فکرِ اقبال کے تحقیقی پہلو ڈاکٹر نذیر قیصر اقبال اکادمی پاکستان جملہ حقوق محفوظ ناشر محمدسہیل عمر ناظم اقبال اکادمی پاکستان (حکومتِ پاکستان، وزارتِ ثقافت ) چھٹی منزل ، ایوانِ اقبال ، لاہور Tel: [+92-42] 36314-510 [+92-42] 99203-573 Fax: [+92-42] 3631-4496 Email: director@iap.gov.pk Website: www.allamaiqbal.com ISBN 978-969-416-???-? طبع اوّل : ۲۰۱۲ء تعداد : ۵۰۰ قیمت : مطبع : محلِ فروخت : ۱۱۶ میکلوڈ روڈ ، لاہور، فون نمبر ۷۳۵۷۲۱۴ میرے والدِ محترم فضل دین کے نام! جن کی تربیت سے میرے اندر علم کی جستجوپیدا ہوئی۔ فہرست دیباچہ ڈاکٹر فتح محمد ملک ۹ فلسفۂ اقبال کے مآخذ ۱۱ اقبال کا فلسفۂ خود اختیاری ۲۱ اقبال اور مانٹسوری طریقۂ تعلیم ۲۹ اقبال کا منفرد مقام اور مولانا رومی ۴۳ اقبال کے مذہبی افکار اور مولانا روم ۵۷ اقبال کا فلسفۂ فناو بقا ۷۱ اقبال ___ ایک انسان دوست فلاسفر ۸۱ اقبال کے نزدیک انسانی زندگی میں شیطان کا کردار ۹۵ دیباچہ میں ڈاکٹر نذیر قیصر کا ایک ادنیٰ مداح ہوں۔ مجھے آج کے پاکستان میں اُن جیسا کوئی مفکر اور معلم دُور دُور تک نظر نہیں آتا جو اقبال کے تصورات کو ہماری عملی زندگی کے ٹھوس اور متحرک قالب میں ڈھالنے میں مصروف ہو۔ زیرِنظر مجموعۂ مقالات کی تصنیف، ترتیب اور تدوین سے برسوں پیشتر ڈاکٹر نذیر قیصر نے اقبال کے فکر و فلسفہ کی اساس پر ہمارے نظامِ تعلیم و تربیت کو اُستوار کرنے کی اہمیت کو اُجاگر کرنے کی خاطر Realization of Iqbal's Educational Philosophy کے عنوان سے کتاب شائع کی تھی۔ اِسی موضوع پر ایک مدلل اور مؤثر مقالہ زیرِنظر مجموعۂ مقالات کی زینت ہے۔ ڈاکٹر نذیر قیصر بنیادی طور پر ایک معلمِ اخلاق ہیں۔ مشرق اور مغرب کے فکر و فلسفہ اور شعر و حکمت کی شناوری اُن کا وصفِ خاص ہے۔ پیشتر ازیں وہ اقبال کے دینی تفکر پر فکرِ رومی کے اثرات، اقبال اور مغربی فلسفے اور اقبال کی عصری معنویت کے موضوعات پر انگریزی زبان میں دادِ تحقیق لے چکے ہیں۔ ڈاکٹر نذیر قیصر کا نادر و نایاب وصف یہ ہے کہ وہ ہمیشہ فکر و فلسفہ کے عملی مضمرات کو بھی مدنظر رکھتے ہیں۔ چنانچہ وہ ایک محکم استدلال کے ساتھ رائج الوقت غلط فکری روّیوں کی اصلاح میں کوشاں ہیں۔ وہ اپنے مقالہ بعنوان ’’فلسفۂ اقبال کے مآخذ‘‘ میں ثابت کرتے ہیں کہ اقبال کے فلسفہ کا مآخذ مغربی فکر ہرگز نہیں۔ اُن کے خیال میں اقبال کی فکر کو مغربی فکر سے ماخوذ سمجھنا ’’محض سطحی خیال ہے جو مبنی بر حقیقت نہیں___ میرے نزدیک اقبال نے مغربی مفکرین میں سے اگر کسی کی تعریف کی ہے تو اس کی وجہ محض یہ ہے کہ اقبال کو ان میں اپنے خیالات کی ترجمانی ملتی ہے اور جہاں مغربی فلسفہ سے مماثلت نظر آتی ہے اس کے پیش منظر بیشتر اسلامی فکر اور قرآنِ حکیم اور رسول اکرمﷺ کی تعلیمات کارفرما ہیں۔‘‘ زیرِنظر مجموعۂ مقالات میں شامل مولانا جلال الدین رومی کی صوفیانہ اور مذہبی فکر سے فکرِ اقبال کی مماثلت بھی اُجاگر کی گئی ہے اور اختلاف کو بھی نمایاں کیا گیا ہے۔ ڈاکٹر نذیر قیصر نے علمی وسعت اور فکری گہرائی کے ساتھ ثابت کیا ہے کہ: ’’وہ فلسفیانہ دلائل جو کہ ماڈرن علم کی روشنی میں اقبال نے پیش کیے ہیں وہ رومی میں نہیں۔ جس فلسفیانہ رنگ میں مختلف موضوعات پر مدلل بحث اقبال نے کی ہے یہ انھیں کا حصہ ہے۔ یہاں رومی اور اقبال میں بنیادی فرق اور بھی واضح ہوجاتا ہے۔ رومی بحیثیت صوفی شاعر اور اقبال بطور فلسفی شاعر نمایاں طور پر سامنے آتے ہیں۔‘‘ اسی طرح ہر دو شاعروں کی وُسعتِ موضوعات کے تذکرے میں بڑی قطعیت کے ساتھ ارشاد فرماتے ہیں کہ: ’’اکثر ایسے موضوعات ہیں جن پر اقبال ہی نے قلم اُٹھایا ہے۔ وجہ خواہ کچھ بھی ہو۔ سیاسی اور معاشی خیالات جو اقبال کے یہاں بدرجہا اُتم ملتے ہیں۔ رومی کے یہاں ان کا فقدان ہے۔ لیکن اقبال نے خصوصاً پس ماندہ لوگوں کی معاشی حالت کا ذکر کیا اور سیاسی معاملات میں عملی حصہ بھی لیا۔ پھر اجتہاد کے مسئلہ پر رومی نے قلم نہیں اُٹھایا۔ مگر اقبال کے یہاں اجتہاد کی ضرورت مسلمہ ہے۔ وہ اجتہاد کو اسلام کی تشکیل نو اور تشریح نو کے لیے نہایت ضروری سمجھتے ہیں۔‘‘ ڈاکٹر نذیر قیصر اسی بحث کے دوران پیغمبرانہ اور صوفیانہ شعور کے ساتھ ساتھ صفاتِ ربانی کے سے موضوعات پر بھی رومی اور اقبال کے جُدا جُدا اندازِ فکر و نظر پر روشنی ڈالتے ہیں۔ وہ ’’اقبال کا فلسفۂ فنا و بقا‘‘، فلسفۂ فقر ، فلسفۂ خودی اور فلسفۂ بقا بھی اپنے منفرد انداز میں زیربحث لاتے ہیں۔ انسانی زندگی میں شیطان کے کردار کو بھی اقبالیات کے ایک اہم باب کی صورت میں پیش کیا گیا ہے۔ ڈاکٹر نذیر قیصر، اقبال کو ایک انسان دوست آفاقی شاعر اور فلسفی ثابت کرتے ہوئے اقبال کے فیضان سے نئی نسل کو شاد کام کرنے کی اہمیت اُجاگر کرتے ہیں۔ اس باب میں وہ ہمیں مانٹسوری طریقۂ تعلیم اختیار کرکے نئی نسل کے سیرت و کردار کی تعمیر کی راہ دکھاتے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ ڈاکٹر نذیر قیصر کی دکھائی ہوئی اِس راہ پر گامزن ہوکر ہم پاکستان، دُنیائے اسلام اور دُنیائے انسانیت کا مستقبل سنوار سکتے ہیں۔ آئیے، ڈاکٹر نذیر قیصر کی قیادت میں، آج ہی، اس سفر پر روانہ ہوجائیں! ۵؍مئی ۲۰۱۲ئ پروفیسر فتح محمد ملک (ستارۂ امتیاز) ریکٹر انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد فلسفۂ اقبال کے مآخذ علمی حلقوں میں کچھ لوگ عام طور پر سمجھتے ہیں کہ اقبال کے فلسفہ کا ماخذ مغربی فکر ہے چنانچہ اس ضمن میں عموماً فشٹے، شوپن ہار، برگساں، نٹشے، ولیم جیمز اور جیمز وارڈ کے نام بطور پیش رو لیے جاتے ہیں اور اقبال کی ان تحریروں کی بھی نشان دہی کی جاتی ہے جس میں اقبال نے بعض مغربی مفکرین کی تعریف کی ہے۔ جس کے باعث ان سے مماثلت کے پہلو بھی حوالے کے طور پر بیان کیے جاتے ہیں۔ مگر یہ محض سطحی خیال ہے اور مبنی بر حقیقت نہیں۔ میری تحقیق کے مطابق فکر اقبال کے ماخذ قرآنی تعلیمات اور اصول ہیں۔ جنہیں رسولِ اکرمؐ نے پیش کیا۔ اقبال نے اس سلسلے میں خاص طور پر مولانا جلال الدین رومی سے راہنمائی حاصل کی جنہیں اقبال قرآنِ حکیم کا بہت بڑا ترجمان مانتے ہیں۔ اور جن سے متعلق کہتے ہیں: کو بحرفِ پہلوی قرآں نوشت۱؎ نیز کہا جاتا ہے کہ اقبال نے صوفیہ اکرام اور دیگر مسلم مفکرین سے استفادہ کیا۔ میرے نزدیک اقبال نے مغربی مفکرین میں سے اگر کسی کی تعریف کی ہے تو اس کی وجہ محض یہ ہے کہ اقبال کو ان میں اپنے خیالات کی ترجمانی ملتی ہے۔ اور جہاں مغربی فلسفہ سے مماثلت نظر آتی ہے اس کے پیش منظر بیشتر اسلامی فکر اور قرانِ حکیم و رسولِ اکرم کی تعلیمات کارفرما ہیں۔ اقبال نے اپنے فلسفے کا تانا بانا نہایت خوبصورت انداز میں بنا ہے۔ اس میں سے ماڈرن فلسفہ پر بحثیں اور حوالے عام طور سے ملتے ہیں۔ اس عمل میں بیرونی اثرات سے مکمل طور پر کنارہ کشی ممکن نہیں۔ ویسے بھی کوئی مفکر خواہ کتنا بڑا کیوں نہ ہو۔ ایسے اثرات سے مبرا نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ علم ایک مشترکہ میراث ہے۔ اردگرد کے فلسفیانہ ماحول اور مقدمین سے اثر پذیر نہ ہونا، ممکن نہیں اور کسی بھی مفکر کے خیالات ماضی سے رشتہ توڑ کر خلا میں معلق نہیں ہوسکتے۔ افلاطون اور ارسطو تو بہت حد تک اپنے ماحول، مقدمین اور ہم عصروں سے متاثر ہوئے۔ مگر اس سے یہ نتیجہ مرتب کرنا کہ اقبال کے ماخذ مغربی خیالات ہیں، مبنی بر حقیقت نہیں۔ میں نے اس سلسلہ میں اپنی کتاب Iqbal and Western Philosopherمیں اقبال کے ہر اُس خیال کا، جس کی مماثلت مغربی فکر سے نظر آتی ہے، مکمل تجزیہ کیا ہے یہاں اپنے دعوے کی دلیل میں تین نکات پیش کرتا ہوں۔ (۱) تاریخی حقیقت (ب) اقبال کی اپنی تحریریں (ج) مغربی مفکرین کی گواہی (ا) تاریخی حقیقت اگر فلسفہ کا عمیق مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ برگساں کا فلسفۂ وقت شوپن ہار کی "Will to live"اور ولیم جیمز کا Religious Experience وغیرہ یہ سب مسلم مفکرین خاص طور پر رومی کے خیالات سے باہر نہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ جب اسلامی فکر عروج پر تھا تو یورپ کی حالت کیا تھی؟ یہ سب جانتے ہیں کہ مغرب اُس وقت محو خواب تھا۔ جب کہ مسلم فکر غیر معمولی طور پر بیدار تھا۔ برٹرینڈرسل نے بجا طور پر کہا ہے ’’ہمارا اس (Dark Ages) کی ترکیب کا استعمال جو کہ 600سے 1000 تک کا عرصہ ہے۔ مغربی یورپ پر ہماری ضرورت سے زیادہ توجہ کی نشان دہی کرتا ہے۔ (اس عرصہ میں) انڈیا سے سپین تک اسلام کی درخشاں تہذیب بنتی ہے۔۲؎ اقبال اس حقیقت سے اچھی طرح آگاہ ہیں۔ کہتے ہیں: ’’ذہنی اعتبار سے عالم اسلام نہایت تیزی کے ساتھ مغرب کی طرف بڑھ رہا ہے ___ اس تحریک میں بجائے خود خرابی نہیں کیونکہ جہاں تک علم و حکمت کا تعلق ہے۔ مغربی تہذیب دراصل اسلامی تہذیب ہی کے بعض پہلوئوں کی ایک ترقی یافتہ شکل ہے۔‘‘۳؎ اقبال کے نزدیک بلاشبہ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ خود بہت سے مغربی سکالر اسلامی فکر کے مرہونِ منت ہیں۔ عبداللہ چغتائی کو لکھتے ہیں: ’’اگر آپ کو پیرس میں نوجوان عمر کا سکالر مل جائے تو اس سے یہ کہنا کہ ڈیک آرٹ کی مشہور کتاب Method کا غزالی کی احیاء العلومسے مقابلہ کریں۔ اور یورپ والوں کو دکھائے کہ ڈیک آرٹ اپنے اس Method کے لیے جس نے یورپ میں نئے علوم کی بنیاد رکھی کہاں تک مسلمانوں کا ممنونِ احسان ہے۔ مغربی فلسفہ کا مورخ Laws تو یہ لکھتا ہے کہ اگر ڈیک آرٹ عربی زبان کا عالم ہوتا تو ہم اُسے غزالی کی احیاء العلوم سے چوری کرنے کا الزام لگاتے۔‘‘۴؎ اقبال مزید لکھتے ہیں: ’’لیکن اٹلی کا مشہور شاعر ڈانٹے بھی تو شاید عربی نہ جانتا تھا۔ لیکن اُس کی کتاب Dunte Comedy شاید محی الدین عربی کے افکار و تخیلات سے لبریز ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں کے نتائج افکار عام طور پر یورپ میں مشہور تھے۔ اور یورپ کے بڑے بڑے مفکر اور تعلیم یافتہ آدمی خواہ وہ عربی جانتے ہوں یا نہ جانتے ہوں۔ عام طور پر اسلامی تخیلات سے آشنا تھے۔۵؎ پھر فلسفۂ وقت اور نظریۂ تاریخ کے اعتبار سے کہ تاریخ ایک مسلسل تحریک ہے اقبال ابن خلدون کے فلسفۂ تاریخ کو یورپین تاریخ نویسی کا پیش رو تسلیم کرتے ہیں۔ اقبال کہتے ہیں ’’یہ کسی مسلمان ہی کا کام ہوسکتا تھا کہ تاریخ کا تصور ایک مسلسل اور مجموعی حرکت کے کرتا یعنی زماناً ایک ایسے نشوونما کی حیثیت سے جس کا ظہو رناگزیر ہے۔ گویا ہمیں ابن خلدون کے نظریۂ تاریخ سے دلچسپی ہے تو اس کی وجہ بھی ابن خلدون کا وہ تصور ہے جو اُس نے تفسیر کے باب میں قائم کیا ___ اُس نے زمانے کا تصور جس رنگ میں کیا ہم اُس کے پیش نظر اُس کا شمار برگساں کے پیش روئوں میں کریں گے۔‘‘۶؎ اقبال کے نزدیک ’’یہ نفسیاتِ مذہب ہے جس میں ہم تقریباً اسی مرحلے پر جاپہنچے ہیں۔ جس میں زمان و مکان کے مسئلہ پر کچھ ویسے ہی انداز میں بحث کی گئی تھی۔ جیسے عصر حاضر میں اور جس کے لیے ہمیں عراقی اور خواجہ محمد پارسا سے رجوع کرنا چاہیے۔‘‘۷؎ مزید جہاں تک فلسفۂ ارتقا کا تعلق ہے۔ جاحظ اور ابن مسکویہ کو اقبال اس کا بانی مانتے ہیں۔ کہتے ہیں: ’’یہ جاحظ تھا جس نے سب سے پہلے ان تبدیلیوں کی طرف اشارہ کیا۔ جو نقل مکانی سے جانوروں میں رونما ہو جاتی ہیں۔ اور جسے آگے چل کر بیرونی کے ہم عصر ابن مسکویہ نے ایک باقاعدہ اور مرتب نظر کو شکل دی۔‘‘۸؎ نیز اسلامی فکر، قدرتی سائنس اور تجربی طریقۂ کار کے بارے میں اقبال کہتے ہیں: ’’یہ کہنا کہ تجربی منہاج کی دریافت کا سہرا مغرب کے سر ہے۔ سر تا پا غلط ہے۔ ڈرونگ کا قول ہے کہ راجر بیکن کے تصورات سائنس اور اُس کے مشہور ہم نام کی نسبت کہیں زیادہ قطعی اور واضح ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ راجر بیکن نے علم و حکمت کا درس لیا تو کہاں؟ اس کا ایک ہی جواب ہے۔ اور وہ یہ کہ اندلس کی اسلامی درس گاہوںمیں۔‘‘۹؎ اقبال بری فولٹ کا حوالہ دیتے ہیں جو کہ اپنی کتاب Making of Humanity میں کھلم کھلا یوں اعتراف کرتا ہے: ’’پھر اگر ہم علومِ طبیعیہ میں عربوں کے مرہونِ منت ہیں تو اس لیے نہیں کہ انھوں نے بڑے بڑے انقلاب آفرین نظریوں کی بنیاد رکھی۔ بلکہ اس سے بھی بڑھ کر کسی اور چیز یعنی سائنس کی ہستی اور وجود کے لیے۔‘‘۱۰؎ (ب) اقبال کی اپنی تحریریں اقبال کی اپنی تحریریں (نظم و نثر) قرآنِ پاک، رسولِ اکرم ﷺ اور مرشد رومی کی تعلیمات اور حوالوں سے پُر ہیں۔ اقبال نے اپنے خیالات کی تائید میں اپنی تقریباً ہر کتاب میں قرآنِ پاک کی متعلقہ آیات اور حدیث اور مولانا روم کا حوالہ دیا ہے۔ قرآنِ پاک سے متعلق اقبال کہتے ہیں: صد جہانِ تازہ در آیاتِ اوست عصرہا پیچیدہ در آناتِ اوست چوں کہن گردد جہانے در برش می دہد قرآں جہانے دیگرش۱۱؎ یہی وجہ ہے کہ وہ اعتراف کرتے ہیں۔ ’’اگرچہ یورپ نے مجھے بدعت کا چسکا ڈال دیا ہے تاہم مسلک میرا وہی ہے جو قرآن کا ہے۔ اور جس کو آیت شریفہ کے حوالے سے بیان فرمایا ہے۔‘‘۱۲؎ رسولِ اکرم ﷺ کے بارے میں کہتے ہیں: در دلِ مسلم مقامِ مصطفیٰؐ است آبروئے ما زنامِ مصطفیٰؐ است۱۳؎ مرشد رومی کے فلسفہ کو خودی کی تعمیر کا وسیلہ سمجھتے ہیں۔ اور اس سے بے نیازی کو تخریب خودی کا سبب کہتے ہیں: گسستہ تار ہے تیری خودی کا ساز اب تک کہ تو ہے نغمۂ رومی سے بے نیاز اب تک!۱۴؎ اور فخریہ طور پر کہتے ہیں: بروے من درِ دل باز کردند ز خاکِ من جہانے ساز کردند ز فیض او گرفتم اعتبارے کہ بامن ماہ و انجم ساز کردند۱۵؎ علاوہ ازیں اقبال ممتاز صوفیہ کرام مثلاً بایزید بسطامی، جنید بغدادیؒ، داتا گنج بخشؒ، شمس تبریزؒ، بو علی قلندرؒ اور مجدد الف ثانی ؒ اور بڑے بڑے مسلم مفکرین مثلاً ابن خلدون، ابن عربی، سیّد جمال الدین افغانی، سیّد حلیم پاشا اور بیسیوں دوسرے صوفیہ کرام اور مسلم مفکرین کا تذکرہ کرتے ہیں اور اکثر کا اپنے خیالات کی تائید میں حوالہ دیتے ہیں۔ یہ بات بے معنی نہیں۔ چنانچہ اُن کا دعویٰ کس قدر وزنی معلوم ہوتا ہے جب کہ ڈاکٹر نکلسن کو لکھتے ہیں: ’’میں دعویٰ سے کہتا ہوں کہ اسرار کے فلسفہ نے پرانے مسلم صوفیوں اور مفکروں کے تجربے اور خیالات سے براہِ راست نشوونما حاصل کی ہے۔‘‘۱۶؎ ایک اور جگہ اس طرح واضح کرتے ہیں: نہ از ساقی نہ از پیمانہ گفتم حدیثِ عشق بیباکانہ گفتم شنیدم آنچہ از پاکانِ اُمت ترا با شوخیٔ رندانہ گفتم۱۷؎ یہ بات قابل توجہ ہے کہ اقبال کی فکر کے ایسے موضوعات بھی ہیں جو ان یورپین مفکرین کے یہاں نہیں ملتے۔ مثلاً مجذوب اور پیغمبر کے تجربے کا فرق، ہبوطِ آدم کا قصہ، وحی، معراج، دوزخ اور جنت، مذہبی زندگی کے مراحل، ایگو کی نشوونما کی انتہا یعنی مردِ کامل، خودی کے تعمیری اور تخریبی عناصر، فلسفۂ فقر، نظریۂ جہاد، ختم نبوت، اسلام کا معاشی نقطۂ نظر اور سیاسی نظریات وغیرہ وغیرہ۔ یہاں تو اس مفروضہ کی براہِ راست تردید ہوتی ہے جس کے مطابق فکر اقبال کے مآخذ یورپین فلسفہ میں تلاش کیے جاتے ہیں۔ (ج) مغربی مفکرین کی گواہی یہ کہ اقبال قرآنِ حکیم سے متاثر ہوئے اور اُن کے فلسفہ کی بنیاد اسلامی فکر پر ہے۔ اسے بعض مغربی مفکر بھی تسلیم کرتے ہیں۔ لوس کلو متیخ ایک جرمن سکالر اقبال کے اس خیال کا حوالہ دیتی ہیں’’میں نے دیکھنے کے لیے کسی سے آنکھیں نہیں مانگیں۔ صرف اپنی آنکھوں سے ہی کائنات کو دیکھا ہے۔‘‘ اور اس سے نتیجہ اخذ کرتے ہوئے کہتی ہیں ’’اقبال کا بیان معقول ہے اور بلاشبہ وہ ایک اوریجنل مفکر ہیں ___ انہوں نے مانگے ہوئے خیالات کو کبھی اپنی فکر میں نہیں سمویا۔‘‘ مزید کہتی ہیں ’’کس قدر ناممکن ہے کہ ایک مسلمان قرآن پاک سے متاثر نہ ہو؟ کہا جاسکتا ہے کہ اقبال کے فلسفے کا نکتۂ آغاز قرآن میں یا کم ازکم اس کے وسیع خاکے میں پایا جاتا ہے۔ (بہرحال) شاعر مسلسل اس کا حوالہ دیتا ہے۔ اُس نے اپنی تمام تحریروں میں کثرت سے ایسے نکات بکھیرے ہیں جو دلالت کرتے ہیں اس کی اس بے تابی پر کہ پیغمبر اسلام کے بتائے ہوئے راستے سے انحراف نہ ہو۔‘‘ آخر میں کہتی ہیں ’’اقبال یورپین فکر کے بہت کم رہین منت ہیں۔ وہ ان کے بہت نزدیک آئے مگر محض بعد میں اس سے پیچھے ہٹنے کے لیے ان سے زیادہ کس نے اس اُصول پر سختی سے عمل کیا ہے جس پر کہ انہوں نے خود اتنی شدت سے اصرار کیا۔‘‘ اس سلسلہ میں اقبال کے اس شعر کا حوالہ دیتی ہیں: تقلید سے ناکارہ نہ کر اپنی خودی کو کر اس کی حفاظت کہ یہ گوہر ہے یگانہ۱۸؎ انٹروڈکشن ٹو دی تھاٹ آف اقبال(صفحات ۲۷تا۳۵) اقبال پر تبصرہ کرتے ہوئے، ڈاکٹر ایس ایم مے کا کہنا ہے: ’’اپنے ان نظریات کے اظہار میں کہ انسان کیا ہے اور اُسے کیا کرنا چاہیے۔ اقبال نے اسلامی اُصولوں سے کنارہ کشی نہ کی۔ اگر وہ غیر ملکی کلچر اور مفکرین (فرانسیسی حریت پسند فکر برگساں کا نظریۂ وقت بحیثیت عمل، کانٹ کا نظریۂ اخلاقی انسان وغیرہ وغیرہ) سے متاثر ہوئے۔ تو انہوں نے ان سب کی ایک ایسی وحدت میں آمیزش بیان کی جو اُن کے نزدیک اسلامی فکر کا ایک لا ابدی حصہ تھی۔ اور قرآن پاک ہی ان کا بڑا مآخذ رہا۔‘‘۱۹؎ ڈاکٹر آر اے نکلسن کہتے ہیں: ’’اقبال کی روح لازماً مشرتی رہتی ہے۔ وہ گوئٹے، بائرن اور شیلے کو جانتا ہے۔ وہ Evolution Creatirice سے آشنا ہے جیسا کہ وہ قرآن پاک اور مثنوی مولانا روم سے۔‘‘۲۰؎ جان سی روم مندرجہ بالا سکالروں سے اتفاق کرتے ہوئے کہتا ہے: ’’یہ قابل غور ہے کہ قرآن پاک ان اُصولوں کے لیے کسوٹی ہے جو کہ زندگی پر فرماں روائی کرتے ہیں۔ اور بعض اوقات شاعر کے اس طریقہ سے حیرانگی ہوتی ہے جب کہ کچھ پیچیدہ فلسفیانہ مسائل کو واضح کرنے کے لیے قرآنی آیات سے حوالے دیتا ہے۔‘‘۲۱؎ مندرجہ بالا حقائق کی روشنی میں بلاشبہ یہ بات واضح ہے کہ اقبال کے فلسفہ کی بنیاد قرآن پاک، حدیث اور مسلم فلسفہ پر ہے نہ کہ یوروپین فکر پر جیسا کہ سطحی نقاد سمجھتے ہیں۔ …٭…٭… حوالہ جات ۱- علامہ محمد اقبال، کلیاتِ اقبال (فارسی)، ’’اسرار و رموز‘‘، شیخ غلام علی اینڈ سنز، لاہور، اشاعت پنجم، ۱۹۸۵ئ، ص۹۔ 2- Bertrand Russell, History of Western Philosophy, George Allen and Unwin Ltd, London, 1954, p. 395. ۳- نذیر نیازی، سیّد (مترجم)، تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ، بزمِ اقبال، لاہور، ۱۹۵۸ئ، ص۱۱۔ ۴- عطاء اللہ، شیخ، اقبال نامہ، حصہ دوم، شیخ محمد اشرف، لاہور، ۱۹۵۱ئ، ص۳۴۲۔ ۵- ایضاً۔ ۶- نذیر نیازی، سیّد (مترجم)، تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ، بزمِ اقبال، لاہور، ۱۹۵۸ئ، ص۲۱۶۔ ۷- ایضاً، ص۲۰۷۔ ۸- ایضاً، ص۲۰۶۔ ۹- ایضاً، ص۱۹۹۔ ۱۰- ایضاً، ص۲۰۰۔ ۱۱- علامہ محمد اقبال، کلیاتِ اقبال (فارسی)، ’’جاوید نامہ‘‘، شیخ غلام علی اینڈ سنز، لاہور، اشاعت پنجم، ۱۹۸۵ئ، ص۶۵۴۔ ۱۲- عطاء اللہ، شیخ، اقبال نامہ، حصہ اوّل، شیخ محمد اشرف، لاہور، ۱۹۵۱ئ، ص۱۳۰۔ ۱۳- علامہ محمد اقبال، کلیاتِ اقبال (فارسی)، ’’اسرار و رموز‘‘، شیخ غلام علی اینڈ سنز، لاہور، اشاعت پنجم، ۱۹۸۵ئ، ص۲۰۔ ۱۴- علامہ محمد اقبال، کلیاتِ اقبال (اُردو)، ’’ضربِ کلیم‘‘، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور، ۲۰۰۹ئ، ص۶۳۳۔ ۱۵- علامہ محمد اقبال، کلیاتِ اقبال (فارسی)، ’’ارمغانِ حجاز‘‘، شیخ غلام علی اینڈ سنز، لاہور، اشاعت پنجم، ۱۹۸۵ئ، ص۹۵۹۔ 16- A. Anwar Beg, The Poet of the East, "Letter to Dr. Nicholson" Iqbal Academy Pakistan, Lahore, 2004, pp. 313-319. ۱۷- علامہ محمد اقبال، کلیاتِ اقبال (فارسی)، ’’ارمغانِ حجاز‘‘، شیخ غلام علی اینڈ سنز، لاہور، اشاعت پنجم، ۱۹۸۵ئ، ص۹۸۶۔ ۱۸- علامہ محمد اقبال، کلیاتِ اقبال (اُردو)، ’’ضربِ کلیم‘‘، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور، ۲۰۰۹ئ، ص۶۷۹۔ ۱۹- سہ ماہی اقبال، آرٹیکل ’’اقبال ___ فلسفی‘‘، جنوری ۱۹۵۸ئ۔ 20- A. Anwar Beg, The Poet of the East, Iqbal Academy Pakistan, Lahore, 2004, "Foreword by Dr. Nicholson", pp. 11-12. 21- Ibid., pp. 13-19. اقبال کا فلسفۂ خود اختیاری ترے دریا میں طوفاں کیوں نہیں ہے خودی تیری مسلمان کیوں نہیں ہے عبث ہے شکوۂ تقدیر یزداں تو خود تقدیر یزداں کیوں نہیں ہے۱؎ اس رُباعی سے اقبال کا نقطۂ نظر واضح ہے۔ اقبال نے نہایت خوبصورت انداز سے کوزے میں دریا بند کردیا ہے۔ اقبال اس بات کے قائل نہیں کہ خودی پہلے سے مشروط (Preconditioned) ہے۔ اقبال کے اس نظریہ کو واضح کرنے کے لیے ضمناً عرض کرتا چلوں کہ ’’پیشگی مشروط‘‘ ہونے کی تین قسمیں ہیں: ۱- جبریت (Determinism) ۲- تقدیر پرستی (Fatalism) ۳- پیشگی مقررہ واقعات (Predestination) ۱- جبریت(Determinism) ’’یہ بحیثیت ایک سائنسی مفروضہ ایک ایسے عقیدے کا نام ہے جس کے مطابق نیچر کی دنیا جس میں انسان بھی شامل ہے، علت و معلول کی ایک مسلسل زنجیر ہے۔ یہاں تک کہ انسانی کردار نیچرل لا (Natural Law) پر منحصر ہے۔ اور یہ قبل آنے والے (Actecendent) واقعات سے مشروط ہے۔ کسی چیز کو چننے یا پسند کرنے (Freedom of Choice) کا فعل متعین ہے۔ یا تو بیرونی دبائو سے اور یا خواہشات اور رجحانات سے جو کہ انسان کے کردار سے تعلق رکھتی ہیں۔‘‘۲؎ فلسفی میں سپائنوزا اور نفسیات میں فرائیڈ اس نظریہ کے علمبردار ہیں۔ ۲- تقدیر پرستی (Fatalism) ’’یہ وہ نظریہ ہے جس کے اعتبار سے انسان کی زندگی میں کچھ واقعات ایسے ہیں۔ جن کے ظہور پذیر ہونے میں انسان کی اپنی خواہشات اور افعال کا دخل نہیں ہوتا۔ یہاں تک کہ مستقبل اس کے کنٹرول میں نہیں رہتا۔ اس کے مطابق ایک ناگزیر واقعہ رونماہوتا ہے۔ ایک خاص وقت پر جو ہونا ہے ہو کر رہے گا۔‘‘۳؎ اردو شاعری میں اس کی مثال ایسی ہوگی: تقدیر کا شکوہ کیا کیجیے تقدیر پرانی آفت ہے حالات سے جھگڑا کیا کیجیے حالات کی نیت ٹھیک نہیں ہیرلڈ ٹائٹس بجاطور پر کہتا ہے: ’’تقدیر پرستی کی اصل اور بنیاد انسانی کمزوری اور بے یار و مددگاری ہے جو کہ انسان خاص واقعات مثلاً موت وغیرہ میں پاتا ہے۔ تقدیر پرستی ان علاقوں میں غالب ہے جہاں سائنسی اور مجلسی کنٹرول کے ترقی یافتہ وسائل نہیں ہوتے۔ یہ ایک سہل عذر ہے اُن لوگوں کے لیے جو ان حالات میں اپنی ذمہ داری دوسروں پر ڈالنا اور بیرونی طاقتوں کو موردِ الزام ٹھہرانا چاہتے ہیں۔‘‘۴؎ یونانی اور رومی خیالات تقدیر پرستی کی نمایاں مثال ہیں۔ ۳- پیشگی مقررہ حالات (Predestination) اس نظریہ کے مطابق ہماری زندگی کے واقعات بشمول ہماری دائمی قسمت کے خدا نے اپنی مشیت سے معین کر رکھے ہیں۔ اس نظریہ نے کم از کم اپنی انتہائی شکل میں ہمیشہ احتجاج اور مخالفت پر اُبھارا ہے۔ کیونکہ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ خدا ہر اچھائی اور برائی کے لیے ذمہ دار ہے۔ اگستائین اور جان کال وِن اس نظریہ کے قابل ذکر ماننے والے ہیں۔ اقبال کا پہلے سے مشروط (Preconditioned) سے متعلق مؤقف بہرحال اقبال ان میں سے کسی کو بھی تسلیم نہیں کرتے۔ آزادیٔ خودی سے متعلق کہتے ہیں: ز جبرِ او حدیثے درمیاں نیست کہ جاں بے فطرتِ آزاد جاں نیست۵؎ ترجمہ: روح کے ضمن میں جبر کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ کیونکہ روح بغیر آزادی کے روح نہیں۔ اقبال اپنے لیکچرز میں کہتے ہیں: ’’دراصل خیر میں جبر کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ خیر کا مطلب ہے انسان کا برضا و رغبت کسی اخلاقی نصب العین کی پیروی کرنا۔ وہ ہستی جس کے اعمال و افعال کل (مشین) کی طرح متعین ہیں۔ خیر کی اہل کیسے ہوسکتی ہے؟ آزادی خیر کی شرطِ اوّلین ہے۔‘‘۶؎ اقبال کے نزدیک خودی آزاد ہے۔ اگر خودی مجبور ہو تو یہ پختہ نہ ہوسکے گی۔ مردِ کامل بننا یا دوسرے الفاظ میں صفاتِ الٰہیہ کو اپنے اندر پیدا کرنا ناممکن ہوگا۔ اقبال کہتے ہیں انسان خدا کی شبیہ پر بنایا گیا ہے۔ اس نے تخلیق بھی کرنی ہے۔ برائیوں کے سامنے قہر ذوالجلال بھی بننا ہے اور ضعیف کے لیے رسول کا جمال بھی ہونا ہے۔ اس لیے جدوجہد ہوگی۔ اگر خودی مشروط ہوگی تو یہ سب کچھ کیسے ہوسکتا ہے۔ اقبال کا یہ نظریۂ عیسائیت کے مذہبی نظریہ کے برعکس ہے۔ مثلاً اگسٹائین (Augustine) کے مطابق ’’گنہ گار انسان اس قابل نہیں کہ اپنی کوشش سے کوئی اچھائی کرسکے۔ حضرت آدم کے گنہ اور حوا حبوط نے انسان کی فطرت کو اس قدر آلودہ کر دیا ہے کہ ہر انسان گنہ کی حالت میں پیدا ہوتا ہے اور بُرا ہے۔‘‘۷؎ اقبال کا نظریہ پروٹسٹنٹ فرقہ کے بانی مارٹن لوتھر کے نظریہ سے بھی متصادم ہے۔ البری کاسل (Albury Castle) کے نزدیک لوتھر انسان کی آزادی ارادہ یا مشیت کا انکار کرتا ہے خدا کی فرمان روائی اور قادر المطلقی کے احترام میں۔‘‘۸؎ اقبال اس نظریہ میں قطعی طور پر قرآنِ کریم سے متاثر ہیں۔ اپنے لیکچرز میں کہتے ہیں: ’’اسلام کو تو نفسیاتِ انسانی کی اس زبردست حقیقت کا بھی اعتراف ہے کہ ہماری یہ قدرت کہ آزادی و اختیار سے جیسے چاہیں عمل کریں۔ ہمیشہ یکساں نہیں رہتی۔ وہ کبھی بڑھتی رہتی اور کبھی گھٹ جاتی ہے۔ لہٰذا اسلام چاہتا ہے کہ آزادی و اختیار کی یہ قدرت خودی کی زندگی کا ایک مستقل عنصر بن جائے۔ اوقاتِ صلوٰۃ کا تعین بھی جو قرآنِ مجید کے نزدیک خود کو زندگی اور اختیار کے حقیقی سر چشمے سے قریب تر لاکر اسے ’اپنی ذات پر قابو‘ حاصل کرنے کا موقع دیتی ہے اسی مقصد کے پیش نظر کی گئی تاکہ ہم نیند اور کسب معاش کے میکانیت آفرین اثرات سے محفوظ رہیں۔ گویا صلوٰۃ سے اسلام کی ایک غرض یہ بھی ہے کہ خودی میکانیت سے بچے اور اس کی بجائے آزادی و اختیار حاصل کرے۔‘‘۹؎ خودی میں لاجبریت خودی میں لاجبریت (Indeterminism) بھی نہیں۔ اقبال آزادیٔ خودی پر پختہ یقین رکھنے کے باوجود لاجبریت کے بھی قائل نہیں۔ لاجبریت جو کہ اپنی انتہائی شکل میں انسان کے ہر طرح سے آزادی ہونے کا دعویٰ کرتی ہے۔ اس کے نزدیک خودی قطعاً آزاد ہے۔ قانونِ علت و معلول اور موروثیت اس کی راہ میں رکاوٹ نہیں بن سکتے۔ اقبال کی پوزیشن خودی اختیاری (Self-determinism) پس اقبال کی پوزیشن نہ تو مکمل طور پر جبریت کے حق میں ہے اور نہ لاجبریت کے حق میں۔ اقبال کی پوزیشن خود اختیاری کی ہے۔ جس کے مطابق ’’انسان خود آگاہ ہستی کی حیثیت سے ذاتی اقدام اور ردِعمل کی قابلیت رکھتا ہے اور وہ مرکز تخلیق ہے۔ وہ حدود کے اندر رہ کر جوابی عمل کرنے کے قابل ہے۔ اپنے ساتھیوں کے کردار پر اثر انداز ہونے اور بیرونی دنیا کے عمل کو نئی سمت دینے کے لائق۔‘‘۱۰؎ اقبال کے نزدیک خودی کی آزادی بذاتِ خود ایک علت غائی یا نتیجہ نہیں۔ اس کا مقصد اپنی نشوونما اور قسمت بنانے کے لیے قسم قسم کے راستوں میں سے کسی راستے کا انتخاب کرنا ہے۔ برگساں کا یہ اعتراض کہ اگر منزل کا تعین ہو جائے تو مقصدیت میں جبریت کا پہلو نکلتا ہے۔ اقبال فرماتے ہیں کہ مقصدیت میں اگر دور کی منزل کا تعین ہو تو لازماً ایسا ہی ہوتا ہے۔ مگر مقصدیت یہ بھی ہے کہ ہم ہر وقت اپنی منزل کو پہنچنے کے لیے نئے نئے پروگرام بناتے ہیں۔ اقبال کے نزدیک ’’ہم اپنی وارداتِ شعور کی بناء پر دیکھ آئے ہیں کہ زندگی عبادت ہے۔ اغراض و مقاصد کی تشکیل، ان کی پے در پے تبدیلی اور کارفرمائی سے۔ لہٰذا ہم اپنی حیاتِ ذہنی کو غائی قرار دیتے ہیں تو ان معنوں میں کہ اگرچہ ہم کسی دور کی منزل کا عزم نہیں۔ لیکن جوں جوں زندگی کا عمل بڑھتا اور پھیلتا ہے۔ اسی اعتبار سے نئے نئے مقاصد وضع ہوتے ہیں۔ اور قدروں کا کوئی عینی معیار ہمارے سامنے آتا رہتا ہے۔‘‘۱۱؎ ’’ابلیس و یزداں‘‘ کے عنوان کے تحت اقبال ایک دلچسپ مکالمہ لکھتے ہیں۔ ابلیس کہتا ہے کہ اے خدا آدم کو سجدہ نہ کرنا تیری مشیت میں ہی نہ تھا۔ اس میں میرا قصور نہیں۔ خدا فرشتوں سے مخاطب ہوکر کہتا ہے: پستیِ فطرت نے سکھلائی ہے یہ حجت اسے کہتا ہے ’’تیری مشیت میں نہ تھا میرا سجود‘‘ دے رہا ہے اپنی آزادی کو مجبوری کا نام ظالم اپنے شعلۂ سوزاں کو خود کہتا ہے دُود!۱۲؎ اس ضمن میں اقبال آدم کے ممنوع پھل کھانے کا حوالہ دیتے ہیں۔ انسان کی ’’پہلی نافرمانی وہ پہلا اختیاری عمل تھا جو اس نے اپنے ارادے اور اپنی مرضی سے کیا اور یہی وجہ ہے کہ ارشادِ قرآنی کے مطابق آدم کا یہ گنہ معاف کر دیا گیا۔‘‘۱۳؎ اقبال کی پوزیشن (Indeterminist thorough going) کی اس لیے نہیں کہ اقبال انسان کو ہر لحاظ سے آزاد نہیں سمجھتے۔ کہتے ہیں: چہ گوئم از چگون و بے چگونش بروں مجبور و مختار اندرونش چنیں فرمودۂ سلطانِ بدر است کہ ایماں درمیانِ جبر و قدر است۱۴؎ ترجمہ: میں اس کی خصوصیت سے متعلق کیا کہوں یہ باہر سے متعین ہے اور اندر سے آزاد۔ رسولِ اکرمؐ نے اس طرح فرمایا ہے ایمان، جبر اور قدر کے درمیان ہے۔ یہ حدیث ان جغرافیائی حقائق کا حوالہ دیتی ہے جو کہ انسانی زندگی کے کچھ پہلوئوں کی حد بندی کرتی ہے۔ اسے واضح طور پر سمجھنے کے لیے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا وہ بیان کس قدر مدلل اور خوبصورت ہے جب کسی نے پوچھا کہ انسان کس قدر آزاد اور مجبور ہے تو آپ نے اسے ایک ٹانگ اُٹھانے کو کہا۔ اس شخص نے ایسا ہی کیا۔ تو حضرت علیؓ نے کہا کہ یہ آزادی ہے۔ پھر کہا کہ دوسری ٹانگ اُٹھائو تو اس شخص نے جواب دیا کہ مجبور ہوں گر جائوں گا۔ حضرت علی نے کہا یہ جبریت ہے۔ قسمت کا مطلب اقبال کے نزدیک قسمت یا تقدیر کا مطلب کسی واقعہ کا پیشتر ہی کسی انسان کے حق میں یا بخلاف ہونا نہیں جو کہ وقت کے بطن سے خود بخود ظاہر ہو۔ اور نہ ہی اس کا مطلب ہے کہ انسان کو اس پر اختیار نہیں۔ تقدیر کا مطلب کسی چیز کی اس کی فطرت کے مطابق ممکن نشوونما ہے۔ یہ قانونِ علت و معلول اور منطقی سمجھ کی پابند نہیں۔ یہ ’’وقت ہے جسے محسوس کیا جاتا ہے۔ سوچا اور شمار نہیں کیا جاسکتا یہ کوئی بیرونی طاقت نہیں جو کہ باہر سے اثر انداز ہوتی ہے یہ کسی چیز میں کھلے امکان (open possibility) کے طور پر موجود رہتا ہے۔‘‘۱۵؎ قرآنِ پاک کے اس ارشاد کا حوالہ دیتے ہیں کہ ’’ہم ہی نے ہر شے پیدا کی اور ہم ہی نے اس کا اندازہ مقرر کیا۔‘‘ لیکن کسی شے کی تقدیر قسمت کا وہ بے رحم ہاتھ نہیں جو ایک سخت گیر آقا کی طرح خارج سے کام کر رہا ہو بلکہ یہ ہر شے کی حد وسع ہے۔ یعنی اس کے وہ امکانات جن کا حصول ممکن ہے اور جو اس کے اعماق وجود میں مضمر اور بغیر کسی خارجی دبائو کے علی التواتر قوت سے فعل میں آجاتے ہیں۔ لہٰذا جب استدام (duration)کو ایک وحدتِ نامیہ (Organic Wholeness) ٹھہرایا جائے تو اس سے یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ جتنے بھی حوادث ہیں۔ پہلے ہی سے ڈھلے ڈھلائے حقیقت مطلقہ کے بطن میں کہیں پڑے ہیں اور اب ایک ایک کرکے اس طرح باہر آرہے ہیں۔ …٭…٭… حوالہ جات ۱- علامہ محمد اقبال، کلیاتِ اقبال (اُردو)، ’’ارمغانِ حجاز‘‘، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور، ۲۰۰۹ئ، ص۷۳۴۔ ۲- ترجمہ ہارلڈ ایچ ٹائٹس، ایتھکس فار ٹو ڈے، ص۸۷۔ ۳- ایضاً۔ ۴- ایضاً۔ ۵- علامہ محمد اقبال، کلیاتِ اقبال (فارسی)، ’’زبورِ عجم‘‘، شیخ غلام علی اینڈ سنز، لاہور، اشاعت پنجم، ۱۹۸۵ئ، ص۵۵۶۔ ۶- نذیر نیازی، سیّد (مترجم)، تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ، بزمِ اقبال، لاہور، ۱۹۵۸ئ، ص۸۵۔ ۷- ہیرلڈ ایچ ٹائٹس، ایتھکس فار ٹو ڈے، ص۷۰۔ ۸- دی سیلف ان فلاسفی، ص۶۵۔ ۹- نذیر نیازی، سیّد (مترجم)، تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ، بزمِ اقبال، لاہور، ۱۹۵۸ئ، ص۱۰۹۔ ۱۰- ہیرلڈ ایچ ٹائٹس، لونگ اشوز از فلاسفی، ص۱۹۴۔ ۱۱- نذیر نیازی، سیّد (مترجم)، تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ، بزمِ اقبال، لاہور، ۱۹۵۸ئ، ص۵۴۔ ۱۲- علامہ محمد اقبال، کلیاتِ اقبال (اُردو)، ’’ضربِ کلیم‘‘، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور، ۲۰۰۹ئ، ص۵۶۰۔ ۱۳- نذیر نیازی، سیّد (مترجم)، تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ، بزمِ اقبال، لاہور، ۱۹۵۸ئ، ص۸۵۔ ۱۴- علامہ محمد اقبال، کلیاتِ اقبال (فارسی)، ’’زبورِ عجم‘‘، شیخ غلام علی اینڈ سنز، لاہور، اشاعت پنجم، ۱۹۸۵ئ، ص۵۵۶۔ ۱۵- نذیر نیازی، سیّد (مترجم)، تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ، بزمِ اقبال، لاہور، ۱۹۵۸ئ، ص۶۹۔ فلسفۂ اقبال اورمانٹسوری طریقۂ تعلیم فلاسفر مقصد یا منزل کا تعین کرتا ہے اور ماہر تعلیم نفسیات اور عملی تجربہ کی مدد سے اس منزل تک پہنچنے کے لیے تعلیمی طریقے ایجاد کرتا ہے۔ ان طریقوں کی بچوں کی تعلیم کے میدان میں زیادہ ضرورت ہے کیونکہ اسی پر ہی سیکنڈری اور ہائر ایجوکیشن کی بنیاد رکھی جاتی ہے۔ چائلڈ ایجوکیشن سے میری مراد بارہ سال تک کے بچے کی تعلیم ہے۔ اس سلسلہ میں ہم بہت خوش قسمت ہیں کہ علامہ اقبال کی صورت میں ہمیں ایک بہت بڑے فلاسفر ملے ہیں۔ نہ صرف یہ کہ ان کا فلسفہ انسانی خودی اور اس کی نشوونما کا فلسفہ ہے بلکہ یہ جملہ انسانی شخصیت کا فلسفہ ہے یا دوسرے الفاظ میں ان کا فلسفہ وہ فلسفہ ہے جو انسانی شخصیت کی کلیت پر محیط ہے۔ جس کا مغرب کے فلاسفر اور ماہرین نفسیات میں فقدان ہے۔ ان کا پیغام آفاقی ہے یوں تو کوئی قوم بھی آپ کے پیغام پر عمل پیراہوکر ترقی کی منزلیں طے کرسکتی ہے۔ لیکن بالخصوص اسلامی دنیا میں اس پیغام کی خاص اہمیت ہے۔ لیکن بدقسمتی سے ہم نے چائلڈ ایجوکیشن میں کوئی طریقۂ تعلیم ایجاد کرنا تو درکنار کسی مروجہ طریقہ کا ہی انتخاب نہیں کیا۔ جسے اپنا کر بچوں کی تعلیم اور شخصیت کو اقبال کے فلسفہ کے مطابق صحیح بنیادوں پر استوار کرسکتے۔ جہاں تک میرا خیال ہے مانٹسوری طریقۂ تعلیم اگر صحیح معنوں میں اپنایا جائے تو بچے کی شخصیت میں اکثر و بیشتر وہ خصوصیات پیدا ہوسکیں گی جو کہ اقبال کے نزدیک بجاطور پر ارفع و اعلیٰ ہیں۔ یا دوسرے الفاظ میں اگر اقبال کے خیالات کو چائلڈ ایجوکیشن کے میدان میں عملی جامہ پہنانا ہو تو مانٹسوری طریقۂ تعلیم اپنانا چاہیے۔ مادام مانٹسوری (۱۹۵۶ئ- ۱۸۶۹ئ) اس طریقۂ تعلیم کی موجد ہیں۔ آپ اٹلی کی سب سے پہلی خاتون ہیں جنہوں نے میڈیکل کالج میں داخلہ لیا۔ آپ نے ڈاکٹر کی پریکٹس بھی کی۔ لیکن بعد میں بچوں کی تعلیم میں اس قدر دلچسپی لی کہ تمام زندگی اس کے لیے وقف کر دی۔ یورپ کے مختلف طبقوں کے بچوں کا مطالعہ کیا۔ اس سلسلہ میں دارالامان بھی گئیں۔ اعلیٰ سوسائٹی کے بچوں کا بھی مطالعہ کیا۔ علاوہ ازیں دنیا کے بے شمار ممالک کا دورہ کیا۔ ہندوستان اور پاکستان بھی آئیں۔ بچوں کی تعلیم کے تمام مروجہ طریقوں پر تحقیق کی۔ اور آخرکار مانٹسوری طریقۂ تعلیم ایجاد کیا جسے تقریباً ہر ملک احترام کی نظر سے دیکھتا ہے۔ مادام مانٹسوری نے بچوں کی شخصیت کی نشوونما کے لیے بہت کام کیا۔ انہوں نے بچوں کی تعلیم کے طریقے سائنسی بنیادوں پر استوار کیے۔ ڈاکٹر مانٹسوری علامہ اقبال کی ہم عصر تھیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ دونوں کے ملک، تہذیب، ثقافت، مجلسی زندگی اور سیاسی ماحول بلکہ مذہب تک مختلف تھے۔ لیکن ان کی دریافتیں بے حد مطابقت رکھتی ہیں۔ ڈاکٹر مانٹسوری اپنے طور پر چائلڈ ایجوکیشن کے میدان میں ان نتائج پر پہنچیں جو کہ اقبال کے فلسفۂ تعلیمکے بہت قریب ہیں۔ غالباً اس لیے کہ اس کی تعلیم کے میدان میں ضرورت تھی۔ مجھے اقبال کی اس بات میں بہت سچائی نظر آتی ہے کہ قدرت وقت کی ضرورت کو وجدانی طور پر ادراک کرتی ہے۔ قابل غور بات ہے کہ کس طرح فکر بلا واسطہ اپنے طور پر اس مقام تک پہنچتی ہے جسے سوچنے والے ایک دوسرے سے کبھی نہیں ملتے۔ نہ تبادلۂ خیالات کرتے ہیں مگر اُن کی سوچ ایک دوسرے کے بہت قریب ہوتی ہے۔ اس مضمون میں پہلے اقبال کے فلسفہ کے ہر اہم پہلو کا مختصر طور پر بیان ہوگا پھر اس کے تعلیمی پہلو کی وضاحت کی جائے گی۔ بعد ازاں ہم دیکھیں گے کہ کس طرح فلسفۂ اقبال کومانٹسوری طریقۂ تعلیم کے ذریعے تعلیمی میدان میں عملی جامہ پہنایا جاسکتا ہے۔ ۱- خودی اور اس کی نشوونما اقبال کے نزدیک خودی کا مطلب شخصیت ہے۔ انگریزی میں اسے سیلف یا ایگو کہتے ہیں۔ خودی ایک حقیقت ہے۔ یہ بے معنی نہیں جیسا کہ ہیوم اور کرداری (Behaviorist) مکاتب فکر کے مطابق سمجھا جاتا ہے۔ اور نہ ہی فریب نظر ہے جیسا کہ بدھ ازم میں مدھیا میکا (Madhiyamika) کے نزدیک اسے تصور کیا جاتا ہے۔ اقبال کے نزدیک یہ نہ صرف ایک حقیقت ہے بلکہ خودی انفرادیت اور یکتا مقام رکھتی ہے۔۱؎ اقبال کے فلسفہ میں شخصیت یا خودی ایک ودیعت شدہ شے ہی نہیں جو انسان کو بنی بنائی ملی ہو بلکہ اسے خود انسان نے حاصل کرنا ہے۔ شخصیت پیدا کرنا آسان کام نہیں۔ انسان کو اپنا مقصود حاصل کرنے کے لیے طرح طرح کی طاغوتی طاقتوں اور ناقابل برداشت مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ناسازگار ماحول سے مسلسل جنگ کرنا پڑتی ہے۔ ’’خودی کی زندگی کی ایک حالت ہے۔ جس کو اس نے اپنے ماحول پر اثر آفرینی یا اس سے اثر پذیری کی خاطر پیدا کر رکھا ہے۔‘‘۲؎ لیکن اس کے برعکس ’’اگر وہ (انسان) پہل نہیں کرتا اپنی ذات کی وسعتوں اور گوناگوں صلاحیتوں کو ترقی نہیں دیتا زندگی کی بڑھتی ہوئی رو کا تقاضا اپنے اندرونِ ذات میں محسوس نہیں کرتا تو اس کی رُوح پتھر کی طرح سخت ہو جاتی ہے۔ اور وہ گر کر بے جان مادے کی سطح پر جاپہنچا ہے۔‘‘۳؎ یہی وجہ ہے کہ اقبال کے نزدیک وہ تصوف جو انسان کی خودی اور اس کی ہستی کی اہمیت کا قائل نہیں اور ترکِ دنیا کا سبق دیتا ہے انسانی ترقی کے لیے زہر ہلاہل ہے اور زندہ قوموں کے لیے افیون سے کم نہیں۔ خودی کی نشوونما اور تکمیل اقبال کے فلسفہ کا ایک اہم ستون ہے۔ کہتے ہیں: اُس قوم کو شمشیر کی حاجت نہیں رہتی ہو جس کے جوانوں کی خودی صورتِ فولاد۴؎ اس سلسلہ میں انسان کی پوشیدہ صلاحیتوں کو بیدار کرنا ہے۔ خوبصورت انداز میں کہتے ہیں: سحر در شاخسارِ بوستانے چہ خوش می گفت مرغِ نغمہ خوانے بر آور ہرچہ اندر سینہ داری سرودے ، نالۂ ، آہے ، فغانے۵؎ تعلیمی پہلو اس فلسفہ کا تعلیمی پہلو یہ ہے کہ بچے میں اس کی شخصیت کا شعور پیدا کیا جائے۔ اس کی خفیہ یا پوشیدہ قوتوں کو بیدار کرنے میں مدد دی جائے اور اپنے تمام وسائل اس کی شخصیت کی اعلیٰ سطح پر نشوونما کرنے میں صرف کیے جائیں۔ مانٹسوری طریقۂ تعلیم ڈاکٹر مانٹسوری کے مطابق ’’بچہ دوسرے انسانوں کی طرح خود اپنی ایک شخصیت رکھتا ہے۔‘‘۶؎ اس کی شخصیت موروثی نہیں۔ بلکہ اس کی نشوونما ہوتی ہے چنانچہ مانٹسوری طریقۂ تعلیم میں بچے کو روایتی طریقہ سے پڑھایا نہیں جاتا۔ جس میں وہ غیر فعال ہوتا ہے۔ اور ٹیچر اسے بنا بنایا سبق رٹنے کو دیتی ہے۔ اور نتیجتاً بچہ اپنی اہمیت کو نہیں جان سکتا۔ مانٹسوری طریقۂ تعلیم سے بچہ آٹو ایجوکیشن (اپنے طور پر تعلیم حاصل کرنے) کے فارمولے سے خود سیکھتا ہے۔ اس سلسلہ میں ڈاکٹر مانٹسوری نے خاص اپریٹس ایجاد کیے ہیں۔ ٹیچر صرف وضاحت اور رہنمائی کرتی ہے اور بچے کو اپنے آپ پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ وہ خود ہی مشکلات پر قابو پاتا ہے تاکہ اس میں اپنی شخصیت کی اہمیت کا شعور اور اپنے آپ کام کرنے کا جذبہ پیدا ہو اور وہ اپنی تمام صلاحیتوں کی مکمل طور پر نشوونما کرسکے۔۷؎ ۲- تخلیقی ارتقاء چنانچہ تعلیم اس طرح سے ہو کہ بچوں میں تحقیق اور تخلیق کرنے کی قوتیں اور اُمنگیں پیدا ہوں تاکہ بڑے ہوکر سائنس اور آرٹ کے شعبوں میں تحقیق اور تخلیق میں قابل قدر کام کرسکیں۔ مانٹسوری طریقۂ تعلیم ڈاکٹر مانٹسوری کے نزدیک انسان کی ’’نشوونما کبھی ختم نہیں ہوتی۔ بلکہ ہمیشہ جاری رہتی ہے۔‘‘۸؎ اُس کے نزدیک ’’انسان ہمیشہ نئی چیزیں بناتا اور نئی ایجادات کرتا رہتا ہے۔ بچہ ان ایجادات کا وسیلہ ہے اور ہمیں اس کی ضروری اعانت کرنی چاہیے۔‘‘۹؎ مانٹسوری کے مطابق ’’چھوٹے بچے کا رجحانِ طبعی تخلیقی ہوتا ہے۔‘‘۱۰؎ اور اس کا ’’کام سرگرمی سے بھرپور۔ وہ مسلسل تجربات سے تخلیق کرتا ہے۔‘‘۱۱؎ اس مذکورہ ماحول میں جو کہ ’’بچوں کے گھر‘‘ میں پیدا کیا جاتا ہے۔ آرٹ سائنس اور نیچر کا مختلف سامان اور چیزیں مہیا کی جاتی ہیں۔ ڈائریکٹریس کی رہنمائی میں بچہ علم حاصل کرتا ہے وہ ماحول کی خود توضیع کرکے اپنے طور پر دنیا کو دریافت کرتا ہے اور ہمیشہ نئی چیزیں جاننے کے لیے بے تاب رہتا ہے۔ یہ کام بالغ زندگی میں بھی جاری رہتا ہے۔ ۳- آزادی اقبال کے نزدیک خودی بغیر آزادی کے نشوونما نہیں پاسکتی اور نہ ہی انسان کوئی تخلیقی کام کرسکتا ہے۔ باوجود محدود ہونے کے انسان مختار ہے اور اپنے نیک و بد کا ذمہ دار ہے۔ مقصدیت کی تکمیل کے لیے اسے کافی حد تک آزادی حاصل ہے۔ برگساں کے نزدیک مقصدیت انسان کو متعین (پہلے سے طے شدہ) بنا دیتی ہے۔ اقبال کے یہاں یہ مکمل سچائی نہیں۔ کہتے ہیں کہ مقصدیت کا مطلب یہ بھی ہے کہ ہم اپنے مقاصد ہمیشہ کے لیے متعین نہیں کرتے بلکہ مختلف حالات میں خود ہی ان کو تبدیل کرتے رہتے ہیں۔ گویا انسان اپنی منزلِ مقصود کا تعین کرنے اور جدوجہد کرنے کے لیے آزاد ہے۔ اقبال نے اپنے خطبات میں نہایت عمدہ دلیل دی ہے۔ کہتے ہیں کہ خدا نے حضرت آدم علیہ السلام کو مکمل طور پر آزادیٔ ارادہ دے رکھی تھی ورنہ انھیں کیوں کہا جاتا کہ دانۂ گندم کی طرف نہ جائیں۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ انسان کو اپنے عمل پر پورا پورا اختیار ہے۔۱۲؎ اقبال واضح طور پر کہتے ہیں کہ آزادی کی فضا میں ہی انسان کی مضمر قوتیں بارآور ہوتی ہیں: بندگی میں گھٹ کے رہ جاتی ہے اک جوئے کم آب اور آزادی میں بحر بے کراں ہے زندگی۱۳؎ تعلیمی پہلو چنانچہ ٹیچر کو مکمل طور پر مدنظر رکھنا چاہیے کہ بچے میں خود اعتمادی اور آگے بڑھنے کا جذبہ پیدا ہو نہ کہ وہ جھوٹی تقدیر کا قائل ہوجائے اور لازمی ہے کہ جب یہ سمجھ لیا جائے کہ میں مجبور ہوں اور لاچار ہوں تو جدوجہد رُک جائے گی اور اگر جدوجہد رُک گئی تو شخصیت نشوونما نہیں پاسکتی اور جب خودی نہیں تو کچھ بھی نہیں۔ گلا تو گھونٹ دیا اہلِ مدرسہ نے ترا کہاں سے آئے صدائے ’لا الٰہ الا اللہ‘۱۴؎ مانٹسوری طریقۂ تعلیم ڈاکٹر مانٹسوری کے نزدیک ’’آزادانہ انتخاب کا اُصول ہی بچوںکی ذہنی ضروریات اور ان کے رجحانات کا مشاہدہ ممکن بناتاہے۔۱۵؎ اور یہ کہ بہت سی بیماریاں اور مردہ کیفیتیں بہت سے اخلاقی نقائص کی طرح ختم ہوجاتی ہیں جب کہ بچوں کی آزادانہ ماحول میں رکھا جاتا ہے اور اجازت دی جاتی ہے کہ وہ نارمل سرگرمیوں میں حصہ لے سکیں۔۱۶؎ اس آزادی کی روح مانٹسوری کے تمام طریقوں میں جاری و ساری ہے وہ اپنے سکول میں ایک آزادانہ ماحول مہیا کرتی ہیں۔ جو کہ بچوں کی جسمانی اور نفسیاتی ضرورتوں کے لیے مناسب ہے۔ بچے اس ماحول میں اپنی خصوصی ترجیحات رکھتے ہیں۔ اپنے کام خود چنتے ہیں اور آزادانہ طور پر ضرورت کے مطابق خوبصورت الماریوں سے اپریٹس لیتے ہیں۔ یہاں ٹیچرز رہنمائی کرنے والی ہیں نہ کہ حاکم۔ مانٹسوری طریقۂ تعلیم میں بچوں کے سکول کو ’’بچوں کا گھر‘‘ کہا جاتا ہے۔یہاں ان کی عمر اور ضروریات کے مطابق چیزیں رکھی جاتی ہیں اور ان کے مطابق ماحول پیدا کیا جاتا ہے یہاں کلاس ٹائم ٹیبل کی پابندی نہیں ہوتی۔ وہ اپنی مرضی سے جب چاہیں اور جس اپریٹس پر چاہیں کام کرتے ہیں اور جب چاہیں کھیلتے ہیں کوئی انھیں ہر بات پر منع کرنے والا نہیں ہوتا اور نہ ہی کوئی انھیں ڈانٹا ہے ان کے اپریٹس آٹو ایجوکیشن، عملی مشقیں اور مشفق ڈائریکٹریس ان کو منہمک رکھتے ہیں۔ یہاں کسی بچے کو کسی قسم کی سزا دینے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ سزا تو بچے کی نشوونما کی راہیں مسدود کردیتی ہے۔ یہاں بچوں کا خوشگوار ماحول ان کو آزادی کی نعمت اور لذت سے آشنا کرتا ہے۔ یہ خود ہی اپنے اوپر پابندیاں عائد کرتے ہیں اور بڑے ہوکر صحیح معنوں میں آزادی کی نعمت سے آشنا ہوتے ہیں۔ جس میں دوسروں کے حقوق کو پوری طرح مدنظر رکھا جاتا ہے۔ ۴- جدوجہد/ تگ و دو شخصیت کی نشوونما کرنے میں جدوجہد کا ایک نہایت اہم حصہ تھے۔ غیر فعالی یا غیر متحرک زندگی اقبال کے فلسفہ سے مطابقت نہیں رکھتی بلکہ ان کے نزدیک آزادی اور بقائے دوام بھی جدوجہد سے حاصل ہوتے ہیں۔۱۷؎ ’’خودی کی زندگی اطناب کی ایک حالت ہے جس کو اس نے اپنے ماحول پر اثر آفرینی یا اس سے اثر پذیری کی خاطر پیدا کر رکھا ہے۔‘‘۱۸؎ تعلیمی پہلو اس فلسفہ کا تعلیمی پہلو یہ ہے کہ بچوں میں فعال زندگی کی روح پھونکی جائے اور انھیں زندگی کی تگ و دو کے لیے تیار کیا جائے۔ مانٹسوری طریقۂ تعلیم ڈاکٹر مانٹسوری کے نزدیک ’’خود محرکی کے ذریعے بالیدگی اورنشوونما پانا قدرت کا سب سے بڑا معجزہ ہے۔‘‘۱۹؎ اور ’’بغیر کام کے (بچے) کی شخصیت اپنے آپ کو خودبخود منظم نہیں کرسکتی۔ اور نارمل تعمیری لائن سے اُتر جاتی ہے۔‘‘۲۰؎ اس سلسلہ میں مانٹسوری نے مختلف قسم کی عملی مشقیں اور اپریٹس متحرک تعلیم کے لیے متعارف کرائے ہیں۔ مثلاً بچوں سے عملی زندگی کی مشقیں کرائی جاتی ہیں۔ بچے اپنا فرنیچر، کمرے کے فرش، اپریٹس اور الماریاں خود صاف کرتے ہیں۔ بنچ سے پہلے اور بعد کھانے کے برتن خود دھوتے ہیں اور قرینے سے لگاتے ہیں اور سمیٹتے ہیں۔ مقصد یہ ہے کہ بچہ فعال زندگی بسر کرنا سیکھے اور مستقبل کی جدوجہد کے لیے تیار ہو۔ مانٹسوری طریقۂ تعلیم میں فکر محض (جو کہ جدوجہد کو منجمد کردیتی ہے) کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ ۵- عقل کا مقام انسان کا کام اس دنیا میں نہ صرف اپنی خودی یا شخصیت کی تکمیل کرنا ہے بلکہ کائنات کی تقدیر کی تشکیل کرنا بھی ہے۔ اس لیے عقل کو پس پشت نہیں ڈالا جاسکتا۔ یہ سب کچھ بغیر سوچے سمجھے یعنی عقل کے بغیر نہیں ہوسکتا۔ تہذیب، ثقافت اور سائنس کی ترقی یافتہ منازل اسی کے کرشمے ہیں: ڈرا سکیں نہ کلیسا کی مجھ کو تلواریں سکھایا مسئلۂ گردشِ زمیں میں نے۲۱؎ اقبال اس سلسلہ میں ادراک بالحواس اور تجرباتی علم کو عقل کی نشوونما کے لیے ایک نہایت اہم کڑی سمجھتے ہیں۔ اس لیے یونانی فلسفہ پر تنقید کرتے ہوئے کہتے ہیں: ’’سقراط کے شاگردِ رشید افلاطون کو بھی ادراک بالحواس سے نفرت ہی رہی۔ اس کا خیال تھا کہ ادراک بالحواس سے کوئی حقیقی علم تو حاصل نہیں ہوتا ہم اس کی بنا پر صرف رائے قائم کرسکتے ہیں۔ برعکس اس کے قرآن مجید نے سمع و بصر کا شمار اللہ تعالیٰ کے گراں قدر انعامات میں کیا۔ اور عند اللہ اپنے اعمال و افعال کا جواب دہ ٹھہرایا۔‘‘۲۲؎ تجرباتی علم کی اہمیت اُن کے ان الفاظ سے ظاہر ہے ’’ایک ماحول میں نفس متناہیہ کی زندگی کا دار و مدار اس بات پر ہے کہ خود اپنے تجربات کی بدولت اپنے علم میں اضافہ کرتا رہے۔ مگر پھر نفس متناہیہ کے ان تجربات میں جن کے سامنے ایک نہیں کئی امکانات ہوں وسعت پیدا ہوگی۔ تو امتحان و آزمائش، غلطی اور خطا کے ذریعے، لہٰذا غلطی اور خطا بھی، باوجودیکہ ہمیں اس کو ایک قسم کے ذہنی بشر سے تعبیر کرنا پڑے گا حصولِ تجربات میں ناگزیر ہے۔‘‘۲۳؎ تعلیمی پہلو تعلیم میں عقل کی نشوونما کو ہر مرحلہ پر مدنظر رکھنا چاہیے۔ اس سلسلہ میں ایسے طریقے اپنانے چاہئیں کہ بچے ماحول سے صحیح طور پر باشعور ہوسکیں۔ تاکہ اس سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کرسکیں۔ مانٹسوری طریقۂ تعلیم ڈاکٹر مانٹسوری کہتی ہیں کہ ’’انسان کو کافی مقدار میں عقل ملی ہے کیونکہ اس کے مقدر میں ہے کہ اس نے ارتقاء کا ایک ضروری کام سر انجام دینا ہے۔ زندگی کے کسی بھی ارتقاء شدہ شعبہ سے زیادہ۔‘‘۲۴؎ ڈاکٹری مانٹسوری ادراک بالحواس اور تجرباتی علم کو خاص اہمیت دیتی ہیں۔ کہتی ہیں: ’’حواس کی تربیت اور آراستگی کی اہمیت واضح ہے۔ یہ ادراک کے میدان کو اور کشادہ کرکے، عقل کی نشوونما کے لیے زیادہ مضبوط اور پختہ بنیاد مہیا کرتی ہیں۔‘‘۲۵؎ اس سلسلہ میں جیومیٹری کے سامان کے اور دوسرے حسیاتی سامان (Sensory Material) سے بچوں کے حواسِ خمسہ کی نشوونما کی جاتی ہے۔ علاوہ ازیں حساب، ڈرائنگ، لکھائی، پڑھائی، جیومیٹری، علم الحیات اور علم جغرافیہ سکھانے کے طریقوں سے حواسِ خمسہ کی نشوونما کرنے میں مدد دیتے ہیں۔ علاوہ ازیں آٹو ایجوکیشن کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ بچہ تجربات سے سیکھے۔ وہ چیزوں میں فرق کرنا اور خصوصاً جیومیٹری اور حساب ایسے مضامین ’’آزمائش اور غلطی‘‘ کے طریقے سے خود سیکھتے ہیںَ ڈاکٹر مانٹسوری کہتی ہیں: ’’غلطیوں کا کنٹرول بذاتِ خود میٹریل میں موجود ہوتا ہے بچے کے پاس اس کی پختہ شہادت ہے۔‘‘۲۶؎ ان سب طریقوں سے بچے کی عقل کی نشوونما ہوتی ہے۔ ۶- فرد اور سوسائٹی یہ ظاہر ہے کہ جب جدوجہد اور عقل کی پختگی کے ذریعے عقل نے بننا ہے تو یہ خلا میں نہیں ہوسکتا۔ سوسائٹی کے بغیر خودی اور شخصیت مکمل نہیں ہوسکتی۔ برعکس بدھ ازم جس میں فرد نے دوسرے لوگوں سے الگ تھلگ ہوکر گیان حاصل کرنا ہوتا ہے۔ اقبال سوسائٹی کی اہمیت پر بہت زور دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک فرد اور سوسائٹی لازم و ملزوم ہیں۔ اگر فرد کی شخصیت پختہ نہیں ہوگی تو ظاہر ہے سوسائٹی کھوکھلی ہوگی۔ اور اگر سوسائٹی کھوکھلی ہے اور فرد کی اہمیت کو نہیں جانتی تو فرد مناسب طور پر پنپ نہیں سکتا۔ اقبال نے ایک شعر کے اندر کوزے میں دریا بند کردیا ہے۔ فرد قائم ربطِ ملت سے ہے، تنہا کچھ نہیں موج ہے دریا میں اور بیرونِ دریا کچھ نہیں۲۷؎ تعلیمی پہلو تعلیم کے آغاز سے ہی ان حقائق کو مدنظر رکھنا چاہیے۔ اور ایسے مواقع فراہم کرنے چاہئیں کہ بچے آپس میں تعاون کرنے اور ایک دوسرے کے جذبات کو مدنظر رکھنے کی اہمیت کو سمجھ سکیں تاکہ ایثار، قربانی، صبر اور ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کا جذبہ وغیرہ ایسے ثمرات پیدا ہوسکیں۔ مانٹسوری طریقۂ تعلیم ڈاکٹر مانٹسوری بچے کی نشوونما میں سوسائٹی کی اہمیت کو تسلیم کرتی ہیں ۔ کہتی ہیں: ’’یہ واضح ہے کہ انسانی سوسائٹی کو اپنی سب سے زیادہ عقل مند اور مکمل احتیاط کا رُخ بچے کی سمت کرنا چاہیے تاکہ اس سے مستقبل کی انسانی قدریں اور قوت بدرجہا اتم حاصل کی جائیں۔‘‘۲۸؎ اس سلسلہ میں مانٹسوری کے تقریباً تمام اپریٹس بچوں کو آپس میں مل جل کر کام کرنے کا سبق سکھاتے ہیں۔ اس کے علاوہ عملی زندگی کی مشقیں جن کا اُوپر ذکر کیا جاچکا ہے اس ضمن میں ایسے کردار ادا کرتی ہیں مثلاً کھانے کے وقت میز لگانے میں وہ نہایت منہمک نظر آتے ہیں۔ پلیٹ، چمچے، کانٹے اُٹھائے ہوئے، چھریاں وغیرہ خود قرینے سے رکھتے ہیں۔ آپس میں کام خود تقسیم کرتے ہیں۔ اور آخر کار میز پر خاموشی سے بیٹھتے ہیں۔ جہاں (ان کے ساتھی) چھوٹے چھوٹے بیرے (بن کر) گرم سوپ پیش کرتے ہیں۔‘‘۲۹؎ پس یہ سیکھتے ہیں کہ کس طرح صابر ہونا ہے۔ جھوٹے وقار کا کوئی گمان ان کے یہاں نہیں ملتا۔ اور نہ ہی احساسِ کمتری میں مبتلا ہوتے ہیں۔ وہ دوسروں کے حقوق کو اہمیت دیتے ہیں۔ ۷- انسان دوستی اور آفاقیت اقبال کا پیغام آفاقی ہے۔ اقبال کی دلی خواہش تھی کہ مستقبل کے سوشل طور طریقے انسان دوستی اور آفاقیت کی بنیادوں پر استوار ہوں۔ نسل، ذات پات اور رنگ کی تفریق ان کے نزدیک تنگ حب الوطنی اور غلط نظریۂ قوم پرستی پر مبنی ہے۔ ڈکسن کی تنقید کے جواب میں انہوں نے لکھا کہ ’’میرا اصل مقصد یہ ہے کہ بہتر سوشل آرڈر تلاش کیا جائے اور دنیا کوزندگی تگ و دو کا ایک ایسا نصب العین دیا جائے جو وفاقی طور پر قابل قبول ہو۔‘‘۳۰؎ تعلیمی پہلو تعلیمی اداروں میں فرقہ پرستی اور ذات پات کی تنگ نظری کے برعکس انسان دوستی کا درس دینا چاہیے۔ تاکہ بچے بڑے ہوکر انسان دوستی کے مقابلہ میں منفی رجحانات کا شکار نہ ہوں۔ مانٹسوری طریقۂ تعلیم ڈاکٹر مانٹسوری واضح الفاظ میں کہتی ہیں: ’’اگر انسانی اتحاد (جو کہ نیچر میں ایک حقیقت ہے) کو آخر کار منظم ہونا ہے تو یہ تعلیم کے ذریعے ہی ہوسکتا ہے۔‘‘۳۱؎ وہ انسان دوستی اور آفاقیت کی علمبردار تھی۔ جیسا کہ پہلے کہا گیا ہے وہ پس ماندہ اور ترقی پذیر ملکوں میں بھی ٹیچرز کو ٹرینڈ کرنے کے لیے گئیں۔ ان کے نزدیک بچے سے مراد کسی خاص ملک یا قوم یا طبقے کا بچہ نہ تھا بلکہ ان کی مراد دنیا کے تمام بچوں سے تھی۔ بچے مانٹسوری اپریٹس پر کام کرتے ہوئے عملی مشقوں میں مصروف رہ کر بھائی چارے کی فضا اور انسان دوستی کا سبق سیکھتے ہیں۔ ’’بچوں کے گھر‘‘ میں وہ اپنے آپ کو ایک دوسرے کا حصہ سمجھتے ہیں۔ وہ بلاامتیاز رنگ و نسل اور کلاس ایک دوسرے سے محبت اور تعاون کرتے ہیں اور اس طرح شعوری اور لاشعوری طور پر انھیں انسانی اتحاد کا سبق ملتا ہے۔ مانٹسوری اپریٹس کے سلسلہ میں ایک نہایت اہم بات یاد رکھنی چاہیے کہ اپریٹس کو ریل گاڑی کے ڈبوں کی طرح الگ الگ تقسیم نہیں کیا گیا۔ ایک اپریٹس جو خودی کی اہمیت کے لیے استعمال ہوتا ہے وہ جدوجہد کے لیے بھی کارآمد ہے اور جدوجہد کے لیے استعمال ہونے والا، عقل کی نشوونما بھی احسن طور سے کرسکتا ہے۔ بیان کردہ حقائق سے یہ صریحاً واضح ہوتا ہے کہ بچوں کی تعلیم کس طور سے ہونی چاہیے اور بچوں کی شخصیت کی نشوونما کے لیے کن حقائق کو مدنظر رکھنا چاہیے۔ اقبال کے فلسفہ کی روشنی میں پختہ شخصیت کی صورت گری یا تعمیر کے لیے بچوں کو کس عمل سے گزرنا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ہم پاکستان بننے کے بعد چائلڈ ایجوکیشن کے میدان میں ان باتوں پر توجہ نہ دے سکے۔ اور اس کی کیا وجوہات تھیں۔ مگر حقیقت اپنی جگہ پر قائم ہے اور میرا یہ پختہ یقین ہے کہ اگر ہم صرف بچوں کی تعلیم پر ہی خاطر خواہ توجہ دے سکتے تو آج ہماری قوم ایک مختلف قوم ہوتی۔ …٭…٭… حوالہ جات ۱- خطبات، ص۹۵۔ ۲- خطبات، ص۱۰۲/ نذیر نیازی، سیّد (مترجم)، تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ، بزمِ اقبال، لاہور، ۱۹۵۸ئ، ص۱۵۴۔ ۳- ایضاً، ص۱۲/ نذیر نیازی، سیّد (مترجم)، تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ، بزمِ اقبال، لاہور، ۱۹۵۸ئ، ص۱۹۔ ۴- علامہ محمد اقبال، کلیاتِ اقبال (اُردو)، ’’ضربِ کلیم‘‘، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور، ۲۰۰۹ئ، ص۸۵۸۔ ۵- علامہ محمد اقبال، کلیاتِ اقبال (فارسی)، ’’پیامِ مشرق‘‘، شیخ غلام علی اینڈ سنز، لاہور، اشاعت پنجم، ۱۹۸۵ئ، ص۲۰۳۔ ۶- دی چائلڈ، ص۷،۸۔ ۷- ایضاً، ص۶۸۔ ۸- ابوٹ یور چائلڈ، ص۶۶۔ ۹- ایضاً، ص۶۸۔ ۱۰- دی سیکرٹ آف چائلڈ ہڈ، ص۳۷۔ ۱۱- ایضاً، ص۲۳۹۔ ۱۲- خطبات، ص۸۵۔ ۱۳- علامہ محمد اقبال، کلیاتِ اقبال (اُردو)، ’’بانگِ درا‘‘، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور، ۲۰۰۹ئ، ص۲۸۸۔ ۱۴- علامہ محمد اقبال، کلیاتِ اقبال (اُردو)، ’’بالِ جبریل‘‘، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور، ۲۰۰۹ئ، ص۳۷۷۔ ۱۵- دی سیکرٹ آف دی چائلڈ، ص۱۹۲۔ ۱۶- ایضاً۔ ۱۷- خطبات، ص۲۰-۱۱۹،۱۰۸۔ ۱۸- خطبات، ص۱۰۲/ نذیر نیازی، سیّد (مترجم)، تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ، بزمِ اقبال، لاہور، ۱۹۵۸ئ، ص۱۵۴۔ ۱۹- ابوٹ یور چائلڈ، ص۱۹۔ ۲۰- دی سیکرٹ آف چائلڈ ہڈ، ص۲۳۰۔ ۲۱- علامہ محمد اقبال، کلیاتِ اقبال (اُردو)، ’’بانگِ درا‘‘، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور، ۲۰۰۹ئ، ص۱۰۹۔ ۲۲- خطبات، ص۴-۳/ نذیر نیازی، سیّد (مترجم)، تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ، بزمِ اقبال، لاہور، ۱۹۵۸ئ، ص۵۔ ۲۳- ایضاً، ص۸۷، ایضاً، ص۱۳۰،۱۳۱۔ ۲۴- نو ایجوکیٹ ہیومن پوٹینشل، ص۶۶۔ ۲۵- دی ڈسکوری آف چائلڈ، ص۱۱۷۔ ۲۶- ڈاکٹر مانٹسوری زاون ہینڈ بک، ص۳۵۔ ۲۷- علامہ محمد اقبال، کلیاتِ اقبال (اُردو)، ’’بانگِ درا‘‘، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور، ۲۰۰۹ئ، ص۲۱۷۔ ۲۸- دی سیکرٹ آف چائلڈ ہڈ، ص۲۶۶۔ ۲۹- ڈاکٹر مانٹسوری ز اون ہینڈ بک، ص۲۷۔ ۳۰- بحوالہ کلاد نسخ، دی انٹروڈکشن ٹو دی تھاٹ آف اقبال، ص۱۹، ترجمہ۔ ۳۱- ٹو ایجوکیٹ دی ہیومن پوٹینشل، ص۷۴۔ اقبال کا منفرد مقام اور مولانا رومی (ایک تحقیقی جائزہ) اقبال نے مولانا جلال الدین رومی کو اپنا رہبر اور پیر تسلیم کیا ہے۔ اور اقبال اپنی تقریباً ہر کتاب میں رومی کو ہدیۂ تحسین پیش کرتے ہیں۔ رومی بلاشبہ ایک منفرد صوفی شاعر، مذہبی راہنما اور بلند پایہ فلاسفر تھے۔ رومی کے یہ اوصاف، ڈاکٹر آر اے نکلسن، پروفیسر ای جی برائوف اور پروفیسر آربری جیسے مغربی مفکرین بھی تسلیم کرتے ہیں۔ اقبال بھی نہایت شد و مد سے رومی کے مداح ہیں۔ اور رومی کے خیالات کو قرآنِ پاک کی بلند پایہ تفسیر سمجھتے ہیں۔ اور اسی واسطے ان کی مثنوی کو ’’قرآن در زبانِ پہلوی‘‘ قرار دیتے ہیں۔۱؎ مگر یہ سمجھنا غلط ہے کہ اقبال نے آنکھیں بند کرکے رومی کی تقلید کی ہے۔ یا یہ کہ اقبال خود محقق اور منفرد حیثیت کے مالک نہ تھے۔ برعکس، حقیقت یہ ہے کہ اقبال بہت بڑے محقق اور مفکر تھے۔ وہ تو محض عقیدے کے اعتبار سے مولانا رومی کے مرید تھے۔ ویسے اُن کا اپنا منفرد مقام تھا۔ ڈاکٹر این میری شمل بجا کہتی ہیں: ’’اقبال ایک ایسا مرید ہے جو عقیدے کے اعتبار سے اپنے پیر کی سپرٹ میں رنگا ہوا ہے۔‘‘۲؎ اس سلسلہ میں اقبال کا منفرد مقام تلاش کرنا ضروری ہے۔ ذیل میں چند عنوانات کے تحت اقبال کی انفرادی حیثیت کا مختصر طور پر جائزہ لیا گیا ہے۔ مضمون میں، میں نے فلسفۂ اقبال کو خیالاتِ رومی کے حوالے سے چار زاویوں سے دیکھا ہے: (الف) فلسفہ و فکر (ب) فلسفیانہ دلائل (ج) وسعتِ موضوعات (د) طرزِ بیان (الف) فلسفہ و فکر ۱- خودی اقبال کے نزدیک خودی کا مطلب شخصیت ہے۔ انگریزی میں اسے I am ness، self یا ego کہا ہے۔ خودی کے دو پہلو ہیں۔ایک فعال یا کارفرما یا مؤثر (متعلقہ دنیاوی زندگی) (efficient self) اور دوسرے بصیر یا وجدانی (متعلقہ وجدانی الٰہیات) (appreciative self) یہ الگ نہیں ہیں بلکہ شخصیت کے دو پہلو ہیں۔رومی کے یہاں بھی یہ تصور موجود ہے۔ مگر اقبال نے جب کہ خودی کو ماڈرن نام سے موسوم کیا ہے۔ رومی نے اسے روح کہا ہے۔ صوفی لٹریچر میں بھی عام طور پر خودی کو روح کہا جاتا ہے۔ روحِ عقلی اور روحِ نبوی۔ تاہم اقبال نے خودی کے ضمن میں قابل قدر اضافے کیے ہیں۔ اور یہی اقبال کو امتیازی مقام عطا کرتے ہیں۔ اقبال نے اولڈ، ماڈرن فکر کی ضرورت کے مطابق، خودی کی ماہیت (nature)پر روشنی ڈالی ہے۔ ان کے نزدیک خودی کا اظہار بحیثیت نفسی وحدت میں ہوتا ہے۔ (The Ego reveals itself as mental unity) لیکن رومی کے یہاں ایسا تصور موجود نہیں۔ ثانیاً یہ کہ جو اہمیت اقبال نے خودی کو دی ہے ایسی رومی کے یہاں نہیں ملتی۔ اقبال کو بجاطور پر خودی مست کہا جاسکتا ہے کیونکہ ان کی تمام فلسفی اور شاعری خودی کے گرد گھومتی ہے۔ مثلاً کہتے ہیں: خودی کی جلوتوں میں مصطفائی خودی کی خلوتوں میں کبریائی زمین و آسمان و کرسی و فرش خودی کی زد میں ہے ساری خدائی!۳؎ یہاں تک کہ خدا بھی اقبال کے نزدیک خودی ہے۔ بہرحال، رومی کے یہاں خودی کو ایسا مقام نہیں ملتا۔ ۲- خودی کے زمان و مکان اقبال کا نظریۂ زمان و مکان رومی کے نظریۂ زمان و مکان سے بہت مختلف ہے۔ رومی کے یہاں خودی زمان و مکاں کی قیود سے بالاتر ہے۔ رومی کہتے ہیں: تو مکانی، اصل تو در لامکاں ایں دکاں ، بر بند ، و بکشا آں دُکان ترجمہ: ’’تو مکاں سے تعلق رکھتا ہے مگر تیری اصل لامکاں ہے۔ یہ دکان (مکان) بند کر اور وہ دکان (لامکاں) کھول۔‘‘ فکرت، از ماضی و مستقل بود چوں دریں رو زیست مشکل حل شود ترجمہ: ’’تیرا خیال ماضی اور مستقبل سے تعلق رکھتا ہے۔ (مگر) جب تو دونوں سے رہائی حاصل کرتا ہے تو مشکل حل ہوجاتی ہے۔‘‘ لیکن اقبال عراقی سے اتفاق کرتے ہیں جن کے نزدیک زمان و مکاں کے مختلف اقسام ہیں وہ رومی کے نظریہ کے برعکس کہتے ہیں کہ خودی کے اپنے زمان و مکان ہیں۔ خودی ’’لا زمان و مکاں‘‘ نہیں۔ اقبال کے نزدیک زمان و مکان کی مختلف قسمیں ہیں۔ خودی کے لیے مکاں لامحدود اجزا‘‘ (Infinite Continuum) (جہاں مکان کی جبر نہیں) اور وقت ’’استام محض‘‘ (Duration)(مسلسل وقت جس میں صبح و شام نہیں ) ہے۔ ۳- خودی کی تعمیر و تخریب کے عوامل خودی کے مسئلہ کے علاوہ خودی کی تعمیر و تخریب میں کون سے عناصر کام کرتے ہیں اور ان کی اہمیت کیا ہے۔ اقبال کے یہ مرکزی خیالات ہیں۔ اقبال کے نزدیک تگ و دو، جدوجہد، عشق، عقل، فقر اور ملت سے وابستگی کی بدولت خودی کی تکمیل ہوتی ہے۔ اور خوف، مایوسی، غم، تقلید، غلامی وغیرہ، خودی کی تخریب کا باعث بنتے ہیں۔ اقبال کے کلام کا اکثر و بیشتر حصہ ان خیالات سے مزین ہے لیکن رومی کے یہاں ان کا الگ الگ بیان ضرور ملتا ہے۔ لیکن اقبال کی طرح تسلسل، ربط اور تفصیل موجود نہیں۔ اقبال نے انھیں اپنے فلسفۂ خودی کی تسبیح میں نہایت خوبصورت انداز میں پرویا ہے۔ رومی محض ان کا ذکر کرتے ہیں اور وہ بھی بڑی تگ و دو سے ان کے کلام سے تلاش کرنا پڑتا ہے۔ ۴- آزادیٔ خودی اگرچہ رومی آزادیٔ خودی کے نہایت شد و مد سے قائل ہیں لیکن جو مقام اسے اقبال کے یہاں ملتا ہے وہ رومی کے یہاں نہیں۔ اقبال نے اس میں نہایت خوبصورت اور اہم اضافے کیے ہیں۔ جو کہ رومی کے یہاں نہیں ملتے۔ مثلاً اقبال کے نزدیک جدت اور اصل آزادیٔ خودی کی بدولت ہی معرضِ وجود میں آتی ہے۔ اگر آزادیٔ خودی نہ ہو تو تخلیق نہیں ہوسکتی۔ انسان کو خدا کی شبیہ پر بنایا گیا ہے۔ لہٰذا انسان بھی تخلیق کرتا ہے۔ انسان نے اپنی مرضی سے اپنے آپ کو ہزارہا مصیبتوں میں ڈال کر ایجادات اور دریافتیں کیں۔ اور ان کی بدولت دنیا کو بہتر بنایا۔ یہ تخلیق آزادیٔ خودی کے بغیر نہیں ہوسکتی تھی۔ علاوہ ازیں اقبال نے ان وجوہات سے متعلق سیر حاصل بحث کی ہے۔ جن کی وجہ سے آزادی کی نفی کی گئی اور تقدیر کے غلط معنی معرضِ وجود میں آئے ہیں اور زندگی کی وہ قوت جو اسلام نے مسلمانوں کے اندر پیدا کی تھی، رفتہ رفتہ کم ہوتی چلی گئی۔ آپ فرماتے ہیں: ’’اوّل بعض فلاسفہ کے افکار نے اور دوم سیاسی مصلحت پسندی نے تقدیر پرستی کو جنم دیا۔‘‘ سیاسی مصلحت کا حوالہ دیتے ہوئے اقبال کہتے ہیں: ’’دمشق موقع شناس اموی فرماںروائوں کو جو عملاً مادہ پرستی اختیار کرچکے تھے۔ کسی ایسے عذر کی ضرورت تھی جس سے کربلا کے مظالم پر پردہ ڈال دیں۔ چنانچہ اُنھوں نے اپنے برے اعمال کو خدا کی رضا پر محمول کیا تاکہ عوام کو موقع نہ ملے کہ ان کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوں۔ ۵- عشق رومی کے بیان عشق میں مستی اور جذبہ کی انتہائی بلندی پائی جاتی ہے۔ رومی کا تمام دیوانِ شمس تبریز اسی سے لبریز ہے۔ اگرچہ اقبال کے یہاں وہ مستی اور جذبہ اس شدت سے نہیں ملتے۔ لیکن اقبال کے یہاں عشق کے علمی اور نظریاتی پہلو نہایت عمدہ طریقے سے اُجاگر کیے گئے ہیں جو رومی کے یہاں نہیں۔ جذبہ کے سلسلہ میں رومی کے یہاں مستی اُس بلندی کا اظہار ملتا ہے جو اقبال کے یہاں نہیں۔ لیکن اقبال نے اس کے علمی پہلو پر نہایت مکمل طور پر بحث کی ہے جب کہ پیر رومی نے اس پر طبع آزمائی نہیں کی۔ مزید برآں رومی کے یہاں زیادہ زور خدا کی محبت اور ارتقاء کے تقاضا پر دیا گیا ہے۔ جب کہ اقبال تخلیق اور فطرت اور اس کی قوتوں کو مسخر کرنے پر زیادہ زور دیتے ہیں۔ ایس-اے واحد بجاطور پر لکھتے ہیں: ’’رومی کے نزدیک عشق کافی حد تک خدا کی محبت اور روحانی سطح پر ارتقاء کا تقاضا ہے۔ لیکن اقبال کے یہاں یہ تخلیق کا جذبہ اور فطرت اور فطرت کی قوتوں کو مسخر کرنا ہے۔‘‘ ۶- غلامی رومی غلامی کو محض اس کے روایتی معنوں میں لیتے ہیں۔ مثلاً کہتے ہیں غلام کی پستی اس قدر مسلم ہے کہ کسی مقدمہ یا انصاف کے وقت اُس کی گواہی کو معتبر نہیں سمجھا جاتا۔ اسے وہ شعر میں یوں بیان کرتے ہیں: در شریعت ، مر گواہی بندہ را نیست قدری نزد دعویٰ و قضا ترجمہ: ’’شریعت میں یقینا غلام کی گواہی کی، بسلسلہ دعویٰ اور انصاف کوئی قیمت نہیں۔‘‘ لیکن اقبال کے یہاں اس کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ مثلاً یورپ کے خیالات اور کلچر کی پیروی کو بھی غلامی سے تعبیر کرتے ہیں۔ ان کی تمام کتابیں مغربی فکر اور طرزِ زندگی کی غلامی کے خلاف بھری پڑی ہیں۔ وہ غیر کے سامنے جھکنے کو بھی غلامی سمجھتے ہیں۔ کہتے ہیں: پانی پانی کر گئی مجھ کو قلندر کی یہ بات تو جھکا جب غیر کے آگے نہ من تیرا نہ تن۴؎ آدم از بے بصری بندگیِ آدم کرد گوہرے داشت و لے نذرِ قبا و جم کرد یعنی از خوئے غلامی ، زسگاں خوار تراست من نہ دیدم کہ سگے پیشِ سگے سر خم کرد۵؎ ترجمہ: ’’انسان نے اپنی کمیِ بصیرت کی وجہ سے دوسرے انسان کی غلامی اختیار کی۔ اپنے اندر ایک گوہر (اپنی خودی) رکھتا تھا مگر اس نے اسے قبا و جم (یادشوں) کی نذر کردیا۔ یعنی غلامی اختیارکرنے کی عادت میں یہ کتوں سے بھی زیادہ ذلیل و خوار ہے۔ میں نے نہیں دیکھا کہ کسی کتے نے دوسرے کسی کتے کے سامنے سر جھکایا ہو۔‘‘ اقبال کے نزدیک غلامی میں انسان کی امکانی قوتیں دب جاتی ہیں اور ختم ہوجاتی ہیں۔ کہتے ہیں: بندگی میں گھٹ کے رہ جاتی ہے اک جوئے کم آب اور آزادی میں بحر بیکراں ہے زندگی۶؎ ۷- ملت اور فرد رومی سوسائٹی کو ملت کہتے ہیں اور فرد کی نشوونما کے لیے رحمت سمجھتے ہیں۔ کہتے ہیں: چوں جماعت ، رحمت آمد اے پسر جہد کن کز رحمت آری تاج سر۷؎ ترجمہ: ’’اے بیٹے! جب کہ جماعت رحمت ہے تو کوشش کر، تاکہ اس رحمت کی بدولت تو اپنے سر پر تاج لے آئے۔‘‘ اقبال اس بات سے متفق ہیں مگر فکر رومی پر نہایت حسین اضافے کرتے ہیں ان کے نزدیک ملت بھی ایک فرد کی طرح نشوونما پاتی ہے اور ملت وہی طرزِ عمل اپناتی ہے جیسا کہ ایک فرد۔ اقبال کے نزدیک ملت کی خودی بھی ایک بچے کی خودی کی طرح آہستہ آہستہ نشوونما پاتی ہے۔ اس کے علاوہ فرد کی طرح ملت کی خودی کے بھی تعمیری اور تخریبی عناصر ہوتے ہیں۔ چنانچہ اقبال کے یہاں انفرادی اور اجتماعی پہلو دونوں پر زور دیا گیا ہے۔ اقبال نے ایک پوری کتاب رموزِ بے خودی ان موضوعات کے لیے مخصوص کر دی ہے۔ مگر رومی کے یہاں ایسا نہیں۔ رومی نے ان موضوعات پر کوئی بات نہیں کی۔ ۸- عورت کا مقام رومی بلاشبہ انسان کو اشرف المخلوقات سمجھتے ہیں لیکن جو مقام عورت کو اقبال سے ملتا ہے وہ رومی سے نہیں۔ رومی عام طور پر عورت کی شخصیت کے تاریک پہلوئوں کی بات کرتے ہیں اگرچہ کبھی کبھی عورت کے روشن پہلوئوں کی طرف بھی اشارے ملتے ہیں مگر جو بلندی اقبال نے عورت کو دی ہے وہ رومی کے یہاں مفقود ہے۔ اگرچہ اقبال کے یہاں بھی عورت پر طنزیہ اشعار ملتے ہیں۔ مثلاً: یہ کوئی دن کی بات ہے اے مردِ ہوش مند! غیرت نہ تجھ میں ہوگی نہ زن اوٹ سے چاہے گی آتا ہے اب دور کہ اولادکے عوض کونسل کی ممبری کے لیے ووٹ چاہے گی۸؎ مگر یہ صرف اس مغرب زدہ عورت پر طنز ہے جو اپنے راستے سے بھٹک گئی ہو۔ اقبال کے نزدیک عورت، اپنے مرتبہ کے لحاظ سے نہایت اہم اور خوبصورت تخلیق ہے۔ کہتے ہیں: وجودِ زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوزِ درُوں مکالماتِ فلاطوں نہ لکھ سکی ، لیکن اسی کے شعلے سے ٹوٹا شرارِ افلاطُوں۹؎ ۹- پیغمبرانہ اور صوفیانہ شعور رومی کے نزدیک پیغمبرانہ اور صوفیانہ شعور کے وصوف میں فرق نہیں۔ اقبال اس کی تائید کرتے ہیں لیکن اقبال کے نزدیک ان میں عملی فوائد اور سماجی اعتبار سے اختلافات موجود ہیں۔ اقبال کے نزدیک صوفیا کا عالم وجد سے واپس آنا نوعِ انسان کے لیے وسیع پیمانے پر زیادہ معنی نہیں رکھتا۔ لیکن پیغمبر کی عالم وجد سے واپسی، آدمیت کے کسی ٹائپ کی تخلیق اور کسی کلچر کے معرضِ وجود میں آنے کا باعث بنتی ہے۔ گویا پیغمبر کی واپسی تخلیقی ہوتی ہے۔ وہ آئیڈیل کی نئی دنیا بساتا ہے۔ ’’وہ ان واردات سے واپس آتا ہے تو اس لیے کہ زمانے کی رو میں داخل ہوجائے ___ اور پھر ان قوتوں کے غلبہ و تصرف سے جو عالم تاریخ کی صورت گر ہیں مقاصد کی ایک نئی دنیا پیدا کرے۔ صوفی کے لیے تو لذتِ اتحاد ہی آخری چیز ہے لیکن انبیاء کے لیے اس کا مطلب ہے ان کی اپنی ذات کے اندر کچھ اس قسم کی نفسیاتی قوتوں کی بیداری جو دنیا کو زیر و زبر کرسکتی ہیں اور جن سے کام لیا جائے تو جہانِ انسانی دگرگوں ہو جاتا ہے۔‘‘ ۱۰- انسان کا دوبارہ ظہور رومی کے نزدیک بروزِ حشر انسان کا دوبارہ زندہ ہونا بمعہ جسم ہوگا۔ رومی نے کہا: جامع ایں ذرہا خورشید بود بی غذا، اجزات را، داند ربود ترجمہ: ’’ان ذرات کو اکٹھا کرنے والا وہ خورشید حقیقی (خدا) تھا۔ وہ جانتا ہے کہ تمہارے جسمانی ذرات کو بغیر خوراک کے کس طرح دوبارہ اکٹھا کرنا ہے۔‘‘ لیکن اقبال کے مطابق انسان کا دوبارہ ظہور یا زندہ ہونا روحانی ہوگا۔ جسے جسم انسانی کی ضرورت نہیں۔ اقبال کے نزدیک مرنے کے بعد ’’خودی اپنی جدوجہد جاری رکھے گی۔ حتیٰ کہ وہ اس قابل ہوجائے کہ اپنے آپ کو اکٹھا یا متحد رکھ سکے۔ (اور منتشر نہ ہو اور احیاء یا رست خیز (resurrection) حاصل کرسکے) چنانچہ احیاء کوئی بیرونی واقعہ نہیں۔ یہ خودی کے اندر ہی عمل زندگی کی تکمیل کرنا ہے۔‘‘۱۰؎ ۱۱- صفاتِ ربانی رومی صفاتِ ربانی کو سادہ پیرائے میں لیتے ہیں۔ مثال کے طور پر جب خدا کو خالق کہتے ہیں تو اس معنی میں جیسے خدا اپنے سے الگ دنیا تخلیق کر رہا ہو۔ لیکن اقبال کے نزدیک مخلوق خالق سے اس طرح الگ نہیں۔ خدا اپنے اندر سے تخلیق کرتا ہے۔ مخلوق خالق سے الگ حیثیت میں علاحدہ نہیں۔ پھر لامحدودیت کے بارے میں رومی کہتے ہیں: بے جہت داں عالم امر ، اے صنعم بے جہت باشد آمر لاجرم۱۱؎ ترجمہ: ’’جان لو کہ عالم امر کی کوئی سمت نہیں اور عالم امر کا حاکم اس سے بھی زیادہ بے سمت ہے۔‘‘ گویا خدا مکان کے اعتبار سے لامحدود ہے۔ مگر اقبال کے یہاں خدا کی لامحدودیت مکان کے معنوں میں نہیں۔ یہ عمیق اور تاکیدی ہے۔ اور مکان کے لحاظ سے وسیع نہیں۔ اقبال کہتے ہیں: ’’ذاتِ حقیقی نہ تو مکانی لامتناہیت کے معنوں میں لامتناہی ہے۔ نہ ہم انسانوں کی طرح جو مکاناً محدود اور جسماً دوسرے انسانوں سے جدا ہیں۔ متناہی، وہ لامتناہی ہے تو ان معنوں میں کہ اس کی تخلیقی فعالیت کے ممکنات جو اس کے اندرون وجود میں مضمر ہیں، لامحدود ہیں اور یہ کائنات جیسا کہ ہمیں اس کا علم ہوتا ہے ان کا جزوی مظہر۔‘‘ واضح ہو کہ خدا کی دوسری صفات کے بارے میں ایسے ہی اختلافات پائے جاتے ہیں۔ (ب) فلسفیانہ دلائل وہ فلسفیانہ دلائل جو کہ ماڈرن علم کی روشنی میں اقبال نے پیش کیے ہیں وہ رومی میں نہیں۔ جس فلسفیانہ رنگ میں مختلف موضوعات پر مدلل بحث اقبال نے کی ہے یہ انھیں کا حصہ ہے۔ یہاں رومی اور اقبال میں بنیادی فرق اور بھی واضح ہو جاتا ہے۔ رومی بحیثیت صوفی شاعر اور اقبال بطور فلسفی شاعر نمایاں طور پر سامنے آتے ہیں۔ اس ضمن میں طوالت کے خوف کے پیش نظر صرف دو مثالیں پیش کرتا ہوں۔ (۱) ختم نبوت (۲) تخلیقی ارتقاء ۱- ختمِ نبوت رومی ختم نبوت کے شدت سے قائل ہیں لیکن وہ اس کا اظہار روایتی اور سادہ الفاظ میں کرتے ہیں۔ لیکن اقبال بحیثیت فلاسفر اسے زیادہ مؤثر طریقے میں فلسفیانہ طور پر بیان کرتے ہیں۔ اقبال پیغمبرانہ شعور سے متعلق کہتے ہیں: ’’اس شعور کی موجودگی میں نہ تو افراد کو خود کسی چیز پر حکم لگانا پڑے گا۔ نہ ان کے سامنے یہ سوال ہوگا کہ ان کی پسند کیا ہو اور ناپسندیدگی کیا۔ انھیں یہ بھی سوچنے کی ضرورت نہ ہوگی کہ وہ اپنے لیے کیا راہِ عمل اختیار کریں۔ یہ سب باتیں گویا پہلے ہی سے طے شدہ ہوں گی۔ یہ نہیں کہ انھیں اس بارے میں خود اپنے فکر اور انتخاب سے کام لینا پڑے۔ شعورِ نبو ت کوگویا کفایت فکر اور انتخاب سے تعبیر کرنا چاہیے۔‘‘۱۲؎ پھر کہتے ہیں: ’’انسان جذبات کا بندہ ہے اور جبلتوں سے مغلوب رہتا ہے۔ وہ اپنے ماحول کی تسخیر کرسکتا ہے تو صرف عقل استقرائی کی بدولت۔ لیکن عقل استقرائی اس کے اپنے حاصل کرنے کی چیز ہے۔ جسے ایک دفعہ حاصل کرلیا جائے تو پھر مصلحت اس میں ہے کہ حصولِ علم کے اور جتنے بھی طریق ہیں ان پر ہر پہلو سے بندشیں عائد کردی جائیں تاکہ مستحکم کیا جائے تو صرف عقل استقرائی کو۔‘‘۱۳؎ پھر کہتے ہیں ’’اسلام میں نبوت چونکہ اپنے معراجِ کمال کو پہنچ گئی لہٰذا اس کا خاتمہ ضروری ہوگیا۔ اسلام نے خود سمجھ لیا تھا کہ انسان ہمیشہ سہاروں پر زندگی بسر نہیں کرسکتا۔ اس کے شعورِ ذات کی تکمیل ہوگی تو یونہی کہ وہ خود اپنے وسائل سے کام لینا سیکھے۔ یہی وجہ ہے کہ انسان نے اگر دینی پیشوائی کو تسلیم نہیں کیا یا موروثی بادشاہت کو جائز نہیں رکھا۔ بار بار عقل اور تجربے پر زور دیا۔ یا عالم فطرت اور عالم تاریخ کو علم انسانی کا سرچشمہ ٹھہرایا تو اس لیے کہ ان سب کے اندر یہی نقطہ مظہر ہے۔ کیونکہ یہ سب تصورِ حاکمیت ہی کے مختلف پہلو ہیں۔‘‘۱۴؎ ۲- تخلیقی ارتقاء رومی کے نزدیک ارتقاء ایک ظہور ہے۔ ارتقاء کی منازل میں جمادات سے نباتات پھر حیوانات اور انسان تک اور اس سے بھی آگے اور اسی طرح وہ نہایت خوبصورتی سے ارتقاء کے تاریخی اور حیاتیاتی پہلو سامنے لاتے ہیں لیکن فلسفیانہ معنی یا ہامیت جو اقبال پیدا کرتے ہیں۔ یہ انہی کا حصہ ہے وہ کہتے ہیں: ’’اپنی یہ بات کہ اعلیٰ کا صدور ادنیٰ سے ہوتا ہے۔ سو اس سے اعلیٰ کی قدر و قیمت اور مرتبے میں تو کوئی فرق نہیں آتا۔ کیونکہ اہم بات یہ نہیں کہ کس چیز کی ابتداء کیونکر ہوئی؟ اہم بات یہ ہے کہ جس چیز کا صدور ہوا اس کی صلاحیتیں کیا ہیں۔ معنی و مطلب کیا ہے؟ پھر کہتے ہیں ارتقائے حیات پر نظر رکھی جائے تو یہ حقیقت آشکارا ہو جاتی ہے کہ شروع شروع میں تو اگرچہ طبعی کا نفسی پر غلبہ ہوتا ہے۔ لیکن پھر جیسے جیسے نفسی طاقت حاصل کرتا ہے طبعی پر چھا جاتا ہے۔ اور اس لیے عین ممکن ہے آخر الامر اس سے بالکل آزاد ہو جائے۔‘‘۱۵؎ (ج) وسعتِ موضوعات اکثر ایسے موضوعات ہیں جن پر صرف اقبال ہی نے قلم اُٹھایا ہے۔ وجہ خواہ کچھ بھی ہو۔ سیاسی اور معاشی خیالات جو اقبال کے یہاں بدرجہا اُتم ملتے ہیں۔ رومی کے یہاں ان کا فقدان ہے۔ لیکن اقبال نے خصوصاً پس ماندہ لوگوں کی معاشی حالت کا ذکر کیا۔ اور سیاسی معاملات میں عملی حصہ بھی لیا۔ پھر اجتہاد کے مسئلہ پر رومی نے قلم نہیں اُٹھایا۔ مگر اقبال کے یہاں اجتہاد کی ضرورت مسلمہ ہے۔ وہ اجتہاد کو اسلام کی تشکیل نو اور تشریح نو کے لیے نہایت ضروری سمجھتے ہیں۔ (د) طرزِ بیاں طرزِ بیاں کے سلسلہ میں مگر رومی اور فلسفۂ اقبال کے اپنے اپنے امتیازی خدوخال ہماری توجہ اپنی طرف مبذول کراتے ہیں۔ اقبال کا طرزِ بیاں باربط ہے۔ اور پیچیدگی سے مبرا۔ جب کہ رومی کا طرزِ بیاں تمثیلاً، بے قاعدہ، بے جوڑ اور پیچیدہ ہے۔ رومی کے خیالات کی زنجیر کی کڑیاں جوڑنے کے لیے بہت تگ و دو کرنا پڑتی ہے۔ جب کہ ایک داستان سے دو تین داستانیں نکلتی ہیں اور قاری اپنے ذہن میں ان کا باہم ربط پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ داستاں در داستاں کا سلسلہ تمام مثنوی پر محیط ہے۔ خلیفہ عبدالحکیم نے درست کہا ہے۔ ’’مثنوی میں مختلف مقاصد کے دھاگے ایک دوسرے سے اس طرح گزرتے ہیں او رپھر اس قدر الجھائو کے ساتھ بنے گئے ہیں کہ ان کا تعاقب کرنا ایک انتہائی صبر آزما کام ہے۔ ایک غیر اہم کہانی کے کچے دھاگے پر وہ اپنے خیالات اور احساسات کی زنجیر کو بغیر کسی سسٹم کے پروتے ہیں۔‘‘ مندرجہ بالا حقائق سے واضح ہے کہ اقبال ایک منفرد مفکر تھے۔ اگرچہ رومی کو اپنا مرشد تسلیم کرتے ہیں اور بیشتر جگہوں پر فلسفۂ اقبال اور فکر رومی کے ڈانڈے آپس میں ملتے ہیں کیونکہ دونوں ایک ہی چشمہ سے سیراب ہوتے ہیں۔ یعنی دونوں اپنے خیالات کی بنیاد قرآنِ حکیم کی تعلیمات پر رکھتے ہیں۔ لہٰذا اُن کا بے شمار جگہوں پر ہم خیال ہونا قدرتی امر ہے۔ باایں ہمہ اقبال کی انفرادی حیثیت اپنی جگہ پر قائم ہے۔ مجھے اقبال کے اس شعر میں مکمل صداقت دکھائی دیتی ہے اور وہ بلاشبہ اس شعر کے خود مصداق ہیں: تقلید کی روش سے تو بہتر ہے خودکشی رستہ بھی ڈھونڈ، خضر کا سودا بھی چھوڑ دے۱۶؎ …٭…٭… حوالہ جات ۱- علامہ محمد اقبال، کلیاتِ اقبال (فارسی)، ’’اسرار و رموز‘‘، شیخ غلام علی اینڈ سنز، لاہور، اشاعت پنجم، ۱۹۸۵ئ، ص۸۔ ۲- Annemarie Schimmel, Gabriel's Wing, Iqbal Academy Pakistan, Lahore, 1963, p. 38. ۳- علامہ محمد اقبال، کلیاتِ اقبال (اُردو)، ’’بالِ جبریل‘‘، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور، ۲۰۰۹ئ، ص۴۰۸۔ ۴- ایضاً، ص۳۶۷۔ ۵- علامہ محمد اقبال، کلیاتِ اقبال (فارسی)، ’’پیامِ مشرق‘‘، شیخ غلام علی اینڈ سنز، لاہور، اشاعت پنجم، ۱۹۸۵ئ، ص۳۰۴۔ ۶- علامہ محمد اقبال، کلیاتِ اقبال (اُردو)، ’’بانگِ درا‘‘، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور، ۲۰۰۹ئ، ص۲۸۸۔ ۷- مثنوی نذیر نقشبندی، ۲۷؍۱۵۔ ۸- علامہ محمد اقبال، کلیاتِ اقبال (اُردو)، ’’بانگِ درا‘‘، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور، ۲۰۰۹ئ، ص۳۱۶۔ ۹- ایضاً، ’’ضربِ کلیم‘‘، ص۶۰۶۔ ۱۰- نذیر نیازی، سیّد (مترجم)، تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ، بزمِ اقبال، لاہور، ۱۹۵۸ئ، ص۱۲۰۔ ۱۱- مثنوی ۳۰۹۳، جلد۴۔ ۱۲- نذیر نیازی، سیّد (مترجم)، تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ، بزمِ اقبال، لاہور، ۱۹۵۸ئ، ص۱۹۱،۱۹۲۔ ۱۳- ایضاً، ص۱۲۶۔ ۱۴- ایضاً، ص۱۲۶۔ ۱۵- ایضاً، ص۱۰۶۔ ۱۶- علامہ محمد اقبال، کلیاتِ اقبال (اُردو)، ’’بانگِ درا‘‘، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور، ۲۰۰۹ئ، ص۱۳۳۔ اقبال کے مذہبی افکار اور مولانا روم اقبال ہر اس صوفی یا مفکر کے قدردان تھے جس نے اپنے خیالات کی عمارت خالص اسلامی بنیادوں پر استوار کی۔ وہ نہ تو ان معذوروں کے حق میں تھے جو یونانیوں کے فلسفہ و حکمت کے زیر اثر عقلیت کے طوفان میں بہہ گئے اور نہ ان صوفیوں یا مذہبی رہنمائوں ہی کے طرف دار تھے جنہوں نے فکر کو مذہب سے خارج سمجھایا، یا فکر اور وجدان میں ایک خطِ فاصل کھینچا۔ اقبال کے نزدیک خالص اسلامی نظریے کے اعتبار سے فکر مذہب کا ایک لابدی حصہ ہے اور اسے مذہبی مشاہدات سے الگ نہیں کہا جاسکتا۔ وہ اپنے ان خیالات کی ترجمانی مولانا جلال الدین رومی کے افکار میں پاتے ہیں۔ اس مقالے میں دونوں کے افکار کی مماثلت کی نشان دہی کی گئی ہے جس سے یہ نتیجہ مرتب ہوتا ہے کہ اقبال مولانا روم کے ہم مسلک تھے اور ان کا اپنے متعلق یہ کہنا درست ہے: تو بھی ہے اسی قافلۂ شوق میں اقبال جس قافلۂ شوق کا سالار ہے رومی۱؎ یہاں تین نکات سے بحث کی گئی ہے۔ (۱) مذہبی زندگی کے مراحل، (۲) مذہبی مشاہدات کے مخصوص پہلو (۳) صوفیانہ اور پیغمبرانہ واردات۔ (۱) مذہبی زندگی کے مراحل رومی اور اقبال دونوں کے نزدیک مذہبی کے تین مراحل ہیں: اول، ایمان، یعنی بلاتامل خدا کی ہستی اور مذہب پر ایمان لانا۔ دوم، فکر، یعنی ایمان لانے کے بعد اپنے اعتقادات کو عقل کی کسوٹی پر پرکھنا، اسے عقلی اعتبار سے بھی درست پانا، سوم عرفانِ حقیقت، حقیقت کا بچشم مشاہدہ۔ ایمان رومی کے نزدیک یہ پہلا دور ہے جہاں اپنی جگہ بنانا ضروری ہے۔ یہ تحقیق اور تجربے کے مقابلے میں نچلا دور ہے لیکن اگر تڑپ اور یقین کامل ہو، تو یہ سالک کو منزلِ مقصود تک پہنچا سکتا ہے۔ رومی نے اس سلسلے میں اندھے کی مثال دی ہے جو پیاسا ہو، مگر اس میں تلاشِ آب کی تڑپ اور جذبۂ تگ و دو موجود ہو۔ اگرچہ وہ ندی کو نہیں دیکھ سکتا لیکن رہنمائی سے ندی تک پہنچ جاتا ہے، جب کہ غیر مخلص اور نام نہاد رہنما راستے ہی میں رہ جاتا ہے۔ اس ضمن میں رومی نے اس عنوان کے تحت مفصل بحث کی ہے ’’در بیان آنکہ نادر افتد کہ مریدی در مدعی مزور اعتقاد بصدق بدد کہ او کسیست و بدیں اعتقاد بمقامی برسد کہ شیخش درخواب ندیدہ باشد و آب و آتش او را گزند نکند و شیخش را گزند کند و لیکن بنادر باشد۔‘‘۲؎ اقبال کے یہاں بھی ایمان پہلی منزل ہے۔ کہتے ہیں: ’’دورِ اوّل کی خصوصیت تو یہ ہے کہ اس میں مذہب کا ظہور ایک ایسے نظم و ضبط کی شکل میں ہوتا ہے جیسے افراد ہوں یا اقوام ایک حکم کے طور پر اور اس لیے بے چون و چرا قبول کرلیتے ہیں۔ انھیں اس امر سے بحث نہیں ہوتی کہ اس نظم و ضبط کی حکمت از روئے عقل و فکر کیا ہے او رمصلحت کیا۔‘‘۳؎ اگرچہ یہ ابتدائی منزل ہے۔ لیکن اس کے بغیر کوئی بھی حقیقتاً صاحب ایمان نہیں کہلا سکتا۔ اقبال بھی کہتے ہیں کہ یقین کامل کے ساتھ جس میں شک و شبہ کو قطعاً دخل نہ ہو، ایک مبتدی بھی منزل پر پہنچ سکتاہے، جب کہ غیر مخلص رہنما منہ تکتا رہ جاتا ہے۔ کہتے ہیں: مرید سادہ تو رو رو کے ہوگیا تائب خدا کرے کہ ملے شیخ کو بھی یہ توفیق۴؎ بہرحال اس کا اپنا مقام ہے۔ یقین بھی قوموں کو منزلِ مقصود تک پہنچا سکتا ہے: یقیں افراد کا سرمایۂ تعمیر ملت ہے یہی قوت ہے جو صورت گر تقدیر ملت ہے۵؎ فکر رومی کے نزدیک وہ ایمان جس میں غور و فکر بھی شامل ہو بے بصیرت اندھا دھند ایمان سے بہتر ہے۔ مرتبے کے لحاظ سے فکر کی منزل دوسری منزل ہے۔ رومی کے نزدیک وجدان عقل ہی کا نتیجہ ہے۔ کہتے ہیں: ایں محبت ہم نتیجہ دانش است کی گزافہ بر چنیں تختی نشست۶؎ رومی کے نزدیک صرف وہی مذہب کی روح سے آشنا ہے جس نسے تحقیق کی ہو۔ دوسرے رسمی پیروی کرنے والے ہیں جن کا ایمان فکر سے خالی ہونے کے باعث جلد بدل سکتا ہے۔ رومی اس سلسلے میں ایک کہانی بیان کرتے ہیں کہ کس طرح ایک لومڑی نے ایک بیمار شیر کو روزانہ خوراک پہنچانے کا وعدہ کرکے اپنی جان بچائی۔ اس نے ایک گدھے کو اس سلسلے میں لالچ دیا کہ وہ اسے اس مرغزار میں لے جائے گی جہاں وہ پیٹ بھر کر گھاس کھائے گا۔ مگر گدھے نے اپنے سچے فقر کا دعویٰ کیا اور کہا کہ خدا اسے خود روزی پہنچائے گا۔ مگر چونکہ اس کا یقین فکر سے خالی تھا۔ آخرکار لومڑی کی باتوں میں آگیا جس نے اسے شیر کے سپرد کردیا۔ اس کہانی کے بیان کرنے سے رومی کا مطلب یہ ہے کہ وہ لوگ جن کے وعظ کی بنیاد علم اور سمجھ پر نہیں ہوتی۔ ان کا ایمان صحیح معنوں میں پختہ نہیں ہوتا۔ اقبال بھی پہلی منزل سے مطمئن نہیں۔ اسے محض ایک وسیلہ اور ذریعہ سمجھتے ہیں، فکر ہی مذہبی زندگی کو استوار کرتا ہے۔ اقبال کہتے ہیں: ’’اس دور میں مذہب کو کسی ایسے مابعد الطبیعیات کی جستجو رہتی ہے جو اس کے لیے اساس کا کام دے سکے۔ یعنی منطقی اعتبار سے کائنات کے کسی ایسے نظریے کی جو تضاد و تناقض سے پاک ہو اور جس میں خدا کے لیے بھی کوئی جگہ ہو۔‘‘۷؎ یہ بھی فکر ہی ہے جو انسان کو اندرونی وسعت دیتا ہے، ہر قسم کے شک اور شبہات سے نجات دلاتا ہے۔ اقبال کہتے ہیں: ’’اگر مذہب کی غرض و غایت ہی یہ ہے کہ ہمارا ظاہر و باطن بدل ڈالے اور اس کی رہنمائی کرے تو اور بھی ضروری ہے کہ ان عام حقائق کے بارے میں جن پر اس کاوجود مشتمل ہے کوئی نزاع باقی نہ رہے۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ہم اپنے اعمال و افعال کی بنا کسی ایسے اُصول پر رکھیں جو بجائے خود مشتبہ ہے۔‘‘۸؎ عرفانِ حقیقت سالک اس کے بعد عرفانِ حقیقت کی آخری منزل پر پہنچتا ہے جہاں وہ حقیقت کا سامنا کرتا ہے۔ رومی کہتے ہیں: علم جویائے یقین باشد بداں واں یقیں جویای دیدست و عیاں۹؎ اور یہ حقیقت ہے براہِ راست مشاہدہ ہی مذہب کا اصلی مقصد ہے۔ بغیر اس مشاہدے کے آدمی اپنی دونوں آنکھوں کے باوجود اندھا رہتا ہے۔ رومی کہتے ہیں: آدمی دیدست و باقی پوستست دید آنست آں کہ دیدِ دوستست۱۰؎ رومی عرفانِ حقیقت کو دیدن کہتے ہیں جس کا مطلب خدا کا بالمشافہ مشاہدہ کرنا ہے۔ ’’سیاہ شیشوں کی وساطت سے نہیں بلکہ صوفیائے کرام کے مطابق بالمشافہ مشاہدہ جس میں کوئی پردہ درمیان میں حائل نہیں ہوتا۔‘‘۱۱؎ اس مقام پر زمانِ مسلسل کی حس ختم ہوجاتی ہے۔ یہاں چند الفاظ میں رومی کے فلسفۂ فنا کا بیان ضروری ہے۔ رومی کے نزدیک فنا سے مراد خدا کے حضور اپنے آپ کو ملیامیٹ کرنا نہیں۔ مذہبی مشاہدے میں تو عین آمنا سامنا ہوتا ہے۔ فنا سے رومی کا مطلب ان تجربات کی فنا ہے جو کہ حقیقی خودی کو ظاہر ہونے سے روکتے ہیں۔ گویا فنا خودی کی تبدیلی صورت کا نام ہے جس سے روایتی خودی سے آزادی حاصل ہوتی ہے رومی کہتے ہیں: ایں چنیں معدوم کو از خویش رفت بہترین ہست ہا افتاد و زفت او بنسبت با صفات حق فناست در حقیقت در فنا او را بقاست۱۲؎ اس مرحلے پر عقلِ محض کی جگہ دل لیتا ہے۔ رومی اس کی خوب صورت مثال دیتے ہیں۔ کہتے ہیں یہ تبدیلی اسی طرح ضروری ہے کہ جیسے ہم سمندری سفر اختیار کرتے وقت خشکی کے سفر کے وسیلے اختیار نہیں کرسکتے اور انھیں بدلنا ضروری سمجھتے ہیں۔ کیونکہ وہ فائدہ مند نہیں رہتے۔ اس طرح عقل محض عرفانِ حقیقت میں کارآمد نہیں رہتی۔ رومی دل کو ایک آئینے کی طرح قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ضروری ہے کہ اس کو صاف رکھا جائے۔ جس قدر یہ صاف ہوگا، اسی قدر حقیقت کا چہرہ صفائی سے دکھائی دے گا۔ کہتے ہیں: ہرک صیقل بیش کرد او بیش دید بیشتر آمد برو صورت پدید۱۳؎ یہاں رومی معتزلہ سے مختلف نظر آتے ہیں۔ معتزلہ سمجھتے ہیں کہ دید بغیر جگہ اور سمت کے ممکن نہیں، کیونکہ خدا جگہ اور سمت سے بے نیاز ہے۔ اس کی دید نہ اس دنیا میں ممکن ہے اور نہ اگلی دنیا میں لیکن رومی اس سے متفق نہیں۔ اقبال کے یہاں بھی عرفانِ حقیقت مذہبی زندگی کا تیسرا مرحلہ ہے۔ اقبال کے نزدیک یہاں: ’’مابعد الطبیعیات کی جگہ نفسیات کے لیے خالی ہو جاتی ہے اور انسان کو یہ آرزو ہوتی ہے کہ حقیقت مطلقہ سے براہِ راست اتحاد و اتصال قائم کرے۔ چنانچہ یہی مرحلہ ہے جس میں مذہب کا معاملہ زندگی اور طاقت و قوت کا معاملہ بن جاتا ہے اور جس میں انسان کے اندر یہ صلاحیت پیدا ہوتی ہے کہ ایک آزاد اور بااختیار شخصیت حاصل کرلے، شریعت کے حدود و قیود کو توڑ کر نہیں بلکہ خود اپنے اعماقِ شعور میں اس کے مشاہدے سے جیسا کہ صوفیہ اسلام میں ایک بزرگ کا قول ہے کہ جب تک مومن کے دل پر کتاب کا نزول ویسے نہ ہوجائے جیسے آنحضرت صلعم پر ہوا تھا۔‘‘۱۴؎ اقبال کے یہاں بھی صوفی محسوس کرتا ہے کہ ذاتِ سرمدی سے اتحاد و اتصال کی بدولت زمانِ تسلسل کی حس ختم ہوجاتی ہے۔ اقبال خوبصورت اضافہ کرتے ہیں۔ کہتے ہیں: ’’مذہبی زندگی کا معراجِ کمال ہی یہ ہے کہ خودی اپنے اندر زیادہ گہری انفرادیت کا احساس پیدا کرے، بہ نسبت اس کے جو عادتاً اس کے تصور میں آتی ہیں۔ دراصل یہ صرف وجودِ حقیقی ہے جس سے اتصال میں خودی کو اپنی یکتائی اور مابعد الطبیعی مرتبہ و مقام کا عرفان ہوتا ہے اور وہ سمجھتی ہے کہ اس مرتبہ و مقام میں کہاں تک اصلاح اور اضافہ ممکن ہے۔‘‘۱۵؎ اقبال کے نزدیک بھی فنا کا یہ مطلب نہیں کہ انسان ایک قطرے کی مانند ہے جو سمندر میں اپنی ہستی کھو دیتا ہے، بلکہ انسان کی خودی کے ’’نشوونما کا معراجِ کمال یہ ہے کہ ہم اس خودی سے براہِ راست اتصال میں بھی جو سب پر محیط ہے اپنے آپ کو قائم اور برقرار رکھ سکیں۔‘‘۱۶؎ یہاں اقبال رسولِ اکرم ﷺکے واقعۂ معراج کی طرف اشارہ کرتے ہیں اور ایک شعر کا حوالہ دیتے ہیں: موسیٰ ز ہوش رفت بیک جلوۂ صفات تو عین ذات می نگری در تبسمی۱۷؎ ڈاکٹر شمل نے درست کہا ہے: ’’فنا کا تصور جس کا مطلب خودی کو مٹا دینے کے معنوں میں لیا گیا ہے مکمل طور پر اقبال کو نامنظور ہے۔‘‘۱۸؎ اقبال ایک خط میں خود وضاحت کرتے ہیں۔ کہتے ہیں: ’’جب احکامِ الٰہی خودی میں اس حد تک سرایت کر جائیں کہ خودی کے پرائیویٹ امیال و عواطف باقی نہ رہیں اور صرف رضائے الٰہی اس کا مقصود ہو جائے تو زندگی کی اس کیفیت کو بعض اکابر صوفیائے اسلام نے فنا کہا ہے۔ بعض نے اسی کا نام بقا رکھا ہے۔‘‘۱۹؎ اقبال دل کی پاکیزگی کے قائل ہیں۔ کہتے ہیں: درونِ سینۂ آدم چہ نور است! چہ نور است ایں کہ غیبِ او حضور است چہ نورے جاں فروزے سینہ تابے نیرزد با شعاعش آفتابے۲۰؎ اقبال دل کے بارے میں کہتے ہیں: کسے کو دیدہ را بر دل کشود است شرارے کشت و پر و ینے درود است۲۱؎ ۲- مذہبی مشاہدات کے مخصوص پہلو رومی اور اقبال دونوں اس مذہبی تجربے کے مخصوص پہلوئوں پر اتفاق کرتے ہیں رومی کے نزدیک اول یہ کہ اس کا مخصوص پہلو صوفیانہ مشاہدات کی حضوریت (Immediacy) ہے۔ اس کا مطلب مشہود کی براہِ راست موجودگی ہے۔ حقیقت سے براہِ راست اتحاد ہوتا ہے۔ چنانچہ یہ تجربہ محض تصوری یا خیالی نہیں۔ اقبال کے یہاں بھی یہی تصور پایا جاتا ہے۔ کہتے ہیں: ’’ان مشاہدات کو حضوری کہا جاتا ہے تو محض یہ ظاہر کرنے کے لیے کہ ہمیں ذاتِ باری کا ویسے ہی علم ہے جیسے کسی دوسری شے کا۔ وہ کوئی خیالی وجود ہے نہ کوئی نظام معانی، جو باہم وابستہ تو ہوا کرتے ہیں لیکن جو تجربے اور مشاہدے میں کبھی نہیں آتے۔‘‘۲۲؎ دوم مذہبی واردات بیان نہیں کی جاسکتیں۔ رومی کہتے ہیں: آنک یک دیدن کند ادراک آں سالہا نتواں نمودن از زباں۲۳؎ چنانچہ عقل اور منطق کو نہیں سمجھ سکتی۔ صرف عاشق ہی اس کا تجربہ کر سکتے ہیں۔ اسے علت و معلول (Law of Causation) احاطہ نہیں کرسکتا۔ کہتے ہیں: سنگ و آہن خود سبب آمد و لیک تو ببالا تر نگر ای مرد نیک کیں سبب را آں سبب آورد پیش بی سبب کی شد سبب ہرگز زخویش واں سبب ہا کانبیا را رہبرست آں سبہہا زیں سببہا برترست۲۴؎ اقبال کے یہاں بھی دوسرا مخصوص پہلو یہ ہے: ’’صوفیانہ احوال میں اس کے برعکس ہم حقیقت مطلقہ کے سرور کامل سے آشنا ہوتے ہیں۔ جس میں ہر طرح کے مہیجات باہم مدغم ہوکر ایک ناقابل تجزیہ وحدت میں منتقل ہوجاتے ہیں اور ناظر و منظور، یا شاہد و مشہود کا امتیاز سرے سے اُٹھ جاتا ہے۔‘‘۲۵؎ ان کے نزدیک بھی منطقی دلائل اسے سمجھنے کے لیے کافی نہیں ہوتے۔ کہتے ہیں: ’’جن واردات سے اس عرفان کا تعلق ہے ان کی حیثیت عقلی حقائق نہیں کہ معانی اور تصورات کی گرفت میں لائیں۔ یہ زندگی کے واردات ہیں، بہ الفاظِ دیگر خودی کی وہ روش جو نتیجہ ہے خود ہمارے اندرونِ ذات میں زبردست حیاتی تغیرات کا اور جس کو ناممکن ہے منطق کے مستولات اپنے دام میں لاسکیں۔‘‘۲۶؎ سوم رومی کے نزدیک مذہبی مشاہدہ دوسروں تک جوں کا توں نہیں پہنچایا جاسکتا: کاشکی ہستی زبانی داشتی تا ز ہستان پردہ ہا برداشت ہرچ گوئی ای دم ہستی ازاں پردۂ دیگر برو بستی بداں۲۷؎ اقبال کے یہاںبھی مذہبی تجربہ دوسروں تک نہیں پہنچایا جاسکتا۔ کہتے ہیں: ’’بہ اعتبار نوعیت صوفیانہ مشاہدات چونکہ براہِ راست ہی تجربے میں آتے ہیں لہٰذا ان مشاہدات کو دوسروں تک جوں کا توں پہنچانا ناممکن ہو جاتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ فکر کی بجائے زیادہ تر احساس کا رنگ اختیار کرلیتے ہیں۔ لہٰذا صوفی یا پیغمبرجب اپنے مذہبی شعور کی تعبیر الفاظ میں کرتا ہے تو اسے منطقی قضایا ہی کی شکل دے سکتا ہے یہ نہیں کہ اس کا مشمول من و عن دوسروں تک منتقل کرسکے۔‘‘۲۸؎ مذہبی واردات کی صداقت کے ضمن میں خاص طور پر ان کے خطاب میں مدلل بخش ملتی ہیں، مثلاً ایک جگہ اس طرح بیان کرتے ہیں: ’’اگر دنیا کے الہامی اور صوفیانہ ادب کا مطالعہ کیا جائے تو اس امر کی کافی شہادت مل جائیں گی کہ تاریخ علم میں مذہبی مشاہدات کو بے حد غلبہ اور پائیداری حاصل رہی ہے۔ لہٰذا یہ کہنا غلط ہوگا کہ اس قسم کے مشاہدات کی بنا چونکہ واہمے اور التباس پر ہے اس لیے ان کو رد کر دینا چاہیے ___ مذہبی مشاہدات کے حقائق بھی ویسے ہی حقائق ہی ہیں جیسے ہمارے دوسرے مشاہدات کے حقائق۔ جہاں تک کسی حقیقت کی تعبیر سے حصول علم امکان ہے ہمارے لیے حقائق یکساں طور پر اہم ہیں۔‘‘۲۹؎ ۳- صوفیانہ اور پیغمبرانہ واردات یہ ظاہر ہے کہ یہ مقام ہر کسی کے حصہ میں نہیں آتا۔ یہ صوفیوں اور پیغمبروں کا حصہ ہے یا دوسرے الفاظ میں مذہبی زندگی کی انتہا ان میں ملتی ہے۔ رومی کہتے ہیں: تیغ در ، زراد خانۂ اولیاست دیدن ایشان شما را کیمیاست۳۰؎ رسولِ اکرمؐ کے بارے میں کہتے ہیں: چوں خدا اندر نیاید در عیاں نائب حق اند ایں پیغمبراں۳۱؎ یہاں یہ نقطہ واضح کرنا بہت ضروری ہے کہ رومی کے نزدیک صوفیانہ اور پیغمبرانہ واردات میں بلحاظ ماہیت یا نوعیت کوئی بنیادی فرق نہیں۔ بعض اوقات صوفیانہ شعور پیغمبرانہ شعور کے مقابلہ میں زیادہ واضح ہوتا ہے۔ رومی خضر اور موسیٰ کی مثال دیتے ہیں: گر خضر در بحر کشتی را صد درستی در شکستِ خضر ہست وہم موسیٰ با ہمہ نور و ہنر شد از آں محبوب تو ، بی پر ، مپر۳۲؎ بہرحال یہ بات قابل غور ہے کہ رومی کے نزدیک پیغمبرانہ اور صوفیانہ شعور بھی حالت کے شعور سے قطع تعلق نہیں کرتا۔ اس کی افادی صلاحیت ہے اور پیغمبروں اور صوفیائے کرام کو ایک رتبہ اور منصب عطا کرتا ہے۔ اقبال کے نزدیک بھی مذہبی تجربے کی ولیوں اور پیغمبروں میں تکمیل ہوتی ہے جن کا مقصد حقیقت کا مشاہدہ کرنا ہوتا ہے، اور یہی مذہبی زندگی کا کمال ہے۔ اقبال کہتے ہیں: کمالِ زندگی دیدارِ ذات ست۳۳؎ اقبال بھی رومی کی طرح پیغمبرانہ اور صوفیانہ تجربے میں وصف یا خصوصیت کے لحاظ سے فرق نہیں سمجھتے البتہ وہ افادی (Pragmatic) فرق ضرور سمجھتے ہیں۔ اقبال کے نزدیک پیغمبر کی واپسی تخلیقی ہوتی ہے جب کہ صوفی کی واپسی، جہاں تک انسانیت کی ایک قسم کی تخلیق اور وسیع معنوں میں تمدنی پہلو کا تعلق ہے، ایسی نہیں ہوتی۔ کہتے ہیں: ’’صوفی نہیں چاہتا وارداتِ اتحاد میں اسے جو لذت اور سکون حاصل ہوتا ہے اسے چھوڑ کر واپس آئے، لیکن اگر آئے، جیسا کہ اس کا آنا ضروری ہے، تو اس سے نوعِ انسانی کے لیے کوئی خاص نتیجہ مرتب نہیں ہوتا۔ برعکس اس کے، نبی کی باز آمد تخلیقی ہوتی ہے۔ وہ ان واردات سے واپس آتا ہے تو اس لیے کہ زمانے کی رو میں داخل ہوجائے اور پھر ان قوتوں کے غلبہ و تصرف سے جو عالم تاریخ کی صورت گر ہیں، مقاصد کی ایک نئی دنیا پیدا کرے۔‘‘۳۴؎ اقبال کے نزدیک بھی بعض اوقات صوفیانہ شعور پیغمبرانہ شعور کے مقابلہ میں زیادہ واضح ہوتا ہے۔ خضر سے مخاطب ہوکر کہتے ہیں: ’’کشتی۔ٔ مسکین‘‘ و ’’جانِ پاک‘‘ و ’’دیوارِ یتیم‘‘ علمِ موسیٰؑ بھی ہے تیرے سامنے حیرت فروش۳۵؎ اقبال کے یہاں بھی مذہبی شعور نارمل شعور سے الگ نہیں۔۳۶؎ میرے نزدیک رومی اور اقبال ان صوفیہ کے مسلک سے تعلق رکھتے ہیں جو علم الیقین، عین الیقین، اور حق الیقین کے قائل ہیں۔ علم الیقین (کسی سنی سنائی حقیقت پر یقین کرنا) جیسے کہ آگ پر سن کر یقین کرنا، عین الیقین (دیکھ کر یقین کرنا) جیسے کہ آگ میں کسی کو جلتے دیکھنا اور پھر یقین کرنا اور حق الیقین (خود تجربہ کرکے یقین کرنا) جیسے خود آگ میں کودنا اور اپنے جسم کو آگ میں جلتے محسوس کرنا۔ رومی بے شک اس مسلک میں ایک ارفع مقام رکھتے ہیں مگر اقبال کی انفرادیت اس فکر کا قابل قدر اثاثہ ہے۔ اقبال نے حسب معمول یہاں بھی ملت کو مدنظر رکھا ہے۔ اگرچہ نفس مضمون کے باعث یہاں اس کا زیادہ ذکر نہیں ملتا، مگر ایمان کے سلسلے میں قوم کا ذکر اور پھر پیغمبرانہ تجربے کے باعث ایک ملت کا تشکیل پانا اور اس کی معاشرتی اہمیت قابل ذکر ہیں۔ اس کے علاوہ پیغمبرانہ اور صوفیانہ مشاہدات کا افادی لحاظ سے فرق بتانا ایک خوبصورت اضافہ ہے۔ آخر میں صوفیانہ مشاہدہ کی صحت سے بحث منطقی اسلوبِ بیان جو کہ ماڈرن زمانہ کی سمجھ کے زیادہ قریب ہے اقبال ہی کا حصہ ہے۔ خواہ وجہ کچھ بھی ہو، رومی کے یہاں یہ باتیں نہیں ملتیں اگرچہ رومی میں جذبہ و مستی بدرجہ اتم پائے جاتے ہیں۔ اقبال کی انفرادیت بہرحال قابل ستائش ہے۔ …٭…٭… حوالہ جات ۱- علامہ محمد اقبال، کلیاتِ اقبال (اُردو)، ’’بالِ جبریل‘‘، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور، ۲۰۰۹ئ، ص۴۷۹۔ ۲- مثنوی، دفتر اول، ص۱۱۳۔ ۳- نذیر نیازی، سیّد (مترجم)، تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ، بزمِ اقبال، لاہور، ۱۹۵۸ئ، ص۲۸۰۔ ۴- علامہ محمد اقبال، کلیاتِ اقبال (اُردو)، ’’بالِ جبریل‘‘، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور، ۲۰۰۹ئ، ص۳۷۰۔ ۵- ایضاً، ’’بانگِ درا‘‘، ص۳۰۳۔ ۶- مثنوی، دفتر دوم (متن نکلسن)، شعر ۱۵۳۲۔ ۷- سید نذیر نیازی، مترجم، کتاب مذکور، ص۲۷۸-۲۷۹۔ ۸- ایضاً، ص۲۔ ۹- مثنوی، دفتر سوم، شعر ۴۱۲۱۔ ۱۰- ایضاً، دفتر اوّل، شعر ۱۴۰۶۔ ۱۱- آر-سی-زینر، تصوف، ص۲۱-۲۲۔ ۱۲- مثنوی، دفتر چہارم، شعر ۳۹۸-۳۹۹۔ ۱۳- ایضاً، دفتر چہارم، شعر ۲۹۱۰۔ ۱۴- نذیر نیازی، سیّد (مترجم)، تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ، بزمِ اقبال، لاہور، ۱۹۵۸ئ، ص۲۷۹۔ ۵ ۱- ایضاً، ص۲۸۳۔ ۱۶- ایضاً، ص۱۷۸۔ ۱۷- Allama Muhammad Iqbal, The Reconstruction of Religious Thought in Islam, Iqbal Academy Pakistan, Lahore, April 1989, p. 94. ۱۸- Annemarie Schimmel, Gabriel's Wing, Iqbal Academy Pakistan, Lahore, 1963, p. 396. ۱۹- عطاء اللہ، شیخ، اقبال نامہ، حصہ اوّل، شیخ محمد اشرف، لاہور، ۱۹۴۵ئ، ص۲۰۲-۲۰۳۔ ۲۰- علامہ محمد اقبال، کلیاتِ اقبال (فارسی)، ’’زبورِ عجم‘‘، شیخ غلام علی اینڈ سنز، لاہور، اشاعت پنجم، ۱۹۸۵ئ، ص۵۴۰۔ ۲۱- علامہ محمد اقبال، کلیاتِ اقبال (فارسی)، ’’زبورِ عجم‘‘، شیخ غلام علی اینڈ سنز، لاہور، اشاعت پنجم، ۱۹۸۵ئ، ص۵۶۷۔ ۲۲- نذیر نیازی، سیّد (مترجم)، تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ، بزمِ اقبال، لاہور، ۱۹۵۸ئ، ص۲۶-۲۷۔ ۲۳- مثنوی، دفتر سوم، شعر ۱۹۹۴۔ ۲۴- ایضاً، دفتر اول، شعر ۸۴۲-۸۴۴۔ ۲۵- نذیر نیازی، سیّد (مترجم)، تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ، بزمِ اقبال، لاہور، ۱۹۵۸ئ، ص۲۷-۲۸۔ ۲۶- ایضاً، ص۲۸۳-۲۸۴۔ ۲۷- مثنوی، دفتر سوم، شعر ۴۷۲۵-۴۷۲۶۔ ۲۸- نذیر نیازی، سیّد (مترجم)، تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ، بزمِ اقبال، لاہور، ۱۹۵۸ئ، ص۳۰۔ ۲۹- ایضاً، ص۲۴۔ ۳۰- مثنوی، دفتر اوّل، شعر ۷۱۶۔ ۳۱- ایضاً، دفتر اوّل، شعر ۶۷۳۔ ۳۲- ایضاً، دفتر اوّل، شعر ۲۳۶،۲۳۷۔ ۳۳- علامہ محمد اقبال، کلیاتِ اقبال (فارسی)، ’’زبورِ عجم‘‘، شیخ غلام علی اینڈ سنز، لاہور، اشاعت پنجم، ۱۹۸۵ئ، ص۵۵۹۔ ۳۴- نذیر نیازی، سیّد (مترجم)، تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ، بزمِ اقبال، لاہور، ۱۹۵۸ئ، ص۱۲۴۔ ۳۵- علامہ محمد اقبال، کلیاتِ اقبال (اُردو)، ’’بانگِ درا‘‘، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور، ۲۰۰۹ئ، ص۲۸۴۔ ۳۶- نذیر نیازی، سیّد (مترجم)، تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ، بزمِ اقبال، لاہور، ۱۹۵۸ئ، ص۲۲-۲۳۔ مسئلہ فنا و بقا اور اقبال تصوف میں مسئلہ فنا و بقا ایک خاص اہمیت کا حامل ہے۔ فنا کا لفظی مطلب معدوم یا ختم ہونا ہے۔ وحدت الوجود کے نقطۂ نظر سے اس کے معنی کسی صوفی کا ایک خدا کی ہستی میں گم ہوجانا ہے۔ اس سلسلہ میں شیخ محی الدین ابن عربی جو کہ اسلامی تصوف میں وحدت الوجود کے ایک بہت بڑے علمبردار شمار ہوتے ہیں، خیالات مثال کے طور پر پیش کیے جاسکتے ہیں۔ ابن عربی کے نزدیک خدا کی ذات و صفات ایک ہیں یہ الگ الگ نہیں۔ گویا ذات اور صفات میں Identity(ایک جیسا ہونا) ہے انسان چونکہ خدا کی شبیہ پر تخلیق ہوا۔ اس لیے خدا اور انسان الگ الگ نہیں ہیں۔ خدا انسان کے اندر یا اُس سے ماورا نہیں۔ اسی طرح خدا اور کائنات الگ الگ نہیں ان کا تعلق بھی Identityکا تعلق ہے کائنات خدا کا ظہور ہے۔ کائنات خدا سے ظہور پذیر ہوئی ہے۔ اس لیے سوائے خدا کے اس کا کوئی الگ وجود نہیں ہے۔ یا دوسرے الفاظ میں سوائے خدا کے اور کوئی چیز حقیقی نہیں ہے۔ تصوراتی ہے یا غیر حقیقی ہے۔ ہندو نقطۂ نظر سے قطع نظر اس بات کے کہ خدا کا تصور ان کے یہاں کیا ہے۔ انسانی زندگی کا مطمع نظر ہے کہ انسان اپنے آپ کو مٹا کر نروانا یا نجات حاصل کرتا ہے۔ ٹائٹس بجاطور پر کہتا ہے: ’’ہندو فلسفہ قائل ہے ایک کائناتی روح یا وحدت الوجودی جوہر یا بلند و بالا وجود کا جو کہ سب موجودات کا مجموعہ ہے۔ یہ نظریۂ وحدانیت اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ زندگی کا مطمع نظر ملتا ہے فرد کی خودی اور بنیادی حقیقت کے اتصال سے۔‘‘۱؎ دنیا ایک مایا ہے۔ نظر کا دھوکا ہے یہ اصل نہیں۔ واقعہ ہے ایک دفعہ ایک گرو اس کا چیلا جنگل میں جا رہے تھے کہ سامنے سے ایک شیر نمودار ہوا۔ گرو فوراً درخت پر چڑھ گیا۔ اتفاقاً چیلا بچ گیا۔ اُس نے گرو سے پوچھا آپ کہتے ہیں کہ نظر کا دھوکہ ہے تو پھر شیر بھی نظر دھوکا تھا تو آپ درخت پر کیوں چڑھ گئے۔ گرو کافی چالاک تھا فوراً بولا میرا درخت پر چڑھنا بھی تو نظر کا دھوکا تھا میں نے ایسا نہیں کیا۔ بقا کے معنی اسی طرح روایتی تصوف میں ہیں کہ جب انسان خدا کی ہستی میں اپنی ہستی معدوم کردیتا ہے اور قطرے کی مانند سمندر میں گم ہو جاتا ہے تو یہ مقامِ بقا ہے۔ خدا قائم و دائم ہے۔ چنانچہ انسان اپنی ہستی کو مٹا کر کل میں داخل ہو جاتا ہے۔ ابن عربی کا یہی فلسفہ ہے۔ لیکن اقبال فنا و بقا کے اس روایتی یا وحدت الوجودی مسئلے کا قائل نہیں۔ اقبال کے نزدیک خودی کا انجام معدوم یا فنا ہونا نہیں بلکہ پختہ ہونا ہے۔ اقبال کے مطابق فنا ان تجربات کی نفی ہے۔ جو خودی کے اظہار کو روکتے ہیں یا خودی کے پختہ ہونے کی راہیں مسدود کرتے ہیں۔ اقبال کے نزدیک ’’جب الٰہیات نظام میں خودی اس قدر سرایت کر جاتا ہے کہ پرائیویٹ رغبت اور میلان باقی نہیں رہتے اور صرف الٰہیاتی اطمینان اس کا مقصد رہ جاتا ہے زندگی کے اس مرحلہ کو اسلام کے نامور صوفیائے کرام نے فنا کے لفظ سے پکارا ہے۔‘‘۲؎ ڈاکٹر شمل (Schimmel) اس کی اس طرح وضاحت کرتی ہیں: ’’لازماً (فنا) انسانی صفات کو مٹانا ہے۔‘‘۳؎ انسان کو نہ صرف اپنی خودی کو پختہ کرنا ہے بلکہ تمام کائنات کی قسمت کو سنوارنا اور خدا کی حکومت اس دنیا میں قائم کرنا ہے۔ اگر اس نے اپنے آپ کو فنا کردیا تو پھر یہ سب کچھ کیسے ہوگا۔ بلکہ خدا کی پہچان کے لیے پہلے اپنی پہچان ضروری ہے۔ اقبال کہتے ہیں: ’’اسلامی تصوف کے اعلیٰ مراتب میں اتحاد و تقرب سے یہ مقصود نہ تھا کہ متناہی خودی لامتناہی خودی میں جذب ہوکر اپنی ہستی فنا کردے۔ بلکہ لامتناہی متناہی کے آغوشِ محبت میں آجائے۔‘‘۴؎ ایف-آرٹ-ٹیننٹ نے درست کہا تھا: ’’جب کوئی صوفی اپنے آپ کو ختم ہونا یا اپنی خودی کا گم ہونا کہتا ہے تو اسے سنجیدگی سے نہیں لینا چاہیے۔ اس کی توجہ کچھ وقت کے لیے دوسری اشیا پر اس قدر مبذول ہوتی ہے۔ کہ اس کی خالص خودی ’میں‘ کی موجودگی سے آگاہ نہیں رہتی۔ لیکن وہ مسلسل باشعور رہتا ہے تفکر کے لیے۔ مستغرق ہونے اور رہنے کے لیے۔ اپنے صوفیانہ تجربات یاد رکھنے کے لیے جب کہ وہ پھر حالت استغراق میں نہ ہو۔‘‘۵؎ اسی طرح بقا کے ضمن میں اقبال کا نظریہ ہے کہ خودی جب پختہ ہو جاتی ہے تو انسان انسانِ کامل کہلاتا ہے۔ اس میں صفاتِ الٰہیہ پیدا ہو جاتی ہیں۔ اقبال کہتے ہیں: ’’انسان کا اخلاقی اور مذہبی مطمع نظر خودی کا مٹانا نہیں بلکہ اثباتِ خودی ہے اور وہ اسے حاصل کرتا ہے۔ زیادہ سے زیادہ منفرد اور زیادہ سے زیادہ یکتا ہوکر۔ رسولِ اکرمؐ نے کہا ((تَخَلَّقُوْا بِااخْلَاقِ اللّٰہِ)) اپنے اندر خدا کی صفات پیدا کرو ___ جو شخص خدا کے سب سے زیادہ نزدیک آجاتا ہے۔ وہ مکمل ترین انسان ہے۔ یہ نہیں کہ آخرکار وہ خدا کے اندر جذب ہو جاتا ہے بلکہ بضد اس کے وہ خدا کو اپنے اندر جذب کرلیتا ہے۔‘‘۶؎ فنا اور بقا کا بیان دو اشعار میں اقبال نے اپنے تمام فلسفۂ فنا و بقا کو نہایت خوبی سے اور جامع انداز میں دو اشعار میں بیان کردیا ہے۔ فرماتے ہیں: بہ بحرش گم شدن انجامِ ما نیست اگر او را تو در گیری فنا نیست خودی اندر خودی گنجد محال است! خودی را عینِ خود بودن کمال است!۷؎ ’’ترجمہ: اس کے (خدا کے) سمندر میں گم ہو جانا ہمارا انجام نہیں۔ اگر تو اسے اپنے اندر جذب کرلے تو تیرے لیے فنا نہیں۔ ایک خودی کا دوسری خودی میں مدغم ہونا مشکل ہے۔ خودی کے لیے تو خودی کا پختہ ہونا ہی کمال ہے۔‘‘ اقبال کے نزدیک خودی کی پختگی کا امتحان اور پرکھ یہ ہے کہ خودی قائم رہے۔ خودی کی ’’نشوونما کا معراجِ کمال یہ ہے کہ ہم اُس خودی سے براہِ راست اتصال میں بھی جو سب پر محیط ہے اپنے آپ کو قائم اور برقرار رکھ سکیں۔‘‘۸؎ اقبال یہاں رسولِ اکرمؐ کے معراج کی مثال دیتے ہیں جب کہ انھوں نے خدا کی ذات کو دیکھا اور ان کی خودی قائم رہی۔ ایک فارسی کے شعر کا حوالہ دیتے ہیں: موسیٰ ز ہوش رفت بیک جلوہ صفات تو عین ذات می نگری می تبسمی۹؎ ’’ترجمہ: موسیٰ تو خدا کے ایک ہی جلوۂ صفات سے بے ہوش ہوگئے۔ مگر آپ (رسولِ اکرمؐ) خدا کی ذات کو دیکھتے ہیں اور مسکراتے ہیں۔‘‘ جاوید نامہ میں ’’تمہید زمینی ‘‘ کے زیر عنوان اس پر تفصیل سے روشنی ڈالتے ہیں۔ رومی کے حوالے سے کہتے ہیں: پیش ایں نور اربمانی استوار حیّ و قائم چوں خدا خود را شمار!۱۰؎ ’’ترجمہ: اگر تو اس نور کے سامنے استوار رہے تو پھر اپنے آپ کو خدا کی طرح زندہ اور قائم شمار کر۔ اپنے مقام پر پہنچنا ہی زندگی ہے۔ (خدا کی) ذات کو بے پردہ دیکھنا ہی حیات (بقا) ہے۔‘‘ اقبال نے اپنے تمام فلسفۂ فنا و بقا کو نہایت خوبی سے اور جامع ادناز میں دو اشعار میں بیان کردیا ہے۔ فرماتے ہیں: بہ بحرش گم شدن انجام ما نیست اگر او را تو در گیری فنا نیست خودی اندر خودی گنجد محال است خودی را عین خود بودن کمال است۱۱؎ ’’ترجمہ: اس کے (خدا کے) سمندر میں گم ہو جانا ہمارا انجام نہیں۔ اگر تو اسے اپنے اندر جذب کرلے تو تیرے لیے فنا نہیں۔ ایک خودی کا دوسری خودی میں مدغم ہونا مشکل ہے۔ خودی کے لیے تو خودی کا پختہ ہونا ہی کمال ہے۔‘‘ اقبال صوفیائے کرام کے اس گروہ سے تعلق رکھتے ہیں جنہوں نے فنا و بقا کے مسئلہ کو اصطلاحی معنوں میں استعمال کیا ہے۔ مثال کے طور پر علی ہجویریؒ داتا گنج بخش، جلال الدین رومیؒ اور مجدد الف ثانی اسی گروہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ شہید اللہ فریدی درست کہتے ہیں کہ ہجویری کے مطابق انسانی صفات کو مٹانا فنا ہے مگر خودی کو نہیں اور صفاتِ الٰہیہ سے مزین ہوجانابقا ہے۔۱۲؎ اس سلسلہ میں رومی نے ایک نہایت خوبصورت مثال دی ہے۔ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ چینی اور یونانی مصوروں کا آپس میں مقابلہ ہوگیا۔ ہر ایک نے اپنے فن کو افضل بیان کیا۔ چنانچہ دونوں کو آمنے سامنے دو دیواریں دے دی گئیں اور درمیان میں ایک پردہ لگا دیا گیا۔ چینیوں نے اپنی دیوار پر بہت نقش و نگار کیے۔ دوسری طرف یونانیوں نے اپنی دیوار پر صرف پالش کیا اور آئینے کی طرح صاف و شفاف کردیا جب پردہ ہٹایا گیا تو سب نقش و نگار ان کی دیوار پر آگئے اور انعام پایا۔ رومی کہنا چاہتے ہیں کہ دل کا آئینہ صاف کرنے سے حقیقت ہوبہو منقش ہو جاتی ہے۔ اسی طرح رومی کے مطابق فنا ان تجربات کی فنا ہے جو خودی کے ظاہر ہونے میں رخنہ ڈالتے ہیں۔۱۳؎رومی کے عملی طور پر فنا کا مطلب انسان کے اپنے شعور کو من گھڑت قصوں، بتوں اور جھوٹ سے صاف اور دل کو لالچ، حسد، حزن اور غصہ سے پاک کرنا ہے۔ یہاں تک کہ دل آئینہ کی طرح اصلی حالت پر آجائے تاکہ اپنے اندر حقیقت کو منعکس کرسکے۔۱۴؎ رومی کے نزدیک اسی فنا میں انسان کی بقا ہے۔ جس نے اپنے نفس امارہ کو مارا وہ ہمیشہ کے لیے زندہ ہوگیا۔ شعر میں رومی اس طرح بیان کرتے ہیں: او بنسبت با صفاتِ حق فنا است در حقیقت در فنا اور را بقا است ’’ترجمہ: وہ (صوفی) فنا ہوا ہے اپنی صفات کے صفاتِ الٰہیہ میں تبدیل کرنے کے اعتبار سے۔ حقیقت میں خودی کی ایسی تبدیلی میں اس کے لیے ہمیشہ کی زندگی (بقا) ہے۔‘‘ رومی کے نزدیک مُوْتُوْا قَبْلُ اَنْ تَمُوْتُوْا (یعنی مر جائو قبل مرنے کے) کا مطلب یہی ہے۔۱۵؎ رومی کے نزدیک انسانی صفات کا صفاتِ الٰہیہ میں تبدیل کرنا ایسے ہے جیسے کہ لوہے کا آگ میں جانے کے بعد آگ کی صفات اپنا لینا ہے۔ لیکن لوہا آگ نہیں بن جاتا۔ لوہا لوہا ہی رہتا ہے۔ اسی طرح انسان خواہ کتنی ہی صفاتِ الٰہیہ حاصل کرلے انسان خدا نہیں ہوسکتا۔ گویا رومی کے نزدیک بھی نیستی کا مطلب اپنی ہستی کو مٹانا نہیں۔ ابن عربی کے مطابق ہر چیز خدا کا سایہ ہے۔ اس پر مجدد الف ثانی نے تنقید کی ہے کہ اصل اور سایہ ایک نہیں ہوسکتے۔ اگر ایک شخص کا سایہ بڑھ جائے تو یہ نہیں کہ انسان خود بڑھ گیا ہے۔ مجدد الف ثانی کی ابن عربی کے خیالات پر تنقید ایک مشہور تنقید ہے۔ ’’مجدد کے نزدیک انسان اور خدا کے درمیان تعلق عبد اور معبود کا ہے۔ عبدیت یا بندہ ہونے کا مطلب ہے کہ انسان خدا کی رضا پر اپنی تمام زندگی بدلے۔ اور خدا کے تمام احکامِ امر و نہی بجا لائے۔ محض اس لیے کہ یہ اس کے احکامات ہیں۔‘‘۱۶؎ عبد اور معبود کے تعلق سے واضح ہے کہ انسان ایک قطرہ نہیں جو سمندر میں مل کر فنا ہو جائے اور احکامِ الٰہیہ کی بجاآوری صفاتِ الٰہیہ کو اپنانا ہے۔ میرے نزدیک مسئلہ فنا و بقا کی یہ توضیح دیگر اسباب کے علاوہ عالم اسلام میں نشاۃ ثانیہ کا باعث ہوئی ہے۔ مذکورہ صوفیائے کرام اور ان کے بہت سے ہم خیال صوفیوں اور فلسفیوں نے بلاشبہ اُمت مسلمہ کو جدوجہد کا سبق دیا ہے۔ اقبال ان سب کے مداح ہیں بلکہ رومی کو تو وہ اپنا مرشد تسلیم کرتے ہیں۔ اس سلسلہ میں اقبال کا بھی اپنا مقام ہے۔ اقبال نے ماڈرن تقاضوں کو مدنظر رکھ کر جس انداز سے اس مسئلے پر تبصرہ کیا یہ اُنھیں کا حصہ ہے: بیا بمجلسِ اقبال و یک دو ساغر کش گرچہ سر نتراشد قلندری داند۱۷؎ …٭…٭… حوالہ جات ۱- ایتھکس فار ٹو ڈے، ص۷-۵۰۶۔ ۲- ایم-آئی ۲۰۲، بحوالہ ڈاکٹر شمل، گبریلز ونگ، ص۷-۳۶۶۔ ۳- ایضاً۔ ۴- نذیر نیازی، سیّد (مترجم)، تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ، بزمِ اقبال، لاہور، ۱۹۵۸ئ، ص۱۱۰۔ ۵- فلوسوفیکل تھیالوجی، ص۹۷۔ ۶- ڈاکٹر آر اے نکلسن، ترجمہ اسرارِ خودی، تعارف، صxviii۔ ۷- علامہ محمد اقبال، کلیاتِ اقبال (فارسی)، ’’زبورِ عجم‘‘، شیخ غلام علی اینڈ سنز، لاہور، اشاعت پنجم، ۱۹۸۵ئ، ص۵۵۱۔ ۸- Allama Muhammad Iqbal, The Reconstruction of Religious Thought in Islam, Iqbal Academy Pakistan, Lahore, April 1989, p. 94. ۹- ایضاً۔ ۱۰- علامہ محمد اقبال، کلیاتِ اقبال (فارسی)، ’’جاوید نامہ‘‘، شیخ غلام علی اینڈ سنز، لاہور، اشاعت پنجم، ۱۹۸۵ئ، ص۶۰۷۔ ۱۱- علامہ محمد اقبال، کلیاتِ اقبال (فارسی)، ’’زبورِ عجم‘‘، شیخ غلام علی اینڈ سنز، لاہور، اشاعت پنجم، ۱۹۸۵ئ، ص۵۵۱۔ ۱۲- فارورڈ، کشف المحجوب، مترجم آر اے نکلسن، صix۔ ۱۳- اے رضا آراستی، رومی ایک پرشین، ص۱۶،۱۵۔ ۱۴- ایضاً۔ ۱۵- مثنوی، دفتر چہارم، ص۷۵۴۔ ۱۶- ڈاکٹر برہان احمد فاروقی، مجدد الف ثانی کا نظریۂ توحید، ص۹۳۔ ۱۷- علامہ محمد اقبال، کلیاتِ اقبال (فارسی)، ’’پیامِ مشرق‘‘، شیخ غلام علی اینڈ سنز، لاہور، اشاعت پنجم، ۱۹۸۵ئ، ص۳۴۶۔ اقبال ___ ایک انسان دوست مفکر اقبال ایک بہت بڑے انسان دوست شاعر اور مفکر ہیں۔ ان کا دل تمام انسانیت کے لیے دھڑکتا ہے۔ وہ تمام انسانیت کی بہتری کے خواہاں ہیں۔ انہوں نے تمام نوعِ انسان کو اخوت اور محبت کا پیغام دیا ہے۔ کہتے ہیں: ہوس نے کر دیا ہے ٹکڑے ٹکڑے نوعِ انسان کو اخوت کا بیاں ہو جا ، محبت کی زباں ہو جا۱؎ اقبال کے نزدیک انسان سے محبت اور پیار ہی اصل زندگی ہے۔ کہتے ہیں: خدا کے عاشق تو ہیں ہزاروں، بنوں میں پھرتے ہیں مارے مارے میں اُس کا بندہ بنوں گا جس کو خدا کے بندوں سے پیار ہو گا۲؎ پھر کہتے ہیں میری آنکھیں کئی راتیں انسان کی خاطر روتی رہیں تب جاکر زندگی کے رازوں سے پردہ اُٹھا۔ شعر میں اس طرح بیان کیا ہے: بہرِ انساں چشم من شبہاگریست تا دریدم پردۂ اسرارِ زیست۳؎ اقبال کے نزدیک انسان ایک قابل احترام ہستی ہے اور ایک بلند پایۂ حیثیت اور مقام رکھتا ہے۔ اس کا احترام کرنا ہی حقیقی تہذیب ہے۔ فرماتے ہیں: آدمیت احترامِ آدمی با خبر شو از مقامِ آدمی!۴؎ برتر از گردوں مقام آدم است اصلِ تہذیب احترام آدم است۵؎ اپنی وفات سے کچھ وقت پہلے انہوں نے واشگاف الفاظ میں کہا: ’’یاد رکھیے آدمی اس ربع سکوں پر اسی وقت سکونت رکھ سکتا ہے جب اس کے دل میں احترامِ آدمیت ہو۔ اور یہ دنیا خونخوار درندوں کی شکار گاہ رہے گی جب تک کہ ساری دنیا کی تعلیمی قوتیں آدمی میں احترامِ آدمیت پیدا نہ کردیں۔‘‘۶؎ اقبال انسان کے روشن مستقبل پر پختہ یقین رکھتے ہیں، کہتے ہیں: ’’میں ایک انسان کے شاندار اور درخشاں مستقبل پر پختہ ایمان رکھتا ہوں۔ اور میرا عقیدہ ہے کہ انسان نظام کائنات میں ایک مستقل عنصر کی حیثیت حاصل کرنے کی صلاحیتوں سے بہرہ ور ہے۔‘‘ تعریف تنقید یہ غلط ہے کہ اقبال مغرب کے خلاف ہے حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے دلی طور پر مغرب کی قابل تعریف بات کو سراہا۔ مغرب کی سائنس اور ٹیکنالوجی میں قابل رشک ترقی نے اقبال کو بہت متاثر کیا۔ فرماتے ہیں: علم اشیا داد مغرب را فراغ۷؎ حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے نپولین، موسولینی (بالِ جبریل)، شیکسپیئر (بانگِ درا)، ٹالسٹائی، نٹشے اور کارل مارکس(جاوید نامہ) کی تعریف کی ہے۔ اس بات پر مزید روشنی ڈالتی ہے کہ اقبال نے مغرب کی قابل ستائش باتوں اور حقائق کو پسند کیا۔ جو حقیقت یہ ہے کہ اقبال نے مغرب کے مادی نظریات کی وجہ سے اس پر تنقید کی جو کہ روحانی قدروں سے عاری ہے دراصل اقبال کی تعمیری تنقید مغرب کے لیے راہنمائی کی حیثیت رکھتی ہے۔ کہتے ہیں: ’’انسان کی وسعت قوت جو اُسے فطرت پر حاصل ہے اس نے انسان کو ایک یقین اور نیا احساسِ برتری عطا کیا ہے جو کہ اُس کے ماحول کو تشکیل دیتا ہے۔‘‘ اقبال نے مغرب پر تنقید اُس کی مادہ پرستی کے باعث کی۔ کہا: دیارِ مغرب کے رہنے والو! خدا کی بستی دکاں نہیں ہے کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو، وہ اب زرِ کم عیار ہو گا تمھاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ خود کشی کرے گی جوشاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا، ناپائدار ہو گا۸؎ یہ کسی تعصب کے بغیر ہے۔ مغربی مفکرین نے بھی اس نقطۂ نظر سے اتفاق کیا ہے۔ مثلاً دوسرے مفکرین کے علاوہ لویس کلود شیخ کے نزدیک اقبال نے یورپ پر تنقید کی۔ کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ یورپ ’’روحانی قدروں سے غافل ہے اُنہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ مادی ترقی اس وقت حقیقت میں ثمر آور ہوسکتی ہے اگر یہ اخلاقی ترقی کے ساتھ ساتھ ہو۔‘‘ یہ بھی قطعاً غلط ہے کہ علامہ اقبال مشرق کے لیے مجسمہ تعریف ہے انہوں نے مشرق پر بہت تنقید کی وہ تسلیم کرتے تھے کہ مشرق روحانی اور مادی طور پر مردہ ہوچکا ہے۔ فرماتے ہیں: خودی کی موت سے مشرق ہے مبتلائے جذام۹؎ نظر آتے نہیں بے پردہ حقائق ان کو آنکھ جن کی ہوئی محکومی و تقلید سے کور۱۰؎ یہ کہ مشرق غلامی اور تقلید کے باعث اندھا ہوگیا ہے اقبال اس طرح بیان کرتے ہیں: ہم مشرق کے مسکینوں کا دل مغرب میں جا اٹکا ہے واں کنڑ سب بلّوری ہیں یاں ایک پرانا مٹکا ہے۱۱؎ اقبال کے نزدیک: وہ سحر جس سے لرزتا ہے شبستانِ وجود ہوتی ہے بندۂ مومن کی اذاں سے پیدا۱۲؎ اقبال عورت کی تعریف تو کرتے ہیں اور فرماتے ہیں: وجودِ زن سے ہے تصویرِ کائنات میں رنگ اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوزِ دروں شرف میں بڑھ کے ثریا سے مُشتِ خاک اس کی کہ ہر شرف ہے اسی درج کا دُرِ مکنوں مکالماتِ فلاطُوں نہ لکھ سکی، لیکن اسی کے شعلے سے ٹوٹا شرارِ افلاطُوں۱۳؎ مگر پیشین گوئی بھی کی اور تنقید بھی۔ طنزیہ طور پر کہا: یہ کوئی دن کی بات ہے اے مردِ ہوش مند! غیرت نہ تجھ میں ہو گی، نہ زن اوٹ چاہے گی آتا ہے اب وہ دور کہ اولاد کے عوض کونسل کی ممبری کے لیے ووٹ چاہے گی۱۴؎ عورت کی بے ہنگم آزادی کو نظر استحسان سے نہیں دیکھا اور کہا: فساد کا ہے فرنگی معاشرت میں ظہور کہ مرد سادہ ہے بیچارہ زن شناس نہیں۱۵؎ غرض کہ وہ مشرق اور مغرب کی خامیوں پر تنقید کرتے ہیں اور سبق بھی دیتے ہیں، کہتے ہیں: نہ ایشیا میں نہ یورپ میں سوز و ساز حیات خودی کی موت ہے یہ، اور وہ ضمیر کی موت۱۶؎ کہتے ہیں: مشرق سے ہو بیزار، نہ مغرب سے حذر کر فطرت کا اشارہ ہے کہ ہر شب کو سحر کر!۱۷؎ وہ کسی انسان کو اس کے مذہب کی وجہ سے مطعون نہیں کرتے۔ فرماتے ہیں: حرفِ بد را بر لب آوردن خطا است کافر و مومن ہم خلقِ خداست!۱۸؎ بندۂ عشق از خدا گیرد طریق می شود بر کافر و مومن شفیق!۱۹؎ تعریف کی ہے وشوا ستر (جاوید نامہ) برتری، ہری، زرتشت، گوتم بدھ، شیخ و برہمن کا واقعہ ایک غیر مسلم کو اپنی خودی کو پختہ کرنے کی تلقین کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تم اپنے ہی شعارِ زندگی کو اپنائو: من نگویم از بتاں بیزار شو کافری؟ شائستہ زنار شو گر زجمیّت حیاتِ ملت است کفر ھم سرمایۂ جمعیت است۲۰؎ مسلمانوں کی طرفداری نہیں کی وہ موجودہ مسلمانوں کے غلط کردار اور خامیوں کی وجہ سے معترض ہیں۔ مسلمانوں کو مخاطب کرکے کہتے ہیں: تری نماز میں باقی جلال ہے، نہ جمال تری اذاں میں نہیں ہے مری سحر کا پیام۲۱؎ جب مسلمان اپنے آبائو اجداد کے کارناموں پر ڈینگیں مارتے ہیں کہ: صفحۂ دہر سے باطل کو مٹایا ہم نے نوعِ انساں کو غلامی سے چھڑایا ہم نے تیرے کعبے کو جبینوں سے بسایا ہم نے تیرے قرآن کو سینوں سے لگایا ہم نے پھر بھی ہم سے یہ گلہ ہے کہ وفادار نہیں ہم وفادار نہیں، تو بھی تو دلدار نہیں!۲۲؎ اقبال خدا کی طرف سے جواب میں فرماتے ہیں: صفحۂ دہر سے باطل کو مٹایا کس نے؟ نوعِ انساں کو غلامی سے چھڑایا کس نے؟ میرے کعبے کو جبینوں سے بسایا کس نے؟ میرے قرآن کو سینوں سے لگایا کس نے؟ تھے تو آبا وہ تمھارے ہی، مگر تم کیا ہو ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظرِ فردا ہو!۲۳؎ اس دور کے ملا کے خلاف اُس کے کردار کی وجہ سے اقبال کی کتابیں بھری ہیں۔ مُلّا کو جو ہے ہند میں سجدے کی اجازت ناداں یہ سمجھتا ہے کہ اسلام ہے آزاد!۲۴؎ رہ گئی رسم اذاں، روحِ بلالی نہ رہی۲۵؎ بڑی باریک ہیں واعظ کی چالیں لرز جاتا ہے آوازِ اذاں سے۲۶؎ جاہل اور پیشہ ور ملا کے خلاف جو معمولی باتوں پر جھگڑتا اور کفر کا فتویٰ صادر کرتا ہے، اقبال کہتے ہیں: مجھ کو تو سکھا دی ہے افرنگ نے زندیقی اس دور کے ملا ہیں کیوں ننگِ مسلمانی!۲۷؎ میں بھی حاضر تھا وہاں، ضبط سخن کر نہ سکا حق سے جب حضرتِ مُلّا کو ملا حکمِ بہشت۲۸؎ میں جانتا ہوں جماعت کا حشر کیا ہو گا مسائلِ نظری میں الجھ گیا ہے خطیب۲۹؎ ان کے نزدیک سطحی ملا مذہب کو نہیں سمجھتا۔ کہتے ہیں: حقیقت را بہ رندے فاش کردند کہ مُلّا کم شناسد رمزِ دیں را۳۰؎ اقبال ایک سرجن کی طرح کام کرتا ہے ہر برائی کی نشان دہی کی ہے اور آپریشن کیا ہے۔ سرجن جو کہ چیرپھاڑ کرتا ہے وقتی طور پر ہم اُسے اچھا نہیں سمجھتے مگر وہ تکلیف کو جڑ سے اُکھاڑتا ہے اور مرہم پٹی کرتا ہے۔ نئے سال کا پیغام حقیقت یہ ہے کہ اقبال ایک ایسے معاشرے کا تصور رکھتے ہیں جس میں مشرق اور مغرب کی خوبیاں موجود ہوں اور برائیوں سے نجات ہو: ’’صرف ایک اتحاد لائق اعتماد ہے۔ وہ اتحاد ہے آدمی کی اخوت جو نسل، قومیت، رنگ اور زبان سے ماورا ہے۔ جب تک یہ نام نہاد جمہوریہ یہ لعنتی قوم پرستی اور یہ ملعون سامراجیت پاش پاش نہیں کردیے جاتے، جب تک کہ انسان اپنے عمل سے یہ ظاہر نہیں کردیتے کہ وہ بات کے قائل ہیں کہ ساری دنیا خدا کا کنبہ ہے۔ جب تک تمیز نسل و رنگ اور جغرافیائی قومیتیں مکمل طور سے صفحۂ ہستی سے مٹا نہیں دی جاتیں وہ کبھی بھی خوشگوار اور آسودہ کاطر زندگی بسر نہیں کرسکتے اور آزادی اور اخوت کے خوبصورت تصورات ہرگز شرمندۂ تعبیر نہیں ہوسکتے۔‘‘۳۱؎ پس قرآن کا ایک سچا پیرئو، مقلد ہونے کے ناطے اقبال نے تمام دنیا کو اسلام کا پیغام دیا۔ اس کا پیغام آفاقی ہے۔ بے شک اُسے شاعر مشرق کہا گیا اور حکیم الامت بھی۔ مگر اُس کے ساتھ ساتھ وہ تمام دنیا کے شاعر اور مفکر ہیں۔ اقبال کی اس انسان دوستی کے باعث اقبال کا فلسفہ ایک عالمگیر حیثیت کا حامل ہے تو پھر اقبال کا پیغام صرف مسلمانوں کے لیے ہے اور آفاقی نہیں؟ اس کی وضاحت کی ہے انگلینڈ کے ایک مشہور نقاد ڈکنسن نے۔ اقبال کو لکھا کہ اقبال کا فکر آفاقی نہیں ہے کیونکہ انہوں نے صرف مسلمانوں کی بات کی ہے۔ اقبال نے نہایت خوبصورت انداز میں اس کا جواب دیا۔ مسٹر نکلسن مزید فرماتے ہیں کہ اگرچہ میرا فلسفہ آفاقی ہے، لیکن میری طرف سے اس کا اطلاق مخصوص اور محدود ہے۔ یہ ایک لحاظ سے صحیح ہے انسان دوستی کا نصب العین، شاعری اور فلسفے میں، ہمیشہ آفاقی رہا ہے، لیکن اگر آپ اسے ایک مؤثر نصب العین بناتے ہیں اور اصل زندگی میں اس پر عمل کرتے ہیں، تو آپ شعرا اور فلاسفہ سے شروع نہ کریں، بلکہ ایسے عام معاشرے میں شروع کریں جو اس لحاظ سے ایک منتخب یا محدود قسم کا ہو کہ اس کا ایک مسلک و مذہب اور واضح طور پر متعین طور طریقے ہوں، لیکن شخصی نمونوں اور ترغیب و تحریص کے اثر سے اس کی حدیں برابر پھیلتی جائیں میرے عقیدے کے مطابق، اسلام ایسا ہی معاشرہ ہے ’’رینان‘‘ کا یہ بیان غلط ہے کہ سائنس، اسلام کا سب سے بڑا دشمن ہے۔ نہیں نہیں، اسلام کا سب سے بڑا دشمن تو رنگ و نسل کا تصور ہے ___ بلکہ درحقیقت عالم انسانیت کا دشمن بھی یہی نسل پرستی ہے اور انسانیت کے علمبرداروں کا یہ فرض ہے کہ ابلیس کی اس خوفناک ایجاد کے خلاف علم بغاوت بلند کریں۔ جب سے میں نے یہ دیکھا کہ نسل یا علاقے اور ملک پر مبنی قومیت کا تصور عالم اسلام میں بھی پھیلتا جا رہا ہے، اور جب سے میں نے یہ محسوس کیا کہ مسلمان بھی، عالم گیر انسانیت کے اپنے اعلیٰ نصب العین کو نظر انداز کرتے ہوئے، علاقائی قومیت کے تصور کے فریفتہ ہو رہے ہیں، تب سے ایک مسلمان، اور ساری انسانیت کے بہی خواہ کی حیثیت سے، میں نے اپنا فرض سمجھا کہ ان کو ارتقائے انسانیت کے بارے میں، ان کے اصل منصب اور کردار کی یاددہانی کردوں بعض مخصوص حالات کے تقاضے سے نسلی یا قومی تنظیموں کی عملی سرگرمیاں، اجتماعی زندگی کی بقا و ارتقا کے لیے ضروری ہوتی ہیں اور ایسے مخصوص عارضی حالات میں، منظم اقدام کی مخالفت مقصود نہیں لیکن اگر ایسی سرگرمیوں کو حیاتِ انسانی کا بنیادی مظہر قرار دیا جائے تو میں اس بات کی سخت ترین الفاظ میں تردید کروں گا۔ اسلام اور ملت اسلامیہ سے انتہائی عقیدت و محبت کے باوجود، اگر میں ایک مخصوص معاشرے، یعنی اسلامی معاشرے کے مسائل کی طرف متوجہ ہوں، تو اس کا سبب ایک عملی مجبوری ہے، کیونکہ دنیا کے تمام معاشروں میں یہی ایک معاشرہ میرے لیے عملاً سب سے زیادہ موزوں و مناسب ہے، ورنہ انسانیت کی آفاقی وحدت کے حق میں تو قرآنِ مجید تمام چھوٹے چھوٹے اختلافات کو نظر انداز کرتے ہوئے، یہ پیغام دیتا ہے کہ آئو ہم سب اپنے مشترک مقاصد و اغراض کی بنیاد پر متحد ہوجائیں۔ مجھے اندیشہ ہے کہ مسٹر ڈکنسن کے ذہن ’’خون کے پیاسے‘‘ اسلام کا قدیم یورپی تصور و توہم، اب تک منڈلا رہا ہے زمین پر خدا کی حکومت "The Kingdom of God on Earth" میں صرف مسلمان ہی نہیں تمام انسان شامل ہیں، بشرطیکہ وہ رنگ، نسل اور قومیت کے بتوں کو خیرباد کہہ دیں اور ایک دوسرے کے ساتھ برادرانہ سلوک کریں۔ بین الاقوامی انجمنیں، معاہدے اور منشور، جن کا ذکر مسٹر کینیز نے کیا ہے اور بڑے بڑے سامراج اور سلطنتیں، خواہ کیسا ہی جمہوریت کا لبادہ اوڑھے ہوں، انسانیت کو ظلم و جبر سے ہرگز نجات نہیں دلاسکتے انسانیت کی نجات، تمام انسانوں کی مکمل آزادی اور مساوات میں مضمر ہے ہمیں شدید ضرورت اس امر کی ہے کہ سائنس کے تخریبی مقاصد میں یکسر انقلاب لایا جائے، جن کی بدولت انسانیت مبتلائے عذاب ہے، اور مقتدر خواص کی اس شرپسند و فتنہ انگیز سیاست کا مطلق سدباب کیا جائے، جو پس ماندہ اور کمزور قوموں کی تباہی و بربادی کے منصوبے بناتی رہتی ہے۔ مجھے اس سے انکار نہیں کہ دیگر لوگوں کی طرح مسلمانوں نے بھی جنگیں لڑیں اور فتوحات کی ہیں، اور ان کے بعض سرداروں اور رہنمائوں نے اپنے ذاتی عزائم کو مذہب کی آڑ میں چھپائے رکھا ہے، لیکن مجھے کامل یقین ہے کہ ملک گیری اور نبرد آزمائی، اسلام کے بنیادی مقاصد میں ہرگز نہیں تھے درحقیقت میں تو اسے ترقی کی راہ میں ایک بہت بڑی رکاوٹ سمجھتا ہوں اس میں شک نہیں کہ مسلمانوں نے عظیم سلطنتیں قائم کرنے میں کامیابی حاصل کی، لیکن اس طرح انہوں نے زیادہ تر اپنے سیاسی تصورات اور نصب العین کو کفر و شرک کے رنگ میں ڈھال دیااور اپنے عقائد و ایمان میں مضمر بعض اہم ترین قوتوں کو نظر انداز کردیا اسلام یقینا بے حد کشش و جاذبیت کا حامل ہے، لیکن یہ جذب و کشش، اسے بہرحال، علاقائی فتوحات سے حاصل نہیں بلکہ اس کشش کا راز، اس کی تعلیمات کی سادگی میں، معقولیت پسندی میں اور پیچیدہ قسم کے مابعدالطبیعیاتی عقائد سے مبرا ہونے میں مضمر ہے، یہ حقیقت ہے کہ اسلام اپنی اندرونی قوت سے دلوں کو مسخر کرنے میںکامیاب ہوسکتا ہے، چین میں مسلم مشن کے کارنامے سے کافی واضح ہوجاتا ہے، جہاں کسی سیاسی دبائو کے بغیر، لاکھوں وابستگان ملت پیدا ہوگئے مجھے امید ہے کہ بیس سال سے زیادہ عرصے تک عالمی فکر کے گہرے مطالعے کے بعد مجھے اتنی بصیرت ضرور حاصل ہوگئی ہے کہ مسائل و معاملات کا منصفانہ جائزہ لے سکوں۔ میری فارسی مثنویوں (اسرار و رموز) کا مقصد، اسلام کی تبلیغ نہیں میرا مقصد تو صرف ایک آفاقی، سماجی تشکیل نو کی دریافت و انکشاف ہے، اور اس کوشش میں، فلسفیانہ طور پر، یہ ناممکن ہے کہ ایک ایسے معاشرتی نظام کو نظر انداز کردوں جو اسی واضح مقصد کے ساتھ قائم و دائم ہے کہ ذات پات اور رنگ و نسل کے تمام امتیازات کو ختم کردے، اور جو اس عالم مادی کے معاملات کا بنگاہ غائر جائزہ لیتے ہوئے (دنیا طلبی اور دنیا سازی کے برخلاف) بے نیازی اور بے غرضی کے ان جذبات کی پرورش کرتا ہے جو، اپنے پڑوسیوں کے ساتھ، اس کے تعلقات میں نہایت ضروری اور لازمی ہیں یورپ میں اسی چیز کی کمی ہے، اور یہی وہ بات ہے جو وہ اب بھی ہم سے سیکھ سکتا ہے۔ حقیقت حال اقبال کی انسان دوستی اور آفاقی پیغام کا منبع اسلامی تعلیمات ہیں۔ انہوں نے کہا: ’’اسلام ذات پات یا نسل یا رنگ کا قائل نہیں درحقیقت اسلام زندگی سے متعلق ایک ایسا نقطۂ نظر رکھتا ہے جس نے پہلے ہی رنگ کا مسئلہ حل کردیا ہے کم از کم مسلمان دنیا میں جسے کہ ماڈرن یورپ تہذیب، سائنس اور فلاسفی میں اپنی ترقی کے باوجود اسے حل نہیں کرسکی چنانچہ اتحاد عالم اسلام (Pan Islamism) کی جس طریقے سے توضیح کی گئی ہے یہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے سکھائی اور یہ ہمیشہ زندگی رہے گا۔ اس لحاظ سے Pan Islamism صرف Pan Humanism ہے اس طرح ہر مسلمان Pan Islamist ہے اور اسے ایسا ہونا ہی چاہیے۔‘‘ اسلامی نقطۂ نظر اسلام تمام انسانوں کے درمیان مساوات اور اتحاد کا قائل ہے قرآن کا ارشاد ہے: ’’نوعِ انسان ایک قوم ہے‘‘ اور یہ کہ ’’انسانوں کی قبیلوں اور خاندانوں میں تقسیم اور ان کی زباں اور رنگوں میں اختلاف کا اُن کی بڑھائی اور کمی سے کوئی تعلق نہیں بڑھائی صرف اچھے کاموں کی وجہ سے ہے۔ قرآن عقائد رنگ، قوم اور زبان کی تخصیص کیے بغیر انسانی زندگی کو بہت عزت بخشتا ہے۔ قرآن کا ارشاد ہے ’’اے نوعِ انساں یقینا ہم نے تمہیں آدمی اور عورت سے پیدا کیا۔ اور تم سے قبیلے خاندان بنائے تاکہ تم ایک دوسرے کو جان سکو۔ یقینا تم میں سے اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ اچھا وہ ہے جو سب سے زیادہ فرض ادا کرنے والا ہے۔ اللہ کچھ چنے ہوئے فرقے یا فرقوں کا خدا نہیں۔ وہ رب العالمین ہے۔ خدا کے نزدیک تمام زندگی قیمتی ہے۔ قرآن کہتا ہے ’’جس کسی نے ایک فرد کو قتل بجز اُس کے کہ وہ زمین پر فساد کو روکنے کے لیے ہو وہ ایسا ہے جیسا کہ اُس نے تمام انسانوں کو قتل کیا۔‘‘ اور جس کسی نے ایک زندگی بچائی ایسے ہے جیسے کہ اُس نے تمام انسانوں کی زندگی بچا لی۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: ’’نوعِ انسان خدا کا کنبہ ہے خدا کو سب سے پیارا انسان وہ ہے جو خدا کے ساتھ اچھا ہے۔‘‘ تصورِ پاکستان یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب اقبال اس قدر انسان دوست ہے تو پھر تصورِ پاکستان کیوں پیش کیا۔ بندوں کے ساتھ دوستی پیدا کی جاسکتی ہے اور اُن سے مل جل کر رہا جاسکتا تھا مگر دوستی یک طرف نہیں ہوتی۔ ہندو کی فطرت ہماری دوستی قبول کرنے کو تیار نہ تھی۔ وہ ہمیں شودر سمجھتے تھے۔ آپ سب جانتے ہیں کہ قائداعظم، لیاقت علی خان، حسرت موہانی اور راجہ محمود آباد ایسے اکابرین پہلے آل انڈیا کانگرس کے ارکان تھے۔ ہندوئوں کے متعصب رویے نے اُن کو کانگریس سے علیحدہ ہونے پر مجبور کیا۔ جب اُنہوں نے دیکھا کہ ہندو ذہنیت مسلمانوں کو غلام بنانا چاہتی ہے۔ انہوں نے محسوس کیا کہ اگر ہم الگ نہ ہوئے تو ہمیں اچھوتوں کی طرح قابل نفرت سمجھا جائے گا۔ اور ہمارے حقوق سلب کرلیے جائیں گے۔ چنانچہ انہوں نے علیحدگی کا نعرہ لگایا۔ میں سمجھتا ہوں کہ اُن کی سوچ نے ہم سب پر احسان کیا۔ ہندوئوں کی ذہنیت کو کون نہیں جانتا۔ کشمیر میں کیا ہو رہا ہے اور انڈیا میں مسلمانوں کے ساتھ کیا نہیں ہوا۔ اگر ہندو ذہنیت متعصب نہ ہوتی تو ہم شاید الگ نہ ہوتے۔ چنانچہ میں ہمیشہ کہا کرتا ہوں کہ پاکستان ہندوئوں نے بنایا وہ ہم سے اس قدر نفرت اور مکاری نہ کرتے تو ہم الگ نہ ہوتے: میری فریاد خیزی پر عبث تم کو تحیر ہے نہ تم مجھ پر ستم کرتے نہ میں محوِ فغاں ہوتا …٭…٭… حوالہ جات ۱- علامہ محمد اقبال، کلیاتِ اقبال (اُردو)، ’’بانگِ درا‘‘، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور، ۲۰۰۹ئ، ص۳۰۴۔ ۲- ایضاً، ص۱۶۸۔ ۳- علامہ محمد اقبال، کلیاتِ اقبال (فارسی)، ’’اسرار و رموز‘‘، شیخ غلام علی اینڈ سنز، لاہور، اشاعت پنجم، ۱۹۸۵ئ، ص۱۱۔ ۴- ایضاً، ’’جاوید نامہ‘‘، ص۷۹۳۔ ۵- ایضاً، ص۶۵۷۔ ۶- اقبال احمد صدیقی(مترجم)، علامہ محمد اقبال: تقریریں، تحریریں اور بیانات، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور، ۱۹۹۹ئ، ص۳۳۹۔ ۷- علامہ محمد اقبال، کلیاتِ اقبال (فارسی)، ’’پیامِ مشرق‘‘، شیخ غلام علی اینڈ سنز، لاہور، اشاعت پنجم، ۱۹۸۵ئ، ص۱۸۹۔ ۸- علامہ محمد اقبال، کلیاتِ اقبال (اُردو)، ’’بانگِ درا‘‘، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور، ۲۰۰۹ئ، ص۱۶۷۔ ۹- ایضاً، ’’ضربِ کلیم‘‘، ص۵۹۳۔ ۱۰- ایضاً، ص۵۸۳۔ ۱۱- ایضاً، ’’بانگِ درا‘‘، ص۳۱۷۔ ۱۲- ایضاً، ’’ضربِ کلیم‘‘، ص۵۲۶۔ ۱۳- ایضاً، ص۶۰۶۔ ۱۴- ایضاً، ’’بانگِ درا‘‘، ص۳۱۶۔ ۱۵- ایضاً، ’’ضربِ کلیم‘‘، ص۶۰۴۔ ۱۶- ایضاً، ص۶۴۹۔ ۱۷- ایضاً، ص۶۲۱۔ ۱۸- علامہ محمد اقبال، کلیاتِ اقبال (فارسی)، ’’پیامِ مشرق‘‘، شیخ غلام علی اینڈ سنز، لاہور، اشاعت پنجم، ۱۹۸۵ئ، ص۷۹۳۔ ۱۹- ایضاً۔ ۲۰- ایضاً، ’’اسرار و رموز‘‘، ص۵۹۔ ۲۱- علامہ محمد اقبال، کلیاتِ اقبال (اُردو)، ’’ضربِ کلیم‘‘، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور، ۲۰۰۹ئ، ص۵۳۶۔ ۲۲- ایضاً، ’’بانگِ درا‘‘، ص۱۹۳۔ ۲۳- ایضاً، ص۲۳۰۔ ۲۴- ایضاً، ’’ضربِ کلیم‘‘، ص۵۴۸۔ ۲۵- ایضاً، ’’بانگِ درا‘‘، ص۲۳۱۔ ۲۶- ایضاً، ص۱۲۵۔ ۲۷- ایضاً، ’’بالِ جبریل‘‘، ص۳۵۶۔ ۲۸- ایضاً، ص۴۴۵۔ ۲۹- ایضاً، ص۴۰۳۔ ۳۰- علامہ محمد اقبال، کلیاتِ اقبال (فارسی)، ’’ارمغانِ حجاز‘‘، شیخ غلام علی اینڈ سنز، لاہور، اشاعت پنجم، ۱۹۸۵ئ، ص۹۴۸۔ ۳۱- اقبال احمد صدیقی(مترجم)، علامہ محمد اقبال: تقریریں، تحریریں اور بیانات، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور، ۱۹۹۹ئ، ص۳۳۹۔ انسانی زندگی میں شیطان اور بدی کا کردار ہم اس دنیا میں اچھائی اور برائی پر نظر ڈالیں تو دل چاہتا ہے کہ یہاں صرف اچھائی ہی اچھائی ہو۔ کیا اچھا ہوتا اگر برائی اس دنیا میں نہ ہوتی۔ سب قتل و خون، ڈاکہ زنی، ظلم و ستم، برائی کی وجہ سے ہیں۔ شیطان برائی کی علامت ہے۔ روزِ اوّل سے اس نے آدم کو سجدہ نہ کیا اور بارگاہِ الٰہی سے رد ہوا۔ اس نے خدا کو چیلنج کیا کہ میں دنیا میں برائی پھیلائوں گا۔ یہاں سوالات پیدا ہوتے ہیں۔ کیا خدا کے سامنے اسے چیلنج کرنے کی ہمت تھی؟ کیا خدا اس سے زیادہ طاقت ور نہ تھا؟ اور اس کے بعد بھی خدا اگر چاہتا تو اسے فنا نہ کرسکتا تھا؟ اور دنیا سکوں و آرام سے رہتی۔ یہ سب راز آخر کیا ہیں؟ مختلف نظریے شیطان برائی کی علامت ہے۔ انسان اپنے عقائد اور فطرت کے مطابق اس کی توجہی کرتا ہے۔ چنانچہ دو نظریے متوازی چلتے ہیں۔ ایک تو زندگی کو ہر لحاظ سے روشن اور خوشگوار سمجھتے ہیں اور optimists ہیں۔ دوسرا گروہ مایوسی کو ترجیح دیتا ہے اس کو ہم pessimistsکہتے ہیں۔ اس کے علاوہ صوفیا کا وہ گروہ ہے جو وحدت الوجود کا قائل ہے۔ اس کے نزدیک بدی محض نظر آتی ہے۔ اصل میں ہر چیز اچھی ہے۔وہ گروہ جنہیں ہر طرف برائی نظر آتی ہے۔ ان میں جرمنی کا مفکر سوپن ہاور ہے۔ مذہب میں بدھ متکا بانی گوتم بدھ، جو کہ ایک شہزادہ تھا اس نظریہ کے تحت محل کو چھوڑ کر جنگلوں میں چلا گیا۔ عیسائیت میں مذہبی لحاظ سے زندگی کو سراپا گناہ قرار دیا گیا۔ اس کے مطابق انسان کے گناہ کا کفارہ اس کے اعمال سے ممکن نہیں۔ انسان پیدائشی طور پر گناہ گار ہے۔ زمانۂ وسطیٰ میں تمام عیسائی مانتے تھے کہ عالم فطرت کو خدا نے بنایا اور پھر شیطان کے حوالے کردیا۔ چنانچہ مطالعۂ فطرت کو برا سمجھا جاتا تھا۔ ہندو مت نے بھی انسان کی عظمت کا اقرار نہ کیا اور فنا ہونے کا سبق دیا اور اسے بھی راہ نجات سمجھا۔ زرتشت نے اس مسئلہ کو یزداں اور اہرمن (نیکی اور بدی کے دو خدا) مان کر اس مسئلہ کو حل کرنے کی کوشش کی۔ اقبال شیطان کے روشن پہلوئوں کو نظر انداز نہیں کرتا بدی کا وجود ہے اور relative ہے کوئی چیز اندر سے محض اچھی یا محض بری نہیں۔ اقبال کے نزدیک نیکی اور بدی ایک ہی حقیقت کے دورُخ ہیں جس طرح شاخ پر پھول اور کانٹا۔ ہر چیز کو اُس کی مجموعی حیثیت سے دیکھنا چاہیے۔ شیطان کا اس مسئلہ سے گہرا تعلق ہے۔ بدی کا پیدا ہونا ایک فطری عمل ہے جب انسان ترقی پذیر ہوگا (جو کہ اس کی فطرت کا مقصد ہے) اس کا راستہ روکنے کے لیے حاسد، بدخواہ اور شیطان طبع لوگ سامنے آجائیں گے اور اُسے بدراہ کریں گے۔ مگر یہ ضروری بھی ہے اور فوائد سے خالی نہیں۔ ۱- بدی سے نجات حاصل کرنے کے لیے جنگ کرنا پڑتی ہے۔ دوست، دشمن اور منافق کا پتا چلتا ہے جو کہ زندگی میں بے حد ضروری ہے۔ اس کے علاوہ اپنی طاقت اور زورِ بازو کا اندازہ ہوتا ہے۔ اقبال فرماتے ہیں: آزمائد صاحبِ قلبِ سلیم زورِ خود را از مہماتِ عظیم ممکناتِ قوتِ مردانِ کار گردد از مشکل پسندی آشکار۱؎ خطرتاب و تواں و امتحان است عیار ممکناتِ جسم و جاں است۲؎ ۲- عقل ترقی پذیر ہوتی ہے۔ انسان تجربات سے سیکھتا ہے۔ انسان جس سوراخ سے ڈسا جاتا ہے وہاں دوبارہ انگلی نہیں ڈالتا۔ اگر انسان کی عقل پختہ نہ ہو تو بار بار دھوکہ کھاتا ہے اور برائی سے نہیں بچ سکتا۔ اچھائی اور برائی کے فرق سے اچھی طرح آگاہ ہوتا ہے۔ اقبال کا ارشاد ہے: عقل بدام آورد فطرتِ چالاک را اہرمنِ شعلہ زاد سجدہ کند خاک را۳؎ ۳- اگر شیطان نہ ہوتا تو ہمیں آزادی افکار و کردار جیسی نعمتیںنہ ملتیں۔ نہ ہی نیکی اور بدی میں تمیز ہوتی۔ ابلیس زندہ رود کو مخاطب کرکے کہتا ہے: در گذشتم از سجود اے بے خبر ساز کرام ارغنونِ خیر و شر شعلہ ہا از کشت زارِ من دمید او ز مجبوری بہ مختاری رسید! زشتیٔ خود را نمودم آشکار با تو دادم ذوق زکِ و اختیار۴؎ دراصل خیر میں جبر کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ خیر کا مطلب ہے انسان کا برضا و رغبت کسی اخلاقی نصب العین کی پیروی کرنا جس کا دار و مدار پھر اس بات پر ہے کہ وہ ’’انا‘‘ جن کو اختیار ذات کی نعمت حاصل ہے۔ برضا و رغبت ایک دوسرے سے تعاون کریں۔ اس لیے کہ وہ ہستی جس کے اعمال و افعال کل کی طرح متعین ہیں۔ خیرکی اہل کیسے ہوسکتی ہے؟ آزادی خیر کی شرط اولین ہے۔ ۴- یہ رونقیں شیطان کے باعث ہیں اگر شیطان نہ ہوتا تو انسان ایک سیدھا سادھا جانور ہوتا۔ اس کی زندگی possive ہوتی۔ زندگی میں جدوجہد اور رمق نہ ہوتی۔ ۵- تخلیق نہ ہوتی۔ اپنے بچائو کے طریقے نہ ہوتے۔ سائنس کس قدر خاموش ہے یہ عالم بے کاخ ! خراجِ تحسین - جبریل و ابلیس جبریل: ہمدم دیرینہ! کیا ہے جہانِ رنگ و بو؟۵؎ ابلیس: سوز و ساز و درد و داغ و جستجو و آرزو۶؎ جبریل: ہر گھڑی افلاک پر رہتی ہے تری گفتگو کیا نہیں ممکن کہ ترا چاکِ دامن ہو رفو؟۷؎ ابلیس: آہ اے جبریل !تو واقف نہیں اس راز سے کر گیا سرمست مجھ کو توڑ کر میرا سبو اب یہاں میری گذر ممکن نہیں، ممکن نہیں کس قدر خاموش ہے یہ عالم بے کاخ و کُو! جس کی نومیدی سے ہو سوزِ درون کائنات اُس کے حق میں تقنطوا اچھا ہے یا لا تقنطوا۸؎ جبریل: کھو دیے انکار سے تو نے مقاماتِ بلند چشم یزداں میں فرشتوں کی رہی کیا آبرو!۹؎ ابلیس: ہے میری جرأت سے مشتِ خاک میں ذوقِ نمو میرے فتنے جامۂ عقل و خرد کا تار و پو دیکھتا ہے تو فقط ساحل سے ازمِ خیر و شر کون طوفاں کے طمانچے کھا رہا ہے میں کہ تو؟ خضر بھی بے دست و پا الیاس بھی بے دست و پا میرے طوفاں یم بہ یم ، دریا بہ دریا ، جُو بہ جُو گر کبھی خلوت میسر ہو تو پوچھ اللہ سے قصۂ آدم کو رنگیں کرگیا کس کا لہو! میں کھٹکتا ہوں دلِ یزداں میں کانٹے کی طرح تو فقط اللہ ھو ، اللہ ھو ، اللہ ھو!۱۰؎ ہمیں چنانچہ شیطان اور بدی کا شکر گزار ہونا چاہیے شیطان نے قربانی دی اور ہمیں پیدا کیا۔ اقبال کہتا ہے: مزی اندر جہانے کور ذوقے کہ یزداں دارد و شیطاں ندارد۱۱؎ ۵-اقبال نے اس کا بنیادی نقطہ قرآن سے لیا۔ 1- And with trial we will test you with evil and with good. ۲- ہبوطِ آدم کا قصہ (۱) سامل نسل (semitic) کی طرح ایک mythنہیں،کے لحاظ سے حضرتِ آدم اور اماں حوا کے ملاپ سے ایک گنہ سرزد ہوا۔ اور نتیجتاً اور حکم عدولی کی سزا کے طور پر سکون اور آرام سے رہتے رہتے جنت سے نکال دیا گیا۔ اور اس دنیا میں آگئے : ’’چنانچہ قدیم بابل کے ایک کتبے میں سانپ (لنگ) اور درخت اور عورت۔ مرد کو سب (علامت لکیر) نذر کرتے ہوئے سب ہی موجود ہیں۔ یہاں یہ کہنا لاحاصل ہوگا کہ اس قصے کا اشارہ کس طرف ہے۔ مسرت اور سعادت کی ایک مفروضہ حالت سے انسان کے اخراج کی طرف مرد و زن کے سب سے پہلے جنسی فعل کی پاداش میں۔‘‘ (۲) لیکن قرآن کے اعتبار سے اس میں phallic setting یا زندگی تاریک یا مایوس کن نہیں ہے۔ یہ تو ریت (Old Testament) کی طرح تاریخی واقعہ نہیں ہے جو کہ انسان کے پہلے جوڑے کی زندگی کی ابتداء (origin) جو کہ اسرائیل کی تاریخ کے بطور pre ہو۔ اصل میں قرآن پاک کی وہ آیات جو کہ انسان اصل ابتدا یا (origin) کے بارے میں بحث کرتی ہیں۔ قرآن اسے وہ بشر یا انسان کے الفاظ استعمال کرتا ہے یہ کہ آدم کے آدم کو تو زمین پر خدا کا خلیفہ کے طور استعمال کرتا ہے۔ قرآنِ مجید نے سانپ اور پسلی کا مطلق ذکر نہیں کیا۔ اول الذکر کا تو اس لیے کہ قصۂ مذکور کو اس کے جنسی ماحول سے الگ کرنا مقصود تھا، علیٰ ہذا زندگی کے اس قنوطیت پسند نظریے سے جس کی اس سے ترجمانی ہو رہی ہے مؤخر الذکر کا اس لیے کہ قرآن مجید کی نظر عہد نامۂ عتیق کی طرح کسی تاریخی واقعے پر نہیں۔ برعکس اس کے عہدنامہ عتیق کا مقصود اسرائیل کی تاریخ بیان کرنا ہے اور مرد و زن کے سب سے پہلے جوڑے کا ذکر کرتا ہے۔ تو بطور اس کی تمہید کے۔ یوں بھی بہ حیثیت ایک ذی روح انسان کی آفرینش کا جہاں کہیں ذکر آیا ہے، قرآن پاک نے اس کے لیے ’بشر‘ اور ’انسان‘ کے الفاظ استعمال کیے ہیں۔ ’آدم‘ کا لفظ استعمال نہیں کیا۔ لفظ آدم سے مقصود تو صرف یہ ظاہر کرنا تھا کہ انسان کے اندر نیابت الٰہیہ کی صلاحیت موجود ہے۔ لہٰذا قرآن پاک نے وہ سب اسمائے معرفہ حذف کر دیئے جو عہدنامہ عتیق کی اس روایت میں مذکور ہیں۔ آدم، حوا تاکہ اس کی نگاہیں جس حقیقت پر ہیں اس کے متعلق کوئی غلط فہمی باقی نہ رہے۔ آدم کا لفظ بے شک حذف نہیں ہوا لیکن یہاں اس کا اشارہ کسی مخصوص انسان کی طرف نہیں۔ اس کی حیثیت ایک تصور کی ہے جس کی تائید قرآن پاک ہی سے ہو جاتی ہے اور جس کا ذیل کی آیت ایک قطعی اور واضح ثبوت ہے: {وَلَقَدْ خَلَقْنٰکُمْ ثُمَّ صَوَّرَنٰکُمْ ثُمَّ قُلْنَا لِلْمَلٰٓئِکَۃِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْٓا اِلَّآ اِبْلِیْسَ لَمْ یَکُنْ مِّنَ السّٰجِدِیْنَ} (سورۃ الاعراف: آیت۱۱) (۳) آدم اور اُس کی بیوی کو شیطان نے ورغلایا۔ دونوں کے ذہنوںمیں شک پیدا کیا اور انہوں نے درخت کا میوہ کھا لیا۔ خدا نے انھیں اس زمین کو ان کے لیے رہنے کی جگہ چنا۔ یہ ان کے لیے باعث نفع معاملہ تھا۔ گویا خدا نے اُن پر مہربانی کی۔ اس لیے قرآن میں خدا نے فرمایا کہ تم اس کے لیے کس قدر معمولی شکریہ ادا کرتے ہو۔ یہ درست نہیں کہ انسان ایک جنت میں رہتا تھا اور وہاں سے اس سرزمین پر آگرا۔ قرآن کے مطابق انسان اجنبی نہیں۔ فرمایا ’’تم نہیں تمہیں اس زمین سے پیدا کیا۔‘‘ قرآن کے نزدیک یہ سرزمین torture کی جگہ نہیں جہاں ایک wicked انسانیت ایک گناہ کے باعث موجود ہے۔ بلکہ وہ ایک آزاد شخصیت ہے جو اپنی مرضی سے انتخاب کرتی ہے۔ ۴- عہد نامۂ عتیق نے آدم کے جرمِ نافرمانی کی بناء پر زمین کو ملعون ٹھہرایا۔ برعکس اس کے قرآن مجید کے نزدیک وہ انسان کا مستعر اور متاع ہے۔ جس کے لیے اللہ تعالیٰ کا شکرگزار ہونا چاہیے۔ مختصراً یہ کہ ہبوط کا اشارہ کسی اخلاقی پستی کی طرف نہیں، اس کا اشارہ اس تغیر کی طرف ہے جو شعور کی صاف و سادہ حالت میں شعورِ ذات کی اولین جھلک سے اس نے اپنے اندر محسوس کیا۔ وہ خوابِ فطرت سے بیدار ہوا۔ اور سمجھا کہ اس کی حیثیت خود بھی اپنی جگہ پر ایک سب کی ہے۔ یوں بھی قرآن مجید میں یہ کہیں مذکور نہیں کہ کرۂ ارض ایک دار العذاب ہے۔ جہاں انسان، جس کا خمیر ہی بدی سے اُٹھایا گیا ہے۔ کسی اولین گناہ کی پاداش میں قید و بند کی زندگی بسر کر رہا ہے۔ برعکس اس کے اس کی پہلی نافرمانی وہ پہلا اختیاری عمل تھا جو اس نے اپنے ارادے اور اپنی مرضی سے کیا۔ اور یہی وجہ ہے کہ ارشادِ قرآنی کے مطابق آدم کا یہ گناہ معاف کردیا گیا۔ …٭…٭… حوالہ جات ۱- علامہ محمد اقبال، کلیاتِ اقبال (فارسی)، ’’اسرار و رموز‘‘، شیخ غلام علی اینڈ سنز، لاہور، اشاعت پنجم، ۱۹۸۵ئ، ص۴۹۔ ۲- ایضاً، ’’پیامِ مشرق‘‘، ص۲۹۳۔ ۳- ایضاً، ص۲۵۸۔ ۴- ایضاً، ’’جاوید نامہ‘‘، ص۷۲۳،۷۲۴۔ ۵- علامہ محمد اقبال، کلیاتِ اقبال (اُردو)، ’’بالِ جبریل‘‘، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور، ۲۰۰۹ئ، ص۴۷۳۔ ۶- ایضاً۔ ۷- ایضاً۔ ۸- ایضاً، ص۴۷۳،۴۷۴۔ ۹- ایضاً، ص۴۷۴۔ ۱۰- ایضاً، ص۴۷۴، ۴۷۵۔ ۱۱- علامہ محمد اقبال، کلیاتِ اقبال (فارسی)، ’’پیامِ مشرق‘‘، شیخ غلام علی اینڈ سنز، لاہور، اشاعت پنجم، ۱۹۸۵ئ، ص۳۰۲۔