مفہوم کچھ اس طرح بنتاہے:۔ ذکرِِ نیم شبی: راتوں کو سوچ سمجھ کر ٹھہر ٹھہر کر جتنا آسانی سے ہو سکے قرآن پڑھنا۔ مراقبہ: ۔ ہر طرف سے خیال کو ہٹا کر صرف قرآن کی آیا ت پر پوری توجہ سے سوچ بچار کرنا۔ سرور:۔قرآن پڑھنے اور سمجھنے سے نصیب ہونے والااطمینانِ قلب ۔ خودی:۔دعائے ابراہیمی ؑ (۲: ۱۲۶۔۱۲۹)سے لیکر آیاتِ تکمیلِ دین تک (۵:۳) اللہ تعالیٰ کی طرف سے انبیاء و رُسُل علیہم السلام کے ذریعے، قرآنی آیات کے علم اور حکمت کی تعلیمات سے،انسا ن کواپنے مقصد ِتخلیق کی پہچان ہونا خودی کی پہچان ہے۔اقبال ؔ اپنے پورے کلام میں اسی خودی کی خود بینی، خود شناسی، خود آگاہی، خود نگری اور خود گیری کی منازل کا ذکر فرماتے ہیں۔ خودی کے موضوع پر اقبالؔ کے تقریباً ایک سو سے زیادہ اشعار کے ساتھ ضربِ کلیم کا ایک مصرع بڑی جامیعت سے یہ اعلان کردیتا ہے کہ،’’ ـخودی کا سِرِنہاں لا الہ ٰالا اللّٰہ‘‘ ہے۔یعنی دین کے نام پر انسان اپنی عقل و خرد سے کوئی بھی حرکات و سکنات ادا کرتا رہے،لیکن اگر یہ اُس کے مقصدِ تخلیق(خودی) کی حفاظت نہیں کرتے تو سب لا حاصل ہیں۔ ٭٭٭٭٭ خرد،لا الہٰ،د ِل،نگاہ، مسلمان۔ انسانی وجود کوحیوانی حیثیت سے جیسے اللہ تعالیٰ نے ہاتھ پاؤں آنکھ کان زبان اور دیگر اعضا عطا فرمائے ہیں اسی طرح عقل وخرد بھی عطا فرمائی ہے جو کہ اپنی بھوک پیاس آرام نفع نقصان و دیگر ضریاتِ زندگی کے حصول کے طور طریقے سیکھتی اور انہیں استعمال کرتی رہتی ہے ۔ انسان کا سارا کاروبارِ حیات بلا تمیزِ مذہب و ملت ، اسی خرد کی بنیاد پر چلتا رہتا ہے۔ اسی کی بنیاد پر ہم اپنی تمام دینی ، معاشی یا معاشرتی تعلیمات حاصل کر کے اُنہیں اپنے اپنے دنیاوی فائدوں کے لیے استعمال کرتے رہتے ہیں۔ اسی کی حد تک محض دلائل کی بنیاد پر عقل کسی بات کو صرف اسلئے مان لیتی ہے کہ اُس کے پاس اسے رد کرنے کا کوئی عقلی جواز نہیں رہتا۔یا چونکہ تمام معاشرہ یا ماں باپ کی تعلیمات یا مدرسے کا درس یہی کچھ سکھا رہے ہوتے ہیں تو عوامی بات کو مان لینے میں اُسے کوئی دریغ نظرنہیںآتا ۔ لیکن جیسے ہی کوئی دلیل ۔کوئی جواز۔کوئی وقتی فائدہ یا کسی نقصان کا خطرہ نظر آئیگاتو عقل اپنی پہلی اقرار شدہ بات کو رد کر کے دوسری بات کے پیچھے چل پڑے گی۔ اس عقل و خرد کی حد تک اگرلا الٰہ کہہ بھی دیا جائے تو وہ کہنا اتنا ہی کمزور ہوگا جیسے باقی باتیںجنہیں انسان کہتا اور پھر بدلتا رہتا ہے۔ زیادہ تر’’اقرار باللسان‘‘ کے مراحل، اسی عقل و خرد کی حد تک ہی محدود رہتے ہیں۔ ۴۹۔سورۃ الحجرات کی آیت :۱۴ ۔۱۷ ،میں ارشاد ہوا : ’’اعراب(دیہاتی عرب)کہتے ہیں ،’’ہم ایمان لائے!!‘‘ ان سے کہہ دو کہ تم ایمان نہیں لائے بلکہ یہ کہو کہ ’’ہم اسلام لائے!!!‘‘۔ ایمان تو ابھی آپ کے’’ قلوب‘‘ میں داخل ہی نہیں ہوا۔ اس حالت میں بھی اگر تم اللہ اور اسکے رسولؐ کی اطاعت کروگے تو تمہارے اعمال کے اجر میں کچھ بھی کم نہیں کیا جائے گا۔اللہ تو بڑا غفور الرحیم ہے۔(۴۹)لیکنحقیقی مومن صرف وہ ہیں جو اللہ اور اُسکے رسولؐ پر ایمان لائیں اور پھر اس میں شک نہ کریں اور اپنے مال اور جان سے فی سبیل اللہ جہادکریں۔یہی لوگ اپنے ایمان میں صادق ہیں(۱۵) ان سے کہہ دو کہ کیا تم اللہ کو اپنی دینداری جتلاتے ہو ۔اللہ تو خوب جانتا ہے جو کچھ بھی آسمانوں اور زمین میں ہے۔اور اللہ ہر شے کا علم رکھتا ہے(۱۶)اس کے علاوہ اے رسولؐ یہ لوگ تم پر احسان جتاتے ہیں کہ یہ اسلام لے آئے ہیں۔ ان سے صاف کہہ دو کہ اپنے اسلام لانے کا مجھ پر کوئی احسان نہ رکھو بلکہ اللہ کا تم سب پر احسان ہے کہ اُس نے تمہیں ایمان کی طرف ہدایت کی بشرطیکہ تم اپنے دعوے میں سچے تورہو (۱۷) ۲۲۔سورۃ حج کی آیت:۴۶ میں ارشاد ہوا: کیا انہوں نے زمین کی سیرنہیں کی تاکہ ان کے دل ایسے ہو جائیں جن سے وہ (حق بات)سمجھ سکیں اور کان ایسے بن جائیں کہ جن سے وہ(حق بات) کو سُن سکیں۔مگر بات دراصل یہ ہے کہ آنکھیں اندھی نہیں ہوا کرتیں ،سینو ں میں قلوب اندھے ہو جایا کرتے ہیں (۲۲:۴۶) ایسے ہی قلب و نظر رکھنے والوں کو اللہ تعالیٰ نے آلِ عمران آیت: ۱۳ میں صاحبانِ بصیرت(اولی الابصار) کہہ کر پکارا ہے۔ اقبالؔ نے انہی تعلیمات کو اپنی فکر ی بنیاد بناتے ہوئے ۔ عقلِ بے مایہ،عقل تمام بو لہب، عقلِ سنگ دل،عقلِ خجستہ پا، عقلِ عیار، قلب و نگاہ،قلب و نظر جیسی اصطلاحات سے اپنے کلام میں قرآنی فصاحت و بلاغت کو سجا رکھا ہے۔مثال کے لئے مندرجہ بالا دو اشعار کے علاوہ صرف ایک شعر یہاں پیش کرتا چلوں۔ جس کی وضاحت انشا اللہ پھر پیش کرونگا۔ علم کا مقصود ہے پاکیِ عقل و خرد فقر کا مقصود ہے عفّتِ قلب و نگاہ ٭٭٭٭ ۱۰ علم کا مقصود ہے، پاکیِ عقل و خرد فقر کا مقصود ہے عفّتِ قلب و نگاہ علم فقیہہ و حکیم، فقر مسیح ؑو کلیمؑ علم ہے جویائے راہ، فقر ہے دانائے راہ ٭٭ (اقبالؔ۔ بالِ جبریل ؑ۔۵۹)٭٭ ٭٭٭٭٭ علم کا مقصود ہے، پاکیِ عقل و خرد فقر کا مقصود ہے عفّتِ قلب و نگاہ علم فقیہہ و حکیم، فقر مسیح ؑو کلیم ؑ علم ہے جویائے راہ ، فقر ہے دانائے راہ ٭٭ (اقبالؔ۔ بالِ جبریل ؑ۔۵۹) ٭٭ علم اور فقر کے مفہوم و معانی کا یہ خوبصور ت مو ازنہ ، علامہ ڈاکٹر محمد اقبالؔ صاحب نے ان اصطلاحات کی حقیقت کے مکمل شعور کے ساتھ فرمایا ہے۔۔ دونوں میں سے کسی ایک کی نفی کئے بغیر، ان کے مقامات کا یوں تعین فرما دیا ہے کہ وہ حقیقتِ مطلقہ جس کی بنیاد پر ان دونوں کا حصول انسانی ذات کی تکمیل کے لئے انتہائی ضروری ہے،کہیں مسخ نہ ہونے پائے۔ اور یہ کام اس اہتمام سے کیا ہے کہ پوری نظم ان دونوں موضوعات کا یوں طواف کر رہی ہے کہ جیسے ایک کے بغیر دوسرے کا وجود نامکمل ہو۔ علم : وہ خالقِ کائنات جس کے علم و حکمت کا ظہور اس کائنات کے ہر ایک ذرّے میںعیاں ہے ، اُسی نے نوعِ آدم ؑکی بھی تخلیق فرمائی ہے۔ ۵۵- سورہ الرحمان کے حوالے سے: انسان کی تخلیق کرنے وا لے الرحمان نے(۵۵:۱)انسان سے متعلقہ اپنی رحمانیت کی سب سے پہلی تعریف ہی یہ بتائی ہے کہ ہم نے انسان کی تخلیق سے پہلے اُس کے لئے علم القرآن کا سامان اورانتظام کیا (۵۵:۲) گویا انسان کی تخلیق سے پہلے سلسلۂ انبیاء علیہم السلام کے ذریعے انسان کو اُسکا مقصدِ تخلیق بتانے کے لئے قرأت کی جانے والی کتاب قرآن کی تعلیمات کا اور انسان کے وجود میں اس قرآن کو سمجھنے کی صلاحیت کا پوراانتظام کر دیا گیا تھا۔ اسی سے حضور پاک ؐ کی اس حدیث مبارکہ کی طرف بھی اشارہ ملتا ہے کہ’’ آدم و حوا ابھی مٹی اور پانی میں تھے جب کہ میری ’روح‘ (یعنی میرا امرِ تخلیق)پیدا ہو چکی تھی۔ اس کے بعد ارشاد ہوتا ہے کہ ہم نے خلق الانسان کیا (۵۵:۳) اور پھرجو کچھ بھی بیرونی تعلیمات یا اندر ونی فطری تقاضوں کی وجہ سے ایک بچے ،جوان یا بوڑھے کے علم میں شامل ہوا ، اُسکے بیان کی تعلیم دی(۵۵:۴) اُس کے بعد اسی سورۃ میں انسان کی ایسی باطنی اور ظاہری کائنات کا ذکر چھیڑ دیا گیاجس کی بنیاد پر تما م انسانی علوم کا دارو مدار ہے، شمس و قمر ، نجوم ، اشجار ، سماوات ، توازن، عدل ، انصاف، زمین،جانور،پھل، میوے ، اناج، خوشبودارپھول، مشرقین، مغربین، بحرین، برزخ، لُو لُو و مرجانوغیرہ وغیرہ ۔ گویا کہ انسان کو اُسکی تخلیق کے بعد اتنی بے شمار نعمتوں سے مالا مال کر دیا گیاہے کہ ان سب کا علم حاصل کرنے کے لئے ایک زندگی کافی نہیں ۔ چہ جائیکہ کوئی انسان اللہ کے تخلیق کردہ کسی ایک ذرّے کا تھوڑاسا زیادہ علم حاصل کر کے اللہ تعالیٰ کے وجود کا ہی منکر ہو بیٹھے تواسے علم نہیںجہل کہا جائے گا… اللہ تعالیٰ نے کلامِ پاک میں جہاں بھی انسان کے علم حاصل کرنے کا ذکر کیا ہے تو صرف اسی علم کے حوالے سے جو انبیاء علیہم السلام کو وحی کیا جاتا رہا ۔ ’’قُل ربِّ زد نی علماً ‘‘والی آیت جو ہر بچے کو زبانی یاد ہے اور سکولوں کی کتابیں اور اسٹیشنری کا سامان بیچنے اور سکولوں کے داخلے بڑھانے کے لیے جگہ جگہ لکھی ہوتی ہے، قرآن میں یوںآئی ہے:۔ ۲۰- سورۃ طٰہٰ : ۱۱۳، ۱۱۴۔ ’’ اور اسی طرح ہم نے عربی زبان میں قرآن نازل کیا اور بڑی وضاحت سے اس میں اعمال کے لازمی نتائج کا وعدہ کر دیا تاکہ انسان متقی بن جائیں اور اُن کو اللہ کی باتوں کا ذکر سنا دیا جائے ۔ (۱۱۳)عالی مرتبت ہے وہ اللہ جو تمام سچائیوںکا بادشاہ ہے (ملک الحق)۔ اس لئے میرے رسولؐ!جب تک تجھ پر وحی کا نزول ہونا پورا نہ ہو جائے، اسے پڑھنے میں جلدی نہ کیا کریں!بس اتنا کہہ دیا کریں ، اے میرے ربّ! میرے علم میں ا ضا فہ فرما!!(۱۱۴)‘‘ فقر: لیکن اقبالؔ کو اسی علم کی باطنی عظمتوں کے بیان کیلئے کچھ مختلف آفاق کا سفر کرنا پڑا۔ کیونکہ آپ اس فقر کا تذکرہ کرنا چاہتے ہے جس کے متعلق اللہ کے رسول ؐ کا ارشاد ہے ،’’ الفقر‘ فخری‘‘۔قرآن میں ، اللہ تعالیٰ سے قلبی رشتہ رکھنے والوں اور فی سبیل اللہ سب کچھ لُٹا دینے والوں کوفقر کی سند سے نوازا گیاہے۔ آیات: ۲۸:۴: خیرالفقیر۲:۲۷۳: اُحصِر وافی سبیل اللّٰہ۔۳۵:۵: اَنتُم فقرآ ء ُ اِلَی اللّٰہ کا ذکر آتا ہے ۔ فقر۔ گویا کہ تمام لباسوں سے افضل لباسِ تقویٰ کی طرح ہے۔ چاہے ظاہری لباس میں پیوند پر پیوند ہی کیوں نہ لگ چکے ہوں۔ شاعرِاُمت علامہ اقبالؒ نے ان ہی حقائق کے پیشِ نظر دین کے راستے میں مقامِفقرکو اس قدر عظمت پہ فائز سمجھا ہے اور ہمارے زیرِ مطالعہ اشعار کے علاوہ بھی متعدد اشعار میں یہاں تک کہہ گئے ہیں: فقر مقامِ نظر، علم مقامِ خبر فقر میں مستی ثواب، علم میں مستی گناہ فقر میں مستی وہ( سَکینہ)قلبی تسکین ہے جو اللہ مومنیںپر طار ی فر ماتا ہے ۔ دیکھیں: (۹:۲۶،۴۰ و۴۸:۴،۱۸) علم کا موجود اور فقر کا موجود اور اَشھَد‘ اَن لّآ اِلہٰ ، اَشھَد اَن لّآ الہٰ ( گویا علم اور فقر کی حالتیں الگ سہی مگر دونوںکا مقصود توحیدِ الٰہی کی شہادت دینا ہے) فقر کی صفات کو اگر وجودی تشخص دیا جائے تو پھرڈاکٹر علامہ محمد اقبالؔ کے مندرجہ ذیل دونوںا شعار ان دو نوں عظیم ہستیوں کے پس منظر میں اپنے مفہوم کی خود ہی وضاحت فرما دیتے ہیں: داراؔ و سکندرؔ سے وہ مردِ فقیر اُولیٰ ہو جس کی فقیری میں بوئے اسداللّٰہی اک فقر ہے شبّیری ؑاس فقر میں ہے مِیری میراثِ مسلمانی، سرمایۂ شبّیریؑ ٭٭٭٭ ۱۱ یقیں محکم ، عمل پیہم، محبت فاتحِ عالم جہادِ زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں ولایت، بادشاہی، علمِ اشیا کی جہانگیری یہ سب کیا ہیں ؟ فقط اک نکتۂ ایماں کی تفسیریں ٭٭ (بانگِ درا۔طلوعِ اسلام) ٭٭ ٭٭٭٭٭ یقیں محکم ، عمل پیہم، محبت فاتحِ عالم جہادِ زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں ولایت، بادشاہی، علمِ اشیا کی جہانگیری یہ سب کیا ہیں ؟ فقط اک نکتۂ ایماں کی تفسیریں ٭٭(بانگِ درا۔طلوعِ اسلام)٭٭ یہ ممکن ہی نہیں کہ کائنات میں کوئی شے، کسی اچھے یا بُرے کام کو اُس علم کے بغیر سر انجام دے سکے جو اٰس کام کے لئے لازمی ہے۔ یہ علم ہی ہے جس کے ذریعے شہد کی مکھی۔ چیونٹی۔ ذرّات۔ جرثوے۔ ہمارے جسم کا ہر ایک سیل ، چاند،سورج، ستارے، بروج( گیلیکسیز)کا لا محدود نظام اپنا اپنا مقصدِ تخلیق پورا کرتا چلا جا رہا ہے۔ لیکن ہم انسانوں کی طرف ،ہمارے حیوانی جسم اور اس کے حیوانی تقاضوں کو پورا کرنے کا تمام علم ، دوسری انواع کی طرح ، ہماری پیدائش کیساتھ ہی مل جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی باقی نباتات ،جمادات وحیوانات کو انسان کے لیے تسخیر کر دئے جانے سے، انسان میں نہ صرف اپنے آپ کو بلکہ اپنے گرد و نواح کی ہر شے کو نفع یانقصان پہنچانے کا اختیار مل جاتا ہے ۔ اس اختیار کے تقاضوں کو ایسے پورا کرنے کے لیے کہ کسی شے پر انسان کی طرف سے نہ تو کوئی ظلم ہو اور نہ ہی اسے کوئی نقصان پہنچے انسان کو ایک ایسے علم اور اُس کے ساتھ ایک ایسے مثالی کردار کی ضرورت ہوتی ہے جو ہمیں حیوانی سطح سے بلند کرکے مسجودِ ملائک انسانی سطح پر استوار کر سکے۔ تاکہ ہمارے وجود کسی شے کو نقصان پہنچانے کی بجائے ہر شے کے لیے باعثِ رحمت بن جائیں۔یہ علم ہماری طرف ایک رحمت للعالمین رسول ا کے ذریعے قرآن جیسی مجید وکریم کتابِ منیر کے ذریعے بھیجا گیا ہے۔ ایسے رسولوںؑ اور کتابوں کے نزول سے ہی انسان کو اسکے مقصدِ تخلیق کی انسانی سطح پر تعلیمات کی ابتدا اور انتہا ہوتی رہی ہے۔ یقیں محکم: کتابِ الٰہی کے علم کی سچائیوں کو جب کسی کا دل ایسے قبول کر لے کہ اُس میں کوئی وسوسہ باقی نہ رہے تو وہ مقامِ یقین حاصل کر لیتا ہے۔ مگر شیطانی طاغوتی قوتیں مسلسل اس یقین کو متزلزل کرنے کے لیے انسانوں کے دلوں میں وسوسے ڈالنے کی کوشش کرتی رہتی ہیں۔(۱۱۴ سورۃ الناس:۴۔۵) ایسا مقامِ یقین جس میں کوئی وسوسہ باقی نہ رہے ایمان کہلاتا ہے۔ اقبالؔ کی فکر میں جس قسم کے قرآنی حوالے بنیاد بنے ہوئے تھے اُن میں سے صرف چند یہاں پیش کر رہا ہوں: ۵-سورۃ مائدہ:۵۰::’’ یقین رکھنے والی قوم کے لیے اللہ سے بڑھ کر بھلاکون بہتر حاکم ہو سکتا ہے‘‘۔ ۱۵-الحجر:۹۹: ’’اپنے ربّ کے احکام کی تعمیل کئے جائیے تاکہ اس کے فیض بخش نتائج پر یقین آجائے۔‘‘ ۱۰۲-سورۃالتکاثر:۵:’’ہرگز نہیں ! کاش وہ علم رکھتے کہ یہ علم قابلِ یقین ہے‘‘ (علم الیقین)۔ ۱۰۲-سورۃ التکاثر: ۷ :ـ’’پھر جب اسے آنکھوں کے سامنے دیکھ لیں گے تو چشم دیدہ کی طرح انہیں یقین آ جائیگا‘‘(عین الیقین)۔ ۵۶-الواقعہ:۹۵: ’’یہ بات ایسی ِ یقین کرنے کو قابل ہے جیسے یقین کا حق ہو‘‘(حق ا لیقین ) ۔ ایسے ہی پختہ ایمان کو علامہ اقبالؔ یقینِ محکم کہتے ہیں ۔ عمل پیہم: پھر اس یقینِ محکم پر قائم رہتے ہوئے یہ لوگ احکامِ الٰہی پر مبنی دین کے قیام کے لیے ایک وقت مقرر کردہ پروگرام(۴۔ النسائ: ۱۰۳)کے تحت فحاشی اور منکرات (۲۹۔ العنکبوت :۴۵ ) کو دور کرنے والی صلوٰۃ پر دائم محافظ رہتے ہیں ۔ (۷۰۔المعارج:۲۳،۳۴) علامہ اقبال ؒ نے مومن کے اسی دائمی عمل کو ’’عملِ پیہم‘‘ کہا ہے۔ محبت محبت کبھی بے وجہ نہیں ہوتی۔۔ محبت کی سب سے بنیادی لازمی شرط یہ ہے کہ محبوب میں وہ صفات پائی جاتی ہوںجو اُسکے عاشق کو محبوب ہیں۔ گویا محبت کسی شے سے نہیں ہوتی، اُن محبوب صفات سے ہوتی ہے جو اُ س شے میں پائی جاتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے جن محبتوں کا ذکر کیا ہے اُن میں سے چند مندرجہ ذیل ہیں: (۱) مومن کی مومن سے محبت۔ (۲ ) مو من کی رسول اللہا سے محبت ۔ (۳) رسول اللہ اکی مومنین سے محبت ۔ (۴)مومن کی اللہ سے محبت ۔ (۵)اللہ کی مومنین سے محبت ۔ (۶) رسول اللہ ا کی عام انسانوں اور اللہ کی مخلوق سے محبت۔(۷) مومنین کی عام انسانوں سے محبت۔ (۱) ایک مومن کی دوسرے مومن سے محبت کے بارے میں ارشادِ الٰہی ہوا : ـــ’’ مومنین کے دلوں میں اللہ نے ایسی باہمی الفت بھر دی ہے کہ سارے جہان کے خزاے خرچ کرکے بھی اے رسول ؐ ! تُو اُسے پیدا نہیں کر سکتا جو اللہ نے پیدا کردی ہیـ۔اللہ بڑا غالب حکمت والا ہے‘‘(۸-الانفال:۶۳) کیوں نہ ہو جب سوچ ایک ،خواہشات ایک،زندگی کے پروگرام ایک ،غلط اور صحیح کا معیاری،حسن و قباحت کی تعریف ایک، مقصدِ حیات ایک، منزل ایک، اللہ ایک رسول ایک، زندگی کا لائحۂ عمل کتاب ایک تو پھر کیوں نہ آپس میں اس قدر اُلفت ہوگی؟ (۲) مومنین کی رسول اللہ ا سے محبت کے متعلق ارشاد ہوا: ’’اللہ کے نبیؐ کا وجود ،مومنیں کے لئے اُن کی اپنی جانوں سے بھی زیادہ فضیلت رکھتا ہے اور اُس کی ازواجؓ انکی مائیں ہیں۔‘‘ (۳۳:۶) یہی تو وجہ تھی کہ مومنین نے اُن کے ساتھ اپنے عزیز و اقربا، گھر بار ، تجارت، کاروبار، زمینیں جائیدادیں چھوڑ کر ہجرتیں کیں اور ۳۱۳ مومنین کی مختصر سی تعداد ہزاروں کے سامنے ایسے ڈٹ گئی کہ اُن میں سے ایک بھی چھوڑ کر نہیں بھاگا۔۔ اسی طرح دوسری لڑائی میں اگر کوئی مجبوراً شامل نہیں ہو سکا اور حضورؐ کے دو دندانِ مبارک شہید ہونے کی خبرسُن کر اسی جذبۂ محبت میں اپنے سارے دانت خود ٹوڑ لیتا ہے۔۔ بھلا کون ہے جس کو ایسے جانثار محبت کر نے والے نصیب ہوئے ہونگے۔ اور یہ سب کسی بھی ذاتی فائدے کے لئے نہیں بلکہ خالص حق کی محبت میں کیا گیا ،جس کا نمائندہ اللہ کے رسول ا کے حسین ترین صفاتی روپ میں اُن خوش نصیبوںکی آنکھوں کے سامنے موجود تھا… اللہ کے حبیب ا کا یہ صفاتی روپ قرآنِ کریم کے آئینے میں آج بھی اتنا ہی اجاگر ہے جتنا اُس وقت تھا۔ جس کا جتنا جی چاہے اس نور کی تجلیّات سے فیضیاب ہو لے۔ (۳) رسول اللہ ا کی مومنین سے محبت : اللہ کے رسول ا کو جو مومنین سے محبت تھی اُسکا ذکر قرآنِ کریم میں متعدد مقامات پر ملتا ہے: ۳-سورہ آلِ عمران: ۱۵۹ میں ارشاد ہوا: ’’یہ اللہ کی رحمت کی وجہ سے ہے کہ تُو ان لوگوں کے ساتھ نرم خوروّیہ رکھتا ہے ۔ ورنہ اگر تُوتُند خو یا سخت مزاج ہوتا ، تو یہ سب تیرے پاس سے بھاگ جاتے۔پس انہیں معاف کرتے رہا کریں اور ان کی مغفرت کے لیے دعا مانگا کریں۔اور ان سے مختلف معاملات میں مشورہ کر لیا کریں۔ پھر جب کسی بات کا مصمم فیصلہ کر لیں تو اللہ پر توکّل رکھیں۔ اللہ تعالیٰ توکل رکھنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔‘‘ ۹-سورہ التوبہ:۱۲۸ میں ارشاد ہوا: ’’لوگو! تمہارے پاس تم میں سے ہی ایک ایسے پیغمبر آئے ہیں جنہیں تمہاری تکلیف گراں گزرتی ہے اور تمہاری بھلائی کے وہ خواہشمند رہتے ہیں ۔ جو ایمان لے آتے ہیں اُن کے لئے نہایت شفیق ،رحم کرنے والے (رؤف الرحیم) ہیں۔‘‘ ۲۶- الشعراء :۲۱۵ : (دعوتِ ذی العشیرۃ) والی آیت میں ارشاد ہوا: ’’اے رسولؐ! اپنے اقربا کی بھی نذیری کریں۔اور ایمان لانے والوں میں سے جو تمہارا اتباع کریں اُن کیساتھ تواضع سے پیش آئیں۔‘‘ (۴) مومنیں کی اللہ سے محبت: ۳-آلِ عمران:۳۱: ’’ ان سے کہہ دیںمیرے رسولؐ ! کہ اگر تُم لوگ اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میرا اتباع کرو توپھراللہ تُم سے محبت کریگا اور تمہارے گناہوں کو بھی معاف فرما دیگا۔ اللہ بڑا غفور الرحیم ہے۔‘‘ ۲ -سورۃالبقرۃ:۶۵: ’’انسانوں میں سے جو لوگ کسی کو اللہ کا شریک ٹھرا لیتے ہیں تو اُس سے ایسے محبت کرتے ہیں جیسے اللہ سے ہونی چاہیے۔ لیکن جو لوگ ایمان رکھتے ہیں وہ اللہ تعالیٰ سے اس سے بھی زیادہ محبت رکھتے ہیں۔‘‘ ۲ -سورۃالبقرۃ:۱۷۷: ’’وہ اللہ کی محبت میں مال خرچ کرتے ہیں اقربا پر،یتیموں، مسکینوں ، مسافروں ، مانگنے والوںپر اورغلام آزاد کروانے پر۔‘‘ ۷۶-سورہ الدہر:۸،۹: ’’اور وہ جو اللہ کی محبت میں مسکین،یتیم اور اسیر کو کھانا کھلاتے ہیں(۸) اور کہتے ہیں کہ ہم آپکو محض اللہ کی خوشنوی کے لیے کھلا رہے ہیںہمیںآپ سے نہ کوئی معاوضہ چاہئے اور نہ ہی ہم شکریہ کے خواستگار ہیں(۹)‘‘ (۵) اللہ کی مومنین سے محبت: اللہ تعالیٰ محبت رکھتاہے محسنین سے(۲:۱۹۵)توابین اور مطہرین سے(۲:۲۲۲)متقین سے(۳:۷۶) صابرین سے (۳:۱۴۶) متوکلین سے (۲:۱۵۹) مقسطین(انصاف کرنے والوں) سے (۵:۴۲) اللہ محبت رکھتا ہے اُن لوگوں سے جو اُس کی راہ میں صفیں جما کر ایسے لڑتے ہیں جیسے سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہوں۔‘‘ (۶) رسول اللہ ﷺ کی انسانوں سے محبت: ۲۱۔ سورہ الانبیائ:۱۰۷: : ’’نہیں بھیجا ہم نے تجھے اے رسولؐ ! سوائے عالمین کے لئے رحمۃ بنا کر!‘‘ ۹-سورۃ التوبہ:۱۲۸: ’’اے لوگو! تمہارے پاس تُم میں سے ہی ایک ایسا رسول ؐ آ چکا ہے جسے آپ کی تکلیف گراں گزرتی ہے اور وہ تمہاری بھلائی کے خواہشمند رہتے ہیں۔مومنیں کے لئے تو وہ رؤوف الرحیم ہیں۔‘‘ (۷) مومنین کی انسانوں سے محبت: ۲ -سورۃالبقرۃ:۲۱۵: ’’وہ خرچ کرتے ہیں والدین پر، اقربا ، یتیموں ، مسکینوں پر، مسافروں پر‘‘ ۲ -سورۃالبقرۃ:۲۶۲: ’’ وہ لوگ جو کسی پر اپنا مال خرچ کرتے ہیں اور پھر اُس پر نہ تو کوئی احسان جتاتے ہیں اور نہ ہی اسے کسی طرح کی تکلیف پہنچاتے ہیں۔ اُن کا اجر اُن کے اللہ کے پاس ہے۔ انہیں نہ تو کوئی خوف ہوگا اور نہ ہی کسی قسم کا حزن۔‘‘ ۲۳-سورہ المومنون:۸: ’’وہ لوگوں کی امانتوں کے ادا کرنے والے اور اُن سے کئے ہوئے وعدوں کے وفا کرنے والے ہوتے ہیں۔‘‘ ۲۵-سورۃ الفرقان:۶۳: ’’یہ عباد الرحمان جب زمین پر چلتے ہیں تو انکساری سے چلتے ہیںاور جب کم علم لوگوں سے بات کرتے ہیں تو سلامتی کے لہجے میں کرتے ہیں۔‘‘ ۲۵-سورۃ الفرقان: ۷۲: ’’وہ کبھی جھوٹی گواہی نہیں دیتے اور اگر اُن کا گزر ایسی جگہ سے ہو جہاں بیہودہ حرکات ہو رہی ہوںتو وہاں سے کریمانہ انداز میں گزر جاتے ہیں۔‘‘ ( قارعین ! اب بتائیے کہ بھلا ایسے مومنیںسے بھی کبھی کسی انسان کو کوئی نقصان پہنچ سکتا ہے؟) محبت فاتحِ عالم: یہ ہے وہ محبت جو اگر انسانوں کے دلوں میں ایمان بن کر گھر کر جائے تو ایسی محبت کے وجدان میں سرشار وہ لوگ کیوں نہ ستاروں پہ کمندیں ڈالیں اور کیوں نہ تسخیرِ نفس سے لیکر ظلم و عدوان کا خاتمہ اور انسانی فلاح کرنے کے لیے تسخیرِ کائنات کرنے والے فاتحِ عالم بن جائیں۔ جبکہ فرما نِ الٰہی ہو چکا ہو: ۴۵-سورۃالجاثیہ:۱۲،۱۳: ’’ اللہ تعالیٰ وہ ذات ہے جس نے تمہارے لئے سمندر کو اسلئے مسخر کر دیا ہے کہ اللہ کے قانون کے مطابق اُس میں کشتیاں چلاؤ اور اپنے لئے فضل تلاش کرو۔ تاکہ تم اُس کے شکر گذار بن جاؤ۔(۱۲)اور مسخّرکر دیا ہے تمہارے لئے وہ سب کچھ جو سماوات اور ارض میں ہے۔۔ تفکّر کرنے والوں کے لیے اس میں اللہ کی قدرت کی بڑی نشانیاں موجودہیں۔‘‘(۱۳) جہادِ زندگانی : جہادِ کبیر ا نسان کوہر لمحہ ایسی تخریبی قوتوں سے برسرِ پیکار رہنا پڑتاہے جو انسان کے نفس میں، معاشرے میں اور طاغوتی طاقتوں کی صورت میں ہر لمحہ امن اور عافیت کو برباد کرتی رہتی ہیں ۔ ان تمام قوتوں سے نبرد آزما ہونا اللہ تعالیٰ کی ہدایت اور مدد کے بغیر ممکن نہیں کیونکہ یہ تخریبی قوتیں بھی تو انسانوں کے ہی مختلف روپ ہیں، انہیں پہچاننا اور خود کسی خرابی کا باعث بنے بغیر ان سے نپٹنا جس علم، حکمت اور بصیرت کے ذریعے ممکن ہے وہ فقط اللہ علیم الحکیم کی کتابِ نور سے ہی مل سکتی ہے۔ورنہ بین ا لاقوامی عظیم جنگیں بھی کچھ سنوارنے کی بجائے مزید بگاڑ کا باعث بن جاتی ہیں ۔ قرآنِ کریم میں بڑے واضح الفاظ میں ایسے جہاد کی نشان دہی کر دی گئی ہے جس کا آغاز ہی اپنے نفس اور معاشرے کی مناسب تعلیم وتربیت کرنے سے ممکن ہے۔ ( یہ یاد رہے کہ ہتھیاروں سے لڑائی کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے قتال کا لفظ استعمال کیا ہے) چنانچہ ارشاد ہوا: ۲۵-سورۃ الفرقان:۵۲ : ’’ میرے رسول ؐ ! اللہ کی ہدایات سے انحراف کرنے والے کفار کی ہرگز اطاعت نہ کرنا بلکہ اس قرآن کے ذریعے ان کے ساتھ جہادِ کبیر کرتے چلے جائیں۔‘‘ ۲۲- سورۃ الحج:۷۸: ’’ کتاب اللہ کے ذریعے بتائے ہوئے اللہ کے راستے میں ایسے جہاد کرتے چلے جاؤ جیسے جہاد کرنے کا حق ہوتا ہے۔‘‘ ۲۹-سورۃ العنکبوت:۶۹: ’’وہ لوگ جو ہمار ی بتائی ہوئی ہدایات میں جہاد کرتے ہیں، ہم اُنہیں اپنی طرف آنے کے تمام راستے بتا دیتے ہیں۔ اللہ تو ایسے ہی نیک لوگوں کے ساتھ رہتاہے۔‘‘ مرد وں کی شمشیریں: صوفیا کی تعلیمات میں مرد ، اُسے کہتے ہیں جو نہ تو طالبِ دنیا ہو اور نہ ہی طالبِ عقبیٰ بلکہ محض اللہ تعالیٰ کی رضا کا طالب ہو۔ یہ اپنے دین اور ایمان پر کسی بھی چیز کو ترجیح نہیں دیتے۔ کتابِ الٰہی میں ارشادِ ربانی ہے: ۲۴-سورۃ النور:۳۶۔۳۷: ’’ایسے گھر جن کے اللہ نے درجات بلند کئے ہیں اُن میں صبح شام اللہ تعالیٰ کے کاموں کے تکمیل کی طرف مدارج طے کئے جاتے ہیں(۳۶) ان میں ایسے رجال (مرد) ہوتے ہیں جنہیںنہ تو تجارت اور نہ ہی کسی قسم کا لین دین اس بات سے روکتا ہے کہ وہ اللہ کی کتاب کاتذکرہ کریں، اسکے مطابق دین کو قائم کرنے کے لیے ایک پروگرام کے مطابق فحاشی اور منکرات کا خاتمہ کریں اور ایسا کرنے میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو کچھ بھی انہیں عطا کیا گیا ہے اس میں سے خرچ کریں۔ انہیں صرف ایک ہی ڈر ہوتا ہے کہ جب موت اُن کے سر پر آکھڑی ہو گی تویہ مہلت ختم ہو جائی گی۔(۳۷) ‘‘ یہ ہیں وہ مردانِ خدا جن کایقین ایسے محکم ہوتا ہے ۔ جو ایسے پیہم عمل ِ خیر میں لگے رہتے ہیں۔ جو اس طرح کی محبتوں سے سرشار ہوتے ہیں اور ان تمام صفاتِ حسنہ کا مجموعہحق،اُن کا سب سے قوی ہتھیار ہوتا ہے۔جس کے ذریعے وہ باطل کو نابود کردیتے ہیں۔ ولایت،مملکت،حکومت، بادشاہی ہر ایک شخص جو کسی بھی خطہٗ زمین کا مکر وفریب یا ظلم و جبر کے ذریعے حاکم بن بیٹھے وہ اللہ کی طرف سے منسوب نہیںہوا ہوتا۔ بلکہ چوری۔ڈاکے۔ مکر و فریب کے ذریعے دوسروں کے مال پر قبضہ کرنے والوں کی طرح ہوتا ہے۔۔ اللہ تعالیٰ جب کسی کو کسی مملکت پر حکومت عطا کرتا ہے تو اُس کی کچھ بنیادی شرائط ہوتی ہیں ۔ جیسے قرآنِ کریم میں ارشاد ہوا : ۴-سورہ النسائ:۵۴: ’’پس ہم نے آلِ ابراہیم ؑ کو الکتاب اور الحکمت عطا فرمائی۔اور پھر انہیںایکملکِ عظیم عطا فرمایا۔‘‘ گویا کہ ملکِ عظیم اللہ تعالیٰ اُس وقت عطا کرتا ہے جب اُن میں اللہ کے قوانین کے مطابق عدل اور انصاف سے حکومت کر نے کے لیے اللہ کی کتاب کا علم اور اس کی حکمت بھی موجود ہو۔ علمِ اشیاء کی جہانگیری علم ِاشیا، کا کسی کامیاب حکومت سے اتنا ہی گہرا تعلق ہے کہ اگر اس میں برتری حاصل نہ ہو تو کوئی بھی لٹیرا ،طاقت اور قوت کے بل بوتے پراُس حکومت کوچھین سکتا ہے۔ جس کی مثال کے لئے آلِ ابراہیم ؑمیں سے جن کااوپر ذکر آ چکا ہے۔ صرف ایک دو آیات پیش کروںگا۔ ۲-سورۃ البقرۃ: ۲۵۱: ’’اور طالوت ؑ کی فوج نے اللہ کے قانون کے مطابق دشمن کو شکست دی اور داؤدؑ نے جالوت کو قتل کر دیا۔ اور اللہ نے اُسے ملک اور حکمت عطا کی اور اُسے اور ہر طرح کا ضروری علم بھی عطا کیا۔‘‘ ۳۴-سورہ سبا:۱۰۔۱۳: ’’ اور ہم نے داؤد ؑ پر اپنی طرف سے یہ فضل کیا کہ پہاڑوں اور طائروں سے کام لینے کا علم عطا کیا اور ان کے لئے لوہے کو نرم کرنے کا علم بھی دیا تا کہ وہ لوہے کی کڑیوں کو جوڑ کرکشادہ زرہیں بنائیںاور اسطرح( انسانی حفاظت کا سامان بنا کر) اعمالِ صالح کریں ۔ اور اسی طرح ہم نے سلیمان ؑ کو ہواؤں کا تابع کرنا سکھا دیا جس سے وہ ایک ماہ کا سفر صبح کو اور ایک ماہ کا سفر شام کو طے کر جاتے۔ اور اُن کے لیے ہم نے تانبے کو پگھلا کر چشمے کی طرح بہا دینے کا علم بھی دیا ۔تاکہ وہ میرا شکر ادا کریں۔ــ‘‘ یہ ہے وہ اللہ کی طرف سے عطا کردہ علم و حکمت اور علمِ اشیاء کی جہانگیری جو مملکت ِ خدا داد اور حکومتِ الٰہیہ کے لازمی اجزا ہیں اور ان سب کی بنیاد اللہ کی طرف سے آنے والے نورِ ہدایت پر ایسا ایمانِ کامل ہے جس میں ذرہ برابر بھی کوئی وسوسہ باقی نہ رہے۔ ورنہ: جلالِ پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی ٭٭٭٭ ۱۲ خدائے لم یزل کا دستِ قدرت تُو ، زُباں تُو ہے یقیں پیدا کر اے غافل کہ مغلوبِ گُماں تُو ہے مکاں فانی، مکیں آنی، ازل تیرا، ابد تیرا خدا کا آخری پیغام ہے تُو، جاوداں تُو ہے ٭٭ (بانگِ درا۔طلوعِ اسلام)٭٭ ٭٭٭٭٭ خدائے لم یزل کا دستِ قدرت تُو، زُباں تُو ہے یقیں پیدا کر اے غافل کہ مغلوبِ گُماں تُو ہے مکاں فانی، مکیں آنی، ازل تیرا ، ابد تیرا خدا کا آخری پیغام ہے تُو، جاوداں تُو ہے ٭٭ (بانگِ درا۔طلوعِ اسلام) ٭٭ وہ حئی القیوم ذاتِ لا زوال جو ہر اوّل کا بھی اوّل اور ہر آخر کا بھی آخر ہے اور ہر ظہورکا ظاہر اورہر ظاہر کے ہونے کا باعث اُسکا باطن ہے۔اُس ذاتِ پاک نے انسان کی تخلیق کے امرِ کُن فیکون میں ہی اسکے سماوات و ارض کی کائنات کو اس کے لیے تسخیر فرما دیا۔ اور اسے اپنے مقاصدِ تخلیق کی تکمیل کے لیے اس پر قدرت بھی عطا کردی ۔ اسلئے انسان اپنے اس عطا کردہ دائرہِ اختیارمیں دستِ قدرت کا مقام رکھتا ہے۔ قرآنِ مجید کی ۴۵ نمبر سورۃالجاثیہ آیت ۱۳ میں ارشاد ہوا: ’’ اور جو کچھ بھی آسمانوں میں ہے اور جو کچھ بھی زمین میں ہے، سب کو اللہ کی طرف سے تمہارے کیلئے مسخر کردیا گیا ہے ۔۔غور و فکر کرنے والوں کے لئے اس میںاللہ کی قدرت کے بہت سارے دلائل موجود ہیں ۔‘‘ ٭خوش الحان قاریوں کی اکثریت اپنی قرأت کے کمالات بتانے کے لیے جس سورۃ کی سب سے زیادہ تلاوت فرماتے ہیں وہ ’’سورۃ الرحمن‘‘ ہے۔ جس میں اللہ نے رحمانیت کی سب سے پہلی تعریف ہی یہ کی ہے کہ: ۵۵-سورۃ الرحمن: آیات :۱۔۴: ’’ الرحمن ۔ جس نے قرآن کی تعلیم عطا فرمائی(یعنی اس مقصد کے لیے انبیاء علیہم السلام کی تخلیق کا فیصلہ کیا) اور انسان کو تخلیق کیا۔ اور پھر اسے بیان کی صلاحیت بھی عطا فرمائی‘‘ (۵۵:۱۔۴) یعنی انسان کو کلام اللہ کی تعلیمات کے بیان کی قوت عطا کرکے اُسے حق گو لسانِ صدق بھی عطا کردی۔ ان مندرجہ بالا آیات کی دلیل پر ہی اقبال ؔ کے اس مصرعے کی سچائی ثابت ہو جاتی ہے کہ: ’’خدائے لم یزل کا دستِ قدرت تُو، زباں تُو ہے‘‘ ٭وہ اللہ تعالیٰ جو اپنے سوا کسی اور شے کو سجدہ کرنے کی سختی سے ممانعت فرماتا ہے،خود اپنے ملائکہ کو حکم فرماتا ہے کہ وہ آدم کو سجدہ کریں۔ ۲-سورۃ البقرۃ: آیت:۳۴: ’’اور جب ہم نے ملائکہ(کائنات میں کارفرما قوتوں) سے کہا کہ وہ آدم کے آگے( سرِ تسلیم خم کریں) سجدہ کریں۔ تو سب نے سجدہ کیا، سوائے ابلیس کے۔ جس نے انکار و تکبر کیا اورکافر بن گیا۔‘‘ ٭انواعِ عالم میں صرف انسان ہی وہ مسجودِ ملائک ہے، جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے اپنی کتابِ نور میں فرمایا: ۱۷-سورۃ بنی اسرائیل: آیت۷۰: ’’ لَقَد کرّمنَا بَنی آدمَ (ہم نے بنی آدم کو مکرّم کیا) اور انہیں برّی اور بحری مسافتوں کے لیے سواریاں عطا کیں اور انہیں طیّبات میں سے رزق دیا اور انہیں ا پنی مخلوق کی اکثریت پر ایسی فضیلت عطا کی جیسی کہ فضیلت دینے کا حق ہوتا ہے۔‘‘۔ لیکن افسوس کہ انسان نے ان نعمتوں کا شکر ادا نہ کیا اور انہیں اُس مقصد کے لیے استعمال نہ کیا جس کے لیے اُن پر یہ فضل و کرم کیا گیا تھا۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہوا: ۹۵- سورۃ اَلتِین: ۱۔۶: ’’ ہم ۔ انجیر،زیتون،طُورِ سینا کواور اس بلد الامین (میں پوشیدہ اپنی شانِ تخلیق)کی دلیل پر کہتے ہیں کہ ہم نے انسان کو احسنِ تقویم (انتہائی متوازن صورت) میں پیدا کیا(۱۔۴) لیکن پھر انسان نے خود ہی اسفل السافلین( بد سے بدترین) صورت اختیارکر لی۔ سوائے اُن لوگوں کے جو ایمان لائے اور انہوں نے اعمالِ صالح کئے۔ تو اُن کے لیے اجرِ غیرِ ممنوںمقرر کیا گیا ہے۔‘‘ (۵ ۔۶) ۱۹-سورۃمریم : ۵۹، میں ارشاد ہوا: ’’پھر ان کے بعد ان کے ایسے ناخلف جانشین آئے کہ جنہوں نے الصلوٰۃ کو ضائع کر دیا اور شہوات کا اتباع اختیار کر لیا۔ سو عنقریب وہ اپنی گمراہی کی سزا پائیں گے۔‘‘ ڈاکٹرعلامہ محمد اقبال ؔ، انسان میں تخلیق کردہ احسن ترین صفات اور درجات کے قائل ہیں تو قرآنی آیات کے دلائل کی بنیاد پر۔وہ اپنے پورے کلام میں، اسی بنیاد پر قائم کردہ فلسفۂ خودی کے ذریعے ، اپنے آپ پہچاننے کی تلقین فرماتے رہتے ہیں۔ انسان کی موجودہ زبوں حالی ۔ اُس کا اسفل السافلین بن جانا۔ الصلوٰۃ کو ضائع کردینا۔ اور جن شہوات کو ختم کرنے کے لئے خود صلوٰۃ کا قیام کیا جاتا ہے انہی شہوات کو اپنا لینا۔یہ سب ایسی حالتیں ہیں جو علامہ اقبالؔ جیسے حساس دل شاعر سے جب دیکھی نہیں جا سکتیں۔تو علامہ اقبالؔ اپنے ایمان اور یقینِ کامل کے زور پر ،اپنی انتہائی خداداد شاعری کے ذریعے ، انسان کو اسکے اصل مقامِ فضیلت اور مقصدِ تخلیق سے آگاہ فرما کر اُنہیںتوبہ اور اصلاح کی طرف ترغیب دلوا تے رہتے ہیں۔اُن کا سمجھانے کا انداز اسقدر حسین اور قرآنی آیات کی بنیاد پر مدلّل اور شاعرانہ ہے کہ دل کی گہرائیوں میں اُترجاتا ہے ۔ مندرجہ بالا آیاتِ قدسی میں انسان کی جن صفاتِ حسنہ کا ذکر ہے اور جن جن خرابیوں کا بھی یہاں تذکرہ کیا جا چکا ہے، انہی کی نسبت سے ایک طرف تو علامہ اقبالؔ انسان کو اُس کی اپنی عظیم حقیقت کا یقین دلواتے ہیں اور دوسری طرف اُس کی غفلت اور گمان کی حالت سے پیدا ہونے والی زبوں حالی کا احساس کو بیدار کرتے ہیں۔۔ تبھی فرماتے ہیں:۔ ’’یقیں پیدا کر اے غافل کہ مغلوبِ گُماں تو ہے‘‘ غافل: کی وضاحت کے لیے صرف چند قرآنی آیات پیش کی جا رہی ہیں: ۷- الاعراف :۱۷۹: ’’ایسے جہنم کے حقدار لوگ دل تو رکھتے ہیں مگر ان سے سمجھتے نہیں۔اُن کی آنکھیں تو ہیں مگر ان سے دیکھتے نہیں۔۔اُن کے کان تو ہیں مگر ان سے سُنتے نہیں۔۔وہ جانوروں کی طرح ہیں۔ نہیں بلکہ اُن سے بھی زیادہ گمراہ۔یہی لوگ ہیں جوغفلت میں پڑے ہوئے ہیں‘‘۔ ۱۰ - یونس:۹۲ : ’’انسانوں کی اکثریت ہماری آیات سے غافل رہتی ہے‘‘ ۱۰-یونس:۷: ’’جو لوگ ہم سے ملنے کی توقع نہیں رکھتے اوراس دنیا سے ہی راضی اور مطمئن ہیں وہ ہماری آیات سے غافل ہیں۔‘‘ گمان : قرآنی عربی میں’’ ظن‘‘ کا ترجمہ ہے ۔۔ ظنحقیقت میں غافل انسان کا اپنا ہی وہم و خیال ہوتا ہے، جسے وہ سچ سمجھ بیٹھتا ہے۔۔ جیسے مندرجہ ذیل آیتِ الٰہی میں بیان ہواہے: ۲۸-القصص:۳۹: ’’ فرعون اور اُس کے لشکروں نے ،ایسا کرنے کا کوئی حق رکھے بغیر تکبر کیا اور وہ گمان (ظن) کرتے تھے کہ ہماری طرف کبھی لوٹ کر نہیں آئیں گے۔‘‘ مکاں فانی،مکیں آنی: یہ زمین جو اس وقت ہمارا مکان بنی ہوئی ہے آخر فنا ہو جانے والی ہے اور اس میں جو کچھ مکیں ہے وہ بھی محض عارضی ہے۔ علامہ اقبالؔ کے اس اعلانِ حقیقت کی بنیاد کلام اللہ کی مندرجہ ذیل آیاتِ مبارکہ پرہے: ۵۵- الرحمان:۲۶۔۲۷: ’’یہ زمین اور اس پر جو کچھ بھی ہے سب فنا ہو جانے والا ہے ۔ مگر باقی رہنے والا ہے (اے میرے رسول!) محض تیرے ربّ ذوالجلال والاکرام کا صفاتی ظہور (وجہہ‘)۔‘‘ ازل تیرا ، ابد تیرا : ازل :کسی شے کی ابتدا کی منزل ہے ۔ الاوّل :ایک ایسی لامتناہی ابتدا ہے ۔۔ جو خود اللہ تعالیٰ کی اپنی مقدس ذات پاک ہے۔ اگر کوئی انسان ۔۔’’اعوذباللہ‘‘ والی باللہ (اللہ کے ساتھ)۔ اور ’’ با اسم اللہ والے‘‘(اللہ کے پُر صفات اسمِ ذات کے ساتھ) ہو جاتا ہے تو ازل بھی اُسی کا ہو جاتا ہے۔ اور ابد بھی ۔ ابد؛وہ آخر ہے جس کی کوئی انتہا نہ ہو۔یہ ہیں وہ اوّل و آخر جو اللہ تعالیٰ کے صفاتی نام ہیں: ۵۷- الحدید :۳: ’’ وہی الاوّل ہے، اورالآخر ہے، اور الظاہر ہے ،اور الباطن ہے،اورہر ایک شے کا علم بھی رکھنے والا ہے۔‘‘ ۵-المائدہ:۱۱۹: ’’اللہ تعالیٰ فرمائے گا :آج وہ دن ہے کہ تمام صادقین کو اُن کا صدق فائدہ دے گا ۔۔ ان کے لئے جنتیں ہیں جن میں نیچے پانی بہہ رہا ہے اوران میں وہ تا ابد ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔ اس حالت میں کہ رضی اللہ عنہم و رضوا عنہ’ ( اللہ اُن سے راضی ہوگا اور وہ اللہ سے راضی ہونگے)۔یہ ایک عظیم کامیابی ہے۔‘‘ یہ ہے وہ مفہوم جو علامہ اقبالؔ ؒ نے اس مصرع میں ارشاد فرمایا ہے : ’’مکاں فانی، مکیں آنی، ازل تیرا، ابد تیرا ‘‘ خدا کا آخری پیغام اللہ تعالیٰ کبھی کسی شے کی تخلیق کا ارادہ بھی نہیں کرتا جب تک وہ اپنے پورے علم اورکمالِ حکمت کی بنا پر، یہ نہ طے فرما لے کہ اُس شے کا مقصدِ تخلیق کیا ہوگا اورپھر اُسے اپنے مقصدِ تخلیق کو پورا کرنے کے لیے جیسے جسم، تعلیم و تربیت اور وسائل و ذرائع کی ضرورت ہو گی وہ اُسے پہلے سے مہیا نہ کر دے ۔۔ انسان کے علاوہ ہر ایک شے کو یہ علم ، اللہ تعالیٰ کی طرف سے براہِ راست اُن کی جبلتوں میں ہی تفویض کر دیا جاتا ہے۔۔مگر انسان کی طرف ،جسے اللہ کو جھٹلانے یا قبول کرنے کا اختیار عطا کیا گیا ہے، یہ ہدایات انبیاء و رُسُل علیہم السلام کے ذریعے پہنچائی جاتی ہیں۔ جب تک انسان بکھرے ہوئے قبائل کی صورت میں الگ الگ بود و باش رکھتا تھا تو یہ اللہ کے پیغامبر علیہم السلام اپنے اپنے قبیلوں اور قوموں کی طرف بھیجے جاتے رہے۔ لیکن جب انسانوں کی بود و باش میں شہریت کے تقاضے نمودار ہوئے اور انسانوںکے انسانوں سے باہمی رسد و رسائل کے تاجرانہ رابطے عام ہوئے تو ایک علاقے یا قوم کی خبر صرف وہیں تک محدود نہیں رہتی تھی ،بلکہ دور دراز علاقوں اور ممالک تک پہنچ جاتی تھی ۔۔ اب ہر ایک جگہ اللہ کا پیغام پہنچانے کے لیے کسی نبی ؑ یا رسول ؑ کو بھیجنے کی ضرورت نہیں رہی تھی ۔بلکہ کسی رسول ؑکی تعلیمات خود بخود ، ان تعلیمات سے متآثر شدہ مسافروں کے ذریعے ، دور دراز علاقوں میںپہنچ جاتی تھیں۔ جیسے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا پیغام لے کر اُن کے بارہ حواری دنیا کے کونے کونے میں پھیل گئے تھے اور انہوں نے اس نور سے کُل روئے زمین کو منور کر دیا تھا۔ ٭ نبی آخر الزمانؐ کے آنے تک مکہّ معظمہ ،آباد دنیا کے بین الاقوامی قافلوں کا مرکزی پڑاؤ بن چکا تھا۔اب ایک جگہ کی کوئی بھی بات، یہاں آنے والے مسافروں ، زائرو ں اور حاجیوں کے ذریعے سینہ بسینہ ہر طرف پھیل جاتی تھی۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے دین کی تعلیمات قائم کرنے کے لئے اور اپنے آخری نبی کو مبعوث کرنے کی خاطر مکّہ معظمہ کو منتخب فرمایا۔مختلف زبانوں کا امتزاج اور اُن میں ادب و شاعری کی ترویج کے سا تھ حفظ، خطابت اور کتابت کا فن اتنا عام ہو چکا تھا کہ اللہ کے پیغام کو کتابی شکل دینا، اُسے حفظ کروانا اور دنیا کے کو نے کونے میں اہلِ ایمان کے ذریعے پہنچانا ا ب کو ئی بڑا مسئلہ نہیں رہ گیا تھا۔ ختمِ نبوت و رسالت پر قرآنی دلائل: قرآن الحکیم میں ارشاد ہوا: ۳ - آلِ عمران:۹۶: ’’سب سے پہلا گھر (دینی مرکز) جو انسانوں کے لیے وضع کیا گیا ، تاکہ ان کیلئے باعثِ برکت ہو اور تمام عالمین کے لیے موجبِ ہدایت بنے وہ مکّہ میں ہے۔‘‘ (۲:۱۲۵) ۲۲ - الحج :۲۷: انسانوں کو حج کے لیے اذان دیدو(اے ابراہیم ؑ!)پھر دیکھنا وہ پیدل یا تھکے ہارے دُبلے اونٹوںپر سوار، دور دراز سے، دشوار گزار راستوں پر تمہارے پاس چلے آئیں گے۔‘‘ رسولوں ؑکی ذریت میں سے انبیاء ؑ اور امام ؑ مقرر ہوتے رہے ۔ ۲ -البقرہ:۱۲۴: اور جب ابراہیم ؑ کو اسکے ربّ نے چند باتوں میں آزمایا اور اُن سب میں وہ پورا اُترا تو اللہ نے اُسے تمام انسانوں کے لیے امام مقررکردیا۔ ابراہیم ؑ نے عرض کی: اور میری ذرّیت میں؟ تو اللہ نے فرمایا، ہاں ! مگر میرا یہ وعدہ ظالموں کے لیے نہیں ہوگا۔‘‘ ۶-الانعام:۸۶۔۸۷: ’’اور ہم نے ابراہیم ؑ کو اسحاق ؑ اور یعقوبؑ عطا کئے اور سب کوہدایت بخشی ۔ اور ان سے پہلے نوحؑ کو ہدایت بخشی اور ان کی ذریّت میں سے داؤد ؑ اور سلیمان ؑ اور ایوبؑ اور یوسف ؑ اور موسیٰ ؑ اور ہارون ؑ۔ اسی طرح ہم محسنین کو نوازا کرتے ہیں۔ (۸۵)اور ذکریا ؑ اوریحییٰ ؑ اور عیسیٰ ؑ او ر الیاس ؑ۔ یہ سب کے سب صالحین میں سے تھے(۸۶) اور اسمعٰیل ؑ اورالیسع ؑ اور یونس ؑ اور لوط ؑ۔ ان سب کو ہم نے کُل عالمین پر فضیلت عطا کی تھی(۸۷) اور ان کے باپ دادا میں سے اور اُن کی اولادوں میں سے اور ان کے بھائیوں میں سے۔ اور ان سب کو مجتبیٰ کیا اور ان سب کی صراطِ مستقیم پر ہدایت کی(۸۸) ابراہیم ؑ اور اسمٰعیل ؑکی اپنی ذریتِ مسلمہ میں سے ایک رسول کے لیے دعا: ۲-سورۃ بقرۃ: ۱۲۷۔۲۹: ’’حضرت ابراہیم علیہ السلام اور اسماعیل علیہ السلام جب خانہ کعبہ کی دیواریں بلند کر رہے تھے توانہوں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی:۔۔اے ہمارے ربّ !ہماری یہ خدمت قبول فرما۔ یقیناً تُو سمیع اور علیم ہے(۱۲۷) اے ہمارے ربّ! اور ہمیں اپنے مسلمین بنائے رکھیو اور ہماری ذرّیت میں سے بھی اُمّتِ مسلمہ قائم رکھنا اور ہمیں ہمارے کاموں کے طور طریقے بتا اور ہمارے حال پر توجہ فرما۔بلا شبہ تُو توّاب الرحیم ہے۔(۱۲۸) اے ہمارے ربّ! پھر انہیں میںسے( یعنی اسلام پر قائم رہنے والی اُمّت میں سے) ایک رسولؐ مبعوث فرما جو، ان پر تیری آیات کی تلاوت کرے اور ان کو کتاب اور حکمت کی تعلیم دے اور اور اس طرح اُن کا تزکیہ کرے۔بلا شبہ تُو عزیز الحکیم ہے۔‘‘(۱۲۹) لوگوں کاجوق در جوق دین میں داخل ہونا ۱۱۰-سورۃ النصر :۱۔۳: ’’بسم اللہ الرحمان الرحیم۔ جب اللہ کی مدد آ پہنچی اور فتح ہو گئی۔ تو تم نے دیکھ لیا (اے رسو لؐ!)کہ لوگ کیسے جوق در جوق دین میں شامل ہو رہے ہیں۔ پس تُو سَبّح کئے جا ئیںاپنے ربّ کی عطا کردہ حمدیہ صفات کی مدد سے اور یوں اُس کی مغفرت میںشامل رہیں۔ وہ اللہ بڑا مہربانی سے توجہ فرمانے والا ہے‘‘(۱۔۳) رسول ا کاکسی مرد کا باپ نہ ہونا اور خاتم النبیین ہونا: ۳۳- الاحزاب:۴۰ : ’’ نہیں ہے محمد ؐ تم میں سے کسی ایک مرد کا باپ، بلکہ وہ رسول اللہ اور خاتم النبیین ہے۔اللہ تو ہرایک شے کا علم رکھنے والا ہے‘‘۔ اگر اس آیت میں خاتَم کا مطلب مہر لگانا بھی لیا جائے تو تب بھی قرآن کے مطابق اس کامفہوم بند کر دینا ۔یا بند کر کے سربمہر کر دینا ہے۔ ثبوت کے لئے مندرجہ ذیل آیات دیکھیں: ۲-البقرۃ:۷:’’ اللہ نے اُن کے قلوب پر اورکانوں پر مہر لگا دی ہے(بند کر دیا ہے) اور اُن کی آنکھوں پر پردہ پڑا ہوا ہے۔ اور اُن کے لئے عذابِ عظیم تیار رکھا ہے۔‘‘ ۳۶- یٰسؔ:۶۵ ’’آج ہم اُن کے مونہوں کو مہر لگا دیں گے (بند کر دیں گے) اور جو کچھ کسب یہ کیا کرتے تھے ان کے ہاتھ وہ بولیں گے اور ان کے پاؤں اسکی گواہی دیں گے۔‘‘ ۸۳-سورۃ مطففین:۲۵۔۲۶: ’’اُن کو خالص سر بمہر شراب(بند کرکے مہر لگا دی ہوئی) پلائی جائے گی جس کی مہر (میں بند کی ہوئی شراب کی خوشبو) مشک کی ہوگی‘‘ عیسیٰ علیہ السلام کا آپ کا نام لیکر بشارت دینا ۶۱-الصف:۶ :’’جب عیسیٰ ابنِ مریم نے کہا، اے بنی اسرائیل میں اللہ کی طرف سے تمہاری طرف رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں جو اس سے پہلے آنے والی کتاب تورات کی تصدیق کرتا ہوں اور تمہیں بشارت دیتا ہوں میرے بعد آنے والے رسول ؑ کی جس کا نام احمدؐ ہوگا۔ پھر جب عیسیٰ ؑ اُن کے پاس واضح نشانیاں لے کر آئے تو کہنے لگے یہ تو صریح جادو ہے‘‘۔ قرآن کا تا قیامت فرض ہونا ۲۸-القصص:۸۵: ’’اللہ وہ ذات ہے جس نے آپ پر قرآن کو فرض کر دیا ہے تاکہ یہ آپ کو اپنی رہبری میںقیامت تک پہنچا دے۔‘‘ اللہ قرآن کا خود محافظ ہے ۵۱-الحجر:۹ : ’’ہم ہی نے یہ کتاب الذکر نازل کی ہے اور ہم ہی اس کے خود محافظ ہیں۔‘‘ ۸۵-البروج:۲۲: ’’بلکہ یہ تو قرآنِ مجید ہے جو لوحِ محفوظ میں لکھا ہوا ہے‘‘۔ ۷۵- القیامت: ۱۶۔۱۸: ’’اے میرے رسول قرآن کو جلدی سے پڑھ جانے کے شوق میں زبان کو تیز تیز حرکت نہ دیا کریں۔ اس کا جمع کرنا اور پڑھانا ہمارے ذمیّ ہے۔ جیسے جیسے ہم وحی کرتے جائیں ویسے ویسے ہی آپ پڑھتے جایا کریں‘‘۔ یہ ہیں آیاتِ حق کی بنیاد پر ثابت شدہ دلائل، جن کی بنیاد پر اب نہ تو قرآنِ مجید میں کوئی تبدیلی ممکن ہے اور نہ ہی اب اسے لے کر آنے والے کسی نئے نبی ؑ کی ضرورت باقی رہ جاتی ہے۔ اللہ، اُس کے رسولِ کریم ؐ اور اُن کی کتابِ نور کے وارث اس پر صدقِ دل سے ایمان لانے والے مومنونِ حقّہ ہیں۔ جن میں سے ہر ایک ، اسی قرآن کا امین بن کر ، بقول علامہ اقبال ؒ اب اس سند کا مستحق بن جاتا ہے کہ: ’’خداکا آخری پیغام ہے تُو جاوداں تو ہے‘‘ ’’ضربِ کلیم‘‘کی نظم ’’مردِ مسلمان‘‘ میںؔ اپنے اسی نظریے کے تحت ایک’’سچّے مومن‘‘ کے پُر نور چہرے کی یوں نقاب کشائی فرماتے ہیں۔ یہ راز کسی کو نہیں معلوم کہ مومن قاری نظر آتا ہے حقیقت میں ہے قرآن ٭٭٭٭ ۱۳ تُو اسے پیمانۂ امروز و فردا سے نہ ناپ جاوداں ،پیہم دواں، ہر دم جواں ہے زندگی اپنی دنیا آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے سِرِّ آدم ہے ضمیرِ کُن فکاں ہے زندگی ٭٭ (بانگِ درا۔خضرِ راہ ۔زندگی)٭٭ ٭٭٭٭٭ تُو اسے پیمانۂ امروز و فردا سے نہ ناپ جاوداں ،پیہم دواں، ہر دم جواں ہے زندگی اپنی دنیا آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے سِرِّ آدم ہے ضمیرِ کُن فکاں ہے زندگی ٭٭ (بانگِ درا۔خضرِ راہ ۔زندگی) ٭٭ انسان کی زندگی کا تعین عام طور پر تاریخِ پیدائش سے لے کر تاریخِ وفات تک کیا جاتا ہے ۔ گردشِ روز و شب کے دنوں ۔مہینوں ۔سالوں میں گنے جانے والے کیلنڈر یہ طے کرتے ہیں کہ کون کتنی عمراس دنیا میں جیتا رہا ۔ بچپن اورجوانی گزار کر اگراُسکا بڑھاپا ذرا طوالت اختیار کرجائے تو ایسی عمر کو اللہ تعالیٰ ـ’’ارزل العمر‘‘ سے موسوم کرتے ہیں (۱۶:۷۰؛۲۲:۵)اور ارزل ہونے کی وجہ یہ فرماتے ہیں کہ جو کچھ علم بھی اُسنے حاصل کیا ہوتا ہے اُسے بھول جاتا ہے ۔ یہ پیمانۂ امروز و فردا ، زمین کے خود اپنے محور پر گھومنے اور سورج کے گرد چکر لگانے سے شب و روز اور ماہ و سال کا تعین تو کر سکتا ہے، لیکن خود زندگی کیا ہے اسے نہیں بتا سکتا۔ مگریہ شب و روز کا پیمانہ بھی عجیب ہے۔ اگر کسی عاشق زار سے پوچھا جائے تووہ کہے گا: مہینے وصل کے گھڑیوں کی صورت اُڑتے جاتے ہیں مگر گھڑیاں جدائی کی گزرتی ہیں مہینوں میں یہی سوال اگر اللہ تعالیٰ سے پوچھا جائے، تو وہ اپنی کتاب الحکیم کے ذریعے فرما دیں گے کہ:’’اللہ کے حساب میں ایک دن ، انسانوں کی گنتی کے حساب سے ایک ہزار سال کے برابر ہے‘‘۔(۲۲:۴۷) پھر بھی یہ سب کچھ ہماری زمین اور نظامِ شمسی کی گردش پر مبنی محض وقت کو ناپنے کے پیمانے ہیں ۔۔ ان سے یہ تو پتہ نہیں چلتا کہ زندگی کیا ہے اور اس کا پیمانہ کیا ہے ؟۔ اسی لئے جب قیامت میں اس زمیںکے شب و روز ختم ہو چکے ہونگے، اور انسانوں سے پوچھا جائے گا کہ تم یہاںسے پہلے دنیا کی زندگی گزار کرموت کی حالت میں کُل کتنا عرصہ رہ چکے ہو تو وہ جواب دیں گے، ’’بس یہی کوئی ایک دن یا اُس کا کچھ حصّہ‘‘۔(۲۳:۱۱۳) بغور مطالعہ کرنے سے یہی پتہ چلتا ہے کہ زندگی کبھی نہیں مرتی ،محض اپنی حالتیں بدلتی رہتی ہے ۔۔ اسی لئے خود علامہ اقبالؔ فرماتے ہیں: ہ نکتہ میں نے سیکھا بوالحسنؑ سے کہ جاں مرتی نہیں مرگِ بدن سے جب سورج ایک اُفق پر غروب ہو رہا ہوتا ہے تو بعینہٖ اسی وقت دوسرے اُفق پر طلوع بھی ہو رہا ہوتا ہے ۔ جسے علامہ صاحب ایک شعر میں بیان فرماتے ہیں: موت کو سمجھا ہے غافل اختتامِ زندگی ہے یہ شامِ زندگی صبحِ دوامِ زندگی موت ،انسان کے دل کی حرکت کے بند ہو جانیکا دوسرا نام ہے ۔ لیکن اگر اسی وجود کے ایک ایک سیل کو دیکھا جائے توحکمِ اِلٰہی کے تحت، مختلف بدلتی ہوئی حالتوں کی طرف اُنکا کیمیائی سفر بدستور جاری رہتا ہے۔۔ اور یوں اپنی حالتوں کو بدلتے ہوئے وہ اپنی حیات کی دلیل پیش کرتے چلے جاتے ہیں۔یہ سفر وہ خاک اور ہڈیوںکے ڈھیر کی صورت میںطے کریں یا کیڑوں، مکوڑوں، جانوروں، پرندوں، مچھلیوں کے اجسام کا حصہّ بن کر کریں،ہر ایک حالت میں یہ اُن کی زندگی کا ہی سفر ہے۔ یہی سفر قیامت کے بعد، انسان کے وجود کی تخلیقِ نو یعنی بعثت کے بعدحساب و کتاب کی منازل سے بھی آگے، قادرِ مطلق کے فیصلے کے مطابق، ایک ابدی جہنم یا جنت کی زندگی میں بدل جاتا ہے۔یہ سب کا سب زندگی کا ہی سفر ہے جو علامہ اقبالؒ کی نظر میں: جاوداں، پیہم دواں، ہردم جواں ہے زندگی اس سے مستثنیٰ اگر کوئی ہیں وہ شہدائے کرام ہیں جن کے مردہ ہونے کا گمان تک بھی کرنے سے خالقِ موت و حیات نے منع فرمایا ہے ۔(۳:۱۶۹) ’’صلۂ شہید کیا ہے ،تب و تابِ جاودانہ‘‘ (اقبالؔ) ایسی ہی زندگی کے تصور سے محترم علامہ صاحب انسان کو تلقین فرماتے ہیں : ’’اپنی دنیا آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے‘‘ سِرِّ آدمؑ : قرآنِ کریم میں بیان کردہ قصۂ آدم کی تفصیلات دیکھی جائیں تو جو چیزیں سب سے زیادہ واضح ہوکر سامنے آتی ہیں وہ مختصراً مندرجہ ذیل ہیں: ۱-آدم علیہ السلام اور حواّ سلام علیھا کو جنّت کے لیے نہیں بلکہ اس زمیں پر زندگی گزارنے کے لیے تخلیق کیا گیا تھا۔ اسلئے اُنکا جنت سے زمین کا سفر کوئی سزا نہ تھی بلکہ اپنے مقصدِ تخلیق کی تکمیل کے لیے ،ایک معیّنہ مدت تک اس زمین پر مستقر تھا۔۔ ان کے جر م کی توبہ کے لیے تو اللہ تعالیٰ نے انہیں خود دعا بھی سکھلادی تھی اور پھرانہیں معاف بھی فرما دیا تھا۔تو بھلا معاف کر دینے کے بعد سزا کا کیا جواز رہ جاتا ہے۔ ۲- خلیفہ :کسی کے بعد اُس کی جگہ مقرر ہونے والے جانشین کو کہتے ہیں اور اللہ تعالیٰ تو حیی القیوم ہے جو ہرایک مقام پر ، ہر وقت ایک جیسا موجود ہے، بھلا اُسے خلیفہ کی کیا ضرورت ہو گی؟حضرت آدم ؑ،االلہ کے نہیں بلکہ ان سے پہلے گذری ہوئی دو ٹانگوں پر چلنے والی مخلوق Homo Sapiensکے جانشیں تھے۔ ۳-جنّت میں انہیں، پیدائش سے بلوغت کی عمر تک پہنچنے کے لئے رکھا گیا تھا تاکہ وہ زمین پر محنت مشقت اور اپنی حفاظت کے قابل ہو سکیں۔ اسی بچپنے کی معصومیت کی وجہ سے ہی اُن پر ایک دوسرے کے ستر ظاہر نہ تھے۔ بالکل جیسے آجکل بھی دو تین سال کے بچوں کو اس فرق کا احساس نہیں ہوتا۔مگر شجرِ ممنوعہ کی تاثیر سے جب قبل از وقت اُن کی شرمگاہوں کا احساس اُن پر اُجاگر ہوا تو جنت کے پتوں سے وہ اپنے آپ کو ڈھانپنے لگے۔( گویا مرد عورت کی باہمی حیا ایک فطری عمل ہوتی ہے) ۴- زمین پر بھیجنے سے پہلے انہیں یہ صاف صاف سمجھا دیا گیا تھا کہ ایک وقتِ مقررہ تک اُن کا یہیں ٹھکانا ہوگا اور یہاں انہیں مشقت کی زندگی گزارنی پڑے گی۔ اُن میں سے بعض بعضوں کے دشمن بھی ہونگے ۔ لیکن اُن کی طرف اللہ کے نبی ؑ ہدایت لے کر آتے رہیں گے ، توجو لوگ ان کی ہدایت کا اتباع کریں گے، انہیں نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ کوئی غم۔ آج اگر روئے زمین پر بسنے والے انسان کو دیکھا جائے تو وہ اپنی جبلتوں ، خصلتوں اور زندگی کے مسائل کے اعتبار سے مدارجِ حیات کی انہی مختلف حالتوںمیں سے گزرتا رہتا ہے او ر یوں اپنے مقصدِ تخلیق کے معیار پر تلتا چلاجاتا ہے ۔ اسی بناپر علامہ اقبالؒ انسان کو مسجودِ ملائک ، احسنِ تقویم اور وارثِ فردوس ہونے کے علاوہ ،اُن صفات کا حامل ہونے کی وجہ سے جو اس کا مقصدِ تخلیق پورا کرنے کے لیے انسان کو عطا کی گئی ہیں،اس کی زندگی کو سرِّ آدم گردانتے ہیں۔ (تفصیلات کے لیے دیکھیں:۲:۳۰۔۳۹؛ ۷: ۱۰ ۔ ۲۷؛ ۱۵:۲۴۔۴۴؛ ۱۷:۶۱۔۶۵؛ ۱۸:۵۰؛ ۲۰:۱۱۵۔۱۲۵؛ ۳۸:۷۱۔۸۵؛ بیٹوں کا واقعہ: ۵:۲۷۔۳۲) ضمیرِکُن فکاں : علامہ اقبالؔ ؒ نے اپنے کلام میں ضمیر کے لفظ کو انسانی وجود کے ایسے مرکز سے منسوب کیا ہے جہاں وحیِ الٰہی کا نزو ل ہو تا ہے جیسے فرماتے ہیں: ترے ضمیر پہ جب تک نہ ہو نزولِ کتاب گرہ کشا ہے نہ رازی ؔنہ صاحبِ کشّافؔ ْقرآنِ کریم میں اسی مرکز کو اللہ تعالیٰ نے قلب کہا ہے: ۲۶۔ الشعرائ:۱۹۴:’’ ہم نے اس قرآن کو روح الامین ؑ کے ذریعے اے رسولؐ! آپ کے قلب پر نازل فرمایا تاکہ آپ ؐ انسانوں کو تنبیہہٍ کرنے والوں میں شامل ہو جائیں۔‘‘ کسی بھی شے کی تخلیق، خالقِ کائنات کے لیے کس قدرآسان ہے، اس کاذکر قرآن الحکیم میں فرماتے ہیں: ۳۶- یٰسؔ: ۸۲۔’’اللہ کا امر بس یہ ہے کہ جب وہ کسی شے کا ارادہ کرتے ہی تو اسے ’’ہوجا!‘‘ کہہ دیتے ہیں وہ ویسی ہی ’’ہو جاتی‘‘ ہے۔‘‘ پوری لا محدود کائنات کی تشکیل میں اللہ تعالیٰ کا یہی امر کار فرما ہے جس کی وجہ سے ہر طرف زندگی ہی زندگی کا وجود ہے۔محی الدین ابنِ عربی ؒ نے اسی بنیاد پر فرمایا ہوگاکہ:’’ حیات ایک وجود ہے اور پوری کائنات اس کا ظہور ہے‘‘۔ علامہ اقبال ؒ کے نزدیک کائنات کی تخلیق جس امرِ کُن فََکاں سے ہوئی اُس کاباطنی مقصد (ضمیر) یہی زندگی ہے۔ ’’سِرِ آدم ہے ضمیرِ کُن فَکاں ہے زندگیـ‘‘ چونکہ خالقِ مطلق کی صفتِ خلّاقی کا کبھی نہ ختم ہونے والا عمل اب بھی جاری ہے تو اپنی حدِ فکر پر حیرت کا شاعرانہ اظہار فرماتے ہیں: یہ کائنات ابھی نا تمام ہے شاید کہ آ رہی ہے دما دم صدائے کُن فیکون ٭٭٭٭ ۱۴ ہو صداقت کیلئے جس دل میں مرنے کی تڑپ پہلے اپنے پیکرِ خاکی میں جاں پیدا کرے پھونک ڈالے یہ زمین و آسمانِ مستعار اور خاکستر سے آپ اپنا جہاں پیدا کرے ٭٭ ( بانگِ درا۔ خضرِ راہ۔زندگی) ٭٭ ٭٭٭٭٭ ہو صداقت کیلئے جس دل میں مرنے کی تڑپ پہلے اپنے پیکرِ خاکی میں جاں پیدا کرے پھونک ڈالے یہ زمین و آسمانِ مستعار اور خاکستر سے آپ اپنا جہاں پید ا کرے ٭٭ ( بانگِ درا۔ خضرِ راہ۔زندگی) ٭٭ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو کچھ بھی ہے وہ حق ہی حق ہے ۔ نہایت مختصر صرف تین الفاظ میں باری تعالیٰ نے یہ فیصلہ صادر فرما دیا ہے: ۲- سورۃ البقرۃ:۱۴۷: ’’الحقُّ مِن رَبّکَ‘ (اے میرے رسولؐ!) الحق ،تیرے ربّ کی طرف سے ہے اس لئے، فَلا تَکُونَ مِن اَلمُمتَریِن،کہیں اُن شک کرنے والوں کی طرح نہ ہو جانا۔‘‘ اللہ کی طرف سے نازل ہونے والا قرآن ہی وہ حق ہے جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ کے آخری رسول صلیّ اللہ علیہٖ و آلہٖ و سلّم ،خود اپنے صِدق کو اور اُن سے پہلے تشریف لانے والے انبیاء علیہم السلام کے لائے ہوئے صدق کو ثابت کرتے ہیں۔ ۳۷-سورۃ الصّٰفّتٰ:۳۷ : میں ارشاد ہوا: ’’ وہ لوگ کہتے ہیں کہ ہم بھلا (نعوذباللہ) ا س ایک مجنون شاعر کے کہنے میں آ کر اپنے خداؤ ں کو ترک کر دیں گے؟‘‘ نہیں ( بَل جآئَ بِالحق وَ صَدَّقَ بِالمُرسَلین) بلکہ یہ رسول ؐ تو ایک ایسے حق کو لے کر آیا ہے جو پہلے تمام مرسلین ؑکے لائے ہوئے حق اور انکی اپنی صداقت کوثابت کرتا ہے‘‘۔ ۲- سورۃ البقرۃ: ۲۱۳: ’’ پس اللہ نے نبیین ؑ،مبشّرین ، منذرین ؑ کو مبعوث فرمایااور اُن کے ساتھ حق کی کتاب بھیجی،تاکہ وہ اس کے ذریعے انسانوں کے باہمی اختلافات کے فیصلے کر دیں‘‘۔(۲:۲۱۳) ۱۷- بنی اسرائیل: ۸۱ اور ۵۷۔الحدید:۹: ’’یہی ایسا حق و صداقت ہے کہ جسکا نور آجانے سے باطل کی ظلمات بھاگ جاتی ہیں۔ کیونکہ باطل کے اندھیرے تو ہوتے ہی حق کے نور سے بھاگ جانے والے ہیں۔‘‘ یہ نور اگر کسی شے میں جگنو جتنا بھی آ جائے تو سارے جہاں کے اندھیرے مِل کر اُس کے نور کو مٹا نہیں سکتے اور وہ سارے جہان کے اندھیروں سے بے خوف وخطر گھپ اندھیروں میںٹمٹماتا پھرتا ہے۔ جس کسی انسان کے دل میں، ایسے نورِ حق و صداقت کی بقا کے لیے زمانے بھر کے ظلمات سے ٹکراکر حق کی صداقت کی شہادت دینے کی خواہش پیدا ہو جائے تو اس انسان کے لیے ضروری ہے کہ وہ پہلے اس خاک (تراب: ۴۰:۶۷) یعنی مٹی کے مرکب اجزا سے بنے ہوئے پُتلے میں ایمان ِ کامل کے نور کی ابدی جان پیدا کرے۔تاکہ ۸- سورۃ انفال:۴۲ کے مطابق مومن کا مرنا جینا اللہ تعالیٰ کی طرف سے آئے ہوئے حق کی صداقت کی بنیاد پر ہو۔ ارشاد ہوا: ـ ’’جس مومن کو اس مقابلے میں موت آجائے تو اسی بیّن بصیرت کی بنیاد پر آئے اور جو زندہ بچ جائے تو وہ بھی اسی بصیرت کی بنیاد پر ہی زندہ رہے۔‘‘ حق وباطل کے مقابلے میں اس طرح قتل کر دئے جانے والے مومن کی حیات ِ دائمی کے بارے میں قرآنِ حکیم کی دو آیات انہیں مردہ کہنے یا اُنہیں مردہ گمان تک بھی کرنے سے منع فرماتی ہیں۔ ۲۔سورۃ بقرۃ:۱۵۴: میں باری تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’اور جو لوگ اللہ کی راہ میںقتل کر دئے جاتے ہیں ، اُن کے بارے میں کہیں یہ لفظ بھی نہ نکال دینا کہ وہ مردہ ہیں۔ نہیں نہیں! بلکہ وہ زندہ ہیں مگر تُم اُن کی زندگی کا شعور نہیں رکھتے ۔‘‘ ۳-آلِ عمران:۱۶۹ ۔ ۱۷۱: میں اسی طرح ارشاد ہوا: ’’وہ لوگ جو اللہ کی راہ میں قتل کر دئے جائیں ،ان کے بارے میں ایسا کبھی گمان بھی نہ کرنا کہ وہ مردہ ہیں۔ بلکہ وہ تو اپنے ربّ کے حضور زندہ ہیں اور اُنہیں رزق مل رہا ہے‘‘۔(۱۶۹) ’’اُن پر جوجو فضل اُن کے ربّ کی طرف سے ہو رہا ہے اُس سے وہ بہت خوش ہیں اور اپنے اُن ساتھیوں کے بارے میں بھی خوشی محسوس کر رہے ہیں ،جو اس جہاد فی سبیل اللہ میں اُن کے ساتھ تو تھے مگر شہادت نصیب نہ ہونے کی وجہ سے پیچھے رہ گئے ہیں، کہ جب وہ بھی وہاں پہنچیں گے تو اُنہیں بھی یہاں آکر نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ کوئی غم‘‘(۱۷۰) ’’ اوریہ خوشیاں، انہیں اللہ کے انعام و اکرام کے علاوہ ،یہ دیکھ کر بھی ہو رہی ہیں کہ اللہ تعالیٰ واقعی مومنیں کا اجر ضائع نہیں کرتا‘‘۔(۱۷۱) ۲۳-المومنون:۱۱۳: کے مطابق ’’یہ زندگی ایک دن یا اُس کا بھی کچھ حصّہ ‘‘… جسے اللہ تعالیٰ نے ہمیں زمین پر رہنے کے لیے ایک امتحان کے طور پر مستعار دے رکھا ہوتا ہے ، اُسے جب تک کوئی مومن فی سبیل اللہ پھونک نہ ڈالے، اس وقت تک اس کے اپنے اس عمل کی جزا کے طور پر اس کی خاکستر سے ، اُس کے لئے وہ جہان پیدا نہیں ہو سکتے ،جن میں مندرجہ بالا آیات کے علاوہ بیسیوں ایسی آیات کے حوالوں سے، اللہ تعالیٰ کے ابدی انعام و اکرام کی رحمتیں برس رہی ہوں: اسی نسبت سے علامہ محمد اقبالؒ نے یہ شعر فرمایا تھا۔ اور اپنے پورے علمی انکسار کے ساتھ میں یہ بھی یہاں عرض کرتا چلوں کہ اگر علامہ اقبالؒ کے نزدیک ترکِ دنیا کا کوئی تصوّر موجود تھا تو وہ قرآنی تعلیمات سے منسلک تصوّف کے اسی مفہوم پر مبنی تھا ۔ ٭٭٭٭٭ ۱۵ آ بتاؤں تجھ کو رمزِ آیۂ اِنّ اَلمَلُوک٭ سلطنت اقوامِ غالِب کی ہے اک جادوگری سروری زیبا فقط اُس ذاتِ بے ہَمتَا کو ہے حکمراں ہے اک وہی باقی بُتانِ آزریؔ ٭٭ (بانگِ درا۔خضرِ راہ۔ سلطنت) ٭٭ ٭(۲۷،سورۃ النمل:۳۴) ٭٭٭٭٭ آ بتاؤں تجھ کو رمزِ آیۂ اِنّ اَلمَلُوک٭ سلطنت اقوامِ غالِب کی ہے اک جادوگری سروری زیبا فقط اس ذاتِ بے ہَمتَا کو ہے حکمراں ہے اک وہی باقی بُتانِ آزریؔ ٭٭ (بانگِ درا۔خضرِ راہ۔ سلطنت) ٭٭ ٭(۲۷،سورۃ النمل:۳۴) آیَۂٔ اِنَّ اَ لمَلُوک: انسانی تاریخ کے انتہائی اہم اور عبرت خیز واقعات، جن کا جس قدر تذکرہ کرنا اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی ہدایت اور فلاح کے لیے ضروری سمجھا ہے، اُن میں سے ایک واقعہ ملکہ سبا ؔاور حضرت سلیمان علیہ السلام کا ہے۔ قرآنِ حکیم کی۲۷ سورۃ النمل کی آیات ۱۵ ۔ ۴۴ تک اللہ تعالیٰ نے ہماری رہبری کے لیے ، ملوکیت کے مسائل پر، نہایت اختصار کے ساتھ کچھ ضروری تفصیلا ت اس طرح ارشاد فرمائی ہیں: ’’اور ہم نے داؤد ؑ اور سلیمان ؑ کو علم عطا فرمایا تو انہوں نے کہا ،’’ الحمد ہے اُس ذات پاک کی،جس نے ہمیں اپنے عبادالمومنیں میں سے اکثریت پر فضیلت عطا فرمائیــ‘‘ (۱۵) پھر ہم نے سلیمان ؑ کو ،داؤد ؑ کا وارث بنایا تو انہوں نے کہا : ’’ اے انسانو! ہمیں اللہ کی طرف سے جانوروں کی بولی سکھائی گئی ہے اور ہمیں اللہ تعالیٰ نے ہر ایک ضروری شے عطا فرمادی ہے۔ بلا شبہ یہ اُس کا ہم پر بڑا ہی فضلِ مبین ہے ‘‘(۱۶) اور اس کے علاوہ اللہ نے ان کے لیے، جنوں، انسانوں اور پرندوں کے لشکر جمع کردئے تھے ، جنہیں حضرت سلیمان ؑ نے اپنی اپنی نوع کے اعتبار سے ترتیب دے رکھا تھا(۱۷) اسی طرح جب وہ چلتے چلتے چیونٹیوں کے میدان میں پہنچے تو ایک چیونٹی نے دوسری چیونٹیوں سے کہا،’’ اے چیونٹیو! اپنے اپنے بلوں میں چھُپ جاؤ۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ سلیمان ؑ اور اُس کے لشکروں کو تُم نظر نہ آؤ اور وہ تمہیں کچل ڈالیں(۱۸)۔ اُن کی اس گفتگو سے سلیمان ؑ مسکرائے اور اُن کی ہنسی نکل گئی تو انہوں نے کہا: ’’ اے میرے ربّ! مجھے توفیق عطا فرما کہ وہ نعمتیں جو آپ نے مجھے اور میرے والدکو عطا کی ہیں، میں اُن کا شکر اداکر سکوں اورایسے اعمالِ صالح کروں کہ جن سے آپ راضی ہوکر مجھے اپنی رحمت سے عباد الصالحین میں داخل فرمالیں‘‘(۱۹) پھر جب انہوں نے پرندوں کا معائنہ کیا تو کہا: ’’کیا وجہ ہے جو ہُدہُد نظر نہیں آتا ؟ کیا وہ کہیں غائب ہو گیا ہے؟(۲۰) میں اُسے اس کی سخت سزا دوںگا اور اگر اُس نے کوئی واضح وجہ پیش نہ کی تو اُسے ذبح کردوں گا ‘‘(۲۱) تھوڑی ہی دیر میں ہُد ہُد آ موجود ہوا اور کہنے لگا : ’’مجھے ایک ایسی بات معلوم ہوئی ہے جس کی آپ کوبھی خبر نہیںہے۔ اور میں سباؔ(شہر) سے ایک یقینی خبر لے کر آرہا ہوں(۲۲) وہاں میں نے ایک عورت دیکھی ہے جو اُن پر حکومت کرتی ہے اور اُسے ہر ایک شے میّسرہے اور اُس کے پاس ایک بہت بڑا تخت ( عرشِ عظیم) بھی ہے(۲۳) اور میں نے یہ بھی دیکھا کہ اُن کی قو م اللہ کو چھوڑ کر سورج کو سجدہ کرتی ہے اور شیطان نے اُن کے لئے اُن کے اعمال کو مزیّن کرکے اُنہیں صحیح راستے سے روک رکھا ہے،جس کی وجہ سے وہ اب ایمان نہیں لاتے(۲۴) وہ اُس ذات کو کیوں سجدہ نہیں کرتے جو سماوات والارض کی پوشیدہ چیزوں کو ظاہر کر دیتا ہے اوجو جو کچھ تُم پوشیدہ رکھتے یا ظاہر کرتے ہو وہ سب جانتا ہے(۲۵) اللہ تو وہ ہے جس کے سوا کوئی اور معبود نہیں اور وہ خود ربّ العرش العظیم ہے‘‘(۲۶) (قارعین! ذرا رسولوں ؑکے ھُد ھُد کا ایمان ملاحظہ فرمائیں) سلیمانؑ نے فرمایا : ’’اچھاہم دیکھیں گے کہ تُم سچ بول رہے ہو یا جھوٹ (۲۷)یہ میرا خط لے جا اور اُنہیںپہنچا کر آؤ کہ دیکھیں وہ اس کا کیا جواب دیتے ہیں۔‘‘(۲۸) ملکہ نے خط پڑھ کر کہا :’’ـ اے میرے درباریو! میری طرف ایک گرامی نامہ آیا ہے (۲۹) جو کہ سلیمانؑ کی طرف سے ہے،جس میں لکھا ہے: ’’بسم اللّٰہ الرحمان الرحیم‘‘ (۳۰) (قرآن کی ۲۷ نمبر بسم اللہ یہی بنتی ہے جس سے پورے قرآن میں ۱۱۴ کی گنتی پوری ہو جاتی ہے۔ سورۃ توبہ سے پہلے بسم اللہ نہیں ہے) ’’میرے سامنے سرکشی نہ کرنا! بلکہ میرے پاس مطیع و فرمانبردار ہوکر آ جائیں‘‘(۳۱) اے میرے درباریو! اس معاملے میں تُم مجھے مشورہ دو!جب تک تُم مجھے اپنی اپنی رائے نہ دو گے میں کوئی بھی فیصلہ کرنے والی نہیں ہوں(۳۲) انہوں نے کہا کہ ہم بڑے طاقتور اور سخت جنگجو لوگ ہیں، آپ جو بھی حکم فرمائیں ہمیں قبول ہے۔ آپ خود ہی حکم دینے سے پہلے غور فرما لیں(۳۳) ملکہ نے فرمایا: اِنّ اَلمَلُوک(بادشاہ) جب کسی بستی میں داخل ہوتے ہیں تو اُسے تباہ کر دیتے ہیں اور اُس کے عزت والوں کو ذلیل بنا دیا کرتے ہیں۔ اسی طرح یہ بھی کریں گے(۳۴) چنانچہ میں اُن کی طرف کچھ تحفہ بھیجتی ہوں اور پھر دیکھتی ہوں کہ قاصد ہمارے پاس کیا جواب لاتے ہیں‘‘۔(۳۵) پھر جب قاصد سلیمانؑ کے پاس پہنچا تو انہوں نے فرمایا: ’’ کیا تُم مال سے میری مدد کرنا چاہتے ہو۔۔ مجھے جو کچھ اللہ نے عطا کر رکھا ہے وہ اُس کی نسبت بہت بہتر ہے جو تمہیں ملا ہوا ہے۔ بلکہ سچ یہ ہے کہ ان تحفے تحائف سے تم لوگ ہی خوش ہوتے ہوگے(۳۶) یہ سب واپس لے جاؤ تم انہیں کے پاس۔ ہم اپنے لشکر لے کر اُن پر ایسا حملہ کریں گے کہ جس کامقابلہ کرنے کی اُن میں طاقت نہ ہوگی اور ہم اُنہیں ذلیل کر کے نکال دیں گے اور اُن کی کوئی عزت نہ رہ جائے گی۔(۳۷) پھر حضرت سلیمانؑ نے کہا؛ ’’ اے میرے درباریو! تُم میں سے کوئی ایسا ہے جو قبل اس کے کہ وہ مطیع ہوکر میرے پاس آئے اُس کا تخت یہاں لا سکے؟(۳۸) ایک قوی ہیکل جِنّ نے کہا ،’’ قبل اس کے کہ آپ اپنے مقام سے اُٹھیں میں اسے آپ کے سامنے پیش کر دوں گا اور میں ایسا کرنے کی قوت بھی رکھتا ہوں اور امانتدار بھی ہوں‘‘(۳۹) لیکن جس کے پاس کتاب الٰہی میں سے علم تھا، اُس نے کہا : ’’میںآپ کی آنکھ جھپکنے سے پہلے پہلے اسے آپ کے سامنے پیش کر دوں گا‘‘ ۔ پس جب سلیمان ؑ نے تخت کو سامنے رکھا ہوا دیکھا توفرمایا: ’’(ھٰذا مِن فَضلِ ربیّ)یہ میرے ربّ کے فضل میں سے ہے تاکہ وہ مجھے آزمائے کہ میںشُکر کرتا ہوں یا کُفر کرتا ہوں۔اورجو کوئی شکرکرتا ہے تو اپنے ہی فائدے کے لئے۔ اور اگر کوئی نا شکری (کفر) کرتا ہے تو میرا ربّ تو بڑا بے نیاز اور کرم کرنے والا ہے‘‘(۴۰) سلیمان ؑ نے حکم دیا کہ تخت میں کچھ تبدیلی کر دو تاکہ یہ دیکھ سکوں کہ وہ اتنی سوجھ بوجھ رکھتی ہے یا نہیں رکھتی۔(۴۱) پھر جب وہ آ پہنچی تو سلیمان ؑ نے اُس سے پوچھا: ’’ کیا یہ تیرا ہی تخت ہے؟‘‘اُس نے کہا: ’’ ایسا لگتا ہے جیسے وہی ہو !!!اور ہمیں آپ کے متعلق پہلے ہی سب کچھ معلوم ہو چکا ہے اور اب ہم آپ کے فرمانبردار ہیں‘‘۔(۴۲) پس سلیمان ؑ نے اسے اللہ کے علاوہ جس جس چیز کی وہ عبادت کرتی تھی اُس سے منع کر دیا کیونکہ وہ اس سے پہلے کافروں کی قوم میں سے تھی(۴۳) پھرجب اُسے محل میںچلنے کو کہا گیا تو فرش کو پانی کا حوض سمجھ کر اُس نے اپنے لباس کوپنڈلیوں تک اُٹھا لیا تو سلیمان ؑ نے کہا: ’’یہ پانی کے اوپر فرش پر شیشے جڑے ہوئے ہیں‘‘۔ ملکہ نے کہا : ’’ اے میرے ربّ! میں اپنے نفس پر ظلم کرتی رہی ہوں۔ لیکن اب میں سلیمان ؑ کے ساتھ اللہ ربّ العالمین پر ایمان لاتی ہوں۔‘‘(۴۴) یہ ہیں وہ آیات جس کی بنیاد پر علامہ اقبالؔ نے رمزِ آیۂ انّ الملوک کا ذکر چھیڑا اور یہ بتانا چاہا کہ ’’ سلطنت اقوامِ عالم کی ہے اک جادو گری‘‘ آئیے ذرا تھوڑا سا تجزیہ کرکے دیکھیں کہ وہ کون سے عناصر ہیں کہ جن کی بنیاد پرایک بادشاہت’’حکومتِ الٰہیہ‘‘ کہلاتی ہے اور دوسری محض’’سلطنت اقوامِ غالب‘‘ بن جاتی ہے اور ان دونوں میں کیا فرق ہوتا ہے۔ حکومتِ الٰہیہ ۲-سورۃبقرۃ: ۲۴۶۔۲۴۸: (۱) اللہ تعا لیٰ اُس کے حاکم اپنے رسولؐ کے ذریعے تعین کرتا ہے۔ (۲) وہ علم اور جسم میں باقی ساری قوم سے زیادہ مضبوط ہوتا ہے۔ (۳) اُس کی تائید کے لئے انبیاٗ اور اُن کی ذرّیت کے تبرکات ملائکہ لے کر آتے ہیں اور اگر وہ خود ذریت ہوں تو لازماً وہ فضیلت رکھتے ہیں۔ (۴) مال و دولت کی زیادتی ، فضیلت کی وجہ نہیں بنتی۔ ۲۷- سورۃ النمل:۱۵ ۔ ۴۴ اللہ تعالی ٰ اپنے مقرر کردہ حاکم کو اپنی جناب سے علم اور حکمت عطا کرنے کے علاوہ تمام ضروری وسائل اور ذرائع بھی عطا کرتا ہے ، جیسے داودؑ اور سلیمان ؑ کو باقی تمام مومنیں پر فضائل عطا فرمائے۔ داؤد علیہ السلام کے بیٹے سلیمانؑ کو ہی پھر اُن کا جانشین بنایا اور انہیں: (۱) جانوروں کی بولیاں سکھائیں۔ (۲) ہر ایک ضروری شے عطا کی۔ (۳) جنوں ، انسانوں اور پرندوں کے لشکر ( جیسے ابابیل کا لشکر) جمع کر دئے۔ جنہیں حضرت سلیمانؑ نے الگ الگ دستوں میں ترتیب دیاہوا تھا۔ (۴) وہ اپنے لشکروں کی باقائدگی سے حاضری لگاتے اور اُن کا معائنہ فرماتے اور اُن کی حرکات و سکنات پر کڑی نظر رکھتے ، جیسے ھُدھُد کے واقعے سے ظاہر ہے۔ (۵) اُن کے دربار میںایسے جنّ موجود تھے جو ایک ملک سے دوسرے ملک میں تخت کوایک گھڑی میں پہنچا دیں۔ (۶) اور ایسے لوگ بھی تھے جو کتابِ الٰہی کا ایسا علم رکھتے تھے کہ اسی تخت کو پلک جھپکنے میںلا سکیں۔ (۷) اُللہ کے عطا کئے گئے علم و حکمت کی بنیاد پر وہ ہر ایک معاملے کو اس خوش اسلوبی سے سر انجام دیتے تھے کہ بغیر کسی قوت کے استعمال کے نہ صرف ایک کافر قوم کو اپنے مطیع کرلیں بلکہ انہیں مسلمان بھی بنا لیں۔ (۸) اللہ کے مقرر کردہ حاکموں کے لشکروں سے چیونٹیوں کو بھی تب خطرہ محسوس ہو اور کچلے جانے کا ڈر ہو جب کہ وہ لشکروں کو نظر نہ آئیں۔ اس وجہ سے جب وہ دوسری چیونیوں کو اپنے اپنے بِلوں میں گھس جانے کی تنبیہ کریں تو یہ محض ہنس دیتے ہیں۔’ گویا یہ کہہ رہے تھے کہ تُم کیا سمجھتے ہو ہم اُسی اللہ کے نمائندے ہیں جس نے آپ کو ایک مقصدِ تخلیق کی تکمیل کے لیے پیدا کیا ہے ہم بھلا آپ کو کیسے کچل سکتے ہیں۔ مناسب ہوگا کہ یہیں پرحضور سیّد المرسلین صلّ اللہ علیہٖ و آلہٖ و سلم کی سیرتِ قدسی کا ایک واقعہ بیان کر دوں: روایت ہے کہ حضور پاکؐ کسی غزوہ پر اپنے جانثار صحابہ کرام کے ساتھ جا رہے تھے کہ خبر ملی ،راستے میں ایک کتیا نے بچے جنے ہوئے ہیں۔ حضور ؐ نے حکم دیا کہ راستہ بدل کر اتنی دور سے گزرا جائے کہ کتیا اور اُس کے بچے خوف محسوس نہ کریں یہ ہے حکومتِ الٰہیہ کے نمائندوں کا طرزِ حکومت کہ جس میں کسی چیونٹی یا کتیا اور اُس کے بچوں کو بھی کسی قسم کی تکلیف پہنچ جانا ممکن نہیں ہو سکتا۔ اسی طرح حضرت یوسف ؑ جب مصر میں صاحبِ اختیار بنتے ہیں تو اُن بھائیو ں کو جنہوں نے اُنہیں کنوئیِ میں پھینک دیا تھا ۔ اپنے علم اپنی حکمت اور اخلاق اور کردارکی بنیاد پر خبر بھی نہیں ہونے دیتے کہ آپ وہی یوسف ؑ ہیں اور اُن کی ایسی خاطر ومدارات کیں کہ انہو ںنے واپس جاکر حضرت یعقوب علیہ السلام کے سامنے حضرت یوسف کو پہچانے بغیر اُن کی مدارات کاچرچا کیا۔ سلطنت اقوامِ غالب اس کے بر عکس اگریونانیوں، مصریوں، فرعونوں، نمرودوں، ایرانیوں، چینیوں، عربوں امویوں، عباسیوںِ ۔ چنگیزیوں ،تاتاریوں، مغلوں، اور شرق و غر ب کی دیگر اقوامِ عالم کے طرزِ حکومت کو دیکھا جائے تو ان کے مظالم کے تذکروں سے نہ صرف تاریخ عالم بلکہ الہامی کتابیں بھی بھری ہوئی ہیں صرف۔ آیۂ انّ المَلَوک کی آیات میں ہی دیکھا جائے تو وہ باتیں جو علامہ اقبال کی نظر میں جادوگری سے کم نہیں وہ اس اعلان سے شروع ہوتی ہیں: ملکہ سباؔ نے جب حضرت سلیمانؑ کے خط کے متعلق اپنے درباریوں سے مشورہ لیا تو پہلے تو انہوں اپنے حقِ وفاداری کا ثبوت پیش کرنے کے لیے اپنے آپ کو بڑا بہادر اور جنگجو ثابت کرتے ہوئے اُن کے حکم پراپنی جان قربان کرنے کا وعدہ کیا ۔مگر ایک عقلمند اور ذہین ملکہ نے انہیں بتایا کہ الملوک ہوتے کیسے ہیں : (۱) جب وہ کسی بستی مں داخل ہوں تو اُسے تباہ و برباد کردیتے ہیں۔ (۲) اُس بستی کے عزت والے لوگوں کو ذلیل بنا دیتے ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو آج تک اقوامِ غالب کی حکومتیں چاہے وہ ملوکیت، جمہوریت، اشتراکیت، فسطائیت، انسانیت یابرائے نام مذہب کی بنیاد پر بنی ہوں، اُن سب میں قتلِ عام، مالِ غنیمت کی لوٹ کھسوٹ، عصمت اور شرافت کی تباہی، کھوپڑیوں کے ڈھیر اوربے غیرتی کا ہی مظاہرہ نظر آتاہے۔۔۔ آج بھی اس دور میں طاقتور قومیں آپس میں خطرناک ترین دو عظیم جنگیں لڑ چکی ہیں بیسیوں ملک قیامت خیز weapons of mass destructionکے ذریعے ان دو عظیم جنگوں کے بعد بھی اقوامِ متحدہ کے فیصلوں کے مطابق تباہ و برباد کر دئے گئے ہیں اور پوری دنیا میں اب تو انتہائی تباہ کُن سامانِ جنگ کے، اتنے ذخیرے جمع ہو چکے ہیںکہ اقوامِ غالب کے سائنسی کارنامے او ر سیاست اور میڈیا کے جھوٹ کے زور پر چلائی جانے والی بین الاقوامی تجارت اور سیاست کی جاد وگری سے پوری دنیا کی چھوٹی بڑی تمام قومیں مسحورہو کر رہ گئی ہیں۔ اور اگر اللہ تعالیٰ بعض قوموں کو بعض کے خلاف لڑنے سے روکے نہ رکھتا تو نہ جانے یہ دنیا ، ان غالب قوموں کے ہاتھوں کتنی بار تباہ ہوچکی ہوتی ۔(۲۲۔حج:۴۰) حقیقی حکمران اسی لئے قرآنِ کریم میں الحکم و للہ، المُلک ،للہ، للہ ِ ما فی السمٰواتِ و ما فی الارض، ملک الناسجو ربّ الناس اور الٰہ الناس ہو تے ہوئے ایسا بے مثال ہو کہ اُس جیسے کسی دوسرے کا ہو نا ممکن ہی نہ ہو ۔صرف اُسی کے لئے زمین اور آسمان کی بادشاہت زیبا ہے۔ سروری زیبا فقط اُس ذاتِ بے ہَمتا کو ہے حکمراں ہے اک وہی باقی بتانِ آزریؔ جہاں جہاں اس ذاتِ رحمان الرحیم جو مالکِ یوم الدین بھی ہے کی حکومت براہِ راست یا اس کے مقرر کردہ عادل اور منصف حاکموں کے ذریعے ، اللہ کے قانون کے مطابق قائم رہی ہے وہ جنت نظیر مملکت رہی ہے ۔ تاریخِ عالم میں نہایت کم ایسی مثالیں سہی مگر قرآن میں یوسفؑ، داؤدؑ، سلیمان ؑ،ذی القرنینؑ اور سیّد المرسلیں خاتم النبیّین ِ صلّ اللہ و علیہٖ وآلہٖ و سلّم جیسے روشنی کے مینارآج بھی اپنا نور پھیلا رہے ہیں۔ ان کے علاوہ اگر کوئی حاکم ہونے کا دعویٰ کرتا ہے یا کسی کو اللہ کے سوا حاکم مانتا ہے تو وہ بتانِ آزری کی مثال ہیں۔ جنہیں آکر ’’ توڑ دیتا ہے کوئی موسیٰ ؑ طلسمِ سامری ‘‘ــ ۱۶ مٹا دیا مرے ساقی نے عالَمِ من و تُو پلا کے مُجھ کو مئے لَا اِلَہَ اِلّا ھُو نہ مے، نہ شعر، نہ ساقی،نہ شورِ چنگ و رُباب سکوتِ کوہ و لبِ جُوئے و لالۂ خود رُو ٭٭(بالِ جبریل۔۹)٭٭ ٭٭٭٭٭ مٹا دیا مرے ساقی نے عالَمِ من و تُو پلا کے مُجھ کو مئے لَا اِ لَہَ اِلّا ھُو نہ مے، نہ شعر، نہ ساقی،نہ شورِ چنگ و رُباب سکوتِ کوہ و لبِ جُو(ے ) و لالۂ خود رُو ٭٭(بالِ جبریل۔۹)٭٭ ظاہراً یہ نظر نہیں آتا کہ ساقی کے عالَمِ من و تُو کا، مئے لَا اِلٰہٰ اِلّا اَللہ سے بھی کوئی تعلق ہو سکتاہے۔ لیکن فکرِ اقبال ؔ کی رُو سے جو ان تمام نسبتوں کا احا طہ کئے ہوئے ہے، اگر اس شعر میں اسرار و رموزکے حامل الفاظ کو ڈھونڈا جائے تو وہ یہ نظرآتے ہیں: میرا ساقی مئے لا اِلٰہ اِلّا ھُو، عالمِ من ، عالَمِ تُو ، مٹا دینا۔ جناب علامہ اقبال ؒ کا ساقی ہر ایک دور کے ساقی سے جداگانہ ہے ۔ اُن کے قلب و خیال پر چھائی ہوئی قرآنی تعلیمات کی رو سے ،اُن کا ساقی وہ ہے جو ’’مومنین ‘‘اور’’ ابرار‘‘ کو ایسی شرابِ طہور کے جام عطا کرتا ہے جو جنت کی جلوہ گاہِ حق میں اُن کا نصیب بن چکی ہوئی ہے۔ اُس شراب کا ذکر قرآنِ کریم کی آیاتِ مبارکہ میں یوں کیا گیا ہے:- ۷۶- الدہر:۵۔۲۲: ’’ اللہ کے نیک بندے(ابرار)ایسی شراب کے جام پئیں گے جس کو مشک ِکافور سے مختوم کیا گیا ہوگا، جو ایک چشمے سے نہروں کی صورت جاری ہو ں گی ۔۔ اور اُ س کو پینے والے ایسے عباد اللہ ہونگے جنہوں نے: ٭ اللہ سے اپنے وعدے وفا کئے۔ ٭ اُس دن سے خوف زدہ رہتے تھے جس کی سختی ہر طرف پھیل رہی ہوگی۔ ٭ وہ اللہ کی محبت میں مسکین اور یتیم اور اسیر کو کھانا کھلایا کرتے اور اُن سے کہتے تھے کہ ’’ہم تو محض اللہ کی خوشنودی کے لیے آپ کو کھانا کھلا رہے ہیں، ہم آپ سے نہ تو اس کی کوئی جزا چاہتے ہیں اور نہ ہی کسی شکریئے کے متمنی ہیں۔ہم تو محض اپنے ربّ سے اُس دن کے متعلق خائف رہتے ہیں جونہایت مایوس اور مضطر ب کر دینے والا ہے ۔ ٭ تو اللہ نے ایسے تمام لوگوں کو اُس دن کی سختی سے بچا لیا ۔ ٭ اور اُن کو فرحت اور سرور عطا فرمایا ۔اور یہ اُن کے صبر کی جزا ہے جو: ٭ انہیں رہنے کو جنّت اور پہننے کو ریشم کا لباس عطا ہوا ہے۔ ٭ وہ وہاں تختوں پر تکیے لگائے بیٹھے ہونگے ۔ ٭ نہ ہی وہاں گرمی کی تپش ہوگی اور نہ ہی جاڑے کی سردی۔ ٭ اُن پر ثمردار شاخوں کا سایا ہوگا جن سے لٹکتے ہوئے پھلو ں کے گوشے اُنکے سامنے جھُکے ہوئے ہونگے ۔ ٭ اور شیشے و چاندی کے بنے ہوئے نہایت خوبصورت جام اور صراحیاں لئے خدام اُن کے ارد گرد خدمت میں لگے ہونگے۔ ٭ اور انہیں ایسی شراب بھی پلائی جائیگی جو مزاج میں سُونٹھ( زنجبیل) سے مختوم ہوگی۔ ٭ جو اُس چشمے سے ہوگی جسے ’’سلسبیل‘‘ کہا جاتا ہے۔ ٭ اُن کی خدمت میں ایسے خوش مزاج، حسین خدمتگار لگے رہیں گے جو ہمیشہ ایک جیسی اچھی حالت میں رہیں گے اور ایسے دکھائی دینگے جیسے جڑے ہوئے موتی ہیں۔ ٭ اور تُم جس طرف بھی نظر اُٹھا کر دیکھو گے تمہیںایک ملکِ عظیم کی نعمتیں ہی پھیلی ہوئی دکھائی دیں گی۔ ٭ اِنہوں نے سبز دیبا اور اطلس کا لباس اور چاندی کے کنگن پہنے ہونگے ۔ ٭ اور اُن کے ربّ کی طرف سے انہیں پینے کو شرابِ طہورپیش کی جائے گی اور اُن سے کہا جائے گا کہ یہ ہے وہ اجر جو تمہاری قابلِ قدر کوششوں(سعیٔ مشکور) کے صلے میں آپ کو عطا کیا جا رہا ہے۔(۷۶:۵۔۲۲)‘‘۔ یہ ہے علامہ اقبالؒ کا ساقیِٔ مئے الست، جس کا رشکِ فردوس میخوانہ، ایسی ایسی آسائشوں کا حامل ہے کہ اُس میں جانے کے لیے۔اسی فانی دنیا میں ہی، اپنے نفس کوتِیغِ لَآ سے فنا (محو) کر کے، مئے الّا اللہ کے ساغرِ حیات سے بقا حاصل کر لینا انتہائی ضروری ہے۔ قرآنِ کریم کی سورۃ یوسف ؑ میں ’’نفس‘‘ کی تعریف ہی کچھ ایسی کی گئی ہے کہ اگر اللہ کی رحمت شاملِ حال نہ ہو تو یہ نفس ہی ہے جو مسلسل بُرائیوں پر اکساتا رہتا ہے۔ ۱۲۔ سورہ یوسف: ۵۳ : میںارشاد ہوا : ’’یقیناً نفس ہوتا ہی بُرائی پر اُکسانے والا ہے۔ سوائے اُس کے جس پرمیرے ربّ نے اپنی خاص رحمتکر رکھی ہو‘‘۔( انبیاء علیہم السلام چونکہ آتے ہی انسانوںکے لیے رحمۃ للعالمین بن کر ہیں اس لئے اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت کی وجہ سے یہ ممکن ہی نہیں رہتا کہ اُن کا نفس بھی عام انسانوں ک طرح اُنہیں برائی پر مائل کر سکے )۔ انسان کے نفسِ امّارۃ (برائی پر اُکسانے والے نفس) کو فنا کرکے اتباعِ احکامِ الٰہی کے وجود کو ہی بقا بخشنے والی مئے لا الہٰ الّا اللّٰہکی مستی میںمقامِ یقین کو ہی اقبالؒ اپنے ایک شعر میں بیان فرماتے ہیں: مئے یقیں سے ضمیرِ حیات ہے پُر سوز نصیبِ مدرسہ یاربّ! یہ آبِ آتشناک (یقین کی مے جس سے ضمیرِ حیاتِ عالم میں گرمی ہے، اس آتشناک مے کو اے میرے ربّ! میری قوم کے اہلِ مدرسہ یعنی تمام شاگرد و ں اور اُستادوں کا بھی نصیب کر) یقینکی آتشناک مستی میںجب باطل کی فنا ہو جائے توحق کی بقا ہوتی ہے۔ قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ کے حق کے سوا ہر ایک باطل کی فنا ، جس میں اس ’’میںــ‘‘ کی بھی فنا ہو جاتی ہے، کا ذکر یوں آتا ہے: ۴۲۔سورۃ الشوریٰ: آیت:۲۴:-’’اللہ تعالیٰ باطل کومحوکر دیتا ہے اور اپنے کلمات سے حق کو حق ثابت کر دیتا ہے۔ بلا شبہ اللہ تعالیٰ سینوں میں چھپے رازوں کا علم رکھتا ہے۔(۲۴) یہلاالہٰ الّا اللّٰہ ہی وہ کلمہ ہے جو اگر واقعی صدقِ دل سے ادا کیا جائے تو باطل کو محوکر دیتا ہے ۔جس کے ساتھ ہی اس انسانی ’’میں‘‘ پر مبنی تمام کے تمام وہم وخیال، نفاق و شرک ، خود ساختہ رسومات اور مذاہب کا جہانِ باطل بھی مٹ جاتا ہے اور باقی محض اللہ کے احکام و فرمان اور اُس کے مطابق چلنے والاجہانِ حق رہ جاتا ہے۔ جب ’’میں‘‘ ہی باقی نہ رہی تو پھر میں کا مقابل لفظ ’’تُو‘‘ بھی کلام کا حصہ نہیں رہتا ۔ یعنی ’’عالَمِ مَن‘‘ کے مٹنے سے’’عالمِ تُو‘‘ بھی مٹ جاتا ہے ۔اور باقی پھر صرف ’’وہ‘‘ ہی ’’وہ‘‘ رہ جاتا ہے۔یعنی اُس کے ’’ امرِ کُن ‘‘ سے تشکیل شدہ ایک لا متناہی ’’جہانِ فَیَکُون‘‘ رہ جاتا ہے۔ چونکہ انسان کی اپنی ذات ’’میں‘‘ تو فنا ہو چکی ہوتی ہے اسلئے اب جو کچھ بھی انسان سے ہوتا ہے وہ اُٹھتے بیٹھتے، سوتے جاگتے، خواہشوں ، اُمنگوں اُمیدوں، خیالات اور جذبات میںویساہی بن جاتا ہے جیسا اللہ چاہتا ہے۔ بقول مولانا رومیؒ: حضرت نوح علیہ السلام پر جب ان کی قوم نے اعتراض کیاکہ جہاں کبھی بارش بھی نہیں ہوتی وہاں وہ کشتی کیوں بنا رہے ہیں؟۔ تو نوحؑ نے جو اب دیا تھا : ’’نوح گوید، ابلہاں! من، من نیم مَن بہ جاں مُردم، بہ جاناں زندہ ایم‘‘ ’’ نوح علیہ السلام نے جواب دیا ا ے بے وقوفو! میں میں نہیں ہوں ۔میں اپنی جان سے مر چکا ہوں اور اب صرف اپنے ’’جاناں‘‘ اللہ تعالیٰ کی جان سے زندہ ہوں۔‘‘ ایسے ہی، حق کے آ جانے سے جب باطل کا جہان فنا ہو جاتا ہے تو پھر اُس کے ساتھ ’’میں ‘‘ کے اندر چھپے ہوئے باطل کے سارے جہان بھی فنا ہو جاتے ہیں اور انسان پھر صرف اللہ حیّ القیوم کے ساتھ ہو کر ہمیشہ زندہ رہنے والوں میں سے ہو جاتا ہے۔ اب وہ ’’میںـ‘‘ ہی نہیں رہی جسے کسی میخا نہ ،کسی خود کشیدشراب، کسی محفلِ شعر و سرود ، کسی دلربا ساقی ، یا کسی شورِچنگ و رُباب کی ضرورت باقی رہ جائے۔اسی لئے علامہ اقبالؔ فرماتے ہیں : نہ مے، نہ شعر، نہ ساقی ، نہ شورِ چنگ و رُباب سکوتِ کوہ و لبِ جوے و لالۂ خود رُو بلکہ فقط ایسا دامنِ کوہ چاہیے جس کے ہر ایک ذرّے کے سکوت میں اُس کے مقاصدِ تخلیق نغمہ ریز ہوں ۔ یا ندی کا ایسا کنارہ جہاں کُن فیکون کی دائمی صدائے سرمدی اپنی ملہار گا رہی ہو۔ یا لالۂ خود رُو کے لہلہاتے کھیت ہوں جن سے صبغت اللہ کے صفاتی رنگوں کی ہزار ہا کہکشائیں سطحِ آفاق پر رقصاں مناظر پیش کر رہی ہوں۔پھر ان سب کا ہم خیال،ہم بیان اورہم عمل انسان اپنیمقاصدِ تخلیق کی تکمیل کے لیے ،تعمیلِ احکامِ الٰہی کی عبادت میںمگن ہو٭ ٭٭٭٭ اختتام حصّہ اوّل ٭٭٭٭٭ درویشِ بے گلیم حصّہ دوئم ’’اشتراکیّت ،اقبالؔاورقرآن‘‘ سیّد افتخار حیدرؔ ٹورانٹو۔ کینیڈا ٭٭٭٭٭ بسم اللہ الرحمان الرحیم فہرست ۔ حصہ دوئم ٭٭٭٭٭ ۱- لیننؔ خدا کے حضور میں ۲- فرشتوں کا گیت ۳- فرمانِ خدا:فرشتوں سے ۴- کارل مارکس کی آواز ۵- بلشویک روس ۶- ابلیس کی مجلسِ شوریٰ ۷- اشتراکیت ۸- اے روحِ محمدؐ ٭٭٭٭ تمہید علامہ اقبالؒ کی نظم’’ لیننؔ (خدا کے حضور میں)‘‘سے یہ دو اشعار بطور عنوان لئے گئے ہیں۔یہ نظم ،اور اس کے علاوہ مندرجہ ذیل نظموں سے استفادہ کرتے ہوئے ، اس مضمون میں ڈاکٹر علامہ اقبالؔ صاحب کے اشتراکیّت سے متعلقہ خیالات کا قرآنی آیات سے مناسبت کا جائزہ لینے کی کوشش کی گئی ہے۔ (۱)ـ’’لیننؔ( خدا کے حضور میں)‘‘ (۲)’’فرشتوںکا گیتــ‘‘ (۳) ’’فرمانِ خدا(فرشتوں سے)‘ ‘ (۴) کارل مارکس کی آواز (۵) بلشویک روس (۶) ابلیس کی مجلسِ شوریٰ (۷) اشتراکیت اپنے اشعار میں علامہ اقبال ؒ نے ،سرمایہ پرستی کے غیر اسلامی نظام کے خلاف اُٹھنے والی لیننؔکی واحد آواز کو احکامِ الٰہی کی تائید میں پیش کرنے کا شعوری جواز پیدا کیا ہے( جیسے’’ شکوہ جواب شکوہ ‘‘میں کیا گیا تھا)۔ اس کا مقصود مسلمانانِ عالم کو یہ تنبیہہ کرنا ہے کہعادلانہ نظامکی امامتکرنادر اصل اُن کا فریضہ تھا ،جسے وہ صدیوں پہلے سے ہی برائے نام مسلمان، ظالم حکومتوں کی بھینٹ چڑھا چکے ہیں۔ گذشتہ سلسلۂ مضامین کے اسلوب سے ذرا ہٹ کر ، ان ساتوں نظموں کافکری جواز چو نکہ ایک ہی ہے ،اس لئے ان کے سارے اشعار پیش کئے جارہے ہیں۔ اور جہاں جہاں ضروری سمجھا گیا ہے متعلقہ قرآنی آیات کے حوالے بھی پیش کردئے گئے ہیں ۔ اللہ علیم الحکیم ہماری رہبری فرمائے۔ ٭٭٭٭ ٭٭٭٭ تُو قادر و عادل ہے مگر تیرے جہاں میں ہیں تلخ بہت بندۂ مزدور کے اوقات کب ڈوبے گا سرمایا پرستی کا سفینہ دنیا ہے تری مُنتَظِرِ روزِ مکا فات ٭٭لیننؔ (خدا کے حضور میں)٭٭ ٭٭٭٭ ۱۔ لیننؔ (خدا کے حضور میں ) ۱۹ ۔سورۃ مریم: آیت ۹۳: میں ارشادِ ربانی ہوا: ’’جو کچھ بھی سماوات اور ارض میں ہے،اُس میں کوئی شے بھی ایسی نہیں ہے جواللہ کے حضو ر،عبد بن کر حاضر نہ ہو۔‘‘ اس طرح علامہ اقبالؒ تمام آدابِ عبدیت کو برقرار رکھواتے ہوئے لیننؔ کو اللہ کے حضور حاضرکروا کر، اُس صورتِ حال کا انکشاف کروا تے ہیں جس میں لیننؔ کی سوچ کا اللہ کے قانون سے مطابقت کا جواز پیدا ہوتا ہے۔ لیننؔ اپنا استغاثہ یوں پیش کرتاہے : ’’اے انفس و آفاق میں پیدا ترے آیات‘‘ قرآنِ کریم کی سورۃ ۴۱: ٰحمؔالسجدۃ کی آیت: ۵۳ میں ارشاد ہوا: ’’وہ اپنے انفس اور آفاق میںپھیلی ہوئی ہماری آیات پر جب غور و فکر کریں گے تو ان پر یہ حقیقت آشکار ہو جائے گی کہ اُ ن سے جو کچھ بھی بیان کیا جا رہا ہے وہ یقیناً حق ہی حق ہے۔ـ‘‘ لیننؔ نے اللہ کے حضور اسی حقیقت کا اعتراف کیا ہے اور ساتھ ہی : ۲- سورۃ البقرۃ کی آیت :۲۵۵ میں اس بیّن حقیقت کا بھی اعتراف ہے: ’’اللہ وہ ذات ہے جو حیّ القیوم (ہمیشہ زندہ اور پائندہ) ہے کہ اُس کے سوا کوئی بھی الٰہ ہونے کا مستحق نہیں ہو سکتا ۔‘ ’’حق یہ ہے کہ ہے زندہ و پائندہ تری ذات‘‘ اللہ تعالیٰ کے ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں اپنی گذشتہ کم علمی کا جواز پیش کرتے ہوئے لینن ؔعرض کرتا ہے: ’’میں کیسے سمجھتا کہ تُو ہے یا کہ نہیں ہے ہر دم متغیّر تھے خرد کے نظرِیّات‘‘ ۵- سورۃ المائدہ : آیت ۵۷۔ ۵۸ : میں ارشاد ہوا: ’’اے ایمان والو! جن لوگوں پر آپ سے پہلے کتابیں نازل کی گئی تھیں انہیں اور اُن کے کفار ساتھیوں کو جنہوں نے تمہارے دین کو کھیل تماشا سمجھ رکھا ہے ہرگز دوست نہ بنانا۔ اگر تم ایمان والے ہو تو فقط اللہ کے ساتھ ہی تقویٰ قائم رکھو۔کیونکہ جب تمہیں قیامِ دین کے لیے الصلواۃ کی طرف پکارا جاتا ہے تو یہ اسے مذاق اور کھیل تماشا سمجھتے ہیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ لوگ ہیں ہی ایسے جو عقل نہیں رکھتے۔‘‘ اسی حقیقت کی مزید وضاحت کے لیے: قرآنِ کریم کی ۶۷ -سورۃ الملک : آیت :۸۔۱۰ ’’’جب دوزخ کے داروغے دوزخ میں آنے والی کسی جماعت سے پوچھیں گے،’’ کیا تمہارے پاس کوئی نذیر( تمہیںخبردار کرنے والے) نہیں آئے تھے؟‘‘ تووہ جواب دیں گے ،’’ہاں!ہماری طرف نذیر آئے تھے مگرہم نے اُنہیں جھٹلا دیا اور کہاکہ اللہ کی طرف سے کچھ بھی نازل نہیں کیا گیا۔‘‘ داروغے کہیں گے،’’ پھر تو تم بہت بڑی گمراہی کا شکار ہو چکے تھے۔‘‘ دوزخی کہیں گے، کاش! ہم اُن کی بات سُن لیتے اور عقل سے کام لیتے تو آج یوں دوزخیوں میں شامل نہ کئے جاتے۔‘‘ یہ ہیں ہمیشہ بدلنے والی پریشان عقل کے نظریات جن کی بنا پر لیننؔ اللہ کے حضور اعتراف کرتا ہے کہ ایسی صورتِ حال میں اُسکے لئے اللہ کے وجود کا اقرارکرنا ناممکن کیوںتھا۔ کوئی ستارہ شناس ہو یا علمِ نباتات کا ماہر ، وہ فقط اپنے خود ساختہ غلط یاصحیح علوم کی بنیاد پر فطرت کے سر بستہ رازِ ازل کا محرمِ نہیں بن سکتا۔جب تک کہ فاطرالسمٰوات ِ والارض خود اُن کا انکشاف نہ کردے۔ ۳۰- سورۃ الروم: آیت :۳۰ میں ارشاد ہوا: ’’تُم(اے میرے رسولؐ!) ہر طرف سے مو نہہ موڑ کراور صرف ایک طرف کے ہوکر، اپنی پوری توجہ اللہ کے دین فطرت کی طرف مرکوز کر لو، جس کے مطابق انسانوں کی فطرت بنائی گئی ہے۔ اللہ کی تخلیق کا یہی طریقہِ کار ہے جو کبھی بدلا نہیں کرتا۔یہی دینِ قیّم ہے۔لیکن لوگوں کی اکثریت اس کا علم نہیں رکھتی‘‘ اسی لئے لیننؔ یہ اعترا ف کر تا ہے: ۔ محرم نہیں فطرت کے سرودِ ازلی سے بینائے کواکب ہو کہ دانائے نباتات! آج آنکھ نے دیکھا تو وہ عالم ہوا ثابت! میں جس کو سمجھتا تھا کلیسا کے خرافات مجھ پر اس حقیقت کا آج انکشاف ہوگیا ہے کہ ہم قوانینِ فطرت کے مطابق اپنے شب و روز کی تقدیر کے محدود دائروں میں جکڑے ہوئے بندے ہیں اور اے باری تعالیٰ تیری ذات تمام زمانوں اور اُس کے تمام لمحات کو تشکیل دینے والی ہے۔ ہم بندِ شب و روز میں جکڑے ہوئے بندے تُو خالقِ اعصار و نگارندۂ آنات ۵۴-القمر: ۴۹ ’’ہم نے ہر ایک شے کو خلق کیا اور اُس کے تمام اندازے (تقدیر) مقرر کردئے۔‘‘ ۲۵- الفرقان: ۲ : ’’اللہ کی بادشاہت میں کوئی بھی اُس کا شریک نہیں ہو سکتا جس نے ہر ایک شے کو خلق کیا اور اُس کی تقدیر ،یعنی تمام مقررہ خصوصیات اور مقصود فرائض کو اُسکا مقدر کیا ۔ ‘‘ ۶۔الانعام:۹۶ ’’وہی ہے جس کے امر سے رات کے اندھیروں میں سے صبح پھوٹ نکلتی ہے اور جو رات کو اسقدر پُر سکون بناتا ہے۔ شمس اور قمر اُسی کے مقررہ حساب کے پابند ہوکر رہتے ہیں اور اسی طرح عزیز العلیم اللہ کی مقرر کردہ تقدیر عمل پذیر ہوتی رہتی ہے۔‘‘ سوالات: انسان کی زندگی کا سفر ہوتا ہی جہالت اور کفر سے علم اور ایمان کی طرف ہے ۔ انسان کے لیے اس راہ پر ہدایت کا بندوبست کرنا اُس کے خالق اللہ تعالیٰ کے ذمّے ہے جس نے ہر ایک شے کی طرح اُس کا بھی مقصدِ تخلیق نہ صرف تعیّن کیا ہے بلکہ انہیں تعلیم بھی کیا ہے۔ چاہے وہ ماں باپ اور اساتذہ کے ذریعے موروثی علم کا سرمایا منتقل کرنا ہو یا اللہ کے مبعوث کردہ انبیاؑ اور رُسُل علیہم السلامکے ساتھ وحی کے ذریعے بھیجی گئی کُتبِ الٰہی کی درسی اور عملی تعلیمات ہوں۔ ان دونوں صورتوں میں انسان یا تو ایک اچھے طالبعلم کی طرح مزید جاننے کی خاطر انتہائی مخلصانہ انداز میں سوال و جواب کرتا ہے ۔ یا پھر اپنے تھوڑے سے علم کو ہی کمال گردانتے ہوئے اُس پر فخریہ ہٹ دھرمی سے قائم رہتا ہے۔ اور اعلیٰ علمی مدارج پر فائز ہستیوں کے راستے میں اپنے جاہلانہ سوالات سے دشواریاں پیدا کرتا ہے۔ پہلی قسم کے سوالات کی چند مثالیںقرآنِ کریم سے پیشِ خدمت ہیں: ۲-سورۃ البقرہ: ۲۱۵ ’’میرے رسول! تجھ سے یہ سوال کرتے ہیں کی ہم اللہ کی راہ میں کیسے خرچ کریں؟۔۔ ان سے کہہ دیںکہ جو کچھ اس کارِ خیر میں وہ خرچ کرنا چاہیں وہ تمہارے والدین اور تمہارے اقرباء اوریتیموں اور مساکین اور مسافروں کے لیے ہے۔۔ اور جو کچھ بھی تُم عملِ خیر کروگے اللہ اُس کا علم رکھتا ہے۔‘‘ ۲- سورۃ البقرۃ : ۲۱۵: ’’میرے رسول! تجھ سے یہ سوال کرتے ہیں کہ ہم اللہ کی راہ میں کیا خرچ کریں؟ ان سے کہہ دیں کہ جو کچھ بھی تمہاری جائز ضروریات سے فالتو ہے، اُسے کارِ خیر میں خرچ کر دو۔‘‘ (نوٹ: صرف یہی دو اصول انسان اپنالیں تو روئے زمین پر کوئی انسان بھوکا یا بے سہارا نہیں رہ سکتا۔ اوراشتراکیت کا تو جواز ہی ختم ہو جائیگا) ۲۱-سورۃ الانبیائ: ۷: ’’اے میرے رسول! ان سے کہہ دو کہ تجھ سے پہلے بھی ہم مَردوں کو ہی اپنارسولؐ بنا کر بھیجتے رہے ہیں۔ اگریہ خود علم نہیں رکھتے تو اُ ن اہلِ ذکر سے پوچھ لیں جو اللہ کی پہلی کتابوں کا علم رکھتے ہیں۔‘‘ اور دوسری قسم کے سوالات ایسے ہوتے ہیں: ۲- سورۃ البقرہ:۱۰۸: ’’کیا تم لوگ چاہتے ہو کہ اپنے رسول سے ایسے سوالات پوچھتے رہو جیسے اس سے قبل قومِ موسیٰ اُس سے پوچھتی رہتی تھی۔ ایسا کرنے سے جوکوئی بھی اپنے ایمان کو کفر سے بدل دیگا تو سمجھ لے کہ وہ سیدھے راستے سے بہت دور بھٹک گیا۔‘‘ یہ ہیں وہ وجوہات جن کی بنا پر علامہ اقبال ؒ ، لیننؔ کو اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کرکے اشتراکی تحریک کے بنیادی سوالات کا نہایت مؤدبانہ انداز میں جواز پیش کرواتا ہے؛ چنانچہ لیننؔ اللہ کے حضور عرض کرتا ہے: ’’اک بات اگر مجھ کو اجازت ہو تو پوچھوں حل کر نہ سکے جس کو حکیموں کے مقالات! جب تک میں جیا خیمۂ افلاک کے نیچے کانٹے کی طرح دل میں کھٹکتی رہی یہ بات گفتار کے اسلوب پہ قابو نہیں رہتا جب روح کے اندر متلاطم ہوں خیالات یا باری تعالیٰ! نہایت ادب سے ایک ایسی بات پوچھنے کی اجازت چاہتا ہوں جس کی عقدہ کشائی ماضی کے بڑے بڑے دانشور حکیم نہ کرسکے ۔ لیکن جب تک میں زمین پر رہا وہ بات میرے دل میں کانٹے کی طرح کھٹکتی رہی۔میں یہ بھی معذرت پیش کرتا چلوں میرے مالک! کہ روح کی گہرائیوں میں جب سوالات و خیالات کا اس قدر تلاطم برپا ہو تو عین ممکن کہ شاید میری کوئی بات نادانستگی سے آدابِ گفتگو کے معیارپر پوری نہ اُترسکے۔ وہ کون ساآدم ہے کہ تُو جس کا ہے معبود؟ وہ آدمِ خاکی کہ جو ہے زیرِ سماوات؟ مشرق کے خداوند سفیدانِ فرنگی مغرب کے خداوند درخشندہ فِلِزّات(معدنیات) وہ کون سا آدم ہے یا باری تعالیٰ جس کے آپ خدا ہیں؟ کیا وہ یہی اس زمین پر بسنے والا آدم ہے؟ اس آدمِ ارضی کے تو، سب کے اپنے اپنے خدا ہیں۔ اہلِ مشرق ۔ فرنگی سفید فام قوموں کو اپنا خدا بنائے بیٹھے ہیں۔ اور اہلِ مغرب ، زمین سے پیدا ہونے والی تمام معدنیات کو اپنا خدا سمجھتے ہیں اور ان کے لئے اپنی جانیں قربان کرنے کو ہر وقت تیار رہتے ہیں۔ یورپ میں بہت روشنیٔ علم و ہنر ہے حق یہ ہے کہ بے چشمۂ حیواں ہے یہ ظلمات! گرچہ یہ بھی ماننا پڑتا ہے کہ یورپ میں جن معدنیات کو خدا مانا جاتا ہے اُن سے متعلقہ علم و ہنر کی روشنی بہت پھیلی ہوئی ہے۔۔لیکن ساتھ ہی یہ بھی ایک واضح حقیقت ہے کہ ان کے یہ علم و ہنرایسے اندھیرے ہیں جو سرچشمۂ حیات سے مفقود ہیں: رعنائیِ تعمیر میں، رونق میں، صفا میں گرجوںسے کہیں بڑھ کے ہیںبنکوں کی عمارات! ظاہر میں تجارت ہے حقیقت میں جُوا ہے سُود ایک کا لاکھوں کے لیے مرگِ مفاجات! گرجوں کی عبادت گاہیں موجود تو ہیں لیکن ،حسنِ تعمیر ، چہل پہل اور صفائی کے اعتبار سے بنکوں کی عمارات ان کی نسبت کہیں زیادہ دلکش ہیں۔ ۲۴- سورۃ النور:۳۶۔۳۸ ’’اللہ کایہ نور ِ ہدایت، ایسے گھروں میں ہوتا ہے جنہیں اللہ نے بلند رکھنے کا حکم دیا ہے۔جن میں اللہ کے نام اور اُس کی طرف سے آئی ہوئی باتوں کا صبح شام ذکر کیا جاتا ہے او روہ لوگ اللہ کے احکام کی تعمیل میں مصروف رہتے ہیں۔وہ ایسے لوگ ہیں کہ جنہیں(ان آیات کو قائم کرنے کی) الصلوٰۃ اور( اللہ کے دئے ہوئے میں سے اُس کی راہ میں خرچ کرنے کی)الزکوٰۃ سے کسی قسم کی تجارت یا لین دین غافل نہیں کر سکتے۔ انہیں ہر وقت اس حقیقت کا خیال رہتا ہے کہ جب اُن کے قلوب اور آنکھیں پلٹ جائیں گی ( تو پھر وہ یہ کچھ بھی نہ کر سکیں گے)۔‘‘ ان بینکوں کی بلند و بالا عمارات میں کہنے کو تو وہتجارتکرتے ہیں لیکن در پردہ وہ سُود کا کاروبار کر رہے ہوتے ہیں جس کے نتیجے میں ایک انسان کے سود کی وجہ سے معاشرے کے لاکھوں انسان موت سے بدتر زندگی کے شکار ہو جاتے ہیں: سود اور تجارت ۲- سورۃ البقرۃ : ۲۷۵۔۲۷۶: ’’ جو لوگ سود کھاتے ہیں وہ قیامت میں اس طرح اٹھیں گے جیسے شیطان نے انہیں مس کرکے مخبوط الحواس بنا دیا ہو۔یہ اس وجہ سے ہوگا کہ وہ کہا کرتے تھے کی سود کا معاملہ بالکل تجارتجیسا ہے۔ حالانکہ اللہ نے تجارت کو حلال قرار دیا ہے اور سود کو حرام ٹھہرایاہے۔ تو اب جس کسی کے پاس اللہ کی یہ ہدایت پہنچ گئی ہے اور وہ سود لینے سے باز آجائے تو جو کچھ ہوچکا ہے اس کا فیصلہ اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ لیکن اس کے باوجود بھی اگر کوئی اللہ کی حدود کو توڑے گا تو وہ دوزخیوں میںشمار ہوگا اور اس میں ہمیشہ ہمیشہ رہے گا ۔ اللہ تو سود کو قطعاً بندکرنا چاہتا ہے اورصدقات کو بڑھانا چاہتا ہے ۔ اللہ کسی بھی ناشکرے گنہگار کو پسند نہیں کرتا۔‘‘ یہ علم، یہ حکمت، یہ تدبّر، یہ حکومت! پیتے ہیں لہو دیتے ہیں تعلیمِ مساوات ! بیکاری و عریانی و مے خواری و افلاس کیا کم ہیں فرنگی مدنیّت کے فتوحات؟ ان کا یہ تمام علم، یہ تمام عقل و دانش، یہ تدبّر اور کارِ سیاست و حکومت محض ظاہری طورپر تو فرعونوں، نمرودوں اور رومیوں کی ظالم حکومتوں کی طرح ہے۔ ظاہراً تواپنی حکومت قائم کر نے کے لئے جمہوریت اور انسانی مساوات کے دعوے کرتے ہیں لیکن اس کے پردے میں انسانون کا لہو پیتے ہیں۔ ان کی تمام فتوحات کا اثر سوائے اس کے اور کیاہے کہ زمانے میں بھوک اور بیکاری پھیلادیتے ہیں تاکہ کم سے کم معاوضے پر اُنہیںمزدور اور ملازم مل سکیں جن سے وہ اپنی مونہہ بولی شرائط پر کئی گنا کام لے سکیں۔ صرف یہی نہیں اُن میں عریانی اور مے خواری اورآوارہ تفریحات میں مبتلا کرکے اُن کی بچی کھچی مزدوری کو بھی اپنے ہی کھولے ہوئے بیہودہ کاروباروں میں واپس صرف کروا لیتے ہیں۔ تاکہ وہ پھر سے سود پر قرضے لے لے کر زندگی بھر کی کمائی اور مال کو ان کے پاس گروی رکھ کر اپنی فضول علّتوں اور عادتوں کو پورا کرتے رہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن الحکیم میں جگہ جگہ ایسے نظام اور ایسے حکّام کے خلاف مسلسل آواز اُٹھائی ہے: ۲۶- سورۃ الشعرائ:۱۸،۲۲: فرعون نے موسیٰ علیہ السلام سے کہا: ’’کیا ہم نے تمہاری اس وقت پرورش نہیں کی تھی جب تم ابھی گود کے بچے تھے اور اُس کے بعد بھی تُم ہمارے پاس برسوں رہتے رہے ہو۔‘‘(۱۸) موسیٰ علیہ السلام نے جواب دیا ،’’کیا تم مجھ پر اس بات کا احسان جتا رہے ہو کہ تم نے (میری قوم) بنی اسرائیل کو اپنا غلام بنا رکھا ہے۔‘‘(۲۲) ۲- سورۃ البقرۃ:۱۱ ’’جب ان سے کہا جاتا ہے کہ تُم روئے زمین پر فساد نہ کیا کرو تو کہتے ہیں، ہم تو عین اصلاح کر ہے ہیں ۔جان رکھو! کہ ایسے لوگ ہی فسادی ہوتے ہیں لیکن اسکا شعور نہیں رکھتے۔‘‘ (کیونکہ جس اصلاح کے نتیجے میں فساد ہو وہ اصلاح نہیں فساد ہوتا ہے) وہ قوم کہ فیضانِ سماوی سے ہو محروم حد اُس کے کمالات کی ہے برق و بخارات! ہے دل کے لئے موت مشینوں کی حکومت احساسِ مروت کو کچل دیتے ہیں آلات! اللہ کی طرف سے نازل ہونے والی وحی کے فیضان سے محروم قوم کو محض بجلی اورپانی جیسی معدنیات پر تصرّف کے کمالات سے بڑھ کر کچھ حاصل نہیں ہوتا ۔کیونکہ ایسے کمالات دکھانے والی ان کی خود ساختہ مشینوں کی غلامی ان کے دلوں سے احساسِ مروّت کو کچل کے رکھ دیتی ہے۔لیکن اب: ’’آثار توکچھ کچھ نظر آتے ہیں کہ ا ٓخر تدبیر کو تقدیر کے شاطر نے کیا مات میخانے کی بنیاد میں آیا ہے تزلزل بیٹھے ہیں اسی فکر میں پیرانِ خرابات چہروں پہ جو سُرخی نظر آتی ہے سرِ شام یا غازہ ہے یا ساغر و مینا کی کرامات‘‘ موجودہ حالات کی بنا پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان لوگوں کی تدبیریں ،آخر اللہ کے مقررہ کردہ نظامِ حیات کی کبھی نہ بدلنے والی تقدیر کے ہاتھوں شکست کھانے کو ہے۔ان کے مادیت کے میخانے کی بنیادوں میں ایسا تزلزل آرہا ہے کہ پیرانِ خرابات ان مراکز کے بد ترین انجام کی فکر میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ اس فکر کے باوجود ان کے چہروں پر اگر سرِ شام کوئی سُرخی نظر آتی ہے تو وہ یا تو کوئی غازہ لگانے کی وجہ سے ہے یا پھر شراب کے نشے کی وجہ سے ہے۔ میرے مالک ! آپ نے تو اپنی کتابِ حکیم میں ،متعدد مقامات پر ،یہ بڑی تفصیل سے بتا دیا ہے کہ اللہ تعالیٰ جو قادر و عادل ہے اُس کے قانون میں کہیں بھی نا انصافی کی گنجائش نہیں ہے۔ یہ سب لوگوں کا اپنے ہی خود کردہ قبیح اعمال کا نتیجہ ہے جو ہر طرف عدل و انصاف کی ایسی زبوں حالی پھیلی ہوئی ہے۔ ۲- سورۃ بقرۃ: ۱۷۷ ’’نیکی یہ نہیں ہے کہ تم مونہہ مشرق کی طرف کرو یا مغرب کی طرف کرو بلکہ نیکی یہ ہے کہ: تم اللہ ، یومِ آخرت، ملائکہ،اللہ کی کتابوں، اور اُس کے تمام نبیوں پر ایمان لاؤ اور اللہ کی محبت میں مال خرچ کرو اقرباء پر، یتیموں پر، مساکین پر ، مسافروں پر، سائلوں پر، غلاموں کو آزاد کروانے پر (ایسے دین کو قائم کرنے کے لیے اور فحاشی و منکرات کا خاتمہ کرنے کے لیے وقت مقرر کردہ پروگرام الصلوٰۃ قائم کرو اور اس کے لئے اللہ کی دئے ہوئے رزق میں سے زکوٰۃ دو۔ اور جو عہد کرو اُسے وفا کرو۔اور کسی بھی تنگی یا تکلیف میں یاحالتِ کارزار میں ،حق کی راہ پر استقامت سے قائم رہتے ہوئے صبر کرو۔ ایسا کرنے والے لوگ ہی وہ ہیں جو اپنے ایمان میں سچّے ہیں اور وہی لوگ ہی متّقی ہیں۔‘‘ ۷۰- سورۃالمعارج۲۲، ۳۵: ’’المصلّین(۲۲)وہ ہوتے ہیں جو تعمیلِ احکامِ الٰہی کے مقررّہ پروگرامصلٰوۃپر دائمی قائم رہتے ہیں(۲۳) انہیں معلوم ہے کہ اُن کے اموال میں ہر حقدار کا کتنا حصہ ہے(۲۴) سائل کا کتنا اور محروم کا کتنا ( ۲۵ ) وہ یوم الدین کی دل سے تصدیق کرتے ہیں(۲۶)وہ گناہ کے بدلے میں ملنے والے اللہ کیعذاب سے باخبر رہتے ہیں ۔( ۷ ۲ ) یہ عذاب ہوتا ہی ایسا ہے کہ اس سے بے خبر نہیں رہا جا سکتا۔(۲۸) وہ اپنی ازواج اور ملکیت میں آئی ہوئی عورتوںسے مقصدِ افزائشِ نسل کے لیے جائز تعلق کے علاوہ اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے ہیں ۔(۲۹،۳۰) اور جو شخص ان کے علاوہ کسی اور کی خواہش رکھے گا تو وہ حدوں کو توڑ جانے والا ہے(۳۱)وہ لوگوں کی امانتوں اور اُن سے کئے ہوئے وعدوں کا پاس رکھتے ہیں(۳۲) وہ اپنی گواہیوں پر قائم رہتے ہیں(۳۳) وہ دین کے قیام کے لیے الصلوٰۃ کے مقررہ پروگرام کی حفاظت کرتے ہیں(۳۴) یہ ہیں وہ لوگ جو جنتّ میں عزت اور تکریم سے رہیں گے(۳۵) ۵۱-الذّاریات:۱۹: ’’اور اُن کے مال میںمانگنے والوں کا بھی اور غربت کے باوجود حیا کی وجہ سے نہ مانگنے والوں کا بھی حق ہوتا ہے۔‘‘ ۹۳-الضحیٰ:۹۔۱۰: ’’پس یتیم پر ہرگز ستم نہیں کرنا اور خبردار! سائل کو جھڑکنا نہیں !۔‘‘ ٭٭٭٭ لیکن میرے پروردگار! آپ کی طرف سے ان تمام احکام و قوانین کے باوجود، یہ سوال مجھے ہمیشہ کی طرح اب بھی پریشان کر رہا ہے کہ: میرے مالک ! تو ایسا قادرہے کہ تیرے قبضۂ قدرت میں تمام نظامِ کائنات ہے اور تیرے مقررہ نظام کی رو سے ہر ایک شے تیرے احکام کے مطابق مکمل عدل پر قائم رہتی ہے۔ لیکن تیرے انسانوں کے اس موجودہ جہان میں اب مزدور کا شب و روز بسر کرنا بڑا ہی دشوار بن چکا ہے۔۔اور میں اپنی اس عاجز عقل سے یہ بھی سمجھنے کے لیے بے چین ہوں کہ ایسی ظالم سرمایہ پرستی کے نظام کا سفینہ کب ڈوبے گا ۔؟ اور وہ زمانہ کب آئے گا جب انسانوں پر ایسے ظلم کرنے والوں کو اُن کے اعمال کی سزا ملے گی؟ ’’تُو قادر و عادل ہے مگر تیرے جہاں میں ہیں تلخ بہت بندۂ مزدور کے اوقات کب ڈوبے گا سرمایہ پرستی کا سفینہ؟ــ دنیا ہے تری مُنتَظِرِ روزِ مکافات‘‘ ٭٭٭٭ ٭٭٭٭ ۲۔فرشتوں کا گیت ٭٭٭٭ عقل ہے بے زمام ابھی،عشق ہے بے مقام ابھی نقش گرِ ازل ترا، نقش ہے ناتمام ابھی خلقِ خدا کی گھات میں ، رند و فقیہہ و میر و پیر تیرے جہاں میں ہے وہی گردشِ صبح و شام ابھی! ٭٭بالِ جبریل٭٭ ٭٭٭٭٭ ۲۔ فرشتوں کا گیت ٭٭٭٭٭ عقل ہے بے زمام ابھی،عشق ہے بے مقام ابھی نقش گرِ ازل ترا ، نقش ہے ناتمام ابھی خلقِ خدا کی گھات میں ، رند و فقیہہ و میر و پیر تیرے جہاں میں ہے وہی گردشِ صبح و شام ابھی! ٭٭٭٭٭ اللہ تعالیٰ کے حضور ،لیننؔ نے جس دردناک لہجے میں اس دنیا کے سرمایہ پرستانہ نظام کے ہاتھوں، مفلس و مزدور کا استحصال ہونے کا رونا رویا ہے اُسے شاید آدمؑ کو سجدہ کرنے والے فرشتے بھی سُن رہے تھے۔ اولادِ آدم کے ہاتھوں رُوئے زمین کی جو صورتِ حال فرشتوں کواپنی چشمِ بصیرت سے نظر آتی ہے وہ بھی لیننؔ کے قصۂ درد سے مختلف نہیں ۔ اللہ تعالیٰ کی نمائندہ قوّتوں کی حیثیت سے ظاہر ہے کہ اُن کے بیانِ حال میںانسانوں جیسے تعصّبات کا عنصر مفقود ہے اور حالات کے تبصرے میںملکیت اور قومیت کے جذبات سے نکل کر ہمہ گیریت کا پہلو زیادہ نمایاں ہے۔ چونکہ وہ سب کے سب اپنے اس تجزیے میں ہم خیال اور یک زبان ہیں اس لئے علامہ صاحب نے اسے’’ فرشتوں کا گیتـ‘‘ عنوان کیا ہے۔ بنی آدم پر روزِ ازل سے خون خرابہ اور فساد کا الزام رکھنے والے ملائکہ اب ہزار وں صدیوں سے انسان کے ایسے ہی خون خرابے کو دیکھ چکے ہیں۔ اسی وجہ سے اُن کے گیت کا آغاز ہی ایک ایسے حیران کُن شعر سے ہوتا ہے کہ جیسے اُن کے اعتراض سے لے کر اب تک کوئی خاطر خواہ بہتری رونما نہ ہوئی ہو۔ قصّہِ آدم کا ،دیگر مقامات کے علاوہ، مختصر ترین تذکرہ سورۃ البقرۃ میں یوں آتا ہے۔ ۲-سورۃ البقرۃ:۳۰:۳۴: ’’ جب اللہ نے ملائکہ سے فرمایا، ’’ میں زمین پر خلیفہ مقرر کرنے والا ہوں‘‘ ! ( نوٹ: یاد ر ہے کہ آدم کو اس زمین پر، اُس سے ملتی جلتی شکل والی مخلوق Hominid Species کا خلیفہ مقرر کیا گیا ہے ۔کیونکہ اللہ حیی القیوم جو ہر جگہ ایک جیسا ہر وقت موجود رہتاہے اور کہیں نہ جاتا اور نہ ہی اُسے موت آنا ممکن ہے، اُسے بھلا کسی جانشین کی کیا ضرورت پڑیگی؟)۔ ملائکہ نے عرض کی،’’ کیا آپ اس زمین پر اُسی کو پھر سے تخلیق کریں گے جو اس زمین پر فساد کرتا اور خون بہاتا تھا۔ مگر ہم آپ کے احکام کی تعمیل کی مسلسل حمد و تقدیس میں مصروف ِ عمل رہتے ہیں۔ اللہ نے فرمایا ،’’میں وہ جانتا ہوں جو تُم نہیں جانتے‘۔‘(۳۰) اللہ نے پھر آدم کو سب چیزوں کی نام سکھا دئے اوران چیزوں کو ملائکہ کے سامنے لاکر کہا ،ــ’’کہ اگر تم اپنے دعوے میں اتنے ہی سچے ہو تو ان چیزوں کے نام تو ذرا بتاؤ ؟‘‘(۳۱) اُنہوں نے عرض کی ،’’ تیری ذات سبحان ہے! ہم سوائے اُس کے جو آپ نے ہمیں سکھارکھا ہے،کچھ اور نہیں جانتے۔ یقینا تُو ہی ہے جو حقیقت میں علیم الحکیم ہے۔‘‘ (۳۲) اللہ نے آدم سے کہا کہ وہ ان چیزوں کے نام ملائکہ کو بتا دے اور جب اُس نے اُن کے نام بتا دئے تواللہ نے کہا: کیا میں نہیں کہتا تھا کہ میںغیب السمٰوات والارض کا جاننے والا ہوں۔ اور میں وہ بھی جانتا ہوں جو تُم ظاہر کرتے ہو اور وہ کچھ بھی جو کہ تم چھپاتے ہو۔(۳۳) اور پھر اللہ نے ملائکہ سے فرمایا کہ آدم کو سجدہ کرو توسب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے ؛ اُس نے انکار اور تکبر کیا؛ وہ پہلے ہی کافرانہ رحجانات رکھتا تھا۔(۳۴) اس لئے گیت گانے والے ملائکہ کا تعلق آدم علیہ السلام اور نسلِ آدم سے کوئی نیا نہیں تھا۔ وہ آدم کے جنّتِ ارضی میں رہنے اور شیطان کے ورغلانے میں آکر وہاں سے نکالے جانے سے بھی واقف تھے ۔وہ جانتے تھے کہ جنّت سے نکالے جاتے وقت اللہ تعالیٰ نے ان سے کہہ دیا تھا کہ زمیں پر تُم میں سے بعض بعضوں کے دشمن ہونگے۔ ایک مدّتِ مقررہ تک یہیں تمہارا ٹھکانا اورمعاش ہوگا۔ پھرمیری طرف سے تمہیں ہدایت بھیجی جائے گی ۔ جس کسی نے بھی اُس ہدایت کا اتباع کیا اُسے نہ تو کوئی خوف ہوگا اور نہ ہی کوئی حزن ہوگا۔ (۲۔البقرۃ:۳۶ ، ۳۸) یہ ہے وہ پس منظر اور موجودہ تناظر جس کے حوالے سے ملائکہ آج کی صورتِ حال کی ترجمانی، ایک گیت میں یک زبان ہوکریوں کرتے ہیں، جیسے ابھی تک کچھ بھی نہ بدلا ہو۔ فرماتے ہیں: عقل ہے بے زمام ابھی، عشق ہے بے مقام ابھی نقش گرِ ازل ترا نقش ہے ناتمام ابھی ایک لاکھ سے زیادہ انبیاء علیہم السلام کے پیغامِ ہدایت کے با وجود انسانی عقل نے اب بھی اُس ہدایت کا اتباع کرنا نہیں سیکھا اور عشق جو ماسوا اللہ کچھ بھی قابلِ ا عتنا نہیں سمجھتا ، اس دنیا کی نظروں میں اب بھی اپنا کوئی مقام نہیں رکھتا۔ اور ا ے و ہ مقدس ذات! جو اپنے حرفِ کُن سے کسی بھی شے کی ظاہر و باطن صفات کی تشکیل و تخلیق فرما کراُسے فیکون کی منازلِ حیات طے کرواتی ہے؛ ۔ہمیں یوں لگتا ہے کہ اس سارے عمل کے نقوش ابھی ناتمام ہیں، جو اسطرح اپنی منزلِ تکمیل کی طرف ابھی تک گامزن نظر آتے ہیں۔ تخلیق کا عمل ہے ہی ایسا کہ یہ مسلسل اپنے ارتقائی منازل طے کرتا رہتا ہے جیسے ایک بیج کا مکمل پھل پھول دینے والے درخت بننے تک اپنے سفر پر گامزن رہنا۔ اسی طرح کائنات کی ہر ایک شے کی فطرت میں ہی اس ارتقائی تغیّر کو ہی ثبات حاصل ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے امر کی وضاحت یوں فرماتے ہیں: ۳۶- سورۃ یٰسؔ: ۸۲: ’’ اللہ تعالیٰ کا امر یوں ہوتا ہے کہ جب بھی وہ کسی شے کے ہونے کا ارادہ کرتا ہے تو اسے ہوجانے کا حکم(کُن) صادر فرما دیتا ہے اور وہ ویسے ہی ہو جاتی ہے جیسا اُس نے ارادہ کیا ہو (فیکون)ــ۔‘‘ یعنی جیسے جیسے اللہ چاہتا ہے ویسے ویسے ہی ہو جانے کا عمل شروع ہو جاتا ہے اور اُس عمل کے جو بھی مدارج، مناز ل اور اندازے اللہ نے مقرر کر رکھے ہوتے ہیں اُن کے مطابق وہ اشیااپنے ظہورپذیر ہونے کی حالتیں طے کرتی چلی جاتی ہیں۔چاہے ہمارے یا ملائکہ کی نظروں میں، ہمارے علم کی حدود کے مطابق، وہ ہمیں نا تمام یا نا مکمل ہی کیو ںنہ نظر آئیں۔لیکن اپنی جس حالت میں بھی وہ ہوتی ہیں۔ وہ اُس حالت کے لئے ویسی ہی مکمل ہوتی ہیں جیسی انہیں ہونا چاہیے۔ اسی حالت کا علامہ اقبالؔ نے ایک اور انداز میں یوں تذکرہ کیا ہے : یہ کائنات ابھی نا تمام ہے شاید کہ آ رہی ہے دما دم صدائے کُن فیکون ہزاروں صدیاں گزرنے کے بعد بھی دنیا کی حالت ا بھی تک ایسی ہے کہ: خلقِ خدا کی گھات میں رند و فقیہہ و میر و پیر تیرے جہاں میں ہے وہی گردشِ صبح شام ابھی قرآن الحکیم اس صورتِ حال کی یوں وضاحت فرماتا ہے: ۲- البقرۃ:۱۶۵: ’’انسانوں میں ایسے بھی ہیں جو اللہ کے سوا کسی اور کو پوجتے ہیں اور اُن سے ایسے محبت کرتے ہیں جیسے اللہ سے کی جاتی ہے۔ لیکن وہ لوگ جو ایمان رکھتے ہیں وہ اللہ کے لیے اس سے کہیں زیادہ شدید محبت رکھتے ہیں ‘‘ ۷- الاعراف:۱۷۹: ’’ان کے دل ایسے ہو گئے ہیں کہ ان سے اب وہ یفقہون ( بات کی تہ تک پہنچنا) نہیں کرسکتے۔‘‘ ۶۳-المنافقون:۳: ’’ یہ اس لئے ہوا کیونکہ وہ پہلے تو ایمان لائے ، پھر کفر اختیار کر لیا جس کی وجہ سے اُن کے قلوب پر مہر لگ چکی ہے کہ اب وہ یفقہون نہیں کر سکتے ۔‘‘ ( ۳ ) ۵-المائدہ:۶۳: ’’ بھلا اُن کے مشائخ اور علماء اُنہیں گناہ کی باتوں سے اور حرام کھانے سے منع کیوں نہیں کرتے۔ بلا شبہ وہ بہت ہی بُرا کام کرتے ہیں۔‘‘ ۹-التوبہ :۳۴،۳۵ ’’اے اہلِ ایمان ! علماء اور مشائخ میں سے اکثریت ،لوگوں کا مال ناحق کھا جاتے ہیں اور اُنہیں اللہ کی راہ سے روک دیتے ہیںاور جو لوگ سونا اور چاندی جمع کرتے ہیں اور اُسے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے تو انہیں عذابِ الیم کی خبر سُنا دو۔(۳۴) جس دن اسے دوزخ کی آگ میں گرم کیا جائے گا اور پھراس سے ان کی پیشانیوں اور پسلیوں اور پیٹھوں کو داغا جائے گا اور کہا جائے گا کہ یہی وہ خزانے ہیں جو تم اپنے لئے جمع کیا کرتے تھے۔پس اب جو کچھ تم جمع کیا کرتے تھے اُس کا مزہ چکھو۔(۳۵) گویا کہ آج بھی رند و فقیہہ و میر و پیر، اپنے اپنے بھیس بدل کر گھات لگائے بیٹھے ہیں اور خلقِ خدا ،ان کی ظاہری حالت پر بھروسہ کر کے ان کی چکنی چپڑی باتوں میں پھنستی چلی جا رہی ہے۔ اور تیرے اس جہان کے صبح و شام میں آج بھی ہمیں کوئی فرق نظر نہیں آتا۔ یہ صورتِ حال کچھ ایسی ہے کہ: تیرے امیر مال مست، تیرے فقیر حال مست بندہ ہے کوچہ گرد ابھی، خواجہ بلند بام ابھی! امراء آج بھی اپنے مال و دولت کی فراوانی میں مست بلند و بالا عالی شان محلات اورجھروکوں میں زینت افروز ہیں مگر تیرے فقیر حال لوگ ،مزدور اورملازمت پیشہ لوگ اپنے حال میں مجبور گلی گلی سائلوں کی طرح گھومنے پر مجبور ہیں۔ ۲۸-القصص:۴: ’’ اور فرعون زمیں میں بڑے سر کش ہو رہے تھے۔ انہوں نے ضعیف اور پسماندہ لوگوں کو مختلف گروہوں فرقوں میں بانٹ کر اور کمزور کر رکھا تھا او روہ ان کے مردوں کو ذبح کر دیتے اور عورتوں کو زندہ رکھتے تھے۔ یوں انہوں نے زمین پر فساد پھیلا رکھا تھا۔‘‘ ۳۴-سبا:۳۱۔۳۳ ’’اورکافر کہتے ہیں کہ ہم تو اس قرآن کو نہیں مانیں گے اور نہ ہی جو کتابیں اس سے پہلے آ چکی ہیں۔ کاش تم ان لوگوں کو اُس وقت دیکھ سکو جب یہ اللہ کے حضور حاضر ہونگے اور ایک دوسرے سے جھگڑ رہے ہونگے۔ مستضعفین (ضعیف اور پسماندہ لوگ) اُن لوگوں سے کہیں گے جو تکبّر کیا کرتے تھے کہ اگر تُم لوگ نہ ہوتے تو ہم بھی مومنیں ہوتے۔(۳۱) مستکبرین جواب دیں گے کہ کیا ہم نے تم کو، اس ہدایت کے آنے کے بعد، اسے قبول کرنے سے کبھی روکا تھا؟۔ بلکہ تم خود ہی مجرم اور گنہگار لوگ تھے۔(۳۲) مستضعفین لوٹ کر مستکبرین کو جواب دیں گے کہ نہیںبلکہ یہ تمہا را دن رات کا پھیلایا ہوا مکر تھاجس سے تم ہمیں اللہ سے کفر کرنے اور اُس کے شریک ٹہرانے کا حکم کرتے تھے۔ پھر جب یہ لوگ عذاب دیکھیں گے توانتہائی نادم ہوںگے۔ پھر ہم ان کافروں کے گلے میں طوق ڈال دیں گے اور جو عمل وہ کیا کرتے تھے اُس کا بدلہ اُنہیں مل جائے گا۔‘‘(۳۳) ۴-النسائ:۷۵ ’’تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم اللہ کی راہ میں قتال نہیں کرتے جبکہ ضعیف اور پسماندہ مرد عورتیں اور بچے دعائیں مانگ رہے ہیں کہ اے ہمارے ربّ ہمیں ان بستیوں سے نکال،جن کے رہنے والے ظالم بن چکے ہیں اور اپنی جناب سے ہمارے لئے کوئی ولی مقرر کر اور کسی کوہمارا مددگاربنا۔‘‘ـ دانش و دین و علم و فن بندگی ہوس تمام عشقِ گرہ کشاے کافیض نہیں ہے عام ابھی! اب توروئے زمیں پر ایک ایسا نظامِ حیات رائج ہو چکا ہے کہ مندرجہ بالا کوائف کے مطابق اس دور میں دانش، دین، علم، فن سب کے سب انسانی ہوس اور خواہشاتِ نفس کی بندگی میں لگے ہوئے ہیں۔ حالانکہ کتابِ حق میں لکھ دیا گیا تھا کہ: ۲۵- الفرقان:۳۴۔۴۴: ’’( میرے رسول!)کیا تُم نے ایسے شخص کو دیکھا ہے کہ جس نے ٰ اپنی خواہشاتِ نفس کو اپنا الہٰ بنا رکھا ہے۔ تو کیا تُم بھلا اُس پر وکیل بن سکتے ہو (۴۳) کیا تم سمجھتے ہو کہ ان میں سے اکثر لوگ تیری بات کو سُنتے ہیں یا اسے سمجھتے ہیں۔ اُن کی مثال توجانوروں کے سوا کچھ نہیں بلکہ اُن سے بھی ز یادہ گمراہ ۔‘‘(۴۴) اب صورتِ حال یہ ہے کہ تقریباً سبھی انسانوں نے اللہ کی بندگی کی بجائے خواہشاتِ نفس کی بندگی اختیار کر رکھی ہے اور ایمان و یقین کے مقامِ عشق پر فائز کوئی بھی نظر نہیں آتا جو ایسے حال میں مشکل کشائی کر سکے۔ حالانکہ ایمان ، یقین اور توکّل کے مدارجِ کمال کا حامل عشق اپنے اند ر یقیناً ایسی صفات رکھتا ہے کہ انسانی ذات اور حیات کا جوہر اس کی بدولت پایۂ تکمیل کو پہنچ جائے۔ جوہرِ زندگی ہے عشق، جوہرِ عشق ہے خودی آہ !کہ ہے یہ تیغِ تیز پردگیٔ نیام ابھی! ڈاکٹر علامہ اقبالؔ اسی جوہرِ عشق کا سِرِّ نہاں، ضربِ کلیم کی ایک ابتدائی نظم میں، فرشتوں کے گیت کی فکری انتہا سے بھی آگے لّا اِ لٰہ اِلّا اللہ کو ٹھہراتے ہیں: خودی کا سِرِّ نہاں، لا اِلٰہ اِلّا اللہ خودی ہے تیغ، فِساں لا اِلٰہ الّا اللہ ٭٭٭٭ ٭٭٭٭ ۳-فرمانِ خدا (فرشتوں سے ) ٭٭٭٭ اُٹھو میری دنیا کے غریبوں کو جگا دو کاخِ اُمرا کے در و دیوار ہِلا دو گرماؤ غلاموں کا لہو سوزِ یقیں سے کُنجشک ِفرو مایہ کو شاہیں سے لڑا دو ٭٭ (بالِ جبریلؑ) ٭٭ ٭٭٭٭ ۳-فرمانِ خدا (فرشتوں سے ) ٭٭٭٭ اُٹھو میری دنیا کے غریبوں کو جگا دو کاخِ اُمرا کے در و دیوار ہِلا دو گرماؤ غلاموں کا لہو سوزِ یقیں سے کُنجشکِ فرو مایہ کو شاہیں سے لڑا دو ٭٭(بالِ جبریلؑ) ٭٭ لینن ؔکا اللہ کے حضور استغاثہ اور فرشتوں کی زبانی ایک گیت کے انداز میں دنیا کی مستقل زبوں حالی کا ذکر سُن کر قادرِ مطلق عادل و قہار کا جلال جوش میں آ جاتا ہے اور وہ ایسے تمام لوگوں کے ذریعے جو اپنے آپ کو روئے زمین پر بیکس و مجبور مستضعفین سمجھتے آ رہے ہیں، اُن پر ظلم ڈھانے والوں کو سزا دینے کی ٹھان لیتا ہے۔ چنانچہ ملائکہ کو اللہ تعالیٰ کا حکم ہوتا ہے: اُٹھو! میری دنیا کے غریبوں کو جگا دو کاخِ اُمرا کے در و دیوار ہلا دو قرآنِ کریم میں ان مستضعفین کا تذکرہ کچھ ایسے انداز میں کیا گیا ہے کہ انہیں پڑھنے والا کوئی بھی شخص اُن پر ترس کھائے بغیر نہیں رہ سکتا۔ لیکن نہ جانے ظالموں کا دل پتھر سے بھی زیادہ سخت کیوں ہوتا ہے۔ ٭٭٭٭ اسلام میں قتال کا مقصد ۴- النسائ: ۷۵ ،۷۶ ’’او ر (مومنین!) تمہیں کیا ہو گیا ہے۔؟ تم کیو ں نہیں اللہ کی راہ میںقتال کرتے جبکہ مردوں، عورتوں اور بچوں میں سے مستضعفین(فرسودہ حال مجبور لوگ) مجھ سے فریاد کر رہے ہیں کہ: ’’اے ہمارے ربّ! ہمیں ایسی بستیوں میں سے نکال جس کے رہنے والے ظالم ہیں۔اور ہمارے لئے اپنے حضور سے کوئی’’والی‘‘ مقرر فرما اور اپنی جناب سے ہی کسی کو ہمارا مددگار بنا دے!!!‘‘ ۲۸۔ القصص:۴،۵ ،۶: ’’فرعون روئے زمین پر سرکش ہو چکا تھا۔ اور اس نے اس کے باشندوں کو گروہوں (شیعاً) میں بانٹ رکھا تھا۔ اور اُن میں سے ایک گروہ کو اتنا کمزور کر رکھا تھا کہ اُن کے لڑکوں کو قتل کر دیتا تھا اور اُن کی لڑکیوں کو زندہ رہنے دیتا تھا۔ یقینا وہ تھا ہی فساد کرنے والوں میں سے‘‘(۴) ’’مگر اللہ یہ چاہتا تھا کہ اس زمین کے فرسودہ حال کمزور مجبوروں پر احسان کرے اور انہیں اس زمین کے پیشوا(آئمہ) بنا کر اس زمین کے وارث بنا دے‘‘(۵) ’’تاکہ ہم انہیں زمین پر تمکنت عطا کر دیں اور فرعون، ہامان اور اُن کے لشکروں کو وہ کر دکھائیں جس کا انہیں ڈر رہتا تھا‘‘(۶) ۷-الاعراف:۱۳۶،۱۳۷ ’’پس ہم نے اُن ظالموں سے انتقام لے کر ہی چھوڑا اور انہیں سمندر میں غرق کر دیا کیونکہ وہ مسلسل اللہ کی آیات کو جھٹلاتے رہتے تھے اور ان سے غفلت برتتے تھے۔اور اُن (مستضعفین) کمزور فرسودہ حال مجبور و ں کو زمین کے مشارق اور مغارب کا وارث بنا دیا اور اس میں انہیں بہت برکت عطا کی۔ اور اس طرح بنی اسرائیل کے متعلق اللہ کا نیک وعدہ پورا ہوا کیونکہ انہوں نے صبر سے کام لیاتھا۔ اورفرعون اور اُس کی قوم نے جو کچھ بھی محلات اور باغات جن میں انگور کی بیلیں چھتریوں پر چڑھاتے تھے۔ اُن سب کو برباد کر دیا(۱۳۷) گرماؤ غلاموں کا لہو سوزِ یقیں سے کُنجشکِ فرو مایہ کو شاہیں سے لڑا دو ان مستضعفین کے دلوں کوآتشِ ایمان سے ایسا بے خوف کردو کہ انہیں آیاتِ الٰہی کی سچائی پر یقین پیدا ہو جائے۔ اور پھر ایسی قوتِ ایمانی کی مدد سے اُنہیں بڑی سے بڑی قوت کے ساتھ اپنے حقوق کے لیے ٹکرا جانے کی جرأت عطا کر دو۔ ایسے کمزور ایمان والے مستضعفین اور اُن کے مدِّ مقابِل ظا لم اکابرین کے باہمی سمجھوتے بازی کی کچھ مثالیںقرآن سے پیش کی جاتی ہیں:۔ ۱۴۔ابراہیم:۲۱ ’’قیا مت کے روز سب لوگ اللہ کے حضور میں کھڑے ہونگے ۔تب فرسودہ حال لوگ (مستضعفین) اُن لوگوں سے جو زمین پر تکبّر کیا کرتے تھے (مستکبرین) سے کہیں گے کہ ہم تو تمہارا اتباع کیا کرتے تھے۔کیا آج تم اللہ کا کچھ عذاب ہم پر سے ٹال سکتے ہو؟۔وہ جواب دیں گے کہ اگر اللہ نے ہم کو ہدایت کی ہوتی تو ہم بھی تمہیں ہدایت کرتے۔ اب یہاں ہم سب کے لئے ایک جیسا اجر ہے اور کوئی جگہ پناہ کی نہیں ہے ‘‘(۲۱) ۳۴- سورۃ سبا: ۳۱،۳۲،۳۳ ’’’ اور کافر لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہم نہ تو اس قرآن پر ایمان لائیں گے اور نہ ہی اُن کتابوں پر ایمان لائیں گے جو اس سے پہلے آ چکی ہیں۔ کاش ! تم دیکھتے کہ جب یہ ظالم لوگ اللہ کے حضور کھڑے کئے جائیں گے۔ اور یہ ایک دوسرے پراپنا الزام ٹال رہے ہونگے۔ مستکبرین سے مستضعفین کہیں گے کہ اگر تم نہ ہوتے تو ہم لوگ ضرور مومن بن چکے ہوتے۔‘‘(۳۱) مستضعفین کو مستکبرین جواب دیں گے کہ کہ جب تمہارے پاس ہدایت آ چکی تھی تو بھلا کیا ہم نے تمہیں اسے قبول کرنے سے کیا روکا تھا؟۔ بلکہ تم خود ہی مجرم لوگ تھے‘‘۔(۳۲) ’’اور پھر مستضعفین کہیں گے کہ نہیں یہ تمہاری رات دن کی چالیں تھیں جن سے تم ہمیں حکم کرتے رہتے تھے کہ ہم اللہ سے کفر کریںاور اُس کے شریک مقرر کریں۔یہی لوگ جب اللہ کا عذاب دیکھیں گے تو اپنے دلوں میں پشیمان ہوںگے۔ ہم ان کافروں کی گردنوں میں طوق ڈال دیں گے۔پس جیسے انہوں نے اعمال کئے تھے ویسا ہی اُن کو اجر ملے گا‘‘۔(۳۳) ۷-الاعراف:۳۶،۳۸ ’’ ٓوہ لوگ جو اللہ کی آ یات کو جھٹلاتے رہے اور اُن سے تکبّر کرتے رہے ۔ وہ اصحاب النار ہیں اور اُس میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے‘‘۔(۳۶) ’’اللہ ان سے فرمائے گا کہ سب جن و انس میں ،پہلے گزرنے والی تمہارے جیسی امتوں کے ساتھ، تم بھی آگ میں شامل ہو جاؤ۔جب ایک جماعت اس میں داخل ہوگی تو وہاں آئی ہوئی اپنے جیسی دوسری امتوں پر لعنت کریگی۔ حتیٰ کہ جب تمام امتیں اس میں داخل ہوچکیں گی تو بعد میں داخل ہونے والی قوم، اپنے سے پہلے والی کے متعلق اللہ سے کہے گی : ’’اے ہمارے ربّ! یہ ہیں وہ لوگ جنہوں نے ہمیں گمراہ کیا تھا، اب انہیں آگ کا دوگنا عذاب دینا۔اللہ فرمائے گا،’’تم سب کے لئے ہی دوگناعذاب ہوگا۔لیکن تم اس کا اندازہ نہ لگا سکو گے۔ (۳۸) ۴ - النساء : ۹۷،۹۸ ’’ وہ لوگ جو اپنے نفسوں پر ظلم کیا کرتے تھے تو اُن کو جب ملائکہ وعدے کی وفات تک پہنچائیں گے تو اُن سے پوچھیں گے کہ تم نے زندگی کس حال میں گزاری؟ وہ کہیں گے کہ ہم زمین میں بڑے بیکس اور ناتواں (مستضعفین) تھے۔ وہ جواب دیں گے کہ اللہ کی زمین کیا وسیع نہیں تھی؟ تُم کسی اور جگہ ہجرت کیوں نہ کر گئے؟۔ تو ایسے لوگوں کا ٹھکانا بھی جہنّم ہوگا۔ اور وہ بہت بُری جگہ ہے۔ (۹۷) مگر مستضعفین میں سے ایسے مردوں عورتوں اور بچوں کو جہنم میں نہیں ڈالا جائے گا، جن کے پاس نہ تو ایسا کرنے کے وسائل موجود تھے ۔اور نہ ہی وہ ایسا کرنے کے طور طریقوں سے واقف تھے۔(۹۸) ان کے لیے اللہ ٰ کے نزدیک اس بات کا زیادہ امکان ہے کہ اللہ اُن کو معاف کر دے۔اللہ تو ہے ہی معاف کرنے اور بخشنے والا(۹۹) اور جو کوئی بھی اس طرح فی سبیل اللہ ہجرت کرے گا تو وہ نہایت وسعت اور کثرت سے رہائش کے ٹھکانے پائے گا۔ جو کوئی بھی اس طرح اپنا گھر بار چھوڑ کر اللہ اور اسکے رسولؐ کی طرف ہجرت کرے گااور اسے اس حالت میں موت آ جائے تو اس کا اجر عطا کرنا اللہ کے ذمّے ہے۔ اللہ بڑا ہی معاف کرنے والا رحم کرنے والا ہے۔(۱۰۰) سلطانیٔ جمہور کا آتا ہے زمانہ جو نقشِ کہن تم کو نظر آئے مٹا دو اللہ تعالیٰ کی طرف سے انبیاء علیہم السلام مبعوث ہوتے رہے۔ اور ان کے نورانی اصولوں کے فیض سے انقلابات رونما ہوتے چلے گئے۔ لیکن سب سے بڑی مخالفت جس کا انہیں سامنا کرنا پڑتا تھا وہ اسی دور کے سیاسی، مذہبی اور مالی تنظیموں کی جانب سے ہوتی تھی جوکہ آپس میں گٹھ جوڑ کر کے انبیاء ومرسلین علیہم السلام کو ہر طرح کے دکھ اور تکالیف پہنچایا کرتی تھیں۔ ان تنظیموں کو اللہ تعالیٰ کا قانون اگر کفر اور منافقت کی ظلمات میں دھکیل بھی دیتا تھا ، تو جاہ و جلال ادر دنیا کی عظمت کے طلبگار ،مکّار اور چالاک لوگ پھر سے طاغوتی غاروں سے نکل آتے، اور انبیا علیہم السلام کے پیغام کو پسِ پشت ڈال کر، انسانیت کو ظلم کے شکنجے میں جکڑ لیتے۔ یہ صورتِ حال تاریخِ عالَم میں اس قدر عام رہی کہ اللہ تعالیٰ کے آخری رسول صلّ اللہ و علیہٖ و آلہٖ و سلّم بھی اللہ تعالیٰ کے حضور فریاد کریں گے : ۲۵-سورۃ فرقان:۳۰ ’’اور رسول ؐ فرما ئے گا: اے میرے ربّ! میری اپنی ہی قوم نے اس قرآن سے ہجرت اختیار کررکھی تھیــ‘‘۔ تا قیامت اس کتابِ نور ورحمت سے انفرادی طور پر یا کسی چھوٹے بڑے مخلصین کے گروہ کی صورت میں تو لوگ مستفید ہوتے رہیں گے لیکن اجتماعی طور پر روئے زمین پر ظالم حکومتوں کے ہوتے ہوئے ، ایسے کسی بھی گروہ کا صاحبِ اختیار ہو جانا اگرممکن رہ گیا ہوتا تو کربلا والے اُس وقت کی حکومت پر ضرور قابض ہوجاتے ۔روئے زمین پر اُن سے زیادہ تو کوئی دوسرا پاکبازگروہ موجود نہ تھا۔ سیاسی حکومتوں کی حد تک محض اللہ تعالیٰ کی کتاب کے خلاف فیصلے کرنے والے ظالم خاندان ہی ایک ایک سو سال سے لیکرچھ چھ سو سال تک اپنی اپنی خاندانی حکومتوں کا سکّہ رائج کرتے چلے آئے ہیں۔ حالانکہ یہ زمین تو فقط اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہے۔ ۲- سورۃ البقرۃ : ۱۰۷ ’’کیا تمہیں معلوم نہیں ہے کہ سماوات اور ارض کی بادشاہت صرف اللہ ہی کے لئے ہے۔‘‘ ۱۱۴-سورۃ الناس:۱،۲،۳: ’’ اے میرے رسول! ان سے کہہ دو کہ میں پناہ لیتا ہوں ساتھ ربّ الناس کے جو کہ انسانوں کا پادشاہ بھی ہے اور وہی ان کا الہٰ بھی ہیـ‘‘۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی کتابِ علم و حکمت کے مطابق انسانوں کا بادشاہ صرف وہی ہو سکتا ہے جو ان کا ربّ (پالنے والا)بھی ہو اور ان کا الہٰ( معبود) بھی ہو۔ شاید یہی وجہ ہے کہ جو کوئی بھی زمین پر اللہ کی حکومت کا غاصب بن جائے اور خود بادشاہ(ملک) بن بیٹھے، وہ زمین کے وسائل کو اپنے خزانوں میں جمع کرکے لوگوں کو اپنی مرضی کے مطابق نوازکر اُن کا ربّ بننے کی کوشش کرتاہے۔ اور اُس کی مرضی کے مطابق فیصلے دینے والے مفتیوں کو ملازم رکھ کر دین پر قبضہ جمالینے سے خود لوگوں کا الہٰ بھی بن جاتاہے تاکہ اللہ تعالیٰ کی طرح کا اُسے بھی حاکم مان کر کوئی اُس کے خلاف بغاوت نہ کرسکے۔ اللہ تعالیٰ کی ملکیت اس زمین پر، سمندروں ہواؤں، وادیوں اور صحراؤں پرہے ۔۔ تمام مخلوق ، جمادات، نبادات، حیوانات یا انسان اللہ کی طرف سے اپنے اپنے مقصدِ تخلیق کو پورا کرنے کے لیے ہر ایک مقام اور شے تک دسترس کا حق رکھتے ہیں۔ انسان کو اپنے اعمال کا مختار بنا کر ہر ایک انسان سے ایک ہی قانون کے حساب سے صرف اسی کے اعمال کا حساب لیا جائے گا۔کوئی اور شخص کسی کے لیے جواب دہ نہیں ہوگا۔ اس لئے ہر ایک قوم کے بارے میں اللہ غفور الرحیم نے یہ فرما دیا: ۲- سورۃ البقرہ: ۱۳۴،۱۴۱: ’’وہ ایک اُمّت تھی جو گزر گئی۔ اُس کے اعمال اُس کے ساتھ اور تُم لوگوں کے اعمال تمہارے ساتھ۔تُم سے نہیں پوچھا جائے گا کہ وہ کیا کرتے رہتے تھے۔ـــ‘‘ اس زمین پر اللہ تعالیٰ کے عدل و انصاف پر مبنی حکومت میں ، مندرجہ بالا بنیادی اصولوں کی بنا پرہی حاکمِ مطلق کے قانون کے مطابق ایسی جمہوریت قائم ہو سکتی ہے ،جو : "Government of the people, by the people, for the people" کے عنوان سے ہو۔ جس میں ہر انسان اللہ تعالیٰ کے حضور اپنے اعمال کا خود مختار اور اُن کے نتائج کا خود ذمہ دار بن جاتا ہے۔ اقبال ؔا یک ایسیسلطانیِ جمہورکے قائل تھے۔ اسی صورت میں اللہ تعالیٰ اپنے ملائکہ کو حکم صادر فرماتا ہے کہ: فرعون، نمرود، رومی ، ایرانی، عرب ،ترک، چینی، اموی ، عباسی مغل، عثمانی،صفوی ، یورپی، وغیرہ تمام بد کردار ظالم حکومتوں کے سفّاکانہ قانون ،طور طریقے ، رسومات، اور ۔ اونچ نیچ کے فرسودہ معیار کو نقشِِ کہن کی طرح صفحۂ ہستی سے نابود کردو۔ جس کھیت سے دہقاں کو میسّر نہ ہو روزی اُس کھیت کے ہر خوشۂ گندم کو جلا دو ۲- سورۃ البقرۃ:۲۶۱ ’’ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والوں کی مثال اس بیج کی طرح ہے کہ جسے زمین میں بویا جائے تو اُس میں سے سات بالیاں نکلیں اور ہر ایک بالی میں سو سو دانے ہوں‘‘۔ ۶- سورۃ الانعام:۱۴۲: اللہ ہی تو ہے جس نے باغات پیدا کئے ۔جس میں چھتریوں پر چڑھی ہوئی بیلیں بھی ہوتی ہیںاور بغیر چھتریوں کے کھڑے ہوئے پودے بھی اور کھجوریں اور دیگرکھیتیاں بھی جن میں طرح طرح کے پھل ہوتے ہیں اور زیتون اور انار اور پھل جو متشابہ بھی ہوتے ہیں اور غیر متشابہ بھی، جب یہ پھل دیں تو ان میں سے کھاؤ۔اور جب فصل کاٹو تو اُس میں سے اللہ کا حق بھی ادا کرو، لیکن دیکھنا کسی چیز میں اسراف نہ کرنا۔ اللہ اسراف کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔‘‘ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسی زمین اور ایسے بیج عطا کرنے کے باوجود کہ جو ایک دانے کو سات سو دانوں میں بڑھا سکے۔ جو ذات ایسے ایسے باغات عطا فرمائے کہ جن میں ہر قسم کے پھل اور فصلیں اُگی ہوں ۔ وہ اتنا کچھ عطا کرنے والارزّاق المتین،اگر اس پکی ہوئی فصل میں سے اپنا بھی حق مانگ لے، تو باغ کے مالک کے لیے ڈوب مرنے کا مقام ہے جووہ مسکینوں محتاجوں کو اُس پکی ہوئی فصل میں سے اُنکا حصہ نہ دے اور لعنت ہے ایسے مالک پر جو نہ تو اللہ کا حصہ نکالے بلکہ جس دہقان نے اپنا خون پسینہ ایک کر کے محنت او مشقت سے فصلوں کی آبیاری اور رکھوالی کی اُسے ہی اُجرت سے محروم کردے ۔ ایسا مالک جہنم واصل ہونے کے اور جلا دئیے جانے کے قابل نہ ہو تو اور کیا ہو ؟ کیوں خالق و مخلوق میں حائل رہیں پردے پیران کلیسا کو کلیسا سے اُٹھا دو اللہ تعالیٰ جو کہ انسان کی رگِ حیات سے بھی قریب تر ہے، بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات اورانسان میں کوئی فاصلہ باقی رہ جائے۔ بڑے ہی واضح الفاظ میں اللہ تعالیٰ نے متعدد مقامات پراس حقیقت کو بیان فرما دیا ہے۔ جن میں سے صرف چند آیات کا یہاں تذکرہ کیا جا رہا ہے:۔ ۲-سورۃ البقرۃ:۱۸۶ ’’( اے میرے حبیب!) جب میرے بندے تجھ سے میرے بارے میں دریافت کریں تو اُن سے کہہ دو کہ میں تو تُم سے بہت قریب ہوں ۔ ہر پکارنے والا جب مجھے پکارتا ہے تو میں اس کی دعا کو سُنتا ہوں۔اس لئے اُن کو بھی چاہیے کہ میری پکار قبول کریں اور مجھ پر ایمان لائیں تاکہ وہ ہدایت یافتہ ہو جائیں۔‘‘ ۵۰-سورۃ ق ؔ:۱۶ ’’ ہم نے ہی انسان کیتخلیقکی ہے اور ہم خوب جانتے ہیں جو وسوسے اُس کے دل میں سے گزرتے رہتے ہیں۔ہم تو اُس کی رگِ جاں سے بھی زیادہ قریب ہیں۔‘‘ اب ایسے خالق اور اُس کی مخلوق کے درمیان فاصلے ڈالنے والے علماء ، مشائخ اور راہب ، خواہ وہ آج سے ہزاروں سال پرانے مذاہب کے ہوں ، یا آج ہمارے دین کی مسخ شدہ صورت کے رہنما ہوں،یہ اگر اللہ تعالیٰ اور اُن کے خالق کے درمیان خود ایک فاصلہ بن چکے ہیں تو انہیں اللہ کی عبادتگاہوں سے خارج کر دینا چاہیے۔ حق را بسجو د ے، صنماں را بطوافے بہتر ہے چراغِ حرم و دیر بجھا دو یہ ایسے منافق ہیں کہ ایک طرف تو اللہ تعالیٰ کو سجدے کرتے ہیں اور دوسری طرف اللہ کے احکام کے خلاف خانۂ کعبہ میں کفارکے ر سم و رواج، روایات اور حکایات کے نام پر خود ساختہ مذاہب کے بُت بنا کر ان کا طواف کرتے رہتے ہیں۔ انسان کے لیے یہ کہیں زیادہ بہتر ہوگا ،جوایسے حرم یا ایسے بُت خانوں کے چراغ گُل کر دئے جائیں۔ قرآنِ کریم میں ایسے منافقین کی جگہ جگہ بڑی تفصیل سے وضاحت فرما دی گئی ہے: ۲- سورۃ البقرۃ: ۸۔۱۶ ’’انسانوں میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو کہتے تو ہیں کہ ہم اللہ اور یومِ آخرت پر ایمان لائے لیکن وہ حقیقت میں مومن نہیں ہوتے(۸) وہ سمجھتے ہیں کی اُن کی باتوں سے اللہ اور مومنین دھوکے میں آگئے ہیں لیکن وہ شعور نہیں رکھتے کہ سوائے اپنے آپ کے وہ کسی اور کو دھوکا نہیں دے رہے ہوتے ۔(۹) اُن کے دلوں میں مرض ہے جو اُن کی ایسی حرکتوں کی وجہ سے اللہ کے قانون کے مطابق اور بڑھ جاتا ہے ۔ اوراُنکے جھوٹ کے نتیجے میں اُن پر دردناک عذاب ہوگا۔(۱۰) اور جب اُن سے کہا جاتا ہے کہ زمین پر فساد پیدا نہ کرو تو کہتے ہیں ہم تو اصلاح کر رہے ہیں(۱۱) جان رکھو کہ یہی ہیں جو فسادی ہیں لیکن وہ اسکا شعور نہیں رکھتے۔(۱۲) جب ان سے کہا جاتا ہے کہ تم بھی ایسے ہی ایمان لاؤ جیسے دوسرے لوگ ایمان لائے ہیں توکہتے ہیں کیا ہم بھی ایسے ایمان لائیں جیسے یہ بیوقوف ایمان لائے ہیں۔ جان لو کہ یہی لوگ ہیں جو احمق ہیں ،لیکن وہ اتنابھی علم نہیں رکھتے ۔(۱۳) جب وہ اُن لوگوں سے ملتے ہیں جو ایمان لائے تو کہتے ہیں ہم بھی ایمان والے ہیں۔ لیکن جب وہ اپنے شیطانوں کے ٹولے میں جاتے ہیں تو کہتے ہیں ہم تو بالکل آپ کے ساتھ ہیں۔ اُن سے تو ہم مذاق کر رہے تھے۔(۱۴) اللہ ان کی حرکتوں کے نتائج پر ہنس رہا ہے اور اُنہیں مہلت دئے جاتا ہے تاکہ وہ اپنی سرکشی میںجتنا چاہیں بہک لیں۔(۱۵) یہ ہیں وہ لوگ جنہوں نے ہدایت کے بدلے میں گمراہی کا سودا کر لیا۔ اب نہ تو اُن کی اس تجارت نے انہیں کوئی فائدہ دیا اور نہ ہی وہ ہدایت یافتہ بن سکتے ہیں۔(۱۶) ‘‘ یہ ہے وہ صورتِ حال جو کہ اب بت خانوں اور حرم میںاس قدر خراب ہو چکی ہے کہ سوائے ان مراکز کو جلا دینے کے، اللہ تعالیٰ کو کوئی بہتر حل نظر نہیں آتا۔ میں ناخوش و بیزار ہوں مرمر کی سِلوں سے میرے لئے مٹّی کا حرم اور بنا دو یہبلد الامین(۹۵:۳) مکّۂ مبارکہ جو تمام عالمین کی ہدایت کے لئے تعمیر کیا گیا(۳:۹۶) یہ خانہ کعبہ کوئی احرامِ مصر یا شاہی عمارتوں کی شکل میں تعمیر نہیں کیا گیا تھا، بلکہ ایک بے آب و گیاہ وادی (۱۴:۳۷)میں وہیں کی پہاڑیوں کے پتھروں اور وہیں کی مٹی کے گارے سے تعمیر کیا گیا تھا۔ یہ ایک سادہ سے سادہ ڈیزائن ،یعنی ایک چوکور کمرے کی شکل میں تھا۔ لیکن تقویٰ کی تعلیمات اور مرکزی مقاصد کے اعتبار سے یہ مٹی کا حرم ، سینکڑوں تاج محلوں اور سنگِ سُرخ یا ِ مرمر کی مساجدسے ہزار ہا گنا بہتر تھا۔ کیونکہ اس کی بنیا لُوٹ مار کی بجائے تقویٰ پر رکھی گئی تھی۔ دلیل کے لیے مندرجہ ذیل آیاتِ الٰہی پیشِ خدمت ہیں۔ ۹۰- سورۃ البلد:۱،۲ ’’ قسم ہے مجھے اُس شہر کی جس میں تم رہتے ہو۔‘‘ ۹۵-سورۃ التین:۳ ’’ اور یہ شہر امن ہے‘۔‘ ۳- سورۃ آلِ عمران:۹۶ ’’ سب سے پہلا گھرجو انسانوں کے لیے مکہ مبارکہ میں تعمیر کیا گیا ، اس لئے تھاکہ وہ تمام عالمین کے لیے ہدایت کا باعث بنے۔‘‘ ۱۴- سورۃ ابراہیم:۳۵۔۳۸ ’’اور جب ابراہیم ؑ نے دعا کی کہ اے میرے ربّ! اس شہر کو امن کی جگہ بنائے رکھ اور مجھے اور میری اولاد کو اس بات سے بچائے رکھ کہ ہم بُتوں کی پرستش کریں۔(۳۵) اے میرے ربّ! ان بتوں کے نظام نے اکثر لوگوں کو گمراہ کر رکھا ہے۔ اسلئے جو میرا اتباع کرے گا بس صرف وہی مجھ میں سے ہے۔ اور جس کسی نے میری نافرمانی کی تو آپ غفور الرحیم ہیں۔(۳۶) اے ہمارے ربّ! میں نے اپنی اولاد کو ایک ایسی وادیٔ غیرِ ذی زرع میں (وادی جس میں کھیتی باڑی نہیں ہوتی) تیرے بیت الحرام کے پاس آباد کر دیا ہے،تاکہ اے ہمارے ربّ ! وہ الصلواۃ قائم کریں۔ آپ انسانوں کے دلوں کو ایسا کر دیں کہ وہ اِن کی طرف جھک جائیں اور انہیں ہر طرح کے میووں کا رزق عطا کر، تاکہ وہ تیرے شکر گزار بن جائیں۔(۳۸) تہذیب ِ نوی کار گہِ شیشہ گراں ہے آدابِ جنوں شاعرِ مشرق کو سکھا دو انسان کو دئے گئے اختیار سے فائدہ اُٹھاتے ہوے جو صورتِ حال اسوقت تہذیبِ نو کے عنوان سے معاشر ے کی بن چکی ہے وہ کسی آئینہ گروں کی دوکان سے کم پریشان کُن نہیں ہے۔ کیونکہ ہر ایک آئینہ نہ صرف ماحول کی عکاسی کرتا ہے بلکہ ہر آئینہ کے اندر منعکس ہونے والے مناظر کا بھی عکاس ہوتا ہے۔ اجتمائی طور پر یہ ایک ایسا پریشان کُن تآثر پیدا کرتا ہے کہ جس سے کسی بھی انسان کے لیے کسی مسئلہ یا مشکل کا حل تلاش کرنا تقریباً ناممکن ہو جاتا ہے۔ اسلئے اللہ کی کتابوں کی تعلیمات کے حامل انبیاء اور مرسلین علیہم السلام والے آدابِِ جنوں،اب اُن کا سلسلہ بندہو نے کی حالت میں ۔۔کسی قرآنی تعلیمات کے وارث شاعرِ مشرق کو سکھا دو! ٭٭٭٭ ۴۔ کارل مارکس کی آواز ٭٭ ٭٭ یہ علم و حکمت کی مہرہ بازی یہ بحث و تکرار کی نمائش نہیں ہے دنیا کو اب گوارا پرانے افکار کی نمائش جہانِ مغرب کے بُتکدوں میں ، کلیسیاؤں میں ، مدرسوں میں ہوس کی خونریزیاں چھپاتی ہے، عقلِ عیار کی نمائش ٭٭ ضربِ کلیم ٭٭ ٭٭٭٭ ۴۔کارل مارکس کی آواز ٭٭٭٭ یہ علم و حکمت کی مہرہ بازی یہ بحث و تکرار کی نمائش نہیں ہے دنیا کو اب گوارا پرانے افکار کی نمائش تری کتابوں میں اے حکیمِ معاش رکھا ہی کیا ہے آخر خُطوطِ خمدار کی نمائش! مریز و کجدار کی نمائش جہانِ مغرب کے بُتکدوں میں ، کلیسیاؤں میں ، مدرسوں میں ہوس کی خونریزیاں چھپاتی ہے، عقلِ عیار کی نمائش ٭٭ ضربِ کلیم ٭٭ علامہ ڈاکٹر محمد اقبالؔ اشتراکیت کے موضوع پر لیننؔ کو اللہ کے حضور اپنا استغاثہ پیش کرواکر اور ملائکہ سے زمانے کی دیرینہ سرمایہ پرستی کے ہاتھوں انسانوں کی زبوں حالی کی شکائت کروا کر اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان جاری کروا چکے ہیں کہ: ’’ـاُٹھو! میری دنیا کے غریبوں کو جگا دو کاخِ امراء کے در و دیوار ہِلا دو جس کھیت سے دہقاں کو میّسر نہ ہو روزی اُس کھیت کے ہر خوشۂ گندم کو جلا دو میں ناخوش و بیزار ہوں مر مر کی سِلوں سے میرے لئے مٹی کا حرم اور بنا دو‘‘ اب اسی اشتراکیّت اور مزدکیّت کے بانی کارل مارکسؔ کے بنیادی نظریات سے انسانوں کو ایسے متعارف کروا نا چاہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنے والے ازلی ابدی، اخلاقی، حقائق و قوانین اجاگر ہوکر سامنے آجائیں۔ یہ بیان اس حُسن کے ساتھ کیا گیا ہے کہ کارل مارکس ؔ کے صرف تین شعروں میں، اسکے تمام نظریات کا نچوڑ پیش کر دیا گیا ہے۔ اور ایسی وضاحت کے ساتھ کہ آج کے کفّار کے زمانۂ جاہلیّۃ والے پُرانے افکارکو علم و حکمت کی شاطرانہ مہرہ بازی اور طرح طرح کی متضادبحث و تکرار کے مذاکرے اور مباحثے کہا ہے ۔ اور وہ بھی اس صورت میں کہ اُن کے ہاتھ میں اللہ کی طرف سے آئی ہوئی کوئی کتابِِ منیر بھی نہیں ہوتی۔: یہ علم و حکمت کی مہرہ بازی یہ بحث و تکرا ر کی نمائش نہیں ہے دنیا کو اب گوارا پُرانے افکار کی نمائش ْقرآن الحکیم نے ایسی بحث بازی اور ایسے زمانہ جاہلیت کے افکار پر مندرجہ ذیل آیات میں بڑا معنی خیز تبصرہ کیا ہے۔ ۲۲- سورۃ الحج:۸ ـ’’ انسانوں میں سے کوئی ایسا بھی ہوتا ہے جو بغیرِ علم اور بغیر ہدایت اور بغیر کتابِ منیرکے لوگوں سے مجا د لہ کرتا ہے او ر پھر تکبّرسے اپنی گردن موڑ لیتا ہے تاکہ لوگوں کو (علم ،ہدایت اور کتابِ منیر) والے اللہ کے راستے سے گمراہ کردے۔ـ‘‘ ۴۸ - سورۃ الفتح:۲۶: ـ’’اور جب کفّار کے دلوں میںزمانۂِ جاہلیّۃ (کے پرانے افکار) کی حمیّت نے ضد پکڑ لی تو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولؐ پر اورمومنین پر تسکین نازل فرمائی اور انہیں اللہ کی طرف سے نازل ہونے والی تقویٰ کی بات پر قائم رکھا ۔اور وہ اسی کے ہی مستحق تھے۔ اللہ تو ہر شے کا علم رکھنے والا ہے۔‘‘ ۳ -سورۃ آلِ عمران:۱۵۴ ’’اور ہم نے تُم پر غم کے بعد امن طاری کیا جو ایک گروہ پر چھا گیا مگر ایک گروہ جنہیں اپنی جان کے لالے پڑے ہوئے تھے وہ اللہ کے بارے میں بغیر کسی استحقاق کے زمانۂ جاہلیّۃ والے گمان کرنے لگ گئے۔‘‘ تری کتابوں میں اے حکیمِ معاش رکھا ہی اور کیا ہے خُطوطِ خمدار کی نمائش! مَریز و کجدار کی نمائش اے حکیمِ معاش! ( معاشیات کے فلاسفر۔پروفیسر!) انسان کو فکرِ معیشت میں مبتلا کر نے اور اسی کے زیادہ سے زیادہ حصول کی ہلاکت خیز تعلیمات پر مبنی، نصابی اورغیر نصابی کتابوںسے بھری ہوئی تیری لائیبریریوں میں سوائے اس کے اور رکھا ہی کیا ہے؛ کہ کچھ’’ خطوطِ خمدار‘‘ یعنی بریکٹوں اور قوسین کے درمیان مبہم مضامین کی نمائش ہے؛ اور کچھ’’ مَریز وکجدار‘‘ یعنی متضاد باتوں سے اُلجھے ہوئے بیانات کی وضاحت ہے: جہانِ مغرب کے بتکدوں میں، کلیسیاؤں میں، مدرسوں میں ہوس کی خوں ریزیاں چھپاتی ہے عقلِ عیّار کی نمائش انسان کے ایسے طرزِ زندگی پر قرآنِ حکیم میں بڑا واضح تبصرہ فرمایا ہے: ۳-سورۃ آلِ عمران:۱۴ ’’انسانوں کے لیے اُنکی خواہشاتِ نفس کو پورا کرنے والی اشیاء بہت محبوب ہوتی ہیں ، جیسے عورتیں اور بیٹے اور سونے چاندی کے خزانوں کے ڈھیر اور مہر لگے ہوئے گھوڑے اور مویشی اور کھیتی باڑی۔ مگر یہ سب کچھ محض متاعِ حیاتِ دنیا ہے۔ اور اللہ کے پاس اس سے کہیں بہتر ٹھکانہ ہے۔‘‘ ٭٭٭٭ حق اور باطل کا تقابل،علم کے ا نوار اور جہل کے ظلمات کی کشمکش، آیات ِالٰہی کی ابدی حقانیّت سے ٹکرانے والی بحث و تقرار پر مبنی انسانو ںکے گھسے پٹے، خود ساختہ، جاہلانہ تصورات کا موازنہ کرتے ہوئے ڈاکٹر علامہ اقبالؔ کی زیرک نظری، اس دور کی سب سے بڑی فکری تحریک ’’اشتراکیت‘‘ میں اسلام کے فلاحی نظام کی انقلابی جھلک د یکھ رہی تھی۔ ٭٭٭٭ ٭٭٭٭ ۵-بلشویک روس ٭٭٭٭ روش قضائے الٰہی کی ہے عجیب و غریب خبر نہیں کہ ضمیرِ جہاں میں ہے کیا بات! ہوئے ہیں کسرِ چلیپا کے واسطے مامور وہی کہ حفظِ چلیپا کو جانتے تھے نجات! یہ وحی، دہریتِ روس پر ہوئی نازل کہ توڑ ڈال کلیسائیوں کے لات و منات! ٭٭ ضربِ کلیم ٭٭ علامہ ڈاکٹر اقبال ؔ نے لیننؔ اور کارل مارکسؔ کی تعلیمات میں پوشیدہ قرآنی احکام کے جواہرات ظاہر کرنے کے علاوہ ،اُن کی تحریک کے عملی پہلوؤں کا بھی اپنی قرآنی بصیرت سے تجزیہ کیا ہے ۔ علامہ صاحب کا مقصد یہ نہیں کہ ، فلسفۂ اشتراکیت کو اسلام کا نعم البدل قرار دیں۔ بلکہ مسلمانانِ عالم اور دیگر قوموں پر یہ ثابت کرنا ہے کہ اشتراکیت میں کوئی بھی ایسی قابلِ قدر نئی چیز نہیں ہے جو اسلام میںزیادہ مکمل اور جامع انداز میں پیش نہ کی جا چکی ہو۔ عیسائیت پر اسلام کا سب سے بڑا اعتراض یہی ہے کہ وہ حضرت عیسیٰ ؑ کو اللہ کا بیٹا مان کر شرک کرتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ ؑ کو صلیب پر چڑھا کر قتل کر دیاگیا تھا۔قرآنِ کریم میں ا ن دونوں عقائد کی پُر زور مذمّت کی گئی ہے۔ ۹- سورۃ التوبہ:۳۰ ’’اور یہود کہتے ہیں کہ عزیرؑ اللہ کا بیٹا ہے اور نصاریٰ کہتے ہیں کہ مسیح، اللہ کا بیٹا ہے۔ حالانکہ یہ سب ان کے اپنے مونہہ سے کہی ہوئی باتیں ہیں۔ اس سے پہلے بھی کفار اسی طرح کی باتیں کیا کرتے تھے۔ اللہ انہیں ہلاک کرے یہ کہاں بہکے جا رہے ہیں۔ ‘‘ ۴-سورۃ النساء : ۱۵۷۔۱۵۹ ’’ان کا قول ہے کہ انہوں نے مسیح ابنِ مریمؑ رسول اللہ کو قتل کر دیا ہے ۔ حالانکہ وہ قتل نہیں کئے گئے اور نہ ہی صلیب( ـ’’چلیپا‘‘) پر چڑھائے گئے تھے ۔ بلکہ انہیں اس بات کا شبہ ہوا تھا ۔ اور جو لوگ اس بارے میں اختلاف کرتے ہیں وہ محض اپنے ظن کی پیروی کر رہے ہیں۔ انہیں یقیناً قتل نہیں کیا گیا تھا بلکہ(۱۵۷) اللہ نے اُنہیں اپنی طرف اُٹھا لیا تھا۔ اور اللہ ہر چیز پر غالب حکمت والا ہے۔(۱۵۸) اور اہلِ کتاب میں سے ایک بھی ایسا نہیں رہے گا جو اُن کی موت سے قبل اُن پر ایمان نہیںلے آئے گا۔او ر وہ یومِ قیامت اس بات پر گواہی نہ دے گا۔‘‘(۱۵۹) اللہ کے دین سے ہٹ کر، کلیساؤں میں جو ’’صلیب‘‘ ( ’’چلیپا‘‘)کو اور اُس کے ساتھ حضرت عیسیٰؑ کے بُت کو پوج کر شرک کیا جا رہا ہے۔ مگریہی تو وہ بُت تھے جنہیں توڑنے کے لئے حضرت ابراہیم ؑ اور رسولِ عربی صلّ اللہ ‘علیہٖ و آلہٖ و سلّم اور دیگر انبیاء علیہم السلام مبعوث ہوتے رہے۔ ڈاکٹر علامہ اقبالؔ اس قضائے الٰہی پر حیران ہیں کہ یورپ کے وہی لوگ جو ان بُتوں کی پرستش اور حفاظت کے لئے صلیبی جنگیں لڑنے اور اپنی جانیں قربان کرنے میں اپنی نجات سمجھتے تھے ، آج وہ بالشویک روسمیں اپنی دہریتکے باوجود، وحیٔ الٰہیکے مطابق ان لات و مناتکو خود اپنے ہاتھوں توڑ رہے ہیں۔ ٭٭٭٭ ٭٭٭٭ ۶-ابلیس کی مجلسِ شوریٰ ٭٭ ارمغانِ حجاز ٭٭ ڈاکٹر علامہ اقبال صاحب نے اپنی اس نظم کو گرچہ اس دور کی سیاسی، معاشی اور مذہبی صورتِ حال پر ابلیساوراُس کے مشیروںکی زبانی ایک جامعہ عالمانہ مذاکرہ کے انداز میں پیش کیا ہے۔۔لیکن در اصل اس مجلسِ شوریٰ میں پیش کردہ تجزیوں،تبصروں اور مشوروں میں ،حضرت انسان کے مقاصدِ تخلیق کے لیے آنے والی اللہ کی ہدایات کے خلاف ابلیسی نظام کے گمراہ کُن حربوں کا تذکرہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ہدایات کو چھوڑ کرمحض خواہشاتِ نفس کی تسکین کے لیے، انسانوں کا خود ساختہ مذاہب ، سیاسی نظام اور ظالمانہ قوانیں وضع کرتے چلے جانا اور ان کے باہمی ٹکراؤ سے ہر طرف بحر و برّ پر فساد اور ظلم کا راج ۔انسانی جہالت اور گمراہی کی اوٹ میںابلیس اور اُس کے ہر طرح کے زہریلے طور طریقوں (خطوآت الشیطان ) کی داستان ہے۔ علامہ اقبالؔ نے ابلیس اور اُس کے مشیروں کی زبانی ، اس دور کے تمام فتنوں کا (بمعہ اشتراکیت) جس مہارت سے تجزیہ کیا ہے اُ س میں مزیدکسی اضافے کی گنجائش نہیں رہ جاتی۔ اسلئے اس حصّے کے زیادہ ترآسان اور سادہ الفاظ کو اُن کیـ’’ اقبالیاتی‘‘ حسن کے ساتھ کتاب سے جوں کا توں نقل کر دیا گیا ہے۔ یہ بات خصوصاً توجہ طلب ہے کہ علامہ صاحب کی یہ نظم 1936عیسوی میں لکھی گئی تھی جبکہصرف چند سال بعد1939عیسوی میں دوسری جنگِ عظیم شروع ہوگئی تھی۔ اور اُس میں اتنے انسان ہلاک ہو گئے تھے کہ جتنے روئے زمین پر اس وقت تک لڑی جانے والی تما م جنگوں میں نہیں ہوئے تھے٭ ٭٭٭٭٭ ابلیس ( پُر غرور ابتدائی خطاب) یہ عناصر کا پرانا کھیل ! یہ دُنیائے دوں! ساکنانِ عرشِ اعظم کی تمنّاؤں کا خوں! (ساکنانِ عرشِ اعظم کی تمناؤں کے خون کا اشارہ ، تخلیق ِ آدم پر ملائکہ کا اللہ کے حضورسوال اُٹھانا اور پھر اللہ تعالیٰ کی وضاحت پر مان جانا ۔مگر ابلیس ؔ کا حکم ماننے سے انکار کر کے راندہ درگاہ ہو جانے کی طرف ہے۔) ۲۔سورۃ البقرۃ:۳۰،۳۴ ’’ اور جب اللہ نے ملائکہ سے کہا کہ میں اس زمین پر (پہلے گزری ہوئی ایسی شکل و صورت والی مخلوق Hominid species کا) خلیفہ مقرر کرنے والا ہوں۔ تو انہوں نے سوال کیا :کہ کیا آپ زمین پرپھر اُس کو مقرر کرنا چاہتے ہیں جو یہاں فساد اورخون خرابہ کرے گا۔جبکہ ہم( آپ کے عطا کردہ وسائل کے استعمال کے ذریعے آپکے احکام کی تعمیل کرتے ہوئے) آپ کی حمد ، تسبیح و تقدیس کرتے ہیں۔ اللہ نے فرمایا میں بہتر جانتا ہوں اُن باتوں کو جنہیں تم نہیں جانتے۔‘‘ ( ۰ ۳ )… ’’پھر جب اللہ نے ملائکہ سے کہا کہ وہ آدم کے سامنے سجدہ کریں توسب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے ۔ اُس نے تکبر کی وجہ سے انکار کیا، اور کافروں میں سے ہو گیا۔(۳۴)‘‘ اس کی بربادی پہ آج آمادہ ہے وہ کار ساز جس نے اس کا نام رکھا تھا جہانِ کاف و نون (کاف و نون کی وضاحت کے لیے دیکھیں آیاتِ کُن۔فَیکُون:۳۶:۸۲) میں نے دکھلایا فرنگی کو ملوکیّت کا خواب میں نے توڑا مسجد و دیر و کلیسا کا فسوں میں نے ناداروں کو سکھلایا سبق تقدیر کا میں نے منعم کو دیا سرمایہ کاری کا جنوں کون کر سکتا ہے اُسکی آتش ِ سوزاں کو سرد جس کے ہنگاموں میں ہو ابلیس کا سوزِ دروں ( آتش سوزاں یا سوزِ دروں کا اشارہ ابلیسؔ کے آگ سے تخلیق ہونے کی طرف ہے) جس کی شاخیں ہوں ہماری آبیاری سے بلند کون کر سکتا ہے اُس نخلِ کہن کو سر نگوں؟ پہلا مشیر اس میں کیا شک ہے کہ محکم ہے یہ ابلیسی نظام پختہ تر اس سے ہوئے خوئے غلامی میں عوام ہیں ازل سے ان غریبوں کے مقدر میں سجود ان کی فطرت کا تقاضا ہے نمازِ بے قیام (’’ سجود‘‘ اور’’ نمازِ بے قیام ‘‘سے علامہ صاحب کا اشارہ اس طرف ہے کہ اللہ تعالیٰ نے رسولِ کریم ؐ کے ذریعے بھیجی گئی قرآنی آیات پر مبنی دین کو قائم کرنے کے لیے ۔ اللہ کے احکام کے مطابق وقت مقرر کردہ قیامِ صلوا ۃ کا حکم فرمایا۔( حوالہ قرآن:۴:۱۰۳) تاکہ اس سے فحاشی اور منکرات کا خاتمہ ہو سکے۔(حوالہ قرآن :۲۹:۴۵) ۔ اور ایسا کرنے میں اپنی پوری ذات کو اللہ تعالیٰ کے ہر ایک حکم کے سامنے سجدہ ریزکردیا جائے ۔ یہ ایک عملی قیام محض زبانی جمع خرچ نہیں ہے)۔ آرزو اوّل تو پیدا ہو نہیں سکتی کہیں ہو کہیں پیدا تو مر جاتی ہے یا رہتی ہے خام! یہ ہماری سعیِ پیہم کی کرامت ہے کہ آج صوفی و ملّا ملوکیّت کے بندے ہیں تمام! طبعِ مشرق کے لئے موزوں یہی افیون تھی ورنہ، قوالی ، سے کچھ کمتر نہیں علمِ کلام، ہے طواف و حج کا ہنگامہ اگر باقی تو کیا کنُد ہو کر رہ گئی مومن کی تیغِ بے نیام! کس کی نومیدی پہ حجت ہے یہ فرمانِ جدید؟ ’’ہے جہاد اس دور میں مردِ مسلماں پر حرام!‘‘ دوسرا مشیر ( پہلے مشیر کی بات کونیچا کرتے ہوئے) خیر ہے سلطانیٔ جمہور کا غوغہ کہ شر؟ تُو جہاں کے تازہ فتنوں سے نہیں ہے با خبر! پہلا مشیر (دوسرے مشیر کے جواب میں اکڑ کر) ہوں! مگر میری جہاں بینی بتاتی ہے مجھے جو ملوکیّت کا اک پردہ ہو کیا اس سے خطر! ہم نے خود شاہی کو پہنایا ہے جمہوری لباس جب ذرا آدم ہوا ہے خود شناس و خو د نگر کار و بارِ شہر یاری کی حقیقت اور ہے یہ وجُودِ میر و سلطاںِ پر نہیں ہے منحصر مجلسِ ملّت ہو یا پرویز کا دربار ہو ہے وہ سلطاں غیر کی کھیتی پہ ہو جس کی نظر تُو نے کیا دیکھا نہیں مغرب کا جمہوری نظام؟ چہرہ روشن، اندروں چنگیز سے تاریک تر تیسرا مشیر ( ملوکیت وجمہوریت سے قطع نظر، اشتراکیت پر سوال اُٹھاتا ہے) روحِ سلطانی رہے باقی تو پھر کیا اضطراب ہے مگر کیا اس یہودی (کارل ما رکسؔ) کی شرارت کا جواب؟ وہ کلیمِ بے تجلّی ! وہ مسیحِ بے صلیب! نیست پیغمبر و لیکن در بغل دارد کتاب! کیا بتاؤں کیا ہے کافر کی نگاہِ پردہ سوز مشرق و مغرب کی قوموں کے لئے روزِ حساب! اس سے بڑھ کر اور کیا ہوگا طبیعت کا فساد توڑ دی بندوں نے آقاؤں کے خیموں کی طناب! چوتھا مشیر (تیسرے کو جواب دیتے ہوئے) توڑ اسکا رومۃ الکبریٰ کے ایوانوں میں دیکھ آلِ سیزر کو دکھایا ہم نے پھر سیزر کا خواب کون بحرِ روم کی موجوں سے ہے لپٹا ہوا گاہ بالد چوں صنوبر، گاہ نالد چوں رُباب تیسرا مشیر (چوتھے مشیر کے جواب میں) میں تو اُس کی عاقبت بینی کا کچھ قائل نہیں جس نے افرنگی سیاست کو کیا یوں بے حجاب پانچواں مشیر (ابلیس کو مخاطب کر کے، درباری انداز میں) اے ترے سوزِ نفس سے کارِ عالم استوار تُو نے جب چاہا کیا ہر پردگی کو آشکار آب و گِل تیری حرارت سے جہانِ سوز و ساز ابلہ ِ جنت تری تعلیم سے دانائے کار تجھ سے بڑھ کر فطرتِ آدم کا وہ محرم نہیں سادہ دل بندوں میں جو مشہور ہے پروردگار کام تھا جنکا فقط تقدیس و تسبیح و طو اف تیری غیرت سے ابد تک سرنگوں و شرمسار (قرآنی آیات میں قصۂ آدم کی طرف اشارے ہیں :تفصیلات کے لیے۔۲۔ سورۃ بقرۃ : آیات،۳۰۔۳۹ دیکھیں) گرچہ ہیں تیرے مرید افرنگ کے ساحر تمام اب مجھے ان کی فراست پر نہیں ہے اعتبار وہ یہودی فتنہ گر وہ روحِ مزدک ؔکا برُوز ہر قباہونے کو ہے اُس کے جنوں سے تار تار زاغ دستی ہو رہا ہے ہمسر ِ شاہین ؔ و چرغ کتنی سرعت سے بدلتا ہے مزاجِ روزگار چھا گئی آشفتہ ہو کر وسعت ِ افلاک پر جس کو نادانی سے ہم سمجھے تھے اک مشتِ غبار فتنۂ فردا کی ہیبت کا یہ عالم ہے کہ آج کانپتے ہیں کوہسار و مرغزار و جوئبار میرے آقا! وہ جہاں زیر و زبر ہونے کو ہے جس جہاں کا ہے فقط تیری سیادت پر مدار ٭٭٭٭ ابلیس (اپنے مشیروں سے) ہے مرے دستِ تصرف میں جہانِ رنگ و بُو کیا زمیں ، کیا مہر و ماہ ، کیا آسمانِ تو بتو دیکھ لیں گے اپنی آنکھوں سے تماشا شرق وغرب میں نے جب گرما دیا اقوامِ عالم کا لہو کیا امامانِ سیاست ، کیا کلیسا کے شیوخ سب کو دیوانہ بنا سکتی ہے میری ایک ھُو کار گاہِ شیشہ جو ناداں سمجھتا ہے اسے توڑ کر دیکھے تو ا س تہذیب کے جام و سبو دستِ فطرت نے کیا ہے جن گریبانوں کو چاک مزدکیؔ منطق کی سوزن سے نہیں ہوتے رفو کب ڈرا سکتے ہیں مجھ کو اشتراکی کوچہ گرد یہ پریشاں روزگار، آشفتہ مغز، آشفتہ ہوُ ہے اگ مجھ کو خطر کوئی تواُس اُمت سے ہے جس کی خاکستر میں ہے اب تک شرارِ آرزو خال خال اس قوم میں ابتک نظر آتے ہیں وہ کرتے ہیں اشکِ سحر گاہی سے جو ظالم وضو جانتا ہے، جس پہ روشن باطِنِ ایّام ہے مزدکیتؔ فتنۂ فردا نہیں اسلامؔ ہے ٭٭ ۲ ٭٭ ڈاکٹر علامہ اقبالؔ صاحب۔ یہاں سے آگے، ابلیسؔ کی زبانی ، اُمّتِ مسلمہ کی چند موجودہ کمزوریوں کے بیان کے بعد ،اسلام کی اُن تعلیمات کا تذکرہ، پیش کرتے ہیں جن سے ابلیسیّت کو ہمیشہ خطرہ دامنگیر رہا ہے: ۔ جانتا ہوں میں یہ اُمت حاملِ قرآں نہیں ہے وہی سرمایہ داری بند ۂ مومن کا دیں جانتا ہوں میں کہ مشرق کی اند ھیری رات میں بے یدِ بیضا ہے پیرانِ حرم کی آستیں عصرِ حاضر کے تقاضاؤں سے ہے لیکن یہ خوف ہو نہ جائے آشکارا شرعِ پیغمبرؐ کہیں الحذر آئینِ پیغمبرؐ سے سو بار الحذر حافظ ِ ناموسِ زن ، مرد آزما ، مرد آفریں موت کا پیغام ہر نوعِ غلامی کے لئے نے کوئی فُغفُور و خاقاں، نے فقیر ِ رہ نشیں کرتا ہے دولت کو ہر آلودگی سے پاک و صاف منعموں کو مال و دولت کا بناتا ہے امیں اس سے بڑھ کر اور کیا فکر و عمل کا انقلاب! پادشاہوں کی نہیں ، اللہ کی ہے یہ زمیں ( مومن کو اور دیگر اقوامِ عالم کو، اسلام کے ان حقائق سے دور رکھنے کے لیے ابلیس ؔ اپنے مشیروں کو یہ ہدایات صادر کرتا ہے۔) چشمَ عالم سے رہے پوشیدہ یہ آئیں تو خوب یہ غنیمت ہے کہ خود مومن ہے محروم ِ یقیں! ہے یہی بہتر الٰہیّات میں اُلجھا رہے یہ کتاب اللہ کی تاویلات میں اُلجھا رہے ٭٭۳٭٭ توڑ ڈالیں جسکی تکبیریں طلسم ِ شش جہات ہو نہ روشن اس خدا اندیش کی تاریک رات! ابنِ مریمؑ مر گیا یا زندۂ جاوید ہے ہیں صفاتِ ذاتِ حق ، حق سے جدا یا عینِ ذات؟ آنے والے سے مسیح ِناصری مقصود ہے یا مجدد جس میں ہو فرزندِ مریم ؑ کے صفات؟ ہیں کلام اللہ کے الفاظ حادث یا قدیم اُمّتِ مرحوم کی ہے کس عقید ے میں نجات؟ کیا مسلماں کے لئے کافی نہیں اس دور میں یہ الٰہیّات کے ترشے ہوئے لات و منات؟ تُم اسے بیگانہ رکھو عالمِ کردار سے تا بساطِ زندگی میں اس کے سب مہر ے ہوںمات! خیر اسی میں ہے قیامت تک رہے مومن غلام چھوڑ کر اوروں کی خاطر یہ جہانِ بے ثبات ہے وہی شعر و تصوّف اس کے حق میں خوب تر جو چھپادے اس کی آنکھوں سے تماشائے حیات! ہر نفس ڈرتا ہوں اس اُمّت کی بیداری سے میں ہے حقیقت جس کے دیں کی احتسابِ کائنات! مست رکھو ذکر و فکرِ صبح گاہی میں اسے پختہ تر کر دو مزاجِ خانقاہی میں اسے ٭٭٭٭ ٭٭٭٭ ۷۔اشتراکیت ٭٭٭٭ تمہید: علامہ اقبالؔ نے اپنے شعری مجموعہ بانگِ درا کی مشہور نظم شکوہ اور جواب شکوہ میں اُمّتِ مسلمہ کی صورتِ حال کا تفصیلی احتساب کیا تھا۔ اب اُسی انداز میں، ابلیسؔ کی مجلسِ شوریٰ کی خوبصورت بحث میںبھی زمین پر پھیلی ہوئی موجودہ سیاسی صورتِ حال اور اشتراکیت کا اسلامی نظر سے نہایت عمیق تجزیہ پیش کیا ہے ۔ ’’ اشتراکیت ــ‘‘کے عنوان سے اُن کی مندرجہ ذیل نظم اس اجلاس میں علامہ صاحب کا صدارتی خطبہ معلوم ہوتی ہے۔ فرماتے ہیں: قوموں کی روش سے مجھے ہوتا ہے یہ معلوم بے سود نہیں رُوس کی یہ گرمی ٔ رفتار! اندیشہ ہوا شوخیٔ افکار پہ مجبور فرسودہ طریقوں سے زمانہ ہوا بیزار! انساں کی ہوس نے جنہیں رکھا تھا چھپا کر کھلتے نظر آتے ہیں بتدریج وہ اسرار! ٭’’قرآن‘‘ میں ہو غوطہ زن ا ے مردِ مسلماں اللہ کر ے تجھ کو عطا جدّتِ کردار جو حرفِ ’’قُلِ ا لعَفوَ‘‘ میں پوشیدہ ہے اب تک اس دور میں شاید وہ حقیقت ہو نمودار! ٭آخری دو اشعار کا قرآنی حوالہ:- ۲- سورۃ البقرۃ:۲۱۹: ’’اے رسولؐ! آپ سے یہ لوگ سوال کرتے ہیں کہ ہم اللہ کی راہ میں کیا خرچ کریں۔؟(قُلِ العَفوَ) ان سے کہہ دیں کہ جو بھی تمہاری جائز ضروریات سے فالتو ہے۔اسطرح اللہ تم سب کے لئے اپنی آیات کو کھول کھول کر بیان کرتا ہے تاکہ تم اس پر تفکّرکرو‘‘(یعنی اس میں غوطہ زن ہو جاؤ)٭ ’’اختتامِ حصّہ دوئم‘‘ ٭٭٭٭ ٭٭٭٭ اے روحِ محمدؐ ! شیرازہ ہوا امّتِ مرحوم کا ابتر! اب تو ہی بتا تیرا مسلمان کدھر جائے! اس راز کو اب فاش کر اے روحِ محمدؐ آیاتِ الٰہی کا نگہبان کدھر جائے! ٭٭ضربِ کلیم٭٭